گھر اور خاندان کو پاش پاش کر دیتی ہے۔ ایسے بھی واقعات ہوئے ہیں کہ جب ایک الجزائر لڑکی نے اپنے بوائے فرینڈ کو باپ کے سامنے پیش کیا تو اس نے خود کشی کر لی۔ کبھی کبھی جب باپ نے سختی کی تو لڑکی نے حکومت سے شکایت کر دی اور حکومت نے لڑکی کو آزاد قرار دیتے ہوئے اس کی حمایت کی۔ یہ سب کچھ ہو رہا ہے اور اس کا علاج کسی کے پاس نہیں۔ لڑکوں کا فرانسیسی لڑکیوں کا ہو رہنا تو معمولی بات ہے۔ بہت سے لڑکے تو اپنا نام تک بدل دیتے ہیں۔ ہشام ک بجائے میثال اور یوسف کے بجائے جوزف۔ پردیس میں پلنے بڑھنے والے نوجوانوں کے ذہن دین کے صحیح تصور اور اس کی تعلیمات سے بالکل خالی ہوتے ہیں۔ گھروں میں اسلام کا جو نمونہ ان کے سامنے ہوتا ہے وہ جہل خرافات اور اوہام کی وجہ سے ان کے لئے نفرت انگیز ہوتا ہے۔ ایسے میں ان پر ایک طرف تو مسیحی مبلغ حملہ کرتے ہیں اور دوسری طرف بائیں بازو کی جماعتیں ترقی پسندی کے نام پر ان کو بآسانی اپنی طرف کھینچ لیتی ہیں۔ فرانس میں مسیحیت کے بعد دوسرا نمبر دینِ اسلام کا ہے اس لئے مسیحی مبلغ خاص طور پر اسلام کے پھیلاؤ کو روکنے میں سرگرم ہیں۔ مادی خدمات سے لبھانا اور مادی منافع کا لالچ دینا ان کا جانا پہچانا حربہ ہے۔ دن کو جب مرد گھروں سے غائب ہوتے ہیں وہ دھڑلے سے عورتوں اور بچوں کو اپنی مہربانیوں کا نشانہ بناتے ہیں۔ بائیں بازو کی جماعتوں کے بعض اصول خوشنما اور جاذبِ توجہ ہوتے ہیں مثلاً یہ کہ وہ قوم اور جنس کی بنا انسان انسان میں تفریق کی مخالفت کرتی ہیں لیکن جب کوئی ان کے قریب چلا جائے تو یہ سبق سیکھے بغیر نہیں رہتا کہ دین مذہب ایک افیون ہے۔ یہ تاثر بھی عام ہے کہ اسلام جاگیر داری، سرمایہ داری کا دین ہے۔ ایک جماعت وہ بھی ہے جو اپنے آپ کو ’حزب الفرنسیین‘ کہتی ہے۔ یہ جماعت دین کے نام پر الجزائری مزدوروں کی ہمدردی حاصل کرتی ہے اور ان کو الجزائری حکومت کے خلاف اکساتی ہے اور یہ سبز باغ دکھاتی ہے کہ منظم ہو کر وہ فرانس میں اپنا مقام پیدا کریں۔ یہ جماعت پیرس کی مسجد سے اپنی سرگرمیوں کی ابتدا کرتی ہے اور اس کے پیچھے ایسی قوتیں کار فرما ہیں جو منظر عام پر نہیں آتیں۔ کچھ یارانِ طریقت ایسے بھی ہیں جنہوں نے بھانپ لیا ہے کہ پردیس میں رہنے والے تارکانِ وطن جہل کے باوجود دین سے عقیدت رکھتے ہیں۔ چنانچہ یہ پھیری والوں کی طرح گشت کرتے ہیں۔ تعویذ گنڈے بیچتے ہیں، خوب کھاتے پیتے ہیں اور منہ مانگا معاوضہ لے کر وعظ کرتے ہیں، میلاد پڑھتے اور قرآن سناتے ہیں۔ وہ لوگ جو قرآن بھی نہیں وہ ان شعبدہ بازوں کے کرتب کو باعث برکت سمجھتے ہیں اسلام بدنام ہوتا ہے اور نوجوانوں کی نفرت بڑھتی ہے۔ دکتور زبیری کی رائے میں سب سے بڑی ضرورت یہی ہے کہ درویشوں اور شعبدہ بازوں کا راستہ |