بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم فکر ونظر کے کالموں میں محدث مدیر اعلیٰ کی یکم جنوری۱۹۷۴ء کے روز ’’صدق‘‘ کے موضوع پر ریڈیو پاکستان سے ’’نشری تقریر‘‘ ہدیہ قارئین ہے۔ (ادارہ) نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم امابعد فاعوذ باللّٰہ من الشیطٰن الرجیم ﴿وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولَئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ ﴾ (الحدید:۱۹) ’’صدق‘‘ کالفظ ہمارے ہاں عموماً سچ بولنےکے معنی میں لیا جاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ’’اخلاق و فضائل‘‘ میں سچ بولنےکو بڑی اہمیت حاصل ہے تاہم ’’صدق‘‘ کامفہوم’’سچ کہنے‘‘ سے وسیع تر ہے کیونکہ بسا اوقات بظاہر سچی بات کہنے والا بھی اپنی حالت کے اعتبار سےجھوٹا ہوتا ہے اور ہم بھی اسے جھوٹا کہتے ہیں مثلاً ہم اپنے محاورہ میں اس وعظ کو جھوٹا کہیں گے جس کاعمل اس کے وعظ کے برعکس ہو۔ اللہ تعالیٰ نے بھی قرآن کریم میں ایسے لوگوں کو جھوٹا کہا ہے جن کا قال حال سےمختلف ہو خواہ ان کی بات فی نفسہ کتنی ہی درست کیوں نہ ہو؟ مثلاً سورۃ ’’المنافقون‘‘ میں فرمایا: ﴿إِذَا جَاءَكَ الْمُنَافِقُونَ قَالُوا نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّكَ لَرَسُولُهُ وَاللَّهُ يَشْهَدُ إِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَكَاذِبُونَ ﴾ (ا ے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ) منافق لوگوں آپ کے پاس آن کر اس بات کااقرار کرتے ہیں کہ آپ رسول اللہ ہیں ۔اللہ خوب جانتے ہیں کہ آپ اس کے رسول ہیں لیکن منافق جھوٹے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ منافقوں کی بات واقعہ میں بالکل درست تھی لیکن چونکہ وہ آپ پر دل سے ایمان نہ لاتے تھے اس لیے جھوٹے قرار دیےگئے۔ قرآن کریم کی جو آیت کریمہ شروع میں تلاوت کی گئی ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے ’’صدیق‘‘ (بہت سچے)کی تعریف یوں فرمائی ہے کہ جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لاتے ہیں یعنی دل سے اللہ اور اس کے رسولوں کو اس طرح تسلیم کرتے ہیں کہ یہ تسلیم و رضا |