ہے۔ یعنی یہ جو وضاحت کی گئی ہے کہ جو شخص ایمان لانے کے بعد اس سے پھر جائے وہ مستوجبِ قتل ہے۔ یہ وضاحت نہیں ہے بلکہ ان کے نزدیک وضاحت کا صرف ایک ہی مفہوم ہے کہ اس میں یہ بتایا جائے کہ اسلام سے پھر جانے کے بعد وہ حربی ہو گیا تب واجب القتل ہو گا۔ لیکن اگر ایسی وضاحت کی جاتی تو میرے خیال میں یہ ایک احمقانہ حکم ہوتا کیونکہ کوئی حربی واجب القتل نہیں بلکہ واجب القتال ہے۔ قتل کا حکم صرف جرم کی سزا کے طور پر ہوتا ہے۔ چنانچہ اس کا اعتراف خود مؤلفِ کتاب کو بھی ہے۔ پھر یہ ارشاد بھی عجیب ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے اس حکم میں قرآن یا سنت کے کسی فیصلہ کا ذکر نہیں ہے۔ شاید مؤلف کتاب موصوف کا یہ خیال ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے یہ حکم کتاب و سنت کے خلاف دے دیا اس لئے ناقابلِ تسلیم ہے۔ حیرت ہے کہ ضد اور بے جا پاسداری انسان کو کس مقام پر پہنچا دیتی ہے۔ دوسرا واقعہ یہ ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے تین بار ایک شخص سلیمان بن موسےٰ کو ارتداد سے باز آنے کے لئے کہا۔ اس نے نہ مانا۔ آخر قتل کر دیا گیا۔ جناب مؤلف کا ارشاد ہے کہ جن حالات میں یہ حکم دیا گیا تھا وہ تاریکی میں ہیں اور یہ تاریکی اس وقت تک دور نہیں ہو سکتی جب تک کہ یہ تسلیم نہ کیا جائے کہ وہ شخص محارب تھا جس سے تین بار خلیفۂ ثالث نے ارتداد سے باز آجانے کو کہا لیکن وہ نہ مانا لہٰذا قتل کر دیا گیا۔ تعجب ہے کہ خلیفۂ ممدوح نے حرب سے باز آجانے کی بجائے ارتداد سے باز آجانے کو کہا حالانکہ بخیال مولف ارتداد امرِ مستوجب قتل ہے ہی نہیں۔ پھر یہ کون پوچھے کہ کیا اہلِ حرب کو اس طرح بار بار مشورہ دینا ممکن تھا؟ ایک اور واقعہ ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے عراق کی ایک مرتد ہو جانے والی جماعت کی بابت حکم دریافت فرمایا۔ خلیفۂ ممدوح نے لکھا کہ انہیں اسلام پیش کرو، انکار کریں تو قتل کر دو۔ مؤلفِ محقق فرماتے ہیں کہ وہ بھی اہل قتال ہی تھے۔ اور دلیل یہ دی ہے کہ اخبار ’زمیندار‘ کے کسی پرچہ میں کسی نے لکھا ہے کہ ایک روایت میں اقتلوا کی بجائے قاتلوا آیا ہے جس سے عیاں ہے کہ وہ لوگ اہلِ قتال تھے مستوجبِ قتل نہ تھے۔ جناب ممدوح کا مطلب یہ ہے کہ اگر اقتلوا ہوتا تو بے شک یہ ثابت ہو جاتا کہ وہ صرف مرتد تھے۔ اہل حرب نہ تھے۔ لیکن تعجب ہے کہ نکتہ انہیں ان تمام روایات کو بیان فرماتے ہوئے ذہن سے اتر جاتا ہے جن میں اقتلوا آیا ہے، |