Maktaba Wahhabi

31 - 62
میں جو عقل کار فرما ہے ، وہ عقل حیوانی ہے جو انسان کے صرف حیوانی تقاضوں کا احساس رکھتی ہے اور اسی حد تک انسان کے لیے مشعلیں روشن کرتی ہے جس سے بالآخر وہ تاریخی بڑھتی ہے جس سے انسانی مستقبل مزید تاریک ہوجاتا ہے۔ رہبانی اور اشراقی تمدن: یہ تمدن مادہ پرستی اور حواس کی غلامی کی بالکل ضد ہے۔ ان کانظریہ ہے کہ جسم کو اسی حد تک گھلاؤ کہ روح کو وہ چھوڑ دے اور اس قفس عنصری سے طائر روح کے لیے آشیانہ کی طرف پرواز کرنا آسان ہوجائے۔ ان کاخیال ہے کہ لذتیت ،جسم و جان کے تعلق کو مضبوط کرتی ہے۔ اس لیے نفس کشی پر اصرار جاری رکھا جائے تاکہ اس مادی ڈھانچہ سے بیزار ہوکر روح خود بخود اپنے مرکز کی طرف سفر کرجائے۔ ہمارے نزدیک یہ تینوں نظام، انسان کے حال اور مستقبل کے لیے سخت مضر ہیں ، ان کی وجہ سے انسان ماہ وانجم کی بلندیوں کومسخر کرلینے کے باوجود ’’قعر مذلت اور سفلی زندگی‘‘ جیسے گڑھوں سے نکل نہیں سکا اور نہ آئندہ ان سے اس کی توقع ہے۔ حسی تمدن، سرتا پا بہیمی ہے، عقلی تمدن نسبتاً بہتر ہے لیکن جو چالو ہے وہ حیوانی عقل پرمبنی ہے۔ کیونکہ وہ حسی تمدنی کا حصہ ہے اور زیادہ تر یہی برپا ہے، رہی عقل سلیم کی بات؟ سو تنہا اس کاکہیں وجود نہیں پایا جاتا۔ اشراقی تمدن، دراصل ترک دنیا کا نام ہے، جو بہرحال مضرت کے لحاظ سے حسی تمدن سے کم نہیں ہے۔ ان کے مقابلے میں ’’اسلامی تمدن اور طرز معاشرت‘‘ جو ایک ایسی اساس پر قائم ہے جو مندرجہ بالا تینوں کےمحاسن کا مجموعہ ہے اور ان کی ہیئات سے منزہ اور پاک ہے یعنی آوارہ دنیا ہے نہ ترک دنیا بلکہ یہ ’’باخدا دنیا ہے اور صرف ’’باخدا دنیا‘‘ اسلام میں جو ’’عبادات‘‘ کا تصور پایا جاتا ہے ، وہ ’’فراری ‘‘ نہیں ہے کہ دنیا کو چھوڑ کر کوئی کام کیا جاتا ہو بلکہ ’’دنیا کو باخدا‘‘ گزارنے کانام عبادت ہے اس لیے حکم ہے کہ : ﴿ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً ﴾ ’’اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ‘‘ یعنی مسلم کی پوری زندگی مومنانہ ہونی چاہیے، اس لیے مسلم کا ہر لمحہ اور اس کی زندگی کا ہر پہلو عبادت بن جاتا ہے۔ نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ جیسی اسلامی عبادات دراصل مسلم کی عمومی زندگی اور مومنانہ سفر حیات سے ہٹ کر کوئی اقدام نہیں ہے بلکہ یہ بھی اس کی عمومی زندگی کی ایک مبارک کڑی ہے
Flag Counter