Maktaba Wahhabi

12 - 702
احادیث صحیح ہیں ان سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی امامت ثابت نہیں ہوتی اور یہ بھی ثابت نہیں ہوتا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے افضل تھے۔ اور نہ ہی ان سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی کوئی دیگر خصوصیت ثابت ہوتی ہے۔ بلکہ ان فضائل و مناقب میں دیگر خلفاء حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ برابر کے سہیم و شریک ہیں ۔البتہ حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے فضائل ان کے ساتھ مختص ہیں اور دوسرا کوئی شخص اس ضمن میں ان کے ساتھ شریک نہیں ، خصوصاً ابوبکر رضی اللہ عنہ فضائل میں منفرد ہیں ۔ جہاں تک خلفاء ثلاثہ کو ہدف طعن بنانے کا تعلق ہے توشیعہ کو معلوم ہونا چاہئے کہ جو اعتراضات وہ اصحاب ثلاثہ پر کرتے ہیں ؛ ناصبی ان ہی اعتراضات کا نشانہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بناتے ہیں ؛ بلکہ آپ پر اس سے بڑے اعتراضات وارد ہوتے ہیں ۔ ہم ان شاء اللہ یہ ثابت کریں گے کہ جو کچھ اس بارے میں شیعہ مصنف نے بیان کیا ہے وہ سب سے بڑا جھوٹ ہے۔ [شبہ]:شیعہ مصنف کا یہ قول کہ ’’ موافق و مخالف حضرت علی رضی اللہ عنہ کوامام مانتے ہیں ؛ اور آپ کو عیب وخطاء سے منزہ سمجھتے ہیں ۔اور باقی لوگوں کو انہوں نے چھوڑ دیاکیونکہ ان لوگوں کے بارے میں ایسی روایات منقول ہیں جن سے ان کی امامت میں طعن واقع ہوتا ہے۔‘‘ [جواب]: یہ کھلا ہوا جھوٹ ہے ۔ مخالفین حضرت علی رضی اللہ عنہ کو پاک و صاف قرار نہیں دیتے، بلکہ متعدد فرقے آپ کو جرح و قدح کا نشانہ بناتے ہیں ۔لطف کی بات یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مورد طعن بنانے والے حضرت ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما کے مخالفین سے افضل ہیں ۔ اور وہ ان لوگوں کی نسبت بھی اولیٰ وافضل ہیں جو حضرت کی شان میں غلو کرتے ہیں ۔ مثلاً خوارج جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے کفر پر یک زبان ہیں سب مسلمانوں کے نزدیک ان غالی شیعہ سے بہتر ہیں جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو الٰہ یا نبی تسلیم کرتے ہیں ۔ بلکہ بالفاظ صحیح تر خوارج اورحضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف جنگ آزما ہونے والے صحابہ ان اثنا عشری شیعہ سے افضل ہیں جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو امام معصوم قرار دیتے ہیں ۔[1] روافض کے سوا مسلمانوں کا کوئی فرقہ حضرت ابوبکر و عمراور عثمان رضی اللہ عنہم کو ہدف طعن نہیں بناتا۔ [2]
Flag Counter