باب:۱تقویٰ کی تعریف ﴿الۗمّۗ Ǻذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَيْبَ ٻ فِيْهِ ڔ ھُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ Ąالَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ وَ يُـقِيْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ يُنْفِقُوْنَ Ǽۙ وَ الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ ۚ وَبِالْاٰخِرَةِ ھُمْ يُوْقِنُوْنَ Ćۭاُولٰۗىِٕكَ عَلٰي ھُدًى مِّنْ رَّبِّهِمْ ۤ وَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ Ĉ﴾[1] ’’الف لام میم یہ کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں۔ یہ متقین کے لیے ہدایت ہے۔ وہ لوگ جو غیب پر ایمان لاتے ہیں۔ نماز قائم کرتے ہیں اور جو ہم نے ان کو رزق دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ وہ ایمان لاتے ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نازل کیا گیا ہے اور جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل نازل کیا اور آخرت کے ساتھ وہ یقین رکھتے ہیں۔ وہ اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور وہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں۔‘‘ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے متقیوں اور پرہیز گاروں کی بڑی تعریف فرمائی ہے کہ وہی لوگ نجات اور فلاح پانے والے ہیں۔ تقویٰ کا لفظ قرآن میں اکثر جگہ استعمال ہوا ہے۔ اس کی قرآن و حدیث میں بہت تاکید کی گئی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خطبات میں تقویٰ کی مندرجہ ذیل تین آیات ضرور تلاوت فرماتے تھے۔ جن سے تقویٰ کی غایت درجہ اہمیت واضح ہوتی ہے۔ (۱) ﴿يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ حَقَّ تُقٰتِھٖ وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ ١٠٢ ﴾[2] (اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے۔ اور مرنا تو مسلمان ہی مرنا۔) |