رشتوں کو کاٹ کاٹ کر پھینک دیا تھا، اب ان کے پاس نہ اونٹ تھے، نہ گھوڑے اور نہ بھیڑیں اور نہ بکریاں، نہ سامان تھانہ مکان، نہ غذا نہ پانی، نہ پانی نہ برتن۔ جسم پر کپڑے کا ایک تار نہ تھا۔ مادر زاد برہنہ اور یہ سمجھ رہے تھے کہ ’’اب میں مومن اور موحد ہوا ہوں۔ ‘‘ ماں نے پوچھا”تواب کیا ارادہ ہے ؟”کہنے لگے :”اب میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جاؤں گا۔ صرف یہ چاہتا ہوں کہ مجھے سترپوشی کے بقدر کپڑا دے دیا جائے۔ ‘‘ماں نے ایک کمبل دیا۔ آپ نے وہیں اس کپڑے کا دو ٹکڑے کئے ایک ٹکڑا تہ بند کے طور پر باندھا اور دوسراچادرکے طور پر اوڑھا اور یہ مومن اور موحداس حال میں مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہو گیا۔ رات کی تاریکی اپنی قوت ختم کر چکی تھی، کائنات سورج کا استقبال کرنے کے لئے بیدار ہو رہی تھی، پرندے حمد خدا میں مصروف تھے۔ روشنی سے بھیگی ہوئی بادسحرمسجدنبوی میں اٹکھیلیاں کر رہی تھیں کہ گرد سے اٹا ہوا ذوالبجادین رضی اللہ تعالیٰ عنہ تاروں کی چھاؤں میں مسجدنبوی میں داخل ہوا۔ ایک دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر آفتاب ہدایت کے طلوع ہونے کا انتظار کرنے لگا۔ تھوڑی دیر میں صحن مسجد کے ذرات نے خوش آمدید کا ترانہ چھیڑا۔ معلوم ہوا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لا رہے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے صحن مسجدمیں قدم رکھا تو ذوالبجادین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سامنے تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم:”آپ کون ہیں ؟‘‘ ذوالبجادین رضی اللہ تعالیٰ عنہ:”ایک فقیر اور مسافر۔ عاشق جمال اور طالب دیدار۔ میرا نام عبد العزیٰ ہے۔ ‘‘ |