Maktaba Wahhabi

3 - 46
فکر و نظر ایک نشری تقریر ایمان کی تکمیل اچھے اخلاق سے ہوتی ہے بروایت ابو داؤد رحمہ اللہ اور دارمی رحمہ اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے۔ اکمل المومنین ایمانا احسنھم خُلقًا۔ یعنی کامل ترین مومن خلیق ترین شخص ہوتا ہے۔ صاحب جوامع الکلم رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کی حقیقت تک رسائی کے لئے ضروری ہے کہ پہلے ایمان و اخلاق کا اصلی مفہوم ذہن نشین کیا جائے پھر ایمان و اخلاق کا باہمی رشتہ سمجھا جائے۔ چنانچہ واضح ہو کہ اصطلاحِ شریعت میں ’’ایمان‘‘ باری تعالیٰ سے تعلق کی وہ روشنی اور قوت ہے جو مومن کے قلب میں جاگزیں ہو کر اسے امن و سکون، زبان میں راستی اور وظیفۂ اعضاء میں استواری ودیعت کرتی ہے۔ گویا انسان حال و قال سے خدا کی ذات و صفات کی تصدیق بن جاتا ہے۔ اور خلق سے مراد وہ عادات و اطوار ہیں جو انسانی اعمال کا پیش خیمہ ہوتی ہیں۔ مذکورہ تعریفوں سے دونوں کا باہمی تعلق یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر ایمان اعمالِ خیر کا سرچشمہ ہے تو اخلاق و اطوار ان کے ظہور پذیر ہونے کا وسیلہ ہیں یعنی قوتِ ایمانی جس قسم کے اعمال کا موجب بنتی ہے۔ اخلاق و اطوار سے اسی قسم کے سانچے مہیا ہوتے ہیں۔ گویا اخلاق و عادات کے انہی سانچوں سے ایمان کے اثرات اعمال کی صورت میں متشکل ہوتے ہیں۔ ہمارے لئے ایمانِ کامل اور خلق عظیم کی اعلیٰ ترین مثال حبیب کبریا محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ قرآن کریم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں گویا ہے: انک لعلی خلق عظیم۔ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم خلق عظیم کے مالک ہیں۔ سورۂ النور میں تمثیلی پیرایہ میں اللہ تعالیٰ نے نور تنزیل کے لئے مشکوٰۃ (نبوت) کے لفظ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مثال پیش کی ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ خدائی نور کے لئے خلق مجسم ہونے کی بنا پر دریچہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ لہٰذا جس طرح آپ کو واسطہ بنائے بغیر خدائی نور سے فیض یابی ممکن نہیں اسی طرح
Flag Counter