ایک اور موضوع جس پر خوب بحث ہوئی اور خاصا اختلاف رائے بھی رونما ہوا وہ تھا ’مسلم اقلیتیں‘ خاص طور پر گفتگو کا محور یہ تھا کہ مسلم اقلیتوں کو جو غیر مسلم اکثریت سے گھری ہوئی ہیں۔ کس قسم کے خطرات لاحق ہیں اور اس سلسلہ میں مسلم حکومتوں پر کیا فرض عائد ہوتا ہے اور وہ کس طرح اس سے عہدہ بر آ ہو سکتی ہیں تاکہ مسلم اقلیتوں کا اخلاقی ثقافتی اور اجتماعی تشخص برقرار رہے اور ان کی عزت و وقار میں بھی فرق نہ آئے۔ استاد محمد عبد اللہ عنان نے اپنے مقالہ میں صورتِ حال کا جائزہ لیتے ہوئے بتایا کہ کچھ مسلم اقلیتیں تو وہ ہیں جو ’’ہجرۃ اختیار یہ‘‘ یعنی اپنے اختیار اور مرضی سے ترکِ وطن کے نتیجہ میں وجود میں آئی ہیں۔ آج کینیڈا، امریکہ، برازیل، ارجنٹائن، انگلینڈ، فرانس، اٹلی اور بہت سے دوسرے ملکوں میں وہ مسلمان آباد ہیں جو تلاشِ روزگار، اقتصادی خوشحالی اور علمی ترقی کی خاطر اپنا وطن چھوڑ کر گئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ مسلمان غیر اسلامی اکثریت کے ماحول میں زندگی گزارتے ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ ان کو بڑی حد تک شہری آزادیاں اور بنیادی حقوق حاصل ہوئے ہیں، لیکن اس سے بھی یہ انکار نہیں کیا جا سکتا کہ بسا اوقات یہ مختلف قسم کے تعصبات کا شکار ہوتے ہیں اور ایسے مواقع آتے ہیں، جب ان کی عزت و وقار کو ٹھیس لگتی ہے۔ ان کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اپنی مخصوص دینی، ثقافتی اور اجتماعی زندگی کی ضروریات سے محروم ہوتے ہیں۔ چند بڑے شہروں کو چھوڑ کر نہ تو ان کے لئے مساجد ہوتی ہیں اور نہ مقبرے جہاں اسلامی طریقہ کے مطابق دفن کا انتظام ہو۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ مقامی عورتوں سے شادی بیاہ کا سلسلہ چل پڑتا ہے۔ مقامی زبان سے گھر کے باہر تو واسطہ پڑتا ہی ہے۔ گر کے اندر بھی استعمال ہونے لگتی ہے اور مقامی نظامِ تعلیم اور ماحول اسلامی ثقافت اور اسلامی اقدار سے بالکل ہی بیگاہ ہوتا ہے نتیجہ یہ کہ جیسے جیسے وقت گزرتا ہے یہ مسلمان مقامی معاشرہ میں ضم ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اس کے برعکس ہم دیکھتے ہیں کہ یورپین باشندے جو اسلامی ممالک میں رہتے ہیں ان کی اپنی عبادت گاہیں، مقبرے اسکول اور کلب ہوتے ہیں اور وہ ہر طرح اپنی روحانی اور ثقافتی ضروریات کا احساس کرتے ہیں۔ اس تقابل سے مسلم حکومتوں کا فرض بآسانی پہچانا جا سکتا ہے۔ ہمارے یہاں بھی ایسے سرکاری اور نیم سرکاری ادارے ہونا چاہئیں جن کو حکومت کی سرپرستی اور امداد حاصل ہو اور جو دینی اور قومی خدمت کے جذبہ سے بیرون ملک رہنے والے بھائیوں کی نگہداشت کریں۔ دوسری طرف وہ مسلم اقلیتیں ہیں جو تاریخی عوامل کے نتیجہ میں وجود میں آئیں اور جو اپنے ہی وطن میں اقلیت کی حیثیت سے رہتی ہیں۔ اکثر جگہ دیکھا جائے تو تعداد کے لحاظ سے یہ خاصی بڑی ہیں۔ انہیں اقلیت محض اضافی طور پر کہا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر یوگو سلاویا، بلغاریا، یونان، حبشہ اور فلپین کے مسلمان ہیں ان کی اپنی مساجد اور مدارس ہیں اور یہ بڑی حد تک اسلامی طریقہ زندگی پر قائم ہیں اور خود اپنے اندر قائم رہنے کی صلاحیت |