سے لے کر سترہویں صدی عیسوی تک کا زمانہ وہ ہے جب اندلس میں عیسائی ایک ایک کر کے مسلمانوں کا صفایا کر رہے تھے۔ یہ نہ سمجھنا چاہئے کہ اس زمانہ میں عالمی سطح پر مسلمان اپنی طاقت کھو چکے تھے اور بے بس تھے نہیں! اس کے برعکس اسی زمانہ میں دولتِ عثمانیہ ایک زبردست طاقت بن کر ابھر چکی تھی اور محمد الفاتح جنوبی اٹلی کی بندرگاہوں پر کامیاب حملہ کر چکے تھے۔ اندلس کے مسلمانوں نے دولتِ عثمانیہ سے مدد کی درخواست بھی کی لیکن وہاں کے حکمران مشرقی یورپ اور مصر فتح کرنے میں لگے رہے اور انہوں نے اندلس کے مسلمانوں کی فریاد نہ سنی حالانکہ وہ طاقت جو دیا ناتک روندتی چلی گئی اور جس نے بحیرۂ روم میں اپنی بالا دستی ثابت کر دی تھی اس کے لئے اندلس کے حکمرانوں سے حساب چکانا کوئی مشکل نہ تھا۔ اس وقت بھی گو مسلم ممالک پس ماندہ ہیں اور ان کی فوجی طاقت عالمی سطح پر قابل ذکر نہیں تاہم اگر وہ مسلم اقلیتوں کی حمایت اپنا فرض سمجھیں اور متحد ہو کر ممکنہ تدابیر اختیار کریں تو بہت کچھ ہو سکتا ہے۔ اسی موضوع پر دوسرا مقالہ دکتور محمد عبد الرحمٰن بیصار کا تھا جو مجموع البحوث الاسلامیہ (اسلامی ریسرچ کونسل)مصر کے سیکرٹری جنرل ہیں اور عرصہ تک اسلامک سنٹر واشنگٹن کے ڈائریکٹر رہ چکے ہیں۔ انہیں پورا پورا اتفاق تھا کہ مسلم اقلیتوں کے حالات تشویشناک ہیں اور ان کی مدد کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے۔ لیکن مدد کس سطح پر کی جائے اور کن طریقوں سے کی جائے۔ اس بارے میں ان کی رائے بالکل مختلف تھی۔ ان کی رائے میں حکومتوں کے دخل دینے سے معاملات سلجھنے کے بجائے اور زیادہ سنگین بن جاتے ہیں۔ انہوں نے بڑی حد تک یہ ثابت کیا کہ بین الاقوامی سیاست کی بساط پر مہرہ بازی ایسی شاطرانہ ہے۔ چالیں ایسی الجھی ہوئی ہیں اور پینترے اتنی تیزی سے ادلتے بدلتے ہیں کہ اگر مسلم اقلیتوں کی حمایت کا بوجھ ڈالا جائے تو بہت سی کمزوریاں سامنے آتی ہیں۔ عجب عجب تضاد ابھرتے ہیں اور بجائے اس کے کہ مسلم اقلیتوں کو فائدہ پہنچے الٹے اپنی رسوائی ہوتی ہے۔ دکتور بیصار کا پختہ خیال تھا کہ غیر سرکاری ادارے ہونا چاہئے جو علمی ثقافتی اور سماجی میدان میں مسلم اقلیتوں کی مدد کریں اور ان میں عزلت اور تنہائی کا شعور کم کریں۔ مسلم حکومتیں دوستانہ طریقہ پر دوسری حکومتوں سے مسلم اقلیتوں کے حق میں جتنا کہہ سکیں اسی پر اکتفاء کریں۔ مجھے اس موضوع پر تعقیب (اظہار رائے)کا موقع ملا، میں نے کہا کہ استاد محمد عبد اللہ عنان نے یورپ افریقہ اور مشرق بعید کی مسلم اقلیتوں کا ذکر کیا اور بجا طور پر کیا لیکن وہ ہندوستان اور وسط ایشیا کی نہایت اہم مسلم اقلیتوں کو بھول گئے۔ یقیناً انہوں نے عمداً ایسا نہیں کیا۔ اس سے قطع نظر مجھے ان کی رائے سے پورا پورا اتفاق ہے کہ اقلیتوں کی حمایت کا کام بنیادی طور پر حکومتوں کا ہے۔ مسلم عوام اور غیر سرکاری ادارے حکومتوں کی مدد کر سکتے ہیں، حکومتوں سے تعاون کر سکتے اور حکومتوں پر دباؤ بھی ڈال سکتے ہیں۔ لیکن بالآخر یہ کام حکومتوں ہی کو |