بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ فکر و نظر نماردۂ عراق اور فراعنۂ مصر سپر طاقتیں تھیں لیکن بالآخر فتح تیشۂ براہیمی اور عصائے کلیمی کو نصیب ہوئی اقتدار کا نشہ بڑا ظالم اور اس کا چسکا بڑا اندھا ہوتا ہے۔ بہ قائمی ہوش و حواس وہ کمبخت یوں جیتے ہیں جیسے عقل و خرد کی ان کو ضرورت ہی نہیں ہے۔ یہاں تک کہ سُجھانے کے باوجود بات ان کے خانے میں نہیں اُترتی۔ ہزاروں جبابرہ کی داستانِ نامرادی سنتے ہیں اور بیسیوں کا برا انجام اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں ۔ مگر عبرت نہیں پکڑتے۔ خود پہلے کیا تھے اور کیسی گزری؟ اب ان کو کچھ بھی یاد نہیں رہا۔ اور حالت یہ ہے کہ جب ہوش آتا ہے، ہوش جاتے رہتے ہیں ۔ ؎ بے ہوشی خوب تھی، فکر زمانے کی نہ تھی! ہوش جاتے رہے جس دن سے ہمیں ہوش آیا کچھ اسی قسم کا خمار نماردۂ عراق اور فراعنۂ مصر کو بھی آیا تھا لیکن جب تک تیشۂ براہیمی کی گردش اور عصائے کلیمی کی ضربِ کاری حرکت میں نہ آئی۔ ہوش میں نہ آئے لیکن جب آنکھ کھلی تو دنیا ہی بدلی ہوئی نظر آئی۔ ان ظالموں کی داستان میں بڑی عبرت پذیری ہے اگر موجودہ دنیا کے مغرور اور برخود غلط حکمراں اس سے سبق لینا چاہیں تو اس کی رحمت کا دروازہ اب بھی کھلا ہے۔ اس وقت جو مشکل سب سے بڑی درپیش ہے، وہ یہ ہے کہ نمرود اور فرعون تو آپ کو اب بھی ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر ملیں گے لیکن آہ! دور دور تک آپ کو تیشۂ براہیمی اور ضربِ کلیمی کا نشاں نہیں ملے گا اس لئے مصائب کی نار گلزار ہو رہی ہے۔ نہ ہی نیل اپنی آغوش پھیلا کر خوش آمدید |