کر دیا اور سر زمینِ مغرب سے اس کا وجود ختم کر دیا۔ استاد علال فاسی لکھتے ہیں کہ ایک تیوملیلین بند ہو گیا تو کیا؟ اور بہت سے ادارے مختلف روپ دھارے اب بھی کام کر رہے ہیں مجھے یاد آیا کہ ہمارے پاکستان میں اسی قسم کا ادارہ کانگریس فار کلچرل فریڈم(Congress for Cultural Freedom)قائم تھی۔ یونیورسٹیوں کے سربراہ اور اساتذہ اس سے وابستہ تھے۔ اس کے مالی وسائل کی بابت شک کرنے کے وجوہ موجود تھے۔ لیکن کوئی بولے تو سننے والا کوئی نہیں اور بولنے والے کا منہ بند کرنے کے ہزار طریقے۔ بالآخر امریکہ سے تصدیق ہوئی کہ وہ سی۔ آئی۔ اے۔ کا ذیلی ادارہ تھا تب اس کا کاروبار بند ہوا جو اس ادارے میں ملوث تھے وہ آج بھی مکرم و محترم ہیں اور بدستور دوسروں کو اسلام اور حبِ وطن کا درس دیتے ہیں۔ ورلڈ یونیورسٹی سروس کی بابت جب شک و شبہ کا اظہار کیا گیا تو اسلام اور نظریۂ پاکستان کے محافظوں نے اسے بری کر دیا اور بیرونِ ملک اس کی مجلسوں میں شرکت کو اپنے لئے جائز کر لیا۔ بحث کے دوران ان پر سب کا اتفاق تھا کہ موجودہ وقت میں اسکول ہسپتال اور ثقافتی اور معاشرتی بہبود کے ادارے جو مشنریوں نے اسلامی ممالک میں قائم کر رکھے ہیں۔ اسلام دشمنی کا سب سے مؤثر حربہ ہیں۔ ظاہر ہے کہ حکومتیں ایسی سرگرمیوں کو ممنوع قرار دینے میں حق بجانب ہوں گی اور اگر وہ ایسا نہیں کرتیں تو اپنے فرض میں کوتاہی کرتی ہیں لیکن یہ محض منفی رویہ ہو گا جو پست ہمتی کی دلیل ہے۔ ضرورت ایجابی عمل ہے اور وہ یہ کہ ہم خود مشنری اداروں کی ٹکر کے تعلیمی طبی اور ثقافتی ادارے قائم کریں۔ استعمار کے دور میں یہ ادارے دنیوی مناصب اور مال و جاہ تک چڑھنے کا زینہ تھے۔ اگر یہ صورتِ حال اب بھی ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ غلامانہ ذہنیت باقی ہے۔ کم از کم اتنا ضرور ہے کہ مسلم ممالک کو اب خطرے کا احساس ہو گیا ہے (اس خطرے کا احساس غیر مسلم ممالک کو بھی ہے جیسے برما اور سیلون جنہوں نے مشنری اسکولوں کو قومی تحویل میں لے لیا ہے اور فورڈ فاؤنڈیشن، ایشیا فاؤنڈیشن جیسے اداروں کو بھی ملک بدر کر دیا ہے)بعض مسلم ممالک نے مشنری اداروں پر پابندیاں عائد کی ہیں۔ میں نے اس ضمن میں بتایا کہ حکومت پاکستان نے مشنری اسکولوں کو پابند کیا ہے کہ وہ اسلامیات کی تعلیم کا اہتمام کریں۔ یہ سب کچھ خوش آئند تو ہے لیکن اس مرض کا علاج نہیں۔ اصل مرض وہ ہے جس کی نشاندہی استاد علال فاسی نے کی وہ لکھتے ہیں کہ یورپ کی استعماری طاقتوں نے، بالخصوص انگریزوں اور فرانسیسیوں نے مسلم ممالک میں جو نام تعلیم رائج کیا تھا، وہ بدستور آج تک رائج ہے۔ اس میں کوئی بنیادی تبدیلی کہیں بھی نہیں ہوئی۔ اس نظام تعلیم کی بدولت دین تو بالکل ہی ہاتھ سے گیا۔ دنیا بھی حاصل نہ ہوئی۔ سائنس اور ٹیکنالوجی میں مسلمانوں کا آج بھی کوئی مقام نہیں جب کہ ایشیا کی دوسری قومیں |