Maktaba Wahhabi

آیت نمبرترجمہسورہ نام
1 بسم اللہ الرحمن الرحیم (1) اس سورت کو الفاتحہ اس لیے کہتے ہیں کہ قرآن مجید کی کتابت اور نماز میں قرات اسی سے شروع ہوتی ہے اس اعتبار سے گویا قرآن کا دیباچہ ہے عہد نبوت میں اس کا مشہور تر نام یہی تھا اور اسی عتبار سے اسے ام الکتاب اور ام القرآن بھی کہا جاتا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مجملا قرآن کے جمیع علوم پر حاوی ہونے کی و جہ سے ام الکتاب سے ملقب کردیا گیا ہو نیز ان کے نام الصتوہ السبع الثانی اور القرآن العظیم بھی مر فو عا ثاتب ہیں صحابہ وتابعین سے اس کے بہت سے اور نام بھی منقول ہیں مثلا الوافیہ، اساس القرآن الشفاء وغیرہ (قر طبی) احادیث میں اس سورت کے بہت سے فضائل منقول ہیں دارمی میں ہے فاتحہ الکتاب شفاء من کل سقم کہ سورت فاتحہ ہر بیماری کے لیے شفاء ہے حضرت ابوہریرہ (رض) سے ایک روایت ہے کہ یہ مدینہ میں نازل ہوئی مگر علماء نے لکھا ہے کہ اس کی فضیلت مدینہ میں نازل ہوئی ہے اور بعض اس کا نزول مکرر بھی مانتے ہیں (ابن کثیر۔ قرطبی) (2) قرآن کی تلاوت شروع کرتے وقت اعوذ بااللہ من الشیطن الرجیم پڑھ لینا چاہیے جیسا کہ سورت نحل میں ہے فا ذاقرأت القران فاستعذ باللہ من الشیطن الرجیم اور ابو سعید الخدری سے ایک روایت میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز میں سورت فاتحہ تعوذ پڑھ لیا کرتے تھے ( ابن کثیر۔ قرطبی) مسئلہ اس سورت کا نماز کی ہر رکعت میں پڑھنا فرض ہے جیسا کہ عبادہ بن صامت سے روایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (صاح ستہ) کہ جس نے سورت فاتحہ نہ پڑھی اس کی کوئی نماز نہیں ہے اور یہ حکم ہر شخص کے لیے ہے خواہ وہ تنہا نماز بڑھ رہا ہو یا جماعت سے امام ہو یا مقتدی نماز جبری ہو یا ستری، فرض ہو یا نفل اور حضرت عبادہ ہی بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صبح کی نماز پڑھائی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پہ قرات گراں ہوگئی۔ سلام پھیرنے کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میرا خیال ہے کہ تم لوگ امام کے ہوتے ہوئے قرات کرتے ہوں ہم نے عرض کی جی ہاں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لا تفعلوا الا بام فاتحہ لا صلوہ لمن لم یقرء بھا ایسا نہ کرو مگر سورت فاتحہ ضرور پڑھ لیا کرو کیونکہ اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی ( سنن ابوداؤد۔ ترمذی) (3) سورت نحل میں یہ جزو آیت ہے اور بلا جماع سے سورت فاتحہ اور دوسری اور سورتوں کی جز و ہے ورنہ فصل کے لیے کوئی اور علامت بھی متعین ہو سکتی تھی جہری نمازوں میں اسے جہر ( بلند آواز) سے پڑھنا چاہیے یا ستر (یعنی پوشیدہ) سے احادیث سے دونوں طرح ثابت ہے صحیحین میں حضرت انس (رض) اور مسلم میں حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ انحضرت اور خلفائے اربعہ نماز میں قرات الحمد اللہ رب العلمین سے شروع کرتے تھے یعنی بسم اللہ سترا) آہستہ) پڑھا کرتے تھے دوسری روایات میں جہری نمازو میں بالجہر ( بلند آواز سے) پڑھنا بھی ثابت ہے (ورمنشور۔ نیل) ابن القیم رحمہ اللہ نے زادالمعاد میں پوشیدہ پڑھنے کو ترجیح دی ہے مگر احیا نا سترا اور احیا جہرا پڑھ لیا جائے تو بہتر ہے تاکہ دونوں قسم کی احادیث یہ عمل ہوجائے ( المنار) نماز دونوں طرح ہوجاتی ہے اس پر تمام علماء کا اتفاق ہے ابن کثیر ) الفاتحة
2 (4) یہ کلمہ اظہار عبودیت اور اعتراف نعمت کے معنی پر مشتمل ہے اور شکر الہی کے اظہار کے لیے اس سے بڑھ کر کوئی کلمہ نہیں ہے حدیث میں ہے الحمد راس الشکر فما شکر اللہ عبدا یحمدہ ” رب“ یہ اسمائے حسنی سے ہے اور اضافت کے بغیر اللہ تعالیٰ کے سوا کسی پر اس کا اطلاق جائز نہیں ہے العا لمین یہ علم کی جمع ہے اور اللہ تعالیٰ کے سوا تمام کائنات پر اس کا اطلاق ہوتا ہے ( قرطبی، حضرت ابن عباس (رض) رب العالمین کی تفسیر میں فرماتے ہیں ان الخلق کلہ تمام مخلوقات کا معبود۔ الفاتحة
3 (5) یہ اسمائے حسنی میں سے ہیں۔ رحمان بروزن نعملان ہے جس میں کسی کی کثرت پائی جاتی ہے اور رحیم بروزن فعیل ہے جس میں دوام کے معنی پائے جاتے ہیں گو یا اللہ تعالیٰ بہت رحم کرنے والا ہے اور ہمیشہ رحم کرنے والا بھی ہے بعض نے کہا ہے کہ دنیا میں عموم رحمت کے اعبات سے رحمن ہے جو ہر مومن اور ہر کافر کا شامل ہے اور آخرت میں خاص طور پر اپنے فرما نبردار بندوں پر رحمت کے اعتبار سے رحیم ہے الفاتحة
4 (6) یوم الدین کے معنی یوم جزاء کے ہیں اس دنیا میں بھی مکافات یعنی جزائے اعمال کا سلسلہ جاری رہتا ہے مگر اس جزا کا مکمل ظہور چونکہ قیامت کے دن ہوگا اس لیے قیامت کے دن کو خا ص طور پر یوم الدین کہا گیا ہے ( رازی) اور اللہ تعالیٰ کے اس دن کا مالک ہونے کے یہ معنی ہیں کہ اس روز ظاہری طور پر بھی مالکیت اور ملوکیت کا یہ سلسلہ ختم ہوجائے گا اور مخلوقات سے جملا اختیارات ظاہری بھی سلب کرلیے جائیں گے ( قرطبی ) الفاتحة
5 (7) عبادت کے معنی ذلت اور انکساری کا اظہار کرنے کے ہیں شرعا یہ ذلت اور انکساری اس صورت میں عبادت بنے گی جب اس ہستی کو ماورا الاسباب غیبی تسلط اور قدرت کا ما لک سمجھ کر کمال محبت کے ساتھ اس کے سامنے ذلت و انکساری کا اظہار کیا جائے گا جیسا کہ عبادت اللہ تعالیٰ کے ساتھ خا ص ہے۔ اسی طرح کسی معاملہ میں ماورا الا سباب اللہ تعالیٰ کے سوا کسی سے مدد مانگنا بھی جائز نہیں ہے مشلا مرض کے علاج کے لے دواؤں کا ستعمال تا جائز ہے مگر دوا اور علاجھ کو چھوڑ کر محض غیبی شفا کسی اور سے طلب کرے تو یہ شرک ہوگا اس قسم کی استعانت کے متعلق فرمایا اذا ستفت فاستین باللہ۔ مسئلہ عموما دعاؤں میں بحر مت یا لطیف فلاں بزرگ ( یا خود آنحضرت کی ذات گرامی) کے الفاظ رواج پاگئے ہیں مگر قرآن اور احادیث صحیحہ سے اس کی صراحت نہیں ملتی ہاں صرف حدیث پاک میں دورد شریف کی قبولیت دعا کے اسباب میں سے قرار دیا گیا ہے ( مشکوہ 786، حافظ تیمیہ لکھتے ہیں دعاؤں میں اس قسم کے الفاظ صحابہ تابعین اور سلف امت سے ثابت نہیں ہیں ( مختر الفتادی المصر یہ ص 195) اسی طرح الوسی زادہ اپنی تفسیر روح المعانی ( ج 2 ص 300) میں لکھتے ہیں لم یعھد التومن الابالجاہ والحر متہ من احمد من الصحا بتہ لہذا یہ دعا با لتو سل بدعت ہے الفاتحة
6 (8) طبعی اور فطری ہدایت کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے انسان اپنے منا فع و مضرات کا اندازہ کرسکتا ہے اور سب سے بڑی نعمت ہدایت دین ہے جو اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ پیغمروں کے ذریعہ نازل ہوئی۔ ہدایت کی ان جملہ انواع کا ذکر قرآن میں مذکور ہے اور پھر سب سے بڑے کر انبیاء اسؤہ حسنہ ہے جو ہدایت الہی کی عملی تعبیر ہے یہی وجہ ہے کہ دعا میں صراط مستقیم کی ہدایت کی بیان میں صراط الذین انعمت لایا گیا ہے، صراط مستقیم قرآن و حدیث کی اتباع کا نام ہے اجتہادی مسائل میں غلطیوں کا زیادہ امکان ہے اس لیے پانچ اوقات نماز میں یہ دعا اسی شعور کے ساتھ ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر قسم کی لغزشوں سے دور رکھے۔ (9) یعنی انبیاء صدقین، شہدا اور صالحین دیکھیے سورۃ النساء آیت 69۔ الفاتحة
7 (10) بہکئے والوں سے مراد وہ لوگ ہیں جو ازراہ جہالت صحیح راستہ سے بھٹک گئے ہوں اور جن پر غصہ کیا گیا، سے سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے جا بوجھ کر علیحح راستہ اختیار نہ کیا ایک مرفوع حدیث میں نصاری کو ضالین اور یہود کو مغضوب علیہم قرار دیا گیا ہے متعدد آیات میں بھی اس کی تا ئید ہوتی ہے (ابن کثیر) اور یہی تفسیر صحا بہ اور علماء تفسیر سے منقول ہے (فتح البیان) مسئلہ تفسیر درمنثور میں ہے کہ جبر یل نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فاتحہ الکتاب پڑھائی تو آخر میں کہا کہ آمین کہیے اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے آمین کہی۔ فائدہ آمین کے معنی ہیں ہماری دعا قبول فرما، سورت فاتحہ میں ولا الضالین کے نون کے بعد آمین کہنا مستحب ہے جہری نمازوں میں امام اور مقتدی دونوں کا بآواز بلند آمین کہنا متعدد احادیث سے ثابت ہے، حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب امام آمین کہے تم بھی آمین کہو اس لیے کہ جس شخص کی آمین فرشتوں کی آمین سے مل گئی اس کے پچھلے گناہ معاف کردیے گئے ایسے ہی حضرت وائل بن حجر سے روایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ولا لضا لین کے بعد آواز سے آمین کہتے تھے (ترمذی) مسئلہ سنت طریق یہ ہے ہے کہ ٹھہر ٹھہر کر قرات کرے ام سلمہ (رض) بیان فرماتی ہیں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر آیت کو الگ الگ پڑا ھا کرتے تھے مثلا الحمد اللہ رب العلمین پر ٹھہر جاتے پھر الر حمن الرحیم پڑھتے اور ٹھہر جاتے (ترمذی) یہ سورت اللہ تعالیٰ نے بندوں کو زبان سے فرمائی ہے ( مو ضح) الفاتحة
0 (1) چند آیات کے علا وہ تما سورت مدنی ہے۔ اس کا زمانہ نزول ہجرت کا ابتدائی زمانہ ہے۔ اس کا شمار السبع الطول میں ہے جن کہ اہمیت کے پیش نظر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : من اخذ السبع فھو حبر" کہ جس نے یہ سات سوتیں حاصلی کرلیں وہ بہت بڑا عالم دین بن گیا۔ (ابن کثیر) اس سورت کے مواعظ واحکام کے متعد بہ حصہ پر مشتمل ہونے کی وجہ سے اسے " سنام القرآن " فرمایا ہے۔ (صحیح مسلم) حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ اپنے گھروں کو مقبرے نہ بناؤ۔ شیطان اس گھر میں داخل نہیں ہوتا جس میں سورت البقرہ کی تلاوت ہوتی رہے۔ ( ابن کثیر) خالد بن معدان سے روایت ہے کہ سو رت البقرہ حاصل کرو، اس کا سیکھنا باعث برکت ہے اور اسے چھوڑدینا موجب حسرت۔ ( دارمی ) البقرة
1 (2) سورتوں کے شروع میں جو حروف آئے ہیں ان کو مقطعا کہا جاتا ہے کیونکہ یہ الگ الگ کرکے پڑھے جاتے ہیں خلفاء اربعہ، حضرت عبد اللہ بن مسعود اور دیگر اکا بر صحا بہ کا خیال ہے کہ یہ حروف راز خداوندی ہیں جسے اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی ان حروف کی تفسیر میں کوئی بات ثابت نہیں ہے مگر بعض صحابہ مثلا عبداللہ بن عباس اور بعض تابعین سے اس کی تاویل میں مختلف اقوال مروی ہیں مگر صحت سند کے ساتھ ثابت نہیں ہیں صرف ایک قول عبد الر حمن بن زید سے ثابت ہے کہ انہوں نے ان حروف کو اسمائے سورۃ قرار دیا ہے وکھوا لصحیح ( کشاف رازی۔ متآ خرین علماء نے ان حروف کو کو لطا ئف دقائق بیان کئے ہیں مگر یہ سب فنی کاوش الغازو تعمیہ کی حثیت رکھتی ہیں ایک احتمال کچھ قرین قیاس معلوم ہوتا ہے کہ اوائل سورۃ میں ان کے نزول سے تحدی مقصود ہو۔ اور عرب کے فصحا اور بلغا کو دعوت معارضہ دی گئی ہو کہ قرآن ان حروف تہجی سے مرکب ہے جن سے تم اپنا کلام ترکیب دیتے ہو اگر یہ اللہ تعالیٰ کا کلام نہیں ہے تو تم بھی اس اس جیسا کلام بنا لاؤ ورنہ سمجھ لو کہ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے لیکن اس بارے میں تو قف اور سکوت بہتر ہے علامہ شوکانی فرماتے ہیں۔ ہر اس شخص کے لیے جو نجات کا خواہاں اور سلف صالحین کی پیروی کا خواہشمند ہے اتان جان لینا کافی ہے کہ ان حروف کے اتار نے میں کوئی ایسی حکمت ہے جس تک ہماری رسارئی ممکن نہیں ہے پس اس سے زیادہ گہرائی میں جانے کی سعی کرنا لا حا صل ہے۔ (فتح القدیر ) البقرة
2 (3) قرآن مجید کے جہاں اور بہت سے نام ہیں وہاں اس کا ایک نام الکتب بھی ہے یعنی وہ آخری کتاب جس کے نزول کی کتب سابقہ میں انبیا یا زبان پر خبری دی گئی ہے۔ ( خازن) گو یا ذالک الکتب فرماکر یہود مدینہ کی تردید کی ہے جو اس کے آخری کتاب ہونے کو منکر ہیں۔ ف 4 ہدایت کے ایک معنی تو رہنمائی وار شاد کے ہیں اس اعتبار سے تو قرآن پاک ھدی للناس ہے اور دسرے معنی تائید توفیق کے ہیں۔ یعنی ہدایت سے الفل فیضیاب ہونا اسی اعتبار سے قرآن کو ھد المتقین فرمایا ہے (دیکھئے سورت قصص آیت 56) اور متقی کا لفظ وقاریہ سے مشتق ہے جس کے معنی بچاؤ اور حفا ظت کے ہیں مگر اصطلاح شریت میں متقی وہ ہے ہو ہر ایسی چیز سے اپنے آپ کو باز رکھے جس کے کرنے یا چھو ڑنے سے یہ اندیشہ ہو کہ وہ اللہ تعالیٰ کے عذاب کا مستحق ہوسکتا ہے ( الکشاف) او تقوی پیدا کرنے کا بہترین طریق یہ ہے کہ انسان سلف صالحین یعنی صحابہ و تا بعین کی سیرت کا مطالعہ کرے اور اس کی اتباع اختیار کرے۔ ( ابن کثیر ) البقرة
3 ف 5 ایمان تصدیق کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور اصلاح شریعت میں قول وفعل اور اقرار کے مجموعہ کو ایمان کہا جاتا ہے ابن ماجہ) اور یہاں الغیب سے وہ حقائق مراد ہیں جو عقل وحواس کی رسائی سے ماورا ہیں۔ مثلا ذات باری تعالیٰ و حی الہی عذاب قبر اور جملہ امور آخرت (قرطبی) پس اہل تقوی کی صفت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے بیان پر اعتبار کرتے ہوئے ان حقائق پر ایمان رکھتے ہیں اور عقل و حواس سے ادراک و احساس کا مطالبہ نہیں کرتے۔ ف 6 یعنی اس کو صحیح اوقات میں ارکان وسنن کی حفاظت اور خشوع کے ساتھ ادا کرتے ہیں اور نماز باجماعت میں صفیں سید ھی باندھتے ہیں کند ھے سے کندھا پیر سے پیر اور ٹخنے سے ٹخنہ ملا کر کھڑے ہوتے ہیں حدیث میں ہے۔ تسویتہ الصفوفہ من اقامتہ الصلوہ ( بخاری) ف 7 ی نفقہ عام اور جملہ حقوق مالی کو شامل ہے۔ البقرة
4 ف 8 پہلی کتابوں پر ایمان لانا صرف یہ ہے کہ ان کے منزل من اللہ ہون نے کی تصدیق کی جائے مگر عمل صرف قرآن و حدیث پر کیا جائے۔ (ابن کثیر ) ف 9۔ آخرت نشاۃ ثانیہ سے عبارت ہے (مفردات)۔ اور بعث بعد الموت اور امور آخرت پر یقین رکھنا ایمان کا جزو ہے البقرة
5 ف 1 یعنی اہل تقوی جو مذ کورہ صفات سے متصف ہوتے ہیں وہی کامل فلا سے سرفراز ہوں گے ( قرطبی) ابن عمر (رض) سے مرفو عا مروی ہے کہ آلم سے المفلحون تک اہل جنت کا ذکر ہے۔ اور پھر عظیم تک اہل دوزخ کا۔ (سلفیہ ) البقرة
6 ف 2 یعنی جو اللہ تعالیٰ کے علم ازلی میں کافر قرار پا چکے ہیں ان کو انذار سے فائدہ نہیں ہوگا ( قرطبی) اس کے معنی یہ نہیں کہ انذار بالکل فضول ہے نہیں بلکہ منذر کو تو تبلیغ رسالتہ کا حق ادا کرنے کا ضرور ثواب ملتا ہے رہے گا اس لیے علیہم فرمایا کہ ان کے حق میں انذار اور عدم انذار برابر ہے۔ البقرة
7 ف 3 یعنی گنا ہوں کو کثرت سے ان کتے ضمیر مردہ ہوچکے ہیں اور قبول حق کے استعداد جو فطرتا ہر شخص میں ودیعت کی گئ ہے ان سے سلب ہوچکی ہے اباان حق ناحق کی تمیز باقی نہیں ر ہی گویا ان کے دل ایسے ہوگئے ہیں فیسے کسی چیز کو بند کرکے اس پر مہر لگا دی جائے گا یا یہ کہا جائے کہ ختم ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مگر ہے ان کے مسلسل گناہوں کے ارتکاب کی وجہ سے چنانچہ حضرت ابوہریرہ (رض) سے مر فو عا مروی ہے کہ جب مومن گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ پڑجاتا ہے پھر اس نے توبہ کرلی تو بڑھنے سے رک گیا اور گناہ سے بچنے کی کوشش کی تو اس کا دل صاف ہوگیا۔ اور اگر وہ گنا پر گنا کرتا گیا تو وہ سیاہ نقطہ پھیل کر سارے دل پر چھا گیا۔ فرمایا یہی زنگ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان فرمایا ہے۔ ( ابن جریر) ف 3 یعنی گناہوں کو کثرت سے ان کے ضمیر مردہ ہوچکے ہیں اور قبول حق کے استعداد جو فطرتا ہر شخص میں ودیعت کی گئ ہے ان سے سلب ہوچکی ہے اباان حق ناحق کی تمیز باقی نہیں ر ہی گویا ان کے دل ایسے ہوگئے ہیں فیسے کسی چیز کو بند کرکے اس پر مہر لگا دی جائے گا یا یہ کہا جائے کہ ختم ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مگر ہے ان کے مسلسل گناہوں کے ارتکاب کی وجہ سے چنانچہ حضرت ابوہریرہ (رض) سے مر فو عا مروی ہے کہ جب مومن گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ پڑجاتا ہے پھر اس نے توبہ کرلی تو بڑھنے سے رک گیا اور گناہ سے بچنے کی کوشش کی تو اس کا دل صاف ہوگیا۔ اور اگر وہ گناہ پر گناہ کرتا گیا تو وہ سیاہ نقطہ پھیل کر سارے دل پر چھا گیا۔ فرمایا یہی زنگ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان فرمایا ہے۔ ( ابن جریر ) البقرة
8 ف 4 اہل ایمان اور کھلے ڈلے کفار کا ذکر نے کے بعد اس آیت میں ان منافقین کا ذکر ہو رہا ہے جو بظاہر ان کا دعوی کرتے تھے مگر حقیقت میں ان کے دل یقین و اذعان اور نور ایمان سے یکسر خالی تھے اور ان کی تمام ہمدرد دیاں کفر اور اہل کفر کے ساتھ تھیں، یہ بیان تا آخر رکوع 13 آیات میں پھیلا ہوا ہے۔ البقرة
9 ف 5 یعنی زبان سے اسلام کا اظہار کر کے اور دلوں میں کفر چھپاکر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کو دھوکا دینے کی کو شش کرتے ہیں تاکہ مسلم معاشرے میں کچھ مراعات سے بہرہ مند ہوں اور ان کے راز بھی معلوم کرتے رہیں میگر یہ لوگ خود فیر یبی میں مبتلا ہیں۔ گو یہ بات ان کی سمجھ میں نہیں اتی مگر ایک نہ ایک دن ان کے نفاق کی سزا ان کو مل کر رہے گی۔ البقرة
10 ف 6 یعنی شک ونفاق ریا کاری ارومومنوں سے حسد و بغض وغیرہ کے امراض قلبیہ میں مبتلا تھے ہی اب اسلامی اقتدار کی روز افزوں ترقی سے اور جل بھن رہے ہیں ( قرطبی) حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ ایک بیماری یہ کہ جس دین کو دل نہ چاہتا تھا نا چار قبول کرنا پڑا۔ اور دوسری بیماری اللہ تعالیٰ نے یہ زیادہ کردی یکہ حکم دیا جہاں کا جب کے خیر خواہ تھے ان سے لڑنا پڑا۔ ( مو ضح) البقرة
11 ف 7 فساد دراصل صلاح کی ضد ہے ارواس کے معنی ہیں استقامت سے ہٹ جا نا یہاں فساد سے مراد ہے کفر و معصیت کا ارتکاب حضرت عبدا اللہ مب مسعود (رض) اور دیگر صحا بہ نے یہی تفسیر کی ہے۔ ( ابن کثیر) یہ واقعہ ہے کہ ہر زمانے میں مفسد اور گم راہ لوگ نشر و اشاعت کے لیے خوبصورت عنوان تجویز کرتے رہے ہیں جیسا کہ آجکل دعا بتول سل غیر کے نام سے شرک ہو رہا ہے ( للنار)۔ ہمارے زمانے میں بھی منافقوں کی چھوٹی ذریت پیدا ہوئی ہے جس کا دعوی تو مسلمانوں کی اصلاح و ترقی کا ہے۔ اور وہ خود کو پکے مسلمان سمجھتے ہیں مگر در اصل وہ اسلام کے ڈھانے اور اس کے عقائد و شرائع اور احکام کو نیست وبابود کرنے کی فکر میں جس ترقی کے یہ لوگ خواہاں ہیں وہ مسلمانوں کی ترقی نہیں بلکہ کفر زنفاق کی ترقی ہے۔ (ودحیدی) البقرة
12 البقرة
13 ف 8 منافقین کا ایک شیوہ وہ یہ بھی تھا کہ جو لوگ صدق دل سے اسلام قبول کر کے اپنے آپ کو تکا لیف اور خطرات میں مبتلا کر رہے تھے ان کو بے وقوف سمجھتے۔ البقرة
14 البقرة
15 ف 1 عام محاروے میں ہر برے کام کی جزا یا جواب کو اسی برائی کا نام دے دیا جاتا ہے قرآن مجید کئی مقامات پر یہ محاورہ استعمال کیا ہے چنانچہ اسی محاورہ کے مطابق کے مکر و فریب اور ہنسی مذاق کے مقابلہ میں جو انھیں مہلت دی اور اب ہر فورا گرفت نہ کی اس کے متعلق فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ان سے ہنسی ٹھٹھہ کرتا ہے مطلب یہ ہے کہ ان منافقین سے ہمارا یہ بر تاؤ اس وجہ سے نہیں ہے کہ ہم ان سے خوش ہیں بلکہ یہ ہمارا غضب ہے اور یہ امہال دراصل ان کے ہنسی مزاح کا بد لہ ہے جو وہ مسلمانوں سے کر رہے ہیں تاکہ وہ اپنی سر کشی میں خوب قدم بڑھا لیں جیسے فرمایا ( :إِنَّمَا نُمْلِی لَہُمْ لِیَزْدَادُوا إِثْمًا : آل عمران آیت 178)۔ ابن عباس فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے استہزا کی یہ صورت آخرت میں پیش آئے گی قرطبی ) البقرة
16 ف 2 یعنی ہدایت و ایمان کی راہ چھوڑکر اور کفر و ضلالت کی راہ اختیار کر کے انہوں نے ب جائے فائے کے نقصان اٹھا یا ہے جو سنت کی راہ چھوڑ کر بد عت کی۔ البقرة
17 ف 2 جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہجرت کر کے مدینہ تشریف لا آئے تو کچھ لوگوں نے اسلام قبول کیا اور بعد میں منا فق ہوگئے۔ ان لوگوں کے حال کی یہاں مثال بیان فرمائی کہ ایمان لا کر انہوں نے کچھ روشنی کو کھو دیا اور نفاق کے اندھیرے میں پڑگئے اور وہ تمیز بھی جاتی رہی۔ ( فتح القدیر ) البقرة
18 ف 4 یعنی عقل و فکر کھو دیے میں زبان سے بھی بوجہ بز دلی کے اعتراف حق نہیں کرسکتے تو پھر راہ حق کی طرف سے کیسے رجوع ہو سکتے ہیں ؟ البقرة
19 ف 5 یہ مثال اللہ تعالیٰ نے منافقین کی دوسرے گروہ کی بیان فرمائی ہے یعنی وہ لوگ جو بظاہر ہر مسلمان تو ہوگئے تھے، مگر صعف ایمان کی وجہ سے ہمیشہ شک وتذبذب میں مبتلا رہتے تھے۔ راحت وآرام کی صورت میں مطمئن نظر آئے تے اور تکا لیف کا سامنا ہوتا تو شک میں پڑجاتے۔ اگلی آیت میں ان کے اسی تذبذب کو بیان فرمایا ہے کہ جب کبھی ان پر رشنی پڑتی ہے تو حل دیتے ہیں اور جب اندھیرا ہوتا ہے تو ٹھہر جاتے ہیں۔ (ابن کثیر) شاہ صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں : دین اسلام میں آخرت اسی سے آبادی ہے۔ اور اول کڑک ہے اور بجلی ہے منا فق لوگ اول سختی سے ڈرجاتے ہیں اور ان کو آفت سامنے نظر آتی ہے اور جیسے بادل کی چمک میں کبھی اجا لا ہوتا ہے اور کبھی اندھیرا سی طرح منا فق کے دل میں کبھی اقرار ہے کبھی انکار۔ ( مو ضح) البقرة
20 ف 6 اس آیت میں ان لوگوں کو متنبہ کیا ہے جو اپنی خداد او صلاحیتوں کو سلب کرلے اور تم اندھے گونگے اور بہرے بن کر وہ جاؤ۔ (جامع البیان ) البقرة
21 ف 7 یہاں تک تو تمہید تھی کہ قرآن جو ہدایت کا اصلی سر چشمہ ہے اسے ماننے اور نہ ماننے کے اعتبار سے تین قسم کے لوگ ہیں اب آگے بنی نوع انسان کے سامنے وہ اصل بات پیش کی جا رہی ہے جو قرآنی دعوت کا حقیق نصب الیعن ہے اور جس کے لیے کتابوں کی تنزیل اور انبیاء کی بعثت کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے وہ ہے دعوت الہی التو حید یعنی اللہ تعالیٰ کو ایک ماننا اور اس کی عبادت اور دعا میں کسی کو شریک نہ سمجھنا۔ ف 8 حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ اعبدوا کے معنی ہیں وحدوا یعنی اللہ تعالیٰ کو ایک مانو اور شرک سے بچو۔ (ابن کثیر) جب آیت سے مقصد یہی ہے تو خلق کا ذکر تو محض اقامت حجت کے طور پر ہے یعنی جس اللہ کو خالق کائنات مانتے ہو اور اس کا امور تکوینی پر تصرف اور اختیار تسلیم کرتے ہو عبادت بھی اسی کی کرو اور حاجت کے لی دعا بھی اسی ایک سے مانگو۔ ابن کثیر۔ فتح القدیر ) ف 9 اس کا تعلق اعبدوا سے ہے یعنی توحید کا عقیدہ اختیار کر لوگے تو یقینا تمہارے اندر تقوی پیدا ہوجائے گا۔ قرآن میں لعل کا اعتبار عموما یقین کے معنوں میں ہوا ہے۔ ( المنار) البقرة
22 ف 1۔ السماء سے مراد اس جگہ بادل ہے۔ ابن کثیر ) ف 2 اندادا کا واحد ند ہے جس کے معنی اور شریک کے ہیں یعنی جب تم جب تم جانتے ہو کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا خالق ہے اور نفع ونقصان بھی اس کے قبضہ قدرت میں ہے تو پھر دوسرا کا ہمسر کیوں سمجھتے ہو شرک کے بہت سے شعبے ہیں اور آنحضرت نے اس کا سد باب کرنے کے لیے ہر ایسے قولو فعل سے منع فرمایا ہے جس میں شرک کا شائبہ تک بھی پایا جاتا ہے۔ حدیث میں ہے کہ ایک آدمی نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا ماشاء اللہ وما شئت اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ؛ اجعلتنی للہ ندا کہ تو نے مجھے اللہ کا شریک ٹھہرا دیا ( نسائی ابن ماجہ) حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے شرک بہت خفی ہے، ایک شخص کسی کی جان کی قسم کھاتا ہے یا یہ کہتا ہے کہ فلاں بطخ نہ ہوتی تو گھر میں چور آجاتے وغیرہ کلمات بھی ایک طرح سے ند کے تحت آجاتے ہیں۔ (ابن کثیر ) البقرة
23 ف 3 گزشتہ دو آیتوں میں توحید کی دعوت اور شرک کا رد ہے اب یہاں سے رسالت اور بنوت پر ایمان لانے کی دعوت دی جا رہی ہے اور اس سلسلے میں قرآن کے معار ضہ کی دعوت دی جا رہی ہے اس سے پہلے یہی چیلنچ مکے میں کئی بار دیا جا چکا ہے۔ (دیکھئے سورت یونس رکوع :5 سجفہ ہو ورکوع 2 وغیرہ) البقرة
24 یعنی نہ گز شتہ میں تم سے یہ کام ہوا اور نہ آئندہ میں کبھی ہوسکے گا یہ ایک دوسرا معجزہ ہے چنانچہ آج تک کس نے بھی یہ چینچ قبول کرنے کی جرات نہیں کی۔ (ابن کثیر ) ف 5 حضرت عبد اللہ بن مسعود اور دیگر صحابہ سے مروی ہے کہ یہاں حجارہ سے گندھک کے پتھر مراد ہیں۔ یہی قول ابن عباس کا ہے امام باقر اور دیگر تابعین نے اس سے وہ اصنام اور انداد مراد لیے ہیں جن کی کفار پوجا کرتے تھے۔ (دیکھئے رسورت الا نبیاء آیت 98۔ ابن کثیر فتح القدیر) ف 6 ای قد اعدت۔۔ یعنی متقد یر قد یہ جملہ حالیہ ہے جس نے ثابت ہوتا ہے کہ جہنم اس وقت بھی موجود ہے۔ احادیث سے جنت ودوزخ کا اس وقت موجود ہونا ثابت ہے اہل سنت اور سلف امت کا یہی کے خلاف ہے۔ (ابن کثیر۔ رازی ) البقرة
25 ف 7 کفار کو تہدید کے بعد اب ترغیب دی جا رہے ہے اور قرآن میں عمو ما یہ دونوں مقردن ہیں۔ اس اسلوب بیان کی وجہ سے اسے المثانی کہا جاتا ہے ( ابن کثیر) ایمان کے ساتھ عمل صالح کی تصریح سے مقصد یہ ہے کہ جنت میں جانے کے لیے عمل صالح بھی ضروری ہے۔ کسی عمل کے صالح ہونے کے یہ معنی ہیں کہ خلوص نیت کے ساتھ ہو اور سنت کے مطابق ہو۔ سنت کی مخالفت سے نیک عمل بدعت بن جاتا اور عدم خلوص سے نفاق پیا ہوتا ہے۔ اسی کو دوسرے الفاظ میں اسلام اور احسان سے تعبیر فرمایا ہے۔ (دیکھئے حاشیہ آیت 112) نفاق اور بدعت سے عمل برباد ہوجاتا ہے۔ (ابن کثیر) ف 8 دینا کے میووں کے ہم صورت ہوں گے یا آپس میں ہم شکل ہوں گے حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ جنت کی نعمتوں کے نام تو دنیا والے ہی ہوں گے مگر ان کی حقیقت سے آگاہی ناممکن ہے حدیث میں : مالا عین رات ولا اذن سمعت ولا خطر علی قلب بشر۔ نہ ان کو آمکھ نے دیکھا نہ کان نے سنا اور نہ کبھی کسی انسان کے دل میں ان کا خیال ہی آیا۔ ( ابن کثیر) ف 9 یعنی جنتی عورتیں ہر قسم کی ظاہر اور باطنی آلائشوں سے پاک و صاف ہوں گی۔ (ابن کثیر) ف 10۔ یہاں خلود کے معنی ہمیشگی کے ہیں اور یہی اس حققی معنی ہیں۔ (قرطبی) البقرة
26 ف 1۔ قرآن پاک میں متعدد مقامات پر مدعا کو واضح کرنے کے کے لیے مکڑی اور مکھی وغیرہ کی مثالیں بیان کی گئی ہیں اور ابتدا میں منافقین کی حالت سمجھانے کے لیے ان کے متعلق مثالیں بیان کی ہیں۔ کفار اور منافقین اعتراض کرتے تھے کہ اگر یہ قرآن کتاب الہی ہوتی تو اس قسم کے حقیر جانور وغیرہ کی مثالیں بیان نہ ہوتیں ان آیات میں انہی کے اعتراض کا جواب دیا ہے عھد اللہ سے مراد وہ وصیت بھی ہو سکتی ہے جو انبیاء کی زبانی آسمانی کتابوں میں اپنے اوا مر ونواہی بجا لانے کے لیے کی ہے اور ہوسکتا ہے کہ تورات میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لا نے کا جو عہد اہل کتاب سے لایا گیا ہے وہ مراد ہو۔ البقرة
27 البقرة
28 ف 2۔ تعجب اور انکار کے طور پر فرمایا کہ توحید کے دلائل کی وضاحت کے بعد تمہارا شرک قابل تعجب ہے۔ (بیضاوی) یہاں دو موتوں اور دو زندگیوں کا ذکر ہے۔ انسان پہلے معدوم تھا پھر وجود میں آیا، عدم پہلی موت اور وجود پہلی زندگی ہے دوسری موت یہ معروف موت ہے اور دوسری زندگی آخرت کی زندگی ہے۔ (فتح القدیر) البقرة
29 ف 3۔ یہی معنی اما بخاری نے ابو العالیہ سے اور ابن جریر نے ربیع بن انس رحمہ اللہ سے رایت کیے ہیں۔ یہ یعنی استوی الی السمآء یا استو علی العرش اللہ کی صفت ہے اور صفات الہیہ کے بارے میں سلف تاویل کے قائل نہیں بلکہ ان کو ظاہری معنی پر محمول کرتے ہیں۔ (ترمذی) اس ایت سے معلوم ہوتا ہے کہ زمین آسمان سے پہلے پیدا کی گئی۔ اور یہی بات حم السجدہ کی آیات سے ثابت ہوتی ہے مگر سورۃ اناز عات میں والا رض بعد ذالک دحھا بظاہر اس کے خلاف ہے صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت ابن عباس (رض) سے جب اس کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ تخلیق تو پہلے ہے مگر وحو بعد میں ہے۔ (ابن کثیر) ف 4 حدیث میں ہے کہ دو آسمانوں کے درمیان پانچ سو سال کی مسافت ہے۔ نیز) حدیث میں ہے کہ جس نے ظلم سے کسی کی ایک بالشت زمین پر بھی قبضہ کرلیا قیامت کے دن اس کے گلے میں سات زمینوں کا طوق ڈلا جائے گا۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ زمینیں بھی سات ہیں اور آیت "ومن الارض مثلھن سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ ( ابن کثیر۔ قرطبی) البقرة
30 ف 5۔ اس آیت اور دوسری آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ ملا ئکہ انسان سے الگ اور مستقل ایک مخلوق ہیں اور تدبیر عالم ان کے سپرد ہے۔ اس کا ثبوت بہت سی احادیث سے ملتا ہے حکمائے اشراق بھی ملائکہ کو ایک مستقل نوع مانتے ہیں اس زمانہ کے طبیعین کہتے ہیں کہ ملائکہ کائنات عالم کو قوائے فطر یہ کا نام ہے یہ نظریہ دراصل قدیم علمائے طبیعین کا ہے جن سے آجکل کے تجدد پسند حضرات نے اخذ کیا ہے شیخ بو علی سینا اپنے رسالہ النبوت میں لکھتے ہیں فمن العادہ فی الشر یعتہ تسمتہ القوی اللطیفتہ الغیر المحسو ستہ ملائکتہ۔ شریعت اپنی اصطلاح میں قو سی لطیفہ غیر محسوستہ کو ملا ئکہ سے تعبیر کرلیتی ہے مگر اس نظر یہ کو مان لینے سے ایمان باملائکہ نے حقیقیت ہو کر رہ جاتا ہے۔ ف 6۔ خلیفہ سے مراد جنس آدم بھی ہو سکتی ہے اور انسان کے اللہ تعالیٰ کا خلیفہ (نائب) ہونے کی یہ معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے تفو لض کردہ احکام اس کی مرضی کے مطابق چلائے آدم کے فقہ میں اس کو صیغہ فی الا رض قرار دینے سے اوپر کی آیت خلق لکم مافی الا رض جمیعا پر بھی دلیل قائم ہوگئی /(المنار)۔ اور فرشتوں کا یہ استفسار دریافت حال کے لیے تھا نہ کہ بطور اعتراض یا حسد وبغض کے۔ (فتح البیان) ف 7 جیسا کہ حدیث شفاعت کبری میں آدم (علیہ السلام) کے متعلق تحریر ہے اعلمک اسما کلی شیء ( ابن کثیر) اور یہ تعلیم القاء والہام کے ذریعے تھی۔ (فتح القدیر) البقرة
31 ف 8۔ یعنی اس بات کہ تم میں اصلاح و انتظام کی صلاحیت ہے اور خلافت ارضی کا کام سنبھا سکتے ہو۔ البقرة
32 ف 8 سبحانک۔ کہ کلمہ تنز یہیہ ہے یعنی تیری ذات ہر قسم کے نقائص سے پاک ہے اس میں فرشتوں نے اپنی عاجزی اور نادانی کا اعتراف کیا ہے اور اللہ تعالیٰ کے لیے کمال علم وحکمت کا اعتراف۔ (ابن کثیر) البقرة
33 ف 1۔ اس سے معلوم ہوا کہ فرشتوں کا علم جزوی حثیت کا ہے اور وہ باوجود مقرب ہونے کے علم غیب نہیں رکھتے۔ حدیث عائشہ (رض) میں ہے کہ جو شخص یہ گمان کرے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کل کی بات جانتے ہیں تو اس نے اللہ تعالیٰ پر بہت بڑا بہتان باندھا۔ (صحیح مسلم) پھر نجومیوں اور کا ہنوں کے متعلق یہ اعتقاد کہ وہ غیب کی باتیں جانتے ہیں صریح نادانی اور جہالت ہے۔ (وحیدی) اور کوئی غیب کی بات پوچھنے کے لیے کاہن یا نجومی کے پاس جا نا اور اس کی تصدیق کرنا کفر ہے۔ (قرطبی۔ ابن کثیر) ف 2۔ علم کے ذریعہ آدم (علیہ السلام) کی فضیلت ظاہر کرنے کے بعد اب فرشتوں پر اسے دوسرے اشرف یہ بخشا کہ ان کو آدم کو سامنے سجدہ کا حکم دیا۔ اس سجدہ سے مراد محض تسخیر نہیں ہے بلکہ اپنی ہبیت کے ساتھ ہے علما نے بیان کیا ہے کہ یہ سجدہ تعظیمی تھا جو پہلی امتوں میں جائز چلا آرہا تھا اسلام نے سے ممنوع اور حرام قرار دیا ہے۔ ورنہ سجدہ عبادت تو غیر اللہ کے لیے شرک ہے اللہ تعالیٰ اس کا حکم فرشتوں کو کیسے دے سکتے تھے اور صحابہ کرام نے آنحضرت سے اجازت مانگی کہ ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سجدہ کرلیا کریں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اگر میں کسی بشر کو دوسرے بشر کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو سب سے پہلے عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے۔ ( قرطبی۔ فتح القدیر) مگر افسوس ہے جاہل صوفی اور عوام جب مشائخ کی خدمت میں حاضری دیتے ہیں تو ان کو سجدہ انہوں نے اپنا شعار بنا لیا ہے۔ البقرة
34 ف 3۔ ابلیس کے متعلق اکثر علماء کا خیال یہ ہے کہ وہ فرشتوں میں سے تھا۔ ابن جریر نے اسی کو ترجیح دی ہے۔ قرطبی اور آیت کان من الجن۔ (الکہف :5) کا جواب یہ دیا ہے کہ قرآن میں لفظ جن کا اطلاق فرشتوں پر بھی ہوا ہے۔ (اصافات :158) بعض نے لکھا ہے کہ اصل میں تو ابلیس جنوں میں سے تھا مگر بوجہ کثرت عبادت کے فرشتوں میں شمار ہونے لگا تھا اور اس کا نام عزازیل تھا پھر بعد میں نافرمانی کی وجہ سے ابلیس کے نام سے موسوم کردیا گیا جس کے معنی ناامید کے ہیں۔ (قرطبی۔ وحیدی) اور کان من الکا فرین کے معنی یہ ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے علم ازلی میں پہلے سے کافر تھا۔ (المنار ) البقرة
35 ف 4۔ اس آیت میں آدم (علیہ السلام) کی تیسری فضیلت کا بیان ہے کہ فرشتوں سے سجدہ کر وانے کے بعد انہیں جنت میں سکونت کی اجازت دی بعض نے اس جنت سے زمین پر کوئی باغ مراد لیا ہے مگر صحیح یہ ہے یہ جنت آسمان پر تھی پھر جس درخت کے قریب جا نے سے آدم کو منع فرمایا ہے اس کی تعبین میں اختلاف ہے حافظ ابن کثیر مختلف اقوال نقل کرنے بعد لکھتے ہیں قرآن نے اس کے نام یا خاصیت کی کوئی تصریح نہیں فرمائی اور نہ کسی حدیث سے اس کی تعیین ہوتی ہے پھر نہ اس کے جاننے میں کوئی علمی یا اعتقادی فائدہ پہناں ہے اور نہ اس کے نہ جاننے میں کوئی ضرور ہے لہذا بہتر یہ ہے کہ اس کی تعبین سے احتراز کیا جائے یہی رائے حافظ ابن القیم اور امام رازی کی ہے اور اکثر سنف امت کا بھی یہی قول ہے، عصمت انبیاء کے لیے دیکھئے سورت ص اور حوا کی پیدائش کے لیے نساء اور اعراف) البقرة
36 ف 5۔ شیطان اس روغلانے کا سورت اعراف آیت :2) میں ذکر کیا ہے اس نے کچھ قسمیں کھا کر آدم اور حوا (علیہ السلام) کے دل میں وسوسہ پیدا کردیا اور الی حین کے معنی تاقیا مت کے ہے بعض علمانے یہاں شیطان کے جنت میں چلے جانے کے متعلق ایک عجیب وغریب قصہ نقل کیا ہے جو اسراتیلیات سے ماخوذ ہے۔ (ابن کثیر) البقرة
37 ف 6۔ یہ کلمات وہی ہی جن کا ذکر سورۃ اعراف (آیت :23) میں ہے یعنی ربنا ظلمنا بعض تابعین نے کچھ ادعیہ ماثورہ بھی نقل کی ہیں اور ثلقی کے معنی بذریعہ وحی یا الہام اخذ کرلینے کے ہیں۔ ف 7۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے آدم کی تو بہ قبول فرمائی۔ خالص توبہ کے لیے تین امور شرط ہیں علم، حال اور عمل، گناہ کے ضرر کے احساس کو علم کہا جاتا ہے اور اس احساس کے بعد دل میں نو ندامت پیدا ہوتی ہے اسے حال کہتے ہیں اور آئندہ گناہ نہ کرنے کا عزم کہلا تا ہے اس جملہ معلوم ہو کہ گناہ کے اثرات لازمی اور طبعی نہیں جن کی لا محلا لہ سزا مل کر رہے گی کسی چیز کے مؤثر ہونے کا مدار اللہ تعالیٰ کے اختیار اور مشیت پر ہے۔ انسان کے تو بہ کرنے سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے گناہ کے اثر کو ختم کردیا ہے جاتا ہے، (رازی) البقرة
38 ف 8۔ تو نہ کی قبولیت کے بعد اس جملہ کا اعاد اس غرض سے ہے کہ اب تم زمین پر ہی رہو اب تمہیں نبوت سے سرفراز کیا جاتا ہے اصل میں اس کا تعلق پہلے اھبطوا کے ساتھ ہے دوبارہ ھبطوا کا جملہ لاکر اس ربط کی طرف اشارہ کردیا ہے۔ ف 9۔ مخاطب تو آدم (علیہ السلام) اور ان کی زوجہ ہیں مگر مراد انکی ذریت سے یعنی تمہارے پاس میری طرف سے انبیاء ورسل وحی کی ہدایت لے کر آتے رہیں گے۔ (ابن کثیر) ہدایت کا یہ سلسلہ آدم (علیہ السلام) سے شروع ہو کر محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ختم ہوگیا۔ انحضرت اللہ تعالیٰ کے آخری نبی اور قرآن مجید آخری کتاب ہدایت ہے۔ تاریخ بخاری اور مستدرک حاکم میں ہے کہ انبیاء کی کل تعداد ایک لا کگ چو بیس ہزار ہے جن میں سے تین سو پندرہ نبی مرسل ہیں۔ (قرطبی) آج ہمارے پاس ہدایت الہی کے دو نوشتے ہیں یعنی کتاب وسنت۔ ان کے ساتھ منسلک سے ہی ہم ضلا لت سے بچ سکتے ہیں۔ ف 10۔ حزن وہ افسوس جو مافات اور خوف آئندہ متوقع خطرے سے مقصدیہ ہے کہ متعین ہدایت آخرت میں تو دنیا کی زندگی پر افسوس کریں گے جیسا کہ کہ کفار کو افسوس ہوگا ( الانعام :27) اور قیامت کے احوال وشدا انہیں کو اندیشہ نہ ہوگا (النل :79 الا نبیاء :3) البقرة
39 ف 1۔ یا یھا الناس سے لیے کر یہاں تک عمومی انعامات کا ذکر فرمائے ہیں اب خاص کر ان انعامات کا بیان ہے جو نبی اسرا ئیل پر کئے۔ (ابن کثیر۔ شوکانی) اسرائیل حضرت یعقوب (علیہ السلام) کا دوسرا زمانہ یا لقب ہے جس کے معنی ہیں اللہ کا بندہ یا بر گزیدہ۔ بایں وجہ ان کی اولاد کی بنی اسرائیل کہا جاتا ہے بنی اسرائیل میں پہلے پیغمبر یوسف (علیہ السلام) اور آخرت پیغمبر عیسیٰ (علیہ السلام) ہیں۔ (قرطبی) یہاں سے لے کر ایک سو سنتالیس آیا تک دس انعامات دس قبائح اور دس سزاؤں کا ذکر ہے جو ان کی بد کر داریوں کی وجہ سے ان کو دی گئیں۔ (صفوہ) البقرة
40 ف 2 بعض نے عہد اول سے خاص کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اتباع کا عہد مراد لیا ہے مگر عموم پر محمول کرنا بہتر ہے۔ (قرطبی) بنی اسرا ئیل کی طرح متعدد آیات میں امت محمدی سے بھی ایفائے عہد کا تقاضا کیا گیا ہے۔ البقرة
41 ف 3۔ یعنی طلب دنیا کے لیے احکام الہی میں تبدل وتغیر نہ کرو، حسن بصری فرماتے ہیں آیات الہی کے بدلہ میں ساری دنیا بھی مل جائے تو متاع قلیل ہی ہے۔ ابن کثیر) اور ہر وہ شخص جو رشوت لے کر غلط فتوے دیتا ہے وہ بھی اس میں داخل ہے۔ (فتح البیان) اور اول کافر ہونے سے مرا یہ ہے کہ دیدہ ودانستہ پہلے کافر نہ ہو مشرکین مکہ نے جو اس سے پہلے کفر کیا تھا وہ ازر جہل تھا دانستہ نہ تھا لہذا اشکال لازم نہیں آتا (بیضاوی) البقرة
42 البقرة
43 ف 4۔ یعنی نماز باجماعت ادا کرو بعض علمانے اس آیت سے نماز باجماعت کا وجوب ثابت کیا ہے مگر صحیح یہ ہے کہ سنت مؤکدہ ہے۔ اور اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ فتح القدیر ) البقرة
44 ف 5۔ یاتم اپنے آپ کو کیوں نہیں روکتے قتادہ کہتے ہیں اللہ تعالیٰ نے یہودی علماء کے اس طرز عمل پر عاردلائی ہے جو دوسروں کے سامنے اسلامن کی تعریف کرتے اور خود اسلام قبول نہ کرتے تھے اس سے یہ نہیں سمجھنا چا ہیئے کہ جو شخص خود عمل پیرا نہ ہو وہ دسرو کو بھی منع نہ کرے کیونکہ یہود کر زجر ان کے امربا لمعروف پر نہیں ہے بلکہ ترک عمل پر ہے زیادہ سزا ملے گی۔ حدیث میں ہے قیاتم کے روز ایک شخص کو دوزخ میں ڈالا جائے گا اس کی انتڑیاں نکل کر ڈھیر ہوجائیں گی اور وہ شخص آگ میں ان کے گرد یوں کھومے گا جیسے گدھا چکی کے گرد گھومتا ہے لوگ اس سے دریافت کریں گے کیا تم ہم کو نیکی کا حکم نہیں دیتے تھے اور برائی سے منع نہیں کرتے تھے وہ جواب دے گا بیشک مگر میں خود عمل نہیں کرتا تھا۔ (ابن کثیر) البقرة
45 ف 6۔ یعنی مصائب کے برداشت کرنے میں ان دوچیزوں کا سہا را لو۔ حدیث میں ہے کہ جب کوئی ناگہ حاد ثہ پیش آتا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز کی طرف لپکتے اور مزید مروی ہے تمام انبیاء کی یہی عادت تھی۔ (فتح القدیر) اللہ تعالیٰ کی طاعت پر صبر معصیت سے بچنے پر صبر۔ البقرة
46 (فتح القدیر) نماز کی پابندی ویسے تو ایک نہایت مشکل ذمہ داری ہے مگر جن کے دو لوں میں اللہ تعالیٰ کا خوف اور آخرت کا یقین ہے ان پر یہ بھا ری نہیں ہے۔ (وحیدی ) البقرة
47 ف 8۔ اوپر آیت 40، میں اجمالی طور پر بنی اسرائیل کو اپنے احسانات یاد دلائے اب تفصیل کے ساتھ ان کا بیان شروع کرنے کے لیے دوبارہ خطاب کیا ہے اور وعظ کا یہ انداز نہایت ملبوغ اور مؤثر ہوتا ہے (اللنار) نیز ان کو توجہ دلائی ہے کہ نبی آخرالزمان کی مخا لفت اور دوسری بیہود گیوں سے باز آجاؤ سارے جہان کے لوگوں پر بزرگی دی یعنی اس دور کے لوگوں پر اور بنی اسرائیل کی یہ فضیلت توحید کا داعی ہونے کی وجہ سے تھی اور امت محمد یہ سے پہلے یہ مرتبہ بنی اسرائیل کے سوا کسی دوسری قوم کو حاصل نہیں ہوا آنحضرت صلی اللہ علیہ ووسلم کی بعثت کے بعد کنتم خیر امتہ فرماکر امت محمدیہ کو فضیلت عنا یت کردی (وحیدی) بنی اسرائیل پر جو انعامات کئے اردوسروں پر ان کو جو فضیلت اور امتیاز حاصل ہوا بعد کی آیات میں اسی اجمالی کی تفصیل ہے۔ البقرة
48 ف 1۔ تذکیر نعمت کے بعد ان کو قیامت کے عذاب سے ڈرا یا۔ ( ابن کثیر) بنی اسرائیل میں فساد کی اصل وجہ یہ تھی کہ وہ اپنے انبیاء اوعلماء پر نازاں تھے اور سمجھتے تھے کہ ہم خواہ کتنے گناہ کرلیں ہمارے بزرگ اور آباء واجداد ہمیں بخشو الیں گے ان کے اس زعم باطل کی یہاں تردید کی ہے یہ مسئلہ اپنی جگہ پر محقق ہے کہ آخرت میں اللہ تعالیٰ کی رضا اراذن کے بعد ہی شفا عت ہوگی کہ گنہگار موحدین کو شفاعت کے ذریعہ جہنم سے نکا لا جائے گا۔ (قرطبی ) البقرة
49 ف 2۔ فرعون اس زمانہ میں مصر کے بادشاہ کا لقب ہوتا تھا موسیٰ علی السلام کے زمانے میں جو فرعون مصر تھا اس کے نام میں اختلاف ہے تفا سیر میں عموم ولید مصعب مذکور ہے اور آل فر عون سے اس کے اتباع اور ہم مذہب لوگ مراد ہیں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی پیدا ئش سے قبل فرعون نے ایک خواب دیکھا کہ بیت المقدس سے ایک آگ نکلی ہے جس نے مصر کا احاطہ کرلیا ہے اور تمام قبطی اس لئے لپیٹ میں آگئے ہیں صرف بنی اسرا ئیل میں ایک لڑکا پیدا ہوگا جو تیری سلطنت اور تیرے دین کو تباہ کر دے گا اس پر فرعون نے حکم دیا کہ بنی اسرائیل کے ہاں جو لڑکا پیدا ہو اسے مار ڈالا جائے اور جو لڑکی پیدا ہو اسے زندہ رہنے دیا جائے چنانچہ منصوبے کے تحت ہزار ہا بچے موت کے گھاٹ اتاردیے گئے مگر اللہ تعالیٰ کے ارادہ کو کون روک سکتا تھا۔ اسی ہنگامئہ کشت و خون میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پیدا ہوئے۔ فرعون کے گھر میں ان کی نشو منا کرائی اور انہی کے ہاتھوں آخرت کار فرعون اور اس کی حکومت تباہ ہوگئی یہاں پر بلاء سے مراد انعام و احسان ہے یا مصیبت وآزمائش۔ (ابن کثیر ) البقرة
50 ف 3) بآلا خر فرعون کے مظالم برداشت کرنے کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) ایک رات بنی اسرائیل کو مصر سے روانہ ہوگئے اور راستہ بھو لنے کی وجہ سے صبح کے قریب مصر سے مشرق کی طرف بحر قلزم کے شمالی تنگنائے پر پہنچ گئے۔ اب دائیں بائیں پہاڑ یاں تھیں اور پیچھے سے فرعون کا لشکر تعاقب میں تھا اللہ تعالیٰ کے حکم سے سمندر کا پانی سمٹ کر دونوں جانب پہاڑوں کی طرح کھڑا ہوگیا اور درمیان میں راستہ بن گیا۔ اسرائیلی سمندر پار کر گئے ان کے تعاقب میں فوعونی بھی سمندر میں داخل ہوگئے اتنے میں سمندر کا پانی حسب معمول آگیا اور فرعون اپنے لاؤ لشکر سمیت غرق ہوگیا مفصل دیکھئے ( سورۃ شعرا رکوع :4) یہ واقعہ عاشورہ کے دن پیش آیا صحیحین کی ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ تشریف لائے تو آپ نے دیکھا کہ یہود عاشورہ کے دن کا روزہ کھتے ہیں۔ دریافت کرنے پر انہوں نے جواب دیا کہ ایک مبارک دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن سے نجات دلائی تھی اس لیے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس دن کا روزہ کھا تھا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا موسیٰ سے ہمیں خصیت حاصل ہے چنانچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نے خود بھی روزہ کھا اور صحابہ کو بھی حکم دیا، (ابن کثیر ) البقرة
51 ف 4 فرعون سے نجات پانے کے بعد جب اسرائیل جزیرہ نمائے سینا میں پہنچے تو اب ان کے پاس کوئی کتاب نہ تھی چنانچہ اللہ تعالیٰ موسیٰ (علیہ السلام) کو چالیس دن رات کے لیے کوہ طور پر بلایا تاکہ انہیں تورات عطا کردی جائے بعد میں بنی اسرا ئیل نے ایک بچھڑے کی پوجا شروع کردی اسی بنا پر یہاں ان کو ظالم قرار دیا ہے کہ وہ صریح طور پر شرک کے مر تکب ہوئے تھے اور شرک سے بڑھ کر اور کو نسا ظلم ہوسکتا ہے۔ البقرة
52 البقرة
53 ف 5 الکتاب سے مراد وہ قوت ہے جو حق وباطل میں امتیاز کے لیے موسیٰ (علیہ السلام) کو عطا ہوئی تھی اگر واؤ کو زائدہ مان لیا جائے تو دونوں سے تورات مراد ہوگی اس میں چونکہ حلال و حرام کے مسائل نہایت تفصیل سے بیان کئے گئے ہیں اس لیے اسے الفرقان کہا ہے۔ ( قرطبی۔ خازن ) البقرة
54 ف 6۔ حضرت ابن عباس (رض) کے قول کے مطابق اس کی صورت یہ تھی کہ جن لوگوں نے بچھڑے کی پر ستش نہیں کی وہ ان کو قتل کریں جو اس جرم کے مر تکب ہوئے ہیں چنانچہ اس پر عمل شروع ہونے پر اللہ تعالیٰ نے ان کو معاف فرمادیا۔ اوپر آیت 52، میں جس عفو کی خبر دی گئی ہے وہ اس قتل کے بعد کا ہے۔ ( رازی۔ قرطبی) ارتد اد کی سزا قتل ہے حدیث میں من بد لا دینہ فاقتلوہ کو جو شخص مرتد ہوجائے اسے قتل کردو۔ (ابو دوؤد) جب مو دی (علیہ السلام) مع ستر آدمیوں کے تورات لے کر پلٹے تو انہوں نے کہا کہ ہم تمہارے کہنے یہ باور نہیں کریینگے کہ اللہ تعالیٰ تم سے ہم کلام ہوئے ہیں جب تک ہم خود اپنی خود اپنی آنکھ سے اللہ تعالیٰ کو نہ دیکھ لیں اس پر وہ رجفتہ ( زلزلہ) اور بجلی کی کڑک سے بیہوش ہو کر مرگئے بھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا دے دو بارہ زندہ ہوئے۔ (ابن کثیر۔ فتح البیان) یہاں موت کی تفسیر نے ہوش سے کرنا تفیسر سلف کے خلاف ہے۔ (سلفیہ) البقرة
55 البقرة
56 البقرة
57 ف 1۔ جزیرہ نمائے سینا میں ان کے غذا کے ذخیرے ختم ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے ان پر خاص قسم کے بادل سے سایہ کیا اور کھانے کے لیے من و سلوی اتارا۔ دھنیے کے دانوں جیسی میٹھی چیز تھی جوان پو اوس کی مانند رات کے وقت گرتی اور لشکر کے گرد ڈھیر لگ جاتے مفسرین نے لکھا ہے ایک قسم کا گوند تھا جو نہا یت شریں اور لذیذ تھا۔ اور سلوی بٹیر کی طرح ایک پرند تھا جو شام کے وقت لشکر کے گرد ہزاروں کی تعداد میں جمع ہوجاتا اور بنی اسرائیل انہیں پکڑ کھا لیتے ہیں ابن کثیر، قرطبی) البقرة
58 ف 2۔ یہ آٹھو اں انعام ہے سابقہ انعامات کا تعلق دنیوی زندگی سے تھا اور اس تعلق دینی زند گی سے ہے۔ اس میں مقام تیہ کی شدتوں سے نجات اور گناہوں کو نجشش کا طریقہ بتلا یا ہے۔ ( کبیر) اس شہر مراد ہے اس بارے میں علمائے تفسیر نے مختلف اقوال نقل کیے ہیں بعض نے کہا ہے کہ اس سے اریحا شہر مرا اد ہے مگر یہ قیاس ہے کیونکہ اسرائیل اس وقت بیت المقدس جارہے تھے اور یہ راستے پر نہیں ہے۔ اور بعض نے مصر فرعون ہی ماد لے لیا جو پہلے قول سے بھی زیادہ مستبعد ہے لیکن زیادہ صحیح قول جسے اکثر مفسرین نے اختیار کیا ہے یہ ہے کہ اس سے بیت المقدس کا شہر ہی مراد ہے جیسا کہ سورت مائدہ میں ہے ( اے میر قوم اس قوم اس مقدس سر زمین میں چلے جاؤ جسے اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے ( ابن کثیر) یہاں پر یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ بیت المقدس تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی زندگی میں فتح ہی نہیں ہوسکا حالانکہ فبدل کی فاء سے معلوم ہوتا ہے کہ اس حکم کے بعد وہ فورا شہر میں چلے گئے۔ امام رازی نے اس اشکال کا حل پیش کیا ہے کہ ضروری نہیں کہ یہ حکم موسیٰ (علیہ السلام) کی زبان پر دیا گیا ہو بلکہ عین ممکن ہے کہ حضرت یو شع (علیہ السلام) کے دور نبوت میں یہ حکم ملا ہوجیسا کہ واقعات سے اس کی تائید ہوتی ہے تو مطلب یہ ہے کہ چالیس سال کی صحرا نو ردی کے بعد حضرت یو شع کے عہد نبوت میں جب بیت المقدس فتھ ہو اتو ہم نے ان کے حکم دیا کہ اس فتح کی شکر گزاری میں اللہ تعالیٰ کے عاجز بندوں کی طرح سجدہ ریز ہو کر اپنے گنا ہوں کی بخشش مانگتے ہوئے شہر میں داخل ہونا۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں یہ حکم ویسے ہی تھا جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو سورت نصر میں فتح پر تسبیح واستغفار کا حکم دیا گیا ہے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ میں داخل ہونے کے بعد نماز فتح ( آٹھ رکعات) ادا کی ہے حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ وہ دروازہ جس سے شہر میں داخل ہوئے یعنی گنا ہوں کی بخشش کے علاوہ مزید درجات حاصل ہوں گے احسان کے معنی اخلاص عمل کے ہیں حدیث میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے احسان کی حیقیقت کے متعلق سوال کیا گیا۔ جس کے جواب میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ان نعبد اللہ کانک تراہ فان لم تکن تراہ نانہ یراک کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرو گو یا تم اسے دیکھ رہے ہو ورنہ یہ سمجھ کر کہ عبادت کرو کہ وہ ضرور تمہیں دیکھ رہا ہے۔ البقرة
59 ف 3۔ مگر ان ظالموں نے اللہ کے اس حکم کا مذاق اڑایا اور حطتہ کی ب جائے حنطتہ فی شھرہ ( یعنی گندم بالی میں) کہتے ہوئے ب جائے نیازیی مندی اور سجدہ ریز ہونے کے اپنے سرینوں کو زمین پر گھسیٹتے ہوئے داضل ہوئے۔ بتایئے کہ اس سے بڑھ کر عناد اور حکم الہی کی مخالفت اور کہا ہو سکتی تھی اس عظیم نافرمانی کو قرآن نے فسق سے تعبیر فرمایا ہے جس کے معنی طاعت حدود کلیتہ نکل جانے کے ہیں اس بنا پر ان کو ظالم قرار دیا اور ان کے اس ظلم کی سزا میں ان پر طاعون کا عذاب نازل فرمایا ہے رجز کے معنی گو مطلق عذاب کے ہیں مگر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ طاعون " مراد ہے سنن نسائی میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا الطا عون رجز عذابہ من قبلکم کہ طاعون بھی رجز یعنی عذاب ہے جو تم سے پہلی قوموں پر نازل کیا گیا تھا بعض نے اس کی تفسیر عضب الہی سے کی ہے جو پہلے قول کے منا فی نہیں ہے۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ یہ قصہ سورۃ المائدہ میں بھی مذکور ہے مگر وہ سورۃ چونکہ مکی ہے اس لیے ضمیر غائب سے ان کو ذکر کیا ہے اور یہ سورۃ مد نیے اور مدنیہ میں یہود سامنے تھے اس لیے ضمیر مخاطب لائی گئی ہے۔ الغرض ان دونوں قصوں ( بقرہ اور مائدہ) کے مابین با عتبار سیاق دس وجوہ سے فرق پایا جاتا ہے جن میں سے بعض کا تعلق الفاظ سے ہے اور بعض کا معنی ہے علامہ مخشری نے ان کی خوب وضاحت کی ہے اور اس سیاق میں بعید کی آیت بھی شامل ہے مگر اما رازی نے پہلی دو آیتوں کے تحت سوال وجواب کے رنگ میں ان وجوہ عشرہ کو بیان فرمایا ہے واللہ اعلم۔ البقرة
60 ف 4۔ بارہ چشمے اس لیے کہ بنی اسرائیل کے بھی کل بارہ اسبا ط (قبیلے) تھے اللہ تعالیٰ نے ہر قبیلہ کے لے الگ چشمہ نکال دیا جزیرہ نمائے سینا میں اب بھی ایک چٹان پائی جاتی ہے جس پر چشموں کے شگاف ہیں اور سیاح اسے دیکھنے آتے ہیں اور جس مقام پر یہ چٹان موجود ہے وہ عیون موسیٰ کے نام سے مشہور ہے جس پتھر پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) عصا ماتے تھے اس کے متعلق مفسرین عجیب و غریب حکایات نقل کی ہیں کہ وہ پتھر کس شکل کا تھا اور کہاں سے لایا گیا تھا مگر صحیح یہ ہے وہ کوئی سمعین پتھر نہ تھا بلکہ بوقت ضرورت جس پتھر پر بھی عصا مارتے تو اس سے چشمے جاری ہوجاتے حسن بصری سے یہی منقول ہے وھذا اظھر فی المعجز ہ ابین فی القد رہ۔ ( ابن کثیر) البقرة
61 ف 1 من اور سلوی دونوں کی طعام واحد ایک کھانا قرار دینا اس بنا پر ہے کہ روزانہ یہی کھاتے اور اس میں کوئی تبدیلی نہ ہوتی یہ ان پر اللہ تعالیٰ نعمت تھی مگر ان بد بختوں نے اس نعمت کی قدر نہ کی اران سے کمتری چیزوں کا مطالبہ کرنے لگے حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ وہ مصر میں جس قسم کی چیزوں کے عادی تھے وہی طلب کرنے لگے۔ (ابن کثیر) ف 2 یہ اں مصرا کا لفظ متصرف اور تنوین کے ساتھ ہے کیونکہ مصاحف عثمانیہ کے رسم الخط میں الف موجود ہے لہذا اس سے مراد کوئی ایک شہر ہے حضرت ابن عباس (رض) نے اس کی یہی تفسیر کی ہے بعض نے مصر فرعون مراد لیا ہے۔ (ابن کثیر) ف 3 عضب بھی اللہ تعالیٰ کی صفت ہے۔ بعض علماء نے اس کی تاویل کی ہے اور اس سے ارادہ عقوبت یا نفس عقوبت مراد لی ہے (قرطبی) مگر سلف صالح کا اس پر اتفاق ہے کہ صفات الہی کو بلا تاویل ماننا صروری ہے۔ ( جامع البیان) ف 4 حدیث میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اشد الناس عذابا یوم القیامتہ رجل قتلہ نبی اوقتل نبیا کہ قیامت کے دن سب سے زیادہ عذاب اس شخص کو ہوگا جسے نبی قتل کر ڈالے یا وہ نبی کو قتل کر ڈالے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بد بخت لوگ ایسے بھی ہیں جن کے ہاتھ سے نبی قتل ہوسکتا ہے۔ ف 5 یہود اپنی نافرمانی اور سر کشی میں اس حدی تک بڑھ گئے تھے کہ وہ آیات الہی کے انکار اور انبیاء کے قتل سے بھی باز نہ رہے احکام الہی کو سمجھنے کے با وجود بدل ڈالتے اور انبیاء کے قتل کے بارے میں حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ وہ روزانہ بہت سے انبیاء کو قتل کر ڈالتے۔ جن انبیاء کو انہوں نے قتل کیا ان میں شعیا، زکریا، اور یحیی جیسے جلیل القدر انبیاء تک شامل ہیں۔ (ابن کثیر) اس کی سزا اللہ تعالیٰ نے انہیں یہ دی کہ ان پر ذلت اور مسکنت مسلط کردی وہ جہاں کہیں رہے۔ دوسروں کے غلام بن کر رہے اور بعض اوقات انتہائی مال دار ہونے کو باوجود انہوں نے ذلیل و خوار ہو کر زند گی بسر کی اگر کبھی دنیا میں انہیں امن چین نصیب ہوا بھی اور ان کی برائے نام حکومت قائم ہوئی تو اپنے بل پوتے پر نہیں بلکہ دوسروں کے سہارے پر۔ البقرة
62 ف 6 اس آیت میں یہود کی عصبیت گردہی کی تردید مقصود ہے، وہ سمجھتے تھے کہ بس اللہ تعالیٰ کو خوشنودی اور نجات ہمارے لیے مخصوص ہے۔ یہا ‏ ‏ں پر قرآن نے نجات کا مدار ایمان باللہ عمل صالح اور ایمان بالا خرہ پر ہے۔ اللہ تعالیٰ پر ایمان وہی معتبر ہوسکتا ہے جو انبیاء کے ذریعہ ہو۔ اور عمل صالح کی تعین بھی انبیاء ہی کرسکتے ہیں اور آخرت پر ایمان کے لیے بھی انبیاء کی رہنمائی کی اشد ضرورت ہے۔ قرآن کا منشا یہ ہے کہ اپنے اپنے وقت کے انبیاء کی ہدا یت کے تحت جو بھی اللہ تعالیٰ اور آخرت پر ایمان لائے گا اور اس وقت کے نبی کی شریعت کے مطابق اس نے عمل صالح بھی کیے ہوں گے اسے آخرت میں فلاح حاصل ہوجائے گی اس میں مسلمان یہود اور صابی سب برابر ہیں پھر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے بعد ان مذکورہ انبیاء کے علاوہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانا بھی شرط نجات ہے کیونکہ آپ کی آمد سے شرئع سابقہ منسوخ ہوگئی ہیں الصابی یہ صبا یصبو سے مشتق ہے جس کے اصل معنی کسی طرف دل سے مائل ہوجا نے کے ہیں۔ اہل علم کا کہنا ہے کہ صانی ہر وہ شخص ہے جو ایک دین کو چھوڑ کر دوسرادین اختیار کرلے اس بنا پر کفار عرب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صابی کہہ کر پکار تے کیونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آبائی دین کو چھوڑ کر ایک نئے دین کا اعلان کیا تھا۔ یہ لفظ حنیف کے با لمقابل ہے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے قبل سب لوگ صابی دین کے حامل چلے آرہے تھے۔ یہ قوم حضرت شیث کے صحائف کے متبع تھی مگر تدریجا ان میں شرک سرایت کر گیا اور کواکب سبع کی پو جا کرنے لگے یہ اپنے عقیدہ کے مطابق جملہ حوادث کو کو اکب کی طرف منسوب کرتے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی بعشت کے وقت کلدانی یہ عقیدہ رکھتے تھے اور بابل شہر ان کا مرکز تھا حضرت ابراہیم نے ہر قسم کو کو اکب اور بت پرستی سے برا ءت کا اظہار کر کے ان کے با لمقابل حنیفیت کی بنیاد رکھی۔ پھر تدریجا یہ لوگ نصاری میں شامل ہوگئے یہ لوگ اپنے مذہب کا نہا یت درجہ اخفا کرتے ہیں۔ شعیہ اسما عیلیہ نے کتمان مذہب انہی سے اخذ کیا ہے۔ اور ان کی دعوت کا منتہی بھی صابئین ہیں۔ ان کے اہل کتاب ہونے میں صحابہ وتابعین کے مختلف آثار ہیں۔ تفصیل کے لے دیکھئے جصاص الفہر ست الا بن ندیم الملل ولنحل ) البقرة
63 ف 7 یہ دسویں نعمت کا ذکر ہے کیونکہ اخذ میثاق بھی ان لوگوں کی مصلحت کے لیے تھا ( کبیر) جب تو رات نازل ہوئی تو اسرائیل شرارت سے کہنے لگے کہ اتنے احکام کی پیروی ہم سے نہ ہو سکے گی۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے ایک پہاڑ کو حکم دیا جو ان کے سروں پر چھتری کی طرح چھا گیا۔ آخر کار اسرائیل نے کوئی چارہ کار نہ دیکھ کر احکام کی پیروی کا اقرار کیا۔ البقرة
64 البقرة
65 ف 1 بنی اسرائیل پر انعامات ذکر کرنے کے بعداب یہاں بعض تشدید کا بیان شروع ہو رہا ہے مفصل سورۃ عمران میں ہے کہ ہفتہ کے دن ان کو شکار کی ممانعت تھی مگر اس ممانعت کے باوجود انہوں نے فریب اور حیلہ سازی سے شکار کرنا شروع کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس جرم کی سزا میں ان کی شکلیں مسخ کر کے بندروں جیسی بنا دیں۔ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ مسخ شدہ قوم تین دن کے بعد زندہ نہیں رہتی۔ (قرطبہ) ایک صحیح حدیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے جو صحیح مسلم (کتاب القدر) میں حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) سے مروی ہے بخاری میں جو بندروں کے رجم کا واقعہ ہے اول تو یہ کہ عمرو بن میمون تابعی نے ایک جاہلی واقعہ بیان کیا ہے حدیث نہیں ہے اور اس میں میں بہت سے احتمالات ہو سکتے ہیں اور پھر بخاری کے اکثر نسخوں میں یہ واقعہ مذکور بھی نہیں ہے اس بنا پر یہ قابل اعتراض نہیں ہوسکتا۔ (قرطبی) اس آیت میں امت محمدیہ کو بھی تنبیہ ہے کہ مبادا تم بھی یہود کی روش اختیار کو لو اؤ تم پر اللہ تعالیٰ کا عذاب آجائے گا حدیث میں ہے کہ یہود کی طرح ادمی ترین حیلوں سے اللہ تعالیٰ کے محارم کو حلال بنانے کی کو شش نہ کرنا۔ ابن کثیر بحوالہ ابن ماجہ) مغرب کے یہود اور عیسائیوں کے ہاں سے علم اور ضرورت کے نام سے بعض مسئلے آتے ہیں تو مسلمانوں کو مرعوب ذہن ارتقائی ضرورتوں کی آڑ میں قرآن و حدیث سے ان کے جواز پر دلائل کشید کرنا شروع کردیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسلام کو ایسے نادان دوستوں سے محفوظ رکھے (م، ع) البقرة
66 البقرة
67 ف 2 جیسا کہ آیت :72 میں آرہا ہے نبی اسرائیل میں یاک شخص قتل ہوگیا اور وہ ایک دوسرے پر الزام دھر نے لگے اس آیت میں جو اللہ تعالیٰ نے بنی اسرا ئیل کو کا گائے زبح کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس کی وجہ قدیم مفسرین یہی بیان کی ہے کہ اس طرح قاتل کو نشانی دہی کی جائے حاصل قصہ یہ ہے کہ بنی اسرائیل میں ایک مالدار شخص کو اس کے بھتیجے نے قتل کردیا تاکہ اس کا وارث بن جائے، پھر رات کو لاش کو اٹھا کر دوسرے شخص کے دروازے پر ڈال دی اور صبح کے وقت ان پر خو نبہا کا دعوی کردیا۔ اس پر لوگ لڑائی کے لیے تیار ہوگئے بآلا خر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے حکم دیا حافظ ابن کثیر یہ واقعہ کی جملہ تفصیلات اسرائیلیات سے ما خوذ ہیں اور ان پر کلی اعتماد نہیں کیا جاسکتا ابن کثیر ) البقرة
68 البقرة
69 البقرة
70 البقرة
71 ف 3 اسرائیلی روایات میں یہ بھی ہے ہے کہ آخر کار انہیں ان تمام صفات کی گائے ایک ایسے شخص کے پاس ملی جس کے پاس کوئی دوسری گائے نہ تھی اس لیے وہ کہنے لگا میں اپنی گائے اس قیمت پر فروخت کروں گا کہ تم اس کی کھا مجھے سونے سے بھر دو۔ نچا نچہ انہوں نے اسی قیمت پر ان سے یہ گائے خریدی ،۔ (ابن جریر) حدیث میں ہے کہ ابتداء میں اگر وہ کوئی گائے بھی ذبح کردیتے تو کافی ہوجاتی مگر انہوں نے تغنت اور بے جا سوالات کئے تو اللہ تعالیٰ نے تشدید برتا۔ (فتح القدیر ) ف 1 یعنی گراں قیمت اور فضیحت کے خطرے اور ان کے ت عنت کی وجہ سے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ اسے ذبح کرنا نہیں چاہتے۔ حدیث میں ہے کہ اگر انشاء اللہ کہتے و آخر ابد تک حال گائے کانہ کھلتا اس کو ابن ابی حاتم نے ابوہریرہ سے مرفوعا روایت کیا ہے ،۔ ( فوائد سلفیہ) مسئلہ۔ جس طرح اس ترسہ اوصاف کے بیان کرنے کو تعین کے لیے کافی سمجھا ہے۔ اسی طرح آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قتل خطا اور شبہ عمد میں دیت کے اونٹوں کے بھی اوصاف بیان کیے ہیں، اس سے ثا بت ہوتا ہے کہ اوصاف کے بیان سے حیوان کی تعیین ہوجاتی ہے لہذا حیوان میں بیع سلم جائز ہے یہی جمہور علماء سلف وخلف کا مسلک ہے مگر اما ابو حنیفہ اور علمائے کوفہ اس میں بیع سلم کے جواز کے قاتل نہیں ہیں۔ (ابن کثیر )۔ اس قصہ سے یہود کو تنبیہہ بھی مقصود ہے جس طرح گائے کے زبح کرنے میں طرح طرح کے جھگڑے نکا لنے کی وجہ سے تمہارے بزرگ اللہ تعالیٰ کی طرف سے شدائد میں گرفتار ہوئے اس طرح بھی نبی آخرالزمان کے اوصاف چھپا کر ان کی اتباع سے گریز کی راہیں نکالتے رہو گے تو تمہارا انجام بھی اچھا نہیں ہوگا۔ (قرطبی۔ رازی ) البقرة
72 البقرة
73 ف 2 گائے کے کس عضو کو انہوں نے مقتول پر ما را اس کی کسی صحیح اثر یا حدیث سے تعیین ثابت نہیں ہے لہذا اسے مہہم ہی رہنے دیا جائے جیسا کہ قرآن نے اسے مہبم چھوڑا ہے۔ (ابن کثیر) کذالک یحییی اللہ الموتی کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح اس وقت ایک مردہ شخص کو کا ایک ٹکڑا مار کر زندہ کرے گا یہ خطاب ان لوگوں سے بھی ہوسکتا ہے جو اس واقع کے وقت موجود تھے اور ان لوگوں سے بھی جو نزول قرآن کے زمانہ میں موجود تھے۔ فتح القدیر) فائدہ۔ اس سورت میں اللہ رتعالی نے پانچ مواضع پر موتی کو زندہ کرنے کا ذکر فرمایا ہے (1) ثم بعثنا کم من بعد تکم۔ (2) ان لوگوں کا قصہ جو ہزاروں کی تعداد میں موت سے ڈر کر اپنے گھر سے نکل پڑتے تھے۔ (3) اس شخص کا قصہ جو ایک برباد شدہ شہر سے گزرا۔ (4) حضرت ابراہیم اور چار جانوروں کا قصہ۔ (5) اس قتیل کا قصہ جو یہاں مذ کور ہے اور اللہ تعالیٰ نے بارش سے زمین کو زندہ کرنے سے اجسام دوبارہ زندہ کرنے پر استدلال کیا ہے۔ (ابن کثیر ) البقرة
74 ف 3 امام رازی لکھتے ہیں کہ جب ایک شی میں دوسری شی سے متا ثر ہونے کی صلاحیت ہو اور پھر کسی عارضہ کے سبب وہ صلاحیت سلب ہوجائے تو عربی زبان میں اس پر قاصی یا لفظ بولا جاتا ہے یہی حال انسان کے دل کا ہے کہ اس میں دلائل وآیات سے متاثر ہونے کی صلاحیت ہوتی ہے مگر جب عوارض کے سبب وہ صلاحیت سلب ہوجاتی ہے تو عدم تاثیر میں اسے پھتر کے ساتھ تشبیہ دی جاتی ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو سرزنش فرمائی کہ عجب کمبخت قوم ہو کہ مردہ کا جی اٹھنا تک تو تم نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا۔ مگر پھر بھی تم اپنے کفر اور شرک پر ڈٹے رہے اور تمہارے دل نرم ہونے کی بجائے اور سخت ہوگئے جیسے پتھر بلکہ اس سے بھی زیادہ سخت۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اہل کتاب کا رویہ اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے وَلا یَکُونُوا کَالَّذِینَ أُوتُوا الْکِتَابَ مِنْ قَبْلُ فَطَالَ عَلَیْہِمُ الأمَدُ فَقَسَتْ قُلُوبُہُمْ (الحدید :16) یعنی ان لوگوں کی طرح نہ ہوجائیں جنہیں اس سے پہلے کتاب دی گئی پھر ان پر مدت دراز گزر نے سے ان کے دل سخت ہوگئے۔ (_ابن کثیر) بعض نے یہاں پتھر کی طرف خشیت کی نسبت کو مجاز پر محمول کیا ہے مگر اس کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ جمادات میں شعور اور احساس متعدد آیات اور احادیث سے ثابت ہے۔ مثلا آیت احادیث صحاح میں ہے صحیح مسلم) وغیر ذلک۔ (ابن کثیر پھر اس کا انکار کرنا بڑی گمراہی وضلالت ہے فوئد سلفیہ) ہم پر لفظ قرآن کا حجت ہے اتباع ظاہر لفظ کا فرض البقرة
75 ف 4 یہ خطاب مسلما نوں سے ہے کہ یہود سے ایمان کی تو قع بے سود ہے ان کے اسلاف یہ ہیں کہ وہ دیدہ ودانستہ کلام اللہ یعنی تورات میں تحریف کر ڈالتے تھے۔ اس جگہ لفظ تحریف لفظی اور معنوی دونوں قسم کی تحریف کی شامل ہے انہوں نے تورات کے الفاظ بھی بدل ڈالے تھے مگر زیادہ ترغلط تاویلوں سے معانی تبدیل کرنے کی کو شش کرتے تھے موجود یہود کے علماء نے ان آیات تورات کو بد ڈلا تھا جن میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اوصاف مذکور اور اپنے دل سے حلال کو حرام اور حرام کو حلال ٹھہرا دیا ہے۔ ملخص ابن کثیر وقرطبی) آجکل کے باطل پرست علماء بھی اپنے مز عومہ مسائل کی صحت ثابت کرنے کے لیے ہر قسم کے حوالہ جات قرآن حدیث سے تراش رہے ہیں اور شریعت میں تحریف کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ (ترجمان) البقرة
76 ف 5 یہود کی اخلاقی پستی اور خدا سے بخوفی کا یہ عالم تھا کہ ان میں سے بعض لوگ جب مسلمانوں سے ملتے تو اپنے ایمان کا دعوی کرتے اور راز راہ نفاق و خوشامد ان سے ان علامتوں اور پیشنیگو ئیوں کا تذ کرہ بھی کرتے جو تورات اور ان کی دوسری کتابوں میں نبی آخزالزمان کے متعلق موجود تھیں لیکن جب وہ آپس میں ملتے تو ایک دوسرے کو ملامت کرتے کہ تم ان مسلمانوں کو وہ باتیں کیوں بتاتے ہو جو اللہ تعالیٰ نے صرف تم ہی بتائی ہیں ؟ کیا تم نہیں سمجھتے کہ یہ مسلمان آخرت میں اللہ کے سامنے تمہاری اپنی فراہم کردہ معلومات کی بنا پر تم پر حجت قائم کریں گے کہ تم نبی آخرالز مان کو جاننے اور پہچان لینے کے باوجود ان پر ایمان نہیں لائے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ عبد بمعنی فی ہو یعنی تمہارے پروردگار کے بارے میں تم پر غالب رہیں۔ (قرطبی۔ ابن کثیر ) البقرة
77 البقرة
78 ف 1 بنی اسرائیل کے عناد اور سرکشی کو بیان کرنے کے بعد اب ان کے مختلف فرقوں کا بیان ہو رہا ہے اس آیت میں عوام کی حالت بیان کی ہے۔ (کبیر) امی وہ ہے جو لکھنا پڑھنا نہ جانتا ہو اور امانی جمع ہے امنیتہ کی جس کے معنی آرزوؤں یا من گھڑت روایات کے ہیں یعنی یہود میں ایک طبقہ جوان پڑھ اور عوام کا ہے جنہیں الکتاب یعنی توریت کا تو کچھ علم نہیں ہے مگر وہ اپنے سینوں میں بعض بے بنیاد قسم کی آرزوئیں پائے ہوئے ہیں۔ مثلا یہ کہ ان بزرگوں کو وجہ سے اللہ انہیں ضرور بخش دے گا یا یہ کہ جنت میں یہود کے سوا کوئی نہیں جائے گا وغیرہ قسم کی خرافات کا عقیدہ باندھے ہوئے ہیں یہ ان کی غلط آرزوئیں ہیں من گھڑت قصے ہیں جو انہوں نے سن رکھے ہیں اور یہ نری بکواس کرتے ہیں ( ترجمان ) البقرة
79 ف 2 یہ تعلم یافتہ طبقہ کی حالت ہے جو خود گمراہ ہیں اور دوسروں کو گمراہ کرنے کے لیے فتوے دیتے رہتے ہیں مطلب یہ ہے کہ وہ عوام کو ‏محض دنیا کمانے کے لیے ان کی خواہشات مطابق پاتیں جوڑ کر لکھ دیتے ہیں اور انہیں بڑی ڈھٹائی اور جرات سے خدا اور رسول کی طرف منسوب کردیتے ہیں۔ ( فتح البیان) ایسے لوگوں کے لیے ویل ہے ترمذی میں مرفوعا روایت ہے کہ دیل جہنم میں یاک وادی کا نام ہے کافر ستر سال کی مسافت تک اس کی گہرائی میں چلا جائے گا مگر اس کی گہرائی تک نہ پہنچے گا۔ اور دیل کے معنی ہلاکت اور تبا ہی ہلاکت کے بھی آتے ہیں۔ (ابن کثیر) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں مسلمانوں ! جب اللہ نے تمہیں بتا دیا ہے کہ اہل کتاب نے اپنی کتاب کو بدل ڈالا ہے وہ خود اپنے ہاتھوں سے لکھ کر اور اسے اللہ کی کتاب ٹھہر اکر سستے داموں فروخت کر ڈالتے ہیں اور تمہارے پاس اللہ کی تازہ کتاب قرآن مجید موجود ہے پھر تم کو اہل کتاب سے کچھ دریافت کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ (ابن کثیر) ابن عباس کے اس قول پر ان حضرات ہی کیا ہے۔ (ابن کثیر) ابن عباس کے اس قول پر ان حضرات کو خاص طور پر غور کرنا چاہیے جو صحیح احادیث کر چھوڑ کر توریت، انجیل اور تلمودے کے محرف اقوال سے شغف فرماتے ہیں نیز اس آیت پر ان لوگوں کو بھی غور کرنا چاہیے جو کتاب و سنت کو چھوڑ کر ادھر ادھر کی بے سند کتابوں کو اپنا دین بنائے ہوئے ہیں۔ مسئلہ الدارامنثور میں الجلال السیوطی نے سلف سے چند ایسے آثار نقل کیے ہیں جس نے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ مصحف (قرآن مجید) کی بیع مکروہ سمجھتے ہیں کہ مصاحف کی خرید و فر خت جائز ہے۔ لا باس بھا یعنی اس میں کچھ حرج کی بات نہیں ہے۔ فتح القدیر ) البقرة
80 ف 3 اس آیت میں یہود کی قوم گیر گمراہی کا بیان ہے جس میں عوام اور علماے بھی مبتلا تھے یعنی ہم اللہ کے محبوب اور بیارے ہیں ہم چاہے کتنے گناہ کریں جہنم میں نہیں ڈالے جائیں گے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ یہود خیبر نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا ہم تھوڑے دن جہنم میں رہیں گے اور پھر ہماری جگہ تم لے لوگے اس پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اخساو لا نخللفکم فیھا ابدا۔ (نسائی) یعنی تم جھوٹے ہو ہم تمہاری جگہ کبھی نہیں لے گے حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کے یہودی کہا کرتے دنیا کی عمر سات ہزار سال ہے اس لیے ہم ہر ہزار سال کے بدلے صرف ایک دن جہنم میں رہیں گے کبھی کہتے کہ ہم نے صرف جالیس سن بچھڑے کی پوجا کی ہے اس لیے چالیس روز جہنم میں رہیں گے ان کی تردید میں یہ آیت نازل ہوئیں۔ (ابن کثیر) اتخذ تم عند اللہ عھدا میں ہمزہ انکار لے لیے ہے یعنی کیا تم نے اللہ سے اس پر کوئی عہد لے لیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے خلاف نہیں کرے گا ؟ نہیں بلکہ تم محض جھوٹی اور باطل باتیں کرتے ہو۔ (فتح القدیر) البقرة
81 ف 5 اس آیت میں سیئہ اور خطیعتہ سے مراد بعض مفسرین نے شرک، بعض نے گناہ کبیرہ اور بعض نے ایسے صغائر مراد لیے ہیں جو کبا ئر کا موجب بن سکتے ہیں ابن کثیر فرماتے ہیں کہ تمام اقوال تقریبا ہم معنی ہیں اور حدیث میں ہے : کہ چھوٹے چھوٹے گناہوں سے بچتے رہوں اس لیے کہ یہ جمع ہو کر انسان کو ہلاک کر ڈالتے ہیں ان آیات میں یہود کے نظریہ کی تردید کی ہے کہ آخرت میں فلاح ونجات اور عذاب تمہاری خواہش کے مطابق نہیں ہوگا بلکہ اعمال سیئہ اور حسنہ کے مطابق فیصلہ ہوگا واحاطت بہ خطیئتہ کے معنی یہ ہیں کہ جس کے پاس قیامت کے دن کوئی نیکی بھی نہ ہوگی لہذا اس سے مراد کافر یا مشرک ہیں ورنہ گنہگار مومن جنہوں نے شرک نہ کیا ہوگا آخر سزا پاچکنے کے بعد شفاعت کی بنا پر عذاب سے نکال لیے جائیں گی جیسا کہ متعدد احادیث سے ثابت ہے اکثر صحابہ و تابعین اور اہلسنت والجماعہ کا یہی مسلک ہے۔ (قرطبی۔ رازی) عمل صالح کے لیے دیکھئے آیت 25۔ البقرة
82 البقرة
83 ف 1 آیات سابقہ میں بنی اسرائیل کو وہ تاریخ احسانات یاد لائے گئے ہیں جوان کے بزرگوں پر کئے گئے اور انہوں نے شکر گزاری کی بجائے کفر کیا جس کے نتیجہ میں ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کئی بار عتاب نازل ہوا اب یہاں ان کو وہ عہد یاد لایا جا رہا ہے جو اصل احکام (عبادات ومعامالات) دیتے وقت ان سے لیا گیا تھا اور بتایا جارہا ہے کہ بنی اسرائیل نے اس عہد کی پابندی نہ کو او اعراض واہمال کو اپنا شعار بنا لیا اسی قسم کا حکم سورتہ نساء (آیت :26) میں امت مسلمہ کو بھی دیا گیا ہے۔ اب ن کثیر عبادت کی چار قسمیں ہیں (1) بدنی جیسے طواف۔ رکوع سجدہ وغیرہ (2) مالی جیسے صدقہ خیرات کرنا اور نذرانیاز ماننا،(3) لسانی جیسے کسی کے نام وظیفہ جپنا یا اٹھتے بیٹھے چلتے پھر تے کسی کا نام لینا۔ (4) قلبی جیسے کسی پر بھروسہ رکھنا کسی سے خوف کھانا یا امید رکھانا۔ یہ سب عبادتیں اللہ کے لیے ہیں ان میں جس نے اللہ کے ساتھ کسی اور کو شریک بنایا وہ شرک کا مرتکب ہوگیا۔ سلفیہ) ماں باپ کے ساتھ نیکی کے ساتھ پیش آنے کو اللہ تعالیٰ علاؤ اس آیت کے متعدد دوسری آیات میں عبادت الہی کے ساتھ بیان فرمایا ہے جس سے ثابتج ہوتا ہے کہ حقوق العباد میں سب سے افضل عمل یہی ہے عبد اللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ انہوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریا فت کیا سب سے افضل عمل کو نسا ہے ؟ فرمایا الصلوہ لوقھا کہ نمازوں کو اول وقت پر ادا کرنا۔ پوچھا پھر کو نسا : فرمایا بر الولدین ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرنا ،(ابن کثیر اور قولو اللناس حسنا میں ہر وہ چیز داخل ہے جس پر شرعی لحاظ سے حسن ہونے کا اطلاق ہوسکتا ہو اور یہ لفظ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو بھی شامل ہے۔ (ابن کثیر) حضرت ابو ذر (رض) سے روایت ہے کہ آنحضرت نے فرمایال : کسی نیکی کو حقیر نہ سمجھو اگر تم کچھ اور نہ کرسکو تو کم سے کم اپنے بھائی سے خندہ پیشانی ہی سے پیش آجاؤ (صحیح مسلم۔ ترمذی) حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں پہلے احسان بالفعل کا حکم دیا ہے اور پھر قولو اللناس حسنا میں احسان قولی کا حکم ہے اس کے بعد اقیموا الصلوتہ اوتو الز کوہ میں اس عبادت اور احسان کو متعین کردیا ہے اور اس سے وہ نماز اور زکوہ مراد ہیں جو ان کے مذہب میں تھیں۔ پس یہ آیت ہر قسم کی عبادت بدنی مالی۔ قولی اور قلبی پر مشتمل ہے اور عبادات ومعاملات کے اصول بحیثیت مجموعی اس آیت میں آجاتے ہیں۔ البقرة
84 ف 2 یعنی آپس میں ایک دوسرے کو نہ قتل کرو اور نہ گھروں سے نکالو کیونکہ ملی زندگی اس کے بغیر ممکن نہیں یہاں قرآن نے آپس میں ایک دوسرے قتل کرنے کو اپنے تئیں قتل کرنا کہا ہے کیونکہ افرا ملت بمنزلہ ایک جسم کے ہوتے ہیں تو گو یا کسی کو قتل کرنا اپنے آپ کو قتل کرنا ہے۔ حدیث میں ہے : کہ اہل ایمان باہمی دوستی بیمار ہوتا ہے تو سارا دن بخار اور پریشانی میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ مسئلہ : اسلام میں خود کشی حرام اور کبیرہ گناہ ہے اسی طرح اپنے گھر کو چھوڑ کر بن باسی اختیار کرنا بھی ممنوع ہے مروی ہے کہ حضرت عثمان بن مظعون نے چند صحا بہ کے ساتھ مل کر عہد کیا کہ وہ ٹاٹ کا لباس پہنیں گے اور گھر چھوڑ کر جنگلوں میں بھرتے رہیں گے انحضرت کو اس کی اطلاع ہوئی تو آپ نے فرمایا : کہ یہ میری سنت اور ملت اسلام کے خلاف ہے جو میری سنت سے اعراض برتے گا اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ قرطبی۔ ابن کثیر ) البقرة
85 ف 3 مدینہ منورہ میں یہود کے تین قبیلے تھے بنو قینقاع، بنو نضیر اور بنو قریضہ۔ مدینہ کے عرب قبیلوں سے ان کے حلیفانہ تعلقات تھے۔ بنو قینقاع اور بنو نضیر قبیلہ خزرج اور بنو قر یظہ قبیلہ اوس کے حلیف تھے خزرج اور اوس کی آپس میں جنگ رہا کرتے تھی۔ جب کبھی ان کے درمیان لڑائی ہوتی تو وہ دنوں کو حلیف یہودی قبیلے بھی اپنے اپنے حلیف کا ساتھ دیتے یہودی اپنے دشمن کو مارتا اور کبھی دوسرے یہودی کو بھی قتل کر یتا اور اس کا گھر بار لوٹ لیتا۔ وہ جانتے تھے کہ ان کایہ فعل توریت میں دیئے ہوئے احکام کو خلاف ہے لیکن لڑائی ختم ہوتی اور مغلوب قبیلے کے کچھ آدمی غالب کی قید میں آجاتے تو وہ خود ہی فدیہ دے کر غالب قبیلہ سے اپنے قیدی بھایئوں کو آزاد کراتے اور کہتے کہ ہمیں کتاب الہی کا حکم ہے کہ اپنے بھائیوں کی مدد کرو اور انہیں قید سے آزاد کراؤ ،۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے ان سے فرماتے ہیں کہ تو یاد رکھتے ہو مگر اس چیز کو بھول جاتے ہو کہ تمہیں آپس میں ایک دوسرے کے خلاف لڑنے اور ایک دوسرے سے نکا لنے سے بھی منع کیا گیا تھا۔ گو یا تم کتاب الہی کے جس حکم کو اپنی مرضی کے مطابق پاتے ہو اسے مانتے ہو اور جسے اپنی مرضی کے مطابق نہیں پاتے اس کی کوئی پرواہ نہیں کرتے۔ اگر تم واقعی خدا کے حکم پر چلتے ہو تو دونوں جگہ چلو۔ (ابن کثیر) اہل علم فرماتے ہیں کہ ان سے چا عہد لیے گئے تھے (1) قتل (2) اخراج اور ایک دوسرے کے خلاف مدد نہ کرنا اور قیدی کو فدیہ دے کر چھڑالینا وہ صرف فدیہ پر عمل کرتے اور باقی تین کی مخالفت کرتے اور بے محابا ان کا ارتکاب کرتے۔ (قرطبی) البقرة
86 البقرة
87 ف 1 یہاں الکتاب سے توریت مراد ہے جسے یہود نے بدل ڈالا تھا اور قفینا من بعدہ بالر سل کے معنی یہ ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد ان کے پاس مسلسل پیغمبر آتے رہے جیسے فرمایا : ثُمَّ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا تَتْرَا ( المومنون : ٤٤) اور آخر کار بنی اسرا ئیل کے انبیاء کایہ سلسلہ عیسیٰ (علیہ السلام) پر ختمج ہوگیا اور بتینا سے معجزات مراد ہیں جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو دیئے گئے جسے مردوں کو زندہ کرنا مٹی سے پرن بنا کر اس میں روح پھونکنا کوڑی اور اندھے کو صحتیاب کرنا وغیرہ جن کا ذکر سورت آل عمران آیت 49) اور مائدہ (آیت 110) میں آیا ہے قر طبی۔ ابن کثیر) اور روح سے مراد حضرت جبریل (علیہ السلام) ہیں۔ اور ان کو روح کے نام سے اس لیے پکارا گیا ہے کہ وہ امرتکوینی سے ظہور میں آئے تھے جیسا کہ خود حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو روح کہا گیا ہے اور القدس سے ذات الہی مراد ہے اور اس کی طرف روح کی اضافت تشریفی ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ روح القدس سے انجیل مراد ہو جیسا کہ قرآن کو رحامن امرنا (42۔52) فرمایا ہے۔ مگر اس سے جبریل (علیہ السلام) مراد لینا زیادہ صحیح ہے ابن جریر نے بھی اس کو تر جیح دی ہے کیوکہ آیت (110۔ المائدہ) میں روح القدس اور انجیل دونوں الگ الگ مذکور ہیں اور ایک آیت (26۔193) میں حضرت جبر یل (علیہ السلام) کو الروح۔ الامین فرمایا ہے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت حسان کے متعلق فرمایا اللھم ایدہ بروح القدس اے اللہ روح القدس سے اس کی تائید فرما۔ ایک دوسری حدیث میں ہے " وجبریل معک کہ جبریل تمہارے ساتھ ہیں معلوم ہوا کہ روح القدس جبریل (علیہ السلام) ہی ہیں ( فتح البیان۔ ابن کثیر) ف 2 جن پیغمبروں کی انہوں نے تکذیب کی ان میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شامل ہیں اور جب کو قتل کیا ان میں حضرت زکریا۔ اور حضرت یحیی (علیہ السلام) داخل ہیں۔ (قرطبی) البقرة
88 ف 3 یہود کہا کرتے ہمارے دلوں پر غلاف ہیں یعنی تمہاری کوئی بات ہم پر اثر نہیں کرتی جیسا کہ دوسرے مقام پر ہے قلوبنا فی اکند مما تد عونا الیہ یعنی جو دعوت دیتے ہو اس سے ہمارے دل پر دہ میں ہیں) اما احمد جنبل نے مر فو عا ذکر کیا ہے ہے اور حضرت حذیفہ سے موقوفا مردی ہے کہ دل چار قسم کے کے ہیں ان سے ایک دل اغلف ہے یعنی کافر کا دل جس پر مہر لگادی گئی ہے اور ہو حق سے متاثر نہیں ہوتا بعض علمائے تفسیر نے غلف کے یہ معنی کیے ہیں کہ ہمارے دل علم و حکمت سے پر ہیں کسی دوسرے علم کی ان میں گنجائش نہیں ہے۔ اس پر قرآن نے فرمایا ہے کہ حق سے متاثر نہ ہونا فخر کی بات نہیں ہے یہ تو اللہ تعالیٰ کی لعنت کی علامت ہے (ابن کثیر) ف 4 یعنی ان کے دلوں پر کفر غالب ہے اور ایمان ہے بھی تو بہت کمزور اور نہایت قلیل پس قلیلا مسدر مخدوف کی صفت ہے لایومنون الا ایمانا قلہلا۔ (قرطبی) البقرة
89 ف 5 نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے یہودی عرب کے مشرکین سے مغلوب ہوئے تو وہ دعا کیا کرتے تھے کہ نبی آخرالزمان جلد ظاہر ہوں تاکہ ہم ان کے ساتھ مل کر ان کافروں پر غلبہ حاصل کریں اس صورت میں یستفحون کے معنی نصرت اور غلبہ حاصل کرنا ہو نگے۔ ابن کثیر) اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کے معنی خبر دینے کے ہوں یعنی وہ کہا کرتے تھے کہ عنقریب نبی آخرالزمان ظاہر ہوگا اور ہم اس کے ساتھ مل کر تم پر غالب آئیں گے چنانچہ عاصم بن عمربن قتادہ انصاری روایت کرتے ہیں ہیں کہ ہمارے بزرگ کہا کرتے تھے عرب کے قبائل میں ہم سے زیادہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق کوئی نہ جانتا تھا اس لیے کہ ہم یہودیوں کے ساتھ رہتے تھے اور ہو اہل کتاب تھے اور ہم بت پرست وہ ہم سے کبھی مغلوب ہوتے تو کہتے کہ ایک بنی کی بعثت ہونے والی ہے اور اس کا زمانہ آپہنچا ہے اس کے ساتھ مل کر ہم تمہیں عاد وارم کی طرح قتل کریں گے جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت ہوئی ہم نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی اختیار کرلی اور یہ یہود یوں کے بارے میں نازل ہوئی ابن جریر، فتح القدیر) بعض نے حضرت ابن عباس (رض) سے یستفتحون کے یہ معنی نقل کیے ہیں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ظہور سے پہلے جب یہو دوں کا عرب سے مقابلہ ہوتا تو وہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وسیلہ سے دعا کرتے اور کہتے کہ اے اللہ ہم بحق نبی امی تجھ سے دعا کرتے ہیں کہ ہمیں دشمنوں پر غلبہ عنایت کر مگر یہ روایت نہایت ضعیف ہے۔ قرطبی نے ابن عباس سے نقل کی ہے۔ (الباب القل سیوطی امستدک حاکم مع تلخیص ج 2 ص 263) البقرة
90 ف 6 یعنی انہوں نے جو قرآن اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے سے انکار کیا اس کی وجہ ان کا صرف یہ حسد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا آخری ان میں کیوں نہ بھیجا اور اپنے فضل سے ایک ان پڑھ قوم عرب کو کیوں نوازا؟ ان کے حسد کا نتیجہ یہ ہوا کہ انہوں نے اللہ کا وہ ہر غضب مول لیا۔ پہلا غضب اس وجہ سے کہ انہوں نے تورات میں تحریفیں کیں انجیل اور عیسیٰ (علیہ السلام) کا انکار کیا اور دوسرا غضب اس وجہ سے کہ وہ قرآن اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر محض صد اور حسد کی وجہ سے ایمان نہ لائے اسی طرح یہود نے اور بھی بہت سے جرائم کے تھے جن کی وجہ سے ان پر اللہ کا غضب اترا ہے پس غضب علی غضب کے معنی پہلا اور دوسرا غضب نہیں ہے بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ ان پر اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا غضب نازل ہوا جس کی وجہ سے ان کو مغضوب علیہم فرما گیا گیا ہے۔ (قرطبی ) البقرة
91 ف 1 یعنی اول تو تمہارا قرآن کو نہ ماننا نے معنی بات ہے کہ کیونکہ وہ تورات کی تصدیق کرنے والی کتاب ہے پھر اگر تمہارا یہی دعوی ہے کہ تم صرف تورات کو مانتے ہو تم نے پہلے انبیاء کو کیوں قتل کیا حالانکہ تورات میں تمہیں انبیاء کو قتل کرنے سے منع کیا گیا ہے اور یہ تما انبیاء تمہیں تورات کی طرف دعوت دینے آئے ہیں معلوم ہوا کہ یہ تکذیب بغض وعناد اور تکبر کی وجہ سے کر رہے ہو۔ (ابن کثیر ) البقرة
92 ف 2 یعنی تمہارا یہ دعوی کہ ہم صرف تورات کو مانتے ہیں ایک دوسری وجہ سے بھی غلط ہے کہ تم نے حضرت موسیٰ سے کیا سلوک کیا جو اپنی نبوت کی واضح نشانیاں اور ناقابل تردید دلیلیں لیے کر تمہارے پاس آئے تھے جیسے طوفان ٹڈی مینڈک، خون عصا۔ من وسلوی اور ابر کا سا دریا کا بھٹ کر در ٹکڑے ہوجا نا اور پتھر سے بارہ چشموں کا جا ری ہونا وغیرہ۔ (ابن کثیر) ف 3 یعنی ان واضح نشانیوں کو دیکھ لینے کے بعد یا حضرت موسیٰ کے طور پر جا نے کے بعد۔ (ابن کثیر۔ فتح البیان) البقرة
93 ف 4 یعنی ماننے کا اقرار کیا لیکن پورا نہ کیا (دجیز) ف 5 یعنی درحقیت تم مومن ہو ہی نہیں اس لیے کہ ایمان کے ہوتے ہوئے تم بچھڑے کی پوچا جیسا کھلا شرک اروآنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکذیب کر ہی نہیں سکتے تھے (فتح القدیر) البقرة
94 یعنی اگر تم اس دعوی میں سچے ہو کہ جنت میں تمہارے سوا کوئی نہیں جائے گا تو موت کی تمناکرو کیونکہ جس شخص کو یقین ہو کہ مرنے کے بعد فورا جنت میں پہنچ جائے گا وہ موت سے نہیں ڈرسکتا اب جریر اور بعض دوسرے علمائے تفسیر نے یہی معنی کیے ہیں اہل کتاب یعنی یہود کو دعوت مباہلہ دی گئی ہے کہ اگر تم اپنے آپ کو سچا سمجھتے ہو تو جو فریقین میں سے جھوٹا ہے اس کے لیے موت کی دعا کرو۔ حافظ ابن کثیر نے انہی دوسرے معنی کو صحیح کہا ہے اور لکھا ہے کہ اس کی نظیر سورۃ جمعہ کی آیات ( 6 تا 8) ہیں جن میں ان کو مباہلہ کی دعوت دی گئی ہے۔ جیسا کہ سورت آل عمراب آیت 21) میں نجران کے عیسائیوں کی دعوت مباہلہ دی گئی ہے اور جس طرح عیسائی ڈر گئے تھے یہود بھی بد دعا سے ڈرگئے اور تمنی نہ کی معلوم ہوا کہ ہو جھوٹے ہیں۔ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے بھی انہی دوسرے معنی کو تر جیح دی ہے۔ البقرة
95 ف 7 حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ اگر یہو ددی ایک دن بھی یہ آرزو کرتے تو روئے زمین پر کوئی یہو دی باقی نہ رہتا، یہ ویسی ہی بات ہے جیسا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وفد نجران پر حجت قائم کرنے کے بعد جب انہیں دعوت مبادلہ دی تو انہوں نے ایک دوسرے سے کہا کہ اگر تم نے اس نبی سے مباہلہ کیا تو تم میں سے کوئی شخص بھی زندہ نہ بچ سکے گا۔ چنانچہ انہوں نے جزیہ پر صلح کرلی (ابن کثیر ) البقرة
96 البقرة
97 ف 1 یہاں قرآن کے نزول کا محل آنحضرت کے قلب مبارک یعنی دل کو قرار دیا ہے جس سے اشارہ ہے حضرت جبریل (علیہ السلام) کو قرآن ایسے طریقہ سے پڑھا یا کہ انحضرت کے دل پر نقش ہوگیا۔ (رازی) ف 2 علمائے تفسیر نے اس کا شان نزول بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ایک مرتبہ چند یہودی علماء نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے ابا القاسم ہم آپ سے چند سولات کرتے ہیں اگر آپ نے ان کا جواب دے دیا تو ہم آپ کی تباع اختیار کرلے گے ان میں سے ایک یہ کہ اللہ کی نبی کی علامت بتایئے اور ہمیں یہ بھی بتایئے کہ اسرا ئیل یعنی یعقوب (علیہ السلام) نے کونسی چیز اپنے اوپر حرام کی تھی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سوالات کے صحیح صحیح جواب دیئے آخر میں کہنے لگے اچھا ہمیں یہ بتایئے کہ فرشتوں میں سے آپ کا دوست کون ہے ؟ یہ ہمارا آخری سوال ہے اس کے جواب پر یا تو ہم آپ سے سے مل جائیں گے یعنی ایمان لے آئیں گے اور یا آپ کو چھوڑ دیں گے۔، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میرے دوست جبریل ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جو نبی بھی بھیجا ہے جبریل ہی اس کے دوست رہے ہیں یہودی علماء کہنے لگے تب تو ہم آپ کا ساتھ نہیں دے سکتے اگر آپ کا دوست کوئی دوسرا فرشتہ ہوتا تو ہم آپ کی تصدیق کرتے اور آپ پر ایمان لے آتے فرمایا کیوں ؟ کہنے لگے یہ ہمارا دشمن ہے یہ حرب وقتال اور عذاب کا فرشتہ ہے اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں بعض نے اس کی شان نزول میں حضرت عمر (رض) کا یہود سے مناظرہ ذکر کیا ہے جس میں یہود نے حضرت جبر یل (علیہ السلام) سے عداوت کا اظہار کیا اور حضرت عمر (رض) نے کہا انتم اکفر من الحمیر کہ تم گدھے سے بھی زیادہ ضدی اور سرکش ہو جبریل (علیہ السلام) اومیکایل (علیہ السلام) دونوں اللہ کے فرشتے ہیں اگر ایک سے دشمنیے تو سب سے دشمنی ہے اس پر یہ دو آیتیں نازل ہوئیں اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لقدء افقک اللہ یاعمر ان آیات کا مفہوم یہ ہی کہ کسی شخص کو جبریل (علیہ السلام) سے دشمنی رکھنے کا حق حاصل نہیں ہے کیونکہ جبریل (علیہ السلام) یہ قرآن ازخود نہیں بلکہ ہمارے پاس سے اور ہمارے حکم سے لائے ہیں اس لحاظ سے کہ وہ ہماری طرف سے امامو ہیں۔ (رازی۔ ابن کثیر) البقرة
98 ف 3 یہود جو نکہ میکا ئیل (علیہ السلام) کو اپنا دوست کہتے تھے اس لیے اس آیت میں اللہ تعالیٰ ان کا جبر یل کے ساتھ ذکر فرایا کہ ایک سے دشمنی بعینہ دوسرے سے دشمنی ہے بلکہ خود اللہ تعالیٰ سے دشمنی ہے کیونکہ یہ مقرب فرشتے اللہ تعالیٰ کے دوست ہیں۔ ایک حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : من عادی لی ولیا فقد بارزنی نی بالعرب (بخاری) کہ جس نے میرے دوست سے دشمنی رکھی وہ گویا مجھ سے لڑنے نکلا یہی وجہ ہے کہ جبریل سے عداوت پر اللہ تعالیٰ نے غصہ کا اظہار فرمایا ہے۔ (ابن کثیر ) البقرة
99 ف 4 کھلی آیتیں یعنی واضح نشانیاں جن میں آنحضرت کی نبوت کا بین ثبوت موجود ہے۔ اما رازی لکھتے ہیں کہ قرآن پاک کے علاوہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جملہ معجزات اس کے تحت آسکتے ہیں۔ (ابن کثیر۔ رازی ) البقرة
100 ف 5 یہاں سے یہود کی ایک اور عادت کا بیان ہو رہا ہے یہود یوں سے نبی آخرالزمان کی مدد کرنے اور اس پر ایمان لانے کا بھی عہد لیا گیا تھا مگر وہ اس عہد سے پھر گئے اور کہنے لگے ہم سے قسم کا کوئی عہد نہیں لیا گیا۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت کو تسلی دی ہے کہ عہد شکنی تو ان لوگوں کا پرانا شیوہ ہے جب بھی ان سے کوئی عہد لیا گیا ان میں سے ایک گروہ نے اسے پس پشت ڈال دیا بلکہ ان میں بہت سے لوگ تو تورات پر سرے سے ایمان ہی نہیں رکھتے ایسے لوگ اگر اب عہد شکنی کرتے ہیں تو تعجب کی کیا بات ہے۔ (رازی) البقرة
101 ج 6 یعنی تورات اور دیگر آسمانی کتب لما معھم) میں نبی آخرالز مان کے جواوصاف مذکور تھے وہ سب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں موجود تھے۔ اس اعتبار سے آنحضرت تورات اور مامعھم کے مصداق تھے مگر یہود کی بد نصیبی کہ انہوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکذیب کر کے تورات کو پس پشت ڈال دیا۔ گو یا اپنی کتاب کا بھی پتہ نہیں۔ (ابن کثیر ) البقرة
102 ف 7 یعنی یہود نے کتاب اللہ کو پس پشت ڈال دیا اور سحر یعنبی جادو کی اتباع کرنے لگے ہیں یہ قصہ یو ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے عہد میں شیاطین جادو کی نشر واشاعت کرتے رہے حتی کہ وہ وعلوم یہود میں رواج پا گئے اور عوام میں مشہور ہوگیا کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے نبی نہیں تھے بلکہ جادو گر تھے پھر عوام میں مشہور ہوگیا حضرت سلیمان (علیہ السلام) اللہ تعا لیے کے نبی نہیں تھے بلکہ جادو گر تھے پھر جب قرآن نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو انبیاء کی صف میں شامل کیا تا یہود نے ان کے جادو گر ہونے طعن دیا۔ اس پر یہ دو آتییں نازل ہوئیں اور انہوں نے بتایا کہ حضرت سلیمان کا دامن ان سے پاک ہے ہے کہ سحر وغرہ سیاطین کی تصنیف ہے دوسری قسم جادو کی وہ تھی جس کی یہود اتباع کرتے تھے کہ ہاروت وماروت دو فرشتے بابل شہر میں آدمی کی شکل میں رہتے تھے، ان کو اللہ تعالیٰ نے سحر کا علم دے کر بطور آزمائش کے بھیجا تھا چنانچہ جو کوئی ان سے یہ علم سیکھنے جاتا تو وہ کہتے تم یہ علم نہ سیکھو تمہار ایمان جاتا رہے گا اس پر بھی اگر وہ اصرار کراتا تو وہ تو اسے سکھا دیتے۔ ( اب کثیر) اس مقام پر بعض مفسرین نے ہاروت وماروت کے متعلق عجیب وغریب داستانیں نقل کردی جن میں ایک عورت نا کا معاشقہ اور پھر زہرہ کے ستارہ بن جانے کا واقعہ بھی داخل ہے علمائے محققین نے ان قصوں کو یہود کی افسانہ طرازی قرار دیا ہے۔ حافظ اب کثیر کہتے ہیں : بعض صحانہ اور تابعین سے اس قسم کی روایات منقول ہیں مگر زیادہ سے زیادہ ہم ان کو نو مسلم یہو دی عالم کعبالاحبا کا قول دے دے سکتے ہیں۔ (ابن کثیر۔ البدایتہ ج 1 ص 237۔38) حافظ منذری رحمہ اللہ بھی لکھتے ہیں ان الصحیح وقفہ علی کعب (ترغیب ج 2 ص 108) اس دور کے علا مہ احمد شاکر مصری نے تعلیق مسند احمد (ج 9 ص 35۔41) میں بڑی عمدہ بحث کر کے حاظ ابن کثیر کی تائید کی ہے حضرت الا میر قنوجی لکھتے ہیں : قرآن پاک کا ظاہر سیاق اجمال قصہ ہے۔ بسط وتفصیل نہیں اس لیے جس قدر قرآن میں آیا ہے اس پر ہم ایمان لاتے ہیں باقی خدا جا نے۔ (ترجمان ج 1 ص 36) مگر ہاروت ومارت کے متعلق یہ ساری بحث اس پر منحصر ہے کہ وما انزل علی اللکین میں ما مو صولہ ہو اور اس کا عطف ماتتلوا الشیاطین پر اور پھر ہاروت ماروت کو ملکین سے عطف بیان تسلیم کیا جائے لیکن اگر اس ما کو نافیہ مانا جائے وما کفر سلیمن پر اس کا عطف ہوتا آیت کے معنی یہ ہو نگے نہ تو حضرت سلیمان نے کفر کیا اور نہ دورفرشتوں پر کچھ نازل کیا گیا اس سے یہود کے ایک دسرے نظریے کی تردید ہوجائے گی کہ جادو گر وغیرہ جبریل اور مکا عیل لیکر حضرت سلیمان پر نازل ہوئے تے۔ اس صورت میں ہاروت وماروت شیاطین سے بدل ہوگا ہاروت وماروت جو جن یا انسانوں میں سے دو شیطان تھے لوگوں کو جا دو کی تعلیم دیتے تھے وللہ الحمد۔ رازی) فلا تکفر سے ثابت ہوتا ہے کہ جادو گری سیکھنا اور اگر وہ جادو کلمات کفر پر مشتمل ہے تو ایسا ساحر کافر ہوگا اور اس کی سزا قتل ہے۔ حدیث میں ہے حد ضربہ بالسیف کہ جادو گر کی سزا تلوار سے قتل کرڈالنا ہے ورنہ نجوی می یا کاہن کو قتل کرنا جائز نہیں ہے ہاں تعزیر ہو سکتی ہے۔ (قرطبی) کا ہن یا نجومی سے قسمت معلوم کرانا اور اس کی تصدیق کرنا کفر ہے (ابن کثیر بحوالہ المستدرک) ف 8 یعنی بغض کا عمل۔ اس سے معلوم ہوا کہ جادو کا یہ اثر بی ہوتا ہے کہ دو آدمیوں میں دشمنی پیدا ہوجائے علاوہ ازیں جادو کی تا ثیر احادیث سے بھی ثابت ہے۔ اکثر علما نے حن و بغض کا عمل کرنا اسی طرح طلسمات شعبدات احاضرات اور مسمر یزم کو سحر میں داخل کیا ہے جو شخص متبع سنت ہو اس کو ان باتوں سے پر ہیز کرنا لازم ہے بعض عورتیں ایسے تو ہمات میں گرفتار ہوتی ہیں اگر وسوسہ آئے تو یہ دعا پڑھے۔ اللھم لا یاتی بالحسنات الا انت ولا یصرف السیات لا انت ( وحیدی ) البقرة
103 البقرة
104 ف 1 حضرت ابن عباس (رض) فراماتے ہیں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجلس میں بعض یہود بھی شامل ہوجاتے مسلمان کوئی بات سمجھنا چاہتا تو راعنا کہتا یعنی ہماری رعایت کریں اور ہماری طرف متوجہ ہوں یہود نے اپنے لہجہ میں اس کلمہ کو بطور شتم استعمال کرنا شروع کردیا اور اسے زبان سے دبابر راعنا کے معنی احمق بھی آتے ہیں۔ اس اشتباہ کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اس مشتبہ کلمہ کے استعمال سے منع فر دیا اور اس کی بجائے انظرنا کی تعلیم دی (قرطبی) البقرة
105 البقرة
106 ف 2 نسخ کے معنی کسی چیز کو نقل کرنے کے ہیں اور اصطلاح علماء میں ایک حکم شرعی کو دوسرے شرعی سے مو قوف کردینے کو نسخ کہا جاتا ہے قرآن میں ایک آیت کی جگہ دوسری آیت تبدیل کردینے کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ (دیکھئے النحل آیت 101) نسخ کی دو صورتیں ہیں صرف نسخ حکم یا مع تلاوت جمہور علماء نے یہاں نسخ کی یہی دو صورتیں بیان کی ہیں۔ اس آیت میں یہود کی تردید ہے جو تورات کو ناقابل نسخ مانتے تھے اس بنا پر انہوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کی تکذیب کی کہ وہ توریت کے بعض احکام کو منسوخ ہیں۔ لہذا یہ اللہ تعالیٰ کا کلام نہیں ہوسکتا قرآن نے ان کے جواب میں فرمایا کسی کو موقوف قرار دے دینا کوئی عییب کی بات نہیں ہے۔ اللہ کو ہر چیز پر قدرت حاصل ہے اور خلق وامر سی کے قبضہ قدرت میں ہے وہ جس طرح چاہے اپنی مخلوق اور احکام شریعت میں تصرف کرسکتا ہے یعنی نسخ بھی منجملہ مقددرات الہیہ کے ہے لہذا اس کا انکار کے لیے ہے ان کا موقوف کردینا بھی معنی پر مصلحت ہے۔ اگر کوئی حکم موقوف کردیا جاتا ہے یا اس کی تنزیل مؤخر کردی جاتی ہے تو اس کی بجائے بہتر یا اسی جیسا دوسرے حکم اتار دیا جاتا ہے۔ (المنار سلفیہ تبصرف) واضح رہے نسخ بہر دو صورت قرآن و حدیث میں جود ہے سلف اس پر متفق ہیں۔ سب سے پہلے ایک بد عتی فرقہ کے ایک سر کردہ عالم ابو مسلم اصفہانی (محمد بحر المتو فی 323 ھ) المعتزلی نے اس کا انکار کیا ہے اور علماء نے اس کی تردید کی ہے۔ (ترجمان نواب تبصرف) بعض نے نسخ کے معنی میں توسع سے کام لے کر تقید وتخصیص پر بھی اس کا اطلاق کردیا ہے اس بنا پر آیات منسوخہ کی تعداد بڑھ گئی ہے ابن العربی اور سیوطی کے نزدیک بائیس اور شاہ صاحب رحمہ اللہ نے القوذ میں صرف پانچ آیتیں تسلیم کی ہے اور لکھا ہے کہ یہ بھی بحث طلب ہیں اب تیمیہ نے اس پر مفید لکھے یاد رہے کہ احادیث میں ناسخ تو موجود ہے مگر نسخ اجتہبا دی باطل ہے۔ (ترجمان ) البقرة
107 البقرة
108 ف 1 یہود اعتراف کرتے اور بعض لوگ ازراہ عناد سوال کرتے ان آیات میں ایسے لوگوں کی مذمت فرمائی اور متنبہ کیا کہ پیش آمدہ مسائل کے علاوہ دور ازکار اور نے مسائل میں الجھنا جائز نہیں ہے صحیح بخاری میں ہے کہ سب سے بڑال مجرم مسلما نوں میں وہ ہے جس کے مسئلہ پوچھنے کی وجہ سے ایک حلال چیز مسلمانوں پر حرام کردی جائے۔ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے کہ میں نے صحا بہ کرام سے بہتر کوئی قوم نہیں دیکھی انہوں نے آنحضرت سے از خود صرف بارہ سوال کیے جن کا قرآن میں یسئلو نک عن الشھر الحرام وغیرہ الفاظ سے ذکر ہوا ہے (ابن کثیری) متعدد احادیث میں قیل وقال کی مذمت آئی ہے۔ (ترجمان ) البقرة
109 ف 2 مروی ہے کہ جنگ احد میں مسلمانوں کو نقصان پہنچا تو یہود اسلام کے خلاف نفرت پھیلانی شروع کردی اور بعض صحابہ کو یہو دیت کی دعوت دی اس پر یہ آتیں نازل ہوئیں اور مسلمانوں کو صبر کی تلقین کی گئی کہ جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے مقابلہ کے لیے دوسرا حکم نہ آجائے اس وقت تک عفو ودرگزر سے کام لو اور ان کے اچھے حملوں اور حسد وبغض کی وجہ سے بے قابو نہ ہوں چنانچہ یہ حکم بعد میں اجازت قتال کی صورت میں آگیا۔ (ابن کثیر) اس دور میں بھی علماء یہود ونصاری علم وتحقیق کے نام سے کتاب وسنت پر حملے کررہے ہیں اور مسلمانوں کو ان کے عقائد اور طریق سلف سے بر گشتہ کرکے بد عت و ضلالت کی راہ پر ڈالنا چاہتے ہیں مسلمانوں کو ایسے لوگوں سے ہوشیار رہنا ضروری ہے۔ البقرة
110 البقرة
111 ف 3 یہود ہر آن اس کوشش میں رہتے کہ مسلمانوں کو اسلام سے برگشتہ کردیا جائے کبھی کہتے کہ جنت صرف یہودیوں کے لیے ہے اور نصاری صرف اپنے آپ کو جنت کا حقدار ظاہر کرتے قرآن نے بتایا کہ یہ جھوٹے دغا باز ہیں اور ان کی یہ جھوٹی اور بے بنیاد قسم کی آرزوئیں ہیں جن کے صحیح ہونے کی سندان کے پاس نہیں ہے۔ فتح القدیر) نیز دیکھے (آیت :80) آجکل مسلمان بھی محض آوزؤں میں مبتلا ہیں اولیاء اللہ اور بندگوں کے نام کا ختم پڑھنے یا ان کے مقبروں پر پھول چڑھادینے کو نجات کے لے کافی سمجھتے ہیں حدیث میں العاجزمن اتبع جفسہ وتمنی علی اللہ لا مانی (رازی ) البقرة
112 ف 4 بلی یعنی ان کا یہ دعوی جھوٹا ہے اخروی نجات کے لیے تو اخلاص وعمل شرط ہے من اسلم وجھہ اللہ اخلاص کی طرف اشارہ یت اور وھو محسن کے معنی یہ ہیں کہ عمل سنت کے مطابق ہو ورنہ وہ عمل بدعت اور مردود ہے (ابن کثیر) اور اخلاص نہ ہوگا تو ریا کاری اور منافقت ہے ( دیکھئے آیت :28۔38،) البقرة
113 ف 5 اس آیت کا شان نزول بیان کرتے ہوئے حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ وفد نجران کی آمد پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجلس میں چند یہودی علماء بھی جمع ہوگئے اور ان کا آپس میں جھگڑا شروع ہوگیا ہر ایک گروہ نے دوسرے کی کتاب اور نبی کی تکذیب کی اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ ان کا با ہم تعصب اور عناد اس حد تک بڑھا ہوا ہے ہوا یک دوسرے پر کفر کا فتوی لگا تے ہیں حالانکہ یہ تعلیم یافتہ ہیں ہر فرقے کی کتاب میں دوسرے کی تصدیق موجود ہے۔ (ابن کثیر) نہا یت افسوس ہے آجکل امت محمدی میں گروہ بندی کایہ عالم ہے کہ سب قرآن کی تلاوت کرتے ہیں اور ایک دوسرے پر کفر کا فتوی لگا تے ہیں۔ (رازی ) ف 1 یعنی عرب کے کافر جو اپنے دین کے سوا جملہ ادیان کو باطل سمجھتے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بے دین اور صابی کہتے اہل کتاب کے جہلاء بھی مراد ہو سکتے ہیں اور یہود ونصاری کے علماء پر بھی طنز ہوسکتا ہے کہ یہ جاہلوں جیسی باتیں کرتے ہیں۔ ( معالم۔ وحیدی بتصرف) البقرة
114 ف 2 ابن جریر لکھتے ہیں کہ اس سے بخت نصر اور عیسائی جنہوں نے بیت المقدس کی تخریب کی اور یہود کو اس سے روک دیا۔ حضرت ابن عباس (رض) سے بھی یہی روایت ہے کہ عیسائیوں کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی ہے کہ انہوں نے محض عداوت کی بنا پر یہود کو بیت المقدس میں عبادت گزازنے سے روک دیا تھا۔ (قرطبی) مگر بخت نصر کا زمانہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے 233 سال قبل کا ہے پھر دو اور ان کے مدد گا عیسائی کیسے مرادہو سکتے ہیں۔ (المنار۔ الجصاص) لہذا اس سے مراد یا تو وہ عیسائی ہو سکتے ہیں جنہوں نے نطوس یا یتطوس رومانی کے ساتھ مل کر بنی اسرائیل سے جنگ کی اور بیت المقدس کو ویران کیا اور یہ آیت مشر کین کے حق میں نازل ہوئی ہے جنہوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام کو عمرہ سے روک دیا تھا جس کے نتیجہ میں صلح حدیبیہ ہوئی اور کسی مسجد میں لوگوں کو عبادت سے روکنا اس کو ویران کرنے کے مترادف ہے۔ (رازی۔ قرطبی) حافظ ابنالقیم لکھتے ہیں کہ آخری قول اقرب الی الصواب معلوم ہوتا ہے۔ مسئلہ اہل کتاب کے معبودوں کی بے حرمتی تو ممنوع ہے مگر اولیاء اور بزرگان دین کے مقابر پر جو مساجد بنی ہوئی ہیں۔ یہ چونکہ عبادات بغیر اللہ کا ذریعہ بنی ہوئی ہیں اس لیے ان کا گزانا ضروری ہے جیسا کہ انحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسجد ضرار کو گرا دینے کا حکم دیا تھا۔ (المنار بحوالہ الزواجر لا بن حجر مکی) اس میں پیش کوئی بھی کی ہے کہ آئندہ یہ مشرک بیت اللہ (کعبہ) میں چھپ چھپا کر ہی داخل ہو سکیں گے چنانچہ ایسا ہی ہوا اور 9 ھ میں الا لا حیجن بعدا لعام مشرک کا اعلان کردیا گیا۔ (ابن کثیر) ف 3 یہاں خزی سے ہر قسم کی رسوائی مرادہو سکتی ہے اور اس رسوائی کی یہ سزا یہود ونصاری اور مشرکین تینوں گروہ پاچکے ہیں۔ (ابن کثیر ) البقرة
115 ف 4 بعض نے لکھا ہے تحویل قبلہ پر یہود نے اعتراض کیا تو ان کے جواب میں یہ آتی نازل ہوئی اور بعض نے کہا ہے کہ یہ آیت سفر اور خوف کی حالت میں نماز کے متعلق ہے جس طرف موقع ملے اداہو سکتی ہے۔ ایک واقعہ ہے کہ صحابہ کرام نے سفر میں رات کے وقت غیر قبلہ کی طرف نماز ادا کی تو اس پر اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ تمہاری نماز ہوگئی۔ البقرة
116 ف 5 اس آیت میں ارواس سے اگلی آیت میں یہو دونصاری اور مشرکین کی تردید ہے جنہوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) حضرت عزیر (علیہ السلام) اور فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی اولاد قرار دے رکھا تھا اور بتایا کہ یہ سب اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں اور اس کے فرنبردار بندے اللہ تعالیٰ اس قسم کی نسبت سے پاک اور منزہ ہے۔ (ابن کثیر) قنوت کے معنی کے لیے دیکھئے آیت 238۔ البقرة
117 البقرة
118 ف 6 ان فرق ثلاثہ عقیدہ توحید پر قدح کے بعد ان نبوت پر ان کا اعتراض نقل فرمایا ہے کے بے علم لوگ اس قسم کے اعتراض کرتے ہیں چلے آرہے ہیں۔ یہ لوگ توحید و نبوت کی حقیقت سے آگاہ نہیں ہیں تشا بھت قلو بھم۔ یعنی ان سب کی ذہن نتیں ایک جیسی ہیں اور فرمایا کہ قرآن کریم سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت رواضح ہے اگر یہ لوگ اہل یقین میں سے ہوتے تو یہی کافی تھے (المنار ) البقرة
119 ف 7 یعنی آپ سے اس کے متعلق باز پرس نہیں ہوگی کہ یہ لوگ مسلمان کیوں نہیں ہوئے۔ البقرة
120 ف 1 اس آیت میں سخت وعید اور تہدید ہے کہ یہود ونصاری کو خوش کرنے کے لیے اگر تم نے انے مشن کو چھوڑ دیا تو سمجھ ہو کہ بس تمہارے لیے کوئی جائے پناہ نہیں ہوگی اس آیت کے مخاطب گو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں مگر پوری امت کے اہل علم حضرات کو ہدایت دی جا رہی ہے کہ وہ اہل بدعت اور بیروال مذاہب باطلہ کے پاس خاظر کے لیے سنت کی پیری میں کسی قسم کی مداہنت سے کام نہ لیں۔ (فتح القدیر) البقرة
121 ف 2 یہود کے افعال قبیحہ کا ذکر کرنے کے بعد اب ان سے نیک اور خدا ترس لوگوں کا ذکر کیا ہے کہ وہ توریت کو غور وفکر سے پڑھتے ہیں اس وجہ سے وہ اسلام سے شرف یاب ہوچکے ہیں۔ ان سے مراد عبد اللہ بن سلام اور ان کے ساتھی ہیں ،۔ (رازی۔ ابن کثیر) قرآن کا حق تلاوت بھی یہی ہے کہ اسے غور سے پڑھے اور پھر اس کی ہدایت پر عمل کرے چنانچہ علما نے اس آیت کے یہ معنی کیے ہیں کہ اس کے احکام پر عمل کرتے ہیں اور غلط تاویلات سے کام نہیں لیتے۔ (ابن کثیر) البقرة
122 البقرة
123 ف 3 یہاں سے دوبارہ اہل کتاب کو متنبہ کیا جا رہا ہے کہ اوپر بیان کی ہوئی بد کرداریوں کی و جہ سے تم ظالم ٹھہرتے ہو سواب امامت وقیادت امت جانشین ہوں گے۔ (ترجمان) اس سے دوبارہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اتباع پر ابھارنا مقصود ہے۔ (شوکانی ) البقرة
124 ف 4 ان کلمات کی تعیین میں علما کے مختلف اقوال منقول ہیں مناسک حج سنن فطرت دعوت توحید ہجرت وغیرہ سب امور اس کے تحت ذکر کئے گئے ہیں ہوسکتا ہے کہ وہ جملہ آزمائشیں مرادہوں جن پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ثابت قدرم اور پکے نکلے سو اللہ تعالیٰ نے ان کو امامت اور پیشوائی کے شرف سو نوازا۔ ابن جریر) امام شوکانی لکھتے ہیں جب ان کلمات کا تعیین کسی مرفوع حدیث سے ثابت نہیں تو بہتر یہ ہے کہ بعد کی آیات کو ان کا بیان قرار دیا جائے۔ (شوکانی) ف 5 جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے پوری انسانیت کا امام بنادیا تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی اولاد کے حق میں دعا فرمائی چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمائی اور قیامت تک کے لیے سلسلہ نبوت ان کی اولاد میں کردیا۔ (دیکھئے عنکبوت آیت 27) مگر اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو بتا دیا کہ تمہاری اولاد میں ظالم لوگ اس نعمت سے سرفراز نہیں ہو سکیں گے۔ اس سے گمراہ کتاب اور بنی اسمعیل کے مشرکین کو متنبہ کرنا مقصود ہے کہ ان کے عقائد و اعمال خراب ہوچکے ہیں۔ محض حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد سے ہونا ان کے کام نہیں آسکتا۔ البقرة
125 ف 6، مقام ابراہیم (علیہ السلام) کی تفسیر میں مختلف اقوال اور پھر وہاں کھڑے ہو کر دورکعت نماز ادا کی جیسا کہ حاجی لوگ پڑھتے ہیں۔ نیز یہ آیت بھی حضرت عمر رضی اللہ کے موافقات سے ہے جن کی تعداد اٹھار ہے۔_(ابن کثیر ) البقرة
126 ف 1 اس آیت میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا کا زکر ہے جو انہوں نے منصب امامت کے بعد اللہ تعالیٰ کے حضور میں فرمائی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ دعا قبول فرمائی اور مکہ معظمہ کو ان والا شہر قرار دے دیا۔ اب حرم کی حدود میں اس کے درختوں کو کا ٹنا۔ شکار کو بھگانا وغیرہ جائز نہیں ہے۔ دوسری دعا میں مومنوں کے لیے پھلوں کے رزق کی دعا کی۔ مگر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ رزق کا معاملہ امامت سے مختلف ہے۔ دنیا میں رزق ہر مومن کافر کو ملے گا مگر آخرت میں کفار کو سخت عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یادرہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے یہ دعا اسمعیل (علیہ السلام) کے مکہ سکونت اختیار کرلینے اور حضرت اسحق (علیہ السلام) کی پیدا ئش کے بعد کی تھی حضرت اسحق (علیہ السلام) حضرت اسمعیل (علیہ السلام) سے تیرہ سال چھوٹے تھے۔ البقرة
127 ف 2 اس آیت میں خانہ کعبہ کی تعمیر کا تذکرہ ہے۔ اس کی تعمیر پر مختلف ادوار گزر چکے ہیں۔ آیت سے ظاہر ہے کہ سب سے پہلے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اس کا سنگ بنیاد رکھا اور پھر اس کی تعمیر کی بعض مفسرین نے بیت اللہ (کعبہ) کی قدامت ثابت کرنے کے لیے اس کا آدم (علیہ السلام) سے بھی پہلے کا قرار دیا ہے بلکہ یہاں تک کہ منھامدت الا رض اور یہ کہ خانہ کعبہ آسمان سے نازل ہوا، طوفان نوح کے وقت دوبارہ آسمان پر آٹھا لیا گیا۔ آدم (علیہ السلام) اور ان کے بعد جملہ انبیاء اس کی زیارت سے مشرف ہوتے رہے۔ عرفہ کے مقام پر حضرت آدم (علیہ السلام) اور حوا (علیہ السلام) کا تعارف ہوا اور جدہ میں حضرت ام ما حوا (علیہ السلام) کی قبر ہے وغیرہ اسی طرح حضر اسود کے متعلق بھی عجیب وغریب حکایات نقل کردی ہیں مگر کعبہ کا شرف تو محض اس وجہ سے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے قبلہ قرار دیا ہے ورنہ وہ بھی ایک عمارت ہے جو مکہ کی پہاڑیوں کے پتھر سے تعمیر ہوئی ہے جیسا کہ انبیاء علیہم السلام جسم ولباس میں ہمارے جیسے بشر ہوتے ہیں مگر شرف نبوت سے سرفراز ہونے کی وجہ سے وہ دوسرے لوگوں سے افضل اور ممتاز ہوجاتے ہیں چنانچہ حضرت عمر (رض) نے حجر اسود کا استلام کرتے وقت فرمایا میں جانتا ہوں کہ توایک پتھر ہے جس میں نفع نقصان پہنچانے کی طاقت نہیں ہے میں صرف اس لے ؛ ا ستلام کرتا ہوں کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تیرا استلام کرتے دیکھا ہے۔ ابن لوگوں نے کعبہ حجراسود اور غلاف کعبہ کے متعلق مختلف قسم کی رسوم و بدعات اختیار جن کا شریعت میں کوئی ثبوت نہیں ہے۔ (المنار جاہلیت میں جب قریش نے بیت اللہ کی تعمیر کی تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عمر مبارک 35 سال تھی۔ قریش کے نزاع پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حجر اسود کو اس کے مقام پر اپنے دست مبارک سے کھا۔ دور اسلام میں پہلی مرتبہ حضرت عبداللہ بن زبیر (رض) نے بیت اللہ دوبرہ تعمری کیا اس کے بعد عبدالملک کے دور خلافت میں حجاز نے اس کی از سرنو تعمیر کی اور جاہلی طرز پر بنا دیا۔ حدیث میں ہے کہ آخر زمانہ میں ایک حبشی خانہ کعبہ کو ویران کرے گا۔ (ابن کثیر ) البقرة
128 البقرة
129 ف 3 یہ حضرت ابرا ہیم (علیہ السلام) اور اسمعیل (علیہ السلام) کی دعا کی کا خاتمہ ہے رسولا سے مراد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں کیونکہ حضرت اسمعیل (علیہ السلام) کی دوریت میں انحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سوا کوئی دوسرا نبی نہیں ہو۔ حدیث میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں اپنے باپ ابراہیم کی دعا، عیسیٰ (علیہ السلام) کی بشارت اور اپنی والدہ کا خواب ہوں۔ زمانہ حمل میں میں آمنہ (رض) نے ایک خواب دیکھا تھا کہ ان کے اندر سے ایک نور نکلا ہے جس سے شام محلات روشن ہوگئے ہیں۔ اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی بشارت کا تو قرآن نے ذکر کیا ہ۔ اور خواب میں شام کی تخصیص اس لیے ہے کہ آخر زمانہ میں شام ہی اسلام کا مرکز بنے گا اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا نزول بھی شام میں ہوگا اور حدیث میں جس گرد کے تاقیامت رہنے کی خبر دی گئی ہے اوہ بھی شام میں ہوں گے۔ (ابن کثیر۔ بحوالہ مسند احمد) الکتاب سے مراد قرآن مجید اور الحکمتہ سے راد حدیث پاک ہے اور اسلام کی یہی دوبنیادی اصول ہیں کتاب سے مراد اس کے معانی ومطالب کی وضاحت سے پاک کرے اطاعت و اخلاص کی تعلیم دے۔ (قرطبی۔ فتح القدیر ) البقرة
130 ف 4 اس آیت میں کفار مکہ اور یہود کی تردید ہے مت ابراہیم (علیہ السلام) کے مدعی تھے مگر انہوں نے ملت ابراہیمی میں مختلف قسم کی بدعات اور محدثات شامل کر کے اصل دین سے انحراف اختیار کرلیا تھا۔ قرآن نے بتیا ہے کہ دین ابرہیم سے انحراف واقعی حماقت ہے حضرت ابرہیم (علیہ السلام) تو اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ پیغمبر تھے اور وہ آخرت میں سعادت مند اور صالحین کے زمرہ میں شامل ہوں گے۔ یعنی تمہارا یہ ادعا غلط اور مبنی پر حماقت ہے۔ البقرة
131 البقرة
132 ف 1 یہاں الدین" سے ملت اسلام مراد ہے جیسا کہ آیت کے خاتمہ میں صراحت ہے اس آیت میں دین اسلام یا توحید پر سختی سے کار بند رہنے کی ہدایت کی گئی ہے تاکہ خاتمہ بھی اسی پر ہو۔ (فتح القدیر) اس حالت پر موت گر انسان کے اختیار کی چیز نہیں ہے کہ کو نکہ نیک خاتمہ اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے عموم ہوتا یہ ہے کہ انسان اپنے دل لگاؤ کے ساتھ راستہ بھی اختیار کرلیتا ہے موت بھی اسی حالت پر ہوتی ہے کیونکہ اللہ کریم کی سنت یہی ہے کہ انسان نیک یا بد جو راستہ بھی اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسی کی توفیق دیدی جاتی ہے۔ ( دیکھئے آیت اللیل 5؛10) ( ابن کثیر تبصرف) ان آیات میں بھی یہود ونصاری اور مشر کین مکہ کی تردید جو اپنے آپ و حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کی اولاد کی طرف منسوب کرتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ ان کا دین بھی یہی یہودیت اور نصراینت تھا۔ قرآن نے بتایا ہے کہ تم ان بزرگوں پر بہتان باندھ رہے ہو ان کا دین بھی یہی اسلام تھا جس میں توحید اور اخلا ص کی تعلیم دی گئی ہے۔ البقرة
133 البقرة
134 ف 3 یہود کو تنبیہ کی ہے کہ وہ انبیا اور صلحاء کی طرف انتساب سے مغرور نہ ہوں یہ انتساب تمہارے کچھ کام نہیں آسکے گا بلکہ نجات کا مداد انسان کے خود اپنے اعمال پر ہے ان کے اعمال ان کے ساتھ گئے اور تمہارے اعمال تمہارے ساتھ ہوں گے سلسلہ بیان کے لیے دیکھئے آیت 141) البقرة
135 ف 4 اہل کتاب مسلمانوں کو یہودیت اور نصرانیت کی دعوت دیتے اور ہدایت کو اپنے دین میں منحصر مانتے چنانچہ مروی ہے کہ ایک یہو دی ابن صوریا اعور آنحضرت صل اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوا اور کہنے لگا راہ ہدایت صرف وہ ہے جس پر ہم گامزن ہیں لہذا آپ بھی ہمارا طریق اختیار کرلیجئے۔ اس پر یہ آیت ہوئی کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) توملت حنیفی کے علمبردار تھے اور شرک وتقلید سے بیزار اور تم دونوں گروہ شرک اور تقلید آباء (بزرگان) کے پھندے میں گرفتار ہو (ابن کثیر) اسلام دراصل عقائد اور اصول واحکام کے مجموعہ سے عبارت سے دین وملت بھی عقائد واصول سے عبادت ہے اس لحاظ سے تو شرائع اور احکام میں ہے۔ حضرت نواب صاحب لکھتے ہیں اسی طرح آجکل اہل تقلید ہم سے کہتے ہیں کہ ہمارا مذہب برحق ہے تم بھی ہمراے مام کی تقلید اختیار کرلو راہ ہدایت پالو گے سوان کو ہمارا جواب بھی یہی ہے کہ ہم کسی خاص امام کی تقلید کرنا نہیں چاہتے۔ ہم تو براہ راست رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متبع ہیں جو اللہ تعالیٰ کی وحی کے تابع تھے (ترجمان) یہود ونصاری اور مشرکین نے ملت حنیفی کو ترک کر کے کچھ رسوم وبدعات کی پابندی کو دین ہدایت سمجھ رکھا تھا اور دوسرے پر ضلالت اور گمرا ہی کا فتوی لگا تے تھے جیسا کہ آجکل اہل بدعت نے اصل کتاب وہ سنت کے ترک کے عید میلاد النبی۔ عید معراج اور کچھ ایصال ثوت کے طریقے ایجاد کر کے ان کو اشعائز اسلامیہ اور عبادات کا درجہ دے رکھا ہے اور بیت اللہ کی بجائے حج کے لے بزرگوں کے مقبروں پر جاتے ہیں نماز۔ روزہ زکوہ کے تارک ہوتے ہیں اگر کوئی توحید واصل دین کی طرف دعوت دے تو اس پر وہاہابیت (بے دینی کا فتوی لگا دیتے ہیں۔ (المنار تبصرف) البقرة
136 ف 5 الا سباط۔ یہ سبط کی جمع ہے حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے بارہ بیٹے تھے ان میں سے ہر ایک کی اولاد سبط کہلاتی ہے یہ لفظ قبیلتہ کے مترادف ہے۔ مفردات ) البقرة
137 ف 6 اس آیت میں مسلمانوں کی ہدایت اور ایمان کی تعلیم فرمائی ہے یعنی قرآن پاک سے پہلے جتنی آسمانی کتابیں ہیں اور جنتے اللہ تعالیٰ کے پیغمبر ہو گزرے ہیں سب پر مجملا ایمان لانا اور عمل کرنا ضرور ہے اس سلسلہ میں بعض انبیاء کے اسماء صراحت سے اور بقیہ کی طرف اجمالی اشارہ فرمادیا ایک حدیث میں ہے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تو رات انجیل اور زبور کے سچا ہونے کا اقرا کرو مگر عمل صرف قرآن پر کرو کیونکہ قرآن کے نزول سے پہلی تما کتابیں منسوخ ہوگئی ہیں حضرت ابوہریرہ سے ایک اور روایت میں ہے کہ اہل کتاب عبرانی زبان تورات پڑھتے اور مسلمانوں کے سامنے عربی میں۔ اس کی تفیسری کر کے سناتے۔ اس پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ کتاب کی نہ تصدیق کرو اور نہ تکذیب کرو بلکہ ان سے یہ کہو امنا بالللہ۔ (ابن کثیر۔ قرطبی) بعینیہ یہی بات اہل سنت کا گروہ اہل بدعت اور اصحاب تقلید سے کہتا چلا آرہا ہے کہ تم سب علماء اور اولیاء اسلام اور ائمہ دین کو مانو مگر قرآن وسنت کے سوا کسی کے قول کو سند نہ سمجھو عمل صرف قرآن پر کرو۔ (ت، ن) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عموما فجر کی سنت کی پہلی رکعت میں یہ آیت اور دوسری رکعت میں آل عمران کی وہ آیت جس میں فقولوا شھدوا بانا مسلمون آتا ہے ہے پڑھا کرتے تھے۔ صحیح مسلم۔ ابوداؤد) ف 1 چنانچہ یہ وعد سچا ہو۔ بنو قریظہ قتل ہوئے اور بن نضیر جلاوطن کردیئے گئے۔ (وحیدی) البقرة
138 ف 2 اس آیت میں اللہ تعالیٰ کے رنگ سے مراد اسلام یا وہ فطرت ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو پیدا کیا ہے۔ (وحیدی) اور اس کو صبغتہ اللہ سے تعبیر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ نصاری نے عیسایت کے لیے ایک زرد رنگ کا پانی مقرر کر رکھا تھا جب کوئی بچہ پیدا ہوتا یا کوئی شخص ان کے دین میں داخل ہوتا تو اس کو اس پانی سے غسل دیتے اور کہتے کہ اب پاک اور صحیح معنوں میں نصرانی ہو اہے۔ اس رسم کا نام ان کے ہاں معمودیہ یعنی بتبسمہ دینا ہ۔ (قرطبی) چنانچہ اس آیت میں ان کی تردید فرمائی کہ سب سے بہتر رنگ اللہ کا رنگ ہے یعنی دین اسلام ہے جسے حضرت نوح (علیہ السلام) سے لے کرتمام انبیاء لیکر مبعوث ہوئے ہیں۔ تمہیں چاہیئے کہ اس کی پابندی کرویہاں صبغتہ اللہ منصوب علی الا غراء ہے (ابن کثیر۔ شوکانی) البقرة
139 ف 3 یہود مسلمانوں سے نزاع کرتے کہ جملہ انبیاء بنی اسرائیل میں سے ہوئے ہیں پھر یہ آخری نبی سے کیسے مبعوث ہوگئے ہمارا دین بہتر اور تمام انبیاء کا دین ہے۔ اس آیت میں ان کی تردید فرمائی ہے ہمارا تمہارا سب کا پروردگار ایک ہے اور ہم عبادت میں مخلص بھی ہیں پھر تمہار یہ کہنا کہ ہم بہتر ہیں صحیح نہیں ہے۔ البقرة
140 ف 4 یعنی اللہ تعالیٰ نے تو ہمیں یہ بتایا ہے کہ یہ انبیاء نہ یہودی اور نصرانی ہونے کا دعوی کرتے ہو پھر تم ہی بتاؤ زیادہ علم تم کو ہے یا اللہ تعالیٰ کو ؟ ف 5 یعنی تم اچھی طرح جانتے ہو کہ یہ انبیاء یہودی یا نصرانی نہیں تھے بلکہ سب کا دین وہی اسلام تھا جس کی طرف آج محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دعوت دے رہے ہیں۔ مگر بایں ہمہ تم اس شہادت کو چھپا رہے ہو نیز تمہیں اپنی کتابوں کو ذریعہ خوب معلوم ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ کے سچے اور آخری نبی ہیں جب کے متعلق تمہاری کتابوں میں بشارت تیں موجود ہیں اور یہ بھی جانتے ہو کہ یہ قرآن واقعی اللہ تعالیٰ آخری کتاب ہے مگر تم ان سب شہادتوں کو محض تعصب اور حسد اور نغض کی بنا پر چھپا رہے ہو پھر بتاؤ کہ تم سے بڑھ کربھی دنیا میں کوئی ظالم ہوسکتا ہے۔ (ابن کثیر۔ شوکانی ) البقرة
141 ف 6 اس آیت میں دوبارہ تنبیہہ اور تہدید کی ہے کہ آخری نجات اور سعادت کا تعلق تو کسب و عمل پر ہے اگر نجات چاہتے ہو تو عمل صالح میں ان انبیاء اور صالحین کی اتباع کرو ورنہ محض ان شخصیتوں کی طرف انتساب اور ان کی کرامتیں بیان کرنا مفید نہیں ہو سکے گا۔ ایک حدیث میں ہے کہ من ابطاء بہ عملہ لم یسرع بہ نسبہ / کہ جس کے عمل کنے اسے پیچھے رکھا اس کا نسب آگے بڑھ سکے گا۔ (ابن کثیر) اس سے ان لوگوں کی عبرت حاصل کرنی چاہئے جو خود بے عمل رہ کر اپنے بزرگو کے اعمال پر تکیہ کر کے اپنے آپ کو بے بنیاد اور غلط قسم کی آرزؤں میں مگن رکھتے ہیں۔ (ترجمان ) البقرة
142 ف 1 آنحضرت ہجرت کے بعد مدینہ پہنچے تو اصح قول کے مطابق سترہ ماہ تک بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے مگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہمیشہ یہ خواہش رہی کہ کعبہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے کا حکم آجائے اس کے لیے اکثر دعابھی فرماتے اور آسمان کی طرف نظر اٹھاکر بھی دیکھتے۔ آخر جب کعبہ کی جانب منہ کرنے کا حکم آگیا تو یہود منافقین اور مشرکین عرب سبھی نے نسخ قبلہ کے حکم پر تبصرے شروع کردیئے یہود نے اسے اپنے جسدو بغض پر محمول کی ا۔ منافقین نے شہبے ڈالنے شروع کیے کہ اگر یہ واقعی اللہ تعالیٰ کے نبی ہوتے تو بیت اللہ المقدس کو چھوڑ کر کعبہ کو اپنا کیوں بناتے۔ یہود کے ہاں شرائع میں بھی محال ہے لہذا اس پہلے نسخ کو انہوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت پر طعن کا سبب بنایا قرآن نے ماولھم فرماکر جملہ اعترضات کے طرف اشارہ فرمادیا ہے۔ ( کبیر فتح القدیر) ف 2 یہ ان کے شبہ کا جواب ہے کہ اللہ تعالیٰ صاحب اداد حاکم مطلق ہے مشرق ومغرب سب جہات اسی کی ہیں جس طرف قبلہ بنانے کا حکم دینا چاہے دے سکتا ہے اصل بات اللہ تعالیٰ کے احکام کی فرمانبرداری ہے اور کعبہ کی طرف متوجہ ہونے کا حکم بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے لہذا نہ تو شرائع میں نسخ محال ہے اور نہ یہ امر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت وصداقت پر طعن کا مو جب ہوسکتا ہے (کبیر) البقرة
143 ف 3 صراط مستقیم۔ اصل میں تو جملہ افکار واخلاق اور اعمال میں راہ اعتدال کا نام ہے یہاں اس امر کی طرف اشارہ کہ کعبہ کو قبا قرار دینا بھی صراط مستقیم کی طرف ہدایت میں داخل ہے یہود اور منافقین کے اعتراضات محض حسد کی بنا پر ہیں حدیث میں ہے کہ تین باتوں پر یہود مسلمانوں سے حسد کرتے ہیں کے کعبہ قبلہ ہونے پر۔ جمعہ کے دن پر اور امام کے پیچھے آمین کہنے پر۔ (قرطبی۔ ابن کثیر) ف 4 الوسط کے معنی بہتر اور افضل کے ہیں اور ابو سعید الخدری (رض) سے مرفو عا ثابت ہے کہ یہاں وسط بمعنی ہے جس کے معنی ثقہ اور قابل اعتماد بھی ہو سکتے ہیں اور یہ بھی کہ اعتقاد واخلاص اور اعمال میں معتدل اور امم سابقہ کی افراط و تفریط سے پاک اور (قرطبی۔ ابن کثیر) کذالک اس تشبیہ کے ایک معنی تو یہ ہیں یہ جس طرح ہم نے تم پر ہدایت کی نعمت پوری کی ہے جس میں قبلہ کی طرف استقبال کا حکم بھی داخل ہے اسی طرح ہم نے تمہیں امت واسط بنا کر تم پر اپنی نعمت کا اتمام کردیا ہے اور دوسرے معن یہ ہیں کہ جس طرح ہم نے کعبہ کو قبلہ قرار دیا ہے جو سب قبیلوں سے افضل اور انبیاء کے امام حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا قبلہ ہے اس طرح ہم نے تمہیں سب امتوں سے افضل امت قرار دیا ہے۔ ( کبیر۔ ابن کثیر) ف 5 یعنی تمہیں امت وسط قرار دینے سے غرض یہ ہے کہ تم کو دنیا اور آخرت میں لوگوں پر شاہد ہونے کا درجہ حاصل ہوجائے تم قیامت کے دن انبیاء کے حق میں گواہی دو کہ انہوں نے اپنی امتوں تک اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچادیا تھا اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ گواہی دی کہ تم نے اس کے مطابق عمل کر کے دکھا یا حضرت جابر عبد اللہ سے روایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں اور میری امت قیامت کے دن ایک بلند ٹیلے پر بیٹھے ہوں گے جب کبھی کوئی امت اپنے نبی کی تکذیب کرے کی تو ہم گواہی دیں گے کہ بے شک اس نبی نے اپنی امت کو اللہ تعالیٰ کے احکام پہنچادیئے تھے۔ امت کی یہ شہادت پر مات محمد یہ سے پوچھا جائے گا کہ تمہیں ان وقعات کا کیسے علم ہو اتو کہیں گے۔ جا ونا نبینافا خبرنا ان الرسل قد بلغوا۔ کہ ہمیں ہمارے پیغمبر نے خبر دی تھی کہ تمام انبیاء نے اپنی امتوں کو اللہ تعالیٰ کے احکام پہنچا دیئے۔ (ابن کثیر بحوالہ بخاری وغیرہ) امت محمدی کی دنیا میں شہادت کے متعلق بھی احادیث وارد ہیں۔ ایک حدیث میں ہے اچھے اور برے لوگوں کی تمیز اور مغفرت تمہاری شہادت پر ہوگئی جس کی تم نے مذت کردی وہ برا ہے۔ ایک مرتبہ دو جنازوں کے بارے میں بھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جنتی اور دوزخی ہونے کا حکم صحابہ کی شہادت پر ہی فرمایا تھا اور ساتھ ہی اس کی وجہ بیان فرمائی کہ انتم شھد اء اللہ فی الا رض کہ تم زمین میں اللہ کی طرف سے گواہ ہو۔ (ابن کثیر) ف 6 یعنی پہلے بیت المقدس جو عارضی طور پر قبلہ قرار دیا تھا اور اب کعبہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے کا حکم دے دیا ہے۔ یہ اس لیے لوگوں کے ایمان کی آزمائش ہوجائے اور تمہارے سامنے یہ واضح ہوجائے گا کہ کون متبع ہے او کون مرتد یہی وجہ ہے کہ بعض نے السابقول الا ولون۔ انہی انصار اور مہاجرین کو قرار دیا ہے جنہوں نے قبلین کی طرف نماز پڑھی ہے۔ (ابن کثیر ) البقرة
144 ف 7 یعنی تمہیں دونوں قبلوں کی طرف متوجہ ہو کر نماز پڑھنے کا ثواب ملے گا۔ (ابن کثیر) بخاری میں حضرت براء رضی اللہ عہ بن عازب اور ترمذی ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ تحویل پر مسلمان ان لوگوں کو متعلق تشویش میں پڑگئے جو اس سے قبل وفات پا چکے تھے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما کر ان کو تسل دی۔ (ابن کثیر) نماز، نیت، قول اور عمل جو ارح پر مشتمل ہے اور ان تینوں کے مجموعہ کا نام ایمان سے اس لیے نماز کو ایمان فرمایا۔ (قرطبی) ف 8 یہ تحویل قبلہ کا صل حکم ہے مکہ میں تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دونوں رکنوں کے درمیان کھڑے ہو کر صخرہ بیت المقدس کی طرف رخ کر کے اس طرح نماز پڑھتے رہے کہ کعبہ بھی سامنے ہوتا اور دونوں طرف رخ ہوجاتا مگر مدینہ پہنچ کر بیک وقت دونوں کی طرف کرنا ممکن نہ رہا۔ آپ کو خواہش پر تحویل کا حکم آیا جیسا کہ مذ کور ہوا۔ (ابن کثیر) مسجد نبوی میں کعبہ کی طرف منہ کر کے سب سے پہلے نماز عصر ادا کی گئی۔ بعض علمان نے تفسیر نے لکھا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسجد بنی سلمہ میں ظہر کی نماز پڑھارہے تھے کہ تحویل کا حکم نازل ہوا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ظہر کی آخری دورکعت کی طرف رخ پھیر کر ادا کیں اس لیے کو مسجد البلتین کہا جاتا ہے یہ قصہ بعض روایات میں، مذکور ہے۔ (قرطبی) ف 9 اس میں کو تہدید ہے۔ یعنی یہود اپنی کتابوں کی پیش کوئی کی بنا پر خوب جانتے ہیں کہ نبی آخرزلزمان کا قبلہ مسجد حرام یعنی خانہ کعبہ ہوگا مگر وہ کفر حسد اور عناد کی بنا پر لتمان کر رہے ہیں۔ (ابن کثیر) البقرة
145 ف 1 یعنی وہ کعبہ کے قبلہ ہونے کو خوب جانتے ہیں مگر ان کا عباد اس قدر بڑھا ہوا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قبلہ کو تسلیم نہیں کریں گے۔ ف 2 اور آپ بھی حکم وحی کے پابند ہونے کی وجہ سے ان کے قبلہ کو اختیار نہیں کرسکتے۔ (شوکانی) ف 3 اور ان کے باہمی عباد کا یہ حال ہے کہ وہ ایک دوسرے کے قبلہ کو پسند نہیں کرتے۔ یہود صخرہ کی طرف رخ کرتے ہیں اور نصاری بیت المقدس کی مشرق جانب کی طرف۔ (قرطبی) ف 4 اس کے مخاطب تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں مگر مراد امت ہے اگر ایک شخص علم دین ہو کر اہل بد عت وہوی کی پیرعی کرتا ہے تو اس پر بھی عتاب ہے ( ابن کثیر۔ قرطبی) پھر کیا حال ہوگا ان علماء کا جو اہل بدعت کی مخالفت کی بجائے ا ان کی محفلوں (عیدمیلاد النبی، تعزیہ وغیرہ کے جلوس) میں شریک ہوتے ہیں۔ (المنار) البقرة
146 ف 5 اوپر کی آیت میں بیان ہوچکا ہے کہ اہل کتاب کعبہ کے قبلہ پر حق ہونے کو خوب جانتے تھے مگر بوجہ ضد اور ہٹ دھرمی کے انکار کرتے تھے اب اس آیت میں بتایا جارہا ہے کہ قبلہ کی طرح اہل کتاب کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نبی آخرالز مان ہونے کچھ شبہ نہیں ہے مگر پھر بھی ان سے اہل علم کا ایک گروہ اس لیے فرمایا کہ اہل کتاب میں بعض علماء جیسے عبداللہ بن سلام وغیرہ بھی تھے جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت کے جاننے کے بعد مسلمان ہوگئے تھے ،_(ابن کثیر۔ قرطبی) البقرة
147 ف 6 اس میں تنبیہ ہے کہ منافقین اور یہود کے پروپکنڈے سے متاثر نہیں ہونا چاہیے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حق لے کر آئے ہیں جو شک وشبہ سے بالا تر ہے۔ (قرطبی۔ المنار) البقرة
148 ف 7 اب اس آیت میں بتایا جا رہا ہے کہ کسی بھی ددر میں تعین قبلہ کے حکم کو اصول دین کو حیثیت حاصل نہیں ہوتی کہ اس میں رد وبد نہ ہو سکے دوسرے احکام کی طرح اس میں نسخ ہوتا رہا ہے۔ چنانچہ یہ واقعہ ہے کہ صخرہ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور نصاری بیت المقدس کی شرقی جانب کی طرف رخ کرت ہیں طرح ان پہلی امتوں کے لیے بھی ایک سمت مقرر تھی اس اصل تحت تمہارے لیے کعبہ کو قبلہ قرار دے دیا تمہیں چاہیے کہ نیک کاموں میں سبقت کرو۔ (ابن کثیر۔ المنار) اس میں اشارہ ہے کہ نماز بھی اول وقت ادا کرنے چاہیے حدیث میں ہے خیر الاعمال الصلوہ الاول قعتھا۔ کہ سب سے بہتر عمل اول وقت پر نماز ادا کرنے ہے۔ (بخاری مسلم) فائدہ۔ حاظ ابن تیمہ نے الردعلی المنطقیین (س 29) اور حافظ ابن القیم نے بدائع الفوا ئد (ج 2 ص 168۔173) میں محققا نہ طور پر ثاتب کیا ہے کہ بیت المقدس کو قبیلہ بنانا اجتہادی امرتھا اور اللہ تعالیٰ نے کسی بھی نبی کو حکم نہیں دیا کہ بیت المقدس کی طرف متوجہ ہو کر نماز پڑھیں،(کتاب الایمان ص 11) ج 8 یعنی آخر تم سب کو اللہ تعالیٰ کے حضور جمع ہونا ہے اور نیک کاموں کے متعلق تم سے پوچھا جائے گا۔ (قرطبی) البقرة
149 البقرة
150 ف 9 مسجد حرام کی طرف متوجہ ہونے کے حکم کا تین بار اعادہ کیا ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ یہ چونکہ اسلام میں نسخ ہے اس لیے تکرار برائے تاکید بعض نے لکھا ہے کہ پہلی مرتبہ حکم اس شخص کو ہے جو قبلہ کے سامنے ہو اور دوسری مرتبہ اسے نظر نہ آتا ہو اور رتیسری مرتبہ نسخ قبلہ پر مفر ضین کے اعتراض کو ختم کرنا ہوجیساکہ لئلایکون للناس علیکم حجتہ سے معلوم ہوتا ہے یعنی اہل کتاب کے لیے اس اعتراض کی گنجائش بھی نہ رہے کی نبی آخرالز مان کا قبلہ تو کعبہ ہوگا اور یہ بیت المقدس کی طرف ہو کر نماز پڑھتے ہیں۔ (کبیر۔ ابن کثیر) ف 1 حتی کہ استفان کعبہ کا حکم بھی تمام نعمت کے طور پر ہے (المنار) البقرة
151 ف 2 اس تشبیہ کا مفہوم یہ ہے کہ خانہ کعبہ کو قبلہ قرار دے کر ہم نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا کو شرف قبولیت بخشا ہے جو انھوں نے کعبہ کے بارے میں کی تھی جس طرح کہ نبی آخرالزمان کو مبعوث فرماکر ان کی اس دعا کو قبول کیا ہے جو انہوں نے بعثت رسول کے بارے میں کی تھی۔ قرآن میں الکتاب والحکمتہ سے مرادت کتاب وہ سنت ہے اور مالم تکونواتعلمون سے مسائل یا بعد الطبیعیات ( حشر ونشر مبدء نبوت وغیرہ ( مراد ہیں دیکھئے آیت :129) البقرة
152 ف 3 فاذکر ونی فار تفر یع لاکر اشارہ فرمایا ہے کہ مذکورہ انعامات کا تقاضا یہ ہے کہ میری شکرگزاری کے لیے مجھے دیا کرتے ہو ذکر الہی اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور فرمانبر داری کا نان ہے ایک حدیث میں ہے من اطاع اللہ فقد ذکر اللہ یعنی جس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی اس نے اللہ تعالیٰ کو یاد کیا ایسی احادیث میں ذکر کی بہت فضیلت آئی ہے ( ابن کثیر )،( نیز دیکھئے سورت احزاب 41) البقرة
153 ف 4 ذکر وشکر کے ساتھ صبر وصلوہ کی تعلیم دی ہے احکام شریعت پر عمل کرنے میں جو دشواریاں پیش آتی ہیں اور مصائب برداشت کرنے پڑتے ہیں صبر صلوہ پر دوام ان مشکلات کا مقابلہ کرنے لیے ہر حال میں بہتری ہے تکلیف کی حالت میں صبر کرتا ہے اور خوشحالی میں شکر گزار رہتا ہے۔ (قرطبی۔ ابن کثیر ) البقرة
154 ف 5 اوپر کی آیت میں اقامت دین کے لیے صبر وصلوہ سے کام لینے کا حکم دیا گیا ہے اب یہاں جہاد کی ترغیب ہے۔ ( کبیر) جب غزوہ بدر میں کچھ صحابہ (چودہ) شہید ہوگئے تو بعض لوگ کہنے لگے فلاں مرگیا۔ اس سے زندگی کا عیش وآرام چھین گیا۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ شہدا کے متعلق کفا رنے اس قسم کی باتیں کیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی (فتح البیان کبیر) شہیدوں کو بر زخی حیات حاصل ہے اور احادیث سے ثابت ہے کہ ان کی روحیں جنت میں عیش وآرام سے بسر کر رہے ہیں (دیکھئے آل عمران حاشیہ آیت 169۔170) اور قرآن و حدیث سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ مرنے کے بعد برزخ ( قبر) میں ہر شخص کو زندگی حاصل ہے۔ دیکھئے سورت غافر حاشیہ آیت 11۔46) سورت نوح آیت 25، ابراہیم 27) مگر مومن کی روح راحت میں ہے اور کافر کی روح کو عذاب ہورہا ہے مروی ہے القبر روضتہ من ریاض الجنتہ او حفرہ من جفر الناد (مشکوہ) حا فظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ مرنے کے بعد ہر مومن کی روح جنت میں چلی جاتی ہے جیسا کہ حدیث میں ہے۔ نسئمتہ امومن طاتر تعلق فی شجر الجنتہ حتی یر جعہ الی حسد یوم یبعثہ (مسند احمد) کہ ہر مومن کی روح پرند کی شکل میں جنت میں درختوں میں جھولتی ہے اور بزخی زند گی انبیاء علیہم السلام کو علی الو جہ ال اکمل حاصل ہے مگر شہدا کی تعظیم وتکریم کے لیے قرآن نے خصو صیت سے ان کو احیا کہا ہے۔ (ابن کثیر ) البقرة
155 البقرة
156 ف 6 مصیبت ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس سے انسان کو اذیت پہنچے خواہ کتنی معمولی کیوں نہ ہو۔ قرطبی۔ شوکانی) اناللہ۔۔ کلمہ بستر جاع ہے حضور قلب کے ساتھ یہ کلمہ زبان سے کہا جائے تو سہی اظہار عبودیت بھی ہے اور دوبارہ زندہ ہو کر جزائے اعمال کا اعتراف بھی۔ (قرطبی۔ شوکانی) اور آیت اذا صابتھم مصیبتہ میں کلمہ اذا میں اشارہ ہے کہ مصیبت پہنچتے ہی صبر کرنا اور یہ کلمہ کہنا چاہیے۔ جیسا کہ ایک حدیث میں ہے انما الصبر عند الصتد تمہ الا ولی (بخاری) کہ مصیبت جب تازہ ہو تو صبر ہے مصیبت پر ستر جاع کی احادیث میں فضیلت بھی آئی ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ اگر مصیبت پر انا للہ۔۔۔ کے بعد یہ دعا بھی پڑھی جائے اللھم اجرنی فی مصیبتی ھذہ اوخلف لی خیرا منھا (اے للہ مجھے اس مصیبت کا اجر دے اور اس کے بدلے مجھے اس سے بہتر عطا فرما) تو اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ ایسا ہی معاملہ کرتا ہے (ابن کثیر۔ بحوالہ مسلم ) البقرة
157 ف 7 صلوہ کے بعد رحمتہ کا لفظ تا کید اور اشباع معنی کے لیے ہے جیسے آیت لا نسمع ستر ھم سلجو نھم میں سر کے بعد نحوی کے بعد کا لفظ ہے ! البقرة
158 ف 1 صفا اور مروہ مسجد حرام کے قریب دو چھوٹی پہاڑیوں کے نام ہیں۔ ان کے درمیان سعی کرنا حضرت ابراہیم کے زمانہ سے مناسک حج وعمرہ شامل تھا مگر زمانہ جاہلیت میں مشر کین نے حج اور عمرہ کے منا سک میں کئی رسوم شرکیہ شامل کرلی تھیں۔ ان میں سے ایک یہ کہ صفا اور مروہ پر دوبت نصب کر رکھے تھے۔ ایک کا نام اساف اور دوسے کا نائلہ تھا جب ان کے درمیان سعی کرتے۔ تو ان بتوں کا استلام بھی کرتے۔ مسلمان ہونے کے بعد ان کے دلوں میں یہ شبہ پیدا ہوا کہ یہ سعی محض جاہلیت کی ایک رسم ہے۔ اسے نہیں کرنا چاہیے اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ سعی کے ضرور ہونے پر تو مسلمان متفق تھے تاہم آیت کے ظاہری الفاظ دیکھ کر بعض لوگوں کے دلوں میں یہ سوال پیدا ہوا کہ سعی نہ بھی کی جائے تو کوئی حرج نہیں ہے چنانچہ حضرت عروہ نے اپنی خالہ حضرت عائشہ (رض) کے سامنے اس شبہ کا اظہار کیا۔ حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا کہ اگر آیت کا یہی مفہوم ہوتا تو قرآن میں ان لا یطوف بھما ہونا چاہیے تھا، پھر حضرت عائشہ (رض) نے مزید وضاحت کے لیے بیان فرمایا کہ عرب کے بعض قبائل (ازد، غسان) منات الطاغیہ بت کی پوجا کرتے تھے۔ یہ بت انہوں نے مشلل پہاڑی پر نصب کر رکھا تھا یہ لوگ حج کے لیے جاتے تو اس بت کے نام کا تلبیہ کرتے اور اس کا طواف کرتے اور مکہ میں پہنچ کر صفا اور مروہ کے درمیان سعی کو گناہ سمجھتے تھے۔ مسلمان ہونے کے بعد اس بارے میں انہوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مقرر فرمادی ہے۔ اب کسی کو اس کے ترک کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان اللہ کتب علیکم السعی فاسعوا کہ اللہ تعالیٰ نے سعی فرض کردی ہے۔ لہذا سعی کرو اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حجتہ الوداع میں فرمایا : لتاخذوا اعنی منا سککم کہ مجھ سے منا سک حج سیکھ لو اور ان میں سعی بھی داخل ہے۔ (ابن کثیر۔ قرطبی ) البقرة
159 ف 6 یعنی ایسا کرنے والا ملعون ہے۔ البینات سے مراد واضح دلائل اور الہدی سے احکام شریعت مراد ہیں۔ بعض نے لکھا ہے کہ دونوں سے ایک ہی مراد ہے۔ یہ آیت گو یہود کے حق میں نازل ہوئی ہے جو توریت میں ذکر کئے ہوئے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اوصاف اور شریعت کی بیان کردہ حدود کو چھپاتے تھے لیکن اس میں ہر شخص کے لیے وعید ہے جو حق کو جانتے ہوئے کسی دینوی مفاد کے لیے اسے چھپائے رکھتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ من سد عن عم فکتمتہ انجم یوم القیامتہ بلعام من نار۔ کہ جس شخص سے کوئی مسئلہ دریافت کیا گیا اور اس نے اسے جاتنے بو جھتے چھپا یا قیامت کے روز اس کے منہ میں آگ کی لگام دی جائے گی۔ (ابن کثیر) اگر کسی کو مسئلہ سے غلط فہمی پیدا ہوتی ہو اور عوام میں فتنہ کا خوف ہو تو البتہ اسے عوام کے سامنے بیان کریں ورنہ جو لوگ اس حالت کفر میں مرگئے وہ ہمیشہ کے لیے لعنت کے عذاب میں گرفتار رہیں گے۔ مسئلہ اس آیت کی روسے علماء اس امر پر متفق ہیں کہ کفار پر عمومی لعنت کی جاسکتی ہے اور کسی کافر کا نام لیے کر بھی یہ فعل جائز ہے۔ (ابن کثیر۔ قرطبی ) البقرة
160 البقرة
161 البقرة
162 البقرة
163 ف 4 اوپر کی آیت میں کتمان حق پر وعید فرمائی ہے۔ اب اس آیت میں بیان فرمایا ہے کہ سب سے پہلے جس چیز کا اظہار ضروری ہے وہ مسئلہ توحید ہے۔ قرطبی )۔ ( نیز دیکھئے آل عمران آیت 1) البقرة
164 ف 1 اوپر کی آیت میں اللہ تعالیٰ کے الا واحد ہونے کا بیان تھا اس آیت میں وحدنیت پر دلائل کا بیان ہے۔ قرآن نے ان امور ثمانیہ کو وجود باری تعالیٰ اور اس کی وحدانیت کے ثبوت میں متفرق طور پر جا بجا ذکر کیا ہے مگر یہاں ان سب کو جمع کردیا ہے۔ ان امو رر تکو ینیہ سے ذکر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ان کے متعلق خود مشرکین کو بھی اعتراف تھا کہ ان کی خلق میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کوئی دوسرا شریک نہیں ہے۔ (کبیر) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ قریش نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کیجئے کہ وہ ہمارے لیے کوہ صفا کو سونا بنا دے اگر اس نے ایسا کردیا تو ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لے آئیں گے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ یہ لوگ صفا کے سونا بن جانے کا کیسے مطالبہ کررہے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور قدرت کے بڑے بڑے دلائل موجود ہیں صرف عقل وفکر کی ضرورت ہے۔ (ابن کثیر ) البقرة
165 ف 2 اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے دلائل دیکھنے کے باوجود دنیا میں ایسے بد بخت لوگ بھی پائے جاتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسروں کو انداد بناتے ہیں اور ان کی نہ صرف عبادت کرتے ہیں بلکہ ان کی محبت میں ائنا فلو کرتے ہیں جتنی کہ مومنوں کو اللہ تعالیٰ سے محبت ہے۔ ( فالمدد مضاف الی المفعول اعا کحب المو منین اللہ۔ (شوکانی) یہاں انداد سے وہ اصنام مراد ہیں جن کی وہ اللہ تعالیٰ کے سوا پوجا کرتے تھے۔ (قرطبی۔ روح) مگر یہ لفظ عام ہے اور ند ہر اس چیز کو کہہ سکتے ہیں جو انسان کے دل پر مسلط ہو کر اللہ تعالیٰ سے غافل اور مشغول کردے جیسے فرمایا : افرایت من اتخذ الھہ ھو اہ۔ کہ ان لوگوں نے اپنی خواہش کو معبود بنارکھا ہے۔ ( کبیر) آج کل جن جبتوں اور قبتوں کی پوجا کی جاتی ہے۔ ان کو یہ لفظ بالا ولی شامل ہے کیونکہ عوام ان کی تعظیم وتکریم میں اللہ تعالیٰ کو بھول چکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کی شریعت کی تباع کی بجائے پیروں کی نذر نیاز اور قبر پرستی ہی دین بن گئی ہے۔ مشر کین اللہ تعا کے ساتھ محبت میں ان "انداد" کو بھی شریک کرلیتے ہیں مگر مومنین کی اللہ تعالیٰ سے محبت سراسر خالص اور ہر قسم کے شائبہ شرک سے پاک ہوتی ہے ( مدارج السا لیکن ج 3 ص 13۔14) نیز انداد کی تشریح کے لیے دیکھئے حاشیہ آیت 22۔ مومنین کی اللہ تعالیٰ سے محبت کا بیان۔ آل عمران حاشیہ آتی 31) ف 3 یہاں جواب لو مخذوف ہے۔ ای لو یری الذین ظلمو افی الدنیا عذاب آلا خرتہ لعلموا حین یر ونہ ان لقوتہ۔ بعض نے لکھا ہے کہ یہاں یرھا بمعنی یعلم کے ہے۔ ای لو لیعلم الذعن ان القوتہ اور لو کا جواب مخذوف ہے۔ ای لتبینوا ضرراتخاذ ھم لالھتہ۔ یعنی اگر یہ ظالم لوگ اللہ تعالیٰ کی قوت وقدرت اور اس کے عذاب کی شدت کو صحیح طور پر جان لیں تو ان پر شرک کے مضرات از خود واضح ہوجائیں۔ مگر افسوس یہ ہے کہ مشرک کے دل میں اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کی شدت عذاب کا تصور نہیں ہوتا۔ اس لیے وہ دوسروں کو صاحب قوت واقتدار سمجھ کر ان کے سامنے سرنگوں ہوتا ہے۔ (شوکانی۔ کبیر) البقرة
166 البقرة
167 ف 4 ان آیتوں میں قیامت کے دن مشر کین اور ان کے پیشواؤں کی حالت زار کا ذکر ہے کہ جن رؤسا اور پیشواؤں کی محبت یہ دم بھرتے ہیں قیامت کے دن وہ ان سے بیزاری اور لا تعلقی کا اظہار کریں گے اور اللہ تعالیٰ کے عذاب کو دیکھتے ہی ان کے باہم تعلقات قطع ہوجائیں گے آخر کار یہ اپنے پیشواؤں کی دیدہ شوئی کو دیکھ کر بایں الفاظ اپنے غیظ وغضب کا اظہار کریں گے کے کاش ہمیں پھر دنیا میں لوٹا دیا جائے تو ہم بھی تم سے بیزاری کا اظہار کریں جس طرح آج تم ہم سے کر رہے ہو۔ ان کی بد اعمالیاں ان کے دلوں میں حسرت بن کر رہ جائیں گی۔ وما ھم بخا رجین من النار۔ سے ثاتب ہوتا ہے کہ کفار ابدی جہنمی ہیں اور یہ کہ جہنم کبھی فنا نہ ہوگا۔ (قربطی ) البقرة
168 ف 5 سورت بقرہ میں یا یھا الناس کے لفظ کے ساتھ خطاب یہاں دوسری مرتبہ کیا گیا ہے۔ اوپر کی آتیوں میں اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کو انداد بنانے سے تحذیر کا ذکر چلا آرہا ہے۔، مشرکین ان انداد کی تعظیم وتکریم میں اسقدر غلو کرتے کہ عبادت ودعا میں بھی انہی کو پکارتے اور ان کے نام پر بہت سے مویشی بھی حرام قرار دے دیتے۔ ان پر نہ سواری کرتے اور نہ ان کا گوشت کھاتے ان کو تقرب الی اللہ کا ذریعہ سمجھتے۔ سورۃ انعام 138۔139) چنانچہ اس آیت میں اس قسم کی تحریمات سے منع فرمایا اور اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ حلال اور طیب چیزیں کھانے کا حکم دیا۔ صحیح مسلم میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔ جو مال بھی میں نے اپنے بندوں کو بخشا ہے وہ اس کے لیے حلال اور طیب ہے مگر شیاطین ان کو گمراہ کردیتے ہیں اور وہ حلال چیزوں کو حرام ٹھہرا لیتے ہیں چنانچہ یہاں بھی فرمایا کہ شیطان کی اتباع کر کے ان کو حرام نہ ٹھہراؤ۔ سنن اور شرئع کے ماسوا معصیت۔ خطم الشیطان میں داخل۔ حدیث میں ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حضور میں یہ آیت تلاوت کی گئی تو سعد بن ابی وقاص نے عرض کیا، اللہ کے رسول ! دعا فرمایئے کہ میں مستجاب الدعوہ بن جاؤں۔ اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ حلال اور طیب کھاؤ تو تمہاری دعاقبول ہوگی۔ (ابن کثیر) یعنی شیطان ایک طرف تو معاشرے میں اخلاقی برائیوں ( سؤ فحشاء) کو فروغ دیتے ہیں اودوسری طرف دین میں بدعات پیدا کر کے لوگوں کے عقائد و اعمال خراب کرتے ہیں۔ ہر وہ بات جو کتاب وسنت ثابت نہ ہو وہ ان تقو لو اعلی اللہ تعلمون میں داخل ہے بیان کے لیے دیکھئے سورت اعراف۔ آیت 28) ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ السؤ اس برائی کو کہتے ہیں جس میں کوئی جک حد شرعی معین نہ ہو اور فحشا وہ برائی ہے جس کے ارتکاب پر حد معتین ہو۔ (قرطبی) البقرة
169 البقرة
170 ف 1 آج کل اہل بدعت کا بھی یہی حال ہے کہ کتاب وسنت کی بجائے آباؤ اجداد کے رسوم کو سند سمجھتے ہیں۔ بقول ابن عباس (رض) یہ آیت گو یہود کے حق میں نازل ہوئی مگر اس میں ان تمام لوگوں کی سخت مذت کی گئی ہے جو اپنے مذہبی پیشواؤں کے اقوال پر کسی نظرو استدلال ککے بغیر چلے جارہے ہیں چونکہ تقلید کی تعریف بھی یہی ہے کہ کسی دوسرے کی بات کو اس کی دلیل معلوم کئے بغیر قبول کرلیا جائے۔ اس لیے جو لوگ ائمہ کے مسائل قیاسہ کو ان کی دلیل معلوم کیے بغیر واجب العمل سمجھتے ہیں انہیں سوچنا چاہیے کہ آیا وہ بھی اس مذمت کے تحت نہیں آجاتے۔ ( سلسلہ بیان کے لیے دیکھئے سورت اعراف آیت 28) البقرة
171 ف 2 تر جمہ میں کی ہوئی وضاحت کے مطابق کفار کو گمراہی اور ضلالت میں ان جانوروں کے ساتھ تشبیہ دی ہے جوراعی کی آواز تو سنتے ہوں مگر کچھ سمجھتے نہیں۔ ای مثلک یا محمد ومثل الذین کفروا الخ اور دوسرے معنی یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ کفار کو بتوں کے پکار نے میں اس راعی کے ساتھ تشببیہ دی گئی ہو جو بھیڑ بکریوں کے دور سے بلاتا ہے۔ ای ‏مثل الذین کفروا ودعائھم الا صنام کمثل الذی الخ مفسرین نے اس مثل کے یہ دونوں مطلب بیان کیے ہیں مگر حاظ ابن کثیر نے پہلی تشبیہ کو پسند فرمایا ہے۔ البحر المحیط۔ ابن کثیر ) البقرة
172 ف 3 اس میں اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر ایمان کو حلال اور پاکیزہ روزی کمانے اور کھانے کا حکم دیا ہے۔ کیونکہ اس کے بغیر کوئی دعا اور عبادت قبول نہیں ہوتی۔ حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ آنحضرت نے فرمایا لو گو ! اللہ تعال طیب ہے او طیب کے بغیر کچھ قبول نہیں فرماتا۔ اس نے پانے رسولوں کو بھی پاک غذاکھانے کا حکم دیا ہے۔ (دیکھئے آیت 5 سورت المومنون) اس کے بعد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک ایسے شخص کا ذکر فرمایا جو لمبا سفر کرتا ہے گرد آلود ہے اور اس کے بال پر اگندہ ہیں۔ ایسی حالت میں وہ ہاتھ اٹھاکر یا رب یادب پکارتا ہے مگر اس کا کھانا حرام ہے اور لباس حرام ہے پھر بھلا اس کی یہ دعا کیسے قبول ہو سکتی ہے۔ (قرطبی۔ ابن کثیر بحوالا صحیح مسلم ) البقرة
173 ف 4 اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے انما کلمہ حصر کے ساتھ صرف چار چیزوں کا کھانا حرام قرار دیا ہے۔ علاوہ ازیں سب جانوروں کا گوشت حلا ہے ماسوا ان کے جن کو حدیث میں حرام قرار دیا گیا ہے مثلا درندہ جانور اور پنجہ سے شکار کرنے والا پرندہ اور الحمر لا ھلیتہ یعنی گدھا۔ المیتتہ ہر اس حلال جانور کو کہا جاتا ہے جو بدوں ذبح شرعی کے مرگیا ہو عام اس سے کہ طبعی موت مراہو یا کسی حادثے سے ہلاک ہوگیا ہو (دیکھئے سورت الانعام آیت 145) اور حدیث میں ہے : احلت لنا میتتان الحوت والجر ادودمان الکبدو الطحال کہ دو مردو جانور ہمارے لیے حلال ہیں یعنی مردہ مچھلی اور ٹڈی اور دو خون جگر اور تلی۔ ( قرطبی بحوالہ دار قطنی) اور الدم سے دم مسفوح مراد ہے یعنی وہ خون جو جانور کی رگوں سے بہا دیا گیا ہو لہذا جو خون گوشت کے ساتھ ملا ہوتا ہے وہ بالا جماع حلال ہے حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ میں گو شت پکاتی تو ہنڈیا کے اور پر خون کی وجہ سے زردی سی آجاتی آنحضرت صل اللہ علیہ وسلم اسے تناول فرمالیتے اور اس پر انکار نہ فرماتے۔ (قرطبی) سؤر کی چربی بھی گوشت کی طرح حرام ہے۔ سمندر کے مردہ جانوروں کے لیے دیکھئے۔ ( سورت المائدہ آیت) اور ما اھل لغیر اللہ میں وہ تمام جانور اور دوسری چیزیں آجاتی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ کے سوا کسی او کی نذر نیاز کے لیے مخصوص کردیا جائے ایسے جانور کا گوشت حرام ہے خواہ ذبح کے وقت کسی بزرگ یا قبر یابت کا نام لیا جائے اور خواہ اسے بسم اللہ واللہ اکبر کہہ کر ذبح کیا جائے مفسرین نے اھل لغیر اللہ کی تفسیر میں عندالذیح یعنی ذبح وقت اس پر غیر اللہ کا نام لا جائے) کی قید لگائی ہے تو یہ اس وقت کے عمومی رواج کے پیش نظر لکھ دیا ہے اس طرح غیر شرعی تہواروں پر جو جانو ذبح کیے جاتے ہیں ہو بھی اھل لغیر اللہ میں داخل ہیں۔ حضرت عائشہ (رض) سے استفسار کیا گیا عجمی لوگوں کے تہواروں میں ذبح ہونے والے جانوروں کا گوشت کھانا حلال ہے یا نہیں تو حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا جو جانور خاص اس دن کے لیے زبح ہوں ان کو مت کھاؤ۔ (قرطبی۔ کبیر) امام شوکانی فرماتے ہیں اس حکم میں وہ جانور بھی آجاتے ہیں جو فرط اعتقاد سے بزرگوں کی قبروں پر ذبح کئے جاتے ہیں۔ ) (فتح القدیر) سلسلئہ بیان کے لیے دیکھئے) سورت الا نعام آیت : ا 145) ایک حدیث میں غیر اللہ کے نام پر ذبح کی وعید بھی آتی ہے۔ چنانچہ فرمایا ھلعون من ذج لغیر اللہ۔ یعنی غیر اللہ تقرب حاصل کر کے لیے ذبح کرنے والا ملعون جامع صیغہ ج 3 ص 266) نیز تفسیر نیشاپوری میں ہے۔ اجمع العلماء لو ان مسلما ذبحتہ ویرید بذ بحھا التقرب الی غیر اللہ صادمرتد ااوذبحتہ ذیبحتہ مرتد ؛ علماء کا اس پر اجماع ہے کہ اگر کوئی مسلمان غیر اللہ تقرب حاصل کرنے کے لیے ذبح کرے تو وہ مرتد ہوجائے گا اور اس کا ذیبحہ مرتد کا ذیبحہ ہے۔ تفسیر عزیزی ص 611) نیز سورت الا نعام آیت 3) البقرة
174 ف 1 یہ آیات گو علمائے یہود کے حق میں نازل ہوئی ہیں جو دینوی مال وجاہ کے حصول کی خاطر توریت میں ذکر کیے ہوئے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اوصاف چھپا رہے تھے۔ (دیکھئے آیت 159) مگر اس سے وہ شخص مراد ہوسکتا ہے جو دینوی مفاد کی خاطر دین فروشی کرے ( قرطبی۔ بحر) ولا یکلمھم اللہ میں نفی خطاب بطریق لطف وعنایت ہے ورنہ بطریق عتاب وزجر تو باری تعالیٰ ان سے مخاطب ہوں گے۔ (دیکھئے المو منون آیت 108) الکتاب میں اختلاف بطریق تحریف یا ایمان ببعض الکتاب اور کفر بالبعض کی صورت میں۔ ( دیکھئے آیت 75۔85۔91) البقرة
175 البقرة
176 البقرة
177 ف 2 ای لکن البر بؤ من امن) تحویل قبلہ کا حکم نازل ہو اتو یہ اہل کتاب اور بعض مسلمانوں پر بہت شاق گزرا۔ (ابن کثیر) اس میں بحث وجدال نے یہاں تک شدت اختیار کرلے کہ اس کو حق وباطل کا معیار سمجھا جانے لگا اس پر یہ آیت نازل ہوئی جس میں اللہ تعال نے تحویل قبلہ کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ نیکی یہ ہے نہیں کہ تم مشرق ومغرب کی طرف اپنا رخ کرتے ہو۔ اصل مقصود اور اصل نیکی اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے۔ اس سلسلہ میں اللہ تعالیٰ نے نیک اعمال کا ذکر فرمایا کہ ان پر عمل پیرا ہونا اصل نیکی اور تقوی۔ ہے (ابن کثیر۔ کبیر) دراصل یہ آیت جمیع انوع بر حاوی ہے اور اصول عقائد کے ساتھ اعمال واخلاق کے تمام بڑے شعبوں کا اس میں بیان ہے۔ ( البحر۔ المحیط) ایمان باللہ یہ ہے کہ قرآن و حدیث میں آمد و صفات باری تعالیٰ کو بلاتا ویل مان کر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا دل وزبان سے اقرار کیا جا وے اور لکتاب سے سب آسمانی کتابیں مراد ہیں جو انبیاء پر نازل کی گئیں۔ ان پر ایمان یہ بات خاص طور پر ضروری ہے معانی کے ساتھ ان کے الفاظ کے بھی منزل من اللہ سمجھا جائے۔ (دیکھئے سورت القیامہ آیت :18۔19) اور قرآن پاک کو اشرف الکتب اور آخری کتاب مانا جائے اور یہ کہ پہلی کتابوں کو مصداق اوان پر مہہین ہے۔ (المائد ہ۔ ایت 41) جملہ انبیاء کو بشر اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے مبعوث مانا جائے اور آنحضرت کو خاتم النبین تسلیم کیا جائے۔ ( دیکھئے الا حزاب آیت 40) صبر درحقیقت ایک جامع صفت ہے جو جملہ اخلاق پر حاوی ہے۔ (راغب) مگر الباساء (مالی اور معاشی پر یشانیاں) الضرء (بدنی امراض) اور حین الباس (جنگ کی حالت) ان تین حالتوں میں صبر نہایت مشکل اور دشوار ہوتا ہے اس لیے ان حالتوں کو خاص طور پر ذکر کردیا ہے۔ (ابن کثیر ) البقرة
178 ف 3 زمانہ جاہلیت میں کوئی شخص کسی دوسرے قبیلے کہ آدمی کو قتل کر ڈالتا تو اس قبیلہ کے لوگ صرف قاتل کو قتل کرنے پر اکتفا نہ کرتے بلکہ اس کے بدلے متعدد آدمیوں کو قتل کئے بغیر صبر نہ کرتے سعید بن جبر کہتے ہیں اسلام سے پہلے دو عرب قبیلوں کی آپس میں جنگ ہوئی تھی ابھی انہوں نے آپس میں بدلہ نہ لیا تھا کہ مسلمان ہوگئے۔ ایک قبیلہ والوں نے قسم کھائی کہ جب تک ہم اپنے غلام کے بدلے دوسرے قبیلہ کے آزاد آدمی کو اور عورت کے بدلے مدر کو قتل نہ کرلیں گے آرام سے نہ بیٹھیں گے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ ( ابن کثیر۔ شوکانی 9 اور بدلہ لینے میں تعداد سے منع فرمادیا ہے۔ القتلی اس کا واحد قتیل ہے جو معنی مقتول کے ہے۔ (م۔ ع) ف 4 اس آیت سے بظاہر یہ ثابت ہوتا ہے کہ غلام کے بدلے آزاد عورت کے بدلے مرد قتل نہیں ہوسکتا۔ پہلے مسئلہ میں تو اختلاف ہے مگر دوسرے مسئلہ میں پر اتفاق ہے کہ عورت کا قاتل اگر مرد ہے تو عورت کے بدلے مرد قتل کیا جائے گا۔ حدیث میں ہے۔ المسلمون تیتکا فادماءھم کہ مرد عورت وضیع شریف الغرض سب مسلمانوں کے خون برابر ہیں۔ (قرطبی) اور الحر بالحر سے بظاہر یہ مفہوم نکلتا ہے کہ کافر کے بدلے مسلمان کو قتل کیا جاسکتا ہے یہ مسئلہ گومختلف فیہ ہے مگر صحیح یہ ہے کہ کافر کے بدلے مسلمان قتل نہیں ہوسکتا جیسا کہ بعض روایات سے ثابت ہوتا ہے۔ (سلسلئہ بیان کے لیے دیکھئے لمائدہ ح آیت 45) ف 1 آیت میں فمن میں من سے مراد قاتل ہے اور اخیہ سے مقتول ( جو مسلمان ہونے کے اعتبار سے اس کا بھائی ہے) اللہ تعالیٰ کی طرف سے تخفیف یعنی آسانی کے معنی یہ ہیں کہ پہلی امتوں میں دیت کا حکم نہ تھا بلکہ قصاص ہی لیا جاتا۔ اس امت کو اللہ تعالیٰ نے دیت کی اجازت عطا فرماکر آسانی کردی۔ (قرطبی) اور پھر اس کے بعد جو زیا دتی کرے یعنی دیت پر راضی ہوجانے یا خون معاف کردینے کے بعد بھی قاتل کو مار ڈالے تو اس کے لیے آخرت میں درد ناک عذاب ہے۔ حدیث میں ہے اگر کوئی شخص مارا گیا یا زخمی ہو اتو اسے تو اسے تین چیزوں میں سے ایک کا اختیار ہے۔ قصاص لے یادیت یا معاف کردے۔ فان ارادالرہ نعتہ فخذواعلی ید یہ۔ یعنی اگر وہ تین کے علاوہ کوئی چوتھا فعل کرنا چاہے تو تم اس کے ہاتھ پکڑ لو اس کے لیے نار جہنم ہے۔ (ابن کثری۔ بحوالہ مسند احمد ) البقرة
179 ف 2 قصاص میں زند گی کے معنی یہ ہیں کہ اس سزا کے خوف سے لوگ قتل سے رک جائیں گے اور کوئی دوسرے کے قتل پر جرات نہیں کرے گا۔، پس تتقون کے معنی یہ ہیں کہ تم دوسرے کو قتل کرنے سے بچو گے مگر اسے عام معنی پر محمول کرنا بہتر ہے کہ معصیت سے کنارہ کر کے آخرت میں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچ جاؤ علماء نے لکھا ہے کہ یہ آیت ایجاز اور جامعیت میں بے نظیر ہے۔ ( کبیر ) البقرة
180 ف 3 جاہلی عرف کے مطابق اولاد کے سوا کوئی وارث نہیں بن سکتا تھا لہذا اس آیت میں والدین اور اقربا کے لیے وصیت فرض کردی تاکہ یہ بالکل محروم نہ رہ جائیں مگر وصیت کایہ حکم شروع زمانے میں دیا گیا تھا بعد میں جب اللہ تعالیٰ نے میراث کا قانو نازل فرمادیا۔ (دیکھئے سورت النساء 1) تو ورثہ کے حق میں وصیت کا حکم منسوخ ہوگیا چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم نے آیت میراث کے نازل ہوکے بعد فرمایا ان اللہ قد اعطی کل ذی حق حقہ فلا وصتیتہ لوارث۔ کہ اللہ تعالیٰ نے ہر حق دار کو اس کا حق دیدایا ہے۔ لہذا ابن کسی کے لیے وصیت جائز نہیں ہے۔ (ابن کثیر۔ قرطبی) البتہ غیروارث رشتہ داروں کے حق میں اب بھی وصیت جائز ہے مگر وصیت کایہ حق کل مال کے ایک تہائی حصے سے زیادہ کے لیے نہیں ہے۔ نچانچہ حضرت سعد نے اپنی بیماری کے دوران میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے وصیت کی اجازت مانگی تو آپ نے فرمایا : لثلث والثنث کثیر۔ کہ ایک لیک ثلث (تہائی) کی اجازت ہے اور یہ بھی بہت ہے۔ (ابن کثیر بحوالہ بخاری ) البقرة
181 البقرة
182 ف 4 فاصلح بینھم یعنی ورثہ کو سمجھابجھا کر ان میں صلح کر ادے وصیت کا بدلنا بڑا گناہ ہے اور اس میں کتمان یعنی وصیت کو چھپانا بھی داخل ہے لیکن اگر اس میں کسی کی حق تلفی ہو یا خلاف شریعت کسی امر کی وصیت کی جائے مثلا شراب پلانے کی ناچ کرنے کی کسی قبر پر چراغاں کرنے یا میلہ اور عرس وغیرہ کرانے کی تو ایسی وصیت کا تبدیل کرنا واجب او ضرور ہے۔ (وحیدی) حدیث میں ہے الجنف جی الوصیتہ من انکبا ئر کہ وصیت میں کسی کی حق تلفی کبیرہ گناہ ہے اور سنن نسائی میں ہے کہ آنحضر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسے شخص کو جنازہ کی نماز نہ پرھنے کی سرزنش فرمائی ہے۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ ایک شخص ستر سال تک نیک عمل کرتا رہتا ہے مگر مرتے وقت وصیت میں ظلم کرجاتا ہے فرمایا : فیختم لہ لبشر ھملہ فید خل النار۔ کہ اس کا خاتمہ بہت برے عمل پر ہوتا ہے جس کی پاداش میں آگ میں چلا جاتا ہے (قرطبی۔ ابن کثیر ) البقرة
183 ف 5 اس آیت میں روزے کی فرضیت کا بیان ہے اگلے لوگوں سے جمیع امم سابقہ یا خاص کر یہود ونصاری مراد ہیں اور کما کتب میں تشبیہ فرض ہونے کے لیے اعتبار سے ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس تشبیہ وقت اور ہیئت کا اعتبار بھی مقصود ہو کیونکہ بعض آثار اور ابن حنظلہ کی مر فوع روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ ماہ رمضان کے روزے سے پہلی امتوں پر بھی فرض کیے گئے تھے۔) قرطبی، ابن کثیر) روزے کی فرضیت 2 ھ میں نازل ہوئی اور روزے نے موجود ہیئت بتدریج اختیار کی ہے ہجرت کے بعد مدینہ پہنچ کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حسب سابق عاشورہ اور ہر ماہ تین دن کا روزہ کھتے رہے حتی کہ رمضان کے روزے فرض ہوگئے ابن کثیر) الصیام والصوم کے لغوی معنی ہر اس چیز سے رک جانے کے ہیں جو نفس کو مرغوب ہو۔ (مفردات) اور شریعت میں روزہ کی نیت سے صبح صادق سے سورج کے غروب ہونے کے بعد تک مفطرات ثلاثہ یعنی کھانے پینے اور جماع) سے رکے ہنے کا نام روزہ ہے لعلکم تتقون یہ روزے کی حکمت بیان فرمادی ہے کہ اسلامی روزے کا مقصد تعذیب نفس نہیں بلکہ دل میں تقوی یعنی جی کو روکنے کی عادت پیدا کرنا ہے یہی وجہ ہے کہ حدیث میں الصیام جنتہ آیا ہے کہ روزہ گناہوں سے بچنے کے لیے ڈھال ہے اور صحیحین میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ماہ رمضان کو شھرالصبر فرمایا ہے یعنی نفس پر ہر طرح کی بندش کا مہینہ۔ (ترغیب) اور فرمایا کہ جو شخص روزہ کھ کر دوسرے کی غیبت کرتا ہے یا جھوٹ بولتا ہے اس کا روزہ نہیں ہے۔ (ترغیب ) البقرة
184 ف 6 آیت میں یطیقونہ کے معنی حضرت ابن عباس اربعض علمانے جن میں امام بخاری بھی شامل ہیں یتجشمو نہ کئے ہیں یعنی جن کو رو سے سے سخت مشقت ہوتی ہے وہ رزہ رکھنے کی بجائے ہر روز ایک مسکین کو کھانا کھلا دیا کریں۔ بوڑھے مرد اور عورت کے لیے اب بھی یہ حکم باقی ہے۔ اکثر علمانے یطیقونہ کے معنی روزے کی طاقت رکھنا ہی کئے ہیں اور بعد کی آیت سے اسے منسوخ مانا ہے۔ (رازی۔ ابن کثیر) بہر حال یطیقو نہ کا دیا ہوا ترجمہ اور جن کو روزہ کھنے کی طاقت ہی نہیں ہے محل نظر ہے۔ الکشاف) ف 7 مثلا ایک سے البقرة
185 ف 1 یعنی وہ ایام معدودہ ماہ رمضان ہے لہذا اس پورے مہینہ کے روزے رکھے جائیں۔ علاہ ازیں ماہ رمضان کی فضیلت یہ ہے کہ قرآن پاک تمام آسمانی کتابیں اس مہینہ میں انبیاء پر نازل ہوئی ہیں۔ علماء تفسری نے لکھا ہے کہ اولا قرآن پاک شہر رمضان میں شب قدر کو لوح محفوظ سے پہلے آسمان پر بیت العزہ میں بتمعا مہ نازل کردیا گیا۔ (دیکھئے سورت القدر آیت 1) اس کے بعد 23 سال میں بتدریج حسب ضرور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہو تارہا۔ لہذایہ بھی صحیح ہے کہ قرآن مجید رمضان میں نازل کیا گیا اور یہ بھی کہ لیلتہ القدر میں نازل ہوا اور یہ بھی کہ 23 سال میں متفق طو پر نازل کیا گیا۔ (ابن کثیر) یہی وجہ ہے کہ آنحضرت رمضان میں قرآن پاک کا حضرت جبریل (علیہ السلام) سے دور فرمایا کرتے تھے۔ (صحیح بخاری باب بد الوحی) اور بہت سے روایتوں میں ماہ رمضان کی راتوں میں قیام کی فضیلت آئی ہے اور فرمایا کہ اس سے سب پچھلے گناہ معاف ہوجاتے ہیں یہ قیام آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے 23۔25۔27 تین روز تراویح کی نماز باجماعت پڑھائی۔ فتح الباری ج 1 ص 59) میں بحوالہ قیام اللیل مر وزی بروایت جابر لکھا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آٹھ رکعت تراویح اور وتر سے قیام فرمایا۔ ارمضان میں قرآن کی تلاوت سے خصوصی شغف احادیث کے علاوہ تعامل سلف سے بھی ثابت ہے جس سے رمضان اور قرآن کا تعلق بخوبی واضح ہوجاتا ہے ف 2 یعنی سفر یابیماری کو جہ سے اگر رمضان کاروزہ نہ رکھ سکے تو دوسرے دنوں میں رمضان کے دنوں کی گنتی پوری کرلے۔ ( ابن کثیر۔ فتح لقدیر) ف 3 اس سے علماء نے عیدک الفطر میں تکبیرات کی مشروعیت اخذ کی ہے پہنچ کر نماز کے کھڑاہو نے تک تکبیریں کہتا رہے۔ الفاظ اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ واللہ اکبر اللہ اکبر واللہ الحمد۔ (دراقطنی۔ ابن کثیر) (سلسلئہ بیان کے لیے دیکھئے سورت الا علی آیت 1، سورت الکوثر ) البقرة
186 ف 4 ایک شخص نے آنحضر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ ہمارا رب نزدیک ہے تو ہم اس سے مناجات کریں دور ہے تو ہم اس کو پکاریں اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (ابن کثیر) اس آیت میں اللہ تعالیٰ سے دعا کی ترغیب ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر دعا کو سنتا ہے لہذا تمہیں چاہیے کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرو ماہ رمضان کے سلسلہ میں اس آیت کے اجانے کا مطلب یہ ہے کہ ماہ رمضان خصوص روزے کی حالت دعاؤں کے قبول ہونے کا خاص سبب ہے۔ ( ابن کثیر) ایک حدیث کے ضمن میں ہے کہ روزے دار کی دعا رائگاں نہیں جاتی۔ اس کی دعا کے لیے بھی آسمان کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ (ترمذی۔ نسائی) ایک دوسری حدیث میں ہے کہ افطار کے وقت دعاقبول ہوتی ہے۔ مشکوہ۔ کتاب الدعوات) یہی وجہ ہے یہ ماہ رمضان کے دران میں کثرت استغفار کا حکم دیا گیا ہے۔ (ترغیب۔ درمنشور) البقرة
187 ف 5 ابتدا میں جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو افطار سے صرف نام عشاتک کھانا پینا اور عورت سے مقاربت جائز تھی۔ اگر کسی شخص نے عشا کی نماز پڑھ لی یا وہ اس سے پہلے سوگیا تو اس کا روزہ شروع ہوجاتا تھا پھر اگلے روز افطار یعنی سورج غروب ہونے تک کھانا پینا اور جماع اس پر حرام ہوتا تھا، بعض لوگ ضبط نہ کرسکے اور رات کو عشا کے بعد بیویوں سے مقاربت کر بیٹھے ایک انصاری قیس بن صرمہ کے متعلق روایت ہے وہ روزے کی حالت میں دن بھر کھیت میں کام کرتے رہے۔ افطار کے وقت گھر آئے اور بیوی سے پوچھا کوئی چیز کھانے کے لیے ہے ؟ بیوی بیوی نے جواب دیا نہیں۔ آپ ٹھہریئے میں جاکر پڑسیوں سے لاتی ہوں بیوی کے چلے جانے کے ان کی آنکھ لگ گئی اور وہ سو گئے۔ بیوی کو دیکھ کر نہایت افسوس ہو۔ پھر اگلے دن روزہ رکھنا پڑا ابھی آدھا دن نہیں گزرا تھا کہ کمزوری کی وجہ سے غش کھاگئے، اس واقعہ کا علم آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہوا تو یہ آیت نازل ہوئی۔ (ابن کثیر بحوالہ صحیح بخاری وابوداؤد) ف 6 صبح کو سفید دھاری سے مراد صبح صادق ہے۔ اس خیط اسود اور خیط بیض کے سمجھنے میں بعض صحابہ کرام کو غلط فہمی ہوگئی تھی۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اس سے صبح کاذب مراد ہیں۔ (ابن کثیر) معلوم ہوتا ہے کہ قرآن فہمی کے لیے صرف عربی زبان جان لینا کافی نہیں ہے بلکہ حدیث کی بھی ضرورت ہے۔۔ مسئلہ : رمضان کا روزہ کھنے کے لیے رات کو نیت ضروری ہے جیساکہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : من لم الصیام من االلیل فلا صیام لہ کہ جو شخص رات کو روزہ کی بختہ نیت کر اس کا روزہ نہیں ہے۔ (قرطبی ) ف 1 رمضان سے چونکہ اعتکاف کا خاص تعلق ہے اس لیے یہاں اعتاف کے احکام کی طرف اشارہ فرمادیا۔ یہی وجہ ہے کہ فقہا محدثین کتاب الصیام کے بعد کتاب ال اعتکاف کا عنوان قائم کرتے ہیں معتکف کے لیے بیوی سے مقاربت یعنی جماع اور جماع کے داعی (بوس وکنار) سے مجتنب رہنا ضروری ہے۔ ہاں خانگی ضروریات کے سلسلہ میں عورت اپنے خاوند سے ملا قات کرسکتی ہے جیسا کہ بعض ازواج مطہرات نے مسجد میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ملاقات کی اور بیوی خدمت بھی کرسکتے ہے۔ (ابن کثیر۔ فتح القدیر) اگر معتکف نے اپنی بیوی سے جماع کرلیا تو اس کا اعتکاف ختم ہوگیا اسے نئے سرے سے اعتکاف کرنا چاہیے۔ فتح البیان) ف 2 یعنی یہ احکام اروبعہ (مباشرت کی اباحت، صبح تک کھانے پینے کی اجازت، طلوع فجر سے غروب آفتاب تک روزہ پورا کرنا، اعتکاف کی حالت میں عورت سے مقاربت کی ممانعت) حدود الہی ہیں۔ ان کی سختی سے پابندی کرو۔ (ابن کثیر) مسئلہ : احادیث میں سحر کے وقت کھاناکا کر روزہ رکھنے کی ترغیب دی گئی ہے فرمایا : تسحرووفان فی السحروبرکتہ کہ سحری کھاؤ سحری کے کھانے میں برکت ہے۔ ایک حدیث میں ہے ہمارے اور اہل کتاب کے روزے میں فرق صرف یہ ہے کہ ہم سحری کھاتے ہیں۔ لہذا سحرہ کے وقت کچھ کھائے بغیر روزہ نہیں رکھنا چاہیے۔ (ابن کثیر ) البقرة
188 ف 3 جو مال بھی جائز طریقے سے حاصل کیا جائے خواہ مالک کی راضامندی بھی شامل ہو تو وہ باطل (ناحق) طرق سے کھانا ہے۔ مثلا زنا کی اجرت نجومی کی فیس۔ شراب کی فروخت۔ لاٹری یا جوئے کے ذریعہ کمائی یا گانے بجانے اجرت۔ العرض تمام ناجائزومسائل اکل بالبابل کے تحت آجاتے ہیں۔ اسی طرح رشوت دیکر یا حکام کے سامنے جھوٹی گواہیاں پیش کر کے کسی کے مال پر قانونی تصرف حاصل کرلینا بھی حرام ہے محض حاکم کے فیصلہ سے کوئی حرام مال حلال نہیں ہوجاتا۔ حضرت ام سلمہ (رض) سے ررایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اگر کسی فریق کے دلائل سن میں اس کے حق میں فیصلہ کردوں تو میرے فیصلہ سے ایک کے لیے دوسرے کا مال حلال نہیں ہوجائے گا۔ اسے یہ سمجھنا چاہیے کہ اس نے آگ کا ایک ٹکڑا حاصل کیا ہے۔ بخاری ومسلم) اس حدیث سے معلم ہوا کہ ظاہری بیانات کی بنا پر ناحق فیصلہ سے حرام چیز حلال نہیں ہوجاتی۔ صحابہ، تابعین اور ائمہ کرام یہی مذہب ہے۔ امام ابو حنیفہ سے ایک قول اس کے خلاف بیان کیا جاتا ہے۔ _(قرطبی) البقرة
189 ف 4 اھلتہ یہ جمع ہلال کی ہے اور چاند کے پورا ہونے سے پہلے اسے ہلال کہا جاتا ہے۔ لوگوں نے اس کی کمی بیشی کا سبب دریافت کیا اللہ تعالیٰ نے مواقیت للناس فرما حکیمانہ انداز میں اس کے فوائد کی طرف اشارہ فرمادیا ہے چاند کے بڑھنے گھٹنے کے فائدے یہ ہیں کہ عبادات اور معاملات جیسے طلاق کی عدت حج، عید الفطر وغیرہ اس کے ساتھ معلق ہیں ان کی معرفت حاصل ہوجاتی ہے۔ (شوکانی) ف 5 اس کا تعلق بھی چونکہ حج سے ہے اس لیے یہاں بیان فرمادیا جاہلیت میں توہم پرستی کا غلبہ تھا ان کے ہاں یہ رسم تھی کہ وہ حج کے لیے احرام باندھ لیتے اور پھر گھر میں آنے کی ضرورت پڑتی تو دروازے کی بجائے پیچھے سے چھت پر چڑھ کر آتے۔ کیونکہ ان کا عقیدہ تھا کہ احرام باندھ لینے والے کے لیے جائز نہیں ہے کہ اس کے اور آسمان کے درمیان کوئی چیز حائل ہو۔ اس آیت میں ان کی غلط رسم کی تردید فرمائی ہے۔ (شوکانی ) البقرة
190 ف 6 اوپر کی آیت میں دو حکم مذ کور ہیں۔ (شو کانی) معرفت الہی میں استقامت جس کا تعلق علم سے ہے اور طاعت میں تقوی کے راہ اختیار کرنا جو عمل کے متعقل ہے۔ اس آیت میں جہاد کا حکم ہے جو عملا تقوی کی مشکل تریں صورت ہے۔ (کبیر) جملہ اہل علم اس امر پر متفق ہیں کہ ہجرت سے قبل قتال ممنوع تھا۔ مدینہ میں ہجرت کے بعد یہ پہلا حکم ہے جو قتال کی اجازت میں نازل ہوا۔ اس آیت کے تحت جب تک کہ عام اجازت نازل نہیں ہوئی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انہیے لڑتے جو پہل کرتے اس کے بعد عام اجازت ہوگئی۔ اس آیت میں اعتدا۔ یعنی ہر قسم کے ظلم وزیادتی سے منع فرمادیا ہے۔ چنانچہ حضرت بریدہ سے روایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (جب کوئی لشکر روانہ فرماتے تو) تو حکمدیتے جاؤ اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے لڑو جو اللہ تعالیٰ کے منکر ہیں لڑو مگر خیانت بدعہدی اور مثلہ نہ کرو۔۔ بچوں، عورتوں اور دوریشوں (راہبوں) کو قتل نہ کرو۔ (صحیح مسلم) معلوم ہوا کہ یہ جملہ امور اعتدا میں داخل ہیں جس سے منع فرمایا ہے۔، (ابن کثیر، کبیر) بعض نے اس آیت کو بلا وجہ منسوخ قراردیدیا ہے۔ (کبیر) البقرة
191 ف 7 چنانچہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب مکہ فتح کیا تو اس آیت آیت کے تحت حرم سے ہر شخص کا نکال دیا جو اسلام نہ لایا تھا اور پھر حرم مدینہ سے بھی یہود کو جلا وطن کردیا اور فرمایا : ییتقع دینان فی جز یرہ العرب۔ کہ اب عرب میں دودین اکٹھے نہیں ہو سکتے۔ (شوکانی۔ کبیر) ف 8 یعنی مکہ کے حرم یا ماہ حرام میں مقابلہ بے شک جرم ہے مگر الفتنہ یعنی شرک اور دین سے بر گشتہ کرنے کے لیے مسلمانوں کو ظلم وستم کا نشانہ بنانا اس مقابلہ سے بھی جرم ہے لہذا کسی اند یشہ کے بغیر مشرکین کو قتل کرو گو یا اس آیت میں بھی حرم مکہ یا شہر حرم میں مقاتلہ کی مشروط اجازت دی ہے۔ کبیر۔ فتح القدیر) ف 1 یعنی سرزمین مکہ نے شک حرم یعنی جائے امن ہے اس میں قتل وقتال ممنوع ہے مگر جب ظلم وتشدد کی ابتدا ان (کفار) کی طرف سے ہوئی ہے تو اب لڑائی جائز ہے۔ پھر بھی فتح مکہ کے موقع پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا کہ اسی کو قتل کرو جو ہتھیار اٹھائے اور باقی سب کے لیے امن عام کا اعلان فرمادیا۔ ابن کثیر۔ بخاری وغیرہ ) البقرة
192 البقرة
193 ف 2 یعنی ان سے اس وقت تک بر سر پیکار ہو جب تک کہ فتنہ شرک اور ظلم وستم) کا ہر طرح سے قلع قمع ہوجاتا اور اللہ تعالیٰ کا دین ہر طرح سے غالب نہیں آجاتا۔ ایک حدیث میں ہے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، مجھے اس وقت تک لڑنے کا حکم ملا ہے جب تک وہ الا لہ الا اللہ کے قائل نہیں ہوجاتے جب وہ اس کے قائل ہوجا "ئیں گے تو ان کے جان ومال محفوظ ہیں۔ الایہ کہ ان پر اسلام کی روسے کوئی حق عائد ہو تو اسے پورا کیا جائے گا۔ (ابن کثیر، بحوالہ صحیحین) ف 3 یعنی اگر یہ شرک اور مسلمانوں کے ساتھ مقاتلہ سے باز جائیں تو اس کے بعد جو شخص ان سے جنگ کرے گا وہ ظالم ہے اور اسے اس زیادتی کی سزا ملے گی یہاں عدوان کا لفظ ایسی ہی سزا کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ ابن کثیر ) البقرة
194 ف 4 آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ذع القعدہ 2 ھ میں جب عمرہ کے لیے تشریف لے گئے تو کفار نے مزاحمت کی اور عمرہ سے روک دیا مگر آخر کار صلح ہوگئی اور قرار پایا کہ مسلمان آئندہ سال عمرہ کریں یہ معاہدہ صلح حدیبیہ کے نام سے مشہور ہے۔ پھر جب دو سرے سال 7 ھ میں مسلمان عمرہ کے لیے روانہ ہوئے ان کو اندیشہ ہوا کہ ماہ حرام اور حرم مکہ میں لڑائی ممنوع ہے لیکن اگر کفار نے بد عہدی کی اور ہمیں عمرہ نہ کرنے دیا تو ہم کیا کریں گے اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (ابن کثیر کبیر) یعنی اگر کفار حرام مہینوں کا لحاظ نہ کریں تو تم بھی نہ کرو اور اگر وہ بد عہدی کریں تو تم بھی حرم مکہ کا لحاظ مت کرو۔ (قرطبی۔ ابن کثیر) فائدہ واضح رہے کہ اشہر حرم (حرام مہینے) چار ہیں۔۔ ذوالقعدہ، 2۔ ذولعقدہ، 3۔ محرم، 4۔ رجب ف یعنی اللہ کی راہ میں جہاد اور مال خرچ کرنے سے دریغ کرنا گویا اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈلنا ہے۔ حضرت ابو ایوب انصاری (رض) سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا یہ آیت ہمارے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ جب اسلام پھیل گیا اور اسے قوت حاصل ہوگئی تو انصار جمع ہوئے اور نہوں نے آپس میں مشہو رہ کیا کہ اب لڑائی بند ہوچکی ہے لہذا اگر ہم اہل وعیال میں رہ کر کچھ گھر کا دھندہ کرلیں تو اچھا ہے اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ ابن کثیر) مگر آیت اپنے مفہوم کے اعتبار سے عام ہے اور سب نیک کاموں میں مال خرچ کرنے کا حکم ہے اور دینی اور دینوی خطروں سے دور رہنے کا حکم ہے۔ (شوکانی ) البقرة
195 البقرة
196 ف 6 یعنی ان کے ارکان پوری طرح ادا کرو حج تو بلا اتفاق فرض ہے اور ارکان اسلام میں سے ہے مگر عمرہ کے وجوب میں اختلاف ہے بعض کے نزدیک وجب ہے جیسا کہ اس آیت سے معلوم ہوتاے اور بعض سینیت کے قائل ہیں احادیث میں دونوں طرح کا ثبوت ملتا ہے مگر احرام باندھ لینے کے بعد اس کا اتمام سب کے نزدیک واجب ہے۔ (شوکانی) ف 7 روکے جاؤ یعنی خانہ کعبہ تک نہ پہنچ سکو توایک ہدی ( اونٹ۔ گائے۔ یا بکری) حسب ماتیسر جہاں روکے جاؤ ذبح کر کے احرام کھولاؤ اور آئندہ سال حج یا عمرہ کرلو۔ ف 8 اس کا عطف اتموالحج پر ہے اور یہ حکم حالت امن کے ساتھ مخصوص ہے یعنی حالت امن میں اس وقت تک سزا سر نہ منڈو تو (احرام۔ نہ کھو لو جب تک کہ حج وعمرہ کے اعمال پو ری طرح ادا کر کے فارغ نہ ہوجاؤ۔ ف 9 یعنی احرام باندھنے کے بعد تمہیں بیماری یا کسی عذر کی بنا پر سر منڈوانے کی ضرورت پیش آجائے تو سرمنڈوا کر تین چیزوں میں سے کسی ایک چیز کو بطور فدیہ انجام دو۔ (1) تین دن کے روزے (2) یاچھ مسکینوں کا کھانا کھلا نا (3) یا ایک جانور کی قربانی جیسا کہ کعب بن عجرہ کی حدیث میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی تصریح فرمائی ہے۔ ( ابن کثیر) ف 9 حج کی تین قسمیں ہیں۔ 1۔ حج افراد۔ یعنی میقات (مقرہ جگہ) سے صرف حج کی نیت سے احرام باندھے۔2۔ حج اور عمرہ دونوں کی ایک ساتھ نیت کر کے احرام باندھے حج کی ان دونوں صوروتوں میں یوم الفحر ( 10 ذی الحجہ) سے پہلے احرام کھو لنا جائز نہیں ہے 3۔ حج تمتع یعنی میقات سے صرف عمرے کا احرام باندھے اور مکہ پہنچ کر عمرہ کر کے احرام کھول دے۔ پھر آٹھویں ذی الحجہ (یوم الترویہ) کو مکہ ہی سے حج کا احرام باندھ کر حج ادا کرے اور فارغ ہونے کے بعد یوم النحر یعنی دسویں تاریخ کو احرام کھلا جائے۔ آیت میں اس تیسری قسم (حج) کے احکام کا ذکر ہے۔ یعنی ایسی صورت میں حسب تو فیق دم تمتع (قربانی) ضرور جو کم از کم ایک بکری ہے سب ائمہ اس پر متفق ہیں۔ شوکانی۔ ابن کثیر ) ف 1 حج کے دنوں سے مراد ہے یوم عرفہ یعنی نویں ذی الحجہ سے پہلے کے آٹھ دن یعنی تین روزے تو ان دو نوں میں رکھے اور سات روزے وطن پہنچ کر۔ (ابن کثیر) ف 2 یہاں عشرہ کے بعد کا ملتہ کا لفظ بطور تاکید لا یا گیا ہے اور نے لکھا ہے کہ کاملتہ کے لفظ سے اس معنی کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ ان روزوں سے ہدی یعنی قربانی کاپورا ثواب مل جائے گا۔ (قرطبی) ف 3 یعنی حج تمتع کی اجا زت صرف ان لوگوں کے لیے ہے جو اہل حرم نہ ہوں اور اہل حرم سے مراد یا تو وہ لوگ ہیں جو مکہ کے اندر رہتے ہوں اور یا باہر رہتے ہوں مگر ان کی مسافت قصر صلوہ کی مسافت سے کی ہو۔ (ابن کثیر 9) اور بعض نے لکھا ہے کہ حدود میقات کے اندر رہنے والوں کو ‏من لم کین الھلہ حاضری المسجدالحرام (جس کے گھر والے مسجد حرام کے پاس نہ رہتے ہوں) کہ جائے گا۔ (ابن کثیر، ابن جیریر ) البقرة
197 ف 4 اشھر معلومات کی یہی تشریح حضرت عبداللہ بن عمر (رض) اور دیگر صحابہ وتابعین سے مروی ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حج کا احرام بھی غرہ شوال سے پہلے نہ باندھا جائے جیسا کہ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں من السنتہ ان لا یحرم باالحج الا فی اشھر الحج۔ کہ سنت یہ ہے کہ حج کا احرام حج کے مہینوں کے سوا دوسرے مہینوں میں نہ باندھا جائے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ کا یہ قول مرفوع حدیث کے حکم میں جسکی تائید حضرت جابر (رض) کی روایت سے بھی ہوتی ہے جو مرفوع اور موقوف دونوں طرح سے مروی ہے اور یہی مسلک صحیح اور راحج ہے۔ (شوکانی، ابن کثیر) مسئلہ۔ عمرہ تو سارے سال میں جب چاہے کرسکتا ہے مگر حج کے لیے یہ مہینے مقرر ہیں اور عشرہ ذی الحجہ میں اس کے مناسک اتمام پاتے ہیں اور یوم النحر کی رات گزرجانے کے بعد حج ختم ہوجاتا ہے۔ (ابن کثیر) مسئلہ حج کا احرام تو مکہ کے اندر سے ہی باندھا جاسکتا ہے مگر عمرے کے احرام کے لیے باہر حل میں جانا ضروری ہے اور اس میں آفاقی اور مکی دونوں برابر ہیں ( متوطا) ف 5 حج کو اپنے اوپر لازم کر نایہ ہے کہ حج کی نیت کے ساتھ احرام باندھ لے اور زبان سے البیک کیے۔ ( اب کثیر) ف 6 یعنی حج میں یہ سب باتیں حرام ہیں۔ فث (شہوت کی باتوں) سے جماع اور تمام وہ چیزیں مراد ہیں جو جماع کی طرف مائل کرنے والی ہوں اور فسوق کا لفظ ہر قسم کے گناہ کو شامل ہے کہ جس نے حج کیا اور اس میں رفث وفسق نہیں کیا تو وہ گنا ہوں سے اس طرح پاک ہوگیا جیسے ماں کے پیٹ سے پید ہونے کے وقت تھا۔ (ابن کثیر) ف 3 یہ معنی "التقوی کے لغوی معنی کی بنا پر ہیں۔ (روح المعانی) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ اہل یمن حج کو نکلتے تو کوئی زاد راہ ساتھ نہ لیتے اور اپنے آپ کو متوکل کہتے اس پر یہ آیت نازل ہوئی یعنی زاد راہ ساتھ نہ لینا اور اپنے آپ کو تکالیف میں ڈالنا کوئی نیکی نہیں ہے بلکہ بہترین زلو تقوی یعنی منھیات سے بچنا ہے۔ ابن جریر۔ ابن کثیر ) البقرة
198 ف 8 ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ لوگ ایام حج کو ذکر الہی کے ایام سمجھتے۔ اس لیے ان میں کسب معاش کو گناہ خیال کرتے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی حج کے دوران خرید وفروخت ممنوع نہیں ہے بلکہ یہ مال ودولت بھی اللہ تعالیٰ فضل وکرم ہے اس لیے روزی کمانا منع نہیں ہے۔ (ابن کثیر۔ شوکانی) ف 9 نوذالحجہ کو عرفات میں وقوف کرنا (ازوال آفتاب تاغروب شمس) حج کاسب سے بڑارکن ہے ایک طویل حدیث کے ضمن میں ہے الحج عرفتہ کہ عرفات میں وقوف ہی حج ہے۔ یوم النحر کی صبح سے پہلے سے پہلے جس نے وقوف کرلیا اس کا حج ہوگیا۔ مشعر حرام سے مراد مزدلفہ اور حرم کے اندر ہونے کی وجہ سے اسے "الحرام " کہد دیا گیا ہے عرفات سے پلٹ کر حجاج رات یہاں بسر کرتے صبح کی نما غلس میں پڑھ کر قرب اطلوع آفتاب تک ذکر الہی میں مشغول رہتے۔ آیت میں اسی کا حکم ہے۔ (ابن کثیر، شوکانی ) البقرة
199 ف 10 عرفات کامیدان حرم کی حدود سے باہر اس لے قریش مزدلفہ سے آگے نہ جاتے۔ ان کو حکم دیا کہ سب لوگوں کے ساتھ عرفات پہنچ کر لوٹنا ضروری ہے۔ (ابن کثیر ) البقرة
200 ف 11 اسلام سے پہلے اہل عرب لوگ حج سے فارغ ہوتے تو منی میں میلہ لگاتے اور اپنے آباؤ اجداد کا خوب تذکرہ کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ اس طرح ذکر الہی کیا کرو۔ (شوکانی) البقرة
201 البقرة
202 ف 1 (یعنی بہت جلد اور لامحاسبہ ہونے ولا ہے) ذکر الی کا حکم دینے کے بعد دعا کی کیفیت بیان فرمائی اور بتایا کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرنے والے دو طرح کے لوگ ہوتے ایک وہ صرف دنیا کے طالب ہوتے ہیں ایسے لوگ آخروی نعمتوں سے یکسر محروم رہیں گے۔ (دیکھئے الشوری آیت 20) اور دوسرے وہ جو دنیا وآخرت دونوں کی بھلائی طلب کرتے ہیں۔ اصل کامیابی انہی لوگوں کی ہے۔ (رازی۔ شوکانی) دنیا کی بھلائی (حسنہ) میں صحت، دسعت رزق، علم دین اور عبادت الہی کی توفیق۔ الغرض سب نیک اعمال شام ہیں اور آخرت کی بھلائی میں دوزخ سے نجات جنت اور رضا الہی کا حصول حساب میں آسانی وغیرہ داخل ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز اور عام اوقات میں بھی یہ دعا بکثرت فرمایا کرتے تھے۔ فر الجملہ یہ ایک نہایت جامع دعا ہے متعدد احادیث میں اس کی ترغیب آئی ہے۔ طواف کے وقت رکن یمانی اور حجر اسود کے مابین یہ دعا مسنون ہے (ابن کثیر۔ روح المعانی) البقرة
203 ان ایام سے ایام تشریق یعنی 11۔12۔13، ذی الحجہ کے دن مراد ہیں ان ایام میں ذکر الہی یہ ہے کہ رمی کے وقت ہر کنکر کے ساتھ بآواز بلند تکبیر کہی جائے۔ نیر عام اوقات خصو صافرض نماوں کے بعد تکبیرات اور ذکر الہی میں مشغول رہا جائے۔ صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) اپنے خیمہ میں اور چلتے پھر تے اور نما زوں کے بعد بلند آواز سے تکبیرات پڑھتے۔، حدیث میں ہے۔ ایاما التشریق ایام اکل وشرب وذکر اللہ۔ کہ تشریق کے دن کھا نے پینے اور ذکر الہی کے دن میں تکبیر ات کی ابتدا اور انتہا میں گو اختلاف ہے مگر صحیح یہ ہے کہ عرفہ کے دن صبح کی نماز سے شروع کی جائیں اور تشریق کے آخری دن یعنی 13 تاریخ کا نماز عصرتک تیئس نمازوں کے بعد کہی جاتیں۔ یہی مسلک اکا بر صحابہ کا ہے اور حدیث سے بھی مرفوعا ثابت ہے ارتکبیر کے الفاظ یہ ہیں اللہ اکبر (تین مرتبہ) کہ کر پھر کہے الا لہ اللہ الا للہ واللہ اکبر اللہ اکبر و اللہ الحمد (اللہ تعالیٰ ہی بڑا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور اس کے کے لیے تعریف ہے۔ (فتح البیان، رازی) نیز دیکھئے سورت الحج آیت 28) ف 3 یعنی گیا رہ اور بارہ کو دو دن میں رمی حجار بھی جائز ہے اور اگر تا خیر کرے یعنی پورے تین دن منی میں ٹھہر ارہے تو بھی جائز ہے بشرطیکہ انسان کے دل میں تقوی ہو اور جملہ مناسک حج خلوص سے ادا کرے۔ (ابن کثیر ) البقرة
204 البقرة
205 البقرة
206 ف 4 اوپر کی آیتوں میں جمن الناس سے لے کر دو قسم کے لوگ ذکر کیے یعنی طالب دنیا اور طالب آخرت۔ اب یہاں سے منافقین کے اوصاف کا بیان ہے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد مبارک میں چند ایسے چالباز لوگ تھے ان آیات میں ان کی صفات بیان فرماک ان سے چوکس رہنے کی ہدایت فرمائی ہے۔ (اقرطبی۔ فتح اقدیر) علماء تفیسر کے بیان کے مطابق یہ آیت گو اخنس بن شریق ثقفی کے بارے میں نازل ہوئی ہے مگر اپنے معنی کے اعتبار سے ہر اس شخص کو شامل ہے جو ان صفات خمسہ کے ساتھ متصف ہو۔ (رازی) الدالخصام (سخت جھگڑالو) ایک حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے برا وہ شخص ہے جو بخٹ جھگڑالو ہو۔ ( فتح البیان بحوالہ صحیح بخاری) اور حدیث میں ہے کہ منافق آدمی جب جھگڑا تا ہے تو بد کلامی پر اترآتا ہے۔ اخذتہ العذہ بلا ثم۔ ( تو غرور اس کو گناہ میں پھنسا دیتا ہے) حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں یہ بات اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے بڑے گناہوں میں داخل ہے کہ جب اس کہا جائے اللہ تعا سے ڈرر تو الٹا نصیحت کر والے کو ڈانٹ دے اور کہے تم ہوتے کون ہو نصحیت کرنے والے تم اپنی نبیڑو۔ ( فتح القدیر) یعجبک قو لہ فی الحیوہ الد نیاء یعنی دنیاوی زندگی اور اسباب معاش کے بارے میں حیرت انگیز معلومات رکھنے ولا۔ اللہ تعالیٰ کی قسمیں کھا کھا کر اپنے ایمان واخلاص کا یقین دلانے والے۔ مگر عملا تخریبی کاروائیوں میں مشغول رہ کر لوگوں کے جان و مال کو تباہ کرنے والا فھدہ خستہ خصال۔ (المنا ر) البقرة
207 ف 5 اوپر کی آیات میں اس شخص کا بیان ہوا ہے جو طلب دنیا کی خاطر دین و ایمان کو بیچ ڈالتا ہے۔ اب اس آتی میں اس شخص کا بیان ہے جو طلب دین کے لیے دنیا کو قربان کردیتا ہے۔ ( رازی) یہ آیت صہبیب عمار بلال اور دیگر صحابہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے جن کو کفار نے سخت سزائیں دیں مگر وہ اسلام و ایمان پر ثابت قدم رہے، حضرت صہیب (رض) کے متعلق مروی ہے کہ جب وہ ہجرت کرنے لگے تو مشرکین نے کہا کہ تم اپنا مال لے کر نہیں جاسکتے چنانچہ وہ سارا مال ومتاع چھوڑ کر مدینہ چلے آئے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا صہیب (رض) کو سودے میں نفع ہو اہے۔ (ابن کثیر۔ رازی ) البقرة
208 ف 6 مومن مخلص کی مدح وستائش کے بعد تمام مومنوں کو حکم ہوتا ہے کہ تم بھی پورے اسلام اور ساری شریعت پر چلو۔ اس آتی کا نزر ان اہل کتاب کے بارے میں ہوا ہے جو مسلمان ہونے کے بعد بھی خود ساختہ بد عات اومحد ثات پر عمل پیرا رہنا چاہتے تھے۔ (شوکانی۔ ترجمان) ان کو متنبہ کیا کہ اسلام قبول کرلینے کے بع اب زندگی کے دوسرے فلسفوں کو چھوڑ کر عقائد واعمال اور اخلاق و معاشرت کے باب میں السلم یعنی اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہونا پڑے گا اور اس سے کسی طور انحراف بھی شیطان کے نقش قدم پر چلنا ہے۔ گمراہی کا سر چشمہ یا تو روشن خیالی اور جدت پسندی ہے اور یا پھر توہم پرستی اور اہل تصوف کی بد عات ہیں۔ البقرة
209 البقرة
210 ف 1 رجز وتہدید ہے یعنی یہ لوگ کیا چاہتے ہیں ؟ یہی تاکہ جو کچھ قیامت میں ہونے والا ہے وہ آج ہی ہوجائے۔ (قرطبی) قیامت کے دن مذکورہ صورت میں اللہ تعالیٰ کا نزول احادیث سے ثابت ہوتا ہے لہذا اللہ تعالیٰ کے دوسرے صفات و افعال اور شوؤن کی طرح اس پر بھی بلا کیف اور بغیر تاویل کے ایمان لانا ضروری ہے۔ سلف صالح کا یہی مسلک ہے متکلمین اور عقل پر ستوں کی تاویلات مذہب اہل حدیث اور سلف امت کے خلاف میں۔ (روح۔ ترجما ن) اور بقول اما رازی اگر یہ کہہ دیا جائے کہ اس آیت میں یہود کے عقیدہ کی حکایت اور ان کے خیال کی ترجمانی ہے قطع نظر اس سے کہ ان کا یہ خیال غلط ہے یا صحیح اور یہود چونکہ تشبیہ کے قائل تھے لہذا آیت سے اپنے ظاہر معنی پر محمول ہے اور تاویل کی ضرورت نہیں تو بالکل بجا ہے۔ (کبیر) البقرة
211 ف 2 یہ سوال بطور زجر توبخ ہے اور توجہ دلائی ہے کہ مسلمانوں کا چاہیے کہ بنی اسرائیل کی تاریخ سے عبرت حاصل کریں کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اودوسرے انبیاء کے ذریعہ ان کے پاس کس قدر دلائل بھیجے گئے لیکن وہ ان دلائل وآیات سے ہدایت اور راہ نجات حاصل کرنے کی بجائے ان میں تحریف وتاویل کر کے ضلالت وہلاکت میں پڑگئے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انہیں دنیا میں بھی سزا ملی اور آخرت میں بھی اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نہ بچ سکے گے۔ (رازی۔ ابن کثیر) البقرة
212 ف 3 یعنی ان کے اعراض اوکفر کا سبب یہ ہے کہ دنیا کے چند روز عیش وعشرت اور رنگ رلیوں میں بد مست ہو کر رہ گئے ہیں اور اہل حق کی تذلیل اور ان کی سادہ زندگی مذاق اڑانے کو انہوں ن مشغلہ بنا رکھا ہے مگر قیامت کے دن اہل تقوی ہر اعتبار سے ان پر فائق ہوں گے کیونکہ مومن علی علیین میں ہوں گے اور کفار اسفل السافلین میں۔ بیضاوی) جنت میں رزق کا بغیر حساب ہونا یا تو دائمی اور غیر فانی ہونے کے اعتبار سے ہے۔ (دیکھئے ہود آیت 108) یا اس اعتبار سے کہ انہیں مزید اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے نوازا جائے گا۔ (دیکھئے غافر آیت :40) لہذا یہ عطاء حسابا ( النساء 36) کے منافی نہیں ہے۔ رازی) البقرة
213 ف 4 اس آیت میں اس تاریخی حقیقت کا انکشاف فرمایا ہے کہ انسان یت کی ابتدا کفرو شرک اور بظاہر پرستی سے نہیں بلکہ خالص دین توحید سے ہوتی ہے ابتدا میں تمام انسان ایک ہی دین توحید رکھتے تھے اور ایک ہی ان کی ملت تھی، حضرت آدم (علیہ السلام) کے بعد حسب تصریح ابن عباس دس قرنوں (ایک ہزار سال) تک تمام لوگ موجود تھے اس کے بعد شیطان کے بیکانے ان میں شرک آیا اور اختلاف پیدا ہوئے۔ تب اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) کو بھیجا اور پھر مسلسل انبیاء آتے رہے اور ان پرکتابیں نازل ہوتی رہیں تاکہ ان کو اختلافات سے نکال کر ہدایت الہی کی طرف لایا جائے پس آیت میں فبعث اللہ الخ۔ ا کا عطف مخذف پر ہے یعنی فاختلفو افبعث اللہ۔ (کبی ابن جریر دیکھئے سورت یو نس آیت 19۔) ف 1 یعنی پہلی امتوں میں ضد اور سرکشی کی وجہ سے اختلافات پیدا ہوئے اور اس کی بدولت وہ گمراہو گئیں اب اللہ تعالیٰ نے اپنا آخری نبی بھیج کر اور ان پر اپنی آخری کتاب نازل فرماکر تما اختلاف کا فیصلہ کردیا اور اپنی توفیق خاص (باذنہ) سے مومنوں کو صراط مستقیم کی طرف ہدایت کردی ہے ( بیضاوی۔ فتح البیان) واضح رہے کہ امت محمد یہ میں بھی تمام کے تمام قرآن و حدیث کی بلا واسطہ اتباع کرتے رہے پھر جب دین میں غلط رائے کے خام اجتہاد اور تقلید پر جمود پیداہو گیا لوگ آراء اور اہوا پرستی کو دین سمجھنے لگ گئے تو امتفرقوں میں بٹ کر تباہ ہوگئی۔ اس سے صرف متبع سلف (اہل حدیث) ہی محفوظ رہے۔ (للہ الحمد)، ( تبصرہ) صحیحین میں برایت حضرت عائشہ (رض) مذکور ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تہجد میں دعا استفتاح میں یہ پڑھا کرتے۔ اھدنی لما اختلف فیہ من الحق باذنک تھدی من تشآء الی صراط مستقیم ( ابن کثیر) البقرة
214 ف 2 حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ مدینہ میں ہجرت کے بعد جب مسلمانوں کو (مشرکین منافقین اور یہود سے سخت تکالیف پہنچیں تو یہ آیت نازل ہوئی۔ (رازی) اور مسلمانوں کو تسلی دی گئی کہ دین کی راہ میں یہ مصائب وشدائد کچھ تم پر ہی نہیں آرہے ہیں بلکہ تم سے پہلے لوگ تو فقرفاقہ۔ جانی ومالی نقصان اور سخت قسم کے خوف وہراس میں مبتا کردیے گئے تھے حتی کہ الرسول یعنی اس زمانے کا پیغمبر) اور اس کے متبعین متی نصر اللہ) پکار اٹھے تھے پھر جیسے ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد نازل ہوئی تمہاری بھی مدد کی جائے گی۔ چنانچہ غزؤہ احراب میں جب یہ مرحلہ آیا تو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی مدد فرمائی۔ (دیکھئے سورت احرزاب آیت 10 تا 20) ان کا متی نصر اللہ " کہنا اعتراض وشکوہ کے طور پر نہ تھا بلکہ عالم اضطرار میں الحاح وزاری کی ایک کیفیت کا اظہار تھا اور نصر اللہ قریب فرماکر مومنوں کو بشارت دی ہے، (رازی، ابن کثیر) حضرت خباب بن ارت سے روایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : پہلے لوگوں کے سروں پر آرہ چلا کر ان کو چیر دیا گیا اور لوہے کی کنگھی سے ان کے گوشت اور پوست کر نوچا گیا مگر یہ چیز ان کو دین سے نہ پھیر سکی۔ (بخاری ) البقرة
215 ف 3 ایک شخص عمر و بن جمبوح بہت مالدار تھا اس نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا کہ ہم کیا خرچ کریں اور کن لوگوں پر خرز کریں اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور بتایا کہ خرچ تو ہر آدمی اپنی طاقت کے مطابق کرے مگر ترتیب کے ساتھ خرچ کے مصارف بتا دیئے۔ میمون مہران اس آیت کو پڑھ کر کہنے لگے یہ ہیں مسلمان کے خرچ کرنے کی جگہیں۔ ان میں طلبہ۔ سارنگی۔، چوبی تصویروں اور گھر کی آرائش کا ذکر نہیں ہے ،(ابن کثیر، رازی) معلوم ہوا کہ اس قسم کے تمام فضول مصارف باطل اور اسراف میں داخل ہیں۔ آخر میں بتایا کہ جو خرچ نیک راہ میں ہوگا اللہ تعالیٰ اس کی قدر دانی ضرور فرمائے گا اور اس کا پورا بدلہ دے گا۔ مسئلہ آیت میں صدقہ تطوع کا بیان ہے ورنہ ماں باپ کو زکوہ دینا جائز نہیں ہے۔ دیکھئے سورت توبہ آیت 60) البقرة
216 ف 4 آیت میں اتصتال سے مراد قتل نوع انسانی نہیں بلکہ جہاد ہے اور اسلام میں جہاد سے مقصود اللہ تعالیٰ کے دین کو سربلندی کرنا کفر وشرک کی بیخ کنی کرنا اور مسلمانوں کی کفار کے شر سے بجانا ہے اور امت مسلمہ پر یہ فریضہ قیامت تک عائد رہے گا، حدیث میں ہے کہ میری امت قیامت تک جہاد کرتی رہے گی یہاں تک کہ خیر امت دجال سے جنگ کردے گی اور فتح کے روز آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اب فتح مکہ کے بعد مدینہ ہجرت کی ضرورت نہیں لیکن جہاد اور نیت باقی ہے۔ (ابن کثیر، وحیدی) البقرة
217 ف 1 ذوالقعدہ، ذولحجہ، محرم اور رجب، یہ چارمہینے حرمت والے ہیں۔ عہد جاہلیت سے ہی ان میں لوٹ مار اور خون ریزی حرام سمجھی جاتی تھی۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ 2 ھ میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عبداللہ بن جحش کی سر کردی میں ایک دستہ فوج جہاد پر روانہ کیا۔ انہوں نے کافروں کے ایک قافلہ پر حملہ کیا جس سے ایک آدمی مارا گیا اور بعض کو ان کے مال سمیت گرفتار کر کے مدنیہ میں لے آئے۔ یہ واقعہ ماہ رجب میں پیش آیا کفار نے مسلمانوں کو طعنہ دیا کہ تم نے رجب میں جنگ کر کے اس کی حرمت کو توڑا ہے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ مارہ رجب میں جنگ کرنا اگرچہ واقعی گناہ ہے مگر تم اس سے بھی برے گناہوں کا ارتکاب کر رہے ہو ( جو آیت میں مذکور ہیں) لہذا اگر مسلمانوں نے تلوار اٹھالی ہے تو قابل مواخزہ نہیں۔، (ابن کثیر، شوکانی) شہر حرام میں لڑائی کی حرمت سورت برات کی آیت : فاقتلوا المشرکین الخ سے منسوخ ہوچکی ہے جمہو فقہا کا یہی مسلک ہے۔ (ابن العربی۔ الجصاص) قتال فیہ بدل اشتمال من الشھر الحرام وصد عطف علی کبیر والمسجد الحرام عطف علی سبیل اللہ واخرج اھلہ عطف علی صد واکبر عنداللہ خیر صدوماعبف علیلہ۔ ( شوکانی) یہاں الفتنہ سے مراد ہے مسلمانوں کو دین اسلام سے برگشتہ کرنے کے لیے ظلم وستم کا نشانہ بنانا۔ ف 2 اس آیت سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص نعوذباللہ) مرتد ہوجائے تو اس کے تمام عمل ضائع ہوجاتے ہیں لیکن اگر پھر سچے دل سے تائب ہو کر اسلام قبول کرلے تو ارتداد سے قبل کے اعمال ضائع نہیں جاتے بلکہ ان کا ثواب کا مل جاتا ہے۔ (فتح البیان ) البقرة
218 ف 3 ہجرت کے معنی ہیں ایک جگہ چھوڑ کر دوسری جگہ سکونت پذیر ہونا مگر اس ہجرت سے مراد ہے دارالکفر کو چھوڑ کر دارالاسلام میں چلے جانا۔ مفردات راغب) عبد اللہ بن جحش (رض) اور انکے ساتھیوں کے بارے میں جب گزشتہ آیت اتری اور وہ لوگ ڈرنے لگے کہ شاید ہمیں کوئی ثواب بھی نہ ملے اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ فتح البیان۔ ابن کثیر ) البقرة
219 ف 4 اس آیت میں گو شراب اور جوئے کی حرمت کی تصریح نہیں ہے مگر قطعی طور پر ان کی تحریم کے لیے تمہیدہ ضرور ہے۔ آخر کار سورت مائدہ آیت 9۔19) میں ان کو قطعی اور صاف طور پر "حرام کردیا گیا۔ (ابن کثیر) حدیث میں ہے : کل مسکر حرام (صحیحین) یعنی ہر نشہ آور چیز خمر ہے لہذا ہر نشہ آور شراب اس کے تحت حرام ہے خواہ وہ انگور سے کشید کی گئی ہو یا کسی اور چیز سے۔ اور احادیث میں شراب نوشی کی سخت مذمت آئی ہے اور پینے پلانے والوں کے علاوہ خرید وفروخت اور بنانے بنوانے اور حمالہ یعنی مزدوری کرنے والوں پر بھی لعنت کی گئی ہے۔ ابو داؤد) اور ایسے دسترخوان پر بیٹھنے سے بھی منع فرمایا جس پر شراب موجود ہو۔ (ترغیب) اور میسر قمار (جوئے) کو کہتے ہیں اور آجکل پانسے لاٹری اور سٹے وغیرہ کے نام کسے جو کاروبار ہو رہے ہیں سب قماری بازی کے شعبے ہیں اور علمائے سلف نے جوئے اور شطرنج کو بھی قمار میں شامل کیا ہے۔ (ترجمان وحیدی) سلسلئہ بیان دیکھئے سورت مائدہ آیت 90) ف 5 عفو سے مراد وہ مال ہے جو اہل عیال اور لازمی ضروریات پر خرچ کرنے کے بعد بچہ رہے اور جس کے خرچ کرنے کے بعد انسان خود اتنا محتاج نہ ہوجائے کہ دوسروں سے سوال کرنے لگے۔ حدیث میں ہے بہتر صدقہ وہ ہے جو خوشحالی کے ساتھ ہو اور تم پہلے اپنے اہل و عیال پر خرچ کرو (بخاری) یہ حکم زکوہ کے علاوہ نفلی صدقہ کا ہے اور حدیث میں ہے کہ مال میں زکوہ کے علا وہ بھی حق ہے (فتح القدیر) ف 6 یعنی دنیا اور آخرت دونوں کی فکر رکھو مگر دنیا چند روزہ ہے اوآخرت ہمیشہ رہنے والی ہے لہذا بنیادی ضروریات کے بعد جو مال بچ رہے اس کا آخرت ہی کے لیے جمع کرنا بہتر ہے۔ کذافی حدیث۔ (ابن کثیر ) البقرة
220 ف 1 ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ جب یہ آیت ان الذین یاکلون اموال الیتمی ظلما۔ نازل ہوئی تو تو جو لوگ یتیموں کے کفیل تھے وہ بہت ڈر گئے اور ان کے کھانے پینے کا نتظام بھی الگ کردیا پھر بعض اوقات یتیم کے لیے تیار کی ہوئی چیز اس کے کام نہ آتی تو ضائع ہوجاتی اس طرح کئی مشکلات پیش آنے لگیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ اصل یتیموں کی بہتری اور ان کے مال کی اصلاح ہے لہذا اگر ان کے اموال کو ساتھ ملانے میں ان کی بہتری ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ آخر یہ یتیم بچے تمہارے بھائی ہیں اگر کبھی تم نے ان کا اور انہوں نے تمہارا کچھ کھا پی لیا تو بھائیوں اور رشتہ داروں کے درمیان ایسا ہوتا ہی ہے اس پر لوگوں نے یتیموں کی کھانے پینے کی چیزوں کو پھر اپنے طعام و شراب کے ساتھ جمع کرلیا۔ (ابن جریر۔ ابن کثیر) نیز دیکھئے۔ (سورت اسرائیل آیت 34، الا نعام آیت 152) البقرة
221 ف 2 حضرت حذیفہ یا عبداللہ بن رواحہ کے گھر میں ایک سیاہ فام لونڈی تھی۔ انہوں نے اسے آزاد کر کے نکاح کرلیا ان کے دوستوں نے اس نکاح کر پسند کہ کیا اور ایک مشرکہ کا نام لے کر انہیں پیش کیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (شو کانی۔ ابن کثیر) بعض نے لکھا ہے کہ ابو مرثد الغنوی کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ہے اس نے مکہ کی ایک مشرکہ عورت "غناق" سے نکاح کا ارادہ کیا جس سے جاہلیت میں اس کے تعلقات تھے چنانچہ اس نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا تو یہ آیت نازل ہوئی (قرطبی) آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ مشرک عورت سے مسلمان مرد نکاح کرنا حرام ہے اسی طرح مومن عورت کا مشرک مرد سے نکاح حرام ہے۔ ہاں کتابیہ عورت سے نکاح جائز ہے۔ دیکھئے سورت المائدہ آیت 5) حدیث میں ہے کہ عورت سے نکاح کے وقت چار باتیں مد نظر ہوتی ہیں مال دار حسب خوبصورتی اور دینداری کو دوسری باتوں پر ترجیح دو (صحیحین ) البقرة
222 ف 3 حیض کہتے ہیں خون کو جو عورتوں کی عادت ہے اور عادت کے خلاف جو خون آوے وہ استحاضہ (بیماری) ہے حیض کے دونوں میں عورت سے مجامعت کرنا اور عورت کے لیے نماز روزہ سب حرام ہیں حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ یہوں حالت حیض میں عورت کے ساتھ کھانے پینے اور گھر میں اس کے ساتھ اختلاط کو جائز نہیں سمجھتے تھے، صحابہ نے اس بارے میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا تو یہ آیت اتری۔ اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : حالت حیض میں جماع کر علاوہ ہر طرح سے عورت کے ساتھ اختلاط جائز ہے اور اس حالت میں الگ رہنے کا مطلب صرف ترک مجامعت ہے۔ ( ابن کثیر بحوالہ مسلم وغیرہ) ف 4 یعنی جب تک پاک ہو کر غسل نہ کرلیں اس پر جمیع علماء کا اتفاق ہے۔ صرف امام ابو حنیفہ اس مسئلہ میں دوسروں سے منفرد ہیں وہ کہتے ہیں کہ اگر حیض اپنی پوری مدت میں یعنی دس دن پر موقوف ہو تو غسل سے پہلے ہی مجامعت درست ہے مگر یہ قول تطھرون کے خلاف ہے جس معنی اچھی طرح پاک ہوجانا کے ہیں۔ (ابن کثیر۔، ابن العربی) ف 5 یعنی عورت سے اس کی آگے کی جانب شرم گاہ میں مجا معت کرو۔ اس سے ثاتب ہوتا ہے کہ عورت سے غیر فطری مجامعت حرام ہے۔ (ابن کثیر ) البقرة
223 ف 6 حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں کہ یہوس کہا کرتے تھے اگر عورت کو پیٹ کے بل کر کے مجامعت کی جائے تو احول (بھینگا) پیدا ہوتا ہے، اس پر یہ آیت اتری کہ عورتیں کھیتی ہیں جماع کے لیے کوئی سن مقرر نہیں ہے ہر آسن پر جماع کرسکتے ہو مگر اولاد پیدا ہونے کی جگہ میں ہو۔ بعض لوگ غصہ میں آکر کسی نیک کام کے نہ کرنے کی قسم کھا لیتے ہیں اور پھر اس قسم کو نیکی سے باز رہنے کے لیے آڑ بنا لیتے ، البقرة
224 اس آیت میں اس قسم کے لوگوں کو ہدایت دی جا رہی ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کے نام کی قسمیں اس لیے نہ کھاؤ کہ نیکی پر ہیز گاری لوگوں میں صلح کرانے نیک کاموں سے باز رہنے بہانہ ہاتھ آجائے کیونکہ ایک غلط قسم پر اڑے رہنا گناہ ہے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عبدالر حمن بن سمرہ سے فرمایا اگر تم قسم کھالو اور پھر دیکھو کہ غیر قسم بہتر ہے تو تم اس بہتر کام کو کرو اور اپنی قسم توڑنے کا کفارہ دو۔ (ابن کثیر بحوالہ صحیحین) قسم توڑنے کا کفارہ دس مسکینوں کو کھانا کھلانا یا نہیں کپڑے پہنانا یا ایک غلام آزاد کرنا ہے اور جو شخص ایسا نہ کرسکے اس کے لیے تین روزے رکھنا ہے۔ (دیکھئے سورت المائدہ آیت 89) البقرة
225 ف 1 لغو قسموں سے مراد وہ قسمیں ہیں جو بے ساختہ عادت کے طور پر یو نہی زبان سے نکل جاتی ہیں، نہیں پکڑے گا۔ یعنی ایسی قسموں پر کسی قسم کا کفارہ یا سزا نہیں ہے ہاں جو قسمیں دل کے ارادہ کے ساتھ کھائی جائیں اور پھر ان کی خلاف روزی کی جائے تو ان پر کفارہ یا سزا ہے۔ فقہ کی زبان میں ایسی قسم کو منعقدہ کہتے ہیں مگر کوئی شخص عمداجھوٹی قسم کھائے تو یہ کبیرہ گناہ ہے اس کا کفارہ نہیں ہے ایسی قسم کو یین غموس کہا جاتا ہے۔ البقرة
226 ج 6 ان دو آیتوں میں "ایلاء" کا مسئلہ بیان ہوا ہے ایلاء کے لفظی معنی قسم کھانے کے ہیں اور اپنی عورتوں سے ایلاء کے معنی یہ ہیں کہ مر دقسم کھا لے کہ وہ اپنی عورت سے جنسی خواہش پوری نہیں کرے گا پھر اگر قسم چار ماہ اس سے کم مدت کے لیے کھائی ہو تو اسے اپنی قسم پورا کرنے کا اختیار ہے۔ اگر وہ مدت پوری کر کے اپنی بیوی سے تعلق قائم کرے گا تو اس پر کوئی کفارہ نہیں ہوگا اور اگر اس مدت سے پہلے تعلق بحال کرلے گا تو کفارہ دینا ہوگا۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک مرتبہ اپنی بیویوں سے تعلق نہ رکھنے کی قسم کھائی تھی جب مدت گذر گئی تو آپ نے ان سے تعلق قائم فرمالیا اور کوئی کفارہ ادا نہیں کیا۔ (شوکانی) اور اگر چا رماہ سے زیادہ مدت کے لیے یا مدت تعین کے بغیر قسم کھائے تو ایسے شخص کیلے اس آیت میں چار ماہ کی مدت مقرر کردی ہے کہ یا تو اس مدت کے پورا ہوتے ہیں اپنی بیوی سے تعلقات قائم کرے اور یا پھر سیدھی طرح سے طلاق دیدے۔ پہلی صورت اختیار نہ کرے تو حاکم وقت کو اختیار ہوگا کہ وہ اسے کسی ایک کے اختیار کرنے پر مجبور کرے اکثر صحابہ اور جمہور ائمہ کا یہی قول ہے۔ ( ابن کثیر) البقرة
227 البقرة
228 ف 3 مسئلہ یہ ہے کہ اگر کوئی خاوند جماع کے بعد اپنی عورت کو طلاق دے اور اسے حیض نہ آتا ہو تو اس کے لیے عدت تین ماہ ہے اور اگر حاملہ ہو تو وضح حمل۔ (دیکھئے سورت الطلاق آیت 4) اگر جماع سے پہلے ہی طلاق ہوجائے تو اس پر کوئی عدت نہیں ہے۔ (دیکھئے آیت 237) پس اس آیت میں المطلقات سے ان عورتوں کو عدت کا بیان کرنا مقصو ہے جن سے خاوند صحبت کرچکے ہیں اور ہو حاملہ نہ ہوں اور ان کو حیض بھی آتا ہو تو ان کی عدت تین طہر یا تین حیض ہے۔ ابن کثیر۔ شوکانی) قردء کا لفظ جمع ہے اور اس کا واحد قوء ہے اور یہ طہر اور حیض دونوں پر بو لا جاتا ہے گو از روئے دلائل اول حج ہیں مگر فتوی دونوں پر صحیح ہے۔ (سلسلئہ بیان لیے دیکھئے سوررت الطلاق آیت 1) حضرت اسماء بنت عتت مقرر نہ تھی جب مجھے طلاق ہوئی تو یہ آیت نازل ہوئی۔ (ابن کثیر) ف 4 یعنی حمل یاحیض کے بارے میں عورت غلط بیانی سے کام نہ لے اور یاد رکھو باہمی حقوق ادا کرنے میں میاں بیوی دونوں برابر ہیں مگر مردکو عورت پر فضیلت حاصل ہے۔ (دیکھئے سورت النساء آیت 34) اس لیے عدت کے اندر اگر خاوند رجوع کرنا چاہیے تو عورت کا لا زما ماننا ہوگا۔ (ابن کثیر) ف حضرت عائشہ (رض) اور دیگر صحابہ کی روایات کے بموجب ابتدائے ہجرت میں جا ہلی دستور کے مطابق مرد عورتوں کو کئی کئی بار طلاق دیتے اور عدت کر اندر رجوع کرتے رہتے تھے۔ مقصد بیوی کو تنگ کرنا ہو تو تھا اس صورت حال کو روکنے کے لیے یہ آیت نازل ہوئی کہ رجعی طلاق زیادہ سے زیادہ دو مرتبہ ہے اس کے بعد امساک بمعور یا تو عدت کے اندر رجوع کرنا ہے اور یا تسر یح با حسان یعنی حسن سلوک کے ساتھ تیسری طلاق دینا ہے۔ یہ تفسیر مر فوعا ثابت ہے اور ابن جریر نے اس کو ترجیح دی ہے۔ بعض نے اوا تسریح باحسان سے یہ مراد لیے ہے کہ دو طلاق کے بعد رجوع نہ کرے حتی کہ عدت گزارنے کے بعد وہ عورت خود بخود اس سے الگ ہوجائے (ابن جریر۔ ابن کثیر ) البقرة
229 ف 6 عورت اگر خاوند سے طلاق کا مطالبہ کرے اور خاوند طلاق دیدے تو اسے طلاق خلع کہتے ہیں یوں تو خاوند کے لیے عورت کو تنگ کر کے حق مہر واپس لینا جائز نہیں ہے مگر خلع کی صورت میں خاوند معاوضہ لے کر طلاق پر راضی ہو تو یہ واپسی جائز ہے۔ مسئلہ طلاق خلع کی عدت ایک حیض ہے۔ (ترمذی ) البقرة
230 ف 1 یعنی تیسری طلاق کے بعد اب جب تک عورت کسی دوسرے خاوند سے نکاح کے بعد ایک مرتبہ مجامعت سے لذت اندوز نہ ہو لے اور پھر دوسرا خاوند اسے از خود طلاق نہ دے تو پہلے خاوند کے لیے اس سے نکاح حلال نہیں۔ اس کے یہ معنی ہیں کہ دوسرے خاوند سے اس غرض سے نکاح کرے کہ پہلے خاوند کے لیے حلال ہوجائے کیونکہ ایسے نکاح پر تو احادیث میں لعنت آئی ہے بلکہ دوسرے خاوند سے مستقل طور پر اس کی بیوی بن کر رہنے کے لیے نکاح کرے اور پھر کسی وجہ سے طلاق ہوجائے یا دوسرا خاوند فوت ہوجائے تو اب سابقہ خاوند کے لیے اس سے نکاح جائز ہے۔ (ابن کثیر۔ شوکانی) مسئلہ ایک مجلس میں بیک وقت تین طلاق دی جائیں تو وہ ایک ہی شمار ہوگی جیسا کہ صحیح مسلم میں حضرت ابن عباس (رض) سے ایک مرفوع روایت میں ثابت ہے۔ مسند امام احمد میں ہے کہ رکا نتہ نے اپنی بیوی کو ایک مجلس میں تین طلاق دیں، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر چاہو تو رجوع کرسکتے ہو۔ (ج 5 ص 163) نیز دیکھئے فتاوی ابن تیمیہ (ج 3 ص 13۔25۔36۔43) اغائتہ اللہ بضان 183۔338) ف 2 یعنی دوسرا خاوند از خود طلاق دے یا اس کا انتقال ہوجائے تو عدت کے بعد وہ عورت اپنے پہلے خاوند سے نکاح کرسکتی ہے لیکن حلالہ کی شرط سے جو نکاح ہوگا وہ باطل ہے۔ حلالہ کرنے او کروانے والے پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لعنت فرمائی ہے۔ (مسند احمد وغیرہ ) البقرة
231 ف 3 ایعنی اگر تم اپنی بیویوں کو طلاق رجعی دو، ان کی عدت پوری ہونے سے پہلے تمہیں رجوع کا حق پہنچتا ہے مگر یہ رجوع محض ان ستانے اور نقصان پہنچانے کی غرض سے نہ ہو کیونکہ ایسا کر ناظلم وزیادتی اور احکام الہی سے مذاق کرنا ہے ،۔ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے مذاق مذاق میں اپنی بیوی کو طلاق دے دی۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی : ای لا تتخذو الخ مگر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس طلاق کا نافذ فرمادیا۔ (ابن کثیر) حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ تین چیزوں میں مذاق بھی سنجیدگی قرار پائیگی یعنی نکاح، طلاق۔ اور رجوع، (ابن کثیر بحوالہ جامع ترمذی) ف 4 یہاں الحکمت سے مراد سنت ہے یعنی کتاب وسنت کی جو نعمت تم پر نازل کی ہے اسے مت بھو لو، یہ دونوں وحی الہی میں اور دلیل ہونے میں دونوں برابر ہیں لہذا منکر حدیث کا بھی وہی حکم ہے جو منکر قرآن کا ہے۔) ترجمان) مطلب یہ ہے کہ ان آیات میں بیان کردہ عائلی مسائل کو حدیث پاکی روشنی میں زیر عمل لانا ضروری ہے۔ (م، ع) حضرت معقل بن یسار کہتے ہیں کہ ہمارے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ہے۔ واقعہ یوں ہوا کہ میری بہن کو اس کے شوہر نے ایک طلاق دیدی اور جوع نہ کیا حتی کی عدت گزر گئی پھر دونوں نے باہمی رضامندی سے دوبارہ نکاح کرنا چاہا۔ جب وہ میرے پاس پیغام لے کر آیا تو میں نے اسے خوب برا بھلا کہا اور قسم کھائی کہ اب تم دونوں کا دوبارہ نکاح ہونے دوں گا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی لہذا میں نے نکاح کی اجازت دے دی اور قسم کا کفارہ ادا کردیا۔ (صحیح بخاری) اس آیت سے معلوم ہوا کہ عورت خود بخود اپنا نکاح نہیں کرسکتی بلکہ ولی کی اجا زت ضروری ہے۔ حدیث میں ہے : لا تروج الموء ہ المرءہ ولا تزوج المرء ہ نفسھا فان الزنیتہ ھی التی تزوج نفسھا۔ یعنی کوئی عورت نہ خود اپنا نکاح کرسکتی ہے اور نہ کسی دوسری عورت کا نکاح کرسکتی ہے جو عورت ولی کے بغیر ازخود اپنا نکاح کرالتی ہے وہ زانیہ ہے۔ (ابن کثیر) اگر عورت خود اپنا نکاح کرسکتی تو عورت کے اولیاء کو قرآن مخاطب نہ کرتا تم ان کو مت روکو۔ (معالم ) البقرة
232 البقرة
233 ف 1 نکاح و طلاق کے بعد اس آیت میں رضاعتہ (بچے کو دودھ پلانے) کے مسائل کا بیان ہے کیونکہ ایسا ہوسکتا ہے کہ ایک عورت کو طلاق ہوجائے یا اس کے شوہر کا انتقال ہوجائے اور اس کی گود میں دودھ پیتا بچا ہو اس سلسلے میں معمول رہا ہے کہ وہ بچوں کو پورے دو سال تک دودھ پلائیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ بچے کو دودھ پلانا ماں پر فرض ہے خصوصا جب بچہ اس کے علاوہ کسی دوسری عورت کا دودھ پینے کے لیے تیار نہ ہو۔ (دیکھئے سورت طلاق) نیز اس سے دو باتیں اور بھی معلوم ہوئیں، ایک یہ رضاعت کی زیادہ سے زیادہ مدت دوسال ہے لہذا اس دو سال کی عمر کے بعد اگر کوئی بچہ کسی عورت کا دودھ پی لے تو حرمت رضاعت ثابت نہیں ہوگی۔ صحیحین میں حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے۔ انما الر ضاعتہ منالجھجا عتہ۔ یہی قول جمہور ائمہ کا ہے۔ ان جمہور میں ائمہ اربعہ فقہا سبعہ اور اکابر صحابہ بھی شامل ہیں۔ ازواج مطہرات میں صرف حضرت عائشہ (رض) رضاعت کبیر کی قائل تھیں ،(نیز دیکھئے سورت النساء آیت 23) دوم یہ کہ اس عدت کی تکمیل ضروری نہیں ہے اس سے پہلے بھی بچہ کا دودھ چھڑایا جاسکتا ہے۔ (ابن کثیر۔ قرطبی) ف 2 اس معلوم ہوا کہ دودھ پلانے والی ماں کو۔ جب کہ اسے طلاق ہوچکی ہو۔ عام معروف طریقہ کے مطابق کھانا اور لباس مہیا کرنا بچے کے والد پر فرض ہے۔ عام حالات میں جبکہ طلاق نہ ہوئی ہو بیوی کا کھانا اور لباس اس کے شوہر پر ویسے ہی فرض ہے جیسے (نیز دیکھئے سورت الطلاق آیت 6) ماں کو تکلیف دینا یہ ہے کہ وہ مثلا بچے کو اپنے پاس رکھنا چاہے مگر باپ اس سے زبر دستی چھین لے یا اسے دودھ پلانے پر مجبور کرے اور باپ کو تکلیف دینا یہ ہے کہ ماں بچے کا سارا بوجھ اس پر ڈال دے یا دودھ پلانے سے انکار کردے یا بھاری اخرجات کا مطالبہ کرے جو باپ کی وسعت سے باہر ہوں اس آیت کا دوسرا ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بچہ ماں ضررپہنچاکر باپ کو تکلیف دے اور نہ باپ بچہ کو چھین کر ماں ضرر پہنچائے۔ پہلی صورت میں لا تضار صیغہ فعل مجہول ہوگا اور دوسرے ترجمہ کے اعتبار سے صیغہ معروف واکمال واحد۔ (ابن کثیر۔ رازی) ف 4 یعنی اگر باپ مر جائے تو جو بھی اس کا وارث ہو اس پر فرض ہے کہ وہ بچتے کو دودھ پلانے والی ماں کے یہ حقوق ادا کرے جمہور نے یہی تفسیر کی ہے۔ (ابن کثیر ) ف 5 یعنی اگر تم بچہ کو اس کی ماں کے ماسو اکسی دوسری عورت سے دودھ پلوانا چاہو تو اس میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ جو معاوضہ تم دینا چاہتے ہو وہ معروف طریقہ سے پورا پورا ادا کر دو۔ (رازی۔ ابن کثیر ) البقرة
234 ف 6 یہ عدت وفات تمام عورتوں کے لیے یکساں ہے عام اس سے کہ انہیں اپنے شوہروں سے مساس ہوچکا ہو یا نہ ہو اہو۔ وہ جوان ہوں یا بوڑھی جیساکہ آیت کے عموم سے معلوم ہوتا ہے اور ایک حدیث میں صراحت کے ساتھ مذکور بھی ہے۔ (ابن کثیر بحوالہ جامع ترمذی) البتہ حاملہ عورت کی عدت وفات وضع حمل ہے۔ (سورت الطلاق آیت 4) اس عدت کے دوران میں عورت کے لیے نہ صرف نکاح کرنا حرام ہے بلکہ سوگ منانا یعنی ہرقسم کی زینت سے پر ہیز کر نابھی ضروری ہے صحیحین میں حضرت زینب بن جحش (رض) سے روایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث میں فرمایا : عورت اپنے شوہر کی موت پر چار ماہ دس دن تک سوگ منائے گی۔ نیز فرمایا : اور وہ شوخ رنگ کا کپڑا پہنے گی سوائے یمنی چادر کے نہ سرمہ لگائیگی اور نہ خوشبو استعمال کرے گی۔ (ابن کثیر ) البقرة
235 ف 1 یعنی عدت کے دوران میں عورت کو صاف الفاظ کے ساتھ پیغام نکاح دینا جائز نہیں ہے البتہ مناسب طریقے سے یعنی اشارہ کہا یہ سے کوئی بات کہہ دینے میں کوئی حرج نہیں لیکن یہ حکم اس عورت کا ہے جس کے شوہر کے وفات ہوگئی ہو اور مطلقہ ثلاث کا بھی یہی حکم ہے جیسا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فاطمہ بنت قیس سے فرمادیا تھا کہ جب تمہاری عدت گزر جائے تو اطلاع دینا مگر وہ عورت رجعی طلاق دی گئی ہو تو اس کے شوہر کے سواکسی دوسرے شخص کے لیے اشارہ کنایہ سے بھی بات کرنا جائز نہیں ہے۔ (ابن کثیر۔ شوکانی) ف 2 یعنی ان سے خفیہ معاہدے نہ کرو ؛ ہاں معروف طریقہ سے نکاح کا تذکرہ کرسکتے ہو مثلا یہ کہ تم تو ابھی جوان ہو یا میں بھی شادی کا خواہشمند ہوں وغیرہ (ابن کثیر) ف 3 یعنی جب تک عدت پوری نہ ہوجائے نکاح کا عزم نہ کرو۔ اس پر تمام ائمہ کا اجماع ہے کہ عدت کے اندر نکاح صحیح نہیں ہے۔ ( ابن کثیر۔ فتح القدیر) ف 4 اس میں نکاح کے سلسلہ میں شرعی احکام کے خلاف حیلے نکالنے پر وعید اور توبہ کی ترغیب ہے۔ البقرة
236 ف 4 یعنی جس عورت کا عقد کے وقت کوئی مہر مقرر نہ ہو اہو اگر شوہر اسے قبل از مسیلس (نجامعت یا خلوت صحیحہ) طلاق دے دے تو شوہر پر مہر وغیرہ کی صورت میں کسی قسم کا مالی تاوان نہیں ہے۔ آیت میں لا جناح فرما کر اسی طرف اشارہ فرمایا ہے ہاں یہ ضرورہے کہ شوہر اپنی مالی حالت کے مطابق اسے کچھ دے کر رخصت کرے اس احانت کو متعہ طلاق کہا جاتا ہے۔ سورت احزاب آیت 49۔ میں مزید بتایا کہ قبل از مسیس طلاق کی صورت میں عورت پر عدت بھی نہیں ہے بلکہ وہ شو ہر سے خصت ہو کر فورا نکاح کرسکتی ہے۔ ( شو کانی ) البقرة
237 ف 6 یہ دسری صورت ہے کہ مہر مقرر کیا جا چکا ہو اور شو ہر نے قبل از مسیس (مجامعت یا خلوت صحیحہ) طلاق دے دی اس صورت میں عورت نصف مہر کی حقدار ہوگی ہاں اگر وہ عورت خود یا اس کے اولیا معاف کردیں تو دوسری بات ہے بعض نے پیدہ عقدہ النکاح سے شوہر مراد لیا ہے اور اس کی طرح عفویہ ہے کہ وہ اپنی خوشی سے پورا مہر دینا چاہے تو دے سکتا ہے اور پھر، ان تعفوا اقرب اللتقوی فرمایا شوہر کی تر غیب دی ہے کہ پورا مہر دے دینا ہی اقرب الی التقوی ہے۔ (ابن کثیر، شوکانی) مسئلہ اگر اس صورت میں شوہر قبل از مسیس وفات پاجائے توبیوی پورے مہر کی حقدار ہوگی اسے ورثہ بھی ملے گا اور پر عدت بھی ہوگی جیسا کہ بروع بنت واشق کی حدیث میں ہے۔ (شوکانی) واضح رہے کہ مطلقہ عورت کی دو قسمیں اور ہیں (1) مہر مقرر ہوچکا تھا اور خاوند نے بعد ازمسیس طلاق دے دی۔ دیکھئے آیت 229۔ (2) عقد کے وقت مہر مقرر نہ تھا مگر بعد ازمسیس طلاق دی اس صورت میں عورت مہر مشل کی حقدار ہوگی یعنی جتنا مہر عموما اس کے خااندان کی عورتوں کا مقرر ہوتا ہے اس کے مطابق اسے مہر دلوایا جائے گا جیسا کہ سورت نسا آیت 24 کے تحت مذکور ہوگا۔ (شوکانی) البقرة
238 ف 7 الصلوہ الوسطی۔ بیچ والی نماز اس کی تعیین میں گواہل علم کے مابین اختلاف ہے مگر جمہو علمائے کے نزدیک اس سے عصر کی نماز مراد ہے یہی اضح اور ارجح ہے۔ متعدد احادیث سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ صحیحین اور سنن کی کتابوں میں متعدد صحابہ سے یہ روایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غزوہ احزاب کے موقعہ پر فرمایا : شغلو ناعم الصلوہ الو سطی صلوہ العصر مالاء اللہ ج قبرھم واجوافھم نارا۔ کہ انہوں نے ہمیں صواہ وسطی یعنی عصر کی نما سے غافلک کردیا، اللہ تعالیٰ نے ان کی قبروں ارگھروں کو آگ سے بھر دے نیز بہت سے آثار صحابہ سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ (ابن کثیر۔ شوکانی) ف 8 اور ادب سے کھڑے رہو۔ یعنی نماز میں کوئی ایسی حرکت نہ کرو جو نماز کی حالت کے منافی ہوجیسے کھانا پینا اور کلام وغیرہ۔ عر بی زبان میں قنوت کے کئی معنی آئے ہیں مگر یہاں سکوت کے معنی میں ہے۔ صحیحین میں زید بن ارقم سے روایت ہے کہ ہم نماز میں گفتگو کرلیتے تھے پھر جب یہ آیت نازل ہوئی تو کلام کرنا منسوخ ہوگیا اور ہمیں سکوت کا حکم دیا گیا۔ (ابن کثیر ) البقرة
239 ف 1 اس آیت میں نماز کی حفاظت کی مزید تاکید کی ہے کہ خوف اور ہنگامی حالت میں بھی نماز معاف نہیں ہے۔ بلکہ پیدل سوار جس حالت میں بھی ممکن ہو خوف کے وقت نماز ادا کرلو۔ ہاں خوف زائل ہونے کے بعد نماز کو ان پورے ارکان وشرائط اور آداب کے ساتھ ادا کرو جن کی تمہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کے ذریعے تعلیم دی ہے۔ صلواہ خوف کے احکام کے لیے دیکھئے سورت النساۓ آیت 102۔ (شوکانی، ابن کثیر ) البقرة
240 وصیتہ لا زواجھم۔ یعنی جو لوگ وفات پاجائیں ان کی بیویوں کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ وصیت کی ہے یا مرنے سے قبل ان کو چاہیے کہ وصیت کر جائیں۔ ای اوھی اللہ وصیتہ اوفلیو صسو اوصیتہ۔) شوکانی) ابتدا میں یہ حکم تھا کہ جس عورت کا شوہر فوت ہوجائے۔ اسے ایک سال کے لیے شوہر والے مکان میں سکونت پذیر رہنے کے لیے حقوق حاصل ہیں اور اس مدت کے پورے مصارفف متوفی کے اولیاء کے ذمہ ہوں گے۔ ہاں اگر بیوی چاہے تو سال پورا ہونے سے پہلے رخصت ہو سکتی ہے اس صورت میں اولیاء قصوروار نہ ہوں گے اکثر علما کے نزدیک یہ دونوں حکم (نفقہ سنتہ وسکنی) ہی منسوخ ہیں سورت نساء آیت میراث 12 سے ایک سال کے مصارف اروحق سکونت کا وجوب منسوخ ہوگیا اوپر کی آیت 234 میں متوفی عنہا کی دعت چارماہ دس دن اور رسورت طلاق آیت 4 میں حاملہ کی عدت واضح حمل قرار پانے کے بعد ایک سال کی عدت بھی منسوخ ہوگئی۔ اب متوفی عنہا کے لیے لازم ہے کہ آیت 234 کے مطابق شوہر والے مکان میں چا رماہ دس دن عدت گزارے یا اگر حاملہ ہے تو وضح حمل تک اسی مکان میں رہے جیسا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابو سعید خدری کی بہن ذلیعتہ بنت مالک کو اس کے شوہر کی وفات کے بعد حکم دیا تھا کہ امکثی فی بیتک حتی یبلغ الکتاب اجلتہ۔ اور بعد میں حضرت عثمان (رض) نے ایک مقدمہ میں اس حدیث کے مطابق فیصلہ بھی فرمایا۔ (ابن کثیر، شوکانی۔ بحوالہ سنن اربعہ ومؤطامالک) البقرة
241 ف 3 اوپر کی آیت 236 میں خاص صورت میں متعہ طلاق کا حکم تھا اب اس آیت میں ہر مطلقہ کے لیے متاع یعنی متعہ طلاق کا حکم دیا ہے۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ مطلقہ عورت کو کچھ دے کر رخصت کرنا چاہیے تاہم اس کے وجوب پر ارتفاق نہیں ہے۔ ( درمنشور۔ ابن کثیر) یہاں تک نکاح وطلاق وغیرہ سے متعلقہ مسائل ختم ہوئے۔ (موضح) آخر میں ان معا شرتی مسائل کی اہمیت کے پیش نظر اہل عقل کو مخاطب کیا ہے البقرة
242 البقرة
243 ۔ ف 5 یہ لوگ کون تھے اور کہاں سے نکلے تھے اس بارے میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کوئی حدیث ثابت نہیں ہے البتہ حضرت ابن عباس (رض) اور بعض دوسرے مفسرین کہتے ہیں کہ اسرائلی تھے۔ جہاد میں قتل کے خوف یا طاعون سے بچنے کے لیے اپنے شہر سے بھاگے جن ایک مقام پر پہنچے تو اللہ کے حکم سے سب مرگئے، اتفاق سے اللہ تعالیٰ کے ایک نبی وہاں سے گزر ہوا اس نے دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں دوبارہ زندہ کیا۔ (قرطبی۔ رازی) یو آیت کے شرو میں لفظ الم تر سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا قصہ نزول آیت کے وقت عام طور پر مشہور ومعروف تھا۔ (فتح القدیر) یہ قصہ قیامت یے روز معاد جسمانی کی قطعی دلیل ہے اور جہاں ذکر کرنے سے مقصد جہاد کی ترغیب ہے۔ صحیحین میں حضرت عبدالر رحمن بن عوف سے روایت ہے کہ جس مقا پر وبا پھوٹ پڑے وہاں سے فراف کرنے سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منع فرمایا ہے اور اس مقام پر جانے سے بھی منع فرمایا ہے۔ (ابن کثیر ) البقرة
244 البقرة
245 ف 6 جو اللہ تعالیٰ کو قرضہ حسنہ دے یعنی خالص اللہ تعالیٰ کی رضا اور ثواب حاصل کرنے کے لیے مال خرچ کرے اور اس میں ریاکاری یاکسی کو ستانے اور اس پر احسان رکھنے کا جذبہ کا رفرمانہ ہو ایسے خرچ کو اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ قرض دیا ہے اور اس پر کئی گنا اجر کا وعدہ فرمایا ہے۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے ایک مرفوع حدیث میں ہے ان اللہ یضاعف الحسنتہ الفر ائف حسنتہ۔ اللہ تعالیٰ ایک کہ اللہ تعالیٰ ایک نیکی کی بیش لاکھ نیکیاں بنا دیتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو ایک شخص ابو الد حادح نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنا ایک باغ جس میں کھجور کے چھ سودرخت تھے اللہ کی راہ میں صدقہ کردیا۔ ابن کثیر۔ شوکانی) البقرة
246 ف 7 اوپر کی آیتوں میں جہاد اور نفاق فی سبیل اللہ کا حکم دیا ہے اس کے بعد ان آیات میں بنی اسرائیل کی ایک قوم کا قصہ بنان کیا ہے جنہوں نے حکم جہاد کی مخالفت کی اس وجہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ظآلم ٹھہر۔ اس قصہ سے مقصد جہاد کی ترغیب ہے۔ الملا شاہ رفیع الدین نے اس کا ترجمہ سرداران قوم کیا ہے اور یہی انسب ہے۔ عموما مفسرین نے اس کے معنی اشراف اور ؤسا کیے ہیں۔ (ابن جریر۔ رازی۔) اصل میں ملاء کے معنی پر کردینے کے ہیں اور اشراف ورؤسا بھی اپنی ہیبت اور رعب سے انکھیں پھیر دیتے ہیں ہی اس یے ان کا ملا کہا جاتا ہے۔ رازی) البقرة
247 ف 1 بایئبل میں اس نبی کا نام سموئیل (شموئیل) لکھا ہے جن کا زمانہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے تقریبا ایک ہزار سال بیشتر کا ہے۔ قدیم مفسرین نے اس واقعہ کی تفصیل میں لکھا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد کچھ عرصہ توبنی اسرائیل کا کام ٹھیک چلتا رہا پھر ان میں بدعات نے راہ پالی حتی کہ بعض لوگ بتوں کی پوجا کرنے لگے تب اللہ تعالیٰ نے ان پر ان کے دشمنوں کو مسلط کردیا۔ جنہوں نے جالوگ بادشاہ کی سردکردگی میں ان کے بہت سے علاقے چھین لیے اور لاتعداد افراد کو غلام بنا لیا وہ لوگ بھاگ کر بیت المقد میں جمع ہوئے اور اپنے نبی حضرت شمو ئیل (علیہ السلام) سے درخواست کی کہ ہمارے لیے ایک بادشاہ مقرر کردیجئے تاکہ اس کے زیر کمان ہم اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرسکیں۔ شمو ئیل (علیہ السلام) نے انہیں اس بے جا مطالبہ سے باز رکھنے کی کو شش کی مگر وہ اس پر سختی سے مصر رہے چنانچہ حضرت شموئیل (علیہ السلام) نے اللہ کے حکم سے طالوت کا انتخاب کردیا مگر وہ لوگ اس پر اعتراض کرنے لگے۔ (ابن کثیر۔ اقرطبی) ف 2 اس لیے کہ بنی اسرائیل میں نبوت تولادی کی نسل میں چلی آرہی تھی اور بادشاہی حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے بڑے بیٹے یہودا کی نسل میں اور طالوت اس نسل سے نہ تھے بلکہ وہ ایک معمولی قسم کے فوجی تھے۔ اس پر بنی اسرائیل کے سرداروں نے اعتراض کیا۔ بائیبل نے طالوت کا نام ساؤل مذکور ہے اور لکھا ہے کہ وہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے سب سے چھوٹے بیٹے بن یامین کی نسل سے تھے اور بنی اسرائیل میں ان جیسا خوبصورت اور قد آور کوئی شخص نہ تھا۔ ف 3 یعنی طالوت کا انتخاب اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے۔ یہ علمی قابلیت اور جسمانی صلاحتیں کی وجہ سے تم پر فائق ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ کسی کو موروثی طوپر بادشاہی کا حق نہیں ہے اور یہ کہ خلیفہ کا مالدار گھرانے سے ہونا بھی شرط نہیں ہے ہاں علم و فضل کے علاوہ فوجی صلاحتیوں کا مالک ہونا ضروری ہے تاکہ ملک کا دفاع کرسکے۔ البقرة
248 ف 4 مفسرین کے بیان کے مطابق یہ تابوت سکینتہ ایک صندوق تھا جو بنی اسرائیل میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) زمانے سے چلا آرہا تھا اور اس میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ہارون (علیہ السلام) اودسرے انبیاء کے کچھ متبرک آثار (بقیی) تھے۔ بنی اسرائیل اپنی لڑائیوں میں اسے آگے آگے رکھتے اور اسے دیکھ کر حوصلہ اور ہمت محسوس کرتے تھے مگر ان کی بد اعمالیوں کے باعث ان کے دشمن یہ تابوت ان سے چھین کرلے گئے تھے۔ انہوں نے اسے اپنے معبد میں بت کے نیچے رکھ دیا تھا اس وجہ سے ان میں وبا پھوٹ پڑی اور تقریبا پانچ شہر ویران ہوگئے۔ چنانچہ انہوں نے اسے منحوس سمجھ کر اور رات کو بیل گاڑی پر رکھ کر بنی اسرائیل کی طرف دھکیل دیا۔ فرشتے بیلوں کو ہانک کر بنی اسرائیل کی بستی تک لے آئے اور وہ رات کے وقت طالوت کے گھر کے سامنے آموجود ہوا۔ اس سے بنی اسرائیل میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور وہ طالوت کے زیر قیادت اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے آمادہو گئے۔ (ابن کثیر۔ معالم) (نیز سکینتہ کے لیے دیکھئے التوبہ آیت 26 والفتح آیت 26) مگر قرآن کے انداز بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ اس تابوت کی آمد اعجازی حثیت کی حامل تھی اس لیے اسے ایتہ قرار دیا ہے۔ (رازی) البقرة
249 ف 1 اس نہر سے مراد دریائے اردن ہے جیسا کہ حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے جس کی فلسطین میں بہت اہمیت ہے۔ مطلب یہ تھا کہ جو شخص جہاد کی راہ میں بھوک پیاس اور تکالیف برداست کرنے کی ہمت رکھتا ہے وہ میرے ساتھ چلے اور جو یہ ہمت نہیں رکھتا وہ ابھی سے الگ ہوجائے۔ ف 2 اتنی تعداد جتنی غزوہ بدر میں مسلمانوں کی تھی۔ یعنی تین سو تیرہ۔ حضرت براء کہتے ہیں کہ ہم آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ آپس میں باتیں کیا کرتے تھے کہ بدر کے روز مسلمانوں کی تعداد اتنی تھی جتنی ان لوگوں کی جنہوں طالوت کے ساتھ نہر کو پار کیا۔ (قرطبی۔ ابن کثیر) ف 3 بعض نے لکھا ہے کہ یہ کہنے والے وہی لوگ تھے جنہوں نے نہر پر پہلے ہی اپنی بے صبری کا مضاہرہ کردیا تھا لیکن عبارت کے سیاق و سباق سے معلوم ہوتا ہے کے یہ بات ام مومنین نے کہی جنہوں نے طالوت کے ساتھ نہر کو پار کیا تھا۔ ممکن ہے انہوں نے جالوت کے لشکر کی کثرت اور اپنی قلت کو دیکھ کریہ کہہ دیا ہو۔ البقرة
250 البقرة
251 ف 4 انہی تین سو تیرہ میں سے ایک حضرت داؤد (علیہ السلام) تھے۔ اسرائیل روایات میں ہے کہ ان کے ہاتھ میں غلیل تھی جس سے انہوں نے یکے بعد دیگرے جالوت کو تین پتھر مارے جو اس کے ماتھے پر لگے اور وہ مرگیا۔ طالوت نے ان سے وعدہ کررکھا تھا کہا گر وہ جالوت کو قتل کردیں گے تو ان سے اپنی بیٹی کی شادی کر دے گا اور سلطنت میں انہیں اپنا سہیم بنالے گا چنانچہ طالوت نے اپنا وعدہ پورا کیا اللہ تعالیٰ نے حضرت دادؤد کے متعلق فرمایا : اور اللہ تعالیٰ نے اسے سلطنت دی، یعنی حضرت شمو ئیل (علیہ السلام) کے بعد نبوت (ابن کثیر) اور علمہ ممایشاء سے ان آیات کی طرف اشارہ ہے جو حضرت داؤد (علیہ السلام) کو عطا ہوئی تھیں۔ (معالم) علاوہ ازیں مطلق علم دین بھی مراد ہوسکتا ہے۔ ( رازی) ف 5 نادان لوگ کہتے ہیں کہ لڑائی کرنا نبیوں کا کام نہیں۔ اس قصہ سے معلوم ہوا کہ جہاد ہمیشہ سے رہا ہے اور اگر جہاد نہ ہو تو مفسد لوگ شہروں کو ویران کر ڈالیں (موضح) اور جملہ ولو لا دفع اللہ الناس۔ الخ۔ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جب کوئی گروہ قوت واقتدا کے نشے میں بد مست ہو کر انسانی حد سے آگے بڑھنا چاہتا ہے تو اس کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ کسی دوسرے گروہ کو اٹھا کر اس کی سرکوبی کرا دیتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو زمین میں کبھی امن قائم نہ ہوسکتا۔ سلسلہ بیان کے لیے دیکھئے سورت حج آیت 40۔ (ابن کثیر) آیت میں مدافعت کرنے والوں سے انبیاء ائمہ اور نیک بادشاہ مراد ہیں جو شرائع کی حفاظت اور اس سے مدافعت کرتے رہتے ہیں۔ (رازی ) البقرة
252 ف 6 یعنی پچھلی امتوں کے یہ وقعات جو ہم آپ سنا رہے ہیں آپ کے نبی صادق ہونے کی واضح دلیل ہیں کیونکہ آپ نے نہیں کسی کتاب میں پڑھا اور نہ کسی سے سنا۔ بھر بھی انہیں اس طرح ٹھیک ٹھیک بیان کر رہے ہیں کہ بن اسرائیل بھی ان کی تصدیق کرتے ہیں۔ (ابن کثیر، رازی ) البقرة
253 ف 1 تلک الرسل سے وہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مراد ہیں جن کا اس سورت میں ذکر آیا ہے۔ یہ عقیدہ کہ انبیاء درجات میں مختلف ہیں اور ان میں جو تفاضل پایا جاتا ہے اور پھر یہ کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمام انبیاء سے افضل ہیں اور بالکل صحیح اور امت کا اجماعی عقیدہ ہے۔ رازی نے انہیں دلائل سے ثابت کیا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جملہ انبیاء پر فضیلت حاصل ہے اور اس سلسلہ میں شبہات کے جوابات دیئے ہیں۔ (کبیر) لیکن صحیحین میں حضرت ابوہریرہ (رض) سے یہ بھی روایت کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : لا تفضلونی علی الانبیاء (کہ مجھے انبیاء پر فضیلت نہ دو) جو بظاہر اس آیت کے معارض ہے علماء نے اس کے متعدد جوابات دیئے ہیں، واضح ترین جواب یہ ہے کہ میری فضیلت ایسے انداز سے بیان نہ کرو جس سے دوسرے کسر شان کا پہلو نکلتا ہو۔ امام شوکانی لکھتے ہیں کہ اس آیت سے انبیاء کے مابین تفاضل ثابت ہوتا ہے لیکن حدیث میں مقابلہ کی صورت میں تفاضل سے منع فرمایا ہے یا فضیلت جزوی مراد ہے۔ پس کتاب و سنت میں کوئی تعارض نہیں والحمد للہ علی ذلک۔ ابن کثیر، فتح القدیر) ف 2 جیسے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)۔ صحیح ابن حبان کی ایک حدیث میں حضرت آدم (علیہ السلام) کا بھی نبی مکلم ہونا ثابت ہے۔ (ابن کثیر، کبیر) ف 3 چنانچہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لیلتہ الاسرا میں بحسب مراتب آسمانوں پر انبیاء کو دیکھا۔ (ابن کثیر ) ف 4 یہاں البینات سے مراد واضح دلائل اور معجزات ہیں جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو دیئے گئے۔ ( دیکھئے آل عمران آیت 49) اور روح القدس سے حضرت جبریل (علیہ السلام) مراد ہیں۔ (بقرہ آیت 78) ف 5 یعنی انبیاء کے متبعین میں یہ اختلاف اور پھر اس اختلاف کی بنا پر باہم قتال اللہ تعالیٰ کی مشیت و حکمت سے ہے جس کی ہمارے فہم سے بالا تر ہے تقدیر کے متعلق ایک سائل کے جواب میں حضرت علی (رض) نے فرمایا : یہ ایک بھید ہے جو تم سے مخفی رکھا گیا ہے لہذا تم اسے معلوم کرنے کی کو شش نہ کرو۔ فتح البیان) اس آیت میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی ہے کہ کفر و ایمان میں لوگوں کا اختلاف تو پہلے سے چلا آتا ہے کوئی نبی ایسا نہیں کہ ساری امت اس پر ایمان لے آئی ہو لہذا ان کے انکار سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رنجیدہ خاطر نہ ہوں۔ (کبیر ) البقرة
254 ف 6 انسان پر سب سے زیادہ مشکل جان ومال کی قربانی ہے اور عموما شریعت کے احکام کا تعلق ان دونوں سے ہے۔ اس سورت میں پہلے قاتلو افی سبیل اللہ فرماکر جہاد کا حکم دیا اور آیت من ذالذی یقرض اللہ " سے جہاد کے لیے مال خرچ کرنے کی ترغیب دی اس کے بعد قصہ طالوت سے پہلے حکم کی تاکید کی اور اس آیت میں دوسرے ام کو مؤکد کرنے کے لیے دوبارہ صرف مال کا حکم دیا۔ (کبیر) مقصد یہ کہ انسان دنیاوی اسباب و وسائل کو چھوڑ کر اکیلا ہی اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضر ہوگا لہذا آخرت میں نجات کے لیے صدقہ وخیرات ایسے نیک اعمال کو وسیلہ بناؤ۔ قیامت کے دن دنیاوی مودت نسبی تعلق، شفاعت وغیرہ یہ چیزیں کام نہیں آئیں گی۔ (ابن کثیر) اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ زکوہ کا منکر کافر ہے چنانچہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعدد حضڑت ابو بکر الصدیق (رض) نے منکرین زکوہ سے جہاد کیا جیسا کہ کفار سے کیا جاتا ہے۔ (قرطبی ) البقرة
255 ف 7 قرآن نے متعدد آیات میں اس بات پر زور دیا ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے اذن کے بغیر کوئی شخص کسی کی شفاعت نہیں کرسکے گا۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی قیامت کے دن جو شفاعت فرمائیں گے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شفاعت قبول بھی کی جائے گی تو یہ بھی اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بعد ہی ہوگی جیساکہ حدیث شفاعت میں ہے تحت العرش فاخر ساجدا۔۔ لم یقال لی ارفع راسک وقل تسمع وشفع تشفح کہ میں عرش کے نیچے سجدہ میں گرجاؤں گا۔ پھر مجھ سے کہا جائے گا کہ سجدہ سے اٹھو جو بات کہو گے سنی جائے گی شفاعت کرو تو قبول کی جائے گی۔ اس آیت سے مطلقا شفاعت کی نفی نہیں کی جیساکہ معتز اہل بدعت کا خیا ہے ہے۔ (کبیر۔ ابن کثیر) ف 8 اللہ تعالیٰ کی کر سی کی وسعت کا بیان احادیث میں مذکور ہے یعنی یہ کہ سات آسمان اور زمین کی نسبت کر سی کے کے مقابلہ میں ہی ہے جو جنگل میں پڑے ل ہوئے ایک حلقہ کی ہوتی ہے پس صحیح یہ ہے کہ کہ کر سی کے لفظ کو اس کے ظاہر معنی پر محمول کیا جائے اور تاویل نہ کی جائے کیونکہ یہ آیات صفات اور ان کے ہم معنی احادیث صحیحہ میں سب سے بہتر طریق سلف صالح کا طریق ہے یعنی امر وھا کما جا ءت من غیر تقیید و لا تکبیف۔ (ابن کثیر۔ شوکانی) حضرت ابن عباس (رض) اور بعض سلف سے منقول ہے کہ یہاں کرسی سے علم مراد ہے مشہور محدث علامہ سھیلی فرماتے ہیں سلف اگر یہ تاویل ثآبت بھی ہو تو ان کا مقصد کرسی کی تفسیر علم سے کرنا نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی عظمت اس کے علم و قدرت کے احاطہ کی طرف اشارہ ہے۔ (الروح ج 2 ص 375) ف 1 اس آیت کو ایتہ الکرسی کہا جاتا ہے متعدد احادیث میں اس کی فضیلت مذکور ہے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو اعظم ایتہ فی کتاب اللہ اور سیدہ ای القرآن وربع القرآن فرمایا ہے۔ رات کو سوتے وقت اسے پڑھنا لینا شیطان سے حفاظت کا ضامن ہے اور ہر نماز کے بعد پڑھنے والے شخص کو جنت کی خوشخبری دی گئی ہے۔ طبرانی کی ایک روایت میں اس کے ساتھ سورت اخلاص کو ملالینے کا بھی ذکر ہے۔ یہ آیت دس جملوں پر مشمل ہے اور ہر جملہ اسماء حسنی یا صفات باری تعالیٰ کے بیان پر مشتمل ہے یہ خوبی اس کی فضیلت کے لئے کافی ہے۔ ایک روایت کی روسے یہ آیت اسم اعظم پر مشتمل ہے ابن کثیر۔ شوکانی ) البقرة
256 ف 2 حضرت ابن عباس (رض) وغیرہ سے منقول ہے کہ جاہلیت میں انصار مدینہ کے بعض لڑکے مختلف اسباب کے تحت یہو دی یا عیسائی ہوگئے تھے ان کے والدین مسلمان ہوئے تو انہوں زبر دستی ان کو دائرہ اسلام میں لانا چاہا اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ گو نزول خاص ہے مگر حکم عام ہے۔ (ابن کثیر) حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ اسلام میں جہاد زبر دستی منوانے کا نام جہاد ہے۔ (موضح بتصرف) البقرة
257 ف 3 طاغوت (برزن فعلوت) کا لفظ طغیان سے مشتق ہے جس کے اصل معنی کسی چیز کے اپنی حد سے آگے بڑھ جانے کے ہیں اس سے مرا شیطان بھی ہوسکتا ہے ہے اور ہر معبود باطل بھی حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں طاغوت شیطان ہے۔ (ابن کثیر) نیز ہر وہ شخص جو راس الضلال بن کرلوگوں سے اپنی بندگی اور اطاعت کر اتا ہے اسے طاغوت کھا جاتا ہے۔ (ترجمان) ف 4 قرآن پاک میں جہاں بھی ظلمات اور نور کے الفاظ آئے ہیں ان سے مراد کفر و ایمان ہی ہے ماسوائے آیت سورت الانعام وجعل الظلمات والنور کے کہ یہاں رات اور دن مراد ہیں۔ (کبیر) اس آیت میں نور کا لفظ بصیغہ واحد اوظلمات کا لفظ بصیغہ جمع استعمال ہوا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ حق ہمشہ ہر جگہ ایک ہی ہے اور کفر وشرک اور جہالت کی قسموں کا شمار نہیں ہے اور وہ سب باطل ہیں۔ (ابن کثیر) آیت سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسان پہلے کافر ہوتا ہے اور ایمان لانے کے بعد کفرکی تاریکی سے نکل کر ایمان کی روشنی میں داخل ہو تو ہے مگر یہ معنی مراد نہیں ہیں بلکہ جو شخص ابتدا سے ہی مسلمان ہے اس کے حق میں بھی توفیق و رحمت کے اعتبار سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے کفر کی تاریکی سے نکال کر ایمان کی روشنی میں لے لیا مثلا قرآن میں ہے : فلما امنوا کشفنا عنھم عذاب الخذی (یونس 18) حالانکہ ان پر تاحال عذاب نازل نہیں ہو اتھا اسی طرح فرمایا : وَمِنْکُمْ مَنْ یُرَدُّ إِلَی أَرْذَلِ الْعُمُرِ ( النحل : ٧٠) حالانکہ وہ کبھی پہلے ارذل لعمر میں تھے جس کی طرف وہ وبارہ لوٹائے گئے ہوں۔ حدیث میں ہے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک شخص سے سنا کہ اس نے کہا اشھد ان محمد ارسول اللہ تو آپ نے فرمایا خرج من لنار (یہ شخص آگ سے نکل آیا) حالانکہ وہ پہلے آگ میں نہیں تھا۔ یوسف (علیہ السلام) نے کہا ترکت ملتہ قوم لا یومنون باللہ۔ کہ میں نے ان لوگوں کی ملت چھوڑ دی جو اللہ تعالیٰ پر ایمان نہیں رکھتے حا لانکہ یوسف (علیہ السلام) کبھی بھی ان کی ملت میں داخل نہیں تھے۔ الغرض قرآن و حدیث میں اس قسم کے مح اور ات بکثرت مذکور ہیں۔ خوب سمجھ لو (کبیر) ف 5 یعنی یہ کافر اور انکے باطل معبود سب جہنم میں ڈالے جائیں گے دیکھئے بقرہ 24۔ الا نبیاء 98۔ (کبیر، ابن کثیر ) البقرة
258 ف 6 اوپر کی آیت میں بتایا گیا ہے کہ ہل ایمان اصحاب نور ہیں اور اہل کفر اصحاب ظلمت ہیں۔ اب تین قصے بیان کئے جن سے اہل ایمان اور اہل کفر کے احوال پر روشنی پڑتی ہے۔ امام رازی لکھتے ہیں پہلے قصہ سے صانع کا اور دوسرے دونوں قصوں سے حشر ونشر کا اثبات مقصود ہے اور کافر ان دونوں (مبد ومعد کے منکر ہیں۔ کبیر تبصرف) مفسرین نے اس بادشاہ کا نام نمرود بن کنعان لکھا ہے جو اہل (عراق) کا بادشاہ تھا اور صانع کی ہستی کا منکر تھا۔ تفسیر ابن کثیر میں ہے کہ یہ منا ظرہ وجود با ری تعالیٰ میں تھا کہ اس علام کا کوئی صانع موجود ہے یا نہیں چنانچہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے وجود باری تعالیٰ کی یہ دلیل دی کہ دنیا میں انسان سمیت تمام چیزیں پیدا ہوتی ہیں اور پھر وجود سے عدم چلی جاتی ہیں۔ اس معلوم ہوا کہ کوئی فاعل مختار ہستی موجود ہے جس کے تصرف سے یہ سب کچھ ہورہا ہے کیونکہ جہاں میں وجود فنا کا یہ سلسلہ از خود قائم نہیں ہوسکتا۔ نمرود دلیل کو سمجھ لینے کے باوجود ہٹ دھرمی اور ضد سے کام لیا اور جواب دیا کہ میں بھی یہ سب کچھ کرسکتا ہوں، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اس کی ضد اور ہٹ دھرمی بھانپ کر دوسری دلیل پیش کی کہ اللہ تعالیٰ تو رسورج کو مشرق سے مغرت کی طرف لے جارہا ہے اگر تم باوجود منکر اور خود خدائی کے دعویدار ہو تو اس نظام شمسی کو ذرابد کر دکھاؤ یعنی سورج کو مغرب سے مشرق کی طرف لے آؤ۔ اس پر وہ قطعی لاجواب ہو کر رہ گیا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے منا ظرہ کی یہ نہایت بہتر ہے یہاں پہلی دلیل چھوڑ کر دوسری دلیل اختیار نہیں کی بلکہ پہلی دلیل کو دوسری دلیل کے لیے بمنزلہ مقدمہ قرار دے کر نمرود کے دعوی کا کلیتہ بطلان ظاہر کیا ہے۔ (ابن کثیر) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا یہ مناظرہ آگ سے خروج کے بعد ہوا تھا اور بعض نے کہا ہے کہ بتوں کو توڑنے کے بعد کا واقعہ ہے۔ (کبیر ) البقرة
259 ف 1 یہاں اؤعطف کے لے ہے اور باعتبار معنی پہلے قصہ پر عطف ہے ای ھل رایت کالذی حاج اوکا لذی مرعلی قربیتہ " اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہاں کاف زائدہ ہو ای الم ترالذی مر علی قریتہ "(رازی۔ شوکانی) پہلے قصہ سے اثبات صانع مقصو تھا اب دسرے قصہ سے اثبات حشر ونشر مقصو ہے کما مر۔ (رازی) اس آیت میں جس شخص کا ذکر ہے حضرت علی (رض) سے ایک روایت کے مطا بق اس سے حضرت عزیر (علیہ السلام) مراد ہیں۔ یہ قول حضرت ابن عباس (رض) کا اور بعض تابعین سے بھی مروی ہے اور جس بستی میں ان کا گزر ہوا۔ مشہور یہ ہے کہ اس مراد "بیت المقدس " ہے جب کہ بخت نصر نے اسے تباہ کر ڈلا تھا اور بنی اسرائیل کے بہت سے لوگوں قیدی بناکر لے گیا تھا۔ (ابن کثیر) اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت عزیر (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے نبی تھے تو انہوں نے انی یحییی ھذاللہ بعد موتھا (کہ اللہ تعالیٰ اسے کیسے زندہ کرے گا) بطور استبعاد یہ سوال کیسے کیا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت عزیر (علیہ السلام) نے یہ سوال بطور استعباد نہیں کیا تھا کہ انہیں قیامت کے آنے اور دبارہ زندہ ہونے کے بارے میں کوئی شک تھا بلکہ اس سے طمانیت حاصل کرنا مقصو تھا اور وہ دوبارہ زندہ ہونے کا مشاہدہ کرنا چاہتے تھے جیسا کہ انبیاء کوہر حقیقت کا عینی مشاہدہ کر دایا جاتا ہے۔ ان ہر دو واقعات سے یہ بتانا مقصود ہے کہ جس شخص کا دوست اور کارساز اللہ تعالیٰ ہوتا ہے اسے کس طرح اندھیروں سے نکال روشنی کی طرف لے آتا ہے،(کبیر) مروی ہے کہ جب حضرعزیر (علیہ السلام) نے وفات پائی تھی اس وقت کچھ دن چڑھا ہوا تھا اور جب دوبارہ زندہ ہوئے تو سورج غروب ہورہا تھا اس لیے انہوں نے باوجود سو سال تک فوت رہنے کے یہ سمجھا کہ ایک دن یا اس کا کچھ حصہ گزرا ہے۔ (ابن کثیر ) البقرة
260 ف 6 حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے پیغمبر تھے، اللہ تعالیٰ کے فرشتے اور حکم ان کے پاس آتے رہتے تھے ان کو مردوں کے جی آٹھنے میں کوئی شک نہ تھا لیکن آنکھ سے دیکھ لیا چاہنا انسانی عادت ہے کہ وہ علم کے بعد عینی مشاہدہ چاہتی ہے۔ چنانچہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے علم الیقین کے بعد عین الیقین کا مرتبہ حاصل کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ (وحیدی۔ ابن کثیر) ف 3 فصرھن کے معنی عموما املھن کئے گئے ہیں یعنی ان کو ہلالے شاہ صاحب اپنے فائدے میں لکھتے ہیں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ہلانے کو اس لیے فرمایا گیا تاکہ زندہ ہونے کے بعد وہ خوب پہچانے جا سکیں کہ واقعی وہی ہیں جو ذبح کر کے پہاڑ پر رکھے گئے تھے اور کوئی اشتباہ نہ رہے اس صورت میں ثم اجعل سے پہلے قطعھن مخذوف ماننا پڑے گا اور کہا جائے گا بعد کا جملہ چونکہ اس پر دلالت کررہا ہے اس لیے اسے حذف کردیا گیا ہے۔ (معالم صحابہ وتابعین اور اہل لغت کی ایک جماعت نے صرھن کے معنی قطھن بھی بتائے ہیں یعنی ان کو پارہ پارہ کردے چنانچہ ابن جیریر طبری نے اس معنی پر بہت سے شواہد پیش کئے ہیں اصل میں یہ لفظ صار یصور یصیر سے امر کا صیغہ ہے جس کے معنی قطع کرنا بھی آئے ہیں اور مائل کرنا بھی اور اس میں قرات کے اختلاف نے اور زیادہ استباہ اور وسعت پیدا کردی اور علمائے لغت نے اسے اضداد میں ذکر کیا ہے۔ (اضداد ابی الطیب مجا زابی عبیدہ) اس جگہ سوال وجواب کے انداز اور سیاق کلام سے قطع کے معنی راجح معلوم ہوتے ہیں اور اس پر سلف مفسرین بھی تقریبا متفق نظر آتے ہیں واللہ اعلم۔ ان چار جانوروں کی تعین میں علمائے تفسیر کا اختلاف ہے بعض نے مور۔ مرغ۔ کوا اور کبوتر بتائے ہیں اور بعض نے دوسرے نام ذکر کیے ہیں اور پھر چار پہاڑوں پر ان کو الگ الگ رکھنے اور ان کے درمیان کھڑے ہو کر ہر ایک کا نام لے کر پکارنے کی کیفیت بھی بعض تابعین سے منقول ہے مگر حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں جانوروں کی یہ تعین لاطائل اور بے فائدہ ہے اس کی کچھ اہمیت ہوتی تو قرآن خاموش نہ رہتا (ترجمان نواب) تاہم ان جانوروں کے ذبح اور زندہ ہونے کی اجمالی کیفیت پر علمائے سلف کا اجماع ہے۔ (کبیر) اس اجماعی تفسیر کے خلاف سب سے پہلے ابو مسلم اصفہانی معتزلی نے اپنی ذاتی رائے سے اس کانیا مطلب بیان کیا ہے جسے آجکل کے جدت پسند طبقہ نے عمدا اختیار کیا ہے یعنی یہ کہ فھر ھن سے صرف ان جانوروں کو ہلا لینا مراد ہے کاٹنا اور ان کے اجزا کو بکھیر نامراد نہیں ہے آلوسی زادہ ان پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں یہ تفسیر اجماعی کے خلا اور ایک قسم کی بکواس ہے۔ ارباب کے نزدیک یہ تفسیر قابل التفا نہیں ہے۔ ظاہر آیت کے خلاف ہونے کے علاوہ ان آثار صحیحہ راجھہ کے بھی خلاف ہے جن سے آیت کے ظاہری معنی کی تائید ہوتی ہے لہذا حق یہ ہے کہ جماعت کی اتباع کی جائے (روح المعانی) ف 4 یعنی اللہ تعالیٰ جمیع ممکنات پر غلبہ اور قدرت حاصلی ہے اور وہ ہر چیز کے انجام اور غایت کو خوب جانتا ہے ( رازی ) البقرة
261 البقرة
262 ف 1 یعنی یہ ثواب صر ان لوگوں کو حاصل ہوگا جو رضائے الہی کے لیے خرچ کرتے ہیں اور خرچ کرنے کے بعد نہ کسی پر احسان جتلاتے ہیں اور نہ زبان وعمل سے کوئی تکلیف دیتے ہیں کسی کو کچھ دے کر احسان جتلا نا گناہ کبیرہ ہے۔ صحیح مسلم کی ایک حدیث میں ہے کہ احسان جتلانے والا ان تین شخصوں میں سے ایک ہوگا جن کی طرف اللہ تعالیٰ نظر رحمت سے دیکھے گا نہ ان کا تزکیہ کرے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہوگا۔ ( فتح البیان) البقرة
263 ف 2 صحیح مسلم کی ایک حدیث میں ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اچھی بات صدقہ ہے اور یہ بھی نیکی ہے کہ تم اپنے بھائی کے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش آؤ۔ (فتح البیان) البقرة
264 ف 3 یعنی کسی کو صدقہ دینے کے بعد اس پر احسان جتلا کرے اسے تکلیف دے کر اس منافع کی طر اپنے اعمال کو ضائع نہ کرو جو صرف ریاکاری کے جذبہ کے تحت اپنا مال خرچ کرتا ہے اور اس کا اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان نہیں ہے۔ (ابن کثیر) سف 4 یعنی یہ ریا کار بظاہر اللہ تعالیٰ کی راہ میں صدقہ کرتا نظر آتا ہے لیکن حقیقت میں وہ صدقہ اس مٹی کی طرح ہے جو کسی صاف چٹان پر جمع ہوئی ہو اور دیکھنے والا اسے قابل کاشت زمین خیال کرے لیکن جو نہی بارش ہو اس کی تمام مٹی دھل جائے اور وہ صاف چٹان کی چٹان رہ جائے ہ اسی طرح ریاکاروں کے عمل ان کے صحیفہ اعمال سے مٹ جائیں گے اور نہ انھیں ان کا کوئی اجر ملے گا۔ اوپر کی آتی میں مثال تھی مخلص مومن کے صدقہ وخیرات کی جو محض رضائے الہی کے لیے خرچ کرتا ہے اور مثال ہے ریاکارکے خرچ کرنے کی جس کا اللہ تعالیٰ اور آخرت پر ایمان نہیں ہے۔ (ابن کثیر ) البقرة
265 ف 5 یہ ریاکاروں کے مقابلہ میں مخلص مومنوں کی دوسری مثال ہے یعنی جو لوگ محض اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لیے خرچ کرتے ہیں اور دل کے اس اطمینان کے ساتھ کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں اس کا وافر اجر عطا فرمائے گا اور ان کا عمل ضائع نہیں ہوگا۔ (کبیر) ان کے خرچ کرنے کی مثال اس باغ کی ہے جو کسی پر فضا اور بلند مقام پر ہو اگر اس پر زور کی بارش ہو تو وہ دوسرے باغوں سے دگنا پھل دے اور اگر زور کی بارش ہو تو ہلکی بارش ہی کا فی رہے۔ یہی حالت مومن کے عمل کی ہے وہ کسی صورت بھی ضائع نہ ہوگا بلکہ اللہ تعالیٰ اسے قبول فرمائے گا اور ہر ایک کو اس کے عمل کے مطابق جزادے گا۔ (ابن کثیر) شاہ صاحب لکھتے ہیں : زور کے مینہ سے مراد زیادہ مال خرچ کرنا ہے اور طل (اوس) سے مراد تھوڑا مال۔ سو اگر نیت درست ہے تو بہت خرچ کرنا بہت ثواب اور تھوڑا بھی کام آتا ہے جیسے خالص زمین پر باغ ہے جتنا مینہ برسے گا اس کا فائدہ ہے بلکہ اوس بھی کافی ہے۔ اور نیت درست نہیں تو جس قدر زیادہ خرچ کرے ضائع ہے کیونکہ زیادہ مال دینے میں دکھا وابھی زیادہ ہے جیسے پتھر پردانہ، جتنا زور کا مینہ برسے اور ضرر دے کہ مٹی دو ھوئی جائے (موضح) البقرة
266 ف 1 یعنی نہ خود اس میں اتنی طاقت کہ باغ دوبارہ لگا سکے اور نہ اس کی اولاد اس قابل ہے کہ اس کی مدد کرسکے اسی طرح منافق صدقہ وخیرات کرتا ہے مگر ریاکاری سے کام لیتا ہے تو قیامت کے دن جو نہایت احتیاج کا وقت ہوگا اس کا ثواب ضائع ہوجائے گا۔ اور اس وقت ثواب حاصل کرنے کے لیے دوبارہ نیکی کا وقت بھی نہیں ہوگا صحیح بخاری میں حضرت ان عباس (رض) سے اس کی ایک دوسری تفسیر منقول ہے جسے حضرت عمر (رض) بھی پسند فرمایا ہے۔ اس کا حاصل یہ ہے کہ مثال اس شخص کی ہے جو عمر بھر نیک عمل کر تارہتا ہے لیکن آخر عمر میں اس کی سیرت بد جاتی ہے اور نیک عمل کی بجائے برے عمل کرنے لگتا ہے اس طرح وہ اپنی پہلی نیکیاں بھی بر باد کرلیتا ہے اور قیامت کے دن جو کہ بہت تنگی کا وقت ہوگا وہ نیکی اس کے کچھ کام نہ آئے گی اور اس نازک وقت میں اس کا عمل اس سے خیانت کرے گا۔ (ابن کثیر) چنانچہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایسے شخص کی حالت سے پناہ مانگا کرتے تھے ایک دعا میں ہے اللھم اجعل اوسع رزقک علی عندکبر سنی انقضاء عمری۔ کہ یا اللہ بڑھاپے کی عمر میں مجھ پر اپنا رزق وسیع فرمادے۔ (مستدرک) البقرة
267 ف 2 اوپر کی آیات میں بتایا ہے کہ صدق ہ وخیرات اور انفاق فی سبیل اللہ کی قبولیت کے لیے شرط یہ ہے کہ اخلاص و ایمان ہو اور یہ بھی بتایا ہے کہ ریاری احسان جتلانے اور تکلیف دینے سے صدقہ ضائع ہوجاتا ہے اور پھر مثالوں سے وضاحت کر کے سمجھا یا ہے۔ (کبیر) اب اس آیت میں قبولیت صدقہ کے لیے ایک اور شرط بیان کی ہے کہ صدقہ میں دی جانے والی چیز کا عمدہ اور طیب ہونا ضروری ہے۔ اگر کوئی شخص ردی چیز دے گا تو وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں قبول نہ ہوگی حضرت برابن عازب (رض) فرماتے ہیں کہ یہ آیت ہم انصار کے بارے میں نازل ہوئی ہے جب کھجور کا موسم آجاتا تو کچھلوگ کھجوروں کی ڈالیا لا کر مسجد نبوی کے ستونوں پر لٹکا جاتے۔ اصحاب صفہ میں سے کسی کو بھوک لگتی تو وہ اس میں حسب ضرورت کھجوریں تو ڑکر کھالیتا بعض لوگ نکمی اور سڑی ہوئی ڈالیاں لٹکا نے لگے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (ابن کثیر) گو شان نزول میں نفلی صدقہ کا ذکر ہے مگر یہ حکم فرض زکوہ اور نفلی صدقہ دونوں کو شامل ہے۔ حدیث میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دو قسم کی ردی کھجوروں (الجعرور، ابن ابی الحبیق) کو صدقہ میں قبول کرنے سے منبع فرمایا اور لفظ طیب جس طرح عمدہ مال کے معنی میں آتا ہے اسی طرح اس میں وہ مال بھی آجاتا ہے جو حلا طریقے سے کمایا ہوا ہو۔ پس معنی یہ ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں پاکیزہ اور حلال کے طریقے سے کما یا ہوا مال خرچ کرو۔ خبیث یعنی حرام مال سے صدقہ قبول نہیں ہوتا۔ حدیث میں ہے لا یکسب عبد مالا مرید حرام فینفق منہ فیبارک لہ ولا یتصدق منہ فیقبل منہ۔ کہ جو شخص حرام مال میں سے خرچ کراتا ہے اس میں برکت نہیں ہوتی اور اگر اس سے صدقہ کرے تو اللہ کے ہاں قبول نہیں ہوتا۔ (ابن کثیر ) البقرة
268 ف 3 اوپر کی آیت میں عمدہ مال خرچ کرنے کی تر غیب دی گئی تھی۔ اب یہاں شیطان کے وسوسہ سے ہو شیار رہنے کی تلقین کی جا رہی ہے۔ (کبیر) ڈراتا ہے محتا جی سے " یعنی انسان کے دل میں وہم اور سوسہ سے پیدا کرتا رہتا ہے کہ اگر نیک کاموں میں خرچ کروگے تو فقیر ہوجاؤ گے اور فحشاء یعنی بخل کی ترغیب دیتا ہے اور اس پر اکساتا رہتا ہے۔ اور فحشاء سے بدکاری اور بے حیائی کے کام بھی مراد ہو سکتے ہیں کہ شیطان ان میں مال صرف کرنے کی ترغیب دیتا ہے مگر اس کے مقا بلہ میں اللہ تعالیٰ کا وعدہ یہ ہے کہ صدقہ خیرات تمہارے گناہوں کا کفارہ بھی ہوگا اور اس پر کئی گنا زیادہ اجر بھی ملے گا اور مال میں برکت بھی ہوگی۔ حدیث میں ہے کہ ہر رات فرشتہ پکارتا ہے الھم اعاط کل منفق خلفا کہ اے اللہ خرچ کرنے والے کو اور زیادہ دے۔ ایک اور روایت میں ہے کہ صدقہ سے مال کم نہیں ہوتا (ابن کثیر۔ رازی ) البقرة
269 ف 4 یہاں الحکمہ سے مراد دین دین کا صحیح فہم۔ علم وفقہ میں صحیح بصیرت اور خشیت الہی سب چیزیں ہو سکتی ہیں۔ حدیث میں ہے راس الحکمتہ مخافتہ اللہ کہ اللہ تعالیٰ کا خوف حکمت کی جڑ ہے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) سے مرفو عا مروی ہے کہ جن دو آدمیوں پر رشک کرنا چاہیے ان میں سے ایک وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے حکمت دی اور وہ رات دن اس حکمت سے لوگوں کے فیصلے کرتا ہے۔ (ابن کثیر بحوالہ صحیحین) البقرة
270 ف 5 یعنی اللہ تعالیٰ ہر حال میں تمہاری نیت اور عمل سے واقف ہے۔ اس میں ایک طرف مخلصین کے لیے وعدہ ہے اور دوسری طرف ریاکار اور غیر اللہ کی نذریں ماننے والوں کے لیے وعید بھی ہے کہ ایسے لوگ ظالم ہیں اور انہیں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے کسی صورت رہائی نہیں ہوسکے گی۔ نذر یہ ہے کہ انسان اپنی مراد کے پوراہو جانے کی صورت میں اپنے اوپر کسی ایسے نفقہ یا کام کو لازم قرار دے لے جو اس پر لازم نہ ہو۔ (کبیر) پھر اگر یہ مراد جائز کام کی ہو اور اللہ تعالیٰ سے مانگی گئی ہو اور جس کام یا خرچ کی نذر مانی گئی ہے وہ بھی جائز ہو تو ایسی نذر کاپوراکر نا بھی واجب ہے ورنہ اس کا ماننا ارپورا کرنا لازم نہیں ہے۔ البقرة
271 ف 6 یعنی صدقہ علا نیہ دینا بھی گو اچھا ہے مگر پوشیدہ طو پر دینا زیادہ فضیلت رکھتا ہے۔ جمہور مفسرین کے نزدیک اس سے نفلی صدقات مراد ہیں۔ (شوکانی) اس کے بر عکس فرض زکوہ گوپوشیدہ طور پر دینا جائز ہے مگر اس کا اظہار افضل ہے۔ اما طبری لکھتے ہیں کہ اس امت کا اجماع ہے۔ (فتح الباری ج 6 ص 22) متعدد احادیث میں نفلی صدقت کو پوشیدہ طور پر دینے کی فضیلت آئی ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ نفلی صدقہ چھپا کردینے والا قیامت کے دن ان سات شخصو میں سے ایک ہوگا جنکو اللہ تعالیٰ اپنے سایہ میں جگہ دے گا جس روز کہ کوئی اور سایہ نہیں ہوگا۔ (بخاری مسلم ) البقرة
272 ف 1 اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ غیر مسلم کے ساتھ صلہ رحمی جائز ہے اور اگر وہ محتاج ہو تو نفلی صدقات سے اس کی مدد کر نابھی جائز ہے حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں حکم دیتے کہ صدقات صرف مسلمانوں کو دیئے جائیں گے مگر جب یہ آتی نازل ہوئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہر ضرورت مند سائل کو صدقہ دینے کی اجازت دے دی۔ البتہ قرآن نے بتایا کہ اجر تب ملے گا جب وہ صدقہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے دیا جائے۔ (شوکانی۔ ابن کثیر) لیکن واضح رہے کہ فرض زکوہ صرف مسلمانوں کا حق ہے غیر مسلم پر اس کا صرف کرنا جائز نہیں ہے اس پرتمام ائمہ کرام کا اجماع ہے۔ (معالم السنن) صدقہ فطر بھی صرف مسلمانوں کا حق ہے۔ صرف امام ابو حنیفہ کے نزدیک غیر مسلم پر صرف ہوسکتا ہے۔ (المغنی۔ ردالمختات) البقرة
273 ف 2 حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں یہ ان سے مراد اصحاب صفہ ہیں۔ (شوکانی) مگر آیت اپنے عموم کے اعبتار سے ان سب فقرا کو شامل ہے جو مذکورہ صفات کے حامل ہوں اور آیت کا منشا یہ ہے کہ صدقہ وخیرات کے اولین یہ لوگ ہیں یعنی مجاہدین اور علم دین کے طالب علم۔ (ابن کثیر۔ وحیدی) شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ فی زمانہ ماننا جو لوگ علم دین کی نشر واشاعت کے لیے وقف ہوچکے ہیں اگر ان کے پاس کوئی ذریعہ نہ ہو تو ان کی مدد کی جائے۔ (موضح بتصرف) الحافا۔ یعنی وہ لپٹ کر سوال نہیں کرتے جیسا کہ بھکاریوں کی عادت ہے اور یہ عادت بہت بری ہے۔ (رازی۔ وحیدی) یہ جملہ دراصل تعفف (سوال نہ کرنا) کی تفسیر ہی ہے۔ علمائے تفسیر نے اس کے یہ معنی بھی کئے ہیں کہ وہ بالکل سوا ہی نہیں کرتے (روح) ایک حدیث میں ہے مسکین وہ نہیں ہے جو لقمہ اور دو لقموں کے لیے دربدر پھرتا رہتا ہے بلکہ اصل مسکین وہ ہے جو لوگوں سے لپٹ کو سوال نہیں کرتا۔ نیز احادیث میں نے حاجت سوال کی بڑی مذمت آئی ہے چنانچہ ایک حدیث کے ضمن میں ہے جس کے پاس دوپہر یارات کا کھانا ہے پھر وہ لوگوں سے سوال کرتا ہے تو وہ دوزخ کے انتارے سمیٹتا ہے۔ ( ابو داؤد) البقرة
274 البقرة
275 ف 3 یعنی سود خوار قیامت کے دن مخبوط الحواس اور پاگل ہو کرا اٹھیں گے الربا (سود) کے لفظی معنی مطلق زیادتی کے ہیں اور اصلاح شریعت میں خاص شرح کے ساتھ جو اضافہ اصل (راس المال) پر لیا جاتا ہے اسے ربا کہتے ہیں۔ (راغب) یعنی کسی قرض پر بغیر کسی مالی معاوضہ کے محض مہلت بڑھادینے کے بنا پر زیادتی حاصل کیجائے (ابن العربی) جاہلیت میں عام طور پر سود کی صورت یہ تھی کہ جب ادائے قرض وقت آجاتا ہے تو صاحب مال کہتا یا تو قرض ادا کرو یا مہلت لے کر سود دینا منظو کرو۔ سود کی یہ شکل بالا جماع حرام ہے۔ شوکانی لفظ ربا اپنے وسیع ترمعنی کے اعتبار سے مذکورہ صورتکو بھی شامل ہے لیکن یہ کل ربا نہیں ہے بعض قبائل میں تجارتی سود بھی رائج تھا۔ علامہ طبری لکتے ہیں کہ کان ربا یتبایعون بہ جی الجاھلیتتہ۔ (ج 4 ص 107) یعنی جاہلیت میں ایک صورت رباکی یہ بھی تھی جو خرید وفروخت میں ہوتا۔ علامہ سیوطی لکھتے ہیں : نزلت فی العباس ورجل من بنی المغیرتہ کانا شر یکین جی الجا ھلیتہ سلفافی الرباالی اناس من ثقیف (ایضا) کان بنو المغیرتہ یر جون لثقیف (درمنشور) یعنی ربا جس کی مذمت میں یہ آیات نازل ہوئی ہے وہ جاہلی دور میں بسلسلئہ کاروبار ( تجارت) تھا جو ثقیف اور بنو المغیرہ ؤغیرہ قبائل باہم بطور شرکت کیا کرتے اور جو سودی قرض کا لین دین جاری تھا موجود سودی نظام بھی اس کے تحت آتا ہے۔ نیز دیکھئے آل عمران آیت :130) ف 4 یعنی ان کو یہ سزا اس لیے ملے گی کہ وہ سود اور تجارت میں کچھ فرق نہیں سمجھتے تھے جیسا کہ آج کل بھی تجدد پسند طبقہ سود کو ایک کاروبارسمجھتا ہے حالانکہ تجارت اور سود میں بتعدد وجوہ فرق ہے۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ تجارت میں مفع ونقصان دونوں کا احتمال موجود ہے مگر سود خوار مقروض سے اصل زر کے علاوہ ایک متعین رقم بہر حال وصول کرلیتا ہے۔ جو مفت خوری بد تریم شکل ہے۔ ( رازی) ف 1 یعنی اللہ تعالیٰ نے معاف کردیا ہے اب اس کا واپس کرنا ضروری نہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : عفا اللہ عما سلف۔ پچھلا اللہ تعالیٰ نے معاف کردیا۔ ابن کثیر، شوکانی) پس امرہ الی اللہ کا مطلب یہ ہے کہ سود کی تحریم یاماسلف کا عفو اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے لہذا اس نے معاف فردیا ہے۔۔ (شوکانی) یہ مطلب ترجمہ میں دی گئی وضاحت کی بہ نسبت قابل ترجیح ہے۔ ف 2 سود خواروں کے لیے سخت وعید ہے، بعض نے ومن عاد کے یہ معنی کیے ہیں کہ تحریم کے بعد بھی اگر کوئی شخص بیع اور رباکو یکساں قرار گا اور سود کو حلال سمجھ کر کھائے گا ایسا شخص چونکہ کافر ہے اس لیے اسے ہمیشہ کے لیے دوزخی قرار دیا ہے۔ (شوکانی) البقرة
276 ف 3 یعنی سود کا مال بظاہر کتنا ہی بڑھ جائے۔ اللہ تعالیٰ اس میں خیر و برکت عطا فرماتا چنانچہ سود خوار پر دنیا بھی لعنت بھیجتی ہے اور آخرت میں بھی اسے وہ سزا ملے گی جو کسی دوسرے مجرم کو نہ ملے گی۔ ایک حدیث میں ہے کہ سود خواہ کتنا ہی بڑھ جائے انجام کا روبار وہ کم ہی ہوتا ہے۔ (ابن کثیر) اس کے مقا بلہ میں صدقہ وخیرات میں برکت ہوتی ہے۔ صحیحین وغیرہ میں حضرت ابوہریرہ ر ضی اللہ عنہ سے ایک روایت ہے کہ جس شخص نے اپنی پاکیز ہ کمائی سے ایک کھجور کے برابر صدقہ دیا اللہ تعالیٰ اسے قبول فرماتا ہے اور بڑھاتا ہے حتی کہ وہ احد پہاڑ کے برابر ہوجاتا ہے۔ (قرطبی ) البقرة
277 البقرة
278 ف 4 یعنی مالدار ہو کر اپنے بھائی کو بلا سود قرض نہ دے یہ نعمت الہی کی ناشکری ہے۔ (موضح بتصرف ) ف 5 یعنی حرمت ؟ آنے سے قبل جو کچھ وصول کرچکے سو کرچکے اب اس حرت کے بعد لوگوں کے ذمہ جو بھی سود ہوا ہے تم اسے لینے کا حق نہیں۔ رکھتے جنانچہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وہ تمام سود باطل قرار دے دیئے جو قریش ثقیف اور دوسرے عرب قبائل میں سے بعض تاجروں کے اپنے قرض داروں کے ذمہ باقی تھے۔ حجتہ الوداع کے موقعہ پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اعلان فرمایا۔ جاہلیت کے تمام سود باطل قرار دیئے جاچکے ہیں اور سب سے پہلے میں اپنے خاندان یعنی حضرت عباس (رض) بن عبد المطلب کا سود باطل کرتا ہوں۔ لہذا وہ سارے کا سارا باطل ہے۔ (ابن کثیر ) البقرة
279 ف 6 یعنی اس کے خلاف اعلان جنگ ہے اور وہ وعید ہے جو دوسرے کسی جرم کے بارے میں اللہ و رسول کی طرف سے نہیں دی گئی۔ حضرت ابن عباس (رض) ابن سرین حسن بصری اور بعض دیگر ائمہ کے نزدیک سود خوار کو توبہ پر مجبور کیا جائے کا گر پھر بھی روش نہ بدلے گا تو اسے قتل کردیا جائے گا۔ (ابن کثیر) ف 7 اصل زر سے نائد وصول کرو یہ تمارا لوگوں پر ظلم ہوگا اور اگر تمہیں اصل زر بھی نہ ملے تو یہ لوگوں کا تم پر ظلم ہوگا اور یہ دونوں چیزیں ہی انصاف کے خلاف ہیں (ابن کثیر ) البقرة
280 ف 8 تنگد سست مقروض کو کشائش تک مہلت دینا یا معاف کردینا بڑی نیکی ہے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا من انظر معسر ااووضع عنہ الظلہ اللہ فی ظلہ۔ کہ جس نے اپنے قرض دار کو مہلت دی یا اسے اصل زر ہی معاف کردیا اس کو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنا سایہ عنایت کرے گا (ابن کثیر بحوالہ صحیح مسلم ) البقرة
281 ف 9 متعد روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ قرآن کی سب سے آخری آیت ہے جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہوئی۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے بعد بعض روایات کے مطابق اکیس روز اور بعض کے مطابق صرف نو روز رہے۔ نیز ایک روایت میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس کو الربا اور الدین دنوں آیتوں کے درمیان لکھو۔ ابن کثیر۔ روح المعانی ) البقرة
282 ف 1 اس آیت کو ایتہ الدین کہا جاتا ہے۔ اور یہ قرآن کی سب سے لمبی آیت ہے۔ اس میں ادھار یا قرض کے معاملہ کے احکام بیان فرمائے ہیں اور اصولی طور پر باتیں ضروری قرار دی ہیں۔ ایک تو تحریر ہوجانی چاہیے دوسرے مدت کی تعین تیسرے گواہ بھی۔ عموما لوگ ادھا یا قرض کے معاملے میں تحریر کرنے اور گواہ بنانے کو معیوب اور باہمی نے اعتمادی کی علامت سمجھتے ہیں۔ آیت کے آخری میں اس کی حکمت بیان فرمادی گئی کہ یہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک مبنی بر انصاف گواہی کو زیادہ درست رکھنے والی اور ہر قسم کے شک و شبہ بچانے والی چیز ہے۔ بنا بریں ایسے معلاملات میں اس قسم کی احتیاط مناسب ہے تاکہ آئندہ جھگڑا پیدا نہ ہو سکے۔ (ابن کثیر بتصرف) حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) نے فرمایا کہ اس آیت سے بیع سلم کا جواز ثابت ہوتا ہے اور اسی کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی ہے۔ (شوکانی) اور بیع سلم یا سلف یہ ہے کہ کسی چیز کی بیشگی قیمت دے کر کچھ مدت کے بعد اس چیز کو وصول کرنا احادیث میں اس کے شرائط مذکور ہیں حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ آئے تو دیکھا کہ اہل مدینہ کھجور میں بیع سلف کرتے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : من سلف فی تمر ففی کیل معلوم اووزن معلوم الی اجل معلوم۔ کہ جو شخص بھی بیع سلف کرے تو ناپ تول اور مدت کی تعین ہونی چاہیے۔ (ابن کثیر) ف 2 یعنی جو دیانت وامانت اور اخلاق کے اعتبار سے تم میں قابل اعتبار سمجھے جاتے ہوں۔ قبول شہادت کے دس شرائط ہیں جو کتب فقہ میں مذکور ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ مسلمان عاقل اور بالغ ہو، غیر مسلم کی شہادت قابل قبول نہیں ہوگی۔ (معالم) ف 3 یعنی اگر تجارت میں لین دین نقد ہو ادھار نہ ہو تو گواہ بنا لینے ہی کافی ہیں لکھنا ضروری نہیں ہے کیونکہ اس میں کلفت ہے اور یہ بھی واجب نہیں ہے۔ مستحب ہے۔ (شوکانی۔ خازن) ف 4 یہاں یضار فعل، معروف بھی ہوسکتا ہے اور مجہول بھی۔ یہ ترجمہ مجہول قرات کی بنا پر ہے اور اگر صیغہ معروف کی قرات ہو تو معنی یہ ہوں گے کہ لکھنے والے اور گواہی دینے والے کو چاہیے کہ نقصان نہ پہنچائے۔، مثلا لکھنے وال غلط بات لکھ دے جس سے صاحب حق یا مدیون کو نقصان پہنچے یا گواہ شہادت میں ہیر پھیر کرکے غلط گواہی دے اور کاتب اوشاہد کو نقصان پہنچانا یہ ہے کہ انہیں مشغولیت کے وقت تنگ کر کے بلا یا جائے وغیرہ۔ البقرة
283 ف 1 یہ بیع کی ایک دوسرے شکل ہے۔ یعنی اگر تم سفر میں قرض کا معاملہ کرو اور تمہیں لکھنے ولا یا ادوات تحریر میسر نہ ہوں تو تحریر کی بجائے مدیون کو چاہیے کہ صاحب دین کے پاس کوئی چیز رہن کرھ دے۔ سفر کا ذکر اس لیے کیا گیا کہ یہ چیز زیادہ ترسفر میں پیش آسکتی ہے ورنہ رہن حضرت میں بھی جائز ہے۔ خود آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی زرہ ایک یہو دی کے پاس گروی رکھ کر عملا اس کی وضاحت کردو،) صحیحین) پس سفر میں تورہن کی نص قرآن سے ثابت ہے اور حضر میں آنحضرت کے فعل سے۔ (شوکانی) یعنی قرضدار لینے والے کا اعتبار کرے اور اس کی کوئی چیز رہن رکھے بغیر اسے قرض دے دے تو سے بھی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے اس کا قرض ادا کردے۔ حدیث میں ہے : علی الید ما اخذت حتی تؤ دیہ۔ کہ ہاتھ نے جو کچھ لیا ہے اس کے ذمہ ہے جب تک کہ ادا نے کردے۔ (ابن کثیر) ف 3 اس میں اثم (گناہ) کی نسبت دل کی طرف کی ہے اس لیے کہ کتمان دل کا فعل ہے اور اسکے دواعی اولادل ہی ہوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ یہ وعید ہے کہ کتمان شہادت اتنا بڑا گناہ ہے کہ اس سے دل مسخ ہوجاتا ہے۔ نعوذباللہ من ذلک (شوکانی) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ جھوٹی گواہی دینا اور اسی طرح گواہی کو چھپا نا کبیرہ گناہ ہے۔ (ابن کثیر) سعیش بن مسیب اور ابن شہاب کا قول ہے کہ آیت ریا اور آیت دین سب سے آخر میں نازل ہوئی ہیں۔ (شوکانی ) البقرة
284 ف 4 اس سے معلوم ہوا کہ خیالات پر بھی محاسبہ ہوگا مگر ان سے مراد وہ خیالات ہیں جن پر انسان کو اختیا رہو اور جنہیں وہ دل میں جاگزیں کرلے اور جو خیالات انسان کی طاقت اور اختیار سے باہر ہوں اور ان کو اپنے دل میں جگہ نہ دے تو ان پر محاسبہ نہ ہوگا جیسا کہ اگلی آیت : لا یکلف اللہ۔ الخ میں ہے حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ جب آیت للہ مافی السموات۔۔۔ نازل ہوئی تو صحانہ پر گراں گزری اور انہوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا ہم نماز، روزہ وغیرہ اعمال بجا لا رہے ہیں اس آیت کے مطابق تو بڑی مشکل پڑے گی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا تم بھی پہلے اہل کتاب کی طرح سمعنا وعصینا کہنا چاہتے ہو بلکہ تم یوں کہو سمعنا واطعنا غفر انک ربنا والیک المصیر۔ جب صحا بہ نے اس کا اقرار کرلیا تو اللہ تعالیٰ نے اگلی آیت : امن الرسول۔۔ نازل فرمائی اور آیت : اوتخفوہ یحاسبکم بہ اللہ۔ کو منسوخ کردیا اور جب اگلی آیت لا یکلف اللہ۔۔۔۔ الخ نازل فرمائی تو اس کے ہر دعا ئیہ جملہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے قد فعلت (میں نے ایسا کردیا) فرمایا۔ (احمد۔ مسلم) واضح رہے کہ یہاں دوسری آیت سے پہلی کے منسوخ ہونے کے معنی یہ ہیں کہ پہلی آیت میں جو ابہام تھا اس کی وضاحت فرما دی، حافظ اب القیم لکھتے ہیں کہ صحا بہ کرام نسخ کا لفظ وضاحت کے معنی میں بھی استعمال کرتے تھے۔ حضرت ابو ہریرہ (رض) سے ایک دوسری روایت میں ہے کہ انحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میرے لیے اللہ تعالیٰ نے میری امت کے لوگوں کو وہ خیالات اور وساویس معاف کردیئے ہیں جو ان کے دلوں میں آئیں تاوقتیکہ انکو زبان پر نہ لائیں یاان پر عمل نہ کریں۔ (ابن کثیر۔ شوکانی ) البقرة
285 ف 5 یعنی ایسا نہیں ہے کہ ہم بعض انبیاء کو مانتے ہوں اور بعض کا انکار کرتے ہوں بلکہ ہم تمام انبیا کو مانتے ہیں۔ ف 6 اس آیت اور اس سے اگلی آیت کی فضیلت میں متعدد احادیث ثابت ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) سے ورایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے رات کو سورت بقرہ کی آخری دو آیتیں پڑھیں وہ اس کے لیے کافی ہوگئیں، حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ ایک روز آسمان کا ایک دروازہ کھلا اور ایک فرشتے نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں عرض کی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دونوروں کی بشارت ہو جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیئے گئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے کسی نبی کو نہیں دیئے گئے یعنی سورت بقرہ کی آخری دو آیتیں اور سورت فاتحہ۔ (ابن کثیر ) البقرة
286 ف 1 مرسل روائیوں میں ہے کہ حضرت جبر یل (علیہ السلام) نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تلقین کی کہ ان آیتوں کے خاتمہ پر آمین کہیں۔ چنانچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آمین یارب العالمین فرمایا۔ ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سورت کے خاتمہ پر سات مرتبہ اللھم ربنا ولک الحمد فرمایا۔ ( درمنشور) بعض صحا بہ سے بھی اس کے خاتمے پر آمین کہنا ثابت ہے اور ایک اروایت میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان آیتوں کے بعد آمین کی تر غیب دی۔ ( ابن کثیر ) البقرة
0 ف 2 اس سورت کے مدنی ہونے پر مفسرین کا اتفاق ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ پہلی 83 آیتیں وفد نجران کے بارے میں نازل ہوئیں ہیں جو 9 ھ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسل کی خدمت میں حاضرہو اتھا۔ (فتح القدیر) یہ وفد کل ساٹھ سواروں پر مشتمل تھا جن میں چودہ ان کے معزز افراد شمارہوتے تھے اور تین آدمی عاقبہ عبدالمسیح۔ السید الالہم اور ابو حارثہ ان سے میں نمایاں حیثیت رکھتے تھے۔ اور ابو حارثہ کو تو مذہبی رہنما ہونے کی حثیت سے لاٹ پادری سمجھا جاتا تھا۔ ان سے دوسری باتوں کے علا اوہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کی الو ہیت پر بھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مناظرہ ہوا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مسیح علی السلام فنا ہوجائے گا اور اللہ تعالیٰ ہی حی ہے یعنی ہمیشہ زندہ ہے اور رہے گا وغیرہ دلائل پیش کیے جس پر وہ خاموش ہوگئے۔ اس پر یہ سورت نازل ہوئی۔ بقیہ تفصیل کے لیے دیکھئے آیت مبابلہ 61۔ (معالم۔ ابن کثیر) حروف مقطعات کی تشریح ابتدا سورت بقرہ میں گزر چکی ہے۔ آل عمران
1 آل عمران
2 ف 4 الحیی القیوم یہ اسماء حسنی صفات باری تعالیٰ ہیں۔ حیات اللہ تعالیٰ کی صفات ذاتیہ میں سے ہے۔ حدیث میں ہے کہ دو آیتوں میں اسم اعظم ہے جس کے واسطہ سے اللہ تعالیٰ سے دعا کی جائے تو اللہ تعالیٰ دعا رد نہیں فرماتے۔ شروع آیتہ الکرسی اللہ لا الہ الا ھو الحیی القیوم وشروع آیتہ آل عمران۔ بعض ورایات میں تین آیتیں مذکو رہیں اور تیسری آیت سورت طہ کی ہے یسعنت الوجوہ اللحی القیوم۔ (ابن کثیر ) آل عمران
3 ف 5 یہاں الکتاب سے مراد قرآن مجید ہے اور بالحق سے اس کے سچا اور منزل من اللہ ہونے پر دلالت ہے اور اس سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرنے کا مطلب یہ ہے کہ کتب سابقہ میں جو خبریں اور بشارتیں مذکور ہیں اس میں بھی وہی خبریں اور بشارتیں ہیں۔ ایک خبر یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آخری رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بنا یر بھیجے گا اور بشارت یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ ان پر قرآن نازل فرمائے گا۔ (ابن کثیر۔ کبیر) ف 6 تورات سے مراد وہ کتاب ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلامک پر نازل ہو کی گئی اور انجیل سے مراد وہ کتاب ہے جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر نازل کی گئی۔ اس وقت یہ دنوں کتابیں اپنی اصلی شکل میں موجود نہیں ہیں۔ تورات بائبل کے عہد قدیم کی پہلی پانچ کتابوں کا نام ہے اور انجیل بیئبل کے عہد جدید کی پہلی چار کتابوں میں متفرق طور پر درج ہے۔ یہود و نصاری نے انہیں بڑی حد تک بدل ڈلا ہے اور ان میں کچھ تشریحات اپنی طرف سے ملا کر خلط ملط کردیا ہے الفرقان سے مراد قرآن مجید ہے جس سے تورات وانجیل کے صحیح اور غلط اجزائے کے مابین فرق کیا جاسکتا ہے۔ (کبیروغیرہ ) آل عمران
4 ف 7 یعنی اللہ تعالیٰ کے احکام ماننے سے انکار کردیا۔ (شوکانی ) آل عمران
5 ف 8 اس آیت میں پہلے یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو آسمان وزمین کی ہر بڑی اور چھوٹی ظاہر اور پوشیدہ چیز کا علم ہے حالا نکہ وہ عرش معلی پر ہے۔ (وحیدی) اور پھر اس طرف اشارہ کیا ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ایک بندہ مخلوق ہیں جس طرح دوسرے انسانوں کو اللہ تعالیٰ نے ماں کے پیٹ میں پیدا کیا اسی طرح حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو بھی ماں کے پیٹ میں جیسے چاہا پیدا کیا۔ پھر وہ خدا یا خدا کا کا بیٹا کیسے ہوسکتا ہے جیسے عیسائیوں کا غلط عقیدہ ہے۔ آل عمران
6 کیف یشاء۔ یعنی مذکر یا مؤنث اسود احمر تام ناقص وغیرہ اور انسان کی سعادت وشفاعت عمر اور رزق بھی اسی وقت لکھ دیا جاتا ہے جیسا کہ متعدد احادیث میں مذکور ہے۔ (شوکانی۔ ابن کثیر ) آل عمران
7 ف 1 محکمات وہ آیات ہیں جن کا مفہوم بالکل واضح اور صریح ہے اور ان میں کسی قسم کی تاویل کی کنجائش نہیں ان کو ام الکتاب قرار دیا ہے۔۔ یعنی میں لوگوں کو دین کی طرف دعوت دی گئی ہے اور انہی میں دین کے بنیادی عقائد، عبادات اور احکام بیان کیے گئے ہیں۔ قرآن مجید کے نصائح عبر اور انسانی گمراہیوں کی نشانی دہی بھی انہی آیات میں لی گئی ہے۔ متشابہات جن کا مفہوم سمجھنے میں اکثر لوگوں کی اشتباہ ہوجاتا ہے ان میں تاویل کی گنجائش نکل سکتی ہے جن میں ایسے حقائق کا بیان ہے جب پر مجمل طور پر ایمان لانا تو ضروری ہے لیکن ان کی تفصیلات کو جا ننا انسان کے لیے ضروری ہے اور نہ عقل استعداد کے ساتھ ممکن ہے۔ جیسے حروف مقطعات مرنے کے بعد برزخی اور اخری زندگی کی مختلف کیفیات وغیرہ۔ تفسیر وحیدی میں لکھا ہے کہ صفات الہیہ کے منکرین تو استوۓ ید اور نزول وغیرہ کو متشابہات قرار دیتے ہیں مگر اہل حدیث ان کو محکم مانتے ہیں۔ نیز اس میں نصاری کو بھی تنبیہ ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق کلمتہ وروح منہ وغیرہ آیات سے عیسیٰ (علیہ السلام) کی الوہیت اور انبیت پر تو استد الال کرتے ہیں مگر دوسری آیات ان ھو الا عبد ان مثل عیسیٰ کمثل ادم، الخ پر دھیان نہیں دیتے۔ (ابن کثیر) متشابہا کے معنی کے لیے دیکھئے (الزمر آیت 23) یعنی جو لوگ مخلص ہوتے ہیں اور اس کے ساتھ علم وفہم بھی رکھتے ہیں وہ محکمات کو اصل سمجھتے ہیں اور متشابہات کے من عند اللہ ہونے پر وہ ایمان تو رکھتے ہیں لیکن ان کی تفصیلات سمجھنے اور متعین کرنے کے درپے نہیں ہوتے۔ اس کے برعکس جو لوگ اہل زیغ ہیں جن کا مشغلہ ہی محض فتنہ جوئی ہو تو ہے وہ محکمات کو چھوڑ کر متشابہات کی عقلی تاویل کے چکر میں سرگردان رہتے ہیں حضرت عا ئشہ (رض) سے ورایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آیت کو الوالالباب تک پڑھا اور پھر فرمایا جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو متشابہات کے پیچھے پڑتے ہیں تو سمجھ لو کہ یہ وہی لوگ ہیں جن کی اللہ تعالیٰ نے نشاندہی فرمائی ہے سو تم ان سے بچو۔ (بخاری) حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ قرآن میں جھگڑنا کفر ہے۔ (ابو داؤد) پس ضروری ہے کہ قرآن کا جو حصہ محکم ہے اس پر عمل کیا جائے اور جو متشابہ ہے اس پر جوں کاتوں ایمان رکھا جائے اور تفصیلات سے بحث نہ کی جائے۔ (فتح البیان۔ ابن کثیر) آل عمران
8 ف 3 یہ وہ دعا ہے جو علم میں راسخ حضرت اللہ کے حضور کرتے رہتے ہیں۔ حضرت ام سلمہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسل یہ دعا فرمایا کرتے تھے۔ یا مقلب القلوب ثبت قلبی علی دینک اے اللہ میرے دل کو اپنے دین پر ثابت رکھ )، پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔ (ابن جریر ) آل عمران
9 آل عمران
10 آل عمران
11 ف 4 یعنی جس طرح کا عذاب قوم فرعون اور امم سابقہ کو ان کے رسولوں کو جھٹلا نے کی وجہ سے دیا گیا اسی طرح کا عذاب مالدار کفار کو بھی دیا جائے گا۔ یہاں ان کفار سے مراد وفد نجران یہودی مشرکین عرب اور دوسرے تمام کفار بھی ہو سکتے ہیں۔ (ابن کبیر۔ شوکانی ) آل عمران
12 ف 1 عاصم بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عزوہ بدر سے واپس تشریف لائے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہود کو سوق بنی قینقاع میں جمع کر کے فرمایا۔ اے گروہ یہود تم مسلمان ہوجاؤ اس سے قبل کہ تمہا را بھی وہی حشر ہو جو قریش بدر میں ہوا ہے۔ وہ بولے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! تم اس گھمنڈ میں نہ رہو کہ تم نے قریش کے ایک ناتجربہ کار گروہ کو جو لڑنا نہیں جانتا تھا۔ مار ڈالا ہے۔ جب تمہارا ہم سے مقابلہ ہوگا تو معلوم ہوجائے گا اصل آدمی یعنی ماہرین جنگ تو ہم ہیں جن کا کوئی مقابلہ نہیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ اور اس سے اگلی آیت نازل فرمائی۔ (ابن کثیر) اس کے نزول کے بعد بنو قریظہ کے قتل۔ بنی نضیر کے جلا وطن اور خیبر کے فتح ہوجانے سے قرآن کی یہ پیش گوئی بحمداللہ حروف بحروف سچی ثابت ہوئی۔ (شوکانی) آل عمران
13 ف 2 یعنی متذکرہ بالا پیش گوئی کے مبنی پر صداقت ہونے کے لیے معرکہ بدر میں بہت بڑی آیت (دلیل موجود ہے۔ (شوکانی۔ ابن کثیر) یرو نھم مثلھم صیغہ غائب یا کے ساتھ پڑ ھا جائے تو اس کے دو معنی ہو سکتے ہیں ایک یہ کہ مسلمان کفار کو اپنے سے صرف دو چند دیکھ رہے تھے حالانکہ وہ سہ چند تھے تاکہ مسلمانوں کو ثبات حاصل ہو چنانچہ مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی۔ دوم یہ کہ کفار مسلمانوں کے اپنے سے دو چند دیکھ رہے تھے حالا نکہ ان کی تعداد ایک ہزار کے قریب تھی اور مسلمان کل 313 مگر مسلمان دوچند اس لیے نظر آتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی مدد کے لیے فرشتے بھیج دیئے تھے۔ اکثر مفسرین نے پہلے معنی کو ترجیح دی ہے اور بعض نے دوسرے کو۔ (ابن کثیر۔ شوکانی) اور ترونھم پڑھیں تو معنی اور بن سکتے ہیں۔ (شوکانی) واضح رہے کہ دوچند دکھلا نا لڑائی سے قبل تھا ورنہ لڑائی کے وقت تو ہر گروہ دوسروں کو اپنے سے کم خیال کر رہا تھا۔ دیکھئے سورت برات آیت 130 (وحیدی ) آل عمران
14 ف 3 اشھوات۔ یہ شہوت کی جمع ہے جس کے معنی ہیں (کسی مرغوب چیز کی طرف نفس کا کھینچ جانا) یہاں کا الشہوات سے مراد وہ چیزیں ہیں جو طبعیت کو مرغوب ہیں اور من النساء میں من بیانیہ ہے یعنی وہ چیزیں یہ ہیں۔ القناطیر کا واحد قنطار ہے۔ اس کی مقدار میں مختلف اقوال ہیں مگر سب کا حاصل یہ ہے کہ مال کثیر کو قنطار کہا جاتا ہے۔ (ابن کثیر۔ شوکانی) ہماری زبان میں اس کا ترجمہ خزانے ہوسکتا ہے اور متاع اس سامان کو کہا جاتا ہے جس سے فائدہ حاصل کیا جائے۔ مزے کا لفظ اس کا تعبیری ترجمہ ہے۔ حاصل یہ کہ انسان ان چیزوں کی محبت میں پھنس کر خدا اور اس کے دین سے غافل ہوجائے اور انہیں تفاخر اور زینت کا ذریعہ سمجھے اور غرور وتکبر پر اتر آئے تو یہ تما چیزیں مذموم۔ ورنہ اگر ان تمام چیزوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نعمت خیال کرتے ہوئے ذریعہ آخرت بنایا جائے اور شریعت کی حدود میں رہ کر ان سے فائدہ اٹھا یا جائے تو یہ مذموم اور مبغوض نہیں بلکہ نہایت مرغوب اور محمود ہیں۔ اصل چیز نیت اور عمل ہے۔ اس لیے حدیث میں ایک طرف تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد یہ ہے کہ میرے بعد مردوں کے لیے کوئی ضرر رساں فتنہ عورتوں سے بڑھ کر نہیں ہے۔ بخاری) اور دوسری طرف آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ فرمایا ہے کہ دنیا متاع ہے اور اس کی بہترین متاع عورت ہے۔ اور یہ کہ دنیا میں میرے لیے عورت اور خوشبو پسندید بنادی گئی ہیں۔ بخاری وغیرہ یہی حال باقی تمام نعمتوں کا ہے۔ آیت کے آخر میں ان کو دنیاوی زندگی کا سامان قرار دیکر دنیاوی زندگی میں زہد اور آخرت میں رغبت پر زور دیا ہے۔ (ماخوذازابن کثیر وشوکانی ) آل عمران
15 آل عمران
16 ف 4 حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ جب آیت زین اللناس نازل ہوئی تو میں نے کہا یا للہ ! اب جب کہ تو نے خودہے ان چیزوں کو ہمارے لے پسند یدہ بنادیا ہے تو ہم اس فتنہ سے کیسے بچ سکتے ہیں ؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ جنہیں آخرت میں مذکورہ نعمتیں حاصل ہوں گی وہ ہیں جو یہ دعا کرتے ہیں اور جن میں وہ صفات پائی جاتی ہیں جن کا اگلی آیت میں ذکر آرہا ہے۔ آل عمران
17 ف 1 یا یہ کہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی بجا آوری اور اس کے محرمات سے پرہیز مشقت اٹھانے والے۔ ف 2 اس آیت سے خاص طور پر سحر (پچھلی رات) کے وقت استغفار کی فضیلت معلوم ہوتی ہے۔ کتب احادیث میں متعدد صحابی سے یہ روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے : جب رات کایک تہائی یا نصف باقی رہ جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ پہلے آسمان سے پر اتر کر یہ فرماتے ہیں ہے کوئی مانگنے والا کہ میں اس کو دوں؟ ہے کو دعا کرنے والا میں اس کی دعا قبول کروں ؟ ہے کوئی استغفار کرنے والا میں اس کی مغفرت کروں؟ اور ہر رات پکار کر یہی پوچھا جاتا ہے۔ ابن کثیر ) آل عمران
18 ف 3 قائما القسط حال من الا وم الشرد یعنی قا ٗم بالقسط حال من الا الشر یفتد اور آیت کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جو اس پوری کائنات کا خالق رازق اور مدتبر ہے وہ خود یہ گواہی دے رہا ہے اور اس کی گواہی سے بڑھ کر سچی اور منبی بر حقیت کسی کی گواہی ہو سکتی ہے کہ اپنی مخلوقات کا صرف وہی معبود ہے اور اس کا ہر کام اس کا ئنات میں جو بھی ہو ہستی ہے وہ اسی کی پیدا کردہ اسی کی متحاج اور اس کے رزق پر جینے وا لی ہے اور پھر یہی گواہی فرشتے اور وہ تمام اہل علم بھی دے ر ہے رہیں جو کتاب وسنت کے ماہر ہیں اور جنہو نوں نے اس کا ئنات کی حقیقت اور اس کے مبدائ اور معاد پر خوب غور کیا ہے۔ (شوکانی۔ ابن کثیر ) آل عمران
19 ف 4 دین اسلام کا نام ہے یعنی محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بتائے ہو ہوئے طریقہ کے مطابق اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اس کی عبادت کرنے اور اسی کے احکام کے مطابق اپنی پوری زندگی گزارنے کا۔ اس آیت میں بتایا کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں جس دین کا اعتبار ہے وہ صرف یہی اسلام ہے۔ نیز جو شخص آنحضرت صلی اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کا قائل نہیں ہے اور نہ آپ ﷺ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق اپنا عمل اور عقیدہ ہی درست کرتا ہے اس کا دین اللہ تعالیٰ کے ہاں معتبر نہیں ہے خواہ وہ توحید کا قائل ہو اور دوسرے ایمانیات کا قرار کرتا ہو۔ (م۔ ع) اسلام۔ ایمان اور دین اپنی حقیقت کے اعتبار سے تینوں ایک ہیں۔ (قرطبی) ف 5 یعنی اللہ تعالیٰ نے جتنے انبیا بھیجے ان سب کا دین یہی اسلام تھا۔ اہل کتاب نے اس حقیت کو جان لینے کے بعد کے اسلام دین حق ہے، محض وعناد کی بنا پر اسلام سے انحراف کیا ہے۔ آج بھیسن کے لیے صحیح روشن یہی ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ کی رسالت پر ایمان لیے آئیں اور دین اسلام کو اختیار کرلیں۔ آل عمران
20 ف 6 یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے جلد محاسبہ ہونے والا ہے اور آیت الہیٰ سے کفر کی سزا مل کر رہے گی۔ ف 7 اوتوا اہل کتاب اور مشرکین عرب سب کو مالعموم اسلام کی دعوت دو۔ جنا نچہ آنحضرت ﷺ نے اس آّیت کے مطابق عرب وعجم کے تمام ملوک وامر گو دعوت خطوط لکھے اور اپنی عمومی رسالت کا اعلان کیا۔ ایک حدیث میں ہے بعث الی الا حمر ولا اسود۔ کہ عرب و عجم کی طرف معبوث کیا گیا ہوں۔۔ حضرت ابو ہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا : والذی نفس محمد بیدہ ولا یسمع بی احدمن ھذہ الا متہ یھوددی ولا نصر انی ومات ولم یومن بالذی ارسلت بہ الا کان من اھل النار کہ قسم ہے اس ذات پاکی کی جس کے قبضہ میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جان ہے اس امت میں سے کوئی بھی یہودی یا نصرانی اگر میرا نام سن کر میری رسالت پر ایمان نہیں لائے گا تو وہ دوزخ میں جائے گا اور آنحضرت ﷺ کی بعثت کے عالگیر اور تا قیامت ہونے پر کتاب و سنت میں بکثر دلائل موجود ہیں۔ (ابن کثیر، شوکانی ) آل عمران
21 8 اس میں اہل کتاب کی مذمت ہے جن کی پوری تاریخ شاہد ہے کہ انہوں نے نہ صرف احکام الہیٰ پر عمل کرن سے انکار کیا بلکہ انبیا اور ان لوگوں کو قتل کرتے رہے ہم میں جنہوں نے کبھی ان کے سامنے دعوت حق پیش کی اور یہ انہتائی تکبر ہے۔ حضرت ابو عبیدہ (رض) بن جراح نے آنحضرت ﷺ سے سوال کیا کہ قیامت کے دن سب سے سخت عذاب کس شخص کو دیا جائے گا آپ ﷺ نے فرمایا : اس کو جس نے کسی نبی یا امر المعروف ونہی عن المنکر کرنے والے شخص کو قتل کیا۔ اس کے بعد آنحضرت ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔ (ابن جریر۔ْ ابن کثیر ) آل عمران
22 آل عمران
23 ف 1۔ اس آیت میں کتاب اللہ سے مراد تو رات وانجیل ہے اور مطلب یہ ہے کہ جن انھیں خود ان کی کتاب کو طرف دعوت دی جاتی ہے کہ چلو انہی کو حکم مان لو اور بتا و کہ ان میں آنحضرت ﷺ پر ایمان لانے کا حکم دیا گیا ہے یا نہیں تو یہ اس سے بھی پہلو تہی کر جاتے ہیں اور ظاہر کرتے ہیں جیسے ان کو کسی چیز کا علم ہی نہیں ہے۔ آل عمران
24 ف 2 یعنی جس چیز نے حق سے کھلم کھلا انحراف اور بڑے بڑے گناہ کا بے شرمی سے ارتکاب پر دلیر جری بنا دیا ہے وہ یہ ہے کہ انہیں خدا کی پکڑ اور سزا کا کوئی ڈر نہیں ہے۔ ان کو آبا واجداد انہیں طرح طرح کی خام خیالوں اور جھوٹی اور چہتیے ہونے کا دعوی کرتے ہیں۔ مائدہ آیت 18) اور کہتے ہیں کہ جنت بنی ہی ہمارے لیے ہے۔ ( بقرہ : آیت 111) اور کبھی کہتے ہیں کہ اگر ہمیں تھوڑی بہت سزا ہوئی بھی تو چند دن سے زیادہ نہ ہوگی۔ ہمارے بزرگوں کا جن کے ہم نام لیو اور دامن گرفتہ ہیں، خدا پر اینا زور ہے کہ وہ چاہے بھی توہ میں سزانہ دے سکے گا (مزید دیکھئے بقرہ آیت :80) اور نصاری ٰ نے تو کفارہ کا مسئلہ گھڑکے ؛ ؛ معا صی پرسزا کا سارا معاملی ہی ختم کردیا ہے۔ آل عمران
25 ف 3 ینعی انہیں جان لینا چاہیے کہ قیامت کے روز جب ہمارے حضور جمع ہوں گے تو ان کا بہت براحال ہوگا ان کے یہ من گھڑت عقیدے انہیں بزرگوں سے جھو ٹی محبت اور دامن گیری خدا کے عذاب سے بچا سکے گی۔ کوئی نبی یا ولی اللہ تعالیٰ کی مرضی کے غیر سفارش کا بھی مجاز نہ ہوگا۔ (ترجمان۔ وحیدی) آل عمران
26 ف 4 یہود اس غلط فہمی مبتلا تے کہ حکم و نبوت کایہ سلسلہ ہمشہ ان میں رہے گا۔ دوسری قوم اس کا استحقاق نہیں رکھتی مگر جب نبی آخرالزمان ﷺ ایک متی قوم بنی اسمعیل سے مبعوث ہوگئے تو ان کے غیظ وغضب اور حسد کی انتہا نہ رہی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی غلط فہمی کودو کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ خود مختار اور مالک الملک ہے۔ وہ جس قوم کو چاہتا ہے دنیا میں عزت و سلطنت سے نوازا دیتا ہے۔ لہذا نبوت جو بہت بڑی عزت ہے اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے جس کو چاہا پسند فرما لیا اللہ تعالیٰ پر کسی کو اعتراض کا حق نہیں ہے۔ یہاں دعا کے انداز میں مسلمانوں کو بشارت بھی دے دی کہ تمہیں اس دنیا میں غلبہ واقتدار حاصل ہوگا اور آنحضرت خاتم الا نبیا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا انعام ہے ْ لہذا تمہیں چاہیے کہ اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لاو آل عمران
27 ف 5 اس سے موسموں کے اعتبار سے رات اور دن کے بڑھنے اور گھٹنے کی طرف اشارہ ہے۔ ف 6 حاٖفظ طبرانی (رح) نے ایک حدیث ذکر کی ہے کہ قل اللھم تابغیر حساب میں اللہ تعالیٰ کا اسم اعظم ہے جس کی تلاوت کر کے دعا کی جائے تو اسے قبولیت حاصل ہوتی ہے۔ حضرت معاز (رض) نے اپنے اوپر قرض بڑھ جانے کی شکایت کی تو آنحضرت ﷺ نے انہیں اس آیت کے تلاوت کرنے اور اس کے ساتھ یہ دعا پڑ ھنے کی ہدایت فرمائی : رحمان الدنیا والا خرۃ رحیمھما تعطی متشا منھماوتمنع من تشا ارحمنی رحمۃ تغنینی مھا رحمۃ من سواک اللھم اغنی من الفقرواقض عنی الدنیا : اے دنیا اور آخرت میں رحم کرنے والے تو جسے چاہتا ہے عنایت کرتا ہے اور جس سے چاہتا ہے روک لیتا ہے مجھ پر ایسی رحمت فرماکر اس کے بعد دوسروں کی رحمت سے بے نیاز ہوجاوں۔ اے اللہ مجھے فقر سے غنی کر دے اور میرا قرض ادا فرمادے۔ (ابن کثیر۔ شوکانی ) آل عمران
28 ف 1 اس آیت میں کفار کے ساتھ موالات اور دستی رکھنے سے منع فرمایا ہے اس پر سخت وعید سنائی ہے۔ صرف بچاو اور تدبیر سلطنت کی حد تک ظاہری طور پر موالاۃ کی اجا زت دی ہے بشر طیکہ یہ اظہار رول میں نفرت کے ساتھ ہو۔ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں لقیہ صرف زبان سے اظہار کی حد تک جائز ہے نہ کہ عمل سے۔ نیز حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ بعض یہودی روسا نے انصار کے ایک گروہ سے تعلقات قائم کر رکھے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ کسی موقع پر ہم ان کو دین اسلام سے پھیر نے میں کا میاب ہوجائیں گے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (ابن کثیر۔ شوکانی) دراصل یہ اور اس مفہوم کی دوسری آیات اسلامی حکومت کی خارجہ پالیسی وضع کرنے میں اصل کی حثیت رکھتے ہیں۔ مزید تشریح کے لیے دیکھئے ما ئدہ آیت 51۔56 اور مسئلہ تتقیتہ کی تفصیل کے لیے سورت نحل آیت 106 ملا حظہ فرمائیں۔ آل عمران
29 آل عمران
30 آل عمران
31 ف 2 یہود نصایٰ اور مشرکین سبھی یہ دعو یٰ کرتے ہیں تھے کہ ہم اللہ تعالیٰ نے ان کی تردید فرمائی اور آنحضرت ﷺ کو حکم دیا کہ تم ان سے کہہ دو کہ اب اللہ تعالیٰ کی محبت کے حصول کا صرف ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ یہ ہے کہ تم مجھے اللہ تعالیٰ کا نبی مان کر میری اتباع اختیار کرلو۔ (وحیدی) اور اس خطاب کا تعلق مسلمانوں سے بھی ہے کہ اگر تم اللہ تعالیٰ کی محبت کا دعویٰ ہے تو اس کے لیے زبانی اظہار محبت کافی نہیں ہے بلکہ جمع اقوال وافعال میں میری پیروی اختیار کرو۔ حدیث میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : شرک غلط محبت کی راہ سے سرایت کرتا ہے۔ اور الدین نام ہے اللہ تعالیٰ کے لیے دوستی کرنے اور اللہ تعالیٰ کے لیے دشمنی کرنے کا۔ (شوکانی۔ ابن کثیر ) آل عمران
32 ف 3 اس آیت میں اطاعت الہیٰ کے ساتھ الر سول محمد ﷺ۔ کی اطاعت کا مستقبل حثیت سے حکم دیا گیا ہے اور آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد الرسول۔ ﷺ۔ کی اطاعت سنت کی پیروی سے ہی ہو سکتی ہے۔ بعض لوگ غلط فہمی کی بنا پر کہہ دیتے ہیں کہ حدیث وہی حجت ہوگی جو قرآن کے مطابق ہو حالا نکہ قرآن نے متعدد موقعوں پر حدیث کو مستقل دلیل اور ما خذ شریعت کی حثیت دی ہے۔ لہذا قانون کا ماخذ قرآن سے زائد حکم تو ہو سکتے ہیں مگر کوئی صحیح حدیث قرآن کے خلاف نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے تو یہ اس کے عقل وفہم کا قصور ہے یا اس کی نیت کا فتور۔ (سلسلہ کلام کے لیے دیکھئے سورت النجم 4) آل عمران
33 ف 4 اوپر کی آیات میں آنحضرت ﷺ کی اتباع کا حکم دیا ہے اور اب اس آیت میں آپ کی رسالت کے اثبات کے سلسلہ میں فرمایا رہا ہے کہ آّنحضرت ﷺ کا تعلق بھی اس خاندان نبوت سے ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے چن لیا ہے۔ (شوکانی) عمران نام کی دو سخصتیں گذری ہیں ایک موسیٰ ( علیہ السلام) و ہارو ( علیہ السلام) کے والد اور دسرے حضرت مریم (رض) کے والد اکثر مفسرین (رح) نے یہاں عمران ثانی مراد لیا ہے کیونکہ انہی کی آل۔ حضڑت مریم ( علیہ السلام) وعیسی ( علیہ السلام)۔ کا قصہ بیان کیا جا ہا ہے۔ (ابن کثیر۔ کثیر) غالبا اس سورۃ کا نام آل عمران اسی قصہ پر رکھا گیا ہے۔ آل عمران
34 آل عمران
35 ف 5 تفاسیر امئر ۃ عمران کا نام حنتہ مذکور ہے اور ظاہر دمشق میں ان کی قبر ہے۔ (ابن کثیر، بحر) اس زمانہ میں دستور تھا کہ بعض لڑکوں کو ماں باپ اپنے حق سے آزاد کر کے اللہ تعالیٰ کے نذر کردیتے ہیں اور عبادت خانے کے سپرد کردیتے۔ عمرانن کی بیوی حاملہ تھیں انہوں نے بھی یہی نذر مانی۔ اور محررا کے معنی ہیں ہے کہ خالصہ کنیسہ کی خدمت کے لیے وقف رہے گا۔ (قرطبی ) آل عمران
36 ف 1 یہ درمیان میں جملہ معترضہ ہے اور فرمان باری تعالیٰ ہے۔ (قرطبی) چنانچہ یہ دعا قبول ہوئی۔ حدیث میں ہے آنحضرت ,ﷺ نے فرمایا ؛ مامن مولود یولد الامسہ الشیطان حین یولد جفستھل صارخامن مسہ ایاہ ال امرکم دانبھا۔ کوئی بچہ ایسا نہیں جس کو ولادت کے وقت شیطان مس نہ کرتا ہو مگر مریم ( علیہ السلام) اور اس کا بیٹا ( علیہ السلام)۔ ( بخا ری۔ مسلم ) آل عمران
37 ف 3 ابن اسحاق نے اس کی وجہ حضرت مریم ( علیہ السلام) کی یتیمی بیان کی ہے اور دوسرے مئو رخین نے بنی اسرئیل میں قحط سالی کو سبب کفالت قرار دیا ہے۔ حضرت زکرریا ( علیہ السلام) مریم ( علیہ السلام) کے خالو تھے اور بعض نے بہنوئی بھی لکھا ہے۔ چنانچہ حدیث معراج میں آنحضرت ﷺ نے یحیی ( علیہ السلام) اور عیسیٰ ( علیہ السلام) کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کو ابنا خالتہ قرار دیا ہے لیکن شار حین نے اسے مجاز پر محمول کیا ہے۔ (ابن کثیر) ف 4 لفظ محراب سے مرادمعروف محراب نہیں ہے جو مسجدوں میں امام کے لیے بنائی جاتی ہے۔ اس کے معنی تو اس چھوٹے سے کمرہ کے ہیں جو تنہائی کے لیے بنایا جاتا ہے یہود اور نصاریٰ عبادت خانہ سے الگ کچھ بلندی پر یہ محراب بناتے تھے جس میں کنیسہ کے مج اور رہتے تھے۔ ف 5 اسلوب کلام سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ رزق خرق عادت کے طو پر حضرت مریم ( علیہ السلام) کے پاس پہنچ رہا تھا۔ اکثر تابعین (رح) سے منقول ہے کہ حضرت زکریا ( علیہ السلام) جب بھی مریم ( علیہ السلام) کے حجرہ میں جاتے تو ان کے ہاں بے موسم کے تازہ پھل پاتے۔ اور رزق سے علم مرادلینا صحیح نہیں ہے۔ (ابن جریر۔ ابن کثیر ) آل عمران
38 ف 6 حضرت زکریا ( علیہ السلام) بوڑھے ہوچکے تھے اور ابھی تک بے اولاد تھے۔ بظاہر انہیں اولاد کی کوئی امید نہ تھی لیکن یہ دیکھ کر کہ کس طرح حضرت مریم ( علیہ السلام) کو خرق عادت کے طور بے موسم کا رزق پہنچ رہا ہے ان کے دل میں بھی یہ خواہش پیدا ہوئی کہ بے موسم کا رزق پہنچا نے ولا مایوسی کے عالم میں اولاد بھی فرما سکتا ہے۔ چنانچہ اسی جگہ اور اسی وقت اللہ تعالیٰ کے حضور نیک اولاد کی دعا کی بعض علما نے حضرت مریم ( علیہ السلام) کو خرق عادت میوے پہنچنے کا انکار کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ محاورہ ہے کہ خدا رسیدہ لوگ ہر نعمت کو (من عند اللہ) اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کردیتے ہیں مگر حضرت زکریا ( علیہ السلام) کا اس حالت کو دیکھ کر اظہار تعجب اور دعا کرنا بتا رہا ہے کہ یہ رزق خرق عادت ہی مل رہا تھا۔ (م۔، ع ) آل عمران
39 ف 7 کلمتہ اللہ یہ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کا لقب ہے جیسے حضرت جبریل ( علیہ السلام) کا لقب روح القدس ہے کیونکہ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) بغیر باپ کے کلمہ کن سے پیدا ہوئے۔ جمہور مفسرین نے یہی منعی کیے ہیں، ّ(کبیر شوکانی) حضرت یحیی ( علیہ السلام) حضرت عیسیٰ ٰ ( علیہ السلام) سے تین سال بڑے تھے اور سب سے پہلے انہو نے حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کی تصدیق کی تھی۔ (ابن کثیر۔ شوکانی) ف 8 حصو رسے مراد ایسا شخص ہے جسے اپنی جنسی خواہش پر پوری طرح حاصل ہو۔ (فتح البیان ) آل عمران
40 آل عمران
41 ف 1 یعنی تم تین دن تک صحیح سالم ہونے کے باجود ہاتھ یا ابرو کے اشارے کے سوا لوگوں سے بات چیت نہ کرسکو گے۔ اس حال میں تم اپنا سارا وقت اللہ تعالیٰ کے ذکر و شکر اور تسبیح میں صرف کرو۔ (ابن کثیر ) آل عمران
42 ف 2 اس آیت میں حضرت مریم ( علیہ السلام) کے بر گزیدہ ہونے کا دو مرتبہ ذکر ہوا ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ محض تاکید کے لیے ہو یا پہلی برگیزیدہ گی سے مراد بچپن میں حضرت مریم ( علیہ السلام) کو سرف قبولیت بخشنا ہو جو آیت : فتقبلھا ربھا بقبول حسن میں مذکور ہے اور دوسری برگزیدگی سے مراد اللہ تعالیٰ کا نہیں انہیں حضرت ﷺ عیسیٰ ( علیہ السلام) کی پیدا ئش کے لیے منتخب فرماتا اور خصوصی فضیلت عطا کرتا ہو۔ نسا العالمین۔ سے صرف اس زمانہ کی عورتیں مراد ہیں کیونکہ احادیث میں حضرت مریم ( علیہ السلام) کی طرح حضرت خدیجہ (رض)۔ حضرت فاطمہ (رض) اور حضرت عائشہ (رض) کی فضیلت میں بھی اسی قسم کے الفاظ مذکور ہیں۔ حضرت علی (رض) سے روایت ہے کہ‘ آنحضرتﷺ نے فرمایا، دنیا کی بہترین عورت خدیجہ (رض) بنت خویلید ہے۔ بخاری ومسلم) دوسری حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا مردوں میں توبہت سے لوگ کامل ہوئے مگر عورتوں میں صرف حضرت مریم ( علیہ السلام) بنت عمران اور آسیہ زوجہ فرعون ہیں اور عائشہ کی فضیلت دوسری عورتوں پر ایسی ہے جیسی ثرمد کی بقیہ کھانوں پر۔ (بخاری ومسلم ) آل عمران
43 آل عمران
44 ف 3 یعنی یہ غیب کی باتیں ہیں جن کا علم آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ کی وحی کے سوا کسی اور ذریعہ سے نہیں ہوسکتا تھا لہذا ان باتوں کا صحیح صحیح بیان کرنا آپ ﷺ کو رسول ہونے کے صریح دلیل ہے۔ (ابن کثیر۔ کبیر) ف 4 اس قرعہ اندازی کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ حضرت مریم ( علیہ السلام) یہودیوں کے بہت بڑے عالم عمراب کی بیٹی تھیں۔ جن ان کی والدہ نے انہیں اپنی عبادت گاہ کی نذر کیا تو عبادت گاہ کے مجاوروں میں جھگڑا ہوا کہ ان کی سرپرستی اور نگرانی کا شرف کون حاصل کرے، آ خر کار انہوں نے قرعہ اندازی کی اور قرعہ حضرت زکریا ( علیہ السلام) کے نام نکلا۔ (ابن کثیر، قرطبی) آل عمران
45 ف 5 اس آیت میں حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک کلمہ قرار دیا گیا ہے جس کی تشریح پہلے گزر چکی ہے۔ (دیکھئے آیت 38، ص 2) مسیح کا لفظ مسح سے مشتق ہے جس کے معنی ہاتھ پھیر نے یا زمین کی مساحت کرنے کے ہیں لہذا حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کو مسیح یا تو اس لیے کہا گیا ہے کہ وہ بیماروں اور کرڑھیوں پر ہاتھ پھیرتے تھے اور وہ تند رست ہوجائے تے تھے۔ یا اس بنا پر کہ آپ زمین میں ہر وقت سفر کر تھے رہتے تھے ،(ابن کثیر ) آل عمران
46 ف 6 سورت مریم آیت 30۔33، میں وہ باتیں بھی مذکور ہیں جو حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) نے اپنی پیدا ئش کے بعد مہد میں کیں۔ حدیث میں ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا : ماں کی گود میں چار بچوں نے کلام کیا۔ عیسیٰ بن مریم ( علیہ السلام) شاہد یوسف م، صاحب جریج اور فرعون کی ماشطہ کے لڑکے نے (فتح البیان ) آل عمران
47 ف 7 حضرت مریم ( علیہ السلام) کو جب لڑکے کی خوشبری دی گئی تو انہوں نے تعجب کا اظہار کیا (انی یکون لی ولد) کہ مجھے تو آج تک کسی مردنے ہاتھ تک نہیں لگا یا پھر میرے ہاں بچہ کیسے ہوسکتا ہے۔ ؟ اللہ تعالیٰ نے کذالک اللہ الخ فرماکر انہیں تسلی دی یعنی اللہ تعالیٰ کے لیے یہ کوئی مشکل نہیں ہے۔ مزید دیکھئے (سورت مریم آیت 20۔21) آل عمران
48 ف 1 یعنی جب وہ رسول بن کر آئیں گے تو ان کی عوت یہ ہوگی۔۔۔۔ الخ آل عمران
49 ف 2 یہاں خلق کا لفظ ظاہر شکل و صورت بنانے کے معنی میں استعمال ہو اہے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے کہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ تصویر بنانے والوں سے فرمائے گا احیو اما خلقتم (کہ تم نے جو خلق کیا اسے زندہ کرو) پیدا کرنے اور ندگی دینے کے معنی ہیں خالق صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ ف 3 یہاں باذن اللہ لا لفظ مکر ذکر کرنے سے یہ بتا نا مقصود ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کا حکم نہ ہوتا تو حضرت عیسیٰ ٰ ( علیہ السلام) یہ معجزات نہ کھا سکتے۔۔ اور یہی ہر نبی کے معجزات کا حال ہے۔ (شو کانی۔ ابن کثیر) ف 4 اللہ تعالیٰ نے اپنے ہر نبی ( علیہ السلام) کو اس کے زمانے کے منا سب حال معجزات عطا فرمائے ہیں۔ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کے زمانے میں جا دو اور جا دوگروں کا دور تھا۔ سو اللہ تعالیٰ نے انہیں وہ معجزات دے کر بھیجا جن سے تمام جاد وگر دنگ رہ گئے اور ان کی عقل چکرا گئی۔ بآلا آخر از خود مسلمان ہوئے اور اسلام کی راہ میں پھا نسی تک کے لیے تیار ہوگئے۔ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کے زمانہ میں طیب اور علوم طبیعہ (سائنس) کا چرچہ تھا۔ سوا للہ تعالیٰ نے انہیں وہ معجزات عنایت فرمائے جن کے سامنے تمام اطبا اور سائنسدان اپنے عاجز اور درماندہ ہونے کا اعتراف کیے بغیر نہ وہ سکے ہمارے رسول ﷺ کے زمانے میں فصاحت وطلا غت اور شعر و ادب کا ڈنکا بجتا تھا۔ سو اللہ تعالیٰ نے نے ان پر وہ کتاب نازل فرمائی جس نے تمام فصحا اور بلغا کی گردنیں خم کردیں اور وہ بار بار چیلنج سننے کے باوجود اس جیسی دس سورتیں تو کجا ایک سورت بلکہ ایک آیت تک پیش نہ کرسکے کیوں اس لیے کہ پروردگار کا کلام مخلوق کے کلام سے مما ثلث نہیں رکھتا، (ابن کثیر۔ کبیر آل عمران
50 ف 5 حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کے وقت تورات میں سے کئی حکم جو مشکل تھے موقوف ہوئے باقی وہی تورات کا حکم تھا۔ (موضح) حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) اپنی کوئی الگ مستقل شریعت لیکر مبعوث نہیں ہوئے تھے بلکہ مسوی شریعت کی تائید و تصدیق کرنے اور بنی اسرائیل کو اقامت تورات کی دعوت دینے کے لیے آئے تھے۔، البتہ تورات میں بعض چیزیں جو بطور تشدید ان پر حرام کردی گئی تھیں ان کو اللہ تعالیٰ کے حکم سے حلال قرار دینا بھی ان کے مشن میں شامل تھا۔ جیسے اونٹ کا گوشت اور حلال جا نوروں کی چربی و غیرہ بعض علما نے کہا ہے کہ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) نے صرف ان چیزوں کو حلال قرار دیا جنہیں یہود نے آپس کے اختلا فات اور مو شگافیوں کی رج سے حرام قرار دے لیا تھا۔ لیکن زیادہ ص صحیح یہی ہے کہ انہوں نے بعض چیزوں کی حرمت کو منسوخ کیا ہے۔۔ (ابن کثیر ) آل عمران
51 آل عمران
52 ف 6 یعنی کوئی ہے جو اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانے میں میرا مددگار بنے۔ حضرت عیسیٰ ٰ ( علیہ السلام) کا یہ قول ویسا ہی ہے جیسا کہ آنحضرت ﷺ ہجرت سے پہلے زمانہ حج میں مختلف عرب قبائل سے فرمایا کرتے تھے۔ کون ہے جو مجھے پناہ دے تاکہ میں لوگوں تک اپنے رب کا پیغام پہنچا سکوں۔ اس لیے کہ قریش نے مجھے پیغام پہنچانے سے روک رکھا ہے تاآنکہ آپ ﷺ کی انصار (رض) مل گئے جنہون نے آپ ﷺ کو پناہ دی اور اپنے جان ومال سے آپ ﷺ کی مدد کی۔ (ابن کثیر) ف 7 حواریوں کے قریب وہی معنی ہیں جو ہمارے ہاں انصار (رض) کے ہیں۔ اور یہ بنی اسرائیل کا وہ طائفہ ہے جنہوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت قبول کرلی تھی، ان کی کی کل تعداد بارہ تھی۔ بائیبل میں ان کے لیے شاگردوں کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ آل عمران
53 آل عمران
54 ف 1 یہود کے علما نے اس وقت باشاہ کو بہکا یا کہ یہ شخص ملحد اور تو رات کے احکام کو بد لنا چاہتا ہے اور ان پر اتہام لگائے تو اس بادشاہ نے حضرت عیسیٰ ٰ ( علیہ السلام) کو قتل کرنے کے لیے کچھ آدمی مقرر کردیئے۔ انہوں نے ایک مکان کے اند حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کا محاصرہ کرلیا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ ٰ ( علیہ السلام) کو آسمان پر اٹھا لیا۔ (ابن کثیر) حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں ہیں : اور ایک صورت ان کی رہ گئی اسی کو پکڑ لائے پھر سولی پر چڑھا دیا۔ (موضح) آل عمران
55 ف 2 التوفی کے معنی کسی چیز کو پورا پورا لینے اور وصول کرلینے کے ہیں، اور یہ اس لفظ کے اصل معنی ہیں۔ اس بنا پر آیت میں متوفیک کے معنی ہیں میں تمہیں پورا پورا لینے والا ہوں۔ اور یہ اس صوت میں ہوسکتا ہے کہ عیسیٰ ( علیہ السلام) کے روح مع البدن اٹھا لیا جاتا۔ دہلوی متراجم ثلاثہ میں بھی توفی کے اس مفہوم کو ملحوظ رکھ کر ترجمہ کیا گیا ہے اور اس کی ایک توجیہ وہ ہے جو متراجم (رح) نے اختیار کی ہے یوں تو قرآن میں اس کے معنی سلادینا بھی آئے ہیں۔ جیساکہ آیت وھو الذی یتو فٰفکم بالفبل (الف م آیت 60) اور آیت والتی لم تمت فی منا مہا (الذمر 42) میں مذ کور ہے شیخ الا سلام ابن تیمہ نے الجواب الصحیح میں لکھا ہے کہ لغت عرب توفی کے معنی استیفا اور قبض کے آئے ہیں اور یہ نیند کی صورت میں ہو سکتا ہے اور موت کی صورت میں بھی۔ اور یہ توفی الروح مع البدب جمیعا کے لیے بی آتا ہے۔ اور اس آیت میں یہی معنی مراد ہیں حضرت ابن عباس سے بھی اصح روایت منقول ہے کہ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) آّسمان پر زندہ اٹھائے گئے۔ روح) پھر قریب قیامت کے زمانہ میں حضرت عیسیٰ السلام کا نزول اور دجال کو باب لد میں قتل کرنا متواتر احادیث سے ثابت ہے اور امت مسلمہ کا اس پر اجماع ہے۔ (ابن کثیر) تخصیص) آج تک کوئی مسلمان اس کا قاتل نہیں ہوا کہ عیسیٰ ٰ ( علیہ السلام) مر گئے ہیں اور دوبارہ آسمان سے نزول نہیں فرمائیں گے۔ (وحیدی) اور آنحضرت ﷺ نے یہود کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ان عیسیٰ لم یمت وانہ راجع الیکم۔ کہ عیسیٰ ( علیہ السلام) نے وفات نہیں پائی اور وہ لوٹ کر آئیں گے۔ (ابن کثیر، ابن جریر) بقیہ بحث کے لیے دیکھئے۔ (النسا آیت 58) آل عمران
56 آل عمران
57 ف 3 حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کے اول تابع نصاری ٰ تھے پیچھے سو ہمیشہ غالب رہے۔ ( موضح) حافظ ابن تیمہ لکھتے ہیں ان سے مراد صرف نصاریٰ بھی ہو سکتے ہیں اور مطلب یہ ہے کہ یہود جو مسیح ( علیہ السلام) کے منکر ہیں ان پر عیسائی ہمیشہ غالب رہیں گے۔ (تفسیر ابن کثیر ) آل عمران
58 آل عمران
59 ف 4 یہ سورت شروع سے لر کر یہاں تک وفد نجران کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ اس وفد نے آنحضرت ﷺ سے بحث کے دوران میں حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کی بنوہ (بیٹا ہونا) پر اس سے استدلال کیا کیا کہ وہ بغیر باپ کے پیدا ہوئے ہیں۔، اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے تر دید فرمائی کہ اگر بغیر باپ کے پیدا ہو با بنوہ کی دلیل ہوسکتا ہے تو آدم ( علیہ السلام) جو ماں باپ کے بغیر پیدا ہوئے وہ بالا ولیٰ اللہ کا بیٹا کہلا نے کے حقدار ہیں مگر نہ یہ صراحتاباطل ہے۔ اصل میں اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ ( علیہ السلام) کی طرح حضرت مسیح ( علیہ السلام) کو بھی کن سے پیدا کر کے اپن قدرت کاملہ کو ظاہر فرمادیا ہے۔ (اب ن کثیر ) آل عمران
60 ف 5 یعنی حضرت عیسیٰ ٰ ( علیہ السلام) کے بارے میں تمہارے سامنے جو کچھ بیان ہوا ہے وہ حق ہے اور اس میں شک وشبہ کی ہرگز گنجائش نہیں ہے۔ (ابن کثیر) یہ خطاب بظا ہر نبی ﷺ سے ہے مگر مقصود تمام مسلمانوں کو تنبیہ کرنا ہے۔ رازی) آل عمران
61 ف 1 جب عیسیٰ ( علیہ السلام) کے بارے میں اظہار حق اور دلائل کے کے باوجود وفد نجران نے عناد کی راہ اختیار کی تو آخری فیصلہ کے لیے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو ان سے مباہلہ کا حکم دی اجس کی صورت یہ تجویز ہوئی (جیسا کہ آیت میں مذکور ہے) کہ فریقین اپنی جان اور اولاد کے ساتھ ایک جگہ حاضر ہوں ارجو فریق چھوٹا ہے نہایت عجزوانکسار کے ساتھ اس کے حق میں بد دعا کریں کہ اس پر خدا کی لعنت ہو۔ چنانچہ آنحضرت ﷺ مباہلہ کے لیے حضرت فا طمہ (رض)، امام حسن (رض)، امام حسین (رض) اور حضرت علی (رض) کو لے کر نکل آئے۔ اور بعض روایات میں ہے کہ خلفائے اربعہ اور ان کی اولاد بھی ساتھ تھی۔ یہ منظر دیکھ کر نصارےٰ نے ایک دوسرے سے کہا کہ ہم ان سے ملا عنہ نہ کریں۔ خدا کی قسم اگر یہ اللہ کے نبی ہوئے اور اس کے باوجود ہم نے ملا عنہ کرلیا توس ہما ری اور ہماری اولاد کی خیر نہیں ہوگی، چنانچہ انہوں نے آنحضرت سے عرض کی آپ ﷺ جو چاہتے ہیں ہم آپﷺ کو دیں گے۔ لہذا آُپﷺہمارے ساتھ کوئی امانتدار آدمی بھیج دیجئے۔ نبی ﷺ نے حضرت ابوعبیدہ (رض) کو کھڑے ہونے کا حکم دیا اور فرمایا : ھذا آمین ھذہ الا متہ۔ کہ یہ اس امت کے امین ہیں۔، یہ حدیث صحیح میں مذکور ہے۔ (ابن کثیر۔ شوکانی) اس آیت سے علما نے استدلال کیا ہے کہ معاند عن الحق سے مباہلہ ہوسکتا ہے۔ آل عمران
62 آل عمران
63 ف 2 چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ وفد نجران والوں نے مباہلہ کی دعوت قبول کرنے سے انکار کردیا اور یہ بات واضح ہوگئی کہ یہ لوگ محض دینا کی خاطر آنحضرت ﷺ کی اتباع اختیار کرنے سے انکار کر رہے ہیں ورنہ ان کے پاس اپنی ضد پر اڑے رہنے کے لئے کوئی وجہ جواز نہیں ہے ایک حدیث میں ہے آنحضرت ﷺ نے فرمایا اگر یہ لوگ مباہلہ کرلیتے تو یہ وادی ان پر آگ برساتی۔ اور حضرت ابن عباس (رض) نے فرماتے ہیں کہ اگر یہ لوگ مباہلے کے لئے نکلتے تو اپنے گھروں کو اس طرح لوٹتے کہ نہ کوئی مال پاتے اور نہ اہل وعیال۔ (ابن کثیر۔ شوکانی ) آل عمران
64 ف 3 یعنی اہل کتاب کو اس مشترکہ عقیدہ کی طرف دعوت دو۔، چنانچہ آنحضرت ﷺ نے جب ہر قل (شاہ روم) کو خط لکھا تو یہی آیت لکھ کر اس کے سامنے دعوت اسلام پیش کی جیسا کہ صحیح بخاری میں مذکور ہے۔ اور مدینہ کے یہود کے سامنے بی اسی کلمہ سوائ کی دعوت پیش کی اور آپس میں ایک دوسرے کو رب بنانے کے مفہوم میں سجدہ کرنا بھی شامل ہے۔، اور یہ بھی کہ کسی کے قول کو بلاد لیل اسی طرح مان لینا کہ جس چیز کو حلال کہے اسے حلال سمجھا جائے اور جس چیز کو حرام کہے اسے حرام خیال کیا جائے اور کتاب وسنت سے صرف نظر کرلی جائے۔ مزید دیکھئے۔ التو بہ آیت :31۔ (شوکانی۔ وحیدی بتصرف) حاٖفظ ابن کثیر (رح) نے اس آیت پر ایک اشکال پیش کیا ہے اور وہ یہ کہ محمد بن اسحاق نے اس آیت کے مطابق اگر آل عمران کی ابتدائی 83 آیتوں کا سبب نزول وفد نجران کی آمد کو قرار دیا جائے جو بالا تفاق 5 ھ میں مدینہ آیا تو پھر آپ ﷺ نے ہر قل کی طرف یہ آیت کیسے لکھ کر بھیج دی جو 7 ھ کا واقعہ ہے۔ پھر اس کے چار حل پیش کیے ہیں۔ فی الجملہ یہ کہ آیت 1 کا نزول دو مرتبہ تسلیم کیا جائے یا 2 38 آیتوں کی تعین کو محمد بن اسحق کا وہم قرار دیا جائے۔ آنحضرت ﷺ نے دعوت اسلام کے لیے یہ جملے اپنے طور پر لکھ کر بھیجے ہوں۔ بعد میں یہ آیت اس کے مطابق نازل ہوئی ہوجیساکہ بہت سے آیات حضرت عمر (رض) کے موافق نازل ہوئیں۔ ہوسکتا ہے کہ وفد نجران کی آمد صلح حدیبیہ سے قبل ہو۔ (ابن کثیر) ف 4 یعنی اگر اہل کتاب اس عقیدہ کے ماننے سے انحراف کریں تو تم اپنی طرف سے عقیدہ پر قائم رہنے کا اعلان کردو۔ اس میں متتبہ کیا ہے کہ اہل کتاب اس عقیدہ سے منحرف ہوچکے ہیں کیونکہ انہوں نے حضرت عزیر ( علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کے بیٹے قرردے لیا تھا۔ (ابن کثیر۔) آل عمران
65 ف 5 یہود حضرت ابراہم ( علیہ السلام) کو یہودی ہونے کے دعوے دارتھے اور نصاریٰ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کے نصرانی ہونے کے مدعی تھے اور یہ بات ایسی تھی جو بد ہتہ غلط تھی۔ حضرت ابراہیم کا زمانہ حضرت موسیٰ ٰ ( علیہ السلام) سے تقریبا ڈھائی ہزار برس پہلے کا ہے پھر وہ یہو دی یا نصرانی کیسے ہو سکتے تھے چنانچہ اس آیت میں ان کے اس دعویٰ کی تردید فرمائی ہے۔ (ابن کثیر۔ ابن جریر ) ف 6 اس آیت میں زصرف غلط پر جھگڑا کرنے سے منع کیا گیا ہے بلکہ مطلقا مجادلہ سے گریز کی نصحیت بھی کی ہے۔ ابن کثیر، فتح القدیر) آل عمران
66 آل عمران
67 ف 1 اس آیت اشارہ ہے کہ یہود ونصایٰ اپنے آپ کو اہل کتاب کہلواتے ہیں مگر درحقیقت وہ مشرک ہیں۔ انہوں نے اپنے مشائخ اور علما کو خدا بنا رکھا ہے اور حضرت عزیر ( علیہ السلام) اور عیسیٰ ( علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا مانتے ہیں۔ (وحیدی) مطلب یہ کہ اگر تم اس معنی میں حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کو یہود یا نصرانی کہتے ہو کہ ان کی شریعت سے ملتی چلتی ہے تو یہ بھی غلط ہے کیونکہ شریعت محمدی کو شریعت ابراہیمی سے زیادہ منا سب ہے۔ تو اس اعتبار سے مسلمانوں کو یہ کہنے کا تم سے زیادہ حق پہنچتا ہے کہ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) ہمارے اسے طریق پر تھے۔ (وحیدی) آل عمران
68 ایک حیدیث میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا لکلی نبی ولا ۃ من النبین وان ولی منھم ابی واخلینلی کہ ابنیا سے ہر نبی کا کوئی تعلق ہے اور میرا تعلق میرے باپ اور خلیل حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) سے ہے پھر آپﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔ (ابن جریر۔ ترمذی) آل عمران
69 ف 3 یہاں طائفہ اہل کتاب سے مراد بنو نضیر اور بنو قریظہ ہیں جو بعض مسلمانوں کو یہودی بنانے میں کو شاں رہتے تھے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ فرمایا مسلمانوں تو ان کے بہکانے میں کیا آئیں گے۔ (شوکانی۔ وحیدی ) آل عمران
70 ف 4 آیات اللہ سے مراد نبوت محمد ﷺ یہ کے بارے میں وہ بشارتیں ہیں جو اگلے انبیا ( علیہ السلام) سے منقول تھیں۔ یہود ان کے اپنے طور پر صحیح سمجھتے تھے مگر آیات علی العموم بھی مرادہو سکتی ہیں۔ (شوکان وحیدی) آل عمران
71 آل عمران
72 ف 5 اہل کتاب کی مذہبی شقاوتوں کی طرف اشارہ ہے اوپر کی آیت میں علمائے یہود کی یہ شقاوت بیان کی گئی ہے کہ وہ آنحضرﷺ کی صداقت کے دلائل جان لینے کے باوجود کفر کر رہے ہیں۔ اب یہاں بتایا جا رہا ہے کہ حق کو باطل کے ساتھ ملانا اور حق کو چھپا نا ان کا عام شیوہ بن چکا ہے۔ پہلی آیت میں ان کی گمراہی کا بیان تھا اور اس آیت میں دسروں کو گمراہ کرنے کا ذکر ہے۔، دیکھئے سورت بقرہ آیت 42،(کبیر، ترجمان) یہ مقام عبرت ہے کہ ہمارے دور کے تجدد زدہ حضرات بھی دینوی اور مادی اغراض و مصالح کے پیش نظر قرآن مجید کے ساتھ وہی سلوک کر رہے ہیں جو ان کے پیش رو یہود ونصاری ٰ تو رات وانجیل کے ساتھ کرتے رہے ہیں۔ آنحضرت ﷺ نے بالکل صحیح فرمایا ہے لتتعن سنن من کان قبلکم۔ کہ تم لاز ما پہلی امتوں کے نقش قدم چلے گے۔ (م۔ ع) ف 6 کمزور دل مسلمانوں کے دلوں میں اسلام کے متعلق شکوک وشہبات پیدا کرنے کے لیے یہود مختلف سازشیں کرتے رہتے تھے یہ بھی اسی سلسلہ کی ان کی ایک سازش کا بیان ہے کہ صبح کے وقت قرآان اور پیغمبر پر ایمان کا اظہار کرو اور شام کو کفر وانحراف کا اعلان کردو۔ ممکن ہے اس طریقہ کے اختیار کرنے سے بعض مسلمان بھی سوچنے لگیں کہ آخر یہ پڑھے لکھے مسلمان ہونے کے بعد اس تحریک سے الگ ہوگئے ہیں تو آخر انہوں نے کوئی خرابی یا کمزور پہلو ضرور دیکھا ہوگا َ؟۔ ( ابن کثیر، شوکانی) آل عمران
73 ف 7 یہ بھی ان ظائفوں کا کلام ہے جن کا اوپر سے ذکر چلا آرہا ہے اور اس سے ان کا مذہبی تعصب اور حسد ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے متبعین کو تاکید کرتے رہتے ہیں۔ الخ مترجم (رح) توضیحات سے آیت کو جو مفہوم ظاہر ہوتا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ جملہ ان یئوتی ٰ اور او یحاجو کم کا تعلق لاتومنوا سے ہے ای لئلایوتی اولئلا یحاجو کم مگر امام طبری (رح) نے ایک دوسری توجیہ اختیار کی ہے اور وہ یہ کہ دونوں جملے لا تومنوا کے تحت ہیں اور معنی یہ ہیں کہ اپنے مشروب کے سوا کسی کی بات پر یقین نہ کرو نہ یہ تسلیم کرو کہ تمہاری طرح کسی کو علم وفضل ملا ہے اور نہ یہ مانو کہ مسلمان اللہ تعالیٰ کے حضور جا کر تم پر کوئی حجت قائم کرسکیں گے بایں صورت قل ان الھدی الخ جملہ معترضہ اواس کا ربط قل ان الفضل بید اللہ کے ساتھ ہوگا۔ (ابن کثیر۔ ابن جریر) یہاں تک ان کی خیانت دینی اور مذہبی تعصب کا بیان تھا۔ اب اگلی آیت میں ان کی خیانت عالی اور مسلمانوں سے بغض کا بیان ہے۔ (کبیر ) آل عمران
74 آل عمران
75 ف 1 یعنی خدائے تعالیٰ پر جان بوجھ کر الزام رکھ رہے ہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کبھی کسی کی امانت میں خیانت کا حکم نہیں دیا خواہ وہ اسرائیل ہو یا عرب بلکہ اسلام نے تو کسی ذمی کے مال کو بھی بلا اجازت لینا جائز قرار نہیں دیا اور کسی حربی کے مال کو خیانت سے کھانے کی اجازت دی ہے۔ آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے : کذب اعدا اللہ مامن شئی کان فی الجاھلیتہ الا وھو تحت قد منی ھاتین الا الا ما نتہ فانھا مئو داۃ الی البروالفاجر کہ اللہ تعالیٰ کے دشمنوں نے جھوٹ کہا زمانہ جا ہلیت کی سب چیزیں میرے پاوں تلے آگئیں (یعنی باطل قرار دے دی گئیں مگر امانت کہ اسے بہر حال ادا کیا جائیگا خواہ وہ امانت نیک کی ہو یا بد کی۔ (ابن کثیر ) آل عمران
76 ف 2 بلی ٰ کیوں نہیں یعنی اس کی بد عہدی اور خیانت پر ضرور مئو خذہ ہوگا اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ اور محبوب شخص تو وہی ہے جو اللہ تعالیٰ اور بندوں سے کیا ہوا عہد پورا کرتا ہے۔ (اس میں آنحضرت ﷺ پر ایمان لانے کا عہد بھی داخل ہے) اور پھر ہو معالہ میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے اواس شریعت کی اتباع کرتا ہے جو آنحضرت ﷺ لے کر مبعوث ہوئے۔ آل عمران
77 ف 3 عبد اللہ بن ابی اوفیٰ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے بازار میں سامان لگا یا اور جھوٹی قسمیں کھا کر بیجنے لگا تاکہ کوئی مسلمان خریدے اور اسے دھوکادے سکے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ یعنی جو لوگ بد عہدی خیانت اور جھوٹی قسمیں کھا کر لوگوں کا مال کھاتے ہیں ان پر اللہ تعالیٰ ناراض ہوں گے اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس شخص نے مسلمانوں کا مال ہضم کرنے کے لیے جھوٹی قسم کھائی قیامت دن وہ اللہ تعالیٰ سے اس حال سے ملے گا کہ اللہ تعالیٰ اس پر سخت ناراض ہوں گے اور ایک حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن تین شخصوں سے اللہ تعالیٰ کلام نہیں کریں گے ان میں سے ایک وہ ہے جو جھوٹی قسم کھا کر اپنا مال فروخت کرتا ہے ،(ابن کثیر۔ شوکانی ) آل عمران
78 ف 4 اس کا عطف پہلی آیت جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اوپر کی آیت بھی یہود کے بارے میں نازل ہوئی ہے (کبیر) آیت کے معنی یہ ہیں کہ تورات وانجیل میں تحریف کرتے ہیں اور اس میں خصوصا ان آیات میں جن میں آنحضرت ﷺ کی نعمت مذکور ہے) کچھ چیزیں اپنی طرف سے بڑھا کر اس انداز اور لہجہ سے پڑھتے ہیں کہ سننے والا ان کو منزل من اللہ سمجھ لیتا ہے حالا نکہ وہ منزل نہیں ہے۔ پھر یہی نہیں بلکہ ان کی خدا سے بے خوفی اور ڈھٹائی کی حد ہے ان چیزوں کے خدا کی طرف سے ہونے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں۔ اس آیت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ موجود تورات وانجیل محرف ہیں اور اپنی آصلی شکل میں موجود نہیں ہیں۔ علما نے اس پر بہت کچھ لکھا ہے۔ (روح المعانی۔ ابن کثیر ) آل عمران
79 ف 1 توراۃ وانجیل میں اہل کتاب کی تحریف بیان کرنے کے بعد اشارہ فرمایا ہے کہ انجیل میں عیسیٰ ٰ ( علیہ السلام) کی الوہیت کے دعویٰ کی خاطر بھی تحریف کی گئی ہے ورنہ نبی تو بشر ہوتے ہیں اور وحی نبوت ایسی صفات سے مشرف ہونے کے بعد ان سے اپنی الوہیت کا دعویٰ محال ہے۔ (کبیر) تفسیر ابن کثیر میں ہے کہ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ نجران کے عیسائی اور مدینہ کے چند یہود علما آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آنحضرت ﷺ نے عیسیٰ ٰ ( علیہ السلام) اور عزیر ( علیہ السلام) کی بنوۃ خدا کا بیٹا ہونے) کا رد کیا او ان مسلمان ہونے کی دعوت دی۔ اس پر ایک یہود عالم نے ابو رافع القرضی کہنے لگا اے محمد ﷺ کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ ہم آپ ﷺ کی عبادت کرنے لگیں۔ نبی ﷺ نے فرمایا معاذ اللہ کہ ہم غیر اللہ کی عبادت کریں یا کسی کو اس کا حکم دیں۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس لیے نہیں بھیجا ہے او نہ مجھے اس کا حکم دیا ہے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی (ایضا کبیر) پھر جب نبی اس کا مجاز نہیں کہ لوگ اس کی عبادت کریں تو دوسرے مشائخ اور اٗئمہ اس مرتبہ پر کیسے فائز ہو سکتے ہیں۔ انبیا کی بحیثیت نبی ہونے کی اتباع واجب ہوتی ہے مشائخ اور ائمہ تو واجب الا تباع بھی نہیں ہو سکتے۔ (ابن کثیر بتصرف، شوکانی) الربنی۔ رب پر الف نون بڑھا کر یا نسبت لگا دی گئی ہے اور اس کے معنی عالم باعمل کے ہیں۔ مبرو فرماتے ہیں کہ یہ ربہ یر بہ فھو ربان ہے۔ یعنی صیغہ صفت ربان کے ساتھ یا نسبت ملحق ہے۔ (فتح البیان) بما کنتم میں با برائے مصیبت ہے یعنی چونکہ تم تعلیم ودراست کا مشغلہ رکھتے ہو اس لیے تمہیں عالم باعمل اور خدا پرست بننا چاہئے (بضاوی) حضرت شاہ صا حب لکھتے ہیں : ہاں تم کو ( اے اہل کتاب) یہ کہتا ہے کہ تم میں جو آگے دینداری تھی کتاب کا پڑھنا اور سکھا نا وہ نہیں رہی۔ اب میری صحبت میں پھر وہی کمال حاصل کرو۔ اور یہ بات اب قرآن کریم کے پڑھنے پڑھانے اور سکھنے سکھانے سے ہی حاصل ہو سکتی ہے۔ فائدہ کسی شخص میں اگر علم اوکتب الہٰیہ کی دراست سے خد اپرستی کی خصلت پیدا نہیں ہوتی تو یہ مشغلہ تحضیع اوقات ہے اور آنحضرت ﷺ نے ایسے علم سے پناہ مانگی ہے لا ینفع ( اے للہ ! میں ایسے علم سے پناہ مانگتا ہوں و غیر نافع ہو) (رازی۔ فتح البیان ) مضمون اور نزول کے اعبتار سے آیت سابق سے متعلق ہے۔ یہود ونصاریٰ میں نبیوں اور فرشتوں کی پر ستش کی جاتی تھی۔ علامہ قرطبی لکھتے ہیں کہ نصاریٰ نے انبیا ( علیہ السلام) اور فرشتوں کی تعظیم میں اس قدر غلو کیا کہ ان کو الو ہیت کے مقام پر کھڑکر دیا۔ (جامع البیان) حدیث اتخذوا قبور انبیا ھم مساجد او صورو فیھم تیک الصور (کہ انہوں نے انبیا کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا اور انمیں ان کی تصویریں لٹکا دیں) سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ کسی نبی ( علیہ السلام) یا فرشتے کی پرستش صریح کفر ہے اور کوئی ایسی تعلیم یا فلسفہ جو اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی بندگی سکھائے یا اللہ تعالیٰ یا اس کے نبی ( علیہ السلام) کی تعلیم نہیں ہو سکتی۔ ایا مر کم میں استفہام انکاری ہے یعنی یہ ممکن ہی نہیں۔ کیونکہ انبیا تو لوگوں کی عبادت الہی کی تعلیم دینے اور مسلمان بنانے کے لیے مبعوث ہوتے ہیں نہ کہ الٹا کافر بنانے کے لیے۔ (قرطبی۔ ابن کثیر) ان آیات سے مقصود ایسے دلائل کی وضاحت ہے جو آنحضرت ﷺ کی نبوت پر دال ہوں۔ (کبیر) یعنی اللہ تعالیٰ نے آدم اور ان کے بعد ہر نبی ( علیہ السلام) سے عہد لیا ہے کہ وہ اپنے بعد آنے والے نبی ( علیہ السلام) کی تصدیق اور اس کی مدد کریگا اور اس بارے میں کسی کی گروہ بندی اور عصیت اس کے راستے رکا وٹ نہیں بنے گی۔ اگر وہ نبی ( علیہ السلام) اس کی زندگی میں آجائے تو بذات خود اس پر ایمان لائے کا اراگر اس کی وفات کے بعد آئے تو وہ اپنی امت کو بعد میں آنے والے نبی ( علیہ السلام) پر ایمان لانے اور اس کی مدد کرنے کا حکم سے جائے گا۔ اساعتبار سے گو یا حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) سے حضرت عیسیٰ ٰ ( علیہ السلام) پر اور حضرت عیسیٰ ٰ ( علیہ السلام) سے آّنحضرت ﷺ پر ایمان لانے کا عہد لیا گیا ہے، بعض نے یہ بھی لکھا ہے کہ پہلے تمام انبیا ( علیہ السلام) سے فروادایہ عہدلیا گیا تھا کہ اگر ان کے زمانے میں نبی آخرالز مان ظاہر ہوجائے تو اس پر ایمان لا نا اور اس کی مدد کرنا ہوگا۔ (وحیدی) بہر حال آنحضرﷺ اللہ تعالیٰ کے آخری نبی اور واجب الا تباع ہیں۔ اب آپ ﷺ کے سوا کسی اور نبی کی اتباع جائز نہیں ہے۔ مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر (رض) آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان کے ہاتھ میں چند اوراق تھے جو ان کی کسی یہودی نے تورات سے لکھ کردیئے تھے۔ حضرت عمر (رض) نے وہ اوراق پیش کرنے کی اجا ازت مانگی۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا مجھے اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میر جان ہے اگر تم میں موسیٰ ( علیہ السلام) بھی آجائیں اور تم مجھے چھوڑ کر ان کی پیروی کرنے لگو تو گمراہ ہوجا و گے۔ (س دارمی ) آل عمران
80 آل عمران
81 ف 4 اس آیت میں اہل کتاب کو متنہ کرنا ہے کہ تم آنحضرت ﷺ پر ایمان نہ لاکر دراصل اس عہد کی خلاف ورزی کر رہے ہو جو تمہارے انبیا ( علیہ السلام) اور ان کے ذریعہ تم سے لیا گیا ہے۔ اب بتا و کہ تمہارے فاسق ہونے میں کوئی شک وشبہ ہوسکتا ہے۔ (کبیر) سامنے سرنگوں ہے اور اختیا ری و غیرہ اختیاری طور پر اس کے تابع فرمان ہے تو یہ لوگ اس کے قانون شریعت، دین اللہ کو چھوڑ کر دوسرے راستہ کیوں اختیا کرتے ہیں۔ ان کو چاہیئے کہ اگر نجات اخروی چاہتے ہیں تو جو اللہ تعالیٰ کا دین اس وقت آنحضرت ﷺ لے کر مبعوث ہوئے اس کو اختیار کر کوئی کرلیں۔ نیز دیکھئے حا آیت :84۔) آل عمران
82 آل عمران
83 آل عمران
84 آل عمران
85 ف 1 تشریح کے لیے دیکھئے سورت بقرہ آیت ف 2 یعنی محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مبعوث ہوجا نے کے بعد جو شخص آپ ﷺ کی فرما نبر داری اور اطاعت کا راستہ چھوڑ کر کوئی اور راستہ اختیار کرے گا یا کسی پہلے راستہ پر چلنا رہے گا وہ چا ہے کتنا ہی توحید پرست کیوں نہ ہو اور پچھلے انبیا ( علیہ السلام) پر ایمان رکھنے والا ہو اگر وہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان نہیں رکھتا تو اس کی دینداری اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول نہ ہوگی اور وہ آخرت میں نامراد وناکام ہوگا۔ اس معنی ہیں آنحضرت ﷺ کا رشاد بھی ہے۔ من عمل عملا لیس علیہ امر نا فھو رد یعنی جس نے کوئی ایسا کام کیا جو ہمارے طریقہ کے مطابق نہیں ہے وہ مردود ہے۔ ابن کثیر۔ شوکانی ) ف 3 یعنی جو لوگ حق کے پوری طرح واضح ہوجانے اور انحضرت ﷺ کے شچا نبی ہونے کے روشن دلائل دیکھنے کے باوجود محض کبر وحسد اور حب جادو مال کی بنا پر کفر کی روش پر قائم رہے یا ایک مرتبہ اسلام قبول کرلینے پر کفر کی روش پر قائم رہے یا ایک مرتبہ اسلام قبول کرلینے کے بعد پھر مرتد ہوگئے وہ دوسرا ظالم وبد بخت ہیں۔ ایسے لوگوں کو راہ ہدایت دکھا نا اللہ تعالیٰ کا قانون کا قانون نہیں ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ مرتد کافر سے زیادہ مجرم ہے۔ (ابن کثیر۔ شوکانی ) آل عمران
86 آل عمران
87 آل عمران
88 آل عمران
89 ف 4 اس سے معلوم ہوا کہ اگر مرتد صدق دل سے توبہ کرلے اور دوبارہ اسلام لے آئے تو اللہ تعالیٰ اس کی پچھلی غلطی کو معاف فرمادیتے ہیں۔ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ انصار میں سے ایک آدمی (حارث بن سوید) اسلام لانے کے بعد مرتد ہوگیا اور مشرکوں سے جا ملا۔ پھر وہ نادم ہوا اور اس نے اپنے قبلے کے لوگوں سے کہلا بھیجا کہ تم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کر وکہ آیا میری توبہ قبول ہو سکتی ہے۔ ؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی اس کے بعد اس کے بھائی نے اس کے پاس یہ آیت بھیج دی اور وہ دوبارہ مسلمان ہوگیا اور سچا مسلمان رہا۔ (ابن کثیر۔ ابن جریر) البتہ جو شخص ارتداد پر اصرا کرے اس کی سزا قتل ہے۔ آل عمران
90 ف 5 یعنی یہود پہلے اقرار کرتے تھے یہ نبی تحقیقی ہے جب ان سے معاملہ ہو اتو وہ منکر ہوگئے۔ (موضح) اور ایسے لوگ بھی اس کا مصداق ہو سکتے ہیں جو اسلام سے مردتد ہونے کے بعد موت کے وقت تک کفر پر قائم رہتے ہیں انے بارے میں فرمارہے ہیں کہ حالت نزع میں اگر یہ لوگ توبہ کریں گے بھی تو ان کی توبہ قبول نہ کی جائے گی۔ آنحضرت ﷺ کا ارشاد : یقبل توبتہ العبد مالم یغر غر۔ کہ بندے کی توبہ اس وقت تک قبول ہوتی ہے جب تک ہوجان کنی کی حالت تک نہ پہنچ جائے۔ (ترمذی۔ نسائی) نیز دیکھئے (النسا آیت : 18) اور الضالون سے مراد کامل درجہ کے گمراہ ہیں (کبیر) آل عمران
91 ف 6 اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو کفر کی روش اختیار کرتے اور کفر کی حالت میں جان دیتے ہیں۔ حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا : کے قیامت کے روز جہنمی سے کہا جائے گا کہ اگر دنیا کی ہر چیز تمہاری ہوجائے تو کیا تم نجات حاصل کرنے کے لیے اسے فدیہ میں دے دوگے وہ کہے گا ہاں اس پر اللہ تعالیٰ فرمائے گا میں نے تم سے ایک نہایت آسان چیز کا مطالبہ کیا تھا، میں نے تمہارے باپ آدم ( علیہ السلام) کی پیٹھ میں تم سے یہ عہد لیا تھا کہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھراو گے تم شرک کرنے سے باز نہ آئے۔ (ابن کثیر بحوالہ صحیحین) اس یہ بھی ثابت ہو تو ہے کہ کفر کی حالت میں کافر کی کوئی نیکی صدقہ وخیرات قبول نہیں ہوتی چنانچہ آنحضرت ﷺ سے عبد اللہ بن حبدعان کے متعلق سوال کیا گیا کہ وہ بڑا مہمان نواز تھا۔ جو بھوکوں کھانا کھلاتا اور قید یوں کو فد یہ دے کر چھڑا تارہا ہے کیا اسے یہ نیکیاں کچھ فائدہ پہنچا رہی ہیں۔ ؟ اس پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا نہیں کیونکہ اس نے عمر بھر میں ایک بھی قیامت پر ایمان لاکر اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی مغفرت طلب نہ کی۔ (ابن کثیر) مگر ابو طالب کو آنحضرت ﷺ کی حمایت کی وجہ سے یہ فائدہ ہوگیا کہ اسے سب سے ہلکا عذاب ہوگا۔ حدیث میں ہے کہ اسے آگ کے جوتے پہنائے جائیں گے جس سے اس کا دماغ ابلے گا (مسلم ) آل عمران
92 ف 1 پہلی آیت میں بیان فرمایا ہے کہ کافر کا انفاق سے کچھ بھی نفع نہیں ہوگا اب اس آیت میں مومنین کو انفاق کی کیفیت بتلائی جس سے وہ آخرت میں منتفع ہوں گے۔ (کبیر) یہاں ما تحبون عام ہے یعنی مال ودولت اور جاہ و عزت سب کو شامل ہے خطاب یہود سے ہو تو ان کو تنبیہ ہوگی کہ جب تک کہ اپنی جاہ و ریاست کو خیر باد کہہ کر آنحضرت ﷺ کی اتباع اختیار نہیں کرو گے تم ابرار اور مومنین کے زمرہ میں شامل نہیں ہو سکتے (موضح) اور اگر خطاب مومنین سے ہوجیسا کہ عموما تفاسیر میں مذکور ہے تو مقصد یہ ہوگا جو کچھ بھی فی سبیل اللہ صرف کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے اور انسان کو بشرطیکہ مسلمان ہو اخلاص سے خرچ کرے) اس کے بدلہ ضرور ملے گا مگر نیکی میں کامل جو درجہ حاصل کرنے کے لیے ضرور ہے کہ عزیز ترین چیز صرف کی جائے۔ حدیث میں ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضرت ابوطلحہ انصاری (رض) آنحضرت ﷺ میری محبوب ترین جائداد بیرحا (باغ) ہے جو عین مسجد نبوی کے سامنے ہے سو یہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں صدقہ ہے۔ (شوکانی۔ ابن کثیر) بعض روایات میں ہے کہ حضرت عمر (رض) نے بھی اس آیت سے متا ثر ہو کر خیبر میں اپنا حصہ وقف کردیا تھا۔ (ابن کثیر ) آل عمران
93 آل عمران
94 ف 6 اوپر کی آیات میں آنحضرت ﷺ کی نبوت کے اثبات کے اثبات میں دلائل پیش کیے اور اہل کتاب پر الزامات قائم کیے ہیں۔ اب یہاں سے انکے شہبات کا جواب ہے ج وآنحضرت ﷺ کی نبوت پر پیش کرتے تھے۔ (کبیر) جب قرآن نے بیان کیا کہ یہود کے ظلم وبغی کو جہ سے بہت سی چیزیں ان پر حرام کردی گئیں۔ (النسائ آیت 160 الا نعام آیت 146) اور نہ یہ چیزیں حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کے عہد نبوت میں حلال تھیں تو یہود نے ان آیات کی تکذیب کی اور کہنے لگے کہ یہ چیزیں تو حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کے وقت سے حرام چلی آتی ہیں اس پر یہ آیات نازل ہوئیں (شوکانی) بعض مفسرین نے ان آیات کل الطعام تا الظالمون کی شان نزول میں لکھا ہے کہ یہود تو رات میں نسخ کے قائل نہیں تھے اور حضرت عیسیٰ ٰ ( علیہ السلام) کی تکذیب بھی یہود نے اسی لیے کہ تھی کہ وہ تورات کے بعض محرکات کو حلال قرار دیتے ہیں اسی طرح انہوں نے قرآن کے ناسخ منسوخ پربھی اعتراض کیا تو ان کے جواب میں یہ آیات نازل ہوئیں کہ یہ نسخ تو خود تمہاری شریعت میں بھی موجود ہے جب تک تورات نازل نہیں ہوئی تھی تمام ماکولات تمہا رے لیے حلال کی تھیں بعض اونٹ کا گوشت اور دودھ شامل ہے پھر جب یعقوب ( علیہ السلام) عراق النسا کے مرض میں مبتلا ہوئے تو انہوں صحت یاب ہونے پر بطور نذر اونٹ کا گوشت حرام قرار دے لیا تھا ( اور تحریم حلا لکی یہ نذر ان کی شریعت میں رواتھی خود آنحضرت ﷺ نے بھی ایک واقعہ میں شہد پینے کو اپنے اوپر حرام قرار دے لیا تھا گو یہ نذر نہ تھی مگر قرآن نے اس قسم کی نذر اور تحریم حلال سے منع فرمادیاے اور کفارہ مقرر کردیا سورالتحریم پھر جب تورات نازہوئیہ تو اس میں اونٹ کا گوشت اور دودھ حرام قرار دے دیا گیا۔ (ابن کثیر۔ الکشاف بعض نے لکھا ہے کہ یہود آنحضرت ﷺ کی نبوت کے سلسلہ میں اعتراض بھی کرتے رتھے کہ یہ پیغمبر ﷺ خود کو ملت ابراہیمی کی اتباع کا مدعی بتاتا ہے اور اونٹ کا گوشت کھاتا ہے حالا نکہ یہ گوشت ملت ابراہیمی میں حرام ہے اس پر یہ آیات نازل ہوئیں کہ نزول تورات سے قبل تو یہ سب چیزیں حلال کی تھیں پھر ملت ابراہیمی میں یہ کیسے حرام ہو سکتی ہیں اگر اپنے دعوی میں سچے ہو تو تورات میں دکھاو ورنہ اللہ تعالیٰ کے متعلق اس قسم کی افرا بردازی سے باز رہو (ابن کثیر ) آل عمران
95 ف 3 یعنی اللہ تعالیٰ کا یہ بیان مبنی بر صداقت ہے کہ طعام کی یہ قسم پہلے حلال تھی اس کے بعد اسرائیل اور اس کی اولاد پر حرام کردی گئی لہذا نسخ صحیح ہے اور تمہارا شبہ باطل ہے اور آنحضرت ﷺ نے جو ان کی حلت کا فتوی دیا ہے یہ عین ملت ابراہیمی کے مطابق ہے لہذا تم بھی ملت ابراہیم میں داخل ہو ہوجا و اور دین اسلام میں دا خل ہوجا و جو اصول وہ فروغ کے اعتبار سے عین دین ابراہیم کے مطا بق ہے۔ (کبیر۔ ابن کثیر ) آل عمران
96 ف 4 یہ یہود کے دوسرے شبہ کو جواب ہے کہ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) نے شام کی طرف ہجرت کی اور ان کی اولاد میں سے تمام انبیا شام میں ہوئے ان کا قبلہ بیت المقدس تھا اور مسلمانوں نے اس قدیم قبلہ کو چھوڑ کر کعبہ قبلہ بنالیا ہے پھر یہ ملت ابراہیم کے متبع کیسے ہو سکتے ہیں۔ قرآن نے بتایا کہ دنیا بخشا۔ اس پر بہت سے واضح دلائل موجود ہیں جن میں سے ایک دلیل یہ ہے کہ جاہلیت سے یہ محترم چلا آتا ہے کہ اگر کسی کے باپ کا قتل اس میں داخل ہوجائے تو وہ اس سے تعرض نہیں کرتا نیز اس میں مقام ابرہیم ( علیہ السلام) یعنی وہ پتھر موجود ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ اس کے بانی حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) ہیں اور یہ کہ ابراہیمی قبلہ ہے کیونکہ بائبل کے بیان کے مطابق بیت المقدس کے بانی حضرت سلیمان ( علیہ السلام) ہیں (کبیر۔ ابن کثیر )۔ آل عمران
97 ف 5 یعنی ہر عاقل وبالغ مسلمان پر جو کعبہ تک پہچنے کی استطاعت رکھا ہے عمر بھر میں ایک حج فرض ہے اس پر امت کا اجماع ہے حدیث میں استطاعتہ کی تفسیر زاد راہ اور سواری سے کی گئے ی ہے (ترمذی) اور استطاعت کے مفہوم میں یہ چیز بھی داخل ہے کہ راستہ پر امن ہو اور کسی قسم کے جان ومال کے تلف ہونے کا اندیشہ نہ ہو عورت کے لیے کسی محرم کا ساتھ ہونا بھی ضروری ہے۔ (ابن کثیر۔ شوکانی) ف 6 یعنی جس نے استطاعت کے باوجود انکار کیا۔ حدیث میں ہے جو شخص بلا کسی عذر کے حج کیے بغیر مر جائے فلا علیہ ان یموت یھود یا اونصرا نیا۔ ابن کثیر ) آل عمران
98 آل عمران
99 ف 1 رد شبہات کے بعد ان آیات میں اہل کتاب کو زجر وتوبیخ کی کہ تم نہ صرف یہ کہ حق پر خود ایمان نہیں لاتے بلکہ جو لوگ اس پر ایمان لا چکے ہیں ان میں طرح طرح کے فتنے اور مئو شے چھوڑ کر حق کی راہ میں کجی پیدا کرنے کی کو شش کرتے ہو اور پھر یہ سب کچھ جان بوجھ کر کر رہے ہو اللہ تعالیٰ کو تمہارے یہ کر توت خوب معلوم ہیں۔ تمہیں اپنے اس جرم کی سزا بھگتی پڑے گی (کبیر) آل عمران
100 ف 2 اوپر کی دو آیتوں میں اہل کتاب کو دعوت سنائی گئی جو لوگوں کو گمراہ کر رہے تھے اب یہاں سے مسلمانوں ج کو نصحیت فرمائی جارہی ہے کہ ان سے ہو شیار رہیں اور گمراہی میں نہ پڑجائیں (کبیر۔ فتح القدیر) شاہ صاحب (رح) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کے شبہوں کا جواب دے کر مسلمانوں سے فرمایا کہ ان کی بات مت سنویہی علاج ہے نہیں تو شب ہے سنتے سنتے اپنی تازہ اپنی راہ سے پھسل جاو گے اب بھی مسلمان کا فرض ہے کہ اصحاب تشکیک کی بات نہ سنے اس میں دین کی سلامتی ہے اور بحث و جدال سے شب ہے بڑھتے ہیں۔ (وحید ی) اانصار کے دو قبیلوں اور و خزرج کے درمیان اتحاد واتفاق پر یہود کو بہت حسد تھا ایک روز شاس بن قیس یہودی ان کی مجلس کے پاس سے گزرا اور ان کو اکٹھے بیٹھے دیکھ کر غصے سے جل بھن گیا اس نے ایک نو جوان یہودی کو بھیجا کہ انصار کی مجلس میں جا کر جنگ بعاث کر تذکرہ شروع کر دو اور اوس و خز راج نے جو ایک دوسرے لے مقابلہ میں اشعار کہے ہیں ان کو دہرا و۔ اس نے ایسا ہی کیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ فریقین کے درمیان پرانی دشمنی کے جذبات بیدا ہوگئے اور ایک دوسرے کے خلاف تلواریں اٹھالیں۔ آنحضرت ﷺ کو اطلاع ہوئی تو مہاجرین کے لوگ فورا وہاں پہنچ گئے اور فریقین کو ٹھنڈا کیا اس پر یہ آیات نازل ہوئیں (ابن کثیر ) آل عمران
101 ف 3 اوپر وعید کے بعد یہ وعدہ ہے یعنی جس شخص کا اللہ تعالیٰ پر ایمان مظبوت ہوگا وہی سیدگی راہ کی طرف ہدایت پاسکتا ہے اس کے مخاطب ہرچند صحابنہ کرام ہیں لیکن نصیحت کا تعلق تمام مسلمانوں سے ہے آج گو ہمارر درمیان آنحضرت ﷺ بنفس نفیس موجود نہیں ہیں مگر اللہ تعالیٰ کی کتاب یعنی قرآن اور آنحضرت ﷺ کی سنت موجودہ جن پر عمل پیراہو کر موجود دور کے فتنوں ہر قسم کی بد عت وضلالت سے مسلمان محفوظ وہ سکتے ہیں۔ آل عمران
102 ف 4 یعنی یہاں تک تمہارے بس میں ہے جیسا کہ دوسرے آیت میں فرمایا ؛ فاتقوا اللہ ما استطعتم (تغابن آیت 16) لہذ یہ منسوخ نہیں ہے (کبیر۔ شوکانی 9 حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں اس کی صحیح صورت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی جائے اور اس کی نافرمانی سے بچا جائے (کبیر) مومنوں کو اہل کتاب کی تشکیک سے دور رہنے کی نصیحیت فرماکر اب یہاں سے چند اصولی باتوں کا حکم دیا ہے جن کے التزام سے انسان ہر قسم کے فتنوں سے محفوظ رہ سکتا ہے یعنی اللہ تعالیٰ کو خوف اعتصام بحبل اللہ اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی یاد کرنا (کبیر ) آل عمران
103 ف 5 یہاں حبل اللہ۔ اسے مراد قرآن ہے متعدد احادیث میں بھی قرآن کو حبل اللہ الممدود فرمایا گیا ہے۔ (شوکانی مسلمان ہو جو فرقہ بندویوں بھی اسی صورت میں نجات پا سکتے ہیں کہ قرآن کا لا ئحہ عمل قرار دیں اور ذاتی آراو وخیالات کو ترک کر کے سنت کی روشنی میں قرآن کو سمجھنے کی کو شش کریں اور ائمہ دین کے اقوال و فتاوی ٰ کا قرآن وسنت کا درجہ دے کر تحرتب اختیار کریں۔ ف 6 اسلام سے پہلے اوس و خزرج ہی نہیں بلکہ عرب شرک و کفر اور باہمی عداوتوں میں مبتلا تھے اسی کو یہاں آگ کے کنارے کھڑا ہونے سے تعبیر فرمایا ہے مقصد یہ ہے کہ اسلام کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے تمہیں آگ میں گر نے سے بچالیا اور عداوت کی بجائے اخوت پیدا کردی (قرطبی۔ ابن کثیر ) آل عمران
104 ف 1 یعنی اللہ تعالیٰ کہ رسی کو مضبوط پکڑ نے اور اختلاف و خلالت سے بچنے کی صورت یہ ہے کہ تم میں جماعت امر بالمعروف ونھی عن المنکر کا فریضہ انجام دیتی رہے جب تک اس قسم کی جماعت قائم رہے گی لوگ ہدا یت پر رہیں گے ایک حدیث میں ہے کہ تم میں سے جو شخص بھی برائی دیکھے اس چاہیے کہ ہاتھ سے بدلنے کی کو شش کرے اگر ایسا نہ کرسکے تو بذریعہ تبلغ کے ارد اگر ایسا بھی نہ کرسکے تودل سے اسے برا جانے اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔ّ(مسلم) امر بالمعروف ونہی عن المنکر کو وجوب کتاب و سنت سے ثابت ہے اور شریعت میں اسے ایک اصل اور رکن کی حثیت حاصل ہے اس کے بغیر سریعت کا نظام کا مل طور پر نہیں چل سکتا۔ (شوکانی) ف آل عمران
105 2 اس آیت میں جس اختلاف کی مذمت ہے اس سے وہ اختلاف مراد ہے جو کتاب وسنت کے نصوص کو چھوڑ کر اختیار کیا جائے عام اس سے کہ اصولی ہو یا فروعی ورنہ اجتہادی مسائل میں اختلاف کی گنجائش چلی آئی ہے بشر طیکہ تعصب سے ہٹ کر اجتہاد کیا جائے اور اجتہادی مسائل پر عمل کرنے میں جمود نہ ہو بلکہ جس امام کو فتویٰ ادب الی الکتاب والسنتہ ہو اسی پر عمل کرلیا جائے الغرض اجتہادی مسائل میں بھی تقلید شخص کی گنجا نہیں۔ الذین تفر قوا وال ضتلوفوا سے مراد یہود ونصاری ہیں پھر اس امت کے اہل بدعت کے تمام فرقے بھی اس میں داخل ہیں جو اختلاف وتفریق میں یہود کی روش پر چل رہے ہیں ایک حدیث میں ہے پہلی امتوں کے بہتر فرقے ہو گے اور میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گیا فرمایا سب دو زخیی ہیں مگر ایک فرقہ جو ما انا علیہ واصحابی پر عمل پیرا رہے گا۔ آل عمران
106 ف 3 ایمان لائے بعد کافرہو گئے تھے۔ اس بظا ہر تو مریت دین مراد ہیں مگر دورحقیقت یہ تمام کفار کو شامل ہے کیونکہ جب ثابت ہے کہ ذر اول اول کے وقت سب نے اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کا اقرار کیا تھا اور حدیث میں یہ بی ہے کہ ہر شخص دین فطرف پر پیدا ہوتا ہے لہذا جو بھی کفر اختیار کریگا وہ ایمان لا نے کے بعد ہی کافر ہوا اس لیے علما نے لکھا ہے کہ اس آیت میں کافر اصلی مرتدین منا فیقین اور پھر اہل بدعت سبھی آجاتے ہیں کیونکہ یہ سب ایما لانے کے بعد کفر کر رہے ہیں۔ (الکبیر)۔ شوکانی) حضرت شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں : معلوم ہوا کہ سیاہ منہ ان کے ہیں جو مسلمانی میں کفر کرتے ہیں منہ سے کلمہ اسلام کہتے ہیں اور عقیدہ خلاف رکھتے ہیں سب گمراہ فرقوں کا یہی حکم ہے۔ (موضح ) آل عمران
107 ف 4 ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ سفیدی اور سیاہی قیامت کے دن ہوگی۔ اھل السنتہ والجماعتہ کے چہرے سفید ہوں گے اور بد عتی فرقوں کے چہرے سیا ہوں گے ابو مامتہ (رض) نے مسجد دمشق کی سیڑھی پر کچھ لوگوں خارجیوں کے سر رکھے ہوئے دیکھ کر فرمایا۔ یہ جہنم کے یئے ہیں آسمان کے نیچے سب سے برے مقتول ہیں۔ جن لوگوں کو انہوں نے قتل کیا وہ بہترین مقتول ہیں۔ (ابن کثیر ) آل عمران
108 ف 5 یا یہ کہ دنیا اور آخرت کے معالات کی اصل حقیقت تم پر واضح کرنے کے لیے نازل فرماتے ہیں ،۔ (ابن کثیر) ف 6 اور کفار کو جو سزا ملنے والی ہے اس سے ان کو آگاہ کردیا ہے تاکہ کسی پر ظلم نہ ہو (شواکانی) یعنی جہاد اور امر بالمعروف کا جو حکم فرمایا یہ ظلم نہیں خلق پر اس میں ان کی تربیت ہے۔ (موضح) جب اللہ تعالیٰ کو ہر چیز کا علم ہے اور ہر چیز پر قدرت حاصل ہے تو اسے کسی پر ظلم کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ (ابن کثیر ٌ) آل عمران
109 آل عمران
110 ف 7 یعنی آنحضرت ﷺ چونکہ انبیائ سے افضل ہیں اس لیے امت محمدی علی صاحبھا الف تحیتہ وسلام تمام امتوں سے افضل اور بہتر ہے جیسا کہ حدیث تفضیل علی الا نبیا میں ہے وجعلت امتی خیر الا ھم کہ میری امت تمام امتوں سے بہتر بنائی گئی ہے نیز دیکھئے۔ بقرہ آیت 143) اور امت کی یہ فضیلت آیت میں مذکورہ صفات کی وجہ سے ہے ایک امر بالمعروف ونہی عن المنکر یعنی جہاد فی سبیل اللہ دوسری ایمان باللہ یعنی خالص توحید کا عقیدہ۔ ایمان اللہ میں اللہ تعالیٰ کے تمام رسول ( علیہ السلام) اور کتابوں پر ایمان لانا بھی داخل ہے حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں جو شخص افضل امت میں داخل ہونا چاہتا ہے اسے چاہئے کہ اس مذکورہ شرط کو پورا کرے حضرت ابن عباس (رض) اس خیر امتہ سے صرف مہاجرین مراد لیتے ہیں مگر آیت عام ہے اور اقیامت تک ہر قرن کے مسلمان اپنے زمانہ کے اعتبار سے دوسروں سے افضل ہیں۔ (شوکانی، ابن کثیر) ف 8 اس میں اہل کتاب کو اسلام کی تر غیب ہے اور معا مذین کی مذمت ،(ابن کثیر) یہود نے صحابہ رضی (رض) سے بحث کی اور کہا کہ ہم سب امتوں سے افضل ہیں اور ہمارا دین سب دینوں سے بہتر ہے تب یہ آیت اتری۔ (وحیدی ) ف 9 جیسے اللہ تعالیٰ پر بہتان باندھنا کتابوں میں تحریف کرنا اور تم پر بہتان طرزیاں کرنا وغیرہ (شوکانی) گویا اس آیت میں ای دوسرے طریق سے ایمان پر ثبات کی تر غیب دی ہے (کبیر ) آل عمران
111 ف 10 چنانچہ ایسا ہی ہوا یہود کو مسلما نوں کے مقابلہ ہر جگہ شکست ہوئی اور رسوائی منہ توڑ دیکھنا پڑا اور بآ لا خر نبی ﷺ اور آپ کے صحابہ انہیں جزیرہ عرب سے جلا وطن کردیا۔ یہ بہت اخبار بالغیب اور پیشین گوئی پر مشتمل ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس میں فتح کامیابی اور نصرت کی بشارت دی ہے کہ کذافی آیات (کبیر۔ ابن کثیر ) آل عمران
112 ف 1 یعنی مغلوب ہونے کے ساتھ ان پر ذلت بھی مسلط کردی گئی دیکھئے سورت بقرہ آیت 61 کبیر) بعض کے نزدیک اللہ کی پناہ یہ ہے کہ مسلمان ہوجائیں اور لوگوں کی پناہ یہ کہ معابد اور ذمی بن کر رہیں۔ ( خازن) مگر یہ صحیح نہیں ہے بلکہ دونوں جگہ ہی حبل سے مراد عہد ذمہ اور امان ہے اور منعی یہی ہیں کہ وہ امان میں آجائیں اور معا ہد اور زمنی بن کر رہیں مگر ذمی کو امان حاصل ہوتی ہے وہ دو قسم کی ہے ایک جزیہ کی صورت میں جس پر قرآن نے الا ان یعھو الجزیتہ عن ید وھم صاغر ون (التوبہ 29) فرماکر تنصیص کی ہے اور حبل اللہ سے یہی مراد ہے دوسری وہ جس کی شرائط واختیارات امام اور حکومت کے ہاتھوں میں ہوتے ہیں یعنی جزیہ میں کمی بیشی اسی کو آیت میں حبل من الناس سے تعبیر فرمایا ہے۔ (کبیر) حضرت شاہ صاحب نے حبل کے معنی دستاویز کے ہیں اور فائدہ میں لکھا ہے یعنی یہود کہیں اپنی اپنی حکومت سے نہیں رہتے دستاویزات اللہ کے کہ بعض رسمیں تورات کی عمل میں لاتے ہیں اور اس کے طفیل پڑے ہیں اور بغیر دستاویز لوگوں کے یعنی کسی کی رعیت میں اس کی پناہ میں پڑے ہیں (موضح) ف 2 یعنی نافرمانی اور اعتد کایہ اثر ہوا کہ لگے کفر کرنے اور پیغمبروں کو مانے اور پھر کفر وقتل انبیا ( علیہ السلام) کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا غضب اترا ذلیل اور محتاج ہوگئے حکومت اور ریاست چھن گئی۔ (وحیدی) حاصل یہ کہ ذلت وغضب اور مسکنت کی علت کفر اور قتل انبیا ہے اور کفر اور قتل انبیا کی علت ان کی نافرمانی اور زیادتی ہے۔ پس ذالک بما عصوا سے علت العلتہ کی طرف اشارہ ہے چنانچہ امام رازی نے لکھا ہے جو شخص ترک آداب کرے گا اس سے ترک سنن کا ارتکاب ہوگا اور ترک سنن کا نتیجہ ترک فرائض کی صورت میں ظاہر ہوگا اور ترک فرائض سے شریعت کی اہانت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور ابانت شریعت سے انسان کفر کے گرھے میں گر جاتا ہے۔ (کبیر ) آل عمران
113 ف 3 بلکہ بعض مومن اور بعض مجرم ہیں۔ (ابن کثیر) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ جب عبد اللہ بن سلام اسد بن عبید۔ تعلبہ بن شعبہ اور ان کے رفقا مسلمان ہوگئے تو یہودی علما کہنے لگے ہم میں سے وہی لوگ محمد ﷺ پر ایمان لائے جو ہم میں سے بد ترین لوگ شمار ہوتے ہیں اگر یہ بھلے لوگ ہوتے تو اپنے باپ دادا کے دین کو چھوڑ کر دوسرا دین اختیار نہ کرتے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیات ( تابا لمتقین) نازل فرمائیں۔،(ابن جریر) ف 4 یہاں قائمہ بمعنی ستقیمہ یعنی آنحضرت ﷺ کے فرماں بردار اور شریعت کے متبع ہیں۔ (ابن کثیر) او یہ بھی ہوسکتا ہے کہ قائمہ بمعنی ظابت ہو یعنی دین حق پر مظبوطی سے قائم رہنے والیے اور اس کے ساتھ تمسک کرنے والے۔ ( کبیر) ف 5 یعنی رات کو قیام کرتے ہیں اور صلوٰۃ تہجد میں قرآن کی تلاوت کرتے ہیں۔ ابن کثیر ) آل عمران
114 ف 6 یعنی خالص توحید کے قائل ہیں اور یوم آخرت کے ڈر سے معاصی کو ترک کرتے ہیں اور نیک کاموں میں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھکر حصہ لیتے ہیں مختصر یہ کہ مذکورہ تمام صفات سے متصف ہیں یہ اصل میں یہود پر طنز ہے کہ ایسے لوگوں کا شمار تو نیکو کار۔ لوگوں میں ہوتا ہے۔ نہ کہ ذلیل اور بد ترین لوگوں میں ( خازن۔ رازی) یعنی اہل کتاب میں سے جو لوگ بھی صفات مذکورہ سے متصف ہوجائیں گے انہیں صرف ان کے نیک اعمال کا ثواب ہی نہیں ملے گا بلکہ اسلام میں داخل ہونے سے قبل کی نیکیوں کا اگر ملے گا ان میں سے ایک وہ شخص ہے جو اپنے نبی پر ایمان لایا اور پھر مجھ (ﷺ) پر (ابن کثیر) نیز دیکھئے سورت قصص آیت 54) آل عمران
115 آل عمران
116 آل عمران
117 ف 8 یعنی جو مال خرچ کیا اور اللہ تعالیٰ کی رضا پر نہ دیا آخرتے میں دیا نہ دیا برابر ہے ْ۔ ( موضح) اوپر کی آیات میں مومن اور متقی کے نیک اعمال کا انجام ذکر فرمایا ہے کہ ان کی ادنی نیکی بھی ضائع نہیں ہوگی بلکہ اس کا پورا پورا بدلہ ملے گا اب اس آیت میں کافر کے صدقہ وخیرات اور رفاہی کاموں کو آخرت میں بے فائدہ اور ضائع ہونے کے اعتبار سے ظالم کی اس کھتی سے تشبیہ دی ہے جو دیکھنے میں سرسبز وشاداب نظر آئے لیکن یکایک سرد ہوا چلے اور اسے تباہ وبرباد کر کے رکھ دے یہی حال کفار کے صدقہ وخیرات کا ہے۔ وہ چونکہ ایمان واخلاص کی دولت سے محروم ہیں اسے لیے آخرت میں ان کے اعمال تباہ وبرباد ہوجائیں گے اور انہیں ان کا کچھ بھی اجر نہ ملے گا کیونکہ آخرت میں نیک اعمال کی حفاظت کا صرف ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ ہے ایمان و اخلاص کا احصار یہ نہیں تو تمام اعمال بیکار ہوں گے واضح رہے کہ قرآن میں عموما ریح کا لفظ عذاب کے لیے استعمال ہوا ہے اور یاح) جمع کا لفظ رحمت کے لیے اسفردات۔ ف 1 یعنی ان کے اعمال جو ضائع وبرباد ہوگئے یہ اس وجہ سے نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر ظلم کیا ہے بلکہ خود ان کے اپنے اوپر ظلم کا نتیجہ ہے کیونکہ انہوں نے نہ تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں اور کتابوں کی تصدیق کی اور نہ خالص اللہ تعالیٰ کے لیے عمل کیے بلک ریا کاری کرتے ہیں۔ آل عمران
118 ف 2 بطا نتہ (راز ور) یہ باب نصر سے مصدر ہے اور واحد جمع دونوں پر بولا جاتا ہے۔ من دونکم (مسلمانوں کے سوا) اس کا تعلق آیت وان تطیعو افریقامن الذین اوتوا الکتاب سے ہے اور اس میں کفار کی طرف میلان سے ممانعت کی تاکید کی ہے۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ اسلام سے پہلے مدینہ کے انصار اور یہود کے درمیان میل جول اور دوستانہ تعلقات قائم تھے پھر جب یہ لوگ مسلمان ہوگئے تو تب ان میں سے بعض لوگوں نے یہود یوں سے ذاتی تعلقات برقرار کھے جن کی وجہ سے بعض راز کی باتیں بھی ان پر افشا کردیتے اس پر یہ آیت نازل ہوئی (ابن جریر) مگر یہ آیت عام ہے اور یہو و نصاری منافقین اور مشرکین سبھی من دونکم میں داخل ہیں اس بنا پر حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ اسلامی حکومت میں کسی اسامی پر غیر مسلم سے مشورہ لینا منع ہے۔ (قرطبی۔ ابن کثیر) ف 3 خبالا فاساد اور شرارت اس میں مذکور (لاتتخذوابطانتہ) کی وجہ اور علت کی طرف سے اشارہ ہے یعنی اگرچہ یہ لوگ اپنی منافقت کی بنا پر تم سے ایسی باتیں کرنا نہیں چاہتے جن سے تمہیں ان کی اسلام دشمنی کا پتہ چل شکے مگر شدت عداوت کیوجہ سے ان کی زبان پر ایسے الفاظ آہہی جاتے ہیں جن سے تم اندازہ کرسکتے ہو کہ یہ تمہارے خیر خواہ نہیں بلکہ بد ترین دشمن ہیں اور تمہارے خلاف جو جذبات اپنے دلوں میں چھپائے ہوئے ہیں وہ اس سے کہیں بڑھ کر ہیں۔ (خازن) یعنی کفار سے ترک موالات کے سلسلہ میں یہود یوں کے بغض و عناد اور ان کے دلی حسد سے متعلق ہم نے پتے ی باتیں کہہ دی ہیں اب غور و فکر کرما تمہا را کام ہے۔ (روح ) آل عمران
119 ف 5 الکتاب سے تمام آسمانی کتابیں مراد ہیں یعنی تم تو سب کتابوں پر ایمان رکھتے ہو وہ کسی کتاب پھر بھی ایمان نہیں کرکھتے ہیں پھر بجائے اس کے کہ تم ان سے نفرت کرو الٹی ان سے دوستی کرتے ہو اور وہ بجائے دوستی کے تم سے دشمنی رکھتے ہیں اور منانفقت سے تمہیں بے خوف بنانے کی کو شش کرتے ہیں۔ کذافی ابن کثیر ) آل عمران
120 ف 6 اس آیت میں مسلمانوں کو تعلیم دی ہے دشمنوں کے مکرو فریب اور ان کی چالوں سے محفوظ رہنے کا طریقہ صرف یہ ہے کہ تم صبر و استقلال اور تقوی سے کام لو اگر یہ اصول اپنا لوگے تو وہ تم کو نقصان نہیں پہنچا سکیں گے (مدارک) شاہ صاحب فرماتے ہیں یکہ اکثر منا فق بھی یہودی میں تھے اس واسطے ان کے ذ کر کے ساتھ یہود کا ذکر بھی فرما دیا ابآگے جنگ احد کی باتیں مذکو رہیں کیونکہ اس میں بھی مسلما نوں اپنے نفاق کی باتیں ظاہر کی تھیں (موضح ) آل عمران
121 ف 7 اب یہاں سے جنگ احد کا بیان ہے۔ جنگ بدر میں میں ذلت آمیز شکست کے بعد مشرکین نے جوش انتقام میں مدینہ پر حملہ آور ہونے کا منصوبہ بنایا اور اردگر سے مختلف قبائل کو جمع کر کے تین ہزار کا مسلح لشکر لیا اور جبل احد کے قریب آکر ٹھہر گئے آنحضرت ﷺ بھی صحابہ (رض) سے مشورہ کرنے کے بعد ایک ہزار کی جمعیت لے کر باہر نکلے۔ مقام شوط پر عبد اللہ بن ابی نے دھوکا دیا اور اپنے تین سو ساتھیوں کے ساتھ لوٹ آیا اس بعض مسلمانوں کے حوصلے بھی پست ہوگئے جیسا کہ آگے آرہا ہے مگر اللہ تعالیٰ نے ان کے ثا بت قدمی بخشی آنحضرت ﷺ سات سو صحانہ (رض) کی یہ جمعت لے کر آگے بڑھے اور احد کی قریب وادی میں فوج کو آراستہ کیا جس کی طرف قرآن کی طرف قرآن نے اس آیت میں اشارہ فرمایا ہے۔ اسلامی فوج کی پشت پر جبل احد تھا اور ایک جانب ٹیلے پر عبد اللہ بن جبیر کی سرگردگی میں پچاس تیز اندازوں کا دستہ متعین تھا اور آپ ﷺ نے ان کو حکم دیا تھا کہ کہ جگہ کسی بھی صورت میں چھوڑ کرم مت آنا مگر وہ کفار کو پسیا ہوتے دیکھ کر نیچے اتر آئے اور اس گھاٹی کو چھوڑ دیا جس سے مشرکین کو عقب سے حملہ کرنے کا موقعہ مل گیا اس اچانک حملہ سے مسلمانوں کے پاوں اکھڑ گئے۔ آنحضرت ﷺ اور چند صحابہ (رض) آپ ﷺ کے ساتھ ثابت قدم رہے۔ آنحضرت ﷺ کے دندان مبارک شہید ہوگئے اور پیشانی مبارک بھی زخمی ہوگئی آخرکار صحابہ (رض) آنحضرت ﷺ کے گرد دوبارہ جمع ہوئے جس سے میدان جنگ کا نقشہ بدل گیا اور دشمن کا نا کام ہو کر لوٹ جا نا پڑا۔ ان آیات میں بعض وقعات کی طرف اشارے آگے آرہے ہیں۔ (ابن کثیر ) آل عمران
122 ف 8 ان دو گروہوں سے مراد انصار (رض) کے دو قبیلے۔ بنو سلمہ اور بنو حارثہ۔ ہیں جو عبد اللہ ابن ابی کی جماعت کی واپسی دیکھ کر دل شکشتہ ہوگئے تھے۔ اور نھوں نے واپس آنے کا ارادہ کرلیا تھا۔ (قربطی ) آل عمران
123 ف 1 اذلتہ کے لفظ سے مسلمانوں کی قلت تعداد اور ضعف حال کی طرف اشارہ ہے مقام بدر مدینہ سے قریبا 60 میل جنوب مغرب کی طرف واقع ہے۔ یہ وقعہ بروز جمعہ 27 رمضان المبارک 2 ھ ( مارچ 624) کو پیش آیا، اس آیت میں جنگ احد میں شکست کے اسباب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے معر کہ بدر کے وقعات پر غور وفکر کی دعوت اور آئندہ ثابت قدم رہنے کے لیے تقوی یٰ کی تعلیم دی ہے۔ جنگ بدر کی تفصیل کے لیے سورۃ انفال آیت 41 دیکھئے (شوکانی، ابن کثیر ) آل عمران
124 آل عمران
125 ف 2 اذ تقول للمئو منین میں ظرف کا تعلق یا تو ولقد نصر کم اللہ ببدر سے ہے اور جنگ احد سے۔ امام طبری نے اول کو ترجیع دی ہے۔ یعنی جب کفارہ کی تیاری اور کثرت تعداد کو دیکھ کر مسلمانوں کے دلوں میں تسویش دی۔ چن نچہ بدر میں فرشتے نازل ہوئے (ابن کثیر۔ شو کانی) اور مسومین سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اسی کام کے لیے مقرر کر رکھا تھا۔ بدر کے میدان فرشتوں کی تعداد ایک ہزار اور تین ہزار بھی منقول ہے جو منقول ہے جو بظاہر تعارض ہے۔ اس کا حل سورۃ انفال آیت 9 میں ملا حظہ ہو، ابن کثیر۔ قرطبی) بعض کے نزدیک اس وعدہ کا تعلق جنگ احد سے ہے اور انہیں نے کہا ہے چونکہ مسلمانوں نے توکل اور صبر سے کام نہ لیا اس لیے اللہ تعالیٰ نے مدد کو روک لیا ورنہ ظاہر ہے کہ فرشتے نازل ہوتے تو مسلمان شکست نہ کھاتے۔ (ابن جریر ) آل عمران
126 آل عمران
127 آل عمران
128 ف 3 اس آیت میں پیغمبر سے فرمایا کہ بندے کو اختیار نہیں ہر قسم کے اختیار رات اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں۔ (ازموضح) تفاسیر میں ہے کہ احد کے دن جب آپ ﷺ کے دندان مبارک شہید ہوگئے اور آپ ﷺ کی چہرہ مبارک زخمی ہوگیا تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا کیف یفلح قوم شجو ابیتھم اور بخاری میں ہے کہ آپ ﷺ نے نمازوں میں قنوت بھی شروع کردی جس میں نام لے کر مشرکین پر لعنت بھجتے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور آپ ﷺ نے دعاقنوت ترک کردی اور یہ وقعہ ہے کہ جب کے نام لے کر آپ ﷺ بدعا کرتے تھے وہی قبلیے بعد میں مسلمانوں ہوگئے۔ اسی طرح ااو یتوب علیھم کا منظر سامنے آگیا ابن کثیر ،۔ قرطبی) جنگ احد کے تذکرہ میں سود کی حرمت کی حکم بظاہر بے ربط سا معلوم ہوتا ہے مگر علما نے لکھا ہے کہ اوپر جہاد میں فشل نامردی کا ذکر ہوا ہے اور سود خواری سے قوم میں دھن اور بزدلی پیدا ہوتی ہے خود غرضی اور بخل کا جذبہ فروغ پا جاتا ہے۔ اور سود خوار قوم جہاد کے قابل نہیں رہتی اور پھر انصار کے یہود کے ساتھ سودی لین دین کے تعلقات تھے اور احد میں منافقین یہود کی وجہ سے نقصان پہنچا تھا گویا اس کو حرام قرار دیکر ان تعلقات کو ختم کردیا۔ ( حواشی مختلفہ) زمانہ جا ہلیت میں بہت سے لوگ دوسروں کو سودی قرضے دیا کرتے جب قرضہ کی میعاد ختم ہوجاتی تو مقروض سے کہتے قرض اد اکر و ورنہ سو میں اضافہ کرو۔ قرض ادا نہ کرنے کی صورت میں میعاد میں توسیع کردی جاتی اور سود کی مقدار اصل زرسے بھی کئی گنا زیادہ ہوجاتی اور یہ سود تجارتی اور غیر تجارتی دونوں طرح کا ہوتا تھا۔ جیسا کہ آیت کی تفسیر کے تحت تابعین نے تصریح کی ہے سودی کاروبار کی اس بھانک صورت حال کی طرف قرآن نے اضعافا مضا فعتہ کے الفاظ سے اشارہ فرمایا ہے ورنہ یہ ملطب نہیں ہے کہ مرکب سود حرام ہے اور سادہ جائز ہے۔ اسلام میں ہر قسم کا سود حرام ہے اور اس کا ادنی ترین گناہ ماں سے بد کاری کے برابر ہے۔ باقی دیکھئے بقرہ آیت 275 شوکانی ،۔ ابن کثیر ) آل عمران
129 آل عمران
130 آل عمران
131 ف 5 اس میں اشارہ ہے کہ سود کھانا ارکھلا نا مسلمان کا کام نہیں ہوسکتا جو شخص یہ کام کرتا ہے وہ صریحا کافر ہے اور اسے اپنے آپ کو جہنم کی آگ کے لیے تیارکھنا چاہیے۔ قر طبی ) آل عمران
132 ف 1 یعنی اللہ تعالیٰ کی رحمت کا امید وار تو وہی شخص ہوسکتا ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کا فرمانبردار ہو۔ سود کھانا اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کی امید رکھنا دو متضاد چیزیں ہیں اس میں ہر نافرمان کے لیے عتاب ہ وسکتا ہے۔ کبیر ) آل عمران
133 ف 2 یعنی جس طرح سود خوار کافر کے لیے دوزخ تیار کی گئی ہے اسی طرح تابعدار متقی کے لیے جنت تیار کی گئی ہے اور پھر جنت کے متعلق عر ضھا السموات والا رض فرماکر اس کی وسعت کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت ﷺ سے ایک شخص نے اس آیت کے متعلق سوال کیا کہ اگر جنت کا عرض آسمان کے برابر ہے تو دوزخ کہاں ہوسکتا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا کہ رات چھا جائے تودن کہا ہوتا ہے ؟ اس نے کہا جہاں اللہ تعالیٰ کی مشیت ہو آپ ﷺ نے فرمایا یہی حال دوزخ کا ہے۔ یعنی تکون حیث شاہ اللہ اس کے معنی یہ ہیں کہ جس طرح ایک جانب رات ہوتی ہے اور دوسری جانب دن ہوتا ہے یہی حال جنت دوزخ کا ہے اس سوال کا یہی جواب حضرت عمر (رض) اور عبد اللہ بن عباس (رض) سے مروی ہے۔ (ابن کثیر) جنت اور جہنم کے جو اوصاف قرآن و حدیث میں مذکور ہیں ان پر بلا کیف ایمان رکھان ضروری ہے خواہ ہمارے عقل وذہن کی رسائی ان تک نہ ہو اور یہی نہیں بلکہ جملہ امور آخرت کا یہی حال ہے۔ آل عمران
134 ف 3 اب ان آیات میں اہل کتاب میں اہل جنت کی صفات کا ذکر ہے چنانچہ ان کی پہلی صفت یہ ہے کہ خوشحالی اور تنگدستی ہر حالت میں وہ اپنی استطاعت کے مطابق خرچ کرتے رہتے ہیں اور نیک کا موں اور رضائے الہٰی کے لیے مال صرف کرنے سے انہیں کوئی چیز غافل نہیں کرتے ف 3 اب ان آیات میں اہل جنت کی صفات کا ذر کر ہے چنانچہ ان کی پہلی صفات یہ ہے کہ خوشحالی اور تنگدستی ہر حالت میں وہ اپنی استعاعت کے مطابق خرچ کرتے رہتے ہیں اور نیک کاموں اور رضائے الہٰی کے لیے مال صرف کرنے سے انہیں کوئی چیز غافل نہیں کرتی۔ (ابن کثیر ) ف 4 ان کی دوسری صفت یہ ہے کہ وہ غصہ سے مغلوب ہونے کی بجائے اس پر قابو پالیتے ہیں کہ۔۔ ایک روایت میں ہے پہلوان وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے آپ کو پر قابو رکھے۔ (بخاری۔ مسلم) حضرت ابن عباس (رض) سے راویت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے پسند یدہ گھونٹ غصہ کا گھونٹ ہے جسے بندہ پہ لیتا ہے۔ جو شخص اپنا غصہ پی لیتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے پیٹ کو ایمان بھردیتا ہے۔ مسند احمد) ف 5 یہ دراصل غصہ پی جانے کا لازمی تقاضا ہے۔ ایک حد یث میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے قسم کھاکر فرمایا جو کوئی عفودودر گزر کام لیتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی عزت افزائی فرماتے ہیں اس باب متعدد احادیث وارد ہیں۔ (ملا حظہ ہو ابن کثیر ) آل عمران
135 ف 6 یعنی اگر بشر تقاضے کے تحت ان سے کسی گناہ کا ارتکاب ہوجاتا تو وہ فورا اللہ تعالیٰ کو یاد کر کے توبہ واستغفار کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ معافی چاہتے ہیں۔ صحیحین کی ایک روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے نے فرمایا جب کوئی بندہ گناہ کر کے توبہ استغفار کرلیتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے بندے کو معلوم ہے کہ اس کا ایک رب ہے جو گناہ معاف کرتا ہے میرے بندے کو معاف کردیا۔ ابن کثیر) ف 7 اصرار کے معنی ہیں اڑجانا اور لا پر وائی سے گناہ کرتے جا نا اور ان پر ندامت کا اظہار نہ کرنا ارونہ تو بہ ہی کرنا ورنہ اگر کسی شخص سے سچے دل سے توبہ کرنے کے بعد گناہ سرزد بھی ہوجاتا ہے تو اسے اصرار نہیں کہتے۔ چنانچہ ایک حدیث میں ہے ما اصر من استغفر وان عادفی الیوم اسبعین مرہ کے سچے دل سے توبہ واستغفار کے بعد اگر کسی شخص سے ایک دم میں ستر مرتبہ بھی گناہ سرزد ہوجائے تو اسے مٖصر نہیں کہا جائے گا۔ (ابن کثیر۔ قرطبی) وھم یعلمون یعنی وہ جانتے ہیں کہ جو شخص توبہ کرلے اللہ تعالیٰ اس کے گناہ معاف کردیتے ہیں۔ ابن کثیر آل عمران
136 آل عمران
137 ف 8 اوپر کی آیات میں طاعت اور معصیت سے توبہ پر غفران اور جنت کا وعدہ فرمایا۔ اب یہاں طاعت اور توبہ کی ترغیب کے لیے پہلی امتوں کی تاریخ پر غور فکر کا حکم دیا ہے تاکہ ان مطیع اور عاصی کے احوال پر غور کر کے انسان اپنے لیے سامان عبرت حاصل کرے۔ (کبیر۔ ابن کثیر) سنت کے معنی طریق مستقیم اور اس نمونے کے ہیں جس کی اتباع کے لیے نمونہ اور طریق مستقیم ہوتا ہے اس لیے اسے سنت کہا جاتا ہے۔ ّ(کبیر) جنگ احد میں جب ستر مسلمان شہید ہوگئے اور کچھ زخمی ہوئے تو اس شکست سے مسلمانوں کو قدرتی طو پر بہت تکلیف ہوئی۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے تسلی کہ اس شکست اسے افسردہ خاطر نہیں ہونا چاہیے کہ یہ بات تو امم سابقہ اور اور نبیا ﷺ کے متبعین میں ہوتی چلی آئی ہے کہ ابتدا میں ان کو تکالیف سے دوچار ہوتا ہے اور بآلا خر جھٹلانے والے ذلیل وخوار ہوئے۔ (ابن کثیر ) آل عمران
138 ف 9 یعنی قرآن میں اس کا واضح ثبوت موجود ہے کہ پہلی امتوں کا ان کے دشمنوں کے ساتھ مقابلہ میں کیا حال ہوا۔ چنانچہ قرآن جابجا متقین کے نیک انجام اور مکذبین کی ہلاتک کا تذکرہ فرمایا ہے۔ (کبیر، ابن کثیر ) آل عمران
139 ف 10 اوپر کی آیت : قد خلت الخ اس بشارت کی تمہید تھی اور انتم الا علون کے لیے بمنزلہ دلیل کی امم سابقہ کی تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ اہل باطل کو گو عارضی غلبہ حاصل ہو امگر آخر کار وہ تباہ برباد ہوگئے یہی حال تمہار ہے اس لیے کسی قسم کے دھن اور ضعف سے کام نہ لو۔ آخرکار غلب رہوگے چنانچہ اس کے بعد ہر لڑائی میں مسلمان غالب ہوتے رہے کبیر، وحیدی) آل عمران
140 ف 1 یعنی اگر احد کے دن تمہیں ان مشرکین کے ہا تھوں نقصان پہنچا ہے تو تم بدر کے دن انہیں اسی قسم کا نقصان پہنچا چکے ہو اور یہ کچھ پر یشانی کی بات نہیں الحرب سجال جب بھی دوگروہوں میں جنگ ہوئی ہے تو کبھی ایک کا پلڑا بھارہا ہے اور کبھی دوسرے کا۔ (ابن کثیر۔ شوکانی ) آل عمران
141 ف 2 جنگ احد میں امسلمانوں کو سخت جانی نقصان پہنچا اور یہود ومنا فقین کے مطا عن مزید دل آزاری کا با عث بنے۔ منافق کہتے تھے کہ اگر آنحضرت ﷺ سچے نبی ہوتے تو مسلمان یہ نقصان اور بزمیت کی ذلت کیوں اٹھاتے وغیرہ۔ ان آیات میں مسلمانوں کو تسلی دی ہے کہ فتح وشکست تو ادلتی بدلتی چیز ہے یہ حق ونا حق کا معیار نہیں ہے۔ آج اگر تم نے زخم کھا یا ہے تو کل وہ جنگ بدر میں تمہارے ہاتھوں اسی قسم کا زخم کھاچکے ہیں اور خود اس جنگ میں اتبدا ان کے بہت سے آدمی مارے جا چکے ہیں جیسا کہ اذتخسو نھم باذنہ سے معلوم ہوتا ہے۔ تمہارے شکست کھانے کا فائدہ یہ ہوا کہ ایمان واخلاص اور کفر ونفاق میں تمیز ہوگئی مومن اور منافق الگ الگ ہو گے مومنوں کو شہادت نصیب ہوئی جو عند اللہ بہت بڑا شرف ہے ورنہ اس عارضی فتح کا یہ مطلب نہیں کہ اللہ تعالیٰ ظالموں اور مشرکوں کو پسند کرتا ہے بلکہ فتح وشکست کے اس چکر سے مومنوں کو تمحیص اور کفار کی طاقت کو ختم کرنا مقصو ہے اس طرح کہ وہ اپنی عارضی فتح پر مغرورر ہو کر پھر لڑنے آئیں گے اور اس وقت ان کی وہ سرکوبی ہوگی کہ دوبارہ اس طرف رخ کرنے کا نام نہیں لے گے چنانچہ غزوہ احزاب کے موقع پر ایسا ہی ہوا کہ اس کے بعد کفا رن دفاعی جنگیں تو لڑی ہیں مگر خود حملہ کی جرات نہ کرسکے۔ (ماخوذ از کبیر وشوکانی وغیرہ) آل عمران
142 ف 3 یہاں ام بمعنی بل ہے (قرطبی) ابھی اللہ تعالیٰ نے اپنے علم میں جو کچھ تھا اسے ظاہر نہیں کیا اور کھول کر انہیں دکھا یا کہ کون جہاد کرتے اور لڑائی میں ثا بت قدم رہتے ہیں کیا تم سمجھتے ہو کہ ایسی آزمائش سے پہلے تم کو جنت میں لعلی ٰ مراتب مل جائیں گے مطلب یہ ہے کہ جب تک اس قسم کی آزمائشوں میں پورے نہیں اترو گے جنت میں اعلی ٰ مرابت حاصل نہیں ہو سکتے۔ (وحیدی بتصرف ) آل عمران
143 ف 4 الموت جنگ یا شہادت۔ (معالم) جن لوگوں کو جنگ بدر میں حاضری کا موقع نہیں ملا تھا وہ تمنا کیا کرتے تھے کہ دشمن سے مقا بلہ کا موقع ملے تو ہم بھی شہدا بدر کا درجہ حاصل کرلیں مگر جب جنگ احد میں یہ موقع ملا تو ثابت قدم ہ رہے اور مقابلہ سے بھاگ نکلے۔ْ اس آیت میں صحابہ (رض) کو مخاطب کرکے فرمایا تمہاری تمنا کہ مطابق اب یہ موقع آیا ہے تو تمہیں چاہیے تھا کہ پوری جوانمردی سے دشمن کا مقابلہ کرتے اور پا مردی کا ثبوت دیتے۔ حدیث میں ہے کہ دشمن سے مڈ بھیڑ ہونے کی تمنا نہ کرو اللہ تعالیٰ سے عافیت طلب کر ور لیکن اگر مڈبھیٹ ہو تو ثابت قد رہو اور جان لو جنت تلواروں کے سایہ تلے ہے۔ ( ابن کثیر از صحیحین ) آل عمران
144 ف 5 جنگا احد میں بعض صحابہ (رض) نے تو مرتبہ شہادت حاصل کیا اور بعض میدان چھوڑ کر فرار ہونے گلے آنحضر ﷺ بھی زخمی ہوگئے اوکسی شیطان نے آپ ﷺ کی شہادت کی افواہ پھیلا دی صحابہ (رض) اس افواہ سے انتہائی شکستہ خاطر ہوگئے اور ہمت ہار بیٹھے اور منافقین نے طعن طنز کے نشتر حپھبو نے شروح کردیئے کہ اگر محمد ﷺ اللہ تعالیٰ کے رسول ہوتے تو قتل کیوں ہوتے۔ اس پر یہ آیات نازل ہوئیں کہ کیا پیغمبر کے قتل ہونے یا طبعی موت مر جانے سے اللہ تعالیٰ کا دین چھوڑ بیٹھو گے ؟ تمہیں چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرتے رہو (ابن کثیر قرطبی) شاہ صاحب لکھتے ہیں اور اشارات نکلتی ہے کہ حضرت ﷺ کی وفات پر بعض لوگ پھر جاویں گے۔ اسی طرح ہوا کہ بہت سے لوگ حضرت ﷺ کے بعد مرتد ہوئے اور حضرت صدیق (رض) نے ان کے پھر مسلمان کیا اور بعض کو مارا۔ (مو ضح) احادیث میں ہے کہ آنحضرت ﷺ ہو یہ تو حضرت عمر (رض) اپنا ذہنی توازن بر قرار نہ رکھ سکتے اور لوگوں سے خطاب کیا کہ جو شخص یہ کہے گا کہ محمد ﷺ کا انتقال ہوگیا ہے اس کا سر تلوار سے قلم کر دوں گا۔ اتنے میں حضرت صدیق (رض) اکبر تشریف لے آئے اور تقریر فرمائی کہ جو شخص محمد ﷺ پرستش کرتا تھا اسے جان لینا چاہیے کہ محمد ﷺ کی وفات ہوگئی اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی پر ستش کرتا تھا تو اللہ تعالیٰ ہمیشہ زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا۔ اس کے آپ (رض) یہ آیت تلاوت فرمائی تو لوگوں کو ایسا محسوس ہوا کہ اس موقعہ کے لئے ہی یہ آیت اتری ہے۔ (ابن کثیر ) آل عمران
145 ف 1 جب منافقین نے یہ افواہ اڑائی کہ محمد ﷺ قتل ہوگئے اب اپنا آبائی دین اختیار کرلو یا صحابہ (رض) کرام جب جنگ احد سے واپس آئے اور ان میں سے کچھ صحابہ شہید ہوچکے تھے تو منافقین نے کہا لو کانوا عندنا ماماتوا وما قتلوا کہ اگر ہو مدینہ میں رہتے قتل نہ ہوتے۔ پس اس قسم کے شبہات کو رفع کرنے کے لئے یہ بات نازل ہوئی (کبیر) اس سے مقصود مسلمانوں کو جہاد پر ابھار نا اور ان کے زہن میں یہ بات بٹھا نا ہے کہ موت سے فرار کی راہ اختیار کرنے سے انسان موت کے پنچہ سے نجات نہیں پا سکتا، اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کو موت کا ایک وقت مقرر فرمایا ہے جس میں تقدم تاخر نہیں ہوسکتا۔ پس اذن بمعنی علم ہے یعنی ہر شخص کی موت کا وقت اللہ تعالیٰ کے علم میں مقدر ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اذن معنی قضا وقدر کے ہو۔ الغرض تمہیں چاہیے کو موت سے بھاگنے کی فکر چھوڑ کر بے جگری سے اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرو اور اس جہاد سے تمہارا مقصود آخرت کا ثواب ہونا چاہیے ورنہ اگر تم صر دنیا کا ثواب شیرت اور مان غنیمت وغیرہ۔ ہی چاہو گے تو تمہیں صرف وہی ملے گا اور وہ بھی اللہ تعالیٰ کی مشیت پر۔ اور آخرت سے محروم رہو گے۔ یہاں کتابا موجلا اللہ تعالیٰ کی مشیت پر۔ اور آخرت سے محرور رہو گے یہاں کتابا موجلا سے مراد وہ کتاب ہے جو آجالج پر مشتمل ہے بعض نے لوح محفوظ مراد لیا ہے احادیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قلم سے فرمایا : اکتب فکتب ما ھو کا ئن کہ لکھ دے پس قلم نے جو کچھ ہونے والا تھا سب لکھ دیا۔، آیت میں اشارہ ہے کہ جنگ احد میں حاضر ہونے والے لوگ اپنی نیتوں کے اعبتار سے دو قسم کے تھے۔ بعض غنیمت کے طالب تھے اور بعض آخرت کے، یہ آیت گو خاص طور پر جہاد کے بارے میں نازل ہوئی ہے مگر حکم کے اعتبار سے خام ہے اور تمام اعمال صالحہ کا مدار انسان کے ارادے اور نیت پر ہے (کبیر) معلوم ہوا ہے کہ مقتول بھی اپنی اجل سے مرتا ہے اور احبل میں ممتنع ہے۔ آل عمران
146 ف 6 ربییون یہ ربہ کی طرف ہے جس کے معنی جماعت کے ہیں اور یہ جملہ حالیہ ہے ای دمعہ ربییون کثیر استکا نوا۔ یہ سکون سے باب افتعال ہے کاف کے بعد الف بر ائے اشباع ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کون سے استفعال ہو لیکن پہلے اشتقاق کی آیت کے معنی سے زیادہ منا سبت ہے۔ (قرطبی۔) ان تینوں آیتوں سے مقصود ان لوگوں پر عتاب ق اور تنبیہ جو احد کے دن شکست کے آثار دیکھ کر ہمت ہار بیٹھے اور آنحضرت ﷺ کی شہادت کی افواہ سن کر بالکک ہی پست ہوگئے پس فرمایا تم سے پہلے انبیا کے متبعین گزر چکے ہیں ان کی اتباع کرو اور اس قسم کی کمزوری نہ دکھا و (قرطبی ابن کثیر) یعنی ان لوگوں میں بہت سے رتیون اپنے انبیائ کے ساتھ مل کر جہاد کرتے رہے لیکن انہوں نے اپنی قلت تعداد اور بے سرو سا مانیے باوجود کبھی ہمت نہ ہاری اور نہ کبھی اپنے انبیا کے وفات پا جانے یا شہید ہوجا نے کے بعد کی صورت میں وساوس میں مبتلا ہوئے ہمیشہ اور ہر حال میں صبر و استقلال سے کام لیتے رہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں دنیا و آخرت دونوں کے ثواب سے نواز دیا۔ آل عمران
147 آل عمران
148 آل عمران
149 ف 3 احد کی شکست کے بعد کفار نے جن میں منافقین یہود ونصاری اور مشر کین سبھی شامل تھے۔ مسلمانوں کے دلوں میں مختلف قسم کے شکو کو شبہاے پیدا کر کے ان کو اسلام سے برگشتہ کرنے کی کو شش کی۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی متنبہ کیا کفار کے فریب میں مت آنا ورنہ تم خسارے میمن پڑجا و گے پس یہ آیت بھی آیات کا تتمہ ہے یادررہے کہ دنیا میں سب سے بڑ اخسارہ یہ ہے یہ کہ کوئی انسان اپنے دشمن کے سامنے سپر انداز ہوجائے اور آخرت کا خسارہ ثواب سے محرومی اور عذاب میں گرفتاری ہے پس خسارہ عام ہے۔ (کبیر) آل عمران
150 ف 4 یعنی تم کفار کی اطاعت تو اس لیے کرو گے کہ وہ تمہاری کچھ مدد کریں مگر یہ سراسرجہالت ہے۔ دراصل تمہارا حامی وناصر اللہ تعالیٰ ہے اس پر بھروسہ رکھو گے تو دنیا کی کوئی طاقت تمہار بال بیکا نہیں کرسکتی یادر ہے کہ اللہ تعالیٰ کو خیر الناصرین محاورہ کلام کے اعتبار سے فرمایا ہے ورنہ یہ معنی نہیں ہیں کہ وہ بھی ان ناصرین کی جنس سے ہے۔ () کبیر) آل عمران
151 ف 5 آیت اپنے سیاق کے اعتبار سے اوپر کے بیان کا تتمہ ہے اور اللہ تعالیٰ نے مختلف وجوہ سے جہاد کی ترغیب دی ہے اور کفار کے خوف کو دلوں سے نکا لا یہاں فرمایا ہے کہ اگر تم اللہ تعالیٰ پر بھروسا رکھوگے اور اسی مدد مانگو گے تو اللہ تعالیٰ کفار کی دلوں میں تمہارا خوف ڈال دتے گا اس طرح تمہیں ان پر غلبہ حاصل ہوجائے گا کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کو شریک ٹھہراتے ہیں۔ پس مبا اشر کوا میں با براے سببیب ہے۔ (قرطبی) حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں مشرک چور میں اللہ تعالیٰ کے اور چور کے دل میں ڈرہو تا ہے کہ (موضح) چنانچہ اللہ تعالیٰ یہ وعدہ سچ ہوا اور احد میں باوجود غالب ہونے کے چپکے سے میدان چھوڑ کر بھاگ گئے عمائے تفسیر کا بیان ہے کہ راستہ میں انہوں نے دوبارہ مدینہ پر حملہ کا ارادہ کا ارادہ کیا مگر مرعوب ہوگئے صحیحین میں حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا : پانچ چیزوں میں مجھے پہلے انبیا پر فضیلت دی گئی ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ ایک ماہ کی مسافت پر دشمن کے دل میں میرا رعب ڈال دیا گیا ہے۔ (قرطبی ابن کثیر) حدیث سے معلوم ہوتا ہوا کہ اس وعدہ یا تعلق خاص احد ہی سے نہیں ہے بلکہ عام ہے۔ ( کبیر ) آل عمران
152 ف 1 جنگ احد میں ج پہلے پہل اللہ تعالیٰ کی مدد مسلما نوں کے شامل حال رہی اور وہ مشرکین کے سر قلم کرتے رہے حتی کہ جب فتح کے آثار نظر آنے لگے اور مشرکین نے بھاگنا شروع کیا تو پچاس سوار جن کو آنحضرت ﷺ نے عبدا للہ بن جبیر (رض) کی سرکردی میں متعین کیا تھا کہ ادھر سے مشرک حملہ آور نہ ہوں انہوں نے مال غنیمت دیکھ کر با ہم جھگڑا شروع کردیا اور ان میں سے اکثر آنحضرت کے حکم کی نافرمانی کر کے اپنی جگہ چھوڑ کر مال غمیت کی طرف دوڑ پڑے۔ اس سبب سے مشرکین کو عقب سے حملہ آور ہونے کا موقع مل گیا اور مسلما نوں کو بہت بڑا نقصان اٹھا نا پڑا اس آیت میں اسی واقعہ کی طرف اشارہ ہے۔ ّابن کثیر۔ کبیر) جنگ کے بعد جب آنحضرتﷺ مدینہ آئے تو بعض لو کہ نے لگے کہ یہ مصیبت ہم پر کیسے آگئی حالا نکہ اللہ تعالیٰ نے نصرت کا وعدہ فرمایا تھا اس پر یہ آیت نازل ہوئی (قرطبی) ف 2 یعنی غلبہ کے بعد ان کے مقابلہ میں تمہیں پسپائی دلائی تاکہ تمہا ری آزمائش ہو کہ کون سچا مسلمان ہے اور کون کمزر ایمان اور جھوٹا،(قرطبی) ف 3 یعنی گو تم آنحضرتﷺ کی نافرمانی اور جنگ سے فرار کی راہ اختیار کر کے نہا یت جرم کا ارتکاب کیا تھا جس کی تمہیں سخت سزادی جاسکتی تھی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے تمہارا سارا قصور معاف فرمادیا۔ آل عمران
153 ف 4 یہ شکست کھائے ہوئے مسلمان کی کیفیت کا ذکر ہے کہ آنحضرت ﷺ میدان جنگ تمہیں پکا رہے تھے الی عباد اللہ مگر تم پہاڑ پر چڑھے چلے رہے تھے اور کسی کی بات پر دھیان نہیں دے رہے تھے۔ یعنی ایک شکست کا غم سے سخت تر تھا۔ پس بغم کے معنی علیٰ غم ہیں اور بعض نے با کو سببیت کے لیے مانا ہے یعنی آنحضرت ﷺ کو مغموم کرنے کی وجہ سے تمہیں غم پہنچا۔ مگر پہلے معنی زیادہ صحیح ہیں۔ ( ابن کثیر۔ شوکانی) ف 6 یعنی تمہیں دوہرے غم میں مبتلا کردیا تاکہ تمہیں نہ تو مال غنیمت کے ہاتھ سے نکل جانے رانج ہو اور نہ شکست ہی پر کببدہ خاطر ہو۔ کیونکہ متواتر سختیوں سے انسان تحمل مشاق کا عادی ہوجاتا ہے۔ آل عمران
154 ف 7 اس طائفہ سے مراد پکے اور سچے مسلمان ہیں۔ یعنی ان پر امن واطمینان کی کیفیت طاری کردی اور ان کو اونگھ آنے لگی۔ حضرت ابو طلحہ (رض) کا بیان ہے کہ اونگھ سے میری کیفیت یہ تھی کہ باربار تلوار مرے ہاتھ گرتی اور بڑی مشکل سے اس پر قابو پاتا۔ ( ابن کثیر) ف 7 اس طائفہ سے منا فق اور ضعیف ال ایمان کے لوگ مراد ہیں جو محض مال غنیمت کے لالچ میں لٹرنکلے تھے۔ (قرطبی) ظن الجا ھلیہ یہ غیر الحق سے بدل ہے ینی وہ یہ گمان کر رہے تھے کہ دین اوسلام اور اس کے حا ملین بس اب ہلاک ہوگئے۔ مسلمانوں کی کبھی مدد نہ ہوگی اور نہ یہ دعوت حق پر وان پڑھیگی۔ (ابن کثیر۔ شوکانی) یہ جملہ نظینون سے بدل ہے اور من الا مر سے مراد فتح اور نصرت ہے یعنی بالکل مایو سی کا اظہار کرنے لگے اور یہ کہنا شروع کردیا کی ہمیں کبھی فتح بھی نصیب ہوگی اور کچھ ملے گا بھی ؟ یا یہ کہ ہمیں تو مجبورا ساتھ دینا پڑا اور نہ ہم تو باہر نکل کر لڑنے کے حق میں نہ تھے۔ بعض نے یہ معنی بھی کئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جو چاہا سو کیا ہمارا اس میں کیا اختیار ہے۔ (فتح القدیر۔ وحیدی) ف 10 یعنی نفافق اور مسلمانوں کی بد خو اہی۔ (وحید ی) ف 11 شاہ صاحب کے ترجمہ لڑی جائے تو آج ہمارا یہ ہمارا یہ جانی نقصان نہ ہوتا مگر ہماری کسی نے نہ سنی۔ یہ بات یا تو ان منافقین نے کہی کہ جو جنگ میں شریک تھے جیسا کہ حضرت زبیر (رض) سے منقول ہے کہ انہوں نے معتب بن قشیر (منافق) سے اس قسم کے کلمات سنے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ بات ان منافقین نے کہی ہو جو ابن ابی کے ساتھ مد ینہ کو لوٹ آئے تھے۔ اس صورت میں ھنا کا اشارہ قریب معرکہ احد کی طرف ہوگا۔ (قرطبی۔ شوکانی) ف 12 اس سے ان کے خیال کی تردید یا مقصود ہے یعنی اگر تم اپنے گھروں میں بیٹھے رہتے تب بھی جن لوگوں کی قسمت میں قتل ہونا لکھا جا چکا تھا وہ صرف اپنے گھروں سے نکلتے اور جہاں اب مارے گئے وہیں مارے جاتے کیونکہ قضا الہی سے مفر کی کوئی صورت نہیں۔ (شوکانی ) ف 1 یہ جملہ مخذوف کی علت ہے یعنی جنگ احد میں کچھ ہو اور جن حالات سے مسلمان دوچار ہوئے اس سے مقصود یہ تھا کہ تمہارے دلوں کی حالت ظاہر ہوجائے اور تمہارے دل وسا وس سے پاک ہوجائیں یا یہ کہ منافقین کے دلوں کا نفاق باہر نکل آٗے چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ احد کی لڑائی بگڑ نے سے یہ سارا بھانڈا پھوٹ گیا۔ (وحیدی) آل عمران
155 ف 2 یہ ستزل کے متعلق ہے کہ اور جملہ اس کی خبر ہے یعنی احد کی دن جو مسلمان میدان جنگ سے ہٹ گئے تو یہ ان کے کئے کی شامت میں یعنی گذشتہ گنا ہوں کا نتیجہ ہے۔ من جملہ ان کے یہ بھی ہے کہ انہوں نے آنحضرت ﷺ کی حکم کی مخالفت بھی کی تھی۔ (زشوکانی) سلف سے مروی ہے کہ ایک نیک کام کرنے سے دو سرے نیک کام کی تو فیق ملتی ہے اور اگر ایک گناہ دوسرے گناہ کے ارتکاب کا سبب بنتا ہے۔ ( ابن کثیر) مقصد یہ کے بعض مسلمان جو اس دن بھاگ کھڑے ہوئے وہ اس وجہ سے نہیں بھاگے کہ اسلام سے پھر گئے تھے یا منا فق تھے بلکہ شامت نفس اور اغوائے شیطان کے باعث یہ گنا کہ ان سے سرزد ہوا۔ (وحیدی) ف 3 یعنی جو واقعی دل میں اخلا ص رکھتے تھے ان کی تو بہ اور معذرت کے سبب الہ تعالیٰ نے ان کو معاف کردیا۔ اب نہ ان پر کوئی گناہ ہے اور نہ کسی کو طعن کا حق ہے ،۔ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے کسی نے بطور طعن فرار ہوگئے تھے ؟ حضرت ابن عمر (رض) کہا ہاں ہے تو صحیح مگر قرآن نے ان کے لیے عفو اور مغفرت کا اعلان بھی تو کردیا ہے ،۔ لہذا فضیوں کا حضرت عثمان (رض) پر یہ طعن کرنا نری نادارنی اور حماقت ہے۔ ( قرطبی۔ وحیدی ) آل عمران
156 ف 4 مراد منافقین ہیں جو ظاہر میں مسلمان اور درحقیقت کافر ہیں۔ ( وحیدی) ان کی طرح مت بنو یعنی ان جیسے خیا لات دل میں نہ لا و اور ان کی طرح یہ عقیدہ مت رکھو۔ مروی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے بئر معونہ کی طرح ایک دستہ بھیجا وہ شہید ہوگیا تو اس پر منافقین نے اس قسم کے خیالات کا اظہار کیا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور مسلمانوں کو اس قسم کے خیالات دم لانے سے منع فرمادیا۔ ( قرطبی۔ ابن کثیر) اسی قسم کے خیالات کا اظہار شہدا احد کے متعلق بھی کیا گیا۔ (دیکھئے آیت 168) ف 5 اپنے مسلمان بھائی بندوں کے حق میں یعنی لام سببیت ہے اور ان کو اپنا بھائی کہنا نسبی رشتہ داری کی بنا پر ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اخوان سے ان کے دوسرے ہم مسلک منا فق بھائی مراد ہوں۔ اس صورت میں امام تبلیغ کا ہوگا یعنی انہوں نے اپنے منافق بھا ئیوں سے کہا ترجمہ میں پہلی شق کی اختیار کیا گیا ہے۔ (قرطبی۔ وحیدی) ف 6 غزی یہ غاز کی جمع ہے جیسا کہ راکع کی جمع رکع آجاتی ہے اور لیجعل اللہ میں لام کا تعلق قالوا سے ہے یعنی ان کا یہ قول ان کے دلوں میں حسرت کا مو جب بن رہا ہے (شو کانی) پس مسلمان کو منع فرمایا کہ تم جلادت سے کام لو اور اس قسم کے کلمات زبان پر مت لا و تاکہ تمہارے اس عدم تائثر کی وجہ سے اس بات سے ان کے دلوں میں حسرت پیدا ہو (المنار) اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ لام عاقبت کاہو اور اس کا تعلق لاتکونو صغیہ نہیں سے ہو یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کے ضعف اعتقاد کی وجی سے اس قسم کے کلمات ان کی زبان پر جا ری کردیتے ہیں تاکہ وہ ساری عمر اسی ہی واہی تبا ہی باتیں کر کے اپنے مقتول بھا ئیوں پر پچھتاتے رہیں۔ پس لاتکو نوا فرماکر مسلما نوں کو متنبہ کیا کہ تم اس قسم کے کلمات زبان پر مت لا و ورنہ تم ان کی طرح حسرت وافسوس کی زندگی بسر کرو گے ( المنار۔ وحیدی ) آل عمران
157 ف 7 اس میں ان کے شبہ کا اصل جواب ہے کہ موت وحیات تو اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہے پس جنگ یا سفر سے گریز کرنا موت سے نہیں بچا سکتا ف 8 یعنی اگر تمہارا مرنا یا قتل ج ہونا اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہے تو یہ یقینا تمہارے لیے مغفرت اور حمت کا سبب بنے اور یہ مغفرت و رحمت اس مال ومتاع سے بہتر ہے جس کے جمع کرنے کی فکر میں یہ کفار اور منافقین ہر آن لگے رہتے ہیں یہ ان کی شبہ کا دوسرا جواب ہے۔ آل عمران
158 ف 9 اوپر کی آیت میں خاص قسم کے قتل اور موت کا ذکر تھا جس پر رحمت ومغفرت کی خوشخبری تھی۔ اب یہاں عمومی موت وقتل کا ذکر ہے ( یای سبب کا ن) مطلب یہ کہ تمہیں مر کر بہر حال ہمارے پاس آنا اور اپنے اعمال کا اچھا یا برا بدلہ پانا ہے۔ اگر تمہاری جو زند گی اللہ تعالیٰ کے کلمہ کو بلند کرنے کی خاطر ہو اور موت اسی کی راہ میں ہو تو تم اپنے اعمال کا خوش کن بدلہ پا و گے۔ (شو کانی ک۔ المنار ) آل عمران
159 ف 10 احد کے دن مسلما نوں نے خوفناک غلطی کی اور میدان چھوڑ کر فرار اختیار کیا۔ پھر جب آنحضرت ﷺ کی دعوت سے دوبارہ ج جمع ہوگئے تو آپ ﷺ نے ان کو کسی قسم کی سرزنش نہیں کی بلکہ حسن سے پیش آئے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آنحضرت ﷺ کا یہ حسن خلق اللہ تعالیٰ ج کے خاص فضل واحسان اور رحمت کا نتیجہ ہے ورنہ مسلمانوں کی شیراز ہ بندی ناممکن تھی۔ (قرطبی۔ رازی ) ف 1 حضرت شاصاحب (رح) فرماتے ہیں : شاید حضرت ﷺ کا دل مسلما نوں سے خفا ہوگا اور چاہا ہوگا کہ اب سے ان سے مشورہ نہ پو چھئے۔ سو حق تعالیٰ نے سفارش کی کہ اول مشو رہ لینا بہتر ہے جیسے ایک بات ٹھہر چکے پھر پس وپیش نہ کرے۔ ( اس آیت میں آنحضر ﷺ کو حکم دیا رہا ہے کہ جب کبھی جنگ یا انتظامی قسم کا کوئی ایسا معاملہ درپیش ہو جس میں ہما ری طرف سے بذریعہ وحی کوئی متعین کم نہ دیا جائے تو اپنے ساتھیوں سے مشورہ کرلیا کرو تاکہ ان کی دل جوئی ہو اور انہیں بعد میں باہمی مشورہ سے مل کر کام کرنے کی تربیت بھی حاصل ہو۔ چنانچہ آنحضرت ﷺ نے اکثر اہم امور میں صحابہ کرام (رض) سے مشورے فرمائے اور اب پر عمل بھی ہوا۔ (دیکھئے ابن کثیر ج 1 ص 420) آپ ﷺ کے بعد خلفا راشدین سے بھی اس سنت پر پوری طرح کار بند رہے۔ پھر اگر مشورہ کے بعد کسی چیز کا فیصلہ کرلیا جائے تو اسے پوری دلجمعی سے کر گزر نے اور نتیجہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دینے کا نام توکل ہے۔ چنانچہ مذکور ہے کہ جنگ احد کے موقع پر کھلے میدان میں لڑائی کرنے کے فیصلے کے بعد جب آپ ﷺ مسلح ہر کر تشریف لے آئے اور صحابہ (رض) نے اپنی غلطی کا احساس کرتے ہوئے آپ ﷺ کی رائے کے مطابق شہر میں رہ کر مقابلہ ج کرنے پر رضامندی ظاہر کی تو آپ ﷺ ن نے فرمایا۔ لاینبغی لنبی اذا لبس سلا حہ ان یضعھا حتیٰ یقاتل۔ (قر طبی) یہ آیت اور آیت وامر ھم سوری ٰ بینھم (الشوریٰ آیت) اسلامی طرز حکومت کے کے لیے اساسی حیثیت کی حامل ہیں مگر شارع ( علیہ السلام) اور خلفا راشدین نے اس شورائی نظام کی کوئی ہیئت متعین نہیں کی اور اسے ہر دور کے تقا ضوں پر چھوڑ دیا ہے۔ احادیث میں مشورہ سے کام کرنے کی ترغیب آئی ہے۔ چنانچہ فرمایا ما ندم من استشار ولا خاب من استغار کہ مشورہ ہے بعد انسان کی مذامت نہیں اٹھانی پڑتی۔ ابن عطیہ فرماتے ہیں۔ شوریٰ قواعد شریعت اور احکام عزیمت میں داخل ہے جوا میر علمائے دین سے مشورہ نہ لیتا ہو اسے معزول کرنا واجب ہے ولا خلاف فیہ امام بخاری (رح) فرماتے ہیں آنحضرت ﷺ کے بعد خلفا (رض) برابر دیانت داراہل علم سے مشورہ لیتے رہے۔ (قرطبی ) آل عمران
160 آل عمران
161 ف 2 اوپر کی آیات میں جہاد احدم میں جو تیر اندازی اپنی جگہ چھوڑ کر مال غنیمت کی طر لپک پڑے تھے بعد میں آنحضرتﷺ نے ان سے حکم عدولی کی وجہ دریافت فرمائی۔ انہوں نے جب کمزور ساعذر پیش کیا ہمیں ابدیشہ ہوا کہ ہیں ایسا نہ ہو کہ مسلمان مال غنیمت پر قبضہ کرلیں اور ہم محروم رہ جائیں تو آپﷺ نے فرمایا اظننتم انا نغل ولا نقسم کہ تم نے یہ کیسے گمان کرلیا کہ ہم مال غنیمت میں غلول کریں گے اور مساوی تقسیم نہیں کرنیگے اس پر یہ آیت نازل ہوئی یعنی غلول شان نبوت کے منافی ہے۔ کبیر) بعض علمائے تفسیر کا بیان ہے کہ بدر کی لڑائی میں کوئی چیز غنیمت سے گم ہوگئی تو کسی شاید آپ ﷺ نے اپنے لیے رکھ لی ہوگی۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (معالم۔ رازی) شان نزول سے معلوم ہوا کہ غلول کے معنی تقسیم میں جور کے بھی آتے ہیں اور یہ بھی غلول ہے کہ تقسیم سے پہلے مال غنیمت میں سے کوئی چیز بلا اجازت اٹھالی جائے (قرطبی) اور غل کے معنی کینہ کے بھی آتے ہیں چنانچہ شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں : اس آیت سے مسلما نوں کی خاطر جمع کرنی ہے تا یہ نہ جانیں کہ حضرتﷺ ہم کو ظاہر معاف کیا ہے اور دل میں خفا ہیں کبھی خفگی نکا لیں گے۔ (فرمایا) یہ کام نبیوں کہ دل میں کچھ اور ظاہر میں کچھ۔ (مو ضح ) آل عمران
162 آل عمران
163 ف 3 مطلب یہ ہے کہ عام لوگوں میں دیا نتدار اور خائن برابر نہیں ہو سکتے تو پیغمبر جس کا درجہ بہت بلند ہے وہ یہ کام کیسے کرسکتے ہیں۔ حضرت شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں۔ نبی اور دسری مخلوق ایک جیسی نہیں طمع کے کام تو ادنی نبیوں سے بھی سرزد نہیں ہو سکتے۔ (مو ضح ) آل عمران
164 ف 4 اللہ تعالیٰ کی نعمت عظمی ٰ ہونے کی اعتبار سے آنحضرت ﷺ کو وجود تمام دنیا کے لیے احسان ہے مگر استفادہ کے پیش نظر یہاں سرف مومنین پر احسن کا ذکر ہے۔ (رازی) من انفسھم یعنی انہی کی جنس سے ان جیسے بشر ہیں۔، (قرطبی) او پر کی آیت میں جب یہ بیان فرما دیا کہ خیانت اور غلول ایک نبی کی شان سے بعید ہے اور نبوت و خیانت یکیجا جمع نہیں ہو سکتے تو اب اس آیت میں سی کی مزید تاکید فرمائی کہ آنحضرت ﷺ کو ایک پاکیزہ اور اعلی نصب العین دے کر مبعوث کیا گیا ہے۔ ان کی بعثت کا مقصد یہ ہے کہ تمہیں کتاب وسنت کی تعلیم دی جائے اور ذائل سے پاک کیا جائے۔ پھر ایسی پاکیزہ ہوہستی کی طرف جو اتنے عظیم مقصد کے حصول کی خاطر مبعوث ہوئے ہوں کوئی عقلمند آدمی غلول کی نسبت کیسے کرسکتا ہے یا کسی کے دل میں یہ خیال کیسے آسکتا ہے کہ آپ ﷺ خیانت جیسے کبیرہ اور مذموم فعل کا ارتکاب کرسکتے ہیں (رازی) آنحضرتﷺ نے بہت سی آحادیث میں اسی معصیت کو کبیرہ قرار دیا ہے۔ حتی کہ فرما یہ کہ حکام کا ہد یہ قبول کرنا بھی غلول میں داخل ہے۔ (قرطبی) آل عمران
165 ف 5 یعنی احد کے دن جبکہ مسلمانوں کے ستر افراد شہید ہوگئے۔ (ابن کثیر ) ف 1 یعنی جنگ بدر میں جب مشرکین کے ستر آدمی قتل ہوئے تھے اور اتنے ہی قید بن کر آئے تھے۔ (ابن کثیر) ف 2 (ای بذ نو بکم لو بلختیار رکم (القدیر) یعنی تمہاری اپنی کمزوریوں اور کوتاہیوں کو وجہ سے اور آنحضرت ﷺ کی نافرمانی کی وجہ سے جس کا تیر اندازوں نے اپنی جگہ چھوڑ کر ارتکاب کیا ( قرطبی) دوسری صورت میں اس کے یہ معنی ہوں گے کہ تمہارے فدیہ کو اختیار کرنے سے۔ آنحضرتﷺ نے بدر کے قید یوں کے بارے میں صحا بہ (رض) کر اختیار دیا تھا کہ اگر تم فدیہ لینا چاہتے ہو تو اس کے بدلے آئندہ تمہارے ستر آدمی شہید ہوں گے۔ چنانچہ صحانہ کرام (رض) نے اسے منظور کرلیا تھا۔ قرآن نے یہاں ھوں عندکم کے لفظ سے اسی حقیقت کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ (ابن کثیر۔ قرطبی ) آل عمران
166 آل عمران
167 ف 3 یعنی جنگ احد میں تمہیں جس نقصان کا سامنا کرنا پڑا وہ اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کی مشیئت سے تھا اور اس میں حکمت یہ تھی کہ اہل ایمان اور اہل نفاق کے درمیان تمیز ہوجائے۔ ف 4 آنحضرت ﷺ جنگ احد میں ایک ہزار کی جمیعت لے کر احد کی طرف چلے۔ مقام شوط پر پہنچے تو عبد اللہ بن ابی اپنے تین سو ساتھیوں سمیت وہاں سے سے لوٹ آیا۔ عبد الہ بن عمر و بن حرا انصاری (رض)۔ اخو نبی سلمہ۔ حضرت جابر (رض) کے والد ان کے پیچھے گئے اور ان سے کہا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد نہیں کرسکتے تو کم از کم مسلمانوں کے ساتھ تو رہو تاکہ کثرت تعداد کا دشمنوں پر اثر پڑے اور وہ آگے بڑھنے کی جرات نہ کرے۔ اکثر مفسرین نے اوادفعوا کے یہی معنی بیان کئے ہیں مگر بعض نے ادفعوا کے یہ معنی بھی کئے کہ حمیت قومی اور حفاظت وطن کی خاطر ہی لڑائی میں شامل رہو، الغرٖ ض حضرت عبد اللہ (رض) بن عمر و نے ان کو ہر طریقے سے واپس لانے کی کو شش کی مگر وہ تیار نہ ہوئے اور وہ جواب آگے ْآرہا ہے۔ (قرطبی۔ ابن کثیر) ف 5 وہ کہنے لگے کہ کوئی لڑائی وڑائی نہیں ہوگی اگر واقعی لڑائی کی توقع ہوتی تو ہم ضرور تمہارا ساتھ دیتے یا مطلب یہ ہے کہ کوئی ڈھب کی جنگ ہوتی اور فریقین میں کچھ تبا سب ہوتا تو ہم ضرور شرکت کرتے مگر ادھر تین ہزار کا مسلح لشکر ہے اور او ادھر ایک ہزار بے سر وسامان آدمی ہیں یہ کوئی جنگ ہے یہ تو اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا ہے اس پر ہم ساتھ نہیں دے سکتے (ابن کثیر۔ رازی) حضرت شاہ صا حب لکھتے ہیں کہ یہ کلمہ انہوں نے طعن کو طور پرکہا تھا اور مطلب یہ تھا کہ مسلمان فنون حرب سے با لکک نا آشنا ہیں ورنہ ہماری رائے مان لی جاتی تو مدینہ کے اندر رہ کر مدافعت کی جاتی۔ (موضح) ف 6 یعنی اس سے قبل تو وہ بظاہر مسلمانوں کے ساتھ شامل تھے گو ان کے باطن میں کفر تھا مگر علانیہ اس کا اظہار نہیں کرتے تھے لیکن اس روز انہوں نے علا نیہ ایمان چھوڑ کر کفر اختیار کرلیا۔ یا مطلب یہ ہے کہ اس دن انہیں ایمان کی نسبت سے کفر کا مفاد زیادہ عزیز تھا اور انہوں نے واپس ہو کر مسلمانوں کو کمزور کیا اور کفر کو تقویت بخشی۔ (رازی۔ قرطبی) حضرت شاہ صاحب (رح) لکتھے ہیں یہ کلمہ انہوں نے طعن کر طور پر کہا تھا۔ پس اس لفظ کی و جہ سے کفرکے قریب ہوگئے اور ایمان سے دور۔ (موضح) ف 7 یعنی بظاہر یہ کلمہ کہ کر عذر لنگ اور بہانہ بناتے ہیں مگر جو جذبات ان کے دلوں میں مستور ہیں ان کا صاف طور پر اظہار نہیں کرتے در اصل یہ مسلمانوں کی ہلاکت کے متمنی ہیں۔ لیکن انہیں یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ان کے دل کی باتوں سے خوب واقف ہے۔ آل عمران
168 ف 8 جو مسلمان جنگ احد میں شہید ہوئے ان کے بارے میں منافقین اس قسم کا اظہار کیا تاکہ لوگوں کو جہاد میں شمولیت سے متنفر کیا جا سکے۔ قرآن نے ان کے اس شبہ کی تردید کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر واقعی گھروں میں بیٹھے رہنا تمہیں موت سے بچا سکتا ہے تو ذارا اپنے اوپر واقع ہونے والی موت کو ٹال کر دکھا و۔ آل عمران
169 ف 9 اس آیت میں منافقین کے اس شبہ کی دوسرے طریقے سے تردید کی ہے کہ جہاد میں شامل خواہ مخواہ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا ہے فرمایا کہ نہیں بلکہ اس سے دئمی زندگی حاصل ہوتی ہے۔ شہدا کو اللہ تعالیٰ کے ہاں بلند درجے ملتے ہیں۔ پروردگار کے ہاں انہیں ہر قسم کا تغم اور تلذذ حاصل ہے۔ احادیث میں ہے کہ شہدا کی روحیں سبز پر ندوں کے اجواف یا حواصل میں جنت کی سیر کرتی ہیں اور عرش کے نیچے قندیلوں کے ساتھ آویز اں رہئی ہیں۔ عالم برزخ کی یہ زندگی شہدا کو حاصل ہے۔ مزید وضاحت کے لیے دیکھئے سورت البقر آیت 154) آل عمران
170 ف 10 یعنی اپنے جب مسلمانوں بھا ئیوں کو جہاد فی سبیل اللہ مشٖغول چھوڑ آئے ہیں ان کا تصور کر کے خوز ہوتے ہیں کہ ان کو بھی ہماری طرح پر لطف اور بیخوف و خطر زندگی حاصل ہوگی۔ بعض روایات میں ہے کہ شہدا بئر معونہ نے اللہ تعالیٰ سے یہ خواہش کی کہ ہم جس عیش و خوشی میں زندگی بسر کر رہے ہیں ہمارے بھائیوں کو اس کی اطلاع پہنچا دی جائے تاکہ وہ بھی جہاد فی سبیل اللہ میں رغبت کریں چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ التجا منظور فرمائی اور یہ آیات نازل فرمائیں۔ (کبیر ) آل عمران
171 آل عمران
172 ف 1 یہ حمر الا سد یعنی جنگ احد سے اگلے روز کا واقعہ ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے احد سے پلٹ کر جب مشرکین چند منزل دور چلے گئے تو آپس میں کہنے لگے کہ ہم نے یہ کیا حماقت کی کہ مسلمانوں کی استیصال کئے بغیر واپس چلے آئے۔ چنانچہ مدینہ پر دوبارہ حملہ کرنے کا منصوبہ بنانے لگے۔ ادھر ّنحضرت ﷺ کی جب یہ اطلاع ملی تو آپ ﷺ نے اب تمام مسلمانوں کو جو جنگ احد میں شریک ہوئے تھے مشرکین کے تعاقب میں نکلنے کا حکم دیا تاکہ وہ واقعی پلٹ کر مدینہ پر حملہ نہ کردیں۔ اس وقت اگرچہ جنگ احد میں سے اکثر لوگ سخت زخمی اور تھکے ہوئے تھے لیکن اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے حکم کی تعمیل میں فورا نکل کھڑے ہوئے۔ جب مدینہ سے چند میل فاصلہ پر مقام حمرا الا سد ( جو مدینہ سے تقریبا آٹھ میل کے فاصلہ پر ہے) پر پہنچے تو مشرکین کو ان کے آنے کی اطلاع مل گئی اور انہوں نے آپس میں کہا کہ اس مرتبہ تو واپس چلتے ہیں اگلے سال پھر آئیں گے۔ اس صورت حال کے پیش نظر نبی ﷺ بھی مدینہ واپس لے آئے۔ چانچہ آیت میں اسی واقعہ کی طرف اشارہ ہے اور مسلمانوں کی بشارت دی (ابن کثیر) یہاں منھم میں لفظ من محض تبیین کے لیے ہے کیونکہ جن لوگوں نے اس مہم میں اللہ و رسول ﷺ کی دعوت پر کہی وہ سب ایسے ہی تھے۔ (الکشاف ) آل عمران
173 ف 2 یہ آیت بھی وقعہ حمرا الاسد ہی سے متعلق ہے اور وہ اس طرح کہ جب ابو سفیان کو۔ جو ان وقت مشرکین کی قیادت کر رہا تھا۔ مسلمانوں کے تعاقب کی اطلاع ملی تو اس نے ایک تجارتی قافلہ کے ذریعہ آنحضر ﷺ کو یہ چلینج بھیجا کہ میں نے بڑا لاو لشکر جمع کرلیا ہے اور میں مدینہ پر پھر سے حملہ کرنے والا ہوں۔ یہ سن کر مسلمانوں میں خوف یا کمزری کے بجائے مزید ایمانی قوت پیدا ہوئی اور آنحضرت ﷺ اور صحا بہ (رض) نے فرمایا حسبنا اللہ ونعم الوکیل (ابن کثیر) بعض نے لکھا ہے کہ یہ آیت غزوہ بدر الصغری ٰ کے متعلق نازل ہوئی ہیں جس کا پس منظر یہ ہے کہ جنگ احد میں کے خاتمہ پر ابو سفیان نے اعلان کیا تھا کہ آئندہ سال پھر بدر میں لڑائی ہوگی۔ آنحضرت ﷺ نے حضرت عمر (رض) سے کہا کہ منظور کرلو اور کہدو ان شا التہ عالی۔ جب اگلا سال آیا۔ ابو سفیان مکہ سے فوج لے کر نکلا جب مر نفہر ان میں پہنچا تو مرعوب ہوگیا۔ قحط سالی کا عذار کر کے مکہ کو لوٹنا چاہا اتفاق سے ابو نعیم بن مسعود الا سجعی سے ملا قات ہوگئی جو عمرہ کر کے واپس جا رہا تھا۔ اس کو کچھ انٹوں کا لالچ دے کہا کہ مدینہ پہنچ کر ہماری طرف سے خبر مشہور کردینا کہ وہ بہت بڑی جمیعت لے کر آرہے ہیں تاکہ مسلمان خوف زدہ ہوجائیں اور نکلنے کی جرات نہ کریں۔ چنانچہ اس نے مدینہ پہنچ کر اسی قسم کی افواہیں پھیلادیں کچھ مسلما نن مرعوب بھی ہوئے مگر آنحضرت ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی قس کھا کر فرمایا۔ میں ضرور جاوں گا خواہ مجھ اکیلے کو ہی جانا پڑے۔ مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے ہمت دی اور انہوں نے کہا اللہ ہی ہم کا کافی ہے آخر مسلمان وہاں پہنچے۔ بدرالصغریٰ (مابنی کنانتہ) میں بڑابازار لگتا تھا۔ تین روز رہ کر تجارت کے ذریعے خوب نفع کمایا اور صحیح سلامت مدینہ لوٹ آئے مشرکین بھی مرا الظہرن سے لوٹ گئے تھے انہوں ن اپنی اس مہم کا نام حبیش السو یق رکھا۔ (رازی۔ ابن کثیر ) آل عمران
174 ف 3 یہاں فضل سے مراد وہی مالی فائدہ ہے و انہوں نے تجا رت سے حاصل کیا تھا۔ آل عمران
175 ف 4 وہ شخص جو افواہیں پھیلا رہا تھا اسے شیطان فرمایا اور بتایا کہ یہ اپنے منا فق درستوں کو ڈرہا ہے مسلمانوں کا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے سواکسی کا اندیشہ دل میں نہ لائیں (رازی ) آل عمران
176 ف 5 کافر اور منافق مختلف طریقوں سے آنحضرت ﷺ کی مخاطب کرتے رہتے جس سے طبعی طوپر آپ ﷺ رنجیدہ خاطربھی جاتے خصوصا غزوہ احد کے واقعہ کو منافقین نے بہت ہو ادی اور بعض مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف نصرت سے مایوس کردیا۔ اس پر آیات نازل ہوئیں اور آنحضرت ﷺ کو تسلی دی کہ اس قسم کی مخالفتوں سے کفار اسلام کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے بلکہ اس قسم کا رویہ اختیار کر کے خودہی حظوظ آخرت سے محرومی ہو رہے ہیں۔ (رازی، ترجمان ) آل عمران
177 ف 6 یعنی ایمان کے بجائے کفر اختیار کر کے خود برا کر رہے ہیں۔ اس کے نتیجہ میں دردناک عذاب سے دوچار ہوں گے ، آل عمران
178 ف 1 یعنی مفید نہیں ہے بلکہ اس طرح کی زندگی سے ان کے کنارہ دن بدن بڑھتے جارہے ہیں، قیامت کے دن سب کو کسر نکل جائے گی۔ (ترجمان) جنگ احد میں کفر و نفاق اور ایمان و اخلاص الگ ہو کر سامنے آگئے۔ امام رازی (رح) لکھتے ہیں اس آیت کا تعلق بھی قصئہ احد سے ہے۔ جنا نچہ اس حادثہ میں قتل وہزمیت پھر دشمن کا تعاقب اور اس کے بعد ابو سفیان کے چیلنج کے جواب میں بدر الصغریٰ کا غزوہ وغیرہ سب ایسے واقعات تھے جن سے کفر و نفاق اور ایمان وخلاص الگ الگ ہو کر سامنے آگئے اور مومن اور منافق میں امتیاز ہوگیا ج۔ چونکہ منافقین کامو منوں کے ساتھ ملاجلا ہنا حکمت الہی کے خلاف تھا اس لیے یہ تمام واقعات پیش آئے (کبیر) آل عمران
179 ف 3 یعنی ایسا نہیں ہوسکتا کہ تمہیں براہ راست غیب پر مطلع کر دے اور اتم بروں کو اچھوں سے الگ پہچان لو بلکہ منصب رسالت کے لیے تو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے انتخاب فرماتا ہے اور اسے بذریعہ وحی اپنے غیب سے جتنی باتوں کا علم دینا چاہے دے دیتا ہے۔ (کذافی الروح) علم غیب پ ربحث کے لیے دیکھئے ( سورت انعام آیت 59) ف 4 قریش کے کافر اور مدینہ کے منافق کہتے تھے کہ اگر یہ سچا نبی ہے تو نام بنام کیوں نہیں بتاتا فلاں مامن ہے فلاں کافر ہے اس پر یہ آیت نازل ہوئی (قرطبی) فرمایا کہ تمہیں غیب کی باتوں سے کیا اسروکار۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کی مشیت پر موقوف ہے تمہارا کام تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی باتوں پر ایمان لانا اور اتقوی ٰ اختیار کرنا ہے تاکہ اجر عظیم کے مستحق قرار باو) وحیدی) آل عمران
180 ف 5 اور برتر غیب جہاد کے سلسلہ میں جانی قربانی پر زور دیا ہے اور جو حفاظت جان کی خاطر اس سے فرار کرتے ہیں بیس ان کے حق میں وعید سنائی ہے۔ اب یہاں جہاد میں مالی قربانی پر زور دیا جارہا ہے اور بخل کرنے والوں کی مذمت کی جا رہی ہے۔ (کبیر) مقصد یہ ہے کہ ان منافقین کو جس طرح اپنی جان پیاری ہے اسی طرح ان کو اپنا مال بھی پیارا ہے۔ جو لوگ مال کے حقوق ادا کرنے سے پہلو تہی کرتے ہیں قیامت کے دن یہی مال ان کے لیے وبال بن جائے گا۔ ؟ صحیح بخاری میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے کچھ مال دیا ہے اور وہ اس کی زکوٰۃ ادا نہیں کرتا قیامت کے دن اس کے مال کو ایک گنجے سانپ کی شکل دے دی جائے گیا اور وہ طوق بناکر اس کے گلے میں ڈال دیا جائے گا۔ وہ اسے اپنے دونوں جبڑوں سے بکڑے گا اور اس سے کہے گا۔ میں ہوں تمہارا مال میں ہوں تمہارا خزانہ پھر نبی ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔ (ابن کثیر) یادرہے کہ حقوق واجبہ کر ادا نہ کرنے کا نام بخل ہے اور قرآن و حدیث میں اس کی سخت مذمت آئی ہے۔ کہ بخل سے بڑھ کر اور کون سامرض ہوسکتا ہے۔ (قرطبی) نیز دیکھئے۔ التوبہ آیت 35) ف 6 یعنی جب زمین و آسمان کی ہر چیز اللہ تعالیٰ ہی کی میراث اور ملکیت ہے تو جس مال کے بظا ہر تم وارث بنائے گئے ہو اس میں بخل کیوں کرتے ہو۔۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ اللہ وارث ہے آخرتم مر جا و گے اور مال اسی کا ہو رہے گا۔ تم اپنے ہاتھ سے دو ثواب پا و (موضح ) آل عمران
181 ف 7 اوپر کی آیات میں انفاق فی سبیل اللہ پر زور دیا۔ اب ان آیات میں یہود کے شبہات کا بیان اور ان کا رفع کرنا مقصود ہے۔ دراصل یہود یہ شہبات نبو پر طعن کی غرض سے کرتے تھے۔ (رازی) کسب تفسیر میں ہے کہ جب آیت من ذا الذی یقرض اللہ ذصا حسنا نازل ہوئی تو بعض یہود نے اس کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا فوجی ! اللہ میاں بھی فقیہ ہوگئے ہیں اور بندوں سے قرض مانگنے پر اتر آئے ہیں۔ ان کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی۔ ( ابن کثیر۔ کبیر) یہود اس قسم کے شہبات عوام کو انفاق فی سبیل اللہ سے متنفر کرنے کی غرض سے وارد کرتے تھے ورنہ وہ بھی خوب جانتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی نسبت اس قسم کے خیالات کا اظہار کفر ہے (قرطبی) ف 8 یعنی ان کی اللہ تعالیٰ کے بارے میں یہ گساخی اور رسولوں کا ناحق قتل کرنا سب ان کے نامئہ اعمال میں درج کیا جارہا ہے۔ قیامت کے دن ایسے مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا اور عذاب حریق کی سزا میں گرفتار ہوں گے۔ آل عمران
182 ف 1 اس مبالغہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے ظلم کی نفی کے یہ معنی ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے نعوذباللہ رتی برابر بھی ظلم صادر ہو تو وہ ظلام ٹھہرے گا اور اور اللہ تعالیٰ کی ذات ظلم سے منزہ ہے (کبیر ) آل عمران
183 ف 2 یہ ان کا دوسرا شبہ ہے جو انہوں نے آنحضرت ﷺ کی نبوت پر ایمان نہ لانے کے سلسلہ میں پیش کیا کہ بنی اسرائیل سے اللہ تعالیٰ نے یہ عہد لیا ہے کہ اگر کوئی نبی یہ معجزہ پیش نہ کرے تو اس پر ایمان نہ لائیں۔ (کبیر) حالانکہ ان کی کسی کتاب میں یہ حکم نہیں ہے۔ ہاں بعض انبیا ( علیہ السلام) ( علیہ السلام) کے بارے میں یہ ضرور مذکور ہے کہ جب کوئی سوختی قربانی (نذر) پیش کی جاتی تو وہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے۔ اس قربانی (نذر) کی علامت قبولیت کے طور پر آسمان سے آگ اترتی جو اسے جلا ڈالتی جیساکہ حضرت ایلیا ( علیہ السلام) اور حضرت سلیمان ( علیہ السلام) کے متعلق مذکور ہے۔ (کبیر، ابن کثیر) ف 3 یہ ان کی اس شبہ کا جواب ہے جو اوپر مذکور ہوا کہ اگر واقعی تم اس دعویٰ میں سچے ہو تو پھر تمہارے آباواجداد نے ان بہت سے انبیا ( علیہ السلام) کو قتل کیوں کر ڈالا جو اپنے دعوائے صدق نبوت پر دوسری واضح نشانیوں کے ساتھ (وبالذی قلتم) معجزہ بھی لے کر آئے جس کا تم مطالبہ کررہے ہو (کبیر ) آل عمران
184 ف 4 یہود کے تمسخر اور شبہات کا جواب دینے کے بعد آنحضرت ﷺ کو تسلی دی ہے کہ اس قسم کے شہبات پیدا کر کے اگر یہ لوگ آپ ﷺ کی تکذیب کررہے ہیں تو یہ غم کی بات نہیں کیونکہ آپ ﷺ سے پہلے بہت سے انبیا ( علیہ السلام) کے ساتھ وہ یہی سلوک کرچکے ہیں۔ (کبری) البینات سے دلائل عقلیہ اور معجزات دونوں مراد ہیں۔ الزبر یہ زبور کی جمع ہے اس سے وہ چھو ٹے چھوٹے صحیفے مراد ہیں جو مواعظ و زواجر اور حکم پر مشتمل ہوتے ہیں۔ حضرت داود ( علیہ السلام) کو جو کتاب دی گئی تھی قرآن نے اسے بھی زبور کہا ہے کیونکہ اس میں بھی رواجر ومواعظ کا پہلو نمایاں ہے اور قرآن کی اصطلاح میں الکتاب سے مراد وہ بڑی کتاب ہے جو احکام وشرئع سب پر حاوی ہو۔ مگر ان سب کتابوں میں قرآن مجید کے سوا کسی کتاب کو اعجازی حثیت حاصل نہیں ہے۔ ( بیضاوی۔ رازی ) آل عمران
185 ف 5 بخلیوں کا حال اور ان کا کفر بیان کرنے کے بعد یہاں بتایا کہ دنیا کے جس مال ومتاع کے جمع کرنے کے لیے انسان بخل کرتا ہے۔ یہ سب کچھ فانی اور نہ باقی رہنے والی چیز ہے اور آخرت کی زندگی ہی باقی اور ابدی ہے لہذا انسان کو چاہیے کہ آخرت کی فکر کرے اور اس میں کامیابی کے لیے کوشاں رہے۔ (قرطبی) اور یہ جو فرمایا کہ قیامت ہی کے دن پورے پورے بدلے دیئے گائیں گے۔ تو اس کے معنی یہ ہیں کہ انسان کو دنیا یا برزخ میں بھی کچھ نہ کچھ اعمال کا بدلہ ملتا ہے مگر پورا پورا بدلہ، ثواب وعقاب۔ قیامت کے دن ہی ملے گا۔ اس پہلے ممکن نہیں۔ (قرطبی۔ کبیر) اور دنیا کی زندگی متاع الغرور ہے اس کی ظاہر زیب وزینت سے دھوکا نہیں کھانا چاہیے۔ اصل کامیابی آخرت کی کامیابی ہے لا عیش الا عیش الا خرۃ (ابن کثیر) آل عمران
186 ف 6 یہ خطاب نبی ﷺ اور عام مسلمانوں سے ہے آئندہ بھی جان ومال میں تمہارا آزمائش ہوگی اور تمہیں ہر قسم کی قربانیا پیش کرنا ہوں گی جیسے اموال کاتلف ہوجاتا بیمار پڑنا وغیرہ اہل کتاب اور مشرکین کی زبانوں سے تمہیں انتہائی دل آزار اور جگر خراش طعن وتشنیع بیہودہ گفتگو اور جھوٹے الزامات سننا پڑیں گے جسیا کہ منافقین نے ہر طرح سے ستایا ہے اور کعب بن اشرف یہودی نے آپ ﷺ اور صحابہ (رض) کی بجو اور مسلمان خواتین کی تشبیب میں قصائص نظم کئے۔ مگر ان سب کا علاج یہ ہے کہ تم صبر ثابت قدمی اور استقلال سے کام لو اور اللہ تعالیٰ کا نقوی ٰ اپنے دلوں میں رکھو۔ اگر صبر وتقویٰ سے ان آزمائشوں کا مقابلہ کروگے تو یہ نہایت ہمت حوصلہ اور الو العزمی کا کام ہے۔ چنانچہ آحضرت ﷺ کو جب تک قیال کی اجازت نہیں ملی آنحضرت ﷺ اور صحابہ (رض) کرام عفو اور دوگزر سے کام لیتے رہے۔ (ابن کثیر۔ قرطبی ) آل عمران
187 ف 1 یعنی اہل کتاب سے یہ عہد لیا گیا تھا کہ ان کی کتابوں میں جو احکام دیئے گئے ہیں اور نبی آخرالزمان (ﷺ) کے متعلق جو بشارتیں اور علامتیں بیان کی گئی ہیں۔ ان کا اعلانیہ اظہار کریں گے اور ان کو چھپانے کا جرم کا ارتکاب نہ کریں گے۔ مگر انہوں نے دنیا طلبی میں پڑکر اس عہد کی کوئی پر وا نہ کی اور ان احکام کی بھی لفظی اور معنوی تحریف کی اور ان بشارتوں اور علامتوں کو چھپایا فبئس ایشترون۔ اس آیت میں ضمنا مسلمان علمائ کو بھی یہ ہدایت کی گئی ہے کہ وہ حق بات کو جانتے بوجھتے چھپانے کے جرم کا ارتکاب نہ کریں حدیث میں متعدد طریق سے آنحضرت ﷺ کا یہ ارشاد مردی ہے من سل عن علم فکتمہ الجم یوم القیامتہ بلجام ناذ کہ جس سے کوئی مسئلہ پوچھا گیا اور اس سے اسے چھپایا قیامت کے دن اس کے منہ میں آگ کی لگام دی جائے گی۔ (ابن کثیر ) آل عمران
188 ف 2 یہ کہ جو کام انہوں نے کئے ہیں ان پر اتر تے چلے ت جاتے ہیں اور جو کام انہوں نے نہیں کئے ہیں ان کے متعلق بھی جانتے ہیں کہ انہیں انکے کار ناموں میں شمار کیا جائے ایسے لوگوں کے بارے میں ہرگز یہ خیال نہ کرو وہ اللہ کی پکڑ اور اس کی عذاب سے چھوٹ جائیں گے یہ آیت دواصل یہود اور ان کے منافقین کے حق میں نازل ہوئی ہے (ابن جریر) نچانچہ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں آنحضرت ﷺ نے یہود سے کوئی بات دریافت کی۔ انہوں نے اس کاغلط جواب دیا پھر خوش ہوئے کہ ہم نے آنحضرت ﷺ کو مطمئن اب انہیں ہماری تعریف کرنی چاہیے (بخاری مسلم) حضرت ابو سعید خدری کہتے ہیں کہ یہ آیت منافقین کے بارے میں نازل ہوئی۔ وہ اس طرح کہ جب آنحضرت ﷺ جنگ کے لیے نکلتے تو وہ واپس تشریف لاتے تو آپ ﷺ کے سامنے جھوٹی قسمین کھا کھا کر عذا پیش کرتے اور چاہتے کہ ان کی تعریف ہو۔ (بخاری) مگر یہ حکم اہل کتاب اور سب مسلمانوں کے لیے ہے جو بھی خوشامد مد پسند ہوگا اور قسم کا زہن رکھے گا اس کے لیے وہ وعید ہے جو اس آیت میں مذکور ہے۔ (شوکانی، ابن کثیر ) آل عمران
189 ف 3 یعنی جب حقیقت یہ ہے اور تم بھی اس کا انکار نہیں کرسکتے تو تمہیں اللہ تعالیٰ کے انتقام سے ڈر تے ہوئے اس کے کسی حکم کی خلاف ورزی نہیں کرنی چاہئے۔ (ابن کثیر ) آل عمران
190 ف 4 حضرت ابن عباس (رض) بیان فرماتے ہیں کہ یہود کے سکھائے پڑھائے آنحضرت ﷺ سے موقع بہ موقع یہ مطالبہ کرتے رہئے کہ جب حضرت موسیٰ ٰ ( علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کے ید بیضا اور احیا موتی جیسے معجزاے تھے تو آپ ﷺ بھی کم از کم کو صفا کو سونا تو بنا دیں۔ ایسے مطالبوں کے جو اب میں یہ آیت نازل ہوئی کہ ایمان لانے کے لیے ایسی باتوں کو دیکھنے کی ضرورت نہیں۔ سمجھدار لوگوں کے لیے کائنات میں اللہ تعالیٰ کی قدر کی لاکھوں نشانیاں مو جود ہیں ( درمنشور) مگر حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں کہ اس واقعہ کو شان نزول قرار دینا مشکل ہے کیونکہ یہ آیات مدنی ہیں اور صفا کو سونا بنانے کا مطا لبہ مکہ میں کیا گیا تھا۔ (ابن کثیر) فائدہ اس آیت سے آخر سورت تک آیات کی بڑی فضیلت ہے۔ آنحضرت ﷺ رات کو تہجد کے لیے اٹھتے تو ان کی تلاوت فرمایا کرتے تھے۔ آل عمران
191 ف 5 پہلی آیت ربوبیت کی تقریر تھی اب عبو دیت کا ذکر ہے یعنی دل وزبان اور جوارح ہر حالت میں ذکر الہیٰ میں مشغول رہتے ہیں (بیضاوی) اس آیت کے تحت آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اگر بیٹھ کہ نماز نہ پڑھ سکو تو (لیٹ کر) پہلو پر پڑھ لیا کرو،(ابن کثیر) ف 6 یعنی زمین آسمان کو پیدا کرنے میں اللہ تعالیٰ نے جو حکمت رکھی ہے وہ پر غور وفکر کرتے ہیں۔ حضرت حسن بصری (رح) فرماتے ہیں ایک ساعت کا غور و فکر رات بھر کے قیام سے بہتر ہے۔ حضرت عمر (رض) بن عبدالعزیز فرماتے ہیں زبان سے اللہ کا ذکر کرنا اچھا ہے لیکن اللہ کی نعمتوں پر غورو فکر کرنا اس سے بھی بہتر ہے (ابن کثیر) علوم ہیئت فلکیات اور ریاضی کو اگر دینی نقطہ نظر سے پڑھا جائے تو فی الجملہ عبادت میں داخل ہے۔ ک ف 7 عبث نہیں بنایا یعنی اس عالم کی انتہا ہے دوسرے عالم میں (مو ضح) ف 8 یعنی غوروفکر سے ان پر یہ حقیقت کھلتی ہے کا کا ئنات کا یہ سارا نظام یوہی نہیں پیدا کیا گیا بلہ اس کے پیچھے یہ مقصد کار فرما ہے کہ انسان دنیا میں اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق زندگی بسر کرے تو اجر وثواب پائے اور نافرمانی کرے تو آخرت میں عذاب کی سزا بھگتے اس لیے وہ آگ سے محفوظ کئے جانے دعا کرتے رہتے ہیں۔ (وحیدی) آل عمران
192 آل عمران
193 ف 9 اس سے مراد آنحضرت ﷺ ہیں یا قرآن اور پھر ہر وہ شخص مراد ہوسکتا ہے جو دعوت الہیٰ الحق پیش کرے (قرطبی کبیر) ف 10 ابراد یہ بر کی جمع ہے اور اسکا مطلب یہ ہے کہ نیک لوگوں ساتھ ہمارا حشر فرما اور ابرار سے مراد خاص طور انبیا ( علیہ السلام) بھی ہو سکتے ہیں یعنی مرنے کے بعد ہمیں ان کے غلاموں میں شامل فرما (وحیدی ) آل عمران
194 ف 11 یعنی یعنی اپنے رسولوں کے ذریعے ان کی تصدیق اور اتباع کرنے پر دنا اور آخرت میں جس اور اجر ثواب کا تو نے ہم سے وعدہ فرمایا ہے وہ ہمیں عطا فرما (المنار ) ف 1 یعنی ہمیں یہ اندیشہ تو نہیں ہے کہ تو وعدہ خاف ورزی کرے گا بلکہ ہمیں ڈرا پنے ہے اعمال سے ہے کہ یہ اچھے نہیں ہیں۔ اگر تو اپنی رحیمی و کر یمی اور ستاری سے ہماری کو توہیوں کو معاف فرمادے توہماری عین سر فرازی اور تیری بندہ نوازی ہے۔ (وحیدی) پس کلمہ انک لاتخلف المیعاد سے مقصد خضوع وذلت اور عبودیت کا اظہار ہے نہ کہ اس کا مطالبہ کیونکہ باری تعالیٰ سے خلف وعدہ تو ایک دم محال ہے۔ پھر مومنین اس کا تصور کیسے کرسکتے ہیں (کبیر) قبولیت کا یہ وعدہ ایمان اور عمل صالح پر مترتب ہوتا ہے لہذا دعا کی قبولیت کے لیے کسی نیک ہستی کو وسیلہ بنانا کہ یا اللہ فلاں کی طفیل میری یہ مشکل حل فرمادے قرآن و حدیث میں جو ادعیہ ماثو رہ ہیں ان کے خلاف ہے۔ (المنا ر) آل عمران
195 ف 2 یہاں قرآن نے اسبابت دعا کو فا سببیہ کے ساتھ بیان فرمایا ہے یعنی اوصاف مذکورہ کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا کو شرف قبولیت بخشا پھر ان کی دعا کی قبولیت کی صورت اور کیفیت کا بھی ذکر فرمادیا ہے کہ ذات باری تعالیٰ کسی عمل کے عمل کو ضائع نہیں ہونے دے گی یعنی ہر عامل کو اس کے عمل کی جز اور ثواب مل کر رہے گا اور یہ دعا بھی من جملہ نیک ہے اعمال کے ہے لہذا اس پر بھی جزامترتب ہوگی اور ہر جملہ انی لا اضع علم عامل منکم میں تنبیہ فرمائی ہے کہ اخروی نجات اور حسن ثواب کے ساتھ فوزو فلاں عمل میں احسان واخلاص پر ہے نسیبی شرف یا مرد ہونے کی اس میں کچھ دخل نہیں ہے۔ اخروی وعند اللہ درجات حاصل کرنے میں مرد اور عورت دونوں برابر ہیں۔ عورت یہ خیال نہ کرے کہ مرد کو اجتماعی سیادت حاصل ہے لہذا اس کو نیک اعمال کا بدلہ بھی عورت سے زیادہ ملے گا۔ یہ نہیں ہے بلکہ جب یہ دونوں انسانیت میں مساوی حاصل نہیں ہو سکتی۔ قرآن نے من ذکر اوانلی بعضکم من بعض فرماکر عورت کے مقام کو مرد کے برابر کردیا ہے اور آنحضرت ﷺ نے یہ فرما کر النسا سق لو الر جال کہ طبا ئع و اخلاق میں عورتوں مردوں کے برابر ہیں) عورت کی حیثیت کو بلند اور ارفع بنا دیا ہے۔ قبل ازاسلام عورت کو ایک مرد کی جنسی خواہش پوری کرنے کے لیے وجود میں آئی ہے اور بعض لوگ تو عورت میں روح کے ہی قائل نہ تھے اور بعض مذاہب مرد کو محض مردہو نے کی وجہ سے عورت پر فوقییت دیتے تھے۔ قرآن نے بعضکم من بعض فرماکر ان سب نظریات کی تر ید فرمادی تاہم مرد و عورت کی جدا کانہ ذمہ داریوں کے اعتبار سے فطر تا ان کی صلاحتیوں میں بھی اختلاف ہے۔ اجتماعی اور معاشرتی زندگی میں نہ مر دعورت بن سکتا ہے اور نہ عورت مرد کی جگہ لے سکتی ہے۔ (المنار) سلسلہ بحث کے لیے دیکھئے (سورت النسا آیت 34) ف 3 یعنی جنہوں نے آنحضرت ﷺ کی خدمت کے لیے اپنی خوشی سے ہجرت کی اپنے وطن اور مال ومنال کو خیر باد کہکر مرکز اسلامی میں پہنچ گئے اور وہ لوگ جن پر کفار نے ظلم وستم ڈھائے۔ انہیں سخت اذیتیں پہنچاکر گھر بار چھوڑ نے پر مجبور کردیا۔ انہیں کسی طرح چین سے نہ بیٹھے دیا اور انہیں محض اس لیے تکا لیف کا نشانہ بنایا کہ انہوں نے دین اسلام کی راہ اختیار کی جیسا کہ دوسرے مقام پر فرمایا۔ یُخْرِجُونَ الرَّسُولَ وَإِیَّاکُمْ أَنْ تُؤْمِنُوا بِاللَّہِ رَبِّکُمْ ( سورت المتحنہ : ١) یعنی یہ کافر پیغمبر ﷺ اور تمہیں گھروں سے محض اس جرم کی باداش میں نکا لتے ہیں کہ تم اپنے رب پر ایمان رکھتے ہو۔ نیز سورت ابروج میں فرمایا : وما انقمو امنھم الا ان یمو منو اباللہ العزیز الحمید کہ ان مومنوں کی یہی بات بر لگتی ہے کہ وہ خدا پر ایمان لے آئے ہیں جو غالب اور قابل ستائش ہے دفی ہذا آیات کثیر ۃ (ابن کثیر، کبیر ) آل عمران
196 آل عمران
197 ف 4 اوپر کی آیات میں مومنوں سے غفران ذنوب اور ثواب عظیم کا وعدہ فرمایا ہے حالا نکہ وہ فقر وفاقہ کی حالت میں بسر کر رے ہیں تھے ان کے بالمقابل کفا نہایت عیش وتنعم میں تھے ان کو دیکھ کر بعض اوقات مسلمان غلط فہمیوں کا شکار ہوجاتے اور مختلف خیالات کی دنیا میں چلے جا نے لہذا ان آیات میں مسلمانوں کا ذہن صاف کرنے کے لیے کفار کا انجام بیان فرمایا ہے اور مسلمانوں کو تسلی دی ہے۔ (کبیر) مروی ہے کہ بعض مسلمانوں نے کہا اللہ تعالیٰ کے دشمن تو بڑی عیش وعشرت کی زندگی بسر کر رہے ہیں اور ہم نہایت عسرت اور تنگی میں مبتلا ہیں تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی فرا کا بیان ہے کہ یہ آیت یہود کے بارے میں ناز ہوئی ہے (المنا) مقصد یہ ہے کہ کفار کے شہروں میں تجا رتی کا روبار ان کی خوشحالی اور مال ودولت کی فروانی کو دیکھ کر مسلمانوں کے دلو میں کسی قسم کا حزن وغم اور بغض نہیں آتا چاہیے نہ ان کے پاس کا شکار ہونا چاہئے ارونہ منا فیقن ہی کو جو شدت و خوف کے وقت پکار اٹھتے ہیں۔ ماوعد نا اللہ روسولہ غرور۔ ( احزاب آیت 12) یعنی پیغمبر نے تو ہم سے محض فریب اور دھو کے کا وعدہ کیا ہے اس استدلال کرنا چاہیے یہ چند روزہ زندگی کا سامان اور عارضی بہار ہے مرنے کے بعد ان کا ٹھکانہ جہنم ہے اور ہو نہایت ہی برا ٹھکانہ ہے اس کے مخاطب بظاہر تو آنحضرت ﷺ مگرمراد امت ہے (المنار۔ شوکانی) اس کے اگلی آیت میں مومنین کی جزا کا ذکر فرمایا ہے تاکہ مزید تشفی حاصل ہو اور چونکہ کفار کے مقابلہ میں بیان کی جارہی ہے اس لیے لکن کا لفظ بطور استدراک ذکر فرمادیا۔ (المنار ) آل عمران
198 آل عمران
199 ف 1 یہ آیت ان اہل کتاب (یہود اور عیسا ئیوں) کے حق میں نازل ہوئی ہے جو سچے دل سے مسلمان ہوگئے تھے، بعض روایات میں ان کی کل تعدادد 80 مذکور ہے جن میں عبد اللہ بن سلام اور اصجمہ نجاشی بادشاہ حبشہ بھی شامل ہے۔ نجا شی کی موت کی خبر آنے پر آنحضرت ﷺ نے مدینہ اس کی غائبانہ نماز جنازہ بھی پڑھائی۔ (لباب النقول، کبیر ) آل عمران
200 ف 2 اصبروا یعنی اسلام پر ثابت قدمی سے جم ہے رہو۔ صابر وا یعنی کافر کے مقابلہ میں ان سے بڑھ کر دین اسلام پر پامردی اور ثابت قدمی کا مظاہر کرو رابطوا۔ دشمنوں سے جباو کے لیے ہمیشہ مستعد رہو۔ صحیح بخاری میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں رباط (سرحدوں کی حفاظت) دنیامافیہا سے افضل ہے اور احادیث میں تکلیف کے اوقات میں پوری طرح وضو کرنے مسجد کو چل کر آنے اور پھر ایک نماز بعد دوسری نما کا انتظار کرنے کو بھی آنحضرت ﷺ نے رباط فرمایا ہے ( ابن کثیر ) ف 3 یعنی ان سب عمال کی روح تقویٰ ہے۔ تقویٰ کے باعث ہی یہ اعمال فلاح کا سبب بن سکتے ہیں۔ آل عمران
0 ف 4 یہ پوری سورت مدنی ہے۔ صحیح بخاری میں حضرت عائشہ (رض) سے مروی ہے کہ سورت النسا اس وقت نازل ہوئی جب بنا (رخصتی) کے بعد آنحضرتﷺ گھرآچکی تھی اور حضرت عائشہ (رض) کی رخصتی ہجرت سے آٹھ ماہ بعد عمل میں آئی (ابن کثیر۔ المنار۔ ابن کثیر النسآء
1 ) ف 5 یعنی پوری نوع انسانی ابو ال لبشر آدم (علیہ السلام) کی نسل سے ہے اسی ایک نفس سے اللہ تعالیٰ نے اس کا جوڑا (حوا) پیدا کیا۔ بعض نے منھا کر ترجمہ ای من جنسھتا کیا ہے مگر یہ صحیح نہیں کیونکہ اس سے لازم آّتا ہے کہ نفس واحدۃ نہیں بلکہ دونفسوں انسان کی تخلیق کی ابتدا ہوئی اور ظاہر ہے کہ نص قرآن کے خلاف ہے۔ روح لمعامی) اب یہ سوال کہ آدم ( علیہ السلام) سے ان کی زوج کی تخلیق کیسے ہوئی قرآن نے اسے بیان نہیں نہیں کیا اور احادیث صحین سے یہ تو ثابت ہے کہ عورت پسلی سے پیدا ہوئی ہے اور بعض روایات میں فالھر خلقن من ضلع بھی بھی آیا ہے کہ سب عورتیں پسلی سے پیدا ہوئی مگر کسی صحیح حدیث سے یہ ثابت نہیں ہے کہ خصوصیت کے ساتھ حضرت حوا ( علیہ السلام) (زوج آدم) آدم ( علیہ السلام) کی پسی سے پیدا کی گئی ہیں۔ بلکہ یہ روایت حضرت ابن عباس (رض) پر موقوف ہے اور یہی تصریح چونکہ توراۃ میں بھی وارد ہے اس لیے اغلب یہ ہے کہ یہ روایت اہل کتاب سے اخذ کی گئی ہے۔ اس بنا پسلی سے پیدا کئے جانے والی روایت کتاب سے اخذ کی گئی ہے۔ اس بنا پر پسلی سے پیدا کئے جانے والی روایت کی علما نے تاویل کی ہے کہ اس سے عورت کی فطرت اور طبعیت کی طرف اشارہ ہے اور بعد میں حدیث کا تتمہ فان ذھبت تقنھا کسر تھا اوکما قال سے مزید اس تاویل کی تائید ہوتی ہے۔ واللہ اعلم) ف 6 اس کا عطف اللہ پر ہے ای وتقوا الارحام یعنی قطع رحمی اور رشتے داروں کے ساتھ بد سلو کی سے بچو۔ اس کو الا رحام کسریوم کے ساتھ بڑھنا لحن ہے اور قواعد نحو یہ کی روسے بھی ضعیف ہے ہاں معنی کے اعتبار سے صحیح ہے یعنی قطع رحمی سے ڈرو جس کے واسطے تم ایک دوسرے سے سوا کرتے ہو۔ (کذافی القرطبی) امام شوکانی فرماتے ہیں کہ تمام عمائے شریعت ولغت کا اتفاق ہے کہ ارحام سے محروم اور غیر محرم تمام رشتے مراد ہیں۔ (فتح القدیر) قرآن و حدیث میں قطع رحمی کی بہت مذمت آئی ہے ایک حدیث میں ہے کہ رحم کا عرش معلمہ کے ساتھ معلق ہے اور کہہ رہا ہے جو شخص مجھے توڑے گا اللہ تعالیٰ بھی اسے توڑے گا اور جو مجھے جوڑے گا اللہ تعالیٰ بھی اسے جو ڑے گا۔ ( بخاری مسلم) ف 7 یعنی تمہارے تمام احوال واعمال کو دیکھ رہا ہے۔ (ابن جریر) النسآء
2 ف 8 یعنی جب یتیم بالغ ہوجائیں تو ان کے اموال ان کے سپرد کر دو اور یہ نہ کرو کہ یتیم کے مال سے اچھی چیز لے ر اس کی جگہ ردی چیز رکھ دو، بعض نے طیب اور خبیث کے یہ معنی کئے ہیں کہ اپناما حلال مال چھوڑ کر دسرے کا حرام مال مت کھا و (ابن کثیر) اور آیت میں الی بمعنی مع کے ہے یعن ان کے اموال کو ناجائز کھا نے کے لیے اپنے مالوں کے ساتھ مت ملا ایسا کرنا کبیرہ گنا ہے حوب کے معنی گناہ کے ہیں ایک دعا میں ہے۔، اللھم اغفر حوبتی اے اللہ مرے گناہ بخش دے۔ (قربطی) النسآء
3 ف 9 آیت کی شان نزول کے بارے میں حضرت عائشہ (رض) عروہ بن زبیر (رض) کے ایک استفسار کے جواب میں فرماتی ہیں کہ بعض یتیم لڑکیاں لوگوں کے دامن پر ورش میں ہوتیں وہ ان لڑکیوں کے مال دار اور قبول صورت ہونے کی وجہ سے ان کے مال وجمال پر گرویدہ ہوجاتے اور ان سے نکاح کرلیتے لیکن ان کو اپنے گھر کی لڑکیاں سمجھ کر پرائے گھر کی لڑکیوں جیسا نہ تو مہر دیتے اروانہ ان کے دوسرے حقوق ہی ویسے ادا کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں انہیں ایسا کرنے سے منع فرمایا کہ اگر یتیم لڑکیوں سے تم ان کے مہر اور نفقات میں انصاف نہیں کرسکتے تو ان کے علاوہ تمہیں دوسری عورتوں س نکاح کی اجازت ہے۔ (قرطبی۔ شوکانی) اس آیت حضرت ابن عباس (رض) اور جمہور علمائے نے لکھا ہے کہ ایک شخص کے لیے بیک وقت چار سے زائد عورتیں اپنے حرم میں رکھنا جائز نہیں ہے۔ امام شافعی فرماتے ہیں کہ سنت سے صراحت کے ساتھ یہ مسئلہ ثابت ہوتا ہے، حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں وھذالذی قالہ الشافعی مجع علیہ من العلما غیلان بن سلمتہ الظقفی اور بعض دیگر صحابہ (رض) کے متعلق مذکور ہے ہے کہ جب وہ مسلمان ہوئے تو ان کے حرم میں چار عورتیں تھیں۔ آپ ﷺ نے ہر ایک فرمایا ختر منھن اربعا کہ ان میں سے صرف چار کا انتخاب کرلو اور باقی کو طلاق دیدو۔ امام قرطبی لکھتے ہیں رافضی اور بعض دیگر علمائے اس آیت سے استدلال کرتے ہیں کہ چار سے زائد بھی جائز ہیں۔ مگر یہ لغت اور سنت سے جہالت کا نتیجہ ہے۔ ان کے مقابلہ میں اسلام کے تعداد ازواج کے مسئلہ پر معاندین نے اعتراضات بھی کئے ہیں جن کے علما نے مسکت جوابات دیئے ہیں ف 10 یعنی قرآن نے انصاف نہ کرسکنے کے اندیشہ کی بنا پر ایک سے زائد بیو یوں شادی نہ کرنے کی تلقین کی ہے اور فرمایا ہے کہ ظلم سے بچنے کی یہ قریب ترین صورت ہے، بعض نے ان لا تعو لوا کے یہ معنی بھی کئے ہیں کہ تمہارے عیال زیدہ نہ ہوجائیں اور تم فقیر نہ ہوجا و مگر پہلے معنی زیادہ صحیح ہیں۔ ابن کثیر ) النسآء
4 ف 1 لیکن بعض مفسرین نے اس کے معنی واجبتہ اور فریضتہ کئے ہیں اور اس پر اجماع ہے کہ شوہر کے ذمہ بیوی کا مہر ادا کرنا واجب ہے۔ (فتح القدیر) ف 2 ہاں اگر عورت اپنی خوشی سے بغیر کسی دباو کے مہر معاف کر دے تو نہ دینے میں کوئی حرج نہیں ہے (ابن کثیر النسآء
5 ) ف 3 یہاں بیوقوفوں کی صلا حیت نہ رکھتے ہوں۔ اس میں چھو ٹے بچے اور ناتجر نہ کار بیوی بھی آجاتی ہے اور نادان یتیم بھی۔ یعنی اگر تجربہ کار اور کم عقل ہوں تو وصی یا متولی کو چاہیے کہ یتیم کے مال سے اس کے کھا نے پینے اور لباس کا انتظام کرتا رہے مگر وہ مال اس کے سپرد نہ کرے۔ اس آیت سے علما نے سفیہ (کم عقل) پر حجر کا حکم اخذ کیا ہے کہ حاکم وقت اس کے تصرف پر پابندی لگا سکتا ہے (ابن کثیر ) النسآء
6 ف 4 یعنی یتیموں کا امتحان اور ان کی تربیت کرتے رہو جس کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ پہلے تھوڑا سامال دے کر ان کو کسی کام پر لگا کے دیکھو کہ آیا یہ اپنے مال کو بڑھاتے یا نہیں پھر جب وہ بالغ ہوجائیں اور ان میں رشد ہو تو با توقف مال ان کے حوالے کر دو۔ رشد سے مراد عقلی اور ادینی صلاحیت ہے پس بالغ ہونے کے علاوہ مال کی سپرد داری کے لیے رشد بھی شرط ہے۔ اگر کسی شخص میں رشد نہیں ہے تو خواہ وہ بوڑھا ہی کیوں نہ ہوجائے متولی یا وصی و چاہئے کہ وہ مال اس کے حوالے نہ کرے (قرطبی۔ ابن کثیر) ف 5 یعنی جس سے کم از کم ضرورت پوری ہو سکتے ف 6 یتیم کے متولی یا وصی کو حکم ہے کہ گواہوں کے روبرو مال واپس کرے تاکہ کل کو اس پر کوئی الزام نہ آۓ۔ النسآء
7 ف 7 اس آیت میں ایک اصولی حکم دیا ہے کہ ماں باپ اور رشتہ داروں کی چھوڑی ہوئی جائداد میں چاہے وہ کسی نو عیت کی ہو جس طرح مردوں کا حق ہے اسی طرح عورتوں اور چھو ٹے بچوں کا بھی حق ہے اس عرب کے جاہلی دوستو کارد کرنا مقصود ہے۔ وہ عورتوں اور بچوں کو میت کے متروکہ مال اور جائداد سے محروم کردیتے اور صرف بالغ لڑ کے ہی جائدا پر قبض کرلیتے۔ آیت کی شان نزول ارمردوں اور عورتوں کے حصوں کی تعین بعد کی آیات میں آرہی ہے (ابن کثیر۔ شوکانی ) النسآء
8 ف 8 یعنی ورثہ کو چاہئے کو متر کہ مال میں سے کچھ حصہ بطور صدق وخیرات ان رشتہ داروں یتیموں اور مسکینون کو بھی دیں جو خاندان میں موجود ہوں تقسیم کے وقت موقع پر پہنچجائیں اراگر یہ لوگ زیادہ کی حرص کریں تو نرمی سے ان سے بات کرو۔ یعنی معذرت کردو یہ وارثﷺ کا مال ہے تمہار حق نہیں ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں فرائض یعنی روثہ کے مقررہ حصے نازل ہونے سے پہلے یہ حکم تھا۔ فرائض نازل ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ نے ہر صاحب حق کو اس کا حق دے دیا ہے اب یہ بخشش نہیں ہے اور صدقہ و خیرات میت کی وصیت سے ہی ہوسکتا ہے یہی مذہب جمہور فقہا ائمہ اور ابعہ اور ان کے متبعین کا ہے لیکن بعض اب بھی کچھ صدقہ وخیرات کے قائل ہیں۔ چنانچہ بخاری میں حضرت ابن عباس (رض) سے یہ بھی مروی ہے کہ یہ آیت محکم ہے اور روثہ کو حکم ہے کہ تقسیم تر کہ وقت رشتہ داروں صلہ رحمی کر کریں ( ابن کثیر۔ قرطبی) النسآء
9 ف 1 یہ حکم میت کے وصیت سن کر نافذ کرنے والوں کو ہے اور ان لوگوں کو بھی جو یتیموں کے سر پرست اور وصی مقرر ہوں۔ ان سب کو ہدایت کی جارہی ہے وہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے میت کی اولاد اور یتیموں کو مفاد کا سی طرح خیال رکھیں جس طرح وہ چاہتے ہیں کہ ان کے مرنے کے بعد ان کی چھو ٹی اور بے بس اولاد کے مفاد کا خیال رکھا جائے۔ لہذا انہیں یتیموں سے بہتر سے بہتر سلوک کرنا چاہیے اور ان کی عمدہ سے عمدہ تعلیم و تربیت کرنا چایئے یتیموں کے اولیا سے اس آیت کا تعلق انسب معلوم ہو تو ہے کیونکہ بعد میں یت امیٰ کی حق تلفی کرنے والوں کو متعلق جو وعید آرہی ہے اس کے ساتھ زیادہ منا سبت پائی جاتی ہے، ( ابن کثیر۔ قرطبی) النسآء
10 ف 2 علاوہ ازیں احادیث میں بھی ایسے لوگوں کے حق میں سخت وعید آئی ہے ایک حدیث میں ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا اخبتنو السبع الموبقات کہ سات مہلک گناہوں سے بچوں ان میں سے ایک گناہ یتیم کا مال کھانا ہے۔ (بخاری مسلم بروایت ابوہریرہ (رض) ایک دسری حدیث میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا معراج کے موقع پر مجھے ایسے آدمیوں کے پاس لے جایا گیا جن میں سے اک کا ہو نٹ اونٹ جیسا تھا ان پر کچھ لوگ مقر تھے جو ان کے جبڑے اکھاڑتے اور آگ کا یاک بتھر ان کے منہ میں ڈالتے تھے وہ پھتر ان کے نیچے سے نکل جاتا اور وہ انتہائی زور سے چیختے چلاتے۔ میں نے جبرئیل سے دریافت کیا کہ کہ کون لوگ ہیں انہوں نے جواب دیا ظلم سے یتیموں کا مال کھا نے والے۔ (ابن کثیر ) النسآء
11 ف 3 اب اس رکوع میں روثہ کے تفصیل حصص کا بیان ہو رہا ہے۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ دونوں آیتیں اور اس سورۃ کے خاتمہ والی آیت علم وراثت میں اصول کی حیثیت رکھتی ہیں۔ وراثت کے تمام مسائل ان تین آیات سے منتنبط ہیں اور وراثت سے متعلق احادیث بھی ان آیات ہی کی تفسیر ہیں۔ ( ایک حدیث میں ہے کہ جب حضرت جابر (رض) بن عبد اللہ بیمار ہوئے تو آنحضرتﷺ اور حضرت ابو بکر (رض) ان کی عیات کے لیے تشریف لے گئے جابر (رض) نے آنحضرت ﷺ سے اپنے مال کے بارے میں دریافت کیا اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور بعض روایت میں ہے سعد بن ربیع وفات پاگئے اور ان کے چچا نے ان کا سارا ورثہ سنبھال لیا۔ سعد (رض) کی دو لڑکیاں تھیں ان کی بیوی نے آنحضرت ﷺ سے ورثہ کا سوال کیا تو یہ آیت نازل ہوئی مطلب یہ ہے کہ جب اولاد میں لڑکے اور لڑکیاں دونوں موجود ہوں تو لڑکے کو لڑکی سے دوگنا حصہ ملے گا۔ اس کو دو حصو دینے کو جہ سے ہے کہ مرو پر نہ نسبت عورت کے معاشی ذمہ داریاں بہت زیادہ ہوتی ہیں اس بنا پر اس کو عورت سے دوگنا حصہ دینا عین قرین انصاف ہے۔ ( قرطبی۔ ابن کثیر) ف 4 یہی حکم دو لڑکیوں کا بھی ہے۔ حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ سعد (رض) بن ربیع کی دو لڑکیاں ہی تھیں جب کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی ہے چنانچہ آنحضرت ﷺ نے ان کو دہ تہائی حصہ کا حکم دیا۔ (ابو داود۔ ترمذی) پھر اس سورت کی آخری آیت میں جب دو بہنوں کو تہا حصہ دیا گیا ہے تو دو بیٹو کو بدر جہ اولی ٰ دیا جاتا ہے چاہئے۔ لہذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ دو لڑکیوں کا دوتہائی حصہ قرآن و حدیث دونوں سے ثابت ہے۔ (ابن کثیر۔) اس حکم سے چند صورتیں مستثنی ہیں (1) حدیث میں ہے کہ آنحضرت نے فرمایا لا نورث مابر کنا صدقتہ لہذا آنحضرت ﷺ کی میراث تقسیم نہیں ہوگی۔ (دیکھئے سورت مریم آیت 6) عمدا قتل کرنے والا اپنے مقتول کا وارث نہیں ہوسکتا یہ حکم سنت سے ثابت ہے اس پر امت کا اجماع ہے 3) حدیث میں ہے لا یرث المسلم الکافر کہ کافر مسلمانوں کا وارث سے محروم ہوگا۔ قرطبی) ف 5 اس سے بھی معلوم ہوا کہ جب ایک بیٹی کو حصہ نصف ہے تو دو یادو سے زیادہ بیٹیوں کا حصہ دو تہائی ہونا چاہئے۔، یعنی میت کی اولاد ہونے کی صورت میں ماں باپ دونوں میں سے ہر ایک کل ترکہ کا چھٹا حصہ ملے گا بشرطیکہ ذوی الفروض میں دوسرا اور کوئی موجود نہ ہو۔ مثلا میت کی ایک بیٹی اور ماں باپ میں تو تر کہ اور باقی دو حصے باپ کو دے دیئے جائیں (ابن کثیر) ف 7 یہ ماں باپ کی دوسری حالت ہے یعنی اگر میت کی کوئی اولاد نہ ہو اور اس کے ماں پاب زندہ ہوں تو ماں کو ایک تہائی حصہ ملے گا اور بقیہ د وتہائی حصہ باپ کو مل جائے گا اور اگر ماں باپ کے ستھ میت کے مرد ہونے کی صورت میں بیوی اور عورت ہونے صورت میں اس کا شوہر بھی زندہ ہو تو شوہر کا حصہ۔ جس کا ذکر آتے آرہا ہے۔ پہلے نکالنے کے بعد باقی ماندہ میں سے ماں کو ایک تہائی اور باپ کو دو تہائی حصہ ملے گا۔ اس صورت میں تو بعض علما کل مال سے ماں کو ایک تہائی دینے کے قائل ہیں مگر اصح یہی ہے کہ بقیہ میں سے ایک تہائی دی جائے گا، چنانچہ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں : وھو قول الفقھا السبعہ الائمہ الا ربعتہ جمھور العلم (ابن کثیر) ف 8 یہ ماں باب کی تیسری حالت بیان ہے یعنی اگر میت کے کوئی اولادنہ ہو اور ماں باپ کے علا وہ صرف بھائی ہوں (خواہ ماں باپ دونوں سے یا صرف ماں سے یا صرف باپ سے) تو باپ کی موجودگی میں انہیں کیوئی حصہ نہیں ملے گا البتہ وہ ماں کا حصہ تہائی سے چھٹا کردیں گے اور اگر ماں کے ساتھ سوائے باپ کے کوئی دوسرا ورث نہ ہو تو بقیہ سارا حصہ 5 6 باپ کو مل جائے گا اور یہ یاد رہے کہ اخوۃ جمع کا لفظ ہے اویہ جمہور علما کے نزدیک وہ کو بھی شامل ہے لہذا گر صرف ایک بھائی ہو تو وہ ماں کا تہائی سے چھٹا حصہ نہیں کرسکتا۔ (ابن کثیر) ف 9 میت کے مال سے اول متعلقہ ادا کئے جائیں پھر کفن ودفن پر صرف کیا جائے پھر باقی ماندہ سے حسب مراتب قرض ادا کیا جائے گا پھر ثلث مال سے وصیت کا نفاذ ہو اس کے بعد ورثہ کے درمیان باقی تر کہ کے حصے کئے جائیں۔ (قرطبی) قرآن میں گو قرض کا ذکر وصیت کے بعد ہے مگر سلف وخلف کا اس پر اجماع ہے کہ ادائے قرض پر مقدم ہے لہذا پہلے قرض ادا کیا جائے پھر وصیت کا نفاز ہونا چاہئے امعان نظر کے بعد آیت کے فو یٰ سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے نیز حضرت علی (رض) بن ابی طالب سے روایت ہے کہ آنحضرتﷺ نے وصیت سے قبل قرض ادا کرنے کا حکم ادا کرنے حکم فرمایا (ترمذی) اس حدیث میں حارث اعو گو مجروح ہے مگر کان حافظا اللفرائض معتنیا بھا وبا لحساب (ابن کثیر) الہذا یہ حجت ہے اور یہ روایت دار قطنی نے حارث اعور کی بجائے عاصم بن ضمرۃ عن علی (رض) ذکر کی ہے اور قرآن میں اس تقدیم ذکری کے علما نے متعد جوابات دیئے ہیں۔ (قرطبی) ف 10 یعنی اللہ تعالیٰ علیم وحکیم ہے۔ میراث کا یہ قانون اس لیے مقرر فرمایا کہ تم اپنے نفع ونقصان کو نہیں سمجھتے اگر تم اپنے اجتہاد سے ورثہ تقسیم کرتے تو تو حصوں کا ضبط میں لانا مشکل تھا۔ (قرطبی ابن کثیر) شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں یعنی ان حصوں میں عقل کا دخل نہیں اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمائے ہیں وہ سب سے دانا تر ہے۔ (موضح) النسآء
12 ف 11 یہ بیوی کی ایک حالت ہے۔ اولاد کی عدم موجودگی میں پوتوں کا بھی یہی حکم ہے اس پر علما کا اجماع ہے۔ (قرطبی۔ شوکانی) ف 1 ی دوسری حالت ہے پھر بیوی ایک ہو یا ایک سے زیادہ سب چوتھائی یا آٹھوین حصہ میں شریک ہوں گی، اس پر علما کا اجماع ہے۔ قرطبی۔ ابن کثیر) ف 2 کوئی مرد یا عورت مرجائے اور اس کا باپ اور اولاد نہ ہو تو اس کے ورثہ کو کلا لہ کہا جاتا ہے۔ کلالہ کی یہی تشریح حضرت ابو بکر (رض) حضرت عمر (رض) اور حضرت علی (رض) سے مروی ہے اور اسی کو جمہور اہل علم نے قبول کیا ہے بعض ایسی میت کو بھی کلالہ کہتے ہیں۔ (قرطبی، شوکانی) بھائی بہن تین طرح کے ہوتے ہیں۔ عینی یعنی یک ماں باپ سے علاتی یعنی باپ کی طرف اخیافی یعنی صرف ماں کی طرف سے۔ یہاں بالا تفاق اخیافی بھائی بہن مراد ہیں جیسا کہ ایک قرات میں بھی ہے۔ (ابن کثیر) ف 4 اور ان میں سے ہر ایک کو برابر حصہ ملے گا یعنی مرد کو عورت پر فضلیت نہیں ہوگی جیسا کہ آیت میں شرکا فی الثلث کہا یک تہائی میں سب شریک ہوں گے اسے معلوم ہوتا ہے۔ اسی کی مطابق حضرت عمر (رض) نے فیصلہ فرمایا او ظاہر ہے کہ ایسا فیصلہ محض اجتہاد سے نہیں ہوسکتا۔ (ابن کثیر) اس کے مطابق حضرت عمر (رض) نے فیصلہ فرمایا ( ابن کثیر) فائدہ اخیافی بھائی چاراحکام میں دوسرے وارثوں سے مختلف ہیں (1) یہ صرف ماں کی جہت سے ورثہ لیتے ہیں (2) ان کے مرد عورت کو مساوی حصہ دیا جاتا ہے (3) ان کو صرف میت کے کلام ہونے کی صورت میں حصہ ملتا ہے (4) خواہ کتنے ہی ہوں ان کا حصہ ثلث سے زیادہ نہیں ہوتا مثلا ایک میت کا شوہر۔ ماں دو اخیافی اور دوسرے عینی بھائی بھی موجود ہوں تو جمہور اہل علم کے نزدیک شوہر کو نصف ماں سدس ملے گا اور بقیہ تہائی حصے میں اخیافی بھائیوں کے ساتھ عینی بھائی شریک ہوں گے، حضرت عمر (رض) نے اسی قسم کے ایک مقدمہ یہی فیصلہ صادر ررماتا تھا اور صحابہ (رض) میں سے حضرت عثمان (رض)، ابن مسعود، ابن عباس اور زید (رض) بن ثابت اور ائمہ میں سے امام مالک (رح) اور شافع (رح) کا یہی مسلک ہے البتہ حضرت علی (رض) اخیافی بھائیوں کو دیگر سگے بھائیوں کو وصبہ ہونے وجہ سے محروم قرار دیتے ہیں شوکانی اس دوسرے مسلک کو تر جیح دی ہے۔ ( ابن کثیر۔ فتح القدیر) ف 5 مھیر صار یہ منصوبہ علی الحال ہے اور اس کا تعلق وصیت اور قرض دونوں سے ہے۔ وصیت میں نقصان پہنچا نا ایک تو یہ ہے کہ تہائی مال سے زیادہ وصیت کرے ایسی صورت میں تہائی سے زائد وصیت کا نفاذ نہیں ہوگا دوسری صورت یہ ہے کہ کسی وارث کو مزید رعایت سے زائد مال دلو ایا جائے اس کا بھی اعبتار نہیں ہوگا۔ الا یہ کہ تمام ورثہ برضاروغبت اسے قبول کرلیں اور قرض نقصان پہنچانا یہ ہے کہ محض وارثو کا حق تلف کرنے کے کے لیے مرنے ولا ہے اپنے ذمہ کسی ایسے قرض کا اقرار کرے جو حقیقت میں اس کے ذمہ نہ ہو۔ حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ وصیت میں نقصان پہنچا نا کبیرہ گناہ ہے جو مسند احمد میں حضرت ابوہریر (رض) سے روایت ہے کہ ایک آدمی ستر برس تک نیک عمل کرتا رہتا ہے مگر مرتے وقت وصیت میں ظلم کرتا ہے جہنم میں چلا جاتا ہے۔ (ابن کثیر۔ قر طبی ) النسآء
13 النسآء
14 النسآء
15 ف 1 اوپر کی آیات میں عورتوں کے ساتھ احسان اور ان کے مہر ادا کرنے اور مردوں کے ساتھ ان کے وراثت میں شریک قرار دیکر ان کے حقوق کی حفاظت کا بیان تھا۔ اب یہاں سے عورتوں کی تادیب اور ان پر سختی کا بیان ہے تاکہ عورت اپنے آپ کو بالکل ہی آزاد نہ سمجھے (قرطبی) پہلی آیت میں زنا کار عورتوں کی سزابیان کی کہ زنا شہادت سے ثابت ہوجائے تو انہیں تاعمر گھر میں محبوس رکھا جائے یہاں تک کہ وہ مرجائیں۔ یا اللہ تعالیٰ انکے بارے میں کوئی دو سری سزانازل فرمادے۔ اسلام زنا کار عورتوں کے لیے یہ پہلی سزا ہے جو بعد میں حد زنا نازل ہونے سے منسوخ ہوگئی۔ سورت نور جو سو کوڑوں کی سزا نازل ہوئی یہاں سبیلا سے اسی طرف اشارہ ہے دوسری آیت میں زانی مرد اور زنا کار عورت کے متعلق یہ حکم دیا گیا کہ ان کو اذیت دسیجائے اوذلیل کیا جائے حتی ٰ کہ تا ئب ہوجائیں یہ سزا بھی پہلی سزا کے ساتھ ہی ہے۔ بعد میں یہ دونوں سزائیں منسوخ وہ گئیں چنانچہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا خذ واعنی خذ قدجعل اللہ لھن سبیلا البکر نالبکر جلد مائتہ وتغریب عام والثیب جلد مائتہ والر جم۔ کہ لو اللہ تعالیٰ نے نے کے متعلق راہ نکا لدی جب کنوار کنواری سے زنا کرے تو اس کے لیے سوکوڑے اور ایک سال کی چلا وطنی ہے اور شادی شدہ شادی شدہ سے زنا کرے تو انکے لیے سوکوڑے اور سنگسار ہے۔ ( مسلم۔ ابو داود) سلسلہ بیان کے لیے دیکھئے سورت نور آیت 2 (ابن کثیر قرطبی) النسآء
16 النسآء
17 ف 2 یہا علی اللہ کے معنی یہ ہیں کہ ایسے لوگوں کی توبہ قبول کرنا اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے اپنے ذمہ لے لیا ہے رونہ اللہ تعالیٰ پر کوئی چیز لازم نہیں ہے۔ (قرطبی) بحھالہ یعنی اگر کبھی نادانی اور جذبات سے مغلوب ہو کر گناہ کا ارتکاب کر بھی لیتے میں تو من قریب یعنی جلد ہی توبہ کرلیتے ہیں۔ بعض علما نے لکھا ہے کہ یہاں بجھالتہ کی قید احتراز کے لیے نہیں ہے۔ بلکہ بیان واقعہ کے لیے ہے یعنی ہر گناہ جہالت اور نادانی کی وجہ سے ہوتا ہے اور من قریب کا مفہوم یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ع موت کے آثار مشاہدہ کرنے سے پہلے پہلے تائب ہوجاتے ہیں۔ ان دو شرطوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول فرمالیتا ہے۔ (قرطبی۔ ابن کثیر) توبہ کے شرائط کے لیے دیکھئے سورت مریم آیت 8۔ النسآء
18 ف 3 یعنی ایسے لوگوں کی توبہ قبول نہیں ہوتی، ترمذی میں عبد اللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا ان اللہ یقبل توبتہ العبد مالم یفر غر کہ اللہ تعالیٰ اس وقت تک اپنے بندے کی توبہ قبول فرماتا ہے جب تک وہ جان کنی کی حد تک نہیں پہنچ جاتا۔ (ترمذی) اس معنی میں اور بھی بہت سی مسند اور مرسل ورایات موجود ہیں (ان کثیر۔ قرطبی) النسآء
19 ف 4 یعنی جو لوگ تادم مرگ شرک میں مبتلا رہتے ہیں اور موت کے آثار دیکھ کر تو بہ کرنا چاہتے ہیں انکی توبہ بھی قبول نہیں ہوتی حضرت ابو ذر (رض) سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ بندے کی توبہ اس وقت تک قبول فرماتے ہیں کہ جب تک حجاب نہ گرے صحابہ (رض) نے دریافت کیا کہ حجاب گرنے سے کیا مراد ہے فرمایا یہ کہ جان نکلنے اور وہ مشرک ہو (ابن کثیر) بعض نے لکھا ہے کا فرمرنے کے بعد جب عذاب کا مشاہدہ کریں گے تو اس وقت تو بہ کریں گے مگر وہ تو بہ قبول نہ ہوگی۔ (قرطبی) ف 5 زنا وغیرہ کے سلسلہ میں ضمنا توبہ کے احکام بیان فرمانے کے بعد اب یہاں سے پھر عورتوں کے حقوق کا بیان ہو رہا ہے اور اسے مقصد عورتوں کو اس ظلم وزیادتی سے نجات دینا ہے جو جاہلیت میں ان پر روا رکھی جاتی تھیں۔ (کبیر قرطبی اس کے مخاطب تو شوہر کے اولیا میں جیسا کہ امام بخاری (رح) اور بعض دوسرے محدثینن نے اس آیت کی شان نزول میں حضرت ابن عباس (رض) سے نقل کیا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں میت کو اولیا دوسری چیزوں کی طرح اس کی بیوی کے بھی مالک ہوتے۔ ان میں سے اگر کوئی چاہتا تو اس سے خود شادی کرلیتا یا کسی دوسرے سے اس کی شادی کردیتے اور مہر خود لے لیتے اور اگر چاہتے تو عورت کو کلیتا شادی سے ہی روک دیتے حتی کہ وہ مر جاتی اور اس کے مال کے وارث بن جاتے عورت کے اولیا کو اس سلسلہ میں کچھ اختیار نہ ہوتا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور عورت پر انکے تسلظ کو ختم کردیا۔ (ابن کثیر، قرطبی) اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کے مخاطب شوہر ہوں چنانچہ بعض علما نے اس کی شان نزول میں لکھا ہے کہ وہ عورتوں کو طلاق نہ دیتے اور تنگ کرتے رہتے تاکہ اگر مر جائیں تو ان کے وارث بن جائیں اور اگر طلاق لینا چاہے تو مہر میں سے کچھ مال بطور واپس کرے اس پر یہ آیت نازل ہوئی پہلی صورت میں اس کا حاصل یہ ہے کہ خاوند کے مرنے کے بعد اسے نکاح سے روکنا جائز نہیں ہے بلکہ وہ جہاں چاہے نکاح کرسکتی ہے اور اولیا اس طرح زبر دستی سے اس کے وارث نہیں بن سکتے اور دوسری صورت میں یعنی جب کہ شوہر مخاطب ہوں تو خلاصہ یہ ہوگا کہ شوہر کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ عورت سے مہر واپس لینے کی غرض سے اسے تنگ کرتا رہے اور طلاق نہ دے یہ دوسری صورت زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے اور ابن عطیہ وغیرہ نے اسی کو پسند کیا ہے اس لیے کہ آیت کے بقیہ حصے کا تعلق قطعا شوہروں کیساتھ ہے کیونکہ فاحشہ کے ارتکاب کیصورت میں خاوند ہی کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ اسے روک رکھے تاکہ اس سے مہرو وغیرہ جو کچھ دیا ہے واپس لیکر طلاق دے۔ شوہر کے اولیا کو یہ اختیار نہیں ہے (فتح القدیر۔ قرطبی) اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ خطاب عام مسلمانوں سے ہو جس میں شوہر والیاں میت اور دوسرے مسلمان سبھی آجاتے ہیں۔ فتح القدیر۔ کبیر) ف 6 بعض صحابہ (رض) اوتابعین نے کہا ہے کہ یہاں فاحشہ مبینہ سے مراد زنا ہے مگر صحیح یہ ہے کہ اسے عام رکھا جائے یہ اور فحش کلامی بد خلقی ایذار سانی زنا اور اس قسم کے جملہ ذائل کو شامل ہو اور مطلب یہ ہوگا کہ اگر زیادتی عورت کی طرف سے ہو تو تم ان کو خلع لینے پر مجبور کرسکتے ہوتا کہ وہ لیا ہو امال واپس کردیں۔ اس پر یہ استثنا اخذ اموال سے ہوگا اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ عضل مذکور سے استثنا ہو یعنی تمہا رے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ ان کو روک رکھو الا یہ کہ وہ فاحشہ کا ارتکاب کریں تو اس صورت میں ان کو روک سکتے ہو۔ (کبیر۔ قرطبی) ف 7 یہ عورتوں سے متعلق تیسرا حکم ہے کہ بہتر طریقے سے ان کے ساتھ بسر کرو۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا خیر کم خیر کم لا ھلہ وانا خیر کم الا ھلی یعنی تم میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جو اپنے گھر ووالوں کے لے بہتر ہے اور میں اپنے گھر والوں سب سے بہتر ہوں۔ (ابن کثیر۔ ف 8 یہ بھی حسن معاشرہ کا تتمہ ہے یعنی اگر کسی اخلاقی کمزوری یا بد صورت ہونے کی وجہ سے تمہیں ان سے نفرت ہوجائے اور ان کو طلاق دینا چاہو تو بھی فو را طلاق نہ دو بلکہ بہتر طریق سے ان کو اپنے پاس رکھو ہو سکتا ہے کہ ان کی صحبت سے خیر کثیر یعنی اولاد حاصل ہوجائے اور تمہاری نفرت محبت میں تبدیل ہوجائے ایک حدیث میں ہے کہ کوئی مومن مرد کسی مومن عورت کو بنظر کراہت نہ دیکھے اگر اسے اس کی ایک عادت باپسند ہے تو دوسری عادت اچھی بھی ہوگی۔ (ابن کثیر) اس کے دوسرے یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ اگر نفرت کے سبب تم ان سے مفارقت اختیار کرنا چاہو تو ہوسکتا ہے کہ اس مفارقت میں ان کے لیے خیر کثیر مضمر ہو مثلا ان کو بہتر خاوند مل جائے (کبیر) النسآء
20 ف 1 یہ عورتوں کے متعلق چوتھا حکم ہے جب پہلی آیت میں بیان فرمایا کہ اگر سو عشرت عورت کی جانب سے ہو تو مہر واپس لینے کے لیے اسے تنگ کرنا جائز ہے۔ یہاں بتایا کہ جب زیادتی حرام ہے۔ (کبیر) یعنی کہ بلا وجہ تنگ کر کے ان سے مہر واپس لو گے تو یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی بہتان باندھ کر واپس لے رہا ہے اور اس صورت میں تم ان پر دو ہر اظلم کروگے بلا وجہ تنگ کرنا اور مہر واپس لینا۔ اس لیے اسے اثمامبینا فرمایا (کبیر) آپ سے ثابت ہوا کہ جماع کے بعد دیا ہوا مہر واپس نہیں ہوسکتا چنانچہ مذکور ہے کہ آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں ایک شخص نے کسی عورت سے نکاح کرلیا۔ جب اس کے پاس گیا تو معلوم ہوا کہ وہ زنا سے حاملہ ہے اس پر وہ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو آنحضرت ﷺ نے ان کے دومیان تفریق کرادی اور مہر واپس لینے سے منع فرمادیا۔ (ابوداود) اس آیت سے دوسرا مسئلہ یہ بھی ثابت ہوا کہ زیادہ مہر کوئی حدمعین نہیں ہے خاوند اپنی حثیت کے مطابق جتنا مہر دینا چاہے دے سکتا ہے۔ چنانچہ حضرت عمر (رض) نے ایک مرتبہ خطبہ دیا کہ لوگوں زیادہ غلو کے ساتھ مہر نہ باندھا نہ کرو۔ خطبہ کے بعد ایک بڑھیا نے یہی آیت پیش کی۔ اس پر حضرت عمر (رض) نے کہا یا اللہ ! مجھے معاف فرمادے عمر (رض) سے تو ہر زیادہ فقیہ ہے۔ (ابن کثیر ) النسآء
21 ف 6 پختہ عہد سے مراد عقدہ نکاح ہے بعض نے اس کی تفسیر خطبئہ نکاح سے بھی کی ہے۔ (ابن کثیر ) النسآء
22 ف 3 جاہلیت کے دستو رکے مطا بق بیٹے کے لیے باپ کی منکو حہ (سوتیلی ماں) سے شادی کرلینا چائز تھا۔ چنانچہ حضرت قیس (رض) نے اسلت نے اپنے والد کی وفات پر جب اپنی سوتیلی ماں سے نکاح کرنا چاہا تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور اسے سخت حرام قرار دیا۔ (ابن کثیر) حدیث سے ثابت ہے کہ ایسا نکاح کرنے والا واجب القتل ہے۔ (مسند احمد ) النسآء
23 ف 4 قرآن نے چودہ ناتے حرام قرار دیئے سات نسبی اور سات رضاعی سسرال وغیرہ کی جانب سے (ابن عباس) یہاں تک سات نسبی رشتوں کی حرمیت کا بیان تھا ماں کے حکم میں نانی اور دادی بھی شامل ہیں اور بیٹی کے حکم میں پوتی اور نواسی بھی آجاتی ہے اور بہن سگی ہو یا علاتی یا اخیافی بہر حال حرام ہے اور پھو پھی میں دادا کی بہن بھی داخل ہے اور خالہ کا لفظ ماں نانی دادی سب کی بہنوں کو شامل ہے اور بھتیجی اور بھانجی کے حکم میں پوتی اور نوسی بھی آجاتی ہے (قرطبی) ف 5 یعنی نسبی ماں اور بہن کی طرح رضاعی ماں اور بہن بھی حرام ہے ایک حدیث میں ہے ہر وہ رشتہ جو نسب سے حرام ہے رحاعت سے بھی حرام ہوجاتا ہے۔ یہ یادر رہے کہ قرآن نے مطلق رضاعت کو حرمت کاسبب قرار دیا ہے۔ ف 6 یعنی مطلقا حرام خواہ جماع سے پہلے اپنی بیوی کو طلاق دی ہو یا اس کا انتقال ہوگیا ہے جمہور سلف کا یہ مسلک ہے۔ (فتح القدیر) ف 7 ربیبہ یعنی بیوی کے دوسرے خاوند سے جو لڑکی ہو وہ بھی حرام ہے بشرطیکہ اپنی بیوی اس لڑکی کو ماں سے جماع کرلیا ہو اگر قبل از جماع طلاق دیدی ہو تو عورت کی لڑ کی سے نکاح جائز ہے۔ اس پر علما کا اتفاق ہے۔ (ابن کثیر۔ قرطبی) ف 8 یعنی صرف صلبی بیٹوں کی بیویاں نہ کہ منہ بو لے بیٹوں کی بیویاں دیکھئے سورت احزاب آیت 27) ف 9 یہ محل رفع میں ہے ای وحرمت علیکم اجمع بین االا ختین اسی طرح آنحضرت ﷺ نے ایک عورت اور اس عورت کی پھوپھی کو بیک وقت نکاح میں رکھنے سے منع فرمایا ہے نیز حدیث کی روسے عورت اور اس کی خالہ کو بیک وقت نکاح میں رکھنا بھی منوع ہے۔ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن کے علاوہ سنت بھی ایک مستقل مآخذ شریعت ہے ( ابن کثیر۔ قرطبی) ف 10 یعنی پہلے جو ایسے رشتے ہوچکے ہیں ان کا کچھ گناہ نہیں ہے اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ ان کو برقرار رکھا جائے گا۔ النسآء
24 ف 1 اوپر آیتہ التحریم میں مذکورہ محارم تو بہر صورت حرام ہیں خواہ وہ ملک یمین ہی میں آجائیں اس بنا پر علما نے لکھا ہے کہ ملک یمین کے ساتھ جمع بین الا ختین بھی حرام ہے۔ (ابن کثیر) اب یہاں فرمایا کہ شوہر والی عورتیں بھی حرام ہیں ہاں دارالحرب سے قیدی بن کر آجائیں تو اموال غنیمت کی تقسیم کے بعد کے حصہ میں آئیں گی ان کے لیے استبر کے بعد ان سے صحبت جائز ہے خواہ دارالحرب میں ان کے خاوند موجود ہی کیوں نہ ہو استبرا یہ ہے کہ عورت ایک حیض سے پاک ہوجائے یا اگر حاملہ ہے تو واضع حمل ہوجائے صحیح مسلم اور سنن میں ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ 8 ھ غزوہ اوطاس دیار غطفان میں ایک وادی کا نام ہے) میں دوسرے اموال غنیمت کیسا تھ عورتیں بھی قیدی بن کر آئیں صحابہ کرام (رض) نے اس خیال سے کہ ان کے شوہر دارالحرب میں موجود ہیں۔ ان سے صحبت کرنے میں تامل کیا۔ اس یہ آیت نازل ہوئی (شوکانی۔ قرطبی فائدہ اخصان کے معنی محفوظ ہونے کے ہیں قرآن میں یہ لفظ چند معانی میں استعمال ہوا ہے اور المحصنات کا لفظ شادہ شدہ نیز آزاد عورت پر بھی بولا جاتا ہے جیسے اگلی آیت میں اور مائدہ آیت 5 میں اور پاکدامن پر جیسے محصنات غیر مسافحات اور مسلمان ہونے پر جیسے فاذا احصن (فتح القدیر) ف 6 یعنی جن مح اور کا اوپر ذکر ہوا ہے یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے جس کا ماننا تم پر لازم ہے۔ ( ابن کثیر 9 ف 3 بشرطیکہ حدیث میں ان کی حرمت نہ آئی ہو مثلا آنحضرت ﷺ نے کسی عورت کے ساتھ اس کی خالہ یا پھوپھی کے بیک وقت نکاح میں رکھنے سے منع فرمایا ہے۔ (ابن کثیر) ایسی ہی چند صورتیں اور بھی ہیں (وحیدی) ف 10 موضح میں ہے کہ ان مذکورہ محارم کے سوا سب حلال ہیں مگر چار شرطوں کے ساتھ اول یہ کہ طلب کرو یعنی دونوں طرف سے ربانی ایجاب وقبول ہو۔ دوسرے یہ کہ مال یعنی مہر دینا قبول کرو تیسرے یہ کہ ان عورتوں کو قید (دائمی قبضہ) میں لانا غرض ہو ) ( صرف) مستی نکا لنے کی غرض نہ ہو۔ جیسے زنا میں ہوتا ہے) یعنی وہ عورت اس مرد کی بندی ہوجائے چھوڑے بغیر نہ چھوٹے یعنی کسی مہینے یا برس (مدت) کا ذکر نہ آوے اس سے معلوم ہوا کہ متعہ حرام ہے اور حلالہ بھی کیونکہ اس میں بھی جماع کے بعد طلاق کی نیت ہوتی ہے چوتھی یہ کہ چھپی یاری نہ ہو یعنی لوگ نکاح کے شاہد ہوں کم سے کم دو مرد یا ایک مرد اور دوعورتیں یہی شرط اربعہ اس آیت سے مفہوم ہوتی ہیں ،(م۔ ع) ف 5 یعنی نکاح کے بعد جن عورتوں سے صحبت کرو ان کے پورے مہران کے حوالے کردو۔ اکثر مفسرین سلف وخلف نے یہی معنی ج کئے ہیں کہ استمتاع سے نکاح کے بعد صحبت مراد ہے رافضیوں نے اس سے متعہ کو جواز ثابت کیا ہے مگر علمائے سنت بالا جماع اس کو حرمت کے قائل ہیں ہجرت کے ابتدائی برسوں میں بیشک آنحضرت ﷺ نے اس آیت کی روسے نہیں بلکہ) بعض مواقع پر حسب ضرورت متعہ کی اجازت دی اور یہ اجازت جاہلی عرف کی بنا پر تھی جسے دلیل استصحاب کہا جاتا ہے مگر بعد میں اس کی حرمت کا اعلان کردیا خصوصا حجتہ الوداع کے خطبہ میں آنحضرتﷺ نے یا یھا الناس انی کنت اذنت لکم فی الا ستمتاع من النسا و وان اللہ حرم ذالک الی یوم القیامتہ کے اے لوگو میں نے تمہیں عورتوں سے نکاح متعہ کی اجازت دی تھی اب اللہ تعالیٰ نے اسے قیامت تک کے لیے حرام کردیا ہے بعض طرق میں حضرت ابن عباس (رض) کی طرف اس کی حلت کی نسبت مروی ہے مگر انہوں نے اس سے رجوع کرلیا تھا۔ ( ابن کثیر۔ معالم ) النسآء
25 ف 6 یعنی اگر خاوند بیوی باہمی رضامندی ہے طے شدہ مہر میں کمی پیشی کرلیں تو کچھ حرج نہیں ہے۔ ( ابن کثیر) ف 7 یعنی اگر کسی شخص کی مالی حالت اس امر کیا اجازت نہیں دیتی کہ آزاد مسلمان عورت سے نکاح کرے تو کسی دوسرے مسلمان کی لو نڈی سے نکاح کرلے بشرطیکہ وہ لونڈی مسلمان ہو کسی شخص کو اپنی لو نڈی سے نکاح کرنے اجازت نہیں ہے مگر یہ کہ اسے آزاد کر دے اور پھر اس سے نکاح کرے۔ (فتح القدیر) ف 8 تم سب حضرت آدم ( علیہ السلام) کی اولاد ہو اور تمہاری ملت بھی ایک ہے پھر محضر لو نڈی ہونے کی وجہ سے اس سے نکاح ترددنہ کرو (شوکانی) ف 9 یعنی جیساکہ آزاد مسلمان عورت سے نکاح کے لیے ولی (سرپرست) کی اجا زت ضروری ہے اسی طرح لونڈی سے نکاح کے لیے بھی اس کے مالک کی جازت ضروری ہے۔، ف 10 اجو رھن کے لفظ سے بعض نے سمجھا ہے کہ مہر لونڈی کا حق ہے لیکن اکثر علمائے سلف کے نزدیک یہ مہر لو نڈی کے مالک کا ہوگا ان کی طرف اجور کی اضافت مجازی ہے۔ (فتح القدیر) ف 11 چھپی یاری منع فرمایا تو نکاح میں شاہد لازم ہوئے (موضح) ف 12 یعنی آزاد مسلمان مرد یا عورت زنا کرے تو اس کی سزا سو کوڑے یا سنگسار ہے لین سنگساری کی تضیف نہیں ہو سکتی اس لیے علما نے لکھا ہے کہ یہاں نصف عذاب سے مراد پچاس کوڑے ہیں مگر جب لونڈی شادی شدہ نہ ہو تو اس پر تعزیر ہے حد نہیں ہے۔ ف 13 مذکورہ شر طوں کے لونڈی سے نکاح صرف اسی صورت میں جائز ہے جب بد کاری میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہو۔ ف 14 اس سے اکثر علما نے استدلال کیا ہے کہ لو نڈی سے نکاح نہ کرنا ہی بہتر ہے کیونکہ ایسی منکوحہ لونڈی کی اولاد بھی اس کے مالک کی غلامی ہوتی ہے (ابن کثیر ) النسآء
26 النسآء
27 ف 1 یعنی اللہ تعالیٰ اپنے احکام اس لیے بیان فرمارہا ہے کہ تم کو حلال وحرام کا پتا چل جائے اور پہلے لوگوں کے عہدہ طریق کی ہدایت ہوجائے پہلے لوگوں سے مراد انبیا ( علیہ السلام) اور ان کی امتوں کے نیک لوگ ہیں۔ (ابن کثیر، شوکانی) ف 2 یعنی شہوت پر ستوں کے کہنے میں نہ آو مراد یہود و نصاریٰ یا مجوسی ہیں جو محارم کے ساتھ بھی نکاح جائز سمجھتے تھے ،۔ (رازی قرطبی ) النسآء
28 ف 3 یعنی اللہ تعالیٰ کو انسان کی کمزوری کا خوب علم ہے اس لیے احکام شریعت میں اس کی سہولت کا خیال رکھا گیا ہے اور دن میں سختی نہیں برتی گئی۔ حدیث میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا میں تمہارے پاس نہایت آسان حنفیفی شریعت لے کر آیا ہوں۔ (رازی، شوکانی ) النسآء
29 ف 4 نفوس کے احکام کے بعد اب اموا میں اتصرف کے احکام کا بیان ہے۔ (رازی) کسب معاش کے جتنے ناجائز ذریعے ہیں سب بالباطل میں ّآجاتے ہیں حتی کہ حیلہ سازی کے ساتھ کسی کا مال کھانا بھی حرام ہے ارواپنے مال کو غلط طریقوں سے اڑنا بھی اسی میں داخل ہے (کبیر، ابن کثیر) ف 5 ہاں تجارت کے ذریعہ جس میں پورے طور پر رضا مندی ہو کما و اور کھا و پورے طور پر رضا مندی میں یہ چیز بھی داخل ہے کہ جب تک بائع اور مشتری اس مجلس میں بیع سے الگ نہ ہوں اس وقت تک ایک دوسرے کو بیع رد کرنے کا حق ہے۔ ( ابن کثیر شوکانی) ف 6 خود کشی حرام ہے۔ حدیث میں ہے کہ جس آلہ سے کو کہ انسان اپنے آپ کو قتل کرے گا دوزخ کے اندر اس آلہ سے اس کو عذاب پہنچا یا جائے گا۔ (ابن کثیر اور یہ معنی کئے گئے ہیں کہ معاصی اک ارتکاب کر کے اپنے آپ کو یا ایک دوسرے کو قتل نہ کرو (شوکانی ) النسآء
30 ف 7 ذٰ لک اشارہ قتل نفس کی طرف بھی ہو کھانے کی طرف بھی حضرت ابن عباد (رض) فرماتے ہیں کہ ابتائے سورت سے یہاں تک جتنے مناہی بیان ہوئے ہیں ان سب کی طرف اشارہ ہے۔ (ابن جریر، کبیر) ف 8 یہ انداز بیان تہدید میں مبالغہ پر دال ہے (کبیر) موضح میں ہے یعنی مغرور نہ ہوں کہ ہم مسلمان دوزخ میں کیونکر جاویں گے اللہ تعالیٰ پر یہ آسان ہے کبیرہ گناہ وہ ہے جن کے متعلق قرآن یا حدیث میں صاف طور پر دوزخ کی وعید آئی ہو یا اللہ تعالیٰ کے غصہ کا اظہار ہو یا شریعت میں اس پر حد مقرر فرمائی گئی ہو اور سیئات وہ گنا ہیں جن سے صرف منع کیا گیا ہو اور ان پر وعید وارد نہ ہوئی ہو۔ (کبیر۔ ابن کثیر ) النسآء
31 ف 10 یعنی اگر تم کبا ئر سے اجتناب کرتے رہو گے تو صغیرہ گناہ تمہارے تمہارے نیک اعمال کی وجہ سے ہم معاف کردیں گے بعض روایات کبائر کا شمار بھی آیا ہے مثلا اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا کسی جان کو ناحق قتل کرنا قمار بازی شراب خوای پاک دامن عورتوں پر تہمت لگا نا وغیرہ مگر ان کی کوئی تہدید نہیں ہے اس لیے حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ من اسبع الی السبعین بل الی سبعما ئتہ (رازی) اور روایات میں ہے کہ اصرار کے ساتھ کوئی گناہ صغیرہ نہیں ہے اور تو بہ کے بعد کوئی کبیرہ نہیں ہے۔ (قرطبی کبیر) ف 11 یعنی بہشت میں ( وحیدی) النسآء
32 ف 1 یعنی یہ نہ کہو کہ کاش یہ درجہ یا مال مجھے مل جائے یہ حسد ہے اور احادیث میں اس کی مذمت آئی ہے حضرت ام سلمہ (رض) نے نبی ﷺ سے دریافت کیا کہ مرد لوگ جہاد کرتے ہیں اور شہادت کے مراتب حاصل کرلیتے ہیں اور ہم اس سے محروم ہیں۔ اس پر یہ ّ آیت نازل ہوئی۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے ہاں تقرب نیک اعمال سے ہے مرد کو محض مرد ہونے کی وجہ سے خورت پر عمل میں فضیلت نہیں ہے اور عورت محض عورت ہونے کی وجہ سے نیک عمل کے ثواب سے محروم نہیں تم بجائے کہ حسد کے اللہ تعالیٰ سے اس کا فضل چاہا کرو۔ (ابن کثیر۔ معالم ) النسآء
33 ف 2 جاہلیت میں دوشخص آپس میں عقد مولاۃ باندھ لیتے جس کی روسے ایک دوسرے کی مدد کرتے اور ایک دوسرے کے وارث بھی ہوتے۔ ابتدا ہجرت میں ّآنحضرت ﷺ نے بھی مہاجرین (رض) اور انصار (رض) کے درمیان مواخاۃ کارشتہ قائم کیا تھا آیت میں والذین عقدت الخ سے اسی عہد کی طرف اشارہ ہے۔ اس عہد کی روسے وراثت کا حکم کے بعد میں سورت انفال کی آیت وَأُولُو الأرْحَامِ بَعْضُہُمْ أَوْلَی بِبَعْضٍ فِی کِتَابِ اللَّہِ (٧٥) سے منسوخ ہوگیا۔ آنحضرت ﷺ نے بھی اعلان فرمادیا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر صاحب حق کو اس کا حق دیدیا ہے اب آئندہ حلف سے وارث نہیں ہو سکتے آیت میں موالی سے مراد عصبہ میں اور عصہ کی وراثت لا قرب فالا قرب کا اصول مقرر ہے یعنی اول سب سے زیادہ قریبن ہوگا۔ اور اس پر علما کا اجماع بھی ہوچکا ہے لہذا صلبی لڑکے کی موجودگی میں پوتا وارث نہیں ہوسکتا ( دیکھئے فتح الباری ج 2 ص 294، انصار دبلی ٰ لمحلیٰ ج 9 ص 271، احکام جصاص ج 2 ص 224) النسآء
34 ف 3 شریعت نے خانگی شیرازہ بندی کے لیے مرد کو گھر کا قوام (نگران ذمہ دار) قرار دیا ہے اور عورت کو اس کے ما تحت رکھا ہے۔، قرآن نے اس کی دو وجہیں بیان کی ہیں ایک تو یہ کہ مرد کو طبعی طور پر امتیاز حاصل ہے کہ وہ منتظم بنے اور دسرے یہ کہ گھر کے سارے اخراجات بیوی کے نفقہ سمیت مرد کے ذمہ ہیں۔ اس بنا پر گھر کانگران بننے کا حق مردکو ہے عورت کو نہیں یہی حاْل حکومتی امور کا ہے کہ مسلمان کا امیر یا خلیفہ عورت نہیں ہوسکتی بلکہ ایک حدیث میں آنحضرت ﷺ نے اس کی مذمت فرمائی ہے۔ لن یغلح قوم ولوا امر ھم امئرۃ (کبیر۔ شوکانی) ف 4 اس آیت کی تشریح وہ حدیث کرتی ہے جس میں نبی ﷺ کا ارشاد ہے بہترین بیوی وہ ہے جسے اگر تم دیکھو تو تمہیں خوش کرے اگر تم اسے کسی بات کا حکم دے تو وہ تمہارے اطاعت کرے اور جب تم تھر میں نہ ہو تو تمہارے پیچھے وہ تمہارے مال کی اواپنے نفس کی حفاظت کرے (ابن کثیر ابن جریر بردایت ابو ہر یرہ) ف 5 یعنی اللہ تعالیٰ نے خاوندوں کو عورتوں کے ساتھ حسن معاشرت کا حکم دیکر کا حکم دیکر ان کے حقوق محفوظ کردیئے ہیں اس کے بدلے میں وہ خاوندوں کی غری حاضری میں ان کے مال اور عزت وآبرو کی حفاظت رکھتی ہیں۔ (کذافی شافی) یا یہ کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے موافق ان کے مال و عزت اور حقوق کے حفاظت کرتی ہیں اور خیا نت سے کام نہیں لیے تیں (کذافی الشوکانی ) ف 6 یعنی بآّخر اگر باز نہ آئیں تو انا کا چہرہ بجا کر تھوڑا سا مار سکتے ہو۔ ( شافی) آنحضرت ﷺ نے بعض ناگریز حالات میں ما رنے کی اجازت دی ہے مگر ساتھ ہی اسے ناپسند بھی فرمایا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کیا کوئی شخص اپنی بیوی کو اس طرح مارتا ہے جس طرح غلام کو ما را جاتا ہے پھر رات کو اس سے ہمبستری کرتا ہے ؟ اور کسی حالت میں ایسی مار پیٹ کی اجازت نہیں ہے جوجسم پر نشان چھوڑ یا جس سے کوئی ہڈی ٹوٹ جائے۔ (ابن کثیر ) النسآء
35 ف 7 دو حکم ّپنج) مقرر کرنے کا اختیار حاکم کو ہے اور یہ اس وقت ہے جب تعلقا زیادہ خراب ہوجائیں ارجدئی کا اندیشہ ہو اکثر علما کے نزدیک ان حکموں کو یہ بھی اختیار ہوگا کہ اگر وہ صلح کرانے میں ناکام رہیں تو میاں بیوی کے درمیان تفریق کا فیصلہ کردیں، تفسیر ابن کثیر میں ہے کہ اس پر علما کا اجماع ہے (ابن کثیر) ف 8 یعنی وہ دونوں حکم اگر نیک نیتی سے صلح کر انے کی کوشش کرینگے تو اللہ تعالیٰ ان کی کو شش میں برکت عطا فرمائے گا (ابن کثیر ) النسآء
36 ف 9 یعنی یہ ہیچ صورت ( ثنائی) اور اس کا ساجھی نہ بنا نا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی کر ہر چیز کا مالک کو مختار تسلیم کیا جائے اور اس کی کسی صفت میں کسی زندہ یا مردہ مخلوق کو شریک نہ قرار دیا جائے۔ تمام مرادیں اور حاجات اسی سے مانگی جائیں کہ وہی عالم میں متصرف ہے اور کوئی نہیں (م، ع) ف 10 توحید کا حکم دینے کے بعد درجہ رشتہ داروں اور دوسرے لوگوں کے حقوق بیان فرمائے ہیں۔ شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں : اول اللہ تعالیٰ ج کا پھر ماں باپ کا اور ان کا درجہ بدرجہ (موضح) صحیحین میں بردایت انس (رض)، آنحضرتﷺ کے ارشاد کا حاصل یہ ہے کہ رشتہ داروں سے حسن سلوک عمر میں برکت اور رزق میں فراخی کاسبب ہے۔ (ابن کثیر) ف 11 حدیث میں ہے آنحضرت ﷺ نے فرمایا میں اور یتیم کی پر ورش کرنے والا جنت میں اس طرح ہوں گے اور یہ فرماتے ہوئے آپﷺ انگشت شہادت اور بیچ کی انگلی اوپر اٹھا تے ہوئے اشارہ فرمایا۔ (صحیح بخاری) ف 12 صحیحین میں حضرت ابو ہر یر (رض) سے روایت ہے کہ ختاج کی ضرورت پوری کرنے والے کو جہاد کا ثواب ہوجاتا ہے۔ (ابن کثیر) ف 13 قریبی ہمسایہ سے مراد رشتہ دار ہمسایہ اور غیر ہمسایہ سے مراد غیر رشتہ دارہمسا یہ ہے ہمسائیگی کے حقوق کے نگہداشت متعدد چار حدیث میں وارد ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جبر ئیل مجھے ہمسایہ کے بارے میں اتنی وصیت کرتے رہے کہ میں نے خیال کی کہ شاید وہ اسے وارث قرار دید ینگے (بخاری مسلم بردایت ابن عمر) دوسری حدیث میں ہے کہ نبی ﷺ نے تین مرتبہ بتا کید فرمایا۔ اللہ کی قسم تم سے وہ شخص مومن نہیں ہوسکتا جس کا ہمسایہ اس کی شرارتوں سے امن نہیں پاتا۔ (صحیحین بردایت ابوہریرۃ) ف 1 پاس پیٹھنے والے سے مراد ہمنیشن دوست بھی ہوسکتا ہے اور سفر کا ساتھی بھی۔ ف 2 مسافر مراد اکثر سلف کے نزدیک مہمان بھی ہے۔ ارشاد نبوی ہے مسلمانوں کو چاہیے کہ عزت اور خاطر داری کریں۔ (ا، ت) ف 3 صحیح احادیث میں ہے کہ مرض الموت میں آنحضرت ﷺ اپنی امت کو نصحیت کرتے ہوئے باربار فرماتے الصلوۃ وما ملکت ایمانکم دیکھو دوچیزوں کا خیال رکھنا ایک نماز کا اور دوسرے لونڈی غلام کا (ابن کثیر) حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ آدمی کو اتنا ہی گناہ کافی ہے کہ وہ ان لوگوں سے اپنے ہاتھ کو روکے جن کی معاش کا وہ ذمہ دار ہے (مسلم ) النسآء
37 ف 4 اس آیت میں بخل کی مذمت کی گئی ہے اور بخیل کے لیے کافر کا لفظ استعمال کیا گیا ہے کیونکہ وہ بھی اللہ تعالیٰ کی نعمت کو چھپانے والا ہوتا ہے۔ بعض سلف نے اس آیت میں بخل کے لفظ کو یہود یوں کے بخل پر محمول کیا ہے جو آنحضرت ﷺ کی صفات اور علامات کو لوگوں سے چھپاتے تھے۔ (ابن کثیر ) النسآء
38 ف 5 بخیلوں کی مذمت کے بعد اب ریاکاروں سے خرچ کر نیوالوں کی مذمت کی جارہی ہے اور انہیں شیطان کا ساتھی قرار دیا گیا ہے حدیث میں ہے تین آدمیوں کو سب سے پہلے آگ میں جھو نکا جائے گا اور وہ ہیں ریاکر عالم۔ ریاکار مجاہد اور ریا کر سخی۔ (ابن کثیر) حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں : مال دینے میں بخل کرنا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک برا ہے ویسے ہی خلق کے دکھا نے کودینا۔ قبول وہ ہے جو حقداروں کو دے جن کا اول مذکور ہوا اور پھر خدا کے یقین اور آخرت کی تو قع سے دے (موضح) بخل اور ریاکاری کی مذمت کے بعد ایمان و طاعت اور صدقہ وخیرات کی ترغیب دلائی پھر مزید ترغیب کے لیے فرمایا جب ذرا ذرا اسی چیز کا اللہ تعالیٰ کئی گنا اجر دیتے ہیں پھر لوگ کیوں نیک کاموں میں سستی کرتے اور ریا کاری سے کام لیکر اپنے اجر کو ضائع کرتے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ قیامت کے دن ایک شخص کی تمام نیکیاں لوگوں کو دے دی جائینگی حتی ٰ کہ صرف ذرہ بھر نیکی اس کے پاس رہ جائیگی تو اللہ تعالیٰ اسے کئی گنا بڑھاکر اسے جنت میں داخل فرمادینگے پھر عبد اللہ بن مسعود یہ آیت پڑھ (قرطبہ ) النسآء
39 النسآء
40 النسآء
41 النسآء
42 ف 7 اوپر کی آیتوں میں قیامت کے دن ظلم کی نفی اور کئی گہا اجر کا وعدہ فرمایا اب یہاں بیان فرما جارہا ہے کہا اچھا یا برا بدلہ پیغمبر کی شہادت سے ملے گا جن کو اللہ تعالیٰ نے مخلوق پر حجت بنا کر بھیجا ہے۔ (کبیر) اس مقصود اکفار کو وعید سنانا ہے جو اس موقعہ پر آزاد کرنیگے کاش ہم آدمی نہ ہوتے اور زمین میں مل کر خاک ہوجاتے۔ دیکھئے سورت النبا : 40 بقرۃ : 143۔ (ابن کثیر) ف 8 کفارکے متعلق یہ بھی ہے کہ وہ اپنے شرک سے انکار کرینگے (الا نعام :23) مگر یہ آیت اس کے خلاف نہیں ہے کہ انکار کے بعد جب ان کے ہاتھ پاوں ان کے خلاف گواہی دینگے۔ ( سورت فصٰلت آیت :21۔23) تو پھر اللہ تعالیٰ سے کوئی بات نہیں چھپا سکیں گے . اور علما نے یہ بھی لکھا ہے کہ قیامت کے دن بہت سے مواقع ہو نگے، کسی موقع پر وہ انکا کرے گے اور دسرے موقع پر اپنے شرک اور بدا عمالی پر افسوس کرینگے۔ (دیکھئے سورت الا نعام : کبیر۔ ابن کثیر ) النسآء
43 ف 1 شراب کی مذمت اور قباحت کے سلسلے میں سب سے پہلے سورت بقرۃ کی آیت 219 نازل ہوئی جس میں شراب کو مضرت رساں قرار دیا ہے۔ اس پر بہت سے مسلمانوں نے شراب چھوڑدی۔ تاہم بعض لوگ بدستور پیتے رہے۔ اس اثنا میں ایک صحابی نشے کی حالت میں نماز کے لیے کھڑے ہوئے تو سورت کافرون میں لاعبد کی بجائے اعبد پڑھا جس آیت کے معنی کچھ کے کچھ ہوگئے اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور لوگوں نے نماز کے اوقات شراب تر کردی تآنکہ سورت مائدہ کی آیت 90۔91 نازل ہوئی جس سے شراب قطعی طور پر حرام کردی گئی (ابن کثیر) بعض علما نے یہاں وانتم سکا دی (جمع سکران سے نیند کا غلبہ مراد لیا ہے اور اس کے مناسب صحیح بخاری کی وہ حدیث ذکر کردی جس میں ہے کہ رسول ﷺ نے نیند کی حالت میں نماز سے منع فرمایا کہ معلو نہیں کیا پڑھے اور کیا پڑھے مگر صیح یہ ہے کہ اس سے نشہ شراب مراد ہے۔ یہی قول جمہور صحابہ (رض) و تابعین کا ہے اور تمام مفسرین اس پر متفق ہیں کہ یہ آیت شراب نوشی کے بارے میں نازل ہوئی ہے (کبیر۔ ابن کثیر) ف 2 مگر راہ چلتے ہوئے یعنی سفر میں کہ اس کا ذکر آگے آتا ہے۔ (موضح) لیکن اس تفسیر کی بنا پر سفر کے ذکر میں تکرار لازم آتی ہے۔ بنا بریں اکثر سلف (رح) نے اس کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ جنا بت کی حالت میں الصلوٰۃ یعنی مواضح صلوٰۃ (مسجدوں) میں نہ جا و ہاں اگر امسجد سے گزرنا پڑے تو اضطراری صورت میں گزر سکتے ہو (ٹھہر نہیں سکتے) ابن کثیر نے اس کو راجح قرر دیا ہے پس یہاں مضاف مخذوف ہے ای لاتھتر بو اموا ضع الصلوٰۃ (جامع البیان ،۔ ابن جریر) اور یہی جمہور علما کا مسلک ہے کہ جنبی یا حا ئضہ کے لیے مردر جائز ہے ٹھہرنا جائز نہیں ہے جیسا آنحضرت ﷺ نے فرمایا میں جنبی اور حائضہ عورت کے لیے مسجد کو حلال نہیں کرتا۔ ائمہ ثلاثہ کا یہی مسلکے مگر امام احمد جنبل وضو کے بعد جنبی کے لیے مسجد میں ٹھہرنا جائز قرار دیتے ہیں اور ان کی دلیل یہ ہے کہ صحابہ کرام کا یہی عمل تھا (ابن کثیر بحوالہ سنن سعید منصور) مستند روایتوں میں ہے کہ بعض صحابہ (رض) کے گھر مسجدکی طرف اس طرح کھلتے تھے کہ بغیر مسجد سے گزرے وہ مسجد سے باہر نہیں آسکتے تھے اور گھروں میں غسل کے لیے پانی نہیں ہوتا تھا۔ جنا بت کی حالت میں مرور ان پر شاق گزرتا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (ابن کثیر) ف 3 سفر سے مراد مطلق ہے، اکثر علما کے نزدیک مسافت قعر شرط میں اور جائے ضرور سے لوٹے کے تحت ہر وہ چیز آجاتی ہے جس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے عورتوں کی چھونے سے مراد راجح مسلک کو بنا پر جماع ہے ورنہ مطلق چھونا نا قض وضو نہیں ہے چنانچہ حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ میں گھر میں لیٹی ہوتی ّآنحضرت ﷺ نفلی نماز پڑتھے تو سجدہ کی وقت اپنے ہاتھوں سے میرے سامنے سے ہٹادیتے (صیحین) فعیدا فیبا سے مراد پاک مٹی ہے مطلق جنس ارض نہیں ہے کیونکہ حدیث میں ہے وجعلت تربتھا لنا طھور کہ زمین کی مٹی خاص طور پر ہمارے سے سحہو بنائی گئی (ابن کثیر) ف 4 تیمم کے سلسلہ میں بعض احادیث میں ہے کہ مٹی پر دو مرتبہ ہاتھ مارے پہلی مرتبہ اس سے چہرے کا مسح کرے اور دوسری مرتبہ کہنیوں تک ہاتھوں کا مگر ان دو ضرب والی روایات میں ضعف پایا جاتا ہے صحیح ترین روایت حضرت عمار (رض) کی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا التیمم ضربتہ للوجہ والکفین کہ تیمم کے لیے صرف ایک مرتبہ مٹی پر ہاتھ مارا جائے اور پھر پھر چہرے اور کلائی تک ہاتھوں پر مسح کرلیا جائے۔ امام مالک (رح) امام احمد (رح) اور محدثین اس مسلک کے قائل ہیں النسآء
44 ف 5 یعنی یہود خود گمرہ ہیں اور تم کو بھی بہکانا چاہتے ہیں (ابن کثیر ) النسآء
45 النسآء
46 ف 6 اوپر کی آیت میں بیان فرمایا ہے کہ وہ گمراہی مول لیتے ہیں اب اس آیت میں چند امور کے ساتھ اس گمراہی کی تشریح فرمائی اور ان کلو توا نصیبامن الکتاب اس لیے فرمایا کہ انہوں نے توراۃ میں موسیٰ ٰ ( علیہ السلام) کی نبوت تو معلوم کرلی مگر آنحضرت ﷺ کی نبوت کا ادراک نہ کر سے (کبیر) یعنی تورات کے احکام میں تحریف کرتے ہیں یعنی تورات کے احکام میں تحریف کرتے ہیں (دیکھئے سورت مائدہ :13۔41) سورت مائدہ میں من بعد مواضعہ ہے یعنی تحریف لفظی کرتے ہیں اور ان الفاظ کو تورات سے نکال ڈالتے ہیں مثلا یہاں عن مواضعہ سے مراد تحریف معنوی ہے یعنی تاویلات فسدہ سے کام لتیے ہیں مگر حضرت ابراہیم کی اپنے اکلوتے بیٹے کی قربانی کہ یہاں اکلوتے بیٹے کی بجائے حضرت اسحق ( علیہ السلام) کو بنا دیا ہے۔ (کبیر۔ شوکانی) ہمارے زما میں بھی تمام بدعتیوں کا شیوہ ہ ہویا ہے کہ جو آیت یا حدیث امام مجتہد یا پیر ومرشد کے قول کے خلاف نظر آتی ہے اس کی تا ویل کرتے ہیں اور خدا اور رسول ﷺ سے نہیں شرماتے کہ پیر و مرشد اور امام معصوم نہ تھے بخلاف پیغمبر ﷺ کے کہ ان سے خطا نہیں ہو سکتی (وحیدی) ف 7 یعنی زبان کو توڑ مروڑ کے راعینا کہتے ہیں جو کلمہ ششم ہے (دیکھئے سورۃ بقرہ آیت 104 ان کی ایک گمراہی یہ بھی ہے کہ جب آنحضرت ﷺ سے کوئی حکم سنتے ہیں تو بظاہر سمعنا کہتے ہیں مگر ساتھ ہی فرط عناد کی بنا پر عصینا (نہ مانا) بھی کہہ دیتے ہیں اسی طرح آنحضرت ﷺ کو خطاب کرتے تو کہتے سنو تم کو کوئی نہ سنائے ظاہر میں یہ نیک دعا ہے کہ تم ہمیشہ غالب رہو کوئی تم کو بری بات نہ سنا سکے اور دل میں نیت رکھتے کہ توبہرا ہوجائے ایسی شرارت کرتے (کبیر، ابن کثیر) ف 8 یعنی یہ سب حرکتیں کر رہے ہیں اور پھر دین میں طعن کی غرض سے کہتے ہیں کہ اگر یہ شخص نبی ہوتا توہمارا فریب معلوم کرلیتا اس پر اللہ تعالیٰ نے ان کے خبث کو ظاہر فرمادیا ہے اور وہی طعن الٹا آنحضرت ﷺ کی صدق نبوت کے لیے دلیل قاطع بن گیا۔ (کبیر۔، ف 9 یعنی اگر یہ اس قسم کی حرکات اور طعن کی بجائے ایسے کلمات استعمال کرتے ہیں جن میں شرارت کی آمیزش نہیں ہوسکتی اور اخلاص سے پیش آتے مثلا عصینا کی بجائے اطعنا کہتے اور غیر مسمع کی بجائے انظونا تو ان کے حق میں بہتر ہوتامگر افسوس ہے کہ یہ بہت ہی تھوڑے احکام پر ایمان رکھتے ہیں پس قلیلا یہاں مصدر معخدوف ایمانا کی صفت ہے۔ النسآء
47 ف 1 کی شرارتوں کو بیان کرنے بعد اب اس آیت میں ان کو ایمان کی دعوت دی اور ہٹ دھرمی کی بنا پر احکام خداوندی بجا نہ لانے پر وعید سنائی کیونکہ یہود عالم تھے اور علم ومعروف کے باوجود ہٹ دھرمی سے کام لے رہے تھے ( ْ کبیر) اس وعید کا تعلق یا تو قیامت کے کے دن سے ہے یا دنیا میں چہروں کو مسخ کردینا مراد ہے اور اصحاب سبت جیسی لعنت سے مراد یہ ہے کہ جس طرح ان کو بندر خنزیر منادیا تھا تمہیں ویسا ہے بنا دیا جائے۔ اصحاب سبت کے قصہ کے لیے دیکھئے سورت اعراف آیت 163) النسآء
48 ف 2 یہود کو تہدید وعید فرمانے کے بعد اس آیت میں اشارہ فرمایا کہ یہ تہدید شرک وکفر کی وجہ سے ہے ورنہ دوسرے گناہ تو قابل عفو ومغفرت ہی اور اللہ تعالیٰ کی مشیت کے تحت ہیں جسے چاہے اللہ تعالیٰ معاف فرماسکتے ہیں (کبیر) یہود نصاریٰ کی طرح نام کے مسلمان جو شرک میں گرفتار ہیں اولیا اللہ کے نام کا روزہ رکھتے ہیں ان کی قبروں کو پو جتے ہیں ان کے نام پر جا نور کا ٹتے اور اسکی منتیں مانتے ہیں اٹھتے بیٹھتے ان کو پکار تے ہیں وہ بھی مشرکوں کے حکم میں آتے ہیں (وحیدٰ ف 3 یعنی ناقابل عفو گناہ کا ارتکاب کیا۔ (مزید دیکھئے سورت لقمان 130) النسآء
49 ف 4 فتیل دراصل اس پتلے سے دھاگے کو کہتے ہیں جو کھجور کی کٹھلی کے کٹاو پر نظرآتا ہے۔ یہ محاورہ ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ ان پر ذرہ ومعصوم سمجھتے اور اللہ تعالیٰ کے بیٹے اور محبوب ہونے کا دعویٰ کرتے۔ ان کی تردید فرمائی کہ کسی کو پاکباز انسان قرار دینا تو اللہ تعالیٰ کا کام ہے اپنی طرف آپ کرنا انسان کے لیے مہلک ہے حدیث میں ایاکم واتما دح فانہ الذحج کہ خود پسندی اور اپنی تعریف سے بچو یہ تو اپنے آپ کو ذبح کرنے دینے کے مترادف ہے۔ نیز حضرت عمر (رض) سے مروی ہے وہ اپنی ہی رائے کو پسند کرنا ہے۔ (ابن کثیر ) النسآء
50 النسآء
51 ف 5 الجبت بت کو کہتے ہیں اور جادوگر کاہن ٹونے ٹوٹکے اور اس قسم کی سب چیزیں الجبت میں داخل ہیں۔ حدیث میں ہے اطیر ۃ والعیافتہ والطرق من الجبت شگون لینا پرندوں کو اڑاکر اور زمین پر لکیریں کھینچ کرفال گری کرنا جنت میں شامل ہیں اور الطاغوت سے مراد شیطان ہے اور ہر وہ شخص معاصی کی دعوت دے اس پر یہ لفظ بولا جاتا ہے۔ عرب میں بتوں کے ترجمان ہوتے تھے جو ان کی زبان سے جھوٹ نقل کرتے اور لوگوں کو گمراہ کرتے ان کو طاغوت کہا جاتا تھا (کبیر) ف 6 یہودیوں کی آنحضرتﷺ سے مخالفت ہوئی تو انہوں نے مشرکین مکہ سے رابطہ قائم کرلیا اور ان سے کہنے لگے کہ تمہارا دین مسلمانوں سے بہتر ہے۔ یہ سب کچھ اس حسد کی وجہ سے تھا کہ نبوت اور ریاست دینی ہمارے سوا دوسروں کو کیوں مل گئی۔ اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں ان کو الزام دیا۔ تفسیر معالم میں ہے کہ یہ یہود کعب بن اشرف تھے جو غزوہ احد کے بعد مکہ مکرمہ گئے اور مشرکین کو اپنے ساتھ ملانے کے لیے ان کے بتوں کو بھی سجدہ کرگزرے۔ النسآء
52 النسآء
53 ف 7 اوپر کی آیت میں یہود کو جہالت بیان کی کہ وہ بتوں کی پوجا کو اللہ تعالیٰ کی عبادت پر ترجیح دیتے ہیں اس آیت میں ان کے بخل اور حسد کو بیان فرمایا ہے (کبیر) بخل تو یہ ہے کہ نعمت اللہ تعالیٰ نے کسی کودی ہو دوسروں سے اسے روک لینا۔ اور حسد یہ ہے کہ یہ نعمت اللہ تعالیٰ نے دوسروں کودی ہے اس پر جلے بھنے اور آرزو کرے کہ اس سے چھین جائے اور مجھے مل جائے پس حسد اور بخل دونوں میں یہ بات قدر مشترک ہے کہ دوسروں سے نعمت کو رکنا اور یہ گوارا نہ کرنا کہ اپنی ذات کے سوا دوسروں کو بھی فائدہ پہنچے (کبیر، قرطبی) یہود میں یہ دونوں صفتیں اتم اور اکمل طوپر پائی جاتی تیں۔ قرآن نے یہ بتایا کہ یہ مسلمان پر حسد کرتے ہیں اور ان کے بخل کا یہ حال ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کے ملک وسلطنت میں ان کو اختیار ہوتا تو کسی کو تل برابر بھی کچھ نہ دتیے نقیر دراصل اس نقطہ کر کہتے ہیں جو گٹھلی کی پشست پر ہوتا ہے اور یہ قلت ضرب المثل ہے۔ النسآء
54 ف 1 مطلب یہ ہے کہ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کے بیٹے اسحاق ( علیہ السلام) کی اولاد میں مدت دراز تک نبوت اور بادشاہی رہی اور حضرت داود ( علیہ السلام)، حضرت سلیمان ( علیہ السلام) اور دوسرے اولو العزم پیغمبر ہو گزرے ہیں۔۔ اب بنو اسمعیل ( علیہ السلام) میں سے آنحضرتﷺکو نبوت ورسالت سے سرفراز فرمادیا گیا ہے تو یہ کیوں حسد کررہے ہیں۔ یہاں من فضلہ سے مراد نبوت اور دین دنیا کی وہ عزت مراد ہے جو نبوت کی برکت سے حاصل ہوئی الکتاب سے مراد کتاب الہیٰ ادر الحمت سے اس کا فہم اور اس پر عمل مراد ہے اور ملک عظیم سے مراد سلطنت اور غلبہ وقتدار ہے۔ (رازی۔ ابن کثیر ) النسآء
55 النسآء
56 ف 2 اٰ من بہ میں بہ کی ضمیر ایتا کی طرف بھی راجع کرسکتی ہے جو اتینا سے مفہوم ہوتا ہے یعنی بعض تو اس ایتا انعام پر ایمان لے آئے اور بعض نے اعراض کیا اور لوگوں کو بھی روکنے کوشش کی، لہذآپ ﷺ نے ان کے کفر سے لگیر نہ ہوں (ابن کثیر) اور اگر اس ضمیر کا مرجع آنحضرت ﷺ کو مانا چائے تو معنی یہ ہوں گے کہ یہ سب کچھ دیکھ لینے کے باوجود یہود میں سے کچھ لوگ تو آنحضرتﷺ پر ایمان لانا چاہتے ہیں انہیں بھی روکنا چاہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی سزا کے لیے جہنم کافی ہے۔ ْ( فتح القدیر۔ کبیر) یہاں بتاکہ یہ سزا صرف اہل کتاب کے ایک گروہ کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ سب کفار کو ملے گی ،(کبیر) بدلناھم جود اغیر ھا سے اہل جہنم کے عذاب کی سختی بیان کرنی مقصود ہے بعض آثار و روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ دن میں سینگڑو مرتبہ چمڑوں کی یہ حالت تبدیل ہوگی اران کے چمڑے ستر گز مو ٹے ہوں گے اور ایک جہنمی کی ڈاڑھ احد کی مثل ہوگی۔ اس طرح ان کو دئمی عذاب ہوتا رہے گا ،(ابن کثیر۔ کبیر ) النسآء
57 ف 4 قرآن پاک میں عموما دندہ اور وعید کو ایک ساتھ بیان فرمایا گیا ہے اور اس اسلوب کی وجہ سے قرآن کو لتابا متشابھا فرمایا ہے اور وعظ تذکیر کایہ مئو ثر ترین انداز ہے۔ آیت سے بعض نو سمجھا ہے کہ عمل صالح ایمان کا غیر ہے کیونکہ یو دونوں عطف کے ساتھ مذکور ہیں مگر قرآن نے متعدد آیات میں عمل صالح پر زور دینے کے لیے عمل صالح کو الگ عطف سے ساتھ بیان کردیا ہے۔ ورنہ یہ بھی ایمان میں داخل ہے (ابن کثیر، شوکانی) آیت میں ظلا ظلیلا (گھنے سائے) نہایت درجہ کی راحت سے کنا یہ ہے۔ (کبیر) گھنے سائے تفسیر میں امام ابن جریر (رح) نے حضرت ابو ہریرہ (رض) کی یہ روایت نقل کی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جنت میں ایک درخت ہے جس کے سایہ میں سوار سو برس تک چلے گا پھر بھی اسے طے نہ کرسکے گا۔ وہ ہمیشگی کا درخت ہے۔ (ابن کثیر ) النسآء
58 ف 5 درمیان میں کفار کے احوال اور ان کے حق میں وعید کا ذکر آگیا تھا اب دوبارہ سلسلئہ احکام کا بیان شروع ہو رہا ہے۔ یہود امانت میں خیانت کرتے اور فیصلہ میں رشوت لے کر جوا کرتے۔ مسلمانوں کو ان باتوں سے دور رہنے کا حکم دیا۔ یہاں امانت سے مراد گو ہر قسم کی امانت ہے اس کا تعلق مذہب ودیا نت سے ہو یا دنیاوی معاملات سے لیکن یہود کتمان حق کر کے امانت علمی میں خیانت کے مرتکب تھے بعض روایات میں ہے کہ جب مکہ فتح ہوا تو رسول اللہ ﷺ نے عثمان بن طلحتہ بن ابی طلحتہ احجبی سے کعبی کی کنجی لے لی۔ اس پر جبرائیل نازل ہوئے اور کنجی واپس کردینے کا حکم دیا (ابن جریر) آیت میں ہر قسم کے ذمہ کو اس کے اہل کے سپر کرنے کا حکم دیا ہے نیز حکم دیا ہے کہ ہر قسم کے فیصلوں سے عدل وانصاف کو ملحوظ رکھا جائے صحیحین کی ایک روایت میں خیانت درامان کو نفاق کی ایک خصلت قرار دیا ہے۔ نیز آپﷺ کا ارشاد ہے کہ جب تک حاکم بے انصافی پر اتر آتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس سے اس کے حوالے کردیتا ہے اور ایک اثر میں ہے کہ ایک دن عدل کرنا جالیس سال کی عبادت بہتر ہے (ابن کثیر ) النسآء
59 ف 6 مو ضح کا ترجمہ اوفائدہ یہ ہے اولی الا مر اختیار والے باشاہ اور قاضی اور جو کسی کام پر مقرر ہو اس کے حکم پر چلنا ضروری ہے جبتک وہ خلاف خدا اور سول ﷺ حکم نہ کرے اگر صریح خلاف کرے تو وہ حکم نہ مانے ایک امیر کی اطاعت کے سلسلہ میں آپ ﷺ نے فرمایا انما الطاعتہ فی المعروف کہ امیر کی اطاعت صرف معروف یعنی نیکی میں ہے (ابن کثیر بحوالہ صحیحین) ف 7 اس آیت میں ایک نہایت اہم حکم دیا ہے یعنی باہمی نزاع کی صورت میں اللہ و رسول ﷺ کی طرف رجوع ہونا شرط ایمان ہے۔ اللہ تعالیٰ کی اطاعت تو قرآن کی اتباع ہے اور رسول ﷺ کی اطاعت ہے۔ آپﷺ کی زندگی کے بعد آپ ﷺ کی سنت کی اطاعت ہے اور یہ اطاعتیں مستقل ہیں اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن کی طرح رسول اللہ ﷺ کی حدیث بھی اسلامی قانون کا مستقل ماخذ ہے۔ حضرت نواب صاحب لکھتے ہیں۔ اس آیت سے مقلدین دلیل لیتے ہیں تقلید کے واجب ہونے پر لیکن یہ دلیل نہیں ہو سکتی اولی الا مر سے بادشاہ اور حکام مراد ہیں (دیکھئے فوائد موضح) لیکن اگر سلف (رح) سے یہ منقول ہے کہ علمائے دین مراد ہیں تو اس میں اول تو کسی عالم کی تخصیص نہیں ہے دوسرے ہر فرض تسلیم عالم کی تقلید کا حک اسی وقت تک ہے کہ اس کا حکم قرآن و حدیث کے موافق ہو پھر خود رائمہ اربعہ نے اپنی تقلید سے منع فرمایا ہے اور قرآن نے حکم دیا ہے کہ ائمہ (رح) کی اتباع میں جھگڑ اہو تو اللہ و رسول ﷺ کی طرف رجوع ہونا چاہیے (ترجمان) ف 1 اگر دو مسلمان جھگڑتے ہیں ایک نے کہا چل شرع کی طر رجوع کریں دوسرے نے کہا میں شرع کو (کچھ) نہیں سمجھتا یا مجھے شرع سے کام نہیں وہ بے شک کافرہوا (موضح) النسآء
60 ف 2 اوپر کی آیتوں میں تمام مسلمانوں پر واجب کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت کریں اب یہاں فرمایا کہ منافق ہمیشہ رسول ﷺ کی نافرمانی کرتے ہیں اور کبھی آنحضرت ﷺ کے فیصلے اور حکم پر راضی نہیں ہوتے (رازی) اس حد تک مفسرین متفق ہیں کہ یہ آیات منافقین کے بارے میں نازل ہوئی ہیں اور بظاہر ہر آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل کتاب میں سے کسی منا فق کے بارے میں نازل ہوئی ہیں تاہم اس کے تحت مختلف اسباب نزول مذکور ہیں (رازی) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ معتب ن قشیر اور رافع بن زید میں جھگڑا ہوگیا مسلمانوں نے ان سے کہا چلو نبی ﷺ سے فیصلہ کر اتے ہیں۔ انہوں نے جواب دیا کہ نہیں جابلی کاہنوں کے پاس چلتے ہیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی (فتح البیان) گو اس کے شان نزول خاص ہے مگر آیت میں ہر اس مسلمان کی مذمت ہے جو کتاب وسنت کو چھوڑ کر دوسرے باطل طریقے سے فیصلہ کروانے کی کو شش کرے اور اسی کا نام طاغوت ہے (ابن کثیر ) النسآء
61 النسآء
62 ف 3 آیت کا پہلا حصہ جملہ معترضہ ہے اور ثم جاعوت سے پہلی آیت کے ساتھ مربوط ہے ان آیات کی دوسری شان نزول یہ بھی بیان کی گئے ی ہے کہ مدینے میں ایک یہودی اور ایک مسلمان (منافق) کی کسی معاملہ میں نزاع ہوگئی یہو دی کو معلوم تھا کہ آنحضرت ﷺ حق فیصلہ کریں گے اور رعایت سے کام نہیں لیں گے اس لیے منافق سے کہا کہ چلو محمد ﷺ سے فیصلہ کرواتے ہیں منانفق کہا تم یہودیوں کے عالم رکعب بن اشرف کے پاس چلیں آخر دونوں آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے نبی اکرم ﷺ نے بیان سن کر یہودی کو سچاقرار دیا۔ منا فق نے باہر آکر کہا کہ اچھا اب عمر (رض) کے پاس چلیں یہ آنحضرت ﷺ کے حکم سے مدینے میں فیصلہ کرتے تھے۔ منافق نے غالبا یہ خیلا کیا ہوگا کہ حضرت عمر (رض) حمیت مذہبی کے باعث یہو دی کے مقابلے میں اس کی رعایت کریں گے چنانچہ وہ دونوں حضرت عمر (رض) کے پاس آئے یہودی نے سارا ماجرا کہہ سنایا کہ حضرت ﷺ کے پاس سے آئے ہیں اور انہوں نے مجھے سچا قرار دیا ہے حضرت عمر (رض) یہ سن کر گھر کے اندر تشریف لے گئے اور تلوار لاکر منافق کا سرقلم کردیا اور فرمایا جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا فیصلہ پسند نہ کر اس کے بارے میں میرا فیصلہ یہ ہے منا فق کے ورثا رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور حضرت عمر (رض) پر قتل کا دعویٰ کردیا اور قسمیں کھا نے لگے کہ حضرت عمر (رض) کے پاس تو اس لیے گئے تھے کہ شاید باہم صلح کرادیں رسول اللہ ﷺ نے فرمای کہ میں یہ یقین نہیں کرسکتا کہ عمر (رض) کسی مسلمان کو ناحق قتل کردیں اس پر یہ آیات نازل ہوئیں اور حضرت جبرائیل ( علیہ السلام) نے آنحضرت کو بتایا کہ عمر (رض) نے حق ارباطل کے درمیان فیصلہ کردیا ہے۔ چنانچہ اس روز سے آنحضرت ﷺ نے حضرت عمر (رض) کو فارق کا لقب عطا فرمایا۔ (قرطبی۔ (فتح الباری باب سکرلانہار) اختلاف الفاظ کے ساتھ یہ قصہ معالم اور ابن کثیر میں بھی مذکور ہے مگر ابن کثیر میں فاروقی کی وجہ تسمیہ والا حصہ ساقط ہے۔ ( م۔ ع) النسآء
63 ف 4 یعنی ان منافقوں کے دل کا چور اللہ تعالیٰ کو خوب معلوم ہے تم کو معلوم نہیں تم ان سے اپنا ظاہری معاملہ درگزر کارکھو اور ان کو دلپذیرنصیحت کرتے رہو شاید کسی کے دل میں کوئی بات اترجائے (ا، ت ) النسآء
64 ف 5 اطاعت رسول کی دوبارہ ترغیب دی ہے (رازی) یعنی اللہ کے رسول دنیا میں اس لیے آتے ہیں کہ جمیع امور میں اللہ تعالیٰ کی توفیق واعانت سے ان کی اطاعت کی جائے معلوم ہوا کہ ہر رسول صاحب شریعت ہوتا ہے۔ (ابن کثیر، رازی ) ف 6 جب ان لوگوں نے آنحضرت ﷺ کے فیصلے سے انحراف کر کے معصیت کا ارتکاب کیا ہے تو ان کو چاہئے تھا کہ بجائے حیلہ بازیوں اور سخن سازیوں کے اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرتے اور رسول اللہ ْْﷺ سے بھی اپنے لیے مغفرت کی دعا کر واتے اگر ایسا کرتے تو اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول فرماتا اور ان پر رحم کرتا (تنبیہ) اس جگہ حافظ ابن کثیر نے ایک بدوی کی حکایت نقل کردی ہے جس نے آنحضرت ﷺ کے روضئہ مبارک کے پاس آکر یہ آیت پڑھتے ہوئے کہا کہ یا حضرت ﷺ میں اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتا ہوں اور آپ ﷺ کو سفیع بناتا ہوں اس پر قبر انور کے پاس بیٹھنے والے ایک شخص نے کہا۔ خواب میں آنحضرت ﷺنے مجھ سے فرمایا ہے کہ اس بدوی کو بخش دیا گیا لیکن یہ ایک حکایت ہے جو آیت کی مناسبت سے درج کردی ہے یہ آیت کی تفسیر یا حدیث نہیں ہے الصارم المنکی (ص 238) میں لکھا ہے کہ اس حکایت کی سند نہایت کمزور ہے آیت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کی حیات مبارکہ میں آپﷺ سے دعائے مغفرت کرائی جاسکتی تھی مگر آپ ﷺ کی وفات کے بعد قبر مبارک سے استشفاع پر استدلال ککسی طرح صحیح نہیں ہے۔ (ترجمان نواب) النسآء
65 ف 1 اس آیت سے معلوم ہوا کہ آنحضرت ﷺ کے فیصلہ کے خلاف دل میں ذرہ بھر بھی تنگی اور باپسند ید گی محسوس کی جائے تو یہ ایمان کے منا فی چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کی خواہش نفس میرے لائے ہوئے طریقہ کے تابع نہ ہوجائے بعض نے کہا ہے کہ یہ ّآیت پہلے قصہ کے ساتھ ہی متعلق اور بعض نے لکھا ہے کہ حضرت زبیر (رض) اور ایک انصاری کے درمیان شراج حرۃ کے پانی کے بارے میں نزاع ہوگئی آنحضرت ﷺ نے حضرت زبیر (رض) سے رعایت کی سفارش کی اور فرمایا اپنے باغ کو پانی دے کر اپنے پڑوسی کے لیے چھوڑ دے اس پر انصاری نے کہا یہ اس لے کہ زبیر (رض) تمہارے پھوپھی زاد بھائی ہیں۔ مطلب یہ تھا کہ اس رشتے کی رعایت کی ہے اس پر آنحضرت ﷺ کو تکلیف محسوس ہوئی اور فرمایا کہ زبیر (رض) اپنے باغ کو اتنا پانی دو کہ دیوار تک چڑھ آئے پر اس کے لیے چھوڑ دو اس پر انصاری اور زیادہ تلملا یا اور یہ آیت نازل ہوئی (بخاری تفیسر و کتاب الشرب) معلوم ہے کہ آنحضرت ﷺ کا ہر فیصلہ تنقید ہے بالا ہے اور ہر حاکم وقت کے فیصلہ سے بلند ہے اور یہ اس لے کہ آپﷺ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں (م، ع) النسآء
66 ف 2 اس آیت کا تعلق بھی منافقین سے ہے اور اس میں ان کو اخلاص اور ترک نفاق کی ترغیب دی گئی ہے (رازی) یعنی چاہئے تو یہ کہ اللہ تعالیٰ کا حکم مانے میں جان سے بھی دریغ نہ کیا جائے (مگر یہ ایسے ہیں کہ) اگر کہیں ان کو اللہ تعالیٰ اپنی جانیں ہلاک کر ڈالنے یا اپنے گھر چھوڑ دینے کا حکم دے دیتا تو یہ اس کو کب بجالانے والے تھے جو حکم ہم نے انہیں دیئے ہیں وہ نہایت آسان اور محض ان کی خیر خواہی کے لیے ہیں نصیحت مانیں اور ان احکام پر چلیں نفاق جاتا رہے گا ایمان کامل نصیب ہوگا اس امر کو غنیمت سمجھیں۔ (از موضح) فائدہ اللہ تعالیٰ کے تمام احکام چونکہ وعدہ وعید اس لیے ان کو لفظ وعظ سے تعبیر فرمایا ہے (رازی) النسآء
67 النسآء
68 النسآء
69 ف 3 صدیق یہ صدق سے مبالغہ کا صیغہ ہے یعنی جو جملہ امور دین کی تصدیق کرنے ولا ہو اور کبھی کسی معاملہ میں خلجان اور رشک اس کے دل میں پیدا نہ ہو یا وہ جو رسول ﷺ کی تصدیق میں سبقت کرنے کی وجہ سے دوسرے کے لیے اسوۃ بنے اس اعتبار سے اس امت کے صدیق حضرت ابوبکر (رض) ہی ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) دوسرے افاضل صحابہ (رض) کے لیے نمومہ بنتے ہیں حضرت علی (رض) بھی اول مسلمانوں میں شمار ہوتے ہیں۔ مگر چھوٹے بچے ہونے کی وجہ سے دوسروں کے لیے نمونہ نہیں بن سکتے چونکہ نبی کے بعد صدیق کا درجہ ہے اس لیے علما اہل سنت کا اجماع ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق (رض) آنحضرت ﷺ کے بعد سب سے افضل ہیں شہدا یہ شہید کی جمع ہے اس سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے راستہ میں جان دی اور امت محمد ﷺ کے بھی شہدا ہونے کا شرف حاصل ہے اور صالحین سے مراد وہ لوگ ہیں جو عقیدہ وعمل کے اعتبار سے ہر قسم کے فساد سے محفوظ رہے۔ ( رازی) مجموعہ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ صحابہ (رض) کے دل میں استیاق پیدا ہوا کہ جنت میں آنحضرت ﷺ کی رفاقت حاصل ہوجائے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی صحیح مسلم میں ربیعہ بن کعب سلمی ٰ (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے آنحضرتﷺ سے درخواست کی کہ جنت میں آپﷺ کا ساتھ نصیب ہو آپ ﷺ نے فرمایا : کثرت سجود (کثرت نوافل) سے میری مدد کرو ترمذی کی ایک حدیث میں ہے التاجر الصدوق الامین لنبتین والصد یقین والشدآ کہ امانتدار اور سچ بولنے والا تاجر قیامت کے دن انبیا اور شہدا کے ساتھ ہوگا (ابن کثیر۔ رازی) النسآء
70 ف 4 یعنی اطاعت واخلاص پر رفاقت کا درجہ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا فضل وکرم ہے اور لوگوں کی حالت معلوم ہے (رازی) اوپر کی آیات میں اللہ تعالیٰ اور اسکے رسول ﷺ کی اطاعت کا حکم فرمایا اور اس کی ترغیب کے سلسلہ میں یہ بھی بتایا کہ اطاعت سے انبیا صدیقین شہدا اور صالحین کی رفاقت حاصل ہوگی اب اس آیت میں جہاد کا حکم فرمایا ہے جو سب سے مشکل طاعت ہے اور منافقین کے بارے میں محتاط رہنے کا حکم دیا ہے۔ (رازی ) النسآء
71 النسآء
72 النسآء
73 ف 1 مراد منافقین ہیں اور ان کو ظاہری اختلاط اعتبار سے منکم کہہ دیا ہے مگر مفسرین کی ایک جماعت سے منقول ہے کہ ان سے مراد ضعیف الا یمان ہیں پس منکم اپنے معنوں میں ہے۔ (رازی) یعنی ان کو تمہاری فتح کی خوشی ہے ارونہ تمہیں نقصان پہنچنے کا غم انہیں تو صرف مطلب سے مطلب ہے۔ فتح اوشکست دونوں حالتوں میں اس قسم کا وطیرہ اختیار کرتے ہیں کہ جیسے بالکل اجنبی ہوتے ہیں اور تمہارے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے پر آیت کان لم تکن بینکم وبینہ مودۃ جملہ معترضہ ہے اور یا لیتنی الخ لیقولن کا مقولہ ہے (رازی ) اوپر کی آیتوں میں جہاد سے مبطین اور پیچھے رہنے والے اور دوسروں کو روکنے ولے) کی مذمت کے بعد اب مخلصین کو ترغیب دی جارہی ہے (رازی) شریٰ یشری کے معنی بیچنا اور خرید نا دونوں آتے ہیں یہاں ترجمہ بیچنا کا کیا گیا ہے اور اکثر مفسرین نے اسی کو ترجیح دی ہے لیکن اگر اسے خرید نے کے معنی میں لیا جائے تو ّآیت کا مطلب یہ ہوگا کہ جو منافق گھر میں بیٹھے رہنے کی وجہ سے آخرت کے بدلے دنیا خرید کر رہے ہیں ان کو چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کو نکلیں۔ (فتح القدیر۔ ابن جریر) ف النسآء
74 3 یعنی مسلمانوں کو چاہیے کہ زندگی دنیا پر نظر نہ رکھیں آخرت چاہیں اور سمجھیں کہ اللہ تعالیٰ کے حکم میں ہر طرح نفع ہے (موضح) مطلب یہ کہ اللہ تعالیٰ کی راہ جنگ کے دو ہی نتیجے ہو سکتے ہیں یعنی شہادت یا فتحمندی اور دونوں مسلمان کے حق میں خوش کن ہیں کیونکہ دونوں ہی میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اجر عظیم کا وعدہ ہے۔ حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مخلص مجاہدین کے لیے دوچیزوں میں سے ایک کی ضمانت دی ہے اگر شہید ہوجائے تو سے جنت میں داخل کرے گا اور زندہ واپس آئے تو اجر وغنیمت کے ساتھ واپس آئے گا (قرطبی) النسآء
75 ف 4 اس کا تعلق بھی ترغیب جہاد سے ہے یعنی دو وجوہ کی بنا پر تمہیں کفار سے لڑنا ضروری ہے اول اعلائے کلمتہ اللہ یعنی اللہ تعالیٰ کے دین کی سربلندی کے لیے دوم ان مظلوم مسلمانوں کے نجات دلانے کے لیے جو کفار کے چنگل میں بے بس پڑئے ہیں (قرطبی) مکہ معظمہ میں بہت سے ایسے لوگ رہ گئے تھے جو آنحضرت ﷺ کے ساتھ ہجرت نہ کرسکے تھے اور ان کے تعارب ان پر تشدد کرنے لگے تھے نانہ اسلام سے پھیر کر ان کو پھر سے کافر بنا لیں پس القریتہ الظالم اھلھا سے مکہ مراد ہے۔ اور مشرک ہونے کی وجہ سے یا مظلوم مسلمانوں کی ستانے کی وجہ سے اس کے باشندوں کو ظالم فرمایا ہے حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ میں اور میر والدہ بھی ان بے بس مسلما نوں شامل تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے معذور قرار دیا ہے (رازی۔ ابن کثیر) مدینہ میں آنحضرت ﷺ ان مستضعفین کے حق میں نام لے لیکر دعا فرمایا کرتے تھے اللھم انج الوالید بن الولید وسلمتہ بن ھشام وعیاش بن ابی ربعیہ والمستضعفین من المو منین۔ یا اللہ ولید بن ولید بن ہشام، عیاش، بن ابی ربیعہ اور مکہ میں گھرے ہوئے دوسرے بے بس مسلمانوں کو رہائی دلا (بخاری ) النسآء
76 ف 5 جہاد کی فرضیت اور ترغیب کے بعد اس آیت میں بتایا کہ جہاد کی ظاہر صورت کا عتبار نہیں ہے بلکہ جہاد اپنے مقصد کے اعتبار سے جہاد ہے۔ مومن ہمیشہ اعلا کلمتہ اللہ کے لیے جہاد کرتا ہے اور کافر کسی طاغوتی طاقت کو بچانے یا مضبوط کرنے کے لیے لڑتے ہیں لہذاتم ان سے خوب لڑو شیطان خواہ اپنے دوستوں کے کتنے ہی مکر وفریب سمجھا دے مگر تمہارے خلاف و کامیابی نہیں ہو سکتی (رازی) النسآء
77 ف 1 یعنی جب تک مسلمان مکے میں تھے اور کافر ایذا دیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو لڑنے سے روکے رکھا اور صبر کا حکم دیا فرمایا اب جو (مدینہ منورہ) میں لڑائی کا حکم آیا ہے تو ان کو سمجھنا چاہیے کہ ہماری مراد ملی لیکن کچے مسلمان کنارہ کرتے رہیں اور موت سے ڈرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے برابر آدمیوں سے خطرہ کرتے ہیں۔ (موضح) روایات میں ہے مسلمانوں نے مکی زندگی میں کئی دفعہ چاہا کہ ظالموں سے دو بدو نمٹیں مگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو حکم ہوتا کہ ابھی نماز اور زکوٰۃ (نفاق مال) کا جو تم کو حکم ہوا ہے اس کی خوب عادت ڈالو تاکہ تمہاری تربیت ہوجائے۔ مدینہ منورہ میں بھی ہجرت کے ابتدائے برسوں میں مسلمانوں کی خواہش یہی تھی لیکن جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے لڑائی کی اجازت آگئی تو اب بعض خام قسم کے مسلمان اس سے ہچکیمانے لگے اس پر یہ آیت نازل ہوئی (ابن کثیر۔ قرطبی) ف 2 شاہ صاحب کر ترجمہ یہ ہے کہ کیوں نہ جینے دیا ہم کو تھوڑی سی عمر جواب آگے ہے۔ ف 3 دنیا کی بے ثباتی کا ذکر کے کر جہاد کی ترغیب دی ہے۔ صحیح مسلم میں اور اس کی انگلی میں تھوڑی سی نمی رہ جائے ایسی ہی مثال دنیا ارآخرت کی ہے۔ نیز فرمایا کہ میری اور دنیا کی مثال ایک مسافر کی ہے جوایک درخت کے نیچے دوپہر کو آرام کرتا ہے اور پھر ورانہ ہوجاتا ہے۔ (معالم، قرطبی) النسآء
78 ف 4 یعنی جب موت سے تمہیں کسی حال میں چھٹکا را نہیں تو پھر اللہ کی راہ میں جہاد سے کیوں ہچکچاتے ہو مقصد جہاد کی ترغیب ہے (کبیر) ف 5 اوپر بیان فرمایا کہ منا فیقن جہاد سے جی چراتے ہیں اور موت سے ڈرتے ہیں۔ اب یہاں ان کی ایک دوسر مذموم خصلت کا ذکر فرمایا جو پہلی بھی بری ہے یعنی نحوست کہ آنحضرتﷺ کی طرف نسبت کرتے ہیں۔ (کبیر) یہاں الحسنہ سے مرا اد نصرت غلبہ اور خو شحالی وغیرہ ہے اور اس کے مقابلے میں السئیہ سے مراد بلا مصیبت قتل وہزیمت وغیرہ ہے۔ ف 6 یہ ان کے کلام کا جواب ہے کہ برائی بھلائی دونوں اسی کی طرف سے اور اسی حکم سے ہیں۔ ہر چیز کا پیدا کرنے والا وہی ہے بلا اور مصیبت کو کسی کی نحوست قرار دینا قطعی غلط ہے۔ شاہ صاحب فرماتے ہیں یہ منافیقن کا ذکر ہے کہ گر تدبیر جنگ درست آئی اور فتح اور غنیمت ملی تو کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوئی یعنی اتفاقا بن گئی حضرت ﷺ کی تدبیر کے قائل نہ ہوتے تھے اور اگر بگڑگئی تو الزام رکھتے حضرت ﷺ کی تدبیر پر اللہ صاحب نے فرمایا کہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے یعنی پیغمبر کی تد بیر اللہ کا الہام ہے غلط نہیں اور بگڑ ی کو بگڑا نہ بوجھو یہ اللہ تم کو سدھاتا ہے تمہاری تقصیر پر۔ اگلی آیت میں کھول کر بیان فرمادیا ہے (موضح) ف 7 یعنی تعجب ہے کہ اتنی بدیہی حقیقت بھی ان کی سمجھ میں نہیں آتی (رازی) النسآء
79 ف 8 اس میں برائی اور بھلائی کا ایک قانون بیان فرمادیا ہے کہ بھلائی تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اور جو برائی پہنچتی ہے اس کا بھیجنے والا بھی گو اللہ تعالیٰ ہی ہوتا ہے مگر اس کاسبب تمہارے اپنے گناہ ہوتے ہیں۔ (دیکھئے سورت شوریٰ آیت 3) اس لیے سلف صالحین کا خام قاعدہ تھا کہ جن کوئی اجتہادی رائے ئ پیش کرتے تو کہتے کہ اگر یہ صحیح ہے تو اللہ تعالیٰ کے طرف سے اور اسی کی توفیق سے اور اگر غلط ہے تو ہماری طرف سے اور شیطان کی طرف سے (ابن کثیر) اوپر کی آیت میں خلق وایجاد کے اعتبار سے حسنتہ اور سیئہ دونوں کو من عند اللہ قرار دیا ہے اور اس آیت میں باعتبار کسب وسبب کے سیئہ کو انسان کی طرف منسوب کردیا ہے لہذا تعارض نہیں ہے۔ کذافی الکبیر) موضح میں ہے بندہ کو چاہیے نیکی اللہ کا فضل سمجھے اور تکلیف اپنی تصصیر سے۔ تصصیروں سے اللہ تعالیٰ واقف ہے اور وہی خبر دیتا ہے۔ ف 9 یعنی آپ کا اصل منصب رسالت اور تبلیغ ہے اور اللہ گواہ ہے کہ آپ ﷺ نے اس امانت کے ادا کرنے میں کسی قسم کی تقصیر نہیں کی پھر اس کے بعد بھی اگر کسی کو ہدایت نہیں ہوتی تو آپ ﷺ کا اس میں کوئی قصور نہیں ہے۔ (کبیر) نیز آنحضرت ﷺ کی عمومی رسالت کا بیان ہے (دیکھیے اعراف 58 اسبا 128) النسآء
80 ف 10 یعنی آنحضرتﷺ چونکہ اللہ کے رسول اور مبلغ ہیں اس لیے ان کی اطاعت اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے۔ نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج اور دیگر احکام شریعت ایسے ہیں جن کو آنحضرت ﷺ کی توضیح کے بغیر سمجھنا ممکن نہیں ہے لہذا قرآن کے لیے کوئی شخص سنت سے بے نیاز نہیں ہوسکتا۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کی طاعت عین طاعت الہیٰ ہے۔ (تفصیل کے لیے ملا حظہ ہو الرسالتہ للشافع رقم 57۔85 (الربع) ف 11 یعنی اس کے بعد بھی اگر لوگ گمراہ ہوتے ہیں تو اس کی ذمہ داری آپﷺ پر نہیں ہے اس میں آنحضرت ﷺ کو تسلی دی ہے۔ (کبیر ) النسآء
81 ف 12 یہاں منافقین کی ایک اور مذموم خصلت بیان فرمائی ہے اور ان کو سرزنش کی ہے اور آنحضرتﷺ کو ان کی حرکات شبیعہ سے چشم پوشی اور اللہ تعالیٰ پر توکل کا حکم فرمایا ہے بیتت کا لفظ اصل میں بیت (گھر) سے ہے اور انسان چونکہ عمو مارات کو اپنے گھر میں رہتا ہے اس لیے بات کے معنی ثب باشی کے ہیں پھر چونکہ رات کے فارغ اوقات میں آدمی اپنے معالات پر غوروفکر کرتا ہے اس لیے بتیت کا لفث کسی معاملہ میں نہایت غور وفکر کرنے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ( رازی) النسآء
82 ف 1 ابتدائے ہجرت میں منافقین کی حرکتوں سے چشم پوشی کا حکم تھا اس کے بعد آیت جاھد الکفار والمنا فقین ( کہ کفار اور منافقین سے جہاد کرو) سے یہ حکم منسوخ ہوگیا ہے منافقین سے جہاد کے یہی معنی ہیں کہ ان کو زجرو وملامت کی جائے اور ان کی حرکتوں چشم پوشی نہ کی جائے تفصیل کے لیے دیکھئے التوبہ آیت 3) مگر امام رازی اس نسخ پر راضی نہیں ہیں (کبیر) ف 2 منافقین کے مکر وفریب اور مذموم خصائل کے ضمن میں قرآن کی حقانیت کے اثبات کی ضرورت ہے اس لیے پیش آئی کہ منافقین یہ سب مکرو فریب اور سازشیں اس بنا پر کررہے تھے کہ وہ آپ ﷺ کو سچا نبی نہیں سمجھتے تھے۔ لہذا یہاں آنحضرت ﷺ صدق نبوت پر بطور دلیل کے قرآن کو پیش کیا اور قرآن حکیم آنحضرت کے صدق نبوت کے تین وجوہ سے دلیل بنتا ہے اول اپنی فصاحت وبلاغت کے اعتبار سے۔ (دیکھئے سورت بقرہ آیت 23) دوم امور غیب کی خبروں پر مشتمل ہونے کی وجہ سے سوم اختلاف وتناقض سے پاک اور مبرا ہونے کی بنا پر یہاں اسی تیسری چیز کو بیان فرمایا ہے (رازی) مطلب یہ ہے کہ ایسا ممکن نہیں کہ ایک انسان برس ہابرس تک مختلف حالتوں میں مختلف موضوعوں پر خصاصا امور غیب سے متعلق۔ اس قدر تفصیل سے گفتگوکر تا رہے مگر اس کی ایک بات بھی دوسری سے متصادم نہ وہ یہ خصوصیت صرف قرآن میں پائی جاتی ہے جو غور و فکر کرنے والے کے لیے اس کے کلام الہی ہونے کی دلیل ہے۔ (شوکانی) اختلاف سے پاک ہونا درجہ فصاحت وبلاغت کے اعتبار سے بھی ہوسکتا ہے کیونکہ کوئی انسان خواہ کتنا ہی فصیح وبلیغ کیوں نہ ہو جب اتنی بڑی کتاب لکھے گا تو اس کے کلام میں قدرے تفاوت ضررور ہوگا اور ساری کتاب بلاغت میں یکساں مرتبہ کی نہیں ہوگی اور پھر یہ منافقین خفیہ طور پر در نہیں کرتے۔ ہیں اور وحی کے ذریعہ آنحضرت ﷺ کی ان کے بھید من وعن بتادیئے جاتے ہیں اور کبھی یہ نہیں ہوا کہ کسی راز کے افشار میں قرآن نے تھوڑی بہت بھی غلطی یو ہو۔ یہی اس کے کلام الہی ہونے کی دیلیل ہے۔ ( کبیر) فائدہ معلوم ہوا کہ قرآن پاک میں تدبر کے بغیر انسان کے شکوک وشبہات دور نہیں ہو سکتے اور نہ قرآن صحیح طور پر سمجھ میں آسکتا ہے (م۔ ع ) النسآء
83 ف 3 امن کی خبر یہ کہ مسلمانوں کی فتح ہوئی ارخوف کی خوف کی خبر یہ کہ فلاں مقام پر مسلمانوں کو شکست ہوگئی آنحضرتﷺ مسلمانوں کے مختلف سراپا تھے۔ لڑائی کے لیے بھیجتے رہتے تھے، اس لیے اس قسم کی افواہیں مدینہ میں اکثر پہنچتی رہتی تھیں لیکن منافقین اور بے احتیاط قسم کو مسلمان بجائے اسکے کہ انہیں سب سے پہلے آنحضرت ﷺ یا آپ ﷺ کے ذمہ دار اصحاب تک پہنچائیں از خودان افواہوں کی تشہیر شروع کردیتے۔ ان کے اسی شرط حمل کی یہاں مذمت کی جار ہی ہے۔ (شوکانی۔ قرطبی) ف 4 تعلمہ الذینیستنبطو نہ منھم کا دوسر اترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے تو اسے وہ لوگ جان لیتے جوان میں سے یعنی مسلمانوں سے) تحقیق کی صلا حیت رکھتے ہیں حافظ ابن کثیر شوکانی اور دسرے اکثر مفسرین نے اسی کو اختیار کیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر یہ لوگ خبر سن کر از خود اس کی تشیہر کرنے کی بجائے اسے آنحضرت اور آپ ﷺ کے ذمہ دار اصحاب تک پہنچادیتے تو وہ اس پر غور وخوض کرکے پہلے یہ فیصلہ کرتے کہ آیا یہ صحیح ہے یا غلط اور آیا اس کی اشاعت کرنی چاہئے یا نہیں ؟ اس کے بعد اگر وہ قابل اشاعت ہوتی تو اسے نشر کرتے ورنہ روک دیتے۔ اجتماعی زندگی میں اس ہدایت پر عمل نہا یت ضروری ہے ورنہ جماعتی زندگی بے حد نقصانات پہنچ سکتے ہیں۔ ف 5 شاہ صاحب لکھتے ہیں یہ جو فرمایا اگر اللہ کا فضل تم پر نہ ہوتا تو شیطان کے پیچھے چلتے مگر تھوڑے یعنی ہر وقت احکام تربیت کے نہ پہنچتے ہیں تو کم لوگ ہدایت پر قائم رہیں ،( موضح) النسآء
84 ف 6 اوپر کی آیات میں جہاد کی ترغیب دی اور اس کے بع منافقین کی سرگرمیوں کا ذکر کیا۔، اب اس آیت میں فرمایا کہ آپ ﷺ ان منافقین ساتھ ہونے یا نہ ہونے کی پرواہ نہ کریں آپ ﷺ کی ذمہ داری یہ ہے کہ آپ ﷺ خو دبھی جہاد کے لیے نکلیں اور دوسرے مومنوں کو بھی ترغیب دیں۔ النسآء
85 ف 7 اللہ تعالیٰ کی طرف سے عسیٰ کا لفظ یقین کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ پس آیت میں وعدہ کیا جارہا ہے کہ عنقریب کفا رکا زور ٹوٹ جائے گا اور مسلمانوں کو غلبہ نصیب ہوگا۔۔ ف 8 اوپر کی آیت میں آنحضرت کو حکم دی کہ مومنوں کو جہاد کی ترغیب دیں جو اعمال حسنہ میں میں سے یہاں تبایا کہ آپ ﷺ کو اس پر اجر عظیم ملے گا پس یہاں سفاعت حسنہ سے ترغیب جہاد مراد ہے اور شفاعت سیئہ سے اس کا کار خیر سے رکنا ہے۔ صحیح حدیث میں ہے اشفعر اتوجروا کہ نیک سفارش کرواجر پاو گے۔ (رازی۔ ابن کثیر ) النسآء
86 ف 9 جہاد کا حکم دینے کے بعد فرمایا اگر کفار صلح پر راضی ہوجائیں تو تم راضی ہوجا و یا یہ جنگ میں اگر کوئی شخص سلام کہدے تو اسے قتل نہ کرو (رازی) تحیہ کے معنی درازئی عمر کی دعا کے ہیں اور یہاں مراد سلام ہے (معالم) ف 10 گو یا تناہی جواب دینا فرض اور اس سے بہتر جواب دینا مستحب ہے۔ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ تحیہ کے ہر جملہ پر دس نیکیاں ملتی ہیں۔ پس اسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبراکا تہ پر (آنحضرت ﷺ نے فرمایا) تیس نیکیاں ملیں گی (ابن کثیر ) النسآء
87 النسآء
88 ف 1 یہ آیات کب اتریں اور ان میں منافقین سے مراد کون لوگ ہیں اس بارے میں صحابہ (رض) کرام سے مختلف روایات ہیں حضرت زید (رض) بن ثابت سے روایت ہے کہ جب نبی اکرم ﷺ غزوہ احد کے لیے نکلے تو کچھ لوگ آپﷺ کا ساتھ چھوڑ کر راستہ ہی سے واپس ہوگئے (ابن ابی اور ان کے ساتھی) اس کے بارے میں میں مسلمانوں کے دو گروہ ہوگئے ایک گروہ کہنے لگا کہ ہم انہیں قتل کریں اور دسرا گروہ اس کے خلاف تھا۔ اس پر یہ آیت نازل ہو (بخاری ومسلم) امام شوکانی فرماتے ہیں ؛ نزول کے اسباب میں یہ روایت سب سے اصح ہے۔ دوسری روایت حضرت عبدالرحمن (رض) بن عوف سے ہے کہ عرب کے کچھ لوگ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر مسلمان ہوگئے پھر وہ بیمار ہو کر واپس چلے گئے۔ ان کے بارے میں مسلمانوں کے دوگروہ ہوگئے ایک گروہ انہیں منافق قرار دیتا تھا اور دوسرا مسلمان سمجھتا تھا اس پر یہ آیت نازل ہوئی (مسند احمد) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ مکہ میں کچھ لوگ اسلام کا کلمہ پڑھتے تھے لیکن مسلمانوں کے خلاف مشرکوں کی مدد کیا کرتے تھے۔ ان کے بارے میں مسلمانوں کی دو رائیں ہوگئی تھیں لہذا اس آیت میں ان منافقین کے مسلمان قرار پانے کے لیے مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کا بطور شرط ذکر کیا گیا ہے۔ اس لیے ابن جریر اور بعض دوسرے مفسرین نے حضرت ابن عباس (رض) کی تفسیر کی بقہ تمام تفا سیر پر تر جیح دی ہے۔ بعض نے لکھا ہے کہ اہل افک کے بارے میں نازل ہوتی ہے (ابن کثیر، کبیر) آیت میں فئنین منصوب علی الحال ہے اور استفہام انکاری ہے۔ ( شوکانی ) النسآء
89 النسآء
90 ف 2 یعنی اگر یہ منافقین کیس ایسے قبیلے سے اتصال رکھتے ہوں جس کا تم سے معاہد ہوچکا ہے تو تم انہیں قتل نہ کرو کیونکہ معاہدہ کا احترام اور اس کی پابندی لازم ہے آیت کا یہ مفہوم صحیح ہے بعض نے یصلون سے اتصال مراد لیا ہے مگر صحیح نہیں ہے کیونکہ اتصال نسبی قتال کے مانع نہیں ہوتا بلکہ اس آیت میں ان لوگوں کا استثنا ہے جو کسی معاہد قبیلہ کے جوار میں رہتے یا ان کے حلیف ہوتے، کیونکہ س وقت قبائل عرت دو حصوں میں تقسیم بعض کا معاہدہ مسلمانوں سے تھا اور بعض مشرکین مکہ کے حلیف یا ان کے جوار میں رہتے تھے چنانچہ صلح حدیبہ میں بی یہ شق موجود ہے یہاں ان سے مراد بنو بکر۔ بنو اور خزاعتہ وغیر ہم کے قبائل جو اس وقت قریش کے حلیف تھے۔ ف 3 یہ بھی استثنا کے تحت ہے اور اوجاکم کا عطف یصلون پر ہے ای الا الذین جا و کم اور حصرت صدورھم جا و کی ضمیر سے جملہ حالیہ ہے ای وفد حصرت حمد ورھم حاصل یہ کہ ان لوگوں سے لڑ نا اور ان کو قتل کرناک بھی تمہارے لیے جائز نہیں ہے۔ شوکانی) ف 4 یعنی یہ اللہ تعالیٰ کا تم پر فضل وکرم ہے یہ لوگ اگر تمہارے ساتھ مل کر اپنی قوم (قبیلے) سے۔ لڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں تو اس کے ساتھ مل کرتم سے لڑ نے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں ورنہ یہ بھی ممکن تھا کہ وہ غیر جانبدار نہ رہتے اور اپنی قوم کے ساتھ مل کر تمہارے خلاف جنگ کرتے (کبیر) ای لو شا اللہ لسلطھم علیکم ولو شا اللہ لقاتلو کم (الکشاف) ف 5 یعنی جب تک وہ غیر جانبدار نہ پالیسی پر کار بند رہیں اور تم سے کوئی چھیڑ چھاڑ نہ کریں ان کو کسی طرح تکلیف پہنچانا صحیح نہیں ہے (ابن کثیر ) النسآء
91 ف 6 یعنی ایسے منافقین جو دل سے مشرکوں کے ساتھ ہیں لیکن محض مطلب براری ارموقع شناسی خاطر تمہیں اپنے مسلمان ہونے یا غیر جانبدار رہنے کا یقین دلاتے ہیں اور ان کا حال یہ ہے کہ تمہارے خلاف سازش کرتے اور تمہیں مصیبت میں مبتلا کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جا نے دیتے اس سے اسد وغطفان بعض قبائل مراد ہیں جو آنحضرت ﷺ کے پاس مدینہ آتے اور ریاکاری سے مسلمان ہوجاتے پھر مکہ واپس جاتے تو بت پرستی شروع کردیتے تو فرمایا کہ ایسے لوگ اگر کنارہ کش نہ رہیں تو ان سے لڑو۔ ( شوکانی۔ کبیر ) یہاں سلط نا مبینا سے یا تو مراد یہ ہے کہ ان سے لڑنے اور ان کو قتل کرنے کے تمہارے پاس دلیل موجود ہے وہ یہ کہ بد عہد ہیں کھلے دشمن ملے تو مسلمانوں کو نقصان پہنچانے سے دریغ نہیں کرتے یا یہ کہ ایسے لوگوں سے لڑنے کی اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہیں کھلے اجازت ہے (کبیر ) النسآء
92 ف 2 کفارکے ساتھ جنگ کی اجازت نازل ہوئی تو یہ عین ممکن تھا کہ کسی شخص کو کافر حربی سمجھ کر مسلمان قتل کردیں اور بعد میں معلوم ہو کہ وہ مسلمان تھا۔ اس لیے اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمان کو قتل خطا کے احکام بیان فرمادیئے (کبیر) ّآیت میں الا بمعنی لکن ہے اور مستثنی منقطع ہے یعنی کسی حال میں مسلمان کو قتل کرنا جائز نہیں ہے لیکن اگر غلطی سے مارا جائے تو اس پر کفارہ ہے جس کا بعد میں مذکور ہے آیت کے سبب نزول میں مختلف روایات مذکور ہیں مروی ہے کہ عیاش بن ابی ربعیہ مسلمان ہونے کے بعدہجرت کر مدینہ چلا آیا اور یہ آنحضرت ﷺ کی ہجرت سے پہل کا واقعہ ہے چنانچہ ابو جہل اور حارث بن زید بن ابی اینسہ مدینہ آکر اسے واپس لے گئے اور مکہ پہنچ کر اسے کوڑوں س پیٹا اور اس کی مشکیں کس دیں۔۔ عیاش نے حارث سے کہا کہ ابو جہل تو ماں کی طرف سے میرا بھائی ہے تم کون مارنے والے ہو اور قسم کھائی کہ اگر مجھے تنہا مل گیا تو تجھے قتل کرڈالوں۔ بعد میں حارث بھی مسلمان ہوگیا عیاش نے اسے قتل کر ڈالا اور پھر جب معلوم ہوا کہ وہ مسلمان ہوچکا تھا تو اس پر پشیمان ہوا اور آیت نازل ہوئی۔ (کبیر۔ شوکانی) ف 3 یعن جب اس طرح کوئی مسلمان غلطی سے مارا جائے تو اس کے دو حکم ہیں ایک کفاہ اور دوسرے دیت (خون بہا) کفارہ تو یہ ہے کہ مسلمان غلام کو آزاد کرے اور اگر اس کی طاقت نہ ہو تو دو ماہ کے مسلسل روزے رکھے اور اس کے وارثوں کی دیت ادا کرے کفارہ تو کسی حال میں ساقط نہیں ہوتا۔ ہاں دیت اگر وارث معاف کردیں تو ساقط ہوسکتی ہے مگر یہ اس وقت ہے جب مقتول کے وارث بھی مسلمان ہوں یا کافر ہوں لیکن ان سے معاہدہ ہو یا ذمی ہوں جیسا کہ آگے آرہا ہے۔ ف 4 لیکن اگر اس کے وارث حربی کافرہوں تو پھر قاتل کے ذمہ صرف کفارہ ہے یعنی ایک مسلمان غلام کو آزاد کرنا یا دو ماہ مسلسل روزے رکھنا مقتول کے وارثوں کو خون بہا ادا کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ وہ دشمن ہیں (قرطبی) ف 5 اس جملہ کا بظاہر تو مطلب یہ ہے کہ اگر وہ مقتول مسلمان ایسی قوم سے تعلق رکھتا ہو جن سے تمہارا معاہدہ ہے یا ذمی ہیں تو اس صورت میں بھی دوچیزیں واجب ہوں گی کفارہ اور دیت (خون بہا) جیساکہ اوپر گزر چکا ہے مگر بعض نے لکھا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ وہ مقتول معاہد یا ذمی ہو (مسلمان نہ ہو) تو اس صورت میں بھی کفارہ اور وارثوں کو خون بہا ادا کرنا پڑے گا حنفی مذہب میں تو پوری یدت ادا کرنی پڑے گی مگر دوسرے فقہا کے نزدیک نصف دیت ہوگی۔ ایک حدیث میں ہے کہ یافر کا خون بہا مسلمان سے نصف ہوگا۔ (نسائی۔ ابن ماجہ) ایک دوسری روایت میں ہے کہ نبی ﷺ کے زما نہ میں خون بہا کی نقد قیمت آٹھ سو دینار یا آٹھ ہزار درہم تھی اور اہل کتاب کا خون بہا مسلمان سے نصف ہے ( ابوداود) ف 6 اگر کسی شرعی عذر۔ مرض حیض یا نفاس۔ کے بغیر ایک بھی روزہ نئے سرے سے دومہینے کے روزے رکھنے پڑینگے۔ ّقرطبی) النسآء
93 ف 7 قتل خطا کا حکم بیان کرنے کے بعد اب اس آیت میں قتل عمہد قصد قتل کرنے کا حکم بیان کیا ہے اس کا ایک حکم تو بیانب ہوچکا ہے یعنی اس صورت میں قصاص یا دیت واجب ہے۔ (یکھئے سورت بقرہ آت 17) یہاں صرف اس کے گناہ ارر وعید کا ذکر ہے متعدد آیات میں قرآن نے اس جرم کو شرباللہ کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ یہاں فرمایا کہ ایسے شخص اللہ تعالیٰ کا غضب اور لعنت ہے اور آخرت میں بڑا عذاب ہے جس میں سہ ہمیشہ رہے گا۔ اس بنا پر بعض علما نے سلف سے منقول ہے کہ اس کی توبہ قبول نہیں ہوتی مگر اکثر علمائے سلف کے نزدیک یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ توبہ تو مشرک کی بھی قبول ہوجاتی ہے لیکن یہ توبہ اس وقت ہے جب اپنے آپ کو قصاص کے لیے پیش کردے۔ (شوکانی) حدیث میں ہے کسی مسلمان کا خون صرف تین صورتوں میں سے ایک حلال ہے اس نے کسی کو قتل کردیا ہو اس کے بدلہ میں قتل کیا جائے یا شادی شدہ ہونے کے بعد جرم زنا کا ارتکاب کرے یا وہ اسلام کو چھوڑ کر مرتد ہوجائے (بخاری) مزید دیکھئے سورت الفرقان آیت 68) النسآء
94 ف 1 حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ ایک شخص بکریاں چرارہا تھا کہ مسلمانوں کا ایک سریہ (دستہ) اس کے پاس سے گزرا۔ اس نے اسلام علیکم کہ الیکن مسلمانوں نے اسے قتل کر ڈالا اور اور اس کا مال لے لیا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (بخاری وغٖیرہ) چنانچہ آنحضرت ﷺ نے مقتول کے وارثو کے پاس اس کی دیت بھیج دی اور اس کی بکریاں بھی واپس کردیں۔ (بخاری وغیرہ) اس قاتل اور مقتول کے بارے میں اختلاف ہے یا حافظ ابن عبدالبر (رح) نے الا ستصاب میں نقل کیا ہے کہ قاتل محلم بن جثامہ اور مقتول عامر بن اضبط ہے۔ آنحضرت نے محلم کے حق میں بد دعا کی اور وہ اضبط ہے۔ آنحضرت ﷺ نے محلم کے حق میں بد دعا کی اور وہ ساتویں دن مرگیا اسے تین مرتبہ دفن کیا گیا جب بھی دفن کرتے زمین اس کی لاش باہر پھینک دیتی۔ آخر کار اسے کسی گھاٹی میں ڈال دیا گیا اور بعض روایات میں ہے کہ اس سریہ میں مقداد (رض) بن اسود تھے انہوں نے اس کو قتل کیا اس پر آپ ﷺ نے مقداد (رض) کو مخاطب کر کے فرمایا تم نے کیسے مسلمان کو قتل کر ڈالا نے الا الہ الا اللہ کا اقرار کیا کل اللہ تعالیٰ کے سامنے اس کا کیا جواب دو گے محض کچھ مال غنیمت کے لالچ میں تم نے یہ اقدام کیا۔ (فتح القدیر) علامہ قرطبی لکھتے ہیں کہ عین ممکن ہے کہ یہ مختلف واقعات یکے بعد دیگرے پیش آئے ہوں اور سب کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی ہو (قرطبی، شوکانی) یہاں تبین یعنی تحقق کرلینے کا حکم سفر کے ساتھ خاص ذکر کیا ہے مگر یہاں سفر کی قید بیان کے لیے ہے یعنی یہ حادثہ جس کے متعلق آیت نازل ہوئی ہے سفر میں پیش آیا تھا ورنہ تحقیق کا حکم جس طرح سفر میں ہے اسی طرح حضر میں بھی ضروری ہے (قرطبی) ف 2 یعنی یہی حالت پہلے تمہاری تھی۔ تم کافروں کے شہر میں رہتے تھے اور اپنے ایمان کو چھپاتے تھے، اللہ تعالیٰ نے دین کا غالب کر کے تم پر احسام کیا ( قرطبی) النسآء
95 ف 3 جہاد کے فرض عین ہونے کی صورت میں تو کسی شخص کو باعذر گھر میں بیٹے رہنے کی اجازت نہیں ہو سکتی اور ایسی صورت میں جہاد میں شامل نہ ہونا صریح نفاق ہے مگر جب نفیر عام نہ ہو اور امام کی طرف سے یہ اعلان کیا جائے کہ جو شخص جہاد کے لیے نکل سکتاہو نکلے اور جو اپنے کام کی وجہ سے نہیں نکل سکتا اسے اپنے گھر میں بیٹھے رہنے کی اجازت ہے آیت میں اسی صورحال کے پیش نظر فضیلت کا ذکر ہے کہ امام کی اجازت کے باوجود جو لوگ گھروں میں بیٹھے رہتے ہیں اور جو اپنی خوشی سے جہاد میں شریک ہوتے ہیں یہ دونوں برابر نہیں ہو سکتے زید (رض) بن ثابت سے روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو آنحضرت ﷺ نے مجھے بلایا۔ میں کتابت کے لیے حاٖضر ہوا تو عبد اللہ ابن ام مکتوم جو نابینا تھے آگئے اور کہنے لگے اے اللہ کے رسول ﷺ اگر میں جہاد کرسکتا تو ضرور جہاد کرتا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ پر وحی نازل فرمائی اور غیر اولی الضر کا کلمہ نازل ہوا اور آنحضرت ﷺ نے مجھے لکھو ادیا (بخا ری مسلم) معلوم ہوا کہ جس شخص کی نیت جہاد کی ہو مگر کسی عذر کی بنا پر جہاد میں شریک نہ ہو سکے اس کو مجاہدین کے برابر ثواب ملتا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے کسی غزوہ سے واپس ہوتے ہوئے فرمایا مدینہ میں کچھ لوگ ایسے ہیں کہ تم نے کوئی وادی طے نہیں کی مگر وہ اجر وثواب میں تمہارے شریک ہیں ان کو صرف عذار نے تمہارے ساتھ آنے سے روک دیا ہے۔ بعض دوسری روایات سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے ایک حدیث میں ہے کہ جب کوئی شخص بیمار پڑجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرشتوں کی حکم دیتے میرے بندے کے لیے اس عمل کا ثواب لکھ دو جو حالت صحت میں کیا کرتا تھا جب تک کہ یہ تندرست نہ ہوجائے یا میں اس کی روح قبض نہ کرلوں (قرطبی ) النسآء
96 النسآء
97 ف 4 ان لوگوں سے مراد وہ لوگ ہیں جو مکہ معظمہ اور دوسرے مقامات پر اسلام لا چکے تھے لیکن مجبوری کے بغیر مدینہ کی طرف ہجرت نہیں کر رہے تھے اور دارالا سلام کی زندگی چھوڑ کر دارالکفر میں رہنے پر قانع تھے۔ روایات میں ہے کہ اہل مکہ کی ایک جماعت مسلمان ہوگئی اور ان لوگوں نے آنحضرتﷺ کے سامنے اظہار ایمان بھی کیا مگر جب آنحضرتﷺ نے ہجرت کی تو انہوں نے مکہ میں اپنی قوم کے پاس رہنا پسند کیا اس پر یہ آیت نازل ہوئی (قرطبی) ف 5 یعنی فرشتے تقریع اور توبیخ کے انداز میں ان سے پو چھتے ہیں کہ تم مسلمان تھے یا کافر دارالکفر میں پڑے کیا کرتے رہے اور مدینہ کی طرف ہجرت کیوں نہیں کی ؟ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسے لوگ مسلمان ہونے کے باوجود بلاعذر ترک ہجرت کی بنا پر ظالم کی موت مرے ہیں۔ (قرطبی) النسآء
98 ف 1 اس آیت میں ان لوگوں کو مستثنی ٰ قرار دیا ہے جو واقعی بے بس اور معذور تھے اور ہجرت نہیں کرسکتے تھے۔ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں میں اور میر والدہ ان لوگوں میں سے تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے معذور قرار دیا ہے اور ان لوگوں میں عیاش بن ابی ربیعہ ابن ہشام وغیر ہم بھی شامل ہیں جن کے حق میں آنحضرت ﷺ کفار کے پنجے نجات کے لیے دعا کیا کرتے تھے۔ (قرطبی، ابن کثیر) فائدہ حضرت ابن عباس (رض) کی والدہ ام الفضل بنت حارث ہیں اور ان کا نام لبابہ ہے جو میمود (رض) بنت حارث ام المومنین کی بہن تھیں حارث نو بہنیں تھیں جن کے حق میں رسول اللہ ﷺ نے الا خوات المو منات فرمایا تھا، ان میں اک اسما بنت عمیس خثمیہ تھیں جو ماں کی طرف سے میمونہ (رض) کی بہن تھیں اور جعفر (رض) بن ابی طالب کی بیوی۔ جعفر (رض) کے بعد حضرت ابوبکر (رض) نے ان سے نکاح کرلیا اور حضرت ابو بکر (رض) کے حضرت علی (رض) کے نکاح میں آگئیں (رض) (قرطبی) ہجرت کے ساتھ فی سبیل اللہ کا ذکر کرنے میں اس طرف اشارہ ہے کہ ہجرت کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے سوا اور کچھ نہیں ہونا چاہئے جیسا کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے جس شخص ہجرت اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف ہے اس کی ہجرت اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف ہے اور جس شخص کی ہجرت دنیا حاصل کرنے کے لیے ہے یا کسی عورت سے شادی کرنے کی غرض سے ہے تو اس کی ہجرت اسی چیز کی طرف ہے جس کی طرف اس نے ہجرت کی (بخاری ومسلم ) النسآء
99 النسآء
100 ف 3 مراغما یہ مرغم کی جمع ہے اور ہجرت کر کے نکلنے اور وار ہجرت پالینے کو مراغما اس لیے فرمایا ہے کہ جو شخص ہجرت کر کے نکلتا ہے گویا وہ تمام قریش کی ناک کو خاگ آلود کردیتا (قرطبی) اس آیت میں اگرچہ ان لوگوں کو مدینہ کی ہجرت کرن کی ترغیب دی گئی ہے جو مکہ اور دسرے مقامات پر دارالکفر میں پڑے زندگی بسر کر رہے تھے اور ہجرت نہیں کر رہے تھے لیکن یہ آیت عام ہے اور متعد احادیث میں ہجرت کی ترغیب دی گئی ہے۔ّ(فتح القدیر) عکرمہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب ہجرت نہ کرنے کے بارے میں وعید نازل ہوئی تو جندع (رض) بن صمرۃ لیثی جو مکہ میں مستضعفین میں سے تھے بیمار تھے۔ چنانچہ انہوں نے حالت مرض میں سفر شروع کردیا حتی کہ تنعیم میں پہنچ کر انتقال کر گئے اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔، اسی طرح خالد (رض) بن حزام کے متعلق بھی بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی اروراستہ میں سانپ کے ڈسنے سے وفات پاگئے (قرطبی) فائدہ ہجرت کے معنی ہیں دارالحرب سے دارالاسلام کی طرف منتقل ہونا، یہ آنحضرت ﷺ کی زندگی میں فرض تھی اور اس کی فرضیت تاقیامت باقی ہے جس ہجرت کو آنحضرت نے لا ھجرۃ بعد الفتح فرماکر منسوخ فرمایا ہے وہ خاص مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت تھی اسی طرح اہل بدعت کی آبادی سے بھی ہجرت کرنا چاہئے امام مالک (رح) فرماتے ہیں کسی شخص کے لیے ایسے مقام پر رہنا جائز نہیں ہے جہاں سلف کو گالیاں دی جاتی ہوں۔ علی ہذالقیاس جس علاقہ میں حلال روزی نہ ملتی ہو یا دین میں فتنہ کا خوف ہو وہاں سے ہجرت کی بھی ترغیب آئی ہے۔ (قرطبی) النسآء
101 ف 4 مغرب اور صبح کی نماز کے علاوہ دوسری نمازوں میں چار کی بجائے دو رکعت پڑھنے کا نام قصر ہے تم پر کچھ گناہ نہیں کے الفاظ سے ثابت ہوتا ہے کہ حالت سفر میں قصر واجب نہیں۔ اس کی صرف اجازت ہے یہی اکثر علمانے سلف کا مسلک ہے مگر آنحضرت ﷺ کی سنت کو دیکھتے ہوئے امام شافعی احمد بن جنبل اور اکثر محدثین کے نزدیک قصر افضل ہے، بعض علما نے حضرت عائشہ (رض) کی حدیث فرضت الصلوٰۃ رکعیتن ( کہ نماز دورکعت فرض ہوئی) کے پیش نظر قصر کو واجب مانا ہے مگر حضرت عائشہ (رض) کی اس حدیث کے متن میں اضطراب ہے اور حضرت عائشہ (رض) کا عمل اور فتویٰ اس کے خلاف ہے اور پھر حضرت ابن عباس (رض) اور عبداللہ بن عمر (رض) قصر کو سنت کہتے ہیں ناین المذھب عن قولھا۔) قرطبی) سفر سے مراد بظاہر تو عام سفر ہے جسے عر ف میں سفر کہا جاتا ہو اب رہی میلوں کی یا دونوں کی مقدار کی تعین تو نہ قرآن کی کسی آیت میں اس کا صاف ذکر ہے اور نہ نبی ﷺ کی کسی صریح حدیث میں بنا بریں جن ائمہ اور علمانے کسی مقدار کی تعین کی ہے انہوں نے عموما نبی صلعم کے سفروں کے دیکھتے ہوئے اپنے اجتہادی سے کی ہے تاہم سب سے بہتر دلیل مقداد سفر میں صحیح مسلم میں حدیث انس (رض) ہے جس کی روسے نو کوس تک کا سفر ہونا چاہئے نیز کسی صحیح حدیث میں نبی صلعم سے یہ ثابت نہیں ہے کہ آپ ﷺ نے کسی سفر میں فرض نماز سے پہلے یا بعد میں سنت ادا کی ہو ہاں رات کے وقت اور صبح کی سنتیں آپ ﷺ ہر سفر میں پڑھا کرتے تھے اور کبھی نہیں چھوڑتے تھے۔ (زادالمعاد) صحابہ (رض) میں سے ابوبکر (رض)، عمر (رض) اور ابن عمر (رض) کا اسی پر عمل تھا (بخاری) البتہ بعض صحابہ (رض) سفر میں فرض نماز سے پہلے اور بعد میں سنتیں اور نفل پڑھا کرتے تھے اس لیے یہ جائز ہیں۔ مسافر اگر مقیم کے پیچھے نماز پڑھے گا تو قصر نہیں کریگا، حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ یہ ابو القاسم ﷺ کی سنت ہے (مسند احمد) النسآء
102 ف 5 کافروں کے ستانے کا ڈر اس وقت تھا جب یہ حکم آیا اس تقریب سے ہر وقت کے لیے معافی ملی۔ (موضح) یہ آیت چونکہ جہاد کے سلسلہ میں نازل ہوئی ہے اس لیے اس میں نماز میں قصر کی اجازت کیساتھ تمہیں کافروں کے ستانے کا ڈر ہو کو الفاظ بھی استعمال ہوئے ہیں۔ باقی رہا عام سفر جس میں دشمن کا خوف نہ ہو تو اس میں قصر کے حکم سے یہ آیت ساکت ہے اسے نبی صلعم نے اپنے وقل وعمل سے واضح فرمایا ہے حضرت عمر (رض) سے ایک شخص نے سوال کیا کیا وجہ ہے کہ لوگ سفر میں قصر کر رہے حالانکہ قرآن میں خوف کے ساتھ مقید ہے حضرت عمر (رض) نے فرمایا خود مجھے بھی اس تعجب ہو اتھا اور میں نے آنحضرت سے اس کا ذکر کیا آپ ﷺ نے فرمایا یہ ایک صدقہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے تم پر کیا ہے لہذا تم اس کا صدقہ قبول کرو ( بخاری مسلم) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں نبیﷺمدینہ سے مکہ سے تشریف لے گئے اور اس وقت رب العٰلمین کے سوا کسی کا خوف نہ تھا مگر آپ ﷺ نے دو رکعت نماز پڑھی، (ترمذی۔ نسائی) ف 6 دوسر ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے جب وہ سجدہ کرلیں یعنی آپ ﷺ کے ساتھ ایک رکعت پوری کرلیں تو پیچھے چائیں فتح القدیر) ف 7 یعنی آپ دوسری رکعت میں آپ کے ساتھ شامل ہوں اور ایک رکعت نماز پڑھیں۔ فوائد صفحہ ہذا ف 1 یہ صلوٰۃ خوف کی صرف ایک صورت کا ذکر ہے جبکہ دشمن موجود ہیں اور اس کے حملہ کا خطرہ ہو مگر عملا جنگ نہ ہو رہی جنگ نہ ہو رہی ہو۔ ابن العربی لکھتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے چودہ مرتبہ صلوٰۃ خوف پڑھی ہے، امام احمد بن جنبل (رح) فرماتے ہیں۔ پس صلوٰۃ خوف میں تمام احایث صحیح اور ثابت ہیں۔ لہذا جس صورت میں نماز ادا کرلی جائے جائز ہے حافظ ابن لقیم (رح) زادالمعاد میں فرماتے ہیں سب احادیث کا مر جع چھ ساتھ صورتوں کی طرف ہے ت جن میں ہر صورت پر حسب موقع عمل کیا جاسکتا ہے۔ ( زادامعاد ) النسآء
103 ف 2 کہ مبادا تمہیں غافل پاکر وہ تم پر اچانک حملہ کردے۔ ف 3 یعنی ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی یاد میں مصروف رہو۔ یاں تک کہ عین اس وقت بھی جب معر کہ قتال گرم ہو جمہور مفسرین نے اس کے یہی معنی کئے ہیں، بعض مفسرین نے اس کے یہ معنی بتائے ہیں کہ جب نماز پڑھنا چاہو تو معر کہ قتال گرم ہونے کی وجہ کھڑے، بیٹھے لیٹے جس طرح نماز پڑھ سکتے ہو پڑھ لو۔ لیکن پہلا قول زیادہ ظاہر ہے۔ (قرطبی) ف 4 یعنی جب خوف کی حالت ختم ہوجائے اور تم میدان جنگ سے پلٹ کر اپنے گھروں میں آجاتو نماز کے اس کے جملہ ارکان شرئط اور حددد کے ساتھ مقررہ اوقات پر ادا کرو۔ اور قصر نہ کرو۔ ( قرطبی) دوسرا مطلب جیسا کہ شاہ صاحب (رح) نے لکھا ہے یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اگر خوف کے وقت نماز میں کوتاہی ہو تو نماز کے بعد اللہ تعالیٰ کو اور طرح سے یاد کرو نماز میں قید ہے کہ وقت پر ہو اور اللہ تعالیٰ کا ذکر ہر حال میں دورست ہے (موضح) بعض نے لکھا ہے کہ جنگ احد کے موقع پر یہ آیت نازل ہوئی ہے بہت سے مسلمان زخمی ہوچکے تھے مگر آنحضرت نے دشمنوں کے تعاقب میں دوبارہ نکلنے کا حکم صادر فرمایا اور یہ حکم بھی صرف انہی کو تھا جو احد میں شریک تھے (دیکھئے آل عمران 72) یعنی زخمی ہونے میں تو دشمن بھی تو تمہارے ساتھ شریک تھے، گو تمہیں یہ خصوصیت حاصل ہے کہ تم بوجہ ایمان کے اللہ کے ہاں اجر وثواب کے امید وار ہو اور ان کو بوجہ کفر کے یہ نعمت حاصل نہیں ہے لہذا ان کے تعاقب میں کمزروی مت دکھاو (قرطبی) النسآء
104 النسآء
105 ف 6 یعنی شریعت کے قواعد کے مطابق فیصلہ کرو جیسے اللہ نے تجھ کو دکھلا یا یعنی وحی بھیج کر یا کسی اور طریقے سے آپ ﷺ کو سمجھایا حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں یہ ادراک اللہ کا آنحضرتﷺ کے ساتھ ٰ خاص تھا کہ آپ ﷺ کی رائے اللہ تعالیٰ کے سمجھانے سے ٹھیک ہوتی تھی اس لیے آپ ﷺ کا فیصلہ واجب الا تباع ہے، آنحضرت ﷺ کے بعد یہ ممصب کسی اور کو حاصل نہیں ہے۔ اور امام یا مجتہد کی ہر بات صحیح نہیں ہوتی لہذا اس پر عمل کرنا بھی ضروری نہیں ہے (کذافی اللوحیدی) ف 7 ان آیات کی شان نزول کے تحت عطا نے لکھا ہے کہ انصار کے قبیلہ بنی ظفر میں ایک شخص طعمہ یا بشر بن ابیر تھا۔ اس نے ایک انصاری کی زرہ چرالی اور اسے ایک یہودی کے گھر میں پھینک دیا۔ یہود نبی ﷺ کے پاس پہنچا کہ بنی ابریق طعمہ اور اس کے بھائیوں) نے یہ زرہ چوری کر کے میرے گھر میں پھینک دی۔ جب بنی ظفر کے لوگوں کو اس کا علم ہوا تو انہوں نے آپس میں صلاح مشورہ کر کے ایکا کرلیا اور پھر شور مچا تے نبی ﷺ کے پاس پہنچے کہ یہود دی جھوٹا ہے زرہ اسی نے چرائی ہے طعمہ اور اس کے بھائی اس الزام سے بری ہیں، قریب تھا کہ آنحضرت ﷺ اس یہو دی کے خلاف فیصلہ صادر فرمادیتے اور بنی ابیرق پر الزام رکھنے پر اسے سرزنش بھی کرتے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (ابن جریر) عغا بازوں سے مرد طعمہ اور اس کے بھائی ہیں، یعنی آپﷺ ان کی حمایت نہ کریں۔ اصل یہی مجرم ہیں۔ معلوم ہوا کہ متہم شخص کی حمایت چائز نہیں ہے اور کافروں ذمی کا مال بھی مسلما نن کے مال کی محفوظ ہے۔ (قرطبی) النسآء
106 ف 8 یعنی آپ ﷺ نے جو طعمہ کو بری اور یہودی کو مجرم قرار دینے کا ارادہ کیا تھا اس پر اللہ تعالیٰ سے استغفار کیجئے۔ (قرطبی۔) انبیا ( علیہ السلام) کو باوجود معصوم ہونے استغفار کا حکم رفع درجات کے لیے دیا جاتا ہے اور علما تفسیر نے یہ بھی کئے ہیں کہ ان گنہگا روں کے لیے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتے۔ النسآء
107 ف 1 مطلب یہ ہے کہ جو شخص دغا کرتا ہے سب سے پہلے اپنے آپ سے دغا کرتا ہے۔ النسآء
108 ف 2 یعنی ان لوگوں کا حال یہ ہے کہ گنا ہوں کا ارتکاب کرنے میں لوگوں سے تو شرم کرتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ سے جو ان کے ظاہر وباطن کو جنتا ہے شرم نہیں کرتے۔ ف 3 یعنی جاننے، دیکھنے اور سننے کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ ہر جگہ موجود ہے ورنہ بذاتہ تو اللہ تعالیٰ مستوی علی العرش ہے ،( قرطبی، ابن کثیر) ف 4 جیسے جھوٹی شہادت پر ایکا کرنا ارنے قصو پر چوری کا الزام لگانا۔ ف 5 تو اس سے بچ کر کہاں جائے گے۔ النسآء
109 ف 6 جو ان کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نجات دلا سکے، اس کے مخاطب بنی ظفر اور دوسرے وہ لوگ ہیں جو طعمہ اور اس کے بھائیوں کی طرف سے جھگڑ رہے تھے، (قرطبی، ابن کثیر ) النسآء
110 ف 7 حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ اس ّآیت میں بنی بیرق سے توبہ کے لیے کہا جا رہا ہے۔ آیت میں ہر قسم کے گناہوں کی پاداش سے محفوظ رہنے کا راستہ بتایا گیا ہے، اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے توبہ واستغفار السو وہ گنا ہے جن سے انسان اپنے علاوہ دوسروں کو بھی نقصان پہنچاتا ہے۔ جسے جھوٹی شہادت اور بے گناہ کو متہم کرنا۔ اور او یظلم نفسہ سے ان گناہوں کی طرف اشارہ ہے جن سے انسان صرف اپنے آپ کو نقصان پہنچاتا ہے جیسے ترک صلوٰۃ اور شراب نوشی وغیرہ۔ ضحاک فرماتے کہ حضرت حمزہ (رض) کا قاتل وحشی آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حا ضر ہوا اور عرض کی کہ مجھے اپنے فعل پر سخت ندامت ہے کیا میر توبہ قبول ہوسکتی ہے ؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ حدیث میں ہے کہ کسی شخص سے گناہ سرزد ہوجائے اور وہ وضو کر کے دورکعت نماز پڑھے اور اللہ تعالیٰ سے استغفار کرنے تو اللہ تعالیٰ اسے بخش دیتا ہے ، النسآء
111 ف 8 یعنی وہی اس کی سزا بھگتے گا کوئی دوسرا اس گناہ میں نہیں پکڑا جائے گا، کسب کا لفظ ہر اس فعل پر بولا جاتا ہے جس سے کوئی نفع یا نقصا حاصل ہو۔ اس بنا پر اللہ تعالیٰ کی طرف کسب کی نسبت نہیں ہو سکتی۔ (قرطبی) النسآء
112 ف 9 خطیئتہ کا لفظ غیر ارادی گناہ پر بھی بولا جاتا ہے اور اس کے کے بر عکس اثم وہ ہے جو ارادی طور پر کیا جائے مطلب یہ ہے کہ خود گناہ کا ارتکاب کرنے کے بعد کسی بے قصوی آدمی کو اس سے ملوث کرنے ی کو شش کرنا بہت بڑا گنا ہے کسی نے گناہ شخص پر تہمت لگانے کو بہتان کہا جاتا ہے (قرطبی) النسآء
113 ف 10 مگر اللہ تعالیٰ کے فضل و رحمت سے ان کے بہکانے کا کوئی اثر نہ ہوا اللہ کی رحمت یہ کہ آپ ﷺ کو واقعہ کی حقیقت سے مطلع فرمادیا۔ ف 11 کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کی حفاظت کا خاص انتظام کیا ہے۔ ف 1 یعنی وحی کے ذریعہ آپ ﷺ کو وہ علم دیا جو آپ ﷺ کے پہلے حاصل نہیں تھا۔ (دیکھئے سورت اشوریٰ آیت 52) اور یہ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑافضل ہے۔ ( قرطبی ) النسآء
114 ف 2 نجو یٰ دوسروں سے علیحدٰ ہو کر صلا و مشورہ کرنے کو کہتے ہیں یہ مصدر ہے اور مبالغہ کے طور پر عدل ورضی کی طرح جمع پر بولا جاتا ہے اور الا کے بعد نجو یٰ مخذوف ہے ن ای الا نجویٰ ج من امر بصد قتہ الخ ف 3 معررو کا لفظ جمیع اعمال خیر کو شامل ہے حتی ٰ کہ کہ کسی کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آنا بھی معروف میں داخل ہے۔ حدیث میں ہے ولو ان تلقی اخاک بو۔ حہ طلق اور اصلا بین الناس کا لفظ مسلمانو کے درمیان ہر قسم کے اختلافات ختم کرنے کو شامل ہے حدیث میں ہے جس نے دو مسلمانوں میں صلح کر ادی ہے اس کے لئے آگ سے براۃ لکھی جاتی ہے ( قرطبی) النسآء
115 ف 4 یعنی جو شخص یا گروہ وہ شریعت کے خلاف راستہ اختیار کرے اور حق معلوم ہوجانے کے باوجود مسلمانوں کی سیدھی اور صاف روشن ہے ہٹ جائے تو ہم بھی اسے ٹیڑھی راہ پر لگا دیتے ہیں جو اس کو جہنم میں لے جا کر ڈال دیتی ہے۔ مومنوں کی راہ میں دراصل تو کتاب و سنت کی راہ ہے اور کسی اجماعی مسئلے کی مخالفت کرنا بھی غیر مومنوں کی راہ پر چلنا ہے۔ (قرطبی) امت محمد یہ کو اللہ تعالیٰ نے یہ شرف بخشا ہے کہ وہ اجتماعی طور پر غلطی اور خطا سے محفوظ رہی ہے اور رہے گی ،۔ یعنی ایسا نہیں ہوسکتا ساری امت صدیوں ایک غلط راہ پر چلتی رہے۔ اس بارے میں بہت سی صحیح احادیث وارد ہیں حتی ٰ کہ بعض علما ان کے تواتر کے قائل ہیں امام شافع (رح) نے اجماعی کے حجت ہونے کا اس آیت سے استنباط کیا ہے اور یہ استنبا ط بہت قوی اور عمدہ ہے ( ابن کثیر) شیخ الا سلام ابن تیمہ (رح) نے اپنی کتاب معارج الو صول میں اس پر مٖصل بحث کی ہے اور امام شافعی (رح) کے استدلال کی پر زور تائید کی ہے (م، خ) مذکورہ بالا واقعہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی آجانے کے بعد جب نبی ﷺ نے طعمہ چوری کی حد جاری کرنے کا حکم دیا تو وہ مرتد ہوگیا اور مدینہ سے بھاگ کر مکہ کے مشرکین جاملا۔، اس آیت میں اس کے اسی طرزعمل کی طرف سے اشارہ کیا گیا ہے۔ ویسے یہ آیت عام ہے اور اس میں ان لوگوں کے لیے سخت وعید ہے جو نبیﷺ کی سنت اور سلف صالحین کے مسلک سے منہ موڑ کر دوسروں کی پیروی کرتے ہیں اور آئے دنئی نئی بدعات ایجاد کرتے رہتے ہیں۔ یہ بتا نے کی ضرورت نہیں ہے کہ تقلید کی ایجاد بھی بعد کی صدیوں میں ہوئی سلف صالح کے دور میں اس کا قطعا کوئی ثبوت نہیں ہے اور نہم کتاب وسنت کی کسی دلیل سے اس کی گنجائش نکلتی ہے۔ النسآء
116 ف 6 معلوم ہوا کہ مشرک کے سوا مسلمان گنہگار ہمیشہ جہنم میں نہیں رہے گے اس سے ان لوگوں کو رد نکلتا ہے جو مر تکب کبیرہ کو دائمی جہنمی کہتے ہیں۔ (قرطبی) ف 7 اوپر سے منا فقوں کا ذکر آرہا ہے جو پیغمبر ﷺ کے ٖٖٖ فیصلوں کو پسند نہ کرتے او جدا راستے پر چلتے تھے، اس آیت میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ شرک کو نہیں بخشا معلوم ہوا کہ اسلام کے سواکسی دوسرے دین (طریقہ) کو محبوب رکھا جائے اور اس کو معمولی بنایا جائے تو یہ مشرک ہے۔، کیونکہ اسلام کے سوا جو دین بھی ہے سب شرک ہے اگرچہ پرستش کا شرک نہ بھی کیا جائے (ازموضح) النسآء
117 ف 8 اناثا سے مراد یا تو بت ہیں جن کے نام (اللات منات عزی) سب مئو نث تھے اور یا فرشتے مراد ہیں جنہیں وہ اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے۔ آیت میں غیر اللہ کے پکارنے کو شرک قرار دیا ہے۔ جو شخص بھی غیبی مدد کے لیے کسی کو اللہ کے سوا پکار تا ہے وہ مشرک ہے کیونکہ عبادت دراصل اسی پکارنے کا نام ہے۔ ( قرطبی۔ ابن کثیر) ف 9 کیونکہ شیطان ہی نے انہیں بتوں یا فرشتوں کی پرستش پر لگایا ہے ْ( قرطبی) النسآء
118 ف 10 یعنی تیرے بندوں میں سے اک گروہ کو اپنی راہ پر ڈال لوں گا وہ اپنے مال میں میرا حصہ مق ر کر رکھیں گے جیسے بتوں وار قبروں کے نام کی نذر نیاز نکالی جاتی ہے ،(موضح) جنتے کمراہ دوزخی ہیں سب نصیب شیطان میں داخل ہیں (قرطبی) النسآء
119 ف 11 کہ گناہ کرتے رہو اللہ تعالیٰ بڑا غفور رحیم ہے۔ مسلمان کے دل میں ایمان ہونا چاہئے نماز پڑھنے اور دوسرے نیک اعمال کرنے کی کیا ضرورت ہے یا ابھی جلدی کیا ہے مرتے وقت توبہ کرلیں گے یاجن بزرگوں اور پیروں کا تم دم بھرتے ہو ان کا اللہ تعالیٰ پر بڑا زور ہے تم ان کا دامن تھام لینا وہ تمہیں سیدھے جنت میں لے جائیں گے وغیرہ اس قسم کے تمام خیالات وظنوں شیطانی آرزوں داخل ہیں کذافی القر طبی وابن کثیر۔ (وحیدی) ف 12 البتک کے معنی قطع کرنا کے ہیں۔ یعنی پھر ان پر سواری کرنا حرام سمجھیں گے جن کو بحیرہ وسائبہ وغیرہ کہتے تھے (دیکھئے سورت مائدہ آیت 103) ف 13 یعنی اللہ تعالیٰ نے جو چیزیں پیدا کی ہیں اس کی شکل وصورت بھی تبدیل کریں گے اور حلت وحرمت کے اعتبار سے ان کے احکام بھی بدل دیں گے اس میں رہبا نیت عمل قوم لوط مردوں کو خصی کرنا عورتوں کو بانجھ بنانا ان کو گھروں سے نکال کر ان کے فطری فرائض سے سبکدوش کرکے مردوں کی صف میں کھڑا کردینا یہ سب کام تغیر خلق اللہ میں داخل ہیں ( ماخوذ قرطبی، ابن کثیر ) النسآء
120 ف 1 یعنی شیطان کی مذکورہ بالاتمنائیں اور دعوے سب غرور (خدیعہ) میں بظاہر خوشنما نظر آتے ہیں اندر سے مہلک ہیں۔ النسآء
121 النسآء
122 ف 2 جس طرح شیطان اپنی پیروی کرنے والوں سے وعدہ کرتا ہے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ بھی اپنے نیک بندوں سے جنت اور بلند درجات کے وعدے سراسر یقینی اور قطعی ہیں درآنحالیکہ شیطان کے وعدے سراسر دھوکا اور فریب ہیں۔ النسآء
123 ف 3 اہل کتاب کی تمنائیں بہت خوشنما تھیں۔ ہم اللہ کے محبوب اور بیٹے ہیں، ہمارے سوا کوئی جنت میں نہیں جائے گا ہمارے گناہوں پر ہم سے مواخذ ہ نہیں ہوگا وغیرہ وغیرہ۔ اسی قسم کے خیالات میں آجکل نادان مسلمان بھی گرفتار ہیں۔ فرمایا جو براکام کرے گا اس کی سزا پائے گا کوئی ہو کسی کی پیش نہیں جاتی (موضح) النسآء
124 ف 4 یعنی اصل چیز ایمان لاکر نیک عمل کرنا جس کے عمل نیک ہوں گے وہ جنت میں جائے گا اور جن کے عمل برے ہوں گے ان کو برے اعمال کی سزا مل کر رہے گی چاہے وہ نام کا مسلمان ہو یا یہودی نصرانی ہو مسروق کہتے ہیں ہو یا یہودی نصرانی ہو مسروق کہتے ہیں کہ مسلمان اور اہل کتاب آپس میں فخر کرنے لگے مسلمان کہتے کہ ہم تم سے زیادہ ہدایت یافتہ ہیں۔ اور اہل کتاب کئے کہ ہم تمہاری بہ نسبت راہ حق پر ہیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی (ابن جریر، قرطبی) حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی کہ برا عمل کرے گا اس کی سزا پائے گا تو مسلمان کو سخت تشویش ہوئی۔ نبی و نے فرمایا نیک اعمال میں کو شش کرو ( سددواقابوا) مسلمان پر جو بھی مصیبت آتی ہے وہ اس کے گناہوں کا کفارہ بنتی ہے یہاں تک کہ اگر کانٹا بھی اسے چبھتا ہے تو اس کے گناہ معاف ہوتے ہیں اس مضمون کی متعدد روایات کتب میں مذکورہ ہیں۔ (قرطبی، ابن کثیر ) النسآء
125 ف 5 یعنی خالص توحید کی راہ اختیار کی اور ہر کام اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے حکم کے مطابق کرتا ہے۔ احسان یہ ہے کہ عمل خالص اللہ کے لیے ہو اور سنت کے مطابق ہو، اگر خلوص نہیں ہے تو ریاکاری ہے اور سنت کے مطابق نہیں ہے تو بدعت ہے۔ (م، ع) ف 6 جن کی دوستی میں کسی پہلو سے کوئی خامی نہ تھی، حضرت جندب (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺ کو آپ ﷺ کی وفات سے پہلے یہ فرماتے سنا اللہ تعالیٰ نے مجھے بھی خلیل بنایاا ہے جیسے حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کو خلیل بنا دیا تھا۔ (مستد رک حاکم بسند صحیح ) النسآء
126 النسآء
127 ف 7 گویہاں یہ صراحت نہیں ہے کہ عورتوں کے بارے میں کیا سوال کررہے تھے۔ لیکن اگلی چار آیات جو فتویٰ دیا گیا ہے اس سے اس سوال کا خود بخود پتا چل جاتا ہے۔ تفاسیر میں ہے کہ صحابہ کرام (رض) نے عورتوں کو وارثت اور ان کے متعلقہ چند احکام کے بارے میں استفسار کیا تو یہ آیت نازل ہوئیں۔ (قرطبی) ف 1 یعنی قرآن تم کو حکم دیتا ہے شروع سورت میں یتیم لڑکیوں کے بیان کردو حقوق کی طرف اشارہ ہے۔ (دیکھئے۔ آیت ب 3) ف 2 یہ تر جمہ اس صورت میں ہے جب توغبون کا صلا فی مخذوف مانا جائے ارواگر اس کا صلہ عب مخذ وف ماان جائے تو ترجمہ یوں ہوگا تم ان سے نکاح کرنا پسند نہیں کرتے۔ حضرت عائشہ (رض) کی حدیث سے اس دوسرے ترجمہ کی تا ئید ہوتی ہے زمانہ جاہلیت میں یتیم بچیوں پر دونوں طرح ظلم کیا جاتا ہے تھا۔ ابتدا سورت میں اس کی تفصیل گزرچکی ہے۔ (قرطبی) اس آیت کے مطلب میں شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں اس سورت کے اول میں یتیم کے حق کا ذکر تھا اور فرمایا تھا کہ یتیم لڑکی جس کا کوئی ولی نہ ہو مگر اس کا چچا زاد۔ سو وہ اگر سمجھے کہ میں اس کا حق ادانہ کرسکو تو وہ اس کو اپنے نکاح میں نہ لائے کسی دوسرے سے اس نکاح کر دے اور خود اس کا ولی بن جائے۔ اب مسلمانوں نے ایسی عورتوں کو نکاح میں لانا موقوف کردیا۔ پھر دیکھا گیا کہ بعض اوقات لڑکی کے ولی کو یہی اسے نکاح میں رکھنا بہتر ہوتا ہے اس بنا پر حضرت ﷺ سے رخصت مانگی گئی اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور اجازت مل گئی اور فرمایا وہ جو کتاب میں منع کیا گیا تھا وہ اس وقت ہے کہ اس حق پورا نہ دو اگر ان کے حق کے بہتری سوچو تو رخصت ہے۔ ( ماخوذ از موضح) ف 3 یعنی ان کے بارے میں بھی اپنے احکام یاد لاتا ہے جو اس سورت کے شروع میں بسلسلئہ میراث دیے گئے ہیں۔ (دیکھئے آیت 10۔12) النسآء
128 شرارتے یہ ہے کہ اس سے بدسلوکی کرے اس کو حقیر سمجھے اس کے پاس سونا بیٹھنا چھوڑدے اسے نان ونفقہ نہ دے مانے پیٹنے کے لیے بہانے تراشے وغیرہ ف 5 مطلب یہ ہے کہ آپس میں مصالحت کرلیں اور شرارت یابے پروای کیفیت کو ختم کردیں اس سلسسلہئہ میں مصالحت کی جو صورت میں اختیار کرلیں وہ جائز ہے مثلا یہ کہ عورت اپنی باری چھوڑدے مہر کم کردے یا تھوڑے سے نان ونفقہ پر راضی ہوجائے حضرت عائشہ (رض) اور ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ جب حضرت سودہ (رض) ضعیف ہوگئیں اور انہیں ی اندیشہ ہوا کہ آنحضرت ﷺ ان کو طلاق نہ دے دیں تو انہوں نے اپنی باری حضرت عائشہ (رض) کو ہبہ کردی۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ ( ابو دود۔ ترمذی) بعض نے اس شان نزول میں رافع (رض) بن خدیج اور ان کی بیوی محمد بن مسلمہ لڑکی کا قصہ بھی بیان کیا ہے کہ رافع نے ایک جوان لڑکی سے نکاح کرلیا تھا کچھ عرصہ لڑائی جھگڑے کے بعد ان کی بیوی نے اس جوان لڑکی کو اپنے حقوق بخش کر رافع سے صلح کرلی کہ میں تمہاری بیوی بن کر رہنا پسند کرتی ہوں مگر پہلی شان نزول صحیح ہے۔ ( ابن کثیر۔ لباب النقول ) النسآء
129 ف 6 یعنی طلاق اگرچہ جائز ہے مگر وہ پسند یدیہ فعل نہیں ہے جیساکہ حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے ابغض الحلال الی اللہ الطلاق کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ ناپسند یدہ چیز طلاق ہے۔ ( ابو داود) ف 7 یعنی اللہ انسان کا بخل اور لالچ تو فطری امر ہے۔ مرد کا شح (بخل) یہ ہے کہ عورت سے استمتاع کرے مگر اس کے پورے حقوق ادا نہ کرے اور عورت کا شح یہ ہے کہ مہر اور نان ونفقہ تو پورا وصول کرے مگر حقوق ادا کرنے میں کوتاہی برتے۔ ف 8 یعنی اس لالچ کے جذبہ کے باوجود اگر میاں بیوی ایک دو سرے سے احسام اور فیاضی کاسلوک کریں تو اس کا اجر اللہ کے ہاں ضرور پائینگے ف 9 یعنی دویادو سے زیادہ بیویوں کے درمیان ہر لحاظ سے پوری پوری مساوات برتنا انسانی طاقت سے باہر ہے کیونکہ عورتیں طبائع اخلاق اور شکل وصورت میں ایک دوسرے سے متفادت ہوتی ہیں۔ ایسی حالت میں اگر مرد کا میلان ایک کی طرف زیادہ اور دوسری کی طرف کم ہو تو ایک فطری امر ہے جس پر وہ چاہے بھی تو قابو نہیں پاسکتا۔ لہذا قرآن نے اس بات پر زوہ دیا ہے کہ تعدد ازواج کی صورت میں ایک کی طرف اس طرح جھک جانا کہ دوسری معلق ہو کر رہ جائے گو یا اس کا کوئی شوہر نہیں ہے یہ تو حرام ہے۔ ظاہری حقوق میں عورتوں سے مساوی سلوک کیا جائے دل کے میلان پر گرفت نہیں ہے اس لیے آنحضرت ﷺ فرمایا کرتے تھے اللھم ھذ اقسھی فی ما املک فلا تلمنی فیما الا املک اے اللہ یہ میری بیویوں کے درمیان اس چیز کی تقسیم ہے جس کا میں اختیار رکھتا ہوں یعنی کھانا پینا کپڑا۔ سونا بیٹھنا وغیرہ) لہذا تو مجھے اس چیز پر ملامت نہ فرماجس کا میں اختیار نہیں رکھتا یعنی دلی میلان اور محبت۔ (ابوداو۔ ترمذی) ف 10 یعنی اس فرق کو جو تمہاری دلی محبت اور رغبت میں پایا جائے گا۔ النسآء
130 ف 11 مردکو دوسری بیوی مل جائے گی جائے گی جو اسے پسند ہو اور عورت کو دوسرا شوہر مل جائے گا۔ جو اس سے پسند ہو اور عورت کو دوسرا زشوہر مل جائے گا جو اسے محبت کرے اور اس کی تمام ضرورتوں کا خیال رکھے (قرطبی) ف 12 یعنی کوئی یہ نہ سمجھے کہ کسی کا رزق میرے ہاتھ میں ہے۔ اگر میں نہ دوں گا تو وہ بھو کا مرجائے گا۔ اللہ تعالیٰ رازق مطلق ہے اور اور اس کے انتظامات انسانی سمجھ کر بالا تر ہیں۔ اس نے جس طرملاپ میں حکمت رکھی ہے جدائی میں بھی رکھی ہے۔ النسآء
131 ف 13 گذشتہ آیات میں عورتوں اور یتیم بچوں سے متعلق بچوں سے متعلق احکام بیان کئے گئے تھے، اب جو یہ فرمایا کہ زمین و آسمان کی ہر چیز اللہ کی ہے تو اس سولوگوں کو یہ بتانا مقصود ہے کہ ان احکام پر عمل کرنے عمل کرنے میں تمہارا ہی فائدہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کسی کے فائدہ ونقصان سے بے نیاز ہے۔ ف 1 یعنی اس کے دیے گئے احکام پر عمل کرو۔ یہ جملہ تمام آیات قرآن کے لیے بمنزلہ (رخی) چکی کے ہے کہ اس کی لٹھ پرہی تمام آیات گھومتی رہتی ہیں۔ النسآء
132 ف 2 شاہ صاحب لکھتے ہیں : تین بار فرمایا کہ اللہ کا ہے جو کچھ آسمان وزمین میں ہے پہلی بار کشانش کا بیان ہے دوسری باربے پروائی کا اگر تم منکر ہو اور تیسری بار کارسازی کا اگر تم تقوی ٰ پکڑو۔ (موضح) جب یہ آّیت نازل ہوئی تو آنحضرت ﷺ نے سلمان کی طرف اشارہ کر کے فرمایا : ھم فوم ھذ کہ یہاں آخرین سے مراد یہ لوگ ہیں (قرطبی) النسآء
133 النسآء
134 ف 4 یعنی شریعت کے احکام پر عمل کرنے میں دنیا اور آخرت دونوں کا فائدہ ہے۔ لہذا دنیا کے لالچ میں آکر اللہ تعالیٰ کے احکام سے اعراض نہ کرو۔ (م۔ ع) النسآء
135 ف 5 یعنی سچی شہادت دوچاہے وہ تمہارے خلاف ہی پڑے اور اس میں پڑے اور اس میں تمہارا ذاتی نقصان ہی کیوں نہ ہو۔ (ابن کثیر) ف 6 اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ اولاد کی شہادت ماں باپ کے خلاف قبول ہوگی اور یہ ان کے ساتھ بر یعنی احسان کے منافی نہیں ہے۔ والدیں اوبھائی کی شہادت بھی سلف کے نزدیک مقبول ہے۔ مگر یہ اسی صورت میں ہے جب وہ عدل ہوں اور ان پر تہمت نہ ہو۔ اسی تہمت کے پیش نظر بعض ائمہ نے میاں بیوی کی ایک دوسرے کے حق میں میں شہادت کو جائز رکھا ہے اور بعض نے ود کیا ہے۔ ( قرطبی) یعنی جس کے خلاف تمہاری گواہی پڑرہی ہے وہ دولتمند ہے تب اور غیر یب سے تب کسی حال میں اللہ کی شریعت سے زہادہ تمہاری طرف داری کا مستحق نہیں ہو سکتا۔ لہذا نہ تم دولتمند سے ڈر کر اس کی طرفداری کرو اور نہ غریب پر ترس کھا کر اس کی بے جارعایت کر بلکہ ہر صورت میں اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق سچی گوایہ دو۔ سدی کہتے ہیں کہ دو آدمی نبی ﷺ کے پاس اپنا جھگڑا لے کر آئے جن میں سے ایک دولتمند تھا اور دوسرا غریب۔ آپ ﷺ کا دلی رحجان غریب کی طرف تھا۔ کیونکہ آپﷺ کا خیال تھا کہ یہ بیچارہ امیر آدمی پر کیسے زیادتی کرسکتا ہے۔ اس پر کہ آیت نازل ہوئی (قرطبی۔ ابن کثیر) یعنی اگر اس طرح بناکر پیش کرو گے کہ جس کے خلاف گواہی پڑنی چاہیے وہ بچ جائے یا سرے سے گواہی ہی نہ دو گے تو جیسا کروگے اللہ کے ہاں اس کی سزا پاو گے (قرطبی۔ شوکانی) النسآء
136 ف 9 یعنی ایمان پر ثابت قدم رہو یا اپنے ایمان میں اخلاص پیدا کرو۔ اس کے مخاطب تمام مومنین ہیں بعض نے لکھا ہے ہے کہ اس کے مخاطب مومنین اہل کتاب ہے۔ لکن الصیح ھوالاول (فتح القدیر) علامہ قرطبی لکھتے ہیں کہ بعض کا خیال ہے کہ یہ خطاب منافقین سے ہے، ان کے بظاہر مسلمان ہونے کی وجہ سے ایمان والے۔ فرمادیا اور معنی یہ ہیں کہ جب تک دل میں کامل یقین پیدا نہ کرو گے اور خالص اللہ کو نہ مانو گے تو خدا کے ہاں مسلمان نہیں ہو سکتے۔ (کذافی المو ضح) ف 10 پہلی کتابوں پر ایمان رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ ان کے متعلق یہ عقیدہ رکھا جائے کہ وہ بھی قرآن کی طرح اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئی تھیں باقی رہا عمل تو وہ ان پر نہیں بلکہ قرآن ارنبی ﷺ کی سنت پر کیا جائے گا۔ ان کتابوں میں جو چیز کتاب وسنت کے مطابق ہوگی اس کی تصدیق کی جائیگی۔ اور جوان کے خلاف ہوگی اسے رد کردیا جائے گا۔ ف 1 یعنی اگر ان میں سے کسی ایک چیز کا بھی انکار کیا تو گویا تمام چیزوں کا انکار کردیا النسآء
137 ف 2 ان لوگوں سے مراد جیسا کہ آیت کے ترجمہ سے ظاہر یہود ہیں اور ان کے زیادہ کفر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ کفر پر قائم رہے اور کفر ہی حالت میں مرے کیونکہ کفر کا یہی وہ درجہ ہے جس کی کشش نہیں ہوتی لیکن اگر کوئی شخص تائب ہوجائے اور ایمان لے آئے تو اس کے تمام گناہ بخشے جاتے ہیں۔ بشر طیکہ اس کے اسلام میں احسان ہو یعنی ثابت قدم رہے اور دوبارہ کفر کا ارتکاب نہ کرے، حدیث میں ہے صحابہ کرام (رض) نے آنحضرت (رض) سے سوال کیا اے اللہ کے رسول ﷺ کی ان اعمال پر مواخذہ ہوگا جو ہم نے جاہلیت میں کئے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا جس نے اسلام لانے کے بعد احسان سے کام لیا اس سے تو مواخذہ نہیں ہوگا۔ مگر جس نے دوبارہ کفر کیا۔ تو وہ تمام گناہوں میں پکڑا جائے گا۔ بعض مفسرین نے ان لوگوں سے منافق مود لیے ہیں جنہوں نے ایمان وکفر کو کھیل بنا رکھا ہے جب ترنگ آئی ایمان لے آئے جب دماغ میں دوسری لہر اٹھی کافر ہوگئے جب ادھر دغا دیکھا تو ایمان کا نعرہ بلند کودیا ہے اور دسری طرف مفاد دیکھا تو کافر ہونے کا اعلان کردیا۔ اس لیے ان کے متعلق فرمایا گیا کہ ان کی بخشش نہیں ہو سکتی، بعد میں منافقین کے ذکر کے ساتھ یہ انسب معلوم ہوتا ہے النسآء
138 النسآء
139 ف 3 آج کل بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں ،۔ جو اپنے مغربی آقاوں کو خوش کرنے کے لیے اور ان نظروں عزت کا مقام ہے حاصل کرنے کے لیے قرآن و حدیث کے صریح احکام کا مذاق اڑاتے ہیں۔ النسآء
140 ف 4 اسے پہلے سورت انعام ہیں یہ حکم نازل ہوچکا تھا۔ (دیکھئے آیت 68) لیکن ان کے باوجود منافقین کی پرورش تھی کہ مسلمانوں کو چھوڑ کر یہودیوں اور مشرکوں کی مجلسوں میں شریک ہوتے اور مشرکوں کی مجلسوں میں شریک ہوتے اور وہاں آیات الیٰ کا مذاق اڑیا جاتا، آیت میں اس روش کی طرف اشارہ ہے ویسے آیت عام ہے اور ہر ایسی مجلس میں شرکت حرام ہے جہاں قرآن وسنت کا مذاق اڑایا جاتا ہو۔ چاہے وہ مجلس کفار ومشرکین کی ہو یا ان اہل بدعت کی۔ ف 5 جو شخص ایک مجلس میں اپنے دین کے عیب سے پھر اس میں بیٹھے اگرچہ آپ نہ کہے وہ منا فق ہے۔ (موضح) النسآء
141 ف 6 یعنی ہم بھی مسلمان ہیں اور تمہاری طرح کلمہ پڑھتے ہیں۔ لہذا مال غنیمت میں ہمیں بھی حصہ دو۔ (قرطبی) ف 7 یعنی ایسے وسائل اختیار کر کے جن سے مسلمانوں کے حوصلے میں پستی آگئی اور وہ شکست کھانے پر مجبور ہو ہوگئے مطلب یہ ہے کہ جس فریق کا غلبہ ہوتا منافقین اپنے آپ کو ان میں شامل کرنے کی کوشش کرتے۔ آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ منافقین غزوات میں شرکت کرتے اور مسلمان ان کو غنیمت میں حصہ نہ دیتے اور وہ اس کا مطالبہ کرتے۔ (قرطبی) ف 8 یعنی دنیا میں تو ان منافقین نے بظاہر کلمہ پڑھ کر اپنے آپ کو بچالیا لیکن آخرت میں ان کی حقیقت کھول دی جائے گی اور تمہیں پتہ چلے گا کہ تم میں کون مومن تھا او کون منافق۔ النسآء
142 ف 1 بشرطیکہ مسلمان ان صحیح معنی ہیں مسلمان ہوں اور اپنے دین کے تقا ضوں کو پوری طرح ادا کرتے ہوں وہ اگر کافروں کے ہاتھوں مغلوب ہوں گے تو اپنے ہی کرتوتو کی بدولت۔ (دیکھئے الشوریٰ آیت 30) ابن عربی لکھتے ہیں کہ یہ توجیہ نہایت اچھی ہے اور صحیح مسلم میں ثوبان (رض) کی حدیث سے اس کی تائید ہوتی ہے جس میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے امت کے لیے دعا کی۔ الا یسلط علیھم عدواسوی انفسھم کہ ان کی ذات کے سواباہر سے ان پر دشمن کا تسلط نہ ہو۔ (قرطبی) ف 2 اللہ تعالیٰ کو فریب دینے سے مراد یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کے سامنے زبان سے کلمہ پڑھتے ہیں حالانکہ دل میں میں کفر چھپائے ہوئے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کا انہیں فریب دینا یہ ہے کہ وہ انہیں ان کی فریب کاریوں کا بدلہ دیتا ہے اور انہیں دنیا وآخرت دونو میں ذلیل وخوات کرتا ہے ،(دیکھئے۔ سورت بقرہ آیت :9) یعنی وہ محض ریاکاری کی نمازیں پڑھتے ہیں مگر ان نمازوں میں غیر حاضر رہتے ہیں جن میں نمائش نہیں ہو سکتی ہے جیسے صبح اور عشا کی نماز حدیث میں ہے منافقین پر صبح اور عشا کی نمازوں سے زیادہ گراں ہے۔ حالا نکہ وہ جانتے کہ ان کا کیا ثواب ہے تو وہ ان میں حاضر ہوتے چاہے ان میں گھسٹ کر آنا پڑتا۔ (بخاری مسلم) ف 4 یعنی جلدی جسیے کوئی بیگار ٹالنا مقصود ہے صحیح احادیث میں ہے کہ منافقین بیٹا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ جب سورج شیطان کے دونوں سینگوں کے درمیان (یعنی غروب ہونے کے باکل قریب) ہوجاتا ہے تو کھڑا ہوتا ہے اور زمین پر چادر ٹھونگیں مارلیتا ہے جن میں اللہ کو بہت ہی کم یاد کرتا ہے۔ (ابن کثیر ) النسآء
143 ف 5 یعنی جو شخص سب کچھ جاننے اور سمجھنے کے باوجود خود گمراہی میں پڑاہوا ہوا اور باطل پرستی کی طرف راغب ہو تو اسے راہ راست پر لانے کے لیے کوئی انسانی نصیحت اور کوشش کار گر نہیں ہو سکتی بلکہ وہ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی ہوئی سزا کے طور پر گمراہی ارباطل پرستی میں پختہ ترہو تا چلا جائے گا النسآء
144 ف 6 یعنی اس کے حکم کی خلاف ورزی کرکے عذاب الہی کے لیے ایسی واضح اور کھلی دلیل اپنے اوپر قائم کرنا چاہتے ہو کہ اس کے بعد مستحق عذاب ہونے میں کسی قسم کا شک وشبہ نہ رہے ان آیات کی شان نزول میں لکھا ہے کہ بعض انصار اور یہود میں ہجرت سے پہلے دوستی اررضاعی قرابت مندی تھی ان انصار (رض) نے اس تعلق کے باقی رکھنے کا مسئلہ آنحضرت ﷺ سے پوچھا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (خازن النسآء
145 ف 7 آخرت میں دارالعذب کے کئی درجے ہیں جن کا قرآن کی مختلف آیات میں ذکر ہوا ہے پہا درجہ جہنم دوسرا الظیٰ ہاد یہ ہے یہی ہاو یہ جو سب سے نچلا درجہ ہے منافقین کا ٹھکانہ ہوگا۔ کھلے کافروں کو اور مشرکوں اس سے اوپر کے درجوں میں رکھا جائے گا حضرت عبد اللہ بن عمر (رض) فرماتے ہیں تین گرہوں کی قیامت کے دن سب سے سخت عذاب ہوگا۔ منافقین اصحاب مائذہ میں سے جنہوں نے کفر کیا اور آل فرعون منافقین کے متعلق تو یہی آیات ہے اور آل فرعون کے متعلق فرمایا ادخلو ال فرعون اشد العذاب اور اصحاب مائدہ کے متعلق فرمایا فانی عذبہ عذابا لا اعذ بہ احد امن العالمین (قرطبی) النسآء
146 النسآء
147 ف 8 جن منافقین کی اوپر مذمت کی ہے ان کی نجات کے لیے بطور استثنا چاباتیں فرمائیں ایک یہ کہ اپنے پچھلے رویہ پرنادم ہوں۔ دوسرے یہ کہ آئندہ کے لیے اپنی پوری طرح اصلاح کرلیں تیسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ کی رسی مضبوط پکڑیں یعنی اس کی کتاب کے احکام پر پوری طرح عمل کریں چوتھی یہ کہ دین کا جو کام کریں خالص اللہ کی رضامندی حاصل کرنے کے لیے کریں۔ (احسن التفاسیر) یہ چاروں کام درجہ بدرجہ اور ایک دوسرے پر مترتب ہوتے ہیں۔ رازی ) النسآء
148 ف 1 یعنی اگر کسی میں کوئی دینی یا دنیو عیب پایا جاتا ہے تو اسے بر سر عام رسو انہ کیا جائے اور ہر شخص کو بتایا جائے کیونکہ یہ غیبت ہے او غیبت قطعی حرام ہے۔ البتہ جب کوئی شخص ظلم پر اتر آئے تو اس کے عیوب دوسروں کے سامنے بیان کرنے جائز ہیں حدیث اذکر وا الفاسق بما فیہ کی تحذ رہ الناس کہ فاسق کے فسق کو لوگوں کے سامنے بیان کرو تاکہ لوگ اس سے محتاط رہیں نیز کوئی شخص باوجود وسعت کے دوسرے کا حق نہ دیتا ہو تو اس کو طعن ملامت جائز ہے حدیث میں ہے لتی الو جد ظلم یحل عرضہ وعقو بتہ کہ کسی غنی آدمی کا صاحب حق کا حق ادانہ کرنا ظلم ہے جو اس کی آبرو اور عقوبت کو حلال کردیتا ہے۔ اسی طرح جو پہلے زیاتی کرے جیسے حدیث میں ہے المتساباب ماقالاہ قد لی البادی منھما ما لم یعتد المظلوم کہ دوشخص آپس میں گالم گلوچ کریں تو سارا گناہ ابتدا کرنے والے پر ہے بشر طیکہ مظلوم زیادتی نہ کرے اس آیت کے تحت علمائے تفسیر نے لکھا ہے کہ ظالم کے حق میں بد عا کرنی بھی جائز ہے ( دیکھئے شوری ٰ آیت 41) حالت اکراہ میں برا کلمہ بھی الامن ظلم مستثنیٰ متصل بحذف مضاف ای الا جھر من ظلم وان کان الجھر مبتنی المجا ھر فلا حذف ویحتمل ان یکون منقطعا ای لکن من ظلم فلہ ان یقول ظلمنی فلان۔ (قرطبی) فائدہ گذشتہ آیات میں منافقین کے عیوب کا بیان تھا۔ یہاں استدراک کے طور پر بتایا کہ چونکہ ظالم ہیں تاہم حتی الوسع نام لے کر عیب بیان نہ کرے (موضح) النسآء
149 ف 2 اس میں عفو کی ترغیب ہے (قرطبی) یعنی اگرچہ ظالم کا شکوہ یا اس کے حق میں بد دعاجائز ہے تاہم عفو درگزر سے کام لینا بہتر ہے حدیث میں ہے ولا زاداللہ عبدا بعفوا الا عزا کہ جو شخص معاف کر یتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی عزت میں اضافہ کرتا ہے۔ (ابن کثیر) یہ دو جملے برو خیر کے تمام شعبوں پر مشتمل ہیں (کبیر ) النسآء
150 ف 3 منافقین کے قبائح بیان کرنے کے بعد یہاں سے اہل کتاب (یہود نصاری ٰ) کے خیالات اور شبہات اور ان کی تر دید کا بیان شروع ہو رہا ہے اور یہ سلسلئہ بینا سورت کے آخرتک چلا گیا ہے (کبیر) اللہ تعالیٰ کو ماننا اور رسالت و نبوت اور شرئع کا انکار کفر ہے (قرطبی) اس لیے کہ اللہ کا ماننا یہی ہے کہ زمانہ کے پیغمبر کا حکم مانے اس کے بغیر اللہ کا ماننا غلط ہے۔ (مو ضح) نیز شرائع کا انکار عبودیت کا انکار ہے اور عبودیت کا انکار صانع کے انکار کو مستلزم ہے (قرطبی) ف 4 مراد اہل کتاب ہیں اور عطف تفسیری ہے (قرطبی) یہود حضرت موسیٰ ٰ ( علیہ السلام) پر ایمان رکھتے اور حضرت عیسیٰ ٰ ( علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ ٰ ( علیہ السلام) کو مانتے مگر محمد ﷺ کا انکار کرتے۔ (ابن کثیر) ف 5 یعنی سب کو ماننا ایمان ہے اور سب کا انکا رکفر ہے اور یہ بعض پر ایمان لاکر اور بعض سے انکار کرکے ایک تیسری راہ اختیار کرنا چاہتے ہیں اور اس کا نام یہودیت یا نصرانیت رکھتے ہیں جیسا کہ فی زماننا مادہ پرستوں نے اسلام اور کفر کے آمیرزہ کا نام مذہب رکھ چھوڑا ہے۔ النسآء
151 ف 6 ان لوگوں کے کافر ہونے میں کسی قسم کا شک وشبہ نہیں حقا مصدر محذ وف کی تاکید ہے۔ ( کبیر ) النسآء
152 ف 7 مراد امت محمدی ہے ج تمام پیغمبر روں پر ایمان رکھتی ہے لہذا ان کے لیے بشارت ہے (قرطبی) النسآء
153 ف 8 اس آیت میں یہو دکی دوسری جہالت کا بیان ہے اور اس سے مقصد ان کے تعنت اور جبلی صد وعناد کو بیان کرنا ہے۔ (کبیر) آنحضرت ﷺ کی رسالت پر ایمان تو لانا نہیں چاہتے تھے مگر ازراہ شرارت نت نئے وارد کرتے رہتے تھے۔ ایک مرتبہ کچھ یہود آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگے کہ موسیٰ ( علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تختیاں ملی تھیں آپ ﷺ بھی اللہ تعالیٰ کے ہاں سے اسی طرح کی کتاب لاکر دکھائیں تاکہ ہم آپ ﷺ کی تصدیق کریں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئیں (ابن جریر) قرآن نے اس شبہ کے جواب میں پہلے تو ان پر الزامات عائد کئے اور پھر انا اوحینا الا یہ سے اس شبہ کو تحقیقی جواب دیا ہے، کبیر) اور یہ سلسلئہ بیان آیت 107 تک چلا گیا ہے اس کے بعد یا ھل الکتاب الا تغلوا سے نصاریٰ سے خطاب ہے۔ (فتح الر حمن) ف 9 فرمایا کہ موسیٰ ٰ ( علیہ السلام) کتاب لائے تو تم نے اس سے بھی بڑا مطالبہ پیش کردیا یعنی یہ کہ ہمیں اللہ تعالیٰ کا دیدار حاصل ہو۔ (دیکھئے سورت بقرہ آیت 55) ف 1 یعنی کو انہوں نے تعنت اور عناد سے کام لیا لیکن آخر کا رمو سی ٰ ( علیہ السلام) کو سلطنت واقتدار حاصل ہوگیا اور یہ لوگ ان کے حکم کے خلاف ورزی نہ کرسکے۔ اس میں بر سبیل تنبیہ آنحضرت ﷺ کی بشارت دی ہے کہ آخر کار معاند مغلوب ہوں گے۔ اس کے بعد ان کی دوسری جہالتوں کا بیان ہے (کبیر) النسآء
154 ف 2 یہاں سجدہ اپنے لغوی معنی میں ہے یعنی تواضع اور انکساری (مفردات) نیز دیکھئے بقرہ آیت 58) ف 3 اصحابہ سبت کے قصہ کی طرف اشارہ ہے جن کو ہفتہ کے دن مچھلی کے شکار سے منع کیا گیا تھا۔ (دیکھئے بقرہ آیت 65 نیز سورت اعراف آیت 163) النسآء
155 ف 4 فبما نقضھم اس میں ما زائدہ توکید کے لیے ہے اور بامتعلق بمخذوف ہے ای لعنا ھم۔ (قرطبی۔ رازی) یعنی تورات پر عمل کا عہد اور دوسرے عہود توڑنے کی و جہ سے الخ ہم نے ان لعنت مسلط کردی۔ بقیہ حواشی کے لیے دیکھئے سورت بقرہ آیت 61۔ ف 5 یہ غلاف کی جمع ہے ( کبیر) تو کسی کی بات ہم کیسے سن سکتے ہیں یا یہ کہ ہمارے دل علم کے خزانے ہیں ہمیں مزید علم کی ضرورت نہیں یہ کہہ کر وہ انبیا کی تکذیب کیا کرتے تھے۔ (رازی) ف 6 جیسے عبد اللہ بن سلام اور ان کے چند ساتھی دوسرامطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ قلیلا مصدر مخذوف کی صفت ہو یعنی وہ ایمان نہ لا ئینگے مگر تھوڑا۔ یعنی حضرت موسیٰ ٰ ( علیہ السلام) اور تورات پر یہ ان کے زعم کے اعتبار سے فرمایا ہے ورنہ ایک نبی ( علیہ السلام) کی تکذ یب جملہ انبیا ( علیہ السلام) کی تکذیب ہے (رازی) النسآء
156 بکفرھم کے معنی یہ ہیں کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کے بغیر باپ کے پیدا ہونے کو محال سمجھا جس سے اللہ تعالیٰ کی قدرت کا انکار کر کے صریح کفر کا ارتکاب کیا اور پھر حضرت مریم ( علیہ السلام) کی طرف زنا کی نسبت کر کے مزید بہتان باند ھا (رازی ) النسآء
157 ف 8 یا یہودی انہیں محض طنزار سول اللہ ( علیہ السلام) کہا کرتے تھے اور پھر بزم خود قتل کرنے پر اس طرح کا فخر یہ ان کا انتہائی سنگین جرم تھا۔) رازی۔ قرطبی) اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ عیسیٰ ٰ ( علیہ السلام) کے قتل کا دعویٰ کرتے ہوں اور اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ ٰ ( علیہ السلام) کو رفعت شانکے پیش نظر یہ القاب ذکر فرادیئے ہوں (رازی) ف 9 یعنی اللہ تعال نے ان کی ایک صورت بنا دی اس صورت کو سولی چڑھا یا۔ (مو ضح) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جب یہودی حضرت مسیح ( علیہ السلام) کو پکڑ نے کے لیے گئے تو آپ ( علیہ السلام) نے اپنے حواریوں سے فرمایا تم میں سے کون شخص اس بات پر راضی ہے کہ اسے میرا شبیہ بنا دیا جائے ایک حواری اس پر راضی ہوگیا چنانچہ حضرت مسیح ( علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے آسمان کی طرف اٹھالیا اور اس نو جوان کو حضرت مسیح ( علیہ السلام) کی شکل و صورت میں تبدیل کردیا گیا یہودی آئے اور اسے سولی دیدی (ابن کثیر، ابن جریر بسند صحیح) ان اختلاف کرنے والوں میں یہود اور نصاریٰ دونوں شامل ہیں۔ یہود میں سے بعض تو کہتے ہیں کہ ہم نے واقعی مسیح ( علیہ السلام) کو سولی دے اور بعض مترد ہیں اور نصاری ٰ میں سے بعض تو کہتے ہیں کہ حضرت مسیح ( علیہ السلام) کے ناسوت یعنی جسم کو سولی دی گئی اور لاہوت (خداوندی) کے کو اوپر اٹھالیا گیا اور بعض دونوں کی سولی کے قائل ہیں غیرہ قرآن نے ان سب کی تکذیب کی۔ (وحیدی) النسآء
158 ف 11 یعنی جسم اور روح دونوں کے ساتھ اللہ تعال نے حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کو اپنی طرف آسمان پر اٹھلالیا جہا وہ زندہ موجود ہیں۔ قیامت سے پہلے دوبارہ دنیا میں آئیں گے کئی سال یہاں زندگی گزریں گر اور دجال کو قتل کرنے کے بعد اپنی طبعی موت مریں گے حضرت مسیح ( علیہ السلام) کا اپنے ناسوتی بدن کے ساتھ آسمان کی طرف رفع اور ان کی حیات ! یہ امت مسلمہ کا متفقہ عقیدہ ہے جس کی بنیاد قرآنی تصریحات اور ان تفصیلات پر ہے جو احادیث میں وارد ہیں۔ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں : اتفق اصحاب الا خبار والتفسیر علی ٰ ان عیسیٰ رفع ببدنبہ حیا (تلخیص الجیر 319) کہ تمام اصحاب تفسیر ائمہ حدیث اس پر متفق ہیں کہ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) اپنے بدن سمیت زندہ آسمان پر اٹھائے گئے لہذا حیات مسیح کے انکار سے قرآن و حدیث کا انکار لازم آتا ہے جو موجب تضلیل ہے۔ النسآء
159 ف 12 یعنی یہودی کہ حاضر شوندنزول عیسیٰ ( علیہ السلام) را البتہ ایمان آرند واللہ اعلم (فتح الرحمن اور یہودی ونصاریٰ سب اب پر ایمان لاوینگے کہ یہ مرے نہ تھے۔ (مو ضح) یعنی جب حضرت مسیح ( علیہ السلام) قیامت سے کچھ پہلے نازل ہو نگے تو ان کی طبعی وفات سے قبل جو اہل کتاب اس وقت موجود ہو نگے سب ان کے رسول اللہ ہونے اور آسمان پر زندہ اٹھائے جانے پر ایمان لاچکے ہونگے فاقو وان شئتم : وان من اھل الکتٰب الا یمئو منن بہ قبلموتہ یعنی اگر تم بطور استثنا چاہو تو یہ آیت پڑھو مطلب یہ یہ کہ آحادیث کے علاوہ اگر اس پیش گوئی کو قرآن کی روشنی میں دیکھنا چاہو تو یہ آیت پڑھ لو۔ (ابن کثیر شوکانی) محققین کے نزدیک حضرت مسیح ( علیہ السلام) کے قرب قیامت نزول کی روایت متواتر ہیں۔ (دیکھئے ججج الکرامتہ ص 39۔434 ) اور امام شوکانی نے التو ضح بما تو اتر من احادیث نزول المسیح کے نام کا ایک مستقل رسالہ لکھا ہے جس میں پچاس سے زیادہ احادیث لائے ہیں حضرات النواب مذکورہ کتاب حجج الکرمتہ میں تمام احادیث لے آئے ہیں۔ بنابریں یہ مسئلہ اسلام کے ضرور عقائد سے شمار کیا گیا ہے چنانچہ ایک جنبلی علام علامہ محمد بن احمد سفارینی (متوفی 1188 ھ) علامت قیامت کے سلسلسہ میں لکھتے ہیں ونزولہ ثابت بالکتاب والسنتہ والا جماع پھر دلیل میں آیت زیر تفسیر حدیث ابو ہریرہ (رض) بیان کر کے لکھتے ہیں والما الاع فقد اجمعت الر متہ نزولہ ولا یخالف فیہاحد من اھل الشریعتہ شرح عقیدہ سفار دینی ج 2 ص 79۔90) یعنی یہ نزول امت محمدیہ ﷺ کے اتفاق سے قطعی ثابت ہے۔ کوئی بھی مسلمان اس کا مخالف نہیں۔ ف 13 یعنی اس وقت یہود کے خلاف گواہی دینگے کہ انہوں نے میری تکزیب کی اور نصاریٰ کے خلاف کہ انہوں نے مجھے اللہ کا بیٹا قرار دیا۔ دیکھئے سورت مائدہ آیت 120) النسآء
160 ان کو شرارتوں کے ذکر کے بعد ان پر تشد کا ذکر ہے (کبیر) یہاں طیبات سے مراد ان انعامات کا موقوف کردینا ہے جو باشاہی نبوت ونصرت وغیرہ شکل میں ان کو حاصل تھے۔ وایں مشابہ ایں آیت است وضربت علیہم الزلتہ (فتح الرحمن) ف 2 یعنی اوپر سب شرارتیں جو ان کی ذکر کیں بعض پہلے بیان ہوئیں اور بعض پیچھے لیکن یہ کہ گناہ پر دلیر تھے اس واسطے ان کی شریعت سخت رکھی کہ سرکشی ٹوٹے۔ (موضح) النسآء
161 ف 3 اس وقت جو توراۃ موجود ہے اس میں بھی متعدد مقامات پر سو دکوحرام قرار دیا گیا ہے۔ (دیکھئے کتاب خروج باب 22۔25۔27) ف 4 یعنی رشوت جوا دھوکا اور دوسرے ناجائز ذرائع سے تمام گناہ دو قسم پر ہیں ظلم علی الخلق واعابض عن الحق آیت میں وبصدھم سے ظلم علی الخلق سے ہے (کبیر ) النسآء
162 ف 5 یعنی اندھی تقلید نہیں کرتے۔ (وحیدی) یہ مومنین اہل کتاب کو بشارت ہے جو حضرت موسیٰ ٰ ( علیہ السلام) کے بعد آنحضرت ﷺ پر بھی ایمان لے آئے (کبیر اس آیت میں والمتعیمین الصلوٰۃ منصوب علی ٰ المدح ہے (کبیر ) النسآء
163 ف 6 یہ ان کے شہبے (ان تنزل علیہم کتابا من السما کا اصل معاملہ دوسرے یعنی وحی اور دعوت الی ٰ الحق میں آنحضرتﷺ کا معاملہ دوسرے انبیا سے مختلف نہیں ہے۔ حضرت نوح ( علیہ السلام) سے لے کر جتنے انبیا ورسل ( علیہ السلام) ہوئے ہیں سب کو الگ الگ معجزات ملے اور تورت کے علاہ کسی کو بی یکبارگی کتاب نہیں دی گئی پھر جب یکبارگی کتاب ان پر نازل نہ کرنے سے ان کی نبوت پر حرف نہیں آتا تو آپ ﷺ کی نبوت کے لیے کیسے وجب قدح ہوسکتا ہے حضرت نوح ( علیہ السلام) صاحب شریعت نبی سب سے پہلے حضرت نوح ( علیہ السلام) تھے اور حضرت نوح ( علیہ السلام) ہی وہ بی ( علیہ السلام) ہیں جن کی قوم پر عذاب نازل ہوا اور رد شرکا وعظ بھی حضرت نوح ( علیہ السلام) سے شروع ہوا اس لیے سب سے پہلے ان کا نام ذکر کی ہے قرطبی۔، کبیر) وحی کے اصل معنی تو کسی مخفی ذریعہ سے کوئی بات سمجھا دینا کے ہیں اور ایحا (افعال) یعنی الہام بھی آجاتا ہے۔ (بحث کے لیے الشوریٰ آیت 51) ف 7 یعنی تم زبور کو تو اللہ تعالیٰ کی کتاب تسلیم کرتے ہو حالا نکہ وہ بھی حضرت داود ( علیہ السلام) پر تورات کی مثل تختیوں کی شکل میں نازل نہیں ہوئ تھی پھر قرآن کے منزل من اللہ ہونے کا کیوں انکار کرتے ہو۔ (کبیر) موجود زیور میں ایک سو پچاس سورتیں ہیں جن میں دعائیں، نصحیتیں اور تمثلیں مذکور ہیں رحلت وحرمت کے احکام نہیں ہیں (وحیدی) یعنی حضرت موسیٰ ٰ ( علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے اپنی ہم کلامی کا شرف بخشا جو اور کسی کو حاصل نہیں ہوا۔ (دیکھئے سورت مقرہ آیت 253) پھر اگر موسیٰ ٰ ( علیہ السلام) کے اس شرف سے دوسرے انبیا پر طعن نہیں آسکتا تو تورات کا یک باری کی نزول کسے مو جب طعن ہوسکتا ہے (کبیر ) النسآء
164 النسآء
165 ف 9 یعنی انبیا ( علیہ السلام) کی بعثت کا مقصد تو صرف یہ ہے کہ جو لوگ ایمان لیے آئیں اور اس کے مطابق اپنے آپ کو درست کرلیں انہیں جنت کی خوش خبری دیں اور جو کفر ونافرمانی پر جمے رہیں انہیں اس طرح ان پر اتمام حجت ہوجائے اور وہ اللہ کے ہاں کوئی عذار پیش نہ کرسکیں کہ ہمارے پاس تو تیری طر سے کوئی خوشخبری دینے یا تنبیہ کرنے ولا نہیں آیا اور یہ مقصد کتاب وشریعت کے نازل کرنے سے حاصل ہوجاتا ہے عام اس سے کہ وہ کتاب یک بارگی دی جائے یا تدریجا نازل ہو، بعثت کے اس مقصد اصلی پر اس سے کوئی اثر نہیں پڑتا بلکہ وہ کتاب کے حسب ضرورت تدریجا نازل کرنے سے تو یہ مقصد علی وجہ الا تم حاصل ہوتا ہے پھر ان کا یہ کہنا کہ مو سیٰ ( علیہ السلام) کی طرح یکباری گی کتاب لائیں گے تو مانیں گے ورنہ نہیں یہ محض ضد اور عناد ہے (کبیر ) النسآء
166 ف 1 یعنی وحی ہر پیغمبر آتی رہے پھر نیاکام نہیں۔ پر اس کلام میں اللہ تعالیٰ نے اپنا خاص علم اتارہ اور اللہ تعالیٰ اس حق کو ظاہر کردے چنانچہ ظاہر ہوا کہ جس قدرت ہدایت اس نبی سے ہوئی اور کسی سے نہیں ہوئ (موضح) یہ آیت بھی یہود کے مذکورہ سوال کے جواب میں ہے کہ اگر یہود قرآن کے کتاب الیٰ ہونے کا انکار کرتے ہیں تو اس سے قرآن کی صداقت مجروح نہیں ہوتی کیونکہ اللہ تعالیٰ یہ گواہی دیتا ہے جی قرآن اللہ تعالیٰ نے اپنے علم اور حکمت بالغہ کے ساتھ نازل کیا ہے۔ جو اس کے انتہائی کامل ہونے کی دلیل ہے یہاں بعلمہ کا لفظ بطور محارہ استعمال ہو اہے۔ جیسے کہا جاتا ہے ہے فلاں نے یہ کتاب اپنے کامل علم وفضل کے ساتھ تصنیف کی ہے یعنی اپنے پورے علوم سے مدد لی ہے جو اس کتاب کے نہایت عمدہ ہونے کی دلیل ہے، کبیر یا مطلب یہ ہے کہ اس نے یہ قرآن اپنے علم سے یعنی یہ سب جانتے ہیں ہوئے اتارا ہے کہ دنیا بھر کے انسانوں سے بڑھ کر آپﷺ ہی اس چیز کے اہل تھے کہ آپﷺ پر یہ قرآن نازل کیا جاتا اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ علم نفس ذارباری تعالیٰ سے الگ صفت ہے۔ ف 2 وکفی باللہ ای کفی اللہ والبا زائد ۃ (قرطبی) حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ چند یہو دی نبی ﷺ کے پاس آئے آپ ﷺ نے ان سے فرمایا : اللہ کی قسم میں جانتا ہوں کہ تم کو میرے رسول اللہ ہونے کا خون علم ہے وہ کہنے لگے ہمیں تو اس کا علم نہیں ہے اس پر یہ آیت نازل ہوئی (ابن جریر) النسآء
167 ف 3 ان لوگوں سے مراد یہودی ہیں جو نبی ﷺ پر خود بھی ایمان نہ لاتے تھے او لوگوں کو بھی یہ کہہ کر روکا کرتے تھے کہ اس شخص کی کوئی صفت ہماری کتاب میں مذکور نہیں یا یہ کہ نبوت کا دائرہ تو حضرت ہارو ن ( علیہ السلام) اور داود ( علیہ السلام) کی اولاد تک محدودد ہے یا یہ کہ حضرت موسیٰ ٰ ( علیہ السلام) کا لائی ہوئی شریعت منسوخ نہیں ہوسکتی انکی اس قسم کی کوششوں ہی کو قرآن نے دور کی گمراہ فرمایا ہے . النسآء
168 ف 4 ان کی گمراہی کی کیفیت بیان کرنے کے بعد اب ان کو وعید سنائی جارہی ہے (کبیر) یعنی گناہوں کا ارتکاب کیا یا آخری نبی کی صفات کو چھپاکر آنحضرت ﷺپر ظلم کیا یا دوسرے لوگوں کو اسلام کی راہ سے برگشتہ کر کے ان پر ظلم کیا۔ (قرطبی) النسآء
169 ف 5 یعنی جب کفر ہی کی حالت میں مرجائینگے اور مرنے سے پہلے توبہ نہ کرینگے تو سیدگی جہنم میں جائیں گے اواس میں ہمیشہ رہیں گے اور ان کی جہنم میں لے جا نا پھر ہمشہ وہاں رکھنا اللہ تعالیٰ پر کچھ مشکل نہیں ہے (وحیدی) لہذا اب بھی ان کے لیے موقع ہے کہ کفر وعناد سے بار آجائیں اور اآنحضرت ﷺ کی اتباع اختیار کرلیں۔ النسآء
170 ف 6 متعدد جو و سے یہود کے شبہ کی تردید اور قرآن کی حقانت ثابت کرنے کے بعد اب سب لوگوں کو آنحضرت ﷺ کی رسالت اور قرآن پر ایمان لانے کی دعوت دی جارہی ہے جن میں یہود بھی شامل ہیں کہ جب یہ رسول بر حق اور قرآن بھی اللہ تعالیٰ کی چی کتاب ہے تو تم کو چاہئے کہ اس دعوت کو قبول کرلو، اس میں تمہارا بھلا ہے اور انجام کے لحاظ سے بھی بہتر ہے۔ ورنہ یادرکھو کہ زمین و آسمان میں جتنی مخلوق ہے سب کا مالک اللہ تعالیٰ ہے وہ تمہیں تمہارے بر اعمال پر سزا ینے کی بھی پوری قدرت رکھتا ہے (کبیر) النسآء
171 ف 7 علامہ رازی لکھتے ہیں کہ یہود کے شبہات کا جواب دینے کے بعد اب اس آیت میں نصاری ٰ کے شبہ کی تردید کی جارہی ہے کذافی فتح الرحمن) مگر بعض علمانے لکھا ہے کہ یہ خطاب یہود نصاریٰ دونوں سے ہے اس لیے کہ غلو راہ اعتدال کے چھوڑ دینے کا نام ہے اور یہ افراط وتفریط دونوں صورتوں میں ہے اک طرف نصاری نے حضرت مسیح ( علیہ السلام) کے بارے میں افراط سے کام لے کر ان کو خدا کا بیٹا قرار دے رکھا تھا تو دوسری طرف یہود نے حضرت مسیح ( علیہ السلام) کے بارے میں یہا شک تفریط برتی کہ انکی رسالت کا بھی انکار کردیا۔ قرآن نے بتایا کہ یہ دونوں فریق غلو کر رہے ہیں اعتدال کی راہ یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) نہ تو خدا کے بیٹے ہیں کہ ان کو معبود بنالیا جائے اور نہ ہی جھوٹے نبی ہیں بلکہ وہ اللہ کے بندے اور رسول ہیں قرطبی) آجکل اس قسم غلو مسلمانوں میں بھی آگیا ہے اور ایسے لوگ موجود ہیں جو نبی ﷺ کو اور اولیا امت کا درجہ اس قدر بڑھا دیتے ہیں کہ انتہائی درجہ کی گستاخی شمار کرتے ہیں حالانکہ اس غلو سے آنحضرت ﷺ کو بشر سمجھنا انتہائی درجہ کی گستاخی شمار کرتے ہیں حالانکہ اس غلو سے آنحضرت ﷺ نے سختی سے منع فرمایا ہے حضڑت عمر (رض) سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا لا تطرونی کما اطوت انصارٰی عیسیٰ ٰ ابن مریم فرمنا نا عبد فقولو اعبد اللہ روسولہ یعنی مجھے اس طرح حد سے نہ بڑھا و جس طرح عیسیٰ ( علیہ السلام) ابن مریم ( علیہ السلام) کر بڑھا یا، میں صرف ایک بندہ ہوں لہذا مجھے صرف اللہ تعالیٰ کا بندہ اور اس کا رسول کہا کرو (ابن کثیر بحوالہ مسند احمد) ف 8 یعنی انہیں کلمہ کن سے بنایا اور اس طرح ان کی پیدائش بن باپ کے ہوئی ورنہ یہ معنی نہیں ہے کہ وہ کلمہ عیسیٰ ٰ ( علیہ السلام) بن گیا (ابن کثیر ف 9 یعنی اس کی پیدا کر وہ روح۔ اس سے حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کی عظمت کا اظہار مقصود ہے جیسا کہ ناقتہ اللہ (اللہ کی انٹنی بیتی (میرے گھر کو) میں ہے ورنہ تمام لوگوں کو روحیں اللہ تعالیٰ ہی کی پیدا کردہ ہیں جیسے فرمایا اجمیعامنہ (الجاشیہ) یعنی سب چیزیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں اواسی کی پیدا کردہ اریہ من تبعیضہ نہیں ہے بلکہ ابتدا افایت کے لیے ہے (ابن کثیر اور روح بمعنی رحمت بھی ہوسکتا ہے جیسا کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا انما انا رحمتہ مھداۃ کہ میں اللہ تعال کی رحمت ہوں اور اللہ تعالیٰ کے رسول ( علیہ السلام) لوگوں کو روحانی زندگی بخشتے ہیں اس لیے ان کو روح کہا جاتا ہے۔ (کبیر) ف 10 یعنی حضرت عیسیٰ ٰ بھی اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں پس تم دوسرے پیغمبروں کی طرح ان کو اللہ تعالیٰ کا رسول مانو اور انہیں الو ہیت امقام مت دو (کبیر) ف 11 ثلاثتہ مبصتدا محذوف کو خبر ہے۔ ای الا قایم ثلاثتہ اوٰالھتنا ثلاثتہ .عیسائی بیک وقت خدا کو ایک بھی تسلیم کرتے ہیں اور پھر اقانیم ثلاثتہ کے بھی قائل ہیں۔ یہ اقانیم ثاثتہ کا چکر بھی نہایت پر پیج اور ناقابل فہم ہے (کبیر) جس طرح مسلما نوں میں نور من اللہ کا عقیدہ نہایت ہی گمرہ کن ہے عیسائی کبھی تو اس سے مراد وجودعلم اور حیاۃ بناتے ہیں اور کبھی ان کو باپ بیٹا اور روح القدس سے تعبیر کرلیتے ہیں اور پھر باپ سے وجود روح سے حیات اور بیٹے سے حضرت مسیح ( علیہ السلام) مراد لے لیتے ہیں اور یہ بھی کہتے کہ اقانیم ثلاثتہ سے مراد اللہ تعالیٰ مریم ( علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) ( علیہ السلام) ہیں۔ اس آخری تو جیہ کا قرآن نے بھی ذکر کیا ہے (دیکھئے لمائدہ آیت 116) الغرض عیسائیوں کے عقیدہ تثلیث سے زیاد بعید از عقل کوئی عقیدہ نہیں ہے اور اس بارے میں ان کے اندر اس قدر انتشار ہے کہ دنیا کے کسی عقیدہ میں نہیں ہے (کبیر۔ ابن کثیر) اس لیے قرآن نے انہیں دعوت دی کہ تم تین خداوں کے گو رکھ دھند کے چھوڑکر خالص توحید کا عقیدہ اختیار کرلو۔ ف 12 یعنی نہ اس کوئی شریک ہے نہ بیو اور نہ کوئی رشتہ دار نہ اس نے کسی کو جنا اور نہ کسی نے اس کو جنا (ابن کثیر ) فوائد صفحہ ہذا ف 1 اور جس کو تم نے اس کا شریک ٹھہرایا ہے وہ بھی دوسرے انسانوں کی طرح اس کا مملوک اور مخلوق ہے اور جو شخص مملوک یا مخلوق ہو وہ خالق یا مالک کا بیٹا یا شریک کیسے ہو سکتا ہے۔ ف 6 یعنی اس کو بیٹے کی ضرروت بھی کیا ہے سارے کام بنانے والا تو وہ خود ہی ہے (ازموضح) النسآء
172 ف 3 اس میں عیسائیوں ارمشرکین دونوں کے غلط عقیدہ کی تردید ہے کیونکہ عیسائی حضرت مسیح ( علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا اور مشرکین فرشتوں کو خدا کی بیٹاں کہتے تھے، اللہ تعالیٰ فرمارہے ہیں کہ دونوں خدا کی بندگی کا اقرار کرتے ہیں اور اس کا بندہ ہونے پر کچھ بھی شرم محسوس نہیں کرتے یہی حال ہمارے نبی ﷺ کا تھا جب کوئی شخص آپ ﷺ کا بندہ کہتا تو آپ کو بے انتہا خوشی ہوتی کیونکہ اس مالک الملک اور شہنشاہ مطلق کا بندہ ہونا انتہائی عزت وشرف کا مقام ہے نہ کہ کسی ذلت و رسوائی کا امام ابن القیم (رح) نے اپنی کتاب انوار القلوب میں لکھا ہے کہ آدمی کے لیے بندگی کے مقام سے زیادہ عزت کا کوئی مقام نہیں ہے اکر م الخلق محمد ﷺ کو تین مقامات پر جو کہ نہایت عزت کے مقامات ہیں لفظ عبد (بندہ) کہہ کر ذکر گیا ہے۔ (از فوائد سلفیہ ) النسآء
173 النسآء
174 ف 4 جب اللہ تعالیٰ نے تمام فرق ضالتہ منافقین کفار یہود نصاری ٰ پر دلائل قائم کر دئے اور ان کے شہبات کی بھی مکمل طور پر تر دید فرمادی تو اب اس آیت میں آنحضرت ﷺکی رسالت پر ایمان لانے کی عام دعوت دی ہے یہاں ابران سے مراد آنحضر ﷺ کی ذات ہے کیونکہ آپﷺکاکام ہی اثبات حق اور ابطال اور البطال باطل تھا۔ اور نووامبینا سے مراد قرآن پاک ہے جو انسانوں کو ضلالت کے اندھروں سے نکال کر ہدایت کی روشنی کی طرف لاتا ہے اور دل میں نو ایمان پیدا ہونے کا سبب بنتا ہے (راز ی) النسآء
175 النسآء
176 ف 5 سورت کی ابتدا احکام اموال سے ہوئی تھی اب آخرت انہی احکام کے ساتھ سورت کے ختم کیا جارہا ہے درمیان سورت میں مخالفین سے مجادلہ اور ان کی تردید ہے (رازی) کلالہ پر بحث آیت 11 میں گزر چکی ہے، بخاری ومسلم اور حدیث کی دوسری کتابوں میں حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ میں بیمار ہوا اور بیہوش تھا َ نبی ﷺ میری عیادت کے لیے تشریف لائے آپﷺ نے وضو فرمایا اور وضو سے بچے ہوئے پانی کے میرے منہ پر چھینٹے دیئے۔ جس میں مجھ ہوش آگیا میں نے عرض کی میں کلالہ میری میراث کیسے تقسیم ہوگی۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی (ابن جریر) ف 6 بعض علمانے اس سے استدلال کیا ہے کہ جن کی اولاد نہ ہو خواہ اس کا باپ زندہ یہہو اسے کلالہ کہ جائے گا مگر جمہور علمائے کے نزدیک اس یہ ہے من لا ولد لہ الا والد کہ جس کی نہ اولاد ہو اور با نہ باپ اس لیے تشریح میں نہ باپ کا لفظ بڑھا دیا ہے۔، مزید دیکھئے آیت 11 (ابن کثیر) ف 7 یہا بہن سے عینی یا علاتی بہن صرف باپ کی طرف سے) مراد ہے کیونکہ اخیافی بہن ( جو صرف ماں کی طرف سے ہو) کا حکم سے پہلے گزرچکا ہے۔ (ان کثیر) ف 8 ولد کا لفظ بیٹا بیٹی پر بولا جاتا ہے۔ اس بنا پر بعض نے کہا ہے کہ بیٹی صورت میں بہن محرم رہیگی حضرت ابن عباس (رض) امام داود ظاہر اور علما کی ایک جماعت کا یہی مسلک ہے لیکن اکثر صحابہ تابعین اور بع کے اہل علم کا مسلک یہ ہے کہ بیٹی کی موجودگی میں بہن بحیثیت حصہ اپنا حصہ لے گی جیساکہ آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں حضرت معاذ (رض) نے بیٹی کو نصف اور باقی بہن و بطور عصبہ یا۔ اور دوسری صحیح حدیث میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے خود بیٹی کو نصف پوتی کو سد میں اور باقی ماندہ بہن کردیا۔ یہاں ولد سے مراد صرف لڑکے ہیں (شوکانی ) ف 1 اور یہی حکم دو سے زیادہ بہنوں کا ہے۔ (شوکانی ) النسآء
0 ف 2 سورت مائدہ کی مدنی ہونے میں کوئی اختلاف نہیں ہے متعدد روایات سے معلوم ہوتا ہے پوری کی پوری سورت بیک وقت نازل ہوئی حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں یہ سب سے آخری سورت ہے لہذا اس کے حلال کو حلال اور اس کے حرام کو حرام سمجھو (ابن کثیر ) المآئدہ
1 ف 3 یہ عقد کی جمع ہے اور مراد احکام شریعت ہیں قرآن نے ان کو عھود بھی فرمایا ہے دیکھئے سورت بقرہ آیت 41 ( عام عہدو پیمان بھی مراد ہو سکتے ہیں یہ حکم اکک قاعدہ کلیہ کی حیثیت رکھا ہے اس کے بعد نیچے اس کی تفصیل بیان ہو رہی ہے (کبیر، ابن کثیر) ف 4 بھمتہ الا نعام میں اضافت نیانیہ ہے یعنی ھیمہ جانوروں میں سے صرف انعام حلال ہیں ارانعام سے مرد اونٹ گائے۔ قربھیڑ بکری ہے، دیکھئے سورت نحل آیت 5، انعام 146، (کبیر، ابن کثیر) ف 5 یعنی اس سورت کی تیسری آیت میں، ف 6 حالت احرام میں شکار بھی م ممنو ع ہے اور شکار کرنے والے کسی طریقے سے مدد کرنے کی بھی احادیث میں ممانعت آئی ہے اور حدود حرمین کے اندر بھی یہی حکم ہے دیکھئے آیت 95۔96 (ابن کثیر ) المآئدہ
2 ف 7 شعائر یہ شعیرہ (یا سعارۃ) کی جمع ہے اوشعیرہ (نعیلہ) یعنی مشعرۃ (مفعلہ) ہے یعنی وہ چیز جس پر نشان لگایا ہو یا جو بطور علامت مقرر کی گئی ہو اس سے مراد شریعت کے جملہ اور نواہی ہیں۔ ان کو حلال نہ سمجھنے کا مطلب یہ ہے کہ ان کو ترک نہ کرو یا بے حرمتی نہ کرو۔ بعض نے مناسک حج بھی مراد لیے ہیں (کبیر) ف 8 یہ چار مہینے میں ذوالقعدۃ ذوالحجہ۔ محرم اور رجب مطلب یہ کہ ان میں جنگ کر کے ان کی بے حرمتی نہ کرو تفصیل کے لیے سورت توبہ 36۔ (کبیر) ف 9 بدیٰ خانہ کعبہ کی نیاز کے جانور یعنی جو قربانی کے جانور خانہ کعبہ بھیجے جائیں ان کو راستے میں مت روکو، یہ جانور گو شعائر اللہ کے تحت ہی آجاتے تھے لیکن ان کے مزید احترام کی خاطر ان کو الگ بیان کردیا گیا ہے ف 10 یہ قلادۃ کی جمع ہے جس سے مراد وہ رسی ہے جس میں جوتی وغیرہ پروکر بدی کے گلے میں بطور علامت باندھ دی جاتی ہے اس کا اطلاق اس جا نور پر بھی ہوتا ہے جس کے گلے میں یہ پٹہ ڈالاہوا ہو چنانچہ ترجمہ اسی کے پیش نظر ہے۔ ف 11 دب کے فضل سے مراد رزق ہے ج تجارت وغیرہ کے ذریعہ کمایا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا مندی سے مراد حج یا عمرہ ہے جو طلب ثواب کے لیے کیا جاتا ہے مطلب یہ ہے کہ حج یا عمرہ میں تجارت کی نیت بھی کرلی جائے تو ممنو ع نہیں ہے بعض نے فضل سے ثواب ہی مراد لیا ہے یعنی وہ اللہ تعالیٰ نے ثواب اور اس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے مکہ جا رہے ہیں (ابن کثیر) اگر اس کے تحت مشرک بھی داخل ہوں تو معنی یہ ہوں گے کہ وہ بھی اپنے زعم میں اللہ تعالیٰ کی خشنودی حاصل کرنے کے لیے جاتے ہیں لہذا ان کو تکلیف مت دو مگر یہ حکم سورت توبہ آیت 28 کی روسے منسوخ ہوگا۔ (ابن کثیر قرطبی) ف 12 یہ مربرائے اباحت یعنی احرام کھولنے کے بعد شکار جائز ہے ( ابن کثیر) ف 13 حضرت زید (رض) بن اسلم فرماتے ہیں حدیبیہ کے سال تقریبا ڈیڑ ھ ہزار مسلمان عمرہ کیے بغیر واپس چلے آئے تو ان کے دل میں نہایت غصہ اضطراب تھا۔ اس سال نجد کے کچھ مشرک بھی عمرہ کے لیے مکہ معظمہ جارہے تھے وہ مدینہ کے پاس سے گزرنے لگے تو مسلما نوں نے ارادہ کیا کہ جس طرح مشرکین مکہ نے ہمیں عمرہ سے روک دیا ہے ہم بھی ان کو روک دیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرائی (ابن کثیر) مطلب یہ کہ انہوں نے گو شعائر اللہ کی بے حرمتی کی ہے مگر تم اس سے دشمنی سے مغلوب ہو کر انتقامی کاروائی مت کرو۔ ف 1 ہر قسم کا نیک کام کرنے کا نام بر ہے اور برائی کرترک کرنے کا کام تقویٰ ہے باہم تعاون اور عدم تعاون کے لیے ایک اصول مقرر کردیا ہے جس سے اسلامی معاشرہ میں برائیوں کا سدباب ہوسکتا ہے۔ حدیث میں ہے انصر اخاک ظالما او مظلوما کہ مسلمان بھائی کی مدد کرو خواہ وہ مظلوم یا ظالم ہی کیوں نہ ہو اور ظلم ہی کیوں نہ ہو اور ظالم ہونے کی صورت میں اس کی مدد یہ ہے کہ اسے ظلم سے روکا جائے ،(ابن کثیر ) المآئدہ
3 ف 2 اس سے معلوم ہوا کہ غیر خدا کے نام پر جانور ذبح ہو یا غیر خدا کی تعظیم میں وہ مردار ہے (موضح) مزید تشریح کے لیے دیکھئے سورت بقرہ آیت 173) ف 3 مثلا کسی ایسے آلہ سے قتل کردیا جائے جو تیز نہ ہو اور نہ اسے شرعی طریقہ ہی سے ذبح کیا گیا ہو۔ زمانہ جاہلیت میں جانور کو لاٹھی سے مارتے جب وہ مر جاتے تو اس کا گوشت کھالیتے اسی کو قرآن نے المو قوذۃ فرماکر قرار دیا ہے۔ (ابن کثیر) ف 4 یہ مستثنی ٰ متصل ہے یعنی جو جانور مذکورہ بالا صورتوں میں سے کسی ایک صورت کا شکار ہو مگر ابھی اس میں جان باقی ہو اور تم اسے شرعی قاعدے سے ذبح کرلو تو وہ حرام نہیں رہتا اسے کھان جائز ہے بض نے اسے مستثنی ٰ منقطع مانا ہے یعنی مذکورہ چیزیں تم پر حرام ہیں لیکن جو تم زبح کرو وہ حرام نہیں ہے (قرطبی) زکاۃ شرعی ہے کہ بسم اللہ واللہ اکبر کہہ کر تیز دھار ولی چیز سے حقل کی رگوں کو غلصمہ کے نیچے سے کاٹ کر خون بہا دیا جائے حدیث میں ہے انما الذکوٰۃ فی الحلق کہ ذبح وہ ہے جو حقل میں ہو پھر بحالت اضطراری جس چیز سے بھی جسم کے کسی حصہ سے خون بہا دیا جائے اس ذبیحہ کا کھانا بھی جائز ہے۔ (قرطبی) ف 5 نصب (تھانوں یا استھانوں) سے مراد وہ پتھر ہیں جن کی مشرکن مکہ تعظیم وپرستش کرتے تھے اور ان پر اپنے جا نور ذبح کرتے تھے مطلب یہ ہے کہ ان پتھروں کی تعظیم کے لیے جو جانور زبح کیا وہ حرام ہوگا ورنہ محض ان پتھروں پر ذبح کرنے سے جانور حرام نہیں ہوجاتا اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ علیٰ بمعنی لام ہو یہ بھی دراصل ما اھل لغیر اللہ میں داخل ہے مگر ان پتھروں پر بکثرت ذبح کیے جانے کے سبب اس کو الگ ذکر کردیا گیا ہے (کبیر، قرطبی) بعض مفسرین نے الاذلام (پانسوں سے مراد تقسیم کے تیر لیے ہیں جو زمانہ جاہلیت میں جا نور کا گوشت بانٹنے میں استعمال ہوتے تھے اور وہ جوئے کی ایک صورت تھی جسے ہمارے زمانہ میں لاٹری کہا جاتا ہے، چنانچہ ترجمہ اس کو ملحوظ رکھا گیا ہے لیکن اکثر مفسرین نے ان سے مراد وہ تیر لیے ہیں جن سے مشرکین مکہ یہ معلوم کرنے کی کو شش کرتے تھے کہ پیش آمدہ سفر جنگ یا کسی معاملہ میں ان کی قسمت میں کیا لکھا ہے یہ تیر قریش کے سب سے بڑے بت ہبل کے پاس رکھے رہتے تھے ان میں سے کسی پر امرنی ربی (میرے رب نے حکم دیا) لکھا ہوتا تھا کسی پر نہانی ربی (میرے رب نے مجھے منع کیا) اور کسی پر کوئی تحریر نہ ہوتی تھی۔ عرب لوگ کسی پیش آمدہ معاملہ میں وہ تیر گھماتے اور جو تیر نکل آتا اس کے مطابقا عمل کرتے۔ نرد اور سطرنج بھی اسی میں داخل ہیں اور نجومیوں کا حساب لگا کر قسمت بتانا بھی اسی کے تحت آجاتا ہے۔ (قرطبی) ف 7 یعنی اب تمہارے طاقت اس قدر مستحکم ہوگئی ہے کہ تمہارے دشمنوں کی کمر ٹوٹ گئی ہے اور وہ اس چیزسے قطعی مایوس ہوگئے ہیں کہ تمہارے دین کو نیچا دکھا سکیں آج سے مراد حجتہ الوداع (10 ھ میں عرفہ کا دن ہے جس میں آیت نازل ہوئی۔ ّقرطبی) ف 8 دین کو مکمل کردینے سے مراد یہ ہے کہ اس کے تمام ارکان فرائض سنن حدود اور احکام بیان کردیئے گئے اور کفر وشرک کا خاتمہ کرکے اس نعمت کو مکمل کردیا گیا نبی ﷺ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد 18 دن زندہ رہے بعد وفات پاگئے۔ علمانے لکھا ہے کہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد آیت ربا (سود کی حرمت) اور آیت کلالہ نازل ہوئی ہیں پس دین کے مکمل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ دین کا بڑا حصہ مکمل کردیا گیا ہے (ابن کثیر، قرطبی) ف 9 یعنی ایسا مجبور اور لاچار آدمی اگر مذکورہ بالا حرام چیزوں میں سے کچھ کھا لے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس پر کچھ مواخذ ہ نہ ہوگا بشر طیکہ خواہ مخواہ حرام کھانے کا شوق نہ ہو اور جان بچانے کی حد سے زیادہ نہ کھائے (دیکھئے سورت بقرہ آیت 173) المآئدہ
4 ف 10 مواشی کا حکم تو فرمادیا۔ پھر لوگون نے اور چیزوں کو پوچھا تو فرمایا ستھر چیزیں تم کو حلال ہیں۔ سو حضرت ﷺ جو چیزیں منع فرمائیں معلوم ہوا کہ وہ ستھری نہیں جیسے پھاڑنے والا جانور مثلا شیر چیتا باز یا چیل اور اس میں داخل ہوئے مردرار خوار سارے کو 3 وغیرہ اور جسئے گدھا اور خچر اور جیسے کیڑے کے مثلا چوہا وغیرہ (از موضح) ف 11 شکاری جا نور سے ہر وہ درندہ یا پرندہ مراد ہے جس کا شکار کے لیے رکھا اور سدھا یا جاتا ہے اور اس کے سدھائے ہوئے ہونے کی علامت یہ ہے کہ وہ شکار پر چھوڑا جائے تو اس کو پانے مالک کے لیے پکڑے اگر وہ شکار پکڑ کر خود کھانے لگے تو اس کا شکار کھانا درست نہیں ہے اور یہی معنی مما امسکن کے ہیں حضرت عدی (رض) نبی ﷺ یہ مسئلہ دریافت کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا اگر اسے (یعنی شکاری کتے کو) چھوڑ تے وقت تم نے اللہ کا نام لیا ہے تو اسے کھا و ورنہ مت کھا و اور اگر اس نے شکار سے کچھ کھالیا ہے تو بھی نہ کھا و کیونکہ اس نے دراصل وہ شکار اپنے لیے پکڑا ہے (بخاری ) المآئدہ
5 ف 1 حاصل یہ کہ اہل کتاب یہود ونصاریٰ) کا طعام (جس میں ذبیحہ بھی شامل ہے) مسلمانوں کے لے حلال ہے بشرطیکہ انہوں ن غیر اللہ کے نام پر ذبح نہ کیا ہو۔ حدیث میں ہے کہ ایک یہود عورت نے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں ایک بھنی ہوئی بکری پیش کی اور آپ ﷺ نے اس میں سے کھالیا۔۔ اس طرح بعض صحابہ (رض) نے وہ چربی کھائی جو خیبر کی جنگ میں یہودیوں سے حاصل ہوئی تھی مگر جو چیزیں ہماری شریعت میں فی نفسہ حرام ہیں جیسے مردار خون اور اسئو کا گوشت وغیرہ ان کا اہل کتاب کے دستر خوان پر کھنا بھی حرام ہے ،(قرطبی، ابن کثیر) ف 2 یعنی ان سے نکاح کرنا درسرت ہے چاہے وہ اپنے دین پر قائم رہیں لیکن اس شر ط کے ساتھ کہ وہ پاک دامن ہوں نہ کہ آزادنش اور آوارہ قسم کی جو انسان کے ایمان کو بھی تباہ کر ڈالیں جمہور کے نزدیک یہاں المحصنات سے یہی منعی مراد ہیں تاکہ حشفا وسو کیلتہ (ردی کھجور اور برا ماپ) کی ضرب المثل صادق نہ آئے (ابن کثیر گو یا دوسری مشرک عورتوں سے ان کو مستثنیٰ قرار دیا ہے اور بہت سے صحابہ (رض) نے اس آیت کے تحت کتابی عورتوں سے نکاح کر رکھتے تھے مگر حضرت عبد اللہ بن عمر (رض) صرف موحہ کتابیہ سے نکاح جائز سمجھتے تھے۔ (شوکانی) ف 3 اس میں تنبیہ کی گئی ہے کہ اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح کرنا صرف جائز ہے مستحب اور مستحسن نہیں ہے اور یہ کہ جو شخص اس اجازت سے فائدہ اٹھائے اس اپنے ایمان کی طرف سے ہو شیار رہنا چاہیے ایسا نہ ہو کہ وہ اپنی غیر مسلم بیوی سے متاثر ہو کر اپنے ایمان واخلاق سے ہاتھ دھو بیٹھے (م۔ ع) المآئدہ
6 ف 4 اوپر کی آیات میں افو بالعقود کے تحت حلال اور حرام چیزیں بتائی گئی تھیں اب اس آیت میں اس کے تحت وضو اور تیمم کے احکام بیان فرمائے ہیں جو کہ عقود میں داخل ہیں اور سہولت پر مشتمل ہونے کا اعتبار سے اتمام نعمت بھی ہیں (کبیر، قرطبی) غزوہ مریسیع (5 ھ) میں حضرت عائشہ (رض) کا ہار گم ہوگیا تھا ہا رکی تلاش میں صبح ہوگئی اور پانی موجود نہ تھا صحانہ (رض) نے پانی نہ ملنے کی صورت میں تیمم کی رخصت حاصل کی ہے کیونکہ وضو تو پہلے بھی معلوم تھا، اس لیے علما نے اس آیت کو آیت وضو کہنے کی بجائے آیت تیمم بھی کہا ہے (قرطبی) اور بے وضو ہو کی قید جمور اہ علم نے لگا یہ ہے کہ کیونکہ اگر انسان پہلے سے باوضو ہو تو دوبارہ وضو کرنا فرض نہیں بلکہ مستحب ہے۔ (کبیر ) اس آیت میں فرائض وضو کا بیان ہے۔ وضو میں سب سے پہلے نیت ضروری ہے کیونکہ حدیث میں ہے انما الا عمال بالنیات کہ تمام اعمال عبادت کے لیے نیت ضروری ہے اس لیے امام بخاری فرماتے ہیں کہ اس میں ایمان وضو، نماز،، زکوٰۃ، حج، روزہ۔ الغرض تمام اعمال داخل ہیں پھر قرآن نے اعضا اربعہ کا وضو ذکر کیا ہے۔ معلوم ہوا کہ ان کے علاوہ باقی سب آداب وسنن ہیں (قرطبی) ف 5 یعنی کہنیوں سمیت حدیث میں ہے جب آنحضرتﷺ وضو فرماتے تو تو اپنی کہنیوں پر بھی پانی ڈالتے (دارقطنی) مگر مگر یہ حدیث ضعیف ہے (ابن کثیر) ف 6 گوعلمان لکھا ہے کہ سارے سرکا مسح فرض نہیں ہے بلکہ سر کے کچھ حصہ کا مسح کرلیا جائے تو بھی کافی ہے مگر قرآن کے ظاہر اراکثر احادیث کے روسے سارے سرکا مسح کرنا چاہیے ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے اپنے آپﷺنے باقی سرکا مسح عمامہ مبارک پر پور کیا۔ لہذا اس حدیث سے بعض حصہ سر (خصوصاربع راس) کی تخصیص پر استدلال صحیح نہیں ہے) قرطبی) سرکے مسح میں کانوں کا مسح بھی شامل ہے مگر چونکہ یہ احادیث سے ثابت ہے اس لیے بعض سلف نے اس کو مستقل سنت قرار دیا ہے۔ واللہ اعلم (قربطی) سرکے ساتھ گردن کے مسح کا کوئی ثبوت نبی ﷺ یا صحابہ (رض) سے نہیں ملتا۔ ف 7 وارجلکم میں لام کے زبر اور زیر کے ساتھ دو قرا تیں مروی ہیں فتح لام والی قرات کی روسے تو ظاہر ہے کہ پاوں کا ٹخنوں تک دھونا ثابت ہوتا ہے جمہور بلکہ جمیع علما سنت کا یہی مذ ہے ہے اور آنحضرتﷺ سے تواتر کے ساتھ ثابت ہے کہ آپﷺ پاوں دھو یا کرتے تھے اور مسح نہ فرماتے تھے۔ صحابہ (رض) میں سے صرف حضرت علی (رض)، ابن عباس (رض) اور حضرت انس (رض) سے (کسرۃ لام والی قرات کی رو سے) وضو میں پاوں پر مسح کی روایات ملتی ہیں مگر ان سے بھی جو رجوع ثابت ہے۔ فتح لیکن مسح کے معنی غسل خفیف بھی آتے ہیں لہذا ان کی مراد یہی معنی ہیں۔ (قرطبی) ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے کچھ صحابہ (رض) کو وضو کرتے دیکھا کہ ان کی ایڑیوں کی خشکی چمک رہی ہے تو نبیﷺ نے بلند آواز سے دو یاتین مرتبہ فرمایا کہ ان یڑیوں کے لے آگ کا عذاب ہے یعنی ایڑیو ن کو اچھی طرح سے دھو و حتی ٰ کہ خشک رنہ رہنے پائیں (بخاری مسلم) فقہا میں سے ابن جریر، طبری کے متعلق مشہور ہے کہ وہ پاوں غسل اور مسح دونوں میں تھنیر کے قائل تھے مگر حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں دراصل طبری کایہ مذہب نہیں ہے بلکہ مسح بمعنی ولک یعنی پاوں کو مل دھونے کے معنی میں ہے یعنی امام طبری صرف دھونے کے قائل نہیں تھے بلکہ مل کر دھونے ضروری قرار دیتے تھے (ابن کثیر) مسئلہ وضو میں ترتیب بھی ضروری ہے جیسا کہ فاغسلوا فا سے ثابت ہوتا ہے کہ چہرہ کا پہلے دھونا ضروری ہے لہذا باقی اعضا میں بھی ترتیب ضروری ہوگی ورنہ اجماع لازم آئے گا اور پھر آنحضرت ﷺ نے ہمیشہ وضو مرتب کیا ہے۔ ف 8 تیمم کے لیے دیکھئے سورت نسا آیت 43) المآئدہ
7 المآئدہ
8 ف 1 اس آیت میں نعمت سے مرا اسلام ہے اور میثاق (اقرار) سے مراد وہ عہد ہے جو آنحضرت ﷺ ہر آدمی سے مسلمان ہونے پرلیا کرتے تھے کہ وہ خوشی اور رنج ہر حال اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ سمع واطاعت کرے گا یہ عہد اگرچہ نبی ﷺ لیاکر تے تھ لیکن چونکہ وہ اللہ کے حکم سے تھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی طرف منسوب فرمایا فتبا لمنکر السنتہ اور اس سے مراد وہ عہد بھی ہوسکتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے ذریت آدم سے لیا تھا اور یہ بھی کہ یہود کی متنبہ فرمایا ہو کہ آخری نبی آنحضر ﷺ کی متابعت کا جو عہد تم سے لیا گیا ہے اس کو پورا کرو مگر پہلا قول زیادہ صحیح ہے (ابن کثیر) ف 2 آیت کریمہ میں اللہ سے حقوق الہیٰ کی نگہداشت کی طرف اشارہ ہے یعن خاص اللہ تعالیٰ کی رضامند ی حا صل کرنے کے لیے حق پر قائم رہو۔ اور شھد دابلقسط سے حقوق العباد کی نگرانی کا حکم ہے۔ (کبیر) یہ تمہید ہے اور اس کے بعد دشمن کے بارے میں کچھ ہدایات دی ہیں جن کا تعلق حقوق العباد سے ہے اس لیے آگے انہی کی تفصلی ہے یعنی کسی نے تمہارے ساتھ کتنی ہی دشمنی کا معاملہ کیوں نہ کیا ہو تم بہرحال اس سے معاملہ کرتے وقت عد ل وانصف کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑے۔ یہ آیا یہود بنو نضیر کے بارے میں نازل ہوئیں نبی ﷺ ایک دیت کے سلسلہ میں ان کے ہاں تشریف لے گئے تو انہوں نے آپ ﷺ کو قتل کرنے کی سازش کی ابن کثیر۔ ابن جریر) شاہ صاحب (رح) لکتھے ہیں اکثر کافروں نے مسلمانوں سے بڑی دشمنی کی تھی پیچھے مسلمان ہوئے تو فرمایا کہ ان سے وہ دشمنی نہ نکالو۔ اور ہر جگہ یہی حکم ہے حق بات میں دوست اور دشمن برابر ہیں۔ ( مو ضح) المآئدہ
9 المآئدہ
10 المآئدہ
11 ف 3 عمومی انعامات کے بیان کے بعد اب خصوصی انعامات کا ذکر ہے۔ (کبیر) حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ ایک سفر کے دوران میں غزوہ ذات الرقاع میں) آنحضرتﷺ نے ایک جنگ میں پڑا و فرمایا صحابہ کرام (رض) سائے کی تلاش میں ادھر ادھر بکھر گئے آپ ﷺ بھی ایک درخت کے سائے میں لیٹ گئے اور تلوار درخت سے لٹکا دی۔ اتنے میں ایک بدو (غورثبن حارث) آیا اور تلوار سونت کر کہنے لگا اب آپ کو مجھ سے کون بچاسکتا ہے آپ ﷺ نے فرمایا اللہ اس پر تلوار اس کے ہاتھ سے گرگئی آپ ﷺ نے اسے اٹھا لیا اور اس بدو سے فرمایا اب بتاو تمہیں کو ب بچائے گا وہ کہنے لگا آپ بہترین پکڑنے والے نہیں آپ ﷺ نے فرمایا کہ اتم گواہی دیتے ہو کہ اللہ کے سوا کوئی الہٰ نہیں اور یہ کہ میں اس کا رسول ﷺ ہوں وہ کہنے لگا میں عہد کر تاہوں کہ نہ آپ ﷺ سے خود جنگ کرو نگا اور نہ آپ ﷺ سے جنگ کرنے والوں کی م دد کرونگا اس پر آپ ﷺ نے اسے چھوڑ دیا۔ حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ ایک دیت کے سلسلہ میں نبی ﷺ بن نضیر مدینہ کے یہودیوں کے ایک قبیلہ کے ہاں تشریف لے گئے انہوں نے آپ ﷺ اور آپ کے ساتھیوں کو ایک دوسرے کو سائے میں بٹھا یا اور آپس میں اسکیم بنائی کہ ان کے اوپر چٹان یا چکی کا پاٹ گرادیا جائے اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو خبردار کردیا اور آپ ﷺ نے وہاں سے اٹھ گئے (ابن کثیر، فتح البیان) ممکن ہے قرآن نے اس ایک آیت میں ان متعدد وقعات کی طرف اشارہ فرمادیا ہو اور یہ بھی ہوتا ہے کہا یک آیت ایک وقعہ کے متعلق نازل ہوتی ہے پھر یاد دہانی کے لیے دوسرے واقعہ میں اس کی طرف اشارہ کردیا جاتا ہے (المنار۔ قرطبی ) المآئدہ
12 ف 4 یعنی سمع وطاعت کا یہ عہد سے نہیں لیا گیا بلکہ تم سے پہلے بنی اسرائیل سے بھی اسی قسم کا عہد لیا گیا تھا مگر انہوں عہد شکنی کی اور ذلت ومسکنت میں گرفتا رہو گئے لہذا مسلمانو تم ان جیسے نہ بنو۔ ( کبیر) بنی اسرائیل کے کل بارہ قبیلے تھے اللہ تعالیٰ نے ان میں سے ہر ایک قبیلہ پر ایک سردار خود ہی اس قبیلہ سے مق ر کرنے کا حک دیا تھا تاکہ وہ ان کے حالات پر نظر رکھے اور انہیں اپنے وعہد پر قائم رہنے کی ہدایت کرتارہے بعض مفسرین (رض) نے لکھا ہے کہ یہ نقباان جبارین قوم کی خبر لانے کے لیے مقرر کئے تھے جن کا ذکر آگے آرہا ہے (ابن کثیر) ظاہر الفاظ سے پہلی بات صحیح معلوم ہوتی ہے آنحضرت ﷺ نے بھی لیلہ اعقبہ میں جب سمع وطاعت پر بیعت لی تھی تو ان پر اور نقیبہ ہی مقرر کئے تھے (قرطبی) المآئدہ
13 ف 1 یعنی اس کی راہ میں خرچ کرتے رہو گے، جو شخص اللہ تعالیٰ کی راہ میں مال خرچ کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ چونکہ اس کا کئی گنا بدلہ عنایت فرمائے گا اس لیے قرآن کی متعدد آیات میں اس مال خرچ کرنے کو قرض کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے یہ خطاب یا تو بنی اسرائیل سے ہے اور یا اس کے مخاطب صرف نقبا ہیں (کبیر) ف 2 یعنی ان کے دلوں میں نفاق بھر گیا ہے قسیتہ یا قا سیتہ اصل میں اس سکے کو کہتے ہیں جس میں ملاوٹ ہو، یہ قسوۃ سے جس کے معنی شدت اوسختی کے ہیں خالص سونا اور چاندی نرم ہوتے ہیں اور جتنی ان میں ملاوٹ زیادہ ہو اتنا ہی وہ زیادہ سخت ہوجاتے ہیں اس تشبیہ کی رعایت سے ان کے دلوں کو جن میں نفاق بھرا ہوتا ہے قاسیتہ فرمایا ہے (قرطبی۔ کبیر) یعنی ایک لفظ کی بجائے دوسرالفظ رکھ دیتے یا اس کی غلط تاویل کرتے اور اپنے ہی کرتب سے انہوں نے نبی ﷺ کی ان صفات کو بد ڈالا تھا جو تورات میں مذکورتھیں (قرطبی) ف 4 یعنی تورات کے بہت سے حصہ پر عمل تر کردیا جیساک آنحضرت ﷺ پر ایمان لانا اور زانی کو سنگسار کرنا وغیرہ (کبیرہ۔ ابن کثیر) ف 5 خاتنتہ بمعنی مصدر ای الخیانتہ اور صفتہ ای علی ٰ فرقتہ خائنتہ (کبیر) یعنی ان سے آئے سن کسی ہ کسی خیانت اور بد عہد ی کا ظہو رہوتا رہے گا یا ان میں ہمیشہ ایسے لوگ موجود رہیں گے جو خیا نت اور بد عہد ی کا ارتکاب کرتے رہنیگے اور آپ ﷺ کو ہرگز ان کی طرف سے امن نصیب نہ ہوگا۔ ف 6 یعنی ان میں چند لوگو ایسے ہیں جو کسی خیانت وبد عہدی کا مظاہرہ نہیں کرینگے ان سے خا ص کر عبد اللہ بن سلام اور ان کے ساتھ مراد ہیں یا پھر تمام وہ تمام لوگ جنہوں نے کفر کے باوجود کسی قسم کی خیانت یا بد عہدی نہیں کی (کبیر) ف 7 یعنی ان کی انفرادی خیانتوں اوابدعہد یوں سے نہ کر ان بد عہد یوں سے جو اجتماعی طور پر ہو کرتے ہیں۔ کیونکہ اس صورت میں تو وہ واضع طورپ حربی قرار پائیں گے جن کی سرکوبی بہر حال کی جائے گی (المنا ر) یا یہ کہ نوجوان میں سے خیانت کا ارتکاب نہیں کرتے اور اپنے عہد پر قائم ہیں ان کی دوسری لغزشوں سے درگزر فرمائیں (کبیر) ان دونوں صورتوں میں یہ آیت محکم رہے گی ورنہ اسے آیت قتال سے منسوخ کہا جائے گا۔ (کبیر ) المآئدہ
14 ف 8 یعنی اللہ کے مددگار چونکہ یہ لوگ اپنے اس دعویٰ میں جھوٹے ہیں اس لیے اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ ہم نے نصاری سے اقرار لیا بلکہ یہ فرمایا کہ ہم نے ان لوگوں سے اقرار لیا جو اپنے آپ کو نصاریٰ کہتے ہیں مطلب یہ ہے کہ یہود کی طرح نصاری ٰ سے بھی ہم نے توحید اور نبی آخرالزمان پر ایمان لانے کا عہد لیامگر انہوں نے بھی اس عہد کو توڑ ڈالا (کبیر، قرطبی) ف 9 چنانچہ اس وقت بھی ان میں باہم مذہبی عداوت پائی جاتی ہے اور پھر خود عیسائیوں کے بھی بہت سے فرقے ہیں جو آپس میں ایک دوسرے کے دشمن اور ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں (کبیر) ف 10 یعنی دنیا میں اس سزا کے علاوہ آخرت میں ان کو سخت سزا کا سامنا کرنا پڑے گا۔ شاہ صاحب فرماتے ہیں اس سے معلوم ہوا کہ جب آدمی اللہ کے کلام سے اثر پکڑ نا اور حکم شرع پر محبت سے قائم رہنا چھو ڑدے ارفقط مذہب کا جھگڑا اروحمیت رہ جائے تو وہ راہ سے بہک جائے ( مو ضح) المآئدہ
15 ف 11 یہود ونصاریٰ کے نقض عہد اور اعراض عن الحق کا ذکر کرنے کے بعد اب ان کو آنحضرت ﷺ پر ایمان لانے کی دعوت دی ہے (کبیر) ایک یہ کہ بہت سے احکام جو وہ چھپا یا کرتے تھے ان کو بیان کرتے ہیں جیسے رجم کی آیت سبت والوں کا قصہ جن کو مسخ کرکے بندر خنزیر بنادیا گیا تھا اور اآنحضرت ﷺ کی صفات سے متعلق آیات الغرض یہود ونصاری ان تمام باتوں کو چھپایا کرتے تھے چنانچہ ایک مرتبہ چند یہو دی آنحضرت ﷺ کے پاس آئے اور رجم کے بارے میں سوال کرنے لگے آپ ﷺ نے ان کے سب سے برے علام ابن صوریا کو قسم دلائی اور اس سے دریافت فرمایا کہ رجم کی آیت تورات میں ہے یا نہیں َ؟ بآلاخر اس کو قسم کی وجہ سے اعتراف کرنا پڑا اس پر یہ آیت نازل ہوئی (ابن جریر) ف 1 یعنی آنحضرت ﷺ کا دوسرا وصف یہ ہے کہ آپﷺ ان کی بہت سے چوریوں اور خیانتوں در گزر کرتے ہیں تاکہ وہ متاثر ہو کراسلام کے قریب آجائیں لیکن وہ ایسی باتیں ہیں جن کا دین میں اظہار ضروری نہیں ہے۔ (کبیر، قرطبی) ف 2 نور سے مراد شریعت اسلام ہے۔ اور کتاب مبین سے مراد قرآن پاک ہے یعنی یہ کتاب دین کے وہ تمام احکام بیان کرتی ہے جن کی لوگوں کو راہ ہدایت پانے کے لیے ضرورت ہے۔ المآئدہ
16 ف 3 یعنی جس شخص کا مطلب رضا الہی ٰ اور دین حق کی پیروی کرنا ہے اس کے لیے یہ کتاب راہ ہدایت دکھاتی ہے مگر جنہوں نے نظر واستدلال کو چھوڑکر اپنا دین ہی بزرگوں کی تقلید کربنالیا ہے وہ اس کی ہدایت سے مستفیض نہیں ہو سکتے ّ(ماخوذ از کبیر ) المآئدہ
17 ف 4 یعنی خدا اور مسیح ( علیہ السلام) ایک چیز ہیں اور ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے زمانہ قدیم میں یہ صرف عیسائیوں کے ایک فرقے یعقوب کا عقیدہ تھا مگر اس زمانہ میں عیسائیوں کے جو تین فرقے پرر ٹسٹنٹ کیتھو لک اور آرتھو ڈیکس پائے جاتے ہیں وہ سب کے سب کے سب اگرچہ ثلیث کے قائل ہیں لیکن ان کا اصل مقصد مسیح لوہیت ہے گویا وہ سب کے سب خدا اور مسیح ( علیہ السلام) کے ایک چیز ہونے کے کر قائل ہیں اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان سب پر کافر ہونے کا حکم لگایا ہے (المنار) ف 5 وہ مالک کل ارمختار ہے اور سب چیزوں پر اے قدرت اور تفوق حاصل ہے وہ چاہے توسب کی آن کی آن میں فنا کرسکتا ہے اگر مسیح ( علیہ السلام) خدا ہوتے کم از کم اپنی والدہ کو تو بچاسکتے تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی والدہ کو فوت کرلیا اور ان کو بھی وقت مقرر پر فوت کرے گا تو یہ بچ نہیں سکیں گے جس سے صاف ظاہرہ کہ وہ تو خدا ہیں اور نہ خدا کے بیٹے ہیں بلکہ اس کے بندے اور رسول ( علیہ السلام) ہیں۔ (کبیر۔ قرطبی) ف 6 اور جس کو جیسے چاہتا ہے بناتا ہے آدم ( علیہ السلام) کو اس نے ماں باپ دونوں کے بغیر پیدا کیا تو عیسیٰ ( علیہ السلام) کو بغیر ماں کے پیدا کردینا اس کے لیے کیا مشکل تھا محض باپ کے بغیر باپ کے پیدا ہونے سے کوئی بندہ خدا نہیں بن جاتا۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی جگہ نبیوں کے حق میں ایسی بات فرماتے ہیں تاکہ ان کی امت والے ان کو بندگی کی حد سے زیادہ چڑھائیں واللہ نبی اس لائق کا ہے کو میں ،(موضح) المآئدہ
18 ف 7 حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ آنحضرتﷺ یہود کی ایک جماعت کو اسلام کی طرفک دعوت دی اور ان کو عذاب الہیٰ سے ڈارایا اس پر ہو کہنے لگے کہ تم ہمیں اللہ کے عذاب سے کیسے ڈراتے ہو ہم تو اللہ تعالیٰ ٰٗ کے بیٹ اور اس کے محبوب ہیں، چنانچہ اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور انجیل میں ہے کہ حضرت مسیح ( علیہ السلام) نے نصاری ٰ سے کہا میں اپنے اور تمہارے باپ کے پاس جاتا ہوں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ دونوں گروہ اللہ تعالیٰ کے ابنا اور احبا ہونے کے مدعی تھے بعض نے یہاں مضاف محذوف مانا ہے ای نحن ابنا رسل اللہ واحباہ، حاصل یہ ہے کہ اہل کتاب اپنے آپ کو دوسروں سے فائق سمجھتے ہیں اور ان کا دعویٰ تھا کہ ہمارے اسلاف کی وجہ سے ہمیں عذاب نہیں ہوگا۔ قرآن نے ان کی تردید کی (قرطبی، کبیر) ف 8 یعنی یہ قانون ہے کہ گناہ کریگا اسے سزا ملے گی اور جس کے عمل نیک ہوں گے اسے انعام ملے گا جس طرح دوسرے لوگوں پر نافذ ہوگا تم پر بھی نافذ ہوگا پھر تمہاری ایسی کونسی خصوصیت ہے جس کی بنا پر تم اپنے آپ کو اس کے بیٹے اور چہتیے کہتے ہو (ابن کثیر، قرطبی) ف 9 اس میں یہود یوں کے لیے تبنہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی گرفت سے بچ نہیں سکتے آخرکار تمہیں اس کے حضور میں پیش ہونا ہے وہاں تمہاری جو بھی سزا ہوگی تمہیں مل کر رہے گی لہذ اتم اب بھی اپنی بداعمالی سے باز آجاو (ابن کثیر، شوکانی) المآئدہ
19 ف 10 یعنی ایک مدت سے رسولوں کی آمد کا یہ سلسلہ منقطع ہوچکا تھا۔ حضرت عیسیٰ ٰ ( علیہ السلام) بن اسرائیل کے آخری نبی تھے انکی بعثت پر بھی تقریبا چھ سال گزر چکے تھے اور کوئی نبی نہیں آیا تھا پھر آخری نبی آنحضرتﷺ مبعوث ہوئے اس آیت پر حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں حضرت عیسیٰ ٰ ( علیہ السلام) کے بعد کوئی رسول نہیں آیا تھا سو فرمایا کہ تم افسوس کرتے کہ ہم رسولوں کے وقت میں نہ ہوئے کہ تربیت ان کی پاتے، اب بعد مدت تم و رسول کی صحبت میسر ہوئی غنیمت جانو اور اللہ تعالیٰ قادر ہے اگر تم قبول کر وگے اور خلق کھڑی کر دیگا تم سے بہتر۔ یہ جیسے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کے ساتھ ان کی قوم نے جہاد کرنا پسند نہ کیا اللہ نے ان کو محروم کردیا۔ اور دن کے ہاتھ سے ملک شام فتح کرایا (موضح) ف 1 اس آیت میں آنحضرت ﷺ کی بعثت کا اساسی مقصد بیان فرمایا ہے یعنی عرصہ دراز سے کسی الوا العزم رسول کے نہ آنے کی وجہ سے شرائع میں تغیر وتبدل اور تحریف ہوچکی تھی اور حق و باطل میں امتیاز با قی نہ رہا تھا جو لوگوں کے لیے شرئع سے اعراض کرنے کا واضح عذر تھا پس آنحضرت ﷺ نے تبدل وتغیر اور تحریف سے ملت ابراہیمی کو پاک کر کے لوگوں کو شریعت حقہ سے روشناس کر یا تاکہ ان پر اتمام حجت ہوجائے اور عذر کی کنجائش باقی نہ رہے (کبیر قرطبی) ف 2 یعنی محمد ﷺ۔ لہذا اب تم اپنے کفر پر جمے رہنے کے لیے اللہ کے ہاں کوئی عذار نہیں پیش کرسکتے (کبیر) المآئدہ
20 ف 3 اس کا تعلق آیت : ولقد اخذ اللہ میثاق بنی اسرائیل کے ساتھ ہے یعنی ان سے عہد لیا اور حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) نے ان کو انعامات الہیٰ یاددلا کر جبارین (عمالقہ) سے جنگ کا حکم دیا لیکن اسرائیل نے عہد شکنی کی اور عمالقہ کے ساتھ جنگ کرنے سے انکار کردیا۔ (کبیر) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے تین نعمتوں کا خصوصیت سے ذکر کیا ہے یعنی ان سے جلیل القدر انبیا مبعوث کئے جیسے حضرت اسحق ( علیہ السلام)، حضرت یعقوب ( علیہ السلام)، حضرت یوسف ( علیہ السلام) اور حضرت موسیٰ علیہم السلام دوم یہ کہ ان کو آزادی اور حکومت دی اور توحید کا علمبر دار بنایا جبکہ دوسری تمام قومیں شرک میں مبتلا تھیں (کبیر، قر طبی) المآئدہ
21 ف 4 یا جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے تمہارے دادا حضرت یعقوب ( علیہ السلام) سے وعدہ فرمایا تھا کہ اسے آپ کی اولاد میں سے اہل ایمان کی وارث بناوں گا (ابن کثیر) بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) جبل لبنان پر چڑھے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا دیکھوْ ! جہاں تک تمہاری نظر پہنچے گی وہ ارض مقدس ہے اور تیری ذریت کی میراث ہے۔ کبیر) ف 5 حضرت موسیٰ ٰ ( علیہ السلام) کا بنی اسرائیہ سے یہ خطاب س موقع پر ہے جب وہ مصر سے نکلنے کے بعد جزیرہ نمائے سینا میں خمیہ زن تھے اران پر من وسلویٰ اتررہا تھا۔ (ابن کثیر) تاریخی اور اثرمی تحقیقات کے مطابق خروج کا زمانہ 440 ق م ہے اور فلسطین پر فوج کشی کا زمانہ 400 ق م ہے گواس مدت کے بیان میں موسیٰ ( علیہ السلام) نے خطاب کیا اور صحیفہ استثنا کے بیان کے مطابق دریائے یرون کے اس پار اب کے میدان میں تقریر ارشاد فرمائی۔ المآئدہ
22 ف 6 قوت ایمانی کے کمزور ہونے کی وجہ سے اپنی مرعبیت کا اظہار کر رہے ہیں ؎( یہ اطلاع فارس کے مقام پر پیش کی گئی) لیکن جس انداز سے بعض تفسیری روایات میں ان لوگوں (جبارین کا نقشہ پیش کیا گیا ہے وہ تمام اسرائیلی روایات ہیں جن کو ایک معمولی عقل کا انسان بھی تسلیم نہیں کرسکتا خصوصا عوج بن عنق کا فسانہ جس کے متعلق حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ یہ سب من گھڑت افسانے ہیں جن کی کوئی حقیقت نہیں۔ حدیث میں ہے کہ حضرت آدم ( علیہ السلام) کا قد ساٹھ ہاتھ تھا اور اس کے بعد سے لوگ برابر گھٹ رہے ہیں۔ (بخاری مسلم پھر عوج بن عنق کا قد تین ہزار تین سو تنتیس ہاتھ کیسے ہوسکتا ہے (ابن کثیر) ف 7 یعنی ان کو آپ معجزانہ طور پر اس سر زمین سے نکال دیں تو ہم جانے کے لیے تیار ہیں۔ المآئدہ
23 ف 8 اللہ تعالیٰ نے ان دو آدمیوں کا ذکر بطور نکرہ فرمایا ہے اور کسی حدیث میں بھی ان کے ناموں کی صراحت نہیں آئی تاہم تورات کی ایک روایت کے مطابق حضرت ابن عباس (رض) اور دوسرے تمام مفسرین نے ان کا نام یوشع بن نون اور کالب بن یافنا بتایا ہے اور یہ دونوں ان بارہ نقیبوں میں تھے جن کا ذکر گزر چکا ہے (ابن کثیر قرطبی) المآئدہ
24 ف 9 ان برعکس صحابہ (رض) کرام نے ہر موقعہ پر عزم وہمت کا ثبوت دیا۔ اس کا انداز ہ جنگ بدر کے واقعہ سے ہو سکتا ہے کہ جب مہاجرین (رض) کے بعد آنحضرت ﷺ نے انصار کی رائے معلوم کرنی چاہی تو حضرت سعد بن معاذ (رض) اپنی تقریر میں فرمایا اے اللہ کے رسولﷺ اگر آپ ہمیں لے کر اس سمندر میں کود نا چاہیں تو ہم میں سے کسی کو انکار نہ ہوگا۔ ہم حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کے ساتھیوں کی طرح نہیں ہیں جنہوں نے کہا تھا آپ اور آپ کا پروردگار جا کر جنگ کریں ہم تویہاں بیٹھے ہیں۔ (ابن کثیر ) المآئدہ
25 ف 1 یعنی ہم کو ان سے علیحدہ کردے ایسا نہ ہو کہ تیرا عذاب نازل ہو اور ان کے ساتھ ہم بھی اس کی لپیٹ میں آجائیں (کبیر، ابن کثیر ) المآئدہ
26 ف 2 حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ اس کے بعد یہ لوگ چالیس سال تک بیابان (دشت فاران بیابان شور اور دشت صین) میں پڑے بھٹکتے رہے، جب چالیس سال گزر گئے (یعنی تقریباتو (اولا) حضرت ہارو ن ( علیہ السلام) اور ان کے کچھ عرصہ بعد حضرت موسیٰ ٰ ( علیہ السلام) کوہ عباریم پر وفات پاگئے (حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کی عمر اس وقت ایک سو بیس سال تھی) اور ہر اس شخص کا نتقال ہوگیا جس کی عمر چالیس سال زیادہ تھی جب چالیس ساگزرگئے توحضرت یوشع ( علیہ السلام) جو حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کے بعد ان کے خلیفہ مقرر ہوئے۔ باقیماندہ لوگوں کو لے کر ورانہ ہوئے اور انہوں نے مشرق کی جانب سے دریائے اور دن پار کر کے اریحا فتح کیا یہ فلسطین کا پہلا شہر تھا پھر تھوڑی مدت میں بیت امقدس فتح کرلیا (ابن جریری) شاہ صاحب لکھتے ہیں اہل کتاب کو قصہ سنایا اس پر کہ اگر تم پیغمبر کی رفاقت نہ کرو گے تو یہ نعمت اوروں کو نصیب ہوگی آگے اس پر قصہ سنایا ہابیل قابیل کا کہ حسد مت کرو حسد والا مردود ہے۔ (موضح ) المآئدہ
27 ف 3 اوپر کی آیات میں یہ بیان فرمایا تھا کہ مخالفین ہر طرح سے مسلمان پر مصائب وشدائد لا نا چاہتے ہیں (وھمو ان یبسطوا الیکم الخ) مگر اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے مسلمانوں کی حفاظت کررہا ہے اس کے بعد آنحضرت ﷺ کو تسلی دینے کے لیے کچھ واقعات بیان فرمائے جن سے یہ ثابت کرنا مقصو ہے کہ جس شخص کو بھی اللہ تعالیٰ نے دینی اور دنیاوی نعتوں سے نوا زا ہے لوگ اس سے ہمیشہ حسد وبغض سے پیش آتے رہے ہیں چنانچہ یہود ونصاری کی مخالف بھجی ان کے تمرد اور حسد وبضض پر منبی ہے فلا تاس علی القوم الفا سقین لہذا ان پر افسوس اور غم نہ کیجئے اب یہاں ابنی ادم کا قصہ بیان کیا ج و اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے کیونکہ ایک بھائی کا دسرے کو قتل کرنا حسش کی بنا پر تھا۔ الغرض ان جملہ واقعات ان جملہ واقعات سے آنحضرت کو تسلی دینا مقصود ہے اور ہو سکتا ہے کہ بتانا مقصود ہو کہ یہود اپنے زعم میں اللہ تعالیٰ کے محبوت ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ( نحن ابنا اللہ واحبنا ہ) اور انبیا کی اولاد ہونے پر ان کو فخر ہے مگر کفر اروحسد وعنادے ساتھ یہ نسبی شرف ان کے لیے مفید نہیں ہوسکتا اور آدم کے دو بیٹوں کا قصہ اس پر شاہد ہے (کبیر۔ قرطبی) اس سے مقصد تحذیر عن الحسد ہے حسن بصری (رح) فرماتے ہیں کہ یہ دونوں آدمی بنی اسرائیل سے تھے یہود کا حسد بیان کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ ٰٗ نے بطور مثال یہ واقعہ بیان کیا ہے جیسا کہ من اجل ذلک کتبنا الایہ کی تفریع اس پر دال ہے (کبیر۔ قرطبی) بالحق یعنی یہ کوئی باطل قصہ یا افسانہ نہیں ہے بلکہ امر واقعی ہے (کبیر) ف 4 یہاں تقوی ٰ سے مراد شرک سے بچنا ہے کیونکہ معاصی گناہ قبولیت عمل کو مانع نہیں ہوتے اس پر اہلسنت کا اجما ہے (قرطبی) المآئدہ
28 ف 5 یعنی میں تیرے قتل کرنے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھا ونگا ورنہ مدافعت تو ضروری ہے اس پر امت کا اجماع ہے (قرطبی) اگر مقتول بھی اپنے قتل کے درپے ہو توایسی صورت میں دونوں جہنمی ہیں جیسا کہ ایک حدیث میں ہے کہ قاتل کے ساتھ مقتول بھی جہنمی ہیں جیسا کہ ایک حدیث میں ہے کہ قاتل کے ساتھ مقتول بھی جہنم میں جائے گا کیونکہ وہ اپنے ساتھی کے ساتھ مقتول بھی جہنم میں جائے گا کیونکہ وہ اپنے ساتھ کو قتل کرنے کے دربے تھا۔ ( بخاری ) المآئدہ
29 ف 6 میرے گناہ کے ساتھ یعنی جو مجھ اس صورت میں ہوتا جب بھی تجھے قتل کرنے کے درپے ہوتا جیسا کہ اوپر کی حدیث میں بیان ہوچکا ہے یا یہ کہ میرے گناہوں کا بوجھ بھی تجھ پر ڈالا جائے گا جیسا کہ ایک حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن ظالم کو لایا جائے گا اور اس کی نیکیاں مظلوم کو دیدی جائیں گی اور مظلم کے گناہ اس پر ڈال دیے جائیں گے (قرطبی) المآئدہ
30 المآئدہ
31 ف 7 یعنی اس کی دنیا بھی برباد ہوگئی اور آخرت میں بھی سخت ترین عذاب کا مستحق قرار پایا۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا دنیا میں کوئی شخص ظلم کی راہ سے قتل نہیں ہوتا مگر آدم ( علیہ السلام) کا پہلا بیٹا یعنی قابیل بھی اس کے وبال میں شریک ہوتا ہے کیونکہ اس نے سب سے پہلے قتل کی سنت جاری کی (بخاری مسلم) ف 8 اور نقل میں یو آیا ہے کہ ایک کوے نے زمین کھود کر دوسرے کوے کو دفن کیا اس نے کوے کی خیر خواہی دوسرے کوے کے لیے دیکھی تو اپنے فعل پر پشمیان ہوا (از مو ضح) مگر یہ اسرائیلی روایات سے ماخوذ ہے۔ قرآن کے ظاہر الفاظ جو چیز معلوم ہوتی ہے ہو یہی ہے یہ اسے زمین کرید تے دیکھا ہے اس نے سمجھ لیا کہ اسے دفن کردینا چاہیے (قرطبی) المآئدہ
32 ف 1 یعنی بھائی کے مر نے پر نہ کہ اپنے فعل پر کیونکہ اگر وہ اپنے فعل پر ندامت کا اظہار اور تو بہ کرتا گناہ معاف ہوجاتا اور دنیا میں جو قتل ہوئے ہیں اس کا گناہ اس پر نہ ہوتا (قرطبی) ف 6 یعنی ایسے شخص کو ناحق مار ڈالے جس نے نہ کوئی خون کیا ہو نہ ازراہ بغاوت کوئی فساد برپا کیا ہو۔ گناہ کی شدت بیان کرنے کے لیے جمیعا کہدیا ہے کہ گو یا سب کو قتل کرڈالا ورنہ اسے گناہ توایک کے قتل کا ہی ہوگا یا مطلب یہ ہے کہ جیسے سب کے قتل کرنے سے انسان جہنم میں جائے گا کسی ایک مسلمان کے ناحق قتل کردینے کی سزا بھی جہنم ہے یعنی تشبیہ نہ نفس عتاب کے لحاظ سے ہے کہ کمیت وکیفیت عذا کے اعتبا سے (قرطبی کبیر ) ف 3 یعنی اگر کسی ایک شخص کو ظالم کے ہاتھ سے بچا لے گا تو اسکا ثواب اتنا ہے گویاسب لوگوں کو بچیا (کذافی الموضح) ف 4 یعنی لوگوں پر ظلم اور دست درازی کرتے رہتے ہیں اور ناحق خون کرنے سے باز نہیں آتے اور اب پیغمبر اور جماعت حقہ کے قتل اور ایذار سانی کے درپے ہیں پھر ان کے مصرف ہونے ہونے میں کیا شبہ ہے ہو سکتا ہے جو کھلے کھلے معجزات دیکھ کر بھی اللہ تعالیٰ سے نہیں ڈرتے۔ ف 5 یعنی اس حکومت کے خلاف بغاوت کرتے ہیں جو اللہ روسول ﷺ کی احکام کو نافذ کرنے ولی ہے ارواسلام کی سرزمین میں ڈاکہ زنی لوٹ مار اور قتل وغا رت کا بازار گرم رکھتے ہیں۔ المآئدہ
33 ف 6 اکثر مفسرین کے نزدیک یہ آیت قبیلہ عکل اور عرینہ کے ان لوگو کے بارے میں میں نازل ہوئی ہے جن کاْقصہ حضرت انس (رض) نے یوں بیان کیا ہے کہ یہ لوگ مسلمان ہو کر مدینہ منورہ آئے لیکن وہاں کی آب وہوا انہیں موافق نہ آئی وہ بیمار ہوگئے نبی ﷺ نے انہیں مدینہ سے باہر صدقہ اونٹوں میں رہنے کا حکم دیا کہ ان کا دودھ اور بیشاب پیئیں یہ لوگ وہاں چلے گئے تندرست ہونے کے بعد وہ اسلام سے پھر گئے اور چر واہے (لیسار نوبی) کو قتل کر کے اونٹ ہنکا لے گئے۔ آنحضرت ﷺ نے ان کے تعاقب میں سوار بھیجے جو انہیں پکڑ کر مدینہ منورہ لے آئے نبی ﷺ نے حکم دی ان کے ہاتھ پاوں کاٹ ڈالے جائیں اور انکی آنکھیں میں لو ہے کی گرم سلائیاں پھیری جائیں یہ 6 ھ کا واقعہ ہے مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے گرم سلائیاں پیھر نے کا حکم اس لیے دیا تھا کہ انہوں نے چرواہے کے ساتھ یہی سلوک کیا تھا۔ (بخاری۔ مسلم) یہ سزا ان حربیوں کی ہے جو حکومت اسلامی کے باغی بن کر ملک کے اندر فساد پھیلا نے میں سرگرم رہتے ہیں حاکم وقت ان سزاوں میں سے جو سزا مناسب سمجھے ان کو سے سکتا ہے عام اس سے کہ وہ مشرک یا یہودی ہوں یا باغی مسلمان ہوں (قرطبی ) المآئدہ
34 ف 7 یعنی ایسے لوگوں کا قصو معاف کردیا کیونکہ ان کا گرفتا ہونے سے پہلے ازخود اپنے آپ کو حوالے کردینا یہ معنی رکھتا ہے کہ انہوں نے اپنے جرائم سے توبہ کرلی ہے مگر انہوں نے جو حقوق بندوں کے تلف کیے ہو نگے وہ معاف نہیں ہو کئے جاسکتے ان میں بہر حال ان کو پکڑا جائے گا اسی طرح شراب، زنا سرقہ وغیرہ کی حد بھی توبہ سے معاف نہیں ہو سکتی ہاں ان گناہوں پر دنیا میں اللہ تعالیٰ پردہ ڈال دے تو عند الہ توبہ سے معاف سکتے ہیں (قرطبی) المآئدہ
35 ف 8 یعنی رسول کی اطاعت میں جو نیکی کرو وہ قبول ہے اور بغیر اس کے عقل سے کرو سو وہ قبول نہیں (موضح) لفظ وسیلتہ توست الیہ سے فعیلتہ کے وزن پر ہے اس کی جمع ہے رسائل آتی ہے اس سے مراد ہر وہ نیکی یا عبارت ہے جس سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہو اور وسیلتہ جنت میں ایک بلند درجہ بھی ہے جو نبی ﷺ کے لے مخصوص ہے حدیث میں ہے یہ جس نے میری لیے وسلیہ کی دعا کی اس کے لیے میری شفاعت حلال ہوگئی (قرطبی) یہود کو اپنے نسب پر فخر تھا اور اس خوشی فہمی میں ہر قسم کے جرائم کا ارتکاب کرتے رہتے تھے اور اپنا آپ کو اللہ تعالیٰ کا محبوب سمجھتے تھے جیساکہ اوپر کی آیات میں گزرچکا ہے اب اس آیت میں مسلمانوں کو تعلیم دی ہے کہ تم اگرچہ بہتر امت ہو اور تمہارا نبی ﷺ بھی سب سے افضل ہے مگر تمہیں چاہیے کہ نیک اعما کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کو شش کرو اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرو تاکہ آخرت میں فلاح حاصل کرسکو یعنی یہود کی طرح بدعمل نہ بنو (کبیر) المآئدہ
36 ف 1 حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ایک جہنمی کو لایاجائے گا اور اس سے پوچھا جائے گا کہ اگر تمہارے پاس زمین بھر سونا ہو تو کیا تم اسے اپنے فدیہ میں دے دو گے وہ کہے گا ہاں اس پر اللہ تعالیٰ فرمائے گا تم جھوٹ بولتے ہو میں نے تمہیں اس سے کہیں ہلکی چیز کا مطالبہ کیا تھا یعنی یہ کہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہر انا) مگر تم نے اسے پورا نہ کیا (ابن کثیر بحوالہ صحیح مسلم آیت سے مقصود یہ ہے کہ ان لازما عذاب ہوگا اور کسی صورت اس سے رہائی نہیں پاسکیں گے (کبیر ) المآئدہ
37 ف 2 یہ آیت کفار فکے حق میں ہے جیسا کہ اوپر کی آیت میں انا بصراحت ذکر کیا گیا ہے را ہے گنہگار مسلمان تو صحیح احادیث میں ہے کہ ان کو گناہوں کی سزا بھگت لینے کے بعد جہنم سے نکال لیا جائے گا۔ (ابن کثیر ) المآئدہ
38 ف 3 اوپر کی آیت میں محارمین ( جوفساد پھیلاتے ہیں اور لوٹ مار کرتے ہیں) کی سزا تو یہ بیان فرمائی کہ ان کے ہاتھ پاوں کاٹ دیے جائیں اب اس آیت میں چوری کی حد قانونی سزا بیان فرمائی کہ مرد ہو یا عورت ان کے ہاتھ کاٹ دیئے جائیں مگر آیت میں عموم اور اجمال ہے حدیث میں ہے تقطع ید السا ق فی ربع دینار فصاعدا کہ کم از کم چوتھائی دینار سرقہ ہو تو کلائی کے پاس سے اس کا دہنا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا (قرطبی) مسئلہ اگر کوئی شخص قبر یا مسجد سے چوری کرے تو اس کے بھی یہی سزادی جائے گی جمہور علما نے کا یہی مذہب ہے اور نالامن نمہ فرما کر اشارہ فرمایا کہ یہ عقوبت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے علاوہ ازیں مسرقہ مال اس کے مالک کو واپس کرنا پڑیگا (دیکھئے قرطبی) المآئدہ
39 ف 4 یہاں ظلم سے مراد مسرقہ چوری ہے یعنی جس نے چوری کے بعد توبہ کر کے اپنی اصلاح کرلی اللہ تعالیٰ ان کا گناہ معاف فرامائے گا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ توبہ کرلینے سے چوری کی حد اس سے ساقط ہوجائے گی۔ نبی ﷺ کی خدمت میں چورتوبہ کرتے ہوئے آتے لیکن آپ ﷺ ان پر حد جاری فرماتے دار قطنی کی ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺ ایک چورکا ہاتھ کٹوایا اور پھر اس سے فرمایا تب الی الہ یعنی توبہ کرو اللہ تعالیٰ تمہارا قصور معاف فرمائے ( از فتح القدیر ( یہ باکل صحیح ہے کہ حد دو کفارہ میں محض ان کی حیثیت زواجر کی نہیں ہو ہے مگر ساتھ ہی توبہ کی بھی ضرورت ہے۔ (ماخوذ از قرطبی) المآئدہ
40 ف 5 یہ اس لیے فرمایا کہ کوئی تعجب نہ کرے کہ چورکو تھوڑی خطا پر بڑی سزا فرمائی ہے ( موضح) اس آیت کا خطاب تو آنحضرتﷺ سے ہے لیکن مراد تمام لوگ ہیں یا ہر شخص سے شخص سے خطاب ہے (فتح البیان) یعنی اللہ تعالیٰ کے ہاں سے کسی کو رعایت نہیں مل سکتی جو بھی جرم کا ارتکاب کرے گا اسے ضرور سزا ملے گی اس معاملہ میں کسی شریف کو وضیع پر فوقیت حاصل نہیں ہے یا یہ کہ اللہ تعالیٰ کسی جرم پر سزا چاہے مقرر فرمادے اسے مخلوق پر اختیار کلی حاصل ہے () قرطبی) المآئدہ
41 ف 6 کفر پر دوڑے پڑتے ہیں یعنی جب بھی انہیں کوئی مقع ہاتھ آتا ہے تو فورا کفر کی طرف پلٹ جاتے ہیں یا کافروں سے مل جاتے ہیں اس کا تعلق منافقین سے ہے ( کبیر ) ف 7 جھوٹی باتیں سنتے ہیں یعنی جو کچھ ان کے روسا تورات میں تحریف کرکے اور آنحضرتﷺ کی نبوت پر طعن پر کہتے ہیں اسے قبول کرلیتے ہیں اور پھر یہ ان لوگوں کے جاسوس بن کر آپ ﷺ کے پاس آتے ہیں جو وازراہ تکبر آپ ﷺ کی مجلس میں آنا پسند نہیں کرتے (کبیر) ف 8 یعنی تورات میں تحریف کرتے ہیں اسکے الفاظ بھی بد دیتے ہیں اور غلط تاویلیں بھی کرتے ہیں جس سے حلال کو حرام اور حرام کو حلال قرار دیتے ہیں مثلا انہوں نے رجم (سنگساری) کی بجائے جلدکوڑوں کی کی سزا مقرر کررکھی تھی۔ (کبیر ) المآئدہ
42 ف 1 علمائے تفسیر نے لکھا ہے کہ یہود میں سے ایک مر اور ایک عورت نے زنا کا ارتکاب کرلیا وہ دونوں شاد ی شدہ تھے۔ ان کے علماے نے باہم مشورہ کر کے طے کیا اس مقدمہ کا فیصلہ محمد ﷺ سے کرالیتے ہیں کیونکہ وہ نرم شریعت لے کر آئے ہیں۔ْ اگر انہوں نے کوڑے مارنے کا حکم دی اتو ہماری مراد بر آئے گی اور اگر انہوں نے سنگسار کرنے کا حکم دیا تو ہم ان کا فیصلہ ٹھکرا دیں گے چنانچہ اس بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔ (ابن کثیر) کتب صحاح میں ہے کہ جب یہودی اپنا یہ مقدمہ لے کر آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ ﷺ نے انہیں تورات پڑھنے کا حکم دیا تو چنانچہ ایک آدمی پڑھنے لگا اور جب وہ آیت رجم پر پہنچا تو اس پر ہاتھ رکھ کر اگلی آیت پڑھی دی اس پر حضرت عبد اللہ بن سلام نے اسے ٹوک دیا اور اس کا ہاتھ ہٹاکر آیت رجم پڑھنے کا حکم دیا چنانچہ آنحضرت ﷺ کے سامنے سار معاملہ کھل گیا اور آپ ﷺ نے زانی اور زانیہ کو سنگسار کرنے کا حکم دیا اور فرمایا انی احکم بما فی التورات کہ میں تورات کے مطابق تمہارے مقدمہ کا فیصلہ سے رہاہوں (قر طبی، ابن کثیر) ف 2 سحت کے لفظی معنی مٹانے اور ہلاک کرنے کے ہیں گویا مال حرام وہ چیز ہے جو انسان کی تمام نیکیوں کو اکارت کر کے رکھ دیتی ہے اور ہر اس خسمیں مال پر سخت کا لفظ بولا جاتا ہے جس کے لینے میں رہو اور خفیہ طور پر لیا جائے نے اس میں رشوت بھی شامل ہے اور احادیث میں زانیہ کی اجرت کتے شراب اور مردار بیجنے کو سخت کہا گیا ہے سود چوری کا مال اور جوئے سے کمایا ہو امال بھی سحت میں داخل ہے ( کبیر، قرطبی) ف 3 جس زمانے میں یہ آیت نازل ہوئی یہودیوں کی ٖحیثیت محض ایک معاہد قوم کی تھی اور وہ نرمی یعنی اسلامی حکومت کی رعایا نہ تھے اس لیے نبیﷺ کی عدلت کو اختیا ردیا گیا کہ چاہیں تو انکے مقدمات کا فیصلہ کریں اور چاہیں تو انکار کردیں اور یہی اختیار اسلامی حکومت کو کسی غیرمسلم معاہد قوم کے درمیان فیصلہ کرنے کے بارے میں ہے رہے ذمی لوگ سوا گر وہ اپنے مقدمات اسلامی عدلت میں لائیں تو ان کے مقدمات کا فیصلہ کرنا ضروری ہوگا۔ (المنار ) یہی تفصیل امام شافعی (رح) نے منقول ہے پس اس تخیتر کا تعلق معاہد قوم سے ہے۔ (کبیر) مگر دوسرے علما کا خیال ہے کہ یہ تخیر منسوخ ہے جن میں حضرت عمر (رض) بن عبدالعزیز اور مام نخعی (رح) بھی شامل ہیں سخاس نے بھی ناسخ منسوخ میں یہی لکھا ہے اور حضرت عکرمہ (رض) سے بھی یہی مروی ہے کہ آیت وان احکم بینھم بما انزل اللہ (مائدہ آیت 48) سے یہ آیت منسوخ ہے امام شافعی کا اصح قول بھی یہی ہے امام زہری (رح) فرماتے ہیں شروع سے یہ طریقہ چلاآیا ہے کہ باہمی حقوق اور احکام وراثت میں اہل کتاب کا فیصلہ ان کے دین کے مطابق کیا جائے ہاں اگر وہ اپنی خوشی سے اسلامی قانون کے مطابق فیصلہ کے خواہشمند ہوں تو پھراسی کے مطابق کردیا جائے گا اس تفصیل سے ثابت ہوتا ہے کہ گو بعض جزئیات میں علما کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے تاہم ان کی اکثر یت نسخ کی قائل ہے (قرطبی) ف 4 یہاں ان کی جہالت اوعناد کا بیان ہے یعنی وہ جانتے ہیں کہ جو مقدمہ آپ ﷺ کے پاس لارہے ہیں اس کا فیصلہ تو رات میں موجود ہے تاہم آپ ﷺ کے پاس اس لیے مقدمہ لاتے ہیں کہ شاید آپﷺ کا فیصلہ تورات کی بہ نسبت کچھ ہلکا ہو لیکن جب آپﷺ کا بھی وہی ہوتا ہے جو تورات کا ہوتا ہے تو وہ اسے ماننے سے انکار کردیتے ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ نہ تو وہ تورات پر ایمان رکھتے ہیں اور نہ آپ ﷺ پر اصل میں یہ اپنی اغراض کے بندے ہیں اور ان کا مقصد جیات ہی دینوی مصالح کا حاصل کرنا ہے۔ (کبیر ) المآئدہ
43 ف 5 اس میں یہود کو تنبیہہ ہے جو حد رجم (سنگساری) کا انکار کرتے تھے اور ان کو ترغیب دی ہے کہ وہ اپنے اسلاف۔ انبیا احبار اور علمائے ربانی کا مسلک اختیار کریں۔ (کبیر) بنی اسرائیل میں حضرت موسیٰ ٰ ( علیہ السلام) کے بعد حضرت عیسیٰ ٰ ( علیہ السلام) تک سینگڑوں پیغمبر ایسے گزرے ہیں جن پر کوئی نئی کتاب نازل نہیں کی گئی اور وہ اپنے زمانے میں لوگوں کو تورات ہی پر عمل کرنے کی نصیحیت کرتے اور ان کے مابین اسی کے احکام کے مطابق فیصلے کرتے تھے خود حضرت عیسیٰ ٰ ( علیہ السلام) کو کوئی نئی شریعت نہیں دی گئی بلکہ ان کی بعثت کا مقصد تورات ہی کی شریعت کو زندہ کرنا تھا۔ الذین ااسلموا یہ صفت مدح ہے اور ان انبیا ( علیہ السلام) کے کے مسلمان ہونے کے یہ معنی ہیں کہ وہ دین ابراہیم کے تابع تھے یا للہ تعالیٰ کے فرمانبر دار تھے (قرطبی) المآئدہ
44 ف 1 آیت میں بما استحفظو کی با کا تعلق الریا یو ن والا حبار سے ہے مطلب یہ ہے کہ جس زمانے میں کوئی نبی نہیں ہوتا تھا ویہ درویش اور تعلیم یافت لوگ یہودیوں کے مابین تورات کے مطابق فیصلے کیا کرتے تھے کیونکہ انبیا ( علیہ السلام) نے انہی کو اللہ تعالیٰ کی کتاب تورات کا محافظ قرار دیا تھا اور ان کی ذمہ داری تھی کہ اس میں کو تحریف نہ ہونے پائے اور شھدآ کے یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ وہ تورات کے من عند الہ ہونے پر گواہ تھے بعض علما نے بما اتحفظوا کی با کا تعلق یحکم سے بیان کیا ہے کہ اللہ کی کتاب کی جو امانت ہ ان کے سپرد کی گئی تھی وہ اس کے مطابق فیصل کرتے تھے۔ ّ(قرطبی، کبیر) یعنی تم بھی اپنے انبیا اور بزرگوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے تورت میں کوئی تحریف نہ کرو اور حق پر چلتے ہوئے تورات میں کوئی تحریف نہ کرو اور حق بات کہنے اور محمد ﷺ کے جو حالات اس میں مذکور ہیں ان کے بیان کرنے میں لوگوں کو پر واز کرو اور صرف میرے انتقام اور عذاب کا ڈر اپنے دلوں میں رکھو (کبیر) ف 3 حضرت حسن بصری (رح) فرماتے ہیں کہ حکام پر اللہ تعالیٰ نے تین چیزیں لازم کی ہیں خواہش کی پیرو کی نہ کریں صحیح ٖفیصلہ کرنے میں کسی کی پروانہ کری ن اور رشوت لے کر غلط فیصلہ کریں ،(قرطبیف 4 یہ خطاب یہود سے ہے یعنی جب یہ عمد وتورات کے فیصلے کو چھپاتے ہیں اور اس پر عمل کرنا نہیں چاہتے تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ باوجود زبانی دعوی ٰ کرنے کے درحقیقت یہ کافر ہیں مگر آیت کے الفاط عام ہیں مسلمان حاکم پر کفر کا فتوی اسی وقت لگا سکتے ہیں جب وہ قرآن و حدیث کا انکار کرکے ان کے خلاف فیصلہ صادر کرے ایسے شخص کے کافر ہونے میں کچھ شبہ نہیں ہوسکتا اگلی آیات میں ایسے شخص کو ظالم اور فاسق بھی قرار دیا گیا۔ ( قرطبی) المآئدہ
45 ف 5 اس آیت میں بھی یہود کی توبیخ ہے یعنی انہوں نے جس طرح رجم (سنگساری) کے حکم کے تبدیل کرندیا تھا اسی طرح ان پر نفوس اور جر دح میں برابر رکھی گئی تھی جواب بھی تورات کی کتاب خروج باب 21 آیت 23۔25 میں موجود ہے مگر انہوں نے اس کو تبدیل کر کے معطل کر ڈالا اور عملا اس کی خلاف ورزی کر کے ظالم بن گئے آنحضرت ﷺ کے زمانے میں یہو دی قبائل میں سئے بنی نضیر طاقتور اور بنو قریظہ کمزور تھے اس لیے یہوی بنو نضیر کا قصاص بنونضیر سے نہ لیتے تھے۔ (ابن کثیر۔ کبیر) اس آیت کے مشمولات کے حجت ہونے پر ااجماع ہے پس عورت کے بدلے مرد قتل کیا جائے گا چنانچہ آنحضرت ﷺ ن عمر و بن حزم کو جو کتاب لکھ کر بھیجی اس میں یہ حکم بھی لکھا کہ عورت کے بدلے مرد کو قتل کیا جائے اور دوسری حدیث میں ہے المسلمو ن تتکا فا دماھم کہ مسلمانوں کے خون کے برابر ہیں جمہور علما کا یہی مسلک ہے احناف نے آیت کے عموم کے تحت کافر اور غلام کے بد لے مسلمان قتل کرنے کا حکم ثابت کیا ہے مگر صحیحین کی حدیث میں ہے لا یقتل مسلم بکافر کہ کافر کے بدلے مسلمان کو قتل نہ کیا جائے اور متعد آثار سے ثابت ہے غلام کے بدلے آزاد کو قتل نہیں کیا جاتا تھا بنابریں ان دونوں مسئلوں میں جمہور علما نے احناف کی مخالفت کی ہے بلکہ امام شافعی (رح) نے احناف کے خلاف اجماع نقل کیا ہے۔ (ابن کثیر) ف 6 حدیث میں بھی ہے کہ جس مسلمان کو دوسرے سے جسمانی اذیت (زخم) پہنچے اور وہ اسے معاف کر دے تو اللہ تعالیٰ اس بدولت ایک درجہ بلند کرتا ہے اور گناہ کم کرتا ہے (ترمذی ابن ماجہ ) المآئدہ
46 ف 7 یعنی حضرت مسیح ( علیہ السلام) کوئی نئی شریعت یا نیا دین لے کر نہیں آئے تھے بلکہ وہ تورات ہی کی تصدیق کرنے اور اسی کی شریعت کو زندہ کرنے آئے تھے۔ وہ خود بھی اسی کی شریعت پر چلتے تھے اور انجیل بھی اسی شریعت پر چلنے کا حکم دیتی تھی۔ (ابن کثیر۔ کبیر) تورات انجیل اور پھر قرآن کریم کے متعلق ھد ی ونور کے اوصاف بیان ہوئے ہیں۔ ان کتب منزلہ کا ہدایت ہونا تو احق اعتبار سے ہے کہ یہ مبدا دمعاد کے حقائق کے بیان پر مشتمل ہیں اور نو راد روشنی ہونا اس لحاظ سے ہے کہ انسان کے عملی زندگی میں رہمنائی کا کام دیتی ہے (کبیر ) المآئدہ
47 ف 7 انجیل کے مطابق ٹھیک ٹھیک فیصلہ کرنے کے معنی یہ ہیں کہ انجیل جو نبی آخرالزمان ﷺ کے متعلق پیش گوئیا اور دلائل موجود ہیں ان کو چھپانے ان کے غلط تاویلیں کرنے کی کو شش نہ کریں یا یہ کہ نزول انجیل کے وقت جو نصاریٰ تھے ان کو یہ حکم دیا گیا تھا بعض نے لکھا ہے یہ آیت منسوخ ہے اور ان کو یہ حکم اس وقت تھا جب نبی ﷺ کی بعثت نہیں ہوئی تھی آپ ﷺ کی بعثت کے پچھلی تمام بعثتیں منسوخ کر ہوگئی ہیں (کبر قرطبی) المآئدہ
48 ف 1 اوپر کی آیات میں تورات وانجیل کے اوصاف بیان کئے اور اہل کتاب کو ان پر عامل نا ہو کی وجہ سے فاسق کافر اور ظالم قرار دیا اب اس آیت میں قرآن کریم کی توصیٖف بیان کیا ہے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کر کے فرمایا ہے کہ قرآن کے مطابق فیصلے کرو۔ مھیمن کے معنی محافظ نگہبار اقورشاہد کے آتے ہیں۔ قرآن پاک کتب سابقہ کا محا فظ ہے یعنی جو کچھ ان کتب میں امانت کی گئی ہے اس کو نہا یت صحت کے ساتھ بیان کرتا ہے او یہود کی غلط تاویلات و تحریفات کو واضح کرتا ہے یا معنی یہ ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہم نے اس قرآن کا امین مقرر کیا ہے (کبیر، قرطبی) پس تورات وانجیل کے ہر مضمون کو قرآن کی کسوٹی پر پر کھ کہ دیکھا جائے گا۔ صحیح اترنے کی صورت میں قبول کرلیا جائے گا ورنہ رد کردیا جائے گا۔ ( 2 مروع ہے کہ چند یہودی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنی طرف مائل کرنے کے لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جانتے ہیں کہ ہمارا شمار یہود کے اشراف اور علما میں ہوتا ہے اگرچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) متبع ہوجائیں تو تمام یہود آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی اختیار کرلیں گے ہمار اپنے قبیلہ کے چند لوگوں سے نزاع ہوگیا ہے ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس مقدمہ لائیں گے اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے حق میں فیصلہ فرمائیں تو ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لے آئیں گے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حق پر ثابت قدم رہنے کی ہدایت فرمائی گئی (ابن کثیر۔ کبیر) ف 3 اس کے مخاطب یہود ونصاریٰ اور مسلمان ہیں یعنی گوتمام انبیا کا دین ایک ہے مگر اپنے اپنے وقت میں ہر امت کی شریعت (احکام فرعیہ) اور طریق مختلف رہے ہیں ہر بعد میں آنے والے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شریعت میں شرائع سابقہ سے مختلف احکام پائے جاتے ہیں اس طرح نبی آخرالزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شریعت ہر لحاظ سے مکمل اور قیامت کے لیے ہے ایک حدیث میں ہے کہ تمام انبیا علاتی بھائی ہیں جن کی مائیں مختلف اور باپ ایک ہے یعنی سب کا دین اور اصول تواک ہیں اختلاف جو کچھ بھی ہے وہ صرف فروعی احکام کی حد تک ہے ف 4 یعنی شرائع کا یہ اختلاف تمہارا امتحان کرنے کے لیے ہے کہ کون حق پر پیرا رہتا ہے اور کون اس سے انحراف اختیار کر ہے تاکہ اس پر جز امترتب ہو سکے (قرطبی، کبیر) ف 5 یعنی خواہ مخواہ کی کج بحثیوں کے چھو ڑکر ان نیکیوں کو اختیار کرنے کی طرف سبقت دکھاو جن کا اب تمہیں اس آخری شریعت میں حکم دیا جارہا ہے۔ ف 6 الی اللہ مرجعکم جمیعا یہ جملہ مستانعہ ہے اور نیکیوں کی طرف مسابقت کا جو حکم دی گیا ہے اس کی علت ہے یعنی چونکہ اللہ تعالیٰ کے پاس تم سب کو حاضر ہو کر جواب دینا ہے اور وہاں پہنچ کر ہر قسم کے اختلافات اور شکوک وشہبات دور ہوجائیں گے اس لیے اس دنیا میں ہی نیکی کرلو تاکہ اچھا بدلہ مل سکے (کبیر ) المآئدہ
49 ف 7 یعنی یہ اہل کتاب آپس میں دست وگریباں رہیں مگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے باہمی اختلاف سے متاثر نہ ہوں اور اللہ تعالیٰ کی اتاری ہوئی شریعت کے مطابق فیصلہ کریں اور ان سے ہوشیار رہیں ایسیا نہ ہو کہ ان کے کسی گروہ کو خوش کرنے یا ان سے مصالحت کی کوئی خواہش آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ حکم سے برگشتہ کر دے (دیکھئے ف 2) ف 8 یعنی اس دنیا میں ان کو چلاوطنی جزیہ یا قتل کے سزا دے کیونکہ ان میں انصاف پسند اور حق پر چلنے والے بہت تھوڑے ہیں (کبیر، ابن کثیر ) المآئدہ
50 ف 9 یعنی کہ اللہ تعالیٰ کی اتاری ہوئی شریعت کے مطابق کئے ہوئے فیصلہ کو چھوڑ کر کفر وجا ہلیت کے زمانہ کا فیصلہ پسند کرتے ہیں جس کا بنیاد سراسر ذاتی خوہشات پر ہوتی تھی اس جن میں کمزور کا مقابلے میں طاقتور کی طر فداری کی جاتی تھی اسی کا نام یہودیت ہے کہ وہ وضیع کے مقابلہ میں شریعت کی رعایت کرتے کمزور پر حدود قائم کرتے ہیں اور مالدار کی رعایت کرتے (کبیر، قرطبی) المآئدہ
51 ف 10 یہودیوں کے قبیلہ بنو قینقاع کی مسلمانوں سے جنگ ہوئی تو منافقوں کے سردار ابن ابی نے یہودیوں کا ساتھ دیا کیونکہ اس کے قبیلہ بنو خزرج کا ان یہودیوں سے معاہدہ تھا لیکن حضرت عبادہ (رض) بن صامت نے بنو خذرج میں سے ہونے کے باجود ان یہودیوں کا ساتھ نہ دیا اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر ان کے معاہدے اور انکی دوستی سے براہت کا اعلان کردیا۔ اسی موقع فان حزب اللہ ھم الغالبون تک یہ آیات نازل ہوئیں (ابن جریر وغیرہ) اس آیت میں یہود و نصاریٰ بلکہ تمام کفار کے ساتھ دو ستانہ تعلقات قائم رکھنے سے منع فرمایا ہے (دیکھئے سورۃ آل عمران :28۔118) المآئدہ
52 ف 1 یعنی منافقین جو یہود ونصاریٰ کے ساتھ دوستی کئے جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کہیں مسلمان ان سے مغلوب ہوگئے تو ان کی دوستی ہمارے کام آئے گی سو اللہ تعالیٰ نے فرمایا یا تو عنقریب کافر ہلاک ہوں گے اور مسلمانوں کو ان پر فتح ہوگی یا یہ ملک سے چلاوطن ہو نگے چنانچہ اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ پورا ہوا۔ مسلمان کو فتح نصیب ہوئی بنو قریضہ کے یہود قتل ہوئے اور بنو نظیر کو سرزمین مدینہ سے باہر نکال دیا گیا اور یہ لوگ اپنے نفاق پر کف افسوس ملنے لگے (قرطبی، کبیر ) المآئدہ
53 ف 2 اور کافروں کے طرف دار نہیں ہیں مگر اب تو ان کا جھوٹ صاف کھل گیا (وحیدی ) ف 3 دنیا و آخرت دونوں برباد ہوئیں دنیا میں ذلیل ہوئے اور آخرت میں سخت ترین عذاب کے مستحق قرار پائے (وحیدی ) المآئدہ
54 ف 4 قتادہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرامائی کیونکہ اسے پہلے سے یہ معلوم تھا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد بہت سے عرب قبائل اسلام سے مرتد وہو جائیں گے چنانچہ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انتقال ہو اتوتین مقامات مکہ، مدینہ، بحرین کے علاوہ تمام مقامات سے عرب قبائل کے ارتداد کی خبریں آنے لگیں وہ کہنے لگے ہم نماز تو پڑہینگے لیکن زکوٰۃ ادا نہیں کریں گے۔ اس وقت حضرت ابو بکر (رض) صدیق نے ان مرتدین سے جہاد کی اس لیے حضرت علی (رض) حسن (رض) ضحاک (رح) اور بہت سے دوسرے مفسرین کہتے ہیں کہ اس آیت میں جن لوگوں کایہ کہہ کر ذکر فرمایا گیا ہے کہ وہ اللہ سے محبت کریں گے اور اللہ ان سے محبت رے گا ان سے مراد حضرت ابوبکر (رض) صدیق اور ان کے ساتھی ہیں (ابن کثیر، شوکانی) حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں جب حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات پر عرب دین سے پھرے تو حضرت صدیق (رض) نے یمن سے مسلمان بلائے ان سے جہاد کر وایا کہ تمام عرب مسلمان ہوئے یہ ان کے حق میں بشارت ہے (موضح) صاحب الکشاف نے لکھا ہے کہ اہل ردہ کے گیارہ فرقے تھے تین فرقے تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حیات میں ہی مرتعد ہوگئے بنو مدیح جن کارنیس اسود عنسی تھا اور فیروز دیلمی نے اس کو قتل کیا تھا، مسیلمہ کذاب کی قوم بنو حنیفہ جس سے حضرت ابوطکر (رض) نے جنگ کی اور حضرت حمزہ (رض) کے قاتل وحشی کے ہاتھ سے مسیلمہ کذاب قتل ہوا بنو اسدجن کارئیس طلیحہ بن خویلد تھا آنحضرت نے خالد (رض) کو اس کو اس کی سرکوبی کے لیے روانہ کیا تھا (کبیر) ایک مرفوع حیدیث میں ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابومو سی اشعری (رض) کی طرف اشارہ کر ہو فرمایا ھم قوم ھذا کہ وقہ اس شخص کی قوم کے لوگ ہیں ( ابن کثیر ) المآئدہ
55 ف 5 اوپر کی آیات میں کفار سے موالا ۃ کو ممنوع قرار دیا اب اس آیت میں انما کلمہ حصر کے ساتھ مومنین سے موالاۃ کا حکم فرمایا یعنی یہود کو مددگار اور ادوست نہ بنا و بلکہ صرف مومنین کو اپنا دوست ارمدد گار سمجھو۔ (کبیر، ابن کثیر) یہاں وھم رالعون کے معنی ہیں فروتنی اور عاجزی کرنے والے۔ چنانطہ قرآن میں ودسرے مقام پر ہے وَالَّذِینَ یُؤْتُونَ مَا آتَوْا وَقُلُوبُہُمْ وَجِلَۃٌ المومنین : ٦٠) کہ وہ لوگ جو صدقہ و خیرات اس حال میں کرتے ہیں کہ ان کے دل کانپ رہے ہوتے ہیں (کبیر۔ ثنائی) بعض علمانے وھم راکعون کو یو تون الزکوٰۃ کے فاعل سے حال قرار دے ت کریہ ترجمہ کی ہے کہ وہ رکوع کو حالت میں زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور پھر بعض روایات سے ثابت کیا ہے کہ حضرت علی (رض) نے رکوع کی حالت میں انگو ٹھی صدقہ کی تھی اس پر ان کی تعریف میں یہ آیت نازل ہوئی مگر یہ روایات بہت ضعیف اور کمزور ہیں۔ حافظ ابن کثیر نے ان روایات پر سخت تنقید کی ہے اور ان کے نے اصل قرار دیا ہے وہ فرماتے ہیں کہ ان روایات کی روسے تو پھر یہ ماننا پڑے گا کہ رکوع کی حالت میں زکوٰۃ کی حالت میں زکوٰۃ ادا کرنا زکوٰۃ دینے کی افضل ترین صورت ہے مگر آج تک کسی عالم نے نہ فتوی نہیں دیا۔ (ابن کثیر المنار ) پس صحیح یہ ہے کہ آیت عامومنین کے حق میں نازل ہوئی ہے اور حضرت عبادہ (رض) بن صامت اور ان کے رقا (رض) اس آیت کے اولین مصداق ہیں جنہوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر یہود کی مولاۃ سے ب رات کا اعلان کردیا تھا امام ابو جعفر محمد بن علی بن حسین (رض) سے پوچھا گیا کہ وہ ولیکم سے مراد حضرت علی (رض) ہیں تو انہوں نے فرمایا کہ حضرت علی (رض) بھی من جملہ مومنین کے ہیں یعنی یہ آیت سب مومنین کے حق میں ہے باقی رہی یہ بات کہ یہاں اقامتہ الصلوٰۃ الخ میں جو صفات مذکورہ ہیں ان سے کیا مقصود ہے تو ہم کہتے ہیں کہ مذکورہ صفات سے منافقین پر طنز مقصود ہے جو ان صفات سے عاری تھے۔ (کبیر) ج المآئدہ
56 ف 6 شعیہ حضرات علی (رض) کی امامت بلا فصل ثاتب کرتے ہیں ان کے استدلال کا مدار تو اس بات پر ہے کہ یہ آیت خالص کر حضرت علی (رض) کے حق میں نازل ہوئی ہے مگر ہم نے یہ ثاتب کیا ہے کہ آیت عبادہ (رض) بن صامت اور ان کے رفقا (رض) کے حق میں نازل ہوئی ہے اور حضرت علی (رض) فی الجملہ ان میں داخل ہی اسکے علاوہ جب اس آیت میں تمام صیغے جمع کے ہیں تو پھر صرف حضرت علی (رض) کیسے مراد ہو سکتے ہیں اور پھر جب آیت کے نزول کے ساتھ ہی مومنین کی ولادت ثابت ہوگئی تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعدتک اس کو ملتوی رکھنا نے معنی ہے نیز ولی کے معنی دوست اور مددگار کے بھی آتے ہیں اور والی اور متصف کے بھی سیاق وسباق معنی اول کا مئو ید ہے تو بلا قرینہ سیاق کیخلاف دوسرے معنی لینے کے لیے کونسی وجہ جواز ہو سکتی ہے۔ امام رازی (رح) نے آٹھ دلائل سے ثاتب کیا ہے کہ آیت ولی کے پہلے معنی مراد ہیں اور دوسرے معنی دلائل کے خلاف ہیں۔ (کبیر ) المآئدہ
57 ف 1 اوپر کی آیت میں خاص کر یہود ونصاریٰ کی مولاۃ سے منع فرمایا۔ اب یہاں بالعموم تمام کفار سے مولاۃ کو منع قرار دیا ہے (کبیر) اس آیت کی روسے ان اہل بد عت سے دوستی رکھنا بھی حرام ہے جنہوں نے دین کو ہنسی کھیل بنا رکھا ہے۔ کیونکہ جب ان میں بھی وہی وصف پایا جاتا ہو جو اہل کتاب ہی میں پایا جاتا ہے تو لازما ان کا حکم بھی وہی ہونا چاہیے جو اہل کتاب کا ہے۔ (نفع القدیر) یعنی اس کی نقلیں اتارتے ہیں تمسخر سے اس کے الفاظ بدلتے ہیں اور اس پر آوازے کستے اور شور ہنگامہ برپا کرتے ہیں۔ (ابن کثیر کبیر ) المآئدہ
58 ف 2 ان میں اگر کچھ بھی عقل ہوتی تو اذان کی آواذ سن کر ان کے دل نرم پڑتے اور وہ حق کی طرف متوجہ ہوتے یا کم از کم مسلمانوں سے مذہبی اختلافات رکھنے کی باوجود اس قسم کی گھٹیا حرکات نہ کرتے۔ المآئدہ
59 ( ف 4 یعنی پہلی کتابوں پر جیسے تورات، زبور اور انجیل و غیرہ مطلب یہ ہے کہ تما جانتے ہو کہ ہمارا ایمان ان ہی چیزوں پر ہے جنہیں تم بھی صحیح مانتے ہو پھر ہم سے کیوں دشمنی کرتے ہو یہاں استفہام برائے تعجب ہے حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ یہود کا ایک گروہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا کہ کن پیغمبروں کو سچامانتے ہو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منجلہ دوسرے پیغمبروں کی حضرت عیسیٰ ٰ ( علیہ السلام) کا نام بھی ذکر فرمایا تو انہوں نے حضرت عیسیٰ ٰ ( علیہ السلام) کی رسالت سے انکار کردیا اور کہنے لگے کہ پھر تو تمہارا دین بہت برا دین ہے (کبیر) ف 5 یعنی اصل بات یہ ہے کہ تم میں سے اکثر لوگ خاص اور بد کار ہیں اور تمہا ری ساری مذہبی اجارہ داری گروہی تعصب اور غلط قسم کی روایات پر قائم ہے اس لیے تم اپنے علاوہ کسی دوسرے میں بھی کوئی اچھی بات دیکھنا پسند نہیں کرتے۔ یہاں فسق سے مراد فسق فی الدین ہے یعنی مذہبی روایات کے نقل کرنے میں عدول نہیں ہو (کبیر ) المآئدہ
60 ف 6 (ای فی زعمکم) یعنی تم تو ہم میں عیب نکالتے ہو اور کہتے ہو کہ ہمارا دین برا ہے لیکن ذرا اپنی تاریخ پر بھی غور کرو اور اپنے ان اسلاف کے بارے میں بھی کچھ کہنے کی جرات کرو جن کا انجام اللہ کے ہاں اس سے بھی کہیں بدتر ہونے والا ہے جس کا تم ہمارے بارے میں دعوی ٗ کرتے ہو (ماخوذ از کبیر) ف 7 یعنی یہ لوگ تمہارے ہی آباو اجداد تھے جو دین کا مذاق اڑانے اور مختلف جرائم کے مرتکب ہونے کی وجہ سے اللہ کی لعنت اور اس کے غضب میں مبتلا ہوئے ہیں ان میں سے بہت سوں (اصحاب سبت) کی صورتیں مسخ کردی گئیں اور وہ شیطان کے بہکانے سے تھی دواصل شیطان کی عبادت تھی۔ ف 8 یعنی تم ہمیں کتنا ہی گمراہ کہہ لو لیکن یہ بات مانے بغیر چارہ نہیں کہ تمہارے باپ دادا گمراہ تھے اور ان کا انجام اللہ کے ہاں ہم سے کہیں بدتر ہوگا۔ المآئدہ
61 ف 9 یہود سے وہ منافق مراد ہیں جو مدینہ اور اس کے قریب وجوار میں رہتے تھے (رازی) ف 10 یعنی ان کے دلوں میں مسلمانوں کے متعلق نہایت ہی بغض وحسد بھرا ہوا ہے ورنہ ان پر کچھ نہ کچھ اثر تو ضرور ہوتا (کبیر ) المآئدہ
62 ف 11 اثم سے مراد وہ گناہ ہے جس کا نقصان کرنے والے کو ہوتا ہے جیسے جھوٹ، شرک کفر و بدعت اور عدون وہ گنا ہے جس سے دوسرے کو بھی نقصال پہنچتا ہے جیسے ظلم وزیادتی حق تلفی وغیرہ۔ سھت حرام مال جو بھی ناجائز ذریعے سے کما یا جائے (دیکھئے آیت 42) المآئدہ
63 ف 1 جنہوں نے سچ بات کہنے اور منکر ات سے روکنے سے اپنی زبانوں کو گنگ بنا لیا ہے ایسے مشا ئخ اور مولویوں کو یقینا گناہ کرنے والوں سے بھی سخت سزاملے گی (ابن جریر ) المآئدہ
64 ف 2 جب ان پر کوئی سخت وقت آتا اور تنگدستی میں ہوتے ہیں تو اس قسم کے کفر بات بکتے جیسا کہ آج کل بعض جاہل قسم کے مسلمان اس قسم کے کلمات کہہ دیتے ہیں حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں ایک یہودی نے اللہ تعالیٰ کی طرف بخل کی نسبت کی اس پر یہ آیت ناز ل ہوئی۔ (ابن جریر) ف 3 یعنی ان کے ہاتھ تنگ ہوں اور ہو پھٹکارے جائیں، ان کے حق میں بددعا ہے۔ (ابن کثیر) ف 4 یعنی وہ انتہائی سخی اور فیاض ہے زمین و آسمان کے تمام خرانے اس کے ہیں وہ جس طرح چاہتا ہے خرچ کرتا ہے حضرت ابو ہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا ہاتھ بھرا ہوا ہے اور اسے دن رات کا خرچ کچھ بھی کم نہیں کرتا۔ (بخاری ومسلم وغیرہ) قرآن و حدیث سے اللہ تعالیٰ کے لے یہ ہاتھ ثابت ہیں قدرت وغیرہ کے معنی کر کے اس کی تاویل کرنا سلف کے خلاف ہے اہل حدیث اس قسم کی آی تو اور حدیثوں کو تسلیم کرتے ہیں اور ان کے ظاہر معنی پر ایمان لاتے ہیں اور کیفت اللہ تعالیٰ ٗ کے سپرد کرتے ہیں اور اس کی کسی بھی مخلوق کی مشابہت سے پاک جانتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ کی ذات بے مثل ہے ویسے ہی اس کی صفات بھی بے مثل ہیں (م۔ وحیدی) ف 5 در اصل یہ لوگ دلائل کے وضح ہونے کے بعد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا انکار محض حسد و بغض اور حب جاہ ومال کی وجہ سے کررہے تھے یہی وجہ تھی کہ قرآن کے تدریجی نزول کے ساتھ ان کے کفر وانکار میں بھی اضافہ اور غلو ہورہا تھا قرآن نے ان کے دلوں کی اسی کیفیت کو بیان فرمایا ہے کہ نزول قرآن سے وہ اپنے کفر اور شرارت میں مزید ترقی کرتے جائیں گے ،(ماخوذ از کبیر) ف 6 یعنی اللہ تعالیٰ کی ان پر دوسری پھٹکار یہ ہے کہ ان میں باہم فرقہ بند ی اور عداوت پائی جاتی ہے اس لیے مسلمانوں کے خلاف جتنے منصوبے بناتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ناکام بنا یے جاتے ہیں چنانچہ یہودیوں نے مسلمانوں کے خلاف جتنی شرارتیں کیں اور ان سے جتنی جنگیں لڑیں ان سب کر تاریخ اس حقیقت کی کھلی شہادت ہے۔ المآئدہ
65 المآئدہ
66 ف 7 یعنی ان پر عمل کرتے وار ان میں تحریف نہ کرتے حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ وما انزل الیھم سے قرآن مجید مراد ہے (ابن کثیر) ف 8 ہر قسم کی فراوانی مراد ہے یعنی اوپر سے پانی برستا اور نیچے (زمین) سے غلہ اور میوہ پیدا ہوتا اور انہیں روزی کمانے کے سلسلے میں کسی قسم کی پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا۔ (قابن کثیر) ف 9 یعنی افراط وتفریط سے بچ کر اعتدال کی راہ چلنے والا اس گروہ سے مراد وہ اہل کتاب ہیں جو مسلمان ہوگئے تھے جیسے عبد اللہ بن سلام اور ان کے ساتھی (کبیر) ف 10 یعنی بقیہ یہو دی جو ایمان نہیں لائے۔ المآئدہ
67 ف 1 یعنی اللہ تعالیٰ کے پیغام میں سے اگر کچھ چھپا لیاتو گویا سرے سے اس کا پیغام ہی نہیں پہنچا یا خصو صا یہود ونصاری اور منافقین کے متعلق اعلانات اس آیت ان لوگوں کی تردید ہے جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق یہ کہتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرآن کی بعض آیات عام مسلمانوں تک نہیں پہنچائیں بلکہ صرف علی (رض) اور اہل بیت کو بتائیں۔ حضرت علی (رض) نے ان کے اس خیال کی تردید فرمائی ہے چنانچہ مروی ہے کہ ابو حجیفہ نے حضرت علی (رض) سے دریافت کیا کہ آپ اہل بیت کے پاس کچھ اور آیتیں ایسی ہیں جو اس قرآن میں نہیں ہیں انہوں نے جواب دیا۔ نہیں ہر گر نہیں اس ذات کی قسم جس نے دانے پھاڑ کر اگایا اور جان کو پید کیا البتہ فہم ہے جو اللہ تعالیٰ کسی کو قرآن کو بارے میں عطا فرماتا ہے (بخاری) حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ ج شخص یہ کہتا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وحی کا کچھ حصہ چھپالیا وہ جھوٹا ہے۔ ( بخاری۔ مسلم) مام زہری (رح) فرماتے ہیں کہ حجتہ الوداع کے موقع پر چالیس ہزار کے مجمع نے ابلاغ رسالت اور ادا مانت کی شہادت دی ہے اور آنحضر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے خطبہ میں دریافت فرمایا تم سے میرے متعلق پوچھا جائے گا تو تم اللہ تعالیٰ کے سامنے کیا جواب دو گے سب نے بیک وقت کہا ہم گو اہی دیتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پہنچا دیا اور اللہ کی امانت کا) حق ادا کردیا اور امت کی پوری خیر خواہی کی اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا الھم ھل بلغت کہ اے اللہ 1 میں پہنچا دیا کہ ایک روایت میں ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا الھم اشھد اے اللہ ( گواہ ہیو) ابن کثیر۔ کبیر) ف 6 اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنی خاص نگرانی میں لے لیا ہے چنانچہ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رات کا پہرہ موقوف فرمادیا (حاکم بہیقی) اور اور یہی بات دوسرے متعدد صحابہ (رض) سے بھی مروی ہے (ابن کثیر) ف 3 یعنی اللہ تعالیٰ کفار کو ان کے ارادوں میں کامیاب نہیں ہونے دیگا (کبیر) حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ یعنی اگر وے (وہ) دشمن ہوں تو تم بے فکر پہنچا و اور خطرہ نہ کرو (نوضح) یا مطلب یہ ہے کہ ہدایت وگمراہی اللہ کے ہاتھ میں ہے اس لیے اگر یہ لوگ ایمان نہیں لاتے تو غم نہ کرو ( ابن کثیر) المآئدہ
68 ف 4 تورات اور انجیل کی اقامت کے معنی یہ ہیں کہ ان میں جو عہد ان سے دلائل موجود ہیں ان کا اقرار کریں اور تورات وانجیل کے احکام وحدود پر عمل پیرا ہوں (کبیر) مطلب یہ ہے کہ اگر پورے طور پر ان کتابوں پر عمل نہ کرو گے تو نہ تمہاری کوئی حیثیت اور نہ تمہاری کوئی دینداری ّابن کثیر) ف 5 تشریح کے لے حاشیہ آیت 64۔ ف 6 اس لیے کہ جو کچھ کر رہے ہیں اس سے اپنے آپ کوہی نقصان پہنچا رہے ہیں اور اس کا وبال خود بھگت کر رہینگے (کبیر) ف 7 اوپر کی آیت میں بتایا کہ ال کتاب جب تک ایمان لاکر عمل صالح کریں ان کا کوئی مذہب نہیں ہے اس آیت میں بتایا کہ سب کا یہی حکم ہے۔، بظاہر تو الصا ئبین منصوب آنا چاہیے تھا مگر سیبو بہ اور خلیل نے لکھا ہے کہ یہ مرفوع بالا بتداعلی نیتہ التا خیر ہے یعنی اصل میں ولاھم یحزنون کے بعد ہے اسی الصر بئون کذلک اور اس کے مو خر لانے کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ دواصل یہ سب فرقوں سے زیادہ گمراہ فرقہ ہے اور مطلب یہ ہے کہ ان فرقوں میں سے جو بھی ایمان لاکر عمل صالح کریگا اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول فرمائے گا حتی کہ اگر صابی بھی ایمان لے آئیں تو ان کے بھی یہ رعایت مل سکتی ہے۔ (کبیر) الصابئین کی تشریح کے لے دیکھئے سورت بقرہ آیت 62 اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مبعوث ہونے کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت پر بھی ایمان لانا ضروری ہے۔ (ابن کثیر ) المآئدہ
69 ف 8 یہ تشریح اس صورت میں ہے ج ان الذین امنو سے منافق مرادلیے جائیں جو بظاہر ہر مسلمان اور احقیقت میں کافر تھے (م، ع) المآئدہ
70 ف 9 اس مقصود بنی اسرائیل کی سرکشی اور وفائے عہد سے انحراف کو بیان کرنا ہے گویا اس کا تعلق ابتدائے سورت (اوفو بالعقود) سے ہے (کبیر) یعنی ان سے عہد لیا کہ توحید وشریعت پر قائم رہیں گے اور جو رسول ان کی طرف بھیجے جائیں گے ان کی بات سنیں گے اور مانیں گے (ابن کثیر) ف 10 یعنی شرائع اور احکام کی تعریف وارتشریح کے لے (کبیر) ف 11 تو ان سے دشمنی کی پس کلما کا جواب محذوف ہے ای نا صبوہ کیونکہ بعد کا کلام اس پر دال ہے (کبیر ) المآئدہ
71 ف 12 لفظ فتنتہ کے اصل معنی آزمائش کے ہیں مطلب یہ کہ ہم کیسے ہی گناہ کرلیں خواہ انبیا تک قتل کریں چونکہ ہم اللہ کے بیٹے اور چہتیے ہیں اس لیے ہم پر دنیا میں کسی قسم کی ادربار ونحوست یا غلبہ دشمن کوئی بلا نازل نہیں ہوگی (کبیر ) ف 13 مگر ان پر بلا نازل ہوئی چنانچہ جب وہ پہلی مرتبہ حضرت شعیب ( علیہ السلام) کے زما نہ میں حق سے بہرے اور اندھے ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے ان پر بابل کے کافر اور ظالم بادشاہ بخت نصر کو مسلط کردیا جس نے ان کی مسجد اقصی ٰ کو جلا ڈالا ان کے اموال لوٹے اور ان کی اکثریت کو لونڈی غلام بنا کر بناکر بابل لے گیا ( دیکھئے بن بنی اسرائیل آیت 4۔8) ف 14 یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کو بخت نصر کی غلامی سے نجات دی اور انہوں نے اپنی حالت سدھاری اور کچھ عرصہ کے لیے ٹھیک رہا ف 15 یعنی پھر دوبارہ جیسی سرکشی پر اتر آئے یہاں تک کہ انہوں نے حضرت زکریا ( علیہ السلام) اور حضرت یحیی ( علیہ السلام) جیسے جلیل القدر انبیا کو قتل کر ڈالا اور حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) سے انتہائی توہین آمیز سلوک کیا بلکہ انہیں قتل کرنے کے درپے ہوئے بعض نے گمراہی کے پہلے دور کو حضرت زکریا ( علیہ السلام) حضرت یحیی ( علیہ السلام) کے زمانہ کے ساتھ اور یہاں کثیر منھم فرمانے سے اشارہ ہے کہ ان میں سے بعض حق پرست مسلمان ہوگئے تھے جیسے حضرت عبداللہ بن سلام اور ان کے رفقا اور ہوسکتا ہے کہ لتفسدن فی الارض مرتین ان دو دو روں کی طرف اشارہ ہو (کبیر) ف 16 اس سے تہدید مقصود ہے (کبیر ) المآئدہ
72 ف 1 سلسلئہ بیان کے لیے دیکھئے آیت 17، یہود کے بعد اب نصاری ٰ کی گمراہیوں کا بیان اوان پر تہدید شروع ہورہی ہے (کبیر) ان لوگوں سے عیسائیوں کا کوئی خاصک فرقہ نہیں بلکہ سب کے سب عیسائی مراد ہیں کیونکہ وہ سب تثلیث کے قائل ہیں گو تعبیر وتشریح میں ان کے مابین اختلاف پایا جاتا ہے اس لیے صحیح یہ ہے کہ سب کافر ہیں (ابن کثیر، ابن جریر) ف 2 حضرت مسیح ( علیہ السلام) کا یہ بیان نصاریٰ کے عقیدہ کی تردید میں حجت قطعی کی حیثیت رکھتا ہے (کبیر) اور انجیل یوحنا باب 7 آیت 3 میں حضرت مسیح ( علیہ السلام) کایہ قول آج بھی موجود ہے یہی ہمیشہ رہنے والی زندگی ہے کہ وہ تجھ حقیقی الہٰ کو اور اس یسو ( علیہ السلام) مسیح ( علیہ السلام) کو پہچانیں جسے تو نے رسول بنا کر بھیجا ( المنار) ف 3 یہ وعید ہے یعنی عذاب سے کسی طور پر بھی نجات نہیں پاسکیں گے (کبیر ) المآئدہ
73 ف 4 یعنی باپ بیٹا اور روح القدس تثلیث کاہر پہلو ذکر کر کے ان کی ضلالت کو واضح فرمایا ہے (دیکھئے آیت 17) ف 5 اور خالص توحید نہ کریں گے جس کی طرف انبیا دعوت دیتے رہے ہیں (وحیدی) المآئدہ
74 ف 6 مر کا لفظ الا ستفہام ( کبیر) یعنی ان کایہ جرم انتہائی سنگین اور صریحا شرک کی حدتک پہنچا ہوا ہے تاہم اگر توبہ کرلیں تو ان کا یہ قصور معاف ہو سکتا ہے ( ابن کثیر ) المآئدہ
75 ف 7 اور ان کی ذات سے بھی ایسے ایسے معجزات کا ظہور ہوا جو انسانی طاقت سے باہر تھے تو جس طرح یہ تمام انبیا اپنے ان معجزات کی بنا پر خدا نہیں ہوگئے مسیح ( علیہ السلام) بھی محض بن باپ کے پیدا ہونے اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے مردوں کو زندہ اور بیماروں کو شفا یاب کرنے کی وجہ سے خدا نہیں بن سکتے (کبیر، قرطبی) ف 8 یعنی عبودیت کے اعلی مقام پر فائز تھیں جو نبوت کے بعد دوسرا درجہ ہے (دیکھئے التحریم آیت 12۔ النسا :69) بنیہ نہیں تھیں ج جیسا ابن حزم وغیرہ کا خیال ہے کیونکہ جمہور علما کے نزدیک انبیا رجال سے ہوئے ہیں (دیکھئے سورت یوسف :109۔ النحل 43، الا نبیا :7) ابو الحسن اشعری نے اس پر اجماع نقل کیا ہے (ابن کثیر) ف 9 یعنی یہ دونوں عام انسانوں جیسے انسان تھے جن میں تمام بشر خاصیتیں اسی طرح موجود تھیں جس طرح دوسرے انسانوں میں پائی جاتی ہیں ( ابن کثیر) ف 10 یعنی اب وہ اپنے کروہی تعصب کی بنا پر اپنے غلط عقیدے سے چمٹے رہیں تو چمٹے رہیں ورنہ کوئی عقلی یانقلی دلیل ان کے پاس نہیں ہے جس کے بودے پن کو دو اور دو چار کی طرح واضح نہ کردیا گیا ہو (ابن کثیر) یہ نصاری کے عقیدہ کی ترید پر دوسری دلیل ہے (کبیر) مطلب یہ ہے کہ جن کی تم عبادت کرتے ہو ان میں الوہیت کا کوئی وصف بھی نہیں ہے، ان کا دوسروں کو نفع ونقصان پہنچا نا تو کجا خود اپنے سے دشمن کے ظلم کو دفع کرنے کے لیے اللہ کے حضور گڑگڑا کر دعا کرتے رہے کہ اے اللہ مجھ سے مصیبت کلیہ وقت ٹال دے پھر اس کے بعد بھی اگر تم اس سمیع وعلیم کو چھوڑ کر حضرت عیسیٰ ٰ ( علیہ السلام) کو اپنا معبود بناو تو اس بڑھ کر جہالت اور کیا ہو سکتی ہے (ابن کثیر، رازی ) المآئدہ
76 المآئدہ
77 ف 12 یہود ونصاری کی الگ الگ تردید کے بعد اب دونوں کو مظاطب فرمایا ہے (کبیر) نصاری نے حضرت مسیح ( علیہ السلام) کے معاملہ میں غلو کیا ہے اور ایک بشر جسے اللہ تعالیٰ نے نبوت بخشی تھی اور اسے اپنی قدرت کا ملعہ کی نشانی دے دی اور ان کی پسلیوں کو ریزہ ریزہ کرڈالا (کبیر، ابن کثیر) یہ حقیقت ہے کہ دین جو بھی خرابی آئی ہے وہ اسی غلو (یعنی راہ اعتدال کو چھوڑنے) کی وجہ سے آتی ہے اسی لیے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسلمانوں کو باربار نصیحت فرمائی کہ میرے معاملہ میں حد سے نہ بڑھنا اور مجھے بشریت کے مقام سے اٹھاکر خدائی کے مرتبہ تک نہ پہنچا دینا ( ماخوذ از وحیدی) ف 1 پہلے فرمایا کہ گمراہ ہوئے پھر فرمایا کہ سیدھی راہ سے بہک گئے گویہ دو نو بظاہر ایک ہی ہیں مگر علما نے لکھا ہے کہ اول سے مراد ی ہے کہ وہ گمراہ ہوئے اور دوسرے ضلو سے مراد یہ ہے کہ وہ اب تک اس گمراہی پر جمے ہوئے ہیں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ پہلی گمراہی سے مراد عقیدہ کی گمراہی ہو اور ادوسری سے عمل کی گمرہی مراد ہو (کبیر ) المآئدہ
78 ف 3 پہلے حضرت دواد نے ان لوگوں پر لعنت فرمائی ہے جنہوں نے سبت کا قانون توڑا اور پھر حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) نے اصحاب مائدہ پر لعنت فرمائی جو یہ معجزہ دیکھنے کے باوجود ایمان نہ لائے بعض علمانے نے لکھا ہے کہ یہود اللہ کے بیٹے اور چہیتے ہونے کا دعوی کرتے تھے قرآن نے فرمایا کہ تم تو انبیا کی زبان پر معلون ہو اور فرمایا کہ یہ لعنت نافرمانی میں حد سے گزر جانے کی وجہ سے ہوئی تھی (کبیر۔ ابن کثیر) یہ ان کی معصیت ور اعتدال کی تفسیر ہے (کبیر) یعنی وہ امر بالمعرو ونہی عن المنکر کا فریضہ بھلا بیٹے تھے اور ان کے نیک لوگ یہ سمجھنے لگے کہ اگر کچھ لوگ برے کا کر رہے ہیں تو کرتے رہیں انکا وبال خود ان پر ہوگا ہم تو اپنی جگہ پر نیک ہیں۔ ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ بنی اسرائیل میں پہلے یہ خرابی آئی کہ آج یک شخص دوسرے سے ملتا ہے تو اسے برائی پر ٹوکتا اور اسے اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کی نصیحت کرتا لیکن کل یہی شخص اس کے ساتھ کھانے پینے لگتا۔ جب یہ معاملہ حد سے بڑھ گیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دل آپس میں ْٹکرادیئے اس کے بعد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت تلاوت فرمائی پھر صحابہ (رض) سے فرمایا سن رکھو یعنی اللہ تعالیٰ کی قسم کھاکر کہتا ہوں تم لوگ نیکی کا حکم کرتے رہو اور برائی سے روکتے رہو ورنہ اللہ تعالیٰ تم پر بھی اسی طرح لعنت فرمائے گا جس طرح اس نے بنی اسرائیل پر لعنت فرمائی (ابو داد ترمذی) حدیث میں ہے کہ جن کوئ ی قوم ام بالمعروف ونہی عن المنکر کا فریضہ چھوڑ بٹھتی ہے اس کی دعاقبول نہیں ہوتی (ابن کثیر) یعنی اسلاف کی وہ حالت تھی اور اب جو موجود ہیں ان کی یہ حالت ہے (کبیر) جیسے کعب بن اشرف اور مدینہ کے یہودی قبائل کے دوسرے افراد مسلمانوں کی دشمنی میں مکہ کے مشرکین سے دوستی رکھتے تھے مجاہد فرماتے ہیں منافقین مراد ہیں جنہوں نے مومنین کی بجائے کفار سے دوستانہ تعلقات قائم کر رکھے تھے، (کبیر ابن کثیر ) المآئدہ
79 المآئدہ
80 ف 5 یعنی کفار (مشرکین مکہ) سے دوستی قائم کرکے انہوں نے مسلمانو کے خلاف جو تیار کی ہے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ دنیا میں ان پر اللہ کا غضب ہو اور وہ آخرت میں بھی دائمی عذاب کے مستحق قرار پا ئے المآئدہ
81 ف 6 یا یہ کہ اگر وہ واقعی اللہ تعالیٰ پر اور اپنے نبی حضرت موسیٰ ٰ ( علیہ السلام) یا حضرت عیسیٰ ٰ ( علیہ السلام) اور ان پر نازل شدہ کتاب توراۃ انجیل پر ایمان رکھتے تو کبھی مسلمانوں کوچھوڑ کر کفار سے دوستی قائم نہ کرتے کیونکہ توراۃ میں اسے حرام قرار دیا گیا ہے اور یا یہ کہ اگر وہ کفار اسلام لے آتے تو پھر کبھی ان سے دوستی پیدا نہ کرتے ( کبیر۔ ابن کثیر ) المآئدہ
82 ف 7 یہ ایک دائمی حقیقت ہے جس کا اس زمانہ میں کبھی مشاہدہ کیا جاسکتا ہے آج بھی جو دشمنی دیہودیوں اور مشرکوں ( گو سالہ پرست اور موتیوں کے پچاریوں) کو مسلمانوں وہ بہر حال عیسائیوں کو نہیں ہے ہاں جن عیسایئوں پر یہود غالب ہے وہ واقعی مسلمانوں ج کے سخت دشمن ہیں (م۔ ع ) ف 8 یہود اور نصاری کے درمیان جو تفاوت مذکوہ ہوا ہے یہ اس کی علت ہے جس طرح یہود کی عالم کو حبر کہا جاتا ہے جس کی جمع احبار ہے اسی طرح نصاری کے رائیس اور عالم قسیسین کہلاتے ہیں کہ نصاری میں رہبانیت (دنیا سے کنارہ کشی) کی بدعت رائج تھی۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لا رھبقا نیتہ فی الا سلام فرماکر اسے ممنوع قراردے دیا بیشک یہود کی قساوت قلبی کی کے مقابلہ میں یہ ممدوح تھی مگر اس سے وہبا نیت کا مطلقا ممدوح ہونا لازم نہیں آتا (کبیر ) المآئدہ
83 ف 1 یعنی وہ روتے ہیں سمعوا کی ضمیر ان علما ورہبان کی طرف پلتی ہے جو ان میں سے مسلمان ہوگئے تھے حضرت ابن عباس (رض) اور عبد اللہ بن زبیر (رض) فرماتے ہیں کہ یہ آیت نجاشی اور اس کے ساتھیوں کے بارے میں نازل ہوئی۔ قصہ یہ ہے کہ کچھ مسلمان مکہ سے ہجرت کرک کے حبشہ کے عیسائی بادشاہ اصفحہ (رح) نجاشی کے پاس چلے گئے کفار مکہ نے باشاہ کو اکسایا کہ یہ لوگ حضرت عیسیٰ ٰ ( علیہ السلام) کی اہانت کرتے ہیں اور ان کو عبد (غلام) کہتے ہیں اس پر نجاشی نے مسلمونوں کو اپنے دو بار میں بلایا اور منجملہ دوسرے سوالات کے ایک سوال حضرت عیسیٰ ٰ ( علیہ السلام) کے متعلق بھی کیا اس حضرت جعفر (رض) طیار نے سو رہ مریم ( علیہ السلام) پڑھ سنائی تو نجاشی نے سن کر کہا کہ بعینہ یہی چیز انجیل میں ہے اور وہ رونے لگا (کبیر، ابن جریر) سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ اس میں ان لوگوں کا ذکر ہے جن کے ذریعے نجاشی نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے اور اپنی قوم کے اسلام لانے کی اطلاع دی تھی یہ ستر۔ اور بعض روایا کے مطابق تیس۔ آدمی تھے جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خد مت میں حاضر ہوئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے سامنے سورت یاسین تلاوت فرمائی جسے سن کر وہ رونے گلے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی ( ابن جریر مگر یہ آیت عام ہے اور اس صفت کے ساتھ جو بھی متصف ہو وہی اس کے مصدق بن سکتے ہیں (ابن کثیر ) المآئدہ
84 یعنی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت میں داخل فرما (دیکھئے سورت بقرہ 143) یا یہ کہ انبیا اور مومنین جو توحید کی گواہی دیتے ہیں ان کی جماعت میں شمار فرما (کبیر) ف 3 یعنی ہمارا مسلمان کے ساتھ حشر فرمائے۔ اس صورت میں ونطع کا عطف نومن کی ضمیر سے حال ہو اور مطلب یہ ہو کہ ہم کیوں ایمان لائیں حلانکہ ہم یہ خواہش رکھتے ہیں کہ ہمارا پر وردگا اپنے نیک بندوں کے ساتھ ہمارا حشر فرمائے یعنی ہیں ایمان ضرور لانا چاہیے ورنہ اس قسم کی توقع سراسر جہالت اور حماقت ہے المآئدہ
85 المآئدہ
86 المآئدہ
87 ف 4 نقض عہود کے سلسلہ میں یہود و نصاری سے مباحثہ کے بعد اب اصل موضوع کی طرف پھر تو جہ کی ہے یعنی کہ اوفو ابا لعقود کی تشریح جو اس سورۃ کا اساسی موضوع ہے (قرطبی۔ کبیر) رہبان نصاریٰ کی مدح کے بعد طیبات کی تحریم سے ممانعت یوں بھی انسب ہے کہ انہوں نے ان با توں کو نیکی میں داخل کررکھا تھا لہذا مومنین کو منع فرمادیا، حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں جو چیز شروع میں صاف حلال ہو اس سے پر ہیز کرنا برا ہے یہ دو طرح سے ہوتا ہے یاک زہد سے یہ رہبانیت ہے جو ہمارے دین میں پسند یدہ نہیں ہے اس کی بجائے تقویٰ اختیار کیا جائے یعنی ممنوع چیز کے قریب نہ جائے دوم یہ کہ کسی مباح کام کے نہ کرنے کی قسم کھالے یہ بھی بہتر نہیں ہے اسے چاہیے کہ قسم توڑے اور کفارہ ادا کرے۔ ( از موضح) ایک مرتبہ چند صحابہ حضرت عائشہ (رض) کے پاس آئے اور ان سے دریافت کیا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب گھر میں ہوتے ہیں تو کیا کرتے ہیں حضرت عائشہ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے معمولات بتائے ان میں سے وکئی کہنے لگا کہ میں کبھی گوشت نہیں کھاو گا کوئی کہنے لگا کہ عورتوں سے کوئی واسطہ نہ رکھو گا کوئی کہنے لگا کہ میں رات کو بستر پر نہ سووں گا یعنی ساری رات قیام کروں گا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اطلاع ہوئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لوگوں کو کیا گیا ہے کہ وہ اس قسم کی باتیں کرتے ہیں حلانکہ میں یہ سب کام کرتا ہوں لہذا جس نے میری سنت سے بے رغبتی کا مظاہر کیا اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں (بخاری مسلم) اس سلسلہ میں میں اور بھی بہتر سی روایات ہیں جن میں سے بعض میں یہ تصریح ہے کہ یہ آیت ایسے ہی کیس موقع پر نازل ہوئی ( ابن کثیر) المآئدہ
88 ف 5 یعنی حلال کو حرام تو بہ ٹھہرا و ہاں ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ تقوی ٰ اختیار کرو اور جو چیزیں حرام ہیں ان کے قریب نہ جاو) یہ اس مقام پر دوسرا حکم ہے اور جن صحابہ (رض) نے بعض طیبات کے ترک کی قسمیں کھائیں تھیں انہوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا کہ ہماری قسموں کا کیا حکم ہے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی (رازی) لغوقسموں سے مراد وہ قسمیں ہیں جو بے ساختہ عادت کے طور پر زبان سے یو نہی نکل جاتی ہیں کا ایسی قسموں پر نہ کفارہ ہے اور نہ سزا۔ کفارہ اور سزا ایسی قسموں پر ہے جو دل کے ارادے سے کھائی جائیں اور پھر انکئ خلاف ورزی کی جائے (نیز دیکھے سورت بقرہ آیت 225) المآئدہ
89 ف 7 بعض نے اوسط کے معنی عمدہ کئے ہیں، ابن جریر طبری کہتے ہیں کہ ج اوسط باعتبار مقدار کے ہے یعنی ہر مسکن کو اک عد (10 چھٹانک) غلے دے دے جیسا کہ ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک شخص کو پندرہ صا ع ( 60 مد) کھجوریں دی تاکہ رزے کا کفارہ ادا کرے اور فرمایا کہ ساٹھ مسکینوں میں تقسیم کردو۔ ( ابن کثیر ) ف 1 یعنی کھانا کہ کھلا دتے نہ کپڑا پہنا سکے اور نہ غلام آزاد کرنے کی طاقت ہو تو دو روزے رکھ لے چاہے پے درپے رکھے اور چا ہے الگ الگ کرکے۔، عبد اللہ بن مسعود کی قرات میں ج متقا بعات ہے یعنی پے درپے روزے رکھے بعض ائمہ اسی کو اختیار کیا ہے۔ ف 2 یعنی حتی المقدور قسم کھانے سے پر ہیز کرو لیکن قسم کھالو اور پھر اسے توڑ دو تو اس کا کفارہ ادا کرو حتی المقدور قسم کو پورا کرنے کی کو شش کرو گر جب یہ قسم کسی بہتر چیز کے چھوڑ ن پر ہو تو اسے توڑ کر اس کا کفارہ ادا کر دو جیسا کہ حدیث، میں من حلف علی یمبن فری ٰ غیر ھا خیر منھا فلیات الذی ھو خیر ثم لیکفر من یمبنہ۔ کہ جس نے کسی چیز کے کے متعلق قسم کھائی پھر جب اس کے خلاف کو بہتر سمجھا تو وہ بہتر کام کرلے اور اپنی قسم کا کفارہ ادا کردے (کبیر ) المآئدہ
90 ف 3 یعنی اس رجس سے بچو شراب کے سلسلے میں یہ تیسرا اور آخری حکم ہے جس کے بعد وہ قطعی حرام قرار دے گئی اس سے قبل دو حکم آچکے تھے پہلا سورت بقرہ آیت 219 میں اور دوسرا سورۃ نسا آیت 43 میں مگر ان دونوں آیتوں میں شراب کی قطعی حرمت کا ذکر نہ تھا اس لیے حضر عمر (رض) نے بقرہ اور نسا کی آیات نازل ہونے کے بعد کہا اللھم بین لنافی الخمر اے اللہ شراب کے متعلق مزید وضاحت یعنی حرمت کی ضرورت ہے حتی کہ سورت مائدہ کی یہ آیات نازل ہوئیں۔ المآئدہ
91 ف 4 شراب اور جوئے کی حرام قرار دے کر اب اس آیت میں ان کے کے دینی اور دنیوی مفاسد بیان فرمادیئے ہیں دینی مفسدہ یہ کہ شراب اور جو انماز اور ذکر الہی کٰ سے روکنے اور غافل کرنے کاسبب بنتے ہیں اور دینوی مفسدہ یہ کہ باہم عداوت اور کینسر پیدا کرتے ہیں اور ان دونوں میں ان ہر دو مفاسد کا پایا جانا بالکل واضح ہے ( رازی) علما نے لکھا ہے کہ جس چیز بھی ہار جیت پر شرط بدی جائے وہ جوا ہے اور شطرنج وغیرہ میں گو شرط نہیں بد جاتی مگر یہ نماز سے غفلت کا سبب بنتی ہے اس لیے حرام ہے۔ المآئدہ
92 ف 5 (الغصی فی صورۃ الا ستطھام اللتوکید) یعنی شراب اور اجوئے سے باز ّجاو یہی وجہ ہے کہ جب یہ آیت اتری تو صحابہ کرام نے عرض کی۔ انتھینا ربنا : کہ اے ہمارے پروردگار ہم باز آگئے چنانچہ راوی کا بیان ہے کہ اس آیت کے بعد لوگوں نے شراب کے مٹکے توڑ ڈالے اور مدینہ کے گلی کوچوں میں شراب پانی کی طرح بہنے لگی (ابن کثیر) ف 6 یعنی جوئے اور شراب سے بازرہنا اللہ تعالیٰ اور اسے رسول کی اطاعت ہے لہذا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی مخالفت سے ڈرو (کبیر، قرطبی) یادرہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت سے مراد قرآن وسنت کی پیروی اور سنت بھی قرآن کی طرح ایک مستقل ماخذ دین ہے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اوتیت القران ومثلہ معہ ْ۔ کہ مجھے قرآن دیا گیا ہے اور اس جیسی ایک اور چیز (یعنی حدیث) بھی (مشکوٰۃ) ف 7 اس میں وعید ہے ان لوگوں کے لیے جو اس حکم قطعی کے باوجود شراب نوشی اور قما رباز سے باز نہیں آتے (کبیر المآئدہ
93 ف 8 یعنی اس کی حرمت کے نزول سے پہلے جو لوگ شراب نوشی ی قمار بازی کرتے رہے ہیں ان پر اس سے کرئی مواخذہ نہیں ہوگا یہ آیت اس وقت اتری جب شراب کی حرمت نازل ہونے کے بعد بعض صحابہ (رض) یہ کہنے لگے کہ ہمارے ان بھائیوں کا کیا حال ہوگا جو شراب پیتے اور جوا کھلیتے تھے اور اسی طرح ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے ہاں ح سے کیا بدلہ ملے گا جو جنگ احد میں شہید ہوگئے حلا نکہ ان کے پیٹو میں شراب تھی ( کبیر، ابن کثیر ) ف 9 یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہاں مکرر تقوٰیٰ اور ایمان حکم صرف تاکید کے لیے ہو۔ اور دوسرا مطلب وہ ہے جس کی طرف مترجم نے قوسین کے درمیان دی ہوئی وضاحت سے اشارہ فرمایا ہے بعضج نے لکھا ہے کہ اول مرتبہ تقوی ٰ سے مراد شرک سے بچنا ہے اور دوسری بار یہ حکم گنا ہوں سے بچنے کے لیے ہے اور تیسری مرتبہ صغائر سے بچتے رہنا مراد لیا ہے اسی طرح پہلی مرتبہ ایمان سے اللہ و رسول پر ایمان لانا مراد ہے اور دوسری مرتبہ ایمان سے اس پر ثابت قدم رہنا مراد ہے۔ ( فتح القدیر۔ کبیر ) المآئدہ
94 ف 10 آیت لا تحر موا سے بطور استثنا محرمات کا بیان ہو رہا ہے پہلے شراب اور جوئے کی حرمت بیان فرمائی اب اس آیت میں شکار کی حرمت کا بیان ہے (کبیر) جن کو تم اپنے ہاتھوں اور برچھو سے پکڑ سکتے ہو۔ یعنی چھوٹے بچوں کو ہاتھ سے پکڑ سکتے ہو اور بڑے جانوروں کو بر چھا مار کر ،۔ ( ابن کثیر ) ف 1 یعنی اب جب کہ احرام کی حالت میں خشکی کے جانوروں کا شکار کرنا منع کردیا گیا ہے۔ (قرطبی) ف 2 یہ اور اگلی آیات اس وقت نازل ہوئیں جب مسلمان حدیبیہ میں احرام باندھے ہوئے تھے اور خلاف معمول چھوٹے بڑے جنگلی جانور ان گھروں میں گھس آئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں ان کے شکار سے منع فرمایا ،۔ (ابن کثیر ) المآئدہ
95 حدیث میں ہے کہ محرم نہ تو کسی شکاری کی مدد کرے اور نہ اس شکار کا گوشت کھائے جو محر م کے لیے کیا گیا ہو۔ (بخاری مسلم ابوداود) ہاں موذی جانوروں کی حرام کی حالت میں اور حرم کے اندر قتل کرسکتا ہے۔ (بخاری مسلم) یعنی احرام کی حالت میں جیسا شکار مارے اسی کے مطابق نذرانہ سے خواہ وہ شکار بھول کر ہی کیوں نہ مارا ہو۔ حدیث میں ہے جو شخص احرام کی حالت میں شکار مارڈالے اس کے ذمہ ایک مینڈھا کی قربانی ہے ( ابو داود) اس جسے جانور سے مراد یہ ہے کہ تن وتوش میں اسی سے ملتا جلتا ہو جمہور ائمہ کا یہی مسلک ہے امام ابو حنیفہ (رح) کے نزدیک قیمت میں ملتا جلتا مراد ہے۔ ( شوکانی) ف 5 یعنی اس کا بدل تجویز کردیں کہ فلاں جانور اس شکار کے برابر ہوسکتا ہے۔ ( وحیدی ) ف 6 یعنی اس نذرانہ کو مکہ معظمہ میں لے جاکر ذبح کی جائے اور وہیں اس کا گوشت مسکینوں میں تقسیم کیا جائے اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ ( ابن کثیر) جف 7 اس میں آیت میں او تخیر کے لیے ہے یعنی شکار کرنے والے کو اختیار ہے کہ ان تینوں میں سے جو کفارہ جا ہے ادا کردے اکثر ائمہ کرام کا یہی مسلک ہے جن میں ائمہ ثلاثہ بھی شامل ہیں ( ابن کثیر) ف 8 یعنی زمانہ جاہلیت میں یا اس حکم کے آنے سے پہلے احرام کی حالت میں جو شکار تم کرچکے ہو اسے اللہ تعالیٰ نے معاف فرمادیا ہے اب اس کا بدلہ دینا ضروری نہیں ہے۔ (کبیر) ف 9 یعنی جہاں تم پڑے ہوئے ہو وہاں کھا سکتے ہو اور زار راہ نے بان سکتے ہو البحر سے مراد پانی ہے اور اس میں سمندر اور غیر سمندر سب برابر ہیں یہاں شکار سے وہ مچھلی مراد ہے جو شکار کی جائے اور طعام سے مراد وہ زندہ یا مردہ مچھلی ہے جسے سمندر کی موجیں کنارے پر بھینک دیں اکثر صحا بہ (رض) نے اسکی یہی تفسیر کی ہے اس آیت سے جمہور علمانے استدلال کیا ہے کہ سمندر کا مردہ جانور حلال ہے (ابن کثیر) اور منا غالکم سے اشارہ فرمادیا ہے کہ یہ رخصت تمہارے فائدے کے لیے تاکہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ حج کے طفیل حلال ہوئی ہے۔ (کذافی الموضح ) المآئدہ
96 المآئدہ
97 ف 11 اوپر کی آیت میں محرم کے لیے شکار کو حرام قرار دیا اب اس آیت میں بتایا کہ جس طرح حرم کو اللہ تعالیٰ نے وحشی جانوروں اور پرندوں کے لیے سبب امن قرار دیا ہے اسی طرح اسے لوگوں کے لیے جائے امن بنادیا ہے اور دینوی اور اخروی سعادتوں کے حصول کا ذریعہ بنایا ہے (کبیر) یعنی اہل مکہ کی معاش کا مدار اسی پر ہے کہ لوگ دور دراز سے حج اور تجارت کے ارادے سے یہاں پہنچے ہیں اور ہر قسم کی ضروریات ساتھ لاتے ہیں جس سے اہل مکہ رزق حاصل کرتے ہیں او لوگ یہاں پہنچ کر امن وامان پاتے ہیں حتی کہ جاہلیت میں بھی حرم کے اندر کوئی شخص اپنے باپ یا بیٹے کے قاتل تک کو کچھ نہ کہتا تھا اور عبادت وثواب کے اعتبار سے بہترین جگہ ہے الٖغرض یہ تمام چیزیں لوگوں کے قیام کا سبب ہیں (کبیر۔ فتح القدیر 9 ف 12 ادب والے مہینے چاہیں ذولقعدہ، ذوالحج، محرم اور رجب ان چار مہینوں میں لوگ امن سے سفر اور تجارت کرتے اور اپنے لی سال بھر کا آذوقہ جمع کرلیتے اس اعتبار سے یہ مہینے بھی گویا لوگوں کی زندگی قائم رہنے کا ذریعہ ہیں۔ (کبیر) ف 13 ان کو لوگوں کے لیے قیام کا سبب ہوتا اس اعتبار سے کہ ہدی کا گوشت مکہ کے فقرا میں تقسیم ہوتا او ہدی اور قلا دہ والے جانور کوئی شخص لے کر چلتا تو اس کا تمام عرب احترام کرتے۔ مقصد کعبہ کی عظت کو بیان کرنا تھا اس کے با لتبع ان چیزوں کا بھی ذکر کردیا کیونکہ ان کا تعلق بھی بیت اللہ کعبہ۔ سے ہے (کبیر) ف 14 یعنی یہ کہ اس نے ان چیزوں کو قیام کا سبب بنایا ہے۔ ف 15 یعنی اللہ تعالیٰ زمین و آسمان کی تمام تفصیلات جاننا ہے اور اسے خوب معلوم ہے کہ تمہاری دینی ومعاشی مصلحتیں کس چیز میں اور کسی چیز میں نہیں۔ المآئدہ
98 ف 16 لہذا تم ایک طرف اس کے عذاب سے بھی پناہ مانگتے رہو اور دوسری طرف اس کی رحمت کے امید وار بھی رہو اصل ایمان یہ ہے کہ بندے پر خوف ورجا کی حالت طاری رہے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مومن کے خوف اور رجا و تولا جائے تو دونوں برابر نکلیں (کبیر) ف 17 یعنی جب انہوں نے یہ حکم دیا تو اپنا فریضہ ادا کردیا اور تم پر حجت قائم ہوگئی اب کسی شخص کا کوئی عذر قابل قبول نہ ہوگا۔ (ابن کثیر ) المآئدہ
99 المآئدہ
100 ف 1 یعنی حرام اور حلال یا کافر اور مومن اس میں ترغیب وترہیب ہے (کبیر ) المآئدہ
101 ف 2 یعنی رزق حرام کی فراوانی اور اس پرعیش وعشرت گو بظاہر کتنی خوش کن کیوں نہ ہو مگر انسان کو چاہیے کہ رزق حلال پر قناعت کرے خواہ وہ طاہر میں کتنا ہی حقیر ارکم کیوں نہ ہو، ج ف 3 یعنی بلا ضرورت سوال کرو گے اور تمہاری مصلحت کے خلاف اس کا حکم اتر آیا ہے تو خواہ مشکل میں پڑ جاو گے اور پھر بجا نہ لانے کی صور میں اللہ تعالیٰ کے رسول کے نافرمان قرار پاو گے۔ ف 4 اور اسی طرح تم بہت سی چیزوں کو اپنے اوپر فرض قرار دے لوگے اس بنا پر متعدد روایات میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کثرت سوال سے منع فرمایا ہے ایک موقع پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مسلمانوں میں سب سے بڑا مجرم وہ ہے جس کے سوال کے سبب کوئی ایسی چیز حرم ہوگئی جو پہلے حرام نہ تھی۔ (دیکھئے بقرہ آیت 108۔ ابن کثیر) ف 5 دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور معافی ہے کہ اس نے ان چیزوں کے بیان نہیں کیا اور تمہا رے لیے ان کے ذکر نے اور نہ کرنے کی گنجائش باقی چھوڑدی (کبیر۔ ابن کثیر ) المآئدہ
102 ف 6 یہ بنی اسرائیل کی طرف اشارہ ہے کیونکہ ان کا حال یہ تھا کہ اپنے انبیا سے ایک چیز خواہ مخواہ کرید کرید کر دریافت کرتے اور جب وہ حرام قرار دے دی جاتی تو اس سے باز نہ آتے اور فرض قرار دے جاتی تو یحانہ لاتے اس طرح دونوں حالتوں میں نافرمان ٹھہر تے یہ ساری آفت بلا ضرورت کثرت سوال سے آتی اس کی اس روش کی متعدد مثالیں سورۃ بقرہ میں گزرچکی ہیں بعض روایات میں ہے کہ جب آیت وللہ علی الناس حج البیت من استطاع الیہ سبیلا آل عمران 97) نازل ہوئی تو ایک شخص نے کھڑے ہو کر سواک کیا کہ اے اللہ کے رسول کیا حج ہر سال فرض ہے اس نے یہی سوال دوتین مرتبہ کیا مگر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کوئی جواب نہ دیا پھر فرمایا کہ اتر میں نعم (ہاں) کہہ دیتا تو ہر سال فرض ہوجاتا اور تم بجانہ لاتے تو کافر ہوجاتے اس پر یہ آیات نازل ہوئیں : یا یھا الذین امنو الا تسئلو ( ابن کثیر ) المآئدہ
103 ف 7 اوپر کی آیتوں میں ایسی باتوں کے متعلق کرید اور سوال سے منع فرمایا ہے جن کے لوگ مکلف نہ ہوں اب اس آیت میں ایسے امور اپنے اوپر لازم کرلینے سے منع فرمایا جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے لازم نہ ہوں (کبیر) اہل عرب زمانہ جاہلیت میں بتوں کے نام پر جانور چھوڑدیتے پھر ان سے انتفاع حرام سمجھتے یہاں چارقسم کے جانور بیان کئے ہیں بحیرہ۔ وہ اونٹنی جو پانچ جو پانچ بچے دے چکنے کے بعد چھٹی مرتبہ نہ بچے کہ جنم دیتی تو اس کا کان چیر کر چھوڑ دیتے۔ سائبہ وہ اونٹنی جو کسی بیمار سے شفا یاب ہونے یا کسی مراد کے کے پورا ہونے پر بطور نذرانہ بتوں کے نام پر چھوڑ دی جاتی۔ وصیلہ وہ بکری جو نر اور مادہ کو جنم دیتی تو نر کو بتوں کے نام پر چھوڑ دیتے اور اسے وصیلہ کہتے حام اسی نسل کشی کے اونٹ کو ہیں جس کے نطفہ سے دس بچے پیدا ہوجاتے اسے بھی بتوں کے نام پرکھلا چھوڑ دیتے تفاسیر میں ان کو دوسری تشریحات بھی مذکور ہیں۔ (ابن کثیر، کبیر) اس آیت میں رائے سخن گو مشرکین اہل عرب کی طرف مگر آیت اپنے عموم کے اعتبار سے تمام ان لوگوں کی مذمت کررہی ہے جو نظر واستڈلال اور حق سے اعراض کرکے اپنے باپ دادا کے رسم ورواج یا مذہبی پیشواوں کی اندا دھند تقلید کررہے ہیں اللہ تعالیٰ نے بہت سی آیات ہیں ایسے لوگوں کی مذمت کی ہے (نیز بقرہ آیت 170) المآئدہ
104 المآئدہ
105 ف 1 یعنی شرائع واحکام کی اس قدر و ضاحت اور باربار ترغیب و ترہیب کے باوجود اگر یہ لوگ جہالت پر اصرار کریں تو تم ان کی گمراہی اور جہالت کی پروا نہ کرو خود کو ٹھیک رکھو تو ان لوگوں کی جہا لت کا تم پر کوئی وبال نہ ہوگا۔ (کبیر) بعض نے اس آیت سے یہ سمجھ لیا ہے کہ انسان بس اپنی نجات کی فکر کروے دوسروں کی اصلاح ضرورت نہیں ہے چنانچہ اس غلظ فہمی کا ازالہ کرتے ہوئے حضرت ابو بکر (رض) صدیق نے اپنے ایک خطبہ میں فرمایا لوگو ! تم اس آیت کو پڑھتے ہو اور اس کا غلط مطلب لتیے ہو میں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے سنا ہے کہ لوگ برائی کو دیکھیں ارا سے بدلنے کی کو شش نہ کریں تو بصید نہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے عذاب میں سب کو گرفتار کرلے، (کبیر، ابن کثیر) بس آیت کا مطلب یہ ہے کہ باوجود امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے لوگ باز نہ آئیں تو ایسی صورت میں ان لوگوں (امر بامعروف کرنے واولں) پر کچھ بوجھ نہیں ہوگا ( ابن کثیر ) المآئدہ
106 ف 2 یعنی دو دیندار اور راست باو و قابل اعتماد شخصوں کی۔ ف 3 اس سے معلوم ہوا کہ مسلمان کسی کافر کو اپنے معاملہ میں اسی وقت شاہد بنا سکتا ہے جب مسلمان گواہ بننے کے لیے میسر نہ ہوں بعض صحابہ اور تابعین کا یہی مسلک ہے اور امام ارازی فرماتے ہیں کہ او من غیر کم کی تفسیر غیرک مسلم سے کرنا سیاق آیت کے ساتھ زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔ (کبیر، شوکانی ف 4 یاکسی بھی نماز کے بعد لیکن اکثر علما عصر کی نماز کے بعد ہی کے قائل ہیں کیونکہ اس وقت جھوٹی شہادت دینے والے پر اللہ تعالیٰ سخت ناراض ہوتا ہے، (شوکانی) ف 5 خلاصہ یہ کہ مسلمان کو چاہیے کہ مرتے وقت اپنی وصیت پر دو معتبر مسلمانوں کو گواہ بنائے لیکن سفر کی حالت میں مسلمان گواہ نہ مل سکیں تو کافروں کی بھی گواہ بناسکتا ہے پھر اگر ان کافروں کی گواہی کے متعلق شبہ پیدا ہوجائے تو عصر کی نماز کے بعد ان سے اس گواہی پر حلف لیا جاسکتا ہے اس کے بعد بھی اگر کسی طور معلوم ہوجائے کہ انہوں نے جھوٹی قسم کھائی ہے یا خیانت کا ارتکاب کیا ہے تو میت کے وارثو میں سے دو آدمی جو سب سے زیادہ قریبی عزیز ہوں ان کے خلاف حلف اٹھا کر اپنا حق وصول کرسکتے ہیں (فتح القدیر) المآئدہ
107 ف 6 یعنی انہوں نے جھوٹی گواہی دی یا جھوٹی قسم کھائی یا خیانت کا ارتکاب کیا (شوکانی) ف 7 مترجم لکھتے ہیں کہ یہ ترجمہ قرات حٖفص پر ہے لیکن اکثر یوں تر جمہ کیا ہے تو ان کی جگہ دو اور شخص ان لوگوں میں سے (گواہی کے لیے) کھڑے ہوں جن کا حق پہلے دوگوا ہوں نے دبایا ہے یعنی میت کے قریبی رشتہ دارْوں میں اس سے اس لیے کہ وہ گواہی دینے اور قسم کھا نے کے دواسروں کی بہ نسبت زیادہ حق دار ہیں۔ (کذافی، شوکانی) میت کے وارثوں سے قسم اس لیے گئی کہ ان کافروں نے دعوی ٰ کیا تھا کہ وہ مسروقہ پیالہ مرنے والے نے ہمارے ہاتھ بیچ ڈالا تھا اور وارث اس بیع سے انکار کرتے تھے اور مدعی کے پاس گواہ موجود نہ تھے اس لیے منکر (وارثوں) پر قسم عائد کی گئی (کبیر ) المآئدہ
108 ف 8 اس آیت میں اظہار کو شہادت فرمایا ہے مدعی اظہار کرکے یا مدعا علیہ جیسے اقرار کو کہہ کردیتے ہیں کہ اس نے اپنی جان پر شہاددت دی (کذافی الموضح ) ف 9 لہذا جھوٹی قسم نہ کھا و اور وصیت میں کسی وارث کی حق تلفی نہ کرو۔ (شوکانی) آیت کی شان نزول میں مذکور ہے کہ ایک مسلمان (بدیل) اور دو نصرانی تیم داری اور دعی ایک سفر پر گئے بدیل بیمار پڑگیا اور اس نے اپنے سامان کی فہرست بناکر اس میں رکھ دی اور سامان اپنے نصرانی ساتھیوں کے سپرد کردیا کہ میرے وارثوں کو پہنچا دینا۔ ان ن صرانیوں نے اس سامان میں سے چاندی کا ایک جام (پیالہ) اڑالیا وہ پیالہ پکڑگیا وارثوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حضور دعوی کیا اس اس پر یہ آیت نازل ہوئی آخر وراثوں نے قسم کھاکر اس پیالے کی قیمت وصول کرلی ( ملخصا ازا بن کثیر) ف 10 المآئدہ
109 شرائع اور احکام کا ذکر کرنے کے بعد اب قیامت کے بعض احوال ذکر فرما دیئے تاکہ نافر مانی کرنے والے کو زجر اور تنبیہ ہو (کبیر) مطلب یہ ہے کہ قیامت کے روز پیغمبروں سے سوال ہوگا کہ جو دعوت تم نے دی تمہاری امتوں نے اسے کس حد تک قبول کیا پیغمبروں سے یہ سوال امتوں کو زجر وعلامت کے لے ہوگا۔ ( ابن کثیر) ف 11 یعنی ہم تو صرف ان کے ظاہری جواب کی حد تک واقف ہیں جو ہماری زندگی میں انہوں نے دیا اور اسی کے متعلق پیغمبر شہادت بھی دیں گے ( دیکھئے سورۃ نسا آیت 41، وبقرہ 143) باقی رہا کہ فی الحقیقت ہماری دعوت کو دل سے قبول کیا یا نہیں اور ہمارے بعد ہماری امتیں کہاں تک اس پر ثابت قدم رہیں تو اس کا علم تیرے سواکسی کو نہیں پس بحمد اللہ آیات میں تعارض نہیں ہے (کذافی الکبیر) حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یہ ان کو سنایا جو مفر رور ہیں پیغمبروں کو شفاعت پر تاکہ معلوم کریں کہ اللہ تعالیٰ کے آگے کوئی کسی کے دل پر گواہی نہیں دتیا اور کوئی کسی کی شفاعت نہیں کرتا (کذافی المو ضح ) المآئدہ
110 ف 12 چونکہ پیغمبروں سے سوال امتوں کے سرکش لوگوں کی زجر وتوبیخ کے لیے ہوگا اور سب سے زیادہ ملامت کے لائق نصاری ٰج ہو نگے جنہوں نے حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کو الوہیت کا مقام دے دیا تھا اور اور اللہ تعالیٰ کے لیے بیوی اور اولاد ثابت کی تھی تعالیٰ اللہ عن ذالک اس بنا پر تمام پیغمبروں کی موجودگی میں حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) پر اللہ تعالیٰ اپنے انعامات بیان فرمائیں گے اور اور پھر ان سے سوال ہوگا اس سے مقصد عیسائیوں کی تردید ہے (کبیر ) ف 1 یعنی حضرت جبریل ( علیہ السلام) کو تمہاری نصرت وتائید کے لیے مقرر کردیا تھا۔ ف 6 یہاں خلق کا لفظ صر ظاہری شکل وصورت بنانے کے معنی میں استعمال ہوا ہے کہ حدیث میں کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تصویر بنانے والوں سے فرمائے گا احیو اما خلقتم کہ تم نے خلق کیا اسے زندہ کرو۔ پیدا کرنے اور زندگی دینے کے معنی میں خالق اللہ تعالیٰ ہے۔ (دیکھئے آل عمران آیت 49) ف 3 اس آیت میں باذنی (میرے حکم سے) کا لٖفظ چار مرتبہ آیا ہے جس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کا حکم نہ ہو تکا حضرت عیسیٰ ٰ ( علیہ السلام) یہ معجزات نہ دکھا سکتے تھے اور یہی حال ہر نبی کے معجزات کا ہے۔ ف 4 بد بخت اتنا نہ سمجھ سکے کہ مدر زاد اندھے او کوڑھی کو شفایاب اور مردے کو زندہ کرنا کسی جادو گر کے لیے ممکن نہیں چاہے وہ جادو میں کتنا ہی کمال کیوں نہ رکھتا ہو اور یوں بھ ی جادو کرنا اور کرانا فاسق وبدکار قسم کے لوگوں کا کام ہے حالانکہ وہ خود دیکھ رہے تھے کہ حضر عیسیٰ ٰ ( علیہ السلام) انہیں اللہ کی اطا عت اور عبادت کا حکم دیتے تھے ( از وحیدی) سچ ہے کل ذی نعمتہ محسود کہ ہر صاحب نعمت پر لوگ حسد کرتے ہیں۔ (کبیر) یہودیوں نے جس طرح حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کو قتل کرنے کی سازش کی اور پھر جس طرح اللہ تعالیٰ نے انہیں ان کے شر سے محفوظ رکھا اور انہیں اپنی طرف اٹھالیا اس کی تفصیل کے لیے دیکھئے سورت آل عمرن آیت 55 ونسا آیت 158) المآئدہ
111 ف 2 حواریوں کے قریب وہی معنی ہیں جو ہمارے ہاں انصار کے ہیں اور ان سے مراد حضرت عیسیٰ ٰ ( علیہ السلام) کی دعوت قبول کرنے والے ہی ان کی تعداد بارہ تھی بائیبل میں عموما ان کے لیے لکھا ہے کہ یہ بھی بنی تھے اس صورت میں وحی کا لفظ معروف معنی میں استعمال ہوا ہے اور اگر یہ مان لیں کہ اوہ نبی نہیں تھے تو وحی کا لفظ صرف الہام کے معنی میں ہے جو غیر انبیا کو بھی ہوتا رہتا ہے (کبیر ) المآئدہ
112 ف 7 حواری اللہ و رسول پر ایمان رکھتے تھے جیسا کہ اوپر کی آیت میں مذکور ہے اس لیے ان کا یہ سوال اللہ کی قدرت پر شک کے طور پر نہ تھا بلکہ دلی اطمینان حاصل کرنے کے لیے تھا جیسا کہ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) نے مردوں کو زندہ کرنے کے متعلق سوال کیا تھا (ابن کثیر) ف 8 کیونکہ ایسے معجزات تعین کے ساتھ طلب کرنا تحکم اور تعنت کے مترادف ہے ( کبیر) یا یہ کہ اپنے اند تقویٰ پیدا کرو اور اسے مائدہ کے حصول کا ذریعہ بنا و جیسے فرمایا : ومن یتق اللہ یجعل لہ مخرجا (الطلاق) یعنی جو اللہ سے ڈرے گا اللہ تعالیٰ اس کے لیے مشکلات سے نکلنے کا راستہ بنا دے گا (ابن کثیر) حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں فرمایا ڈرو اللہ سے یعنی بندہ کو چاہیے کہ اللہ کو نہ آزماوے کہ میرا کہا مانتا ہے یا نہیں اگرچہ خداوند (رب تعالی) بتیری مہربانی فرماتا ہے۔،( از موضح ) المآئدہ
113 ف 9 یعنی ہم یہ مائدہ محض معجزہ ہونے کی حثیت سے نہیں بلکہ چند امور کے پیش نظر طلب کر رہے ہیں جن کچھ کھانا چاہتے ہیں۔ ف 10 یعنی یہ کہ آپ اللہ کے سچے رسول ہیں حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یعنی برکت کی امید پر مانگتے ہیں اور معجزہ ہمیشہ مشہور رہے آزمانے کو نہیں ( از موضح) ف 11 یعنی بنی اسرائیل کے سامنے ہم آپ کے سچا رسول ہونے کی گواہی دے سکیں۔ المآئدہ
114 ف 1 یعنی تیری توحید نبی کی صحت رسالت پردلیل قائم ہو۔ (کبیر) امام رازی (رح) لکھتے ہیں : وہ خوان یکشنبہ کو اترا۔ وہ نصاری ٰ کی عید ہے جسے ہمارے لیے یوم جمعہ (کذافی المو ضح) یعنی تیرے سوا کوئی روزی دینے والا نہیں۔ المآئدہ
115 ف 3 علما کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ خوان اترا یا نہیں ؟ اکثر علما کا قول یہ ہے کہ وہ اترا اور یہی بات صحیح بھی ہے۔ (شوکانی) لیکن نظم قرآن دونوں کو متحمل ہے کسی ایک معنی میں صاف نہیں رہی حدیث غمار جس میں ہے کہ مائدہ نازل ہوا سواس کا وقف صحیح ہے۔ ترجمان) باقی رہے یہ کوائف کہ خوان کیسے اترا، کتنا بڑتھا اور اس پر کون کون سے کھانے تھے تو اس بارے میں کوئی بات صحت کے ساتھ ثاتب نہیں (قرطبی) ف 4 یہ عذاب دنیا میں بھی ہوسکتا ہے جیسا کہ حضرت عمار کے حدیث میں ہے کہ خوان کے اتر نے کے بعد انہوں نے ناشکری اور خیانت کی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں بندر اور خنزیر بنا دیا۔ (دیکھئے آیت 78) اور آخرت میں بھی جیسا کہ عبد اللہ بن عمر نے فرمایا تین قسم کے لوگوں کو قیامت کے دن سے سے سخت عذاب ہو (1) منافقین (2) اصحاب مائدہ میں سے جنہوں نے کفر کیا، اور (3) آل فرعون دیکھئے نسا آیت 145 (ابن کثیر) حضرت شاہ صاحب اپنے فوائد میں لکھتے ہیں شاید حضرت عیسیٰ ٰ ( علیہ السلام) کی اس دعا کا اثر ہے کہ اس کی امت آسودگی مال ہمیشہ رہی اور جوئی ان میں ناشکری کرے تو شاید آخرت میں سب زیادہ عذاب پاوے اس میں مسلمانوں کے لیے عبرت ہے کہ اپنا مد عا خرق عادت کی کی راہ سے طلب نہ کریں کیونکہ اس کی شکر گزاری بہت مشکل ہے اسباب ظاہری پر قناعت کریں تو بہتر ہے اس قصہ سے یہ بھی ثابت ہوا کہ حق تعالیٰ کے آگے حرایت کی پیش نہیں جاتی۔ (ماخوذاز مو ضح) المآئدہ
116 ف 5 اس کا تعلق اوپر کی آیت واذقال اللہ یعیسی ابن مریم 1) کے ساتھ ہے گویا پہلے طور پر تمہید حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) پر اپنے انعامات شمار کئے ہیں اور اب اصل مقصد شروع ہوا ہے یہ مخاطبہ قیامت کے دن ہوگا بعض نے لکھا ہے کہ حضرت عیسیٰ ٰ ( علیہ السلام) کو آسمان پر اٹھانے کے بعد یہ مکالمہ ہوچکا ہے مگر پہلا قول زیادہ صحیح ہے کیونکہ ابتدا میں آیت کہ ما یحبع اللہ الرسول اور اخر میں ھذا یوم ینفع الصاد قین صدقھم سے جن سے تینا قیامت کا دن مراد ہے۔، ( کبیر، قرطبی) اس غرض بھی نصاریٰ کو تو بیح ہے،( ابن کثیر ) ف 6 تیرا کوئی شریک نہیں پھر بھلا میں اور عمیری وعدہ تیرے شریک کیسے ہو سکتے ہیں۔ ف 7 یعنی میں تو تیرے بندوں میں سے ایک بندہ ہوں پھر بندے کی کیا مجال کہا پنے آقا کے مقابلہ میں خدائی کا دعویٰ کرے ف 8 یعنی بالفرض میں نے ایسی کوئی بات کہی ہو تو تجھے اس کا ضرور علم ہوگا کیونکہ تجھ سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں رہ سکتی ف 9 تو زبان سے نکلا ہوئی بات کیوں نہ جانے گا ! ف 10 تیرے سواکسی کو علم غیب نہیں جس بندے کے پاس جو بھی علم ہے وہ سب تیرا عطاکردہ ہے اور کسی کا علم تیرے علم کے مقابلہ میں اتنی بھی حیثیت نہیں رکھتا جتنی سمندر کے مقابلہ میں پانی کا یاک قطرہ۔ المآئدہ
117 یعنی صرف اللہ ہی عبادت کرو جو میرا اور تمہارا سب کا رب ہے ! ف 12 لفظ وفات قرآن پاک میں تین معنی میں آیا ہے ایک موت جیسے اللہ یتوفی الا نفس حین موتھا (الزمر) دوسرے خواب جیسے ھو الذی یوفکم بالیل (انعام) تیسرے رفع جیسا کہ اس آیت میں ہے (دیکھئے آیت عمران آیت 55 والسنا آیت 158 (ترجمان نواب) ف 13 یعنی ان میں میری مو جودگی کے وقت بھی تو ہی شہید تھا اور میرے الگ ہونے کے بعد بھیہ توہی شہید ہے شھید اسمائے حسنیٰ سے ہے اور شہید بمعنی رویت وعلم بھی ہوسکتا ہے۔ اور شہادت یا عتبار کلام بھی مراد ہوسکتی ہے ( رازی) مگر دوسرے کو حق کے مطلق شہید یا شاہد کا لفظ جب کوئی خاص قرینہ نہ ہو) شبہات باالکلا کے معنی میں ہی استعمال ہوتا ہے (م، ع ) المآئدہ
118 ف 14 یعنی تعذیب وغفران دونوں پر تجھے پوری قدرت حاصل ہے کہ ان سے جو سلوک کرنا چاہے کرے اور تیرا کو کام بھی حکمت سے خالی نہیں ایک حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن بعض لوگوں کو دیکھ کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ھو ال اصحابی فرمائیں گے مگر آپ کو بتایا جائے گا کہ تم نہیں جانتے کہ تمہارے مرنے کے بعد انہوں نے دین کو بد ل ڈالا تو یہ سن کر آنحضرت بھی یہی عرض کریں گے وکنت علیھم شھیدا۔ اس سے معلوم ہوا کہ بعض فاسق لوگوں کی بھی سفاعت ہوگی ( قرطبی، رازی ) المآئدہ
119 ف 1 یعنی دنیا میں جو لوگ اپنے ایمان و خلوص میں سچے تھے ان کا یہ صدق وخلو ص آج (قیا مت کے دن ان کے کام آئے گا۔ ( قرطبی) ف 2 اس کے مقابلے میں دنیا کی بڑی سے بڑی کامیابی کوئی وقعت نہیں رکھتی ! المآئدہ
120 ف 3 آخر سورت میں انصاری کی تردیدی کے سلسلہ میں یہ خاتمہ نہایت منا سب ہے یعنی و ہی اکیلا تمام انسانوں کا خدا ہے اور خدا ہونے کا حق رکھتا ہے حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) ان کی والدہ اور روح القدس سب اسی کے بندے ہیں جو کسی طرح اس کی خدائی میں شریک قرار نہیں دیئے جاسکتے (کبیر، ابن کثیر) اصل میں اس سورۃ کو ابتدا احکام شریعت کے بیان سے ہوئی اس کے بعد یہود ونصاری ٰ سے منا ظرہ کا ذکر آیا اب آخر میں یہ آیت لاکر اشارہ فرمادیا کہ اس سورت میں چوکچھ بیان ہوا ہے اوہ سارے کا سارہ قطعی اور حجت ہے (کبیر ) المآئدہ
0 ف 4 حضرت ابن عباس اور بعض دوسرے صحابہ کی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ پوری سورت انعام مکہ میں ایک ہی رات میں نازل ہوئی اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسی وقت کا تبین وحی کو بلواکر لکھوادی اس سورت کی فضیلت میں بہت سے تابعین سے روایات ثابت ہیں جن میں سے بعض مرفوع بھی ہیں علماکا کہنا ہے کہ یہ سورت اصول عقائد کے اثبات اور مشرکین اہل بدعت اور آخرت کا انکار کرنے والوں کے اقوال کے اپطال میں ایک اصل کی حیثیت رکھتی ہے بلکہ پورے علم اصول (عقائد پر حاوی ہے) شوکانی، کبیر ) الانعام
1 ف 5 اس سے مقصود و جود صانع پر دلیل قائم کرنا ہے (رازی) اللہ تعالیٰ نے یہاں دونوں قسم کی چیزوں کا ذکر فرمایا ہے ایک زمین و آسمان جو جوہر ہیں اور دوسرے اند ھیرا اور اجالا جو اعراض ہیں یعنی دوسری چیزوں کے ذریعہ قائم ہیں مطلب یہ ہے کہ کائنات میں کوئی جو ہر عرض نہیں ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے پیدا نہ کیا ہو اندھیرے اور اجالے سے یہی رات اور سن مراد ہیں یا پھر نور ایمان اور ظلمات کفر (کذافی القرطبی) ف 6 یعنی جن ہر چیز کا خالق ومالک صرف اللہ تعالیٰ ہے اور مشرکین اسے اپنا رب (پالنے والا) تسلیم بھی کرتے ہیں تو ان پر لازم تھا کہ عبادت بھی اسی کی کرتے مگر یہ دوسروں کو اس کے برابر گردانتے ہیں ان کے سامنے سجدے کرتے ہیں انکے نام کی نذریں چڑھاتے او منتیں مانتے ہیں اومشکلات میں ان سے مدد طلب کرتے ہیں بلا شبہ ان کے اس اعتقاد اور عمل میں نہایت ہی تضاد ہے۔) (قرطبی، ابن کثیر ) الانعام
2 ف 7 یعنی حضرت آد م ( علیہ السلام) کو باقی سب لوگ چونکہ آدم ہی کی اولاد ہیں اس لیے گویا سب مٹی سے پیدا ہوئے (کذافی القرطبی) ف 8 میعاد یعنی فنا کا وقت مقرر کردیا اور دوسراوعدہ اس کے نزددیک قرار پاچکا ہے یعنی اللہ کے سوا کسی کو اس کا علم نہیں پھر تم شک کرتے یعنی اتنا بھی نہیں سمجھتے کہ جس نے مشت خاک سے تم پیدا کیا وہ دوبارہ تم کو زندہ کرسکے گا، وحیدی) الانعام
3 ف 9 اوپر کی آیتوں میں کمال قدرت کا ثابت ہے علما سلف سے مقول ہے کہ اللہ تعالیٰ ہے تو عرش پر لیکن اس کا علم ہر جگہ ہے، صحابہ وتابعین اور اہل سنت کا یہی اعتقاد ہے صرف بعض بدعتی فرقے ہی اللہ تعالیٰ کے عرش پر ہونے کے منکر ہیں اور یہ گمراہو کا اعتقاد ہے کہ اللہ ہر جگہ موجود ہے۔ (وحیدی) الانعام
4 ف 10 اللہ کی آیات سے مراد وہ آیات بھی ہو سکتی ہیں جو انبیا پر اترقی رہی ہیں جیسے معجزات اور قدرت کی نشانیاں بھی جیسے زلزلہ قحط وغیرہ) الانعام
5 ف 11 اوپر کی آیات میں توحید اور معاد کو ثابت کیا ہے کہ اب اس آیت میں تقلید کا بطلان ثابت ہو رہا ہے (رازی) جس چیز پر کفار ہنستے رہے اس سے مرد اللہ تعالیٰ کا وہ وعدہ ہے جو اس نے قرآن میں دین اسلام کو غالب اور دشمنوں کے مغلوب کرنے متعلق کیا تھا مطلب یہ ہے کہ اب تو یہ کفار اس وعدہ کو محض مذاق سمجھتے ہوئے اس پر ہنستے اور اس کا مذاق اڑاتے ہیں لین عنقریب مسلمانوں کو مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کا حکم دیا جائے گا اور پھر ایسے واقعات پیش آئینگے جن سے یہ وعدہ حقیقت بن کر ان کے سامنے آجائے گا۔ الانعام
6 ف 1 جیسے قوم نوح عاد، ثمود وغیرہ زجر کے بعد اب ان کو وعظ ونصیحت کی جارہی ہے، ف 2 یعنی ان کو تم سے بھی کہیں زیادہ قوت اور ساز وسامان دیا تھا مقصد یہ ہے کہ دینوی سازوسامان دعوت حق کی قبولیت میں رکاوٹ بن گیا۔ ف 3 یعنی بارشوں اور نہروں کی وجہ سے ان کے باغ اور کھیت سرسبز وشاداب تھے اور عیش و خوش حالی کا دور دورہ تھا۔ ف 2 لیکن جب انہوں نے بغاوت سرکشی پر باندھی تو ہم نے ان کا نام ونشان مٹادیا پھر ان کے بعد دوسری امتیں پیدا کیں الغرض منکرین اور کذبین کے ساتھ یہی سلسلہ جاری رہا۔ ف 4 اب انو لوگوں کو ذکر ہے جو انبیا کے معجزات کی تاویلیں کرکے ان کی تکذیب کرتے تھے (رازی ) الانعام
7 یعنی یہ لوگ اپنی سرکشی اور کفر کی روش میں اس قدر پختہ ہیں کہ اگر ہم ان پر آسمان سے لکھی لکھائی کتاب بھی اتار دیتے جسے یہ اپنے ہاتھوں سے چھو کر صاف معلوم کرلی کہ یہ کوئی خیالی اور نظری چیز نہیں بلکہ حقیقت س تب بھی اسے کھلا جادو قراردیتے پھر اگر یہ بد بخت قرآن کو جادو قرار دیتے ہیں تو کیا تعجب ہے حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں جس کی قسمت میں ہدایت نہیں اس کا شبہ کبھی نہیں مٹتا (کذافی القرطبی) الانعام
8 ف 6 نبوت کے منکرین کایہ تیسرا شبہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کو مخلوق کی طرف کوئی رسول ہی بھیجنا تھا تو وہ انسان کی بجائے فرشتہ ہونا چاہیے تھا یا فرشتہ آپ کے ساتھ ساتھ پھرتا اور کہتا ہے کہ اللہ کا پیغمبر ہے اس پر ایمان لے آو ورنہ تمہیں سزا دی جائے گی، (ابن کثیر، کبیر) ف 7 یہ پہلا جواب ہے (رازی) کیونکہ سنت الہیہ یہ ہے کہ جب کوئی قوم اپنے نبی سے معجزہ طلب کرے اور وہ اسے دکھا دیا جائے لیکن اس کے بھی وہ ایمان نہ لائے تو اسے ہلاک کردیا جاتا ہے۔ (قرطبی) الانعام
9 ف 8 یہ ان کفار کے اعترا کا دوسرا جواب ہے یعنی اگر ان کے مطالبہ کو مانتے ہوئے ہم فرشتہ اتارنا منظو بھی کرلیتے تو وہ بھی انسانی صورت میں ہی آتا کیونکہ اس کی اصلی شکل میں تو یہ اسے دیکھ ہی نہیں سکتے اور جب وہ آدمی کی شکل میں آتا ہے تو یہ پھر یہی شبہ پیش کرتے جو اب پیش کررہے ہیں (رازی ) الانعام
10 ف 9 یعن خرکار انہیں اسی عذاب نے آگھیرا جس کا وہ مذاق اڑاتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ کوئی عذاب نہیں آسکتا یہ محض دھمکی ہے اس سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تسلی دی ہے (قرطبی) الانعام
11 ف 10 اس سے ان لوگوں کو تحذیر کی ہے (رازی) یعنی دنیا کے مختلف خطوں میں جو قومیں پائی گئی ہیں ذرا ان کے حالات اور تاریخ پر غور تو کرو تمہیں خود معلوم ہوجائے گا کہ جب قوموں نے اللہ کے رسولوں کی جھٹلایا اور ان کی اطاعت سے انکار کیا انہیں کیسے عبرت ناک انجام سے دو چارہونا پڑا پھر اس سے اندازہ کرلو کہ اب جو تم ہمارے آخری رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آخری کتاب کا مذاق اڑارہے ہو تمہارا انجام کیا ہوسکتا ہے اور کیا ہونا چاہیے الانعام
12 ف 11 وعط و نصیحت اوتحذیر کے بعد اب دوبارہ اصول ثلاثہ (مبدا معاد، نبوات) کے اثبات پر دلیل قائم کی ہے یعنی آسمان وزمین کا خالق اور مالک اللہ ہی ہے اور اس کی ملکیت میں اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ ( رازی) ف 12 اور پھر اس نے محض اپنے فضل وکرم سے سے اپنے بندوں سے رحمت کا وعدہ فرمایا ہے ورنہ اللہ تعالیٰ کو رحمان ورحیم ہونے پر کوئی مجبور نہیں کرسکتا اللہ تعالیٰ کی وسعت رحمت کا ذکر بہت ہی احادیث میں بھی مذکور ہے ایک حدیث میں ہے جب اللہ تعالیٰ خلق سے فارغ ہوا تو کتاب میں لکھ دیا کہ میری رحمت میرے غضب پر سبقت لے گئی۔ (رازی) ف 13 یعنی قیامت کا آنا ایک ایسی حقیقت ہے جس سے کوئی سمجھ دار آدمی انکار نہیں کرسکتا اس سے انکار اگر کوئی کرسکتا ہے تو وہی جو اپنی عقل وفطرت سے کام نہیں لیتا۔ الانعام
13 ف 1 آیت قل لمن مافی السمٰوٰ ت والا رض میں مکان جگہ کے اعتبار سے تعمیم تھا اذلامکان سوا ھما اور اس آیت میں تعمیم باعتبار زمان ہے کیونکہ رات دن کے علاوہ اور کوئی زمان (وقت) نہیں ہے گویا ہر جگہ اور ہر وقت اس کو حکومت اور اسی کا قبضہ وقتدار ہے۔ (رازی) یادرہے کہ یہاں سکون بمعنی حلول ہے یعنی رہنا اور سکون جو حرکت کی ضد ہے وہ مراددنہی ہے پھر یہ ثابت کرنے کے بعد کہ اللہ تعالیٰ تمام مکا نیات کا مالک ہے۔ اسمیع العلیم فرماکر اللہ تعالیٰ کے فاعل مختار ہونے کی طرف اشارہ فرمایا ہے جس سے ایجاب بالذات کی تردید ہوتی ہے (رازی) الانعام
14 ف 2 یعنی منافع اسی کی ذات سے ہیں اور وہ کسی سے انتقاع کا محتاج نہیں اس ایک جملہ سے اللہ کے سوا جنتے بھی معبود بنا رکھے تھے سب کی نفی ہوجاتی ہے (رازی۔ قر طبی) ف 3 کیونکہ میں اس کارسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہوں اور رسول کا کام یہ ہے کہ تمام بندوں سے پہلے اور بڑھ کر اپنے مالک کے احکام کا مانے۔ ف 4 یعنی مجھے خالص اللہ کا فرما نبر دار ہو کر رہنے کا حکم دیا گیا ہے اور شرک سے دور رہنے کا یہ کام نہیں کہ اس لعنت میں پڑنے کا خیال بھی اپنے ذہن میں لائیں۔ الانعام
15 ف 5 آنحضر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک سے اعلان کر واکر دوسروں کو بتایا گیا کہ اگر بفرض محال معصوم اور نیک ترین بندے سے بھی کسی نافرمانی کا ارتکاب ہوجائے تو وہ بھی ہمارے عذاب سے نہیں بچ سکتا پھر دوسرے کے لے کہ کیونکر ممکن ہے کہ تکذیب انبیا ( علیہ السلام) جیسے جرائم کا ارتکان کرنے کے باوجود ہمارے عذاب سے بے فکر ہو کر بیٹھ رہیں۔ الانعام
16 ف 6 یعنی مراتب عالیہ کا حصول تربہت اونچا مقام ہے اگر کسی سے آخرت کا عذاب ہی ٹل جائے تو یہی اپنی جگہ بڑی کامیابی ہے الانعام
17 ف 7 پھر دوسروں کے آگے سجدے کرنا اور ان کی قبروں پر نذرانے چڑھانا اور سمجھنا کہ وہ حاجات پوری کرسکتے ہیں بہت بڑی حماقت ہے قرآن نے اس بات پر خصوصیت کے ساتھ زوردیا ہے کہ ہر قسم کا نفع وضرر اللہ کے ہاتھ میں ہے اس پر عقیدے پختہ ہو تو انسان شرک میں مبتلا نہیں ہوتا۔ الانعام
18 ف 8 یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ کے سوا کسی کو ولی نہیں بنانا چاہیے (رازی) یعنی عرش معلی ٰ پر جر تمام مخلوقات سے بالا ہے اہل حدیث اللہ تعالیٰ کے فق الفوق ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں احادیث صحیحہ میں بھی اللہ تعالیٰ کے عرش پر ہونے کا بیان ہے اور یہ عرش آسمانوں کے اوپر ہے۔ ( وحیدی) صفات کمال دوہی ہیں قدرت اور علم پہلے جملہ وھو القاھر فمق عبادہ) میں کمال قدرت کی طرف اشارہ ہے اور (الحکیم الخبیر) سے کمال علم کا ثبات مقصود ہے۔ (رازی) ج یعنی اپنے احکام دینے میں حکمت والا اور اپنے بندوں کے معاملات اور ضروریات سے باخبر ہے ! الانعام
19 ف 10 حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ یہ آیت روسا اہل مکہ کے جواب میں ہے انہوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مطالبہ کیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے صدق بنوت کی شہادت پیش کریں کیونکہ اہل کتاب کہتے ہیں کہ توراۃ میں تمہارے آخری رسول ہونے کا کوئی ذکر نہیں ہے اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ اس بات کا اللہ گواہ ہے کہ اس نے مجھے تمہاری طرف رسول بنا کر بھیجا ہے اللہ تعالی، کی گواہی یہ ہے کہ اس نے مجھ پر قرآن اتارا ہے جو اپنے معجز ہونے کے اعتبار سے میرے سچے نبی ہونے کی صریح دلیل ہے اسی کے پیش نظر فرمایا واوحی الی ھذالقرآن الخ (رازی) شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ یہاں گواہی فرمایا قسم کو یعنی میں قسم کھاتا ہوں اللہ کی اس سے زیادہ کیا قسم ہوگی۔ ( موضح) ف 11 ومن بلغ سے جمیع عرب عجم یاجن وانس مراد ہیں اور اس سے مقصد یہ ہے کہ میری رسالت عالمگیر اور قیامت تک کے لیے ہے۔ (رازی) حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے روم وایران و حبشہ تمام ممالک کو دین اسلام کی دعوت دی۔ (ابن مرودیہ) حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جسے قرآن پہنچ گیا اسے گو یا میں نے اپنی زبان سے پہنچا یا (ابن جریر وغیرہ) قرآن مجید اور حدیث پاک کے احکام عالمگیر اور ناقبل تغیر اور قیامت تک کے لیے ہیں قرآن کے احکام کو عہد نبوع تک محدود رکھنا اور تفییر احوال کے ساتھ تغییر فتویٰ کی آڑ میں قرآن کے نصوص سے گلو خلاصی کرانے کی بہانے ڈھو نڈنا تحریف کے مترادف ہے تغییر احوال سے تغییر فتویٰ کا اصول صرف اجتہادی مسائل تک محدود ہے اور ائمہ کی فقہ اور ان کے قتادیٰ اس بات کی کھلی شہادت ہیں پھر جو لوگ فقہ ائمہ کو دائمی احکام کی حیثیت سے پرانی تقلید کے قائل ہیں بھی غلطی پر ہیں صحیح یہ ہے ائمہ نے اپنے زمانہ کے احوال وظرف کو سامنے رکھکر اجتہادی مسائل مسئبظ اور مرتب کئے تھے ( م، ع) ف 12 یاجن کو تم اللہ کا شریک قراردیتے ہو میں انے بیزار ہوں۔ (وحیدی ) الانعام
20 ف 13 یعنی اسکے سچے رسول ہونے میں انہیں کوئی شبہ نہیں (دیکھئے بقرہ آیت 146) ف 1 وپر گزر چکا ہے کہ کفار نے یہود ونصاریٰ سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق جب اتاستفسار کیا تو انہوں نے آپ کی نبوت سے انکار کیا چنانچہ ان کے جواب میں قل ای شئی ل الخ۔ نازل ہوئی آپ کو اس آیت میں بتایا گیا کہ اہل کتاب جھوٹ بولتے ہیں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا ذکر تورات میں نہیں ہے یہ تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صدق نبوت کو پورے یقین سے جانتے ہیں مگر ضد اور ہٹ دھرمی کی بنا پر انکار کر رہے ہیں ایسے لوگوں سے ایمان کی امید نہیں ہاں جن لوگوں کے دلوں میں اخلاص ہے وہ ضرور ایمان لے آئیں گے (رازی ) الانعام
21 ف 2 یعنی اگر میں نے جھوٹ بولا تو مجھ سے بدتر کوئی کوئی نہیں اور اگر میں نے سچ پہنچا یا اور تم نے جھٹلایا تو تم سے زیادہ گنہگار کوئی نہیں بس اپنی فکرو۔ (موضح) اوپر کی آیات میں منکرین پر خسران کا حکم لگا یا اب اس آیت میں اس خسران کا سبب بیان فرمادیا، (رازی) چنانچہ خسران کا پہلا سبب افتر ال علی اللہ قرار دیا ہے او اہل علم جانتے ہیں کہ کفار مکہ کے دین کی بنیاد ہی افترا پر تھی بتوں کو شراکا اللہ قرار دینا فرشتوں کو بنات اللہ کہنا اور بحیرہ سائبہ وغیرہ کی تحریم وغیرہ سب چیزیں افتر پر مبنی تھیں اسی طرح یہود ونصاریٰ کے دین میں بہت سے افزا شامل ہوئے تھے مثلام تورات وانجیل کو ناقابل نسخ وتغییر مانتے اپنے آپ کو ابنا اللہ واحبارۃ احباہ کہتے اسی طرح اللہ تعالیٰ کے متعلق بہت سی جہالت کی باتیں کرتے دوسرا سبب خسران تکذیب آیات اللہ ہے جس میں معجزات کی تکذیب بھی داخل ہ (رازی ) الانعام
22 ف 3 اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ مشرکین قیامت کے دن اپنے شر کا انکار کریں گے اور دوسری آیت میں ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے کوئی بات چھپا نہ سکیں گے (نسا 43) اس کی توضیح میں حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ پہلے تو وہ انکار کرینگے لیکن پھر جب ان کے ہات پاوں بولنے لگے گے تو اس وقت سب حقیقت واضح ہوجائے گی۔ (یٰس :65) الانعام
23 ف 4 یعنی وہاں نا کا شرک ان کے کچھ کام نہ آئے گا، ف 5 یعنی کان لگالگا کر سنتے ہیں جب قیامت کے دن کفار کے کچھ اوحوال بیان فرمائے و اب بتایا کہان کے ایمابن لانے کے امید نہیں ہے (رازی ) الانعام
24 الانعام
25 حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ کفار کے بڑے بڑے سردار جن میں ابو سفیان، ولید بن مغیرہ اور ابو جہل وغیرہ بھی شریک تھے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجلس میں حاضر ہو کی قرآن سننے اور پھر آپس میں اس قسم کا تبصرہ کرنے لگے چنانچہ آیت میں اسی صورت حال کی طرف اشارہ ہے۔ ( قرطبی) چونکہ یہ قرآن اور آنحضرت کی رسالت کو بر حق جاننے کے باوجود کفر کی روش پر جمے ہوئے ہیں اسی لیے ہم نے ان کو یہ سزا دی۔ ف 7 حالا نکہ قرآن میں تمام اخلاق حکمت اور زشریعت کی باتیں بھری ہوئی ہیں اور اس میں جو قصے بیان کئے گئے ہیں وہ سب سچے واقعات ہیں او صرف عبرت و نصیحیت کے لیے بیان کئے گئے ہیں۔، (وحیدی ) الانعام
26 ف 8 یعنی صرف قرآن پر طعن کرنے پر ہی اکتفا نہیں کرتے بلکہ قرآن سننے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے سے دوسرے لوگوں کو بھی منع کرتے ہیں (کذافی الکبیر) بہت سے بدعت پرست علما اپنے مانے والوں کو اس لیے قرآن مجید کا ترجمہ پڑھنے سے منع کرتے ہیں کہ کہیں وہ عشق وجذب۔ باگل پن کی بھول بھلیوں سے نکل کر وہابی نہ بن جائیں لا حول ولا وقوۃ الا باللہ العلی العظیم، ف 9 حضرت ابن عباس (رض) اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ کفر غلو اور تمادی کے سبب اپنے آپ کو ہلاکت کر گڑھے میں ڈال رہے ہیں اور یہ نہیں سمجھے س کفر و معصیت کا انجام دوزخ ہوگا۔ (کبیر ) الانعام
27 الانعام
28 ف 1 اس سے قبل (یعنی آخرت میں ہی) جس شرک وکفر اور نفاق کو رہ جھوٹی قسمیں کھاکر چھپانے کی کو شش کریں گے اس کی حقیقت کھل جائے گی اور ان کے اپنے ہاتھ پاوں ان کے خلاف گواہی دیں گے اس وقت وہ محض ندامت کر مارے یہ آرزو کریں گے بعض نے من قبل سے دنیا چھپانا مراد لیا ہے اور لکھا ہے کہ یہ آیت منافقین کے بارے میں ہے یا اس سے روسا کفار مراد ہیں۔ یعنی وہ قرآن اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صدقت کو جانتے تھے مگر اپنے اتباع سے چھپاتے تھے۔ قیامت کے دن یہ حقیقت ان کے اتباع پر کھل جائے اور ان کو معلوم ہوجائے گا کہ یہ ہمیں دھوکہ دیتے رہے ہیں۔ (ابن کثیر۔ کبیر ) ف 2 یعنی پھر شرک اور کفر ونفاق کی روش اختیار کریں گے کیونکہ ان کی یہ آرزو ایمان کی محبت کی سبب نہیں بلکہ محض ندامت کی وجہ سے ہوگی۔ ؟ (کبیر) ف 3 اس لیے آخرت میں اپنی اس آرزوے سے اظہار میں بھی جھوٹ ہی سے کام لیں گے۔ (وحیدی) الانعام
29 ف 4 یعنی کوئی آخرت کا ثواب وعقاب نہیں ہے یہ محض لوگوں کو الو بنانے کے لیے ایک ڈھکو سلا ہے اس زندگی کے جو چند دن ملے ہیں ان میں خوب مزے اڑالو۔ الانعام
30 ف 5 تو ایک عجیب تماشا یا بڑا سانحہ دیکھے گا پہلی آیت میں ان کے انکار حشر ونشر کو بیان کیا تھا اب اس آیت میں قیامت کے دن ان کی حالت کا ذیر ہے۔ ( کبیر ) الانعام
31 یعنی آخرت میں ان کا یہ انکار اقرار کی صورت اختیار کرے گا مگر اس وقت اس ایمان واقرار کا کچھ فائدہ نہ ہوگا۔ الانعام
32 ف 7 دنیا کے سریع الزوال ہونے کے اعتبار سے اس کو لہو ولعب فرمای ہے رازی یعنی آخرت کی حقیقی اور ابدی زندگی کے مقابلے میں دنیا کی زندگی اور لذتیں ایسی ہی ہیں جیسے بچوں کا کھیل تماشا جو تھوڑی دیر میں ختم ہوجاتا ہے حضرت شداد بن اوس سے روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عقلمند وہ ہے جس نے اپنے نفس کا حساب لیا اور موت کے بعد آنے والی زندگی کے لیے عمل کیا اور عاجز (احمق) وہے جس نے اپنے نفس کو اپنے خواہشوں کے پیچھے لگادیا او پھر اللہ سے بخشش کی آرزو رکھی ترمذی) ف 8 یعنی ان لوگوں کے لیے جو اپنی زندگی میں۔ شرک کفر نفاق اور کبائر سے بچتے ہیں ورنہ کافر کے لیے تو دنیا کی زندگی ہی بہتر ہے جیسا کہ حدیث میں ہے الدینا سجن المو من وجنتہ اللکافر کہ مومن کے لیے تو دنیا قید خانہ ہے اور کافر کے لیے جنت ہے (کبیر) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب تک نبوت کا دعویٰ نہیں کیا تھا آپ کی قوم کے تمام لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو امین اور صادق کہتے تھے لیکن جونہی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی نبوت کا اعلان کیا اور انہیں اللہ تعالیٰ کی آیات سنانا شروع کیں تو ان میں سے اکثر آپ کی مخالفت پر کمر بستہ ہوگئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو (نعوذ باللہ) جھوٹا قرار دینے لگے ابو جہل سے بڑھ کر آپ کا کون دشمن ہوگا۔ لیکن حضرت علی (رض) سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ اس نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے گفتگو کرتے ہوئے کہ انا لا تکذبک ولکن نکذب ماجئت بہ ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تو جھوٹا نہیں کہتے لیکن جو پیغام آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لے کر آئے ہیں اسے جھوٹا قرار دیتے ہیں ایک دوسرے موقع پر اسی ابو جہل نے اخنس بن شریق سے تنہائی میں کہا اللہ کی قسم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک سچاانسان ہے اور ساری عمر میں اس نے کبھی جھوٹ نہیں بولا لیکن جب نوار، سقایت حجابت اور نبوت سب بنی قصی ہی کے حصہ میں آجائیں تو بتاو باقی قریش کے پاس کیا رہ گیا۔ ( حاکم، ابن ہشام) اس لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی ہے کہ یہ لوگ جو آپ کی تکذیب کر رہے ہیں وہ حقیقت میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نہیں بلکہ ہماری آیات تکذیب ہے کیونکہ شخصی لحاظ سے تو یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکذیب کر ہی نہیں سکتے اس سے مراد دراصل وہ کفار ہیں جو بشر کے نبی اور رسول ہونے کا محال سمجھتے ہیں (ابن کثیر) الانعام
33 الانعام
34 ف 1 اس آیت میں ایک دوسرے طریقے سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی ہے (کبیر) کلمات الہ سے مراد یہ ہے کہ اس نے جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو غالب اور ان مشرین کو مغلوب کرنے کا وعدہ کیا ہے اسے پوراہو نے سے کوئی چیز روک نہیں سکتی لہذا جس طرح انہوں نے صبر واستقامت کا مظاہر کیا اسی طرح آپ بھی صبر و استقامت سے اپنی دعوت پیش کرتے رہیں اور کسی بے چینی کو اپنے اندر راہ پانے دیں۔ الانعام
35 ف 2 تو آپ ایسا بھی کر کے دیکھ لیجئے لیکن یہ چونکہ آپ سے کبھی نہیں ہوسکتا تو بلاوجہ کڑھنے سے کیا فائدہ بہتر ہے کہ آپ انجام کار کو ہم پر چھوڑ تے ہوئے پورے سکون واطمینان سے اپنی دعوت کے کام میں لگے رہیں۔ ف 3 یعنی ایسا مت خیال کیجئے کہ کہ کسی نشانہ (معجزہ) لانے سے یہ راہ ہدایت پر ضروری آجائیں گے ہدایت اللہ تعالیٰ کی مرضی پر موقوف ہے آپ کے ذمہ صرف پیغام پہنچادینے ہے اس حقیقت کو پیش نظر رکھیں اور ان لوگوں کے ایمان نہ لانے پر ہرگز کوئی غم یا افسوس نہ کریں اللہ تعالیٰ کو تکوینی طور پر اس سب کو مومن بنانا ہوتا تو یہ اس لیے سامنے کوئی مشکل بات نہ تھی مگر ایسا کرنا اس کی حکمت کے خلاف ہے لہذا اس قسم کے جاہلاہ نظریے کو پانے دل میں جگہ نہ دیجئے الانعام
36 ف 4 اس آیت میں آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان کافروں کو مردوں سے مشابہ قرار دیا ہے جن کو جتنا پکارا جائے وہ کوئی جواب نہیں دے سکتے یعنی ان کافروں کے ضمیر مردہ ہوچکے ہیں۔ اور ان میں فہم وفکر کی قوت ختم ہوچکی ہے ان کو اگر عقل آئے گی تو اس وقت جب اللہ تعالیٰ ان کو دنیا سے اٹھائے گا اور ان محاسبہ کرے گا۔ الانعام
37 منکرین نبوت یہ شبہ بھی پیش کرتے کہ اگر یہ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں تو اپنے ساتھ کوئی محسوس معجزہ کیوں نہیں لاتے جسے دیکھ کر ہر شخص کو معلوم ہوجاتا کہ یہ واقعی اللہ کی طرف سے بھیجا ہو ارسول ہے ف 6 خدا کی حکمت اور مصلحت یہ ہے کہ اگر صاف کھلی نشانی اجائے جیسے مائدہ جو حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کے زمانے میں تارا گیا یا اور نٹنی جو حضرت صالح کے عہد میں بھیجی گئی اور پھر بھی یہ لوگ ایمان نہ لائیں تو اللہ کے قانون کے مطابق ان کی مدت مہلت ختم ہوجائے گی اور فورا عذاب ’ آجائے گا لیکن اللہ کی رحمت کا تْقاضا یہ ہے کہ ان کو ہلاک نہ کیا جائے مگر یہ اس بات کو نہیں مانتے (رازی) الانعام
38 ف 7 مطلب یہ ہے کہ جمیع بہائم اور پرندے تمہاری طرح کی امتیں ہیں اور جس طرح ان کے رزق اور مصالح کی رعایت کی گئی ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ نے انسان کے مصالح کی بھی رعایت کی ہے اور ان کے مطالبہ کے مطابق آیات نازل کرن خود ان کے مصلحت کے خلاف ہے (رازی) یا مثل تمہاری ہیں طرح ہیں (فتح البیان) ف 8 یعنی لوح محفوظ میں (موضح) جو کہ تمام مخلوقات کے احوال پر پوری طرح حاوی ہے کہ ایک حدیث میں ہے جف القلم بما ھو اکاسو الی یوم القیامتہ کہ قیامت تک جو کچھ ہونے والا ہے اس کی تحریر سیاہی خشک ہوگئی ہے (رازی ) اور اس سے مرد قرآن پاک بھی ہوسکتا ہے۔ امام رازی فرماتے ہیں کہ اور یہی اظہر ہے اس لحاظ سے کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں دین سے متعلق تمام اصول (بنیاد دی امور بیان کردیئے اور جب جزئیات کا ذکر نہیں کیا وہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے وقل و عمل سے بیان فرمادی ہیں اور مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ پیغمبر جس چیز کا حکم دیں اسے بجا لاو اور جس چیز سے منع کریں اس سے رک جاو پس آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حدیث بھی کتاب الہی ہے چنانچہ حضرت عبد اللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ جو عورت وسمہ یا بناوٹی بال لگاتی ہے اس پر اس پر اللہ تعالیٰ نے لعنت بھیجی ہے ایک عورت نے کہا میں سارا قرآن پڑھا ہے مگر مجھ کوئی آیت ایسی نہیں ملی جس میں ایسی عورتوں پر لعنت ہو حضرت عبدا للہ بن مسعود نے فرمایا اگر تم قرآن پڑھ لیتیں تو معلوم ہو ہوجاتا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا ما ماتاکم الرسول فخذ وہ الخ۔ الغرح حدیث کے وحی ہونے پر قرآن میں بہت سے دلائل مذکور ہیں۔ (رازی، ابن کثیر) ف 9 کفار کو تہدید ہے کہ جب اللہ تعالیٰ زمین کے کسی معمولی سے جانور یا پرندے کے حالات سے بھی نا واقف نہیں ہے اور اس اک نامہ اعمال محفوظ ہے اور اس کا اے بد لہ بھی ملیگا تو تم اپنے بارے میں یہ کیوں سمجھ رہے ہو کہ تمہیں تمہارے اعمال کا بدلہ نہیں دیا جائے گ (کذافی الکبیر ) الانعام
39 ف 10 یعنی کفر اور خوہشات کے اندھیروں میں۔ ف 11 لیکن وہ مراہ اسی کو کرتا ہے جو اپنی صلا حیتوں کو برکار نہیں لاتا۔ (دیکھئے اعفراف۔ آیت 176) ج الانعام
40 ف 12 یعنی اپنے اس دعوی میں کہ جن کہ تم اللہ کے سوا پکاتے ہو وہ تم پر آئی ہو بلاٹال سکتے ہیں۔ یہ تو ان کفارو مشرکین کا حال تھا لیکن آج خود مسلمانوں نے ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو سخت میں بھی نعرہ لگا تے ہیں تو یاعلی، یا غوث اعظم اور یارسول اللہ کا گویا ان کی حالت کفا رو مشرکین سے بھی بد تر ہے۔ الانعام
41 الانعام
42 الانعام
43 ف 2 کیا آج ہم مسلمانوں کا یہی حال ہو نہیں گیا ہے جب کوئی جنگ سیلاب قحط یا زلزلہ یا کوئی دوسری اجتماعی آفت ہم پر نازل ہوتی ہے تو کیا ہم میں وہ افراد نہیں پائے جاتے جو اسے محض مادی اسباب کا نتیجہ سمجھتے ہیں اور اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے تنبیہ اور سزا سمجھنے کو جہالت اور بے وقوفی قرار دیتے ہیں تفسیر احمدی جو ایک نیچری نے لکھی ہے وہ معجزات وغیرہ کے انکار کے سلسلہ میں اس قسم کی تاویلوں سے پر ہے ،(م، ع ) الانعام
44 ف 3 یعنی انہیں مہلت کے طور پر ہر طرح کی نعمتیں دیں ( سلفیہ) ف 4 یعنی اچانک ایسا عذاب آیا کہ وہ اپنا تمام عیش و آرام بھول گئے اور بچنے کی کوئی امید نہ رہی اور اسی یاس ونا امیدی کی حالت میں تباہ وبرباد کردیئے گئے عقل مند آدمی کو چاہیے کہ جن سختی اور مصیبت آئے تو اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے تنبیہ سمجھ کر برے کاموں سے توبہ کر کے ورنہ غفلت بڑھتی جائے گی اور یکباری گی ایسی سخت پکڑ ہوگی کہ تو بہ کا موقع بھی نہ ملے گا۔ () مسند احمد) حضرت عقبہ بن عامر سے روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب تم کسی ایسے آدمی کو دیکھوں جسے اس کی نافرمانیوں کے باو جود اللہ تعالیٰ ہر چیز دے رہا ہے جسے وہ پسند کرتا ہے تو سمجھو کہ اللہ اسے ڈھیل دے رہا ہے پھر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت تلاوت فرمائی (کذافی الو حیدی ) الانعام
45 ف 5 یعنی سب ونیست ونا بود کردیئے گئے اور ان کے نیست ونابودکیئے جانے پر ہر چیز نے سکھ کا سانس لیا اور اللہ رب العلمین کے حضور سجدہ شکر ادا کیا خس کم جہاں پاک۔ الانعام
46 ف 6 منہ پھیر کر اور نظریں چرا کر چل دیتے ہیں اور کسی تنبیہ سے کوئی سبق حاصل نہیں کرتے حلانکہ یہ کان اور آنکھ اور دل جو اس وقت موجود ہیں شاید پھر نہ ملیں لہذا توبہ میں دیر کرنی نہیں چاہیئے۔ (کذافی المو ضح) الانعام
47 ف 7 پہیلی آیت میں صرف ام لہ سماعت بصارت اور دل سلب کرلینے پر تنبیہ تھی۔ اب اس آیت میں عام عذاب کے ذکر کے ساتھ تو بیخ کی ہے یعنی اگر اللہ تعالیٰ کا عذاب آیا تو تم نجات نہیں پو سکو گے باقی رہے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے پیرو تو انہیں اللہ ضرور بچالے گا کیونکہ پہلے جتنی قومیں تباہ کی گئیں ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی یہ مستقل سنت رہی ہے کہ پہلے رسول اور ان کے متبعین کو ظالم قوم کی بستی سے نکل جانے کا حکم دیا گیا ہے جب وہ نکل گئے تو قومتباہ کردی گئی ) الانعام
48 الانعام
49 الانعام
50 ف 1 آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے وہ مطالبہ کرتے کہ اگر تم اللہ کے پیغمبر ہو تو اللہ تعالیٰ سے مطالبہ کرو کہ ہمیں دنیا سازو سامان اور فراوانی حاصل ہوجائے اس آیت میں اس مطا لعہ کا جواب دی گیا اس سے معلوم ہوا کہ اگر یہ اعتقاد رکھا جائے کہ فلاں مرید کو فلاں پیر نے ایک خزانہ بخش دیا مالدار کردیا تو یہ عقیدہ شرک کی ذیل میں آئے گا (کذافی السلفیہ) ف 2 کہ آئندہ کی جو بات مجھ پو چھتے جا و میں تمہیں بتلاتاجاوں۔ غیب کا جاننا صرف اللہ تعالیٰ کی صفت ہے۔ مجھے جو اور جتنا علم ہے اس کی نے اطلاع دی ہے وہ چاہتا تو مجھے اتبا علم بھی دیتا اور چاہتا تو اس سے بھی زیادہ دے دیتا اس سے ثابت ہوا کہ جس کا یہ عقیدہ ہو کہ انبیا کو علم غیب ہوتا ہے تو ہو مشرک ہے جب سید الر سل (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو علم غیب نہ ہوا تو دوسروں کا کیا ذکر ہے اوجب رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غیب دان ٹھہرے تو پھر کوئی پیر شہید۔ ولی، مجذدب سالک یا عالم عابد کیسے غیب دان ہوسکتا ہے اور کاہن نجومی اور مال کس شمارو قطار میں ہیں۔ از ترجمان نواب) ف 3 بلکہ تمہاری طرح کا ایک بشر ہوں پھر تم فرشتوں کا طرح آسمان پر چڑھنے کا مجھ سے مطالبہ کیوں کرتے ہو ؟ اور کس معاملے میں اپنی خواہش کی پیروی نہیں کرتا اس سے معلوم ہوا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بندوں تک جتنے احکام پہنچائے چاہے قرآن کی شکل میں احادیث کی صورت میں وہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھے لہذا قرآن کی طرٖح سنت کی پیروی بھی ضروری ہے بلکہ سنت کے بغیر قرآن کی پیروی ناممکن ہے جو لوگ سنت کو چھوڑ کر صرف قرآن کی پیروی پر زور دیتے ہیں وہ دراصل اپنی من مانی تاویلات کرنا چاہتے ہیں۔ ف 5 یعنی باطل برست اور حق پرست کافر اور مسلمان یا جاہل اور عالم شاہ صا حب (رح) لکھتے ہیں یعنی پیغمبر آدمی کے سوا کچھ اور نہیں ہوجاتے کہ ان سے محال باتیں طلب کرے ایک اند ھے اور ایک دیکھتے کا (یہی) فرق ہے ( مو ضح) الانعام
51 ف 6 اوپر کی آیت میں پیغمبروں کے متعلق بیان فرمایا کہ وہ مبشر اور منذرہو تے ہیں۔ اب اس آیت میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو انداز کا حکم دیا ( رازی) یعنی قرآن سن کر اور زیادہ ڈرپیدا ہو اور گنا ہوں سے باز آجاویں آیت سے ان کافروں کا رد مقصود ہے جو یہ گمان رکھتے تھے کہ ان کے معبود اور اٹھاکر وغیرہ اللہ تعالیٰ سے سفارش کر کے ان کو بچالیں گے اسی طرح ان لوگوں کے لے بھی اس میں عبرت ہے جو اپنے بزرگوں کی سفارش پر تکیہ کر کے بے کھٹکے گناہ کرتے رہتے ہیں کیوکہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر کسی کی سفارش نہیں چل سکے گی، ؟ (وحیدی، ترجمان ) الانعام
52 ف 7 بلکہ ہر ایک کو اپنے عمل کی جوابد ہی خود کرنے ہے مطلب یہ ہے کہ ان بے چاروں نے آپ کا کیا بگاڑا ہے کہ آپ انہیں اپنے سے دوسر کریں ف 8 یعنی خدا کے طالب اگرچہ غیریب انہی کی خاطر مقدم ہے۔ (موضح ) جیساکہ معلوم ہو کہ مکی زندگی میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے اور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی اختیار کرنے والے زیادہ تر غلام موالی اور عام بے بس اور بے کس قسم کے لوگ تھے، قریش کے بڑے بڑے سردار کھاتے پیتے لوگ نبی صلعم کو طنعہ دیا کرتے تھے کہ تمہارے ساتھی اس قسم کے گھٹیا طبقہ کے لوگ ہیں۔ اگر ان کو اپنے پاس نہ بیٹھے دیں تو ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئیں گے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات سنیں گے۔ اس بارے میں متعدد روایات ثابت ہیں مثلا حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ قریش کے چند سردار نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وسلم کے پاس سے گزرے، اس وقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس صہیب (رض) خباب (رض) عمار (رض) اور ان جیسے اور غیریب قسم کے لوگ بیٹھے تھے کہنے لگے اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنی قوم سے یہی لوگ ملے ہیں۔ ؟َ کیا یہی لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے ہم سے اپنا فضل کیا ہے کیا ہم ان کے پیچھے چلنے والے ہو سکتے ہیں۔ انہیں اپنے پاس سے دفع کریں تو شاید ہم بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بات سے لیں اسی کے بارے یہ آیت نازل ہوئی (ابن جریر، ابن کثیر) الانعام
53 ف 9 یعنی سرداران قریش جو یہ مطالبہ کر رہے ہیں۔ ف 10 یعنی کیا بلال (رض)۔ صہیب (رض) خباب (رض) سالم (رض) عبد اللہ (رض) بن مسعود (رض) سعد (رض) بن ابی وقاص (رض) اور دوسے غریب اور بے کس مسلمان ہی اللہ تعالیٰ یو یہ ایسے نظر آئے ہیں کہ اس نے انہیں ہماری قوم میں سے چن لیا ہے۔ ف 11 یعنی دولتمندوں کو غریبوں سے آزمایا ہے کہ ان کو ذلیل دیکھتے ہیں اور تعجب کرتے ہیں کہ کیا یہ لا ئق ہیں اللہ کے فضل کے اور اللہ دل دیکھتا ہے کہ اللہ کا حق مانتے ہیں۔ ( موضح) در اصل اللہ تعالیٰ کے ہاں قدرو منزلت ہے تو انہی لوگوں کی ہے جو اخلاص سے اللہ کاشکر بجا لاتے ہیں چاہے وہ کتنے ہی غریب اور محتاج ہوں۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک خالی دینوی حسب و نسب اور خوشحالی کی کوئی قدر نہیں ہے جیسے فرمایا ان اکر مکم عند اللہ اتقاکم ( حجرات) کہ تم میں سے اللہ تعالیٰ کے نزدیک زیادہ باعزت وہ ہے جو سب زیادہ پر ہیز گار ہے الانعام
54 ف 12 پہلی آیت میں انکے طرد سے منع فرمایا اب اس آیت میں ان کے اکرام کا حکم دیا) (رازی) یعنی جھو لوگ کفر وشرک کے غلبہ کے باوجود اس پر آشوب دور میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت قبول کر کے مسلمان ہو رہے ہیں انہیں امن وسلامیت کو خوشخبری دے دیجئے یعنی یہ کہ اسلام لانے سے وہ اللہ کے عذاب سے مامون ہوگئے۔ اب ان اعمال پر مواخذ نہیں ہوگا جو وہ کفر کی زندگی میں کرتے رہے ہیں۔ المنار، عن ابن عباس (رض) اس سے معلوم ہوا کہ نیک لوگوں کا احترام کرنا چاہیے اور انہیں ناراض نہیں کرنا چاہیے (قرطبی) ف 1 نادانی سے گناہ کر بیٹھنے کا مطلب اس ککے انجام بد کو نہ سمجھنا ہے۔ ( دیکھئے سورۃ نسا آیت 17) اوپر کی آّیتوں میں انذار تھا اب اس آیت میں تبشیر ہے۔ یعنی حق ظاہر ہوجا تے ہیں کہ اس پر عمل کیا جاسکے اور مجرموں کی راہ واضح ہوجائے تاکہ اس سے اجتناب کیا جا سکے ( جلالین) اس آیت سے معلوم ہوا کہ جو لوگ دعوت وتبلیغ کا کام کرتے ہیں ان کو مخالفین (مجرمین کے) ہتھکنڈوں اور دلائل سے بھی پوری طرح باخبر ہونا چاہیے تا نہ ان کی تردیدی ہو سکے صح بہ کرام میں یہی خوبی تھی کہ ایک طرف تو وہ اسلام کو خوب سمجھتے تھے اور دوسری طرف جاہلیت کے رسم وراج اور قوانین سے پوری واقفیت رکھتے تھے یہ مضمون حافظ ابن القیم کی کتاب الفوائد میں خوب بیان ہو اہے۔ الانعام
55 ف 3 اوپر کی آیت میں تو یہ بیان ن ہوا کہ اللہ آیات کو کھول کھول کر بیان کرتے ہیں تاکہ حق واضح ہو۔ اور مجرموں کاراستہ ظاہر ہوجائے اب اس آیت میں مجرموں کے راستہ پر چلنے سے منع فرمایا جس سے یہ بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ ان کاراستہ کیا ہے۔، (رازی ) الانعام
56 3 یعنی نزول عذاب کا جو مطالبہ کررہے ہو یہ میرے اختیار میں نہیں ہے الانعام
57 ف 5 معلوم ہوا کہ انبیا کو معجزات پر کوئی اختیار نہیں ہوتا یہ اختیار صرف اللہ تعالیٰ کے حاصل ہے۔ الانعام
58 ف 6 یعنی اگر عذاب کا لانا میرے اختیار میں ہوتا تو میں تمہاری تکذیب کی وجہ سے اب تک تمہیں ہلاک کرچکا ہوتا،) رازی ) 7۔ کہ کب ان پر عذاب بھیجا جائے اور کب تک انہیں مہلت دی جائے (رازی ) الانعام
59 ف 8 یعنی خلق میں سے کسی ایک کو بھی تو امور غیبہ کا علم حاصل نہیں ہے یہ خاصہ خدا ہے۔ (سلفیہ) اس سے معلوم ہوا کہ جو نجومی یا پنڈت یار تال یا جفار اپنی غیب دامی کا دعوی کرتے اور لوگوں کو آئندہ پیش آنے والی باتیں بتاتے ہیں ہو سب جھوٹے اور ٹھگ ہیں اور ان کے پاس جانا کسی مسلمان کا کام نہیں ہے اس لیے ایک حدیث میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد ہے من اتی کاھنا او منجما فقد کفر یما انزل علی محمد کہ جو کسی کاہن یا نجومی کے پاس گیاہ اس نے اس چیز کا انکار کردیا جو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کی گئی (از شوکانی) مزید دیکھئے (لقمان آیت 34) ف 9 یعنی اس کائنات کی چھوٹی سے چھوٹی اور پوشیدہ سے پوشیدہ ہر چیز لوح محفوظ میں درج ہے۔ (رازی ) الانعام
60 ف 10 یعنی تمہیں دن کو نیند سے اٹھاتا ہے۔ بعض نے قبروں سے اٹھانا بھی مراد لیا ہے (ابن کثیر ف 11 یعنی تم میں ہر ایک کے لیے جو رزق اور مدت عمر معین ہے وہ پوری ہو (رازی) ف 12 یعنی اچھا کیا ہوگا تو اچھا بدلہ دے گا اور برا کیا ہوگا تو برا بدلہ دے گا اوپر کی آیت میں کمال علم کا بیان تھا اور اس سے کمال قدرت ثابت ہوتی ہے۔ (رازی) الانعام
61 ف 1 اس میں شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ عرش کے اوپر ہے جیساکہ قرآن کی متعد آیات اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہے تاہم اللہ تعالیٰ کی قاھر فق عبادہ ہونے کے معنی یہ ہیں کہ وہ اپنے بندوں پر کامل غلبہ اور اقتدار رکھت ہے جنانچہ امام رازی لکھتے ہیں کہ یہاں فوقیتہ سے مراد قہر و قدرۃ ہے نہ کہ فوقیت بمعنی الجھتہ کیوں کہ مکان کی بلندی قہر اور غلبہ کو مستلز م نہیں ہے بغوی لکھتے ہیں کہ : القاھر الغالب وفی القھر زیادۃ معنی القدرۃ وھو منع غیرہ عن بلوغ المررام المراد ( معالم) یعنی قاہر کے معنی لکھتے ہیں کہ یہاں فوقیتہ سے مراد قہر وقدرت ہے یعنی خود قادر ہونے کے لیے ساتھ دوسرے کو مراد حاصل کرنے سے روک دینے والا۔ اللہ تعالیٰ کی صفت قہاریت یہ ہے کہ کائنات کو عدم سے وجود بخشا اور پھر وجود پر قنا اور فساد طاری کرتا رہتا ہے۔ پس ممکنات میں جس قدر بھی کون دفساد ہورہا ہے سب اللہ تعالیٰ کی صفت قہاریت کا مظہر ہے اور آیت قل اللھم مالک الملک الخ۔ صفت قہاریت کے پوری طرح تشیریح کر رہی ہے۔ (کبیر) جو تمہاری آفات سے حفاظت کرتے ہیں نیز تمہارے اعمال کو محفوظ کرتے ہیں علما کے نزدیک یہاں حٖظتہ سے اعمال لکھنے والے فرشتے مراد ہیں۔ ( کبیر) نیز دیکھئے (انفطار آیت 10 ق 18) ف 3 یعنی جس کی جان قبض کرتے ہیں اللہ کے حکم سے اس کے مقررہ وقت پر کرتے ہیں نہ اس سے پہلے نہ اسکے بعد اصل میں جان تو ملک الموت قبض کرتا ہے مگر اس کے ساتھ رحمت اور عذاب کے فرشتے ہوتے ہیں۔ حضرت انس (رض) سے لوگوں نے دریافت کیا کہ آیا موت کا فرشتہ ایک ہے یا بہت سے ؟ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں ہی جواب دیا اور دلیل میں یہ آیت تلاوت کی (المنار) نیز دیکھئے سورت سجدہ آیت 11 درحقیقت موت وحیاۃ تو اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہے ( حج 66) مگر فرشتے چونکہ اس کی طرف سے مامور ہیں اس لیے ان کی طرف بھی روح قبض کرنے کی نسبت کردی گئی ہے۔ (قرطبی) الانعام
62 جس نے اپنے حکم سے انہیں دنیا میں بھیجا تھا، ف 4 جس نے اپنے حکم سے انہیں دنیا میں بھیجا تھا ، ف 5 موت کے ساتھ ہی آن کی آن میں اعمال کے اثرات ظاہر ہوجائنیگے یالمحہ بھر میں انسان کی عمر بھر کی برائی واضح کردے گا۔ (رازی) یاجلد حساب ہونے والا ہے یعنی مرنے کے بعد (نیز دیکھئے سورت بقرہ۔ 606) الانعام
63 ف 6 مگر بعض ایسے بدبخت بھی ہیں جو مشکل کے وقت بھی دوسروں کو پکارتے ہیں۔ الانعام
64 ف 7 یعنی جب نجات پالیتے ہیں تو بجائے شکر گزاری کے کفر کرنے لگتے ہو الانعام
65 ف 8 جیسے بارش طوفان بجلی اولے آندھی وغیرہ حضرت ابن عباس (رض) اوپر کے عذاب سے ظالم حکمران بھی مراد لیتے ہیں۔ ( درمنشو ر) ف 9 جیسے زلزلہ قحط اور زمین میں دھنسنا وغیرہ ف 10 اور یہ وہ عذاب ہے جس سے مسلمان محفوظ نہ رہے حضرت سعد بن ابی وقاص سے روایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ تعالیٰ تین چیزوں کی درخواست کی پز اوپر اور نیچے سے عذاب کے متعلق تو اللہ تعالیٰ نے دعا قبول فرمالی مگر تیسری دعا کہ میرے امت آپس کے تفرقے اور جنگ وجدال سے محفوظ رہے مگر منظور نہیں فرمائی (مسلم) ف 11 وار اپنی روش سے باز آجائیں، حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں عذاب یہ بھی ہے کہ آپس میں لڑادے اور ایک دوسرے کو قتل یا قید کرے حضرت نے سمجھ لیا کہ یہ اس امت پر بھی ہوگا اکثر عذاب الیم شدید عظیم انہی باتووں کو فرمایا ہے لیکن ان پر جو کافر ہیں ( از موضح ) الانعام
66 ف 12 بہ کی ضمیر عذاب کی طرف بھی راجع ہو سکتی ہے قرآن یا تصریح آیات کی طرف بھی (رازی) یعنی میرا یہ کام نہیں ہے کہ تمہاری تمہاری تکذیب اور بد تمیزی پور خود عذاب نازل کر دوں نہ میرا کام تو صف یہ ہے کہ تمہیں اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچا دوں نہ ماننے کی وعید پر متنبہ کر دو، اس کے بعد عذاب بھیجنا یا نہ بھیجنا اللہ کے اختیار میں ہے اور اسے بچنے کی فکر کرنا تمہارا کام ہے۔ الانعام
67 ف 13 اس میں کفار کو تہدید ہے۔ (کبیر) یعنی اللہ تعالیٰ کو دی ہوئی خیر غلط نہیں ہو سکتی لیکن اس کا وقت آئے گا تو وہ بھی نازل ہوجائے گا اس وقت تم خود جان لو گے کہ جس چیز سے تمہیں باربار ڈرارہا تھا وہ کہاں تک سچی تھی اس عذاب سے مراد آخرت کا عذاب بھی ہوسکتا ہے اور وہ عذاب بھی جو دنیا میں بصورت حرب وقتال کفار پر آیا، (کذافی الکبیر ) الانعام
68 ف 14 یعنی ان پر نکتہ چینیاں کرتے ہیں اور الٹے سیدھے معنی پہناکر ان کا مذاق اڑاتے ہیں۔ (قرطبی) ف 15 اس میں اس شخص کے لیے بڑی تنبیہ ہے جو اہل بدعت کی مجلسوں میں بیٹھتا ہے جو کتاب وسنت کو چھوڑ کر اپنی خواہشوں اور بدعتوں کو پیروی کرتے ہیں ایسا شخص اگر ان بدعتوں کو ان حرکات سے باز نہیں رکھ سکتا تو کم سے کم درجہ یہ ہے کہ ان سے میل جول نہ رکھے اور نہ ان کی مجلسوں میں بیٹھے اہل بد عت کی صحبت اس صحبت سے بھی کئی درجہ بدتر ہے جس میں گناہوں کا علانیہ ارتکاب کیا جاتا ہے خصوصا اس شخص کے لیے جو علمی اور زہنی اعتبار سے پختہ نہ ہو۔ ( شوکانی) اہل بد عت کی مجلسوں میں شریک ہونا ان کی توقیر اور حوصلہ افزائی ہے۔ حدیث میں ہے من وقر صاحب بد عتہ فقد اعان علی ھدم الا سلام۔ کہ جس نے کیسی نے بدعتی کی تو قیر کی اس نے اسلام کی عمارت گرانے میں مدد کی۔ ( قر طبی) ف 1 یعنی جب جہلا دین پر نکتہ چینی کریں تو انکی مجلس سے سرک جاتے اور اگر خطرہ ہو کہ باتو میں مشغول ہو کروہاں سے سرکنا بھول جاوے گا تو نصیحت کرنے کے وقت کے علاوہ ان میں بیٹھنا موقوف کرد یا جائے ( از موضح) الانعام
69 ف 2 حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ جب مشرکین کے ساتھ بیٹھنے کی ممانعت ہوگئی تو مسلمانوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں عرض کی کہ اس قطع تعلق کی صورت میں ہم نہ مسجد میں جاسکتے ہیں اور نہ طواف کرسکتے ہیں اس وقت یہ آیت نازل ہوئی کہ تم ان کے پا بیٹھ سکتے ہو لیکن اس شرط کے ساتھ کہ ان کو نصحیت کرتے رہو شاید کہ وہ اس قسم کی یا وہ گوئی سے باز آجائیں ( کبیر قرطبی) مگر اس صورت میں بعض نے کہا ہے کہ یہ آیت سورۃ نسا انکم اذا مثلھم سے منسوخ ہے (دیکھئے نسا آیت 140) حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ یعنی کوئی جانے کہ ایسے جاہلوں کو پاس نصیحت کو بھی نہ بیٹھو تو اپنے اوپر گناہ نہیں ان کے گمراہ رہنے کا لیکن نصیحت بہتر ہے کہ شاید ان کو ڈرہو تو نصیحت والا ثواب پاوے۔ (مو ضح) اور یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ پر ہیز گا اگر ان کی مجلس میں بیٹھ جائیں تو کچھ حرج نہیں ہے لیکن ہم نے اعراض کا جو حکم دیا ہے تو اس کی نصحیت کے پیش نظر کہ شاید تمہارے اعراض کی وجہ سے وہ اس قسم کی بیہودگی سے باز آجائیں واللہ اعلم (ابن کثیر ) الانعام
70 ف 3 کھیل کود اور تماشے ہی کو اپنا دین بنالیا ہے ان کے حال پر چھوڑ دے یعنی ان کی کوئی پرانہ کرو۔ (وحیدی) یا کہ کہ تھو ڑی دیر کے لیے دنیا میں ان کو مہلت دیجئے آخر کار یہ عذاب الیم میں گرفتار ہونے والے ہیں۔ (ابن کثیر) ف 4 یعنی قیامت کے روز اپنے اعمال کی سزا میں گرفتار ہو یا ذلیل ہو۔ (وحیدی) شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ چھوڑ دے یا صحبت نہ رکھ ان سے مگر نصیحت کردی کہ کوئی بے خبر نہ پکڑا جاوے ( موضح) ف 5 یعنی جن لوگوں نے اپنے دین کو کھیل اور تماشا بنا رکھا ہے دین کے معاملہ میں کسی احتیاط سے کام نہیں لیتے بلکہ اپنی خواہشوں کے مطابق حلال حرام کو مسئلے بنارکھے ہیں اور اپنے آبا واجداد کی تقلید کو ہی ذریعہ نجات سمجھ رکھا ہے اور پھر دنیا کی محبت کا ان کے دلوں پر اس قدر تسلط ہے کہ اصل حقیقت کو چھوڑ بیٹھے ہیں ایسے لوگوں پر آخرت میں نجات کے تمام ذرائع مسدود کردئے جائیں گے یعنی نہ ان کا کوئی حمایتی ہوگا اور نہ سفارشی اور نہ ان سے فدیہ قبول کیا جائے گ الغرض ان کی ہلاکت کے سپرد کردیا جائے گا اور کوئی چیز بھی ان سے اللہ تعالیٰ کے عذاب کو دفع نہیں کرسکے گی، (رازی) الانعام
71 ف 6 یعنی توحید کی سیدھی راہ چھوڑ کر پھر شرک میں مبتلا ہوجائیں اگر ہم ایسا کریں تو ہماری مثال ایسی ہوگی آیت سے مقصود بت پرستوں کی تردید ہے اور آیت قل انی نھیت ان اعبد الذین الخ کی تاکید ہے (رازی) ف 7 مگر وہ ان کی کوئی بات نہ سنے اور ان بھتنوں کی بات پر چلتا رہے جس کے نتیجہ میں آخر کار تباہ وبرباد ہو (وحیدی) یہ آیت ان مشرکین کے جواب میں نازل ہوئی جنہوں نے مسلمانوں کو شرک کی دعوت دی بعض نے لکھا ہے کہ یہ آیت حضرت عبد الر حمن بن ابی بکر الصدیق کے بارے میں نازل ہوئی جو حضرت بلاتے اور حضرت صدیق ان کو ایمان کی دعوت دیتے، بآ لا خر عبد الر حمن مسلمان ہوگئے مگر علمائے محققین نے لکھا ہے کہ یہ صحیح نہیں ہے ایک مرتبہ مروان نے اسی آیت کو عبدالر حمن کے بارے میں میں بطور طعن پڑھا تو حضرت عائشہ (رض) نے اس کی پر زور تردید کی اور فرمایا کہ آل ابوبکر کے بارے میں کوئی ایسی آیت نازل نہیں ہوئی جس سے ذم کا پہلو نکلتاہو۔ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ (رض) کی یہ تردید اصح اسناد اواولیٰ بالقبول ہے۔ و اللہ اعلم۔ (فتح الباری تفسیر سورت احقاف ) الانعام
72 الانعام
73 ف 1 یعنی حشر کے دن جب وہ تمام مردوں کو زندہ کرنا چاہے گا ف 2 یعنی دنیان میں مجازی طور پر جن لوگوں کو بادشاہ کہا جاتا ہے ان کی مجازی بادشاہی بھی اس روز ختم ہوجائے گی لمن الملک الیوم اللہ الو احد القھار۔ (حم السجدہ نیز سورت فاتحہ آیت مالک یوم الدین پہلے ایک صور پھو نکا جائے گا تو گھبرا جائے گی پھر دوبارہ پھونکا جائے گا تو ساری خلقت فناہو جائے گی پھر تیسری بار پھونکا جائے گا تو سب زندہ ہو کر ایک جگہ جمع ہوجائے گی، بعض نے لکھا ہے کہ نفخہ در اصل دوبارہ ہوگا بہلے کو نفخہ فزع یاصعق (فنا) کہا جاتا ہے اور دوسرے کو نفخہ قیام واللہ اعلم (قرطبی، ابن کثیر) ایک شخص کے سوال پر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا صور ایک نر سنگا ہے ( مسند امام احدمی) دوسری حدیث میں ہے کہ صور اسرافیل اپنے منہ میں لیے اللہ تعالیٰ کے حکم کا انتظار کر رہے ہیں جس دن انہیں حکم ملے گا وہ اس میں پھونک ماریں گے۔ (مسلم) پس صحیح یہی ہے کہ صور ایک قرن (نر سنگا) ہے اور اہل سنت کا اس پر اجماع ہے۔، ( فتح البیان) جولوکہتے ہیں کہ صور جمع ہے صورۃ کی اور اس سے مراد مخلوق کی صورتیں ہیں تو قرآن و احادیث صحیحہ کی رو سے یو قول مردود ہے مزید تفصیل کے لیے دیکھئے سورت انحل آیت 87) قرطبی) ف 3 یعنی جو بندوں کے اعتبار سے غیب (پوشیدہ اور شہادت حاضر ہے ورنہ اللہ تعالیٰ کے لیے تو وئی بھی چیز پوشیدہ نہیں ہے سب حاضر ہی حاضر ہے۔ ( وحیدی) ف 4 جو خدا یہ صفات رکھتا ہے وہ اس لائق ہے کہ تم اس کی فرمانبرداری اختیار کرو اسی کے بندے بن کر رہو اور سمجھو کہ تمہیں ہر عمل کا بدلہ پانا ہے۔ الانعام
74 ف 5 اوپر کی آیات میں توحید کا اثبات اور شرک کا بطال کرتے ہوئے مشرکین مکہ کے غلط عقا ئد پر تبقید کی گئی اب شرک کی تردید کے لیے حضرت ابراہیم کا قصہ بطور تائید بیان فرمایا ہے کہ وہ توحید کے سب سے بڑے داعی اور شرک سے بیزار تھے اور مسلمانوں کے سجھایا کہ دیکھو انہوں نے کسی طرح قوم سے علحدگی اختیار کی، مشرکین مکہ حضرت ابراہیم کے دین پر ہونے کے دعویدار تھے جب ابراہیم موحد تھے تو اب شرک کے جواز پر تمہارے پاس کون سی دلیل باقی رہ جاتی ہے حضرت ابراہیم کے قصہ کا ماقبل سے ربط بیان کرتے ہوئے حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ اوپر جو فرمایا کہ مسلمان کو چاہیے کہ کافروں سے کہیں کہ ہم دیوانے کی طرح بہکتے نہیں اس پر آگے قصہ فرمایا حضرت ابراہیم کا کہ جب اپنے نزدیک معبود بر حق پالیا پھر قوم کے بہکائے نہ بہکے (مو ضح) علمانے انسان کی اکثریت نے حضرت ابراہیم کے والد کا نام آرخ یا تارخ لکھا ہے ممکن ہے آرخ نام اور آزر لقب ہو مجاہد کہتے ہیں کہ آزر ایک بت کا نام تھا شاید اس کی خدمت میں زیادہ رہنے کی وجہ سے خوان کا نام بھی آزر پڑگیا ہو واللہ اعلم ( ابن کثیر ) الانعام
75 ف 6 اور اس سے دلائل دینتا کے مراتب کے طرف اشارہ ہے (رازی) کہ ہم نے ان کو نظام کائنات کا اسرا سمجھا دیئے جو معرفت توحید کی بہت بڑی دلیل ہے واضح رہے کہ یہ رویت بصری نہیں تھی بلکہ رویت بلحاظ بصیرۃ کے تھی جیسا کہ بعد کی تفصیل سے ثابت ہوتا ہے۔ ف 7 یعنی انہیں عین الیقین حاصل ہو اور پورے اطمینان قلب کے ساتھ اپنی قوم کو توحید دعوت سے سکیں الانعام
76 الانعام
77 ف 8 حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) نے اپنی قوم سے یہ بات یا تو تو استفہام انکاری کے لہجہ میں فرمائی یعنی کیا یہ میرا رب ہے یا بطور ایسے مفروضہ کے جو صحیح نہیں ہوسکتا تھا کہ آگے چل دلنشیں طریقہ سے ان کے عقیدہ کی غلطی واضح کی جاسکے کیونکہ وہ لوگ کو اکب (ستاروں) کی پر ستش کرتے تھے اور انہیں کو اپنے رب سمجھتے تھے۔ (رازی) ف 9 یعنی سیدھی اور سچی راہ پر قائم رکھے گا۔ الانعام
78 ف 10 اب اصل بات کھولی اور اپنا عقیدہ واضح کیا پہلی تمام باتیں صرف اس لیے تھیں کہ یہ جاہل لوگ اصل حقیقت کے قاتل ہوں اور اپنے عقیدہ کی غلطی پر غور کریں۔ (وحیدی) اکثر علمائے تفسیر نے لکھا ہے کہ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کے پیدا ہونے کے بعد ان کو ایک غار (سرب) میں ڈال گیا تھا تاکہ بادشاہ قتل نہ کردے اور یہ کوکب قمر اور شمس کا ْقصہ وہیں پیش آیا اور حضرت ابراہیم نے تدریجا اللہ تعالیٰ کی خالقیت اور توحید کی معرفت حاصل کی مگر صحیح یہ ہے کہ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کی یہ ساری گفتگو قوم کے ساتھ مناظرہ کے دوران میں ہے جیسا کہ آخر میں یاقوانی بری مما نشر کون اس پر فددلالت کرتا الانعام
79 ف 11 س سے منہ موڑ کر کسی اور کے در پر بیٹھ رہنے میں جہالت گمراہی اور دنیا و آخرت کی تباہی کو سوا کچھ نہیں ہے۔ الانعام
80 ف 1 قوم کے ساتھ یہ مناظرہ ہوا تو ان کی قوم نے عقیدہ کی صحت پر بہت سے دلائل پیش کئے مثلا انہوں نے ( انا وجد نا ابائ علی امتہ) کی دلیل پیش کی نیز حضرت ابرہیم ( علیہ السلام) دھمکی دی کہ بت تمہیں آفات وبلیات میں مبتلا کردیں گے حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) و قد ھدان سے پہلی لیل کا جواب دیا کہ دلیل یقینی کے مقابلے میں تمہارا دین آبا نے معنی ہے اور انکی دھمکی کے جواب میں فرمایا کہ پروردگار کی طرف سے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ اور بات ہے مگر یہ تمہارے بت اور جھوٹے پروردگار میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ (رازی) ف 2 کہ یہ بے جان بت کچھ حقیقت نہیں رکھتے، (ابن کثیر ) الانعام
81 ف 3 یہ اوپر کی آیت میں دوسرے جواب کا تتمہ ہے یعنی میں تمہارے ان معبودوں سے کیوں ڈروں جبکہ مجھے یقین ہے کہ مجھے کو کوئی نفع یا نقصان نہیں پہنچا سکتے، ڈرناتو تمہیں چاہیے جو بے دلیل اللہ کے ساتھ شریک بناکر ظلم عظیم کا ارتکاب کر رہے ہو۔ (کبیر) ف 4 کیا تم مشرکین جو ان بتوں کے متعلق محض وہم پرستی کی راہ سے یہ سمجھ رہے ہو کہ شاید یہ نفع ونقصان پہنچاسکتے ہیں یا ہم خالص توحید پرست جنہیں یہ یقین اراطمینان حاصل ہے کہ اللہ ہی ہر نفع ونْقصان پر قادرہے اور اس کے سوا دنیان کی کوئی زندہ یا مردہ ہستی ہمارا ذرہ بھر نقصان نہیں کرسکتی اس امت کے کلمہ پیر پرست بھی اہل توحید سے کہتے ہیں کہ جو شخص بڑئے پیر کی گیارہویں چھوڑدے اس کا بیٹا یا بھینس مرجاتی ہے یا کوئی اور نقصان پہنچ کرجاتا ہے تو ان کا بھی یہی جواب ہے جو حضرت ابراہیم نے فرمایا (سلفیہ بحوالہ فتح ) الانعام
82 ف 5 یہ اللہ تعالیٰ کارشاد بھی ہوسکتا ہے اور حضرت ابرہیم ( علیہ السلام) کے قول کی تکمیل بھی، بخاری ومسلم میں حضرت عبد اللہ (رض) بن مسعود سے روایت ہے کہ جب یہ آیت نال ہوئی تو صحا بہ کرام (رض) نے عرض کیا کہ ہم میں ایسا کون ہے جس نے اپنے آپ پر ظلم نہ کیا ہو (یعنی کسی گناہ کا ارتکاب نہ کیا ہو) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس کا مطلب وہ نہیں جو تم سمجھ رہے ہو بلکہ ظلم سے مراد شرک ہے جیسا کہ لقمان نے اپنے بیٹے سے کہا تھا ان الشرک لظلم عظیم کیونکہ شرک بہت بڑا ظلم ہے (بخاری) پس یہ شرک ظلم عظیم ہے خواہ وہ دلائل توحید رب العالمین میں یا رسالت سید المر سلین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں (سلفیہ بحوالہ ابن کثیر ) الانعام
83 ف 2 اس حجت سے مراد وہ دلائل توحید ہیں جو قوم کے مقابلے میں حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) نے پیش کئے یہ دلائل اللہ تعالیٰ نے قوم کے مقابلہ میں حضرت ابرہیم ( علیہ السلام) کو عطا فرمائے تھے اس سے بھی اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ باتیں عہد طفولیت کی نہیں ہیں کہ آپ شرک سے درجہ بدرجہ توحید کی طرف بڑھے ہوں کیونکہ اللہ کا نبی معرفت الہی میں کبھی غلطی نہیں کرتا۔ (رازی) ف 7 یعنی چونکہ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) نے اپنی جان کو کوئی پروانہ کی اور اپنے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو توحید کی دعوت دینے کے لے وقف کردیا اس لئے ہم نے بھی ان پر بڑے بڑے احسانا فرمائے دنیا ہی میں انہیں یہ انعام دیا کہ نیک اولاد سے نوازار اور ان کے بعد ان کی ذریت میں نبوت اور کتاب اتارنے کا سلسلہ جاری کردیا اور اسی سلسلے کے آخری نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ الانعام
84 ف 8 یعن حضر ابراہیم ( علیہ السلام) ہی کو را پر لگایا اور نبوت عطاکی، ( دیکھئے سورۃ مریم آیت 49 (ف 9 ضمیر کا مرجع حضرت نوح ( علیہ السلام) ہیں اسلیے کہ وہ مذکورین سے اقراب ہیں۔ ابن جریر (رح) نے اسی کو اختیار کیا ہے، گویہ ضمیر حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کی طرف بھی لوٹ سکتی ہے اور سیاق کلام کے پیش نظر بعض نے اسی کو ترجیح دی ہے لیکن اس کے تحت مذکورین میں حضرت لو ط ( علیہ السلام) کی ذریت میں سے نہ تھے مگر ہوسکتا ہے کہ تغلیبا ان کو ذریت قرار دے دیا ہو ( ابن کثیر ) الانعام
85 ف 10 حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کو حضرت ابرہیم ( علیہ السلام) یا دوسرے قول کے مطابق حضرت نوح ( علیہ السلام) کی ذریت میں شمار کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ لڑکیوں کی اولاد بھی آدمی کی ذریت میں شمار ہوتی ہے کیونکہ حضرت عیسیٰ ٰ ( علیہ السلام) کی نسبت صرف ماں کی طرف ہے ان کا باپ نہیں تھا، ( ابن کثیر ) الانعام
86 ف 11 حضرت الیاس ( علیہ السلام) حضرت ہارون ( علیہ السلام) کی اولاد میں سے تھے، انجیل میں ان کا نام ایلیا مذکور ہے واللہ اعلم، (المنار) ف 12 یعنی اخطوب بن عجوز جو انبیائے بنی اسرائیل میں سے تھے اور حضرت الیاس ( علیہ السلام) کے خلیفہ تھے۔ (المنار ف 13 یعنی اپنے اپنے زمانہ کے تمام لوگوں پر ( وحیدی ) الانعام
87 الانعام
88 ف 1 یعنی بفرض محال اگر نبی ہو کر بھی شرک کر بیٹھے تو ان کا کیا کرایا سب اکارت ہوتا کیونکہ شرک کے ساتھ کوئی بڑے سے بڑا عمل بھی عمل قبول نہیں ہوتا۔ (وحیدی) الانعام
89 ف 2 یعنی کتاب شریعت اور نبوت کو اور یہ بھی ترجمہ ہوسکتا ہے کہ اگر اس یعنی نبوت کو نہ مانیں ( ابن کثیر) ف 2 یعنی اہل مدینہ اور انصار اس کی یہ تفسیر حضرت ابن عباس سے منقول ہے (شوکانی) یا مہاجرین اور انصار اور قیامت تک جتنے بھی ان کے اتباع ہوں گے یعنی وہ ان نعمتوں کا انکار نہیں کرتے بلکہ پوری کتاب پر ایمان لاتے ہیں۔ (ابن کثیر ) الانعام
90 ف 4 یعنی توحید اور اصول عقائد میں ان کی راہ پر قائم رہیے کیونکہ تمام انبیا باتوں میں متفق ہیں یا مطلب یہ ہے کہ ان کی طرح آپ بھی دشمنوں کی ایذا رسانی پر صبر کریں (وحیدی) اس آیت میں اس بات کی دلیل ہے جن امور میں کوئی نیاحکم نہیں آیا ان میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پہلے انبیا ہی رہنے کا حکم تھا، بخاری کی ایک روایت میں حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ اس لیے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سورۃ ص میں سجدہ فرمایا کیونکہ جس مقام پر یہ سجدہ ہے وہاں حضرت داود کے سجدہ کرنے کا ذکر ہے۔ ( شوکانی) ف 5 اس سے معلوم ہوا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ثقلین ( جن وانس) کی طرف مبعوث ہیں اور آپ کی رسالت قیامت تک کے لیے ہے۔ (وحیدی ) الانعام
91 ف 6 حضرت ابن عباس اور بعض دیگر تابیعن نے کہا ہے کہ اس سے قریش مراد ہیں جو کہ رسالت کے منکر تھے۔ (ابن کثیر) بعض نے گزشتہ سلسلئہ کلام اور بعد کی جوابی تقریر کو قرینیہ بناکرلکھا ہے کہ یہ علمائے یہود کا دعویٰ تھا جسے کفار قریش دلیل بناکر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت سے انکار کیا کرتے تھے یہودی پڑھے لکھے تھے اور ان کے پاس گزشتہ انبیا کا علم بھی تھا اس لیے کفار قریش نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں دریافت کرنے کے لیے اکثر ان کی طرف رجوع کیا کرتے تھے معلوم ہوتا ہے کہ کسی ایسے ہی موقع پر انہوں نے یہ بات کفار قریش سے بطور جواب کہی اور ضد اروہٹ دھرمی میں اندھے ہوکریہ بھی بھول گئے کہ اس کی زد کا براہ راست ان سے خطاب کر کے جواب دیا ہے (ملخص المنار) مگر ابن جریر نے پہلے قول کو پسند کیا ہے اور حافظ ابن کثیر نے لکھا ہے، ولاول اضح باقی رہا قل من انزل الکتاب الذی۔۔ الخ تو یہ بھی قریش پر الزام ہے کیونکہ وہ موسیٰ ( علیہ السلام) کی رسالت کے قائل تھے اور پھر صمنا یہود سے خطاب ہے۔ ( ابن کثیر) ف 7 یعنی تم نے توارۃ کے الگ الگ حصے بنا رکھے ہیں جو حصہ تمہارے مطلب کا ہے اسے تو ظاہر کرتے ہو اور جو حصہ تمہارے خود ساختہ عقائد اور من مانی کاروائیوں کے خلاف پڑتا ہے جسے رجم کا مسئلہ اور انبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے متعلق آیات) اسے چھپاتے ہو، ف 8 یعنی بہت سے احکام اور قصے اور بہت سے شریعت کے مسئلے اور حکمت کی باتیں جن کا توراۃ میں ذکر نہیں تھا۔ (کذافی الوحیدی) یا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ توراۃ کے ذریعے تمہیں وہ کچھ سکھا یا گیا جس کا تمہیں اور تمہارے باپ دادا کو کوئی علم نہ تھا اس صورت میں یہ تورات کی تیسری صفت ہوگی (کبیر) ف 9 اس کے یہی معنی حضرت ابن عباس (رض) سے منقول ہیں۔ ( ابن کثیر) ف 10 یعنی پڑے بک بک کرتے رہیں اور بچوں کی طرح اپنے کفریت سے کھیلتے رہیں۔ (وحیدی) عنقریب مرنے کے بعد ان پر ساری حقیقت کھل جائے گی، ( ابن کثیر ) الانعام
92 ف 11 کیونکہ دنیا اور آخرت کی سعادت تہذیب اخلاقی اور تزکیہ نفس میں ہے اور ان دونوں کا بیان قرآن میں جس جامعیت کے ساتھ ملتا ہے کسی دوسری کتاب میں نہیں پایا جاتا ہے (رازی) ف 12 اس آیت میں مکہ معظمہ کو ام القری فرمایا گیا ہے جس کی معنی ہیں تمام بستیوں کی جڑیا ان کا مرجع (کذافی الموضح) اور من حولھا سے مراد قبائل عرب ارسارے طوائف بنی آدم ہیں کیا عرب اور کیا عجم حدیث میں ہے وبعثٹ الی الناس عامتہ کی میں تمام لوگوں کی طرف مبعوث کیا گیا ہوں۔ ( دیکھئے آیت 19 نیز اعراف، 158) ف 13 کیونکہ قرآن مجید آخرت ہی کو درست کرنے کی راہ بتلارہا ہے (وحیدی) ف 14 کیونکہ تمام تمام عبادتوں کی اصل اور آخرت میں کامیابی کی کنجی ہے۔ (وحیدی) الانعام
93 ف 1 قرآن کی منزل من اللہ ہونے کو بیان کرنے کے بعد اب نبوت کا جھوٹا دعوی کرنے والوں کے حق میں وعید فرمائی اور اس وعید میں تین باتیں بیان فرمائی ہیں (رازی) آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو صادق اور امین تھے پھر آپ غلط طور پر نبوت کا دعوی کیسے کرسکتے ہیں۔ اس قسم کاغلط دعوی اگر کوئی شخص کرسکتا ہے تو وہی جو پر لے درجے کا جھوٹا ہے مکار ہو اور اس کا اللہ وآخرت پر ذرہ بھر ایمان نہ ہوجیسے مسیلمہ کذاب اسود عنی سجاح اور دوسرے سارے جھوٹے مدعیان نبوت ف 2 یہ تیسری چیز ہے جیسے اس زمانے میں بعض کفار قریش نضر بن حارث) نے کہا تھا لو نشا لقلنا مثل ھذا سورت انفال 31) اسی طرح مسیلمہ کذاب نے بھی معارضہ کا دعوی کیا تھا مگر قرآن کے باربار چیلنج کرنے کے باوجود قرآن جیسی ایک آیت بھی بناکر پیش نہ کرسکے (ابن کثیر) ف 3 اور انہیں ہمارے حوالے کرو کہ سزا دیں یا انہیں موت کی سختیوں اور عذاب سے تو بچاکر دکھا و (فتح القدیر) آج سے مراد وہ دن ہے جس میں ان پر عذاب قبر کی ابتدا ہوگی اس آیت میں عذاب کی طرف صاف اشارہ ہے (وحیدی) ف 5 یعنی اللہ کے شریک بناتے تھے، (وحیدی) ف 6 اور اس کے بھیجے ہو رسول اور اتاری ہوئی کتاب پر ایمان لانے کو بیوقوفی تصور کرتے تھے الانعام
94 ف 7 اس میں سے کچھ بھی اپنے ساتھ نہ لائے اور انہ وہ تمہارے کسی کام آیا۔ (وحیدی) ف 8 اور کہتے تھے کہ جس طرح اللہ اس بات کا حقدار ہے کہ ہم اس کی عبادت کریں یہ بھی حق رکھتے ہیں یہ بات ان سے تقریع اور توبیخ کے طور پر کہی جائے گی ( ابن کثیر ) الانعام
95 ف 9 یعنی جب وہ پھٹتے ہیں تو ان سے ہرے بھرے کھیت اور درخت اگتے ہیں۔ (کذافی الوحیدی) توحید ونبوت اور اس کی بعض تفریعات پر بحث کے بعد اب دوبارہ سانع حکیم کے وجود کا اثبات اور اس کے کمال علم و قدرت کا بیان شرع کیا ہے جو اس سورت کا اصل موضوع ہے۔ (رازی) ف 10 جیسے جاندار کو نطفہ سے اور نطفہ ی افضلہ کو جاندار سے سرسبز لہلہاتی کھیتی کو خشک دانے سے اور خشک دانے کوسر سبز لہلہلاتی کھیتی سے پیدا کرتا ہے۔ ف 11 سچے خدائے پاک وبر تر کو چھوڑکر اور روں کو اپنا معبود بناتے ہو۔ الانعام
96 ف 12 یاحساب سے بنایا پہلے ترجمہ کے لحاظ سے لوگوں کو دن مہینے اور سنہ معلوم ہوتے ہیں کہ او انہی کے مطابق وہ اپنے تمام کام سرانجام دیتے ہیں دوسرے ترجمہ کے لحاظ سے مطلب یہ ہوگا کہ چاند اور سورج اپنے، مقرر اوقات پر درہ کرتے ہیں حساب سے چلتے ہیں نہ وقت سے پہلے طلوع ہوتے ہیں اور نہ وقت سے پہلے غروب ہوتے ہیں۔ (وحیدی) یعنی رات دن اور چاند سورج کا یہ نظام اس زبر دست خدا کا انتظام ہے جس کا علم آسمان وزمین کے ذرہ ذرہ پر محیط عموما قرآن میں لیل ونہار اور وشمش وقمر کی خلق اور تسخیر کو اسمائے حسنی ٰ میں سے ان دو صفاتی ناموں کے ساتھ ختم کیا گیا ہے۔ (ابن کثیر ) الانعام
97 ف 1 یہ تاروں کا ایک فائدہ ہے دوسری آیت میں تاروں کو آسمان کے لے زینت اور شیطان کے لیے سنگساری (رجوم) کا سامان فرمایا ہے (دیکھئے سورت الصافات آیت 16 سورت ملک بعض سلف کا قول ہے کہ جو شخص ان تین فائدوں کے علاوہ کواکب کے متعلق اور کسی قسم کا عقیدہ رکھتا ہے وہ غلطی پر ہے اور اللہ تعالیٰ پر بہتان بابدھتا ہے۔ (ابن کثیر ) الانعام
98 ف 2 ٹھہر ن کی جگہ یعنی ماں کا رحم اور ایک سونپے جانے کی یعنی باپ کی پشت حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) اور مفسرین کی ایک جماعت سے اس کے برعکس بھی منقول ہے یعنی مستقر باپ کی پشت) اور مستودع (ماں کا رحکم) بعض نے ان سے دنیا اور آخرت ی اقبر بھی مراد لی ہے مگر حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں پہلا قول زیادہ واضح ہے شاہ صاحب لکھتے ہیں اول ماں کے پیٹ میں سپرد ہوتا ہے تاکہ آہستہ آہستہ دنیا میں رہنے کی صلاحیت پیدا کرے پھر دنیا میں آکر ٹھہر تا ہے پھر سپرد ہوگی قبر میں تاکہ آہستہ آہستہ آخرت کا اثر قبول کرسکے پھر جا ٹھہرے گا جنت یا دوزخ میں ( مو ضح) ف 3 اوپر دلائل آفاقی بیان فرمائے ہیں اور اس آیت میں دلائل نفسی کی طرف اشارہ ہے اور دلائل آفاقی سے دلائل انفسی کا سمجھنا ذرا زیادہ غور کا محتاج ہے اس لئے یہاں سمجھ کا لفظ فرمایا ہے اور اول کے متعلق علم کاو اللہ اعلم (وحیدی) ف 4 یعنی ہر قسم کی نبا تات۔، (فتح لقدیر) الانعام
99 ف 5 یا ایک کے پتے دوسروں کے پتوں سے ملتے ہیں مگر پھل نہیں ملتے۔ (وحیدی) ف 6 یہ محل استدلال کہے اور یہاں پر اس آیت سے مقصد استدلال کپورا ہوجاتا ہے (رازی) ایک پھل کی پہلے کونپل نکلتی ہے پھر وہ کچا پھل بنتا ہے پھر اس کا رنگ بدلتا جاتا ہے اور وہ برا بھی ہوتا جاتا ہے (وحیدی ) الانعام
100 ف 7 اوپر کی آیات میں جب اپنی الوہیت کے ثبوت میں علم علوی اور عالم سفلی سے براہین خمسہ ذکر فرمادیں تو اب بتایا کہ بعض فرقے ایسے بھی تھے جو اور واح خبیثہ اور جنات کی پرستش کرتے اور مصیبت کے وقت ان کے نام کی رہائی دیتے اور کائنات میں ان لا تصرف مانتے تھے ان سب کی اس آیت میں تردید فرمائی کہ بے سمجھ انہوں نے جنوں کو اللہ تعال کا شریک ٹھہرا لیا اور اس کے لیے بیٹے اور بیٹیاں گھڑلیں چنانچہ مشرکین عرب ملائکہ کو اللہ تعالیٰ کی بیٹاں کہا کرتے تھے، فرمایا اللہ تعالیٰ ان گھڑی ہوئی باتوں سے پاک ہے بعض سلف نے فرمایا کہ یہ آیت ان بے دینیوں مجوسیوں کے بارے میں نازل ہوئی جو اللہ تعالیٰ کو انسانوں، جانوروں چوپایوں اور ہر قسم کے خیرات کا اور شیطان (ابلیس کو درندوں سانپوں اور ہر قسم کے شر ور کا خال قرار دیتے تھے (وحیدی وغیرہ) یہ قول حضرت ابن عباس کا ہے اور مجوس کو زنا دقہ فرمایا ہے امام رازی لکھتے ہیں کہ زیر نظر آیت کو مذکورہ توحیات میں سے یہ توجیہ بہترین (کبیر ٌ ف 8 پھر مخلوق کو خالق کا شریک ٹھہرانا سراسر حماقت ارجہالت نہیں ہے تو کیا ہے۔ الانعام
101 ف 9 یعن ان کا پہلے کوئی نمونہ موجود نہ تھا اس نے ان کو ایجاد فرمایا مشرکین کی تردید کے بعد ان کی تردید کی ہے جو اللہ تعالیٰ کی اولاد مانتے تھے۔ (رازی) ف 10 اور بیٹا وہی ہوتا ہے جو بیوی کو ذریعے پیدا ہو اور اگر کسی کو بیوی کے بغیر بنایا جائے تو وہ مخلوق ہوتا ہے نہ بیٹا جیسا کہ آسمان زمین کی پیدائش یا آدم ( علیہ السلام) کی خلق (رازی ) الانعام
102 ف 11 یعنی صرف اللہ وحدہ لاشریک لہ کی عبادت کرو اور اس کی وحدانیت کا اقرار کرتے ہوئے یقین رکھو کہ ایک اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہی ہر چیز کا خالق حفیظ رقیب اور بڑارازق ہے (ترجمان ) الانعام
103 الانعام
104 ف 1 یعنی آنکھ میں یہ قوت نہیں ہے کہ اس کو دیکھ لر مگر جو وہ آپ کو دکھادے اس واسطے کے لطیف ہے (مو ضح) متعدد احادیث میں ہے کہ قیامت کے دن مومنین کو اللہ تعالیٰ کودیدار نصیب ہوگا، چنانچہ یہ اہل سنت و حدیث کا متفقہ عقیدہ ہے بعض سلف نے لکھا ہے کہ ادراک کے معنی کسی چیز کی حقیقت کو پالینے کے ہیں اور رو یت کے معنی آنکھ سے دیکھنے کے پس ادراک اخص ہے اور رویت اعم اور اعم کے نفی سے اخص کی نفی لاز م نہیں آتی مطلب یہ ہے کہ آیت میں ادراک کی نفی ہے لہذا دنیا رویت ہوسکتی ہے جیساکہ آخرت میں ہوگی حضرت عائشہ (رض) آنحضرت کے لیے رویت کی نفی کرتی تھیں اور ان کے استدلال کی بنیاد بھی اسی آیت پر تھی جو قرب الی الصواب معلوم ہوتا ہے مگر حضرت ابن عباس (رض) رویت کے قائل تھے اور کبھی وہ یہ بھی فرماتے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے دل کی آنکھ سے دو مرتبہ اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے (ابن کثیر) مزید دیکھئے سورۃ النجم (آیت 11۔13) ف 2 یعنی غور وفکر کر کے ایمان لائے، ف 3 یعنی ان دلیلوں پر غور نہ کرے اور ایمان نہ لائے۔ ف 4 کہ تمہیں تمہارے چاہینے یانہ چاہنے کے باوجود سیدھی راہ پر ڈال سکوں ہدایت دینا یا نہ دینا اللہ تعالیٰ کا کام ہے میرا کام تو یہ ہے کہ بندوں تک اس کا پیغام پہنچا دوں سو وہ پہنچا رہا ہوں الانعام
105 ف 5 یہاں تک الوہیت میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت پر شبہات کو بیان کیا ہے کبھی مومنوں کو خوش خبری کبھی کافروں کو تنبیہ کبھی گزشتہ قوموں کے وقعات کے ذریعے نصیحت اور کبھی اوامر ونواہی کا بیان تاکہ جو لگ عقل و فہم رکھتے ہیں وہ ان کے ذریعے راہ ہدایت پائیں اور مخالفین پر حجت قائم ہو ف 6 یعنی ہم تصرف آیات یعنی پھیر پھیر کر اس لیے بیان فرماتے ہیں کہ اگر ایک طرف آیات کے ذریعہ عقل وفہم والے راہ ہدایت پائیں گے تو دوسری طرف ضدی اور آباو اجداد کے رسم وراج سے چمٹے رہنے والے کا فرو مشرک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ کہہ کر کمرہوں گے کہ یہ قرآن جسے تم ہمارے سامنے بڑھ رہے ہو تم پر اللہ تعالیٰ کی جانب سے نازل نہیں ہوا بلکہ تم نے اسے کسی سے سیکھ لیا، ہے مشرکین اس قسم کے کئی اقوال دوسری آیات میں مذکور ہیں۔ (رازی قرطبی) ف 7 آیتوں کے بھیربھیر کر بیان کرنے کی پہلی حکمت یہ بیان کی ہے کفار اور معاند یہ کہیں کہ تم نے کسی سے یہ ْقرآن بذریعہ مذاکرہ اور مدارسہ سیکھ کر جمع کرلیا ہے تاکہ اس طرح زیادہ گمراہوں، اب یہاں دوسری حکمت بیان کی تاکہ اہل علم کے لیے بیان اور فہم حاصل ہو۔ (رازی) الانعام
106 ف 8 یعنی ان کے اس قسم کے لیے بنیاد سے متاثر ہو کر دعوت وتبلغ کر ترک نہ کرو اس سے مقصد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینا ہے۔ (کبیر ) الانعام
107 ف 9 یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی حماقتوں اور کفر سے متاثر نہ ہوں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے اندر ایمان وکفر دونوں کی استعداد رکھی ہے اور اس سے ان کا امتحان مقصود ہے کہ شکر گزار بنتے ہیں یا کفر اختیار کرتے ہیں اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو ان کو فرشتوں کی طرح بھی بنا سکتا تھا کہ فطری طور پر مومن اور تابعدار ہیں لیکن یہ اسکی حکمت کے خلاف تھا الانعام
108 ف 10 اور تم اس کاسبب بنو ایک جائز کام اگر کسی بڑی خرابی کا ذریعہ بنتا ہو تو اسے چھوڑدینا ضروری ہے ف 11 یعنی انسان کی فطرت ہی ایسی بنائی ہے کہ ہو اپنے ہر کام کو چاہے وہ فی نفسہ اچھا ہو یابرا اچھا ہی سمجھتا ہے لین اس میں غور و فکر کی صلاحیت بھی رکھی ہے کہ برے کام کو پوری آزادی ہے چھو ڑکر نیک راستہ اختیار کرسکتا ہے۔ الانعام
109 ف 12 جیسے صفا کی پہاڑی کو سونے کا بنا دینادیا جائے ف 13 یا یہ ایمان نہ لائیں گے، کیونکہ ان مقصد حق کی تلاش وجستجو نہیں بلکہ محض دل لگی ہے الانعام
110 ف 14 یعنی جیساکہ انہوں نے پہلی دفعہ چاند کے پھٹ جانے کی عظیم الشان نشانی دیکھی اور وہ ایمان نہیں لائے بہ کی ضمیر کامر جع آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں یا پھر قرآن۔ ف 15 یعنی جن کو اللہ تعالیٰ ہدایت دیتا ہے وہ پہلی دفعہ ہی حق کی بات سن کر انصاف سے قبول کرتے ہیں اور جس شخص نے پہلے ہی ضد سے یہ ٹھان رکھی ہے کہ زمانے کا ہی نہیں وہ معجزہ دیکھر کر بھی کچھ حیلہ بنالیتا ہے مثلا فرعون نے کتنے ہی معجزے دیکھے پر وہ ایمان نہ لایا۔ (از موضح) الانعام
111 ف 1 اوپر آیت وما یشعر کم انھا اذا جات لایو منو ن الخ میں جو مجملا بیان ہوا ہے یہاں اسی کی تفصیل ہے (رازی) یعنی اگر ہم نے کے تمام مطالبات پورے کردیں جیسے فرشتوں کو نازل کرنا اور مردوں کا کلام کرنا وغیرہ بلک مزید بر آں ہر چیز گروہ در گروہ یا آمنے سامنے لاکھڑی کردیں تو پھر بھی یہ ایمان نہیں لائیں گے، ف 2 کہ ہر چیز اللہ تعالیٰ کی قضا وقدر کے ساتھ ہے۔ الانعام
112 ف 3 ای جعلنا الک عدوا کما جعلنا من الا نبیا) لہذا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو گھبرانے کی ضرورت نہیں بلکہ جس طرح پہلے انبیا شریر دشمنوں کے مقابلہ میں صبر و استقامت سے کام لیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی ان کی ایذار سانی پر صبر کیجئے اور مایوسی اور گھبراہٹ کو اپنے اندر راہ نہ پانے دیجئے ف 4 یعنی اپنو سے سیدھی سادے لوگوں کو فریب دینے کے لیے چوری چھپے ایک دوسرے کو طرح طرح کو حیلے بازیاں اور مکار یاں سکھاتے ہیں ف 5 وہ چونکہ اتمام حجت کے لیے انہیں امتحان کا پورا پورا موقع دینا چاہتا ہے اور کسی کو اپنی نافرمانی سے زبر دستی باز رکھنا اس کی حکمت اروتکوینی نظام کے خلاف ہے اس لیے وہ انہیں ڈھیل دے رہا ہے، یعنی ان کی کوئی پروانہ کریں اور نہ ان کی بداعمالیوں پر رنجیدہ خاطر ہوں بلکہ ان کا معا ملہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیں وہ خود ان سے نبٹ لے گا۔ ( نیز سورۃ مدثر آیت ) الانعام
113 ف 7 یہ شیاطین ایک دوسرے کا چالبازیاں اور مکاریاں سکھاتے ہیں ( وحیدی) اس کا عطف غیر و دار ہے ای لیغرو ابذالک ولتصغی الیہ الخ۔ یہ توجیہ ان سب توجیہات سے ہتر ہے جو اس مقام پر ذکر کی گئی ہیں۔ ( رازی) ف 8 یعنی اس وحی کے مطابق شیاطین کے پیش نظر یہ سب مقاصد ہیں۔ رازی) حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یہ کئی آیتیں اس وقت نازل ہوئیں جب کفار کہنے لگاکہ مسلمان اپنا مارا ہوجانور کھاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے مارے ہوئے جانور کو حرام سمجھتے ہیں فرمایا کہ ایسی فریب کی باتیں شیطان کرتے ہیں تاکہ انسان کو شبہات میں ڈا لا جائے عقل کا حکم اللہ کا ہے۔ آگے پھر واضح طورسمجھا یا گیا کہ ہر جانور کو مانے والا اللہ ہی ہے اور اس کے نام میں برکت ہے سوجو اس کے نام پر ذبح ہو وہ حلال ہے اور جو اس کے نام کے بغیر مر گیا وہ مردرار ہے۔ (از مو ضح) الانعام
114 ف 9 ا پر کی آیات میں یہ بتادیا کہ یہ کفار کسی صورت ایمان نہیں لائیں گے لہذا ان کے لیے آیات کا نازل کرنا بے فائدہ ہے اب یہاں بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے جو مفصل کتاب نازل فرمائی ہے ہو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کو صداقت پر دلیل کے لے کافی ہے (کبیر) کفار مکہ یہ چاہتے تھے کہ ان کے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیان جو مخالفت ہے ان کی بارے میں اہل کتاب کو حکم بنالیا جائے پھر جو فیصلہ وہ دیں اسے تسلیم کرلیا جائے، اس میں ان کی اس تجویز کا جواب دیا جا رہا ہے۔ ف 10 کیونکہ ان کے انبیا بھی انہی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بشارت دیتے رہے ہیں اور ان کی کتابوں میں بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی علامات موجود ہیں۔ ف 11 یعنی اس بارے میں اہل کتبا کے دلوں میں قرآن کے سچاہو نے کا یقین ہے خطاب تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہے مگر اس سے مراد سارے مسلمان ہیں۔ (کبیر الانعام
115 ف 12 یہاں کلمہ یا کلمات سے مراد قرآن ہے یعنی قرآن معجزہ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صدق نبوت کی دلیل ہونے کے لیے کافی ہے کیونکہ قرآن کے تمام مضامین دو قسم کے ہیں اخبار اراحکام یہاں صدق کا تعلق اخبار سے ہے اور عدل کا حکام سے اور مطلب یہ ہے کہ قرآن کی تمام خبریں خواہ ان کا تعلق اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات سے ہو یا گزشتہ وقعات یا مستقبل کے وعدے اور حوادث سے وہ سب پوے طوپر سچے ہیں اور اس میں جتنے احکام ہیں وہ سب عل وانصاف پر مستمل ہیں ان میں کسی قسم کی تبدیلی یا تر میم کی گنجائش نہیں ہے ایسی کامل کتاب کی موجودگی میں پھر ان شیطان وساوس یا عقلی شہبات کی کوئی کنجائش باقی نہیں کبیر) پھر ذبیحہ جیسے اہم مسئلہ میں یہ اپنی کج فہمی سے کیوں داخل دے رہے ہیں۔ ف 13 یعنی نہ تو اس قسم کے شہبات قرآن کے معجزہ ہونے پر اثر انداز ہو سکتے ہیں اور نہ اس کے اوامر نواہی میں کوئی ترمیم جائز ہے یا جیسے توراۃ وانجیل میں تحریف ہوئی قرآن میں ہو سکے گی۔ (رازی) الانعام
116 ف 1 اور اس اٹکل کی بنا پر انہوں نے بہت سی حلال چیزوں کو حرام ٹھہرا لیا ہے۔ موجودہ دور میں اکثر لوگوں کا یہی رویہ ہے، (وحیدی) الانعام
117 الانعام
118 ف 2 اور جو اپنی موت مرے یا اسے ذبح کرتے وقت اللہ کا نام نہ لیا جائے مت کھاؤ وہ مردار اور حرام ہے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ لازمی تقاضا ہے (کبیر ) الانعام
119 ف 3 وہ کھول کر تم سے بیان کردیں بعض مفسرین کے لکھا ہے کہ اس سے سورۃ مائدہ کی آیت وحرمت امیتتہ اخ۔ کی طرف اشارہ ہے مگر اس پر یہ اعتراض لازم آتا ہے کہ سورۃ مائدہ مدنی ہے جو انعام کے بعد نازل ہوئی ہے پھر اس سے مائدہ کی طرف کیسے اشارہ ہوسکتا ہے اس بنا پر علمائے تفسیر (رح) نے لکھا ہے کہ اس سے وہ تفصیل مراد ہے جواسی سورت کی آیت قل لا جد فیما اوحی الی محرما۔۔۔۔ آیت میں آرہی ہے اور یہ تفصیل چونکہ عنقریب ہی ذکر ہو رہی ہے اس لیے وقد فصل صیغہ ماضی سے اس کی طرف اشارہ ہوسکتا ہے (کبیر، قرطبی) بعض ن اس سے سورۃ نحل کی آیت 115 مرادلی ہے جو غالبا اس سے پہلے مکہ میں نازل ہوچکی تھی مطلب یہ ہے کہ محرمات کی جو تفصیل اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی ہے ان میں وہ حلال جانور شامل نہیں ہے جو اللہ تعال کے نام پر ذبح کی جائے پھر اسے نہ کھانے اور میرے ہوئے یا غیر اللہ کے نام پر ذبح کیے ہوئے جانوروں کو کھانے کی کیا وجہ ہے۔ ( ف 4 یعنی مجبوری اور اضطراری کی حالت میں ان جا نوروں کا کھنا حلال ہے، ( دیکھئے، سورۃ بقرہ آیت 173) ف 5 یعنی جو لوگ حرام کو حلال اور حلال کو حرام قرار دیتے ہیں کہ (وحیدی) اس سے مقصود تہدید وتحویف ہے (کبیر ) الانعام
120 ف 6 یعنی حلال وحرام صر کھانے کی چیزوں میں منحصر نہیں ہے بلکہ ہر ظاہر و باطن گناہ سے اجتناب ضروری ہے (وحیدی) حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یعنی کافروں کے بہکانے پر نہ ظاہر میں عمل کرو اور نہ دل میں شبہ رکھو۔ (موضح) علمانے لکھا ہے کہ ظاہر گناہ وہ ہے جو ہاتھ پاؤں کے ذریعے کیا جائے جیسے چوری زنا وغیرہ اور چھپنے گناہ وہ ہیں جن کے کرنے کا دل میں عزم ہو یا جو عقیدہ سے تعلق رکھتے ہیں جیسے شرک وکفر اور نفاق وغیرہ یا جن گناہوں کا نقصان عام لوگوں پر واضح ہو وہ ظاہر کہلاتے ہیں اور جن کے نقصان سے چند مخصوص آدمیوں کے سوا دوسرے واقف نہ ہوں وہ باطن کہلاتا ہیں۔ ( المنا ر) الانعام
121 ف 7 پہلے اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمادیا کہ اللہ تعالیے نام کا ذبیحہ حلال ہے اب اس آیت میں بیان فرمایا کہ جس ذبیحہ پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو اس کا کھانا حرام ہے اس میں میتہ اور وہ جانور یا لتنصیص داخل ہیں جو بتوں کے نام پر ذبح کئے گئے ہوں اور آیت گو اپنے عموم کے اعتبار سے ہر اس چیز کو شامل ہے جس پر اللہ تعالیٰ کا نام نہ لیا گیا ہو مگر فقہا نے بالا جماع اس سے ذبیحہ مراد لیا ہے (رازی) مسئلہ اگر کسی ذبیحہ پر عمدا اللہ تعالیٰ کا نام ترک کردیا جائے تو وہ اکثر فقہا نے کے نزدیک حرام مگر جب مسلمان ذبح کرتے وقت بسم للہ بھول جائے تو کھا جائز ہے۔ ف 8 یعی جانور کو غیر اللہ کے نام پر ذبح کرنا) دیکھئے 415) ف 9 اللہ تعالیٰ کی حلال کی ہوئی چیزوں کو حرام اور حرام کی ہوئی چیزوں کو حلا قرار دینے والا بھی مشرک ہے کیونکہ اس نے اللہ تعالیٰ کے سوا دوسرے کو حاکم بنالیا ،(کبیر) حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں شرک فقط یہی نہیں کہ کسی کو سوائے خدا کے پوجے بلکہ شرک کے حکم میں بھی ہے کہ اور کا مطیع ہوئے، ( موضح ) الانعام
122 ف 10 یعنی وہ کافر تھا اسے مسلمان بنایا (شوکانی) ف 11 بیشتر مفسیرن (رح) کے نز دیک یہ مثال عام ہے اور ہر زمانہ کے مومن اور کافر پر منطبق ہو سکتی ہے۔ فتح القدیر) یعنی شیطان اپنے وساوس کے ذریعے ان کافرو کی نگاہ میں ان کے اعمال کو خوبصورت بنا کر پیش کرتا ہے۔ الانعام
123 ف 1 یعنی صنادید قریش کی طرح ہر قریہ ارشہر میں بڑے لوگ اپنی قوت اور اقتدار کے ذریعے لوگوں کو زبر دستی ایمان سے روکیں اور فسق وفجور میں پڑے رہیں (رازی) رازی حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں ہمیشہ کافروں کے سردار حیلے نکالتے ہیں تاکہ عوام الناس پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مطیع نہ ہوجائیں جیس فرعون نے معجزہ دیکھاتو حیلہ نکالا کہ سحر کے زور سے سلطنت لینا چاہتا ہے۔ ( موضح) ف 2 کیونکہ اس کا وبال خود ان پر پڑے گا تو گویا اپنے آپ کو فریب دے رہے ہیں الانعام
124 ف 3 یعنی ان کفار کے مکرو فریب کایہ عالم ہے کہ جب بھی نے کے سامنے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت کا معجزہ ظاہر ہوتا ہے تو کہہ دیتے ہیں کہ جب تک ہم خود اس منصب پر فائز نہ ہوں ایمان نہیں لاسکتے (رازی) ف 4 یعنی نبوت ورسالت محض وہی چیز ہے۔ اللہ تعالیٰ جس کو پسند کرتا ہے اسے نبوت کی امانت سپرد کردیتا ہے۔ الانعام
125 ف 5 متعدد روایات میں ہے کہ صحابہ کرام (رض) نے پوچھا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ کسی کا سینہ کیونکر کھو دیتا ہے ؟ فرمایا ایک نور اس میں ڈال دیتا ہے جس سے سینہ کھل جاتا ہے صحابہ (رض) نے پھر دریافت کیا سینہ کھل جاتا ہے صحابہ (رض) نے پھر دریافت کیا سینہ کھل جانے کی علامت کیا ہے۔، فرمایا آخرت کی طرف رحجان دنیا سے بے رغبتی اور موت کے آنے سے پہلے اس کے لیے تیاری کی لگن پیدا ہوجاتی ہے۔ ( ابن کثیر) ف 6 حرج دراصل نہایت تنگ جگہ کو کہتے ہیں یا ایسے گنجان درختوں کو جن تک چر نے والے جانور نہ پہنچ سکتے ہوں حضرت ابن عباس فرماتے ہیں یہی حال کافر کے سینے کا ہے یاک مرتبہ حضرت عمر نے یہ (رض) یہ آیت تلاوت کی پھر فرمایا کہ بنی کنانہ کے کسی چرواہے کو بلا لاؤ چنانچہ ایک چرواہے کو بلا یا گیا اس سے حضرت عمر (رض) نے دریافت کیا کہ حرجہ کسے کہتے ہیں؟ اس نے کہا وہ درخت جو بہت سے درختوں کے درمیان اس طرح گھرا ہو اہو کہ کوئی چرنے والا جانور اس تک نہ پہنچ سکتا ہو۔ حضرت عمر نے فرمایا بس یہی حالت کافر اور منافق کے قلب کی ہے کہ اس تک پہنچنے کے لیے کسی قسم کی خیر بھی راہ نہیں پاتی (ابن کثیر، کبیر) ف 7 یازرو سے آسمان پر چڑھنا چاہتا ہے مگر چڑھ نہیں سکتا۔ یہ اسلام و ایمان سے نفرت کی مثال ہے کہ کافر کے دل پر ایمان لانا اس طرح بھاری ہوتا ہے جیسے کسی کو آسمان پر چڑھنے کی تکلیف دی جائے۔ رازی ف 8 رجس کے لفظی معنی گندگی کے ہیں علمانے نے اس کی تفسیر شیطان عذاب دنیا میں لعنت اور آخرت میں عذاب دنیا میں لعنت اور آّخرت میں عذاب وغیرہ کی ہے مجاہد فرماتے ہیں کہ جفس ہر وہ چیز ہے جو خیر سے خالی ہو۔ اس لفظ میں ان سب معانی کی گنجائش ہے (المنار اوپر بیان فرمایا تھا کہ ہم ایمان کی توفیق نہ دیں گے تو کیونکہ ایمان لے آئیں گے۔ درمیان میں کافر روں کے ان حیلوں کو ذکر فرمایا ہے جن سے وہ مردار کے حلال کرتے تھے، اب اس بات کو جواب دیا جو دلیل دیکھ کر گمراہی کی علامات ہیں ان کو کوئی نشانی راہ ہدایت پر نہ لائے گی، ( موضح) الانعام
126 ف 9 یعنی حکم پردازی میں عقل راہ نہ دینا سیدھی راہ ہے۔ (مو ضح ) الانعام
127 الانعام
128 ف 10 اور پھر جنوں سے فرمائے گا۔۔۔۔۔۔ ف 11 یا ان کو مطیع اور فرماں بردار بناکر خوب مزے سے لوٹے، ف 12 جنوں جنوں کا انسانوں سے فا ئدہ اٹھانا یہ ہے کہ انہوں نے ان کو گمراہی کی طرف دعوت دی اور انسانوں نے اسے قبول کرلیا اور انسانوں نے جنوں سے یہ فائدہ اٹھایا کہ انہوں نے ان سے طرح طرح کے گناہ اور برے کام سیکھے اور آخرت سے غافل ہو کر دنیا پرستی میں مست ہوگئے۔ (کذافی الکبیر ) الانعام
129 ف 1 یا جب اللہ تعالیٰ چاہے کہ وہ اس میں نہ رہیں۔ اس کے یہ معنی ہیں کہ دوزخ بآلا خر فناہو جائے گی بلکہ دوزخ تو جنت کی طرح ہمیشہ رہے گی۔ ( دیکھئے سورۃ ہود آیت 107) لفظ الا ما شا شاللہ سے جو شبہ پیدا ہوتا ہے اس کے جواب شاہ صا حب (رح) فرماتے ہیں جو فرمایا کہ آگ میں رہا کریں گے مگر جو چاہے اللہ تو یہ اس لے کہ اگر دوزخ کا عذاب دائمی ہے تو اس کے چاہنے سے ہے۔ وہ چاہے تو مو قوف کوے لیکن وہ ایک چیز چاہ چکا ،( مو ضح) ف 2 پھر وہ انہیں اپنے ظلم وستم کا تختہ مشق بناتا ہے ،۔ دوسرا ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے اس طرح ہم آخرت میں ظالموں کو ایک دوسرے کا ساتھی بنائیں گے ان اعمال کی و جہ سے جو وہ دنیا میں کیا کرتے تھے یعنی جس طرح وہ دنیا میں گناہوں کا ارتکاب کرنے میں ایک دوسرے کے ساتھی اور مددگار تے اس طرح آخرت کا عذاب بھگتنے میں بھی وہ ایک دوسرے کے شریک حال ہوں گے۔ (وحیدی ) الانعام
130 ف 3 یعنی وہ رسول انسان تھے جنوں میں سے نہیں تھے ل علما نے سلف وخلف کی اکثریت یا یہی قول ہے کہ کسی جن کو رسول نہیں بنایا گیا ،۔ ( ابن کثیر) ف 4 یعنی تیرے پیغمبر ہمارے پاس آئے اور انہوں نے تیرا پیغام پہنچا یا۔ ف 5 حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ اس سورت میں اوپر مذکور ہوا کہ اول کافر اپنے کفر کا نکار کریں گے پھر حق تعالیٰ تدبیر سے ان کو قاتل کرے گا۔ (موضح) الانعام
131 ف 6 یعنی ان کے پاس کوئی پیغمبر یا اس کا نائب نہ پہنچا ہو اور اس نے انہیں حقیقت حال سے آگاہ نہ کردیا ہو۔ (دیکھئے سورت اسرا آیت 15) الانعام
132 ف 7 اس سے معلوم ہوا کہ جنوں میں سے بھی جو نیک ہیں وہ جنت میں اور جو بد کار ہیں وہ جہنم میں جائیں گے۔ (وحیدی) ف 8 یعنی وہ ان سے بے نیاز ونے کے باوجود ان پر رحم فرماتا ہے۔ الانعام
133 ف 9 یعنی جس طرح تمہیں پہلے لوگوں کا جانشین، بنایا اسی طرح تمہیں تباہ کرکے دوسروں کو تمہارا جانشین بنا سکتا ہے یا یہ کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت جن وانس کے پیدا کرنے پر ہی منحٖصر نہیں ہے بلکہ ان کی بجائے کوئی تیسری قسم کی مخلوق بھی پیدا کرسکتا ہے۔، (کبیر ) الانعام
134 ف 10 یا اس سے بچ کر کہیں بھاگ نہیں سکتے الانعام
135 ف 11 اس میں کفار کو زجر وتوبیخ ہے جو قیامت اور جزا اور سزا اکنکار کرتے تھے جیسے کوئی شخص کہتا ہے کہ اچھا جو کچھ تم کر رہے ہو کرتے رہو میں عبقریب تم سے نبٹ لوں گا۔ ای تفویض ال ھو الیھم علی ٰ سبیل التھدید۔ مطلب نہیں کہ ہماری طرف سے تمہیں کفر وشرک پر رہنے کی اجازت ہے۔ ( کبیر ) ف 1 لپ کیسے دنیا میں فتح مندی اور آخرت میں جنت نصیب ہوتی ہے۔ ف 2 اس کا تعلق اس تہدید سے ہے کہ اعمو علی مکانتکم میں مذکور ہے یعنی تم لوگ چونکہ ظالم اور بد بخت ہو اس سے دینا وآخرت میں تمہیں کوئی بھلائی اور کامیابی نصیب نہیں ہو سکتی (کبیر) الانعام
136 ف 3 بعثت وجزا کے متعلق ان کے خیلات کی تردید کے اب یہاں سے ان کی دوسری اعتقاد اوعملی حماقتوں اور جہالتوں کا بیان ہورہا ہے حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ جو شخص اہل عرب کے جاہلا نہ نظریات کو جاننا چاہتا ہے اسے چاہیے کہ سورۃ انعام کی 130 آیتوں کے بعد دے ایات قد خسر الذین قتلو او لا دھم سفھا بغیر علم۔۔۔۔ الا یہ تک تلاوت کرے ابن العربی فرماتے ہیں کہ ابن عباس نے بالکل صحیح کیا ہے کہ اللہ تعلای کے مقابلے میں بتوں کی ترجیح دینے سے بڑی جہالت اور کون سی ہو سکتی ہے (کبیر، قرطبی) مطلب یہ ہے کہ کھیتی اور مو یشیوں میں سے کچھ حصہ صلہ رحمی اور مسافروں کی مہمان کے لیے مخصوص کرلیتے۔ الانعام
137 ف 4 یہ مشرکین کی پہلی گمراہی اور جہالت کا بیان ہے کہ وہ اپنی کھتی اور جانوروں کی نسل میں جو نیاز اور خیرات نکالتے اور کے دو حصے کرلیتے ایک حصہ اللہ تعالیٰ کے لیے اور دوسرا اپنے بتوں اور کاہنوں کے لیے خرچ کرنے پر جب بتوں اور کاہنوں کے لیے خرچ کرنے پر جب بتوں اور کاہنوں کا حصہ کم پڑجاتا تو اللہ تعالیٰ کے حصے میں سے لے کر اس میں ڈال دیتے اور کہتے کہ اللہ تو غنی ہے اس کو زیادہ مال کی کیا ضرورت ہے اور اگر اللہ تعالیٰ کا حصہ کم پڑجاتا تو اس میں بتوں کے حصے کے میں سے کچھ نہ ڈالتے حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ اب جاننا چاہے کہ اللہ تعالیٰ کی نیاز کہ اس کی راہ جن کی دلوا دیا ہے ان کو دینا اسکا فائدہ اللہ کو نہیں پہنچتا بلکہ اس چیز سے فقیر کا فائدہ ہے اور ثواب ہے فائدہ دینے ولاے کو پھر اگر کسی بزرگ کے واسطے اس وضح پر دے جیسے یہاں فرمایا تو شرک ہے ہاں اگر ایصال ثواب کے لیے دے تو صحیح ہے ( کذافی۔ المو ضح) ف 5 یہ ان کی دوسری جہالت اور گمراہی تھی اور اس کا عطف جعلو پر ہے یعنی جیسا کہ کھیتی اور جانوروں میں بتوں کا حصہ مقرر کرنا ان کی جہالت تھی ایسے ہی یہ عقیدہ بھی ان کی انتہا ہی گمراہی تھی ْ (رازی) کہاں شرکا سے مراد یا تو شیاطان ہیں جن کے پیچھے لگ کر وہ اپنی اولاد کو زندہ درگو کردیتے تھے اور یا شرکا سے مراد نت خانوں کے خادم اور پجاری ہیں جن کی ترغیب پر مشرکین اپنی اولاد کو بت خانوں کی بھینٹ چڑھاتے تھے، چنانچہ بعض لو منت مال لیتے کہ اگر میرے یاں اتنے بیٹے پیداہوں تو ان ا میں سے ایک فلاں بت کے نام پر ذبح کروں گا۔ جیسا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دادا عبدالمطلب نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی والد عبد اللہ کو ذبح کرنے کی مانت مانی تھی۔ ف 6 اہل عرب اصل میں حضرت اسمعیل ( علیہ السلام) کے دین پر ہونے کے مدعی تھے لیکن شیطان نے آہستہ آہستہ بت پر ستی قتل اولاد اور بہت سی غلط باتیں ان کے دین میں داخل کردی تھیں فرمایا کہ شیطان نے اس قسم کی گمرہیاں پیدا کر کے ان کے دین کو غلط ملط کر ڈالا تھا۔ (کذافی ف 7 اس سے اشارہ فرمایا ہے کہ اس قسم کی سب باتیں دین میں افترا پر دازی ہے۔ الانعام
138 ف 8 یعنی انہوں نے محض اپنے خیال سے کھیتی اور چوپایوں کے حصے مقرر کر رکھے تھے، حجر کے اصل معنی مندش لگانے اور منع کرنے کے ہیں اور یہاں اس کے معنی حرام کے ہیں مطلب یہ ہے کہ جس کھیتی یا چار پائے کو بتوں کے کے نام وقف کرتے اور اس پر بندش لگاتے کہ اس کو بت خانوں کے بجاری اور مردیہی کھاسکتے ہیں عورتوں پر حرام ہے۔ (قرطبی) ف 9 جیسے بحیرہ سائبہ اور حام۔ دیکھئے سورۃ مائدہ آیت 103 (کبیر) ف 10 یعنی یہ سب جہالت اور وہم پرستی کے کام ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف ان کی نسبت محض جھوٹ ہے اللہ تعالیٰ نے اس قسم کی جہالتوں کا کبھی حکم نہیں دیا۔ ( ابن کثیر ) الانعام
139 ف 1 پنی بیٹیوں کو زندہ درگور کرنا جائز جانتے تھے یہ رسم عموما بنی ربعیہ اور مضر میں تھی۔ ؟ ( قرطبی) الانعام
140 ف 2 جیسے بحیرہ، سائبہ وغیرہ جانوروں کو انہوں نے حرام قرار دے رکھا تھا۔ ف 3 معروشات جسیے ٹیٹوں ستونوں اور منڈیروں پر چڑھی ہوئی انگور وغیرہ کی بیلیں اور غیر معرو شات وہ در خت اور پو دے جو اپنی جڑوں پر کھڑ ہوتے ہیں۔ مشرکین کی جہالت اور گمراہی ثابت کرے کرنے کے لیے چامسئلے بیان کرنے کے بعد اب اس آیت میں توحید کا اثبات ہے جو قرآن کے اصول اربعہ میں سے پہلی اصل یا پہلا اصول ہے اور قرآن نے ان اصول اربعہ پر مسلسل بحث کی ہے۔ یہ پانچ چیزیں جو یہاں مذکور ہیں ان کا ذکر پہلے بھی (آیت 99) میں آچکا ہے اب یہاں دوسرے انداز سے ان کا اعادہ فرمایا ہے اور ان میں سے اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کرنے کی تر غیب دی ہے (کبیر ) الانعام
141 ف 4 یعنی ان میں سے کچھ حصہ فقیروں) مسکینوں بیوأؤں اور یتیموں کو بطور صدقہ دو، یہ آیت مکہ معظمہ میں نازل ہوئی تھی، اس وقت رزعی پیدا رکے صدقہ کایہ حکم عام تھا اور اس کی کوئی مقدار مقرر نہ تھی، مدینہ پہنچ کر 2 ھ میں زکوٰۃ (عشر) کی مقدار اور شرح مقرر ہوئی یعنی بارانی زمین کی پیدا وار میں دسواں حصہ اور جس زمین کو کنویں ی امحنت سے پانی لاکر سیراب کیا جائے تو اس کی پیداوار میں سے پیسواں حصہ۔ تفصیللات حدیث وفقہ کی کتابوں میں مذکور ہیں۔ ( ابن کثیر، قرطبی) مسئلہ، عشر صرف اقوات یعنی اس پیدار پر ہے جو بطور ذخیرہ جمع کر کے مصنوعی تدبیر کے بغیر رکھی جاسکتی ہو اس بنا پر ہے کیونکہ عشر کی فرضیت کے بعد عہد رسالت اور حضرت ابو بکر صدیق کے دور میں بھی ان سے عشر نہیں لیا گیا پھر اگر ان سے عشر ضروری ہوتا توعہد صدیقی میں اس کی طرف ضرور توجہ دی جاتی جب کہ ایک عقال کے اوانہ کرنے پر حضرت ابو بکر (رض) صدیق نے اعلان جہاد فرمایا دیا تھا علامہ قرطبی، نے اس مسئلہ پر تفصیل سے لکھا ہے۔ ( دیکھئے قرطبی، زیر آیت) ف 5 اسراف کے معنی کسی چیز میں حد سے تجاوز کرنے کے ہیں، عام کھانے پینے اور مال کے خرچ کرنے میں اسراف ہوتا ہے اور صدقہ خیرات میں بھی یعنی نہ تو ناحق کوئی چیز وصول کرو اور نہ ناحق چرچ ہی کرو بعض نے لکھا ہے کہ یہ خطاب ولاۃ) حکام) سے ہے یعنی حق واجب سے زیادہ وصول نہ کرو جیسا کہ حدیث میں ہے۔ المعتدی فی الصدقہ کما نعھال کہ صدقہ وصول کرنے میں ظلم کرنے والا اسی طرح گنہگار ہے جیسا کہ زکواۃ نہ دینے والا۔ ایک روایت میں ہے کہ ثابت بن قیس بن شماس نے ایک دن میں پانچ سو کھجور کے درخت سے پھل اتارا اور اسی روز سارے کا سارا خرچ کردیا تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی جس سے ثابت ہوتا ہے کہ سارا مال صدقہ وخیرات میں دے دینا منع ہے۔ (قرطبی) الانعام
142 الانعام
143 ف 6 لادنے والے جیسے اونٹ اور بیل اور زمین سے لگے ہوئے بھیڑ اور بکری ( مو ضح) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ حمو لتہ لا لفظ تمام بوجھ اٹھانے والے جانوروں کو شامل ہے جیسے اونٹ بیل گھوڑا خچر گدھا اور فرش سے بھیڑ بکری مراد ہے مگر بعد آیت میں ثمانیتہ ازواج کا لفظ حمولتہ وفر شا سے بد ل ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان سے یہی آٹھ قسم کے جانور مراد ہیں اور پھر جو جانور اللہ تعالیٰ نے حلال قرار دیئے ہیں ان کو انعام فرمایا ہے ( قر طبی) ف 7 یہ زوج کی جمع ہے عربی زبان میں کسی جوڑے کے ہر فرد کو زوج کہا جاتا ہے اور اس میں تذکیر و تانیث کا اعتبار نہیں ہوتا پس ثمانیہ ازواج کے معنی آٹھ افراد کے ہیں اور آیت میں ترجمہ بھی اسی کے مطابق کیا گیا ہے۔ ( مردی ہے کہ جب مالک بن عوف اور اس کے ساتھیوں نے یہ کہا کہ مافی بطون ھذہ الا نعام خالصتہ لذکورناو محرم علی ٰ زواجنا تو ان کے جواب میں کیسے ہو سکتے ہیں ؟ اگر نر حرام کر رکھا ہے تو سب مادائیں حرام ہوں گی اور اگر بچہ حرام ہے جو بیٹ میں رہ چکا ہے تو نر اور مادہ دونوں حرام ہوں گے مقصود مشرکین کے خود ساختہ محرمات کی تردید ہے کہ بحیرہ سائبہ جانوروں کو انہوں نے اپنی طرف سے حرام کر رکھا ہے ورنہ اللہ تعالیٰ نے تو یہ جانور حلال کئے ہیں۔ الانعام
144 ف 9 ہرن بکری جنس میں داخل ہے اور بھینس بیل گائے گور خر گائے اور بیلل کی جنس میں یہ جانور عرب میں اتنے زیادہ نہیں ہوتے۔ چوپاؤں کی مشہور چار قسمیں ہیں جو یہاں مذکور ہیں۔ یعنی بھیڑ بکری، اونٹ اور گائے، (وحیدی)۔ الانعام
145 ف 1 یعنی ان جانوروں میں سے کسی کے حرام ہونے کا۔ ف 2 یعنی اسے نہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے براہ راسست کوئی علم حاصل ہو اہو اور نہ اس کے کسی رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے واسطے سے مگر وہ غلط طور پر اللہ کا نام لے کر بعض چیزوں کو حلال اور بعض چیزوں کو حرام قرار دے اور اس طرح لوگوں کو گمراہ کرے، مطلب یہ یہ ہے کہ تم لوگوں سے بڑھ کر کوئی ظالم نہیں ہے۔ (وحیدی) ف 3 اوفسقا عطف علی لخم خنزیر وما بینھما اعتراض واحل لغیر اللہ بہ صفتہ مو ضحتہ اصل میں اھلال کے معنی اواز بلند کرنا کے ہیں یہاں مراد غیر اللہ کے پر کوئی جانور ذبح کرتا ہے جیسے بکرا شیخ سدو کا گا أ سید احمد کبیر کی مر غازین خاں کا تو شہ شاہ عبد الحق کا صخک بی بی فاطمہ کی نذرنیاز پیر فقیر کی یہ سب حرام ہیں ( سلفیہ) ف 4 یعنی مضطر کے لیے بھی ان کا کھانا گناہ تو ہے مگر اللہ تعالیٰ معاف فرمادیگا اس آیت میں اشکال ہے کہ محرکات ان چار چیزوں میں منحصر نہیں ہے بلکہ اس کے وعلاوہ بھی ہیں اس بنا پر علما نے آّیت کی تاویل کی ہے، حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ یعنی جن جانوروں کا کھنا دستور ہے ان میں یہی حرام ہیں۔ ( موضح) یا یہ کہ کہا جائے کہ یہ آیت مکی ہے اور مکہ میں ان اشیا کے علاوہ اور کوئی چیز حرام نہ تھی پھر اس کے بعد یہ مدینہ میں سورۃ المائدہ کے علاوہ اور کوئی چیز حرام نہ تھی پھر اس کے بعد مدینہ میں اور سوتہ بقرہ (آیت 173) نازل ہوئیں تو ان چار چیزوں کے علاوہ چند اور چیزیں بھی حرام قرار دے ت دی گئیں ( دیکھئے مائدہ آیت 3) علاوہ ازیں مدینہ میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی بعض اشیا کو حرام قرار دیا، حد یث میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہر درندے شکاری پرندے کھریلو گدھے اور کتے کو حرام قرار دیا ہے، (بخاری ومسلم) علما حدیث وفقہ کی اکثریت نے اس آیت کی یہی تاویل کی ہے جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آیت واحل لکم ما وراع ذالکم کے نزول کے بعد بھی بعض رشتے حرام قرار دیئے ہیں مثلا فرمایا ایک عورت سے نکاح حرام ہے۔ مقصد یہ کہ آیت کے عموم میں حدیث سے تخصیص ہوگی لہذا بعض سلف کا آیت کے عموم میں حدیث سے تخصیص ہوگی لہذا بعض سلف کا آیت مذکور سے ان چار کے علاوہ باقی اشیا کو حلال سمجھنا صحیح نہیں ہے بعض نے کہا ہے کہ یہ آیت مدنی ہے مگر یہ صحیح نہیں ہے حاٖ فظ ابن عبد البر نے سورۃ الانعام کے مکی ہونے پر اجماع نقل کیا ہے اس آیت میں دراصل بحیرہ سائبہ وغیرہ کی حالت کو واضع کرنا ہے جو جاہلیت میں لوگوں نے اپنی رائے سے حرام قرار دے رکھے تھے ورنہ محرمات کا حصہ نہیں فالا ستثنا منقطع (قرطبی، ابن کثیر ) الانعام
146 ف 5 امت محمد یہ پر جو چیزیں حرام ہیں ان کا ذکر کرنے کے بعد اب یہود پر حرام کی ہوئی چیزوں کو طرف اشارہ فرمایا ہے جس سے مقصد ان کی تردید ہے (قرطبی) کل ذی ظفر سے مراد ہر وہ جانور اور پرند ہے جس کی انگلیاں بھٹی ہوئی نہ ہوں جیسے اونٹ، شتر مرغ بطخ وغیرہ، (روح المعانی) اور بعض نے اس سے سم درا چوپائے جیسے گھو ڑا گدھا وغیرہ) اور شکاری پر ندے سے مراد لیے ہیں جو پنجہ سے شکار کرتے ہیں۔ ّقرطبی) ف 6 او بمعنی الواؤ۔ یعنی ان چار چیزوں کے علاوہ یہود پر یہ چیزیں بھی حرام کردی گئی تھیں ف 7 یعنی یہ چیزیں جس طرح اب شریعت محمدی میں حرام نہیں ہیں اس سے پہلے بھی حرام نہ تھیں البتہ یہود یوں کو ان کی سر کشی کی سزا دینے کے لیے ہم نے انہیں وقتی طور پر حرام کردیا تھا، ( دیکھئے سورۃ نسا آیت 23) مقصد یہود یوں کے اس دعوی ٰ کی تر دید ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم پر کوئی چیز حرام نہیں کی ماسوا ان چیزوں کے جو اسرائیل (یعقوب ( علیہ السلام) نے از خود اپنے اوپر حرام کرلی تھیں، (قر طبی۔ ابن کثیر) اور انا لصادقون ( اور ہم سچ کہتے ہیں۔) کا مطلب یہ ہے کہ یہود کا یہ دعوی غلط ہے اور صحیح بات وہ ہے جو ہم نے بیان کی ہے۔ ( نیز دیکھئے سورۃ آل عمران آیت 93) الانعام
147 ف 8 یعنی اگر تم اب بھی نافرمانی کی روز چھوڑ کر حق کی سیدھی راہ اختیار کرلو تو اپنے رب کے دامن رحمت کو اپنے لیے کشادہ پاو گے لیکن اگر اپنی موجودہ روش پر اڑے رہے تو یہ مت سمجھو کہ اللہ کا عذاب تم پر سے ٹل گیا ہے۔ جب اس کا عذاب آتا ہے تو مجرموں اروسر کشوں کو کوئی چیز اس سے نہیں بچاسکتی، یہ اللہ تعالیٰ کی ہاں دیر ہے اندھیر نہیں ہے۔ آیت کے حصہ ذو رحمتہ واسعتہ میں تر غیب ہے۔ اور آخری حصہ میں تر ہیب ہے اور یہ خا ص قرآن کا انداز نصیحت ہے۔ ( ابن کثیر ) الانعام
148 ف 9 یعنی جب وہ اپنے شرک اور مجرمانہ روش پر قائم رہنے کی دلیل نہیں پاتے تو تقدیر کا سہارالے کر کہتے ہیں کہ ہمارے حق میں خود للہ کی مرضی یہ ہے کہ ہم شرک کریں اور جو چیزیں ہم نے حرام ٹھہرائی ہیں انہیں حرام ٹھہرائیں کیونکہ اگر اللہ تعالیٰ کی مرضی نہ ہوتی تو ہم سے ان اعمال کا صدور ممکن نہ تھا لہذا ہم جو کچھ کر رہے ہیں اللہ کی مرضی کے مطابق کررہے ہیں لہذا صحیح اور حق ہے۔ مطلب یہ کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی مشیت کو شرک اور محرمات کی صیحت پر بطور دلیل پیش کیا ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی مشیت اور ارادہ اس کی رضا اور مشروعیت کو مستلزم ہے۔ یہی ان کی سب سے بری غلطی تھی کیونکہ یہ پیغمبروں کی تکذیب کو مستلزم ہے۔ تنبیہ معتزلہ کے نزدیک مشیت اور ارادہ رضا اور امر کو مستلزم ہیں اور اہل سنت کے نزدیک ان میں استلزام نہیں ہے۔ ( روح المعانی) ف 10 یعنی ان کا یہ عذر قطعی اور بے بنیاد ہے۔ اگر یہ صحیح ہوتا تو ان کے اسلاف پر ان جرائم اور تکذیب کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اپنا عذاب کیوں نازل کرتا ،۔ (ابن کثیر ) الانعام
149 فوائد صفحہ ہذا۔ ف 1 یعنی تم جو یہ عذر پیش کر رہے تو وہ کسی عقلی اروعلمی بنیاد پر قائم نہیں ہے بلکہ محض تخمینہ اور گمان ہے اور اللہ پر بہتان باندھتے ہو ( ابن کثیر ) الانعام
150 ف 2 یعنی ذات الہی حکمت کاملہ کی مالک ہے اس نے انسان کے فطرتا مجبوت محض نہیں بنایا بلکہ اسے ارادہ اور اختیار دیا ہے تاکہ انسان ہدایت یا گمراہی کو اپنے ارادہ سے اختیار کرے یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اتمام حجت کے لیے پیغمبر بھیجے ان پر کتابیں نازل فرمائیں تاکہ جو شخص ایمان لاتا ہے دلیل سے ایمان لائے اور جو گمراہ ہوتا ہے اتمام حجت کے بعد گمراہ ہو۔ رونہ اگر اللہ تعالیٰ کو اکرام و جبر سے ہی ہدایت پرلانا ہوتا تو کوئی شخص بھی گمراہ نہیں ہوسکتا تھا۔ ف 3 کیونکہ جو بھی اس قسم کی گو اہی دے گا وہ کبھی سچا نہیں ہوسکتا۔ الانعام
151 ف 4 نہ اس کی ذات میں، نہ اس کی صفات میں اور نہ اس کے اختیار ات وحقوق میں۔ ف 5 قرآن مجید کی متعدد آیات میں جہاں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے اور شرک سے بچنے کا حک دیا گیا ہے وہاں والدیں کے ساتھ نیک سلوک کرنے کی تاکید بھی کی گئی ہے جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ و رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کے بعد بندوں کے حقوق میں سب سے مقدم حق انسان پر اس کے والدین کا ہے۔ ف 6 پیدا ہو چکنے کے بعد یا جب کہوہ ماؤں کے پیٹ میں ہو (مثلا کوئی دوائی کھلا کر قبل از وقت حمل گر ادینا (نیز دیکھئے سورۃ اسرا آیت 31) ف 7 یعنی ہر متنفس کارزق تو اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے تم ان کے رازق نہیں ہو۔ ( دیکھئے سورۃ ہود 6) ف 8 حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ چھپ کر زنا کرنے کو عیب نہ سمجھتے تھے، اور صرف اس زنا کو عیب سمجھتے جو علانیہ کیا جائے لہذا اللہ تعالیٰ نے اسے ہر حال میں حرام قرار دیا ہے یعنی پوشیدہ یاعلانیہ بلکہ یہاں تک فرمایا کہ بے حیائی کے ذرائع کے بھی قریب تک نہ جاؤ، حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ سب سے زیادہ غیور ہیں اور اپنی غیرت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ظاہر اور باطن فواحش کو حرام قرار دیا ہے۔ ( ابن کثیر، ابن جریر) ف 9 النفس یعنی جس جان کو مارڈالنا اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے۔ اس سے مراد ہر انسانی جان ہے۔ حدیث میں ہے کہ کسی مسلمان کو خون تین حالتوں کے سوا حلال نہیں ہے۔ 1۔ شادی شدہ ہو کر زنا کا ارتکان کرے 2۔ کسی مسلمان کو ناحق عمدا قتل کر ڈالے 3۔ مرتد ہوجائے اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جنگ شروع کر دے۔ ( ابن کثیر ) الانعام
152 ف 10 یعنی وہ بالغ ہوجائے اور اس میں اپنے معاملات کو نپٹا نے کی خود صلاحیت پیدا ہوجائے، دیکھئے سورۃ نسا آیت 6) ف 11 لہذا اگر پورا اور اپنے کی کوشش کرے مگر بھول چوک سے غلطی کر بیٹھے تو اس سے بار پرس نہ ہوگی یہی معنی الا وسعھا کے ہیں۔ (ابن کثیر ) ف 1 یعنی رشتہ داری یا قرابت عد ل وانصاف میں مانع ہونے پائے اور ہر حالت اور ہر زنا میں عدل وانصاف سے کام لو۔ ( ابن کثیر) ف 2 یعنی اللہ تعالیٰ کے تمام اوامر ونواہی بجا لوأ بجا لوؤ اور کتان وسنت کے مطابق عمل کرو، اللہ تعالیٰ کے عہد کو پورا کرنے سے یہی مراد ہے (ابن کثیر،) یعنی اللہ تعالیٰ کی راہ ایک ہی ہے اور وہی سیدھی اور جنت تک پہنچانے والی ہے مگر شیطان نے لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے اس کے اردگ دبہت سے راہیں بناڈالی ہیں۔ حضرت ابن مسعود (رض) اور دیگر صحابہ (رض) سے رایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک سیدھی لکیر کھینچی اور فرمایا یہ اللہ تعالیٰ کی سیدھی راہ ہے پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے دائیں اور بائیں کئی لکریں بنائیں اور فرمایا ان میں سے ہرا راہ پر شیطان بیٹھا ہے جو لوگو کو دوزخ کی طرف بلاتا ہے اس کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سیدھی راہ پر ہاتھ رکھا اور یہ آیت تلاوت فرمائی۔ ( ابن کثیر ) الانعام
153 اس آیت میں جس طرح ادیان باطلہ سے منع فرمایا گیا ہے اس طرح اسلام میں بھی تفرقہ پسندی سے روک دیا گیا ہے پس جو راہ کتاب وسنت کے سوا ہو جس پر تین مشھود لھا بالخیر گزرے ہیں وہ سب راستے ممنوع ٹھہرے خواہ تقلید مذاہب اربعہ ہو یہ اہل بدعت کے مشارب ہوں۔ پرانی اور ہر قسم کی بد عات گمرہ کن ہیں۔ مسلمان کو حکم ہے اللہ کابندہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت بن کر رہے۔ خود ائمہ دین اور سارے مجتہدین سلف وخلف نے یہی وصیت کی ہے کہ کوئی ان کی تقلید نہ کرے بلکہ سب کے سب کتاب وسنت کی اتباع کریں یہی طریقہ اہل حدیث وجماعت نے اختیار کیا ہے اور اسی کی طرف دعوت دی ہے۔ ( ما خوذ از تر جمان النواب) ف 4 یعنی یہ اللہ تعالیٰ کی صفت ہے اور تقوی کی راہ ہے، حضرت عبادہ بن صامت سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کون ہے جوان آیتوں پر میری بیعت کرتا ہے پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قل تعالوا سے لعلکم تقتون تک ان تین آیتوں کی تلاوت کر کے فرمایا جس نے ان کو پورا کیا اللہ تعالیٰ کے ذمہ اس کاجر ہے اور جس نے ان میں سے کسی چیز میں کمی کی اور اللہ تعالیٰ نے اسے دنیا ہی میں پکڑ لیا تو وہی اس کی سزا ہے اور جسے اس نے مہلت دی اس کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد ہے چاہے اسے سزادے اور چاہے اسے معاف فرما دے ( ابن کثیر بحوالہ ترمذی وغیرہ ) ف 5 نیک بندے سے مراد حضرت موسیٰ ٰ ( علیہ السلام) کو تورات دی اور ان کو اپنی نعمت سے نوازا، اس کلام سے مقصود مذکرہ وصیت کی تقریر و تحقیق ہے۔ (کذافی الروح ) الانعام
154 ف 6 یعنی بنی اسرائیل کو۔ الانعام
155 الانعام
156 ف 7 یعنی چونکہ ہم ان کی زبان نہ نانتے تھے۔ اس لیے ان کی کتابوں کا مطالعہ کرنے اور ان کے سمجھنے سے قاصر رہے۔ ( قرطبی) الانعام
157 ف 8 بینتہ سے مراد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہوں تو معنی یہ ہو ن گے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان لوگوں کے لے موجب و رحمت میں جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اتباع کرینگے یا بینہ سے خود قرآن مجید مراد ہے جو کہ ہدایت اور رحمت پر مشتمل ہے۔ ( قر طبی، ابن کثیر ) الانعام
158 یعنی ان تین چیزوں سے کسی ایک کے منتظر ہیں اور ان آیات سے مراد علامات قیامت ہیں اور وہ احادیث میں بکثرت مذکور ہیں مگر دس علامات وہ جو حذیفہ (رض) سے صحت کے ساتھ ثابت ہیں۔ (روح) جامع البیان میں ہے یعنی وہ نشان جوان کے ایمان لانے پر مجبور کردیں مگر جمہور مفسرین کے نزدیک یہاں بعض آیات سے خاص کر سورج کا مغرب سے طلوع ہونا مراد ہے۔ کذافی المو ضح) حضرت ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ اس جملہ کی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہی تفسیر فرمائی ہے اور حضرت ابو ہر یرہ (رض) کی ایک روایت سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک سورج مغرب سے طلوع نہیں ہوجاتا اور جب وہ طلوع ہوگا مگر اس وقت ایمان لانا کسی کو فائدہ نہ دیگا پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت تلاوت فرمائی بلکہ یہ تعین متعدد احادیث سے ثابت ہے۔ (کذافی الروح وابن کثیر بحوالہ صحیحین) اس کا عطف امنت پر ہے یعنی ایمان کی عدم قبولیت کے لیے ان دونوں چیزوں کا عدم شرط ہے جس سے مفہوما یہ ثابت ہوتا ہے کہ نفع کے لیے منع المخلو کے طور پر اک چیز کا تحقق ہی کافی ہے یعنی جب سورج مغرب سے طلوع ہوچکے گا تو اس کے بعد اس شخص کا ایمان قبول نہ ہوگا جو پہلے نہ ایمان لایا اور انہ اس نے معاصی سے تائب ہو کر کار خیر ہی کیا کیونکہ اس وقت ایسے شخص کا ایمان لانا یا عمل کرنا اپنے ارادہ اختیار سے نہ ہوگا بلکہ محض مجبوری کی بنا پر ہوگا کالا یمان عند الغوغرۃ اور کوئی ایما یاعمل اسی وقت معتبر ہوتا ہے جب وہ ارادہ یا اختیار سے ہو الغرض یہاں نفی عموم ہے عموم نفی نہیں ہے۔ حضرت ابو ہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تین چیزوں ایسی ہیں کہ جب وہ ظاہر ہوجائیں گی تو کسی ایسے شخص کو جو اس سئے پہلے ایمان نہیں لایا تھا ایمانلانا اسے کوئی فائدہ نہ پہنچا سکے گا سورج کا مغرب سے طلو ع ہونا دجال اور دبتہ الارض کا ظہور، مگر صحیح یہ ہے کہ اس سے صرف طلوع شمس من المغرب ہی مراد ہو، حافظ ابن حجر (رض) نے فتح الباری میں نقل کیا ہے کہ طلوع شمس والی علامت کے ظہور کے بعد لوگ ایک سو بیس سال تک باقی رہیں گے۔ طلوع شمس میں مغرب کی کیفیت احادیث میں مذکور ہے، ( روح المعانی ) الانعام
159 ف 3 مراد یہود و نصاری ہیں جنہوں نے گمراہی میں مبتلا ہو کر اپنے دین میں فر قہ بندیاں قائم کرلیں یا تفریق دین کے یہ معنی ہیں کہ کتاب کے بعض حصوں پر ایمان لائے او بعض کے ساتھ کفر کیا اور خود مسلمانوں میں سے پیدا کر کے اس میں تفرقہ پیدا کر رہے ہیں، کذا المودی عن عائشتہ (رض) (ابن کثیر) ف 4 یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے بری ہیں اور ان کا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کوئی تعلق نہیں (کذافی الکبیر) ف 5 اور پھر ان کو ان کے لیے سزادے گا یہ وعید ہے۔ (کبیر ) الانعام
160 ف 6 یہاں حسنہ او سیئہ عام ہیں جو ہر قسم کی نیکی اور برائی کو شامل ہیں اور یہاں عشر امثال (دس گنا بدلہ) سے مقصد تحدید نہیں ہے بلکہ کئی دس گنے ہو سکتے ہیں جیساکہ ایک حدیث قدسی میں ہے کہ ساتھ گنا تک اور اس سے بھی زیادہ ثواب ملتا ہے۔ جیساکہ سورۃ بقرہ آیت 245، میں گزر چکا ہے۔ (رازی) ف 7 بشر طیکہ دنیا میں توبہ نہ کرلی ہو اگر توبہ کرے یا اس کی نیکیاں برائیوں سے زیادہ ہوں یا اللہ تعالیٰ اپنے رحم و کرم سے معاف فرمادے تو یہ سزا بھی نہیں ملے گی، حدیث میں ہے کہ اگر کوئی شخص نیکی کا قصد کرے اور عمل نہ کرے تو اس کے لیے ایک نیکی لکھی جاتی ہے اگر اور اگر برائی کا قصد کرے اور برائی نہ کرے تو اس کا گناہ نہیں لکھا جاتا، (مسلم۔ ابن ماجہ بردیت انس بن مالک) حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ ترک سیئہ تین قسم کا ہے اول یہ کہ اللہ تعالیٰ سے ڈر کر برایہ کاترک کرے یہ چونکہ عمل اور نیت سے اس لیے اسے ایک نیکی کا ثواب ملے گا جیساکہ الصحیح کے بعض الفاظ میں ہے فانما تر کھا من جزانی کہ اس نے مجھے سے ڈر کر برائی کر ترک کیا دوم یہ کہ نسیان اور ذہول کی وجہ سے برای نہ کرسکے اس صورت میں نہ تو اس پر گناہ ہوگا اور نہ کچھ ثواب ہی ملے گا تیسرے یہ کہ باوجود کو شش کے برائی نہ کرسکے ایسی برائی کا اس پرگنا ہوگا جیسا کہ حدیث میں ہے جب دو مسلمان تلوار سے ایک دوسرے کو قتل کر نیکی کو شش کرتے ہیں قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے لوگوں نے سوال کیا مقتول کا کیا گناہ ہے فرمایا کہ وہ بھی دوسرے کو قتل کرنے کو شش میں تھا۔ ( ابن کثیر) بعض سلف نے یہاں نیکی سے مراد توحید کا اقرار اور اور برائی سے مراد شرک لیا ہے و اللہ اعلم ( قرطبی ،) الانعام
161 الانعام
162 الانعام
163 ف 8 توحید کے اثبات اور مشر کین اہل جاہلیت کی تردید کے بعد اب سورت کے آخر میں چند حقائق کا اعلان فرمایا ہے (آیت وما کان من المشرکین۔ میں مشرکین کی تردید ہے جن میں مشرکین عرب کے علاوہ یہود ونصاری اور مجوس بھی شامل ہیں۔ وبذالک امرت یعنی اس کے ساتھ کسی دوسرے کی بندگی نہ کروں اور میرا ہر چھاٹا اور بڑاعمل صرف اسی کی رحا جوئی کے لیے ہو، ف 9 حضرت عمران بن جعین (رض) سے روایت ہے کہ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت فاطمہ (رض) کی طرف سے قربانی کا جانور ذبح کرنے لگے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے فرمایا فاطمہ آؤ اور اپنے جانورکو ذبح ہوتے دیکھو اس لیے کہ اس کے خون کا پہلا قطرہ جب زمین پر گرے گا تمہارے سب گناہ معاف کردئیے جائیں گے اور فرمایا کہ ان صلای ونسکی سے وانا اول املسلیمن تک یہ آیت تلاوت کرو (قرطبی، وشوکانی بحوالہ حاکم ) الانعام
164 ف 10 اور اس کے سواتم جن جھوٹے معبودونکی بندگی کرتے ہو وہ کسی چیز کے مالک نہیں بلکہ خود دوسری کے محتاج ہیں۔ مروی ہے کہ کفار نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے درخواست کی کہ اپنے آبائی دین کو اختیاکر لو اور ہمارے معبودوں کی عبادت کرو جس الہ کی تم عبادت کرتے ہو اسے تر کر دو ہم دنیا و آخرت میں تمہارے ہر نقصان کے ذمہ دار ہیں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی، (قرطبی ) فوائد صفحہ ہذا ف 1 یعنی اس پر کسی دوسرے عمل کی ذمہ داری نہ ہوگی یہ اس متعارض معبودوں کی آیت سے متعارض نہیں ہے جس میں ارشاد ہے کہ تم اپنے بوجھ بھی اٹھائیں گے اور انکے ساتھ کچھ دوسرے بو جھ بھی ( عنکبوت 13) اس لے کہ دوسرے بوجھوں سے مراد انہی لوگوں کے بو جھ ہیں جنہیں یہ گمراہ کریں گے (قر طبی) اور حدیث من سن سنتہ سیتہ الخ سے بھی اس کی تا ئید ہوتی ہے۔ ف 2 اس وقت معلوم ہوجائے گا کہ کون صحیح راستے پر تھا اور کون غلط راستے پر۔ الانعام
165 ف 3 اپنا پہلی امتوں کایا آپس میں ایک دوسرے کا۔ ف 4 شکل و صورت مال وجاہ۔ علم و عقل وغیرہ میں۔ (کبیر) ف 6 یہ عذاب گو آخرت میں ہوگا مگر کل ماھو آت فھو جلد ہی آنے والا ہے جیسے فرمایا۔ وَلِلَّہِ غَیْبُ السَّمَاوَاتِ وَالأرْضِ وَمَا أَمْرُ السَّاعَۃِ إِلا کَلَمْحِ الْبَصَرِ أَوْ ہُوَ أَقْرَبُ (نحل :77) یہ کفار کے لیے تخویف ہے۔ (قرطبی،) الحمد للہ کہ آج صفر المظفر 1389 ھ کو تفسیر ورۃ انعام ختم ہوئی اور بعد از صلوۃ عصر تفسیرسورت اعراف شروع کی والحمد للہ المنعم العلام۔ الانعام
0 ف 7 یہ پوری سورت مکہ میں نازل ہوئی، قتادہ (رض) اور بعض دوسرے مفسرین اس میں سے آٹھ آیتوں واسئالھم عن القریتہ سے واذنتقنا الجمل فو قھم تک کو مستثنی ٰ کرتے ہوئے انہیں مدنی قرات دیا ہے۔ صحیح احادیث میں ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سورۃ کو مغرب کی دورکعتوں میں پڑھا۔ قرطبی، بحوالہ نسائی عن عائشہ ) الاعراف
1 ف 8 حراز مقطعات ہیں تشریح کے لیے دیکھئے سورۃ بقرہ آیت ) الاعراف
2 ف 9 یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی خوف اور جھجک کے بغیر ان لوگوں تک پہنچادیں اور اگر لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت کریں اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مذاق اڑائیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رنجیدہ اور کبیدہ خاطر نہ ہوں کیونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذمہ صرف پہنچا دینا ہے ہدایت دینا یا نہ دینا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کام نہیں ہے۔ الاعراف
3 ف 10 یعنی صرف کتاب وسنت کی ااتباع کرو۔ (قرطبی) امام رازی فرماتے ہیں کہ رسالتہ کام معاملہ امور سے پورا ہوتا ہے مو سل یعنی خدا اور مرسل یعنی رسول اور مرسل الیہ یعنی امت اوپر کی آیت میں پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تبلیغ والذار کا حکم دیا ہے اور اب اس آیت میں امت کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی متابعت کا ،(کبیر ) ف 11 ایعنی اللہ تعالیٰ کے سوال کسی کی بندگی نہ کردیا قرآن وسنت کے سواکسی کی بات نہ مانو خواہ وہ کتنا ہی بڑا امام بزرگ محقق یا دانشور ہی کیوں نہ ہو۔ ہر ایک کی بات کو قرآن و حدیث کو کسوٹی پر پرکھا جائے گا اگر کسی بات پر قرآن و حدیث سے تصریح نہیں ملے گی تو اجماع اور اجتہاد کی طر رجوع کیا جائے گا کیونکہ یہ دونوں بھی کتاب وسنت کے فروغ میں سے ہیں۔ الاعراف
4 ف 12 یعنی غفلت میں پڑے سورہے تھے مقصود پیغمبر کی اطاعت سے اعراض پر تنبیہ کرنا ہے کہ ان کفار کو اپینی گرفت میں لے سکتا ہے اور اس کے آنے کا وقت کسی کو معلوم نہیں ہے۔ (کبیر ) الاعراف
5 ف 13 یعنی سوائے اعتراف گناہ کے کچھ بن نہ پڑا اور اپنے تمام جھوٹے معبودوں کو بھول گئے مگر اس وقت کا عتراف گناہ ان کے کس کام آسکتا تھا؟ جب گناہ سے توبہ کرنے کا وقت تھا اس وقت تو غفلت کی نید سونے ہے۔ الاعراف
6 ف 14 پہلی تہدید کا تعلق دنیا میں عذاب کے ساتھ تھا اور اب اس آیت میں تہدید اخروی کا مذکور ہے (کبیر) یعنی لوگوں سے تو یہ دریافت کریں گے کہ تم نے ہمارے پیغمبر کی دعوت کو کہا تک قبول کیا اور پیغمبر سے دریافت کریں گے کہ تم نے لوگوں تک ہمارا پیغام پہنچایا تھا یا نہیں ؟ اس سوال سے مقصود تقریع و توبیخ ہے۔ (کبیر ) الاعراف
7 ف 15 یعنی ہم سے کچھ سن رہے تھے اور سب کچھ دیکھ رہے تھے اس لیے اگر وہ خاموش رہیں گے یا غلط بات کریں گے تو ہم خود بتادیں گے کہ تم نے یہ جواب دیا تھا اور یہ بات کہی تھ الاعراف
8 ف 16 یعنی ہر ایک کے نامہ اعمال کو تو لا جائے گا اور اس تولنے میں کوئی کمی یا زیادتی نہیں ہوگی، اوپر کی آیت میں سوال اور حساب کا ذکر ہے اور اس آیت میں وزن اعمال کا۔ حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن اعمال کے صحیفے تولے جائیں گے۔ یہی قول مفسرین کا ہے۔ (کبیر) آخرت میں ہوکا غذ تو لینگے جس کے نیک کام بھاری ہوئے تو برے کام بخشے گئے اور ہلکے ہوئے ت پکڑا گیا (موضح) الاعراف
9 ف 1 کثر مفسرین (رح) کے نزدیک اس سے مراد کافر ہے کیونکہ قرآن نے ان کو خسر واانفسھم قرار دیا ہے۔ مومن گنہگار تو آخر کار کسی نہ کسی طرح اللہ تعالیٰ کے جوار رحمت میں پہنچ جائیں گے (کبیر) حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میری امت کے ایک شخص کو قیامت کے روز سب کے سامنے لایا جائے گا اس کے ننانوے اعمال پھیلائے جائیں گے اور ان میں سے ہر اک اتنا لمبا ہوگا جتنی دور نگاہ جاتی ہے۔ پھر پروردگار اس سے دریافت فرمائے گا کیا تم ان میں م سے کسی عمل سے انکار کرتے ہو َ وہ عرض کرے گا نہیں پھر پروردگار فرمائے گا تمہاری ایک نیکی بھی ہمارے پاس ہے اور اآج تم سے کوئی نے انصافی نہیں کی جائے گی پھر ایک بطاقہ (کاغذ کا ٹکڑا) لایا جائے گا جس میں اشھد ان لا الہٰ اللہ واشھد ان محمد اعبدہ ورسو لہ درج ہوگا وہ عرح کرے گا بھلا یہ ایک پر زہ ان تمام دفتروں کے مقابلے میں کس کام آئے گاَ حکم ہوگا تم پر کئی ظلم نہ ہوگا لہذا صبر کرو پھر وہ تمام دفتر ایک پلڑے میں رکھے جائیں گے اور یہ کاغذ کا پرزہ درسرے پلڑے میں لیکن اس پرزے کا پلڑا بھاری رہے گا اور دفتروں کا پلڑا ہلکا (ابن کثیر ) الاعراف
10 الاعراف
11 ف 2 وپر کی آیت میں تخویف وتر غیب کے ساتھ لوگوں کو انبیا کی دعوت قبول کرنے کی ترغیب دی اور ترغیب میں کثرت نعم کی طرف اشارہ تھا۔ اب یہاں سے انعامات کے بیان کاسلسلہ شروع ہوا ہے اور خلق آدم سے اس سلسلہ کا آغاز فرمایا (کبیر) مطلب یہ ہے کہ پہلے آدم کا ہیولی بنایا اور پھر اس کی شکل و صورت بنائی۔ ف 3 اس سجدہ سے مراد مطلق تعظیم ہے یا حقیق طور پر سجدہ تفصیل کے لیے دیکھئے سورۃ بقرہ آیت 24) الاعراف
12 ف 4 اور آگ مٹی سے افضل ہے اور افضل اپنے سے کم درجہ کو کیسے سجدہ کرسکتا ہے خواہ اس کا حکم دینے ولا اس کا پر رو دگار ہی کیوں نہ ہو۔ اس طرح گویا شیطان نے واضح حکم کی موجوگی میں عقلی قیاس سے کام لیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ دھتکارا گیا اور اس پر اللہ تعالیٰ کا غضب نازل ہوا حضرت حسن بصری (رح) نے فرمایا سب سے پہلے جس نے دین کے معاملے کو اپنی رائے سے قیاس کیا وہ ابلیس ہے یعنی اللہ تعالیٰ ن اسے آدم ( علیہ السلام) کو سجدہ کرنے کا حکم دیامگر اس نے کہا میں آدم ( علیہ السلام) سے بہتر ہوں۔ ابن سیرین نے فرمایا شرک کی بنیاد بھی قیاس ہی تھا۔ ( ابن جریر) اب بھی نصوص کے مقابلہ میں جو شخص اس طرح عقلی قیاس سے کام لے گا اس میں خصلت شیطانی کا اثر ہے۔ اس کا بھی وہی انجام ہوگا جو ابلیس کا ہوا۔ ( ا، ت ) الاعراف
13 ف 5 جو بھی غرور تکبر سے کام لے گا وہ ذلیل و خوار ہوگا۔ الاعراف
14 ف 6 شیطان صور میں دوسرے نفخہ تک ، الاعراف
15 ف 7 شیطان کو یہ مہلت دینے کے بندروں کا امتحان مقصود ہے اور یہ کہ جس غرض کے لیے انسان کو پیدا کیا گیا ہے وہ پوری ہو۔ الاعراف
16 ف 8 یعنی میں توگمراہوں ہی ان کی بھی راہ ماروں گا۔ (مو ضح) الاعراف
17 ف 9 حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ آگے سے مراد ہے کہ انہیں آخرت کے آنے یانہ آنے سے متعلق شک میں ڈال دوگا پیچھے سے مراد یہ ہے کہ انہیں دنیا پر فریفتہ کروں گا۔ دارئیں سے مراد یہ ہے کہ دین کا معاملہ ان پر مشتبہ کردو گا اور بائیں سے مراد یہ ہے کہ گنا ہوں کو مرغوب بنا کر ان کے سامنے پیش کرونگا ( ابن کثیر ) ف 1 ابلیس نے یہ بات اپنے گمان کی بنا پر کہی جو واقع سچ ہو کر رہی جیساکہ دوسری آیت میں ہے کہ ولقد صدق علیھم ابلیس ظنہ فاتبعوہ الا فریقامن المومنین اور ابلیس نے ان پر اپنا گمان سچ کر دکھا یا چانچہ انہوں نے اس کی پیروی کی سوائے تھوڑے سے ایماندواروں کے۔ ( صبا 30) الاعراف
18 ف 2 یعنی تم سے اور بنی آدم میں سے جو تمہار امتبع ہوگا۔ الاعراف
19 ف 3 تشریح کے لے ملاحظہ ہو۔ سورت بقرہ آیت 35) الاعراف
20 ف 4 علما تفسیر نے لکھا ہے کہ لیبدی میں لام عاقبت کا ہے کیونکہ شیطان کے دل میں یہ نہیں تھا کہ وہ ننگے ہوجائیں گے اور ہو سکتا ہے کہ لام تعلیل کا ہو اور اس کی غرض ہی یہی ہو، سترکو سو ۃ اس لیے کہتے ہیں کہ اس کا ننگا ہونا انسان کو طبعابرالگتا ہے حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں، گویا ان کو جنت کا لباس پہنایا گیا تھا جس سے ان کے ستر مستور تھے۔ شجرۃ ممنو عتہ کا پھل کھانے وہ وہ کپڑا اتر گیا وہ ہب بن منبہ کہتے ہیں کہ وہ لباس نورانی تھا جس کی وجہ سے ایک دوسرے کو انکے ستر نظر نہیں آتے تھے درخت کا پھل کھانے سے وہ نور سلب ہوگا ی اور ان کو ایک دوسرے کے ستر نظر آنے لگے ( ابن کثیر) حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ عیب ڈھکے تھے، یعنی حاجت استنجا اور حات شہوت جنت میں نہ تھی اور ان کے بد ن پر کپڑے تھے وہ کبھی اتارے نہ تھے کہ اتارنے کی حاجت نہ ہوتی تھی یہ اپنے اعضا سے واقف نہ تھے جب یہ گناہ ہو تو آدم بشریٰ پیدا ہوئے اپنی حاجت سے خبردار ہوئے اور اپنے اعضا، دیکھئے۔ ( مو ضح) ف 5 دوسرا ترجمہ یہ بھی ہوسکتا کہ صرف اسلیے کہ تم دونوں فرشتے نہ بن جا و یا ہمیشہ رہنے والوں میں سے نہ ہوجاؤ شیطان نے نا دونوں کو یوں بہکایا کہ اگر تم دونوں اس درخت سے کچھ بھی چکھ لو گے تو تم میں بھی فرشتوں کی سی خصوصیات فطری کمالات پیدا ہوجائیں گے اس کے بعد نہ ۔ تمہیں کھانے پینے کی کوئی حاجت رہے گی اور نہ تم مروگے بلکہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس جنت میں رہو گے۔ ( ابن کثیر) اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ فرشتے مطلق انسان سے افضل ہیں ہاں جزوی فضیلت ضروری ثاتب ہوتی ہے۔ الاعراف
21 ف 6 لہذا میرکہناما نو تم بڑ فائدے میں رہو گے۔ ! الاعراف
22 ف 7 یعنی انہیں اطاعت کے مرتبہ سے گراکر معصیت کے مربہ پر لے آیا۔ یادرہے کہ آدم اور ان کی زوجہ شیطان کی بات پر یقین نہیں لیے آئے تھے بلکہ جذبات سے مغلوب ہو کر انہوں نے معصیت کا ارتکاب کیا، ف 8 یعنی طبعی شرم وحیا کی جے سے اپنے بدن کی درخت کے پتو سے چھپانے لگے۔ اس آیت سے یہ بھی مفہوم نکلا کہ ستر چھپانا اور شرم کرنا انسان کی خلقی عادت ہے اور یہ تقوی ٰ میں داخل ہے اور جو کوئی سترنہ چھپائے وہ جانو و ہے۔ ( وحیدی) ف 9 اس آیت اور اس کے علاوہ بہت سے ی دوسری آیات اور احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کلام میں صوت (آواز) ہے اور فرشتے اور آدمی اس کی آواز سن کر سن سکتے ہیں اہل حدیث کا یہی مذہب ہے۔ ( وحیدی) ف 10 لہذا اس کی بات نہ سننا مگر تم اس فریب میں آگئے کہتے ہیں کہ حضرت آدم ( علیہ السلام) نے عرض کی کہ پروردگار اس نے تیری قسم کھائی اور ہم کو یہ معلوم نہ تھا کہ تیرے بندوں میں کوئی ایسا بھی ہوسکتا ہے جو تیرا پاک نام لے کر چھوٹ کھائے، ( ابن کثیر ) الاعراف
23 الاعراف
24 ف 1 یعنی کھانا پینا اور دینوی زندگی کے دوسرے سامان سے متمتع ہونا۔ الاعراف
25 ف 2 یعنی اللہ تعالیٰ نے زمین کو بنی آدم کے لیے جائے سکونت قرار دیا ہے کہ مر نے کے بعد اس زمین میں مد فون ہوں اور قیامت کے دن سے زندہ ہو کر نکلیں جیسا کہ سورت طحہٰ میں فرمایا : منھاخلقنا وفیھا نعید کم ومنھا نخرجکم تارۃ اخری۔ اسی مٹی سے ہم نے تم کو پیدا کیا اور اسی میں تمہیں لوٹائیں گے اور اسی سے دوبارہ تمہیں نکالیں گے ( آیت 55) الاعراف
26 ف 3 آسمان سے پانی اتارا جس سے روئی اگتی ہے اور تم اس سے کپڑ بنتے ہو ( قر طبی) یہاں انزل بمعنی خلق ہے یعنی پیدا کیا۔ ( مفر دات حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ یعنی دشمن نے جنت کے کپڑے تم سے اتروائے پھر ہم نے تم کو دنیا میں لباس کی تدبیر سکھا دی۔ ( مو ضح) ف 4 یعنی اس ظاہر لباس کے علاوہ جس سے تم صرف بد ن ڈھانکتے ہو یا زینت کا کام لیتے ہو ایک اور معنی لباس بھی ہے جو ہر لبا س بہتر ہے لہذا تمہیں اس کا اہتمام کرنا چاہیے اور وہ ہے پر ہیز گاری یعنی خوف خدا، ایمان اور عمل صالح، کا لباس بعض نے کہا ہے کہ لباس صوفی لوگ پہنتے ہیں مگر یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ بہت سے سلف صالح جن کی پر ہیز گاری ضرب المثل تھی عمدہ قسم کے لباس پہنا کرتے تھے بعض نے زرہ وغیرہ فوجی لباس مراد لیا ہے جو دشمن سے بچاؤ کا سبب بنتا ہے ( قر طبی، روح) ہاں یہ ضرور ہے کہ جس لباس کی ممانعت آئی ہے وہ نہ پنا جائے حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں اب وہی لباس پہنو جس میں پر ہیز گا ری ہو یعنی م دیہ ریشمی لباس نہ پہنے اور دامن دراز نہ رکھے اور جو منع ہوا ہے سونہ کرے اور عورت بہت پاریک نہ پہنے کہ لوگوں کو بد ن نظر آوے اور اپنی زینت نہ دکھا وے۔ ( از مو ضح) ف 5 اور اللہ تعالیٰ کی اس بہت بڑٰی نعمت کی قدر کریں یا نصیحت حاصل کریں اور قبائح سے اجتناب کریں۔ الاعراف
27 ف 6 اور ایسے دشمن سے تو بہت زیادہ محتاط اور چو کنا رہنا چاہیے جو ہم کو دیکھے مگر ہم اس کو نہ دیکھ پائیں اس آیت سے بعض اہل علم نے یہ استدلال کیا ہے کہ جنوں کے دیکھنا ممکن نہیں ہے مگر یہ استدلال کصحیح نہیں ؛ ہے کہ کیونکہ اگر کسی وقت ہمیں دیکھ رہے ہوں اور ہم انہیں نہ دیکھ رہے ہوں تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ان کا دکھائی دینا کسی وقت بھی ممکن نہیں ہے، یہ قضیتہ مطلقتہ لا دائمتہ لہذا صحیح یہی ہے کہ جنوں کی رؤیت ممکن ہے احادیث میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جنوں کو دیکھا ہے۔،( فتح القدیر) اور زکو ٰۃ رمضان کی نگرانی کے قصہ میں مذکور ہے کہ حضرت ابور ہریر (رض) نے ایک جن کو پکڑ لیا اور صحیح مسلم میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، آج رات میری نماز قطع کرنے کے لیے میرے پاس سرکش جن آگیا اگر میرے بھائی سلمان ( علیہ السلام) کی دعانہ ہوتی تو میں اسے پکڑ کر مسجد کے ستون سے باندھ دیتا اروصبح کو مدینہ کے بچے اس سے کھیلتے نیز یہ بھی ثابت ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) نے نصیین کے جنوں کو دیکھا ہے اب رہا امام شافعی کایہ فرمانا کہ جو شخص جنات کو رؤیت کا دعوی ٰ کرے اس کی شہادت مردود ہے تو اس سے امام شافعی کا مطلب یہ ہے کہ ان کو ان کی اصلی شکل پر دیکھنے کا دعو یٰ کرے (قر طبی روح ) الاعراف
28 ف 7 یہاں فواحش سے راد وہ عبادات ہیں جو انہوں نے از خود ایجاد میں مشرکین کے انپی بے حیائی اور بدکاری پر قائم رہنے کے دو عذر پیان کئے گئے ہیں ایک یہ کہ ہم نے اپنے بڑوں کو ایسا کرتے پایا ہے اور دوسرا یہ کہ اللہ تعالیٰ نے کا حکم دیا ہے کہ پہلا عذر چونکہ بطور واقعہ صحیح تھا اس لیے اس کی بطور تر دید نہیں فرمائی گئی یوں متعدد آیات میں بتایا ہے کہ باپ دادا کے نقش قدم پر چلتے رہنا کوئی دلیل نہیں ہے۔ ( دیکھئے سورۃ بقرہ آیت 170، مائدہ آیت 104) شاہ صاحب فرماتے ہیں یعنی سن چکے کہ پہلے باپ ن شیطان کا فریب کھایا پھر باپ کی سند کیوں لاتے ہو، ( موضح) رہا دوسرا عذر تو چونکہ بطور واقعہ مطلب یہ کہ جب انبیا کی زبان سے ان افعال کا منکر اور قبیح ہونا ثابت ہوچکا ہے تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ اس قسم کے فواحش کا حکم دے ( کبیر ) ف 8 اس آیت میں ان لوگوں کو بھی سخت تنبیہ ہے نو محض آبائی رسوم کو دین سمجھ کر اس عمل پیرا ہونے کو ثواب سمجھتے ہیں الاعراف
29 ف 9 لہذا تم اس کی پیروی اور اپنی بے حیائی اور بد کاری سے باز آجاؤ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ انصاف سے مراد لا الہ الا اللہ یعنی خالص توحید ہے جیسا کہ سورۃ آل عمران کی آیت، شھد اللہ انہ لا الہ الا ھو۔۔۔ قائما بالقسط سے معلوم ہوتا ہے۔ رازی) ف 10 یعنی قبلہ کی طرف سیدھی کرلو ہر نماز میں یا ہر جگہ جہاں تم نماز پڑھو۔ (کبیر) ف 11 یعنی خالصتہ اسی کی عبادت کرو اور اس کو پکار نے اور اس کی عبادت کرنے میں دوسرے کو شریک نہ کرو الٖغرض اس آیت میں تین باتوں کا حکم دیا ہے جس کے معنی یہ ہی کہ عبادت شرک اور ممنوع چیزوں پر مشتمل ہو وہ فواحش میں داخل ہے۔ ( کذافی الکبیر ) ف 1 یعنی جس طرح پہلے کچھ نہ تھے اور اللہ تعالیٰ نے تمہیں پیدا کیا ہے اسی طرح تمہارے مر جانے کے بعد وہ تمہیں دوبارہ زندہ کرے گا ( کبیر ) الاعراف
30 ف 2 یا تم آخرت میں دو گروہ بن کر پلٹو گے ایک مومنوں کا گروہ اور دوسرا کافروں کا گروہ ف 3 یعنی ان پر ضلالت اس لے ثابت ہوئی ہے کہ وہ شیطان کے کہنے پر چلتے رہے اور یہ سمجھتے رہے کہ ہم صحیح راستے پر چل رہے ہیں۔ ( کبیر) الاعراف
31 ف 4 یعنی طواف اور نمازیں ستر عورت فرض ہے مرد کے لیے کمر تازانو تک اور عورت کے لے چہرہ اور ہاتھوں کے سوا سارا بدن اور کپڑے باریک جس سے بدن یا بال نظر آویں معتبر ہیں، (کذافی المو ضح) جب اوپر آیت میں قسط (عدل وانصاف) کا حکم دیا اور لباس اور اکل شرب بھی فی الجملہ قسط میں داخل تھے اس لیے ان میں اسراف سے منع فرمادیا۔ (کبیر) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ زمانہ جاہلیت میں عورتیں اور مرد ننگے ہو کر طواف کرتے تھے اس پر یہ آیت نازل ہوئی ( فتح القدیر) ف 5 اسراف یہ ہے کہ آدمی حلال کو حرام ٹھہرالے یا حلال سے تجاوز کر کے حرام میں جا پڑے حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں اور فرمایا مت اڑاؤ یعنی منع کام میں خرچ نہ کرو۔ ( موضح) الاعراف
32 ف 6 اس آیت میں زبتہ اللہ سے عمدہ لباس اور تمام وہ چیزیں مراد ہیں جن سے انسان کو تجمل حاصل ہو سکتا ہے اور الطیبات سے عمدہ قسم کے لذیذکھانے مراد ہیں جن کو شریعت نے حرام قرارنہ دیاہو مطلب یہ ہے کہ خوش پوشی اور عمدہ قسم کے صحت بخش کھانے اللہ تعالیٰ نے حرام ٹھہرائے ہو اس آیت میں ان لوگوں کی سخت تر دید ہے جو اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کے ترک استعمال کو درویشی سمجھتے ہیں اور گھٹیا قسم کا کھانا کھانے ارولباس پہننے ہی کو بڑ ی نیکی خیال کرتے ہیں حدیث میں ہے اللہ تعالیٰ جب اپنے بندے کو کوئی نعمت عطا فرماتا ہے تو چاہتا ہے کہ اس کا اثر اس پر ظاہرہو۔ ( نسائی، ابن ماجہ) حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں یعنی جو نعمت ہے مسلمان کو واسطے پیداہوئی ہے میں کافر بھی شریک ہوگئے آخرت میں صرف انہوں کو کے لیے) ہے مزید دیکھئے سورۃ احقاف آیت 20 ( قرطبی، ابن کثیر ) الاعراف
33 ف 7 اوپر کی آیت میں یہ فرمایا کہ لوگوں نے اپنی طرف بہت سی چیزیں چرا کر رکھی تھیں اب اس آیت محرمات کو بیان فرمادیا، (رازی) جب مسلمانوں نے کپڑے پہن کر طواف کرنا شروع کیا تو کفار نے ان پر عیب لگایا اس پر یہ آیت ناز ل ہوئی ( قر طبی) الفواحش، یہ فاحشتہ کی جمع ہے اور انہتائی قبیح فعل کو کہتے ہیں الا ثم سے تمام چھوٹے بڑے گناہ مراد ہیں اور شراب کو بھی اثم کہہ لیتے ہیں اور البغو کے معنی لوگوں پر ظلم اور زیادتی کے ہیں الغرض یہاں محرمات کی پانچ قسمیں بیان فرمائی ہیں وہ بھی انما اور کوئی چیز حرام نہیں ہے حالانکہ بہت سے دوسری شیا کو حر مت بھی قرآن و حدیث میں مذکورہے امام رازی فراتے ہیں کہ کہ دراصل جنایات پانچ ہی قسم کی ہیں 1۔ جنایتہ علی الا نساب اور اس کا سبب زنا ہے اور الفواحش سے یہی مراد ہے دو جنایتہ علی العقل جس کے دوسرے معنی شراب نوشی کے بیں اور الاثم میں اسی طر اشارہ ہے سوم جنایتہ علی الاعراض چہارم جنایتہ علی النفوس والا موال اور البغی بغیر الحق میں ان دونوں کی حرمت کی طر اشارہ ہے بنجم جنایتہ علی الادیان اور یہ دو قسم کی ہے۔ 1۔ توحید میں طع کرنا جس کی طرف وان تشر کو اباللہ سے اشارہ فرمایا ہے اور 2۔ بغیر علم کے فتویٰ دینا جس کی طرف وان تقولو اعلی اللہ مالا تعلمون ؟ سے اشارہ فرمایا ہے غرض کہ جملہ جنایات میں یہ پانچ اصول کی حیثیت رکھتی ہیں اور باقی ان کے فروغ اور تواضع ہیں اس بنا پر انما کے ساتھ حصر صحیح ہے اور اس پر کوئی اعتراض نہیں آتا، (کبیر ) الاعراف
34 الاعراف
35 الاعراف
36 ف 1 اور پر بیان فرمایا کہ ہر ایک کے لیے ایک وقت مقرر ہے جس میں تقدیم وتاخیر نہیں ہوسکتی اب یہاں بتایا گیا جو لوگ فرماں بردار ہوں گے مرنے کے بعد ان پر کسی قسم کا خوف وحزن نہ ہوگا مگر جو سرکش ہوں گے وہ سخت عذاب میں گرفتار ہوں گے۔ اسی قسم کا خطاب سورۃ بقرہ میں حضرت آدم ( علیہ السلام) کے قصہ کے آخر میں بھی مذکو رہے، ( دیکھئے بقرہ آیت 36) الاعراف
37 ف 2 اس کا تعلق اوپر کی آیت والذین کذبو وبایتنا سے ہے یعنی دو قسم کے لوگ تو بہت ہے بڑے ظالم ہیں۔ پہلی قسم کے جوٹی نبوت کا دعویٰ کرنے والی یا اللہ تعالیٰ کی طرف کسی حکم کی چھوٹی نسبت کرنے والے آجاتے ہیں اور دوسری قسم میں تمام وہ لوگ شامل ہیں جو قرآن کے کتاب الہی ٰ ہونے سے انکار کرتے ہیں یا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کر منکر ہیں۔ ( کبیر ) الاعراف
38 ف 3 یعنی جس عذاب کا وعدہ کیا گیا ہے وہ اس صورت میں ال کتاب سے مراد قرآن ہے جیساکہ مترجم نے تصریح کردی ہے اور یہ ہوسکتا ہے کہ یہاں الکتاب سے مراد لوح محٖفوظ ہو یعنی جو سعادت وشقاوت اور رزق وعمر وغیرہ چیزیں اور ان کے لیے لوح محفوظ میں مقدر ہیں وہ ان کو حاصل ہو کر رہیں گی۔ اور ان کے ظلم وبدکار کے باوجود اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے ان میں کوئی کی نہیں کریگا شاید یہ توبہ کرلیں اور اپنے گناہوں سے باز آجائیں یہ معنی یہ آیت کے مابعد سے زیادہ مناسبت رکھتے ہیں کیونکہ جعی اذا جائ تھم رسلنا یتوفو نھم میں ان کے فوت ہونے کو اس نصیب کے حصول کے لے غایت قرار دیا ہے اور یہ جبھی ہوسکتا ہے کہ یہ عمرورزق اور سعادت و سقادت ہی ہو سکتے ہیں، ( کبیر) ف 4 اس میں بھی کفار کی حالت کا بیان ہے اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام کفار ایک ساتھ جہنم میں نہیں جائیں گے بلکہ ان میں سابق اور مسبوق ہوں گے (رازی) اور اپنی بہن پر لعنت کرے گی یعنی اپنی پہلی ہم مذہب امت پر جو اس سے پہلے جہنم میں داخل ہوچکی ہوگی، مثلا یہودی دوسرے دوسرے یہود پر اور نصاریٰ دوسرے نصاری پر اور مشرکین دوسرے مشرکین پر ( وحیدی) ف 5 یعنی جہنم میں بعد میں داخل ہونے والے پہلے داخل ہونے والوں کے بارے میں یا پیروی کرنے والے میں کہیں گے ( رازی) ف 6 یعنی ہم تو اپنے متقد میں کی تقلید میں یا انہی کی باتوں پر ایمان لاکر شرک وبدعت اور منکر رات ی راہ پر چلتے رہے۔ ف 7 کہ ہر ایک عذاب کس قسم ہوگا، اور جہنم کا عذاب چونکہ مسلسل اروغیر منتہی ہوگا اور ایک درد کے بعد دوسرا درد شروع ہوجائے گا اس اعتبار سے اسے ضعٖ ( دوگنا) فرمایا ہے ورنہ یہ معنی نہیں کہ گناہ کے استحقاق سے بڑھ ر ہو گ، (کبیر ) الاعراف
39 ف 8 یعنی اگر ہم مجرم و بدکار تھے تو تمہار احال کونسا بہتر تھا تم نے اپنی مرضی سے کفر کی روش اختیار کی، (ابن کثیر۔ قرطبی) ف 1 اس سے مقصود تخویف وزجر ہے۔ (کبیر ) الاعراف
40 ف 2 اوپر کی آیت میں جو وعید مذکور ہے یہ کہ اس کا تمتہ ہے اس سے معلوم کہ آسمانوں کے دروازے بہت سی صحیح احادیث میں ان دروازوں کا ذکر موجود ہے۔ دروازے نہ کھولے جانے کا مطلب تو یہ ہے کہ ان کے اعمال اور دعا کے اوپر جانے کے لیے درد ناک کھلتے یا یہ کہ مرنے کے بعد ان کی اراوح کے لیے دروازے نہیں کھلتے جیساکہ مومن کی صعود کے لیے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں۔ چنانچہ ایک طویل حدیث کے ضمن میں ہے کہ مومن کی روح اوپر چڑھتی ہے تو اس کے لیے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور فرشتے مرحبا کہہ کر اس کا استقبال کرتے ہیں حتی کہ وہ ساتویں آسمان پر چلی جاتی ہے مگر جب کافر روح آسمان تک پہنچتی ہے تو اس کے لیے دروازہ نہیں کھولا جاتا بلکہ اسے زجر و توبیخ کے ساتھ واپس کردیا جاتا ہے بعض نے اس کے معنی یہ بیان کئے ہیں کہ ان پر خیر وبرکت نازل نہیں ہوتی بہر حال آیت میں بہت بڑی وعید اور تہدید ہے۔ ( کبیر) ف 3 یہ تعلیق بالمحال کے قبیل سے ہے اور اور اونٹ چونکہ باعتبار جسامت بڑاجانور ہے اس لیے اس کے داخل ہونے کا ذکر ہے کردیا ہے مطلب یہ ہے کہ ان کا جنت میں داخل ہونا محال ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں یہاں فرماتے یہاں الجمل کے معنی موٹے رسے کے ہیں اور سوئی کے ساتھ اس کا ذکر زیادہ مناسب ہے۔ ( کبیر۔ ابن کثیر ) الاعراف
41 الاعراف
42 ف 4 یہ جملہ ہم تو کسی پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتے جملہ معترضہ ہے اس لے ترجمہ میں قوسین کے درمیان لکھا گیا ہے اس جملہ کو دمیان میں لانے سے یہ بتانا مقصود ہے کہ جنت میں جانے لانے سے یہ بتابا مقصود ہے کہ جنت میں جانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے جو کام فرض کئے ہیں وہ نہایت آسان اور انسانی طاقت کے اند ر ہیں لہذ ہر شخص کو ان کے لیے بجالانے کی کوشش کرنی چاہیئے (کذافی لکبیر، وحیدی ) الاعراف
43 ف 5 یعنی ان کے دل ایک دوسرے کی طرف سے بالکل صاف اور پاک کردیئے گائیں گے اور ان میں سے کوئی شخص دوسرے کو خلاف نفرت یا حسد کرجذبات نہیں رکھے گا حضرت علی (رض) فرماتے ہیں مجھے امید ہے کہ میں عثمان طلحہ اور زبیران لوگوں میں سے ہوں گے جن کا اس آیت میں ذکر ہے ّکذافی المو ضح) ف 6 حضرت ابوہریر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہر جہنمی جنت میں اپنا ٹھکا نہ یکھے گا اوحسرت کرے گا کہ کاش اللہ تعالیٰ مجھے بھی ہدایت دیتا اور ہر جنتی جب جہنم میں اپنا ٹھکانہ دیکھے گا شکر کرے گا کہ اللہ تعالیٰ مجھے ہدایت نہ دیتا تو میرا یہ ٹھکاناہو تا۔ ( ابن جریر۔ نسائی) ف 7 یہ بات اہل جنت کہیں گے کہ وقعی ان کی بات سچی تھی کہ ایمان اور عمل صالح کی جزا جنت ہے۔ ( کبیر) ف 8 نیک اعمال کے بدلے جنت مل جانا بھی اللہ تعالیٰ کا فضل ہوگا کیونکہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر کوئی عمل چاہے وہ کتنا ہی نیک ہو خود کوئی نفع نہیں دے سکتا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک مرتبہ صحابہ سے فرمایا جان لوتم میں سے کسی کا عمل سے جنت میں داخل نہیں کرے گا صحابہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول کیا آپ کا عمل بھی آپ کو جنت میں داخل نہیں کرے گا فرمایا ہاں میرا عمل بھی نہیں الا یہ کہ اللہ تعالیٰ مجھے اپنے فضل و رحمت سے ڈھانک لے (بخاری مسلم) حضرت شاہ صاحب لکھت ہیں جنت کا وارث فرمایا یعنی آدم کی میراث پائی۔ ( مو ضح) الاعراف
44 ف 9 یہ بات دوزخیوں کور تقریع اور توبیخ کے طور پر کہی جائے گی بالکل انہی الفا ظ کے ساتھ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بدر کے دن جو کافرقتل ہوگئے تھے ان کے نام لے لے کر پکارا تو حضرت عمر نے عرض کی اے اللہ کے رسول آپ مردہ لاشوں کو پکار ہے ہیں اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد جان ہے جو کچھ میں کہہ رہا ہوں تم ان سے زیادہ نہیں سن رہے ہو لیکن یہ جواب نہیں دے سکتے قتادہ (رح) کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی اذیت اور حسرت میں اضافے کی غرض سے ان کو زندہ کر کے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد انہیں سنوادیا تھا واللہ اعلم (ابن کبیر ) الاعراف
45 ف 1 یعنی اس میں شکوک وشبہات پیدا کو کے لوگوں کو اس سے نفرت دلاتے ہیں یالوگوں کو دھمکی دے کر راہ حق سے روکتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ یہ راہ سیدھی نہیں ہے صحیح ہو راہ وہ ہے جس پر ہم چل رہے ہیں۔ ( کبیر قرطبی) ف 2 یعنی وہ ظالم جو ان تین صفات سے متصف ہوں گے ان پر لعنت نہیں کی۔ کبیر) حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں حق تعالیٰ نے قرآن شریف میں بے انصاف ( ظالم) فرمایا اکثر گناہوں پر لیکن لعنت نہیں کی مگر ایسوں پر ( مو ضح) مطلب یہ ہے یہ کہ ہو بے محا باہر قسم کے برے اقوال واعمال کا رتکاب اس لیے کر رہے ہیں کہ وہ آخرت کے منکر ہیں الاعراف
46 ف 3 جو جنت اور جہنم کے درمیان ایک دیوار ہوگی جیساکہ دوسری جگہ فرمایا فضرب بینھم بسور تو ان کے یعنی جنتیوں اور جہنمیوں کے درمیان ایک دیوار بناد ی جائے گی ( حدید 13) اور فتح الر حمن میں ہے وآم مسی باعرف مست یعنی اس حجاب کو اعراف کہا جاتا ہے۔ ف 4 اعراف عرف کی جمع ہے اور لغت میں عرف بلند جگہ کو کہتے ہیں۔ لہذا اعراف سے مراد دیوار کی بلندیاں ہیں، جہاں ٹھہرنے والوں کو ایک طرف جنتی اور دوسری طرف جہنمی لوگ نظر آئیں گے۔ امام رازی (رح) لکھتے ہیں کہ یہ قول ابن عباس (رض) کا ہے وعلیہ الا کثرون (کبیر) ف 5 مثلا جنتیوں کے چہرے سفید اور نورانی ہوں گے۔ اور جہنمیوں کے کالے سیاہ جنتویں کے مو ضع وضو چمک رہے ہوں، اعراف میں کون لوگ ہوں گے، اس بارے میں مفسرین کے متعدد اقوال ہیں۔ علامہ قرطبی نے دس اقوال نقل کئے ہیں۔ ان میں سب سے مشہور قول جسے ئ جمہور مفسری ن نے کثرت روایات کی بنا پر ترجیح دی ہے کہ وہ لوگ ہوں گے جن کی نیکیاں اور برائیاں برابر ہوں گی اس لے نہ وہ جنت میں داخل ہوں گے اور نہ دوزخ میں ( ابن کثیر وغیرہ) ف 6 یعنی جنت میں جانے کی امید رکھتے ہو نگے اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں ایک یہ کہ اعراف والے ابھی جنت میں داخل نہ ہوئے ہوں گے مگر امید رکھتے ہوں گے کہ انہیں آئندہ جنت نصیب ہوگی، دوسرے یہ کہ اعراف والے ان لوگوں کو پیاریں گے جن کا جنتی ہونا انہیں ان کی علامات دیکھ کر معلوم ہوجائے گا حالانکہ وہ ابھی حساب کتاب میں مشغول ہوں گے۔ ( ابن کثیر۔) الاعراف
47 ف 7 ان کی نگاہیں پھیری جائیں گی مجہوم کا صیغہ ہے جس میں اس طرف اشارہ ہے کہ اعراف والے جنتیوں کی طرف تو شوق اور رغبت سے دیکھیں گے اور انہیں سلام کریں کے مگر جمہور کی طرف خود نگاہ اٹھانا پسند بھی نہ کریں گے ان پر اتفاقا ان کی نگاہ پڑجائے گی (المنار) ف 8 جہاں وہ اب ہیں یا آیندہ ہوں گے۔ الاعراف
48 ف 9 کہ یہ جہنمی ہیں یاجن کو وہ دنیا میں پہچانتے ہوں گے۔۔ (وحیدی ) الاعراف
49 ف 10 جیساکہ قریش کے کھاتے پیتے لوگ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاد غریب مسلمانوں کو دیکھتے تو قسمیں کھاکھا کر کہتے کہ ان لوگوں یہ حیثیت نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں اپنی رحمت سے نوازے پھر اللہ تعالیٰ نے ان غریب مسلمانوں سے یا اعراف والوں سے فرمائے گا (وحیدی ) الاعراف
50 ف 11 لہذا ہم تم سے کوئی ہمدردی کا سلوک کرکے اس کی نافرمانی کریں گے۔ (وحیدی) بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ اصحاب اعراف کے جنت میں داخل ہونے کے بعد کفار جہنمی لوگ یہ فریاد کریں گے ( شوکانی ) الاعراف
51 ف 1 یعنی وہ اسی کو سب کچھ سمجھے بیٹھے تھے خدا اور آخرت سے غافل تھے۔ ف 2 یہاں نیسان بمعنی ترک ہے یعنی دوزخ میں ڈال کر ان کی کوئی خبر نہ لیں گے یا یہاں جزائے ئ نسیان کو نسیان سے تعبیر فرمایا ہے یعنی آخرت خواہ کتنا ہی پکاریں ان پر کبھی رحم نہیں کیا جائئے گا۔ ف 3 یعنی دین کی عظمت احساس ان کے دلوں سے نکل چکا ہے اور دنیاوی زندگی نے ان کو غرور میں مبتلا کر رکھا ہے اس بنا پر وہ آیات الیٰ کا شدت سے انکار کر رہے ہیں حدیث میں ہے حب الدنیا راو کل خطیئتہ کہ دنیا کی محبت ہر خطا کی جڑ ہے ( رازی ) الاعراف
52 ف 4 فرق ثلاثہ کا مکالمہ نقل کرنے کے بعد اب سے آیت کی دعوت دی جارہی ہے۔ (رازی) ف 5 اس میں تکذیب کرنے والوں کی تنبیہ فرمائی ہے کہ کیا قرآن کا شرف بیان کر کے اس پر غور وفکر کر دعوت دی جا رہی ہے (رازی) ف 5 اس میں تکذیب کرنے والوں کو تنبیہ فرمائی ہے کہ کیا قرآن میں جس عذاب دینوی یا اخری کا ان سے وعدہ کیا گیا ہے وہ اس کے پیش آنے کا انتظار کر رہے ہیں ( رازی ) الاعراف
53 ف 6 شاہ صاحب فرماتے ہیں یعنی کافر راہ دیکھتے ہیں کہ اس کتاب میں خبر ہے عذاب کی ہم دیکھ لیں کہ ٹھیک پڑے تب قبول کرلیں سو جب ٹھیک پڑے گی تو خلاص کہا ملے گی خبر اس لیے ہے کہ یہ لوگ سمجھتے تھے کہ جن کو ہم اللہ تعالیٰ کا شریک بنا رہے ہیں وہ کسی آڑے وقت ہمارے کام آئیں مگر اب ان کا کچھ پتہ نہیں (شوکانی ) الاعراف
54 ف 8 اور ہر دن ایک ہزار سال کا ہے۔ (شوکانی) دیکھئے سورت حج آیت 47۔ مطلب یہ ہے کہ یہاں دنوں سے ہمارے دن مراد نہیں ہیں جن کا تعلق سورج اور زمین کی گردش سے ہے کیونکہ ان سے لمبا زمانہ یا چھ ادوار مراد ہیں قرآن کی مخلتف آیات پر غور کرنے سے یہ بھی معلوم ہوسکتا ہے کہ ہر دور میں کون سی چیز بنائی گئی دیکھئے سورۃ فٖصلت آیت 10۔۔۔ صحیح احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یوم الا حد ( اتوار) سے خلق کی ابتدا ہوتی ہے اور جمعہ کے دن تمام ہوگئی ( ابن کثیر، المار ) ف 9 استویٰ علی العرش قرآن میں ساتھ مقامات پر آّیا ہے اس کے معنی عرش پر بلند ہونے کے ہیں سلف صالح نے بلاتاویل اللہ کو عرش پر تسلیم کیا ہے۔ چنانچہ منقول ہے کہ استو کے معنی تو معلوم ہیں مگر اس کی کیفیت ہماری عقل سے با لا ہے اس کا اقرار ایمان ہے اور انکار کفر ہے یہی مذہب آئمہ اربعہ کا ہے پس صحیح عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ساری مخلوق سے الگ عرش پر ہے تاہم اس کا علم وقدرت سب پر حاوی ہے اہل حدیث کا یہی عقیدہ ہے اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ کا عرش آسمان وزمین پر محیط ہے ( ابن کثیر، شوکانی) ف 10 یعنی اللہ تعالیٰ نے جو وقت اور راستہ ان کے لیے مقرر فرمایا ہے وہ اسی پر چلتے رہتے ہیں اور اس سے سرمو انحراف نہیں کرسکتے۔ (کذافی الکبیر ) ف 11 یعنی جس طرح خلق میں اس کا کوئی شریک نہیں ہے اسی طرح حکم اور قانون بنانے کا اختیار بھی اسی کو ہے ، الاعراف
55 ف 12 یعنی دعاذات و خشوع کے ساتھ ہونی چاہیے اور دعا میں اخفا مستحب ہے کیونکہ اس سے اخلاص پیداہو تا ہے اور ریاکاری راہ نہیں پاتی اور لایحب المعتدین کے معنی یہ ہیں کہ حدود شریعت سے تجاوز کسی صورت بھی اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں اور ایسی چیز کی دعا کرنا ممکن ہو۔ مثلام دنیا میں ہمیشہ زندہ رہوں یا یہ کہ آخرت میں انبیا کا مرتبہ حاصل ہوجائے وغیرہ دعا میں حد سے تجاوز ہے اسی طرح چیخا چلایا جائے اور ادعئیہ یا ثورہ کو چھوڑ کر مقفی کلام اور اشعار پڑھ کر دعا کی جائے وغیر بھی اعتدا فی الد عا میں داخل ہے۔ ( شوکانی وغیرہ) ابو موسیٰ اشعری سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ لوگ بلند آواز سے دعا کرنے لگے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لوگو اپنے تئیں آرام دو، ( یعنی ذرا آہستہ پکا رو) کیونکہ تم کسی گونگے یا غائب کو نہیں پکارہے ہو بلکہ جسے پکار رہے وہ سننے والا بھی ہے اور تم قریب بھی ہے۔ ( بخاری ومسلم) الاعراف
56 ف 13 یعنی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور شرک کے کام مت کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ سے کفر کرنا اور معاضی کا رتکاب ہی فساد فی الارض ہے۔ (شوکانی ) ف 1 یعنی دعا کرتے وقت اللہ تعالیٰ کو خوف بھی ہو اور دعا کی قبولیت کی دل میں طع بھی۔ ( شوکانی) حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ پر دیر مت ہو اور ناامید بھی مت ہو طمع میں یہ چیز بھی داخل ہے کہ انسان دعا کے بعد مایوس نہ ہوجیساکہ حضرت ابو ہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم میں سے کسی کی دعا اسی وقت تک قبول ہوتی ہے جب تک وہ جلدی نہ کرے ارجلدی یہ ہے کہ انسان یہ کہہ کے میں نے اپنے رب سے دعا کی مگر اس نے قبول نہ کی۔ ( بخاری۔ مسلم) ف 2 اس میں ترغیب ہے اور قریب فصیل کے وزن پر ہے جب یہ مسافت کے لیے آئے تو اس میں تذکیر وتانیث برابر ہوتی ہے اور اگر نسب کے لیے ہو تو بلا اختلاف قریبتہ (مو نث) بولا جاتا ہے ( شوکانی ) الاعراف
57 ف 3 یہاں رحمت سے راد بارش ہے۔ ( شوکانی) ف 4 جیسے پانی سے ہر طرح کے پھل نکالتے ہیں۔ (وحیدی) ف 5 یعنی جس ذات پاک نے مردہ زمین کو دم بھر میں زندہ کردیا وہ انسانوں کو بھی ان کے مر جانے کے بعد دوبارہ زندہ کرسکتی ہے اس سے اللہ تعالیٰ کی قدرت کی عظمت کا اندازہ ہوسکتا ہے۔ ( شوکانی ) الاعراف
58 ف 6 اور یہی مومن اور منافق ( یا کافر) کے دل میں کی مثال ہے جیسا کہ تابعین سے مروی ہے کہ ( شوکانی) حضرت ابو موسیٰ ٰ سے روایت ہے کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھے جوعلم و ہدایت دے کر بھیجا ہے اس کی مثال اس باران رحمت کی ہے جو ایک زمین پر بر سی اس کے جو حصے زرخیز تھے انہوں نے پانی کو جذب کرلیا اور خوب گھاس اور چارہ اگایا بعض حصے سخت تھے انہوں نے پانی کو روک رکھا جو لوگوں نے پیا اور اس سے اپنے کھیتوں کو بھی سراب کیا اور بعض حصے چٹیل میدان تھے انہوں نے نہ پانی کو روکا اور نہ کوئی سبزہ اگایا یہی مثال اس شخص کی ہے جس نے اللہ تعالیٰ کے دن کو سمجھ کر اس دو سروں کو فائدہ پہنچا یا اور اس شخص کی بھی جو نہ خود سمجھا اور نہ اس نے دوسروں کو فائدہ پہنچا۔ ( ابن کثیر ) الاعراف
59 ف 7 اوپر بیان فرمایا ہے کہ ہدایت الہی اور اس کے برکات سے مستفیض ہونے یانہ ہونے میں لوگوں کی دو قسمیں ہیں ایک پاکیزہ فطرت ( طیب) جوہدایت الہیٰ اور اس برکات سے خود بھی فائدہ اٹھاتے ہیں اور ان کے علم وعمل سے دوسروں کو بھی فائدہ پہنچتا ہے دوسرے وہ جو شررت پسند اربد فرطرت ہوتے ہیں یہ لوگ باران ہدایت سے فائدہ اٹھانے کی بجائے الٹے چھاڑیاں اور کانٹے بن کر نکل آتے ہیں اور ان کے دلوں کی زمین چونکہ شور ہوتی ہے اس یے ان پر باراب رحمت چنداں فائدہ بخش نہیں ہو سکتی اس کے بعد اب یہاں سے تاریخی شواہد کے طور پر پہلی قوموں کے واقعات بیان کر کے گویا تاریخی شواہد کے طور پر پہلی قوموں کے وقعات بیان کر کے گویا تاریخی ثبوت پیش کیا ہے کہ ہمیشہ سے لوگ دو قسم کے چلے آئے ہیں ( از ماخوذ ابن کثیر) حضرت نوح چونکہ سب سے پہلے نبی مرسل تھے جو مشرک قوم کی طر بھیجے گئے جیسا کہ حدیث شفاعتہ کبری اور بعض دوسری رایات سے معلوم ہوتا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے انہی کا قصہ بیان فرمای ہے حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں آدم ( علیہ السلام) سے لے کر دن قرن ایسے گزرے ہیں بنی آدم توحید پر قائم رہے اور حضرت نوح ( علیہ السلام) کی قوم سب سے پہلی قوم ہے جس نے اپنے بعض نیک لوگوں کی یاد تازہ رکھنے کے لیے ان کے مجسمے بنائے اور پھر انکی پوجا کرنے لگی ان مجسموں کے نام سورۃ نوح میں مذکور ہیں قوم نوں ملک عراق میں آباد تھی جو حضرت ابراہیم کا مو لد ہے حضرت نوح ( علیہ السلام) کا زمانہ تقریبا 3800 ق م تا 2850 ق م ہے۔ ( ابن کثیر، ابو الفدار ) الاعراف
60 ف 8 کہ اپنے آبائی دین کو چھوڑ کر ہمیں بھی ایک نئے دین ( تو حید) کی طرف کھنچنا چاہتا ہے انبیا ( علیہ السلام) کے واقعات یہ بات قرآن نے نما یاں طور پر بیان کی ہے کہ ان کی دعوت توحید کی مخالفت کرنے والوں میں امرا کا طبقہ ہر زمانہ پیش پیش رہا ہے کیونکہ ایک انقلابی دعوت کا پہلا نشانہ یہی لوگ بنتے ہیں۔ الاعراف
61 الاعراف
62 ف 9 کیونکہ میری طرف وحی میری طرف وحی آتی ہے اور تمہاری وحی نہیں آتی۔ ( شوکانی ) الاعراف
63 ف 1 اشارہ فرمایا کہ انبیا کی دعوت قبول کرن لینے سے دلوں میں تقوی ٰ پیدا ہوتا ہے اویہی تقوٰ آخرت میں جالب رحمت بنے گا۔ (رازی) الاعراف
64 ف 2 یعنی آخر مخالفین طوفان سے ہلاک ہوگئے اور ان مومنین نے نجات پائی۔ جو سفینہ میں سوار تھے، طوفان نوح کا تخمینی سال 3200 ق م ہے۔ بیان کرتے ہیں کہ حضرت نوح ( علیہ السلام) کایہ سفینہ سہ 3 منزلہ تھا، توریت میں اس کی پیمائش حسب ذیل ہے۔ طول 300 ہاتھ عرض 50 ہاتھ اونچائی ہاتھ توریت کے بیان کے مطابق یہ جہاز تقرینا پانچ ماہ چلتا رہا۔ سر زمین عراق میں اب بھی اس طوفان کے آثار ملتے رہتے ہیں۔ الاعراف
65 ف 3 عاد عرب کے ایک قدیم ترین قوم تھی، جو جنوب عرب میں ابادتھی، قرآن کے بیان کے مطابق اس کا مسکن احقاف اک علاقہ تھا جو حجاز یمن اور عمان کے دورمیان واقع ہے اور اب ربع خالی کے نام سے مشہور ہے۔ یمن کاشہر حضرموت ان پا یہ تخت تھا۔ ان کا نسب یوں مذکور ہے، عاد بن عوض بن ارم بن سام بن نو ح۔ ( ابو لفدا) ہود ( علیہ السلام) کی قوم عاد قرآن میں عاد رام یا عاداولی ٰ کے نام سے مذکور ہے، عادبن عوض بن ارم بن سام بن نو ح۔ ( ابو الفدا) ہود ( علیہ السلام) کو قوم عاد قرآن میں عاد ارم یا داولی کے نام سے مذکور ہے، حضرموت کے قریب ایک مقام پر حضرت ہود ( علیہ السلام) کی قبر بتائی جاتی ہے ( المار بحوالہ تاریخ بخاری) حضڑت ہود پہلے شخص ہیں جنہوں نے بو لنے میں عربی زبان استعمال کی یہ یمینی ان کے بیٹے قحطان کے اور نجد وحجاز کے تمام عرب ان کے لڑکے فانع کی اولاد ہیں . ( ابن عساکر ) الاعراف
66 الاعراف
67 الاعراف
68 الاعراف
69 ف 4 یعنی تم کو قوی اور زیردست بنایا۔ اور قوم نوح ( علیہ السلام) کے بعد ایک زبر دست قوم کی حیثیت سے تمہیں زمین پر آباد کیا یہاں خلفا سے یہی معنی مراد ہیں یہ مطلب نہیں ہے کہ قوم نو ھ کے وطن عراق میں انکا جانیشن مقرر کیا ( قر طبی) بعح علمائے تفسیر نے قوم عاد کی جسمانی قوت اور انکے قدر قامت کی لمبائی کے بارے میں عجیب و غریب روایات نقل کی ہیں، مثلا یہ کہ عاد کی قوم کا ایک لمبا آدمی سو ہاتھ کا اور اسب سے چھوٹے قد کا ساٹھ ہاتھ کاہو تا تھا۔ اور بعض روایا میں ہے کہ اس کا ایک آدمی اتنے پتھر کو اکیلا اٹھا لیتا تھا جسے ہمارے زمانہ کے پانچ سو آدمی بھی نہیں اٹھا سکتے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن یہ تمام روایات تاریخی کہانیوں کی حیثیت رکھتی ہیں جن پر کوئی اعتماد نہیں کیا جاسکتا، البتہ یہ بات اپنی جگہ صحیح ہے کہ عاد کے لوگ غیر معمولی جسمانی قوت اور قدو قامت رکھتے تھے جیسا کہ سورۃ ہود شعرا اور فصلت میں میں مذکور ہے۔ ( فتح البیان ) الاعراف
70 الاعراف
71 ف 1 کسی بارش کا کسی کو ہوا کا کسی کو پانی کا کسی کو دولت کا اور کسی کو بیماری کا خدا کہتے ہو حلانکہ ان میں سے کوئی بھی در حقیقت کسی چیز کا خدا نہیں ہے۔ یہ صرف نام ہیں ان کے پیچھے کوئی حقیقت نہیں ہے۔ (وحید ی وغیرہ ) ف 2 اس نے کہیں یہ نہیں فرمایا کہ میں نے اپنی خدائی کی اس قسم کے اختیارات فلاں کو مشکل کشا فلاں کو گنچ بخش، فلاں کو غوث، فلاں دستگیر اور فلاں کو داتا صاحب بنا دیا، یہ اور اس قسم کے دوسرے القا لوگوں نے اختراع کر کے ان بزرگوں کی طرف منسوب کردیئے ہیں اور شرک کا موجب بنتے ہیں الاعراف
72 ف 3 الہ تعالیٰ قرآن مجید میں دوسرے مقامات پر ان کے تباہ کئے جانے کی کیفیت تفصیل مثلا سورت ذاریات (آیت 41 اور سورت الحاقہ آیت 7 میں مذکور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر طوفان خیز آندھی چلائی جو مسلسل سات راتیں اور آٹھ دن چلتی رہی۔ وہ آندھی اس قدر تندوتیز تھی کہ جس چیز پر سے گزرتی اسے چورا کر ڈالتی حتی کہ ان کے پٹخ پٹخ کر ہلاک کر ڈالا۔ ان کی لاشیں اس طرح دکھائی دیتیں جیسے کھجور کے کھو کھلے تنے میں ( ابن کثیر) قرآن نے یہاں اور دوسرے مقامات پر بھی تصریح فرمائی ہے کہ عاد اولی کا نام ونشان تک باقی نہ چھوڑا اور عرب مئورخین بھی بالا تفاق ان کو عرب ہائدہ میں شمار کیا ہے، صرف حضرت ہود ( علیہ السلام) اور ان کے متبعین اس عذاب سے محفوظ رہے اور بقول بعض ان کی نسل عادثانیہ کے نام سے معروف ہے۔ بعض آثار قدیمہ سے انکے متعلق معلومات بھی ملتی ہیں۔ الاعراف
73 ف 4 ان کا شمار بھی عرب کی قدیم ترین قوموں میں ہے عاد کے بعد سب سے مشہور قوم یہی تھی اس بنا پر بعض نے اسے عاد ثانیہ بھی لکھ دیا ہے ان کا مسکن مغربی عرب کا واہ علاقہ تھا جو آج بھی الحجر کے نام سے معروف ہے ( ابو الفد) مدینہ اور تبوک کے درمیان شام کو جا نے والی شاہراہ پر ایک شہر مدائن صالح کے نام سے مشہور ہے یہی قوم ثمود کا صد مقام تھا، وہاں اب بھی اچھی خاصی تعداد میں وہ عمارتیں پائی جاتی ہیں جو ثمود نے پہاڑوں کر تراش کربنائی تھیں اور ان کے اردگر بڑا وسیع میدا ہے صحیح روایا میں ہے کہ غزوہ تبوک کے موقع پر جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہاں سے گزرے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام (رض) کو ہدایت فرمائی کہ اس علاقہ سے جلدی گزرجائیں کیونکہ یہ عذاب سے تباہ ہونے والی قوم کا علاقہ ہے اور مقام پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک کنویں کی نشا ند دہی کر کے بتایا کہ یہی وہ کنوا ہے جس سے حضرت صالح ( علیہ السلام) کی اونٹنی پانی پیا کرتی تھی۔ اور مسلمان کو ہدایت فرمائی کہ اس کنویں کے سوا کسی دوسرے کنویں سے پانی نہ لیں۔ یہ کنواں اب بھی موجود ہے مگر خشک ہوچکا ہے نیز ایک کو ہستانی درے ( فج کو دکھا کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بتایا کہ یہی وہ جگہ ہے جس سے حضرت صالح ( علیہ السلام) کی اونٹنی پانی پینے کے لیے آیا کرتی تھی (ابو الفدا) یہ جگہ اب بھی فج النقتہ (اونٹنی کا درہ) کے نام سے معروف ہے۔، بعض سیاحت ناموں میں مذکور ہے کہ جس پہاڑی سے وہ اونٹنی بطور معجزہ برآمد ہوئی تھی اس میں اب تک شگاف موجود ہے۔ حافظ ابن کثیر نے اس چٹان کا الکاتبہ لکھا ہے۔ (البدایہ) ف 5 حافظ بغوی نے ان کا نسب نامہ یوں بیان کیا ہے۔ صالح بن عبیدبن آصف بن ماشح بن عبید بن ثمود (معالم) بن عاثر بن ارم بن سام بن نوح اور ثمود کے دوبھائی اور تھے جن کے بام پر جد یس اور طسم دو قبیلے مشہور ہیں۔ ( ابن کثیر) بعض نے لکھا ہے کہ جزیرہ نمائے سینا کے مسرق کنارہ پر حضرت صالح ( علیہ السلام) کی قبر موجود ہے جو آج بھی زیارت گاہ خلائق ہے اور اسی جزیرہ میں جبل موسیٰ ( علیہ السلام) کے قریب صالح ( علیہ السلام) کی اونٹنی کا نقد معروف ہے۔ ف 6 اسے ناقتہ اللہ اللہ کی اونٹنی فرماکر اس کی عظمت در معجزانہ شاکی کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ بعض روایات میں جنہیں ابن جریر (رح) اور بعض دوسرے مفسرین (رح) نے ابو الطفیل سے نقل کیا ہے یہ قصہ مذکورہے کہ صالح ( علیہ السلام) کی قوم نے ان سے درخواست لی کہ ہمیں کوئی معجزہ دکھا یا جائے اسے دیکھ کر ہم ایمان لے آئیں گے حضرت صالح ( علیہ السلام) ان پختہ عہد لے لیا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ سے دعا کی، دفعتا ایک ایک چٹان بھٹی اور اس میں سے ایک اونٹی نکل آئی چونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کو معجزانہ اور حضرت صالح ( علیہ السلام) کے صدق نبوت کی نشانی کے طور پر پیدا فرمایا تھا اس لیے وہ اللہ کی اونٹنی کہلائی اور قرآن نے متعدد مقامات پر اس اونٹنی کا جس انداز سے ذکر کیا ہے اس سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ یہ نا قہ معجزہ کی حیثیت رکھتی تھی بلکہ سورت شعرا میں یہاں تک بیان کیا گیا ہے کہ حضرت صالح ( علیہ السلام) کی قوم نے ایک نشانی کا مطالبہ کیا اس کے جواب میں حضرت صالح ( علیہ السلام) نے ابن کے سامنے یہ اونٹنی پیش کی، ( دیکھئے رکو ع 8) ف 7 یعنی اگر اسے ستاؤ گے، مارو گے یا زخمی کرو گے تو اللہ تعالیٰ کا عذاب تم پر نازل ہوجائے گا۔ الاعراف
74 الاعراف
75 ف 1 یعنی طنزا پوچھنے لگے۔ ف 2 یعنی نہ صرف ان کے رسول ہونے پر یقین ہے بلکہ ان کے دیئے ہوئے ایک ایک حکم کی صحت پر بھی یقین ہے۔ الاعراف
76 الاعراف
77 یہ کام گو ایک شخص نے سر انجام دیا لیکن سب ہی مجرم قرار دیئے گئے اور اسب ہی پر عذاب آیا سورۃ قمر میں ہے فنا دا و صحبھم فتعاطی فعقر چنانچہ انہوں نے رفیق کو پکارا س نے تلوار پکڑی اور ( انٹنی کاٹ ڈالا آیت 29) علمائے تفسری نے اس اشقی (بد بخت کا نام قداربن سالف لکھا ہے جو حرام زادہ تھا اس کے ساتھی آٹھ غنڈے اور تھے اور جو اپنی قوم کے سر دار تھے ( دیکھئے سورۃ نحل آیت 48) ف 4 یعنی کہتا تھا کہ دیکھنا اس اونٹنی کو ہاتھ نہ لگا بیٹھنا ورنہ اللہ تعالیٰ کے عذاب میں گرفتار ہوجاؤ گے۔ الاعراف
78 ف 5 سورۃ ہود میں ہے کہ صالح ( علیہ السلام) نے جب دیکھا کہ انہوں نے اونٹی کو کاٹ ڈالا ہے توحضرت صالح ( علیہ السلام) نے انہیں تین دن کی مہلت دی جب یہ تین دن پورے ہوگئے تو ان پر عذاب نازل ہوا (دیکھئے آیت 25 سورہود) علمائے تفسیر نے لکھا ہے کہ حضرت صالح ( علیہ السلام) اور آیت آپ کے اہل ایمان ساتھیوں کو اللہ تعالیٰ نے بچالیا ان کے سوا ساری قوم ہلاک وہ گئی ان میں سے صرف ایک شخص ابو رغال ان دونوں حرم مکہ میں مقیم تھا وہ عذاب سے محفوظ رہا لیکن جب وہ حرم چھو کر طائف کی طرف روانہ ہو اتو وہ بھی ہلاک ہوگیا اور راستہ میں دفن کردی گیا کہتے ہیں کہ وہ ب نو ثقیف کا جدا اعلی ٰ ہے عبد اللہ بن عمرو سے ایک روایت میں ہے کہ جب ہم آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ غزوہ طائف کے لے نکلے تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے راستہ میں فرمایا یا یہ ابو رغال کی قبر ہے جو ثقیف کا باپ ہے۔ ( ابن کثیر ) الاعراف
79 ف 6 یعنی عذاب آیا یا عذاب آنے کا وقت ہوا۔ حضرت صالح کی قوم پر دو طرح کا عذاب آیا یعنی اوپر سے صحیحتہ (چیخ) اور نیچے سے رجفتہ یعنی زلزہ ( ابن کثیر ) الاعراف
80 ف 7 عربی انساب کی کتابوں اور بائیبل کی کتاب پیدائش سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت لو ط ( علیہ السلام) حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کے بھتیجے تھے کتاب پیدائش میں یہ بھی مذکور ہے کہ ان کے والد کا نام حاران تھا اور وہ بابل کے ایک شہر میں پیدا ہوئے تھے اپنے والد کی وفات کے بعد حضرت لو ط ( علیہ السلام) بھی اپنے چچا حضرت ابراہیم کے ساتھ عراق سے نکل کھڑے ہوئے اور کچھ مدت تک شام و فلسطین میں دعوت وتبلیغ کا فریضہ انجام دتیے رہے آخر کار حضرت ابراہیم نے انہیں ج مستقل طور پر شرق اور دن کے علاقہ میں سکونت رکھنے کا حکم دیا تاکہ وہاں کی بگڑی ہوئی قوم کی اصلاح کی جائے اس علاقہ کا صدر مقام سدوم تھا جو بحیرہ مرادر کے قریب کسی جگہ پر واقع تھا سدوم کے علاقہ وہ اس علاقہ چار اور بڑے شہر تھے اور وہ سب کے سب نہایت آباد اور زرخیز تھے۔ الاعراف
81 الاعراف
82 ف 8 اہل سدو کو اس لحاظ سے حضرت لو ط ( علیہ السلام) کی قوم کہا گیا ہے کہ وہ ان کی طرف مبعوث تھے یہ یا شایدان کا ان سے سسرال کا رشتہ ہوگا۔ ف 1 یعنی ہم گنہگار ناپاک لوگوں میں ان کا کیا کام۔ یہ بات انہوں نے طنزا یا مسخرے پن سے کہی۔ ( رازی ) الاعراف
83 ف 2 یعنی ان لوگوں میں رہ گئی جو حضرت لو ط ( علیہ السلام) کے ساتھ نہیں نکلے بلکہ اپنے علاقہ ہی میں رہے ان پر عذاب نازل ہوا تو وہ بھی انہی کے ساتھ تباہ ہوگئی۔ الاعراف
84 ف 3 یعنی ان پر وتھروں کا منیہ برسایا اور وہ تباہ وبر باد ہوگئے ان آیات سے معلوم ہوا کہ لو اطت بہت بڑی بے حیا یہ کا کام ہے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس فعل کی مرتکب پر تین مرتبہ مکرو لعنت کی ہے ( روح) اور دیکھئے پغمبروں کی تکذیب اور معاصی پر جسارت کا نتیجہ برا نکلا۔ اس خلاف فطرت فعل کی سز بھی بہت سخت رکھی گئی ہے اکثر علما نے کا خیال ہے کہ اس فعل کے مرتکب کو کم از کم زانی کی سزادی جائے اور اپنی بیوی سے خلاف فطرت فعل کرنا حرام ہے اور اس پر علما کا اجماع ہے بہت سی احادیث میں اس کی ممانعت بھی وارد ہے۔ ( نیرز دیکھئے سورۃ بقرہ آیت 223) الاعراف
85 ف 4 مدین کا علاقہ حجاز کے شمال مغرب اور فسلطین کے جنوب میں بحراحمر اور خلیج عقبہ کے کنارے پر واقع تھا اور اآج بھی اس علاقہ میں جگہ اسی نام سے مشہور ہے امام نو دی نے حضرت شعیب ( علیہ السلام) کا نسب یوں بیان کیا ہے شعیب بن مکائیل بن یشجر بن مدین ابراہیم ( علیہ السلام) واللہ اعلم ( المنار) حضرت شعیب کو اہل مدین کا بھائی اس لیے کہا گیا ہے کہ شاید وہ بھی سب حضرت ارابراہیم کے بیٹے مدین ہی کی نسل سے ہوں گے۔ ( رازی) حضرت شعیب اہل مدین اور اصحاب ایکہ کی طرفف مبعوث ہوئے ہوسکتا ہے کہ یہ ایک ہی قوم ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دو قومیں ہوں۔ ( ابن کثیر۔ ابو الفدار) اور کمال فصاحت کی وجہ سے حضرت شعیب علی السلام خطیب الا نبیا کے لقب سے مشہور ہیں ( ابن کثیر) ف 5 یعنی میری صداقت پر دلائل مو جو ہیں لہذا ضروی ہے کہ جو بات میں کہتا ہوں اس صحیح سمجھو ( ابن کثیر) امام رازی لکھتے ہیں یہاں بینتہ کے معنی معجزہ کے ہیں مگر یہ معجزہ کیا تھا قرآن مجید میں اس کا ذکر نہیں ہے ہے اور قرآن نے تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بہت سے معجزات بیان نہیں فرمائے علامہ زمخشری لکھتے ہیں کہ مو دی ( علیہ السلام) کے پاس جو عصا لاٹھی) تھا وہ شعیب ( علیہ السلام) ہی نے ان کو عطا کیا تھا یہ دراصل شعیب (رض) کا معجزہ تھا ( ک، ف) مگر اس کرید کی ضرورت نہیں ہے اجمالی طور پر حضرت شعیب کے معجزہ پر ایمان لانا کافی ہے۔ ( 6 اس سے معلوم ہوا کہ اس قوم میں دو بڑی خرابیاں تھیں ایک شرک اور دوسرے کاروبار میں بد دیانتی اور حق تلفی شرک سے اللہ تعالیٰ کے حقوق تلف ہوتے ہیں اور کار وبار میں بدیانتی تمام سماجی اور معاشرتی برائیوں کی جڑ ہے اس کے ہوتے ہوئے کوئی قوم راہ راست پر نہیں آسکتی یعنی دو قسم کی خرابیاں فساد فی الارض بنتی ہیں گو یا تم زمین میں امن واصلاح کی بجائے فساد پھیلا رہے ہیں یعنی طرح طرح کے اعتر اضات اور اشبہات پیدا کر کے اسے غلط ثابت کرنا چاہتے ہو۔ الاعراف
86 ف 8 حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت شعیب ( علیہ السلام) کی قوم کے بد معاش لوگ راستوں میں بیٹھے رہتے وار جو لوگ حضرت شعیب ( علیہ السلام) کے پاس دین سیکھنے کے لیے آتے انہیں ڈراتے اور کبھی ان سے کہتے کہ یہ شخص جھوٹا ہے اس کے پاس مت جا و ( ابن جریر) ف 9 یعنی تمہاری نسل بڑھائی یا تم مفلس تھے اس نے تمہیں مالدار کیا۔ الاعراف
87 ف 10 و ان احکام کو مانتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھ پر نازل کئے گئے۔ ف 11 یعنی انتظار کرو۔ ف 12 تم کافروں کا تباہ اور ہم مومنوں کو غالب کرے۔ الاعراف
88 ف 1 یعنی دوباتوں میں سے ایک بات ناگرریز ہے یا تمہیں اپنے وطن سے نکلنا پڑے گا یا ہماری ملت یعنی شرک و کفر کو پھر سے اختیار رنا ہوگا ْ اب تم سوچ لو کہ اپنے لیے ان میں سے کونسی سزا پسند کرتے ہو ؟ عود کے معنی کسی چیز کی طرف لوٹ آنے کے ہیں حضرت شعیب ( علیہ السلام) خود تو کبھی شرک وکفر میں مبتلا نہیں رہے پھر ان کے دین میں لوٹ آنے کے کیا معنی ہوں گے ؟ اور پھر حضرت شعیب ( علیہ السلام) کے اپنے اس وقل کی تکذیب نہ کرنے سے یہ شکال اور بھی قوی ہوجاتا ہے ہے علما نے اس کے مختلف جوابات دیئے ہیں اول یہ کہ ان کے اکثر ساتھی چونکہ کفر سے نکل کر اسلام میں داخل ہوتے تھے اس لیے انہوں نے تفلیبا شعیب کو بھی ان لوگوں میں شامل سمجھ کر یہ بات کہدی، دوم یہ کہ بعثت سے قبل جب تک حضرت شعیب ( علیہ السلام) نے دعوت وتبلیغ کا آغاز نہیں کیا تھا۔ اور پنی قوم کے کفر و شرک پر خاموش رہے تھے تو کفار نے گمان کرلیا ہوگا کہ شاید یہ بھی ہمارے دین پر ہیں، اس لیے انہوں نے اولتعودن کہدیا ورنہ حقیقت یہ نہیں تھی، سوم یہ کہ عود بمعنی صیو ورۃ ہو یعنی ابتدا کسی چیز کو اختیار کرنا تو ترجمہ ہوگا یا تم ہمارا دین اختیار کرلو۔ چہار م یہ کہ عوام کو دھو کا دینے کے لیے ان سرداروں نے یہ بات کہہ دی ہو اور حضرت شعیب ( علیہ السلام) نے بھی مشا کلتہ اس ابہام کے مطابق جواب دے دیا ہو ( کذافی الکبیر الرازی) وضح رہے کہ آیت میں معک کا تعلق اخراج سے ہے ایمان سے نہیں ہے الاعراف
89 ف 3 پھر بھی ہم تمہارے دین میں لوٹ آئیں گے ؟ حضرت شعیب ( علیہ السلام) ج کا یہ سوال انکار کے لیے ہے یعنی جب دلائل وبرہیم کی روشنی میں ہم تمہارے دین کو باطل سمجھتے ہوئے اس سے بیز ارہو چکے ہیں تو اسے دوبارہ اختیار کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ف 3 یہ ان کی بات کا دوسر اجواب ہے جس میں تصریح کردی ہے کہ ہم ایسا نہیں کرسکتے مطلب یہ ہے کہ اگر ہم تمہارے دین میں آجائیں تو ان کا صاف مطلب یہ ہوگا کہ اب تک جو ہم نبوت کا دعویٰ کرتے تھے اور تمہیں اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دے رہے تھے وہ سب جھوٹ اور اللہ تعالیٰ پر بہتان تھا۔ یہاں بھی بعد اذ نجانا اللہ کہنا یا تو ان مومنوں کے اعتبار سے ہے جو حضرت شعیب ( علیہ السلام) پر ایمان لے آئے تھے اور یا ان کے زعم کے مطابق حضرت شعیب ( علیہ السلام) نے کہہ دیا ہے کہ وہ حضرت شعیب ( علیہ السلام) کو ان کے دعویٰ نبوت سے پہلے دین میں داخل سمجھتے تھے۔ ف 4 اس لیے کہ وہ جو چاہے کرسکتا ہے چنانچہ اب ہم ی دعویٰ کر رہے ہیں کہ دوبارہ تمہارا دین اختیار نہ کریں گے وہ بھی اپنے بل بوتے پر نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کو دی ہوئی توفیق کی بنا پر کر رہے ہیں، کیونکہ ارادہ خواہ کتناہی نیک کیوں نہ ہو اس کا پورا ہونا اللہ تعالیٰ ہی کی مشیئت پر مو قوف ہے اس استثبا سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ حضرت شعیب ( علیہ السلام) کو اپنے خاتمہ بالخیر پر یقین نہ تھا انبیا کو تو اپنے خاتمہ بالخیر کا یقین ہو تو ہی ہے مگر یہ بات صرف اظہار عجز اور تفو یض کے طوپر کہی ہے یا دوسرے مومنین کے اعتبار علامہ واحدی لکھتے ہیں کہ ابنیا ( علیہ السلام) اور اکابر امت ہمیشہ ہی برے انجام سے پناہ مانگتے رہے ہیں۔ حضرت خلیل ( علیہ السلام) کی دعا واجنبنی وبی ان نعبد الا صنام، اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عموما ی دعا فرتے رہتے یا مقلب القلوب ثبث قلو بنا علی دینک اے دلوں کو استقامت بخشنے والے ہمیں اپنے دین پر ثابت قدمی کی توفیق تمہارے جبرو اکراہ سے تو ہم کفر اختیار نہیں کرسکتے ہاں بالفرض اللہ تعالیٰ کی مشیت ہی ( معاذ الہ) یہی ہو تو دوسری بات ہے ( رازی) ف 5 ہم اسی سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں راہ حق پر ثابت قدم رہنے کی توفیق دے۔ ف 6 یعنی ان معاندین کے مقابلے میں ہماری مدد فرمایا ان پر عذاب نازل فرماکر ہمارے حق پر ادران کے باطل پر ہونے کو خوب واضح کردے ( رازی ) الاعراف
90 ف 7 یعنی آبائی دین سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں گے اور جن ناجائز ذرائع سے دولت کمارہے ہیں ان کو بھی تر کرنا پڑے گا یہ بات قوم شعیب ( علیہ السلام) کے سرداروں تک محدود نہیں بلکہ ہر مانے میں دنیا پر ستوں نے اخلاق ودیانت کے اصول لوں کی پابندی سے یہی خطرہ محسوس کیا ہے۔ اور ان کا ہمیشہ یہ خیال رہا ہے کہ تجارت اور دیگر دنیاوی معاملات بد دیانتی اور دغاباز ی کے بغیر نہیں چل سکتے اور سمجھتے رہے ہیں کہ راست بازی سے کاروبار تباہ ہوجاتے ہیں۔ الاعراف
91 ف 8 ان پر عذاب دونوں طرح سے آیا یعنی رجفتہ ( زلزلہ) بھی جیسے یہاں مذکورہے اور صیحتہ (چیخ) بھی جیسا کہ سورۃ ہود میں مذکور ہے۔ ( ابن کثیر ) الاعراف
92 ف 9 جو ایمان لائے ان الاعراف
93 ف 10۔ یعنی ہرچند تم میرے عزیز تھے مگر جب تم نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا تو کافروں کی ہلاکت پر مجھے کچھ افسوس نہیں کرنا چاہیے الاعراف
94 ف 11۔ اور پھر بستی والوں نے ان کی تکزیب کی تو ہم نے ان کو تکالیف و شدائد میں گرفتار کرلیا کیونکہ سنت الٰہی یہی رہی ہے (رازی) ط الاعراف
95 ف 2 یعنی قحط کی بجائے خوب ارزانی کی اور بیماری کی بجائے تندرستی دی۔ ف 3 یعنی ان کی آبادی بڑھ گئی اور مال ودولت کی خوب ریل پیل ہوگئی اور وہ اپنی پچھلی سختیوں کو بھول گئے، ف 4 یعنی اگر ہم قحط اور دوسری سختیوں میں مبتلا ہوئے ہیں تو محض زمانے کی گردش کی وجہ سے ہوئے ہیں کہ اپنی بد اعمالیوں کی وجہ سے، دنیا میں اسیا ہوتا ہی رہتا ہے۔ موسم کے تٖغیر سے حالات بدلے تے رہتے ہیں کبھی بیماری اور کبھی تندرستی کبھی خوش حالی اور کبھی بد حالی۔ یہ حالات ہمیں کو نہیں بلکہ ہمراے باپ دادا کو بھی آتے ہیں ہیں مگر جلدی ہی ٹلتے بھی رہے ہیں۔ اس قسم کے حالات پیش آنے میں انسانوں کے اعمال کا کوئی دخل نہیں ہے۔ ایسی توجیہات اب بعض مسلمانوں بھی کرنے لگے ہیں۔ ف 5 یعنی اللہ تعالیٰ کو اس طرح فراموش کر بیٹھے تو یکایک اللہ تعالیٰ کا غضب نازل ہوا اور ایسا عذان آیا کہ آن کی آن میں سب نیست ونابود ہوگئے۔ اس کے بر عکس مومنین خوشحالی میں لشکر اور تنگدستی میں صبر کرتے ہیں جیسا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے م : مومن کا معاملہ بھی خوب ہے اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہر حال میں اس کے لیے بہتر ہوتا ہے اگر اسے تکلیف پہنچتی ہے تو وہ صبر کرتا ہے وار خو شحالی نصیب ہوتی ہے تو شکر کرتا ہے۔ (بخاری ومسلم) اس آیت کی تشریح میں شاہ صاحب لکھتے ہیں بندے کو دنیا میں گناہ کی سزا پہنتی ہے تو امید ہے کہ تو بنہ کرے اور جب گناہ راست آگیا تو اللہ تعالیٰ کا بھلا وا ہے اور اگاربیچ گیا تو کام آخر ہوا ّ موضح ) الاعراف
96 ف 6 آسمانوں سے بارش برساتے اور زمین سے خوب غلے اور پھل اگاتے الاعراف
97 الاعراف
98 الاعراف
99 ف 7۔ اللہ تعالیٰ کے داؤ سے مراسد کسی شخص کے خلاف ایسی خفیہ تدبیر کرنا ہے کہ جب تک وہ عین اس کے سر پر پہنچ جائے اسے کوئی ہوش نہ آئے اور نہ ہی کچھ پتہ چلے کہ س کی شامت آنے ولی ہے، یہ خفیہ تدبیر چونکہ کافروں کے مکرو فریب کے جواب میں ہوتی ہے یا اس کی سزا دینے کے لیے کی جاتی ہے اس لیے اسے بھی بطور مجانست مکر کہہ دیا ہے ( مزید دیکھئے سورۃ بقرہ آیت 15) الاعراف
100 ف 8 اور انہیں تباہ کر ڈالیں ج جیسا کہ ان کو تباہ کرڈا لا جن کی جگہ یہ آباد ہوئے ہیں۔ ابن کثیر) ف 9 آخراک اللہ تعالیٰ کا عذاب آتا ہے اور وہ بھی تباہ کردیئے جاتے ہیں اس فقرہ کا دیا گیا ترجمہ اس صورت میں ہے جب اسے اصبناھم بذنوبھم پر معطور نہ جائے کہ اور اگر اسے اصبنام ھم بذجو بھم پر معطوف مانا جائے اور ہمارے خیال میں زیادہ صحیح یہی ہے۔ تو ترجمہ یوں ہوگا اور ہم نے ان کے دلوں پر مہر لگا دیں کہ پھر وہ نصیحت کی کوئی بات نہ سن سکیں مطلب یہ ہے کہ جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ اپنی زمین کے کسی حصے میں آباد فرماتے ہے انہیں ہر آن اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنا چاہیے اور کہ جانتے ہوئے اور انپنی زندگی گزارنے نے چاہیے کہ اگر ظلم وانصاف کا ارتکاب کریں گے تو اللہ تعالیٰ انھیں بھی اسی طراح تباہ وبرباد کردے گا جس طرح اس نے پہلی امتوں کو تباہ کردیا۔ پہلی امتوں پر جوتباہی آئی وہ ناگہانی حادثہ نہ تھی بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کردہ سزا تھی ، الاعراف
101 ف 10 یہاں القرٰ سے مراد گذشتہ اقوام خمسہ نوح ( علیہ السلام) عاد، ثمود، قوم لوط اور قوم شعیب ( علیہ السلام) کی بستیاں ہیں۔ ف 1 کیونکہ کفرو شرک ان کی سرشت اور خمیر میں پڑگیا تھا اور وہ اسے کسی حال میں چھوڑنے کے لیے تیار نہ تھے، ف 2 یعنی جس طرح پہلی امتوں کو ضد اور ہٹ دھرمی کی کی وجہ سے ان کے دلو کی صلاحتیں سلب کرلی گئی تھیں اور انہیں ایمان نصیب نہیں ہو اتھا اسی طرح ان کے دل مسخ ہوچکے تھے اور ان میں ایمان کی صلاحیت باقی نہیں رہی (رازی ) الاعراف
102 ف 3 من عھد ( کوئی بھی اقرار) کا لفظ نکرہ استعمل ہوا ہے اس لیے اس سے مراد ہر قسم کا اقرار ہے چا ہے وہ فطری ہو یا شرعی یا عرفی ف 4 نافرمان یعنی کسی قرار کا پاس نہ کرنے والے۔ الاعراف
103 ف 5 سب کے سب غرق کردیئے گئے اور ان کی سرای شان وشوکت خاک میں ملادی گئی یہ چھٹا قصہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے دبسط کے ساتھ بیان فرمایا ہے دوسرے کسی قصے کو اس طرح بیان نہیں کیا، وجہ یہ ہے کہ جس طرح مو سیٰ ( علیہ السلام) کے معجزات تمام ابنیا سے اقویٰ تھے اسی طرح ان کی امت بھی جہالت اور سر کشی میں سب سے بڑھی ہوئی تھی۔ ( رازی ) الاعراف
104 الاعراف
105 ف 6 کیونکہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں اور رسول کا کام یہ ہے کہ بھیجنے ولاے کا پیغام بلاکم وکاس پہنچا دے اور اس میں اپنی طرف سے کوئی تبدیلی نہ کرے لہذا میری ہر بات صحیح اور سچی ہوگی حقیق علی، کے معنی واجب کے ہیں یا لائق کے اور اگر علی ہو تو حقیق کے معنی قائم اور ثابت کے ہوں گے۔ ف 7 یعنی انہیں اپنی غلامی سے آزاد کرو تاکہ وہ میرے ساتھ کسی ایسی جگہ چلے جائیں جہاں وہ اپنے اور تیرے رب کی پوری آّزاد کے ساتھ عبادت کرسکیں، حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کے اس مطالبہ کا پس منظر یہ تھا کہ حضرت یو سف ( علیہ السلام) کے زمانہ میں ان کے بھائی مصر میں آّکر آباد ہوگئے تھے اور وہیں ان پھیلی جو بنو اسرائیل کہلائی،، مصر آمد کے وقت بن اسرائیل کی تعداد تقریبا پونے چاسوتھی مگر جب سفر خروچ کیا تو اس وقت چھ لاکھ صرف لڑنے والے مرد تھے حضرت یوسف ( علیہ السلام) کی زندگی تک تو انہیں پوری طرح قتدارحاصل رہا لیکن اس کے بعد اس زمانے کے ذاعنہ انیں غلام بنالیا اور مصر میں ان کی کی حالت اچھوتوں سے بھی بدتر ہوگئی وہ چونکہ مسلمان تھے اس لیے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کے مشن میں جہاں یہ چیز شامل تھی کہ فرعون کو توحید کی دعوت دی جائے وہاں یہ بھی ضرور تھا کہ اگر فرعون دعوت حق کو قبول نہ کرے اور بنی اسرائیل پر ظلم وستم سے باز نہ آئے توبن اسرائیل کو اس کی غلامی سے نجات دلاکر کسی دوسرے جگہ لے جایا جائے جہاں وہ آزادنی کے ساتھ اپنے رب کی عبادت کرسکیں یہاں فارسل میں حرف فاتفر یع کے لیے ہے اور حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) یہ مطالبہ اس وقت کیا جب فرعون نے ہر طرح دوسرے مقامات پر مذکور ہے واضح رہے کہ حضرت یو سف ( علیہ السلام) کے مصر میں داخل ہونے اور حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کے بحیثیت ایک پیغمبر کے مصر میں جانے کے درمیان چا رسو سال کی مدت ہے ( فتح القدیر) الاعراف
106 الاعراف
107 الاعراف
108 الاعراف
109 الاعراف
110 ف 8 ماذا فی محل نصب مفعل التا مرون بخذ ف الجارای بای شی تامرو ن ای تشیرون یہ فرعون کی بات ہے جو اس نے معجزات دیکھنے کے بعد اپنے وزیروں اور مشیروں سے کہی کہ کہیں ایسانہ ہو کہ موسیٰ ( علیہ السلام) بنی اسرائیل کو آزادی کے بہانے مصر کے لوگوں کو یہاں سے نکلا دے اور خود حکومت مصر پر قابض ہوجائے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وزیروں اور مشیروں نے فرعون سے یہ بات یہ ہو سورۃ شعر ٰ کے سیا ق کلام کے یش نظر علمانے یہ دونوں کے احتمال ذکرکئے ہیں مگر پہلا احتمال زیادہ صحیح ہے علامہ زمحشری لکھتے ہیں کہ اصل یہ کلام فرعون کا ہے جیسا کہ سورت شعرٰ میں مذکور ہے یہاں پر کی طر اس کی نسبت مجازی ہے یعنی انہوں نے بھی بطور تبلیغ حق بات کہی اور اس کے بعد ارجہ کے ساتھ جو اب ملا کی طرف سے بھی ہوسکتا ہے اور قوم کی طرف سے بھی ہر حال سورۃ شعر کے ساتھ اس قصہ کو ملا کر پڑھنے سے کوئی اشکال باقی نہیں رہتا شوکانی روح، الاعراف
111 ف 9 یعنی انکے بارے میں بھی کوئی فیصلہ نہ کیا جائے اور ان کا معاملہ چند روز ملتوی رکھا جائے (ارجہ اصل میں ار حجئہ ہمزہ ساکن اور اک مضمومہ کے ساتھ ہے۔ الاعراف
112 ف 10 چنانچہ فرعون نے ایسا ہی کیا، ( دیکھئے سورۃ قصص وشعریٰ یہ عبادت کلام میں مخذوف ہے۔ الاعراف
113 الاعراف
114 الاعراف
115 الاعراف
116 ف 1 دوسری آیت میں ہے کہ انہوں نے اپنی لاٹھیا اپنی لاٹھیاں اور رسیاں زمین پر پھینک دیں جس سے زمین پر سانپ ہی سانپ دوڑتے معلوم ہونے لگے یخیل الیہ من سحر ھم انھا تسعی، اس سے معلوم ہوا کہ جادو سے کسی چیز کی حقیقت نہیں بد جاتی صرف دیکھتے میں وہ ایک دوسری چیز نظر آتی ہے اس کے بر عکس معجزہ چونکہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہوتا ہے اس لیے اس میں ایک چیز کی حقیقت بھی بدل سکتی ہے۔ الاعراف
117 الاعراف
118 ف 2 چنانچہ اس معجزہ کو قرآن نے حق اور جادو کو باطل سے تعبیر فرمایا ہے لیکن ہر جادو محض تخیل نہیں ہوتا جمہور اہل سنت کا مسلک یہ ہے یہ سحر کئی قسم کا ہوتا ہے بعض قسم کا جادو تو وقعی تخیل ہوتا ہے مگر بعض قسم کے جادو مبنی بر حقیقت ہوتے ہیں جیسا کہ لبید بن اعصم یہو دی کا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جادو چلانا اس لیے سرے سے جادو کی حقیقت کا نکار صحیح نہیں ہے ہاں یہ کہہ سکتے ہیں کہ موسیٰ ( علیہ السلام) کے مقابلے میں جس جادو کا ذکر ہو رہا ہے وہ محض دھوکا تھا۔ ( روح ) الاعراف
119 الاعراف
120 ف 3 یعنی اس طرح بے اختیار ہو کر گر پڑے جیسے اندر سے کسی چیز نے انہیں یک لخت گرادیا ہو۔ الاعراف
121 الاعراف
122 ف 4 رب العالمین کے ساتھ رب موسیٰ وھارون اس لیے کہا کہ کسی کو یہ گمان نہ گزرے کہ انہوں نے فرعون کو رب العالمین سمجھتے ہوئے سجدہ کیا ہے۔ اس طرح فرعون اور اس کے مشیروں کی ساری اسکیم خاک میں مل گئی انہوں نے تو جادو گروں کے کو جع کر کے اس لیے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کا مقابلہ کرایا تھا کہ لوگوں پر ثابت کردیں کہ موسیٰ ( علیہ السلام) جو معجزے لے کر آئے ہیں وہ بھی ایک جادو ہے مگر جب تمام جادو گروں نے مل کر اس کے خدا کی طرف سے معجزہ ہونے کا اعتراف کیا اور اوہ ایمان لا کر سجدہ میں گرپڑے تو فرعون اور اس کے مشیروں کے لیے کسی طرح ممکن نہ رہا ہو کہ لوگوں کو موسیٰ ( علیہ السلام) کے محض ایک جادو گر ہونے کا یقین دلاسکیں الاعراف
123 الاعراف
124 ف 5 دنیا میں ہر متکبر اور سرکش حکمران کا یہ قاعدہ ہے یہ جب وہ دلیل کے میدان میں ہار جاتا ہے تو جیل پھانسی اور قتل کی دھمکی دینے پر اتر آتا ہے او اس غرض کے لے ایسے قوانین وضع کرتا ہے جن کی رو سے کسی پر اس کا جر م ثاتب کئے بغیر اسے ہر قسم کی سزا دی جا سکے چنانچہ یہی کام فرعون نے کیا۔ جب وہ دلیل کے میدان میں شکست کھا گیا تو سزا دینے کی دھمکی پر اتر آیا اور فی الفور عوام کے سامنے دو قسم کے الزام لگا دئیے، اول یہ کہ ان کی سازش ہے، دوم یہ کہ اس سازش کر ذریعہ مصریوں کو ملک بدر کے حکومت پر قبضہ جما نا چاہتے ہیں اس لیے اولا فسوف تعلمون کہہ کر وعید سنائی اور پھر اس وعید کی وضاحت بھی سنا دی ( کذافی الکبیر ) الاعراف
125 ف 6 یعنی موت سے کسی حال میں چھٹکارا نہیں وہ کسی شکل میں ضرور آتی ہے اگر ہماری قسمت میں بھی لکھا ہے کہ ہماری زندگی کا خاتمہ پھانسی کے تختے پر ہو تو ہمیں بڑی خوشی سے بھانسی دو ہمیں کوئی پروانہیں۔ الاعراف
126 ف 1 تقم ( ض ع) کے معنی کسی شے سے بہت زیادہ نفرت اوکراہت کا اظہار کرنے کے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ہمارا اگر کوئی گناہ ہے تو صرف یہ ہے کہ ہم اپنے پروردگار پر ایمان لے آئے ہیں ( ابن عباس (رض) حقیقت یہ ہے کہ کسی فن کو جتنا اس فن والا جانتا ہے کوئی دوسرا نہیں جان سکتا، چنانچہ ان جادوں گروں نے جب حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کے معجزہ کو دیکھا تو فورا سمجھ گئے کہ یہ ہرگز جادو نہیں ہوسکتا بلکہ یہ سراسر خدائی معجزہ ہے اس لے ہو اس پر فورا ایمان لے آئے اور ان کے ایمان میں اس قدر بختگی تھی کہ جان تک کی پرواہ نہ کی، مشہور قول کے مطابق وہ قتل کردیئے گئے۔ چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ شروع دن میں وہ جادو گر تھے اور پھر دن کے آخری حصہ میں شہدا میں داخل ہوگئے ( ابو الفدار اور حضرت ابن عباس سے یہ بھی مروی ہے کہ فرعون نے ان کے الٹے ہاتھ پاؤں کٹواڈالے مگر انہوں نے ایمان کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا جیسا کہ ان کی اس دعا سے بھی معلوم ہوتا ہے یہ اللہ تعالیٰ کی توفیق ہے جسے چاہے اپنی توفیق سے نواز دے، فتح البیان ) الاعراف
127 ف 2 کہ و لوگوں کو توحید کی طرف دعوت دے کر ملک کے امن و امان کو غارت کرتے رہیں ؟ ف 3 حضرت عبداللہ بن عمر الا ھتک قرات کرتے ہیں یعنی تیری عبادت مگر جمہور مفسرین کا خیال ہے کہ فرعون نے کچھ چھو ٹے چھوٹے بن بنواکر لوگوں کو دئیے تھے کہ میرا تقرب حاصل کرنے کے لیے ان کی پو جا کریں اس لیے وہ لوگوں سے کہا کرتا اناربکم الاعلی ورب ھذہ الا صنام یعنی تمہارا بڑا رب ہوں اور ان بتوں کا بھی رب ہوں امام رازی فرماتے ہیں میرا خیال یہ ہے کہ فرعون دہریہ تھا اور صانع کا منکر وہ کہا کرتا کہ اس عالم کی تد بیر کواکب کرتے ہیں مگر اس عالم کی مربی میں ہوں ۔ اس لیے تمہیں چاہیے کہ میری عبادت کرو۔ ( دیکھئے سورۃ القصص آیت) اور ہوسکتا ہے کہ اس نے ان ستاروں کی صورتیں کے بت بنوا کر رکھے ہوں، پس الھتہ سے مراد یا تو وہ چھوٹے چھوٹے بت ہیں جن کی فرعون خود بھی پو جا کیا کرتا تھا، بایں صورت لھتک اپنے ظاہری معنی پر محمول ہوگا۔ (کبیر، فتح البیا) ف 4 یعن ہم جو ظلم وستم موسیٰ کی پیدا ئش سے پہلے بنی اسرائیل پر کرتے تھے، اس کا سلسلہ پھر سے شروع کریں گے اس طرح یہ تباہ ہوجائیں گے اور ان کا تخم تک باقی نہ رہے گا ان کے مرد مارے جائینگے صرف عورتیں بچیں گی، وہ کیا کرسکیں گی، ان کو ہم لونڈیاں بناکر اپنے گھروں میں رکھیں گے ، الاعراف
128 ف 5 پہلے بھی ہمارے بچوں کو قتل کیا جاتا رہا ہے اور ہم سے مشقت کے کام لیے جاتے رہے ہیں اور آج تیرے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہو کر آنے کے بعد بھی یہی سلسلہ جاری ہے۔ الاعراف
129 ف 7 اس کا شکر کرتے ہو اور اس کے احکام بجالاتے ہو یا تم بھی باشکری ونافر مانی کرنے لگتے ہو ِ؟ شاہ صاحب فرماتے ہیں یہ کلام نقل فرمایا مسلمانو کو سنانے کو یہ سورت مکی ہے اس وقت مسلمان بھی ایسے ہی مظلوم تھے پھر بشارت پہنچی پر دے میں (مو ضح ) الاعراف
130 ف 8 اوپر کی آیت میں جب موسیٰ ( علیہ السلام) کی زبان سے یہ وعدہ فرمای کہ وہ وقت قریب ہے کہ تمہار امالک تمہارے دشمن کر تباہ کر دے تو اب یہاں سے ان تکالیف ومحن کا بیان شروع کیا جن میں وقتا فوقتا ان کو مبتلا کیا حتی کہ آخر کار تباہ کر دئیے گئے گا کہ ان مشرکین کو کفر پر زجر و تو بیخ ہو اور تنبیہ ہو کہ پیغمبروں کی تکذیب کا انجام تباہی کر صورت میں ظاہر ہوتا ہے (کبیر) آخر میں فرمایا کہ یہ تکالیف ومحن ان پر اس لیے بھیجیں کہ نصیحت حاصل کریں اور اپنی سرکشی سے باز آجائیں ، الاعراف
131 ف 9 مگر ان شدائد کے بعد رفاہیت اور خوشحالی آتی تو بجائے اس کے اللہ تعالیٰ کا احسان سمجھ کر شکر گزاری کریں لنا ھذہ کہتے یعنی یہ ہمارے حسن انتظام کا نتیجہ ہے۔ ف 10 تمام مفسرین کے نزدیک یہاں التطیر بمعنی تشام بمعنی نحوست ہے یعنی وہ کہتے کہ ان کی نحوست سے ہم پر آفت آئی ہے۔ ف 11 یعنی اس نحوست اصل سبب تو اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے اور خیر وشر جو کچھ ان کو پہنچ رہا ہے تمام اللہ تعالیٰ کی قضاوقدرت سے ہے جو ان کے اعمال کے سبب ان کے حق میں لکھا ہے جاچکا ہے۔ (کذافی الکبیر) ف 12 کہ خیر وشرسب کا مالک اللہ تعالیٰ ہے اس نے جو کچھ تقدیر میں لکھا ہے وہ ضرور ہو کر رہتا ہے کسی کی نحوست اور شومی کا اس میں کوئی دخل نہیں ہے مگر عوام ہیں کہ خیر وشر کو اسباب ظاہری کی طرف نسبت کردیتے ہیں اور یہ سراسر جہا لت ہے۔ ( کبیر ) شاہ صاحب فرماتے ہیں شومی قسمت بد ہے سوا للہ تعالیٰ کی تقدیر سے ہے برائی اور بھلائی کا اثر آخرت میں ہوگا اس کا جواب یہ نہیں فرمایا کہ شومی انکے کفر سے تھی کیونکہ کافر بھی دنیا میں عیش کرتے ہیں۔ اصل حقیقت تھی، سو فرمائی کہ دنیا کے احوال مو قوف بہ تقدیر ہیں۔ (از مو ضح ) الاعراف
132 ف 1 اور پر کی آیت میں ان کی یہ جہالت بیان فرمائی کہ وہ حوادث کو اللہ تعالیٰ کی قضا وقدر کی طرف نسبت کرنے کی بجائے دوسرے اسباب کو طرف منسوب کرتے ہیں۔ اب اس آیت میں ان کی دوسری جہالت بیان فرمائی کہ اتنی نشانیاں دیکھ لینے کے بعد بھی کم بخت حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کو جادوگر ہی کہتے رہے اور معجزات اور جادو میں آخر دم تک تمیز نہ کرسکے بلکہ انہوں نے اپنی سرکشی اور تمرد سے بآلا خر قطعی پر یہ اعلان کردیا کہ تم مو سیٰ ( علیہ السلام) جو بھی معجزہ دکھا و ہم کبھی ایمان نہیں لائیں گے۔ (کبیر ) الاعراف
133 ف 2 یعنی جب وہ اپنیی سرکشی پر جم گئے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر کچھ سختیاں نازل ہونا شروع ہوئیں جو آخر کار ہلاکت اور غرقابی کا پیش خیمہ ثابت ہوئیں، الطوفان یعنی اسمان سے موسلا دھا بارش اور دریاوں میں سخت طغیانی الجراد ٹڈی جوان کی فصلوں کو جٹ کرگئی القمل جوئیں چچڑیاں، چھوٹے کالے کیڑے پسو وغیرہ سب پر قمل کا لفظ پولا جاسکتا ہے الضفادع مینڈک اس کثرت سے کہ ہر چیز اور ہر برتن میں مینڈک ہی مینڈک نظر آتے الدم خون الغرض ان آیات کو مفصلات فرمایا یعنی ایک کے بعد دوسری کچھ قفہ سے آتی، یاجن کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہونے میں کوئی شبہ نہ تھا (وحیدی) شاہ صاحب فرماتے ہیں سب بلائیں ان پرایک ہفتہ کے فرق سے آئیں ( مو ضح) ف 3 حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کا مقابلہ فرعون سے چالیس برس اس بات پر کہ بنی اسرائیل کو اپنے وطن جانے دے، اس نے نہ مانا ان کی بد عا سے بلائیں ادریائے نیل چڑھ گیا، کھیت اور باغ اور گھر اس سے تلف ہوئے ٹڈی سبز ی کھاگئی اسی طرح ہر چیز میں مینڈک پھل گئے اور ہر پانی لہو بن گیا آکر کار ہرگز نہ مانا ( مو ضح) الاعراف
134 ف 4 لفظ رجز کے لفظی معنی عذاب کے ہیں؟ اس سے مراد طاعون بھی ہوسکتا ہے اور ان پانچ چیزوں کا عذاب بھی جن کو پہلے ذکر ہو رہو چکا ہے۔ یہ دوسر قول زیادہ ررجح ہے۔ ( کبیر) ایک بلاآتی پھر مظطر ولاچار ہوتے بلا دفع ہوجاتی تو پھر منکر ہوجاتے۔ ف 5 کہ جب بھی تو دعا کرے گا وہ اسے قبول فرمائے گا۔ یا عہد سے مراد عہد نبوت ہے۔ ( کبیر) ف 6 کہ جہاں چاہیں جائیں اور جیسے چاہیں اپنے رب کی عبادت کریں الاعراف
135 ف 7 یعنی ہمیشہ کے لیے نہیں بلکہ اس وقت تک جوان کی ہلاکت کے لیے مقرر تھا الاعراف
136 ف 8 الیم کے معنی گہرے سمند ر کے ہیں جب بکرا وہ مرات عذاب دور کرنے کے بعد بھی وہاپنے کفر اور جہالت سے باز نہ آئے اور عذاب کا مقرر وقت آپہنچا ( کبیر) چنانچہ ایک رات حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) اپنی قوم فرعون پیچھے لگا۔ بحر قلزم پر جاپکڑا وہاں یہ قوم سلامت گزری گئی اور فرعون ساری قوم سمیت غرق ہو۔ کذافی المو ضح ) الاعراف
137 ف 9 حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کنے اپنی قوم سے دو وعدے کئے تھے، دشمن کی ہلاکت اور ملک کی وراثت اور خلافت چنانچہ پہلا وعدہ پورا ہونے کے بعد اب یہاں دوسرے وعدے کی تکمیل کا بیان ہے، یہامبارک سرزمین سے شام کی سرزمین مراد ہے اور یہ وعدہ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کی وفات کے بعد حضرت یو شع ( علیہ السلام) کے دور میں پورا ہونا شروع ہوا جب کہ انہوں نے عمالقہ سے جہاکر کے بعض علاقے اپنے قبضے میں لے لیے مگر پورا ملک شام حضرت داوؤد ( علیہ السلام) اور سلیمان ( علیہ السلام) کے عہد میں قبضہ میں آیا۔ (کبیر) اور بعض مصر شام دونوں مراد لیے ہیں اور لکھا ہے کہ فرعون کی تباہی کے بعد بنی اسرائیل مدتوں مصر پر حکمران رہے، قرآن کی بعض آیات سے اس کی تائید ہوتی ہے ( دیکھئے سورۃ دخان و سورۃ قصص آیت 5 ) الاعراف
138 ف 10 یعنی عاشورہ کے روز حضرت موسیٰ ٰ ( علیہ السلام) نے اس دن شکر کا روزہ رکھاجیساکہ صحیحین کی حدیث میں ہے۔ ( ابن کثیر) ف 1 ان کی پوجا کر رہے تھے قتادہ اور بعض دوسرے مفسرین کہتے ہیں کہ نجم اور جذام کے قبیلہ سے تھے جو سمندر کے کنارے آباد تھے اور ان کے بت تانبے کی بنی ہوئی گایوں مو رتیں تھیں، واللہ اعلم۔ ( ابن جریر ) ف 1 بنی اسرائیل پر انعاما بیان کرنے کے بعد اب اس آیت میں ان کی جہالت اور کفر کو بیان فرمایا، موسیٰ ( علیہ السلام) کے اتنے ہیں معجزات اور انعامات دیکھنے کے بعدان کایہ مطالبہ انتہائی جہالت اور مخالفت پر مبنی تھا، بعض علمائے تفسیر نے لکھا ہے کہ بنی اسرائیل جو نکہ موحد تھے اس لے ان کی اس بت کے مطالبے سے یہ غرض تھی کہ ہو شرک کریں بلکہ ان کا مطلب یہ تھا کہ ہم اس بات کی تعظیم سے اللہ تعالیٰ کا تقرب چاہیں گے وہ سمجھے کہ یہ شرک نہیں ہے حالانکہ اس کا شرک ہونا انبیا ( علیہ السلام) کا اجماعی مسئلہ ہے جیساکہ قرآن میں دوسری جگہ فرمایا کہ مشرک بتوں کو اللہ تعالیٰ کے حضور اپنا سفارشی سمجھ کر پوجتے ہیں اور دوسری آیت میں ہے کہ ان کو اللہ تعالیٰ ہاں تقرب کا ذریعہ بناتے ہیں کذافی (الکبیر) ف 2 یعنی افسوس کہ تم اللہ تعالیٰ کی نشان نہیں پہچانتے، اللہ تعالیٰ کی ذات تو وہ ہے کہ نہ اس کی کوئی مورت بن سکتی ہے اور نہ اس کی عبادت میں کسی کو شریک ٹھہر ایا جاسکتا ہے ْ، پس ی مطالبہ سراسر مشرکانہ مطالبہ ہے۔ شاہ صاحب فرماتے ہیں جاہل آدمی نرے بے صورت کی عبادت کر کے تسکین نہیں پاتا جب تک سامنے ایک صورت نہ۔، وہ بنی اسرائیل نے جب وہ قوم دیکھی کہ گائے کی صورت کی پوجار تے تھے تو انہیں یہ ہوس آئی۔ آخر سو نے کا بچھڑا بنایا اور پوجا۔ (مو ضح) الاعراف
139 ف 3 یہ بھی ان کے مطالبہ کی تر دید اور اس کا جواب ہے، یعنی اس کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ یہ دنیا میں گمراہی وبربادی اور آخرت میں عذاب کا باعث ہے۔ الاعراف
140 ف 4 اس آیت میں بھی ان کے مطالبہ کی تر دید اور انکار و توبیخ کے اسلوب میں اس پر اظہار تعجب ہے ( رازی) یعنی الہ (معبود) کوئی ایسی ہستی نہیں ہو سکتی انسان کو جسے جی چاہے بنالے بلکہ معبود تو وہی ہو سکتا ہے جو انسان کی ہر قسم کے انعامات سے نوازتارہے اور پھر جس ذات ن تم پر انعامات کئے اور تمہیں تمام عالم پر فضیلت بخشی ہے کی ااب اس کی شکر گزاری یہی ہے کہ اسے چھوڑ کردوسروں کی پوجا کرنے لگو؟ یہ شرکزاری نہیں بلکہ عین ناشکر اور نمک حرام ہے الاعراف
141 ف 5 کہ تم کو ایسی سخت مصیبت سے نجات دی یا دوسرا مطلب یی بھی ہوسکتا کہ اس مصیبت میں تمہارے رب کی طرف سے تمہاری سخت ازمائش تھی اور یہ معنی زیادہ صحیح معلوم ہوتے ہیں ( دیکھئے سورۃ بقرہ آیت 49) اور اگر اس کے مخا طب وہ یہودی ہوں جو آنحضرت کے زمانہ میں موجود تھے تو مطلب یہ ہوگا کہ تمہارے باپ داداکو فرعون سے نجات دلائی، الاعراف
142 ف 6 فرعون سے نجات پانے کے بعد جب بنی اسرائیل جزیرہ نمائے پہنچے تو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ٰ ( علیہ السلام) کو کوہ طور پر طلب فرمایا تاکہ انہیں کتاب عطا کی جائے اور تیس دن کی میعاد مقرر کی گئی اور پھر اس میں مزید دس دن کا اضافہ کردیا گیا تاکہ ان چالیس دنوں میں موسیٰ ٰ ( علیہ السلام) روزہ رکھیں اور دن رات عبادت اور تفکر وتدبر میں مصروف رہیں جب موسیٰ ( علیہ السلام) چالیس دن کی یہ معاد پوری کرچکے تو اللہ تعالیٰ نے اس کلام فرمایا اور انہیں الواح دیئے اکثر مفسیر ن چالیس دونوں سے ذولقعد اور دس ذوالحجہ کے مراد لیے ہیں اس طرح گو یا حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کو الواح 10 ذولحجہ کو ملیں اور یہی وہ دن ہے جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر آیت الیو اکملت لکم الایتہ نازل ہوتی واللہ اعلم ( ازابن کثیر) ف 7 بنی اسرائیل پر اصل سردراری موسیٰ ٰ ( علیہ السلام) کی تھی حضرت ہارون ( علیہ السلام) کو بنی ( علیہ السلام) تھے لیکن ان کی حیثیت دراصل حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کے ایک وزیر اور مددگار کی تھی، اور اسی حیثیت سے حضرت موے اللہ تعالیٰ سے انہیں مانگا تھا۔ دیکھئے طحہٰ آیت 30، (کذافی الکبیر ) الاعراف
143 ف 8 یعنی کس ی واسطہ کے بغیر۔ (سورہ بقرہ آیت آیت 253) ف 9 یعنی جب تک تو دنیا میں زندہ ہے مجھے نہیں دیکھ سکتا باقی رہا آخرت میں اللہ تعالیٰ کی روئیت تو وہ مومنوں کے حق میں متعدد صحیح احادیث سے ثابت ہے، مزید تشریح کے لیے دیکھئے ( سورۃ قیامہ آیت 22۔23) ف 10 یعنی جب میں تجلی فرماؤں۔۔۔۔ ف 11 کہ تیری اجازت کہ بغیر تجھے دیکھنے کی درخواست کر بیٹھا (رازی) ف 12 یعنی تجھ پر اور تیری عظمت وجلال پر یا اس پرکہ کوئی تجھے قیامت سے پہلے دیکھ سکتا، (کبیر) شاہ صاحب فرماتے ہیں حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کو حق تعالیٰ نے بزرگی دی کہ فرشتہ کے بغیر خود کلام فرمایا ان کو شوق ہوا کہ دیدار بھی دیکھوں اس کی برداشت نہ ہوئی۔۔۔۔ مگر آخرت کو وجود برداشت ہوگی وہاں دیکھنا یقنی ہے۔ ( از مو ضح ) الاعراف
144 ف 1 یعنی جو چیز مل گئی اس پر قناعت کر اور کسی ایسی چیز کا مطالبہ نہ کر تیری طاقت سے باہر ہے۔ اس سے مقصود موسیٰ ٰ ( علیہ السلام) کو تسلی دینا ہے کہ رؤیت سے روک پر گرفتہ خاطر نہ ہوں (رازی) الاعراف
145 ف 2 یعنی تمام احکام و مواعظ جن کی حلال وحرام معلوم کرنے سلسلہ میں بنی اسرائیل کو ضرورت پیش آسکتی تھی۔ ( کبیر) ف 3 اچھی باتیں یعنی کرنے کے کام ہیں او بری باتیں جن سے بچنے کا حکم ہے۔ ( مو ضح) یا عزیمت کی راہ اختیار کریں اور وہ کام کرنے کی کو شش کریں جن کا اجر دوسرے کاموں سے زیادہ ہے۔ (کذافی الکبیر) ف 4 یعنبی اگر تم نے ان باتوں پر عمل نہ کیا تو تمہیں جلدی معلوم ہوجائے گا میری نافرمانی کرنے والوں کو انجام کیا ہوتا ہے اور انہیں کسی قسم کی تباہی وبر بادی سے دو چار ہونا پڑتا ہے۔ ( ابن جریر) بعض نے لکھا ہے کہ دار الفا ستمین سے مراد اہل شام ہیں گویا اس میں وعدہ ہے کہ ملک شام تمہاہا سے قبضہ آئے گا، (کبیر) یا یہ کہ اگر تم نے نافرمانی کی تو تم کو اسی طرح ذلیل کریں گے جس طرح شام کا ملک ان سے چھین کر تم کو دیا، ( کذافی امو ضح) الاعراف
146 ف 5 یعنی انہیں یہ سزا دوں گا کہ وہ میری عظمت شریعت اور احکام کو سمجھ نہ سکیں گے اور پھر جاہل سے رہنے کی وجہ سے دنیا آخرت دونوں میں ذلیل ہوں گے نیز۔ دیکھئے، ( سورۃ الانعام آیت 110) اسی لیے بعض سلف کا قول ہے کہ متکبر شخص علم حاصل نہیں کرسکتا اور جو شخص علم حاصل کرنے کے لیے ایک ساعت کی ذلت گوارا نہیں کرسکتا وہ جاہل رہ کر ہمیشہ کی ذلت مول لیتا ہے۔ ( ابن کثیر) یعنی یہ سب اس کے اپنے کئے سزا ہوگی جیساکہ دوسری آیت فرمایای فلما زاوغوا اذاغ اللہ قلو بھم، جب وہ خود ٹیڑہو گئے تو اللہ تعالیٰ نے بھی انہیں ٹیڑھا کردیا۔ (صف آیت 5) معلوم ہوا کہ ہدایت و ضلالت اور اسی طرح جنت ودوزخ دونوں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں () موضح) الاعراف
147 ف 7 یعنی انہوں نے کفر کی حالت میں اگر کوئی نیک عمل کئے بھی مگر خاتمہ کفر پر ہوا تو ان کے تمام اعمال بے کار ہوجائیں گے اور انہیں ان کاوئی بدلہ نہ ملے گا۔ شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی ان حکموں کی توفیق نہ ہوگی اور جو اپنی عقل سے کریں گے قبول نہ ہوگا ( مو ضح) الاعراف
148 ف 8 یہی قصہ سورۃ طحہٰ میں بھی بیان ہوا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرئیل کے پاس قبیطوں کے زیورات تھے جنہیں وہ مصرے سے نکلتے وقت اپنے ساتھ لے آئے تھے، جب حضرت موسیٰ ٰ طور پر تشریف لے گئے تو ان میں سے ایک شخص سامریے ان سے یہ زیورات لے لیے اور انہیں آگ میں گلا کر بچھڑے کی شکل کا ایک مجسمہ بنا ڈالا اس آیت میں اس مجسمہ بنانے کو خود بنی اسرائیل کی طرف منسوب کیا گیا ہے کہ سامری نے ان کی اجازت اور رضامندی سے بنایا تھا اور وہ اپنے لیے اس قسم ایک معبود کی خواہش رکھتے تھے ( ابن کثیر، کبیر) مفسرین (رح) کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ آیا بچھڑا واقعی گوشت پوست اور خون کا بن گیا تھا۔ اواس میں جان پڑگئی تھی یا وہ محض ایک مجسمہ رہا جس میں ہوا داخل ہوتی یا داخل کی جاتی تو اس سے بچھڑے کی سی کی آواز نکلتی تھی؟ جو مفسرین اس کے واقعی جاندار بچھڑ اہونے کے قائل ہیں وہ اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت جبریل ( علیہ السلام) حضرت مو سیٰ ( علیہ السلام) کے پاس گھوڑے پرسوا ہو کر آئے سامری نے انھیں دیکھ لیا او ان کے گھوڑے کے پاؤں تلے کی کچھ مٹی لے لی اور انہوں نے آیت سورۃ طحہٰ فقبضت قبضتہ من اثر الر سول۔ کے معنی کے ہیں چنانچہ اس مٹی کو جب انہوں نے بچھڑے کے اس مجسمہ پر ڈالا تو وہ سچ مچ کا بچھڑا بن گیا لیکن یہ کسی صحیح روایت سے ثابت نہیں ہے اس لیے علمانے کوئی قطعی بات کہنے سے احتراز کیا۔ ( ابن کثیر) نیز دیکھئے سورۃ طحہٰ آیت 88۔96) ف 9 پھر و خدا کیسے ہوسکتا ہے ؟ اگر بالفرض اس میں جان بھی پڑگئی ہے تو وہ ایک حیوان عاجز ہے معلوم ہوا کہ کے لیے متکلم اور ہادی ہونا ضروری ہے متکلم ہونے کے معنی یہ ہیں کہ وہ صاحب امرونہی ہو اور ہادی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اسے ہدایت پر قدرت ہو۔ رازی ) الاعراف
149 ف 10 یعنی نادم ہوئے، یہ موسیٰ ( علیہ السلام) کے میقات سے لوٹنے کے بعد کا وقعہ ہے۔ ( قرطبی) الاعراف
150 ف 1 کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کو طور پر خبر دے دی تھی کا سامری نے آپ کے بعد کی قوم کو گمراہ کردیا ہے۔ ( دیکھئے سورۃ طہ ٰ آیت 85) ف 2 یعنی میں جاتے وقت تم کو کہہ گیا تھا کہ جب تک میں واپس نہ آؤں میری نصیحتوں پر کار بند رہنا اور کوئی نئی حرکت نہ کر بیٹھنا میں اللہ کی طرف سے احکام لے آؤں گا مگر جب میں مقررہ میعاد ( 30) دن تک واپس نہ آیا تو تم نے سمجھ لیا کہ میں مر کھپ گیاہوں اس پر تم نے دین میں ایک بد عت ایجاد کرلی کہ خدا پر ایمان کے ساتھ بچھڑے کی بھی پوجا کرنے لگے اس طرح میرے بعد تم بہت برے خلیفہ ثاتب ہوئے ہو یاتم نے بہت براکام کیا ہے۔ ( المنار، کبیر) ف 3 حضرت مو سیٰ ( علیہ السلام) حضرت ہارون ( علیہ السلام) کے سگے بھائی ہی تھے مگر حضرت ہارون ( علیہ السلام) کے سگے بھائی ہی تھے مگر حضرت ہارون ( علیہ السلام) نے ان کی سفقت حاصل کرنے کے لیے یا بن امر) کہا ہے ف 4 یعنی میں نے ان کے بچھڑے کی پوجا سے باز رکھنے کی پوری کوشش کی ہے ( دیکھئے سورۃ طحہٰ آیت 90) مگر یہ لوگ مجھے مانے پر پل پڑے اور خطرہ لاحق ہوگیا کہ کہیں یہ مجھے قتل ہی نہ کر ڈالیں ف 5 یعنی یہ نہ سمجھو کہ میں بھی ان کے جرم میں شریک ہوں۔ حدیث میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شماتت اعدا یعنی اس بات سے ہمیشہ پناہ مانگتے کہ کسی مصیبت پر دشمنوں کو خوشی حاصل ہو۔ ( بخاری ) الاعراف
151 ف 6 یعنی میری اس زیادتی کو معاف فرما جو مجھ سے غصہ کی حالت میں ہاروں ( علیہ السلام) کو ڈانٹنے میں ہوئی او ہارون ( علیہ السلام) کی کی اس کوتاہی سے درگزر فرما جو ممکن ہے۔ ان سے لوگوں کو سمجھانے میں ہوئی ہو۔ الاعراف
152 ف 7 اللہ تعالیٰ کا ان پر غضب یہ وہوا کہ جب تک ان میں سے بعض نے بعض کو قتل نہیں کیا اس وقت تک ان کی توبہ قبول نہ ہوی، نیز دیکھئے سورۃ بقرہ آیت 54 ( قرطبی) ف 8 ابو قلا بہ یہ آیت تلاوت کی اور فرمایا قیامت تک ہر مفتری کی یہی سزا ہے امام مالک اور سفیان بن عینیہ نے کہا کے مفترین کے معنی مبتد عین یعنی اہل بدعت کے ہیں اور ہر بد عتی قیامت تک ذلیل وخوار ہوتا رہے گا۔ ( قر طبی، معالم ) الاعراف
153 الاعراف
154 ف 9 بعض علما نے تفسری (رح) سے منقول ہے کہ وہ الواح ٹوٹ گئی تھیں مگر ان تختیوں کا ٹوٹنا صحت کے ساتھ ثابت نہیں ہے۔ قرآن میں القی کا لفظ آیا ہے جس کے معنی ڈال دینے کے ہیں۔ اس سے ٹوٹنا لازم نہیں آتا بلکہ قرآن کے پیرا یہ بیان سے ثابت ہوتا ہے کہ مو سیٰ ( علیہ السلام) نے وہ الواح صحیح واسالم حالت میں دوبارہ اٹھالیں۔ ( کبیر ) الاعراف
155 ف 1 اللہ تعالیٰ موسیٰ ٰ ( علیہ السلام) کو حکم دیا کہ ایک مقررہ وقت پر قوم کے ستر نمائندوں کے ساتھ کوہ طور پر حاضر ہوں تاکہ قوم کی طرف سے گوسالہ پرستی کے جر م کے معافی مانگیں چنانچہ موسیٰ نے ان ستر نمائندوں کا انتخاب فرمایا اور مقررہ وقت پر کوہ طور پہنچ گئے۔ ( قرطبی، ابن کثیر) ف 2 اس زلزلہ یا صاعقہ کا سبب نہ تو قرآن کی کسی آیت میں مذکورہے اور نہ اس بارے میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی سے کوئی حدیث مفسرین کے اس بارے میں مختلف اقوال ہیں۔ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ ان لوگوں یہ دعا کی : یا للہ ہمیں وہ چیز دے جو تو نے نہ پہلے کسی کو دی اور نہ آئندہ کسی کو دے گا، یہ دعا اللہ تعالیٰ کو پسند نہ آئی۔ سدی (رح) کہتے ہیں جب انہوں نے اللہ تعالیٰ کا کلام سنا تو کہنے لگے، ارنا اللہ جھر ۃ اس پر یہ عذاب نازل ہوا، بعض نے لکھا ہے کہ یہ زلزلہ ان پر بیعیبت زدہ ہونے کی وجہ سے طاری ہوگیا تھا، بعض مفسرین کا خیال ہے کہ یہ لوگ بنی اسرائیل کے علماتھے۔ انہوں نے عام لوگوں کو بچھڑے کی پوجا سے منع نہ کیا تھا، اسلیے جونہی یہ کوہ طور پر پہنچے انہیں زلزلہ یا بجلی آدبایا وغیرہ وغیرہ مگر ان اقوال میں سے کسی ایک قطعی نہیں کہہ سکتے ( قرطبی۔ ابن کثیر) ف 3 یعنی نکلنے سے پہلے تاکہ اپنی بنی اسرائیل ان کی ہلاکت پنی آنکھوں سے دیکھ لیتے ہیں اور مجھ پر الزام نہ رکھ سکتے کہ میں نے انہیں ہلاک کردیا ہے چونکہ ایسا نہیں ہو اسلیے ہمیں اب بھی ہلاکت نہ فرما (کذفی، تو حیدی) ف 4 حرکت سے مراد اللہ تعالیٰ کو نکھوں سے یکھنے کا مطا لبہ بھی ہوسکتا ہے اور بچھڑے کی پوجا بھی اگر مراد بچھڑے کی پوجا ہے تو یہ اس بات کی دلیل بنی اسرائیل کے سمجھ دار لوگوں نے بچھڑے کی پوجا نہ کی بلکہ اس جرم کا ارتکان ان کے صرف جاہل عوام نے کیا تھا اور اس وقت انہی کی اکثریت تھی، ف 5 یعنی جنہوں نے بچھڑے کی پو جا کی یا تجھے آنکھوں سے دیکھنے کا مطالبہ کیا، حقیقت میں یہ سب کام تیری طرف سے ایک آزمائش تھے تو جس طرح چاہتا ہے اور امتحان لیتا ہے۔ ( ابن کثیر) ف 6 یعنی تیرے سوا اور کوئی گناہ بخشنے والا نہیں ہے۔ ( ابن کثیر ) الاعراف
156 ف 7 یعنی میرا عذات تو صرف ان کافروں اور نا فر مونوں کے لیے مخصوص ہے جنہیں ان کی نافرمانی پر سزا دینا چاہتا ہے کیونکہ عذاب دینا میری صفات میں سے نہیں ہے بلکہ وہ محض میرا ایک فعل ہے جو صفت عدل کے تقا ضے میں ظاہر ہوتا ہے۔ میری صفت اور نظام کائنات میں اصل چیز رحمت ہے جس سے کائنات کی ہر چیز فیض یاب ہو رہی ہے۔ حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے دعا کی الھم ارحمنی ومحداولا تر حم منا احدا۔ اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لقد تحجرت وسعا کہ میں نے اللہ تعالیٰ کی رحمت واسع کو محددو کردیا ابن کثیر) اگر اللہ تعالیٰ کے غضب کی طرح اس کی رحمت بھی خاص نیکو کاروں کے لیے ہوتی اور کفر و نافرمانی پور فو را امو اخذ ہوتا تو روئے زمین ہی چلنے والے چھوڑ تا۔ (خاطر :45) ف 8 یعنی جوان صفات سے متصف ہو نگے اور وہ امت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہے۔ ( ابن کثیر) ف 9 دوسرے ارکان و فرائض کو چھوڑ کر خاص طو پر زکواۃ کا ذکر اس لیے کیا گیا ہے کہ یہود یوں میں مال کی محبت پائی جاتی تھی اور اس بنا پر وہ جتنی کوتاہی ادائے وکوٰۃ میں کرتے تھے کوئی اور فریضہ کرنے میں نہ کرتے تھے۔ ف 10 یہ آیت تمام احکام شریعت پر حاوی ہے زکوٰۃ حقوق مالی) الصلوۃ ( حقوق بدنی) اور ایمان میں ہر قسم کی آفت آجاتی ہے، ( رازی) یہا تک حضرت موسیٰ ٰ ( علیہ السلام) دعا کا جواب ختم ہوگیا، اب اگلی آیت سے موقع کی منا سبت یہود ونصاری ٰ کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی اختیار کرنے کی دعوت دی جا رہی ہے اور بتایا جارہا ہے کہ دنیا و آخرت میں رحمت الہیٰ کے حصول کے لیے مندر جہ بالا صفات کے علاوہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی بھی ضروی۔ ہے ( کبیر ) الاعراف
157 ف 11 یعنی اس زمانہ میں میری رحمت کے خاص طو پر مستحق وہ ہیں۔۔۔۔۔ ( قر طبی) ف 12 یہاں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفات تسعہ مذکور ہیں اور ان پڑھ نبی لقط سے یہاں اس طرف اشارہ ہے کہ ان پڑھ ہونے کے باوجود آپ میں جو کمال علم پایا جاتا ہے وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ایک بہت بڑا معجزہ ہے۔ چنانچہ علوم نبوت جو احادیث کی شکل میں جود ہیں ان کو پڑھ کر عرب جیسی ان پڑھ قوم دنیا کی انتہائی تعلیم یافتہ اور سب ترین قوموں کی رہنما بن گئی۔ ف 13 آج بھی توراۃ وانجیل میں وہ مقامات موجود ہیں جن میں بنی سرائیل کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آمد کی بشارت دی گئی ہے، مثال کے طور پر دیکھئے استثنا باب 18 آیت 17۔22) باب 32۔ آیت 21) باب 3 آیت 1۔2 متی۔ باب 4 آیت 23۔12 وغیرہ مزید تفصیل کے لیے دیکھئے تفسیر المنار) ف 14 یعنی جو طیب چیزیں ان پر ان کے گناہوں کی وجہ سے حرام کردی گئی تھیں یا انہوں نے خود انہوں اپنے اوپر حرام کرلیا تھا، ( جیسے اونٹ گو شت اور چربی وغیرہ) وہ انیں حلال قرار دیتا ہے اور جب ناک چیزوں کو انہوں نے حلال قرار دے رکھا ہے تھا۔ ( جسے سوہ کا گوشت اور شراب وغیرہ) وہ انہیں حرام قرار دیتا ہے اور پھر جو چیزیں بھی شریعت نے حلال قراردی ہے وہ طیب ہی ہے اور جو حرام قرار دی ہے وہ خبیث ہی ہے۔ ( ابن کثیر ) ف 15 یعنی ان کے علمانے ان پر خو خود ساختہ پاپند یاں لا کر دین میں تنگی پیدا کر رکھی تھی۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان پاپند یوں کو توڑ کر دین میں آسانی پیدا کرتے ہیں۔ احادیث میں ان پا بندوں کو توڑ کر دین میں آسانی پیدا کرتے ہیں، احادیث میں ان سہولتیں کو تفصیل سے ذکر ملتا ہے جو اسلام میں امت محمد ی ( علیہ السلام) کو خاص طور حاصل ہوتی ہیں۔ اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو مع کلمات سے ان کو بیان بھی فرما دیا ہے جیسے فرمایا بعثت بال حنیفتیہ المحتہ کہ مجھے آسان حنیفی دین دے کر بھیجا گیا ہے، نیز فرمایا الدین یسر کہ دین میں آسانی ہے۔ ایک دوسری حدیث میں ہے لا ضررو لا ضر اوفی الاسلام کہ اسلام میں مضرفت رسانی بالکل ممنوع ہے۔ نیز آپ صحا بہ کرام کو ہمیشہ تلقین فرماتے ایسر و الا تعبر وا کہ احکام میں سہولت کو سامنے رکھو تنگی پیدا نہ کرو۔ ( ابن کثیر، کبیر ) فوائد صفحہ ہذا ف 1 یعنی قرآن اور سنت دونوں پر ) ( ابن کثیر کبیر ) الاعراف
158 ف 2 یعنی میری رسالت عالمگیر ہے اور دائمی بھی، صحیح بخاری میں ہے کہ کہ حضرت ابو بکر (رض) سب سے پہلے اس پر ایمان لائے اور حدیث میں ہے، بعثت الی الناس کا فتہ کہ میں ج سب لوگوں کی طرف مبعوث کیا گیا ہوں یہاں یا یھا الناس سے خطاب اور جمیعا سے تاکید صراحت کے ساتھ اس پر دال ہیں۔ ابن کثیر) ف 3 یعنی قرآن پاک یا اس کی نازل کردہ تمام کتابوں پر (روح المعانی) ف 4 آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی یہ ہے کہ زندگی، انفراد دی ہو یا اجتماعی، کے ہر گوشہ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کی ہدایت اور نقش قدم پر چلا جائے اس میں اشارہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی کے علاوہ ہدایت کا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ خلاف پمیر کسے رہ گزید کہ ہر کز بمنزل نخواہد رسید نیز دیکھئے، ( سورۃ النجم آیت 3۔4) الاعراف
159 ف 5 مراد ہیں وہ یہودی جو تورات پر قائم رہے یا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لے آئے جیسے عبد اللہ سلام اور ان ساتھی، ( کبیر ) الاعراف
160 الاعراف
161 ف 1 یعنی ابھی ایک شہر فتح ہوا ہے آگے یعنی ابھی ایک شہر فتح ہوا ہے آگے سارا ملک ملے گا۔ ( موضح) یا مطلب یہ ہے کہ گناہ معاف کرنے کے علاوہ ان کے درجے بھی بلند ہوں گے ( دیکھئے سو رہ البقرہ آیت 58) اکثر مفسرین کی تحقیق یہ ہے کہ اس قریہ ( شہر) سر مراد ایلتہ ( یا ایلات ہے جو بحر قلزم کے ساحل پر مدین پر مدین اور طور کے درمیان واقع ہے۔ ( کبیر) یہ شہر بحر قلزم کے اند خلیج عقبہ میں اس جگہ واقع تھا جہاں کج این اردن کی بندر گاہ عقبہ پائی جاتی ہے اس کے قریب خلیج عقبہ ہی ہیں یہود یوں نے جو نئی بندر گاہ بنائی ہے اس کا نام نام انہوں نے ایلات ہی رکھا ہے تفہیم القرآن کے حاشیہ نمبر پر لکھا ہے کہ بنی سرائیل کے زمانہ عروج میں یہ شہر بڑاہم تجارتی مرکز تھا۔ حضرت سلیمان ( علیہ السلام) نے بحر قلزم کے جنگی وتجارتی بیڑے کا صدر مقام اسی شہر کو بنایا تھا ،۔ ( ج 2 ص 59) الاعراف
162 الاعراف
163 ف 3) فریب اور حیلہ سازی سے مچھلیوں کا شکار کرتے تھے انہیں حکم تو یہ تھا کہ اس دن کی تعظیم کریں اور اس میں شکار وغیرہ سے بار رہیں مگر انہوں نے دریا کے کنا رے سے پانی کاٹ کر حوض تعمیر کرلیے جب ہفتہ کے دن ان حوضوں میں مچھلیاں آجاتیں تو ان کا راستہ بند کردیتے اور اتوار کے دن پکڑ لیتے اس سے معلوم ہوا کہ کسی حرام کارتکاب کرنے کے لیے حیلہ سازی بھی حرام ہے حدیث میں ہے لا تر تکبو اما ارتکب الیھود فتسحلوا محارم اللہ باونی الحیل کہ یہود کی طرح شریعت میں حیلے نکال کر اللہ تعالیٰ کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حلال مت سمجھو۔ ( ابن کثیر) بائیل کے بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ سبت کے دن ان کو مکمل طور پر کارو بار بند رکھنے کا حکم تھا مگر وہ اس کی خلاف ورزیاں کرتے رہتے تھے۔ ف 4 یا پانی سے سر نکالے ہوئے آجاتیں، ف 5 یعنی ان کے فسق کی وجہ سے ان پر یہ سختی کی گئی تھی،۔ الاعراف
164 ف 6 یعنی اس بستی کے نیک لوگوں میں سے ایک گروہ نے ان لوگوں سے کہا جو اس حیلہ سازی سے شکار کرنے والوں کو منع کرتے تھے جمہور مفسرین (رح) کا خیال ہے کہ اس بستی کے لوگ تین گروہوں میں تقسیم ہوگئے تھے ایک ظالم جو حیلہ سازی سے ہفتہ کے دن مجھلیوں کا شکار کرتے تھے، دوسرا گروہ جو ان کے ایسا کرنے سے منع کا شکار کرتے تھے، دوسرا گروہ وہ جو ان کی ایسا کرن سے منع کرتا تھا اور تیسرا گروہ وہ جو خود اگرچہ نیک تھا لیکن دوسروں کو برائی سے منع نہیں کرتا تھا۔ پس یہاں امتہ سے مراد یہی تیسرا گروہ ہے۔ ( ابن کثیر) ف 7 یعنی کیوں ان کے سمجھانے میں وقت ضائع کرتے ہو جب کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے دنیا میں ہلاکت اور آخرت میں عذاب لکھ دیا ہے تو تم انہیں کیسے بچالو گے مطلب یہ ہے کہ خود نیکی کرتے رہو اور انہیں ان کے حال پر چھوڑ دو ( مازخوذ ابن کثیر) ف 8 ایسانہ ہو کہ وہ ہمیں بھی اس جرم میں پکڑ لے تاکہ تم امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے فریضہ سے دست کش ہو کر کیوں بیٹھ گئے تھے، الاعراف
165 ف 9 یہ بعض مفسرین کا خیال ہے کہ صرف اہل معصیت ہی ہلاک ہوئے اور باقی دونوں گروہ بچ گئے جیساکہ مروی ہے کہ جب حضرت عکرمہ نے حضرت ابن عباس (رض) کے سامنے یہ خیال پیش کیا کہ سکوت اختیار کرتے تھے اور انہوں نے بھی ارتکاب کرنے والوں کی مخالفت کیتھی تو حضرت ابن عباس (رض) نے ان کو خلعت پہنایا اور بعض مفسرین کہتے ہیں کہ صرف وہی گروہ عذاب سے محفوظ رہا جو دوسروں کو منع کرتا تھا باقی سب ہلاک کر دئے گئے یہ قول بھی حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے اور اسناد جید کے ساتھ ثابت ہے مگر پہلا قول اصح ہے چنانچہ حافظ ابن کثیر حضرت ابن عباس کا یہ دوسرا قول نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں ولکن رجوعہ الی قول عکرمتہ فی نجا ۃ االساکن او لی من القول ھذا الانہ تبین حالھم بعد ذٰلک نیز حافظ ابن کثیر نے یہ بھی لکھا ہے کہ قرآن قرآن نے منع کرنے والوں کی نجات اور ظالموں کی ہلاکت کی تو تصریح کردی ہے مگر سکوت کرنے والوں سے سکوت ہی اختیار کیا ہے۔ لان الجزا من جنس العمل لہذا وہ نہ مدح کے مستحق ہیں اور نہ خدمت کے واللہ اعلم، ) ( ج 2 ص 257) تنبیہ : برائی کو دیکھ کر اس سے سکوت اختیار کرنا اس صورت میں جرم ہو تو ہے جب اس برائی سے کراہت نہ ہوجیساکہ حدیث میں ہے کہ جب کسی قوم میں منکرات کا ارتکاب ہو رہا ہو اور با وجود قدرت کے دوسرے لوگ منع نہ کریں تو اللہ تعالیٰ کا عذاب سب پر آجاتا ہے۔ مزید دیکھئے ( سورۃ انفال آیت 25) الاعراف
166 ف 10 مفسرین کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ آیا واقعی بندر بنا دیے گئے تھے یا ان میں صرف بندروں جیسی صفات پیدا کردی گئی تھیں بظاہر نظم قرآن سے معلوم ہو تو ہے کہ اسن کا یہ مسخ ہونا اخلاقی نہیں بلکہ جسمانی تھا۔ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ مسخ ہونے کے بعد وہ صرف تین دن زندہ ان کی کوئی نسل نہیں چلی۔ ( ابن کثیر) بعض کہتے ہیں کہ پہلے ان پر نافرمانی کی وجہ سے عذاب بھیجا گیا جیسا کہ یہاں بعذاب بیئس فرمایا ہے لیکن جب اس پر بھی باز نہ آئے تو انہیں مسخ کی سزا دی گئی اور بعض کہتے ہیں کہ عذاب بئیس سے مراد یہی مسخ ہے و اللہ اعلم ( فتح القدیر ) الاعراف
167 ف 1 گزشتہ آیات میں یہود کے بعض نیک و بداعمال کا ذکر فرمایا، اور اس آیت میں بتایا کہ قیامت تک ان پر ذلت وخواری مسلط کردی گئی ہے۔ کبیر) یہودیوں کے پوری تاریخ اس حقیقت کی زندہ شہادت ہے۔ وہ ہر زمانے میں جہاں بھی رہے دوسروں کے محکوم اور غلام بن کر رہے اور آئے دن ان پر ایسے حکمران مسلط ہوتے رہے جنہوں نے انہیں اپنے ظلم وستم کا تختہ مشق بنایا ہمارے زمانے میں جرمنی میں ہٹلر نے ان سے جو سلوک کیا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ اگر کسی جگہ عارضی طور پر انہیں امن وامان نصیب ہوا بھی اور ان کی برائے نام حکومت قائم ہوئی بھی تو وہ اپنے بل بوتے پر نہیں بلکہ سراسر دوسروں کے سہاروں پر۔ الاعراف
168 ف 2 تاکہ ان کی کوئی اجتماعی قوت وجود میں نہ آسکے، آج یہودی اگرچہ ایک ریاست کی شکل میں یاک جگہ یعنی فلسطین میں جمع ہورنے کی کو شش کر رہے ہیں مگر دوسری حکومتوں کی پشت پناہی اور عرب دشمنی کے تحت یہ سب کچھ ہو رہا ہے، معلوم نہیں اس کا انجام کیا ہوگا۔ ف 3 یا جیسے ولوگ جنہوں نے ہفتہ کو روز مچھلی کا شکار کرنے والوں کو منع کیا تھا، رازی) ف 4 یعنی نیک نہیں بلکہ شریر اور بد کار جیسے سود کھانے اور انبیا ( علیہ السلام) تک تک کو قتل کر ڈالنے والے، (کبیر) ف 5 کبھی راحت اور چین دیا اور کبھی تکالیف میں مبتلا کردیا۔ اس طرح کبھی خوشحالی نصیب ہوئی اور کبھی فقرو فاقہ سے دو چار ہوئے ( ابن کثیر) ف 6 یعنی اپنے گناہوں کی معافی مانگیں اور توراۃ کے احکام پر عمل کریں شاہ صا حب فرماتے ہیں کہ یہود کی دولت بر ہم ہوئی تو آپس کی مخالفت سے ہر طرف نکل گئے اور مختلف مذاہب پیدا ہوئے یہ احوال اس امت کو سنا یا ہے کہ یہ سب کچھ ان پر بھی ہوگا، حدیث میں فرمایا ہے کہ اس امت میں بعض بندر اوسئور ہوجائیں گے۔ اللہ گمراہی سے پناہ دے، ( از مو ضح ) الاعراف
169 ف 7 اس لیے کہ ہم اسے کے لاڈ لے بیٹے اور اس کے بر کزیدہ ابنیا کی اولاد ہیں۔ ف 8 یعنی گناہ کرنے کے بعد نہ وہ شر مندہ ہوتے ہیں اور نہ ان میں تو نہ کا جذبہ پیدا ہوتا ہے بلکہ گناہوں پر ان کی جرات دبے باکی دن بدن بڑھتی ہی جاتی ہے، چنانچہ ایک مرتبہ رشوت لینے کے بعد جو نہی انہیں دوبارہ رشورت لینے کے بعد جونہی انہیں دوبارہ رشوت کا موقع ملتا ہے وہ بلا جھجک اسے قبول کرلیتے ہیں، ان کے علما کایہ حال ہے لوگوں کو غلط مسئلے باتے ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ ہماری بخشش ہوجائے گی حالانکہ پھر اسی کا ام کو حاضر رہتے ہیں۔ بخشش کی امید تو تب ہے جب پچھلی سرکشی اور گناہوں سے باز رہیں۔ ( کذافی ابن کثیر) ف 9 یعنی یہ خوب جانتے ہیں کہ اللہ نے توراۃ میں کہیں یہ نہیں فرمایا کہ تم جو گناہ چاہو کرتے رہو تمہیں بخش دو گا مگر ان کی جرات اور بے خوفی کایہ علم ہے کہ گناہ بھی کئے جاتے ہیں اللہ کی آیات کو بیچ کر دنیا بھی کمائے جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی وہ باتیں بھی منسوب کئے جاتے ہیں جو اس نے کبھی نہیں کہیں۔ ( کذافی القرطبی) الاعراف
170 ف 10 یعنی اس میں کوئی تحریٖف نہیں کرتے اور اسی برا پر وہ اگلی کتاب یعنی قرآن حکیم پر ایمان لاتے اور اس کے احکام کی پیروی کرتے ہیں۔ الاعراف
171 ف 11 یہ وقعہ اس وقت پر پیش آیا جب توراۃ کے احکام سن کر بن اسرائیل شرارت سے کہنے لگے کہ اتنے احکام کی پیروی ہم سے نہ ہو سکے گی۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے طور کو حکم دیا جو ان کے سروں پر چھتری کی طرح چھا گیا۔ اس حال میں اپنے لیے کوئی چارہ کار نہ پاکر انہوں نے توراۃ کے احکام پر عمل کرنے کا عہد کیا۔ ( ابن کثیر الاعراف
172 ف 12) یعنی جب وہ آدم ( علیہ السلام) کو پیدا کیا تو ان کی پشت سے تمام ذریت پیدا کی جو قیامت تک انکی نسل سے روئے زمین پر پائی جانے والی تھی اور انہیں عقل اور قوت گو یائی عطا فرماکر ان سے اپنی ربوبیت عامہ کا قرار لیا۔ حاٖفظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ ذراول کے بارے متعدد احادیث بھی ورد ہیں لہذا اس کو ایک تمیثلی واقعہ کہنا صحیح نہیں ہے جبکہ عقلا بھی اس میں کوئی استحالہ نہیں ہے۔ اور حدیث کل مو لود یو لد علی الفطرۃ کسر بچہ فرطت اسلام پر پیدا ہوتا ہے) میں بھی اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہے۔ ( قرطبی، ابن کثیر ) الاعراف
173 ف 1 ان تقولی ا یہ اصل میں لئلا تقو لو اس یاکر اھتہ ان تقو لوا ہے یعنی ی عہد تم سے اس لیے لیا کہ ایسانہ ہو کہ تم دنیا میں شرک و نافرمانی کی روش اختیار کرو اور قیامت کے روز تم سے باز پرس کی جائے تو یہ کہہ کر اپنی صفائی پیش کرنے لگے کہ ہم تو اس سے غافل تھے ( کبیر، ابن کثیر) ف 2 یا یہ عذار پیش کرو کہ ہم تو اپنے بڑوں کی دیکھا دیکھی شرک کو راہ پر چلتے رہے ہیں ہمارا قصور کیا ہے مطلب یہ ہے کہ شرک کے بارے میں مقلد کا کوئی عذر قبول نہ ہوگا، ( ابن کثیر۔ کبیر )، ف 3 یعنی ہمارے یعنی ہمارے آباؤ اجدانے لہذا وہی مجرم ہیں مطلب یہ ہے کہ اس قسم کے عذار وہاں کوئی موقع نہ و ہوگا کیونکہ ابتدا ہر شخص توحید پر قائم رہنے کا عہد لیا گیا ہے اور پھر اس عہد کی یاددہانی اور تفسیر و تشریح کے لیے رسول بھیجے اور تکابیں نازل فرمائی گئی ہیں۔ کذافی التفاسیر ) الاعراف
174 ف 4 اور باطل کا چھو ڑدیں یہ قصہ یہود کے سنایا کیونکہ وہ بھی مشرکوں کی طرح اپنے عہد سے پھرے ہوئے تھے ( از مو ضح) ف 5 یعنی اس علم سے اس طرح نگل گیا جس طرح سانپ اپنی کینچلی سے نکل جاتا ہے، (کبیر ) الاعراف
175 ف 6 ان الفاظ سے یہ تو معلوم ہوتا ہے کہ جس شخش کا قصہ یہاں برائے عبرت بیان کیا جا رہا ہے واہ ضرور کوئی متعین شخص ہے لیکن قرآن وصحیح حدیث میں نہ تو اس کے نام کی تصریح ہے اور نہ زمانہ ہی کی تعین مذکور ہے بعض علمائے تفسیر نے اس کا نام بلعم بن اسرائیل میں ایک مستجاب الد عوۃ آدمی تھا اور حضرت موسیٰ ٰ ( علیہ السلام) نے اسے اہل مدین کو ایمان کی دعوت دینے کے لے بھیجا تھا مگر نفسانی خواہشوں سے مغلوب ہو کر انہی میں شامل ہوگیا اور موسیٰ ٰ ( علیہ السلام) کی مخالفت کرنے لگا ،۔ آیت فانلسخ منھا میں غالبا اسی طرف اشارہ ہے، بعض نے امیہ بن ابی مصلت ثقفی کا نام بھی ذکر کیا ہے جو کہ شرئع متقد مہ کا عالم ہونے کے باوجود آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان نہ لا یا اور بدر کے دن جو مشرک قتل ہوگئے تھے بڑے بلیغانہ انداز میں ان کے مر ثیے کہتے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے متعلق فرمایا تھا لسانہ مومن وہ قلبہ کافر کہ اس کی زبان تو مومن ہے مگر دل کافر ہے یہی حال عموما شاعروں کا ہوتا ہے۔ بہر حال اسے با وجود علم و فضل کے مسلمان ہونے کی تو فیق نہ ہوئی واللہ اعلم ( ابن کثیر ) الاعراف
176 ف 7 یعنی اپنی کج روی پر اصرار کیا اور دعوت ایمان سے مستفید نہ ہوا اس کی مثال اس کتے کی سی ہے ( ابن کثیر) کتے کے متعلق مشہور ہے کہ وہ طبعی طور پر کمر درد واقع ہوا ہے ہو گرم ہوا کہ بسہولت باہر نہیں نکال سکتا اور نہ تازہ ہوائی اہی اندر کھنیچ سکتا ہے اس لیے زبان لٹکائے ہا نہتا رہتا ہے یہی حال دنیا کے حریص بندے کا ہے اسے نصیحت کرو نہ کرو وہ ہر حالت میں اپنی گمراہی پر پکار رہتا ہے اور دنیا کے لالچ میں اس کی زبان لٹکتی رہتی ہے جس طرح ایسے لوگوں کو متعلق دوسرے مقامات پر مذکور ہے، ( دیکھئے بقہ آیت 6 اعراف آیت 192) یہاں آیت میں ہوسکتا ہے تمثیل ہو اور عین ممکن ہے کہ اس شخص کو اللہ تعالیٰ نے اسی قسم کی سزا دی ہوجیسا کہ بلعم بن باعورا کے متعلق بعض تفاسیر میں مذکور ہے۔ ( ما خذ از کبیر، ابن کثیر) ف 8 نصیحت حاصل کریں اور اپنی غلط روش سے باز آجائیں الاعراف
177 الاعراف
178 ف 9 ان کو کوئی بھی سیدھی راہ پر نہیں لگاسکتا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے خطبہ میں بھی حمدو ثنا کے بعد فرمایا کرتے، من یھدہ اللہ فلا مضل لہ ومن یضللم فلا ھادی لہ یعنی جسے اللہ تعالیٰ سیدھی راہ پر لگائے اسے جوئی کوئی نہیں کرسکتا اور جسے وہ گمراہ کر دے اس کوئی سیدھی راہ پر نہیں لگا سکتا۔ ( سلم نسائی وغیرہ۔ الاعراف
179 ف 13 ف لجھنم میں لام عاقبت بھی ہوسکتا ہے یعنی اپنے حواس سے صحیح فائدہ نہ اٹھانے کی وجہ سے انجام کار جہنم میں جائیں گے گو یا جہنم ہی کے لیے ان کو پیدا کیا گیا ہے، اور لام غایت کا بھی ہوسکتا یعنی تکوینی طور پر اللہ تعالیٰ کے علم اور قضا قدر ہمیں وہ جہنم ہی کے لیے پیدا کئے گئے ہیں گو تشریعی طور پر اللہ تعالیٰ نے ان کو عبادت کے لیے پیدا کیا ہے اور شریعت کا مکلف قرار دیا ہے جیسا کہ بہت ہی احادیث تقدیر میں مذکور ہے اور علما نے تقدیر اور جبری فرق کی وضاحت کی ہے۔ ف 1 کیونکہ انعام ( چوپائے) کی نقل و حرکت تمام تر اس کے طبعی تقاضے اور تسخیری غایت کے مطابق ہوتی ہے۔ اس کے بر عکس کفار اپنے ارادہ و اختیار سے اپنے خالق کی نافرما کر رہے ہیں، ( ابن کثیر) ف 6 یعنی خواب غفلت میں پڑے ہوئے اور حیات بعد الموت سے بے فکر ہیں۔ شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں خدا اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پہنچا ننا اور ان کے احکام کو سیکھنا ہر شخص پر فرض ہے اگر کوئی ایسا نہ کرے گا تو دوزخ میں جائے گا۔ ( مو ضح) الاعراف
180 ف 3 اچھے ناموں سے مراد وہ نام ہیں جن سے اللہ تعالیٰ کی عظمت جلالت شان تقدس اور صفات کمال کا اظہار ہوتا ہے۔ علمانے اس ما حسنی کی تشریح اور ان کے ساتھ دعوت پر مستقل کتابیں لکھی ہیں۔ رازی کی اطوامع حلیمی کی المنہاج اور قرطبی کی الکتاب الا منی ٰ قابل دیدے ہیں۔ حضرت ابو ہریرہ (رض) کی ایک حدیث میں ہے اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں جس نے انہیں شمار کیا، (یعنی ان کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کو پکارا) وہ جنت میں داخل ہوگیا، اللہ تعالیٰ وتر (طاق) ہے اور وتر کو پسند کرتا ہے۔ ( بخاری مسلم) یہاں تک تو یہ حدیث متواتر ہے، ترمذی کی ایک روایت میں ان موموں کی تصریح بھی کی گئی ہے مگر وہ نام علمانے بطور تشریح قرآن سے تر تیب نہیں ہیں ان ننانوے نا موں کے علاوہ اور نام بھی قرآن و حدیث میں مذکور ہیں۔ حاصل یہ کہ اللہ تعالیٰ کی ان ناموں کو ساتھ ہی پکار نا چاہیے اپنی طرف سے کوئی نام نہیں رکھنا چاہیے ( ملحض از ابن کثیر) ف 4 اس کے ناموں میں ایک بے دینی تو یہ ہے کہ ان ناموں کو بگاڑ کر بتوں کے نام رکھے جائیں جیسے اللات عزیٰ منات کہ یہ اللہ عزیز اور منان کی بگاڑی ہوئی شکلیں ہیں۔ ( ابن کثیر) اللہ تعالیٰ کے نام اپنی طرف سے رکھنا بھی الحاد میں داخل ہے۔ ( فتح القدیر) الحاد کے در اصل معنی کجروی کے ہیں اور امام رازی نے الحاد کی تین صورتیں لکھی ہیں۔ شاہ صاحب (رح) نے کجری کی ایک صورت یہ بھی لکھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اسمائے کو ٹونے ٹوٹکوں میں استعمال کیا جائے ایسے لوگوں کی دینوی مطلب اگرچہ حاصل ہوجاتا ہے مگر سزا انکو ضرور ملیگی) از مو ضح) الاعراف
181 ف 5 مراد صحا بہ کرام (رض) تابیعن (رح) یعنی سلف صالح اور وہ لوگ جو ان کے راستے کو چھوڑ کر نئے نئے طر یقے اختیار نہیں کرتے، حدیث میں ہے کہ میری امت میں سے ایک گروہ ہمیشہ حق پر قائم رہے گا۔ ( بخاری مسلم فراخی کے دروازہ کھول دینگے اور خوب مالا مال کر دینگے حتی کہ کہ وہ دنیا کی نعمتوں سے بد مست ہو کر آخرت کی جو ابدہی کو فراموش کر بیٹھینگے نیز دیکھئے سورۃ الانعام آیت 54۔ 55، ( کبیر، ابن کثیر ) الاعراف
182 الاعراف
183 ف 7 یعنی ان پر فو راگرفت نہ کروں گا تاکہ وہ غفلت میں پڑے رہیں اور گناہ پر گنا کرتے جائیں۔ اس کا نام ڈھیل اور استدراج ہے جو کفار کو انکے گناہ کی سزا میں دی جاتی ہے مگر وہ اپنی حماقت سے یہ سمجھتے کہ ہم پر بڑی مہر بانی ہو رہی ہے حالانکہ انہیں آخری عذاب کے لیے تیار کہا جارہا ہے۔ ( کبیر) ف 8 جس کی کسی حیلہ اور تد بیر سے مدافعت نہیں کی جاسکتی حضرت ابو موسیٰ الا شعری (رض) سے روایت ہے کہ بن صلعم نے فرمایا اللہ تعالیٰ ظالم کو ڈھیل دیتا ہے یہاں تک کہ جب وہ اسے پکڑتا ہے تو وہ بھاگ کر کہیں نہیں جاسکتا ( بخاری ومسلم الاعراف
184 ف 9 اوپر کی آیات میں ان کی غفلت اور اعراض پر تہدید بھی اب یہاں سے نبوت پر ان کے شبہات کی تردید ہو رہی ہے مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں نے کبھی یہ سوچا بھی ہے کہ جن باتوں، توحیدوغیرہ کی طرف آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دعوت دے رہے ہیں ان میں کون ایسی بات ہے جسے جنون سے تعبیر کیا جاسکتا ہے یا یہ یوں ہی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تر دید کے لیے اس قسم کی الزام طرازیاں کر رہے ہیں۔ قتادہ (رض) کہتے ہیں کہ ہمیں یہ یہ روایت ملی ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک رات صفا پر چڑ ھے اور صبح تک قریش کے مختلف گھرانوں کا نام لے کرانہیں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈراتے رہے آخر ایک کافر ہنے لگا کہ تمہا را یہ ساتھی مجنون ہوگیا ہے اس پر یہ آیت نازل ہوئی ( ابن جریر، ابن کثیر) حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کا ساتھی فرمایا اس لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان میں رہتے تھے اور وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حالات سے خوب واقف تھے۔ ( از مو ضح) الاعراف
185 ف 10 یعنی دلائل گونیہ میں غور و فکر سے بھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صدق نبوت کا اثبات ہوسکتا ہے کیونکہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس توحید کی طرف دعوت دے رہے ہیں وہی توحید دے رہے ہیں وہی توحید آیات کو نیہ سے ثابت ہورہی ہے، امام رازی فرماتے ہیں : معلوم ہوا کہ امر نبوت توحید کی فرع ہے ورنہ ان انا الا نذیر مبین کے دعویٰ کے بعد الم یتفکروا الخ کی تقریر بے ربط ہو کر رہ جائے گی۔ ( کبیر ) ف 11 یعنی موت کا مقررہ وقت تو کسی کو معلوم نہیں۔ انسان کم از کم نیکی کی طرف راغب ہوجا نا چاہیے کہ شاید اس کی موت کی گھڑ قر یب ہو مگر یہ بد بخت اتنا بھی نہیں سمجھتے (کذافی الو حیدی) ف 12 یا قرآن حکیم سے کوئی بہتر نصیحت اور کسی کتاب میں ہوگی اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بہتر کوئی سمجھانے والا ہوگا جس کی باتوں پر یہ ایمان لائینگے ( از وحیدی ) الاعراف
186 ف 13 ہدایت اور گمراہی اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہے مگر اس کا قانون یہ بھی ہے کہ وہ گمراہ اسی کو کرتا ہے ج ونیکی کا واضح راستہ چھوڑکر بد کاری کا راستہ اختیار کرلیتا ہے۔ الاعراف
187 ف 14 تو حیدو نبوت اور قضا ق دقدر پر کلام کے بعد بعث ماہ بعد الموت پر گفتگو ہو رہی ہے کیونکہ قرآن میں یہ امور اربعہ اصول وکلیات کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ( رازی ) ف 1 اس کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ زمین آسمان اس کی دہشت سے کا نپتے ہیں یا یہ کہ کسی مقرب فرشتہ اور نبی مرسل ( علیہ السلام) کو اس کے وقوع کا علم نہیں ہوسکتا۔ ( رازی) حدیث جبر یل ( علیہ السلام) میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صرف اشراط ساعت بنان فرمائی ہیں اور دوسری روایات میں نزول عیسیٰ ٰ ( علیہ السلام) کو آثار قیامت میں سے قرار دیا ہے مگر ان کے وقو ع کے بعد بھی قیامت اچانک اور دفعتہ واقع نہیں ہوگی، ( کبیر) ف 4 کہ قیامت کے وقوع کا علم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو نہیں ہے یہ لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے باربار اس طرح پو چھتے ہیں ہیں جیسا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کرید اور جستجو کے بعد اس کا پورا علم حاصل کرلیا ہے۔ الاعراف
188 ف 3 یعنی مشیئت الہیٰ سے جو کچھ ہونا ہے ہو رہا ہے۔ سمجھ میں ذاتی طو پر اتنا بھی اختیار وقدرت نہیں کہ میں اپنی جان سے کسی مضرت کو روک سکوں یا کچھ حاصل کرسکوں ( کذافی السلفیہ) ف 4 یعنی نہ میں غیب دان ہی ہوں اگر ایسا ہوتا تو کتنے ہی فائدے ہیں جن پیشگی علم کی وجہ سے میں سمیٹ لیتا اور کتنے ہی نقصانات ہیں جن سے قبل از وقت آگاہ ہونے کی بنا پر میں بچ جاتا۔ یہاں لفظ لو۔ سے ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باوجود افصل المرسلین ہونے کی علم غیب نہیں رکھتے تھے، خواہ واقعہ افک ہمارے سامنے ہے کہ اس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کتنے دنوں تک مضطرب اور پریشان رہے آخر کا قرآن میں اللہ تعالیٰ نے حضرت عائشہ کی برات نازل فرمائی تو آپ حقیقت حال سے آگاہ ہوئے۔ اس ایک واقعہ سے ہی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مختار کل اور غیب دان کہنے والے خود ہی فیٖصلہ کرسکتے ہیں، ف 5 اس آیت سے معلوم ہوتا کہ انبیا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اولیا کو جو اللہ تعالیٰ سب لوگوں سے بڑا بنایا ہے۔ سو ان میں بڑائی یہی ہوتی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی راہ بتاتے ہیں اور اس بات میں کچھ ان کی بڑائی نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو عالم میں تصرف کی قدرت دے دی ہو کہ موت وحیات ان کے اختیار میں ہو یا یہ کہ اللہ صاحب نے ان کو غیب دانی دے دی ہو کہ جس کے احوال جب چاہیں معلوم کرلیں ( سلفیہ) اس آیت سے شرک کی جڑ کٹ گئی گئی جب آنحضرت کو جو تمام عالم کے سردار ہیں اپنی جان کے نفع و نقصان کا اختیار نہ ہو نہ غیب کی بات معلوم ہو تو کسی اور نبی یا ولی یا بزرگ یا فقیر یا جن یا فرشتے کو کیا قدرت ہے کہ کسی کو فائدہ یا نقصان پہنچائے یا کوئی غیب کی بات بتائے۔ البتہ اللہ تعال جو غیب کی بات آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بنا دیتا وہ آپ کو معلوم ہوجاتی اور آپ لوگوں کو اس کی خبردے دیتے ( از وحیدی ) الاعراف
189 ف 6 یعنی آدم ( علیہ السلام) سے مزید تشریح کے لیے دیکھئے سورۃ نسا آیت 1) ف 7 یعنی صحیح وسالم بچہ کوئی جسمانی نقص نہ ہو ، الاعراف
190 ف 8 شرک یہ تھا کہ انہوں نے اپنے بیٹے کا نام عبدالحارث رکھا ( حارث ابلس کا نام تھا جس وہ گروہ ملا ئکہ میں مشہور تھا ،)،۔ یہ تشریح جمہور مفسرین کی تفسیر کے مطابق ہے اور کی بنیاد حضرت سمر و (رض) کی ترمذی اور حاکم میں یہ روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ جب حوا ( علیہ السلام) چبہ جنا تو ابلیس ان کے پاس آیا، ان کا کوئی لڑا کا زندہ نہ رہتا تھا۔ ابلیس کہنے لگا اس کا نام عبد الحارث رکھو تو وہ زندہ رہے گا چنانچہ انہوں نے بچہ کا نام عبدالحارث رکھا اور وہ زندہ بچ گیا۔ یہ سب کچھ شیطان کے اشارے سے تھا لیکن حافظ ابن کثیر اور بعض دوسرے محقق مفسرین نے اس روایت کو ضعیف اور اسرائیلیات سے ما خو ذ قرار دیا ہے خصو صا جب کہ اس میں انبیا ( علیہ السلام) سے شرک جیسے گناہ کی نسبت کی گئی ہے اس کے بجائے انہون نے امام حسن بصری (رح) کی اس تفسیر کو اختیار کیا ہے کہ لمسکن الیھا تک تو حضرت آدم و حو علیہما السلام کا قصہ ہے لیکن اس کے بعد فلما تغشاھا سے عام لوگوں خصوصامشرکین عرب کی حالت کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔ امام حسن بصری وغیرہ کا کہنا یہ ہے کہ مگر اس کے بعد سلسلئہ کلام ان کی اولاد میں سے مشرکین کی طرف منتقل ہوگیا ہے اور اس کے نظاتر قرآن میں میں مو جود ہیں جن فرد کے ذکر سے سلسلئہ کلام جنس کی طرف منقتل ہوگیا ہے۔ اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ بعد میں فتعا لی ٰ اللہ عما یشرکو وغیرہ آیات میں جمع کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں جس معلوم ہوتا ہے کہ جنس آدم مراد ہے، اگر یہ سارہ قصہ آّدم اور حوا ( علیہ السلام) کے متعلق ہی تسلیم کرلیا جائے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ جعلا لہ شرکائ میں استفہام انکاری ہے کہ کیا آدم ( علیہ السلام) اور حوا نے شرک کیا تھا۔ جیساکہ مشرکین عرب ان کی طرف شرک کی نسبت کرتے ہیں یعنی نہیں کیا، اس تاویل سے بھی شرک کی نسبت والا اعتراض دفع ہوسکتا ہے ( ابن کثیر۔ (رازی) ف 9 یعنی کفار قریش کر شرک سے یشرکون بصیغہ جمع ہے لہذا اس سے بالا اتفاق مشر کین عرب مراد ہیں جیسا کہ مابعد والی آیت سے ثابت ہوتا ہے۔ ( رازی ) الاعراف
191 الاعراف
192 ف 10 اس سلسلئہ کلام سے مقصود بتوں کی تردید ہے کہ ان میں الو ہیت کی کوئی صفت بھی موجود نہیں مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی ان کو توڑ کر ٹکڑے ٹکڑے بھی کر ڈالے تو بھی وہ اپنے آپ کو نہیں بچا سکتے یا یہ نہ تو اپنے خدمت گاروں کو نفع پہنچا سکتے ہیں اور نہ اپنے مخالفین ہی کو مضرت تو پھر ان کی پو جا کیوں ؟ ( رازی ) الاعراف
193 ف 1 اوپر کی آیتوں میں بتوں سے ہر قسم کی قدرت کی نفی تھی اب اس آیت میں ان سے علم کی نفی کی گئی ہے۔ مطلب یہ ہے بت جن کی یہ پوجا کر رہے ہیں ان میں نہ تو نفع و نقصان پہنچا نے کی قدرت ہے اور از علم و شعور رہی ہے تو پھر تم کتنے احمق ہو کہ ان سے یہ امید رکھتے ہو کہ وہ تمہیں سیدگے راستے پر چلائیں گے، ( کبیر ) الاعراف
194 ف 2 یعنی تمہارے عقیدہ کے مطابق اگر ان میں عقل وفہم ہے بھی تو زیادہ سے زیادہ ان کا تمہارے جیسا بندہ ہونا ثابت ہوسکتا ہے مگر یہ تو تمہاری طرح کی جاندرا بھی نہیں ہیں۔ جیسا کہ بعد کی آیت میں امثا لکم ہونے کی بھی نفی کردی ہے۔ (کذافی الکبیر) ف 3 تمہاری دعاؤں کو قبول اور تمہاری مرادوں کو پو را کریں ، الاعراف
195 ف 4 تو پھر تمہاری عقل کہاں چر گئی کہ انہیں مدد کے لیے پکارتے اور ان کے سامنے ماتھے رگڑ تے ہو ؟ اس آیت سے مقصد یہ ہے کہ انسان بہر حال ان بتوں سے بہتر ہے کیونکہ ان اعظا اربعہ کی وجہ سے اس میں قویٰ مدر کہ اور محر کہ پائے جاتے ہیں اور اصنام میں کسی قسم کی حس و حرکت نہیں ہے۔ ( کبیر) ف 5 یعنی پنا جو زور میرے خلاف لگا سکتے ہو لگا لو اس میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھو الاعراف
196 ف 6 یہ جواب ہے مشرکین کی ان دھمکیوں کا جو وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیا کرتے تھے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ تم ہمارے ان معبودوں کو برا کہنے سے باز جاؤ ورنہ تم ان کے غضب میں گرفتار ہو کر بتا ہوجاؤ گے نیز اس میں توحید کی دعوت بھی ہے کہ جب یہ اصنام قدرت و علم سے جاری ہیں تو لوگ عقل و فکر رکھتے ہیں ان کو چاہیے کہ اللہ تعال وحدہ لا شریک کی عبادت کریں جس نے انسانوں کو ہدایت کے لے کتاب کامل نازل فرمائی ہے اور وہ ہر طرح سے محافظ بھی ہے۔ (کبیر ) الاعراف
197 ف 7 یہی بات پہلے بھی بیان فرمائی تھی اس کا دوبارہ تذکرہ اس لیے کیا گیا ان پر مشر کین کے بو قوفی خوب واضح ہوجائے ( شو کانی ) الاعراف
198 ف 8 یعنی مشر کین نے اپنے بتوں کی صورتیں بناتے وقت ان کیا آنکھیں ایسی بناتے کہ ان کی طرف دیکھنے والے کو ایس امعلوم ہو کہ وہ سچ مچ دیکھ کر رہے ہیں مگر جب درحقیقت دیکھنے والے کو ایسامعلوم ہو کہ وہ سچ مچ دیکھ کر رہے ہیں مگر جب در حقیقت وہ بے جان بت ہیں تو دیکھوں گے کیسے ( ابن جریر) یا آیت کے معنی یہ کہ مشرکین بظاہر تو آنکھیں رکھتے ہیں مگر بصیرت کے اندھے ہیں اس لیے کوئی بات ان کی سمجھ میں نہیں آتی ( جامع البیان، ابن کثیر ) الاعراف
199 ف 9 خذ العفو، یعنی حتی الو سع تحمل اور صبر سے کام لو اور یہاں پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حسن اخلاق کی تعلیم دی ہے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے واسطہ سے ہر وہ شخص مخاطب ہے جو دعوت اسلامی کافر یضہ سرانجام دے رہاہو جیسے فرمایا وجا دلھم بالتی ھی احسن ولو کنت فظاغلیظ القلب ال ان فضو امن حولک ( کبیر) اس کے بعد وامر بالعرف کے حک سے اشارہ فرمایا کہ عفودر گذر کا تعلق صرف حسن اخلاق کی حد تک ہے ورنہ اقامت حدود میں کسی قسم کی چشم پوشی ہو سکتی، ( ایضا) ف 10 یعنی اگر معاندا رویہ اختیار کریں اور بے فائدہ تکرار کریں تو بجائے الجھنے کے خامشی اختیار کرلو خواہ وہ اس خاموشی کو کوئی معنی پہنادیں شعبی کہتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو نبی صلعم نے حضرت جبرئیل ( علیہ السلام) سے اس کا مطلب دریافت کیا انہوں نے جواب دیا اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا ہے جو شخص بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر زیادتی کرے اسسے در گذر فرمائیں اور جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو محروم کرے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسے دیں اور جو قطع رحمی کرے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے صلح رحمی کریں ( ابن جریر) امام جعفر صادق (رح) فرماتے ہیں مکار اخلاق کے مو ضوع پر اس سے جامع تر قرآن میں کوئی آیت نہیں ہے۔ (کبیر) بعض علما نے کا خیال ہے کہ خذالعفو کا حکم آیت قتال سے منسو خ ہے۔ ابن جریر نے اسی کو تر جیح دی ہے۔ نیز دیکھئے سورۃ بقرہ آیت 109، ( ابن کثیر ) الاعراف
200 ف 1 امر بالمعروف کے سلسلہ میں بعض اوقات انسان غصہ میں بھی آجاتا ہے تو فرمایا غصہ آنے پر اعو ذ بااللہ من الشیطان الرجیم۔ پڑھ لیا کرو۔ ابن زید (رض) کہتے ہیں کہ جب اوپر کی آیت خذالعفو نازل ہوئی تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عرض کی کیف باالغضب یارب کہ اے پروردگار غصہ کو کیا کروں ؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ ( ابن جریر۔ کبیر ) الاعراف
201 ف 2 یعنی اسی وقت شیطان سے تعوذ کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے ڈر کر اس وسوسہ اور خیالک کی اتباع کو چھوڑ دیتے ہیں۔ واضح رہ کہ نزغہ وسوسہ کی ابتدائی حالت کو کہتے ہیں اور اس سے متاثر ہونا ضروری نہیں ہے مگر طائف اس سوسہ کو کہتے ہیں جو انسان کے دل پر اثر انداز بھی ہوجائے کبیر) ف 3 یعی ان میں بصیرت اور استقا مت کی حالت پیدا ہوجاتی ہے اور اس اقدام سے باز رہتے ہیں۔ الاعراف
202 ف 4 یعنی خدا سے ڈرنے والے لوگوں کے مقابلہ میں ان کافرو کا جو اپنی شرارت اور خیاثت نفس میں شیطان کے بھائی ہیں۔ حال یہ ہے کہ ان کو شیاطین گمراہی میں گھسیٹ کرلے جاتے ہیں اور ان کو بھٹکانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔ ( ابن کثیر ) الاعراف
203 ( ف 5 اس آیت میں شیاطین کے بھائیوں کی ضلالت اور عناد کیا یک مثال ایتہ ( معجزہ) اپنے پاس سے ہی لے آؤ ( کبیر) ف 6 یعنی میں تو وحی الہیٰ کا تابع ہوں اور اپنی طرف سے کوئی چیز بنا کر پیش نہیں کرسکتا، اس میں اشارہ ہے کہ قرآن کریم ہی ایک بڑ امعجزہ ہے پھر یہاں قرآن کے تین بڑے اوصاف بیان فرمائے ہیں ،( کبیر ) الاعراف
204 ف 7 قرآن کی عظمت بیان کرنے کے بعد اب اس سے استفا کے آداب کی طرف اشارہ فرمایا رہا ہے کہ اسکی قرات کے وقت استماع اور انصاف ہونا ضروری ہے یعنی خامو شی اور توجہ سے سنا جاتے، مروی ہے کہ مشرکین مکہ قرآن کی قرات کے وقت شور غل کرتے اور کا نوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے اس پر یہ آیت نازل ہوئی ( کبیر) ویسے یہ حکم عام ہے کہ جب قرآن کی قرات ہو تو وہ دھیان سے سنا جائے اور باتیں نہ کی جائیں ( از مو ضح) بعض نے اس آیت سے استد لا کیا ہے کہ امام کے پیچھے مقتدی کو سورۃ فاتحہ کی قرات بھی ممنوع ہے کیونکہ اذا قری القران کا حکم ہے جو مقتدی امام نما زی غیر نمازی سب کو شامل ہے۔ امام رازی (رح) فرماتے ہیں کہ نماز میں قرات کے متعلق اس آیت کو لیا جائے تو یہ آیت اپنے ما قبل سے بے ربط ہو کر رہ جاتی ہے ما قبل کی آیات میں مشرکین سے خطاب چلا آرہا ہے اس لیے نظم قرآن کا تقاضا یہ ہے کہ یہاں بھی مشرکین ہی مخاطب ہوں اور پھر اس آیت کے مکی ہونے سے اس کی اور بھی تائید ہوجاتی ہے۔ اگر بالفرض اس آیت کو عام بھی مال لیاجائے تب بھی اصول فقہ کی روسے حدیث لا صلوٰۃ الا بغاتحتہ الکتاب کہ سورۃ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی) سے اس ی تخصیص ہو سکتی ہے لہذا ی آیت مقتدی کے لیئے سورۃ فاتحہ کی قرات سے کسی طرح مانع نہیں ہو سکتی۔ ( از کبیر ) الاعراف
205 ف 8 صحیح سے مراد فجر کی نماز کے بعد سے لیکے طلوع شمس تک کا وقت مرد ہے ان اوقات میں حضور قلب سے ذکر سے الہی دل کو غفلت دور کنے میں بے حد مفید ہے۔ ( ابن کثیر) الاعراف
206 ف 9 قرآن کے سجدوں میں یہ پہلا سجدہ ہے۔ شاہ صاحب فرماتے ہیں جب مقرب فرشتے بھی اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں تو انسان کو چاہیے کہ اس کے سوا اور کسی سجدہ نہ کرے۔ ( موضح ) الاعراف
0 ف 10 کثر کے نزدیک پوری سورت مدنی ہے بعض کہتے ہیں کہ بدر کے مقام پر یہ سورت نازل ہوئی بقیہ سحبث کے لیے ابتدا سورۃ براۃ ( الز ابن کثیر ) الانفال
1 ف 11 بد کے روز جب مسلمان کو ہاتھ مال غنیمت آیا تو اس کے بارے میں جھگڑا کرنے لگے اور آنحضر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کا مصرف پو چھنے لگے، اس پر یہ آیت ناز ہوئی ،۔ ( فتح البیان) ف 12 یعنی اس کے با رے میں کوئی فیصلہ کرنا اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اختیار میں ہے۔ ف 1 اس آیت میں اللہ تعا کی اطاعت کے ساتھ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کو بھی ایمان کی شرط قراردیا گیا ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طاعت سے مراد، جیسا کہ ظاہر ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت کی ابتاع ہے۔ لہذا جو شخص آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت سے منہ موڑکر صرف قرآن کی اطاعت کرنا چاہتا ہے، اگرچہ عملا قطعیکک محال ہے) وہ قرآن کی واضح تصریح کے مطابق دائرہ سے خارج ہے۔ اس آیت کی تشریح میں شاہ صاحب لکھتے ہیں : جنگ میں بعض لڑنے کے لیے آگے بڑھنے اور بعض ( بزرگ) پشت پر رہے جب غنیمت جمع ہوئی تو بڑھنے ( اور لڑنے) والوں ( نوجوانوں) نے کہا یہ ہمارا حق ہے کیونکہ فتح ہم نے کی ہے اور پشتی والوں نے کہا ہے کہ ہماری قوت سے لڑے، حق تعالیٰ نے دونوں کو خاموش کردیا کہ فتح اللہ تعالیٰ کی مدد سے ہے روز کسی کا پیش نہیں جاتا سو مال اللہ کا ہے آگے بہت دور تک یہی بیان فرمایا فتح اللہ تعالیٰ کی مدد سے ہے اپنی وقوت نہ سمجھو۔ (کذافی ابن کثیر) الانفال
2 ف 2 اوپر بیان فرمایا کہ ایمان اطاعت کو مستلزم ہے۔ اب اس آیت میں اموف طاعت کی تفصیل فرمادی ہے توکل کا مفہوم یہ ہے کہ ظاہری اسباب اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ اصل اعتماد اور بھروسہ اللہ تعالیٰ کے باعث جیسے جیسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے نصرت نازل ہوگی اس کے ساتھ تمہارا یمان کے اعتبار سے بھی جیسا کہ حدیث شعب ایمان میں ہے اور دلائل کی کثرت اور قوت سے بھی جیسا کہ حدیث میں ہے لو و زن ایمان ابی بکر بیاھل الارض لور جع، کہ حضرت ابو بکر (رض) کا ایمان کا ایمان تمام اہل زمین کے ایمان سے بھاری ہے اہل حدیث کا یہی مسلک ہے ( کذافی ابن کثیر، کبیر ) الانفال
3 ف 3 اس میں فرض نفل ہر قسم کے نفقات اور جملہ حقوق العباد آجاتے ہیں اور یہ آیت اعمال خیر کی تمام انواع کی شامل۔ ( ابن کثیر ) الانفال
4 ف 4 یعنی جنت کے میوے اور کھانے ف 5 یہاں غزوہ بد ر کے لیے روانگی کے واقعہ کی طرف اشارہ فرمایا ہے جو 2 ھ میں پیش آیا، مختصر واقعہ یہ ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اطلاع ملی کہ قریش کا ایک بہت بڑا تجارتی قافلہ ابو سفیان سر کردگی میں شام سے مکہ جارہا ہے اور مدینہ کے راستہ پر پہنچ چکا ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسلمانوں کو مختصر سی جمعیت جو تین سو سے کچھ اوپر تھی لے کر قافلہ کے تعاقب کے لیے نکل کھڑے ہوئے ابو سفیان کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نکلنے کی اطلاع ہوگئی، اس نے ایک تیز رفتار سوار کے ذریعہ مکہ اطلاع بھیج دی اور خود احتیاط اصل رستہ چھوڑ کر ساحلی اختیار کرلیا۔ مکہ میں جب یہ خبر پہنچتی تو ابو جہل ایک بڑا مسلح لشکر لے کر قافلہ کی حفاظت کے لے روانہ ہوگیا اور آکر بدر میں ڈیرے ڈال دیئے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اطلع ہوئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسلمانوں کی سامنے ساری صو رتحال رکھ دی کہ ایک طرف تجارتی فافلہ ہے اور دوسری طرف قریش کالشکر ہے۔ اللہ کا وعدہ ہے کہ تمہیں دونوں میں سے ایک ضرور ملے گا۔ اس پر بعض صحابہ (رض) کو تردو ہوا۔ وہ جاہتے تھے کہ لشکر کی بجائے قافلہ کا تعاقب کیا جائے اس وقت حضرت ابو بر (رض)، حضرت عمر (رض) حضرت مقداد (رض) اور حضرت سعد بن معاذ نے اطاعت کی تقریریں کیں، تب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بدر کی طرف صحابہ (رض) کی کراہت مدینہ سے نکلنے کے وقت نہ تھی جیسا کہ بظاہر آیت کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے لیکن مجموعی واقعہ کی ایک قرار دیکر اس کراہب کو خروج سے متسل کردیا ہے۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وھم کارھون حال مقدرہ ہو۔ پس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ جس طرح اس وقت مدینے سے نکلنے سے ہچکچا نا اور خطرے کا سامنا کرنے سے گھبرانا صحیح ثابت نہ وہوا اور بدر کے میدان میں اللہ تعالیٰ نے فتح دی اور مال غنیمت ہاتھ لگا اسی طرح آج بھی انہیں مال غنیمت کی تقسیم میں ناراض نہیں ہونا چاہیے بلکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف ہے جو حصہ ملے اسے قبول کرلینا چاہیے اس کا نتیجہ ان کے حق میں بہتر رہے گا ( کبیر، ابن کثیر) شاہ صا حب بھی لکھتے ہیں یعنی غنیمت یہ جھگڑا بھی ویسا ہی ہے جیساکہ نکلتے وقت عقل کی تد بیر کرنے لگے اور آخر کار صلاح وہی ٹھہری جو رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تو ہر کام میں یہی اختیار کرو کہ حکم پر برداری میں اپنی عقل کو دخل نہ دو، ( مو ضح الانفال
5 الانفال
6 ف 6 یعنی انہیں یہ معلوم تھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو حکم دیتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ ہی کا حکم ہے یا یہ کہ اللہ تعالیٰ نے جو اھد ی الطا ئفتین کا وعدہ کیا ہے وہ سچاہے لیکن پھر یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جھگڑ کر وہے ہیں، ابن کثیر) بعض صحابہ (رض) نے جو اس وقت لشکر سے نہ لڑنے کا مشہورہ دیا تھا اس کی مجادلہ سے تعبیر فرمایا ہے۔ ف 7 یعنی سمجھتے ہیں کہ اتنے بڑے مسلح لشکر سے لڑنا اپنے آپ کو موت کے منہ میں ڈالنا ہے۔ الانفال
7 ف 8 یعنی قافلہ یا کفار پر فتح اور اموال غنیمت۔ الانفال
8 ف 1 اس لیے اس نے ایسے اسباب پیدا کردیئے کہ تمہارا مقابلہ تجارتی قافلہ کے بجائے قریش کے لشکر سے ہو اور تمہیں فتح نصیب ہوئی جس سے ان کی سیاسی اور فوجی طاقت پر کاری لگی یہی اللہ تعالیٰ ی وہ حکمت تھی جسے تم نہیں سمجھ رہے تھے اور تم میں سے بہت سے لوگ یہ چاہ رہے تھے کہ لشکر سے مقابلہ کی بجائے تجارتی قافلہ ان کے ہاتھ لگے۔ ( کذافی ابن کثیر و شوکانی ) الانفال
9 ف 6 یہ آنحضرت کی دعا کی طرف اشارہ ہے جیسا کہ حضرت عمر (رض) سے رایت ہے کہ بدر کے روز کافروں کو تعداد ایک ہزار اور مسلمانوں کی تعاداد 317 تھی، جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ صورت حال یہ دیکھی تو قبلہ رخ ہوئے اور ہاتھ اٹھاکر نہایت عاجزی سے دعا فرمانے لگے اے اللہ تو نے مجھ سے وعدہ کیا ہے اسے پورا فرما اے اللہ۔ ! تو نے مجھے جس چیز کا وعدہ کیا ہے۔ وہ عطا فرما، اے اللہ ! اگر تو نے اہل اسلام کے اس گروہ کو ایک کر ڈالا تو روئے زمین پر تیری بندگی کرنے والا کوئی نہ رہے گا۔ ( مسلم، ابود اؤد) ف 3 یا ایک ہزار پے در پے آنے والے فرشتوں سے تمھاری مدد کرو گا، چنانچہ فرشتے نازل ہوئے اور انہوں نے جنگ میں شرکت کی جیسا کہ صحیح مسلم کی روایت میں ہے اور صحیح مخاری میں باب شھود الملاکتہ بدرا کے تحت رفاعتہ بن (رض) رافع بدری کی روایت ہے جس میں حضرت جبرئیل ( علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ ج جس طرح بدری صحابہ (رض) سب سے افضل ہیں اسی طرح جو فرشتے بدر میں حا ضر ہوئے وہ دوسرے فرشتوں سے افضل ہیں ْ۔ ابن کثیر ) الانفال
10 ف 4 آیت کے الفا ظ سے بعض لوگوں کو یہ غلط فہمی ہوئی ہے کہ فرشتوں نے خود لڑنے میں کوئی محض اس لیے بھیجا ہے تھا کہ ان کے حوصلے بلند ہوں اور انہیں اطمینان رہے کہ انکی مدد کے لیے فرشتے موجود ہیں لیکن یہ خیال صحیح نہیں ہے۔ صحیح مسلم کی ایک حدیث سے صراحتہ معلوم ہوتا ہے کہ فرشتوں نے لڑائی میں بھی حصہ لیا۔ اگرچہ غزوہ بد رکے علاوہ کسی دوسری جنگ میں انہوں نے لڑکر حصہ نہیں لیا) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہی کہ جنگ بد کے موقع پر ایک انصاری مسلمان کسی کافر کا پیچھا کر رہا تھا کہ اچانک اس نے اوپر سے ایک کوڑے کی آواز سنی اور ایک گھڑ سوارنے اپنے گھوڑے کو پکارا حیزوم ! آگے بڑھو۔ اس نے اپنے سامنے کافر کو دیکھا کہ وہ لڑکھڑا کر گرا اور گرتے ہوئے ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا، اس انصاری نے اس واقعہ کا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تذکرہ کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم نے سچ کہا یہ تیسرے اسمان کی مدد تھی۔ ( ابن کثیر، بحوالہ صحیح مسلم ) ف 5 یعنی یہ سمجھو کہ تمہیں جو فتح نصیب ہوئی ان فرشتوں کی وجیہ سے ہوئی حقیقت میں مدد اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے وہ چاہتا تو فرشتوں کے بغیر ہی تمہیں فتح نصیب کردیتا مگر جہا کی مشر وعیت سے تمہارے ایمان کا امتحان مقصود ہے شہادت سے تمہارے در جے بلند اور کافروں کا تمہارے ہاتھ سے ذلیل کرنا ہے۔ امم سابقہ میں جو امت تکذیب کرتی اس پر کی طرح کا عذاب نازل ہوجاتا، حضرت نوح ( علیہ السلام) سے لے کر فرعو ن کے غرق ہونے تک یہی سلسلہ قائم رہا آخر کار جب جو موسیٰ ( علیہ السلام) پر تورات نازل ہوئی تو جہاد شروع ہو اور اس کے بعد یہی طریقہ جاری ہے۔، ( ابن کثیر) جس رات کی صبح کی لڑائی ( جنگ بدر) ہونے والی تھی صحابہ (رض) کرام خونب سوئے حال نکہ دشمن کی فکر لگی ہوئی تھی۔ مگر اللہ تعالیٰ نے نیند بھیج دی تاکہ تازہ دم ہوجائیں اور دشمن کا ڈٹ کر مقابلہ کریں، حضرت علی (رض) فرماتے ہیں بدر کر لڑائی میں مقداد بن (رض) بن اسود کے سو کوئی سوار نہ تھا تمام صحابہ (رض) رات کو سئے پڑے رہے بجز آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک درخت کے نیچے نماز پڑتھے اور اللہ تعالیٰ کے حضور آہ ورازی کرتے رہے یہاں تک کہ صبح ہوگئی۔ ( ابو یعلی ) الانفال
11 صحیحین کی ایک روایت میں ہے کہ بدر کے دن آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر غنودگی طاری ہوگئی پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسکراتے ہوئے بیدار ہوئے اور حضرت ابو بکر (رض) سے فرمایا ابوبکر (رض) خوش ہوجاؤ یہ جبر یل ( علیہ السلام) آئے ہیں ان کے دانتوں پر گرد پڑی ہوئی ہے۔ اس قسم کی غنودگی مسلمانوں پر جنگ احد کی موقع پر بھی طاری کی گئی، ( دیکھئے سورۃ آل عمران رکوع 19) ف 7 یہ بھی اس راہ کا واقعہ ہے کہ رات کو بارش ہونے ریت جم گئی اور زمین اتنی سخت ہوگئی کہ اس پر پاؤں اچھی طرح جم سکتے تھے اس سے فائدہ اٹھاکر مسلمان آگے بڑھے اور پینے کے لے پانی کی بھی سہولت ہوگئی کفار کے پڑاؤ کو جگہ نشیبی تھی بارش کی وجہ سے کیچڑہو گئی اور پاؤں پھسلنے لگے مسلمانوں کے دلوں سے شیطان کی نجاست یعنی گھبراہٹ اور خوف کی کیفیت دو ہوگئی اور صبح ہوئی تو لڑنے کے لیے چاک و چوبند تھے بد ر کے موقع پر یہ تیسرا انعام تھا جس سے کافروں پر فتحیاب ہونے میں بڑی مدد ملی ( ابن کثیر) الانفال
12 ف 8 یعنی ہاتھپاؤں کی انگلیوں کے جو ڑوں پر مارو کیونکہ لڑنے والا نہی جو ڑو نے سے زیادہ کام لیتا ہے۔ الانفال
13 الانفال
14 الانفال
15 ف 1 یعنی ان کے مقابلہ س بھاگو نہیں، بعض مفسرین کا خیال ہے کہ یہ حکم صحابہ (رض) کو بدر کے لیے تھا مگر یہ رائے صحیح نہیں بلکہ یہ حکم سب مسلمانوں کو ہمیشہ کے لیے ہے متعدد احادیث میں کفار کے مقابلہ سے بھاگنے کو گناہ کبیرہ قرار دیا گیا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا سات ہلاک کرنے والی چیزوں سے بچو، پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سات چیزوں کو ذکر فرمایا جن میں سے ایک کافروں کے مقابلہ سے بھاگنا ہے۔ ( شوکانی، ابن کثیر ) الانفال
16 ف 2 مثلا دشمن کو گھیر نے کے لیے یا اس کو دھوکا دینے کے لیے پیچھے ہٹ۔ ف 3 جو تعداد میں زیادہ ہو یا کوئی مغلوب ہو رہا ہو اسکی مدد کے لیے لو ٹے تو کوئی گناہ نہیں یعنی اللہ کا غظب تو جنگ سے بھا گنے والے پر ہے اگر نفون حرب کے تحت نقل و حکت کرتے ہوئے میدان جھوڑ کر پیچھے ہٹ جائے تو گناہ نہیں ہے۔ الانفال
17 ف 4 ورنہ خود مسلمانوں کی نہ تعداد زیادہ تھی، اور نہ ان کے پاس اتنا سامان تھا کہ ہو کافروں کے ہر طرح کی مسلح اور عظیم لشکر کو شکست دے سکتے شاہ صاحب فرماتے ہیں یہ اس لیے فرمایا کہ مسلمان یہ سمجھیں کہ فتح ہماری قوت سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی مدد سے ہے الہذا ان کا چاہیے کہ کسی بات میں پنا دخل نہ کر کریں ( از موضح) ف 5 یہ اشارہ ہے اس وقعہ کو طرف بد ر کے روز جب معرکہ قتال گرم تھا تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مٹھی بھر سکنگ ریزے ہاتھ میں کر شاھت الوجو جہ کہتے ہوئے کفار کی طرف پھنکنے جو ان میں ہر ایک لگے اور اس کی اآنکھوں اور نتھوں میں داخل ہوگئے، اکثر مفسرین کا اس پر اتفاق ہے کہ اس آیت میں ر میٰ سے مراد یہی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مٹھی بھر کنکر یاں پھنکنا ہے۔ ( ابن کثیر) ف 6 باوجود یکہ ان کا سامنا اور لشکر کافروں کے مقابلے میں کوئی حقیقت نہ رکھتا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے انہیں فتح دی تاکہ وہ اس کی نعمت کو پہچانیں اور اس کا ششرک بجا لائیں۔ ( کذافی ابن جریر ) الانفال
18 ف 7 یہ ایک دوسری بشارت ہے کہ آئندہ بھی اللہ تعالیٰ ہر تد بیر کر کمزور کر دے گا اور یہ اپنی کسی اسی اسکیم میں کا میاب نہ ہو سکیں گے، ( ابن کثیر) یا یہ کہ انہوں نے جو یہ اسکیم بنائی تھی کہ اپنے تجارتی قافلے کو بچا لے جائیں گے اور مسلمانوں کا زور بھی توڑدیں گے ان کا یہ منصوبہ خاک میں ملادیا، وہ خود مارے گئے اور تمہاری قیدی بن گئے اور بھاری مالی نقصان اٹھاکر پسپا ہوئے، ( ک کذاعن ابن عباس ) الانفال
19 ف 8 یہ خطاب کفار سے ہے کی نکہ مکہ سے روانہ ہوتے وقت انہوں نے کعبہ کے پردے پکڑ پکڑ کر یہ دعا مانگی تھی کہ اے اللہ ! دونوں گر وہوں ( یعنی ہم اور مسلمانوں) میں سے جو اعلیٰ اور ہدایت یا فتہ ہو اسے فتح نصیب کر اور ابو جہل نے معرکہ بدر سے پہلی یہ دعا کی تھی کہ اے اللہ ! ہم میں سے جو برسرحق ہے اسے غالب اور جو سرباطل ہے اسے رسو اکر۔ ( ابن جریروغیرہ) اس صورت میں الفتح صاحب لکھتے ہیں ہیں۔ مکی سورتوں میں ہر جگہ کافروں کا یہ کلام نقل فرمایا کہ ہر گھڑ ی کہتے ہیں متی حذا الفتح یعنی کب ہوگا یہ فیصلہ سو اب فرمایا کہ یہ ٖفیصلہ آپہنچا۔ ( مو ضح) ف 9 یعنی پھر مسلمانوں کی مخالفت اور اس نے جنگ کرو گے، ف 10 اور اللہ تعالیٰ کی نصرت اور مدد جس کے شامل حال ہو اے کون شکست دے سکتا ہے۔ ؟ الانفال
20 ف 11 کفار کو تہدید کے بعد اب مسلمانوں کو تا دیب کی ہے کی جب تمہیں کسی معاملے میں رسو (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حکم ہوجائے تو اس کے خلاف کسی کی نہ نسے۔ ابتدا سورۃ میں اموال غنیمت کے متعلق اختلاف کو ختم کرنے کے لیے قل الانفال اللہ اولر سول کا اعلان فرمایا تھا اور اطاعت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایمان کی شرط قراردیا تھا پھر درمیان میں اپنے انعامات کا ذکر فرمائے اور اب پہلے کلام کو بھر اطاعت کی تلقین پر ختم فرمایا۔ ( کبیر۔ ( الانفال
21 ف 12 مراد منا فق ہیں یا مشرکین اور یہود کا جو کان سے تو اللہ تعالیٰ و رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کلام سنتے ہیں مگر ان کے دلوں پر کوئی اثر نہیں ہوتا یہ سننا اور نہ سننا برابر ہے۔ ( ابن کثیر ) الانفال
22 ف 1 یعنی کفار جو کان اچھی بات نہ سنیں زبان سے اچھی بات نہ نکالیں اور اللہ کی دی ہوئی عقل سے کوئی کام نہ لیں وہ جا نوروں سے بھی بدتر ہیں کیونکہ جا نور تو اپنے فطری تقاضوں کے مطابق زند گی بسر کرتے ہیں اور ان لوگوں کو عبادت کے لیے پیدا کیا گیا ہے مگر یہ اس غرض کو بھی پورا نہیں کرتے ( رازی الانفال
23 ف 2 اگر انہیں اسی حال ان کے اندر کوئی بھلائی نہیں ہے سناتا تو وہ منہ پھر کر چل دیے ہیں یعنی ان لوگوں نے گنا ہو کا ارتکاب کر کر ککے اپنے اندر سے وہ استعداد ہی ختم کرلی ہے جو ایمان اور راہ ہدایت کی پیروی کے لیے بیج کی حثیت رکھتی ہے پھر جب یہ بیج نہ ہو تو پھل کی امید نہیں ہو سکتی چنانچہ دوسری آیت میں فرمایا کلا بل ران علی قلو بھم ماکونوا یکسبون حقیقت یہ ہے کہ ان کے برے اعمال نے ان کے دلوں پر زنگ چڑھا دیا ہے۔ ( تطفیف۔ 14) الانفال
24 ف 3 یعنی خدا اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت پر لبیک کہنا تم پر لازم ہے لما یحییکم () وہ کام جو تمہیں زندگی بخشتا ہے۔) میں علمائے سلف سے مختلف اقوال منقول ہیں۔ بعض نے ایمان واسلام اور بعض نے قرآن لیکن اکثر نے اس سے جہاد مرد لیا ہے کیونکہ جہاد دنیا و آخرت میں زندگی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے اور پھر سیاق کلام کے مناسب بھی یہی ہے لیکن اگر اس سے مراد حق وصواب لیا جائے تو قرآن ایمان جہاد اور برو طاعت کے جملہ امور کریہ لفظ شامل ہوجاتا ہے مو لانا علامہ لکھتے ہیں اس آیت سے تقلید ناجائز کی جڑ کٹ گئی جب اللہ کا حکم یہ ہے کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کہا مانو تو کیونکہ یہ درست ہوسکتا ہے کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم کی موجودگی میں دوسرے مجتہد یا امام کی بات پر عمل کیا جائے، دوسرے ائمہ تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کفش بر دار جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کہا نہ ماننا اپنے آپ کو تباہ کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو اس سے محفوظ رکھے، ( مختصر از وحیدی) ف 4 یعنی حق وا ضح ہوجا نے کے بعد بھی اگر کوئی اللہ و رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کہا نہ مانے تو اللہ تعالیٰ کی طرف انسان کی یہ سزا ملتی ہے کہ ہو انسان اور اس کے دل کے درمیان حائل ہوجاتا ہے اور اس کے بعد اللہ و رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت پر لبیک کہنے کی توفیق ملتی جسیے فرمایا فلما زاغوا ارراع اللہ قلو بھم یعنی وہ خود ٹٹرھے ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو ٹیڑھا کردیا۔ ( صف 5) آیت کے یہ معنی حضرت ابن عباس (رض) ارجمہور مفسرین نے بیان فرمائے ہیں ( ابن کثیر) ابن قیم (رح) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ٰٗ آدمی کے دل کے قریب ہے اس لیے وہ انسان کے دل کے حالات سے خوب واقف ہے اسے خوب معلوم ہے کہ تم اللہ و رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت پر اخلاص سے لبیک کہہ رہے ہو یا کسی دوسرے جذنہ سے۔ مطلب یہ ہے کہ دلوں میں اخلاص پیدا کرو، ( الفوائد) شاہ صاحب (رح) اس آیت کی تشریح یہ فرماتے ہیں حکم بجا لانے میں دیر نہ کرو شاید اس وقت دل ایسا نہ رہے دل اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ ( از مو ضح) امام رازی فرماتے ہیں اللہ کا حائل ہونا موت سے کہنا یہ ہے کہ یعنی موت آنے سے قبل نیکی اور اطاعت بجالا وؤ۔، اس کے بعد اونہ الیہ تحشرون کے جملہ سے بھی اس معنی کی تائید ہوتی ہے۔ ( رازی ) الانفال
25 ف 5 متعدد احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ جب کسی قوم میں امر بالمعروف و نہی ان المنکر فریضہ سرانجام نہ دیا جائے تو اللہ تعالیٰ اس ہمہ گیر عذاب بھیجے گا۔ ( ابن کثیر) ف 6 مطلب یہ ہے کہ حکم کی بجا آوری میں کاہلی کرنے سے ایک تو دل ہٹتا ہے دم بدم مشکل میں پڑتا ہے۔ دوسرے نیکوں کی کاہلی سے گنہنگار بالکل چھوڑ بیٹھیں گے تو رسم بد پھلیے گی اس کا وبال سب پر پڑے گا۔ الانفال
26 ف 7 جیسے مال غنیمت جو تم سے کسی امت کے لیے حلال نہ تھا۔ ( کبیر ) الانفال
27 ف 8 یعنی مال غنیمت میں خیا نت نہ کرو یا آنحضرت سے بے وفائی اور غداری نہ کرو بلکہ ان سے ایمان و اطاعت کا جو عہد باند ھا ہے اسے پورے اخلا ص سے بھاؤ، امام زہری (رح) وغیرہ کا بیان ہے کہ جب بنو قریظہ کے یہودی گھر گئے اور انہیں اپنے قلعہ سے اترنے کا حکم دیا گیا تو انہوں نے حضرت ابو لبابہ (رض) سے دریافت کیا کہ ہم سعد بن معاذ (رض) کے حکم پر اتر اٗیں ؟ ابو لبابہ (رض) نے اپنے گلے کی طرف اشارہ کیا کہ نہیں یعنی ایسا کرنے سے گلا کٹ جائے گا اور قتل کردیئے جاؤ گے اس وقت یہ آیت نازل ہوئی، حضرت ابو لبانہ (رض) کو اپنی غلطی کا احساس ہوگیا اور انہوں نے تو بہ کے ارادہ سے اپنے آپ کو مسجد نبوی (رض) نے ستو ن سے س باندھ تو نو روزٍ تک نہ کچھ کھایا نہ پیا تک کہ بے ہو ش ہر کر گرپڑے۔ ککہ جس میں مانت نہیں اللہ تعالیٰ کی توبہ قبول فرمائی اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تشریف لاکر انہیں ستو ن سے کھولا ( کبیر، ابن کثیر) ف 9 آ نحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کم ہی کوئی خطبہ دیا ہوگا جس میں یہ ارشاد نہ فرمایا ہو لا ایمان المن لا اما نتہ لہ ولا دین لمن لا عھد لہ۔ کہ جس میں امانت نہیں اس میں ایمان نہیں ہے اور جو اپنے عہد کو پو رانہ کرے اس کا دین نہیں ہے۔ ( رازی ابن حبانی) نیز فرمایا کہ کا کام ہے۔ ( ابن کثیر ) الانفال
28 ف 10 یعنی بہت بڑی آزمائش میں کہ تم شکر اور اطاعت بجا لاتے ہو یاان میں مشغول ہو کر نافرمانی کرتے ہو۔ ( ابن کثیر ) الانفال
29 ف 1 مال واولاد کے فتنہ ڈارنے کے بعد اب تقوی کی تعلیم دی، یہاں فرقانا سے مراد تو یہ ہے کہ تمہارے اہل وعیال اور اموال جو مکہ کافروں کے قبض میں ہیں ان کے بچاؤ کی صورت نکال دے گا ی اتمہارے اند نور بصریت پیدا کردے گا۔ جس سے تم زندگی کے ہر موڑ اور ہر نشیب وفراز پر معلوم کرسکو گے کہ کونسی چیز حق ہے اور کونسی باطل ؟ فر قان کے راہ نجات اور نور بصیرت دونوں معنی ہو سکتے ہیں۔ ( ابن کثیر، کبیر ) الانفال
30 ف 2 آیت واذکر و اذانتم قلیل الخ میں مو منوں پر انعام ذکر فرمایا تھا اب اس آیت میں آنحضرت پر اپے انعام کا ذکر کیا ہے جو یحبل لکم فر قانا کی ایک مثال ہی ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی مکہ میں تھے لیکن قریش کو یقین ہوگیا تھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی عنقریب مدینہ کی طرف ہجرت کرنے والے ہیں اسی وقت انہوں نے اپنے دارالند وہ میں رؤسا مکہ کا ایک نمائندہ اجتماعی بلایا کہ تاکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں کسی قطعی فیصلہ پر پہنچا جا سکے اس اجتماع میں شیطان بھی ایک بوڑ ھے نجدی کی شکل میں شریک ہوگیا۔ کسی نے تجویز پیش کی کہ اس شخص ( محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بیڑیا پہناکر کسی جگہ قید کردیا جائے اور مرتے دم تک رہ انہ کیا جائے لیکن اس بوڑھے نے اس تجویز کو یہ کہتے ہوئے رد کردیا کہ اس کے جو ساتھی قید سے باہر ہیں وہ برابر وقوت پکڑ تے اور اسے چھڑانے کے لیے زور لگا تے رہیں گے، دوسری تجویز یہ آئی کہ اسے اپنے ہاں سے نکال باہر کیا جائے کیونکہ جب یہ ہم میں مو جود نہ ہوگا تو ہمیں اس سے کوئی بحث نہ ہوگی کہ کہاں جاتا ہے اور کیا کرتا ہے لیکن اس بوڑھے نے اسے بھی یہ کہتے ہوئے رد کردیا کہ یہ شخص جادو بیان ہے جہاں جائے گا اپنے گرد لوگوں کو جمع کرلے گا آخر کار ابو جہل نے یہ تجویز پیش کی اور اس بوڑھے نے بھی اس کی پرزور تائید کی کہ تمام قبائل میں ایک نوجوان کو منتخب کیا جائے اور پھر یہ تمام نوجوان مل کر یکبارگی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ٹوٹ پڑیں اور اس کا کام تما کردیں اس طرح محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خون تمام قبائل میں بٹ جائے گا۔ اور بنو عبد منا ف کو دیت قبول کرلینے کے سوا کوئی چارہ نہ رہے گا، چنانچہ اس تجویز کے مطابق نو جوان منتخب کئے گئے اور وہ ایک مقررہ رات کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دروازے پر جمع ہوگئے کہ جو نہی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گھر سے باہر نکلیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یکبارگی حملہ کردیا جائے لیکن نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انکی آنکھوں میں خاک جھو نکتے ہوئے اپنے گھر سے نکل گئے اور انکی ساری خفیہ تجویز ناکام ہو کر رہ گئی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ معجزہ سیرت کی تمام کتابوں میں مذکور ہے اور حضرت ابن عباس (رض) کی یہ روایت عین قر ان کے مطابق ہے ( رازی، ابن کثیر) ف 3 یعنی انہوں نے سازش کی تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے وہ سازش ناکام کردی نیز معنی مکر کے لیے دیکھئے سورۃ آل عمران آیت 54 (رازی) الانفال
31 ف 4 جمہور مفسرین کے قول کے مطابق یہ آیت نضر بن حارث کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ وہ ایران کا سفر کر تارہتا تھا اس لیے اس نے رستم اور اسفند یا رو غیر کی کہانیاں یاد کرلی تھیں ایک مرتبہ مکہ آیا اور قرآن سنا تو وہ بات کہنے لگا جس کا اس آیت میں مذکور ہے۔ ( کبیر۔ ابن کثیر ) الانفال
32 ف 5 صحیح بخاری میں حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ یہ دعا کرنے والا ابو جہل تھا چونکہ باقی سب بے اسے پسند کیا تھا اس لیے اسے سب کی طرف منسوب کردیا گیا۔ الانفال
33 ف 6 یعنی جب تک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان میں موجود تھے اللہ تعالیٰ ان پر عذاب بھیجنے والا نہیں تھا کیونکہ اس کا یہ قاعدہ ہے کہ وہ کیس قوم پر اس وقت تک عذاب نازل نہیں کرتا جب تک اس کا رسول ( علیہ السلام) ان میں موجود رہتا ہے۔ چناہ حضرت نوح ( علیہ السلام) ہود، صالح اور حضرت لوط ( علیہ السلام) کے وقعات ہمارے سامنے ہیں۔ ( ابن کثیر) ف 7 یعنی یہ بھی اللہ تعالیٰ کا قاعدہ ہے کہ جب تک کوئی قوم اپنے گنا ہوں پر نادم ہو کر استغفار کرتی رہتی ہے وہ اسے ہلاک نہیں کرتا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ کنہگاروں کو دو چیز پناہ ہیں ایک میرا وجود اور دوسرے استٖغفار، ( مو ضح) منقول ہے کہ مشرکین طواف کے وقت عغرانک غفرانک کہا کرتے تھے یا مقصد یہ ہے کہ ان میں استغفار کرنے والے موجود ہیں یعنی مسلمان اور بعض نے یہ تاویل بھی کی ہے کہ انکے اندر اللہ تعالیٰ کے علم میں ایسے لوگ موجود ہیں جو آئندہ چل کر مسلمان ہو نگے اور اللہ تعالیٰ سے استغفار کرینگے اس لیے ان پر عذاب استیصال نہیں آسکتا جیساکہ انہوں نے دعا کی تھی۔ ( ابن کثیر، کبیر ) الانفال
34 ف 8 اس پر انہوں نے ایسی اجارہ داری قائم کر رکھی ہے کسی توحید پرست انسان کو اس کا طواف کرنے یا اس میں عبادت کرنیکی اجازت نہیں دیتے اس عذاب سے عذاب استیصال مراد نہیں ہے بلکہ ان کا مسلمانوں ہو ہونے والی جنگوں میں قید اور قتل ہونا مراد ہے۔ چنانچہ جنگ بدر میں میں ان کے بڑے بڑے سے سردارمارے گئے اور ان میں بہت سے لوگ قید ہوئے اور پھر حدیبہ کے بعد فتح مکہ کی اجازت دیدی گئی ( ابن کثیر) ف 9 یعنی جو شرک پر ییز کرنے والے ہیں اور وہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور انکے صحابہ (رض) ہیں۔ حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ آنحضرت سے سوال پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہر پر ہیز گار مومن مبری آل ہے، ( ابن کثیر ) الانفال
35 ف 1 حضرت ابن عمر (رض) اور ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ کہ قریش ننگے اور سیٹیا بجا بجا کر خانہ کعبہ کو طواف کیا گیا ہے۔ ( ابن کثیر) ف 2 عذاب سے مراد وہ جانی اور مالی نقصان جو انہیں بدر کے دن پہنچا، ( ابن کثیر ) الانفال
36 ف 3 کلبی (رح)، ضحاک (رح)، اور مقاتل (رح) کہتے ہیں کہ بدر میں قریش کے بارہ سرداروں نے ایک ایک دن اپنے ذمہ لیا تھا کہ ہر روز ایک شخص لشکر کو کھانا کھلائے گا چنانچہ ان میں سے کسی ایک کی طرف سے ہر روز دس اونٹ ذبح کیے جاتے تھے، پھر جب شکست ہوگئی تو مکہ بہنچ کر صفوان بن امیہ عکرمہ بن ابی جہل اور بعض دوسرو لوگوں نے جن کے باپ ی ابیٹے بدر میں مارے گئے تھے ابو سفیان وغیرہ سے کہا کہ جو مال تجارت قافلہ لایا ہے اسے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے انتقام لینے میں صرف کیا جائے چنانچہ اس سب راضی ہوگئے۔ انہی لوگوں کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔ ( ابن کثیر، قر طبی ) ف 4 پہلے سے خبر دار کردیا کہ آئندہ جب بھی یہ مسلمانوں کے خلاف کوئی کار وائی کریں گے انہیں اسی طرح ناکامی اور حسرت کا سامنا کرنا پڑگا جس طرح اب بدر میں ان کا یہ حشر ہوا ہے چنانچہ اس کے بعد جنگ احد میں بھی ایک طرح ناکامی کے ساتھ لو ٹنا پڑا۔ ( کذافی الوحیدی وغیرہ۔ الانفال
37 ف 5 یعنی کافر کو مومن سے یا بد بخت کو نیک بخت سے یا شیطان کی راہ میں خرچ کئے ہوئے مال کو اللہ کی راہ میں خرچ کئے ہوئے مال سے ،۔ الانفال
38 ف 6 یعنی کفر سے بھی تائب ہو کر اسلام میں داخل ہوجائیں اور اطاعت وانابت اختیار کرلیں تو ان کے اگلے قصو یعنی کفر سمیت تمام گناہ ماسوا حقوق العباد کے معاف کردیئے گے، حدیث میں ہے الا سلما یحبت ماقبلہ والتوبتہ بحب ما قبلھا کہ اسلام لانے سے پہلے کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں اور سچی تو بہ سے بھی کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ حضرت عمر بن عاص کہتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے میرے دل کو اسلام کی طرف مائل کیا تو میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خد مت میں حاضر ہو کر عرض کی ہاتھ پھلائے کے میں بیعت کرو لیکن جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا ہاتھ پھیلا تو میں نے عرض کی کہ ایک شرط کرنا چاہتا ہوں ج فرمایا، کیا شرط کرنا چاہتے ہو میں نے عرض کیا یہ کہ میرے لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مغفرت کی دعا فرمائیں کہ میرے پہلے سارے گناہ معاف کردیئے جائیں۔ فرمایا کیا تمہیں نہیں معلوم کہ اسلام لانے سے پہلے کے تمام گناہ معاف ہوجاتے ہیں اور اسی طرح ہجرت کرنے سے بھی پہلے تمام گناہ معا ف ہوجاتے ہیں۔ ( ابن کثیر، مسلم) ف 7 یعنی اگر اسلام کو اکھیڑ نے اور مسلمانوں کی طاقت ختم کرنے کا پروگرام بنائیں تو جس طرح پہلے لوگ تباہ وبرباد ہوئے جنہوں نے انبیا کو ستا یا اور ان سے جنگ کی، اسی طرح یہ بھی تباہ وبر باد ہوں گے یا جس طرح جنگ بدر میں حشر ہوا ہے وہی اب ان ہوگا۔ ( ابن کثیر ) الانفال
39 ف 8 یا مسلمانوں کو ظلم وستم کا نشانہ بنانا ختم ہوجائے۔ لفظ فتنہ کے لغوی معنی تیانے اور آزمانے کے ہیں اس لیے اس سے مراد شرک بھی ہوسکتا ہے اور مسلمانوں کو دین اسلام سے پھیر نے کے لیے ستانا بھی مفسرین نے اس کے یہ دونوں مطلب بیان کئے ہیں۔ ( از ابن کثیر) ف 9 یعنی سب مذاہب پر اسلام کا غلبہ ہوجائے جیسا کہ نزول مسیح ( علیہ السلام) کے وقت ہوگا۔ اس کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث میں یوں بیان فرمایا مجھے یہ حکم ملا ہے کہ میں اس وقت تک لوگوں سے جنگ کرتارہوں جب تک وہ لا الہ الا اللہ کے قائل نہیں ہوجاتے چنانچہ جب وہ اس کے قائل ہوجا ئیں گے تو مجھ سے اپنے خون اور مال بچالیں الہ یہ کہ ان پر کوئیک اسلام کا قانونی حق عائد ہوتا ہو تو وہ ان سے وصول کیا جائے گا۔ اور ان کا حساب و کتاب ( یعنی جس حد تک دلوں کی حالت کا تعلق ہے) اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہوگا۔ (بخاری ومسلم) ف 10 جیسے کام کریں گے ویسا ہی بد لہ ان کو دیا جائے گا ( از وحیدی ) الانفال
40 ف 11 یعنی مسلمونوں کو ستانا اور اور لڑنا ترک نہ کریں تو۔۔۔ (از وحیدی) جس کا حمایتی اور مددگار ہو اس کو دنیا کی کوئ طاقت مغلوب نہیں کرسکتی اللہ کا دین ضرور غالب رہے گا۔ ( وحیدی ) الانفال
41 ف 1 وپر کی آیت وقاتلو ھم، الخ۔ میں مقاتلہ کا حکم تھا جس کے نتیجہ میں حصول غنیمت ایک لاذزمی امر تھا اس لیے اس آیت میں مال غنیمت کی تقسیم کے چند مصارف بیان فرما دیئے ( کبیر) یہ بھی ہوسکتا ہے کہ سورۃ کے آغاز میں جو اس کی تقسیم کا اختیار اللہ و رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیا گیا تھا اسی کی تفصیل ہو ،( کذافی بعض الحواشی) مطلب یہ ہے کہ کل مال غنیمت کے پانچ حصے کئے جائیں گے۔ چار حصے ان لوگوں کو ملیں گے جنہوں جنگ میں شرکت کی اور خمس پانچواں حصہ ان اغراض کے لیے الگ کرلیا جائے گا جن کا آیت میں ذکر کیا گیا ہے اس خمس کی تقسیم میں سلف کے مختلف اقوال ہیں۔ امام مالک (رح) اور اکثر سلف (رح) کا خیال یہ ہے کہ امام (خلیفہ اسلام) کو اختیار ہے کہ مسلمانوں کو اجتماعی مصلحت کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس میں جس طرح چا ہے تصرف کرے اسی پر خلفا اربعہ (رض) کا عمل رہا ہے۔ ( قر طبی) اور سنن ابو داؤد کی حدیث الخمس ھر دود علیکم ( کہ میرے لیے اس غنیمت میں سے پانچو اں حصہ ہے اور یہ پانچواں حصہ بھی تمہاری ہی اجتماعی مصلحت میں صرف کردیا جاتا ہے) سے بھی معلوم ہوتا ہے۔ امام ابن تیمیہ (رح) اور حافظ ابن کثیر (رح) نے اس کو سب سے صحیح قول قرار دیا ہے۔ اس سے آیت سورۃ حشر اور اس آیت کے درمیان منا فات بھی رفع ہوجاتی ہے ورنہ کہا جائے گا کہ مال غنیمت اور مال فے میں فرق ہے اور سورۃ حشر میں اموال فے کا بیان ہے یعنی وہ اموال جو دشمن سے صلحا حاصل ہوں ( نیز دیکھئے سورۃ حشر اور ناتے والوں سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خاندان کے لوگ مراد ہیں یعنی بنو ہاشم اور ان کے ساتھ بنو المطلب بھی جمہور علمائے سلف کا یہی قول ہے۔ ( ابن کثیر) ف 2 یعنی بدر کے دن جس میں حق اور باطل کا فیصلہ ہوا حق کی فتح ہوئی اور باطل مغلوب ہوا ( ابن کثیر) ف 3 یعنی 17 رمضام 2 ھ بروز جمعہ ( ابن جریر بروایت حضرت علی (رض) یہاں پر جو کچھ ہم نے اپن بندے پر نازل کیا سے مراد وہ آیات ( فرشتے اور نصرت) ہیں جو بدر کے دن ظاہر ہوئیں۔ الانفال
42 ف 4 یعنی وادی بدر کے اس سرے پر جو مدینہ منورہ کی سمت ہے۔ ( کبیر) ف 5 یعنی ساحل بحر کی طرف، یہ منصوب علی الطرفیتہ ہے یا موضع حال میں ہے جیسا کہ جمہور علمان کا خیال ہے جنگ کے اس نقشہ کو بیان کرنے سے مقصد یہ ہے کہ اسو قت بظاہر یہ نظر آرہا تھا کہ دشمن طاقتور ہے اور مسلمان کمزور اور ناتواں ہیں لیکن ان حالات میں اللہ تعالیٰ نے تمہاری مدد فرمائی۔ ( روح) ف 6 یعنی تم اپنے مقابلے میں ان کی کثرت تعداد سے ڈرتے اور وہ رسول اللہ صلعم کے رعب اور ہیبت سے ( کذافی الوحیدی) ف 7 مراد اہل اسلام کی فتح اور اہل کفر کی شکست ہے۔ ( ازا بن کثیر) ف 8 یا یہ کہ اتمام حجت ہو اور کسی کے لیے عذر کا ماقع نہ رہے یعنی اس کے بعد اگر کوئی کافر رہے تو دلیل دیکھکر کافر رہے ( اور ہلاکت میں پڑے) اور جو کوئی مسلمان ہو تو وہ بھی دلیل دیکھ کر مسلمان ہو۔ ( وحیدی ) الانفال
43 ف 9 نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خواب میں دکھا کہ کافروں کی تعداد زیادہ نہیں ہے۔ اسی کی خبر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ (رض) کو دی جس کا فائدہ یہ ہوا کہ مسلمانوں میں ہمت اور ثابت قدمی پیدا ہوگئی جس کا فائدہ یہ ہوا کہ مسلمانوں میں ہمت اور ثابت قدمی پیدا ہوگئی ( کبیر) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خواب اس لحاظ سے سچاتھا کہ بعد کو ان کافروں میں سے بہت سے لوگ مسلمان ہوگئے دوسرے یہ کہ مسلمانوں کے ساتھ فرشتے بھی شامل تھے اس لے ان کے مقابلے میں کافروں کی تعداد کم ہی تھی، (کذافی الوحیدی) ف 10 یعنی کوئی کہتا لڑو اور کوئی کہتا نہ لڑو وہ بہت ہیں اور ہم کم ( وحیدی) ف 11 یعنی نہ ہمت ہار جانے کا موقع دیا اور نہ آپس میں جگڑنے اور اختلاف کرنے کا ( وحیدی ) الانفال
44 ف 12 یہ اس وقت کی کیفیت ہے جب جنگ ہونے والی تھی لیکن وہ شروع نہیں ہوئی تھی۔ کافر مسلمانوں کو تھوڑے نظر آتے حتی کہ بعض نے خیال کیا کہ وہ ستر سے زیادہ نہیں ہیں۔ اس سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خواب کی بھی تائید ہو رہی تھی اور یہ بھی کہ مسلمانوں کو ہمت بڑھ جائے نیزکفار زیادہ تیاری کی ضرورت نہ سمجھیں مگر جب جنگ شروع ہوگئی تو کافروں کو مسلمانوں کی تعداد زیادہ نظر آنے لگی جیسا کہ سورۃ آل عمران میں فرمایا، یر ونھم مثلیھم رای العین : ( وہ بظاہر ان کے اپنے سے دو گنا دیکھ رہے تھے، ( اس کا فائدہ یہ ہوا کہ جنگ شروع ہونے پر کافروں کے حوصلے پست ہوگئے اور وہ جلدی ہی شکست کھا کر پیچھے کی طرف بھا گنے لگے اور اور مسلمانوں کے حوصلے بر ستور بڑھتے رہے۔۔ ف 13 یعنی وہی اسلام کی فتح اور کفر کی شکست ہو اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سچائی پر معجزانہ دلیل قائم ہوجائے۔ (کبیر ) ف 1 یعنی وہی جو چاہتا ہے فیصلہ کرتا۔ اور پھر جب اصل اختیار ہر چیز میں اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے تو مسلمانوں کو چاہیے کہ اسی کو اپنا مقصود بنائے۔ جک الانفال
45 ف 2 یعنی صرف اسی پر بھروسا کرو اور اسی کو اپنا مقصود بنائ۔ الانفال
46 ف 2 یعنی صرف اس پر بھروسہ کرو اسی سے مددطلب کرو کیونکہ فتح ونصرت کا انحصار ظاہر اسباب پر نہیں بلکہ دل کی استقامت اللہ کی یاد اور اس کی حکم بر داری پر ہے۔ اسی طالوت کے ساتھیوں نے دشمن سے مڈبھیڑ کے وقت یہ دعا کی تھی، ربنا افرغ علینا صبرا وثبت قادامنا وانصر نا علی القوم الکافرین اے ہمارے رب ہمیں صبر کی توفی ق دے ہمارے قدم جما دے اور ان کافروں پر ہمیں فتح نصیب کر۔ (بقرہ :250) حضرت سہیل بن سعد سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دو وقت دعارد نہیں ہوگی ایک اذان کے وقت دوسرے دشمن سے لڑائی کے وقت ( الحاکم بسند) صحیح) یہ اں ثبات سے مقصود انہتایہ بے جگری سے لڑ نا ہے۔ لہذا یہ آیت الا متح فالقتال او متحیزا الی فئتہ کے خلاف نہیں ہے بلکہ بعض اوقات تحرف اور تحیز ہی ظبات کے حصول کا ماجب بن جاتا ہے ،( کبیر ) ف 3 ہوجاتی ہے گی یعنی اقبال کے بعد اد بار نظر اوے گا۔ ( مو ضح) نیز ی کہ تمہارے درمیان پھوٹ دیکھ کر دشمنوں پر سے تمہارا رعب اٹھ جائے گا اور وہ تم غالب پانے کے لیے اپنے اند جرات محسوس کرنے لگیں گے، جا لر یح کنا یتد عن الدولتہ و النصر ۃ کما فسر ھا مجاھدہ ( روح) یہ صحابہ (رض) کرام کے اتحاد اور صبر کا نتیجہ تھا کہ تیس سال کے اند ر ہی مسلمانوں کی سب پر غلبہ حاصل ہوگیا اور مملکت اسلامی کے حدود مشرق و مغرب میں حیرت انگیز طریقے سے پھیل گئے۔ ( ابن کثیر ) الانفال
47 ف 4 مسلمانوں کے کو لڑائی میں ثبات اور کثرت ذکر الہیٰ کا حکم دین کے بعد ابن کفار کے تشبہ سے منع فرمایا ہے۔ ( ابن کثیر) ان سے مراد ہیں ابو جہل اور اس کے ساتھی جو باجے گاجوں اور گانے والی لو نڈیوں سمیت ابو سفیان کے تجاریت قافلہ کر بچانے مکہ سے نکلے، جب حجفہ کے مقام پر پہنچے تو انہیں اگرچہ معلوم ہوگیا کہ قافلہ تو مسلمانوں کو زد سے بچ کر نکل آیا ہے مگر وہ کہنے لگے کہ ہم تو اس وقت تک مکہ واپس نہ جائیں گے جب تک مقام بدر پہنچ کر خوب شرابیں نہ پی لیں اور اونٹ ذبح کر کے گانا بجانا نہ کرلیں اور ہمارے نکلنے کی سارے عرب میں دھوم نہ مچ جائے۔ علمائے تفسیر لکھتے ہیں کہ وہ بدر میں وارد ہوئے تو شراب کے بجاۓ موت کے پیالے پئے اور گانے والیوں کی بجائے نوحہ گر عورتوں نے حلقہ بدوش ماتم کیا یا للہ العلم غیب، ( کبیر) شاہ صاحب لکھتے ہیں جہاس عبادت ہے، عبادت پر اترا دے یا دکھانے کو کرے تو قبول نہیں ( موضح) جملہ ویصدون عن سبیل اللہ کا عطف بطر پر ہے علی قدیر نہ حال بتا ویل اسم الفا عل۔ ( روح ) الانفال
48 ف 5 یعنی ان کے ذہنوں یہ غرور بھر دیا، فالقول مجاز عن الو سو ستہ ابن جریر (رح) وغیرہ نے حضرت ابن عباس (رض) سے یہ روایت بھی نقل کی ہے کہ قریش اور بنو کنانہ میں سخت دشمنی تھی جب قریش مسلمانوں سے مقابلہ کے لیے نکلے تو انہیں ڈرہوا کہ کہیں پیچھے سے بنو کنا ہم پر حملہ نہ کردیں اس وقت شیطان بنو کنانہ کے ایک سردار سراقہ بن مالک کی صورت میں ان کے ساتھ شریک ہوگیا اور اپنے ساتھ ایک جھنڈا اور شیطا نوں کا ایک لشکر بھی لے آیا۔ اسی وقت قریش سے اس نے وہ بات کہی جو اس آیت میں مذکورہے ( ابن کثیر) واضح رہے کہ شیطان کا انسانی شکل میں آنان مستبعدا نہیں فالقول علی مضاۃ ا حقیقی۔ ف 7 یعنی سب کچھ بھول گیا اور بھاگ نکلا۔ ف 7 یعنی مجھے وہ فرشتے نظر آنے لگے ہیں جو مسلمانوں کی مدد کے لیے آئے ہیں اور تمہیں نظر نہیں آرہے، ف 8 صرف اپنا پیچھا چھڑانے کے لیے اس نے یہ بہانہ بنایا ورنہ اس مردود کو اللہ تعالیٰ کا ڈر کہاں تھا َ؟ ( از وحیدی) حدیث میں ہے کہ عرنہ کے دن جب شیطان اللہ تعالیٰ کی رحمت کے نزول اور بڑے بڑے گناہوں کی اس کی طرف سے معافی کو دیکھتا ہے تو اس کی ذات کی انتہا نہیں رہتی لیکن بدر کے دن جب اس نے حضرت جبریل ( علیہ السلام) کو دیکھا کہ وہ فرشتوں کی صفو کی تر تیب دے رہے ہیں تو عرفہ کے دن سے بھی زیادہ ذلیل نظر آنے لگا۔ ( مو طہ ) الانفال
49 ف 9 یعنی ان کے دینی جو ش نے ان کو بالکل دیوانہ بنادیا ہے۔ دیکھ رہے ہیں کہ ان کی تھوڑی سی تعداد ہے کوئی سروسامان بھی نہیں ہے حتی ٰ کہ لڑنے کے لیے ایک کے علاوہ دوسرا گھوڑا بھی نہیں ہے مگر چلے میں قریش کے مسلح اور عظیم الشان لشکر سے مقا بلہ کر کے پاگل ہی تو ہیں جو اپنی خو دعوت دے رہے ہیں ( کبیر ابن کثیر) صاحب (رح) فرماتے ہیں۔ مسلمانوں کی دلیری دیکھ کر منافق طعن کرنے لگے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ غرور نہیں توکل نہیں ہے۔ ( موضح) ف 10 اور زبر دست پر جس کا بھر وسا ہو اس کا دل یقینا مظبوط ہوگا اس لیے مسلمان قریش کے عظیم الشان لشکر کے مقابلہ میں خوش اور آمادہ ہیں۔ ج ( کذافی الو حیدی) الانفال
50 ف 1 کفار کے احوال بیان کرنے کے بعد اب ان کی موت کی حالت بیان کی ہے ،( کبیر) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ بدر میں کافر جب مسلمانوں پر حملہ آور ہوتے تو فرشتے ان کے منہ پر ضرب لگا تے اور جب وہ پیٹھ موڑ کر بھاگتے تو ان کی پیٹھ پر ضرب لگاتے۔ اس صورت میں الذین کفروا سے مراد وہ کفارہوں گے جو بدر کے دن قتل ہوئے۔ ( ابن کثیر، الروح ج۔) دوسرا ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے ( اے پیغمبر کاش تو کافروں کا حال اس وقت دیکھے جب فرشتے ان کی جان نکال رہے اور انہیں آگے پیچھے چار چوٹ کی مار دے رہے ہوتے ہیں اور ( کیے جاتے ہیں) جلانے والے عذاب کا مزہ چکھو اس صورت میں یہ آیت بدر کے مقتول کافروں کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ تمام کافروں کے بارے میں عام ہوگی، جیسا کہ قرآن کی بعض دوسری آیات میں یہی مضمون عمومی انداز میں بیان ہوا ہے، دیکھئے سورۃ انعام آیت 93) اور احادیث میں کافر کی جان کنی کی حالت کا بہت ہی ہولناک منظر پیش کیا گیا ہے۔ ( مختصرا ازابن کثیر ) الانفال
51 ف 2 یعنی یہ عذاب عین عدل ہے کیونکہ اس نے تمہارے سمجھانے کے لیے اپنے رسول ( علیہ السلام) بھیجے کتابیں نازل فرمائیں مگر تم نے ایک نہ مانی یہی مضمون ایک حدیث میں بھی بیان ہوا ہے۔ (آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ میرے بندوں ! میں نے طلم اپنے اوپر حرام قرار دے لیا ہے اور اسے تمہارے درمیان بھی حرام ٹھہر ایا ہے لہذا تم ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو۔ میرے بندو ! یہ تمہارے اپنے اعمال ہیں جن کو میں شمار کرتا رہتا ہوں لہذا جو نعمت پائے اسے اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے اور جو سزاپائے اسے اپنے آپ ہی کو ملامت کرنی چاہیے۔ ( صحیح مسلم بروایت ابو ذر (رض) الانفال
52 الانفال
53 ف 3 یعنی اعتقاد اور نیت جب تک بہ بد لے تو اللہ تعالیٰ کی نعمت چھینی نہیں جاتی۔ ( مو ضح) مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی قوم کو اپنی عطا کردہ نعمت سے بایں صوت محروم کرتا ہے جب وہ اپنے عقائد واعمال اور اخلاق کو بد ل کر اپنے آپ کو اس نعمت کا قطع غیر مستحق ثابت کردیتی ہے۔ مثلا ایمان کی بجائے کفر شکر کی بجائے ناشکری اور نیکی کی بجائے گناہ کرنے لگتی ہے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ بھی اس سے اپنی عطا کردہ نعمت واپس لے لیتا ہے اور اسے مختلف قسم کے عذابوں میں مبتلا کردیتا ہے۔ فرعون کی قوم اور اسی طرح قریش کو اللہ تعالیٰ نے بڑی شان و شوکت اور خو شحالی سے نوا زا تھا لیکن ان سے اپنی نعمتیں چھینن لیں۔ اس زمانے میں مسلمان جو ساری دنیا میں ذلت، غلامی اور دوسروں کی حاشیر برداری کی زندی گی بسر کر ہے ہیں وہ بھی ان کی اپنی بد اعمالیوں کی سزا ہے ورنہ یہ عجیب معلوم ہوتا ہے کہ ایک قوم کتاب اللہ اور سنت رسول ( علیہ السلام) پر ایمان رکتھی ہو پھر بھی دنیا میں ذلیل وخوار رہے ( از وحیدی) ف 4 اس کے بندے جیسا طرز عمل اختیار کرتے ہیں ویسا ہی وہ انہیں بدلہ دیتا ہے ( وحیدی بتغیر) الانفال
54 ف 5 اگر گنہگار نہ ہوتے اور صحیح طرز عمل اختیار کر ن تو اللہ تعالیٰ کو ان سے کوئی ذاتی بیر نہ تھا کہ انہیں بلاوجہ ہلاک یا غر کردیتا۔ الانفال
55 الانفال
56 ف 6 اوپر کی آیت میں جب تمام کفار کا یہ وصف بیان فرمایا کہ وہ ظالم ہیں تو اب یہاں بعض کفار کی خصوصی شرارتون کا ذکر فرمایا۔ ( کبیر) وھم لا یتقون، کا دوسرا ترجمہ یہ بھی ہے کہ وہ بد عہدی کے انجام سے نہیں ڈرتے، ان سے مراد خاص طو پر مدینہ منورہ کے یہودی ہیں جن سے مدینہ منورہ پہنچ کر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حسن جوار اور باہمی تعاون کا معاہدہ کیا تھا لیکن اسلام کی بڑھتی ہوئی قوت انہیں ایک نظر نہ بھائی تھی چنانچہ کبھی وہ اوس خزرج کے کے درمیان جاہلی عصبیت ابھار کر ان کو آپس میں لڑانے کی کو شش کرتے اور کبھی اسلام کے دشمنوں کی ہتھیاروں سے مدد کر کے معاہدہ باربار خلاف ورزی کرتے اور جب ان سے کہا جاتا تو کہہ دیتے کہ ہمیں یاد نہیں رہا تھا لیکن جوں ہی موقع ملتا پھر کوئی ایسی حرکت کر گزرتے جو معاہدہ کے خلاف ہوتی حتی کہ اس معاہدہ کے ہوتے ہوئے ان کا سردار کعب بن اشرف ( جو بدر میں قریش کی شکست سے انتہائی سیخ پا ہوا تھا) مکہ پہنچا اور وہاں مقتولین کفار بدر کے ہیجان انگیز مرثیے پڑھ کر قریش کے نو جوانوں کو مسلمانوں انتقام لینے کا جوش دلا تا رہا۔ ایسے ہی لوگ ہیں جن کو یہاں سر الدوآبہ ( بد ترین جانور) فرمایا ہے۔ ( از ابن کثیر ) الانفال
57 ف 7 یعنی انہیں بد عہدی کی ایسی سخت سزا دو کہ ان کے پیچھے جو دوسرے ایسے کفار موجود ہیں اور جن سے تمہارا معاہدہ ہے وہ بھی مر عوب جائیں اور انہیں ایسی عبرت حاصل ہو کہ معاہدہ کی خلاف ورزی کا نام تک نہ لیں۔ ( از وحیدی) الانفال
58 ف 1 مطلب یہ ہے کہ ان پر حملہ کرنا چاہو تو انہیں پہلے سے مطلع کردو کہ اب تمہارے اور ہمارے درمیان کوئی معاہدہ نہیں ہے کیونکہ ہمیں اند یشہ ہے کہ تم معاہدہ کی خلاف ورزی کرنے والے ہو لیکن اگر معاہدہ ختم کئے بغیر ان پر چڑھ دوڑ وگے تو یہ دغا معاہدہ کی خلاف ورزی ہوگی اور اللہ تعالیٰ دغا کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ( وحیدی) چنانچہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلفا کی یہی سیرت رہی کہ نقص عہد کی خطرہ کی صورت میں معاہدہ کے خاتمے کا اعلان فرمادیتے اور پھر حملہ آور ہوتے۔ ( ازابن کثیر، قر طبی) مگر جب کسی قوم نے بد عہد ی کردی ہو تو اس پر بے خبری میں حملہ کرنا بھی جائز ہے جیساکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل مکہ کے ساتھ کیا ( کبیر ) الانفال
59 ف 2 کبھی ہمارے قابو سے باہر نہیں جاسکتے۔ ہم جب چاہیے ان کی گردن مروڑ دیں اور جس قسم کا عذاب چاہیں ان پر نازل کردیں، ( کذافی ) الانفال
60 ف 3 یعن تمہیں دشمن کے مقابلے کے لیے ہر وقت تیار رہنا چاہیے اور ضرورت اور زمانہ کے حالات کے مطابق جس قدر اسلحہ حرب اور مسلح افواج تم بہم پہنچا سکتے وہ بہم پہنچانے کی کو شش کرنی چاہئے۔ (کذافی الکبیر و ابن کبیر) شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں کہ ترھبو ن بہ فرمایا تاکہ سمجھ لیں کہ فتح کا نحصار صرف اسباب پر نہیں اس کا دارومدار اللہ تعالیٰ کی نصرت وامداد پر ہے ( موضح) ف 4 جن کے دلوں کا حال تم نہیں جانتے لیکن وہ ہر آن موقع کی تلاش میں ہیں کہ کبھی تمہیں کمزور پائیں تو حملہ کردیں یا تمہارے کھلم دشمنوں سے مل جائی ایسے لوگ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں یہودی اور منا فق تھے۔ ف 5 یعنی تمہیں اس کا پورا پورا بدلہ ملے گا اور معمولی سے معمولی خرچ کو بھی رائیگاں نہ جانے دیا جائے گا ارویہ جو آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ایک نیکی دس گنے سے ساتھ سو گنے تک بلکہ اس سے بھی زیادہ بڑھتی ہے تو اس کا مدار حسن نیت پر ہے۔ الانفال
61 ف 6 کیونکہ اسلام میں طاقت کے استعمال کا مقصد زمین میں خون ریزی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے کلمے کو بلند اور کفر و شرک کے فتنہ کا قلع قمع کرنا ہے، اگر یہ مقصد صلح کی صورت میں حاصل ہو تو ہو تو قبول کرلینا چاہیے چنانچہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قریش سے معاہدہ کر ہی لیا تھا لہذا یہ آیت آیتہ قتال سے منسوخ نہیں ہے۔ ( ابن کثیر) ف 7 یعنی اگر دشمن دل میں کھوٹ رکھے گا تو اللہ تعالیٰ کو خوب معلوم ہے اور ہو تمہارے نیتوں کو بھی خوب جانتا ہے اس میں نقض عہد پر سر زنش ہے۔ ( کبیر ) الانفال
62 ف 8 وہ ان کی تمام مکاریوں اور چالباز یوں کو اپنی قدرت کاملہ سے بیکار کر دے گا۔ ف 9 ہر قسم کی تائید اللہ ہی کی طرف سے حاصل ہوتی ہے۔ کبھی اسباب ظاہری کے بغیر جس کی طرف حسبک اللہ میں اشارہ ہے اور کبھی اسباب ظاہری ہے جس کی طرف وبالمومنین سے اشارہ فرمایا ہے۔ ( کبیر) مطلب یہ ہے کہ ظاہری باطنی دونوں قسم کے اسباب سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قوت بخشی ، الانفال
63 ف 10 یہ اس بھائی چارے اور الفت کی طرف اشارہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے دلوں میں پیدا کر کے انہیں ایک مظبوط جبتھے کی شکل دے دی تھی حالانکہ عرب مختلف قبائل میں منقسم تھے، اور آئے دن معمولی معمولی باتوں پر ان کے درمیان ایسی ایسی جنگیں چھڑتی رہئی تھیں جن کا سلسلہ بر سوں بلکہ بعض اوقات صدیوں تک ختم نہ ہوتا تھا۔ ایسی ایک قوم کو ملاکر شیر و شکر کردینا اور چند بر سوں میں تمام جاہلی عصبیتوں کو مٹاکر دینا یقینا انسانی طاقت سے باہر اور دوسرا سرا للہ تعالیٰ ہی کا فضل وکرم تھا۔ اس بنا پر اللہ تعالیٰ نے خاص آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کر کے یہ احسان جتلایا کہ جب ہماری تائید و نصرت نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس طرح تقویت پہنچائی تو آئندہ بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہم پر بھروسہ رکھنا چاہئے۔ ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بے یارو مدد گانہیں چھوڑیں گے۔ احادیث میں باہمی الفت ومحبت کی بہت فضیلت آئی ہے۔ ( از ابن کثیر ) الانفال
64 ف 11 ور فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کا فی ہے، اس سے شاید کوئی خیال کرتا کہ اللہ تعالیٰ کی تائید صرف آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ خاص ہے۔ اس لیے یہاں دوبارہ اس حملہ کو لاکر ساتھ مومنین کا بھی اضافہ کردیا کہ اللہ تعالیٰ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروری کرنے والے تمام مومنوں کو کافی ہے۔ ( کذافی الوحیدی) الانفال
65 ف 1 یعنی ایک مسلمان دس کافروں پر بھاری ہونا چاہیے اور اپنے سے دس گنا تعداد کے مقابلہ میں پیٹھ دے کر بھاگنا جائز نہیں ہے۔ پہلے یہی حکم نازل ہوا تھا پھر وہ حکم نازل ہوا جس کا ذکر اگلی آیت میں آرہا ہے اور پہلے حکم میں تخفیف کردی گئی۔ ابن کثیر) ف 2 یعنی بے مقصد لڑتے ہیں اور ان میں کوئی جذبہ اور اخلاقی قوت نہیں ہوتی جو انہیں میدان جنگ میں ڈٹے رہنے پر مجبور کرے۔ لہذا یہ ان سرفروش مجاہدین کا کیسے مقابلہ کرسکتے ہیں جن کی بڑی تمنا شہادت کی فضیلت حاصل کر ناہو، اسی لیے حضرت عمر (رض) نے ایران کے کافروں کو لکھا تھا کہ میں تم سے لڑنے کے لیے ایسے لوگوں کو بھیج رہاہوں جنہیں اللہ کی راہ میں شہید ہونے میں اتناہی مزہ آتا ہے۔ جتنا تمہیں شراب پینے میں، ( کذافی الوحیدی) الانفال
66 ف 3 یعنی انہیں اللہ پر ایمان اور اس کے ثواب پر یقین نہیں ہے اور جس کو یقین ہے اس کو مت کا کیا ڈر ؟۔ صحیح بخاری میں حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ جب گزشتہ آیت نازل ہوئی تو مسلمانوں کی اپنے سے دس گنا کفار کے مقابلے میں ڈٹے رہنا کا حکم دشوار معلوم ہوا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی جس میں اپنے سے دو چند کے مقابلے میں ثابت قدم رہنا ضروری اور بھاگنا فرار دیا گیا ہے۔ اب یہ حکم قیامت تک کے لیے قائم ہے۔ اگر کفار دو چند سے زیادہ ہوں تو بھاگنا گناہ نہیں لیکن لڑنا اور جمے رہنا بہر حال افضل ہے جیسا کہ عہد نبوی اور خلفائے راشدین (رض) کے عہد کے بعض واقعات سے معلوم ہوتا ہے، ( از ابن کثیر و قرطبی ) الانفال
67 ف 4 اور ان کا زور نہ توڑدے البتہ جب ان کا زرو ٹوٹ جائے تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اختیار ہے کہ ان کو قید کرنے بعد چا ہے فد یہ لے کر چھوڑ دے چا ہے بطور احسان رہا کر دے جیسا کہ آیت سورۃ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حتی اذا اتخنتمو ھم فشد دواا ثاق فاما منا بعد واما فدآ : میں اس کی اجازت دی گئی ہے۔ ( از وحیدی) ف 5 اس لیے تم بدر میں گرفتا ہونے والے قیدیوں کو قتل کرنے کی بجائے انہیں فدیہ لے کر رہا کرنا پسند کرتے ہو۔ الانفال
68 ف 6 ان دو آیتوں میں جو جنگ بدر کے بعد نازل ہوئیں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سمیت تمام مسلمانوں پر عتاب فرمایا کہ ان سے ایک ایسی غلطی سرزد ہوگئی جو منا سب نہ تھی متعدد روایات میں ہے کہ جب جنگ بدر کے قیدی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لائے گئے تو ّآپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے بارے میں میں مشہورہ طلب فرمایا حضرت ابو بکر (رض) نے رائے دی کہ انہیں قتل کردیا جائے۔ اکثر مسلمانوں کی رائے حضرت ابوبکر (رض) سے متفق تھی کچھ انسانی اور رشتہ داری کی محبت کی وجہ سے اور کچھ مالی فائدہ پیش تطر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابو بکر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رائے کو پسند فرمایا اور فدیہ فرمالیا ایک دوسری روایت میں ہے کہ جب قیدی لائے تو حضرت جبرئیل ( علیہ السلام) نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ تمہیں اختیار ہے فد یہ لے کر چھوڑ دو یا قتل کرو مگر فدیہ لینے کی صورت میں آئندہ مسلمانوں کی ستر آدمی شہید ہوں گے چنانچہ صحابہ (رض) کرام نے فدیہ قبول کرلیا ک۔ یہ صورت چونکہ بہتری نہ تھی اسلئے ان آیتوں میں عتاب آمیز لہجہ میں اس پر کراہت کا اظہار فرمایا، یہاں کتاب من اللہ سبق سے رمراد کئی باتیں ہو سکتی ہیں۔ ایک یہ کہ اگر اس امت کے لیے غنیمت حلال نہ کردی گئی ہوتی جیساکہ حدیث : واحلت لی الغنائم سے معلوم ہو تو ہے، ابن جریر نے اسی کو پسند فرمایا۔ دوم یہ کہ بدر میں جو صحابہ (رض) شریک ہوئے ہو مغفور نہ ہوتے وغیرہ ( ابن کثیر، فتح القدیر) شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ وہ بات یہ لکھ چکا کہ ان قیدیوں میں بہت سو کی قسمت میں مسلمان ہونا لکھا تھا۔ ( موضح) الغرض اگر یہ بات پہلے سے نہ لکھی ہوتی تو عذاب عظیم نازل ہوتا۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس عذاب کا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مشاہدہ فرمایا اور اگر یہ کونے لگتے۔ (ابن کثیر ) الانفال
69 ف 7 مروی ہے کہ ان دو آیتوں کے نزول کے بعد صحابہ (رض) نے فدیہ کے مال سے اپنے ہاتھ کھینچ لئے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی اس میں پچھلی غلطی معافی دیتے ہوئے فدیہ کا مال کو کھانا جائز قرار دیا گیا۔ ( کبیر ) الانفال
70 ف 8 جب بدر کے قیدی لائے گئے تو بعض نے اسلام کا اظہار کیا اور کہا کہ میں نے اکراہ وجبر کے تحت جنگ میں شرکت کی تھی ان میں حضرت عباس (رض) بھی تھے اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور ان کو فدیہ کی معافی نہ دی گئی، چنانچہ حضرت عباس کہا کرتے تھے کہ مجھ سے فدیہ میں بیس اوقیہ سونا لیا گیا اس کے بدلے مجھ اللہ تعالیٰ نے مجھے دنیا میں یہ دیا کہ میرے پاس بیس ایسے غلام ہیں جن میں سے اہر ایک سوداگری کرتا ہے علاوہ ازیں، مجھے اللہ تعالیٰ سے مغفرت کی بھی امید ہے۔ ( حاکم، بیہقی) ف 1 ف 1 بد ر کے قید یہوں میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچا عباس اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے داماد ابو العاص اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچازاد بھائی نوفل اور عقیل بھی شامل تھے، حضرت عائشہ (رض) کا بیان ہے کہ ابو لعاض (رض) کو چھڑانے کے لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صاحبزادی زینب نے مکہ سے ایک ہار بھیجا جو انہیں حضرت خدیجہ نے دیا تھا۔ اسے دیکھ کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر رقت طاری ہوگئی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ (رض) سے فرمایا کہ اگر تم راضی ہو تو میں زینب (رض) کے قیدی کو یہ ہار لیے بغیر رہاکر دوں۔ تمام اصحاب (رض) اسے بخوشی منظور کرلیا پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے چچا عباس (رض) سے فدیہ طلب فرمایا تو وہ کہنے لگے میرے پاس تو کچھ نہیں ہے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ آپ کا وہ مال کہاں ہے جسے آپ نے اور آپ کی بیوی ام الفضل نے نل کر زمین میں دفن کیا ہے۔ یہ سنتے ہی حضرت عباس بولے بیشک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں اس لیے کہ اس سو نے کا میرے اور ام فضل کے سوا کسی کو علم نہیں ہے پھر حضرت عباس (رض) نے اپنا اور اپنے دو بھتیجوں کا اور اپنے حلیف عتبہ بن عمروکا فدیہ ادا کیا۔ ( ابن کثیر ) الانفال
71 ف 2 اور یہ سے بچنے کے لیے جھوٹ موٹ کہہ دیں کہ م اسلام قبول کرتے ہیں یا مسلمانوں سے جنگ نہ کرنے کا جوانہوں نے معاہدہ کیا ہے اس کو توڑیں۔ الانفال
72 ف 3 یعنی اللہ تعالٰی کا حکم ماننے سے انکار رک چکے ہیں اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جھٹلا چکے ہیں۔ ف 4 اگر پھر دغا بازی اور بے ایمانی سے کام لیں گے تو پھر اللہ تعالیٰ اس نے یہی معاملہ کرے گا۔ اس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بشارت دی ہے اور قیدیوں کے لیے وعید ہے کہ ان میں سے جو بھی نقض عہد اور خیانت کرے گا ان پر دوبارہ تمکن حاصل ہوگا جیسا کہ بدر میں دیکھ چکے ہو۔ یہاں امکن کا مفعول مخذوف ہے ای نامکنک منھم ( کبیر، روح) ف 5 لفظ اونیا سے مراد اولیا فی النصرۃ والمعونتہ ( ورثہ) بھی دوسرے مفہوم کے اعتبار سے اس آیت میں ہیں بھائی چارے کی طرف اشارہ ہوگا جو ہجرت کے بعد نبی صلعم نے مہا جرین (رض) اور انصار کے درمیان قائم کیا اور جس کی بنا پر رواج جاہلیت کے مطابق ایک دوسرے کے وارث بنتے تھے یہاں تک کہ میراث کی آیت نازل ہوئی اور یہ طریقہ منسوخ ہوگیا۔ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ مہاجرین اور انصار کی بہت سی آیات میں تفریف کی گی ہے مگر علما نے اس پر اجماع ہے کہ مہاجرین انصار سے افضل ہیں۔ ( ابن کثیر) مثلا پر حملہ کرسکتے ہو۔ ( ابن کثیر۔ ( ف 7 کہ آپس میں ایک دوسرے سے جنگ نہ کریں گے، تم معاہدہ کر پس پشت ڈالتے ہوئے ان کی مدد نہیں کرسکتے بلکہ ان مسلمانوں سے یہی کہا جائے گا کہ دارالکفر کو چھوڑ کر دارالا سلام میں چلے آئیں۔ ( از (وحیدی) فگ الانفال
73 8 یعنی کفار سے ترک موالات ( دوستی و میراث) اور باہم دوستی وتعاون۔ حدیث میں ہے کہ کافر اور مسلمان ایک دوسرے کے وارث نہیں ہو سکتے۔ ( ابن کثیر) ف 9 یعنی آئے دن جنگ رہیگی اور رات دن کے اور میرث کے دعوے چلتے رہے گے۔ مطلب یہ ہے کہ کافر اور مو منوں کے باہم موالات اور مل جل کر رہنے سے امنب قائم نہیں رہ سکتا ( ابن کثیر ) الانفال
74 ف 10 انکے مقابلے میں جو لوگ دارالاسلام قائم ہوجانے کے باوجود اس کی طرف ہجرت نہ کریں اور کافروں کی غلامی میں رہنے پر قانع ہوں ان اسلام کچاہے۔ شاہ صاحب فرماتے ہیں۔ کہ دنیا میں عزت کی روزی سے مرادمال غنیمت اور فے ہے جو خالص ان لوگوں کو حق ہے جو سردرار کے ساتھ شریک جنگ ہوں ( موضح) الانفال
75 ف 11 یعنی جنگ بدر کے بعد اس وقت جب اسلام ایک طاقت بن گیا یا صلح حدیبیہ کے ہجرت کی۔ بہر حال اس سے ہجرت اولی ٰکے بعد کے مہاجرین (رض) مراد ہیں جن کا ذکر والذین اتبعو ھم باحسان ( تو بہ : 100) میں مذکور ہے وھذاھوالا صح۔ ( روح) آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں جو مومن تھے یہ ان کی چوتھی قسم ہے۔ اول مہاجرین (رض) اولین دوم انصار (رض) ، سوم وہ مسلمان جو دارالکفر میں رہے اور انہوں نے نے ہجرت نہیں کی چہارم جنہوں نے ہجرت اولی کے بعد ہجرت کرلی اور پھر جہاد میں مسلمانوں کے برابر شریک رہے، ( از کبیر) ف 12 یعنی مہاجرین اور لین اور انصار کے ساتھی شمار ہوں گے، دنیا یا میں آخرت میں جیساکہ متفق علیہ بلکہ متواتر حدیث میں ہے۔ المرمع من احب کہ قیامت کے دن انسان اسی کے ساتھ اٹھے گا جس سے محبت اور دوستی رہی ہے۔ ( ابن کثیر ) ف 1 یعنی اب آئندہ سے میراث دینی بھائی چارے کی بنا پر بلکہ رشتہ داری کی بنا پر تقسیم ہوگی، اس سے وہ آیت منسوخ ہوگئی جس میں مہاجرین انصار کو ایک دوسرے کا وارث ہونا قرار دیا گیا تھا۔ (ابن کثیر) ف 2 وہی جانتا ہے کہ کس کا حق مقدم اور کس کا حق مئوخر ہے۔ لہذا اس کے تمام احکام سراسر علم و حکمت پر مبنی ہیں الانفال
1 ف 3 یہ پوری کی پوری سورت مدنی ہے جو فتح مکہ کے بعد نازل ہوئی چونکہ رسوۃ توبہ اور سورت انفعال میں ذکر ہونے والے واقعات ایک دوسرے کو ایک سورت کا حکم میں رکھا گیا ہے اور ام دو نو کے درمیان بسم اللہ نہیں لکھتی گئی اوری سبع طوال میں ساتویں سورۃ ہے۔ اس کے متعد نام ہیں جن میں سے مشہور دو میں ایک التو نبہ اور دوسرابراۃ تو نہ اس اعتبار سے کہ اس میں ایک مقام پر بعض اہل ایما کی توبہ قبول ہونے کا ذکر ہے اور برا ۃ اس لحاظ سے کہ اس کے شروع میں مشرکین سے برات کا اعلان کیا گیا ہے نیز اس کو سورۃ العذاب، سورۃ العذاب، سورۃ الفا ضحہ اور الحافرۃ بھی کہا جاتا ہے۔ اس سورۃ کے آغاز میں بسم اللہ الرحمن الر حیم، نہیں لکھی جاتی، اس کے مفسرین (رح) نے متعدد دو جوہ بیان کئے ہیں مگر سب سے معقول اور سیدھی سادھی بات یہ ہے کہ چونکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے شروح میں بسم اللہ نہیں لکھوائی اس لئے صحابہ (رض) کرام نے نہیں لکھی، صحیح روایا میں ہے کہ جب یہ سورۃ نازل ہوئی تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (رض) کو بھیجا جنہوں نے نکہ معظمہ پہنچ کر حج کر موقعہ پر مشرکین کو کہ سورۃ سنائی اور اس کے ساتھ چاچیزوں کا اعلان کیا۔ (1) جنت میں کوئی غیر مومن داخل نہ ہوگا۔ (2) کوئی شخص ننگا ہو کر خانہ کعبہ کا طواف نہ کرے۔ (3) اس سال کے بعد کوئی مشر کین حج کے لیے نہ آئے اور (4) جن لوگوں سے اللہ تعالیٰ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا معاہدہ موقت ہے اور انہوں نے اس کی خلاف ورزی نہیں کی ان کے ساتھ مدت معاہدہ تک وفا کی جائیگی اور جن سے معاہدہ نہیں ہوا یا جنہوں نے خلاف ورزی کی ہے انہیں چار ماہ کی مہلت ہے۔ ( ابن کثیر، کبیر) ف 4 یعنی اب معاہدہ ختم ہو اور دوستی کے تعلقات کٹ گئے۔ ) ( وحیدی ) التوبہ
2 ف 5 ی اعلان ایام حج 10 ذی الحجہ 9 ھ کو کیا گیا گو یا اس وقت سے 10 ربیع الثانی 10 ھ تک ان کو مہلت دی گئی کہ اس میں اپنے معاملے پر اچھی طرح غور کرلیں لڑنا ہے و لڑائی کے لیے تیار ہوجائیں، ملک چھوڑ کر جانا ہے تو مدت ختم ہونے سے پہلے پہلے نکل جائیں اور اگر اسلام لانا ہے و اسلام لے آئیں۔ التوبہ
3 ف 6 یوم الحج الا کبر۔ ( بڑے حج کے دن) سے مراد 10 ذی الحجہ ہے جس دن حاجی منیٰ میں آکر قربانی کرتے ہیں۔، حضرت علی (رض) سے روایت ہے کہ میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا کہ بڑے حج کا دن نو نسا ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قربانی کا دن (ترمذی) حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ حجتہ الوداع میں قربانی کے دن نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جمرات کے درمیان کھڑے ہو کر لوگوں سے دریافت فرمایا کہ آج کونسا دن ہے ؟َ لوگوں نے جواب دیا کہ قربانی دن فرمایا یہی بڑے حج کا دن ہے۔ ( ابوداؤد۔ ابن ماجہ) ف 7 یعنی کسی قسم کا معاہدہ یا دوستی ان سے نہیں۔ التوبہ
4 ف 8 ان کے لیے چارمہینوں کی میعاد نہیں ہے۔ التوبہ
5 ف 9 یعنی وہ چار مہینے ان کی ان مشرکین کو مہلت دی گئی تھی، ابن عباس (رض) نے فرمایا مراد وہی ادب کے مہینے ہیں یعنی رجب، ذوالحج اور محرم کی آخری تایخ تک ان کو مہلت ہے۔ شروع صفر سے ان کے خلاف جنگ ہے۔ ( وحیدی) ف 1 گھات کی جگہ سے مراد وہ راستہ ہے یا جگہ ہے جہاں سے دشمن کے گزر نے کی تو فیق ہو اور جہاں سے اس پر حملہ کر کے اس کا کام تمام کرنا ممکن ہو۔ مطلب یہ ہے کہ ان مشرکین سے صرف میدان جنگ میں لڑنا ہی کافی نہیں ہے بلکہ جس طریقے سے بھی تم ان پر قابو پاکر انہیں قتل کرسکتے ہو ضرور قتل کرو، ( کبیر) ف 2 شاہ صاحب اپنے فوائد میں لکھتے ہیں : جن وہ عدم ٹھہر گیا تھا اور دغاان سے نہ دیکھی ان کی صلح قائم رہی اور جن سے وعدہ کچھ نہ تھا ان کو فرصت ملی چا رمہینے۔ اور حضرت نے فرمایا دل کی خبر اللہ کو ہے۔ ظاہر میں جو مسلمان ہو وہ سب کے برابر امان میں ہے اور ظاہر مسلمان کی حد ٹھہری ایمان لانا کفر سے توبہ کرنا اور نماز اور زکوٰۃ، اس واسطے جب کوئی شخص نماز چھوڑ دے یا زکوٰۃ، تو پھر اس سے امان اٹھ گئی۔ ( مو ضح) یہی وہ مضمون ہے جسے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی اس حدیث میں بیان فرمایا ہے کہ مجھے حکم ملاہے کہ اس وقت تک لوگوں سے جنگ کروں جب تک وہ لا لہ الا اللہ محمد الر سول اللہ کی شہادت نہیں دیتے نماز قائم نہیں کرتے اور زکوٰۃ ادا نہیں کرتے، ( صحیحین بروایت حضرت عمر (رض) اور یہی وہ آیت اور حدیث ہے جس سے حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے ان مانعین زکوٰۃ سے جنگ کرتے تھے لیکن زکوٰۃ ادا کرنے سے انکای تھے، حضرت صدیق اکبر استدلال یہ تھا کہ اس آیت اور حدیث میں تعرض نہ کرنے کے لیے تین چیزوں کا بطور شرط ذکر کیا گیا ہے، لوگ شرک وکفر سو تو بہ کریں یعنی لا الہ اللہ محمد رسول اللہ کی شہادت دیں نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں، اب جب یہ لوگ ان تین شرطو میں سے ایک شرط کو پورا کرنے سے انکار کر رہے ہیں تو ان سے جنگ کرنا واجب ہے۔ ( مختصر ازابن کثیر ) التوبہ
6 ف 3 یعنی انہیں اسلام کی حقیقت معلوم نہیں اس لیے اگر کبھی کرئی حربی کافر تم سے یہ درخواست کرے کہ مجھ اپنے ہاں پناہ دو تاکہ میں قرآن سنوں اور اسلام کے متعلق سمجھ حاصل کروں تو تمہیں اسے پناہ دے دینی چاہیے اب اگر وہ اسلام لانے کے لیے آمادہ نہ ہو اور اپنے ٹھکانے پر واپس جانا چاہے تو تم اسے اس کے ٹھکانے پر پہنچادو۔ پھر جب وہ اپنے ٹھکانے پر پہنچ جائے تو دوسرے مشر کین کی طرح اسے مارنا اور قتل کرنا بھی جائز ہے اس سے پہلے جائز نہیں یہ حکم ہمیشہ کے لیے ہے۔ ( ابن کثیر ) التوبہ
7 ف 4 یا ان کا عہد کیونکر عہد ہوسکتا ہے وہ تو بے ایمان ہیں جب بھی عہد کرتے ہیں اسے توڑ ڈالتے ہیں۔ ( وحیدی) ف 5 یعنی صلح حدیبیہ جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور کفار قریش کے درمیان دس سال کے لیے قرار پائی۔ یہ صلح نامہ چونکہ حدود حرم کے اندر طر پایا تھا اس لیے اسے عندالمسجد الحرم فرما دیا۔ ( ابن کثیر) ف 6 یعنی ان سے قتال نہ کرو چنانچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس معاہدہ پر قائم ر ہے۔ اس معاہدہ میں شرط یہ تھی کہ ایک دوسرے پر حملہ آور نہیں ہوں گے اور نہ دوسرے کے خلاف کسی کی مدد کریں گے۔ اس معاہدہ میں بنو خزاعہ مسلمانوں کے ساتھ شامل تھے اور بنو بکر قریش کے حلیف تھے مگر کچھ عرصہ بعد بنو بکر اور بنو خز اعہ کے مابین لڑائی چھڑگئی اور مشرکین نے معاہدہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بن خزاعہ کے خلاف بنو بکر کی مدد کی، یہ چنانچہ معاہدہ کی صریح خلاف ورزی تھی اس لیے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رمضان 8 ھ کو مکہ پر حملہ کر کے اسے فتح کرلیا۔ ( ابن کثیر) شاہ صا حب فرمتے ہیں کہ صلح والے تین قسم فرمائے ایک جن سے مدت نہیں ٹھہری ان کو جواب دیا کہ تم کو چار ماہ کی مہلت دی جاتی ہے) مگر فو کے کی صلح میں شامل تھے تو جب تک وہ دغانہ کریں یہ ادب ہے مکہ کا اور تیسرے جن سے مدت ٹھہری وہ صلح قائم رہی لیکن آخر سب مشرکیہن عرب ایمان لائے۔ ( مو ضح) ف 7 اور عہد کا پورا کرنا بھی پر ہیز گاری کے لیے ضروری شرط ہے۔ ( وحیدی) التوبہ
8 ف 8 مشرکین سے برات کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ان کے معاہدہ کا کوئی اعتبار نہیں۔ یہ لوگ زبان سے دوستی اور وفاداری کی میٹھی میٹھی باتیں کرتے ہیں اور دل میں یہ ہے کہ اگر کبھی موقع مل جائے تو معاہدہ کو پس پشت ڈال کر ان مسلمانوں کو کچا چبا ڈالیں۔ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں الال کے معنی قرابت اور ذمہ کے معنی عہد کے ہیں۔ ( ابن کثیر ) التوبہ
9 ف 9 یعنی یہ تو وہ لوگ ہیں جنہوں نے دنیا کی چند روزہ زندگی کے مفاد کی خاطر اللہ تعالیٰ کے احکام کر رد کردیا۔ پھر اسی پر اکتفا نہیں کیا کہ خود اسلام کی راہ اختیار نہ کی بلکہ دوسروں کو بھی اسلام کی راہ اختیار کرنے سے رو کتے رہے۔ ( از شو کانی ) التوبہ
10 ف 10 یعنی عہد شکنی اور زیادتی جب بھی ہوئی ہے انہیں کی طرف سے ہوئی ہے۔ کہتے ہیں کہ اوپر کی آیات تمام مشرکین کے بارے میں تھی اور یہ آیت خاص یہود کے حق میں ہے۔ ( وحیدی) التوبہ
11 ف 1 انہیں اسلامی معاشرہ میں وہ تمام حقوق حاصل ہوں گے جو دوسرے مسلمانوں کو حاصل ہیں۔ حضرت شاہ صا حب لکھتے ہیں یہ جو فرمایا کہ بھائی ہیں حکم شرع ہیں۔ اس میں سمجھ لیں کہ جو شخص قرائم سے معلوم ہو کہ ظاہر میں ج مسلمان ہے اور سل سے یقین نہیں رکھتا تو چاہے اسے حکم سے ظاہری میں مسلمان گنیں مگر معتمد اور دوست نہ پکڑیں،) مو ضح) ف 2 سمجھ دار لوگوں سے مراد وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا انجام سمجھتے اور اپنے دلوں میں اللہ کا خوف رکھتے ہیں۔ ایسے ہی لوگ ہیں جو اس کی بیان کردہ آیات سے صحیح فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ ( وحیدی) التوبہ
12 ف 3 یعن جن لوگوں کی حالت یہ ہو کہ وہ صرف تم سے معاہدہ کر کے اسے توڑ تے ہوں بلکہ تمہارے دین کا مذاق بھی اڑاتے ہوں تو سمجھ لو کہ ایسے ہی لوگ ائمتہ الکفر، ( کفر کے سردار) ہیں ان کی قسموں کا کوئی اعتبار نہیں لہذا تم ایسے لوگوں کو کسی قسم کو موقع دیئے بغیر پرسر پیکار ہوجاؤ شاید تمہاری تلواریں ہی انہیں ان کے کرتوتوں سے باز رکھ سکیں۔ معلوم ہوا کہ دین اسلام پر طعن کرنے والا اور پیغمبر ( علیہ السلام) کی اہا نت کرنے والا واجب القتل ہے۔ ( ابن کثیر ) التوبہ
13 ف 4 اوپر کی آیت میں ائمہ کفر کے ساتھ مقاتلہ کا حکم تھا۔ اب اس آیت میں اس مقاتلہ کے وجوہ واسباب کی طرف اشارہ کرتے ہوتے تین اسباب بیان فرمائے ہیں۔ نقض عہد کی صلح حدیبہ ہوجا نے کے بعد بھی ہو بنو خزاعہ کے خلاف ( جو مسلمانوں کے حلیف تھے) بن بکر کی پیٹھ ٹھو نکتے اور اسلحہ وغیر سے ان کی مدد کرتے رہے حلا نکہ ان کا ایسا کرنا صلح کے معاہدہ کی صریح خلاف ورزی تھی اور جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ میں تھے تو ملک سے نکال دینے کے لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف منصوبے سوچتے رہے جیسا کہ سورۃ انفعال آیت 30) میں گزر چکا ہے اور پھر بدر کے موقع پر جب ان کا تجارتی قافلہ گیا بچ گیا تھا تو انیں واپس چلاجا چاہیے تھا لیکن یہ نہیں گئے اور انہوں نے خواہ مخواہ جنگ چھیڑ ی۔ ف 5 کیونکہ نفع ونقصان اس کے ہاتھ میں ہے اور جب وہ لڑنے کا حکم دے رہا ہے تو تمہیں ضرور لڑنا چاہیے ( وحیدی ) التوبہ
14 التوبہ
15 ف 6 ان دو آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے پانچ وعدے فرمائے جو سب کے سب پورے ہوئے۔ فاللہ الحمد۔ ( وحیدی) ف 7 چنانچہ قریش کے سراداروں اور عام لوگوں میں کتنے ہی ایسے ہیں جنہیں فتح مکہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے توبہ کی تو فیق دی اور وہ مسلمان ہوئے جیسے عکرمہ بن ابی جہل م ابو سفیان اور سہیل بن عمرو وغیر ھم۔ ( وحیدی) التوبہ
16 ف 8 یعنی انتائی محبوب اور دوست، اس شرط کے ذکر سے مقصد یہ ہے کہ جہاد تو منافق بھی شریک ہوجاتے ہیں مگر یہ جہاد مقبول نہیں ہوتا تا وقتیکہ ظاہر وہ باطن میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خیر خواہی نہ ہو۔ ( ابن کثیر) ف 9 مطلب یہ ہے کہ تمہیں یقینا آزمائش کی بھٹی سے گزار کر رہے گا تاکہ پتہ چل جائے کہ تم میں وقعہ کون سچا اور مخلص تھا اور کون جھوٹا اور منا فق اشارہ ہے اس طرف کہ جہاد کی مشرو عیت کی ایک حکمت مومنین ثابت قدمی کو جا نچنا بھی ہے، یہ معنی نہیں ہیں کے بغیر کوئی جنت میں داخل نہیں ہو سکے گا، ( نیز دیکھئے سوہ عنکبوت آیت 1۔3 و آل عمران آیت 179) التوبہ
17 ف 1 یا ایسے کام کرتے ہیں جن سے ان کا مشرک ہونا صاف معلوم ہوجاتا ہو۔ جیسے بتوں یا قبروں یا ستاروں کی پوجا کرنا یا زبان ایسی باتیں نکالتے ہوں جو صریحا شرک ہیں جیسے قریش جب تلبیہ کرتے تو یوں کہتے : لبیک لا شریک لک الا شریکا ھو لک تملکہ وما ملک ( اللہ ہم حاضر ہیں تیرا کوئی شریک نہیں، مگر وہ شریک کا تو مالک ہے اور وہ کسی چیز کا مالک نہیں ہے۔ ( وحیدی) مطلب یہ ہے کہ مسجدیں جو اللہ تعالیٰ کے نام پر اراسی کی عبادت کے لیے بنی ہیں مشرکین کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ انہیں آباد رکھیں ج اور ان کے متولی یا خادم بن کر ان پر اجارہ داری قائم کریں، یہ حکم اگرچہ تمام مساجد کے متعلق ہے مگر یہاں مسجد حرام مراد ہے جو اس وقت مشرکین کے قبضہ میں تھی۔ یعنی مسلمانوں کو چاہیئے کہ اس پر سے ان کی اجارہ داری ختم کرنے کے لیے کوئی کسر اٹھانہ رکھیں۔ ف 2 یعنی انہوں نے اگر کچھ نیک کام کئے بھی ہیں جیسے مسجد حرام اور حاجیوں کی خدمت وغیرہ تو ان کے شرک کی وجہ سے وہ سب اکارت گئے۔ ( ابن کثیر ) التوبہ
18 ف 3 یعنی انہی لوگوں کو ان کی تولیت کا حق پہنچتا ہے اور وہی ان کے خادم اور آبادی کارہو سکتے ہیں بعض احادیث میں بھی انما عمار والمساجد ھم اھل اللہ کہ مساجد کے آباد کار تو اہل اللہ ہی ہو سکتے ہیں۔ مسجدیں تعمیر کرنے انہیں آباد رکھنے اور ان میں عبادت کے لے بیٹھنے کی احادیث صحیحہ میں بہت فضیلت آئی ہے مثلا ایک حدیث میں ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب تم کسی کو باربار مسجد کی طر آتے جاتے دیکھو تو اس کے مومن ہونے کی شہادت دو۔ ترمذی۔ دوسری حدیث میں ہے جو شخص اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے مسجد بنائے گا اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنائے گا۔ ( بخاری مسلم ) التوبہ
19 ف 4 یعنی یہ کام گو فضیلت کے ہیں مگر ایمان باللہ اور جہاد کے مقابلے میں کچھ حثیت نہیں رکھتے اور پھر ایمان کے بغیر یہ مقبول بھی نہیں، ( کبیر) مشرکین مکہ کو اس بڑا فخر تھا کہ ہم کعبہ کے متولی ہیں حاجیوں کی خدمت کرتے ہیں۔ لہذا مسلمانو جہاد اور ہجرت کی وجہ سے ہم سے افضل نہیں ہو سکتے۔ چنانچہ جنگ بدر کے بعد حضرت ابن عباس (رض) قید ہو کر آئے تو ان کی حضرت علی (رض) سے اس قسم کی بحث بھی ہوئی۔ حضرت اعباس (رض) کہنے لگے، اگر تم ایمان جہاد اور ہجرت میں ہم سے سبقت رکھتے ہو تو ہم اس کے مقابلے میں مسجد حرام کی خدمت کرتے اور حاجیوں کو پانی پلاتے رہے ہیں پس تم ہم سے کسی صورت افضل نہیں ہو سکتے۔ بعض روایات میں ہے کہ ایک جمعہ کو چند مسلمان نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے منبر کے پاس اس مسئلہ میں بحث کرنے لگے، ایک نے کہا کہ مسلمان ہونے کے بعد حاجیوں کو پانی پلانے سے بہتر کوئی عمل نہیں۔ دوسرا کہنے لگا کہ میرے نزدیک مسجد حرام کی خدمت افضل ہے تیسرے نے کہا۔ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد تمام عبادات واعمال سے افضل ہے۔ آخرت کار حضرت عمر (رض) نے ان لوگوں کو ڈانٹا اور خاموش کرایا،۔ پھر جمعہ کے بعد ان لوگوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہی مسئلہ پوچھا تو یہ آیات نازل ہوئیں، اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مشرکین اور ان تمام لوگوں کارد فرمایا جو خانہ کعبہ اور حاجیوں کی خدمت کو ایمان اور اور جہاد فی سبیل اللہ کا ہم مرتبہ سمجھتے تھے کیونکہ ایمان تو ہر چیز کی روح اور اصل ہے اس کے بغیر کسی بڑے سے بڑے عمل کا بھی اعتبار نہیں ہے اور جہاد سے سچے اور جھوٹے مسلمان کے مابین تمیز ہوجاتی ہے اور یہ دین کی حٖفاظت اور اعلا کلمتہ اللہ کا واحد ذریعہ ہے اس لیے اس کا درجہ ایمان کے بعد سب سے زیادہ ہے۔ ( ابن کثیر، و کبیر ) التوبہ
20 ف 5 رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رفاقت میں اپنے گھر بار اور رشتہ داروں کو چھوڑا۔ (وحیدی ) ف 6 اس آیت میں مہاجرین کی بڑی فضیلت ثابت ہوتی ہے جن میں سے حضرت ابو بکر (رض)، عمر (رض)، عثمان (رض)، علی (رض)، ابو عبیدہ (رض)، بن جراح، طلحہٰ (رض) زبیر (رض) اروبہت سے دوسرے صحابہ کرام شامل ہیں، قرآن خود ان کے آخرت میں فا ئز وسر خرو ہونے کی شہادت دے رہا ہے معلوم ہوا کہ جو لوگ انہیں بر بھلا کہتے اور ان پر لعنت بھیجتے ہیں وہ خود لعنتی اور نامراد ہیں۔ (وحیدی) التوبہ
21 التوبہ
22 ف 7 جب مالک خود ان لوگوں سے راض اور انہیں اپنی رحمت اور جنت کی خوشخبری دے رہا ہے تو ڈوب مر نا چاہئے۔ ان لو گو کو جو ان کے خلاف اپنی زبانیں کھولتے ہیں۔ اگر ان میں ذرہ بھر بھی غیرت اور شرم وحیا ہے۔ ورنہ سیدھی طرح اپنی بدتمیزی اور گستاخی سے تو بہ کر کے ان کا وہ مقام تسلیم کرنا چاہیے جو اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو دیا ہے۔ ( کذافی الو حیدی) التوبہ
23 ف 1 یعنی بعض لوگ دل سے مسلمان ہیں لیکن برادری سے تعلق توڑ بھی نہیں سکتے کہ اپنے اسلام کا اعلان کردیں ان کا حال یہاں سے سمجھو۔ ( از مو ضح ) التوبہ
24 ف 2 یہ دونوں آیتیں مسلمانوں کے کسی خاص گروہ یا واقعہ سے متعلق نہیں ہیں بلکہ عام اور ہر زمانے کے لیے ہیں۔ ان میں تمام مسلمانوں کے یہ تعلیم دی گئی ہے کہ اللہ و رسول ( علیہ السلام) کی محبت انہیں دنیا کی ہر چیز سے زیادہ ہونی چاہیے حتی کہ اگر کبھی ایساہو کہ ایک طرف اللہ و رسول کا حکم ہو اور دین اسلام کو بچا نے کے لیے جان ول مال سب کچھ قربان کردینے کی ضرورت ہو اور دوسری طر ما باپ اور دیگر خویش وقارب کی محبت ہو اور مالی دوسرے دنیوی مفادات و خطرات سدراہ ہو رہے ہوں تو مسلمان کافرض ہے کہ وہ ہر شخص اور ہر مصلحت سے بے پرواہ ہو کر اللہ و رسول ( علیہ السلام) کے حکم کی پیروی کرے اور کوئی دینوی مفاد یا خطرہ ایسا نہیں ہونا چاہیے جو اسے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے سے باز رکھ سکے۔ ورنہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہر آن ہر شکل میں عذاب آسکتا ہے مثلا دشمنوں سے مغلوب کر کے یا تم پر ظالم حکمران مسلط کر کے تمہیں ذلت ورسوائی میں مبتلا کر کے وغیرہ، یہی مضمون ہے جس کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی متعدد احادیث میں بار بار واضح فرمایا ہے، مثلا صحیح بخاری میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ تم میں سے اس کے والد، بیٹے اور تمام لوگوں سے بڑھ کر محبوب نہ ہوجاؤں۔ ( ابن کثیر )ْ حضرت عمر (رض) نے ایک مرتبہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سوائے اپنی جان کے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے دنیا کی ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں۔ اس پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک میں اسے اس کی جان سے بھی زیادہ محبوب ہوں فرمایا ہاں عمر (رض) اب تیرا ایمان معتبر ہے۔ ( بخاری) ایک مرتبہ صحابہ (رض) کرام کو جہاد کی تر غیب دیتے ہوئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب تم بیلوں کی دم پکڑ کر کھیتی باڑی پر راضی ہوجاؤ گے اور جہاد چھوڑ بیٹھو گے تو اللہ تعالیٰ پر ایسی ذلت مسلط کر دیگا جس سے اس وقت تک کبھی نہ نکل سو گے جب تک اپنے دین۔ جہاد فی سبیل اللہ کی طرف واپس نہیں آؤ گے۔ (ابن کثیر بحوالہ ابو داؤد) التوبہ
25 ف 3 حنین، مکہ معظمہ اور طائف کے درمیان ایک واد ہے۔ وہاں فتح مکہ (رمضان 8 ھ) کے ایک مابعد شوال 8 ھ میں مسلمانوں کی ہوازن، ثقیف، بنو جشم، بنو سعد اور بعض دوسرے قبائل سے جنگ ہوئی تھی ) ( ابن کثیر وغیرہ) ف 4 نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ دس ہزار مہاجرین (رض) اور انصار (رض) کا لشکر تھا جو فتح مکہ کے لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مدینہ سے آئے تھے اور دوہزار آدمی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ اہل مکہ ( طلقا) میں سے شامل ہوگئے تھے۔ اس طرح مسلمانوں کا کل لشکر بارہ ہزار لڑنے والوں پر مشتمل تھا جب کہ مقابلے میں دشمنوں کی تعداد صرف چار ہزار کے قریب تھی اس پر بہت سے مسلمانوں میں غرور کا جذبہ پیدا ہوگیا۔ حتی ٰ کہ بعض نے کہا آج ہم قلت تعداد کی وجہ سے مغلوب نہیں ہوں گے۔ یہ کلمہ اللہ تعالیٰ کو پسند نہ آیا۔ ( ابن کثیر۔ کبیر) فف 5 ہو یہ کہ ہوازن کے بہت سے لوگ کمین گوہوں میں چھپ گئے۔ جب دونوں فوجوں کا آمنا سامنا ہو اتو انہوں مسلمانوں پر پیچھے سے حملہ کردیا۔ یہ دیکھ کر مسلمان حواس باختہ ہوگئے اور ان میں سے اکثر بھاگ کھڑ ہوئے صرف 100 سو کے قریب مسلمان نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ رہ گئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچا عباس (رض) آپ کے خچر کی لاگا اور آپ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچا زاد بھائی ابو سفیان (رض) بن حارث آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رکاب تھامے رہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بلند آواز سے فرما رہے تھے الی عباد اللہ الی انا رسول اللہ۔ اللہ کے بندو ! میری طرف آؤمیں اللہ کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہوں اور کبھی فرماتے انا النبی لا کذب انا بن عبد المطلب ( میں اللہ کا سچا نبی ہوں میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں) تب بھاگنے والے مسلمانو پلٹنا شروع ہوئے۔ ( ابن کثیر ) التوبہ
26 ف 6 اس جنگ میں بھی جنود ( فرشتے) نازل ہوئے مگر تحقیق یہ ہے کہ یہ فرشتے کافروں پر عب ڈالنے کے لی اترے تھے، انہوں نے اس لڑائی میں عملا حصہ نہیں لیا تھا، لڑائی صرف بدر میں لڑی۔ (وحیدی) سائب بن یسار (رض) کہتے ہیں کہ یزید بن عامر سوائی نے جنگ حنین میں کافروں کا ساتھ دیا تھا۔ بعد میں وہ مسلمان ہوگئے تھے ہم جنگ حنین میں اس رعب کی کی کیفیت دریافت کرتے تو تو وہ ایک کنکری ٹب میں پھینک کر کہا کرتے کہ جس طرح یہ ٹن کی آواز آتی ہے اسی طرح کی آواز ہم اپنے پیٹوں میں محسوس کرتے تھے اور اس سے ہماری دل لرز جاتے تھے، و اللہ اعلم، ( ابن کثیر) التوبہ
27 ف 7 چنانچہ غزوہ حنین کے تقریبا بیس روز بعد ہوازن کے بقیہ لوگ مسلمان کے بقیہ لوگ مسلمان ہو کر جعرانہ کے مقام پر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے قیدی جو تقریبا چھ ہزار کی تعدان میں تھے انہیں واپس کردیتے ہیں لیکن مال واپس نہ کیا بلکہ اسے لڑنے والوں میں تقسیم فرمادیا۔ ( ابن کثیر ) التوبہ
28 ف 1 گندے ہونے یہ سے مراد نہیں ہے کہ ان کے بد ن گندے ہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ وہ عقائد اعمال اور اخلاق کے اعتبار سے گندے ہیں۔ اکثر علما نے سلف (رح) نے اس کا یہی مطلب بیان کیا ہے۔ ف 2 یعنی آئندہ سے حدود حرم میں بھی ان کا داخلہ سر سے بند ہے۔ اس سے صرف ذمی اور غلام مستثنیٰ ہیں جیسا کہ ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس سال کے بعد ذمی اور خدام کے سوا کوئی مشرک حرم میں داخل نہیں ہوسکتا۔ اس بنا پر 9 ھ کو حج کے موقع پر سورۃ تو بہ کے کی ابتدائی آیات کے ساتھ یہ اعلان بھی کیا گیا الا لا یحجن بعد العام مشرک ولایطون فن بالبیت عریان، کہ آئندہ کوئی مشرک حج میں شریک نہیں ہو سکے گا اور نہ کوئی ننگاہو کر طواف ہی کرسکے گا۔ اور نہ کوئی ننگا ہو کر طواف ہی کرسکے گا۔۔ صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ اس کے بعد آنحضرت نے مشرکین اور یہود ونصاری کو جزیرہ عرب سے نکال دینے کا حکم دے دیا تھا۔ چنانچہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آخرت وصیت کے مطابق حضرت عمر (رض) نے ان کو جزیرہ عرب سے خارج کیا۔ ( ابن کثیر، قرطبی) مسجد حرام میں تو مشرک داخل نہیں ہوسکتا۔ مگر دوسری مساجد میں کسی ضرورت کے مطابق مشرک داخل ہوسکتا، جیسا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بعض مشرکوں کو اپنی مسجد میں آنے کا اجازت دی تھی اور ثمامہ کو مسجد کو ستون سے باند ھنے کا وقعہ تو مشہور ہی ہے۔ ( از وحیدی) ف 3 برات کے اعلان سے بعض لوگوں کے دلوں میں اندیشہ پیدا ہوا کہ مشرکین جو سامان تجارت اور کاروبار کی بندش وغیرہ کا اندیشہ نہ کرو۔ ف 4 آئندہ کے لے اللہ تعالیٰ اسباب روزق کے دروازے کھول دیگا چنانچہ ایک تو جہاد کی و جہ سے غنیمت اور جزیہ کا بہت سال مسلمانوں کو حاصل ہو تو وہ مالدار ہوگئے اور پھر تمام غریب مسلمان ہوگئے اس لیے حج میں آنے والوں کی کمی بھی نہ ہوئی ( وحید) التوبہ
29 ف 5 مشرکین عرب سے مقاتلہ اور جہاد کا حکم دینے کے بعد اب اہل کتاب سے جہاد کا حکم دیا کیوں کہ وہ اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان نہیں رکھتے، اہل کتاب گو اللہ و آخرت پر ایمان کا دعویٰ کرتے تھے لیکن حقیقت میں اعتقادی عملی اعتبار سے ان کی حالت کھلے کھلے کافروں اور مشرکوں کی سی تھی۔ اگر واقعی ان کا اللہ پر ص صحیح ایمان ہوتا عیسائی ( علیہ السلام) کو اور یہود عزیز ( علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا قرار نہ دیتے۔ معلوم ہوا۔ ف 6 یعنی نہ وہ اس شریعت کو مانتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کے ذریعہ مقرر فرمائی ہے اور نہ دین حق کے تابع ہوتے ہیں۔ ف 7 یہ پہلی آیت ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اہل کتاب سے لڑنے کا حکم دیا، چنانچہ اس حکم کے مطابق آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شام کے نصاری ٰ سے لڑنے کے لیے غزوہ تبوک کی تیاری کی اور مسلمانوں کو تیار رہنے کی ہدایت فرمائی۔ یہاں تک کہ وہ ذلیل ہو کر اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ جہاد کا مقصد ان کو تلوار کے زور سے اسلام میں داخل کرنا نہیں ہے ہے بلکہ وہ اگر اطاعت قبول کرلیں اور جزیہ ادا کرتے ر ہیں تو اس کے عوض اسلامی حکومت ان کے جان و مال کی حفاظت کی زمہ داری ہوگی۔، اہل کتاب اور محبوس کے علاوہ دسرے غیر مسلموں سے جزیر کے قبول کرنے یا نہ کرنے میں علما اختلاف ہے۔ امام ابو حنیفہ (رح) کے نزدیک تمام غیر عرب کافروں اور مشر کوں سے جزیہ لیا جاسکتا ہے (وحیدی) التوبہ
30 ف 8 اوپر کی آیت میں دعویٰ کیا تھا کہ یہود ونصاری اللہ تعالیٰ پر ایمان نہیں رکھتے اس آیت میں اسی کی تشریح ہے۔ اس وقت یہود کے بعض فرقے عزیر کا اللہ تعالیٰ بیٹا مانتے تھے مگر موجود زمانے کے یہودی اس سے انکار کرتے ہیں۔ ف 9 یعی عقل و نقل سے اس کو کوئی دلیل پیش نہیں کی جاسکتی۔ ف 10 یعنی اہل کتاب ہو کر بھی مشرکوں کی ریس کرنے لگے (موضح) اور پہلی مشرک اور کافر قوموں کی طرح یہ بھی گمراہ ہوگئے۔ التوبہ
31 ف 11 یہ ان کے اوصاف قبیحہ کی دوسری قسم ہے اس معنی میں کہ جسے وہ حلال کہیں سے یہ حلال سمجھیں اور جسے وہ حرام کہیں سمجھیں جیسا کہ عد (رض) بن حاتم کی ایک روایت میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی یہی تفسیر بیان فرمائی ہے۔ ( ترمذی وغیرہ) بالکل یہی طرز علم فی زماننا مقلدین فقہا کا ہے۔ کہ قرآن و حدیث کے نصوح پر عمل کی بجائے اپنے ائمہ کے اقوال پر جمے رہتے ہیں۔ (رازی ) التوبہ
32 ف 1 اس آیت میں رؤسا یہود ونصاری ٰ کی تیسری صفت قبیحہ کا بیان ہے کہ وہ تحریک اسلام کو کچلنے کے لیے مختلف قسم کی سازشیں کر رہے ہیں۔ یہاں جھوٹی باتوں کو پھو نک مارنے سے تشبیہ دی گئی ہے اور اللہ تعالیٰ کے دن کو ( نور) یعنی چراغ سے، یا ان کے دلائل حقہ کو جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت ظاہر کر رہے تھے ان کو نور فرمایا ہے کیونکہ صدق وصواب کی طرف رہنمائی کرنے میں دلائل حقہ بھی نور یعنی روشنی کے مثل ہوتے ہیں۔ ( کبیر ) التوبہ
33 ف 2 اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کا دین اس لیے نہیں آیا کہ وہ دوسرے دین۔ یہودیت۔ عیسائیت، سرمایا داری ، کمیونزم، سوشلز ،۔ سے مغلوب ہو کر یا اس سے مصلحت کر کے دنیا میں زندہ رہے بلکہ دین اسلام کا اول و آخرت یہ ہے کہ وہ دوسرے ادیان اور نظام مہائے زندگی کو ختم کر کے ایک ہمہ گیر نظام زندگی کی حیثیت سے زندہ رہے۔ یہاں ظہور غلبہ سے مراد دلائل و براہین کا غلبہ بھی ہوسکتا ہے اور سیاسی غلبہ بھی۔ پہلی قسم کا ظہور تو دائمی مگر دوسری قسم کا ظہور ایک مرتبہ تو ہم دور نبوت وخلافت میں دیکھ چکے ہیں اور دوسری بار اس وقت ہوگا جب عیسیٰ ( علیہ السلام) کا نزول اور حضرت امام مہد کا ظہور ہوگا۔ ( کبیر، ابن کثیر ) التوبہ
34 ف 3 رشوت لے کر غلط مسئلے بتاکر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق بشارتوں کو چھپا کر اور ان کو غلط معنی پہنا کرلو گوں کو دین کی حفاظت اور تبلیغ دین کا چکمہ دے کر۔ امام رازی (رح) فرماتے ہیں۔ فی زمانا وہ بھی بہت سے علما اور مشائخ اسی طرح کے حیلے حوالوں سے لوگوں کے مال ہضم کر رہے ہیں ،۔ ( کبیر، ابن کثیر) ف 4 ان سے مراد یہود ونصاری ٰ کے علما بھی ہو سکتے ہیں جن کا بیان پہلے سے چلا آرہا ہے اور عام لوگ بھی ( کبیر) کنز کے معنی مال جمع کرنے کے ہیں اور اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنا یہ ہے کہ زکوٰۃ ادا کرے ضرورت مند کو قر ض دے اور حق دار کا حق ادا کرتار ہے۔ ( از مو ضح) ف 5 بعض صحابہ (رض) جیسے ابو ذر غفاری (رض) نے اس آیت کی روسے مطلق مال جمع کرنے کو حرام قرار دیا ہے۔ مگر جمہور صحابہ (رض) جیسے حضرت عمر (رض)، ابن عمر (رض)، ابن عباس (رض)، جابر (رض) اور حضرت ابو ہر یرہ (رض) اس طرف گئے ہیں کہ جس ما کی زکوٰۃ دے دی جائے وہ اس وعید کے تحت نہیں آتا حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ مطلق مال جمع کرنے پر یہ وعید اس وقت تھی جب زکوٰۃ فرض نہیں ہوئی تھی۔ پھر زکوٰۃ فرض کر کے اللہ تعالیٰ نے اسے مالوں کی پاکیز گی کا ذریعہ بنا دیا ( بخاری مسند احمد ) التوبہ
35 ف 6 اسی مضمون کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث میں یوں بیان فرمایا ہے : جو شخص سونے چاندی کا مالک ہو کر اس کی زکوٰۃ ادا نہیں کرتا اس کے لیے اسی مال کی سلاخیں بنائی جائیں گی جنہیں آگ میں گرم کر کے اس کے دونوں پہلوؤں، پیشانی اور پیٹھ کو داغا جائے گا۔ یہ سب کچھ ایک ایسے دن میں ہوگا جو پچاس ہزار سال لمبا ہوگا۔ ( بخاری مسلم ) التوبہ
36 ف 7 یہود ونصاری ٰ کی طرح مشرکین عرب بھی تغییر احکام کے لیے حیلہ سازی سے کام لیتے تھے مثلا دین ابراہیم ( علیہ السلام) میں یہ سنت چلی آرہی تھی کہ حرمت کے مہینوں میں لڑائی اور ظلم وزیادتی ممنوع تھی حتی ٰ کہ ان مہینوں میں کوئی شخص اپنے باپ کے قاتل سے بھی تعرض نہ کرتا تھا۔ مگر عرب کے بعض قبائل نے ان مہینوں میں لڑائی اور لوٹ ما کرلیتے تھے۔ قرآن نے ان کی تردید کرتے ہوئے فرمایا کہ سال کے بارہ مہینے ہیں اور ان میں چار مہینے حرمت کے ہیں۔ سال میں بارہ مہینے ہیں اور ان میں چار مہینے حرمت کے ہیں۔ سا میں بارہ مہینے کی تصریح کی وجہ بیان کرتے ہوئے بعض نے لکھا ہے کہ عرب میں قمری مہینے رائج تھے جن کے حساب سے سال 355 دن کا ہوتا ہے، مگر شمسی حساب سے سال کے 365 دن بنتے ہیں، عرب لوگ قمری حساب کو شمسی حساب کر مطابق کرنے کے لیے کچھ عرصہ کے بعد سال قمری کو 13 مال کا قرار دے لیتے اور اسے کبیہ کہتے تاکہ کا روبار اور حج کے لیے منا سب مو سم نکل آئے۔ قرآن نے ان کی تردید کی۔ ( کبیر۔ ابن کثیر) ف 8 یعنی رجب، ذوالحجہ اور محرم، جیسا کہ احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ ان چا رہ مہینوں کی عرب بہت تعظیم کرتے تھے۔ ان میں ج لڑائی حرام سمجھتے۔ ( ابن کثیر) ف 9 یا یہ کہ صحیح حساب ہی یہ ہے یعنی ان چار مہینوں کا ادب کرنا اور سال میں بارہ مہینوں کا ہونا (رازی) ف 10 جنگ کر کے گناہ کر کے مطلب یہے کہ، ان مہینوں کی حر مت بر قرار رکھو اور ان میں لڑنے جھگڑنے، خونریزی اور گناہ کرنے سے پر ہیز کرو۔ ( کبیر) ف 11 یعنی ان سے خود لڑائی میں پہل نہ کرو لیکن اگر مشرکین لڑنے سے باز نہ آئیں تو سب مل کر ان سے لڑو جس طرح وہ ملکر تم سے لڑتے ہیں، بعض مفسرین (رح) نے فیھن کی ضمیر سے تمام مہینے مراد لیے ہیں اس لیے وہ حرمت کے مہینوں مراد لیے ہیں اس لیے وہ حرمت کے مہینوں میں بھی مقاتلہ جائز قرار دیتے ہیں اور لکھا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود طائف کا محاصرہ ذولقعدہ میں کیا تھا مگر یہ رائے صحیح نہیں کیونکہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے طائف کا محاصرہ جیساکہ صحیحین میں ہے شوال میں شروع کیا اور ذوالقعدہ تک جاری رہا اور یہ جائز ہے۔ ( فتح القدیر) التوبہ
37 ف 1 زمانہ جاہلیت میں مشرکین ان چار مہینوں کی حرمت کے قائے ل تھے مگر ضرورت پڑنے پر حیلہ سازی کرتے اور کسی حرام مہینے میں جنگ کرنے پڑتی تو اسے سرکا کر اس کی جگہ کوئی اگلا غیر حرام مہینہ رکھ دیتے اور اسے م نسیئی کہتے اور حج کے موقع پر اس کے علان اکا اختیار بنو کنانہ کو تھا۔ چنانچہ آخر میں ابو ثمامہ جنا دہ بن عوف کنانہ یہ اعلان کیا کرتے تھے۔ حافظ ابن کثیر (رح) لکھتے ہیں یہ نسیئی کی رسم صرف محرم اور صفر کے مہینوں میں ہوتی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اسے زیادۃ فی الکفر فرماکر اس کی تر دید فرمائی ( کبیر) ف 2 سال میں چار مہینوں کی گنتی پوری کرلیں۔ آگے پیچھے ہوجائیں تو کوئی ہرج نہیں۔ ( وحیدی) ف 3 محرم کو سرکا کر صفر کی جگہ رکھ لیا تو گو یا انہوں نے محرم کے حلال قرار دے لیا۔ اب جب صفر کو محرم کی جگہ رکھ لیا اور اگلہ مہینہ محرم ہوا گو یا نیا سال شروع ہوگیا کبیہ کی رسم سے سال کے چودہ مہینے بھی ہوجاتے۔ ( وحیدی ) التوبہ
38 ف 4 یعنی نکلنے سے ہچکچاتے ہو اور گھروں میں بیٹھے رہنا پسند کرتے ہو، کفار کے قبائح بیان فرمایا کہ جب ان کے خلاف جہاد ضروری ہونے کے اتنے اسباب موجود ہیں اور اس میں فوائد بھی ہیں تو پھر محض دنیا کے حقیر مفاد کی خاطر جہاد نہ کرنا انتہائی کمزوری ہے ( کبیر) علمانے تفسیر (رح) اس پر متفق ہیں کہ اس آیت میں ان لوگوں پر عتاب ہے جنہوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ غزوہ تبوک کے لیے نکلنے میں پس وپیش کی تھی۔ وا ضح رہے کہ غزوہ تبوک کا واقعہ فتح مکہ کے بعد 9 ھ میں طائف سے واپسی پر پیش آیا۔ ان دنوں سخت گرمی کا موسم تھا اور کھجوریں پک رہی تھیں اس لیے بعض نام کے مسلمان جہاد پر روانہ ہونے سے جی چرانے لگے اس غزوہ کا پس منظر یہ تھا کہ جب اسلامی سلظنت کا دائرہ سارے ملک عرب میں پھیل گیا تو ملک شام پر قبیلہ غسان حکمران تھا جو شاہ روم کے تابع تھ وہ اس کی فکر میں لگا کہ شاہ روم کو بلا کر عرب پر چڑھائی کی جائے، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب اس کی خبر ہوئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارادہ فرمایا کہ ملک شام کی سرحد پر پہنچ کر رومی فوجوں کر عرب پر حملہ آور ہونے سے رکا جائے، اس سلسلہ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شاہ روم کے خط بھی لکھا جس میں اسے دین اسلام کی دعوت دی اور وہ اسلام لانے پر آمادہ بھی ہوگیا لیکن اس کی قوم نے اس کا ساتھ نہ دیا اس لے وہ اسلام سے محروم رہا۔ جب شام والوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارادہ کی خبر پائی تو شاہ روم کو اطلاع دی لیکن اس نے مدد کرنے کی ذمہ دار قبول نہ کی۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسلمانوں کی لے کر تبوک تک تشریف لے گئے لیکن کوئی جنگ نہ ہوئی اور اس علاقہ کے لوگوں نے اطاعت قبول کرلی اگرچہ مسلمان نہیں ہوئے پھر حضرت عمر (رض) کے زمانہ خلافت میں سارا ملک شام فتح ہوا۔ ( مختصر از مو ضح) ف 5 کیونکہ دنیا فانی اور آخرت ہمیشہ رہنے والی ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ تم میں سے کوئی شخص سمندر میں اپنی انگلی ڈبوئے اور پھر دیکھے کہ اس کی انگلی کتنا پانی لے کر پلٹتی ہے، ( مسلم) دوسری حدیث میں ہے اللھم لاعیش الا عیش الا خرۃ۔ کہ یا اللہ زندگی صرف آخرت کی ہی زندگی ہے۔ ( بخاری مسلم ) التوبہ
39 ف 6 یہ نہ سمجھو کہ اگر جہاد کے لے ہم نہ نکلیں گے تو اللہ تعالیٰ کا کام بگڑ جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کو کسی کی کوئی پروانہیں۔ وہ اپنے پیغمبر کی ہر طرح سے غالب کرسکتا ہے۔ اس کے بعد ایک دوسرے طریقے سے جہاد کی ترغیب دی ہے۔ ( کبیر ) التوبہ
40 ف 7 یہاں باتفاق مفسرین (رح) ثانی اثنین سے حضرت ابوبکر (رض) مراد ہیں اور اکثر منا صب دینیہ میں حضرت ابو بکر (رض) دوسرے درجے پر فائز رہے ہیں۔، سب سے پہلے مسلمان ہوئے اور لوگوں کو دعوت الی اللہ دی جس پر بہت سے جلیل قدر صحا بہ مسلمان ہوئے، غزوات میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے الگ نہیں ہوئے۔ مر ضالموت میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قائم مقام کی حیثیت سے مصلیٰ پر کھڑے ہوئے اور پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پہلو میں دفن ہوئے۔ اس طرح اول و آخر حضرت صدیق اکبر کو ثانی اثنین ہونے کا شرف حاصل رہا ہے ( ازکبیر) ف 8 یہاں صاحب ہونے کا شرف بھی حضرت ابو بکر (رض) کر حاصل ہے۔ شاد صاحب لکھتے ہیں کہ رفیق غار حضرت ابو بکر (رض) تھے صرف یہی حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھے دوسرے اصحاب دوسرے اصحاب بعض پہلے نکل گئے تھے بعض بعد میں آئے۔ ( از مو ضح) ف 9 یہ اس وقت کا ذکر ہے جب مکہ والوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قتل کی قرار داد پاس کی۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات کے وقت حضرت ابو بکر (رض) کی معیت میں مکہ سے مدینہ کی طرف روانہ ہوئے اور کفار کے تعاقب سے بچنے کے لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غار ثور میں پناہ لی۔ وہاں تین چھپے رہے پھر مدینہ کی طرف روانہ ہوگئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی گرفتاری پر انعام مقرر ہوچکا تھا اس لیے دشمنوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تلاش میں ہر ممکن کوشش کی حتی کہ بعض لوگ غار کے سرے پر پہنچ گئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کے پاؤں نظر آنے لگے، حضرت ابو بکر (رض) کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق اندیشہ لاحق ہوا اندیشہ ظاہر کیا کہ الہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر انہوں نے ذرا بھی نیچے جھانک لیا تو وہ یقینا ہمیں دیکھ لیں گے مگر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سکون میں ذرا بھر فرق نہ آیا۔ حضرت ابو بکر (رض) کو تسلی دیتے ہوئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لا تحزن ان اللہ معنا۔ اس میں حضرت ابو بکر (رض) بھی شامل ہیں۔ ( کبیر) ف 10 یہ جنگ بدر میں فرشتوں کی امداد کی طرف اشارہ ہے اور اس اک عطف فقد نصرہ اللہ پر ہے۔ ( رازی ) التوبہ
41 ف 1 یعن تم خوشحال ہو یا تنگدست جو ان ہو یابو ڑھے۔ تندرست ہو یا بیمار، مجرد ہو یا عیال دار ہتھیار بند ہو یا بے ہتھیار۔ التوبہ
42 ف 2 یعنی آسانی سے مال غنیمت مل جانے کی توقع ہوتی۔ ف 3 یعنی بہت لمبا سفر نہ ہوتا جیسے تبوک مدینہ سے تقریبا چارسو میل کے فاصلہ پر ہے اور اس کا راستہ بھ نہایت کٹھن ہے۔ یہ آیت ان منافقین کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو غزوہ تبوک میں شامل نہیں ہوئے تھے۔ ( کبیر ) التوبہ
43 ف 4 ہو ایہ کہ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تبوک کی طرف روانہ ہونے لگے تو بعض منافیقن نے بناوٹی حیلے بہانے پیش کر کے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مدینہ ہی میں رہنے کی اجازت چاہی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں سچا سمجھتے ہوئے مدینہ میں رہنے کی اجازت دے دی، اس اجازت دینے پر اللہ تعالیٰ نے اپنی ناراضگی کا اظہار فرمایا لیکن نہایت لطف و کرم کے اند از میں یعنی پہلے معافی کی اطلاع دی اور پھر قصور بیان فرمایا۔ اس میں پیچھے بیٹھنے رہنے والوں کی مذمت بھی ہے۔ ( قر طبی۔ ابن کثیر) یہاں تو اجازت پر عتاب فرمایا ہے مگر سورۃ نو رکی آیت فاذن لمن شئت ( کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جسے چاہیں اجازت دے سکتے ہیں) میں اجازت کی رخصت دے دی ہے۔ ( کبیر) بعض نے لکھا ہے کہ عفا اللہ عنک تعظیما برائے دعا استعمال ہوتا ہے اس سے قبل گناہ کا پایا جا نا ضروری نہیں ہے۔ ( کبیر) التوبہ
44 ف 5 کیونکہ انہیں تو خود جہاد کا شوق ہے اور وہ اس انتظار میں رہتے ہیں کہ کب انہیں اللہ راہ میں شہید ہونے کا موقع ملتا ہے۔ ( از وحیدی ) التوبہ
45 ف 6 پس مومنین اور منافقین کے مابین فرق یہ ہے کہ جہاد کا اعلان ہونے پر مومن تو بلاتامل نکل کھڑے ہوتے ہیں مگر جو منافق ہیں وہ بہانے ترشتے ہیں اور ہر ایسے موقع پر مذبذب بھی ہوجاتے ہیں کبی دل کہتا ہے کہ چلو شاید پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سچ ہی کہتے ہوں اور کبھی دل میں میں آتا ہے کہ نہیں ی سب ڈھکو سلے اور ڈراوے ہیں۔ پس دنیا میں چند روز جینا ہے جہاں تک ہو سکے آرام سے دن کا کاٹ لیں۔ التوبہ
46 ف 1 اس سے مقصود زجر وتو بیخ اور مذمت ہے۔ ( کبیر ) التوبہ
47 ف 2 کیونکہ اگر یہ اس بددلی کے ساتھ نکلتے بھی تو بجائے اس کے مسلمانوں کے لیے تقویت کا باعث بنتے ان میں بھی بددلی پھیلانے کی کو شش کرتے ہیں اور نہ معلوم ان سے کتنی خرابیا ظاہر ہوتیں۔ ( از وحیدی) ف 3 یا فساد کی نیت سے تمہارے درمیان دوڑتے پھر تے کبھی کسی کو چغلی کھاتے کبھی ایک مسلمان کو دوسرے سے لڑانے کو شش کرتے ہیں اور کبھی مسلمانوں کے حوصلے پست کر کی کی تدبیریں سو چتے انہی وجوہ کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان کو نکلنے کی توفیق نہیں دی۔ (کبیر) ف 4 یعنی ایسے سیدھے سادے لوگ جو ان کی باتوں میں جاتے۔ اس کا ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تم میں سے ایسے لوگ بھی ہیں جو ان کی جاسوسی کرتے ہیں یعنی تمہاری کمزوریاں انہیں پہنچاتے ہیں۔ (از کبیر ) التوبہ
48 اس لیے اس نے پسند نہ فرمایا کہ اس قسم کے لوگ تمہارے ساتھ جہاد کے لیے نکلیں جو کفر ونفاق کا ارتکاب کر کے اپنے آپ پر بھی ظلم کرتے ہیں اور دوسروں میں افتراق اور شبہات پیدا کر کے ان پر ان بھی ظلم کرتے ہیں ( ابن کثیر۔ ابن کثیر۔ کبیر) ف 6 اس آیت میں ان کے خبث باطن اور مزید مکاریوں کا پر دہ چاک کیا گیا ہے یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف مکرو فریب کرنا ان کی پرانی عادت ہے۔ پہلے بھی مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنے کی تد بیر کرتے رہے جیساکہ میدا جنگ تبوک سے واپسی پر دس منا فق آدمی ثینتہ الواد پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قتل کرنے کے لیے کھڑے ہوگئے تھے۔ ( کبیر) ف 7 یعنی تمہیں ناکام کرنے کے لیے انہوں نے متعدد مرتبہ کتنی ہی تد بیر سوچیں اور روکیں اور مگر و فریب کرنے کے لیے انی انتہائی کو ششیں صرف کیں۔ ( کبیر) ف 8 یعنی ان کے دلوں میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کامیابی اور اسلام کی ترقی برابر کھلتی رہی۔ التوبہ
49 ف 9 یا مجھے ہلاکت میں نہ ڈالتے کیونکہ سخت گرمی کا زمانہ ہے اگر میں چلا گیا تو بعد میں میرے اہل وعیال کے ہلاک ہوجانے کا خطرہ ہے۔ (کبیر) مروی ہے کہ جدبن قیس ایک منافق نے یہ بہانا بنایا کہ اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! رومی عورتیں خوبصورت ہیں اگر میں چلا گیا تو اپنے اوپر قابو نہ رکھ سکوں گا۔ بنا بریں مجھے معذور سمجھ کر یہاں رہنے کی اجازت دے دیجئے۔ ہاں میں مال خرچ کر کے امداد کروں گا۔ ( ابن کثیر (ف 1 یعنی بہانے تو یہ کرتے ہیں کہ ہم فتنے میں نہ پڑجائیں مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ فتنہ میں مبتلا ہیں۔ آخر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کفر سے بڑھ کر بھی دنیا میں کوئی فتنہ ہوگا اور پھر جہاد میں شریک نہ ہونا بجائے خود ایک فتنہ ہے۔ اب تو یہ حیلے بہانے تراش کر مسلمونوں سے پیچھے رہ جائے گے مگر پھر وحی کے ذریعہ ان کی رسوائی ہوگی، (کبیر) ف 11 کہیں بھات نکلنے کا ان کو موقع نہیں مل سکے گا۔ ( وحید) التوبہ
50 ف 12 یہ بھی ان کے خبث باطن اور مکر و فریب کی ایک دلیل ہے کہ ہر ایسے موقع پر اپنی ہو شمندی کا ثبوت دیتے اور کہتے کہ ہم نے تو پہلے ہی بچاؤ کرلیا تھا جیسے جنگ احد کے بعد عبد اللہ بن ابی منافق نے کہا تھا کہ تو اس وجہ سے پلٹ آئے تھے ہمیں معلوم تھا کہ مسلمانوں کو شکست ہوگی اور وہ مارے جائیں گے۔ ایسے ہی وہ منافق جو غزوہ تبوک کے موقع پر مدینہ میں رہ گئے تھے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کے متعلق یہ مشہور کرتے رہے کہ یہ لوگ ہلاک ہوگئے لیکن جب انہیں اطلاع ملی کہ مسلمان صحیح وسالم واپس آرہے ہیں تو انہیں انتہائی غم ہوا۔ ( کبیر، ابن کثیر ) التوبہ
51 ف 13 سچ ہے : من علم سر اللہ فی القدر ھانت علیہ المصائب کہ جس نے قصا و قدر میں سرالہیٰ کو پا لیا اور اس پر مصائب آسان ہوجاتے ہیں۔ پس انسان کو چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت پر راضی رہے تاکہ اجرو ثوب کا مستحق ہو۔ ( کبیر) ف 14 کام بنانے والا اور حماتی ،۔ وہ جیسے چاہے عالم میں تصرف کرے ( کبیر ) ف 15 نہ دنیا کے سازوسامان اور نہ دنیا کے کسی شخص پر۔ التوبہ
52 ف 1 مسلمانوں کی مصیبت پر منافقین کو خوشی کا یہ دوسرا جواب ہے کہ ہم ہر حال میں اچھے ہیں۔ دنیا میں یا تو ہمیں فتح ہوگی جوایک بھلائی ہے یا پھر ہم اللہ تعالیٰ کی راہ میں شہید ہوں گے تو یہ بھی ہماری عین تمنا ہے کہ ہم جنت کی نعمتوں سے متمع ہوں۔ اس کے بر عکس منافقین ہیں کہ دنیا میں ان کی ذلت ورسوائی ہوگی اور آخرت میں دائمی عذاب میں مبتلا ہوں گے۔ پس ہم اور تم ایک دوسرے کے متعلق دعا حالتوں میں سے ایک کے منتظر ہیں۔ ( کبیر) التوبہ
53 ف 2 اوپر کی آیت میں تبایا گیا ہے منافقین کے لے بہر حال عذاب ہے۔ اب اس آیت میں فرمایا کہ اس عذاب سے کسی طور رہ نجات نہیں پا سکتے کیونکہ آخرت میں ان کی کوئی نیکی قابل قبول نہیں ہے۔ ( کبیر) غزوہ تبوک کے موقع پر بعض منافقین ایسے بھی تھے جو کہتے تھے کہ ہمیں ساتھ جانے تو معافی دیدی جائے لیکن اس کے عوض ہم مالی اعانت کرنے کا تیار ہیں۔ وہ یہ بات اس لیے کہ کہتے تھے کہ کہیں مسلمانوں میں بالکل ہی بد نام ہو کر رہ جائیں۔ انہی کو دلوں میں نفاق اور اللہ و رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دشمنی بھری ہو ان کی مالی امداد کسی طور پر نہیں کی جاسکتی خوشی سے دیں یا مجبورا۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں : جدبن قیس نے مال خرچ کرنے کی بات جو کہا تھا اس کایہ جواب ہے کہ بے اعتقاد کا مال قبول نہیں۔ کذافی الر ازی عن ابن عباس۔ از مو ضح ) التوبہ
54 ف 3 جیسے کسی پر زبر دستی بو جھ لاد دیا جائے۔ چونکہ ان دلوں میں ایمان نہیں ہے اس لیے انہیں نماز ایک بو جھ معلوم ہوتی ہے۔ ج معلوم ہوا کہ کفر اللہ کے ساتھ کوئی نیکی قبول نہیں ہوتی۔ علمانے لکھا ہے کہ لوگوں کے سامنے ہو اتو نماز پڑھ لی اور اکیلا ہوا تو چھوڑ دی۔ یہ بھی کسل فی الصلوٰۃ ہے۔ ( کبیر) ف 4 جیسے کسی کو جرمانہ ادا کرنا پڑے کیونکہ انہیں ثواب سے تو کوئی غرض نہیں۔ جو کچھ دیتے ہیں محض لوگوں کو نکا ہوں میں بدنامی سے بچنے کے لیے دیتے ہیں۔ اسی بنا پر حدیث میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ادو ازکوٰۃ اموالکم طیبتہ بھا نفو سکم۔ کہ طبیعت کی خوشی سے اپنے اموال کی زکوٰۃ ادا کرو۔ ( رازی ) التوبہ
55 ف 5 کہ اگر اللہ تعالیٰ ان سے ناراض ہوتا یہ اس قدر مالدار اور صاحب اولاد کیوں ہوتے۔ ( وحیدی) ف 6 یعنی دنیا میں ان چیزوں کو سعادت مندی خیال نہ کرو یہ دن رات مال جمع کرنے اور اولاد کی فکر میں لگے رہتے ہیں گویا ایک قسم کے عذاب میں گرفتار ہیں۔، اس لیے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ْ: ھلک المکئرون۔ کہ زیادہ مال جمع کرنے والے ہلاک ہوگئے۔ ( از کبیر) ف 7 یعنی آدم آخردم تک انہیں توبہ کرنے اور سچے دل سے ایمان لانے کی توفیق نصیب نہ ہو بلکہ جب یہ مریں ٍ تو اپنے مال اور اپنی اولاد ہی کی طرف ان کا دھیان ہو نہ آخرت کی فکر نہ خدا سے کوئی غرض۔ اگرچہ ایک مومن کو بھی اپنے مال اور اولاد کی فکر ہوتی ہے مگر چونکہ اللہ تعالیٰ کی رضامندی اس کے نز دیک ہر چیز پر مقدم ہوتی ہے اس لیے یہ چیزیں اس کے لیے نعمت ہی ہوتی ہیں وبال جان نہیں ہوتی۔ ( وحیدی) التوبہ
56 ف 8 یعنی محض تمہارے ڈر کے مارے تم میں سے ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ نفاق انسان کے اند بزدلی اور دوسروں کا خو ف پیدا کرتا ہے۔ التوبہ
57 ف 9 تاکہ انہیں تم سے اور تمہارے معاشرے سے نجات ملے حالانکہ یہ تینوں جگہیں بد ترین جگہیں ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اس وقت جو ہمارے دریمان بیٹھے ہوئے ہیں نہایت مجبوری کی حالت میں بیٹھے ہوئے اور ور نہ یہ تم سے اور تمہارے معاشرے سے نالاں اور بیزار ہیں۔ ( ابن کثیر۔ کبیر ) التوبہ
58 ف 10 یہ بھی منافقین کا شیوہ تھا کہ صدقات کی تعظیم میں وہ پیغمبر ( علیہ السلام) پر عیب لگانے سے بھی باز نہیں آتے تھے۔ حضرت الشیخ فرماتے ہیں یعنی منجملہ دوسرے اسباب طعن کے ایک سبب یہ بھی تھا نہ کہ صرف یہی ایک سبب تھا بلکہ کہی وجوہ سے طعن کرتے تھے، ( کبیر) چنانچہ صدقات تقسیم فرماتے تو کہتے دیکھئے کیسی خویش پر وری ہے اور دوست نوازی ہو رہی ہے۔ مطلب یہ ہوتا کہ ہمیں کیوں نہیں ملتا۔) ابن کثیر ) ف 1 حضرت ابو دسعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کچھ مال غنیمت تقسیم فرمارہے تھے کہ ایک شخص مقداد بن خویصرہ تمیمی ( حرقوص بن دمیر) آیا اور کہنے لگا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! انصاف سے کام لیجئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اگر میں انصاف سے کام نہ لوں تو اور کون لے گا ؟ حضرت عمر (رض) نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر آپ اجازت دیں میں اس کا سر قلم کر ڈالوں۔ فرمایا : جانے دو اس لیے کہ اس کی نسل سے ایسے پیدا ہوں گے کہ تم ان کی نماز اور ان کے روزے کے مقابلے میں اپن نماز روزے کی حقیر محسوس کرو مگر یہ لوگ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر شکار سے نکل سے جائے اور اس کے ساتھ خون وغیرہ کی کوئی آمیزش نہ ہو۔ حضرت ابو سعید خدری (رض) کے کہتے ہیں کہ ایسے ہی لوگوں کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔ ( کبیر۔ ابن کثیر) بعض نے رو یات میں ہے کہ ابو الجو اظ منا فق نے بھی اسی قسم کا اعتراض کیا۔ اس پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس سے اور اس کے ساتھیوں سے محتاط رہو کہ یہ منا فق ہیں۔ ( کبیر ) التوبہ
59 ف 2 تو ان کے حق میں بہترہو تا۔ اللہ تعالیٰ ان پر فضل کرتا، مگر ان ناشکروں کا اتنی توفیق کہا جو اس قسم کا کلمہ خیر زبان سے نکال سکیں۔ یہ تو جب بات کریں گے ایسی ہی کریں گے جس میں اللہ و رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی برائی ہی کا پہلو نکلتا ہو۔ ( وحیدی) التوبہ
60 ف 3 منافقین کا طعن دور طعن دور کرنے کے لیے معارف صدقات بیان فرما دیئے کہ تقسیم صدقات میں پیغمبر کو اختیار نہیں ہے لہذا پیغمبر پر طعن نے سود ہے۔ اس آیت میں زکوٰۃ کے آٹھ مصارف بیان کئے ہیں اور وہ بھی کمہ انما کے ساتھ جو حٖصر کے معنی دیتا ہے یعنی اصناف ثانیہ ( آٹھ قسم کے لوگوں) کو علاوہ اور کسی کو زکواۃ دینا جائز نہیں ہے۔۔ اس حصر کی اس سے بھی تائید ہوتی ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایک شخص نے سوال کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اگر تو ان آٹھ قسموں میں سے ہے تو تیرا حق بنتا ہے ورنہ نہیں۔ اور فرمایا : غنی اور تندرست توانا کے لیے صدقہ لینا جائز نہیں ہے۔ ( ابن کثیر) 1۔ فقیر اور مسکن 2۔ دونو کے معنی حاجتمند کے ہیں۔ ایک حدیث میں آنحضرت نے مسکن کی تشریح کرتے ہو فرمایا : مسکین وہ ہ جو اپنی حاجت بھر مال نہ پاتوہو، نہ اپنی احتیاج ظاہر ہونے دیتا ہو۔ اور نہ سوال ہی کرتا ہو۔ ( بخاری مسلم) 3۔ عاملین سے مرا وہ لوگ ہیں جو صدقات وصو کرنے پو مامور ہوں، ان کی تنخواہ زکوٰۃ کی مد سے دی جاسکتی ہے۔ چا ہے وہ محتاج نہ بھی ہوں۔ 4۔ مئو لفتہ قلوبھم سے مراد وہ لوگ ہیں جو کواسلام پر ثابت قدم رکھنا مطلوب ہو۔ اس بارے میں میں امام (خلیفہ) کو اختیار ہے کہ جیسے مناسب سمجھے ان پر خرچ کرے فی الرقاب التوبہ
61 5۔ غلاموں کی آزادی حاصل کرنے میں۔ دی جائے۔ 6۔ غارمین سے مراد وہ قرضدار ہیں جو اپنے مال سے پوراقرض ادا کریں تو فیقر ہوجائیں۔ صرف جہاد اور غزوہ ہے۔ صحیح حدیث میں ہے کہ مجاہد کی زکوٰۃ سے مدد لی جاسکتی ہے۔ ( ابو داؤؤد) ابن السبیل ( مسافر) یعنی اگر اثنائے سرف کیسی حادثہ سے اس کا مال تباہ ہوگیا ہو اور گھر سے سفر خرچ منگوانے کی کوئی صورت نہ وہ تو مال زکوٰۃ سے اس کی مدد کی جاسکتی ہے۔ زکو ٰۃ کے ان تمام مصارف میں زکوٰۃ صرف کان واجب نہیں ہے بلکہ حسب اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی اجا زت دی ہے۔ ( کتاب اللسوالا بی عبید بروایت حضرت معاذ) ف 4 یعنی کان کا کچا ہے۔ ہر ایک کی بات سن کر اس پر اعتبار کرلیتا ہے ( از کبیر) ف 5 یعنی ہاں ک تمہاری بات اس حد تک صحیح ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر ایک کی بات سن لیتے ہیں مگر یہ الزام صحیح نہیں ہے کہ ہر بات سن کر اس پر اعتبار کرلیتے ہیں۔ اعتبار صرف اس بات کا کرتے ہیں جو سچی اور حقیقی ہوتی ہے جھوٹی با کو سن تو لیتے ہیں مگر اس پر صبر اور در گذر سے کام لیتے ہیں۔ یہ چیز تمہارے حق میں بہتر ہے۔ ورنہ یہ چھوٹی عذروں کی بنا پر یا تو کبھیکے قتل ہوچکے ہوتے۔ یا مدینہ سے باہر نکال دیے گئے ہوتے ( ازکبیر) ف 6 یہاں ایمان والوں سے وہ لوگ مراد ہیں جو ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں چاہے دل سے ایمان دار نہ ہوں۔ ایسے لوگوں کے سامنے رحمت ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے رازک کھولتے نہیں بلکہ اپنی اصلاح کرلینے کا موقع دیتے ہیں، ( فتح القدیر ) التوبہ
62 ف 7 منافقین اپنی خلوتوں اور تنہا ئیوں میں مسلمانوں اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر پھتبیاں کستے۔ یا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اگر ان کی اطلاع ہوجاتی ہے وہ قسمیں کھاکھا کر مسلمانوں کو راضی کرنے کی کو شش کرتے اور اللہ و رسول کی پروا نہ کرتے۔ منافقین کی اسی حرکت کا اس آیت میں ذکر کیا گیا ہے۔ التوبہ
63 التوبہ
64 ف 1 اور تم رسوا ہو کر رہو گے۔ اس بنا پر سورۃ کا نام سورۃ الفا ضحہ ہے۔ یعنی منافقین کے راز کھو لنے والی اور ان کو رسو کرنے والی۔ نیز اس سورۃ کو سو رہ حافرہ بھی کہتے ہیں کیونکہ اس سورۃ نے منافقین کے سینے کی باتوں کو کھود کر رکھ دیا ہے اور ان کے راز ہائے سربستہ کی قلعی کھول دی ہے۔ ( کبیر ) التوبہ
65 ف 2 تبوک جاتے ہوئے کچھ منافقین بھی مسلمانوں کے ساتھ ہو لئے تھے لیکن راستے میں موقع بے موقعہ اللہ و رسول پر پھبتیاں کستے رہتے تھے، ایک موقع پر ان میں سے یک شخص کہنے لگا، اس شخص کہنے لگا۔ اس شخص کو دیکھو ( یعنی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شام کے رومی قلعے فتح کرنا چاہتا ہے۔ بھلا یہ کیسے ہوسکتا ہے۔ دوسرا بو لا کیا رومیوں کو بھی اس نے عربوں کی طرح کمزور سمجھ رکھا ہے۔ ؟ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ تعالیٰ نے ان کی اس قسم کی باتوں سے مطلع فرمادیا ہے۔ چنانچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں بلا بھیجا اور ان سے دریافت فرمایا کہ کیا تم نے اس قسم کی باتیں کی ہیں َ؟ وہ کہنے لگے۔ ہم تو یو نہی راستہ کا ٹنے کے کے گپ بازی اور اسنسی مذاق کی باتیں کر رہے تھے، امام رازی (رح) فرماتے ہیں۔ اس آیت کی شان نزول میں بھی اس قسم کی روایات مروی ہیں۔ مگر آیت کا مفہوم سمجھنے کے لیے صرف یہی بات کافی ہے کہ انہوں نے طعن و استہزا کے طور پر کوئی بات کہی اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے اس کو گپ بازی کا عنوان دے دیا۔ ( کبیر۔ ابن کثیر) ف 3 وہ لوگ بار بار معذرت کرتے۔ مگر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہی فرماتے رہے۔ ( کبیر ) التوبہ
66 ف 4 یعنی اظہار ایمان کے بعد ہم نے صریح کفر کیا۔ کبیر) جو شخص دین کی باتوں میں ٹھٹجا کرے اگرچہ دل سے منکر نہ ہو تو وہ کافر ہوگیا۔ اگر یہ نہ بھی ہو تب بھی وہ منا فق تو لازما ہے۔ اصل یہ ہے کہ دین کی باتوں میں ظاہر وباطن کا با ادب رہنا ضروی ہے۔ ( از مو ضح) ف 5 یعنی جس نے نفاق سے توبہ کرلی ہے اور آئندہ مخلص ہو کر زندگی بسر کرے گا۔ اسے تو ہم معاف کرتے ہیں۔ مگر جو اپنے کفر پر مصر رہے اسے ضرور عذاب ہوگا۔ مروی ہے کہ مخشی بن حمیر نے توبہ کے بعد اپنا نام عبد الرحمن رکھ لیا اور دعا کی کہ اے اللہ مجھے شہادت کی موت نصیب ہو چنانچہ یمامہ کے دن شہید ہوگیا ( معالم، کبیر ) التوبہ
67 ف 6 معلوم ہوا کہ کچھ عورتیں بھی منا فق تھیں۔ ( کبیر) ف 7 اللہ نے انہیں بھلادیا، کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے فضل و رحمت سے محروم کردیا، اس تاویل کی ضروت اس بنا پر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی شان میں بھولنے کی نسبت کرنا منا سب نہیں ہے کیونکہ وہ بھولنے سے پاک ہے۔ ( وحیدی) ف 8 یعنی فسق میں حد کمال تک پہنچ چکے ہیں ( کبیر) شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں : بے اعتقاد کی صلاجیت کیا معتبر اسے فاسق ہی کہنا چاہیے۔ ( مو ضح ) التوبہ
68 التوبہ
69 ف 1 یا تمہارے کر توت بھی ان لوگوں جیسے ہیں۔ اعمال کے ضائع ہونے اور آخرت میں خائب وخاسر ہونے میں ان سے تشبیہ دی گئی ہے ( کبیر) ف 6 یعنی جیسے انہوں نے اپنے انبیا ( علیہ السلام) اور دن کا مذاق اڑارہے ہو۔ التوبہ
70 ف 3 یعنی جن کی بستیاں اللہ کے عذاب سے الٹ گئیں ،۔ مراد لوط ( علیہ السلام) کی قوم ہے جس کا صدر مقام سدرم شہر تھا۔ ( از قرطبی) ف 4 انہوں نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی اور اس کے ابنیا ( علیہ السلام) کو جھٹلا یا۔ اس لیے انہوں نے خود اپنے عذاب کو دعوت دی۔ سورۃ اعراف میں ان قوموں کو وقعات گزر چکے ہیں۔ اور آگے سورۃ ہود میں مزید تفصیل آرہی ہے۔ التوبہ
71 ف 5 جیسا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایال المومن اللمئو من کا لنبیان یشد بعضہ بعضا۔ ایک مومن دوسرے مومن کے لیے عمارت کے مانند ہے جس کی بعض اینٹیں بعض کو سہارا دیتی ہیں۔ دوسری حدیث میں ہے : مثل المئو منین فی توادھم وتر جھم کمثل الجسدالواحد اذا اشتر کی عنہ عضوتد اعی ٰ لہ سائر الجسد باالحمنیٰ والسھر۔ آپس کی محبت، ہمدردی اور شفقت میں مسلما نوں کی مثال جسم کی ہے جس کے اگر ایک عضو کو تکلیف پہنچتی ہے تو بقیہ سارے اعضا بخار اور بے چینی کی صورت میں اس کا ساتھ دیتے ہیں۔ ( ابن کثیر ) التوبہ
72 ف 1 جنات یعنی ہمیشہ رہنے کا مقام۔ اور بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ جنت کے ایک مخصوص حصہ کا نام ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ جنت عدن میں لوگ اللہ تعالیٰ کے دیدار سے مشرف ہوں گے۔ ( ابن کثیر) ف 2 جیسا کہ ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ جنت والوں سے فرمائے گا : اے جنت والو ! کیا تم خوش ہوگئے وہ عرض کریں گے۔ اے ہمارے پروردگار ہم خوش کیوں نہ ہو تو نے ہمیں وہ کچھ عنایت فرمایا ہے جو اپنی مخلوق میں سے کسی کو نہیں دیا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا میں تمہیں ان تمام نعمتوں سے بڑھ کر ایک اور نعمت نہ دوں َ؟ وہ عرض کریں گے۔ اب اس سے بڑھ کر اور کون سی نعمت ہو سکتی ہے ؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔ میں تمہیں اپنی خوشنودی سے نوازتاہوں اب کبھی تم سے ناراض نہ ہوں گا۔ ( ابن کثیر) خوشنودی تست مطلب ما۔ یارب رحمے بیا ربما۔ ( ترجمان التوبہ
73 ف 3 کافروں سے تلوار کے ذریعہ اور منا فقوں سے انہیں نصحیت اور لعنت وملالت کر کے، ( شوکانی) ف 4 یعی اب تک جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے نرمی اور چشم پوشی کا معاملہ کرتے رہے ہیں۔ اسے ختم کیجئے اور ان کے ہر قصور پر سختی سے گرفت کیجئے اس آیت سے معلوم ہوا کہ جب منافقین بر ملا نفاق کا اظہار کریں تو کفار کی طرح ان کے ساتھ بھی جہاد باسیف کیا جائے ابن جریر طبری (رح) نے اسی کو ترجیح دی ہے مگر بعض صحابہ (رض) نے کہا ہے کہ ان پر سختی کی جائے اور زبان سے طعن وملامت کیا جائے تلوا سے مقاتلہ نہ کیا جائے ہاں ان پر حدعد الہیٰ ضرور قائم کی جائیں، حافظ ابن کثیر (رح) مختلف اقوال نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں : ان اقوال میں اختلاف نہیں ہے اصل بات یہ ہے کہ مختلف حالات میں حسب موقع سزا دی جاسکتی ہے۔ ( ابن کثیر ) التوبہ
74 ف 5 اس آیت میں کن منافقین کا ذکر ہے اور وہ کلمہ کفر کیا ہے جس کی طرف قرآن نے یہاں اشارہ فرمایا ہے۔ اس بارے میں مفسرین (رح) کے کئی اقوال ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ سبھی منافقین کا حال تھا کہ وہ کفر کی باتیں کرتے رہتے تھے اور جب ان سے دریافت کیا جاتا تو قسمیں کھاکھا کر انکار کردیتے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ آیت جلاس بن سوید اور ودیعہ بن ثابت کے بارے میں نازل ہوئی۔ وہ اس طرح کہ جب غزوہ تبوک کے مقعہ پر کثرت سے منافقین کے متعلق قرآن اترنا شروع ہوا تو یہ دونوں کہنے لگے اگر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے بھائیوں کے بارے میں جو ہمارے سردار ہیں سچ بات کہتے ہیں تو ہم گدھو سے بدتر ہیں۔ اس پر ایک سچے مسلمان عامر بن قیس یا زید بن اقم نے کہا ہاں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سچے ہی ہیں اور تم لوگ گدھوں ستے بدتر ہو۔ پھر عامر یہ بات آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک پہنچادی۔ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جلا سے دریافت کیا تو وہ قسمیں کھاکھا کر کہنے لگا کہ یہ جھوٹ بول رہا ہے۔ عام (رض) نے بھی قسم کھائی کہ میں سچ کہتے ہوں۔ اور پھر اللہ حضور دعا کی کہ یا اللہ ! اس بارے میں میں اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی نازل فرما۔ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زید بن ارقم کو دعا دی او فی اللہ با ذنک کو جو کچھ سنو اللہ اسے پورا کر دے۔ اور بعض روایات میں عمیر بن سعد کا نام بھی مذکور ہے اور بعض کہتے ہیں کہ ی منا فقوں کے سرار عبد اللہ بن ابھی کے بارے میں تری ہے ایک مرتبہ ایک سرف میں اس نے یہ بات کہی تھی کہ جب ہم مدینہ واپس پہنچیں گے تو عزت ولا شخص ذلیل کو نکال باہر یگا اور ذلیل سے مراد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو لیا۔ اس کی یہ بات جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وسلم تک پہنچی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے سے دریافت کیا وہ قسمیں کھاکھا کر انکار کرے گا ( فتح القدیر) ف 6 بعض مفسرین کہتے ہیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ انہوں نے غزوہ تبوک کے سفر میں ایک رات نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قتل کرنے کی سازش کی بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ انہوں نے عبد بن ابی کو مدینہ کو بادشاہ بنانے کے لیے اسے تاج پہنانے کا پروگرام بنایا اور بعض مفسرین (رح) کا قول ہے کہ یہاں اس طرف اشارہ ہے کہ جلاس نے اس شخص کو قتل کرنے کا ارادہ کیا جس نے نبی صلعم تک اس کی بات پر پہنچائی تھی۔ ( شو کانی) پہلے یہ لوگ فاقوں مرتے تھے اور ان کے شہر مدینہ، جس کا ان دنوں یثرت نام تھا، کی بھی کوئی حیثیت نہ تھی لیکن نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تشریف آوری کے بعد ان کا شہر پورے عرب کا مرکز بن گیا اور ان کی تجارت کا دائرہ بھی وسیع ہوگیا اور جنگوں کی وجہ سے بہت سا مال غنیمت بھی ان کے ہاتھ آیا جس سے یہ لوگ مالدار ہوگئے۔ آیت میں اسی طرف اشارہ ہے کہ یہ منافقین اتنے فراموش ہیں کہ جن اللہ و رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بدولت انہیں یہ خو شحالی نصیب ہوئی انہیں کے خلاف یہ بگڑ بگڑ کے اپنے دلوں کے فساد ظاہر کر رہے ہیں۔ ف 8 کہتے ہیں کہ جلاس نے توبہ کرلی اور وہ سچا مسلمان ہوگیا۔ اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ منافق کا اور کافر کی تو بہ قبول ہوسکتی ہے۔ التوبہ
75 التوبہ
76 التوبہ
77 ف 1 حضرت ابو امامہ (رض) باہلی سے روایت ہے کہ ایک شخص ثعلبہ بن حاطب نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے درخواست کی کہ میرے لیے اللہ سے دعا کیجئے کہ میں مالدار ہوجاؤں۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے بہتیرا سمجھا یا کہ اے ثعلبہ ! تھوڑا سامال جس پر تم اللہ کا شکر ادا کرو زیادہ مال سے بہتر ہے جس پر تم اس کا شکر ادا نہ کرو مگر وہ نہ مانا اور بار بار دعا کی درخواست کرتا رہا۔ آخر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے لیے دیا فرمائی اور وہ شخص اتنا مالدار ہوگیا کہ اس کی بھیڑیں مدینہ میں نہ سماتی تھیں اور اسے مدینہ چھوڑ کر باہر سکونت اختیار کرنی پڑی۔ پہلے وہ باقاعدہر نماز میں شریک ہوتا تھا مگر آہستہ آہستہ اس نے نمازوں میں شریک ہونا چھوڑ دیا یہاں تک کہ وہ جمعہ اور نماز جنازہ تک میں شریک نہ ہوتا پھر جب آیت خذمن اموالھم صد قتہ۔ ان لوگوں کے مال کی زکوٰۃ وصول کیجئے نازل ہوئی تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھڑوں کا زکوٰۃ لینے کے لیے اس کے پاس ایک آدمی بھیجاتو وہ کہنے لگا یہ تو جزیہ ہے جو کافروں سے وصول کیا جاتا ہے لہذا اس نے زکوٰۃ ادا کرنے سے بھی انکار کردیا۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے حق میں فرمایا : ویج ثعلبہ۔ ثعلبہ تم پر افسوس ہے اس پر یہ تین آیتیں نازل ہوئیں، ثعلبہ تم پر افسوس ہے اس پر تین آیتیں نازل ہوئیں، ثعلبہ کو پتہ چلا کہ میرے بارے میں یہ آیتیں نازل ہوئیں ہیں تو وہ شرمسارہو اور وہ شرمسار ہوا اور نبی کی خدمت میں زکوٰۃ لے کر حاضر ہوا۔ لیکن آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی زکوٰۃ وصول کرنے سے انکار فرمادیا بعد میں حضرت ابو بکر، حضرت عمر (رض) اور حضرت عثمان (رض) نے بھی اس کی زکوٰۃ قبول نہ کی اور حضرت عثمان (رض) کی خلافت میں اسی نفاق پر اس کا انتقال ہوگیا۔ ( ابن کثیر ) التوبہ
78 التوبہ
79 ف 2 غزوہ تبوک کے موقع پر جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چندہ کی اپیل کی تو بڑے بڑے مالدار منافقین ہاتھ سکیڑ کر بیٹھ رہے لیکن جب مخلص اہل ایمان چندہ لانے لگے تو یہ ان پر باتیں چھانٹنے لگے جب کوئی تھوڑا مال یا غلہ لاکر پیش کرتا تو یہ کہتے کہ بھلا اللہ کے پاس کل آٹھ ہزار درہم تھے انہوں نے چاہزار درہم لاکر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پیش کردیئے۔ ایک دوسرے صحابی حضرت عاصم (رض) نے مزدوری کر کے آٹھ سیر جو حاصل کئے۔ ان میں سے چار سیر جو انہوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو چندہ دیا۔ منافقین آپس میں کہنے لگے کہ عبد الر حمن کو ریا ونمود مطلوب ہے اور عاصم (رض) اپنے آپ کو خواہ مخواہ چندہ دینے والوں میں شامل کرنا چاہتا ہے۔ منافقین کے اسی طعن کا اس آیت میں ذکر کیا گیا ہے۔ ( از بن کثیر، قر طبی وغیرہ) ف 3 لفظی ترجمہ یہ ہے کہ اللہ نے ان پر ٹھٹھامارا لیکن مطلب یہی ہے کہ اللہ نے بھی ان کے ٹھٹھے کا بدلہ دیا، یعنی انہیں ذلیل وخوار کیا اور مسلمانوں کو ان پر ہنسایا۔ ( وحیدی ) التوبہ
80 ف 4 کیونکہ بخشے جانے کے لائق نہیں ہیں۔ اس آیت میں ستر کا لفظ عربی محاورے کے مطابق کثرت کو ظاہر کرنے کے لیے استعمال ہو اہے۔ یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے حق میں کتنا ہی استغفار کریں اللہ تعالیٰ انیں ہرگز بخشنے والا نہیں ہے۔ اس آیت کی تشریح میں شاہ صاحب فرماتے ہیں یہاں سے فرق نکلتا ہے بے اعتقاد اور گناہ گارکا۔ گناہ ایسا کون سا ہے کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بخشانے سے بخشانہ جائے اور بے اعتقاد لوگ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ستر استغفار فائدہ اب بے اعتقاد لوگ پیغمبر کی شفاعت پر کس دلیل سے بھر وساکر سکتے ہیں۔ آدمی سے بدی ہو یا نماز روزہ نہ ہو اور وہ شرمندہ ہے تو وہ گنہگار ہے اور جو بد کام کو عیب نہ جا نے اور خدا کے عائد کردہ فرض کے کرنے اور نہ کرنے کو برابر سمجھنے اور کرنے والوں پر طعن کرے وہ بے اعتقاد ہے ایسے شخص کو پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا استغفار بھی فائدہ نہیں پہنچا سکتا۔ التوبہ
81 (ف 5 یعنی جنگ تبوک میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ج کے ساتھ نہ گئے بلکہ جھو ٹے عذر پیش کر کے اجازت لی اور مدینہ منورہ میں ٹھہرے رہے۔ قتادہ (رض) کہتے ہیں ان کی تعداد بارہ تھی۔ ( ابن ابی حاتم وغیرہ) ف 6 یہ پہلے بتایا جا چکا ہے کہ غزوہ تبوک جن دونوں پیش آیا ان دنوں سخت گرمی کا موسم تھا۔ التوبہ
82 التوبہ
83 ف 1 جو جنگ تبوک کے لیے نہیں نکلے تھے بلکہ گھروں میں بیٹھے رہے تھے۔ ف 2 یعنی ان لوگوں کے ساتھ جو بے عذار گھروں میں رہ گئے یا معذور کے ساتھ جیسے عورتیں، بچے، بوڑھے، بیمار، اپاہج، شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں : یہ جو فرمایا کہ اگر پھر لے جاوے اللہ کسی کو فرقہ کی طرف وہ اس واسطے کہ یہ آیت سفر میں نازل ہوئی۔ یہ لوگ مدینہ میں منافق تھے اور فرقے اس واسطے فرمایا کہ بعض پیچھے مرگئے اور سب بیٹھنے والے منا فق نہ تھے۔ بعض مسلمان بھی تھے۔ کہ ان کی تقصیر معاف ہوئی۔ ( مو ضح ) التوبہ
84 ف 3 حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ جنگ تبوک کے کچھ عرصہ بعد منا فق کے سردار عبد اللہ بن ابی کا انتقال ہوگیا، اس کے بیٹے عبد اللہ بن عبداللہ جو مخلص مسلمان تھے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنے باپ کے کفن میں شامل کرنے کے لیے کرتہ مانگا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کرتہ دے دیا۔ پھر آئے اور نما زہ جنازہ پڑھا نے کی درخواست کی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز پڑھا نے کے لیے کھڑے ہوئے تو حضرت عمر (رض) نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کرتا پکڑ لیا اور کہنے لگے : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کیا آپ اس شخص کی نماجنازہ پڑھتے ہیں۔ حالانکہ اللہ نے آپ کو منافقین کے لیے دعا کرنے سے منع فرمایا ہے ؟ آپ نے فرمایا ؛ مجھے اختیار دیا گیا ہے یکہ چاہے ان کے لیے ستر مرتبہ بھی بخشش مانگوں انکی بخشش نہیں ہوگی۔ اگر مجھے معلوم ہو کہ ستر مرتبہ سے زیادہ بخشش مانگنے سے اس کی بخشش ہوجائے گی تو میں زیادہ مرتبہ بھ بخشش کے لیے تیار ہوں۔ آخرت آپ نے اس کی نماز جنازہ نہ پڑھی۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ ( بخاری مسلم) چنانچہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی منافق کی نماز جنازہ نہ پڑھتے تھے اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہوتے تھے جیسا کہ حضرت ابو قتادہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب کسی جنازہ کی اطلاع دی جاتی تو آپ اس کے بارے میں دریافت فرماتے۔ اگر لوگ اس کی تعریف کرتے ( یعنی اس کے سچے مسلمان ہونے کی گواہی دیتے) تو آپ اس کی نماز جنازہ پڑھاتے ورنہ اس کے گھر والوں سے کہہ دیتے کہ اسے جیسے چاہو دفن کر دو ( میں اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھا ؤنگا) چنانچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کی نماز جنازہ نہ پڑھاتے اور اپنی خلافت میں حضرت عمر (رض) کا معمول یہ تھا کہ جس شخص کا حال معلوم نہ ہوتا آپ اس کی نماز جنازہ اس وقت تک نہ پڑھتے جب تک کہ حضرت حذیفہ (رض) بن یمان اس کی نماز جنازہ نہ پڑھتے۔ اس لیے کہ انہیں معلوم تھا کہ مدینہ میں کون کون سے لوگ منافق ہیں ( ابن کثیر) اس آیت اور ان احادیث سے معلوم ہوا کہ کھلے ہوئے فاسق وبد کار قسم کے لوگوں کی نما زہ جنازہ اہل علم اور مقتدیٰ قسم کے لوگوں کو نہیں پڑھنی چاہیے تاکہ لوگوں کو عبرت ہو۔ اور یہی احمد بن حنبل (رح) اور اکثر علمائے اہل حدیث کا مسلک ہے۔ ( کتاب الجنائز مبار کپوری 69۔70) التوبہ
85 ف 4 کہ اگر یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی نگا ہوں میں ناپسند یدہ ہوتے تو وہ انہیں اتنا خوش حال کیوں بناتا۔ ف 5 یعنی دن رات مال جمع کرنے اور اولاد کی فکر میں لگے رہیں اور آخری دم تک انہیں توبہ کرنے اور سچے دل سے ایمان لانے کی توفیق نصیب نہ ہو۔ بلکہ یہ مریں تو اپنے مال اور اپنی اولاد ہی کی طرف ان کا دھیان ہو نہ آخرت کی فکر اور نہ خدا سے کوئی غرض اگرچہ ایک مومن کو بھی اپنے مال اور اولاد کی فکر ہوتی ہے مگر چونکہ اللہ تعالیٰ کی رضامندی اس کے نزدیک ہر چیز پر مقدم ہوتی ہے اس لیے یہ چیزیں اس کے لیے نعمت ہی ہوتی ہیں جان کا وبال نہیں ہوتیں۔ التوبہ
86 التوبہ
87 ف 6 ان پر نہ اللہ تعالیٰ و رسول کی بات کا ثر ہوتا ہے اور نہ کسی سمجھانے والے کی نصیحیت کا۔ التوبہ
88 ف 1 دنیا میں فتح اور سر فراز ی اور آخرت میں جنت اور اس کی نعمتیں۔ التوبہ
89 ف 2 دنیا کی زندگی اور آرام و آسائش اس کے مقابلے میں کچھ نہیں۔ التوبہ
90 ف 3 جو مدینہ کے اطراف اور دورسر صحرائی علاقوں میں رہتے تھے۔ ف 4 یعنی دل سے کافر ہیں چاہے زبان سے ایمان کا دعویٰ ہی کیوں نہ کرتے ہوں۔ ف 5 دنیا میں قید اور قتل ہوں گے اور آخرت میں آگ کا ایندھن بنیں گے۔ التوبہ
91 ف 6 یعنی معذور ہیں جیسے لنگڑے، لولے، اپاہج۔ اند ھے، بوڑھے، عورتیں اور بچے۔ ف 7 جس سے جہاد کی تیاری کرسکیں اور ہتھیار سواری وغیرہ فراہم کرسکین۔ ف 8 وہ کام نہ کرتے ہوں جس سے انہیں نقصان ق اور ان کے دشمنوں کو فائدہ پہنچ سکتا ہو۔ صحیح حدیث میں ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تین مرتبہ فرمایا الدین النعیحتہ۔ دین خیر خواہی کا نام ہے۔ صحابہ کرام نے عرض کیا کس کے لیے فرمایا : للہ ولکتابہ وارسولہ ولائمتہ المسمین وعامتھم۔ یعنی اللہ کے لیے اس کی کتاب کے لیے اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے مسلمانوں کے امام کے لیے اور مسلم عوام کے لیے ( شوکانی) عام لوگوں کی خیر خواہی میں یہ چیز بھی شامل ہے کہ جب مجاہدیں جہاد پر گئے ہوئے ہوں تو یہ لوگ شہر میں بیٹھے رہیں۔ نہ جھوٹی خبریں پھیلائیں نہ فساد وبر پاکریں مجاہدین کی خدمت کریں اور ان کے بال بچوں کی خبر گیری کریں۔ ( از وحیدی) ف 9 یعنی یہ لوگ معذور ہیں۔ اگر جہاد میں شرکت نہ کریں تو ان پر کچھ گناد نہیں ہے۔ اس کی تفسیر کرتے ہوئے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تبوک کے سفر میں صحابہ کرام سے فرمایا تم اپنے پیچھے مدینہ میں کچھ ایسے لوگوں کو چھوڑ کر آئے ہو ہو کہ تم نے جو مسافت طے کی جو مال خرچ کیا ہے اور جس وادی کو پار کیا ہے۔ ان سب اعمال میں وہ تمہارے ساتھ رہے ہیں۔ صحابہ (رض) نے عرض کیا۔ اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہ ہمارے ساتھ کیسے ساتھ کیسے ہو نگے حالانکہ وہ تو مدینہ میں رہ گئے ہیں ؟ فرمایا انہیں صف عذر نے تمہارے آنے سے روک دیا ہے۔ اور دوسری روایت میں ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ مگر وہ اجر میں تمہارے ساتھ شریک ہیں ( ابن کثیر بحوالہ صحیحین) التوبہ
92 ف 10 متعدد صحیح روایات میں ہے کہ یہ انصار (رض) کے مختلف قبیلوں کے ساٹھ آدمی تھے جو جہاد میں شرکت کے شوق میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے مگر چونکہ سواریوں کی انتظام نہ تھا اس لیے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں جہاد میں شرکت سے معذور قراردے دیا اس پر وہ دلوں میں حسرت لئے روتے ہوئے واپس ہوگئے جیسا کہ اس آیت میں اس کی تصریح کی گئی ہے۔ ( فتح القدیر وغیر ہ التوبہ
93 ف 11 حالانکہ انہیں سواری اور زاد سفر سب میسر ہے۔ ف 12 گویا دیوانے ہوگئے ہیں جو جہاد اور اس کی فضیلت اور ثواب کو بالکل بھول گئے ہیں۔ التوبہ
94 ف 1: "کہ آئندہ تمہارا رویہ کیسا رہتا ہے؟ آیا تم موجودہ روش سے باز آتے ہو یا اسی پر جمے رہتے ہو" فالمفعول الثانی محذوف۔ یہ وعید ہے اور "ورسولہ" فاعل پر مفعول کی تقدیم سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وعید کا مدار اللہ تعالیٰ کا علم ہے (روح) ف 2۔ پھر جیسے تمہارے اعمال ہوں گے ویسا ہی تمہیں ان کا بدلہ ملے گا۔ (ابن کثیر) التوبہ
95 ف 3۔ یعنی انہوں نے جو جہاد میں حصہ نہیں لیا اور گھروں میں بیٹھے رہے اس پر انہیں معذور سمجھتے ہوئے اغماض اور چشم پوشی کرو اور کسی قسم کی ملامت نہ کرو۔ (کبیر) ف 4۔ یعنی ان سے قطع تعلق کرلو اور کسی قسم کا میل جول نہ رکھو۔ پہلے فقرے میں اعراض کے معنی درگزر اور چشم پوشی کے ہیں اور یہاں اس کے معنی قطع تعلق کے۔ یعنی وہ تو صرف چشم پوشی چاہتے ہیں مگر تمہیں ہدایت دی جاتی ہے کہ ان سے قطع تعلق ہی کرلو۔ حضرت ابن عباس سے یہی تفسیر منقول ہے۔ ایک حدیث میں بھی ہے جب آپ مدینہ واپس آگئے تو آپ نے فرمایا۔ لاتجالسوھم ولا تکلموھم۔ کہ ان سے ہم مجلسی اور گفتگو ختم کردو۔ ھؤلاء طلبو اعراض الصفح فاعطوا اعراض المقت۔ یہ گھروں میں بیٹھے رہنے والے تقریباً اسی آدمی تھے۔ (کبیر) ف 5۔ اس میں قطع تعلق کے سبب کی طرف اشارہ ہے کہ وہ خیالات اور اعمال کے اعتبار سے گندے ہیں لہذا صحبت طالح ترا طالح کند۔ کے تحت تمہیں چاہیے کہ ان سے دور رہو مبادا ان سے متاثر ہوجاؤ (از کبیر) التوبہ
96 ف 6۔ یعنی ان کے قسمیں کھانے اور حیلے کرنے کا ایک مقصد تو یہ ہے کہ تم ان سے درگزر کرو اور چشم پوشی سے کام لو اور پھر یہ چاہتے ہیں کہ ان سے راضی بھی ہوجاؤ مگر اللہ تعالیٰ راضی نہیں ہوگا۔ اس میں اشارہ ہے کہ مسلمانون کے لیے کسی صورت بھی ان سے راضی ہونا جائز نہیں ہے (از کبیر) شاہ صاحب لکھتے ہیں، جس شخص کے حالات سے معلوم ہوتا ہو کہ وہ منافق ہے اس کی طرف سے تغافل تو جائز ہے مگر اس سے محبت اور دوستی روا نہیں۔ (از موضح) التوبہ
97 ف 7۔ ان سے مراد وہ لوگ ہیں جو مدینہ منورہ سے دور دیہاتی اور صحرائی علاقوں میں رہتے تھے۔ یہ لوگ دراصل اسلام کی دعوت کو سمجھ کر سچے دل سے مسلمان نہیں ہوئے تھے بلکہ محض اسلام کی بڑتی ہوئی طاقت سے مرعوب ہو کر مسلمان ہوگئے تھے۔ انہیں شہر مدینہ منورہ میں آنے، مسلمانوں سے میل جول رکھنے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحبت سے فیض یاب ہونے کا بہت کم موقع ملا تھا اس لیے یہ نرے گنوار اور اجڈ قسم کے لوگ تھے جن کے دلوں میں نہ نرمی پیدا ہوئی تھی اور نہ انہیں علم کی ہوا لگی تھی اس لیے ان میں جو منافق تھے ان کا نفاق بھی اہل مدینہ کے نفاق سے سخت تھا۔ امام رازی لکھتے ہیں بدوی اور شہری لوگوں کی طبیعتوں میں وہی فرق پایا جاتا ہے جو ایک باغ کے میوے اور پہاڑی درخت کے میوے میں محسوس ہوتا ہے۔ (کبیر) شاہ صاحبت لکھتے ہیں بدویوں کی سرشت میں بے حکمی، مفاد پرستی اور جہالت رچی بسی ہوئی ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی کمال حکمت سے نہ ان پر زیادہ ذمہ داری ڈالی اور نہ ان کو درجات کی بلندی عطا ہوئی (موضح) التوبہ
98 ف 8۔ "یعنی زکوۃ ہو یا جہاد کے لیے چندہ" اسے جب دیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کی خاطر اور دلی جذبہ کے ساتھ نہیں بلکہ محض چٹی یا جرمانہ سمجھ کر بادل نخواستہ ادا کرتے ہیں کہ اگر ادا نہ کریں گے تو مسلمان انہیں مشتبہ نگاہوں سے دیکھیں گے اور ان کے درمیان زندگی بسر کرنی دو بھر ہوجائے گی۔ (از کبیر) ف 9 کہ کب کوئی بلائے ناگہانی اترتی ہے اور تم اس کے چنگل میں پھنس کر مغلوب و مقہور ہوتے ہو یا یہ کہ کب پیغمبر مرتا ہے اور مشرکین کو تم پر غلبہ ہوتا ہے۔ (کبیر) التوبہ
99 ف 10۔ اس آیت میں بتایا جا رہا ہے کہ اعراب (گنواروں) میں کچھ مخلص مسلمان بھی ہیں جو مال کے خرچ کرنے کو جرمانہ نہیں سمجھتے بلکہ اسے اللہ تعالیٰ کے قرب اور پیغمبر (علیہ السلام) کی دعا حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ (ابن کثیر) التوبہ
100 ف 1 بعض اعراب (گنواروں) کا اخلاص اور ان کو رحمت کی خوش خبری سنانے کے بعد ان سے اعلی مراتب کے لوگوں کی طرف اشارہ فرمایا یعنی مہاجرین اور انصار جنہوں نے ہجرت و نصرت دین میں پہل کی۔ ان کی تعیین میں مفسرین سے مختلف اقوال منقول ہیں۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ اول سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے دونوں قبلوں کی طرف نماز پڑھی اور بعض نے بیعتِ رضوان (صلح حدیبیہ) میں شامل ہونے والے اور بعض نے بدری صحابہ مراد لیے ہیں۔ اور انصار سے مراد وہ لوگ ہیں جو بیعت عقبہ (اولی و ثانیہ) میں شریک ہوئے اور پھر وہ لوگ جو مدینہ میں حضرت مصعب بن عمیر کی آمد پر مسلمان ہوگئے تھے۔ مگر ہجرت و نصر کے اعتبار سے درجہ بدرجہ سبھی صحابہ مراد لیے جاسکتے ہیں۔ پھر صحابہ میں سب سے افضل حضرت ابوبکر کا درجہ ہے جو اسلام میں بھی اول ہیں اور ہجرت میں بھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھی ہیں۔ پھر بالترتیب دوسرے خلفا کے درجے ہیں۔ ان کے بعد باقی عشرہ مبشرہ جن میں طلحہ، زبیر، سعد بن ابی وقاص، سعید بن زید، عبدالرحمن بن عوف اور ابو عبیدہ بن جراح (رض) شامل ہیں۔ پھر بدری عقبی صحابہ کا درجہ ہے اور ان کے بعد وہ جو بیعت رضوان میں شریک ہوئے۔ صحابہ کی فضیلت کی اس ترتیب میں اہل السنت و الجماعۃ تقریبا متفق ہیں گو بعض علما حضرت علی کی افضیلت کے بھی قائل ہوئے ہیں۔ یاد رہے کہ حضرت نے حضرت ابوبکر کے بعد ہجرت کی تھی۔ (از کبیر و ابن کثیر) ف 2۔ ان سے مراد وہ صحابہ ہیں جو بعد میں ایمان لائے اور ہجرت بھی کی جیسا کہ سورۃ انفال آیت 75 میں مہاجرین اور انصار کا تزکرہ کرنے کے بعد فرمایا : والذین امنوا من بعد وھاجروا کہ جو ان کے بعد ایمان لائے اور پھر ہجرت بھی کی اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ "اتبعوھم باحسان" سے قیامت تک کے وہ تمام مسلمان مراد ہوں جو صحابہ کرام کے نقش قدم پر ہیں اور ان کے قول و عمل میں احسان پایا جاتا ہے۔ بہرحال ان سے اصطلاحی تابعین ہی مراد نہیں ہیں۔ (کبیر۔ شوکانی) ف 3۔ چونکہ رضائے الٰہی کے حصول اور جنت میں داخل ہونے کی خوشخبری جس علت پر مترتب ہورہی ہے وہ دائمی ہے یعنی ہجرت و نصرت میں پہل، اس لیے یہ بشارت بھی دائمی ہے۔ لہذا ان صحابہ میں سے العیاذ باللہ کسی ایک کے متعلق ارتداد کا تصور بھی نہیں ہوسکتا۔ پھر کتنے بدبخت اور لعنتی ہیں وہ لوگ جو ان حضرت کے خلاف عموما اور ان افضل ترین ہستیوں (حضرت ابوبکر و حضرت عمر) کے خلاف خصوصا زبان درازی، سب و شتم اور تبرا بازی کا مظاہرہ کرتے رہتے ہیں اور ان کو برے القاب سے یاد کرتے ہیں۔ از وحیدی التوبہ
101 ف 4 پہلے منافقین اعراب (بدویوں) کا ذکر فرمایا پھر اعراب میں سے مخلصین کا تذکرہ کیا۔ ان کے بعد مہاجرین و انصار کو خوش خبری دی اور انکے لیے بلند مراتب کا بیان فرمایا۔ اب ان ضمنی مباحث کے بعد پھر منافقین کا تذکرہ شروع کیا جو مدینہ اور اس کے ماحول میں رہتے ہوئے اپنے نفاق میں اتنے مشاق اور ماہر ہوگئے ہیں کہ آں حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باوجود اپنی فراست نافذہ اور قوت حدس کے ان سب کو معین طور پر نہیں پہچان سکتے گو بعض کو ان کے لہجے اور دوسری علامات سے پہچانتے ہوں۔ (دیکھیے سورۃ محمد آیت 30) لہذا جن روایات میں یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بعض منافقین کے نام بھی حضرت حذیفہ کو بتا دئیے تھے وہ اس آیت کے منافی نہیں ہے کیونکہ یہاں کلی طور پر سب کو جاننے کی نفی ہے۔ (کبیر۔ ابن کثیر 9 ف 5۔ ایک تو دنیا میں غم و اندوہ اور فکر مندی کا عذاب جس میں منافقین ہمیشہ مبتلا رہتے۔ یحسبون کل صیحۃ علیہم۔ کہ وہ ہر لمحہ اپنے تئیں خطرہ میں محسوس کرتے رہتے ہیں اور پھر رسوئی بھی جیسا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بعض منافقین کے نام لے کر ان کو مسجد سے نکال دیا اور مرنے کے بعد قبر کا عذاب۔ اسی کو دوسرا عذاب فرمایا۔ (کبیر) ف 6۔ یعنی دوزخ کا عذاب۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں : مرتین، یعنی دنیا میں تکلیف پر تکلیف پاویں گے پھر آخرت میں پکڑے جاویں گے۔ (از موضح) التوبہ
102 ف 7 اوپر ان منافقین کا ذکر فرمایا جو غزوہ تبوک میں بوجہ نفاق پیچھے رہ گئے تھے۔ اب ان لوگوں کا ذکر فرمایا جو غلطی اور سستی سے غزوہ میں شرکت نہیں کرسکے ورنہ وہ حقیقت میں منافق نہیں تھے (ابن کثیر) یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنے جرم کا اعتراف کرلیا ف 8۔ یعنی مسلمان ہونے کے بعد نماز روزہ بھی کرتے رہے جہاد میں بھی شریک رہے مگر اب یہ غلطی ہوگئی کہ غزوہ تبوک میں نہ نکلے۔ (قرطبی) ف 9۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ یہ آیت ابولبابہ اور ان کے ساتھیوں کے حق میں نازل ہوئی ہے وہ سچے مسلمان تھے اس لیے جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غزوہ سے واپس تشریف لے آئے تو انہوں نے اپنے گناہ کا اعتراف کرتے ہوئے مسجد نبوی کے ستونوں سے اپنے آپ کو باندھ لیا اور قسم کھائی کہ جب تک آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے دست مبارک سے نہیں کھولیں گے کچھ کھائے پئے بغیر یہیں بندھے رہیں گے۔ آخر کار ان کی توبہ قبول ہوئی اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو اپنے دست مبارک سے کھولا۔ (ابن جریر) التوبہ
103 ف 10۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جب ان لوگوں کی توبہ قبول ہوگئی تو یہ اپنے اموال لے کر آنحضرت صلی اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے کہ ہمارا صدقہ قبول فرمائیے اور ہمارے لیے استغفار کیجیے مگر آپ نے صدقہ قبول کرنے سے انکار فرما دیا کہ مجھے اللہ نے حکم نہیں دیا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (وحیدی) ف 11۔ اس لیے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا معمول تھا کہ جب کوئی شخص صدقہ (فرض زکوۃ یا نفلی صدقہ) لے کر حاضر ہوتا تو اس کے لیے دعا فرماتے : اللہم صل علی ال فلان۔ کہ اے اللہ فلاں کے گھر والوں پر اپنی رحمت نازل فرما۔ (بخاری و مسلم) التوبہ
104 ف 1۔ حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ صدقہ قبول فرما کر اپنے دائیں ہاتھ میں لے لیتا ہے اور اس کی اس طرح پرورش کرتا ہے جیسے کوئی شخص اپنے گھوڑے کے بچے کو پالتا ہے حتی کہ ایک کھجور کا ثواب احد پہاڑ کے برابر ہوجاتا ہے۔ (ترمذی) التوبہ
105 ف 2۔ یعنی اگر اب قصور ہوگیا تو آئندہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور خلفاء کے دور میں جو جہاد ہونے والے ہیں ان میں خوب کام کرلو۔ (از موضح) التوبہ
106 ف 3۔ جو لوگ غزوہ تبوک میں شریک نہیں ہوئے اور مدینہ سے نہیں نکلے وہ تین طرح کے تھے ایک منافقین، دوسرے حضرت ابو لبابہ اور ان کے ساتھی جن کا اوپر ذکر گزر چکا ہے اور تیسرے کعب بن مالک اور ان کے دو ساتھی مرارہ بن ربیع اور ہلال بن امیہ جنہوں نے اگرچہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی واپسی پر کوئی جھوٹا عذر بنا کر پیش نہیں کیا لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول نہ فرمائی اور ان کے معاملے کو موخر رکھا۔ اس آیت میں انہی کے معاملے کو ڈھیل میں رکھے جانے کا ذکر ہے۔ حضرت ابولبابہ اور ان کے ساتھیوں کی توبہ جلد ہی قبول کرلی گئی تھی جیسا کہ پہلے ذکر ہوچکا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکیے۔ آیت 117 تا 118) التوبہ
107 ف 4۔ یہ اور اس کے بعد کی چند آیات کی شان نزول یہ ہے کہ آنحضرت کے مدینہ منورہ تشریف لانے سے قبل قبیلہ خزرج میں ایک شخص حنظلہ غسیل ملائکہ کا والد ابوعامر راہب نامی تھا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسے راہب کی بجائے فاسق فرماتے۔ اس نے جاہلیت میں عیسائی بن کر راہبانہ زندگی اختیار کرلی تھی۔ لوگ اس کی درویشی کے معتقد تھے اور اس کی بڑی تعظیم کرتے تھے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ تشریف لائے تو مسلمانوں نے ایک جمعیت کی شکل اختیار کرلی اور اس متحدہ طاقت نے جند بدر میں بھی کفار کو شکست فاش دی تو یہ دیکھ کر ابو عامر چراغ پا ہوگیا اور اسلام دشمنی پر کمر باندھ لی۔ اس کے بعد مکہ پہنچا اور قریش کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف جنگ پر ابھارتا رہا حتی کہ معرکہ احد پیش آیا۔ اس جنگ میں اس بدبخت نے دو گڑھے کھدوائے تھے جن میں سے ایک گر کر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) زخمی ہوئے تھے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے حق میں بد دعا بھی کی تھی کہ وہ اپنے وطن سے دور تنہا اور بیکسی کی موت مرے۔ چنانچہ بالآخر جنگ حنین کے بعد جب اس نے دیکھا کہ اسلام کی جڑیں مضبوط ہوگئی ہیں۔ جزیرہ عرب میں مسلمانوں کو عروج حاصل ہوگیا ہے تو وہ بھاگ کر عیسائیوں کے بادشاہ ہر قل کے پاس پہنچ گیا تاکہ اس سے مسلمانوں کے خلاف مدد حاصل ہوجائے۔ ہر قل نے اس سے مدد کا وعدہ بھی کرلیا اس لیے اس نے مدینہ کے منافقین کو لکھا کہ میں عنقریب ایک لشکر جرار لے کر محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے لڑنے آرہا ہوں۔ تم فی الحال ایک الگ اڈہ قائم کرو جہاں اسلام کے خلاف سازشیں کی جا سکیں اور میرے ساتھ رابطہ قائم رکھ سکو۔ چنانچہ منافقین نے مسجد قبا کے قریب مسجد کے نام سے ایک اڈہ بنانا شروع کردیا اور اس کی تکمیل کے بعد مسلمانوں کے قلوب سے شک و شبہ دور کرنے کے لیے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دعوت دی کہ یہاں تبرک کے طور پر ایک نماز پڑھا جائیں۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس وقت تبوک روانہ ہونے کی تیاری کر رہے تھے اس لیے آپ ن نے فرمایا کہ اللہ نے چاہا تو واپسی پر میں تمہاری مسجد میں آخر نماز پڑھوں گا۔ جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تبوک سے واپس ہو کر مدینہ کے بالکل قریب پہنچ گئے تو حضرت جبرائیل یہ آیات لے کر نازل ہوئے جن میں اس مسجد ضرار کا پول کھولا گیا ہے۔ آپ نے مالک بن دخشم اور معن بن عدی کو حکم دیا کہ اس جگہ کو جس کا نام ازراہ فریب مسجد رکھا گیا جا کر فوراً پیوند خاک کردیں۔ انہوں نے حکم کی تعمیل کی اور اس جگہ کو فوراً جلا کر ختم کردیا۔ اس جگہ من حارب اللہ ورسولہ سے یہی بد بخت ابو عامر مراد ہے۔ (کبیر۔ ابن کثیر) التوبہ
108 ف 5۔ مراد مسجد قبا ہے جیسا کہ آیت کے سیاق سے معلوم ہوتا ہے۔ چنانچہ مسجد قبا میں نماز کی فضیلت میں مروی ہے کہ "اس میں ایک نماز عمرہ کے برابر ہے"۔ اور صحاح میں ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پیدل و سوار اس مسجد میں نماز کے لیے تشریف لایا کرتے۔ بعض صحیح احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مسجد نبوی وہ مسجد ہے جس کی بنیاد پہلے روز سے تقوی پر رکھی گئی ہے اور اکثر مفسرین نے یہی مسجد مراد لی ہے مگر ان دونوں قسم کی احادیث میں تعارض نہیں ہے کیونکہ اگر مسجد قبا وہ مسجد ہوسکتی ہے جس کی بنا تقوی پر رکھی گئی ہے تو مسجد نبوی بطریق اولی اس صفت کی مستحق ہے۔ (از ابن کثیر و کبیر) ف 6۔ یعنی ڈھیلے استعمال کرنے کے بعد پانی سے بھی استنجاء کرتے ہیں کیونکہ قبا سے قریب رہنے والے انصار کا یہ معمول تھا اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ اسی پر اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ تعریف فرمائی ہے۔ (کبیر۔ ابن کثیر) ف 7۔ جو ظاہر اور باطن دونوں کو پاک رکھتے ہیں التوبہ
109 ف 8۔ یا وہ عمارت دھڑام سے اپنے بنانے والے کو لے کر دوزخ کی آگ میں جا پڑے ف 9۔ یعنی بے انصافی کی یہ شامت پڑتی ہے کہ نیک عمل کرنا بھی چاہیں تو بن نہیں آتا۔ (از موضح) التوبہ
110 ف ١ یعنی انہوں نے یہ عمارت بنا کر اللہ و رسول کی دشمنی کا کام کیا ہے جس کا یہ اثر ہوا کہ ان کے دلوں میں ہمیشہ کے لئے جب تک موت انہیں ٹکڑے ٹکڑے نہ کر دے، نفاق جم گیا۔ پس ” ریب“ سے مرد نفاق ہے۔ کذا فی الکبیر التوبہ
111 ف ٢ منافقین کے بیان سے فارغ ہونے کے بعد اب اس آیت میں جہاد کی فضیلت بیان فرمائی ہے۔ مروی ہے کہ لیلتہ العقبہ میں جب ستر آدمیوں سے آپ نے بیعت تو شرط کی کہ ایک اللہ کی عبادت کرنا اور اس کے ساتھ شرک نہ کرنا اور میری ذات کی اس طرح حفاظت کرنا جس طرح تم اپنے جان و مال کی حفاظت کرتے ہو۔ انصار نے کہا اگر ہم یہ کرلیں تو ہمارے لئے کیا ہوگا ؟ فرمایا ” الجنہ“ کہ تمہارے لئے اس کے بدلہ جنت ہوگی۔ انصار نے اس پر اللہ اکبر کا نعرہ لگایا اور کہا ہمیں منظور ہے اس پر یہ آیت نازل ہوئی : ذکرہ الحافظ (کبیر۔ ابن کثیر) التوبہ
112 ف ٣ اس کے لفظی معنی گھومنے اور سیاحت کرنے والوں کے ہیں۔ اکثر صحابہ اور مفسرین نے اس سے ” روزہ رکھنے والے“ مراد لئے ہیں۔ بعض نے مجاہدین یا وہ طالب علم بھی مراد لئے ہیں جو دینی علم کی طلب میں شہر بشیر سفر کریں۔ (کبیر) شاہ صاحب فرماتے ہیں، بے تعلق رہنا روزہ ہے یا ہجرت یا دل نہ لگانا دنیا کے مرہون میں۔ (کذافی الموضح) ف ٤ ” حکم شرعی کے بغیر کوئی کام نہ کریں۔“ یعنی اس کی موکدہ شریعت کی ہر حال میں پابندی کرنے والے مطلب یہ ہے کہ صرف دوسروں ہی کو نصیحت نہیں کرتے بلکہ خود بھی عمل کرتے ہیں۔ التوبہ
113 ف ٥ ابتدا سورت سے لے کر یہاں تک مشرکین اور منافقین سے کلی طور پر اظہار برأت کا اظہار بھی لازم ہے اور ان کے لئے استغفار جائز نہیں۔ (کبیر) اس آیت کی شان نزول کے بارے میں متعدد روایات ہیں۔ صحیحین میں حضرت سعید بن مسیب اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ ابو طالب کی وفات کے وقت آنحضرت اس کے پاس تشریف لے آئے اور آپ نے فرمایا :” چچا ! لا الہ الہ اللہ کہہ دیجیے تاکہ میں قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے ہاں تیرے بارے میں کچھ عرض کرسکوں ابوجہل اور ابن امیہ بھی پاس بیٹھے تھے وہ کہنے لگے ابو طالب کیا تو عبدالمطلب کے دین سے منہ موڑ رہا ہے آنحضرت تلقین کرتے رہے اور کافر اپنی بات دہراتے رہے۔ آخر کار مرتے وقت ابو طالب علی ملۃ عبدالمطلب کہہ کر مر گیا۔ آنحضرت نے فرمایا :” میں تیرے لئے اس وقت تک مغفرت کی دعا کرتا رہوں گا جب تک مجھے اس سے منع نہ کردیا جائے۔“ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ دوسری مقبولیت مسند احمد وغیرہ میں ہے کہ ایک سفر میں رسول اللہ ﷺ نے جب کہ ایک ہزار صحابہ آپ کے ہمراہ تھے اپنی والدہ حضرت آمنہ کی قبر پر دعا کرنے کی اجازت طلب کی تو اللہ تعالیٰ نے اجازت نہ دی جس پر آنحضرت خوب روئے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (ابن کثیر) علاوہ ازیں اور بھی روایات مذکور ہیں۔ حافظ ابن حجر عسقلانی شرح بخاری فتح الباری میں لکھتے ہیں یہ سارے واقعات نزول آیت کا سبب بن سکتے ہیں مگر جن روایات میں یہ مذکور ہے کہ آنحضرت کے والدین کو زندہ کیا گیا اور ایمان لا کر پھر فوت ہوگئے یہ سب روایات حسب تصریح حافظ ابن کثیر و دیگر محققین پایہ ثبوت سے ساقط ہیں لیکن اس مسئلے میں سکوت میں ہی احتیاط ہے۔ (ت ۔ ن ) التوبہ
114 ف ٦ حضرت ابراہیم نے اپنے مشرک باپ سے یہ وعدہ اس وقت کیا تھا جب وہ اس سے جدا ہو کر بغرض ہجرت اپنے وطن سے نکلے تھے (دیکھیے سورۃ مریم آیت 47) چنانچہ حسب وعدہ حضرت ابراہیم نے اپنے باپ کے لئے دعائے مغفرت کی بھی۔ (دیکھیے شعرا آیت 42) مگر یہ اس وقت تک کی کیفیت کا ذکر ہے جب تک انہیں امید تھی کہ ان کا باپ شرک سے توبہ کر کے مسلمان ہوجائیگا آخر مایوس ہونے کے بعد برأت کا اعلان فرما دیا۔ (کبیر) اگر کوئی کافر فرشتے دار فوت ہوجائے تو مسلمان اس کی تجہیز و تکفین میں شریک تو ہوسکتا ہے مگر اس کے لئے دعائے مغفرت نہیں کرسکتا۔ (از ابن کثیر) ف ٧ یا خدا کے حضور بہت آہیں بھرنے والے اور حلیم تھے کہ اگر کوئی سختی سے پیش آتا تو آپ نرمی سے جواب دیتے۔ (از ابن کثیر) التوبہ
115 ف ١۔ اس میں ان مسلمانوں کو تسلی دی ہے جنہوں نے اوپر کی آیت کے نزول سے پہلے اپنے کافر کافر رشتہ داروں کے لئے دعائے مغفرت کی تھی۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی پر اس کے گمراہ ہونے کا حکم نہیں لگاتا جب تک کہ عنہی عنہ کام کی وضاحت نہ کردے۔ اگر اس وضاحت قبل کوئی برے کام کا ارتکاب کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا آنحضرت اور مسلمانوں پر اس استغفار سے کوئی مواخذہ نہیں ہے۔ (ابن کثیر۔ شوکانی) ۔ ف ٢۔ اسی واسطے تمہیں منع کردیا۔ (موضح)۔ التوبہ
116 ف ٣۔ انہوں نے بعض لوگوں کو غزوہ تبوک میں گھروں میں ٹھہرنے کی جازت دیدی یا مشرکین کیلئے دعائے مغفرت کی۔ (تذکیر)۔ التوبہ
117 ف ٤۔ یعنی بعض مخلص صحابہ تک اس سخت وقت میں جنگ پر جانے سے کسی نہ کسی حد تک جی چرانے لگے تھے مگر چونکہ ان کے دلوں میں ایمان واخلاص تھا اس لئے آخر کار وہ اپنی اس کمزوری پر قابو پاگئے۔ (کبیر)۔ ف ٥۔ یعنی مہاجرین و انصار کے دل کے خطرات بھی معاف کردیے۔ (از موضح)۔ التوبہ
118 ف ٦۔ یہ بی لقد تاب اللہ کے تحت ہے اور ان سے مراد ہیں حضرت کعب بن مالک مرارہ بن ربیع اور ہلال بن امیہ۔ دیکھئے آیت ٦٠١۔ (ابن کثیر)۔ ف ٧۔ کوئی ان سے بات تک نہ کرتا اور نہ اپنے پاس بیٹھنے کی اجازت دیتا یہاں تک کہ ان کی بیویوں کو بھی بات چیت کی اجازت نہ تھی۔ آنحضرت ﷺ نے ان سے مکمل بائیکاٹ کا حکم دے دیا تھا۔ حضرت کعب (رض) نے ایک لمبی حدیث میں اس بائیکاٹ اور پھر توبہ قبول ہونے کی پوری تفصیل بیان کی ہے۔ (ابن کثیر)۔ ف ٨۔ معلوم ہوا کہ توبہ کا قبول کرنا محض اللہ کا فضل و کرم ہے ورنہ اس پر کسی کا زور نہیں ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں : ساتھ مہاجرین (رض) و انصار (رض) کے (توبہ کے قبول ہونے میں) وہ تین شخص بھی داخل ہوئے پچاس دن میں ان پر سخت حالت گزری کہ موت سے بدتر۔ (موضح)۔ التوبہ
119 ف ٩۔ اور وہ آنحضرت ﷺ اور آپﷺ کے صحابہ میں۔ (ابن کثیر) یہ تین سچ کہنے سے بخشے گئے نہیں تو منافقین میں ملتے (موضح)۔ حضرت کعب (رض) بن مالک کا بیان ہے کہ مسلمان ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ کا سب سے بڑا انعام مجھ پر یہ ہے کہ میں نے آنحضرتﷺ کے سامنے سچ بولا ورنہ میں بھی جھوٹ بول کر ہلاک ہوجاتا جیسے دوسرے ہلاک ہوگئے۔ ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا : تم راستبازی پر مضبوطی سے قائم رہو اس لئے کہ راست بازی نیکی کی اور نیکی جنت کی راہ دکھاتی ہے۔ آدمی سچ بولتا اور سچ بولنے کی کوشش کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ کے ہاں اسے صدیق لکھ دیا جاتا ہے۔ (بخاری مسلم)۔ التوبہ
120 ف ١٠۔ مزینہ، جہینہ، اشجع، اسلم اور غفار وغیرہ قبائل کے لوگ۔ ف ١۔ یعنی بستیاں، زمینیں، مکانات اور کھیتیاں یا کوئی بھی ایسی جگہ جس میں آنے اور چلنے پھرنے سے ان کے دل میں غصہ اور جلن پیدا ہو اور خوف زدہ ہوں۔ (ابن کثیر۔ کبیر) ف ٢۔ انہی قتل کریں، قیدکریں یا ان سے مال غنیمت حاصل کریں۔ ف ٣۔ جس کا ثواب انہیں ضرور ملے گا۔ التوبہ
121 ف ٤۔ اس آیت کی رو سے حضرت امیر المومنین بن عفان کو بھرپور اجر نصیب ہوا جیسا کہ حضرت عبد الرحمن بن حباب سلمی سے روایت ہے کہ غزوہ تبوک کے موقع پر نبی ﷺ نے خطبہ دیا جس میں مسلمانوں کو زیادہ سے زیادہ چندہ دینے کی ترغیب دی۔ حضرت عثمان (رض) نے عرض کیا ” میں ایک سو اونٹ پالان سمیت چندہ دیتا ہوں۔ آنحضرت ﷺ نے منبر سے ایک سیڑھی نیچے اتر کر پھر اپیل کی تو حضرت عثمان (رض) نے عرض کیا ” میں مزید ایک سو اونٹ پالان سمیت دیتا ہوں۔ اس پر نبی ﷺ نے تعجب اور خوشی سے اپنا ہاتھ ہلایا۔ گویا کہ آپﷺ فرما رہے تھے اس کے بعد عثمان (رض) کو کسی گناہ کا خطرہ نہیں۔ (ابن کثیر)۔ التوبہ
122 ف ٥۔ یعنی ان کاموں سے بچے رہیں جن سے اس کے بعد منع کیا گیا۔ مفسرین کے ایک گروہ کا خیال ہے کہ جب ان لوگوں کو سخت لعنت ملامت کی گئی جو جہاد کے لئے نکلنے کی بجائے اپنے گھروں میں بیٹھے رہے تھے تو مسلمانوں نے خیال کیا کہ اب کسی کیلئے جہاد کے موقع پر مدینہ میں ٹھہرے رہنا جائز نہیں ہے۔ چنانچہ اس کے بعد آنحضرت ﷺ جب بھی کفار سے جہاد کے لئے فوج بھیجنے کا ارادہ کرتے سب کے سب مسلمان جہاد پر جانے کیلئے تیار ہوجاتے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ مطلب یہ ہے کہ تمام مسلمانوں کے لئے جہاد کو نکلنا اس وقت فرض ہے جب آنحضرت ﷺ خود روانہ ہورہے ہوں ورنہ تو انہی لوگوں پر جہاد کے لئے ضروری ہے جن کو حکم دیا جائے۔ بعض مفسرین کا خیال ہے کہ اس آیت کا تعلق علم دین کے حاصل کرنے سے ہے یعنی اگرچہ تمام مسلمانوں کے لئے دین کا علم حاصل کرنے کے لئے نکلنا ضروری نہیں تھا مگر ایسا کیوں نہ ہوا کہ ان کے ہر قبیلے میں سیکچھ لوگ نکلتے علم حاصل کرتے اور واپس آکر اپنے قبیلے کے لوگوں کو بھی دین کے احکام سے خبردار کرتے تاکہ وہ بری باتوں سے پرہیز کرتے۔ آیت کے الفاظ میں ان ہر دو مفہوم کا یکساں احتمال ہے اور اس کی رو سے جہاد اور طلب علم دونوں کے لئے نکلنا مسلمانوں کے لئے فرض کفایہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ یعنی اس کی ذمہ داری بحیثیت مجموعی سب پر عائد ہوتی ہے اور ان میں سے بعض افراد کا اسے سرانجام دینا ضروری ہے ورنہ سب گنہگار ہوں گے۔ (کبیر۔ ابن کثیر)۔ التوبہ
123 ف ٦۔ یعنی کفار میں سے جو لوگ تم سے جتنا زیادہ قریب ہیں اتنا ہی ان سے پہلے جہاد کرو۔ پھر ان سے جہاد کرو جو اُ ن کی بہ نسبت دور ہیں۔ چنانچہ اسی ترتیب کے ساتھ نبیﷺ نے پہلے اپنے خاص قبیلہ قریش سے جنگ کی پھر جزیرہ عرب کے دوسرے قبائل سے اور پھی بنی قریظہ بنی نضیر سے اور پھر خیبر اور فدک کے اہل کتاب سے جو مدینہ کے اردگرد تھے۔ جب ان سب سے فارغ ہوئے تو غزوۂ تبوک کی مہم پر ملک شام کے عیسائیوں سے جہاد کے لئے روانہ ہوئے۔ یہی ترتیب آپﷺ کے بعد حضرت ابوبکر صدیق (رض)، حضرت عمر فاروق (رض)، شہید محراب (رض) اور دوسرے خلفائے ملحوظ رکھی۔ چنانچہ ان کے زمانے میں پہلے ملک شام فتح کیا گیا اور اس کے بعد ایران اور مصر پر حملہ کیا گیا۔ اس طرح مشرق و مغرب میں اسلام کا جھنڈا لہرانیلگا۔ (ابن کثیر)۔ ف ٧۔ اس لئے کہ کامل مومن وہ ہے جو اپنے مسلمان بھائی کے لئے نرم اور کافر دشمن کے لئے سخت ہوجیسا کہ دوسری آیت میں صحابہ کرام (رض) کی یہ خوبی بتائی گئی کہ وہ اشداء علی الکفار رحماء بینھم ” کافروں پر سخت اور آپس میں رحم دل“ ہیں اور مومنین کی صفت میں فرمایا : اذلۃ علی المومنین اعزۃ علی الکافرین۔ مومنوں پر نرم اور کافروں پر سخت“ ہوتے ہیں۔ ایک حدیث میں ہے آنحضرت ﷺ نے فرمایا : انا الضحون القتال میں (اپنے ساتھیوں کے ساتھ) بہت ہنس مکھ اور (کافروں کو) بہت قتل کرنے والو ہوں۔ (ابن کثیر)۔ ف ٨۔ یعنی اگر تم اللہ سے ڈرتے ہوئے اسی پر بھروسہ کرتے ہوئے کافروں سے جنگ کرو گے تو تہ تمہارے ساتھ ہوگا تمہیں کوئی طاقت زک نہیں پہنچا سکے گی۔ (ابن کثیر)۔ التوبہ
124 ف ٩۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ ایمان میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے۔ جیسا کہ سلف و خلف اکثرعلما کا مسلک ہے۔ (ابن کثیر) التوبہ
125 ف ١۔ پچھلی سورتوں کے منکر تھے اب نئی سورت آنے پر جب اس سے بھی انکار کیا تو کفر کا ایک اور رد اان کے دلوں پر چڑھ گیا۔ التوبہ
126 ف ٢۔ اکثر جنگ و جہاد کے وقت منافق معلوم ہوجاتے تھے۔ (موضح)۔ التوبہ
127 ف ٣۔ بھاگ نکلنے کی نیت سے یا انکار اور ٹھٹھے کی نیت سے (کبیر)۔ ف ٤۔ یا اللہ ان کے دلوں کو پھیر دے۔ یہ ان کے حق میں بدعا ہے۔ ف ٥۔ تب ہی وہ وپنی فلاح سے غافل اور بھلائی سے بے فکر ہیں۔ شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں : کلام اللہ میں جہاں منافقوں کے عیب آتے وہ آپس میں دیکھتے کہ ہم کو کسی نے پرکھا نہ ہو پھر جلدی سے اتھ جاتے۔ (موضح)۔ التوبہ
128 ف ٦۔ یعنی دنیا میں جہنم کی زندگی بسر کرلو۔ ذلیل و خوار رہو اور آخرت میں جہنم کی آگ کا ایندھن بنو۔ یہ چیز اس کو بہت ناگوار گزرتی ہے۔ یوں بھی آنحضرت نہایت آسان شریعت لے کر مبعوث ہوئے ہیں جیسا کہ حدیث میں ہے۔ بعثت بالحنفیۃ السحۃ کہ مجھے آسان حنیف شریعت دے کر بھیجا گیا ہے۔ ف ٧۔ رات دن اس کی یہی کوشش ہے اور وہ اسی فکر میں لگا رہتا ہے کہ جس طرح بھی ہوسکے تم دوزخ سے بچ جائو اور دنیا و آخرت کی فلاح حاصل کرلو۔ (۔۔۔)۔ شاہ صاحب (رح) نے حریض علیکم کا ترجمہ کیا ہے۔ ” تلاش رکھتا ہے تمہاری“ اس کی وضاحت میں فرمایا : چاہتا ہے میری امت زیادہ ہوتی رہے۔ (از موضح)۔ التوبہ
129 ف ٨۔ یعنی اس سہولت اور حرص کے باوجود جو شریعت آپﷺ لے کر آئے ہیں اس کے ماننے سے انکار کردیں۔ ف ٩۔ حضرت ابو الدردا فرماتے ہیں کہ جو شخص صبح اور شام سات مرتبہ یہ وظیفہ (حسبی اللہ لا الہ الا ھو علیہ توکلت وھو رب العرش العظیم) پڑھتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی تمام فکروں کیلئے کافی ہوجاتا ہے۔ (ابن کثیر)۔ التوبہ
0 ف ٠١۔ یہ پوری پوری کی سورۃ مکہ میں نازل ہوئی۔ صرف اس کی تین آیتوں (٤٩ تا ٦٩) کو بعض مفسرین مدنی قرار دیتے ہیں۔ (فتح القدیر)۔ یونس
1 ف ١١۔ یہ حروف مقطعات ہیں۔ تشریح کے لئے دیکھئے سورۃ بقرہ آیت ا۔ اقرطبی)۔ ف ١٢۔ محکم کتاب (قرآن پاک) یعنی جس کے حلال و حرام اور حدود واحکام کبھی منسوخ نہ ہوں گے یا جس میں حکمت و دانش بھری ہے یا جو غلطیوں اور اختلاف سے پاک ہے۔ لفظ ” حلیم“ کے یہ سب ہی معنی کئے جاسکتے ہیں۔ (قرطبی)۔ یونس
2 ف ١٣۔ یعنی آخر اس میں تعجب اور حیرت کی کون سی بات ہے کہ انسانوں کو خدا کے عذاب سے ڈرانے اور فلاح و سعادت کی راہ دکھانے کے لئے خود انہی میں سے ایک بشر کو رسول بنا کر بھیجا دیا گیا؟ تعجب کی بات تو جب ہوتی کہ ان کا پروردگار ہدایت کا کوئی سامان نہ کرتا اور یا ان میں کسی جن یا فرشتے کو رسول بنا کر بھیجا دیتا کیونکہ فرشتہ یا جن انسانوں کے لئے ” اسوہ حسنہ“ نہیں بن سکتا۔ (از قرطبی وابن کثیر)۔ ف ١٤۔ یا سچائی کا مقام یعنی جنت۔ علما نے لکھا ہے کہ ” قدم“ کا لفظ سعی و عمل سے کنایہ ہوتا ہے لہذا ” قدم صدق“ سے مراد نیک اعمال ہیں اور مطلب یہ ہے کہ انہیں ان کے نیک اعمال کا اللہ تعالیٰ کے ہاں سے بدلہ ملے گا۔ (قرطبی) ف ١۔ اور یہ کہنے میں کافر سراسر جھوٹے تھے اس لئے قرآن نے اس کا جواب نہیں دیا۔ (کبیر)۔ یونس
3 ف ٢۔ یعنی چھ دن کی مدت میں آسمان و زمین بنائے۔ (نیز دیکھئے اعراف ١٤٥)۔ ف ٣۔ یعنی اس ملک کا دربار ٹھہرا یا عرش پر، سب (ہر) کام کی تدبیر وہاں سے ہو۔ (موضح) نیز دیکھئے۔ (اعراف : ٤٥)۔ ف ٤۔ یہ مضمون کہ اللہ تعالیٰ کے حضور کوئی شخص اس کی اجازت کے بغیر قناعت نہیں کرسکے گا قرآن کی متعددآیات میں بیان ہوا ہے مثلاً دیکھئے سورۃ بقرہ آیت ٥٥٢، سورۃ طہ آیت ٩٠١، السبا : ٣٢، سورۃ النجم : ٦٢۔ (قرطبی۔۔۔۔) قرآن نے جہاں مطلق شفاعت کے فائدہ مند ہونے کی نفی کی ہے وہاں یا تو کفار کا ذکر ہے اور یا بلا اذن شفاعت کی نفی ہے۔ ورنہ امت کے گنہگار مسلمانوں کے حق میں شفاعت صحیح احادیث سے ثابت ہے اور یہ بھی کہ آپﷺ کی شفاعت قبول کی جائے گی مگر یہ شفاعت بھی اللہ تعالیٰ سے اجازت کے بعد ہوگی۔ (کبیر۔ ابن کثیر) کفار جن بتوں کی پوجا کرتے تھے انکو اپنا سفارشتی سمجھتے۔ قرآن نے انہی کا رد کیا۔ (قرطبی)۔ ف ٥۔ ’ عبادت کے معنی ” پوجا کرنا“ بھی ہیں اور پوری زندگی ” عہد“ یعنی اس کا فرمانبردار بندہ بن کر گزارنے کو بھی عبادت کہا جاتا ہے اور حاجت روائی کے لئے کسی غائبانہ طاقت کے پکارنے کو بھی عبادت کہا جاتا ہے۔ قرآن نے ہر قسم کی عبادت کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص کیا ہے۔ پس ” فاعبدوا“ کے معنی ہیں اس کو پوجا کرو۔ اسی کو مشکلات دور کرنے کے لئے پکارو اور پوری زندگی اسی کی بندگی میں بسر کرو۔ زندگی کے کسی شعبہ میں بھی اگر تم کسی اور کی بندگی اختیار کرو گے تو گویا اسے خدا کی خدائی میں شریک ٹھہرائو گے۔ ف ٦۔ اگر تم ذرا بھی غوروفکر سے کام لو تو تمہیں یقینا معلوم ہوجائے گا کہ صرف خدا کی ہستی ہی عبادت کے لائق ہے۔ اس کے علاوہ جن کی بندگی کرتے ہو یا جن کے سامنے ماتھے رگڑتے ہو یا نذر نیازیں پیش کرتے ہو وہ یا تو تم ہی جیسے بے کس و لاچار انسان ہیں یا وہ بت ہیں جنہیں اگر کوئی توڑ دے تو اپنی حفاظت تک نہیں کرسکتے۔ کیا تمہیں نفع یا نقصان پہنچا سکتے ہیں؟۔ یونس
4 ف ٧۔ جو ذات تمہیں شروع میں پیدا کرتی ہے یعنی عدم سے وجودم میں لاتی ہے کیا اس کے لئے یہ مشکل ہے کہ تمہارے مرجانے کے بعد تمہیں دوبارہ زندگی دے۔ (کذافی ابن کثیر)۔ یونس
5 ف ٨۔ یعنی ہر روز بتدریج گھٹا بڑھتا ہے۔ (وحیدی)۔ ف ٩۔ کیونکہ جن لوگوں کو سمجھ نہیں ان کو یہ بیان کوئی فائدہ نہیں دے سکتا۔ (وحیدی)۔ یونس
6 یونس
7 ف ١٠۔ یا نہیں ڈرتے یا اس کے ثواب کی کچھ طمع نہیں رکھتے بلکہ دنیا کی طرف مائل ہیں۔ (کبیر) یعنی آخرت اور اس میں ہونے والے حشر و نشر پر ایمان نہیں رکھتے اس لئے اس کو کوئی ڈر ان کے دلوں میں نہیں ہے۔ (ابن کثیر) ف ١۔ یعنی ان سے کوئی عبرت حاصل نہیں کرتے اور نہ ان پر کچھ غور فکر کرتے ہیں۔ اگر ان آیات سے آیات قرآن مراد ہوں تو معنی یہ ہوں گے کہ ہمارے احکام سے غفلت برتتے ہیں اور ان کی بجا آوری نہیں کرتے۔ (ابن کثیر)۔ یونس
8 یونس
9 ف ٢۔ بدبخت اور شقی لوگوں کہ حالت بیان کرنے کے بعد اب نیک بخت اور سعید لوگوں کی حالت بیان فرمائی (کبیر) مطلب یہ ہے دنیا میں ایمان لانے کی وجہ سے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی رہنمائی ہوگی حتیٰ کہ وہ پل صراط سے گزر کر سیدھے جنت میں پہنچ جائینگے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بایمانھم میں ” با“ استعانت کے لئے ہوجیسا کہ حضرت مجاہد سے مروی ہے کہ قیامت کے دن ان کے سامنے نور ہوگا کی مدد سے وہ چلیں گے۔ قتادہ (رض) کہتے ہیں کہ ہمیں یہ حدیث پہنچی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا : مومن جب اپنی قبر سے نکلے گا تو اس کا عمل ایک نہایت حسین اور خوشبودار صورت میں اس کے سامنے آئے گا۔ وہ اسے دیکھ کر کہے گا ” تم کیا چیز ہو، اللہ کی قسمیں تو تمہیں سراسر ایک سچا آدمی دیکھ رہا ہوں۔“ وہ کہے گا میں تمہارا عمل ہوں“۔ پھر وہ اس کی نور اور جنت تک رہنمائی کرے گا۔ اس کے برعکس جب کافر اپنے قبر سے نکلے گا تو اس کا عمل ایک نہایت مکروہ اور بدبو دار صورت میں اس کے سامنے آئے گا وہ اس سے کہے گا تم کیا چیز ہو؟ میں تو تمہیں سراسر ایک برا آدمی دیکھ رہا ہوں۔“ وہ کہے گا : میں تمہارا عمل ہوں پھر وہ اسے لے کر جہنم میں جا پھینکے گا۔ (ابن کثیر)۔ یونس
10 ف ٣۔ یعنی جنت میں جنتی لوگوں کی عبادت تسبیح و تحمید ہوگی جیسا کہ ایک حدیث میں ہے : ان اھل الجنۃ یلھمون الحمد والتسبیح کما تلھمون انفاسکم۔ کہ اہل جنت کے دلوں میں حمدو تسبیح کا اس طرح الہام ہوگا جس طرح یہاں تم کو سانس لینے کا الہام ہوتا ہے یعنی وہاں طبعی تقاضے کے تحت تسبیح و تحمید کریں گے۔ بعض روایات میں یہ بھی منقول ہے کہ جب اہل جنت ” سبحانک اللھم“ کہیں گے تو ان کے پاس ہر وہ چیز آجائے گی جس کی وہ اپنے رب سے خواہش کریں گے اور نیز تابعین (رح) سے منقول ہے کہ جب اہل جنت کو کسی چیز کی خواہش ہوگی تو وہ ” سبحانک اللھم“ کہینگے اسی وقت خدمتگار ان کے سامنے وہ چیز لے کر حاضر ہوجائینگے جس کی وہ خواہش کریں گے۔ مگر اہل تحقیق کے نزدیک یہ آثار صحیح نہیں ہیں۔ (کبیر)۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں : اوّل عجائب نعمتیں دیکھ کر کہیں گے پاک ذات یعنی سبحان اللہ اور جنت میں طور ملاقات یہی ہے۔ السلام علیکم جو دنیا میں مسلمان کرتے ہیں۔ (موضح)۔ یونس
11 ف ٤۔ یعنی اللہ کا غضب نازل ہو اور وہ فوراً ہلاک ہوجائیں۔ ابتدا سورۃ سے منکرین نبوت کے شبہات اور ان کے جوابات کا سلسلہ چلا آرہا ہے۔ یہاں سے ان کے دوسرے شبہ کا جواب دیا جا رہا ہے وہ کہا کرتے۔ اے اللہ ! اگر محمد ﷺ سچے ہیں تو ہم پر یا تو پتھر کی بارش ہو یا کوئی دوسرا دردناک عذاب آجائے“ اس آیت میں اسی شبہ کا جواب دیا ہے کہ اگر ایسا ہی ہو تو وہ فوراً ہلاک ہوجائیں۔ (کبیر)۔ بعض علماء نے اس کی تفسیر میں یہ بھی لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر نہایت مہربان ہے۔ انسان جب اپنے لئے یا دوسروں کے لئے بھلائی کی دعا کرتا ہے تو اسے جلد قبول فرماتا ہے لیکن جب غصے یا رنج میں آکر اپنے منہ سے اپنے یا اپنے بچوں یا دوسروں کے لئے بددعا کے کلمات نکالتا ہے تو وہ انہیں قبول نہیں فرماتا بلکہ ڈھیل اور مہلت دیتا ہے کہ شاید وہ اپنی اصلاح کرلیں اور اگر ایسا کرے تو لوگ جلد ہی ہلاک ہوجائیں (کبیر۔ ابن کثیر)۔ شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں :” یعنی آدمی چاہتا ہے کہ نیکی کا بدلہ شتاب ملے یا نیک دعا شتاب لگے۔ سوا اگر حق تعالیٰ شتاب کرے تو انسان اپنی بدی کے وبال سے فرصت نہ پاوے مگر اللہ تعالیٰ کا دونوں میں تحمل ہے تاکہ نیک لوگ تربیت پاویں اور بد لوگ غفلت میں پڑے رہیں۔ (از موضح)۔ ف ٥۔ حضرت جابر سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا :” اپنے لئے، اپنی اولاد کے لئے، اور اپنے مالوں ( غلاموں اور جانوروں) کے لئے بددعا نہ کیا کرو۔ ایسا نہ ہو کہ تم کسی ایسے وقت میں بد دعا کردو جس میں اللہ تعالیٰ اسے قبول کرلے اور تم تباہ ہوجائو۔ (ابو دائود)۔ یونس
12 ف ٦۔ اس آیت میں انسان کے انتہائی عجز اور ضعف کی طرف اشارہ ہے جس سے اوپر کی آیت کے مضمون کی تاکید مقصود ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کا عذاب آجائے تو انسان فوراً ہلاک ہوجائیں۔ (کبیر)۔ مطلب یہ ہے کہ انسان اس قدر عاجز اور ناتواں ہے کہ جونہی کوئی تکلیف پہنچتی ہے لیٹے بیٹھے ہر حال میں اللہ کو پکارتا ہے لیکن اس کے بے وفائی کا یہ عالم ہے کہ جونہی تکلیف دور ہوتی ہے اسی غرور میں بدمست ہوجاتا ہے اور اپنی مصیبت سے کوئی سبق حاصل نہیں کرتا۔ حضرت ابو الدرداء فرماتے ہیں کہ سکھ اور چین کی گھڑی میں اللہ کو یاد کرو وہ سختی اور تکلیف کی گھڑی میں تمہیں یاد رکھے گا۔ (فتح القدیر)۔ ف ٧۔ یعنی شیطان نے ان کے برے کاموں کو ان کی نظر میں بھلا کر دکھایا ہے۔ بہتر ہے کہ وہ اسے سمجھیں اور اپنی اس روش سے باز آجائیں۔ یونس
13 یونس
14 ف ١۔ اوپر بتایا کسان کی بددعا اور طلب پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب نہ اترنے میں سراسر اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے۔ پھر ان کا حال یہ ہے کہ تکلیف نازل ہونے پر اللہ تعالیٰ کے سامنے آہ زاری کرنے لگتے ہیں۔ اب یہاں انہیں تہدید کی تمہاری بداعمالیوں کے باوجود اگر اللہ تعالیٰ کا عذاب ٹل جائے تو تمہیں بے فکر نہیں ہونا چاہیے کیونکہ ایک نہ ایک دن ان بداعمالیوں کی سزا تو مل کر ہی رہے گی۔ تمہیں چاہیے کہ پہلی مجرم قوموں کے حالات پر غور کرو کہ آخر ان کا انجام کیا ہوا۔ (کبیر۔ ابن کثیر)۔ ف ٢۔ یعنی اگر تم بھی ان کی طرح ظلم و شرارت پر کمربستہ رہے گے تو تمہاری تباہی بھی یقنی ہے۔ یونس
15 ف ٣۔ اس آیت میں نبوت پر ان کے تیسرے شہبے کا جواب ہے (کبیر) مطلب یہ ہے کہ مشرکین آنحضرت ﷺ پر تہمت لگاتے کہ یہ قرآن اپنے پاس سے بنا کرلے آتے ہیں۔ اس لئے انہوں نے تجربہ اور امتحان کے لئے یا استھزا کے طور پر آنحضرت ﷺ سے مطالبہ کیا کہ اس قرآن کے علاوہ ایک دوسرا قرآن بھی بنا لائو جس میں ہمارے بتوں کی مذمت نہ ہو اور یا اسی میں کچھ ردوبدل کردو اور ہمارے عقائد و رسوم کے رد اور بتوں کی مذمت پر جو آیات مشتمل میں ان کو نکال دو۔ اللہ تعالیٰ نے اسی کا جواب دیا ہے کہ اے اللہ کے رسولﷺ! آپﷺ انہیں بتا دیں کہ وحی الٰہی کے تابع ہوں اور اپنے پاس سے اس میں کوئی تبدیلی نہیں کرسکتا۔ (رازی) یونس
16 ف ٤۔ اس آیت کا تعلق بھی اسی جواب سے ہے یعنی میری پچھلی ساری زندگی تمہارے سامنے ہے اس پوری مدت میں نہ تو میں نے کسی سے تربیت حاصل کی ہے نہ کسی کی صحبت میں رہا ہوں اور نہ کبھی جھوٹ ہی بولا ہے۔ تم سب مجھے ” امین“ کہہ کر پکارے ہے تو کیا میں اب یکایک اتنا ماہر اور جھوٹا بن گیا ہوں کہ اس قرآن کو خود تصنیت کرکے تمہارے سامنے خدائی کلام کے نام سے پیش کردوں۔ لہٰذا اگر اس قرآن کو خود میری تصنیت کردوہ کتاب قرار دے کر جھٹلا رہے ہو تو جھٹلانے سے پہلے کچھ تو عقل سے کام لو اور میری گزشتہ زندگی پر کو ب غور کرلو۔ (ازکبیر)۔ یونس
17 ف ٥۔ یعنی اگر یہ قرآن خود میں نے تصنیف کرلیا ہے جیسا کہ تم سمجھتے ہو تو میں نے خدا پر بہتان باندھا جس کے برابر کوئی گناہ نہیں۔ مگر اس کا خدا کی طرف سے ہونا اوپر کے دلائل سے ثابت ہوچکا ہے۔ اس کے بعد بھی اگر تم نے اس کی آیات اور مجرم کبھی فلاح نہیں پاسکتے۔ (کبیر)۔ یونس
18 ف ٦۔ یہی حال ہمارے زمانہ کے ان لوگوں کا ہے جو پیروں فقیروں کو مانتے ہیں اور مردہ اولیا اللہ کی قبروں کو سجدہ کرتے اور ان پر چڑھا وے چڑھاتے ہیں۔ انہیں سمجھانے کے لئے جب کوئی بات کی جاتی ہے تو وہ یہی دلیل پیش کرتے ہیں کہ ہم ان بزرگوں کو یہ سمجھ کر تو سجدہ نہیں کرتے اور نہ ان سے مرادیں مانگتے ہیں کہ یہ خود خدا ہیں بلکہ انہیں صرف خدا کے ہاں اپنا سفارشی سمجھتے ہیں کیونکہ ان کا خدا پر اتنا زور ہے کہ وہ ان کی کوئی سفارش سمجھتے ہیں کیونکہ ان کا خدا پر اتنا زور ہے کہ وہ ان کی کوئی سفارش رد نہیں کرسکتا۔ اسی چیز کا جواب اگلے جملہ میں دیا جا رہا ہے۔ (وحیدی)۔ ف ٧۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کو پہنچانتا ہے۔ اگر معاذ اللہ تمہارے یہ بت یا زندہ و مردہ معبود اس کے شریک یا اس کے سفارشی ہوتے تو وہ انہیں بھی ضرور پہنچانتا اور جب وہ ان کے سفارشی ہونے سے انکار کر رہا ہے تو معلوم ہوا کہ ان کی کوئی حقیقت نہیں اور تمہارا نہیں ماننا، انہیں سجدہ کرنا، ان کی قبروں پر چڑھاوے چڑھانا اور ان سے مرادیں طلب کرنا قطعی بے ہودہ اور لغو فعل ہے۔ ف ٨۔ اللہ تعالیٰ کا نہ کوئی شریک ہے اور نہ اسے کسی شریک کی ضرورت ہے کیونکہ وہ خود اتنا حلیم و حکیم اور عزیز و غالب ہے کہ پوری کائنات کا نظام محض اس کے اشارے اور حکم پر چل رہا ہے۔ کسی دوسری ہستی کی اس کے سامنے کوئی مجال نہیں ہے۔ یونس
19 ف ٩۔ اس زمانے کے ملحد فلسفیوں اور تاریخ دانوں کے برعکس قرآن یہ بار بار اعلان کرتا ہے کہ انسانیت کی ابتداء کفر یا شرک سے نہیں بلکہ خالص توحید سے ہوئی۔ ابتدا میں تمام انسان ایک ہی دین۔ اسلام۔ رکھتے تھے اور ایک ہی ان کی ملت تھی لیکن آہستہ آہستہ انہوں نے اس دین سے انحراف کیا اور آپس میں اختلاف کرکے اپنی مرضی کے ادیان اور قوانین گھڑ لئے۔ (نیز دیکھئے بقرہ آیت ٣١٢) ف ١۔ یعنی اگر اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی یہ فیصلہ نہ کرلیا ہوتا کہ دنیا میں لوگوں کو مہلت دی جائے گی تاکہ اپنی عقل و فہم سے کام لے کر جس راستہ کو چاہیں اختیار کریں اور جس راستہ کو چاہیں چھوڑ دیں اور قیامت ہی کیدن انہیں ان کے اچھے یا برے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا تو کبھی کا اللہ تعالیٰ حقیقت کو بے نقاب کرکے ان لوگوں کو پکڑ چکا ہوتا جو ایمان کا راستہ چھوڑ کر کفرو شرک کے راستہ پر چل رہے ہیں۔ (از ابن کثیر۔ قرطبی)۔ یونس
20 ف ٢۔ مثلاً مکہ کے پہاڑ سونے کے کردیتا یا ہمارے باپ دادا کو زندہ کرکے ہمارے سامنے لا کھڑا کرتا یا کوئی فرشتہ اتار دیتا جو ہمارے ساتھ بازاروں کا اور گلی کوچوں میں چل پھر کر اعلان کرتا کہ واقعی محمد (ﷺ) کو اللہ ہی نے اپنا پیغمبر بنا کر دنیا میں بھیجا ہے۔ ف ٣۔ یعنی اس کے سوا کوئی غیب کی بات نہیں جانتا۔ لہٰذا مجھے معلوم نہیں کہ وہ اس قسم کی کوئی نشانی اتارے گا کہ نہیں۔ اور اگر اتارے گا تو کب اتارے گا۔ نشانی اتارنا یا نہ اتارنا اس کی مرضی پر موقوف ہے۔ اگر تم سمجھے ہو کہ وہ نشانی اتارے گا تب تم ایمان لائو گے تو بیٹھے انتظار کرتے رہو میں بھی دیکھوں گا کہ تمہارا یہ مطالبہ پورا ہوتا ہے یا نہیں؟۔ یونس
21 ف ٤۔ انہیں جھٹلاتے اور ان کا مذاق اڑاتے ہیں۔ (ابن کثیر)۔ ف ٥۔ اللہ کی چال سے مراد ہو سزا ہے جو وہ مشرکین کو ان کی مکاریوں اور چالبازیوں پر دیتا ہے اور وہ ہے اس کا انہیں ان کا باغیانہ روش پر چھوٹ دینا اور انہیں اپنے رزق اور نعمتوں سے نوازتے رہنا تاکہ وہ جی بھر کر اپنا نامہ اعمال سیاہ کرتے رہیں۔ ف ٦۔ یعنی جب تمہارا نامہ اعمال خوب سیاہ ہوجائے گا تو اچانک موت کا پیغام آجائے گا اور تم اپنے اعمال کا حساب دینے کے لئے دھر لئے جائو گے۔ شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں : سختی کے وقت آدمی کی نظر اسباب سے اٹھ کر اللہ پر رہتی ہے جب کام بن گیا تو لگا اسباب پر نگاہ رکھنے۔ سو ڈرتا نہیں کہ اللہ پھر ایک اسباب کھڑا کردے۔ اسی تکلیف کا اس کے ہاتھ میں سب اسباب تیار ہیں۔ ایک اسی کی صورت آگے اور فرمائی۔ (موضح)۔ یونس
22 ف ٧۔ اور اپنے تمام بتوں اور معبودوں کو بھول جاتے ہیں اور صرف اللہ تعالیٰ کے سامنے آہ و زاری کرتے ہیں۔ (ابن کثیر)۔ ف ٨۔ یہ تو اللہ تعالیٰ نے مشرکین عرب کا حال بیان فرمایا مگر ہمارے زمانے کے بعض نام کے مسلمانوں کا حال اس سے بھی بدتر ہے ان پر جب کوئی بڑی مصیبت آتی ہے مثلاً دریا میں ڈوبنے یا آگ میں جلنے لگتے ہیں تو بھی شرک سے توبہ نہیں کرتے اور وہی ” یا خواجہ خضر“ یا علی مدد کا نعرہ لگاتے ہیں بلکہ مرتے اور ڈوبتے وقت بھی اللہ کو نہیں پکارتے۔ لاحول ولا قوہ الا باللہ۔ (ازوحیدی) یونس
23 ف ٩۔ حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ ” مکرو فریب“ عہد شکنی اور بغی (فساد و شرارت) ایسے کام ہیں جن کا وبال ان کے کرنیوالوں پر ہی پڑتا ہے۔ اس کے بعد آپﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔ (درمنشورِ) نیز حدیث میں ہے کہ یہ گناہ ایسے ہیں کہ دنیا میں بھی ان کی سزا ملے گی اور آخرت میں بھی (ابن کثیر)۔ یونس
24 ف ١٠۔ یعنی یہ دنیا جس کی لذتوں میں بدمست ہو کر تم ہماری آیتوں کو جھٹلا رہے ہو، غیر ثابت اور جلد فنا ہوجانے میں اس کی مثال ایسی ہے… ف ١۔ یعنی اس سے فائدہ اٹھانے اور اس سے غلے، میوے اور سبزیاں اگانے کو ہمیں پوری قدرت حاصل ہے۔ ف ٢۔ یعنی پک کر زرد ہوگئی پھر کٹی یا کوئی فوج آپڑی کہ کچی کاٹ ڈالی یعنی موت ناگہانی آتی ہے۔ (از موضح)۔ ف ٣۔ یہی وہ انسانی زندگی کا ہے۔ روح پانی کی طرح آسمان سے اترتی ہے بدن اس سے مل کر خوب پھلتا پھولتا ہے جب جوانی پر آتا ہے، علم وہ ہنر سیکھتا ہے اور امید ہوجاتی ہے کہ چند روز جی کر مزے اڑائیں گے تو یکایک موت آتی ہے اور تمام امیدوں کو خاک میں ملا دیتی ہے اور ایسے معلوم ہوتے ہیں کانھالم تکن اسی لئے حدیث میں آیا ہے کہ قیامت کے روز اس شخص کو جو دنیا میں سب سے زیادہ خوشحال تھا آگ میں ایک غوطہ دے کر نکالا جائے گا پھر اس سے پوچھا جائے گا ” کیا تم نے کبھی خوشحالی دیکھی؟“ وہ جواب دے گا ” نہیں“ پھر اس شخص کو جو دنیا میں سب سے بدحال تھا، نعمت (جنت) میں غوطہ دے کر نکالا جائے گا پھر اس سے پوچھا جائے گا کیا تم نے کبھی بدحالی دیکھی؟ وہ جواب دے گا ” نہیں“۔ (ابن کثیر)۔ ف ٤۔ تاکہ ان پر غور کریں اور ان سے سبق لیں۔ یونس
25 ف ٥۔ اوپر کی آیت میں دنیا اور اس کے سرعت زوال کا ذکر کرکے لوگوں کو اس کی طرف مائل ہونے سے نفرت دلائی۔ اب اس آیت میں جنت کی ترغیب دی اور جنت کا نام ” دار السلام“ رکھا یعنی جو ہر قسم کے ذلت و آلام سے پاک ہے اور اس میں سلامتی ہی سلامتی ہے۔ فرشتے ہر طرف سے اس میں سلام کریں گے اور اہل جنت بھی ایک دوسرے کو سلام کا تحفہ پیش کریں گے۔ تحتھم فیھا سلام۔ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کے ذریعہ لوگوں کو جنت کی دعوت دی ہے۔ جیسا کہ ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ میری اور میری امت کی مثال ایسی ہے کہ ایک بادشاہ نے ایک محل بنایا پھر اس میں ایک شاندار دعوت کا اہتمام کیا اور لوگوں کو بلانے کے لئے اپنا ایک قاصد بھیجا۔ بعض لوگوں نے اس قاصد کو کہا مانا ( اور محل میں آکر خوب مزے مزے کے کھانے کھائے) اور بعض لوگوں نے اس کی بات نہ مانی ( اور کھانوں سے محروم رہے)۔ اس مثال میں بادشاہ سے مراد اللہ تعالیٰ ہے، محل سے مراد جنت اور قاصد سے مراد میں (محمد رسول اللہ ﷺ) ہوں۔ لہٰذا جو آپﷺ کی بات مانے گا وہ اسلام میں داخل ہوگا اور جو اسلام میں داخ (رح) ہوگا وہ جنت میں داخل ہوگا اور جو جنت میں داخل ہوگا وہ اس کی نعمتوں سے لذت اندوز ہوگا۔ یونس
26 ف 6۔ جنت کی دعوت دینے کے بعد اس کی سعادتوں کا ذکر فرمایا دیا۔ (ابن کثیر) اس آیت کریمیہ میں ” الحسنی“ سے مراد جنت اور اس کی نعمتیں ہیں اور ” زیادہ“ سے اللہ تعالیٰ کا یدار جیسا کہ متعدد صحیح احادیث میں آنحضرتﷺ نے اس کی یہی تفسیر فرمائی ہے مثلاً حضرت صہیب (رض) سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے یہ آیت تلاوت کی اور پھر فرمایا : جب جنتی جنت میں اور دوزخی دوزخ میں داخل ہوجائیں گے تو ایک منادی کرنیوالا پکارے گا۔” اے جنت والو ! اللہ نے تم سے ایک وعدہ کیا تھا وہ اس آج پورا کرنا چاہتا ہے۔ وہ عرض کریں گے وہ کونسا وعدہ ہے کیا اس نے ہمارے معازین (نیک اعمال کے تول) بھاری نہیں کردئیے؟ یا اس نے ہمیں سرخرو بنا کر جنت میں داخل اور آگے سے محفوظ نہیں کردیا۔ اس وقت پردہ اٹھے گا اور اللہ کا دیدار نصیب ہوگا۔ اللہ کی قسم روایت باری تعالیٰ سے زیادہ پسندیدہ اور آنکھوں کو سرور بخشنے والی چیز ان کے لئے کوئی نہ ہوگی۔ (مسلم) اس بنا پر اکثر صحابہ (رض)، تابعین (رض) اور بعد کے علما نے بھی اس کی یہی تفسیر کی ہے۔ (نیز دیکھئے سورۃ القیامہ آیت 32)۔ یونس
27 ف 7۔ اوپر محسنین کا ذکر فرمایا اب ان لوگوں کی حالت بیان کی جو سینئات کا ارتکاب کرتے ہیں۔ (کبیر) دراصل تو دنیا اور آخرت میں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی بچانے والا نہیں ہے مگر دنیا میں انسان بہت سے سہارے تلاش کرلیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ ان کے ذریعہ میں نے اپنی مراد حاصل کرلی ہے مگر آخرتِ میں اس قسم کے اسباب سب ختم ہوجائیں گے اور ہر ایک کو یہ یقین ہوجائے گا کہ اب اللہ کی پکڑ اور اس کے عذاب سے بچانے والا کوئی نہیں ہے جیسا کہ سورۃ قیامہ میں ہے“۔ کلا لا ولد، الھار بامہ یومئذ المستقر“ ہرگز کوئی پناہ کی جگہ نہ ہوگی اور رب ہی کے پاس اس روز ٹھکانا ملے گا۔ (ابن کثیر)۔ یونس
28 ف 8۔ اس آیت میں بھی کفار کی فضیحت کا بیان ہے۔ (کبیر) یعنی مشرکین اور ان کے معبودوں کو ایک جگہ جمع ہونے کا حکم دیں گے تاکہ ان کے معاملے کا فیصلہ کیا جائے۔ ف 9۔ یعنی ان کے درمیان دنیا میں جو دوستی یا عبدیت و معبودیت کا تعلق تھا وہ منقطع ہوجائے گا۔ مطلب یہ ہیکہ مشرکین تو یہ سمجھتے ہیں کہ یہ بت ہمارے شفیع بنیں گے مگر یہ قیامت کے دن ان سے اظہار برأت کرینگے اس میں مشرکین کی انتہائی رسوائی کی طرف اشارہ ہے۔ (کبیر)۔ یونس
29 ف 1۔ جتنے مشرک ہیں وہ درحقیقت اپنے خیال اور وہم شیطان کی پرستش کرتے ہیں گونام نیک لوگوں کا لیتے ہیں۔ قیامت کے دن معلوم ہوگا کہ وہ نیک لوگ ان سے کس قدر بیزار ہوں گے۔ (از موضح)۔ اس سے ثابت ہوا کہ قیامت کے دن ان معبودوں کا یہ کہنا بالکل صحیح ہوگا کہ تم ہماری پرستش کرتے تھے اور چونکہ ان کے ظاہری معبود بے حس بت تھے اس لئے ان کا یہ کہنا بھی صحیح ہے کہ ہم تمہاری عبادت بالکل بے خبر تھے۔ پس ان دونوں جملوں میں تعارض یا تضاد نہیں ہے۔ (کبیر)۔ یونس
30 ف 2۔ یعنی خوب جان لے گا اور مشاہدہ کرلے گا کہ اس کا انجام کیا ہوتا ہے اور اس کے اعمال کا اسے کیا بدلہ ملتا ہے۔ پس یہاں مجازاً اتبلا بمعنی انکشاف ہے۔ من قبیل اطلاق السبب علی المسبب۔ ف 3۔ مثلاً یہ کہ بت یا معبود اللہ کے مقرب ہیں اور یہ اللہ سے ہماری سفارش کریں گے تو ان کے سفارش لازماً قبول کی جائے گی وغیرہ وغیرہ۔ مطلب یہ ہے کہ اس قسم کی تمام جھوٹی اور لغو باتیں ہوا ہوا جائینگی اور ان کی حقیقت کھل کر سامنے آجائے گی۔ حضرت عبد اللہﷺ بن مسعود سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا : قیامت کے دن ان لوگوں کے سامنے ان کے معبود لائے جائیں گے۔ وہ آگے آگے اور یہ ان کے پیچھے پیچھے چلیں گے یہاں تک کہ جہنم میں داخ (رح) ہوجائیں گے پھر نبی ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔ (در منشور) مگر اس حدیث پر یہ آیت اسی وقت شاہد بن سکتی ہے۔ جبکہ ” تبلو“ کی بجائے ” تتلو“ پڑھا جائے۔ ای تتبع کل نفس ما اسلفت کیونکہ قیامت کے روز جنت یا جہنم کی طرف انسان کا عمل اس کی رہنمائی کرے گا۔ (رازی)۔ یونس
31 ف 4۔ بت پرستوں کے فضائح بیان کرنے کے بعد اب یہاں سے بت پرستی کی تردید میں دلائل کا بیان شروع ہوا ہے۔ (کبیر) الغرض یہاں تین چیزوں کو بطور دلیل پیش کیا ہے۔ اول یہ کہ رزق اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے کیونکہ رزق کا اصل سبب بارش اور زمین کی نباتات ہے اور یہ دونوں اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہیں جس سے ثابت ہوا کہ رزق اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ ف 5۔ دوم حواس جن میں سب سے اشرف سمع اور بصر ہیں جو انسان کے علم کا ذریعہ بنتے ہیں اور یہ دونوں اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں ہیں اگر چاہے تو تمہیں اندھا بہرا کردے۔ (کبیر)۔ ف 6۔ سوم۔ موت و حیاۃ۔ جیسے جاندار سے نطفہ یا سرسبز لہلہاتی کھیتی سے خشک دانہ وغیرہ۔ ف 7۔ اللہ تعالیٰ ہی ان تمام چیزوں کا مالک ہے اسی کا سب اختیار ہے اور اسی نے سب کو پیدا کیا ہے۔ الغرض دنیا و آخرت کی تمام خیرات اللہ کی رحمت اور اس کے احسان سے ہی حاصل ہوتی ہے۔ (کبیر)۔ ف 8۔ یا اس سے کیوں نہیں ڈرتے؟ اس سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کے وقت کے کافر بھی اس بات کے قائل تھے کہ کوئی اللہ کے برابر نہیں اور کوئی اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا مگر بتوں (یا بزرگوں) کو اس کی جناب میں اپنا وکیل اور وسیلہ سمجھ کر مانتے تھے اس سے کافر ہوگئے۔ سواب بھی جو کوئی کسی مخلوق کے لئے عالم میں تصرف ثابت کرے اور اپنا وکیل ہی سمجھ کر اس کو مانے اس پر شرک ثابت ہوجاتا ہے گو اللہ کے برابر نہ سمجھے اور اس کے مقابلہ کی طاقت اس کو نہ ثابت کرے۔ (سلفیہ)۔ یونس
32 ف 9۔ یعنی اس کے باوجود تمہارا دل کیسے مانتا ہے کہ حق کو چھوڑ کر گمراہی اور توحید کو چھوڑ کر شرک کی راہ اختیار کرو؟ یونس
33 ف 10۔ یعنی جس طرح اللہ تعالیٰ کا رب ہونا ثابت ہوا یا جس طرح یہ ثابت ہوا کہ حق کے بعد گمراہی کے سوا کچھ نہیں یا جس طرح یہ ثابت ہوا کہ یہ لوگ راہ راست پھرے ہوئے ہیں۔ (کبیر۔ ابن کثیر)۔ ف 11۔ یعنی چونکہ اللہ کے علم میں تھا کہ یہ لوگ سرکش و نافرمان ہوں گے اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کی قسمت میں ایمان لکھا ہی نہیں۔ (از موضح)۔ یونس
34 ف 12۔ یعنی اس کے باوجود تم کیسے گوارا کرتے ہو کہ توحید کو چھور کر شرک کی الٹی راہ اختیار کرو جو سراسر ” افک“ یعنی جھوٹ ہے۔ (کبیر)۔ یونس
35 ف 13۔ یعنی جو خود ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل نہیں ہوسکتا۔ اس سے مراد بت ہیں۔ ف 1۔ کیسے فیصلے کرتے ہو؟ ان کے باطل مذہب غلط مسلک پر تعجب کا اظہار ہے۔ (کبیر)۔ یونس
36 ف 2۔ یعنی ان مشرکین میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو اللہ تعالیٰ کا قرار تو کرتے ہیں مگر اس اقرار کی بنیاد ظن اور تخمین پر ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے متعلق اپنے اسلاف سے سنی سنائی باتوں کی اتباع کرت ہیں۔ ورنہ ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے۔ اور یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ ان کی بت پرستی کی بیاد کسی دلیل پر نہیں ہے بلکہ اپنے باپ دادا کی پیروی کر رہے ہیں اور انہوں نے یہ گمان کرلیا ہے کہ ہمارے باپ دادا ٹھیک تھے۔ اس صورت میں اکثر بمعنی کل ہوگا۔ (کبیر)۔ یہی حال ہمارے زمانہ کے جاہل مسلمانوں کا ہے جو بزرگوں کی قربیں پوجتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ بزرگ اور اولیاء اللہ کے کارخانہ کے مختار ہیں۔ ایسے ہی بہت سے احمقوں نے شاہ پری، جن پری وغیرہ بنا رکھے ہیں۔ (از سلفیہ)۔ ف 3۔ یعنی دین کی بنیاد تو یقین پر ہے۔ محض اٹکل پچواء۔ باپ دادا کی اندھی تلقید پر نہیں ہے۔ یہاں ” ظن“ سے مراد وہ ظن ہے جو حسن کے خلاف ہو ورنہ ” ظن“ کے معنی یقین بھی آجاتے ہیں۔ (دیکھئے سورۃ بقرہ آیت 04) اور جو خبر متواتر نہ ہو اس کو بی اہل اصول ظنی کہہ دیتے ہیں۔ اگر وہ صحیح اور حسن کے درجہ میں ہو تو واجب العمل ہیں۔ یہ امت محمدیہ کا اجماعی اور متفقہ عقیدہ ہے۔ اس لئے حدیث کو محض ظنی کہہ کر ہم رد نہیں کرسکتے۔ یونس
37 ف 4۔ تین ید یہ۔۔ توراۃ و انجیل اور جملہ کتب الہیہ شامل ہیں یعنی ان کو چاہیے کہ ظن و تخمین کی پیروی چھوڑ کر اسی کتاب کی اتباع کریں۔ جو دلائل و برامین پر مشتمل ہے اور عقائد وا اعمال میں سے ہر چیز کو نہایت توضیح اور تفصیل کے ساتھ بیان کرتی ہے۔ بعض نے لکھا ہے کہ اس کا تعلق آیت ” انت بقران غیر ھذا او بدلہ“ سے ہے یعنی قرآن پاک ایسا معجزہ کامل ہے کہ میں کیا کوئی بھی اس کی نظیر اپنی طرف سے تصنیف کرکے پیش نہیں کرسکتا۔ واللہ اعلم (روح المعانی)۔ یونس
38 ف 5۔ یعنی اگر اس کے باوجود تمہارا یہ خیال ہے کہ … اور پیغمبر نے جھوٹ بول کر کہہ دیا ہے کہ یہ اللہ کا کلام ہے۔ یونس
39 ف 6۔ محمد ﷺ نہ تو پڑھے لکھ ہیں اور نہ انہوں نے کسی عالم کی صحبت پائی ہے۔ ان کے مقابلے میں تم میں بڑے بڑے شاعر اور نامور ادیب موجود ہیں۔ جنہیں اپنی زبانی دانی اور فصاحت و بلاغت پر غرہ ہے۔ ان سب کو ہلا کر ایک ہی ایسی صورت بنا کر پیش کردو جس میں قرآن کی سی فصاحت و بلاغت اور دوسری کو خوبیاں پائی جاتی ہوں۔ اگر تم ایسا کرسکو تو تمہارا یہ گمان صحیح ہوسکتا ہے کہ یہ قرآن بھی محمدﷺ نے از خود یا دوسرے کی مدد سے تصنیف کرلیا ہے۔ لیکن اگر تم ایسا نہ کرسکو اور یقینا تم ایسا نہ کرسکے گے تو معلوم ہوا کہ تمہارا یہ گمان سراسر بے بنیاد اور فسدو عناد اور تعصب پر مبنی ہے۔ نیز دیکھئے بقرہ آیت 32)۔ ف 7۔ یعنی یہ لوگ جو قرآن کو جھٹلا رہے اور اس پر ایمان لانے سے انکار کرر ہے ہیں، اس کی بنیا دجہالت، ہٹ دھرمی اور باپ دادا کی اندھی تقلید پر ہے۔ انہوں نے نہ اس پر کبھی غور کیا اور نہ اس کے مضامین و مطالب سمجھنے کی کوشش کی۔ محض یہ دیکھ کر کہ قرآن ان کے موروثی عقائد و خیالات کی تردید کرتا ہے۔ انہوں نے جھٹ سے اس کا انکار کردیا۔ ورنہ قرآن کا ایسے حقائق کے بیان پر مشتمل ہونا جو ان کے فہم سے بالاتر ہیں اور ان کے ہدف ادراک سے باہر ہیں کسی طور وجہ تکذیب نہیں بن سکتا۔ (روح۔ کبیر)۔ یہی حال ان حضرات کاتبی ہے جو محض اپنے گزرگوں اور اماموں کی تقلید کے چکر میں پھنس کر صحیح سے صحیح حدیث سے انکار کردیتے ہیں حالانکہ اگر وہ ان صحیح احادیث پر غور کرتے اور انہیں سمجھنے کی کوشش کرتے تو کبھی کسی صحیح حدیث کو رد نہیں کرسکتے تھے۔ (کذافی الوحیدی)۔ ف 8۔ یعنی ان کے قرآن کو جھٹلانے کی اگر کوئی بنیاد ہے تو وہ یہ کہ وہ اس کی تاویل و تفسیر سمجھنے سے قاصر ہیں اور قرآن جن اخبار غیبیہ پر مشتمل ہے ان کا وقوع ان کی آنکھوں کے سامنے نہیں ہے۔ ورنہ اگر وہ غوروفکر کرتے اور جن امور کی پیش گوئی قرآن میں کی گئی ہے ان کے وقوع کا انتظار کرتے تو ان کا انکار از خود ہی زائل ہوجاتا۔ (ازروح المعانی۔ شاہ صاحب فرماتے ہیں۔ یعنی جو وعدہ ہے اس قرآن میں وہ ابھی ظاہر نہیں ہوا۔ (موضح)۔ ف 9۔ سب کے سب تباہ و برباد ہوئے۔ اسی طرح اب یہ بھی اپنی تباہی و بربادی کا سامان کر رہے ہیں۔ (کبیر)۔ یونس
40 ف 10۔ یعنی ان میں دو طرح کے لوگ ہیں۔ بعض ایسے ہیں جنہیں یقینی طور پر معلوم ہے کہ یہ قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام ہی اور اس جیسی معجز کتاب تصنیف کردینا کسی انسان کے بس میں نہیں ہے مگر وہ ہٹ دھرمی سے اس کی تکذیب کئے جار ہے ہیں اور بعض ایسے ہیں جو بالکل عقل کے اندھے اور سمجھ کے کورے ہیں انہیں اس قرآن کے خدائی کلام ہونے کا واقعی یقین نہیں ہے۔ اس جملے کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان کافروں میں سے بعض ایسے ہیں جو آئندہ چل کر اس قرآن پر ایمان لے آئینگے اور بعض ایسے ہیں جو اپنے کفر پر مصر رہیں گے۔ (کذافی الروح)۔ ف 11۔ جو خواہ مخواہ تعصب اور ہٹ دھرمی سے قرآن کے برحق ہونے سے انکار کئے جا رہے ہیں حالانکہ دل میں ان کے برحق ہونے کا یقین رکھتے ہیں یا خدا خوب جانتا ہے کہ کون ان میں سے اگر کفر پر مصر ہے گا اور کون اس کفر سے باز آجائے گا۔ ای و غیر المسلمین (کذانی الکبیر)۔ یونس
41 ف 12۔ یعنی اگر اتمام حجت کے بعد بھی تکذیب پر اصرار کریں تو انہیں آگاہ کردو کہ مجھ پر تبلیغ قرآن کا جو فریضہ عائد کیا گیا تھا میں نے اس بدوں کسی کمی یا بیشی کے سرانجام دیدیا ہے۔ اب مگر تم اس پر ایمان لانے سے انکار کرو تو تم اپنے اعمال کے خود ذمہ دار ہوگے مجھ پر اس کا کوئی بوجھ نہیں ہوگا۔ یونس
42 ف 1۔ اوپر بتایا کہ کفار دو قسم کے ہیں جو باطن میں یقین رکھتے ہیں اور جو یقین نہیں رکھتے۔ اور جو یقین نہیں رکھتے ان میں بعض تو ایسے ہیں جو بظاہر کان لگا کر ہمارا کلام سنتے ہیں مگر درحقیقت یہ بہرے ہیں کیونکہ ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ (کبیر)۔ یونس
43 ف 2۔ اور بعض ایسے ہیں جو بظاہر پھاڑ پھاڑ کر آپ کی طرف دیکھتے ہیں مگر حقیقت میں یہ اندھے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کے بظاہر سننے یا دیکھنے سے یہ توقع ہرگز نہ رکھیں کہ وہ ایمان لے آئیں۔ مقصد تو آنحضرت ﷺ کو تسلی دینا ہے۔ یونس
44 ف 3۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کو دوسرے انسانوں کی طرح پورے حواس دئیے ہیں۔ پھریہ ضد اور ہٹ دھرمی سے ایمان نہ لائیں تو ان کا اپنا قصور ہے، اللہ کی طرف سے ان پر کوئی زیادتی نہیں ہے۔ یونس
45 ف 4۔ یعنی قبر میں رہنا اس دن ایک گھڑی بھر معلوم ہوگا۔ (موضح)۔ یا دنیا میں جیسے ایک گھڑی رہے ہیں اور تعارف کی یہ کیفیت قبروں سے نکلتے وقت یا شروع شروع میں ہوگی۔ پھر جب حشر کی شدت شروع ہوجائے گی تو سب ایک دوسرے کو بھول جائیں گے جیسا کہ قرآن کی دوسری آیات سے معلوم ہوتا ہے۔ (کبیر)۔ ف 5۔ دنیا میں حیوانوں کی سے بے اصولی زندگی بسر کی اور آخرت میں بھی جہنم کا ایندھن بنے۔ یونس
46 ف 6۔ آپﷺ کے دین کا غلبہ اور مخالفین کی ذلت و خواری یعنی قتل و قید۔ الغرض یہ وعدے قرآن کے بیان کے مطابق بعض تو آپ ﷺ کی زندگی میں ظاہر ہوگئے اور کچھ آپﷺ کی وفات کے بعد خلفائے (رض) کے زمانہ میں۔ بہرحال آپﷺ سچے ہیں۔ موضح میں ہے۔ غلبہ اسلام کو کچھ حضرات کے رو بروہوا اور باقی آپ ﷺ کی وفات کے بعد خلفاء (رض) کے عہد میں ہوا۔ شاید ” اونتوفینک“ میں اس دوسرے دور کی طرف اشارہ ہے۔ (کذافی الکبیر)۔ ف 7۔ یعنی وہاں ہم آپﷺ کو ان کا عذاب دکھا دیں گے۔ اس میں تنبیہ ہے کہ حق پرستوں کی عاقبت محمود اور مخالفین کی عاقبت نہایت مذموم ہوگی۔ (کبیر)۔ یونس
47 ف 8۔ پیغمبر اور اس کے ساتھی بچ گئے اور جھٹلانے والے تباہ ہوگئے۔ (نیز دیکھئے سورۃ اسراء آیت 51) اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ خود اس قوم کا فیصلہ ہوگیا اور وہ اس طرح کہ اس کے دو گروہ ہوگئے۔ جو ایمان لائے بچ گئے اور جو ایمان نہ لائے تباہ ہوگئے۔ ف 9۔ یعنی وہ اپنی بد اعمالیوں کی وجہ سے تباہ کردئیے جاتے ہیں۔ انہیں بے گناہ سزا نہیں دی جاتی اور نہ حجت تمام کئے بغیر ان کا مواخذہ کیا جاتا ہے۔ شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں : عمل بد آگے سے ہوتے ہیں لیکن رسول ﷺ پہنچ کر سزاملتی ہے۔ (موضح)۔ یونس
48 یونس
49 ف 10۔ تو دوسروں کو نفع یا نقصان پہنچانا یا ان پر اپنی مرضی سے عذاب نازل کرنا میرے اختیار میں کیونکر ہوسکتا ہے۔ (وکائی) یہ منکرین نبوت کے پانچویں شبہ کا جواب ہے کہ آنحضرتﷺ جب ان کو عذاب کی دھمکی دیتے تو وہ متی ھذا الوعد کہہ کر اعتراض کرتے۔ اگلی آیت میں اسی کا جواب ہے۔ (کبیر)۔ ف 11۔ یعنی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی مشیت ہی پر موقوف ہے۔ وہی جب چاہے گا تم پر عذاب بھیجے گا اور جب تک نہیں چاہے گا نہیں بھیجے گا۔ قاضی شوکانی فرماتے ہیں : اس آیت میں جن لوگوں کو سخت تننبیہ ہے جو مصیبتوں اور مشکل کی گھڑیوں میں۔ جنہیں اللہ کے سوا کوئی ٹال نہیں سکتا۔ نبی ﷺ کو پکارتے اور آپﷺ سے مدد طلب کرتے ہیں یا نبی ﷺ سے ایسے چیزیں چاہتے ہیں۔ جنہیں اللہ کے سوا کوئی پورا نہیں کرسکتا۔ یہ مقام صرف اللہ رب العالمین کا ہے جس نے تمام انبیاء، صالحین اور مخلوقات کو پیدا کیا۔ وہی انہیں روزی اور زندگی بخشتا اور جب چاہتا ہے اس دنیا سے اٹھا لیتا ہے۔ پھر کسی نبی یا کسی فرشتے یا کسی نیک سے نیک ندے سے کسی اور چیز کی درخواست کیونکر کی جاسکتی ہے جس پر اسے قدرت ہی حاصل نہیں۔ اس آیت میں نصیحت کا خاص پہلو یہ ہے کہ جب آنحضرت ﷺ کے بارے میں جو تمام اپنی آدم کے سردار اور تمام انبیاء ﷺ سے افضل میں یہ بتایا گیا ہے کہ وہ خود اپنے نفع و نقصان کے مالک نہیں ہیں تو کوئی ولی۔ امام یا پیر اپنے علاوہ کسی دوسرے کے نفع و نقصان کا مالک کیونکر ہوسکت اہے۔ سخت تعجب کا مقام ہے کہ پھر بھی کچھ لوگ جو اپنے آپ کو مسلمان بھی کہتے ہیں۔ مردوں کی قبروں پر جھکتے اور ان سے ایسی ایسی مرادیں طلب کرتے ہیں جنہیں پورا کرنے کی قدرت اللہ کے سوا کوئی نہیں رکھتا۔ یہ صریحاً شرک اور کلمہ ” لا الہ الا اللہ“ کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے اور اس سے بڑھ کر افسوس ان کے علما اور مشائخ پر ہے جو انہیں اس کام سے منع نہیں کرتے۔ یہی وہی جاہلیت ہے جو نبی ﷺ سے پہلے عربوں میں پائی جاتی تھی بلکہ اس کا معاملہ اس جاہلیت سے زیادہ سخت ہے کیونکہ عرب مشرکین نفع و نقصان کا مالک صرف اللہ تعالیٰ کو سمجھتے تھے اور بتوں کو صرف اپنا سفارشی خیال کرتے تھے مگر یہ لوگ تو قبر والوں کو نفع و نقصان کا مالک سمجھتے ہیں اور کبھی ان کو علیحدہ اور کبھی اللہ تعالیٰ کیساتھ پکارتے ہیں۔ اس امت کے کتنے ہی لوگ ہیں جنہیں شیطان مردود نے اس ذریعہ سے کفر کی راہ پر ڈال دیا ہے اور وہ یہ سمجھتے ہوئے اس پر آگے سے آگے بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ انھم یعسنون صنعا کہ وہ بڑا نیک کام کر رہے ہیں۔ فانا اللہ وانا الیہ راجعون۔ اللہ تعالیٰ اپنے دین کی حفاظت فرمائے۔ (مختصرا شوکانی) یونس
50 ف 12۔ یہ ان کے سوال متی ھذا الوعدہ کا دوسرا جواب ہے یعنی اگر بالفرض عذاب آگیا تو اس کے وقو ع کے بعد ایمان لانا فائدہ مند نہیں ہوسکے گا اور آخرت میں دائمی عذاب سامنے ہے پس جب حالت یہ ہے تو اس کے آنے کی کیوں جلدی مچا رہے ہیں (کبیر) یونس
51 ف 1۔ یعنی عذاب آنے پر ایمان کب قبول ہوگا اس واسطے بھی تو عبث ہے۔ (موضح)۔ یونس
52 یونس
53 ف 2۔ جب کفار کو ان کے سوال ” متی ھذا الوعد“ کا مذکورہ جواب دیا گیا تو انہوں نے اسی سلسلہ میں آنحضرت ﷺ سے دوبارہ سوال کیا ” احق ھو“ کہ کیا یہ عذاب برحق ہے۔ اس کے جواب میں فرمایا : قل ای وربی مطلب یہ ہے کہ عذاب برحق ہے اور تم ہمارے عذاب سے بھاگ کر کہیں نہیں جاسکتے اور نہ اس کو کسی طور روک سکتے ہو۔ (کبیر)۔ یونس
54 ف 3۔ یعنی جس عذاب کا وہ ساری عمر مذاق اڑاتے ہے۔ جب وہ ان کی توقع کے بالکل خلاف یکایک سامنے آجائے گا تو ان کی عجیب کیفیت ہوگی۔ ایک طرف وہ سخت شرمندہ ہوں گے اور ان کے ضمیر انہیں کوس رہے ہوں گے لیکن دوسری طرف وہ اپنی شرمندگی کو اپنے ساتھیوں اور ماننے والوں سے چھپانا بھی چاہیں گے کہ کہیں وہ ملامت نہ کریں۔ اس لے دل ہی دل میں شرمندہ ہوں گے اور بظاہر مطمئن بننے کی کوشش کریں گے۔ بعض نے ” اسروا“ کے معنی اظہار بھی کئے ہیں۔ (از کبیر۔ شوکانی)۔ ف 4۔ اس لئے کہ یہ عذاب ان کے کرتوتوں کا ثمرہ ہوگا۔ یونس
55 ف 5۔ اور جہالت سے اپنے آپ کو تباہ کرتے ہیں اور شرک و کفر میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ یونس
56 یونس
57 ف 6۔ اوپری آیتوں میں قرآن کے معجز ہونے سے آنحضرت ﷺ کی نبوت کو ثابت کیا۔ اب قرآن کے کتاب ہدایت و رحمت ہونے سے آنحضرت و کی صداقت پر استدلال کی طرف اشارہ ہے۔ امام رازہ فرماتے ہیں : پہلی دلیل کی حثیت برحان انی کی ہے اور اس کی حیثیت برھان لمتی کی ہے۔ یہاں قرآن کی چار صفات بیان فرمائی ہیں جن سے انسان کے مراتب کمال کے درجات اربعہ کی طرف اشارہ ہے۔ (کبیر) قرآن کتاب موعظتہ ہے جو ترغیب و ترہیب پر مشتمل ہونے کی وجہ سے انسان کی اصلاح کرتی ہے اور دل میں جو کفر و نفاق، حسد و ریا اور اخلاقی ذمیمہ کی بیماریاں ہیں ان سے شفا بخشتی ہے۔ اس لئے یہ شفاروحانی ہے۔ (خازن)۔ ف 7۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ ہاں فضل سے مراد قرآن اور رحمت سے مراد اسلام ہے۔ بعض تابعین نے ان سے ایمان اور قرآن مراد لیا ہے مگر بہتر یہ ہے کہ ان کو عام رکھا جائے اور قرآن و ایمان و اسلام بطریق اولیٰ مراد ہوں (شوکانی)۔ یونس
58 ف 8۔ دنیا کا مال و اسباب فانی اور آنے جانے والی چیز ہے پھر اللہ تعالیٰ کے فضل و رحمت کے مقابلہ میں اس کی کیا حیثیت ہوسکتی ہے کہ اس پر خوش ہوا جائے۔ اوپر فرمایا تھا کہ تمام دنیا کا مال و متاع بدلہ میں دینے پر نجات نہیں مل سکے گی لہٰذا اللہ کے فضل و رحمت کا ذخیرہ جمع کرو جو آخرت میں نجات کا ذریعہ بن سکے۔ (سید احمد حسن)۔ یونس
59 ف 9۔ جیسے سائبہ، وصیلہ اور حام کو حرام اور حام کو حرام اور مردار کو حلال ٹھہرالیا۔ ان چیزوں کا بیان سورۃ مائدہ اور انعام میں گزر چکا ہے۔ ف 1۔ اس سے معلوم ہوا کہ اپنی خواہشوں سے حرام کو حلال اور حلال کو حرام قرار دینا افتراء علی اللہ ہے۔ (ابن کثیر)۔ قاضی شوکانی فرماتے ہیں : ” اس آیت میں ان مقلد حضرات کے لئے سخت تنبیہ ہے جو افتا کی کرسی پر براجمان ہوجاتے ہیں اور حلال و حرام و جواز و عدم جواز کے فتو سے صادر کرتے ہیں حالانکہ ان کا مبلغ علم صرف اتنا ہوتا ہے کہ امت کے کسی ایک شخص نے جو بات کہدی ہے اسے نقل کردیتے ہیں گویا انہوں نے اس شخص کو ایک شارع کی حیثیت دے رکھی ہے کتاب و سنت کے جس حکم پر اس نے عمل کیا اس پر یہ بھی عمل کریں گے اور جو چیز اسے انہیں پہنچی یا پہنچی مگر وہ اسے ٹھیک طرح سمجھ نہ سکا یا سمجھا مگر اپنے اجتہاد و ترجیح میں غلطی کر بیٹھا وہ ان کی نظر میں منسوخ اور مرفوع الحکم ہے حالانکہ جس کی یہ لوگ تقلید کر رہے ہیں وہ بھی اس شریعت اور اس کے احکام کا اسی طرح پابند تھا جس طرح خود یہ لوگ۔ اس نے اجتہاد سے کام لیا اور جس راۓ پر پہنچا اسے بیان کردیا۔ اگر اس نے غلطی نہیں کی تو اسے دوہرا اجر ملے گا اور اگر غلطی کی تو اکہرا اجر پائے گا۔ وہ شخص تو اپنی جگہ معذور ہے مگر یہ حضرات کسی طرح بھی معذور قرار نہیں دئے جاسکتے جنہوں نے اس کی آراء کو ایک مستقل شریعت اور قابل عمل دلیل بنا لیا۔ اہل علم کے نزدیک کسی مجتہد کی تقلید کی بنا پر اس کے اجتہاد پر عمل کرنا صحیح نہیں ہے۔ (شوکانی)۔ یونس
60 ف 2۔ یعنی ان سے کیا برتائو کیا جائے گا۔ (فتح الرحمن)۔ کیا وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے گناہوں پر ان کی کوئی پکڑ نہ ہوگی اور انہیں یونہی چھوڑ دیا جائے گا۔ ف 3۔ اس کی نرمی اور استدارج (مہلت) کو دیکھ کر گناہوں پر اور دلیر ہوجاتے اور اس کے دئیے ہوئے رزق میں سے جسے چاہتے ہیں حلال اور جسے چاہتے ہیں حرام قرار دے لیتے ہیں۔ اس قسم کی ناشکرگزاری میں مشرکین بھی مبتلا تھے اور اہل کتاب بھی کہ انہوں نے اپنی طرف سے بہت سی چیزوں کو مشروع قرار دے رکھا تھا۔ (ابن کثیر)۔ یونس
61 ف 4۔ اس آیت میں ایک طرف تو آنحضرتﷺ کو تسلی دی جا رہی ہے کہ لوگوں کو ہمارا پیغام پہنچانے کے لئے آپ جو کوشش کر رہے ہیں وہ سب ہماری نظر میں ہے اور دوسری طرف مخالفین کو متنبہ کیا جا رہا ہے کہ حق کی مخالفت کرکے یہ نہ سمجھ لینا کہ ہم تمہاری حرکتوں سے بے خبر ہیں اور تم سے کوئی باز پرس نہ ہوگی۔ (کنز فی الروح)۔ یونس
62 ف 5۔ آخرت میں یا دنیا و آخرت دونوں میں۔ یونس
63 ف 6۔ یعنی انہوں نے قرآن و سنت کے مطابق اپنے اعتقاد کو درست کیا۔ ف 7۔ یعنی تنیک اعمال کرتے اور گناہوں سے بچتے رہے۔ اُو پر کی آیت میں اولیا اللہ (اللہ کے دوستوں) کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ انہیں نہ کوئی ڈر ہوگا اور نہ غم۔ اس آیت میں اولیاء اللہ کی خود تشریح فرمادی اور وہ یہ کہ ان سے مراد وہ لوگ ہیں جن کا عقیدہ قرآن و سنت کیمطابق درست ہے اور جن میں تقویٰ پایا جاتا ہے۔ معلوم ہوا کہ ہر انسان جو اپنے اندر عقیدہ و عمل کی صحت پیدا کرلے گا وہ اللہ کاولی ہوسکتا ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ عقیدہ و عمل میں اخلاص کے اعتبار سے لوگوں کے مراتب ہوں گے۔ حضرت ابن عباس (رض) وغیرہ سے ارشاد نبوی منقول ہے کہ ” اولئا اللہ“ وہ ہیں جنہیں دیکھ کر اللہ یاد آئے۔ (درمنشور) عام لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے جس سے کوئی امر فرق عادت صادر ہو وہ اللہ کا ولی ہوتا ہے جو سراسر غلط ہے۔ خرق عادت امور تو شیطانوں سے بھی صادر ہوجات ہیں۔ یونس
64 ف 8۔ اولیاء اللہ کے لئے آخرت میں بشارت یعنی جنت ہے اور دنیا میں ان کے لئے کئی طرح کی بشارتیں ہیں۔ ایک بشارت تو قرآن کی متعدد آیات میں یہ دی گئی ہے کہ ان پر کوئی خوف و غم نہ ہوگا اور انہیں سچے خواب دکھائے جاتے۔ جیسا کہ احادیث میں ہے۔ الرویا الادقہ بشری المومن۔ کہ سچا خواب مومن کے لئے بشارت ہے۔ ان کی دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ لوگوں میں قبولیت حاصل ہوتی ہے اور لوگ مدح و ستائش سے ان کا ذکر کرتے ہیں جیسا کہ صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ یہ مدح مومن کے لئے دنیا میں بشارت ہے۔ (روح طعانی۔ شوکانی)۔ ف 9۔ لہٰذا اس کے وہ وعدے بھی پورے ہوں گے جو اس نے اہل ایمان سے کر رکھ ہیں۔ یونس
65 ف 10۔ عزت یعنی غلبہ، اقتدار اور فتحمندی۔ مطلب یہ ہے کہ جب غلبہ و اقتدار اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ وہی جسے چاہے غالب اور جسے چاہے مغلوب کرتا ہے۔ تو ان کافروں کی دھمکیوں، ان کے کفر و شرک اور طعن و تشنیع سے آپﷺ کو رنجیدہ خاطر ہونے کی ضرورت نہیں۔ آپ ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ آخر کار غلبہ اور اقتدار آپﷺ کو اور آپو کے پیش کردہ دین کو ہی حاصل ہوگا۔ نیز دیکھئے سورۃ مجادلہ آیات 12 سورۃ منافقون آیت 8۔ (کبیر، شوکانی)۔ ف 11۔ وہ عنقریب آپﷺ کے مخالفین سے مجھ لے گا۔ (کبیر)۔ یونس
66 ف 12۔ تو یہ کفار ومشرکین بھی جو آپﷺ کی مخالفت کر رہے ہیں اسی کی ملکیت ہوئے وہی ان کے معاملے میں جس طرح چاہتا ہے تصرف فرماتا ہے۔ لہٰذا آپ ﷺ کو ان کی ایذارسانی اور طعن و تشنیع سے رنجیدہ ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ اپﷺ کی کوئی ایسی تکلیف نہیں پہنچا سکتے جس کی اللہ نے اجازت نہ دی ہو۔ اس آیت میں ان لوگوں کی بھی سخت تردید ہے جو مالک کو چھوڑ کر اس کی مملوکات۔ ملائکہ، انسان، جمادات و نباتات، بتوں، قبروں، اور بزرگوں۔ کی پرستش کرتے ہیں۔ اسی لئے کے بعد شرک کی تردید فرمائی ہے۔ (شوکانی۔ ابن کثیر)۔ ف 1۔ یعنی حقیقت میں تو کوئی بھی اللہ کا شریک نہیں ہے انہوں نے اپنے خیال و وہم میں ان کو شریک سمجھ کر ان کی پیروی اختیار کر رکھی ہے۔ (کبیر) پس نفی حقیقت اور نفس الامر کے اعتبار سے ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ” ما“ استفہامیہ برائے انکار ہو۔ (روح المعانی)۔ ف 2۔ علق سے کام نہیں لیتے اور نہ دلیل کو دیکھتے ہیں۔ اگر عقل سے کام لیتے اور دلیل پر غور کرتے تو انہیں صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی حق اور اکیلا معبود ہے اس کا کوئی شریک نہیں ہوسکتا۔ یونس
67 ف 3۔ یعنی ان میں صرف یہی حکمت نہیں ہے جو ذکر کی ہے بلکہ رات اور دن کی تخلیق میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کے بہت سے دلائل ہیں۔ (روح)۔ یونس
68 ف 4۔ یہاں ان کے ایک اور غلط عقیدہ اور باطل خیال کی تردید کی ہے۔ مشرکین فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے اور نصاریٰ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا کہتے۔ ان کے اس عقیدہ کی بنیاد بھی چونکہ محض ظن و تخمین پر تھی اس لئے یہاں ” ان یتبعون الالظن“ کے تحت اس کی بھی تردید فرمادی۔ (سید احمد حسن)۔ ف 5۔ یہ اس تردید کی دلیل ہے کہ اللہ کسی کا محتاج نہیں کہ اس کو بیٹے بیٹی کی ضرورت ہو۔ وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ پھر اولاد کا حاصل کرنا، شہوت و لذت کو چاہتا ہے اور اولاد نہیں حاصل کرتا ہے جو فانی ہوتاکہ اس کے فنا ہونے کے بعد اولاد اس کی قائم مقام ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات ازلی اور ابدی ہے اور شہوت و لذت سے پاک اور بالا۔ لہٰذا اس کی طرف اولاد کی نسبت سرے سے محال ہے۔ (رازی۔ شوکانی)۔ ف 6۔ دلیل سے ان کے عقیدہ کو رد کرنے کے بعد مزید انکار و توبیخ کے طور پر فرمایا کہ ان کے پاس اس کا قطعاً کوئی دلیل نہیں ہے۔ (کبیر) اس سے معلوم ہوا کہ ہر وہ بات جس کے ساتھ اس کی دلیل نہ ہوقابلِ التفات نہیں ہوتی۔ (شوکانی)۔ ف 7۔ نہایت مبالغہ کے ستھ ان کے زعم کی تردید ہے یعنی محض جہالت سے اللہ تعالیٰ پر بہتان تراشی کر رہے ہیں۔ (از شوکانی)۔ یونس
69 ف 8۔ یعنی جھوٹ بکتے ہیں اور اللہ تعالیٰ پر افتراء پردازی کرنے والے تو کسی طور بھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔ (شوکانی) یونس
70 ف 9۔ بس زیادہ سے زیادہ یہ کہ اللہ تعالیٰ پر بہتان باندھ کر کچھ دنیا کمالیں پھر موت کے عبد ان کفریات کی خوف سزا ملے گی۔ یونس
71 ف 10۔ نبوت پر کفار کے شبہات اور مدلل جوابات بیان کرنے کے بعد یہاں تین انبیاء کے قصے بیان فرمائے۔ تاکہ آپو کو تسلی ہو اور کفار کی ایذارسانی سے آپﷺ طول نہ ہوں اور ان انبیا کو اسوہ بنائیں۔ نیز کفار کو بھی تنبیہ ہے کہ وہ دنیا میں سب سے پہلے اور پھر سب سے آخر غرق ہونے والی قوموں کے انجام پر غور کریں اور اس قسم کی گستاخیوں سے باز آجائیں۔ پھر ان تاریخی قصوں کو کسی قسم کی کمی بیشی کے بغیر ایک امی نبی کا بیان کرنا بجائے خود ان کے صدق نبوت پر دلیل بھی ہے۔ (کبیر)۔ ف 11۔ یعنی ان بتوں کے ساتھ مل کر جنہیں تم جہالت اور بے شرمی سے خدا کا شریک قرار دیتے ہو۔ ف 12۔ یعنی میرے مار ڈالنے کی جو اسکیم تم تیار کرو اس پر اچھی طرح غور کرلو تاکہ اس کا کوئی پہلو تم پر ڈھکا چھپا نہ رہے۔ (شوکانی)۔ ف 13۔ یعنی سمجھانے سے برا مانتے ہو تو جو کرسکو میرا کرلو۔ (موضح)۔ یونس
72 ف 1۔ یعنی میری دعوت بالکل بے لاگ ہے وہی اس کا مجھے ثواب دے گا۔ تمہارے ماننے یا اعراض کرنے سے میرے ثواب میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔ میری طرف سے تمہیں ایمان لانے کی دعوت بھی تمہارے ہی فائدے کے لئے ہے۔ (کبیر۔ شوکانی) یونس
73 ف 2۔ یعنی ان کے بعد وہی دنیا میں بسنے والے رہ گئے۔ (شوکانی)۔ ف 3۔ کیسے تباہ و برباد کردیے گئے۔ اس میں آپﷺ کو اور صحابہ (رض) کرام کو تسلی ہے اور ان لوگوں کے لئے مقام عبرت ہے جو آج بھی آنحضرت ﷺ کی تکذیب کر رہے ہیں۔ (شوکانی)۔ یونس
74 ف 4۔ یہاں نوح (علیہ السلام) کے بعد جن پیغمبروں کے مبعوث ہونے کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ ان ہود ( علیہ السلام)، صالح ( علیہ السلام)، ابراہیم، ( علیہ السلام) لوط ( علیہ السلام) اور شعیب علیہم السلام خاص طور پر قابل ذکر ہیں جن کا تذکرہ قرآن کے دوسرے مقامات پر مرقوم ہے۔ اور الیٰ تومھم کے الفاظ سے اشارہ فرما دیا ہے کہ حضرت نوح ( علیہ السلام) اور ان کے بعد جنتے پیغمبر ہوئے ہیں ان میں سے کسی کی رسالت بنی نوع انسان کے لئے عام نہیں تھی بلکہ خاص خاص اقوام کی طرف مبعوث ہوتے رہے ہیں۔ البتہ حضرت نوح کی بعثت میں اختلاف ہے اور صحیح یہی ہے کہ وہ بھی خاص طور پر اپنی قوم کی طرف ہی مبعوث تھے اور طوفان سے روئے زمین کے لوگ غرق نہیں ہوئے بلکہ خاص علاقہ تباہ و برباد ہوا ہے۔ یہ درجہ آنحضرت ﷺ کو حاصل ہے کہ ان کی رسالت عام بھی ہے اور پھر قیامت تک کیلئے باقی بھی رہے گی۔ (کبیر۔ روح) یہاں حد سے بڑھنے والوں سے مراد وہ لوگ ہیں جو تعصب، ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے اپنی غلط روش پر اڑتے رہتے ہیں اور چاہے کتنے ہی معجزے دیکھ لیں اور دلیلیں سن لیں مگر جس چیز سے ایک مرتبہ انکار کر بیٹھے اسے کبھی ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ آخر کار یہ سزا دیتا ہے کہ انہیں کبھی راہ ہدایت پانے کی توفیق نہیں ہوتی۔ یہی مطلب ہے اللہ تعالیٰ کا ان کے دلوں پر مہر لگانے کا۔ (دیکھئے سورۃ بقرہ آیت 7)۔ یونس
75 ف 5۔ یہ قوم موسیٰ و ہارون کا دوسرا قصہ ہے جو غرق ہونے میں قوم نوح کی مثال ہیں اور آنحضرت ﷺ کو تسلی دی ہے قریش آپﷺ کو بھی جادوگر بتلا رہے ہیں مگر ان میں سے بعض تو ان جادوگروں کی طرح ایمان لے آئیں گے اور جو فرعون کی طرح اپنے کفر پر اڑے رہے وہ تباہ و برباد ہوں گے (سید احمد حسن)۔ یونس
76 یونس
77 ف 6۔ حالانکہ تم دیکھ رہے ہو کہ میں دلیل و برہان کی رو سے کامیاب ہوں تو پھر یہ جادو کیسے ہوسکتا ہے۔ اس میں آئندہ جادوگروں کے ساتھ مقابلہ میں کامیابی اور ان کی ناکامی کی طرف بھی اشارہ فرما دیا ہے۔ یونس
78 ف 7۔ دنیا کے ہر متکبر و ظالم کا ہی قاعدہ ہے کہ جب اسے نصیحت کی جائے تو وہ سمجھتا ہے کہ یہ نصیحت میری ریاست اور سرداری کو چھیننے کے لئے جارہی ہے۔ اپنے شیطانی نفس پر قیاس کرکے وہ ہر شخص کے بارے میں یہی خیال کرتا ہے کہ اس کا مقصد دنیا کمانا اور اقتدار حاصل کرنا ہے۔ فرعون اور اس کے اہل کاروں نے حضرت موسیٰ اور ہارون علیہما السلام کے بارے میں بھی یہی خیال کیا۔ یونس
79 یونس
80 یونس
81 ف 1۔ یعنی جادو تو وہ ہے جو تم لائے ہو نہ کہ وہ جو میں پیش کر رہا ہوں۔ یونس
82 ف 2۔ یعنی جو اس نے فرمایا کہ ھق کو غالب رکھوں گا یا کلمات سے مراد حکم باری تعالیٰ ہے یا اپنی کتاب میں نازل کردہ آیات کی برکت سے۔ بکلماتہ کے یہ سب طلب ہوسکتے ہیں۔ (کذافی الوحیدی)۔ یونس
83 ف 3۔ اکثر مفسرین (رح) نے آیت کا یہی مطلب بیان کیا ہے اور ابن جریر نے بھی اسی کو ترجیح دی ہے ان حضرات کا کہنا ہے کہ یہ کیفیت ابتدائی دور کی ہے۔ بعد میں تو قارون کیس وا سب بنی اسرائیل موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لے آئے تھے۔ ” ملئھم“ میں ھم کی ضمیر جمع ہے۔ اس کا مرجع یا تع فرعون ہے (جیسا کہ ترجمہ میں ہے) کیونکہ مصری لوگ فرعون کے لئے بطور تعظیم جمع کی ضمیر استعمال کرتے تھے یا اس کر مرجع بنی اسرائیل کے سردار ہیں۔ یعنی بنی اسرائیل ( علیہ السلام) میں سے جو نوجوان ایمان لائے انہیں ایک طرف فرعون کا ڈر تھا اور دوسری طرف خود اپنے سرداروں کا لیکن حافظ ابن کثیر نے آیات کے اس مطلب کی سخت تردید کی ہے۔ ان کی ترجیح میں ” ذریۃ من قومہ“ میں ” ہ“ کی ضمیر موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف نہیں بلکہ فرعون کی طرف راجع ہے کیونکہ بنی اسرائیل تو پہلے سے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کی آمد کے منتظر تھے اور ان کے تشریف لانے پر سب کے سب ایمان لے آئے ( اور اس کی تائید اگلی آیت بھی کر رہی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام کے تمام بنی اسرائیل حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) پر ایمان لاچکے تھے) البتہ فرعون کی قوم قبطیوں میں سے چند نوجوان ہی ایسے نکلے جو حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) پر ایمان لائے۔ اور آیت کا ترجمہ یوں ہوگا ” پھر موسیٰ ( علیہ السلام) پر اس (فرعون کی قوم) قبطیوں میں سے صرف چند نوجوان ہی ایمان لائے اور وہ فرعون اور اپنے سرداروں سے ڈرے کہ کہیں وہ (فرعون) نہیں آفت میں نہ ڈالے“ یہ ترجمہ زیادہ واضح ہے اور علمائے تحقیق نے اسی کو ترجیح دی ہے۔ (ابن کثیر۔ روح المعانی)۔ یونس
84 ف 4۔ اس آیت میں اللہ پر توکل کو ایمان اور اسلام کا لازمی نتیجہ قرار دیا گیا ہے جیسا کہ دوسری آیات میں ایمان اور توکل یا عبادت اور توکل کو ایک ساتھ بیان فرمایا ہے۔ (دیکھئے ہود آیت 32 سورۃ ملک آیت 92 اور سورۃ فاتحہ آیت 4)۔ یونس
85 ف 5۔ یعنی ان ظالموں کو ہم پر مسلط نہ رکھ کہ وہ ہمیں اپنے ظلم کا نشانہ بناتے رہیں۔ یونس
86 یونس
87 ف 6۔ آیت ’ واجعلو بیوتکم قبلۃ (اپنے گھروں کو قبلہ بنالو) کے مفسرین نے کئی مطلب بیان کئے ہیں ایک یہ کہ اپنے گھروں ہی کو مسجد بنا لو۔ یعنی جب فرعون کی طرف سے سکتی اور نگرانی زیادہ ہے اور تمہارے لئے مسجدوں میں آکر نماز پڑھنا ممکن نہیں تو تم گھروں ہی میں نمازیں ادا کرتے رہو۔ کہتے ہیں کہ فرعون ن ان کو مسجدیں بھی مسمار کرا دی تھیں۔ یہ حکم حالت اضطرار میں تھا۔ لہٰذا حدیث ” وجعلت لی الارض“ کے منافی نہیں ہے۔ دوم یہ کہ فرعون کے ظلم و ستم کا مقابلہ کرنے کے لئے گھروں میں بکثرت عبادت کیا کرو تاکہ اسے ظلم سے نجات ملے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ آنحضرت ﷺ کو جب کوئی مشکل معاملہ درپیش ہوتا آپو نماز پڑھتے۔ (ابو دائود)۔ تیسرے یہ کہ گھروں کو قبلہ رخ تعمیر کرو اور ان میں خفیہ طور پر نماز پڑھا کرو۔ قبلتہ سے مراد بعض نے کعبہ لیا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کعبہ کی طرف منہ کرتے ہوں۔ بعد میں یہود نے ” صخرہ“ کو قبلہ بنا لیا ہو۔ (ابن کثیر۔ روح)۔ ف 7۔ کہ فرعون کی تباہی کے دن آیا ہی چاہتے ہیں۔ (شوکانی)۔ یونس
88 ف 1۔ ” لیضلوا“ میں لام عاقبت اور انجام کو ظاہر کرنے کے ہے۔ اس اعتبار سے آیت کا مطلب یہ ہوگا ” اے اللہ ان لوگوں کو دنیا کی دولت اور حکومت تو تو نے اس لئے دی تھی کہ اسے نیکی کی راہ میں صرف کریں اور شکر بجا لائیں مگر نتیجہ یہ ہوا کہ ان بدبختوں نے اسے لوگوں کو بہکانے اور گمراہ کرنے میں صرف کیا۔ (قرطبی۔ شوکانی)۔ ف 2۔ یہ بددعا حضرت موسیٰ نے اس وقت کی جب وہ سمجھاتے سمجھاتے مایوس ہوگئے اور انہیں یقین ہوگیا کہ اب فرعون اور اس کے سردار ایمان لانے والے نہیں جیسا کہ حضرت نوح ( علیہ السلام) نے آخر تنگ آکر اپنی قوم کے حق میں بددعا کی تھی۔ (شوکانی)۔ یونس
89 ف 3۔ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) دعا کر رہے تھے اور حضرت ہارون ( علیہ السلام) آمین کہہ رہے تھے۔ اس لئے دونوں کی طرف اضافت کردی۔ (شوکانی)۔ ف 4۔ یعنی دعوت کا کام کرتے رہو۔ آخر کار تمہاری دعا کا اثر ظاہر ہو کر رہے گا۔ (شوکانی)۔ ف 5۔ جو دعوت کے کام میں حوصلہ چھوڑ بیٹھتے ہیں یا دعا کرتے ہی یہ چاہتے ہیں کہ ان کا مطلب پورا ہوجائے اور اگر فوراً پورا نہ ہو تو شکایت کرنے لگتے ہیں کہ ہم نے بہتری دعائیں کیں مگر پروردگار نے قبول ہی نہ کی۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا تم میں سے کسی شخص کی دعات اس وقت تک قبول ہوتی رہتی ہے جب تک وہ جلدی نہیں کرتا اور جلدی کرنا یہ ہے کہ وہ گبھرا کر کہتا ہے کہ میں نے اپنے رب سے دعا کی مگر اس نے قبول نہ کی۔ (بخاری مسلم)۔ شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں :” یعنی شتابی نہ کرو حک کی راہ دیکھو۔ “ یونس
90 ف 6۔ یعنی سمندر میں ان کے پیچھے گھس گیا۔ فرعون کے بنی اسرائیل کا تعاقب کرنے اور پھر سمندر میں ان کے پیچھے گھسنے کی کیفیت تفصیل سے دوسرے مقامات پر مذکور ہے۔ (مثلاً دیکھئے الشعراء رکوع 4)۔ ف 7۔ یعنی بنی اسرائیل کو ستناے اور ان پر ظلم کرنے کے لے بغی اس زیادتی کو کہتے ہیں جو قول سے ہو اور عدو جو فعل سے ہو۔ (قرطبی)۔ یونس
91 یونس
92 ف 8۔ یعنی عذاب نازل ہوجانے کے بعد توبہ کرنے اور ایمان لانے سے کیا فائدہ؟۔ (دیکھئے آیت 15)۔ حضرت عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ بندے کی توبہ اس وقت تک قبول فرماتا ہے جب تک اس پر جانگنی (غرغرہ) کی حالت طاری نہیں ہوجاتی۔ (ترمذی)۔ ف 9۔ آج تک جزیرہ نمائے سینا کے مغربی ساحل پر اس مقام کی نشاندہی کی جات ہے جہاں فرعون کی لاش سمندر میں تریتی ہوئی پائی گئی تھی۔ اس زمانے میں اس مقام کو جبل فرعون یا حمام فرعون کہا جاتا ہے اس کی جائے وقوع ابو زنیمہ (جہاں تانبے وغیرہ کی کانیں ہیں) سے چند میل اوپر شمال کی جانب ہے آج قاہرہ کے عجائب گھر میں جن فراعنہ کی لاشیں موجود ہیں۔ ان میں ایک لاش کو اسی فرعون کی لاش بتایا جاتا ہے۔ 7091 ء میں جب فراعنہ کی یہ لاشیں دریافت ہوئی تھیں تو اس فرعون کی لاش پر نمک کی ایک نہ جمی ہوئی پائی گئی تھی جو سمندر کے کھارے پانی میں اس کی غرقابی کی کھلی علامت تھی۔ شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں جیسا وہ بے وقت ایمان لایا بے فائدہ ویسا ہی اللہ نے مرگئے پیچھے اس کا بدن دریا سے نکال کر ٹیلے میں ڈال دیا تاکہ بنی اسرائیل دیکھ کر شکر کریں اور عبرت پکڑیں۔ اس کو بدن کے بچنے سے کیا فائدہ؟۔ (موضح)۔ تنبیہ۔ فتوحات مکیہ میں فرعون کا ایمان معتبر ہونا مندرج ہے۔ صاحب ” بواقیت“ نے اس کی تردید کی ہے اور لکھا ہے کہ فتوحات کے معتبر نسخوں میں یہ عبارت نہیں ہے۔ ف 10۔ یعنی ان پر غور نہیں کرتے اور ان سے سبق حاصل نہیں کرتے۔ اگر غور کریں تو معلوم ہوجائے گا کہ انسان کی بساط کیا ہے۔ یہ واقعہ محرم عاشورا کے دن پیش آیا۔ (ابن کثیر)۔ یونس
93 ف 11۔ یعنی ملک شام دیا کہ کوئی مخالف مند رہا۔ (موضح)۔ یعنی بلادِ مصر اور شام، بیت االمقدس اور ” غرقابی“ کے بعد بنی اسرائیل کا مصر پر مکمل قبضۃ ہوگیا۔ ابن کثیر)۔ مگر وہاں زیادہ عرصہ ٹھہرنے کا موقعہ نہیں ملا۔ ان کو حکم تھا کہ ملک شام عمالقہ سے فتح کرکے وہاں چلے جائو چنانچہ یوشع کے زمانہ میں ان فتوحات کا سلسلہ شروع ہوا۔ (ابن کثیر۔ روح)۔ ف 12۔ یعنی اللہ کی کتاب تورات نازل ہوچکی اور اس میں بیان کردہ احکام کا انہیں پتا چل گیا۔ مطلب یہ ہے کہ آپس میں اختلاف اور تفرق کی وجہ یہ نہ تھی کہ ان کے پاس حقیقت کا علم نہ تھا بلکہ یہ سب کچھ انہوں نے جانتے بوجھتے شرارتِ نفس کی بنا پر کیا۔ بنی اسرائیل کے اختلافات کی داستان بہت طویل ہے۔ ف 13۔ وہاں معلوم ہوجائے گا کہ کون حق پر تھا اور کون باطل پر۔ پھر حق پرستوں کو اپنی نیکی کا انعام اور باطل پرستوں کو اپنی بدعملی کی سزا ملے گی۔ یونس
94 ف 1۔ اس سورت کا اصل موضوع آنحضرت ﷺ کی نبوت کا ثبوت اور مخالفین کے شبہات کی تردید ہے۔ یہاں آخر سورۃ میں پھر اصل موضوع کی طرف التفات کیا ہے۔ (کبیر) مشرکینِ عرب چونکہ ان پڑھ اور اصمانی کتابوں کے علم سے بے بہرہ تھے اس لئے انکو توجہ دلائی ہے کہ اگر تمہیں خود علم نہیں ہے تو ان علمائے یہود سے دریافت کرلو جو توراۃ وغیرہ آسمانی کتابوں کا علم رکھتے ہیں۔ ان میں سے جو منصف مزاج اور خدا سے ڈرنے والے ہیں وہ اقرار کریں گے کہ قرآن واقعی آسمانی کتاب اور محمد ﷺ کے سچے رسول ہیں کیونکہ ان کی کتابوں میں جگہ جگہ آپﷺ کی آمد کی بشارتیں موجود ہیں اور آپﷺ کی علامات بیان کی گئی ہیں۔ الغرض یہ خطاب تو آنحضرتﷺ سے ہے مگر مقصود عرب کو توجہ دلانا ہے ورنہ آپﷺ کو اپنی رسالت پر شک ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں : خود آنحضرت ﷺ کو کوئی شک نہ تھا اور نہ آپﷺ نے کسی سے دریافت کیا۔ (شوکانی)۔ یونس
95 یونس
96 ف 2۔ یعنی وہ کفر پر مرینگے اور اپنی ضد، تعصب اور ہٹ دھرمی کی بدولت انہیں ایمان لانے کی توفیق نصیب نہ ہوگی۔ (کذافی شوکانی)۔ یونس
97 ف 3۔ مگر اس وقت ایمان لانے کا کوئی فائدہ انہیں نہیں پہنچ سکے گا جیسا کہ فرعون اور اس کی قوم کو کچھفائدہ نہ ہوا۔ (ابن کثیر)۔ یونس
98 ف 4۔ یہ تیسرا قصہ ہے یعنی جن قوموں پر انبیاء کی تکذیب کی بدولت عذاب بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا ان میں یونس ( علیہ السلام) کی قوم کے سوا کسی کو یہ توفیق نصیب نہ ہوئی کہ عذاب ختم ہوجانے سے پہلے توبہ کر کیا ایمان لے آتی۔ اگر وہ ایسا کرتی تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرتا اور اس سے عذاب ٹال دیتا۔ اول تو ان میں سے کوئی قوم ایمان نہیں لائی اور اگر لائی بھی تو اس وقت جب عذاب نے اسے آدبوچا (جیسے فرعون اور اس کے ساتھی) اور ظاہر ہے کہ اس وقت ایمان لانے کا کوئی فائدہ نہ تھا۔ (شوکانی) مفسرین کے عام بیان کے مطابق قوم یونس کا مرکز ” نینویٰ“ کا مشہور شہر تھا جس کے آثار آج بھی دجلہ کے مشرقی ساحل پر موجودہ شہر موصل (شمالی عراق) کے بالمقابل پائے جاتے ہیں۔ موصل شہر کے قریب ” یونس نبی“ کے نام سے ایک بستی بھی پائی جاتی ہے۔ ف 5۔ عذاب ختم ہونے سے پہلے یا اس کی نشانیاں دیکھ کر (شوکانی) ف 6۔ یعنی موت تک انہیں مہلت دی۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا : کہ یونس (رض) نے اپنی قوم کے لوگوں کو توحید کی دعوت دی۔ جب انہوں نے اس دعوت کو قبول کرنے سے انکار کیا تو یونس ( علیہ السلام) یہ کہتے ہوئے بسی سے نکل گئے کہ تم پر فلاں دن عذاب آئے گا۔ انبیا کا قاعدہ تھا کہ جب وہ اپنی قوم کو عذاب سے خبردار کردیتے تو اپنی بستی سے باہر چلتے جاتے۔ اس کے بعد جب یونس ( علیہ السلام) کی قوم والوں نے عذاب کے آثار دیکھے تو عورتوں، بچوں اور مویشیوں سمیت گھروں سے نکل آئے اور خوف کے مارے چیخ پکار اور توبہ تلا کرتے ہوئے خدا کے حضور گڑگڑانے لگے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں صدق واخلاص دیکھ کر ان کی توبہ قبول فرمائی اور ان پر سے عذاب ٹال دیا۔ (احسن الفوائد)۔ بعض مفسرین (رح) کا خیال ہے کہ ان پر سے صرف دنیا کا عذاب ٹالا گیا جس کی آیت میں تصریح کی گئی ہے مگر صحیح یہ ہے کہ ان پر سے عذاب آخرت بھی ٹال دیا گیا۔ (ابن کثیر)۔ یونس
99 ف 7۔ یعنی اگر اللہ چاہتا تو فرشتوں کی طرح جنوں اور انسانوں کی فطرت بھی ایسی بنا دیتا کہ کہ وہ کفرو نافرمانی کر ہی نہ سکتے یا ان سب کے دل ایمان و اطاعت کی طرف پھیر دیتا لیکن اس طرح چونکہ جنوں یا انسانوں کی وعلیحدہ نوع کی حیثیت سے پیدا کرنے کا مقصد ہی فوت ہوجاتا۔ اس لئے اس نے اپنی مرضی سے ان کی فطرت میں یہ چیز رکھی ہے کہ وہ عقل سے کام لے کر چاہے ایمان وطاعت کا راستہ اختیار کریں یا کفرو نافرمانی کی۔ ف 8۔ نبی ﷺ کی ازراہِ شفقت یہ زبردست خواہش تھی کہ اللہ کے سب بندے ایمان لے آئیں، اس لئے اس آیت میں آپ کو یہ کہہ کر تسلی دی گئی کہ یہ چونکہ ہونے والے بات نہیں اس لئے آپﷺ کیوں اپنے آپ کو رنج و کرب میں مبتلا کرتے ہیں۔ (کذافی الوحیدی)۔ یونس
100 ف 9۔ یعنی جس طرح تکوینی طور پر دنیا کی کوئی نعمت کسی شخص کو اللہ تعالیٰ کے اذن کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی اسی طرح کسی شخص کو اللہ تعالیٰ کے اذن کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی اسی طرح کسی شخص کو ایمان کی نعمت حاصل ہونے یا نہ ہونے کا انحصار بھی اللہ تعالیٰ کے اذن پر ہے۔ کوئی شخص اس نعمت کو نہ خود پاسکتا ہے اور نہ کسی دوسرے کو عطا کرسکتا ہے۔ اس لئے اگر نبی چاہے بھی کہ تمام لوگوں کو مومن بنا دے تو نہیں بناسکتا۔ اس سے مقصود بھی آنحضرتﷺ کو تسلی دینا ہے (شوکانی) ف 10۔ یعنی اگرچہ ایمان کی توفیق دینے نہ دینے کا کلی اختیار اللہ تعالیٰ ہی کو ہے مگر اس کا قاعدہ یہ ہے اس نعمت سے وہ انہی لوگوں کو محروم رکھتا ہے اور انہی کو کفر و شرک کی نجاست میں پڑے رہنے کے لئے چھوڑتا ہے جو اس کی عطا کی کردہ عقل سے کام نہیں لیتے اور جس راستے پر اپنے باپ دادا کو چلتے دیکھتے ہیں اس پر آنکھیں بند کرکے چلتے رہنا پسند کرتے ہیں۔ (کذافی فکبیر والشوکانی)۔ یونس
101 ف 1۔ یا جو طے کرلیتے ہیں کہ چاہے کچھ ہوجائے ہم ہرگز اپنے باپ دادا کے راستہ کو چھوڑ کر ایمان نہیں لائیں گے۔ (کذافی فی الوحیدی)۔ یونس
102 ف 2۔ آنحضرتﷺ کفار کو عذاب سے ڈراتے تو وہ اس کا مذاق اڑاتے۔ اس پر اس آیت میں ان کو وعید سنائی کہ تم از خود اپنے اوپر عذاب کو دعوت دے رہے ہو جو ان سے پہلے کی کسی قوم پر نازل ہوا۔ (شوکانی)۔ یونس
103 یونس
104 یونس
105 ف 3۔ حنیف نام ہے (دین ابرہاہیم ( علیہ السلام) والوں کا۔ اور عرب شرک کرتے اور اپنے آپ کو حنیف کہے جاتے۔ (احسن الفوائد) ” اور ہرگز مشرکوں میں مت شامل) ہو“۔ یعنی ماسوی اللہ کی طرف التفات بھی شرک ہے۔ جسے اہل دل شرک خفی کہتے ہیں۔ (کبیر)۔ یونس
106 ف 4۔ اس میں اللہ تعالیٰ کے سوا زمین و آسمان کی ہر زندہ یا مردہ ہستی اور ہر جاندار یا بے جان چیز آگئی۔ یہ مطلب نہیں کہ پہلے تو کسی بزرگ یا نبی کی قبر کے بارے میں یہ غلط عقیدہ قائم کرلیا جائے کہ وہ نفع و نقصان پہنچا سکتی ہے اور پھر اسے سجدے کئے جائیں اور اس سے مرادیں طلب کی جائیں۔ اس آیت کی اس طور پر تاویل کرنا اللہ کی کتاب سے کھیلنا اور اس کا مذاق اڑانا ہے۔ مطلب مشرکین کو سمجھانا ہے کہ ہرقسم کے نفع و نقصان کا اختیار اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ (فتح القدیر)۔ ف 5۔ کیونہ شرک کے برابر کوئی ظلم نہیں ہے جیسے فرمایا : ان الشرک لظم عظیم۔ یہاں پر ” فعل“ کنایہ ہے۔ دعا سے ای ان دعوت ما لا ینفع ولا یضرالخ۔ (روح)۔ یونس
107 ف 6۔ مسند احمد اور ترمذی میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے عبد اللہ بن عباس (رض) کو مخاطب کرکے فرمایا : ہر قسم کی مدد اللہ تعالیٰ سے طلب کرو کیونکہ تمام دنیا تم کو ضرر پہنچانا چاہیے یا نفع جب تک اللہ تعالیٰ کی مرضی نہ ہو نہ تمہیں کچھ نفع پہنچا سکتی ہے نہ ضرو۔ (احسن الفوائد) عامر (رض) بن قیس کہتے ہیں کہ قرآن کی تین آیتوں نے مجھے سارے جہان سے بے نیاز کردیا۔ ایک یہ آیت دوسری : ما یفتح اللہ للناس من رحمتہ فلا ممسک لھا وما یعسک فلا مرسل لہ : جو رحمت (رح) اللہ لوگوں کے لئے کھولے اسے کوئی روک رکھنے والا نہیں ہے، اور جسے کوئی روکے اسے کوئی کھولنے والا نہیں ہے۔ اور تیسری آیت : وما من دابۃ فی الارض الی علی اللہ رزقھا۔ کہ زمین میں کوئی جاندار ایسا نہیں جس کا رزق اللہ کے ذمے نہ ہو۔ (فتح القدیر بحوالہ بیہقی)۔ یونس
108 ف 1۔ یعنی تمہارا نگران اور ذمہ دار نہیں ہوں کہ اگر تم سیدھی راہ پر نہ آئو تو مجھ سے باز پرس ہو۔ یونس
109 یونس
0 ف 2۔ اکثر مفسرین نے اس پوری سورۃ کی مکی قرار دیا ہے اور حضرت ابن عباس (رض) اور قتادہ (رض) آیت اقم الصلوۃ… اور مقاتل (رض) اس کی آیت : فلعلک تارک…کو غیر ملی قرار دیتے ہیں مگر سورۃ یونس سے اس کا نزول بہرحال متقدم ہے۔ حضرت کعب (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ ” سورۃ ہود کو جمعہ کے روز پڑھا کرو“ (بیہقی مراسیل ابی دائود)۔ ایک حدیث میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا : مجھے سورۃ ہود واقعہ، مرسلات عم یتساء ولون اور اذا الشمس کورت نے بوڑھا کردیا ہے۔ (طبرانی) یہی روایت متعدد صحابہ (رض) سے حدیت کی دوسری کتابوں میں بھی آتی ہے۔ (از شوکانی)۔ ھود
1 ف 3۔ یعنی خوب پختہ اور اٹل ہیں جن میں کوئی عیب اور نقص نہیں ہے اور نہ ہو۔ مجموعی اختیار سے۔ توراۃ انجیل کی طرح منسوخ ہیں اور پھر معارضہ سے بھی بالا ہیں۔ (کذافی الوحیدی)۔ ف 4۔ یعنی نہایت واضح کہ کس آیت کے مفہوم میں ابہام اور پیچیدگی نہیں ہے۔ (شوکانی)۔ ھود
2 ف 5۔ یا زندگی میں اس کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو۔ ف 6۔ یعنی اس کے عذاب سے ڈرانے والا اور اس کے ثواب کی خوشخبری دینے والا۔ (شوکانی) ھود
3 ف 7۔ یعنی جو گناہ کرچکے ان کی معافی چاہو اور آئندہ کے لئے توبہ کرو کہ پھر گناہ نہ کریں گے یا ہر طرف سے منہ موڑ کر اسی کی طرف پلٹ آئو۔ ف 8۔ یعنی اس کی نعمتوں سے سرفراز ہوجائو گے زندگی میں چین اور آرام نصیب ہوگا اور زندگی بھر عزت و شرف سے رہو گے۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ استغفار سے بلائیں دور ہوتی ہیں اور توبہ سے خدا کی ایسی مہربانی حاصل ہوتی ہے کہ زندگی امن چین اور خوشحالی سے بسر ہوتی ہے۔ عمل صالح، اور استغفار کی برکات کے لئے دیکھئے سورۃ نحل آیات 89، سورۃ نوح آیت 11۔ (کذافی الوحیدی)۔ ف 9۔ یعنی جو اطاعت اور نیک اعمال کرنے میں جتنا زیادہ ہوگا اتنا ہی اسے دنیا میں یا آخرت میں یا دونوں میں اجر زیادہ ملے گا۔ اللہ کے ہاں کسی چیز کی کمی نہیں ہے۔ اس کا قاعدہ ہے کہ جو کوئی برائی کرتا ہے اس کے لئے ایک ہی برائی لکھی جاتی ہے اور جو نیکی کرتا ہے اس کے لئے دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔ (ابن کثیر)۔ ف 10۔ یعنی قیامت کے دن کا عذاب جو بہت سخت ہے۔ (وحیدی)۔ ھود
4 ف 11۔ اگر تم توبہ و استغفار نہ کرو گے تو وہ تمہیں عذاب بھی دے سکتا ہے۔ تم اس کی گرفت سے باہر نہیں ہو۔ (وحیدی)۔ ھود
5 ف 12۔ اوپر فرمایا کہ اگر اعراض کرو گے تو بڑے دن کے عذاب میں گرفتار ہوجائو گے۔ اب یہاں بتایا کہ باطنی اعراض بھی ظاہری اعراض کی طرح ہے (کبیر)۔ سینے کو لپیٹینا ایک محاورہ ہے جس سے مراد ہے اعراض کرنا، یا غلط سوچنا، بے اصل شبہات سے اپنے دل کو تسلی دینا عقائد حقہ سے اعراض کرنا وغیرہ کیونکہ یہاں صدور سے مراد علومِ صدر ہیں۔ (فتح الرحمن)۔ مطلب یہ ہے کہ اپنے سینوں میں جو کفر و عناد رکھتے ہیں اور اسے چھپا کر رکھنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو ان کے راز ہائے بستہ کی اطلاع نہ ہونے پائے۔ (شوکانی)۔ ف 13۔ یعنی جب اپنا سارا بدن چھپا کر اپنے دروازے بند کرکے یہ سمجھتے ہیں کہ اب ہمارے اصل حال کی اطلاع کون پاسکتا ہے؟ کپڑے لپیٹنا کنایہ ہے رات کو کپڑے اوڑھ کر بستروں پر سونے سے۔ اس حالت کو خاص طور پر اس لئے بیان فرمایا کہ ایسے وقت میں ہی عموماً خیالات اور وساوس دل میں پیدا ہوتے ہیں۔ (رازی)۔ ف 14۔ شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں : کافر کچھ مخالفت کی بات گھر میں کہتے، اس کا جواب قرآن میں اترتا۔ تب سے ایسی بات کہتے، تو کپڑا اوڑھ کر دوہرے ہو کر اللہ تعالیٰ نے یہ نازل کیا۔ ھود
6 ف 1۔ پچھلی آیت میں اللہ تعالیٰ کے علم کی وسعت و احاطہ کا بیان تھا کہ انسان کے ظاہر اور پوشیدہ احوال کیا وہ تو دلوں کے خیالات تک سے واقف ہے۔ اس آیت میں اسی پر دلیل پیش کی ہے کہ ہر جاندار کو اللہ تعالیٰ کے ہاں سے روزی پہنچ رہی ہے۔ پھر اگر اللہ کا علم وسیع نہ ہوتا تو یہ روزی کا بندوبست کیسے ممکن تھا۔ (رازی)۔ اصل میں رزق کے تمام خزانے تو اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہے مگر کسب کی حد تک انسان وسائل ِ رزق کو کام میں لاسکتا ہے بلکہ اس کا مکلف ہے۔ لیکن ان اسباب کو موثر نہ سمجھے بلکہ اصل بھروسا اللہ تعالیٰ پر ہو۔ اسی کا نام توکل ہے۔ مقصد یہ کہ رزق کے حصول کے لئے اسباب و وسائل کو کام میں لانا تو کل کے منافی نہیں ہے بلکہ حدیث میں ہے۔ اعقل وتوکل کہ پہلے اونٹ کو گھٹنا باندھ دیجئے اور پھر اللہ پر تو کل کیجئے۔ ایک دوسری حدیث میں ہے : ” کوئی متفس اس وقت تک نہیں مرتا جب تک کہ اپنی عمر اور رزق جو اللہ تعالیٰ نے لکھ دیا ہے پورا نہ کرے۔ لہٰذا تم کو چاہیے کہ کسب معاش کے سلسلہ میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور جائز طریقوں سے روزی حاصل کرو“۔ اور پھر یہ ذہن بھی غلط ہے کہ طلب و سعی کے بغیر رزق نہیں ملتا کیونکہ اللہ تعالیٰ کی بہت سی مخلوق وہ ہے جن کو مباشرت اسباب کے بغیر رزق پہنچ رہا ہے۔ (روح)۔ ف 2۔ یہ بھی اسی دلیل کا تتمہ ہے۔ ” مستقر“ اور ” مستودع“ کی تفسیر میں علما سے مختلف اقوال مروی ہیں۔ ذہن پر انسان چلتا پھرتا ہے آخر جہاں پہنچ کر اس کی سیر کا منتہیٰ ہوگا وہ اس کا ” مستقر“ ہے اور پھر جہاں ٹھکانا کرتا ہے وہ ” مستودع“ ہے۔ (ابن کثیر) شاہ ولی اللہ (رح) لکھتے ہیں جو حالت انسان کے اختیار رہنے سہنے کی ہے اسے اس کا ” مستقر“ کہا جائے گا اور اس سے قبل جو ٹھکانے (مقر) غیر اختیاری تھے جیسیصلب پلدورحم م اور ان تمام اطوار کو اس کا ” مستودع“ کہا جائے گا۔ (فتح الرحمن) موضح میں ہے ” مستعز“ جہاں ٹھہرتا ہے یعنی بہشت ودوزخ۔ ” مستودع“ جہاں سونپا جاتا ہے اس کی قبر۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ کا علم انسان کی اس زندگی پر بھی حاوی ہے اور موت کے بعد کے تمام حالات بھی اللہ تعالیٰ جانتا ہے۔ ھود
7 ف 3۔ اوپر کی آیت میں اللہ تعالیٰ کے کامل علم کا اثبات تھا اور اس آیت میں کمال درت کا بیان ہے۔ آسمان و زمین کی چھ دنوں میں تخلیق کے بارے میں دیکھئے سورۃ اعراف آیت 45۔ (کبیر)۔ ف 4۔ اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ آسمان و زمین کی تخلیق سے قبل اللہ تعالیٰ کا عرش پانی پر تھا۔ (ابن کثیر) ابتداء آفرینش کے متعلق مختلف روایات آتی ہیں۔ صحیح اور مشہور روایات میں ہے کہ آنحضرت ﷺ سے سوال کیا گیا ہے کہ پہلے پہل خلق کی ابتدا کیسے ہوئی؟ آپ ﷺ نے فرمایا : کان اللہ قبل کل شئی وکان عرسہ علی الماء وکتب فی اللوح الحفوظ زکر کل شئی کہ ہر چیز سے پہلے اللہ تھا اور اس کا عرش پانی پر تھا۔ اس نے لوح محفوظ میں ہر چیز کا ذکر لکھ دیا۔“ دوسری حدیث میں ہے کہ آسمان و زمین کی آفرینش سے پچاس ہزار سال پہلے اللہ تعالیٰ نے مخلوق کی سب تقدیریں لکھ لی تھیں۔ (صحیح مسلم و بخاری) سنن کی بعض روایات میں ہے این کان ربنا قبل ان یخلق الخلق۔ خلق کی پیدائش سے قبل پروردگار کہاں تھا؟ اس کے جواب میں آنحضرتﷺ نے فرمایا کان فی عمائما تحتہ ھواء وما قوتہ ھوا“۔ مگر امام رازی (رح) لکھتے ہیں کہ یہ حدیث ضعیف ہے اور اس باب میں صرف مشہور حدیث سے ہی استدلال ہوسکتا ہے۔ (کبیر) پانی اور عرش کے بعد ” سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے قلم کو پیدا کیا۔“ یہی صحیح ہے اور ایک روایت میں ہے کہ سب سے پہلے عقل کو پیدا کیا مگر یہ روایت ضعیف ہے۔ صحیح حدیث میں ہے کہ ایک دن آنحضرت ﷺنے ابتدء آفرینش کے متعلق خطبہ دیا جس میں ابتداء عالم سے لے کر قیام قیامت تک کہ تمام چیزیں بیان کردیں۔“ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ ابتداء آفرینش کے متعلق صحابہ (رض) سے جو آثار مروی ہیں وہ سب کے سب اسرایلیات سے نہیں لئے گئے۔ (احسن الفوائد)۔ ف 5۔ یعنی تم میں سے کون اس کے دئیے ہوئے اختیار اور قوت تمیز سے فائدہ اٹھا کر سیدھی راہ اختیار کرتا ہے اور کون غلط راہ پر چلتا ہے۔ احسن عمل یا عمل صالح وہ ہے جو ” خالص اللہ کے لئے ہو اور شریعت کے مطابق“۔ اگر ان دو شرطوں میں سے کوئی ایک شرط نہ پائی جائے تو وہ عمل باطل اور ضائع ہے۔ (ابن کثیر)۔ ھود
8 ھود
9 ف 6۔ یعنی انسان میں یہ کمزوری ہے کہ جب اسے کوئی معمولی سی مصیبت بھی پہنچتی ہے تو اللہ تعالیٰ کی پچھلی تمام نعمتوں کو بھول جاتا ہے۔ یہی اس کی ناشکری ہے۔ (ابن کثیر)۔ ھود
10 ف 7۔ اترانے لگتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اب تمام مصیبتیں اور سختیاں ختم ہوگئیں۔ ھود
11 ف 8۔ یعنی وہ ایسا نہیں کرتے بلکہ جب تکلیف آتی ہے تو صبر کرتے ہیں اور جب خوشحالی اور نعمت سے سرفراز ہوتے ہیں تو شکر بجا لاتے ہیں۔ حدیث میں ہے ” مومن کے لئے ہر حالت خیرو برکت کا سبب بنتی ہے اسے تکلیف پہنچتی ہے تو صبر کرتا ہے اور خوشحالی نصیب ہوتی ہے تو شکر بجا لاتا ہے تو یہ بھی اس کے حق میں بہتر ہے۔ (ابن کثیر)۔ ھود
12 ف 9۔ ان آیات میں آنحضرتﷺ کو تسلی دی گئی ہے کہ ان کے شبہات، مطالبات اور طعن و تشنیع سے تنگ آکر کبیدہ خاطر نہ ہوجائیں بلکہ مشرک کی مذمت اور توحید کے اثبات کے متعلق جو وحی بھی آئے اسے بلا کم و کاست ان تک پہنچاتے ہیں۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ وحی کا وہ حصہ حذف کردیں جس میں بتوں کی عیب جوئی ہے۔ (ابن کثیر)۔ ف 1۔ یعنی آپﷺ نے عذاب سے ڈرانے ولا بنا کر بھیجا ہے لہذا بلو خوف لومۃ لائم آپﷺ اس فریضہ کو سرانجام دیتے ہیں۔ (از وحیدی)۔ ف 2۔ یعنی ان کے مطالبات کو پورا کرنا یا نہ کرنا اللہ کا کام ہے۔ ہر چیز اسی کے اختیار میں ہے۔ وہ اگر چاہے تو آپﷺ کا ایک خزانہ کیا روئے زمین کے تمام خزانے دے دے گا اور ایک فرشتہ کیا آپﷺ پر سینکڑوں فرشتے اتار دے گا۔ بہرحال جیسی اس کی مصلحت و حکمت ہوگی ویسا ہی کرے گا۔ آپﷺ کو ان چیزوں سے کیا غرض۔ آپﷺ تو اللہ کا جو حکم آئے بے دھڑک ان کو مناتے رہیں۔ (کذا فی الوحیدی)۔ ھود
13 ف 3۔ یعنی اگر تمہیں اس قرآن کے خدا کا کلام ہونے میں شک و شبہ ہے تو تم سب جمع ہو کر اس چیلنج کا جواب دینے کی کوشش کرو۔ واضح رہے کہ قرآن میں متعدد مرتبہ عرب کی تحدی کیگئی ہے۔ سورۃ اسراء (آیت 88) میں پورے قرآن کے لئے چیلنج کیا گیا ہے۔ اس کے بعد یہاں سے سورتوں کے لئے تحدی کی گئی ہے اور سورۃ یونس (آیت 82) اور سورۃ بقرہ (آیت 32) میں ایک ہی سورۃ بنالانے کا چیلنج کیا گیا ہے۔ لیکن عرب پورا قرآن یا دس سورتیں تو کیا ایک سورۃ بھی بنا کر پیش نہ کرسکے۔ یہ قرآن کے کلام اللہ ہونے کا ناقابلِ تردید ثبوت ہے۔ (ابن کثیر)۔ واضح رہے کہ قرآن کا معجز ہونا جیسے اس کی فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے ہے اسی طور پر وہ اپنے اسلوبِ بیان ور تناقض پر مشتمل نہ ہونے کے اعتبار سے بھی معجز ہے۔ (کبیر۔ ابن کثیر)۔ ھود
14 ف 4۔ یستجوا میں ضمیر ” ھم“ کفار کے لئے ہے اور ” لکم“ میں ” کم“ کے مخاطب آنحضرتﷺ اور مسلمان ہیں۔ یعنی اگر وہ کفار تمہارے سامنے اس چیلنج کا جواب پیش نہ کریں۔ اور اگر ” ھم“ تمہارے سامنے اس چیلنج کا جواب پیش نہ کریں۔ اور اگر ” ھم“ ضمیر کا مرجع ممن، موصولہ ہو اور ” لکم“ سے مراد کافر ہوں تو معنی یہ ہوں گے کہ جن کو تم اللہ کے سوا مدد کے لئے پکارتے ہو بلائو اگر وہ تمہاری دعوت قبول نہ کریں۔ (شوکانی)۔ ف 5۔ تو سمجھ لو اور یقین کرلو کہ اس میں سی کے دئے ہوئے احکام ہیں۔ کسی بندے کے بس میں نہیں کہ اس قسم کے احکام دے سکے۔ (شوکانی)۔ ف 6۔ یہ بھی کافروں سے خطاب ہے یعنی تمہیں چاہیے کہ اسلام میں داخل ہو کر اس کے احکام و شرائع کی اتباع اختیار کرلو۔ اور اگر اس کے مخاطب مسلمان قرار دئیے جائیں تو معنی یہ ہونگے ” کیا اب بھی تم اسلام پر ثابت قرار ہوئے یا نہیں“؟ مگر پہلا احتمال گونہ راحج ہے کیونکہ اس سے ضمائر میں اتساق پیدا ہوجاتا ہے۔ (شوکانی)۔ ھود
15 ھود
16 ف 7۔ یہ آیتیں کفار اور مشرکین کے بارے میں ہیں کیونکہ بعد میں لیس لھم الا النار ہے کہ ان کے لئے آخرت میں آگ ہی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جو کفار یہاں دنیا طلبی کے لئے صدقہ خیرات وغیرہ نیک عمل کرتے ہیں جن کا تعلق رفاہِ عامہ سے ہے انہیں ان کاموں کا بدلہ دنیا میں ہی پورا پورا دے دیا جاتا ہے لیکن یہ بدلہ ملنا مشئیت الٰہی پر موقوف ہے۔ جیسا کہ دوسری آیت میں ہے۔ عجلنا لہ ما نشاء لمن نرید (سورہ اسراء آیت 81) آخرت میں بعض کفار جیسے ابو طالب کے متعلق آیا ہے کہ اس کو ہلکا عذاب ہوگا تو یہ خاص طور پر آنحضرت ﷺ کے ساتھ نیکی کی وجہ سے ہے۔ ورنہ آخرت میں نیک عمل کی قبولیت کے لئے ایمان شرط ہے۔ علما تفسیر نے ان دو آیتوں کو عام بھی مانا ہے اور لکھا ہے کہ اس میں منافق اور ریاکار بھی شامل ہیں کہ ان کے عمل بھی آخرت میں اکارت جائیں گے۔ چنانچہ ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا : قیامت کے دن ایک شہید کو لایا جائے گا وہ کہے گا یا اللہ ! میں نے لڑتے لڑتے تیری راہ میں جان دے دی۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے : تم جھوٹے ہو تم نے محض اس لئے جنگ کی تھی کہ لوگ تمہیں بہادر کہیں چنانچہ تمہیں یہ دلو مل گئی۔ پھر حکم ہوگا کہ اسے چہرے کے بل گھسیٹ کر آگ میں ڈال دو۔ اس کے بعد آنحضرتﷺ نے ریاکارقاری اور ریاکار دولت مند کے متعلق بھی یہی بیان فرمایا۔ (مسلم)۔ واضح رے کہ اگر اس آیت کو عام رکھا جائے تو لیس لھم الا النار“ کی تاویل کی جائے گی کہ کفار اور منافقین کے لئے تو دائمی جہنم ہے مگر مسلمان گنہگار۔ سزا کے بعد جہنم سے نکل آئیں گے اور بعض کو اللہ تعالیٰ معاف بھی کردے گا اہل سنت کا یہی عقیدہ ہے۔ ھود
17 ف 8۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں : یعنی دل میں اس کا نور اور مزہ پاتا ہے اور قرآن کی حلاوت۔ (موضع) ف 9۔ وہ شخص اس کی طرح ہوگا جس کے پیش نظر دنیا اور اس کی خوشحال اور فارغ البالی ہو۔ مطلب یہ ہے کہ دونوں کی حالت یکساں نہیں ہوسکتی۔ (ازوحیدی)۔ ف 10۔ جو لوگ عقل سلیم سے کا لیتے ہیں اور خدا کا گواہ بھی ان کو پہنچ چکا ہے اور انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ توراۃ میں آنحضرت ﷺ کے بارے میں کیا بشارتیں اور علامات بیان کی گئی ہیں۔ (وحیدی)۔ ف 11۔ یہ وعید تمام گروہوں (اہلِ ایمان) کے لئے ہے جو بھی قرآن سے روگردانی اور اس کے احکام سے انکار کرے گا خواہ نام کے اعتبار سے مسلمان ہی کیوں نہ ہو۔ (ت۔ ن)۔ ف 21۔ بظاہر خطاب آنحضرتﷺ سے ہے اور مراد دوسرے لوگ ہیں۔ (قرطبی)۔ ھود
18 ف 1۔ مثلا بتوں کو اللہ کے حضور سفارشی سمجھے یا فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں قرار دے۔ (قرطبی)۔ موضح میں ہے کہ خدا پر جھوٹ باندھنا کئی طرح ہے مثلا علم میں غلط نقل کرنا، خواب بنا لینا یا دریت و عقل کو دین کے معاملات میں درمیان میں لے آنا یا دعویٰ کرنا کہ کشف رکھتا ہوں یا اللہ کے مقرب ہوں۔ ھود
19 ھود
20 ف 2۔ ان کے پیغمبر یا فرشتے جو عمل لکھتے ہیں اور علما جنہوں نے اللہ کے احکام کی تبلیغ کی۔ یہ سب گواہ کفار کے متعلق اعلان کریں گے کہ یہی لوگ ہیں جو اپنے پروردگار سے جھوٹی باتیں منسوب کرتے تھے جیسا کہ صحیح مسلم کی ایک حدیث میں ہے (ابن کثیر۔ کبیر) امام رازی لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے پیشی تو سب کی ہوگی مگر ان کو رسوا کرنے کے لئے پیش کیا جائے گا۔ (کبیر)۔ ف 3۔ جو انہیں اللہ کے عذاب اور پکڑ سے بچا سکے۔ (کبیر)۔ ف 4۔ یعنی اللہ پربہتان باندھا۔ ان کو کیسے معلو ہوا کہ فلاں فلاں بت یا بزرگ ان کو بچالیں گے؟ نہ غیب کی انہوں نے سنیں نہ غیب دیکھا۔ (وقریبا من ھذافی الروح)۔ ھود
21 ف 5۔ یعنی جھوٹے دعوے آخرت میں گم ہوگئے۔ مثلاً یہ جو کہا کرتے تھے کہ ہمارے یہ بت یا بزرگ یا پیرو مرشد۔ خدا سے ہماری سفارش کریں گے اور ہم اس کے عذاب سے بچ جائیں گے۔ (کذافی الوحیدی)۔ ھود
22 ھود
23 ھود
24 ف 6۔ مسلمان دیکھتا سنتا ہے اور کافر اندھا بہرا ہے۔ دونوں میں بڑا فرق ہے۔ ھود
25 ف 7۔ جن حالات میں نبی و مکہ میں توحید کی دعوت پیش کر رہے تھے وہ چونکہ ویسے ہی حالات تھے جو آپﷺ سے پہلے دوسرے انبیاء ( علیہ السلام) کو پیش آچکے تھے۔ اس لئے حسب موقع یہاں سے گزشتہ انبیاء ( علیہ السلام) کا ذکر کیا جا رہا ہے۔ تاکہ ایک طرف آنحضرت ﷺ کی ہمت بندھے اور دوسری طرف کفار مکہ کو تہدید اور تنبیہ ہو۔ (کبیر)۔ ھود
26 ف 1۔ اس ” عذاب الیم“ سے مراد آخرت کا عذاب بھی ہوسکتا ہے اور طوفان کا عذاب بھی۔ (روح المعانی) یہ وہی ابت ہے جو اس سے پہلے سورۃ کے آغاز میں آنحضرت کی زبان سے ادا ہوئی۔ ھود
27 ف 2۔ مکہ کے لوگ بھی آنحضرت ﷺ کے بارے میں یہی بات کہا کرتے تھے کہ جو شخص ہاری طرح کا بشر ہو جو کھاتا پیتا، بازاروں میں چلتا پھرتا، سوتا جاگتا اور بال بچے رکھتا ہو آخر وہ اللہ کا رسول ﷺ کیسے ہوسکتا ہے۔ (دیکھئے سورۃ قرآن آیت 7) مطلب یہ ہے کہ رسالت اور بشریت میں تضاد ہے اور یہ کہ ان دونوں کا ایک شخص میں اجتماع محال ہے۔ ف 3۔ یعنی اس وہ سے بھی آپو کو ہم پر کوئی فضیلت نہیں ہے کہ کچھ لوگ آپو کے متبع ہوگئے ہیں کیونکہ وہ تو ہمارے رذالے ہیں جن کا کسی شخص کی اتباع کرنا کچھ اہمیت نہیں رکھتا۔ بعینہ یہی بات مکہ کے کھاتے پیتے سردار نبی ﷺ کے بارے میں کہا کرتے کہ ان کی پیروی ہماری قوم کے غلام اور نچلے طبقے کے لوگ کرتے ہیں۔ (دیکھئے آیت 45 تا 45)۔ ف 4۔ یعنی بلا سوچے سمجھے۔ یا وہ اس قسم کے لوگ ہیں جو گہری سمجھ کے مالک نہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اگر غوروفکر کرتے اور ذرا تامل سے کام لیتے تو تمہاری اتباع نہیں کرسکتے تھے۔ اگر یہ (بادی الرای) ’ نزاک“ کی ظرف ہو تو مطلب یہ ہوگا کہ ان کی رذالت بالکل واضح ہے۔ (کذا فی الرضا)۔ ف 5۔ یعنی تم لوگون کو۔ یہ خطاب حضرت نوح ( علیہ السلام) اور ان کے ماننے ولوں سے ہے۔ ف 6۔ تم جو یہ کہتے ہو کہ نوح (علیہ السلام) خد اکے بھیجے ہوئے رسول ہیں۔ ھود
28 ف 7۔ یعنی وہ دلیل تمہیں نظر نہ آئی یا وہ رحمت (نبوت) تم سے مخفی رہی۔ اور تم اسے اپنی بے وقوفی سے سمجھ نہ سکے۔ یہ ان کے پہلے اعتراض کا جواب ہے کہ ” تم ہماریجیسے بشر ہو۔“ (روح)۔۔ ف 8۔ یعنی کیا ہم زبردستی تمہیں اس دلیل کا قائم کردیں حالانکہ تم اس سے نفرت کرتے ہو اور اس سے بھاگتے ہو۔ (روح)۔ ھود
29 ف 9۔ جیسے تم چاہتے ہو کہ جن لوگوں نے میری پیروی اختیار کی ہے وہ چونکہ نچلے طبقے کے لوگ ہیں اس لئے انہیں اپنے پاس سے دھکے دے کر نکال دوں۔ یہ بھی اسی قسم کا مطالبہ تھا جو قریش کے سردار نبی ﷺ سے کیا کرتے تھے۔ (از شوکانی)۔ ف 10۔ یعنی میں اگر ان کو ستائوں یا اپنی مجلس سے نکال دوں تو وہ اللہ تعالیٰ سے اپنا انصاف چاہیں گے اس کا میں کیا جواب دوں گا یا یہ کہ وہ لوگ تو اللہ کے ہاں عزت پالیں گے اور اس بارگاہ عالی میں ایمان و عمل کے باعث ان کو یار ملے گا۔ پھر تمہارے ذلیل سمجھنے سے کیا ہوتا ہے۔ یہ ان کے دوسریاعتراض کا جواب ہے کہ آپﷺ (نوح علیہ السلام) کے مقبع ہمارے رذالے ہے۔ (رازی)۔ شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں : کافروں نے مسلمانوکو رذال ٹھہرایا اور چاہا کہ ان کو ہانک دو تو ہم تمہارے پاس بیٹھیں اور بات سنیں۔ سو فرمایا کہ دل کی بات اللہ تحقیق کرے گا جب اسے ملیں گے۔ میں اگر مسلمانوں کو ہانکوں تو اللہ سے کون چھڑوائے مجھ کو اور رذالا ٹھہرایا اس پر کہ وہ کسب کرتے تھے۔ کسب سے بہتر کمائی نہیں اس واسطے فرمایا کہ تم جاہل ہو۔ (کذافی الروح)۔ ف 11۔ یعنی کسی بات کو بھی صحیح طور پر نہیں سمجھتے اور تمہاری نظر صرف ظواہر پر ہے اور انجام پر غور نہیں کرتے۔ (کبیر۔ روح) بھلا یہ بھی کوئی بات ہے کہ فلاں شخص نیچ قوم کا ہے اس لئے اسے اپنے پاس بیٹھنے نہ دو؟ اللہ کے نزدیک اسی شخص کی عزت ہے جو ایماندار اور پرہیز گار ہے۔ بے ایمان اور بدکار کتنے ہی شریف خاندان کا ہو اللہ کے نزدیک چوہڑے اور چمار سے بھی بدتر ہے۔ (وحیدی)۔ ھود
30 ھود
31 ف 12۔ یہ اس بات کا جواب ہے جو ان لوگوں نے کہی تھی کہ ہمیں تو تم اپنے جیسے ایک انسان نظرآتے ہو اور یہ کہ ہم تم کو کسی بات میں اپنے سے زیادہ نہیں پاتے۔ اس پر حضرت نوح فرماتے ہیں کہ وہاں میں واقعی تم ہی جیسا ایک بشر ہوں نہ میرے پاس اللہ کے خزانے میں نہ میں غیب کی باتیں جانتا ہوں اور نہ میں فرشتہ ہونے کا دعویٰ کرتا ہوں۔ یعنی اس قسم کی کوئی فوقیت مجھ میں نہیں ہے۔ میرا جو بھی دعویٰ ہے وہ صرف اتنا ہے کہ میں اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں اور اس نے اپنے سیدھے راستے کی مھے ہدایت بخشی ہے میرا یہ دعویٰ ناقابلِ تردید ہے۔ اس کی تم جس طرح چاہو آزمائش کرلو۔ (از وحیدی)۔ ف 13۔ یعنی مجھ سے یہ امید نہ رکھو کہ محض تمہیں خوش کرنے کے لئے ان لوگوں کے بارے میں اس قسم کی جاہلانہ بات کہوں گا۔ مطلب یہ ہے کہ مذکورہ اوصاف کا وجود اولازم نبوت میں سے نہیں ہے کہ ان کے بغیر نبوت مل ہی نہیں سکتی اور نہ ان اوصاف کا عدم ہی خیر سے مانع ہے کہ جو شخص مالدار نہ ہو اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی خیر بھی حاصل نہیں ہوسکتی۔ بلکہ اللہ تعالیٰ قادرِ کریم ہے کہ ناتوانوں کو عزت دیتا ہے اور عزت والوں کو دم بھر میں ذلیل کردیت اہے۔ اس وقت بھی یہ لوگ اپنے رب پر ایمان اور اس کے رسول کی پیروی کی بدولت تم سے زیادہ باعزت اور شریف ہیں۔ (از روح۔ وحیدی)۔ ف 14۔ اگر ان کے دلوں میں ایمان و اخلاص ہے تو اللہ کے ہاں ضرور اجر پائیں گے۔ تم اور میں مل کر بھی انہیں اس اجر سے محروم نہیں کرسکتے۔ (از وحیدی)۔ ف 15۔ یعنی اگر میں انہیں خواہ مخواہ ذلیل قراردوں۔ اشارہ ہے کہ تم ان کو رذالے کہنے میں ظالم ہو یا یہ کہ اگر میں خزائن الٰہی کو جمع کرنے، غیب کے جاننے اور فرشتہ ہونے کا دعویٰ کرون تو۔۔۔۔ ھود
32 ھود
33 ھود
34 ھود
35 ف 1۔ کہ میں اللہ کا رسول ﷺ ہوں اور اس نے یہ یہ احکام مجھئے دئیے ہیں۔ ھود
36 ف 2۔ یعنی اس کا وبال خود تم پر پڑے گا۔ اس آیت کے بارے میں مفسرین (رح) کا اختلاف ہے۔ بعض اسے حضرت نوح ( علیہ السلام) کے قصے ہی سے متعلق سمجھتے ہوئے اس میں خطاب حضرت نوح سے قرار دیتے ہیں ( جیسا کہ ترجمہ سے ظاہر ہوتا ہے) اور بعض اسے حضرت نوح کے قصے کے درمیان جملہ معترضہ قرار دیتے ہیں اور اس کو مشرکین مکہ کا قول ٹھہرا کر آنحضرتﷺ کو مخاطب مانتے ہیں یعنی کیا (مکہ کے کافر) کہتے ہیں کہ (محمد ﷺ) نے اس (قرآن) کو اپنے دل سے گھڑ لیا ہے۔ (اے محمد ﷺ) کہدے اگر میں نے اسے اپنے دل سے گھڑ لیا ہے تو میرے گناہ کا وبال مجھ پر پڑے گا اور تم جو گناہ کرتے ہو میں اس کی ذمہ داری سیبری ہوں۔ پہلی تفسیر حضرت ابن عباس (رض) سے منقول ہے اور ” جملہ معترضہ“ کا قول مقاتل (رح) کا ہے۔ علمائے تفسیر (رح) میں سے امام رازی اور ان کیبالتبع امام شوکانی نے پہلے قول کو ترجیح دی ہے اور لکھا ہے کہ یہی اکثر مفسرین کا قول ہے۔ حافظ ابن کثیر (رح) اور صاحب ــکشف“ نے دوسری تفسیر کو راحج قرار دیا ہے اور یہی رائے شاہ عبد القادر (رح) کی ہے۔ (ایضا ملتقط من الروح)۔ ف 3۔ جب قوم کی تکذیب اور ایذا رسانی ھد سے بڑھ گئی تو اللہ تعالیٰ نے نوح (علیہ السلام) کو یہ وحی کی جس کا بیان اس آیت میں ہے اور نوح کو قوم سے کلیتہ مایوس کردیا تو نوح (علیہ السلام) نے اللہ کے حضور التجا کی کہ میں بے بس ہوں ان سے مرای بدلہ لے۔ (القمر) اور بد دعا کی : رب لا تذر علی الارض من الکفرین دیار۔ اے پروردگار روئے زمین پر کافروں کا ایک گھر باقی نہ چھوڑ۔ (نوح) ھود
37 ف 4۔ یعنی ان کے بارے میں تاخیر عذاب کی سفارش مت کر یا ان میں سے کسیکے بارے میں سفارش مت کر۔ بے شک انتقام کا وقت آ پہنچا ہے اب مہلت نہیں ہے۔ (وحیدی)۔ ھود
38 ف 5۔ وہ اس پر ہنستے کہ خشک زمین پر غرقابی کا بچائو کر رہے ہیں۔ نوح (علیہ السلام) اس پر ہنستے کہ یہ لوگ بجائے اس کے کہ ایمان و اطاعت کے ذریعہ عذاب الٰہیے بچائو حاصل کریں الٹے کفر و معاصی پر اصرار کرکے اور خدائی نشانات کا مذاق اڑا کر عذاب کو دعوت دے رہے ہیں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ نوح (علیہ السلام) کے جواب کو برسبیل مشاکلت ” سخریہ“ کہدیا ہو۔ جیسا کہ جزاء سیہ سیتہ مثلھا میں مذکور ہے۔ (روح المعانی) شاہ صاحب لکھتے ہیں یہ (یعنی نوح علیہ السلام) ہنستے اس پر کہ موت سر پر کھڑی ہے اور یہ ہنستے ہیں۔ (از موضح)۔ ھود
39 ف 6۔ یعنی آخرت میں جہنم کا عذاب جو ہمیشہ رہنے والا ہے۔ ھود
40 ف 7۔ تنور (بروزن تفعول) تھا حضرت نوح ( علیہ السلام) کے گھر میں، طوفان کا نشان بتا رکھا تھا کہ جب اس تنور سے پانی ابلے تب کشتی میں سوار ہوجائو۔ (موضح 9 جمہور مفسرین (رح) نے تنور سے یہی عام تنور مراد لیا ہے۔ لیکن حسب تفسیر ابن عباس (رض) ” تنور“ سے مراد روئے زمین ہے یعنی ساری زمین چشمہ آب بن گئی اور پانی اُبلنے لگا۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ہے۔ و فجرنا الارض عیونا (القمر 12)۔ حتیٰ کہ تنورجو آگ کی جگہ ہوتے ہیں، پانی کے فوارے بن گئے۔ (ابن کثیر۔ روح) امرنا سے مراد عذاب کا حکم ہے کہ آسمان سے موسلا دھار پانی برسنے لگا اور زمین سے چشموں کی طرح پانی اُبلنا شروع ہوگیا دونوں طبقے مل گئے اور زمین غرقاب ہوگئی۔ (ت۔ ن) ف 1۔ موضح میں ہے یعنی ہر جانور کا ایک جوڑا۔ (جیسا کہ ” اثنین“ کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے) رکھ لیا کشتی میں جس کی نسل رہنی مقدر تھی۔ (کذافی الروح)۔ ف 2۔ یعنی ان کی بیوی جس کا ذکر سورۃ تحریم میں آیا ہے اور ان کا بیٹا جس کے غرق ہونے کا ذکر آرہا ہے۔ ف 3۔ وہی جن کو قوم نے رزالے کہا۔ قرآن و حدیث میں ان کی تعداد کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ ھود
41 ف 4۔ یا اللہ ہی کے نام پر اس کا چلنا اور ٹھہرنا ہے۔ ف 5۔ کشتی یا کسی دوسری سواری پر سوار ہوتے وقت بسم اللہ پڑھنا مسنون ہے جیسا کہ احادیث میں مذکور ہے۔ سورۃ زخرف آیت 13۔ 14 میں سواری پر سوار ہوتے وقت یہ دعا بھی آئی ہے۔ سبحان الذی سخرلنا ھذا وما کنا لہ مقرنین وانا الی ربنا لمنقلبون۔ پاک ہے وہ ذات جس نے اس سواری کو ہمارے بس میں کردیا حالانکہ ہم میں اتنی طاقت نہ تھی کہ اسے قابو میں لاسکتے اور ہم یقینااپنے رب کی طرف پلٹنے والے ہیں۔“ حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا : یہ میری امت کے لئے غرق ہونے سے امان ہے کہ جب وہ کشتی میں سوار ہونے لگیں تو یہ دعا کریں۔ بسم اللہ الملک الرحمن بسم اللہ محریھا ومرسھا ان ربی لعفوررحیم وما قدرو اللہ حق قدرہ والارض جمیعا قبجتہ یوم القیامت والسموات مطویات بیمینہ سبحنہ وتعالی عما یشرکون۔ (ابن کثیر)۔ ھود
42 ھود
43 ف 6۔ یا دوسرا ترجمہ یہ ہوسکتا ہے اور وہی لفظی ترجمی بھی ہے کہ آج اللہ کے عذاب سے کوئی بچانے والا نہیں ہے مگر جو رحم کرنے والا ہے۔ (یعنی خود اللہ تعالی) آیت میں یہ ایک وجہ ہے جو محققین نے ذکر کی ہے اور یہی قویٰ ہے کیونکہ فاعل کا صیغہ زیادہ تر صفت کے لئے آتا ہے اور نسبت کے لئے کم استعمال ہوتا ہے۔ (روح)۔ ھود
44 ف 7۔ جودی پہاڑ عراق اور ترکی کے درمیانی علاقے میں جسے کردستان کہتے ہیں موصل کی جانب واقع ہے۔ تورات میں حضرت نوح ( علیہ السلام) کی کشتی ٹھہرنے کی جگہ ” ارات“ بتائی گئی ہے جو ارمینا کے اس پہاڑی سلسلے کا نام ہے جس سے دجلہ اور فرات نکلتے ہیں جو بھی اسی پہاڑی سلسلے کے ایک پہاڑ کا نام ہے اور آج بھی اسی نام سے مشہور ہے۔ چند سال ہوئے مغربی سیاحو نے اس پہاڑ پر ایک بڑی کشتی کے ٹوٹے ہوئے تختے بھی دریافت کئے ہیں، اگرچہ ان کے متعلق قطعی طور پر نہیں کہا جاسکتا کہ آیا یہ حضرت نوح کی کشتی کے ہی تختے ہیں یا کسی اور کشتی کے۔ واضح رہے کہ حضرت نوح کی قوم دجلہ اور فرات کی وادی ہی میں آباد تھی جو بعد میں عراق کے نام سے مشہور ہوئی۔ ف 8۔ یعنی سب ہلاک کردئیے۔ بائیبل (پیدائش :81۔42) کے بیان کی بنا پر عام خیال ہی ہے کہ یہ طوفان روئے زمین میں آیا تھا مگر بعض علما کا کہنا ہے کہ طوفان اسی علاقے میں آیا تھا جہاں حضرت نوح ( علیہ السلام) کی قوم آباد تھی۔ گو قرآن و حدیث میں اس کی کوئی تصریح نہیں ہے لیکن یہ عین ممکن ہے کہ طوفان کے زمانے میں دنیا میں دجلہ و فرات کی وادی کے علاوہ کسی اور جگہ کوئی آبادی ہی نہ ہو۔ ھود
45 ھود
46 ف 9۔ یعنی ان لوگوں میں سے نہیں ہے جنہوں نے تجھ پر ایمان لا کر تیری پروی اختیار کی۔ اس سے معلوم ہوا کہ نجات کے لئے نسبی تعلق کافی نہیں ہے بلکہ ایمان و عمل ضروری ہے۔ ف 10۔ معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ سے کسی ایسی چیز کا مانگنا جائز نہیں ہے جس کے متعلق معلوم ہو کہ وہ اس کی شریعت کے مطابق نہیں ہے۔ ف 1۔ یا یہ کہ تمہیں اس سے بلند دیکھنا چاہتا ہوں کہ تم سے کوئی ایسا کام صادر ہو جو جائلوں کے کرنے کا ہے۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں آدمی پوچھتا وہی ہے جو معلوم نہ ہو لیکن مرضی معلوم ہونی چاہیے۔ یہ کام ہے جائل کا کہ اگلے کی مرضی نہ دیکھئے پوچھنے کی پھر پوچھے۔ (موضح) مطلب یہ ہے کہ اس حقیقت کو جاننے کے بعد اگر آئندہ ایسا سوال کرو گے تو جائل بن کر رہ جائو گے۔ (روح)۔ ھود
47 ف 2۔ حضرت نوح ( علیہ السلام) شاید پدری محبت کے تقاضے سے یہ سمجھ بیٹھے کہ بیٹا، چاہے وہ کافر ہو گھروالوں میں شامل ہے اور اس کے لئے دعا کی جاسکتی ہے لیکن جونہی اللہ تعالیٰ نے انہیں تنبیہ کی کہ ایک کافر بیٹے کو نسبی قرابت کی بنا پر اپنا اہل سمجھنا صحیح نہیں ہے تو وہ فوراً متنبہ ہوئے اور اللہ کے حضور اپنی غلطی پر معافی چاہی۔ (از وحیدی)۔ حضرت شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں : حضرت نوح ( علیہ السلام) نے توبہ کی لیکن یہ نہ کہا کہ پھر ایسا نہ کروں گا کہ اس میں دعویٰ نکلتا ہے۔ بندے کو کیا مقدور ہے؟ اسی کی پناہ مانگے کہ مجھ سے پھر نہ ہو۔ (موضح)۔ ھود
48 ف 3۔ یعنی ان تمام مومنوں پر جو قیامت تک تمہاری اور تمہارے ساتھ والوں سے نسل صرف حضرت نوح ( علیہ السلام) کے بیٹوں کی چلی۔ اس صورت میں حام، سام اور یافت کی اولاد ہی مراد ہوگی۔ (از روح)۔ ف 4۔ حق تعالیٰ نے تسلی فرما دی کہ اس کے بعد ساری نوع انسانی پر ہلاکت نہیں آئے گی۔ ہاں بعض فرقے ہلاک ہوں گے۔ (کذافی الوضح) ہلاک ہونے والے فرقوں سے مراد وہ تمام کافر ہیں جو حضرت نوح اور ان کے ساتھیوں کی نسلی سے پیدا ہوئے یا قیامت تک پیدا ہوں گے۔ ھود
49 ف 5۔ یعنی جس طرح نوح اور ان کے ساتھیوں کا انجام بخیر ہو رہا اور اسی طرح آپﷺ کا انجام بھی دنیا و آخرت دونوں میں بہتر رہے گا اور آپﷺ کے مخالفین دنیا میں بھی ذلیل و برباد ہوں گے اور آخرت میں بھی انہیں دوزخ کی آگ نصیب ہوگی۔ (کذافی الروح)۔ ھود
50 ف 6۔ یہ عطف بیان ہے ” اخاھم“ سے۔ (تشریح کے لئے دیکھئے سورۃ اعراف آیت 56)۔ ف 7۔ اللہ نے ہرگز انہیں اپنا شریک نہیں بنایا۔ ھود
51 ف 8۔ کہ جو شخص سچے دل سے دعوت و تبلیغ اور نصیحت کی مشقتیں اٹھا رہا ہے اور جسے اپنے رب سے اجر کی امید ہے وہ تم سے کوئی دنیوی فائدہ کیوں چاہے گا؟۔ ھود
52 ف 9۔ یا اپنے تمام باطل معبودوں کو چھوڑ کر اسی کی طرف پلٹ آئو۔ ف 10۔ تفسیر روایات کے بموجب قوم عاد میں بارش نہ ہونے کی وجہ سے قحط نمودار ہوگیا تھا جو کئی سال تک رہا۔ حضرت ہود نے ان سے کہا کہ ایمان لا کر اپنے گناہوں سے توبہ کرو گے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بارش ہوگی اور قحط کی بجائے خوشحالی اور فراوانی پیدا ہوجائے گی۔ (معالم)۔ احادیث میں استغفار کے بہت سے فوائد مذکور ہیں۔ ایک روای میں ہے کہ جو شخص استغفار کو عادت بنالے اللہ تعالیٰ اس کی ہر مشکل آسان اور الجھن دور کردیتا ہے اور غیر متوقع طور سے اس کی ضرورتیں پوری فرما دیتا ہے۔ (ابن کثیر)۔ ف 11۔ یا میری اطاعت سے منہ نہ پھیرو ورنہ تم مجرم قرار پائو گے۔ ھود
53 ھود
54 ف 1۔ جو اس طرح کی بہکی بہکی باتیں کرنے لگا ہے افسوس ! یہی ” کسی بزرگ کی مار“ کا تصور آج مسلمانوں میں بھی آگیا ہے حالانکہ مسلمانوں کا عقیدہ یہ ہونا چاہیے کہ اللہ کے سوا کوئی زندہ یا مردہ ہستی کسی کا کچھ نہ بگاڑ سکتی ہے نہ بنا سکتی ہے۔ (از وحیدی)۔ ف 2۔ یعنی میرا تمہارے ان بتوں سے کوئی تعلق نہیں بلکہ میں ان کی ہر آن مذمت کرنے کو تیار ہوں۔ ھود
55 ف 3۔ یعنی یہ جو تم کہتے ہو کہ ہمارے کسی معبود کی تم پر مارپڑگئی ہے تو اگر تم اور تمہارے یہ سب معبود مل کر بھی میرا کچھ بگاڑ سکتے ہیں تو بگاڑ لیں اور مجھے ذرا مہلت نہ دیں۔ ورنہ جان لو کہ تم بھی جھوٹے اور تمہارے یہ معبود بھی غلط۔ (وحیدی)۔ ھود
56 ف 4۔ یعنی جو سیدی راہ پر چلے وہ اس سے ملے۔ (موضح)۔ یا یہ کہ گو ہر جاندار پر اس کا قبضہ ہے اور وہ اس کے ساتھ جو سلوک کرنا چاہے کرسکتا ہے مگر وہ کسی پر ظلم نہیں کرتا۔ (ابن کثیر)۔ ھود
57 ف 5۔ میں جو دعوت پیش کر رہا ہوں اسے قبول نہ کرو اور کفر پر مصر رہو۔ (شوکانی)۔ ف 6۔ جب وہ ہر چیز کا نگہبان ہے تو میرا بھی نگہبان ہے۔ لہٰذا وہ یقینا تمہارے شر سے میری حفاظت فرمائے گا۔ (شوکانی)۔ ھود
58 ھود
59 ف 7۔ انہوں نے اگرچہ ہود ( علیہ السلام) ہی کی نافرمانی کی، لیکن چونکہ ایک پیغمبرﷺ کی نافرمانی تمام پیغمبروں کی نافرمانی ہے اس لئے فرمایا کہ انہوں نے ” اس کے پیغمبروں کی نافرمانی کی۔ (شوکانی)۔ ف 8۔ ” عنید“ ہر اس شخص کو کہا جاتا ہے جو نہ حق کو قبول کرے اور نہ اس کا مطیع ہو۔ مراد قوم کے سردار ہیں۔ (ابن کثیر)۔ ھود
60 ف 9۔ یعنی قیامت کے دن یوں پکاریں گے۔ (موضح)۔ سری سے روایت ہے کہ قوم عاد کے بعد اللہ تعالیٰ نے کوئی نبی نہیں بھیجا مگر اس نے عاد پر لعنت کی۔ یا ” اتبعوا“ کے معنی یہ ہیں۔ ” ان پر دنیا میں بھی لعنت اور آخرت میں بھی۔“ (شوکانی)۔ ھود
61 ف 1۔ یعنی اب تک جو کفرو شرک کرتے رہے ہو اس کی اپنے رب سے معافی مانگو۔ ف 2۔ یعنی تمام معبودوں کو چھوڑ کر اللہ کی طرف پلٹ آئو۔ ھود
62 ف 3۔ یعنی تمہاری عقلمندی اور ذہانت سے تو ہم بڑی بڑی امیدیں وابستہ کئے بیٹھے تھے مگر تم نے تو توحید اور آخرت کا نیا راگ الاپ کر ہماری تمام امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ ف 4۔ یعنی بت پرستی اور شرک پر اصرار کی اگر کوئی دلیل تھی تو وہ صرف یہ کہ ان کے باپ دادا ان کی پوجا کرتے رہے تھے۔ ف 5۔ یہ کس قدر حماقت تھی کہ شرک پر نہ تو مطمئن تھے اور نہ ان کے پاس کوئی عقلی یا نقلی دلیل ہی نہ تھی مگر پھر بھی آبائی تقلید کی وجہ سے شرک کو چھوڑ کر توحید کی راہ اختیار کرنے کو تیار نہ تھے۔ ھود
63 ف 6۔ یعنی تم تک اس کا پیغام پہنچانے میں کوتاہی کروں۔ ف 7۔ یعنی اگر میں توحید کی راہ چھوڑ کر شرک کی راہ اختیار کرلوں تو یہی نہیں کہ تم مجھے اللہ کی پکڑ سے نہ بچا سکو گے بلکہ تمہاری وجہ سے میرا جرم اور بھی بڑھ جائے گا۔ اور اللہ تعالیٰ اس بات پر مجھے دوہری سزا دے گا کہ میں نے جان بوجھ کر شرک کا راستہ اختیار کیا۔ ھود
64 ف 8۔ ” ایۃ“ سے مراد یہاں معجزہ ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں : حضرت صالح ( علیہ السلام) سے قوم نے معجزہ مانگا، حق تعالیٰ نے ان کی دعا سے پتھر میں سے اونٹنی نکالی۔ اسی وقت اس نے بچہ دیا، اسی وقت وہ ماں کے برابر ہوگیا حضرت صالح نے فرمایا کہ اس کی تعظیم کرتے رہو تب تک دنیا کا عذاب نہ ہوگا جہاں وہ جاتی کھانے کو یا پینے کو سب جانور بھاگ جاتے اور آدمی کوئی اس کو نہ ہانکتا۔ (کذافی التفاسیر)۔ ف 9۔ اگرچہ ان میں سے صرف ایک شخص نے اونٹنی کو زخمی کیا تھا لیکن اسے چونکہ سب کی رضامندی اور تائید حاصل تھی اس لئے سبھی کو اس جرم کا مرتکب قرار دیا گیا۔ ھود
65 ھود
66 ف 10۔ یعنی اس دن کے رسوا کن عذاب سے۔ ھود
67 ف 11۔ ان پر عذاب آیا اس طرح کہ رات کو پڑے سوتے تھے۔ فرشتے نے چنگھاڑ ماری سب کے جگر پھٹ گئے۔ (موضح)۔ سورۃ اعراف میں ہے ” فاخذتھم الرجفۃ“ شاید کہ صیحہ کے بعد رجفہ واقع ہوا ہو یا دوگونہ عذاب بیک وقت آیا ہو۔ ھود
68 ھود
69 ف 1۔ ان فرشتوں کی آمد کا مقصد حضرت لوط ( علیہ السلام) کی قوم پر عذاب نازل کرنا تھا۔ راستے میں حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کی بستی سے گزرے جس سے مقصد خوشخبری سنانا تھا اور وہ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کے ہاں بطور مہمان ٹھہرے۔ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) نے حسب عادت مہمان نوازی کرنا چاہی۔ یہاں ” بشری“ خوشخبری سے مراد حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) اور ان کی بیوی سارہ کو بیٹے کی خوشخبیر ہے۔ (شوکانی وغیرہ)۔ ف 2۔ اس سے معلوم ہوا کہ فرشتے حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کے ہاں انسانی شکل میں پہنچے تھے۔ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) نے خیال کیا کہ پردیسی مہمان ہیں اس لئے انہوں نے مہمانی کا اہتمام کیا۔ ھود
70 ف 3۔ کیونکہ ان کے علاقے میں اگر کوئی اجنبی آتا اور وہ مہمانی میں پیش کیا ہوا کھانا قبول ہ کرتا تو اس کے متعلق سمجھا جاتا کہ وہ کسی برے ارادے سے آیا ہے یا یہ بھی ہوسکت اہے۔ اور شاید یہی قرین قیاس ہو۔ کہ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) نے ان کے کھانا تناول نہ کرنے کی وجہ سے ان کے فرشتے ہونے کو بھانپ لیا ہو اور وہ اس بنا پر ڈر گئے ہوں کہ یہ ان کی بستی پر عذاب نازل کرنے کے لئے بھیجئے گئے ہیں۔ (شوکانی)۔ ھود
71 ف 4۔ اس ڈر سے خوش ہو کر ہنس پڑیں۔ حق تعالیٰ نے خوشی پر اور خوشیاں بڑھائیں۔ (موضح)۔ ف 5۔ خوش خبری حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کی بجائے حضرت سارہ کو اس لئے دی گئی کہ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کے ہاں تو ان کی دوسری بیوی حضرت ہاجرہ سے حضرت اسماعیل پیدا ہوچکتے تھے لیکن حضرت سارہ ابھی تک بے اولاد تھیں۔ ھود
72 ف 6۔ قدیم مفسرین (رح) کہتے ہیں۔ اور یہی بائیبل سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کی عمر اس وقت سو سال اور حضرت سارہ کی عمر نوے سال تھی۔ ھود
73 ف 7۔ یعنی وہ تو ماں باپ کے بغیر بھی پیدا کرسکتا ہے۔ پھر بوڑھی عورت کو بچہ عطا کرنا اسے مشکل ہے؟ ف 8۔ یا تم پر خدا کی رحمت اور برکت ہو۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ ازواج (بیویاں) انسان کے اہل بیت میں سے ہوتی ہیں۔ (ت۔ ن)۔ ھود
74 ف 9۔ سعید (رض) بن جبیر، قتادہ (رض) اور بعض دوسرے مفسرین (رح) کہتے ہیں کہ جب حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کو فرشتوں نے بتایا کہ وہ قوم لوط کو ہلاک کرنے جا رہے ہیں تو انہوں نے پوچھا جس بستی میں تین سو مسلمان ہوں کیا تم اسے تباہ کردو گے؟ انہوں نے کہا ” نہیں۔ کہا : اگر چالیس ہوں تب“؟ انہوں نے کہا : نہیں۔ اس پر حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) نے کہا : ان فیمھا لوطا (اس بستی میں لوط تو موجود ہیں)۔ اس پر انہوں نے کہا :” اس میں جو لوگ ہیں ہمیں ان کا خوب علم ہے۔ ہم لوط کو، اور ان کی بیوی کے سوا ان کے تمام گھر والوں کو بچا لیں گے۔“ اس وقت حضرت ابراہیم خاموش ہوئے اور ان کا اطمینان ہوگیا۔ (ابن کثیر)۔ ھود
75 ف 10۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کی بحث و تکرار کا برا نہ مانا بلکہ ان کا نہایت پیار سے ذکر کیا۔ ھود
76 ف 11۔ یہ فرشتوں کی بات ہے جو انہوں نے بالآخر حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) سے کہی اور اس کے بعد وہ قوم لوط پر عذاب نازل کرنے روانہ ہوگئے۔ ھود
77 ف 1۔ یہ فرشتے گئے لڑکے بنکر اور حضرت لوط ( علیہ السلام) کو اس قوم کی خو معلوم تھی، اس سے خفا ہوئے کہ لڑائی کرنی پڑی۔ (موضح)۔ ھود
78 ف 2۔ ” بناتی“ (بیٹیوں) سے مراد ان لوگوں کو اپنی عورتیں ہیں کیونکہ نبی اپنی قوم کے لئے بمنزلہ باپ کے ہوتا ہے اور قوم کی ساری عورتیں نبی کی بیٹیاں ہوتی ہیں جیسا کہ نبی ﷺ کے بارے میں ارشاد ہے۔ النبی اولی بالمومنین من انفسھم و ازواجھہ امھاتھم (احزاب آیت 6)۔ یہی تفسیر راضح ہے گو بعض نے لوط (علیہ السلام) کی اپنی بیٹیاں بھی مراد ی ہیں کہ ان سے شادی کرلو۔ (کمانی الفوضح)۔ ھود
79 ف 3۔ یعنی ہمیں عورتوں سے کوئی دلچسپی نہیں ہے ہم تو اس بدکاری کے خوگر ہوچکے ہیں۔ (ابن کثیر)۔ ان کے اس جواب سے انکی خباثٹ کو پورا نقشہ سامنے آجاتا ہے اور معلوم ہوجاتا ہے کہ کیوں ان کو اس عذاب کا مستحق سمجھا گیا جو ان کے علاوہ اور کسی قوم پر نازل نہیں کیا گیا۔ ھود
80 ف 4۔ حضرت لوط ( علیہ السلام) اس قوم میں ایک طرح سے اجنبی تھے۔ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) نے ان کو اہل روم کی اصلاح پر مقرر فرمایا تھا۔ اس بنا پر انہوں نے دھمکی کے طور پر ان سے کہا کہ اگر میرا کوئی زبردست کنبہ یہاں ہوتا تو تم سے نبٹ لیتا۔ حضرت لوط ( علیہ السلام) کی زبان سے یہ الفاظ پریشانی کی حالت میں بے ساختہ نکل گئے ورنہ ان کو اللہ تعالیٰ کا سہارا ہی کافی تھا۔ حدیث میں آیا ہے“۔ اللہ تعالیٰ لوط پر رحم فرمائے کہ وہ زبردست آسرا یعنی اللہ کا سہارا رکھتے تھے۔ ان کے بعد اللہ تعالیٰ نے جو بھی نبی بھیجا وہ اپنی قوم میں ایک کنبہ رکھتا تھا۔ (ابن کثیر)۔ ھود
81 ف 5۔ یعنی جب فرشتوں نے دیکھا کہ حضرت لوط ( علیہ السلام) بالکل عاجز آگئے ہیں اور اپنی قوم کے بدکاروں کو رونہ نہ سکنے کی وہج سے سخت رنجیدہ ہیں تو انہوں نے ظاہر کردیا کہ ہم فرشتے ہیں۔ ف 6۔ پیچھے سے عذاب کی بنا پر شور اور دھماکوں کی آواز بھی آئے تب بھی پیچھے مڑ کر نہ دیکھو بلکہ اس علاقے جلد از جلد نکل جانے کی فکر کرو۔ ف 7۔ اسے ساتھ نہ لے جائو کیونکہ وہ کافر ہے یا وہ پیچھے مڑ کر دیکھے گی۔ (وحیدی)۔ ف 8۔ علمائے تفسیر کا بیان ہے کہ جب حضرت لوط ( علیہ السلام) اپنے گھر والوں کو لے کر بستی سے چل دئیے تو ان کی بیوی بھی ساتھ تھی لیکن جب عذاب نازل ہونے کی آوازیں آنے لگیں تو وہ پیچھے مڑ کر اپنی قوم کی تباہی پر افسوس کرنے لگی۔ ایک پتھر اس پر بھی آکر گرا اور وہ وہیں ڈھیر ہوگئی۔ یہ ملطب اس صورت میں ہوسکتا ہے جب ” الامریک کا استثنا“ لا یلتفت سے ہو مگر اکثر مفسرین کا خیال ہے کہ وہ ساتھ ہی نہیں گئی اور اپنی قوم کے ساتھ ہلاک ہوگئی۔ اس صورت میں یہ استثناء ” فاسر باھلک“ سے ہوگا۔ (ابن کثیر)۔ ف 9۔ ہمارے حضرت ﷺ کو مکہ فتح ہوا صبح کے وقت، شاید وہی اشارہ ہو۔ (موضح)۔ ھود
82 ف 10۔ یعنی پختہ اینٹوں کے روڑے یا کھنگر۔ ف 11۔ ” نشن لگے ہوئے۔“ یعنی ان میں سے ہر پتھر پر کوئی علامت بنائی گئی تھی کہ اس سے کس شخص کو ہلاک کرنا ہے۔ (ابن کثیر)۔ ھود
83 ف 12۔ یعنی آج جو لوگ ظلم کی روش پر چل رہے ہیں ( جیسے کفار مکہ) ان پر بھی نزولِ عذاب بعید قیاس نہیں۔ عذاب اگر قوم لوط پر آسکتا تھا تو ان پر بھی آسکتا ہے۔ ھود
84 ف 13۔ تشریح کے لئے دیکھئے سورۃ اعراف رکوع۔۔۔ ف۔1 اچھے خاصے خوشحال ہو پھر اس قسم کی بے ایمانی اور فریب کاری کی تمہیں کیا ضرورت ہے؟ ف 2۔ یعنی آخرت کا عذاب یا دنیا ہی کا عذاب جس سے کوئی نہ بچ سکے گا۔ ھود
85 ھود
86 ف 3۔ نقل ہے کہ امانت کا روپیہ۔۔ لیتے تھے۔ (موضح)۔ ابن کثیر میں ہے وہ لوگ ڈاکتے ڈالتے تھے۔ ف 4۔ یعنی تم پر نگران تو نہیں ہوں جو ہر وقت تمہاری ناپ تول کو دیکھتا رہوں میرا کام تو تمہیں سمجھا دینا اور خدا کے عذاب سے ڈرا دینا ہے۔ ماننا نہ ماننا تمہارا کام ہے۔ ھود
87 ف 5۔ یعنی کیا تو اپنی نماز کا دائرہ عمل اس قدر وسیع سمجھتا ہے کہ دوسروں کے مذہبی و مالی معاملات میں بھی دخل دینے لگا ہے۔ ہماری مرضی ہے جس کی چاہیں پوجا اور جس کی چاہیں بندگی کریں اور یہ مال جو ہمارے اپنے ہیں ان میں جس طرح چاہیں تصر ف کریں۔ جائز ناجائز جیسے چاہیں کمائیں۔ کوئی ہمیں کیوں ٹوکے؟ ف 6۔ پھر تو ایسی نادانی کی باتیں کرنے لگا ہے؟ یا بس تو ہی ایک عقلمند اور نیک چلن آدمی رہ گیا ہے۔ باقی ہم اور ہمارے باپ دادا جائل اور احمق ہی رہے ! یہ بات انہوں نے حضرت شعیب ( علیہ السلام) سے استہزا اور تمسخر کے انداز میں کہی۔ (ابن کثیر) شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ ” جاہلوں کا دستور ہے کہ نیکیوں کے کام آپ نہ کرسکیں تو انہیں کو لگیں چڑانے، یہی خصلت ہے کفر کی۔ ھود
88 “ ف 7۔ تو میرے لئے یہ کیسے جائز ہے کہ میں تمہیں نیکی کا حکم نہ دوں اور برائی سے منع نہ کروں؟ اس آیت میں ” رزق حسن“ کا لفط دوہرے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ ایک نبوت اور علم حق کے معنی میں اور دوسرے حلال روزی (ذریعہ زندگی) کے معنی میں، کہتے ہیں کہ حضرت شعیب (رض) خود ایک مالدار آدمی تھے۔ (فتح القدیر)۔ ف 8۔ یعنی یہ جو میں تمہی ناپ تول میں بے ایمانی کرنے سے روک رہا ہوں، اس کا مقصد ہرگز یہ نہیں ہے کہ تمہیں تو اس سے باز رہنے کی تلقین کروں اور خود اس کا ارتکاب کرکے خوب نفع اٹھادوں بلکہ میں تم سے جو بات بھی کہتا ہوں، پہلے خود اس پر عمل کرتا ہوں۔ تمام انبیاء ( علیہ السلام) اور اس امت کے سلف صالح کا بھی یہی شیوہ رہا ہے۔ (از بن اکثیر)۔ ف 9۔ تاکہ تمہارا دنیا و آخرت میں بھلا ہو۔ شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں :” یہ خصلت ہے خد اکے نیک لوگوں کی کہ چڑانے سے برا نہ مانا اور اپنے مقدور بھر سمجھاتے رہے۔ ف 10۔ کہ آج تم کو یہ نصیحت کر رہا ہوں جو کچھ میں کرنا چاہتا ہوں اس کی کامیابی کا دار و مدار اللہ ہی کی توفیق پر ہے۔ ھود
89 ف 1۔ یعنی ابھی تو قوم لوط ( علیہ السلام) کے واقعہ کو زیادہ عرصہ نہیں گزرا اور وہ تمہارے قریب ہی کے علاقہ میں پیش آچکا ہے۔ واضح رہے کہ حضرت شعیب ( علیہ السلام) کا زمانہ ہود ( علیہ السلام) سے تقریباً چھ سات سو سال بعد کا ہے اور جغرافیائی اعتبار سے بھی مدین کا علاقہ اس زمین سے متصل واقع تھا جہاں حضرت لوط ( علیہ السلام) کی قوم بستی تھی۔ ھود
90 ف 2۔ یعنی اپنے بندوں سے اسی لئے تمہیں پہلے سے خبردار کرنے کا انتظام فرمایا ہے۔ ھود
91 ف 3۔ یہ بات انہوں نے یا استہزا اور تحقیر کے انداز میں کہی یا خدا کی نافرمانی کرتے کرتے ان کے ذہن اس قدر مسخ ہوچکے تھے کہ حضرت شعیب ( علیہ السلام) کی سیدھی باتیں بھی واقعی ان کے ذہن میں نہ آتی تھیں حالانکہ حضرت شعیب ( علیہ السلام) نہ کسی غیر زبان میں گفتگو کرتے تھے اور نہ ان کا انداز بیان ہی پیچیدہ اور الجھا ہوا تھا بلکہ حضرت شعیب ( علیہ السلام) اپنی فصیح البیانی کی وجہ سے ” خطیب الانبیاء ( علیہ السلام) “ کے لقب سے پکارے جاتے ہیں۔ (ابن کثیر)۔ ف 4۔ نہ تیرے پاس فوج ہے، نہ حکومت اور نہ کرو فر۔ ف 5۔ جو ہمارے دین پر ہیں لیکن تیری پشت پناہی کر رہے ہیں۔ ف 6۔ جس زمانہ میں یہ آیات نازل ہوئیں، بالکل وہی صورت حال نبی ﷺ کو مکہ معظمہ میں درپیش تھی۔ قریش آپﷺ کے خون کے پیاسے ہو رہے تھے اور ہر ممکن طریقے سے آپﷺ کی زندگی کا خاتمہ کرنا چاہتے تھے لیکن چونکہ بنی ہاشم آپﷺ کی پشت پر تھے اور خاص طور پر آپﷺ کے چچا ابو طالب آپﷺ کی پوری طرح حفاظت کر رہے تھے اس لئے قریش کو آپﷺ پر ہاتھ ڈالنے کی جرأت نہ ہوسکی۔ ھود
92 ف 7۔ وہ تمہاری مکاریوں اور حیلہ سازیوں سے واقف ہے۔ اس لئے تمہارا کوئی عمل پوشیدہ نہیں۔ ھود
93 ف 8۔ میں یا تم؟ ھود
94 ھود
95 ف 9۔ سورۃ اعراف اور عنکبوت میں ہے کہ انہیں ” رجفہ“ یعنی زلزلے نے آدبایا اس لئے اخلب یہ ہے کہ پہلے ” صبحۃ“ (چنگھاڑ) یا سخت چیخ بلند ہوئی ہوگی اور پھر زلزلہ آیا ہوگا۔ آج بی ” مدین“ کے علاقے میں سینکڑوں میل تک جو پہاڑ پائے جاتے ہیں ان پر زلزلے کے آثار ہیں تمام پہاڑ اس طرح سے پھٹے ہوئے ہیں جیسے کسی زبردست زلزلے نے انہیں کھیل کھیل کردیا ہو۔ ھود
96 ھود
97 ف 10۔ کھلے معجزے سے مراد عصا اور نشانیوں سے مراد وہ دوسری نونشانیاں ہیں جو سورۃ اسراء (آیت 101) اور سورۃ نحل (آیت 12) میں مذکور ہیں۔ ھود
98 ف 1۔ یعنی جس طرح دنیا میں اپنے لوگوں کو پیشوا تھا سی طرھ آخرت میں بھی ان پیشوا ہوگا اور وہ اسی کی رہنائی میں چل کر دوزخ میں داخل ہوں گے۔ یہی حال ان تمام لوگوں کو ہوگا جو کسی قوم کی رہنمائی کفر و معصیت کی طرف کرتے ہیں کہ وہ انہی کی قیادت میں چل کر جہنم میں داخ (رح) ہوں گے۔ ایک حدیث میں ہے کہ ” قیامت کے روز جاہلیت کے تمام شعرا کا جھنڈا امرئو القیس نے اٹھا رکھا ہوگا جو اس کی قیادت میں چل کر جہنم میں داخل ہوں گے۔ (ابن کثیر)۔ ف 2۔ گھاٹ پر تو لوگ پیاس بجھانے جاتے ہیں مگر وہاں پانی کی بجائے آگ سے ان ی مہمانداری کی جائے گی۔ العیاذ باللہ (وحیدی)۔ ھود
99 ف 3۔ یعنی آگے کے عذاب کے علاوہ ہم نے انہیں یہ سزا بھی دی کہ رہتی دنیا تک لوگ ان پر پھٹکار بھیجتے رہیں گے اور قیامت کے دن ان پر جو پھٹکار پڑے گی اس کا حال تو معلوم ہی ہے۔ ان آیات میں فرعون کے دوزخی ہونے پر تنصیص کی ہے۔ شیخ اکبر (رح) کی بعض عبارتوں سے فرعون کو مومن ہونا مفہوم ہوتا ہے کہ مگر یہ عبارتیں مدسوس ہیں۔ ” فتوحات“ کے صحیح نسخے ان عبارتوں سے خالی ہیں بلکہ فتوحات کے باب 26 میں شیخ اکبر (رح) نے فرعون کے دوزخی ہونے کی تصریح کی ہے۔ (کذافی الروح وقد مرفی سورۃ یونس)۔ ھود
100 ف 4۔ وہ آباد ہیں یا ان کے نشان باقی ہیں جیسے قوم ثمود کہ اس کے آثار موجود تھے۔ ھود
101 ف 5۔ انہوں نے ہمارے رسولوں ( علیہ السلام) کو جھٹلایا اور کفر کی روش اختیار کی۔ اس کی انہیں سز املی۔ (ابن کثیر)۔ ف 6۔ اس لئے کہ انہی کی پیروی کی بدولت ان پر تباہی و بربادی آئی۔ (ابن کثیر)۔ ھود
102 ف 7۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ان اللہ لیملی للظالم حتی اذا اخذہ لم یفلتہ کہ اللہ تعالیٰ ظالم کو ڈھیل دیتا ہے لیکن آخر کار جب اسے پکڑتا ہے تو ایسا پکڑتا ہے کہ وہ اس سے بھاگ کر کہیں نہیں جاسکتا۔“ اس کے بعد آپﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔ (ابن کثیر)۔ یہ آیت ہر زمانہ میں ہر ظالم کو شامل ہے۔ ایک بزرگ نے کہا ہے کافر کی سلطنت قائم رہتی ہے ظالم کی نہیں رہتی۔ (وحیدی)۔ ھود
103 ھود
104 ھود
105 ھود
106 ھود
107 ف 8۔ دائمی عذاب سے کنایہ ہے کہ کیونکہ جب کسی چیز کی ہمشیگی ظاہر کرنا مقصود ہوتا ہے تو عربمادامت السموات والارض کا محاورہ استعمال کرتے ہیں ورنہ تعلیق نہیں ہے اور اگر آسمان و زمین سے آخرت کے آسمان و زمین مراد ہوں یا جنس سماء و ارض مراد ہو تو تعلیق بھی ہوسکتی ہے کیونکہ آخرت کے آسمان و زمین ابدی ہوں گے اور ان پر کبھی فنا نہیں آئے گی۔ پس مطلب یہ ہوگا کہ دوزخی دوزخ میں اور جنتی جنت میں ہمیشہ رہیں گے۔ (ابن کثیر)۔ ھود
108 ف 1۔ دونوں آیتوں میں استثنا کا تعلق گہگار اہل توحید سے ہے۔ اوپر کی آیت میں مطلب یہ ہوگا کہ موحد مومن گنہگار جب اپنی سزا بھگت لیں گے تو انہیں دوزخ سے نکال لیا جائے گا جیسا کہ بہت سی احادیث سے ثابت ہے۔ جمہور صحابہ (رض) و تابعین (رح) سے اس کی یہی تفسیر منقول ہے۔ گو بعض نے اس سے دوزخ کے بالآخر فنا ہوجانے پر استدلال کیا ہے اور اس سلسلہ میں ایک حدیث ضعیف اور کچھ غریب اقوال بھی نقل کئے ہیں مگر یہ مطلب قرآن کی دوسری آیات کے خلاف ہے جن میں جہنمیوں کے متعلق ” خالدین“ اور ” ابدا“ کے الفاظ مذکور ہیں۔ دوسری آیت میں اہل جنت کے متعلق بھی ” الاماشاء ربک“ کا تعلق اصحاب معاصی کے ساتھ ہے۔ یعنی جنتی جنت میں ہمیشہ رہیں گے تاہم کچھ لوگ مشیٔت الٰہی کے تحت دوزخ سے نکال کر جنت میں لائے جائیں گے۔ گویا وہ ہمیشہ جنتیں نہ رہے مگر جنت میں داخل ہونے کے بعد چونکہ کوئی بھی اسے نہیں نکلے گا اس لئے آخر میں ” عطاء غیر مجذوذ“ فرمادیا اور دوزخ سے کچھ لوگ نکال کر جنت میں لائے جائیں گے اس لئے اس کے آخر میں ” ان رب فعال لما یرید“ فرمایا۔ (کذافی الروح)۔ حضرت شاہ صاحب (رح) اپنے فوائد میں لکھتے ہیں : اس کے یعنی آیت (مادامت السموات والارض الا ماشاء ربک) کے دو معنی ہوسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ رہیں گے آگے میں جتنی دیر رہ چکے ہیں آسمان و زمین دنیا میں مگر جتنا اور چاہے تیرا رب، وہ اسی کو معلوم ہے۔ دوسرے یہ کہ رہیں گے آگ میں جب تک رہے آسمان و زمین اس جہاں کا یعنی ہمیشہ مگر جو چاہے رب تو موقوف کردے لیکن چاہ چکا کہ موقوف ن ہو۔ اس کہنے میں فرق نکلا اللہ کے ہمیشہ رہنے میں اور بندے کے کہ بندہ گوہ ہمیشہ ہے ساتھ یہ بات لگی ہے کہ اللہ چاہے تو فنا کردے۔ (موضح 9۔ ھود
109 ف 2۔ یعنی ان کے باطل ہونے یا ان بتوں کے نفع و نقصان کا مالک نہ ہونے یا ان کی بد انجامی میں شک پیدا نہیں ہونا چاہیے۔ یہ خطاب آنحضرتﷺ کے ذریعہ ہر انسان سے ہے۔ (ابن کثیر)۔ ھود
110 ف 3۔ یعنی ان کی بت پرستی کی بنیاد سوائے باپ دادا کی اندھی تقلید کے اور کچھ نہیں ہے۔ (ابن کثیر)۔ ف 4۔ اہل سعادت و شقاوت کا حال بیان کرنے کے بعد آکر میں آنحضرت ﷺ کو تسلی دی ہے کہ اگر آج یہ لوگ آپو پر نازل شدہ کتاب قرآن کے بارے میں طرح طرح کی باتیں بنا رہے ہیں تو آپﷺ بدل اور کبیدہ خاطر نہ ہوں یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اس سے پہلے توراۃ کے ساتھ بھی لوگ یہی معاملہ کرچکے ہیں۔ (شوکانی)۔ ف 5۔ یا اگر یہ بات نہ ہوتی کہ میرے رحمت میرے غصے پر غالب ہے تو اب تک ان کو تباہ و برباد کردیا جاتا۔ (شوکانی) شاہ صاحب لکھتے ہیں“ اگر یہ بات نہ ہوتی کہ دنیا میں سچ اور جھوٹ صاف نہ ہو۔ (از موضح)۔ ف 6۔ یعنی سخت خلجان میں پڑے ہوئے ہیں۔ ھود
111 ھود
112 ف 7۔ یعنی اللہ کے حکم اور شریعت پر قائم رہیں۔ ” استقامت“ ایک نہایت ہی جامع لفظ ہے جو شریعت کے پورے نظام کی پابندی سے عبارت ہے۔ ایک صحابی (رض) نے آنحضرتﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ مجھے اسلام کے بارے میں کوئی ایسی بات بتلا دیئے جس کے بعد مجھے آپﷺ کے علاوہ کسی دوسرے سے دریافت کی ضرورت نہ رہے۔“ فرمایا : قل امنت باللہ ثم استقم کہو میں اللہ پر ایمان لایا پھر اس پر استقامت اختیا کرو۔ (فتح البیان) یہ آیات شامل ہے عقائد و اعمال اور اخلاق کو عقائد میں استقامت یہ ہے کہ تشبیہ و تعطیل اور اہل ذریغ کی تاویل سے اجتناب کیا جائے اور اعمال میں زیادت و نقصان، بدعات اور تقلید رجال و آراء سے احتراز لازم ہے۔ اخلاق میں افراط ق تفریط سے دور رہنا ضروری ہے اور یہ پابندی نہایت کٹھن ہے۔ اسی صعوبت کی طرف آنحضرت ﷺ نے اشارہ کرتے کرتے فرمایا ہے۔ ” تشیبتنی ھود“ کہ سورۃ ہود کی اس آیت نے تو مجھے بوڑھا کردیا ہے۔ (کذافی الشوکانی)۔ ف 8۔ یعنی شریعت کی اطاعت کے لئے اللہ اور اس کے رسول ( علیہ السلام) نے جو حدیں مقرر کردی ہیں اپنے آپو کو انہی کے اندر رکھو۔ ان سے باہر نکلنے کی کوشش نہ کرو۔ سارے معاملاتِ زندگی میں ان حدوں سے تجاوز کرنا حرام ہے۔ حدیث میں ہے میں روزہ رکھتا ہوں اور نہیں بھی رکھتا، رات کو قیام کرتا ہوں اور نہیں بھی کرتا، عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں۔ لہٰذا جو شخص میری سنت سے بے رغبت کا اظہار کرتا ہے اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔ (ابن کثیر)۔ ھود
113 ف 9۔ یعنی جو لوگ فاسق و بدکار ہیں ان سے کوئی دوستی اور محبت نہ رکھو چاہے وہ کافر ہوں یا نام کے مسلمان۔ (کذافی الشوکانی)۔ ف 10۔ اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ حاکم اگر ظالم اور بدکار ہو تو اس کی بھی اطاعت نہیں کرنا چاہیے۔ پس دوسری آیات و احادیث میں جو مسلمان حاکم کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے وہ اسی وقت تک ہے جب تک کہ وہ شریعت کے خلاف حکم نہ دے۔ اگر وہ شریعت کے خلاف حکم دے تو اس کی اطاعت جائز نہیں ہے۔ الایہ کہ ان کے ضرر سے بچنے کے لئے بظاہر اطاعت کا اظہار کرے اور دل میں اسے برا سمجھے۔ احادیث میں ہے کہ مسلمان امراء کی اس وقت تک اطاعت کرو جب تک وہ نماز قائم کرتے رہیں، اور ان سے کھلم کھلا کفر کا ظہور نہ ہو۔ اور وہ خدا کی نافرمانی کا حکم نہ دیں۔ (نیز دیکھئے سورۃ نساء آیت 95)۔ ھود
114 ف 11۔ دن کے دونوں سروں سے مراد فجر اور عصر یا فجر اور مغرب کی نماز ہے۔ (کذافی ابن کثیر)۔ ف 12۔ یارات کے ابتدائی حصہ میں مراد ہے عشا یا مغرب و عشا دونوں کا وقت۔ غالباً یہ آیت اس زمانے میں نازل ہوئی جب نماز کے لئے ابھی پانچ وقت مقرر نہیں کئے گئے تھے۔ معراج کا واقعہ اس کے بعد پیش آیا جس میں پنج وقتی نماز فرض ہوئی۔ قرآن میں نماز کے اوقات کا ذکر نہیں ہے۔ ہاں سبق آیات سے ان کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اوقات کی تعیین اور تفصیل صرف سنت میں ملتی ہے۔ یوں علما نے لکھا ہے کہ اس آیت سے نماز پنجگانہ ثابت ہوتی ہے۔ (شوکانی۔ ابن کثیر)۔ ف 13۔ حدیث میں ہے اتبع السیٔۃ الحسنۃ تمھحا کہ برائی کے بعد نیکی کرو وہ برائی کے اثر کو زائل کردے گی۔ نماز بھی ایک ایسی نیکی ہے جس سے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ ایک شخص نے کسی اجنبی عورت سے بوس و کنار کیا پھر ازراہ ندامت آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر سوال کرنے لگا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (ابن کثیر)۔ شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں : نیکیاں دور کرتی ہیں برائیوں کو تین طرح، جو نیکیاں کرے اس کی برائیاں معاف ہوں اور جو نیکیاں پکڑے اس سے خو برائی کی چھوٹے اور جس ملک میں نیکیوں کا رواج ہو وہاں ہدایت آوے اور گمراہی مٹے۔ لیکن تینوں جگہ وزن غالب چاہیے جتنا میل اتنا صابون۔ (موضح)۔ فوائد صفحہ ہذا۔ ھود
115 ھود
116 ھود
117 ھود
118 ف 1۔ یعنی یہ مکتلف ادیان، مذاہب اور طریقوں پر چلتے رہینگے۔ ھود
119 ف 2۔ یا اسی آزمائش کے لئے انہیں پیدا کیا کہ وہ اپنی عقل سے کام لے کر نیکی یا برائی کی راہ اختیار کریں۔ جیساکہ سورۃ مائدہ میں ہے۔ ولکن لیبلوکم فیما اتاکم۔ تاکہ وہ اس چیز میں تمہاری آزمائش کرے جو اس نے تمہیں دی ہے۔ (ابن کثیر)۔ ھود
120 ھود
121 ھود
122 ف 3۔ یا تم ہمارے انجام کی راہ دیکھتے رہو ہم تمہارے انجام کی راہ دیکھ رہے ہیں۔ ھود
123 ف 4۔ سب کو اسی کے پاس جانا ہے پھر وہی ہر ایک کو اس کے عمل کا بدلہ دے گا۔ ھود
0 ف 1۔ یہ پوری سورۃ مکہ معظمہ میں۔ اور بعض مفسرین کے نزدیک ہجرت کے موقع پر مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان۔ نازل ہوئی۔ صحابہ کرام (رض) نے خواہش کی کہ اے اللہ کے رسولﷺ ! ہمیں کوئی قصہ سنائیے۔ اس پر یہ سورت نازل ہوئی۔ (فتح القدیر)۔ یوسف
1 ف 2۔ کھلی کتاب یعنی جس کا انداز بیان واضح اور ہر ایک کی سمجھ میں آنے والا ہے یا جس کا خدائی کلام ہونا بالکل عیاں اور ہر شک و شبہ سے بالا ہے۔ (روح)۔ یوسف
2 ف 3۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ یہ کتاب صرف اہل عرب کے لئے ہے۔ دوسروں کے لئے نازل نہیں کی گئی ہے۔ کیونکہ تمام انسانوں کی ہدایت کے لئے جو کتاب اتاری جائے گی وہ کسی ایک ہی انسانی زبان میں ہوگی اور فطری طریقہ یہ ہے کہہ یا تو اس کتاب کی زبان سیکھی جائے یا اس کا دوسری زبان میں ترجمہ کیا جائے چنانچہ یہی طریقہ قرآن کے بارے میں ملحوظ رکھا گیا۔ اس لئے عربوں سے جو اس کے اولین مخاطب میں کہا جا رہا ہے کہ ہم نے یہ کتاب تمہاری اپنی زبان میں نازل کی ہے۔ کسی اور زبان میں نہیں اتاری کہ تم اس کے ٹھیک طرح سے سمجھ نہ سکنے کا عذر پیش کرسکو۔ یوسف
3 ف 4۔ جس میں عقل رکھنے والوں کے لئے عبرت کا بڑا سامان ہے۔ ” القصص“ یہ قص یقص کا مصدر ہے قصہ کی جمع نہیں ہے۔ (دیکھئے جواب اہل العلم ص 1۔029 بنا برایں مطلب یہ ہوا کہ یہ واقعہ ہم بہترین انداز میں بیان کر رہے ہیں۔ یوسف
4 ف 5۔ حضرت یعقوب ( علیہ السلام) جو حضرت اسحاق ( علیہ السلام) کے بیٹے اور حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کے پوتے تھے۔ حدیث میں ہے الکریم ابن الکریم ابن الکریم ابن الکریم۔ یوسف ( علیہ السلام) بن یعقوب ( علیہ السلام) بن اسحاق ( علیہ السلام) بن ابراہیم ( علیہ السلام)۔ (موضح)۔ یوسف
5 ف 6۔ یعنی اس کی تعبیر سنتے ہی سمجھ لیں گے گیارہ بھائی تھے اور ایک باپ، ایک ماں، ان کی طرف محتاج ہوں گے۔ پھر شیطان ان کے دل میں حسد ڈالے گا۔ (موضح)۔ تعبیر حضرت یعقوب ( علیہ السلام) تو سمجھ گئے تھے اس لئے حضرت یوسف ( علیہ السلام) کو اپنے بھائیوں سے ہوشیار رہنے اور انہیں اپنا خواب نہ بتانے کی تلقین فرمائی۔ ایسا نہ ہو کہ وہ خواب کی تعبیر سمجھ جائیں اور ازراہِ حسد انہیں کوئی نقصان پہنچانے کی کوشش کریں۔ رسول اللہ ﷺ نے بھی جیسا کہ روایت میں ہے ہر خواب بیان کرنے میں احتیاط کی تعلیم دی ہے۔ فرمایا : لاتحدث بہ الاحبیبا اولبیبا (مشکوٰۃ بحوالہ ترمذی)۔ یعنی خواب کسی خیز اندیش یا سمجھ دار کے سامنے ہی بیان کرو۔ دوسری حدیث میں فرمایا : اچھا خواب اللہ کی طرف سے ہے اور برا خواب شیطانی وسوسہ۔ اگر کوئی شخص اچھا خواب دیکھئے تو صرف اس کو بتائے جو اس کا اپن ادوست اور خیر خواہ ہو اور جب برا خواب نظر آئے تو تین دفعہ اعوذ باللہ من شرھا پڑھتے اور بائیں طرف تھوک دے انشاء اللہ اس کا کچھ نقصان نہ پہنچے گا۔ ایک روایت میں یہ بھی فرمایا کہ کروٹ بھی بدل دے۔ (بخاری)۔ اور یہ کچھ مستعبد نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو ہر قسم کے ضرر سے سلامتی کا سبب بنادے جیسا کہ صدقہ وخیرات مصائب دور کرنے سبب بن جاتے ہیں۔ یوسف
6 ف 7۔ یعنی جس طرح اللہ تعالیٰ نے یہ خواب دکھایا اور اس طرح کا خواب کسی دوسرے کو نہیں دکھایا اسی طرح۔ ف 8۔ شاہ صاحب کا ترجمہ ہے ”: نوازے گا تجھ کو“۔ پھر اللہ کا بندے کو نوازنا یہ ہے کہا سے اپنے فضل و رحمت کے لئے خاص کرے کہ بغیر کسی کوشش کے اس پر طرح طرح کے فتوحات ہوں یہ درجہ انبیا کو حاصل ہوتا ہے صدیقین، شہدا اور صالحین کو۔ (روح)۔ ف 9۔ ابراہیم ( علیہ السلام) اور اسحاق ( علیہ السلام) کا نام لیا اپنا نہ لیا عاجزی سے۔ (موضح)۔ یہ دونوں ” ابویک“ سے عطف بیان ہیں۔ (روح)۔ ف 10۔ کہ اس کے بندوں میں کون سرفرازی کے لائق ہے۔ (کذافی الروح)۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں :” نوازش اللہ کی سجدے سے سمجھے اور ” تاویل الاحادیث“ (کل بٹھائی باتوں کی)۔ یعنی اس میں داخل ہے خوابوں کی تعبیر ان کے ذہن کی رسائی سے اور لیاقت سے کہ ایسا موزوں خواب دیکھا چھوٹی عمر میں۔ (از موضح)۔ یوسف
7 ف 11۔ منقول ہے کہ قریش ہونے نے یہود کے اشارے پر۔ امتحاناً آنحضرت ﷺ سے یہ سوال کیا کہ حضرت ابراہیمﷺ کا وطن شام تھا تو بنی اسرائیل مصر میں کیسے آباد ہوگئے حتیٰ کہ موسیٰ ( علیہ السلام) کے دور میں فرعون سے نجات حاصل کی۔ اس پر یہ سورت اُتری اور فرمایا کہ سوال کرنے والے کیلئے اس قصہ میں بہت سی نشانیاں ہیں انہوں نے ایک بھائی پر حسد کیا تو آخر کا۔ اسی کے متحاج ہوئے۔ اسی طرح یہود و حسد کی رہے ہیں اور قریش نے آنحضرت ﷺ کو وطن سے نکالا تو آخر کار اسی کا عروج ہوا۔ (کذافی الموضح) مگر یہ روایات اسرائیلی ہیں۔ حافط ابن کثیر (رح) نے ان کا ذکر نہیں کیا بلکہ اس کے بالمقابل دوسری ایک دو روایت بحوالہ ابن جریر بیان کی ہیں کہ صحابہ (رض) کے سوال پر یہ سورت نازل ہوئی۔ بہرحال اگر اسرائیلی روایات کو معتبر مان لیا جائے تو نشانیوں سے مراد آنحضرت ﷺ کی نبوت ﷺ کی نشانیاں ہیں اور پوچھنے والوں سے مراد یہودی یا کفار مکہ اور اگر ان کا اعتبار نہ کیا جائے تو آیات سے مراد وہ عبرتیں ہیں جو حضرت یوسف ( علیہ السلام) کے قصے میں پائی جاتی ہیں۔ اور پوچھنے والوں سے مراد وہ لوگ جو اللہ کی آیات کو دیکھ کر نصیحت حاصل کرتے ہیں۔ صاحب عالم ان عبرتوں کو خوب تفصیل سے لکھا ہے۔ (ابن کثیر۔ معالم)۔ یوسف
8 ف 12۔ یعنی آپس میں ایک دوسرے سے کہا۔ ف 1۔ یعنی ہم وقت پر کام آنے والے ہیں اور یہ لڑکے ہیں چھوٹے۔ ایک ان کا سگا بھائی تھا اور سب سوتیلے۔ (موضح)۔ مطلب یہ ہے کہ یوسف اور اس کا بھائی چھوٹے ہونے کی وجہ سے اس کے کسی کام نہیں آسکتے اور ہم ایک جتھا ہیں۔ اس بدوسی ماحول میں وقت پر کام آسکتے ہیں۔ (روح۔ شوکانی)۔ ف 2۔ یعنی رائے کی غلطی جو دنیوی معاملات میں ہوتی ہے۔ یہاں ضلالت سے دینی ضلالت مراد نہیں ہے ایسا کہتے تو یہ لوگ کافر ہوجاتے۔ (وحیدی)۔ یوسف
9 ف 3۔ یعنی اپنے باپ کی نظر میں پسندیدہ ہوجائو گے یا بعد میں توبہ کرکے نیک بن جانا۔ بعض نے خیال کیا ہے کہ حضرت یوسف ( علیہ السلام) کے یہ بھائی بھی بعد میں نبی ہوگئے تھے جیسا کہ آیت قولوا امنا باللہ میں والا سباط کے کلمہ سے شبہ وہتا ہے مگر یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ ” الاسباط“ سے بنی اسرائیل کے بارہ سبط (قبیلے) مراد ہیں اور ان قبیلوں سے جو نبی ہوئے ہیں وہ مراد ہیں۔ حضرت یعقوب ( علیہ السلام) کی صلبی اولاد مراد نہیں ہے ہاں یہ صحیح ہے کہ ان بھائیوں کو صحابیت کا شرف حاصل ہوگیا تھا۔ (ابن کثیر۔ روح)۔ یوسف
10 ف 4۔ نکال کر اپنے دیس میں لے جائے گا۔ یوسف ( علیہ السلام) کی جان بھی بچ جائے گی اور تمہارا مطلب بھی پورا ہوجائے گا۔ (ابن کثیر)۔ یوسف
11 یوسف
12 ف 5۔ بکریاں چرانے کو جنگل جاتے تھے۔ (موضح)۔ یوسف
13 ف 6۔ ان کو بھیڑئیے کا بہانہ کرنا تھا وہ ہی ان کے دل میں خوف آیا۔ (موضح)۔ یا حضرت یعقوب ( علیہ السلام) کے بھیڑیے کا ذکر کرنے کی وجہ سے وہی بہانہ کرلیا۔ (روح)۔ یوسف
14 ف 7۔ پھر ہمارا زور کس روز کام آئے گا۔ ہم دس مضبوط جوان ہیں۔ یوسف
15 ف 8۔ تمہیں پہنچان نہ رہے ہوں گے۔ دونوں حالتوں میں تفاوت کی وجہ سے یا زیادہ عرصہ گزرنے کی وجہ سے۔ واقعہ آگے آرہا ہے۔ (روح)۔ یوسف
16 یوسف
17 ف 9۔ کہ کون آگے نکلتا ہے، یا تری اندازی کرنے لگے کہ کس کا یہ دور جاتا ہے۔ کذا فی الروح الاول عن السدی والثانی عبرو الزجاج۔ یوسف
18 ف 1۔ حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ کرتا صحیح و سالم تھا، کہیں سے پھٹانہ تھا اس لئے حضرت یعقوب ( علیہ السلام) سمجھ گئے کہ یہ سب ان کی مکاری وحیلی ساز ی ہے۔ بعض روایات میں ہے کہ حضرت یعقوب ( علیہ السلام) نے ان سے کہا : یہ بھیڑیابھی عجیب قسم کا دانا تھا کہ یوسف ( علیہ السلام) کو کھا گیا مگر اس کا کرتہ نہ پھاڑا۔ (فتح القدیر)۔ ف 2۔ بھیڑئیے نے ہرگز یوسف ( علیہ السلام) کو نہیں کھایا ” بلکہ“… ف 3۔ عمدہ صبر یہ ہے کہ اللہ کے سوا کسی اور سے گلہ شکوہ نہ کیا جائے بلکہ ٹھنڈ سے دل سے مصیبت کر برداشت کیا جائے اور اللہ کی تقدیر پر شاکر رہے۔ (وحیدی)۔ یوسف
19 ف 4۔ حضرت یوسف ( علیہ السلام) اس کی رسی سے لٹ گئے اور اوپر آگئے۔ ف 5۔ ان سے یہ نہیں کہا کہ یہ لڑکا ہمیں کنویں سے ملا ہے بلکہ یہ کہا کہ اس کنویں کے مالکوں نے ہمیں یہ لڑکا اس لئے دیا ہے کہ اسے کہیں لے جا کر فروخت کردیں۔ اس صورت میں ” اسروہ بضاعۃ“ میں فاعل کی ضمیر سقاء (وارد) کے لئے ہوگی۔ اور اگر اس کا مرجع حضرت یوسف ( علیہ السلام) کے بھائی قرار دیئے جائیں تو اس جملہ کا مطلب یہ ہوگا کہ ” یوسف کے بھائیوں نے اس کے پیسے کھرے کرنے کے لئے کنویں میں چھپائے رکھا اس خیال سے کہ اگر کوئی قافلہ اسے نکالے گا تو اس سے کہیں گے یہ تو ہمارا غلام ہے جو کئی روز ہوئے ہمارے ہاں سے بھاگ آیا تھا پھر اسے اس کے ہاتھ فروخت کردیں گے۔ مگر آیت کے یہ دونوں مفہوم مبنی بر تکلف ہیں اور دوسرا مفہوم تو اسرائیلی روایات سے ماخوز ہے اور بائیبل کے بیان کے مطابق ہے۔ آیت کا سیدھا سادہ مفہوم یہ ہے کہ قافلہ والوں نے اسے پونچی سمجھ کر لوگوں سے چھپا لیا تاکہ ارد گرد کے رہنے والوں میں کوئی شخص اسے ان کے پاس دیکھ کر یہ دعویٰ نہ کردے کہ یہ ہمارا لڑکا ہے۔ یوسف
20 ف 6۔ یا قافلہ والوں نے۔ یہ بات سیاق قرآن سے معلوم ہوتی ہے گو حافظ ابن کثیر (رح) نے پہلے مطلب کو اقوی قرار دیا ہے اور اسی کو ہمارے زمانے کے بعض اصحاب حواشی نے ” والظاہر الاول“ کہا ہے جس کی بنیاد حافط ابن کثیر (رح) کے قول پر ہے اور اہل کتاب کے بیان کے مطابق ہے۔ ف 7۔ وہ اس سے جلا خلاصی حاصل کرنا چاہتے تھے کیونکہ ڈرتے تھے کہ کہیں کوئی ایسا شخص نمودار نہ ہوجائے جو انہیں اس جرم میں پکڑ لے کہ وہ اس کے آزاد بیٹے کو غلام بنا کر پکڑ لائے ہیں۔ (وحیدی)۔ یوسف
21 ف 8۔ قرآن نے اس شخص کے نام اور عہدے کا کہیں ذکر نہیں کیا۔ البتہ آگے چل کر مصر کی عورتوں نے ” عزیز“ کے لقب سے اس کا ذکر کیا ہے اور یہی لقب بعد میں حضرت یوسف ( علیہ السلام) کے لئے بھی استعمال ہوا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ شخص مصر کے بادشاہ کا وزیراعظم تھا۔ بائیبل میں ہے کہ وہ بادشاہ کے باڈی گارڈوں کا افسر اور جیل خانوں کا منتظم تھا۔ اس کی بیوی کے نام ” زلیخا“ کا بھی قرآن نے کہیں ذکر نہیں کیا البتہ بعض مفسرین نے یہ نام لکھا ہے اور وہ بھی غالباً اسرائیلی روایات پر اعتماد کرتے ہوئے۔ کیونکہ یہود کے تلمود میں اس کا اسی نام سے ذکر کیا گیا ہے۔ بعض مفسرین (رح) نے اس کا نام ” راعیل“ بھی لکھا ہے۔ کما ھو مروی عن مجاھد۔ ف 9۔ یعنی جیسے اسے پہلے بھائیوں کے شر سے بچایا اور کنویں سے نکلوایا، اسی طرح…(شوکانی)۔ ف 10۔ مصر میں عزیز مصر (بادشاہ کے وزیر) نے اسے خرید لیا۔ اس طرح مصر میں حضرت یوسف ( علیہ السلام) کے قدم مضبوط ہوگئے اور ان کو امتیاز و مرتبہ حاصل ہوگیا پھر ان کی وجہ سے بنی اسرائیل وہاں آباد ہوگئے اور یہ بھی منظور تھا کہ سرداروں کی صحبت دیکھیں تارمزو اشارہ سمجھنے کا سلیقہ کمال پکڑیں اور علم خدائی پورا پاویں۔ (از موضح)۔ ف 11۔ شاہ صاحب کا ترجمہ ہے ” اور اللہ جیت رہتا ہے“۔ یعنی بھائیوں نے چاہا کہ ان کو گرادیں اسی میں یہ چڑھ گئے۔ (موضح)۔ ف 12۔ کہ ہر قسم کا ختیار اللہ کے ہاتھ میں ہے اور اس واقعہ میں تقدیر الٰہی یہ تھی کہ مصر میں یوسف ( علیہ السلام) کو غلبہ حاصل ہو مگر اکثر لوگ اللہ تعالیٰ کی حکمتوں سے آگاہ نہیں۔ یوسف
22 ف 13۔ حکم دیا یعنی عقل سے مشکل باتیں حل کرتے اور علم سے مراد دین ہے۔ قرآن میں ان دونوں لفظوں سے مراد عموماً نبوت ہوتی ہے دیکھئے قصص آیت 41۔ (کذافی ابن کثیر)۔ یوسف
23 ف 1۔ یعنی اس کے ناموس میں کیونکر داخل کروں؟ (موضح) اکثر مترجمین اور اصحاب تفسیر (رض) نے یہی مفہوم مراد لیا ہے کہ ” ربی“ سے مراد عزیز مصر ہے۔ سدی (رح) اور مجاہد (رح) سے بھی مضی منقول ہے لیکن بعض نے ” ربی“ سے اللہ تعالیٰ مراد لیا ہے۔ (فتح البیان) اور یہ دوسری رائے صحیح معلوم ہوتی ہے کیونکہ یہ بات کسی نبی کی شان سے بعید ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو اپنا رب کہے۔ (کذافی البحر) اس مفہوم کے حق میں ایک قرینہ یہ بھی ہے کہ ھو ربی میں ھو کا مرجع قریب تر ” معاذ اللہ“ میں الہ کا لفط ہونا چاہیے نہ کہ عزیز۔ یوسف
24 ف 2۔ آیت کا یہ مطلب اگرچہ اکثر مفسرین (رح) نے بیان کیا ہے مگر انسب ترجمہ جسے بہت سے محقق مفسرین نے بیان کیا ہے یہ ہے ” اور یوسف (بھی) اس (عورت) کا قصد کرلیتا اگر وہ مالک کی (قدرت کی) نشانی نہ دیکھ لیتا۔ ” یہ“ برہان رب کیا چیز تھی اس کی تعیین میں آنحضرتﷺ سے صحبت کے ساتھ کوئی چیز ثابت نہیں ہے البتہ مفسرین (رح) نے مختلف اقوال نقل کئے ہیں ہو سکتا ہے کہ ایک نبی ﷺ کے اخلاق کی بلندی اس کی اجازت نہ دیتی ہو کہ زنا جیسے منکر فعل پر اقدام کرے اسی کو یہاں ” برہان ربی“ سے تعبیر فرمایا ہو۔ یوسف
25 ف 3۔ علما نے لکھا ہے کہ اس جملہ کا تعلق لقد ھمت الخ کے ساتھ ہے اور ” کذلک‘ درمیان میں جملہ معترضہ ہے جو حضرت یوسف کی نزاہت کو ثابت کرنے کیلئے لایا گیا ہے اور آیت کا مفہوم یہ ہے کہ عورت نے زنا کا عزم کیا مگر حضرت یوسف ( علیہ السلام) نے انکار کیا چنانچہ اسی کشمکش میں وہ دونوں دروازے کی طرف دوڑے۔ آگے حضرت یوسف ( علیہ السلام) اور پیچھے عزیز کی بیوی، حضرت یوسف ( علیہ السلام) اس لئے کہ جلدی سے دروازہ کھول کر بھاگ جائیں اور عزیزکی بیوی دوڑی کہ انہیں دروازہ کھول کر بھاگنے نہ دے۔ یوسف
26 ف 4۔ اور میں اس سے بچنے کے لئے بھاگا اور اس نے پیچھے سے میرا کرتا کھینچ کر پھاڑ دیا۔ یوسف
27 ف 5۔ اس عورت کا ایک ناتے دار دودھ پیتا لڑکا یہ بول اٹھا۔ (موضح)۔ جیسا کہ مسند احمد اور مستدرک حاکم کے حوالے سے معتبر سند کے ساتھ حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) سے مرفوعاً مروی ہے۔ کہ مہد یعنی جھوٹے میں چار بچوں نے کلام کی ہے ایک تو فرعون کی بیٹی کی ماسطہ کے لڑکے نے، اور دوسرے حضرت یوسف ( علیہ السلام) کے شاہد نے، تیسرے مصاحب جریج نے اور چوتھے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے۔ یہ حدیث حاکم نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے بھی روایت کی ہے اور لکھا ہے کہ صحیح علی شرط الشیخین مگر چار لڑکوں میں حصر محل نظر ہے کیونکہ صحیحن میں ایک اور بچے کا ذکر بھی ہے جو دودھ پی رہا تھا۔ نیز مسلم میں اصحاب اخدود کے قصہ میں مذکور ہے کہ اس بچے نے کلام کی الحاصل جھولے میں کلام کرنے والے بچوں کی تعداد علما نے گیارہ تک پہنچائی ہے۔ (روح)۔ یوسف
28 یوسف
29 ف 6۔ یعنی حضرت یوسف ( علیہ السلام) سے کہا کہ اس معاملہ سے درگزر کرو تاکہ بات نہ پھیلے بلاشبہ تمہاری صداقت اور پاک بازی ثابت ہوگئی ہے۔ (ابن کثیر)۔ ف 7۔ اپنی بیوی سے کہا کہ تم اپنے گناہ کی معافی مانگ۔ (موضح)۔ یوسف
30 ف 1۔ کہ اپنے غلام کے عشق میں دیوانی ہو رہی ہے۔ (از بن کثیر)۔ یوسف
31 ف 2۔ یعنی ایک ایسی محفل جس میں ٹیک لگانے کے لئے تکیوں کا اہتمام کیا گیا تھا۔ (از ابن کثیر)۔ ف 3۔ یعنی چھریاں دی تھین پھل کھانے کو لیکن ان کا حسن دیکھ کر ایسے بے خود ہوگئیں کہ چھریاں ہاتھوں پر چل گئیں اور وہ کٹ گئے۔ (کذافی الروح)۔ بعض نے حضرت ابن عباس (رض) سے نقل کیا ہے کہ یہاں ” اکبرنہ‘ کے معنی حیض آنا کے ہیں یعنی شدت شہوت کی وجہ سے انہیں حیض آنا شروع ہوگیا۔ چنانچہ واحدی فرماتے ہیں کہ جب عورت کے اندر جنسی خواہش زور پکڑتی ہے تو اسے حیض آنے لگتا ہے ابو عبیدہ، طبری اور دیگر محققتین (رح) نے اسی معنی کا انکار کیا ہے کہ آفت میں یہ معنی معروف نہیں ہے اور حضرت ابن عباس (رض) سے یہ روایت ضعیف ہے اور جو شاہد پیش کیا گیا ہے وہ بناوٹی ہے۔ یوسف
32 ف 4۔ ان کے روبرو یہ بات کہی تا وہ بھی سمجھا دیں اور حضرت یوسف ( علیہ السلام) ڈر کرقبرل کریں۔ (موضح)۔ حضرت یوسف ( علیہ السلام) کے لئے یہ سخت امتحان کا وقت تھا اس سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ اس زمانہ میں مصر کے اونچے طبقہ کی اخلاقی حالت کیا تھی۔ عزیزِ مصر کی بیوی نے جن عورتوں کو اپنے ہاں دعوت دی وہ عام گھرانوں کی معمولی عورتیں نہ ہوں گی بلکہ امراء روسا اور بڑے افسروں کی کھاتی پیتی بیگمات ہی ہوں گی۔ دعوت کے بہانے وہ ان عورتوں کو یوسف ( علیہ السلام) کے حسن کا قاتل کرنے کے کوشش کرتی ہے پھر وہ بیگمات بھی ایسی ہی تھیں کہ انہوں نے عزیز مصر کی بیگم کو معذور سمجھا۔ یہی نہیں بلکہ عزیز مصر کی بیگم اسے برملا دھمکی دیتی ہے کہ اگر وہ اس کی خواہشات کا کھلونا نہ بنا تو اسے ذلیل ہونا پڑے گا اور جیل کی ہوا کھانی پڑے گی۔ یوسف
33 ف 5۔ ” یہاں صیغہ تفضیل (احب) اپنے اصلی معنی میں نہیں ہے بلکہ دو مصیبتوں میں سے ” اہون“ کو اختیار فرما رہے ہیں۔“ یہ ہے اصل تقویٰ۔ حدیث میں ہے کہ سات آدمی ایسے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ اس دن اپنے سایہ میں جگہ دے گا جس دن کہ اس کے سایہ کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا۔ عادل حکمران، وہ نوجوان جس نے اللہ کی عبادت میں نشوونماپائی۔ وہ شخص جو مسجد سے جب بھی باہر جاتا ہے اس کا دل مسجد میں اٹکا رہتا ہے یہاں تک واپس آجائے۔ وہ دو آدمی جنہوں نے اللہ ہی کی رضا جوئی کے لئے آپس میں ایک دوسرے سے محبت کی، اسی محبت پر جمع ہوئے اور اسی محبت پر جدا ہوئے۔ وہ آدمی جس نے اپنا صدقہ اس قدر چھپا کردیا کہ اس کے بائیں ہاتھ کو خبر نہ ہوئی کہ اس کے دائیں ہاتھ نہ کیا دیا۔ وہ آدمی جس نے تنہائی میں اللہ کو یاد کیا اور اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ پڑے اور وہ آدمی جسے کسی باثر و رسوخ خوبصورت عورت نے اپنی طرف بلایا مگر اس نے کہاَ” انی اخاف اللہ“ کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں۔ (بخاری مسلم)۔ ف 6۔ کیونکہ جب کوئی شخص اپنے علم مطابق عمل نہیں کرتا تو وہ اور جاہل برابر ہیں یا جہالت بمعنی سفاہت ہے۔ یہ ہے حضرت یوسف ( علیہ السلام) کی پیغمرانہ شان، اپنی طہارت اور پاک دامنی کا قطعاً دعویٰ نہیں کیا بلکہ اپنے آپ کو حالات کا مقابلہ کرنے سے عاجز قرار دیتے ہوئے یہی فرمایا : کہ عفت و پاکدامنی پر ثابت قدم رکھنا للہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔ وہ اگر توفیق نہ دے گا تو میں نفس اور شیطان کے فریب میں آکر گناہ کی طرف مائل ہوجائوں گا۔ (وحیدی)۔ یوسف
34 ف 7۔ ظاہر معلوم ہوتا ہے کہ اپنے مانگے یہ قید پڑے لیکن اللہ تعالیٰ نے اتنا ہی قبول فرمایا کہ ان کا فریب دفع کیا اور قید ہونا تھا قسمت میں، آدمی کو چاہیے کہ گھبرا کر اپنے حق میں برائی نہ مانگے پوری بھلائی مانگے گو کہ وہی ہوتا ہے جو قسمت میں ہوتا ہے۔ (موضح)۔ منقول ہے کہ حضرت یوسف ( علیہ السلام) کی طرف اللہ تعالیٰ نے وحی کی : یوسف ( علیہ السلام) تم نے خود ہی اپنے اوپر زیادتی کی ہے کہ جیل کو پسند کیا۔ اگر تم یہ دعا کرتے کہ اللہ مجھے عافیت محبوب ہے تو تمہیں عافیت مل جاتی۔ ترمذی میں حضرت معاذ بن جبل سے روایت ہے کہ ایک شخص نے دعا کی : اللھم اسئلک الصبر“۔ اس پر آنحضرتﷺ نے فرمایا : میاں تم نے اللہ تعالیٰ سے مصیبت کا سوال کیا ہے اب اللہ سے عافیت طلب کرو۔ (روح)۔ یوسف
35 ف 8۔ یعنی حضرت یوسف ( علیہ السلام) کی عفت و نزاہت اور پاکدامنی کے نشان اور دلائل و شواہد۔ ف 9۔ یعنی غیر معین عرصہ تک۔ یوسف
36 ف 10۔ ان میں سے ایک بادشاہ کا ساقی یعنی شراب قلقہ تھا۔ اور دوسرا نائبائی۔ مگر اس نے خلاف ِ عادت دیکھا کہ جن اور سر سے نوچتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ بادشاہ کو زہر دینے کی تہمت میں قید ہوئے تھے آخر ننابائی پر ثابت ہوئی۔ (کذافی الموضح)۔ ف 1۔ یا تو خواب کی تعبیر خوب کرتا ہے یا یہ کہ تو قیدیوں سے احسان (نیک سلوک) کرنے والا ہے۔ لفظ محسن کے یہ دونوں معنی ہوسکتے ہیں۔ یوسف
37 ف 2۔ اللہ تعالیٰ نے قید میں یہ حکمت رکھی کہ ان کا دل کافروں کی محبت سے ٹوٹا تو دل پر اللہ کا علم روشن ہوا۔ چاہا کہ اول ان کو دین کی بات سناویں پیچھتے تعبیر خواب کہیں اس واسطے تسلی کردی تا نہ گھبراویں۔ کہا کھانے کے وقت تک وہ بھی بتلا دوں گا۔ (کذافی الموضح)۔ یوسف
38 ف 3۔ یعنی آدمی ہو یا فرشتہ، جن ہو یا بھوت اور پری بت ہو یا قبر یا پتھر ہو یا درخت، کسی کو خدا کا سانجھی نہ ٹھہرائیں۔ (وحیدی)۔ ف 4۔ بلکہ اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک گردانئے ہیں اور ان کی عبادت کرکے اپنے آپ کو ذلت کے گڑھے میں گرات ہیں۔ (وحیدی) شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں : ہمارا اس دین (توحید) پر رہنا سب لوگوں کے حق میں فضیلت ہے تاکہ ہم سے راہ سیکھیں۔ (از موضح)۔ مطلب یہ کہ نبی ﷺ پر تو یہ فضل و عنایت بلا واسطہ ہوتا ہے لیکن لوگوں پر نبی و کے واسطہ سے۔ (روح)۔ یوسف
39 یوسف
40 ف 5۔ اس لئے وہ شرک کے گورکھ دھند سے میں پڑے ہوئے ہیں۔ (وحیدی)۔ یوسف
41 ف 1۔ یعنی یہ قضائے الٰہی ہے جوٹل نہیں سکتی۔ یہاں پر لفظ ” قضی“ سے معلوم ہوتا ہے کہ ظن بمعنی یقین ہے بعض نے لکھا ہے۔ خواب کی تعبیر اجتہادی تھی لہٰذا ظن اپنے اصلی معنی میں ہے۔ (ابن کثیر۔ روح)۔ موضح میں ہے ” ظن“ فرمایا : معلوم ہوا کہ تعبیر خواب یقین نہیں اتکل ہے مگر پیغمبر اٹکل کرے تو ” بے شک“ ہے۔ (موضح)۔ یوسف
42 ف 2۔ کشفِ شدائد میں گو دوسروں سے مدد لینا جائز ہے جیسا کہ آیت وتعاونوا علی البر الخ“ سے بھی معلوم ہوتا ہے مگر یہ عزیمت اور شان پیغمبر کے خلاف ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں : حضرت یوسف ع نے اس بات کی کوشش کی کہ میرا تذکرہ بادشاہ کے پاس کرنا مگر وہ بھول گیا تاکہ پیغمبر کا دل اسباب پر نہ ٹھہرے۔ (از موضح)۔ ف 3۔ ” بضع“ (چند یا کئی) کا اطلاق عربی زبان میں تین سے نو تک مگر زیادہ ترسات پر ہوتا ہے اس لئے اکثر مفسرین : کا کہنا یہی ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) سات سال تک جیل میں رہے۔ (معالم) بعض علمائے تفسیر (رح) نے فانساہ میں ” ہ“ کی ضمیر حضرت یوسف ( علیہ السلام) کے لئے مانی ہے اور معنی یہ کئے ہیں کہ ” شیطان نے حضرت یوسف ( علیہ السلام) کو اپنے رب کی یاد بھلا دی“ اور اس کی تائید میں ایک ایک روایت بھی پیش کی ہے کہ ” اگر یوسف ( علیہ السلام) اللہ کو چھوڑ کر دوسروں پر رہائی کی امید نہ رکھتے تو تو اتنی لمبی مدت قید میں نہ ٹھہرے‘ مگر یہ روایت نہایت ضعیف ہے لہٰذا یہ معنی صحیح نہیں ہیں۔ (ابن کثیر)۔ یوسف
43 ف 4۔ اور سوکھی بالیوں نے ہری بالیوں پر لپٹ کر انہیں اپنے اندر چھپا لیا۔ یہ خواب بادشاہ نے کئی برس کے بعد دیکھا اور یہی حضرت یوسف ( علیہ السلام) کی رہائی کا سبب بنا (ابن کثیر)۔ یوسف
44 یوسف
45 ف 5۔ چنانچہ اس شخص کو اجازت مل گئی اور اس نے حضرت یوسف ( علیہ السلام) سے کہا… یوسف
46 ف 6۔ یعنی وہ جان لیں اور پھر اپنے علم کے مقتضیٰ کے مطابق عمل کریں یا یہ کہ انہیں تیری قدر معلوم ہو اور احساس ہو کہ کتنے بڑے ذی علم اور لائق آدمی کو انہوں نے جیل میں ڈال رکھا ہے۔ یوسف
47 ف 1۔ یا سات سال تک لگا تار کھیتی کرو گے۔ (ابن کثیر)۔ ف 2۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ غلہ خراب نہ ہوگا اور اس کے چھلکے بھی جانوروں کے لئے محفوظ رہیں گے۔ یوسف
48 ف 3۔ یعنی ان میں سے تم لوگ چٹ کر جائو گے۔ یوسف
49 ف 4۔ یعنی اس سال وہ پھل جن سے رس نکلتا ہے جیسے انگور، زیتون اور لیموں وغیرہ کثرت سے پیدا ہوں گے اور جانور بھی اچھا چارہ ملنے کی وجہ سے خوب دودھ دیں گے۔ اس بنا پر بعض نے ” یعصرون“ کے معنی یحلبون“ کہے ہیں۔ یعنی خوب دودھ نکالیں گے۔ (ابن کثیر)۔ یہ بات حضرت یوسف ( علیہ السلام) نے بذریعہ وحی خواب کی تعبیر سے زائد بتائی جیسا کہ حضرت ابن عباس (رض) اور قتادہ (رض) سے مروی ہے۔ (روح) اور قحط کا مقابل کرنے اور غلہ محفوط رکھنے کے لئے جو طریق اختیار کیا جائے وہ بھی واضح فرمادیا۔ نیز اس کے بعد دوبارہ خوشحالی کی خوش خبری بھی دے گی۔ (از ابن کثیر وغیرہ) اس سے معلوم ہوا کہ کبھی کافر بھی سچے خواب دیکھ لیتا ہے۔ یہ تاویل بظاہر اس حدیث کی خلاف ہے جس میں آیا ہے ” الرویا علی جناح طائر مالم تعبر فا فاذا عبرت وقعت“ یعنی خواب کی جو تعبیر ہوجائے اسی پر ہوتا ہے کیوں کہ انہوں نے ” اضغاث احلام“ کا حکم لگا کہ تعبیر بیان کردی تھی مگر حضرت یوسف ( علیہ السلام) نے اس کے بعد صحیح تعبیر بتائی : فلم یکن علی ما عبرت اولا : ابن العربی لکھتے ہیں کہ یہ حدیث اس تعبیر کے ساتھ خاص ہے جس کا رویا میں احتمال ہو اوعر ان کا ” اضغاث احلام“ کہنا درآسل تعبیر نہ تھی بلکہ تعبیر کے قابل نہ ہونے کی طرف اشارہ تھا لہٰذا حدیث ان الرویا علی ما عبرت اولا اور اس آیت میں منافات نہیں ہے۔ یوسف
50 ف 5۔ یعنی جب ساقی نے جا کر تعبیر بتائی تو بادشاہ نے کہا۔ ف 6۔ وہی قصہ یاد دلایا جس سے حضرت یوسف ( علیہ السلام) کا مقصد یہ تھا کہ بادشاہ کو میرے مقدمہ کی تحقیق کرنی چاہیے تاکہ سب کے سامنے میرا پاک دامن اور بے قصور ہنا پوری طرح واضح ہوجائے۔ معلوم ہوا کہ مواقع تہمت سے بچنا بھی واجب ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت نے فرمایا، من کان یومن باللہ والیوم الاخر فلا یقضن مواقف التھم۔ کہ جس شخص کا اللہ تعالیٰ اور آخرت پر ایمان ہے اسے اتہام کی جگہوں سے دور رہنا چاہیے۔ صحیح مسلم میں حضرت انس سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ اپنی کسی بیوی کے پاس کھڑے تھے کہ وہاں سے ایک شخص گزرا، آنحضرتﷺ نے اسے بلا کر فرمایا :” یہ میری بیوی ہے“۔ اس نے عرض کی اللہ کے رسول ! آپﷺ پر بدگمانی کیسے ہوسکتی ہے؟ اس پر آنحضرت نے فرمایا : ان الشیطان یجری من ابن ادم معجری الدم (روح) حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی و نے (حضرت یوسف ( علیہ السلام) کی بلند ہمتی اور عقلمندی کی داد دیتے ہوئے) تواضعا فرمایا : اگر میں اتنی مدت جیل میں ٹھہرتا جتنی مدت یوسف ( علیہ السلام) ٹھہرے تو بادشاہ کے بلانے پر چلنے کو تیار ہوجاتا۔ (ابن کثیر)۔ یوسف
51 ف 7۔ یعنی بادشاہ نے مقدمہ کی تحقیق کے سلسلہ میں عزیز مصر کی بیوی اور دوسری عورتوں سے پوچھا۔ ف 8۔ سب کی طرف فریب کی نسبت اس لئے کہ دوسری عورتیں بھی عزیز مصر کی بیوی کی مددگار تھیں۔ مطلب یہ ہے کہ بادشاہ نے پوچھ کیا تم نے یوسف ( علیہ السلام) میں کوئی برائی دیکھی پھر آخر کیا وجہ ہے کہ اسے غیر معین عرصہ کے لئے جیل میں ڈال دیا گیا؟ ف 9۔ یعنی جب جیل میں حضرت یوسف ( علیہ السلام) کو مقدمہ کے سلسلہ میں تحقیقات سے مطلع کیا گیا تو انہوں نے خود فرمایا۔ یہ (سب جھگڑا)… یوسف
52 یوسف
53 ف 1۔ تو نفس مطیع ہوجاتا ہے اور برے کام کی خواہش نہیں کرتا۔ مطلب یہ ہے کہ برائی سے میرا بچ نکلنا اپنے بل ہوتے پر نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق سے تھا۔ ” ما“ کے مصدر یہ ہونے کی صورت میں مستثنیٰ منقطع ہوگا اور مصدر یہ ظرفیہ ہونے کی صورت میں متصل۔ (کذافی الروح)۔ ف 2۔ بعض مفسرین (رح)۔ جیسے ابنی تیمیہ (رح) اور ابن کثیر۔ نے ” ذلک لیعلم“ سے ” ان ربی غفور رحیم“ کو بھی عزیز مصر کی بیوی ہی کا کلام قرار دیا ہے اور لکھا ہے کہ یہی انسب اور اشھر سے اور سیاق کلام سے یہی معلوم ہوتا ہے۔ اس صورت میں گویا عزیزِ مصر کی بیوی کنا یہ چاہتی ہے کہ میں نے پیٹھ پیچھے اپنے خاوند کی کوئی بڑی خیانت نہیں کی بیشک میں نے یوسف ( علیہ السلام) کو پھسلانا چاہا تھا مگر کامیاب نہ ہوسکی۔ ہاں میں اپنے آپ کو پاک باز قرار نہیں دیتی مجھ سے جتنی غلط ہوئی اور اس کا قرار و اعتراف کرتی ہوں۔ نفس کی شرارتوں سے تو وہی مھفوظ رہ سکتا ہے جس پر اللہ کی خاص رحمت ہو۔ یوسف
54 ف 3۔ یا حضرت یوسف ( علیہ السلام) نے بادشاہ سے گفتگو کی۔ (روح)۔ ف 4۔ اب سے عزیز کا علاقہ موقوف کیا اپنی صحبت میں رکھا (موضح)۔ یوسف
55 ف 5۔ لفظ ” خزائن الارض“ (زمین کے خزانے) سے مراد روپیہ اور غلوں کے خزانے نہیں ہیں بلکہ سلطنت کے تمام ذرائع آمدنی و پیداوار ہیں۔ قرآن حکیم میں خزائن کا لفظ عموماً اسی معنی میں استعمال ہوا ہے جیسا کہ ارشاد ہے ” وللہ خزائن السموات والارض“۔ مطلب یہ ہے کہ جب حضرت یوسف ( علیہ السلام) نے دیکھا کہ بادشاہ کی نگاہ میں ان کی قدر و منزلت بڑھ گئی ہے اور وہ انہیں ہر طرح اختیارات سونپنے کو تیار ہے تو اپنی اہلیت پر اعتماد کرتے ہوئے یہ پیشکش مناسب سمجھی کہ سلطنت کے تمام ذرائع آمدنی و پیداوار میرے حولاے کر دئیے جائیں اور جب انسان کو اپنی اہلیت پر اعتماد و یقین ہو اور کوئی دوسراشخص قومی امانت کا بوجھ نہ اٹھا سکتا ہو تو اپنے آپ کو عہدہ کے لئے پیش بھی کرسکتا ہے۔ (ابن کثیر)۔ بلکہ آئندہ آیات (100۔101) سے تو معلوم ہوتا ہے کہ آخر کار مصر میں حضرت یوسف ( علیہ السلام) ہی تخت نشین ہوگئے تھے اور پھر حضرت یوسف ( علیہ السلام) اللہ کے نبی و تھے اس لئے ملک کے تمام اختیارات پر قبضہ ان کے لئے ضروری تھا تاکہ توحید کی تبلیغ و اشاعت پر قبضہ ان کے لئے ضروری تھا تاکہ توحید کی تبلیغ و اشاعت اور شرک کا استیصال کرسکیں۔ یوسف
56 ف 6۔ اس آیت سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یوسف ( علیہ السلام) کو سلطنتِ مصر میں ہر قسم کے اختیارات حاصل تھا اور وہ ایک کافر بادشاہ کے وزیر اور ملازم نہ تھے۔ ہوسکتا ہے کہ بادشاہ (ریان بن ولید) نے ازخود ہی زمام حکومت ان کے سپرد کردی ہو۔ بعض روایات میں ہے عزیز مصر کی بیوی سے حضرت یوسف ( علیہ السلام) کی شادی ہوگئی تھی۔ مگر محدثین (رح) کے نزدیک یہ روایات قابل اعتبار نہیں ہیں۔ (روح)۔ ف 7۔ یعنی دنیا و آخرت دونوں میں انہیں اپنے نیک اعمال کا بدلہ ملتا ہے۔ اس آیت کے سلسلے میں شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں، یہ جواب ہوا ان کے سوالوں کا کہ اولادِ ابراہیم ( علیہ السلام) اس طرح شام سے مصر آئی۔ اور بیان ہوا کہ بھائیوں نے یوسف ( علیہ السلام) کو گھر سودور پھینکا تا ذلیل ہو۔ اللہ نے زیادہ عزت دی اور ملک پر زیادہ اختیار دیا۔ ویسا ہی ہمارے حضرت کے ساتھ ہوا۔ (موضح)۔ یوسف
57 یوسف
58 ف 8۔ کیونکہ بہت مدت گزر گئی تھی چھوٹی عمر میں ان سے الگ ہوگئے تھے اور اب جو ان ہوچکے تھے۔ دوسرے یہ چیز تو ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھی کہ جس بھائی کو وہ کنویں میں ڈال گئے تھے وہ آج مصر کا مختار مطلق ہوگا۔ (کذافی الروح)۔ یوسف
59 ف 9۔ یعنی بنیامین کو، جو حضرت یوسف ( علیہ السلام) کے سگے بھائی اور سب بھائیوں سے چھوٹے تھے، بلوانے کے لئے ان سے کہا۔ (از روح)۔ یوسف
60 ف 10۔ ممکن ہے انہوں نے حضرت یوسف ( علیہ السلام) سے اپنے چھوٹے بھائی کا ذکر کیا ہو یا اپنے علاوہ ان کے حصے کا غلہ بھی مانگا ہو ور اس طرح حضرت یوسف ( علیہ السلام) کو انہیں یہ حکم دینے کا موقع مل گیا ہو کہ آئندہ جب تو اپنے چھوٹے بھائی کو بھی ساتھ لائیں ورنہ غلہ نہیں ملے گا۔ (از روح) یوسف
61 ف 11۔ یعنی ہم سے جس طرح بھی بن پڑے گا اسے اپنے ساتھ لانے کی کوشش کریں گے۔ یوسف
62 ف 12۔ جس رقم کے عوض انہوں نے غلہ خریدا وہ بطور احسان کے اناج کی بوریوں میں چھپا کر رکھ دی گئی۔ (از موضح)۔ یوسف
63 ف 1۔ کیونکہ جب ان کے پاس غلہ خریدنے کے لئے پونچی ہوگی تو آنے کی راہ میں رکاوٹ دور ہوجائے گی۔ (کذافی الروح)۔ ف 2۔ یونی یوسف کی طرح اس کے بارے میں فکر نہ کیجئے۔ ہمیں پورا احساس ہے اس لئے ہم اس کی پوری طرح حفاظت کریں گے۔ یوسف
64 ف 3۔ تم جب یوسف ( علیہ السلام) کو لے گئے تھے تب بھی تم نے یہی کہا تھا کہ ہم اس کی حفاظت کریں گے پھر تم نے اس کی اچھی حفاظت کی کہ آج تک اس بے چارے کی کوئی خیر خبر نہیں۔ ایسی ہی حفاظت اب تم اس بھائی کی کرنی چاہتے ہو۔ (ابن کثیر)۔ ف 4۔ یعنی میں اسے بحالت مجبوری غلہ کی ضرورت کے پیش نظر تمہارے ساتھ بھیج رہا ہوں۔ سو میں اسے تمہاری حفاظت میں نہیں بلکہ اللہ کی حفاظت میں دیتا ہوں۔ وہی اپنی مہربانی سے اس کی حفاظت فرمائے گا۔ (ابن کثیر)۔ کہتے ہیں کہ حضرت یعقوب ( علیہ السلام) نے حضرت یوسف ( علیہ السلام) کو بھائیوں کے ساتھ بھیجتے وقت صرف یہ کہا تھا۔ انی خاف ان یاکلہ (مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں بھیڑیا اسے نہ کھا جائے) اس لئے آزمائش میں ڈال دئیے گئے۔ اب جو بنیامین کو فاللہ خیر حافظا وھو ارحم الرحمین۔ کہتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں دیا تو نہ صرف بنیامین بلکہ حضرت یوسف ( علیہ السلام) بھی مل گئے۔ (ازوحیدی)۔ یوسف
65 ف 5۔ یا اس طرح ایک اونٹ بھر زائد غلہ لانا آسان ہی معاملہ ہے۔ یوسف
66 ف 6۔ وہ سب سن رہا ہے لہٰذا جس نے خیانت اور بدعہدی کی وہ اس کے ہاں سخت سزا کا مستحق قرار پائے گا۔ یا ہم جو کہہ رہے ہیں اسے پورا کرنا اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔ حضرت یعقوب ( علیہ السلام) نے یہ کہہ کر گویا ایک طرف ظاہری اسباب کے اعتبار سے وثوق حاصل کرلیا اور دوسری طرح بھروسا اللہ تعالیٰ پر کیا اور اللہ پر توکل کا صحیح مطلب بھی یہی ہے۔ (کذافی الموضح)۔ یوسف
67 ف 7۔ نہ تو آیت کے الفاظ میں اس چیز کی تصریح ہے اور نہ کسی صحیح حدیث ہی سے اس کا پتا چلتا ہے کہ حضرت یعقوب ( علیہ السلام) نے اپنے بیٹوں کو یہ حکم کیوں دیا کہ وہ ایک دروازے سے نہیں بلکہ الگ الگ دروازوں سے داخل ہوں۔ البتہ حضرات ابن عباس (رض) نے یہ حکم اس لئے دیا کہ انہیں نظر بد نہ لگ جائے حضرت شاہ صاحب (رح) بھی لکھتے ہیں، یہ ٹوک (نظر بد) سے بچائو کا طریقہ بتایا اور توکل اللہ پر کیا۔ ٹوک لگنی غلط نہیں اور نظر بد سے بچائو کرنا درست ہے۔ (اھ) صحیح احادیث سے بھی ثابت ہے۔ المین حق۔ یعنی نظر بد کالگ جانا ایک حقیقت ہے۔ عہد نبوی میں بہت سے لوگوں کو نظر بد سے نقصان کو پہنچنا ثابت ہے۔ ایک حدیث میں نظر بد کی شدت تاثیر کو بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے : لوکان شئی سابق القدر لسبقتۃ۔ اگر کوئی چیز تقدیر سے سبقت کرسکتی تو نظر بدسبقت لے جاتی۔ (شوکانی۔ روح)۔ ف 8۔ بلکہ اس نے جو کچھ تمہاری تقدیر میں لکھ دیا ہے وہ ہو خرابی سے بچنے کی تدبیر کرے۔ اگرچہ اصل بھروسا تدبیر پر نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی حفاظت پر ہونا چاہیے کیونکہ اسباب کی تاثیر بھی اللہ تعالیٰ کی مشیئت پر موقوف ہے۔ پس تدبیر اصل اللہ تعالیٰ سے اسی کی طرف فرار کو دوسرا نام ہے۔ (کذافی الروح)۔ ف 9۔ یعنی میری طرح تم بھی اسی پر بھروسا کرو اور اپنی تدبیر پر غرور نہ کرو۔ یوسف
68 ف 1۔ یعنی اس سر الٰہی (تقدیر) کی حقیقت کو نہیں جانتے اور اپنی تدبیر پر نازاں رہتے ہیں۔ یا پھر اللہ پر بھروسا کرنے کا یہ مطلب سمجھتے ہیں کہ سرے سے کوئی تدبیر اختیار ہی نہ کی جائے جیسا کہ بعض متاخرین متصوفہ سے منقول ہے۔ مطلب یہ ہے کہ حضرت یعقوب ( علیہ السلام) نے اگر تدبیر اور توکل کے مفہوم کو صحیح طور پر سمھے کر اپنے بیٹوں کو نصیحت کی تھی تو وہ دراصل ہماری اس تعلیم کا نتیجہ تھا جو ہم نے اسے دی تھی یعنی بذریعہ وحی کے۔ (کذافی الروح) حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں : تقدیر پھر بھی ان پر آگئی۔ دفع نہ ہوئی، سوجن کو علم ہے ان کو تقدیر کا یقین اور اسباب کا بچائو دونوں ہوسکتے ہیں۔ اور بے علم سے ایک ہی تو دوسرا نہ ہو۔ (۔۔) یوسف
69 ف 2۔ کہتے ہیں کہ حضرت یوسف ( علیہ السلام) نے دو دو کو ایک ایک جگہ ٹھہرایا۔ اس طرح جب بنیامین اکیلے رہ گئے تو انہیں اپنے پاس ٹھہرایا۔ (فتح القدیر) ف 3۔ ظاہر ہے کہ جب حضرت یوسف ( علیہ السلام) بنیامین کے ساتھ علیحدہ ہوئے ہوں گے اور اسے بتایا ہوگا کہ میں تمہارا سگا بھائی ہوں تو بنیامین نے اپنے سوتلے بھائیوں کی بدسلوکی کے قصے بیان کئے ہوں گے اس پر حضرت یوسف ( علیہ السلام) نے انہیں تسلی دی کہ اب تم اپنے بھائی کے پاس پنچ گئے ہو لہٰذا ان بھائیوں کی بدسلوکی کارنج نہ کرو۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہمارے تمام غم غلط ہوں اور اللہ تعالیٰ ہمیں عزت و راحت عطا فرمائے۔ (از وحیدی)۔ یوسف
70 ف 4۔ جو اکثر مفسرین (رح) کے قول کے مطابق چاندی کا تھا۔ بعض کہتی ہیں کہ سونے کا تھا جس پر جواہر لگے تھے لیکن صحیح یہ ہے کہ وہ کوئی قیمتی پیالہ تھا۔ (کبیر)۔ ف 5۔ حضرت یوسف ( علیہ السلام) نے کٹورا رکھوانے کا یہ فعل اپنے بھائی کی رضا مندی سے اور اس کے علم میں لا کر کیا ہوگا جیسا کہ اوپر والی آیت سے اندازہ ہوتا ہے واللہ اعلم۔ ف 6۔ وہ اس لحاط سے واقعی چور تھے کہ انہوں نے حضرت یوسف ( علیہ السلام) کو باپ سے چرا کر کنویں میں پھینک دیا تھا۔ یا یہ پکارنا حضرت یوسف ع کے اشارے اور حکم سے تھا ہی نہیں بلکہ جب لوگوں نے وہ کٹورا نہ پایا تو اسی قافلہ والوں پر چوری کا الزام لگایا جو اس وقت وہاں موجود تھا۔ یہی انسب معلوم ہوتا ہے کیونکہ آیت سے یہ نہیں معلوم ہوتا کہ حضرت یوسف ( علیہ السلام) نے پیالہ رکھنے کا تذکرہ اپنے غلاموں یا نوکروں سے کردیا تھا۔ (وحیدی)۔ یوسف
71 یوسف
72 یوسف
73 یوسف
74 یوسف
75 ف 8۔ مفسرین (رح) کہتے ہیں کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے خاندان میں چور کی یہی سزا مقرر تھی کہ وہ ایک برس تک اس شخص کی غلامی میں دیدیا جائے جس کا مال اس نے چرایا ہو۔ (فتح القدیر)۔ یوسف
76 ف 9۔ یا اس طرح ہم نے یوسف ( علیہ السلام) کے لئے (بنیامین کو رکھ لینے کی) تدبیر کی۔ ف 1۔ کیونکہ مصر کا شاہی قانون یہ تھا کہ چور کو پیٹا جائے اور اس سے چوری کے مال کے علاوہ اتنا ہی مال اور لے کر اس شخص کو دے دیا جائے جس کا مال چوری ہوا ہے۔ اس قانون کی رو سے چور کو غلام نہیں بنایا جاسکتا تھا۔ (ابن کثیر۔ شوکانی)۔ ف 2۔ یعنی یہ حضرت یوسف ع نے خود بھائیوں سے دریافت کیا کہ اگر تم چور نکلو تو تمہاری کیا سزا ہونی چاہیے اور پھر یہ جو ان بھائیوں کی زبان سے نکلا کہ جس کے پاس ہوا سے غلام بنا لیا جائے، یہ سب کچھ اس لئے ہوا کہ اللہ نے ایسا چاہا اور اسی نے تدبیر فرمائی۔ ورنہ اگر اللہ نہ چاہتا تو نہ حضرت یوسف اپنے بھائیوں سے چور کی سزا دریافت کرتے نہ بھائی بتاتے اور نہ حضر یوسف ( علیہ السلام) اپنے بھائی بنامین کو اپے ہاں رکھ سکتے۔ ف 3۔ یعی جسے چاہتے ہیں علم عطا فرما کر اس کے درجے بلند کرتے ہیں۔ جیسے دوسر بھائیوں کے مقابلے میں حضرت یوسف ( علیہ السلام) کے درجے بلند کئے۔ ف 4۔ یہاں تک کہ تمام جاننے والوں کے اوپر وہ ذات پاک ہے جسے عالم الغیب والشھادۃ کہتے ہیں۔ یوسف
77 ف 5۔ یہ اشارہ حضرت یوسف کی طرف تھا۔ پہلے کہہ چکے کہ ہم چور نہیں ہے لیکن اب جو دیکھا کہ بنامین کے پاس چوری کا مال نکل آیا ہے تو اپنی خفت مٹانے اور اپنی پاکبازی ظاہر کرنے کے لئے فوراً اپنے آپ کو بنیامین سے الگ کرلیا اور اس کے جرم کو بہانہ بنا کر اس کے بھائی پر بھی چوری کی جھوٹی تہمت لگا دی۔ اس سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ حضرت یوسف ( علیہ السلام) کے گم ہوجانے کے بعد بنیامین کے ساتھ یہ بھائی کیا سلوک کرتے رہے ہونگے۔ ف 6۔ کیونکہ اگر ظاہر کرتے تو وہ سمجھ لیتے کہ یہی یوسف ( علیہ السلام) ہے اور ابھی یہ راز کھولنے کا وقت نہ آیا تھا۔ ف 7۔ یعنی یوسف ( علیہ السلام) نے چوریکی ہو یا نہ کی ہو مگر تمہارے چور ہونے میں کوئی شبہ نہیں کیونکہ تم نے اسے باپ سے چرا کو کنویں میں پھینک دیا۔ اس پر غضب یہ کہ اُ (رح) ٹا اپنے آپ کو پاکباز اور یوسف ( علیہ السلام) کو جھوٹا بتاتے ہو۔ ف 8۔ یعنی تم جو یوسف ( علیہ السلام) پر چوری کا الزام لگا رہے ہو اس کی حقیقت اللہ تعالیٰ خوب جانت اہے۔ تم جھوٹ بول کر لوگوں کو دھوکا دے سکتے ہو مگر اللہ تعالیٰ کو دھوکا نہیں دے سکتے۔ یوسف
78 ف 9۔ اس کا باپ بوڑھا ہے وہ اس کی جدائی برداشت نہ کرسکے گا۔ پہلے بھی تم نے ہم پر بہترے احسانات کئے ہیں بس اب اتنا احسان اور کرو کہ ہم میں سے کسی ایک کو اس کی بجائے رکھ لو۔ امید ہے تم ہمیں اپنے کرم سے مایوس نہیں کرو گے۔ یوسف
79 ف 10۔ اور ظلم ہم کو نہیں سکتے۔ بنیامین حقیقت میں چور نہیں تھے اس لئے حضرت یوسف ( علیہ السلام) نے یہ کہا کہ جس کے پاس ہم نے اپنا سامان پایا۔ یوسف
80 ف 11۔ یعنی اس کی بہتری منت سماجت کی کہ بنیاین کو چھوڑ کو ہم میں سے کسی کو گرفتار کریں مگر وہ کسی طرح نہ مانے۔ ف 12۔ یعنی مشورہ کرنے لگے۔ ف 13۔ یعنی دوسرے بھائیوں کو اس نے رخصت کردیا خود اس توقع پر رہ گیا کہ شاید عزیز مصر کا دل پسج جائے۔ (از موضح)۔ ف 14۔ کہ بنیامین کو اپنے ساتھ ضرور واپس لانا۔ (وحیدی)۔ ف 15۔ خواہ میری موت کے ذریعے ہی کیوں نہ ہو یا بنیامین کی رہائی کی کوئی صورت نکل آئے۔ (روح)۔ یوسف
81 ف 16۔ یعنی ہم نے جو بنیامین کے چور ہونے کو تسلیم کرلیا وہ اس بنا پر کہ ہم نے اپنی آنکھوں سے چوری کا کٹورا اس کے سامان سے نکلتا دیکھا یا ہم نے جو عزیز مصر۔ یوسف ( علیہ السلام)۔ کو مسئلہ بتایا کہ چور کی سزا یہ ہے کہ اسے غلام بنا لیا جائے تو وہ آپ کی اور آپ کے باپ دادا ہی کی شریعت کے مطابق تھا۔ (از وحیدی)۔ ف 17۔ کہ بنیامین مصر میں جا کر چوری کرے گا۔ ورنہ ہم اسے اپنے ساتھ کیوں لے جاتے یا آپ کو یہ پختہ عہد کیوں دیتے کہ اسے اپنے ساتھ ضرور واپس لائیں گے۔ (کذافی الروح)۔ یوسف
82 ف 18۔ جہاں چوری کا یہ واقعہ پیش آیا۔ یوسف
83 ف 1۔ یعنی جب بڑے بھائی کی تجویز کے مطابق باقی بھائیوں نے کنعان پہنچ کر اپنے والد حضرت یعقوب ( علیہ السلام) سے یہ سب کچھ بیان یا تو انہوں نے کہا۔ (وحیدی)۔ ف 2۔ یہ جو کہتے ہو کہ بنیامین نے چوری کی اور وس اس کی سزا میں گرفتار کرلیا گیا، صرف یہی بات نہیں ہے کہ بلکہ اس میں تمہاری تسویل نفسانی کو بھی کچھ دخل ہے۔ وہ یہ کہ تم نے بنیامین کے غلام بنائے جانے کا خود ہی فتویٰ دیا اور پھر اس کے بھائی پر بھی چوری کی تہمت لگائی وغیرہ۔ (از روح)۔ ف 3۔ صبر جمیل (عمدہ صبر) سے مراد وہ صبر ہے جس میں انسان اللہ تعالیٰ کی مرضی پر مطمئن اور قانع ہو اور بندوں سے کوئی گلہ شکوہ نہ کرے اور نہ جزع و فزع سے کام لے۔ (دیکھئے آیت 81)۔ ف 4۔ یعنی یوسف ( علیہ السلام)، بنیامین اور بڑے بھائی کو جو شرمندگی کے مارے مصر میں رہ گیا تھا۔ (روح) ف 5۔ اب کی بار انہوں نے بے شک سچ کہا تھا مگر پہلے کی بے اعتباری کی وجہ سے حضرت یعقوب نے بیٹوں کا اعتبار نہ کیا مگر حضرت یعقوب ( علیہ السلام) اس میں سچے بھی تھے کہ بیٹوں کی بنائی ہوئی بات تھی حضرت یوسف ( علیہ السلام) بھی تو آخر بیٹے ہی تھے۔ (کذافی الموضح)۔ یوسف
84 ف 6۔ اور اس کا اظہار نہیں کیا۔ معلوم ہوا کہ مصیبت پر رونا اور آنسو بہانا جائز ہے۔ حدیث میں ہے کہ جب آنحضرت کا صاجزادہ ابراہیم فوت ہوا تو آنحضرتﷺ کی چشم مبارک سے آنسو جاری ہوگئے اور فرمایا : آنکھ بہہ رہی ہے اور دل پر صدمہ ہے مگر ہم اپنے پروردگار کی مرضی کے خلاف نہیں کہہ سکتے۔ ابراہیم ! ہم کو تمہارے فراق پر بہت صدمہ ہے (صحیحن) ہاں مصیبت کے وقت نوحہ کرنا گریبان چاک کرنا اور منہ پہ طمانچے مارنا سخت ممنوع ہے۔ (روح)۔ یوسف
85 یوسف
86 ف 7۔ یعنی یہ کہ یوسف زندہ ہیں اور ایک دن ایسا آئے گا کہ میرے اور تمہارے سجدہ کرنے کا خواب جو انہوں نے دیکھا تھا سچا ہوگا۔ مجھے اس کا پورا یقین ہے اور اللہ تعالیٰ میری یہ امید برلائے گا۔ (ازروح) اس آیت پر شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں : یعنی تم کیا مجھے صبر سکھائو گے۔ بے صبر وہ ہے جو خلق کے آگے شکایت کرے خالق کی میں تو اسی سے کہتا ہوں جس نے درد دیا اور یہ بھی جانتاہوں کہ مجھ پر آزمائش ہے دیکھوں کس حد کو پہنچ کر بس ہو۔ (از موضح)۔ یوسف
87 ف 8۔ جو اس کی رحمت اور قدرت کا صحیح علم نہیں رکھتے۔ اس کے برعکس مومن کی خواہ کیسے ہی حوصلہ شکن اور مایوس کن حالات پیش آئیں وہ کبھی اپنے مالک کی رحمت سے مایوس نہیں ہوتا۔ اس آیت سے یہ نکلتا ہے کہ ” یاس من رحمتہ اللہ“ کافر کی صفت ہے ورنہ یہ مطلب نہیں ہے کہ مایوس ہونے والا کافر ہوجاتا ہے۔ (روح) یوسف
88 ف 9۔ یعنی ہماری یہ پونچی اس قابل نہیں ہے کہ کوئی ہمیں اس کے بدلے غلہ دے سکے۔ تاہم اگر آپ ہم پر احسان فرمائیں کہ اس کی قیمت کا جتنا غلہ بنتا ہے اس سے زیادہ دے دیں یا اس کے ناقابلِ قبول ہونے سے چشم پوشی فرمائیں تو یہ آپ کا ہم پر صدقہ ہوگا۔ کہتے ہیں کہ اب کی بار وہ اون، پنیر وغیرہ لائے تھے۔ یہ حال دیکھ کر حضرت یوسف ( علیہ السلام) کو رحم آگیا اور حقیقتِ حال ظاہر کردی۔ کذافی الموضح۔ (روح)۔ یوسف
89 ف 10۔ دونوں میں جدائی ڈالی اور دونوں سے بیر رکھا۔ استفہام زجرو توبیخ کے لئے ہے۔ (شوکانی)۔ ف 11۔ یعنی جو کچھ تم نے کیا اس کی وجہ تمہاری نادانی و بیوقوفی تھی۔ گویا حضرت یوسف ( علیہ السلام) نے بھائیوں کو ان کی حرکت تو یاد دلائی مگر اس خیال سے کہ وہ شرمندہ نہ ہوں خود ہی ان کے لئے معذرت کا پہلو نکال دیا یہ انتہائی مروت کا مقام ہے جس کی توقع ایک نبی ﷺ سے ہی ہوسکتی ہے۔ (ازروح)۔ یوسف
90 ف 1۔ جو مصیبت سے نجات دے کر دونوں کو ملا دیا اور اس بلند مرتبہ پر پہنچا دیا، جسے تم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہوَ (روح) ف 2۔ یعنی گناہوں سے بچتا رہے اور لوگوں کو ایذا سانی پر صبر کرتا رہے۔ ف 3۔ شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں۔ جس پر تکلیف پڑے اور وہ شرع سے باہر نہ ہو اور گھبراوے نہیں تو آخر بلا سے زیادہ عطا ہے۔ یوسف
91 ف 4۔ یعنی تقویٰ ور صبر کی وجہ سے تمہیں اللہ نے فضیلت دی اور ہم نے تمہارے ساتھ جو کچھ کیا اس میں ہم قصوروار ہیں۔ (روح)۔ شاہ صاحب فرماتے ہیں : تیرا خواب سچا تھا اور ہمارا حسد غلط (موضح)۔ یوسف
92 ف 5۔ تمہیں ہرگز کوئی ملامت نہیں کرتا اور نہ کسی حرکت پر گرفت کرتا ہوں۔ یہاں ” الیوم“ تقلید کے لئے نہیں ہے۔ بلکہ مطلق زمانہ کے لئے ہے (روح)۔ ف 6۔ یہ ہے شان نبوت۔ اگر کوئی دوسرا آدمی ہوتا ہے تو ایسے قصورواروں پر قابو پا لینے کے بعد انہیں ہرگز معاف نہ کرتا۔ یہی سلوک نبی ﷺ نے فتح مکہ کے بعد وہاں کے رہنے والوں سے فرمایا۔ چنانچہ تفاسیر میں ہے کہ آپﷺ نے ان سے دریافت فرمایا : تمہارا کیا خیال ہے کہ آج میں تم سے کیا سلوک کرنے والا ہوں؟ وہ بولے ” ابن عم کریم“ (آپﷺ تو ہمارے سخی اور رحم دل چچا کے بیٹے ہیں) فرمایا : ” لا تتریب تو علیکم یغفر اللہ لکم“ یعنی جائو، تم پر کوئی الزام نہیں۔ اللہ تمہیں معاف فرمائیے۔ (در منشور)۔ یوسف
93 ف 7۔ یعنی ہر مرض کی اللہ کے ہاں دوا ہے۔ ایک شکص کے فریق میں یعقوب ( علیہ السلام) کی آنکھیں ضائع ہوگئیں۔ اس کے بدن کی چیز ملنے سے درست ہوگئیں۔ یہ حضرت یوسف ( علیہ السلام) کی کرامت تھی۔ (موضح) اور شدت فرح سے بینائی میں قوت پیدا ہوجانا طبی طرو پر بھی ثابت ہے۔ (رازی)۔ یوسف
94 ف 8۔ اس سے انبیا کی غیر معمولی قوتوں کا اندازہ ہوتا ہے کہ ادھر قافلہ مصر سے حضرت یوسف ( علیہ السلام) کا کرتا لے کر چلتا ہے اور ادھر حضرت یعقوب ( علیہ السلام) کو اس کی خوشبو آنے لگتی ہے لیکن اس سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ انبیا کی یہ قوتیں ان کا ذاتی کمال نہ تھیں بلکہ سراسر اللہ تعالیٰ کی عطا کردی تھیں۔ حضرت یوسف ( علیہ السلام) قریب کے جنگل میں کنویں میں پڑ رہے اور پھر برسوں تک مصر پر حکمران رہے مگر کبھی حضرت یعقوب ( علیہ السلام) کو ان کی خوشبو نہ آئی۔ یوسف
95 ف 9۔ یوسف ( علیہ السلام) کی محبت میں غرق ہے۔ تجھے تو ہر آن یوسف ہی نظرآتا ہے۔ یوسف
96 ف 10۔ مفسرین (رح) کا بیان ہے کہ جب قافلہ کنعان کے قریب پہنچا، تو سب سے بڑے بھائی یہودا نے کہا ” میں ہی ابا جان کے پاس یوسف ( علیہ السلام) کا خون سے بھرا ہوا کرتا لے کر گیا تھا۔ لہٰذا آج تم مجھی کو یہ کرتا لے کر آگے جانے دو، تاکہ انہیں اسی طرح خوش کروں جس طرح اس دن رنجیدہ کیا تھا۔ (فتح القدیر) موضح میں ہے کہ حضرت یوسف ( علیہ السلام) نے کرتا بھیجا اپنے غلام کے ہاتھ اس نے آکر کرتا منہ پر ڈالا اور خوشخبیر دی اس وقت آنکھیں کھل گئیں۔ ف 11۔ مثلاً یہ کہ یوسف ( علیہ السلام) زندہ ہے اور اللہ تعالیٰ اسے جرور واپس لائے گا، یا یہ کہ مجھے یوسف ( علیہ السلام) کی خوشبو آرہی ہے۔ (ابن کثیر)۔ یوسف
97 یوسف
98 ف 12۔ یعنی دعا قبول ہونے کی گھڑی آنے دو، میں تمہارے لئے استغفار کروں گا۔ بعض صحابہ (رض) کہتے ہیں کہ حضرت یعقوب ( علیہ السلام) کو تہجد کے وقت کا انتظار تھا اور بعض کہتے ہیں کہ جمع کی شب کا۔ (ابن کثیر)۔ یوسف
99 ف 13۔ یعنی کنعان سے روانہ ہو کر مصر پہنچے اور حضرت یوسف ( علیہ السلام) سے ملے، کہتی ہیں کہ حضرت یوسف ( علیہ السلام) نے شہر سے باہر نکل کر ان کا استقبال کیا۔ (ابن کثیر)۔ موضح میں ہے کہ وہیں کہا : ادخلو امصر انشاء اللہ امنین۔ ف 14۔ یعنی اپنے خیمہ میں ماں سے مراد اکثر مفسرین (رح) حضرت یوسف ( علیہ السلام) کی سوتیلی والدہ ( جو ان کی خالہ تھیں) لیتے ہیں کیونکہ ان کی والدہ کا بنیامین کی ولادت کے وقت انتقال ہوگیا تھا اور بعض کہتے ہیں کہ ان کی والدہ زندہ تھیں اور وہی حضرت یعقوب ( علیہ السلام) کے ساتھ مصر پہنچی تھیں۔ (معالم)۔ ابن جریر نے اس دوسرے قول کو ترجیح دی ہے اور ابن کثیر نے اس کی تائید کی ہے۔ (ابن کثیر)۔ ف 15۔ یعنی اب کوئی اندیشہ نہ کرو اور انشاء اللہ یہاں مصر میں نہایت امن سے رہو گے۔ بعض نے لکھا ہے کہ حضرت یوسف ( علیہ السلام) نے یہ الفاظ مصر میں داخل ہونے کے بعد کہے۔ یوسف
100 ف 1۔ یہ بات ان کی شریعت میں جائز تھی کہ جب کسی بڑے آدمی کو سلام کریں تو اسے سجدہ بھی کریں۔ یہ رواج حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) تک جاری رہا پھر ہماری شریعت میں اسے حرام قرار دے دیا گیا۔ حدیث میں ہے کہ حضرت معاذ (رض) نے شام سے واپس آکر نبی ﷺ کو سجدہ کیا۔ آپﷺ نے فرمایا :” معاذ (رض) ! کہ کیا کر رہے ہو؟ کہنے لگے میں نے شام میں دیکھا کہ لوگ اپنے پادریوں کو سجدہ کرتے ہیں تو آپﷺ زیادہ حقدار ہیں کہ آپﷺ کو سجدہ کیا جائے۔ آپﷺ نے فرمایا : اگر میں کسی کو کسی کے لئے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو عورت کو حکم دیتا کہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔ ایک مرتبہ حضرت سلمان فارسی (رض) نے جو ابھی حال ہی میں اسلام لائے تھے نبی ﷺ کو سجدہ کرکے سلام کیا۔ آپﷺ نے فرمایا ! اے سلمان (رض) مجھے سجدہ نہ کرو بلکہ اس زندہ ذات کو سجدہ کرو جسے کبھی موت نہیں آئے گی۔ (ابن کثیر) موضح میں ہے : پہلے وقت میں سجدہ تعظیمی تھا۔ فرشتوں نے حضرت آدم ( علیہ السلام) کو سجدہ کیا ہے۔ اس وقت اللہ نے وہ رواج موقوف کیا ہے۔ ” وان المساجد للہ (الایۃ )۔ اس وقت پہلے رواج پر چلنا ویسا ہے کہ کوئی اپنی بہن سینکاح کرے کہ حضرت آدمی ( علیہ السلام) کے وقت ہو اہے۔ (موضح) ف 2۔ یہ بعض مفسرین (رح) کا خیال ہے بعض نے اسی تک بھی کہا ہے۔ تفاسیر میں دیگر اقوال بھی منقول ہیں۔ (دیکھئے ابن کثیر)۔ ف 3۔ جو اللہ کے احسان تھے سو ذکر کئے اور جو تکلیف تھی دخل شیطان سے ان کو منہ پر نہ لائے مجمل سنا دیا۔ (موضح)۔ یوسف
101 ف 4 مراد یا تو ” تعبیر رویا“ کا علم ہے اور یا کتب الہٰہ کے اسرار و دقائق کا فہم (روح)۔ ف 5۔ یعنی اللہ تعالیٰ سے ملاقات کے شوق میں جلد موت کی تمنا کی، ہوسکتا ہے یہ ان کی شریعت میں جائز ہوجیسا کہ آنحضرت ﷺ نے قرب موت کے وقت اس قسم کے اشتیاق کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا۔ اللھم فی الرقیق الاعلی“ اے اللہ مجھے رفیق اعلیٰ سے ملادے۔ (ابن کثیر) آیت کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ جب کبھی مجھے موت آئے تو اس حال میں آئے کہ میں مسلمان ہوں۔ اکثر مفسرین نے یہی مفہوم مراد لیا ہے و بین السطور ترجمہ سے پہلے مفہوم مترشح ہوتا ہے۔ حدیث میں ہے کہ کوئی مصیبت یا تکلیف سے گھبرا کر موت کی تمنا نہ کرے۔ البتہ جب دین میں تفنہ کا خوف ہو تو تمنا کرسکتا ہے جیسا کہ فرعون کے جادوگروں نے اسلام لانے کے بعد دعا کیـ: ربنا افرغ علینا صرا وتوقنا مسلمین۔ اور حضرت مریم ( علیہ السلام) نے کہا : بایتینی مت قبل ھذا وکنت نسا مستا۔ ایک دعا میں ہے۔ واذا اردت بقوم فنۃ فاقبضنی عیس مفتون الیک۔ (اے خدا) جب تو کسی قوم کو فتنہ میں مبتلا کرنا چاہے تو فتنہ سے بچا کر مجھے اٹھا لے۔ (مسند احمد۔ ترمذی)۔ حضرت علی (رض) نے اپنی خلافت کے آخری دور میں جب حالات بگڑتے دیکھے تو دعا کی۔ اللھم خزالی الیک فقد سمئتھم۔ امام بخاری کو جب امیر خراسان سے جھگڑا پیش آیا تو انہیں یہ دعا کرنی پڑی۔ اللھم نوفنی الیک ! مجھے اپنی طرف بلالے (مختصر از بن کثیر)۔ یوسف
102 ف 6۔ تو پھر یہ خبریں اپنی صحیح تفصیلات کے ساتھ، آپﷺ کو اللہ تعالیٰ کی وحی کے بغیر کیسے معلوم ہوسکتی تھیں۔ اس سے مقصود کفار مکہ کو متنبہ کرنا تھا کہ محمد ﷺ اللہ کے پیغمبر ہیں۔ اگر سچے پیغمبر نہ ہوتے تو یہ واقعات کیونکر معلوم کرسکتے تھے اور تمہیں کیسے سنا سکتے تھے۔ نیز اشارہ ہے کہ حضرت یوسف ( علیہ السلام) کا قصہ اہل کتاب سے جن تفصیلات کے ساتھ منقول ہے وہ تمام کی تمام صحیح نہیں ہیں۔ ابن کثیر روح)۔ یوسف
103 ف 7۔ مگر ان کفار کی ہٹ دھرمی کا یہ حال ہے کہ آپﷺ کی صداقت پر اتنے واضح دلائل دیکھنے کے بعد بھی ایمان لانے کو تیار نہیں ہیں۔ (کذافی الروح)۔ یوسف
104 ف 8۔ یعنی مانیں گے تو اپنے آپ کو فائدہ پہنچائیں گے اور نہ مانیں گے تو اپنا نقصان کریں گے آپﷺ ان کے رویہ سے رنجیدہ نہ ہوں۔ یوسف
105 یوسف
106 ف 9۔ اس آیت کے مفہوم میں ہر وہ شخص داخل ہے جو زبان سے اللہ تعالیٰ کے خالق، مالک اور رازق ہونے کا اقرار کرے مگر اس کے باوجود مشرک کا مرتکب ہوجیسے قبر پرستی، تعزیہ پرستی وغیرہ ریاکار مسلمان بھی اس میں داخل ہیں۔ حدیث میں ہے کہ ریاکاری شرک خفی ہے۔ (روح)۔ افسوس کہ ہمارے زمانے میں بھی بہت سے نام کے مسلمان شرک میں مبتلا ہوگئے ہیں جو تعویز گنڈے پر اعتقاد رکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ بس ان میں شفا ہے۔ (از سلفیہ)۔ یوسف
107 ف 1۔ جیسے زلزلہ، طاعون وغیرہ۔ یوسف
108 ف 2۔ یعنی وہ بھی لوگوں کو دیل کے ساتھ اللہ کی طرف دعوت دیتا ہے۔ معلوم ہوا کہ جو شخص نبی ﷺ کی پیروی کرتا ہے اسے چاہیے کہ دعوت توحید و اصلاح میں آنحضرت کے نقش قدم پر چلے۔ یوسف
109 ف 3۔ یعنی شہروں کے رہنے والے مہذب، سنجیدہ اور بااخلاق نہ کہ جنگلی یادیہاتی قسم کے اجڈ، سنگدل۔ اس میں ان لوگوں کا رد ہے جو کہا کرتے تھے۔ لولا انزل علیہ ملک۔ اس۔ رسول ( علیہ السلام)۔ پر فرشتہ کیوں نہیں اتارا گیا۔ مطلب یہ ہے کہ اب تک جتنے لوگ بھیجے ہیں وہ سب شہری لوگ تھے اور وہ بھی مرد۔ اس آیت میں ان لوگوں کا بھی رد ہے۔ جو کہتے ہیں کہ چار عورتیں پیغمبر ہوئی ہیں۔ حوا، آسیہ، ام موسیٰ اور حضرت مریم ( علیہ السلام)۔ حافظ بن کثیر لکھتے ہیں کہ ان عورتوں کو فرشتے کے ذریعہ وحی یا بشارت تو ضرور ملی ہے مگر یہ نبوت کو مستلزم نہیں (عرفا) نبی کی طرف وحی تشریعی کا ہونا لازم ہے اور اس قسم کی وحی (تشریعی) کسی عورت پرنازل نہیں ہوئی۔ (ابن کثیر)۔ یوسف
110 ف 4۔ یعنی اپنی قوم کے ایمان لانے سے مایوس ہوگئے۔ (روح)۔ ف 5۔ جو انہیں خدا کے عذاب سے ڈراتے ہیں۔ حالانکہ عذاب ہرگز آنے والا نہیں ہے۔ اگر آنا ہوتا تو کبھی کا آچکا ہوتا۔ آیت کا یہ ملطب اس صورت میں ہے جب ” ظنو“ (سجھنے لگے) کا فاعل خود پیغمبروں کو قرار دیا جائے اور اگر اس کا فاعل خود پیغمبروں کو قرار دیا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ جب پیغمبر مایوس ہوگئے اور ان کے دل میں یہ وسوسہ آنے لگا کہ عذاب یا مدد دنیا میں نہیں آئے گی یعنی لاچاری کے عالم میں۔ (دیکھئے بقرۃ آیت 204)۔ حضرت عائشہ (رض) کی قرآن میں کذبوا ہے وہ فرمایا کہ تیس کہ بھلا پیغمبر اللہ تعالیٰ کے متعلق یہ گمان کس طرح کرسکتے تھے کہ ان سے جھوٹا وعدہ کیا گیا ہے اس لئے کذبوا کی بجائے کذبوا تشدید زال کے ساتھ ہے اور معنی یہ ہیں کہ پیغمبروں نے گمان کیا کہ ان کے ماننے والے شاید ان کی تکذیب کر رہے ہیں جیساکہ بخاری میں مذکور ہے۔ لیکن اگر ظن بمعنی وسوسہ ہوجیسا کہ اوپر مذکور ہوا تو اس میں کچھ بعد نہیں ہے۔ کذاقال ابن تیمیہ (رح)۔ (روح) شاہ صاحب لکھتے ہیں (رح) : یعنی وعدہ عذاب کو دیر لگی یہاں تک کہ رسول لگے نااُمید ہونے کہ شاید ہماری زندگی میں نہ آیا پیچھے آوے اور ان کے یار خیال کرنے لگے کہ شاید وعدہ خلاف تھا۔ اتنے خیال سے آدمی کافر نہیں ہوتا اگر جانتا ہے کہ یہ خیال بد ہے۔ (موضح)۔ ف 6۔ یعنی پیغمبروں کو ہماری مدد پہنچ گئی۔ ف 7۔ لہٰذا اب عذاب کے موخر ہونے سے دھوکا نہ کھائو۔ یوسف
111 ف 8۔ یعنی رسولوں اور گذشتہ قوموں کے قصوں سے۔ ف 9۔ یعنی ہر اس چیز کو کھول کر بیان کرنے والا ہے جس کا بیان کرنا انسان کی ہدایت اور رہنمائی کے لئے ضروری ہے۔ یوسف
0 ف 1۔ اس سورۃ کے مکی یا مدنی ہونے میں مفسرین کا اختلاف ہے بعض اسے مکی کہتے ہیں اور بعض مدنی۔ اور بعض کہتے ہیں یہ ہے تو مدنی لیکن اس کی دو آیتیں (31۔32) مکی ہیں۔ جابر (رح) بن زید (ایک تابعی) کہتے ہیں اس سورۃ کے میت کے پاس پڑھنے سے اس کی جان سہولت سے نکلتی ہے۔ اس کے فضائل میں کچھ روایات بھی مذکور ہیں جن کو محدثین (رح) نے موضوع کہا ہے۔ (شوکانی۔ روح) الرعد
1 ف 2۔ یعنی نظر و تامل نہ کرنے کی وجہ سے اس کی حقانیت پر یقین نہیں رکھتے۔ یہ بطور وصف فرمایا ہے نہ کہ بطور خبر۔ (روح) الرعد
2 ف 3۔ یعنی تم ان آسمانوں کو دیکھ رہے ہو کہ ان میں کوئی ستون نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مھض اپنی قدرت اور امر سے انہیں تھام رکھا ہے جیساکہ دوسری آیت میں ہے : ویمسک السماء ان نفع علی االرض الا باذنہ۔ اور وہ آسمان کو زمین پر گر پڑنے سے روکے ہوئے ہیں مگر اس کی اجازت سے۔ (حج :56) اس صورت میں ” ترونھا“ میں ھا ضمیر کا مرجع سمٰوٰت ہوں گے اور یہ جملہ مستانفہ ہوگا یا حال مقدرہ۔ اور اگر اسے عمد (ستونوں) کے لئے قرار دیا جائے تو ترجمہ یہ ہوگا“ بغیر ایسے ستونوں کے جو تمہیں نظرآئیں“۔ مطلب یہ ہے کہ ستون تو ہیں مگر تمہیں نظر نہیں آتے علمائے تفسیر نے آیت کے دونوں مفہوم بیان کئے ہیں واللہ اعلم (ابن کثیر۔ روح)۔ ف 4۔ یعنی قیامت تک یا اپنا دورہ مکمل کرنے تک واضح رہے کہ سورج اپنا دورہ ایک سال میں اور چاند ایک ماہ میں پورا کرتا ہے۔ قرآن نے جن حقائق کو ضمنی طور پر ذکر کیا ہے موجودہ سائنسی تحقیقات پر ان کو نہیں پرکھ سکتے۔ سائنسی نظریات میں تو آئے دن تبدیلی ہوتی رہتی ہے اور قرآن و صحیح حدیث میں جو کچھ بیان ہوا ہے وہ غیر متبدل اور لاریب فیہ ہے۔ ف 5۔ یعنی تم یہ سمجھ لو کہ جس خدا نے ایسی عظیم الشان مخلوقات کو پیدا کیا، اس کے لئے تمہیں دوبارہ پیدا کرنا کیا مشکل ہے؟ الرعد
3 ف 6۔ اوپر عالم علوی کا تذکرہ فرمایا۔ اب یہاں عالم سفلی میں اپنی قدرت و حکمت کے دلائل بیان فرمائے (ابن کثیر)۔ دریائوں کے بننے اور بہنے کا سبب پہاڑ ہی ہیں اس لئے دونوں کا ایک ساتھ ذکر فرمادیا۔ (روح)۔ ف 7۔ جیسا کہ نباتات سے متعلق جدید تحقیقات نے ثابت کیا ہے کہ ہر قسم کے درختوں میں نر اور مادہ ہوتے ہیں۔ یوں جوڑ بااعتبار کم و کیف اور طعم و لون بھی مراد ہوسکتا ہے مثلا گرم و سرد، چھوٹا و بڑا سیاہ و سفید کٹھا و میٹھا وغیرہ ذالک۔ (روح)۔ ف 8۔ یعنی ایک دوسرے کی جگہ آتے رہتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ زمان و مکان پر ہر قسم کا تصرف اللہ تعالیٰ کے قبضۃ قدرت میں ہے۔ ف 9۔ موضح میں ہے۔ رنگا رنگ چیزیں بنانا نشان ہے کہ اپنی خوشی سے بنایا۔ اگر ہر چیز خاصیت سیہوتی تو ایک سی ہوتی۔ امام رازی (رح) لکھتے ہیں قرآن میں جہاں عالم فسلی کے دلائل ذکر فرمائے ہیں۔ اس کے آخر میں ان فی ذلک لایات لقوم یتفکرون۔ یا اس کے ہم معنی جملہ لایا گیا ہے جس سے اشارہ ہے کہ ان چیزوں پر غوروفکر سے نتیجہ نکل سکتا ہے کہ یہ ااختلاف طبعی اسباب کے تحت نہیں ہے۔ (کبیر)۔ الرعد
4 ف 10۔ یعنی وہ پانی تاثیر کے اعتبار سے ایک ہی قسم کا ہے۔ ف 11۔ معلوم ہوا کوئی صانع حکیم اور قادر مدبر ہے جس کے تصر سے یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔ قرآن نے ان دلائل کا ذکر مختل مقامات پر کیا ہے۔ (از روح)۔ ف 12۔ یعنی جو عقل سے کام لیتے ہیں اور جو عقل سے کام نہیں لیتے ان کے لئے کوئی نشانی نہیں ہے۔ الرعد
5 ف 13۔ کہ ان کافروں نے اتنی نشانیاں دیکھ لینے کے باوجود آپﷺ کو جھٹلایا۔ (روح)۔ ف 1۔ حالانکہ ہر وہ شخص جو معمولی علم اور معمولی عقل رکھتا ہے باآسانی سمجھ سکتا ہے کہ زمین و آسمان کا پیدا کرنا انسانوں کے پیدا کرنے سے مشکل ہے اور یہ کہ جس خدا نے انسانوں کو پہلی بار پیدا کیا اس کے لئے انہیں دوبارہ پیدا کرنا آسان تر ہے۔ (ابن کثیر)۔ ف 2۔ یعنی جب انہوں نے آخرت سے انکار کیا تو تو یا خدا کی قدرت سے انکار کی اور یہ کہا کہ خدا اتنا عاجز اور درماندہ ہے کہ انہیں دوبارہ پیدا کر ہی نہیں سکتا۔ (العیاذ باللہ)۔ ف 3۔ جیسے قیدیوں اور مجرموں کے گلے میں ڈالے جاتے ہیں۔ الرعد
6 ف 4۔ یعنی استہذا اور تکذیب کے طور پر کہتے ہیں کہ اس تندرستی اور عافیت کی بجائے عذاب اور بلا کیوں نہیں نازل ہوتی۔ مشرکین کے اس قسم کے مطالبے کا قرآن نے متعدد آیات میں ذکر کیا ہے۔ (ابن کثیر)۔ ف 5۔ جن میں انے لئے عبرت کا کافی سامان موجود ہے۔ موضح میں ہے کہ پہلے ہوچکی ہیں کہاوتیں یعنی عذاب ویسے کہ ان کی کہاوتیں چلی ہیں۔ ف 6۔ معلوم ہوا کہ اسلامتی اور امن کی راہ یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ سے مغفرت کی امید بھی رکھے اور اسکے عذاب سے ڈرتا بھی رہے۔ سعید (رض) بن المسیب سے ایک (مرسل) روایت میں ہے کہ جب یہ آیات نازل ہوئی تو آنحضرتﷺ نے فرمایا : اگر اللہ تعالیٰ کا عفو و درگزر نہ ہو تو کسی شخص کی زندگی خوشگوار نہ ہو اور اگر اس کے عذاب کا ڈر نہ ہو تو ہر شخص بے کھٹکے گناہ کرے۔ (روح)۔ الرعد
7 ف 7۔ جسے دیکھ کر ہمیں پتلا چل جاتا کہ یہ واقعی اللہ کے رسول ﷺ ہیں۔ ف 8۔ یسے خلفاء اربعہ (رض) اور سلف (رح) کہ اس امت کے بادی ہو گزرے ہیں۔ مستدرک حاکم میں روایت ہے کہ آنحضرتﷺ نے حضرت علی (رض) کو مخاطب کرکے فرمایا کہ میں منذر ہوں اور تو ہادی ہے۔“ مگر یہ روعایت صحیح نہیں ہے پھر خلافت بلافصل پر اس سے استدلال بھی غلط ہے۔ کما لا یخفی (روح)۔ الرعد
8 ف 9۔ یعنی حمل قرار پانے سے لے کر زمانہ ولادت تک کا خدا کو علم ہے اور یہ علم ” مافی الارھام“ خاص طور پر صفاتِ الیہ میں سے ہے۔ ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا : گیب کی کنجیاں پانچ ہیں جنہیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ یہ کسی کو علم نہیں ہے کہ کل کیا ہونے والا ہے اور رحم (پیٹ) یا کم کرتے ہیں اور کیا زیادہ۔ بارش کب ہوگی۔ انسان کہاں مرے گا اور یہ کہ قیامت کب آئے گی۔ (بخاری)۔ ف 10۔ یعنی وہی جانتا ہے کہ کون سی چیز کیسی اور کتنی ہوگی اس میں کمی بیشی نہیں ہوسکتی۔ الرعد
9 ف 11۔ ہر چیز پر اپنے علم سے احاطہ کئے ہوئے ہے (ابن کثیر)۔ الرعد
10 ف 12۔ یہ سب اس کے علم میں برابر ہیں۔ (ابن کثیر)۔ الرعد
11 ف 13۔ یعنی خدا نے حکم کی بنا پر اس کی حفاظت کرتے ہیں۔ دو فرشتے دائیں بائیں اس کے نیک اور بد اعمال کا ریکارد جو انسان کی حفاظت و نگرانی پر مقرر ہیں۔ ان میں سے ایک اس کے آگے اور ایک اس کے پیچھے رہتا ہے۔ گویا کہ وہ ہر آن چار فرشتوں کے درمیان رہتا ہے۔ دن کے فرشتے اور ہوتے ہیں اور رات کے اور۔ صحیح حدیث میں ہے کہ ان فرشتوں کی باری صبح اور عصر کے وقت تبدیل ہوتی ہے۔ اس حقیقت کے اظہار سے مقصد یہ ہے کہ انسان ہر آن اللہ تعالیٰ کی نگرانی اور حفاظت میں رہتا ہے اور اس کی کوئی حرکت اللہ تعالیٰ سے پوشیدہ نہیں ہے۔ ف 14۔ یعنی جب تک نیکی کی بجائے برائی اور اطاعت کی بجائے نافرمانی نہ کرنے لگیں البتہ جب وہ ایسا کرنے لگیں تو اللہ تعالیٰ ان سے اپنی نعمت چھین لیتا ہے اور ان پر اپنا عذاب نارمل کرتا ہے۔ واضح رہے کہ یہاں قوموں کی تباہی کا قانون بیان کیا گیا ہے افراد کا نہیں۔ کسی قوم کی چھپی یابری حالت کا تعین اس لحاظ سے کیا جائے گا کہ آیا اس میں اچھے لوگوں کا غلبہ ہے یا برے لوگوں کو ؟ رہے افراد تو یہ ضروری نہیں ہے کہ ایک شخص گناہ کرے تبھی اس پر عذاب نازل ہو بلکہ ایک بے گناہ شخص دوسروں کے گناہ کی لپیٹ میں آسکتا ہے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے کہ صحابہ (رض) نے عرض کیا ” اے اللہ کے رسولﷺ! کیا ہم نیک لوگوں کے رہنے کے باوجود ہلاک ہوسکتے ہیں۔ فرمایا :” ہاں جب برائی بہت ہوجائے۔ (از فتح تقدیر)۔ ف 1۔ چاہے وہ کوئی پیر ہو یا بزرگ یا بت یا جن یا فرشتہ۔ الرعد
12 ف 2۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کے ایسے نشان بیان فرمائے ہیں جو بیک وقت امید و ہم کے حامل ہیں جو رحمت کا پیش خیمہ بھی بن سکتے ہیں اور موجبِ زحمت بھی۔ مثلاً جب بجلی چمکتی ہے تو امید بندھتی ہے کہ بارش ہوگی۔ مگر ڈر بھی لگتا ہے کہ کہیں تباہی کا موجب نہ بن جائے۔ بادل دیکھ کر باراِ رحمت کی امید بندھ جاتی ہے مگر ساتھ ہی یہ اندیشہ بھی دامنگیر رہتا ہے کہ کہیں سیلاب نہ آجائے پس انسان کو چاہیے کہ اللہ کی رحمت کا امیدوار رہے اور اس کے عذاب سے بھی ڈرتا ہے۔ الرعد
13 ف 3۔ یعنی اپنی زبانِ حال، یا قال سے اس کی تسبیح پڑھتی ہے جیسا کہ سورۃ اسراء (آیت 44) میں ہے : وان من شئی الا یسبح بحمدہ۔ اور کوئی چیز ایسی نہیں جو حمد سمیت اس کی تسبیح بیان نہ کرتی ہو۔ روایات میں آیا ہے کہ گرج کی آواز سن کر ” یسبح الرعد بحمدہ والملائکۃ من خیفتہ“ پڑھنا چاہیے۔ (ابن کثیر)۔ ف 4۔ یعنی اتنا نشانیاں دیکھنے کے باوجود اللہ کیبارے میں جھگڑتے ہیں۔ کبھی اس کے کمال علم و قدرت اور تفر و بالالوہیت کا انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ دوبارہ زندہ کیسے کرے گا۔ اور کبھی اس کے رسولوں کو جھٹلاتے ہیں اور کبھی اس کے عذاب کے لئے جلدی مچاتے ہیں۔ (روح) ف 5۔ یا اس کی چال بڑی زبردست ہے جس کا توڑ نہیں ہوسکتا۔ الرعد
14 ف 6۔ یعنی اپنی حاجتیں اور مرادیں پوری کرانے کے لئے اسی کو پکارنا برحق ہے۔ کیونکہ وہ ہر ایک کی سنتا اور اسے پورا کرانے کی قدرت رکھتا ہے۔ ف 7۔ جس کا کوئی نتیجہ نہیں۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں : کافر جن کو پکارتے ہیں۔ بعض خیال ہیں اور بعض جن ہیں اور بعض چیزیں ہیں کہ ان میں کچھ خواص ہیں لیکن اپنے خواص کے مالک نہیں پھر کیا حاسل ان کا پکارنا؟ جیسے آگ یا پانی اور شاید ستارے بھی اسی قسم میں ہوں یہ اس کی مثال فرمائی۔ (موضح)۔ الرعد
15 ف 8۔ مومن خوشی سے اور کافر و منافق زور سے یعنی مجبوراً۔ ف 9۔ یعنی ان کے سایوں کو گھٹنا بڑھنا بھی اسی کے ارادہ اور مشیت سے ہے۔ صبح و شامل کا ذکر اس لئے کیا ان وقتوں میں زمین پر ہر چیز کا سایہ زیادہ نمایاں ہوتا ہے اور عبادت کے لحاظ سے یہ دونوں عمدہ وقت ہیں۔ شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں : صبح اور شام کے وقت پر چھائیں زمین پر پسر جاتی ہیں یہی ان کا سجدہ ہے۔ الرعد
16 ف 10 یعنی اگر ایسا ہوتا کہ دنیا میں کچھ چیزیں تو اللہ نے پیدا کی ہوتیں اور کچھ دوسروں نے تب تو ان مشرکوں کے شرک کی کوئی بنیاد ہوسکتی تھی کہ یہ خالق ہونے کی وجہ سے مستحق عبادت ہیں۔ مگر جب یہ خود مانتے ہیں کہ زمین و آسمان کی ہر چیز کا پیدا کرنے والا اللہ اور صرف اللہ ہی تو کوئی وجہ نہیں کہ اس کے ساتھ کسیدوسرے کو شریک قرار دیں۔ (وحیدی)۔ ف 1۔ سب پر غالب ہے کوئی اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ الرعد
17 ف 2۔ یعنی جو نالہ جتنا بڑا تھا اتنا ہی اس میں زیادہ پانی بہا اور جتنا چھوٹا تھا، اتنا ہی اس میں کم پانی بہا۔ ف 3۔ یعنی وہ جھاگ پانی کے اوپرہی ہو نیچے پانی خالص ہر قسم کی آمیزش سے پاک ہو۔ ف 4۔ اور تپانے سے اوپر آجاتا ہے۔ یہ حق و باطل کی دوسری مثال ہے۔ ف 5۔ یعنی دیرپا ہوتا ہے اور لوگ اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ف 6۔ ان دونوں مثالوں میں حق (قرآن) کو پانی سے تشبیہ دی ہے اور نالوں سے مراد انسانوں کے دل ہیں جو اپنے اپنے طرف واستعداد کے مطابق حق سے فیض حاصل کرتے ہیں۔ یا وہ حق زیور ہے جس سے نفوسِ انسانی آراستہ ہوتے ہیں اور لوگ معاش و نفوسِ انسانی آراستہ ہوتے ہیں اور وہ لوگ معاش و معاد میں اس سے انواع و اقسام کے منافع اور فوائد حاصل کرتے ہیں اور باطل کی مثال جھاگ کی ہے جو حق سے کشمکش کے موقع پر وقتی طور پر ابھر کر اوپر آجاتا ہے۔ مگر آخر کار مٹ جاتا ہے۔ حدیث میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے جو علم و ہدایت دے کر مجھے مبعوث کیا ہے اس کی مثال بارش کی ہے جو زمین پر برسے۔ پھر جو زرخیز اور قابل ہوتی ہے اس پر گھاس چار اگ آتا ہے۔ اور اس میں گڑھے ہوتے ہیں جو پانی کا روک لیتے ہیں۔ لوگ گھاس چراتے اور پانی پلاتے ہیں۔ بہرحال وہ مفید ہے لیکن جو زمین چٹیل اور شور ہوتی ہے، اس میں نہ پانی ٹھہرتا ہے اور نہ سبزہ اُگتا ہے۔ پہلی مثال ان لوگوں کی ہے جو علم دین حاصل کرتے ہیں خود بھی مستفید ہوتے ہیں اور ان سے دوسرے لوگ بھی فائدہ اٹھاتے ہیں اور دوسری شور زمین کی مثال ان لوگوں کی ہے۔ جنہوں نے ہدایتِ الٰہی کی طرف نہ آنکھ اٹھائی اور نہ اسے قبول کرنے کی کوشش کی۔ (روح۔ ابن کثیر)۔ الرعد
18 ف 7۔ ای المثوبہ الحسنی مبتد، موخر،۔۔ مجرور خبر مقدم۔ ف 8۔ الموصول مبتدا اوالجملہ الشرطیہ خبرہ۔ مطلب یہ ہے کہ جو لوگ حق سے عناد رکھتے ہیں قیامت کے دن جو ان پر مصیبت آئے گی وہ اس سے رہائی کے لئے اس قدر مال و دولت کی بھی پروانہ کریں گے اور فدیہ میں دینے کو تیار ہوجائیں گے۔ (از روح)۔ ف 9۔ یہ ” الحسنی“ کے مقابلہ میں ہے۔ ای والذین لم یستجیبو الہ لھم سوء الحساب۔ یعنی ان کو کسی قسم کی معافی نہیں دی جائے گی اور ان کے ایک ایک گناہ پر بری طرح محاسبہ ہوگا۔ یہی مناقشہ فی الحساب ہے جس کا حدیث میں ذکر ہے۔ من نوقش الحساب عذب۔ کہ جن کے حساب میں چھان بین کی جائے گی ان کو ضرور عذاب ہوگا۔ الرعد
19 ف 10۔ یعنی ان دونوں کا یکساں ہونا قطعی ناممکن ہے۔ الرعد
20 ف 11۔ یعنی ہر وہ عہد جس کے پورا کرنے کا اللہ نے حکم دیا ہے یا خاص کر وہ عہد جو ازل میں اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں سے لیا تھا کہ وہ اس کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں۔ دیکھئے اعترا آیات 271 (روح)۔ ف 12۔ یعنی وہ ان منافقین کی طرح نہیں ہیں جن میں سے کوئی جب عہد کرتا ہے تو اس کی خلاف ورزی کرتا ہے، جب جھگڑتا ہے تو بدکلامی پر اتر آتا ہے اور جب بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے اور جب سے کوئی امانت سونپی جاتی ہے تو خیانت کرتا ہے۔ الرعد
21 ف 13۔ یعنی صلہ رحمی کرتے ہیں یا اللہ، رسولﷺ، عام مسلمانوں، ہمسایوں، رشتہ داروں، دوستوں، یتیموں، بیوائوں، الغرص ہر ایک کا حق پہنچانتے اور ادا کرتے ہیں۔ (وحیدی تبصرف) ف 14۔ اس کے عائدہ کردہ فرائض کو بجالاتے اور اس کے منع کردہ گناہوں سے بچتے ہیں۔ (وحیدی)۔ ف 1۔ لہٰذا وہ اس وقت سے پہلے ہی اپنا محاسبہ کرتے رہتے ہیں۔ الرعد
22 ف 2۔ یعنی ریاکاری یا شہرت کے لئے نہیں بلکہ محض رضائے الٰہی کی طلب کے لئے۔ ” صبر کیا“۔ اور نیک اعمال پر ثابت قدمی دکھائی۔ ف 3۔ اگر ریاکاری کا اندیشہ نہ ہو تو پوشیدہ طور پر صدقہ دینا افضل ہے اور حدیث میں ” سرا“ صدقہ دینے والے کو ان لوگوں میں شمار کیا گیا ہے جن کو قیامت کے دن عرش کے سایہ میں جگہ ملے گی۔ (روح)۔ ف 4۔ یعنی کوئی ان پر کتنا ہی ظلم کرے وہ اس کے جواب میں عدل و انصاف ہی کرتے ہیں۔ حدیث میں ہے : تم اپنے عمل کو لوگوں کے تابع نہ بنائو اور یوں نہ کہو : اگر وہ ہم سے بھلائی کریں گے تو ہم بھی بھلائی کریں گے اور اگر وہ ہم پر ظلم کریں گے تو ہم بھی ظلم کریں گے بلکہ اس طریقہ پر کاربند ہوجائو کہ اگر لوگ بھلائی کریں، تب تو تم بھلائی کرو اور اگر وہ برائی کریں تب بھی تم ظلم و زیادتی نہ کرو یا اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ نیک عمل کرکے برے عمل کو مٹادیتے ہیں جیسے فرمایا : ان الحسنات یذھبن السیات۔ کہ بیشک نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں۔ حدیث میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا : اذ عملت سیئۃ اعمل بعجبھا حسنہ لمعھا السر بالسرا والعلابۃ بالعلانیۃ۔ جب تم کوئی برا کام کرو تو اس کے بعد نیک کام کرو وہ اسے مٹا دے گا، پوشیدہ گناہ کو پوشیدہ نیکی سے اور ظاہری گناہ کو ظاہری نیکی سے مٹائو۔ (معالم، روح)۔ الرعد
23 ف 5۔ بدل کل من عقبہ الدار یہ ترجمہ اس لحاظ سے ہے کہ ” عدن“ کے معنی رہنے کے ہیں۔ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ عدن جنت میں ایک مقام کا آنا ہے۔ اس تفسیر کے مطابق ” جنات عدن“ کا ترجمہ ” عدن کے باغ“ ہوگا۔ اس صورت میں یہ عقبی الدار سے بدل البعض ہوگا۔ (از روح)۔ ف 6۔ وہ بھی ان کے ساتھ جنت میں داخل ہوں گے نیک ہونا بہرحال شرط ہے صرف رشتہ داری کا تعلق کافی نہیں۔ الرعد
24 ف 7۔ یعنی ہر مصیبت، رنج و غم اور پریشانی سے محفوظ ہوگئے۔ الرعد
25 الرعد
26 ف 8۔ یعنی دنیا میں رزق کی فراوانی یا تنگی کوئی معیار نہیں ہے جس کے لحاط سے کسی شخص کے اللہ تعالیٰ کے ہاں پسندیدہ یا غیر پسندیدہ ہونے کا فیصلہ کیا جائے۔ بسا اوقات وہ کافر کو خوب سامان عیش دیتا ہے اور مومن پر تنگدستی وارد کرتا ہے تاکہ دونوں کی آزمائش کی جائے۔ مومن اپنے صبر وشکر کی وجہ سے آخرت میں بلند درجات پاتا ہے اور کافر ناکام رہتا ہے۔ اس لئے آخرت میں اس کا ٹھکانا برا ہوتا ہے لہٰذا گمراہ لوگوں کی ان بداعمالیوں کے باوجود ان کے عیش و عشرت سے کسی کو دھوکا نہیں ہونا چاہیے بلکہ یہ محض مہلت ہے جو کافر کو دنیا میں دی جاتی ہے۔ (روح)۔ ف 9۔ یا ایک تھوڑی دیر کا سامان۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ نبی ﷺ ایک چٹائی پر آرام فرما رہے تھے جب اٹھے تو آپو کے پہلوئوں پر چٹائی کا نشان تھا ہم نے عرض کیا : کہا ہم آپﷺ کے لئے ایک نم بستر بنا دیں؟ فرمایا کیا کرنا ہے میں تو دنیا میں ایک راہ چلتے مسافر کی طرح ہوں جس نے ایک درخت کے نیچے تھوڑی دیر کے لئے آرام کیا اور پھر آگے چل دیا۔ (ترمذی) الرعد
27 ف 10۔ جسے دیکھ کر اسے ہم خدا کا رسول مان لینے پر مجبور ہوجاتے مثلاً یہ کہ مکہ کے پہاڑ سونے کے ہوجاتے یا کوئی فرشتہ سامنے آجاتا۔ ف 11۔ یعنی نشانی کے اُترنے سے کچھ نہیں ہوتا کیونکہ تمہارے اب تک ایمان نہ لانے کی یہ وجہ نہیں ہے کہ تم نے کوئی نشانی نہیں دیکھی۔ نشانیاں تو بے حد و حساب موجود ہیں مگر اصل بات یہ ہے کہ تم راہ حق کی جستجو نہیں رکھتے اگر تمہاری خواہش اور جستجو ہوتی تو صرف قرآن کی نشانی کو دیکھ کر راہ حق کو پالیتے کیونکہ یہ کتاب واضح دلائل سے لبریز ہے۔ (از ابن کثیر۔ روح)۔ الرعد
28 ف 1۔ یہ ایمان کے خالص اور پختہ ہونے کی علامت ہے کہ ذہن خواہ کتنی ہی فکروں میں اُلجھا ہوا ہو لیکن جو نہی نماز شروع کرے یا اللہ کو یاد کرے تو تمام …ہوجائیں اور انسان حقیقی اطمینان قلب سے بہرہ ور ہوجائے۔ الرعد
29 ف 2۔ خوشی یا مبارک باد ” طوبیٰ“ کے لفظی معنی ہیں۔ بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ” طوبیٰ“ جنت کے ایک درخت کا نام بھی ہے۔ (ابن کثیر) الرعد
30 ف 3۔ یعنی اللہ نے اپنی رحمت سے ان لوگوں پر کرم فرمایا کہ آپ ﷺ کو ان کی طرف رسول ﷺ بنا کر بھیجا مگر ان کی ناشکری کا حال یہ ہے کہ اس کا حق پہچاننے سے منکر ہوگئے ہیں۔ کفار مکہ اللہ کے خالق ہونے کا تو اقرار کرتے تھے مگر اس کے ” رحمان“ ہونے کے منکر تھے بلکہ جب اللہ تعالیٰ کے ” رحمن“ ہونے اور اسے اس نام سے پکارنے کی دعوت دی جاتی تو اس سے چڑتے اور کہتے۔۔۔ رحمن کیا چیر ہے ؟ اور اس سے ان کی نفرت بڑھ جاتی۔۔۔ یہ حدیبیہ کے صلح نامہ پر جب نبی ﷺ نے۔۔۔ لکھوانا چاہا تو وہ کہنے لگے کہ ہم نہیں جانتے کہ یہ رحمن ورحیم کیا ہیں؟ بروایت بکاری۔ (ابن کثیر)۔۔۔” الرحمن“ اسما حسنیٰ میں سے ہے۔ حدیث میں ہے اللہ کے نزدیک سب سے پیارے نام ” عبداللہ“ اور ” عبدالرحمن“ ہیں۔ (مسلم) الرعد
31 ف 4۔ تب بھی یہ لوگ ایمان نہ لاتے۔ اتنی عبارت مخدوف ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ کفار مکہ نے نبی ﷺ سے کہا اے محمد ﷺ اگر آپ ﷺ اپنے دعوائے نبوت میں سچے ہیں تو ہمارے اسلاف کو زندہ کرکے ہمارے سامنے لاکھڑا کریں تاکہ ہم ان سے بات چیت کریں اور مکہ کے ان پہاڑوں کو جنہوں نے ہمیں بھینچ رکھا ہے ذرا سرکادیں تاکہ جگہ کھل جائے۔ بعض مسلمانوں کے دلوں میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ ان کا مطالبہ پورا ہوجائے۔ شاید ایمان لے آئیں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ اگر کسی قرآن سے یہ کام ہوئے ہوتے تو اس قرآن سے پہلے ہوجاتے۔ اس سے مقصد قرآن کی عظمت کو ظاہر کرنا ہے۔ (ابن کثیر۔ روح) ف 5۔ یعنی جن نشانیوں کا یہ لوگ مطالبہ کررہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے دکھانے پر قادر ہے کیونکہ اسے ہر چیز کا اختیا رہے مگر اس موقع پر ان نشانیوں کا دکھاتا بے سوہ ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ یہ لوگ اتنے سرکش اور ضدی ہیں کہ یہ نشانیاں دیکھ کر بھی ایمان نہیں لائیں گے۔ ف 6۔ یا کیا ابھی تک مسلمان ان کے ایمان لانے سے مایوس نہیں ہوئے حالانکہ وہ جانتے ہیں۔ ف 7۔ یعنی ہدایت تو مشئیت الٰہی پر موقوف ہے جو ان نشانات کے دکھائے بغیر بھی ہوسکتی ہے۔ (۔۔۔) ف 8۔ یعنی یہ کفار مکہ نشانیوں کو دیکھ کر مان لینے والے نہیں ہیں۔ یہ مانیں گے تو اس طرح کہ ان کے کرتوتوں کی سزا میں آئے دن کوئی نہ کوئی آفت ان پر نازل ہوتی رہے جیسے قتل، قید، قحط یا بیماری وغیرہ۔ چنانچہ شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں : لیکن کافر مسلمان یوں ہوں گے کہ ان پر آفت پڑتی رہے گی ان پر پڑے یا ہمسایہ پر۔ جب تک سارے عرب ایمان میں آجائیں۔ یہی وہ آفت تھی جہاد مسلمانوں کے ہاتھ۔ (موضع) ف 9۔ یعنی وہ آفت ان کے آس پاس والوں پر اترے گی اور وہ ان کا حال دیکھ کر عبرت حاصل کریں۔ ف 10۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ پورا ہوا۔ قریش میں سے بعض لوگ مارے گئے بعض قید ہوئے یہاں تک کہ اللہ کا وعدہ پورا ہوا یعنی مکہ فتح ہوا۔ الرعد
32 ف 11۔ اس سے مقصود نبی ﷺ کو تسلی دینا ہے کہ آپ ﷺ ان کافروں کو بولیوں ٹھٹھوں سے بددل نہ ہوں۔ الرعد
33 ف 1۔ کیا وہ تمہارے جھوٹے معبودوں کی طرح ہے جو کسی کو نفع پہنچا سکتے ہیں نہ نقصان؟ اتنی عبارت محذوف ہے۔ ف 2۔ حالانکہ سے زمین کے چپے چپے کی خبریہ۔ تو اگر ان شرکاء کا کہیں وجود ہوتا تو وہ انہیں ضرورجانتا۔ اس تفسیر کی رو سے یعلم میں ھو کی ضمیر اللہ تعالیٰ کے لئے ہوگی۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ” لایعلم“ میں ضمیر ” ما“ کے لئے ہو اور مطلب یہ ہو کہ کیا اللہ تعالیٰ کو ان بے جان بتوں کے معبود ہونے کی خبر دیتے ہو جن کو ذرہ بھر بھی علم نہیں ہے۔ صاحب روح للمعانی لکھتے ہیں ” اس سے مقصود تو زمین و آسمان میں اللہ کے سوا دوسرے معبودوں کی نفی کرنا ہے لہٰذا ” فی الارض“ کی قید محض اس لئے لگائی ہے کہ کفار اپنے بتوں کے ” اللھم الارض“ کی قید محض اس لئے لگائی ہے کہ کفار اپنے بتوں کے ” الھۃ الارض“ ہونے کا دعویٰ کرتے تھے۔ (ازروح۔ ابن کثیر)۔ ف 3۔ جس کی کوئی حقیقت نہیں۔ مراد ہے ان کا اپنے معبودوں کو اللہ تعالیٰ کا شریک قرار دینا۔ ف 4۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کی قسمت میں ہدایت نہیں لکھی۔ الرعد
34 ف 5۔ یعنی عنقریب قتل، قید اور ذلیل ہوں گے۔ الرعد
35 الرعد
36 ف 6۔ کیونکہ اس کے متعلق ان کی کتابوں میں شواہد اور بشارتیں موجود ہیں۔ (روح)۔ ف 7۔ یعنی اس سے ناراض اور سیخ پا ہوتے ہیں۔ ان سے مراد وہ باتیں ہیں جو قرآن نے ان کی خود ساخت شریعت اور اہوا و اغراض کے خلاف بیان کی ہیں۔ ف 8۔ تو جو شخص نہیں مانتا وہ گویا اللہ تعالیٰ اور اس کی عبادت سے انکار کرتا ہے۔ (وحیدی)۔ الرعد
37 ف 9۔ یعنی جس طرح ہم نے پہلی کتابیں ہر امت پر اس کی اپنی زبان میں اتاریں، اسی طرح… ف 10۔ کیونکہ آپﷺ کی بعثت کو تمام جن و انس کے لئے ہے لیکن اس کے اولین مخاطب وہ لوگ ہیں جن کی زبان عربی ہے۔ ف 11۔ یہ خطاب بظاہر آنحضرتﷺ سے ہے لیکن مراد ہر وہ شخص ہے جو اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کا طالب اور اس کے غصہ سے ڈرنے والا ہو اور اس میں وعید ہے ان علما کے لئے جو جانتے بوجھتے سنت کی راہ چھوڑ کر بدعت و ضلالت کی راہ اختیار کرتے ہیں۔ (ابن کثیر)۔ الرعد
38 ف 12۔ آنحضرت ﷺ کی نبوت پر مشرکین یہ بھی اعتراض کرتے کہ یہ عجیب پیغمبر ہیں کہ دوسرے انسانوں کی طرح عورتوں سے نکاح کرتے ہیں حالانکہ پیغمبر کو ان باتوں سے کیا واسطہ بعض روایات میں ہے کہ یہود نے آنحضرت ﷺ کے کثرت ازواج پر اعتراض کیا۔ ّ(لیس ھمہ الا النساء)۔ اس آیت میں اسی اعتراض کا جواب ہے کہ نبوت عورتوں سے نکاح کے منافی نہیں ہے۔ آپﷺ سے قبل اللہ کے جتنے پیغمبر ہو گزرے ہیں سب بشر ہی تھے اور ان میں اکثریت پیغمبروں کے ہے جو بیوی بچے رکھتے تھے لہٰذا اعتراض سرے سے لغو ہے۔ حدیث میں ہے؟ نکاح کرنا بھی سنن انبیاء میں سے ہے۔“ نیز فرمایا کہ جو میری اس سنت سے اعراض برتے لگا اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔ (روح۔ ابن کثیر)۔ ف 1۔ مخالفین کا ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ اگر یہ (محمد ﷺ) واقعی اللہ کے سچے پیغمبر ہیں توہ ہماری طلب کے مطابق معجزے اور نشانیاں کیوں نہیں لاتے۔ ان کے جواب میں فرمایا کہ پہلے پیغمبر جتنے معجزے لائے ہیں وہ سب اللہ تعالیٰ کی مشیت اور حکم سے لائے ہیں۔ اب اگر اللہ کا حکم ہوگا تو وہ اپنے پیغمبر سے بھی معجزے کا صدور کرادیگا ورنہ پیغمبر ہیں از خود یہ ہمت کہاں ہے کہ اپنی مرضی سے جو معجزہ چاہے ظاہر کردے۔ یہی حال اولیا کی کرامتوں کا ہے۔ کہ وہ اپنی مرضی سے کرامت دکھلانے پر قادر نہیں ہوتے۔ (وحیدی) یہاں آیت سے مراد قرآن کی آیت بھی ہوسکتی ہے جس میں ان کی مرضی کے مطابق کوئی حکم نازل ہوجائے۔ (ابن کثیر)۔ ف 2۔ اسی طرح ہر زمانہ کے لئے معین احکام ہوتے ہیں جو مرورِ زمانہ کے ساتھ تقاضائے حکمت کے مطابق بدلتے رہتے ہیں۔ اس میں ان کے نسخے اعتراض کا جواب ہے۔ الرعد
39 ف 3۔ پس اپنی حکمت یہ مطابق جن احکام کو چاہتا ہے منسوخ قرار دیدتا ہے اور جن کو چاہتا ہے باقی رکھتا ہے۔ (روح)۔ ف 4۔ یا اس سے مراد اللہ تعالیٰ کا علم ازلی ہے جس میں کسی قسم کا ردو بدل نہیں ہوتا۔ نیز جملہ احادیث و آثار کو سامنے رکھ کر علما نے لکھا ہے کہ قضائے مبرم میں تغیر و تبدیل نہیں ہوتا جو ” جف القالم بما ھو کائن“ سے عبارت ہے۔ ہاں تبدیلی جو کچھ ہوتی ہے اور محواثبات (جن میں نسخ احکام بھی داخل ہے) جو کچھ ہوتا ہے وہ تقدیر معلوم میں ہوتا ہے۔ چنانچہ شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں۔ دنیا میں ہر چیز اسباب سے ہے بعض اسباب ظاہر ہیں اور بعض چھپے ہیں۔ اسباب کی تاثیر کا ایک اندازہ مقرر ہے۔ جب اللہ چاہیے، ان کی تاثیر انداز سے کم زیادہ کردے اور جب چاہے ویسی ہی رکھے۔ آدمی کبھی کنکر سے مرتا ہے اور گولی سے بچتا ہے۔ اور ایک اندازہ ہر چیز کا اللہ کے علم میں ہے وہ ہرگز نہیں بدلتا۔ اندازے کو تقدیر کہتے ہیں۔ یہ دو تقدیریں ہوئیں، ایک بدلتی ہے (یعنی علم الٰہی) کذافی الموضح وللمتفصیل مقام آخر۔ (دیکھئے رازی)۔ الرعد
40 ف 5۔ یعنی ان کے اعمال پر محاسبہ اور مواخذہ ہمارے ذمہ ہے۔ اس میں اشارہ ہے کہ کچھ وعدے وعید تو آپﷺ کی زندگی میں پورے ہوں گے اور کچھ آپﷺ کی وفات کے بعد۔ لہٰذا آپﷺ کو اس کے لئے جلدی نہیں کرنی چاہیے اور ان کو چاہے کہ بے فکر اور غافل نہ ہوں۔ (از رازی)۔ الرعد
41 ف 6۔ یہ خوشخبری ہے کہ نصرتِ الٰہی کا نزول شروع ہوچکا ہے۔ اطرافِ عرب میں تدریجاً اسلام کا دائرہ وسیع ہو رہا ہے اور کفر و شرک سمٹ رہا ہے۔ تعجب ہے کہ بایں ہمہ یہ لوگ عبرت حاصل نہیں کرتے۔ (از روح)۔ الرعد
42 ف 7۔ ان کو ستانے کی بہت تدبیریں کیں، یہ کوئی نئی بات آپ ﷺ ہی کو پیش نہیں آرہی ہے (روح)۔ ف 8۔ دنیا میں، یا آخرت میں یا دونوں میں۔ الرعد
43 ف 9۔ یعنی یہود و نصاریٰ کے علما جیسے حضرت عبد اللہ بن سلام، سلمان فارسی (رض) اور تمہیم داری (رض) اور ان میں سے دوسرے ایمان لانے والے اہل کتاب کے علما کی طرف رجوع کا حکم اس لئے دیا کہ مشرکین آنحضرتﷺ کے معاملے میں عموماً انہی کی طرف رجوع کرتے تھے اور ان کے علما آنحضرتﷺ کی نعت اور آپ کے متعلق بشارتوں سے آپﷺ کی صداقت کو خوب سمجھتے تھے جیسے فرمایا : یعرفونہ کما یعرفون ابناھ ھم (ابن کثیر)۔ الرعد
0 ف 10۔ یہ پوری سورت مکی ہے البتہ بعض مفسرین (رح) نے اس کی دو یا تین آیتوں۔ الم ترالی الذین…تا…فان مصیرکم الی النار کو مدنی بنایا ہے جو بدر میں مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہونے والے مشرکین کے بارے میں نازل ہوئیں۔ پہلی سورت کے ساتھ اس لحاظ سے مناسبت ظاہر ہے کہ وہ قرآن کی مدح پر مشتمل ہے کہ یہ قرآن ان کے تمام مطالبوں کے جواب کے لئے کافی ہے اور اس سورۃ کو بھی قرآن کی مدح سے شروع کیا گیا ہے۔ (روح)۔ ابراھیم
1 ف 1۔ یعنی اسلام اور اس کی شریعت پر۔ ” باذن ربھم“ میں اس طرف اشارہ ہے کہ کوئی مبلغ، چاہے وہ نبی ﷺ ہی کیوں نہ ہو، لوگوں کو اگر اسلام کی راہ راست کی طرف لاسکتا ہے تو اللہ ہی کی دی ہوئی توفیق سے لاسکتا ہے۔ ابراھیم
2 ف 2۔ یعنی قیامت کے روز جہنم کے عذاب سے ان کی شامت آنے والی ہے۔ ابراھیم
3 ف 3۔ یعنی اللہ کی راہ جو بالکل سیدھی اور بے عیب ہے۔ کافر اس میں عیب نکالنے کی کوشش کرتے ہیں اور اسے ٹیڑھی بتاتے ہیں تاکہ لوگوں کو اس کے اختیار کرنے سے باز رکھ سکیں۔ (از ابن کثیر)۔ ابراھیم
4 ف 4۔ اور وہ چھی طرح سمجھ سکیں اور ان پر حجت قائم ہوسکے۔ آنحضرتﷺ سے قبل جتنے پیغمبر بھیجئے گئے وہ ایک ایک قوم کی طرف بھیجئے گئے اور ہر قوم کی طرف اسی قوم کا ایک فرد بھیجا گئے اور ہر قوم کی طرف اسی قوم کا ایک فرد بھیجا گیا جو اسی کی زبان بولتا تھا۔ آنحضرتﷺ کی بعثت گو عام تھی اور قیامت تک کے تمام انسانوں بلکہ تما جن و انس کے لئے تھی لیکن چونکہ آپﷺ کی قوم جس میں آپﷺ پیدا ہوئے اور جو آپﷺ کی اولین مخاطب تھی عربی زبان بولتی تھی اس لئے طبعی ترتیب کے مطابق آپﷺ نے اللہ کا پیغام سب سے پہلے عربی زبان میں ان کو پہنچایا۔ مقصد یہ تھا کہ پہلے یہ قوم اس پیغام کو سمجھے اور پھر اسے دوسروں تک پہنچائے اور سمجھانے کا ذریعہ بنے۔ اگر قرآن تمام زبانوں میں نازل کیا جاتا تو تنازع اور اختلاف اور تحریف احکام کے دروازے کھل جاتے اور اسلامی دعوت کے لئے کسی مقام پر بھی مرکزیت قائم نہ ہوسکتی۔ (از روح)۔ ف 5۔ یعنی گوہر پیغمبر اپنی دعوت اسی زبان میں پیش کرتا ہے جسے ساری قوم سمجھتی ہے تاہم ہدایت و ضلالت کا معاملہ اللہ کے ہاتھ میں ہے اللہ تعالیٰ ہی جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے گمراہی میں پڑا رہنے دیتا ہے۔ آج بھی بہت سی عجمی قومیں اسلام کی حامی اور مددگار نظر آتی ہیں اور عرب ممالک باوجود عربی زبان کی خدمت و اشاعت کے اسلام سے منحرف اور دور ہو رہے ہیں۔ ابراھیم
5 ف 6۔ وہ نو معجزات مراد ہیں جو موسیٰ ( علیہ السلام) سے ظاہر ہوئے یعنی طوفان، ٹڈیاں، جوئیں، مینڈک، خون ی عصا، یدِ بیضا، قحط اور پیداوار کی کمی یا ان سے آیات توراۃ مراد ہیں۔ دیکھئے اعراف آیت 331۔ (روح)۔ ف 7۔ یا اللہ کی قدرت کے وہ واقعات جو تاریخ میں گزر چکے ہیں۔ ” ایام“ کا لفط عموماً انہی معنوں میں استعمال ہوتا ہے لیکن ترجمہ میں دئیے ہوئے معنی یہاں انسب ہیں۔ (روح)۔ ف 8۔ یعنی اس تذکیر میں یا ان واقعات میں۔ (روح)۔ ف 9۔ کیونکہ وہی ان نشانیوں سے صحیح طور پر عبرت حاصل کرسکتے ہیں۔ بے صبرے اور ناشکرے لوگ کسی نشانی سے کوئی عبرت حاصل نہیں کرتے۔ (قرطبی)۔ ابراھیم
6 ف 10۔ کہ تم کو غلامی کی ذلت سے نکالا اور آزادی کی نعمت سے مالا مال کیا۔ یا ” اس میں تمہارے مالک کی طرف سے تمہاری سخت آزمائش تھی۔“ کہ ایسی مصیبت پر صبر کرتے ہو یا نہیں۔ لفظ ” بلاء“ کے اس موقع پر ” احسان“ اور آزمائش دونوں معنی ہوسکتے ہیں۔ (روح)۔ ابراھیم
7 ابراھیم
8 ف 1۔ یعنی ناشکری کا نقصان خود تمہی کو پہنچے گا۔ اللہ تعالیٰ کا کچھ نہیں بگڑے گا۔ اسے نہ تمہارے شکر کی ضرورت اور نہ تمہاری ناشکری کی پروا۔ وہ بہرحال ستودہ صفات ہے چاہے کوئی اس کی تعریف کرے یا نہ کرے۔ ایک حدیث قد میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اگر تمہارے اگلے پچھلے اور جن و انس سب کے سب ایک اعلیٰ درجہ کے متقی شخص کے نمونہ پر ہوجائیں تو اس میری بادشاہی میں کسی چیز کا اضافہ نہیں ہوگا۔ اور اے میرے بندو ! اگر تمہارے اگلے پچھلے اور جن و انس سب کے سب ایک بدترین انسان جیسے ہوجائیں تو اس سے میری بادشاہی میں ذرہ بھر کمی نہیں ہوگی۔ اسے میرے بندو ! اگر تمہارے اگلے پچھلے اور جن و انس سب کے سب ایک میدان میں جمع ہوجائیں اور پھر مجھ سے (جو جی چاہے) مانگیں اور میں ہر شخص کو اس کی مانگی ہوگئی چیز دے دوں تو اس سے میری بادشاہی میں ہرگز کمی نہیں آئے گی مگر اتنی جتنی ایک سوئی کو سمندر میں ڈبو کر نکال لینے سے اس کے پانی میں آتی ہے۔ (صحیح مسلم)۔ ابراھیم
9 ف 2۔ وہی ان کی تعداد اور تمام حالات سے واقف ہے اور ان کے نسب کو بھی صحیح طور پر اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ (قرطبی)۔ ف 3۔ یعنی غصے کے مارے اپنے ہاتھ کاتنے لگے جیسا کہ دوسری آیت میں ہے : عضوا علیکم ولا نابل من الغیظ۔ (آل عمران)۔ یا ہنسی اور تعجب کے مارے منہ پر ہاتھ رکھ تھے۔ یا ہاتھ منہ کی طرف لے جا کر اشارہ کیا کہ بس چپ رہو۔ مگر پہلے اسناد اور محاورہ کے اعتبار سے زیادہ صحیح ہیں۔ (از قرطبی)۔ ابراھیم
10 ف 4۔ کہ وہ موجود بھی ہے یا نہیں اور اگر موجود ہے تو آیا تنہا ہے یا کئی ایک ہیں؟ یا کیا اللہ تعالیٰ کی قدرت میں کوئی شک و شبہ ہے۔ بہر صورت یہاں استفہام انکار ہی ہے۔ (قرطبی)۔ ف 5۔ یعنی دنیا میں موت کے وقت تک تمہیں عذاب سے محفوط رکھے۔ (قرطبی)۔ ف 6۔ یعنی ظاہری ہیت وصورت کھانے پینے اور دیگر لوازمات بشریہ کے اعتبار سے تو ہم یہ کیسے مان لیں کہ خدا تم سے ہم کلام ہوتا ہے اور اس کے فرشتے تمہارے پاس اس کا پیغام لے کر آتے ہیں۔ (وحیدی)۔ ابراھیم
11 ف 7۔ یعنی سند دیکھے سے ایمان نہیں آتا اللہ کے دئیے سے آتا ہے۔ (موضح)۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ نبوت سراسر وہبی (اللہ کی دین) ہے کسی آدمی کی ریاضت اور محنت سے حاصل نہیں ہوسکتی جیسا کہ بعض فلاسفہ اور ان سے متاثر لوگوں کا خیال ہے، یا ” احسان کرنے“ کے یہ معنی ہیں کہ وہ تلاوتِ قرآں اور اس کے فہم کے جسے چاہے تو فیق دیتا ہے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر ساعت اپنے بندوں پر احسان کرتا رہتا ہے۔ اور سب سے بڑا احسان اس کا یہ ہے کہ بندے کے دل میں اپنا ذکر الہام کردے۔ (قرطبی)۔ ابراھیم
12 ف 1۔ یعنی اگر تم ہم سے دشمنی کرنے پر تلے ہوئے ہو تو ہمارا بھروسا اللہ تعالیٰ پر ہے۔ تمہارے مقابلے میں وہی ہماری حفاظت فرمائے گا۔ ابراھیم
13 ف 2۔ ان کا یہ کہنا ان کے اپنے زعم کے مطابق ہے ورنہ یہ مطلب نہیں کہا انبیاء علیہم السلام منصب نبوت پر سرفراز ہونے سے پہلے اپنی گمراہ قوم کے دین کی پیروی کرتے تھے۔ بلکہ انہوں نے نبوت سے قبل انبیاء کے ان کے بتوں کی تردید سے خاموش رہنے کی بنا پر بطور خود یہ سمجھ لیا تھا۔ یا اس کے معنی یہ ہیں کہ ہمارے دین میں داخل ہوجائو۔ (دیکھئے اعراف آیات 88)۔ یا خطاب ان لوگوں سے ہے جو پیغمبروں پر ایمان لائے۔ (رازی)۔ ابراھیم
14 ابراھیم
15 ف 3۔ یا فیصلہ چاہا ” استفتحوا“ کے یہ دونوں معنی ہوسکتے ہیں اور قراان کی مختلف آیات میں ان معنوں میں یہ استعمال ہوا ہے۔ مدد مانگنے کے معنی میں ہو تو اس سے مراد پیغمبرﷺ ہیں اور فیصلہ چاہنے کے معنی ہیں ہو تو اس سے مراد کفار ہوں گے۔ (رازی)۔ ف 4۔ یعنی پیغمبروں کا اللہ تعالیٰ کو پکارنا تھا کہ مدد آئی اور ان کے تمام دشمن تباہ و برباد ہوگئے۔ نہ وہ رہے اور نہ ان کا گھمنڈ۔ یہ تو ان کا دنیا میں حشر ہوا۔ (قرطبی)۔ ابراھیم
16 ف 5۔ یا اس کے بعد یعنی اس کے ہلاک ہونے کے بعد جہنم ہے۔ (قرطبی)۔ ابراھیم
17 ف 6۔ یعنی اسے آرام و سکون سے نہیں پئے گا جیسے پانی یا شربت پیا جاتا ہے بلکہ زبردستی حلق سے اتارنے کی کوشش کرے گا کیونکہ وہ انتہائی کڑوا اور بدمزہ ہوگا۔ حضرت ابوامامہ (رض) سے روایت ہے کہ اس آیت کے بارے میں آنحضرتﷺ نے فرمایا : وہ (پیپ کا پانی) اس کے قریب کیا جائے گا تو وہ اس سے ناک بھوں چڑھائے گا جب وہ اس کے قریب دے گا اور جب وہ اسے پئے گا تو اس کی آنتیں کٹ کر پیچھے سے نکل پڑیں گی۔ (ترمذی۔ نسائی)۔ ف 7۔ یا ہر عضو سے موت کا سماں محسوس ہوگا۔ (ابن کثیر)۔ ف 8۔ کیونکہ وہاں موت ہوگی ہی نہیں، جو اگر آجائے تو راحت مل جائے۔ (وحیدی)۔ ف 9۔ یعنی ایک عذاب ختم نہ ہوگا کہ اس سے بھی سخت دوسرا عذاب پہلے سے تیار ہوگا۔ (کذافی القرطبی)۔ ابراھیم
18 ف 10۔ تو جس طرح اس راکھ کو کوئی ذرہ ہاتھ میں آنا مشکل ہے اسی طرح کافروں کے نیک اعمال۔ خیرات وغیرہ۔ بیکا رہیں۔ ف 11۔ کیونکہ نہ ان کا خدا پر ایمان تھا اور نہ انہوں نے اپنے اعمال سے آخرت چاہی تھی۔ ابراھیم
19 ف 1۔ یعنی اس صحیح اندازے کے مطابق جس کے مطابق اسے ہونا چاہیے تھا اور جو اپنے خالق کی کمال قدرت پر دلالت کرتا ہے۔ (شوکانی)۔ ابراھیم
20 ف 2۔ اس کے لئے کوئی چیز شکل نہیں ہے۔ وہ چاہے تو ایسے کروڑوں عالم دم بھر میں مٹا کر نئے پیدا کردے۔ (وحیدی)۔ ابراھیم
21 ف 3۔ تمہارے کہنے پر چلتے تھے اور اس وجہ سے ہم نے انبیاء ( علیہ السلام) کی تکذیب کی اور اللہ سے کفرکیا۔ ف 4۔ ہم تو خود گمراہ رہے تمہیں سیدھی راہ کیسے لگاتے۔ ابراھیم
22 ف 5۔ حضرت کعب بن مالک سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا، دوزخی پہلے رونے پیٹنے کی صلاح کریں گے چنانچہ وہ پانچ سو برس تک خوب روئیں پیٹیں گے لیکن جب دیکھیں گے کہ کوئی فائدہ نہیں ہوا تو صبر کرنے کی صلاح کریں گے چنانچہ پانچ سو برس تک صبر کئے رہیں گے۔ پھر جب دیکھیں گے کہ اس سے بھئی کوئی فائدہ نہیں ہوا تو کہیں گے۔ سواء علینا اجر عنا اور صبرنا مالنا من محیص۔ (قرطبی)۔ ف 6۔ ان لوگوں کو جو اسے الزام دیں گے کہ تو ہی نے ہمیں آف میں پھنسایا۔ حسن (رح) سے مروی ہے کہ ابلیس قیامت کے دن جہنم میں آگے کے منبر پر کھڑا ہو کر یہ اعلان کرے گا اور تمام مخلوقات سن رہی ہوگی۔ (قرطبی)۔ ف 7۔ یعنی دوزخی دوزخ میں اور جتنی جنت میں جا چکے ہوں گے۔ (دیکھئے سورۃ مریم آیت 92)۔ ف 8۔ کہ آخرت آئے گی اور اس میں حساب کتاب ہوگا اور پھر نیک لوگوں کو نیک اور برے لوگوں کو برا بدلے ملے گا۔ (قرطبی)۔ ف 9۔ کہ آخرت و اُخرت کوئی چیز نہیں ہے اور نہ کوئی حساب و جزا ہے بس یہی دنیا کی زندگی ہے، چند روز زندہ رہ کر فنا ہوجانا ہے اس لئے جتنا عیش کرنا ہے یہیں جی بھر کے کرلو۔ (وحیدی)۔ ف 10۔ یعنی وہ تو محض فریب کاری تھی جس کے پورا ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ایک روایت میں ہے کہ ابلیس (رض) بلند آواز سے یہ پکارے گا اور اس کی مجلس عفونت سے لبریز ہوگی (قرطبی)۔ ف 11۔ کہ میں نے تمہیں زبردستی کفر وشرک کے راستے پر لگا دیا ہو۔ ف 12۔ کہ بلا دلیل ہی میرے پیچھے چلتے رہے۔ ایسے لوگوں کو بھی غور کرنا چاہیے جن کا طرز عمل یہ ہے کہ وہ کتاب و سنت کی دلیل ہوتے ہوئے اس کے خلاف دوسری شخصیتوں کے اقوال و آراء کی پیروی کرتے ہیں کیا وہ بھی تو اس باطل کی پیروی نہیں کر رہے ہیں جس کے صحیح ہونے کی کوئی دلیل ان کے پاس نہیں ہے۔ اللھم غفرا۔ (شوکانی)۔ ف 13۔ اب نہ میں تمہارے کسی کام آسکتا ہوں اور نہ تم میرے کسی کام آسکتے ہو۔ (شوکانی)۔ ف 14۔ ظاہر ہے کہ شیطان کو اللہ کا شریک بنانا یہ نہیں ہے کہ اسے سجدہ کیا جائے اور معبود سمجھا جائے بلکہ اس کا مطلب یہی ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے اور اسی کے طور طریق اختیار کئے جائیں۔ ابراھیم
23 ف 15۔ یعنی اس کی توفیق اور مہربانی سے۔ ف 16۔ یعنی آپس میں ملتے وقت السلام علیکم کہیں گے یا فرشتے ان سے سلام علیکم کہیں گے۔ یعنی ” تم پر سلامتی ہو“۔ اس میں مبارک باد کا مفہوم بھی ہے اور دعا کا بھی۔ (کذافی الوحیدی)۔ ابراھیم
24 ف 1۔ ” کلمہ طیبہ“ (اچھی بات) سے مراد لا الہ اللہ اللہ ہے یا تسبیح و تحمید یا ہر اچھی بات ہے۔ (شوکانی)۔ ابراھیم
25 ف 2۔ اس طرح کلمہ طیبہ بھی مومن کو ہر آن بہشت کے میوے کھلائے گا۔ حضرت عبداللہ بن عمر سے ایک روایت میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے کھجور کے درخت کو مومن سے تشبیہ دیتے ہوئے فرمایا کہ جس طرح اس درکت کے پتے نہیں گرتے اسی طرح مومن کی دعا بھی ضائع نہیں جاتی۔ (قرطبی)۔ ابراھیم
26 ف 3۔ حضرت انس (رض) فرماتے ہیں اس درخت سے مراد حنظلہ (اندرائن) ہے۔ (ترمذی)۔ یہی حال شرک و کفر کا ہے جس کی نہ کوئی دلیل ہوتی ہے نہ دل پر اس کا اثر ہوتا ہے نہ اس سے کوئی بھلائی حاصل ہوتی ہے اور نہ اس کے ساتھ کوئی عمل قبول ہوتا ہے۔ بودی اتنی ہوتی ہے کہ ذرا سے غوروفکر سے اس کا بے حقیقت ہونا واضح ہوجاتا ہے۔ (کذافی الوحیدی)۔ ابراھیم
27 ف 4۔ یعنی دنیا و آخرت میں اللہ تعالیٰ انہیں کلمہ شہادت اور عقیدہ توحید پر ثابت قدم رکھتا ہے بعض مفسرین (رح) نے ” دنیا کی زندگی“ سے مراد قبر کا اور آخرت سے مراد قیامت کے دن کا حساب لیا ہے یعنی قبر میں جب مومن سے عقیدہ توحید اور دین کے متعلق سوال کیا جاتا ہے تو وہ بدوں کسی تردد کے نہایت یقین اور پختگی سے جواب دیتا ہے اور کافر و منافق کی طرح ھالا ادری (افسوس میں نہیں جانتا) نہیں کہتا۔ قبر میں منکر و نکیر (فرشتوں) کا آنا، ان کا مردوہ سے اس کے عقیدہ کے بارے میں سوال کرنا اور اس موقع پر مومن کا ” عقیدہ توحید“ پر ثابت قدم رہنا صحیح احادیث سے ثابت ہے مثلاً براء (رض) بن عازب سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا : مسلمان سے جب قبر میں سوال کیا جاتا ہے تو وہ شہادت دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی الہ نہیں اور محمد (ﷺ) اللہ کے رسول ﷺ ہیں۔ یہی مراد ہے اس آیت : ویثبت اللہ الخ سے۔ (صحین) تنبیہ۔ امام سیوطی (رح) نے شرح الصدور فی احوال الموتی والقبور“ میں یہ سب حدیثیں جمع کی ہیں۔ ف 5۔ وہ قبر میں اور آخرت کے روز فرشتوں کے سوالات کا صحیح جواب نہیں دے سکیں گے بلکہ ہائے وائے کرتے رہیں گے۔ یہ مضمون بھی متعدد احادیث سے ثابت ہے۔ شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں : قبر میں جو کوئی مضبوط بات کہے گا ٹھکانا ٹھیک پاویگا، اور جو بچلی (غلط) بات کرے گا خراب ہوگا۔ (موضح)۔ ابراھیم
28 ف 6۔ ان سے مراد کفار و مشرکین کے سردار ہیں۔ خصوصاً رؤسائے قریش، جن پر اللہ تعالیٰ نے یہ احسان فرمایا کہ ان کی رہنمائی کے لئے آنحضرتﷺ کو مبعوث فرمایا، قرآن اتارا اور انہیں سارے عرب میں سرداری عطا کی مگر انہوں نے اس احسان کا بدلہ یہ دیا کہ ناشکری پر کمربستہ ہوگئے، آنحضرتﷺ کو جھٹلایا اور آپﷺ کی مخالفت میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا اور اس طرح دوسروں کے لئے بھی رکاوٹ بن گئے اور ان کو ہلاکت کے گڑھے میں لاڈالا۔ من جملہ اس کہے یوم بدر کا عذاب بھی ہے۔ (قرطبی۔ شوکانی)۔ ابراھیم
29 ابراھیم
30 ف 7۔ ان کو پوجا کرنے لگے اور دکھ درد میں انہیں پکارنے لگے۔ ف 8۔ یعنی اچھا ! اگر تم باز نہیں آتے تو چند روز دنیا کے مزے اڑالو مگر کب تک ؟ آخر کار تمہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جہنم میں رہنا ہے۔ یہ ڈرانے اور متنبہ کرنے کے لئے فرمایا ہے۔ ابراھیم
31 ف 9۔ مراد ہے قیامت کا دن، جس میں نیک اعمال خریدے جاسکیں گے نہ کسی کی دوستی اور محبت کام آئے گی کہ اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے بچا سکے۔ شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں : یعنی نیک عمل بکتے نہیں اور کوئی دوستی سے رعایت نہیں کرتا۔ ابراھیم
32 ف 1۔ یعنی وہ اللہ جس کی ناشکری پر تم کمربستہ ہو، جس کی اطاعت اور بندگی سے روگردانی کر رہے ہو اور جس کے ساتھ بلا دلیل شرک بنا رہے ہو اس کے احسانات پر غور کرو۔ وہ تو وہ ذات ہے… ف 2۔ تم ان سے اپنی کھیتیاں سیراب کرتے ہو اور ان میں جہاز اور کشتیاں چلاتے ہو۔ ابراھیم
33 ف 3۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کے چلنے کے لئے جو نظام اور ضابطہ مقرر کردیا ہے اس پر لگاتار چلے جا رہے ہیں نہ کبھی تھمتے ہیں اور نہ بگڑتے ہیں اور نہ رفتار میں کمی یا زیادتی ہوتی ہے۔ ابراھیم
34 ف 4۔ دن کو کام کام کرتے ہو اور رات کو سوتے اور آرام کرتے ہو۔ ف 5۔ یعنی اس دنیا میں زندگی گزارنے کے لئے تمہیں جن اسباب و وسائل کی ضرورت تھی اور جو تمہارے تقاضے تھے وہ سب اس نے فراہم کردئیے۔ ف 6۔ یعنی اجمالی طور پر بھی گن نہیں سکو گے چہ جائیکہ تفصیلی طور پر ان کا احصاء ہوسکے تو سوچو تم اس کا شکر کیونکہ ادا کرسکتے ہو۔ (شوکانی) ف 7۔ اس پر اللہ تعالیٰ کے کتنے احسانات ہیں اور ہر آن ہوتے رہتے ہیں مگر وہ ہے کہ ذرا سی تکلیف پہنچتی ہے تو ناشکری پر اتر آتا ہے۔ ظلوم سے یہی مراد ہے۔ (از وحیدی)۔ ابراھیم
35 ف 8۔ عام احساناتن کا ذکر کرنے کے بعد اب خاص اس احسان کا ذکر کیا جا رہا ہے جو اللہ تعالیٰ نے مکہ والوں پر کیا تھا اور وہ تھا ان کے باپ ابراہیم ( علیہ السلام) کا ان کے جدِ اعلیٰ حضرت اسماعیل ( علیہ السلام) کو یہاں لا کر آباد کرنا۔ اس سلسلے میں یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ تمہارے باپ ابراہیم ( علیہ السلام) نے کن تمنائوں کے ساتھ تمہیں یہاں لا کر بسایا تھا اور کس طرح اپنے اور بیٹوں کے لئے بت پرستی سے محفوظ رہنے کی دعا کی تھی۔ مگر آج تم ان تمام احسانات کو بھول گئے اور بت پرستی کو پہنا دین قرار دے لیا۔ ابراھیم
36 ف 9۔ یعنی تیری سیدھی راہ سے پھیر دیا۔ بت چونکہ بہت سے لوگوں کی گمراہی کا سبب بنے اس لئے مجازی طور پر گمراہ کرنے کے فعل کو ان کی طرف منسوب کردیا گیا ہے۔ اس جملہ میں دعا کی علت کی طرف اشارہ ہے۔ (شوکانی)۔ ف 01۔ شاید حضرت ابراہیم ع نے یہ دعا اس وقت کی جب انہیں مشرک کے لئے استغفار کرنے کا حکم معلوم نہ تھا اور وہ سمجھتے تھے کہ شاید دوسرے گناہ مراد ہیں۔ یا ” تو بخشنے والا مہربان ہے“ کا مطلب یہ ہے کہ ” تو اسے توبہ کی توفیق دینے والا ہے۔“ (شوکانی)۔ ابراھیم
37 ف 11۔ یعنی خانہ کعبہ کے پاس۔ یہ دعا خانہ کعبہ کی تعمیر کے بعد کی ہے جیسا کہ دعا کے الفاط سے معلوم ہوتا ہے۔ یا حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) نے وحی کے اشارہ سے وہاں حضرت اسماعیل اور ان کی والدہ کو بسایا ہو کہ یہاں کعبہ تعمیر ہوگا اور اس بنا پر دعا میں یہ الفاط کہدئے ہوں۔ (ابن کثیر۔ شوکانی)۔ ف 12۔ وہ تیرے اس گھر کا حج اور عمرہ کرنے کے لئے اس کی طرف کشاں کشاں آنے لگیں۔ حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے ” افئدۃ من الناس“ کہا کہ کچھ لوگوں کے دل اس طرف جھک جائیں اور اگر افئدۃ الناس۔ (لوگوں کے دل) کہتے تو ایرانی، رومی الغرض سب لوگ لپکے پڑتے اور مکہ میں جگہ نہ ملتی۔ (ابن کثیر)۔ ف 1۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کی یہ دعا قبول فرمائی، چنانچہ ہر سال دنیا بھر کے لاکھوں آدمی مکہ معظمہ کی طرف کھینچے چلے آتے ہیں۔ پھر یہ بھی حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کی اس دعا کی برکت ہے کہ ہر زمانے میں طرح طرح کے پھل اور غلے وہاں پہنچتے رہتے ہیں حالانکہ خود وہاں کوئی چیز پیدا نہیں ہوتی۔ اس میں اشارہ ہے کہ مومن کو چاہیے کہ اسبابِ دنیا کے حصول سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عبادتِ الٰہی کو اپنا مفصد بنائے۔ (رازی)۔ ابراھیم
38 ف 2۔ یعنی جو کچھ ہم زبان سے ادا کرتے ہیں اسے بھی تو سنتا ہے اور جو خیالات و جذبات ہم زبان سے ادا نہیں کرتے یا نہیں کرسکتے بلکہ ہمارے دل کہ گہرائیوں میں مستور ہیں ان سے بھی تو خوف واقف ہے ہوسکتا ہے کہ ظاہر میں سب اولاد کے لئے دعا کی ہو اور دل میں داعیہ پیغمبر آخر الزمان ﷺ کے لئے دعا کا ہو۔ (از کذافی الموضح)۔ ابراھیم
39 ف 3۔ یعنی بڑھاپے کے عالم میں ہاجرہ کے بطن سے اسماعیل ( علیہ السلام) اور سارہ کے بطن سے حضرت اسحق ( علیہ السلام) غیر متوقع طور پر عنایت فرمائے۔ اب جس طرح میری پہلی دعا : رب ھب لی من الصالحین۔“ ( اے میرے پروردگار مجھے نیک اولاد عنایت فرما) قبول فرمائی ہے اسی طرح میری یہ دعا بھی قبول فرما۔ ہوسکتا ہے کہ میری معت کے بعد ان دونوں اور ان کی اولاد ی اعانت فرماتا رہے اسی طرح الحمد اللہ“۔ کی پہلی دعا سے مناسبت بھی ظاہر ہوجاتی ہے۔ (رازی)۔ ابراھیم
40 ف 4۔ یعنی مجھے یہ توفیق دے کہ نماز کو اس کے تمام ارکان، شرائط اور آداب کے ساتھ اس کے اوقات پر پابندی سے ادا کرتا رہوں۔ ف 5۔ اسی طرح نماز کا پابند بنا۔ ف 6۔ یا میری پوری دعا جو میں نے تجھ سے مانگی ہے، قبول فرمایا۔ ابراھیم
41 ف 7۔ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) نے اپنے وطن سے ہجرت کے وقت اپنے والد سے کہا تھا۔“ ساستغفرلک ربی (میں تیرے لئے اپنے رب سے بخشش چاہوں گا)۔ اس لئے اس دعا میں انہوں نے اپنے والد کو شریک کرلیا۔ لیکن بعد میں جب انہیں معلوم ہوگیا کہ وہ تو اللہ کا دشمن ہے تو انہوں نے اس سے قطعی بیزاری کا اعلان کردیا۔ (دیکھئے سورۃ توبہ آیت 411)۔ ابراھیم
42 ف 8۔ خوف کے مارے ٹکٹکی بندھ جائے گی اور آنکھیں مچ نہ سکیں گی۔ (وحیدی)۔ ابراھیم
43 ابراھیم
44 ف 9۔ یعنی ہماری دولت اور حکومت ہمیشہ رہنے والی ہے یا مرنے کے بعد دوسری زندگی نہیں ہے اور دنیا سے مرنے کے عبد مجازاۃ نہیں ہوگی۔ (رازی)۔ ابراھیم
45 ف 1۔ یعنی ان کے گناہوں کی سزا میں ہم نے ان پر جو عذاب نازل کئے وہ سب تم کو معلوم ہوچکے تھے گو تم زبان سے اقرار نہیں کرتے تھے۔ (کذافی الکبیر)۔ ابراھیم
46 ف 2۔ یعنی اپنی کتابوں میں اور اپنے پیغمبروں کی زبان پر۔ ف 3۔ یعنی حق کو دبانے اور باطل کو سربلند کرنے کے لئے انہوں نے کوئی سازش اور تدبیر اٹھا نہ رکھی۔ اس آیت کے تحت تفسیروں میں نمرود کا قصہ بھی ذکر کردیا گیا ہے جو صحت کے ساتھ ثابت نہیں ہے۔ (رازی)۔ ف 4۔ پھر بھی اللہ تعالیٰ کے دائوں کے سامنے اس کا کوئی اثر نہ ہوگا اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ” وان کان مکرھم میں“ ان“ نفی کے معنی میں ہو۔ یعنی ان کا مکر اتنا مضبوط نہ تھا کہ پہاڑ اپنی جگہ سے ٹل جاتے۔ اس صورت میں ” الجبال“ سے مراد آنحضرت ﷺ کا دین اور شریعت کے دلائل ہیں۔ (رازی)۔ ابراھیم
47 ف 5۔ اس سے مقصود ایک طرف تو آنحضرتﷺ کو تسلی دینا ہے اور دوسری طرف آپو کے مخالفین کو متنبہ کرنا۔ کہ جس طرح پہلے انبیاء ( علیہ السلام) سے جو ہم نے وعدے کئے وہ سب پورے کئے۔ اسی طرح اپنے آخری رسول محمد ﷺ سے تائید و نصرت کو جو وعدہ کر رہ ہیں اسے بھی یقینا پورا کریں گے اور ان لوگوں کو تباہ و برباد کرینگے جو آپﷺ کی مخالفت پر کمربستہ ہیں۔ (شوکانی)۔ ابراھیم
48 ف 6۔ اس سے معلوم ہوا کہ قیامت کے روز زمین و آسمان کی موجودہ شکل و صورت بدل جائے گی۔ حضرت ثوبان (رض) سے روایت ہے کہ ایک یہودی نے آنحضرت ﷺ سے سوال کیا کہ جس روز زمین کو دوسری زمین سے بدلا جائے گا انسان کہاں ہوں گے؟ فرمایا ” تاریکی میں پل صراط سے درے ہوں گے۔“ (مسلم) ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ قیامت کے روز زمین روٹی ہوگی جیسے جبار (اللہ تعالیٰ) اپنے ہاتھ سے پلٹے گا۔ (بخاری مسلم)۔ حضرت سہل بن سعد سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے“ قیامت کے کے روز لوگ چاندی کی طرف سفید صاف زمین پر جمع کئے جائیں گے۔ (بخاری مسلم) اب رہایہ سوال کہ آیا یہ تبدیل زمین و آسمان کی ذات میں ہوگی یا صرف ان کی صفات میں، دوسرا قول حضرت ابن عباس سے اور پہلا قول یعنی تبدیل ذات حضرت ابن مسعود سے منقول ہے اور آیت کے الفاظ اور روایات میں دونوں کا احتمال ہے۔ گو بعض نے تبدل صفت کو ترجیح دی ہے۔ (شوکانی۔ رازی)۔ ابراھیم
49 ابراھیم
50 ف 7۔ بعض مفسرین (رح) نے قطر ان کے معنی پگھلے ہوئے تانبے کے بھی کئے ہیں مگر اکثر مفسرین (رح) نے اس سے مراد وہ سایہ بد بودار روغن لیا ہے جو اونٹوں کی خارش دور کرنے کے لئے ان کے جسموں پر ملا جاتا ہے اور کھال کو جلا ڈالتا ہے اور وہ گندھک اور اس قسم کی بعض دوسری چیزوں سے مرکب ہوتا ہے اور یہ اختلاف قطرآن کی قرأت کی وجہ سے ہے۔ حضرت ابو مالک اشعری (رح) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا : نوحہ یعنی ماتم بین کرنے والے عورت اگر مرنے سے پہلے تو بہ نہ کرے تو قیامت کے روز اس حال میں اٹھائی جائے کہ اس کے جسم پر قطران کا کرتا ہوگا۔ (صحیح بخاری مسلم وغیرہ)۔ ابراھیم
51 ف 8۔ یعنی حساب کا دن جلد آنے والا ہے اس لئے اس کی فکر کرو۔ ابراھیم
52 ابراھیم
0 ف 9۔ یہ سورۃ مکہ معظمہ میں نازل ہوئی اس پر۔ جیسا کہ علامہ قرطبی (رح) اور دوسرے مفسرین (رح) کہتے ہیں۔ سب کا اتفاق ہے۔ (شوکانی)۔ الحجر
1 ف 10۔ الکتاب یعنی وہ عظیم الشان کتاب جس کے علاوہ کوئی کتاب ” الکتاب“ کہلانے کی مستحق نہیں اور قرآن مبین یعنی وہ قرآن جس کا مدعا نہایت واضح اور صاف ہے۔ الحجر
2 ف 1۔ ” یعنی موت کے وقت یا قیامت کے دن“۔ یا جب اللہ تعالیٰ گنہگار مسلمانوں کو جہنم سے نکال لے گا اور کافروں کو اس میں رہنے دگا۔ مطلب یہ کہ جب کافروں پر حقیقت حال واضح ہوجائے گی تو وہ پچھتا پچھتا کر آرزو کریں گے کہ کاش ہم نے اپنی غلط روش شے توبہ کرکے اسلام دعوت قبول کرلی ہوتی۔ مگر اس وقت ان کا پچھتانا اور یہ آرزو کرنا ان کے کسی کام نہ آسکے گا۔ بظاہر الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ حقیقت حال واضح ہوجانے کے بعد کفار ہر لحظہ یہ آرزو کرتے رہیں گے۔ (کذافی الشوکانی) الحجر
3 ف 2۔ کہ وہ کس غلط روش پر چل رہے تھے اور یہ کہ انہوں نے دعوت حق کو ٹھکرا کر کسی اور کا نہیں خود اپنا ہی نقصان کیا ہے۔ الحجر
4 ف 3۔ جب تک یہ مدت باقی رہی اللہ تعالیٰ نے انہیں مہلت دی۔ لیکن جوں ہی مدت پوری ہوئی فوراً انہیں گرفت میں لے لیا گیا۔ اس سے مقصود کفار مکہ کو متنبہ کرنا ہے کہ تم نے ہمارے رسول (محمد ﷺ) کیساتھ تکذیب و استھذا کی جو روش اختیار کر رکھی ہے اور اس پر ہم نے تاحال گرفت نہیں کی تو اس سے تم نے یہ کیوں سمجھ لیا ہے کہ تمہاری گرفت میں لے لیا گیا۔ اس سے مقصود کفار مکہ کو متنبہ کرنا ہے کہ تم نے ہمارے رسول (محمد ﷺ) کے ساتھ تکذیب و استھزا کی جو روش اختیار کر رکھی ہے اور اس پر ہم نے تاحال گرفت نہیں کی تو اس سے تم نے یہ کیوں سمجھ لیا ہے کہ تمہاری گرفت ہوگی ہی نہیں۔ الحجر
5 ف 4۔ یعنی نہ وہ وقت مقرر سے پہلے ہلاک ہوسکتی ہے اور نہ وقت مقرر پر ہلاک ہونے سے بچ سکتی ہے۔ (نیز دیکھئے سورۃ انعام آیت 2)۔ الحجر
6 ف 5۔ کفار کی تہدید کے بعد اب ان کی سرکشی کا بیان ہے۔ نیز اوپر کی آیا تمہیں کفر بالکتاب کا بیان تھا اب کفر بالرسالت کا بیان شروع ہو رہا ہے۔ (شوکانی)۔ آنحضرت ﷺ کو استہزا کے طور پر مجنون کہتے تھے اور قرآن اور پیغمبر کے ساتھ یہ استہزا کفر کی شدید ترین قسم ہے۔ الحجر
7 ف 6۔ کہ وہ سامنے آکر گواہی دیں کہ یہ واقعی اللہ کا سچا پیغمبر ہے اس کی پیروی اختیار کرو جیسا کہ سورۃ انعام آیت ٌ میں ہے : وقالو لو لا انزل علیہ ملک اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جب آنحضرت ﷺ ان کو عذاب سے ڈراتے تو انہوں نے لوما تاتینا بالملائکۃ کہہ کر عذاب کا مطالبہ کیا ہو۔ (کبیر)۔ الحجر
8 ف 7۔ یعنی فرشتے تو عین اس وقت نازل ہوتے ہیں جب کسی قوم پر عذاب نازل کرنے کا قطعی فیصلہ ہوجائے۔ اس کے بعد انہیں مہلت نہیں دی جاتی۔ الحجر
9 ف 8۔ اب رہا ” یہ ذکر“ جس کے لانے والے کو تم دیوانہ کہہ رہے ہو تو یہ ہمارا ہی نازل کردہ ہے۔ جس طرح قرآن اپنے نظم اور معنی کے اعتبار سے معجز ہے کہ جن و انس جمع ہو کر بھی اس جیسی ایک سورۃ نہیں بناسکتے۔ اسی طرح اس کا یہ بھی اعجاز ہے کہا اس میں ردو بدل نہیں ہوسکے گا۔ قرآن کی حفاظت کا یہ وعدہ حیرت انگیز طریقہ پر پورا ہوا اور ہو رہا ہے۔ قرآن کے علاوہ دنیا میں کوئی کتاب ایسی نہیں ہے جو چودہ سو سال گزر جانے کے باوجود اس طرح محفوط ہو کہ اس کے کسی ایک حرف میں ردو بدل نہ ہوا ہو اور دنیا بھر میں قرآن کے جتنے نسخے موجود ہیں ان میں ادنیٰ سا بھی اختلاف نہیں ہے۔ اس کے علاوہ لاکھوں کروڑوں انسانوں کے سینوں میں محفوظ ہے۔ یہ ہے قدرت کی طرف سے حفاظت جو کسی اور کتاب کو نصیب نہیں ہوئی اور قرآن کی اس طرح حفاظت کے مخالفین بھی معترف ہیں۔ الحجر
10 الحجر
11 ف 9۔ آنحضرتﷺ کو تسلی دی گئی ہے کہ آپﷺ ان کے تکذیب و استہزا سے رنجیدہ نہ ہوں۔ ہر زمانہ میں کفار نے انبیاء کی اسی طرح ہنسی اڑائی ہے۔ الحجر
12 ف 10۔ ” نسلکہ“ میں ضمیر کا مرجع قرآن ہے۔ یعنی جب بدکاری سے باز نہیں آتے تو اس کی سزا یہدیتے ہیں کہ انہیں قرآن اور رسول کے ساتھ کفر و استہزا کا عادی بنادیتے ہیں۔ الحجر
13 ف 11۔ کہ وہ اپنے پیغمبروں کو جھٹلاتے اور اس کی پاداش میں تباہ کئے جاتے۔ الحجر
14 الحجر
15 الحجر
16 ف 12۔ رسالت کے بعد اب توحید کا بیان شروع ہو رہا ہے۔ (رازی)۔ ” برج“ عربی زبان میں قلعہ یا منزل کو کہتے ہیں۔ کہاں برجوں سے مراد وہ منزلیں ہیں جن سے سورج اپنی گردش کے دوران میں گزرتا ہے اور وہ تعداد میں بارہ ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ برج وہ آسمانی قلعے ہیں جن میں فرشتے پہرا دیتے ہیں۔ (شوکانی)۔ الحجر
17 الحجر
18 ف 1۔ اور جس پردہ شہاب جا لگتا ہے وہ یا تو جل جاتا ہے یا زخمی ہوجاتا ہے۔ اس آیت کی تفسیر میں امام بخاری (رح) اور حجرت ابوہریرہ (رض) سے روایت لائے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ آسمان میں جب کوئی حکم صادر کرتا ہے تو اس کا کلام سُن کر فرشتے اظہار طاعت کے لئے اپنے بازو پھڑ پھڑانے لگتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے کلام کی آواز ایسی ہوتی ہے جیسے کسی چٹان پر زنجیر کے پھسلنے یارگڑنے کی آواز۔ جب فرشتوں کو خوف جاتا رہتا ہے تو وہ ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ ” تمہارے رب نے کیا کہا؟ وہ کہتے ہیں کہ اس نے جو فرمایا حق فرمایا اور وہ بلند اور بڑا ہے۔ اس وقت بات کے چرانے کے لئے شیاطین بھاگتے ہیں۔ اور یہ تھوڑے تھوڑے فاصلے سے ایک دوسرے کے اوپر ہوتے ہیں اور یوں وہ ایک آدھ کلمہ سن کر اپنے دوست نجومی یا کاہن کے کان میں پھونک دیتے ہیں اور وہ اس کے ساتھ سو جھوٹ ملا کر لوگوں کو بیان کرتا ہے۔ (ابن کثیر)۔ الحجر
19 ف 2۔ دلائل سماوی کے بعد اب قدرت کے ان دلائل کا بیان ہے جو زمین پر ہیں۔ (رازی)۔ یعنی ہر چیز اتنی اگائی اور پیدا کی جتنی اسکی ضرورت تھی نہ کسی چیز کو بلا ضرورت پیدا کیا اور نہ ایک خاص حد سے بڑھنے دیا۔ یا ” فیھا میں ” ھا“ کی ضمیر جبال کے لئے ہے یعنی پہاڑوں کے اندر ہر چیز یعنی معدنیات پورے اندازے سے پیدا کیں۔ (شوکانی)۔ الحجر
20 ف 3۔ بلکہ اللہ تعالیٰ روزی دیتا ہے اور جو تمہاری خدمت کرتے ہیں۔ اس سے مراد مربوط ہیں نوکرچاکر اور جانور وغیرہ جن کا رازق درحقیقت اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ (شوکانی)۔ الحجر
21 ف 4۔ یعنی ہمارے پاس کسی چیز کی کمی نہیں ہے لیکن ہم بندوں کو ضرورت کے پیش نظر اسے ایک خاص مقدار میں آسمان سے اتارتے یا زمین سے پیدا کرتے ہیں۔ ہر چیز کے خزانے اللہ تعالیٰ کے پاس ہونے کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہیں۔ اکثر مفسرین (رح) کا خیال ہے کہ یہاں خزائن سے مراد بارش ہے کیونکہ دنیا میں تمام تر رزق و معیشت کا مدار اسی پر ہے مگر اولیٰ یہ ہے کہ اسے عموم پر رکھا جائے۔ (شوکانی)۔ الحجر
22 ف 5۔ یعنی نہ اوپر آسمان میں بارش کا خزانہ تمہارے قبضہ میں ہے اور نہ نیچے زمین میں کنوئوں، چشموں، تالابوں کے خزانہ پر تمہارا کوئی اختیار رہے۔ اللہ تعالیٰ ہی پانی کو جس مقدار میں چاہتا ہے رکھتا ہے۔ وہ جب چاہے بارش برسائے تم اسے روک نہیں سکتے یا جب چاہے روک لے تم اسے پانی مرضی سے برسا نہیں سکتے۔ اسی طرح اگر وہ چاہے تو چشموں اور کنوئوں میں تمامجمع شدہ پانی زمین میں جذب ہوجائے اور تمہیں ایک قطرہ بھی پینے کو نہ ملے۔ (از وحیدی وغیرہ)۔ الحجر
23 ف 6۔ یعنی سب فنا ہوجائیں گے۔ مال و متاع جو کچھ بچ رہے گا وہ سب اللہ تعالیٰ ہی کا ہے۔ (موضح)۔ الحجر
24 الحجر
25 الحجر
26 ف 7۔ اس سورۃ میں آیت : ’ ولقد جعلنا فی السماء برزجا الک“ سے دلائل توحید کا بیان چلا آرہا ہے۔ جب اوپرکی آیت میں حیوانات کی تخلیق کو بطور دلیل ذکر کیا تو اب انسان کے پیدا کئے جانے کو بطور دلیل ذکر کیا جا رہا ہے۔ الغرض دلائل توحید میں یہ ساتویں قسم دلیل کی ہے۔ (کبیر)۔ عربی زبان میں خشک مٹی کو تراب کہتے ہیں جب اسے بھگو دیا جائے تو وہ سین کہلاتی ہے پھر جب خوب گوندھ دینے کے بعد اس میں سے بو آنے لگے تو اسے ” حماء مسنون“ کہا جاتا ہے۔ پھر تب خشک ہو کر کھن کھن بولنے لگے تو وہ صلصال کہلاتی ہے اور اسے جب آگے میں پکا دیا جائے تو فخار کہتے ہیں۔ آیت میں الفاظ کی ترتیب سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلے ہوئے گار سے حضرت آدم ( علیہ السلام) کا پتلا تیار کیا گیا ہوگا پھر جب وہ سوکھ کر کھن کھن بولنے لگا تو اسمیں روح پھونکی گئی ہوگی۔ (کبیر)۔ یہی مضمون ایک مرفوع حدیث سے بھی ثابت ہے۔ (ترمذی)۔ الحجر
27 ف 8۔ مگر جمہور مفسرین کے نزدیک یہاں ” الجان“ سے مراد ابو الجن (جنوں کا باپ) ہی ہے۔ ف 9۔ ” سموم“ دراصل گرم ہوا (لو) کو کہتے ہیں۔ پس ” نار السموم“ کا ترجمہ بعض مفسرین (رح) نے ” ہوا طی ہوئی لطیف آگے“ یا تیز حرارت“ بھی کیا ہے۔ حضرت ابن مسعود (رض) فرماتے ہیں جس سموم سے اللہ تعالیٰ نے ” الجان“ کو پیدا کیا یہ باد سموم اس کا سترواں حصہ ہے۔ (رزی)۔ الحجر
28 الحجر
29 ف 1۔ اولا ً انسان کی تخلیق کو بطور دلیل ذکر فرمایا۔ اب اس کے بعد اس کا قصہ ذکر فرمادیا۔ (رازی) یہاں آدم میں جو روح پھونکی گئی اس کی ” روحی“ فرما کر اپنی طرف نسبت کیا ہے تو یہ نسبت صرف تشریف و تکریم اور انسانی روح کا امتیاز ظاہر کرنے کے لئے ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح حضرت صالح کیا انٹنی کو ” ناقہ اللہ“ اور خانہ کعبہ کو ” بیت اللہ“ کہا گیا۔ (کذافی الشوکانی)۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں : ” اپنی جان“ یعنی خاص جس میں نمونہ ہے اللہ تعالیٰ کی صفات کا، علم اور تدبیر اور یاد حق کی اور لگائو اللہ سے۔ (از موضح)۔ الحجر
30 ف 2۔ سجدہ کے معنی کسی کے سامنے عاجزی کرنے اور جھکنے کے ہیں چاہے وہ زمین پر سر رکھ کر ہو یا سر اور کمر جھکا کر۔ اور وہ دو طرح ہوتا ہے ایک بطور عبادت اور دوسرا بطور سلام و تعظیم۔ فرشتوں کا حضرت آدم کو سجدہ کرنا بطور۔ سلام و تعظیم تھا نہ کو بطور عبادت۔ جیسا کہ حضرت یوسف کو ان کے والدین اور بھائیوں نے سجدہ کیا تھا کیونکہ فرشتوں کی صفت میں مذکور ہے۔ ولہ یسجدون۔ (اعراف آیت 602) ” کہ وہ اللہ تعالیٰ ہی کو سجدہ کرتے ہیں“ یہ تعظیمی سجدہ پہلی امتوں میں جائز تھا مگر ہماری شریعت میں حرام کردیا گیا۔ نبی ﷺ نے فرمایا :” اگر میں کسی بشر کو دوسرے بشرے کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔ (دیکھئے بقرہ)۔ الحجر
31 الحجر
32 الحجر
33 ف 3۔ سورۃ اعراف میں ہے کہ ابلیس نے کہا :” میں اس سے بہتر ہوں کہ تو نے مجھے آگ سے اور اسے مٹی سے پیدا کیا۔“ (دیکھئے اعراف آیت 21)۔ الحجر
34 الحجر
35 الحجر
36 ف 4۔ یعنی دنیا کے خاتمے تک مہلت دے۔ الحجر
37 ف 5۔ یعنی پہلے صورتک جمہور مفسرین نے یہی معنی مراد لئے ہیں کیونکہ پہلے صور کے وقت تو شیطان بھی مر جائے گا اور دوسرے صور یعنی چالیس برس تک دوسروں کے ساتھ مرا رہے گا۔ نیز دیکھئے اعراف آیت 51 و ص :83۔ (روح)۔ الحجر
38 الحجر
39 ف 6۔ یا ” بما“ میں با بمعنی قسم ہے اور یہ عزت کی قسم کے منافی نہیں ہے کیونکہ اغوا بھی فی الجملہ عزت و سلطان کے آثار سے ہے گویا شیطان نے دونوں کی قسم کھائی مگر سبیت کے معنی ادنیٰ ہیں۔ (شوکانی)۔ الحجر
40 الحجر
41 ف 7۔ یعنی یہی کہمیرے مخلص بندوں کو تو گمراہ نہ کرسکے گا درست بات ہے جیسے بعد میں فرمایا : ان عبادی لیس لک علیھم سلطان۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ھذا سے اخلاص کی طرف اشارہ ہو یعنی یہی اخلاص کی راہ مجھ تک سیدھی پہنچتی ہے۔ (کذافی الروح)۔ الحجر
42 ف 8۔ گویا یہ پہلے کلام کی تقریر ہی ہے اور مستثنیٰ منقطع ہے اور اگر ” عباد“ سے مراد عام ہو تو مستثنیٰ متصل ہوگا۔ مطلب یہ کہ جو خود ہی بھٹکے ہوں اور جہالت کی بنا پر خود ہی تیری پیروی کرنا چاہیں۔ (روح)۔ الحجر
43 الحجر
44 ف 9۔ خبر لان او مستانفہ۔ حضرت علی (رض) اور ابن عباس (رض) اور بعض دوسرے مفسرین سے مروی ہے کہ وہ طبقے ایک دوسرے کے اوپر ہوں گے۔ ان طبقات کے نام بھی مروی ہیں جن میں ایک طبقہ کا نام جہنم بھی مذکور ہے مگر کسی صحیح اثر سے یہ ثابت نہیں ہیں۔ بعض دوسرے مفسرین نے ” سبعہ ابواب‘ سے مراد سات دروازے ہی لئے ہیں۔ حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا : جہنم کے ساتھ دروازے ہیں۔ ان میں سے ایک دروازہ ان لوگوں کے لئے ہے جو میری امت پر تلوار اٹھائیں۔ (ترمذی)۔ آگ کی صفت میں بہت سی احادیث اور آثار مروی ہیں۔ (شوکانی)۔ ف 10۔ بٹے ہوئے فرقہ سے مراد بدکاروں کا بٹا ہو افرقہ ہے، یعنی جس طرح ایک خاص عمل والے لوگ جنت میں ایک خاص دروازے سے داخل ہوں گے اسی طرح برے عمل والے لوگ بھی اپنے اعمال کے مطابق جہنم کے مختلف دروازوں سے داخل ہوں گے۔ جیسے فرمایا : ” ان المنافقین فی الدرک الاسفل من النار۔“ (دیکھئے النساء آیت 541)۔ شاہ عبد القادر فرماتے ہیں : شاید بہشت کا ایک دروازہ زیادہ اس لئے ہے کہ بعض موحدین نرے فضل سے جنت میں جائیں گے بغیر عمل کے۔ الحجر
45 الحجر
46 الحجر
47 ف 1 حضرت ابوسعید خدری سے صحیح روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا : مومنوں کو جہنم سے نکال کر جنت اور جہنم کے درمیان ایک پل پر روک لیا جائے گا تاکہ کے درمیان آپس کی زیادتیوں کی بنا پر جو کدورتیں پیدا ہوگئی تھیں وہ ان کے دلوں سے نکال دی جائیں۔ چنانچہ جب وہ ان کدرتوں سے پاک صاف ہوجائیں گے انہیں جنت میں داخل ہونے کی اجازت دے دی جائے گی۔ حضرت علی فرماتے ہیں ” مجھے امید ہے کہ میں طلحہ اور زبیر ان لوگوں میں سے ہوں گے جن کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔ (ابن کثیر) الحجر
48 ف 2 جیسا کہ حدیث میں ہے کہ اہل جنت سے کہہ دیا جائے گا کہ اب تم ہمیشہ تندرست رہو گے، کبھی بیمار نہ پڑو گے اور تم ہمیشہ زندہ ہو گے تمہیں کبھی موت نہ آئے گی اور تم ہمیشہ جو ان رہوں گے اور تم پر کبھی بڑھاپا نہ آئے گا اور ہمیشہ قیام پذیر رہو گے کبھی اس سے کوچ کی ضرورت نہ ہوگی۔ (ابن کثیر) الحجر
49 الحجر
50 ف 3 لہٰذا نہیں چاہئے کہ نہ خدا کی رحمت سے مایوس ہوں اور نہ اتنے دلیر کہ اس کے عذاب کا کوئی ڈرا ان کے دلوں میں نہ ہو۔ یہی رجاء و خوف کا وہ مقام ہے جس کی قرآن و حدیث میں متعدد مواضع پر تلقین کی گی ہے۔ حدیث میں ہے : اگر بندے کو یہ معلوم ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ کی قدر عفو و درگزر کرنے والا ہے تو وہ کبھی گناہ سے پرہیز نہ کرے اور اگر اسے معلوم ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ کا عذاب کس قدر سخت ہے تو (آہ و بکا سے) اپنے آپ کو بلاک کر ڈالے۔ (ابن کثیر) الحجر
51 ف 4 اس قصہ میں اس بات کی شہادت ہے کہ اللہ تعالیٰ کا عذاب درد ناک ہے۔ سورۃ ہود میں گزر چکا ہے کہ یہ فرشتے تھے جو مہمان بن کر حضرت ابراہیم کے پاس پہنچے اور پھر قوم لوط کو بلاک کرنے کے لئے سدوم میں پہنچ گئے۔ الحجر
52 ف 5 پہلے حضرت ابراہیم نے سلام کا جواب دیا پھر مہمانداری کے لئے بھنا ہوا بچھڑا لے آئے۔ لیکن جب دیکھ دکھانے کیلئے ہاتھ نہیں بڑھاتے تو گھبرا کر یہ کہا جیسا کہ سورۃ ہود میں گزر چکا ہے۔ (قرطبی) ف 6 معلوم نہیں تم کون لوگ ہو اور کس نیت سے آئے ہوئے۔ دیکھئے سورۃ ہود۔ الحجر
53 الحجر
54 الحجر
55 الحجر
56 ف 7 یعنی میں نے دنیا کا عام دستور اور اپنا بڑھاپا دیکھ کر محض تعجب کا اظہار کیا ہے ورنہ یہ مقصد نہیں ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوسی کا اظہار کر رہا ہوں۔ (قرطبی شو کانی) الحجر
57 ف 8 غالباً حضرت ابراہیم قرائن سے سمجھ گئے کہ فرشتوں کے آنے کا مقصد محض مجھے خوشخبری دینا نہیں ہے بلکہ کوئی بڑی مہم ہے جس کے لئے انہیں بھیجا گیا ہے۔ (شوکانی) الحجر
58 الحجر
59 الحجر
60 ف 9 یعنی عذاب میں باقی رہنے والے کافروں کے ساتھ مبتلائے عذاب ہوگی۔ بظاہر یہ فرشتوں کا کلام معلوم ہوتا ہے۔ چونکہ وہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ نافذ کرنے آئے تھے اس لئے ممکن ہے انہوں نے بوجہ قرب و اختصاص کے اللہ تعالیٰ کے فیصلے کو اپنے فیصلہ کے لفظ سے تعبیر کردیا۔ (شوکانی) الحجر
61 الحجر
62 ف 10 اس علاقے کے رہنے والے نہیں ہو اس لئے مجھے تم سے ڈر لگتا ہے۔ الحجر
63 الحجر
64 ف 1 جس کے ہونے میں کوئی شک نہیں اور وہ ہے حق تعالیٰ کی طرف سے عذاب کا اٹل فیصلہ۔ (شوکانی) الحجر
65 ف 2 یعنی ملک شام کی طرف یا کسی امن کی جگہ جو اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے مقرر فرمائی ہوگئی۔ بعض نے ” اردن“ بھی لکھا ہے (روح) الحجر
66 ف 3 سب بلاک کردیئے جائیں گے۔ ان میں سے کوئی بھی زندہ نہ بچے گا۔ (شوکانی) الحجر
67 ف 4 اور لوط سے مطالبہ کیا کہ ان مہمانوں کو بدکاری کے لئے ہمارے حوالہ کر دو۔ گویا ان کی پوری آبادی میں کوئی ایسا عنصر باقی نہ رہا تھا جو اس قسم کی غنڈہ گردی کے خلاف آواز اٹھاتا۔ اس سے ان کی اخلاقی حالت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ الحجر
68 الحجر
69 الحجر
70 ف 5 یعنی ہم تمہیں رسوا نہیں کر رہے بلکہ تم خود اپنے آپ کو رسوا کر رہے ہو۔ کیا ہم آپ کو منع نہیں کرچکے کہ ہمارے مقابلے میں کسی حمایت نہ کریں۔ یا اپنے ہاں اجنبی مسافروں کو بطور مہمان نہ ٹھہرایا کریں۔ (کنا فی الوحیدی) الحجر
71 ف 6 تم ان سے فطری طریقہ پر نکاح کر کے اپنے شہوانی جذبات کی تسکین کرو۔ ظاہر ہے کہ ” بیٹیوں“ سے مراد خود ان لوگوں کی اپنی عورتیں ہیں۔ کیونکہ نبی اپنی قوم کی عورتوں کے لئے بمنزلہ باپ کے ہوتا ہے۔ (دیکھیے سورۃ ) الحجر
72 ف 7 جمہور مفسرین کا یہی خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد ﷺ کی زندگی کی قسم کھائی ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ فرشتوں کا کلام ہو اور انہوں نے حضرت لوط کی زندگی کی قسم کھائی ہو۔ ہماری شریعت میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی قسم کھانا منع ہے۔ صحیح احادیث میں اس کی ممانعت آئی ہے۔ اللہ تعالیٰ جس کی چاہے قسم کھا سکتا ہے۔ (وحیدی و کذافی الروح) الحجر
73 الحجر
74 الحجر
75 الحجر
76 ف 8 یعنی جو قافلے حجاز سے شام یا عرقا سے مصر جاتے ہیں یہ بستی ان کے راستے میں پڑتی ہے۔ مگر لوگ ہیں کہ اس میں تباہی کے آثار دیکھ کر کوئی عبرت حاصل نہیں کرتے۔ جدید محققین کا خیال ہے کہ یہ بستی سجرمیت کے (جسے بحر لوط بھی کہتے ہیں) جنوب مشرق میں واقع تھی بلکہ اس زمانہ میں اردن کی حکومت سحرمیت کے جنوبی حصہ سے اس کے تباہ شدہ آثار برآمد کرنے کی بھی کوشش کر رہی ہے۔ (تنبیہ) اس عذاب کے وقت کے متعلق تین الفاظ آئے ہیں ” مشرقین، مصبحین اور بکرۃ“ صبح سے مراد صبح عرفی ہو تو یہ اشراق و بکرۃ کے ساتھ جمع ہو سکتی ہے بعض نے لکھا ہے کہ صبح یعنی طلوع فجر سے عذاب شروع ہوا اور اشراق یا بکرہ تک ان کا تقصہ تمام کردیا گیا۔ نیز قرآن نے تین طرح کے عذاب کا ذکر کیا ہے۔ پہلے صیحتہ کا عذا۔ آیا پھر ان کی بستیوں کو الٹ دیا گیا۔ اور سب سے آخر میں ان پر پتھروں کا مینہ برسایا گیا۔ (کذافی قرطبی) الحجر
77 الحجر
78 ف 9 مراد ہیں اس علاقے کے رہنے والے جہاں اب شہر تبوک واقع ہے۔ اس علاقے میں ” ایکہ“ یعنی ایک گھنا جنگل تھا، اس لئے ان کو ” اصحاب ایکہ“ (بن والے) کہا گیا یہ اور اصحاب مدین دو الگ الگ قومیں تھیں اور ان دونوں کی طرف حضرت شعیب مبعوث ہوئے تھے جیسا کہ ایک حدیث سے بھی ثابت ہے۔ (قرطی کبیر) الحجر
79 ف 10 قوم لوط اور اصحاب ایکہ کا علاقہ قریش دن دونوں سے گزر کرشام آتے جاتے تھے۔ مدین اور ایکہ بھی مراد ہو سکتے ہیں۔ (قرطبی) الحجر
80 ف 11 اس سورۃ میں یہ چوتھا قصہ ہے۔ حجر قوم ثمود کا مرادی شہر تھا جو اب ” مدائن صالح“ کے نام سے مشہور ہے اور وہاں اس قوم کے تباہ شدہ آثار اب بھی موجود ہیں۔ یہ علاقہ ” العلا“ سے چند میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ حجاز سے جو قافلے شام جاتے ہیں وہ لازماً اس سے گزر کر جاتے ہیں اور یہ اس ریلوے لائن کا ایک سٹیشن بھی ہے جو مدینہ سے دمشق کو جاتی ہے۔ ف 12 ایک پیغمبر کیت کذیب چونکہ سب کی تکذیب ہے اس لئے ان کے بارے میں فرمایا گیا کہ انہوں نے پیغمبروں کو جھٹلایا۔ (روح) الحجر
81 ف 1 اونٹنی کا معجزہ کسی معجزوں پر مشتمل تھا اس لئے اس کو آیات فرمایا اور ان سے مراد وہ دلائل عقلیہ بھی ہو سکتے ہیں جو توحید پر دال ہیں۔ (روح) ف 2 یعنی کوئی عبرت حاصل نہ کی بلکہ اونٹنی کی کونچیں کاٹ ڈالیں اور حضرت صالح کو چیلنج دیا کہ جس عذاب کی دھمکی دے رہے ہو وہ لے آئو۔ الحجر
82 الحجر
83 الحجر
84 ف 3 ان پر عذاب کی تفصیل کے لئے دیکھتے اعراف رکوع 10 سورۃ ہود رکوع 7 الحجر
85 ف 4 یعنی یہ اگر آپ کو جھٹلا رہے ہیں تو آپ صبر اور درگزر سے کام لیجیے وقت آنے پر ان کو ضرور بدلہ دیا جائے گا۔ الحجر
86 ف 5 تو پھر اس کے لئے انہیں دوبارہ زندہ کرنا کیا مشکل ہے۔ الحجر
87 ف 6 ” سبع مثانی“ اور ” بڑے قرآن“ سے مراد سورۃ فاتحہ ہے۔ ابوسعید بن العلی سے روایت ہے کہ آنحضرت نے فرمایا : (الحمد للہ رب العلمین یہی سبع مثانی اور قرآن عظیم ہے جو مجھے دیا گیا اور یہی اکثر صحابہ اور بعد کے مفسرین کا قول ہے۔ بعض نے سبع طوال یعنی سات لمبی سورتیں (بقرہ تا) العا و توبہ) مراد لی ہیں۔ مگر جب صحیح حدیث میں اس سے سورۃ فاتحہ مراد ہونے کی تصریح ہے تو کوئی دوسری تفسیر اختیار کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔ کذافی شو فی۔ اس کی تفسیر میں اور بھی اقوال سقول ہیں۔ (دیکھیے المعانی) الحجر
88 الحجر
89 الحجر
90 الحجر
91 ف 7 یعنی کفار مکہ کے چالی یا سولہ آدمی جنہوں نے ولید بن مغیرہ کے حکم سے حج کے موقع پر مکہ کے راستے بانٹ لئیتھے کہ آنحضرت تک کسی کو نہ پہنچنے دیں گے اور قرآن کی تکابوٹی کرنے کے یہ معنی ہیں کہ کسی نے قرآن کو سحر کہا اور کسی نے شعراء اور کسی نے پہلوان کی کہانیاں الغرض اس طرح انہوں نے قرآن کی تکذیب کے لئے مختلف طریقے اختیار کئے اور مختلف عنوانوں سے اسے باطل کرنے کی کوشش کی۔ یہ مراد یہود و نصاریٰ ہیں اور قرآن کے حصے کرنے کے یہ معنی ہیں کہ جو مرضی کے موافق ہوا اسے مان لیا اور جسے اپنی مرضی کے خلاف پایا اس سے انکار کردیا اور پہلے انبیاء کی مخالفت کی وجہ سے ان پر مختلف عذاب آچکے تھے اس صورت میں قرآن سے مطلق کتاب الٰہی بھی مراد رکھتی ہے۔ افتومنون ببعض الکتاب و تکفرون ببعض کذافی روح) حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ مقتسمین کے معنی قسمیں کھانے والے میں یعنی پہلی امتیں جنہوں نے اپنے انبیاء کی تکذیب پر قسمیں اٹھا رکھی تھیں۔ مثلاً صالح کی قوم کہ انہوں نے حضرت صالح اور ان کے اہل کو راہ کچھ وقت قتل کردینے کیلئے قسمیں کھائیں۔ (دیکھئے نمل آیت 49) اور پہلی امتوں نے قرآن یعنی کتب سماویہ کے بھی ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالے مطلب یہ کہ جیسے ہم نے ان پر عذاب اتارا اسی طرح کے عذاب سے انگوٹھی ڈرا دیجیے (کذافی الوحیدی) الحجر
92 الحجر
93 الحجر
94 ف 8 یعنی ان کی کوئی پرواہ نہ کیجیے۔ اللہ تعالیٰ آپ کا حامی اور مددگار ہے۔ شروع شروع میں آنحضرت دین کی تبلیغ و اشاعت خفیہ طریق پر کرتے تھے لیکن جب یہ آیت نازل ہوئی تو آپ علانیہ وعظ نصیحت کرنے لگے۔ (شوکانی) الحجر
95 ف 9 ہم ان سے نبٹ لیں گے آپ بے خوف و خطر دعوت تبلیغ کا فریضہ انجام دیتے رہے مفسرین کا بیان ہے کہ مراد کفار کے پانچ سردار ہیں (ولید بن مغیرہ) عاص بن وائل اسود بن مطلب، سود بن عبدالغیوث اور حارث بن طلہ طلہ) اللہ تعالیٰ نے ان سب کا ایک ہی دن میں کام تمام کرڈ الا۔ (فتح القدیر) الحجر
96 الحجر
97 الحجر
98 الحجر
99 ف 1 اس کی عبادت پر قائم رہیں اور موت کو یقین اس لئے کہا ہر متنفس کے لئے اس کا آنا ضروری ہے۔ (روح) قرآن میں بعض دوسرے مقامات پر بھی ” یقین“ کا لفظ موت کے معنی میں استعمال ہوا ہے جیسے ” حتی اتانا الیقین“ یہاں تک کہ ہمیں یقین آ پہنچا مدثر آیت 47) اس لئے سب قابل ذکر مفسرین نے اس آیت میں یقین کو بمعنی موت لیا ہے۔ بعض جاہل اور بے عمل پیرا اس آیت کی رو سے کہتے ہیں کہ عبادت کرتے کرتے جب یقین حاصل ہوجائے تو پھر عبادت کی ضرورت نہیں ہے۔ اس لئے اپنے آپ کو نماز، روزہ عبادات سے مستثنیٰ قرار دے لیتے ہیں۔ یہ تفسیر کتاب اللہ کے ساتھ تلعب کے مترادف ہے۔ کیا یہ جس یقین کا نام لیتے ہیں آنحضرت کو حاصل نہ ہوسکا کہ آپ آخر وقت تک نماز، روزہ اور دیگر عبادات کی پابندی کرتے رہے۔ بہرحال آیت میں یقین سے یقین قلبی مراد لینا الحاد سے خالی نہیں۔ (کذافی الروح) الحجر
0 ف 2 یہ سورۃ مکہ میں نازل ہوئی۔ البتہ بعض مفسرین اس کی آخری تین آیتوں کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ احد سے واپسی کے موقع پر راستے میں نازل ہوئیں۔ (فتح القدیر) النحل
1 ف 3 یعنی اس کے آنے میں کوئی دیر نہیں ہے یہاں ” امر“ سے مراد قیامت ہے اور مشرکوں پر مختلف انواع کے عذاب کے نزول کا وقت بھی ہوسکتا ہے۔ (روح) ف 4 مشرکین کو جب عذاب کی دھمکی دی جاتی ہے تو وہ استہزاء کے طور پر اس کے فوراً آجانے کا مطالبہ کرتے۔ (دیکھیے انفال :22) یہاں ان کو تنبیہ کی گئی ہے۔ ف 5 عذاب کیجلد ہی نہ آنے کی وجہ سے وہ اللہ کی طرف عجز و احتیاج کی نسبت کرتے۔ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف اس قسم کے امور کی نسبت کرنا شرک کا نتیجہ ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذات اس قسم کی مشرکانہ باتوں سے بلند و برتر ہے۔ (روح) النحل
2 النحل
3 ف 6 اس کا کوئی شریک نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ خالق ہے اور زمین و آسمان کی ہر ہستی اور ہر چیز مخلوق، پھر خالق و مخلوق یکساں کیسے ہو سکتے ہیں۔ النحل
4 ف 7 اور اپنی حقیقت بھول گیا اور لگا قدرت کا انکار کرنے اور کہنے لگا کہ ” مرنے کے بعد بوسیدہ ہڈیوں کو کون زندہ کرسکتا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آیت کے دونوں حصوں سے اللہ تعالیٰ کے کمال قدرت پر استدلال مقصود ہو یعنی نطفہ سے پیدا کیا اور پھر سا میں کامل طور پر قوی اور راکیہ اور قوت گویائی پیدا کردی کہ حجت و استدلال کے ساتھ بحث کرنے کے قابل ہوگیا۔ (روح) النحل
5 ف 8 کہ سردی سے بچنے کے لئے ان کی اون اور بالوں سے خیمے اور مختلف قسم کے لباس تیار کرلیتے ہو۔ (روح) ف 9 کسی کا دودھ پیتے ہو اور کسی پر سواری کرتے ہو اور کسی سے ہل چلاتے اور پانی کھینچتے ہو غیرہ النحل
6 ف 10 یہ دو وقت خوب رونق اور چہل پہل کے ہوتے ہیں اس لئے ان کو خاص طور پر ذکر فرمایا۔ النحل
7 النحل
8 ف 1 یعنی ان جانوروں کے علاوہ جن کا ابھی ذکر ہوا، اللہ تعالیٰ تمہارے فائدے کے لئے وہ چیزیں پیدا کرتا ہے اور کرتا رہے گا جن کی تمہیں خبر بھی نہیں ہے۔ اس میں قیامت تک جو سواریاں بنتی رہیں گی ان سب کی طرف اشارہ ہے۔ النحل
9 ف 2 یعنی اپنے بندوں کی سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کرنا اللہ ہی کے ذمے ہے یا دوسرا ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ سیدھا راستہ اللہ تعالیٰ تک پہنچنے والا ہے۔“ اس میں اشارہ ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے انسان کے لئے جسمانی ضروریات پوری کرنے کا سامان بہم پہنچایا ہے اسی طرح اس کی ہدایت کا راستہ بھی متعین کردیا ہے۔ ف 3 یا بعض لوگ سیدھی راہ چھوڑ کر حق سے انحراف کر رہوے ہیں اس میں تمام گمراہ قرے داخل ہیں موضع میں ہے کہ : اللہ تعالیٰ کی قدر میں (کے دلائل) دیکھ کر اس کی خوبیاں صاف نظر آتی ہیں مگر جس کی عقل میں کجی ہو وہ بہکا ہی رہتا ہے ف 4 مگر اس سے خلق کا اصل مقصد جو ابتلا ہے وہ فوت ہوجاتا ہے اس لئے کہ جس حد تک ہدایت کی راہ دکھانے کا تعلق تھا وہ تو پیغمبر بھیج کر اور کتابیں اتار کر پورا کردیا مگر اس راہ پر چلنا انسان کے اختیار پر چھوڑ دیا تاکہ اس کے اعمال پر جزا مرتب ہو سکے۔ النحل
10 النحل
11 ف 5 کہ ایک ہی پانی ایک ہی سورج ایک ہی زمین اور ایک ہی ہوا سے کیسے رنگ برنگ کے پھل پھول پیدا ہوتے رہتے ہیں ان میں غور و فکر کے اور بھی طریقے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ علم کے و قدرت کے کمال پر استدلال ہوسکتا ہے۔ النحل
12 ف 6 اور جس کام کے لئے ان کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے اس میں لگے ہوئے ہیں۔ اس آیت سے ان نجومیوں کا روہوا جو سمجھتے ہیں کہ تاروں کی حرکت سے دنیا میں طرح طرح کے واقعات رونما ہوتے ہیں حالانکہ تارے بیچارے کیا کرسکتے ہیں وہ تو حکم کے تابع ہیں جو کچھ ہوتا ہے خدا کے حکم سے ہوتا ہے۔ (فتح البیان) موضع میں پہلی (پہلی) چار چیزوں سے تو بندوں کے کام صریح طور پر وابستہ نظر آتی ہیں۔ مگر ستاروں سے انسانی فوائد کا متعلق ہونا صریح نہ تھا۔ اس لئے ان کو جدا کردیا۔ فتدبر 12 النحل
13 ف 7 یعنی انواع و اصناف جیسا کہ جمہور مفسرین نے کہا ہے (مع) مطلب یہ کہ زمین میں طرح طرح کی شکل و صورت رنگ و بو اور مزہ اور خاصیتوں والی چیزیں ہیں کہ سب تمہارے کام میں لگی ہوئی ہیں۔ ان میں حیوانات، نباتات، جمادات اور مرکبات و عناصر شامل ہیں۔ ہمہ از بر تو سرگشتہ و فرمانبردار شرط انصاف نباشد کہ توفرفماں نبری (گلستان سعدی) النحل
14 ف 8 اس سے معلوم ہوا کہ مردوں کے لئے موتی دنگا اور دوسرے سمندری جواہرات کا پہننا حرام نہیں ہے بشرطیکہ انہیں ایسے طریقہ پر نہ پہنا جائے جس سے عورتوں سے مشابہت ہوئی ہو۔ (شوکانی) ہوسکتا ہے کہ نسبت مجازی ہو اور مقصد یہ کہ تمہاری عورتیں پہنتی ہیں۔ عورتوں کے تزین سے چونکہ مرد بھی متمتع اور لذت اندوز ہوتے ہیں اس لئے پہننے کو ان کی طرف منسوب کردیا ہے ورنہ مرد کے لئے تو زیور پہننا جائز نہیں ہے۔ (روح) ف 9 یعنی سمندروں اور دریائوں میں سفر کر کے حلال طرقہ سے اپنا رزق حاصل کرنے کی کوشش کرو۔ النحل
15 ف 10 معلوم ہوا کہ اگر سطح زمین پر یہ اونچے اونچے پہاڑ ابھرے ہوئے نہ ہوتے تو زمین کے گھومنے میں وہ سکون و انضباط نہ ہوتا جواب ہمیں محسوس ہوتا ہے بلکہ شاید وہ ادھر ادھر جھومتی رہتی ! اس آیت میں پہاڑوں کا یہی ایک فائدہ و فکر کیا گیا ہے۔ یوں پہاڑوں کے اور بھی بہت سے فائدے ہیں جو انسان کو حاصل ہوتے ہیں۔ النحل
16 ف 11 جیسے ٹیلے، جھاڑیاں، اور جنگل وغیرہ مطلب یہ کہ اگر زمین میں دریا، قدرتی راستے اور یہ دوسری نشانیاں نہ ہوتیں بلکہ ساری زمین بالکل یکساں ہوتی تو لوگ راستہ بھول جاتے اور کہیں کے کہیں جا پڑتے۔ ان قدرتی راستوں اور نشانیوں کی قدر آدمی کو پہاڑی اور صحرائی علاقوں میں خاص طور پر محسوس ہوتی ہے۔ ف 1 یعنی رات کے وقت سمندر یا خشکی میں جہاں دوسری نشانیاں کام نہیں دیتیں لوگ ستاروں کے ذریعے راستہ معلوم کرتے ہیں اور راستوں کے علاوہ سمت قبلہ اور اوقات کی معرفت بھی ستاروں سے حاصل ہوتی ہے۔ پس ابتدا کے تحت یہ چزیں بھی داخل ہیں۔ (روح) النحل
17 ف 2 بلکہ وہ خود بھی اللہ تعالیٰ کا پیدا کیا ہوا ہے اس میں استفہام برائے تکبیت ہے اور اس سے شرک کا ابطال مقصود ہے۔ (روح) النحل
18 ف 3 کجا کہ تم ان کا شکر ادا کرسکو۔ ف 4 یعنی یہ اس کی بخشش اور مہربان ہے کہ تمہاری ناشکری کے باوجود تمہیں لاکھوں نعمتیں عطا کرتا ہے اور توبہ و انابت کے بعد تمہارے تمام گناہ معاف کردیتا ہے۔ النحل
19 ف 5 لہذا یہ نہ سمجھو کہ تمہارے شرک و کفر کے باوجود جو تم پر رحم فرما رہا ہے اور تمہیں نعمتوں پر نعمتیں دے رہا ہے۔ یہ سب کچھ اس وجہ سے ہے کہ وہ تمہارے اعمال سے ناواقف ہے بلک ہبایں ہمہ اس کی مہربانی اس لئے ہے کہ شاید تمہاری آنکھیں کھلیں اور اپنے کرتوتوں سے باز آجائو۔ اس میں کافروں کے لئے یہ تنبیہ ہے کہ معبود تو وہی ہونا چاہئے اور ہوسکتا ہے جو ظاہر اور پوشیدہ کا جاننے والا ہو۔ النحل
20 ف 6 یعنی ان کے وجود کو تو اللہ تعالیٰ ہی نے پیدا کیا ہے۔ گویہ تراشے خراشے ان کے ہیں۔ یا خلق بمعنی تخت“ (تراشنا) ہی ہو۔ جیسا کہ سورۃ صافات (آیت 95) میں ہے۔ العبدون ماتحبون کہ تم ان بتوں کی پوجا کرتے ہو، جن کو تم خود اپنے ہاتھ سے تراشتے ہو۔ (کذافی الروح) النحل
21 ف 7 یعنی ان بتوں کو یہ بھی معلوم نہیں کہ ان کے پوجنے والے مرنے کے بعد دوبارہ کب زندہ ہوں گے؟ اس مفہوم کے اعتبار سے ” یشعرون“ میں ” ھم“ ضمیر معبودوں کے لئے اور یبعثون کی ضمیر ان کے پوجنے والے کافروں کے لئے ہوگی۔ (شوکانی) شاہ صاحب لکھتے ہیں : شاید یہ ان کو فرمایا جو مرے بزرگوں کو پوجتے ہیں۔ (موضح) اس صورت میں دونوں ضمیریں معبودوں کے لئے ہوں گی۔ معلوم ہوا کہ معبود کے لئے یوم بعث کا جاننا ضروری ہے۔ (کذافی الروح) النحل
22 ف 8 اس غرور میں آ کر نہ وہ اللہ کو مانتے ہیں اور نہ رسول کو یہ ان کے انکار آخرت کا لازمی نتیجہ ہے۔ النحل
23 ف 9 وہ یقیناً ذلیل و خوار ہوں گے اور جہنم ان کا ٹھکانا ہوگی۔ تکبر کی مذمت اور تواضح و انکسار کی تعریف میں متعدد احادیث بھی آئی ہیں۔ مثلاً حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا : جنت میں وہ شخص داخل نہ ہوگا جس کے دل میں ذرہ بھر بھی تکبر ہے اور آگ میں وہ شخص داخل نہ ہوگا جس کے دل میں ذرہ برابر ایمان ہے۔ (مسلم ابودائود) النحل
24 ف 10 یعنی اللہ تعالیٰ کا کلام نہیں ہے بلکہ محمد (ﷺ) نے پچھلے لوگوں کے کچھ قصے کہیں سے سن لئے ہیں انہی کو جوڑ جاڑ کر اللہ کے کلام کے نام سے لوگوں پر پیش کر رہے ہیں۔ النحل
25 ف 11 اس مضمون کو نبی ﷺ نے ایک حدیث میں یوں فرمایا ہے :” جو شخص لوگوں کے لئے کسی اچھے طریقے کی رسم چھوڑ جائے اس کے لئے اپنا اجر ہے اور جتنے لوگ اس کی پیروی کریں گے اس کا بھی اسے اجر ملے گا اور جو شخص بری رسم کی بنیاد ڈالے گا اسے اس کا گناہ ہوگا اور ان لوگوں کے گناہ کا بوجھ بھی اس پر پڑے گا جو اس پر عمل کریں گے۔ (ابن کثیر) النحل
26 ف 1 اس میں ان کافروں کو وعید سنائی گئی ہے جو نبی ﷺ کو نیچا دکھانے کے لئے مکر و فریب کی عمارتیں کھڑی کر رہے تھے کہ ان کا حشر بھی وہی ہونے والا ہے جو پہلے لوگوں کا ہوا۔ لہٰذا وہ یا تو اپنی شرارتوں سے باز آجائیں یا اپنے آپ کو عذاب الٰہی کے لئے تیار رکھیں (روح) النحل
27 ف 2 یعنی انبیاء اور ان کے متعبین سے وہ تمہیں لاکھ سمجھاتے مگر تم اس کے برعکس انہیں اپنا معبود ہی سمجھتے ان کے سامنے ہاتھ رگڑنے اور ان کے آستانوں پر نذرانے چڑھانے پر مصر رہتے تھے۔ النحل
28 ف 3 تم تو سب سے برا کام یعنی شرک کیا کرتے تھے۔ (وحیدی) ف 4 اب انکار کرنے سے کیا ہوتا ہے۔ ساری عمر تو ایمان والوں سے لڑتے جھگڑتے رہے۔ اب عاجز آگئے تو لگے صلح کی پیشکش کرنے (وحیدی) النحل
29 النحل
30 ف 5 یعنی کفار تو قرآن کو ” اساطیر الاولین“ کہ کر اس کی تکذیب کرتے ہیں مگر مومن اس کو سراپا خیر و برکت سمجھ کر اس پر ایمان لاتے ہیں۔ ف 6 دنیا میں ان کی زندگی سکھ اور چین سے گزرے گی اور اللہ تعالیٰ ان کی روزی میں خیر و برکت عطا فرمائے گا، یا آخرت میں انہیں بہتر ثواب ملے گا۔ النحل
31 النحل
32 ف 1 ظاہری سبب کے اعتبار سے عمل کو نجات یا جنت میں داخل ہونے کا سبب قرار دے دیا۔ ورنہ حقیقت میں داخل ہونے کا سبب تو اللہ کی رحمت اور اس کا فضل و کرم ہوگا۔ چنانچہ ایک صحیح حدیث میں ہے۔ ” راست روی اور میانہ روی اختیار کرو اور یہ جان لو کہ تم میں سے کسی کا عمل اسنے جنت میں داخل نہ کرے گا۔ ” صحابہ نے عرض کی“ اور نہ آپ کا عمل آپ کو جنت میں داخل کرے گا؟ فرمایا ” ہاں ! میرا عمل بھی نہیں الایہ کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے فضل سے ڈھانپ لے۔ (شوکانی) النحل
33 ف 2 تب وہ ایمان لا کر اپنی حالت درست کریں گے حالانکہ اس وقت ایمان لانا یا توبہ کرنا انہیں کچھ فائدہ نے دے گا۔ ف 3 کفر کی روش اختیار کی اور انبیاء کو جھٹلایا۔ شوکانی ف 4 وہ خود ایسے برے عمل کرتے تھے جن کی سزا عذات تھی۔ (کذافی وحیدی) النحل
34 النحل
35 ف 5 کفار اپنے شرک اور اعمال کفر مثلاً بحیرہ سائبہ اور وصیلہ وغیرہ کی حرمت کے جواز کے لئے اللہ تعالیٰ کی مشیت کا سہارا لیتے اور اس بہانے سے رسالت پر طعین کرتے اور کہتے کہ اگر یہ شرک اور تحریکات اللہ کی مرضی کے خلاف ہوتے تو ہم نہ کرتے اور ہمیں روک دیا جاتا۔ جب اللہ نے نہیں روکا تو معلوم ہوا کہ یہ سب کچھ ہم اس کی مشیت کے تحت کر رہے ہیں مگر اولاً تو یہ بات ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ ان کے اس شرک اور اعمال پر راضی ہوتا تو ان سے منع کرنے کے لئے نہ پیغمبر بھیجتا اور نہ کتابیں نازل کرتا۔ جب مسلسل پیغمبروں کے ذریعہ ان باتوں سے منع کیا ہے تو معلوم ہوا کہ یہ سب چیزیں اس کی مرضی کے خلاف ہیں اور پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس پر گرفت نہ ہونے کو سند جواز نہیں بنا سکتے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مہلت ہے مزید دیکھئے سورۃ انعام آیت 47 النحل
36 ف 6 لہٰذا اگر کا فریج بحثی یا ہٹ دھرمی کرتے ہیں اور ایمان نہ لائیں تو پیغمبروں سے اس پر باز پرس نہ ہوگی ہدایت و گمراہی کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں : یہ نادانوں کی باتیں ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو فلاں کام برا لگتا تو کیوں کرنے دیتا۔ آخر ہر فرقے کے نزدیک بعض کام برے ہیں پھر وہ کیوں ہوتے ہیں۔ یہاں جواب مجمل فرمایا کہ رسول تو برے کاموں سے منع کرتے آئے ہیں مگر جس کی قسمت تھی اس نے ہدایت پائی جس کو خراب ہونا تھا خراب ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ کی مشیت کا تقاضا یوں ہی ہوا ہے۔ (از موضح) ف 7 طاغوت کا لفظ طغیان سے مشتق ہے جس کے معنی اپنی حد سے بڑھنے کے ہیں۔ یہ شیطان معبود باطل اور ہر اس شخص پر بولا جاسکتا ہے جو ضلالت کی طرف داعی ہو۔ شوکانی شاہ صاحب لکھتے ہیں جو ناحق سرداری کا دعویٰ کرے کچھ سند نہ رکھے ایسے کو طاغوت کہتے ہیں۔ بت شیطان اور زبردست ظالم سب ہی ہیں۔ (از موضح) ف 8 ینی ہر پیغمبر نے اللہ تعالیٰ کی بندگی اختیار کرنے اور طاغوت سے بچتے رہنے کی دعوت دی۔ پھر بعض نے تو دعوت کو قبول کرلیا اور ہدایت پا گئے مگر بعض نے اپنے کفر و شرک پر اصرار کیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان پر گمراہی ثبت کردی گئی۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے ارادہ کی اس کے امر سے موافقت ضروری نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ایمان کا حکم تو سب کو دیتا ہے مگر اللہ کی ارادہ کے مطابق ہدایت بعض کو ہوتی ہے۔ (شوکانی) ف 9 یعنی ان کے تباہ شدہ آثار دیکھ کر بتائو کہ رسولوں کی تکذیب کرنے والوں پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نہیں آیا۔ لہٰذا یہ سمجھنا انتہائی حماقت ہے کہ کفر و شرک کا ارتکاب اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق ہے۔ حقیقت یہ ہیکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبروں کے ذریعہ اپنی رضا مندی کا راستہ بتایا ہے لہٰذا اللہ تعالیٰ کی رضا مندی حاصل کرنے کے لئے پیغمبروں کی پیروی ضروری ہے۔ النحل
37 ف 1 یعنی اللہ تعالیٰ نے تو ہدایت اور گمراہی کے دونوں راستے واضح کردیئے۔ اب جو لوگ اس کی عطا کردہ استعداد سے کام نہ لیں اور حق پر باطل کو ترجیح دیں اور اللہ انہیں باطل میں پڑا رہنے کی سزا دے تو آپ کا ان کی ہدایت پر حرص کرنا انہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا۔ النحل
38 ف 2 یعنی مرنے کے بعد نہ کوئی دوسری زندگی ہے اور نہ حساب و کتاب اس لئے عذاب کا کیا ڈر؟ ف 3 یعنی تمہارے انکار کرین اور زور دار قسمیں کھانے سے اللہ کا پکا وعدہ ٹل نہیں سکتا۔ وہ تو ضرور پورا ہو کر رہے گا البتہ تم ایسی واضح حقیقت کا انکار کر کے اپنی جہالت کا ثبوت دے رہے ہو۔ النحل
39 ف 4 جو قسمیں کھا کھا کر کہا کرتے تھے کہ مرنے کے بعد کوئی دوسری زندگی نہیں ہے اور یہ کہ حساب و کتاب جنت و دوزخ سب بے حقیقت چیزیں ہیں۔ مطلب یہ کہ جب دنیا میں سب باتوں کا فیصلہ نہیں ہوتا تو سب اختلاف کو دور کرنے کے لئے دوسرے جہان یعنی آخرت کا ہونا لا ابدی ہے کہ حق و باطل میں امتیاز ہوجائے اور منکرین اپنا کیا پاویں۔ (کذافی الموضح) النحل
40 ف 5 یعنی جس کی قدرت کا یہ حال ہو اس کے لئے مردوں کو دوبارہ زندہ کرنا کچھ مشکل نہیں۔ النحل
41 ف 6 مراد ہیں وہ مسلمان جو کفار کے ظلم و ستم سے تنگ آ کر مکہ سے حبشہ کی طرف ہجرت کر گئے تھے۔ (شوکانی) ف 7 چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انناتواں اور غریب الوطن مہاجرین کو دنیا میں عزت، شرف، عظمت، حکومت، دولت ہر چیز عنایت فرمائی۔ (شوکانی) النحل
42 النحل
43 ف 8 یعنی وہ تمہیں بتائیں گے کہ دنیا میں جتنے پیغمبر آئے سب کے سب بشر تھے۔ فرشتے یا کسی دوسری مخلوق سے نہ تھے۔ (شوکانی) بعض مقلد حضرات اس آیت سے تقلید کے جائز ہونے پر استدلال کرتے ہیں حالانکہ آیت کے سیاق و سباق سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس کے مخاطب مشرکین ہیں اور ” اہل الذکر“ سے مراد اہل کتاب ہیں اور آیت میں ایک خاص اعتراض کے حل میں ان کی طرف رجوع کا حکم دیا جا رہا ہے۔ اگر آیت کو عام بھی سمجھ لیا جائے تو بھی عام مسلمانوں کو حکم دیا جا رہا ہے کہ اپنے علما سے کتاب و سنت کا حکم معلوم کریں نہ کہ کسی خاص و عام کے مسئلے دریافت کریں۔ (مختصراً از وحیدی) النحل
44 ف 9 اس آیت میں ” الذکر“ یعنی قرآن کے نازل کرنے کا مقصد یہ بیان فرمایا ہے کہ آنحضرت اپنے قول و عمل سے اس کی توضیح و تشریح فرمائیں کیونکہ آنحضرت کی توضیحات کو سامنے رکھے بغیر قرآن کی توضیحات کو سامنے رکھے بغیر قرآن کے مجملات کو سمجھنا ممکن ہی نہیں ہے۔ مثلاً نماز، زکوۃ اور دیگر احکام اسی بنا پر آنحضرت نے فرمایا : الا انی اوتیت القرآن و مثلہ معہ کہ خبردار ! مجھے قرآن اور اس جیسی ایک اور چیز یعنی سنت دی گئی ہے۔ پس قرآن سے ہدایت حاصل کرنے کیلئے سنت سے بے نیازی اس آیت کی صریح خلاف ورزی ہے۔ (از وحیدی) النحل
45 النحل
46 ف 1 یعنی اس کی پکڑ سے بچ کر کہیں نہیں بھاگ سکتے۔ (وحیدی) النحل
47 ف 2 یعنی جب غفلت کی حالت نہ ہو بلکہ انہیں عذاب کے آنے کا کھٹکا لگا ہوا ہو اور وہ اس سے چونکتے ہوں مثلاً پہلے سخت آندھی یا زلزلہ آئے جس سے خوف زدہ ہوجائیں اور پھر اس حالت میں ان پر عذاب بھیج دے۔ بعض نے ” تخوف“ کے معنی ” تنقص“ آہستہ آہستہ کم کرنے) کے کئے ہیں۔ یعنی یہ بھی ممکن ہے کہ وہ انہیں اچانک نہ پکڑے بلکہ ان کی جانوں، مالوں اور پیداوار کو آہستہ آہستہ کم کرتا رہے یہاں تک کہ وہ بالکل تباہ ہوجائیں۔ یہ تفسیر حضرت ابن عباس سے منقول ہے اور حضرت عمر نے اپنے ایک خطبہ میں اس معنی کو پسند فرمایا تھا۔ مطلب یہ کہ اللہ تعالیٰ ہر حال میں ان پر عذاب بھیج سکتا ہے۔ (روح) ف 3 کہ تم گناہ کرتے رہتے ہو مگر بایں ہمہ وہ تم کو رزق اور تندرستی بخشتا ہے اور اس کی طرف سے تمہاری فوراً گرفت نہیں ہوتی۔ (کذافی ابن کثیر) النحل
48 النحل
49 ف 4 یعنی دنیا کی ہر چیز پہاڑ، درخت اور انسان وغیرہ۔ جس کا سایہ بڑھتا، گھٹتا اور ڈھلتا ہے۔ تکوینی طور پر اللہ تعالیٰ ہی کی فرمانبرداری میں مصروف ہے اور وہ قانون قدرت سے سرموانحراف نہیں کرسکتی۔ یہاں جملہ ایشیا پر ذوی العقول کو غلبہ دے کر ” داخرون“ فرما ای ہے۔ (از روح) شاہ صاحب اس سجدہ کی کیفیت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ہر چیز ٹھیک دوپہر میں کھڑی ہے۔ اس کا سایہ بھی کھڑا ہے۔ جب دن ڈھلا، سایہ بھی جھکا، پھر جھکتے جھکتے شام تک زمین پر پڑگیا جیسے نماز میں کھڑے سے رکوع اور رکوع سے سجدہ اس طرح ہر چیز اپنے سایہ سے نماز ادا کرتی ہے۔ (کذا فی الموضح) ف 5 پہلے ان چیزوں کا سجدہ بیان فرمایا جو زمین میں پائی جاتی ہیں۔ اب یہاں زمین و آسمان میں پائے جانے والے تمام جاندار خصوصاً فرشتوں کا سجدہ بیان کر کے متنبہ فرمایا کہ ایسی مقرب ہستیاں بھی اللہ تعالیٰ کے سامنے سربسجود ہیں اور ان میں کوئی تکبر یا غرور نہیں پایا جاتا لہٰذا ان کے متعلق یہ سمجھنا قطعی غلط ہے کہ وہ اللہ کی بٹیاں ہیں اور ان کا خدا کی خدائی میں کوئی حصہ ہے۔ شوکانی النحل
50 ف 6 یعنی من فوقھم ربھم سے حال ہے۔ ای کونہ تعالیٰ من فوقھم اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یخافون کے متعلق ہو اور مضاف محذوف ہو۔ ای عذاب ربہم اس سے بھی معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ فوق العرش ہے اور تمام اہل حدیث کا اس پر اتفاق ہے (وحیدی) النحل
51 ف 7 اور یہ بتایا کہ آسمان و زمین کی تمام چیزیں اللہ تعالیٰ کی مطیع اور فرمانبردار ہیں۔ اب اس کے بعد شرک سے منع فرمایا۔ (شوکانی) النحل
52 ف 8 اگر ڈرتے ہو تو یہ تمہاری سراسر حماقت اور نادانی ہو النحل
53 النحل
54 ف 9 بعض اپنے مالک کا شکر بجالانے کے ساتھ ساتھ کسی دیوی دیوتا یا کسی بزرگ کے شکر یہ کی بھی نیازیں اور نذریں چڑھانا شروع کردیتے ہیں۔ النحل
55 ف 10 کہ تمہارا دنیا و آخرت میں انجام کیا ہوتا ہے۔ النحل
56 ف 1 یا جن کی حقیقت انہیں معلوم نہیں ہے مراد میں مٹی اور پتھر کے وہ بت جنہیں مشرکین عرب اپنی جہالت اور لاعلمی سے اپنا معبود دیا اپنے نفع و نقصان کا مالک تصور کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ ساتھ اپنے مویشویں اور اپنی کمائیوں سے ان کے نام کی منت اور نذر چڑھایا کرتے تھے حالانکہ مال سب اللہ کا ہے جس میں دوسرے کا حق نہیں اور پھر ان کے پاس اس چیز کی کوئی دلیل بھی نہ تھی۔ (وحیدی) النحل
57 ف 2 نہ اس کا کوئی بیٹا ہے اور نہ بیٹی۔ ف 3 یعنی خدا کے لئے تجیز بھی کرنے لگے ہیں تو بیٹیاں حالانکہ اپنے لئے ان کو ناپسند کرتے ہیں اور جب مانگتے ہیں تو بیٹے۔ (شوکانی) النحل
58 ف 4 کہ یہ بن بلائی مصیبت کہاں سے آن پڑی ہے۔ النحل
59 ف 5 یعنی خود اپنے لئے تو بیٹی کو اس قدر عار اور ننگ سمجھتے ہیں لیکن خدا کے لئے اسے بلاتامل تجویز کردیتے ہیں حالانکہ خدا کیلئے اولاد تجویز کرنا بجائے خود انتہائی جہالت اور ستاخی ہے تلک اذاً قسمۃ صبری یعنی یہ ایک بھونڈی تقسیم ہے۔ (نجم : 22) النحل
60 ف 6 یعنی مشرکین جن کا حال اوپر بیان کیا گیا ہے۔ ف 7 وہی اولاد کے محتاج ہیں۔ ان ہی کو بڑھاپے اور بیماری میں اولاد کے سہارے کی ضرورت ہے اور انہی کا یہ شیوہ ہے کہ عار یا افلاس کے خوف سے بیٹیوں کو زندہ درگور کر ڈالتے ہیں۔ النحل
61 ف 9 اللہ تعالیٰ حلم اور پردہ پوشی سے کام لیتا ہے۔ یہاں ” داب 1“ سے مراد یا تو کافر اور گنہگار لوگ ہیں اور یا یہ ہر جاندار چیز کو شامل ہے۔ ہوسکتا ہے کہ بنی آدم کے گناہوں کی نحوست کا اثر دوسرے جانوروں پر بھی پڑتا ہوجیسا کہ بعض آثار سے ثابت ہے اور یا دوسرے جانوروں پر ہلاکت انسان کے بالتبیع ہو (کذافی ابن کثیر) ف 9 یعنی جب تک ان کے لئے اس دنیا میں رہنا مقصدر ہے۔ النحل
62 ف 10 جیسے بیٹیاں یا اپنی ملکیت ہیں کسی دوسرے کی شرکت یا گستاخی اور بدتمیزی کا معاملہ۔ (ابن کثیر) ف 11 کہتے ہیں کہ ہم دنیا میں بھی چین اور خوشحلای کے حقدار ہیں اور اگر آخرت آئی تو وہاں بھی انعام واکرام کے مستحق ہونگے۔ (ابن کثیر) ف 12 یا دوزخ میں جھنک دیئے جانے کے بعد انہیں قطعی فراموش کردیا جائیگا۔ اور وہ وہاں پڑے جلتے رہیں گے۔ مفسرین نے مفرطون کے یہ دونوں معنی بیان کئے ہیں اور دونوں میں کسی قسم کی منافات نہیں ہے۔ (ابن کثیر) النحل
63 ف 13 یعنی کفر و شرک کے جن برے کاموں کا وہ ارتکاب کر رہے تھے۔ ف 14 وہ سمجھے کہ بہت اچھے کام کر رہے ہیں چنانچہ اس گھمنڈ میں آ کر انہوں نے انبیاء کی بات ماننے سے انکار کردیا۔ ف 1 جو ان کے کسی کام نہیں آسکتا اور نہ ان کی فریاد کو پہنچ سکتا ہے۔ بعض مفسرین نے فھم ولیھم الیوم میں ھم ضمیر کا سرمرجع مکہ کو قرار دے کر اس جملہ کا یہ مطلب لیا ہے کہ شیطان جس نے پچھلے لوگوں کو بہکایا تھا وہی آج ان کفار مکہ کا رفیق ہے لہٰذا جو حشر ان کا ہوا وہی ان کا بھی ہوگا۔ اس آیت سے مقصد آنحضرت کو تسلی دینا ہے کہ آپ ان کفار کی حرکتوں سے نجیدہ اور کبیدہ خاطر نہ ہوں۔ (روح) النحل
64 النحل
65 ف 2 پہلے مردے کی طرح خشک پڑی تھی۔ نہ اس میں زندگی کے کوئی آثار تھے۔ نہ گھاس پھونس نہ پھول پتیاں اور نہ کیڑے مکوڑے۔ اتنے میں بارش ہوئی اور وہ دیکھتے دیکھتے چند دنوں میں ہری بھری اور ترو تازہ ہوگئی اور اس میں ہر قسم کی سرسبزی و شادابی آگئی اور جگہ جگہ پانی کے چشمے پھوٹنے لگے کو یا مرنے کے بعد اسے دوبارہ زندگی نصیب ہوئی۔ ف 3 اس سے وہ با آسانی سمجھ سکتے ہیں کہ جو خدا زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندگی عطا فرما سکتا ہے وہ انسانوں کو بھی انکے مرنے کے بعد دوبارہ پیدا کرسکتا ہے۔ اس کے لئے کوئی چیز مشکل نہیں ہے۔ النحل
66 النحل
67 ف 4 یعنی انکے پھلوں سے تم نشہ آور شراب بھی کشید کرتے ہو اور کھانے پینے کی دوسری عمدہ چیزیں بھی جیسے شربت سرکہ اور شکر وغیرہ واضح رہے کہ یہ آیت مکی ہے اور شراب مکہ میں حرام نہ ہوئی تھی بلکہ ہجرت کے بعد مدینہ میں حرام ہوئی تھی نزول آیت کے وقت لوگ اسے بلاتامل استعمال کرتے تھے۔ تاہم دوسری عمدہ چیزوں سے اس کا الگ ذکر کر کے اور اس کے لئے لفظ سکر استعمال کر کے متنبہ فرما دیا ہے کہ اس کا استعمال اچھا نہیں۔ النحل
68 ف 5 یعنی اس کی فطرت میں یہ چیز ڈالی صوفیہ کرام نے وحی کو حقیقی معنی پر مجمول کیا ہے اور وہ حیوانات کی جمیع صاف میں انبیاء اور رسل کے قائل ہیں اور فلاسفہ جملہ حیوانوں میں نفس ناطقہ مانتے ہیں مگر یہ شرعاً ثابت نہیں۔ (روح) النحل
69 ف 6 شہد کی مکھیاں ایک عجیب و غریب طریقہ سے اپنا کام کرتی ہیں۔ پہلے چھتا بناتی ہیں پھر سب مل کر ایک بڑی مکھی کو اپنا سردار مقرر کرتی ہیں جسے ” یعسوب“ کہا جاتا ہے۔ پھر اس کے ماتحت چھتا میں شہد بھرنا شروع کرتی ہیں۔ اسی کی طرف یہاں اشارہ ہے۔ (ابن کثیر) ف 7 چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ بعض اوقات شہد کی مکھیاں رس چوسنے کے لئے بہت دور نکل جاتی ہیں اور پھر بے تکلف اپنے چھتا میں واپس آجاتی ہیں نہ راستہ بھولتی ہیں اور نہ کوئی مکھی اپنے چھتے کے علاوہ دوسرے چھتے میں داخل ہوتی ہے۔ (ابن کثیر) ف 8 یعنی کوئی شہد سفید ہوتا ہے کوئی سرخ اور کوئی زرد اور یہ اختلاف محض ضائع حکیم کی قدرت کا مظہر ہے۔ (روح) ف 9 شہد ایک مفید اور لذیذ غذا بھی ہے اور ایک فائدہ مند اور صحت بخش دوا بھی۔ اس کے بہت سی بیماریوں میں شفا بخش ہونے کے بارے میں متعدد احادیث بھی ثابت ہیں۔ ایک حدیث میں ہے آنحضرت نے فرمایا : شفا تین چیزوں میں ہے فصد کھلوانے میں شہد کے پینے میں اور آگ سے داغنے میں اور میں اپنی امت کو اگٓ سے داغنے سے منع کرتا ہوں۔ اسی طرح ابوسعید خدری سے روایت ہے کہ آنحضرت نے ایک شخص کے لئے شہد تجویز فرمایا۔ شہد کے استعمال سے اس کی استہال کی تکلیف بڑھ گئی۔ اس کے دو تین مرتبہ آنحضرت کے سامنے تردد ظاہر کرنے پر آنحضرت نے فرمایا :” اللہ نے سچ فرمایا ہے تمہارے بھائی کا پیٹ جھوٹا ہے تم اسے شہد پلاتے رہو۔“ اس نے مزید شہد پلایا اور وہ تندرست ہوگیا۔ (بخاری مسلم) ف 10 یعنی جس طرح جانوروں کے پیٹ سے دودھ، انگوروں کھجروں سے رزق حسن اور مکھی کے پیٹ سے شہد پیدا ہوتا ہے اسی طرح اس قرآن سے جاہلوں کی اولاد سے عالم پیدا ہوں گے۔ دور نبوت میں یہی ہوا اور کافرون کی اولاد کامل ہوئی۔ النحل
70 ف 1 حیوانات میں قدرت کے دلائل بیان کرنے کے بعد اب خود انسان کے اندر جو دلائل پائے جاتے ہیں ان کو بیان فرمایا اور حقیقت یہ ہے کہ انسان اپنی ابدتائے نشات سے لے کر عالم شباب، کہولت اور سب سے آخر میں شیخوختہ ان مختلف اطوار پر غور کرے تو صانع حکیم کے علم و قدرت کا عجیب نقشہ سامنے آتا ہے کہ عمر کی اس منزل میں پہنچ کر انسان بالکل بچہ بن جاتا ہے اور اس کی بے بسی کا عالم یہ ہوتا ہے کہ اس کے ہوش و حواس سلب ہوجاتے ہیں اور کوئی اس کی حفاظت کرنے والا نہیں ہوتا۔ اسے قرآن نے ارزدل العمر قرار دیا ہے۔ حدیث میں ہے کہ آنحضرت نکمی عمر کی طرف لوٹائے جانے سے پناہ مانگا کرتے تھے۔ فتح القدیر) ف 2 یعنی اس امت میں بھی کامل پیدا ہو کر پھر ناقص ہونے لگیں گے۔ (موضح) النحل
71 ف 3 پھر اللہ کے عبید (غلاموں) کو اس کے شریک کیوں قرار دیتے ہو ف 4 یعنی کفران نعمت کر کے دوسروں کو اس کا شریک گردانتے ہیں۔ النحل
72 ف 5 یعنی ان کا احسان مانتے ہیں کہ ان ہی نے بمیاری سے شفا دی، بیٹا دیا یا روزی بخشی۔ ف 6 جو سچا معبود ہے اور تمام احسانات اسی کے ہیں مگر یہ بتوں اور بزگروں کے احسان مانتے ہیں کہ تندرستی بیٹے اور روزی یہ دیتے ہیں حالانکہ یہ سب جھوٹ باطل ہے سچی بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ دینے والا اللہ تعالیٰ ہے جس کے مشرک شکر گزار نہیں ہوتے۔ (کذافی الموضح ) النحل
73 ف 7 یعنی نہ وہ آسمان سے پانی برسا سکتے ہیں اور نہ زمین سے کوئی چیز اگا سکتے ہیں اور نہ جو چیز اگے اسے باقی رکھ سکتے ہیں۔ ف 8 یا نہ وہ ایسا اختیار حاصل کرنے کی طاقت رکھتے ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے سامنے محبور محض ہیں۔ النحل
74 ف 9 مشرک کہتے ہیں کہ جس طرح بادشاہوں کے وزیر اور درباری اس کی سلطنت میں دخیل ہوتے ہیں اور بادشاہ کو ان کی بات سننی پڑتی ہے اسی طرح ہمارے یہ معبود اوتار اور بیٹھا کر بھی اللہ کی سرکار میں صاحب اختیار ہیں اس واسطے ہم ان کو پوجتے ہیں۔ سو یہ مثال غلط ہے، بادشاہ تو سب کام خود نہیں کرسکتے مگر اللہ تعالیٰ ہر چیز آپ کرتا ہے اور اس پر کسی کارتی برابر بھی دبائو نہیں ہے (وحیدی، موضح) النحل
75 ف 10 مگر اپنی بے وقوفی سے اللہ تعالیٰ کو دنیا کے بادشاہوں پر قیاس کرتے ہو اور سمجھتے ہو کہ اللہ ان کی سفارش رد نہیں کرسکتا۔ یہ تمہاری بے عقلی اور بے سمجھی ہے۔ لہٰذا تم اللہ کے لئے اس قسم کی مثالیں بیان نہ کرو۔ اب آگے دو مثالیں بیان کی جاتی ہیں ان پر غور کرو۔ (وحیدی) ف 11 یعنی ایسا غلام ہے جو اپنے مالک کی اجازت کے بغیر ایک کوڑی بھی خرچ نہیں کرسکتا۔ ف 12 ہرگز برابر نہیں ہو سکتے۔ بس یہی مثال ہے بت اور اللہ تعالیٰ کی بلکہ بت اس غلام سے بھی کیا گزرا ہے کیونکہ وہ تو پھر بھی ہوش و حواس اور شعور رکھتا ہے اور اپنے نفس سے حتی الوسع دفاع کرسکتا ہے مگر یہ بے جان اور بے شعور بت کچھ بھی نہیں کرسکتا۔ پھر کس قدر بے انصافی ہے کہ تم اسے خدائے زوا الجلال کے برابر شمار کرتے ہو جو ہر چیز کا مالک اور ہر چیز پر کامل اختیار اور قدرت رکھنے والا ہے۔ یہی مثال ایک کافر اور مومن کی بھی ہو سکتی ہے۔ کافر بتوں کا مملوک اور اپنے اوہام و خواہشات کا کان پکڑا غلام ہے۔ کیا وہ اس مومن کے برابر ہوسکتا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے علم و دولت سے نوازا ہے۔ (وحیدی) ف 1 ورنہ ہرگز خدا کو چھوڑ کر ان بتوں کی پوجا نہ کرتے۔ النحل
76 ف 2 نہ اپنا کچھ کرسکتا ہے اور نہ دوسروں کے کام آسکتا ہے۔ ف 3 کیونکہ نہ حواس رکھتا ہے اور نہ عقل، اس لئے کسی بھی کام کے لائق نہیں پھر اس کے بھیجنے سے فائدہ کی بجائے الٹا نقصان ہوتا ہے۔ ف 4 بت بہرے گونگے غلام کی طرح ہیں اور اللہ تعالیٰ اس عاقل و دانا شخص کی طرح یا کافر بہرے گوگنے غلام ہیں اور مومن عاقل و دانا شخص کی طرح پھر ان کو برابر کیسے قرار دیا جاسکتا ہے النحل
77 ف 5 غیب سے مرد وہ باتیں ہیں جو بندوں کے لحاظ سے پوشیدہ ہیں۔ ف 6 یعنی یا اس سے بھی کم ویژن اللہ تعالیٰ قیامت کو لا سکتا ہے اس کے لئے کوئی کام ذرہ مشکل نہیں ہے۔ النحل
78 ف 7 یعنی اس خدا کا شکر کرو جس نے تمہیں بے بہا نعمتیں عطا فرمائیں اور اس کے سوا کسی کو نہ پوجو۔ (وحیدی) النحل
79 ف 8 ان کے پروں بازوئوں اور (دموں) کی ساخت ایسی رکھی ہے کہ ہوا ان کا بوجھ اٹھا لیتی ہے اور وہ اس میں نہایت آسانی سے اڑتے رہتے ہیں۔ ف 9 یعنی بعض لوگ معاش کی فکر میں مشغول ہونے کی وجہ سے ایمان لانے سے رکے ہوئے ہیں۔ پس فرمایا کہ تم ماں کے پیٹ سے تو کچھ نہیں لائے۔ اسباب کمائی کان آنکھ دل اللہ نے دیئے ہیں اور اڑتے جانور ادھر میں کس کے بھروسے جیتے ہیں۔ (موضح) النحل
80 ف 10 یعنی چمڑے کے خیمے بناتے ہو جو عرب میں بہت استعمال ہوتے ہیں۔ اس سورۃ میں خاص طور پر اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمتوں کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ اس بنا پر اس کو ” سورۃ النعم“ بھی کہتے ہیں۔ ف 1 یعنی زندگی یا جب تک قیامت نہیں آئے گی تم انہیں استعمال کرنے والوں سے فائدہ اٹھاتے رہو گے۔ النحل
81 ف 2 اور سردی سے بھی چونکہ سخت گرمی اور بادسموم سے بچنے کے لئے کپڑوں کو خاص اہمیت حاصل تھی۔ اس لئے گرمی سے بچنے کا ذکر خصوصیت کے ساتھ فرما دیا۔ (شوکانی) ف 3 یعنی سلمان بنو اس لئے جو شخص اللہ تعالیٰ کی بے پایاں نعمتوں پر غور کرے گا ضرور ہے کہ وہ یہاں بلکہ میں کی اطاعت اختیار کرے۔ النحل
82 ف 4 ان کے نہ ماننے سے آپ کا کوئی نقصان نہ ہوگا اس لئے آپ غم نہ کیجیے بلکہ تبلیغ کا فریضہ ادا کرتے جائیے۔ اس میں آنحضرت کو تسلی دی ہے۔ النحل
83 النحل
84 ف 5 یعنی خوب دبانتے ہیں کہ یہ ت مام نعمتیں اللہ تعالیٰ ہی کی ذات عنایت فرما رہی ہے مگر جب عملاً شکر گزاری کا وقت آتا ہے تو سب بھول جاتے ہیں اور بخرک کرنے لگتے ہیں۔ گویا دل میں نعمتوں کا متوار اور اپنے عمل سے انکار کرتے ہیں۔ ف 6 ان کا پیغمبر اللہ کے سامنے کو ہوگا اور ان کے حق میں ایمان و تصدیق کی گواہی دے گا۔ (بشرطیکہ یہاں لا کر پیروی کی ہوگی اور اگر انحراف کیا ہوگا تو ان کے خلاف کفر و تکذیب کی گواہی دے گا۔ اس میں منکرین نعمت کے لئے وعید ہے۔ شوکانی ف 7 یعنی ان کا مجرم ہونا اتنا واضح ہوگا کہ ان کے پاس کوئی عذر یا بحث نہیں ہوگی جس کے بیان کرنے کی اجازت دی جائے۔ ف 8 یا نہ انہیں (اپنے رب کو) راضی کرنے کا موقع دیا جائے گا یعنی نیک عمل کر کے کیونکہ آخرت عمل کا کفر نہیں ہے عمل کا گھر دنیا ہے اور دنیا کی طرف پلٹنا ممکن نہیں۔ (قرطبی) النحل
85 ف 9 یعنی نہ عذاب کی شدت میں کمی کی جائے گی اور نہ کسی قسم کی مہلت دی جائے گی۔ اذلاتوبۃ لہم ثم (قرطبی) النحل
86 ف 10 یعنی جن کو انہوں نے معبود بنا رکھا ہے وہ ان کی تکذیب کریں گے کہ ہم نے کب کہا تھا کہ خدا کو چھوڑ کر ہمیں پکارا کرو۔ تم اگر ہمیں پکارتے رہے ہو تو غلط پکارتے رہے ہو اس کی سزا خود بھگتو ہم پر اس کی ذمہ داری کیوں تھوپتے ہو کہتے ہیں کہ مشرکین کو روسا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ بتوں کو گویائی عطا فرمائے گا۔ ( شوکانی) شاہ صاحب لکھتے ہیں جو لوگ پوجتے ہیں بزرگوں کو وہ بزرگ بے گناہ ہیں۔ ایک شیطان اپنا ہی نام رکھ کر آپ کو بجھواتا ہے اس لئے ان کو کہیں گے کہ تم جھوٹے ہو۔ (موضح) النحل
87 ف 11 نہ کوئی بت ان کے کام آئے گا نہ کوئی مشکل کشا ان کی مشکل آسان کرے گا اور نہ کوئی دیوتا یا ٹھاکر یا غوث یا ہر پیر ایسا ہوگا جو آگے بڑھ کر ان کی سفارش کرسکے اور انہیں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے چھٹکارا دلا سکے۔ (وحیدی) النحل
88 ف 1 کیونکہ ان کا جرم بھی اسی نوعیت کا ہوگا۔ انہیں ایک عذاب تو خود کافر رہنے کا دیا جائے گا اور دوسرا عذاب اس چیز کا کہ انہوں نے دوسروں کو بہکایا اور انہیں اللہ کی راہ سے روکا۔ (قرطبی) النحل
89 ف 2 یعنی ان کا پیغمبر جو ان پر اتمام حجت کے لئے گواہی دے گا کہ ان لوگوں نے حق و باطل کی کشمکش میں گیا رویہ اختیار کیا ف 3 صحیحین میں روایت ہے کہ آنحضرت نے عبداللہ بن معسود کو سورۃ نسا تلاوت کرنے کا حکم دیا۔ جب وہ اسی سورت کی اس مضمون والی آیت 14 پر پہنچے تو آنحضرت کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ زمانہ فشرت میں بھی توحید پرست لوگ رہے ہیں جو قیامت کے دن بطور شاہد پیش ہوں گے واللہ اعلم دیکھیے سورۃ بقرہ آیت 43 و نسا آیت 4 ف 4 یعنی حلال و حرام اور ہر اس چیز کا بیان ہے جس پر دنیا و آخرت میں انسان کی ہدایت و ضلالت اور فرلاح و خسران کا انحصار ہے پھر جن احکام کو قرآن نے مجملاً بیان کیا ہے یا ان کے بیان کو چھوڑ دیا ہے۔ ان میں پیغمبر کی اطاعت کو فرض قرار دے کر سنت کی طرف رجوع کا حکم دیا ہو۔ شوکانی النحل
90 ف 5 اس آیت میں تین ایسی جامع چیزوں کا حکم دیا گیا ہے جن پر ان کے سارے انفرادی و اجتماعی معاملات کی درستی کا انحصار ہے بیٹی عدل احسان اور ایثار ذی القربی عدل سے مراد یہ ہے کہ عقیدہ و عمل میں اعتدال کی وہ اختیار کرنا احسان میں فرائض و نوافل کی ادائی اور خلق خدا کے ساتھ ہر قسم کا نیک سلوک آجاتا ہے ایک حدیث میں نہایت اخلاص کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کو احسان فرمایا ہے اور پھر حقوق العباد کے معاملے میں رشتہ داروں کے حقوق پر خصوصیت کے ساتھ زور دیا گیا ہے۔ ف 6 اوپر تین بھلائی کے کاموں کا ذکر کر کے ان کے مقابلہ میں تین ایسی برئایوں سے منع کیا گیا ہے جو مسلمانوں کے تمام انفرادی اور اجتماعی معاملات کو بگاڑ کر رکھ دینے والی ہیں۔ اس لئے حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ اس آیت میں تمام بھلائیوں اور برائیوں کا ذکر آگیا ہے حضرت عثمان بن مظعون کے دل میں اسی آیت کو سن کر ایمان و اخلاص راسخ ہوا۔ ابوطالب نے جب یہ آیت سنی تو کہنے لگا میرا بھتیجا (ﷺ) مکارم الخاق کی تعلیم دیتا ہے۔ الغرض اس آیت کی جامعیت کا کفار نے بھی اقرار کیا۔ (قرطبی) النحل
91 ف 7 احکام الٰہی کا عہد یا باہم ایک دوسرے سے جائز طور پر کئے گئے عہد و پیمان شوکانی ف 8 یہ مطلب نہیں کہ جن قسموں کو پکار نہ کیا گیا ہو ان کا توڑنا جائز ہے کیونکہ وہ ہر معاملہ جس پر قسم کھائی جائے وہ پکا ہوجاتا ہے اور پھر بلاعذر اس کا توڑنا ناجائز نہیں ہے اگر کسی قسم سے اللہ و رسول کی نافرمانی لازم آتی ہو تو ایسی قسم کا توڑنا ضروری ہے جیسا کہ ایک حدیث میں ہے کہ جو شخص قسم کھائے اور پھر دیکھے کہ خیز دوسری چیز یعنی اس کے توڑنے میں ہے تو اسے چاہئے کہ اس دوسری چیز کو اختیار کرے اور اپنی قسم کا کفارہ ادا کرے۔ (بخاری و مسلم) اور یمین لغو کا حکم پہلے گزر چکا ہے۔ (دیکھیے بقرہ آیت 225 اور مائدہ آیت 89) النحل
92 ف 9 یہ ایک تشبیہ ہے جو قسموں کو پختہ کرنے کے بعد ان کو توڑنے والوں کے لئے بیان کی گی ہے۔ ضرویر نہیں کہ ایسی عورت کہیں پائی بھی گئی ہو اگر یہ ان جرتیر اور ابن ابی حاتم کی بعض روایات میں ہے کہ مکہ میں ایک پاگل عورت تھی و نبوت کا تتی اور پھر سے خوب بٹ کر ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالتی۔ حضرت ابن عباس اور مجاہد کہتے ہیں کہ اس آیت میں قسمیں توڑنے والوں کو اس عورت سے تشبیہ دی گی ہے واللہ اعلم فیضا القربی) ف 10 یعنی کسی گروہ سے اس لئے بدعہدی نہ کرو جب تم نے عہد ……موجود تھے اور یہ سمجھو طاقت ور تھا اور اب تم طاقتور ہوگئے ہو اور یہ کمزور ہوگیا ہے یا اب تمہیں اس سے زیادہ طاقتور کوئی دوسرا حلیف مل گیا جیسا کہ اہل جاہلیت کرتے تھے۔ شوکانی (قرطبی) اور جیسا کہ اس آنے میں اہل مغرب کا عام دستور ہے۔ ف 11 کہ تم اپنے عہد پر قائم رہتے ہو یا دسروں گروہ کو طاقتور یا کمزور پا کر اپنے عہد کا خیال چھوڑ دیتے ہو۔ (قرطبی) النحل
93 ف 1 یعنی اسے قدرت حاصل تھی کہ تمہارے درمیان اختلافات نہ رہنے دیتا مگر اس کی حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ تمہیں اپنے حق خودارادیت کا پورا موقع دے۔ النحل
94 ف 2 اس سے معلوم ہوا کہ کافر کو بد عہدی کر کے نہ ماریئے۔ ایسی باتوں سے کفر تو مٹتا نہیں الٹا وہاں آتا ہے۔ (موضح) ف 3 یعنی ایسا نہ ہو کہ تمہاری بدعہدی کو دیکھ کر لوگ مرتد ہوجائیں یا نقض عہد کرنے والا خود کفر میں مبتلا ہوجائے۔ (شوکانی) ف 4 اور تم لوگوں کو سلام سے روکنے کا ذریعہ بن جائو اور تم پر اس کا وبال آجائے۔ ف 5 اور آخرت کے عذاب عظیم میں مبتلا کردیئے جائو۔ مطلب یہ کہ اسلام کو بدنام نہ کرو کہ ایمان لانے والے شک میں پڑجائیں جس کا گناہ تم پر پڑے گا۔ (موضع) النحل
95 ف 6 اوپر کی آیتوں میں باہمی معاہدوں کی پابندی پر زور دیا۔ اب بتایا کہ ایمان لا کر جو اللہ تعالیٰ سے عہد باندھا ہے اس کے توڑنے سے بچو، یعنی مال کی طمع میں آ کر شریعت کی خلاف ورزی نہ کرو جو مال خلاف شرع ہاتھ آوے وہ موجب وبال ہے جو مال شریعت کے موافق ہاتھ آئے تمہارے حق میں وہی بہتر ہے۔ (موضح) النحل
96 ف 7 چاہے وہ مقدار کے لحاظ سے کتنا ہی زیادہ ہو۔ ف 8 یعنی جنہوں نے دنیوی لالچ کے مقابلے میں حق و صداقت کا دامن ن چھوڑا۔ ف 9 فرض سنت، مستحب سب بہتر کام ہیں اس لئے ان سب کا اجر ملیگ ا۔ اس اعتبار احسن کے مقابل ہمیں حسن کو مباح کہا جائے گا جو باعث ثواب نہیں ہوتا کیونکہ جزا صرف طاعت کے کاموں پر ملتی ہے۔ (شوکانی) یا دوسرا ترجمہ یہ ہوسکتا ہے کہ ہم انہیں ان کے اعمال کا بہترین بدلہ دیں گے جیسا کہ فرمایا : من جاء بالحسنۃ فلہ مشر امثالھا۔ یا ہم کسی عمل کے ادنیٰ فرد کی جزا بھی اس کے اعلیٰ فرد کے مطابق دیں گے۔ (کذافی الشوکانی والقرطبی) النحل
97 ف 10 پاک زندگی میں حلال روزی قناعت سچی عزت سکون و اطمینان دل کی تو نگری اللہ کی محبت اور لذت سبھی چیزیں شامل ہیں۔ مطلب یہ کہ ایمان اور عمل صالح سے اخروی زندگی ہی نہیں بلکہ دنیوی زندگی بھی نہایت سکھا اور چین سے گزرے گی۔ شوکانی) النحل
98 ف 11 یعنی قرآن کی تلاوت کرنے سے پہلے اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم پڑھا کرو۔ اس حکم کو اکثر علماء سلف نے استحباب کے لئے اور بعض نے وجوب کے لئے قرار دیا ہے۔ اس موقع پر اس حکم کے بیان کئے جانے کی مناسبت یہ معلوم ہوتی ہے کہ پچھلی آیت میں نیک اعمال کا ذکر کیا گیا تھا سا لئے یہاں استعاذہ کا ذکر کیا گیا جو نیک اعمال کو شیطانی وساوس سے پاک رکھنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ (فتح القدیر) النحل
99 النحل
100 النحل
101 ف 1 اور پہلی آیت کا حکم منسوخ کردیتے ہیں۔ نسخ پر بحث کے لئے دیکھئے۔ (سورہ بقرہ آیت 106) اب یہاں سے کفار کے شبہات کا جواب دیا جا رہا ہے۔ (شوکانی) ف 2 انہیں پہلی شریعتوں کا علم نہیں۔ اگر ہوتا تو سمجھ لیتے کہ اللہ تعالیٰ کا ہمیشہ سے یہ قاعدہ رہا ہے کہ وہ ایک حکم اتارتا ہے اور پھر جب چاہتا ہے اسے مسنوخ کر کے دوسرا حکم دے دیتا ہے۔ النحل
102 ف 3 اور وہ ناسخ و منسوخ دونوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے سمجھیں اور اس لئے کہ جب وہ اس حکمت کو سمجھیں گے جو بعض احکام کے ناسخ و منسوخ ہونے میں پائی جاتی ہے تو ایمان پر ان کے قدم جمیں گے اور ان کے عقائد پختہ ہوں گے۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں : قرآن پاک میں اکثر اللہ تعالیٰ نے نسخ فرمایا ہے اس پر کا فرشتہ کرتے ہیں۔ اس کا جواب سمجھا دیا۔ یعنی ہر وقت موافق اس حکم کے حکم بھیجے تو یقین والوں کا ایمان قوی ہو کہ ہمارا رب ہر حال سے خبر رکھتا ہے۔ (موضح) ف 4 یعنی ہر حال میں اس کے موافق راہ سمجھا دے اور ہر کام پر ایسی خوش خبری سنا دے۔ (موضح) النحل
103 ف 5 یہ قرآن پر ان کا دوسرا طعن تھا اس شخص کی تعیین کے بارے میں مفسرین کے مختلف اقوال ہیں۔ بعض نے ابن مغیرہ کے رومی غلام جبر کا نام ذکر کیا ہے۔ بعض کہتے ہیں اس کا نام یلیش تھا۔ جو بنی الحضرمی کا غلام تھا اور عجمی کتابیں پڑھا کرتا تھا۔ بہرحال ان میں سے جو بھی ہو کفار مکہ نے محض یہ دیکھ کر کر کہ وہ شخص توراۃ انجیل پڑھنا جانتا ہے اور محمد ﷺ پر جو قرآن نازل ہوتا ہے اس میں بھی پیچھے انبیاء کے واقعات بیان کئے گئے ہیں بے تکلف یہ الزام تراش ڈالا کہ یہی وہ شخص ہے جو محمد ﷺ کو قرآن کی آیات تصنیف کر کے دے رہا ہے۔ العیاذ باللہ (شوکانی) النحل
104 ف 6 چنانچہ وہی اس قسم کی بے سروپا باتیں بکا کرتے تھے، جلایہ بھی کوئی سمجھ میں آنے والی بات ہے کہ قرآن جیسی فصیح و ملیغ کتاب کو ایک ایسا شخص تصنیف کر ڈالے جس کی اپنی زبان عربی نہیں ہے النحل
105 ف 7 باقی رہا نبی تو وہ اہل ایمان کا سردار ہوتا ہے اس سے قطعی بعید ہے کہ اللہ تعالیٰ پر ایک لفظ بھی جھوٹ باندھے یہ کفار کے اس اعتراض کا جواب ہے کہ محمد ﷺ کو خود تصنیف کر کے اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کردیتے ہیں۔ النحل
106 ف 8 اور وہ اپنی جان بچانے کے لئے زبان سے کفر کا کلمہ کہہ دے یا کفر کا کوئی کام کر بیٹھے۔ ف 9 اوپر کفار کے شبہات ذکر کر کے اس شخص کا حکم بیان فرمایا جو ایسے شبہات سے متاثر ہو کر ایمان سے بھر جاوے۔ اب یہاں اس کے بارے میں فرمایا جس پر کوئی ظالم جبر کرے اور وہ اپنی جان بچانے کی خاطر کلمہ کفر زبان سے کہہ دے۔ یہ رخصت ہے لیکن اگر مرنا قوبل کرلے اور منہ سے بھی کلمہ کفر یا خلاف اسلام کوئی بات نہ نکالے تو ایسا شخص شہید اکبر ہوگا جیسا کہ متعدد صحابہ کے واقعات میں مذکور ہے۔ (کذافی) متعدد روایات سے ثابت ہے کہ یہ آیت حضرت عمار بن یاسر کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ مشرکین نے عمار کو پکڑ لیا اور انہیں اتنی اذیت دی کہ انہوں نے جان بچانے کی خاطر بعض وہ باتیں کہہ دیں جو وہ ان سے کہلوانا چاہتے تھے۔ اس کے بعد انہوں نے آنحضرت سے دریفات کیا تو آپ نے فرمایا : اگر کبھی دوبارہ ایسا سابقہ پڑجائے تو اس طرح جان بچانے میں کچھ حرج نہیں۔ (بیہقی وغیرہ) النحل
107 النحل
108 ف 1 نہ وہ حق بات کو سمجھتے ہیں نہ سنتے ہیں اور نہ ان نشانیوں کو دیکھتے ہیں جو حق کی طرف رہنمائی کرنے والی ہیں۔ النحل
109 النحل
110 ف 2 یعنی ان مشرکوں کے مک میں سے اپنے گھر بار چھوڑ کر درالسلام میں چلے گئے۔ ف 3 مکے کے بعض مسلمان کافروں کے مظالم سے تنگ آ کر بظاہر کچھ لچک کھا گئے تھے۔ یا بعض الفاظ ناجائز منہ سے کر ڈالے مگر اس کے بعد ایمان کے تقاضے ممکن حد تک پورے کئے یعنی ہجرت کی جہاد میں حصہ لیا اور اپنے موقف پر خوب ڈٹے رہے۔ اسی پر اللہ تعالیٰ نے ان کی وہ غلطی معاف فرما دی۔ (شوکانی) النحل
111 ف 4 یعنی یہ بخشش اور رحمت اس دن ہوگی جب …… ف 5 یعنی قیامت کے دن کسی کی طرف سے کوئی نہ بول سکے گا اور نہ اس دن ظلم چل سکے گا۔ النحل
112 ف 6 نہ باہر سے دشمن کا کھٹکا تھا اور نہ اندر سے کس طرح کی فکر و تشویش ف 7 روزی کمانے کے لئے کوئی مشقت برداشت کرنا نہ پڑتی تھی گویا ہر طرف سے غلے اور پھل خودبخود چلے آتے تھے کھانے پینے کو کسی چیز کی کمی نہ تھی۔ ف 8 یعنی امن و اطمینان کی جگہ خوف و ہراس اور فراخی رزق کو جگہ بھوک اور قحط نے انہیں اس طرح گھیر لیا جیسے کپڑا اپنے پہننے والے کے بات کو گھیر لیتا ہے۔ النحل
113 ف 9 غالباً اس آیت کو بنیاد بنا کر اکثر مفسرین نے اس بستی سے مراد مکہ معظمہ لیا ہے ورنہ اس کی تعیین کسی حدیث سے ثابت نہیں ہے۔ اگر یہ صحیحی ہے تو جس عذاب یا بھوک اور خوف کے لباس کا یہاں ذکر کیا گیا ہے اس سے مراد وہ قحط ہے جس میں مکہ والے کئی برس تک مبتلا رہے ہیاں تک کہ وہ جلی ہوی ہڈیاں اور مردار جانور تک کھا گئے اور یہ قحط اس سے لئے واقع ہو کہ آنحضرت نے بد دعا فرمائی تھی کہ ااے اللہ ان لوگوں پر اپنی سختی نازل فرما اور ان پر قحط اور خشک سالی کی صورت میں ایسا ہی عذاب بھیج جیسا یوسف کے زمانہ میں آیا تھا بعض مفسرین کہتے ہیں کہ ان آیات میں کسی متعین بستی کا تذکرہ نہیں ہعے۔ محض ایک تباہ شدہ بستی کی مثال دے کر اہل مکہ کو متنبہ کیا گیا ہے کہ اگر تم نے ہماری نعمتوں کی ناشکری کی تو تمہارے ساتھ یہی معاملہ کیا جائے گا۔ قاضی شوکانی نے اس دور سے رائے کو راجح قرار دیا ہے۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں : ایسے بہت سے شہر ہوتے ہیں پر احوال فرمایا مکے کا۔ النحل
114 ف 1 یعنی اگر تم واقعی اللہ ہی کی بندگی کرتے ہوجیسا کہ تمہارا دعویٰ ہے تو ضروری ہے کہ حلال و حرام کی تعیین اپنی عقل اور مصلحتوں کے بل بوتے پر اپنی مرضی سے نہ کرو بلکہ صرف انہی چیزوں کو کھائو جنہیں اللہ نے حلال اور طیب قرار دیا ہے۔ (شوکانی بتصرف) النحل
115 ف 2 یعنی جس جانور کو بھی غیر اللہ کے نام سے شہرت دی جائے۔ مثلاًً شیخ سدو کا بکراہ یا سید احمد کبیر کی گائے یا فلاں شاہ کا مرغا وغیرہ۔ ہر حال میں وہ جانور حرام ہوگیا اور اھل کا لفظ ذبح کے علاوہ اس کو بھی شامل ہے۔ حدیث شریف میں آیا ہے۔ ملعون من ذبح لغیر اللہ (سسن ابی دائود) لہٰذا جس پر غیر اللہ کا نام آگیا تو اس میں ایسی خباثت آ گئی جو مردار ہیں بھی نہیں کیونکہ مردار پر تو صرف اللہ کا نام نہیں لیا گیا۔ مگر ” اھل لغین اللہ ہمیں اس جانوروں کی روح اس کے خالق کے سوا دوسرے کے نام پر بھینٹ چڑھا دی گئی اور یہ شرک ہے لہٰذا ایسا ذبیحہ حرام ہے یہ آیت شریفہ قرآن میں چار متربہ آئی ہے۔ اس کے معنی مارفع بہ الصوت بغیر اللہ“ ہیں نہ کہ ” ماذبح باسم غیر اللہ“ گویہ اس میں بطریق اولیٰ داخل ہے جس کی بنا پر بعض مفسرین نے اھل کی تفسیر ” ذبح“ جو اس وقت کی صورت حال کے پیش نظر اور بیان واقعہ کے لئے ہے۔ ہمارے دور میں اس نئے شرک کا وقوع ہوا ہے اس لئے برصغیر پاک و ہند کے علما نے اسے خوب حل فرمایا ہے اور شاہ عبدلاعزیز کی تفسیر عزیزی اس پر شاہد عدل ہے (ترجمان نواب) النحل
116 ف 3 دوسرا ترجمہ یوں بھی ہوسکتا ہے اپنی زبانوں کے جھوٹ بنا لینے سے یہ مت کہو کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے ف 4 اس سے ملوم ہوگا کہ تحلیل و تحریم کا حق صرف اللہ تعالیٰ کو ہے یا اس کے دیئے ہوئے اختیار کی بنا پر اس کے رسول کو کسی دوسرے کا اس حق کو استعمال کرنا اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنا ہے۔ النحل
117 النحل
118 ف 5 مطلب یہ ہے کہ اسلامی شریعت سے زائد یہودیوں کی شریعت میں جو چیزیں حرام پائی جاتی ہیں ان سے کوئی یہ نہ مجھے کہ یہ چیزیں ہمیشہ کے لئے بلکہ یہ تو وقتی طور پر یہودیوں کی اپنی شرارت اور سرکشی کی بدولت ان پر حرام کی گئی تھیں ورنہ ان کی حرمت ابدی نہیں ہے۔ (کذافی شوکانی دیکھئے سورۃ انعام) النحل
119 النحل
120 النحل
121 النحل
122 ف 1 انہوں نے خود دعا کی تھی۔ والحقی بالصالحین یعنی مجھے نیک بندوں سے ملا دے (سعراء 83) سو اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ دعا قبول فرمائی (شوکانی) النحل
123 ف 2 یعنی حلال و حرام اور دین سے متعلق تمام معاملات میں اصل چیز نہ یہودیت و نصرانیت ہے اور نہ شرک جس کا ارتکاب یہ کفار مکہ کر رہے ہیں۔ بلکہ اصل حضرت ابراہیم کی ملت ہے جو خلاص توحید سے عبارت تھی اور اس میں وہ چیزیں حرام نہ تھیں جو بعد میں یہودیوں پر ان کی شرارت کے بدولت حرام قرار دی گئیں۔ اس لئے آپ کے لئے پیروی کے لائق اگر کوئی چیز ہے تو وہ صرف ملت ابراہیم ہے۔ (کذافی ابن کثیر) النحل
124 ف 3 یعنی ہفتہ کے دن کی تعظیم جیسے ملت اسلام میں نہیں ہے۔ حضرت ابراہیم کی شریعت میں بھی نہ تھی یہ دن تو بعد میں صرف ان لوگوں کے لئے مقرر کیا گیا تھا جنہوں نے اس میں اختلاف کیا تھا۔ اختلاف کا مطلب یہ ہے کہ حضرت موسیٰ نے ان پر جمعہ کے دن کی تعظیم واجب کی تھی مگر انہوں نے اس میں اختلاف کر کے ہفتہ کا دن مقرر کرلیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے ان پر اسی دن کی تعظیم ہی فرض کردی کہ اس میں شکار نہ کرو۔ اس کی تائید حضرت ابوہریرہ کی اس روایت سے ہوتی ہے جس میں ہے کہ ہم سب امتوں سے زمانہ میں آخر ہیں مگر قیامت کے روز سب سے پہلے ہونگے۔ بات اتنی ہے کہ انہیں ہم سے پہلے کتاب دی گئی اور ہمیں کتاب بعد میں ملی پھر ان پر صرف جمعہ کا دن مقرر کیا گیا تھا مگر انہوں نے اختلاف کیا اور اللہ نے ہمیں ہدایت دی۔ لہٰذا اس میں لوگ ہمارے بعد میں یہود کی تعظیم کا دن کل اور نصاریٰ کی تعظیم کا دن پرسوں ہے۔ (ابن کثیر) النحل
125 ف 4 یعنی دعوت میں صرف ان چیزوں کا خیال رکھا جائے ایک حکمت اور دوسری اچھی نصیحت حکمت کا مطلب یہ ہے کہ نہایت سنجیدہ طریقہ سے مخاطب کی ذہنیت کا لحاظ کرتے ہوئے بات پیش کی جائے اور اچھی نصیحت کا مطلب یہ ہے کہ نہایت نرمی اور دلسوزی سے کی جائے تاکہ مخاطب سن کر متاثر ہو اور سمجھے کہ میری ہی فائدہ کی خاطر یہ بات کہی جا رہی ہے۔ ف 5 یعنی نہایت نرمی اور محبت سے اخلاق و تہذیب کے دائرہ کے اندر رہتے ہوئے نہ کہ جھڑک کر اور آرام سے باتیں بنا کر۔ ف 6 یعنی دعوت و تبلیغ میں اصل چیز اپنے دین کے اصولوں اور اس کی تعلیمات پر کار بند ر ہنا ہے نہ کہ سچ یا جھوٹ، یا جس طر بھی ممکن ہو اپنی بات کا قائل کرلینا۔ لہٰذا یہ فکر نہیں کرنی چاہئے کہ کون ہماری بات مانتا ہے اور کوئی نہیں مانتا نتیجہ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ النحل
126 ف 7 اس سے زیادتی نہ کرو ف 8 اللہ تعالیٰ خود ظالم سے ان کا بدلہ لے گا اور اپنے ہاں سے انہیں صبر کرنے کا اجر عظیم عطا فرمائیگا شاہ صاحب لکھتے ہیں : پہلے جو فرمایا کہ سمجھائو بھلی طرح اس میں رخصت دی کہ بدی کے بدلے بدی بری نہیں، پھر صبر اور بہتر ہے۔ (موضح) النحل
127 ف 9 یعنی کافروں کی گمراہی اور بری حرکات کا النحل
128 ف 10 خلق خدا کے ساتھ نیکی کرتے ہیں دوسرے خواہ ان سے کتنا ہی برا رویہ اختیار کریں وہ جواب ہمیشہ بھلائی سے دیتے ہیں۔ النحل
0 ف 1 یہ سورۃ مکہ معظمہ میں (معراج کے موقع پر نازل ہوئی۔ البتہ بعض نے کہا ہے کہ اس کی تین آیتیں (80,76,60) مدنی ہیں۔ مقاتل نے چوتھی آیت 107 کو بھی مدنی بتایا ہے حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ آنحضرت سورۃ اسرائیل اور زمر ہر رات پڑھا کرتے تھے۔ (شوکانی) الإسراء
1 ف 2 ” عبد“ (بندہ) کا لفظ اس محبت اور تعلق کو ظاہر کرنے کے لئے استعمال کیا گیا ہے جو اللہ تعالیٰ کو اپنے آخری پیغمبر محمد ﷺ سے ہے اہل قلم کہتے ہیں کہ اگر پیار و محبت کے اظہار کے لئے اس سے زیادہ موزوں کوئی دوسرا لفظ ہوتا تو اللہ تعالیٰ اس مقام پر اسی کو استعمال فرماتا۔ (روح) ف 3 اسی اسرار“ کو معراج بھی کہا جاتا ہے مگر دراصل اسراء اور معراج دو سفر ہیں جو ایک ہی رات میں ہوئے۔ مکہ سے بیت المقدس تک سفر کا نام ” اسراء“ ہے جس کا تذکرہ یہاں فرمایا ہے۔ پھر بیت المقدس سے آسمانوں کے لئے جانے کو معراج کہا جاتا ہے جس کی تفصیلات کتب حدیث اور سیر میں مذکور ہیں …“ مسجد حرام“ سے مراد مکہ یا پورا حرم ہے کیونکہ جس رات معراج ہوئی آنحضرت ام ہانی“ کے گھر میں سوئے ہوئے تھے وہاں سے آپ کو حطیم کعبہ میں لایا گیا اور پھر حطیم سے براق پر سوار ہو کر بیت المقدس پہنچے اور بیت المقدس سے بذریعہ معراج کے اوپر ساتوں آسمانوں سے گزر کر سدرۃ المنتہی تک پہنچے راستہ میں آسمانوں پر متعدد جلیل القدر انبیاء سے ملاقاتیں ہوئیں اور آپ نے جنت دوزخ کا مشاہدہ بھی کیا۔ بالاخر سدرۃ المنتہی پر پہنچ کر اپنے رب سے ہم کلام بھی ہوئے اور یہیں آپ کو پنجگانہ نماز کا حکم ملا۔ پھر پلٹ کر بیت المقدس آئے جہاں آپ نے امام بن کر تمام انبیاء علیہم السلام کے ساتھ نماز ادا کی حافظ ابن کثیر نے اسی کو ترجیح دی ہے لیکن قاضی عیاض وغیرہ کا خیال ہے کہ انبیاء کی امامت آپ نے واپسی پر نہیں بلکہ معراج کو جاتے ہوئے کورائی ہے۔ بہرحال اس کے بعد مسجد حرام واپس تشویف لائے۔ سفر کا یہ واقعہ بہت سی احادیث سے ثابت ہوتا ہے اور تقریباً تیس صحابہ سے مروی ہے۔ گو بعض جزئیات میں اختلاف ہے علماء سلف و خلف کا عقیدہ یہ ہے کہ یہ واقعہ بیداری میں روح اور جسم سمیت پیش آیا اور قرآن میں لفظ عبدہ سے بھی اس کی شہادت ملتی ہے پھر اگر یہ خواب کا واقعہ ہوتا تو کافر قریش اس کی تکذیب نہ کرتے اور نہ قرآن ہی سبحان الذی کی تمہید کے ساتھ اسے بیان کرتا کیونکہ ان تمہیدی الفاظ سے تو معلوم ہوتا ہے کہ کوئی اہم اور خرق عادت واقعہ بیان کیا جا رہا ہے۔ بعض علماء نے آیت کریمہ :” وما جعلنا الروبا التی اریتاک آلایۃ میں لفظ رئویا سے استدلال کیا ہے کہ یہ خواب کا واقعہ ہے۔ مگر محققین علمائے لغت نے تصریح کی ہے کہ لفظ رویا بیداری میں مشاہدہ عینی پر بھی بولا جاتا ہے اور یہاں پر یہی معنی مراد ہیں۔ کما صرح بہ ابن عباس (بخاری) پس اس آیت سے ان کا یہ استدلا لصحیح نہیں ہے، تمام صحابہ روایتہ اس پر متفق ہیں کہ آنحضرت کو معراج بحالت بیداری ہوئی اور جسم کے ساتھ ہوئی اور یہی اہل حدیث کا متفقہ فیصلہ ہے۔ صرف حضرت عائشہ اور معاویہ سے یہ مروی ہے کہ معراج خواب میں ہوئی مگر ایک تو یہ روایت سند منقطع ہے اور پھر ان کی اپنی رائے اور آیت کریمہ وما جعلنا الرویا سے استدلال ہے جو صحابہ کے متفقہ فیصلہ کے سامنے ناقابل التفات سمجھا گیا ہے۔ (از شوکانی ابن کثیر) اکثر روایات کے بیان کے مطابق یہ قصہ ہجرت سے ایک سال قبل کا ہے۔ ابن حزم نے اس پر اجماع نقل کیا ہے اور ملا امین عمری نے اس کو قطعی قرار دیا ہے۔ بعض روایات میں تین سال قبل بھی مذکور ہے۔ صرف حضرت انس سے شریک بن ابی نمرہ کی ایک روایت میں ہے کہ یہ واقعہ قبل از نبوت کا ہے مگر شریک کی یہ روایت شاذ اور منکر سمجھی گئی ہے۔ حافظ عبدالحق الجمع بین الصحیحین بھی لکھتے ہیں : قد زادفیہ زیادۃ مجھولۃ واتی بالفاظ غیر معروفۃ اور پھر شریک علماء حدیث کے نزدیک ” حافظ“ بھی نہیں ہے۔ بہرحال صحیح یہی ہے کہ ہجرت سے کچھ عرصہ قبل کا واقعہ ہے۔ کہتے ہیں کہ حضرت خدیجہ اس وقت زندہ تھیں اور انہوں نے پنجگانہ نماز ادا کی ہے اور ان کی وفات ہجرت سے تین سال پیشتر ہوئی ہے۔ واللہ اعلم (روح) ف 4 ظاہری اور مادی برکات بھی ہیں کہ وہاں چشموں، نہروں اور ہر قسم کے پھلوں کی بہتات ہے اور باطنی اور روحانی اعتبار سے بھی وہ خطہ یا برکت ہے کہ بہت سے انبیاء و رسل کا مسکن اور مفدن ہے اور دنیا میں دوسری مسجد ہے اور یہ ان تین مساجد میں شامل ہے جن کی زیارت کے لئے سفر کو مشروع قرار دیا گیا ہے۔ اور دنیا میں چار مواضع وہ ہیں جن میں دجال داخل نہیں ہو سکے گا۔ یعنی حرمین، اقصی اور طور شرفاً و برکتہ الإسراء
2 ف 5 آسان کے عجائبات جیسے جنت دوزخ بیت المعمور وغیرہ جن کا حادیث میں ذکر آیا ہے۔ ف 6 یعنی جس طرح آنحضرت کو معراج کا شرف بخشا اسی طرح ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو الکتاب (توراۃ) سے نوازا۔ الإسراء
3 ف 7 یعنی میرے سوا کسی اور پر اعتماد اور بھروسا نہ کرو اور نہ میرے سوا کسی سے ہدیات اور مد طلب کرو۔ الإسراء
4 ف 8 تو تم بھی نوح کی راہ اتخیار کرو الإسراء
5 ف 9 پہلی مرتبہ فساد سے مراد حضرت شعیا کا قتل یا حضرت ارمیا کو قید کرنا ہے اور یا پھر توراۃ کے احکام کی خلاف ورزی مراد ہے اور دوسری مرتبہ سے مراد ان کے بادشاہ ہیر و ڈریس کا ایک فاحشہ عورت کے مطالبہ پر حضرت یحییٰ (یوحنا) کو قتل کرنا اور حضرت عیسیٰ کے قتل کا منصوبہ بنانا ہے۔ (شوکانی) یوحنا کے قتل کا واقعہ توراۃ میں مذکور ہے۔ الإسراء
6 ف 10 یعنی تاکہ تمہیں ڈھنڈ ڈھونڈ کر قتل کریں، لوٹ مار کریں اور قیدی بنائیں۔ یہاں ” عبادا“ سے بابل کے بادشاہ بخت نصر اور انکے ساتھی مراد ہیں۔ یا جالوت اور اس کے فوجی انہوں نے بنی اسرائیل کو خوب قتل کیا تو رات کو جلا ڈالا اور بیت المقدس کی مسجد مسمار کردی اور پھر ستر ہزار یہودیوں کو قیدی بنا کر اپنے ساتھ لے گئے۔ الإسراء
7 ف 11 جب بخت نصر قتل ہوا یا حضرت دائود نے جالوت کو قتل کی۔ (شوکانی) فوائد صفحہ ہذا ف 1 ان سے مراد رومی ہیں جنہوں نے بیت المقدس کو ویران کیا اور ہزاروں یہودیوں کو قتل اور قید کیا اور جو رہ گئے قیصر روم کی رعت بن کر رہے۔ (وحیدی) الإسراء
8 ف 2 یعنی قتل اور قید ہوگئے اور جلا وطنی یا جزیہ کی ذلت برداشت کرنا پڑیگی۔ چنانچہ بنو قریظہ اور بنو نضیر وغیرہ کو مسلسلمانوں کے ہاتھوں میں سزا ملی۔ الإسراء
9 الإسراء
10 الإسراء
11 ف 3 یعنی اپنے لئے یا اپنی اولاد اور گھر والوں کیلئے ف 4 اس لئے جو منہ میں آتا ہے اپنے رب سے مانگن یلگتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کا اس پر بڑا فضل و کرم ہے جو اس کی بد دعا کو فوراً قبول نہیں کرتا اور اگر کہیں قبول کرے تو تو وہ تباہ و برباد ہوجائے۔ (رازی) الإسراء
12 ف 5 نمونے اس لحاظ سے کہ ان سے اللہ تعالیٰ کے وجود اور کاریگری کا پتا چلتا ہے رات دن کو بطور دلیل اور نعمت کے قرآن نے متعدد مقامات پر بیان فرمایا ہے۔ ف 6 یعنی اگر رات دن نہ ہوتے تو ہمیشہ ایک جیسا موسم رہتا اور سال اور مہینوں کا کچھ پتا نہ چلتا اور نہ حساب رکھا جاسکتا۔ پس اس میں دینی اور دنیوی دونوں قسم کے فوائد مضمر ہیں۔ (راز) شاہ صاحب لکھتے ہیں : گھبرانے سے فائد انہیں ہر چیز کا وقت اور انداز ہ مقرر ہے جیسے رات اور دن کسی کے گھبرانے اور دعا سے رات کم نہیں ہوجاتی، اپنے وقت پر آپ صبح ہوجاتی ہے۔ (موضح) ف 7 یعنی ہر وہ چیز جس پر تمہاری دنیا و آخرت میں فلاح کا انحصار ہے اسے ہم نے کھول کر بیان کردیا ہے۔ جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : مافرظنا فی الکتاب من شی انعام 38 تبنانالکل شفعہ (النحل 89 (کذا فی المازی) الإسراء
13 ف 8 یہاں ” عنق“ کا لفظ لزوم سے کنایہ ہے مطلب یہ ہے کہ ہر انسان کے عمل اچھے ہوں یا برے کم ہوں یا زیادہ ہم نے محفوظ کردیئے ہیں جو کبھی ضائع نہیں ہو سکتے (رازی) ف 9 مراد ہے انسان کا اپنا اعمالنامہ الإسراء
14 ف 10 کسی اور محاسب کی ضرورت نہیں اس کتاب میں ہر چیز درج ہے۔ الإسراء
15 ف 1 مطلب یہ ہے کہ جو شخص اچھے عمل کرتا ہے وہ کسی پر احسان نہیں کرتا بلکہ اس کا فائدہ اس کو پہنچتا ہے اور اگر برے عمل کرتا ہے تو ان کا بوجھ بھی اسی پر ہوگا۔ ف 2 یعنی دوسرے پر نہیں ڈالا جائے گا بلکہ وہ اسے خود ہی برداشت کرنا پڑے گا۔ سورۃ نحل اور عنکبوت میں جو یہ آیا ہے کہ اڈہ اپنے بوجھ بھی اٹھائیں گے اور ان کے بھی جن کو بغیر علم کے گمراہ کرتے رہے ہیں۔“ تو یہ دراصل دوسروں کا بوجھ نہیں ہے بلکہ دوسروں کو گمراہ کرنے کی وجہ سے خود ان کا اپنا بوجھ ہے۔ (نیز دیکھیے نحل :25 عنکبوت :13) ف 3 جو ان تک اللہ کے احکام پہنچا دے اور تمام حجت ہوجائے۔ جمہور علمائے تفسیر نے اسے عذاب دنیوی پو محمول کیا اور مراد عذاب اخروی بھی ہوسکتا ہے۔ (قرطبی) اس سے معلوم ہوا کہ مشرکین کی چھوٹی اولاد معذب نہ ہوگی بلکہ حدیث ” کل مولود یولد علی الفطرۃ“ (کہ ہر بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے) سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ جنت میں جائے گی بعض دوسری روایات سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے اور حدیث ھم من اباء ھم“ کہ وہ اپنے آباء کے تابع ہوں گے پہلی حدیث یعنی کل مولود کے معارض نہیں ہے۔ کیونکہ یہ آپ نے اس وقت فرمایا تھا جب آپ کو ان کے جنتی ہونے کا علم نہ تھا۔ (ماخوذ ابن کثیرہ رازی) الإسراء
16 ف 4 یہاں ” امر“ سے مراد امروحی ہے یعنی شریعت الٰہی جو پیغمبروں کی معرفت بھیجی جاتی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جب پیغمبر آتے ہیں اور مترفین یعنی خوشحال طبقہ کو اتباع وحی کا حکم دیا جاتا ہے مگر وہ پیغمبروں کی نافرمانی کرتا ہے اور ملک بھر میں فسق و فجور پیا کردیتا ہے تو ہمواری طرف سے ان پر عذاب ثابت ہوجاتا ہے بعض نے امرنا بمعنی ” اکثرنا“ بکھی لکھا ہے۔ (قرطبی) ف 5 یعنی ہم ان کو ان کے گناہوں کی پاداش میں تباہ و برباد کردیتے ہیں۔ الإسراء
17 ف 6 عینی ان امتوں پر جو تباہی آئی وہ اسی قاعدہ اور عام اصول کے تح تآئی۔ کوئی امت بے قصور نہیں پکڑ گی۔ (انعام 131) ف 7 اس سے کسی کا بگاڑ اور شرارت پوشیدہ نہیں ہے۔ اس سے مقصود کفار قریش کو متنبہ کرنا ہے کہ تم بھی اگر محمد ﷺ کی تکذیب کرو گے اور زمین پر فسق و فجور کا ارتکاب کرو گے تو جس طرح پہلی امتوں پر اللہ تعالیٰ کا عذاب آیا اسی طرح تم بھی تباہ کردیئے جائو گے۔ پس ابھی وقت ہے کہ اپنی اصلاح کرلو۔ الإسراء
18 ف 8 یعنی وہ نیک اعمال محض اس لئے کرتا ہو کہ اسے دنیا کا فائدہ اور اسی کی خوشحالی حاصل ہوجیسے منافق یا ریا کار ف 9 یعنی اس کا مقصد پورا کردیتے ہیں مگر اتنا نہیں جتنا وہ خود چاہتا ہے بلکہ جتنا ہم چاہتے ہیں۔ پہلے گزر چکا ہے کہ سورۃ ہود کی آیت نوف الیھم اعمالھم اس آیت کے ساتھ مقید ہے۔ (ہود :15) ف 10 آخرت میں ان کے عمل کسی طرح بھی قبول نہیں کئے جائیں گے۔ (قرطبی) الإسراء
19 ف 11 یعنی وہ اس کا پھل ضرور پائے گا اور ان کے اعمال کا کئی گنا بدر دیا جائے گا حدیث میں ہے : الحسنہ بعشر امثالھا الی سبع مائۃ ضعف کہ نیکی کا ثواب دس گنا سے سات سو گنا تک ملے گا۔“ ہوسکتا ہے کہ ” مشکوراً“ سے اسی طرف اشارہ ہو الإسراء
20 (قرطبی) ف 12 دونوں کو رزق اور دنیا کی نعمتوں سے نوازتے ہیں۔ ایسا نہیں کرتے کہ کسی کی معصیت کی وجہ سے اس کا رزق بند کردیں۔ کیونکہ اس دارالعمل میں ہر ایک کے ساتھ مساوی سلوک کرنا ضروری ہے تاکہ کسی کے لئے عذر باقی نہ رہے اور ہر ایک کو اس کی صلاحیت کے مطابق دنیا کا سامان میسر ہوجائے۔ (رازی) الإسراء
21 ف 13 یعنی کوئی مالدار ہے اور کوئی نادار اور اس میں کافر و مومن کی کوئی تمیز نہیں ہے۔ (نیز دیکھیے سورۃ انعام :165 زخروف 32) یہ خطاب آنحضرت سے یا ہر اس شخص سے ہے جو عقل سمجھ اور غور نہ فکر کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ف 14 یعنی یہاں دنیا میں فضیلت کو آخروی تفاضیل سے کچھ بھی نہیں ہے۔ جیسے فرمایا : اصحاب الجنۃ یومئذ خیر مستقرار بلند مراتب والے بھی اہل علیین کو اتنا نچا دیکھیں گے جیسے تم افق میں غروب ہونے والے تارے کو دیکھتے ہو (ابن کثیر) الإسراء
22 الإسراء
23 ف 15 بظاہر خطاب تو آنحضرت کو ہے لیکن مراد آپ کی امت کو سمجھاتا ہے کہ شرک معاف نہیں ہوگا اور ہر مشرک اللہ کے ہاں ذلیل و خوار ہوگا۔ ف 16 یعنی قطعی حکم دیا اور فیصلہ کردیا ہے۔ ف 17 یا اس کے سوا کسی کے بندے بن کر نہ رہو۔ اسلام میں عبادت کا مفہوم پوجا کا بھی ہے اور بندگی کا بھی۔ ف 1 ماں باپ چاہے بوڑھے ہوں یا جوان، ہر حال میں ان کا ادب کرنا اور ان سے نرمی سے بات کرنا فرض اور انہیں جھڑکنا گناہ ہے۔ مگر چونکہ بڑھاپے میں خدمت کی ضرورت زیادہ ہوتی ہے اور مزاج میں چڑ چڑا پن پیدا ہوجاتا ہے بلکہ بسا اوقات زیادہ بڑھاپے کی وجہ سے ہوش و حواس بھی ٹھکانے نہیں رہتے اس لئے خاص طور پر بڑھاپے کا ذکر فرمای اگیا۔ ف 2 جو اکتاہٹ اور بے ادبی کا ہلکے سے ہلکا لفظ ہے۔ پھر اس سے زیادہ کوئی سخت لفظ بولنا کیسے جائز ہوسکتا ہے ف 3 سعید بن مسیب فرماتے ہیں : ان سے ایسے بات کر جیسے ایک خطا کار نوکر اپنے سخت مزاج آقا سے بات کرتا ہے۔ (معالم التنزیل) الإسراء
24 ف 4 یعنی نہایت عاجزی اور تواضح سے ان کی خدمت بجالاتا رہ۔ ف 5 اور پال پوس کر اتنا بڑا کیا، ماں باپ کی خدمت اور ان سے نیک سلوک کرنے کی تاکید میں بہت سی احادیث بھی ثابت ہیں۔ مثلاً حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے ایک شخص نے عرض کیا، میری خدمت اور حسن سلوک کا سب سے زیادہ حقدار کون ہے؟ فرمایا : ” تیری ماں، تیری ماں، تیری ماں، پھر فرمایا : تیرا باپ اور پھر تیرا رشتہ دار جو تجھ سے زیادہ قریب ہے۔ (بخاری مسلم) نیز ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت نے تین مرتبہ فرمایا : اس شخص کی ناک خاک آلود ہو (یعنی وہ ذلیل ہو کر رہے) صحابہ نے پوچھا کس کی ؟ اے اللہ کے رسول؟ فرمایا ” جس نے اپنے ماں باپ دونوں کو یا دونوں میں سے ایک کو بڑھاپے کی حالت میں پایا، پھر وہ ان کی خدمت کرے کے) جنت میں داخل نہ ہوا۔ (مسلم) الإسراء
25 ف 6 مگر تم سے ان کی اطاعت اور خدمت میں کوئی قصور ہوگیا جس سے تم نے توبہ کرلی۔ الإسراء
26 ف 7 بے جا اڑانے سے مراد یہ ہے کہ ناجائز کاموں میں خرچ کیا جائے (چاہے ایک پیسہ ہی ہو) یا جائز کاموں میں بے سوچے سمجھے اتنا خرچ کیا جائے جو حقداروں کے حقوق ضائع کرنے اور حرام کا ارتکاب کرنے کا سبب بنے۔ الإسراء
27 ف 8 اسی ” تبذیر“ کو یہاں سراف فرمایا اور مسرفین کو شیطان کا بھائی قرار دیا۔ کیونکہ جو شخص اپنے ملا کے دیئے ہوئے مال کو اس کی نافرمانی میں خرچ کرتا ہے وہ شیطان ہی کا راستہ اختیار کرتا ہے۔ ف 9 یعنی مال بڑی نعمت ہے اللہ کی جس سے خاط رجمع ہو عبادت میں اور درجے بڑھیں بہشت میں اس کو بے جا اڑانا ناشکری ہے۔ (موضح) الإسراء
28 الإسراء
29 ف 10 یعنی انہیں نرمی اور خوش اسلوبی سے سمجھا دو کہ بھائی ذرا انتظار کرلو جونہی کچھ آگیا تمہیں ضرور دوں گا یہ نہیں کہ ان پر خفا ہونے لگو اور انہیں سخت جواب دو چنانچہ آنحضرت کے پاس جب سائل آتا اور آپ کے پاس کچھ نہ ہوتا تو فرماتے یرزقنا اللہ وایاکم من فضلہ (قرطبی) ف 11 یعنی بالکل بخیلی کرو گے تو سب الزام دیں گے کہ کنجوس مکھی چوس ہے اور جب سب کچھ اڑا دوں گے اور خالی ہاتھ ہو کر بیٹھ رہو گے تو ممکن ہے بھیک مانگنے تک نوبت پہنچ جائے۔ اس لئے ہمیشہ اعتدال کی راہ اختیار کرو جسے ہمیشہ نبھایا جا سکے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ماعال من اقتصد وہ شخص فقیر نہ ہوا جس نے خرچ کرنے میں اعتدال کی راہ اختیار کی۔ (مسند احمد) الإسراء
30 ف 12 ہر ایک کی مصلحت خوب سمجھتا ہے کہ کسے دیا جائے اور کسے نہ دیا جائے ایک حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ” میرے بعض بندے ایسے ہیں جن کو اگر فقیر کر دوں تو ان کا دین بگڑ جائے اور بعض فقیری میں اچھے رہتے ہیں اگر میں انہیں مالدار کر دوں تو ان کا دین بگڑ جائے۔ (ابن کثیر) اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے درمیان رزق کی تقسیم میں جو فرق رکھا ہے وہ ایک فطری چیز ہے جس کی حکمت و مصلحت اللہ تعالیٰ کے علم میں ملے اس نے مصنوعی طریقوں سے زبردستی ختم کرنا فطرت سے جنگ کرنا ہے جو کبھی پائیدار اور فائدہ مند ثابت نہیں ہو سکتی۔ البتہ اس فرق کا اعتدال پر رہنا ضروری ہے۔ اس بنا پر اسلام نے ایک طرف تو ناجائز طریقوں سے استحاصل کو حرام قرار دیا ہے اور دوسری طرف جائز طریقوں سے کمائی ہوئی دولت کو زکوۃ صدقات میراث اور دوسرے احکام کے ذریعے معاشرے میں پھیلا دنیے کا حکم دیا ہے۔ ان احکام پر عمل کرنے کی صورت میں معاشرے میں امیری غریبی میں اعتدال قائم رہے گا، نہ تو سرمایہ داری کے مظالم پیدا ہو سکیں گے اور نہ ہی اس فطری فرق کو زبردستی اور مصنوعی طریقوں سے ختم کرنے سے وہ خرابیاں پیدا ہونگی جو روس، چین اور دوسرے کمیونسٹ ممالک میں پیدا ہوچکی ہیں اور جن کے بعد انسان انسانیت کے مرتبہ سے گر کر حیوانت سے بھی نیچے پہنچ گیا ہے اور عوام کو ان کی فطری آزادی سے بھی محروم کردیا گیا ہے۔ الإسراء
31 ف 13 چاہے نہیں زندہ دفن کر کے جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں بعض عرب قبائل کیا کرتے تھے اور چاہے ایسے مصنوعی طریقہ اختیار کر کے ان کی پیدائش کو ہی روک دیا جائے جیسا کہ منصوبہ بندی اور برتھ کنٹرول کو یہ بھی خشیتہ املا کے پیش نظر وادخفی کی ایک صورت ہے۔ ف 14 یعنی قطع نظر اس سے کہ رازق سب کا اللہ تعالیٰ ہے یہ فعل بذات خود بہت بڑا گناہ بھی ہے۔ الإسراء
32 ف 1 یعنی یہی نہیں کہ زنا سے بچو بلکہ ان کاموں سے بھی بچتے رہو جو اس کی طرف لے جانے والے ہیں اور اس کا پیش خیمہ ہو سکتے ہیں جیسے اجنبی عورت کی طرف دیکھنا یا اس کے ساتھ نتہائی اختیار کرنا، یا اس سے بوس و کنار میں مبتلا ہونا وغیرہ۔ ف 2 حدیث میں ہے : لایزنی الزانی حین یزنی وھو مومن کہ زانی زنا کی حالت میں مومن نہیں رہتا۔ بہرحال یہ کبائر میں سے ہے۔ اور اپنے پڑوسی کی عورت سے زنا کرنا اکبر الکبائر میں داخل ہے اور بعض نے شرک کے بعد زنا کا درجہ رکھا ہے۔ (روح) الإسراء
33 ف 3 مراد ہے ہر اسنانی جان حتی کہ آدمی کی اپنی جان بھی اسلام نے خود کشی کو بھی حرار قرار دیا ہے۔ جیسا کہ متعدد احادیث میں وارد ہے۔ ف 4 جس کیلئے شریعت نے جان لینا جائز قرار دیا یہ۔ حدیث میں ہے : لایحل دم امری مسلم الاباحدی ثلاث النفس بالنفس والثیب الرزانی والتاروں ولدینہ کہ کسی مسلمان کا خون حلال نہیں ہے الایہ کہ قصاص میں قتل کیا جائے، یا شادی شدہ ہو کر زنا کرے۔ یا مرتد ہوجائے۔ مگر یہ حصر حقیقی نہیں ہے، بلکہ بعض دوسرے جرائم میں بھی قتل کا جواز ثابت ہے۔ (روح) ف 5 مثلاً قاتل کو عذاب دے کر قتل کرے یا جوش انتقام میں اس کے عالوہ اس کے عزیزوں کو بھی مار ڈالے۔ ف 6 اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے قصاص کا قانون مقرر کیا ہے اور اسلامی حکومت کے کارفرمائوں کو اس کی مدد اور داد رسی کا حکم دیا ہے۔ الإسراء
34 ف 7 مثلاً یہ کہ کسی جائز اور نفع بخش کاروبار میں لگا دو۔ ف 8 تباس کا مال اس کے حوالے کر دو یا اس سے اجازت لے کر کاروبار کرو۔ (نیز دیکھیے سورۃ بقرہ آیت :220) ف 9 اس میں ہر وہ اقرار شامل ہے جو اللہ تعالیٰ یا اس کے بندوں سے کیا جائے۔ ف 10 اور جو اقرار توڑے گا اسے سزا ملے گی۔ منافق کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ جب عہد کرتا ہے تو اس کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ (بخاری مسلم) الإسراء
35 الإسراء
36 ف 11 یعنی بے تحقیق کسی بات کی اندھا دھند پیروی نہ کر اس میں جھوٹی گواہی غلط تہمت سنی سنائی باتوں پر کسی کی برائی کرنا سب شامل ہیں۔ نیز اس سے معلوم ہوا کہ قرآن و حدیث کی دلیل کے ہوتے ہوئے کسی کی شخص رائے اور قیاس پر عمل کرنا ممنوع ہوگا۔ (ت ن) ف 12 اللہ تعالیٰ انہیں گویائی دے گا اور وہ آدمی کے خلاف گواہی دیں گے۔ (فعلت :23-2) الإسراء
37 ف 13 احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ اکڑ کر چلنا کبیرہ گناہ ہے۔ صاحب روح لکھتے ہیں کہ اس زمانہ میں تو جسے وہ مسئلے آتے ہوں یا اس کے سامنے دو طالب علم بیٹھے ہوں وہ بھی اپنے آپ کو بڑا سمجھتا ہے اور نہایت تکبر سے چلتا ہے۔ الإسراء
38 الإسراء
39 ف 14 بظاہر خطاب نبی ﷺ سے ہے مگر مراد ہر انسان ہے اور اس سے مقصود مسلمانوں کو یہ تنبیہ کرتا ہے کہ شرک ایسی بری چیز ہے کہ اگر بالرفض آنحضرت جیسے مقرب بندے بھی اس کا ارتکاب کر بیٹھیں تو دوزخی بن جائیں اور ذلیل و خوار اور راندہ درگاہ ہوجائیں۔ (العیاذ باللہ) الإسراء
40 ف 1 جیسے فرمایا : وجعلوالملائکۃ الذین ھم عبادالرحمٰن انا شاء (زخروف 19) کہ فرشتوں کو جو اللہ کے قرب بندے ہیں مونث قرار دیتے ہیں۔ ف 2 یعنی سخت گستاخی کی بات ہے جو منہ سے نکال رہے ہو۔ الإسراء
41 ف 3 حق کی بات سنسنی بھی نہیں چاہئے۔ ماننا کیسا؟ الإسراء
42 ف 4 یعنی اس سے لڑنے اور اس کا تختا الٹ دینے کے لئے جاتے کیونکہ وہ بھی اپنے آپ کو خدا سمجھتے اور جب ایسا نہیں ہوا اور تم دیکھ رہے ہو کہ اللہ تعالیٰ اسی پوری کائنات کا نظام خالص اپنی مرضی سے چلا رہا ہے اور یہ نظام اپنی پوری ہم آہنگی اور تناسب سے چل رہا ہے تو معلوم ہوا کہ اس کے مقابلے میں تم نے جتنی زندہ یا مردہ ہستیوں کو اپنا معبود بنا رکھا ہے وہ سب باطل و بے حقیقت چیزیں ہیں۔ (قرطبی) الإسراء
43 ف 5 اس کے مقابلے میں کسی کی کوئی مجال نہیں۔ وہی اس کائنات کا بلاشرکت غیرے خود مختار مالک و حاکم ہے۔ الإسراء
44 ف 6 یعنی اپنی زبان قال سے اس کے ہر عیب اور نقص سے پاک ہونے کی شہادت دے رہے ہیں۔ حدیث میں ہے کہ آسمان میں ایک بالشت ھبر جگہ ایی نہیں ہے جس میں کوئی فرشتہ سجدہ میں پڑا اللہ کی تسبیح نہ کر رہا ہو۔ (ابن مردویہ) ایک اور حدیث سے ثابت ہے کہ چیونٹی اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتی ہے۔ (بخاری مسلم) ف 7 تب ہی تو وہ تمہاری سب گستاخیاں اور بتدیمیزیاں دیکھتا ہے مگر قدرت رکھنے کے باوجود تم سے درگزر فرماتا ہے اور تم پر کوئی عذاب نہیں بھیجتا بلکہ نہ تمہارا رزق بند کرتا ہے اور نہ تمہیں اپنی نعمتوں سے محروم کرتا ہے۔ الإسراء
45 ف 8 یعنی اس قرآن میں ایسی تاثیر ہے اور کافروں پر اثر نہیں ہوتا اس واسطے کہ اوٹ میں ہیں۔ آفتاب سے ہمارا روشن ہے اور جس کی اس طرف پیٹھ ہے اس کے حساب میں کہیں نہیں صموضح) اس حجاب کی اور بھی تفسیریں کی گئی ہیں مگر صحیحی یہی ہے کہ یہ عدم تاثیر سے کنایہ ہے۔ (روح) الإسراء
46 ف 9 یعنی جب انہوں نے آخرت سے انکار کیا اور پھر ضد اور ہٹ دھرمی میں اس قدر بڑھ گئے کہ ہزار سمجھانے کے باوجود انکار کرتے ہی چلے گئے تو اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے اور آنحضرت کے مابین ایک دبیز پردہ حائل ہوگیا۔ ان کے دلوں پر غلاف چڑھ گئے اور انکے کان ہر نصیحت کرنے والے کی بات سننے سے بہرے ہوگئے مگر وہ بدبخت اس پردے اور بوجھ کا مذاق ہی اڑاتے رہے۔ (دیکھیے السجدہ :5) لیکن چونکہ ہر چیز کا خالق اللہ تعالیٰ ہے اس لئے ان تمام چیزوں کی خلق کی نسبت بھی اسی کی طرف کردی گئی ہے۔ ف 10 کیونکہ وہ تو شرک ہی کو پسند کرتے ہیں اور توحید سے انہیں چڑ ہے۔ الإسراء
47 ف 11 اس کی عقل میں فتور آگیا ہے اس لئے بہکی بہکی باتیں کرنے لگا ہے۔ مروی ہے کہ عتبہ نے اشراف قریش کی دعوت کی یا حضرت علی نے آنحضرت کے اشارے سے دعوت کی اور آپ نے ان کو قرآن پڑھ کر سنایا تو انہوں نے آحضرت کی شان میں یہ الفاظ استعمال کئے۔ اس پر یہ آیات نازل ہوئیں۔ (قرطبی) الإسراء
48 ف 12 یعنی ایک بات نہیں جو آپ کے بارے میں کہتے ہوں بلکہ مختلف اوقات میں مختلف باتیں کہتے ہیں کبھی کہتے ہیں کہ آپ جادوگر ہیں کبھی کہتے ہیں کسی دوسرے نے آپ پر جادو کردیا ہے۔ کبھی کہتے ہیں کہ آپ شاعر ہیں کبھی کاہن اور کبھی مجنوں (دیوانہ) کہتے ہیں ان کی یہ متضاء باتیں خود اس بات کی دلیل ہیں کہ انہیں حقیقت کا کچھ پتہ نہیں۔ اس حال میں یہ کیسے امید کی جاسکتی ہے کہ انہیں ہدایت کا صحیح راستہ مل سکے یا مطلب یہ ہے کہ ان باتوں سے دوسروں کو ہدایت سے روکنے کے لئے کوئی راستہ نہیں پاتے۔ (قرطبی) الإسراء
49 الإسراء
50 الإسراء
51 ف 1 تو پھر اللہ تعالیٰ تمہیں دوبارہ زندہ کر کے اٹھا لے گا۔ (قرطبی) ف 2 یعنی جب اس نے تمہیں پہلی بار پیدا کردیا حالنکہ کسی چیز کا پہلی بار پیدا کرنا مشکل اور دوبارہ بنانا آسان ہوتا ہے۔ تو اس کے لئے پھر کیا مشکل ہے کہ تمہیں دوبارہ زندگی دے جبکہ اس کے لئے پہلی اور دوسری مرتبہ پیدا کرنا دونوں آسان ہیں۔ ف 3 یعنی قیامت جب آنے والی ہے تو وہ چاہے کتنی دور ہو اس یقریب ہی سمجھو اور اپنی نجات کی فکر کرو الإسراء
52 ف 4 یعنی اس کے مطیع و فرمانبردار بن کر رہو۔ اس نے جو تمہارے ساتھ سلوک کیا ہے اس پر اس کی حمد و ثنا کرتے ہوئے آئو گے یہ یہ مطلب ہے کہ تم اس کے بلانے پر اس کے حضور حاضر ہونگے الحمد اللہ ( اور سب تعریف اللہ ہی کے لئے سزا وار ہے) یا وہ دوبارہ زندہ کرنے کی وجہ سے مستحق حمد و ثناء ہے بعض نے بحمدہ کے معنی بدعائہ یاکم بھی کئے ہیں کیونکہ نفخ صور جس کی وجہ سے لوگ قبروں سے نکل کھڑے ہونگے وہ دراصل اللہ تعالیٰ کی طرف سے دعوت ہوگی (قرطبی) ف 5 یعنی دنیا میں یا قبر میں یا پہلے نفخہ سے دوسرے نفخہ تک تھوڑا ہی عرصہ ٹھہرے۔ الإسراء
53 ف 6 کفار کی مسلسل ایذا رسانی سے مسلمان بہت تنگ آگئے اور ان سے گالی گلوچ بھی ہوگئے۔ جس سے اشعتال بڑھ گیا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی مطلب یہ ہے کہ کفایہ اگر بحث و مکالمہ میں جہالت طعن و تشنیع، الزام تراشی، اور ہنسی ٹھٹھے کی باتیں بھی کریں تب بھی مسلمانوں کو چاہئے کہ اپنے آپ پر قابو رکھیں اور زبان سے خلاف حق یا اشتعال انگیز بات نہ نکالیں کیونکہ اس سے فائدہ کی بجائے الٹا نقصان ہوتا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مسلمانوں کو باہم حسن سلوک سے پیش آنے کی تلقین ہوجیسا کہ حدیث میں ہے الونوا عباد اللہ اخوانا کہ بھائی بھائی بن کر رہو۔ (قرطبی) الإسراء
54 ف 7 اس سے مقصود آنحضرت کو تسلی دینا ہے کہ اگر یہ راہ ہدایت پر نہ آئیں تو آپ غم نہ کریں کیونکہ راہ ہدایت پر لانا آپ کا کام نہیں ہے۔ الإسراء
55 ف 8 کہ ان میں سے کسے اپنی آخری رسالت کے لئے منتخب کرے۔ یہ جواب ہے کفار مکہ کے اعتراض کا جو وہ عموماً آنحضرت پر کیا کرتے تھے کہ اللہ کی نگاہ میں ان کا مقام اتنا بڑا کیسے ہوسکتا تھا کہ انہیں محمد (ﷺ) اپنی رسالت کے لئے نہ صرف منتخب فرمائے بلکہ اپنے تمام انبیاء پر فضیلت بھی دے اور ان پر ایسی شریعت نازل کرے جو تمام شریعتوں کو منسوخ کرنے والی ہو۔ (شوکانی) ف 9 اور یہ بزرگی بھی علم کی بنا پر تھی بلاشبہ انبیاء علیہم السلام مرتاب میں مختلف ہیں اور سب سے افضل ہمارے پیغمبر آنحضرت ﷺ ہیں۔ (نیز دیکھئے بقرہ 253) ف 10 یعنی آنحضرت پر قرآن اتارنے پر کیوں تعجب کرتے ہو حالانکہ ہم اس سے پہلے حضرت دائود کو زبور دے چکے ہیں … زبور کا ذکر خاص طور پر اس لئے فرمایا کہ آنحضرت کے خاتم النبین ہونے اور اس امت کے بہترین امت ہونے پر زبور کے مضامین شہادت دے رہے تھے۔ (دیکھیے انبیاء 105) ہوسکتا ہے کہ کفار سے جہاد کرنے میں مشابہت کی وجہ سے دائود کا تذکرہ کردیا ہو۔ (کذافی الموضح) الإسراء
56 ف 11 پھر کیوں انہیں سجدہ کرتے اور مدد کے لئے پکارتے ہو۔ الإسراء
57 ف 1 یعنی اس کی عبادت اور اطاعت کر کے وسیلہ (تقرب الٰہی) چاہتے ہیں اور ان کی ساری تگ و دو اسی لئے ہے کہ اس بارے میں کون دوسروں سے آگے نکلتا ہے حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا ” میرے لئے وسیلہ طلب کرو صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ وسیلہ کیا چیز ہے؟ اللہ تعالیٰ کا تقرب پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی (فتح البیان) افسوس کہ آج کل اس امت کے مسلمان بھی اس شرک میں مبتلا ہیں۔ اولیاء و صلحاء پر امت، پیروں، بزرگوں اور شہیدوں سے وہی عقیدہ رکھتے ہیں جو مشرکین اپنے بتوں سے رکھتے تھے، ان کو حاجت روا اور صاحب تصرف سمجھتے ہیں اور ان کے نام کی نیازیں دیتے ہیں تاکہ وہ تکالیف کو دور کریں وغیرہ۔ (وحیدی) الإسراء
58 ف 2 تباہ کرنے سے مراد بالکل غارت کردیتا اور عذاب اتارنے سے مراد قحط بیماری یا جنگ وغیرہ میں مبتلا کرنا ہے۔ بعض مفسرین کے نزدیک ” قریہ“ سے مراد ہر بستی ہے یعنی مومنوں کی ہو یا کافروں کی، اور ” اہلاک“ سے مراد طبعی ویرانی اور ” تعذیب“ سے کسی آفت وغیرہ میں مبتلا کرنا ہے اور ان کے نزدیک آیت کا مطلب یہ ہے کہ روئے زمین کی کوئی ایسی بستی نہیں جسے ہم قیامت سے پہلے پہلے یا تو طبعی موت بھیج کر ویران نہ کردیں یا کسی سخت آفت میں مبتلا نہ کردیں۔ بہرحال دونوں میں سے کوئی مطلب لیا جائے۔ مقصود کفار مکہ کو ڈرانا ہے کہ خواہ تم ہر طرح امن سے رہتے ہو مگر ایک نہ ایک دن تمہاری گرفت ہوگی۔ اس آیت میں ان نشانیوں کی طرف اشارہ ہے جو قیامت سے پہلے رونما ہونے والی ہیں۔ (ماخوذ از روح و شوکانی) ف 3 یعنی ہماری حتمی اور اٹل فیصلہ ہے جسے کوئی طاقت نافذ ہونے سے نہیں رو سکتی۔ الإسراء
59 ف 4 مفسرین کا بیان ہے کہ اہل مکہ نے آنحضرت سے فرمائش کی کہ صفا پہاڑی سونے کی بنا دی جائے اور مکہ کے گرد جو پہاڑ ہیں انہیں سرکا دیا جائے۔ حضرت جبریل آئے اور کہنے لگے ” اگر آپ چاہیں تو ان کی فرمایش پوری کردی جائے لیکن یہ بھی ایمان نہ لائے تو انہیں کوئی مہلت نہ دی جائے گی اور اگر آپ چاہیں تو ان کی فرمائش پوری نہ کی جائے اور انہیں مہلت دی جائے اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (فتح القدیر) مطلب یہ ہے کہ ہم جو ان لوگوں کی فرمائش پر نشانیاں نہیں بھیج رہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ان سے پہلے لوگوں کے پاس جب ایسی نشانیاں آئیں اور انہوں نے جھٹلایا تو ہم نے اپنی سنت کے مطابق ان پر عذاب نازل کردیا۔ چنانچہ قوم ثمود کی مثال ان کے سامنے موجود ہے۔ اس طرح اگر یہ بھی چاہتے ہیں تو ہم ان کی فرمائش پوری کرسکتے ہیں مگر اس کے بعد انہیں مہلت نہیں ملے گی۔ جیسا کہ سورۃ انعام وغیرہ میں گزر چکا ہے۔ (ابن کثیر) ف 5 یعنی اسے ستایا اور آخر کار اسے مار ڈالا۔ پھر دیکھ لو ان کا کیا حشر ہوا؟ ف 6 یعنی عذاب سے ڈرانے کے لئے کیونکہ اگر وہ نہیں ڈرینگے تو ان پر عذاب نازل ہوجائے گا۔ الإسراء
60 ف 7 لوگوں سے مراد کفار مکہ ہیں اور ان کا احاطہ کرلینے سے مراد یہ ہے کہ وہ اپنا پورا زور لگانے کے باوجود محمد ﷺ کو کوئی نقصان نہ پہنچا سکے اور نہ آپ کی دعوت کو پھیلنے سے روک سکے۔ اس سے مقصود آنحضرت کو حوصلہ دلانا ہے کہ آپ بے خطر اپنی دعوت پیش کرتے رہئے ان لوگوں کی مخالفت کی کوئی پروا نہ کیجیے۔ یہ آپ کا بال تک بیکا نہیں کرسکتے۔ ف 8 کہ کون اسے سچا مان کر اپنے ایمان کا ثبوت دیتا ہے اور کون سا یجھٹلا کر کفر کی دلدل میں پڑا رہتا ہے یا کفر کی طرف پلٹ جاتا ہے۔ مراد معراج کا واقعہ ہے جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے کہ جب نبی ﷺ نے واپسی کے عبد اسے لوگوں سے بیان فرمایا تو قریش نے اس کی سخت تکذیب کی اور آپ کا حد سے زیادہ مذاق اڑایا بلکہ خود مسلمانوں میں سے بعض ل وگ اسلام سے پھر گئے۔ ” رئویا“ کا لفظ خواب کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے مگر یہاں اس سے مراد ” آنکھ کا دکھاوا“ ہے کیونکہ اگر یہ محض خواب ہوتا تو لوگوں کے امتحان کی یہ صورت پیدا نہ ہو سکتی تھی حضرت ابن عباس اور دوسرے اکثر مفسرین نے اس کی یہی تفسیر کی ہے۔ (ابن کثیر و شوکانی) ف 9 اسے بھی لوگوں کے لئے آزمائش بنایا۔ مراد زقوم کا درخت ہے یعنی تھوہر یا ناگ پھنی (دیکھیے سورۃ خان 43) اور اس پر لعنت ہے مراد اس کے کھانے والے پر لعنت ہے اور آزمائش یہ ہے کہ جب نبی ﷺ نے لوگوں کو بتایا کہ آپ نے جنت اور دوزخ دیکھی اور دوزخ میں زقوم کا درخت دیکھا تو منکرین نے مذاق اڑایا اور کہا کہ دوزخ کی آگ میں سبز درخت کیسے ہوسکتا ہے۔ (ابن کثیر) ف 10 اسی لئے جب قرآن میں زقوم کا بیان ہوا تو ابوجہل نے کھجور اور مکھن منگوایا اور دونوں کو ملا کر کھانے لگا اور بولا ” یہ ہے زقوم“ اسی کو نوش جان کرو ہم اس کے علاوہ کسی زقوم کو نہیں جانتے۔ (ابن کثیر) الإسراء
61 الإسراء
62 ف 1 کہ وہ میرے مکر و فریب میں آنے سے بچ جائیں گے۔ الإسراء
63 الإسراء
64 ف 2 صورت سے مراد شیطان کا لوگوں کو نافرمانی کی طرف دعوت دینا ہے۔ بعض علمائے سلف نے اس سے مراد گانا بجانا بھی لیا ہے۔ (قرطبی) مال میں شیطان کی شرکت یہ ہے کہ حرام کاموں میں صرف کیا جائے اور بتوں یا پیروں، بزرگوں کی نیاز دی جائے اور اولاد میں شرکت یہ ہے کہ اسے گمراہی اور بداخلاقی کی تعلیم دی جائے یا سمجھا جائے کہ فلاں نے بخشا ہے۔ مشرکین عرب اپنی اولاد کے نام عبدالعزی وعبد الشمس وغیرہ رکھتے اور ہمارے زمانہ میں رسول بخش حسین بخش، پیر بخش، غلام جیلانی وغیرہ مشرکانہ نام رکھے جاتے ہیں۔ (وحیدی بتصرف) الإسراء
65 ف 3 یعنی میرے بندوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا۔ گمراہ رف وہی ہوں گے جن کا ایمان کچا اور کمزور ہوگا۔ الإسراء
66 ف 4 روزی کو قرآن میں اکثر فضل فرمایا ہے۔ دنیا میں جو نعمتیں بھی انسان کو حاصل ہیں یہ محض اللہ کا فضل ہی ہے کسی استحقاق کی بنا پر نہیں ہے۔ ف 5 اس کی مہربانی نہ ہوتی تو تم نہ کبھی سمندر میں جہاز چلا سکتے اور نہ سوداگری کے لئے ایک جگہ سے دوسری جگہ جاسکتے۔ الإسراء
67 ف 6 یہ تو زمانہ جاہلیت نے ان لوگوں کا حال تھا جو مشرک تھے اور اللہ و رسول نے انہیں مشرک قرار دیا مگر ہمارے زمانے کے بعض لوگوں کا کمال یہ ہے کہ وہ سخت سے سخت مصیبت میں بھی اللہ کے ساتھ یا اللہ کے علاوہ دوسروں کو مدد کے لئے پکارنا نہیں بھولتے اور پھر بھی ان کی توحید میں کوئی فرق نہیں آتا۔ ف 7 اس سے بڑھ کر احسان فراموشی اور کیا ہوگی کہ جونہی اپنا کام نکل گیا محسن کی طرف پلٹ کر بھی نہ دیکھا۔ الإسراء
68 الإسراء
69 ف 8 کو تو نے ان پر جھگڑ کیوں بھیجا اور کیوں انہیں غرق کردیا۔ سب اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہیں کوئی چوں تک نہیں کرسکتا۔ الإسراء
70 ف 9 ان کی شکل و صورت دوسرے تمام جانوروں سے اچھی بنائی۔ ان کے کھانے پینے کا بہتر انتظام کیا اور انہیں عقل و نطق اور تمیز عطا فرمائی جبکہ جانور اس نعمت سے محروم ہیں اور پھر تمام مخلوق کو اس کے فائدے کے لئے مسخر کردیا۔ (از قرطبی) ف 1 خشکی اور تری میں سفر کے لئے قسم قسم کی سواریاں دے دیں۔ ف 2 اللہ تعالیٰ نے بہتیری مخلوقات“ کے لفظ کو مجمل رکھا یہع اور اس کی تفصیل بیان نہیں فرمائی۔ بہرحال اس سے یہ معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی جتنی مخلوقات ہے اس میں سے اکثر پر انسانوں کو بزرگی حاصل ہے۔ بعض اہل علم نے بہتری کے لفظ کو تمام کے معنی میں لیا ہے اور بعض نے یہاں یہ بحث بھی چھیڑی ہے کہ انبیاء اور فرشتوں میں سے کون افضل ہے مگر اس آیت سے اس بحث کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ الإسراء
71 (شوکانی) ف 3 مثلاً پکارا جائے :” اے محمد (ﷺ) کی امت، اے موسیٰ (علیہ السلام) کی امت والے ! علی ہذا القیاس یا اے قرآن کے ماننے والو ! اے توراۃ کے ماننے والو ! اے انجیل پر عمل کرنے والو۔“ بعضوں نے امام سے مراد ” نامہ اعمال“ لیا ہے۔ جیسا کہ دوسری آیت میں فرمایا :” وکل شی حصینہ فی امام مبین اور ہر چیز کو ہم نے ایک واضح امام میں شمار کر رکھا ہے۔ (یٰسین :12) حافظ ابن کثیر نے اسی قول کو راجح قرار دیا ہے اور امام سے مراد ہر وہ شخص ہوسکتا ہے جس کی دنیا میں پیروی کی جاتی ہے۔ چنانچہ اہل ایمان کے امام انبیاء علیہم السلام اور کفار و مشرکین کے امام ان کے سرداران باطل ہونگے جیسے فرمایا : وجعلنا ھم اتم یدعون الی النار (قصص 4) سلف میں بعض اہل علم کا قول ہے کہ اس آیت میں اصحاب حدیث کی بڑی فضیلت ہے کیونکہ ان کا امام محمد ﷺ کے سوا کوئی نہیں۔ (ابن کثیر) ف 4 وہ خوشی سے اپنا نامہ اعمال دوسرے کو دکھائیں گے جیسا سورۃ حاقہ آیت 19 میں مذکور ہے تفصیل کے لئے دیکھئے سورۃ نساء 49) الإسراء
72 الإسراء
73 ف 5 کفار مکہ خود تو راہ پر کیا آتے ان کی یہ برابر کوشش رہی کہ کسی طرح آپ خلاص توحید کی دعوت پیش کرنے سے باز آجائیں یا ان احکام کا ایک حصہ چھوڑ دیں یا بدل دیں جو خدا کی طرف سے آپ کو دیئے جا رہے ہیں۔ یا قرآن سے وہ حصہ حذف کردیں جس میں شرک بت پرستی کی مذمت ہے تو ہم ایمان لانے کے لئے تیار ہیں اور آپ کو مقصد سے پھیرنے کے لئے کبھی فریب کاریوں سے، کبھی لالچ سے اور کبھی دھمکیوں سے انہوں نے بہتیرے جتن کئے لیکن آپ کا جواب ہر موقع پر یہ رہا ” خدا کی قسم ! اگر یہ لوگ میرے ایک ہاتھ میں چاند اور دوسرے ہاتھ میں سورج بھی رکھ دیں تب بھی میں اس کام کو چھوڑنے والا نہیں جو اللہ نے میرے ذمے کیا ہے۔ الإسراء
74 ف 6 یا تو ان کی طرف تھوڑا سا جھک جاتا معلوم ہوا کہ آپ نے تھوڑا سا جھکنے کا ارادہ بھی نہ کیا۔ اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ثابت قدم رہنے کی توفیق عطا نہ ہوتی تو عین ممکن تھا کہ آپ کے دل میں تھوڑا بہت جھکنے کا خیال تو آجاتا جب یہ آیت اتری تو آپ نے فرمایا : اللھملا تکلنی الی نفسی طرفۃ عین اے اللہ مجھے ایک ملحہ کے لئے بھی میرے نفس کے سپرد نہ کیجیو۔ (قرطبی) الإسراء
75 ف 7 اس لئے کہ کسی کا مرتبہ جتنا بلند ہوتا ہے گناہ کرنے پر اسے اتنی ہی سخت سزا ملتی ہے۔ چنانچہ ازواج مطہرات کے متعلق سورۃ احزاب :30 میں ہے۔ یضاعف لھا العذاب فعفین یعنی کھلی برائی کا ارتکاب کرنے پر اسے دہری سزا دی جائے گی۔ (قرطبی) الإسراء
76 ف 8 چنانچہ بعد میں جب آنحضرت ہجرت کر کے مدینہ چلے آئے تو ڈیڑھ سال کے بعد ان کے بڑے بڑے سردار بدر میں مارے گئے اور اس کے پانچ چھ سال بعد خود مکہ بھی فتح ہوگیا جس سے ان کی تمام شان و شوکت اور حکومت خاک میں مل گئی۔ (ابن کثیر) الإسراء
77 ف 9 جونہی ان کی قوم نے ان کو نکالا ان پر عذاب آگیا اور وہ تباہ ہوگئی (ابن کثیر (رح) الإسراء
78 ف 10 یعنی ظہر سے عشا تک چار نمازی اکثر مفسرین نے یہی معنی بیان کئے ہیں بعض نے دلوں کے معنی غروب بھی کئے ہیں۔ البتہ اس پر مفسرین کا اجماع ہے کہ یہاں نماز سے پانچ فرض نمازیں مراد ہیں۔ (شوکانی) ف 11 لفظ معنی ہیں صبح کی قرأت اور صبح کی نماز کو قرأت سے تعبیر کرنا اس بنا پر ہے کہ اس میں عموماً قرأت لمبی ہوتی ہے اور مستحیب ہے اور اس سے نماز میں قرأت کی اہمیت بھی ثابت سے ہوتی ہے اور صحیح احادیث میں یہ بیان ہوا ہے کہ سورۃ فاتحہ کے بغیر نہیں ہوتی۔ (قرطبی) ف 12 جیسا کہ حیدث میں ہے کہ صبح کی نماز میں رلت اور دن کے فرشتے جمع ہوتے ہیں (بخاری مسلم) آیت میں پانچوں نمازوں کے اوقات کی طرف رہنمائی کردی گئی ہے۔ جبریل نے دو روز عملاً نماز پڑھا کر ان اوقات کی تعیین کردی۔ نماز فجر غلس یعنی تاریکی میں افضل ہے اور عصر کی نماز سوج نہ ہونے سے پہلے پڑھنا ضروری ہے اس کے بعد وقت کر اہت ہے اور اس میں نماز کو منافق کی نماز قرار دیا ہے۔ (ابن کثیر و قرطبی) الإسراء
79 ف 1 یعنی فرض نماز کے علاوہ یہ خاص طور آپ کے حق میں نفل ہے کیونکہ آپ مغفور الذنب ہیں بعض نے لکھا ہے یعنی یہ آپ پر ایک زائد فرض ہے حضرت عائشہ کی ایک روایت میں بھی ہے کہ آنحضرت نے فرمایا : وتر مسواک، اور تہجد مجھ پر فرض ہیں اور تمہارے لئے نفل مگر یہ دوسری احادیث صحیحہ کے خلاف ہے۔ واللہ اعلم (قرطبی) ف 2 اللہ تعالیٰ کی طرف سے عی وعدہ ہے اور اس کا وقوع ضروری ہے مقام محمود‘ کے لفظ معنی ہیں ” ایسا مقام جس کہ تمام لوگ حمد تعریف کرینگے ” اکثر علما کے نزدیک اس سے مراد مقام شفاعت ہے بلکہ بعض نیح اجماع نقل کیا ہے شوکانی شاہ صاحب لکھتے ہیں : نیند سے جاگ کر قرآن پڑھا کر یہ حکم سب سے زیادہ تجھ پر کیا ہے کہ تجھ کو بڑا مرتبہ دینا ہے وہ تعریف کا مقام ہے شفاعت (کبری) کا جب کوئی پیغمبر نہ بول سکے گا۔ تب حضرت اللہ تعالیٰ سے عرض کر کے خلق کو چھوڑ دیں گے تکلیف سے الإسراء
80 ف 3 معلوم ہوا کہ یہ آیت اس وقت اتری جب آنحضرت کو ہجرت کا حکم دیا گیا چنانچہ آپ آبرو مندانہ طور پر مدینہ وارد ہوئے۔ انصار سے دین کی مدد بھی ہوئی۔ (کذا فی الموضح) الإسراء
81 ف 4 چنانچہ چند ہی سال کے بعد آنحضرت فاتحانہ شان کے ساتھ مکہ میں داخل ہوئے ایک روایت میں ہے : آپ کعبہ کے پاس تشریف لے گئے۔ آپ کے ہاتھ میں لکڑی تھی۔ اس لکڑی سے ایک ایک بت پر ضرب لگاتے اور یہ آیت (قل جاء الحق) تلاوت فرماتے جاتے۔ (بخاری) الإسراء
82 ف 5 جس سے کفر و نفاق اور شک و ریب کی تمام بیماریوں سے دل پاک ہوجاتے ہیں۔ ویسے قرآن ظاہری امراض کے لئے بھی شفا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ فاتحہ ہر بیماری کے لئے منتر ہے۔ (وحیدی) الإسراء
83 ف 6 یعنی بندگی سے سرکتا جاوے (موضح) الإسراء
84 الإسراء
85 ف 7 یعنی اللہ کے حکم سے ایک چیز بدن میں آ پڑی وہ جی اٹھا جب نکل گئی وہ مر گیا۔ اس کے علاوہ روح کی حقیقت کو صرف وہی جانتا ہے۔ ف 8 یعنی اللہ تعالیٰ کے علم کے مقابلے میں تمہیں دیا ہوا علم کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ لہٰذا ایسے امور کے متعلق سوال کرنا ہی فائدہ ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہوے کہ میدنہ میں چند یہودیوں کے روح کے متعلق سوال کرنے پر یہ آیت نازل ہوئی (بخاری مسلم) مگر نسائی کی ایک روایت میں ہے کہ یہود کے اشارے پر قریش نے آنحضرت سے یہ سوال کیا تھا۔ اس بنا پر اس آیت کے مکی اور مدنی ہونے میں بھی اختلاف ہے۔ ہوسکتا ہے کہ آیت تو مکہ میں ہی نازل ہوچکی ہو مگر جب مدینہ میں یہود نے دوبارہ سوال کیا ہو تو آنحضرت نے اس آیت کو ان کے جواب میں بھی تلاوت فرما دیا ہو۔ (ابن کثیر) الإسراء
86 الإسراء
87 ف 9 کہ اس نے آپ کو اپنا رسول منتخب کیا آپ پر اپنی آخری کتاب نازل فرمائی۔ تمام بنی نوع انسان کا سردار قرار دیا۔ آپ کو مقام محمود اور دوسرے بے انتہا انعامات سے سرفراز کیا۔ (کبیر) الإسراء
88 ف 1 یہ کفار کے اس دعویٰ کی تردید ہے کہ اگر چاہیں تو ہم بھی ایسا قرآن تصنیف کر کے پیش کرسکتے ہیں۔ قرآن میں تحدی سورۃ بقرہ :23 یونس 38، ہود 13 طور 34 میں بھی مذکور ہے۔ یہاں سارے قرآن کے متعلق تحدی کی گئی ہے۔ سورۃ ہود میں دس سورتوں اور بقرہ یونس میں صرف ایک سورۃ اور سورۃ طور میں تو سورۃ کے کچھ حصہ کے متعلق تحدی مذکور ہے۔ (رازی) مگر قرآن کا یہ اعجاز ہے کہ نہ اس زمانے میں کفار مکہ اس کا جواب دے سکے اور نہ آئندہ قیامت تک اس کا جواب ممکن ہے۔ یہاں انسانوں کے ساتھ جنات کو بھی شامل کردیا ہے اس لئے کہ کافر یہ اتہام لگائے کہ کوئی جنی اس (ﷺ) پر القا کرجاتا ہے۔ اور پھر جنوں کو اپنے سے اعلیٰ اور عالم الغیب بھی سمجھتے تھے۔ الإسراء
89 ف 2 اس سے مراد یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ہم نے ہر طرح سے تجدی کی ہے اور یہ بھی کہ ہم نے دلائل توحید اور نفی شرک پر ہر نوع کے دلائل پیش کئے ہیں یاہر معنی کو فصاحت و بلاغت کے ساتھ ایسے دلکش پیریہ میں بیان کیا ہے کہ وہ مثال کی طرح ذہن میں اترتے چلے جاتے ہیں مطلب یہ ہے کہ جس حد تک بیان اور افہام کا تعلق ہے ہم نے کوئی کسر نہیں چھوڑی (رازی) ف 3 یعنی کسی طرح بھی ایمان لانے کے لئے تیار نہیں ہوتے الإسراء
90 الإسراء
91 الإسراء
92 ف 4 بدبختوں کا اشارہ اس آیت کی طرف ہے جس میں ارشاد ہے : ان نشاء تخسف بہم الارض او نسقط الیھم کسفا من السمآء کہ اگر ہم چاہیں تو انہیں زمین میں دھنسا دیں یا ان پر آسمان کا ٹکڑا گرا دیں۔ (سبا :9) الإسراء
93 ف 5 جب کفار قریش قرآن کا معارضہ نہ کرسکے تو دوسرے معجزات طلب کرنے شروع کردیئے یہاں قرآن نے ان کے چھ مطالبوں کا ذکر کیا ہے۔ حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ قریش کعبہ کے پاس جمع ہوئے اور آنحضرت کو اپنی مجلس کے پاس بلایا اور یہ مطالبے پیش کئے اس پر یہ آیات نازل ہوئیں اور دوسرے رسولو کی طرح آنحضرت نے بھی ان کو یہی جواب دیا کہ میں تو ایک بشر ہوں کیا تم کسی بشیر کے متعلق بتا سکتے ہو کہ وہ اس قسم کے تصرفات کی طاقت رکھتا ہو؟ اور پھر میں اللہ کا رسول ہوں اور اس کے حکم کا تابع پس اللہ تعالیٰ کے اذن کے بغیر ان امور کو کیسے ظاہر کرسکات ہوں۔ امام رازی لکھتے ہیں پیغمبر کی صداقت کے لئے تو ایک معجزہ ہی کافی ہوتا ہے اور آپ کو وہ معجزہ قرآن دیا گیا اب اس کے بعد اگر متعدد معجزات کو معیار صدق قرار دیا جائے تو یہ سلسلہ ختم ہی نہ ہو سکے گا اس نے پیغمبروں نے ایسے موقعوں پر معذرت کردی کہ یہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے ہم بشر اور رسول ہیں (کبیر) الإسراء
94 ف 6 یعنی یہ بات ان کی سمجھ میں نہ آئی کہ ایک شخص بشر ہوتے ہوئے خدا کا پیغمبر کیسے ہوسکتا ہے اگر خدا کو کوئی پیغمبر بھیجنا ہوت تو کسی فرشتے کو اتار دیتا۔ الإسراء
95 ف 7 مگر جب زمین پر اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو بسایا ہے تو ان کی طرف ایک فرشتے کو رسول بنا کر بھیجنے سے کیا فائدہ، رسول کا کام صرف اس پیغام کو پہنچا دینا ہی نہیں ہوتا بلکہوہ لوگوں کے لئے سوہ بھی ہوتا ہے تاکہ وہ اس کی پیروی کرسکیں۔ الإسراء
96 ف 8 یعنی اگر میں دعویٰ نبوت میں جھوٹا ہوتا تو وہ میری سخت گرفت کرتا۔ (الحاقہ 66,62) اور پھر اسے خوب معلوم ہے کہ کون شخص انعام و احسان اور ہدایت پانے کے لائق ہے اور کون عقاب و عذاب اور گمراہی کے۔ (ابن کثیر) الإسراء
97 ف 1 نبوت پر ان کے شبہات کا جواب دینے کے بعد اب وعید فرمائی مطلب یہ ہے کہ کوئی انسان اپنے بل بوتے پر یا اپنی عقل، علم یا کسی اور چیز کی بنیاد پر راہ حق نہیں پا سکتا اور نہ اس پر ثابت قدم رہ سکتا ہے بلکہ یہ محض اللہ تعالیٰ کی توفیق اور دستگیری ہے جو کسی کو راہ حق دکھاتی ہے اور اگر انسان کی بدبختی اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی توفیق انسان کے شامل حال نہ ہوت ودنیا کی کوئی طاقت اسے راہ راست پر نہیں لا سکتی۔ اس سے مقصود آنحضرت کو تسلی دینا ہے۔ (کبیر) ف 2 یعنی منہ کے بل چلیں گے جیسے دنیا میں پائوں کے بل چلتے تھے۔ حضرت انس سے روایت ہے کہ صحابہ کرام نے دریافت کیا : اے اللہ کے رسولچ لوگ منہ کے بل کیسے چلائے جائیں گے؟ فرمایا جس ذات نے انہیں پائوں کے بل چلایا وہ انہیں منہ کے بل بھی چلا سکتی ہے۔ (بخاری مسلم) یا مطلب یہ ہے کہ قیامت کے دن انہیں منہ کے بل گھسیٹ کر دوزخ میں ڈالا جائے گا۔ جیسے فرمایا : یوم یسحبون فی النار علی وجوھھم (دیکھیے سورۃ القمر 48) فو اندھے، گونگے اور بہرے یعنی جمال الٰہی کے دیدار اور جنت کی نعمتوں کے دیکھنے سے محروم ہوں گے اور نہ ہی کوئی خوش کن خبر بن سکیں گے اور نہ کوئی دلیل بیان کرنے کی طاقت ہوگی ورنہ اس حواس خمسہ ظاہرہ کے اعتبار سے تو وہ بہت سننے اور دیکھنے والے ہوں گے۔ ہوسکتا ہے کہ ان کی مختلف حالتوں کے اعتبار سے فرمایا ہو۔ (دیکھیے مریم 38) ف 4 یعنی عذاب کبھی ہلکا نہ ہوگا جیسے فرمایا : لاجفف عنھم العذاب (بقرہ 86) الإسراء
98 الإسراء
99 ف 5 جو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے قائل ہوں اور حشر کا انکار بھی نہ کریں یا اس کے معنی مطلق دوبارہ پیدا کرنے کے ہیں۔ نبوت پر ان کے شبہات کا جواب دینے کے بعد اب حشر و نشر کے انکار پر ان کے شبہ کا جواب دیا۔ (بیکر) دسوری جگہ فرمایا : لخلق السموت والارض اکبر من خلق الناس کہ زمین و آسمان کا پیدا کرنا لوگوں کے پیدا کرنے سے بڑا ہے۔ (غاقر :57) ف 6 یعنی یعنی سب کے دوبارہ اٹھائے جانے کا ایک وقت مقرر ہے جس کی آمد میں کوئی شبہ نہیں۔ لہٰذا تمہارا محض تاخیر کو دیکھ کر دوبارہ اٹھائے جانے سے انکار کرنا سراسر حماقت ہے۔ الإسراء
100 ف 7 یعنی کسی کو پھوٹی کوڑی نہیں دیتے۔ اس لئے آنحضرت کی نبوت و رسالت پر بھی حسد و بخل کرتے ہو۔ اوپر کی آیات میں ان کے جمود اور کفر کی مذمت تھی۔ اس آیت میں ان کے بخل کی مذمت ہے اور یہ دو بری صفات ہیں جن میں سے ایک کا ضرر لازم ہے اور دوسری کا متعدی ہے۔ ماقبل سے وجوہ ربط میں مختلف اقوال منقول ہیں مگر ان میں تکلف ہے۔ (روح) ف 8 یا ” بڑاتنگ دل واقع ہوا ہے۔ “ الإسراء
101 ف 9 یعنی ایسے نو معجزے دکے چکے ہیں جو ان کی نبوت پر کھلی نشانی تھے اس میں آنحضرت کو تسلی دی ہے اور قریش کو اس مطالبہ کا جواب دیا ہے جو انہوں نے نبی ﷺ سے کیا تھا کہ ہم آپ پر ایمان لائیں گے جب تک کہ آپ یہ کام کر کے نہ دکھا دیں مطلب یہ ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کو نو معجزے دیئے مگر نہ ماننے والوں نے پھر بھی نہ مانا۔ ان آیات تسعہ“ کا ذکر سورۃ اعراف میں گزر چکا ہے یعنی طوفان ٹٹڈی، جوئیں، مینڈک، خون، عصا، یدبیضا، قحط اور پیداوار کی کمی بعض نے تسع آیات سے نواحکام عامہ مراد لئے ہیں جو ف 10 یہ بالکل اسی قسم کا الزام ہے جو کفار مکہ آنحضرت کو دیتے تھے۔ ان تبتعون الا رجلاً مسحورا (فرقان 8) ہر زمانے میں باطل پرست ناقابل تردید دلائل سن کر حق پرستوں کے بارے میں اسی طرح کی باتیں کیا کرتے ہیں۔ الإسراء
102 ف 11 کو لوگ انہیں دیکھ کر اپنے رب کی قدرت اور وحدانیت کے قائل ہوجائیں۔ (وحیدی) ف 12 یعنی مجھ پر تو کسی نے جادو نہیں کیا مگر تو جوان معجزات کو دیکھ لینے کے باوجود اپنی اڑ پر قائم ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تیری تباہی کے دن قریب آگئے ہیں۔ (وحیدی) الإسراء
103 ف 13 ان کی غرقابی کا واقعہ سورۃ یونس میں تفصیل سے گزر چکا ہے۔ (سورۃ : رکوع 9) الإسراء
104 ف 1 یعنی اچھے برے مومن کافر سب کو حشر کے میدان میں جمع کریں گے تاکہ ان کا دائمی فیصلہ کردیا جائے۔ الإسراء
105 ف 2 یعنی اس میں جو بات بھی ہے سراسر حق ہے۔ ف 3 جیسے ہم نے اتارا ویسے ہی وہ اترا درمیان میں کسی نے تصرف نہیں کیا۔ موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات کا ذکر کر کے جو قرآن کا ذکر فرمایا تو اس سے مقصود کفار قریش کو متنبہ کرنا ہے کہ آنحضرت سے الٹی سیدھی فرمائشیں کرنے کی بجائے اسی قرآن پر کیوں غور نہیں کرتے جو آنحضرت کی نبوت کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ الإسراء
106 ف 4 یعنی اس کی سورتیں اور آیتیں جدا جدا رکھیں ف 5 تاکہ اس کے پڑھنے یاد کرنے اور اس پر عمل کرنے میں آسانی ہو اور اس کے مطالب موقع پر محل کے اعتبار سے ذہن نشین ہوجائیں اور آئندہ کسی آیت کے بے موقع استعمال کی گنجئاش باقی نہ رہے۔ الإسراء
107 ف 6 یعنی متہارے ماننے یا نہ ماننے سے اس کی عظمت نہ بڑھتی ہے اور نہ حشی ہے یہ تہدید و انکار کے طور پر ان لوگوں سے خطاب ہے جو قرآن کے بنیات و دلائل کی موجودگی میں معجزات کا مطالبہ کرتے تھے۔ (کبیر) ف 7 یعنی وہ اہلم علم جو پچھلی آسمانی کتابوں کی تعلیمات سے وقف ہیں اور وحی و نبوت کی حقیقت کو سمجھتے ہیں جس ورقہ بن نوفل عمر و بن نفیل اور عبداللہ بن سلام (وغریہ کبیر) الإسراء
108 ف 8 یعنی قرآن کو سن کر وہ فوراً سمجھ جاتے ہیں کہہ یہ وہی نبی آخر الزامات اور وہی آخری کتاب ہے جس کے بھتیجنے اور توڑنے کا پچھلی کتابوں میں وعدہ فرمایا تھا۔ (کذا فی شکانی) الإسراء
109 ف 9 یعنی اللہ تعالیٰ کے سامنے اور زیادہ عاجزی و تواضح کرتے ہیں اور قرآن اور آنحضرت پر ان کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس تکرار سے مقصود دو مختلف حالتوں کو ظاہر کرنا ہے یعنی سجدہ ریز ہونا اور قرآن کو سن کر روانا یا یہ تکرار فعل کو ظاہر کرنے کے لئے ہے۔ (کبیر) شاہ صاحب لکھتے ہیں : نماز میں سجدہ دوبارہ ہوتا ہے اس واسطے دوبارہ فرمایا پہلی بار قرآن کی اعجازی تاثیر کے نتیجے میں اور دوسری بار خشوع و خضوع کے لئے موضح واضح رہے کہ احادیث قرآن کی تلاوت کے وقت رونے کی بڑی فضیلت آئی ہے۔ مثلاً یہ کہ رونے والی آنکھ دوزخ میں نہیں جائے گی۔ (وحیدی) الإسراء
110 ف 10 مشرکین عرب کے ہاں خدا کے لئے اللہ کا نام تواریخ تھا مگر وہ اس کے نام رحمن سے مانوس نہ تھے بلکہ وہ اس نام سے سخت وحشتک ھاتے حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ ایک روز آنحضرت نے دعا میں فرمایا :” یا اللہ یا رحمٰن“ تو مشرکین کہنے لگے کہ اس بے دین کی طرف دیکھو ہمیں رئومیودوں کے پکارنے سے منع کرتا ہے اور خود وہ معبودوں کو پکارتا ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازمل فرمائی۔ ابن جریر اللہ تعالیٰ کے اسماء کے حسنیٰ ہونے کے معنی یہ ہیں کہ ان میں حمد و ثناء اور تسبیح و تقدیس کے معانی مفہوم ہوتے ہیں۔ کذافی لکبیر (مزید دیکھیے سورۃ اعراف 18) الإسراء
111 ف 11 حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ یہ آیت اس زمانے میں نازل ہوئی جب نبی ﷺ مکہ میں چھپ کر رہے تھے چنانچہ جب آپ اپنی صحابہ کو نماز پڑھتے تو مشرکین قرآن کو اس کے اتارنے اور اس کے لانے والے کو گلیاں دیتے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا کہ بیچ کا لہجہ اختیار کیجیے تاکہ آپ کے ساتھی سن بھی سکیں اور مشرکین کو گالیاں دینے کا موقع نہ مل سکے۔ (بخاری مسلم) حضرت عائشہ نے اس آیت میں ’ دصلاۃ“ مراد دعا ہے۔ (بخاری) ف 112 اس میں مشریکن کے اس بہبود عقیدہ کی تردید ہے کہ جس طرح دنیا کے بادشاہوں کو وزیروں، گورنروں اور مصاحبوں کی ضرورت ہوتی ہے ورنہ ان کی سلطنت برقرار نہیں رہ سکتی اسی طرح اللہ تعالیٰ اپنی سلطنت کو برقرار رکھئے اور خود ذلت سے محفوظ رہنے کے لئے (فرشتوں، دیوتائوں اور اوتاروں کا محتاج ہے۔ (ولیعاذ باللہ) ف 13 اس کو آیت ” عزہ“ کہا جاتا ہے اور صدر اول میں یہ آیت چھوٹے بچوں کو یاد کرائی جاتی تھی سوتے وقت اس کا پڑھنا آفتوں سے حافظت کا موجب بنتا ہے۔ (ابن کثیر) الإسراء
0 ف 14 حضرت ابن عباس اور اکثر غسرین کے قول کے مطابق یہ پوری سورۃ مکہ معظمہ میں نازل ہوئی۔ اس کی فضیلت میں متعدد احادیث ثابت ہیں ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت نے فرمایا کہ جو سخص سورۃ کہف کی شروع کی دس آیتیں یاد کرلے وہ دجال کے فتنہ سے محفوظ رہے گا ایک دوسری روایت میں دس آخری ابتو کا ذکر ہے۔ (صحیح مسلم) گھر کے اندر اسے پڑھنے سے برکات نازل ہوتی ہیں جیسا کہ حضرت سید بن حفیر نے منقول ہے کہ وہ رات پڑھ ڈھانپ لیا انہوں نے آنحضرت سے اس کا تذکرہ یا تو آپ نے فرمایا :’ د یہ سکنیت ہے جو قرآن کے لئے نازل ہوگئی۔ (بخاری مسلم ) الكهف
1 الكهف
2 الكهف
3 الكهف
4 ف 1 مراد ہیں نصاریٰ جو حضرت عیسیٰ کو خدا کا بیٹا کہتے ہیں یا مشرکین عرب بھی جو فرشتوں کو خدا کی بٹیاں قرار دیتے ہیں اور یہود جو حضرت عزیز کو خدا کا بیٹا مانتے ہیں۔ الكهف
5 ف 2 محض جہالت کی بنا پر ان کے باپ دادا نے یہ بات نکالی اور محض جہالت کی بنا پر انہوں نے ان کی تقلید کی الكهف
6 ف 3 اس سے مقصود آنحضرت کو تسلی رہتا ہے کہ ان لوگوں کے ایمان نہ الیء پر آپ اپنے آپ کو رنج و غم سے کیوں گھلا رہے ہیں سا آیت سے انداز ہوسکتا ہے کہ اآنحضرت کو اپنی قوم کے ایمان نہ لانے کا کس قدر صدمہ تھا حتی کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے باخ نفسک (اپنے تئیں ہلاک کرلینے والے) کا لفظ استعمال کیا۔ اسی کیفیت کو آنحضرت نے خود ایک حدیث میں بیان فرمایا ہے کہ میری اور تم لوگوں کی مثال ایسی ہے کہ تم پروانوں کی طرح آگ سے گر رہے ہو اور میں تمہاری بچانے کی کوشش کرنا ہوا (بخاری مسلم) الكهف
7 ف 4 یعنی کون دنیا کی سج دھج کی طرف دوڑتا ہے اور کون اس کو چھوڑ کر آخرت کو پکڑتا ہے۔ (موضح) الكهف
8 ف 5 نہ کوئی مکان رہے گا نہ باغ نہ سبزہ نہ جانور نہ آدمی یعنی یہ ساری چہل پہل ختم ہوجائے گی۔ (وحیدی) الكهف
9 ف 6 یعنی ہماری قدرت کی بڑی بڑی نشانیوں کے سامنے ان لوگوں کا قصہ جو آگے آرہا ہے کوئی ایسی بات نہیں ہے جس پر حد سے زیادہ حیرت کا اظہار کیا جائے بلکہ اس عالم میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کی بڑی بڑی نشانیاں موجود ہیں۔ قریش نے یہود کے مشورے سے آنحضرت سے بطور آزمئاش جن اموال کہے۔ روح کیا ہے؟ اصحاب کہف کا قصہ کیا ہے؟ اور ذوالقرنین کی سرگزشت کیا ہے؟ اور انہوں نے اصحاب کہف کے قصے کو خاص اہمیت دی۔ ان کے جواب میں یہ آیات نازل ہوئیں۔ کہف عربی زبان میں وسیع غار کو کہتے ہیں اور رقم (تختی) سے مراد پتھر یا شیشے کا وہ کتبہ جس پر انہی اصحاب کہف کے نام لکھے تھے بعض قدیم مفسرین نے اس سے مراد وہ بستی لی ہے جہاں یہ قصہ پیش آیا تھا اور جو ایلہ (عقبہ) کے قریب یا نینوی (موصل) کے قریب یا رومیوں کی سر زمین میں واقع تھی اور اس کا نام اقس یا افسوس تھا۔ ان دنوں اردن کے دارالسلطنت عمان سے دس بارہ میل کے فاصلے پر ایک بستی ہے جس کا نام ” الرقیب“ ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ایک غار پایا جاتا ہے اس بستی کے رہنے والوں کا خیال ہے کہ اصحاب کہف کا قصد یہیں پیش آیا تھا اور اس بستی کا اصل نام الرقیم تھا جو بعد میں بگڑ کر الرقیب ہوگیا مگر یہ کوئی محقق بات نہیں ہے۔ اس زمانہ کے بعض مغربی ماہرین کا خیال ہے کہ یہ غار ترکی کے شہر از میر (سمرنا) کے قریب واقع تھا۔ واللہ اعلم الكهف
10 ف 7 تاکہ اپنی قوم کے فتنے سے اپنے دین کو محفوظ رکھ سکیں اور ان کی قوم کو پتا نہ چل سکے کہ وہ کہاں گئے؟ ف 8 یا ” ہماری عاقبت بخیر کر۔“ (ابن کثیر) الكهف
11 الكهف
12 الكهف
13 ف 1 سلف و خلف رحم اللہ میں سے بہت سے مفسرین کا بیان ہے کہ یہ چند آدمی شہزادے تھے۔ ان کی قوم بتوں کی پوجا کرتی اور ان کے نام پر چڑھاوے چڑھاتی تھی لیکن اللہ نے انہیں توفیق دی اور انہوں نے توحید کی راہ اختیار کی۔ اس پر ان کا بادشاہ جس کا نام دقیانوس بتایا جاتا ہے۔ ان کے درپے آزاد ہوگیا اور پوری قوم کو ان کے خلاف بھانے لگا اسی کشمکش میں انہوں نے فتنہ سے بچنے کے لئے غار میں پناہ لی۔ عموماً قدیم وجیہہ محققین کا خیال یہ ہے کہ ان کا زمانہ حضرت عیسیٰ کے بعد کا ہے اور یہ کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ ہی کا دین قبول کیا تھا مگر ابن کثیر نے حضرت عیسیٰ سے پہلے کا زمانہ بتایا ہے کیونکہ اگر وہ عیسیٰ کے دین پر ہوتے تو یہود اس قصہ کو اتنی اہمیت نہ دیتے۔ واللہ علم شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ یہ بادشاہ کے خدام اور نوکر تھے جو بت پرست بادشاہ سے چھپ کر شہر سے نکل گئے۔ (موضح) الكهف
14 ف 2 یعنی انہیں حق و صداقت پر قائم رہنے کی توفیق بخشی یہاں تک کہ انہوں نے اپنے آپ کو خطرہ میں ڈال لینا گوارا کرلیا مگر باطل کے آگے سر جھکانے کو تیار نہ ہوئے۔ الكهف
15 ف 3 اور جب سند نہیں ملاتے تو معلوم ہوا کہ اپنے دعویٰ میں سراسر جھوٹے ہیں۔ ف 4 یعنی کسی دوسرے کو اس کا شریک قرار دے حالانکہ اس نے کسی کو اپنا شریک نہیں بنایا۔ الكهف
16 ف 5 اس شہر سے نکل کر پاس ایک پہاڑی میں کھوہ تھی۔ آپس میں مشورہ کر کے وہاں جا بیٹھے نیند غالب ہوئی سو گئے کسی کو معلوم نہ ہوا تب سے اب تک سوتے ہیں۔ بیچ میں ایک بار اللہ نے جگا دیا جس سے لوگوں پر خبر کھلی، پھر سو رہے۔ (موضح) الكهف
17 ف 6 یعنی ان کے غار کا منہ شمال کے رخ تھا۔ ف 7 کہ انہیں غار کی راہ دکھائی جہاں زندہ رہنے یک لئے دھوپ اور ہوا کی جس مقدار کی ضرورت تھی وہ انہیں ملتی رہی اور وہ لوگوں کی نگاہ سے محفوظ بھی رہے۔ الكهف
18 ف 8 تاکہ ایک ہی کروٹ لیٹے لیٹے ان کے بدنوں کو مٹی نہ کھا جائے۔ الكهف
19 ف 1 یعنی ایک الگ تھلگ غار میں ان کا اس طرح لیٹا ہونا اور چوکھٹ پر کتے کا بیٹھا ہونا ایک ایسا دہشت ناک منظر پیش کرتا تھا اگر کوئی شخص اندر جھانکنے کی کوشش بھی کرنا تو خوف کے مارے بھاگ کھڑا ہوتا۔ یہ سب ان کی ایک لمبی مدت تک آرام و سکون سے سلائے رکھنے کے لئے خدائی انتظامات تھے۔ ف 2 یعنی جیسے ہم نے ایک حیرت انگیز طریقہ سے انہیں غار کے اندر سلایا اسی طرح … ف 3 اور جب اس پوچھ گچھ کے نتیجہ میں آخر کار انہیں پتہ چلے کہ وہ کتنی مدت سوتے رہے تو انہیں ہماری قدرت کا عملی طور پر ہلکا سا اندازہ ہوجائے۔ (کبیر) ف 4 یعنی حلال اور پاکیزہ کھاتا۔ (شوکانی) ف 5 یعنی شہر میں داخل ہونے اور کھانا خریدنے میں ہوشیاری اور نرمی سے کام لے۔ (کبیر) الكهف
20 الكهف
21 ف 6 تمہاری دنیا اور آخرت دونوں تباہ ہوجائیں گی۔ ف 7 یعنی جس طرح ہم نے ان کو ثابت قدم رکھا اور حیرت انگیز طریقہ سے سلائے رکھا اسی طرح ہم نے شہروالوں کو ان کی حقیقت حال اور جگہ سے مطلع کردیا۔ بہت سے مفسرین کا بیان ہے کہ ہوا یہ کہ جب وہ شخص کھانا خرینے کے لئے روانہ ہوا تو اس نے دیکھا کہ شہر کے راستے لوگوں کی تہذیب اور رہن سہن زبان و لباس ہر چیز بدل چکی ہے۔ اس نے خیال کیا کہ شاید میں پاگل ہوگیا ہوں یا خواب دیکھ رہا ہوں۔ بالآخر وہ ایک شہر پہنچا اور ایک دکاندار سے کھاتا خریدنے لگا اور اس نے سکہ نکالا تو دکاندار ششدر رہ گیا اور اس نے ایک دوسرے دکادنار کو بلایا بالآخر کچھ لوگ جمع ہوگئے اور انہیں شک گزرا کہ شاید اس شخص کو کہیں سے پرانا ناخون ہاتھ لگا ہے۔ مگر جب اس نے بتایا کہ میں اسی شہر کا رہنے والا ہوں اور کل ہی یہاں دقیانوس بادشاہ کو چھوڑ کر گیا ہوں تو لوگوں نے حیرت اور بڑھ گئی اور وہ اسے پکڑ کر بادشاہ کے پاس لے آئے۔ وہاں جب پوچھ گچھ ہوئی تو سب معاملہ کھل گیا اور سارے شہر میں یہ خبر پھیل گئی۔ اس لئے اصحاب کہف کو دیکھنے اور انہیں سلام کرنے کے لئے بادشاہ اور اسکے ساتھ لوگوں کا ایک ہجوم غار پر پہنچ گیا۔ بادشاہ نے غار میں داخل ہو کر ان لوگوں سے سلام و مغافقہ کیا جس سے وہ بہت خوش ہوئے۔ پھر وہ دوبارہ اپنی جگہ لیٹ گئے اور اسی حال میں اللہ تعالیٰ نے ان کی روح قبض کرلی۔ واللہ اعلم (ابن کثیر) ف 8 یعنی شہر والوں کو یقین آجائے۔ ف 9 کوئی کہتا تھا کہ مر کر پھری اٹھنا برحق ہے کوئی اس سے انکار کرتا اور کہتا کہ حشر صرف روح کا ہوگا بدن کا نہیں ہوگا اللہ تعالیٰ نے انہیں صاحاب کہف کا حال آنکھوں سے دکھا کر یقین دلای دیا کہ قیامت آئے گی اور حشر روح اور بدن دونوں کا ہوگا۔ ” اذبننا زعون امرھم بننھم“ کے دوسرے معنی یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ جب شہر والے اصحاب کہف کے بارے میں جھگڑ رہے تھے کہ کیا یہ وفات پا چکے ہیں اور ان کے ساتھ کیا کیا جائے ؟ (کبیر) ف 10 کہ یہ کون لوگ ہیں کب غار میں آئے اور اب مر جانے کے بعد کس جزا کے مستحق ہیں؟ ف 11 اور اس طرح ان کی یادگار باقی رکھیں گے۔ یہ قبروں پر مسجدیں بنانے کی جہالت اور بعت ہر زمانہ میں جاری رہی ہے اور ہوسکتا ہے کہ غالب آنے والوں سے مراد وقت کے رئوسا اور مشرک ہی ہوں ورنہ اسلام میں تو قبروں پر یا بطور تبرک قبر کے پاس مسجد بنانا ہی حرام ہے۔ حدیث میں ہے کہ یہودی و نصاریٰ پر اللہ تعالیٰ لعنت فرمائے کہ انہوں نے اپنے انبیاء اور نیک لوگوں کی قبروں کو مسجد بنا لیا۔ (بخاری و مسلم) ایک دوسری حدیث میں ہے کہ یہ لوگ قیامت کے دن بدترین مخلوق ہوں گے۔ (بخاری و مسلم) ایک حدیث میں آنحضرت فرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں اور قبروں پر مسجدیں بنانے اور ان میں چراغ روشن کرنے والوں پر لعنت فرمائے۔ (ابو دائود و ترمذی وغیرہ) الكهف
22 ف 12 اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نزول قرآن کے وقت اہل کتاب میں اور ان کے ذریعے مشرکین عرب میں اصحاب کہف کے متعلق طرح طرح افسانے موجود تھے مگر مستند معلومات کسی کے پاس نہ تھی۔ فائدہ اصحاب کہف کے اسما کے بارے میں کوئی صحیح مرفوع روایت نہیں ہے۔ ناموں کی صراحت غالباً اسرائیلی تاریخوں سے ماخوذ ہے اور ان اسماء کے تلفظ میں بھی بہت اختلاف ہے اور کسی قول پر بھی اعتماد نہیں ہو سکتا۔ (فتح الباری) پھر بعض لوگ ان ناموں کے خواص و منافع بیان کرتے ہیں اور مختلف بیماریوں کے لئے ان کو لکھتے ہیں جو کسی صورت بھی صحیح نہیں بلکہ اگر یا حرف ندا کے ساتھ لکھے جائیں تو صاف شرک ہے۔ عجیب بات ہے کہ اس بارے میں بعض روایات بھی گھڑ لی گئی ہیں جو ابن عباس اور بعض دیگر اصحاب کی طرف منسوب ہیں مگر ان میں سے کوئی روایت بھی حضرت ابن عباس اور سلف صالح سے ثابت نہیں ہے : (و لعلہ شیء اختر والمتزیون بندی المشائخ لاخذ البداھم من النساء و مخفہ (القول) (روح) نواب صدیق حسن خان نے اپنی تفسیر میں ان ناموں کے ذریعے علاج کی تردید کی ہے۔ (وحیدی) ف 13 کہ وہ کسی قسم کے لوگ تھے ان کے نام کیا تھے یا ان کی تعداد کیا تھی؟ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ میں ان قلیل لوگوں میں سے ہوں جو ان کی صحیح تعداد جانتے ہیں وہ تعداد میں سات تھے۔ (ابن کثیر) ف 1 یعنی جتنا غصہ ہم آپ پر وحی کر رہے ہیں اتنا انہیں سنا دیں اس سے زیادہ کسی بحث و مناظرہ کی ضرورت نہیں ہے۔ ف 2 اس لئے کہ ان کے پاس کوئی صحیح اور مستند معلومات نہیں ہے۔ صرف سنے سنائے یا اٹکل پچو افسانے ہیں۔ الكهف
23 الكهف
24 ف 3 مفسرین لکھتے ہیں کہ جب یہودیوں نے نبی ﷺ کا امتحان لینے کے لئے آپ سے اصحاب کہف کا قصہ دریافت کیا تو آپ نے فرمایا میں اسے کل بتا دوں گا اور آپ نے انشاء اللہ نہیں فرمیاا لیکن کافی دنوں تک وحی نہ آئی اور آپ کا وعدہ خلاف ہوگیا۔ اس پر آیت نازل ہوئی اور آپ کو ہر آئندہ کام میں انشاء اللہ کہنے کا حکم دیا گیا۔ (شوکانی) ف 4 جس سے میری رسالت کا ثبوت ہو چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت کو نہ صرف صحاب کہف کا قصہ بتایا بلکہ غیب کی بہت سی دوسری باتیں بھی بتائیں جن کے متعلق کسی کے پاس کوئی معلومات نہ تھی مقصد وہی ہے کہ اصحاب کہف کا قصہ کوئی اتنا زیادہ عجب نہیں ہے۔ (روح) الكهف
25 ف 5 یعنی شمشی حساب سے تین سو سال تک اور قمری حساب سے تین سو نو سال تک سوتے رہے کیونکہ تین سو خمشی سالوں کا گر قمری سالوں سے حساب کیا جائے تو تین سو نو سال بنتے ہیں۔ الكهف
26 ف 6 یعنی اگر اہل کتاب آپ سے اس مدت کے بارے میں اختلاف کریں تو آپ کہہ دیجیے کہ اللہ کا علم تم سے زیادہ ہے لہٰذا جو مدت اس نے بتائی ہے وہی صحیح ہے تمہاری کسی بات کا اعتبار نہیں۔ ان دو آیات کی یہ تفسیر جمہور مفسرین کے بیان کے مطابق ہے۔ قتادہ اور بعض دوسرے مفسرین کہتے ہیں کہ پچھلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کا قول نقل رفمایا ہے جو کہتے تھے کہ اصحاب کہف تین سو سال تک سوتے رہے اور بعض اس پر نو سال کا اضافہ کرتے تھے اور اس آیت میں یہ فرما کر کہ ’ د کہہ دیجیے کہ اللہ خوب جانتا ہے وہ کتنی مدت (سوتے) رہے عین کے اس قول کی تردید فرمائی ہے واللہ علم (ابن کثیر) ف 7 یعنی اصحاب کہف کے بارے میں جو بات آپ کو اس کتاب میں بتائی جا رہی ہے وہ بالکل کافی اور جامع و مانع ہے۔ آپ اسی کو جوں تاتوں لوگوں کو پڑھ کر سناتے رہیے یا یہ کہ قرآن اللہ تعالیٰ کی سچی کتاب ہے یہی ان کو پڑھ کر سنائیں اور ان کی مخلافت کی پرواہ نہ کریں۔ (روح) الكهف
27 ف 8 یعنی اگر آپ کسی کی خاطر داری سے اس کی کتاب میں کوئی رد و بدل کریں گے تو آپ کو اس کے سوا کہیں پناہ نہ ملے گی۔ یہ خطاب بظاہر آنحضرت ﷺ سے ہے مگر مقصود اہل کتاب اور کفار مکہ سب کو متنبہ کرنا ہے کہ تمہاری خاطر آنحضرت اپنے ملاک کی کتاب میں کئیو رد و بدل کرنے والے نہیں ہیں … اس آیت پر اور بعض علمائے تفسیر کے قول کے مطابق اوپر کی آیت پر اصحاب کہف کا قصہ ختم ہوگیا اس کے بعد دوسرا مضمون شروع ہو رہا ہے جس میں ان حالات پر تبصرہ ہے جو نبی ﷺ اور مسلمانوں کو ان دنوں مکہ میں درپیش تھے۔ الكهف
28 ف 9 مراد ہیں حضرت سلمان، ابوذر، بلال، صہیب، خباب اور دوسرے غریب مسلمان جو آنحضرت کی صحبت میں بیٹھ کرتے تھے ف 10 حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ چند غریب صحابہ آنحضرت کی خدمت میں بیٹھے تھے کہ مشریکن کے چند سردار آئے اور کہنے لگے آپ ان غریب مسلمانوں کو اپنے پاس سے ہٹا دیں تب ہم آپ کے پاس آ کر بیٹھیں گے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ حضرت سلمان کی روایت میں ہے کہ حینیہ بن بدر اور اقرع بن حابس وغیرہ آئے۔ (ابن کثیر) ف 11 یعنی مجھے تمہاری کوئی پروا نہیں مانو گے تو اپنا بھلا کرو گے اور نہ مانو گے تو اپنی شناخت بلائو گے میں ان مومنوں کو پانی مجلس سے نہیں اٹھا سکتا۔ الكهف
29 ف 1 چاروں طرف آگ کی دیوار ہوگی کہیں بھاگنے کا راستہ نہ ملے۔ حضرت ابو سعید، دری سے روایت ہے کہ آنحضرت نے فرمایا : آگ کی قنات چار دیواری ہے جس کی ہر دیوار اتنی موٹی ہے کہ چالیس میں میں طے ہوتی ہے۔ (ابن جریر) حضرت یعلی بن امیہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’ دسمندر ابھی جہنم میں سے ہے پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔ (ابن جزیہ بخاری) قتادہ کا خیال ہے کہ وہ سرادق دھوئیں اور آگ کی لپیٹ کے ہوں گے۔ (کبیر) الكهف
30 الكهف
31 ف 2 حدیث میں ہے کہ سونا اور ریشمی کپڑے مردوں کو بہشت میں ملیں گے جو شخص یہاں دنیا میں پہنے گا آخرت میں اس سے محروم رہے گا۔ (موضح) فو کفار کو مسلمان فقراء کے مقابلے میں اپنے اموال و انصار پر فخر تھا اس بنا پر وہ مسلمانوں کو حقیر سمجھتے اور ایک مجلس میں ان کے ساتھ بیٹھنا پسند نہ کرتے تو اللہ تعالیٰ نے یہ قصہ بیان فرما کر سمجھایا کہ یہ فخر کے لائق نہیں ہیں کیونکہ ایک لمحہ میں فقیر غنی ہوسکتا ہے غنی فقیر دنیا میں اگر کوئی فخر کی چیز ہے تو وہ ہے اللہ تعالیٰ کی طاعت اور اس کی عبادت اور یہ ان درویشوں کو حاصل ہے۔ (کبیر) کہتے ہیں کہ یہ دونوں بھائی بھائی یعنی ایک ہی باپ کے دو بیٹے تھے۔ ایک نے تو باپ کے ترکہ سے وہ جئیداد باغ وغیرہ خرید کئے جن کا قرآن نے ذکر کیا ہے اور دوسرے نے سب مال اللہ کی راہ میں صرف کردیا اور قناعت پر بیٹھ رہا۔ (کذافی العالم) الكهف
32 ف ٣ یا اسے خوب نفع اور آمدنی بھی حاصل تھی ثمر کے معنی پھل اور نفع دونوں ہو سکتے ہیں۔ الكهف
33 الكهف
34 ف ٤ یعنی میں تم سے زیادہ مالدار بھی ہوں اور میرے نوکر چاکر بھی تم سے بڑھ کر ہیں۔ القصہ اس کافر نے اپنے جاہ و مال کے بھروسہ پر مومن بھائی کے مقابلے میں فخر کیا اور اسے اپنے باغات کا مشاہدہ کرانے کے لئے ساتھ لے چلا۔ الكهف
35 ف 6 افسوس کہ اکثر مسلمان مال دار بھی اسی غرور میں مبتلا ہیں، مساکین بلکہ علماء صلحا تک کو نہایت حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ (وحیدی) الكهف
36 ف 1 کیونکہ جب اس نے دنیا میں یہ مال اور نعمتیں دی ہیں تو آخرت میں اس سے بہتر ملیں گی۔ الكهف
37 ف 2 وہ شخص اگرچہ خدا کے وجود کا منکر نہ تھا بلکہ ولئن رددت الی ربی“ کے الفاظ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ اس کی ہستی کا قائل تھا، مگر اس کے باوجود اس کے بھائی نے اسے الفرت“ کہہ کر کافر قرار دیا ہے کیونکہ اسے ” بعث“ دوبارہ زندگی پر یقین نہیں تھا اور قیامت کے متعلق شک کرنے والا کافر ہے۔ پھر تکبر و غرور سے بڑا بول اور خدا کی قدرت سے انکار بھی کفر ہے۔ اس نے جاہ و مال کو اپنی عزت کا سبب قرار دیا اور یہ نہ سمجھا کہ عزت و ذلت کا مالک تو اللہ تعالیٰ ہے اور پھر مال کو اللہ تعالیٰ کی نعمت خیال نہ کیا بلکہ خود اپنی محنت ذہانت اور قابلیت کا نتیجہ قرار دیا۔ جیسے قارون نے کہا تھا : لقد اوتینہ علی علم“ اور یہ سب باتیں کفر کی ہیں۔ (از تفاسیر) الكهف
38 ف 3 اس سے معلوم ہوا کہ وہ صاحب باغ مشرک تھا۔ بہت سے مشرک ایسے ہیں جو اللہ تعالیٰ کو تو مانتے ہیں مگر اس کے ساتھ شرک بھی کرت یہیں وما یومن اکثر ھم باللہ الا وھم مشرکون“ تنبیہ آنحضرت نخے پریشانی کا علاج اس کلمہ کا پڑھنا تجویز فرمایا : اللہ اللہ ربی لا اشرک بہ شیاً (ت ۔ ن) الكهف
39 ف 4 کسی نعمت کے حاصل ہونے یا کسی چیز کے بھلا لگنے پر ماشاء اللہ لاح ول لاقوۃ الا باللہ کہنے کی فضیلت میں متعدد احادیث اور سلف کے متعدد آثار ثابت ہیں۔ ایک حدیث میں ہے کہ گھر مال یا اولاد کسی بھی اللہ تعالیٰ کی نعمت کو دیکھ کر یہ کلمہ پڑھ لیا جائے تو اللہ تعالیٰ ہر آفت سے اس کی حفاظت فرماتا ہے گو موت سے بچائو نہیں ہو سکتا۔ نیز احادیث میں لا حول ولا قوت الا باللہ کی بہت فضیلت آئی ہے اور اسے خزانہ الٰہی کی ایک چیز قرار دیا ہے اور ہموم و افکار کا علاج بھی بتایا ہے۔ (ابن کثیر) الكهف
40 ف 5 دنیا میں آخرت میں یاد دونوں میں ف 6 یعنی غرور تکبر کی راہ سے اپنے نفس کی پیروی نہ کرتا بلکہ بھائی کی بات مان لیتا اپنی ساری دولت اور شان و شوکت اللہ ہی کا عطیہ سمجھتا اور مال میں جو دوسروں کے حقوق رکھے گئے ہیں انہیں ادا کرتا۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں : آخر اس کے باغ کا وہی حال ہوا جو اس کے نیک بھائی کی زبان سے نکلا تھا کہ ات کو آگ لگ گئی آسمان سے سب جل کر راکھ کا ڈھیر ہوگیا۔ مال خرچ کیا تھا دولت بڑھانے کو وہ اصل بھی کھو بیٹھا۔ (موضح) ف 7 یہاں یہ مثال ختم ہوئی۔ اس سے مقصود کفار مکہ کو سمجھانا ہے کہ غریبوں کو حقیر نہیں سمجھنا چاہئے۔ اصلی چیز اللہ پر ایمان اور اس کی راہ میں اخلاص ہے۔ الكهف
41 الكهف
42 الكهف
43 الكهف
44 الكهف
45 ف 1 وہی ہے کہ جب چاہتا ہے کسی کو خوشحالی فارغ البالی اور مال و دولت عطا کرتا ہے اور پھر جب چاہتا ہے اسے تنگ حالی فقر و فاقہ اور بد حالی میں مبتلا کردیا جاتا ہے۔ پس انسان کو چاہئے کہ مال و دولت پر غرور نہ کرے بلکہ ان چیزوں کو اللہ تعالیٰ کی طر سے نعمت سمجھ کر اس کی شکر گزاری ہے۔ الكهف
46 ف 2 حضرت ابوسعید خدری سے روایت ہے کہ آنحضرت نے فرمایا :” رہنے والی نیکیاں بہت کیا کرو۔ ” صحابہ نے عرض کیا ” اے اللہ کے رسول ! وہ کیا ہیں فرمایا : ” اللہ اکبر کہنا لا الہ الا اللہ کہنا سبحان اللہ کہنا الحمد للہ کہنا اور لاحول ولاقوۃ الا باللہ کہنا۔ (مسند احمد) یوں باقی رہنے والی نیکی میں ہر وہ کام آسکتا ہے جس کا ثواب مرنے کے بعد قائم رہتا ہے۔ حدیث میں ہے : اذامات الانسان انقطع عنہ عملہ الامن ثلاث من صدقۃ جاویۃ او علم ینفع بہ اوولد صالح یدعولہ۔ یعنی جب انسان مر جاتا ہے تو اس کے عمل بند ہوجاتے ہیں صرف تین قسم کے اعمال کا فائدہ اس کو پہنچتا رہتا ہے۔ ہمیشہ جاری رہنے والا صدقہ ایسی علمی یادگار جس سے لوگ فیض حاصل کرتے رہیں۔ نیک اولاد جو اس کے لئے دعا کرتی رہے۔ حضرت ابوہریرہ کی روایت میں صدقہ جاریہ کی وضاحت مسجد بنانے، مسافر خانہ تیار کرنے، عام استعمال کے لئے کسی صورت میں پانی کا استعمال کرنے سے فرمائی گئی ہے اور علم کا فیض بصورت تدریس و تالیف یا قرآن و سنت کی حفاظت اور ان کی نشرو اشاعت بھی اس میں داخل ہے۔ (کذافی الترغیب) الكهف
47 ف 3 یعنی وہ اپنی جگہ سے ہل کر بادلوں کی طرح چلنے لگیں گے۔ (دیکھیے سورۃ النحمل :88) ف 4 نہ اس میں کوئی اونچ نیچ ہوگی نہ کوئی پہاڑ نہ کوئی عمارت اور نہ کسی قسم کی روئیدگی۔ جیسے فرمایا : وانا لجا علون ما علیھا صعیداً جرزا (آیت 8) ف 5 جیسے دسوری آیت میں فرمایا : قل ان الاولین والاخرین لجمعون الی میقات یوم معلوم کہہ دیجیے کہ تمام اگلوں اور پچھلوں کو ایک مقررہ دن میں اکٹھا کیا جائے گا۔ (واقعہ 5-1) الكهف
48 ف 6 یہ خطاب ان لوگوں سے ہوگا جو دنیا میں آخرت سے انکار کرتے رہے۔ مطلب یہ ہے کہ تم ننگے بدن ننگے پائوں بے ختنہ اور طرح سے بے بسی کے عالم میں اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کئے جائو گے۔ (رازی) الكهف
49 ف 7 حضرت سعد بن جنادہ بیان کرتے ہیں کہ جب ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ غزوہ حنین سے پلٹے تو ہم نے ایک کھلے چٹیل میدان میں پڑائو ڈالا۔ آنحضرت نے لوگوں سے فرمایا : لکڑاں ی جمع کرو جسے کوئی ٹہنی ملے ٹہنی لے آئے اور جسے جلانے کے لئے کوئی دوسری چیز ملے، وہ چیز لے آئے تھوڑی دیر گزرنے نہ پائی تھی کہ ایندھن کا ایک ڈھیر لگ گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیا تم لوگ اس ڈھیر کو دیکھ رہے ہو۔ (یاد رکھو) اسی طرح تم میں سے ہر شخص کے گناہ جمع کئے جاتے رہتے ہیں۔ لہٰذا اس سے ڈرتے رہنا چاہئے اور کوئی چھوٹا یا بڑا گناہ نہ کرنا چاہئے اس لئے کہ (ایک روز) اس کے تمام گناہ اکٹھے کر کے اس کے سامنے لائے جائیں گے۔ (طبرانی) ف 8 یعنی کسی کو بے قصور سزا نہیں دے گا اور نہ ایسا ہوگا اس نے کوئی گناہ نہ کیا ہو اور اس کے نامہ اعمال میں درج کردیا جائے۔ الكهف
50 ف 9 اس سلسلہ کلام میں قصہ آدم و ابلیس کے ذکر کرنے سے مقصود کفار مکہ کو اس بات پر متنبہ کرنا ہے کہ تم جس غرور تکبر کی راہ پر چل رہے ہو اور فقراء و مسلمین کو حقیر سمجھتے ہو۔ یہی وہی راہ ہے جس پر تم سے پہلے شیطا ننے قدم رکھا تھا پھر دیکھ لو کہ اس کا انجام کیا ہوا۔ (کبیر) ف 1 یعنی وہ فرشتوں میں سے نہیں تھا، جنوں میں تھا، اسی لئے اس نے اپنے مالک کی نافرمانی کی ففسق میں فاء تعلیلیہ ہے۔ (کبیر) اگر وہ فرشتوں میں سے ہوتا تو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہ کرتا۔ کیونکہ فرشتے تو اللہ تعالیٰ کے ہر حکم کی تعمیل کرتے ہیں۔ (تحریم :6) الكهف
51 ف 2 یعنی جب میں نے زمین و آسمان کو پیدا کیا ان شیاطین کا کوئی وجود نہ تھا کہ وہ ان کے بنانے میں میرے شریک ہوتے اور نہ میں نے ان کی اپنی پیدائش میں انہیں شریک کیا۔ پھر یہ میرے شریک اور تمہاری بندگی و اطاعت کے مستحق کیسے سمجھے جاسکتے ہیں ؟ ف 3 یعنی میں اس سے پاک ہوں کہ اس طرح کے شریروں اور نافرمانوں کو جن کا کام دوسروں کو گمراہ کرنا اور شرارت پھیلانا ہے اپنا مددگار بنائوں گا۔ الكهف
52 ف 4 کجا کہ ان کی مدد کرسکیں اور ان کے کسی کام آسکیں ف 5 یعنی ان کافروں اور ان لوگوں کے درمیان جنہیں وہ دنیا میں اپنا معبود سمجھتے تھے۔ ف 6 جس سے ان کا ایک دوسرے جس سے ان کا ایک دوسرے تک پہنچنا ممکن ہی نہ رہے گا حضرت انس فرماتے ہیں کہ وہ خون اور پیپ سے بھری ہوئی ایک گہری خندق ہوگی اور حسن فرماتے ہیں کہ اس سے مراد سخت عداوت ہے۔ (کبیر) الكهف
53 ف 7 کیونکہ اس کی آگ نے انہیں ہر طرف سے گھیر رکھا ہوگا۔ الكهف
54 ف 8 جیسا کہ اس سورۃ میں چند مثالوں کا تذکرہ گزر چکا ہے۔ الكهف
55 ف 9 اس لئے خواہ مخواہ کی حیل و حجت کئے جاتا ہے اور حق بات کی طرف نہیں آتا۔ ف 10 یعنی انہیں سمجھانے کے لئے جتنے طریقے ممکن تھے وہ سب قرآن اور محمد نے اختیار کئے۔ اب سوائے اس کے کہ انہیں پہلے لوگوں کے سے حشر کا انتظار ہے اور یہ طرح طرح کے عذابوں میں مبتلا ہونا چاہئے ہیں اور یک اچیز ہے جو انہیں حق کی طرف آنے سے مانع ہے؟ ان بدبختوں کی قسمت میں یہی لکھا ہے۔ سچ ہے لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔ الكهف
56 ف 11 مثلاً یہ کہ رسولوں سے کہتے ہیں کہ تم ہماری طرح کے انسان ہو۔ بھلا انسان کو بھی اللہ اپنا رسول بنا کر بھیج سکتا ہے؟ الكهف
57 ف 1 یعنی جب کوئی شخص کسی کے سیدھی طرح سمجھانے سے کوئی اثر نہیں لیتا بلکہ جانتے بوجھتے ہٹ دھرمی اور جھگڑا لو پن پر اتر آتا ہے۔ اللہ کی واضح آیات کا مذاق اڑاتا ہے اور اپنے کرتوتوں اور ان کے برے نتائج سے بھی کوئی سابق حاصل نہیں کرتا تو آخر کار اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے دل پر پردہ پڑجاتا ہے اور اس کے کان حق بات سننے سے بہرے ہوجاتے ہیں۔ اس کے بعد اگر کوئی شخص اس کو سیدھی راہ کی طرف بلائے بھی نوٹس سے مس نہیں ہوتا۔ اس کی یہ کیفیت اس کے اپنے عمل سے پیدا ہوتی ہے۔ مگر خلاق چونکہ ہر چیز کا اللہ ہے اس لئے اس کیفیت کو پیدا کرنے کے فعل کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کردیا ہے۔ الكهف
58 ف 2 چاہے قیامت کے دن اور چاہے اس دنیا میں ف 3 یعنی آخر کار ذلیل و خوار رہوں گے جب ان کی گرفت ہوگی تو اس سے بچنے کے لئے کوئی پناہ گاہ نہیں بنائینگے۔ الكهف
59 ف 4 مراد ہیں سباء، محمود، مدین اور قوم لوط کی تباہ شدہ بستیاں جن کی سرگزشت سے عرب کے تمام لوگ واقف تھے اور جن پر اپنے سفروں میں آتے جاتے قریش کا ہمیشہ گزر ہوتا تھا۔ ف 5 تو اے کفار قریش تمہیں بھی ڈرتے رہنا چاہئے۔ ایسا نہ ہو کہ آخر کار تمہارا بھی وہی حشر ہو جوان بستیوں کا ہوا۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں : اوپر ذکر فرمایا کہ کافر اپنے مال و جاہ پر مغرور رہتے اور مسلمانوں کو ذلیل سمجھ کر آنحضرت سے کہتے کہ ان کو اپنے پاس نہ بٹھائو تو ہم بیٹھیں اس پر دو بھائیوں کا قصہ بیان فرمایا اور پھر دنیا کی مثال بیان کی اور بتایا کہ ابلیس اپنے غرور کے سبب ہی ہلاک ہوا۔ اب خضر اور موسیٰکا قصہ بیان فرما کر یہ سمجھایا کہ اللہ کے بندے اگر بہتر بھی ہوں تو بھی اپنے کو کسی سے بہتر نہیں سمجھتے۔ (کذا فی الموضح) الكهف
60 ف 6 یہاں موسیٰ سے مراد اللہ کے رسول حضرت موسیٰ بن عمران ہی ہیں۔ جیسا کہ صحیحین کی روایت میں حضرت ابی بن کعب نے اسے خود نبی ﷺ سے بیان کیا ہے۔ دو سمندروں سے مراد بعض مفسرین نے بحر فارس اور بحر روم ہی لئے ہیں لیکن دونوں ملتے نہیں ہیں۔ شاید ان کے ملنے کی جگہ سے وہ جگہ مراد ہو جہاں دونوں کا فاصلہ سے کم رہ جات اہے۔ بعض نے ان سے دجلہ و فرات اور بعض نے افریقا کے دو دریا مراد لئے ہیں۔ واللہ اعلم۔ حضرت موسیٰ کے سفر کا سبب بعض روایات میں مذکور ہے کہ حضرت موسیٰ سے ایک خطبہ میں ایک سائل نے سوال کیا : کیا زمین پر تجھ سے زیادہ کوئی عالم بھی ہے تو اس کے جواب میں حضرت موسیٰ نے فرمایا :” نہیں“ اللہ تعالیٰ کو یہ چیز ناگوار گزری چنانچہ اللہ تعالیٰ نے وحی فرمائی کہ جہاں دو سمندر یا دریا ملتے ہیں وہاں میرا ایک بندہ ہے جو تم سے زیادہ علم رکھتا ہے۔ حضرت موسیٰ نے عرض کی، اے میرے رب تیرے اس بندے سے میری کیونکہ ملاقات ہو سکتی ہے۔ حکم ہوا کہ سفر شروع کرو اور ایک مچھلی بھنی ہوئی اپنے ساتھ رکھ لو جہاں یہ مچھلی زندہ ہوجائے وہیں متہیں ہمارا بندہ مل جائے گا چنانچہ حضرت موسیٰ نے مچھلی لے کر سفر شروع کیا اور اپنے ساتھ خادم یوشع بن نون کرلیا۔ (ابن کثیر) یوسع بن نون وہی ہیں جو حضرت موسیٰکے بعد ان کے خلیفہ بنے۔ (دیکھیے سورۃ مائدہ :23) الكهف
61 ف 7 یعنی اس سے غافل ہوگئے ف 8 حضرت ابی بن کعب کے مذکورہ بالا روایت میں ہے کہ حضرت موسیٰ اور یوشع چلتے چلیت ایک چٹان پر پہنچے، وہاں انہیں نیند آنے لگی اور وہ سو گئے اسی اثناء میں وہ مچھلی یکایک تڑپی اور ٹوکری سے نکل کر اس طرح سمندر میں چلی گی جیسے کوئی سرنگ لگی ہو جہاں مچھلی گری وہاں اللہ تعالیٰ نے اپنی کو چلنے سے روک دیا اور وہ ایک طشت کی طرح بن گیا حضرت یوشع نے یہ منظر دیکھا مگر جب حضرت موسیٰ بیدار ہوئے تو وہ انہیں بتانا بھول گئے چنانچہ انہوں نے آگے سفر شروع کیا اور ایک رات دن چلتے رہے۔ (ابن کثیر) بعض آثار میں ہے کہ یہ واقعہ توراۃ ملنے کے بعد پیش آیا۔ الكهف
62 الكهف
63 الكهف
64 ف 1 یعنی جہاں یہ مچھلی گم ہوئی وہی تو ہماری منزل مقصو دتھی۔ ف 2 یعنی جس راستے سے گئے تھے اسی راستے سے واپس ہوگئے۔ الكهف
65 ف 3 عبداً من عبادناً کے نام میں اختلاف ہے بعض نے ان کا نام ” الیسع“ اور بعض نے ” الیاس نقل کیا ہے مگر جمہور مفسرین نے ان کا نام خضر ہی بتایا ہے جیسا کہ صحیح احادیث سے ثابت ہے پھر اس میں بھی اختلاف ہے کہ ان کو خضر کیوں کہا جاتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ ایک مرتبہ وہ سفید زمین پر بیٹھے تو وہ جگہ سرسبز ہو کر لہلہانے لگی اس سے ان کا لقب خضر مشہور ہوگیا۔ جیسا کہ صحیح بخاری میں ایک حدیث سے بھی ثابت ہے۔ امام نووی لکھتے ہیں والصواب الاول یعنی یہی وجلقب درست ہے۔ (روح شوکانی) ف 4 جمہور علما کے نزدیک یہاں رحمت سے مراد وحی اور نبوت ہے اور قرآن میں متعدد مواضع پر یہ لفظ اسی معنی میں استعمال ہوا ہے جمہور مفسرین کے نزدیک حضرت خضر نبی تھے جس کی شہادت متعدد روایات سے بھی ملتی ہے۔ جمہور بہ مشائخ اور صوفیہ اس بات کے قائل ہیں کہ وہ اب بھی زندہ ہیں اور اس سلسلہ میں زیادہ تر کہا وات اور بعض واقعات سے تائید حاصل کی گی ورنہ ان کے پاس کوئی صحیح دلیل نہیں ہے۔ دوسری طرف محققین علما … جن میں امام بخاری ابن تیمیمہ اور حافظ ابن حجر جیسے اکبار بھی شامل ہیں … کی رائے یہ ہے کہ وہ اب زندہ نہیں ہیں۔ حافظ ابن القیم فرماتے ہیں کہ ان کے اب تک زندہ رہنے کے بارے میں کوئی صحیح حدیث نہیں ہے بلکہ جن احادیث میں ان کی زندگی کا ذکر ہے وہ سب کی سب جھوٹی ہیں۔ امام بخاری سے حضرت الیاس اور خضر کے بارے میں سوال کیا گیا کہ وہ اب بھی زندہ ہیں؟ امام بخاری نے فرمایا یہ کیسے ہوسکتا ہے جب کہ آنحضرت نے اپنی وفات سے کچھ عرصہ پہلے فرما دیا، لایبقی علی راس المائۃ ممن کو الیوم علی ظھر الارض احد کہ آج روئے زمین پر جتنے بھی رہنے والے ہیں ایک سو سال کے بعد ان میں سے کوئی بھی زندہ نہیں رہے گا۔ اور صحیح مسلم میں امن نفس منفویۃ الا ہے اور علی ظھر الارض کے الفاظ نہیں ہیں جن میں کسی قسم کی تاویل کی گنجائش نہیں۔ حافظ ابن الصلاح نے لکھا ہے کہ خضر آج بھی زندہ ہیں اور بات مجمہور علما کی طرف منسوب کیا ہے مگر یہ کوئی دلیل نہیں ہے۔ الغرض صحیح رائے محمد ثین کی ہے کہ وہ اب زندہ نہیں ہیں۔ قوسی زادہ نے روح المعانی میں اس پر مفصل بحث کی ہے اور طرفین کے دلائل بھی ذکر کئے ہیں۔ ف 5 یعنی اوسطہ وحی کے ہم نے ان کو تعلیم دی۔ عام اس سے کہ وہ وحی ظاہری ہو یعنی فرشتے کی زبن سے سخی ہو یا اشارہ اور الہام کے طور پر حاصل کی ہو جسے حدیث میں نفث فی الروع“ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اس آیت سے صوفیہ نے علم امدنی کا ثبوت پیش کیا ہے اور شریعت کے علم کو علم ظاہر قرار دے کر اس کو علم باطنی کا درجہ دیا ہے حتیٰ کہ بعض نے یہ بھی کہہ دیا ہے کہ علم باطن کے احکام علم شریعت اور ظاہر کے خلاف ہوتے ہیں مگر محقین صوفیہ نے اس کا انکار کیا ہے اور لکھا ہے علم تصوف کا زہد و تو نتیجہ یہ کتاب و سنت پر عمل کا شریعت کے مخلاف کیسے ہو سکتے ہیں اور مخلوق کو جو علم بھی حاصل ہوا ہے وہ علم ظاہرہی ہے ورنہ علم باطن تو اللہ تعالیٰ کے ساتھ مختص ہے۔ الكهف
66 ف 6 یعنی اگر اجازت ہو تو چند روز آپ کے ساتھ رہ کر اس علم کا کچھ حصہ حاصل کرلوں جو خاص طور پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو سکھایا ہے حضرت موسیٰکو اولوالعزم پیغمبر تھے لیکن بعض جزئیات کا جو علم حضرت خضر کو دیا گیا تھا وہ حضرت موسیٰ کو حاصل نہیں تھا کیونکہ ان موسیٰ کی شان میں کوئی فرق نہیں آتا پیغمبر اپنے زمانے کا سب سے بڑا عالم ہوتا ہے مگر جن باتوں کا تعلق اس پیغمبر کی شریعت سے نہیں ہوتا ان کا نہ جاننا اس پیغمبر کی شان کے خلفا نہیں ہوتا۔ اسی بنا پر آنحضرت نے فرمایا …………پھر جو علوم حضرت موسیٰ کو ملے تھے ان کا حضرت خضر کو نہ تھا جیسا کہ صحیح بخاری کی روایت میں تصریح ہے۔ علامہ درانی نے حواشی جدید میں اس کی خوف تحقیق کی ہے۔ (روح المعانی) الكهف
67 الكهف
68 ف 7 آپ یقینا اس کے ظاہری پہلو کو دیکھ کر اس پر اعتراض کردیں گے۔ الكهف
69 الكهف
70 ف 8 کیونکہ ہوسکتا ہے کہ میں کوئی ایسا کام کروں جو بظاہر آپ کو دی جانے والی شریعت کے خلاف ہو الكهف
71 ف 9 چلتے چلتے دریا پر پہنچے پیمانہ تھا اتنے میں ایک کشتی آگئی کشتی والوں نے حضرت خضر کو پہچان کر بے کرایہ ان کو سوار کرلیا اور یہ جو تختہ نکالا تو کنارے کے قریب پہنچ کر تاکہ لوگ ڈوبنے سے بچ جائیں۔ الكهف
72 الكهف
73 ف 10 یعنی مجھ سے چوک ہوگئی اور مجھے طے کردہ شرط یاد نہیں رہی لہٰذا مجھ پر کوئی گرفت نہ کیجیے اگر آپ بھول چوک پر گرفتار کریں گے تو میرا آپ کے ساتھ رہنا مشکل ہوجائے گا۔ الكهف
74 ف 11 پہلے سے بھی زیادہ خراب کیونکہ کشتی کا تختہ تو پھر بھی جوڑا جاسکتا تھا مگر اس لڑکے کی گئی ہوئی جان کہاں سے آئے گی۔ الكهف
75 الكهف
76 ف 1 یعنی میرا ساتھ چھوڑ دینے کے لئے آپ کو پورا عذر مل گیا۔ اس میں خضر کی انتہائی تعریف ہے۔ (کبیر) الكهف
77 ف 2 یعنی انہوں نے تو ہمیں کھانا تک نہ دیا مگر آپ ہیں کہ ان کی دیوار سیدھی کردی اور کوئی اجرت طلب نہ کی اگر اجرت لیتے تو ہم کچھ کھا پی ہی لیتے اس بستی کا نام بعض نے ایلہ اور بعض نے انطاکیہ لکھا ہے۔ (کبیر) الكهف
78 الكهف
79 ف 3 یعنی ان کی ساری پونچی صرف یہی کشتی تھی اس کو وہ کرایہ پر چلاتے اور اپنی روزی کماتے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ فقیر بہ نسبت مسکین کے زیادہ تلاش ہوتا ہے۔ (شوکانی) ف 4 یعنی میں نے اس کشتی کا تختہ اس لئے نکال دیا کہ جب یہ آگے جائے تو اس ظالم بادشاہ کی دست برد سے محفوظ رہے اور اسے عیب زدہ سمجھ کر چھوڑ دے۔ معلوم ہوا کہ کسی کی خیر خواہی کے لئے اس کے مال میں بلا اجازت صرف جائز ہے۔ (کبیر) الكهف
80 ف 5 یعنی ایسا نہ ہو کہ یہ اپنے مومن والدین کو کفر و سرکشی میں اپنے ساتھ شامل کرلے اور اس کی محبت میں وہ بھی مرتد ہوجائیں اگر یہ غلام بالغ ہو تو کافر بالغل کا قتل جائز ہے اور اگر نابالغ ہوجیسا کہ مشہور ہے تو خصر کی شریعت میں یہ جائز تھا کیونکہ جمہور کے نزدیک حضرت خضر (علیہ السلام) نبی تھے اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے اسے قتل کیا تھا جیسا کہ آخر میں وما فعلتہ عن امیر سے معلوم ہوتا ہے۔ (شوکانی) الكهف
81 الكهف
82 ف 6 اگر بھی دیوار گر پڑتی تو دوسرے لوگ ان کا خزانہ لے اڑتے۔ ف 1 نبی ﷺ کا ارشاد ہے ” اللہ تعالیٰ موسیٰ پر رحم فرمائے اگر صبر کرتے تو عجیب عجیب باتیں دیکھتے۔ (بخاری مسلم) بعض آثار و روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ تیسری مرتبہ حضرت موسیٰنے عمداً اعتراض کیا تاکہ ان سے جدا ہوجائیں۔ (ابن کثیر) الكهف
83 ف 2 ان پوچھنے والوں سے مراد کفار مکہ میں جنہوں نے یہود کے مشورہ سے تین سوالات بطور امتحان پیش کئے تھے۔ ایک روح کے بارے میں دوسرا اصحاب کہف کے بارے میں اور تیسرا ذوالقرنین کے بارے میں …قرآن میں ذوالقرنین سے مراد کون ہے ؟ اس بارے میں مفسرین کے مختلف اقوال ہیں عض کہتے ہیں کہ یہ یونان کے سکندر اعظم کا لقب تھا جس نے اسکندریہ کی بنیاد رکھی تھی۔ امام رازی نے تاریخی روایات پر اعتماد کرتے ہوئے اسی کو ترجیح دی ہے۔ اس کا زمانہ حضرت مسیح سے تقریباً تین سو سال قبل کا ہے۔ مگر یہ بات اس لئے صحیح معلوم نہیں ہوتی کہ قرآن کے انداز بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ ذوالقرنین ایک خدا پرست اور انصاف پسند فرمانروا تھا حالانکہ سکندر اعظم کافر اور بت پرست بادشاہ تھا۔ بعض کے نزدیک اس سے مراد ایک اور بادشاہ ہے جو حضرت ابراہیم کا ہم عصر تھا اور حضرت ابراہیم کی دعا سے ہی اللہ تعالیٰ نے اسے خارق عادت اسباب و وسائل عطا فرمائے اور اس کا وزیر خضر تھا اس لئے خضر کے قصہ کے ساتھ اس کا قصہ بیان فرمایا۔ حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں اور ابن کثیر نے اس کا نام بھی اسکندر بیان کیا ہے اسکندر یونانی اور اس کے درمیان تقریباً دو ہزار سال کا زمانہ ہے۔ مولانا ابوالکام آزاد نے ترجمان میں اس کے متعلق قرآن کی بیان کردہ صفات و خصوصیات کو ایران کے بادشاہ خورس پر چسپاں کرنے کی کوشش کی ہے اور صاحب قصص القرآن ج و 229-117) نے مولانا آزاد کی تصویب کی ہے۔ بہرحال ذوالقرنین سے کوئی بھی مراد ہو قرآن نے جس انداز سے اس کا ذکر کیا ہے اس سے پتا چلتا ہے کہ وہ اپنی عظیم الشان فتوحات اور عدل و انصاف کی وجہ سے نہ صرف عہد رسالت کے یہود کے درمیان ایک معروف شخصیت تھی بلکہ مشرکین عرب بھی اس کے حال سے واقف تھے کیونکہ قدیم شعرائے عرب نے اپنے اشعار میں اس کا تذکرہ کیا ہے۔ شاید اسے ذوالقرنین اس لئے کہتے ہوں کہ اس نے دنیا کے دونوں کناروں (مشرق و مغرب) کی مسافت طے کی تھی۔ اس کی وجہ سمیہ میں دیگر اقوال بھی منقول ہیں۔ البدایہ و منتہایۃ میں حافظ ابن کثیر نے بہت مفصل بحث کی ہے۔ (ابن کثیر شکافی) الكهف
84 الكهف
85 ف 3 یعنی ایک راستے پر سفر شروع کیا۔ پہلے اس نے مغرب کی جانب مہم کا آغاز کیا الكهف
86 ف 4 یعنی وہ مغرب کی جانب پیہم فتوحات کرتا ہوا آگے بڑھتا رہا یہاں تک کہ خشکی کے اس آخری سرے پر پہنچ گیا جہاں آبادی ختم ہو کر سمندر (بحر محیط) شروع ہوتا ہے ف 5 یعنی وہاں غروب آفتاب کے وقت انہوں نے دیکھا کہ سورج سمندر میں یوں ڈوبتا ہے جیسے وہ کسی کالے پانی کے کنڈ یا گرم چشمے میں ڈوب رہا ہو۔ الكهف
87 الكهف
88 الكهف
89 ف 6 یعنی ان دونوں کی قدرت دی اور یہ قدرت ہر بادشاہ اور حاکم کو ملتی ہے کہ وہ خلق اللہ کو ستاوے یا اپنی خوبی کا ذکر جاری رکھے۔ کذا فی الموضح) لفظ ذلنا (ہم نے کہا) کی بنا پر بعض مفسرین نے ذوالقرننی کو نبی قرار دیا ہے مگر یہ ضروری نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس سے یہ بات براہ راست بذریعہ وحی خطاب کر کے فرمائی ہو۔ بلکہ یہ ارشاد زبان حال یا اس وقت کے نبی واسطہ سے بھی ہوسکتا ہے جیسے فرمایا : قیل یا ارض ابلعی مآءک (ہود) یا جیسے فرمایا فقلنا اضربوہ بیعضھا (بقرہ) اس لئے اکثر علمائے سلف ذوالقرنین کو نبی نہیں بلکہ خدا پرست اور عادل فرمانروا مانتے ہیں۔ معالم التنزیل) الكهف
90 ف 7 پورب یعنی مشرق الكهف
91 الكهف
92 الكهف
93 ف 8 یعنی اس مقام پر جہاں مشرق میں اس زمانہ کی مہذب آبادی کی انتہا تھی۔ ف 9 یعنی وہاں ایسے لوگ بستے تھے جو رہنے کے لئے گھر یا خیمے تک بنانا نہیں جانتے تھے اور نہ لباس اسعتمال کرتے تھے بلکہ کھلے میدان میں ننگے رہتے تھے۔ (شوکانی) ف 10 یعنی ذولاقرنین کا قصہ ایسا ہی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ وسائل و اسباب سے کام لیکر مغرب اور پھر مشرق تک پہنچا۔ یا جو معاملہ اس نے مغرب دلوں سے کیا وہی معاملہ اس نے مشرق والوں سے کیا اور وہ یہ کہ ایمانداروں کے لئے آسانی کی اور شریروں کافروں کو سزا دی۔ (کذا فی شوکانی) ف 11 یعنی ہمیں اس کی صلاحیتوں اسباب و وسائل اور حالات سے بخوبی آگاہی ہے جو کچھ ہم بیان کرتے ہیں وہی صحیح ہے۔ ف 21 یعنی ایک اور سمت سفر شروع کیا۔ یہ تیسرا سفر مشرق و مغرب کے علاوہ کسی سمت تھا؟ مفسرین عموماً اسے شمال کی سمت قرار دیتے ہیں کیونکہ یاجوج ماجوج جو ترک سے ایک قوم ہے اس کا مکسن قصص شمال ہے مگر قرآن و حدیث میں اس کی تصریح نہیں۔ شوکانی کبیر) ف 13 یعنی ایک ایسی جگہ پہنچا جہاں دائیں بائیں دو پہاڑ تھے جن پر پڑھنا ممکن نہ تھا البتہ دونوں پہاڑوں کے درمیان ایک گھاٹی اور تھی جس کے ذریعے ادھر سے ادھر سے ادھر نقل و حرکت ممکن تھی۔ اس جگہ سے مراد بعض مفسرین وہ علاقہ لیتے ہیں جہاں ترکوں کا ملک ختم ہوتا اور بعض آرمینیہ اور آذربائیجان کے درمیان کا علاقہ مگر ان بیانات رولی اطمینان حاصل نہیں ہوتا۔ واللہ علم۔ الكهف
94 ف 1 یہاں سے ذوالقرنین اور ان لوگوں کی جو گفتگو نقل کی جا رہی ہے وہ غالباً کسی ترجمان کے ذریعے ہوئی ہوگی اور ترجمان کسی درمیانی قوم کا ہوگا جو دونوں کی زبان سمجھتا ہوگا اور یہ بھی عین ممکن ہے کہ ذوالقرنین کو دوسرے اسباب کی طرح یہ توفیق بھی حاصل ہو کہ وہ ان کی زبن سمجھتا ہو۔ ف 2 یاجوج و ماجوج انسانی نسل ہی کی دو قومیں ہیں جیسا کہ ایک حدیث سے ثابت ہے کہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ حضرت آدم سے فرمائے گا، اے آدم اپنی اولاد میں سے جہنم میں جانے والی فوج تیار کرو۔ آدم پوچھیں گے وہ فوج کتین ہے؟ اللہ فرمائے گا۔ ہر ہزار میں سے ایک جنت میں جائے گا … یہ سن کر مسلمان پریشان ہوئے تو آنحضرت نے فرمایا گھبرائو نہیں ان فیکم امتین ما کاننا فی شء الاکثرتا، یاجوج وماجوج کہ تمہارے اندر دو ایسی قومیں ہیں جو اپنے مقالہ میں آنے والی ہر قوم سے زیادہ ہیں یعنی یاجوج اور ماجوج (ابن کثیر) زیادہ تر مفسرین نے انہیں حضرت نوح کے بیٹے یافث کی نسل سے قرار دیا ہے اور یہی چیز بائیبل کی کتاب پیدائش (باب 10) میں مذکور ہے اور بعض ان کا سلسلہ نسب حضرت آدم سے تو مانتے ہیں مگر ماں کی طرف سے حضرت حوا تک نہیں مانتے۔ مگر یہ کوئی سمجھ میں آنے والی بات نہیں ہے اور نہ اس کی کوئی نقلی دلیل موجود ہے۔ اس کی ساری بنیاد اہل کتاب کے من گھڑت قصوں پر ہے۔ ان کے احوال و افعال میں مفسرین سے مختلف اقوال منقول ہیں۔ (ابن کثیر شوکانی) ف 3 یعنی اس گھاٹی کو بند کر دے جس سے گزر کر وہ آئے دن ہمارے ملک پر حملہ کرتے رہتے ہیں اور ہمارے ہاں قتل و غارت کا بازار گرم کرتے ہیں۔ الكهف
95 الكهف
96 ف 4 یعنی پتھر اور اینٹ کی بجائے میں تمہیں لوہے کی دیوار بنا کر دوں گا میرے لئے لوہے کے تختے مہیا کردو۔ ف 5 تانبا اس لئے پگھلا کر ڈالا کہ درزوں میں بیٹھ جائے اور ساری دیوار جم کر ایک پہاڑ کی مانند ہوجائے۔ صاز موضح) الكهف
97 الكهف
98 ف 6 یعنی یہ دیوار گو انتہائی مضبوط ہے مگر یہ اس وقت تک قائم رہے گی جب تک میرے مالک کی مرضی ہے اور جب وہ وقت آئے گا جو میرے مالک نے اس کی تباہی کے لئے مقدر فرمایا ہے تو کوئی چیز اسے پیوند خاک ہونے سے نہیں بچا سکے گی۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں : ذوالقرنین ایسی محکم دیوار پر بھی منتظر تھا کہ آخر یہ بھی فنا ہوگی نہ جیسے وہ باغ والا اپنے باغ پر مغرور (موضح) بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دیوار آنحضرت کے زمانہ تک قائم تھی۔ اور آپ نے اپنی انگلیوں سے ایک دائرہ بنا کر بتایا کہ آج یاجوج ماجوج کے بند میں سے اتنا کھل گیا ہے۔ بخاری مسلم یہاں ولہ سے مراد دیوار کے ختامہ اور تباہی کا وقت ہے اور وہ قیامت یا اس سے پہلے کا کوئی زمانہ ہوسکتا ہے۔ احادیث صحیحیہ اور آثار مرویہ سے یہ بھی ثابت ہے کہ حضرت عیسیٰ کے نزول اور قتل دخال کے بعد قیامت کے قریب یاجوج ماجوج کے نکلنے کا وعدہ ہے تمام دنیا والے ان کی لڑائی سے عاجز ہوں گے آخر کار آسمان پر تیر چلا ویں گے وہ تیر خون آلودہ واپس آئیں گے۔ آخر حضرت عیسیٰ کی بد دعا سے ان پر کوئی وبا آئے گی اور وہ سب ایک دم مر جائیں گے۔ (کذا فی ابن کثیر) اب یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ دیوار کہاں وقع ہے یا وہ کون سی جگہ ہے جہاں یاجوج ماجوج قید ہیں؟ اگر اب تک لوگوں کو اس دیوار کا پتا نہیں چل سکا تو اس سے لازم نہیں آتا کہ اس کا وجود ہی نہ ہو آخر دنیا کی کتنی چیزیں ہیں جن کا انسان کو اب تک علم نہیں ہو سکا الكهف
99 ف 7 یعنی وہ دیوار توڑ کر بے شمار تعداد میں سمندر کی موجوں کی طرح یلغار کرتے نکلیں گے یہ آخری زمانہ میں ہوگا۔ اس کے بعد جلد ہی قیامت آجائے گی۔ دیکھیے انبیاء آیت 97-96) حضرت خدیجہ سے روایت ہے کہ قیامت نہ آئے گی جب تک تم اس سے پہلے دس نشانیاں نہ دیکھ لو۔ پھر آپ نے یہ نشانیاں شمار فرمائیں جن میں سے ایک یاجوج ماجوج کی یورش تھی۔ (مسلم) آیت کا یہ مفہوم کے لئے قرار دی جائے۔ اور ونفخ فی الصور کے یہ معنی کئے جائیں کہ اس کے بعد صور پھونکا جائے گا اور گار یہ لوگوں کے لئے قرار دی جائے تو آیت کا ترجمہ یوں ہوگا ” اس دن قیامت کے دن ہم لوگوں کو شدت خوف و ہراس سے ایک دوسرے میں موجود کی طرح باہم در آتے چھوڑ دیں گے بعض مفسرین نے آیت کا یہ مفہوم بھی بیان کیا ہے۔ اس صورت میں ذوالقرنین کا قصہ حقا پرختم ہوجاتا ہے۔ (کبیر) ف 8 یہ قیامت کے دن ہوگا جو رب کا وعدہ ہے۔ (موضح) الكهف
100 ف 9 تاکہ وہ اپنا ٹھکانہ دیکھ لیں۔ الكهف
101 ف 10 یعنی وہ میری نشانیاں دیکھ کر بھی ان سے کوئی نصیحت حاصل نہ کرتے تھے۔ ف 11 (شدت نفرت کی وجہ سے) یعنی وہ اس قدر ضد اور ہٹ دھرمی میں پڑے ہوئے تھے کہ ہمارا کلام سننے کو تیار نہ تھے۔ الكهف
102 ف 12 یعنی میرے خاص بندوں جیسے مسیح عزیز روح قدس اور فرشتوں کو اپنا معبود بنا کر یہ چاہیں گے کہ انہیں میرے مقابلہ لا کھڑا کریں مگر وہ خود ان کی عبادت سے بیزاری کا اعلان کریں گے اور ان کے مقابل مدعی بن کر کھڑے ہونگے۔ (مریم :82) ف یعنی کوئی حمایت نہ ملے گا البتہ دوزخ کی آگ سے ان کی مہماندازی ضرور کی جائیگی۔ الكهف
103 الكهف
104 ف 1 یعنی جتنے نیک اعمال انہوں نے کئے، سب کفر کی بدولت رائیگاں گئے یا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ” جن کی ساری کوشش دنیا کی زندگی میں گم ہو کر رہ گئی۔“ یعنی خدا اور آخرت کی پروا نہ کی اور دنیا کی خوش حالیوں اور کامیابیوں کو اپنا مطع نظر بنائے رکھا۔ الكهف
105 ف 2 یعنی ان کے اعمال تو لے ہی نہ جائیں گے کیونکہ لوتنے کی ضرورت تو اس وقت ہوگی جب دوسری طرف کچھ نیک اعمال بھی ہوں تاکہ موازنہ ہو سکے کہ ان کی نیکیاں زیادہ ہیں یا برائیاں۔ فو عمل صالح وہ ہے جو خلاص اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے ہو اور سنت مطہرہ کے موافق ہو اور اس میں ریا کاری یا کسی قسم کی ذاتی یا قومی مصلحت کو دخل نہ ہورنہ وہ عمل مردود ٹھہرے گا بعض علما نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ تصور شیخ شرک ہے اور یہ استدلال قومی اور واضح ہے۔ الكهف
106 الكهف
107 (ت ن) ف 3 حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا : جب تم اللہ سے مانگو تو فردوس مانگو اس لئے کہ وہ جنت کے درمیان اور اس کا بلند ترین حصہ ہے اور اس کے اوپر رحمان کا عرش ہے اور اس سے جنت کی نہریں نکلتی ہیں۔ (بخاری مسلم) الكهف
108 ف 5 کیونکہ اس سے بہتر یش کا مقام کوئی نہیں ہے۔ الكهف
109 الكهف
110 ف 6 نہ کسی دوسرے کی عبادت کر کے اور نہ ریاکاری کر کے کیونکہ غیر اللہ کی عبادت اگر شرک اکبر ہے تو ریا کاری شرک صغر ہے حضرت شدہ اوبن اوس سے روایت ہے کہ میں نے آنحضرت سے یہ سنا ہے کہ نماز، روزہ اور صدقہ میں ریا کاری بھی شرک ہے۔ (بیہقی حاکم) چنانچہ حضرت شداد بن اوس فرماتے ہیں ” ہم آنحضرت کے زمانے میں ریا کاری کو شرک اصغر شمار کیا کرتے تھے اور حضرت ابوہریرہ سے ایک حدیث قدسی میں ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں جس نے کوئی ایسا کام کیا جس میں میرے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرایا گیا ہو تو میں اس سے اور اس کے کام سے بے تعلق ہوں مسلم احمد اس طرح ریاکاری کی مذمت اور اس کا شرک اصغر ہونا متعدد احادیث میں مروی ہ۔ والحمد اللہ رب العالمین (شوکانی) لم تفسیر ھذا السوۃ یوم الجمۃ الثالث حشرمن شہر شعبان 513-89 ابو ال قاسم کو دیا۔ الكهف
0 ف 7 حضرت ابن عباس اور دیگر صحابہ کے بیان کے مطابق یہ (پوری) سورۃ مکہ معظمہ میں نارمل ہوئی۔ حضرت ام سلمہ فرماتی ہیں کہ حبش کے بادشاہ نجاشی نے جو عیسائی تھا جعفر بن ابی طالب سے کہا کہ جو کتاب محمد ﷺ پر نازل ہوئی ہے اس کا کوئی حصہ تمہیں یاد ہے تو مجھے پڑھ کر سنائو۔ چنانچہ حضرت جعفر نے سورۃ مریم کا ابتدائی حصہ پڑھ کر سنایا۔ اسے سن کر نجاشی رونے لگا حتی کہ اس کی داڑھی تر ہوگئی اور جتنے پادری اس کے پاس بیٹھے تھے وہ بھی رونے لگے یہاں تک کہ ان کی کتابیں تر ہوگئیں پھر نجاشی نے کہا کہ یہ کلام اور جو کلام حضرت موسیٰ لے کر آئے دونوں ایک ہی مشکوۃ (روزن) سے نکلتی ہیں۔ (شوکانی) مريم
1 مريم
2 ف 8 اس ترجمہ کے مطابق ” زکریا“ کا لفظ ” عبدہ“ سے عطف بیان یا بدل ہے اور ” عبدہ“ رحمتہ کا مفعول ہے اور حضرت زکریا پر رحمت کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمائی اور حضرت یحییٰ عنایت کئے۔ (شوکانی) حضرت یحیی بنی اسرائیل کے جلیل القدر انبیاء میں سے تھے۔ حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا زکریا بخار بڑھئی) تھے۔ نیز ان کے قصہ کے لئے دیکھئے سورۃ عمران مريم
3 ف 9 یعنی رات کے وقت خلوت میں چپکے پکارا کیونکہ اخفاء میں اخلاص بھی زیادہ ہوتا ہے اور ریا کاری کا اندیشہ بھی نہیں ہوتا۔ (کبیر) مريم
4 ف 1 یعنی تو نے ہمیشہ میری وہ قبول فرمائی تو اب آخری وقت اور بڑھاپے کے عالم میں طمع پیدا ہوئی کہ تجھ سے دعا کروں۔ مريم
5 ف 2 مطلب یہ ہے کہ ان میں مجھے کوئی شخص ایسا نظر نہیں آتا جو اس لائق ہو کہ میرے بعد پیغمبری کے عظیم ال شان منصب پر فائز کیا جا سکے اور تیرے دین کی تبلیغ کا سلسلہ جاری ہے۔ ف 3 ابن جریر لکھتے ہیں کہ ان کی بیوی کا نام اشاع بنت فاقوذ تھا اور وہ حرت مریم کی والدہ حفہ کی بہن تھیں۔ قتیبی نے ان کا نام شاع بنت عمران لکھا ہے اور وہ حضرت مریم کی بہن تھیں۔ پہلے قول کے مطابق حضرت یحییٰ حضرت مریم کے اور دوسرے قول کے مطاب حضرت عیسیٰ کے خالہ زاد بھائی تھے اور حدیث معراج میں بھی ان دونوں کو ” ابنی خالہ“ فرمایا ہے۔ (شوکانی) مريم
6 ف 4 یعنی پیغمبری کا وارث ہوجیسا کہ جمہور مفسرین نے بیان کیا ہے کہ کیونکہ پیغمبروں کے مال و دولت کا کوئی وارث نہیں ہوتا۔ آنحضرت نے فرمایا ہے : ہم انبیاء کا کوئی وارث نہیں ہوتا، ہم جو مال چھو دیتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے ابن کثیر مريم
7 ف 5 اس میں حضرت یحیی کی فضیلت دو پہلوئوں سے بیان کی گی ہے۔ ایک یہ کہ ان کا نام اللہ تعالیٰ نے خود رکھا اور دوسرے یہ کہ ان کا نام ایسا رکھا جو ان سے پہلے کسی نبی کا نہیں تھا۔ مريم
8 ف 6 حضرت زکریا نے یہ سوال بیٹے کی غیر معمولی خوشخبری سن کر مزید دلی اطمینان حاصل کرنے کے لئے غیر اختیاری طور پر کیا ہے۔ شاہ عبدالقادر لکھتے ہیں انوکھی چیز مانگنے پر تعجب نہ آیا جب سنا کہ ملے گی تب تعجب کیا۔ یعلی تیرے بڑھاپے اور تیری بیوی کے بانجھ پن کے باوجود تیرے ہاں لڑکا پیدا ہوگا۔ مريم
9 مريم
10 ف 8 یعنی کوئی ایسی نشانی بتاہ دے کہ ان حالات میں ہمارے ہاں لڑکے کی پیدائش ہونے والی ہو تو مجھ پہلے سے اس کا پتا چل جائے۔ ف 9 یعنی جب تین رات (دن) تک تم صحیح و سالم ہونے کے باوجود لوگوں سے بات چیت نہ کرسکو گے تو سمجھ لینا کہ حمل قرار دیا گیا۔ سلف کی تفسیر کے مطابق کسی مرض کے بغیر ہی زبان بند ہوگئی تھی (ابن کثیر) مريم
11 ف 10 کیونکہ اس وقت وہ صرف اشاررے ہی سے گفتگو کرسکتے تھے جیسا کہ سورۃ آل عمران کی آیت میں ہے ” الا رمزا“ مگر اشارے سے بات چیت کرسکو گے) اور لوگوں کو صبح و شام خدا کی تسبیح کا اس لئے حکم دیا گیا کہ خود انہیں علامت ظاہر ہوجانے پر یہی حکم دیا گیا تھا۔ واذ کرربک کثیر وسیج بالغشی والابکار اور اپنے رب کو بہت یاد کرو اور صبح و شام اس کی تسبیح کرو۔ مريم
12 ف 11 یعنی جب یحییٰ پیدا ہونے کے بعد سوچنے سمجھنے کی عمر کو پہنچے تو ہم نے انہیں حکم دیا ” اے یحییٰ …(شوکانی) ف 12 سمجھ یعنی کتاب کو سمجھنے اور اس کے احکام کے مطابق تمام معاملات میں صحیح رائے قائم کرنے ک صلاحیت بعض مفسرین نے حکم سے مراد نبوت بھی لی ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے عام عادت کے خلاف حضرت یحییٰ کو بچپن ہی سے نبوت عطا فرمائی (ابن کثیر) شاہ صاحب لکھتے ہیں : باپ ضعیف تھے اور یہ جوان پس یہ باپ کی جگہ لوگوں کو علم کتاب سکھانے لگے (موضح) ف 13 یعنی اخلاق و کردار کی پاکیزگی جو گناہوں سے بچے رہنے سے حاصل ہوتی ہے۔ ف 14 اللہ تعالیٰ نے حضرت یحییٰ کو ہر گناہ سے بچایا تھا۔ حدیث میں ہے کہ انہوں نے نہ کبھی گناہ کیا اور نہ گناہ کا ارادہ کیا۔ (فتح القدیر) ف 15 یعنی خود سر اور مغرور حالانکہ بڑی امنگوں کے بعد پیدا ہونے والی اولاد عموماً ایسی ہوتی ہے لیکن یحیی ایسے نہ تھے۔ (موضح) مريم
13 مريم
14 مريم
15 ف 1 یعنی پیدائش سے وافت تک اللہ تعالیٰ کی امان میں رہیں گے اور دوسرے بنی آدم کی طرح ان پر شیطان کا تسلط نہیں ہو سکے گا اور آئندہ بھی قیامت تک اللہ تعالیٰ انہیں اپنی حفاظت میں رکھے گا۔ اس سے ان کی عزت افزائی کی طرف اشارہ ہے۔ بعض نے لکھا ہے کہ یوم یموت کے معنی یہ ہیں کہ عذاب قبر سے مامون رہیں گے۔ یہ تین اقوات انسان پر انتہائی وحشت کے ہوں گے۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان اقوات میں یحی (علیہ السلام) کے اکرام کو ظاہر کردیا۔ (کبیر) شاہ صاحب لکھتے ہیں اللہ کے کسی بندے پر سلام کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ اس پر کوئی گرفت نہ ہوگی۔ مريم
16 ف 2 حضرت زکریا کے قصہ کی مناسبت سے حضرت مریم کا قصہ ذکر فرما دیا دیکھیے سورۃ آل عمران رکوع 5) ف 3 عبادت کے لئے یا حیض سے مہارت حاصل کرنے کیلئے حضرت ابن عباس فرماتے ہیں ” مجھے خوب معلوم ہے کہ نصاریٰ نے مشرق کو اس آیت کی وجہ سے قبلہ بنایا ہے۔ ابن جریر جیسا کہ شاہ صاحب نے بھی کلھا ہے : وہ مکان مشرق میں تھا اب نصاریٰ مشرق کو قبلہ ٹھہرائے ہیں۔ (موضح) مريم
17 ف 4 بعض مفسرین نے اگرچہ روحنا ہماری (روح) سے مراد حضرت عیسیٰ کی روح مراد لی ہے مگر زیادہ تر قرین قیاس یہی ہے کہ اس سے مراد حضرت جبرئیل ہی لئے جائیں جیسا کہ آگے فرمایا جا رہا ہے کہ وہ ایک اچھے خاصے پورے آدمی کی شکل میں ان کے سامنے آگیا۔ (فتح مقدر) مريم
18 ف 5 یعنی دیکھنے میں تم نہایت پاکباز اور پرہیز گار نظر آرہے ہو اگر تم واقعی خدا سے ڈرنے والے ہو تو میں تمہیں خدا کا واسطہ دیتی ہوں کہ میرے پاس سے چلے جائو اور مجھ سے کوئی تعرض نہ کرو۔ (شوکانی) مريم
19 ف 6 یعنی میرے بارے میں کوئی برا خیال دل میں نہ لائو۔ میں تو اسی خدا کی طرف سے بھیجا ہوا فرشتہ ہوں جس کی تم پناہ مانگ رہی ہو۔ عطا کرنے والا اگرچہ خدا ہے مگر چونکہ حضرت جبرئیل خدا کے بھیجے ہوئے تھے اس لئے انہوں نے عطا کروں کا لفظ استعمال فرمایا۔ (شوکانی) مريم
20 ف 7 یعنی تیرے ہاں بچہ کی پیدائش عام عادت کے مطابق نہیں بلکہ معجزہ کے طور پر ہوگی۔ ف 8 یعنی بن باپ کا لڑکا پیدا ہوگا۔ اللہ کی قدرت ہے۔ (موضح) مريم
21 ف 9 اس لئے اس کا ہونا ناگزیر ہے۔ لوح محفوظ میں اسی طرح لکھا ہے جہاں کا لکھا بدل نہیں سکتا۔ (زو عبدی) مريم
22 ف 10 تاکہ حمل کے دن لوگوں کے طعن و تشنیع اور چہ میگوئیوں سے محفوظ رہ کر گزار سکیں۔ ” دور کان“ سے مراد بیت اللحم ہے جو بیت المقدس سے آٹھ میل دور واقع ہے اسی کا نسائی میں حضرت انس کی ایک روایت میں ذکر ہے اور یہی وہ مشہور بات ہے جسے مفسرین یکے بعد دیگرے نقل کرتے رہے ہیں اور اس باب میں نصاریٰ کو بھی کوئی شک نہیں ہے۔ (ابن کثیر) مريم
23 مريم
24 ف 11 سریا کے معنی بعض مفسرین نے بیان کئے ہیں جمہور مفسرین نے اس کے معنی چھوٹی نہر“ یا ” چشمہ رواں“ کئے ہیں اور موقع و محل کی مناسبت سے یہی زیادہ موزوں ہیں۔ یوں لغت کے اعتبار سے دونوں کی گنجائش ہے۔ (ابن کثیر شوکانی) مريم
25 مريم
26 ف 1 اور وہ تجھ سے پوچھے کہ یہ لڑکا کہاں سے آگیا اور یہ کیا مراج ہیڈ ف 2 یہاں قول بمعنی اشارہ ہے یعنی اسے اشارے سے مجھا دے۔ لہٰذا یہ مابعد کے جملہ فلن اکلم الیوم انسیا کے منافی نہیں ہے۔ (ابن کثیر) ف 3 بنی اسرائیل کے ہاں روزہ میں چپ رہنے کی نیت جائز تھی۔ ہماری شریعت میں یہ جائز نہیں ہے۔ مريم
27 (کذافی الموضح) ف 4 یعنی گود میں بچہ لئے آرہی ہے حالانکہ یرا اب تک نکاح بھی نہیں ہوا اور تو کنواری ہے۔ (زوعبدی بہ تفسیر) مريم
28 ف 5 حضرت موسیٰ کے بھائی ہارون کی بہن تو ہو نہیں سکتی کیونکہ ان کا زمانہ حضرت مریم سے سینکڑوں برس پہلے کا ہے اس لئے مفسرین نے ان الفاظ کی مختلف وجوہات بیان کی ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ حضرت مریم کے کسی بھائی کا نام ہارون ہوجیسا کہ ایک حدیث میں بھی ہے کہ بنی اسرائیل اپنے نام اپنے انبیاء و صلحا کے نام پر رکھ لیتے تھے۔ مسلم ترمذی) یا ہوسکتا ہے کہ زہد و عبادت میں تشبیہ کے طور پر اسے اخت ہارون“ کہہ دیا ہو۔ یا ممکن ہے حضرت ہارون کے خاندان سے ہوں اس لئے انہیں عربی محاورہ کے مطابق اخت ہارون کہہ دیا۔ جیسا کہ جب کوئی آدمی مضر قبیلہ سے تعلق رکھتا ہو تو اسے اخا مضر کہہ کر پکار لیتے ہیں۔ گویہ صحیح ہے کہ حضرت موسیٰ ٰو ہارون کی ایک بہن کا نام بھی مریم تھا مگر وہ قطعاً مراد نہیں ہو سکتی اور نہ وہ حضرت عیسیٰ کی والدہ ہی بن سکتی ہے۔ (ابن کثیر شوکانی) ف 6 یعنی تیرے خادنان میں کوئی بھی بیکار نہیں گزرا۔ تیرے ماں باپ دونوں نہایت نیک اور پرہیز گار تھے پھر تو نے یہ برے لچھن کہاں سے سیکھ لئے؟ (وحیدی) مريم
29 ف 7 ان الفاظ سے صاف پتا چلتا ہے کہ آگے حضرت عیسیٰ کی جو گفتگلو بیان کی جا رہی ہے وہ ان کے بچنے کی گفتگو ہے جو انہوں نے گود یا گہوارے میں کی۔ بفاس آل عمران 26) اور صحیح بخاری میں ہے کہ تین بچوں نے گہوارے میں گفتگو جوانی کے وقت کی ہے اور انہوں نے ’ فی المہر حبیباً کا ترجمہ کل کا بچہ کیا ہے مگر یتاویل محہمل سی ہے جو واقعات اور محاورہ کے خلاف ہے۔ مريم
30 ف 8 گویا سب سے پہلا کلمہ جو حضرت عیسیٰ نے اپنی زبان سے ادا کیا وہ اللہ تعالیٰ کی بندگی کا اعتراف تھا اور یہ کہ آئندذہ مجھے کتاب مقدس انجیل ملے گی ف 9 یعنی تا زندگی جیسا کہ آنحضرت کو حکم دیا گیا ہے۔ ” واعبد ربک حئی یاتیک الیقین (حجر 99) مريم
31 مريم
32 مريم
33 ف 10 یعنی پیدائش سے موت تک اور موت سے قیامت تک میں اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں رہوں گا۔ مريم
34 ف 11 یعنی کسی نے انہیں خدا یا خدا کا بیٹا بنا دیا اور کسی نے انہیں حرام زاندہ و مفتری کذاب قرار دیا۔ (العیاظ باللہ) سچی بات ہے جو یہاں بیان کی گئی ہے کہ وہ خدا کے سچے پیغمبر ہیں اور ان کا حسب و نسب ہر عیب اور شک و شبہ سے بالا ہے۔ (شوکانی) مريم
35 ف 12 جسے یہ قدرت حال ہو کہ کلمہ کن سے ہر چیز وجود میں لا سکتا ہو اسے ییٹا بنانے کی کیا ضرورت اور پھر جب اللہ جلہ کی شان یہ ہے تو حضرت عیسیٰ کو بغیر باپ کے جنم دے سکتا ہے۔ (کبیر) مريم
36 مريم
37 ف 13 یعنی قیامت کے دن نہایت ذلیل و خوار ہوں گے اور خدا کے عذاب میں گرفتار کئے جائیں گے۔ مريم
38 ف 1 یعنی آج تو حق سے بہرے اور اندھے ہو رہے ہیں مگر آخرت میں ان کے کان اور آنکھیں خوب کھلی ہوں گی اور ربنا ابصرنا وسمعنا“ کہیں گے مگر اس وقت کا دیکھنا اور سننا کسی کام نہ آسکے گا۔) ابن کثیر) مريم
39 ف 2 یعنی قیامت کے دن سے جس میں سوائے پچھتاوے اور حسرت کے کوئی چارہ کار نہ ہوگا۔ (ان یقول نفس یا حسرتا علی مافرطت فی جنب اللہ۔ ف 3 یعنی حساب و کتاب اور ثواب و عقاب کے متعلق فیصلہ کردیا جائے گا۔ مروی ہے کہ جب حشر کے روز دوزخ سے گنہگار مسلمانوں کو نکالا جائے گا تب کافر بھی اس توقع میں ہونگے لیکن جب موت کو مینڈھے کی شکل میں لا کر ذبح کردیا جائے گا تو اس وقت کافر تم و اندوہ میں کھوکر رہ جائیں گے اور بالکل مایوس ہوجائیں گے۔ چنانچہ آنحضرت نے یہ واقعہ ذکر فرماکر پھر یہ آیت تلاوت فرمائی یعنی ’ دقضی الامر“ سے مراد یہی فیصلہ ہے۔ (کبیر ابن کثیر) مريم
40 ف 4 یعنی سب مر جائیں گے اور ہمارے سو ان کا کوئی وارث پیچھے رہنے والا نہ ہوگا۔ مريم
41 ف 5 اس سورۃ کا اصل موضوع توحید و نبوت اور حشر کے واقعات بیان کرنا ہے۔ تو حسد کے منکر دو قسم کے لوگ تھے ایک یہود و نصاری جنہوں نے حرت عیسیٰ اور عزیر کو اللہ کا بیٹا قرار دے لیا و راس طرح سڑک میں مبتلا ہوگئے۔ چنانچہ پچھلے رکوع میں حضرت مریم اور مسیح کا قصہ بیان کر کے ان کے غلط عقائط کی تردید فرمائی۔ دوسرے مشرکین عرب جو بت پرستی میں مبتلا تھے اور بایں عقیدہ حضرت ابراہیم کے دین پر ہونے کے مدعی تھے۔ یہاں سے حضرت ابراہیم کا قصہ بیان کر کے ان کی تردید مقصود ہے تاکہ معلوم ہو کہ کس طرح حضرت ابراہیم نے اپنے باپ اور قوم کو بت پرستی سے نکالنے کی کوشش کی اور بالآخر وطن اور رشتہ داروں کو چھوڑ کر خدا کی راہ میں ہجرت کی مگر تم ہو کہ ایک طرف تو ان کی اولاد میں سے ہوا اور ان کے دین پر ہونے کا دعویٰ بھی کرتے ہو لیکن دوسری طرف بت پرستی کی لعنت میں گرفتار ہو اور توحید کی آواز اٹھانے والوں کو وطن سے نکل جانے پر مجبور کر رہے ہو۔ اگر تم واقعی حضرت ابراہیم کے دین کے پیرو ہو تو یہ شرک اور توحید پرستوں سے دشمنی چہ معنی وارد؟ مريم
42 ف 6 مراد وہ بت ہیں جن کی آزر اور اس کی قوم کے لوگ پوجا کیا کرتے تھے۔ مريم
43 مريم
44 ف 7 جب وہ خود خدا کا مخالف ہے تو ظاہر ہے کہ وہ اپنا کہنا ماننے والوں کو بھی خدا کی مخالفت کی راہ پر لگائے گا۔ اس سے کسی قسم کی صحیح ہدایت کی توقع سراسر حماقت ہے۔ مريم
45 مريم
46 ف 9 یہ کسی سے قطع تعلق کر کے اس سے رخصت ہوجانے کا سلام ہے۔ (دیکھیے قصص 5 ز) مريم
47 ف 10 ہوسکتا ہے کہ جس مشرک سے ایمان کی توقع ہو اس کے لئے استغفار کرنا اس وقت جائز ہو پھر ہماری شریعت میں یہ منسوخ ہوگیا ہو۔ (دیکھیے برأت آیت :54) مريم
48 ف 11 یعنی وطن سے نکل کر پردیس کی حالت میں جب میں اسے پکاروں گا تو وہ میری دعا ضرور قبول فرمائے گا اور کسی مرحلے پر مجھے بے یارو مددگار نہ چھوڑے گا۔ مطلب یہ ہے کہ تمہارے بتوں کی طرح نہیں ہے کہ انہیں کتنا ہی پکارتے رہو وہ خاک نفع نہیں پہنچا سکتے۔ مريم
49 ف 1 تاکہ اس کا دل ان میں لگ جائے اور غربت وطن کی وحشت نہ ہو۔ مريم
50 ف 2 یعنی ان کا ذکر خیر ہمیشہ کے لئے لوگوں کی زبان پر جاری کردیا۔ چنانچہ یہودی، عیسائی اور مسلمان سب ان کی تعظیم کرتے ہیں اور نماز میں درود ابراہیمی بھی حضرت ابراہیم کی دعا کی مقبولیت کا ہی ثمرہ ہے۔ (شوکانی) مريم
51 ف 3” بھیجا ہوا“ رسول کے اور ” اللہ کا پیغام سنانے والا“ نبی کے لفظ معنی ہیں اور قرآن میں یہ دونوں لفظ عموماً ایک دوسرے کی جگہ استعمال ہوئے ہیں۔ تاہم بعض مقامات ایسے ہیں جن سے دونوں کے مرتبہ یا کام کی نوعیت کے اعتبار سے فرق معلوم ہوتا ہے اور دونوں میں تفایر پایا جاتا ہے (دیکھیے سورۃ حج 56) شاہ صاحب لکھتے ہیں : ” جس کو اللہ کی وحی آئی وہ نبی، ان میں جو خاص ہیں امت رکھتے ہیں یا کناب وہ رسول ہیں “ مريم
52 ف 4 دائیں طرف سے حضرت موسیٰ کی دائیں طرف مراد ہے کیونکہ وہ درخت جس سے آواز آرہی تھی اسی طرح واقع تھا اور نہ پہاڑ کی بجائے خود دائیں یا بائیں جانب نہیں ہوتی۔ (شوکانی) آنحضرت کی بعثت سے پہلے عیسائیوں نے اس درخت کی جگہ جو گرجاتعمیر کیا تھا اور جو اب تک قائم ہے وہ کوہ طور کی مشرقی سمت ہے۔ ” یہ آواز حضرت موسیٰ کو اس وقت دی گئی جب وہ ” مدین“ سے مصر واپس آرہے تھے۔ اگر اس گرجا کا جائے وقوع صحیح ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ حضرت موسیٰ اس وقت کوہ طور کی شرقی سمت سے گزر رہے تھے۔ مريم
53 ف 5 بھید کہنے سے مراد بازداری کی باتیں کرتا ہے اور دوسرے معنی یعنی ” بلند کر کے نزدیک بلایا ۔ اس لحاظ سے ہیں کہ تابعین کی ایک جماعت سے منقول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو اتنا قریب کیا کہ انہوں نے لوح محفوظ پر قلم چلنے کی آواز سنی کذا قال السدی (شوکانی ابن کثیر) حضرت ہارون اگرچہ عمر میں حضرت موسیٰ سے بڑے تھے مگر انہیں پیغمبر اس وقت ملی جب حضرت موسیٰ نے درخواست کی۔ (دیکھیے آیت 30-29) مريم
54 ف 7 یہ پانچواں قصہ حضرت اسمعیل (علیہ السلام) کا ہے جو حضرت ابراہیم کے لڑکے تھے اور تمام عرب حجاز کے باپ (ابن کثیر) گو تمام انبیاء ہی وعدہ کے سچے ہوتے ہیں۔ مگر حضرت اسمعیل کے وعدہ کی سچائی تھی اور ان میں یہ صفت نمایاں طور پر پائی جاتی تھی، یہاں کے وعدے کی سچائی ہی تو تھی کہ انہوں نے اپنے والد سے وعدہ کیا کہ ذبح ہوتے وقت صبر کروں گا پھر بے دھڑک چھری کے نیچے لیٹ گئے اور چوں تک نہ کی، اور جس عبادت کا بھی التزام کیا اور منت مانی اسے پوری طرح ادا کیا ابن کثیر) ف 8 اس سے حضرت اسحقٰ پر حضرت اسمعیل کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے کہ کیونکہ حضرت اسحق کو صرف نبی اور حضرت اسمعیل کو رسول نبی فرمایا گیا ہے۔ نیز صحیح مسلم میں نبی ﷺ کا ارشاد ہے :” اللہ تعالیٰ نے ابراہیم کی اولاد میں سے اسمعیل کو منتخب فرما لیا۔ (ابن کثیر) مريم
55 مريم
56 ف 9 یہ چھوٹا قصہ حضرت ادریس کا ہے بعض مفسرین نے حضرت ادریس کو بنی اسرائیل کے انبیاء میں شمار کیا ہے اور دلیل یہ دی ہے کہ معراج کے موقع پر جب نبی ﷺ کی ان سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے نبی ﷺ کو مرحبا بالنبی الصلاح وارمغ الصالح“ کہہ کر خطاب کیا اور حضرت آدم اور ابراہیم کی طرح ” مرحبا بالنبی الصالح والامغ الصالح کہہ کر خطاب کیا اور حضرت آدم اور ابراہیم کی طرح ” مرحبا بالوالد الصالح نہیں کہا اور امام بخاری کا خیال بھی یہی ہے (فتح الباری ج 13، ص 224) لیکن اکثر مفسرین کی تحقیق یہ ہے کہ ان کا زمانہ حضرت نوح سے بھی پہلے کا ہے بلکہ ان کو حضرت نوح کا جد اعلیٰ قرار دیا ہے ابن جریر اور ابن کثیر نے اسی رائے کو ترجیح دی ہے مريم
57 ف 10 یعنی بلند مرتبہ عطا فرمایا ہے جیسا کہ حدیث معراج میں ہے کہ چاہئے اور اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نماز میں رونا جائز ہے (ابن کثیر) مريم
58 مريم
59 ف 11 نماز کے گنوانے کا مطلب یہ بھی ہے کہ اسے صحیح وقت اور صحیح طریقہ سے پڑھنا چھوڑ دیا۔ ف 1 یعنی ضرور اس کے انجام بد سے دوچار ہونگے بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ غی جہنم میں ایک وادی ہے۔ (ابن کثیر) مريم
60 مريم
61 ف 2 یعنی ان کا کوئی اجر مارانہ جائے گا جیسا کہ حدیث میں ہے التائب من الذنب کمن لاذنب لہ کہ گناہ سے توبہ کرنے والا اس شخص جیسا ہے جس نے کوئی گناہ نہیں کیا۔ (کذافی ابن کثیر) مريم
62 مريم
63 ف 3 یعنی اتنی اتنی دیر کے بعد جتنی دیر دنیا میں صبح سے شام تک ہوتی ہے یا ہر آن جب بھی انہیں کھانے کی خواہش ہو کیونکہ جنت میں دنیا کی طرح نہ دن ہوگا اور نہ رات، بلکہ ہمیشہ ایک سا وقت رہے گا۔ (ابن کثیر) ف 4 یعنی اللہ و رسول کی اطاعت کرتے ہیں اور کفر و شرک اور گناہ سے بچتے ہیں۔ مريم
64 ف 5 یعنی جب اس کا حکم ہوتا ہے تو زمین پر یا آپ پر وحی لے کر اترتے ہیں اور اس کے حکم کے بغیر نہیں اتر سکتے۔ حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ (ایک مرتبہ) آنحضرت نے حضرت جبریل سے فرمایا آپ ہمارے پاس جتنا آتے ہیں اس سے زیادہ کیوں نہیں آتے۔“ اس پر یہ آیت نازل ہوئی (بخاری) دوسری روایت میں ہے کہ ایک مرتبہ کئی روز تک حضرت جبرئیل نہ آئے۔ نبی ﷺ کو بڑی فکر ہوئی۔ اس پر حضرت جبریل یہ آیت لے کر نازل ہوئے۔ مجاہد کہتے ہیں کہ کچھ دنوں کے بعد جبریل فرمایا :” آپ ہمارے پاس جتنا آتے ہیں اس سے زیادہ کیوں نہیں آتے“ اس پر یہ آیت نازل ہوئی (بخاری) دوسری روایت میں ہے کہ ایک مرتبہ کئی روز تک حضرت جبریل نہ آئے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بڑی فکر ہوئی۔ اس پر حضرت جبریل یہ آیت لے کر نازل ہوئے مجاہد کہتے ہیں کہ کچھ دنوں کے بعد جب جبریل آئے تو آپ نے فرمایا :” اے جبریل ! آپ نے آنے میں اتنی دیر کیوں کردی؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور یہ (یعنی وحی کا رک جانا) غالباً اس وقت کا واقعہ ہے جب یہود کے اشارے پر مشرکین نے اصحاب کہف روح اور ذی القرنین کے متعلق سوالات کئے تھے آپ نے انشاء اللہ ! نہ کہا چنانچہ کچھ دنوں کے بعد جبریل آئے اور یہ آیت نازل ہوئی۔ (ابن کثیر، کبیر) ف 6 یعنی ہر زمانہ (ماضی، حال، استقبال) اور ہر مکان اسی کا ہے اسے ہر چیز کا پورا علم ہے اور اس کے احاطہ علم سے کوئی چیز باہر نہیں رہ سکتی۔ ف 7 یعنی اتنے دنوں تک آپ پر جو وحی نہیں آئی۔ اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ آپ کا رب آپ کو بھول گیا اور اس نے آپ کو چھوڑ دیا تھا۔ جیسا کہ یہ مشرکین باتیں بنا رہے ہیں۔ مريم
65 ف 8 یعنی اس کی بندگی کرتے رہیے اور اس راہ میں جو مصائب و مشکلات پیش آئیں ان کا پورے صبر کے ساتھ مقابلہ کیجیے اگر ہماری طرف سے کبھی یاد فرمای یا مدد اور تسلی دینے میں کچھ تاخیر ہوجائے تو گھبرانے اور پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ ف 9 اور جب اس کے جوڑ کا آپ کسی کو نہیں سمجھتے تو پھر اس کے سوا چارہ کیا ہے کہ اس کی بندگی کے راستے پر چلتے رہیے مريم
66 مريم
67 ف 10 تو کیا جو ذات پاک اسے عدم سے وجود میں لے آئی ہے اس کے لئے یہ مشکل ہے کہ مرنے کے بعد اسے دوبارہ زندگی دے سکے۔ یہ بعث یعنی دوبارہ زندہ کرنے کی سب سے قومی دلیل ہے۔ (شوکانی) مريم
68 مريم
69 ف 11 یعنی ہر باغی گروہ میں سے اس کے لیڈر اور پیشوا کو جس نے اسے کفر و شرک میں پھنسایا اور خدا کے مقابلے میں سرکشی کی راہ دکھائی، نکال کر الگ کھڑا کرینگے اور ایسے لوگوں کو سب سے پہلے جہنم میں جھونکیں گے۔ ان کے بعد ان کے متبعین کی باری آئے گی۔ یاد رہے کہ یہاں ” عتیا“ کا لفظ ” عتو“ کے مثل مصدر ہے۔ (شوکانی) مريم
70 مريم
71 ف 1 لغت کے اعتبار سے ” وارد“ ہونے ” کے معنی“ داخل ہونا“ اور ” اوپر سے گزرنا“ دونوں ہو سکتے ہیں اس لئے بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ یہاں ” ورود“ سے مراد ” پل صراط“ سے گزرنا ہے اور یہ ” پل صراط“ چونکہ جہنم کے اوپر رکھی جائے گی اس لئے یہ جہنم پر سے گزرنا ہی ہے اور متعدد صحیح روایات سے ثابت ہے کہ ہر نیک و بد اور ہر کافر و مومن کو اسی سے گزرنا پڑے گا اور جن مفسرین نے اس کے معنی داخل ہونے کئے ہیں وہ کہتے ہیں کہ تحلتہ القسم“ کے طور پر ہر مومن و کافر ایک مرتبہ جہنم میں داخل ہوگا مگر مومنوں پو ہآگ ٹھنڈی اور باعث رحمت بنا دی جائے گی۔ بعض روایات اس معنی کی بھی تائید ہوتی ہے مگر پہلے معنی اولیٰ ہیں کیونکہ ان سے کتاب و سنت کے دلائل کے مابین تطبیق ہوجاتی ہے۔ (شوکانی) مريم
72 ف 2 یہ ترجمہ اس صورت میں ہے جب پچھلی آیت میں رود“ کے معنی دخول کے لئے جائیں اور اگر وارد ہونے کے معنی اوپر سے گزرنا لئے جائیں تو اس آیت کا ترجمہ یوں ہوگا، پھر ہم پرہیز گاروں کو (دوزخ میں گرنے سے) بچا لیں گے اور کافروں کو اسی میں گرا ہوا چھوڑ دیں گے۔ مريم
73 مريم
74 ف 3 تو یہ کس شمارقطار میں ہیں۔ حقیقت میں دنیا کے ٹھاٹ بھاٹ اور جاہ و جلال پر پھولنا اور نادار مسلمانوں کو حقیر جاننا پر لے درجے کی حماقت ہے۔ مريم
75 ف 4 یعنی جس طرح گمراہوں کو ڈھیل دیتا ہے اور وہ بدی کے راستے میں بڑھتے چلے جاتے ہیں اس طرح ہدایت یافتہ لوگوں کو بھی مزید نیک کام کرنے کی توفیق دیتا جاتا ہے جس سے وہ اس کی خوشنودی کے راستوں پر بڑھتے چلے جاتے ہیں پھر ایمان کے بعد اخلاص کی دولت سے نوازنا بھی ” زادھم ھدی“ میں داخل ہے۔ (کبیر) مريم
76 ف 5 ایمان اور جمیع اعمال صالحہ ان میں داخل ہیں کیونکہ ان کا نفع دائمی ہے باقیات صالحات سے مراد ہیں وہ اعمال جن کا ثواب مرنے کے بعد قائم رہتا ہے حدیث میں ہے کہ ” لا الہ الا اللہ واللہ اکبر سبحان اللہ بھی الہاقیات الصالحات میں سے ہیں۔ (دیکھیے سورۃ کہف آیت 3) ف 6 لہٰذا فکر بھی انہی کی ہونی چاہئے نہ کہ دنیا کے چند روز عیش و آرام کی۔ مريم
77 مريم
78 ف 7 اوپر کی آیات میں صحت حشر کے دلائل بیان فرمائے اور ان ن کے شبہات کا ازالہ فرمایا اب ان کا قوال نقل فرمایا جو حشر میں طعن کرتے ہوئے اس کا مذاق اڑاتے تھے صحیحین میں ہے کہ حضرت خباب بن ادت لوہار کا کام کرنے تھے اور ان کا عاص بن وائل (ایک ملدار کافر) پر کچھ قرض تھا۔ وہ ایک روز) تقاضے کے لئے اس کے پاس گئے کافر کہنے لگا ” میں تمہارا قرض اس وقت تک ادا نہ کروں گا جب تک تم محمد (ﷺ) کی رسالت سے انکار نہ کر دو“ خباب نے کہا ” اللہ کی قسم میں محمد ﷺ کی رسالت سے ہرگز انکار نہ کروں گا یہاں تک کہ تم مر کر دوبد“ زندہ ہوجائو ” کافر کہنے لگا“ جب میں مر کر دوبارہ زندہ ہوں گا تو تم میرے پاس آنا، اس وقت میرے پاس خوب مال بھی ہوگا اور اولاد بھی میں تمہارا قرض ادا کردوں گا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ چار آیات فرداً تک نازل فرمائیں۔ پہلی آیت میں اس کے طعن کو نقل فرمایا اور پھر ” اطلع الغیب سے اس کے استہزا کا جواب دیا۔ (کبیر) ف 8 یعنی یہ بات ” کہ وہ جنت میں جائے گا اور واں دولت پائے گا تو ہہی کرسکتا ہے جس نے علم غیب پر اطلاع پالی ہو یا ” عالم الغیب نے خود اسے اطلاع دے دی ہو۔ (کسیر) مريم
79 ف 9 یہ کلمہ اجر ہے اور اسے اس کی غلطی پر متنبہ کیا ہے یعنی یہ دونوں باتیں نہیں ہیں ف 10 یعنی اسے دوہرا عذاب دیں گے ایک عذاب کفر کا دوسرا استہزا اور مذاق اڑانے کا مريم
80 ف 11 یعنی قیامت کے دن جب اس کے پاس نہ مال ہوگا اور نہ اولاد (دیکھیے سورۃ کہف آیت 8) ف 12 یعنی انکی سفارش کر کے اللہ کے عذاب سے ان کے بچائو کا سبب بنیں۔ مسئلہ حشر و نشر بیان کرنے کے بعد اب ان کے بتوں کی پرستش کی تردید ہے۔ (کبیر) مريم
81 ف 1 انکار اس معنی میں کرینگے کہ وہ کہیں گے ہم نے کبھی ان سے نہیں کہا تھا کہ ہماری عبادت کرو اور نہ ہمیں یہ خبر تھی کہ وہ ہماری عبادت کر رہے ہیں۔ مريم
82 ف 2 یعنی بجائے اس کے کہ وہ ان کے لئے بچائو کا سبب بنیں الٹا ان کی پکڑ کا سبب بنیں گے اور باعث حسرت، ان معبودوں کے اتحاد و اتفاق کی وجہ سے ان کوشی واحد فرض کر کے ” ضدا“ صیغہ واحد کا لا گیا ہے کہ حدیث میں ہے، وھم ید علی من سواھم (کبیر) مريم
83 ف 3 یعنی وساوس اور تسویلات سے حق تعالیٰ کی مخالفت پر اکساتے اور برے کاموں کی رغبت دلاتے رہتے ہیں (شوکانی) مريم
84 ف 4 یعنی آپ اس بارے میں تعجب نہ کریں کہ ہم نے ان کی رسمی ڈھیلی کیوں چھوڑ رکھی ہے اور اس قدر سرکشی کے باوجود ان کی گرفتک ویں نہیں کرتے۔ بس اب مہلت کے دن پورے رہے ہیں اور ان کی شامت آیا ہی چاہتی ہے۔ مريم
85 مريم
86 مريم
87 ف 5 اس عہدے سے مراد کلمہ شہادت کا اقرار ہے۔ جیسا کہ ایک حدیث میں اس کی تفسیر وارد ہے۔ نیز ایک حدیث میں پنجگانہ نماز کی پابندی کو بھی عہد قرار دیاے معلوم ہوا کہ مومنین اصحاب کبائر کی تو شفاعت ہوگی مگر کافر کی کوئی شفاعت نہیں کرسکے گا پس لایملکون الشفاعۃ کے معنی یہ ہیں کہ شفاعت کے مستحق صرف وہی لوگ ہونگے جنہوں نے … یا آیت کا مطلب یہ ہے کہ شفاعت کا اختیار صرف اسی کو ہوگا جس کو اللہ تعالیٰ نے شفاعت کی اجازت دے دی ہو یعنی کوئی نبی یا فرشتہ از خود کسی کی شفاعت نہیں کرسکے گا اس آیت میں تمام مشرکین کو تنبیہ کردی ہے کہ وہ مشرک خواہ سرپرست ہوں یا قبر پرست ہر قسم کی شفاعت سے محروم رہیں گے گویا لیکونوا لھم عزا کا جواب ہے (از کبیر شوکانی) مريم
88 مريم
89 مريم
90 مريم
91 ف 6 نصاری حضرت مسیح کو اور مشرکین فرشتوں کو اللہ کی اولاد بتاتے ہیں۔ (دیکھیے توبہ آیت 103 اسرا 40) مريم
92 ف 7 یعنی ناممکن اور محال ہے اس لئے کہ اولاد ہم جنس ہوتی ہے اور اللہ کا کوئی ہم جنس نہیں یا پھر اولاد کمزوری میں سہارے کے لئے ہوتی ہے اور اللہ اپنی ذات اور صفات میں ہر ایک سے بے نیاز ہے وہ ہمیشہ سے عزیز و غالب ہے اور ہمیشہ عزیز و غالب رہے گا۔ (کبیر) مريم
93 ف 8 جیسے دوسری آیت میں فرمایا : وکل اتوہ داخرین اور سب اس کے سامنے کان پکڑے حاضر ہوں گے۔ (نمل :87) مريم
94 ف 9 نہ کسی کے ساتھ اس کا کوئی مددگار ہوگا اور نہ کوئی مال و اسباب جیسا کہ فرمایا : یوم لاینفع مال ولابنون (شعرا 88) مريم
95 مريم
96 ف 10 کافروں کے قبائح کو بیان کرنے کے بعد اب مومنین کے بعض مخصوص اعزا بیان فرمائے۔” ان کی محبت (لوگوں کے دلوں میں) ڈال دیگا۔“ یعنی بدون کسی کوشش اور اسباب محبت کی مزاوات کے (شوکانی) جیسا کہ ایک حدیث میں ہے جب اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو جبرئیل کو آواز دے کر فرماتا ہے کہ میں فلاں بندے سے محبت کرتا ہوں تم بھی اس سے محبت کرو وہ آسمان میں اس کا اعلان کردیتے ہیں پھر وہ زمین والوں کے دلوں میں بھی اس کی محبت ڈال دیتا ے۔ (بخاری مسلم بروایت ابوہریرہ) واضح رہے کہ یہ آیت مکہ معظمہ میں نازل ہوئی جہاں مسلمان انتہائی مظلومی و کسمپرسی کی زندگی بسر کر رہے تھے، گویا اللہ تعالیٰ نے ان سے وعدہ فرمایا کہ عنقریب حالات بدلیں گے، اور تم ذلیل و رسوا ہونے کی بجائے محبوب خلائق بن کر زندگی گزارو گے چنانچہ یہ وعدہ پورا ہوا اور ہستی دنیا تک لوگوں کے دلوں میں صحابہ کرام کی وہ محبت پیدا ہوئی جس کی نظیر ملنی مشکل ے۔ (رض) وار ضا ھم (کذا فی الوحیدی) مريم
97 ف 11 جو کسی طرح حق بات نہیں ماننے اور اس میں میں میخ نکالتے رہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو قرآن میں سخت وعید سنائی گئی ہے۔ مريم
98 مريم
0 ف 1 ایسا ہی انجام ان کا بھی ہوگا اگر یہ اپنی ہٹ دھرمی اور جھڑالوپن کی روش سے باز نہ آئے۔ وبہ لم تفسیر سورۃ مربعد الحمد اللہ رب العلمین ش ف 1 یہ سورۃ بالاتفاق مکہ معظمہ میں نازل ہوئی۔ حضرت ابوامامہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا جنت والے سورۃ طہ اور سورۃ قیس پڑھا کریں گے اور باقی قرآن ان سے اٹھا لیا جائے گا۔ (ابن مردویہ) یہی وہ سورۃ ہے جسے سن کر حضرت عمر نے اسلام قبول کیا جیسا کہ کتب سیرت میں مذکور ہے۔ ف 3 یہ بھی حروف مقطعات میں سے ہے جن کے اسرار اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ بعض نے اس کے معنی ” یا رجل“ اے آدمی“ کئے ہیں کیونکہ بعض عرب قبائل میں یہ لفظ اس معنی میں بولا جاتا ہے۔ واللہ اعلم (کبیر) طه
1 طه
2 طه
3 ف 4 یعنی آپ پر یہ قرآن اس لئے نہیں اتارا گیا کہ آپ اس کی تلاوت کرنے کے لئے سار ساری رات عبادت میں کھڑے رہیں اور اپنے آپ کو تھکا ماریں۔ ہوا یہ … جیسا کہ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ جب شروع شروع قرآن اترنے لگا تو رسول اللہ (ﷺ) اور صحابہ کرام قرآن پڑھنے کے خیال سے ساری ساری رات عبادت میں کھڑے رہتے ہیں یہاں تک کہ مشرکین کہنے لگے کہ محمد (ﷺ) پر قرآن کیا اترا، بیچارہ سخت مشقت میں پڑگیا۔ اس پر آیت کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ ” ہم نے یہ قرآن آپ پر اس لئے نہیں اتارا کہ آپ پر کوئی ایسا بار ڈالا جائے جو آپ کے لئے ناقابل برداشت ہو۔ (کبیر) ف 5 اور جسے خدا کا ڈر نہ ہو اسے صحیح راستہ پر ڈال دینا تمہارے ذمہ نہیں ہے۔ طه
4 طه
5 ف 6 اس آیت کا صحیح ترجمہ ہے ” اللہ تعالیٰ فرش کے اوپر بلند ہوا۔“ کیونکہ محاورہ میں استوی علی کذا کے یعنی معنی ہوتے ہیں۔ واضح رہے کہ اس مضمون کی آیات اور احادیث صحیحہ کی رو سے اللہ تعالیٰ کے ساری مخلوق سے الگ اور عرش معلی کے اوپر ہونے کا عقیدہ ضروری ہے مگر اس کی کیفیت سے بحث بدعت اور گمراہی ہے۔ یہی ائمہ حدیث اور سلف کا مسلک ہے۔ دیکھیے سورۃ اعراف آی 54 طه
6 طه
7 ف 7 بھید سے مراد وہ بات ہے جو تنہائی میں چپکے سے کہی جائے اور اس سے زیادہ چھپی بات وہ ہے جو ابھی دل میں ہو اور زبان تک نہ آئی ہو۔ طه
8 طه
9 ف 8 قرآن کی عظمت کے ذکر اور تبلیغ کے سلسلے میں آنحضرت کی تکلیف کی طرف اشارہ فرما کر اب یہاں سے حضرت موسیٰ کا قصہ بیان کیا جا رہا ہے۔ اس سے مقصود آنحضرت کو تسلی دینا ہے کیونکہ جن دنوں یہ سورت نازل ہوئی مکہ میں نبی ﷺ کو ایسے ہی حالات درپیش تھے جیسے حضرت موسیٰ کو پیش آچکے تھے۔ طه
10 ف 9 یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب مدین میں دس سال تک جلا وطنی کی زندگی گزارنے کے بعد حضرت موسیٰ اپنے اہل و عیال سمت مصر واپس آرہے تھے۔ اس سے قبل کی سرگزشت کا ذکر سورۃ قصص میں ہے۔ ف 10 معلوم ہوتا ہے کہ جنگل میں سخت سردی تھی اور حضرت موسیٰ راستہ بھول گئے تھے۔ سورۃ قصص میں ہے ” لعلکم تصطلون“ تاکہ تم آگ تاپ سکو۔ (کذافی ابن کثیر) طه
11 ف 11 یہ آواز ایک درخت سے آرہی تھی۔ (دیکھیے قصص آیت 30) طه
12 ف 12 غالباً اسی سے یہودیوں نے یہ مسئلہ بنا لیا ہے کہ جوتی پہن کر نماز پڑھنا جائز نہیں ہے۔ نبی ﷺ نے اس غلط فہمی کو رفع کرنے کے لئے فرمایا :” یہودیوں کے خلاف کرو اس لئے کہ وہ اپنے جوتوں اور موزوں میں نماز نہیں پڑھتے۔ (ابودائود) ف 13 ” طوی“ اس وادی کا نام تھا۔ (نیز دیکھیے سورۃ قصص :4) طه
13 طه
14 ف 1 شاہ صاحب لکھتے ہیں : حضرت موسیٰ کو بھی پہلی وحی میں نماز کا حکم ہے اور ہمارے پیغمبر کو بھی ” ربک فکبر“ فرمایا گیا۔ (موضح) ” فاعبدنی“ میں اگرچہ ہر قسم کی بدنی و مالی عبادت کرنے کا حکم آگیا تھا لیکن چنکہ نماز تمام عبادتوں سے زیادہ اہم ہے اس لئے اس کا خاص طور پر الگ ذکر بھی فرمایا۔ (شوکانی) اور ساتھ ہی یہ بھی بتا دیا کہ نماز کا سب سے بڑا مقصد یہ ہے کہ بندہ اپنے رب کی یاد سے غافل نہ ہ۔ نیز اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے آنحضرت نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی شخص نماز ادا کرنے سے پہلے سو جائے یا اسے غافل ہوجائے تو جونہی یاد آئے اسے چاہئے کہ نماز پڑھ لے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :” اقم الصلوۃ لذکری“ (بخاری مسلم) طه
15 ف 2 یعنی قیامت کے آنے کا وقت اس لئے پوشیدہ رکھا گیا ہے کہ جس آزمائش کے لئے انسان کو دنیا میں بھیجا گیا ہے اس کا مدعا پورا ہو اور ہر شخص کو اپنے کئے کا ٹھیک ٹھیک بدلہ ملے گویا اس کے مخفی رکھنے کی حکمت ” مسعی کی جزا“ ہے۔ اس صورت میں ” لتجزی“ جار مجرور ” اخفیھا“ کے متعلق ہوگا نہ کہ ” اتیۃ“ کے (شوکانی) طه
16 طه
17 اللہ تعالیٰ کو معلوم تھا کہ حضرت موسیٰ کے ہاتھ میں لاٹھی ہے مگر ان سے یہ سوال اس لئے کہا کہ حضرت موسیٰ لاٹھی کے لاٹھی ہونے کا اقرار کریں اور پھر اپنے رب کی قدرت کا کرشمہ دیکھیں (شوکانی) طه
18 ف 4 جواب میں اگرچہ اتنا کہہ دینا کافی تھا کہ یہ لاٹھی ہے مگر حضرت موسیٰ نے یہ لمبا جواب اس لئے دیا کہ انہیں اپنے رب سے ہمکلامی کا جو شرف حال ہوا تھا وہ اس سے زیادہ لطف لینا چاہتے تھے۔ (کذا ذکر اصحاب المعانی) طه
19 طه
20 طه
21 طه
22 ف 5 ایک نشانی عصا اور دوسری ” ید بیضا“ ہاتھ کے بے عیب ہونے سے مراد یہ ہے کہ وہ اگرچہ سفید ہو کر چمکے گا مگر اس میں کوئی روگ نہ ہوگا جیسے کوڑھ کی بیماری سے ہاتھ سفید ہوجاتا ہے۔ طه
23 طه
24 ف 6 یعنی بڑی شرارت اور سرکشی پر کمر باندھ لی ہے حتی کہ خدائی تک کا دعویٰ کرنے لگا ہے۔ طه
25 ف 7 یعنی اس منصب عظیم کے بار کو اٹھانے کے لئے جس ہمت، صبر، پامردی اور حوصلہ مندی کی ضرورت ہے وہ میرے دل میں پیدا کر دے۔ طه
26 طه
27 ف 8 ضروری نہیں کہ حضرت موسیٰ کی زبان میں لکنت ہو بلکہ گرہ کھلونے سے مراد قوت گویائی کے لئے دعا کرنا ہے کہ میں فصاحت و بلاغت سے اپنا مفہوم ادا کرسکوں۔ قرآن میں زیادہ سے زیادہ یہ چیز معلوم ہوتی ہے کہ حضرت موسیٰ کی نسبت حضرت ہارون کی زبان میں فصاحت و بلاغت زیادہ پائی جاتی تھی۔ طه
28 طه
29 ف 9 یعنی مددگار جو اس بار عظیم کو اٹھانے میں میرا شریک ہو۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں :” ایسے بڑے پیغمبر کو سمجھانے کے لئے ایک پیش کار کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارے پیغمبر کے پیش کار حضرت ابوبکر صدیق تھے۔ ابتدا میں حضرت ابوبکر کی تبلیغ ہی سے سب لوگ مسلمان ہوئے جن کا شمار کبار صحابہ میں ہے۔ (از موضح وغیرہ) طه
30 ف 10 مفسرین کی عام روایات کے مطابق حضرت ہارون عمر میں حضرت موسیٰ سے بڑے تھے طه
31 طه
32 طه
33 طه
34 طه
35 ف 11 یعنی جب ہم بچے تھے اس وقت بھی تو نے ہماری پرورش کی اور ہمیں دشمنوں سے محفوظ رکھا اب بھی ہم پر احسان فرما اور فرعون کے شر سے محفوظ رکھ۔ طه
36 ف 12 یعنی تم نے منہ مانگی مراد پا لی اور ہم نے تمہاری ہر درخواست کو منظور فرما لیا۔ طه
37 طه
38 ف 1 یہاں بتانے اور بیان کرنے کے لئے ” اوھینا“ (ہم نے وحی بھیجی) اور ” یوحی“ (وحی کیا جاتا ہے) کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ وحی کے لفظ معنی اشارہ سریعہ یا دل میں کوئی بات ڈال دینے کے ہیں۔ اصطلاح میں جب یہ لفظ کسی نبی کے لئے استعمال ہوتا ہے تو اس کے معنی فرشتہ کے ذریعے پیغام بھیجنا ہوتے ہیں اور قرآن میں دونوں معنی کے اعتبار سے وحی کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ چنانچہ حضرت موسیٰ کی والدہ کی طرف جو وحی بھیجی گئی وہ بھی لفظی معنی کے اعتبار سے تھی یعنی خواب ہیں یا کسی خفیہ طریقہ سے ان کے دل میں بات ڈال دی گی کیونکہ اس بات پر تقریباً علما کا اتفاق ہے کہ اللہ کے جتنے نبی ہوئے ہیں مردوں میں سے ہوئے ہیں عورتوں میں سے کسی عورت کو نبی نہیں بنایا گیا۔ (سورہ یوسف :109) لہٰذا حضرت موسیٰ کی والدہ نبی نہیں تھیں کہ ان کے لئے وحی کے وہ معنی مراد لئے جائیں جو کسی نبی کے لئے ہوتے ہیں۔ (کبیر) طه
39 ف 2 چنانچہ حضرت موسیٰ کی والدہ نے وہ صندوق دریا میں ڈال دیا اور فرعون کے گھر والوں نے اسے نکال لیا۔ (راجع قصص :8) کیسے اٹھایا اور فرعون کے گھر والوں میں سے کس نے اٹھایا؟ اس کا ذکر نہ قرآن میں ہے اور نہ کسی صحیح حدیث میں اور نہ اس کا جاننا ہی کوئی ضروری ہے۔ ف 3 یعنی تمہاری صورت ایسی بنا دی کہ جو کوئی تمہیں دیکھنا اس کا دل نرم ہوجاتا اور وہ تم سے محبت کرنے لگتا۔ طه
40 ف 4 ہوا یہ کہ فرعون کے گھر والوں نے حضرت موسیٰ کو اٹھا لیا لیکن جب اسے دودھ پلانے کے لئے دایائوں کا انتظام کیا گیا تو وہ کسی بھی دایہ کا دودھ پلانے کے لئے دایائوں کا انتظام کیا گیا تو وہ کسی بھی دایہ کا دودھ پینے کے لئے تیار نہ ہوئے۔ جیسے فرمایا :” وحرمنا علیہ المراضع من قبل اس سے پہلے ہم نے ان پر تمام دوجھ پلانے والیوں کو حرام کردیا تھا۔ (قصص :12) اس موقع پر ان کی بہن وہاں پہنچی اور یہ منظر دیکھ کر فرعون اور اس کی بیوی حضرت آسیہ سے کہنے لگی۔ ف 5 بیچ کی تفصیل چھوڑدی گی ہے کہ فرعون کے گھر والوں نے رضامندی ظاہر کردی اور حضرت موسیٰ کی بہن گھر آئی اور اپنی والدہ کو ساتھ لے کر فرعون کے ہاں پہنچ گئی انہوں نے جونہی حضرت موسیٰ کے منہ سے اپنی چھاتی لگائی حضرت موسیٰ نے دودھ پینا شروع کردیا۔ اس طرح حضرت موسیٰ اپنی والدہ کے پاس پہنچ گئے۔ نظم قرآن پر غور کرنے سے یہ تفصیل خودبخود ذہن میں آجاتی ہے۔ ممکن ہے اس کے بعد حضرت موسیٰ کو اپنے گھر لے آئی ہوں تاکہ فرعون کی طرف سے بطور دایہ مامور ہو کر شاہانہ اعتزاز و اکرام کے ساتھ بچہ کی تربیت کرتی رہیں۔ واللہ اعلم (ابن کثیر) ف 6 یہ پورا قصہ سورۃ قصص (رکوع 5، 6) میں بیان ہوا ہے اور اس کا خلاصہ یہ ہے کہ جوان ہونے کے بعد ایک روز حضرت موسیٰ شہر میں داخل ہوئے۔ وہاں ان کے ہاتھ سے ایک قبطی مارا گیا۔ حضرت موسیٰ نے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگی اور اللہ تعالیٰ نے معاف بھی فرما دیا۔ مگر ڈرتے رہے کہ فرعون کے سپاہیوں کے ہاتھوں پکڑے نہ جائیں اللہ تعالیٰ نے اس غم و فکر سے انہیں نجات دی اور مصر سے نکال کر بدین میں پہنچا دیا جہاں ایک بزرگ کی لڑکی سے ان کا نکاح ہوا۔ پھر وہاں وہ دس سال رہے پھر اپنے بیوی بچوں کو لے کر مدین سے مصر روانہ ہوئے۔ ف 7 یعنی خوب اچھی طرح سے پرکھا تاکہ تمہارا خلاص نکھر کر سامنے آجائے۔ حافظ ابن کثیر نے حدیث الفتون کو بطلولہ بتایا ہے جس کا اکثر حصہ اسرائیلیات سے ماخوذ ہے (ابن کثیر) ف 8 یعنی اب اس عمر کو پہنچ کر تم اس وقت آئے ہو جس کے متعلق میرا فیصلہ تھا کہ اس میں تمہیں اپنی ہمکلامی اور نبوت سے سرفراز کروں گا۔ ہوسکتا ہے اس حد سے مراد چالیس سال عمر ہو۔ (شوکانی) طه
41 طه
42 طه
43 ف 9 یعنی بڑی شرارت اور سرکشی پر کمر باندھ لی ہے حتی کہ خدائی تک کا دعویٰ کرنے لگا ہے۔ طه
44 ف 10 کیونکہ ایک سرکش آدمی کے راہ راست پر آنے کی یہی دو صورتیں ہیں۔ طه
45 ف 11 یعنی انہیں آزاد کر دے تاکہ وہ تیرے ملک کو چھوڑ کر جہاں اہیں چلے جائیں۔ طه
46 ف 12 لہٰذا تیرے لئے یہی بہتر ہے کہ سرکشی چھوڑ کر سیدھی راہ اختیار کرے۔ طه
47 طه
48 طه
49 ف 1 یعنی وہ کون ہے جسے تم نے مجھے چھوڑ کر اپنا رب بنا لیا ہے؟ واضح رہے کہ فرعون اپنے آپ کو مصر کا رب اعلیٰ بھی سمجھتا تھا۔ (نازعات :24) اور اللہ یعنی معبود بھی چنانچہ قصص میں ہے۔ یایھا الملاء ما علمت لکم من الہ غیری کہ مجھے معلوم نہیں کہ میرے سوا تمہارا کوئی اور اللہ بھی ہو۔ (آیت 38) طه
50 ف 2 یعنی صرف یہی نہیں کہ اس نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے بلکہ اس نے ہر چیز کو پیدا کرنے کے بعد ایک صورت بھی دی ہے جو اس کے مناسب حال ہے اور اسے زندگی گزارنے اور اپنی بناوٹ سے کام لینے کا راستہ بھی بتایا ہے۔ چنانچہ پرندے کا بچہ انڈے سے نکلتے ہی چگنے لگتا ہے، جانور اور انسان کا بچہ پیدا ہوتے ہی دودھ پینے لگتا ہے۔ الغرض اس کائنات میں ہر چیز جو بھی کام کر رہی ہے اس کی دی ہوئی ہدایت اور تعلیم سے کر رہی ہے حضرت موسیٰ کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا رب تو نہیں ہے بلکہ وہ بزرگ و برتر اللہ ہے جس کی یہ اور یہ صفات ہیں۔ حضرت موسیٰ نے عموماً ہی دلائل پیش کئے جو حضرت ابراہیم نے پیش کئے تھے۔ (کبیر) طه
51 ف 3 یعنی اگر رب وہی ہے جسے تم بیان کر رہے ہو تو تم بتائو کہ جو لوگ سینکڑوں برس سے نسلاً بعد نسل دوسروں کو اپنا رب سمجھتے اور ان کی بندگی کرتے رہے آیا وہ سب گمراہ مستحق عذاب تھے ؟ ممکن ہے فرعون نے یہ سوال از راہ جہالت کیا ہو یا اس کا مقصد یہ بھی ہو کہ حضرت موسیٰ جب ان کو گمراہ اور مستحق عذاب قرار دیں گے تو ان کے خلاف تمام لوگوں کے جذبات بھڑک اٹھیں گے اور وہ ان کی دعوت سے متنفر ہوجائیں گے اہل حق کے خلاف اہل باطل جاہلوں کو مشتعل کرنے کا یہ ہتھکنڈا ہمیشہ سے استعمال کرتے رہے ہیں اور آج بھی اسے اپنا کارگر حربہ سمجھتے ہیں۔ (وحیدی مع اضافہ) طه
52 ف 4 یعنی مجھے ان کے حال سے کوئی بحث نہیں ہے وہ اپنے رب کے پاس پہنچ چکے ہیں۔ اس کے پاس ان کے تمام اعمال اور نیتوں کا ریکارڈ موجود ہے۔ جیسے ان کے اعمال ہوں گے ویسا ہی بدلہ ان کو مل جائے گا۔ ہمیں فکر اپنے حال کی ہونی چاہئے کہ ہم کیونکر اپنے آپ کو مستحق عذاب ہونے سے بچا سکتے ہیں؟ یہ نہایت ہی حکیمانہ جواب ہے جو صحیح بھی ہے اور اس سے فرعون اپنے مقصد میں بھی کامیاب نہ ہوسکا۔ طه
53 طه
54 ف 5 ان نشانیوں پر غور کر کے وہ سمجھ سکتے ہیں کہ اس کائنات میں جو انتظامات پائے جاتے ہیں وہ کسی ایسی ہی ذات کی تخلیق کا نتیجہ ہو سکتے ہیں جو اپنی ذات اور صفات و اختیارات میں تنہا ہے نہ کہ کسی ات فاقی حادثہ کا بے ہنگم نتیجہ۔ طه
55 ف 6 یعنی تم سب کے باپ حضرت آدم کا پتلا مٹی سے بنایا گیا اور تمام غذائیں بھی مٹی سے نکلتی ہیں مرنے کے بعد خواہ کوئی انسان قبر میں دنف ہو یا نہ ہو، بالواسطہ یا بلاواسطہ اس کے اجزا بھی مٹی ہی میں مل جائیں گے۔ قیامت کے روز انہی اجزا کو دوبارہ جمع کر کے اور ان میں روح پھونک کر زندہ کردیا جائے گا۔ بعض روایات سے جن کی سند گو ضعیف ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ میت کو قبر میں اتارنے کے بعد مٹی ڈالتے وقت یہ آیت پڑھ لی جائے اس طرح کہ پہلی مٹھی کے وقت ” منھا خلقنا کم“ دوسری کے وقت وفیھا نعیدکم“ اور تیسری کے وقت ” ومنھا نخرجکم تازہ اخری“ ایک اور روایت میں ہے کہ آنحضرت نے اپنے لخت جگر حضرت ام کلثوم کو دفن کرتے وقت یہ آیت پڑھی اور نیز فرمایا : بسم اللہ علی ملۃ رسول اللہ، (ابن کثیر ۔ فتح البیان) طه
56 ف 7 سب نشانیوں سے مراد نونشانیاں ہیں جو حضرت موسیٰ کو دی گئیں جن کا ذکر سورۃ اعراف میں گزر چکا ہے۔ طه
57 ف 8 ہر باطل پرست اور جابر و ظالم حکمران جب داعی حق کے سامنے لاجواب ہوجاتا ہے تو اس کی دعوت کو ٹھکرانے کے لئے یہی ہتھکنڈا استعمال کرتا ہے۔ یعنی اسے اقتدار کا بھوکا ہونے کا طعنہ دیتا ہے۔ گویا اقتدار پر قابض رہنا اس کا تو پیدائشی حق ہے اور کسی دوسرے کے لئے اس کے قریب بھٹکنا بھی جائز نہیں۔ طه
58 طه
59 ف 9 حضرت موسیٰ نے عید کا دن اس لئے تجویز فرمایا کہ اس روز ملک کے تمام عالقوں کے لوگ کھچ کر دارالسلطنت میں جمع ہوتے ہیں اور نیز تجویز کیا کہ ضحی کے وقت مقابلہ شروع ہوتا کہ اگر مقابلہ لمبا ہوجائے تو تمام دن قائم رہ سکے۔ (شوکانی) طه
60 ف 1 یعنی ایک طرف تو سلطنت کے ہر علاقہ سے ماہر جادو گر جمع کر لئے اور انہیں انعام و اکرام کا وعدہ کر کے مقابلہ کے لئے تیار کیا اور دوسری طرف عام لوگوں کو ترغیب دی کہ مقابلہ دیکھنے کے لئے زیادہ سے زیادہ تعداد میں جمع ہوں۔ (ابن کثیر) طه
61 طه
62 طه
63 ف 2 کوئی کہنے لگا کہ موسیٰ جادوگر ہیں اور کوئی کہنے لگا کہ وہ جادو گر معلوم نہیں ہوتے۔ وغیر ذلک (ابن کثیر) ف 3 عمدہ طریق سے مراد ان کا دین ہے جسے وہ بہتر طریقہ خیال کرتے تھے یا مطلب یہ ہے کہ ملک کے عمائد و اشراف کو اپنے ساتھ ملا لے گا۔ (شوکانی) طه
64 ف 4 یعنی آپس کی اس پھوٹ کو چھوڑو اور پوری طرح متحد ہو کر مقابلہ کرو۔ (شوکانی) ف 5 تاکہ دیکھنے والوں پر رعب طاری ہوجائے۔ پر (صف) یعنی قطار جمہور مفسرین نے صفاً کے یہی معنی بیان کئے ہیں اور بعض نے اس کے معنی عید گاہ بھی کئے ہیں۔ (شوکانی) ف 6 یعنی آج کے مقابلے کی اتنی اہمیت ہے کہ جو اس میں غالب رہا، اس کا سکہ ہمیشہ کے لئے بیٹھ گیا اور جو اس میں رہ گیا پھر کبیھ سر نہ اٹھا سکے گا۔ طه
65 طه
66 ف 7 یعنی ان کے جادو کا رعب عوام پر ہی نہیں ہوا تھا بلکہ حضرت موسیٰ بھی اگر حقیقت حال سے واقف نہ ہوتے تو ان کے جادو سے متاثر ہوجاتے یہ مطلب نہیں ہے کہ حضرت موسیٰ بھی متاثر ہوگئے تھے۔ یوں بعض دنیوی امور کے سرانجام دینے میں نبی پر بھی جادو کا اثر ہوسکتا ہیجیسا کہ حدیث سے ثابت ہے کہ آنحضرت پر بھی مدینہ میں آ کر کچھ عرصہ کے لئے جادو کا اثر ہوگیا تھا مگر اس قسم کے حق و باطل کے معرکہ میں یہ ممکن نہیں کہ ایک نبی پر اس قسم کا اثر ظاہر ہوجائے۔ ” جادو سے معلوم ہوا“ کا مطلب یہ ہے کہ صرف بظاہر دکھائی دیا حقیقت میں شعبدہ سے زیادہ کچھ نہیں تھا اور یہی جادو اور معجزہ میں فرق ہے کہ جادو سے ایک چیز کی حقیقت نہیں بدلتی۔ بظاہر آنکھوں پر اثر ہوتا ہے اور معجزہ سے ایک چیز کی حقیقت تک بدل جاتی ہے۔ (کبیر ) طه
67 ف 8 حضرت موسیٰ کا یہ سہمنا بتقاضائے بشریت تھا اور ممکن ہے کہ ان کا یہ سہمنا اس بنا پر ہو کہ کہیں لوگ التباس میں نہ پڑجائیں اور میرے عصہ ڈالنے سے پہلے کہیں ان جادوگروں کے معتقد نہ ہوجائیں (ابن کثیر) طه
68 طه
69 ف 9 یعنی چاہے وہ کیسی ہی آن بان اور شان و شوکت سے آئے اسے کبھی غلبہ نصیب نہیں ہو سکتا۔ طه
70 ف 10 القی (گرا دیئے گئے) یعنی بے ساختہ اور اس سرعت سے سجدہ میں گر پڑے جیسے کسی چیز نے انہیں گرا دیا۔ (کبیر) طه
71 ف 1 یعنی وہ تمہارا گورو ہے اور تم اس کے چیلے ہو جس سے … معلوم ہوتا ہے کہ تم آپس میں طے کر کے آئے ہو کہ پہلے چیلے ایک شعبدہ دکھائیں گے پھر وہ سب کے سامنے ” گورو“ سے شکستک ھا لیں گے، تاکہ دیکھنے والے ان کے ” گورو“ کا کہنا مان لیں اور اس کے معتقدبن جائیں۔ فرعون نے یہ شبہ اسی وقت پیدا کردیا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ عوام بھی ان کے متبع ہوجائیں۔ (کبیر) ف 2 شبہ پیدا کرنے کے بعد اوپر سے دھمکی بھی دے دی تاکہ ان کو ایمان پر قائم رہنے سے پھیر دیا جائے اور دوسرے لوگ بھی مرعوب ہوجائیں۔ (کبیر) ف 3 یعنی آیا آخرت کا عذاب جس سے موسیٰ ڈراتے ہیں۔ زیادہ سخت اور دیرپا ہے یا میرا عذاب؟ فرعون حقیقت حال سے واقف تھا مگر اپنی شکست فاش پر پردہ ڈالنے کیلئے یہ دھمکیاں دے رہا تھا اور بفوات بک رہا تھا۔ (کبیر) طه
72 ف 4 مگر جادو گروں کا ایمان تو ایک لمحہ میں اس قدر پختہ ہوگیا کہ اب فرعون کی دھمکیوں کا بھی ان پر کچھ اثر نہ تھا۔ چنانچہ انہوں نے کہا کہ تو اس سے زیادہ کیا کرسکتا ہے کہ ہماری چند روزہ دنیاوی زندگی کا خاتمہ کر دے۔ سو ہمیں اس کی پرواہ نہیں مگر آج ایک شخص ساٹھ سال قرآن پڑھ کر بھی دنیائے دو دن کے بدلے اپنے ایمان کو فروخت کردیتا ہے۔ (کذافی الکبیر) طه
73 طه
74 ف 5 یعنی زندگی اور موت کے درمیان لٹکتا رہے گا حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ ایک مرتبی نبی ﷺ خطب دیتے ہوئے جب اس آیت پر پہنچے تو آپ نے فرمایا :” جو لوگ دوزخ والے (کافر) ہیں وہ تو نہ اس میں جئیں گے اور نہ مریں گے اور جو دوزخ والے نہیں (یعنی گنہگار مسلمان) تو آگ انہیں یکبارگی مار دے گی، پھر شفاعت کرنے والے پیغمبر کھڑے ہو کر ان کی شفاعت کریں گے پھر انہیں گھٹھڑیوں کی صورت میں ایک دریا پر جس کا نام ” الحیاۃ“ یا ” الحیوان“ ہوگا لایا جائے گا پھر (اس میں نہا کر) وہ اس طرح بڑھیں گے جس طرح گھاس پھوس سیلاب کی لائی ہوئی مٹی میں بڑھتا ہے۔ (ابن کثیر بحوالہ مسلم و ابن ابی حاتم) طه
75 ف 6 حضرت عبادہ بن صامت سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا : جنت کے سو درجے ہیں۔ ہر دو درجوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا زمین اور آسمان کے درمیان (مسند احمد) صحیحین میں ہے کہ آنحضرت نے فرمایا :” اعلی علیین والے اپنے سے اوپر والوں کو یوں دیکھیں گے جیسے تم افق میں غروب ہونے والے ستارے کو دیکھتے ہو۔ (ابن کثیر) طه
76 طه
77 طه
78 ف 7 یعنی جیسا کہ گھیرنے کا حق تھا، ویسا گھیر لیا۔ ان میں سے کوئی بھی نہ زندہ نہ بچا۔ (واقعہ کی تفصیل کیلئے سورۃ شعراء رکوع 4، یونس آی 93:9) طه
79 طه
80 ف 1 کیونکہ اس نے جب بنی اسرائیل کا پیچھا کرنے کیلئے اپنی قوم کو ساتھ لیا تھا یہ کہا تھا کہ موسیٰ اور ان کے ساتھی ہم سے بچ کر نہیں جاسکتے اس لئے کہ وہ خشک راستے پر جا رہے ہیں اور ان کے سامنے سمندر ہے۔ مگر ہوا یہ کہ بنی اسرائیل تو بچ کر نکل گئے، اور فرعون اپنی پوری قوم سمیت تباہ ہوگیا۔ ف 2 مراد پہاڑ کی وہی جانب ہے جہاں پہلے حضرت موسیٰ اللہ تعالیٰ سے ہمکلام ہوئے تھے۔ مصر سے شام جاتے ہوئے کوہ طور داہنی جانب پڑتا ہے۔ سورۃ بقرہ رکوع 6 اور سورۃ اعراف رکوع میں گزر چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو تورۃ دینے کے لئے چلایس دن کی معیاد مقرر کی تھی۔ اس کے بعد حضرت موسیٰ طور سے تختیوں پر لکھی ہوئی توراۃ لے کر واپس ہوئے پہلی نعمت دنیوی ہے اور یہ نعمت دینی ہے۔ ف 3 تیسری بار پھر نعمت دنیوی کا ذکر فرمایا۔ من و سلویٰ کی تفسیر کے لئے دیکھیے۔ (سورہ بقرہ :57) طه
81 طه
82 ف 4 معلوم ہوا کہ بخشش کے لئے چار چیزیں شرط ہیں، ایک تو بہ یعنی شرک و کفر اور نافرمانی سے باز آجانا، دوسرے ایمان یعنی اللہ، رسول یوم آخرت اور دوسرے ایمانیات پر صدق دل سے اعتقاد رکھنا، تیسرے عمل صالح یعنی اللہ و رسول کی ہدایات کے مطابق نیک عمل کرنا اور چوتھے راست روی یعنی مرتے دم تک ایمان اور نیک اعمال پر قائم رہنا اور یہی چیز سب سے زیادہ مشکل ہے۔ (کبیر) طه
83 ف 5 یعنی جب حضرت موسیٰ قوم پر اپنے بھائی ہارون کو نگران مقرر کر کے توراۃ لینے طور پر آئے تو ہم نے کہا :” اے موسیٰ!……مفسرین کہتے ہیں کہ حضرت موسیٰ اپنی قوم کے جو ستر آدمی ساتھ لے کر جا رہے تھے ان کو پیچھے راستہ میں چھوڑ کر اپنے رب کی ملاقات کے شوق میں آگے بڑھ گئے اور ان سے پہلے طور پر پہنچ گئے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے ان سے یہ سوال کیا۔ (فتح القدیر) طه
84 طه
85 ف 6 یعنی زبوروں سے بنے ہوئے ایک بچھڑے کی پوجا کرنے پر لگا دیا۔ (دیکھیے اعراف آیت 4) یہ سامری تبیلہ علج کا ایک شخص تھا جو اصل میں کرمانی تھا اور مصر پہنچ گیا تھا وہ دل میں گائے کا پجاری تھا لیکن بظاہر حضرت موسیٰ پر ایمان کا دم بھرتا تھا مگر صحیح یہ ہے کہ سامرہ قبیلہ سے تھا جو بنی اسرائیل کے اشراف تھے۔ (شوکانی کبیر) طه
86 ف 7 اور میں اس لئے گیا تھا کہ جا کر توراۃ ل ائوں گو مجھے تیس کے بجائے چالیس دن لگ گئے۔ مگر … ف 8 وعدہ سے مراد ان کا یہ وعدہ ہے کہ جب تک آپس واپس نہ آئیں گے ہم اپنے طریقہ پر قائم رہیں گے اور ہارون کی اطاعت کرتے رہیں گے۔ طه
87 ف 9 عموماً مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ زبور بنی اسرائیل کی عورتوں نے کسی تقریب کے موقع پر قطیبیوں کی عورتوں سے مستعار لئے تھے اور بعد میں واپس نہ کئے تھے بعض کہتے ہیں کہ جب فرعون اور اس کے لشکر والے سمندر میں غرق ہوگئے اور ان کی لاشیں کناروں پر تیرتی ہوئی ائٓیں تو بنی اسرائیل نے ان کے زیور اتار لئے۔ (فتح القدیر) ف 10 تاکہ ان کے گناہ سے نجات پائیں یا سامری کے سپرد کردیئے تاکہ حضرت موسیٰ کے واپس آنے تک اس کے پاس محفوظ رہیں۔ (شوکانی) ف 1 یعنی اس نے بھی جو زیور اس کے پاس تھے ڈال دیئے۔ طه
88 ف 2 وہ درحقیقت زندہ نہیں تھا بلکہ اس میں کچھ سوراخ رکھے گئے تھے۔ جب ان سوراخوں میں ہوا داخل ہو تو آواز آتی۔ (دیکھیے اعراف آیت 48) ف 3 اور وہ اسے ڈھونڈنے کے لئے طور پر چلا گیا ہے یا موسیٰ یہ بتانا بھول گیا کہ یہی تمہارا خدا ہے یا سامری اپنا دین و ایمان بھول گیا اور اس نے بچھڑے کو اپنا خدا بنا لیا۔ (شوکانی) موقع و محل کے اعتبار سے یہ تیسرے معنی زیادہ مناسب معلوم ہوتے ہیں۔ والعلم عنداللہ (شوکانی) طه
89 ف 4 پھر یہ خدا کیونکر ہوسکتا تھا؟ طه
90 طه
91 ف 5 یعنی آ کر اس امر کا تصفیہ کرے کہ آیا ہمارا بچھڑے کی پوجا کرنا درست ہے یا غلط؟ طه
92 طه
93 ف 6 یا ” تو نے میرے طریقہ پر عمل کیوں نہ کیا“ اور وہ یہ کہ انہیں مارپیٹ کر درست کرتا اور شرک سے باز رکھتا۔ ف 7 حکم سے مراد وہ حکم ہے جو حضرت موسیٰ کوہ طور پر جاتے وقت حضرت ہارون کو دے گئے تھے جس کا بیان سورۃ اعراف میں ہے کہ اخلقنی فی قومی واضلح ولاتتبع سبیل المفسدین یعنی میری قوم میں میرا جانشین رہنا ان کی اصلاح کرتے رہنا اور فسادیوں کے راستہ کی پیروی نہ کرنا۔ (آیت 142) طه
94 ف 8 جمہور مفسرین کے قول کے مطاب قحضرت موسیٰ حضرت ہارون کے سگے بھائی تھے لیکن ہارون نے شفقت کے طور پر انہیں ” اے میری ماں کے بیٹے“ کہہ کر پکارا تاکہ انہیں رحم آئے اور ان کے دل میں نرمی پیدا ہو۔ خصوصاً جبکہ ان کی والدہ جیسا کہ کہا جاتا ہے ایک باایمان خاتون تھیں۔ (شوکانی) ف 9 بات سے مراد حضرت موسیٰ کی یہی وصیت ہے جس کا اوپر ” امری“ کے تحت ذکر ہوا، اس کا (یعنی واحد ترقب قولی) کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تو نے میری ہدایت اور واپسی کا انتظار نہ کیا۔ یہاں حضرت ہارون کا صرف اتنا جواب بیان کیا گیا ہے۔ سورۃ اعراف میں ہے کہ انہوں نے یہ بھی کہا ان القوم استصعفونی وکادوایقنلوننی“ یعنی قوم نے مجھے کمزور پا کر بے بس کردیا تھا اور قریب تھا کہ مجھجے جان سے مار ڈالتے۔ (آیت :15) طه
95 طه
96 ف 10 یعنی جبرئیل گھوڑے پر جاتے نظر آئے اور ان میں سے کسی کو دکھائی نہ دیئے۔ ف 11 یعنی ان کے گھوڑے کے پائوں تلے سے آیت کے الفاظ میں اگرچہ اس چیز کی تصریح نہیں ہے کہ ” الرسول“ سے سامری کی مراد کون تھے لیکن مفسرین سلف فرماتے ہیں کہ ان کی مراد حضرت جبرئیل سے تھی (کذا فی اروح) بعض (معتزلہ) نے اس سے مراد حضرت موسیٰ لئے ہیں یعنی سامری نے کہا ” میں نے پیغمبر کی پکھ اطاعت اختیار کی تھی مگر اب اس کو چھوڑ دیا ہے۔“ یہ معنی تفسیر بالرای کے مترادف ہے اور سلف کے خلاف ہے۔ طه
97 ف 12 یعنی یہی نہیں کہ زندگی بھر کے لئے تجھے اپنے معاشرے سے اچھوت بنا کر رکھ دیا گیا بلکہ تیری سزا یہ بھی ہے کہ تو خود لوگوں کو اپنے اچھوت ہونے سے آگاہ کرے اور جہاں سے گزرے یہ کہتا ہوا گزرے دیکھو میں اچھوت ہوں مجھے ہاتھ نہ لگانا۔“ (از شوکانی) طه
98 طه
99 طه
100 طه
101 ف 1 اس سے بھاگنا چاہیں گے مگر وہ ان پر لدار رہے گا۔ یہ وعید ہے۔ ف 2 یہ اس دہشت اور سراسیمگی کی کیفیت کا ذکر ہے جس میں یہ مشرک اور کافر قیاتم کے روز مبتلا ہوں گے۔ قیامت کے دن مختلف احوال اور مقامات ہوں گے جن کا متعدد آیات میں ذکر پایا جاتا ہے اور ان ماقمات میں کفار کی مختلف حالتیں ہوں گی۔ لہٰذا ان آیات میں تعارض نہیں ہے۔ (کذا فی الشور کافی) طه
102 طه
103 ف 3 یعنی دہشت کے مارے وہ اپنی دنیا کی زندگی اور قبر (برزخ) کی زندگی دونوں کو بہت مختصر خیال کریں گے۔ دوسری آیت میں ہے : بشنا یوماً او بعض یوم کہ ہم ایک دن بلکہ دن کا بھی ایک حصہ رہے ہوں گے۔ ( مومنون 113) اور سورۃ روم میں ہے، یقیم المجرمون مالبثوا غیر ساعت مجرم قسمیں کھا کھا کر کہیں گے کہ ہم (موت کی حالت میں) ایک گھڑی سے زیادہ نہیں رہے۔ (آیت :55) اسی مضمون کی توضیح اگلی آیت بھی کر رہی ہے بعض نے ” عسراً“ سے دس گھڑیاں بھی مراد لی ہیں۔ (شوکانی ۔ رازی) اور ان تمام اقوال سے ان کا مقصد یہ ہوگا کہ کسی طرح ہم عذاب سے بچ جائیں اور ہم پر گرفت نہ ہو۔ (ابن کثیر) طه
104 طه
105 طه
106 طه
107 طه
108 طه
109 ف 1 یا جس کے لئے (سفارش کرنے کی) رحمان اجازت دے اور اس کے لئے وہ بات سننا پسند کرے۔ نظم قرآن سے یہ دونوں معنی مفہوم ہوتے ہیں اور دونوں صحیح اور دوسری آیات سے مطابقت رکھتے ہیں۔ (سورہ مریم 87، سبا 23 زخرف 86 نجم 26) طه
110 ف 2 یعنی کسی کا علم اتنا نہیں ہے کہ اس کی ذات صفات اور معلومات کا احاطہ کرسکے۔ اس آیت کا یہ مفہوم اس صورت میں ہے جب ” ب 5“ میں 22 ہ“ کی ضمیر اللہ تعالیٰ کے لئے قرار دی جائے اور اگر وہ ” مابین ایدیھم وما خلفھم“ میں ” ما“ کے لئے قرار دی جائے تو مطل یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کو (چاہے وہ فرشتے ہوں یا خود انسان یا کوئی اور) لوگوں کے اگلے پچھلے حال کا پورا علم نہیں ہے کہ یہ جان سکیں کہ کس کے حق میں شفاعت کرنی چاہئے اور کس کے حق میں نہ کرنی چاہئے اس لئے شفاعت کو اللہ تعالیٰ کے اذن (اجازت) پر موقف رکھا گیا ہے اس میں ان لوگوں کے لئے سرزنش ہے جو فرشتوں یا انبیاء اولیا اور بزرگوں کی پرستش اس امید پر کرتے ہیں کہ قیامت کے دن ہماری سفارش کریں گے۔ (شوکانی کبیر) طه
111 طه
112 ف 3 بے انصافی یہ ہے کہ تاکہ وہ گناہوں پر سزا دی جائے اور حق تلفی یہ ہے کہ کی ہوئی نیکیوں پر پانی پھیر دیا جائے اسی کو دوسری آیت الجن 13 میں بخس اور رھق سے تعبیر فرمایا ہے اور قرآن نے متعدد آیات میں جزا و سزا میں عدل و انصاف کا اعلان کیا ہے مگر گنہگار مومنوں کو معاف کردینا اس عدل کے منافی نہیں ہے () طه
113 ف 4 یعنی انہیں عبرت و نصیحت ہو اور وہ سوچیں کہ پچھلی امتوں کا کیا انجام ہوا۔ اگر ہم بھی گناہ کرینگے تو انہی کی طرح تباہ و برباد ہوں گے۔ (ابن کثیر) طه
114 ف 5 مفسرین کہتے ہیں کہ جب حضرت جبرئیل نبی ﷺ کو قرآن کی متعدد آیات لا کر سناتے تو آپ شدت شوق سے یا اس خیال سے کہ بھول نہ جائیں حضرت جبرئیل کی قرأت مکمل ہونے سے پہلے ہی انہیں بڑھنا شروع کردیتے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو متنبہ فرمایا کہ ایسا نہ کیجیے بلکہ وحی کو مکمل ہو لینے دیجیے جیسا کہ دوسری جگہ سورۃ القیامتہ 18-16) میں فرمایا : لاتحریک بہ انک التجعل بہ ان علینا جمعہ وقرانہ فاذا قراناہ فاتبع قرانہ ” قرآن اترتے وقت اپنی زبان نہ ہلایا کیجیے، اسے جلدی سے یاد کرنے کے لئے (آپ کے دل میں) اس کا جما دینا اور اس کا پڑھا دینا ہمارا ذمہ ہے پھر جب ہم (فرشتہ کے ذریعے) آپ کو پڑھا کر سنا چکیں تب آپ پڑھا کیجیے“ اس میں قرآن کی حفاظت اور سہود و نسیان سے اس کے مامون ہونے کی طرف بھی اشارہ ہے : حضرت شاہ صاحبلکھتے ہیں : اس کو پہلے منع فرمایا تھا سورۃ قیامتہ میں اور تسلی کردی تھی کہ اس کا یاد رکھوانا اور لوگوں کو پہنچوانا ذمہ ہمارا ہے لیکن بندہ بشر ہے شاید بھول گئے ہوں پھر تفسیر کیا اور بھولنے پر مثل فرمائی آدم کی۔ (موضح) ف 6 علم سے مراد قرآن کا یا دین کا علم ہے اور یہ علم ایسی چیز ہے، جس کے زیادہ سے زیادہ مانگنے کا اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو حکم دیا ہے کسی اور کی کیا مجال کہ اپنے آپ کو اس سے بے نیاز سمجھ سکے۔ حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ یہ دعا فرمایا کرتے تھے۔ اللھم انفغفی ماعلمتن وعلمنی ماینطی وزدنی علما و الحمد اللہ علی کل حال اے اللہ ! جو علم تو نے مجھے دیا ہے اس سے مجھے فائدہ دے اور مجھے وہ علم دے جو میرے لئے فائدہ مند ہو اور میرے علم میں اضافہ کر، اور ہر حال میں اللہ کا شکر ہے۔ (ابن کثیر) حضرت ابن مسعود یہ آیت پڑھتے تو فرماتے : اللہ زدنی ایماناً و تصدیقاً (معالم) طه
115 ف 7 یعنی ارادہ کی پتخگی اور درخت کے قریب نہ جانے کا جو عہد کیا تھا اس پر جمے رہتے بلکہ شیطان کے بہکانے میں آگئے۔ (شوکانی) اس واقعہ کی تفصیل آگے آرہی ہے۔ (قرآن میں یہ چھٹی با رآدم (علیہ السلام) کا قصہ بیان ہو رہا ہے۔ اول سورۃ قرہ، دوم اعراف، سوم حجر، چہار اسرا، پنجم کہف اور ششم یہاں اور ہر جگہ ای ک خاص مقصد کے تحت مختلف انداز سے اس قصہ کو دہرایا گیا ہے۔ یہاں جمل سے اس کی مناسبت کے سلسلہ میں چند وجوہ بیان کی گی ہیں۔ اوپر آیت ” نذالک نقص علیک من انبا وما قدسبق“ سے اس کا تعلق ہے یعنی اس آیت میں اشارہ فرمایا ہے کہ ہم قصے بیان فرمائیں گے۔ چنانچہ اس کے تحت آدم کا قصہ بیان فرما دیا اور ایک مناسبت وہ ہے جو اوپر شاہ صاحب کی توضیح میں گزر چکی ہے۔ امام رازی نے فی الجملہ پانچ وجوہ ذکر کی ہیں۔ (کبیر) طه
116 طه
117 ف 8 دشمنی کا مظاہرہ تو وہ اسی وقت کرچکا تھا جب اس نے حضرت آدم کو سجدہ کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں اس سے بہتر ہوں تو نے مجھے آگ سے اور اسے مٹی سے پیدا کیا ہے۔ (الاعراف 12) ف 9 یعنی روزی کے لئے محنت مشقت کرنی پڑے اور جنت کی تمام نعمتیں اور آسائشیں چھین لی جائیں۔ آدم کی کی طرف خاص کر شقاوت کی نسبت اسی لئے ہے مرد کو عورت کا منتظم اور اس کے اخراجات کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔ اس لئے اصل آدمی ہی ہیں اور حوا ان کے تابع طه
118 طه
119 ف 10 گویا حضرت آدم اور حوا کو بتا دیا گیا کہ تمہاری تمام بنیادی ضرورتوں کا یہاں کسی محنت و مشقت کے بغیر انتظام کردیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ انسان کی بنیادی ضرورتیں یہی چارچیزیں ہیں۔ بھوک پوری کرنے کیلئے کھانا، پیاس بجھانے کے لئے پانی، ستر ڈھانپننے کے لے لباس اور سردی گرمی سے بچنے کے لئے مکان یہ آیت دراصل شقاوت کی تفسیر ہے اور اس شقاوت سے دنیوی شقاوت مراد ہے نہ کہ اخروی، (کبیر شوکانی) نوائد صفحہ ہذا طه
120 ف 1 قرآن میں شیطان کے وسوسہ انداز ہونے اور پھیلانے کی نسبت بعض آیات میں صرف آدم کی طرف کی گئی ہی اور بعض میں دونوں کی طرف معلوم ہوتا ہے کہ اصل میں تو شیطان آدم ہی کے دل میں وسوسہ انداز ہوا ہے حوا کا ذکر بالتبیع ہے۔ لہٰذا عوام میں جو یہ بات مشہور ہوگئی ہے کہ شیطان نے پہلے حوا کو پھسلایا اور پھر ان کے ذریعے آدم کو قابو میں کیا وہ قطعی غلط اور لغو ہے اور اسرائیلیات سے ماخوذ ہے۔ ف 2 اور سرہ اعراف میں ہے : مانھا کما ربکما عن ھذہ الشجرۃ الا ان تکوما ملکین اوتکونا من الخالدین کہ تمہارے رب نے تمہیں اس لئے منع کیا ہے کہ تم فرشتے یا ہمیشہ رہنے والے نہ بن جائو۔ (آیت :20) طه
121 ف 3 یعنی اپنے رب کا حکم بجا لانے میں غفلت اور کوتاہی برتی اور اپنی شان کے مطابق عزت و استقامت کی راہ پر قائم نہ رہے۔ آدم سے یہ کوتاہی ان کے نبی بننے سے پہلے ہوئی ہے مگر آدم کو جو بلند مقام حاصل تھا اس کے لحاظ سے ان کی معمولی لغزش بھی بڑی اہمیت رکھتی تھی۔ اس لئے سرزنش کی گئی، ورنہ اگر معمولی درجے کا انسان یہ کوتاہی برتتا تو اس کے لئے یہ سخت لفظ استعمال نہ کیا جاتا مشہور ہے۔ حسنات الابرارسیتات المقربین کہ ابرار کی نیکیاں مقربین کے حق میں گناہ شمار ہوتی ہیں۔ (کبیر) طه
122 ف 4 ر معلوم ہوا کہ قضائے الٰہی کو کوئی تبدیل نہیں کرسکتا جیسا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے اعتراض پر آدم نے جواب دیا تھا۔ اتلومنی علی امر کتبہ اللہ علی قبل ان اخلق (ابن کثیر) طه
123 ف 5 یعنی تمہاری اولاد میں باہم دشمنی رہے گی۔ ف 6 معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب کے مطابق زندگ گزارنا دنیا و آخرت دونوں کو بنا لینا ہے۔ طه
124 ف 7 یعنی اسے دنیا میں سکھ اور چین نصیب نہ ہوگا چاہے بظاہر کروڑ پتی بلکہ ارب پتی ہی کیوں نہ ہو۔ طه
125 طه
126 ف 8 یعنی عمل نہ کیا اور یقین نہ کیا۔ آنحضرت نے فرمایا میری امت کے سارے گناہ مجھ کو دکھائے گئے ان میں سب سے بڑا گناہ یہ دیکھا کہ قرآن کی آیت کسی شخص کو یاد ہوئی پھر اس نے بھلا دی۔ ( موضح) اشارہ ہے قوم ثمود اور قوم لوط کی تباہ شدہ بستیوں کی طرف جن سے مکہ والے ملک شام کو آتے جاتے گزرا کرتے تھے۔ طه
127 طه
128 طه
129 ف 1 میعاد معین سے مراد قیامت کا دن ہے یا دنیا ہی کی سزا کوئی دن جیسے بدر کا دن اور بات اسے مراد اللہ تعالیٰ کا یہ قانون ہے کہ ہر قوم یا گروہ کو گرفت کرنے سے پہلے مہلت دی جائے گی تاکہ ایک طرف اس پر حجت تمام ہو اور دوسری طرف اگر وہ سنبھلنا چاہے تو سنبھل جائے۔ طه
130 ف 2 یعنی آپ کے بارے میں آئے دن اول فول بکتے رہتے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں کہ آپ شاعر ہیں اور کبھی آپ کو جھوٹا کاہن جادوگر وغیرہ کلمات سے یاد کرتے ہیں۔ آپ اس کی کوئی پروا نہ کیجیے بلکہ صبر یعنی تحمل و برداشت سے کام لیجیے۔ ف 3 یعنی ظہر کی نماز کیونکہ وہ آدھا دن گزر جانے کے بعد بقیہ آدھے دن کے کنارے پر ہوتی ہے اس طرح اس آیت میں تمام نمازوں کے اوقات کی طرف اشارہ آگیا جن کی وضاحت اور تعیین حدیث و سنت سے ہی ہو سکتی ہے۔ یہ آیت قرآن کی ان متعدد آیات میں سے ہے جن میں صبر کے پہلو بہ پہلو نماز کی پابندی کا حکم دیا گیا ہے۔ کیونہ نماز ہی وہ چیز ہے جس سے انسان میں صبر کی طاقت پیدا ہوتی ہے۔ (شوکانی، ابن کثیر) ف 4 اشارہ ہے اس طرف کہ آپ کو مقام محمود حاصل ہوجیسے کہ سورۃ بنی اسرائیل میں نماز کا حکم دینے کے بعد فرمایا گیا، عسی ان یبعنک ربک مقاماً محموداً شاید (یعنی یقیناً) آپ کو آپ کا رب مقام محمود پر پہنچا دے گا (آیت 79) شاہ صاحب لکھتے ہیں : یعنی امت کو مدد ہوگی۔ دنیا میں اور بخشش گناہوں کی آخرت میں تیری سفارش سے حدیث میں ہے کہ اہل جنت کو بھی راضی کیا جائے گا اور ان کو خوشخبری دی جائے گی احل علیکم رضوانی فلا استخط علیکم بغلہ ابداً (ابن کثیر ۔ کبیر) طه
131 ف 5 یعنی دنیا میں حلال روزی اور آخرت میں اجر و ثواب طه
132 ف 6 یعنی بجائے اس کے کہ آپ کے گھر والے دنیا داروں کے عیش و آرام کی طرف دیکھیں آپ انہیں نماز پڑھنے کی تلقین کریں کیونکہ یہ چیز ان کی لو اپنے رب سے لگا دیگی اور ان میں حرام روزی کے مقابلے میں حلال روزی پر چاہے وہ مقدار میں کتنی ہی قلیل ہو صبر و قناعت کا جذبہ پیدا کریگی اور اصل تو نگری صبر و قناعت سے ہے نہ کہ مال و دولت سے حضرت ثابت سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کے گھر والوں کو اگر کبھی واقعہ کی نوبت پہنچتی تو آپ میں نماز کی تلقین فرماتے اور یہی تمام پیغمبروں کا دستور تھا۔ (بیہقی سند احمد) ف 7 یعنی چاہے دنیا میں ان کے دن تکلف ہے گزریں مگر آخرت میں ہمیشہ رہنے والا عیش و آرام ان ہی کا حصہ ہے متعدد احادیث میں مذکور ہے کہ اگر انسان اللہ کی عبادت اور آخرت کی فکر میں لگ جائے تو اللہ تعالیٰ اس کے تمام فکر اور محتاجی دور کردیتا ہے اور اگر دنیا کی فکروں میں الجھ جائے تو اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی پروا نہیں ہے کہ کس وادی میں مرتا ہے اس سے معلوم ہوا کہ ہر قسم کی خیر کا حصول تقویٰ پر ہی موقوف ہے۔ (ابن کثیر شوکانی) طه
133 ف 8 جس سے اس کا سچا ہونا ہمیں واضح طور پر معلوم ہوجاتا ہے۔ ف 9 یعنی اس سے زیادہ آپ کی سچائی پر اور کیا دلیل ہو سکتی ہے کہ پہلی تمام آسمانی کتابیں آپ کی آمد کی خبر دے رہی ہے یقینا یہ خبر اہل کتاب کو معلوم ہے اور ان کے واسطہ کفار مکہ تک پہنچ چکی ہے۔ طه
134 طه
135 ف 10 کہ کس کا انجام کیا ہوتا ہے؟ طه
0 ف 1 یہ سورۃ مکہ معظمہ میں نازل ہوئی۔ صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے فرمایا :” بنی اسرائیل، کہف اور الانبیاء ابتدائی دور (مکہ) میں نازل ہونے والی سورتوں میں سے ہیں۔ (قرطبی ۔ روح) اس سورۃ میں چونکہ مسلسل بہت سے انبیاء کے واقعات بیان ہوئے ہیں۔ (شاید) اسی لئے اس کا نام ” انبیاء“ رکھا گیا ہے۔ (کذافی الوحیدی) اور اس میں موعظت کا پہلو بہت نمایاں ہے۔ عامر بن ربیعہ کا بیان ہے کہ اس سورت نے ہمیں دنیا و مافیہا کو بھلا دیا ہے۔ (وحیدی) الأنبياء
1 ف 2 اس میں کفار کے لئے بہت بڑی تنبیہ ہے اس لئے کہ ہر وہ چیز جو یقینا آنیوالی ہو اسے قریب ہی سمجھنا چاہئے یا اس لئے کہ جو زمانہ گزر گیا ہے اس کے مقابل ہمیں جو باقی ہے نہایت ہی قلیل ہے اور پھر آنحضرت کی بعثت اور آپ پر ختم نبوت بھی قرب قیامت کی نشانیوں میں سے ہے۔ حدیث میں ہے آنحضرت نے فرمایا : بعثت انا والساعۃ کھاتین یعنی ایک مرتبہ آپ نے اپنی دو انگلیاں (انگشت شہادت اور وسطیٰ) اٹھا کر فرمایا۔” میں ایسے وقت میں مبعوث کیا گیا ہوں کہ میں اور قیامت ان دو انگلیوں کی طرح ہیں۔ (شوکانی) ف 3 عظمت یہ کہ اس دن کی جواب دہی کے لے تیاری نہیں کرتے اور اعراض یہ کہ قرآن کی کسی نصیحت اور تنبیہ پر کان نہیں دھرتے یا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں مشغول ہو کر آخرت سے اعراض برت رہے ہیں۔ (کبیر) الأنبياء
2 ف 4 ” ذکر“ سے مراد قرآن ہو تو اس کا محدث (نیا) ہونا نزول کے اعتبار سے ہے کیونکہ قرآن حسب مواقع سورت سورت اور آیت آیت کی شکل میں نازل ہوا ہے۔ ورنہ قرآن اللہ کا کلام غیر مخلوق اور قدیم ہے اور بعض علما نے ” ذکر“ سے خود ” رسول“ مراد لیا ہے اور آنحضرت کو قرآن میں ذکر فرمایا گیا ہے۔ دیکھیے سورۃ قلم آیت 52 اطلاق آیت 10 (قرطبی) ف 5 یعنی توجہ اور دھیان سے سننے کی بجائے الٹا اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔ ف 6 جیسا کہ ایک مادہ پرست دنیا کو کھیل تماشا سمجھتا ہے اور آخرت پر ایمان نہیں رکھتا۔ آج کل کے علوم و فنون سائنس آرٹ وغیرہ میں کوئی چیز بھی ایسی نہیں ہے جو آخرت کی یاد دلانے والی ہو بلکہ یہ سب روشن خیالیاں روز بروز آخرت اور فکر آخرت سے دور لے جا رہی ہیں۔ الأنبياء
3 ف 7 یعنی یہ کوئی فرشتہ نہیں ہے بلکہ تمہاری طرح کا ایک انسان ہے۔ اب جو یہ خارق عادت کارنامے دکھاتا ہے اور اس کلام کو سن کر لوگ گرویدہ ہو رہے ہیں تو یہ سب جادو ہے۔ کفار نے آنحضرت کی نبوت پر دو طرح سے طعن کیا۔ ایک یہ کہ آپ بشر ہیں اور شر نبی نہیں ہوسکتا اور قرآن اللہ کا کلام نہیں بلکہ جادو ہے۔ الأنبياء
4 الأنبياء
5 ف 8 اگر یہ سچا ہے تو جیسے حضرت صالح موسیٰ اور عیسیٰ معجزے لے کر آئے تھے اس قسم کے معجزے یہ بھی ملا کر دکھائے۔ ان کے یہ الزامات اور فرمائشیں ضد اور ہٹ دھرمی کی بنا پر تھیں ورنہ قرآن کی صداقت کے مقابلے میں یہ معجزے کچھ حیثیت نہیں رکھتے، اور یہی کیفیت ہر اس شخص کی ہوتی ہے جو حق سے مغلوب ہوجاتا ہے مگر اسے ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔ (قرطبی ۔ شوکانی) الأنبياء
6 ف 9 یعنی جن قوموں کی ہلاکت اللہ کے علم میں مقدر ہوچکی تھی وہ معجزے دیکھ کر بھی ایمان نہ لائیں۔ یہی حال ان کا ہے مگر اللہ کے علم میں ان کی ہلاکت مقدر نہیں ہے کیونکہ ان کی نسل سے بہت سے مسلمان پیدا ہونے والے ہیں۔ اس لئے ان کی فرمائش کے مطابق نشانی ظاہر نہیں ہوتی ورنہ کسی بڑ ی سے بڑی نشانی کا اظہار ہمارے لئے کچھ مشکل نہیں ہے۔ (قرطبی) ف 10 کیونکہ وہ خوب جانتے ہیں کہ جتنے پیغمبر ہو گزرے ہیں سب شر ہی تھے اور یہ بات تو اثر سے ثابت ہے۔ اکثر مفسرین نے آیت کی یہی تفسیر بیان کی ہے کہ یہاں ” اہل ذکر“ سے مراد اہل کتاب ہیں اور یہ ان کے اعتراض ” ھل ھذا الابشر مثلکم“ کا جواب ہے (قرطبی) اس آیت سے بعض نے جواز تقلید پر استدلال کیا ہے جو غلط ہونے کے علاوہ مضحکہ خیز بھی ہے۔ نیز دیکھیے سورۃ نحل :43 (شوکانی) الأنبياء
7 ف 11 یعنی تمام پیغمبر طبعی تقاضوں میں دوسرے انسانوں ک طرح ہی تھے ان کے جسم ایسے نہیں تھے کہ ان کو کھانے پینے کی ضرورت نہ ہو اور پھر وہ عام آدمیوں کی طرح ایک عمر پا کر گزر گئے۔ اس میں ان لوگوں کی صاف تردید ہے جو انبیا کی موت کی نفی کرتے ہیں۔ (شوکانی) ف 12 یعنی تائید و نصرت کا وعدہ الأنبياء
8 الأنبياء
9 ف 1 یعنی یہ قرآن جادو یا شعر نہیں ہے بلکہ یہ وہ کتاب ہے جس سے تمہاری ناموری ساری دنیا میں ہوگی یا جس تمہارے لئے نصیحت ہے اور مکارم اخلاق اور دینی احکام کا بیان ہے۔ مفسرین نے لفظ ” ذکر“ کے یہ سبھی معنی بیان کئے (شوکانی) الأنبياء
10 الأنبياء
11 الأنبياء
12 ف 2 ” رکض“ کے لفظی معنی جانور کو ایڑلگا کر بھگانے کے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ جب ہمارا عذاب ان کے سروں پر پہنچ گیا تو انہوں نے عذاب سے بچنے کے لئے بھاگنے کی کوشش کی۔ الأنبياء
13 ف 3 یعنی شاید کوئی تم سے از راہ ہمدردی پوچھے کہ کیا گزری؟ اور تم اپنے چشم دید حالت بتا سکو یا شاید تمہارے نوکر چاکر تمہارے سامنے ہاتھ باندھ کر دریا قنط کریں کہ حضور فرمایئے کیا حکم ہے ؟ اور تم پہلے کی طرح اپنے ڈیرے اور مجلسیں جمائو اور لوگ مہمات میں تمہارے مشوروں سے مستفید ہونے کے لئے حاضر ہوں۔ بہرحال یہ ان سے تہکم اور توبیخ کے طور پر کہا جا رہا ہے (کبیر) الأنبياء
14 الأنبياء
15 ف 4 جب اللہ کا عذاب آ گھیرتا ہے تو بدکار سے بدکار قومیں بھی گناہوں کا اعتراف کرتے ہوئے اسی طرح واویلا مچاتی ہیں۔ مگر اس وقت اعتراف گناہ اور توبہ تلابے فائدہ ہے۔ (سورہ غافر :85) ف 5 بعض نے ان بستیوں سے میں کے شہر مراد لئے ہیں۔ جن پر سخت نصر کو مسلط کیا گیا تھا اور اس نے ان کو تلوار کے گھاٹ اتار کر لاشوں کے ڈھیر لگا دیئے۔ (کذافی القرطبی) شاہ صاحب نے بھی اپنی توضیح میں اسی کو اتخیار کیا ہے۔ الأنبياء
16 ف 6 کہ لوگ جیسے چاہیں ظلم و ستم کرتے پھریں اور ان سے باز پرس نہ ہو بلکہ ان کے پیدا کرنے سے اللہ تعالیٰ کی گونا گوں مصلحتیں اور حکمتیں وابستہ ہیں اور دنیا میں قانون مکافات جاری ہے۔ لہٰذا ان ظالموں کو اگر ہلاک کیا گیا تو عین عدل و مجازات کے مطابق تھا۔ تمہیں چاہئے کہ دوسری آنے والی زندگی میں جوابدہی کے لئے تیاری کرو۔ الأنبياء
17 ف 7 اور یہ جنت و دوزخ حساب و کتاب کا سلسلہ نہ بناتے۔ (جامع البیان) عام مفسرین نے یہاں لھو سے بیوی یا اولاد مراد لی ہے اور لکھا ہے کہ اس میں نصاریٰ کا رد ہے جو یہ غلط عقیدہ، رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کی کنواریوں میں حضرت مریم کو پسند کیا اور پھر ان کے بطن سے اپنے اکلوتے بیٹے حضرت مسیح کو پیدا کیا۔ مطلب یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کو اولاد بنانا ہی منظور ہوتا تو اپنی مخلوق میں سے جسے چاہتے مثلاً فرشتے وغیرہ کو منتخب کرلیتے مگر اللہ کی شان ان چیزوں سے بلند اور پاک ہے۔ (نیز دیکھیے سورۃ زمر :4) الأنبياء
18 ف 8 یعنی تکوین عالم بے مقصد نہیں ہے بلکہ اس میں حق باطل کا معرکہ جاری ہے اور اس کا نظام ہم نے اس طور پر بنایا ہے کہ باطل نے جب بھی سر اٹھایا حق نے ضرب کاری لگا کر اسے نیت و نابود کردیا۔ اسی طرح اب بالاخر باطل فنا ہوجائے گا اور حق کو دوام و ثبات نصیب ہوگا۔ ف 9 ینی اگر تم حق کو چھوڑ کر باطل کا ساتھ دو گے اور ہماری کسی مخلوق کو ہمارا شریک یا بیوی یا بیٹا قرار دو گے تو نتیجہ تمہاری تباہی کی صورت میں ظاہر ہوگا، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ الأنبياء
19 ف 10 یعنی اس کی عبادت میں لگے رہنے کو اپنی شان سے فروتر نہیں سمجھتے۔ پھر بھلا انسان کی کیا بساط ہے کہ اپنے آپ کو اس کی عبادت سے بالاتر سمجھ سکے۔ (کبیر) الأنبياء
20 ف 11 کعب احبار ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں کہ فرشتوں کے لئے تسبیح ایسی ہی ہے جیسے ہمارے لئے سانس یعنی جس طرح ہر حال میں انسان سانس لیتا ہے اسی طرح فرشتے بھی ہر حال میں اللہ کی تسبیح و تہلیل کرتے ہی۔ یہی قول زجاج سے منقول ہے۔ (شوکانی، کبیر) الأنبياء
21 ف 12 یا کسی بے جان چیز میں) زندگی کی روح پھونک سکتے ہیں اگر ایسا نہیں تو پھر تم ان بتوں کو خدا کیوں مان رہے ہو۔ واضح رہے کہ ابتدا سورۃ سے یہاں تک تو نبوت کا ثبوت اور اس سلسلہ میں مخالفین کے شبہات کارد تھا۔ اب یہاں سے توحید کا بیان اور شرک کی تردید شروع ہو رہی ہے۔ (کبیر) الأنبياء
22 ف 13 کیونکہ ہر خدا اپنی جگہ قادر خودم ختار ہوتا تو ان میں ہمیشہ کشمکش کا بازار گرم رہتا ہے جیسے فرمایا : ولعلابعضم علی بعض (مومنون :91) اور کوئی چیز اپنی مترب شکل میں بن سکتی نہ چل سکتی۔ توحید پر یہ دلیل سادہ بھی ہے اور ناقابل تردید بھی متکلمین نے اس کا نام برہان تمانع رکھا ہے مگر اس کی سادہ تشریح بھی ہو سکتی ہے۔ (کبیر) الأنبياء
23 الأنبياء
24 ف 1 یعنی اپنے اس دعویٰ کی دلیل پیش کرو کہ تمہارے یہ معبود خدا کے شریک ہیں۔ ف 2 مراد ہیں توراۃ و انجیل اور صحیفے جو پہلے انبیاء پر نازل کئے گئے۔ الأنبياء
25 ف 3 یعنی توحید ہی وہ حقیقت ہے جس کی طرف گزشتہ تمام انبیاء دعوت دیتے رہے ہیں۔ پس توحید کا ثبوت اور شرک کا رد جس طرح عقلی دلائل سے ہوتا ہے اسی طرح نقلی طور پر بھی ہوتا ہے۔ تمام ادیان میں یہ حقیقت مسلمہ ہے اور تمام انبیاء کا یہ اجماعی عقیدہ ہے۔ الأنبياء
26 ف 4 شرک کی تردید کے بعد اب ان لوگوں کے باطل عقیدہ کا رد کیا جا رہا ہے جو اللہ تعالیٰ کے صاحب اولاد ہونے کے قائل تھے۔ اس خیال میں یہود و نصاریٰ کے علاوہ بعض قبائل عرب بھی گرفتار تھے جو فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے۔ (دیکھیے سورۃ صافات :58 از کبیر) الأنبياء
27 ف 5 یعنی ان کی اطاعت اور انقیاد کا حال یہ ہے کہ ہر قول و عمل میں اللہ تعالیٰ کے مطیع و فرمانبردار ہیں۔ نہ اس کی اجازت کے بغیر لب کشائی کرت یہیں اور نہ اس کی مرضی کے خلاف کوئی قدم ہی اٹھاتے ہیں۔ الأنبياء
28 ف 6 یعنی جو کام وہ پہلے کرچکے ہیں، یا جو آئندہ کرینگے وہ ان سب کو جانتا ہے کہ کذا قال ابن عباس (قرطبی) اس میں ان کے مطیع و مقاد ہونے کی علت کی طرف اشارہ ہے یعنی چونکہ وہ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا علم ان کے ظاہر و باطن کو محیوط ہے اس لئے اس کے کسی حکم کی خلاف ورزی نہیں کرتے۔ (کبیر) ف 7 یعنی جن کے لئے سفارش کرنے کی اللہ تعالیٰ اجازت دے، مردا اہل توحید ہیں۔ یہاں سفاشر کرنیوالوں سے فرشتے بھی مراد ہو سکتے ہیں۔ جیسا کہ نظم قرآن کے سیاق و سبقا سے معلوم ہوتا ہے اور صحیح علم میں اس کی تائید میں ایک حدیث بھی ہے اور انبیاء بھی جیسا کہ حضرت جابر سے روایت ہے کہ آنحضرت نے یہ آیت تلاوت کی اور پھر فرمایا : ان شفاعتی لاصل الکبایرمن امتی کہ میں اپنی امت کے گہنگاروں کی سفاشر کروں گا۔ (شوکانی) الأنبياء
29 ف 8 یعنی بفرض محال اگر ان فرشتوں میں سے کوئی یہ کہے کہ خدا کو چھوڑ کر میری بندگی کرو تو … الأنبياء
30 ف 9 یعنی دونوں ایک چیز اور ایک ہی طبقہ تھے یا دونوں کے منہ بند تھے۔ چنانچہ نہ آسمان سے بارش ہوتی تھی اور نہ زمین میں سے کوئی چیز اگتی تھی (کبیر) ف 10 یعنی زمین کو اپنی جگہ رہنے دیا اور آسمان کو اوپر اٹھا دیا اور درمیان میں ہوا کا نظام قائم کردیا یا دونوں کے منہ کھول دیئے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آسمان سے بارش ہونے لگی اور زمین میں پیداوار (کبیر) ف 11 یعنی جن چیزوں میں جان سے جیسے حیوانات اور نباتات ان سب کی نشات پانی سے ہے لیکن فرشتے اور جن یا دوسری کوئی چیز جس کے متعلق ثابت ہوجائے کہ اس کے مادہ میں پانی کو دخل نہیں ہے وہ اس سے مستثنیٰ قرار پائیں گی۔ (کبیر) یا سب جاندار چیزوں کی زندگی کا انحصار پانی پر ہے اور پانی وہ چیز ہے جس کے آسمان سے اترنے اور زمین میں موجود رہنے کے اسباب ہم نے پیدا کئے بعض مفسرین نے پانی سے مراد نطفہ لیا ہے یعنی ہر جاندار (حیوان) کو ہم نے نطفہ سے پیدا کیا جیسا کہ دوسری آیت میں فرمایا : واللہ خلق کل دآبۃ من مآء اور اللہ نے ہر جاندار کو پانی سے پیدا کیا۔ (نور 45) ف 12 یعنی زمین آسمان میں یہ حیرت انگیز نظام قائم کرنے والے ہم ہیں کوئی اور نہیں کیا اس پر بھی یہ لوگ توحید کا راستہ اختایر نہیں کرتے بلکہ دوسروں کو ہمارا شریک سمجھ رہے ہیں۔ امام رازی فرماتے ہیں کہ اس آیت سے یستبحون تک صانع کے وجود اور اس کی وحدانیت پر چھ قسم کے دلائل مذکور ہیں۔ (کبیر) الأنبياء
31 ف 13 یہ تیسری دلیل ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر پہاڑ نہ ہوتے اور زمین ہلکی ہوتی تو زمین میں وہ انضباط نہ پایا جاتا جواب موجود ہے اور جو سطح زمین پر زندہ رہنے کے لئے ضروری ہے۔ (نیز دیکھیے سورۃ نحل :15) ف 14 یا ہم نے زمین میں چوڑے چوڑے راستے رکھے۔ واختارہ الطبری (قرطبی) ف 1 یعنی ایک ملک کے لوگ دوسرے ملک والوں سے مل سکیں۔ اگر پہاڑ اس طرح واقع ہوتے کہ راہیں بند ہوجاتیں تو یہ بات کہاں سے پیدا ہوتی 1 (موضح) الأنبياء
32 ف 2 امام رازی لکھتے ہیں کہ پہلی تشریح زیادہ بہتر ہے کیونکہ اس سے اللہ تعالیٰ کی نعمت کی عظمت کا اظہار ہوتا ہے گو دوسری تشریح بھی غلط نہیں ہے۔ دیکھیے (سورج حج 65، فاطر 41، حجرات :17) ف 3 جیسے چاند سورج اور تارے وغیرہ الأنبياء
33 الأنبياء
34 ف 4 اوپر کی آیات میں توحید اور صانع کیو جود پر ” دلائل ستہ“ بیان فرمائے جو تمام دنیوی نعمتوں کی اصل ہیں۔ اب یہاں سے بیان فرمایا کہ یہ نظام ہمیشہ قائم رہنے کے لئے نہیں، بلکہ ابتلاء و امتحان کے لئے بنایا گیا ہے۔ (کبیر) الأنبياء
35 ف 5 ضمناً ان لوگوں کی تردید بھی ہے جو یہ کہہ کر خوشی کا اظہار کرتے تھے۔ محمد (ﷺ) عنقریب مر جائیں گے تو ہمیں چھٹکارا حاصل ہوجائے گا۔ (طور 20) یا بعض اس خیال میں تھے کہ یہ پیغمبر ہمیشہ زندہ رہے گا تو اس پر متنبہ فرمایا کہ موت سے کوئی بشر محفوظ نہیں رہ رہ سکتا۔ (کبیر) الأنبياء
36 ف 6 یعنی خود ان کی حالت قابل استہزا ہے۔ یہاں ” ذکر الرحمٰن“ سے مراد قرآن بھی ہوسکتا ہے۔ (قرطبی) الأنبياء
37 ف 7 یعنی جلد بازی اس کی سرشت بن چکی ہے۔ (اسراء 11) ف 8 قدرت کی نشانیوں سے مراد جیسا کہ آئندہ مضمون سے معلوم ہوتا ہے۔ انتقامی کارروئیاں میں یعنی تم عذاب کے جلدی آنے کا مطالبہ کیوں کرتے ہو؟ اب تک جو ہم نے تمہیں ڈھیل دی ہے اس سے تم نے یہ کیسے سمجھ لیا کہ ہمیں تمہاری کارستانیاں اور شرارتیں گوارا ہیں۔ ذرا ٹھہرو ! ابھی تمہیں معلوم ہو ائے گا کہ ہم تم سے کیسے انتقام لیتے ہیں۔ دنیا میں بھی قتل ہو گے اور ذلت و رسوائی برداشت کرنی پڑے گی اور آخرت میں بھی تمہیں جہنم کی آگ کا ایندھن بنایا جائے۔ (کبیر) الأنبياء
38 الأنبياء
39 الأنبياء
40 ف 9 آیت میں ” تاتیھم وہ آئیگی) کی ضمیر“ ھی“ (وہ) ” النار“ یعنی آگ کے لئے بھی ہو سکتی ہے۔ اور ” الساعۃ“ (قیامت) کے لئے بھی اور ” الوعد“ (دنیا میں عذاب کے وعدہ) کے لئے بھی یعنی ان میں سے کوئی چیز بھی آئے گی وہ بتا کر نہیں آئے گی، بلکہ یکایک آئے گی۔ پھر نہ اس سے بچ نکلنے کی راہ پائو گے اور نہ تمہیں کوئی مہلت دی جائے گی کہ توبہ کرسکو۔ (شوکانی) الأنبياء
41 ف 1۔ مراد ہے خدا کا عذابط جس کا وہ مذاق اڑایا کرتے تھے۔ اس آیت سے مقصود آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینا ہے۔ (شوکانی) الأنبياء
42 ف 2۔ اور تخویف عذاب اخروی سے تھی۔ اب یہاں تخویف عذاب دنیوی سے ہے۔ مطلب یہ ہے کہ تم برآن اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہو۔ (کبیر) ف 3۔ یعنی رات اور دن کے اوقات میں خدا ہی ان کی حفاظت کرتا ہے مگر یہ ہیں کہ اس کی یاد یا اس کی نصیحت سے بھاگتے ہیں۔ (شوکانی) الأنبياء
43 ف 4۔ یعنی جن کو انہوں نے اپندا خدا بنا رکھا ہے اور جن سے وہ اپنی مرادیں مانگتے ہیں وہ تو خود اس قدر درماندہ اور عاجز ہیں کہ خود اپنی حفاظت نہیں کرسکتے اور نہ ہماری جانب سے ان کی حفاظت کی جاتی ہے۔ تو بھلا وہ ان کی مدد کیا کرسکتے ہیں۔ (کذا فی الشوکانی) الأنبياء
44 ف 5۔ یعنی ہم نے جوان پر مہربانی کی اس پر احسان مند ہونے کی بجائے اس غلط فہمی میں پڑگئے کہ یہ ان کے ذاتی کمالات کا کرشمہ ہے اور پھر ہوتے ہوتے اپنی خوشحالی میں اس قدر مست ہوگئے کہ سرے سے بھول ہی گئے کہ اوپر کوئی خدا بھی ہے۔ وہ جب چاہے ان سے سب کچھ چھین سکتا ہے اور ان کو فاقہ کشی میں مبتلا کرسکتا ہے۔ (شوکانی، کبیر) ف 6۔ یعنی یہ جلدی عذاب مانگنے والے ہمارے قدرت کے آثار پر غور نہیں کرتے اور اس سے عبرت حاصل نہیں کرتے کہ ہر طرف اسلام کو فتح نصیب ہورہی ہے اور کفر کا دائرہ اختیار سکڑتا جارہا ہے۔ مزید دیکھئے سورۃ رعدآیت :14 (کبیر) الأنبياء
45 ف 7۔ یعنی میرا کام تو خدا کے حکم کے مطابق نہیں ہیں کہ عذاب سے متنبہ کرنا ہے۔ اگر تم میری بات نہیں سنو گے تو اس کا وبال تم پر ہوگا۔ الأنبياء
46 ف 8۔ یعنی آج تو یہ بہرے ہورہے ہیں مگر عنقریب ان کی یہ حالت بدل جائے گی اور عذاب کا تو ذکر ہی کیا اگر اس کی ذرا سی ہوا بھی انہیں لگ جائے تو ساری شیخی رفو چکر ہوجائے اور واویلا کرنے لگیں مگر اس وقت چیخ پکار کچھ فائدہ نہ دے گی۔ الأنبياء
47 ف 9۔ یعنی تمام انسانوں کے اعمال ٹھیک ٹھیک تول کر ان کا بدلہ دیں گے۔ قیامت کے دن اعمال تولنے کے لئے ترازو اگرچہ ایک ہی ہوگی مگر چونکہ اعمال بہت سے ہوں گے ان کی مناسبت سے ” موازین“ بہت سی ترازوئیں جمع کا لفظ استعمال کیا گیا۔ اکثر مفسرین کا یہی خیال ہے اور اعمال کے تولنے سے مراد صحائف اعمال کا تولنا ہی یا خود اعمال ہی تولے جائیں گے۔ وزن اعمال متعدد احادیث سے ثابت ہے لہٰذا اس سے انکار بے معنی ہے (کبیر) ف 10۔ یعنی نیکیوں میں کچھ کمی آئے گی نہ برائیوں میں کوئی زیادتی ہوگی۔ مطلب یہ ہے کہ دنیا میں تو انسان گناہ کرکے اپنے آپ پر غلطم کرتا ہے مگر آخرت میں جزائے اعمال کے وقت اس پر کوئی ظلم نہیں ہوگا۔ (کبیر) حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا۔ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میرے پاس کچھ غلام ہیں جو خیانت کرتے ہیں اور جھوٹ بولتے ہیں اور میں انہیں گالیاں دیتا اور مارتا پیٹتا ہوں میرا (قیامت کے روز) کیا حال ہوگا؟ فرمایا : ” اگر تمہاری سزا ان کے قصور سے کم ہے تو تمہیں اجر ملے گا اور اگر اس سے زیادہ ہے تو زیادتی کا بدلہ تم سے لیا جائے گا اور اگر برابر ہے تو نہ اجر ملے گا نہ عذاب“ یہ سن کر وہ شخص رونے لگا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” تم نے قرآن کی آیت نہیں پڑھی : ” ونضع الموازین … شیئا“ وہ کہنے لگا“ اب میرے اور ان غلاموں کے لئے یہی بہتر ہے کہ وہ مجھ سے جدا ہوجائیں۔ سو میں انہیں آزاد کرتا ہوں۔ (قرطبی بحوالہ ترمذی) ف 11۔ یہ تحذیر ہے کہ ہمارا علم و قدرت ہر چیز پر محیط ہے اور ہم عاجز نہیں ہیں۔ (کبیر) الأنبياء
48 ف 12۔ اوپر بیان ہوا ہے کہ پچھلے تمام انبیا بشر ہی تھے۔ (آیت 7) اور اللہ تعالیٰ نے اپنی تائید و نصرت کا جو وعدہ فرمایا اسے پورا کیا۔ (آیت 9) اور پچھلے انبیاء کا مشن بھی یہی توحید کی طرف دعوت تھا۔ (آیت 52) اب یہاں سے اسی احمال کی تفصیل کے پیش نظر بہت سے انبیاء کے واقعات بیان کئے جارہے ہیں۔ (کبیر، شوکانی) ف 13۔ جیسے دوسری آیت میں فرمایا : ” فیہ ھدی ونور“ (مائدہ : 64) جہالت اور گمراہی کی تاریکی کو دور کرنے کے اعتبار سے اسے ضیا (روشنی) فرمایا ہے اور ” الفرقان“ سے بعض نے معجزات اور بعض نے دشمنوں پر غلبہ بھی مراد لیا ہے۔ (قرطبی) الأنبياء
49 ف 14۔ اسی لئے وہ معصیت سے اجتناب کرتے ہیں کیونکہ اس روز تمام اعمال کا محاسبہ ہوگا اور ہر اچھے برے عمل کا بدلہ دیا جائے گا۔ الأنبياء
50 الأنبياء
51 ف 1۔ یعنی حضرت موسیٰ اور ارون علیہما السلام کو کتاب دینے سے پہلے یاسن بلوغ کو پہنچنے سے پہلے (جامع البیان) یہاں ” رشد“ سے خاص قسم کا رشد مراد ہے جو حجرت ابراہیم ( علیہ السلام) کے شایان شان تھا۔ اس سے بعض نے نبوت بھی مراد لی ہے مگر اپنے عموم کے اعتبار سے یہ لفظ ہر قسم کے رش و ہدایت کو شامل ہے۔ (کبیر) الأنبياء
52 ف 2۔ یعنی جن کی پوجا پاٹ میں تم لگے رہتے ہو یہ کس کام کی ہیں اور کیا ہیں؟ الأنبياء
53 ف 3۔ یعنی جب حضرت ابراہم ( علیہ السلام) کے سوال کا کوئی جواب نہ دے سکے تو پچھلے بزرگوں کی تقلید کا سہارا لیا۔ یہی حال ” ملت اسلامیہ“ میں مقلد حضرات کا ہے۔ اگر کتاب و سنت کا کوئی عالم نہیں۔ انہیں قیاس اور رائے پر عمل کرنے سے روکتا ہے تو وہ یہی عذر پیش کرتے ہیں کہ ہمارے امام صاحب یہی فرماگئے ہیں اور انہی کی رائے پر چلتے ہوئے ہم نے اپنے بزرگوں کو پایا ہے۔ (شوکانی) الأنبياء
54 ف 4۔ کیونکہ بت پرستی سے بڑھ کر کھلی گمراہی اور کیا ہوسکتی ہے۔ اسی طرح کتاب و سنت کو چھوڑ کر کوئی دوسری راہ اختیار کرنا بھی صریح صلالت ہے۔ (شوکانی) الأنبياء
55 الأنبياء
56 الأنبياء
57 ف 5۔ یعنی جب تم اپنے بتوں کی پوجا کرکے بتخانہ سے پہلے جائو گے تو میں تمہارے ان معبودوں کی خبر لوں گا۔ یعنی دلائل سے تو تم راہ راست پر نہیں آتے اب یہ عمل اقدام کروں گا۔ غالباً حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) نے یہ کلمات زیر لب کے ہوں گے صرف آس پاس کے ایک دو آدمیوں نے سنا ہوگا۔ شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں : ” یہ علاج کرنا انہوں نے چپکے سے کہا۔ (موضح) الأنبياء
58 ف 6۔ یعنی جب وہ بتوں کی پوجا پاٹ کرکے واپس ہوگئے۔ ف 7۔ یہ بات دریافت کرنے کے لئے کہ ان بتوں کو کس نے توڑا؟ یہاں لوگوں پر طنز اور ستہزا ہے اور اگر ” الیہ“ کی ضمیر حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کے لئے قرار دی جائے تو مقصد یہ ہوگا کہ انہیں ان لوگوں سے صاف صاف بات کرنے کا موقع ملے یا یہ مطلب ہے کہ شاید وہ گمراہی کو چھوڑ کر میری راہ (یعنی توحید) اختیار کرلیں۔ (رازی) الأنبياء
59 الأنبياء
60 الأنبياء
61 ف 8۔ یاان کو جو سزا دی جائے اسے آنکھوں سے دیکھ لیں۔ لفظ ” یشھدون“ کے دونوں معنی ہوسکتے ہیں۔ (کبیرا) الأنبياء
62 الأنبياء
63 الأنبياء
64 ف 9۔ ظاہر ہے کہ حجرت ابراہیم نے یہ بات تعریض اور کنایہ کے طور پر فرمائی اور تنز کیا کہ تم تو ان بتوں کو نفع و نقصان کے مالک سمجھتے ہو تو اگر یہ بولتے ہیں تو خود انہی سے دریافت کرلو کہ انہیں توڑنے کا کام کس نے کیا ہے؟ مگر اس آیت میں حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کا یہ فرمانا کہ ” یہ کام ان کے بڑے بت نے کیا ہے“ اپنی ظاہری صورت کے اعتبار سے چونکہ جھوٹ ہے اس بنا پر نبی ﷺ نے اسے جھوٹ ہی کے لفظ سے تعبیر فرمایا ہے جیسا کہ بخاری و مسلم میں حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے : ” ان ابراھیم لم یکذب غیر ثلاث“ کہ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) نے صرف تین موقعوں پر جھوٹ بولا ہے ایک ان کا کہنا کہ ” میں بیمار ہوں“ دوسرے اپنی بیوی سارہ کو اپنی بہن بتلانا، تیسرے ان کا کہنا کہ ” فعلہ کبیر ھم ھذا“ مگر اس حدیث میں بھی تعریض و کنایہ کو کذب سے تعبیر کرلیا گیا ہے اور عربی زبان میں اس قسم کا اطلاق جائزہ ہے۔ لہٰذا اس صحیح حدیث سے انکار کی ضرورت نہیں ہے۔ امام رازی (رح) نے اس آیت کے اور بھی تفسیری محل بیان کئے ہیں۔ واللہ اعلم ف 1۔ یعنی سمجھے کہ پتھر پوجنا کیا حاصل۔ (موضح) یا یہ کہ اپنے بتوں کی حفاظت نہ کرکے تم نے ظلم کیا ہے۔ (ابن کثیر) الأنبياء
65 ف 2۔ یعنی پہلے تو صحیح بات کی مگر پھر ان کی عقل لوندھی ہوگئی اور مجادلہ اور ہٹ دھرمی پر کمر باندھ لی۔ (کبیر) الأنبياء
66 الأنبياء
67 الأنبياء
68 الأنبياء
69 ف 3۔ یعنی جب سب کی رائے یہی ٹھہری کہ آگ کا آلائو تیار کرکے ابراہیم ( علیہ السلام) کو اس میں پھینک دیا جائے اور پھر واقعی انہوں نے اپنے اس ماراوہ کو عملی جامہ پہنانے کیلئے ابراہیم کو آگ میں پھینک دیا تو ہم نے آگ کو حکم دیا… ف 4۔ آگ کو صرف ٹھنڈی ہوجانے ہی کا حکم نہیں دیا کہ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کو تکلیف نہ ہو بلکہ ٹھنڈی ہوجانے کے ساتھ راحت رساں ہوجانے کا بھی حکم دیا۔ کذا قابل ابن عباس (رض) وابوالعالیہ (ابن کثیر) حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کو آگ میں ڈال دیا گیا مگر اللہ تعالیٰ نے خرق عبادت کے طور پر ان کو بچالیا۔ اس مقام پر مفسرین نے بہت سی حکایات نقل کی ہیں جن کا حاصل یہ ہے کہ انہوں نے آگ کا بہت بڑا الائو تیار کیا جس کا طول 08 ذراع اور عرض 04 ذراع تھا اور منجنیق کے ذریعے حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کو آگ میں پھینکنے لگے تو حضرت جبریل ( علیہ السلام) اور دوسرے فرشتوں نے اپنی خدمات پیش کیں مگر حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) نے سب کے جواب میں یہی کہا : ” حسبی اللہ ونعم الوکیل“ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کی عمر اس وقت چالیس برس کے قریب تھی اور انہوں نے فرمایا کہ : ” جو نعمتیں مجھ کو آگ کے اندر حاصل تھیں۔ وہ بعد میں حاصل نہ ہوئیں۔“ قتادہ کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) آگ میں ڈالے گئے تو ہر جانور نے آگ بجھانے کی کوشش کی۔ سوائے وزغہ کے کہ وہ آگ کو دھونک رہا تھا اس بنا پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے قتل کرنے کا حکم دیا ہے وغیرہ۔ مگر ان جزئیات کی صحت محل نظر ہے او۔ عموماً یہ روایات اسرائیلیات سے ماخوذ ہیں۔ واللہ اعلم (وزع گرگٹ) کے متعلق حضرت عائشہ (رض) سے بخاری میں جو حدیث مروی ہے اس میں ہے کہ آنحضرت نے وزغ کو موذی جانور فرمایا مگر اس کے قتل کا حکم دیتے ہوئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نہیں سنا۔ الأنبياء
70 الأنبياء
71 ف 5۔ یعنی شام و فلسطین کی سرزمین جو روحانی اور مادی دونوں قسم کی برکتون سے مالا مال ہے۔ (سورہ اسرار :1) معلوم ہوا کہ قوم سے مقابلہ اور پھر آگ میں ڈالے جانے کا واقع ارض بابل میں پیش آیا تھا۔ (کبیر) الأنبياء
72 ف 6۔ یعنی جو انہوں نے مانگا نہیں تھا لیکن ہم نے اپنی طرف سے مزید انعام کے طور پر دیا۔ شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں : دعا تھی بیٹے ہی کی انعام میں دیا پوتا۔ (موضح) مگر اقرب یہ معلوم ہوتا ہے کہ ” نافلۃ“ کا تعلق دونوں سے ہو (کبیر) ف 7۔ یعنی حضرت ابراہیم ( علیہ السلام)، لوط ( علیہ السلام)، اسحاق ( علیہ السلام) اور یعقوب ( علیہ السلام) سب کو اپنا مطیع فرمانبردار بنایا۔ الأنبياء
73 ف 8۔ یعنی صرف کود ہی فرمانبردار نہ تھے بلکہ ہمارے وحی کے مطابق دوسروں کو بھی حق کی طرف دعوت دیتے تھے۔ معلوم ہوا کہ ہر قسم کی دعوت دارشاد کا کام اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ہونا چاہیے۔ (کبیر) الأنبياء
74 الأنبياء
75 الأنبياء
76 ف 1۔ حضرت نوح ( علیہ السلام) کا ذکر سورۃ نوح رکوع 2 میں تفصیل سے مذکور ہے۔ سورۃ قمر میں ہے : ” انی مغلوب فالتصر“ کہ (اے میرے رب) میں مغلوب ہوں، تو ہی ان سے بدلہ لے۔ (آیت :1) ف 2۔ بڑی مصیبت سے مراد کا فردل کی ایذارسانی ہے یا طوفان کی تباہ کاری۔ الأنبياء
77 ف 3۔ یعنی ان میں سے کسی کو زندی نہ چھوڑا۔ تفصیل کے لئے دیکھئے سورۃ ہودار کو ع 304 الأنبياء
78 ف 4۔ حضرت دائود اور سلیمان پیغمبر ہونے کے ساتھ فرمانروا بھی تھے۔ اس لئے رعایا کے مقدمات کا فیصلہ کرنا ان کے فرائض میں داخل تھا۔ الأنبياء
79 ف 5۔ اس واقعہ کی تفصیل مفسرین نے عموماً یہ بیان کی ہے کہ حضرت دائود ( علیہ السلام) اور سلیمان ( علیہ السلام) کے پاس دو آدمی مقدمہ لے کر آئے۔ ایک کہنے لگا کہ اس شخص کی بکریاں رات کے وقت میرے کھیت میں گھس کر ساری کھیتی چرگئی ہیں۔ حضرت دائود نے نقصان اور بکریوں کی قیمت کا اندازہ لگا کر فیصلہ دیا کہ تم اس کی بکریاں لے لو۔ حضرت سلیمان ( علیہ السلام) نے اس فیصلہ سے اختلاف کیا اور کہا کہ بکریاں کھیت والے کو دے دی جائیں کہ ان کے دودھ وغیرہ سے اپنا گزارہ کرے اور بکریوں والے کو کھیت سپرد کردیا جائے کہ آبپاشی وغیرہ سے اس کی اصلاح کرے۔ یہاں تک کہ جب کھیت اپنی پہلی حالت پر آجائے تو کھیت اور بکریاں اپنے اپنے مالکوں کو واپس کردئیے جائیں۔ اسی کی طرف اس آیت میں اشارہ فرمایا ہے کہ ہم نے اس مقدمہ اک ٹھیک فیصلہ سلمان ( علیہ السلام) کو سمجھ دیا۔ (ابن کثیر، کبیر) مسئلہ : اگر کسی کے جانور دن کے وقت کسی دوسرے کے کھیت یا باغ کو چر جائیں تو جانور والے پر کوئی تاوان نہیں ہے اور اگر رات کے وقت چرجائیں تو جس قدر نقصان ہوا اس قدر تاوان جانور والے کے ذمہ ہوگا۔ یہی فیصلہ حضرت براء (رض) بن عازب نے ایک صحیح حدیث میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کیا ہے اور جمہور علما کا بھی یہی فتویٰ ہے۔ امام ابو حنیفہ (رح) اور دیگ فقہائے کوفہ جانور والے پر کسی صورت تاوان کے قائل نہیں اور دلیل میں ” العجماء جرحھا جبار“ جانور کا کسی کو زخمی کردینا معاف ہے۔ پیش کرتے ہیں۔ حالانکہ اس حدیث میں صرف زخم کے معاف ہونے کا ذکر ہے کھیت کے نقصان کے معاف ہونے کا ذکر نہیں ہے۔ لہٰذا حضرت براء (رض) کی حدیث کو منسوخ کہا جائے۔ (قرطبی) اس آیت سے یہ مسئلہ بھی نکلتا ہے کہ اگر کوئی ھاکم اپنے اجتہاد سے فیصلہ کرے اور اس کا فیصلہ غلط ہو تو اسے اکہرا اجر ملے گا اور اگر فیصلہ صحیح ہو تو دوہرا۔ جیسا کہ صحیح بخاری میں عمرو بن عاص کی روایت میں ہے۔ (فتح قدیر) ف 6۔ یعنی جب وہ تسبیح کرتے تو پہاڑ اور پرندے بھی تسبیح کرتے۔ یہ چیز حضرت دائود پر خصوصی نعمت کے سلسلے میں ذکر کی ہے لہٰذا تسبیح کو اس کے حقیقی معنی پر محول کرنا ضروری ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں : حضرت دائود کے ساتھ، زبور پڑھنے کے وقت پہاڑ اور جانور بھی انہی کی سی آواز سے پڑھتے۔ (موضح) ف 7۔ یعنی تعجب نہ کرو کہ یہ پہاڑ اور پرندے کیسے بولتے اور تسبیح کرتے تھے۔ یہ سب کچھ ہمارا کیا ہوا تھا۔ (کبیر) الأنبياء
80 ف 8۔ سورۃ سبا میں ہے والنا لہ الحدید۔ اور ہم نے اس کے لئے (یعنی حضرت دائود کے لئے) لوہا نرم کردیا۔ (آیت 11) اس سے معلوم ہوا کہ حضرت دائود کو لوہے کے استعمال پر خاص قدرت عنایت فرمائی تھی اور وہ جنگی اغراض کے لئے ہلکی مضبوط اور عمدہ زرہیں بنایا کرتے تھے۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں : ” اور لوہے کی زرہ بناتے فقط ہاتھ سے موڑ کر اور بناتے ہیں آگ سے۔ (موضح) الأنبياء
81 ف 9۔ اس کی تفسیر میں حجرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت سلیمان نے ایک تخت تیار کرایا تھا جس میں مع اعیان سلطنت بیٹھ جاتے اور ضروری سامان بھی رکھ لیتے پھر ہوا آتی اور اسے اڑالے جاتی۔ جب وہ چاہتے ہوا تیز چلتی اور جب چاہتے دھیمی۔ صبح سے زوال تک وہ ایک ماہ کی مسافت اور زوال سے شام تک ایک ماہ کی مسافت طے کرتی۔ نیز دیکھئے سورۃ سبا آیت 211 اور سورۃ ص آیت 53 تا 63 (فتح القدیر) الأنبياء
82 ف 10۔ شیطانوں سے مراد سرکش جن ہیں۔ دیکھئے سورۃ سبا : 21 الأنبياء
83 ف 11۔ کہتے ہیں کہ حضرت ایوب ( علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے ہر قسم کی نعمتیں دے رکھی تھیں اور وہ بڑے شکر گزار بندے تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے صبر کی آزمائش کے لئے تدریحاً تمام نعمتیں چھین لیں اور ساتھ ہی جسمانی امراض میں بھی مبتلا کردیا گیا مگر بایں ہمہ وہ ناشکری کا ایک لفظ بھی زبان پر نہ لائے۔ آخر کار جب تکلیف حد سے بڑھ گئی تب دعا کی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعو کو شرف قبولیت بخشا اور اپنے فضل و کرم سے دوبارہ دولت وصحت سے نوازا۔ الأنبياء
84 الأنبياء
85 الأنبياء
86 ف 1۔ حضرت ابن عمر (رض) کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بنی اسرائیل کے ایک فرد تھے جو گناہوں میں ڈوبے ہوئے تھے لیکن انہوں نے توبہ کی اور اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف کردیا۔ اکثر مفسرین (رح) کے نزدیک وہ نبی نہ تھے۔ یہ اس صورت میں ہے کہ الکفل اور ذوالکفل ایک شخص ہو ممکن ہے یہ دو شخص ہوں۔ (ابن کثیر شوکانی) الأنبياء
87 الأنبياء
88 ف 2۔ یعنی یہ حجرت یونس ( علیہ السلام) کے ساتھ خاص نہ تھا بلکہ ہم ایمان والوں کو … ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس مسلمان نے بھی کسی مصیبت میں اس دعا سے پکارا اللہ تعالیٰ نے اس کی دعا قبول فرمائی۔ (شوکانی بحوالہ ترمذی، نسائی) ف 3۔ یعنی حقیقی وارث تو ہی ہے اگر تو مجھے اولاد نہ بھی دے گا تب بھی میرے بعد اپنے دن کا کوئی انتظام ضرور کرے گا۔ (عرصبی) الأنبياء
89 الأنبياء
90 ف 4۔ یعنی ہمیں اس طرح پکارتے تھے کہ ایک طرف انہیں ہمارے اجر کی توقع رہتی تھی اور دوسری طرف ہمارے عذاب کا ڈر اور یہی بندگی کا اعلیٰ ترین مقام ہے۔ الأنبياء
91 ف 5۔ یعنی نکاح سے بھی اور ناجائز صورتوں سے بھی۔ یہاں احصان (عصمت قائم رکھنے) کا لفظ عام معنی میں استعمال ہوا ہے کیونکہ قرآن نے متعدد مقامات پر تصریح کی ہے کہ حضرت مریم ( علیہ السلام) نے نہ نکاح کیا اور نہ وہ حرام کاری کی مرتکب ہوئیں۔ (مریم : 02) ف 6۔ مراد ہے حضرت عسیٰ ( علیہ السلام) کی۔ وہ جو اللہ تعالیٰ کے حکم سے حضرت جبریل ( علیہ السلام) نے پھونکی تھی لیکن تعظیم و تشریف کے لئے اللہ تعالیٰ نے اسے اور اس کے پھونکنے کو اپنی طرف منسوب کیا ہے۔ مزید دیکھئے (نساء : 171) ف 7۔ قدرت الہٰی کی پیدائش بن باپ کے ہوئی تھی۔ اگر حضرت مریم شادی شدہ ہوتیں اور حضرت عیسیٰ کی پیدائش باپ ہوئی ہوتی تو ان کی کیا خصوصیت ہوتی جس کا ذکر سار جہان کیلئے بطور نشانی کیا جاتا۔ پھر دونوں کو ” ایۃ“ (ایک نشانی) کہنا باعتبار قصہ کے ہے یعنی ہم نے ان دونون کے قصے کو ایۃ بنادیا۔ (قرطبی) الأنبياء
92 ف 8۔ جس میں کسی نبی اور کسی شریعت کا اختلاف نہیں ہے سواسی کو اختیار کرنا اور اسی پر قائم رہنا تمہیں واجب ہے۔ مراد ہے مذہب توحید یعنی اسلام… یہاں ” امۃ“ کے معنی دین یا مذہب کے ہیں جیسا کہ سورۃ زخف (آیت 22) میں ہے۔ ” انا وجدنا اباونا علیٰ امۃ“ کہ ہم نے اپنے آبا و اجداد کو ایک امت (یعنی دین) پر چلتے پایا۔ (قرطبی، شوکانی) الأنبياء
93 ف 9۔ یعنی توحید کی سیدھی راہ چھوڑ کر مکتلف گروہوں میں بٹ گئے، کوئی یہودی ہوگیا، کوئی نصرانی، کوئی مجوسی اور کوئی بت پرست وغیرہ۔ ف 10۔ اس وقت معلوم ہوجائے گا کہ توحید کی اصل راہ چھوڑنے کا نتیجہ ان کے حق میں کیسا رہا؟ الأنبياء
94 الأنبياء
95 الأنبياء
96 ف 1۔ تاکہ انہیں توبہ یا امتحان کا ایک اور موقع دیا جائے۔ ذوالفقرنین کی روک اور یا جوج ماجوج کے قصے کے لئے دیکھئے (کہف رکوع 11) ف 2۔ یعنی ہر بلند مقام سے دندناتے ہوئے نکلیں گے۔ الأنبياء
97 ف 3۔ اس سے معلوم ہوا کہ ” یاجوج ماجوج“ کا خروج قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہوگا۔ اسی کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی متعدد احادیث میں بیان فرمایا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ قیامت اس وقت تک نہ آئے گی جب تک تم اس سے پہلے دس نشانیات نہ دیکھ لو۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دس نشانیاں بیان فرمائیں۔ جن میں ایک یاجوج ماجوج کا ظاہر ہونا تھی۔ (مسلم) ایک دوسری حدیث میں ہے کہ حضرت عسیٰ کا نزول اور خانہ کعبہ کا حج و عمرہ کرنا یاجوج ماجوج کے ظاہر ہونے کے بعد ہوگا۔ (بخاری) ف 4۔ کافر پہلے تو اپنے غافل ہونے کا ذکر کریں گے پھر خود ہی اعتراف کرلیں گے کہ ہم قصور وار نہ تھے اور یہ مختلف مواطن میں ہوگا۔ الأنبياء
98 ف 5۔ مراد میں بت، شیاطین اور وہ تمام چیزیں جن کی مشرکین پوجا کرتے تھے۔ ف 6۔ حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو مشرکین کہنے لگے کہ پوجاتو فرشتوں کی بھی ہوتی ہے اور عیسیٰ ( علیہ السلام) اور عزیر ( علیہ السلام) کی بھی تو کیا یہ بھی دوزخ میں جائیں گے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے اگلی آیت ” ان الذین سبقت الخ“ نازل فرمائی۔ ابن اسحٰق کی روایت میں ہے کہ ایک شخص عبداللہ بن زبغریٰ نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یہی اعتراض کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو شخص یہ چاہے کہ اللہ کی بجائے اس کی عبادت کی جائے وہ ان عبادت کرنے والوں کے ساتھ (جہنم میں) ہوگا۔ (ابن کثیر) معلوم ہوا کہ دوزخ میں وہی معبود (لوگ) جائیں گے جنہوں نے لوگوں کو شرک کی تعلیم دی ہوگی۔ الأنبياء
99 الأنبياء
100 ف 7۔ یعنی ان کی چیخ پکار اتنی زیادہ ہوگی کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دے گی۔ الأنبياء
101 ف 8۔ اوپر گزرچکا ہے کہ یہ آیت مشرکین کا اعتراض سفع کرنے کے لئے نازل ہوئی۔ الأنبياء
102 ف 9۔ ” اس میں جانا تو کجا“ یعنی جنت میں داخل ہونے کے بعد۔ کذاقال ابن عباس (رض)۔ (قرطبی) الأنبياء
103 الأنبياء
104 ف 10۔ جیسے دوسری آیت (زکر :76) میں فرمایا : والسموات مطویات بمینہ : کہ آسمان اس کی دائیں مٹھی میں لپٹے ہوں گے۔ ایک حدیث میں بھی یہ صریحاً ثابت ہے بعض کا قول ہے کہ یہاں ” سجل“ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ایک کاتب کا نام ہے مگر یہ روایت ناقابل اعتبار ہے۔ (ابن کثیر) ف 11۔ حضرت ابن عباس کا بیان ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا ” تم لوگ اللہ تعالیٰ کے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ننگے پائوں، ننگے بدن اور غیر محتون جمع کئے جائو گے“ (قرطبی بحوالہ مسلم) الأنبياء
105 ف 12۔ ” اذکر“ سے مراد لوح محفوظ ہے اور بعض نے ” توارۃ“ مراد لی ہے اور بعض نے اسے اس کی لفظی یعنی ” نصیحت“ میں لیا ہے۔ (شوکانی) ف 13۔ یہاں ” الارض“ سے کونسی زمین مراد ہے اس میں مفسرین کا اختلاف ہے۔ بعض علما نے بہشت کی زمین مراد لی ہے کیونکہ دوسری آیت میں جنت کے متعلق و اور ثنا الرض فرمایا ہے۔ یعنی جس نے ہمیں زمین یعنی جنت کا وارث بنایا۔ (زمر : 47) گویا یہ اہل ایمان کے حق میں ایک بشارت اخروی ہے جیسے فرمایا ہو العاقبۃ للمتقین۔ (اعراف) مگر اکثر علما نے اسے بشارت دنیوی پر محمول کیا ہے۔ پھر بعض نے کافر قوموں کی سرزمین مراد لی ہے اور بعض نے ” بیت المقدس“ کی فتح۔ چنانچہ حضرت عمر (رض) کی خلافت میں یہ پیشگوئی پوری ہوئی۔ مزید تفصیل کے لئے دیکھئے سورۃ نور آیت 55۔ (شوکانی و ابن کثیر) الأنبياء
106 الأنبياء
107 ف 14۔ صرف مسلمانوں کیلئے نہیں بلکہ مسلمان کافر سب کیلئے اور دنیوی و اخروی ہر اعتبار سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رحمت بنا کر بھیجے گئے تھے۔ اسلامی اصول و شریعت کے مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ جو اخلاقی قدریں اور دائمی اصول آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وساطت سے اللہ تعالیٰ نے متعین فرمائے ہیں وہ آج تک دنیا تلاش نہیں کرسکی۔ اس سے بڑی رحمت اور کیا ہوسکتی ہے۔ ایک حدیث میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اتباع سے ہر قسم کی سعادت حاصل ہوئی۔ مگر کفار کے لئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیسے رحمت ہیں؟ اس کے جواب میں حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے طفیل ہمیشہ کیلئے اللہ تعالیٰ نے پہلی قوموں پر جو ہلاکت خیز عذاب آتے رہے، وہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے بعد روک دء یے اور ایک دفعہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابوجہل کے الزامات کے جواب میں فرمایا، والاھدییھم وھمکارھون۔ کہ میں ان کی نرت کے باوجود ان کو ہدایت پر لانے کی کوششیں جاری رکھوں گا۔ اس سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رحمت ہونے کا مفہوم ہوتا ہے۔ (ابن کثیر، شوکانی) الأنبياء
108 ف 1۔ یعنی تو حیدر ہی میری ساری وحی کا خلاصہ اور اصل الاصول ہے اور اس میں شرک کا شائبہ تک نہیں۔ (وحیدی) الأنبياء
109 ف 2۔ کہ اب میرا اور تمہارا کوئی اشتراک نہیں یا تمہیں قبول وعدم قبول میں برابر کا اختیار ہے یا پورے طور پر آگاہ کردیا ہے اور کسی قسم کے کتمان سے کام نہیں لیا۔ (قرطبی) ف 3۔ کیونکہ اس کا ٹھیک وقت اللہ کے سوا کسی کو معلوم نہیں۔ الأنبياء
110 ف 4۔ یعنی تمہاری سب سازشوں کا اللہ تعالیٰ کو علم ہے۔ ان کی سزا وہ تمہیں ضرور دے گا۔ الأنبياء
111 ف 5۔ کہ آیا تم اس سے فائدہ اٹھا کر حق کی طرف پلٹتے ہو یا اپنی سرکشی میں مزید ترقی کرتے ہو۔ الأنبياء
112 الأنبياء
0 ف 6۔ اس سورت کے مکی یا مدنی ہونے میں مفسرین کا اختلاف ہے لیکن بقول قرطبی صحیح یہ ہے کہ اس میں مکی اور مدنی دونوں آیات ملی جلی ہیں۔ جمہور مفسرین کا بھی یہی رجحان ہے۔ (شوکانی) الحج
1 ف 7۔ جمہور مفسرین (رح) کے نزدیک یہ زلزلہ قیامت سے پہلے آئیگا اور یہ قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہوگا اور قرب قیامت کی وجہ سے اسے الساعۃ کا زلزلہ قرار دیا ہے۔ جیسا کہ اشراط الساعۃ کہا جاتا ہے اور اگلی آیت کے الفاظ سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے۔ کیونکہ قیامت کے روز تو نہ کوئی عورت دودھ پلارہی ہوگی اور نہ کسی کو حمل ہوگا اور ” نفخ صور“ والی طویل حدیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے جس میں ہے کہ صور میں نفخ تین ہوں گے۔ نفح الفزع (سراسیمگی) نفخ المحق (موت کی چیخ) اور نفخ القیام رب العالمین (قبروں سے اٹھ کر اللہ تعالیٰ کے حضور پیشی) پھر پہلے نفخ کی کیفیت بیان کرتے ہوئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بتایا کہ اس وقت زمین اس کشتی کی طرح ہوگی جو موجوں کے تھپڑوں سے ڈگمگارہی ہو یا عرش سے لٹکتی ہوئی اس قندیل کی طرح جسے ہوا کہ جھونکے بری طرح جھنجھوڑ رہے ہوں۔ بعض نے کہا ہے کہ ریبھونچال قیامت کے دن ہوگا۔ ابن جریر (رض) نے اسی کو ترجیح دی ہو (شوکانی، ابن کثیر) مگر یہ کہنا زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے کہ بھونچال دو ہوں گے ایک قیامت سے پہلے اور دوسرا قیامت کے روز۔ (کبیر) الحج
2 الحج
3 ف 8۔ یعنی مردوں کو زندہ کرنے پر اس کی قدرت سے انکار کرتا ہے۔ روایات میں ان کافروں کے نام بھی مذکور ہیں جن کے باب میں یہ آیت نازل ہوئی۔ (وحیدی) ف 9۔ معلوم ہوا کہ آخرت کا انکار شیطان کی پیروی ہے۔ (وحیدی) الحج
4 الحج
5 ف 10۔ یہ ان مراحل کا مجمل اور عام فہم ذکر ہے جن سے ایک بچہ اپنی ماں کے پیٹ میں گزرتا ہے اور پھر جوان ہو کر آخری عمر کو پہنچتا ہے اور یہ کل سات مراحل بیان کئے ہیں۔ پیٹ میں حمل کے مراحل کا ذکر صحیحین کی ایک حدیث میں بھی آیا ہے جس میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم میں سے ایک شخص اپنی ماں کے پیٹ میں چالیس دن تک نطفہ رہتا ہے۔ پھر اتنے ہی دنوں میں وہ خون کا لوتھڑا بن جاتا ہے۔ پھر اتنے ہی دنوں میں گوشت کی بوٹی۔ پھر اللہ تعالیٰ ایک فرشتہ بھیجتا ہے جو اس میں روح پھونکتا ہے۔ (کبیر، ابن کثیر) ف 1۔ اور تم سمجھو کہ جو خدا اس طرح انسان کو عدم سے وجود میں لاسکتا ہے اس کے لئے اس کے مرنے کے بعد اسے دوبارہ زندگی بخشنا کیا مشکل ہے۔ ف 2۔ یہ بڑھاپے کی اس حالت کا ذکر ہے جس میں انسان کے ہوش و حواس برقرار نہیں رہتے اور وہ بچوں کی سی باتیں کرنے لگتا ہے اور یہاں مذکورہ مراحل میں یہ ساتواں اور آکری مرحلہ ہے۔ (کبیر) ف 3۔ یہ انسان کے مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے پر دوسری دلیل ہے۔ (کبیر) الحج
6 ف 4۔ یعنی یہ مذکورہ وجوہ اس بات پر دلیل ہیں کہ وہی قائم و دائم ہے اور اسی کی قدرت سے یہ سب تعینات ہوتے ہیں۔ لہٰذا تمہارا یہ سمجھنا قطعی باطل ہے کہ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے کا کوئی امکان نہیں بلکہ جسے جمیع ممکنات پر قدرت حاصل ہے۔ (شوکانی، کبیر) الحج
7 الحج
8 ف 5۔ تاکہ ان کے اعمال کا حساب لیا جائے اور جیسا کسی کا عمل ہو ویسا ہی اسے بدلہ دیا جائے۔ امام رازی (رح) فرماتے ہیں۔ اوپر دوبارہ زندہ کئے جانے کے امکان پر دلائل قائم کئے۔ اب دوبارہ زندگی کے وقوع کی خبر دی اور یہ ظاہر ہے کہ کسی ممکن چیز کے وقوع کی ایک صادق مصدوق خبر دے تو اس کے وقوع میں کسی قسم کا شک و شبہ نہیں ہوسکتا۔ (کبیر) ف 6۔ یعنی اس کے پاس ضروری (بدیہی) علم سے کوئی دلیل ہے نہ نظر و استدلال سے اور نہ کوئی وحی ہی ہے جو خدا کی طرف سے کتاب کی شکل میں نازل کی گئی ہو بلکہ وہ محض اٹکل پچو اللہ تعالیٰ اور اس کی قدرت کے بارے میں جھگڑا کرتا ہے۔ پہلی آیت میں شیاطین کے مقدارین کا حال بیان فرمایا اور اس آیت میں ان کے پیشوائوں کا۔ (ابن کثیر، شوکانی) الحج
9 ف 7۔ یعنی خود گمراہ ہے اور دوسروں کو گمراہ کرنے کے درپے رہتا ہے۔ الحج
10 ف 8۔ کہ وہ کسی کو بے قصور سزا دے یا قصور وار کو چھوڑ دے۔ الحج
11 ف 9۔ یعنی دین کے اندر نہیں آتا بلکہ کنارے یا بالفاظ دیگر کفر و اسلام کی سرحد پر کھڑا ہو کر اللہ تعالیٰ کی بندگی کرتا ہے۔ جیسے کوئی لشکر کے کنارے پر رہے۔ اگر فتح ہو تو ساتھ آملے اور شکست ہو تو بھاگ جائے۔ یہ اس کیفیت کا ذکر ہے جو تذبذب اور دلی بے اطمینانی سے حاصل ہوتی ہے۔ یہ آیت ان اعزاب (بادیہ نشین) کے بارے میں نازل ہوئی جو صحرا سے ہجرت کرکے آتے پھر اگر جان و مال میں برکت ہوتی تو اسلام پر بڑے اطمینان کا اظہار کرتے اور اگر تکلیف اور دکھ میں مبتلا ہوجاتے تو مرتد ہو کر واپس بھاگ جاتے۔ بعض ” مئولفۃ القلوب“ کی بھی یہی کیفیت تھی۔ (کبیر) ف 10۔ یعنی مرتد ہوگیا اور پھر کفرو شرک کی طرف پلٹ گیا۔ ف 1۔ آخرت کا گھاٹا تو ظاہر ہے، رہا دنیا کا خسارہ تو یہ اس لئے کہ ایسے لوگ معاشرے میں بدنام ہوجاتے ہیں اور پھر نفاق اور بزدلی کی وجہ سے اپنے مقاصد میں بھی پوری طرح کامیاب نہیں ہوسکتے۔ شاہ صاحب (رح) کہتے ہیں، دنیا کی نیکی پاوے تو بندگی اور تکلیف پائے چھوڑدے، ادھر دنیا گئی ادھر دین گیا۔ (موضح) الحج
12 ف 2۔ مطلب واضح ہے لیکن ہمارے زمانے کے بعض بدعت پرست علماء جو لوگوں کو قبر پرستی کی تعلیم دیتے ہیں پہلے تو کسی نبی یا ولی کے متعلق لوگوں میں یہ ذہن پیدا کرتے ہیں کہ یہ نفع بھی دیتے ہیں اور نقصان بھی پہنچاسکتے ہیں اور پھر ان سے کہتے ہیں کہ قرآن نے صرف ان چیزوں کو پکارنے سے منع کیا ہے جو کچھ نفع یا نقصان نہیں پہنچاتیں اور یہ قبر یا قبر والے چونکہ نفع بھی پہنچاتے ہیں اور نفقصان بھی اس لئے اسے سجدہ کرنا اور اس پر چڑھاوے چڑھانا قرآن کے منافی نہیں۔ ولا حول ولا قوۃ الا باللہ۔ الحج
13 ف 3۔ یعنی نفع تو درکنار ان کے پکارنے میں الٹا نقصان ہے کیونکہ جو شخص انہیں پکارتا ہے وہ ایمان سے تو یقیناً اور فوراً ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ اب رہا ظاہری فائدہ جس کے لئے پکارتا ہے۔ سو وہ ایک موسوم امر ہے۔ حاصل ہو تو ہو، نہ ہو تو نہ ہو اس پکارنے سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ الحج
14 ف 4۔ یعنی وہ غیر محدود اختیارات کا مالک ہے کسی کو مجال نہیں کہ اس کے حکم میں چون و چرا کرسکے۔ (وحیدی) الحج
15 ف 5۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تو اپنے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مدد کرتا رہے گا۔ اگر کافروں کو اس پر غصہ اور جلن ہے تو اس غصہ کو ٹھنڈا کرنے کی بس ایک ہی صورت ہے کہ چھت سے رسی باندھ کر پھانسی میں لٹک کر مرجائیں یا مطلب یہ ہے کہ کافروں کو چاہیے کہ کسی ذریعے سے آسمان پر چلے جائیں اور وہاں سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جو مدد یا وحی آرہی ہے اسے منقطع کرنے کی کوشش کریں۔ آیت کے یہ دونوں مطلب اسی صورت میں کہ ولن ینصرہ میں ” ہ“ کی ضمیر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے قرار دی جائے لیکن اگر یہ ضمیر خود اس شخص کے لئے ہو تو مطلب یہ ہوگا کہ جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ اللہ … مقصد یہ ہے کہ اس قسم کی کوئی تدبیر اللہ تعالیٰ کے فیصلے کو تبدیل نہیں کرسکتی اور اللہ تعالیٰ کے اختیارات میں ان مردہ یا زندہ شخصیتوں کو جنہیں تم پکارتے ہو کوئی دخل نہیں۔ الحج
16 ف 6۔ یعنی گو قرآن میں ایمان و توحید کی کھلی کھل دلیلیں موجود ہیں مگر اس سے ہدایت وہی پاتا ہے جسے اللہ ہدایت دینا چاہے اس لئے کہ یہ علم و عقل اور تجربہ تو حقیقت تک پہنچنے کا ایک امکانی ذریعہ ہے لیکن اس تک رسائی صرف اللہ کی توفیق پر موقوف ہے۔ الحج
17 ف 7۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کتابوں سے ہی معلوم ہوسکتا ہے کہ ان گروہوں میں سے کونسا گروہ حق پر ہے اور کونسا باطل پر اور یہ بھی ظاہر ہے کہ مسلمان حق پر ہیں لیکن یہ جو فرمایا کہ ” اللہ فیصلہ کریگا“ تو اس سے صرف باطل پرست فرقوں کی تہدید مقصود ہے یا مطلب یہ ہے کہ قیامت کے دن ان کو مقام و جزا کے اعتبار سے الگ الگ کردیا جائے گا۔ (کبیر، شوکانی) الحج
18 ف 1۔ یہاں سجدہ کا لفظ بیک وقت دو معنی میں استعمال ہوا ہے۔ ایک ” انقیاد“ یعنی اللہ تعالیٰ کی قدرت کے سامنے عاجزی و بے بسی جس میں سب مخلوق شامل ہے۔ عام اس سے کہ وہ عق و شعور رکھتی ہے یا نہیں کیونکہ ہر چیز اس کے تکوینی قانون کے مطابق کام کررہی ہے اور دوسرے سجدہ کے معنی ہیں اطاعت فرمانبرداری یعنی تکلیفی اور شرعی احکام کو اپنے اختیار و ارادہ سے بجالانا اس معنی میں سجدہ صرف ذوی العقول کے ساتھ مخصوص ہے اور ” کثیر من الناس“ سے معلوم ہوتا ہے کہ بہت سے لوگ اس سجدہ سے منکر ہیں دوسری تمام مخلوق یہ سجدہ بجالارہی ہے۔ (فتح القدیر) ف 2۔ یعنی اسے کافر و مشرک بنا کر ذلیل کرے۔ ف 3۔ اس مقام پر سجدہ ہے اور سورۃ حج کے اس سجدہ پر سب دائمہ کا اتفاق ہے۔ الحج
19 ف 4۔ یہاں کافروں سے مراد مسلموں کے علاوہ مذکورہ پانچ فرقے ہیں یہ سب ایک گروہ ہیں اور ان کے مقابلے میں مسلمان دوسرا گروہ، خدا کے بارے میں جھگڑنے کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان خدا کی توحید کے قائل ہیں اور یہ تمام لوگ اس کے بارے میں طرح طرح کے خیالات رکھتے ہیں جو کفر ہی کی مختلف صورتیں ہیں۔ (کبیر) تفاسیر میں لکھا ہے کہ بدر کے دن مسلمانوں کی طر سے حضرت حمزہ (رض)، علی (رض) اور عبید (رض) بن حارث اور کفار مکہ کی طرف سے عقبہ، شیبہ اور ولید بن ربیعہ مبارزت کے لئے نکلے۔ انہی دو جماعتوں کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔ چنانچہ حضرت علی (رض) فرماتے ہیں : انا اول من یحبثو بین یدی الرحمن المخومہ، یوم القامۃ، کہ قیامت کے دن خصومت کے لئے سب سے پہلے خدائے رحمن کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھوں گا۔ (ابن کثیر بحوالہ بخاری) الحج
20 الحج
21 الحج
22 الحج
23 ف 5۔ گزشتہ زمانے میں بادشاہ اور بڑے بڑے رئیس زینت اور اپنی شان و شوکت کے اظہار کے لئے کنگن اور موتی پہنا کرتے تھے۔ اس آیت سے مقصود یہ بتانا ہے کہ اہل ایمان کو جنت میں شاہانہ لباس پہنچایا جائے گا۔ ف 6۔ حریر سے مراد خالص ریشم ہے جس کا استعمال مردوں کے لئے دنیا میں حرام ہے۔ صحیحین میں حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” جس مرد نے دنیا میں ریشم پہنا اسے وہ آخرت میں نہ پہنایا جائے گا“ اس بارے میں اور بھی کئی احادیث ثابت ہیں۔ (شوکانی) الحج
24 ف 7۔ یعنی اس مقام کی طرف جہاں وہ پاکیزہ اور بہتر کلام سنیں گے۔ مراد ہے جنت کہ وہاں ہر طرف سے سلام ہی سلام کی آوازآئے گی۔ لغو اور بیہودہ باتوں سے اہل جنت کے کان کبھی آشنا نہ ہوں گے۔ (واقعہ : 62) یا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ انہیں (دنیا میں) نیک بات (یعنی کلمہ توحید) کی ہدایت دی گئی۔ (شوکانی، ابن کثیر) الحج
25 ف 8۔ خدا کی راہ سے مراد اسلام اور چھی راہ سے مراد جنت ہے۔ ف 9۔ مراد ہیں کفار مکہ جنہوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کو حج اور عمرہ سے روکا تھا۔ ف 10۔ یعنی دونوں وہاں بلامزاحمت عبادت کرسکتے ہیں اور کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ دوسرے کو اس میں آکر عبادت کرنے سے منع کرے۔ ایک حدیث سے بھی یہ ثابت ہے کہ رات اور دن کے اوقات میں جب بھی کوئی چاہے بیت اللہ میں نماز پڑھ سکتا ہے اور اس کا طواف کرسکتا ہے۔ مسجد حرام کی اس حیثیت پر سب کا اتفاق ہے لیکن اختلاف اس بارے میں ہے کہ آیا یہی حکم کہ زمینوں اور مکانوں کے لئے بھی ہے؟ اکثر صحابہ اور بعد کے اہل علم کے نزدیک ان کے لئے وہ حکم نہیں ہے جو مسجد حرام کے لئے ہے بلکہ دوسرے شہروں کی طرح مکہ میں بھی ہر شخص اپنے مکان اور زمین کا مالک ہے اور وہ دوسرے کو بلا کرایہ اترنے اور ٹھہرنے سے منع کرسکتا ہے۔ ائمہ اربعہ میں سے امام شافعی (رح) کی یہی رائے ہے اور امام مالک (رح) اور ابو حنیفہ (رح) اور بعض دوسرے اہل علم کے نزدیک مکہ کے مکانوں اور زمینوں کا بھی وہی حکم ہے جو مسجد حرام کا ہے یعنی کوئی شخص نہ تو اپنا مکان بیچ سکتا ہے اور نہ کرایہ وصول کرسکتا ہے اور انہوں نے بعض روایات کے علاوہ اس سے بھی استدلال کیا ہے کہ خلفائے ثلاثہ کے زمانہ خلافت میں ہم سب کی زمینیں سوائب (شاملات) تصور کی جاتی تھیں۔ امام احمد (رض) نے ایک درمیانی راہ اختیار کی ہے کہ مکہ کے مکانوں کی ملکیت تو ہوگی مگر انہیں کرایہ پر نہ دیا جائے گا۔ (شوکانی، ابن کثیر) ف 11۔ ” ٹیڑھی راہ“ کا لفظ عام ہے اس سے مراد شرک و بدعت بھی ہے اور گناہ کا ہر مراسم بھی حتیٰ کہ حرم کے جانوروں کو متانا، اس کے درختوں کو کاٹنا اور جھوٹی قسم کھانا بھی اس میں شامل ہے۔ حضرت ابن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ حرم میں گناہ کا قصد کرنا بھی حرام اور موجب سزا ہے۔ (شوکانی بحوالہ بخاری) الحج
26 ف 1 اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خانہ کعبہ کی تعمیر سب سے پہلے حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) نے کی اور وہ اس سے پہلے موجود نہ تھا جیسا کہ صحیح حدیث میں ہے کہ ابوذر (رض) نے عرض کیا : ” اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)، سب سے پہلے کونسی مسجد تعمیر ہوئی فرمایا ” مسجد حرام“ انہوں نے پوچھا : پھر کونسی؟ فرمایا : ” بیت المقدس“۔ پھر پوچھا دونوں کی تعمیر کے درمیان کتنا عرصہ ہے؟ فرمایا : ” چالیس سال“ (ابن کثیر) 2۔ صاف ستھرے رکھنے سے مراد شرک و بت پرستی سے پاک و صاف رکھنا ہے۔ اس سے مشرکین کو عار دلانا مقصود ہے کہ یہ شرط تو حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کے وقت سے چلی آتی ہے کہ اس میں بت پرستی حرام ہے۔ الحج
27 ٣ وہ اونٹ جسے چارہ کی قلت اور سفر نے تھکا کر دبلا کردیا ہو۔4۔ چنانچہ ابراہیم ( علیہ السلام) نے ایک پہاڑی پر چڑھ کر یہ اعلان کیا اور سب نے ان کی پکار کا جواب دیا لبیک اللھم لبیک۔ (شوکانی) 5 الحج
28 اصل مقصد تو عبادت کے ذریعے دینی اور اخروی فوائد حاصل کرنا ہے لیکن ضمناً حج میں بہت سے دنیوی اور ملی فوائد بھی پائے جاتے ہیں۔ 6۔ یعنی ایام تشریق جو قربانی کے دن ہیں۔ (دیکھئے سورۃ بقرہ :203) ان دنوں میں قربانی جائز ہے مگر اس کا مسنون وقت 10 ذی الحجہ رمی جمرہ عقبہ کے بعد ہے۔ (زادالمعاد) 7۔ یعنی اونٹ گائے اور بھیڑ بکری (دیکھئے سورۃ انعام 143۔144) 8۔ یہ حکم استحباب کے لئے ہے اور اس سے مقصود مشرکین کے طریقہ کی مخالفت ہے کیونکہ وہ اپنی قربانی کا گوشت نہیں کھاتے تھے۔ (ابن کثیر) حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب اونٹ ذبح فرمائے تو حکم دیا کہ ہر اونٹ کی ایک ایک بوٹی لے کر پکائی جائے۔ پھر آپ نے وہ گوشت کھایا اور شوربا پیا۔ لہٰذا حاجی اپنی مسنون یا نفلی قربانی کا گوشت کھا سکتا ہے۔ اس پر تمام ائمہ (رح) کا اتفاق ہے اور امام شافعی (رح) کے علاوہ دوسرے ائمہ (رح) کے نزدیک دم تمتع اور قرآن کا گوشت بھی کھا سکتا ہے البتہ کسی اور واجب قربانی کا گوشت نہیں کھا سکتا۔ (نیل ج 5، ص 113) الحج
29 9۔ یعنی حجامت بنوائیں اور نہائیں دھوئیں اور جمرہ عقبہ کی رمی کر کے احرام کھول دیں۔ 10۔ مراد ہے طواف افاضہ جسے طواف زیارت بھی کہتے ہیں۔ اس پر تمام علما کا اجماع ہے کہ یہ طواف حج کا رکن ہے۔ اس سے مناسک حج کی تکمیل ہوتی ہے اور حاجی سے احرام کے سلسلے کی تمام پابندیاں اٹھ جاتی ہیں۔ الحج
30 11۔ جیسے خانہ کعب حرم اور مکہ معظمہ یا ترجمہ یہ ہے کہ جن چیزوں کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے انہیں برا سمجھے یعنی ان سے باز رہے جیسے احرام میں شکار یا لڑائی جھگڑا وغیرہ۔12۔ تفصیل کے لئے دیکھئے سورۃ مائدہ آیت 3 اور نحل :115۔13۔ جھوٹ بولنے میں ہر وہ چیز شامل ہے جو حق کے خلاف ہوجیسے شرک، بہتان، جھوٹی گواہی، جھوٹی قسم اور اپنی مرضی سے چیزوں یا جانوروں کی تحریم و تحلیل وغیرہ۔ ایک حدیث میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ” جھوٹی گواہی“ کو سب سے بڑے گناہوں میں شمار کیا ہے۔ (شوکانی) الحج
31 14۔ یعنی ایمان ایک اعلیٰ چیز ہے جس نے اسے چھوڑا اور شرک کیا وہ گویا رفعت ایمانی کے مرتبہ سے کفر کے گڑھے میں گر پڑا اور اس نے اپنے آپ کو نوچنے والے پرندوں کے حوالے کردیا، یا وہ ناشکری کی آندھی میں گھر کے انسانیت سے دور جا پڑا۔ الحج
32 15۔ یعنی ان چیزوں کی تعظیم کرے جو خدا پرستی کی علامت ہیں خواہ وہ اعمال ہوں جیسے نماز، روزہ، حج وغیرہ یا چیزیں ہوں جیسے قربانی کے جانور ان کے گلوں میں پڑے ہوئے پٹے، صفا و مروہ، خانہ کعبہ بلکہ کوئی مسجد لفظ شعائر اللہ ان سب کو شامل ہے۔ (دیکھئے بقرہ :158، مائدہ :2) 16۔ یعنی اس کے دل میں خوف خدا ہے تبھی تو وہ ان شعائر یک تعظیم کرتا ہے۔ الحج
33 1۔ فائدوں سے مراد ان کی سواری کرنا، ان کا دودھ پینا اور ان کی نسل اور اون وغیرہ کو استعمال میں لانا ہے۔ معین میعاد سے مراد ان کی قربانی کا وقت ہے۔ (فتح القدیر) 2۔ جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : ھدیا بالغ الکعبۃ۔ یعنی قربانی کا ایسا جانور جو کعبہ تک پہنچنے والا ہو۔ (مائدہ : ان دونوں آیتوں میں کعبہ سے مراد حدود حرم ہیں اور ہوسکتا ہے کہ ” محلھا“ میں ” ھا“ ضمیر سے مرادسارے شعائر ہوں تو مطلب یہ ہوگا کہ آخر ان تمام مناسک کا خاتمہ بیت اللہ کے طواف کے ساتھ ہونا چاہئے۔ یہ یعنی زیادہ انسب ہیں ورنہ خصوصیت کے ساتھ ” بیت عتیق“ کہنے کا فائدہ واضح نہیں رہے گا۔ (قرطبی) الحج
34 3۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے لئے بطور نیاز قربانی کرنا تمام آسمانی شریعتوں کے نظام عبادت کا لازمی جزو رہا ہے اور اسلام میں بھی یہ بطورعبادت مقرر کی گئی ہے اور اس میں حاجی غیر حاجی کی کوئی قید نہیں ہے چنانچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ میں دس سال رہے اور ہر سال قربانی کرتے رہے۔ (ترمذی بروایت حضرت ابن عمر (رض) الحج
35 4۔ گو لفظ ” بدن“ عموماً قربانی کے اونٹ پر بولا جاتا ہے مگر اس میں قربانی کی گایوں کو شامل قرار دیا جاسکتا ہے جیسا کہ صحیح حدیث میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت ہے۔ (ابن کثیر) ایک اونٹ کی قربانی میں دس اور ایک گائے کی قربانی میں سات شریک ہو ستے ہیں جیسا کہ عبد اللہ بن عباس کی روایت میں ہے اور صحیح مسلم میں جو حضرت جابر (رض) والی روایت میں ” الجزو رعن سبعۃ“ آیا ہے وہ اس کے منافی نہیں ہے کیونکہ عشرۃ والی روایت جواز پر محمول ہے۔ الحج
36 5۔ اونٹ کو کھڑا کر کے نحر کرنا سنت ہے۔ صحیحین میں ہے کہ حضرت ابن عمر (رض) نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ اپنے اونٹ کو بٹھا کر نحر کر رہا ہے تو فرمایا : ابعثھا قیاما مقیدۃ سنۃ ابی القاسمﷺ کہ اسے پائوں باندھ کر کھڑا کر کے نحر کرو۔ ابو القاسم کی سنت یہی ہے۔ (ابن کثیر) 6۔ ٹھنڈا ہونے سے پہلے کسی قربانی کے جانور کا کاٹنا شروع کردینا صحیح نہیں۔ حدیث میں ہے جب تم ذبح کرو بہتر طریقہ سے ذبح کرو۔ اپنی چھری خوب تیز کرلو اور جانور کو آرام دو (یعنی اسے ٹھنڈا ہونے دو)…ابن کثیر) 7۔ یہ حکم بھی پہلے حکم کی طرح استحباب کیلئے ہے۔ امام شافعی (رح) خود کھانے کو تو مستحب ہی قرار دیتے ہیں مگر کھلانے کو واجب کہتے ہیں۔ (قرطبی) 8۔ یعنی اس نعمت کا شکر کرو جو اللہ تعالیٰ نے تمہیں عنایت فرمائی۔ اس سے معلوم ہوا کہ قربانی کا حکم اسی لئے دیا گیا ہے کہ اپنے مالک حقیقی کا شکریہ ادا کیا جائے۔ الحج
37 9۔ یعنی قربانی میں اصل چیز جانور کا گوشت اور خون نہیں بلکہ تمہارے دلوں کا خلوص اور تقویٰ ہے۔ اگر خلوص نیت سے قربانی کرو گے تو تمہارا نذرانہ خدا کے حضور قبولیت حاصل کرلے گا ورنہ خون اور گوشت کی خدا کو کچھ ضرورت نہیں ہے۔ اسی بات کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی ایک حدیث میں یوں بیان فرمایا ہے (ان اللہ لا ینظر الی اجسامکم ولا الی صورکم و لکن ینظر الی قلوبکم۔ اللہ تعالیٰ تمہارے جسموں کی طرف نہیں دیکھتا اور نہ تمہاری صورتوں کی طرف دیکھتا ہے بلکہ وہ تو تمہارے دلوں کی طرف دیکھتا ہے۔ (صحیح مسلم عن ابی ہریرۃ) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ مشرکین قربانی کر کے اس کا خون کعبہ پر چھڑکتے تھے۔ مسلمانوں نے بھی ایسا کرنا چاہا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (شوکانی) 10۔ یہا تکبر یعنی ” اللہ اکبر“ کہہ کر اللہ کی بزرگی بیان کرنے کا ذکر فرمایا، اور اس سے پہلے قربانی کرتے وقت اللہ کا نام لینے کا حکم دیا۔ معلوم ہوا کہ قربانی کا جانور ذبح کرتے وقت ” بسم اللہ واللہ اکبر“ کہنامطلوب الٰہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر (رض) دونوں کو جمع کرتے تھے۔ ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قربانی کے دو جانور (دنبے) اپنے ہاتھ سے ذبح کرتے وقت پہلے دعا پڑھی اور پھر بسم اللہ واللہ اکبر“ پڑھ کر ان کو ذبح کیا۔ (قرطبی۔ ابن کثیر) الحج
38 11۔ یعنی حق و باطل کی کشمکش میں اہل ایمان کی ان کے دشمنوں کے مقابلے میں حمایت فرمائے گا۔ چنانچہ اس وعدہ کے مطابق مسلمان اپنے دشمنوں کی شرارتوں سے محفوظ رہے اور آخر کار اسلام کو غلبہ نصیب ہوا۔ 12۔ حضرت ابن عباس (رض) اور اکثر مفسرین کے بقول یہ پہلی آیت ہے جس میں ہجرت کے بعد مسلمانوں کو اللہ کی راہ میں لڑنے کی اجازت دی گئی اور یہ بھی فی مجملہ مدافعت کی ایک صورت ہے۔ (قرطبی۔ ابن کثیر) اس آیت میں قتال یعنی لڑنے کی صرف اجازت دی گئی ہے بعد میں سورۃ بقرہ کی وہ آیات نازل ہوئیں جن میں لڑنے کا حکم دیا گیا ہے دیکھئے آیت۔19، 191، 391۔241 اور 223 (ابن کثیر) الحج
39 1۔ یعنی گو ان کی تعداد کم ہے اور بے سروسامان ہیں پھر بھی اللہ تعالیٰ ان کو تمام دشمنوں پر غالب کرسکتا ہے۔ الحج
40 2۔ یعنی تارک الدنیا عیسائی راہبوں کی خانقاہیں۔3۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ بڑا فضل و کرم ہے کہ اس نے ہر زمانے میں مشرکوں کے غلبہ کو روکا اور انبیا ( علیہ السلام) اور مومنوں کو قتال کی اجازت اور حکم دے کر ان کی مدافعت کی۔ اگر وہ ایسا نہ کرتا تو یہ مشرک حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کے زمانہ میں یہودیوں کے عبادت خانوں کو، حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کے زمانے میں گرجوں اور خانقاہوں کو اور اب محمدﷺ کے زمانہ میں مسجدوں کو مسمار کر ڈالتے۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کی حفاظت کی جائے اور ان کو مسمار نہ کیا جائے۔ (قرطبی۔ شوکانی) 4۔ معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ آدمی خود بھی اس کے دین کو فروغ دینے کی کوشش کرے۔ الحج
41 5۔ یعنی ان کے کرنے کے کام یہ ہیں کہ اپنے ہاں نماز، زکوٰۃ اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا نظام قائم کریں تاکہ لوگوں میں دینداری عام ہو اور استباری حق گئی، عدل و انصاف اور دوسری تمام نیکیاں پروان چڑھیں۔ اس آیت میں خلفاء اربعہ (رض) کی امامت کے برحق ہونے کی بھی دلیل پائی جاتی ہے کیونکہ جب اللہ تعالیٰ نے حکومت و خودمختاری بخشی تو انہوں نے اپنی ساری توجہ انہی کاموں پر مرکوز کردی اس لئے پوری امت انہیں خلفاء راشدین (رض) کے نام سے یاد کرتی ہے۔ (کبیر) الحج
42 6۔ ” یعنی گو آج مسلمان مغلوب ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے کہ آخر کار انہیں منصور و غالب کر دے۔ سو موجودہ حالات سے ہر اساں اور دل شکستہ نہیں ہونا چاہئے۔ الحج
43 الحج
44 7۔ یعنی فرعون اور اس کی قوم نے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کی تکذیب کی۔8۔ یا تو آرام و عزت کی زندگی گزار رہے تھے یا پھر ایسے تباہ ہوئے کہ نام و نشان تک مٹ گیا۔ ’ نکیر‘(جس کا ترجمہ پلٹنے سے کیا گیا ہے) کا پورا مفہوم یہ ہے کہ کسی شخص کی بری روش کو ناپسند کرتے ہوئے اس کی خوشالی کو بدحالی سے بدل ڈالا جائے۔ (کبیر) الحج
45 9۔ یعنی ڈھے چکی ہیں اور اجاڑ پڑی ہیں۔10۔ کوئی ان سے پانی نکالنے والا اور پینے والا نہیں رہا۔ 11۔ کوئی ان کی دیکھ بھال کرنے والا نہیں رہا۔ آیت میں ان کی کامل تباہی کا نقشہ کھینچ دیا ہے۔ الحج
46 1۔ یعنی ان کے ظاہری حواس (کان، آنکھ) تو صحیح سلامت ہیں مگر دل اندھے ہوگئے ہیں ان میں فکر و تدبر کی صلاحیت نہیں رہی۔ الحج
47 2۔ یعنی یہ سمجھتے ہیں کہ عذاب نہیں آسکتا۔ اس لئے اس کا مذاق اڑاتے ہیں اور بار بار اس کا مطالبہ کرتے ہیں۔3۔ اس لحاظ سے قیامت جس میں تمہیں عذاب ملنے والا ہے اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہت قریب ہے اگرچہ وہ تمہیں دور معلوم ہوتی ہے۔ (وحیدی) یا مطلب یہ ہے کہ ہزار برس کا کام ایک دن میں کرسکتا ہے۔ (موضح) ہوسکتا ہے کہ شدت ہول کے اعتبار سے قیامت کے دن کو ہزار برس کے برابر قرار دیا ہو۔ (کبیر) الحج
48 4۔ یعنی کیا ڈھیل دینے سے وہ کہیں بھاگے؟ کسی کو جلدی پکڑا جائے یا دیر سے۔ آخر پلٹ کر تو سب کو ہماری طرف ہی آنا ہے۔ الحج
49 5۔ یعنی خواہ وہ مذاق اڑائیں مگر پیغمبر کا فرض ہے کہ وہ ” انذار“ کو ترک نہ کرے۔ (کبیر) الحج
50 الحج
51 6۔ یعنی ہمیں ہرانے یا ہمارے قابو سے باہر ہوجانے کے لئے۔ الحج
52 7۔ لفظ ” امنیۃ“ اور ” تمنی“ کے یہ دونوں معنی آتے ہیں۔ اس لئے مفسرین (رح) نے دونوں معنی ہی بیان کئے ہیں۔ پہلے معنی ” خیال باندھا“ پر شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں : نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک حکم اللہ سے آتا ہے اس میں ہرگز تفاوت نہیں اور ایک اپنے دل کا خیال اس میں جیسے اور آدمی، بھی خیال ٹھیک پڑا کبھی نہ پڑا۔ جیسے حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خواب دیکھا کہ مدینے سے مکے گئے، عمرہ کیا، خیال میں آیا کہ شاید اب کے برس ( ہوگا مگر) وہ ٹھیک پڑا اگلے برس… پھر اللہ جتا دیتا ہے کہ جتنا حکم تھا اس میں تفاوت نہیں۔ (موضح) اس صورت میں اس خیال کے غلط ہونے کی بنا پر اسے شیطان کی طرف منسوب کردیا ہے۔ دوسرے معنی یعنی ” کچھ پڑھنا شروع کیا“ کے تحت بعض علمائے تفسیر نے اس کی شان نزول میں لکھا ہے کہ ایک مرتبہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سورۂ ” النجم“ تلاوت فرما رہے تھے جب آیت ” و مناۃ الثالثۃ الاخریٰ“ پر پہنچے تو بے شعوری کے عالم میں شیطان نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان پر یہ کلمات جاری کردیئے : ” تلک الغرانیق العلی وان شفاعتھن لترتجیٰ“ کہ یہ عالی مقام دیویاں ہیں اور ان کی شفاعت متوقع ہے) اس پر کفار قریش بہت خوش ہوئے کہ آج ہمارے بتوں کی بھی تعریف ہوئی ہے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بہت غم لاحق ہوا۔ چنانچہ سورۃ حج کی یہ آیت نازل ہوئی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی گئی کہ پہلے انبیا ( علیہ السلام) کی وحی میں بھی شیطان اس قسم کی دخل اندازیاں کرتا رہا ہے مگر شیطان کے یہ حربے کامیاب نہیں ہوئے وغیرہ۔ مگر محققین علما (رح) نے اس قصہ کی پرزور تردید کی ہے اور اسے بے اصل قرار یا ہے۔ ابن خزیمہ (رح) نے تو اس قصہ کو زنادقہ (ملحدین) کی سازش قرار دیا ہے تاکہ دین میں شک و شبہات پیدا کرسکیں۔ یہی بات محمد بن اسحق صاحب سیرۃ اور ابو منور ماتریدی (رح) نے لکھی ہے گو حافظ ابن حجر اور ان کے بعد ابراہیم کورانی نے اسنادی حیثیت سے اسے قابل اعتبار قرار دیا ہے اور پھر معنوی حیثیت سے جو اعتراضات اس پر وارد ہوتے ہیں ان کے جوابات میں بہت طویل بحث کی ہے مگر بہتر رائے ابن خزیمہ وغیرہ کی ہے کیونکہ اگر اسے تسلیم کرلیا جائے تو وحی سے اعتبار اٹھ جاتا ہے حالانکہ وحی کی تبلیغ میں انبیا ( علیہ السلام) کا معصوم اور محفوظ ہونا متفق علیہ امر ہے اور جیسا کہ قاضی عیاض نے ” الشفا“ میں تصریح کی ہے اور امت کا اتفاق ہے کہ وہ قصداً یا سہواً اس میں غلطی نہیں کرسکتے۔ (مزید دیکھئے سورۃ النجم :20 مختصر از کبیر و روح) لہٰذا ان دوسرے معنی کی رو سے آیت کا صحیح مطلب یہ معلوم ہوتا ہے کہ شیطان اس وحی کے متعلق لوگوں کے دلوں میں شب ہے ڈالنے کی کوشش کرتا ہے جیسا کہ ” متشابہات“ میں اہل زیغ (کج ذہن) فتنہ پردازی اور ملمع سازی کی کوشش کرتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ دوسری محکم آیات نازل فرما کر ان کی ” تاویلات فائدہ“ کا سدباب کردیتا ہے واللہ اعلم۔ الحج
53 8۔ ان سے مراد وہ کافر ہیں جن کو اپنے کفر پر اصرار ہے اور ” فی قلوبھم مرض“ سے مراد اہل نفاق اور آزمائش اسی معنی میں ہے کہ آیا وہ شک و نفاق سے باز آتے ہیں یا اس میں مزید ترقی کرتے ہیں۔ 9۔ کہ شیطانی وساوس اور شبہات کو اللہ تعالیٰ کا فرمودہ خیال کرتے ہیں۔ الحج
54 1۔ ” تخبت“ میں مطمئن ہونے کا مفہوم بھی شامل ہے اور جھکنے اور نرم ہونے کا بھی (شوکانی) 2۔ یعنی انہیں شیطان کے وسوسوں سے محفوظ رکھے گا۔ الحج
55 3۔ مراد ہے قیامت ہی کے دن کا عذاب۔ الحج
56 الحج
57 الحج
58 4۔ اس لئے کہ بے حساب روزی دیتا ہے بغیر اس کے کہ اسے ہماری کوئی حاجت ہو۔ بندے ایک دوسرے کو اگر کوئی چیز دیتے ہیں تو اپنے پاس سے نہیں دیتے بلکہ اللہ ہی کا دیا ہوا دیتے ہیں۔ پس اللہ کے سوا کوئی راز ق اور کوئی دینے والا نہیں ہے۔ الحج
59 5۔ مراد ہے جنت جسے دیکھ کر وہ خوش ہونگے اور اس میں اپنی ہر خواہش کو موجود پائیں گے۔ (کذا فی الوحیدی) 6۔ یعنی اسے معلوم ہے کہ وہ کس چیز سے خوش ہونگے اور اسے یہ بھی معلوم ہے کہ کس نے اخلاص کے ساتھ اس کیلئے اپنے گھر بار کو چھوڑا۔ 7۔ یعنی ان کو جلدی عذاب نہیں دیتا۔ جنہوں نے ایسے نیک بندوں کو اذیتیں پہنچائیں اور انہیں گھر بار چھوڑنے پر مجبور کیا۔ الحج
60 8۔ یعنی مظلوم کے ظالم سے اپنا بدلہ لینے کے بعد، پھر ازسرنو ظالم سے اس پر زیادتی کرے تو اللہ تعالیٰ اس مظلوم کی ضرور مدد فرمائے گا کیونکہ مظلوم کی مدد کرنا اس کا قاعدہ ہے جیساکہ حضرت انس (رض) سے صحیح روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا : اتقوا دعوۃ المظلوم وان کان کافرا فانھا لیس بینھما حجاب۔ کہ مظلوم کی بددعا سے ڈرو چاہے وہ کافر ہو اس لئے کہ اس کے ( اور اللہ کے) درمیان پردہ نہیں ہے۔ (الجامع الصغیر) مقصد یہ ہے کہ مسلمان مظلوم ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کی مدد کا وعدہ فرمایا ہے۔ (قرطبی) 1۔ اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ بندوں کو چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے اخلاق اپنانے کی کوشش کریں اور اپنے ذاتی معاملات میں عفو ودرگزر کی عادت ڈالیں۔ اور متعدد آیات میں عفو کی ترغیب دی ہے اور اسے ” ان ذلک لمن عزم الامور“ فرمایا ہے۔ شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں : یعنی بدلہ واجبی لینے والے کو خدا عذاب نہیں کرتا اگرچہ بدلہ نہ لینا بہتر تھا۔ بدر کی لڑائی میں مسلمانوں نے بدلہ لیا، کافروں کی ایذا کا پھر ” احد“ و ” احزاب“ میں کافر زیادتی کرنے کو آئے، پھر اللہ نے پوری مدد کی۔“ (موضح) الحج
61 2۔ یعنی اللہ تعالیٰ جو مظلوم کی مدد کرتا ہے وہ اس لئے ہے کہ…3۔ یعنی اللہ تعالیٰ قادر مطلق ہے اور یہ اسی کے کمال قدرت کا کرشمہ ہے کہ وہ رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے چنانچہ کبھی دن بڑا ہوجاتا ہے اور رات چھوٹی ہوتی ہے اور کبھی رات بڑی ہوتی ہے اور دن چھوٹا ہوتا ہے۔ الحج
62 4۔ جب وہ سچا ہے تو اس کا دین بھی سچا ہے اور اس کا اہل ایمان سے وعدہ بھی سچا ہے۔ 5۔ جب وہ (یعن بت جسے کافر پکارتے ہیں) غلط، جھوٹ اور لغو ہے تو ان کی مدد کیسے کرسکتا ہے؟ 6۔ اس کا کوئی شریک یا مدمقابل نہیں ہے۔ الحج
63 7۔ اسی طرح جو زمین آج کفر و شرکت کی بدولت ویران و بے رونق پڑی ہے اللہ تعالیٰ اسلام کی بارش برسا کر اسے سبزہ زار بنا دے گا۔8۔ اس سے اپنے بندوں کی کوئی چھوٹی سے چھوٹی مادی یا اخلاقی ضرورت پوشیدہ نہیں ہے۔ وہ اپنے کمال مہربانی اور باریک طریقوں سے ایسے انتظام فرماتا ہے کہ ہر بندہ کی ضرورت جو اس کے مناسب حال ہو، پوری ہو۔ الحج
64 9۔ یعنی وہ بذات خود تعریف کا سزا وار ہے کوئی اس کی تعریف کرے یا نہ کرے۔ الحج
65 10۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے تم پر جو یہ احسانات فرمائے اور تمہاری زندگی کے لئے جو یہ اسباب فراہم کئے وہ اس وجہ سے نہیں ہیں کہ وہ تمہارا حاجت مند ہے بلکہ یہ سراسر اس کی شفقت و مہربانی کا کرشمہ ہے تمہارا اس پر کوئی زور نہ تھا کہ وہ چاہتا یا نہ چاہتا تم اس سے یہ اسباب حاصل کرلیتے۔11۔ یعنی تمہیں زندگی بخشی۔ الحج
66 12۔ جو یہ سب کچھ دیکھتا ہے پھر بھی اس کا شکریہ ادا نہیں کرتا۔ یعنی اس دعوت کو نہیں مانتا جو اس کی طرف سے اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پیش کرتے ہیں۔ الحج
67 13۔ چنانچہ توراۃ کی شریعت اس زمانہ والوں کے لئے مقرر کی۔ پھر حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کی بعثت آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے لوگوں کیلئے انجیل شریعت چلتی رہی اب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے بعد قیامت تک کے لئے قرآن و سنت کی شریعت مقرر رہے گی۔ (شوکانی) 14۔ کیونکہ یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شریعت کا زمانہ ہے انہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جھگڑا کرنے کا کوئی حق نہیں پہنچتایا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے جھگڑنے کی پروا نہ کریں (شوکانی) 15۔ اب سیدھا راستہ صرف آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ہے حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا : لو نزل موسیٰ فاتعتموہ و ترکتمو فیلضللتم۔ اگر موسیٰ ( علیہ السلام) بھی نازل ہوجائیں اور تم مجھے چھوڑ کر ان کی پیروی کرنے لگو تو گمراہ ہوجائو۔ (الجامع الصغیر) الحج
68 الحج
69 1۔ وہاں عقل کے اندھوں کو بھی معلوم ہوجائے گا کہ حق بات کیا تھی اور باطل کیا؟ جو شخص باطل پر جھگڑا کرے، اس کو سنجیدگی سے یہی جواب دینا چاہئے۔ (شوکانی ) الحج
70 2۔ لہٰذا وہ ان باتوں کو بھی جانتا ہے جن میں تم لوگ اختلاف کر رہے ہو۔ (شوکانی) 3۔ یعنی زمین و آسمان کی ہر چیز کا علم رکھنا یا قیامت کے دن لوگوں کے اختلافات کا صہ چکا دینا۔ الحج
71 4۔ یعنی اپنی کسی کتاب میں یہ نہیں فرمایا کہ یہ ہمارے شریک ہیں تم ان کی پوجا کرسکتے ہو۔ 5۔ سوائے ادہام پرستی اور باپ دادا کی اندھی تقلید کے۔ اس کا رو قرآن میں متعدد مقامات پر کیا گیا ہے۔ دیکھئے مائدہ :104) الحج
72 6۔ یعنی غصہ سے ایسی شکل بناتے ہیں گویا ابھی کاٹ کھائیں گے۔ قاضی شوکانی (رح) لکھتے ہیں : ” یہی کیفیت اہل بدعت کی ہوتی ہے جب انہیں قرآن کی کوئی ایسی آیت یا نبیﷺ کی کوئی ایسی صحیح حدیث سنائی جاتی ہے جو ان کے باطل عقائد کی تردید کرتی ہو۔ (فتح القدیر) 7۔ یعنی کلام الٰہی کی آیات سن کر تم میں غصہ کی جو کیفیت پیدا ہوتی ہے یا ان آیات کے سنانے والوں کے ساتھ جو برے سے برا سلوک تم کرسکتے ہو کیا میں تمہیں اس سے بھی بری چیز نہ بتائوں جس سے تمہیں سابقہ پڑنے والا ہے؟ (شوکانی) الحج
73 8۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ کی لاتعداد اور عظیم الشان مخلوقات کے مقابلہ میں مکھی کی کیا حیثیت ہے؟ 9۔ یعنی چاہنے والا کافر اور جس بت کو وہ چاہتا ہے دونوں کمزور و بے بس ہیں۔ شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں : ” مکھی چاٹتی ہے بت کو، نہ وہ مورت اڑاتی ہے اور نہ اس کا شیطان۔ (موضح) اس سے زیادہ بے بسی اور کیا ہو سکتی ہے؟ الحج
74 1۔ اس لئے انہوں نے بتوں کو اس کا شریک قرار دے لیا حالانکہ جانتے ہیں کہ بت قطعی لاچار اور بے بس ہیں۔2۔ اس کے باوجود بتوں کو یا کسی اور کو اس کا ہمسر سمجھنا نری بیوقوفی نہیں تو اور کیا ہے؟ الحج
75 3۔ یعنی جس فرشتے اور جس آدمی کو چاہتا ہے اپنا پیغمبر بنا لیتا ہے۔ فرشتوں میں سے اس نے جبرئیل ( علیہ السلام) و میکائیل ( علیہ السلام) کو اپنی رسالت کے لئے منتخب فرمایا، اور آدمیوں میں سے آدم ( علیہ السلام)، نوح ( علیہ السلام)، ابراہیم ( علیہ السلام)، موسیٰ ( علیہ السلام) اور عیسیٰ ( علیہ السلام) وغیرہم کو اور اب اپنا آخری پیغمبر محمدﷺ کو بنایا تمہیں اس پر کیوں اعتراض ہے کہتے ہیں کہ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب مشرکین نے کہا :” ء انزل علیہ الذکر من بیننا“ کیا ہم میں سے خدا کا پیغام اس شخص (یعنی محمدﷺ) پر نازل ہونا تھا۔ (معالم) شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں : یعنی ساری خلق میں بہتر وہ لوگ ہیں پیغام پہنچانے والے، فرشتوں میں سے بھی وہ فرشتے اعلیٰ ہیں ان کو (یعنی ان کی ہدایت کو) چھوڑ کر بتوں کو مانتے ہو؟ (موضح) الحج
76 4۔ لہٰذا اس کے انتخاب میں کسی غلطی یا نقص کا امکان نہیں ہے اور نہ اس سے بہتر کسی کا انتخاب ہوسکتا ہے۔ 5۔ یعنی وہ پیغمبر خود کوئی اختیار نہیں رکھتے۔ اختیار ہر چیز میں اللہ کا ہے۔ (موضح) الحج
77 6۔ یعنی اپنے جملہ اطوار و اخلاق و معاملات کی بنیاد نیکی پر رکھو اس لئے حضرت ابن عباس (رض) نے اس جگہ ” خیر“ کی تفسیر صلۃ الرحم و مکارم اخلاق سے کی ہے۔ (معالم) 7۔ اس مقام پر سجدہ کا حکم دیا گیا ہے اس لئے یہاں سجدہ کرنا مستحب ہے۔ صحابہ (رض) میں حضرت عمر (رض)، علی (رض)، ابن مسعود (رض) اور ابن عباس (رض) کا، اور ائمہ (رح) میں سے عبد اللہ بن مبارک (رح)، شافعی (رح)، احمد (رح) ( اور دوسرے محدثین) کا یہی قول ہے (معالم) اس بارے میں بعض مرفوع احادیث بھی آئی ہیں۔ مثلاً عمرو بن عاص سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے مجھے قرآن مجید میں پندرہ سجدے پڑھائے جن میں سے تین سورۃ مفصل ہیں اور دو سورۂ حج میں ہیں۔ (ابو دائود) احناف کے نزدیک سورۂ حج میں اس مقام پر سجدہ نہیں وہ کہتے ہیں یہاں خاص طور پر سجدہ کا حکم نہیں دیا گیا بلکہ عام نیکیوں کا حکم دیا گیا ہے جن میں ایک سجدہ بھی ہے۔ (التعلیق الصبیح) الحج
78 8۔ لفظ جہاد کو عموماً اللہ کی راہ میں قتال (جنگ) پر بولا جاتا ہے بلکہ یہ جہاد اکبر ہے لیکن اس کے لفظی معی کوشش کرنے کے ہیں اس لئے یہ لفظ قتال سے وسیع تر معنی رکھتا ہے اور اس کے تحت وہ تمام کوششیں آجاتی ہیں جو جان و مال، زبان و قلم اور دوسرے ہر ممکن ذریعے سے اللہ کے دین کی اشاعت و ترقی کے لئے کی جائیں بلکہ نفسانی خواہش کا مقابلہ بھی جہاد میں داخل ہے۔ (ایک روایت میں ہے ” المجاہد من جاھد نفسہٗ فی طاعۃ اللہ۔“ مجاہد وہ ہے جس نے اپنے نفس و اللہ کی طاعت پر جھکانے کے لئے اس سے جہاد کیا۔ (فتح القدیر بحوالہ ترمذی) 9۔ دین میں کسی مشکل کے نہ ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ انسان جو جی میں آئے کرتا پھرے بلکہ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دین کے احکام ایسے رکھے ہیں جو انسانی طاقت کے اندر ہیں پھر کمزوری یا بڑھاپے یا کسی اور عذر کی بنا پر انجام نہ دے سکنے کی صورت میں رخصت اور تخفیف کا قاعدہ مقرر کیا ہے (جیسے سفر میں قصر صلوٰۃ کا حکم وغیرہ) پھر گناہوں کے ارتکاب کی صورت میں تو بہکا دروازہ کھلا رکھا، مگر پچھلی امتوں کے فقیہوں نے اسے اپنی موشگافیوں سے ختم کر ڈالا تھا۔ (دیکھئے سورۂ اعراف :157) اسی کو مشہور حدیث میں نبیﷺ نے یوں فرمایا ہے : بعثت بالحنیفیۃ السمو ” مجھے آسان حنیفیت (اللہ کی طرف یکسوئی) کے ساتھ بھیجا گیا ہے۔“ (ابن کثیر) 10۔ یعنی یہ دین اسلام کوئی نیا دین نہیں ہے بلکہ یہ وہی دین ہے جو تمہارے باپ ابراہیم ( علیہ السلام) کا تھا۔11۔ یعنی اللہ نے پچھلی تمام کتابوں میں تمہارا نام ” مسلم“ رکھا جس کے معنی مطیع و فرمانبردار کے ہیں اور تعمیر کعبہ کے وقت حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) نے دعا بھی یہی کی تھی : ربنا وجعلنا مسلمین لک ومن ذریتنا امۃ مسلمۃ لک۔ (بقرہ :128) 12۔ کہ پیغمبروں نے ان کو پیغام پہنچا دیا تھا۔ (دیکھئے بقرہ :143) 13۔ یعنی تمام امور میں اسی کی مدد پر بھروسا کردیا اس کے دین کو مضبوطی سے تھام لو۔ (شوکانی) الحج
0 المؤمنون
1 1۔ یہ پوری کی پوری سورت بالاتفاق مکی ہے۔ حضرت عبد اللہ (رض) بن سائب سے روایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ میں فجر کی نماز میں یہ سورۃ شروع کی، جب موسیٰ ( علیہ السلام) و ہارون ( علیہ السلام)، یا عیسیٰ ( علیہ السلام) کے ذکر پر پہنچے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کھانسی آئی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رکوع فرمایا (نسائی مسلم) اس سورت کی پہلی دس آیتوں پر عمل کے بدلے جنت کی خوشخبری دی گئی ہے۔ (قرطبی) المؤمنون
2 2۔ ” خشوع“ کے لفظی معنی ہیں کسی کے سامنے ڈر کر جھک جانے اور عاجزی و انکساری اختیار کرنے کے اس کا تعلق دل سے بھی ہے اور ظاہری اعضائے بدن سے بھی۔ لہٰذا نماز میں خشوع اختیار کرنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے دل پر خوف و ہیبت طاری ہو اور اس کے اعضا میں سکون ہو۔ وہ نگاہ ادھر ادھر پھیرے نہ کپڑے یا داڑھی وغیرہ کھیلے اور نہ انگلیاں چٹخائے۔ کیونکہ ادھر ادھر دیکھنے کو شیطان کا حصہ قرار دیا ہے۔ اور ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ نماز کی حالت میں اپنی داڑھی سے کھیل رہا ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اگر اس کے دل میں خشوع ہوتا تو اس کے اعضا پر بھی اثر ہوتا۔ یہ خشوع نماز کی اصل روح ہے اس لئے بہت سے علماً نے اسے فرض قرار دیا ہے یعنی اگر یہ نماز میں نہ ہوگا تو نماز نہ ہوگی۔ ابن سیرین (رح) فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام نماز میں اپنے سر اور نگاہیں آسمان کی طرف اٹھا لیا کرتے تھے اور دائیں بائیں رخ کرلیتے تھے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری۔ چنانچہ اس کے بعد وہ ایسا کرنے سے باز آگئے۔ (ابن جریر) عبد الواحد بن زید نے اس پر بھی علما کے اجماع کا دعویٰ کیا ہے کہ آدمی کی نماز وہی قبول ہوتی ہے جسے وہ سمجھ کر پڑھے نیز دیکھئے بقرہ :45، شوکانی) المؤمنون
3 3۔ ” لغو“ (نکمی بات) سے مراد باطل یعنی ہر فضول اور لایعنی قول یا فعل ہے۔ شرک اور گناہ کے تمام کام بھی اس کی تعریف میں آتے ہیں۔ (قرطبی) المؤمنون
4 4۔ یعنی زکوٰۃ ادا کرنا ان کی عادت ہے۔ اگر کہا جائے کہ یہ آیت مکی ہے حالانکہ زکوٰۃ کی فرضیت 3 ھ میں مدینہ میں ہوئی تو اس کا جواب یہ ہے کہ اصل زکوٰۃ مکہ میں فرض تھی مدینہ میں اس کا نصاب اور شرح مقرر ہوئی۔ جیسا کہ سورۂ انعام میں فرمایا گیا : واتوا حقہ یوم حصادہ“ اور کٹائی کے دن فصل کا حق ادا کرو حالانکہ سورۃ انعام بھی مکی ہے۔ بعض مفسرن نے یہاں ” زکوٰۃ“ کو طہارت (پاکیزگی) کے معنی میں لیا ہے۔ اگر یہ مراد ہو تو اس کے مفہوم کو عام رکھا جائے گا جس میں بدن، مال اور نفس ہر چیز کو پاک رکھنا شامل ہے۔ (ابن کثیر) المؤمنون
5 المؤمنون
6 5۔ اس سے معلوم ہوا کہ اسلام میں جس طرح بیوی سے تعلق رکھنا جائز ہے اسی طرح لونڈی سے تعلق رکھنا بھی جائز ہے۔ عاوہ ازیں شہوت رانی حرام ہے۔ لہٰذا نکاح متعہ بھی حرام ہے۔ گو بعض موقعوں پر اس کی اجازت دی گئی تاہم بعد میں ہمیشہ کے لئے حرام قرار دے دیا گیا کیونکہ جس عورت سے متعہ کیا جائے اس پر زوجہ کا اطلاق نہیں ہو سکتا۔ نیز دیکھئے سورۃ نساء آیت 24۔ امام شافعی (رح) اور دیگر علما نے اس آیت سے اسمنا کی حرمت پر بھی استدلال کیا ہے کیونکہ ان کو عادوں حد سے متجاوز کرنے والے قرار دیا ہے۔ (ابن کثیر، قرطبی) المؤمنون
7 المؤمنون
8 6۔ یعنی امانت میں خیانت نہیں کرتے اور جب وہ کوئی عہد کرتے ہیں تو اسے پورا کرتے ہیں۔ امانت میں خیانت اور عہد میں دغا بازی کرنا نفاق کی علامت ہے۔ حدیث میں ہے : منافق کی تین علامتیں ہیں۔ جب وہ بات کرتا ہے جھوٹ بولتا ہے۔ جب وعدہ کرتا ہے۔ تو خلاف ورزی کرتا ہے۔ اور جب اس کے پاس امانت رکھی جاتی ہے تو اس میں خیانت کرتا ہے۔ (ابن کثیر) المؤمنون
9 7۔ یہ نہیں فرمایا کہ وہ نماز پڑھتے ہیں بلکہ فرمایا کہ وہ اپنی نمازوں کی پابندی کرتے ہیں یعنی تمام نمازیں ان کے وقت پر باجماعت ادا کرتے ہیں کبھی ناغہ نہیں کرتے نیز دیکھئے سورۃ بقرہ :2۔ (ابن کثیر) المؤمنون
10 المؤمنون
11 8۔ حدیث میں ہے، ” جب تم اللہ سے جنت مانگو تو جنت الفردوس کی طلب کرو۔ اس لئے کہ وہ جنت کا سب سے اعلیٰ اور بہترین طبقہ ہے اور اسی سے جنت کے دریا نکلتے ہیں اور اسی کے اوپر رحمن کا عرش ہے۔ (ابن کثیر بحوالہ صحیحین) ایک مرتبہ حضرت عائشہ (رض) نے سورۃ مومنون کی یہ دس آیات تلاوت کر کے فرمایا : ” یہ تھا نبیﷺکا خلق۔ (شوکانی) المؤمنون
12 9۔ یا ہم نے انسان کو (یعنی آدم علیہ السلام) کو منتخب مٹی سے پیدا کیا۔ “ المؤمنون
13 المؤمنون
14 10۔ یعنی روح پھونکتے ہیں تو اس میں حرکت و اضطراب، سمع اور بصر (بینائی) پیدا ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح گویا اس کی صرت ہی بدل جاتی ہے جس کو پہلی صورت سے کوئی مناسبت نہیں ہوتی۔ اسی طرح موت تک جتنے اطوار و احوال انسان پر آتے ہیں سب کو ” خلقاً آخر“ کا مفہوم شامل ہے۔ (ابن کثیر)۔ المؤمنون
15 المؤمنون
16 1۔ یعنی تمہیں دوبارہ زندگی دی جائے گی اور تم اپنی اپنی قبروں سے اٹھائے جائو گے۔ المؤمنون
17 2۔ آسمانوں کو راستے اس لئے کہا گیا کہ وہ فرشتوں یا سیاروں کی گزرگاہیں ہیں۔ بعض مفسرین (رح) نے طرائق کے معنی طبقات بھی کئے ہیں۔ جیسا کہ دوسری آیت میں ” سبع سمت طباقا“ فرمایا ہے۔ (ملک :3) 3۔ یعنی اپنی کسی جاندار یا بے جان مخلوق کی حفاظت اور اس کی ضرورتوں سے بے خبر نہیں ہیں۔ یہی معنی ” الحی القیوم“ کے ہیں (قرطبی) ان سات آسمانوں کو زمین پر گرنے سے سنبھالے ہوئے ہیں ورنہ اگر یہ گرجائیں تو زمین پر بسنے والے سب ہلاک ہوجائیں۔ (کبیر) المؤمنون
18 4۔ اندازہ سے مراد وہ اندازہ ہے جو جانداروں، کھیتوں اور پھلوں وغیرہ کے لئے سازگار ہے نہ ان کی ضرورت سے زیادہ اور نہ کم اور پھر برساتی نالوں اور دریائوں کے اندر زرخیز مٹی بہ کر آجاتی ہے جو زراعت کے لئے مفید ہوتی ہے۔ (ابن کثیر) 5۔ مراد وہ پانی ہے جو تالابوں اور جوہڑوں کی شکل میں زمین کی سطح پر ٹھہر جاتا ہے اور اسے لوگ آبپاشی، اپنے پینے، جانوروں کو پلانے اور دیگر ضرورتوں کے لئے استعمال میں لاتے ہیں۔ اس لحاظ سے یہ پانی اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ (ابن کثیر) 6۔ بخارات بن کر اڑ جائے یا زمین میں جذب ہوجائے۔ جیسے دوسری آیت میں فرمایا : قل ارأیتم ان اصبح ماء کم غورا فمن یاتیکم بماء معین۔ کہہ دیجئے ! کیا تم نے غور کیا کہ اگر تمہارا پانی زمین میں اتر جائے تو کون تمہیں عمدہ صاف شفاف پانی لا کر دے گا۔ (ملک :3) المؤمنون
19 7۔ یعنی کھجور اور انگور بھی اور بہت سے دوسرے میوے بھی جو غذا اصلی کے علاوہ ہیں۔8۔ یعنی ان باغوں میں سے جو پھل اور غلے تمہیں حاصل ہوتے ہیں تم انہی کو کھاکر زندگی بسر کرتے ہو۔ المؤمنون
20 9۔ مراد ہے زیتون کا درخت جو کوہ طور اور اس کے قریب بحیرہ روم کے اردگرد کے علاقہ میں بکثرت پیدا ہوتا ہے اور نہایت عمدہ ہوتا ہے۔ (ابن کثیر) المؤمنون
21 10۔ پانی اور نباتات کے ذریعہ جو نعمتیں انسان تک پہنچ رہی ہیں ان کا ذکر کرنے کے بعد اب ان نعمتوں کا بیان ہو رہا ہے جو حیوانات کے واسطہ سے انسان تک پہنچتی ہیں۔ گویا یہ بھی اللہ تعالیٰ کی قدرت اور رحمت کی دلیل ہے مطلب یہ ہے کہ ان کے پیٹوں میں جو کچھ ہے اس میں سے ایک چیز تمہیں پلاتے ہیں۔ مراد ہے دودھ جیسا کہ دوسری آیت میں ہے : لبنا خالصا سائغا للشاربین۔ یعنی ان جانوروں کے پیٹوں میں گوبر اور خون کے بیچ میں سے خالص دودھ جو پینے والوں کے لئے مزیدار ہے، پلاتے ہیں۔ (نحل :66) 11۔ یعنی ان کا گوشت کھاتے ہو۔ یا مطلب یہ ہے کہ ان پر تمہاری معیشت کا نظام قائم ہے۔ (روح) المؤمنون
22 12۔ یعنی خشکی میں جانوروں کی پیٹھ پر اور تری میں جہازوں اور کشتیوں پر سوار ہو کر، جہاں کا چاہتے ہو سفر کرتے ہو۔ انعامات اور دلائل توحید بیان کرنے کے بعد آگے انبیا اور ان قوموں کے حالات بیان فرمائے کہ لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں میں غوروفکر کی بجائے اعراض سے کام لیا تو ان پر اللہ تعالیٰ کا عذاب آگیا۔ اس میں دوسرے لوگوں خصوصاً قریش کیلئے تخویف ہے۔ قرآن میں عموماً الاء اللہ کے بعد ایام اللہ کا بیان ہے تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔ (کبیر۔ روح) المؤمنون
23 المؤمنون
24 13۔ گویا حضرت نوح ( علیہ السلام) کے (اعبدواللہ) پر طعن ہے۔ یعنی اگر اللہ تعالیٰ کی مشیت یہ ہوتی کہ اسی ایک کی عبادت کی جائے تو کسی فرشتے کو رسول بنا کر بھیج دیتا۔ یہاں ” شاء“ فعل کا مفعول محذف ہے اور ” لانزل“ جواب ” لو“ ہے یعنی لو شاء اللہ عبادتہ وحدہٗ لا نزل ملائکۃ۔14۔ کہ کسی بشر نے پیغمبر ہونے کا دعویٰ کیا ہو یا توحید کی طرف دعوت دی ہو۔ یہ دوسرا اعتراض ہے۔ المؤمنون
25 1۔ یعنی کچھ مدت تک اسے کچھ نہ کہو شاید خو دم بکتے بکتے چپ ہوجائے، یا شاید اس کا دماغ درست ہوجائے اور سمجھ کی باتیں کرے۔ المؤمنون
26 2۔ جمہور مفسرین (رح) کے نزدیک یہی آگ کا تنور مراد ہے اور بعض نے مطلق وجہ ارض مراد لیا ہے۔ (ہود :40) 3۔ یعنی اپنے گھروالوں کو بھی۔ المؤمنون
27 4۔ کہ وہ ایمان نہ لائیں گے اور ہلاک ہوں گے۔ مراد ہیں حضرت نوح ( علیہ السلام) کی بیوی اور ان کا بیٹا۔ واللہ اعلم۔ (ابن کثیر) 5۔ یعنی مجھ سے ان کے بچانے کے لئے سفارش نہ کرنا۔ المؤمنون
28 المؤمنون
29 6۔ برکت کے اتارنے سے مراد یہ ہے کہ سوار ہوتے وقت کوئی تکلیف نہ ہو اور جہاں اتریں وہاں کوئی آفت نہ آئے۔ ہر حل میں اور ہر جگہ تیری رحمت و برکت شامل حال رہے۔ اس آیت میں بندوں کو تعلیم دی گئی ہے کہ کسی سواری پر سوار ہوتے وقت اور اس سے اترتے وقت یہ دعا کیا کریں۔ بلکہ اپنے گھروں میں داخل ہوتے وقت بھی سلام کے بعد یہ دعا پڑھا کریں۔ (قرطبی۔ شوکانی) المؤمنون
30 7۔ یعنی جس طرح قوم نوح کو جانچا۔ اسی طرح ہر قوم کی طرف رسول بھیج کر اس کا ضرور امتحان لیں گے۔ (ابن کثیر) اس کا دوسرا ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ” ہمیں تو (قوم نوح ( علیہ السلام) کی) آزمائش کرنا ہی تھی“۔ المؤمنون
31 8۔ اکثر مفسرین نے اس سے مراد قوم عادلی ہے جیسا کہ سورۂ اعراف میں ہے کہ حضرت ہود ( علیہ السلام) نے اپنی قوم سے فرمایا : واذکروا اذجعلکم خلفاء من بعد قوم نوح۔ یاد کرو، جب اللہ تعالیٰ نے تمہیں قوم نوح ( علیہ السلام) کے بعد زمین میں بسنے والے بنایا۔ (آیت :69) اور علما نے لکھا ہے۔ ظاہر یہ ہے کہ اس قوم پر ریح اور صبیحۃ دونوں قسم کے عذاب آئے۔ (ابن کثیر) بعض نے اس سے مراد قوم ثمود، اور بعض نے قوم شعیب لی ہے۔ کیونکہ آگے ذکر آرہا ہے کہ یہ قوم ” صیحۃ“ (چنگھاڑ) سے تباہ ہوئی اور ثمود اور قوم شعیب ( علیہ السلام) وہ قومیں ہیں جن کے متعلق دوسرے مقامات پر بتایا گیا کہ ان کی ہلاکت چنگھاڑ سے ہوئی۔ دیکھئے ہود آیت :67، 94۔ (قرطبی) المؤمنون
32 المؤمنون
33 المؤمنون
34 1۔ یعنی اس سے بڑھ کر تمہاری ذلت کیا ہوگی کہ باپ دادا کے طریقہ کو چھوڑ کر اپنے ہی جیسے ایک آدمی کی اطاعت کرنے لگو۔ المؤمنون
35 المؤمنون
36 المؤمنون
37 2۔ یعنی کونسی آخرت اور کہاں کا حساب کتاب :۔ ایں خیال است و محال است و جنوں۔ جو کچھ مرنا جینا ہے بس اسی دنیا کا ہے اگلے مرتے جاتے ہیں اور پچھلے پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ یہ کارخانہ عام اسی طرح جاری رہا ہے اور اسی طرح جاری رہے گا۔ المؤمنون
38 3۔ جو کہتا ہے کہ میں اس کا بھیجا ہوا ہوں، یا مرنے کے بعد دوبارہ زندگی ہوگی۔ (ابن کثیر) 4۔ لفظی ترجمہ یہ ہے کہ ” ہم اس پر ایمان لانے والے نہیں۔ “ المؤمنون
39 المؤمنون
40 5۔ اگر ” قرنا اخرین“ سے مراد قوم صالح ( علیہ السلام) (ثمود) ہوجیسا کہ علامہ طبری وغیرہ کا خیال ہے تو اس میں کچھ اشکال نہیں ہے۔ کیونکہ ” ثمود“ صیحہ سے ہلاک ہوئے ہیں لیکن اگر اس ” قرن“ سے مراد قوم عاد ہوجیسا کہ اکثر مفسرین کا خیال ہے اور اوپر ذکر ہوا ہے تو یہ اشکال لازم آتا ہے کہ قوم ثمود تو باد صرصر سے ہلاک ہوئی ہے پھر یہاں اس ” صیحۃ“ سے کیا مراد ہے۔ اس کے جواب میں مفسرین (رح) نے لکھا ہے کہ باد صر صر کے عذاب کے ساتھ جبریل نے ایک چنگھاڑ ماری جس سے یکدم تمام کے تمام ختم ہوگئے۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ نفس کے اس عذاب ہی کو ” صیحۃ“ سے تعبیر فرمایا ہو۔ (ابن کثیر۔ شوکانی) 6۔ یعنی جو سزا انہیں دی گئی وہ عین عدل و انصاف کے مطابق تھی، ان پر کوئی زیادتی نہیں کی گئی۔ بعض نے فاخذتھم الصیحۃ بالحق کا یہ ترجمہ کیا ہے : آخر ” سچے وعدے“ کے مطابق ایک چیخ نے انہیں آ دبوچا۔ یعنی وہ وعدہ جو ” عما قلیل لیصبحن ناد مین“ کے ضمن میں پایا جاتا ہے۔ اور ” الحق“ سے مراد قطعی امر بھی ہوسکتا ہے جسے کوئی روک نہ سکتا ہو۔ (روح) المؤمنون
41 المؤمنون
42 المؤمنون
43 7۔ یعنی اس کے لئے زندگی کی جو مدت اللہ نے مقرر کردی ہے وہ دنیا میں نہ اس سے زیادہ ٹھہرتی ہے اور نہ کم۔ المؤمنون
44 المؤمنون
45 8۔ نشانیوں سے مراد وہ نشانیاں ہیں جن کا سورۂ اعراف اور بعض دوسرے مقامات پر ذکر کیا گیا ہے۔ عصا بھی اگرچہ ان ہی نشانیوں میں سے تھا لیکن اس کی حیثیت چونکہ ان سب میں ممتاز تھی اس لئے اس کا ذکر خاص طور پر ” سلطان مبین“ (کھلی سند) کے لفظ سے کیا گیا جیسے کہا جائے ” ملائکۃ اللہ و جبرئیل“ (اللہ کے فرشتے اور جبریل) یعنی تخصیص بعد تعمیم کے قبیل سے ہے۔ المؤمنون
46 9۔ اس لئے انہوں نے حق کو پہچان لینے کے باوجود ماننے سے انکار کردیا۔ المؤمنون
47 1۔ اصل میں لفظ ” عابدن“ کے معنی ہیں ” عبادت کرنے والے“ مگر یہ لفظ بندگی اور غلامی کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ المؤمنون
48 2۔ تفصیل کے لئے دیکھئے سورۂ یونس رکوع 9۔ المؤمنون
49 3۔ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کو کتاب تورات فرعونیوں کے غرق ہونے کے بعد ملی جیسے فرمایا : ولقد اتینا موسیٰ الکتاب من بعد ما اھلکنا القرون الاولی۔ اور ہم نے موسیٰ ( علیہ السلام) کو کتاب (توراۃ) دی بعد اس کے کہ ہم نے پہلی نسلوں کو ہلاک کردیا۔ (قصص :43) کیونکہ توراۃ نازل ہونے کے بعد کوئی قوم عذاب عام کے ساتھ ہلاک نہیں ہوئی اس لئے یہاں ” لعلھم“ (تاکہ وہ) میں ہم (وہ) ضمیر بنی اسرائیل ہی کے لئے قرار دی جاسکتی ہے فرعونیوں کے لئے نہیں۔ (ابن کثیر، شوکانی) المؤمنون
50 4۔ یعنی دونوں کو ملا کر ایک نشانی بنایا جس کے معنی یہ ہیں کہ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) بغیر باپ کے پیدا ہوئے ورنہ دونوں مل کر ایک نشانی نہیں بن سکتے۔ (انبیاء :9) 5۔ اس ربود (ٹیلہ) سے مراد کونسا مقام ہے؟ اس بارے میں مفسرین کا اختلاف ہے۔ اکثر اس سے مراد۔ اسرائیلی رایات کے مطابق۔ مصر لیتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ اس زمانے میں ملک شام کا حاکم ہیروڈوس تھا۔ وہ نجومیوں سے سن کر کہ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کو سرداری ملے گی بچپن ہی سے ان کا دشمن ہوگیا تھا اور ان کے قتل کے درپے تھا۔ حضرت مریم ( علیہ السلام) انہیں لے کر مصر چلی گئیں اور جب تک ہیروڈوس زندہ رہا ملک شام واپس نہ آئیں۔ انجیل کی کتاب متی میں یہ واقعہ اسی طرح مذکور ہے لیکن حافظ ابن کثیر (رح) لکھتے ہیں : اقرب قول یہ ہے کہ ” ربوہ“ سے مراد وہ جگہ ہے جہاں حضرت مریم ( علیہ السلام) وضع حمل کے وقت تشریف رکھتی تھیں۔ سورۂ مریم میں ہے کہ ان کے نیچے چشمہ جاری کردیا۔ واللہ اعلم۔ بہرحال اہل اسلام میں سے کسی نے ” ربوہ“ سے مراد کشمیر نہیں لیا اور نہ حضرت مسیح ( علیہ السلام) کی قبر کشمیر میں بتائی ہے۔ یہ محض کذب بیانی اور دروغ بانی ہے۔ محلہ ” خان یار“ شہرسری نگر میں جو قبر ” یور آسف“ کے نام سے مشہور ہے اور جس کے متعلق ” تاریخ اعظمی“ کے مصنف نے محض عام افواہ نقل کی ہے کہ ” لوگ اسے کسی نبی کی قبر بتاتے ہیں وہ کوئی شہزادہ تھا اور دوسرے ملک سے یہاں آیا تھا“ اس کو حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کی بر بتانا پرلے درجے کی بے حیائی اور سفاہت ہے۔ (کذافی بعض الحواشی) المؤمنون
51 6۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے جو حکم رسولوں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیا ہے وہی حکم اہل ایمان کو دیا ہے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت تلاوت کر کے فرمایا : ایک شخص دور دراز کا سفر طے کر رہا ہے اور اس کے ہاں اور کپڑے گرد سے اٹے ہوئے ہیں مگر اس کا کھانا حرام کا ہے، پینا حرام کا ہے، لباس حرام کا ہے۔ وہ آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا اٹھا کر دعا کرتا ہے : اے میرے رب ! اے میرے رب، مگر اس کی دعا قبول کیونکر ہو؟ (شوکانی) المؤمنون
52 7۔ انبیاء کے درمیان زمان و مکان کا کتنا ہی اختلاف رہا ہو لیکن چونکہ وہ اصول (عقیدہ توحید) میں متفق تھے اور اسی کی طرف ان کو دعوت دی۔ اسی لئے ان سے خطاب کر کے فرمایا گیا کہ تم سب کا دین ایک ہی ہے۔8۔ ہر ایک نے ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ بنا لی ہے بعد میں ان کے ماننے والوں نے دین میں اختلاف کیوں اور کیسے کیا؟ المؤمنون
53 9۔ یعنی اپنے آپ کو برحق اور دوسرے کو باطل پرست سمجھتا ہے۔10۔ یعنی عذاب یا کفر پر موت کے وقت تک، یہ تہدید ہے تعیین نہیں ہے۔ (قرطبی) المؤمنون
54 المؤمنون
55 المؤمنون
56 11۔ ان کا خیال یہی تھا۔ چنانچہ وہ کہا کرتے، ہم مال واسباب میں زیادہ ہیں اور ہم پر عذاب نہیں ہو ستا۔ (سبا :35) 12۔ اور وہ اصل میں استعمال و استدراج ہے تاکہ جس قدر انہیں ڈھیل ملے اسی قدر ان کے گناہوں کا پیمانہ اور لبریز ہو اور بھرپور طریقہ سے ان پر گرفت کی جائے۔ (نیز دیکھئے سورۃ اعراف :183) المؤمنون
57 المؤمنون
58 المؤمنون
59 المؤمنون
60 13۔ وہاں معلوم نہیں ان کا دیا ہوا صدقہ قبول بھی ہوتا ہے یا نہیں؟۔ ڈرنے کا تعلق اس چیز سے ہے نہ کہ صرف اللہ تعالیٰ کی طرف پلٹنے سے مطلب یہ ہے کہ وہ صدقہ اور اسی طرح دوسری تمام عبادات بجا لاتے ہیں لیکن اس پر ناز نہیں کرتے۔ حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا۔ ” اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کیا اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شراب پی لے، چوری کرلے، زنا کرلے مگر اللہ سے ڈرتا رہے؟ فرمایا نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی روزہ رکھے، صدقہ کرے نماز پڑھے پھر بھی ڈرتا رہے کہ شاید بارگاہ الٰہی میں قبول نہ ہو اور سلف گناہوں پر جتنا ڈرتے تھے، اس سے زیادہ نیکی کی عدم قبولیت کا اندیشہ ان کو دامن گیر رہتا تھا۔ (قرطبی۔ شوکانی) المؤمنون
61 14۔ یعنی جن میں یہ بیان کردہ چار صفات پائی جاتی ہیں۔15۔ معلوم ہوا کہ مسابقت کی چیزیں نیک اعمال اور نیک اخلاق ہیں نہ کہ مال واولاد۔ المؤمنون
62 1۔ اور شریعت کے تمام احکام میں یہی اصول کار فرما ہے۔ (بقرہ :286)۔ المؤمنون
63 2۔ کہ جو کچھ یہ کر رہے ہیں، یا بول رہے ہیں، سب ان کے نامۂ اعمال میں درج ہو رہا ہے اور ایک دن انہیں ان کا حساب دینا پڑے گا۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ” ھذا“ سے اشارہ قرآن کی طرف ہو اور یہ کفار اور مشرکین قریش کو تنبیہ ہو۔ (قرطبی۔ ابن کثیر) 3۔ یا وہ ” انہیں آئندہ کرنے والے ہیں“۔ واحدی کہتے ہیں کہ اس آیت میں ان کے آئندہ اعمال کی خبر دی گئی ہے۔ یہی اکثر علمائے تفسیر نے بیان کی ہے۔ (شوکانی) المؤمنون
64 المؤمنون
65 4۔ کیونکہ یہ جزا و سزا کا وقت ہے، عمل و توبہ کا وقت ختم ہوگیا۔ اب تمہاری چیخ پکار بے کار ہے۔ المؤمنون
66 5۔ اب یہاں پر ان کا سب سے بڑا گناہ بیان کیا ہے (ابن کثیر) یہ ترجمہ اس صورت میں ہے کہ ” بہ“ کی ضمیر قرآن یا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے قرار دی جائے اور ” ھجر“ کے معنی بکواس کرنا اور ” سامرا“ کے معنی گپ شپ کرنے والے لوگ (جمع) لئے جائیں اور اگر ” سامرا“ کے معنی افسانہ گو (واحد) اور ” ھجر“ کے معنی چھوڑنا کئے جائیں (جیسا کہ شاہ عبد القادر (رح) نے لئے ہیں) تو ترجمہ یوں ہوگا۔ ” تو تم اس (پیغمبر) سے (یا حرم کی مج اوری پر) اکڑ کر ایک افسانہ گو کو چھوڑتے ہوئے اپنی ایڑیوں کے بل الٹے بھاگتے تھے“۔ جیسا کہ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں : ” قریش کی عادت تھی کہ رات کے وقت خانہ کعبہ کے پاس حلقے بنا کر بیٹھتے اور قرآن اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں بیہودہ بکواس کرتے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو شاعر، کاہن وغیرہ کہتے۔ اس لئے جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہﷺ نے لوگوں کو رات کے وقت ہر قسم کی گپ بازی سے منع فرما دیا۔ (مختصر از شوکانی و قرطبی) المؤمنون
67 المؤمنون
68 6۔ پس یہاں ” القول“ سے مراد قرآن ہے جیسا کہ دوسری آیت میں ہے : افلا یتدبرون القران۔ کیا یہ لوگ قرآن پر غور نہیں کرتے۔ (نساء :82) یعنی اگر غور کرتے تو صاف معلوم ہوجاتا کہ قرآن سچی کتاب۔7۔ یعنی قرآن میں کوئی ایسی بات نہیں ہے بلکہ اس میں وہی باتیں ہیں جو اللہ کے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر زمانہ میں لاتے رہے ہیں۔ یہاں ” اباء ھم الاولین“ سے مراد پہلی امتیں ہیں۔ کیونکہ عربوں کے آباء کے متعلق تو تصریح موجود ہے کہ ان کے پاس کوئی ڈرانے والا نہیں آیا۔ (یٰٓس :6) المؤمنون
69 8۔ یعنی یہ بات بھی نہیں کیونکہ وہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دیانت و امانت کو خوب پہچانتے تھے بلکہ خود انہیں ” امین“ کہہ کر پکارتے تھے۔ المؤمنون
70 9۔ یعنی کیا وہ واقعی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مجنون (پاگل) سمجھتے ہیں ہرگز نہیں کیونکہ چاہے وہ زبان سے انہیں مجنون کہتے ہوں لیکن دل سے ان کی عقلمندی کے کے قائل ہیں۔10۔ یعنی اگر یہ لوگ مخلص اور حق پسند ہوتے تو ان کے پاس آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کو ٹھکرانے کے لئے ان اسباب میں سے کوئی ایک سبب ہوسکتا تھا مگر جب ان اسباب میں سے کوئی سبب بھی نہیں ہے تو معلوم ہوا کہ یہ لوگ مخلص اور حق پسند نہیں ہیں اس لئے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دور بھاگ رہے ہیں۔ المؤمنون
71 11۔ یعنی ویسا ہوتا یا ہوجایا کرتا جیسا یہ چاہتے ہیں۔12۔ کیونکہ ان کی خواہش اختلاف و تضاد کا مجموعہ ہیں یا مطلب یہ ہے کہ ان کی خاہش کے مطابق اگر اللہ کے سوا اور بھی معبود ہوتے تو کائنات کا یہ سارا نظام درہم برہم ہوجاتا۔ اکثر مفسرین (رح) نے اس آیت کا یہی دوسرا مطلب لیا ہے۔ (شوکانی) 13۔ یا جس میں ان کیلئے نصیحت ہے اور وہ اپنی نصیحت سے منہ موڑ رہے ہیں لفظ ” ذکر“ کے مفسرین (رح) نے متعدد معنی بیان کئے ہیں۔ (انبیاء :10) المؤمنون
72 14۔ یعنی وہ ثواب اور درجہ جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ تعالیٰ آخرت میں دیگا۔ مطلب یہ ہے کہ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دعوت حق کا یہ کام بالکل بے لوث ہو کر کر رہے ہیں اور ان سے کوئی حق خدمت طلب نہیں کرتے تو ان کا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کو ٹھکرانا سراسر حماقت اور عاقبت نااندیش ہے۔ المؤمنون
73 1۔ جسے کوئی کج فہم آدمی ہی ٹھکرا سکتا ہے۔ مراد ہے اسلام کا سیدھا راستہ۔ المؤمنون
74 2۔ یعنی چونکہ انہیں اس چیز کی فکر ہی نہیں کہ کل ہمیں کس انجام اور کس حساب و کتاب سے سابقہ پیش آنے والا ہے اس لئے وہ تحیر اور ضلالت کا شکار ہو رہے ہیں۔ المؤمنون
75 3۔ اور قرآن بھی ان کے فہم میں اتار دیں۔ یہاں ” ضر“ سے مراد ہے اس قحط کی تکلیف جس میں قریش آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بددعا سے مبتلا ہوئے تھے۔ اس قحط کا متعدد روایات میں ذکر آیا ہے صحیحین میں ہے کہ جب قریش کی سرکشی حد سے بڑھ گئی تو نبیﷺ نے ان کے حق میں بددعا فرمائی : اللھم اعنی علیھم بسبع کسبع یوسف۔ اے اللہ ! میری ان کے مقابلہ میں ایسے ہفت سالہ قحط سے مدد فرما۔ جیسا قحط یوسف ( علیہ السلام) کے زمانہ میں پڑا تھا۔ (شوکانی) 4۔ کیونکہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم سے جو مصیبت ٹلتی ہے اپنے ہی حسن انتظام سے ٹلتی ہے۔ خدا کا اس کے ٹالنے میں کوئی احسان نہیں ہے۔ (وحیدی) المؤمنون
76 المؤمنون
77 5۔ حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ جس زمانہ میں قریش قحط میں مبتلا تھے ابو سفیان نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا : ” کیا آپ کا یہ دعویٰ نہیں ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سارے جہان کے لئے رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” ہاں وہ بولے“ (مگر) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تو آباء کو تلوار سے اور ابناء (بیٹوں) کو بھوک سے مار ڈالا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (ابن جریر) 6۔ مراد آخرت کا عذاب بھی ہوسکتا ہے اور بدر کے دن کا بھی جیسا کہ حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے۔ (قرطبی) المؤمنون
78 7۔ ان حواس کی شکر گزاری تو یہ ہے کہ ان کے ذریعہ صحیح راستہ کی طرف رہنمائی حاصل کرو، ورنہ ان کے ذریعے جسمانی اور مادی خواہش تو دوسرے حیوانات بھی پوری کر رہے ہیں۔ عالم کون میں جودلائل توحید پائے جاتے ہیں ان کے ذریعہ ان دلائل کو دیکھا اور سمجھا جائے اور کانوں سے سبق آموز باتیں سنی جائیں۔ المؤمنون
79 المؤمنون
80 8۔ کبھی رات آتی ہے اور کبھی دن، اور پھر ان میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے اور دنیا کی ساری رونق اس رات دن کے الٹ پھیر ہی سے قائم ہے۔9۔ کہ آخر زندگی کا یہ سارا نظام کسی خالق اور عزیزو علیم کے بغیر وجود میں آسکتا تھا اور کیا اس کائنات کے ایک سے زیادہ خالق و مدبر ہو سکتے تھے؟ المؤمنون
81 10۔ یعنی باپ دادا کی اندھی تقلید کے بغیر، ان کے پاس اپنے غلط عقائد واعمال کے لئے کوئی عقلی یا نقلی دلیل نہیں ہے۔ المؤمنون
82 المؤمنون
83 11۔ یعنی پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے ماننے والے پہلے بھی اس کا دعویٰ کرتے چلے آئے ہیں۔ المؤمنون
84 المؤمنون
85 12۔ یعنی یہ بات کیوں نہیں سمجھتے کہ پھر اس کے بغیر کوئی معبود بھی نہیں ہے اور انسانوں کے مر جانے کے بعد اس کے لئے انہیں دوبارہ زندہ کرنا بھی مشکل کام نہیں ہے۔ المؤمنون
86 المؤمنون
87 1۔ اور اسے چھوڑ کر دوسروں کی بندگی کرتے ہو اور اس کے لئے ایسی چیزیں قرار دیتے ہو جنہیں اپنے لئے برا سمجھتے ہو۔ (قرطبی) المؤمنون
88 2۔ یعنی کون ہر چیز پر کامل اقتدار رکھتا ہے۔ ” ملکوت“ کے لفظی معنی ملک (بادشاہی) کے ہیں ” و ء ت“ کا اضافہ مبالغہ کے لئے ہے۔ (شوکانی) 3۔ یعنی ہر ایک کو بچا سکتا اور پناہ دے سکتا ہے۔ المؤمنون
89 4۔ یعنی تمہیں کہاں سے دھوکا لگتا ہے کہ ایسی قدرت اور ایسے اختیار والی ہستی ک چھوڑ کر بے حقیقت ہستیوں کو اپنا معبود بناتے پھرتے ہو؟ یہ تمام تر خطاب ان لوگوں سے ہے جو صانع کے وجود کے قائل تھے جیسا کہ ان کے جواب ” سیقولون للہ“ سے معلوم ہوتا ہے۔ تسحرون“ کا لفظی ترجمۃ تم مسحور کئے جاتے ہو۔“ (قرطبی) المؤمنون
90 5۔ یعنی اپنی اس بات میں جھوٹے ہیں کہ اللہ کے سوا اور بھی بندگی کے لائق ہے۔ المؤمنون
91 6۔ اپنی خدائی الگ قائم کرلیتا۔7۔ نہ اس کا کوئی شریک ہے اور نہ بیٹا۔ (قرطبی) وہ ہر نقص اور کمزوری سے پاک ہے۔ المؤمنون
92 8۔ یعنی جو دوسروں کے لحاظ سے کھلی یا چھپی ہے ورنہ اس کے لئے تو ہر چیز کھلی ہے۔9۔ یعنی اس کی شان اس سے بہت بلند ہے کہ جن کو یہ مشرک اس کا شریک سمجھتے ہیں وہ اس کے شریک ہوں۔ (وحیدی) المؤمنون
93 المؤمنون
94 10۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ خدانخواستہ نبیﷺ کے بھی گناہگاروں کیساتھ پس جانے کا اندیشہ تھا اس لئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ دعا کرنے کا حکم دیا گیا بلکہ اس سے مقصود امت کے لوگوں کو تعلیم دینا ہے کہ خدا کے عذاب سے ہر شخص کو چاہے وہ کتنا ہی نیک ہو پناہ مانگتے رہنا چاہئے اور کبھی اپنی نیکی پر اترانا نہیں چاہئے۔ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ بروں کے ساتھ نیک بھی پس جاتے ہیں۔ دیکھئے سورۃ انفال :25۔ (شوکانی) المؤمنون
95 11۔ یعنی ہم یہ پوری قدرت رکھتے ہیں کہ اسے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی ہی میں ان پر نازل کردیں لیکن چونکہ ہمیں معلوم ہے کہ ان میں سے بہت سے لوگ آگے چل کر ایمان لانے والے ہیں اس لئے ہم اسے مؤخر کئے جا رہے ہیں۔ (شوکانی) المؤمنون
96 12۔ یعنی بدی کا بدلہ نیکی، ظلم کا بدلہ انصاف، خیانت کا بدلہ دیانت داری، جھوٹ کا بدلہ، سچ، قطع رحمی کا بدلہ صلہ رحمی اور گالی گلوچ کا بدلہ دعا و سلام سے……دیجئے نتیجہ کیا ہوگا ؟ فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَبَیْنَہٗ عَدَاوَۃٌ کَاَنَّہٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ۔ یعنی اس طرح جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دشمن ہے وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دلسوز دوست ہوجائے گا۔ (فصلت :34) اس میں عفو ودرگزر کی تعلیم دی ہے اور لوگوں کے ساتھ مل جل کر رہنے کے لئے یہ تریاق نافع ہے۔ (ابن کثیر) چنانچہ حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کسی پر زیادتی کی ہو یا اس سے ذاتی انتقام لیا ہو۔ الا یہ کہ اس نے اللہ کی مقرر کردہ کسی حد کو پامال کیا جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے اللہ کے لئے انتقام لیا۔ (مسلم) المؤمنون
97 المؤمنون
98 13۔ یعنی کسی حال میں میرے ساتھ ہوں کیونکہ جب وہ کسی انسان کے ساتھ ہوں گے تو وسوسہ اندازی اور برائی پر اکسانے اور نیکی سے پھیردینے کے سوا ان کا کوئی کام ہی نہ ہوگا۔ (شوکانی) اس آیت میں شیطان کے شر سے بچنے کے لئے دعا کی تعلیم دی ہے۔ حدیث میں ہے کہ آنحضرتﷺ ہمیں رات کو سوتے وقت پڑھنے کے لئے یہ دعا سکھایا کرتے تھے تاکہ گھبراہٹ سے محفوظ رہیں : بسم اللہ اعوذ بکلمات اللہ التامۃ من غضبہ و عقابہ و شر عبادہ ومن ھمزت الشیطین وان یحضرون۔ (شوکانی) المؤمنون
99 المؤمنون
100 1۔ ” جسے وہ کہے گا ہی“ مگر اس کی کوئی شنوائی نہ ہوگی کیونکہ اسے عمل کے لئے جو مہلت ملنی تھی ایک مرتبہ دنیا میں مل چکی۔ دوبارہ عمل کے لئے کوئی موقع اسے نہ دیا جائے۔ (شوکانی) 2۔ مراد ہے عالم برزخ جسے قبر کی زندگی بھی کہا جاتا ہے۔ برزخ کے لغوی معنی دو چیزوں کے درمیان پردہ یا آڑ کے ہیں۔ قبر کی زندگی کو برزخ اس لئے کہتے ہیں کہ وہ دنیاوی زندگی اور اخروی زندگی کے درمیان پردہ یا آڑ ہے۔ احادیث سے بھی اس عالم (قبر) میں نیکوں کے لئے آرام اور بدوں کے لئے سزا اور تکلیف کا ثبوت ملتا ہے۔ المؤمنون
101 3۔ یعنی وہ اپنے رشتے ناتوں پر فخر نہ کریں گے یا رشتے ناتے کچھ فائدہ نہ دے سکیں گے۔ حدیث میں ہے : کل نسب و سبب منقطع الائسبی و سببی۔ کہ میرے نسب اور تعلق کے بغیر سب تعلقات منقطع ہوجائیں گے۔ اس حدیث کی بنا پر حضرت عمر (رض) نے ام کلثوم (رض) بنت علی (رض) بن ابی طالب سے چالیس ہزار مہر کے بدلے نکاح کیا تھا۔ معلوم ہوا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نسب اس عموم سے مستثنیٰ ہے (ابن کثیر) 4۔ دوسری آیت میں ہے : وَاَقْبَلَ بَعْضُہُمْ عَلٰی بَعْضٍ یَّتَسَآئَ لُوْنَ (صافات :27) مگر قیامت کے دن مختلف مواقف ہونگے اور ان میں مختلف حالتیں ہوں گی۔ کسی حالت میں ایک دوسرے سے سوال کرینگے اور کسی میں نہیں کرینگے۔ لہٰذا ان آیات میں تعارض نہیں ہے۔ (شوکانی) المؤمنون
102 المؤمنون
103 المؤمنون
104 5۔ دراصل ” کالح“ اس شخص کو کہتے ہیں جس کی چمڑی ادھڑ گئی ہو اور دانت ظاہر ہوگئے ہوں۔ عبد اللہ بن مسعود (رض) سے ” کالح“ کے معنی دریافت کئے گئے تو انہوں نے فرمایا : الم ترا الی الرأس المشیط۔ کہ تم نے جلائی ہوئی سری نہیں دیکھی۔ (ابن کثیر) المؤمنون
105 المؤمنون
106 المؤمنون
107 المؤمنون
108 المؤمنون
109 المؤمنون
110 6۔ لفظی ترجمہ یہ ہے کہ ” انہوں نے تم کو میری یاد بھلا دی“ یعنی تم ان کے پیچھے ایسے ہاتھ دھو کر پڑے اور ان کا اس قدر مذاق اڑاتے رہے کہ گویا وہ تمہیں میری یاد بھلا دینے کا سبب بن گئے۔ (شوکانی) المؤمنون
111 7۔ بلکہ لفظی ترجمہ یوں ہے کہ وہی بامراد ہیں“۔ المؤمنون
112 المؤمنون
113 8۔ یعنی وہ اس قدر سخت عذاب میں مبتلا ہونگے کہ انہیں اپنی دنیوی زندگی جو انہوں نے عیش و آرام سے گزاری، ایک خواب نظر آئے گی۔ اس لئے وہ کہیں گے کہ ہم ایک دن یا ایک دن سے بھی کم رہے ہونگے“۔ (شوکانی) المؤمنون
114 1۔ یعنی واقعی تمہاری موجودہ زندگی کے مقابلے میں تمہاری دنیوی زندگی کی مقدار کچھ بھی نہ تھی۔ کاش تم نے یہ دنیا میں رہتے ہوئے جانا ہوتا۔ تمہیں یہی چیز ہمارے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سمجھاتے رہے مگر تم نے ان کی ایک نہ سنی اور الٹا ان کا مذاق اڑاتے رہے۔ المؤمنون
115 المؤمنون
116 2۔ یعنی اللہ جو سچا بادشاہ ہے اس کی شان اس سے بلند ہے کہ وہ تمہیں بیکار اور بے مقصد پیدا کرے۔ (شوکانی) المؤمنون
117 3۔ تو وہ بقیہ تمام مخلوقات کا صاحب (مالک) کیوں نہ ہوگا جبکہ عرش ہر مخلوق سے بلند ہے عرش کو کریم (عزت والا) یا تو اس لئے کہا گیا ہے کہ اس سے خیر و رحمت کا نزول ہوتا ہے یا اس لئے کہ اس پر مستوی ہونے والی ذات مقدس کریم ہے۔ واللہ اعلم۔ (شوکانی) 4۔ ظاہر ہے کہ اس جگہ پکارنے سے مراد حاجت روائی کے لئے پکارنا ہے یا عبادت کرنا۔5۔ اور شر ک کے متعلق اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے کہ وہ جس کا چاہے گا ہر گناہ معاف کر دیگا لیکن شرک کو بغیر توبہ کے معاف نہیں کریگا۔ (نساء :48، 116) المؤمنون
118 6۔ نبیﷺ کو استغفار کا حکم دے کر دراصل امت کو تعلیم دی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اقتدا میں وہ استغفار کیا کرے۔ اس آیت کا تعلق اوپر کے مضمون سے یہ ہے کہ پہلے کفار و مشرکین کا حال بیان کیا گیا ہے اور اب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا گیا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے کٹ کر صرف اللہ کے ہو رہیں اور اسی کی رحمت و مغفرت کے دامن میں پناہ لیں۔ (شوکانی) المؤمنون
0 7۔ یہ سورۃ 5 یا 6 ھ میں غزوۂ بنی مصطلق کے بعد مدینہ منورہ میں نازل ہوئی۔ یہ سورۃ اس لحاظ سے نہایت اہم ہے کہ اس میں معاشرتی زندگی خصوصاً پردہ سے متعلق احکام نازل ہوئے۔ اس کا سب سے زیادہ ممتاز اور سبق آموز حصہ وہ ہے جو ” قصۂ افک“ یعنی حضرت عائشہ (رض) پر تہمت اور اس سے ان کی برأت سے تعلق رکھتا ہے۔ اس سورۃ میں چونکہ پردہ کے متعلق خصوصی احکام ہیں اس بنا پر حضرت عائشہ (رض) فرمایا کرتیں کہ عورتوں کو سورۃ نور کی تعلیم دو اور حارثہ (رض) بن مضرب سے روایت ہے کہ حضرت عمر (رض) بن خطاب نے ہم کو لکھا کہ تم سورۃ احزاب، نساء اور سورۃ نور کی تعلیم حاصل کرو۔ ایک مرفوع روایت میں بھی ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مردوں کو ” سورۃ مائدہ“ اور عورتوں کو ” سورۂ نور“ کی تعلیم حاصل کرنا چاہئے۔ (روح) ان سورتوں کی تعلیم پر زور دینے کی وجہ یہی تھی کہ ان میں معاشرتی احکام تفصیل سے مذکور ہیں۔ النور
1 8۔ یعنی اس میں حلال و حرام اور حدود سے متعلق جو احکام دیئے گئے ہیں ان کی حیثیت ہمارے عائد کردہ فرض کی ہے۔ لہٰذا ان کا بجا لانا ناگزیر ہے۔ النور
2 9۔ شروع اسلام میں زنا کی کوئی باقاعدہ حد مقرر نہ تھی۔ بلکہ زانی اور زانیہ کو قید رکھنے یا ان کی پٹائی کرنے کا حکم تھا۔ یہاں تک کہ انہیں موت آجائے یا اللہ ان کے بارے میں کوئی دوسرا راستہ نکال دے یعنی شرعی حد مقرر کر دے۔ (دیکھئے نساء :16۔17) اس آیت میں اسی شرعی حد کا اعلان کیا گیا ہے۔ احادیث میں کوڑوں کی سزا کے علاوہ زانی کو ایک سال کے لئے شہر بدر کرنا بھی ثابت ہے جیسا کہ صحیحین میں حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت ہے اور اکثر علما اس کے قائل ہیں۔ اگر زانی مرد یا عورت شادی شدہ ہوں تو ان کی سزا رجم یعنی سنگساری سے مار دینا ہے یہ حکم صحیح اور متواتر حدیث سے ثابت ہے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور پھر خلفا کے دور میں سنگساری ہوتی رہی اور حضرت عمر (رض) نے ایک مجمع میں خطبہ دیتے ہوئے بڑے شدومد کے ساتھ اس کا اعلان کیا اور یہ بھی ثابت ہے کہ رجم کی آیت قرآن میں تھی مگر بعد میں اس کی تلاوت منسوخ ہوگئی اور حم برابر باقی رہا۔ پھر صحابہ (رض) اور تابعین (رض) کے درمیان بھی یہ مسئلہ متفق علیہ رہا اور کسی نے انکار نہیں کیا ایک زمانہ میں صرف خوارج نے یہ کہہ کر انکار کیا تھا کہ رجم قرآن میں نہیں ہے لیکن جب ” رجم“ کی سزا سنت سے ثابت ہے جو اسلامی قانون کا مستقل ماخذ ہے تو اس سے انکار محض ضلالت ہے۔ بعض ائمہ نے شادی شدہ زانی کو ایک ساتھ دو سزائوں۔ کوڑوں اور رجم۔ کا بھی فتویٰ دیا ہے اور رجم کے بارے میں ائمہ (رح) کے درمیان اختلاف نہیں ہے۔ (ابن کثیر) 10۔ کیونکہ بدکاروں پر رحم کرنا سارے اسلامی معاشرہ کے ساتھ بے رحمی ہے اور حدود الٰہی میں نرمی ہی سے پہلی امتوں پر تباہی آئی ہے۔ قانون کا احترام اور نفاذ باقی نہ رہے تو قوم اندرونی خلفشار اور جرائم میں مبتلا ہوجاتی ہے اور اقامت حدود سے برکت نازل ہوتی ہے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ایک حد کا قائم کرنا چالیس دن کی بارش سے بہتر ہے۔ (ابن کثیر) 11۔ تاکہ عام مسلمانوں کو عبرت حاصل ہو۔ (ابن کثیر) النور
3 12۔ حضرت ابن عباس (رض) نے یہاں نکاح بمعنی جماع لیا ہے یعنی زانی مرد یا عورت کی ہوس کو ان کے مثل کوئی مرد یا عورت ہی پورا کریگی یا کوئی مشرک مرد یا عورت جو زنا کو حرام نہیں سمجھتے۔ بعض نے یہاں نکاح کے معنی عقد یعنی معروف نکاح لئے ہیں۔ چنانچہ امام احمد (رح) نے توبہ کے بغیر زانی مرد کا پاکدامن عورت سے اور پاکدامن مرد کا زانیہ عورت سے نکاح حرام قرار دیا ہے۔ امام ابن تیمیہ (رح) نے اس مسلک کی تائید کرتے ہوئے ان لوگوں کی پرزور تردید کی ہے جو اس نکاح کو جائز قرار دیتے ہیں۔ (تفسیر سورۃ نور) النور
4 1۔ اللہ کے ہاں بھی اور قانون کی نظر میں بھی۔ (ابن کثیر) النور
5 2۔ یعنی اب ان سے فسق کا حکم بھی اٹھ جائے گا اور ان کی گواہی بھی قبول ہوگی۔ (شوکانی) ائمہ ثاثہ (رح) اور سلف (رح) کی ایک جماعت کی یہی رائے ہے۔ امام ابو حنیفہ (رح) کے نزدیک اس سے فسق کا حکم تو رفع ہوجائے گا مگر گواہی قبول نہ ہوگی۔ اس اختلاف کی بنا اس چیز پر ہے کہ آیا اس استثناء کا تعلق ولا تقبلوا لھم شھادۃ اور اولئک ھم الفسقون“ دونوں سے ہے یا صرف آخری حصہ سے (ابن کثیر) النور
6 النور
7 النور
8 النور
9 3۔ جب اوپر کی آیت میں حد قذف نازل ہوئی تو اس کے بعد سوال پیدا ہوا کہ اگر کوئی شخص خود اپنی بیوی پر زنا کی تہمت لگائے اور اس کے پاس چار گواہ نہ ہوں تو اس کا کیا حکم ہوگا۔ چنانچہ یہ سوال سعد بن عبادہ نے ایک فرضی سوال کی حیثیت سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے پیش کیا۔ (بخاری، مسلم) مگر جلدی ہی ہلال (رض) بن امیہ کا واقعہ پیش آگیا۔ انہوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنی بیوی کے متعلق بتایا کہ انہوں نے اپنی آنکھوں سے اس کو زنا کرتے دیکھا ہے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” چار گواہ لائو ورنہ حد قذف تم پر جاری کی جائے گی۔“ اس پر یہ چار آیتیں نازل ہوئیں اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان آیات کے مطابق تصفیہ…لعان… کے لئے ہلال (رض) اور ان کی بیوی کو بلایا۔ چنانچہ پہلے ہلال نے قسمیں کھا کر گواہی پیش کی اور پھر اس کی بیوی نے۔ اس پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے درمیان تفریق کرا دی اور فرمایا کہ حمل جو عورت کے پیٹ میں ہے اس کی ماں کی طرف منسوب ہوگا اور عورت کا زمانۂ عدت کے نفقے اور سکونت کا کوئی حق ہلال (رض) پر نہ ہوگا کیونکہ یہ طلاق یا وفات کے بغیر جدا کی جا رہی ہے۔ (ابن کثیر) النور
10 4۔ تو تم تباہ ہوجاتے کیونکہ بیویوں پر تہمت کا حل تمہاری سمجھ میں نہ آتا۔ (شوکانی) النور
11 5۔ یہاں سے تیسرے رکوع کے آخر تک سولہ آیتیں اس تہمت سے حضرل عائشہ (رض) کی عفت و پاکدامنی ظاہر کرنے کے سلسلہ میں اتاری گئیں جو غزوۂ بنی المصطلق کے موقع پر بعض منافقین نے ان پر لگائی تھی۔ یہ واقعہ حدیث کی مشہور کتابوں میں خود حضرت عائشہ (رض) کی روایت سے بتفصیل درج ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ غزوۂ بنی المصطلق سے واپس ہوتے ہوئے نبیﷺ نے ایک جگہ پڑائو کیا۔ ابھی رات کا کچھ حصہ باقی تھا کہ کوچ کی تیاری ہونے لگی۔ حضرت عائشہ (رض) رفع حاجت کے لئے چلی گئیں۔ وہاں ان کے گلے کا ہار ٹوٹ کر کہیں گر پڑا۔ اور وہ اسے تلاش کرنے لگیں۔ اتنے میں قافلہ روانہ ہوگیا اور لوگ بے خبری میں ان کا خالی ہودہ اونٹ پر رکھ کر روانہ ہوگئے۔ جب وہ ہار لے کر پلٹیں تو وہاں کوئی نہ تھا۔ چادر اوڑھ کر ایک جگہ لیٹ گئیں صبح کے وقت ایک صحابی صفوان (رض) بن معطل سلمی (جو بدری تھے اور اس لئے پیچھے رہ گئے تھے کہ صبح کے بعد قافلہ کے پڑائو کی جگہ دیکھ بھال کر آئیں) وہاں سے گزرے۔ انہوں نے حضرت عائشہ (رض) کو پہچان لیا کیونکہ نزول حجاب سے پہلے انہوں نے ان کو دیکھا تھا۔ ان کی زبان سے بے ساختہ یہ الفاظ نکلے : ” انا للہ وانا الیہ راجعون“ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خدا کی بیوی یہاں رہ گئیں، پھر انہیں اونٹ پر سوار کیا اور خود نکیل پکڑ کر آگے آگے چلنے لگے یہاں تک کہ دوپہر تک قافلہ کو جا لیا۔ منافقوں کے سردار عبد اللہ بن ابی کو معلوم ہوا تو اس نے حضرت عائشہ (رض) پر تہمت لگائی اور اس کا چرچا کرنے لگا۔ ہوتے ہوتے بعض سادہ لوح مسلمان بھی اس افواہ کے پھیلانے والوں میں شریک ہوگئے۔ نبیﷺ خاصے دنوں تک پریشان و متفکر رہے اور خود حضرت عائشہ (رض) کا تو کہنا ہی کیا ہے۔ آخر اللہ تعالیٰ نے ان کی برأت و پاکیزگی ظاہر کرنے کیلئے یہ آیات نازل فرمائیں۔ (ابن کثیر) 6۔ روایات میں جن لوگوں کے نام ملتے ہیں وہ یہ ہیں :” عبد اللہ بن ابی، زید بن رفاعہ، سطح (رض) بن اثاثہ، حسان (رح) بن ثابت (مشہور شاعر) حمنہ (رض) بنت حجش (ام المومنین حضرت زینب (رض) کی بہن) اور بعض دوسرے ان میں سے پہلے دو منافق تھے اور باقی مسلمان (ابن کثیر ) 7۔ یعنی گھبرائو نہیں اس میں تمہارے لئے خیر کے بہت سے پہلو ہیں۔ 8۔ مراد ہے عبد اللہ بن ابی قبحہ اللہ و لعنہٗ۔ (ابن کثیر۔ شوکانی) النور
12 1۔ یعنی اپنے مسلمان بھائیوں اور اسلامی معاشرہ پر۔2۔ جسے ایک لمحہ کے لئے بھی قابل غور نہیں سمجھا جاسکتا۔ النور
13 3۔ ” اللہ کے نزدیک“ یعنی اللہ کے قانون کے مطابق جسے اسلامی عدالت نافذ کرتی ہے ورنہ اللہ کے علم میں تو وہ جھوٹے ہی تھے اس لئے جھوٹا جاننے کے لئے چار گواہوں کی ضرورت نہ تھی۔ (ابن کثیر) النور
14 4۔ اگر مسئلہ عام مسلمان خاتون کا ہوتا تب بھی یہ بڑی بات تھی اور اب تو معاملہ اس خاتون کا تھا جو اللہ کے آخری رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیوی اور امت کی ماں تھیں۔ (ابن کثیر) النور
15 النور
16 5۔ اس میں ان لوگوں کو تو بیخ کی ہے جو اس واقعہ کو سن کر اس میں دلچسپی لے رہے تھے۔ مروی ہے کہ حضرت سعد (رض) بن معاذ نے جب حضرت عائشہ (رض) کے بارے میں قیل و قال کو سنا تو انہوں نے برملا اس کو جھٹلایا اور کہا : ” سبحانک ھذا بھتان عظیم“۔ کیونکہ انبیاء علیہم السلام کے حرم اس قسم کے ملوثات سے بالا ہوتے ہیں۔ حضرت نوح ( علیہ السلام) اور حضرت لوط ( علیہ السلام) کی بیوی کی خیانت، خیانت کفر تھی۔ اس سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کے باہم دگر معاملات کی بنیاد نیک گمان پر ہونی چاہئے۔ اور کسی سے بدگمانی اس وقت تک جائز نہیں جب تک اس کے لئے کوئی واقعی ٹھوس بنیاد نہ ہو۔ النور
17 النور
18 6۔ چنانچہ یہ اس کی حکمت ہی تھی کہ تہمت کھڑی کردی گئی جس سے سچے اور جھوٹے مسلمانوں کا فرق بھی واضح ہوگیا اور حضرت عائشہ (رض) کی پاک دامنی کا ایسا ثبوت بہم پہنچا جس میں ایک مسلمان، مسلمان رہتے ہوئے شک نہیں کرسکتا۔ النور
19 7۔ یعنی دنیا میں حد جاری ہوگی اور آخرت میں دوزخ کا عذاب ملے گا۔ حدیث میں ہے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” آپس میں ایک دوسرے کے عیوب تلا ش نہ کرو۔ جس شخص نے اپنے مسلمان بھائی کا عیب تلاش کیا کہ اسے بدنام کرے، اللہ تعالیٰ اس کا عیب تلاش کرے گا اور اسے اس کے گھر میں ذلیل و رسوا کرے گا۔ (ابن کثیر) النور
20 النور
21 1۔ یعنی اسے گناہ میں پڑنے نہیں دیتا یا گناہ کے بعد اسے توبہ کی توفیق دیتا ہے۔ 2۔ اسے معلوم ہے کہ کون دل میں اخلاص رکھتا ہے کہ اسے پاک کیا جائے اور کون نہیں رکھتا۔ النور
22 3۔ اوپر بتایا جا چکا ہے کہ جن لوگوں نے حضرت عائشہ (رض) پر تہمت لگائی یا اسے ہوا دی، ان میں ایک شخص مسطح بن اثاثہ تھا جو حضرت ابوبکر صدیق (رض) کی خالہ زاد بہن کا بیٹا تھا اور چونکہ غریب اور اللہ کی راہ میں مہاجر تھا اس لئے حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے اس کی کفالت اپنے ذمے لے رکھی تھی۔ جب اوپر کی آیات میں عائشہ (رض) کی برأت نازل ہوئی تو حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے قسم کھالی کہ وہ آئندہ سے اس کی مدد سے ہاتھ کھینچ لی گے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور اسے سنتے ہی حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے کہا۔ ” واللہ ہم ضرور چاہتے ہیں کہ اے رب ہمارے تو ہماری خطائوں کو معاف فرما دے“۔ چنانچہ آپ (رح) نے مسطح کی پھر سے مدد کرنا شروع کردی اور فرمایا۔ اللہ کی قسم ! اب میں کبھی اس کی مدد سے ہاتھ نہیں کھینچونگا“۔ فلھذا کان الصدیق ھو الصدیق (رض) و عن بنتہ (ابن کثیر) النور
23 4۔” بھولی“ سے مراد وہ سیدھی سادی شریف عورتیں ہیں جن کے دل پاک ہیں اور ان کے دل میں بدچلنی کا بھولے سے خیال نہیں آتا۔ امہات المومنین خصوصاً حضرت عائشہ (رض) ان بھولی عورتوں میں بالاولی شامل ہیں جن کے حق میں یہ آیات نازل ہوئیں۔ علما کا اس پر اتفاق ہے کہ اس کے بعد بھی جو حضرت عائشہ (رض) سے بدگمانی رکھے گا وہ کافر اور قرآن کا مخالف ہے۔ صحیحین میں حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” سات تباہ کردینے والی چیزوں سے بچو۔“ صحابہ (رض) نے دریافت کیا تو آپﷺ نے ان سات چیزوں کا ذکر فرمایا جن میں سے ایک بھولی مسلمان عورتوں پر تہمت لگانا تھی۔ (ابن کثیر) النور
24 5۔ یعنی اس بات کی گواہی دینگے کہ وہ دنیا میں یہ برے کام کرتے رہے ہیں۔ النور
25 6۔ یعنی سچ کو سچ کر دکھانے والا ہے۔ واضح رہے کہ قرآن میں ہر مقام پر ” دینھم“ کے معنی حسابہم کے ہیں۔ (ابن کثیر، عبن ابن عباس) النور
26 7۔ اس آیت میں یہ نفسیاتی حقیقت بیان کی گئی ہے کہ خبیثوں (گندوں) کا نبھائو گندی عورتوں سے اور پاکیزہ لوگوں کا نبھائو پاکیزہ حاصل عورتوں سے ہی ہوسکتا ہے۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ ایک مردخود تو بڑا پاکیزہ ہے مگر وہ ایک خبیث عورت سے برسوں نبھائو کرتا چلا جائے۔ مقصود حضرت عائشہ (رض) کی نزاہت ہے کہ اگر ان میں خباثت کا ادنیٰ سا شائبہ بھی ہوتا تو یہ کیسے ممکن تھا کہ نبیﷺ جو ازل سے ابد تک پاکوں کے سردار تھے ان سے نہایت محبت و اطمیان سے برسوں نبھائو کرتے چلے جاتے؟ حضرت ابن عباس (رض) اور بعض دوسرے مفسرین (رح) نے خبیثات سے گندے اقوال و افعال اور طیبات سے پاکیزہ اقوال و افعال بھی مراد لئے ہیں یعنی جیسا کوئی آدمی خود ہوتا ہے ویسے ہی وہ اعمال کرتا ہے اور ویسے ہی اقوال زبان پر لاتا ہے۔ اب چونکہ حضرت عائشہ (رض) پاک تھیں ان کی سیرت بھی پاک تھی اور یہ منافق خود بھی گندے تھے اس لئے ان سے ایسے ہی گندے اقوال و افعال کی توقع تھی۔ (ابن کثیر) 1۔ یہاں تک وہ آیات مکمل ہوگئیں جو حضرت عائشہ (رض) کی تہمت زنا سے برأت کے سلسلہ میں نازل کی گئی تھیں۔ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں۔ جب یہ آیات نازل ہوئیں اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے خوشخبری دی تو میری والدہ نے مجھ سے کہا : اٹھو، اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا شکریہ ادا کرو“ میں نے کہا :“ میں نہ ان کا شکریہ ادا کرونگی اور نہ اپنے ماں باپ کا، بلکہ میں تو اللہ ہی کا شکر ادا کرونگی جس نے میری برأت نازل فرمائی۔ حضرت عائشہ (رض) مزید فرماتی ہیں :” یہ بات میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھی کہ میرے حق میں وحی نازل ہوگی جو قیامت تک پڑھی جائیگی میں اپنی ہستی کو اس سے کمتر سمجھتی تھی کہ اللہ تعالیٰ خود میری برأت میں کلام کرے۔ (بخاری، مسلم) النور
27 2۔ ” حتی تستانسوا“ کا لفظی ترجمہ ہے :” یہاں تک کہ تم انس حاصل کرلو۔“ اس لئے اس میں نہ صرف اجازت حاصل کرنے کا مفہوم بھی شامل ہے بلکہ یہ مفہوم بھی شامل ہے کہ تم معلوم کرلو کہ گھر میں کوئی ہے بھی یا نہیں اور ہے تو اسے تمہارا آنا ناگوار تو نہیں ہے؟ اور یہ اجازت تین مرتبہ لینی چاہئے اور پھر بھی اجازت نہ ملے تو واپس چلے جانا چاہئے اور اجازت مانگنے کے آداب میں یہ بھی ہے کہ دروازے کے سامنے کھڑا نہ ہو بلکہ دائیں یا بائیں کھڑے ہو کر اور السلام علیکم کہہ کر اجازت طلب کرنی چاہئے۔ ابو دائود میں ہے کہ ایک شخص نبیﷺ کے ہاں حاضر ہوا اور عین دروازے پر کھڑا ہو کر اجازت مانگنے لگا۔ نبیﷺ نے اس سے فرمایا : ” پرے ہٹ کر کھڑے ہو، اجازت مانگنے کا حکم تو اسی لئے ہے کہ نگاہ نہ پڑے۔ صحیحین میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اگر کوئی شخص تمہارے گھر میں بغیر اجازت کے جھانے اور تم ایک کنکری مار کر اس کی آنکھ پھوڑ دو تو تم پر کوئی گناہ نہیں۔ (ابن کثیر) 3۔ یعنی ان آداب میں دونوں طرف کا فائدہ ہے اجازت مانگنے والے کا بھی اور گھر والوں کا بھی۔ (ابن کثیر) النور
28 4۔ ایک صحابی کہا کرتے کہ مجھے ساری عمر یہی آرزو رہی ہے کہ میں کسی کے گھر جائوں اور اندر سے مجھے یہ جواب ملے کہ واپس چلے جائو اور میں واپس چلا آئوں تاکہ مجھے اس آیت پر کم از کم ایک مرتبہ تو عمل کرنے کی سعادت نصیب ہوجائے۔ (ابن کثیر، ابن جریر) النور
29 5۔ یعنی جس سے تمہاری کوئی ضرورت یا فائدہ وابستہ نہ ہو اور وہ کسی کے رہنے کی جگہ نہ ہو اور اس کے اندر جانے کی عام اجازت ہو، جیسے ہوٹل، سرائے، دکان، کارخانہ اور مہمان خانہ جس میں ایک مرتبہ داخل ہونے کی اجازت مل چکی ہو۔ (ابن کثیر) النور
30 6۔ یعنی کسی ایسی چیز کی طرف نہ دیکھیں جس کی طرف دیکھنا جائز نہیں کیونکہ اس سے خرابی پیدا ہوتی ہے۔ سلف (رح) کا قول ہے کہ نظر ایک زہریلا تیر ہے جس کا نشانہ انسان ہی بنتا ہے اور اگر بلا ارادہ کسی پر نگاہ پڑجائے تو نگاہ پھیر لیں۔ صحیحین میں حضرت ابوبکر صدیق (رض) سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا :”……دیکھنا (یعنی کسی اجنبی عورت کی طرف دیکھنا) آنکھ کا زنا ہے۔ نفس تمنا کرتا ہے اور شرمگاہ اس کی (عملاً) تصدیق یا تکذیب کرتی ہے۔“ نیز سنن میں حضرت بریدہ (رض) سے سروایت ہے کہ ایک نظر کے بعد دوسری نظر نہ ڈال۔ پہلی نظر تو معاف ہے اور دوسری معاف نہیں۔ (شوکانی) 7۔ یعنی زنا سے حفاظت کریں اور نہ اپنا ستر ہی اس شخص پر کھولیں جس کے سامنے ستر کھولنا حرام ہے اس لئے ستر کی حفاظت کے ساتھ نظر کی حفاظت کا حکم دیا ہے۔ حدیث میں ہے احفظ عورتک الا من زوجتاء اوما ملکیت یمینک بیوی اور لونڈی کے سوا سب سے اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرو۔ آدمی کے لئے ناف اور گھٹنوں تک کا حصہ شرمگاہ میں شامل ہے جس کا ڈھانپنا فرض ہے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک مرتبہ حضرت بریدہ (رض) کی رانیں کھلی دیکھیں تو فرمایا : اپنی رانیں ڈھانپ لو، اس لئے کہ رانیں شرمگاہ کا حصہ ہیں۔ البتہ کسی عذر سے ران کا کھولنا جائز ہے۔ چنانچہ حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ خیبر کے دن آنحضرتﷺ نے اپنی ران کھولی۔ (ابن کثیر) النور
31 8۔ اس سے معلوم ہوا کہ عورتوں کے لئے بھی نگاہیں نیچی رھنے کا ویسا ہی حکم ہے جیسا مردوں کیلئے۔ انہیں بھی کسی ایسی چیز کی طرف دیکھنا نہیں چاہئے جس کی طرف دیکھنا جائز نہیں۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جس طرح مردوں کو ایک دوسرے کی شرمگاہ دیکھنے سے منع فرمایا ہے اسی طرح عورتوں کو بھی ایک دوسرے کی شرمگاہ دیکھنے سے منع فرمایا ہے : لاینظر الرجل الی عورۃ الرجل …ولا تنظر المرء ۃ الی عورۃ المرۃ (مسلم، ابو دائود) 9۔ ہاتھوں اور چہرہ کے سوا عورت کا ساراجسم شرمگاہ ہے جسے شوہرکے سوا کسی مرد حتیٰ کہ باپ اور بھائی کے سامنے کھولنا بھی جائز نہیں ہے۔ حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت اسما (رض) سے فرمایا : اسماء جب عورت بالغ ہوجائے تو یہ جائز نہیں ہے کہ اس کے منہ اور ہاتھ کے سوا جسم کا کوئی حصہ نظر آئے۔ (ابو دائود) مگر ہاتھ اور چہرے کے استثنا کے یہ معنی نہیں ہیں کہ اجانب سے بھی ہاتھ اور چہرے کا پردہ نہیں ہے جیسا کہ بعض لوگوں کو غلط فہمی ہوئی ہے۔10۔ ” جو کھل جائے“ جیسے چادر کے اٹھ جانے سے نیچے کی کوئی زینت کھل جائے لفظ ” ظہر“ کے یہ دونوں مفہوم ہو سکتے ہیں۔ اسے ” عادۃ کھولنا“ کے معنی میں لینا صحیح نہیں ہے جیسا کہ حضرت ابن عباس (رض) اور ان کے بالتبع بعض دوسرے علما نے لیا ہے کیونکہ اس سے تو حکم کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے اور اگر اس سے کپڑوں کے اوپر کا حصہ مراد لے لیا جائے تو بہتر ہے جیسا کہ حضرت ابن مسعود (رض) سے مروی ہے۔ (قرطبی) 11۔ یعنی سر، سینہ اور گردن چھپائے رہیں۔ زمانۂ جاہلیت میں عورتیں اپنی اوڑھنیاں پیچھے کی طرف ڈال لیتی تھیں اور ان کے اگلے گریبان کا ایک حصہ کھلا رہتا تھا جس سے گلا اور سینے کا بالائی حصہ نمایاں ہوتا تھا اس لئے عورتوں کو حکم دیا گیا کہ اپنے کرتے کے گریبانوں (یعنی سینہ اور گردن) پر اوڑھنیاں ڈالے ہیں۔ (ابن کثیر) 12۔ مراد ہے چادر یا برقع کے نیچے کا سنگھار جس میں ہاتھ اور چہرہ کا سنگھار بھی شامل ہے۔13۔ باپوں کے مفہوم میں دادا، پردادا، نانا اور پرنانا بھی شامل ہیں اور بیٹوں میں پوتے، پرپوتے، نواسے اور پرنواسے بھی آجاتے ہیں اور خواہ وہ سگے ہوں یا سوتیلے۔ (ابن کثیر) فوائد صحفہ ہذا۔ 1۔ قدیم مفسرین (رح) میں سے اکثر نے اپنے دین کی یعنی مسلمان عورتیں مراد لی ہیں اور بعض نے ملنے جلنے والی شریف عورتیں۔ لیکن یہاں جنہوں نے مسلمان عورتیں مراد لی ہیں۔ انہوں نے بھی ضرورت کے وقت غیر مسلم عورتوں سے پردہ نہ کرنے کی اجازت دی ہے۔ (ابن کثیر) 2۔ بڑھاپے کی وجہ سے یا عقلی کمزوری کی وجہ سے، واضح رہے کہ مخنث ان میں نہیں آتا۔ کیونکہ ایک حدیث میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو گھروں میں آنے جانے سے منع فرما دیا تھا۔ (شوکانی) ف ٣ جنہیں زن وشو کے تعلقات کا پتا ہی نہ ہو ظاہر ہے اس سے نابالغ بچے ہی مراد ہوسکتے ہیں (شوکانی) النور
32 4۔ اسی طرح جو مرد بے بیوی کے ہوں ان کا بھی نکاح پڑھا دو“ ایامی“ جمع ہے ایم کی اور ایم کا لفظ اس مرد پر بولا جاتا ہے جس کی کوئی بیوی نہ ہو اور عورت پر بھی جس کا کوئی شوہر نہ ہو۔ (شوکانی) 5۔ ایک حدیث میں ہے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : نوجوانو ! تم میں سے جو شخص شادی کرسکتا ہے اسے کر لینی چاہئے کیونکہ یہ نگاہ کو نیچا رھنے والی اور شرمگاہ کو بدی سے بچانے والی چیز ہے اور جسے اس کی استطاعت نہ ہو وہ روزہ رکھے کیونکہ روزہ شہوت کے جوش کو ٹھنڈا کردیتا ہے۔ (بخاری، مسلم) النور
33 6۔ مکاتب اس غلام یا لونڈی کو کہتے ہیں جس کا مالک اس سے کہتا ہے، اگر تم اتنا مال اتنی قسطوں میں ادا کر دو گے تو میں تمہیں آزاد کر دونگا۔7۔ یعنی اپنی زکوٰۃ و صدقات سے ان کی مدد کرو تاکہ وہ آزادی حاصل کرسکیں۔8۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اگر لونڈیاں خود پاکدامن نہ رہنا چاہیں تو ان سے حرام کاری کرائی جاسکتی ہے۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ اگر وہ اپنی مرضی سے حرامکاری کریں گی تو اس کی ذمہ داری ان پر ہوگی اور وہ خود مجرم ہوں گی، لیکن اگر مالک ان سے زبردستی حرامکاری کرائے گا تو اللہ کے ہاں بھی اور قانون کی نظر میں بھی مجرم ان کا مالک ہوگا۔ خود ان پر کوئی گناہ نہ ہوگا۔ صحیح مسلم میں حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ راس المنافقین عبد اللہ بن ابی کی سیکہ اور امیہ نامی دو لونڈیاں تھیں جن سے وہ زبردستی حرامکاری کراتا تھا۔ انہوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں شکایت کی، اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (فتح القدیر) النور
34 النور
35 1۔” نور“ کے لفظی معنی روشنی کے ہیں اور اللہ تعالیٰ پر لفظ معنی روشنی کے ہیں اور اللہ تعالیٰ پر لفظ ” نور“ کا اطلا ق بطور مدح و ستائش کیا گیا ہے کیونکہ وہی ایک ذات ہے جس نے روشنی دینے والی تمام چیزوں کو اور ان کی روشنی کو پیدا کیا اور انہیں روشن بنایا۔ اور اللہ تعالیٰ کے نور ہونے کے اس معنی کی تائید زید بن علی اور عبد العزیز المکی کی قرأت سے بھی ہوتی ہے یعنی ” اللہ نور السموت والارض“ (اللہ نے زمین اور آسمان کو روشن بنایا) مطلب یہ ہے کہ اس ساری کائنات کی رونق اللہ تعالیٰ ہی کی تدبیر و انتظام سے ہے۔ (شوکانی) 2۔ سب جانتے ہیں کہ شیشے میں رکھنے سے آگ کی روشنی کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ 3۔ مبارک یعنی کثیر المنافع، بہت فائدوں والا۔4۔ یعنی ایسے کھلے میدان میں ہے صبح سے شام تک اس پر دھوپ رہتی ہے کہتے ہیں کہ زیتون کے درخت پر جتنی زیادہ دھوپ پڑے اتنا ہی اس کا تیل عمدہ ہوتا ہے۔ (فتح القدیر) 5۔ یعنی اتنا روشن ہے کہ وہ روشنی دینے کے لئے آگ کا بھی محتاج نہیں ہے اور پھر آگ سے مل کر تو اس کی روشنی کا کیا ہی کہنا۔6۔ یعنی ایک نور پر دوسرا نور۔ آگ کا نور، اس پر تیل کا نور، اس پر شیشے کا نور، پھر اوپر سے طاق جو نور کو یکجا رکھتا ہے۔7۔ یعنی مطلوب و مقصود تک پہنچاتا ہے۔8۔ اسے معلوم ہے کہ لوگوں کو کونسی چیز کس مثال سے سمجھائی جائے۔ النور
36 9۔ اوپر کی آیت میں مومن کے قلب اور اس میں جو علم و ہدایت کی روشنی ہے اسے مصباح سے تشبیہ دے کر سمجھایا کہ اس کی مثال قندیل کی ہے اب اس قندیل کا محل ذکر کیا۔ یعنی مساجد جو اللہ تعالیٰ کو تمام زمین سے زیادہ محبوب ہیں۔ پس ان مساجد کے آداب یہ ہیں کہ ان کو پاک صاف رکھا جائے اور ان میں بیہودہ باتیں نہ کی جائیں اور نہ نازیبا حرکت ہی کی جائے۔ عموماً مفسرین (رح) نے ” ان ترفع“ کے یہی معنی کئے ہیں۔ مسجدوں کو پاک و صاف رکھنے اور ان کے احترام کے بارے میں بہت سی احادیث آئی ہیں۔ یعنی یہ کہ مسجدوں میں اللہ کا نام لیا جائے۔ ان میں اشعار نہ پڑھے جائیں اور نہ ان میں خرید و فروخت کی جائے۔ گمشدہ چیزوں کے اعلانات کے لئے ان کو اڈا نہ بنایا جائے۔ مسجد میں داخل ہوتے وقت یہ دعا پڑھے : اللھم انی اسئلک من فضلک العظیم“۔ بعض روایات میں آنحضرت پر درود و سلام اور شیطان سے تعوذ کا ذکر بھی آیا ہے۔ (قرطبی، ابن کثیر) النور
37 10۔ یعنی ہر حالت میں اللہ تعالیٰ کی طاعت و محبت کو اپنے مقاصد اور مراد پر ترجیح دیتے ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) بازار میں تھے کہ اذان کی آواز آگئی۔ لوگوں نے اپنا سامان دکانوں میں چھوڑ کر مسجد کا رخ کیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” یہی لوگ ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ انہیں سوداگری اور مول تول، اللہ کی یاد اور نماز درستی کے ساتھ ادا کرنے اور زکوٰۃ دینے سے غافل نہیں کرتے۔ (ابن کثیر۔ فتح البیان) النور
38 11۔ جیسا کہ اس کا وعدہ ہے کہ وہ نیکی کا بدلہ دس گناہ۔ بلکہ سات سو گناہ، بلکہ بے حدو حساب دے گا۔ یا یہ کہ ایسے لوگ بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوں گے۔ جیسا کہ ایک حدیث میں مذکور ہے۔ (ابن کثیر۔ شوکانی) النور
39 1۔ کفروا اوپر مومنوں کے اعمال کی حالت بیان کی ہے اور اب یہاں کفار کے اعمال کی حالت بیان کی جا رہی ہے لہٰذا یہ ایک قصے کا عطف دوسرے قصہ پر ہے۔ جیسا کہ سورۂ بقرہ میں منافقین کی دو مثالیں بیان فرمائیں۔ ایک پانی کی اور دوسری آگ کی، اور پھر سورۂ رعد میں اس علم و ہدایت کی آگ اور پانی سے دو مثالیں بیان فرمائیں جو لوگوں کے دلوں میں قرار یاب ہوتا ہے۔ اب یہاں دو قسم کے کفار (ایک لیڈر اور دوسرے ان کے مقلدین) کی دو مثالیں بیان کی جا رہی ہیں ایک سراب اور دوسری ظلمات کی۔ پہلی مثال ان کفار کی ہے جو کفر کی طرف دعوت دیتے ہیں اور اپنے اعمال و اعتقادات کو قابل اعتماد سمجھتے ہوئے یہ گمان کرتے ہیں کہ آخرت میں ان کی بہتر جزا ملے گی مگر دراصل ان کے اعمال سراب کی طرح بے حقیقت ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو جہل مرکب میں مبتلا ہیں اور آگے ان لوگوں کی مثال ظلمات سے بیان کی ہے جو جہل بسیط میں مبتلاہیں اور ائمہ ٔ کفر کی تقلید کر رہے ہیں۔ (ابن کثیر) یہاں کفارکے اعمال ہی کی دو مثالیں بیان کی ہیں۔ پہلی مثال کا تعلق وجدان سے ہے اور دوسری کا رؤیت سے۔ امام جرجانی (رح) فرماتے ہیں۔ پہلی مثال کفار کے اعمال کی ہے جو اپنے گمان کے مطابق کچھ نیک اعمال، صدقہ و خیرات، خدمت بیت اللہ وغیرہ) کرتے ہیں۔ اس امید پر کہ آگے چل کر یہ ہمارے کام آئیں گے۔ مگر جب آخرت میں پہنچیں گے تو انہیں معلوم ہوگا کہ ان نیکیوں کی کچھ حقیقت نہیں۔ اور دوسری مثال نفس کفر کی ہے۔ پھر ان کفار کے حکم میں وہ فلاسفہ بھی داخل نہیں ہیں جو اسلام کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہیں مگر ان کے عقائد و اعمال شریعت کے منافی ہیں۔ (شوکانی، شرح) واضح رہے کہ کفار کے اعمال کی تمثیل ” لم یجدہ شیئا“ پر تمام ہوجاتی ہے اس کے بعد ووجد انہوں نے بطور تکملہ ان کے بقیہ احوال کا بیان ہے۔ یعنی صرف اسی پر بس نہیں ہے کہ صرف یاس و قسوط اور ناکامی کا سامنا ہوگا بلکہ وہاں محاسبۂ الٰہی سے انہیں ایسی بدحالی سے دوچار ہونا پڑے گا کہ اس کے مقابلے میں یاس و ناکامی کی کچھ حیثیت نہیں رہے گی۔ (روح) النور
40 2۔ ابرکا اندھیرا، موج کا اندھیرا، سمندر کا اندھیرا۔3۔ یہ ان لوگوں کی مثال ہے جو جہل بسیط کا شکار ہوتے ہیں۔ نہ تو ان کو یہ معلوم ہے کہ ان کی قیادت کرنے والے کیسے ہیں اور نہ یہی جانتے ہیں کہ ان کو کس طرف لے جا رہے ہیں مگر اپنے آپ کو راہ راست پر سمجھتے ہیں حالانکہ باپ دادا کی اندھی تقلید، جہالت، ادہام پرستی وغیرہ۔ نہ معلوم کتنی گمراہیاں ہیں جن میں یہ لوگ گرفتار ہیں۔ اسی کو مثال میں ظلمات بضھا فوق بعض۔ کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ (شوکانی) النور
41 4۔ یعنی تمام انسان، جن، فرشتے، جانر، اڑتے ہوئے پرندے حتیٰ کہ جمادات اللہ تعالیٰ کے ہر عیب اور ہر نقص سے پاک ہونے کی شہادت دے رہے ہیں۔5۔ اس سے معلوم ہوا کہ ان کی یہ تسبیح اتفاقی طور پر بے سوچے سمجھے نہیں ہے بلکہ سمجھ کر اور علم کی بنا پر ہے جو اللہ تعالیٰ نے انہیں سکھایا اور ان کی طرف الہام کیا ہے۔6۔ یعنی ان کی تسبیح اور اطاعت سے اللہ تعالیٰ بے خبر نہیں ہے۔ النور
42 النور
43 7۔ یعنی ان کے ٹکڑوں کو جوڑ کر ایک چیز بنا دیتا ہے۔8۔ جیسے چھلنی کے سوراخوں میں سے کوئی چیز ٹپکتی ہے۔9۔ یعنی اس کی تیز روشنی آنکھوں کو خیرہ کردیتی ہے۔ النور
44 10۔ پہلے رات آتی ہے اور پھر دن اور پھر رات اور پھر دن۔ کبھی رات چھوٹی ہوتی ہے اور کبھی دن۔ واضح رہے کہ زمین پر زندہ رہنے کے جتنے اسباب موجود ہیں رات دن کے اسی الٹ پھیر کی بدولت ہیں۔ اگر ہمیشہ رات رہتی یا ہمیشہ دن رہتا تو کوئی چیز پیدا نہ ہو سکتی۔ یہ سب اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا بنایا ہوا نظام ہے۔ النور
45 1۔ جیسے سانپ، مچھلی اور بعض قسم کے کیڑے مکوڑے۔2۔ جیسے انسان اور پرند۔3۔ مراد ہیں باقی سب جانور۔ النور
46 4۔ جس کی بدولت وہ اپنی اخروی زندگی میں جنت کا مستحق قرار دیا جاتا ہے اور اس کی دنیوی زندگی سکون و اطمینان سے گزرتی ہے۔ الابذکر اللہ تطمئن القلوب۔ النور
47 5۔ یعنی زبان سے ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں مگر عمل سے خود ہی اس کی تردید کرتے ہیں۔ یہ ان کے جھوٹا اور بے ایمان ہونے کی واضح دلیل ہے۔ (از ابن کثیر) النور
48 6۔ واضح رہے کہ یہ معاملہ صرف نبیﷺ کی زندگی تک ہی نہ تھا بلکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت کی طرف جو دعوت دی جاتی ہے وہ دراصل آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف دعوت ہوتی ہے۔ اس سے گریز کرنے والے کا حکم وہی ہے جو اس آیت میں منافقین کے گروہ کا بیان ہوا ہے۔ النور
49 7۔ یعنی جب یہ دیکھتے ہیں کہ شریعت کے مطابق فیصلہ میں ان کا فائدہ ہے تب تو بڑے اطاعت کیش بن کر آتے ہیں اور ایمان کے لمبے چوڑے دعوے کرتے ہیں ورنہ دبک کر بیٹھ جاتے ہیں اور شریعت کے احکام میں کیڑے نکالنے لگتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ شریعت کی اس طرح کی پیروی اللہ تعالیٰ کی نظر میں کوئی وزن نہیں رکھتی۔ کیونکہ یہ شریعت کی پیروی نہیں بلکہ نفس پرستی ہے۔ (ابن کثیر) النور
50 8۔ یعنی آخر یہ اللہ و رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عدالت میں فیصلہ لے جانے سے کیوں کتراتے ہیں؟ کیا اس کی وجہ یہ تو نہیں ہے کہ ان کے دلوں میں کفر و نفاق کی بیماری ہے یا انہیں اندیشہ ہے کہ ان کے پاس مقدمہ لے جائینگے تو ہم پر ظلم کا احتمال ہی نہیں ہے) مگر نہ تو ان کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت میں شک ہے اور نہ ظلم ہی کا خوف ہے جس کی بدولت ان کے پاس مقدمہ لانے سے کترا رہے ہیں بلکہ ظالم (قصور وار) یہ خود ہیں یعنی جس شخص کا ان کے ذمہ حق ہے اس کو دبانا چاہتے ہیں۔ (جامع البیان و فتح) شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں : دل میں روگ یہ کہ اللہ و رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سچ جانا لیکن حرص نہیں چھوڑتی کہ کہے پر چلیں جیسے بیمارچاہتا ہے کہ چلے اور پائوں نہیں اٹھتے (موضح) اس سے معلوم ہوا کہ جو قاضی کتاب و سنت کے مطابق فیصلہ کرتا ہو اس کے سمن کو قبول کرنا واجب ہے اور اس سے کترانا اللہ و رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فیصلہ سے منہ موڑنا ہے مگر جو قاضی کتاب و سنت سے بے خبر ہو اور اس نے کسی عالم مجتہد کے آرا و اجتہادات کو جمع کرلیا ہو اور اس کے مطابق فیصلہ کرتا ہو تو اس کے پاس مقدمہ لے جانا اور اس کے سمن کو قبول کرنا ضروری نہیں ہے اس لئے کہ اس رائے پر عمل کرنا اس مجتہد کے لئے جائز تھا جس کی طرف وہ رائے منسوب ہے اور وہ بھی اس وقت تک جب تک اسے کتاب و سنت کا فیصلہ نہ پہنچا تھا مگر کسی دوسرے کے لئے اس پر آنکھیں بند کر کے عمل کرنا اور اس کے مطابق لوگوں کے مقدمات کا فیصلہ کرنا جائز نہیں ہے۔ (شوکانی) النور
51 9۔ اللہ و رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فیصلے کو نہ صرف قبول کرنا بلکہ فیصلہ کیلئے جب کوئی ان کی طرف بلائے تو اس کے بلاوے پر دل و جان سے لبیک کہنا مومن و بامراد ہونے کے لئے شرط ہے اس بارے میں جو کوتاہی پائی جائیگی وہ ایمان کے کم ہونے کی دلیل ہے۔ اوپر کی آیات میں منافقین کی حالت بیان فرمائی ہے اور اب اس آیت میں مومنین کی حالت کا بیان ہے۔ (شوکانی۔ قرطبی) النور
52 النور
53 1۔ یعنی بس خاموش رہو۔ معلوم ہے کہ تم کتنے اطاعت گزار ہو۔ ” طاعۃ معروفہ“ کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دستور کے مطابق (یعنی جیسے سب لوگ کرتے ہیں) اطاعت کرنا تمہارے لئے زیادہ سزاوار ہے قسمیں کھانے اور خوشامد کی باتیں کرنے سے کیا فائدہ؟ (شوکانی) النور
54 2۔ صرف اللہ کا نہیں بلکہ اللہ کا بھی اور اس کے ساتھ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بھی۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد ان کا کہنا ماننا یہی ہے کہ ان کی سنت کی پیروی کی جائے۔3۔ یعنی رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذمہ داری تم تک اللہ کا پیغام پہنچا دینا تھی۔ سوا اس نے یہ پیغام پہنچا دیا۔ اب اس پر عمل کرنا تمہاری ذمہ داری ہے۔ اگر تم اس سے پیٹھ پھیرتے ہو تو اپنا انجام خود سوچ لو۔4۔ اس کے بغیر تمہیں ہدایت نصیب نہیں ہو سکتی۔ النور
55 5۔ یعنی اگر تمہیں ہدایت نہ ہو تو گرفت اس کی نہیں بلکہ تمہاری ہوگی۔6۔ یعنی اسے مضبوط بنیادوں پر قائم کر دیگا۔ اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ خلفائے ثلاثہ کی خلافت برحق تھی اور اللہ تعالیٰ کے وعدہ کے مطابق۔ گو یہ وعدہ تمام امت کو شامل ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے دور خلافت سے لیکر حضرت عثمان کے دور خلافت تک جو فتوحات حاصل ہوئیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ (ابن کثیر، شوکانی) 7۔ یعنی اللہ کی طرف سے اس سچے وعدے کے آجانے کے بعد۔8۔ یا خدا کی ناشکری کرے۔ کفر کے معنی انکار حق اور ناشکری دونوں ہو سکتے ہیں۔ النور
56 9۔ نماز درستی سے ادا کرو۔ (تشریح کیلئے دیکھئے بقرہ :2) 10۔ اس آیت میں صرف رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے اور رحم کئے جانے کو اس پر معلق رکھا ہے۔ معلوم ہوا کہ جو لوگ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کو ضروری نہیں سمجھتے وہ امت مرحومہ سے خارج ہیں۔ قرآن میں متعدد مقامات پر اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے ساتھ رسول اللہﷺ کی طاعت کا حکم دیا گیا ہے۔ دیکھئے آل عمران :…نساء :159، مائدہ :92، انفال :1، 2۔46۔ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) :33، تغابن :12، مجادلہ :13 بلکہ قرآن میں جتنے لولوالعزم پیغمبروں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کا قرآن نے ذکر کیا ہے سب نے اللہ تعالیٰ کی توحید کی طرف دعوت دینے کے ساتھ ساتھ خود اپنی طاعت کا بھی حکم دیا ہے۔ سنت کی حیثیت ک سمجھنے کیلئے قرآن کا مطالعہ کرنا چاہئے کہ کیا ہم سنت کو چھوڑ کر صرف قرآن سے اسلامی نظام حیات کی کوئی مکمل تشکیل پیش کرسکتے ہیں۔ النور
57 النور
58 1۔ لفظی ترجمہ یہ ہے کہ ” وہ احتلام کی عمر کو نہیں پہنچتے مراد ہے کہ ابھی بچے ہیں۔2۔ یعنی جن میں تم تنہایا اپنی بیویوں کے ساتھ ایسی حالت میں ہوتے ہیں کہ غلاموں اور بچوں کا تمہارے پاس اچانک آ پہنچا مناسب نہیں۔ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں : ” اکثر لوگ اس آیت پر ایمان نہیں لائے (یعنی اس پر عمل کرنے سے بے پروا ہیں) میں تو اپنی چھوٹی سی بچی کو بھی جو سامنے کھڑی ہے حکم دیتا ہوں کہ ان اوقات میں اذن لے کر آیا کرے۔ (ابن کثیر۔ شوکانی) 3۔ اگر ان کے لئے بھی ضروری کردیا جاتا کہ جب آئیں اجازت لے کر آئیں تو گھرکے کام کاج میں سخت دقت پیش آتی۔ گویا خدمت گزاری کی ضرورت کے پیش نظر اجازت دی گئی ہے۔ النور
59 4۔ یا جس طرح وہ لوگ اجازت لیتے ہیں جن کا ذکر پہلے (آیت 27 میں) ہوچکا ہے۔ الغرض بلوغت کے بعد ہر حال میں اجازت لیکر آنا ضروری ہے۔ پھر ان تین اوقات کی تخصیص نہیں ہے۔ (ابن کثیر) عطا بن یسار (رض) سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبیﷺ سے دریافت کیا۔ ” اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کیا میں اپنی ماں کے پاس بھی اجازت لے کر جایا کروں؟ فرمایا : ” ہاں“ اس نے کہا۔ ” میں تو اس کے ساتھ ایک ہی گھر میں رہتا ہوں۔“ فرمایا :” تب بھی اجازت لیکر جایا کرو۔ ماں کو برہنگی کی حالت میں دیکھنا چاہتے ہو؟“ اس نے جواب دیا۔ ” نہیں“۔ فرمایا تو اجازت لے کر جایا کرو۔ (شوکانی) النور
60 5۔ یعنی انہیں دوپٹہ کے اوپر کی چادر اتارنے کی اجازت ہے مگر اس لئے نہیں کہ وہ اپنی زینت کی نمائش کریں بلکہ محض آرام لینے کے لئے۔ (ابن کثیر) النور
61 1۔ یعنی جن کے مالکوں نے تمہیں اس میں تصرف کرنے کی اجازت دے رکھی ہے۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں :” جب سورۃ نساء کی یہ آیت نازل ہوئی : یایھا الذین امنوا لاتاکلوا اموالکم بینکم بالباطل ! اے ایمان والو ! آپس میں ایک دوسرے کے مال ناجائز طریقے سے نہ کھایا کرو) تو مسلمان ایک دوسرے کے ہاں سے کھانا کھانے میں بھی سخت احتیاط برتنے لگے اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور انہیں رخصت دی گئی۔ بعض دوسری روایات میں ہے کہ جب مسلمان کسی جنگ کے لئے روانہ ہوتے تو اپنے گھروں کی کنجیاں پیچھے رہنے والے معذوروں کے حوالے کردیتے اور ان سے کہتے کہ تمہیں گھروں سے کھانے کی اجازت ہے لیکن وہ اس میں تنگی محسوس کرتے اور کہتے کہ ہم لوگوں کی عدم موجودگی میں ان کے گھروں سے کوئی چیز لے کر نہیں کھائیں گے۔ اس پر انہیں رخصت دینے کے لئے یہ آیت نازل کی گئی۔ ( اور اس سلسلہ میں دوسرے لوگوں کو بھی بتایا گیا کہ آپس میں ایک دوسرے کے گھر سے کھانا کوئی ناجائز کام نہیں ہے۔ (فتح القدیر) 2۔ مراد ہیں وہ بے تکلف قسم کے دوست جن کی عدم موجودگی میں اگر ان کے گھر سے کوئی چیز کھائی جائے تو وہ ناراض ہونے کے بجائے خوش ہوتے ہیں۔3۔ یعنی آدمی اکیلا کھانا چاہے تب بھی جائز ہے اور جماعت کے ساتھ مل کر کھائے تو بھی کچھ مضائقہ نہیں۔ دونوں باتیں جائز ہیں، مگر اکٹھے بیٹھ کر کھانے میں برکت ہے۔ حدیث میں ہے : کلوا حمیعا ولاتفرقوا فان لا …مع الجماعۃ: کہ الگ الگ بیٹھ کر کھانے کی بجائے اکٹھے بیٹھ کر کھایا کرو۔ بیشک اجتماعی صورت میں کھانا کھایا جائے تو موجب برکت ہے۔ (ابن کثیر) 4۔ یعنی ان کے رہنے والوں کو جو تمہارے اپنے ہی لوگ ہیں سلام کرو۔ حضرت ابن عمر (رض) کہتے ہیں کہ جب تم مسجد یا کسی ایسے گھر میں داخل ہو جس میں کوئی نہ رہتا ہو تو بھی یہ کہہ کر سلام کرو۔“ السلام علینا و علی عباد اللہ الصالحین۔ (شوکانی) النور
62 5۔ جماعتی نظم میں اس کی بڑی اہمیت ہے۔ اب بھی مسلمانوں کو اس کا التزام کرنا چاہئے۔ (شوکانی) 6۔ اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ عذر کی بنا پر اگرچہ اجازت لے کر جانا جائز ہے مگر پھر بھی اچھا نہیں ہے کیونکہ یہ دنیا کی ضرورت کو دین پر مقدم رکھنا ہے۔ اس لئے آنحضرت کو ایسے لوگوں کے لئے مغفرت کی دعا کرنے کا حکم دیا ہے۔ کذا فی الوحیدی (شوکانی) النور
63 7۔ یعنی معمولی نہ سمجھو کہ جی چاہا آگئے اور جی میں آیا تو نہ آئے بلکہ ان کی دعوت پر لبیک کہو۔ شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں : حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بلانے سے فرض ہوتا تھا حاضر ہونا جس کام کو بلاویں۔ پھر یہ بھی تھا کہ بے حکم چلے نہ جاویں۔ یا آیت کے معنی یہ ہیں کہ : ” رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا کو عام لوگوں کی سی دعا نہ سمجھو“۔ یا ” رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایسے نہ پکارو جیسے لوگ ایک دوسرے کو پکارتے ہیں“ یعنی آواز دھیمی رکھ کر نہایت ادب و احترام سے پکارو۔“ ” دعاء لرسول“ کے یہ تینوں معنی مفسرین نے بیان کئے ہیں اور تینوں موقع و محل کے لحاظ سے صحیح ہے۔ (شکانی) 8۔ یہ منافقین کا شیوہ تھا جیسا کہ متعدد روایات میں اس کا ذکر ہے۔ 9۔ آیت میں لفظ ” فتنہ“ کو غیر مقید رکھا گیا ہے۔ مفسرین میں سے بعض نے اس سے مراد قتل۔ بعض نے نازلہ اور بعض نے ظالم حکمرانوں کا تسلط لیا ہے اور ” یخالفون“ چونکہ معنی اعراض کو متضمن ہے اس لئے اس کا صلہ عن لایا گیا ہے۔ (شوکانی) النور
64 1۔ یہاں لفظ ’ او‘ منح الخلو کے لئے ہے پھر جب صرف ایک معاملہ میں رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عدم اطاعت پر یہ وعید سنائی گئی ہے تو ان لوگوں کو اپنے معاملہ پر ضرور غور کرنا چاہئے جنہوں نے رسول کو سرے سے اطاعت کا مستحق ہی نہیں سمجھا بلکہ دوسروں کو بھی اس سے بے نیاز ہونے کی دعوت دیتے ہیں۔2۔ حضرت عقبہ (رض) بن عامر کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو دیکھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی آنکھوں پر انگلیاں رکھے ہوئے سورۃ نور کی یہ آخری آیت پڑھ رہے تھے اور فرما رہے تھے بکل شیء بصیر : واقعی تو ہر چیز کو دیکھتا اور جانتا ہے۔ (شوکانی) النور
0 3۔ حضرت ابن عباس اور جمہور مفسرین (رح) کے قول کے مطابق یہ ساری کی ساری سورۃ مکہ میں نازل ہوئی۔ ایک روایت میں حضرت ابن عباس (رض) اس کی تین آیتوں 68 تا 70 کو مدنی قرار دیتے ہیں۔ اس سورۃ سے اللہ تعالیٰ نے پہلے توحید پر، پھر نبوت پر اور پھر معاد (آخرت) پر کلام فرمایا ہے۔ نبیﷺ کی زندگی میں حضرت عمر (رض) نے حضرت ہشام (رض) بن حکیم کو اس سورۃ کی قرأت کرتے سنا اور ان سے وہ قرأتیں سنیں جو ان کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نہیں پڑھائی تھیں چنانچہ حضرت عمر (رض) انہیں پکڑ کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں لے آئے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عمر (رض) اور ہشام (رض) دنوں کی قرأتوں کو صحیح قرار دیا اور فرمایا : یہ قرآن سات قرأتوں پر نازل ہوا ہے جو آسان ہو پڑھو۔ (شوکانی) الفرقان
1 4۔ قرآن کو ” الفرقان“ فرمایا ہے یعنی اپنے احکام کے ذریعہ حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والا، اور اسی کلمہ کی بنا پر اس سورۃ کا نام سورۃ الفرقان رکھا گیا ہے۔5۔ سارے جہان سے مراد قیامت تک کے تمام جن و انس ہیں اس لئے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت ان سب کے لئے تھی۔ کوئی دوسرا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دنیا میں ایسا نہیں آیا۔ حدیث میں ہے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مجھے پانچ چیزوں میں تمام انبیاء پر فضیلت دی گئی ہے جن میں سے ایک یہ بات ہے کہ پہلے نبی ( علیہ السلام) کسی خاص قوم کی طرف مبعوث ہوئے اور مجھے اللہ تعالیٰ نے سب لوگوں کے لئے نبی بنا کر بھیجا۔ (ابن کثیر، شوکانی) الفرقان
2 6۔ یعنی اسے ایک خاص اندازے میں رکھا جس کی بدولت اس سے وہی افعال و اثرات صادر ہوئے جن کے لئے وہ پیدا کی گئی ہے اور اسے وہی صورت جسامت اور صلاحیتیں عطا کیں جو اس کی ضرورت کے مطابق ہیں۔ الفرقان
3 7۔ اگر وہ ستارے ہیں یا فرشتے، انبیا اور جن تو یہ سب اللہ کے پیدا کئے ہوئے ہیں اور اگر مٹی اور لکڑی کے بت ہیں تو خود ان مشرکوں نے اپنے ہاتھوں سے تراشے ہیں۔8۔ یعنی نہ اپنے تئیں فائدہ پہنچا سکتے ہیں اور نہ اپنے آپ کو نقصان سے بچا سکتے ہیں پھر دسروں کو کیا نفع پہنچائیں گے اور کیا انہیں نقصان سے بچائیں گے۔ الفرقان
4 9۔ دوسرے لوگوں سے بھی اس قرآن کے جمع کرنے میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مدد لی ہے۔ (دیکھئے سورۃ نحل :103) 10۔ یعنی انہوں نے یہ جو بات کہی ہے وہ بڑا ظلم (بے انصافی) اور فریب ہے اس لئے کہ یہ جانتے ہیں کہ قرآن جیسی، کیا باعتبار فصاحت اور کیا باعتبار مضامین معجز کتاب تصنیف کر کے پیش کردینا کسی انسان کے بس میں نہیں چاہے اس کی پشت پر چند نہیں ہزاروں بلکہ دنیا بھر کے ادیب، شاعر، فلسفی اور عالم جمع ہوجائیں اور افسوس بلکہ تعجب تو اس پر ہے کہ یہ لوگ حضرت محمدﷺ کے بارے میں یہ بات کہہ رہے ہیں جن کی پوری زندگی ان کے سامنے گزری اور جن کے بارے میں انہیں خوب معلوم ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نہ کبھی پڑھنا لکھنا سیکھا اور نہ کسی عالم کی شاگردی کی۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس قسم کی تصنیف کیونکر پیش کرسکتے ہیں۔ الفرقان
5 1۔ یعنی خود تو ان پڑھ ہے اس لئے دوسرے لوگوں کے ذمہ اس نے یہ کام لگا رکھا ہے کہ صبح و شام یہ لکھوائی ہوئی کہانیاں اسے پڑھ پڑھ کر سنائیں تاکہ اسے زبانی یاد ہوجائیں اور یہ بات ایسی تھی جس کے کذب و بہتان ہونے سے کسی کو شبہ نہیں ہو سکتا۔ (ابن کثیر) الفرقان
6 2۔ یعنی یہ ہے قرآن کی حقیقت جس کا اعتراف تمہارے دل بھی کرتے ہیں مگر ظلم و فریب کی راہ سے قرآن کو محمدﷺ کا تصنیف کیا ہوا ہتے رہتے ہو۔ اگر اللہ چاہتا تو اس گستاخی پر تمہیں سخت سزا دیتا مگر وہ غفورو رحیم ہے اس لئے تم سے درگزر کر رہا ہے۔ اس میں ان کو توبہ و انابت اور اسلام و ہدایت کی طرف پلٹ آنے کی ترغیب ہے۔ (ابن کثیر) شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں۔ یعنی اپنی بخشش اور مہر ہی سے یہ اتارا ہے۔ (موضح)۔ الفرقان
7 3۔ یعنی اللہ کا بھیجا ہوا رسول اتنی معمولی شخصیت کا مالک نہیں ہوتا کہ عام لوگوں کی طرح کھانا کھائے اور بازاروں میں چلے پھرے۔ اسے اول تو فرشتہ ہونا چاہئے تھا جو ان لوازم بشریت سے پاک ہوتا۔ اور اگر انسان ہوتے ہوئے اسے یہ مقام مل گیا تھا تو اس کی شان کم از کم اتنی تو ہوتی جتنی دنیا کے دوسرے بادشاہوں کی ہوتی ہے۔4۔ یعنی جو لوگ اس کا کہنا نہ مانتے انہیں خدا کے عذاب کی دھمکی دیتا رہتا۔ الفرقان
8 5۔ جس سے اس کی شان کم از کم قیصر و کسریٰ کی سی تو ہوتی۔6۔ یعنی اطمینان کی روزی حاصل کرتا اور معاش کیلئے بازاروں کے چکر لگانے سے بچ جاتا۔ 7۔ یعنی مسلمانوں سے کہتے ہیں۔ الفرقان
9 8۔ صرف اس لئے کہ کسی طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جھوٹا ثابت کرسکیں۔9۔ کیونکہ راہ پر وہ آتا ہے جس کے دل میں اخلاص ہو اور وہ محض غلط فہمی کا شکار ہوگیا ہو۔ ان کے دلوں میں تو اخلاص کی بجائے ضد اور ہٹ دھرمی ہے۔ الفرقان
10 الفرقان
11 10۔ اسی لئے بے خوفوں کی طرح جو منہ میں آتا ہے بک دیتے ہیں۔ ( ابن کثیر) الفرقان
12 11۔ ممکن ہے دوزخ کا یہ دیکھنا ” ظھرت لھم“ کے معنی میں ہو یعنی جب دوزخ ان کے سامنے ظاہر ہوگی اور انہیں نظر آئیگی اور یہ بھی ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ اس میں حقیقتاً دیکھنے کی قوت پیدا کر دے آخرت میں دوزخ کا کلام کرنا بھی تو ثابت ہی ہے۔ فتقول ھل من فرید۔ (سورہ ق :30) 12۔ حدیث میں ہے کہ جب کسی کو دوزخ کی طرف کھینچ کر لایا جائیگا تو اسے دیکھ کر جہنم اس شوق و رغبت سے بلائے گی جیسے جو کو دیکھ کر خچر آواز نکالتا ہے۔ اعاذنا اللہ منھا۔ (ابن کثیر) الفرقان
13 13۔ یعنی دہائی دینگے کہ کاش ہمیں موت آجائے اور ہم اس سے نجات پائیں۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا اللہ کی قسم، وہ آگ میں ایسے ٹھونسے جائیں گے جیسے لکڑی میں کیل ٹھونکی جاتی ہے۔ (شوکانی) الفرقان
14 1۔ یعنی موت کو ایک بار کیا ہزاروں مرتبہ پکارو، مگر وہ آئے گی نہیں۔ الفرقان
15 الفرقان
16 2۔ یعنی یہ وعدہ اس قابل ہے کہ اللہ تعالیٰ سے اس کے پورا کرنے کی دعا کی جائے گی یا یہ ایساوعدہ ہے جو مانگنے پر یقیناپورا کیا جائیگا۔ جیسا کہ دوسری آیت میں اللہ کے نیک بندوں کی دعا نقل کی گئی ہے : ربنا اتنا ما وعدتنا علی رسلک : اے اللہ اس وعدے کو پورا فرما جو تو نے اپنے پیغمبروں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبانی ہم سے کیا۔ (ابن کثیر، شوکانی) الفرقان
17 3۔ یہاں معبودوں سے مراد وہ معبود ہیں جو عقل رکھتے ہیں جیسے انبیاء، اولیاء، فرشتے، جن وغیرہ اور ان کے متعلق ” ما“ کا لفظ جو عربی زبان میں غیر ذوی العقول کیلئے بولا جاتا ہے۔ شاید اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں ان کی حیثیت ظاہر کرنے کیلئے استعمال کیا گیا ہو۔ الفرقان
18 4۔ تاکہ ان کی عبادت کرتے اور اسی طرح جب ہم خود توحید پر قائم تھے تو تیرے بندوں سے اپنی عبادت کیسے کرا سکتے تھے؟ (ابن کثیر) 5۔ یعنی یہ کمینے لوگ تھے بجائے اس کے کہ شکر گزار ہوتے، تیری نعمتیں پا کر عیش میں پڑگئے۔ (نیز دیکھئے انبیاء آیت :44) 6۔ ” سویہ ٔ تو مرکھپ کر (تباہ ہو کر) رہے۔ مطلب یہ ہے کہ جن انبیاء و اولیاء کی یہ پوجا کرتے رہے ہیں ان کی نذریں مانتے رہے ہیں اور اٹھتے بیٹھتے ان کا نام لیتے ہیں۔ قیامت کے دن وہ یہ جواب دینگے یعنی سبحانک اللہ (فتح البیان) الفرقان
19 7۔ یعنی پھر اللہ تعالیٰ کافروں سے کہے گا ” یہ تو……8۔ یعنی تمہاری اس بات کو جھٹلا چکے کہ یہ عبادت کئے جانے کے قابل ہستیاں ہیں۔ الفرقان
20 9۔ یہ کفار مکہ کی اس بات کا جواب ہے جو وہ کہتے تھے کہ کیسا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہے جو بازاروں میں چلتا پھرتا ہے۔10۔ یعنی اگر اللہ چاہے تو ساری دنیا ہی پیغمبروں کا ساتھ دے اور کوئی مخالفت نہ کرے مگر ” پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں کافروں کا ایمان جانچنے کو اور کافر ہیں پیغمبروں کا صبر جانچنے کو۔ (موضح) اب دیکھنایہ ہے کہ تم اس امتحان میں پورے اترتے ہو یا نہیں؟ صحیح مسلم میں ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : انی مبتلیک و مبتلی بک۔ کہ تیری بھی آزمائش ہوگی اور تیرے ذریعہ لوگوں کی بھی آزمائش کی جائے گی۔ (ابن کثیر) 11۔ اس سے کسی صبر کرنے یا نہ کرنے والے کا حال پوشیدہ نہیں ہے۔ لہٰذا جیسا کسی کا عمل ہوگا ویسا ہی اجر اسے پورا پورا ملے گا۔ الفرقان
21 1۔ جیسا کہ دوسری آیت میں ہے :… او تاتی باللہ والملائکۃ قبیلا… یا تم اللہ اور فرشتوں کو ہمارے سامنے نہ لے آئو۔ (اسرا :92) دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جس طرح پیغمبروں پر فرشتے نازل ہوتے ہیں۔ ہمارے پاس بھی فرشتے کیوں نہیں آتے؟ جیسا کہ دوسری آیت میں ہے : قالا لن نومن حتی …مثل ما اولی رسل اللہ۔ یعنی وہ کہتے ہیں کہ ہم تو ایمان نہیں لائیں گے جب تک ہمیں بھی ویسی ہی چیز (یعنی رسالت) نہ دی جائے جو اللہ کے رسولوں کو دی گئی۔ دیکھئے سورۃ انعام آیت 124۔ (ابن کثیر) 2۔ یعنی یہ اپنی دانست میں اپنے آپ کو بہت کچھ سمجھنے لگے۔ اس لئے ان میں اتباع حق سے بے نیازی کا جذبہ پیدا ہوگیا۔ یا یہ کہ ” استکبار“ یعنی کفر و عناد اپنے دلوں میں چھپا رکھا ہے۔3۔ ” سرکشی میں حد سے گزر گئے۔“ یعنی پیغمبر کی تکذیب کی اور ایسی باتوں کا مطالبہ کیا جو اولوالعزم پیغمبروں میں کسی کو ہی حاصل ہو سکتی ہیں پھر اس سے بڑھ کر اور کیا سرکشی ہوگی۔ الفرقان
22 4۔ بعض نے اس سے قیامت کا دن مراد لیا ہے۔ جیسا کہ بعد کی آیت : وقدمنا الی ما عملوا سے معلوم ہوتا ہے مگر صحیح یہ ہے کہ اس سے ان کی موت کا دن مراد ہے جیسا کہ حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے۔ اور احادیث سے بھی ثابت ہوتا ہے۔ نیز دیکھئے انفال 50 و انعام 93 (ابن کثیر) 5۔ یا یہ کلمہ مجرمین خود کہیں گے (یعنی خدا کی پناہ) یعنی فرشتوں سے ڈر کر پناہ مانگیں گے۔ یہ محاورہ (حجراً محجوراً) عرب عموماً اس وقت استعمال کرتے جب کوئی سخت آفت ان پر آ پڑتی۔ جیسے ہم ایسے موقع پر کہتے ہیں ” یا اللہ بچائیو“۔ قاضی شوکانی نے اسی مطلب کو ترجیح دی ہے مگر حافظ ابن کثیر (رح) نے پہلے مطلب کو اختیار کیا ہے (ابن کثیر۔ شوکانی) الفرقان
23 6۔ یعنی انہیں بالکل ضائع اور برباد کردیں گے جن سے انہیں کوئی فائدہ نہ پہنچ سکے گا کیونکہ ایمان و اخلاص اور شریعت کی موافقت کے بغیر کوئی عمل قبول نہیں ہو سکتا۔ ” ھباء“ دراصل ان ذرات کو کہتے ہیں جو دھوپ کے ساتھ روشن دان کے راستے کمرے میں داخل ہوتے ہیں۔ کفار کے اعمال کو ” سراب“ اور ” رماد“ سے بھی تشبیہ دی گئی ہے۔ (دیکھئے ابراہیم : 18 و نور :39) الفرقان
24 7۔ اصل میں ” مقیل“ کے لفظی معنی ہیں ” قیلولہ کرنے کی جگہ ” اور قیلولہ گرمی میں دوپہر کے آرام کو کہتے ہیں اس لئے اس آیت کی تفسیر میں حضرت ابن مسعود فرماتے ہیں ” قیامت کے روز ابھی دوپہر نہ ہوگی کہ جنتی لوگ حساب سے فارغ ہو کر جنت میں پہنچ جائیں گے اور وہاں قیلولہ کریں گے۔ مقصد یہ ہے کہ مومنوں کے لئے قیامت کا دن نہایت ہلکا ہوگا۔ (ابن کثیر) الفرقان
25 8۔ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ یہ فرشتے اس لئے اتریں گے کہ حساب کتاب کے لئے تمام مخلوقات کا ایک میدان میں حلقہ کرلیں۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نزول فرمائے گا۔ اہل علم کا قول ہے کہ فرشتوں کا یہ نزول رضا و رحمت کا نزول ہوگا نہ کہ غصہ اور عذاب کا۔ (شوکانی) غمام سے مراد ” ظل نور“ ہے۔ (ابن کثیر) الفرقان
26 9۔ دنیا کی وہ تمام عارضی اور مجازی حکومتیں ختم ہوجائینگی جن سے انسان دھوکے میں پڑا رہتا ہے۔ صحیح حدیث میں ہے کہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ آسمانوں کو اپنے دائیں ہاتھ میں اور زمین کو اپنے دوسرے ہاتھ میں لپیٹ کر فرمائے گا۔ ” میں ہوں بادشاہ، میں ہوں بدلہ دینے والا، کہاں ہیں دنیا کے جبار و متکبر لوگ۔ (دیکھئے سورۃ فاطر آیت :16۔ (ابن کثیر) 10۔ رہے اہل ایمان تو وہ ان کے لئے نہایت ہلکا ہوگا۔ الفرقان
27 11۔ یعنی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اتباع اختیار کرلیتا ہے اور ایمان لے آتا۔ الفرقان
28 12۔ تو آج اس برے انجام سے دوچار نہ ہوتا۔ حدیث میں ہے۔ المرٔعلی حین خلیلہ فلینظر بعد کم من یخالل۔ کہ آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے اس لئے تم میں سے ہر آدمی کو دیکھنا چاہئے کہ وہ کسے اپنا دوست بنا رہا ہے۔ (خازن) الفرقان
29 13۔ یعنی پہلے برے کام کی ترغیب دیتا ہے لیکن جب آدمی وہ کام کرلیتا ہے اور مصیبت میں گرفتار ہوجاتا ہے تو اسے چھوڑ کر الگ ہوجاتا ہے۔ الفرقان
30 14۔ یعنی اس پر ایمان نہیں لائی اور اس کی بجائے دوسری باتوں پر عمل کرتی رہی۔ یا مطلب یہ ہے کہ میری امت نے اس قرآن کو اپنی بکواس کا نشانہ بنا لیا۔ ” مھجورا“ کے دونوں معنی ہو سکتے ہیں یعنی یہ یا تو ہجران (چھوڑنا) سے مشتق ہے اور یا ” ھحر“ سے جس کے معنی ” بکواس کرنا“ ہیں۔ (شوکانی) الفرقان
31 الفرقان
32 1۔ یہ کفار کا اعتراض تھا کہ اگر یہ واقعی سچی کتاب ہے تو اسے یکبارگی کیوں نازل نہیں کردیا گیا یہ جو تھوڑا تھوڑا کر کے آرہا ہے اس کا تو مطلب یہ ہے کہ محمد (ﷺ) اسے سوچ سوچ کر خود تصنیف کرلیتے ہیں۔ (شوکانی) 2۔ یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اطمینان رہے اور حفظ میں آسانی ہو اور پھر جیسے جیسے واقعات پیش آئیں ان پر اس کے احکام کا انطباق بآسانی سمجھ میں آتا رہے۔ الفرقان
33 3۔ اور ظاہر ہے کہ اگر ہر اعتراض کا جواب بروقت دیا جاتا رہے تو اس کا فائدہ زیادہ ہوتا ہے بہ نسبت اس کے کہ تمام اعتراضات کا جواب کسی مقع پر یکبارگی دیا جائے۔ یہاں ” مثل“ سے مراد طلب و سوال ہے اور ” الحق“ سے مراد شبہ کا ازالہ اور جواب۔ (شوکانی) الفرقان
34 4۔ صحیح یعنی بخاری میں حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ سے دریافت کیا گیا : ” لوگ اپنے منہ کے بل کیوں کرہانکے جائیں گے؟ فرمایا : جس خدا نے انہیں پائوں کے بل چلایا وہ انہیں منہ کے بل بھی چلا سکتا ہے۔“ اکثر مفسرین نے اس آیت کی یہی تفسیر بیان کی ہے۔ (ابن کثیر) الفرقان
35 5۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینے کی غرض سے ان واقعات میں اشارہ فرمایا ہے کہ انبیا کی تکذیب تو مشرکین کی پرانی عادت ہے۔ (شوکانی) 6۔ جس کی انہوں نے دعا کی تھی۔ (دیکھئے سورۃ طہٰ :29) الفرقان
36 7۔ یعنی فرعون اور اس کی قوم کے لوگوں کے پاس۔ یہاں آیات سے وہ نشانیاں بھی مراد ہو سکتی ہیں جو حضرت موسیٰ کو بطور معجزہ دی گئیں اور ارسال کے وقت ان کو مکذب کہنا اس کے اعتبار سے ہے اور اگر ان سے مراد ” آیات الٰہیہ“ یعنی دلائل توحید ہوں جو کائنات میں پائے جاتے ہیں تو کوئی اشکال لازم نہیں آتا۔ (شوکانی) الفرقان
37 8۔ چونکہ ایک پیغمبر کو جھٹلانا تمام پیغمبروں کو جھٹلاتا ہے۔ اس لئے ” کذبوا الرسل“ کا لفظ استعمال کیا گیا۔ (شوکانی) الفرقان
38 9۔ ” اصحاب الرش“ (کنویں والوں) سے مراد کون لوگ ہیں؟ اس بارے میں مفسرین کے متعدد اقوال ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ انطاکیہ کے لوگ مراد ہیں وہاں ایک کنواں تھا اس پر ان کے پیغمبر ” حبیب نجار“ انہیں وعظ و نصیحت فرمایا کرتے تھے۔ ان لوگوں نے انہیں قتل کر کے اس کنویں میں ڈال دیا۔ بعض نے آٰذربائیجان کے لوگ مراد لئے ہیں جنہوں نے اپنے پیغمبروں کو مار ڈالا۔ علامہ طبری نے لکھا ہے کہ ” اصحاب الرس“ ” اصحاب اخدود“ ہی ہیں۔ جن کا ذکر سورۃ بروج میں ہوا ہے۔ (ابن کثیر، شوکانی) الفرقان
39 الفرقان
40 10۔ استفہام توبیخے لئے ہے مطلب یہ ہے کہ ضرور یکھا ہوگا کیونکہ وہ شام کے راستہ پر واقع تھیں اور قریش اپنے سفروں میں آتے جاتے وہاں سے گزرتے تھے۔ 11۔ ” اس لئے سب کچھ دیکھتے ہیں مگر کسی چیز سے عبرت حاصل نہیں کرتے۔ الفرقان
41 الفرقان
42 “12۔ یعنی ہمیں نے تعصب اور ہٹ دھرمی سے کام لیا ورنہ اس نے تو ہمیں اس طرح لاجواب کردیا تھا کہ بت پرستی سے ہمارے قدم ڈگمگا گئے تھے۔1۔ یہ یا وہ لوگ جنہوں نے پیغمبرﷺ کی پیروی اختیار کی؟ اس میں ان کے قول کی تردید کی طرف اشارہ ہے۔ (شوکانی) الفرقان
43 2۔ اشارہ ہے کہ ان مشرکین کے پاس تقلید اور اتباع ہویٰ کے سوا دوسری کوئی دلیل نہیں ہے۔ (شوانی) اور ” ہویٰ“ ہی سب سے بڑی گمراہی کا سبب بنی ہوئی ہے۔ دنیا میں اللہ کے سوا جتنے خدائوں کی بندگی کی جاتی ہے ان میں سے سب بڑا خدا خواہش نفس ہے جس کی پیروی کی جائے۔ (طبرانی) 3۔ یعنی جس کی قسمت میں ہی سعادت و ضلالت لکھی گئی ہو، اس کو اللہ کے سوا کوئی راہ پر نہیں لا سکتا۔ الفرقان
44 4۔ یعنی ان کے لیڈر اور بڑے لوگ بھیڑ بکریوں کی طرح انہیں ہانک کر جدھر لے جانا چاہتے ہیں لے جاتے ہیں۔5۔ کیونکہ جانور تو اس لحاظ سے معذور ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان میں سوچنے سمجھنے کا مادہ ہی نہیں رکھا مگر تف ہے ان بدبختوں پر کہ عقل و شعور رکھتے ہیں مگر اس سے کوئی کام نہیں لیتے یا لیتے ہیں تو الٹا لیتے ہیں۔ یا یہ مطلب ہے کہ بہائم (چوپائے جانور) تو پھر بھی اپنے مالک کے تابع رہتے ہیں۔ چراگاہ میں چلے جاتے ہیں۔ پھر واپس اپنے ٹھکانے پر پہنچ جاتے ہیں مگر یہ نہ اپنے خالق و رازق کو پہچانتے ہیں اور نہ اس کی مرضی کے مطابق زندگی ہی گزار رہے ہیں۔ (قرطبی۔ شوکانی) الفرقان
45 6۔ یعنی طلوع فجر سے لے کر سورج نکلنے تک یا غروب سے طلوع تک صرف سایہ رہتا ہے اس کے ساتھ کوئی دھوپ نہیں ہوتی۔ (قرطبی) ان کی گمراہی بیان کرنے کے بعد اب دلائل توحید کا بیان ہے۔ (شوکانی) 7۔ یعنی اگر دھوپ نہ ہوتی تو کچھ پتا نہ چلتا کہ سایہ کیا ہوتا ہے کیونکہ ہر چیز اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہے۔ (قرطبی) یا مطلب یہ ہے کہ سایہ دھوپ کے تابع رہتا ہے۔ دھوپ کے اعتبار سے ہی اس میں نقص و زیادت اور امتداد و تقلص ہوتا ہے تو گویا دھوپ اس کے لئے بمزملہ دلیل اور راہنما کے ہے۔ (شوکانی) الفرقان
46 8۔ یعنی اسے محو کردیا۔ جوں جوں سورج بلند ہوتا ہے سایہ بھی بتدریج کم ہوتا جاتا ہے حتیٰ کہ نصف النہار کے وقت بالکل ختم ہوجاتا ہے۔ اور ” الینا“ سے مراد یہ ہے کہ اس کا مرجع و مآل ہماری طرف ہے جیسے اس کا پیدا کرنا ہماری طرف سے ہے۔ (فتح) شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں :” اپنی طرف کھینچ لیا۔“ یہ کہ اپنی اصل کو جا لگتا ہے سب کی اصل اللہ ہے۔ (موضح) الفرقان
47 9۔ کیونکہ اس میں تم اپنے کام کاج سے فارغ ہو کر آرام کرتے ہو۔ ” سبات“ کے اصل معنی تمدد یعنی پھیلنے کے ہیں اور نیند یا راحت کے وقت بھی آدمی دراز ہوجاتا ہے اس لئے نیند یا راحت کو ” سبات“ کہا جاتا ہے۔ (شوکانی) 10۔ نیند ایک طرح کی موت ہے اس لئے صبح کے وقت بیداری کو ” نشور“ (جی اٹھنے) کے لفظ سے تعبیر فرمایا ہے۔ علامہ زمحشری لکھتے ہیں کہ ” یہاں ” سبات“ کا لفظ چونکہ ” نشور“ کے مقابلہ میں آیا ہے اس لئے اس کے معنی موت کے ہیں۔ (شوکانی) الفرقان
48 الفرقان
49 11۔ یعنی یہ خود بھی پاک ہے اور دوسری چیزوں کو پاک کرنے والا بھی ہے اس بنا پر جمہور علما نے اس کے مفہوم کو ” طاہر مطہر“ سے ادا کیا ہے بعض نے ” ظہور“ بمعنی طاہر کیا ہے یعنی جو خود پاک ہو۔ اور ” طہور“ صیغہ آلہ ہے یعنی ما یتطھر بہ کے معنی میں ہے یعنی وہ چیز جس کے ذریعہ پاکیزگی حاصل کی جائے اور یہ صیغہ صفت برائے مبالغہ نہیں ہے۔ کیونکہ ایسا ماننے سے متعدد اشکال (لفظی و معنوی) لازم آتے ہیں۔ (ابن کثیر) 12۔ یعنی اکثر جاندار چیزیں اور انسان بارش کا پانی پی کر ہی سیرابی حاصل کرتے ہیں۔ الفرقان
50 13۔ یعنی بارش کہیں زیادہ ہوتی ہے اور کہیں کم۔ سب جگہ یکساں ہو۔ بیک وقت نہیں ہوتی۔ کسی جگہ بارش سے سیلاب آجاتا ہے اور کہیں بارش نہ ہونے سے خشک سالی ہوجاتی ہے۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کی حکمت اور اس کی قدرت کے کرشمے ہیں۔ (ابن کثیر) آیت کا یہ ترجمہ اور مفہوم اس صورت میں ہوگا جب ” صرفناہ“ میں ” ہ“ کی ضمیر بارش کے لئے قرار دی جائے اور اگر یہ ضمیر اوپر بیان شدہ دلائل کے لئے قرار دی جائے۔ کما ھو عند جھور المفسرین تو مطلب یہ ہوگا کہ ” ہم نے توحید کے دلائل کو مختلف طریقوں سے پھیر پھیر کر قرآن اور دیگر کتب سماویہ میں بیان کیا ہے۔ (شوکانی) 14۔ ناشکری یہ کہ اس بارش کو ستاروں کا کرشمہ قرار دیا جائے۔ صحیح مسلم کی ایک طویل حدیث کے دوران میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو لوگ کہتے ہیں کہ ” مطرنا بنووکذا“ کہ فلاں ستارے کی تاثیر سے بارش ہوئی وہ لوگ مجھ سے کفر کرتے ہیں اور ستارو پر ایمان رکھتے ہیں۔ (ابن کثیر) الفرقان
51 15۔ یعنی جب ہم نے بارش کو مختلف شہروں اور ملکوں میں بانٹ دیا ہے تو ایک ایک بستی میں ایک ڈرانے والا بھی بھیج سکتے تھے۔ مگر ہم نے ایسا نہیں کیا کیونکہ اس وقت ہماری حکمت کا تقاضا یہی ہوا کہ سارے جہاں کے لئے صرف آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کو ” منذر“ (خوف کی خبر سنانے والا) بنا کر بھیجا جائے۔ (دیکھئے سورۃ اعراف آیت :158) حدیث میں ہے : و بعثت الی الناس عامہ کہ میری بعثت سب لوگوں کے لئے ہے۔ (ابن کثیر) الفرقان
52 16۔ یعنی توحید کے اثبات اور کفر و شرک کے ابطال کے دلائل سنا سنا کر۔ 17۔ یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کام چونکہ بڑا ہے اس لئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس سلسلہ میں پوری ہمت صرف کر دینی چاہئے۔ الفرقان
53 1۔ جس کی وجہ سے دونوں پانی آپس میں ملنے نہیں پاتے۔ میٹھا میٹھا رہتا ہے اور کھاری کھاری۔ یہ کیفیت ان جگہوں میں اکثر پیش آتی ہے جہاں وہ دریا یا نالوں کا ایک دوسرے سے ملاپ ہوتا ہے یا جہاں کوئی بڑا دریا سمندر میں گرتا ہے۔ الفرقان
54 2۔ جس سے اس کی معاشرتی زندگی بنتی ہے اور اس کی نسل بڑھتی اور برقرار رہتی ہے۔ الفرقان
55 3۔ یعنی کفر و شرک کا ارتکاب کر کے اپنے رب کے خلاف اس کے دشمن شیطان کا مددگار بنا ہوا ہے۔ (شوکانی) الفرقان
56 الفرقان
57 الفرقان
58 4۔ چنانچہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ ذکر بکثرت فرمایا کرتے تھے : سبحانک اللھم ربنا و بحمدک۔ (ابن کثیر) الفرقان
59 5۔ یہاں ” جاننے والے“ سے مراد خود اللہ تعالیٰ ہے اور ” بہ“ بمعنی ” عنہ“ ہے اور مطلب یہ ہے کہ آسمان و زمین کی پیدائش اور استواء علی العرش وغیرہ کے بارے میں اہل کتاب یا مشرکین کیا جانیں۔ ان کی تفصیلات کا صحیح علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے لہٰذا اسی سے دریافت کیجئے۔ آیت کی جو توجیہات یہاں بیان کی گئی ہیں ان سب سے یہ توجیہہ بہتر ہے۔ (شوکانی) الفرقان
60 6۔ یا ” رحمن کو سجدہ کرنے کے حکم سے“ ان کی نفرت اور بڑھ جاتی ہے۔ یہ پہلے بتایا جا چکا ہے کہ مشرکین مکہ زمین و آسمان کے خالق کے لئے ” اللہ“ کا لفظ تو مانتے تھے لیکن وہ اس کے نام ” رحمن“ سے مانوس نہ تھے اس لئے اسے سنتے ہی چڑ جاتے تھے۔ دیکھئے سورۃ رعد آیت 30، سورۃ اسرا : آیت 110۔ (قرطبی) تنبیہ اس آیت پر سجدہ کرنا ہر پڑھنے اور سننے والے کے لئے مسنون ہے اور اس پر تمام علما کا اتفاق ہے۔ (ابن کثیر) الفرقان
61 7۔ برجوں سے مراد بڑے ستارے ہیں یا وہ بارہ منزلیں جن سے سورج، چاند اور ستارے اپنی اپنی گردش کے دوران میں گزرتے ہیں۔ (دیکھئے سورۃ الحجر آیت 16) 8۔ جیسا کہ سورۃ نوح ( علیہ السلام) میں بصراحت فرمایا : وجعل الشمس سراجا اور اس نے سورج کو چراغ بنایا۔ (آیت 71) الفرقان
62 9۔ جیسا کہ دوسری آیت میں ” دائبین“ (سورہ ابراہیم :33) فرمایا ہے۔ یعنی اپنے دستور پر چل رہے ہیں۔ چنانچہ جب رات جاتی ہے تو دن آجاتا ہے اور جب دن جاتا ہے تو رات آجاتی ہے۔ یا ” ایک کو ایک کا جانشین بنایا“ یا ” ایک کو ایک کا مخالف بنایا۔“ یعنی مگر رات تاریک ہے تو دن روشن۔ لفظ ” خلفا“ کے یہ تینوں معنی ہو سکتے ہیں۔ الفرقان
63 10۔ یعنی اگرچہ پیدائشی طور پر سبھی خدائے رحمن کے بندے ہیں۔ لیکن اس کے نیک اور پسندیدہ بندے وہ ہیں جو شعوری طور پر اس کے سامنے عاجزی اختیار کرتے ہیں چنانچہ وہ جب زمین پر چلتے ہیں تو عاجزی سے چلتے ہیں نہ کہ مفسدوں اور جباروں کی طرح اینٹھتے اور اکڑتے ہوئے۔ عاجزی کی چال سے مراد سکون اور وقار کی چال ہے نہ کہ تصنع اور ریا سے مریضوں کی طرح سے چلنا۔ آنحضرتﷺ صحابہ (رض) کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کرتے : وعلیکم السکینۃ۔ یعنی تم اس طرح آئو کہ تم پر سکون و وقار کی حالت طاری ہو۔ (قرطبی، ابن کثیر) 1۔ یہ سلام وہ نہیں جو مسلمان بطور دعا اور اظہار محبت کے ایک دوسرے کو کرتے ہیں بلکہ یہ بیزاری اور ترک ملاقات کا سلام ہے جیسے اگر کسی سے پیچھا چھڑانا مقصود ہو تو کہا جاتا ہے ” اچھا بھئی، سلام“۔ مجاہد وغیرہ نے ” قالوا سلاما“ کا یہ مطلب بھی بیان کیا ہے کہ وہ جاہلوں کی جہالت کے مقابلے میں اچھی اور سلامتی کی بات کہتے ہیں۔ ( اور درگزر کرتے ہیں) تاکہ فساد نہ بڑھے۔ (شوکانی) الفرقان
64 الفرقان
65 2۔ یعنی ایسا چمٹ جانے والا جو کسی طرح الگ نہ ہو۔ اسی سے فریم ہے یعنی صاحب قرض جو پیچھا نہ چھوڑے۔ (قرطبی) الفرقان
66 الفرقان
67 3۔ یعنی نہ فضول خرچی کرتے ہیں اور نہ بخل سے کام لیتے ہیں۔ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں۔ فضول خرچی یہ ہے کہ گناہ کے کاموں میں مال صرف کیا جائے اور بخل یہ ہے کہ اللہ کے مقرر کردہ حقوق بھی ادا نہ کئے جائیں۔ (شوکانی)۔ الفرقان
68 4 مراد ہے ہر انسانی جان۔ کیونکہ ہر انسانی جان کا مارنا اللہ نے حرام کیا ہے۔5۔ یا جیسے شادی شدہ زانی کو سنگسار کرنا یا مرتد کو قتل کرنا اور جنگ میں کافر کو ماردینا، یہ سب صورتیں ” الابالحق“ کے تحت آجاتی ہیں۔6۔ یہ تینوں گناہ اسی ترتیب کے ساتھ ایک حدیث میں مذکور ہیں۔ عبد اللہ (رض) بن مسعود سے روایت ہے نبیﷺ سے پوچھا گیا۔ ” سب سے بڑا گناہ کونسا ہے۔“ فرمایا : ” یہ کہ تم کسی کو اللہ کا ہمسر قرار دو حالانکہ اسی نے تمہیں پیدا کیا۔“ سائل نے عرض کیا پھر کونسا؟ فرمایا :” یہ کہ تم اپنی اولاد کو اس اندیشے سے قتل کرو کہ وہ تمہارے ساتھ کھانے میں شریک ہوگی“ سائل نے عرض کی پھر کونسا؟ فرمایا کہ ” تم اپنے ہمسائے کی بیوی سے زنا کرو۔“ (ابن کثیر) 7۔ یا ” اثام میں ڈالا جائے گا۔“ جو جہنم کی ایک وادی کا نام ہے۔ (شوکانی) الفرقان
69 الفرقان
70 8۔ اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ توبہ کے بعد اللہ تعالیٰ ان کی حالت بدل دے گا یعنی کافر کی بجائے مومن اور عاصی کی بجائے فرمانبردار لکھ دیا جائے گا اور یا اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے نامۂ اعمال سے برائیوں کو مٹا کر ان کی جگہ نیکیاں لکھ دی جائیں گی۔ یہ مطلب صحیح حدیث سے بھی ثابت ہے اور بہت سے صحابہ کا قول بھی یہی ہے۔ (قرطبی۔ ابن کثیر) الفرقان
71 9۔ پہلا ذکر تھا کفر (کی حالت) کے گناہوں کا جو پیچھے ایمان لایا۔ یہ ذکر ہے اسلام میں گناہ کرنے کا، وہ بھی جب توبہ کرے یعنی پھرے اپنے کام سے تو اللہ کے یہاں جگہ پاوے۔ (موضح) الفرقان
72 10۔ ” لا یشھدون الزور“ کے یہ دونوں مفہوم ہو سکتے ہیں۔ یعنی جھوٹی شہادت (گواہی) دینا اور جھوٹ کا مشاہدہ کرنا۔ ای حدیث میں جھوٹی گواہی کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سب سے بڑے گناہوں میں شمار کیا ہے۔ (ابن کثیر) 11۔ یا ” شریف آدمیوں کی طرح گزر جاتے ہیں بغیر اس کے کہ اس بیہودہ کام میں شریک ہوں۔ لفظ ” لغو“ کے مفہوم میں گناہ کے تمام کام بھی آجاتے ہیں اور رقص و سرور اور تمام فضول کام اور باتیں بھی۔ الفرقان
73 12۔ بلکہ وہ انہیں نہایت غوروفکر سے سنتے اور ان سے متاثر ہوتے ہیں بخلاف کافروں کے جو انہیں سن کر ذرہ بھر متاثر نہیں ہوتے بلکہ اپنے کفر پر سختی سے جمے رہتے ہیں۔ علامہ ابن جریر (رح) لکھتے ہیں کہ اس آیت میں ” گرنے“ کا لفظ اپنے لغوی معنی میں نہیں بلکہ محاورے کے طور پر استعمال ہوا ہے جیسے کہا جاتا ہے ” قعدیبکی“ اس کے لفظی معنی تو یہ ہیں ” وہ روتے ہوئے بیٹھ گیا۔ لیکن مطلب یہ ہے کہ ” وہ روتا رہ گیا۔“ اسی طرح اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ ” وہ اللہ کی آیتوں کو سن کر گونگے بہرے بنے نہیں بیٹھ رہتے بلکہ ان کا گہرا اثر قبول کرتے ہیں اور جس چیز کا ان میں حکم دیا جاتا ہے اس کی پیروی کرتے ہیں۔ (شوکانی) الفرقان
74 13۔ یعنی انہیں نیک اور خدا ترس بنا۔ کیونکہ ایک مومن کی آنکھ محض بیوی بچوں کے ظاہری حسن و جمال اور عیش و آرام سے نہیں بلکہ دراصل ان کی نیکی اور پاکیزہ اخلاق اور اطاعت کیشی سے ٹھنڈی ہوتی ہے۔14۔ کہ دوسرے لوگ بھی ہماری اتباع کریں اور وہ بھی نیک اور پرہیزگار بن جائیں تاکہ ان کی نیکی کا ثواب، ان کے ساتھ ساتھ ہمیں بھی ملتا رہے۔ الفرقان
75 1۔ یعنی ہر حال میں راہ حق پر ثابت قدم رہنے کے بدلے میں۔ الفرقان
76 2۔ اللہ تعالیٰ کے فرشتے دعا و سلام کہتے ہوئے ان کا استقبال کریں گے۔ الفرقان
77 3۔ یعنی اگر تم ایمان لا کر اس کی عبادت نہ کرو اور اس کے حضور دعائیں نہ کرو تو اسے ایک پرکاہ کے برابر بھی تمہاری پروا نہیں۔ شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں : یعنی بندہ مغرور نہ ہو خاوند (خداوند) کو اس کی کیا پروا۔ مگر اس کی التجا پر رحم کرتا ہے۔ (موضح) 4۔ چاہے دنیا میں چاہے آخرت میں اور چاہے دونوں جگہ، چانچہ قریش نے… جن سے آیت کا خطاب ہے… آخرت کے علاوہ ” بدر“ کے روز یہ وبال دیکھ لیا۔ اس لئے جمہور مفسرین نے یہاں ” لزام“ سے ” بدر“ کے دن کا عذاب مراد لیا ہے۔ (شوکانی) الفرقان
0 5۔ جمہور مفسرین (رح) کے بقول یہ سورۃ مکہ میں نازل ہوئی ایک روایت میں حضرت ابن عباس اس کی آخری پانچ آیتوں کو مدنی قرار دیتے ہیں۔ قرطبی (رح) نے اپنی تفسیر میں حضرت برأ سے یہ روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ نے توراۃ کی جگہ مجھے سبع طوال (سات لمبی سورتیں) دیں، انجیل کی جگہ مئین (سویا سو سے اوپر آیتوں والی سورتیں) دیں اور زبور کی جگہ طٰسٓ والی سورتیں دیں۔ حٰمٓ والی سورتوں سے مجھے فضیلت دی اور مفصل سورتوں کو مجھ سے پہلے کسی انسان نے نہیں پڑھا۔ (شوکانی) الشعراء
1 الشعراء
2 6۔ یعنی جو اپنے مطالب کو بالکل واضح انداز میں بیان کرتی ہے۔ الشعراء
3 7۔ اس سے مقصود نبیﷺ کو تسلی دینا ہے کہ ان بدبختوں کے ایمان نہ لانے پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس قدر رنجیدہ نہ ہوں۔ الشعراء
4 8۔ یعنی اس پر ایمان لانے کے سوا ان کے لئے کوئی چارۂ کار نہ رہے۔ لین ہم ایسا نہیں کرتے کیونکہ دنیا دار ابتلا ہے اور ہمارا فیصلہ یہ ہے کہ جو شخص بھی ایمان لائے سوچ سمجھ کر اختیاری طور پر لائے نہ کہ کسی دبائو یا مجبوری کے تحت۔ (ابن کثیر) الشعراء
5 9۔ یعنی قرآن کی کوئی نئی آیت یا حکم جس میں انہیں نصیحت کی گئی ہو۔ (دیکھئے انبیا آیت :2) الشعراء
6 الشعراء
7 10۔ یہاں ” انبار“ سے مراد وہ دنیوی یا اخروی عذاب ہیں جن کے وہ مستحق تھے اور قرآن نے چونکہ اس عذاب کی خبر دی ہے اس لئے اسے ” انبا“ سے تعبیر کیا ہے۔ یعنی یہ لوگ چونکہ اعراض و تکذیب سے تجاوز کر کے استہزا پر اتر آئے ہیں سو عنقریب دنیا یا آخرت میں ہمارے عذاب دیکھیں گے اور انہیں معلوم ہوجائے گا کہ پیغمبر جو دعوت پیش کرتے ہیں اور جس کا یہ مذاق اڑایا کرتے تھے، واقعی حق تھی۔ اس میں سخت وعید ہے۔ راجع، الانعام آیت 5 و ایضا، ص :88۔ کذافی الشوکانی) الشعراء
8 الشعراء
9 11۔ یعنی وہ زبردست قوت والا ہے۔ وہ انہیں جو چاہے اور جب چاہے سزا دے سکتا ہے۔ مگر وہ رحم والا بھی ہے۔ لہٰذا انہیں سنبھلنے کے لئے موقع پر موقع دیئے جا رہا ہے اور ان کی سرکشی پر گرفت نہیں کر رہا۔ اس کے بعد عبرت کے لئے چند واقعات بیان فرمائے جن سے مقصود یہ ہے کہ آیات الٰہی کی تکذیب و استہزا کا انجام ہلاکت ہے۔ گویاان واقعات سے آیت سابقہ ” فسوف یاتیھم انبا ما کانو بہ یستھزٔون“ کی تقریر و تائید مقصود ہے۔ (شوکانی) الشعراء
10 12۔ یہ اس واقت کا واقعہ ہے جب حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) اپنے بیوی بچوں کو لے کر مدین سے مصر واپس آرہے تھے۔ (دیکھئے سورۃ طہ : رکوع 1) الشعراء
11 الشعراء
12 الشعراء
13 13۔ یعنی اتنے بڑے مشن پر تنہا جاتے ہوئے مجھے گھبراہٹ محسوس ہوتی ہے۔۔ 1۔ یعنی میں پوری روانی سے تقریر نہیں کرسکتا۔ 2۔ تاکہ ان سے مجھے تقویت اور پشت پناہی حاصل ہو اور یوں بھی وہ میری نسبت زیادہ فصیح اللسان ہیں۔ (دیکھئے طٰہٰ۔ 31، قصص :34) موسیٰ (علیہ السلام) حضرت ہارون ( علیہ السلام) کا تعاون حاصل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ سے یہ درخواست کر رہے ہیں نہ کہ رسالت سے سبکدوش کردینے کی۔ (شوکانی) الشعراء
14 3۔ یعنی مجھ سے ان کا آدمی قتل ہوگیا ہے۔ اس واقعہ کی تفصیل سرہ قصص رکوع 2 میں بیان ہوئی ہے اور وہ یہ ہے کہ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) نے ایک قبطی کو ایک اسرائیلی سے لڑتے دیکھ کر ایک گھونسا مار دیا تھا جس سے اس قبطی کی موت واقع ہوگئی۔ پھر جب حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کو معلوم ہوا کہ اس واقعہ کی اطلاع فرعون اور اس کے لوگوں کو ہوگئی ہے اور وہ بدلہ لینے کے لئے مشورے کر رہے ہیں تو وہ مصر سے مدین بھاگ گئے۔ معلوم ہوا کہ خوف طبعی طور پر کبھی انبیا کو بھی لاحق ہوجاتا ہے۔ (قرطبی) الشعراء
15 4۔ یعنی یہ خیال کہ وہ آپ کو قتل کردیں گے اپنے دل سے نکال دیجئے۔ (دیکھئے قصص :35) 5۔ یعنی عصاویدبیضا کے معجزے جیسا کہ سورۃ طٰہٰ رکوع 4 اور قصص رکوع 4 میں بیان ہوا ہے کہ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کو ہارون ( علیہ السلام) کو یہ دو معجزے دے کر فرعون کی طرف بھیجا۔6۔ لہٰذا تمہیں گھبرانے کی ضرورت نہیں ہم ہر حال میں تمہارے نگہبان و محافظ رہیں گے۔ الشعراء
16 الشعراء
17 7۔ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) و ہارون ( علیہ السلام) کو فرعون کی طرف دو مشن دے کر بھیجا گیا تھا، ایک بنی اسرائیل کو اس کی غلامی سے نجات دلانا اور دوسرا اس کے سامنے دعوت توحید رکھنا۔ (دیکھئے ……) الشعراء
18 8۔ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کو فرعون نے پہچان لیا اور کہا کیا ہم تم سے واقف نہیں ہیں؟ اس وقت تو تم نے کوئی پیغمبری کا دعویٰ نہیں کیا تھا کیا اب تمہارا دماغ چل گیا ہے جو پیغمبری کا دعویٰ کرنے لگے ہو اور خود ہمیں اپنی پیروی کی دعوت دیتے ہو۔ الشعراء
19 9۔ یعنی ہمارے اتنے احسانات کے باوجود تم نے ہمارے ایک آدمی کو قتل کردیا جو یقینا تمہاری احسان فراموشی تھی۔ الشعراء
20 10۔ یعنی قبل اس کے کہ اللہ تعالیٰ مجھے اپنی رسالت و نبوت سے نوازتا یا مجھے کیا خبر تھی کہ ایک گھونسے میں اس کا دم نکل جائے گا لہٰذا تمہارا یہ طعن بے جا ہے۔ (کذا فی القرطبی) الشعراء
21 الشعراء
22 11۔ یعنی آج تو مجھ پر یہ احسان کیسے جتلا سکتا ہے کہ تو نے اپنے گھر میں رکھ کر میری پرورش کی حالانکہ اس کا سبب خود تیرا ظلم و ستم تھا۔ اگر تو نے بنی اسرائیل کو غلام بنا کر ان کے بیٹوں کو قتل کرنے کا سلسلہ شروع نہ کر رکھا ہوتا تو میں اپنے گھر میں پرورش پاتا۔ میری والدہ کو کیا ضرورت پڑی تھی کہ مجھے صندوق میں بند کر کے دریا میں بہاتی اور اس طرح میں تیرے گھر پہنچ جاتا۔ علمائے تفسیر (رح) نے اس آیت کی اور بھی بہت سی تشریحات بیان کی ہیں۔ (قرطبی۔ شوکانی) الشعراء
23 12۔ یعنی اس کی حقیقت بتائو کہ وہ کیا چیز ہے؟۔ فرعون نے یہ سوال اس بنا پر کیا کہ وہ خود خدا ہونے کا دعویدار تھا اور اس کی قومے بھی اس کا دعویٰ تسلیم کرلیا تھا اس لئے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کے اس دعویٰ پر کہ مجھے سارے جہان کے رب نے بھیجا ہے۔“ اس نے ہٹ دھرمی سے یہ سوال کیا۔ الشعراء
24 13۔ یعنی یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے مانے بغیر چارہ نہیں اگر تم میں ماننے کی ذرا بھی صلاحیت ہے۔ الشعراء
25 الشعراء
26 14۔ یعنی میں تمہیں اس رب العالمین کی طرف دعوت دے رہا ہوں جو جس طرح آج تمہارا رب ہے کل تمہارے باپ دادا کا بھی رب تھا اور تمہاری آئندہ نسلوں کا بھی رب ہوگا۔ اس کی شان یہ نہیں کہ وہ کل تھا اور آج نہیں یا آج ہے اور کل نہیں ہوگا۔ الشعراء
27 15۔ یعنی اس کا دماغ چل گیا ہے اس لئے یہ دعویٰ کر رہا ہے کہ تمہاری طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ یا جو میں سوال کرتا ہوں اس کا جواب نہیں دے رہا ہے۔ (قرطبی) الشعراء
28 16۔ یعنی اگر تم میں سوچنے سمجھنے کی ذرا بھی صلاحیت ہے تو یہ سمجھنا کچھ مشکل نہیں کہ حقیقت میں تو رب وہ ہے جو مشرق و مغرب کا اور ہر اس چیز کا مالک ہے جو مشرق و مغرب کے درمیان ہے نہ کہ تمہارا یہ فرعون جو مصر جیسی زمین کے ایک چھوٹے سے رقبے کا مالک بنا بیٹھا ہے۔ (قرطبی) الشعراء
29 1۔ ہر ظالم و جابر حکمران اور مدعی باطل کا قاعدہ ہے کہ جب وہ دلیل کے میدان میں شکست کھا جاتا ہے تو آخری پناہ گاہ کے طور پر طاقت کے استعمال کی دھمکی دینے لگتا ہے۔ چنانچہ یہی دھمکی فرعون نے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کو دی۔ الشعراء
30 2۔ تو کیا پھر بھی تو میری بات نہ مانے گا اور مجھے قید کرے گا۔ (شوکانی) الشعراء
31 الشعراء
32 3۔ یعنی ایسا اژدھا جس کا اژدھا ہونا بالکل واضح اور عیاں تھا نہ کہ کسی شعبدہ بازی کا دھوکا۔ الشعراء
33 4۔ یعنی سورج کی طرح جگمگا رہا تھا جس پر آنکھ نہ ٹھہرتی تھی۔ (ابن کثیر) دوسرے مقام پر بیضا من غیر سوء فرمایا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کا ہاتھ برص کے مریض کی طرح سفید نہ تھا بلکہ کسی بیماری کے بغیر اس طرح چمک رہا تھا جیسے سورج۔ الشعراء
34 5۔ اور خود یہاں کا حکمران بن بیٹھے۔ الشعراء
35 6۔ ابھی خدائی کے دعوے تھے اور ابھی اپنے وزیروں اور درباریوں سے پوچھنے پر اتر آیا کہ بتائو کیا کیا جائے؟ اس آئی بلا کو کیونکر ٹالا جائے؟ اس نے اپنے اقتدار کا سورج غروب ہوتے دیکھ کر یہ رویہ اختیار کیا۔ (شوکانی) الشعراء
36 7۔ یعنی ہر کارے یا پولیس کے سپاہی جو جادوگروں کو اکٹھا کر لائیں۔ الشعراء
37 8۔ سورۃ طہ میں گزر چکا ہے کہ وہ قبطیوں کی عید (یوم الزینۃ) کا دن تھا اور اس دن کا انتخاب اس لئے کیا گیا تھا کہ لوگ ملک کے گوشے گوشے سے آ کر دارالسلطنت میں حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) اور جادوگروں کا مقابلہ دیکھیں گے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کا بھی یہی مقصد تھا کہ عام مجمع میں حق و باطل کا مقابلہ ہوتا کہ سب لوگوں پر حق کی صداقت عیاں ہوجائے۔ (شوکانی) الشعراء
38 الشعراء
39 الشعراء
40 9۔ یعنی ان کے دین پر برقرار رہیں گے۔ (شوکانی) الشعراء
41 الشعراء
42 10۔ یعنی انعام تو ملے گا ہی۔ اس سے بڑھ کر تمہاری قدردانی یہ کی جائے گی کہ تمہیں اپنے رب (خود فرعون) کے مقربین کا مرتبہ حاصل ہوگا۔ الشعراء
43 11۔ اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) نے ان کو حکم دیا کہ اچھا تم جادو کرو کیونکہ جادو کفر ہے اور ایک پیغمبر کفر کی اجازت کیسے دے سکتا ہے۔ بلکہ پہلے جادوگروں نے کہا : ” اما ان تلقی واما ان تکون اول من القی“ یا تم پہلے ڈالو یا ہم ڈالتے ہیں۔ (طٰہ :65) اس پر حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) نے ” القوا“ فرمایا تاکہ دلیل سے مغلوب ہوجائیں اور لوگوں کو بھی پتہ چل جائے کہ ان کا معجزہ جادو کی کوئی قسم نہیں ہے (شوکانی) الشعراء
44 12۔ فرعون کی تعظیم کے لئے اس کی عزت کی قسم کھائی کہ ہم ضرور ہی جیتیں گے۔ اس سے جادوگروں کا مقصد فرعون کو خوش اور موسیٰ (علیہ السلام) کو مرعوب کرنا تھا…جاہلیت میں لوگ اس قسم کی قسمیں کھایا کرتے جیسا کہ آج کل بھی مسلمان اللہ تعالیٰ کی ذات یا صفات کی قسم کھانے پر مطمئن نہیں ہوتے بلکہ اپنے پیرومرشد یا کسی بزرگ کے روضہ کی قسم کھاتے ہیں۔ یا عام رواج کے مطابق کہہ دیتے ہیں : مجھے تیری قسم یا تیرے سر کی قسم وغیرہ۔“ اس طرح دوسروں کی عظمت کا اظہار کرتے ہیں۔ شاید اللہ تعالیٰ کی جھوٹی قسم کھانے پر اتنا گناہ نہ ہوتا ہو جتنا کہ ان چیزوں کی سچی قسم کھانے پر ہوسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو اس قسم کے گناہوں سے محفوظ رکھے۔ (روح المعانی) مزید تفصیل کے لئے سورۃ طہ (آیت 66۔67) اور سورۃ اعراف (آیت 116) دیکھ لی جائے۔ الشعراء
45 الشعراء
46 1۔ ” القی“ (گرا دیئے گئے) یعنی وہ جادوگر اس طرح بے اختیار ہو کر سجدہ میں گر پڑے گویا اندر سے کسی چیز سے انہیں گرا دیا ہے۔ الشعراء
47 الشعراء
48 2۔” سارے جہاں کے مالک ” کے ساتھ“ جو موسیٰ ( علیہ السلام) و ہارون کا رب ہے“ اس لئے کہا کہ کہیں فرعون کو شبہ نہ ہو کہ انہوں نے اس کو سارے جہان کا مالک قرار دیا ہے کیونکہ وہ بھی اپنے آپ کو رب کہتا تھا۔ (کبیر) الشعراء
49 3۔ اور تم سب استاد اور شاگردوں نے سازش کر کے یہ کھیل کھیلا۔ یا کہ لوگوں کو دکھلانے کے لئے استاد سے ہار گئے تاکہ سب لوگ استاد کے معتقد ہوجائیں اور پھر ہماری بادشاہی چھین لو۔ (کبیر) شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں : ” تمہارا بڑا“ کہنا رب کو۔ یعنی موسیٰ ( علیہ السلام) اور تم ایک استاد کے شاگرد ہو۔ (موضح) واللہ اعلم۔ 4۔ یعنی دایاں ہاتھ تو بائیں ٹانگ اور بایاں ہاتھ تو دائیں ٹانگ۔ الشعراء
50 5۔ یعنی بہرحال اللہ تعالیٰ کی طرف تو لوٹنا ہی ہے۔ اس طرح مریں گے تو شہادت کا درجہ پائیں گے اور صبر کا اجر ملے گا۔ (وحیدی) الشعراء
51 6۔ یعنی دلیل واضح ہوجانے کے بعد قوم فرعون میں سے سب سے پہلے ایمان لائے۔ زجاج کہتے ہیں کہ ان کے ساتھ (اس روز) چھ لاکھ ستر ہزار آدمی ایمان لائے اور انہی کو فرعون نے۔ جیسا کہ آگے آیت 54 میں آرہا ہے۔ ” شوذتہ قلیلون“ (چھوٹی سی جماعت) کہا تھا۔ (قرطبی) الشعراء
52 7۔ تو تم آگے نکل جائو۔ دشمن تمہیں اس وقت پائیں جب تم سمندر پر پہنچ جائو۔ الشعراء
53 8۔ یعنی ہر کارے یا پولیس کے سپاہی۔ الشعراء
54 الشعراء
55 9۔ جو ہماری اجازت کے بغیر نکل کھڑے ہوئے۔ الشعراء
56 10۔ لہٰذا ہمارے لئے انہیں جا پکڑنا کوئی مشکل کام نہیں یا ” ہم سب خطرہ میں ہیں“ یا ” ہم سب چوکنے اور محتاط لوگ ہیں“ اس لئے ان کا قلع قمع کرنا ضروری ہے لفظ ” حاذرون“ کے یہ سبھی معنی ہو سکتے ہیں۔ (…شوکانی) الشعراء
57 الشعراء
58 الشعراء
59 11۔ یعنی اس طرح وہ لوگ اپنے گھر بار مال و دولت، باغ اور کھیتیاں چھوڑ کر بنی اسرائیل کے تعاقب میں یکایک نکل کھڑے ہوئے۔ 12۔ یا تو اسی زمانہ میں فرعون کے غرق۔ ہوجانے کے بعد یا ایک مدت کے بعد حضرت سلیمان ( علیہ السلام) کے عہد میں۔ واللہ اعلم۔ الشعراء
60 الشعراء
61 13۔ یعنی دشمن سر پر پہنچ گیا ہے اب ہم بچ کر نہیں جاسکتے۔ (وحیدی) الشعراء
62 14۔ یعنی میرے پروردگار کی نصرت و حمایت میرے شامل حال ہے ان سے نجات کی ضرور کوئی سبیل نکل آئے گی۔ چنانچہ آخر کار اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو پانی میں عصا مارنے کا حکم دیا۔ (شوکانی) الشعراء
63 الشعراء
64 الشعراء
65 الشعراء
66 1۔ کیونکہ وہ بھی سمندر میں راستہ دیکھ کر اس میں گھس پڑے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے پانی کے دونوں ٹکڑوں کو مل جانے کا حکم دیا جب وہ مل گئے تو یہ لوگ غرق ہوگئے۔ (ابن کثیر) الشعراء
67 2۔ بلکہ بے ایمان تھے ان میں سے صرف چند آدمی ایمان لائے تھے جیسے حزقیل اور اس کی بیٹی، فرعون کی بیوی حضرت آسیہ اور ایک بڑھیا جس نے حضرت یوسف کی قبر بتائی تھی۔ اس کا قصہ یہ ہے کہ جب حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) بنی اسرائیل کو لے کر نکلے تو راستہ بھول گئے۔ موسیٰ ( علیہ السلام) نے کہا ” یہ کیا“؟ بنی اسرائیل کے علما نے کہا ” حضرت یوسف ( علیہ السلام) نے وفات کے وقت ہمارے بزرگوں سے عہد لیا تھا کہ جب تم مصر سے نکلو تو میرا تابوت ساتھ لے کر جانا۔ موسیٰ ( علیہ السلام) نے پوچھا تم میں سے کسی شخص کو ان کی قبر کا علم ہے۔ وہ کہنے لگے صرف ایک بڑھیا کو اس کا علم ہے بڑھیا سے دریافت کرنے پر اس نے جواب دیا کہ ” میں اس شرط پر بتائوں گی کہ آپ میرا یہ مطالبہ تسلیم کرلیں ہ میں جنت میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ رہوں گی۔ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) نے یہ مطالبہ تسلیم کرلیا۔ چنانچہ اس کی نشان دہی پر وہ تابوت نکالا گیا اور اسے لے کر چلے تو راستہ روز روشن کی طرح صاف تھا۔ (شوکانی) فقلتہ تبعا للمفسرین و فیہ نکارۃ واللہ اعلم (ابن کثیر) اس جگہ ” اکثرھم“ سے مراد وہ تمام لوگ ہیں جو فرعون سے نسبت رکھتے تھے نہ کہ صرف وہ لوگ جو لشکر میں اس کے ساتھ سمندر پر پہنچے تھے کیونکہ وہ تو سب کے سب غرق ہوگئے تھے اور ان میں سے کوئی شخص بھی ایمان نہیں لایا تھا (شوکانی) الشعراء
68 3۔ یعنی اپنے دشمنوں سے انتقام لینے والا اور اپنے ماننے والوں پر رحم کرنے والا۔ چنانچہ دیکھو دم بھر میں فرعون کو غرق کردیا اور بنی اسرائیل کو نجات دلا کر بادشاہ بنا دیا۔ شاہ صاحب (رح) کہتے ہیں : یہ سنا دیا ہمارے حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کہ مکہ کے فرعون بھی مسلمانوں کے پیچھے نکلیں گے لڑائی کو، پھر وطن سے باہر تباہ ہوں گے ” بدر“ کے دن جیسے فرعون تباہ ہوا۔ (موضح) الشعراء
69 الشعراء
70 4۔ یعنی دیکھو تو سہی کہ تمہارے ان معبودوں کی حقیقت کیا ہے؟ یہ پوچھنا اتمام حجت کی غرض سے تھا۔ (دیکھئے انبیاء آیت 52) الشعراء
71 الشعراء
72 الشعراء
73 5۔ اگر نہیں، اور ظاہر ہے کہ نہیں تو ان کی پوجا کرنے سے کیا فائدہ اور نہ کرنے سے کیا نقصان؟ الشعراء
74 6۔ یعنی یہ تو صحیح ہے کہ لکڑی اور مٹی کے یہ بت نہ سنتے ہیں نہ بولتے ہیں اور نہ کوئی نفع یا نقصان پہنچا سکتے ہیں مگر… الخ 7۔ اس لئے ہم انہیں بے سوچے سمجھے پوجے جا رہے ہیں۔ گویا جب کوئی معقول جواب نہ بن پڑا تو باپ دادا کی تقلید کا سہارا لیا جو ہر لنگڑے کی لاٹھی اور ڈوبنے والے کا آخری تنکا ہے۔ یہی حال ان مقلد حضرات کا ہے جو اس لئے اپنے امام کی تقلید کر رہے ہیں کہ فلاں فلاں بزرگ بھی تو امام صاحب کی تقلید کرتے رہے ہیں۔ (شوکانی) الشعراء
75 الشعراء
76 الشعراء
77 8۔ وہ ایسا نہیں ہے۔ اس لئے وہی دنیا و آخرت میں میرا دوست، مربی اور مالک ہے اور وہی اس چیز کا مستحق ہے کہ میں اس کی عبادت کروں۔ اس کے بعد حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) نے ” رب العالمین“ کے کسی شریک بغیر لائق عبادت ہونے پر دلائل دینا شروع کئے جن کا ذکر اگلی آیتوں میں آرہا ہے۔ الشعراء
78 الشعراء
79 الشعراء
80 9۔ بیماری ہو یا کوئی اور چیز سب اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہے مگر حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) نے ازراہ ادب بیماری کو اپنی طرف اور شفا کو اللہ تعالیٰ کی طرف نسبت دی۔ (شوکانی) الشعراء
81 الشعراء
82 10۔ یعنی اگر مجھ سے کسی معاملہ میں بھول یا اپنے مرتبہ کے لحاظ سے کوتاہی ہوجائے تو اسی کی مہربانی سے معافی کی توقع (بمعنی یقین) ہے کوئی دوسرا معاف کرنے والا نہیں ہے۔ الشعراء
83 11۔ اللہ تعالیٰ کی تعریف اور اس کی نعمتوں کا اعتراف کرنے کے بعد اب دعا شروع کی تاکہ دوسرے بھی اقتدا کریں۔ ” حکما سے مراد یہ ہے کہ اپنے دین کا علم اس کے احکام کا صحیح فہم اور قوت فیصلہ عنایت فرما۔ (شوکانی) 12۔ جیسا کہ نبی ﷺ نے وفات کے وقت دعا فرمائی تھی : اللھم فی الرفیق الاطی۔ اے اللہ مجھے بلند مرتبہ ساتھیوں میں پہنچا دے۔ (ابن کثیر) الشعراء
84 1۔ یعنی ایسے نیک اعمال کی توفیق دے کہ قیامت تک آنے والی نسلیں میرا ذکر خیر کرتی رہیں یا آخر زمانہ میں میری نسل سے نبی ( علیہ السلام) ہو۔ چنانچہ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کی یہ دعا قبول ہوئی، ان کی نسل سے خاتم الانبیا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مبعوث فرمایا اور ان کی ملت کو عالمگیر قبولیت بخشی کہ یہودی عیسائی مسلمان سب انہیں اپنا پیشوا مانتے ہیں اور ان کا ذکر خیر کرتے ہیں۔ (شوکانی۔ ابن کثیر) مسلمان تو اپنی ہر نماز میں ” کما صلیت علی ابراہیم“ اور ’ کما بارکت علی ابراہیم“ پڑھتے ہیں۔ (دیکھئے صافات آیت :108) الشعراء
85 2۔ پچھلی آیت میں دنیا کی سعادت مانگی اور اس آیت میں آخرت کی سعادت طلب کی۔ (شوکانی) الشعراء
86 3۔ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) نے اپنے باپ سے رخصت ہوتے وقت دعائے استغفار کا وعدہ کیا تھا۔ (دیکھئے سورۃ مریم :74) چنانچہ انہوں نے یہ دعا فرمائی لیکن بعد میں جب انہیں یہ معلوم ہوا کہ ایک مشرک اور دشمن حق کے لئے دعائے مغفرت کرنا صحیح نہیں ہے تو انہوں نے اس دعا سے رجوع فرما لیا۔ جیسا کہ سورۃ توبہ میں ہے : فلما تبین لہٗ انہ عدو للہ تبرء منہ (آیت :4…) پھر جب اسے معلوم ہوگیا کہ وہ اللہ کا دشمن ہے تو وہ اس سے بیزار ہوگیا۔ (شوکانی) الشعراء
87 4۔ کہ سب کے سامنے مجھ پر کوئی عتاب ہو یا میرے باپ کو عذاب دے اور میں کھڑا دیکھ رہا ہوں۔ صحیح بخاری میں ہے کہ قیامت کے دن حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) اپنے ولد کو پریشان حال دیکھ کر اپنی یہی دعا اللہ تعالیٰ کو یاد دلائیں گے تو حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کو رسوائی سے بچانے کے لئے ان کے باپ کو نجاست آلود بجو کی شکل میں تبدل کر کے دوزخ میں ڈال دیا جائے گا۔ (ابن کثیر) الشعراء
88 الشعراء
89 5۔ پاک دل سے مراد ایسا دل ہے جو کفر و شرک سے پاک ہو۔ اکثر مفسرین نے یہی لکھا ہے اور بعض نے بدعت و جہالت اور اخلاق رذینہ سے پاک ہونا بھی مراد لیا ہے۔ مال اور اولاد بھی گر کام آسکتے ہیں تو پاک دل کے ساتھ ہی کام آسکتے ہیں۔ (کذا فی شوکانی و الکبیر) الشعراء
90 الشعراء
91 6۔ جیسے مومنوں کو جنت کا نظارہ ہوگا اور وہ لطف اندوز ہوں گے اسی طرح کافروں کو بھی میدان حشر میں ہی دوزخ دکھائی دینے لگے گی جو ان کا ٹھکانہ بننے والی ہے تاکہ مومنین کی خوشی میں اضافہ ہو اور کافر زیادہ غمناک ہوں۔ (شوکانی) الشعراء
92 الشعراء
93 الشعراء
94 الشعراء
95 7۔ یا ” انہیں اس میں ایک دوسرے کے اوپر دھکیل دیا جائے گا۔“ یا ” انہیں اس میں ایک جگہ جمع کردیا جائیگا“ لفظ ” کبکبوا“ کے یہ سارے معنی مفسرین نے بیان کئے ہیں۔ (شوکانی) الشعراء
96 الشعراء
97 الشعراء
98 8۔ یا تمہارے لئے وہ اختیارات اور صفات تسلیم کرتے تھے جو دراصل اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہیں جیسے اشیا کی حلت و حرمت کا اختیار اور بیمار کو شفایاب کرنا وغیرہ حدیث میں ہے :” یہ مت کہو کہ جو اللہ چاہے اور جو فلاں شخص چاہے بلکہ یوں کہو جو اللہ چاہے اور پھر فلاں شخص چاہے۔ (ابو دائود) الشعراء
99 الشعراء
100 9۔ یعنی جن جن کو ہم دنیا میں اپنا سفارشی سمجھتے تھے اور ہمارا خیال تھا کہ ان کا دامن تھام لیں گے تو ہمارا بیڑا پار ہے آج ان میں سے کوئی نظر نہیں آتا۔ الشعراء
101 10۔ جو ہمارے ساتھ ہمدردی کرے۔ الشعراء
102 الشعراء
103 11۔ یعنی غور کرنے والوں کے لئے سامان عبرت ہے۔ 12۔ یا ” ان قریش میں سے اکثر لوگ ماننے والے نہیں۔“ زیادہ صحیح مطلب یہی دوسرا ہے کیونکہ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کی قوم لے لوگ تو سب کے سب کافر و مشرک تھے۔ (شوکانی) الشعراء
104 الشعراء
105 13۔ اگرچہ انہوں نے صرف ایک ہی پیغمبر نوح (علیہ السلام) کو جھٹلایا لیکن چونکہ ایک پیغمبر کو جھٹلانا دراصل اس دعوت کو جھٹلانا ہے جو تمام پیغمبر پیش کر رہے تھے۔ اس لئے فرمایا گیا کہ انہوں نے پیغمبروں کو جھٹلایا۔ نیز دیکھئے سورۃ الفرقان آیت 37۔ (قرطبی) الشعراء
106 14۔ جو اسے چھوڑ کر ان بتوں کی پوجا کرتے ہو اور دوسروں کے کہنے پر چلتے ہو اور اس کے پیغمبر کی دعوت قبول نہیں کرتے۔ (شوکانی) الشعراء
107 1۔ امانت دار یعنی اللہ تعالیٰ کے پیغام میں کسی قسم کی کمی بیشی نہ کرنے والا۔ الشعراء
108 الشعراء
109 2۔ یعنی بالکل بے لوث ہو کر تمہیں یہ دعوت دے رہا ہوں۔ میری کوئی ذاتی غرض تم سے وابستہ نہیں ہے۔ الشعراء
110 3۔ اور اس قسم کے الزام نہ لگائو… یہ اس لئے فرمایا کہ قوم کے سردار حضرت نوح ( علیہ السلام) کو الزام دیتے ہوئے کہا کرتے تھے۔ ما ھذا الا بشر مثلکم ان یتفضل علیکم۔ یہ تم جیسا ایک آدمی ہے جو تمہارا بڑا بننا چاہتا ہے۔ (مومنون :4) پہلی آیت میں اپنی اطاعت کا حکم امین ہونے کی بنا پر دیا ہے اور اس آیت میں بے تلمع اور بے غرض ہونے کی بنا پر۔ اس سے تکرار کی حکمت سمجھ میں آجاتی ہے۔ (شوکانی) الشعراء
111 4۔ یعنی کمینے، غریب، روٹیوں کے محتاج اور معمولی قسم کے پیشہ ور جن کو سوسائٹی میں کچھ بھی عزت ووقعت حاصل نہیں ہے۔ مزید دیکھئے سرہ ہود : 27۔ (شوکانی) الشعراء
112 5۔ یعنی مجھے تو اللہ کا راستہ بتانے سے غرض ہے نہ کہ ان کے پیشوں سے۔ وہ جو پیشہ بھی اختیار کریں اگر وہ جائز ہے تو اپنے ایمان دار ہونے کی وجہ سے ان مغرور مالداروں سے افضل ہیں جو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی پر تلے ہوئے ہیں۔ یا مطلب یہ ہے کہ میں کیا جانوں کہ ان کے عمل کیسے ہیں۔ مجھے تو ظاہری ایمان کو دیکھنا ہے ان کی نیتوں کو اللہ جانتا ہے۔ ان کا فیصلہ اس کے سامنے ہوگا۔ (کذا فی شوکانی) الشعراء
113 الشعراء
114 6۔ یعنی ان کو اپنے پاس سے دھکے دے کر نکال دوں جیسا کہ تم چاہتے ہو۔ الشعراء
115 7۔ لہٰذا جو بھی مجھے سچا سمجھتے ہوئے میری اطاعت قبول کرے اور میرے راستے پر چلے وہ میرا ہے اور میں اس کا ہوں۔ وہ شریف و امیر زادہ ہو یا غریب اور معمولی پیشہ ور۔ الشعراء
116 8۔ یعنی اگر ہمارے دین میں کیڑے ڈالنے اور ہمارے معبودوں کو برا بھلا کہنے سے باز آئے گا۔ (شوکانی) الشعراء
117 الشعراء
118 9۔ یا ” ان قریش میں سے اکثر لوگ ماننے والے آئیں“۔ (شوکانی) الشعراء
119 الشعراء
120 الشعراء
121 الشعراء
122 الشعراء
123 10۔ عاد اس قوم کے ” جد اعلیٰ“ کا نام تھا۔ عرب عموماً اپنے مح اور ات میں کسی بڑے قبیلے یا قوم کو اس کے ” جد اعلیٰ“ کے نام سے تعبیر کرلیتے ہیں جیسا کہ نبی یا آل فلاں کہہ دیتے ہیں۔ (روح) ان کا مسکن حضرموت کے قریب اس جگہ تھا جس اب ” ربع خالی“ کہا جاتا ہے۔ (دیکھئے سورۃ اعراف آیت 315 اس قوم نے اگرچہ صرف حضرت ہود ( علیہ السلام) کو جھٹلایا لیکن چونکہ ایک پیغمبر کو جھٹلانا دراصل تمام پیغمبروں کی تکذیب ہے۔ اس لئے فرمایا گیا کہ ” عاد نے پیغمبروں کو جھٹلایا“۔ کما… فی قصہ نوح۔ (قرطبی) الشعراء
124 11۔ ” جو اسے چھوڑ کر بتوں کی پوجا کرتے ہو اور دوسرے کے حکموں پر چلتے ہو۔ “ الشعراء
125 12۔ امانت دار یعنی بلا کم و کاست اللہ تعالیٰ کے پیغام کو پہنچانے والا۔ الشعراء
126 الشعراء
127 13۔ ان پانچوں قصوں میں خاص طور پر تقویٰ اور اطاعت کا حکم اور اس پر کسی قسم کے بدلہ کی نفی سے ظاہر ہوتا ہے کہ انبیاء کی بعثت کا اساسی مقصد معرفت حق کی دعوت اور پیغمبر کے اسوہ حسنہ کی پیروی کرنا ہے۔ اس اصول دعوت پر تمام پیغمبر متفق تھے۔ نیز یہ کہ انبیاء علیہم السلام اپنی قوم کے بے لوث خادم ہوتے ہیں۔ ان کو سیم و زر کی طمع و لالچ ہوتی ہے اور نہ ہوس و اقتدار۔ (روح)۔ الشعراء
128 1۔ یعنی اسے بلا ضرورت اور بلامقصد بناتے ہو۔ صرف اس لئے کہ اپنی شان و شوکت اور خوشحالی کا مظاہرہ کرسکو۔ (کبیر) الشعراء
129 2۔ یعنی بڑے بڑے قلعے اور محل تعمیر کرتے ہو یا پانی کے بند اور زمین دوز نہریں نکالتے ہو۔ (ابن کثیر۔ روح) الشعراء
130 3۔ یعنی تمہارے دلوں میں غریبوں اور کمزوروں کے لئے رحم نہیں۔ جب تم اپنے گردوپیش کے قبیلوں یا خود اپنے قبیلہ کے غریب اور کمزور لوگوں پر ہاتھ ڈالتے ہو تو تمہارا رویہ انتہائی ظالمانہ اور بے رحمی کا ہوتا ہے۔ کیونکہ دنیا کے لالچ اور تکبر نے انسانی اخلاق کے کپڑے تمہارے جسموں سے اتار لئے ہیں۔ الشعراء
131 الشعراء
132 الشعراء
133 الشعراء
134 الشعراء
135 الشعراء
136 4۔ ” ہم کسی طور ماننے والے نہیں“۔ یہ بات انہوں نے بے پرواہی اور حقارت آمیز لہجہ میں کہی۔ الشعراء
137 5۔ اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں ایک یہ کہ یہ نصیحت کی باتیں جو تم ہم سے کر رہے ہو کوئی نئی نہیں ہیں پہلے بھی ایسے خبطی گزرے ہیں جو اس طرح کی پاگل پن کی باتیں کرتے رہے ہی۔ (ان ھذا الالساطیر الاولین۔ اور دوسرا یہ کہ ہم جو کچھ کر رہے ہیں کوئی نئی چیز نہیں ہے پہلے بھی ہمارے باپ دادا یہی کرتے رہے ہیں۔ یہی ان کا دین تھا اور یہی ان کا اخلاق و تمدن۔ (کبیر و شوکانی) الشعراء
138 6۔ یعنی پہلے لوگوں پر کونسا عذاب ٹوٹ پڑا جو آج ہم پر ٹوٹ پڑے گا۔ الشعراء
139 7۔ قرآن نے متعدد آیات میں یہ تصریح کی ہے کہ ان کی تباہی ایک زور کی آندھی سے ہوئی جو آٹھ دن اور سات راتوں تک برابر چلتی رہی اور جس نے ان کی ہر چیز کو تباہ کر ڈالا۔ دیکھئے حم السجدہ آیت 16 و سورۃ احقاف آیت 24۔25 و سورۃ حاقہ آیت 6۔7۔ (ابن کثیر، شوکانی) 8۔ یعنی غور کرنے والوں کے لئے عبرت کا سامان ہے۔9۔ یا ” ان قریش میں سے اکثر لوگ ماننے والے نہیں۔ (شوکانی) الشعراء
140 الشعراء
141 الشعراء
142 10۔ ” جو اس کے علاوہ دوسروں کی پرستش کرتے اور ان کے حکموں پر چلتے ہو۔“ قوم ثمود کی آبادی ” حجر“ کے علاقہ میں تھی جو مدینہ منورہ اور تبوک کے درمیان واقع ہے اور آج کل اسے ” مدائن صالح“ کہا جاتا ہے۔ الشعراء
143 11۔ ” امانت دار“ یعنی اللہ تعالیٰ کے پیغام میں کسی قسم کی کمی یا زیادتی، مکرنے والا۔ الشعراء
144 الشعراء
145 الشعراء
146 الشعراء
147 الشعراء
148 12۔ اور ” تمہیں کبھی زوال نہ آئے گا اور نہ تم ان اعمال کی بازپرس ہوگی جن کا ارتکاب تم کر رہے ہو۔ “ الشعراء
149 13۔ پہلے بتایا جا چکا ہے کہ ” ثمود“ بڑے متمدن لوگ تھے اور ان کی شان و شوکت کا یہ حال تھا کہ وہ پہاڑوں کو تراش کر ان کے اندر عمارتیں بنایا کرتے تھے۔ آج بھی مدینہ منورہ اور تبوک کے درمیان مدائن صالح۔ جس کا قدیم نام حجر تھا۔ میں ان کی پہاڑوں میں تراش کر بنائی ہوئی بہت سی عمارتیں موجود ہیں۔ اس آیت میں ” فارھین“ (فراغت سے) کا جو لفظ استعمال کیا گیا ہے اس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ وہ یہ سب کچھ محض اپنی شان و شوکت کے اظہار اور اپنی دولت و قوت اور اعلیٰ تمدن کی نمائش کے لئے کرتے تھے نہ کہ کسی حقیقی ضرورت کے تحت۔ اور یہی ایک زوال پذیر تمدن کی شان ہوتی ہے۔ الشعراء
150 الشعراء
151 1۔ یعنی اخلاق و تہذیب کی ساری حدیں پھلانگ کر شتربے مہار بن گئے۔ 2۔ مراد ہیں ان کے وہ رئوسا امرائو جو شرک و کفر کے داعی اور حق کی مخالفت میں پیش پیش تھے اور جن کی زیر قیادت ان کا بگڑا ہوا نظام زندگی چل رہا تھا۔ اور قرآن کی صراحت سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ تو لیڈر تھے جنہوں نے ملک میں فساد مچا رکھا تھا اور آخر کار قوم کی تباہی کا سبب بنے۔ یہ واقعہ ہے کہ ایسے لوگوں کی قیادت ہر دور میں تباہ کن ثابت ہوئی ہے۔ الشعراء
152 الشعراء
153 3۔ ” اس لئے تیری عقل ماری گئی ہے اور تو بہکی بہکی باتیں کرنے لگا ہے۔“ یا تو بھی ہماری طرح کھانے پینے کا محتاج ہے پھر رسول کیسے بن گیا۔ (شوکانی) الشعراء
154 4۔ پھر ہمیں چھوڑ کر تم پر وحی کیوں نازل کی گئی۔ نیز دیکھئے۔ (سورہ قمر :25) الشعراء
155 5۔ جیسا کہ دوسری آیات میں اسے بصراحت ایۃ اجینۃ و مبصرۃ یعنی معجزہ فرمایا گیا ہے۔ (دیکھئے سورۃ اعراف آیت 73 و سورۃ ہود آیت 264 بنی اسرائیل آیت 62) اس سے معلوم ہوا کہ وہ عام قسم کی اونٹنی نہ تھی بلکہ اس کی پیدائش اور اس کے ظاہر ہونے میں ضرور کوئی ایسی بات تھی جس کی بنا پر اسے معجزہ قرار دیا گیا۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں : ” قوم کے بڑے بڑے سردار جمع ہوئے اور انہوں نے ایک چٹان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضرت صالح ( علیہ السلام) سے مطالبہ کیا کہ اس چٹان سے ہمارے دیکھتے دیکھتے ایک پوری جسامت کی اونٹنی نکالو جس کی یہ یہ صفات ہوں۔ اس وقت حضرت صالح ( علیہ السلام) نے ان سے پختہ عہد کرلیا کہ اگر ان کی فرمائش پوری کردی جائے تو وہ ایمان لا کر ان کی پیروی اختیار کریں گے۔ جب انہوں نے قول دے دیا تو حضرت صالح ( علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کرنے کھڑے ہوئے کہ ان کی فرمائش پوری کردی جائے۔ چنانچہ وہ چٹان جس کی طرف انہوں نے اشارہ کیا تھا یکایک پھٹی اور اس میں سے ان کی مطلوبہ صفات کی اونٹنی ظاہر ہوئی۔ اسے دیکھ کر کچھ لوگ ایمان لے آئے لیکن اکثر اپنے کفر پر جمے رہے۔ اس پر حضرت صالح نے ان سے فرمایا : ” ھذہ ناقۃ الخ“6۔ قرآن کی دوسری آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ قوم کو صرف اتنا ہی چیلنج نہ تھا کہ ہر دوسرے روز یہ اونٹنی تمہارے سارے علاقہ کا پانی پئے گی بلکہ یہ چیلنج بھی تھا کہ یہ تمہارے کھیتوں اور باغوں میں جہاں چاہے گی جائے گی اور جو چاہے گی کھائے گی۔ دیکھئے (سورہ اعراف آیت 173 سورۃ ہود آیت 64) الشعراء
156 الشعراء
157 7۔ زخمی کرنے والا ان میں سے صرف ایک شخص …تھا جیسا کہ سورۃ شمس میں ہے۔ ” اذا تبعث اشقاھا“ جب اس قوم کا بدبخت ترین شخص اٹھا۔“ لیکن اس نے چونکہ اونٹنی کو ان سب کے مشورہ اور مطالبہ پر زخمی کیا تھا۔ (سورہ قمر :29) اس لئے سب ہی مجرم قرار دیئے گئے۔8۔ سورۃ ہود ( علیہ السلام) میں ہے کہ حضرت صالح ( علیہ السلام) نے ان کو تین کی مہلت دی۔ چنانچہ جب حسب وعدہ عذاب کے آثار نمودار ہونے لگے تو وہ ندامت کا اظہار کرنے لگے مگر وہ وقت ندامت اور توبہ کا نہ تھا۔ الشعراء
158 9۔ اس کی تفصیل دوسری آیات میں بیان کی گئی ہے۔ سورۃ اعراف میں ہے : فاخذتھم الرجفتفا صبحا فی دارھم جاثمین (آیت 78) اور سورۃ قمر میں ہے : انا ارسلنا علیھم صیحۃ واخدتھم ہم نے ان پر ایک چیخ کا عذاب بھیجا۔ (آیت 31) مفسرین نے لکھا ہے کہ اول نازلہ آیا اور اس کے بعد چنگھاڑ سے تباہ کردیئے گئے۔ الشعراء
159 الشعراء
160 الشعراء
161 10۔ حضرت لوط ( علیہ السلام) جس بستی میں جا کر رہے تھے اس کا نا م ” سدوم“ تھا۔ اس کے رہنے والوں کو حضرت لوط ( علیہ السلام) کی قوم اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ اس کے ہم وطن یا ہم شہر تھے۔ اگرچہ وہ اصلاً بابل کے رہنے والے تھے اور اپنے چچا حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کے بھیجنے پر وہاں گئے تھے۔ قصہ کی تفصیل سورۃ اعراف اور ہود میں گزر چکی ہے۔ (دیکھئے اعراف آیت 80 تا 84 و ہود آیت 69 تا 83 ضمن قصہ ابراہیم)۔ الشعراء
162 الشعراء
163 الشعراء
164 الشعراء
165 11۔ یا سارے جہاں میں تم ہی ایسے لوگ ہو جو اس برے کام کا ارتکاب کرتے ہو۔ الشعراء
166 12۔ یعنی یہ خلاف فطرت کام کر کے آدمیت کی حد سے بھی نکل چکے ہو۔ الشعراء
167 الشعراء
168 1۔ اس لئے تمہیں نصیحت کرتے رہنے سے باز نہیں آسکتا۔ الشعراء
169 2۔ یعنی ان کی نحوست اور وبال سے محفوظ رکھے۔ الشعراء
170 الشعراء
171 3۔ اور انہی کے ساتھ عذاب میں ہلاک ہوئی کیونکہ وہ ان سے خوش تھی۔ الشعراء
172 الشعراء
173 4۔ جیسا کہ سرہ ہود میں بصراحت فرمایا : وامطرنا علیھا حجارۃ من سجیل منفرد۔ اور ہم نے اس پر کھڑنجے کے پتھر تہ بہ تہ (یا پے در پے) برسائے۔ (آیت 82) اولاً ان کی بستیوں کو الٹ دیا گیا اور اوپر سے مینہ بسایا۔ (قرطبی) الشعراء
174 الشعراء
175 الشعراء
176 5۔ یعنی مدین یا اس علاقہ کے رہنے والوں نے جہاں اب شہر تبوک آباد ہے۔ (دیکھئے سورۃ الحجر آیت 78) الشعراء
177 الشعراء
178 الشعراء
179 الشعراء
180 الشعراء
181 الشعراء
182 الشعراء
183 الشعراء
184 الشعراء
185 6۔ اس لئے تیری عقل ماری گئی ہے اور بہکی بہکی باتیں کرنے لگا ہے۔ الشعراء
186 الشعراء
187 الشعراء
188 1۔ اس لئے وہی تم پر جب چاہے گا ان کی پاداش میں عذاب بھیجے گا۔ میرا کام تو صرف تمہیں متنبہ کردینا تھا سو میں نے کردیا۔ (قرطبی) الشعراء
189 2۔ قرآن کی کسی آیت یا حدیث سے اس عذاب کی تفصیل معلوم نہیں ہوئی۔ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں : سات دن تک سخت لو چلتی رہی جس سے ان کے بدن پک گئے اور کنوئوں اور چشموں کا پانی سوکھ گیا۔ وہ گھبرا کر جنگل کی طرف نکلے، وہاں دھوپ کی شدت اور نیچے سے گرم زمین نے ان کے پائوں کی کھال ادھیڑدی۔ پھر ایک سیاہ بادل سائبان کی شکل میں نمودار ہوا وہ سارے کے سارے خوشی کے مارے اس کے سائے میں جمع ہوگئے اس وقت ناگہاں بادل سے آگ برسنا شروع ہوئی جس سے سب ہلاک ہوگئے۔ ایک روایت میں حضرت ابن عباس (رض) یہ بھی فرماتے ہیں کہ ” یوم الظلہ“ کے عذاب کے بارے میں جو کوئی اور تفسیر بیان کرے اسے جھوٹا سمجھو۔ ممکن ہے حضرت ابن عباس (رض) نے یہ تفسیر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنی ہ اور ان کے علاوہ اور کسی کو معلوم نہ ہو۔ واللہ اعلم۔ (شوکانی بتصرف) امام رازی اس تفصیل کو بصیغہ تمریض بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں : ” اور یہ بھی مروی ہے کہ ” اصحاب مدین“ اور ” اصحاب ایکہ“ دو قومیں تھیں اور حضرت شعیب ( علیہ السلام) دونوں کی طرف مبعوث تھے، دونوں ایک ہی نوع کے جرائم میں مبتلا تھیں اس لئے دونوں کو تبلیغ بھی ایک ہی طرح کی ہے۔ ان میں سے پہلی قوم تو ” صیحۃ“ سے ہلاک ہوئی۔ (دیکھئے سورۃ ہود آیت 94) اور دوسری قوم پر ” یوم الظلہ“ کا عذاب آیا۔ واللہ اعلم۔ (کبیر) الشعراء
190 الشعراء
191 الشعراء
192 3۔ شروع سورت میں تمہیداً قرآن کے ذکر سے مقصود آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت و نبوت کا اثبات تھا پھر مکذبین کو دھمکی دی اور اس سلسلہ میں انبیا ( علیہ السلام) کے سات قصے بیان فرمائے تاکہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی ہو اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکذیب کرنے والے عبرت حاصل کریں۔ اب یہاں سے پھر رسالت کا اثبات شروع کیا اور صحت نبوت کے دلائل اور کفار کے شبہات کے جواب آخر سورت تک چلے گئے۔ (کبیر۔ قرطبی) الشعراء
193 الشعراء
194 4۔ متعلق بنزل لا بالامین۔ یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دل پر اس کی تلاوت کی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے الفاظ و مضامین اچھی طرح یاد کرلیں۔ اس میں اشارہ ہے کہ قرآن آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قلب مبارک میں بالکل محفوظ ہے اس میں تغیر ممکن نہیں۔ (شوکانی۔ کبیر) معلوم ہوا کہ جبریل امین قرآن لے کر آئے ہیں جو عربی زبان میں ہے اور قرآن کے الفاظ اور معنی دونوں اللہ کے کلام ہیں۔ متکلمین اور فلاسفہ نے نزول وحی کی کیفیت میں جو تفاصیل بیان کی ہیں وہ ان کے اپنے وحدانی کوائف ہیں یا قیاس آرائیاں ہیں۔ قرآن و حدیث کی نصوص سے ان کی تائید نہیں ملتی۔ واللہ اعلم۔ الشعراء
195 الشعراء
196 5۔ یعنی اپنے ان احکام و تعلیمات کے اعتبار سے جن پر تمام شریعتوں کا اتفاق ہے یا ” اس قرآن کی خبر لکھی ہے اگلی کتابوں میں اور اس کا مدعا بھی یہی ہے اکثر۔ (موضح) یہ بھی ممکن ہے کہ ” انہ“ میں ” ہ“ ضمیر سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مراد ہوں۔ یعنی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آمد کی بشارت اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اوصاف پہلی کتابوں میں موجود ہیں۔ جیسے فرمایا : ” یجدونہ مکتوبا عندھم فی النوراۃ والانجیل۔“ کہ جن (کے اوصاف) کو وہ اپنے ہاں توراۃ اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔ (اعراف :157) اور حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) نے اپنے ایک خطبہ میں فرمایا : و مبشرا برسول یاتی من بعدی اسمہٗ احمد۔ اور اپنے بعد ایک رسول کے آنے کی بشارت دیتا ہوں جس کا نام احمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہوگا۔ (دیکھئے سورۃ صف :6) الشعراء
197 6۔ یعنی کیا مشرکین مکہ کے یہ جاننے کے لئے کہ قرآن واقعی برحق اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ اور پہلی کتابوں میں مذکور ہے اور یہ کہ محمد (ﷺ) نبی آخر الزمان ہیں، یہ بات کافی نہیں ہے کہ بنی اسرائیل کے علما اس سے واقف ہیں۔ جیسا کہ ان حضرات کی شہادت سے معلوم ہوا جو ان میں سے ایمان لائے۔ مثلاً عبد اللہ بن سلام اور حضرت سلمان (رض) فارسی وغیرھما۔ اہل کتاب کی یہ شہادت مشرکین مکہ کے حق میں اس لئے حجت قرار پاتی ہے کہ وہ پچھلی کتابوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لئے انہی کی طرف رجوع کرتے تھے اور جو بات وہ کہتے تھے اسے صحیح تسلیم کرتے تھے۔ آیت میں آیۃ خبر مقدم ہے اور ” ان یعلمہ الخ“ بتاویل مصررلم یکن کا اسم ہے۔ (قرطبی۔ شوکانی) الشعراء
198 الشعراء
199 7۔ کیونکہ اس وقت وہ یہ کہتے کہ یہ قرآن ہماری سمجھ میں نہیں آتا اس لئے کہ یہ غیر زبان میں ہے اگر یہ عربی میں ہوتا تو ہم اسے سمجھتے اور اس پر ایمان لے آتے۔ (دیکھئے سورۃ نصلت :44) یا مطلب یہ ہے کہ اب تو قرآن ایک ایسا شخص سنا رہا ہے جس کی زبان عربی ہے۔ اس لئے یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اس نے اپنے آپ تصنیف کرلیا ہے لیکن اگر ہم یہی فصیح عربی کلام کسی غیر عرب شخص پر بطور معجزہ اتارتے اور وہ انہیں خالص عربی زبان میں اس کی تلاوت کر کے سناتا تو بھی یہ اس پر ایمان نہ لاتے بلکہ اسے رد کرنے کے لئے اور قسم کے بہانے تراش لیتے۔ (شوکانی) شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں : ” دھوکے والے کا جی کبھی نہیں ٹھہرتا تب اور شبہ نکالتے کہ کوئی سکھا جاتا ہے۔ (موضح) الشعراء
200 8۔ ” جو ان کی ہٹ دھرمی اور پے درپے گناہوں کی سزا ہے۔“ یہ مطلب اس صورت میں ہے جب ” سلکناہ“ میں ” ہ“ کی ضمیر انکار و تکذیب کے لئے قرار دی جائے مگر بہت سے مفسرین (رح) نے یہ ضمیر قرآن کے لئے قرار دی ہے۔ یعنی ” قرآن کی صداقت تو ان کے دلوں میں اتار دی گئی ہے مگر ان کی ہٹ دھرمی کا حا یہ ہے کہ …“ اور سیاق کے اعتبار سے بھی یہی معنی بہتر ہیں۔ (شوکانی) الشعراء
201 الشعراء
202 الشعراء
203 الشعراء
204 9۔ حالانکہ جب وہ آئے گا تو مہلت کے طلب گارہوں گے اور اپنی کوتاہیوں کا تدارک کرنے کے لئے دنیا کی طرف مراجعت کی تمنا کریں گے۔ (شوکانی) حاشیہ صفحہ ہذا۔ الشعراء
205 الشعراء
206 الشعراء
207 1۔ یعنی کسی کام نہ آئیں گے بلکہ یوں معلوم ہوگا جیسے کبھی لطف اٹھایا ہی نہ تھا۔ الشعراء
208 الشعراء
209 2۔ کہ بستی کو اس پر حجت تمام کئے بغیر تباہ کر ڈالیں بلکہ ہم اسے تباہ اس وقت کرتے ہیں جب اس پر حجت تمام ہوچکی ہے۔ الشعراء
210 3۔ کہ جس طرح کاہنوں پر شیاطین اپنا کلام لے کر نازل ہوتے ہیں، اس طرح محمد (ﷺ) پر بھی یہ کلام شیطانوں ہی کا نازل کردہ ہے۔ الشعراء
211 4۔ یعنی ایک طرف قرآن کو دیکھو جو سراسر رشد و ہدایت سے لبریز ہے اور دوسری طرف شیطانوں کو جن کی فطرت ہی لوگوں کو گمراہی اور فساد پر ابھارنا ہے۔ بایں بعد و تفاوت کیا کوئی عقلمند یہ باور کرسکتا ہے کہ اس قسم کا پاکیزہ کلام شیاطین لے کر نازل ہوتے ہیں؟ مولانا لکھتے ہیں :” شیطان تو قرآن کے نام سے بھاگتا ہے بھلا وہ قرآن کیونکر لائے گا۔“ (وحیدی) الشعراء
212 5۔ اب کسی طرح ممکن نہیں کہ آسمان پر چڑھ کر اللہ کی وحی سن سکیں اور قرآن کریم کا ایک حرف بھی اچک لائیں۔ (دیکھئے حجر :…، سورۃ الجن، 8۔9) الشعراء
213 6۔ بظاہر مخاطب تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں مگر دراصل امت کو ڈرانا مقصود ہے جیسا کہ بعد کی آیت ” وانذر“ الخ سے معلوم ہوتا ہے۔ (قرطبی) الشعراء
214 7۔ تاکہ یہ لوگ اپنے نسب و قرابت کی وجہ سے کسی قسم کی غلط فہمی میں مبتلا نہ رہیں۔ چنانچہ جب یہ آیت اتری تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قریش کو بلایا اور ان کے ایک ایک قبیلہ کا نام لے کر ڈرایا۔ (بخاری، روایت ابو ہریرہ (رض)، ابن عباس (رض) اور آخر میں فرمایا : الا ان لکم رحما و سابلحا سلالھا ہاں تمہارا مجھ سے قریبی رشتہ ہے جس کا میں دنیا میں خیال رکھوں گا مگر یہ نہیں ہوسکتا کہ تم دنیا میں شرک کرتے رہو اور میں آخرت کی آگ سے بچا لوں۔ (ابن کثیر) الشعراء
215 الشعراء
216 8۔ یعنی تمہارے برے کاموں کا مواخذہ تمہی سے ہوگا۔ میں اس سے بری الذمہ ہوں۔ الشعراء
217 الشعراء
218 9۔ اکثر مفسرین (رح) نے یہی معنی کئے ہیں۔ (شوکانی) اس کے دوسرے معنی ساتھیوں کی دیکھ بھال بھی ہو سکتے ہیں۔ چنانچہ شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں : یعنی جب تو تہجد کو اٹھتا ہے اور یاروں کی خبر لیتا ہے کہ یاد میں ہیں یا غافل۔ (موضح) الشعراء
219 الشعراء
220 الشعراء
221 الشعراء
222 10۔ جیسے کاہن، جوتشی، نجومی، فال گیر اور نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرنیوالا وغیرہ۔ الشعراء
223 11۔ یعنی ان بدکاروں میں یا شیطانوں میں۔12۔ یعنی امور غیبیہ سے متعلق جو ایک آدھ ناتمام بات سن پاتے ہیں اس میں اپنی طرف سے سو جھوٹ ملا کر بیان کرتے ہیں۔ (شیطان ان بدکاروں سے اور یہ بدکار لوگوں سے)۔ حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ کچھ لوگوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کاہنوں کے بارے میں سوال کیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” وہ کچھ نہیں ہیں“۔ انہوں نے عرض کیا ” اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! بعض اوقات تو ٹھیک بات بتا دیتے ہیں۔ فرمایا :” اس ٹھیک بات کو کبھی کوئی جن لے اڑتا ہے اور جا کر اپنے دوست کے کان میں پھونک دیتا ہے پھر وہ اس میں سو جھوٹ کی آمیزش کردیتے ہیں۔ (شوکانی بحوالہ بخاری و مسلم) الشعراء
224 13۔ گزشتہ آیات میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف کہانت کی نسبت کی تردید کی۔ اب فرمایا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو شاعر کہنا بھی بے بنیاد ہے کیونکہ وہ حق کی دعوت دیتے ہیں اور ان کی صحبت سے فیض یاب ہو کر ہزاروں لوگ نیکی اور پرہیزگاری کی راہ پر چل رہے ہیں۔ اس کے مقابلے میں شاعر نری خیالی باتیں کرنے والے ہوتے ہیں اور ان کے پیچھے چلنے والے بھی اپنے اعمال و اخلاق کے اعتبار سے انتہائی پست درجہ کے لوگ ہوتے ہیں۔ الشعراء
225 14۔ یعنی کوئی نیک متعین راہ نہیں جس پر وہ سوچتے اور اپنا کلام کہتے ہوں بلکہ ایک بے لگام گھوڑے کی طرح مضمون کی جس وادی کی طرف ان کا منہ اٹھ جاتا ہے اس میں بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ لوگوں کی تعریف و مذمت کے قصیدے گاتے رہتے ہیں۔ نرے سر پھرے اور بندہ شکم ہوتے ہیں نہ ان کے کسی قول کا اعتبار ہوتا ہے اور نہ فعل کا۔ الشعراء
226 15۔ کیونکہ انہیں اپنے کسی قول کا پاس نہیں ہوتا۔ ان کے کسی شعر کو پڑھو تو معلوم ہوگا کہ ان سے بڑھ کر کوئی بہادر اور دریا دل نہیں لیکن ان کی عملی زندگی دیکھو تو پرلے درجے کے ڈرپوک اور مکھی چوس۔ بھلا ایک پیغمبر۔ اور وہ بھی خاتم الانبیا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)۔ کو ان سے کیا لگائو؟۔ الشعراء
227 1۔ یعنی جن شعراء کی مذمت کی گئی ہے ان سے ایسے شعرا مستثنیٰ ہیں جو مومن ہوں، نیک کام کرنے والے ہوں اور اللہ کو بکثرت یاد کرتے ہوں اور اپنے کلام سے ظالموں کے مقابلے میں حق کی حمایت کا کام لیتے ہوں جیسے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں حضرت حسان (رض) ثابت عبد اللہ (رض) بن رواحہ اور کعب (رض) بن مالک اور دیگر صحابہ (رض) کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود ان کی حوصلہ افزائی فرمایا کرتے تھے، چنانچہ ایک موقع پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت حسان (رض) کے متعلق فرمایا : اللھم ایدہ بروح القدس۔ اے اللہ ! جبریل ( علیہ السلام) کے ذریعہ اس کی تائید فرما۔ بعض احادیث میں جو شعر کی مذمت کی گئی ہے اس سے مراد وہ شعر ہے جو لغویت، بے حیائی اور فحش کلامی پر مبنی ہو۔ ایک حدیث ہے :” شعر کی حیثیت کلام کی ہے اس کی اچھائی کلام کی اچھائی کی طرح ہے اور اس کی برائی کلام کی برائی کی طرح۔ (شوکانی۔ قرطبی) 2۔ یعنی ان کا انجام کیا ہونے والا ہے، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ الشعراء
0 3۔ اس سورۃ کے مکی ہونے پر تمام مفسرین (رح) کا اتفاق ہے۔ (قرطبی) النمل
1 4۔ ” کھلی کتاب“ یعنی جو مضمون اور مدعا بیان کرنے میں بالکل صاف اور واضح ہے۔ اس سے مراد خود قرآن ہے یا یہ سورۃ یا لوح محفوظ۔ (شوکانی) النمل
2 النمل
3 النمل
4 5۔ یعنی ہم نے ان کے کفر کی یہ سزا دی یا ان کے کفر کا یہ نتیجہ نکلا کہ وہ دنیا ہی میں مگن ہوگئے اور اسی کو اپنی تمام کوششوں کا مرکز سمجھنے لگے۔ گویا آخرت پر عدم ایمان کی یہ سزا ملتی ہے کہ انسان اپنے برے کاموں کو بھی اچھا سمجھنے لگتا ہے۔ النمل
5 6۔ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ بعض مفسرین (رح) نے اگلے جملہ میں آخرت کا ذکر آنے کی وجہ سے اس عذاب سے مراد صرف دنیا کا عذاب لیا ہے جیسے قتل و قید وغیرہ۔ النمل
6 النمل
7 7۔ یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) مدین میں آٹھ یا دس سال گزارنے کے بعد اپنے بیوی بچوں سمیت مصر جانے کے لئے کوہ طور کے پاس سے گزر رہے تھے۔ النمل
8 8۔ جو آگ میں ہے یا اس کے قریب ہے یعنی حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) اور جو اس کے گرد ہیں یعنی فرشتے۔ (قرطبی بحوالہ ابن جریر) کیونکہ وہ دنیا کی آگ نہ تھی بلکہ اللہ تعالیٰ کا نور تھی جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے : ” حجابہ النور“ اور ” حجابہ النار“ کہ اس کا پردہ ” نور“ یا ” آگ“ ہے۔ مزید دیکھئے سورۃ طہ آیت 12۔ (ابن کثیر) النمل
9 النمل
10 1۔ ” جان“ اصل میں چھوٹے سفید سانپ کو کہتے ہیں۔ سورۃ اعراف (آیت :107) اور سورۃ شعرا۔ (آیت :32) میں اس کے لئے ” ثعبان“ کا لفظ آیا ہے جس کے معنی بڑے سانپ (اژدہا) کے ہیں۔ معلوم ہوا کہ وہ سانپ اصل میں بڑا اژدہا رہا تھا لیکن اپنی حرکت کی تیزی میں چھوٹے سانپ جیسا تھا۔ بعض نے لکھا ہے کہ کبھی ” جان“ بن جاتا اور کبھی ” ثعبان“۔ اس لئے ان دو لفظوں میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں، ” اول شک سی بن گئی تھی پتلی جب فرعون کے آگے ڈالی تو ناگ ہوگئی بڑھ کر۔ (موضح) 2۔ یہ خوف طبعی بتضائے بشریت تھا۔ (قرطبی) 3۔ یعنی میرے حضور پہنچ کر انبیا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)، سانپ وغیرہ کسی چیز سے نہیں ڈرا کرتے کیونکہ یہاں تو وہ اخذ وحی میں بالکل مستغرق ہوتے ہیں اور کسی طرف التفات نہیں رہتا۔ (شوکانی) النمل
11 4۔ یہ استثنا منقطع ہے اور لفظ ” الا“ بمعنی لئکن یعنی برائے استدراک ہے اور اگر مستثنیٰ متصل مذکور سے مانا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ ” ہاں ! اس پیغمبر کو ڈر ہوسکتا ہے جس سے کوئی گناہ سرزد ہوگیا ہو۔ مگر ہمارا قاعدہ ہے کہ جب کوئی توبہ کر کے اپنے رویہ کی اصلاح کرلیتا ہے تو ہم اسے معاف کردیتے ہیں اس کے بعد ڈرنے کی کوئی وجہ نہیں۔ (شوکانی) شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں :” مسیٰ (علیہ السلام) سے چوک کر ایک کافر کا خون ہوگیا تھا اس کا ڈر تھا ان کے دل میں، ان کو وہ معاف کردیا۔ (موضح) انبیا اپنے علو مرتبت کے پیش نظر معمولی سی لغزش یا خطا کو بھی ظلم خیال کرتے تھے۔ ان کو ایسی غلطی معاف کردی جاتی ہے مگر پھر بھی وہ ڈرتے رہتے ہیں۔ (قرطبی) النمل
12 5۔ ان نو نشانیوں کا ذکر سورۃ اعراف میں گزر چکا ہے۔ (دیکھئے سورۃ اسرا : 101) بعض نے کہا ہے کہ یہ دو نشانیاں (عصا اور یدبیضا) ان نو نشانیوں کے علاوہ تھیں اس صورت میں حرف ” فی“ بمعنی ” مع“ ہوگا۔ (کذا فی فی القرطبی) النمل
13 النمل
14 6۔ سب کے سب بحر قلزم میں غرق کردیئے گئے ان میں سے کسی کو زندہ نہ چھوڑا گیا۔ (وحیدی) النمل
15 7۔ یعنی دین و شریعت کا علم۔ (قرطبی) 8۔ یعنی ہمیں علم و نبوت عطا فرما کر اور پرندوں، جنوں اور انسانوں کو ہمارے تابع فرمان بنا کر اپنے بہت سے مومن بندوں پر فضیلت دی۔ ” بہت سے“ کا لفظ اس لئے استعمال فرمایا کہ نہیں بہت سوں پر ہی فضیلت دی گئی تھی ” سب پر“ نہیں کیوں کہ سب پر فضیلت تو صرف آنحضرت خاتم الانبیاء کو ہی حاصل ہوئی ہے۔ (شوکانی) النمل
16 9۔ اس سے مراد مال و جائیداد کی وراثت نہیں بلکہ علم و فضل اور نبوت کی وراثت ہے۔ اگر مال و جائیداد کی وراثت ہوتی تو وارث کے طور پر صرف حضرت سلیمان ( علیہ السلام) کا ذکر نہ ہوتا کیونکہ اس میں تو حضرت دائود ( علیہ السلام) کے دوسرے بیٹے بھی شریک ہوتے۔ نیز اگر اسے تسلیم کرلیا جائے تو حضرت سلیمان کے قول :” یا ایھا الناس الخ“ کا ذکر بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے۔ (کبیر) اور یوں بھی انبیا علیہم السلام کے بارے میں نبیﷺ کا ارشاد واضح ہے کہ ان کے مال اور ان کی جائیداد بطور ورثہ تقسیم نہیں ہوتی : ” نحن معاشر الانبیا لا نورث ما ترکناہ صدقۃ“۔ پس آیت میں وراثت کا لفظ ایسا ہی ہے جیسا کہ فرمایا :” العلماء ورثۃ الانبیاء کہ علما انبیا کے وارث ہیں۔ جمہور مفسرین (رح) نے یہی تفسیر کی ہے۔ (قرطبی، شوکانی) 10۔ ” یعنی اس کا سمجھنا سکھایا گیا“ صرف پرندوں کی نہیں بلکہ تمام حیوانات کی۔ پرند کا ذکر محض اس لئے ہے کہ وہ حضرت سلیمان ( علیہ السلام) کے لشکر میں شریک تھے اور ان کے ساتھ سفر کرتے تھے۔ (شوکانی) پرندوں کی بولی کی کیا حقیقت ہے اور حضرت سلیمان ( علیہ السلام) کو اس کے متعلق کس قسم کا علم دیا گیا تھا؟ گو اس کی تفصیل مذکور نہیں مگر اتنی بات یقینی ہے کہ ان کا یہ علم تخمینی طریقہ کا نہ تھا جو اس عصر کے ماہرین علم الحیوانات نے ایجاد کیا ہے بلکہ اس میں اعجازی شان نمایاں تھی اور خاص عطائے الٰہی تھی جس سے ان کو نوازا گیا تھا۔11۔ جس کی ضرورت پیش آسکتی ہے۔ اس میں علم و نبوت، حکمت اور مال حتیٰ کہ جنوں، انسانوں، پرندوں، حیوانات اور ہوا وغیرہ کی تسخیر سبھی چیزیں شامل ہیں۔ (شوکانی) النمل
17 1۔ یعنی ان کی جماعتیں بنائی گئیں اور ہر جماعت کو ایک خاص نظم اور ترتیب میں رکھا گیا تاکہ جس کی جو جگہ ہے وہیں رہے اور بلا اجازت اس سے آگے پیچھے نہ ہونے پائے۔ (شوکانی)۔ النمل
18 2۔ جہاں چیونٹیوں کی بڑی کثرت تھی۔ اس وادی کی جگہ بعض نے طائف اور اکثرے شام بتائی ہے۔ (شوکانی) 3۔ اور چیونٹیوں کا گفتگو کرنا عقلاً مستبعد نہیں ہے۔ (کبیر) بلکہ قرآن نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ ہر چیز اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتی ہے مگر تم ان کی تسبیح کو سمجھ نہیں سکتے۔ اگر ان کی یہ تسبیح زبان قال کی بجائے زبان حال پر محمول ہو تو اسے تو ہم سمجھتے ہیں لیکن حضرت سلیمان ( علیہ السلام) کا اس چیونٹی کی گفتگو کو سمجھ لینا اس خاص علم کی بنا پر تھا جو اللہ تعالیٰ نے انہیں دیا تھا اور حضرت سلیمان ( علیہ السلام) اسے بطور نعمت الٰہی کے بیان کر رہے ہیں مگر ہمارے زمانہ کے بعض ” ماڈرن“ مفسرین جنہیں قرآن میں معجزات کے ذکر سے شرم آتی ہے اس آیت کے متعلق کہتے ہیں کہ یہاں ” نمل“ سے مراد چیونٹیاں نہیں بلکہ انسانوں کا ایک قبیلہ مراد ہے جس کا نام ” بنو نمل“ تھا اور جو چیونٹیوں کی طرح بکثرت اس وادی میں پھیلا ہوا تھا۔ جب حضرت سلیمان ( علیہ السلام) کا لشکر اس وادی میں پہنچا تو اس کے ایک فرد نے اپنے قبیلہ کے دوسرے لوگوں سے کہا : ” اے قبیلہ نمل کے لوگو۔“ لیکن یہ تاوی دراصل قرآن کی تحریف ہے کیونکہ اس صورت میں آیت کا تعلق نہ اس ” علم“ سے رہتا ہے جس کا ذکر پچھلی آیت میں بڑی اہمیت سے کیا گیا ہے اور نہ تاریخی طور پر یہ ثابت کیا جاسکتا ہے کہ شام یا طائف میں اس نام کا کوئی انسانی قبیلہ آباد تھا۔ محض من مانی تاویل کرنے کے لئے یہ بے بنیاد بات گھڑی گئی ہے۔ النمل
19 4۔ اگر بالفرض ” نملۃ“ سے مراد کوئی انسان ہوتا تو اس میں متعجبانہ ہنسی کی کوئی بات نہ تھی اور نہ یہ کوئی ایسا واقعہ تھا جس کے متعلق حضرت سلیمان ( علیہ السلام) کے احساس شکر گزاری کی اہمیت واضح کی جاتی۔ ظاہر ہے کہ حضرت سلیمان ( علیہ السلام) نے یہ اظہار تشکر اس بات پر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک حقیر جانور کی بولی سمجھنے کا علم عطا فرمایا جو ان کے سوا اور کسی کو حاصل نہ تھا۔5۔ یہاں ” صالحین“ سے وہ کامل صالح لوگ مراد ہیں جن کے دل میں اللہ تعالیٰ کی معصیت کا خیال تک نہیں آ پاتا۔ (کبیر) النمل
20 6۔ یعنی کیا دوسرے پرندوں میں چھپ گیا ہے جو نظر نہیں آرہا؟ النمل
21 النمل
22 7۔” سباء“ یمن میں ایک شہر کا نام تھا جو یمن کے موجودہ دارالسلطنت ” صنعا“ سے تین دن… تقریباً 55 میل… کی مسافت پر واقع تھا۔ اس شہر کے بنانے والے کا نام بھی سباء تھا اور اس شہر کے بنانے والے کا نام بھی سباء تھا اس لئے یہ شہر اسی نام سے مشہور ہوا۔ (شوکانی) شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں :” حضرت سلیمان ( علیہ السلام) کو اس ملک کا حال مفصل نہ پہنچا تھا اب پہنچا۔ (موضح) گویا اللہ تعالیٰ نے متنبہ فرمایا کہ کسی بڑے سے بڑے انسان کا علم بھی ہر چیز کو محیط نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ حضرت سلیمان ( علیہ السلام)، کہ جن کے متعلق فرمایا کہ ہم نے انہیں علم عطا فرمایا، انہیں ایک جزتی واقعہ کی خبر ہد ہد نے مہیا کی۔ اس سے ان لوگوں کی تردید کا پہلو نکلتا ہے جو انبیا کو غیب دال سمجھتے ہیں۔ (قرطبی) النمل
23 8۔ عموماً مفسرین نے اس کا نام بلقیس نقل کیا ہے جو شراحیل شاہ یمن کی بیٹی تھی اور تین سو بارہ سردار اس کی مجلس شوریٰ کے ممبر تھے۔ ان میں سے ہر آدمی دس ہزار آدمیوں پر متعین تھا۔ بلقیس کے متعلق عجیب و غریب حکایات مشہور ہیں جن کا تعلق اسرائیلیات سے ہے۔ (قرطبی) النمل
24 1۔ ” چنانچہ وہ آفتاب پرستی کو بڑے ثواب کا کام سمجھتے ہیں۔ “ النمل
25 2۔ ” جو آفتاب پرستی کو چھوڑ کر توحید کی سیدھی راہ اختیار کرسکیں۔ “3۔ مثلاً آسمان سے پانی برساتا ہے اور زمین کے اندر سے بے شمار نباتات اور طرح طرح کی معدنیات نکالتا ہے اور یہ تمام اقسام کے ارزاق و اموال کو شامل ہے۔ (کبیر) 4۔ یعنی اسے تمہاری ہر چیز کا علم ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کے علم محیط اور قدرت کاملہ کا بیان ہے اور اس سے ان لوگوں کی تردید مقصود ہے جو سورج کی پرستش کرتے تھے۔ (کبیر) النمل
26 5۔ اس کے عرش کے سامنے کسی بڑی سے بڑی چیز کی کوئی حقیقت نہیں… اس آیت پر ہد ہد کی تقریر ختم ہوئی۔ اس نے چونکہ خالص توحید کی دعوت دی اس لئے نبیﷺ نے مسلمانوں کو اس کے مارنے سے منع فرمایا۔ ابو دائود کی ایک صحیح روایت میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شہد کی مکھی، چیونٹی اور ہد ہد کے مارنے سے منع فرمایا۔ (قرطبی۔ ابن کثیر) النمل
27 النمل
28 6۔ یعنی جو باتیں وہ آپس میں کریں انہیں سنتا اور ان پر سوچ بچار کرتا رہ اور پھر مجھ سے آ کر بیان کر۔ (شوکانی) شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں : ” یعنی آپ کو معلوم نہ کروا لیکن وہاں کا ماجرا دیکھ آ، ہد ہد (وہ خط) لے گیا۔ بلقیس جہاں اکیلی سوتی تھی روزن (روشندان) میں سے جا کر اس کی چھاتی پر رکھ دیا۔ (موضح) النمل
29 7۔ یعنی جو بلحاظ اپنے مضمون کے اور بلحاظ اپنے بھیجنے والے کے نہایت اہم اور عظیم الشان ہے اور کریم مختوم (مہر شدہ) کو بھی کہتے ہیں۔ (کبیر) النمل
30 8۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت سلیمان ( علیہ السلام) سے پہلے کسی نے ” بسم اللہ الرحمن الرحیم“ نہیں لکھی۔ نیز ایک روایت میں ہے کہ پہلے نبیﷺ خط کے شروع میں ” باسماء اللھم“ لکھا کرتے تھے جب یہ آیت اتری تو بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھنے لگے۔ (قرطبی۔ شوکانی) النمل
31 النمل
32 النمل
33 النمل
34 1۔ گویا اس نے یہ رائے ظاہر کی کہ لڑنے یا نہ لڑنے کا فیصلہ اس وقت کرلینا مناسب نہیں۔ لڑائی کا انجام بہرحال برا ہوتا ہے۔ النمل
35 2۔ یعنی حضرت سلیمان ( علیہ السلام) اور ان کے لشکر والوں کو 3۔ شاید وہ ہدیہ قبول کرلیں اور ہم سے لڑائی کا جو ارادہ رکھتے ہیں اس سے باز آجائیں یا ہم پر خراج عائد کردیں جسے ہم ہر سال ادا کرتے رہیں۔“ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ اس نے اپنے قوم کو مشورہ دیا کہ اگر سلیمان ( علیہ السلام) نے تحفہ قبول کرلیا تو وہ دنیا کے بادشاہوں کی طرح ایک بادشاہ ہیں اور اگر انہوں نے تحفہ قبول نہ کیا تو وہ واقعی اللہ کے پیغمبر ہیں جن کی پیروی ضروری ہے۔ (ابن کثیر) النمل
36 4۔ یعنی کیا تم یہ چاہتے ہو کہ میں تم سے مال و دولت لے کر خوش ہوجائوں اور تمہیں کفر و شرک پر قائم رہنے دوں؟ 5۔ یعنی یہ تمہارا ہی کام ہے کہ اس قسم کے تحفوں سے خوش ہوجاتے ہو۔ مجھے تو اگر تحفہ چاہئے تو تمہارے ایمان کا تحفہ چاہئے۔ اگر تم یہ نہیں دے سکتے تو لڑنے کو تیار ہوجائو۔ النمل
37 النمل
38 6۔ کہتے ہیں کہجب ایلچی پیغام لے کر بلقیس کے پاس واپس پہنچا اور اس نے اس سے حضرت سلیمان ( علیہ السلام) کا آنکھوں دیکھا سب حال بیان کیا تو وہ سمجھ گئی کہ حضرت سلیمان ( علیہ السلام) واقعی اللہ کے پیغمبر ہیں۔ چنانچہ اس نے اطاعت قبول کی اور تابعداروں کی طرح اپنے لائو لشکر سمیت بیت المقدس کی طرف روانہ ہوگئی۔ ادھر جب حضرت سلیمان ( علیہ السلام) کو اس کی روانگی کی خبر ملی تو وہ نہایت خوش ہوئے۔ (ابن کثیر) اس وقت انہوں نے اپنے درباریوں سے کہا…“7۔ تاکہ جب وہ یہاں پہنچ کر اپنے تخت کو موجود پائے تو اسے معلوم ہو کہ اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبروں کو کیسی غیر معمولی قوتیں عطا فرماتا ہے اور اسے یقین آجائے کہ میں واقعی اللہ کا نبی ہوں“…بعض مفسرین نے حضرت سلیمان ( علیہ السلام) کے ملکہ کا تخت منگوانے کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ وہ اس کے پہنچنے سے پہلے پہلے اس کے تخت پر قبضہ کرلینا چاہتے تھے کیونکہ جب وہ پہنچ کر اسلام قبول کرلے گی تو اس کے مال پر قبضہ کرنا جائز نہ رہے گا۔ (شوکانی) لیکن ایک نبی کی شان کو دیکھتے ہوئے تخت منگوانے کی یہ وجہ قرار دینا مناسب نہیں۔ النمل
39 8۔ اس سے اور اگلی آیت سے معلوم ہوسکتا ہے کہ حضرت سلیمان ( علیہ السلام) کے پاس جو جن تھے وہ آیا بنی نوع انسان ہی میں سے تھے جیسا کہ ہمارے زمانہ کے بعض عقل پرست مفسرین کا دعویٰ ہے یا عرف عام کے مطابق اس پوشیدہ مخلوق میں سے جو انسانوں سے الگ ” جن“ کے نام سے معروف ہے؟ ظاہر ہے کہ کوئی انسان چاہے وہ کتنا ہی موٹا تازہ کیوں نہ ہو یہ طاقت نہیں رکھتا کہ دربار برخاست ہونے سے پہلے پہلے (یعنی صرف چند گھنٹوں کے اندر اندر ہزاروں میل کا سفر طے کر کے بیت المقدس سے سبا جائے اور وہاں سے ملکہ کا تخت (جو ظاہر ہے سخت پہروں میں ہوگا) اٹھا کر واپس آجائے۔ یہ کام اگر کرسکتا ہے تو ایک حقیقی ” جن“ ہی کرسکتا ہے۔ 9۔ یعنی آپ مجھ پر بھروسا کریں میں اسے یا اس کی کوئی قیمتی سے قیمتی چیز نہ چرائوں گا۔ النمل
40 10۔ یعنی اس سے پیشتر کہ آپ آسمان کی طرف نگاہ اٹھائیں اور پھر پلٹ کر نیچی کر لیں… یہ شخص کون تھا اور اس کے پاس اللہ کی، کس کتاب کا علم تھا؟ اس کی تصریح قرآن یا کسی صحیح حدیث میں نہیں ہے (لہٰذا ہم صرف اتنی بات ماننے کے مکلف ہیں جتنی قرآن میں بیان کی گئی ہے۔ یعنی وہ ایک شخص تھا جس کے پاس (اللہ کی) کتاب کا علم تھا۔ یوں اکثر مفسرین (رح) کا قول یہ ہے کہ وہ حضرت سلیمان ( علیہ السلام) کا ایک وزیر آصف بن برخیا تھا جو بنی اسرائیل میں سے تھا اور اسے اللہ تعالیٰ کے اس اسم اعظمکا علم تھا جس کے ذریعے اگر اس سے دعا کی جائے تو وہ اسے ضرور قبول فرماتا ہے۔ اس صورت میں یہ آصف کی کرامت ہوگی اور حضرت سلیمان کا معجزہ تصور پائے گا۔ بعض کہتے ہیں کہ وہ حضرت خضر ( علیہ السلام) تھے اور بعض کہتے ہیں کہ وہ خود حضرت سلیمان ( علیہ السلام) تھے۔ لیکن ان میں سے پہلا قول زیادہ معتبر معلوم ہوتا ہے واللہ اعلم۔ (شوکانی) 11۔ یعنی حضرت سلیمان ( علیہ السلام) نے اس شخص کو حکم دیا۔ حکم ملتے ہی اس نے تخت ان کے سامنے لا کر رکھ دیا۔ اس پر حضرت سلیمان ( علیہ السلام) نے فرمایا۔12۔ یعنی اسے نہ کسی کے شکر کی پروا ہے نہ محتاجی اور کرم والا ایسا ہے کہ ناشکروں کو بھی ہزاروں قسم کی نعمتیں دیتا ہے۔ صحیح مسلم میں ہے کہ اللہ تعالیٰ فراتا ہے :” اے میرے بندو ! اگر اول سے آخر تک تم سب انسان اور جن اپنے میں سے سب سے زیادہ متقی شخص کا سا دل بنا لو تو اسے میری بادشاہی میں کچھ اضافہ نہیں ہوجائے گا اور اگر تم سب بدکار ترین شخص کے سے دل والے بن جائو تو اس سے میری بادشاہی میں کوئی کمی نہیں آجائے گی۔ سب انسانوں کو ان کے اعمال ہی کا بدلہ مل رہا ہے۔ پس جسے کوئی بھلائی نصیب ہو اسے چاہئے کہ اللہ کا شکر ادا کرے اور جسے کچھ اور نصیب ہو۔ وہ بس اپنے آپ ہی کو ملامت کرے۔ (ابن کثیر) النمل
41 1۔ دوسرا ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ” آیا وہ (ایمان باللہ کی) راہ پاتی ہے یا ان لوگوں میں شامل ہوتی ہے جو (یہ) راہ نہیں پاتے“؟ النمل
42 2۔ نہ صاف طور پر اثبات میں جواب دیا اور نہ نفی میں بلکہ توقف کیا جو اس کی کمال دانشمندی کی دلیل ہے۔ (کبیر) عکرمہ (رح) کہتے ہیں کہ وہ بڑی دانا تھی اس نے اپنا تخت پہچان لیا لیکن چونکہ اس سے یہ پوچھا گیا تھا کہ کیا تیرا تخت بھی ایسا ہی ہے اس لئے اس نے جواب دیا کہ یہ تو گویا وہی ہے۔ اگر اس سے یہ پوچھا جاتا کہ کیا یہی تیرا تخت ہے تو وہ صاف طور ہاں میں جواب دیتی۔ (شوکانی) 3۔ کہ حضرت سلیمان ( علیہ السلام) اللہ کے نبی ہیں۔ اب یہ ایک اور نشانی دیکھنے میں آئی کہ اتنا بڑا تخت اتنے دور دراز ملک سے یوں منگوا لیا گیا۔ (کبیر) اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ حضرت سلیمان ( علیہ السلام) اور اس کے مصاحبین کا کلام ہو یعنی ہمیں پہلے ہی یہ معلوم ہوچکا تھا کہ تم بڑی عقلمند ہو اور یہی جواب دو گی۔ (کبیر) النمل
43 4۔ یعنی اس کے اب تک کافر رہنے کی وجہ اس کی ضد اور ہٹ دھرمی نہ تھی بلکہ یہ تھی کہ وہ ایک کافر قوم میں پیدا ہوئی تھی اس لئے اس کے طور طریقوں پر چلتی رہی۔ النمل
44 5۔ جیسے پانی کی گہرائی معلوم نہ ہو تو اس میں گھسنے والا اپنے پائینچے چڑھا لیتا ہے۔6۔ حضرت سلیمان نے اس سے یہ بات اس لئے فرمائی کہ اسے پتہ چلے کہ جس ساز و سامان پر اسے اور اس کی قوم کو ناز تھا یہاں اس سے بڑھ کر سامان موجود ہے۔ اور ساتھ ہی یہ معلوم ہوجائے کہ سورج اور ستاروں کی چمک سے مرعوب ہو کر انہیں خدا سمجھ لینا ایسا ہی دھوکا ہے جیسے آدمی چمکتے شیشے کو پانی سمجھ بیٹھے۔ شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں :” اس کو اپنی عقل کا قصور اور ان کی (یعنی حضرت سلیمان ( علیہ السلام) کی عقل کا کمال معلوم ہوا) سمجھی کہ ان میں بھی جو یہ سمجھتے ہیں سو ہی صحیح ہے۔“ (موضح) اسی چیز نے اسے اس اعتراف پر مجبور کیا جو آگے آرہا ہے۔ 7۔ جو اب تک شرک میں مبتلا اور تجھے بھولی رہی۔ النمل
45 8۔ یعنی جونہی انہوں نے اپنی دعوت کا آغاز کیا ان کی قوم دو گروہوں میں بٹ گئی اور ان دو گروہوں میں سخت تصادم شروع ہوگیا۔ ایک گروہ ایمان لانے والوں کا دوسرا انکار کرنے والوں کا۔ دیکھئے سورۃ اعراف رکوع 10) النمل
46 9۔ یعنی بجائے اس کے کہ تم اس سے خیر و رحمت کے طلب گار بنو اٹا اس سے عذاب مانگنے میں کیوں جلدی مچاتے ہ؟ (دیکھئے اعراف :77) النمل
47 10۔ یعنی ہم پر جو قحط آنے شروع ہوگئے ہیں تو یہ سب تمہاری نحوست ہے۔ (شوکانی) 11۔ یعنی تمہیں جو نحوست پہنچی وہ اللہ کی طرف سے تمہارے اپنے کفر کی بدولت پہنچی۔ وہ تم پر مصیبتیں بھیج کر تمہیں خواب غفلت سے جھنجھوڑتا ہے تاکہ کفر و شرک کی راہ چھوڑ کر اس کی سیدھی راہ اختیار کرو۔ (شوکانی) النمل
48 12۔ اصل میں لفظ ” رھط“ کے معنی جتھہ کے ہیں۔ مراد ایسے نو سردار ہیں جن میں سے ہر ایک اپنے ساتھ گویا ایک جتھا رکھتا ہے۔ یہ سب ” قدار“ ملعون (جس نے اونٹنی کو زخمی کیا تھا) کے ساھی تھے۔ (شوکانی) النمل
49 النمل
50 1۔ یعنی ان کے دائو (خفیہ تدبیر) کا جواب دیا اور وہ اس طرح کہ عذاب بھیج کر انہیں اور ان کی قوم کو تباہ کر ڈالا، قبل اس کے کہ وہ اپنے دائوں (شبخون) کو عملی جامہ پہنانے کے لئے کوئی قدم اٹھاتے۔ عبد الرحمن بن ابی حاتم کہتے ہیں کہ جب ان لوگوں نے اونٹنی کو زخمی کردیا تو حضرت صالح ( علیہ السلام) نے انہیں نوٹس دیتے ہوئے فرمایا :” تم تین دن تک اپنے گھروں میں مزے کرلو۔ یہ جھوٹا نہ ہونے والا وعدہ ہے۔ (ہود : 65) اس پر یہ لوگ کہنے لگے کہ صالح (علیہ السلام) سمجھتا ہے کہ وہ تین دن تک ہمارا صفایا کر دے گا لیکن ہم تین دن سے پہلے ہی اس کا اور اس کے گھر والوں کا صفایا کر ڈالیں گے۔ پہاڑ کی ایک گھاٹی کے پاس حضرت صالح ( علیہ السلام) کی ایک مسجد تھی۔ جس میں آپ نماز پڑھا کرتے تھے۔ وہ نو مردود شخص رات کے وقت ایک غار کی طرف چلے کہ اس میں چھپ کر بیٹھ رہیں اور جب حضرت صالح ( علیہ السلام) نماز پڑھنے آئیں تو انہیں قتل کردیں۔ اللہ تعالیٰ نے ایک بڑی چٹان کو حکم دیا جو اوپر سے لڑھکتی ہوئی آئی۔ وہ ڈر کر غار کے اندر گھس گئے۔ چٹان آ کر ایسے ٹکی کہ غار کا منہ بند ہوگیا۔ اب ایک طرف ان کی قوم کو ان کا پتہ نہ تھا اور دوسری طرف وہ اپنی قوم سے بے خبر تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ادھر انہیں عذاب دیا اور ادھر ان کی قوم کو۔ (ابن کثیر) النمل
51 النمل
52 النمل
53 النمل
54 النمل
55 2۔ جو اس قسم کی بے حیائی کا کام کرتے ہو جس سے گدھے اور کتے بھی شرماتے ہیں ” تجھلون“ کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تم اس بات سے باخبر ہو کر اس بری روش کی تمہیں کیا سزا مل سکتی ہے؟۔ (شوکانی) النمل
56 النمل
57 3۔ یعنی بڑے پاکباز بنتے ہیں۔ اگر ایسے ہی پاک باز ہیں تو ہم گنہگاروں کی بستی میں کیوں رہیں نکالو انہیں باہر۔ یہ بات انہوں نے استہزا کے طور پر کہی۔ (شوکانی) النمل
58 النمل
59 4۔ ان میں تمام انبیا اور ان پر ایمان لانے والے شامل ہیں۔ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ ان سے صحابہ کرام (رض) مراد ہیں۔ جن کو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحبت کے لئے چن لیا۔ (روح) یہاں انبیا کے واقعات ختم ہوئے اب اس کے بعد توحید کا بیان شروع ہو رہا ہے۔ اس مناسبت پر شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں :” اللہ کی تعریف اور پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر سلام بھیج کر اگلی بات شروع کرنی لوگوں کو سکھا دی۔ (موضح) چنانچہ یہی آداب کلام علماء خطاب اور واعظین میں تو ارث سے چلے آتے ہیں کہ خطبہ کو حمد و صلوٰۃ سے شروع کرتے ہیں۔5۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ بت بھی بہت اچھے ہیں اگرچہ اللہ تعالیٰ سے کم۔ بتوں میں تو اچھائی کی پرچھائیں تک نہیں ہے اس لئے یہ بات دراصل بتوں سے تہکم (طنز) کے طور فرمائی گئی ہے۔ (شوکانی) النمل
60 1۔ اب یہاں سے اثبات توحید کے سلسلہ میں اللہ تعالیٰ کے بعض صفات وشوئوں کا بیان ہو رہا ہے جن کو مشرکین بھی تسلیم کرتے تھے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ مختص ہیں۔ مثلاً آسمان زمین اور اسباب رزق کا پیدا کرنا۔ (نیز دیکھئے : ذخرف 9، عنکبوت :63) 2۔ یعنی توحید کی راہ چھوڑ کر شرک کی ٹیڑھی راہ پر پڑجاتے ہیں۔ یا ترجمہ یہ ہے کہ وہ دوسروں کو اللہ کے برابر قرار دیتے ہیں۔ النمل
61 3۔ یعنی اس میں گردش، پانی، ہوا، آگ، سردی، گرمی، غرض ہر چیز کا متوازن نظام قائم کر کے اسے اس قابل بنایا کہ اس پر آدمی اور جانور آرام سے زندہ رہتے اور اس کی پیداوار سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ یہی معنی زمین کے ” وحو“ اور ” تسویہ“ کے ہیں۔ (کبیر) 4۔ تاکہ ڈگمگائے نہیں اور سکون سے ایک مقرر راستہ پر حرکت کرتی رہے۔ (دیکھئے سورۃ نمل :5، الانبیا 8، لقمان :30) 5۔ کہ ایک دوسرے کے ساتھ مخلوط نہیں ہو سکتے۔ (دیکھئے فرقان :53) النمل
62 6۔ مشرکین عرب خود اس چیز کو جانتے اور مانتے تھے کہ مصیبت کو ٹالنے والا صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ چنانچہ دوسری آیات میں بھی ان سے اسی طرح کا خطاب فرمایا گیا ہے۔ (دیکھئے اسرا :63، فعل 53) مگر تعج ہے ہمارے زمانہ کے ان مسلمانوں پر جو توحید کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن مصیبت تک میں اللہ کو نہیں پکارتے بلکہ ” یا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ“ ” یا غوث اعظم (رح) “ وغیرہ کا نعرہ لگاتے ہیں۔ 7۔ یا تم کو زمین کا خلیفہ ظالم و متصرف) بناتا ہے۔ ایک دوسرے کا جانشین بنانے کا مطلب یہ ہے کہ وہ تمہاری ایک نسل کے بعد دوسری نسل کو، اور ایک قوم کے بعد دوسری قوم کو لے آتا ہے۔ (شوکانی) النمل
63 8۔ یعنی کون ہے جس نے ستاروں اور دوسری ارضی و سماوی نشانیوں سے ایسے انتظامات کردیئے ہیں۔ کہ تم رات کے اندھیرے میں بھی اپنا راستہ معلوم کرلیتے ہو۔ اسی کو سورۂ نحل میں یوں فرمایا : وعرضات و بالنجمھم بھتدون۔ اور نشان اور ستاروں کے ذریعہ وہ راستہ پاتے ہیں۔ (آیت :26) النمل
64 9۔ آسمان سے مینہ برساتا ہے اور زمین سے غلے اور پھل اگاتا ہے۔ 10۔ یعنی اس چیز کی دلیل لائو کہ اللہ کے علاوہ کوئی اور بھی معبود ہے اگر دلیل نہیں لا سکتے۔ اور ظاہر ہے کہ اس پر ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے۔ تو یہ بات تمہاری سمجھ میں کیسے آتی ہے کہ پیدا کرنا، رزق دینا اور دوسرے یہ تمام کام تو اللہ کے ہوں مگر عبادت اور بندگی اس کے علاوہ کسی اور کی جائے۔ النمل
65 11۔ اوپر کی آیات میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کا بیان تھا۔ اب یہاں اس کے علم محیط کا بیان ہے۔ یہ بات کہ کسی کو علم غیب نہیں بجز خدا کے۔ قرآن کی متعدد آیات میں بیان ہوتی ہے۔ سورۃ انعام :59 میں گزر چکا ہے کہ ” غیب کی کنجیاں“ اللہ ہی کے پاس ہیں۔ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ جس نے گمان کیا کہ وہ (یعنی نبیﷺ) کل ہونیوالی بات کو جانتے ہیں اس نے اللہ تعالیٰ پر بڑا بہتان باندھا کیونکہ اللہ فرماتا ہے۔ قل لا یعلم من… (ابن کثیر بحوالہ صحیحین) النمل
66 1۔ اس آیت کا دوسرا مفہوم یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آخرت کے بارے میں ان کا علم ہار کر عاجز آگیا، چنانچہ کبھی وہ اس میں شک کرتے ہیں اور کبھی اندھے یعنی قطعی منکر ہوتے ہیں۔ شاہ عبد القادر (رح) نے اپنے ترجمہ اور حاشیہ میں اسی کو اختیار کیا ہے۔ (دیکھئے موضح) شاہ ولی اللہ نے یوں ترجمہ کیا ہے : بلکہ پے در پے متوجہ شد علم ایشاں درباب آخرت یعنی تاآنکہ منقطع گشت۔ (فتح الرحمن) امام رازی (رح) فرماتے ہیں : اس کا مفہوم یہ ہے کہ آخرت کے بارے میں ان کا علم تو کمال اور انتہا کو پہنچ چکا ہے۔ یعنی آخرت کے ثبوت پر ان کے سامنے اتنے دلائل موجود ہیں کہ ان سے کامل درجہ کا یقین حاصل کرسکتے ہیں مگر یہ لوگ پھر بھی شک و شبہ میں پڑے ہوئے ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ جو شخص اس قدر واضح حقیقت پر بھی یقین نہیں کرسکتا اور اس سے سراسر غافل ہے وہ غیب جیسی مخفی حقیقت کا ادراک کیسے کرسکتا ہے یا یہ بات ان کے متعلق بطور تہکم کہی گئی ہے جیسے کسی اجہل شخص سے کہا جائے کہ میاں تم بڑے عالم نظر آتے ہو۔ (کبیر) النمل
67 النمل
68 2۔ یعنی بے بنیاد اور بے حقیقت افسانے ہیں جو لوگوں نے دنیا کا نظام چلانے اور سرکشوں کو قابو میں رکھنے کے لئے گھڑ لئے تھے۔ اور پھر یہ پیغمبر ( علیہ السلام) ان ہی کی نقل کئے جا رہے ہیں۔ ہم نے آج تک کبھی دیکھا نہ سنا کہ کوئی شخص مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہوا ہو اور اس کو نیکی پر جزا یا بدی پر سزا ملی ہو۔ (وحیدی) ہمارے زمانہ میں بھی جو لوگ آخرت کا انکار کرتے ہیں ان کے پاس بھی اس سے بڑی کوئی دلیل نہیں ہے حالانکہ اس کا تعلق دیکھنے یا سننے سے نہیں ہے بلکہ اس کا تمام تر انحصار تو کسی ایسے سچے آدمی (پیغمبر ( علیہ السلام) کی خبر پر ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے اس کی خبر دی ہو۔ النمل
69 3۔ یعنی یہ دیکھو کہ جس عذاب کا پیغمبروں ( علیہ السلام) نے ان نافرمانوں سے وعدہ کیا تھا وہ نازل ہو کر رہا اور پیغمبروں ( علیہ السلام) کی کوئی بات جھوٹی نہیں ہوئی۔ اب جو ان پیغمبروں ( علیہ السلام) نے کہا ہے کہ ایک دن قیامت ضرور آئے گی اور اس میں لوگوں کو اپنے نیک اعمال کی جزا اور برے اعمال کی سزا ملے گی تو ان کی یہ بات بھی جھوٹی نہیں ہو سکتی۔ (وحیدی) النمل
70 4۔ یعنی اللہ تعالیٰ آپ ( علیہ السلام) کا محافظ اور نگہبان ہے۔ یہ لوگ اپنے مکر و فریب میں خود گرفتار ہونگے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کچھ نہیں بگاڑسکیں گے : چاہ کن را چاہ درپیش۔ (وحیدی) اس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی ہے۔ (کبیر) 5 النمل
71 النمل
72 ۔ یعنی قریب ہی پہنچ گیا ہو۔ اس ” کچھ عذاب“ سے مراد قبر کا عذاب بھی ہوسکتا ہے اور وہ عذاب بھی جس سے مشرکین مکہ بدر کے دن دوچار ہوئے۔ (شوکانی) النمل
73 6۔ یعنی جو مہلت انہیں ملتی ہے اس میں اپنی اصلاح کی فکر نہیں کرتے بلکہ اس کا یہ مطلب لیتے ہیں کہ کوئی گرفت ہونے والی نہیں ہے اس لئے جو جی میں آئے کرتے رہو اور کسی سمجھانے والے کی بات نہ مانو۔ النمل
74 7۔ اس لئے جب ان کی شامت آئے گی تو کوئی بات چھوڑی نہ جائے گی جس پر ان کا سخت محاسبہ نہ کیا جائے۔ النمل
75 8۔ لہٰذا جس عذاب کی یہ جلدی مچا رہے ہیں اس کا وقت بھی اس میں لکھا ہے وہ اپنے وقت پر آ کر رہے گا اس کے دیر سے آنے کا یہ مطلب لینا کہ وہ نہیں آئے گا) سراسر حماقت ہے۔ (وحیدی) النمل
76 9۔ یہود اور نصاریٰ بہت سے فرقوں میں بٹ گئے تھے۔ اس بنا پر ان کے درمیان سخت اختلافات پیدا ہوگئے تھے۔ مثلاً حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کو یہودی جھوٹا اور ولدالزنا کہتے تھے اور نصاریٰ نے یہاں تک غلو کیا کہ وہ انہیں خدا کا بیٹا سمجھ بیٹھے۔ اسی طرح اور بھی بہت سے امور تھے جن میں ان کے درمیان سخت اختلافات پائے جاتے تھے ان میں حق اور اعتدال کی راہ قرآن نے واضح کی۔ جو قرآن کی حقانیت کی دلیل ہے۔ اگر وہ اس راہ کو اختیار کرتے تو ان میں ہرگز کوئی اختلاف نہ رہتا اور ان کی سب فرقہ بندی ختم ہوجاتی۔ امام رازی (رح) لکھتے ہیں : مبداء و معاد کے اثبات پر گفتگو کرنے کے بعد اب نبوۃ کے متعلق بحث شروع کی اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کے اثبات میں چونکہ قرآن ہی سب سے بڑی دلیل ہے اس لئے سب سے پہلے اس کا ذکر کیا۔ (کبیر) النمل
77 النمل
78 1۔ یا دنیا ہی میں ان کی تحریفات کا بھانڈا پھوڑ کر ان کے حق یا باطل پر ہونے کا فیصلہ کر دیگا۔ (شوکانی) النمل
79 2۔ اور جو حق پر ہوتا ہے اسے کسی طرح کا کھٹکا نہیں ہوتا۔ آخر کار اس کا غالب آنا یقینی ہے۔ النمل
80 3۔ یعنی یہ کافر مردوں اور بہروں کی طرح ہیں جنہیں دعوت دینا اور کوئی نصیحت کی بات سنانا قطعی سود مند ہیں ہو سکتا، خصوصاً جبکہ وہ پیٹھ دے کر بھاگ رہے ہوں۔ اس سے معلوم ہوا کہ مردوں کو کوئی بات نہیں سنائی جاسکتی۔ یہ نفی عام ہے اور اس سے صرف وہ صورتیں مستثنیٰ ہیں جو دلیل (کتاب و سنت) سے ثابت ہوں جیسا کہ صحیح حدیث میں ہے کہ بدر کے دن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کفار کی لاشوں سے خطاب کیا۔ صحابہ (رض) نے عرض کیا :” اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایسی لاشوں سے خطاب فرماتے ہیں جن میں روح نہیں ہے۔“ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” تم ان سے بڑھ کر نہیں سن سکتے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ وہ جواب نہیں دے سکتے۔“ اور جیسا کہ دوسری حدیث میں ہے کہ جب لوگ مردہ کو قبر میں دفنا کر پلٹتے ہیں تو وہ ان کے قدموں کی آواز سنتا ہے۔ (شوکانی) النمل
81 4۔ یعنی آپ ان کا ہاتھ پکڑ کر زبردستی تو انہیں سیدھے راستے کی طرف لا نہیں سکتے۔5۔ یعنی سنانا انہی لوگوں کے حق میں سود مند ہے جو ہماری آیتوں کو سن کر ان کا اثر قبول کرتے ہوں، اور اثر قبول کرنا یہی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی اختیار کریں۔ (شوکانی) النمل
82 6۔ ” تکلمھم“ کے معنی بات کرنا اور زخمی کرنا، دونوں ہو سکتے ہیں۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ وہ جانور مومن سے بات کریگا اور کافر کو زخمی کریگا حافظ ابن کثیر (رح) نے اس … کو پسند کیا ہے۔ واللہ اعلم (شوکانی، ابن کثیر) 7۔ حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ یہ وہ وقت ہوگا جب لوگ امر بالمعروف او نہی عن المنکر چھوڑ دینگے۔ یہ جانور کیسا ہوگا۔ کہاں نکلے گا۔ کب نکلے گا اور نکل کر کیا کریگا؟ اس بارے میں متعدد احادیث و آثار مروی ہیں جن میں صحیح، حسن اور ضعیف ہر قسم کی احادیث مذکور ہیں۔ مگر یہ بات تو قطعی طور پر صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ ” خروج وأبۃ بھی قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ جیسا کہ صحیح مسلم اور سنن اربعہ میں حضرت حذیفہ (رض) کی حدیث میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قیامت کی اس نشانیاں شمار فرمائیں جن میں ایک ” خروج دابہ“ بھی تھی۔ اس طرح صحیح مسلم کی دوسری روایت میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” نیک اعمال کی طرف تیز تیز قدم اٹھائو قبل اس کے کہ سورج مغرب سے طلوع ہو، دجال ظاہر ہو، اور ” خروج دابہ“ ہو۔ (شوکانی، ابن کثیر) حافظ ابن کثیر (رح) نے اور بھی بہت سی روایات نقل کی ہیں۔ شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں : ” قیامت سے پہلے صفا پہاڑ مکے کا پھٹے گا اور اس میں سے ایک جانور نکلے گا لوگوں سے باتیں کریگا کہ اب قیامت نزدیک ہے۔ ایمان والوں اور چھپے منکروں کو جدا جدا کر دے گا نشان دے کر۔“ (موضح) النمل
83 8۔ یعنی ان کی جماعت بندی کی جائیگی۔ ” ہر گناہ والے ایک جتھا ہونگے۔“ اس کے دوسرے معنی یہ ہیں کہ جو لوگ آگے ہونگے انہیں رک لیا جائیگا تاکہ پیچھے والے ان سے آ کر مل جائیں۔ (ابن کثیر) النمل
84 9۔ یعنی ان سے عقائد و اعمال دونوں کے متعلق سوال ہوگا اور یہ سوال بطور تبکیت ہوگا کہ تمہارا دنیا میں یہی مشغلہ رہا کہ جہاں کوئی آیت یا حدیث تمہاری سمجھ میں نہ آئی اس پر پوری طرح غور کئے بغیر اسے رد کردیا۔ ہمارے زمانہ میں اہل بدعت اور مستشرقین کے عقل پرست شاگردان رشید کا بھی یہی شیوہ چلا آرہا ہے کہ صحیح احادیث کو یہی سمجھیا مسلک کے خلاف پا کر رد کردیتے ہیں اور قرآن کی ایسی تاویل کرتے ہیں جو دراصل معنوی تحریف ہوتی ہے۔ النمل
85 10۔ یعنی ان پر اللہ تعالیٰ کی حجت قائم ہوجائیگی اس لئے وہ کوئی عذر پیش نہیں کرسکیں گے۔ اکر مفسرین (رح) نے لکھا ہے کہ یہ اس وقت ہوگا جب ان کے منہ پر مہر لگا دی جائیگی۔ (شوکانی) النمل
86 11۔ یعنی کہ صرف رات دن کی دو نشانیاں ایسی ہیں جن سے اللہ کی توحید نبوت اور موت کے بعد دوبارہ زندگی پر استدلال ہوسکتا ہے۔ (شوکانی) النمل
87 12۔ ” صور“ سے مراد نر سنگا ہے جسے حضرت اسرافیل ( علیہ السلام) پھونکیں گے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں۔ ایک بار صور پھونکے گا جس سے سب خلق مر جاویں گے، دوسرا پھونکے گا تو جی اٹھیں گے۔ اس کے بعد پھونکے گا تو گھبرا جاوینگے اور پھونکے گا تو بے ہوش ہوجاویں گے اور پھونکے گا تو ہوشیار ہوجاویں گے۔ صور پھونکنا بہت بار ہے۔ (موضح) تفاسیر میں ہے کہ صور میں نفخہ تین بار ہے، نفخہ فزع، صعق اور تیسرابعث۔ بعض کے نزدیک دوبارہ ہوگا۔ نفخہ فزع اور نفخہ صعق ایک ہی ہیں کیونکہ دونوں کے ساتھ ” الامن شاء کا استثنا آیا ہے اور صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ (رض) اور عبد اللہ بن عمرو (رض) کی حدیث سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے اور یہی صحیح ہے۔ (قرطبی) اس کے ساتھ سورۃ انعام آیت 53 کا حاشیہ بھی ملاحظہ کرلیا جائے۔ 1۔ مراد شہداء و انبیائ ( علیہ السلام) اور فرشتے ہیں اور بعض نے تمام اہل ایمان کو اس میں شامل کیا ہے مگر کسی صحیح حدیث سے تعیین ثابت نہیں۔ (قرطبی) النمل
88 2۔ یعنی اس وقت جن پہاڑوں کو دیکھ کر تم خیال کرتے ہو کہ اپنی جگہ پر نہایت مضبوطی سے جمے ہوئے ہیں، اور انہیں کوئی چیز ہلا نہیں سکتی۔ قیامت کے دن بادل کی طرح فضا میں اڑتے پھرینگے۔ قیامت کے دن پہاڑوں کے متعلق مختلف صفات مذکور ہیں۔ سب کا حاصل یہ ہے کہ ان کو اڑا کر زمین صاف کردی جائیگی۔ (دیکھئے طہ :105، نباء 20، معارج :79، فرقان :23، واقعہ :6) النمل
89 3۔ نیکی سے مراد ہر نیک کام ہے بعض مفسرین (رح) نے اس سے مراد ” لا الہ الا اللہ“ بعض نے اخلاص اور بعض نے فرائض کی ادائی کی ہے لیکن بہت یہ ہے کہ اسے عام رکھا جائے، تخصیص کی کوئی وجہ نہیں۔ (شوکانی) النمل
90 4۔ یہاں برائی سے شرک مراد ہونے پر صحابہ اور بعد کے علما کی ایک جماعت کا اتفاق ہے بلکہ بعض نے مفسرین (رح) کا اتفاق نقل کیا ہے۔ اس تخصیص کی وجہ وہ ہولناک سزا ہے جو آگے بیٹان کی جا رہی ہے۔ (شوکانی) النمل
91 5۔ یعنی اسے حرم بنایا جس میں نہ کوئی خون کیا جاسکتا ہے، نہ کسی پر ظلم ہوسکتا ہے نہ شکار کیا جاسکتا ہے اور نہ درخت کاٹا جاسکتا ہے۔ النمل
92 6۔ کسی کو راہ حق پر لے آنا میرا کام نہیں ہے اور نہ مجھ پر اس کی ذمہ داری ہے۔ النمل
93 7۔ یعنی سب تعریف صرف اسی اللہ یک ہے جس نے مجھے ہدایت دی اور لوگوں کے لئے ہادی (ہدایت دینے والا بنایا) حقیقت یہ ہے کہ جس کو جو نعمت ملی اسی کی طرف سے ملی۔ 8۔ کہ ہاں یہی وہ نشانیاں ہیں جن کا وعدہ اللہ و رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کیا تھا مگر اس وقت کا پہچاننا تمہیں کوئی فائدہ نہ دے سکے گا۔ یہ خطاب کفار مکہ سے ہے۔ اسلامی فتوحات اور تباہ شدہ قوموں کے آثار بھی ان میں شامل ہیں اور قرب قیامت کی نشانیاں بھی اس کے تحت آجاتی ہیں۔ (دیکھئے سورۃ فصلت :53) تمت سورۃ النمل بحمد اللہ فی الیوم الرابع عشر من رمضان 1389 ھ۔ النمل
0 9۔ یہ سورۃ مکہ میں نازل ہوئی۔ بعض کہتے ہیں کہ اس کی آیت : ” ان الذی فرض علیک القران لراوک الی معاد“ ہجرت کے بعد جحفہ میں اتری۔ بعض کہتے ہیں کہ اس میں ” الذی اتیناھم الکتاب“ سے ” لانیتغی الجاھلین“ کا حصہ مدنی ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) سے دوسری روایت یہ بھی ہے کہ یہ سورۃ اور حدید کا آخری حصہ اصحاب نجاشی کے متعلق نازل ہوا جو جنگ احد کے موقع پر مدینہ آئے۔ القصص
1 القصص
2 1۔ یعنی جو حق کو باطل سے واضح کرنے والی ہے یا جو اپنا مدعا بیان کرنے میں واضح ہے۔ القصص
3 2۔ ” یعنی مسلمان اپنا حال قیاس کرلیں ظالموں کے مقابلہ میں۔“ مطلب یہ ہے کہ اس قصہ میں مسلمانوں کو یہ بتایا گیا ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کے ذریعہ بنی اسرائیل کو کمزور ہونے کے باوجود فرعون کے مقابلہ میں کامیاب کیا اسی طرح اب جو مسلمان مکہ میں کمزور اور مغلوب ہیں انہیں بھی ان کے دشمنوں کے مقابلہ میں کامیاب کرے گا۔ اس کے بعد ” ان فرعون“ سے اسی قصہ کی تفصیل شروع ہو رہی ہے۔ (روح) القصص
4 3۔ مصر میں ” قبطی“ بھی آباد تھے، جو فرعون کی اپنی قوم تھی اور ” بنی اسرائیل“ بھی۔ فرعون نے اپنی پالیسی یہ رکھی کہ قبطی آقا بن کر رہیں اور بنی اسرائیل غلام اور خدمتگار بن کر۔4۔ کیونکہ اس نے خواب دیکھا تھا جس کی تعبیر میں وقت کے نجومیوں نے انہیں بتایا کہ بنی اسرائیل میں ایک لڑکا پیدا ہوگا جو تیری بادشاہی چھین لے گا۔ (دیکھئے سورۃ بقرہ :49) القصص
5 5۔ یعنی فرعون اور اس کی قوم کو جو غلبہ و اقتدار حاصل ہے وہ آئندہ انہیں حاصل ہو اور فرعون کی سلطنت کے وارث بنیں۔ (اعراف :137) القصص
6 6۔ اور وہ یہ کہ کہیں نجومیوں کا کہنا سچ نہ نکلے اور بنی اسرائیل ہمارے ملک و مال کے وارث نہ ہوجائیں۔ (قرطبی) القصص
7 7۔ یعنی انہیں الہام کیا، یا ان کے دل میں ڈالا، یا، انہیں خواب دکھایا۔ بہرحال ان کی طرف یہ وحی اعلام تھی وحی نبوت نہ تھی کیونکہ اس پر تمام علما کا اجماع ہے کہ موسیٰ ( علیہ السلام) کی والدہ نبیتہ نہ تھیں۔ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کی والدہ کے پاس فرشتہ آیا۔ اس صورت میں بھی یہی کہا جائے گا کہ فرشتے تو غیر انبیا کے پاس بھی آجاتے ہیں۔ چنانچہ صحیحین میں گنجے، کوڑھی اور نابینا کا قصہ مذکور ہے کہ ان کے پاس فرشتہ آیا اور ان سے ہمکلام ہوا۔ صحیح حدیث میں یہ بھی ہے کہ فرشتوں نے حضرت عمران (رض) بن حصین کو سلام کیا لیکن اس سے وہ نبی نہیں بن گئے۔ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کی والدہ کا نام بعض نے ایارفت ار بعض نے لوحا لکھا ہے۔ (قرطبی، شوکانی) القصص
8 8۔ لفظی ترجمہ یوں ہے :” تاکہ وہ ان کا دشمن اور ان کے لئے باعث رنج بنے۔“ لیکن مطلب وہ ہے جو متن میں بیان کیا گیا ہے۔ یا یہ کہ ان کے اٹھانے کا نتیجہ یہ ہونا تھا کہ وہ (حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) ان کے لئے دشمن اور باعث رنج ہوں۔ اس لام کو عربی زبان میں لام عاقبت کہا جاتا ہے۔ (قرطبی) القصص
9 1۔ یعنی انہیں خبر نہ تھی کہ بڑا ہو کر کیا کریگا۔ انہوں نے خیال کیا کہ بنی اسرائیل میں سے کسی نے ڈر کے مارے اسے دریا میں ڈال دیا ہوگا ایک لڑکا نہ مارا تو کیا ہوا۔ “ القصص
10 2۔ یعنی بیٹے کی جدائی میں ایسی بے قرار ہوئیں کہ موسیٰ ( علیہ السلام) کے سوا کسی اور چیز کا خیال دل میں نہ رہا، یا وہ اللہ کی وحی کے سبب مطمئن تھیں۔ (شوکانی) 3۔ یعنی ہم نے جو اس سے وعدہ کیا تھا کہ ” انا رادوہ الیک“ اس کو عنقریب تیرے پاس لے آئیں گے۔“ اس پر اس کا ایمان پختہ رکھنے کے لئے اگر ہم نے ان کی ڈھارس نہ بندھائی ہوتی تو وہ لوگوں پر اپنا راز فاش کر بیٹھتیں۔ (شوکانی) القصص
11 4۔ کہ وہ بچے کی بہن ہے اور یہ معلوم کرنے کے لئے ساتھ ساتھ چلی آرہی ہے کہ اسے کون اٹھاتا ہے اور کدھر لے جاتا ہے؟ القصص
12 5۔ یعنی فرعون کے گھر والے جس انا کو بھی دودھ پلانے کے لئے بلاتے بچہ اس کی چھاتی کو منہ تک نہ لگاتا۔ القصص
13 6۔ بیچ میں ذکر چھوڑ دیا گیا کہ اس کے بعد فرعون کے گھر والوں نے حضرت موسیٰ کی بہن سے پچھا کہ ” وہ کون گھر والے ہیں؟“ اس نے جواب دیا ” میری ماں“” انہوں نے کہا :” اس کے دودھ کہاں سے آیا؟ وہ بولی ” میرے بھائی ہارون کا دودھ ہے“ آخر اس کی والدہ کو بلایا گیا اور جونہی انہوں نے بچہ کے منہ سے اپنی چھاتی لگائی بچہ خوش ہو کر دودھ پینے لگا۔ پھر وہ بچے کو اپنے گھر لے آئیں اور وہیں رہ کر ان کی پرورش کرنے لگیں۔ اس طرح حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) اپنی ماں کے پاس واپس پہنچ گئے۔ (قرطبی) 7۔ جو اس نے فرمایا تھا کہ ہم موسیٰ ( علیہ السلام) اور واپس تیرے پاس بھجوا دینگے۔ حدیث میں ہے :” جو شخص اپنی روزی کمانے کے لئے کام کرے اور اس کام میں اس کے پیش نظر اللہ کی خوشنودی ہو اس کی مثال حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کی والدہ کی ہے جو اپنے بیٹے کو دودھ بھی پلاتی تھیں اور اجرت بھی پاتی تھیں۔ (ابن کثیر) 8۔ یعنی تقدیر الٰہی کی حکمتوں کو نہیں سمجھتے۔ چنانچہ اکثر لوگوں کا حال یہ ہے کہجونہی کسی کام میں کوئی پیچ پڑجاتا ہے اللہ تعالیٰ سے بدظ ہوجاتے ہیں اور انہیں اللہ تعالیٰ کے وعدہ پر یقین نہیں رہتا۔ حالانکہ اس کا وعدہ خلاف نہیں ہو سکتا۔ اللہ تعالیٰ اسباب کو کچھ اس طرح پھیر کر لاتا ہے جو انسانی سمجھ سے باہر ہے اور جس چیز کا گمان بھی نہیں ہوتا اسے ظاہر کرتا ہے۔ (وحیدی) القصص
14 9۔ عموماً جوانی کی کم سے کم عمر 18 سال، اور زیادہ سے زیادہ 34 سال شمار ہوتی ہے۔ (شوکانی) مگر قرآن میں چالیس برس مذکور ہیں۔ دیکھئے احقاف :15۔ القصص
15 10۔ جیسا حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کی والدہ کو ان کے صبر اور نیکی پر دیا۔ 11۔ یعنی شہر میں سناٹا تھا۔ ہوسکتا ہے کہ صبح کا وقت ہو یا گرمیوں کی دوپہر یا سردیوں کی رات کا۔ عموماً مفسرین (رح) نے دوپہر کا وقت لکھا ہے۔ بعض نے لکھا ہے کہ لوگوں سے چھپ کر اور ان کی لاعلمی میں۔“ کیونکہ اس وقت حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) نے فرعون کی مخالفت شروع کر رکھی تھی اور فرعون کو بھی پتا چل گیا تھا اس لئے شہر میں چھپ کر آئے۔ (قرطبی) 1۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کا ارادہ قتل کا نہ تھا نہ قتل کے لئے گھونسا مارا جاتا ہے اور نہ کوئی شخص محض گھونسے سے مرتا ہے۔ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) نے اسے صرف تادیب اور گوشمالی کے لئے گھونسا مارا تھا مگر وہ اتنا کمزور اور بزدل نکلا کہ محض ایک گھونسے سے دم توڑ گیا۔ اس پر حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) نادم ہوئے اور اپنی حرکت کو شیطانی حرکت قرار دیا۔ القصص
16 2۔ گو عام لوگوں کے حق میں یہ (یعنی نادانستہ قتل) کوئی گناہ نہ تھا مگر پیغمبروں کی شان بڑی ہے۔ ان کی شان کے لحاظ سے یہ بے احتیاطی بھی مناسب نہ تھی اس لئے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) نے اسے گناہ سمجھا اور اس پر اللہ تعالیٰ کے حضور معافی کے خواستگار ہوئے۔ چنانچہ انہیں معافی دے دی گئی مگر حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) اس کے بعد بھی نادم ہے اور قیامت کے دن اپنی ندامت کا اظہار ان الفاظ میں کریں گے : انی قتلت نفسا لم اومر بقتلھا کہ میرے ہاتھ سے ایک ایسا شخص قتل ہوگیا تھا جس کو قتل کرنے کا مجھے حکم نہیں دیا گیا تھا۔ (شوکانی) القصص
17 3۔ ممکن ہے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کی مراد اس اسرائیلی ہی سے ہو اور اسی کو آپ نے مجرم قرار دیا ہو جس کی آپ نے مدد کی تھی کیونکہ وہ جرم کا سبب بنا۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) نے ” مجرمین“ سے فرعون اور اس کی قوم کے لوگ مراد لئے ہوں کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے نافرمان اور مجرم تھے اور ان کے اللہ تعالیٰ کے حضور عہد کرنے کا مطلب یہ ہو کہ تو نے مجھے جو نعمت عزت اور راحت و قوت عطا فرمائی ہے اسی کا شکریہ ہے کہ اسے ان لوگوں کی حمایت و اعانت میں صرف نہ کروں۔ ان سے اپنا تعلق منقطع کرلوں اور اس ظالم حکومت کا کل پرزہ نہ بنوں۔ ابن جریر (رح) اور بہت سے دوسرے مفسرین (رح) نے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام)۔ اس عہد کا یہی مطلب لیا ہے اور حافظ ابن کثیر (رح) نے بھی اسی کے مطابق تفسیر کی ہے۔ (شوکانی) القصص
18 4۔ یعنی ذہن میں یہ خیال رکھتے ہوئے کہ دیکھو کیا ہوتا ہے اور کہاں پکڑ لیا جاتا ہوں؟ 5۔ یعنی اب ایک اور قبطی سے لڑ رہا ہے۔ اور حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کی مدد چاہتا ہے۔ (قرطبی) 6۔ جو ہر روز کسی نہ کسی سے لڑتا جھگڑتا رہتا ہے کل ایک شخص سے لڑ رہا تھا اور آج دوسرے سے جھگڑا ہوں لئے کھڑا ہے۔ مطلب یہ تھا کہ کل تیرے سبب سے میں ایک جان کو قتل کرچکا ہوں۔ (قرطبی) القصص
19 7۔ ” تو وہ کہنے لگا“ میں ” وہ“ سے مراد جمہور مفسرین (رح) نے اسرائیلی لیا ہے کیونکہ جب حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) نے قبطی کو پکڑنے کے لئے ہاتھ بڑھایا تو وہ سمجھا کہ شاید مجھ ہی کو پکڑ کر مارنا چاہتے ہیں۔ اس پر اس نے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) سے یہ الفاظ کہے۔ جن مفسرین (رح) نے یہ مطلب لیا ہے اہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ اس وقت تک اس اسرائیلی اور حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کے سوا کسی شخص کو معلوم نہ تھا کہ کل جو قبطی قتل ہوا ہے اس کا قاتل کون ہے اور قاتل کی تلاش ہو رہی تھی۔ اب جب کہ اس دوسرے قبطی نے اسرائیلی کی زبان سے یہ الفاظ سنے تو اس نے جا کر فرعون کو اطلاع کردی مگر سیاق کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ ” وہ“ سے مراد قبطی ہے اور ممکن ہے اس قبطی کو اس اسرائیلی کے ذریعہ معلوم ہوگیا ہو۔ یا وہ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کے اس اسرائیلی کو ” غوی مبین“ کہنے سے سمجھ گیا ہو کہ کل جو شخص قتل ہوا تھا اس کے قاتل حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) تھے۔ (شوکانی) 8۔ ظاہر ہے کہ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) سے یہ بات بھی قبطی ہی کہہ سکتا تھا جو کافر تھا نہ کہ اسرائیلی جو مومن تھا۔ (شوکانی ) القصص
20 9۔ اس شخص کا نام بعض نے حزقیل، بعض نے شمعون، بعض نے طالوت اور بعض نے سمعان بتایا ہے اور وہ فرعون کا عمزاد بھائی اور موسن تھا۔ واللہ اعلم۔ (قرطبی) 10۔ یہ سنایا ہمارے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ بھی وطن سے نکلیں جان کے خوف سے، کافر سب اکٹھے ہوئے تھے کہ ان پر مل کر چوٹ کریں۔ اسی رات نکلے ہجرت کر۔ (موضح) القصص
21 11۔ جو بے قصور مجھے قتل کرنا چاہتے ہیں۔ کسی شریعت یا انصاف کے قانون سے ایسی خفیف بے احتیاطی کی سزا قتل نہیں ہے۔ (وحیدی) القصص
22 1۔ جو فرعون کی سلطنت سے باہر مصر سے آٹھ دن کی مسافت پر تھا۔ (قرطبی) القصص
23 2۔ مدین خلیج عقبہ کے مغربی ساحل پر مقنا سے چند میل بجانب شمال واقع تھا۔ آج کل ” البدع“ کے نام سے مشہور ہے۔ اس کے قریب تھوڑے فاصلے پر وہ جگہ ہے جسے اب مغائر شعیب یا مغارات شعیب کہا جاتا ہے۔ اس جگہ ثمودی طرز کی بعض عمارتیں بھی پائی جاتی ہیں اور اس سے تقریباً ڈیڑھ میل کے فاصلے پر کچھ قدیم کھنڈر واقع ہیں جہاں دو اندھے کنوئیں ہیں۔ ان دونوں میں سے ایک کنواں وہ تھا جس پر حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) نے بکریوں کو پانی پلایا تھا۔ بعض اصحاب کا بیان ہے اور بعض قدیم معجمات سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ واللہ اعلم۔3۔ تاکہ ایسا نہ ہو کہ وہ پانی پینے کے لئے لوگوں کی بکریوں میں گھس جائیں اور پھر گم ہوجائیں۔4۔ اور ہجوم چھٹ نہ جائے، اس وقت بچا بچایا پانی اپنی بکریوں کو پلا لیتی ہیں۔ (قرطبی) 5۔ یعنی اس میں اتنی طاقت نہیں کہ خود بکریوں کے ساتھ آئے اور ڈول نکال کر انہیں پانی پلا سکے۔ گھر میں کوئی دوسرا مرد بھی ہیں ہے اس لئے مجبوراً ہمیں یہ کام کرنا پڑتا ہے۔ قرآن یا حدیث میں اس کی تصریح نہیں ہے کہ ان کے والد کون تھے اور ان کا نام کیا تھا۔ اکثر مفسرین (رح) کا خیال ہے کہ وہ حضرت شعیب ( علیہ السلام) کی بیٹیاں تھیں اور بعض نے حضرت شعیب ( علیہ السلام) کی بھتیجیاں بھی کہا ہے لیکن پہلا قول زیادہ مشہور ہے اور سباق قرآن سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ (شوکانی) القصص
24 6۔ غالباً مراد یہ ہے کہ سخت بھوکا ہوں کچھ کھانے کو دلا۔ بے آسرا۔ اور بے وطن ہوں کوئی ٹھکانہ دے۔ حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) جب مصر سے بھاگے تو ان کے پاس کھانے کی کوئی چیز نہ تھی۔ سبزیاں اور درختوں کے پتے کھا کر راستہ طے کرتے رہے۔ جب مدین پہنچے اور بکریوں کو پانی پلا کر سایہ میں بیٹھے تو بھوک کے مارے ان کا پیٹ پیٹھ سے لگ رہا تھا۔ اس حال میں انہوں نے یہ دعا کی۔ حضرت حسن بصری سے مروی ہے کہ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) نے علم و حکمت کیلئے دعا کی تھی اور ” خیر“ سے یہا یہی مراد ہے۔ (ملخص از ابن کثیر) القصص
25 7۔ ” شرماتی چلی آرہی ہے“۔ کی تشریح حضرت عمر (رض) نے فرمائی ہے : ” گھونگھٹ سے اپنا چہرہ چھپائے چلی آرہی ہے نہ کہ ان بے باک عورتوں کی طرح جو ہر طرف نکل جاتی ہیں اور ہر جگہ گھس جاتی ہیں۔ (ابن کثیر) القصص
26 8۔ اور یہ دونوں صفات اس شخص میں پائی جاتی ہیں۔ شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں : اور دیکھا ڈول ڈالنے سے اور امانت دیکھی بے طمع ہونے سے (موضح) القصص
27 9۔ کہ خواہ مخواہ دس برس پورے کرے یا سخت سخت کام سرانجام دے۔ معلوم ہوا کہ اجارہ کو صداق (مہر) مقرر کیا جاسکتا ہے۔ احادیث سے بھی یہ ثابت ہے۔ (قرطبی) القصص
28 1۔ یعنی آپ مجھے مجبور نہیں کرسکتے کہ ابھی اور خدمت کرو۔ میری خوشی کی بات ہے کہ آٹھ برس کے بعد دو برس اور خدمت کروں یا آٹھ ہی برس کے بعد اپنی بیوی کو لے کر چلا جائوں۔ القصص
29 2۔ یہ کلمہ عہد کو پختہ کرنے کے لئے کہا جاتا ہے۔“ ہمارے حضرت محمدﷺ بھی وطن سے نکلے۔ سو آٹھ برس پیچھے آ کر مکہ فتح کیا۔ اگر چاہتے اسی وقت شہر خالی کرواتے کافروں سے۔ دس برس پیچھے پاک کیا۔“ (موضح) 3۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) نے آٹھ برس کے بجائے دس کی مدت پوری کی تھی۔ یہی بات متعدد روایات میں نبیﷺ سے بھی مروی ہے۔ ان روایات کی سند میں اگرچہ کلام ہے لیکن وہ ایک دوسرے سے مل کر قوی ہوجاتی ہیں۔ (شوکانی) 4۔ یہ اس لئے کہ غالباً حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) اندھیری رات میں راستہ بھول گئے تھے۔ (طہ :10) القصص
30 5۔ یعنی اس کنارے جو حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کے اپنے داہنے ہاتھ کی طرف تھا۔ (شوکانی) القصص
31 6۔ کسی قسم کا اندیشہ نہ کرو۔ (طہ :22، 46، 61) القصص
32 7۔ یعنی جب کبھی لاٹھی کے سانپ بن جانے سے تمہارے دل میں خوف پیدا ہو تو اپنا بازو اپنے بدن سے ملا لیا کرو تمہارا سب خوف جاتا رہے گا اور تم اپنے اندر قوت اور جرأت محسوس کرنے لگو گے یا ایسا کرنے سے ہاتھ دوبارہ اپنی حالت میں نظر آئے گا۔ (قرطبی) القصص
33 القصص
34 1۔ کیونکہ میں اتنا زبان آور نہیں ہوں کہ اکیلا ان کی ہر دلیل کا فوراً توڑ کرتا رہوں۔ القصص
35 القصص
36 2۔ کہ کسی نے اللہ کی طرف سے پیغمبر ہونے کا دعویٰ کیا ہو یا اس قسم کا جادو دکھایا ہو۔ یہاں آیات سے مراد معجزات ہیں۔ (قرطبی) القصص
37 3۔ مطلب یہ ہے کہ تم مجھے جھوٹا اور جادوگر قرار دے رہے ہو لیکن میرا رب میرے حال سے پوری طرح واقف ہے۔ اسے خوب معلوم ہے کہ جس شخص کو اس نے اپنا رسول بنایا ہے اور اس کے ذریعہ اپنی ہدایت بھیجی ہے وہ کس سم کا آدمی ہے۔ اگر میں جھوٹا ہوں تو میرا انجام برا ہوگا اور اگر تم مجھے جھٹلا کر ظلم کر رہے ہو تو خوب سمجھ لو کہ ظالموں کا انجام کیا ہوتا ہے۔ القصص
38 4۔ شاہ صاحب (رح) نے یہاں ” الہ“ (خدا) کا ترجمہ ” حاکم“ کیا ہے اور یہی بات صحیح معلوم ہوتی ہے کیونکہ فرعون اپنے آپ کو ارض و سماکا خالق اور معبود نہیں سمجھتا تھا بلکہ وہ خود بہت سے دیوتائوں کی پرستش کرتا تھا۔ (سورہ اعراف :127) پس فرعون کا مطلب یہ ہے کہ میں ہی تمہارا مطاع اور حاکم مطلق ہوں۔ میرے سوا کوئی دوسرا ایسا نہیں ہوسکتا جس کی فرمانبرداری کی جائے۔5۔ جو یہ کہتا ہے کہ میرا خدا آسمان پر ہے فرعون نے جس ذہنیت کا مظاہرہ کیا، ہر دور میں خدا کے منکر ایسی باتیں کھلتے آئے ہیں۔ القصص
39 6۔ یعنی بڑائی کا حق تو صرف اللہ رب العالمین کو ہے مگر یہ لوگ ایک ذرا سے ملک میں اقتدار پا کر یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ بس ہم ہی بڑے ہیں۔ 1۔ یعنی وہ کسی کے سامنے جوابدہ نہیں ہیں لہٰذا کھلی چھٹی ہے کہ جو چاہیں کریں، اور جس قسم کی شرارت ملک میں پھیلانا چاہیں پھیلائیں۔ القصص
40 2۔ ان میں سے کوئی زندہ نہ بچا اور نہ کسی کو بات تک کرنے کی مہلت ملی۔ القصص
41 3۔ یا ” ہم نے انہیں دوزخ کی دعوت دینے والے سردار بنایا۔“ یعنی وہ اپنے بعد آنے والے لوگوں کے لئے مثال قائم کر گئے کہ یوں خدا کی نافرمانی کی جاتی ہے جس کا انجام دوزخ ہے۔ القصص
42 4۔ یا ” قیامت کے دن وہ مردودومطرود ہوں گے“۔ یعنی انہیں خدا کی رحمت سے کوئی حصہ نہ ملے گا۔ (قرطبی) القصص
43 5۔ حضرت ابو سعید (رض) خدری سے روایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” توراۃ کے اترنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے کسی قبیلے یا نسل یا اسم یا بستی کو آسمان سے عذاب بھیج کر تباہ نہیں کیا سوائے ” اصحاب سبت“ کے جو بند رہنا دیئے گئے۔ (قرطبی) فرعون کو غرق کرنے بعد عذاب کی بجائے جہاد شروع کردیا تاکہ لوگوں کی اصلاح اور تادیب ہوتی رہے۔ القصص
44 6۔ اب یہاں سے قرآن کی حقانیت پر دلیل قائم کی جا رہی ہے یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس وقت موجود نہ تھے کہ اس کا خود مشاہدہ کرتے اور پھر اپنی طرف سے بیان کرتے تو ظاہر ہے کہ یہ ساری معلومات آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی کے ذریعہ نازل کی گئی ہیں اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انہیں بتا رہے ہیں۔ (شوکانی) القصص
45 7۔ چنانچہ کئی قرن اور صدہا سال گزرنے کی وجہ سے شرائط و احکام متغیر ہوگئے تھے اور سابقہ ادیان اپنی اصلی صورت پر باقی نہیں رہ گئے تھے لہٰذا اب ضرورت تھی کہ نئے پیغمبر ( علیہ السلام) کے ذریعہ دین کی تجدید ہوتی اور دین و شریعت کو ایک مکمل اور آخری شکل میں پیش کیا جاتا۔8۔ یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہم ہی نے قریظ کی طرف پیغمبر بنا کر بھیجا ہے۔ اور یہ آخری کتاب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کی ہے جس میں یہ واقعات صحیح اور مکمل مذکور ہیں۔ (قرطبی) القصص
46 9۔ یعنی کوہ طور پر۔ مناجاۃ۔ اور کلام کے طورپ ر۔ اللہ تعالیٰ کے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کو پکارنے کا قرآن حکیم میں کئی جگہ ذکر ہے۔ اسی کے مشابہ وہ آیت ہے جو ابھی اوپر گزر چکی ہے یعنی : وما کنت بجانب المغربی اذ قضینا الی موسیٰ الامر بعض علما نے یہاں ندا اور قضا کا مطلب یہ بھی بیان کیا ہے کہ ہم نے موسیٰ ( علیہ السلام) کو خبر دی کہ محمد (ﷺ) کی امت خیر الامم ہے واللہ اعلم۔ (قرطبی۔ ابن کثیر) 10۔ حضرت اسماعیل ( علیہ السلام) کے بعد حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) تک جتنے پیغمبر اولاد ابراہیم میں آئے، بنی اسرائیل کی طرف مبعوث ہوتے رہے۔ بنو اسماعیل یعنی عرب کے لوگ) ایسے تھے جن کی طرف حضرت اسماعیل ( علیہ السلام) کے بعد نبیﷺ سے پہلے کوئی پیغمبر نہیں آیا تھا۔ آیت میں اسی طرف اشارہ ہے یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس جگہ موجود نہ تھے کہ ان واقعات کا خود مشاہدہ کرلیتے۔ یہ واقعات ہم نے محض اپنی رحمت سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف وحی کئے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عرب کو اللہ کے عذاب سے ڈرائیں۔ القصص
47 1۔ گویا اب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھیج کر اللہ تعالیٰ نے ان پر اتمام حجت کردیا ہے اور کوئی عذر ایسا نہیں رہنے دیا جسے یہ اپنے کفر اور بدعملی پر قائم رہنے کے لئے پیش کرسکیں۔ (قرطبی) القصص
48 2۔ یعنی عصا اور ید بیضا وغیرہ جیسے معجزات نہیں دکھلاتے اور یہ قرآن توریت کی طرح ایک ہی مرتبہ پورے کا پورا ان پر کیوں نہیں اتارا گیا۔ (قرطبی) 3۔ یا ” کیا یہ لوگ۔ قریش۔ اس (نبوت) کا انکار نہیں کرچکے ہیں جو اس سے پہلے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کو دی گئی تھی۔“ یعنی ان معجزات کے باوجود حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کی نبوت پر کونسا ایمان لے آئے تھے جو آج آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ان جیسے معجزات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔4۔ یہ مطلب اس صورت میں ہے جب ” اولم یکفروا“ کا فاعل پہلے لوگوں… قوم فرعون… کو قرار دیا جائے اور یہ معنی جید ہیں۔ (ابن کثیر) اور اگر اس کا فاعل قریش کو قرار دیا جائے جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے تو مطلب یہ ہوگا کہ توراۃ اور قرآن دونوں جادو ہیں اور قرآن میں عموماً توراۃ اور قرآن کا تذکرہ ایک ساتھ آیا ہے اور آگے کتاب کا ذکر آرہا ہے اس لئے یہی مطلب زیادہ موزوں معلوم ہوتا ہے۔ (شوکانی) القصص
49 القصص
50 5۔ یعنی اگر ان دونوں سے بہتر کتاب پیش نہ کرسکیں۔ (کبیر) 6۔ مطلب یہ ہے کہ ہدایت تو انہی لوگوں کو نصیب ہو سکتی ہے جن کے دل ضد اور ہٹ دھرمی سے پاک ہوں اور وہ حق کی معرفت کے بعد اسے قبول کرنے کو تیار ہوں مگر جن کے دلوں میں زیغ و عناد ہو انہیں راہ ہدایت کیسے مل سکتی ہے؟ القصص
51 7۔ یعنی ایک کے بعد دوسرا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مبعوث کیا اور ایک کے بعد دوسری نصیحت بھیجی تاکہ کسی طرح وہ خواب غفلت سے بیدار ہوں یا اس قرآن میں ہم وعدہ وعید، قصص و عبر اور نصائح و مواعظ تدریجاً اس لئے بھیج رہے ہیں کہ کسی طور یہ نصیحت حاصل کریں۔ اس صورت میں یہ لو لا نزل علیہ القرآن جملہ واحدۃ کا جواب ہوگا۔ (کبیر) القصص
52 8۔ مراد ہیں وہ لوگ جو یہود سے مسلمان ہوگئے تھے جیسے عبد اللہ (رض) بن سلام (رض) وغیرہ یا وہ عیسائی جو نجاشی کے پاس سے نبیﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے اور قرآن سن کر رونے لگے تھے۔ ان کا ذکر سورۃ اعراف آیت 83 میں گزر چکا ہے۔ (قرطبی) القصص
53 9۔ یعنی اس کے پیغمبروں اور اس کی کتابوں کو مانتے تھے اور محمدﷺ کی آمد کے منتظر تھے۔ جن کی خوش خبری ہم پچھلی کتابوں میں پڑھ چکے تھے۔ (شوکانی) القصص
54 10۔ کیونکہ وہ پہلی کتابوں کو بھی حق سمجھ کر مانتے رہے اور جب قرآن اترا اور انہیں اس کی حقانیت معلوم ہوئی تو اس پر ایمان لے آئے۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری (رح) سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا : تین شخص ایسے ہیں جنہیں دوہرا اجر دیا جائے گا۔ ان میں سے ایک اہل کتاب کا وہ فرد ہے جو پہلی اور آخری دونوں کتابوں پر ایمان لایا۔ (قرطبی۔ ابن کثیر) 1۔ یعنی ان سے کوئی گناہ سرزد ہوجاتا ہے تو اس کے بعد کوئی نیک کام کرتے ہیں جس سے وہ گناہ مٹ جاتا ہے۔ یا ان کے مکارم اخلاق کی تعریف ہے کہ اگر کوئی شخص ان کے ساتھ برائی سے پیش آتا ہے تو وہ اس کا جواب بھلائی سے دیتے ہیں۔ (دیکھئے سورۃ رعد آیت 22) 2۔ یعنی جہاں شریعت نے خرچ کرنے کا حکم دیا ہے وہ اپنا مال خرچ کرتے ہیں۔ اس میں فرض زکوٰۃ اور نفلی صدقات سب آگئے۔ (ابن کثیر) القصص
55 3۔ یعنی اس سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہیں اور اس کے کرنے والوں سے کوئی میل جول نہیں رکھتے۔ دیکھئے سورۃ فرقان 72۔ (قرطبی) 4۔ یہ محبت اور دعا کا سلام نہیں ہے بلکہ جدائی اور قطع تعلقی کا سلام نہیں ہے بلکہ جدائی اور قطع تعلقی کا سلام ہے دیکھئے فرقان :63۔ (قرطبی) حضرت شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں : جس جاہل سے توقع نہ ہو کہ سمجھائے پر لگے گا اس سے کنارہ ہی بہتر ہے۔ (موضح) القصص
56 5۔ صحیحین کی روایت ہے اور اس بارے میں تمام مفسرین (رح) کا اتفاق ہے کہ یہ آیت نبیﷺ کے چچا ابو طالب کے بارے میں نازل ہوئی۔ ابو طالب نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہمیشہ پشت پناہی کی لیکن ایمان نہ لایا۔ جب اس کا آخری وقت آیا تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی حد تک پوری کوشش فرمائی کہ وہ زبان سے توحید و رسالت کا اقرار کرلے تاکہ اس کا خاتمہ ایمان ر ہو۔ لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کی قسمت میں ایمان نہیں رکھا تھا، اس لئے اس نے ملت عبد المطلب پر جان دینے کو ترجیح دی۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی لیکن اصولی طور پر اس آیت کا حکم عام ہے اور اس میں ہر وہ شخص شامل ہے جس کے متعلق آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خواہش تھی کہ وہ ایمان لے آئے مگر اس نے کفر کی حالت ہی میں جان دینے کو ترجیح دی۔ نیز دیکھئے برأت آیت 113۔ (قرطبی۔ شوکانی) القصص
57 6۔ یعنی عرب کے دوسرے قبائل جو اسلام کے دشمن ہیں ہمارے مخالف ہوجائیں گے اور سب مل کر ہمیں مکہ کی سرزمین سے نکال باہر کریں گے۔ اور ہم اتنے طاقتور نہیں ہیں کہ ان کا مقابلہ کرسکیں۔ یہ بات منجملہ ان باتوں کے ہے جنہیں کفار قریش اسلام قبول نہ کرنے کے لئے بطور بہانہ کے پیش کرتے تھے۔ آیت کے اگلے حصہ میں اس کا جواب دیا جا رہا ہے۔ (قرطبی) 7۔ مطلب یہ ہے کہ یہ حرم جس کے امن و امان کی یہ حالت ہے کہ اس کے جانوروں تک کو کوئی نہیں ستاتا اور جسے وادی غیر ذمی زوع ہونے کے باوجود اس قدر مرکزی حیثیت حاصل ہے کہ دنیا بھر کے پھل اور اموال تجارت اس کی طرف کھچے چلے آتے رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اسے یہ حیثیت ہم نے بخشی ہے۔ تو جس خدا نے تمہیں اس قدر امن و امان دیا اور اپنی نعمتوں سے نوازا، کیا تم سمجھتے ہو کہ اس کا دین اختیار کرو گے تو تباہ و برباد ہوجائو گے۔ اگر ایسا سمجھتے ہو تو یہ تمہاری انتہائی نادانی ہے۔ (شوکانی) القصص
58 8۔ یعنی ان کے رہنے والے اپنی فارغ البالی اور خوشحالی کی بدولت بدمست ہوگئے تھے۔9۔ یا کبھی تھوڑی دیر کے لئے کوئی مسافر چند گھنٹے اترا اور پھر چل دیا۔ یعنی معنی زیادہ صحیح ہیں، گو بعض نے ترجمہ میں دیا ہوا مفہوم بھی اختیار کیا ہے۔ (دیکھئے قرطبی۔ شوکانی) 10۔ اس میں مشرکین مکہ کو تنبیہ ہے کہ تم اپنی خوشحالی کو بچانے کے لئے حق سے اعراض کر رہے ہو۔ تو پہلی قوموں کے حالات سے عبرت حاصل کرو کہ کیا ان کی آبادیوں میں کوئی بسنے والا باقی رہ گیا ہے۔ القصص
59 11۔ یعنی جب تک وہ کفر پر اصرار کر کے خود ہی مستحق عذاب نہیں ہوجاتے اس وقت تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی پکڑ نہیں ہوئی۔ القصص
60 1۔ کہ فانی کو اختیار کرتے ہو اور باقی رہنے والی زندگی کا خیال نہیں کرتے؟ صحیح حدیث میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” اللہ کی قسم، آخرت کے مقابلہ میں دنیا کی حقیقت صرف اتنی ہے کہ تم میں سے کوئی شخص سمندر میں اپنی انگلی ڈبوئے اور پھر دیکھے کہ اس کی انگلی کتنا پانی واپس لے کر آتی ہے“۔ (ابن کثیر) القصص
61 2۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ خلاف نہیں ہو سکتا۔3۔ مطلب یہ ہے کہ یہ دونوں شخص ہرگز یکساں نہیں ہو سکتے ہر مومن اور کافر اس آیت کا مصداق بن سکتے ہیں گو بعض نے لکھا ہے کہ حمزہ اور ابوجہل کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ دنیا کے مزے معمولی بھی ہیں اور عارضی بھی اور آخرت کی نعمتیں اعلیٰ درجہ کی بھی ہیں اور ہمیشہ رہنیوالی بھی اب یہ کوئی عقلمندی نہیں ہے کہ دنیا کے چند روزہ مزوں کی خاطر اپنی آخرت تباہ کرلی جائے۔ (وحیدی) القصص
62 4۔ ” اور ان کی سفارش پر تکیہ کر کے گناہ پر گناہ کئے جاتے تھے“۔ القصص
63 5۔ ان سے مراد شیاطین یا وہ بڑے بڑے پیشوا، سردار لیڈر اور پیر فقیر قسم کے لوگ ہیں جن کو دنیا میں لوگوں نے ادبابا من دون اللہ بنا لیا تھا اور ان کی بات کے مقابلے میں اللہ اور اس کے رسولوں کی بات کو رد کردیا کرتے تھے۔ (شوکانی) 6۔ یعنی ہم نے ان پر کوئی زبردستی نہیں کی تھی اور نہ ان سے سوچنے سمجھنے کی قوتیں سلب کرلی تھیں بلکہ جس طرح ہم خود اپنی مرضی سے گمراہ ہوئے تھے۔ اسی طرح ہم نے ان کے سامنے بھی گمراہی پیش کی اور انہوں نے اپنی مرضی سے اسے قبول کرلیا۔ (وحیدی بتصرف) 7۔ یعنی یہ ہماری نہیں بلکہ اپنے ہی نفس کی بندگی کرتے تھے۔ خود ان کے دل میں یہ سمایا کہ ہماری بندگی کریں اس لئے ہماری بندگی کرنے لگے لہٰذا ہم پر ان کے گمراہ ہونے کی ذمہ داری نہیں۔ (وحیدی) شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں :” یہ شیطان بولیں گے بہکایا تو انہوں نے نام لے کر نیکیوں کا اسی لئے کہا کہ ہم کو نہ پوجتے تھے۔ القصص
64 8۔ یعنی خالص توحید کا راستہ اختیار کرتے تو آج اس انجام بد سے دوچار نہ ہوتے۔ القصص
65 9۔ جب انہوں نے تمہیں میرا پیغام پہنچایا اور اس پر چلنے کی ہدایت کی ؟ اوپر ندائے اول میں توحید کے متعلق سوال کا ذکر ہے اور ابندائے ثانی میں نبوت کے متعلق ہے۔ یہی دو سوال قبر میں ہوں گے یعنی من ربک و من تبیک (قرطبی۔ ابن کثیر) القصص
66 10۔ یعنی دہشت کے مارے اس قدر ہکا بکا ہوں گے کہ نہ خود کوئی جواب سوجھے گا اور نہ ایک دوسرے سے پوچھ کر کوئی بات کہہ سکیں گے۔ قیامت کے دن مختلف مقامات ہوں گے اس لئے کسی دوسرے مقام پر ان کا واللہ ربنا ما کنا مشرکین“ کہنا اس کے خلاف نہیں ہے۔ (دیکھئے انعام :23) القصص
67 القصص
68 11۔ یعنی اسے یقینا نجات ملے گی کیونکہ اللہ تعالیٰ جس چیز کی امید دلاتا ہے اس کے ہونے میں کوئی شک نہیں ہوتا یا عسیٰ سے اس بات کی طرف اشارہ ہو کہ نجات پانا اللہ کے فضل سے ہوگا ورنہ یہ اللہ تعالیٰ پر واجب نہیں ہے۔12۔” یا جو چاہتا ہے اختیار کرتا ہے“۔ جیسے فرمایا : لا یسئل عما یفعل و ھم یسائولون۔ (انبیاء :23) یا ” جن کو چاہتا ہے (اپنے دین کی مدد کے لئے) پسند فرما لیتا ہے۔ سو اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام (رض) کو چن لیا اور ان میں سے پھر چار (خلفاء اربعہ) کو خاص طور پر منتخب کرلیا جیسا کہ حضرت جابر (رض) سے ایک مرفوع روایت میں ہے۔ (قرطبی) 13۔ کہ خدا کے حکم کے بغیر کوئی کام کرسکیں بلکہ خود بندے اور ان کے سب کام خدا کے پیدا کئے ہوئے ہیں۔ البتہ ظاہر میں بندوں کو ایک طرح مختار بنایا گیا ہے جس پر ثواب و عقاب کا مدار ہے۔ لیکن پھر بھی تکوینی طور پر سب اللہ کی قضا و قدر کے سامنے مجبور ہیں۔ اہل حدیث کا مذہب یہی ہے نہ وہ جبری ہیں کہ بندے کو مجبور محض کہیں اور نہ قدری کہ بندے کو کلی مختار سمجھیں۔ نبیﷺ نے اس مسئلہ میں بحث کرنے کی ممانعت فرما دی ہے اور پہلی بدعت جو مسلمانوں میں ظاہر ہوئی اسی مسئلہ میں بحث تھی۔ (وحیدی بتصرف) یا مطلب یہ ہے کہ بندے اس بات کے مجاز نہیں ہیں کہ وہ اپنی مرضی سے جسے چاہیں منتخب کرلیں۔ مخلوق اور پھر بنی نوع انسان میں کسی شخص کو ممتاز بنانا اور اسے کسی منصب پر فائز کرنا سراسر اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ سیاق کے اعتبار سے یہی معنی اقرب ہیں۔ 1۔ معلوم ہوا کہ اس کارخانۂ قدرت میں کسی بندے کو چاہے وہ ولی یا پیغمبر ہی کیوں نہ ہو کوئی اختیار نہیں ہے یہ تمام اختیارات صرف اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں۔ القصص
69 2۔ یعنی وہ ان کے دل کی باتوں کو بھی اسی طرح جانتا ہے جس طرح ان باتوں کو جنہیں وہ اپنی زبانوں پر لاتے ہیں۔ لہٰذا اگر یہ ایسا کریں کہ دلوں میں کفر و شرک یا نبیﷺ کی عداوت چھپائے رکھیں اور ظاہر میں مسلمان ہونے کا دعویٰ کرنے لگیں تو اس سے انہیں کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ القصص
70 القصص
71 3۔ کہ اسے سمجھو اور راہ ہدایت پائو۔ القصص
72 القصص
73 4۔” یعنی اسی نے اسباب و وسائل معیشت مہیا کئے تاکہ اس کی نعمتوں کا شکر بجا لائو“… معلوم ہوا کہ فطری طریق یہی ہے کہ انسان دن کو کام کرے اور رات کو آرام اور عموماً ہوتا بھی ایسا ہی ہے پھر دونوں وقت دونوں کام ہوتے ہیں۔ (کذا فی الموضح) القصص
74 5۔ اس سے پہلے بھی یہی مضمون تھا۔ اسے دہرایا اس لئے گیا کہ کافروں کو تو بیخ و زجر کے طور پر بار بار اس قسم کی آواز دی جائے گی۔ کبھی وہ اپنے جھوٹے معبودوں کو پکاریں گے اور کوئی جواب نہ پائیں گے اور کبھی مایوس ہو کر خاموش ہو رہیں گے۔ (کذانی ابن کثیر) القصص
75 6۔ یعنی وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس نے اس امت تک پیغام حق پہنچایا تھا کھڑے ہو کر گواہی دیگا کہ اس کی امت نے کہاں تک اس پیغام کو قبول کیا اور کہاں تک رد کردیا۔ اس احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ آخر کار امت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان انبیا ( علیہ السلام) کی شہادت کی تصدیق کے لئے پیش کیا جائے گا۔ دیکھئے سورۃ نساء آیت 41۔ (قرطبی) 7۔ جس کی بنا پر تم معافی کے مستحق قرار دے جا سکو۔ یا یہ ثابت کرو کہ واقعی ہمارے کچھ شریک تھے جو بندگی کے اسی طرح مستحق تھے جیسے ہم۔ (ابن کثیر) 8۔ ” جتنی جھوٹی باتیں انہوں نے گھڑ رکھی تھیں کافور ہوجائیں گی۔ “ القصص
76 1۔ اوپر بیان فرمایا تھا کہ جو کچھ مال و دولت یا اقتدار تمہیں حاصل ہے۔ یہ دنیا کا چند روزہ فائدہ ہے لہٰذا انسان کو اس پر مغرور نہیں ہونا چاہئے۔ اب قارون کا قصہ اس پر بطور دلیل پیش کیا۔ (قرطبی) نخعی (رح)، قتادہ (رح) اور دوسرے مفسرین (رح) کہتے ہیں کہ قارون حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کا چچا زاد بھائی تھا اور یہی بات بائیبل کتاب خروج (باب 6) میں مذکور ہے۔ بعض مفسرین اسے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کا خالہ زاد بھائی بتاتے ہیں۔ (فتح القدیر) بہرحال وہ بنی اسرائیل میں سے تھا۔ لیکن منافق ہو کر فرعون سے مل گیا تھا بلکہ اس کا مقرب بن گیا تھا۔ قرآن میں دوسری جگہ اس کا ذکر فرعون اور اس کے وزیر ہامان کے ساتھ کیا گیا ہے۔ (دیکھئے غافر :24) القصص
77 2۔ یعنی دنیا میں آخرت کے لئے نیک کام کرتا وہ کیونکہ دنیا میں انسان کا حصہ اس کی عمر اور نیک عمل ہی ہیں۔ جمہور مفسرین (رح) نے اس کا یہی مطلب بیان کیا ہے۔ بعض نے لکھا ہے کہ دنیا میں حلال رزق سے متمتع ہونے اور حلال روزی طلب کرنے کا حصہ ضائع نہ کر اور دنیا کے انجام پر غور کرتا رہ جیسے حضرت ابن عمر (رض) نے فرمایا : اخرت لدناک کانک تعیش ابدا و اعمل لاخرتک کانک لموت غدا (کذا فی القرطبی)۔ شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں :” حصہ موافق کھا پہن اور زیادہ مال سے آخرت کما۔“ (موضح) 3۔ یہاں ” احسان“ کے معنی ہیں ” خلوص سے اللہ کی عبادت کرنا“۔ جیسا کہ حدیث میں ہے کہ حضرت جبرئیل ( علیہ السلام) نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے احسان کے بارے میں دریافت کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ان تعبد اللہ کا…“ کہ تم اللہ تعالیٰ کی اس طرح عبادت کرو جیسے تم اسے دیکھ رہے ہو۔ بعض نے یہاں ” احسن“ کے معنی ” بندوں کے ساتھ احسان کرنا“ لئے ہیں۔ بہرحال ” احسان کی تاویل میں مختلف اقوال ہیں۔ سب کا جامع مفہوم یہ ہے کہ ” اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کو طاعت الٰہی میں صرف کرنا۔“ (قرطبی۔ شوکانی) 4۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی معصیت کے کام نہ کرو۔ ظاہر ہے کہ دنیا میں سب سے بڑا دہند (فساد مچانا) اللہ تعالیٰ کے احکام کی خلاف ورزی کرنا ہے۔ شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں :” خرابی نہ ڈال یعنی حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کی ضد نہ کر“۔ (موضح)۔ القصص
78 5۔ لہٰذا اللہ کا مجھ پر کوئی احسان نہیں ہے جو میں اس کا شکر بجا لائوں۔ (کذا فی الموضح) اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اللہ نے مجھے جو مال دیا ہے میرے اوصاف کو جانتے ہوئے دیا ہے۔ اگر میں اس کی نگاہ میں ناپسندیدہ آدمی ہوتا تو وہ مجھے یہ مال کیوں دیتا؟۔ (کذا فی القرطبی) 6۔ مطلب یہ ہے کہ اگر قوت و اقتدار اور مالداری کسی کے پسندیدہ ہونے کی دلیل ہوتی تو اللہ تعالیٰ ان پہلی قوموں کو کیوں تباہ کرتا جو اس سے زیادہ طاقت ور اور مالدار تھیں۔ (قرطبی) 7۔ یعنی ان کے گناہ اتنے زیادہ اور واضح ہونگے کہ پوچھنے کی ضرورت نہ ہوگی یا یہ کہ ان کو معاف کرنے کے لئے نہیں پوچھا جائے گا۔ دیکھئے۔ (النحل :84) بلکہ ان سے سوال ہوگا تو اس لئے کہ انہیں زجر و توبیخ کی جائے جیسے فرمایا : فوربک لنسالنھم اجمعین۔ اور تیرے رب کی قسم، ہم ان سب سے سوال کریں گے۔ (حجر :92) یا یہ کہ انہیں جو سزا دی جائے گی وہ ان سے پوچھ کر تھوڑا ہی دی جائے گی بلکہ فرشتے ان کی صورت دیکھتے ہی پہچان لیں گے کہ یہ مجرم ہیں کیونکہ ان کے چہرے سیاہ اور آنکھیں نیلی ہوں گی۔ دیکھئے سورۃ الرحمن آیت :4۔ سورۃ طہ :102۔ (شوکانی) القصص
79 8۔ اس جلوس کے بارے میں مفسرین (رح) کے مختلف اقوال ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ وہ بڑے ٹھاٹ باٹ اور شان و شوکت سے نکلا جسے دیکھ کر اس کی قوم کے لوگ دنگ رہ گئے۔ القصص
80 1۔ یعنی اپنا اصلی گھر آخرت کو سمجھتے ہیں۔ دنیا کی تکالیف کو عارضی اور چند روزہ سمجھ کر کسی نہ کسی طرح گزار دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے شکوہ شکایت کا کوئی لفظ زبان پر نہیں لاتے۔ شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں :” دنیا سے آخرت کو وہی بہتر جانتے ہیں جن سے محنت سہی جاتی ہے۔ اور بے صبر لوگ حرص کے مارے دنیا کی آرزو پر گرتے ہیں۔ نادان آدمی دنیا دار کی آسودگی کو جانتا ہے (یعنی اس کی آسودگی کو دیکھ کر سمجھتا ہے کہ یہ بڑا قسمت والا ہے) اس کی فکر کو اور آخر کی (یعنی آخرت کی) ذلت اور سوجائی (یعنی سو جگہ) خوشامد کرنے کو نہیں دیکھتا ہے کہ دنیا میں آرام ہے تو دس بیس برس اور مرنے کے بعد کاٹنے ہیں ہزاروں برس۔ “ القصص
81 2۔ یعنی نہ کوئی دوسرا اس کی مدد کرسکا اور نہ وہ خود اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچا سکا۔ گویا نہ دوسروں کی مدد کام آئی نہ اپنی قوت۔ (ابن کثیر) حدیث میں ہے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” ایک شخص تکبر سے اپنا ازار زمین پر کھینچتے ہوئے جا رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اسے زمین میں دھنسا دیا اور وہ قیامت تک زمین دھنستا چلا جائے گا۔“ علمائے تفسیر (رح) کا رجحان یہ ہے کہ اس سے قارون مراد ہے۔ واللہ اعلم۔ (ابن کثیر) القصص
82 3۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے کسی کو رزق زیادہ دینے کا مطلب لازماً یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے خوش ہے۔ اسی طرح اگر اللہ تعالیٰ کسی کا رزق تنگ کرتا ہے تو اس کا مطلب لازماً یہ نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ اس سے ناراض ہے۔ بسا اوقات بے پناہ دولت انسان کی تباہی کا موجب بن جاتی ہے اور بسا اوقات تنگی انسان کے صبر و شکر کا امتحان لینے کے لئے آتی ہے۔ حدیث میں ہے کہ مال تو اللہ تعالیٰ اپنے محبوب اور مبغوض دونوں کو دے دیتا ہے مگر ایمان کی دولت اسی کو نصیب ہوتی ہے جو اللہ کا محبوب ہوتا ہے۔ (ابن کثیر) 4۔ یعنی ہم یہ سمجھ رہے تھے کہ دنیا کی خوشحالی اور دولت مندی ہی بڑی کامیابی ہے اور اس بنا پر ہم قارون کو بڑا بانصیب آدمی خیال کرتے تھے۔ لیکن اب معلوم ہوا کہ ہمارا یہ سمجھنا غلط تھا۔ اصل کامیابی اور حقیقی فلاح کچھ اور ہی ہے جو کافروں کو نصیب نہیں ہوتی بلکہ صرف اہل ایمان کے حصہ میں آتی ہے۔ القصص
83 5۔ یعنی جنت۔6۔ یعنی تکبر و غرور نہیں کرتے بلکہ خدا کے عاجز بندے بن کر رہتے ہیں۔7۔ یعنی نہ اللہ کی معصیت کا ارتکاب کر کے انسانی زندگی کے نظام میں بگاڑ پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ (قرطبی) 8۔ یعنی جو خدا سے ڈرتے ہیں اور اس کی نافرمانی سے پرہیز کرتے ہیں۔9۔ یعنی دس سے لے کر سات سو نیکیوں کا ثواب ملے گا۔ (دیکھئے سورۃ نمل آیت 89) القصص
84 10۔ یعنی ایک برائی کی سزاصرف اتنی ہی ملے گی جتنی خود وہ برائی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر فضل و کرم ہے کہ نیکی کا ثواب بہت بڑھا کردیتا ہے اور برائی کا بدلہ صرف اس برائی کے مطابق۔ القصص
85 11۔ یا ” جس نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قرآن کے احکام و فرامین پر عمل کرنافرض کیا۔ اس کے یہ دونوں مطلب مفسرین (رح) نے بیان کئے ہیں۔ (شوکانی) 12۔ مراد ہے مکہ کی طرف۔ اکثر مفسرین (رح) نے یہی مفہوم بیان کیا ہے۔ ضحاک (رح) کہتے ہیں کہ ہجرت کے وقت جب نبیﷺ مکہ سے نکل کر حجفہ پہنچے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دل میں مکہ کا اشتیاق پیدا ہوا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (شوکانی) اس میں فتح مکہ کی خوشخبری دی ہے۔ (قرطبی) یہ آیت اتری ہجرت کے وقت۔ یہ تسلی فرمائی کہ پھر مکہ آئو گے سو خوب طرح آئے پورے غالب ہو کر۔ (موضح) بعض نے ” معاد“ سے مراد موت اور بعض نے جنت لی ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) نے اس کی تفسیر ” آخرت“ سے بھی کی ہے۔ دراصل فتح مکہ ہی قرب موت کی علامت تھی جیسا کہ سورۃ ” اذا جاء نصر اللہ الخ“ کی تفسیر سے معلوم ہوتا ہے۔ اس لئے مکہ کی طرف لوٹنا موت سے کنایہ ہوسکتا ہے اور موت ذریعہ ہے عالم آخرت میں پہنچنے کا، جس کے بعد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جنت کے اعلیٰ مقام میں پہنچ جائیں گے۔ لہٰذا ان اقوال میں اختلاف نہیں ہے۔ (ابن کثیر) 13۔ یہ دراصل کفار مکہ کا جواب ہے جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ” انک فی ضلال“ کہتے تھے۔ القصص
86 1۔ اس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دعوائے نبوت میں سچا ہونے کی دلیل ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نزول وحی سے قبل یہ خیال تک بھی نہ تھا کہ مجھے منصب نبوت سے سرفراز کیا جائے گا اور نہ اس سے قبل آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان سے اس قسم کی باتیں سنی گئیں جن کو دعوائے نبوت کے لئے تمہید قرار دیا جائے جیسا کہ فی ماننا متنبین کی عادت ہے۔ اسی طرح دوسرے انبیا ( علیہ السلام) کو بھی منصب نبوت سے یکایک سرفراز کیا گیا۔ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) مدین سے مصر واپس جا رہے تھے کہ راستے میں کوہ طور پر بلا کر نبوت سے مشرف کردیئے گئے۔ نیز نبوت وہی چیز ہے جس میں انسان کے کسب کو دخل نہیں ہے : ” الا رحمۃ من ربک“ سے اسی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ 2۔ کیونکہ یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اس نعمت کا حق ہے جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بے مانگے عطا فرمائی گئی۔ القصص
87 القصص
88 3۔ یا ” حکومت اسی کے لئے ہے یعنی وہ اس کا حق رکھتا ہے۔4۔ پھر وہی ہر ایک کو اس کے نیک یا بدعمل کا بدلہ دے گا۔ القصص
0 5۔ اس سورۃ کے مکی یا مدنی ہونے میں مفسرین (رح) کا اختلاف ہے۔ بعض اسے مکی کہتے ہیں اور بعض مدنی۔ بعض نے کہا ہے کہ ہے تو یہ سورۃ مکی مگر شرع کی دس آیتیں مدنی ہیں۔ حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ یہ مکہ اور مدینہ کے درمیان نازل ہوئی۔ (شوکانی) العنكبوت
1 العنكبوت
2 6۔ یعنی ایسا نہیں ہوسکتا بلکہ آزمائش ضرور ہوگی تاکہ منافق کو مخلص سے اور سچے کو جھوٹے سے ممیزکر دیا جائے۔ متعدد روایات میں ہے کہ مکہ میں جب مسلمان سخت ابتلا میں تھے اور ان پر ظلم و ستم ڈھائے جا رہے تھے تو انہوں نے تنگ آ کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے درخواست کی کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے اس پر یہ آیات نازل ہوئیں اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ کی راہ میں تمہیں جو تکلیفیں اذیتیں پہنچ رہی ہیں وہ بے شک سخت ہی مگر پہلے لوگوں کو تو یہاں تک تکالیف سے دوچار ہونا پڑا کہ ایک آدمی زمین میں گاڑ کر کھڑا کردیا جاتا اور پھر اس کے سر پر آرہ چلا کر چیر دیا جاتا مگر وہ اپنے دین سے نہ پھرتا۔ الخ نیز دیکھئے بقرہ :214۔ (قرطبی) العنكبوت
3 7۔ یعنی یہ کوئی نیا معاملہ نہیں ہے جو تمہارے ساتھ پیش آیا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی یہ مستقل سنت رہی ہے اور پہلے لوگوں کی بھی آزمائشیں ہوتی رہی ہیں۔8۔ لفظی ترجمہ یوں ہے کہ ” اللہ ضرور معلوم کرے گا کہ سچے کون ہیں اور جھوٹے کون؟ لیکن مطلب یہ ہے کہ الگ الگ کر کے دکھلا دے گا کیونکہ اس کو تو سب حال پہلے سے معلوم ہے اور اس کا علم ازلی اور قدیم ہے۔ العنكبوت
4 9۔ الفاظ گو عام ہیں مگر روئے سخن کفار مکہ اور ان کے سرداروں کی طرف ہے جو مسلمانوں کو اذیتیں پہنچا رہے تھے اور ان کو سخت تنبیہ کی ہے۔ العنكبوت
5 العنكبوت
6 10۔ اس سے مراد ہے نیک کاموں میں مشقت اٹھاتا۔ کفار اور اپنے نفس سے مجاہدہ بھی اس میں شامل ہے۔ 1۔ اس کو نہ کسی کی عبادت سے کوئی فائدہ ہے اور نہ کسی کے گناہ سے کوئی نقصان۔ بلکہ اگر کسی کو توفیق ملی ہے تو اسے مزید اللہ تعالیٰ کا شکرگزار ہونا چاہئے۔ (دیکھئے سورۃ آل عمران 97 و سورۃ نمل 40) العنكبوت
7 2۔ حتیٰ کہ بعض کے نزدیک کفرکی حالت میں جو نیک عمل کئے تھے ان کی جزا بھی مل جائے گی اور پھر ایمان لانے کے بعد ایک نیکی کا دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک بلکہ اس سے بھی زیادہ بدلہ ملے گا (قرطبی) حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں : یعنی ایمان کی برکت سے نیکیاں ملیں گی اور برائیاں معاف ہوجائیں گی۔ (موضح) العنكبوت
8 3۔ یعنی ان کی خدمت کرے اور ان سے عاجزی سے پیش آئے۔ (دیکھئے سورۃ اسرا آیت 23۔24) 4۔” یعنی جس کے شریک ہونے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔“ بھلا شرک پر دلیل کیسے ہو سکتی ہے۔ یہ تو وہم پرستی اور اندھی تقلید سے وجود میں آیا ہے۔5۔ اس لئے کہ خالق کی معصیت میں مخلوق کی اطاعت جائز نہیں ہے۔ ماں باپ ہوں یا کوئی اور سب کی اطاعت اس صورت میں ہے جب ان کا حکم اللہ و رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم کے مطابق ہو یا کم از کم اس کے خلاف نہ ہو۔ مروی ہے کہ یہ آیت حضرت سعد (رض) بن ابی وقاص کے بارے میں نازل ہوئی۔ جب وہ اسلام لائے تو ان کی والدہ نے کہا : ” کیا اللہ نے تمہیں ماں سے نیک سلوک کرنے کا حکم نہیں دیا؟ اللہ کی قسم جب تک تم محمد (ﷺ) سے انکار نہ کرو گے میں نہ کچھ کھائوں گی اور نہ پیئوں گی یہاں تک کہ مر جائوں۔“ چنانچہ اس نے مرن برت رکھ لیا۔ اس کے رشتہ دار جب اسے کھلانا چاہتے تو اس کا منہ کھول کر زبردستی کھلاتے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (ابن کثیر) 6۔ یعنی بتلائوں گا کہ تمہارے اعمال کہاں تک نیک تھے اور کہاں تک برے؟ پھر ہر ایک اعمال کی جزا اور بداعمال کی سزا دوں گا۔ العنكبوت
9 7۔ یعنی ان کا حشر نیکوں کے ساتھ کرینگے یا انہیں نیکوں کی جگہ (جنت) میں داخل کریں گے اور پھر ایسی اولاد اپنے مشرک والدین کے ساتھ نہیں اٹھائی جائے گی گو دنیا میں ان کے ساتھ سب سے زیادہ قریبی رشتہ تھا کیونکہ قیامت کے دن حشر انہی کے ساتھ ہوگا جن سے محبت دینی تھی۔ (ابن کثیر) العنكبوت
10 8۔ یعنی جس طرح اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈر کر کفر و معصیت سے باز آجانا چاہئے۔ یہ ان کافروں اور بدعتیوں کی پہنچائی ہوئی تکلیفوں سے ڈر کر ایمان اور حق بات کو چھوڑ بیٹھتے ہیں اور ایمان سے دست بردار ہوجاتے ہیں۔ یہ حال منافقین کا ہے۔ (دیکھئے سورۃ حج آیت 11) 9۔ حالانکہ جھوٹ بولتے ہیں۔ مزید وضاحت کے لئے دیکھئے۔ (سورہ نسا آیت :14) 10۔” جو ان کے دلوں کا حال اس پر پوشیدہ رہے“؟ العنكبوت
11 11۔ یعنی ایسی آزمائشیں بھیج کر اور ایسے حالات پیدا کر کے جن میں یہ منافق اپنے دلوں کا حال چھپائے نہیں رہ سکیں گے۔ العنكبوت
12 العنكبوت
13 1۔ اسی کو نبیﷺ نے ایک حدیث میں یوں بیان فرمایا ہے : من سن سنۃ سیئۃ فعلیہ وزرعا و وزرمن عمل بھا۔ (دیکھئے سورۃ محمد آیت :3) جس نے کوئی برا طریقہ جاری کیا تو اس پر اپنا وبال بھی ہے اور ان تمام لوگوں کا وبال بھی جنہوں نے اس برے طریقہ کی پیروی کی۔ (شوکانی بحوالہ صحیح مسلم عن ابی ہریرہ) نیز دیکھئے۔ (سورۃ نحل آیت 45) 2۔ یعنی اللہ تعالیٰ پر بہتان باندھتے رہے۔ مقاتل (رح) کہتے ہیں کہ اس سے مراد ان کا یہ کہنا ہے کہ ہم تمہارے ذمہ دار ہیں جو وبال تم پر پڑے گا ہم اسے اپنے سر لے لیں گے۔ اس پر بھی ان سے سوال اور مواخذہ کیا جائے گا۔ العنكبوت
14 3۔ سورۃ کے آغاز میں جو یہ فرمایا گیا تھا کہ ہم نے پہلے لوگوں کی بھی آزمائش کی ہے اسی کی تصدیق اور تفصیل کے لئے یہاں سے حضرت نوح ( علیہ السلام) اور دوسرے انبیا ( علیہ السلام) کے واقعات نقل کئے جا رہے ہیں اور اس سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینا بھی مقصود ہے۔ (قرطبی۔ شوکانی) 4۔ حضرت نوح ( علیہ السلام) کے اپنی قوم کو سمجھانے کی مدت ساڑھے نو سو سال تھی۔ ظاہر ہے کہ منصب نبوت پر سرفراز ہونے سے پہلے بھی انہوں نے عمر ایک حصہ گزارا ہوگا اور طوفان کے بعد بھی زندہ رہے ہوں گے۔ اس لئے مفسرین میں سے بعض ان کی کل عمر 1400 اور بعض 1700 سال بتاتے ہیں۔ بہرحال ان کی عمر کم سے کم ایک ہزار سال تو ہونی ہی چاہئے۔ (شوکانی) بائیبل نے ان کی کل عمر 950 سال بتائی ہے۔ العنكبوت
15 5۔ وہ صدیوں تک جودی پہاڑ کی چوٹی پر موجود رہی اور بعد کی نسلوں کو خبر دیتی رہی کہ اس سرزمین میں کبھی ایسا طوفان آیا تھا۔ جس کی بدولت یہ اتنی بڑی کشتی پہاڑ کی چوٹی پر پہنچی اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ” وجعلناھا“ میں ” ھا“ کی ضمیر اس واقعہ یا عذاب کے لئے قرار دی جائے۔ (شوکانی) العنكبوت
16 6۔ یعنی اس کے ساتھ شرک اور اس کی نافرمانی کرنے سے ڈرو۔7۔ اور شرک میں کسی طرح کی کوئی بہتری نہیں ہے یا ” اگر تمہیں کچھ بھی علم ہے“ جس سے تم خیر و شر میں تمیز کرسکو۔ (شوکانی) العنكبوت
17 8۔ جو ان بتوں کو خدا کا شریک قرار دیتے ہو۔ بلکہ تمہارا ان بتوں کو گھڑنا خود ایک جھوٹ گھڑنا ہے۔9۔ نہ کہ کسی اور کی طرف، لہٰذا تمہارا انجام اور تمہاری عاقبت سنوارنا بھی صرف اسی کے اختیار میں ہے۔ العنكبوت
18 10۔ جیسے حضرت نوح ( علیہ السلام)، ہود اور صالح علیہم السلام کی قومیں۔ مگر دیکھ لو کہ ان قوموں نے پیغمبروں کو جھٹلا کر پیغمبروں کا کچھ بگاڑا یا اپنا انجام خود خراب کیا۔ یہ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کا کلام ہے یا ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہو اور مخاطب کفار قریش ہوں۔ (شوکانی) 11۔ کسی کے ماننے یا نہ ماننے کی اس پر کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔ (وحیدی) العنكبوت
19 العنكبوت
20 1۔ بلکہ دوبارہ پیدا کرنا ” نشات اولی“ سے زیادہ آسان ہے۔ جیسے فرمایا : وھو الذی یبداء الخلق ثم یعیدہ و ھو اھون علیہ۔ اور وہی ہے جو خلق کی ابتدا کرتا ہے اور پھر اس کا اعادہ کرتا ہے اور یہ اعادہ (دوبارہ پیدا کرنا) اس کے لئے آسان تر ہے۔ (روم :27) 2۔ مطلب یہ ہے کہ پہلی پیدائش کیا کم عجیب ہے جو باوجود اتنی کثرت کے اپنے رنگ و طبائع اور بولیوں کے اعتبار سے باہم مختلف ہے اور پھر آدمی کس طرح مختلف اطوار کے بعد پیدا ہوتا ہے تو جو پروردگار ایسے عجیب کام کرتا ہے۔ اس کے لئے کیا مشکل ہے کہ انسان کو دوبارہ پیدا کرسکے۔ (وحیدی بتصرف) العنكبوت
21 العنكبوت
22 3۔ یعنی تم اس کی گرفت سے بچ کر کہیں نہیں بھاگ سکتے۔ جہاں ہو گے یا جہاں جائو گے بہرحال اس کی گرفت میں ہو گے۔ (دیکھئے سورۃ الرحمن آیت 33) اور جیسا کہ دوسرے مقام پر فرمایا : ولو کنتم فی بروج مشلۃ(قرطبی) 4۔ مطلب یہ ہے کہ نہ تم خود اتنے زور آور ہو کہ کہیں بھاگ کر خدا کی گرفت سے نکل سکو اور نہ تمہارے کوئی حمایتی و مددگار ہیں جو تمہیں خدا کی گرفت سے بچا سکیں۔ العنكبوت
23 5۔ یہی وجہ ہے کہ ان پر کوئی نصیحت اثر نہیں کرتی یا قیامت کے دن میری رحمت (جنت) سے مایوس ہوجائیں گے۔ یہ چند آیات کفار مکہ کی تذکیر و تحذیر کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطور جملہ معترضہ ہیں۔ ان کے بعد پھر حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کا قصہ شروع ہو رہا ہے۔ (قرطبی) العنكبوت
24 6۔ ” ان کو آگ میں ڈال دیا“ کی اگرچہ آیت میں تصریح نہیں ہے لیکن بعد کے جملہ ” اللہ تعالیٰ نے اس کو آگ سے بچا دیا“ سے خود بخود نکلتی ہے۔ باقی رہا آگ کا ٹھنڈا ہونا تو اس کی تصریح سورۃ انبیا کی اس آیت میں کردی گئی ہے : قلنا یا نارکونی بردا و سلاما علی ابرایم۔ (آیت :69) ہم نے کہا اے آگ ابراہیم ( علیہ السلام) کے لئے ٹھنڈک اور راحت بن جا۔“ ظاہر ہے کہ اگر حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کو آگ میں ڈالا ہی نہ گیا ہو تو آگ کو یہ حکم دینے کے کوئی معنی ہی نہیں ہیں اور نہ یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں آگ سے بچا یا۔7۔ کہ کس طرح حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) نے اپنے خاندان اور اپنی قوم کی مخالفت مول لی اور بڑی سے بڑی آزمائش کا سامنا کیا حتی کہ آگ میں ڈال دیئے گئے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ہر موقع پر ان کی مدد فرمائی اور آگ تک کو ان پر ٹھنڈک اور آرام بن جانے کا حکم دیا۔ (شوکانی وغیرہ) العنكبوت
25 8۔ یعنی اس لئے کہ تمہاری اجتماعیت کی عمارت استوار رہے اور گرنے نہ پائے۔ یعنی تم ڈرتے ہو کہ اگر تم نے ان معبودوں کی پرستش چھوڑ دی تو معاشرے کے لوگ ایک دوسرے سے پھٹ جائیں گے اور باہمی دوستی اور محبت کے علاقے کٹ جائیں گے۔ (شوکانی) 9۔ یعنی جب قیامت کے روز عذاب دیکھیں گے تو تمہاری دوستی و محبت کے تمام رشتے کٹ جائیں گے اور تم ایک دوسرے کو ملامت کرو گے، چیلے گروئوں پر لعنت بھیجیں گے۔ اور گرو چیلوں سے لاتعلقی کا اظہار کریں گے۔ تابع اور متبوع ایک دوسرے سے بیزار ہوں گے۔ (دیکھئے بقرہ :166) العنكبوت
26 1۔ یعنی حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کا یہ وعظ سن کر ان کا بھتیجا …الخ 2۔ یعنی وہ میری حمایت و حفاظت پر قادر ہے اور اس کے ہر کام میں حکمت ہے۔ قتادہ (رح) کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) نے ” کو تی“ سے جو کہ کوفہ کی بستیوں میں سے ایک بستی تھی احان کو ہجرت کی اور وہاں سے شام چلے گئے۔ اس سفر میں ان کے ساتھ ان کی بیوی سارہ اور ان کے بھتیجے حضرت لوط ( علیہ السلام) تھے۔ جب حضرت عثمان (رض) نے اپنی بیوی (حضرت رقیہ بنت رسول اللہﷺ) سمیت حبشہ کی طرف ہجرت کی تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” وہ سب سے پہلے شخص ہیں جنہوں نے حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) اور حضرت لوط ( علیہ السلام) کے بعد اپنی بیوی کے ساتھ ہجرت کی۔ (فتح القدیر بحوالہ ابن عساکر وغیرہ) العنكبوت
27 3۔ چنانچہ ان کے بعد جتنے انبیا دنیا میں آئے سب انہی کی اولاد میں سے آئے اور یہاں ” الکتاب“ کا توراۃ انجیل اور الفرقان سب کو شامل ہے۔ (قرطبی) 4۔ دنیا میں یہ بدلہ دیا کہ انہیں نیک اولاد عطا فرمائی۔ سلسلہ ٔ نبوت کو ان ہی کے خاندان میں جاری کیا اور رہتی دنیا تک ان کا ذکر خیر باقی رکھا۔ چنانچہ تمام امتیں چاہے وہ یہودی ہوں یا نصاریٰ یا مسلمان، انہیں اپنا پیشوا مانتی ہیں۔ مسلمان تو ان پر ہر نماز میں درود بھیجتے ہیں اور آخرت میں ان کے نیک بندوں میں سے ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھرپور اجر اور علی مرتبہ کے مستحق ہیں۔ اس آیت میں دین حق کی خاطر صبر کرنے میں حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کی قتا کی ترغیب پائی جاتی ہے۔ (قرطبی) العنكبوت
28 العنكبوت
29 5۔ یعنی فحش اور بدکاری کے کام چھپ کر ہیں بلکہ اپنی مجلسوں میں کھلم کھلا، ایک دوسرے کے سامنے، کرتے ہو۔ اسی کو سورۃ نمل میں یوں فرمایا : اتاتون الفاحشۃ وانتم تبصرون۔ کیا تم اسی طرح بدکاری کا ارتکاب کرتے ہو کہ آنکھوں سے (اسے ہوتا) دیکھ رہے ہوتے ہو“؟ (آیت 54) 6۔ سورۃ اعراف میں ہے : فما کان جواب قومہ الا ان قالوا اخرجوھم من قربتکم۔ پھر ان کی قوم والوں نے کوئی جواب (ان باتوں کا) نہ دیا۔ یہی کہنے لگے کہ انہیں اپنی بستی سے نکال دو۔ (کذافی سورۃ نمل) اور یہاں ان کا جواب یہ نقل کیا گیا ہے کہ اگر تم سچے ہو تو عذاب لے آئو۔ ہوسکتا ہے کہ پہلے تو حضرت لوط ( علیہ السلام) کے سمجھانے پر انہوں نے بستی سے نکال دینے کی دھمکی دی ہو اور پھر تنگ آ کر عذاب کا مطالبہ کردیا ہو۔ یا ممکن ہے ترتیب اس کے برعکس ہو۔ واللہ اعلم۔ (شوکانی) العنكبوت
30 العنكبوت
31 7۔ سورۃ ہود اور حجر میں اس کی تفصیل بیان کی گئی ہے کہ جو فرشتے قوم لوط کو تباہ کرنے بھیجے گئے۔ وہ پہلے حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کے ہاں حاضر ہوئے اور انہوں نے حضرت سارہ ( علیہ السلام) کو حضرت اسحاق ( علیہ السلام) اور ان کے بعد حضرت یعقوب ( علیہ السلام) کی خوشخبری دی اور پھر حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کے دریافت کرنے پر بتایا کہ ہمیں قوم لوط ( علیہ السلام) پر عذاب نازل کرنے بھیجا گیا ہے۔ العنكبوت
32 1۔ اور انہی کے ساتھ تباہ ہوگی۔ العنكبوت
33 2۔ کہ یہ فرشتے خوبصورت مردوں کی شکل میں آئے تھے اور حضرت لوط کو اپنی قوم کے اخلاق و عادات کا علم تھا۔ اس لئے وہ ان مہمانوں کو دیکھ کر سخت پریشان ہوئے کہ ان مہمانوں کو قوم کے غنڈوں سے کیونکر بچائوں گا۔3۔ یعنی اس بات سے نہ ڈرو کہ قوم کے غنڈے ہمارا کچھ بگاڑ سکیں گے اور نہ اس بات کا رنج (فکر) کرو کہ ہمیں ان کے قابو میں آنے سے کیونکر بچایا جائے کیونکہ ہم انسان نہیں، فرشتے ہیں جو اس قوم پر عذاب نازل کرنے بھیجے گئے ہیں۔ اتمام حجت کے لئے ہم ان شکلوں میں آئے ہیں۔ سورۃ ہود میں یہ تصریح ہے کہ فرشتوں نے یہ بات اس وقت کہی جب غنڈے حضرت لوط ( علیہ السلام) کے گھر آ دھمکے اور مطالبہ کرنے لگے ان لڑکوں کو ہمارے حوالے کردیا جائے۔ اس وقت حضرت لوط ( علیہ السلام) پریشان ہو کر پکار اٹھے : لو ان لی بکم قوۃ اوا دی الی رکن شدید اس پر فرشتوں نے انہیں تسلی دیتے ہوئے کہا : یا لوط انا رسل ربک لن یصلوا الیک۔ اے لوط ( علیہ السلام)، ہم تمہارے رب کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں یہ لوگ تم تک ہرگز نہ پہنچ سکیں گے۔ (ابن کثیر وغیرہ) العنكبوت
34 العنكبوت
35 4۔ تاکہ اس سے عبرت حاصل کریں کھلی نشانی سے مراد وہ پتھر بھی ہیں جو آسمان سے برسے تھے اور اس سرزمین میں موجود ہوں گے اور بقول مجاہد (رح) وہ کالا پانی بھی جو اس سرزمین میں ایا جاتا ہے اور ان دنوں ” بحر لوط“ یا ” بحرمیت“ کے نام سے مشہور ہے۔ (شوکانی) اس کھلی نشانی کے متعلق سورۃ حجر میں ارشاد ہے وانھا لسبیل مقیم۔ اور یہ بستی تو سیدھے راستہ پر ہے۔ (آیت 76) اور سورۃ صافات میں ہے : ” وانکم لتمرون علیھم لمصبحین بالیل۔ اور ” تم صبح اور رات کے وقت ان کے پاس سے گزرتے ہو۔“ (آیت 137) العنكبوت
36 العنكبوت
37 5۔ تفصیل کے لئے دیکھئے سورۃ اعراف رکوع 11، سورۃ ہود رکوع 8 مع حواشی۔ العنكبوت
38 6۔ شام کے راستے میں خیبر و تیما سے تبوک تک قوم ثمود کے آثار پائے جاتے ہیں اور قوم عاد کے آثار جزیرۂ عرب کے جنوبی علاقہ میں، جو احقاف اور حضرموت کے نام سے مشہور ہے، پائے جاتے ہیں۔ اب اگر یہ آثار مٹ چکے ہوں تو نزول قرآن کے زمانہ میں تو ضرور پائے جاتے ہوں گے اور عرب کا بچہ بچہ ان سے واقف ہوگا۔7۔ یعنی جاہل اور بدھو قسم کے لوگ نہ تھے۔ بڑے ہنر مند اور ترقی یافتہ تھے اور اپنے دنیوی معاملات بڑی ہوشیاری اور زیرکی سے سرانجام دیتے تھے مگر شیطان نے ان کی عقلوں پر پردہ ڈال دیا تھا اس لئے وہ دین کی سچی راہ نہ پا سکے۔ العنكبوت
39 العنكبوت
40 1۔ حضرت نوع ( علیہ السلام) کی قوم اور فرعون اور اس کے ساتھیوں کو جن میں ہامان بھی شامل تھا۔2۔ شرک اور مختلف انواع کے جرائم میں مبتلا تھے۔ اپنی فطرت کو بھی مسخ کرلیا اور اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف جو پیغمبر بھیجے ان کی بھی ایک نہ سنی۔ العنكبوت
41 3۔ اور سمجھتی ہے کہ اس گھر میں گرمی، سردی اور بارش سے محفوظ رہوں گی مگر دراصل یہ حماقت اور نادانی ہے۔ (شوکانی) 4۔ کہ ان کا اپنے ان دیوتائوں کو سرپرست بنانا ایسا ہی ہے جیسا مکڑی کا گھر بنانا، جس طرح مکڑی کا گھر ذرا سی چوٹ سے نیچے آرہتا ہے اسی طرح ان کے دیوتائوں کا آسرا بھی بودا ہے جو انہیں کسی مصیبت کے وقت کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا، انہیں پکارنا اور نہ پکارنا یکساں ہے۔ (شوکانی) العنكبوت
42 5۔ یہ ترجمہ اس صورت میں ہے جب ” ما یدعون“ کے ” ما“ کو استفہامیہ قرار دیا جائے اور اگر اسے نافیہ قرار دیا جائے تو ترجمہ یوں ہوگا۔ ” اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ یہ لوگ اس لے سوا کسی چیز کو نہیں پکارتے یعنی وہ کوئی چیز نہیں ہے کہ اسے پکارنا ان کے کسی کام آسکے اور یہاں ایک تیسرا احتمال بھی ہے کہ ” ما“ مصدر بیان لیا جائے۔ (شوکانی) 6۔ اسی کو پکارنا، اسی کے سامنے التجائیں کرنا اور اسی سے مرادیں مانگنا کام آسکتا ہے۔ العنكبوت
43 7۔ علم والوں سے مراد ایسے لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی کتاب اور آفاق میں پھیلی ہوئی نشانیوں پر سوچ بچار کرتے ہیں۔ ایسے لوگ ہی راسخ فی العلم کہلانے کے مستحق ہیں۔ (شوکانی) العنكبوت
44 8۔ ان کے بنانے میں بندوں کی تمام ضرورتوں اور مصلحتوں کا خیال رکھا گیا ہے۔ ان کو تفریحاً … نہیں بنایا گیا ہے۔ (شوکانی۔ ابن کثیر) بعض نے حق سے مراد کلام اور قدرت بھی لی ہے۔ (قرطبی) 9۔ یعنی جو لوگ دل میں جذبہ ایمان رکھتے ہوئے اس نظام کائنات پر غور کریں گے۔ ان پر یہ حقیقت کھل جائے گی کہ یہ نظام نہ کسی خالق کے بغیر بنا ہے اور نہ اس کے ایک سے زیادہ خالق ہو سکتے ہیں۔ بس ایک ہی ذات پاک ہے جس نے اسے پیدا کیا اور وہی اس کی حقدار ہے کہ اس کی عبادت کی جائے۔ (ابن کثیر بتوضیح) العنكبوت
45 1۔ ” اور لوگوں تک اس کے احکام و فرامین پہنچاتا رہ“ تاکہ میں ایمان، سیرت کی پختگی اور مصائب و شدائد برداشت کرنے کی اطاعت پیدا ہو۔ 2۔ نماز سے مراد تمام فرض نمازیں ہیں اور اسے درستی سے ادا کرنے کا مطلب پورے ارکان و شرائط و سنن، طمانیت اور خشوع و خضوع سے ادا کرنا ہے۔ (قرطبی) مزید وضاحت کے لئے دیکھئے۔ (سورہ بقرہ حاشیہ آیت) 3۔ یعنی آخر کار اس کے بے حیائی اور برے کاموں سے رک جانے کا سبب بنتی ہے۔ اور یہ ناممکن ہے کہ ایک شخص صحیح طور پر نماز گزار ہو اور پھر بے حیائی اور برے کاموں سے بھی چمٹا رہے۔ بعض روایات میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی اس کی تصریح کی ہے جیسا کہ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : انہ سینواہ ماتقول کہ اس کی یہ عادت سے اسے چوری سے روک دے گی اور اگر نماز کا یہ اثر انسان کی عملی زندگی میں ظاہر نہ ہو تو سمجھنا چاہئے کہ وہ نماز، نماز ہی نہیں ہے جیسا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : من لم تنھہ صلاتہ عن الفحشاۃ و المنکر فلاصلاۃ لہ کہ جس شخص کو اس کی نماز بے حیائی اور برے کام سے نہ روکے، اس کی نماز، نماز ہی نہیں ہے اور دوسری روایت میں مزید فرمایا : لم یزد بھا من اللہ الا بعدا کہ اس کی نماز اللہ تعالیٰ سے قرب کی بجائے دوری ہی پیدا کرے گی۔ (ابن کثیر وغیرہ) اور ” تنھی“ کے یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ نماز سے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ ” الصلوات الخمس یمحوا اللہ بھن الخطایا“ اور ہوسکتا ہے کہ خبر بمعنی امر ہو۔ یعنی جو شخص نماز پڑھتا ہے اسے چاہئے کہ معاصی کو ترک کر دے۔ (قرطبی) 4۔ اور نماز اللہ کو یاد کرنے کی بہترین صورت ہے بلکہ اس کا مقصد اللہ تعالیٰ ہی کی یاد کو تازہ کرتے رہنا ہے۔ جیسے فرمایا : اقم الصلوٰۃ لذکری کہ میری یاد کے لئے نماز قائم کرو۔ (طہ :14) یا مطلب یہ ہے کہ بندہ تو اللہ کو یاد کرتا ہے مگر اللہ تعالیٰ کا اپنے بندے کو یاد کرنا اس سے بڑھ کر ہے اور وہ ہے بندے پر ہدایت اور نور علم کا فیضان۔ (قرطبی) شاہ صاحب اپنی توضیح میں لکھتے ہیں۔ ” جتنی دیر نماز میں لگے اتنے تو ہر گناہ سے بچے۔ امید ہے کہ آگے بھی بچتا رہے اور اللہ کی یاد کو اس سے زیادہ اثر ہے۔ یعنی گناہ سے بچے اور اعلیٰ درجوں پر چڑھے۔“ (موضح) العنكبوت
46 5۔ یعنی معقول دلائل اور شائستہ زبان کے ساتھ ان کے انبیا اور ان کی کتابوں کا ادب ملحوظ رکھتے ہوئے۔ یہی حکم اب بھی ہے (ابن جریر) نیز دیکھئے۔ (سورہ نمل :125) 6۔ یعنی اگر وہ صریح بے انصافی، ضد اور ہٹ دھرمی پر تل جائیں تو ان سے ان کے رویہ کے مطابق سختی کا برتائو بھی کرسکتے ہو۔ مجاہد فرماتے ہیں کہ ان سے مراد مشرکین اہل کتاب ہیں۔ یا وہ جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایذا رسانی پر تلے رہتے تھے۔ بہرحال یہ آیت مکی ہے اس سے قتال ثابت نہیں ہوتا۔ (روح) 7۔ یعنی توراۃ، انجیل، زبور اور ان دوسرے صحیفوں پر جو تمہارے انبیا پر نازل ہوئے۔ ایک حدیث میں بھی اسی کی تلقین فرمائی گئی ہے : لاتصدقوا اھل الکتاب ولا تکذبومھم و قولوا امنا“ گویا یہ بھی ” وجادلھم بالتی ھی احسن“ کی ایک صورت ہے۔ (تنبیہ) پہلی کتابوں کے متعلق اجمالی طور پر یہ تسلیم کرنا تو ضروری ہے کہ وہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اتاری گئی ہیں، مگر عمل صرف قرآن و حدیث پر کیا جائے گا جیسا کہ ایک حدیث میں ہے کہ ” اہل کتاب سے کوئی مسئلہ دریافت نہ کرو اس لئے کہ وہ خود گمراہ ہوگئے تمہیں ہرگز ہدایت نہ کریں گے“ پھر فرمایا :” اللہ کی قسم، اگر آج موسیٰ زندہ ہوتے تو انہیں بھی میری پیروی کے سوا چارہ نہ ہوتا۔ (شوکانی) العنكبوت
47 العنكبوت
48 8۔ کہ پچھلی کتابوں کو دیکھ کر آپ نے پیغمبر کا دعویٰ کردیا ہے۔ اس آیت میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے امی ہونے کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دعوائے نبوت میں سچا ہونے پر دلیل ٹھہرایا ہے۔ (دیکھئے سورۃ قصص آیت 86 و سورۃ یونس آیت 16) بعض لوگوں نے صحیح بخاری میں صلح حدیبیہ والی روایت میں ” اخذ لکتب“ کہ قلم پکڑا اور لکھا سے استدلال کیا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لکھنا پڑھنا جانتے تھے مگر یہ استدلال بچند وجوہ مخدوش ہے۔ اولاً تو صحیح بخاری کی دوسری روایت میں ” امر لکتب“ کے الفاظ ہیں جو وضاحت کے لئے کافی ہیں یعنی کہ ” اپ نے حکم دیا تو کاتب نے لکھا“ اور پھر اسی روایت میں :” ولایحن ان لکتب“ کے الفاظ ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اس موقع پر لکھنا بھی اعجازی حیثیت کا حال ہے جو بجائے خود آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سچا نبی ہونے کی دلیل ہے۔ (قرطبی۔ ابن کثیر) العنكبوت
49 9۔ وہ اس کو زبانی یاد کریں گے اور بن دیکھے پڑھیں گے۔ یہ قرآن کے خدائی کتاب ہونے کی واضح دلیل ہے۔ شاہ صاحب فرماتے ہیں :” یہ وحی جو اس پر آئی ہمیشہ کو بن دیکھے جاری رہے گی سینہ بسینہ۔ اور کتابیں حفظ نہ ہوتی تھیں۔ یہ کتاب حفظ ہی سے باقی ہے لکھنا افزود (زیادہ) ہے۔ (موضح) آیت کا دوسرا مطلب ابن جریر (رح) نے یہ بیان کیا ہے کہ آنحضرتﷺ کا امی ہونا ان لوگوں کے سینوں میں، جو اہل کتاب میں سے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سچا پیغمبر ہونے کی کھلی کھلی نشانیوں (میں سے) ہے۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں : یہ مطلب زیادہ واضح ہے (نیز دیکھئے : اعراف :157) العنكبوت
50 10۔ یعنی دوسرے انبیا ( علیہ السلام) کی طرح ایسے معجزے جنہیں دیکھ کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے واقعی نبی ہونے سے انکار نہ کیا جاسکتا۔ (قرطبی) فوائد صفحہ ہذا۔ العنكبوت
51 1۔ یعنی امی ہونے کے باوجود آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قرآن جیسی کتاب کا اترنا، کیا یہ بجائے خود اتنا بڑا معجزہ نہیں ہے ج آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت پر یقین کرنے کے لئے کافی ہو۔ العنكبوت
52 العنكبوت
53 2۔ یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جھٹلاتے اور آپ کا مذاق اڑاتے ہوئے بار بار مطالبہ کرتے ہیں کہ اگر سچے ہو تو ہم پر عذاب کیوں نہیں لے آتے۔ (انفال :32، سورۃ صٓ:16) اور مطالبہ کرتے : امطر علینا حجارۃ اوئتنا بعذاب کہ ہم پر پتھر برسائو یا کوئی دوسری قسم کا عذاب لے آئو۔ (دیکھئے سورۃ انفال :32 و سورۃ ص :16) 3۔ مراد ہے دنیا کا کوئی عذاب، جیسا کہ کفار پر بد ر کے روز آیا۔ کیونکہ وہ اپنے غرور کے سبب مسلمانوں کے غلبہ سے بالکل بیخوف تھے اور ان کے دل میں خیال تک نہ تھا کہ اس طرح ذلت کے ساتھ قتل اور قید و بند کے عذاب میں مبتلا ہوجائیں گے۔ یا قبر اور پھر آخرت کا جس کا سلسلہ مرنے بعد فوراً شروع ہوجائے گا اور موت کے متعلق کسی کو کچھ معلوم نہیں کہ وہ کب آجائے۔ (کذافی فی الوحیدی) العنكبوت
54 العنكبوت
55 العنكبوت
56 4۔ اکثر مفسرین کے نزدیک یہ آیت ان کمزور مسلمانوں کے بارے میں نازل ہوئی جو مکہ سے ہجرت نہیں کرسکے تھے اور کفار نہیں ستا رہے تھے۔ (روح) اس میں ہجرت کی ترغیب ہے۔ یعنی اگر مکہ کی سرزمین میں جہاں تم اب ہو، میری بندگی بجالانا مشکل ہو رہا ہے تو میری زمین تنگ نہیں ہے۔ تم اپنے وطن چھوڑ کر کسی ایسی جگہ چلے جائو جہاں تم آزادی سے میری بندگی کرسکو۔ زجاج (رح) کہتے ہیں کہ یہ حکم عام ہے یعنی اگر کوئی شخص کسی ایسی جگہ رہتا ہو جہاں برائیوں کا دور دورہ ہو اور اس کے لئے حالات کا بدل ڈالنا ممکن نہ ہو، تو اس کے لئے ضروری ہے کہ اس جگہ سے ہجرت کر کے کسی ایسی جگہ چلا جائے جہاں وہ آزادی سے خدا کی بندگی کرسکتا ہو۔ (شوکانی) العنكبوت
57 5۔ اس میں بھی۔ اللہ کی راہ میں ہجرت اور خالص اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کی ترغیب ہے۔ یعنی جان کی فکر نہ کرو۔ یہ تو ایک نہ ایک دن اس بدن سے نکلنے والی ہے۔ اصل فکر اور اصل تگ ودو ایمان بچانے کی ہونی چاہئے۔ (ابن کثیر) العنكبوت
58 العنكبوت
59 1۔ نہ کہ اپنی جائیدادوں، کاروبار یا برادری یا کسی اور چیز پر۔ العنكبوت
60 2۔ یعنی نہ روزی جمع کرتے ہیں اور نہ کل کے لئے کچھ رکھ چھوڑتے ہیں۔ مروی ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب صحابہ کو مدینہ کی طرف ہجرت کا حکم دیا تو انہوں نے سوچا کہ وہاں ہماری معیشت کا کیا انتظام ہوگا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (روح) 3۔ مطلب یہ ہے کہ ہجرت کی راہ میں جان کی طرح تمہیں روزی کی فکر بھی نہ ہونی چاہئے۔ جو اللہ اپنی لاتعداد مخلوقات کو روزی دے رہا ہے وہ تمہیں بھی روزی دے گا۔ (دیکھئے سورۃ ہود :6) العنكبوت
61 4۔ جو ایسے قادر مطلق کو چھوڑ کر دوسروں کی پوجا کر رہے ہیں۔ العنكبوت
62 5۔ یا ” اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جسے (جب) چاہتا ہے اور فراغت سے روزی دیتا ہے اور (جب) چاہتا ہے اسے تنگی سے روزی دیتا ہے۔ “6۔ وہ اپنے بندوں کی مصلحتوں سے خوب واقف ہے کہ کس کے حق میں فراغت سے روزی دینا بہتر ہے اور کس کے حق میں تنگی سے روزی دینا۔ یا ایک ہی بندے کو کب فراغت سے روزی دینا بہتر ہے اور کب تنگی سے۔ (ابن کثیر) العنكبوت
63 7۔ یا ” شکر ہے اللہ کا کہ اس اعتراف نعمت کے باوجود تم جس شرک میں گرفتار ہو، ہم اس سے محفوظ ہیں۔ یا مطلب یہ ہے کہ جب یہ سب نعمتیں اللہ کی عطا کردہ ہیں اور تم اس کا اعتراف کرتے ہو تو ضروری ہے کہ شکر بھی اسی کا کرو۔8۔ اگر عقل رکھتے ہوتے تو اس اعتراف نعمت کے باوجود شرک جیسی لعنت میں گرفتار نہ ہوتے۔ مطلب یہ ہے کہ جب کائنات کا خالق اور مدبر صرف اللہ ہے تو عبادت بھی اسی کی کرنی چاہئے۔ وکثیرامایقدر تعالیٰ مقام الالوھیۃ بالاعتراف بتوحید الربوبیۃ۔ (ابن کثیر) العنكبوت
64 9۔ یعنی ہمیشہ باقی اور قائم رہنے والی ہے۔10۔ تو یقینا باقی کو چھوڑ کر فانی کو اختیار کرتے ہیں۔ (ابن کثیر) دنیا کی بے ثباتی و بے حقیقتی کا ذکر بہت سی احادیث میں بھی مذکور ہے۔ العنكبوت
65 11۔ وہاں سب بتوں کو بھول جاتے ہیں کیونکہ دل میں سمجھتے ہیں کہ اس آفت سے بچانے والا اللہ کے سوا کوئی نہیں ہے۔ العنكبوت
66 12۔ بتوں کے تھانوں پر جا کر نذر مانتے اور چڑھاوے چڑھاتے ہیں۔ آج کل کے مسلمان ان سے بھی بدتر ہیں کہ یہ مصیبت کے وقت بھی غیر اللہ کو پکارتے اور ان کے نعرے لگاتے ہیں۔ اعاذنا اللہ من ھذہ الضلالۃ۔ العنكبوت
67 13 کہ امن سے زندگی گزار رہے ہیں اور مکہ کو امن و امان کی جگہ ہمیں نے بنایا ہے نہ کہ کسی اور نے۔ (دیکھئے سورۃ بقرہ :125۔ انفال :26) العنكبوت
68 العنكبوت
69 1۔ ان سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)، صحابہ کرام (رض) اور قیامت تک کے لئے ان کے متبعین مراد ہیں۔ (ابن کثیر) ” جہاد“ کا لفظ جس طرح دشمنوں کے ساتھ قتال پر بولا جاتا ہے۔ اسی طرح مجاہدات و ریاضات نفسانی پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے بلکہ بعض روایات میں ان مجاہدات کو ” جہاد اکبر“ فرمایا ہے بشرطیکہ اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی اور شریعت کی حدود کے اندر رہ کر یہ ریاضتیں کی جائیں۔ (قرطبی) 2۔ یعنی ان کی رہنمائی فرمائیں گے اور نیکی کے راستے اختیار کرنے اور ان پر چلنے کی زیادہ سے زیادہ توفیق دیں گے۔ بعض نے بہشت کی راہ مراد لی ہے۔ شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں : ” اپنی راہیں یعنی راہ قرب کے اور رضا کے جو بہشت ہے۔“ (موضح) العنكبوت
0 3۔ جمہور مفسرین کے نزدیک یہ پوری کی پوری سورۃ مکی ہے۔ حسن بصری نے آیت فسبحن اللہ حین تمسون… الایۃ کو غیر مکی قرار دیا ہے مگر جمہور کا قول صحیح ہے۔ (روح) الروم
1 الروم
2 الروم
3 الروم
4 4۔ کئی برس سے ایران اور روم کے درمیان جنگوں کا سلسلہ جاری تھا۔ روم کے اہل کتاب ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کی ہمدردیاں ان کے ساتھ تھیں اور ان کی فتح سے خوش تھے اور ایرانی آتش پرست تھے اس لئے مشرک ان کے غلبہ اور فتح سے خوش ہوتے۔ آخر کار آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے تقریباً پانچ سال بعد، ایران اور روم کے درمیان ایک زبردست معرکہ ہوا جس میں ایرانی غالب رہے، جس پر مشرکین مکہ نے خوشیاں منائیں اور مسلمانوں سے ازراہ فخر و غرور کہنے لگے کہ دیکھا غیر کتاب والے (ایرانی) کتاب والوں یعنی رومیوں پر غالب آگئے۔ اسی طرح ہم بھی تم پر غالب رہیں گے۔ ان باتوں سے مسلمانوں کو سخت صدمہ ہوتا۔ اس پر یہ آیات نازل ہوئیں اور قرآن نے ایک نہیں بلکہ دوپیش گوئیاں ایسے حالات میں کردیں جبکہ ظاہری اسباب بالکل ان کے خلاف تھے۔ یعنی یہ کہ ” لضع سنین“ میں نہ صرف رومیوں کو ایرانیوں پر غلبہ حاصل ہوجائے گا بلکہ اس روز مسلمان بھی ایک فتح کی خوشی منائیں گے۔ قرآن کی اس پیش گوئی کے پیش نظر حضرت ابوبکر (رض) نے ایک مشرک سے سو اونٹ کی شرط بھی کرلی (جو اس وقت حرام نہ تھی) ابتدا میں ان کے درمیان تھوڑی مدت (تقریباً پانچ سال) مقرر ہوئی مگر بعد میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اشارے سے یہ مدت نو سال تک بڑھا دی گئی جو کہ ” بضع سنین“ کا صحیح مفہوم تھا چنانچہ ہجرت کے دوسرے سا جنگ بدر کے موقع پر یعنی نو سال کی مدت کے اندر ہی رومی ایرانیوں پر غالب آگئے اور انہوں نے اپنا کھویا ہوا اقتدار واپس لے لیا اور مدائن تک کا علاقہ فتح کرلیا۔ اس پیش گوئی کا مقررہ مدت کے اندر پورا ہونا قرآن کی صداقت کی بہت بڑی دلیل ہے۔ چنانچہ اس موقع پربہت سے لوگ مسلمان ہوگئے۔ یہاں ” ادنی الارض“ سے مراد جزیرۂ عرب کے قریب اذرعات اور بصریٰ کے درمیان کی سرزمین ہے جو ” ادنیٰ شام“ کہلاتی ہے۔ بعض نے فلسطین کا نام بھی ذکر کیا ہے اور یہ سب مواضع دوسرے علاقوں کی بنسبت بلاد عرب سے قریب تر ہیں۔ (ابن کثیر۔ شوکانی) 5۔ یعنی بعد میں بھی جب وہ غالب ہوں گے۔ اسی کا اختیار ہوگا فتح و شکست اللہ تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں ہے وہ جس قوم کو جب چاہتا ہے غالب کرتا ہے اور جب چاہتا ہے مغلوب کرتا ہے۔ (شوکانی) نہ غالب ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے خوش ہے اور نہ مغلوب ہونا اللہ کے ناخوش ہونے کی۔ (ازموضح بتغییر) الروم
5 6۔ حضرت ابن عباس (رض)، ابو سعید خدری (رض)، سفیان ثوری (رض) اور بہت سے دیگر اہل علم حضرات کا بیان ہے کہ رومیوں کو ایرانیوں پر یہ غلبہ اسی روز حاصل ہوا جس روز مسلمان بدر میں مشرین مکہ پر فتح یاب ہوئے۔ اسی لئے مسلمانوں کو دوہری خوشی ہوئی اور مشرکوں کو دوہرا غم ہوا۔ (ابن کثیر) بعض تابعین (رح) کا خیال ہے کہ رومیوں کو ایرانیوں پر صلح حدیبیہ کے سال فتح ہوئی۔ ان کا استدلال اس واقعہ سے ہے کہ قیصر روم نے منت مانی تھی کہ جب وہ فتح یاب ہوگا تو حمص سے پیدل چل کر ایلیا (بیت المقدس) کا حج کرے گا۔ چنانچہ جب وہ ایلیا آیا تو ابھی واپس نہ ہوا تھا کہ اسے حضرت وحیہ (رض) بن خلیفہ کے ذریعہ رسول اللہﷺ کا وہ خط ملا جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے نام صلح حدیبیہ کے بعد لکھا تھا۔ اس کے بعد اس نے حضرت ابو سفیان کو بلایا (جو ابھی مسلمان نہ ہوئے تھے اور شام میں بغرض تجارت آئے ہوئے تھے) اور ان سے نبیﷺ کے بارے میں مختلف سوالات کئے جیسا کہ صحیح بخاری میں بالتفصیل مذکور ہے۔ اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ رومیوں کو ایرانیوں پر فتح بھی اسی سال ہوئی۔ لیکن اس کا جواب دیا جاسکتا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ رومیوں کو پہلی فتح تو بدر کے سال ہوئی ہو مگر دشمن کی فوجوں کا مکمل انخلا اور منت کے پورا کرنے کی نوبت چار سال بعد صلح حدیبیہ ہی کے سال آئی ہو۔ واللہ اعلم۔ (ابن کثیر) الروم
6 الروم
7 7۔ یعنی محض دنیاکی ظاہری آرائش اور ساز و سامان کی فکر میں لگے رہتے ہیں اور آخرت کی کوئی فکر نہیں کرتے۔ یا دوسرا مطلب یہ ہوگا کہ ” وہ تو دنیوی زندگی کے صرف ظاہری پہلو کو جانتے ہیں اور انجام سے بے خبر ہیں“۔ یہ سمجھتے ہیں کہ فتح و شکست کا مدار ظاہری اسباب پر ہے مگر ان کو انجام کی خبر نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے قبضۂ قدرت میں ہے۔ (کذا فی الوحیدی) یا دنیا کے کاموں میں تو خوب ماہر اور زیرک ہیں مگر امور آخرۃ سے بالکل بے خبر اور جاہل۔ امام حسن بصری (رح) فرماتے ہیں : ” ذرا ہم کو تو ناخن پر رکھ کر ہی پرکھ لیتے ہیں مگر نماز پڑھنی نہیں آتی“۔ (ابن کثیر) الروم
8 8۔” یا کیا انہوں نے اپنے بارے میں نہیں سوچا“ کہ وہ کیا تھے؟ کس نے انہیں پیدا کیا اور کیا ان کا انجام ہوگا ؟ بایں صورت یہ تفکر کا مفعول ہوگا۔ (شوکانی) 9۔ یعنی یہ نظام کائنات کھیل تماشہ نہیں بنا کہ اس کے پیدا کرنے میں کوئی مقصد کارفرما نہ ہو بلکہ خاص مقصد کے تحت بنایا گیا ہے اور ایک مقررہ وقت تک کے لئے بنایا گیا ہے۔ سورۃ ملک میں آسمان و زمین کے خلق کو غرض بیان کرتے ہوئے فرمایا : لیبلوکم ایکم احسن عملا۔ یعنی یہ نظام کائنات محض تمہاری آزمائش کے لئے بنایا ہے کہ تم میں سے کس کا عمل دوسرے کے عمل سے اچھا ہے اور پھر ایک دن یقیناً یہ نظام نا ہوجائے گا اور اس کی جگہ دوسرا نظام جنم لے گا جس میں لوگوں کو ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔ فوائد صحفہ ہذا۔1۔ یعنی اس بات کے منکر ہیں کہ انہیں مرنے کے بعد اپنے رب کے حضور پیش ہونا ہے۔ (شوکانی) الروم
9 2۔ یعنی اس میں کھیتی باڑی کی اور باغ لگائے اور زمین کو خوب آباد کیا۔ (شوکانی) الروم
10 الروم
11 3۔ کیونکہ جس کے لئے پہلی بار پیدا کرنا ممکن ہے اس کے لئے دوبارہ پیدا کرنا بدرجہ اولیٰ ممکن ہے۔ الروم
12 4۔ کیونکہ ان سے اپنے آپ کو بے قصور ثابت کرنے کے لئے کوئی جواب نہ بن پڑے گا۔ الروم
13 5۔ کیونکہ اس روز کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے اذن کے بغیر کسی دوسرے کی سفارش نہ کرسکے گا اور پھ سفارش کی بھی اسی کی کرسکے گا جس کی سفارش کی اجازت ملے گی۔6۔ کیونکہ اس وقت انہیں اپنے ان شریکوں کی حقیقت معلوم ہوجائے گی کہ یہ نہ کسی کو نفع پہنچا سکتے ہیں اور نہ نقصان۔ اگر نفع پہنچا سکتے تو اس موقع پر ان کے ضرور کام آتے۔ الروم
14 7۔ فرقے یعنی گروہ، چنانچہ ایک گروہ مومنوں کا ہوگا جو جنت میں جائے گا اور دوسرا کافروں، منافقوں اور مشرکوں کا جوابدا ً جہنم میں جائے گا۔ فریق فی الجنۃ و فریق فی السعیر (شوریٰ:7) یہ حساب و کتاب مکمل ہوجانے کے بعد کی کیفیت ہے۔ چنانچہ قتادہ (رح) کہتے ہیں کہ اس کے بعد یہ دونوں گروہ آپس میں کبھی نہ ملیں گے، چنانچہ آگے اسی کی تفصیل آرہی ہے۔ (ابن کثیر، شوکانی) الروم
15 8۔ یعنی ان کی خوب خاطرداری اور مہمان نوازی ہوگی اور ہر لمحہ تازہ سرور حاصل ہوتا رہے گا۔ بعض نے لکھا ہے کہ ” یحبون“ کے معنی ہیں ” ان کو گیت اور نغموں سے لذت اندوز کیا جائے گا۔ بہرحال ” یحبون“ کا لفظ ہر قسم کی خوشی اور انعام و اکرام کو شامل ہے۔ (قرطبی۔ کبیر) الروم
16 الروم
17 الروم
18 1۔ یعنی زمین و آسمان والوں کو اس کی تسبیح و تحمید کرتے رہنا چاہئے۔2۔ پہلے مبدا و معاد میں اپنی عظمت کا ذکر فرمایا۔ اب ان اوقات میں اپنی تنزیہہ و تحمید کا حکم دیا کیونکہ ان اوقات میں اللہ تعالیٰ کی قدر و عظمت کا کامل ظہور ہوتا ہے اور تسبیح قلب و لسان اور جوارح تینوں سے ہوتی ہے اور نماز بھی تینوں قسم کی تسبیح پر مشتمل ہے۔ اس لئے علمائے تفسیر نے لکھا ہے کہ یہاں تسبیح سے مراد نماز پڑھنا ہے اور اس آیت میں پانچوں نمازوں کا ذکر آگیا ہے۔ صبح سے فجر کی نماز مراد ہے اور شام (مساء) سے مغرب و عشا کی اور عشیا (سہ پہر) سے عصر اور دوپہر سے ظہر کی۔ (رازی، ابن کثیر) ان اوقات خمسہ میں عبادت و نماز کے اسرار و حکم علما نے اپنے ذوق علمی کے مطابق بیان فرمائے ہیں۔ حجۃ اللہ اور احیا غزالی میں ب ھی کچھ بیان موجود ہے۔ واللہ اعلم۔ الروم
19 3۔ یعنی جیسے مردہ زندہ سے اور زندہ مردہ سے نکلتا ہے، اسی طرح… (دیکھئے آل عمران آیت 97، انعام آیت :95) 4۔ مطلب یہ ہے کہ تم اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہو کہ کائنات کا یہ کارخانہ اسی طرح جاری ہے۔ مردہ سے زندہ اور زندہ سے مردہ نکلتا ہے۔ زمین مردہ پڑی ہوتی ہے۔ اس میں سبزی اور تروتازگی کا نام و نشان تک نہیں ہوتا، لیکن پانی برستے ہی طرح طرح کی سبزیاں آگ آتی ہیں اور ہزاروں قسم کے جانور پیدا ہوجاتے ہیں۔ ایسے قادر مطلق کے لئے جس کی قدرت سے یہ سب کچھ ہوا۔ تمہارے مر جانے کے بعد تمہیں دوبارہ زندہ کرنا کیا مشکل ہے۔ الروم
20 5۔ کئی حالتوں سے مراد انسان کے مختلف اطوار ہیں جن سے گزر کر آخرپورا آدمی بن کر وجود میں آجاتا ہے۔ (دیکھئے سورۃ مومنون آیت 12، 14) الروم
21 6۔ یعنی تمہاری جنس سے۔7۔ یعنی مرد اپنی فطرت کے تقاضے عورت کے پاس اور عورت اپنی فطرت کے تقاضے مرد کے پاس پائے اور اس طرح دونوں مل کرسکون و اطمینان حاصل کریں۔ شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں : ” کسی جانور کا جوڑا مقرر نہیں کیا صرف انسان کا جوڑا مقرر ٹھہرایا اس میں نسل کے سوا نسیت اور چین ہے اور پیار و محبت تا جہاں کی بستی ہو۔ جو کوئی جوڑا مقررنہ کرے یعنی زنا کرے، نکاح نہ کرے وہ انسان سے حیوان ہوا۔“ (موضح) 8۔ حالانکہ بسا اوقات نکاح سے پہلے میاں بیوی میں شناسائی تک نہیں ہوتی مگر رشتہ نکاح میں منسلک ہوجانے کے بعد یہ حالت ہوجاتی ہے کہ ایک دوسرے پر جان چھڑکنے کو تیار ہوتے ہیں۔ الروم
22 9۔ حالانکہ تم سب ایک باپ اور ایک ماں کی اولاد ہو اور تمہارے قوائے کی ساخت بھی ایک جیسی ہے مگر زبانیں اور رنگ اس قدر مختلف ہیں کہ بعض اقات ایک ملک میں سینکڑوں زبانیں اور ان کے ہزاروں لہجے ہوتے ہیں۔ اگر یہ زبانوں اور رنگوں کا اختلاف نہ ہوتا تو بڑی مشکل پیش آتی اور ایک کو دوسرے سے پہچاننے میں دشواریاں ہوتیں۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کی قدرت کے دلائل ہیں۔ الروم
23 10۔ سونے سے تمہاری تھکاوٹ دور ہوجاتی ہے۔ الروم
24 11۔ اس آیت میں مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے پر استدلال کیا گیا ہے اور وہ اس طرح کہ نیند موت ہے اور جاگ کر روزی کے لئے دوڑ دھوپ کرنا زندگی کے بعد موت سے مشابہ ہے۔12۔ یعنی بجلی کی گرج اور چمک سے ایک امیدبندھتی ہے کہ بارش ہوگی اور فصلیں تیار ہوں گی اور دوسری طرف ڈر بھی لگتا ہے کہ کہیں بجلی نہ گر پڑے یا اتنی زیادہ بارش نہ ہوجائے کہ مکانوں اور فصلوں کو تباہ کر دے اور سب کچھ بہا لے جائے۔ 13۔ اس میں بحث بعد الموت پر بھی استدلال ہے اور اس پر بھی کہ بارش صرف اللہ کی قدرت اور اس کے حکم سے ہوتی ہے نہ کہ محض مادہ کی ترکیب سے۔ الروم
25 ف 1 اس نے ایسی کشش رکھی ہے کہ ہر چیز اپنے مرکز ثقل پر قائم ہے اور ایک جسم دوسرے جسم کو اس طرح کھینچے ہوئے ہے کہ وہ جسم آپس میں ٹکراتے نہیں۔ اگر اس کا حکم نہ ہو تو سب جسم ایک دوسرے سے ٹکرا جائیں اور یہ نظام درہم برہم ہوجائے۔ ف 2 یعنی جس قادر مطلق نے یہ محیر العقول نظام قائم کیا ہے اس کے لئے یہ ہرگز مشکل نہیں ہے کہ وہ تمہیں یک بارگی پکارے اور تم اس کی آواز سن کر فوراً کھڑے نہ ہوجائو۔ یہاں پکارنے سے مراد ” نغمہ ثانیہ“ یعنی نغمہ بعث ہے۔ جیسے فرمایا : ثم نفخ فیہ اخری فاذا ھم قیام ینظرون (قرطبی) الروم
26 ف 3 یعنی تکوینی طور پر سب اس کے مطیع و متضاد ہیں کوئی چیز بھی اس کے امر تکوینی سے سر مو انحراف نہیں کہ سکتی۔ یا ” ہر چیز زبان حال یا قال سے اس کی عبویدت کا اعتراف کر رہی ہے۔ (قرطبی) الروم
27 ف 4 ’ د یعنی تمہارے کہنے اور کرنے کے لحاظ سے“ مطلب یہ یہ کہ تم اس چیز کو تو مانتے ہو کہ تمام مخلوقات کو پہلی بار اسی نے پیدا کیا ہے اور یہ بھی سمجھتے ہو کہ جس نے ایک دفعہ کسی چیز کو بنایا ہو اس کے لئے اسی چیز کو دوبارہ بنانا نسبتاً آسان ہوتا ہے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ کے لئے جس نے پہلی بار تمام مخلوقات بنائی ہے دوسری مرتبہ اسے پیدا کرنا آسان تر ہونا چاہئے۔ (قرطبی ۔ شوکانی) ف 5 کیونکہ کوئی اس کے جوڑ کا نہیں۔ تمام عمدہ صفات اس میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں۔ دوسری کسی مخلوق میں یہ بات نہیں۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں :” آسمان کے فرشتے نہ کھائیں نہ پئیں نہ حاجت بشری رکھیں، سوائے بندگی کے کچھ کام نہیں اور زمین کے لوگ سب چیز میں آلودہ، پر اللہ کی صفت نہ ان سے ملے نہ ان سے وہ پاک ذات ہے۔“ (موضح) الروم
28 ف 6 یعنی جب تم اپنے لونڈی غلاموں کو، جو تمہاری ہی طرح آدم کی اولاد اور اللہ کی مخلوق ہیں، اپنے برابر کا اور مال و دولت میں شریک بنانا گوارا نہیں کرتے تو پھر اللہ کی مخلوق میں بعضوں کو اس کا شریک کیوں گردانتے ہو؟ کیا جن لوگوں کو تم نے اپنا معبود بنا رکھا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے پیدا کردہ اور غلام نہیں ہیں۔ دیکھیے سورۃ نحل آیت 71 (شوکانی) الروم
29 ف 7 اللہ تعالیٰ کی طر گمراہی کی نسبت اس اعتبار سے ہے کہ وہ ہر چیز کا خلاق ہے ورنہ انسان کی گمراہی کا سبب خود اس کی ہٹ دھرمی ہے۔ الروم
30 ف 8 فطرۃ کے معنی تو پیدا کرنا ہوتے ہیں مگر یہاں فطرۃ اللہ سے مراد دین اسلام یا توحید ہے جو خلقی اور جبلی طور پر ہر انسان ان کے قلب میں ودیعت کی گی ہے اور اگر انسان کو اس کی طبعی حالت پر چھوڑ دیا جائے اور بیرونی اثرات اور دبائو سے اس کے دل و دماغ کو محفوظ رکھا جائے تو وہ توحید اور دنی فطرت ہی اختیار کرے گا۔ ایک حدیث میں بھی آنحضرت نے فرمایا : مامن مولود الایولد علی الفطرۃ کہ ہر بچہ فطرت پیدا ہوتا ہے اور ’ دزرکول“ کے وقت اخذ عہد والی آیت سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے (دیکھیے اعراف آیت 172) ایک حدیث قدسی میں ہے کہ (دیکھیے اطراف آیت 172) ایک حدیث قدسی میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ” میں نے اپنے تمام بندوں کو حنیف پیدا کیا تھا پھر شیاطین نے آ کر انہیں ان کے دین سے برگشتہ کردیا ” اور خلقت ھولاء للنار اور اس مضمون کی دوسری روایات اس کے خلاف نہیں ہیں کیونکہ ان روایات کو عملا نے خاتمہ اور مآل پر محمول کیا ہے۔ واللہ اعلم (قرطبی ابن کثیر) ف 9 یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے اس قانون میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔ یا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے جانوروں کی جو صورتیں بنائی ہیں ان میں تبدیلی نہ کرو۔ گویا جاہلیت میں جو جانوروں کے کان کاٹنے اور بلا ضرورت فول کو خصی کرنے کا رواج تھا اس کی ممانعت فرمائی ہے (قرطبی) ف 10 شاہ صاحب آیت کی توضیح میں لکھتے ہیں :” یعنی اللہ سب کا حاکم و مالک، سب سے نرالا کوئی اس کے برابر کا نہیں یہ باتیں سب جانتے ہیں اس پر چلنا چاہئے ایسے ہی کسی کے جان مال کو ستانا ناموس میں عیب لگانا ہر کوئی برا جانتا ہے۔ ایسے ہی اللہ کو یاد کرنا، غریب پر ترس کھانا، حق پورا دینا، دغا نہ کرنا ہر کوئی اچھا جانتا ہے اس پر چلنا وہی دین سچا ہے۔ ان چیزوں کا بندوبست پیغمبروں کی زبان سے اللہ نے سکھایا۔ (موضح) ف 11 اس لئے فطرۃ کے خلاف شرک و بدعت کی جو باتیں انہوں نے اپنے باپ دادا یا دوسروں سے سیکھ لی لی ہیں انہی پر اندھا دھند چلے جاتے ہیں۔ الروم
31 الروم
32 ف 1 یعنی توحید کے اصلی اور فطری دین میں باگڑ پیدا کر کے اپنے الگ الگ دین بنا لئے۔ اس سے معلوم ہوا کہ دنیا میں کفر و شرک کے جتنے دین پائے جاتے ہیں وہ سب اصل دین فطرۃ …توحید/ میں بگاڑ سے پیدا ہوئے ہیں (دیکھیے سورۃ یونس آی 19 الروم
33 ف 2 معلوم ہوا کہ توحید کی شہادت ہر انسان کے دل کی گہرائیوں میں موجود ہے، چاہے وہ زبان سے اس کا اقرار نہ کرے مگر واقعات سے اس کی شہادت ملتی ہے شاہ صاحب فرماتے ہیں ” جیسے بھلے برے کام ہر انسان کی جبلت پہنچاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع ہونا بھی ہر ایک کی جبلت جانتی ہے ڈر کے وقت کھل جاتی ہے۔“ ف 3 چنانچہ وہ دوسروں معبودوں کی نذریں ماننے اور چڑھاوے چڑھانے لگتا ہے اور کہنا شروع کردیتا ہے کہ ہم سے یہ مصیبت فلاں بزرگ یا فلاں آستانہ کے صدقے میں ٹلی ہے۔ الروم
34 ف 4 کہ شرک اور ناشکری کی تمہیں کیا سزا ملتی ہے۔ الروم
35 الروم
36 ف 5 یعنی آخر شرک کی دلیل کیا ہے؟ کیا انکی عقل یہی کہتی ہے یا ہماری کسی کتاب میں یہ لکھا ہے کہ تمہارے فلاں بزرگ کو ہم نے اپنے اختیارات میں شریک کرلیا ہے لہٰذا تم انہیں بھی اپنی حاجت روائی کے لئے پکار سکتے ہو؟ ف 6 یعنی ہم ہار بیٹھتے ہیں کہ اب کوئی نہیں جو ہماری مصیبت ٹال سکے۔ یہ کافر کی حالت ہے کہ سختی کے وقت مایوس ہوجاتا ہے اور عیش و آرام کے وقت تکبر و غرور کرنے لگتا ہے بہت سے کمزور ایمان ولاوں کا بھی یہی حال ہے مگر مومن کا حال اس کے برعکس ہے۔ اسے جب عیش و آرام میسر ہوتا ہے تو اللہ کا شکر بجا لاتا ہے اور جب مصیبت یا تنگی پہنچی ہے تو صبر و تحمل سے کام لیتا ہے۔ صحیح بخاری میں ہے کہ آنحضرت نے فرمایا : مومن کی ہر حالت پر تعجب ہے اس کے حق میں اللہ تعالیٰ کا ہر فیصلہ خیر کا موجب ہے جب اے عیش و آرام نصیب ہوتا ہے تو شکر کرت اہے۔ یہ بھی اس کے حق میں خیر ہے۔ اگر رنج و تکلیف پہنچتی تو صبر کرتا ہے اس میں بھی اس کے لئے بہتری اور ثواب ہے۔ (ابن کثیر قرطی) الروم
37 ف 7 یعنی روزی کا معاملہ اللہ تعالیٰ نے خالصتاً اپنے ہاتھ میں رکھا ہے۔ بعض اوقات ان پڑھوں اور بیوقوفوں کو ایسی روزی دیتا ہے کہ پڑھے لکھے اور دانا حیران ہوتے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت نہیں تو کیا ہے؟ اسی کو اپنی حکمت عملوم ہے کوئی دم نہیں مار سکتا۔ (وحیدی) الروم
38 ف 8 یعنی اللہ تعالیٰ نے تمہیں جو مال دیا ہے وہ صرف اس لئے نہیں ہے کہ تم اسے صرف اپنی ذات پر خرچ کرو بلکہ اس کی شکر گزاری یہ ہے کہ اس میں سے رشتہ داروں، مسکینوں اور مسافروں پر بھی خرچ کیا کرو اور یہ سمجھ کر خرچ کرو کہ تمہارا ان پر احسان نہیں ہے بلکہ یہ ان کا تمہارا اوپر حق ہے۔ الروم
39 ف 9 یعنی ان کے مال و دولت میں شامل ہو کر بیٹھ جائے۔ ف 10 یعنی اللہ تعالیٰ اس میں کوئی برکت نہیں دیتا بلکہ وہ آدمی کے لئے دنیا و آخرت دونوں میں وبال اور لعنت کا سبب بنتا ہے۔ بعض مفسرین (جیسے قتادہ ضحاک اور عکرمہ وغیرہ) کیا خیال ہے کہ اس آیت میں ربا سے مراد و سود نہیں جو شرعاً حرام کیا گیا ہے بلکہ اس سے وہ عطیہ یا تحفہ مراد ہے جو آدمی دوسرے کو اس نیت سے دے کہ وہ بعد میں اس سے زیادہ واپس کرے گا۔ ایسا عطیہ دینا حرام نہیں ہے لیکن اس کا کوئی ثواب بھی نہیں ملتا۔ ان کے خیال میں فلا ربوا عند اللہ“ (وہ اللہ کے ہاں نہیں بڑھتا) کا یہی مطلب ہے۔ واللہ اعلم (قرطبی) ف 11 دس گنے سے سات سو گنے تک دراصل اس بڑھوتری کا انحصار انسان کی نیت اور جذبہ پر ہے۔ الروم
40 ف 1 اور ظاہر ہے کہ نہیں کرسکتے تو پھر انہیں پوجنے اور ان کے آستانوں پر نذریں ماننے اور چڑھاوے چڑھانے کا کیا فائدہ؟ الروم
41 ف 2 خشکی سے مراد زمین، تری سے مراد سمندر اور فساد (خرابی) سے مراد ہر آفت اور صمیبت ہے چاہے وہ جنگ و جدال اور قتل و غارت کی صورت میں نازل ہو یا قحط بیماری فصلوں کی تباہی تنگ حالی سیلاب اور زلزلہ وغیرہ کی صورت میں آیت کا مطلب یہ ہے کہ برو بحر (عالم ہیں جو فتنہ و فساد بپا ہے اور آسمان کے نیچے جو ظلم و ستم ڈھائے جا رہے ہیں یہ سب شرک کی وجہ سے ہیں جب سے لوگوں نے توحید (دین فطرت) کو چھوڑ کر شرک کی راہیں اختیار کی ہیں اس وقت سے یہ ظلم و فساد بھی بڑھ گیا ہے اور شرک جیسے قولی اور اقتصادی ہوتا ہے اسی طرح شرک عملی بھی ہے جو فسق فجور اور معاصی کا روپ دھار لیتا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ شرک اعتقادی اور قول تو جہنم میں خلوہ کا موجب ہوگا مگر شرک عملی فسق و معصیت) موجب خلود نہیں بنے گا۔ (کبیر ۔ رازی) ف 3 پوری سزا تو آخرت میں ملے گی مگر یہ تھوڑے سے عذاب کا نمونہ ہے۔ ممکن ہے کہ لوگ شرک و معصیت چھوڑ کر توحید اور اطاعت کی راہ اختیار کریں۔ الروم
42 ف 4 یعنی پچھلی جن قوموں پر تباہی آئی۔ اسی شرک کی بدولت آئی جس سے باز رہنے کی آج تمہیں تلقین کی جا رہی ہے۔ الروم
43 الروم
44 ف 5 یا (جنت یا قبر میں) اپنے لئے آرام کی جگہ بنائیں گے۔ یہ ” لانفسھم یمھدون“ کا لفظی ترجمہ ہے اور یہ آیت ’ دیصرعون“ کی تفسیر ہے۔ یعنی آخرت میں کافر اور مومن الگ الگ ہوجائیں گے۔ الروم
45 الروم
46 ف 6 یعنی بارش سے غلے اور میوے پیدا ہوں اور تم کھائو اور جانور موٹے تازے ہوں۔ تم ان کا گوشت کھائو اور دودھ پیو یہ اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی رحمت ہے۔ جس سے سب لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں۔ الروم
47 ف 1 اور مبداو معاد کو براہین و دلائل سے ثابت کرنے کے بعد اب اس آیت میں اصل ثالث یعنی نبوت کو ثابت کیا ہے یعنی آپ بھی گزشتہ پیغمبروں کی طرح اللہ کے پیغمبر ہیں، جیسے ان کے مخالفین سے انتقام لیا گیا۔ اسی طرح آپ کے مخالفین سے بھی بدلہ لیا جائے گا۔ نیز اس آیت میں آنحضرت کو تسلی دی ہے اور اہل ایمان کے لئے بہت بڑی خوشخبری ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کا مددگار ہے اور وہ ہمیشہ مغلوب نہیں رہیں گے بلکہ ایک نہ ایک دن کو غلبہ نصیب ہوگا۔ یہاں حقاً خبر مقدم اور نصر المومنین اسم کان ہے اور المومنین میں پیغمبر، ان کے صحابہ اور ان کے بعد امت کے تمام مونین شامل ہیں۔ بعض نے حقا پر وقف تام کیا ہے اور کان میں ضمیر کا مرجع انتقام قرار دیا ہے اور علینا نصر المومنین کو جملہ مستانفہ مانا ہے۔ واللہ اعلم الروم
48 ف 2 اور کہتے ہیں کہ اب غلہ اگے گا پھل پیدا ہوں گے جانور سیراب ہوں گے اور ارزانی بڑھے گی وغیرہ ف 3 اور ملول و مفہوم تھے لیکن بارش ہوتے ہی خوشیاں منانے لگے۔ اس سے اللہ تعالیٰ کی قدرت معلوم ہوتی ہے کہ لمحہ بھر میں دنیا کی حالت بدل جاتی ہے یا تو سب کے چہرے اترے ہوئے تھے اور یا اب ہر طرف رنگ رلیاں ہو رہی ہیں اور خوشیاں منائی جا رہی ہیں۔ الروم
49 ف 4 اوپر رسولوں کے بھیجنے کا ذکر کیا یا تھا اور یہاں بارش بھیجنے کا اس میں اشارہ ہے کہ رسول کی آمد بھی انسان کی اخلاقی اور روحانی زندگی کے لئے ویسی ہی رحمت ہے جیسی اس کی مادی و معاشی زندگی کے لئے بارش کی آمد، بارش سے اگر زمین زندہ ہوتی ہے اہر طرف کھیتیاں لہلہانے لگتی ہیں نوروں کی آمد سے انسان کے دلوں کی کھیتیاں سرسبز ہوتی ہیں اور اس میں نبوت کی ضرورت پر دلیل بھی ہے کہ جس نے اس زمین کی اصلاح کا بندوبست کیا ہے وہ تمہارے دلوں اور روحوں کی زمین کو زندہ اور سرسبز کرنے کا انتظام کیوں نہ کرے گا۔ آیت کریمہ میں انظر کا کلمہ اللہ تعالیٰ کی قدرت عظیمہ پر تنبیہ کے لئے ہے۔ (کبیر روح) الروم
50 الروم
51 ف 5 یعنی جب بارش کی وجہ سے کھیتیاں سرسبز ہو کر لہلہانے لگتی ہیں اس وقت اگر ہم کوئی ایسی ہوا بھیج دیں جو ان ہری بھری کھیتوں کو جلا کر زرد یعنی خشک کر دے تو یہ لوگ پھر ناشکری پر اتر آئیں اور رونا پیٹنا شروع کردیں۔ مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ (کافر) نہایت ہی کمزور اور کم حوصلہ واقع ہوئے ہیں۔ دم بھر میں خوشیاں منانے لگتے ہیں اور دم بھر میں رونے پیٹنے بیٹھ جاتے ہیں۔ (شوکانی) الروم
52 ف 6 یعنی ان لوگوں کے ضمیر مردہ ہوچکے ہیں اور ان میں حقائق کو سمجھنے اور خیر و صواب کو پہچاننے کی صلاحیت باقی نہیں رہی۔ گویا یہ بالکل مردے اور بہرے ہیں اور بہرے بھی ایسے جو حق بات کو محسوس کرتے ہی بھاگ کھڑے ہوتے ہیں۔ لہٰذا انہیں کوئی بات سنائی نہیں جاسکتی۔ (تنبیہ) ” سمال موتی“ کے مسئلہ میں گو علماء نے طویل بحثیں کی ہیں لیکن مردوں کا عدم سماع ایک عام حقیقت ہے جس سے صرف وہ صورتیں مستثنیٰ ہیں جو دلیل کتاب و سنت سے ثابت ہیں مثلاً غزوہ بدر میں جو کافر مارے کئے تھے انہیں نبی ﷺ نے خطاب فرمایا : آپ سے عرض کیا گیا ” اے اللہ کے رسول آپ ایسے جمسوں سے کلام فرما رہے ہیں جن میں روحیں نہیں ہیں“ فرمایا ! وہ میری بات کو تم لوگوں سے زیادہ سن رہے ہیں۔ صرف یہ فرق ہے کہ وہ کوئی جواب نہیں دے سکتے اور جیسا کہ صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ جب لوگ مردہ کو دفن کر کے پلٹتے ہیں تو وہ ان کے جوتوں کی چاپ سنتا ہے۔ دیکھئے نمل آیت 8) الروم
53 ف 7 یعنی انکے دل اندھے ہیں جنہیں گمراہی سے نکال کر نجات کی راہ پر لے آنا آپ کے بس میں نہیں ہے اور نہ ایسا کرنا آپ کی ذمہ داری ہے۔ ف 8 کیونکہ انہی میں یہ صلاحیت ہے کہ کسی بات کو سن کر اس پر غور و فکر کرسکیں۔ ف 9 یعنی حق کے سامنے سر تسلیم خم کرتے اور اس کی راہ پر چلتے ہیں۔ (دیکھیے سورۃ نمل آیت 81) الروم
54 ف 1 یعنی انسان پر قوت و ضعف کے یہ ادوار و اطوار طبعی نہیں ہیں بلکہ یہ سب حالتیں اللہ علیم و قدیر کی پیدا کی ہوئی ہیں اور انسان پر ان حالتوں کا وار ہونا بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ اوپر دلائل آفاق کا ذکر تھا۔ اب یہاں دلائل انفس کی طرف اشارہ فرما دیا۔ (کبیر) الروم
55 ف 2 یا اپنی برزخی زندگی میں ایک گھڑی سے زیادہ نہیں ٹھہرے۔ قیامت کے دن کی ہولناکیوں اور عذاب جہنم کے سامنے دیکھ کر یہ احساس پیدا ہوگا ہوسکتا ہے کہ قیامت سے پہلے کچھ وقفہ ہوجی اٹھنے کے بعد ایک ساعت محسوس ہو۔ ف 3 یعنی وہاں بھی یہ اسی طرح کے غلط اندازے لگایا کرتے تھے چنانچہ جھوٹی قسمیں کھا کھا کر کہا کرتے تھے کہ مرنے کے بعد بس فنا ہوجانا ہے کوئی آخرت و آخرت آنے والی نہیں ہے جس کے لئے کوئی تیاری کی جائے۔ الروم
56 ف 4 یعنی ابنیا فرشتے اور تمام امتوں کے اہل علم و ایمان (قرطبی) ف 5 یعنی جیسے دنیا میں علما ان پر حجت قائم کیا کرتے تھے اس دن بھی ان کا رد کریں گے اور کریں گے اور کہیں گے تم جھوٹ بکتے ہو جو یہ کہتے ہیں کہ دنیا یا عالم برزخ میں ایک گھڑی سے زیادہ نہیں ٹھہرے تم ٹھیک کتاب اللہ (یعنی اللہ کے علم یا لوح محفوظ کے نوشتہ) کے مطابق قیامت کے دن تک ٹھہرے رہے ہو بعض مفسرین نے اس آیت میں ’ دفی کتاب اللہ“ کو ” اوتوا“ سے متعلق قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ تقدیر کلام یوں ہے اوتوالعلم فی الکتاب و الایمان سا صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ ” جن لوگوں کو کتاب اللہ کا علم اور ایمان دیا گیا وہ کہیں گے …“ (قرطبی ابن کثیر) ف 6 جو ٹھیک وعدے کے مطابق آ پہنچا ہعے۔ ف 7 چنانچہ تم اس کا مذاق اڑایا کرتے تھے اور رسولوں سے کہا کرتے تھے کرلے آئو قیامت جس کی تم دھمکی دیتے ہو۔ الروم
57 ف 8 یعنی آخرت میں توبہ کرنے اور پروردگار کی خوشنودی حاصل کرنے کا انہیں کوئی موقع نہ دیا جائے گا۔ الروم
58 ف 9 جن سے انہیں ایک طرف اللہ کی توحید اور رسولوں کی صداقت کا علم ہوسکتا ہے اور دوسری طرف کفر و شرک نفا اور بدعت کے باطل ہونے کا پتہ چل سکتا ہے۔ ف 10 یعنی ڈھونگ بنا کر اور شعبدے دکھا کر لوگوں کو اپنے دین میں پھانسنے کی کوشش کرتے ہو۔ الروم
59 ف 11 یعنی جن کے دل صحیح علم سے کورے ہوتے ہیں اور وہ ہٹ دھرمی سے ہر بات سے انکار ہی کرتے چلے جاتے ہیں بالآخر اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان میں قبول حق کی صلاحیت ہی باقی نہیں رہتی۔ الروم
60 الروم
0 ف 12 یہ سورۃ مکی ہے مگر اس کی ” ولو ان ما فی الارض میں شجرۃ اقلام سے ” وان اللہ بما تعملون خبیر“ تک تین آیتیں غیر مکی ہیں اور بعض مفسرین نے ان کو بھی مکی قرار دیا ہے۔ حضرت براء سے روایت ہے کہ ہم نبی ﷺ کے پیچھے ظہر کی نماز پڑھا کرتے اور سورۃ لقمان اور ذاریات کی کوئی آیت سننے جاتے تھے۔ منقول ہے کہ قریش نے حضرت لقمان اور اس کے بیٹے کے قصہ کے متعلق سوال کیا، اس پر یہ سورۃ نازل ہوئی۔ (روح ۔ شوکانی) لقمان
1 لقمان
2 لقمان
3 ف 13 یعنی یہ کتاب اگرچہ فی نفسہ ہایت و رحمت ہے لیکن اس سے فائدہ ہی لوگ اٹھاتے ہیں جو نیک ہیں ” نیکوں“ کے لئے اصل میں لفظ ” محسنین“ استعمال ہوا ہے جس کا لفظی ترجمہ ہے ” احسان کرنے والے“ اور نہایت خلوص اور حضور قلب سے اللہ تعالیٰ کی عبادت کو احسان کہا جاتا ہے۔ روایات آثار میں ” احسان“ کی ترغیب آئی ہے۔ لقمان
4 لقمان
5 لقمان
6 ف 1 حسن بصری فرماتے ہیں لھو الحدیث (واہی باتوں) سے مراد وہ تمام فضول اور بے ہودہ باتیں ہیں جو آدمی کو اپنے میں مشغول کر کے نیکی اور بھلائی کے راستہ سے روک دیں جیسے جھوٹے افسانے ناول قصے کہانیاں ہنسی مذاق گانا بجانا اور اسی طرح کی دوسری چیزیں فالاضافۃ بمعنی من البیانیۃ او التبعیضیۃ بنائو علی مذھب اب کیسان بمعنی الام علی مذھب اکثر الماخرین وھو الاصح (کذافی لووح) اکثر صحابہ و تابعین نے اس کی تفسیر خاص طور پر ” گانا بجانا“ سے کی ہے۔ (قرطبی) حضرت عبداللہ بن معسود سے پوچھا گیا کہ اس آیت میں ” لہو الحدیث“ سے کیا مراد ہے؟ انہوں نے تین مرتبہ زور دے کر فرمایا :” الغنآء واللہ الذی لا الہ الا ھو“ اس اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں اس سے مراد گانا ہے۔ امام حسن بصری فرماتے ہیں کہ یہ آیت گانے اور اس کے سازوں کی مذمت میں نازل ہوئی ہے۔ (ابن کثیر) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ یہ آیت نضر بن حارث کے بارے میں نازل ہوئی جو عجمیوں (یارانیوں) کے قصے کہانیاں خرید کر لایا تھا (شوکانی) واحدی نے کلبی اور مجاہد سے بھی اس آیت کی شان نزول یہی نقل کی ہے حضرت ابن عباس سے ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ نضربن حارث نے گانے بجانے والی دو لونڈیاں بھی خرید کر رکھی تھیں جس کو دیکھتا کہ وہ اسلام کی طرف مائل ہو رہا ہے اس پر اپنی کوئی لونڈی مسلط کردیتا۔ وہ اسے اپنے گانے بجانے سے خوب مست رکھتی اور پھر وہ اس شخص سے کہتا کہ جس نماز روزہ کی طرف محمد (ﷺ) دعوت دیتے ہیں وہ بہتر ہے یا یہ گانا بجانا اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ علما نے لکھا ہے، ہوسکتا ہے کہ ان سب کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی ہو قال الالوسی وارمحسن تفسیرہ بمایعم ذالک او حضرت ابن عباس کی روایت سے اس کی تائید ہوتی ہے جو کہ الادب المفرد بخاری اور سنن بہیقی میں ہے۔ وہ فرماتے ہیں ” ھو العاء واشباھہ یعنی ” لھو الحدیث سے موسیقی اور اس قسم کی دوسری چیزیں مراد ہیں اور یہاں اشترا خریدنے سے مراد قرآن کی بجائے اس سے لذت و سرور حاصل کرنا ہے۔ الغرض متعدد آثار و اقوال سلف میں گانے کی مذمت مذکور ہے۔ ایک حدیث میں آنحضرت نے گانے گانے والے اور اس کے سننے والے پر لعنت فرمائی ہے اور آپ نے فرمایا ہے گانا انسان کے دل میں اس طرح نفاق پیدا کرتا ہے جیسے پانی سے گھاس پات اگتا ہے۔ ” تاتار خانیہ“ میں مذکور ہے کہ ’ دگانا تمام مذاہب میں حرام ہے۔“ امام مالک سے سماع کے متعلق سوال ہوا تو انہوں نے فرمایا : یہ تو ہمارے دور کے فاسق وفاجر لوگوں کا کام ہے اور ابن الصلاح نے تو مسماع کی حرمت پر اجماع نقل کیا ہے خصوصاً وہ سماع جو فی زمائنا صوفیہ کرام نے ایجاد کر رکھا ہے اور اسے اذکار و عبادات میں داخل کرلیا ہے۔ اس کے حرام ہونے کے میں کچھ بھی شک و شبہ نہیں ہے۔ سلف ہمیشہ ان باتوں سے دور رہے ہیں۔ (تفصیل کے لئے دیکھیے روحی المعانی) دور میں جس چیز کو ہم نے فنون لطیفہ کے نام سے اسلامی تمدن کا جز قرار دے رکھا ہے اسی کے متعلق قرآن نے ’ دضلالت عن سبیل اللہ ہونے کا اعلان کیا تھا فوا اسفا علی مافرطنا 12 لقمان
7 لقمان
8 لقمان
9 لقمان
10 ف 2 یہ ترجمہ اس صورت میں ہے جب ” ترونھا من ” ھا“ کی ضمیر آسمانوں کے لئے قرار دی جائے اور اگر یہ ستونوں کے لئے سمجھی جائے تو ترجمہ یوں ہوگا۔” اور اس نے آسمانوں کو ایسے ستونوں کے بغیر بنایا جنہیں تم دیکھ سکتے ہو۔“ گویا آسمانوں کے ستون ہیں مگر وہ تمہیں نظر نہیں آتے واللہ اعلم (نیز دیکھیے سورۃ رعد آیت 2) لقمان
11 ف 3 یعنی ان لوگوں نے جنہیں تم اپنا معبود بنائے بیٹھے ہو اور انہیں اپنی قسمت کا مالک سمجھتے ہو لقمان
12 ف 4 حضرت لقمان کے بارے میں کرمہ کے سوا باقی تمام مفسرین کا خیال ہے کہ وہ نبی نہ تھے بلکہ ایک نیک و دانا شخص تھے جو سوڈانی (حبشی) نسل سے تھے۔ ایک مرفوع روایت میں بھی ان کے حبشی ہونے کا ذکر ہے مقاتل نے کہا ہے کہ وہ حضرت ایوب کے بھانجے تھے ایک ہزار سال کی عمر پائی حضرت دائود کے زمانہ میں یہ بنی اسرائیل کے قاضی تھے لیکن ان کے بعد عہدہ قضا سے الگ ہوگئے (ابن کثیر) اکثر مفسرین کا خیال ہے کہ وہ آزاد نہیں بلکہ غلام تھے۔ (روح المعانی) ہی ﷺ کی بعثت سے پیشتر بھی ان کی حکمت اور دانئیا کے واقعات عرب میں مشہور تھے اور جاہلی شعرا کو ادبا اپنے کلام میں ان کا ذکر کرتے تھے جیسا کہ ابن ہشام نے اپنی سیرت میں نقل کیا ہے۔ (دیکھیے ج 71 ص 247) ف 1 یہ فرمانا بذریعہ الہام تھا یا خود حکمت دیئے جانے کا لازمی نتیجہ تھا۔ ف 2 وہ بذات خود محمود ہے اس کو نہ کسی کے شکر کی پرواہ ہے ورنہ کسی کی ناشکری کی۔ لقمان
13 ف 3 ظلم کے اصل معنی بے انصافی یعنی کسی کا حق مارنا ہیں۔ شرک اس لئے ظلم ہے کہ اس میں آدمی اپنے اصل مالک کے حقوق و اختیارات دوسروں کو دیتا اور انہیں اس مقابلے میں لاکھڑا کرتا ہے۔ لقمان
14 ف 4 اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری کے ساتھ والدین کی شکر گزاری کا حکم دینا ان کے حق کے بڑا ہونے کی دلیل ہے۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں :” یہ کلام بیچ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ لقمان نے بیٹے کو ماں باپ کا حق نہ کہا تھا کہ اپنی غرض معلوم ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے شرک سے پیچھے اور نصیحتوں سے پہلے ماں باپ کا حق نہ کہا تھا کہ اپنی فرض معلوم ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے شرک سے پیچھے اور نصیحتوں سے پہلے ماں باپ کا حق فرما دیا کہ اللہ کے حق کے بعد ماں باپ کا حق ہے اور رسول اور مشرد کا حق اللہ ہی کی طرف سے ہے کہ اس کے نائب ہیں۔ (نیز دیکھیے سورۃ اسرائیل آیت 24۔23 و عنکبوت آیت 8) ف 5 اس لئے معلوم ہوا کہ بچے کی مدت رضاعت دو سال ہے اور اس کو سورۃ بقر میں رضاعت کی زیادہ سے زیادہ مدت قرار دیا گیا ہے۔ دیکھیے آیت 233) سورۃ لقمان کی اس آیت سے حضرت ابن عباس اور دوسرے اہل نے یہ استنباط بھی کیا ہے کہ حمل کی کم سے کم مدت چھ ماہ ہے۔ جیسا کہ سورۃ احقاف کی آیت وحملہ و فصالہ ثلاثون شھراً سے معلوم ہوتا ہے۔ (ابن کثیر) ف 6 تاکہ تیرے اعمال کا حساب لیا جائے۔ اگر شکر کرے گا تو اس کی جزا اور ناشکری کرے گا تو اس کی سزا پائے گا۔ “ لقمان
15 ف 7 اور ظاہر ہے کہ خدا کے ساتھ کسی کے شریک ہونے کی سند نہیں ہو سکتی۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں :” شریک نہ مان جو تجھے معلوم نہیں یعنی شبہ میں بھی نہ مان اور یقین سمجھ کر تو کیا مانے۔“ ف 8 کیونکہ خالق کی معصیت میں کسی مخلوق کی اطاعت نہیں۔ (دیکھیے عنکبوت آیت 8) ف 9 یعنی ان کے مشرک ہونے کے باوجود دنیا کے عام معاملات میں ان سے شفقت، محبت اخلاق اور تواضح کا برتائو کر۔ ف 10 یعنی میری توحید کا قائل ہے اور پورے اخلاص سے میری اطاعت و بندگی کر رہا ہے۔ دین کے معاملہ میں ماں باپ کی تقلید جائز نہیں ہے۔ لقمان
16 ف 11 اس سے کوئی عمل پوشیدہ نہیں رہ سکتا۔ لقمان
17 ف 12 یعنی نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے میں تجھے جو مصیبتیں پیش آئیں انہیں صبر و ہمت سے برداشت کر اس لئے کہ یہ فریضہ جس نے جب بھی انجام دیا اس پر لازماً مصیبتوں کی پہاڑ ٹوٹے اور دنیا والے اس کے دشمن ہوگئے۔ ف 13 یعنی نماز قائم کرنا نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا ف 14 یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کی تاکید فرمائی ہے اور انہیں اپنے بندوں پر فرض قرار دیا ہے۔ عزم الامور کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ نیکی کا حکم دینے اور برائی سیر وکنے کا یہ کام بڑے عزم و ہمت کا کام ہے۔ کم ہمت لوگوں کے بس میں نہیں ہے کہ اس کی سختیاں جھیل سکیں، اس لئے اپنے عزم و ہمت پیدا کر اور اس کا مفہوم یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ مکارم اخلاق میں سے ہے۔ لقمان
18 ف 15 یا لوگوں سے اپنا منہ پھیر کر بات نہ کر۔ یعنی غرور نہ کر بلکہ تواضح اور عاجزی کے ساتھ ہر ایک کی بات سن۔ ف 1 بلکہ اللہ تعالیٰ کو عاجزی پسند ہے واضح رہے کہ اکڑنا اور شیخی بگھارنا اور چیز ہے اور شکر کے جذبہ سے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا ذکر کرنا دوسری چیز، یہ ناصرف جائز بلکہ اللہ تعالیٰ کو پسند ہے۔” واما بنعمت ربک فحدث (ضحیٰ 11) لقمان
19 ف 2 یعنی شریف لوگوں کی طرح وقار اور سکون سے چلا کر جیسا کہ دوسری آیت میں اہل ایمان کی یہ صفت بیان کی گئی ہے۔ کہ یمشون علی الارض ہونا کہ وہ زمین پر وقار و سکون سے چلتے ہیں۔ (فرقان 63) تیز چلنا جبکہ اس کی ضرورت ہو اور اس میں اعتدال پایا جائے۔ ” وقار“ کے خلاف نہیں ہے۔ آنحضرت جب چلتے تو تیز چلتے اور آگے کو زور دیتے ہوئے چلتے گویا آپ ڈھلان سے اتر رہے ہیں۔ (شوکانی) ف 3 یعنی شریف لوگوں کی طرح پرسکون اور دھیمے لہجہ میں بات کر، نہ کہ گدھے کی طرح چلا کر، اس لئے کہ چلا کر بولنے سے سننے والے کو تکلیف ہوتی ہے۔ (شوکانی) ف 4 کیونکہ وہ چلا کرہوتی ہے۔ یہاں پر حضرت لقمان کے نصائح ختم ہوئے آگے پھر توحید کے دلائل اور مشرکین کی توبیخ و تبکیت کی طرف رجوع کیا جس کے ساتھ سورۃ کی ابتدا ہوئی تھی (شوکانی) لقمان
20 ف 5 بعض چہروں کو ایسے ضابطہ کا پابند بنایا کہ وہ خود ہی تمہارے مفاد اور خدمت کے کام کر رہی ہیں، جیسے سورج، چاند، ساترے بلکہ فرشتے بھی جو تمہارے حفاظت کرتے ہیں اور بعض کو تمہارے اختیار میں دے دیا کہ ان میں سے جس سے چاہو اور جیسے چاہو فائدہ اٹھائو جیسے جانور زمین اور اس کی تمام چیزیں بہرحال تسخیر کے معنی یہ ہیں کہ تم ان سے مستفید و متمتع ہو رہے ہو۔ ان چیزوں کا انسان کے زیر تصرف ہونا ضروری نہیں ہے کیونکہ یہ تسخیر کے مفہوم سے خارج ہے۔ (شوکانی) ف 6 کھلی نعمتوں سے مراد وہ نعمتیں ہیں جنہیں آدمی اپنی عقل یا جو اس سے جانتا اور محسوس کرتا ہے اور چھپی نعمتوں سے مراد وہ نعمتیں ہیں جو انسان کے علم و احساس سے بالا ہیں مگر وہ اس کے جسم میں اور باہر کی دنیا میں اس کے مفاد، خدمت اور حفظ و بقا کے لئے کام کر رہی ہیں۔ (شوکانی و کبیر) ف 7 یعنی خلق و تسخیر اور انعام و احسان وغیرہ دلائل سے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت ثابت ہو چکنے کے باوجود اللہ تعالیٰ کی توحید و صفات میں جھگڑتے اور بحثیں کرتے ہیں کہ خدا ہے بھی کہ نہیں؟ اور ہے تو ایک ہے یا اس کے ساتھ دوسرے بھی خدائی میں شریک ہیں؟ اس کی صفات کیا ہیں وغیرہ وغیرہ۔ ف 8 یعنی نہ ان کے پاس خود کوئی علم ہے جس کی بنا پر وہ خدا کی حقیقت اور اس کی صفات کو سمجھ سکتے ہیں اور نہ ان کے پاس خود خدا کی بھیجی ہوئی کوئی ایسی کتاب ہے جس سے انہوں نے یہ عقیدہ اخذ کیا ہو بلکہ محض ضد و عناد سے یا تو سرے سے خدا ہی کے منکر ہو رہے ہیں یا پھر خدا کی صفات کی من مانی عقلی تاویلیں کر رہے ہیں۔ لقمان
21 ف 9 تب بھی یہ ان کے ساتھ دوزخ کی آگ میں جا کو دیں گے؟” یعنی کتاب اللہ اور پیغمبر کی ہدایت کے مقابل ہمیں اپنے جاہل اسلاف کے عمل کو پیش کرتے ہیں پھر اس سے بڑھا کر گمراہی اور کیا ہو سکتی ہے؟ (دیکھیے بقرہ آیت 87 مائدہ آیت 104) لقمان
22 ف 10 یعنی ایمان اور عمل صالح اختیار کرے عمل میں احسان یہ ہے کہ عمل خلاص اللہ تعالیٰ کے لئے ہو یعنی ریا کاری سے پاک ہو اور پھر شریعت کی ہدایت کے مطابق ہو۔ (دیکھیے سورۃ بقرہ 112) ف 11 جس کے بعد اسے بھٹکنے اور انجام بد سے دوچار ہونے کا کوء خطرہ نہیں۔ ف 12 ووہی ان کا بدلہ دے گا۔ لقمان
23 لقمان
24 لقمان
25 ف 1” کہ میری صداقت اور تمہارا ہونا ثابت ہوگیا اور تم نے خود ہی اعتراف کرلیا۔“ (ابن کثیر، کبیر) یا مس موقع پر ’ دشکر خدا کا“ کہنے کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جب تم مانتے ہو کہ زمین و آسمان کو دا ہی نے بنایا ہے۔ تو شکر بھی اسی کا بجا لائو، دوسروں کے سامنے ماتھے کیوں رگڑتے پھرتے ہو۔ ف 2 یعنی یہ نہیں سمجھتے کہ جب خدا کو زمین و آسمان کا خلاق مان لیا تو ضروری ہے کہ بندگی بھی صرف اسی کی کی جائے۔ (شوکانی ) لقمان
26 ف ٣ یعنی نہ صرف خلاق ہے بلکہ مالک بھی ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ تعریف بھی اسی کی ہے۔ (رازی) ف 4 سب اس کے محتاج اور بے بس بندے ہیں۔ کوئی اس کی تعریف کرے یا نہ کرے۔ وہ بذات خود تعریف کا سزا وار ہے۔ (نیز دیکھیے آیت 12) لقمان
27 ف 5 یعنی اس کی صفات و معلومات یا اس کی عظمت اور قدرت و حکمت کے کرشمے۔ ف 6 یعنی وہ ضبط تحریر میں نہ لائی جا سکیں۔ (نیز دیکھیے کہف :109) حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ یہ آیت یہودی علما کے جواب میں نازل ہوئی انہوں نے ایک مرتبہ آنحضرت سے دریافت کیا کہ آیت وما اوتیتم من العلم الاقلیلاً اور تمہیں تھوڑا سا علم دیا گیا ہے۔) سے مراد ہم میں یا آپ کی قوم (عرب) آپ نے فرمایا :” تم بھی اور وہ بھی“ انہوں نے کہا ” توراۃ میں ہر چیز کا علم موجود ہے۔“ فرمایا ” اللہ کے علم کے مقابلے میں بہت تھوڑا ہے۔“ اس سے معلوم ہوا کہ یہ آیت مدنی ہے۔ (ابن کثیر) لقمان
28 ف 7 اللہ تعالیٰ کے علم و قدرت کا کمال بیان کرنے کے بعد اب حشر کے استبعاد کو باطل فرمایا (کبیر) یعنی اللہ تعالیٰ تمام چیزوں کو کلمہ کن سے موجود کردیتا ہے۔ پھر تمہارا اعادہ اس کے لئے کیا مشکل ہے۔ (دیکھیے یسین :82) ف 8 یعنی جب وہ اپنے سمع، بصر سے تمہارے تمام اقوال و افعال کا احاطہ کئے ہوئے ہے تو دوبارہ زندہ کرنا، اس کے لئے کیا مشکل ہے۔ لقمان
29 ف 9 اور جب قیامت آئے گی تو سب فنا ہوجائیں گے ان میں کوئی چیز ازلی اور ابدی نہیں ہے۔ ” ٹھہری ہوئی مدت“ سے مراد ان کے طلوع و غروب کا وقت بھی ہوسکتا ہے جیسا کہ حضرت ابوذر کی روایت میں ہے کہ سورج جا کر اللہ کی عرش کے نیچے سجدہ کرتا ہے اور پھر اسے اجازت دی جاتی ہے کہ جہاں سے آئے ہو وہیں پلٹ جائو اجل مسمی کے یہ دونوں معنی ہو سکتے ہیں۔ (ابن کثیر) لقمان
30 ف 10 یعنی انہوں نے اپنی خام خیالی اور وہم پرستی سے انہیں معبود بنا لیا ہے حالانکہ وہ معبود نہیں ہیں۔ ف 11 سب اس کے مقابلے میں پست و حقیر اور اس کے تابع فرمان ہیں۔ لقمان
31 ف 12 یعنی تم دو دراز سمندروں میں سامان تجارت لے کر سفر کرتے ہو۔ اگر جہاز رانی کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ اسباب و وسائل پیدا نہ کئے ہوتے تو یہ بحری سفر ممکن نہ ہوتے۔ ف 13 یعنی مومن کے لئے جو مصیبت و تنگدستی میں صبر اور فراخی و خوشحالی میں اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر کرتا ہے مشرک کی حالت اس کے برعکس ہے کہ برا وقت پڑے تو وہ اللہ کے سامنے گڑ گڑانے لگتا ہے اور اچھا وقت آئے تو سب کچھ بھول جاتا ہے۔ لقمان
32 ف 14 یعنی سمندر میں مصیبت پڑنے کے وقت اللہ تعالیٰ کی بندگی کا جو اقرار اس نے کیا تھا اس پر قائم رہت اہے۔ اصل میں ” اقتصاد“ کے معنی راست روی اور میانہ روی کے ہیں اور یہ لفظ ظالم کے مقابل ہمیں بھی اسعتمال ہوا ہے۔ (دیکھیے سورۃ فاطر (آیت 32) بعض مفسرین نے اس کے معنی ” کافر“ کئے ہیں کیونکہ سورۃ عنکبوت (آیت 65) میں ہے۔ ” فلما نجاھم الی البر اذا ھم یشرکون“ ” تو جب اس نے انہیں نجات دی تو اچانک وہ شرک پر اتر آئے۔“ مگر یہ استدلال صحیح نہیں ہے۔ (ابن کثیر) ف 1 یعنی جو مصیبت کا وقت ٹل جانے پر سب کچھ بھول جاتے ہیں اور اپنے قول و قرار کا بھی کوئی پاس نہیں کرتے۔ اس سے بھی معلوم ہوا کہ پہلے جملہ میں ’ دمقتصد“ کے معنی راست روی اختیار کرنے والے ہی کے ہیں۔ (شوکانی) لقمان
33 ف 2 اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے دلائل ذکر کرنے کے بعد اب تقویٰ کا حکم دیا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا تقاضا یہ ہے کہ اس کی نافرماین سے بچا جائے۔ (کبیر) مطلب یہ ہے کہ قیامت کے دن تو قریب ترین تعلقات بھی ختم ہوجائیں گے، نہ باپ اپنے بیٹے کے آلام و مصائب کو دور کرسکے گا اور نہ بیٹا باپ کو کسی قسم کی اہانت و روسائی سے محفوظ رکھ سکے گا۔ لکل امرء منھم یومئذ شان یغنیہ دیکھیے سورۃ عبس آیت 37) ف 3 لفظی ترجمہ یہ ہے ” اور نہ دھوکہ دینے والا شیطان) تمہیں اللہ کے بارے میں دھوکے میں ڈال دے۔“ اللہ کے بارے میں شیطان کا یہ دھوکہ کئی طرح سے ہوتا ہے کسی کو دھوکا دیتا ہے کہ خدا ہی نہیں ہے۔ کسی کو دھوکا دیتا ہے کہ خدا بڑا غفور رحیم ہے۔ مزے سے گناہ کئے جاو وہ سب معاف کر دے گا۔ کسی سے کہتا ہے کہ فلاں بزرگ یا پیر صاحب کا اس پر بڑا زور ہے وہ سفارش کر کے تمہیں اس کی پکڑ سے بچا لیں گے۔ الغرض مختلف طریقوں سے انسان کو دنیا کی طرف مائل کر کے خدا سے غافل بنا دیتا ہے۔ وغیرہ (وحیدی وغیرہ) لقمان
34 ف 4 اور یہ کہ نیک یا بد؟ ف 5 اوپر قیامت کے دن سے ڈرایا ہے۔ اب یہاں فرمایا کہ اس کے وقوع کا علم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو نہیں ہے۔ (کبیر) بخاری و مسلم اور مسند احمد کی متعدد روایات ہیں آنحضرت نے ان باتوں کو ” غیب کی کنجیاں“ قرار دے کر ان کے متعلق فرمایا ہے کہ انہیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ خود نبی ﷺ کے بارے میں یہ عقیدہ رکھنا کہ آپ کو ان باتوں کا یا ان میں سے کسی بات کا علم تھا سراسر باطل ہے اور قیامت کے متعلق تو حضرت جبرئیل والی روایت میں ہے کہ آنحضرت نے ان کے جواب میں فرمایا :” ما المسئول عنھا باعلم من السائل یعنی جس سے سوال کیا جا رہا ہے اس کو سائل سے زیادہ علم نہیں ہے۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں۔ من زعم انہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یعلم مایکون فی غد فقد اعظم علی اللہ الفریۃ جس نے دعویٰ کیا کہ نبی ﷺ جانتے ہیں کہ کل کیا ہونے والا ہے اس نے اللہ پر بہت بڑا بہتان باندھا ہے۔ (شوکانی 4) لقمان
0 ف 6 یہ پوری سورۃ مکی ہے۔ بعض مفسرین نے اس کی آیت افمن کان مومنا سے الذی کنتم بہ تکذبون تک تین آیتوں کو اور بعض نے تتجافی جنوبھم سے الذی کنتم بہ تکذبون تک پانچ ایٓتوں کو غیر مکی قرار دیا ہے۔ ” صحاح ستہ‘ کی تمام کتابوں میں حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ ’ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) “ جمعہ کے روز نماز فجر کی پہلی رکعت میں یہ سورۃ پڑھا کرتے تھے۔ (فتح البیان) السجدة
1 السجدة
2 ف 7 یہ کسی انسان کی تصنیف کردہ کتاب نہیں ہے اور نہ یہ جادو کہانت یا پھچلے لوگوں کے من گھڑت افسانے میں جیسا کہ کفار مکہ قرآن کے بارے میں اس قسم کی اٹکل پچو باتیں کہا کرتے تھے۔ (شوکانی) السجدة
3 ف 8 یعنی محمد ﷺ کی صداقت و اہانت کو پوری طرح جاننے کے باوجود یہ لوگ ایسی صریح غلط اور لغوبات کہہ رہے ہیں۔ ف 9 مراد عرب یا قریش کے لوگ ہیں جن کی طرف خود ان میں سے نبی ﷺ سے پہلے کوئی پیغمبر نہیں آیا تھا۔ حضرت اسماعیل کی بعثت پر (جو نبی ﷺ سے پہلے ان کے آخری پیغمبر تھے) تقریباً ڈھائی ہزار سال گذر چکے تھے۔ السجدة
4 ف 10 ” چھ دنوں“ سے مراد دنیا کے چھ دن نہیں بلکہ چھ ادوار ہیں یا آخرت کے چھ دن (دیکھیے سورۃ احراف آیت 74) ف ١ یعنی ساری مخلوق سے الگ عرش پر ہے۔ بہت سی احادیث اور آثار و اقوال سے بھی اللہ تعالیٰ کا عرش پر ہونا ثابت ہے۔ حافظ ابن تیمیہ فرماتے ہیں کہ سلف کا اس پر اجماع ہے۔ حافظ ابن قیم اغاثہ میں لکھتے ہیں کہ ارسطو سے پہلے تمام فلاسفہ حدوث عالم کے قائل تھے اور یہ کہ صانع عالم موجود اور تمام مخلوق سے الگ ہے اور اپنی ذات سے آسمانوں اور تمام جہاں کے اوپر ہے۔ الغرض سارے اہل شریعت اور عقلا اسی عقیدہ پر متفق چلے آتے ہیں، صرف معتزلہ نے اس صف کی نفی کی ہے، پھر متاخرین اشاعرہ ان کے تابع ہوئے۔ از حاشیہ جامع البیان ( نیز دیکھئے سورۃ بقرہ آیت ٢٩، سورۃ اعراف آیت ٥٤ و طہٰ آیت ٥)۔ ف ٢ یعنی اگر وہ تمہیں عذاب دینا چاہے تو کوئی نہیں جو تمہاری مدد کرکے تمہیں اس سے چھڑاسکے یا خود اس کے اذن کے بغیر اس سے تمہاری سفارش کرسکے۔ السجدة
5 ف ٣ یعنی آسمان سے زمین تک تمام کام اسی کے قف اور قدر سے چل رہے ہیں۔ وہ آسمان کے بلند ترین حصہ سے زمین کے پست ترین حصہ تک اپنا حصہ نازل کرتا ہے جیسے فرمایا (یتنزل الا مر بینھن) ( طلاق : ١٢) کہ اس کا حکم ان زمین و آسمان کے درمیان اترتا ہے بعض علماء کا خیال ہے کہ عرش محل تدبر ہے۔ یعنی وہاں ہر چیز کی تدبیر ہوتی ہے اور مادون العرش یعنی آسمانوں میں اس کی تفصیلات طے کی جاتی ہیں۔ ( دیکھئے سورۃ رعد آیت ٢) اور پھر ان تفصیلات کو آسمانوں سے نیچے اتار کر ان کی تعریف کی جاتی ہے۔ جیسے فرمایا ( ولقد صر فناہ بینھم لیذکروا) (قرطبی)۔ ف ٤ مراد قیامت کا دن ہے جبکہ اللہ تعالیٰ کے حضور تمام انسانوں کی پیشی ہوگی۔ سورۃ معارج ( آیت ٤) میں قیامت کے دن کی مقدار پچاس ہزار برس فرمائی ہے جس کے معنی یا تو یہ ہیں کہ شدت خوف سے کفار کو قیامت کا دن پچاس ہزار برس کا معلوم ہوگا۔ یا یہ کہ قیامت کے دن میں پچاس مرحلے ہوں گے جن میں سے ہر مرحلہ ہزار برس کا ہوگا۔ ابن جریر اور بعض دوسرے مفسرین (رح) نے اس آیت کا مطلب یہ لیا ہے کہ فرشتہ بندوں کے اعمال لے کر ایک دن میں اللہ تعالیٰ کے حضور ( یعنی اس جگہ کی طرف جو اللہ تعالیٰ نے اعمال کے لیے مقرر کی ہے) صعود کرتا ہے۔ آنے اور جانے میں جتنی مسافت وہ طے کرتا ہے اسے اگر کوئی غیر فرشتہ طے کرے تو ہزار برس صرف ہوجائیں؟ کیونکہ آسمان سے زمین تک پانچ سو برس کی مسافت ہے یا یہ کہ اوپر چڑھنے کی مسافت بھی ایک ہزار سال ہے اور نیچے اترنے کی مسافت بھی اس کے برابر ہے اس صورت میں سورۃ معارج کی آیت سے قیامت کا دن مراد ہوگا اور اس آیت سے وہ متعارض نہیں رہے گی۔ بعض علماء نے تفسیر نے یہ بھی بیان کیا ہے اللہ تعالیٰ ایک دن کے اندر ایک ہزار سال کے امور کی تدبیر کر کے فرشتوں کو القا کردیتا ہے اور فرشتے اسے سر انجام دیتے رہتے ہیں پھر اس کے بعد دوسرے ہزار سال کی تدبیر اتر آتی ہے، اسی طرح یہ سلسلہ تا قیامت جاری رہے گا۔ ( قرطبی، شوکانی) موضح میں ہے بڑے بڑے کام کا حکم عرش سے مقرر ہو کر نیچے اترتا ہے۔ سب اسباب اس کے آسمان اور زمین سے جمع ہو کر بن جاتا ہے پھر ایک مدت جاری رہتا ہے پھر اٹھ جاتا ہے اللہ کی طرف دوسرا رنگ اترتا ہے جیسے بڑے بڑے پیغمبر جن کا اثر قرنوں تک رہا، بڑی قوم میں سرداری جو عمروں چلے وہ ہزار برس اللہ کے ہاں ایک دن ہے۔ السجدة
6 السجدة
7 السجدة
8 السجدة
9 السجدة
10 السجدة
11 ف ٥ یعنی تم اپنے آپ کو محض بدن اور دھڑ سمجھتے ہو کہ خاک میں رل مل کر برابر ہوگئے، ایسا نہیں بلکہ تم جان ہو جسے فرشتے لے جاتا ہے بالکل فنا نہیں ہوجاتے۔ (موضح)۔ موت کے فرشتہ کا نام بعض آثار میں ” عزرائیل“ آیا ہے اور یہی مشہور ہے۔ حدیث میں ہے کہ ” ملک الموت“ کے بہت سے نائب اور مددگار ہیں جو تمام جسموں سے روحیڈ نکالتے ہیں اور جب وہ گلے تک پہنچتی ہیں تو موت کا فرشتہ انہیں لے لیتا ہے۔ ( ابن کثیر) ف ٦ تاکہ تمہارے اعمال کا جائزہ لیا جائے پھر اگر وہ اچھے ہوں تو تمہیں جزا دی جائے اور اگر برے ہوں تو سزا دی جائے السجدة
12 ف ٧ مگر اس سوقت یقین ہوجانے کا کیا فائدہ؟ جو وقت یقین کے فائدہ دینے کا تھا ( یعنی دنیا میں) وہ تو انہوں نے گنوا دیا۔ السجدة
13 ف ١ یعنی یہ کیا بات ہوئی کہ اب تم حقیقت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر ایمان لے آئو اور ہم تمہاری سزا موقوف کردیں یا تمہیں دوبارہ دنیا میں بھیج دیں، اس طرح کی جبری ہدایت تو تمہیں پہلے ہی دے سکتے تھے مگر اس سے قیامت یک دن کی جزا سزا بے نتیجہ ہو کر رہ جاتی اور امتحان کا مقصد ہی فوت ہوجاتا۔ اب تو ضروری ہے کہ میرا وہ قول پورا جو میں نے تخلیق آدم کے وقت ابلیس کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا یعنی ( فالحق والحق اقول لا ملان جھنم منک وممن تبعک منعم اجمعین) (ھی : ٨٥) پس حق یہ ہے کہ میں حق بات ہی کہتا ہوں کہ میں جہنم کو تجھ سے اور تیری پیروی کرنے والوں سب سے بھروں گا ( قرطبی، ابن کثیر) ف ٢ یعنی دنیا کے عیش و آرام میں پھنس کر اس دن کے آنے کا خیال تک تمہار ذہنوں میں نہ آتا تھا۔ السجدة
14 السجدة
15 ف ٣ یعنی انہیں سنا کر نصیحت کی جاتی ہے۔ ف ٤ یعنی خوف و خشیت اور خشوع و خضوع سے سجدہ میں گر پڑتے ہیں۔ زبان سے ( سبحان اللہ و بحمدہ یا سبحان ربی الا علی) کہتے ہیں اور دل میں کبر و غرور اور بڑائی کی بات نہیں رکھتے کہ نصیحت قبول کرنے سے مانع ہو۔ اس مقام پر پڑھنے والے اور سننے والے دونوں کے لیے سجدہ کرنا مسنون ہے۔ ( قرطبی)۔ السجدة
16 ف ٥ یعنی رات کو بیدار ہو کر یا رہ کر وہ اپنے رب کی عبادت کرتے ہیں۔ جمہور مفسرین (رح) نے اس سے رات کا قیام مراد لیا ہے اور علمائے تفسیر (رح) نے اس سے نماز عشاء اور تہجد بھی مراد لی ہے۔ حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ یہ آیت نماز عشاء کے بارے میں نازل ہوئی اور ہم عشاء کی نماز سے پہلے لیٹنے سے پرہیز کرتے ہیں۔ میں نے آنحضرت ﷺ کو کبھی عشاء سے پہلے لیٹے اور عشاء کے بعد باتیں کرتے نہیں دیکھا اور ایک حدیث میں آنحضرت ﷺ نے آدھی رات کے قیام کو خیر کا دروازہ قرار دیا ہے۔ ( ابن کثیر، شوکانی)۔ السجدة
17 ف ٦ آنکھوں کی ٹھنڈک سے مراد وہ نعمتیں ہیں جنہیں پا کر وہ بے حد خوش ہوں گے۔ حضرت ابو ہریرہ (رض) سے متعدد اسانید کے ساتھ صحیحین اور سنن کی کتابوں میں مروی ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے وہ کچھ فراہم کر رکھا ہے جسے نہ کسی آنکھ نے دیکھا نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی انسان کے دل میں اس کا خیال تک گزرا۔ اس مضمون کی احادیث دوسرے متعدد صحابہ (رض) سے بھی مروی ہے۔ ( شوکانی)۔ السجدة
18 ف ٧ یعنی قیامت کے روز دونوں کا انجام یکساں نہیں ہوسکتا۔ ( نیز دیکھئے حاشیہ ٢١، حشر : ٢٠) اور یہ آخرت کے ثواب و عقاب کی نہایت عمدہ دلیل ہے کیونکہ اگر اس دنیا کے بعد کوئی دوسری زندگی نہ ہو تو نیک اور بد سب یکساں ہوجائیں اور نیک و بد کا یکساں ہوجانا پروردگار عالم کی شان کے بالکل خلاف ہے۔ بعض روایات میں ہے کہ یہ آیت حضرت علی (رض) اور ولید بن عتبہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے (قرطبی) السجدة
19 ف ٨ یعنی اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ان کے اچھے کام آخرت میں اس مہمانی کا سبب بن جائیں گے۔ السجدة
20 ف ٩ دوزخ سے نکلنا ممکن نہ ہوگا، شاید کبھی آگ کے شعبے دوزخیوں کو اوپر اٹھائیں یادروازہ کی طرف پھینکیں تو ان کے دل میں نکلنے کا خیال پیدا ہو لیکن فرشتے انہیں پھر اندر دھکیل دیں گے کہ جاتے کدھر ہو، جس چیز کو جھٹلایا کرتے تھے، اس کا مزا چکھو۔ السجدة
21 ف ١” اور توبہ کریں “۔ چھوٹے عذاب سے مراد دنیا کا عذاب ( قتل و غارت)، قید و ہند، قحط اور دوسرے مصائب و آلام بھی ہوسکتا ہے اور وہ عذاب بھی جو کافروں اور نافرمانوں کو قبر ( یعنی بزرخی زندگی) میں دیا جائے۔ مگر یہ آخری جملہ عذاب قبر مراد لینے کی تصنیف کر رہا ہے (شوکانی) ہاں قبر کے عذاب کا ثبوت بعض دوسری آیتوں سے ملتا ہے۔ دیکھئے سورۃ غافر آیت ٤٦، سورۃ انعام آیت ٩٣، ٩٤ اور صحیح احادیث میں تو اسے پوری صراحت و تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ السجدة
22 ف ٢ یعنی عام مجرموں سے بھی بدلہ لیں گے تو اللہ تعالیٰ کی آیات سے اعراض کرنے والا اس میں بالا ولی داخل ہے۔ ابن جریر (رح) اور طربانی (رح) وغیرہ نے حضرت معاذ بن جبل سے یہ روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا، تین کاموں کا کرنے والا مجرم ( گناہ گار) ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم مجرموں سے بدلہ لیں گے۔ ایک وہ جو ناحق اپنی سرداری اور حکمرانی کا جھنڈا اٹھائے۔ دوسرا وہ جو اپنے ماں باپ کی نافرمانی کرے اور تیسرا وہ جو ظالم کے ساتھ ہو کر اس کی مدد کرے۔ ( ابن کثیر) السجدة
23 ف ٣” اس کے طعنے میں شک نہ کرے“ کے مفسرین (رح) نے کئی مطالب بیان کئے ہیں۔ ایک یہ کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) موسیٰ ( علیہ السلام) سے ملاقات ہونے میں شک نہ کریں۔ چنانچہ معراج کے موقع پر آسمان پر بھی اور بیت المقدس میں بھی نبیﷺ کی ان سے ملاقات ہوئی اور قیامت کے روز بھی ہوگی۔ تیسرایہ کہ جس طرح موسیٰ ( علیہ السلام) کو کتاب ملنے میں شک نہ کریں۔ تیسرایہ کہ جس طرح موسیٰ ( علیہ السلام) کو کتاب ( توراۃ) دی گئی اسی طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ کتاب ( قرآن) دی گئی ہے اس کے ہماری طرف سے ہونے میں کوئی شک نہیں ہونا چاہئے وغیرہ ( شوکانی) ف ٤” وجعلناہ“ میں ” ہ“ کی ضمیر کتاب کے لیے ہے۔ پہلے اسی مضمون کی آیت سورۂ اسراء میں گزر چکی ہے ( دیکھئے آیت ٢١)۔ السجدة
24 ف ٥ یہ اس وقت کی بات ہے جب بنی اسرائیل نے کتاب الٰہی پر عمل کیا اور کافروں کی ایذا رسانی پر صبر کرتے رہے لیکن بعد میں جب انہوں نے تحریف کا راستہ اختیار کیا اور اللہ تعالیٰ کے احکام کی من مانی تاویلیں کرنے لگے تو ان سے پیشوائی کا یہ پیغام چھین لیا گیا اور ان پر ذلت و رسوائی مسلط کردی گئی۔ (کما سبق مرادا)۔ (ابن کثیر) السجدة
25 ف ٦ وہاں معلوم ہوجائے گا کہ کون ہدایت پر تھا اور کون اسرائیل بھی ہو سکتے ہیں جنہوں نے انبیاء ( علیہ السلام) اور ان کے معاصر اقوام اور مسلمان اور کافر بھی مراد ہو سکتے ہیں۔ السجدة
26 ف ٧ یعنی اپنے سفروں میں آتے جاتے ان کی اجڑی ہوئی بستیاں اور ان میں پائے جانے والے عذاب دیکھتے ہو مگر ان سے کوئی عبرت حاصل نہیں کرتے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ’ یمشون“ میں ھم کی ضمیر ہلاک ہونے والوں کے لیے ہو یعنی ان کو ہلاک کیا اس حال میں کہ وہ اپنے گھروں میں چل پھر رہے تھے۔ ( شوکانی)۔ السجدة
27 السجدة
28 ف ٨ یعنی یہ جو کہتے ہو کہ ایک دن آئے گاجب اللہ ہمارے اور تمہارے درمیان فیصلہ کر دے گا، تو بتاو یہ فیصلہ کا دن کب آئے گا ؟ یہ بات کافر مسلمانوں سے کہا کرتے۔ فیصلہ کے دن سے مراد قیامت کا دن ہے۔ (شوکانی) السجدة
29 ف ٩ یعنی جب وہ دن آئے گا اس وقت اگر تم اسے آنکھوں دیکھی حقیقت پاکر ایمان لے آئو تو تمہارا ایمان معتبر نہ ہوگا اور نہ تمہیں ایمان لانے کے لیے کوئی مہلت دی جائے گی۔ السجدة
30 السجدة
0 ف ١ یہ سورۃ مدینہ منورہ میں نازل ہوئی کیونکہ اس میں جن تین واقعات، عزوہ ٔ احزاب، غزوہ ٔ بنی قریظہ اور حضرت زینب (رض) سے آنحضرتﷺ کا نکاح سے بحث گئی ہے وہ سب اسی سال پیش آئے۔ نسائی میں حضرت ابی بن کعب (رض) سے روایت ہے کہ یہ سورۃ بقرہ کے برابر تھی یا اس سے بھی بڑی، اسی میں رحم کی آیت بھی تھی لیکن اس کی بہت سی دوسری آیتوں کے ساتھ یہ بھی اٹھائی گئی۔ اس روایت کی سند کو حافظ ابن کثیر نے حسن قرار دیا ہے۔ صحیحین اور حدیث کی دوسری کتابوں میں ہے کہ حضرت عمر (رض) نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا !” لوگوں اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺ کو حق دے کر مبعوث فرمایا اور آپﷺ پر کتاب اتاری، دوسری آیتوں کے علاوہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر رجم کی آیت بھی نازل کی گئی جسے ہم نے پڑھا اور یاد کیا۔۔۔۔ نبی ﷺ نے بھی رجم کیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد ہم نے بھی یہ رجم کیا۔ مجھے اندیشہ ہے کہ زمانہ گزر جانے کے بعد کچھ لوگ یہ کہنے لگیں گے کہ ہم اللہ کی کتاب میں رجم کی آیت نہیں پاتے۔ اگر وہ ایسا کہیں گے تو اللہ کے نازل کردہ فریضہ کو چھوڑنے کی بناء پر گمراہ ہوجائیں گے “۔ حضرت عمر (رض) سے یہ روایت متعدد سندوں سے آئی ہے۔ ( شوکانی)۔ الأحزاب
1 ف ٢ اس آیت میں اعلیٰ سے ادنیٰ پر تنبیہ فرمائی ہے یعنی جب پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ سے ڈرتے رہنے اور کافروں اور منافقوں کی بات ماننے کی تاکید کی ہے تو دوسرے لوگوں کو بطریق اولیٰ یہ حکم ہے۔ ( ابن کثیر) شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں ” کافر چاہتے اپنی طرف نرم کرنا اور منافق چاہتے تھے اپنی چال سکھانی اور پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ پر بھروسہ ہے اس سے دانا کون ہے“؟ ( موضح) الأحزاب
2 الأحزاب
3 الأحزاب
4 ف ٣ کہ ” ایک دل میں ایمان و اخلاص ہو اور دوسرے میں کفر و نقاق“ کفر و اسلام اور ایمان و نفاق بیک وقت ایک دل میں جمع نہیں ہو سکتے۔ صاحب ” و جیز“ لکھتے ہیں ” جب اللہ تعالیٰ نے حضرت کو توجہ الی اللہ اور توکل کا حکم دیا اور کافروں اور منافقوں کی اطاعت سے منع کیا تو آگاہ فرمایا کہ آدمی کے دو دل نہیں جو ایک اللہ کی طرف متوجہ کرے اور ایک غیر کی طرف، بلکہ دل ایک ہے سو اللہ تعالیٰ کی طرف لگانا چاہیے۔ ( حاشیہ جامع البیان)۔ ف ٤ یعنی جس طرح ایک سینہ میں دو دل نہیں ہو سکتے اور نہ بیوی ” ظہار“ کرنے یعنی ” انت علی کظھر امی“ کہہ دینے سے اس کی حقیقی ماں بن جاتی ہے، اسی طرح کسی کو منہ بولا بیٹا بنانے سے وہ حقیقی بیٹا نہیں بن جاتا کیونکہ کسی آدمی کے دو باپ نہیں ہو سکتے (ظہار کے لیے دیکھئے سورۃ مجادلہ آیت ٢) زمانہ جاہلیت میں اگر ایک شخص کسی دوسرے کے لڑکے کو منہ بولا بیٹا بنا لیا تو وراثت و حرمت وغیرہ احکام میں وہ حقیقی بیٹا ہوتا۔ آنحضرتﷺ نے بھی قبل از نبوت عام عادت کے مطابق اپنے آزاد کردہ غلام زید (رض) بن حارثہ کو اپنا بیٹا بنایا تھا اور لوگ اسے زید (رض) بن محمد (ﷺ) کہہ کر پکارتے تھے۔ آگے آرہا ہے کہ جب انہوں نے اپنی بیوی حضرت زینب کو طلاق دی اور نبی ﷺنے ان سے نکاح کرلیا تو منافقوں نے بڑا شورمچایا کہ محمدﷺ نے اپنی بہو سے نکاح کرلیا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور متبنی بنانے کی رسم کو لغو قرار دے دیا۔ (ابن کثیر) ف ٥ یعنی ایسی کہنے کی باتیں بہتیری ہیں ان پر عمل نہیں ہوسکتا، مطلب یہ ہے کہ ان باتوں کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے۔ الأحزاب
5 ف ٦ چنانچہ اس کے بعد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زید (رض) سے فرمایا ” انت زید بن حلدثہ بن شراجیل“ کہ تم حارثہ کے بیٹے زید (رض) ہو۔ حدیث میں ہے کہ جس نے اپنے کو کسی دوسرے کی طرف بیٹا ہونے کی حیثیت سے منسوب کیا اس نے کفر کا ارتکاب کیا۔ ہاں تگریم و محبت کے طور پر کسی کو بیٹا کہہ کر پکارا جاسکتا ہے جیسا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت انس (رض) کو یابنی کہہ کر پکارا (ابن کثیر) ف ٧ یعنی انہیں بھائی یا دوست کہہ کر پکادو، چنانچہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک موقع پر حضرت زید (رض) سے فرمایا : انت اخونا و مولانا ( ابن کثیر) ف ٨ یعنی غلطی سے کسی دوسرے کا بیٹا کہہ کر پکار لیا تو کچھ ہرج نہیں۔ الأحزاب
6 ف ٩ کیونکہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) روحانی زندگی بخشتے ہیں۔ شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں، اجنبی نائب ہے اللہ کا اپنی جان مال میں اپنا تصرف نہیں چلتا جتنا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اپنی جان دہکتی آگ میں ڈالنی روا نہیں اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حکم کرے تو فرض ہے“۔ اسی لیے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کے دل میں میری محبت، اس کے باپ اور اطاد کی محبت سے حتیٰ کہ خود اس کی اپنی ذات کی محبت سے بڑھ کر نہ ہوجائے۔ (شوکانی) ف ١٠ یعنی تعظیم و تکریم اور حرمت نکاح کے اعتبار سے باقی رہے۔ دوسرے احکام ( مثلاً پردہ، ان کی اولاد سے شادی) سو ان میں ماں کی طرح نہیں ہیں۔ (شوکانی)۔ ف ١ ہجرت کے بعد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مہاجرین (رض) اور انصار (رض) مدینہ کے درمیان بھائی چارہ قائم کردیا تھا جس کی بناء پر وہ ایک دوسرے کے وارث بھی ہوتے تھے۔ سورۃ احزاب کی اس آیت سے یہ وارثت منسوخ کردی اور رشتہ داروں کو وارث قرار دیا گیا۔ دیکھئے سورۃ انفال، ٢٧، ٤٨( ابن کثیر ) الأحزاب
7 ف ٢ یہ اقرار کہ دین کو قائم کریں گے اور اس میں کوئی تفرقہ نہیں ڈالیں گے۔ ( دیکھئے شوریٰ آیت ١٣) یہ عہد گو تمام انبیاء سے لیا گیا مگر اس آیت میں اور ” شوریٰ“ کی آیت ١٣ میں خاص طور پر پانچ اولوالعزم پیغمبروں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نام ذکر کئے جس سے مقصد دوسرے انبیا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ان کی عظمت و فضلیت ظاہر کرنا ہے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو باوجود متأخر زماں ہونے کے یہاں مقدم ذکر کیا کیونکہ آپ سب سے افضل ہیں۔ ( ابن کثیر) شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں : ” اوپر پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرمایا کہ وہ سب لوگوں پر تصرف رکھتا ہے ان کی جان سے بھی زیادہ، یہاں فرمایا کہ یہ درجہ نبیوں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ملا کہ ان پر محنت بھی زیادہ ہے، ساری خلق سے مقابل ہونا اور کسی سے خوف و جا نہ رکھنا“۔ اوپر تو کل اور تقویٰ حکم دیا اب آگے غزوہ احزاب کا ذکر فرما کر تقویٰ اور توکل کے ثمرات ظاہر فرما دیئے۔ (کبیر) الأحزاب
8 ف ٣ کہ اس اقرار کی کہاں تک پابندی کی گئی اور لوگوں نے ان کی باتوں کو سن کر کیا جواب دیا؟ الأحزاب
9 ف ٤ جس نے ان کے خیمے اکھاڑ پھینکے، ہانڈیا الٹ دیں اور انہیں اس قدر بے بس کردیا کہ وہ بھاگ کھڑے ہوئے۔ مجاہد (رح) سے منقول ہے کہ وہ رنج ” صبا“ تھی۔ اس کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں ” نصرت بالصبا“ کے الفاظ ہیں یعنی شرقی ہوا کے ذریعے میری مدد کی گئی۔ ( ابن کثیر)۔ ف ٥ یہ غزوہ خندق جسے غزوہ احزاب بھی کہا جاتا ہے کا ذکر ہے جو صحیح اور مشہور روایات کے مطابق شوال ٥ ھ میں واقع ہوا۔ اس کی مختصر روادیہ ہے کہ ٤ ھ میں نبیﷺ نے مدینہ کے یہودی قبیلہ بنو نضیر کو مدینہ کی سر زمین سے جلا وطن کردیا تھا اس کے کچھ اشراف ( سر کردہ لوگ) مکہ گئے اور سرداران قریش سے ملاقات کر کے انہیں نبیﷺ اور مسلمانوں کے خلاف بھڑکاتے رہے اور ان سے وعدہ کیا کہ اگر تم مدینہ پر حملہ کرو تو ہم تمہارا ساتھ دیں گے اور ہر طریقہ سے تمہاری مدد کریں گے جب قریش نے آمادگی کا اظہار کیا تو وہ نجد کے قبائل غطغان اور ہذیل وغیرہ کی طرف گئے اور انہیں بھی مدینہ پر حملے کے لئے اکسایا اور ہر ممکن طریقہ سے امداد کرنے کا وعدہ کیا یہاں تک کہ وہ بھی آمادہ ہوگئے۔ چنانچہ ٥ ھ میں ایک طرف ابو سفیان کی سر کردگی میں قریش اور ان کے حلیف قبائل کا لشکر اور دوسری غطفان، ہذیل اور ان کے حلیف قبائل کا لشکر عینیہ بن حص کی سر کردگی میں مدینہ پر حملہ کرنے کے لئے پہنچ گئے اور جنوب اور مشرق سے مدینہ کا محاصرہ کرلیا۔ شمال کی طرف سے بنو نضیر اور بنو قینقاع کے وہ یہودی آئے جو مدینہ سے جلا وطن ہونے کے بعد خیبر اور وادی القریٰ میں آباد ہوگئے تھے۔ مجموعی طور پر ان سب کی تعداد دس ہزار تھی۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حالات کا اندازہ کر کے حضرت سلمان (رض) فارسی کے مشورہ سے مدینہ کی اس سمتوں میں خندق کھدوائی اور عام مسلمانوں کے ساتھ خود بھی زمین کھودنے اور مٹی اٹھانے کا کام کرتے رہے۔ پیچھے یعنی مغرب کی سمت قبیلہ بنو قریظہ کے یہودی آباد تھے۔ ان سے مسلمانوں کا خلیفانہ معاہدہ تھا اس لئے مسلمان ان کی طرف سے بے فکر تھے بلکہ انہوں نے اپنے بال بچے ان گڑھیوں میں بھیج دیئے تھے جو ان کی جانب تھیں لیکن بنی نضیر کا سردار میتی بن اخطب ان کے پاس پہنچا اور انہیں حالات کی سازگاری کا واسطہ دے کر مسلمانوں سے بد عہدی پر آمادہ کرلیا۔ اس طرح گویا مدینہ منورہ ہر طرف سے مشرکوں اور یہودیوں کے نرغہ میں آگیا۔ ان آیات میں انہی نازک حالات کی طرف اشارہ فرماتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر اپنا احسان و انعام بیان کیا ہے۔ ( ابن کثیر)۔ الأحزاب
10 ف ٦ یعنی ہر سمت سے آ پہنچے یا یہ کہ اوپر کی سمت سے نجدے کے مشرکین اور خیبر کے یہودی آئے اور نیچے کے سمت سے قریش اور ان کے حلیف ( شوکانی) ف ٧ جن کا ایمان پختہ تھا۔ انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد کی امید تھی اور جن کا ایمان کمزور تھا وہ سمجھنے لگے کہ اب بچنا مشکل ہے۔ الأحزاب
11 ف ٨ یعنی ان کا خوب امتحان لیا گیا کہ ایسے سخت حالات میں کون ایمان پر جما رہتا ہے اور کس کے قدم ڈگمگا جاتے ہیں۔ الأحزاب
12 ف ٩ کہتے ہیں کہ تقریباً ستر منافقین تھے جو اس قسم کی باتیں کرنے لگے۔ ( فتح القدیر)۔ الأحزاب
13 ف ١” یثرب“ مدینہ کی سر زمین کا قدیم نام تھا جیسا کہ ہجرت کی حدیث میں ہے جن روایات میں مدینہ کو یثرب میں ہے جن روایات میں مدینہ کو یثرب کہہ کر پکارنے کی ممانعت مذکور ہے وہ ضعیف ہیں۔ ( ابن کثیر)۔ ف ٢ یعنی مقابلے کا خیال چھوڑ کر مدینہ میں اپنے گھروں کی طرف لوٹ جائو یا اسلام سے پھر جائو اور از سر نو کفر و شرک اختیار کر۔ ( قرطبی)۔ ف ٣ یعنی ہمارے بال بچے گھروں میں تنہاء ہیں اور ہمیں پیچھے سے حملہ کا خطرہ ہے۔ ف ٤ کیونکہ ان کی حفاظت کا انتظام کرلیا گیا تھا۔ الأحزاب
14 ف ٥ یعنی یہ کہیں کہ آئو ہمارے ساتھ مل کر مسلمانوں کا خاتمہ کر دو۔ ف ٦ اس وقت یہ ہرگز عذر پیش نہ کریں کہ ہمارے گھر کھلے پڑے ہیں حالانکہ ان کے گھر اس وقت کھلے پڑے ہوں گے کیونکہ لڑائی خود شہر میں ہو رہی ہوگی۔ الأحزاب
15 ف ٧ قتادہ (رح) کہتے ہیں یہ لوگ غزوہ ٔبدر میں شریک نہ ہوئے تھے لیکن جب بدر میں مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی تو انہوں نے عہد کیا کہ اب اگر آزمائش کا موقع آیا تو ہم ضرور مسلمانوں کے ساتھ مل کر جنگ کریں گے۔ ( شوکانی)۔ ف ٨ یعنی قیامت کے دن ان سے ضرور باز پرس ہوگی کہ تم نے جو عہد کرلیا تھا اسے پورا کیوں نہ کیا؟ الأحزاب
16 ف ٩ آخر کار مرنا ہے اور خدا کے حضور حاضر ہونا ہے تو کیوں نہ اللہ کی راہ میں لڑ کر عزت کی موت مرو اور شہادت کا مرتبہ پائو۔ الأحزاب
17 الأحزاب
18 ف ١٠ ان سے مرد یہود ہیں جو مدینہ کے منافقین سے کہتے تھے کہ محمدﷺ کا ساتھ چھوڑ کر ہمارے ہاں چلے آئو، محفوظ ہو گے، یا ان سے مراد بھی کچھ دوسری قسم کے منافقین ہیں جو مسلمانوں کے حوصلے پست کرتے اور ان سے کہتے تھے کہ کس چکر میں پڑے ہو بھلا ابو سفیان اور غطفان کے لشکر سے بچ سکو گے ؟ آئو ہمارے ساتھ مل جائو اور ہماری عافیت کوشی کی پالیسی اختیار کرلو۔ الأحزاب
19 ف ١١ یعنی اپنی جانیں تو کیا پیش کریں گے تم سے اپنے مال، اوقات، محنتیں غرض ہر چیز بچا کر رکھنا چاہتے ہیں۔ ف ١ یعنی خطرہ کا وقت گزر جاتا ہے اور مسلمانوں کو فتح نصیب ہوتی ہے اور مال غنیمت ہاتھ آتا ہے۔ ف ٢ یعنی بہادری کے بلند بانگ دعوے کرنے لگتے ہیں اور چوب زبانی سے تمہارا منہ بند کرنا چاہتے ہیں کہ تم ان کی اس روش پر اعتراض نہ کرسکو جو خطرہ کے وقت انہوں نے اختیار کی تھی۔ ( ابن کثیر وغیرہ) ف ٣ یا یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ اللہ نے ان کے اعمال کے باطل ( کالعدم) ہونے کو ظاہر کردیا کیونکہ ان کے اعمال نیک تھے ہی نہیں کہ انہیں باطل کیا جاتا ہے۔ ( شوکانی) ف ٤ یا انکے اعمال کے باطل ہونے کو ظاہر کرنا آسان ہے۔ الأحزاب
20 ف ٥ محض شرما شرمی سے تاکہ اپنے اوپر سے چھد اتارا جائے۔ الأحزاب
21 ف ٦ اس میں لڑائی میں پیچھے رہنے والوں پر عتاب ہے۔ (قرطبی) یعنی تمہارا فرض تھا کہ جس طرح اللہ کے رسول ﷺ اس موقع پر جان لڑا رہے تھے اور تمام تکلیفوں اور مشقتوں کا مروانہ وار مقابلہ کر رہے تھے تم بھی جان لڑاتے اور تکلیفیں اور مشقتیں برداشت کرتے، ایسا تو نہیں تھا کہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمہیں تو خطرہ میں جھونک دیا ہو اور خود کسی پناہ کی جگہ آرام کرنے بیٹھ گئے ہوں۔ اگر وہ ایسا کرتے تب تو تمہارے لیے وجہ جواز ہو سکتی تھی۔ مگر وہ تو خود ہر کام میں پیش پیش تھے، پھر تمہارا بزدلی دکھانا اور کسی کام سے بچنے کی فکر کرنا کسی لحاظ سے معقول نہیں قرار دیا جاسکتا۔ یہ آیت گو جہاد کے باب میں نازل ہوئی لیکن یہ ہر موقع اور عمل کے لئے عام ہے اور مسلمان کے لئے جائز نہیں ہے کہ اپنی انفرادی یا اجتماعی زندگی کے کسی معاملہ میں اپنے آپ کو رسول اللہﷺ کی پیروی سے مستثنیٰ سمجھیں۔ ( شوکانی)۔ الأحزاب
22 ف ٧ کہ اللہ تمہیں آزمائے گا اور پھر جب تم ثابت قدمی دکھائے گے تو تمہاری مدد گا۔ ( ابن کثیر)۔ یہ وعدہ قرآن کی متعدد آیات میں مذکور ہے۔ ( دیکھئے سورۃ بقرہ آیت ٢١٤ و سورۃ عنکبوت آیت ٢، ٣) مروی ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وحی کے ذریعہ مسلمانوں کو خوشخبری دی کہ عنقریب اللہ تعالیٰ ان پر رسیح یعنی آندھی بھیجے گا اور یہ مرعوب ہو کر بھاگ جائیں گے چنانچہ مسلمانوں نے سن کر یہ کہا ( ھذا ما وعدنا اللہ۔۔۔۔) (قرطبی) ف ٨ وہ پہلے سے زیادہ ایمان میں پختہ اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عاشق زاد و اطاعت گزار ہوگئے۔ اس آیت میں اس چیز کی دلیل ہے کہ ایمان کم اور زیادہ ہوتا ہے اور یہی اہلحدیث کا مذہب ہے۔ ( وحیدی)۔ الأحزاب
23 ف ٩ اس اقرار سے مراد وہ اقرار ہے جو مدینہ منورہ کے انصار (رض) سے ” لیلہ عقبہ“ میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کیا تھا اور وہ یہ تھا کہ آخر دم تک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ساتھ دیں گے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حفاظت و مدافعت ہیں اپنی جانیں تک قربان کردیں گے یا اس سے مراد بعض ان لوگوں کا عہد ہے جو کسی وجہ سے غزوہ بدر میں شریک نہ ہو سکے تھے اور انہوں نے عہد کیا تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ نے انہیں آزمائش کا موقع دیا تو وہ ثابت قدم رہیں گے اور پیٹھ نہیں دکھائیں گے۔ حضرت انس (رض) بن مالک بیان کرتے ہیں کہ میرے چچا انس (رض) بن نضر غزوۂ بدر میں شریک نہ ہو سکے تھے اس کا انہیں بڑا رنج ہوا اور کہنے لگے کہ اب اگر کوئی جنگ ہوئی تو اللہ دیکھے گا کہ میں کیا کرتا ہوں۔ چنانچہ غزوۂ احد میں شریک ہوئے اور پھر لڑتے شہید ہوگئے ان کے بدن پر تلوار، تیر اور نیزے کے اس سے زیادہ زخم پائے گئے۔ ان کی بہن ربیع بنت نضر کہتی ہیں کہ میں اپنے بھائی کو صرف ان کی انگلیوں کے پوروں سے پہچان سکی۔ یہ آیت ان کے اور ان کے ساتھیوں کے بارے میں نازل ہوئی۔ ( ابن کثیر)۔ ف ١٠ یعنی اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی جانوں کی قربانی پیش کرچکے ہیں جیسے حضرت حمزہ (رض) اور انس (رض) بن نضر وغیرہ جو جنگ احد میں شہید ہوچکے تھے۔ ( ابن کثیر) ف ١١ کہ کب کوئی موقع ملتا ہے جس میں وہ اپنی جان کی قربانی پیش کر کے اللہ تعالیٰ سے اپنا کیا ہوا عہد پورا کریں۔ ف ١٢ جیسا کہ منافقین نے اپنا عہد بدل ڈالا، بلکہ اس پر پوری طرح ثابت قدم رہے حتیٰ کہ شہید ہوگئے یا اس دارفانی سے کوچ کرگئے۔ الأحزاب
24 ف ١٣ یعنی غزوۂ احزاب کے موقع پر کفار کی اتنی بی جمعیت مدینہ پر اس لئے حملہ آور ہوئی کہ اللہ تعالیٰ چاہتا تھا کہ مسلمانوں کا امتحان لے اور جو لوگ اپنے امتحان میں پہنچے اور پکے ثابت ہوں انہیں ان کی سچائی کا بدلہ دے اور۔۔۔۔ ( قرطبی وغیرہ)۔ الأحزاب
25 ف ١ یعنی اسلام کو مٹانے اور مسلمانوں کو طاقت کو کچلنے کے جس ارادہ سے آئے تھے اس میں انہیں کوئی کامیابی حاصل نہ ہوسکی بلکہ نا کام و بے مراد ہو کر واپس ہونا پڑا۔ ف ٢ یعنی ایک طرف تو نعیم (رض) بن مسعود کی تدبیر سے کفار کے تین گروہوں ( قریش، غطفان اور بنو قریظہ) میں پھوٹ پڑگئی اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ نے سخت آندھی اور فرشتے بھیج کر ان کے دلوں پر رعب طاری کردیا۔ بالآخر ایک ماہ محاصرہ جاری رکھنے کے بعد بد حواس ہو کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ مفصل واقعہ ابن ہشام (ج ٢، ص ٢٢٩) میں دیکھ لیا جائے۔ الأحزاب
26 ف ٣ یہ غزوۂ بنی قریظہ کا ذکر ہے۔ ہوا یہ کہ قریش اور غطفان تو واپس چلے گئے اور بنو قریظہ اپنے قلعوں میں محصور ہوگئے۔ نبیﷺ خندق سے پلٹ کر گھر پہنچ گئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غسل فرما رہے تھے کہ حضرت جبرئیل آئے اور کہنے لگے :” آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہتھیار رکھ دیئے مگر فرشتوں نے تا حال ہتھیار نہیں رکھے، بنی قریظہ کی طرف چلئے ان پر حملہ کیجئے“۔ اس پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کوچ کا حکم دے دیا اور بنو قریظہ کا محاصرہ کرلیا گیا۔ یہ محاصرہ پچیس روز تک جاری رہا آخر بنو قریظہ تنگ آگئے اور انہوں نے مصالحت کی گفتگو شروع کی۔ آخر کار انہوں نے حضرت سعد (رض) بن معاذکو حکم تسلیم کرلیا جو قبل از اسلام ان کے حلیف رہ چکے تھے۔ چنانچہ حضرت سعد (رض) کو لایا گیا اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے فرمایا : بنو قریظہ کے بارے میں اپنا فیصلہ دیجئے۔ سعد (رض) نے کہا میرا فیصلہ یہ ہے کہ ان کے مقابلہ لڑائی کرنے والے قتل کردیئے جائیں اور عورتیں اور بچے قیدی بنا لئے جائیں اور ان کے اموال تقسیم کردیئے جائیں، چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔ قتل ہونے والوں کی تعداد چھ سو سے نو سو تک بیان کی گئی ہے اور تقریباً یہی اندازہ قیدیوں کے متعلق مذکور ہے (شوکانی)۔ الأحزاب
27 ف ٤ یعنی مفسرین نے لکھا ہے کہ اس سے ارض خیبر کی طرف اشارہ ہے۔ جس پر مسلمانوں نے ٧ ھ میں فتح پائی۔ اور بعض نے مکہ اور بعض نے فارس اور روم کے علاقے مراد لیے ہیں۔ عکرمہ (رح) کہتے ہیں کہ اس سے ہر وہ زمین مراد ہے جسے قیامت تک مسلمان فتح کریں۔ ( شوکانی)۔ الأحزاب
28 ف ٥ یعنی طلاق دے دوں حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج نے دیکھا کہ لوگ آسودہ ہوئے چاہا کہ ہم بھی آسودہ ہوں۔ بعض نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے زیادہ نفقہ اور متاع کا مطالبہ کیا، اس پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ملال ہوا اور ایک ماہ تک کے لئے ایلا کرلیا یعنی قسم کھالی کہ تم سے مقاربت نہیں کروں گا۔ چنانچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک بالا خانہ میں تنہائی اختیار فرما لی کا ایک ماہ کے بعد یہ اور اگلی آیت نازل ہوئی۔ ( شوکانی و موضح) الأحزاب
29 ف ٦ حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ جب آیت تخبیر ( یعنی یہ آیت) نازل ہوئی تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سب سے پہلے مجھ سے گفتگو کی اور مجھے یہ دونوں آیتیں پڑھ کر سنائیں۔ میں نے جواب دیا کہ میں اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پسند کرتی ہوں اسی طرح سب بیویوں نے اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پسند کیا اور یہ جو فرمایا کہ جو نیک ہیں ان کو بڑا نیگ ( اجر) ہے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج (رض) سب نیک ہی رہیں۔” الطیبات للطیبین“ مگر اللہ تعالیٰ صاف خوشخبری کسی کو نہیں دیتا مانڈر نہ ہوجاوے، خاتمے کا ڈر لگا ہے۔ ( موضح) کوئی شخص اپنی بیوی کو ” خیار“ دے دے اور عورت خاوند کو پسند کرلے تو طلاق واقع نہیں ہوگی۔ ہاں اگر عورت علیحدگی پسند کرلے تو ایک رجعی طلاق واقع ہوجائے گی جب کہ خاوند نے مطلق طلاق کی نیت کی ہو۔ ( مختصر من الشوکانی) الأحزاب
30 ف ٧ کیونکہ جس کا جتنا مقام بلند ہوتا ہے نافرمانی کی صورت میں اسے سزا بھی اتنی ہی سخت ملتی ہے۔ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا ” لا دذقناک ضعف الحیاۃ“ ( کذافی الموضح) اس کا یہ مطلب نہیں کہ ” ازواج (رض) مطہرات“ سے نعوذ باللہ برائی کے ارتکاب کا اندیشہ تھا۔ یہ جملہ شرطیہ ہے جس کا تحقیق ضروری نہیں، جیسے فرمایا ( لئن اشرکت لیحبطن عملک) (زمر : ٦٥) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ کسی نبی کی بیوی نے زنا کا ارتکاب نہیں کیا، ہاں ایمان و اطاعت میں خیانت کی ہے۔ ( دیکھئے تحریم : ١٠) بعض نے کہا کہ یہاں ” فاحشۃ سے مراد نشوز اور بد سلوکی ہے۔ دراصل اس سے لزواج (رض) مطہرات کو متنبہ کرنا مقصود ہے کہ تمہارا مقام بہت بلند ہے اور دوسری عورتوں کی نیست تمہاری ذمہ داری بھی بہت بڑھ گئی ہے لہٰذا تمہارا اخلاقی رویہ پاکیزہ ہونا چاہیے کہ دوسروں کیلئے اسوہ بنے۔ (قرطبی) ف ٨ یعنی تمہیں غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ تم نبی کی بیویاں (رض) ہو اور تم پر کوئی گرفت نہ ہوگی۔ الأحزاب
31 ف ١ یعنی جس طرح تمہارے مقام کے بلند ہونے کا تقاضا یہ ہے کہ نافرمانی کی صورت میں دگنا عذاب ہوا اسی طرح اس کا یہ بھی تقاضا ہے کہ نیکی اور تابعداری کی صورت میں دگنا اجر ملے۔ ف ٢ اور اس سے بڑی نعمت اور کیا ہوگی کہ جنت کے اعلیٰ مقام ( وسیلہ) میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ رہینگی۔ ( ابن کثیر) الأحزاب
32 ف ٣ بلکہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج (رض) ہونے کی وجہ سے تمہارا درجہ اور مرتبہ سب سے بلند ہے اور بقیہ عورتوں کیلئے تمہاری حیثیت ایک نمونہ کی ہے۔ اس آیت سے بعض علمائے تفسیر (رح) نے استدلال کیا ہے کہ ” ازواج مطہرات“ سب عورتوں سے افضل ہیں۔ حتیٰ کہ آسیہ ( علیہ السلام) اور مریم ( علیہ السلام) پر بھی ان کو فضلیت حاصل ہے۔ ( دیکھئے سورۃ آل عمران ٤٢) (قرطبی)۔ ف ٤ یعنی لہجہ میں کوئی لوچ اور دانستہ طور پر اختیار کی ہوئی شیرینی نہ ہو بلکہ غیر معمولی درشتی اور خشونت ہونی چاہیے اور آواز بھی ضرورت سے زیادہ بلند نہ ہو۔ ( قرطبی) ف ٥ کہ یہ عورت میری طرف مائل و متوجہ ہو سکتی ہے۔ الأحزاب
33 ف ٦” قرن“ کا لفظ ” قرار“ سے مآخوذ ہے اور بعض نے اسے ” وقار“ سے مانا ہے مطلب ہے یہ کہ عزت و وقار کے ساتھ اپنے گھروں میں بیٹھی رہو اور بازاری عورتوں کی طرح گھومتی نہ پھرو۔ یہ حکم امہات المومنین (رض) کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ تمام عورتوں کو شامل ہے اور عورتوں کے اپنے گھروں میں رہنے اور بلا ضرورت باہر نہ نکلنے کے متعلق بہت سی احادیث مروی ہیں۔ (قرطبی)۔ ف ٧ یہاں اولیٰ کا لفظ احتراز کے لئے نہیں ہے بلکہ جاہلیت جہلا کی طرح یا تو ایک محاورہ ہے یا اسلام سے پہلے کی حالت کے اعتبار سے اولیٰ فرما دیا ہے۔ حدیث میں ہے کہ جو عورت بنائو سنگار کر کے بے پردہ باہر نکلتی ہے اس کے ساتھ شیطان ہوتا ہے اور ایک دوسری حدیث میں ہے کہ عورت چھپی رہنے کے قابل چیز ہے جب باہر نکلتی ہے تو اسے شیطان تاکتا ہے۔ جاہلیت میں رواج تھا کہ عورتیں بنائو سنگھار کر کے بر پردہ باہر نکلا کرتی تھیں۔ اب یہی رواج ثقافت اور دوسرے خوشنما ناموں سے ہمارے زمانہ میں عود کر آیا ہے۔ فواسفا۔ اسلام نے صرف واقعی ضرورت کے پیش نظر پردے کے حدود کی پابندی کے ساتھ باہر نکلنے کی اجازت دی ہے حتیٰ کہ مسجد میں نماز با جماعت ادا کرنے کے لئے اگر جانا چاہیں تو حکم ہے کہ عام اور سادہ لباس میں ہوں اور خوشبو لگائے ہوئے نہ ہوں۔ ( ابن کثیر)۔ ف ٨ آیت کا سیاق و سباق صاف بتا رہا ہے کہ یہاں اہل بیت سے مراد نبیﷺ کی ارفیع (رض) ہیں۔ جیسا کہ ” یا نساء النبی“ اور اگلے خطاب سے معلوم ہوتا ہے اور قرآن میں ’ ’ اہل البیت“ کا لفظ صرف بیوی کے لئے بھی استعمال ہوا ہے۔ ( دیکھئے سورۃ ہود : ٧٣) بعض روایات میں ہے کہ جب آیت نازل ہوئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت فاطمہ (رض)، علی (رض)، حسن (رض) اور حسین (رض) کو بلایا اور ان پر اپنا کمبل ڈال کر دعا فرمائی۔ ( اللھم ھولاء اھل بینی فاذھب عنھم الرجس وطھرھم الطھیرا) اے اللہ ! میرے اہل بیت ہیں ان سے نا پاکی دور فرمایا اور انہیں صاف ستھرا بنا دے “۔ اس حدیث کے یہ معنی نہیں ہیں کہ ازواج مطہرات (رض) اہل البیت میں سے نہیں ہیں بلکہ اصل میں آیت تو ” ازواج مطہرات“ ہی کے متعلق نازل ہوئی ہے اور ان کو تطہیر کی خوشخبری دی گئی ہے پھر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا سے حضرت فاطمہ (رض)، علی (رض)، حسن (رض)، حسین (رض) بھی اس میں شامل ہوگئے۔ اسکی دلیل یہ بھی ہے کہ جب آنحضرتﷺ نے ان پر کمبل ڈالا اور نہ دعا کی تو حضرت ام سلمہ (رض) نے بھی اپنا سر اس کپڑے کے اندر کرلیا اور عرض کیا۔ اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں بھی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ہوں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ( انک الی خیبر مرتین) تو تم اس خیر میں دوہری شامل ہو یعنی اس آیت کے اعتبار سے بھی اور میری اس دعا کے تحت بھی ( قرطبی)۔ الأحزاب
34 الأحزاب
35 ف ١ حضرت ام سلمہ (رض) سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا ” اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! قرآن ! میں جس طرح مردوں کا ذکر ہوتا ہے ہم عورتوں کا نہیں ہوتا۔ یکایک ایک روز میرے کان میں نبی ﷺ کی آواز آئی اور میں نے دیکھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) منبر پر کھڑے لوگوں کو یہ آیت سنا رہے ہیں۔ دوسری آیت میں ہے کہ نبی ﷺ سے یہ سوال حضرت ام عمارہ (رض) نے کیا اور اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ ( ابن کثیر)۔ الأحزاب
36 ف ٢ کہ چاہے اس پر عمل کرے اور چاہے نہ کرے بلکہ ہر حال میں عمل کرنا ضروری ہے۔ ( دیکھئے قصص : ٦٨) ف ٣ ابن جریر (رح) وغیرہ نے حضرت ابن عباس (رض) سے اس آیت کی شان نزول میں نقل کیا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زید (رض) بن حارثہ کے لئے حضرت زینب (رض) بن حجش کو پیغام نکاح دیا۔ مگر حضرت زینب (رض) نے اپنی شان کے خلاف سمجھ کر اس نکاح سے انکار کردیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت زینب (رض) سے فرمایا :” بلی فانکحیہ“ ( کیوں نہیں، تم ان سے ضرور نکاح کرو) اس پر حضرت زینب (رض) نے کہا : ” اچھا میں اس پر غور کروں گی“ یہ گفتگو جاری تھی کہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور حضرت زینب (رض) نے عرض کیا۔ ” اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! مجھے یہ فیصلہ منظور ہے۔ آیت کی شان نزول گو خاص ہے مگر اس کا حکم عام ہے اور متعدد آیات و احادیث میں اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے خلاف چلنے پر وعید آئی ہے ایک حدیث میں ہے کہ کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا تاوقتیکہ اس کی خواہش میرے لائے ہوئے پیغام کے تابع نہ ہوجائے ( ابن کثیر) اس سے معلوم ہوا کہ کسی آیت یا حدیث کے مقابلے میں کسی مجتہد کی رائے پر عمل کرنا نہیں چاہئے بلکہ جونہی آیت یا حدیث ملے کسی مجتہد کی رائے پر عمل نہیں کرنا چاہئے۔ (فتح البیان)۔ الأحزاب
37 ف ٤ زید (رض) بن حارثہ پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بڑا احسان یہ کیا کہ ان کو آزاد کر کے اپنا متنبی ٰ بنا لیا اور پھر اپنی پھوپھی زاد بہن سے ان کا نکاح کردیا۔ واضح رہے کہ یہ آیات اس وقت نازل ہوئیں جب یہ نکاح ہوچکا تھا لیکن میاں بیوی کے درمیان تعلقات نے ناخوشگوار صورت اختیار کرلی تھی۔ حتیٰ کہ زید (رض) نے طلاق دینے کا تہیہ کرلیا تھا۔ ف ٥ یعنی اسے طلاق دینے میں جلدی نہ کرو اور اس کے معاملے میں اللہ سے ڈر۔ ف ٦ یہ بات کیا تھی؟ تفاسیر میں اس باب میں متعدد اقوال مذکور ہیں۔ بعض اقوال ایسے بھی ہیں جو شان نبوت کے سراسر منافی ہیں، اس لئے حافظ فتح الباری میں لکھتے ہیں :” کہ ان کا بیان مناسب نہیں ہے“۔ اور حافظ ابن کثیر (رح) نے بھی ان کے بیان سے پہلو تہی کی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بذریعہ وحی پہلے سے خبردار کردیا گیا تھا کہ زینب (رض) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیوی ہونے والی ہے۔ مگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس بات کے اظہار سے شرماتے کہ مخالفین الزام لگائیں گے کہ دیکھئے اپنی بہو سے نکاح کرلیا۔ اس لئے جب زید (رض) نے آ کر شکایت کی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، ” امسک علیک زوجک واتق اللہ“ اس پر اللہ تعالیٰ نے عتاب آمیز لہجہ میں فرمایا کہ جب میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پہلے بتا دیا ہے کہ زینب (رض) کا نکاح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہونے والا ہے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) زید (رض) سے یہ بات کیوں کہہ رہے ہیں یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان کے لائق نہیں بلکہ بہتر یہ تھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاموش رہتے یا زید (رض) سے کہہ دیتے کہ تم جو کچھ کرنا چاہتے ہو کرلو۔ علامہ آلوسی لکھتے ہیں کہ یہ عتاب ترک اولیٰ پر ہے۔ (روح) حضرت عائشہ (رض) بیان فرماتی ہیں کہ اگر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کی کتاب میں سے کوئی بات چھپانے والے ہوتے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس آیت کو چھپاتے۔ ( ابن کثیر)۔ ف ٧ یعنی جب زید (رض) نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی۔ اور عدت ختم ہوگئی۔ ف ٨ یہ نکاح خود اللہ نے پڑھایا، اس معنی میں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی فرمائی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بغیر ایجاب و قبول اور مہر وغیرہ کے اسے اپنی زوجیت میں لے لیں۔ صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت زینب (رض) دوسری ازواج و مطہرات (رض) پر فخر کیا کرتی تھیں کہ تمہارا نکاح تمہارے گھر والوں نے پڑھایا اور میرا نکاح سات آسمانوں کے اوپر خود اللہ تعالیٰ نے پڑھایا۔ ( ابن کثیر)۔ الأحزاب
38 الأحزاب
39 الأحزاب
40 ف ١ یعنی جس شخص زید (رض) بن حارثہ کی مطلقہ بیوی سے انہوں نے نکاح کیا ہے وہ ان کو بیٹا ہے کب کہ کوئی یہ اعتراض کرسکے کہ انہوں نے اپنی بہو سے نکاح کرلیا۔ واضح رہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جتنے بیٹے ہوئے ؟ بچپن ہی میں گزر گئے اور کوئی بھی اس عمر کو نہیں پہنچا کہ مرد کہلا سکے۔ صرف لڑکیاں تھیں اور ان میں بھی صرف حضرت فاطمہ (رض) کی اولاد باقی رہی۔ ف ٢ لفظی ترجمہ یہ ہے۔” البتہ وہ اللہ کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہے اور نبیوں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ختم کرنے والا “۔ اس سے قطعی طور پر معلوم ہوا کہ محمدﷺ رہتی دنیا تک اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں ہے اور پھر احادیث صحیحہ میں اس خاتم النبین ہونے کی تشریح کردی گئی ہے جس کے بعد کسی التباس کی گنجائش باقی نہیں رہتی اور حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کا نزول ختم نبوت کے منافی نہیں ہے کیونکہ وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کی شریعت پر چلیں گے۔ آج تک پوری امت کا یہ متفق علیہ عقیدہ چلا آیا ہے۔ پس ختم نبوت کا منکر قطعی کافر اور ملت اسلام سے خارج ہے۔ الأحزاب
41 الأحزاب
42 ف ٣ یعنی اس کی تسبیح و تحمید اور تکبیر و تحلیل کرتے رہو۔ اللہ کے ذکر خصوصاً سبحان اللہ و بحمدہٖ کہنے کی فضلیت ہیں متعد احادیث ثابت ہیں۔ صحیحین میں ہے کہ جس نے سو مرتبہ ” سبحان اللہ و بحمدہٖ“ کہا اس کے تمام گناہ ساقط کردیئے گئے چاہے وہ سمندر کے جھاگ کے برابر ہوں۔ ( شوکانی) الأحزاب
43 الأحزاب
44 ف ٤ مراد ہے موت کا دن یا قبروں سے اٹھنے کا دن یا جنت میں داخل ہونے کا دن (قرطبی) ف ٥ یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر سلام بھیجا جائے گا۔ ( دیکھئے یٰسین آیت ٥٨) یا فرشتے ان کو سلام کریں گے۔ ( سورۃ نحل آیت ٣٢) یا جنتی ایک دوسرے کو سلام کرینگے (یونس آیت : ١٠) الأحزاب
45 ف ٦ کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے قول و عمل سے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی گواہی دیں اور قیامت کے دن اپنی امت کے گواہ ہوں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو اللہ کا پیغام بے کم و کاست پہنچا دیا تھا، بلکہ دوسری امتوں کو بھی گواہی دیں گے کہ ان کے انبیاء ( علیہ السلام) نے ان تک اللہ کا پیغام پہنچا دیا تھا۔ ( دیکھئے سورۃ بقرہ آیت ١٤٣) الأحزاب
46 ف ٧ جس سے کفر و ضلالت کی تاریکیوں میں واضح ہدایت ملتی ہے ” نور“ سے مراد وہ روشنی جو شریعت اسلامیہ سے حاصل ہوتی ہے۔ ( قرطبی)۔ الأحزاب
47 ف ٨ بقیہ امتوں سے ان کے درجات بلند ہوں گے اور انہیں جنت نصیب ہوگی جیسا کہ شوریٰ ( آیت : ٢٢) میں اس ” فضل کبیر“ کی تفسیر وارد ہے۔ ( قرطبی) الأحزاب
48 ف ٩ یعنی اس کی کوئی پرواہ نہ کرو اور اس سے در گزر فرما۔ (قرطبی) الأحزاب
49 ف ١٠ اس سے معلوم ہوا کہ اصل میں لفظ ” نکاح‘ بمعنی عقد ہے اور جماع کے معنی میں بطور استعارہ آتا ہے۔ ( مفرادت) اور اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نکاح سے قبل کی طلاق واقع نہیں ہوتی۔ مثلاً ایک شخص کہہ دیتا ہے کہ اگر میں فلاں عورت سے نکاح کروں تو اسے طلاق ہے پھر اس کے بعد نکاح کرے تو طلاق واقع نہیں ہوگی۔ یہی مسلک جمہور اہل علم ہے۔ ( ابن کثیر)۔ ف ١ لہٰذا وہ طلاق کے فوراً بعد کسی مرد سے نکاح کرسکتی ہے۔ اس پر جمیع صحابہ (رض) اور بعد کے اہل علم کا اجماع ہے۔ البتہ اگر کوئی شخص فوت ہوجائے اور اس نے تا حال اپنی عورت سے صحبت نہ کی ہو تو عورت پورے مہر کی بھی حقدارہو گی اور اسے چار ماہ دس دن کی عدت بھی پوری کرنی ہوگی۔ یہ بھی اجماعی مسئلہ ہے۔ بعض اہل علم نے خلوت صحیحہ کو بھی بمنزلہ صحبت کے شمار کیا ہے اور کہا ہے کہ خلوت صحیحہ کے بعد طلاق دینے سے مہر اور عدت لازم ہوگی۔ مگر یہ مسئلہ بظاہر اس آیت کے خلاف ہے۔ ( ابن کثیر، قرطبی) ف ٢ یعنی اگر مہر کا تعین نہ ہوا ہو تو اپنی مالی حیثیت کے مطابق کچھ دے کر اسے بہتر طریقہ سے رخصت کرو۔ (بقرہ : ٢٣٦) لیکن اگر مہر کا تعین ہوچکا ہو تو پھر قبل از سیس طلاق کی صورت میں نصف مہر دینا لازم ہوگا۔ ( بقرہ : ٢٣٧) شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں :” یہ مسئلہ ذکر فرمایا ازواج کے ذکر میں شاید اس واسطے کہ حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک عورت کی تھی۔ جب اس کے نزدیک گئے کہنے لگی ” اللہ تجھ سے پناہ دے“۔ حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسکو جواب دیا۔” تو نے بڑے کی پناہ پکڑی“۔ اس پر یہ حکم صادر فرمایا اور خطاب فرمایا ایمان والوں کو معلوم ہو کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ حکم خاص نہیں سب مسلمانوں پر یہی حکم ہے“۔ روایات میں ہے کہ وہ بد بخت ساری عمر ندامت اور حسرت کرتی رہی۔ الأحزاب
50 ف ٣ مراد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیویاں ہیں جو آیت کے نزول کے وقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نکاح میں تھیں۔ ف ٤ اس اجازت کے تحت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صفیہ (رض)، جویرہ (رض) اور ماریہ قبطیہ (رض) اور ریحانہ (رض) کو اپنے لئے مخصوص کرلیا تھا۔ صفیہ (رض) اور جویرہ (رض) سے نکاح کرلیا اور باقی دو سے (ایک روایت کے مطابق) محض ملک یمین کی بناء پر تمتع فرماتے رہے۔ ( فائدہ) وفت کے وقت آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نو بیویاں تھیں۔ عائشہ (رض)، حفصہ (رض)، سودہ (رض)، ام سلمہ (رض)، زینب (رض)، ام حبیبہ (رض)، جویرہ (رض)، صفیہ (رض) اور میمونہ (رض)۔ ان میں سے پچھلی تین قریشی نہیں۔ (موضح)۔ ف ٥ اس کے یہ معنی نہیں کہ جو لونڈیاں لڑائی میں گرفتار ہو کر نہ آئیں وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے مباح نہیں ہیں بلکہ ” سراری“ کی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت کے لئے عام اجازت ہے۔ ( قرطبی)۔ ف ٦ یہاں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ہجرت کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرح وہ بھی ہجرت کرچکی ہوں۔ ( قرطبی) یاد رہے کہ رشتوں کی حرمت کے بارے میں شریعت اسلامیہ نے اعتدال کی راہ اختیار کی ہے۔ عیسائیوں کے ہاں افراط ہے اور کسی ایسی عورت سے نکاح جائز نہیں جس سے سات پشتوں تک مرد کا نسب ملتا ہو اور یہود کے ہاں تفریط ہے اور سگی بھانجی اور بھتیجی سے بھی نکاح جائز سمجھتے ہیں۔ ( ابن کثیر)۔ ف ٧ یعنی یہ اجازت صرف آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ خاص ہے اور مسلمانوں کے لئے وہی حکم ہے :” ان تبتغوا باموالکم“ بن مہر نکاح نہیں۔ ( موضح)۔ ف ٨ یعنی عام مسلمانوں کو نکاح کے لئے جن شرائط کا پابند کیا گیا ہے ان کا پابند رہنا ضروری ہے اور وہ یہ کہ مہر ولی اور گواہوں کے بغیر نکاح کرنا جائز نہیں ہے۔ نیز ایک وقت میں چار سے زیادہ عورتیں نکاح میں نہیں رکھ سکتے۔ یہ مسائل سورۃ نساء آیت ٣، ٤ نیز ٢٤، ٢٥ میں گزر چکے ہیں۔ ( ابن کثیر) الأحزاب
51 ف ٩ لیکن اس کے باوجود آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی بیویوں کے درمیان باری اور تقسیم میں مساوات قائم رکھتے۔ بعض نے اس سے خاص کردہ عورتیں مراد لی ہیں جو اپنے تئیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہبہ کریں مگر جمہور علمائے تفسیر (رح) کے نزدیک یہ آیت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دوسری ازواج (رض) کو بھی شامل ہے اور ان کو بھی جو اپنے تئیں ہبہ کریں۔ ان سب کے بارے میں اختیار دیا گیا ہے کہ انکے درمیان باری مقرر فرمائیں یا نہ فرمائیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر واجب نہیں ہے، ابن جریر (رض) نے اسی کو اختیار کرلیا ہے اور اس سے مختلف احادیث کے درمیان تطبیق بھی ہوجاتی ہے۔ ( ابن کثیر، شوکانی) ف ١٠ کیونکہ یہ جان لیں گی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی طرف سے ایسا نہیں کرتے بلکہ اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کا اختیار دیا ہے ( شوکانی) ف ١١ یعنی جب پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کوئی عنایت فرمائیں گے وہ شکر گزار ہوگی کیونکہ اسے معلوم ہوگا یہ مہربانی کسی وجوب کی بناء پر نہیں ہے بلکہ اپنی مرضی اور اختیار سے کر رہے ہیں۔ ( قرطبی) ف ١٢ یعنی بیویوں سے بعض کی طرف تمارے دلی میلان کا اللہ تعالیٰ کو علم ہے اور چونکہ تمہیں اس پر اختیار نہیں ہے اس لئے اللہ تعالیٰ تحمل برتنے والا ہے۔ حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نان و نفقہ اور دیگر ظاہری امور میں اپنی سب بیویوں کے درمیان یکساں تقسیم قائم رکھتے اور چونکہ دل سب کی طرف یکساں مائل نہیں ہوسکتا اس لئے دعا فرماتے کہ اے اللہ جو میرے اختیار میں نہیں ہے اس پر مجھے ملامت نہ فرما۔ ( ابن کثیر) الأحزاب
52 ف ١ مفسرین کا بیان ہے کہ جب ” ازواج مطہرات“ نے دنیا کے مقابلے میں آخرت کو اختیار کرلیا کما مترفی آیۃ التخیر تو اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ بدلہ دیا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے ان کے ماسوا اور عورتوں سے نکاح کرنا حرام فرما دیا اور یہ بھی منع کردیا کہ ان میں سے کسی ایک کو طلاق دے کر اس کی بجائے کسی دوسرے عورت سے نکاح کیا جائے۔ یہ آیت حضرت حفصہ (رض) کی طلاق کے واقعہ کے بعد نازل ہوئی ہے۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں : اس آیت میں نفس طلاق سے منع نہیں فرمایا، بلکہ ممانعت اس کی ہے کہ طلاق اس مقصد سے ہو کہ اس کی بجائے کسی دوسری عورت سے نکاح کیا جائے۔ (ابن کثیر) مگر یہ حرمت اوپر کی آیت ” انا حللنا لک الخ“ سے منسوخ ہوگئی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دوسری عورتوں سے نکاح کی اجازت دے دی گئی۔ ( قرطبی) ابن جریر طبری نے اس آیت کی دوسری تفسیر اختیار کی ہے اور وہ یہ کہ آیت انا حللنا الخ میں جن عورتوں کی حلت مذکور ہوتی ہے ان کے علاوہ کسی اور عورت سے نکاح جائز نہیں ہے۔ یہ معنی اقرب معلوم ہوتے ہیں۔ ( ابن کثیر)۔ ف ٢ ان سے تمتع کی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اجازت ہے۔ سراری میں سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حرم میں دو لونڈیاں مشہور تھیں۔ ایک ماریہ قبطیہ (رض) اور دوسری ریحانہ (رض)۔ الأحزاب
53 ف ٣ حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت زینب (رض) کے ولیمہ پر لوگوں کو دعوت دی۔ جب کھانا کھاچکے تو بیٹھ کر باتیں کرنے لگے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اٹھنے کے لیے تیار ہوئے مگر کچھ لوگ پھر بھی بیٹھے رہے۔ حتیٰ کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اٹھ کر چلے گئے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واپس تشریف لائے تو دیکھا کہ تین شخص ابھی تک بیٹھے باتوں میں مشغول ہیں۔ یہ دیکھ کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واپس تشریف لے گئے۔ آخر جب وہ لوگ چلے گئے تو میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اطلاع دی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت زینب (رض) کے ہاں تشریف لائے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ ( شوکانی)۔ ف ٤ اس آیت کو آیت حجاب ( پردہ کی آیت) کہا جاتا ہے۔ یہ پردہ کا مسئلہ اس آیت میں دوسرا مسئلہ ہے۔ روایات صحیحہ میں ہے کہ آیت حجاب کا نزول بھی منجملہ ان باتوں کے ہے جن میں حضرت عمر (رض) نے اپنے رب کی موافقت پائی ہے۔ صحیحین میں مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کی کہ۔۔۔۔ بہتر ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انہیں ازواج (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو) پردہ کا حکم فرمائیں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور یہ ذوالقعدہ ٥ ھ کو حضرت زینب (رض) کی شب زفاف کی صبح کو نازل ہوئی لہٰذا اصل سبب نزول حضرت زینب (رض) کا واقعہ ہے۔ حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ اس حکم کے نازل ہونے کے بعد آنحضرت کی ازواج (رض) کے گھر پر پردے لٹکا دیئے گئے۔ (ابن کثیر) مطلب یہ کہ حضرت کے ازواج کسی مرد کے سامنے نہ جاویں سب مسلمانوں کی عورتوں پر یہ حکم واجب نہیں اگر عورت کسی مرد کے سامنے ہو اور اس کا پورا جسم مستورہو تو گناہ نہیں، لیکن بہتریہ ہے کہ اس حالت میں بھی سامنے نہ ہو۔ ( موضح)۔ ف ٥ کیونکہ ودنیا و آخرت میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیویاں اور تمہاری مائیں ہیں جیسا کہ آغاز سورۃ میں گزر چکا ہے، مگر یہ حکم ان ازواج کا ہے جن کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے طلاق دے کر الگ نہیں کیا تھا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی تک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حرم میں رہیں۔ یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حرم ہیں جن سے نکاح حرام قرار دیا گیا ہے۔ (قرطبی)۔ الأحزاب
54 ف ٦ اس آیت میں ان لوگوں کے لئے وعید ہے جن کی طرف آیت ” ذلکم اطھر لقلوبکم“ اور ” ماکان لکم ان تو ذوارسول اللہ“ میں ارشاد فرمایا ہے۔ یعنی اگر تم آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یا آپ کی ازواج (رض) مطہرات کے متعلق دل میں کوئی بڑا خیال رکھو گے تو اللہ تعالیٰ سے چھپا نہ رہے گا اور تمہیں اس کی ضرور سزا ملے گی۔ ( فھذہ الایۃ منحطفۃ علی ما قبلھا) (قرطبی) الأحزاب
55 ف ٧ اور ان کی اقتدا میں تمام مسلمان عورتوں کو۔ ف ٨ ان کے حکم میں تمام وہ رشتہ دار آجاتے ہیں جو عورت کے محارم میں سے ہیں۔ تشریح کیلئے دیکھئے۔ ( سورۃ نور : ٣١) اس فہرست میں چچا اور ماموں کا ذکر اس لئے نہیں کیا گیا کہ وہ بمنزلہ والدین کے ہیں۔ (شوکانی)۔ ہاں چچا و ماموں، خالہ اور پھوپھی سے پردہ ضروری ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی کسی بیوی کے چچا زاد بھائی گو اسکے پاس آنے سے منع فرما دیا تھا۔) ابن جریر)۔ الأحزاب
56 ف ١ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ” صلوٰۃ علی النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) “ کے معنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اپنی رحمتوں کی بارش فرماتے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام بلند کرنے والا ملاء اعلیٰ میں مقربین کے سامنے آپ کی تعریف کرنے کے ہیں اور فرشتوں کی صلوٰۃ ان کی دعا اور استغفار ہے اور مومنوں کی صلاۃ اظہار تعظیم اور دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دین کے بلند کرے اور آپ کو مقام محمود تک پہنچائے۔ ( ابن کثیر، قرطبی) ف ٢ متواتر صحیح احادیث میں بھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسلمانوں کو اپنے اوپر صلاۃ پڑھنے کا حکم دیا ہے۔ احادیث میں ہے کہ صحابہ کرام نے عرض کیا۔” اے اللہ کے رسول ! ہم نے یہ تو جان لیا کہ آپ پر سلام کیسے بھیجیں۔ ( اشارہ ہے تشہد میں السلام علی النبی ورحمۃ اللہ و برکاتہٗ) کی طرف اب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمائیں کہ آپ پر صلوٰۃ کیسے پڑھا کریں۔ فرمایا تم یہ پڑھا کرو ( اللھم صلی علی محمد و علیٰ ال محمد کما صلیت علی ابراہیم) الخ واضح رہے کہ صلوٰۃ علی النبی کے الفاظ مختلف احادیث میں کم و پیش آئے ہیں اور کم سے کم الفاظ ﷺمنقول ہیں اور درود انہی الفاظ کے ساتھ پڑھنا چاہیے جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یا صحابہ (رض) سے منقول ہوں۔ صحابہ کا کیف نصلی کہنا اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قولو الخ فرمانا ہی اس کے ثبوت کے لئے کافی ہے۔ بعض ائمہ (رح) نے اس آیت اور حدیث سے نماز میں درود و کو واجب قرار دیا ہے جو بلحاظ دلیل اقرب ہے۔ نماز کے علاوہ درود شریف پڑھنے کی احادیث میں بہت فضلیت آئی ہے۔ حافظ ابن القیم (رح) اور دیگر ائمہ نے اس پر مستقل کتابیں لکھی ہیں۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ اللہ سے رحمت مانگنی اپنے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اور ان کے ساتھ ان کے گھرانے پر بڑی قبولیت رکھتی ہے۔ ان پر ان کے لائق رحمت اترتی ہے اور دس رحمتیں اترتی ہیں مانگنے والے پر جتنا چاہے اتنا حاصل کرے۔ ( فائدہ) صلوٰۃ وسلام کے الفاظ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور دوسرے انبیاء کے لئے شعار بن چکے ہیں لہٰذا کسی غیر نبی کو (علیہ السلام) یا (علیہ السلام) کہنا جائز نہیں ہے الا بالتبعیۃ اور امت مسلمہ کا اب تک قاعدہ رہا ہے کہ صحابہ کرام کے لئے (رض) اور بعد کے ائمہ و صلحا کے لئے ” رحمہ اللہ“ وغیرہ الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں۔ اور حدیث ” لقد تحجرت واسعا“ سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت کے لئے بھی دعائے رحمت جائز ہے۔ ( ابن کثیر شیوکانی) الأحزاب
57 ف ٣ اللہ تعالیٰ کو ستانا کفر و شرک اور اس کی نافرمانی کرنا ہے اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ستانا یہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تکذیب و مخالفت کی جائے، ازواج (رض) و مطہرات پر طعن و تشنیع کیا جائے، صحابہ (رض) کے حق میں طعن کیا جائے۔ حدیث میں ہے :” من اذاھم فقد اذانی“ ( ابن کثیر) الأحزاب
58 ف ٤ جو عیب کسی شخص میں نہ ہو اسے اس کی طرف منسوب کرنا بہتان ہے ( کما درد فی الحدیث) اور حدیث میں ہے کہ کسی مسلمان کی عزت پر حملہ کرنا سب سے برا سود ہے۔ یہ وعید سب سے زیادہ گروہ رافضہ (شیعہ) پر صادق آتی ہے جو صحابہ کرام پر طعن کرتے اور ان سے جھوٹی باتیں منسوب کرتے ہیں، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ان کی تعریف و ستائش کی ہے۔ ( ابن کثیر)۔ الأحزاب
59 ف ٥ یعنی راستہ والے سمجھ لیں کہ یہ شریف زادیاں ہیں۔ یہ جان کر کوئی انہیں چھیڑنے کی جرأت نہ کریگا۔ روایات میں ہے کہ مسلمان عورتیں رات کو ضروریات کے لئے کہیں باہر نکلتیں تو منافقین انہیں چھیڑنے کی جرأت کرتے۔ پھر جب ان سے پوچھا جاتات و کہتے ” ہم سمجھے تھے کہ لونڈیاں ہیں“ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ ( شوکانی) چاروں کے گھونگھٹ اوپر سے ڈال لیا کریں یعنی سارا چہرہ چھپا لیا کریں صرف ایک آنکھ رہنے دیں۔ ( ابن جریر، واحمدی) الأحزاب
60 ف ٦ مراد منافیق یا یہود ہیں جو جھوٹی خبریں پھیلا کر مسلمانوں میں گھبراہٹ پیدا کرتے۔” کچھ بدنیت لوگ تھے مدینہ میں عورتوں کو چھیڑتے اور پاکدامن عورتوں کے متعلق طرح طرح کے افسانے گھڑ کر لوگوں میں پھیلاتے“۔ ف ٧ یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو انکے خلاف کارروائی کرنے کا حکم دینگے۔ پھر ان میں بعض کو جلا وطن اور بعض کو قتل کر دینگے حتیٰ کہ مدینہ کی سرزمین سے ان کا صفایا ہوجائے۔ الأحزاب
61 الأحزاب
62 ف ١ یعنی ہر زمانہ میں اللہ تعالیٰ کی یہ سنت رہی ہے کہ اسلامی معاشرہ میں اوباش اور بد معاش قسم کے لوگوں کو پنپنے کا موقع نہیں دیا جاتا، بلکہ پہلے تو انہیں سنبھلنے اور اپنی روش بدلنے کے لئے تنبیہ کی جاتی ہے اور اگر وہ باز نہیں آتے تو ان کا طاقت کے ذریعے علاج کیا جاتا ہے۔ (ابن کثیر) شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں :” اور توراۃ میں بھی یہ تقید ہے کہ مفسدوں کو اپنے بیچ سے باہر کر دو“۔ الأحزاب
63 ف ٢ مفسرین کہتے ہیں کہ یہ سوال کرنیوالے وہی منافق اور جھوٹی خبریں پھیلانے والے اور پیغمبر کو ایذا دینے والے لوگ تھے جب ان کو عذاب کی دھمکی دی گئی تو وہ بطور استہزاء اور تکذیب کے سوال کرنے لگے۔ ( قرطبی، شوکانی) ف ٣ یعنی اگر قیامت کا علم اللہ تعالیٰ نے مجھ سے مخفی رکھا ہے تو اس سے میری صداقت پر کچھ اثر نہیں پڑتا اور نہ نبی ہونے کی یہ شرط ہی ہے کہ وہ اللہ کی طرف سے تعلیم کے بغیر غیب دان بھی ہو۔ ف ٤ اس میں ان کے لیے وعید ہے کہ قیامت یقینا آئے گی اور اس کا وقت کچھ دور نہیں ہے۔ ایک مرتبہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انگشت شہادت اور درمیانی انگلی اٹھا کر فرمایا :” بعثت انا والساعۃ کھاتین“ کہ میری بعثت اور قیامت ان دو انگلیوں کے مثل ہے (قرطبی) الأحزاب
64 الأحزاب
65 الأحزاب
66 الأحزاب
67 الأحزاب
68 الأحزاب
69 ف ٥ اوپر بتایا کہ اللہ اور اس کے رسول کو ایذا دینے والے ملعون اور معذب ہونگے۔ اب یہاں مومنین کو تنبیہ کی وہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ایسا رویہ اختیار نہ کریں جیسا رویہ بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کے ساتھ اختیار کیا تھا۔ ” ستانے“ سے مراد زبان سے کوئی بد تمیزی کی بات کہنا بھی ہے اور ہاتھ سے تکلیف دینا بھی۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ ایک روز آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسلمانوں میں کچھ مال غنیمت تقسیم فرمایا۔ ایک انصاری کہنے لگا ” یہ ایک ایسی تقسیم ہے جس میں خدا کی خوشنودی کا خیال نہیں رکھا گیا “۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب اس کا علم ہوا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا چہرہ سرخ ہوگیا اور فرمایا :” موسیٰ ( علیہ السلام) پر اللہ کی رحمت ہو انہیں اس سے بھی زیادہ ستایا گیا مگر انہوں نے صبر کیا۔“ ” ستانے“ سے مراد اس قسم کی تمام باتیں ہو سکتی ہیں ( ابن کثیر) حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کو ستانے کے سلسلہ میں مختلف واقعات منقول ہیں۔ بخاری میں ہے کہ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) بہت حیادار تھے اور اپنے بدن کو کبھی کھلا نہ رکھتے تھے۔ اس وجہ سے بعض لوگوں نے مشہور کردیا کہ ان کے بدن پر کوئی برص وغیرہ کا عیب ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے خرق عادت کے طور پر ان کے بے عیب ہونے کو ظاہر کردیا۔ یعنی ایک دن ایسا ہو کہ وہ ایک پتھر پر اپنے کپڑے رکھ کر نہانے لگے غسل سے فارغ ہو کر کپڑے پہننے پتھر کی طرف چلے تو وہ پتھر کپڑوں سمیت بھاگنے لگا۔ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) بھی ” ثوبی حجر“ ( اور پتھر میرے کپڑے) کہتے ہوئے اس کے پیھے دوڑے حتیٰ کہ بنی اسرائیل کی ایک مجلس میں پہنچ گئے اور انہوں نے دیکھ لیا کہ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) میں کوئی جسمانی عیب نہیں ہے۔ ( کبیر) الأحزاب
70 الأحزاب
71 ف ٦ یعنی تقویٰ کی راہ اختیار کرنے سے تو تمہاری عملی زندگی درست ہوگی اور سیدھی بات کہنے سے گناہ معاف ہوں گے۔ ( کبیر)۔ الأحزاب
72 ف ١ تمام مفسرین کے بقول اس جگہ امانت سے مراد اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور اس کے فرائض و احکام کا ہار ہے جن کے بجا لانے پر ثواب اور خلاف ورزی کرنے پر عذاب مترتب ہوتا ہے۔ بعض مفسرین نے جو اس یک اور مطالب بیان کئے ہیں وہ دراصل اسی کی تفصیلات ہیں۔ ( شوکانی) زمین و آسمان اور پہاڑوں کو بار امانت پیش کرنا لغوی اور حقیقی معنی کے اعتبار سے بھی ہوسکتا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس بار عظیم کی اہمیت ظاہر کرنے کے لئے محض تمثیلی انداز میں یہ بات فرمائی گئی ہو۔ واللہ علم۔ ف ٢ جو اس نے اس بار عظیم کی ذمہ داری تو لے لی مگر اسے نبھایا نہیں۔ یہ بات نوع انسانی کے اکثر افراد کے لحاظ سے فرمائی گئی ہے جنہوں نے اپنی فطرت سلیمہ یا ذمہ داری قبول کرنے کے تقاضے پر عمل نہیں کیا۔ ( روح المعانی) شاہ صاحب (رح) نے ” ظلوماً جھولا“ کا ترجمہ بے ترس نادان کیا ہے اور پھر لکھتے ہیں یعنی اپنی جان پر ترس نہ کھایا۔ امانت کیا ؟ پرائی چیزرکھنی اپنی خواہش کو روک کر، زمین و آسمان میں اپنی خواہش کچھ نہیں دیا ہے تو وہی ہے جس پر قائم ہیں۔ انسان میں خواہش اور ہے اور حکم خلاف اس کے اس پر پرائی چیز کو بر خلاف اپنے جی کے تھامنا بڑا زور چاہتا ہے۔ ( موضح) الأحزاب
73 ف ٣ یعنی انسان کے ظلموں کو بخشنے والا اور اس کی جہالت پر رحم کھانے والا ہے۔ شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں اس ( یعنی امانت کے قبول کرنے) کا انجام یہ کہ منکروں کو قصور پر پکڑنا اور ماننے والوں کا قصور معاف کرنا، اب بھی یہی حکم ہے۔ کسی کی امانت کوئی جان بوجھ کر ضائع کرے تو بدلہ ہے اور بے اختیار ضائع ہو تو بدلہ نہیں ہے۔ ( موضح)۔ الأحزاب
0 سبأ
1 ف ٤ مفسرین کا اتفاق ہے کہ یہ سورۃ مکہ میں نازل ہوئی البتہ اس کی آیت ( ویری الذین اوتو العلم) کے بارے میں اختلاف ہے۔ بعض اسے مکی قرار دیتے ہیں اور بعض مدنی۔ ( شوکانی)۔ ف ٥ یعنی جس طرح دنیا کی ہر نعمت اسی کی عطا کردہ ہے اسی طرح آخرت میں نیک بندوں کو بھی نعمت حاصل ہوگی وہ اسی کی عطا کردہ ہوگی۔ یہاں بھی ہر تعریف و ستائش کا مستحق وہی ہے اور وہاں بھی وہی ہوگا چنانچہ نیک بندے جب جنت میں داخل ہونگے تو کہیں گے ( الحمد للہ الذی صدقنا وعدہ) شکر ہے اس خدا کا جس نے ہم سے اپنا وعدہ پورا فرمایا۔ ( زمر : ٧٤) نیز دیکھئے۔ ( اعراف : ٤٣، فاطر : ٣٥) ف ٦ یعنی اس کا ہر غایت درجہ حکمت پر مبنی ہے اور اسے اپنی ہر مخلوق کے متعلق پوری خبر ہے۔ سبأ
2 ف ٧ جیسے فرشتے یا بندوں کے اعمال وغیرہ اور فیہا سے اشارہ ہے کہ وہ اعمال آسمانوں میں نفوذ کر کے باری تعالیٰ کے ہاں مرتبہ قبولیت حاصل کرلیتے ہیں۔ جیسے فرمایا :” الیہ یحمد الکلم الطیب“۔ ف ٨ یعنی وہ اپنے بندوں کی بد اعمالیوں سے باخبر ہے لیکن چونکہ وہ رحیم و غفورہے اس لئے وہ ان کی فوری گرفت نہیں کرتا بلکہ توبہ کی مہلت دیتا ہے اور جو توبہ کرلیتا ہے اس کی توبہ قبول فرماتا ہے۔ امام رازی (رح) لکھتے ہیں یعنی وہ جو کچھ رزق وغیرہ اتارتا ہے اپنی رحمت سے اتارتا ہے اور جو اعمال وارواح اس کی طرف عروج کر کے پہنچتے ہیں ان پر مغفرت فرماتا ہے۔ سبأ
3 ف ٩ یعنی اخروی نعمتوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ حمد و ستائش کے مستحق ہیں مگر کچھ لوگ کہ اخروی نعمت کے منکر ہیں اور قیامت جس کے بعد آخرت میں نعمتیں حاصل ہونگی اس کا انکار کر رہے ہیں۔ ( کبیر)۔ ف ١٠ یہ آیت ان تینوں آیتوں میں سے ہے جن میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قیامت کے آنے پر قسم کھانے کا حکم دیا ہے۔ دوسری آیت سورۃ یونس میں ہے ” ولستبلوانک احق ھو“ الایۃ۔ اور تیسری آیت سورۃ تغابن میں ہے۔” رعم الدین کفروا“ (الایۃ) سبأ
4 ف ١ یہ قیامت کے وقوع پر دلیل ہے یعنی اللہ تعالیٰ عالم الغیب ہے۔ اس کے علم سے کوئی ذرہ بھر چیز بھی پوشیدہ نہیں ہے اس لئے وہ تمہارے منتشر اجزاء کو جمع کر کے دوبارہ زندہ کرسکتا ہے اور الصادق الامین نے اس کی خبر دی ہے۔ لہٰذا اس کے وقوع میں کوئی شبہ نہیں ہوسکتا۔ ( کبیر)۔ سبأ
5 ف ٢ یعنی قیامت کا آنا اس لئے ضروری ہے کہ نیک و بد اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے، کیونکہ اس دنیا میں تو ہم دیکھتے ہیں بعض نیک آدمی عمر بھر تکالیف میں مبتلا رہتے ہیں اور بعض بد کردار لذت و عیش میں بسر کرتے ہیں، اور یہاں ان کے اعمال کے نتائج کا ظہور نہیں ہوتا، لہٰذا جزاء، سزا کے لئے کسی دن کا ہونا ضروری ہے ورنہ اس زندگی کی حیثیت کھلونے سے زیادہ نہ رہے گی اور یہ اللہ تعالیٰ کے حکیم و خیبر ہونے کے منافی ہے۔ ( کبیر)۔ سبأ
6 ف ٣ مراد صحابہ کرام ہیں یا تمام مسلمان اور با اعتبار عموم یہ دوسرا احتمال زیادہ صحیح ہے۔ مقاتل (رح) فرماتے ہیں کہ ان سے مراد اہل کتاب ہیں اور غالباً ترجمہ کا بریکٹ ( اگلی کتابوں کا) اسی قول کے پیش نظر ہے مگر یہ قول بوجہ ضعیف ہے۔ ( قرطبی) بعض نے (ویری الذین الایۃ) کو ولیجوی پر معطوف مانا ہے اور یہ مطلب لیا ہے یعنی اس واسطے قیامت آنی ہے کہ جن کو یقین تھا وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں کہ قرآن بر حق تھا۔۔۔۔ ( وحیدی) سبأ
7 سبأ
8 سبأ
9 ف ٤ یعنی آسمان و زمین کی تخلیق، اللہ تعالیٰ کے کمال قدرت کی نشانی اور اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ دوبارہ زندہ کرنے پر قدرت رکھتا ہے۔ ( کبیر)۔ ف ٥ اس میں تہدید ہے کہ یہی چیزیں جن کو تم نفع بخش اور زندگی کا سبب سمجھتے ہو اللہ تعالیٰ اگر چاہے تو انہی چیزوں کو تمہاری ہلاکت کا جواب بنا سکتا ہے۔ ( کبیر)۔ ف ٦ کہ جس نے اتنا بڑا پر از حکمت نظام بنایا ہے وہ دوبارہ زندہ بھی کرسکتا ہے۔ ( کبیر) یا مطلب یہ ہے کہ اس کی عنایت و فضل سے ہم بچے ہوئے ہیں ورنہ وہ ایک دم میں ہمیں ہلاک کرسکتا ہے۔ یہ زمین بھی اسی کی ہے اور آسمان بھی اسی کے ہیں، بھاگ کر کہاں جام سکتے ہیں۔ ( وحیدی) اس کے بعد رجوع کرنے والے بندوں میں سے بعض کے قصے بیان فرمائے۔ ( کبیر)۔ سبأ
10 ف ١ یہ ان کی ” انابت“ کا صلہ تھا۔ ( کبیر) یعنی ان کو علم و نبوت سے سرفراز فرمایا۔ ان پر زبور نازل کی، بادشاہی عنایت کی لوہے کو موم کی طرح نرم کردیا اور بندوں پر پہاڑوں کو تابع کردیا وغیرہ۔ یہ سب چیزیں فضل بزرگی میں داخل ہیں جیسا کہ آگے بیان فرمایا ہے۔ ف ٢ اس کا عطف جبال مناویٰ کے محل پر ہے۔ پہاڑوں اور پرندوں کو خاص طور پر ” تادیب“ کا حکم دینے سے اس ام کا اظہار مقصود ہے کہ جب پہاڑ باوجود اپنی سختی کے اور پرندے باوجود انسان سے نفرت کے حضرت دائود ( علیہ السلام) کے ساتھ تسبیح پڑھنے میں شریک ہوجایا کرتے تھے تو وہ دوسری چیزیں بالا ولی ان کے ساتھ تسبیح پڑھتی تھیں اور یہ بات حضرت دائود ( علیہ السلام) پر خصوصی فضل کے طور پر بیان فرمائی ورنہ پہاڑوں کی تسبیح سے ان کی گونج مراد ہو تو بزرگی کا ذکر بے معنی ہو کر رہ جائیگا۔ ( انبیاء : ٧٩)۔ ف ٣ علمائے تفسیر کا بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت دائود ( علیہ السلام) کیلئے لوہے کو اس قدر نرم کردیا تھا کہ انہیں اسے آگ میں ڈالنے اور ہتھوڑے سے کوٹنے کی ضرورت نہ پڑتی تھی بلکہ وہ ہاتھ سے دھاگے کی طرح اس جیسے چاہتے بل دے دیتے۔ ( ابن کثیر) سبأ
11 ف ٤ یا ” السر د“ کے معنی زدہ زبانی کی صنعت اور کام کے ہیں اور قدر سے مراد یہ ہے کہ بقدر ضرورت یہ کام کرو اور بقیہ اوقات عبادت الٰہی میں صرف کرو، جیسا کہ بعد میں ” وعملوا صالحا ًسے معلوم ہوتا ہے۔ ( کبیر)۔ سبأ
12 ف ٥ یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کی ” انابت“ کی وجہ سے ان پر انعامات فرمائے۔ ( کبیر) ف ٦ اسی طرح وہ ایک دن میں دو ماہ کی مسافت طے کرتی۔ ف ٧ مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ چشمہ یمن میں کسی مقام پر جاری ہوا تھا۔ ( ابن کثیر) بعض لوگوں نے لکھا ہے کہ تانبے کا چشمہ بہادیا“ سے مراد یہ ہے کہ حضرت سلیمان کے زمانہ میں تانبے کو پگھلانے اور اس سے طرح طرح کی چیزیں بنانے کا کام بڑے وسیع پیمانے پر ہوتا تھا، گویاں وہاں تانبے کے چشمے بہہ رہے تھے مگر یہ آیت کی من مانی تاویل ہے۔ ف ٨ یہ جن جو حضرت سلیمان کے سامنے کام کرتے تھے، ان کو شیاطین بھی فرمایا گیا ہے۔ (الانبیاء : ٨٢) سبأ
13 ف ٩ یہ تصویریں بے جان چیزوں کی تھیں اور اگر جاندار چیزوں (انسانوں اور حیوانوں کی ہوں یا اانبیاء صلحا کی تصویریں ہوں جیسا کہ بعض مفسرین (رح) نے بیان کیا ہے تو کہا جائیگا کہ حضرت سلیمان ( علیہ السلام) کی شریعت میں جاندار چیزوں کی تصویریں بنانا جائز تھا لیکن شریعت محمدیہ میں حرام قرار دے دیا گیا ہے جیسا کہ بہت سی احادیث میں مصورین کے لیے وعید مذکورہے اور تصویر بنانیوالوں کو شرار الخلق“ (بدترین مخلوق) قرار دیا ہے۔ ( شوکانی) واضح رہے کہ فوٹو بھی تصویر کے حکم میں ہے اور فوٹو اتارنا اور اتروانا بھی حرام ہے۔ ف ١٠ یعنی ایسی دیگیں جو بھاری ہونے کی وجہ سے ایک ہی جگہ رکھی رہتی تھیں۔ ف ١١ شکر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کو اس کی رضا مندی میں صرف کرے۔ احادیث میں حضرت دائود ( علیہ السلام) کی نماز اور روزے کی تعریف آئی ہے۔ حضرت دائود ( علیہ السلام) پہلی آدھی رات تک سوتے پھر تہائی راست عبادت کرتے، پھر رات کا باقی چھٹا حصہ سو کر گزارتے اور روزہ ایک دن رکھتے اور ایک دن نہ رکھتے اور فرمایا سب سے محبوب روز و حضرت دائود ( علیہ السلام) کا روزہ ہے اور سب سے محبوب نماز حضرت دائود ( علیہ السلام) کی نماز ہے۔ ( ابن کثیر)۔ سبأ
14 ف ١٢ یا ( لوگوں پر) جنوں کا حال کھل گیا۔ ممکن ہے یہ جن اپنے آپ کو غیب دان سمجھتے ہوں یا لوگوں کا ان کے بارے میں عقیدہ ہو کہ وہ غیب کا علم رکھتے ہیں۔ یہ دونوں احتمال صحت کے ساتھ ثابت ہیں۔ ( قرطبی)۔ ف ١٣ کہتے ہیں کہ حضرت سلیمان ( علیہ السلام) پر موت ایسی حالت میں طاری ہوئی جب وہ ایک لاٹھی کے سہارے کھڑے تھے۔ ایک لمبی مدت گزرنے کے بعد اس لاٹھی کو گھن لگ گیا اور وہ اندر سے کھوکھلی ہو کر ٹوٹ گئی تو ان کا جسم زمین پر آرہا، اس وقت جنوں کو معلوم ہوا کہ ان کا انتقال ہوگیا ہے۔ آیت کا یہی مطلب حضرت ابن عباس (رض) اور دوسرے مفسرین (رح) نے بیان کیا ہے۔ اس بارے میں ایک مرفوع بھی آئی ہے مگر اس کی سند صحیح نہیں ہے۔ ( ابن کثیر) سبأ
15 ف ١٤ اب ایک قوم کا نام تھا جو یمن میں آباد تھی۔ تبابعہ ( ملوک یمن) اور بلقیس بھی اسی قوم سے تھا جس جگہ یہ قبیلہ آباد تھا اس کا موجود نام مآدب ( سد باب) ہے وہ یمن کے دارالحکومت صنعا سے تین مراحل تقریباً٦٠ میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ بعض روایات میں ہے جسے ترمذی (رح) نے حسن غریب کہا ہے۔ کہ ” سبا ( جس پر اس قبیلے کا نام سبا مشہورہوا) کے دس لڑکے تھے یعنی اسکی نسل کے دس آدمی ایسے تھے جن کے نام پر یمن کے دس مشہور قبیلے ہوئے۔ جن میں سے سدباب کی تباہی کے بعد) چھ یمن میں آباد ہوئے اور چار شام میں“ تفاسیر میں انکے نام بھی مذکور ہیں۔ اور ان میں سے ایک قبیلہ اغیان ہے جن میں سے انصار (رض) ( اوس اور خزرج) یثرب میں آ کر آباد ہوگئے۔ ( ابن کثیر، قرطبی) ف ١٥ یعنی اگر توحید پر قائم رہو گے تو اس خوشحالی کے علاوہ وہ اپنے رب کو بھی اپنے لئے مہربان پائو گے۔ گویا تمہاری دنیا اور آخرت دونوں بن جائیں گی۔ ف ١ یعنی بندگی و شکر گزاری کی بجائے کفر و نا شکری کی روش اختیار کرلی۔ سبأ
16 ف ٢ یعنی بلند وادیوں سے آنے والے پانی کو روک کر مآرب کے پہاڑوں کے درمیان جو بند انہوں نے باندھا تھا اور جس سے وہ اپنے باغوں کو سال بھر سیراب کرتے تھے اسے توڑ کرہم نے زور کا سیلاب بھیجا جس نے ان کے باغ اور مکان سیلاب بھیجا جس نے ان کے باغ اور مکان سب تباہ کر ڈالے۔ مؤرخین نے لکھا ہے کہ یہ ” سدمآب“ بلق کے پہاڑوں کے درمیان تقریباً ٨٠٠ ق م باندھا گیا تھا جو ایک سو پچاس فٹ لمبی اور پچاس فٹ چوڑی دیوار ہے تقریباً پانچویں صدی عیسوی کے وسط میں یہ بند ٹوٹ گیا جس سے ملک کا تمام نظام آبپاشی تباہ و برباد ہوگیا۔ اس بند کی دیوار کا کچھ حصہ تا حال باقی ہے۔ پوری تفصیلات ” ارض القرآن“ میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ ف ٣ یعنی یا تو ان کے دائیں بائیں ایسے باغ تھے جن میں طرح طرح کے عمدہ اور مزید ار پھل پیدا ہوتے تھے یا جب سیلاب آیا اور اس نے پہلے باغ تباہ کردیئے تو انہوں نے نئے باغ لگائے مگر ان میں کوئی مزیدار پھیل پیدا نہہوا۔ کچھ خراب قسم کے پھل اور کچھ جھاڑی بوٹی کے بیر رہ گئے۔ سبأ
17 ف ٤ یعنی اسی سخت سزا صرف انہی لوگوں کو دی جاتی ہے جو ناشکری پر اترآتے ہیں اور سڑک سے بڑھ کرنا شکری کیا ہو سکتی ہے۔ سورۃ نمل میں گزر چکا ہے کہ یہ لوگ سورج کی پوجا کرتے تھے۔ ( ابن کثیر) سبأ
18 ف ٥ یعنی جب یہ لوگ تجارت کی غرض سے اپنے وطن یمن سے ملک شام کا سفر کرتے تھے تو بے خوف و خطر اور آرام و سکون سے کرتے۔ ہر تھوڑے تھوڑے فاصلے پر گائوں آباد تھے اس لئے زاد راہ اور پانی کا ذخیرہ رکھنے کی بھی ضرورت نہ پڑتی۔ رات کو یادن کو جس گائوں میں بھی پہنچ جاتے وہاں کھانے پینے کے لئے سب کچھ مل جاتا۔ سبأ
19 ف ٦ یعنی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی نا شکری کر کے گویا زبان حال سے یہ کہنے لگے ( کذافی الفتح) شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں : ” آرام میں مستی آئی لگے تکلیف مانگنے کہ جیسے اور ملکوں کی خبر سنتے ہیں سفروں میں پانی نہیں ملتا آبادی نہیں ملتی ویسا ہم کو بھی ہو۔ ( کذا فی ابن الکثیر) ف ٧ یعنی انہیں مختلف علاقوں میں اس طرح بکھیر دیا کہ ان کی پراگندگی ضرب المثل بن گئی۔ آج بھی اگر اہل عرب کسی قبیلے کی پراگندگی کا ذکر کرتے ہیں تو کہتے ہیں ” تفرقو ایدی سبا“ وہ اس طرح بکھر گئے جیسے سبا کا قبیلہ“۔ ( شوکانی) ف ٨ کہ جب ایک آباد و شاداب بستی خدا کی نافرمانی پر اتر آتی ہے تو اسے کیونکر تباہ و برباد کردیا جاتا ہے۔ سبأ
20 ف ٩ یعنی ابلیس نے آدم ( علیہ السلام) کی پیدائش کے وقت یہ جو گمان کیا تھا کہ ان کی اولاد میں سے اکثر لوگ نا شکرے ہونگے۔ سبا والوں کے معاملے میں اس کا گمان سچ ثابت ہوا۔ سبأ
21 ف ١٠ معلوم ہوا کہ آخرت میں شک کرنا کفر ہے اور سباوالوں کی نا شکری اور سر کشی کا سبب یہ تھا کہ انہیں آخرت پر یقین نہ تھا۔ قرآن نے متعدد مقامات پر اس حقیقت کو واضح کیا ہے کہ عقیدہ آخرت ہی ایسی چیز ہے جو دنیا میں انسان کو راہ راست کا پابند رکھ سکتی ہے۔ سبأ
22 ف ١ اگر وہ مدد نہ کرتا تو خدا یہ آسمان اور زمین نہ بنا سکتا اور نہ ان کا انتظام کرسکتا۔ ( العیاذ باللہ) سبأ
23 ف ٢ یعنی اللہ تعالیٰ کے حضور وہی سفارش فائدہ دے سکتی ہے جو کسی ایسے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یا فرشتے یا نیک بندے کی طرف سے ہو جسے اللہ تعالیٰ اجازت دے اور وہ کسی ایسے شخص کے حق میں ہو جس کے لئے سفارش کرنے کی اجازت اللہ تعالیٰ دے ( بقرہ : ٢٥٥، النجم : ٢٦١) اور یہ ظاہر ہے کہ کوئی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہو یا فرشتہ وہ اہل ایمان کے حق میں سفارش کرے گا اور کرسکے گا، نہ کہ کافروں اور مشرکوں کے حق میں صحیحین میں ہے کہ جب رسول اللہﷺ تمام مخلوق کے حق میں شفاعت کرنے کے لئے مقام محمود پر کھڑے ہونگے تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ کے سامنے سجدہ ریز ہونگے کچھ دیر اللہ تعالیٰ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سجدہ میں پڑا رہنے دیگا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ کی تعریف و ستائش کرتے رہیں گے پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔”(اے محمدﷺ) اپنا سر اٹھایئے اور جو کچھ عرض کرنا چاہیں کیجئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات سنی جائیگی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی درخواست پوری کی جائے گی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شفاعت قبول ہوگی۔۔۔۔“ (الحدیث ( ابن کثیر)۔ ف ٣ اس آیت میں سفارش کرنے والے فرشتوں کا حال بیان ہوا ہے۔ شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں :” یعنی اللہ تعالیٰ کے ہاں سفارش عوام چاہتے ہیں اولیا سے، وہ انبیاء سے، وہ فرشتوں سے ( حالانکہ) فرشتوں کا حال یہ ہے جو ( اس آیت میں) فرمایا کہ جب اوپر سے اللہ کا حکم اترتا ہے تو آواز آتی ہے جیسے پتھر پر زنجیر، فرشتے ڈر سے تھر تھراتے ہیں۔ جب تسکین آئی اور کلام ( ترچہ) تو ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ کیا حکم ہوا؟ اوپر والے بتاتے ہیں نیچے کھڑوں کو جو اللہ کی حکمت کے موافق ہے اور انگے سے قاعدہ معلوم ہے، وہی حکم ہوا؟ (موضح) آیت کی یہ تفسیر صحیح بخاری میں حضرت ابو ہریرہ (رض) اور دوسری متعدد صحیح روایات کے مطابق ہے اس لئے حافظ ابن کثیر (رح) نے اسی کو آیت کی صحیح تفسیر قرار دیا ہے۔ سبأ
24 ف ٤ ہر عقلمند آدمی سمجھ سکتا ہے کہ ہدایت پر وہی ہوگا جو اللہ تعالیٰ کو زمین و آسمان کا خالق ماننے کے بعد اس کی عبادت بھی کرتا ہے۔ اور وہ شخص یقیناکھلی گمراہی میں ہوگا جو اللہ تعالیٰ کو زمین و آسمان کا خالق تو مانتا ہے مگر عبادت دوسروں کی کرتا ہے۔ اسی چیز کو آیت میں صراحتاً کہنے کی بجائے کنایۃً بیان کیا گیا ہے کیونکہ یہ انداز کلام مخاطب کو زیادہ اپیل کرنیوالا ہے۔ ( کبیر) شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں :” اس میں ان کا جواب ہے جو اس زمانے میں بعض لوگ کہتے ہیں دونوں فرقے ہمیشہ سے چلے آئے ہیں کیا ضرورہے جھگڑنا ( موضح) سبأ
25 ف ٥ یہ بھی بحث و مناظرہ ہیں حکمت اور شائستگی برتنے کی تعلیم ہے یعنی باوجودیکہ مسلمان حق پر ہیں اور ان کے اعمال نیک ہیں لیکن انہیں چاہیے کہ مخاطب کو یوں کہہ کر غور و فکر کی دعوت کریں مطلب یہ ہے کہ اگر توحید کی دعوت قبول نہ کرو گے تو ہم سے تمہارا کوئی تعلق نہیں۔ دیکھئے سورۃ یونس : ٤١(ابن کثیر کبیر) سبأ
26 ف ٦ یعنی ظاہر کر دے گا کہ ہم دونوں میں کون ہدایت پر تھا اور کون کھلی گمراہی میں مبتلا تھا۔ ف ٧ لہٰذا اسی کا فیصلہ مبنی بر علم و حکمت اور خواہش سے خال ہوسکتا ہے۔ ( کبیر) سبأ
27 ف ٨ یعنی قبل اس کے آخرت میں پہنچ کر ہمارے اور تمہارے درمیان فیصلہ ہو تم مجھے یہیں بتائو کہ تمہارے ان معبودوں میں کونسی ایسی بات ہے جس کی وجہ سے تم انہیں خدا کا ند اور شریک سمجھ رہے ہو یا تم انہیں اپنا معبود سمجھ رہے ہو اور ان کی حمایت کر کے خدا کے عذاب سے بے خوف ہو رہے ہو۔ سبأ
28 ف ٩ یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قدر و منزلت نہیں جانتے اور انہیں احساس نہیں کہ کیسی عظیم الشان ہستی کی بعثت سے انہیں نوازا گیا ہے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کا عالمگیر اور تا قیامت ہونا متعدد آیات سے ثابت ہے۔ ( سورۃ اعراف، ٥٨ ١، فرقان : ١) ایک حدیث میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ ” پہلے ہر نبی خاص اپنے لوگوں کی طرف مبعوث ہوتا تھا اور مجھے تمام انسانوں کے لئے مبعوث کیا گیا ہے۔ ( بخاری، مسلم) سبأ
29 سبأ
30 ف ١٠ توحید و رسالت کے بعد حشر کا بیان فرمایا اور کفار کے اس استہزا کا جواب دیا کہ قیامت کب آئیگی؟ مطلب یہ ہے کہ اس میں نہ دیر ہو سکتی ہے نہ سویر وہ اپنے وقت پر آئیگی اور ضرور آئیگی۔ ای لا ستجال فیہ ولا امھال) (رازی) سبأ
31 ف ١ یعنی ان میں سے ہر ایک اپنی گمراہی کا الزام دوسروں پر دھر رہا ہوگا جیسا کہ عموماً ناکامی کی صورت میں ہوتا ہے۔ ( ابن کثیر) سبأ
32 ف ٢ جو عقل اور سمجھ رکھنے کے باوجود محض دنیا کے لالچ میں ہمارے پیچھے پیچھے ہوئے اور راہ ہدایت سے منہ پھیر لیا سبأ
33 ۔ ف ٣ یعنی اپنی شرمندگی دوسروں سے چھپائیں گے اور بظاہر بڑے حوصلہ مند بننے کی کوشش کریں گے۔ سبأ
34 ف ٤ یعنی ہم تمہاری دعوت قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ اس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی مخالفت پر معموم نہ ہوں کیونکہ سب سے پہلے ہر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کا مقابلہ اور مخالفت اہل ثروت و سیاست نے کی اور ابتداء میں ہر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تابع غریب اور کمزور قسم کے لوگ ہوئے ہیں۔ قرآن نے اس حقیقت کو بار بار دہرایا ہے اور یہی بات ہر قل نے ابو سفیان (رض) اور ان کے ساتھیوں سے اس وقت کہی جب اس کے دریافت کرنے پر ابو سفیان نے بتایا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی کرنے والے غریب اور معمولی قسم کے لوگ ہیں۔ مروی ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں دو شخص تھے، ان میں سے ایک مکہ سے باہر ساحل کی طرف چلا گیا اور دوسرا مکہ میں رہ گیا۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے بعد اس ساحلی دوست نے اپنے ساتھی کو لکھا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کچھ حالات لکھ کر بھیجے، اس نے لکھا کہ مکہ کے سردار تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت کر رہے ہیں اور صرف غریب اور مسکین قسم کے لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی کر رہے ہیں وہ مکہ آیا اور مسلمان ہوگیا۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے پوچھا کہ تمہیں کیسے معلوم ہوگیا کہ میں واقعی اللہ کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہوں ؟ وہ بولا ” جب بھی کوئی رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دنیا میں آیا تو سب سے پہلے غریب اور مسکین لوگ ہی اس کے ساتھ ہوئے“۔ اس کے جب یہ آیت اتری تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس شخص کو بلا بھیجا اور فرمایا کہ ” اللہ تعالیٰ نے تمہاری بات کی تصدیق فرما دی“۔ ( ابن کثیر) سبأ
35 ف ٥ یعنی ہم اللہ تعالیٰ کے پیارے اور پسندیدہ ہیں تبھی تو اس نے میں دنیا میں دولت و عزت سے نوازا ہے اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ آخرت میں بھی، اگر وہ آئی جیسا کہ تم کہتے ہو، ہمیں اپنی نعمتوں سے یونہی نوازیگا اور کوئی سزا نہ دے گا۔ ( ھیھات لم ذالک) یا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں ہم پر عذاب نہیں آئے گا جیسا کہ تم دھمکی دے رہے ہو۔ قرآن نے متعدد مقامات پر اس نظریہ کی تردید کی ہے اور بتایا ہے کہ دنیا میں مال و اولاد سے بہرہ ور ہونا اللہ تعالیٰ کے قرب کی علامت نہیں ہے اور سورۃ کہف میں دو باغوں والے کا قصہ اس حقیقت کی وضاحت کر رہا ہے۔ ( ابن کثیر) سبأ
36 ف ٦ یعنی دنیا کی آسودگی اور خوش حالی اللہ تعالیٰ کے خوش ہونے کی دلیل نہیں ہے۔ اس میں جو حکمت اور مصلحت ہے وہ اسی کو معلوم ہے لیکن عوام یہ سمجھتے ہیں کہ مال و اولاد کا حاصل ہونا خوش قسمی کی علامت ہے اور یہ نہیں سوچتے کہ بعض اوقات سر کش اور نافرمان لوگوں کو اس لئے بھی ہر قسم کی نعمتیں ملتی رہتی ہیں کہ وہ اپنی سر کشی میں خوب بڑھ جائیں۔ اسی مضمون کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی ایک حدیث میں یوں بیان فرمایا ہے۔ (ان اللہ لا ینظر الی صور کم واموالکم وانما ینظر الی قلوبکم واعمالکم) کہ اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں اور تمہارے مالوں کو نہیں دیکھتا بلکہ وہ تمہارے دلوں اور عملوں کو دیکھتا ہے۔ ( ابن کثیر)۔ سبأ
37 ف ١ مطلب یہ ہے کہ محض کسی شخص کا صاحب مال و اولاد ہونا اللہ تعالیٰ کے ہاں مقرب اور پسندیدہ ہونے کی علامت نہیں ہوسکتا۔ ہاں اگر مال و اولاد کو عمل صالح کا ذریعہ بنایا جائے تو بیشک یہ چیزیں قرب الٰہی کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ ف ٢ یعنی دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک بلکہ اس سے بھی زیادہ۔ دیکھئے سورۃ بقرہ آیت ٢٦١( ابن کثیر) ف ٣ یہاں ” عرفات“ سے مراد منازل ودرجات ہیں اور ” کوئی فکر نہ ہوگی“ کیونکہ جنت کی نعمتیں ابدی اور دائمی ہوں گی۔ ( ابن کثیر) سبأ
38 ف ٤ یعنی کبھی طعن کرتے ہیں اور کبھی ان میں عیب نکالتے ہیں۔ سبأ
39 ف ٥ یعنی رزق کی تنگی اور فراخی، عزت اور بے عزتی کا معیار نہیں ہے بلکہ اس کا معیار ایمان اور عمل صالح ہیں۔ ایک حدیث میں ہے کہ کامیابی یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کا مطیع اور فرمانبردار ہو اور اسے دنیا میں قناعت اور بقدر کفایت رزق حاصل ہو۔ ( ابن کثیر) ف ٦ خرچ سے مراد ایسا خرچ ہے جس میں نہ اسراف ہو اور نہ بخل۔ حضرت ابو ہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ (انفق یا ابن ادم انفق علیک) بندے خرچ کر، ہیں تجھ پر خرچ کرونگا۔ دوسری حدیث میں نبی ﷺ نے فرمایا کہ ہر روز صبح کے وقت دو فرشتے اترتے ہیں ان میں سے ایک کہتا ہے۔ (اللھم اطفسکا تلفا) اور دوسرا کہتا ہے ( اللھم اعط منفقا خلفا) کہ اے اللہ بخل کرنے والے کے مال کو ہلاک کر اور خرچ کرنے والے کو اسکا بدل عطا فرما۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (انفق بلا لا ولا تخش من ذی العرش اقلالا ) (ابن کثیر) سبأ
40 ف ٧ یعنی کیا تم نے ان لوگوں سے کہا تھا کہ ہم تمہارے معبود ہیں، تم ہماری عبادی کیا کرو؟ اور کیا تم اس سے خوش تھے کہ وہ تمہاری پوجا کریں؟ قیامت کے روز یہ سوال فرشتوں ہی سے نہیں ہوگا بلکہ ان تمام ہستیوں سے کیا جائے گا جن کی دنیا میں عبادت ہوتی تھی۔ سورۃ فرقان میں ہے ( ویوم یحشر ھم وما یعبدون من دون اللہ فیقول انتم اضللتھم عبادی ام ھم ضلوا السبیل) جس روز انہیں اور ان کے باطل معبودوں کو جمع کرے گا اور ان سے فرمائے گا کہ کیا تم نے ان لوگوں کو گمراہ کیا یا وہ خود گمراہ ہوئے۔ ( آیت ١٧) اور سورۃ مائدہ میں ہے ( واذا قال اللہ یعیسی ابن مریم انت قلت للناس اتخذونی وامی الھین من دون اللہ) اور جب اللہ تعالیٰ فرمائے گا اے عیسیٰ ( علیہ السلام) بن مریم ( علیہ السلام) ! کیا تو نے لوگوں سے یہ کہا تھا کہ اللہ کے سوا مجھے اور میری ماں کو معبود بنا لو؟ (آیت ١١٦)۔ سبأ
41 ف ٨ یعنی گویہ بظاہر ہمارے بت بنا کر ہماری عبادت کرتے تھے لیکن حقیقت میں یہ شیطن کی بندگی کرتے تھے کیونکہ ان شیاطین نے ان کو یہ راستہ دکھایا تھا کہ تجھے چھوڑ کر دوسروں کو اپنا معبود سمجھیں۔ ان کے آگے نذر و نیاز پیش کریں اور اپنی حاجت روائی کے لئے انہیں پکاریں۔ یہاں جن سے مراد شیاطین ہیں۔ ( ابن کثیر) سبأ
42 ف ٩ یعنی تم میں سے کوئی شخص نہ دوسرے کو فائدہ پہنچا سکتا ہے اور نہ نقصان، جیسا کہ یہ لوگ دنیا میں سمجھا کرتے تھے کہ ہم اپنے دیوتائوں یا بزرگوں یا پیروں کا دامن تھام لیں گے اور خدا کی پکڑ سے محفوظ رہیں گے۔ سبأ
43 ف ١ یعنی کبھی تو قرآن کے متعلق کہتے کہ یہ جھوٹ جو خدا سے غلط طور پر منسوب کردیا گیا اور کبھی اسے جادو بتاتے یا ھذا کا ارشاد توحید کیط طرف ہو یعنی یہ کہ توحید کا دعویٰ محض جھوٹ ہے اور یہ قرآن جادو ہے۔ امام رازی (رح) لکھتے ہیں کہ توحید سے انکار تو صرف مشرکین ہی کرتے تھے لیکن قرآن اور معجزات سے انکار مشرکین اور اہل کتاب دونوں کرتے تے اس لئے ” کفروا“ کا لفظ دونوں کو شامل ہے۔ ( کبیر) سبأ
44 ف ٢ جس نے آ کر انہیں تعلیم دی ہو کہ خدا نے تمہارے لئے دوسروں کی پرستش کرنا جائز قرار دیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جس شرک میں یہ مبتلا ہیں اور یہ جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکذیب کر رہے ہیں وہ کسی علم پر نہیں بلکہ سراسر جہالت اور باب دادا کی اندھی تقلید پر مبنی ہے۔ ( کبیر) سبأ
45 ف ٣ یعنی پچھے کافروں کو ہم نے جو دولت اور شان و شوکت دی تھی ان عرب کے کافروں کے پاس تو اس کا دسواں حصہ بھی نہیں ہے۔ ف ٤ یعنی پیغمبروں کی تکذیب پر انہیں کیسی سخت سزا دی ایسا تباہ و برباد کیا کہ نام و نشان تک مٹ گیا تو پھر یہ عرب کے کافر کس بل بوتے پر اکڑتے ہیں اور کس زعم میں بغاوت کی روش اختیار کئے ہوئے ہیں؟ سبأ
46 ف ٥ کفار آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کو رد کرنے کے لئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر مجنوں ہونے کا الزام لگاتے تھے۔ اس کے جواب میں فرمایا کہ تم لوگ آپس میں سر جوڑ کر یا پھر تنہائی میں بیٹھ کر ہر شخص آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے معاملہ میں غور کرے کہ وہ شخص جس کی راست بازی مشہور تھی اور تم میں سے ہر شخص اسے ” امین“ کہہ کر پکارتا تھا کیونکر ممکن ہے کہ یکایک بائولا ہوجائے اور خدا تک پر بہتان باندھنے لگے؟۔ ف ٦ تاکہ ایسا نہ ہو کہ تم اسی شرک اور کفر کی حالت میں مر جائو اور خدا کے ہاں عذاب کے مستحق قرار پائو۔ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ ایک روز آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کوہ صفا پر کھڑے ہو کر ” یا صباحاہ“ کہہ کر آواز دی۔ جب قریش آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گرد جمع ہوگئے تو انہوں نے دریافت کیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں کس لئے بلایا ہے ؟ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اگر میں یہ کہوں کہ صبح یا شام کو دشمن تم پر حملہ کرنے والا ہے تو میری تصدیق کرو گے ؟ جب سب نے اثبات میں جواب دیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں تمہیں سخت عذاب سے ڈرانیوالا ہوں“۔ اس پر ابو لہب نے کہا (تبالک الھذاجمعتنا) (ابن کثیر)۔ سبأ
47 ف ٧ وہ جانتا ہے کہ میں اپنے دعوائے نبوت میں سچا ہوں اور یہ دعوت کسی ذاتی مفاد کے لئے نہیں ہے۔ یہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صدق فی الرسالۃ کی دوسری دلیل ہے۔ ( کبیر) سبأ
48 ف ٨ لہٰذا وہ جو بات کہتے ہیں سچی کہتے ہیں ” یقذف بالحق) کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ حق کو باطل سے ٹکرا کر حق کو غالب اور باطل کو مغلوب کر رہا ہے۔ ( دیکھئے سورۃ انبیاء : آیت ١٨) ف ٩ مراد ہیں وہ باتیں جو دوسروں سے پوشیدہ ہیں ورنہ اللہ تعالیٰ سے تو کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے۔ سبأ
49 ف ١٠ یعنی اب باطل کوئی چال چل لے وہ ہرگز کامیاب نہیں ہو سکتی۔ ( ابن کثیرعن ابن مسعود) روایات میں ہے کہ جب فتح مکہ کے دن آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسجد حرام میں داخل ہوئے تو کعبہ کے گرد جو بت نصیب تھے ان کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی کمان کے چلہ سے مارتے اور یہ آیت پڑھتے۔ ( ابن کثیر بحوالہ بخاری) سبأ
50 ف ١١ یعنی اگر تمہارے بتوں کو چھوڑدینے کی وجہ سے گمراہ ہوگیا ہوں، جیسا کہ تم میرے بارے میں کہتے پھرتے ہو تو اس گمراہی کا وبال مجھی پر پڑے گا تم پر اس کی ذمہ داری نہیں ہے اور اگر میں ہدایت یافتہ ہوں، جیسا کہ حقیقت ہے، تو یہ میرا کمال یا خوبی نہیں ہے بلکہ اس کی وجہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی کے ذریعہ میری رہنمائی ہے۔ سبأ
51 ف ١٢ یعنی اس طرح پکڑ لئے جائیں گے گویا ان کا پکڑنے والا قریب ہی کھڑا تھا۔ جونہی انہوں نے بھاگنے کی کوشش کی فوراً پکڑ لئے تھے۔ ابن جریر (رح) لکھتے ہیں کہ ان سے مراد وہ لشکر ہے جو عباسی دور حکومت میں مکہ اور مدینہ کے درمیان زمین کے اندر دھنسا دیا گیا تھا اور افسوس ہے کہ انہوں نے اس کی تائید میں ایک موضوع حدیث بھی درج کردی ہے مگر صحیح ہے کہ اس سے مراد قیامت کا دن ہے۔ ( ابن کثیر)۔ سبأ
52 ف ١ یعنی اب ایمان ان کے ہاتھ کیسے آسکتا ہے؟ دنیا میں ایمان لاتے تو اس کا فائدہ بھی ہوتا۔ اب جو دنیا دور ہوگئی اور اس کی طرف پلٹنا بھی ممکن نہیں رہا تو انہیں ایمان کا موقع کہاں سے مل سکتا ہے؟ مطلب یہ ہے کہ ایمان اور تو بہ کا وقت تو سکرات موت سے پہلے پہلے ہے۔ مرنے کے بعد عذاب کا مشاہدہ کر کے تو ہر ایک کو یقین آجائے گا مگر اس وقت کی توبہ قبول نہیں ہو سکے گی۔ ( ابن کثیر وغیرہ) سبأ
53 ف ٢ یعنی محض اپنے گمان سے قرآن اور پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق جو دل میں آیا کہتے رہے۔ کبھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو شاعر اور جھوٹا کہتے، کبھی جادوگر ہونے کی تہمت لگاتے اور کبھی بائولا کہتے، کبھی قرآن کا مذاق اڑاتے اور عقیدہ ٔ توحید پر طعن کرتے اور موت کے بعد دوبارہ زندگی کی تکذیب کرتے۔ الغرض جو دل میں آتا پوری بے باکی اور بے خوفی سے بکتے رہتے۔ ( ابن کثیر وغیرہ) سبأ
54 ف ٣ یعنی عذاب سے چھٹکارا، یا دنیا کا مال و متاع اور عیش و آرام یا دنیا کی طرف پلٹنا یا توبہ اور ایمان وغیرہ۔ الغرض اس قسم کی جو خواہشیں بھی کریں گے اس سے محروم کردیئے جائیں گے۔ ( ابن کثیر) ف ٤ یعنی انہیں اللہ، رسول، آخرت الغرض ہر چیز میں شک تھا اس سے معلوم ہوا کہ قیامت کے روز شک کرنے والوں کا حشربھی وہی ہوگا جو کھلم کھلا انکار کرنے والوں کا ( وحیدی) سبأ
0 ف ٥ تمام مفسرین (رح) کا اتفاق ہے کہ یہ سورۃ مکہ میں نازل ہوئی۔ ( قرطبی) فاطر
1 ف ٦ یعنی انہیں پیدا کیا حالانکہ اس سے پہلے ان کا سرے سے کوئی وجود نہ تھا۔ ف ٧ جیسا کہ حدیث میں ہے کہ شب معراج میں نبیﷺ نے حضرت جبریل ( علیہ السلام) کو دیکھا کہ ان کے چھ سو بازو تھے۔ ( ابن کثیر)۔ (یریدون فی الخلق ما یشئا) کو عام بھی رکھا رکھتا ہے یعنی اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق میں جو چاہے اضافہ کرسکتا ہے۔ ( شوکانی) معلوم ہوا کہ فرشتے جسم اور پر ( بازو) رکھتے ہیں اس پر ایمان لانا واجب ہے۔ باقی کیفیت ان کی اللہ کو معلوم ہے تاویلات فاسدہ کرنا گمراہی ہے۔ ( وجیز وغیرہ) فاطر
2 ف ٨ رحمت سے مراد ہر وہ نعمت ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو عنایت فرمائے چاہے وہ مادی ہوجیسے بارش اور روزی وغیرہ۔ یا روحانی جیسے بعث انبیاء، دعا کی قبولیت، توبہ ہدایت وغیرہ۔ مطلب یہ ہے کہ بندوں کو جو بھی نعمت حاصل ہے وہ اللہ تعالیٰ ہی کی طرح سے ہے۔ وہ اپنی نعمت کسی کو دنیا چاہے تو کوئی اسے روکنے والا نہیں اور روکنا چاہے تو کوئی اسے دینے والا نہیں۔ حدیث میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر نماز کے بعد یہ دعا پڑھا کرتے تھے۔ ( اللھم لا مانج لما ما اعطیت ولا معطی لما صنعت ولا ینفع ذا الجدمشک الجد) اے اللہ ! جسے تو دے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جس سے تو روکے اسے کوئی دینے والا نہیں۔ تیرے مقابلہ میں کسی بڑائی والے کی بڑائی اسے کوئی کام نہیں دے سکتی۔ ( ابن کثیر) فاطر
3 ف ٩ یعنی اس کے احسان فراموس اور نمک حرام نہ ہو کہ بندگی دوسروں کی بجالائو حالانکہ تمہیں جو بھی نعمت حاصل ہے وہ اسی کی دی گئی ہے۔ ف ١٠ آسمان سے بارش برسائے اور زمین سے غلے، سبزیاں اور دوسری چیزیں اگاتے۔ ف ١١ یعنی تمہیں یہ دھوکا کہاں سے لگ گیا کہ خالق، رازق تو اللہ ہو مگہ بندگی اور تابعداری دوسروں کی کی جائے ؟ مثل مشہور ہے جس کا کھایئے اسی کا گائیے۔ ( ابن کثیر)۔ فاطر
4 ف ١ یہ اس لئے فرمایا کہ نبیﷺ پہلے انبیا ( علیہ السلام) کو اسوہ بنائیں اور اپنے زمانہ کے کافروں کی تکذیب سے کبیدہ خاطر نہ ہوں۔ فاطر
5 ف ٢ یعنی آخرت سے غافل کر دے یہاں تک کہ تم سمجھنے لگ کہ جو مزے ہیں وہ بس اسی دنیا میں ہیں۔ ف ٣ اللہ کے باب میں شیطان کا فریب کئی طرح سے ہوتا ہے۔ کسی کو وہ یہ فریب دیتا ہے کہ خدا کا سرے سے وجود ہی نہیں۔ کسی کو اس غلط فہمی میں مبتلا کرتا ہے کہ خدا کے علاوہ دوسرے بھی معبود ہیں جن کی بندگی کی جانی چاہیے۔ سعید (رض) بن جبیر فرماتے ہیں اللہ کے باب میں دھوکہ کھانا یہ ہے کہ انسان جی بھر کر گناہ کرتا رہے اور سمجھے کہ اللہ غفور و رحیم ہے وہ سب گناہ معاف کر دے گا وغیرہ۔ ( قرطبی، فتح البیان ) فاطر
6 ف ٤ یعنی تمہاری دنیا و آخرت دونوں تباہ کرنا چاہتا ہے۔ تم اس کی چال میں نہ آئو، اس کی کوئی بات نہ مانو اور جو بات تمہارے دل میں ڈالے اسکی مخالفت کرو۔ ( ابن کثیر وغیرہ) ف ٥ یعنی ان لوگوں کو جو اس کا کہا مانتے اور اس کے بتائے ہوئے رشتہ پر چلتے ہیں۔ فاطر
7 ف ٦ یعنی ان کے اعمال سے بڑھ کر یہاں بڑے ثواب سے مراد جنت اور اس کی نعمتیں ہیں۔ ( قرطبی) فاطر
8 ف ٧ وہ اس شخص جیسا ہوسکتا ہے کہ اگرچہ برا کام کرتا ہے لیکن اسے برا ہی سمجھتا ہے بھلا نہیں سمجھتا ؟ ظاہر ہے کہ یہ دونوں شخص برابر ہو سکتے، ایک شخص جو برا کام کرتا ہے لیکن اسے برا ہی سمجھتا ہے اس کے متعلق تو امید کی جاسکتی ہے کہ وہ کبھی نہ کبھی راہ راست پر آجائے گا لیکن جو شخص برا کام کرتا ہے مگر اسے اچھا سمجھ کر کرتا ہے، اس کے راہ راست پر آنے کی کبھی امید نہیں کی جاسکتی۔ اس لئے بعض سلف (رح) کا قول ہے کہ گناہ گاہ کے توبہ کرنے کی امید تو کی جاسکتی ہے لیکن بدعتی اپنی بدعت باز نہیں آسکتا کیونکہ وہ بدعت کو نیکی سمجھ کر کرتا ہے۔ یہاں سو عمل سے شرک، بدعت اور گمراہی سبھی مراد لئے جاسکتے ہیں۔ یہ آیت عاص بن وائل سہمی وغیرہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ ( قرطبی) ف ٨ یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کام صرف تبلیغ کرنا ہے۔ رہی ہدایت اور گمراہی تو یہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں کیونکہ دنیا میں کوئی کام اس کی مشیت کے بغیر نہیں ہوسکتا لیکن یہ نتیجہ خود آدمی کے اپنے عمل کا ہوتا ہے۔ ف ٩ کیونکہ ایسے لوگوں کو راہ راست پر لے آنا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بس میں نہیں ہے۔ ف ١٠ لہٰذا یہ نہ سمجھئے کہ وہ اس کی پکڑ سے محفوظ رہیں گے۔ فاطر
9 ف ١١ یعنی ایسے شہر کی طرف جس کی زمین مردہ پڑی ہے اور وہاں کوئی سزہ اور پیداوار نہیں ہوتی۔ ف ١٢ اس میں طرح طرح کی سبزیاں، غلے اور پھل پیدا ہوتے ہیں گویا اس میں جان پڑجاتی ہے۔ فاطر
10 ف ١٣ پھر تم اس سے انکار کیونکر کرتے ہو حالانکہ مردہ زمین کو زندہ ہوتے اپنی آنکھوں سے ہمیشہ دیکھتے ہو؟ ابوزین عقیلی (رض) سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا :” اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اللہ تعالیٰ مردوں کو کیونکر زندہ کرے گا؟“ فرمایا :” کیا تم نے کوئی ایسی زمین نہیں دیکھی جس سے تم پہلی دفعہ گزرے تو وہ اجاڑ پڑی تھی اور دوبارہ گزرے تو وہ سبزہ سے لہلہا رہی تھی؟“ میں نے عرض کیا ” جی ہاں“ فرمایا ” اسی طرح اللہ تعالیٰ مردوں کو زندہ کرے گا۔ ( قرطبی)۔ حضرت ابن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ مردوں کو زندہ کرنا چاہے گا تو عرش کے نیچے سے ایک خاص قسم کی بارش ہوگی جس کا پانی پڑتے ہی مردے اس طرح جی اٹھیں گے جیسے ظاہری بارش سے دانہ زمین سے اگ آتا ہے۔ ( ابن کثیر)۔ ف ١٤ لہٰذا اسی سے عزت مانگنی چاہیے۔ کفار بتوں کی عبادت کرتے کہ ان کے لئے عزت کا باعث بنیں۔ ( سورۃ مریم، آیت ٨١) اور بعض ضعف الایمان اور منافق قسم کے مسلمان کفار سے دوستی کرتے کہ دنیا میں با عزت زندگی بسر کرسکیں۔ ( سورۃ نساء آیت ١٣٩) فرمایا کہ اگر عزت چاہتے ہو تو اسی کی اطاعت اور عبادت کر کے عزت طلب کرو، کیونکہ ہر قسم کی عزت اسی کے ہاتھ میں ہے اور وہ عزت ایسی ہے جس کی ساتھ ذلت نہیں ہے۔ ( ابن کثیر وغیرہ) ف ١٥ یعنی اس کے ہاں قبول ہوتا ہے۔ ( فالصعود کنایۃ عن القبول) پاکیزہ کلمہ سے مراد کلمہ توحید ( لا الہ اللہ) بھی ہے اور ہر وہ بات جو پاکیزہ ہوجیسے سبحان اللہ، الحمد للہ، اللہ اکبر یعنی تسبیح و تحمید اور ذکر الٰہی ( قرطبی وغیرہ) ف ١٦ یعنی کوئی کلمہ چاہے اپنی جگہ پاکیزہ ہو لیکن قبول اسی وقت ہوتا ہے جب اسکے ساتھ عمل بھی نیک ہو۔ مطلب یہ ہے کہ عمل کا نیک ہونا ” پاکیزہ کلمات“ کی قبولیت کیلئے شرط ہے جیسا کہ بعض آثار سے بھی ثابت ہوتا ہے۔ اور نیک عمل سے مراد وہ عمل ہے جو کتاب و سنت کے مطابق ہو اور اس سے صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی چاہی گئی ہو نہ کہ کسی اور کی، بعض مفسرین (رح) نے ” برفعہ“ میں ” یرفع“ کی فعیر پاکیزہ کلموں کیلئے اور ” ہ“ کی ضمیر عمل صالح کیلئے قرار دیتے ہوئے یہ معنی کہے ہیں کہ ” پاکیزہ کلمہ نیک عمل کو بلند کرتا ہے “۔ گویا اللہ تعالیٰ کے ہاں درجہ قبولیت پانے کیلئے پاکیزہ کلمہ اور نیک عمل لازم و ملزم ہیں“۔ ( شوکانی) شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں !” یعنی عزت اللہ کے ہاتھ میں ہے تمہارے ذکر او بھلے کام چڑھتے جاتے ہیں جب اپنی حد کو پہنچیں گے تببری پر غلبہ حاصل کریں گے کفر دفع ہوگا ( اور) اسلام کو عزت نصیب ہوگی“۔ ف ١ چنانچہ ایک مرتبہ ” دارالندوہ“ میں بیٹھ کر انہوں نے یہ خفیہ سکیم بنائی کہ ہر قبیلے کا ایک ایک آدمی اٹھے اور سب مل کر محمدﷺ پر یک ہارگی حملہ کریں پھر انہوں نے اس کو عملی جامعہ پہنانے کی کوشش کی لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بچا لیا اور سکیم بنانے والے خود ذلیل و خوار ہوئے اور ان کے بڑے بڑے سردار جنگ بدر میں مارے گئے۔ بعض نے اس سے ریا کار لوگ مراد لئے ہیں۔ ( قرطبی) فاطر
11 ف ٢ یعنی ہر شخص کی عمر میں جو کمی یا زیادتی وہ اللہ تعالیٰ کے لکھے ہوئے فیصلہ کے مطابق ہوتی ہے۔ احادیث میں ہے کہ دعا صدقہ اور صلہ رحمی سے رزق اور عمر میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ پس ان روایات سے دوسری احادیث کی عموم میں تخصیص کی جائے گی جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ رزق و عمر اور سعادت و شقاوت ماں کے رحم میں لکھے جاتے ہیں اور پھر ان میں کمی بیشی اور تغیر و تبدل نہیں ہوتا۔ ( قرطبی، شوکانی)۔ فاطر
12 فاطر
13 ف ٣ یعنی دن کی روشنی آہستہ آہستہ گھنٹی شروع ہوتی ہے اور رات کی تاریکی بڑھتے بڑھتے آخر کارپوری طرح چھا جاتی ہے۔ وبالعکس (دیکھئے آل عمران آیت ٢٦) اشارہ ہے کہ رات دن کی طرح کبھی کفر غالب ہے کبھی اسلام اور سورج چاند کی طرح ہر چیز کی مدت بندھی ہے دیر سویر نہیں ہوتی۔ ( موضح) ف ٤ یعنی کوئی معمولی سے معمولی اختیار بھی نہیں رکھتے۔ فاطر
14 ف ٥ کیونکہ وہ تمہیں کسی قسم کا نفع یا نقصان پہنچانے سے قطعی عاجز ہیں۔ ف ٦ یا ’ ’ تمہارے شرک سے انکار کریں گے “۔ یعنی یہ کہیں گے کہ ہم نے کبھی تم سے یہ نہیں کہا تھا کہ ہم تمہارے معبود ہیں اس لئے ہماری بندگی کیا کرو ہم سے دعائیں مانگا کرو اور حاجتیں طلب کیا کرو، مطلب یہ ہے کہ تمہارے یہ معبود تو دنیا میں کچھ فائدہ پہنچا سکتے ہیں اور نہ آخرت میں، بلکہ قیامت کے دن یہ تمہارے خلاف شہادت دیں گے۔ ( کبیر)۔ ف ١ یعنی جب اللہ تعالیٰ جو ہر چیز کی خبر رکھتا ہے، خود یہ بتارہا ہے کہ لکڑی اور پتھر کے مجسمے قیامت کے دن گویا ہوناگے اور اپنی عبادت کرنے والوں سے بیزاری کا اظہار کریں گے تو معلوم ہوا کہ اس کا کوئی شریک نہیں ہے اور اس کے سوا کسی کی بندگی جائز نہیں ہے اور یہ بت اور دیوتا سب باطل ہیں۔ (کبیر وغیرہ) فاطر
15 ف ٢ یعنی تم ہر لمحہ اور ہر آن اپنے وجود اور بقاء میں اسی کے محتاج ہو اور اس نے باوجود خود ” بے پروا“ ہونے کے تمہارے لئے زندگی کے اسباب فراہم کئے۔ پھر وہ حمید بھی ہے اگر تم ایمان لے آئو گے تو آخرت میں تمہیں اپنی نعمتوں سے نوازے گا۔ ( کبیر)۔ فاطر
16 ف ٣ یعنی یہ مت خیال کرو کہ اگر تم فنا ہوگئے تو اللہ تعالیٰ کی سلطنت اور عظمت میں کوئی فرق آجائے گا، ہرگز نہیں۔ اگر وہ چاہے تو تمہیں فنا کر کے ایک نئی خلقت پیدا کرلے جو اس کی اطاعت کرے اور نافرمانی سے باز رہے۔ ( کبیر)۔ فاطر
17 فاطر
18 ف ٤ بوجھ سے مراد گناہوں کا بوجھ ہے۔ یہ آیت اس آیت کے منافی نہیں ہے جس میں ارشاد ہے۔ ( ولیحملن اتقالھم و اتقالا مع القالھم ) ( اور وہ ضرور اپنے بوجھ اٹھائیں گے اور اپنے بوجھوں کے ساتھ کچھ اور بوجھ) کیونکہ وہ جودو طرح کے بوجھ اٹھائیں گے وہ ان کے اپنے ہی ہوں گے، ایک ان کے خواہ گمراہ ہونے کا اور دوسرا اپنے علاوہ دوسروں کو گمراہ کرنے کا۔ جیسا کہ ایک حدیث میں ہے : (من سن سنۃ سیۃ فعلیہ وزرھا ووزرمن عمل بھا الی یوم القیامۃ) یعنی ” جس نے کوئی برا طریقہ جاری کیا اس پر اس کا اور ان تمام لوگوں کا بوجھ ہے جو قیامت تک اس پر عمل کریں“۔ (فتح البیان) ف ٥ حدیث میں ہے : باپ بیٹے کے گناہ میں نہ پکڑا جائے گا اور نہ بیٹا باپ کے گناہ میں مآخوذ ہوگا۔ (لا یجنی والد علی ولدہ ولا مولود علی والدہ) (شوکانی بحوالہ ترمذی، لسائی) ف ٦ یا تنہائی میں جہاں کوئی انہیں دیکھنے والا نہیں ہوتا وہ خدا سے ڈرتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ڈرانے سے وہی لوگ فائدہ حاصل کرسکتے ہیں جن کے دل میں خدا کا ڈر ہے اور پھر عمل صالح کے زیور سے بھی آراستہ ہیں۔ ( کبیر) ف ٧ یعنی محسن کو اس کی نیکی کا ثمرہ ملے گا اور اس کا ظہور گو اس دنیا میں نہیں ہوتا مگر قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے پاس پہنچ کر تو اپنی نیکیوں کا ثمرہ حاصل کر ہی لے گا جیسا کہ گناہ کی سزا اس دنیا میں پوری نہیں ملتی مگر قیامت کے دن اس کی پوری سزا مل کر رہے گی۔ ( کبیر) فاطر
19 فاطر
20 فاطر
21 فاطر
22 ف ٨ یعنی اسی طرح مومن اور کافر برابر نہیں ہو سکتے۔ مومن کا ٹھکانہ جنت اور کافر کا جہنم شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں :” یعنی سب خلق برابر نہیں جن کو ایمان دینا ہے انہیں کو ملے گا تو بتھری آرزوکرے تو کیا ہوتا ہے؟“ (موضح) ف ٩ یعنی مردوں کو مراد وہ کافر ہیں جن کے دل مردہ ہوچکے ہیں۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ جو لوگ قبروں میں مردہ میں انہیں کوئی بات نہیں سنائی جاسکتی۔ یہ ایک عام حقیقت ہے جس سے صرف وہ صورتیں مستثنیٰ ہیں جو دلیل ( کتاب و سنت) سے ثابت ہوں۔ (دیکھئے سورۃ نمل آیت ٨٠)۔ فاطر
23 ف ١٠ یعنی لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے خبردار کرنے والا رہا ہدایت کرنا اور راہ راست پر لانا تو یہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اس کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔ فاطر
24 ف ١١ یعنی اطاعت گزاروں کو جنت کی خوشخبری دینے والا اور نافرمانوں کو خدا کے عذاب سے ڈرانے والا۔ ف ١٢ درانے والا، خواہ نبی ہو، خواہ جو نبی کے راہ پر ہو۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ ہر قوم اور ہر ایک میں ڈر سنانیوالے ہر گزرے ہیں۔ ( دیکھئے سورۃ رعد آیت ٧ سورۃ نحل : ٣٦) فاطر
25 ف ١٣ صحیفوں سے مراد غالباً وہ کتابیں ہیں جو زیادہ تر نصائح اور اخلاقی ہدایات پر مشتمل تھیں۔ جیسے حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کے صحیفے اور چمکتی کتاب سے مراد وہ کتاب ہے جس میں شرعی احکام کا ذکر تھا جیسے توراۃ۔ واللہ اعلم۔ ( شوکانی) مطلب یہ ہے کہ اگر تیری قوم تجھ کو جھٹلائے تو اس پر غمگین نہ ہو، اس لئے کہ یہ مصیبت کچھ خاص تجھی پر نہیں ہے تیرے ساتھیوں کے ساتھ بھی یہی کام ہوتا ہے حالانکہ ان میں سے کسی کو معجزات، کسی کو صحیفے اور کسی کو روشن کتاب دیکر بھیجا گیا تھا مگر وہ صبر کرتے رہے اور انجام کار جھٹلانے والے سخت عذاب میں پکڑے گئے اور تجھ کو یہ تمام چیزیں ایک ساتھ دیکر بھیجا گیا۔ ( فوائد سلیفہ تبصرف)۔ فاطر
26 فاطر
27 فاطر
28 ف ١ علم سے مراد اللہ تعالیٰ کی صفات، افعال و احکام اور قدرتوں کا علم ہے نہ کہ صرف و نحو، فلسفہ تاریخ جغرافیہ اور سائنس وغیرہ رسی علوم اور حقیقت ہے کہ جس کسی شخص کو معرفت باللہ زیادہ حاصل ہوگی، اسی قدر وہ اللہ تعالیٰ سے زیادہ ڈرنے والا ہوگا یعنی تقویٰ بقدر علم ہوتا ہے۔ انبیاء ( علیہ السلام) کو چونکہ حسب مراتب معرفت باللہ دوسرے لوگوں سے زیادہ ہوتی ہے۔ اس لئے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (انا اخشاکم للہ واتقاکم لہ) میں تم سب کی بہ نسبت اللہ تعالیٰ سے زیادہ ڈرنے والا ہو۔ عالم وہ ہے جو اللہ تعالیٰ سے ڈرنا ہے اور جو اللہ تعالیٰ سے نہیں ڈرتا وہ عالم نہیں ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کا ڈر بڑا علم ہے اور اس سے بے خوفی بڑا جہالت ہے۔ حضرت ابن مسعود (رض) فرماتے ہیں :” علم کثرت حدیث کا نام نہیں ہے بلکہ کثرت خشیت کا نام ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) کا ارشاد ہے : ” رحمان کا علم رکھنے والا وہ ہے جو شرک نہ کرے، اللہ کے حلال کو حلال اور حرام کو حرام سمجھے، اس کی ہدایت پر کار بند رہے اور اسے یقین ہو کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضر ہو کر تمام اعمال کا حساب ہوگا۔ امام مالک (رح) فرماتے ہیں : ” علم کثرت روایت کا نام نہیں ہے۔ بلکہ وہ تو ایک نور ہے جو اللہ تعالیٰ کسی کے دل میں ڈال دیتا ہے۔ ( روح، ابن کثیر) فاطر
29 ف ٢ یعنی جو علماء اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے ہیں، ان کی صفات یہ ہیں کہ وہ قرآن کی تلاوت کرتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ وہ لسانی، بدنی اور مالی ہر قسم کی عبادات بجا لاتے ہیں اور انکے قلوب خشیت الٰہی سے معمو رہتے ہیں۔” سزا و علانیہ“ یعنی فرائض کی بجا نٓوری علانیہ کرتے ہیں اور نفلی عبادات سترا کرتے ہیں۔ ( رازی) اور تجارت سے مراد ثواب طاعت ہے۔ ( شوکانی) فاطر
30 ف ٣ یعنی ان کے گناہوں کو بخشنے والا اور ان کی اطاعت کی قدر کرنے والا ہے۔ یہاں تک تو توحید کا بیان تھا اب آگے رسالت کا بیان شروع ہو رہا ہے۔ ( کبیر) فاطر
31 ف ٤( حال موکد لکونہ حقا) یعنی یہ کوئی نئی چیز نہیں ہے بلکہ اس دعوت کو پیش کرتی ہے جو پچھلی کتابوں میں پیش کی گئی تھی۔ پچھلی کتابوں سے مراد توراۃ و انجیل وغیرہ کی وہ اصل عبارتیں ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کی گئی تھیں نہ کہ ان کی موجودہ تحری شدہ عبارتیں۔ فاطر
32 ف ٥ یعنی پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد کتاب کے وارث اپنے بر گزیدہ بندوں کو بنایا یعنی یہ امت جو امت وسط ہے اور اسے خیر الانبیا ( علیہ السلام) کی امت ہونے کا شرف حاصل ہے اور ” اور ثنا“ سے مراد یہ ہے کہ ہم نے مقرر کردیا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد اس کتاب کے وارث اس امت کے علماء کو بنا دینگے۔ ( فتح البیان) ف ٦ بعض علماء نے تفسیر (رح) نے سورۃ واقعہ میں جو اہل محشر کے تین گروہ مذکور ہیں۔ ان پر اس آیت کو بھی منطق کرنے کی کوشش کی ہے اور اپنی جان پر ظلم کرنے والوں سے کافر اور منافق مراد لئے ہیں مگر یہ تفسیر قرآن کے سیاق کے خلاف ہے کیونکہ یہاں تین قسم کے لوگوں کا ذکر فرما کر ان کا جتنی ہونا بیان کیا ہے اور اس کے بعد اہل دوزخ کا ذکر فرمایا ہے۔ لہٰذا ان سے کافر اور منافق مراد نہیں ہو سکتے۔ پس صحیح یہی ہے کہ اپنی جان پر ظلم کرنے والوں سے مراد گناہ گار مسلمان ہیں جو آخر جنت میں داخل ہونگے۔ جیسا کہ عبد اللہ بن عباس (رض) سے علی بن طلحہ (رض) کی روایت میں ہے اور حضرت ابو اللہ (رض) اسے مرفوعاً مروی ہے کہ ( ظالم لنفسہ) سے مراد وہ گناہ گار مسلمان ہیں جو اپنے گناہوں کے سبب میدان حشر میں دیر تک رہ کے جائیں گے پھر اللہ تعالیٰ ان پر رحم فرما کر جنت میں داخل کرے گا۔ اس کی تائید متعدد روایات ( مرفوع و موقوف) سے بھی ہوتی ہے۔ لہٰذا جمہور مفسرین نے اسی تفسیر کو اختیار کیا ہے۔ ( احسن الفوائد) اور حدیث (شفاعتی لاھل الکبائر من امتی) سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ گناہ گار مسلمان آخر جنت میں داخل ہونگے اور مقتصد میں وہ لوگ آتے ہیں جو فرائض کے پابند اور محرمات سے مجتنب رہتے ہیں مگر بعض مستجاب کے تارک اور بعض مکروبات کے مرتکب ہوجاتے ہیں، اور تیسرے سابق بالخیرات یعنی وہ لوگ جو نہ صرف فرائض کو ادا کرتے اور محرمات سے مجتنسب رہتے ہیں بلکہ مستحبات پر بھی کار بند رہتے ہیں اور مکروہات سے بچتے رہتے ہیں۔ کذاروی عن اکثر السف۔ حضرت بن عباس (رض) فرماتے ہیں ( سابقون بالخیرات) تو بغیر حساب کے جنت میں داخل ہونگے اور مقصد وہ جن کا حساب تو ہوگا مگر (حسابا بسیرا) کے بعد جنت میں چلے جائیں گے اور ظالم اور اعراف والے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شفاعت سے جنت میں داخل ہونگے۔ (ابن کثیر) فاطر
33 ف ٧ بعض مفسرین (رح) نے ان داخل ہونیوالوں سے صرف نیکیوں میں آگے بڑھنے والے لوگ مراد لئے ہیں لیکن صحیح یہ ہے کہ ان سے تمام مسلمان مراد ہیں چاہے وہ مذکور بالا تینوں قسموں میں سے کسی قسم میں داخل ہوں۔ ( شوکانی) فاطر
34 فاطر
35 ف ١ یعنی ہماری تمام محنتوں اور تکلیفوں کا خاتمہ ہوگیا۔ شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں :” رہنے کا گھر اس سے پہلے کوئی نہ تھا ہر جگہ چل چلائو اور روزی کا غم، دشمنوں کا ڈر اور رنج اور مشقت وہاں پہنچ کر سب گئے۔ (موضح) فاطر
36 ف ٢ ایک حدیث میں بھی ہے کہ دوزخی دوزخ میں رہیں گے سو وہاں نہ مرینگے اور نہ جئیں گے۔ الغرض دوزخ کا عذاب دائمی ہوگا۔ دیکھئے۔ ( نساء : ٥٦، طہٰ: ٧٤) فاطر
37 ف ٣” اتنی عمر“ سے مراد ساٹھ برس کی عمر ہے۔ یہی قول حضرت ابن عباس (رض) اور اکثر صحابہ (رض) سے منقول ہے۔ صحیح بخاری کتاب الرقاق میں حضرت ابو ہریرہ (رض) سے ایک مرفوع حدیث میں ہے ( اعذر اللہ الی امری اخرعمرہ حتی بلغ ستین سنۃ) کہ اللہ تعالیٰ نے اس شخص کا عذرختم کردیا جسے اس نے ساٹھ برس کی عمر دے دی، پس یہی قول اصح ہے اور جن روایات و اقوال میں چھیالیس، ستر اور چالیس برس کی تحدید مذکور ہے وہ صحیح نہیں ہے۔ ( ملخص از ابن کثیر وغیرہ)۔ فاطر
38 ف ٤ اس بناء پر اسے خوب معلوم ہے کہ اگر تمہیں دوبارہ بھی دنیا میں بھیج دیا جائے تو تم ہرگز نیک کام نہ کرو گے جیسا کہ دوسرے مقام ( انعام : ٢٨) پر فرمایا ( ولو اردوا لعادوا المانھوا عنہ) اور اگر انہیں دنیا میں دوبارہ بھیج بھی دیا جائے تب بھی وہی کام کرینگے جن سے انہیں منع کیا گیا تھا۔ ( قرطبی) فاطر
39 ف ٥ یعنی پچھلی نسلیں ختم ہوگئیں تو تم نے ان کی جگہ لے لی اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اللہ نے تمہیں زمین پر اپنا خلیفہ بنایا۔ چنانچہ شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں :” یعنی رسولوں کے پیچھے تمہیں ریاست دی یا انگلی امتوں کے پیچھے اب اس کا حق ادا کرو“۔ ف ٦ یعنی جو اس نعمت ( خلافت) کی ناشکری کرے۔ نہ حق بندگی ادا کرے اور نہ گزشتہ قوموں کے انجام سے عبرت حاصل کرے تو اس کی ناشکری کا وبال اسی پر پڑے گا۔ کسی دوسرے کو وہ کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا۔ فاطر
40 ف ١ جس کی بناء پر تم یہ سمجھو کہ یہ خدا کی خدائی میں شریک قرار دیئے جاسکتے ہیں۔ ف ٢ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مشرکوں پر حجت قائم کی ہے کہ ان معبودوں کو نہ تو آسمان و زمین کو پیدا کرنے میں کچھ دخل ہے اور نہ کسی سماوی کتاب ہی میں ان کے شریک ہونے کی کوئی دلیل موجود ہے تو پھر تم اللہ کو چھوڑ کر ان کی عبادت کیوں کرتے ہو؟ دراصل یہ اپنے پیشوائوں کے اس قول پر فریفتہ ہوگئے ہیں کہ جن کی ہم عبادت کرتے ہیں وہ اللہ سے ہماری کرینگے ( یا پیر، فقیر، عوام سے جو یہ کہتے ہیں کہ فلاں فلاں کا دامن تھام لو دنیا میں بھی سکھی رہو گے اور آخرت میں بھی وہ تمہیں خدا کے عذاب سے بچا لیں گے) سو یہ جھوٹ اور فریب ہے۔ ( سلفیہ باضافہ) فاطر
41 ف ٣ ان کے معبودوں سے خلق و قدرت کی نفی کے بعد اب اللہ تعالیٰ کی قدرت کو بیان فرمایا۔ یعنی جس طرح یہ حقیقت ہے کہ آسمان و زمین کا بنانے والا صرف اللہ ہے اور اس کے سوا کوئی ان کا بنانے والا اور اس نظام کو چلانے والا نہیں ہے۔ اسی طرح یہ بھی حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی زمین و آسمان کو اپنی قدرت سے تھامے ہوئے ہے۔ کوئی دوسرا ان کے تھامنے اور ان کا نظام چلانے میں اس کا شریک نہیں ہے۔ ف ٤ یعنی اللہ تعالیٰ کا حلم اور اس کی مغفرت نہ ہوتی تو بندوں کا کفر و عصیان ( خصوصاً شرک) اس بات کا متقاضی ہے کہ آسمان و زمین اپنی جگہ پر قائم نہ رہیں جیسے فرمایا (تکاد السموات یتفطرن منہ وتنشق الارض و تخر الجبال ھدا ان دعوا اللرحمن ولدا) (مریم : ٩، ٩١) یا مطلب یہ ہے کہ مشرکین اپنے شرک و عصیان کی وجہ سے اس امرکے مستحق ہوچکے ہیں کہ آسمان کو گرا کر ان کو تباہ و برباد کردیا جائے اور زمین ویرانہ بن جائے۔ مگر اللہ تعالیٰ اپنے حلم و مغفرت کی وجہ سے ان کو تھامے ہوئے ہے۔ اگر یہ اپنی جگہ سے ٹلا گئے تو کوئی طاقت نہیں جو ان کو تھام سکے۔ ( کبیر وغیرہ) فاطر
42 ف ٥ جس کی طرف اللہ نے کبھی اپنا کوئی پیغمبر بھیجا ہو۔ شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں : ” عرب کے لوگ جو سنتے یہود کی بے حکیماں اپنے نبی سے تو کہتے۔ ہم میں اگر نبی آوے تو ہم ان سے بہتر رفاقت کریں۔ سو منکروں نے اور عداوت کی “۔ اکثر مفسرین (رح) نے آیت کی یہ تفسیر بیان کی ہے۔ اور ( سورۂ صفافات : ١٣٧، ١٦٩) سے بھی اس کی تائید وضاحت ہوئی ہے۔ فرمایا (وان کانو لیقولون لو ان عندنا ذکرا من الاولین لکنا عباد اللہ الخلصین) اور یہ قرآن اترنے سے پہلے کہا کرتے تھے کہ اگر پچھلوں کی کوئی کتاب ہمارے پاس ہوتی تو ہم اللہ کے برگزیدہ بندے ہوجاتے۔ مگر امام رازی (رح) کہتے ہیں کہ مشرکین مکہ تو رسالت اور حشر کے قائل ہی نہیں تھے۔ پھر ان کے اس قول کی یہ تفسیر کیسے کی جاسکتی ہے۔ دراصل اس قول سے ان کا مقصد مبالغہ کے ساتھ رسالت محمدﷺ کی تکذیب کرنا ہے۔ یعنی اگر اللہ کی طرف سے واقعۃً کوئی پیغمبر آتاتو ہم اس پر ایمان لے آتے مگر یہ محمدﷺ تو پیغمبر نہیں ہیں بلکہ نعوذ باللہ کا ذب اور مفتری ہیں ( کبیر) فاطر
43 ف ٦ یعنی یہ اگر اپنی روش نہ بدلیں گے اور اپنی سر کشی میں بڑھتے جائیں گے تو پچھلے کافروں کی طرح ان پر عذاب نازل ہو کر رہے گا۔ ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی سنت تبدیل نہیں ہو سکتی کہ یہ اس کی پکڑ سے محفوظ رہیں۔ فاطر
44 ف ٧ یعنی وہ اسے ہونے کا حکم دے یا کسی قوم پر عذاب نازل کرنے کا ارادہ کرے اور وہ نازل نہ ہو۔ ف ١ کوئی چیز اس سے سے پوشیدہ یا کوئی کام اس کیلئے دشوار نہیں ہے۔ فاطر
45 ف ٢ جاندار سے مراد جن و انس کے علاوہ عام جاندار ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ جن و انس تو اپنے گناہوں کی وجہ سے ہلاک ہوجاتے۔ اور دوسری جاندار چیزیں جن و انس کے گناہوں کی نحوست کی وجہ سے بعض آثار میں ہے۔ (کاذ الجعل ان یعذب فی حجرہ بذنب ابن ادم) (قرطبی) ف ٣ کسی کا حال اس سے پوشیدہ نہیں ہے وہ ہر ایک کو اس کے اچھے یا برے عمل کا ٹھیک ٹھیک بدلہ دیگا۔ فاطر
0 ف ٤ یہ سورۃ بالا تفاق مکہ معظمہ میں نازل ہوئی۔ البتہ مفسرین (رح) کے ایک گروہ کا خیال ہے کہ اس کی آیت ( ونکتب ما قد مواو اثارھم) مدینہ منورہ میں اس وقت نازل ہوئی جب قبیلہ بنو سلمہ نے اپنے گھروں کو، مسجد نبوی سے دور تھے چھنوڑنے اور مسجد کے قریب آباد ہونے کا ارادہ کیا۔ ( قرطبی) متعدد احادیث میں اس سورۃ کی فضلیت بیان ہوئی ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ جس نے اللہ کی رضا مندی چاہنے کے لئے کسی رات سورۂ یٰسین پڑھی، اس کی اس رات بخشش کردی گئی۔ اور ایکدوسری روایت میں ہے کہ یٰسین قرآن کا دل ہے۔ کوئی شخص اسے اللہ تعالیٰ کی رضا مندی اور آخرت کی نجات حاصل کرنے کی نیت سے تلاوت نہیں کرتا مگر اسے بخش دیا جاتا ہے)۔ قریب مرگ پر اسکی تلاوت کرنے سے اسکی روح نکلنے میں آسانی ہوتی ہے۔ اسکی تلاوت سے مشکل آسان ہوتی ہے۔ یہ دونوں باتیں علماء نے اس سورۃ کے خواص میں شمار کی ہیں۔ ( ابن کثیر) يس
1 ف ٥ یٰسین حروف مقلعات میں سے ہے جن کی تشریح سورۃ بقرہ میں گزر چکی ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) اور بعض تابعین (رض) نے اس کے معنی اے مرد یا اے انسان اور بعض نے یا سید البشر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ( اے انسانوں کے سردار) بیان کئے ہیں۔ اس لحاظ سے اس کے مخاطب آنحضرت ﷺ ہیں۔ امام مالک فرماتے ہیں : یہ اسمائے حسنیٰ میں سے ہے۔ واللہ اعلم (شوکانی) يس
2 ف ٦ یعنی اس قرنٓن کی جو حکمت اور دانئی کی باتوں سے لبریز ہے یا جو اس قدر محکم ( پختہ) ہے کہ اس میں کوئی اختلاف اور تناقض نہیں ہے۔ مطلب یہ ہے کہ بعد میں جو بات بیان کی جا رہی ہے اس کی صحبت پر قرآن حکیم شاہد ہے اور فی الواقع یہ قرآن معجزہ ہے جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیا گیا ہے۔ يس
3 ف ٧ اس کا یہ مطلب نہیں کہ معاذ اللہ نبی ﷺ کو اپنے پیغمبر ہونے میں کوئی شک تھا، بلکہ اس سے مقصود ان کفار قریش کی تردید ہے جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کرتے تھے ( لست مرسلا) تم اللہ کے بھیجے ہوئے نہیں ہو۔ يس
4 ف ٨ یعنی دین توحید پر جو سیدھا اللہ تک پہنچاتا ہے اور اس میں نہ افراط ہے اور نہ تفریط۔ يس
5 يس
6 ف ٩ باپ دادا سے مراد قریب کے باپ دادا ہیں کیونکہ عربوں میں نبی ﷺ سے پہلے حضرت اسماعیل ( علیہ السلام) کے بعد کوئی پیغمبر نہیں آیا تھا۔ یہ ترجمہ اس صورت میں ہے جب ماانذر میں ما کو نافیہ قرار دیا جائے اور اگر اسے موصولہ بمعنی جو مان لیا جائے تو ترجمہ یہ ہوگا اس لئے کہ تو عرب کے ان لوگوں کو ڈرائے جن کے باپ دادا ڈرائے گئے تھے کیونکہ وہ دین کی باتوں سے غافل ہوچکے تھے۔ اس صورت میں آباء سے مراد قدیم آباء ہونگے جن کی طرف حضرت اسماعیل ( علیہ السلام) کی بعثت ہوئی۔ ( تنبیہ) قرآن کی دوسری آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سب کے لئے عام تھی اور صحیح احادیث میں بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ میری نبوت عام ہے۔ پس یہاں لتنذر قوما کی تخصیص محض قریش کے جواب میں ہے۔ ( ابن کثیر) يس
7 ف ١٠ یعنی اللہ تعالیٰ کا وہ قول جو اس نے روز اول میں فرمایا تھا کہ میں دوزخ کو جنوں اور انسانوں سے بھروں گا۔ يس
8 ف ١١ مطلب یہ ہے کہ طوقوں کی وجہ سے وہ نہ سر جھکا سکتے ہیں، اور نہ ادھر ادھر دیکھ سکتے ہیں۔ اس لئے وہ اپنے سر اٹھائے کھڑے ہیں۔ یہاں طوق کا لفظ ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے ہدایت سے محروم ہونے کیلئے بطور مثال ذکر کیا گیا ہے۔ ( ابن کثیر)۔ يس
9 ف ١٢ یعنی جب وہ اپنی ضد اور ہٹ دھرمی میں دن بدن پختہ ہی ہوتے چلے گئے تو اس کا نتیجہ یہ نکالا ہم نے انہیں یہ سزا دی کہ انکے آگے پیچھے ایسے اسباب۔ نسلی تعصبات، باپ دادا کی اندھی تقلید اور قومی رسوم و عادات کی بے جا پابندی وغیرہ۔ پیدا کردیئے جو انکے لانے کی راہ میں رکاوٹ ہیں اور انکی آنکھوں پر غلط فہمیوں کی پٹی باندھ دی جسکی وجہ سے انہیں حق بات سوجھ ہی نہیں سکتی۔ اب انکے سامنے کوئی کھلی سے کھلی دلیل بھی آجائے تو وہ اسکی طرف توجہ نہیں دے سکتے۔ يس
10 ف ١٣ اسکے یہ معنی نہیں ہیں کہ انہیں سمجھانا اور تبلیغ کرنا چھوڑ دیں، بلکہ مطلب یہ ہے کہ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عام لوگوں کو سمجھائیں گے اور عام تبلیغ کرینگے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دو قسم کے لوگوں سے سابقہ پیش آئیگا۔ ایک وہ لوگ جن پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تبلیغ کوئی اثر نہ کریگی اور وہ اپنے کفر و شرک پر بضد رہیں گے۔ اس آیت میں انہیں کا ذکر کیا گیا ہے۔ ( بقرہ : ٦) يس
11 ف ١٤ یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تبلیغ سے وہی شخص فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ يس
12 ف ١ یعنی از اعمال خیر و شر ( فتح الرحمن) پیچھے چھوڑے جانیوالے نشانیوں سے مراد وہ نیکیاں یا برائیاں ہیں جن کے ثواب، گناہ کا سلسلہ آدمی کے مرنے کے بعد بھیزجاری رہے جیسے کوئی شخص ایسا نیک یا بد طریقہ جاری کرے جس پر لوگ اس کے بعد بھی عمل کریں اور ان کے ساتھ ساتھ اسے بھی اس کا ثواب یا گناہ ملتا رہے۔ بعض صحابہ (رض) و تابعین (رض) نے آثار سے مراد پائوں کے نشان لئے ہیں۔ جیسا کہ ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ قبیلہ بنو سلمہ نے جو مدینہ کے ایک گوشہ میں رہتا تھا، یہ چاہا کہ اپنے پرانے گھروں کو چھوڑ کر مسجد نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قریب آ کر آباد ہوجائے۔ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی، چنانچہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں بلایا اور فرمایا ( یا بنی سلمۃ دیار کم تکتب آثار کم) اے بنی سلمہ ! اپنے موجودہ گھروں میں ٹکے رہو۔ تمہارے قدموں کے نشان لکھے جاتے ہیں۔ یہ بھی اپنی جگہ صحیح ہے مگر آیت کو عموم پر محمول کرنا زیادہ بہتر ہے یعنی یہ آثار سے مراد پائوں کے نشان بھی ہیں اور خیر و شر کے پیچھے چھوڑے ہوئے نشان بھی ( شوکانی) يس
13 ف ٢ اس بستی سے مراد کونسی بستی ہے اور وہ پیغمبر کون تھے جو اس بستی کی طرف بھیجے گئے تھے؟ اس کی قرآن یا کسی صحیح حدیث میں تصریح نہیں ہے۔ ابن اسحاق کی روایت کے مطابق گر قدیم مفسرین (رح) بالعموم اس طرف گئے ہیں کہ اس بستی سے مراد شام کا شہرانطاکیہ ہے اور جن پیغمبروں کا ذکر کیا گیا ہے حضرت عیسیٰ کے حواری تھے جنہیں حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) نے تبلیغ کے لئے وہاں بھیجا تھا۔ شاہ صاحب (رح) نے بھی اپنی توضیح میں یہی لکھا ہے مگر یہ توضیح بچندوجوہ صحیح معلوم نہیں ہوتی۔ اول یہ ہے کہ قرآن نے ان پیغمبروں کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہونے کی تصریح کی ہے اور پھر اگر وہ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کے حواری ہوتے تو بستی والے ان پر یہ اعتراض نہ کرتے کہ تم ہماری طرح کے بشر ہو اور اللہ تعالیٰ نے کوئی کتاب نہیں اتاری بلکہ ان کے مابین سوال و جواب کا طریقہ کوئی اور ہوتا جس سے پتہ چلتا کہ وہ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کی طرف سے بھیجے ہوئے حواری تھے۔ دوسرے یہ بات تاریخی طور پر ثابت ہے کہ انطاکیہ اور اسکندریہ ان شہروں میں ہیں جن کے تمام باشندے حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) پر سب سے پہلے ایمان لائے اس لئے انطاکیہ عیسائیوں کے چار بڑے مراکز میں سے ایک مرکز رہا ہے۔ تیسرے جیسا کہ آگے آرہا ہے قرآن کی تصریح کے مطابق یہ بستی تباہ کردی گئی حالانکہ انطاکیہ والوں کے ساتھ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کے حواریوں کا قصہ توراۃ کے نازل ہونے کے بعد پیش آیا اور حضرت ابو سعید خدری (رض) اور دیگر صحابہ کہتے ہیں کہ توراۃ نازل ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ نے کسی بستی کو عام عذاب بھیج کر تباہ نہیں کیا۔ مستدرک حاکم کی ایک مرفوع روایت سے بھی ثابت ہے جسے حاکم نے صحیح کہا ہے ( دیکھئے سورۂ قصص ٤٣) اور یہ جو آیا ہے کہ حضرت علی (رض) کا اس امت میں وہی مرتبہ ہے جو حضرت مسیح ( علیہ السلام) کی امت میں اس شخص کا ہے جس کا ذکر سورۃ یٰسین میں ہے تو یہ روایت ضعیف ہے اور اس کی سند میں حسین بن حسن الاشقرراوی ہے جو غالی شیعہ ہے۔ اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ قرآن نے جس بستی کا ذکر کیا ہے اس سے مراد انطاکیہ نہیں بلکہ اور کوئی بستی ہے جو تباہ کردی گئی اور یہ واقعہ نزول توراۃ سے قبل کا ہے ممکن ہے اس نام کی اس سے پہلے بھی کوئی بستی ہو۔ ( احسن الفوائد بن کثیر وغیرہ) يس
14 يس
15 يس
16 يس
17 يس
18 ف ٣ یہ بھی اسی قسم کی بات ہے جو کفار مکہ نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہی ( سورۃ نساء : ٧٧) اور جو قوم ثمود نے حضرت صالح ( علیہ السلام) سے کہی ( نمل : ٤٧) اور جو فرعون کی قوم والے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) اور ان پر ایمان لانے والوں کے بارے میں کہا کرتے تھے۔ (اعراف : ٣) يس
19 ف ٤ اس لئے اتنا بھی نہیں سمجھتے کہ برے کام خود کرتے ہو اور منحوس ان لوگوں کو بتاتے ہو جو تمہیں برائی سے منع کرتے ہیں۔ یا ” تم لوگ ( کفر و سر کشی میں) حد سے بڑھ گئے ہو“۔ اس لئے ہماری دعوت کو قبول کرنے کی بجائے اسے اوہام و خرافات سے رد کرنا چاہتے ہو۔ يس
20 يس
21 يس
22 ف ١ مقصود قوم کو توجہ دلانا ہے کہ جس طرح میرے لئے یہ صحیح نہیں ہے کہ اپنے پیدا کرنے والے کی عبادت نہ کروں اسی طرح تمہارے لئے بھی صحیح نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے سے باز رہو، کیونکہ میں ہوں یا تم سب کا پیدا کرنے والاوہی اللہ ہے۔ ف ٢” اور اپنے اعمال کا بدلہ پانا چاہیے“ يس
23 ف ٣ اس سے مقصود بھی دراصل قوم ہی کی توجہ دلانا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کرجن جھوٹے معبودوں بتوں یا زندہ و مردہ ہستیوں کی تم بندگی کر رہ ہو ان کو یہ قدرت نہیں ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ تمہارے گناہوں کی پاداش میں تمہیں پکڑنا اور سزا دینا چاہیے تو وہ تمہیں اپنے زور سے سفارش کرکے اس کی گرفت سے چھڑا سکیں۔ اس سے اس سفارش کی نفی نہیں ہوتی جو قیامت کے دن انبیاء ( علیہ السلام) فرشتے یا اللہ کے نیک بندے کریں گے کیونکہ وہ سفارش زور کی نہیں ہوگی بلکہ اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بعد اسکے حضور میں التجا ہوگی۔ يس
24 ف ٤ یعنی یہ سب کچھ جاننے کے باوجود اگر میں انہیں اپنا مبعود بنا لوں۔ يس
25 ف ٥ یعنی میں جس خدا پر ایمان لایا ہوں وہ میرا ہی نہیں تمہارا بھی پروردگار ہے لہٰذا تمہیں میری بات سننی چاہیے اور صرف ایک خدا پر ایمان لانا چاہیے۔ یہ اس شخص کا اپنی قوم سے خطاب ہے۔ بعض مفسرین (رح) نے اس جملہ کا مخاطب انبیاء ( علیہ السلام) کو قرار دیتے ہوئے یہ مطلب بیان کیا ہے ” اپے جس رب اللہ تعالیٰ کی طرف تم دعوت دے رہے ہوئیں اس پر ایمان لے آیا، تم میرے مومن ہونے کے گواہ رہو“۔ یہ تاویل حضرت عبد اللہ بن (رض) مسعود سے منقول ہے جو ابن جریر (رح) اور قرطبی (رح) نے ذکر کی ہے اور حافظ ابن کثیر (رح) نے اسے اظہر قرار دیا ہے۔ بہر حال اس بات کے کہنے پر اس کی قوم کے لوگ اس پر پل پڑے اور اسے شہید کردیا۔ (ابن کثیر وغیرہ) يس
26 ف ٦ یعنی شہادت واقع ہوتے ہی اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے جنت میں داخل ہونے کی اجازت دے دی گئی جیسا کہ احادیث سے ثابت ہے کہ شہدا کی روحیں سبز پرندوں کی شکل میں جنت کے اندر جہاں اور جیسے چاہتی ہیں اڑتی پھرتی ہیں۔ ( دیکھئے بقرہ ( آیت ١٥٤) يس
27 ف ٧ دوسرا ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ” کاش ! میری قوم کو معلوم ہوجاتا ہے کہ کس چیز کی بدولت میرے مالک نے مجھے بخش دیا پہلا ترجمہ ” بما“ کے ” ما“ کا مصدر یہ ہونے کے لحاظ سے ہے اور دوسرا ” ما‘ کے استفہامیہ ہونے کے لحاظ سے ( شوکانی) ف ٨ تاکہ وہ بھی میری طرح کفر سے توبہ کرتے اور رسولوں پر ایمان لاتے اور جنت میں داخل ہوتے یا میرا حسن انجام ان کو معلوم ہوتا۔ شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں : ” قوم نے اس سے دشمنی کی کہ مار ڈالا اس کو بہشت میں بھی قوم کی خیر خواہی رہی۔ اگر معلوم کریں میرا حال تو سب ایمان لاویں۔ ( کذافی القرطبی) يس
28 ف ٩ چنانچہ ان کے کفر و ظلم اور تکذیب انبیاء ( علیہ السلام) کی پاداش میں جب ہم نے انہیں ہلاک کرنے کا فیصلہ کیا تو یہ اہتمام نہیں کیا اور نہ اس اہتمام کی ضرورت تھی کہ آسمان سے فرشتوں کی فوج اتارتے جو انہیں ہلاک کرتی۔ جنگ بدر میں فرشتوں کی فوج کا نزول صرف آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عظمت ظاہر کرنے کے لئے تھا ورنہ کفار قریش کو ہلاک کرنے کیلئے تو فرشتے کے ایک بازو کی حرکت ہی کافی تھی اور پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جن کا ذکر ہورہا ہے۔ آنحضرتﷺ کے مرتبہ کے نہ تھے کہ ان کی تعظیم کیلئے فرشتوں کی فوج اتارنے کی ضرورت پیش آتی۔ ( کبیر، شوکانی)۔ يس
29 ف ١٠ تفاسیر میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت جبریل ( علیہ السلام) کو بھیجا، انہوں نے شہر کے دروازے پر کھڑے ہو کر ایک آواز بلند کی جس سے شہر میں ایک شخص بھی زندہ نہ رہا اور سب کے سب مر گئے۔ ( شوکانی) يس
30 يس
31 ف ١١ یعنی ایسے ختم ہوگئے کہ ان کا نام و نشان تک باقی نہ رہا اور نہ ان کا کوئی نام لیوا رہا۔ یہاں ” لا یرجعوان“ کے لفظ میں ان لوگوں کا رد ہے جو بعض شخصیتوں کے موت کے بعد دوبارہ زندہ ہو کر دنیا میں آنے کے قائل ہیں۔ (قرطبی) يس
32 يس
33 ف ١٢ جو خدا مردہ زمین میں جان ڈال سکتا ہے وہ اس چیز پر بھی قدرت رکھتا ہے کہ انسانوں کو ان کے مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کر کے اپنے حضور حاضر کرسکے۔ يس
34 يس
35 ف ١ دوسرا ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے ” اس لئے یہ لوگ اس کا میوہ اور وہ چیز کھائیں جسے یہ اپنے ہاتھوں سے بناتے “۔ یعنی مصنوعی غذا جسے قدرتی پیداوار تے تیار کرتے ہیں، مثلاً گنے سے شکر، انگور سے شیرہ، گندم سے روٹی اور سبزیوں سے سالن وغیرہ۔ يس
36 ف ٢ مثلاً وہ مخلوقات جو سمندر، خشکی، زمین اور آسمان میں ہے۔ يس
37 ف ٣ یہ اثبات حشر پر دوسری دلیل ہے یعنی جس ہستی کے قبضہ ٔ قدرت میں یہ انقلاب عظیم ہے وہ مردوں کو بھی دوبارہ زندہ کرنے پر قادر ہے۔ ” سلخ“ کے اصل معنی جانور کی کھال کھینچنے کے ہیں یہاں رات کو دن سے ممیز کرنیکے لئے یہ لفظ بطور استعارہ استعمال ہوا ہے۔ دوسرے مقام پر اسی تبدیلی کو ” تکویر“ کے لفظ سے تعبیر فرمایا ہے۔ دیکھئے سورۃ زمر آیت ٥( کبیر) يس
38 ف ٤( لام بمعنی الیٰ ہے) یعنی قیامت تک چنانچہ جب قیامت آجائے گی تو وہ ٹھہر جائے گا اور اس میں کوئی حرکت نہ رہے گی یا اس کے معنی ہیں۔” اپنے ٹھہرنے کے مقام تک“ اور اس کے ٹھہرنے کا قیام، جیسا کہ حدیث میں ہے اللہ تعالیٰ کے عرش کے نیچے ہے جیسا کہ ایک حدیث میں حضرت ابو ذر (رض) کے جواب میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (مستقفرھا تحت العرش) کہ اس کے ٹھہرنے کا مقام عرش کے نیچے ہے۔ اور ایک روایت میں ہے کہ سورج ہر روز عرش کے نیچے اللہ تعالیٰ کے سامنے سجدہ ریز ہوتا ہے اور طلوع کے لئے اذن چاہتا ہے چنانچہ اسے اذن دے دیا جاتا ہے حتیٰ کہ ایک وقت آئے گا کہ اسے حکم ہوگا ” ارجیع من حیث جنت“ کہ جدھر سے آئے ہو ادھر پلٹ جائو چنانچہ وہ مغرب سے طلوع ہوگا۔ اس پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت تلاوت فرمائی یہ دوسری تفسیر چونکہ صحیح حدیث سے ثابت ہے اس لئے اسی کو اختیار کرنا ضروری ہے کہ گو امام رازی (رح) نے مستقر کے متعدد معانی بیان کئے ہیں مثلاً یہ کہ سورج اپنے مقررہ راستہ پر چلا جا رہا ہے اور اس سے ادھر ادھر نہیں ہوتا وغیرہ۔ ( کبیر)۔ يس
39 ف ٥ اٹھائیں منزلیں ہیں اور ہر منزل میں ایک رات ٹھہرتا ہے اور پھر ایک دو رات مخفی رہنے کے بعد پھر ہلال بن کر نظر آتا ہے اور اس گردش کے حساب سے چل رہا ہے۔ ( شوکانی) يس
40 ف ٦ یعنی کیا سورج، کیا چاند اور کیا ستارے ( جن میں زمین بھی شامل ہے) ہر ایک کا اپنا ایک فلک ( مدار) ہے جس میں وہ تیر رہا ہے اور اللہ تعالیٰ نے کروڑوں ستاروں میں سے ہر ایک مدار دوسرے سے الگ بنایا ہے اور ایسا نظام قائم کیا ہے کہ کوئی ستارہ دوسرے کے مدار میں آ کر اس سے ٹکراتا نہیں اور باقاعدگی سے اپنے مدار میں گھوم رہا ہے اور یہ نظام قیامت تک چلتا رہے گا۔ یقینا یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کی بہت بڑی نشانی ہے۔ يس
41 ف ٧” بھری ہوئی کشتی“ سے مراد حضرت نوح ( علیہ السلام) کی کشتی ہے اور اس میں انسانی نسل کے لانے کا مطلب یہ ہے کہ کا اس میں حضرت نوح ( علیہ السلام) اور جو ان کے ساتھی سوار تھے۔ انہی سے بعد میں نسل انسانی چلی ہے گویا اس میں قیامت تک آنے والی تمام انسانی نسل سولر تھی۔ ( کبیر)۔ يس
42 ف ٨ اس سے مراد وہ بحری جہاز ہیں جو حضرت نوح ( علیہ السلام) کے جہاز کے بعد بنائے گئے یا جہاز کے علاوہ دوسری سواری کی چیزیں مراد ہیں جیسے اونٹ، ریل گاڑی وغیرہ۔ يس
43 يس
44 ف ٩” ایک وقت“ سے مراد موت کا وقت ہے یا قیامت يس
45 ف ١٠ یعنی اگلے اور پچھلے گناہوں کے انجام سے بچنے کی فکر کرو یا سامنے سے مراد دینا ہے اور پیچھے سے مراد آخرت کا عذاب ہے۔ ( جامع) شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں سامنے آتا ہے جزا کا دن، پیچھے چھوڑے اپنے اعمال ( موضح) يس
46 ف ١١ آیات سے مراد قرآن حکیم کی آیات بھی ہو سکتی ہے اور وہ عام نشانات قدرت بھی جو لوگوں کے اپنے اندر اور باہر دوسری کائنات میں پائے جاتے ہیں۔ يس
47 ف ١ یعنی یہ کافربجائے اس کے کہ کسی نصیحت کرنے والے کی نصیحت قبول کریں کٹ حجتیاں کرتے ہیں۔ چنانچہ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ غریبوں اور مسکینوں کے جو حقوق تمہارے سوال پر عائد ہوتے ہیں ان کو ادا کرو تو وہ تقدیر کا سہارا لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جس کو اللہ تعالیٰ نے باوجود قدرت کے روزی نہیں دی ہم بھی اس کو نہیں دیں گے کیونکہ ہم اللہ تعالیٰ کی مشیت کے خلاف نہیں کرسکتے۔ ( جامع البیان) يس
48 يس
49 ف ٢ مراد نضخہ فزع یعنی نضخہ اولیٰ ہے واللہ اعلم۔ (ابن کثیر) ف ٣ یعنی قیامت نا گہاں آئے گا اور وہ اپنے معاملات میں مشغول ہوں گے۔ ( موضح) يس
50 ف ٤ بلکہ بازاروں اور راستوں میں جہاں ہونگے صور کی آواز سن کر فوراً ختم ہوجائیں گے۔ حدیث میں ہے کہ ” قیامت اس طرح ( یکایک) آئے گی کہ کہیں دو آدمیوں نے ( خرید و فروخت کیلئے) کپڑا پھیلا رکھا ہوگا مگر وہ اس کی خرید و فروخت نہ کر پائیں گے حتیٰ کہ ایک شخص نے لقمہ اٹھا رکھا ہوگا مگر اسے منہ میں رکھنے نہ پائے گا۔ (فتح البیان)۔ يس
51 ف ٥ ابن کثیر میں ہے کہ اس سے مراد نفخہ ثالثہ یعنی نفخہ بعث ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ دونوں صووں کے درمیان چالیس برس کا فاصلہ ہوگا۔ ( وحیدی) يس
52 يس
53 ف ٦ یعنی لمحہ بھر میں دیکھئے ( نحل : ٧٧، ١٤) يس
54 ف ٧ یعنی نہ ان کی نیکیوں میں کمی کی جائے گی اور نہ ان پر کوئی ناکردہ گناہ لا دا جائے گا۔ اس میں مومن کے لئے خوش خبری اور کافر کے لیے وعید ہے۔ ( کبیر) يس
55 ف ٨ شغل دھندے سے مراد وہ لذتیں ہیں جن میں اہل جنت اپنے جی بہلا رہے ہونگے اور ان میں ایسے مگن ہوں گے کہ ” ماسوا“ کا خیال تک نہیں آئے گا۔ حدیث میں ہے ” جنت میں تو وہ وہ نعمتیں حاصل ہوں گی جنہیں نہ کسی آنکھ نے دیکھا نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی کے دل میں ان کا خیال گزارا ہوگا۔ ( ابن کثیر) يس
56 يس
57 يس
58 يس
59 ف ٩ یعنی ان سے ہٹ کر کھڑے ہو تمہارا ان سے کوئی تعلق نہیں رہا۔ یا ( آپس میں ایک دوسرے سے) الگ ہوجائو“۔ چنانچہ یہود و نصاریٰ، مجوس اور مشرک سب ایک دوسرے سے الگ ہوجائیں گے۔ ( دیکھئے روم : ١٤، یونس ٢٨) يس
60 ف ١٠ یعنی اس کے بتائے ہوئے راستے کو اختیار نہ کرنا۔ یہ ان سے بطور سرزنش کہا جائے گا۔ (ابن کثیر)۔ يس
61 يس
62 ف ١ یعنی کیا تم اتنی عقل نہ رکھتے تھے کہ جب شیطان تمہارا دشمن تھا تو تم اس کے بتائے ہوئے راستے پر نہ چلتے۔ يس
63 يس
64 يس
65 ف ٢ یہ صورت حال ان کفار اور منافقین کو پیش آئے گی جو اپنے جرائم کا اقبال کرنے سے انکار کریں گے۔ فرشتوں کی گواہی اور نامہ اعمال کی صحت کو جھٹلائیں گے تو ان کے ہاتھ پائوں ان کے خلاف شہادت دیں گے۔ دوسری آیات میں آنکھ، کان، زبان اور چمڑوں کی شہادت کا بھی ذکر ہے۔ ( دیکھئے سورۂ نور ٢٤، حم السجدہ آیت ٢٠) حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ بندہ قیامت کے دن اپنے برے اعمال سے انکار کرے گا اور عرض کردے گا کہ ” اے اللہ ! میں تو اپنے خلاف صرف اسی کی گواہی قبول کروں گا جو میرا اپنا ہو“۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔ تیرے خلاف خود تیری اور تجھ پر مقررفرشتوں کی گواہی کافی ہے “۔ پھر اس کے منہ پر مہر لگا دی جائے گی اور اس کے ہاتھ پائوں کو حکم ہوگا کہ گواہی پیش کرو۔ چنانچہ وہ اس کے کرتوتوں کی ساری روداد پیش کریں گے، تب بندہ ان سے کہے گا ” جائو مجھ سے دور ہوجائو میں تو جو کچھ کرتا تھا تمہارے ہی بچانے کے لئے کرتا تھا‘۔ ( شوکانی، ابن کثیر) تنبیہ۔ منہ پر مہر کردینے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے اختیار سے کلام نہیں کرسکیں گے۔ يس
66 يس
67 ف ٣ ان کی صورت بدل دیں یعنی بندر، سور، پتھر یا لولے لنگڑے اور اپاہج بنا دیں اور اپنی جگہ سے پل نہ سکیں مگر ہم نے انہیں مہلت دی ہے لہٰذا ان کو چاہیے کہ ہماری اور قدرت اور اپنی بے بسی کے بارے میں کسی غلط فہمی کا شکارنہ ہوں۔ (وحیدی) يس
68 ف ٤ یعنی اعضا اور دماغ میں ضعف کی وجہ سے پھر سے بچنے کی حالت پلٹ آتی ہے۔ ( ابن کثیر) ف ٥ زندگی کے ان انقلابات کو دیکھ کر ہر شخص بآسانی سمجھ سکتا ہے کہ دنیا کی یہ زندگی پائیدار اور دائمی نہیں ہو سکتی بلکہ اس کا ختم ہونا اور اس کے بعد دوسری زندگی کا آنا نا گزیر ہے جو دائمی اور لا فانی ہوگی۔ ( ابن کثیر) شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں :” یعنی جیسا لڑکا سست تھا بوڑھا بھی ویسا ہی ہوا، یہ بھی نشان ہے پھر پیدا ہونے کا) ( موضح) يس
69 ف ٦ کفار قریش کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت رد کرنے کے لئے کوئی اور بہانہ نہ ملتا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی باتوں کو شاعرانہ تخیلات قرار دے کربے وقعت ٹھہرانے کی کوشش کرتے۔ ان کے جواب میں فرمایا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نبوت و رسالت کے جس منصب پر فائز ہیں شاعری کو اس سے کوئی مناسبت نہیں۔ شاعری کا حسن اور کمال تو جھوٹ، مبالغہ آرائی، خیال بلند پروازی اور فرضی نکتہ آفرینی ہے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان ان چیزوں سے بلند و بالا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طبیعت ایسی رکھی کہ باوجود خاندان عبد المطلب سے ہونے کے جس کا ہر فرد فطرۃً شاعر ہوتا، پوری عمر میں کوئی شعر نہیں کہا۔ یوں رجز وغیرہ کے موقع پر زبان مبارک سے کبھی کوئی مقضیٰ عبارت ایسی نکل گئی جو شعر کا ساوزن رکھتی تھی تو وہ الگ بات ہے اسے شعر یا شاعری نہیں کہا جاسکتا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود تو کیا شعر کہتے کوئی دوسرے شاعر کا کوئی شعر یا مصرع تک اس کے ٹھیک وزن پر ادا نہ کر پاتے تھے۔ کئی موقعوں پر ایسا ہوا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کسی شاعر کا شعر یا مصرع اس کا وزن توڑ کر پڑھا اور حضرت ابو بکر (رض) حضرت عمر (رض) نے توجہ دلانے کے لئے اس کا وزن درست کرتے ہوئے پڑھا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ( انی واللہ ما انا یشاعر وما ینبغی لی) اللہ کی قسم میں شاعر نہیں ہوں اور نہ شاعری میرے شایان شان ہے۔ ( ابن کثیر وغیرہ)۔ يس
70 ف ٧ یعنی جس نے اپنے سوچنے سمجھنے کی قوتوں کو معطل نہ کر رکھا ہو اور اس کی حالت چکنے کھڑے کی سی نہ ہوگئی ہو کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسے چاہے کتنی ہی پند و نصیحت فرمائیں اس پر رتی بھر اثر نہ ہو۔ ف ٨ یعنی ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اتمام حجت ہوجائے اور ان کے پاس کوئی ایساعذر باقی نہ رہے جس کی بناء پر وہ قیامت کے دن اپنے آپ کو بے قصور اور مظلوم تصور کرسکیں۔ يس
71 ف ٩ یعنی یہ جانور جن کے یہ مالک بنے ہوئے سب ہم نے پیدا کئے ہیں اور ” اپنے ہاتھوں سے بنانے“ کا مطلب یہ ہے کہ ان کے پیدا کرنے میں کسی دوسرے کاذرہ بھر دخل نہیں ہے اگر ہم چاہتے تو ان جانوروں کو اس طور سے پیدا کردیتے کہ وہ ان کے قابو میں نہ آتے کجا کہ یہ ان کے مالک بنتے۔ يس
72 يس
73 ف ١٠ مثلاً ان کی کھال، چربی، سینگ، بال اور آنتوں وغیرہ سے سینکڑوں چیزیں بناتے ہیں۔ ف ١١ یعنی دودھ اور وہ چیزیں جو دودھ سے بنتی ہیں۔ يس
74 يس
75 ف ١ یعنی قیامت کے دن جب یہ مشرک اللہ تعالیٰ کے حضور جواب دہی کے لئے آئیں گے تو ان کے غم و اندوہ میں اضافہ کرنے کے لئے ان کی فوج ( جتھے) میں ان کے جھوٹے معبودوں کو بھی شامل کیا جائے گا۔ یہ مطلب اس صورت میں ہے جب ” ھم“ کی ضمیر جھوٹے معبودوں ” لھم“ کی ضمیر مشرکوں کے لئے قرار دی جائے اور اگر ان ضمیروں کو اس کے برعکس مانا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ ” یہ مشرک اپنے معبودوں کے لئے حاضر پاش لشکر بنے ہوئے ہیں“۔ یعنی ان کی جھوٹی خدائی اپنے بل بوتے پر قائم نہیں ہے بلکہ سراسر ان مشرکین کی خدمت گزاری نذرانوں اور گھڑ کی پھسلائی ہوئی کرامتوں کے سہارے قائم ہے گویا وہ ان کی مدد تو کیا کریں گے خود ان کی مدد کے محتاج ہیں۔ ( ابن کثیر وغیرہ)۔ يس
76 ف ٢ یعنی ان کی کفر و شرک کی باتوں سے یا ان کے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جادوگر، شاعر اور دیوانہ وغیرہ کہنے سے۔ ف ٣ یعنی ان کے ظاہر اور پوشیدہ تمام اقوال و افعال سے خوب واقف ہیں اور انہیں ان کی پوری پوری سزا دے کر رہیں گے ہم سے بھاگ کر یہ کہیں پناہ نہیں لے سکتے۔ يس
77 ف ٤ یعنی ہمارے مقابلہ پر اتر آیا اور ہمارے بارے میں جو بات دل میں آئی بے تکان اور بے خوف و خطر کہہ ڈالی يس
78 ف ٥ شاہ عبد القادر (رح) نے یوں ترجمہ کیا ہے ” اور بٹھاتا ہے ہم پر کہاوت“ یعنی ہمیں بھی مخلوقات کی طرح عاجز اور درماندہ سمجھتا ہے۔ يس
79 يس
80 ف ٦ یعنی اس نے پہلے تو پانی سے سر سبز شاداب درخت پیدا کیا پھر اسے سکھا کرایندھن بنا دذیا جس سے اب تم آگ جلارہے ہو۔ بعض علماء تفسیر نے ” سبز درخت“ سے مراد غفار اور مرخ نامی دو درخت لئے ہیں جن کی ہری بھری ٹہنیاں لے کر اہل عرب انہیں آپس میں ٹکراتے تو ان سے آگ پیدا ہوجاتی اور وہ انہی سے آگ حاصل کرتے تھے واللہ اعلم۔ ( کذا فی الوضح) يس
81 يس
82 يس
83 ف ٧ نہ کہ کسی اور کی طرف لہٰذا وہ تمہیں سزا دے گا اور وہی جزا يس
0 ف ٨ یہ سورۃ مکہ معظمہ میں نازل ہوئی۔ سنن نسائی اور بیہقی میں حضرت ابن عمر (رض) سے رایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں ہلکی نماز پڑھانے کا حکم دیتے اور سورۃ صافات سے ہماری امامت فرمائے۔ ایک حدیث میں ہے کہ جمعہ کے روز سورۂ یٰسین اور صافات کی تلاوت کر کے دعا کرنا باعث قبولیت ہے۔ ( شوکانی) الصافات
1 الصافات
2 الصافات
3 ف ٩” صافات سے مراد وہ فرشتے ہیں جو آسمان میں ادائے عبادت یا فضا میں اللہ تعالیٰ کے نزول حکم کے انتظار میں صف بستہ کھڑے رہتے ہیں۔ فرشتوں کی صف بندی شرف و فضلیت میں درجات کے تفاوت کے اعتبار سے ہے۔ یعنی ہر ایک کے لئے جود رجہ مقرر ہے اسی پر قائم رہتا ہے اور اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں آئی۔ ( دیکھئے سورۃ نباء : ٣٨ و سورۃ فجر : ٢٢) آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز میں فر شتوں کی سی صف بندی کا حکم دیا ہے یعنی پہلی صف پوری ہونے کے بعد دوسری صف باندھی جائے اور صف میں مل کر کھڑا ہوجائے اور حدیث میں ہے کہ نماز میں فرشتوں کی طرف صف بندی کرنا اس امت کا خاصہ ہے۔ (وجعلت صفوفنا کصفوف الملائکہ) (مسلم، ابو دائود) اور زجر اسے مرادیہ ہے کہ وہ بادل کو ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتے ہیں یا لوگوں کو گناہوں سے بار رکھتے اور شیاطین کواستراق سمع سے ڈانٹتے ہیں۔ حاصل یہ کہ ” زاجوات“ سے مراد بھی فرشتے ہیں مگر بعض نے وہ نمازی مراد لئے ہیں جو میدان جنگ میں گھوڑوں کو ڈانٹ کر کافروں پر حملہ کرتے ہیں اور ذکرا سے مراد اکثر مفسرین (رح) نے قرآن لیا ہے اور تلاوت کرنے والوں سے فرشتے۔ شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں : فرشتے کھڑے ہوتے ہی قطار ہو کر سننے کو اللہ کا حکم پھر جھڑکتے ہیں شیطانوں کو جو سننے کو جا لگتے ہیں پھر جب اتر چکا اس کو پڑھتے ہیں ایک دوسرے کو بتانے کو۔ ( موضح)۔ الصافات
4 الصافات
5 ف ١ سورج سال بھر تک روزانہ ایک نئے مقام سے طلوع ہوتا رہتا ہے اور پھر ساری زمین پر وہ بیک وقت طلوع نہیں ہوتا بلکہ زمین کے مختلف حصوں میں وہ مختلف اوقات میں طلوع ہوتا ہے اس لئے آیت میں المشارق ( جمع) کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اور اس کے قرین ” ورب المغارف“ کو عربی محاورہ کے اعتبار سے حذف کردیا گیا ہے جیسے ” تقیکم الحر“ میں ہے نیز دیکھئے ( معارج ٤) مقصد یہ ہے کہ کائنات کے اس نظام پر غور کرنے سے ثابت ہوتا ہے کہ الٰہ ( معبود) ایک ہی ہے جیسے فرمایا ( لو کان فیھما الھۃ الا اللہ لفسدنا) (کبیر)۔ الصافات
6 الصافات
7 ف ٢ یا مطلب یہ ہے کہ ہم نے تاروں کو زینت کے علاوہ اس لئے بنایا ہے کہ ہر پاجی شیطان سے آسمان کی حفاظت کی جائے۔ ( دیکھئے سورۃ ملک : ٥) الصافات
8 الصافات
9 الصافات
10 ف ٣ چنانچہ کبھی تو وہ انگارہ نیچے کے شیطان تک اس بات کو پہنچانے سے پہلے ہی لگ کر اسے ہلاک کر ڈالتا ہے اور کبھی پہنچانے کے بعد پھر جب کلمہ کاہن تک پہنچ جاتا ہے تو کاہن اس میں سو طرح کے جھوٹ ملا کر لوگوں کے درمیان پھیلا دیتا ہے۔ ( کما ورد فی الحدیث) یہ بحث حکما اور علماء کے مابین مختلف فیہ چلی آئی ہے کہ آیا یہی تارے شہاب ثاقب کا بھی کام دیتے ہیں یا وہ شہاب ان کے علاوہ ہیں یا ان تاروں کی گرمی سے آگ پیدا ہو کر ہی انگارہ بن جاتا ہے۔ شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں : ” انہی تاروں کی روشنی سے آگ نکلتی ہے جس سے شیطانوں کو مار پڑتی ہے جیسے سورج اور آتشی شیشے سے ( حجر : ١٦، ١٨) الصافات
11 ف ٤ اور ظاہر ہے کہ جو خدا اتنی عظیم الشان اور لا تعداد مخلوقات کو وجود میں لا سکتا ہے اس کے لئے انسانوں کو دوبارہ زندگی بخشتا کچھ مشکل نہیں ہو سکتا۔ الصافات
12 ف ٥ تعجب کرنے سے مراد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کے کرشموں پر تعجب کرنا ہے۔ الصافات
13 الصافات
14 الصافات
15 الصافات
16 الصافات
17 الصافات
18 ف ٦ یا ” ًتم اللہ تعالیٰ کی قدرت کے مقابلہ میں) بے بس اور حقیر ہو۔ جیسے فرمایا : ( وکل اتوہ واخرین) اور سب اس کے حضور بے بس ہو کر حاضر ہوں گے۔ ( نمل : ٨٧) الصافات
19 ف ٧ یعنی نفخہ صور اوپر بعث و قیامت کے امکان پر دلائل قائم فرمائے۔ اب اس کے وقوع کا بیان ہے۔ ( کبیر) الصافات
20 الصافات
21 الصافات
22 ف ٨ جوڑ والوں سے مراد ان کے وہ ساتھی اور رفیق ہیں جو انہی کی طرح شرک و کفر میں مبتلا تھے۔ یا ان سے مرادان کی وہ بیویواں ہیں جو سر کشی و بغاوت پر ان کے موافقت کیا کرتی تھیں اور ان کی روش سے خوش تھیں۔ حضرت عمر (رض) نے ان سے گناہ گاروں کی الگ الگ ٹولیاں مراد لی ہیں۔ یعنی سود خوروں کا الگ جتھا ہوگا اور زنا کرنے والوں کا الگ اور شراب نوشوں کا الگ۔ (شوکانی) الصافات
23 ف ١ یعنی انہیں دوزخ کی طرف ہانک لے جائو۔ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ یہ فرشتے دوزخ کے پہرہ داروں سے کہیں گے۔ ( کذافی الوحیدی) الصافات
24 ف ٢ علماء نے لکھا ہے کہ پہلے حکم ہوگا کہ ان کو صراط جہنم کی طرف لے جائو، پھر صراط پر روک لیا جائے اور ان سے تفریح و توبیخ کے طور پر کہا جائے گا جس کا ذکر آگے آرہا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ جس نے کسی چیز کی طرف دعوت دی وہ اس کے ساتھ کھڑا کیا جائے گا اور اس سے جدا نہیں ہو سکے گا اور جس نے کسی شخص کو دعوت دی ( وہ بھی اس کے ساتھ کھڑا کیا جائے گا) پھر یہ آیت تلاوت کی۔ (شوکانی) الصافات
25 ف ٣ جس طرح دنیا میں کیا کرتے تھے بلکہ تم تو کہا کرتے تھے ” نحن جمیع منتصر“ یا جیسا کہ تمہارا دعویٰ تھا کہ قیامت کے روز ہمارے معبود ہمیں بچا لیں گے۔ ( ابن کثیر) الصافات
26 ف ٤ یعنی ان کی تمام اکڑ نون جاتی رہی۔ اب وہ عاجزو فرمانبردار بنے کھڑے ہیں اور کسی طرح اللہ تعالیٰ کے حکم سے گریز نہیں کرسکتے۔ ( ابن کثیر) الصافات
27 الصافات
28 ف ٥ اور زور و قوت دکھلا کر ہمیں مرعوب کرتے اور بہکانے کیلئے ہم پر چڑھ چڑھ کر آیا کرتے تھے۔ اس صورت میں یمین ( داہنا ہاتھ) سے مراد قوت ہوگی۔ اکثر مفسرین (رح) نے اس کے معنی دائیں جانب کیے ہیں اور ” دائیں جانب“ سے مراد خیر خواہی نیکی اور دین حق کی جانب ہے۔ مطلب یہ ہے کہ تم آ کر ہمیں خیر خواہی، نیکی اور دین حق کی راہ سے بہکاتے تھے اور یہ کہتے تھے کہ جس چیز کا ہم تمہیں حکم دیتے ہیں نیکی اور حق وہی ہے اور اگر عن الیمین کے معنی قسم کے لئے جائیں تو مطلب یہ ہوگا کہ تم ہی قسمیں کھا کھا کر اپنے اپنے آپ کو ہمارا خیر خواہ ظاہر کرتے تھے۔ بہر حال یہ بات کافر شیاطین سے کہیں گے یا تابعدار اپنے رئیسوں سے۔ ( ابن کثیر، قرطبی) الصافات
29 ف ٦ کہ ہم تمہیں ایمان سے کفر کی طرف پھیرتے بلکہ تم اصل میں کافر تھے اور پھر اسی پر قائم رہے۔ الصافات
30 ف ٧ یعنی خود تمہارے خمیر میں طغیان و سر کشی بھری تھی اس لئے تم نے حق کو چھوڑ کرہماری اتباع کی تھی اور انبیاء کی مخالفت پر کمر باندھ لی تھی۔ ( ابن کثیر) الصافات
31 ف ٨ مالک کے فرمودہ سے مراد اللہ تعالیٰ کا وہ قول ہے جو اس نے حضرت آدم ( علیہ السلام) کی پیدائش کے بعد شیطان کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا تھا : (لا ملان جھنم منک و ممن تبعک منھم اجمعین ) (کذافی الموضح) الصافات
32 ف ٩ کیونکہ جو گمراہ ہوتا ہے وہ لازماً یہ چاہتا ہے کہ دوسرے بھی اس جیسے ہوجائیں تاکہ کوئی کسی کو ملامت کرنے والا نہ رہے۔ یہ پانچ باتیں شیطان یارئیس اپنے تابعداروں سے کہیں گے۔ ( فتح البیان) الصافات
33 ف ١٠ یعنی پیروی کرنے والے بھی اور پیشوا بھی گمراہ ہونے والے بھی اور گمراہ کرنے والے بھی سب ہی اپنی اپنی گمراہی کے مطابق عذاب میں شریک ہوں گے جیسے گمراہی میں شریک تھے۔ کسی کا کوئی عذر قبول کر کے اسے معافی نہیں دی جائیگی۔ الصافات
34 الصافات
35 ف ١١ یعنی کلمہ توحید کو قبول کرنا اپنی کسر شان سمجھتے تھے۔ الصافات
36 الصافات
37 ف ١٢ یہ بد بخت آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جو تمام جہان کے لوگوں سے علم و عقل زیادہ رکھتے تھے بائو لا شاعرکہتے ف ١٣ یعنی وہی دعوت پیش کرتا ہے جسے پچھلے تمام انبیاء پیش کرتے رہے ہیں یا اس تصدیق سے مراد یہ ہے کہ گزشتہ انبیاء ( علیہ السلام) نے نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جو صفات بیان کی تھیں وہ سب کی سب اس نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں موجود ہیں۔ ( ابن کثیر) الصافات
38 ف ١٤ یعنی کفر و شرک کی جو روش تم نے اختیار کی اور رسولوں کی جو تکذیب تم کرتے رہے اس کی سزا تمہیں مل کر رہے گی۔ الصافات
39 الصافات
40 الصافات
41 ف ١٥ یعنی ایسی روزی جو ان کے لئے مقرر ہوچکی ہے ہمیشہ ملتی رہے گی اور کبھی منقطع نہ ہوگی۔ الصافات
42 الصافات
43 الصافات
44 الصافات
45 الصافات
46 الصافات
47 ف ١ یعنی نہ نشہ ہوگا جیسے دنیا کی شراب پینے سے نشہ ہوتا ہے۔ الصافات
48 الصافات
49 ف ٢” قصرات الطرف“ یعنی اپنے شوہروں کے علاوہ کسی اور کی طرف نگاہ نہ اٹھانے والی اور ” عین“ خوبصورت بڑی آنکھوں والی، جیسا کہ دوسرے مقام پر فرمایا ” حور مقصورات فی الخیا“ (سورہ الرحمن : ٧٢) ف ٣ کہتے ہیں کہ شتر مرغ کے انڈے جو احتیاط سے ڈھانک کر رکھے جاتے ہیں وہ زردی مائل ہونے کی وجہ سے نہایت خوش رنگ ہوتے ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے جنت کی حوروں کو ان سے تشبیہ دی۔ بعض مفسرین نے ” بیض فیکنون“ کی تفسیر ” انڈے کے چھلکے کے نیچے چھپی ہوئی جھلی“ سے کی ہے اور اس کی یہی تفسیر حضرت ام سلمہ (رض) نتے نبیﷺ سے نقل کی ہے اس لئے اس کی یہی تفسیر صحیح ہے۔ حضرت ام سلمہ (رض) فرماتی ہیں کہ میں نے نبیﷺسے ” بیص مکنون“ کا مطلب دریافت کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” ان کی ( یعنی جنت کی حوروں کی) نرمی اور نزاکت اس جھلی جیسی ہوگی جو انڈے کے چھلکے سے چپکی ہوتی ہے اور اسے ” فرقی“ کہا جاتا ہے۔ (ابن کثیر، ابن جریر)۔ الصافات
50 ف ٤ یعنی آپس میں ایک دوسرے سے حالات دریافت کرینگے۔ الصافات
51 الصافات
52 الصافات
53 الصافات
54 ف ٥ یعنی کیا یہ دیکھنا چاہتے ہو کہ وہ کہاں ہے اور اس کا کیا حال ہے؟ الصافات
55 الصافات
56 الصافات
57 ف ٦ یہاں اس جتنی کی اپنے جہنمی دوسرے سے گفتگو ختم ہوگئی۔ اس کے بعد وہ اپنے جتنی ساتھیوں سے خطاب کر کے خوشی اور تعجب بھرے لہجے میں کہے گا۔ الصافات
58 الصافات
59 الصافات
60 الصافات
61 الصافات
62 ف ٧ جس سے دو زخیوں کی ضیافت کی جائے گی۔ جنتیوں کی ضیافت کا ذکر کرنے کے بعد اس کے مقابلے میں یہاں دوزخیوں کی ضیافت کا ذکر کیا گیا۔ الصافات
63 ف ٨ اس سے دنیا و آخرت دونوں میں ان کی آزمائش ہوگی۔ اس کی آخرت میں آزمائش ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جب دوزخ میں کھانے کیلئے کوئی چیز نہ ملے گی۔ تو وہ اسی کو کھا کر اپنی بھوک مٹانے کی کوشش کریں گے لیکن اسے منہ میں ڈالنا اور حلق سے اتارنا سخت تکلیف دہ بلکہ مستقل عذاب کا باعث ہوگا۔ وہ اسے کھائیں تو مشکل اور نہ کھائیں تو مشکل یہی ان کی آزمائش ہوگی۔ دنیا میں آزمائش ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جب کافر سنیں گے کہ دوزخ کی آگ میں درخت پیدا ہوتا ہے تو وہ قرآن اور نبی ﷺ کا مذاق اڑا کر اور زیادہ گمراہ ہونگے، چنانچہ جب ابو جہل نے یہ آیا سنیں تو اس نے اپنے ساتھیوں کو جمع کیا اور انہیں کھجور اور پنیر پیش کرتے ہوئے کہنے لگا“۔ یہ ہے وہ زقوم جس کی محمدﷺ تمہیں دھمکی دے رہا ہے لیکن تم اسے مزے لے لے کر کھائو“۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے ( ثم ان لھم علیھا لشوبا من حمیم) تک اگلی آیات نازل فرمائیں۔ ( شوکانی) الصافات
64 ف ٩ یعنی جیسے سمندر کی تہہ میں بہت سے درخت پیدا ہوتے ہیں اور وہیں بڑھتے ہیں، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اس درخت زقوم کی یہ خاصیت رکھی ہے کہ وہ دوزخ کی تہہ میں اگتا اور بڑھتا ہے۔ الصافات
65 ف ١٠ اصل میں لفظ ” رئوس الشیاطین“ استعمال ہوا ہے جس کا لفظی ترجمہ ” شیطانوں کے سر“ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دوزخ میں پیدا ہونے والے تھوہر کی کلیوں کو ان کی انتہائی بھیانک شکل کا تصور پیش کرنے کے لئے شیطانوں کے سروں سے تشبیہ دی ہے جیسا کہ خوبصورت آدمی کو فرشتہ سے اور بھیانک شکل کے آدمی کو شیطان سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ چنانچہ مصر کی عورتوں نے حضرت یوسف ( علیہ السلام) کے متعلق کہا تھا :” ان ھذا الا ملک کریم“ گو انہوں نے فرشتہ کی شکل نہیں دیکھی تھی۔ عرب بھی اپنے محاورے میں ایک قسم کی بھیانک شکل کے سانپ کو شیطان کہتے ہیں اس لئے ممکن ہے کہ ” شیطانوں کے سروں“ سے مراد ” سانپوں کے پھن“ ہوں۔ واللہ اعلم۔ الصافات
66 ف ١١ یعنی چار و ناچار کھائیں گے۔ حدیث ہے کہ زقوم کا ایک قطرہ اگر دنیا کے سمندروں میں گرجائے تو سب دنیا والوں کی زندگی دو بھر ہوجائے۔ اب سوچو کہ اس شخص کا کیا حال ہوگا جس کی غذا ہی یہ زقوم ہو۔ (ابن کثیر) الصافات
67 ف ١ جس سے اس کی آنتیں کٹ کر باہر نکل پڑیں گی۔ الصافات
68 ف ٢ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ زقوم کا درخت اور کھولتے پانی کے چشمے دوزخ کے کسی خاص علاقہ میں ہوں گے۔ جب ان کی بھوک یا پیاس لگے گی تو انہیں اس مقام کی طرف ہانک دیا جائے گا اور پھر دوزخ میں اپنے ٹھکانے کی طرف واپس لایا جائیگا الصافات
69 الصافات
70 ف ٣ یعنی بے سوچے سمجھے باپ دادا کے رستے پر چلے جا رہے ہیں۔ الصافات
71 ف ٤ اوپر ذکر فرمایا ہے کہ ہم نے پہلے لوگوں کے پاس ڈرانے والے بھیجے۔ اس کی تفصیل کے لئے یہاں سے بعض پیغمبروں کی سر گزشت بیان کی جا رہی ہے۔ الصافات
72 الصافات
73 الصافات
74 الصافات
75 الصافات
76 ف ٥ حضرت نوح ( علیہ السلام) کے اپل ( گھر والوں) سے مراد وہ لوگ ہیں جو ان پر ایمان لائے اور ’ ’ کرب عظیم“ ( بڑی مصیبت) سے مراد طوفان میں غرق ہونا بھی ہوسکتا ہے اور قوم کو جھٹلانا اور ستانا بھی۔ الصافات
77 ف ٦ اکثر مفسرین (رح) نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ کافر تو سب طوفان میں غرق ہوگئے تو حضرت نوح ( علیہ السلام) کے ساتھ جو اہل ایمان کشتی میں سوار ہوئے تھے وہ بھی بلا ولد گزر گئے۔ اس کے بعد دنیا میں جو نسل انسانی پھیلی وہ حضرت نوح ( علیہ السلام) کے تین بیٹوں سام، حام، یافث سے پھیلی ( کذافی الموضح) اس لئے حضرت نوح ( علیہ السلام) کو آدمی ثانی کہا جاتا ہے۔ بعض مفسرین (رض) کہتے ہیں کہ حضرت نوح ( علیہ السلام) کے ساتھیوں کی نسل بھی پھیلی، جیسا کہ سورۃ اسراء کی آیت ( ذرتۃ من حملنا مع نوح) سے معلوم ہوتا ہے البتہ کافروں کی سب نسل غرق کردی گئی۔ ( شوکانی) الصافات
78 ف ٧ بعد میں آنے والے تمام انبیاء ( علیہ السلام) اپنے اپنے زمانہ میں ان کی تعریف و تصدیق کرتے رہے۔ یا پچھلوں میں ان کی ثناء و سفت چھوڑی کہ خیر کے ساتھ ان کا ذکر کیا جاتا ہے۔ ( ابن کثیر)۔ الصافات
79 الصافات
80 ف ٨ یعنی زندگی میں ان کی مدد کرتے ہیں اور مرنے کے بعد ان کا ذکر خیر باقی رکھتے ہیں۔ الصافات
81 الصافات
82 الصافات
83 الصافات
84 ف ٩ اپنے مالک کے پاس آنے سے مراد ہر طرف سے منہ موڑ کر اس کی طرف متوجہ ہونا ہے اور پاک دل سے مراد ایسا دل ہے جو شرک، کفر، بدعت شکوک و شبہات اور ہر قسم کے اعتقادی یا عملی خرابی سے پاک ہو۔ الصافات
85 ف ١٠ یعنی سوچو تو سہی کہ یہ بت وغیرہ جن کی تم عبادت کرتے ہو آخر ہیں کیا چیز؟ الصافات
86 الصافات
87 ف ١١ یعنی کیا تم اس کے غضب سے نہیں ڈرتے کہ تم چاہے دوسروں کو اس کے ساتھ شریک قرار دے لو وہ تمہیں کوئی سزا نہ دے گا ؟ الصافات
88 ف ١٢ یہاں سے حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کے جس واقعہ کا ذکر کیا جا رہا ہے اس کی تفصیل سورۂ انبیاء آیت (٥١، ٧٣) میں بھی گزر چکی ہے۔ ف ١٣ اکثر مفسرین (رح) نے لکھا ہے کہ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کی قوم کے لوگ بتوں کے علاوہ ستاروں کی بھی پرستش کیا کرتے تھے اور ستاروں کی گردش کی حادث زمانہ میں اور موثر مانتے تھے۔ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) نے انہیں مغالطے میں ڈالنے کیلئے ستاروں پر ایک نظر ڈالی تاکہ وہ سمجھیں کہ ستاروں سے اپنا آئندہ حال معلوم کررہے ہیں۔ بعض نے لکھا ہے کہ یہ محاورہ ہے جو غور و فکر کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) نے سوچتے ہوئے آسمان کی طرف دیکھا جیسا کہ ہر شخص جب کوئی غور طلب معاملہ آتا ہے تو آسمانکی سمت یا اوپر کی طرف دیکھتا ہے واللہ اعلم۔ ( ابن کثیر) الصافات
89 ف ١٤ یا ” میں بیمار ہونے والا ہوں“ یا ” میں بیمارہوں“ کیونکہ دنیا میں ہر شخص کو کوئی نہ کوئی عارضہ ہوتا ہی ہے اور قوم کی حالت دیکھ کر جو کڑھتے تھے وہ بھی اپنی جگہ ایک تکلیف تھی۔ بہرحال حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) نے توریہ کیا جو اگرچہ جائز ہے مگر اپنی ظاہری صورت میں چونکہ جھوٹ ہوتا ہے اس لئے حدیث میں حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کے اس قول ( انی سقیم) کو تین جھوٹوں میں سے ایک شمار کیا ہے جو انہوں نے اپنی زندگی میں اللہ کی خاطر ایک عظیم تر مقصد کے لئے بولے۔ شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں :” یہ ایک جھوٹ ہے اللہ کی راہ میں عذاب نہیں ثواب ہے۔) (موضح) الصافات
90 ف ١٥ یعنی انہیں وہیں چھوڑ کر واپس چلے گئے۔ ( ابن کثیر)۔ الصافات
91 الصافات
92 الصافات
93 الصافات
94 ف ١ اور اسے کر مجمع کے سامنے لے آئے۔ تفصیل سورۃ انبیاء میں گزر چکی ہے۔ الصافات
95 الصافات
96 ف ٢ یا ” جو عمل تم کرتے ہو انہیں بھی اللہ نے پیدا کیا ہے“۔ معلوم ہوا کہ بندہ کے تمام افعال کا خالق اللہ تعالیٰ ہے اور یہی اہل سنت کا عقیدہ ہے۔ حدیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ ( ابن کثیر) الصافات
97 الصافات
98 ف ٣ یعنی حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کو واقعی آگ میں ڈال دیا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے بچا لیا۔ دیکھئے۔ ( سورۃ انبیاء آیت ٦٩ و عنکبوت آیت ٢٤) الصافات
99 ف ٤ یعنی کافروں کے ملک سے ہجرت کرتا ہوں۔ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ حضرت ابراہیم کو سب سے پہلے ملک شام پہنچنے کا حکم دیا۔ ( فتح القدیر) الصافات
100 ف ٥ مقاتل (رح) کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) نے یہ دعا شام پہنچ کر فرمائی۔ ( شوکانی) الصافات
101 ف ٦ ان سے مراد حضرت اسماعیل ( علیہ السلام) ہیں اور یہ پہلے لڑکے ہیں۔ ان کے حضرت اسحاق ( علیہ السلام) سے بڑے ہونے پر تمام مسلمانوں اور اہل کتاب کا اتفاق ہے۔ قرآن کے انداز بیان سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ کیونکہ پہلے غلام حلیم کی بشارت اور ان کے ذبح سے بچ جانے کا واقعہ نقل کیا ہے اور پھر اس کے بعد ( وبشرناہ باسحاق) ذکر کیا ہے اور ان کو ( نبیتا من الصالحین) کہا جس کے معنی یہ ہیں کہ وہ جوانی کو پہنچ کر نبی بنیں گے نیز حضرت اسحاق ( علیہ السلام) کی خوشخبری کے ساتھ ان کے بعد حضرت یعقوب ( علیہ السلام) کی خوشخبری ہے، اس لئے یہ نہیں ہوسکتا کہ حضرت اسحاق ( علیہ السلام) کے ذبح کا حکم دیا جائے۔ ( ابن کثیر) الصافات
102 الصافات
103 ف ٧( فطھر صبر ھما) ( تو ان دونوں کا صبر ظاہر ہوگیا) یہ عبادت محذوف ہے جو ( لما) کا جواب ہے۔ حضرت ابراہیم نے بیٹے کو اوندھا اس لئے لٹایا کہ ذبح کرتے وقت اس کا چہرہ دیکھ کر کہیں رقت اور ہاتھ میں لرزش پیدانہ ہوجائے۔ عموماً مفسرین نے ” للجین“ کا یہی مفہوم بیان کیا ہے اور اس سلسلہ میں بعض آثار بھی نقل کیے ہیں کہ حضرت اسماعیل نے اپنے باپ ابراہیم ( علیہ السلام) کو اس طریق سے ذبح کرنے کی وصیت کی۔ ممکن ہے حضرت اسماعیل ( علیہ السلام) نے اپنے باپ سے یہ باتیں بطور احتیاط کہہ دی ہوں مگر آیت سے یہ مفہوم اخذ کرنا بعید ہے کیونکہ لفظ ” جبین“ کا معنی جبھۃ(ماتھا) کی ایک جانب کے آتے ہیں۔ پس اس کے معنی یہ ہیں کہ ان کو لٹالیا جیسا کہ ذبح کے وقت جانور کو لٹایا جاتا ہے قتاوہ (رح) سے منقول ہے ( ای کتبہ وحول وجھہ الی لقبلۃ) یعنی ان کو پچھاڑ کر ان کا چہرہ قبلہ کی طرف کردیا۔ اس سے اس مفہوم کی وضاحت ہوجاتی ہے۔ پھر یہ واقعہ وادی منی میں صخرہ کے قریب پیش آیا۔ بعض نے لکھا ہے کہ منحر کا واقعہ ہے جس جگہ آج کل قربانی ذبح کی جاتی ہے واللہ اعلم۔ ( قرطبی، روح) الصافات
104 الصافات
105 ف ٨ یعنی انہیں آزمائشوں سے اسی طرح سرخرو کر کے نکالتے ہیں اور ان کے درجات بلند کرتے ہیں۔ الصافات
106 ف ٩ یعنی باپ کا اکلوتے بیٹے کو اپنے ہاتھ سے ذبح کرنا الصافات
107 ف ١٠ اکثر مفسرین (رح) کے نزدیک ” بڑی قربانی“ سے مراد ایک عظیم الشان مینڈھا ہے جو فرشتہ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کے پاس بھیجاتا کہ وہ بیٹے کی بجائے اس کی قربانی کریں۔ شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں : ” حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) نے اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ کر زور سے چھری چلائی، اللہ کے حکم سے گلا نہ کٹا۔ جبرئیل نے بیٹے کو سرکادیا ( اور) ایک ذنبہ رکھ دیا آنکھیں کھولیں تو دنبہ ذبح پڑا تھا۔ ( موضح) الصافات
108 الصافات
109 الصافات
110 الصافات
111 الصافات
112 ف ١ اس میں جیسا کہ اوپر بیان ہوا، اس چیز کی دلیل ہے کہ ذبح ہونے والے حضرت اسماعیل ( علیہ السلام) تھے نہ کہ حضرت اسحاق ( علیہ السلام) کیونکہ ان کے تو جوانی کو پہنچ کر نبی بننے کی بشارت دی گئی تھی پھر ان کو ذبح کرنے کا حکم کیونکر دیا جاتا۔ الصافات
113 ف ٢ برکت میں یہ چیز بھی شامل ہے کہ انہیں کثیر اولاد بنایا اور ان کی اولاد میں سلسلہ نبوت رکھا۔ شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں :” دونوں کہا دونوں بیٹوں کو، دونوں سے بہت اولاد پھیلی۔ اسحاق ( علیہ السلام) کی اولاد میں نبی گزرے بنی اسرائیل کے اور اسماعیل ( علیہ السلام) کی اولاد میں عرب، جن میں ہمارے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہوئے۔ ( اضح) الصافات
114 الصافات
115 ف ٣ مراد ہے غلامی کی وہ حالت جس میں وہ فرعون اور اسکی قوم کے ہاتھوں مبتلا تھے۔ الصافات
116 الصافات
117 ف ٤ یعنی توراۃ جس میں واضح احکام موجود تھے۔ الصافات
118 الصافات
119 الصافات
120 الصافات
121 الصافات
122 الصافات
123 ف ٥ اکثر مفسرین (رح) کے نزدیک حضرت الیاس ( علیہ السلام) انبیائے بنی اسرائیل میں سے تھے۔ بعض کہتے ہیں کہ وہ حضرت ہارون ( علیہ السلام) کی نسل میں سے تھے اور حضرت یوشع ( علیہ السلام) کے بعد بنی اسرائیل کے نگران اعلی ہوئے۔ بعض کہتے ہیں کہ الیاس ( علیہ السلام) حضرت ادریس ( علیہ السلام) ہی کا دوسرا نام تھا مگر زیادہ صحیح بات پہلی ہی ہے۔ ( فتح القدیر) الصافات
124 الصافات
125 ف ٦ بعل کے لفظی معنی آقا اور مالک کے ہیں۔ قرآن کے متعدد مقامات پر یہ لفظ ” شوہر“ کیلئے بھی استعمال ہوا ہے۔ (مثلاً سورۃ بقرہ آیت ٢٢٨، سورۃ نساء، آیت ١١٢٧) حضرت الیاس ( علیہ السلام) کی قوم نے اپنے ایک بت کا نام ” بعل“ رکھا تھا یا یہ ان کی ایک دیوی کا نام تھا۔ (شوکانی) شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں۔ حضرت الیاس ( علیہ السلام) اولاد میں حضرت ہارون ( علیہ السلام) کے ہیں، شہر بعلبک کی طرف ان کو اللہ نے بھیجا اور وہ پوجتے تھے بت اس کا نام بعل تھا۔ ( موضح) الصافات
126 الصافات
127 الصافات
128 ف ٧” انہوں نے حضرت الیاس ( علیہ السلام) کو نہیں جھٹلایا“ بلکہ تصدیق کی اور ایمان لے آئے۔ ( ابن کثیر) الصافات
129 الصافات
130 ف ٨” الیاسین“ حضرت الیاس ( علیہ السلام) ہی کا دوسرا نام ہے۔ جیسے ایک ہی پہاڑ کو قرآن میں طور سیناء بھی کہا گیا ہے اور ” طور سینین“ بھی۔ الصافات
131 الصافات
132 الصافات
133 الصافات
134 الصافات
135 الصافات
136 الصافات
137 ف ١ یعنی بغرض تجارت شام و فلسطین آتے جاتے، ان کی تباہ شدہ بستی سے دن رات گزرتے رہتے ہو۔ ( کذافی الموضح) الصافات
138 الصافات
139 الصافات
140 ف ٢ یہاں بھاگنے کے لئے لفظ ” ابق“ استعمال ہوا ہے جو دراصل غلام کے اپنے آقا کے پاس سے بھاگ جانے کیلئے بولا جاتا ہے۔ حضرت یونس ( علیہ السلام) چونکہ اپنے آقا اللہ تعالیٰ کے حکم کا انتظار کئے بغیر اپنی قوم کو چھوڑ کر چلے گئے تھے اس لئے ان کے چلے جانے ” ابق“ کا لفظ استعمال کیا گیا۔ حضرت یونس ( علیہ السلام) اپنی قوم کو کب اور کیوں چھوڑ کر چلے گئے تھے اس کے لئے دیکھئے سورۃ یونس آیت ٩٨، سورۃ انبیاء آیت ٨٧ ( قرطبی) بھری ہوئی کشتی سے مراد سامان اور مسافروں سے بھری ہوئی ہے۔ الصافات
141 ف ٣ ہوا یہ کہ جب وہ کشتی مسافروں کو لے کر چلی تو طوفان کی وجہ سے ڈگمگانے لگی اور اس کے ڈوب جانے کا خطرہ پیدا ہوگیا۔ اس پر قرعہ ڈالا گیا کہ جس کا نام قرعہ میں نکلے اسے سمندر میں پھینک دیا جائے۔ تین بار قرعہ ڈالا گیا لیکن وہ ہر بارحضرت یونس ( علیہ السلام) ہی کے نام پر نکلا۔ بار بار قرعہ اس لئے ڈالا گیا کہ لوگ حضرت یونس ( علیہ السلام) کی نیکی کو دیکھ کر انہیں سمندر میں پھینکنا نہ چاہتے تھے لیکن جب تین بار قرعہ انہی کے نام پر نکلا تو وہ خود ہی سمندر میں کودنے کو تیار ہوگئے۔ ادھر اللہ تعالیٰ نے ایک بڑی مچھلی کو حکم دیا کہ جونہی وہ سمندر میں کودیں تو انہیں نگل جا بغیر اس کے کہ انہیں کوئی خراش آئے یا ان کی کوئی ہڈی ٹوٹے۔ ( ابن کثیر) چنانچہ جونہی وہ سمندر میں کودے الصافات
142 ف ٤ کہ وہ ناحق اپنی قوم سے ناراض ہو کر اور اپنے آقا کے حکم کا انتظار کئے بغیر بھاگ کھڑے ہوئے۔ الصافات
143 ف ٥ یعنی نیک بندوں میں سے جو اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے رہتے ہیں یا نماز پڑھتے ہیں۔ سورۃ انبیاء میں ہے کہ حضرت یونس ( علیہ السلام) جونہی مچھلی کے پیٹ میں پہنچے تو انہوں نے اپنے رب کو ان الفاظ سے پکارا ( لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین) تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو ہر عیب سے پاک ہے، بیشک میں ہی قصور وار ہوں الصافات
144 ف ٦ یعنی قیامت تک مچھلی کا پیٹ ہی ان کی قبر بنا رہتا۔ ( شوکانی) الصافات
145 ف ٧ یعنی ہم نے مچھلی کو حکم دیا اور اس نے ساحل پر پہنچ کر یونس کو ایک چٹیل میدان میں اگل دیا۔ ف ٨ کہتے ہیں کہ وہ تھوڑی دیر یا ایک دن یا تین دن یا سات دن یا چالیس دن تک مچھلی کے پیٹ میں رہے۔ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ جب مچھلی نے انہیں ساحل پر پہنچ کر اگلا تو وہ اس طرح نکلے جیسے مرغی کا چوزہ جس پر بال نہیں ہوتے۔ ( شوکانی) حضرت یونس ( علیہ السلام) کا مچھلی کے پیٹ میں جانا اور وہاں زند رہنا اللہ تعالیٰ کے حکم سے بطور خرق عادت تھا۔ الصافات
146 ف ٩” یقطین“ ہر ایسے درخت کو کہتے ہیں جو تنے پر کھڑا نہیں ہوتا۔ اس لئے اس سے کھر وغیرہ ہر چیز کی بیل مراد ہو سکتی ہے۔ شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں :” کہتے ہیں کہ وہ کدو کی بیل تھی“۔ ( موضح) بہر حال اللہ تعالیٰ نے اس چٹیل میدان میں خرق عادت کے طور پر ایک بیل اگا دی جس کے پتوں سے ان پر سایہ بھی ہوتا رہا اور اس کے پھل غذا اور پانی کا کام بھی دیتے رہے۔ ( واللہ اعلم ) (شوکانی) الصافات
147 الصافات
148 ف ١٠ ان سے نینوی شہر کے لوگ ہی مراد ہیں جس سے بھاگ کر حضرت یونس ( علیہ السلام) سمندر کی طرف آئے تھے۔ ف ١١ یہ اس طرف اشارہ ہے کہ حضرت یونس ( علیہ السلام) کے چلے جانے کے بعد انہوں نے عذاب کے آثار دیکھ کر توبہ کی تھی اور وہ عذاب کے آثار دیکھ کر توبہ کی تھی اور وہ عذاب سے بچ گئے تھے چنانچہ حضرت یونس ( علیہ السلام) کو جب اپنی قوم کے ایمان لانے کی اطلاع ملی تو وہ واپس آگئے۔ ( دیکھئے سورۃ یونس ( علیہ السلام) آیت ٩٨) الصافات
149 ف ١٢ عرب کے بعض قبائل کا عقیدہ تھا کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں۔ اسی کی تردید اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں فرمائی۔ قرآن میں متعدد مقامات پر اسی جاہلی عقیدہ کی تردید کی گئی ہے۔ مثلاً نساء آیت ١١٧، نحل آیت ٥٧، ٥٨، بنی اسرائیل آیت ٤٠، زخرف آیت ١٦ تا ١٩ نجم آیت ٢١، ٢٧، الصافات
150 ف ١٣ یعنی کیا ان کی پیدائش کے وقت موجودتھے جو آج یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ فرشتے عورت ذات اور اللہ کی بیٹیاں ہیں؟۔ الصافات
151 الصافات
152 الصافات
153 الصافات
154 الصافات
155 الصافات
156 ف ١ یعنی کیا تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی ایسی کتاب آئی ہے جس میں یہ لکھا ہے کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں۔ الصافات
157 الصافات
158 ف ٢ لغوی طور پر ” جن“ سے مراد ہر وہ مخلوق ہے جو پوشیدہ ہو اور نظر نہ آئے، اس لئے اکثر مفسرین (رح) نے اس آیت میں جنوں سے مراد فرشتے لئے ہیں۔ بعض مفسرین (رح) نے ان سے مراد اصطلاحی جن ہی لئے ہیں کیونکہ جیسا کہ یہ حضرات کہتے ہیں عربوں کا عقیدہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے جنوں کے ایک قبیلہ میں شادی کی اور اس سے فرشتے پیدا ہوئے، اوالعیاذ باللہ ( شوکانی) یا ” نسا“ سے مراد یہ ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی عبادت میں شیطان کو شریک بنا لیا۔ ( قرطبی) ف ٣ اس سے اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ جہاں جنوں مراد فرشتے ہیں اور اگر اصطلاحی جن ہی مراد لئے جائیں تو اس فقرہ کا یہ مطلب ہوگا کہ ” جنوں کو خوب علم ہے کہ وہ ( یعنی جوان میں سے کافر ہیں) عذاب میں پکڑے آئیں گے “۔ الصافات
159 الصافات
160 ف ٤” وہ ایسی باتیں نہیں کرتے“ یا ” وہ عذاب میں پکڑے ہوئے نہیں آئیں گے“۔ الصافات
161 الصافات
162 الصافات
163 ف ٥ دوسرا ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ” تم اور عبادت جو تم کرتے ہو، اس پر ( یعنی اس سے) تم کسی کو گمراہ نہیں کرسکتے مگر اس کو جو۔۔۔“ پہلا ترجمہ“ ما تعبدون کے ” ما“ کو موصولہ ماننے کی صورت میں ہے۔ اور دوسرا ترجمہ اسے مصدر یہ ماننے کی صورت میں۔ نیز یہ دونوں ترجمے اس صورت میں ہیں جب ” علیہ“ میں ” ہ“ کی ضمیر ” ما تعبدون“ کے لئے قرار دی جائے اور اگر یہ اللہ تعالیٰ کے لئے قرار دی جائے تو ترجمہ یوں ہوگا کہ ” تم اور تمہارے معبود یا تم اور تمہاری عبادت اللہ تعالیٰ کے خلاف کسی کو گمراہ نہیں کرسکتے مگر اس کو جو ( قرطبی، شوکانی) شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں : یعنی تم انسان اور تمہارے شیطان بے مرضی اللہ کے گمراہ نہیں کرسکتے گمراہ وہی ہوگا جس کو اس نے دوزخی لکھی دیا۔ (موضح) الصافات
164 ف ٦” جس سے ہم ذرہ برابر تجاوز نہیں کرسکتے، کجاکہ ہم اللہ تعالیٰ کی اولاد ہونے کا دعویٰ کریں“۔ الصافات
165 ف ٧ یعنی صف باندھے ہر آن اطاعت و حکم برداری کے لئے تیار رہتے ہیں۔ ( دیکھئے آیت ١) الصافات
166 ف ٨ یا ” نماز پڑھتے رہتے ہیں‘ لفظی ترجمہ یوں ہے ” اور ہم تسبیح کرنے والے ہیں“ حدیث میں ہے کہ آسمان میں قدم رکھنے کی کوئی جگہ ایسی نہیں ہے جس میں کوئی فرشتہ سجدہ ریز نہ ہو اور یہی معنی ” مقام ملوم“ کے ہیں۔ (شوکانی) الصافات
167 الصافات
168 الصافات
169 ف ٩ یعنی اگر گزشتہ قوموں کی طرح ہمارے پاس کوئی پیغمبر آتا یا ہم پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی کتاب نازل ہوتی تو ہم۔۔۔“ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ یہ بات مشرکین مکہ نبیﷺ کی بعثت سے پہلے کہا کرتے تھے، نیز دیکھئے۔ آیت ٤٢( شوکانی) الصافات
170 ف ١٠ یعنی جب یہ کتاب، قرآن ان کے پاس آگئی تو یہ اس سے انکار کرنے پر تل گئے۔ ف ١١ یعنی اس انکار کا نتیجہ معلوم ہوجائے گا۔ ( قرطبی) الصافات
171 الصافات
172 الصافات
173 ف ١٢ ” ہمارے لشکر“ سے مراد انبیاء ( علیہ السلام) اور ان کے ماننے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے اس وعدے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ایک ایک موقع پر انہیں فتح نصیب ہوگی بلکہ یہ مطلب ہے کہ آخر کار فتح ان ہی کی ہوگی اور کفر و شرک کا خاتمہ ہو کر رہے گا۔ نیز دیکھئے مومنون آیت ٩۔ ( ابن کثیر) الصافات
174 الصافات
175 ف ١٣ یعنی جب تک ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان سے جنگ کرنے کی اجازت نہیں دیتے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیں اور زبانی طور پردعوت و تبلیغ کا کام کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ یہ آیت مکی دورکی ہے۔ ف ١٤ چنانچہ یہ وعدہ پورا ہوا اور چند سال بعد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فاتحانہ مکہ میں داخل ہوئے اور کفار نے اپنی ذلت و رسوائی اپنی آنکھوں سے دیکھی۔ الصافات
176 ف ١٥ یعنی مسلمانوں سے کہتے ہیں کہ اگر سچے ہو تو ہم پر وہ عذاب کیوں نہیں لے آتے جس کی دھمکی دیتے ہو۔ الصافات
177 ف ١٦ یعنی وہ صبح جس میں ان پر عذاب نازل ہوگا ان کے حق میں انتہائی بری ہوگی۔ عرب عموماً صبح کے وقت دشمن پر حملہ کرتے اس لئے صبح کا لفظ خاص طور پر ذکر کیا گیا۔ ( قرطبی) الصافات
178 الصافات
179 الصافات
180 الصافات
181 الصافات
182 ف ١ اس میں بندوں کی تعلیم کو دی گئی ہے کہ انہیں جب کوئی نعمت حاصل ہو یا ان سے کوئی مصیبت ٹلے تو انہیں چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کا لشکربجا لائیں۔ حدیث میں ہے کہ جب تم رسولوں پر سلام بھیجو تو مجھ پر ( بھی) سلام بھیجو۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب نماز سے واپس ہوتے تو ” سبحان ربک“ تا آخر پڑھتے اور ہر مجلس کے خاتمہ پر اس کا پڑھنا مستحب ہے۔ ( قرطبی، شوکانی) الصافات
0 ف ٢ اس پر تمام مفسرین کا اتفاق ہے کہ یہ سورۃ مکہ معظمہ میں نازل ہوئی۔ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ جب ابو طالب بیمار ہوئے تو قریش کے چند سردار جن میں ابو جہل بھی شامل تھا، ان کے پاس آئے، ابو جہل ان سے کہنے لگا ” دیکھئے آپ کا بھیجا ہمارے معبودوں کو برا بھلا کہتا ہے اور اس کی یہ باتیں اور حرکتیں ہیں لہٰذا بہتر یہ ہے کہ انہیں بلا کر ان باتوں سے منع کردیں“۔ ابوطالب نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بلایا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا : اے بھیجے ! تمہاری قوم کے لوگ میرے پاس تمہاری شکایت لے کر آئے ہیں کہ تم ان کے معبودوں کو برا بھلا کہتے ہو۔ ( بہتر ہے کہ تم ان سے کسی انصاف کی بات پر صلح کرلو) آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جواب دیا ” میں تو ان کے سامنے صرف ایک کلمہ پیش کرتا جسے اگر یہ مان لیں تو عرب ان کے تابع ہوجائیں اور عجم انہیں جزیہ ادا کریں۔ وہ کہنے لگے، ایک کلمہ کیا ہم ایسے دس کلمہ کہنے کو تیار ہیں۔ بتائو تو سہی کہ وہ کلمہ کیا ہے؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( لا الہ الا اللہ) اس پر سب لوگ ایکبارگی کھڑے ہوگئے۔ وہ کہتے جاتے تھے۔ ( اجعل الا االھۃ الھا واحدا، ان ھذا الشی عجاب) ان کے بارے میں اس سورۃ کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں۔ ( شوکانی) ص
1 ف ٣ یا ” جو شرف و عظمت والا ہے“ اس قسم کا جواب مخدوف ہے جیسے لتجثمن یا ان ربک الحق وغیرہ۔ ص
2 ف ٤ یعنی یہ جو قرآن کو حق تسلیم نہیں کررہے اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ یہ سخت تکبر اور ضد میں مبتلا ہیں ورنہ اگر ذرا انصاف سے کام لیں تو قرآن کو سراسر ہایت کا سر چشمہ پائیں گے اوصاف معلوم کرلیں گے یہ خدائی کلام ہے۔ ص
3 ص
4 ف ٥ حالانکہ عجیب بات تو اس وقت ہوتی جب کوئی فرشتہ یا عجمی ان میں نبی بنا کر بھیجا جاتا اور پھر یہ اعتراض بھی کرسکتے تھے۔ ص
5 ف ٦ یعنی ان لوگوں کو عقیدۂ توحید عجیب معلوم ہوتا ہے۔ حالانکہ تعجب کی چیز شرک ہے جس پر کوئی بھی عقلی دلیل قائم نہیں ہو سکتی۔ ص
6 ف ٧ یعنی یہ ہمارے سامنے کلمہ ” لا الہ الا اللہ“ پیش کر رہا ہے اس سے اس کا مقصد کچھ ذاتی فائدہ معلوم ہوتا ہے اور شاید اس نے یہ سارا ڈھونگ اس لئے رچایا ہے کہ ہم اسے اپنا سردار مان لیں اور یہ ہم پر حکمرانی کر کے داد عیش دے۔ ص
7 ف ٨ یعنی دین نصاریٰ میں کہ ان کے ہاں بھی اس طرح کی توحید نہیں ہے جیسی یہ شخص محمدﷺپیش کررہا ہے وہ بھی تین خدائوں کے قائل ہیں۔ ( کذاقال اکثر السلف) (قرطبی) یا قریب کہہ دین سے مراد خود قریش کے بزرگوں کا دین ہے۔ شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں ” یعنی آگے تو سنے ہیں کہ اگلے ایسی باتیں کہتے تھے پر ہمارے بزرگ تو یوں نہیں کہہ گئے۔ ( موضح) یا ہم نے اہل کتاب سے یہ بات نہیں سنی کہ آخر زمانے میں محمدﷺ اللہ کے سچے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہونگے۔ (قرطبی) ص
8 ف ٩ یعنی ہم میں بڑے بڑے رئیس اور شریف موجود ہیں، اگر خدا کو اپنا کلام اتارنا ہی تھا تو ان میں سے کسی پر اتررتا۔ ف ١٠ یعنی قطع نظر اس سے کہ کون پیغمبر ہوتا اور کون نہ ہوتایہ تو سرے سے نبوت و رسالت کے ہی قائم نہیں ہیں۔ ف ١١ ” اس لئے اکڑنوں دکھا رہے ہیں، اگر عذاب کا مزہ چکھ لیتے تو دماغ درست ہوجاتا۔ ص
9 ف ١٢ کہ جس کو جو نعمت چاہیں دیں اور جسے چاہیں نہ دیں؟ ہرگز نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ اپنی نعمتوں کے خزانوں کا خود مالک ہے تو وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے محروم رکھتا ہے۔ اب اگر اس نے اپنی نعمت و رسالت سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سرفراز فرمایا ہے تو یہ کیوں حسد کرتے ہیں۔ ص
10 ف ١” تاکہ فرشتوں کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی لانے سے منع کردیں “۔ تاکہ جسے یہ اپنی رحمت کا مستحق سمجھیں، اسے دیں اور جسے ہم سمجھتے ہیں محروم کردیں اور زمین و آسمان کا نظام اپنی مرضی کے مطابق چلائیں۔ ص
11 ف ٢ یعنی قریش کے یہ کفار آخر ہیں کیا ؟ جس کسی نے پیغمبروں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت کی منہ کی کھائی۔ ایک وقت آئے گا کہ مکہ کی سر زمین میں انہیں شکست ہوگی اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے اطاعت سے سر جھکائیں گے۔ ص
12 ف ٣ فرعون کو میخوں والا کہنے کا مطلب یا تو یہ ہے کہ وہ جس سے ناراض ہوتا تھا اس کے ہاتھ پائوں میں میخیں ٹھکوا کر سزا دیا کرتا تھا یا یہ کہ اس کی سلطنت ایسی مضبوط تھی گویا زمین میں میخ ٹھکی ہوئی ہے۔ یا اس کا لشکر کثیر تھا اور جہاں ٹھہرتے ہر طرف میخیں ہی میخیں نظر آتیں۔ واللہ اعلم ( شوکانی) ص
13 ف ٤ بن والوں سے مراد حضرت شعیب ( علیہ السلام) کی قوم ہے۔ ص
14 ص
15 ف ٥” جب تک ان کو فنا کے گھاٹ نہ اتار دے“ یا ” جس کے بعد کوئی دوسری چنگھاڑ نہ ہوگی (قرطبی) ” فواق“ اصل میں اس وقفہ کو کہتے ہیں جو اونٹنی کا دودھ دوہتے وقت ایک دفعہ کے بعد دوسری دفعہ کے درمیات ہوتا ہے۔ تو مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ نہ ذرہ بھر پہلے آئے گی اور نہ بعد میں۔ ص
16 ف ٦ یعنی ہمارا معاملہ قیامت تک کیوں ٹالتا ہے جو سزا ہمیں اس وقت ملنے والی ہے وہ اسی دنیا میں دے ڈال۔ ( ابن کثیر) ص
17 ف ٧” اس جگہ ان کو یاد دلوایا کہ انہوں نے بھی طالوت کی حکومت میں بہت صبر کیا آخر حکومت ان کو ملی اور مخالفوں کو جہاد سے زیر کیا۔ یہی نقشہ ہوا ہمارے پیغمبر کا۔ ( کذافی المواضح) ف ٨ جسمانی قوت کے علاوہ علم و فضل و عبادت میں بھی بڑی طاقت تھی۔ ایک روایت میں ہے۔ (کان اعبدالبشر) کہ حضرت دائود بہت زیادہ عبادت گزار تھے۔ ایک صحیح حدیث میں حضرت دائود ( علیہ السلام) کی نماز اور روزے کو اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب قرار دیا گیا ہے۔ ( روح) ف ٩ یعنی وہ اپنے ہر معاملہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتے تھے اور کوئی قدم اپنی خواہش کی بناء پر نہیں اٹھاتے تھے۔ ( ابن کثیر) ص
18 ف ١٠ زوال شمس اور غروب کے درمیان کے وقت کو ” العشی“ کہتے ہیں اور ” اشراق“ اس وقت کو کہتے ہیں جب سورج طلوع ہونے کے بعد خوب چمکنے لگتا ہے۔ اس وقت میں نفلی نماز کی فضلیت آئی ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ اس وقت دو رکعت نماز تمام اعضاء کی طرف سے صدقہ بن جاتی ہے۔ ( ابن کثیر) ص
19 ف ١١ یعنی ان کے ساتھ تسبیح پڑھتے جیسا کہ سورۃ انبیاء کی آیت ٧٩ میں گزر چکا ہے اگر ” لہ“ کی ضمیر اللہ تعالیٰ کے لئے قرار دی جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ یہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے والے تھے۔ ( قرطبی) ص
20 ف ١٢ ” حکمت“ کے مفہوم میں نبوت، کتاب اللہ کا علم اور معاملات کی فہم و فراست سب چیزیں شامل ہیں۔ اور ” فصل الخطاب“ سے مراد ہے مقدمہ سن کر فیصلہ سنانے کا طریقہ یا لمبی بات کو مختصر الفاظ میں ایسے طریقہ سے بیان کرنا کہ ہر ایک کی پوری طرح سمجھ میں آجائے۔ اس سے گویا حضرت دائود ( علیہ السلام) کی فصاحت و بلاغت کی طرف اشارہ ہے۔ ایک روایت میں ہے حضرت دائود ( علیہ السلام) پہلے شخص ہیں جنہوں نے خطبہ میں ” اما بعد“ کا لفظ استعمال کیا۔ ( شوکانی) ص
21 ف ١٣ اکثر علمائے تاویل کا قول ہے کہ یہ جھگڑنے والے دو فرشتے تھے جو آدمی کی شکل میں آئے تاکہ حضرت دائود ( علیہ السلام) کو ان کی غلطی پر متنبہ کریں اور ان کا یہ مقدمہ بطور فرض تھا نہ کہ حقیقتاً۔ پس ان فرشتوں کا جھوٹ بولنا لازم نہیں آتا جیسا کہ امام رازی (رح) نے اس لزوم کی بناء پر اس تاویل کی تردید کی ہے۔ ( قرطبی) ص
22 ف ١٤ گھبرانے کی وجہ یہ تھی کہ وہ بلا اجازت اور بے وقت دیوار پھاند کر یکایک اندر عبادت خانہ میں پہنچ گئے تھے (قرطبی) ص
23 ف ١٥ یعنی دینی بھائی یا ساتھ رہنے والا بھائی۔ ف ١ یعنی وہ مجھ سے زیادہ چرب زبان ہے اس لئے لوگ اس کی طرف داری کرتے ہیں اور میری کوئی نہیں سنتا۔ (قرطبی) ص
24 ف ٢ ممکن ہے کہ حضرت دائود ( علیہ السلام) نے یہ فیصلہ دوسرے فریق کا بیان سنے بغیر صادر کردیاہو اور یہ حضرت دائود ( علیہ السلام) کا قصور تھا جسے اللہ تعالیٰ نے معاف فرما دیا۔ ف ٣ اس مقام پر سجدہ کرنا پڑھنے اور سننے والے دونوں کے لئے مستحب ہے۔ ابن عباس (رض) سے ایک روایت میں ہے کہ سورۃ ص کا سجدہ با عزیمت سجدوں یعنی ان سجدوں میں سے نہیں ہے جن کی تاکید آئی ہے۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ص میں سجدہ کیا اور فرمایا :” دائود ( علیہ السلام) نے توبہ کے طور پر سجدہ کیا اور ہم شکر کے طور پر سجدہ کرتے ہیں۔ (ابن کثیر) ص
25 ف ٤ ان الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت دائود ( علیہ السلام) سے کوئی قصور سر زد ہوگیا تھا جس پر متنبہ کرنے کے لئے دو فرشتے مقدمہ لے کر ان کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ یہ قصور کیا تھا؟ مفسرین نے اس بارے میں متعدد اقوال نقل کئے ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ بنی اسرائیل میں ” اور یا“ نامی ایک شخص تھا جس کی بیوی سے نکاح کرنے کے لئے حضرت دائود ( علیہ السلام) نے اسے جنگ کے محاذ پر بھیج دیا۔ چنناچہ وہ قتل ہوگیا تو نکاح کرلیا مگر یہ روایت بجیع الصور اسرائیلیات سے مآخوذ ہے اور اس لئے بھی نا قابل اعتبار ہے کہ اس سے ایک نبی کی عصمت پر دھبہ آتا ہے۔ قرآن کے اسلوب بیان سے جو اصل بات معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت دائود ( علیہ السلام) نے اس عورت سے نکاح کرنے کیلئے اس کے خاوند سے طلاق کا مطالبہ کیا ہوگا جو اگرچہ گناہ نہیں ( بشرطیکہ جبر نہ ہو) مگر ایک نبی کی شان کے منافی ہے، اس لئے قرآن نے اسے قصور قرار دیکر حضرت دائود کے لئے معافی کا اعلان کردیا۔ مقدمہ کی روداد میں ” و عزنی فی الخطاب“ اور ” لقد ظلمک بسوال“ کے الفاظ سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ حضرت دائود ( علیہ السلام) کا قصور یہ تھا کہ انہوں نے دوسرے فریق کے بیانات سنے بغیر ہی فیصلہ کردیا تھا۔ کماھر بہر صورت حضرت دائود ( علیہ السلام) سے کوئی ایسا جرم سر زد نہیں ہوا تھا جو انبیاء ( علیہ السلام) کی عصمت کے منافی ہو۔ واللہ اعلم ( ابن کثیر وغیرہ) ص
26 ص
27 ف ٥ عینی محض کھیل تماشہ کے طور پر انہیں نہیں بنایا کہ اس میں نہ کوئی حکمت ہو، نہ اس کا کوئی مقصدہو اور نہ اس میں کئے جانے والے اچھے یا برے اعمال کا کوئی نتیجہ نکلنے والاہو۔ ص
28 ف ٦ یعنی کفر و شرک کی راہ پر چلتے رہے۔ ف ٧ اس سوال سے مقصود آخرت اور اس میں ہونے والے حساب و کتاب کی دلیل پیش کرنا ہے۔ یعنی اگر آخرت اور اس میں اعمال کا محاسبہ نہ ہو تو اس سے اللہ تعالیٰ کی حکمت اور اس کے عدل و انصاف کی نفی ہوتی ہے اور اس سے کائنات کا پورا نظام محض ایک بے مقصد کھیل تماشہ ہو کر رہ جاتا ہے۔ ص
29 ص
30 ص
31 ف ١ سلف (رح) اور اکثر مفسرین (رح) کہتے ہیں کہ حضرت سلیمان ( علیہ السلام) نے یہ بات افسوس کے انداز میں اس وقت فرمائی جب وہ گھوڑوں کو دیکھنے میں مصروف رہے اور نسیان و غفلت کے سبب عصر کی نماز ( یا وظیفہ) کا وقت ختم ہوگیا جیسا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی غزوۂ خندق کے موقع پر کفار کی طرف سے شدید حملہ کے باعث عصرکی نماز رہ گئی تھی ( ابن کثیر) آیت کا یہ مطلب اس صورت میں ہے جب ” احببت“ کا ترجمہ آثرت (ترجیح دی) کیا جائے اور تورات ( چھپ گیا) کا فاعل محذوف مانا جائے یعنی الشمس ( سورج)۔ بعض مفسرین نے ” عن“ کا ترجمہ کی وجہ سے کیا ہے یعنی ” میں نے مال گھوڑوں سے محبت اپنے رب کے ذکر کی وجہ سے کی یہاں تک کہ وہ گھوڑے نگاہ سے اوجھل ہوگئے۔ گویا اس آیت عن ذکر ربی میں حضرت سلیمان ( علیہ السلام) نے گھوڑوں سے محبت کی وجہ بیان کی ہے۔ ص
32 ص
33 ف ٢ لفظی ترجمہ یہ ہے کہ ” وہ ان کی ٹانگوں اور گردنوں پر ہاتھ پھیرے لگا“۔ اس کا اکثر مفسرین (رح) نے وہی مطلب بیان کیا ہے جو متن میں درج ہے۔ دوسرے مفسرین نے اس کا یہ مطلبی بیان کیا ہے کہ حضرت سلیمان ( علیہ السلام) گھوڑوں کی ٹانگوں اور گردنوں سے غبار جھاڑنے لگے۔ ابن جریر (رح) نے اسی کو اختیار کیا ہے مگر حافظ ابن کثیر (رح) لکھتے ہیں کہ پہلا مطلب زیادہ صحیح ہے اور اسی پر ” فسخرنا لہ الریح۔۔۔“ کا صلہ مل رہا ہے ( ابن کثیر) شاہ صاحب (رح) بھی لکھتے ہیں۔ پھر غصے ہوئے، ان گھوڑوں کو منگا کر کاٹ ڈالا یہ اللہ کی محبت کا جوش تھا ان کی تعریف فرمائی۔ ( موضح)۔ ص
34 ص
35 ف ٣ اس واقعہ کی تفصیل میں بہت سے علما نے یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ کچھ عرصہ کیلئے اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان ( علیہ السلام) کے تخت پر صخر نامی ایک جن کو قابض کردیا تھا۔ اس کے مختلف اسباب میں سے ایک سبب یہ تھا کہ حضرت سلیمان ( علیہ السلام) کی ایک بیوی بت پرست تھی۔ اس کی یہ سزا ملی کہ جتنی مدت اس بیوی نے بت پرستی کی تھی اتنی مدت کیلئے حضرت سلیمان ( علیہ السلام) تخت سلطنت سے محروم کردیئے گئے اور ان کی انگوٹھی جس میں اسم اعظم تھا ایک لونڈی کے واسطہ سے صخر کے ہاتھ پڑگئی۔ اس کے ہاتھ سے وہ انگوٹھی دریا میں گر گئی اور ایک مچھلی نے اسے نگل لیا، پھر وہ مچھلی شکار ہو کرحضرت سلیمان ( علیہ السلام) کے پاس آئی اور اس طرح انہوں نے اس کے پیٹ سے انگوٹھی کو نکال کر پھر اپنا تخت واپس لے لیا، مگر یہ سارا قصہ اہل کتاب سے مآخوذ ہے اور اہل کتاب میں سے اکثر وہ ہیں جو حضرت سلیمان ( علیہ السلام) کو اللہ کا نبی نہیں مانتے، ان کا مقصد انہیں زیادہ سے زیادہ بد نام کرنا ہے۔ ( ابن کثیر) بعض مفسرین (رح) نے اس آیت کی تفسیر صحیح بخاری کی ایک روایت سے کی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت سلیمان ( علیہ السلام) نے فرمایا کہ آج میں اپنی ستر بیویوں سے ہم بستری کروں گا اور ان میں سے ہر ایک بیوی ایک شہسوار بچے کو جنم دے گی مگر انشاء اللہ کہنا بھول گئے نتیجہ یہ ہوا کہ ان میں سے صرف ایک بیوی حاملہ ہوئی اور اس نے ایک ناقص بچے کو جنم دیا جو حضرت سلیمان ( علیہ السلام) کے تخت پر لا کر لٹایا گیا “۔ اس کے بعد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اگر وہ انشاء اللہ کہہ دیتے تو ہر بیوی سے مجاہد پیدا ہوتا۔ یہ واقعہ بیشک صحیح ہے مگر اسے زیر بحث آیت کی تفسیر میں قرار دینا تفسیر باالرائی ہے۔ جس حد تک ” فتنہ“ یعنی آزمائش کا تعلق ہے اسے تو قرآن نے بیان کیا ہے اور یہ کہ اس آزمائش سے متنبہ ہو کر حضرت سلیمان ( علیہ السلام) نے دعا کی جس کے آگے ذکر آرہا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس دعا کو قبولیت بخشی اور ان کی عظمت شان کو سراہا مگر اس آزمائش کی تعیین میں قرآن و حدیث سے کوئی تصریح نہیں ملتی اس لئے اسے مجمل ہی رہنے دیا۔ حافظ ابن کثیر (رح) اور ابن حزم (رح) اور بعض دوسرے جلیل القدر محدثین و مفسرین (رح) نے یہی راہ اختیار کی ہے۔ ( منہ) ف ٤ حدیث میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رات کو نماز میں ایک شریر جن کو پکڑ لیا اور ارادہ کیا کہ اسے ستون سے باندھ دیا جائے تاکہ سب اسے دیکھیں مگر حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سلیمان کی یہ دعا یاد آگئی اور اسے چھوڑ دیا۔ ( ابن کثیر) ص
36 ص
37 ص
38 ف ٥ ان سے مراد وہ خدمت گار جن میں جنہیں ثمرات کی پاداش میں قید کیا جاتا تھا۔ ص
39 ف ٦ دوسرا ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ ہماری دین ہے۔۔۔۔۔ ( لوگوں کو اس میں سے دینے یا نہ دینے میں) تجھ پر کوئی محاسبہ نہیں ہے۔ “۔ ص
40 ص
41 ف ٧ قرآن نے عموماً ایسے۔ امور کی نسبت شیطان کی طرف کی ہے جن میں شر یا ایذا کا کوئی پہلو پایا جاتا ہو۔ کیونکہ کسی نہ کسی قریب یا بعید وجہ میں ایسے امور کا تعلق شیطان ہی سے ہوتا ہے۔ اس معنی میں حضرت ایوب ( علیہ السلام) نے اپنی جسمانی بیماری یا مالی تکلیف کی نسبت شیطان کی طرف کردی ہے ورنہ انبیاء ( علیہ السلام) کے جسم و قلب پر شیطان کو تسلط نہیں ہو سکتا۔ جیسا کہ اس مقام پر تفسیروں میں اسرائیلی قصہ درج کیا گیا اور دعا ظ مبالغہ آمیزی کے ساتھ عوام کی دلچسپی کے لئے داستان گوئی کرتے رہتے ہیں۔ ( ابن حزم) ص
42 ف ٨ یعنی ہم نے ان کی دعا قبول فرمائی اور حکم دیا کہ اپنا پائوں زمین پر مار۔ ف ٩ یعنی زمین پر پائوں مارتے ہی ٹھنڈے پانی کا ایک چشمہ نمودار ہوا جس کا پانی پینا اور اس میں غسل کرنا حضرت ایوب ( علیہ السلام) کی بیماری کا علاج تھا چنانچہ وہ اس سے پانی پینے اور غسل کرنے سے بالکل تندرست ہوگئے۔ ص
43 ف ١٠ یعنی علاوہ پہلے اہل و عیال کے ہم نے انہیں مزید اولادعطا فرمائی۔ ف ١١ کہ وہ بھی تکلیف و بیماری میں ان کی طرح صبر کریں اور ہماری رحمت و مہربانی کے متوقع رہیں۔ ص
44 ف ١ اس آیت کی تاویل میں مفسرین (رح) کہتے ہیں کہ حضرت ایوب ( علیہ السلام) نے ہماری کی حالت میں کسی وجہ سے اپنی بیوی پر ناراض ہو کریہ قسم کھالی تھی کہ اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے شفا دی تو میں اسے سو کوڑے لگائوں گا۔ اب جو اللہ تعالیٰ نے انہیں صحت یاب کیا اور بیماری کا غصہ ٹھنڈا ہوا تو انہیں پریشانی لا حق ہوئی کہ قسم کیسے پوری ہو ؟ چنانچہ اس مشکل سے اللہ تعالیٰ انہیں طرح نکالا کہ ” سو تنکوں کی ایک جھاڑو لو اور اس سے اپنی بیوی پر ایک ہی ضرب لگا دو“۔ اس طرح قسم پوری ہوجائے گی اور بیوی بھی ناروا تکلف سے بچ جائے گی۔ اس رعایت کو حضرت ابن عباس (رض) اور بعض ائمہ (رح) ( جیسے امام مالک (رح) حضرت ایوب ( علیہ السلام) کے لئے خاص قرار دیا ہے اور بعض ائمہ ( جیسے امام ابو حنیفہ (رح) اور امام شافعی (رح) کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص قسم کھا لے کہ فلاں شخص کو سو کوڑے یا چھڑیاں ماروں گا اور یہ نہ کہے کہ سخت ماروں گا یا دل سے اس کا ارادہ نہ کرے تو اس کے لئے اس رعایت سے فائدہ اٹھاناجائز ہے۔ ( شوکانی) بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض بوڑھے اور کمزور مجرموں پر حد جاری کرنے میں نبیﷺ نے خود اسی طریقہ پر عمل فرمایا ہے۔ بعض لوگوں نے اس آیت سے حیلہ شرعی کے جواز پر استدلال کیا ہے۔ اگر یہ استدلال درست بھی ہو تب بھی اس سے وہ حیلہ جائز قرار نہیں پاتا جو کسی حرم کو حلال یا حلال کو حرام کرنے یا کسی شرعی فریضہ سے بچنے کے لئے کیا جائے۔ اگر کسی حیلہ کا جواز نکلتا ہے تو صرف اس اس کا جسے کسی گناہ یا ظلم سے بچنے کے لئے اختیار کیا جائے۔ ( روح المعانی) ص
45 ف ٢ ید ( جمع ایدی) کا لفظ عربی زبان میں نعمت اور طاقت کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے ان انبیاء ( علیہ السلام) کے ہاتھوں والے ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ عبادت کی بڑی طاقت رکھتے تھے یا ان پر اللہ تعالیٰ کے بہت سے انعامات تھے جن کے ذریعے وہ لوگوں پر احسان کیا کرتے تھے۔” آنکھوں“ کی تفسیر میں تمام مفسرین کا اتفاق ہے کہ ان سے مراد دینی بصیرت اور معرفت الٰہی ہے۔ ( شوکانی) ص
46 ف ٣ یعنی وہ ہر معاملہ میں اپنے پیش نظر صرف آخرت رکھتے تھے۔ دنیا طلبی اور دنیا پرستی کا ان میں شائبہ تک نہ تھا۔ ص
47 ص
48 ف ٤ حضرت بسع ( علیہ السلام) کا ذکر سورۃ ٔ انعام ( آیت ٨٦) میں اور حضرت ذوالکفل ( علیہ السلام) کا ذکر سورۃ انبیاء ( آیت ٨٥) میں گزر چکا ہے۔ ص
49 ص
50 ف ٥” عدن“ کے معنی رہنے کے بھی ہیں اور یہ جنت میں ایک محل کا نام بھی ہے اس لئے جنات عدن کا مطلب ہمیشہ رہنے کے باغ بھی ہوسکتا ہے اور عدن کے باغ بھی۔ ( شوکانی) ص
51 ف ٦ یعنی ان کے پہنچتے ہی جنت کے دروازے ان کے لئے کھول دیئے جائیں گے۔ دیکھئے سورۃ ٔ زمر ( آیت ٧٣) ص
52 ف ٧ یعنی اپنے شوہروں کے علاوہ کسی دوسرے مرد کی طرف نگاہ نہ اٹھائیں گی۔ ف ٨ یعنی آپس میں ایک دوسرے کی ہم عمر یا اپنے شوہروں کی ہم عمر۔ ص
53 ص
54 ص
55 ص
56 ص
57 ص
58 ص
59 ف ٩ یہ فرشتوں کا کلام ہے جو وہ دوزخیوں کے سرداروں سے اس وقت کہیں گے جب وہ دوزخ میں داخل ہو رہے ہوں گے اور باہران کے تابعدار کھڑے ہوں گے۔ ف ١٠ یہ دوزخیوں کے سرداروں کا کلام ہے جو وہ اپنے تابعداروں کے متعلق کہیں گے۔ ص
60 ف ١١ یعنی تم ہی نے تو ہمیں دنیا میں بہکا یا ورنہ ہم اس آفت میں نہ پھنستے۔ ص
61 ف ١ ایک خود گمراہ ہونے کا اور دوسرا ہمیں گمراہ کرنے کا ص
62 ص
63 ف ٢ مراد ہیں وہ اہل ایمان جنہیں کافر و مشرک لوگ دنیا میں حقیر و ذلیل سمجھ کر ان کا مذاق اڑا کرتے تھے۔ ف ٣ یعنی کیا وہ واقعی سچے تھے اور ہم نے ان کا مذاق ناحق اڑایا اور آج وہ اپنی حق پرستی کی بدولت جنت میں داخل ہوگئے ہیں یا وہ یہیں کہیں دوزخ میں ہیں اور ہمیں نظر نہیں آرہے؟ ص
64 ص
65 ف ٤ اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ایک صفت قہاری بھی ہے اور غفاری بھی۔ وہ مومنوں کے لئے غفار، کافروں کے لئے قہار اور گناہ گاروں کیلئے ستار ہے۔ سبحان اللہ عزشانہ ص
66 ص
67 ف ٥ یعنی یہ خبر جو میں تمہیں آخرت کے عذاب کی دے رہا ہوں بڑی ہولناک خبر ہے یا یہ قرآن کا اترنا ایک عظیم الشان واقعہ ہے۔ واضح رہے کہ ” نبا“ کے معنی کسی اہم خبر یا واقعہ کے ہیں۔ ص
68 ( فتح) ف ٦” بلکہ غفلت میں پڑے ہوئے ہو“۔ ص
69 ف ٧ یعنی اگر وحی نہ ہوتی تو مجھے کچھ بھی پتہ نہ چلتا کہ ” ملاء اعلی“ کیا تدبیریں کرتے ہیں۔ یہاں اختصام سے مراد وہ اختصام ہے جو آدم (علیہ السلام) کی فضلیت اور ابلیس کے سجدہ نہ کرنے کے بارے میں فرشتوں کے درمیان ہوا۔ ( ابن کثیر) شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں اس مجلس میں جھگڑا نہیں مگر ہر کوئی اپنے کام کے تکرار کرتا ہے۔ ( موضح) ص
70 ف ٨ دوسرا ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ” مجھے تو محض اس لئے وحی کی جاتی ہے کہ میں کھلا ڈرانے والا پیغمبر ہوں اس کے سوا کچھ نہیں۔ آگے فرشتوں کا اختصام بیان فرمایا۔ شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں : ایک یہ بھی فرشتوں کے تکرار تھے جو بیان فرمایا۔ ( موضح) ص
71 ص
72 ف ٩ شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں : یعنی آب و خاک کی نہیں بنی غیب سے آئی۔ ( موضح) ص
73 ف ١٠ یہ سجدہ جس کا فرشتوں کو حکم دیا گیا اور جس کی انہوں نے تعمیل کی، سلام و تعظیم کا سجدہ تھا نہ کہ عبادت کا۔ ( دیکھئے سورۃ بقرہ آیت ٢٤) ص
74 ف ١١ یعنی اللہ تعالیٰ کے حکم کی مخالفت کی وجہ سے کافر ہوگیا۔ یا کافروں ہی میں سے تھا۔ شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں : ” یہ جن تھا وہ اکثر خدا کے حکم کے منکر تھے لیکن اب رہنے لگا تھا فرشتوں میں۔ ( موضح) ص
75 ف ١٢ یعنی بلا واسطہ خود بنایا۔ یہاں اللہ تعالیٰ کے ” دونوں ہاتھوں“ کی تاویل بعض لوگوں نے قدرت سے کی ہے مگر صفات الٰہی میں تاویل جائز نہیں اور سلف (رح) کے مسلک کے خلاف ہے۔ ف ١٣ یعنی کیا اس مرتبہ کو پہنچ گیا ہے کہ میرا حکم نہ مانے ص
76 ف ١٤ اور ’ ’ آگ مٹی سے بہتر ہے“ یہ ابلیس کا استدلال تھا حالانکہ بد بخت یہ نہ جانتا تھا کہ مٹی آگ سے بہتر ہے کیونکہ مٹی کیلئے آگ کی حیثیت محض خادم کی ہے، اگر ضرورت ہو تو کام لیا جاتا ہے ورنہ بجھا دی جاتی ہے اور یوں بھی آگ پر مٹی ڈال دی جائے تو وہ اسے بجھا دیتی ہے۔ ( شوکانی) ص
77 ف ١٥ یعنی جنت سے یا آسمان سے، یا ہماری درگاہ سے، یا فرشتوں کی جماعت سے نکل جا۔ ص
78 ف ١ اور پھر قیامت کے بعد اپنے ان کرتوتوں کی سزا بھی بھگتے گا جو آدم ( علیہ السلام) کی پیدائش سے قیامت تک تجھ سے سر زد ہوں گے۔ ص
79 ص
80 ص
81 ف ٢ یعنی جو تمام مخلوقات کے فنا ہوجانے کے لئے مقرر ہے۔ مراد پہلے صور کا وقت ہے۔ ص
82 ص
83 ف ٣ انہیں میں گمراہ نہ کرسکوں گا۔ ص
84 ص
85 ف ٤” یعنی تیری جنس شیاطین سے“ ص
86 ف ٥ یعنی میں تم تک اللہ تعالیٰ کے احکام پہنچانے کا جو فریضہ سر انجام دے رہا ہوں اس سے میری کوئی ذاتی غرض وابستہ نہیں ہے۔ ف ٦ کہ خواہ مخواہ اپنی بڑائی جتانے کے لئے پیغمبر کا جھوٹا دعویٰ کروں یا وہ کچھ بننے کی کوشش کروں جو فی الواقع میں نہیں ہوں۔” تکلیف“ کے معنی تصنع ( یعنی خواہ مخواہ بننا) کے ہیں۔ صحیح بخاری میں حضرت عمر (رض) سے روایت ہے کہ ” ہمیں تکلف سے منع کیا گیا“ طبرانی و بیہقی وغیرہ میں حضرت سلمان (رض) سے روایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں مہمان کے لئے تکلف سے منع فرمایا۔ ( شوکانی) ص
87 ص
88 ف ٧ یعنی تم میں جو زندہ بچیں گے انہیں چند سال میں اور جو مر جائیں گے انہیں مرنے کے فوراً بعد اور پھر قیامت کے دن معلوم ہوجائے گا کہ حقیقت وہی ہے جس کی طرف میں تمہیں بلا رہا ہوں۔ ص
0 ف ٨ یہ سورۃ مکہ معظمہ میں نازل ہوئی۔ البتہ بعض مفسرین نے اس کی ” قل یا عبادی الذین اسرفوا“ سے آگے تین آیتوں تک اور بعض نے سات آیتوں تک مدنی قرار دیا ہے جو حضرت حمزہ (رض) کے قاتل وحشی کے بارے میں نازل ہوئیں۔ حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ ہر رات سورۃ بنی اسرائیل اور سورۃ زمر کی تلاوت فرمایا کرتے تھے۔ ( شوکانی) الزمر
1 الزمر
2 ف ٩ یعنی اس میں جو کچھ بیان ہوا ہے وہ حق ( سچ) ہے اس میں باطل کا کوئی شائبہ نہیں ہے۔ ف ١٠ لفظی ترجمہ یہ ہے ” تو عبادت کرتا رہ اللہ کی، خالص کرتے ہوئے اس کے لئے دین ( یعنی اطاعت و بندگی) کو معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت اسی صورت میں قابل قبول ہے جب وہ خالص توحید کے ساتھ ہو اور اس سے مقصود صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی ہو۔ الزمر
3 ف ١١ یہاں بھی ” دین“ کا لفظ اطاعت و بندگی کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ معلوم ہوا کہ خالص دین وہی ہے جس میں شرک کا شائبہ تک نہ پایا جائے۔ پھر تعجب ہے ان مسلمانوں پر جو ان آیات کی موجودگی میں دوسروں کو پکارتے ہیں اور ان کی قبروں پر چڑھاوے چڑھاتے ہیں۔ ف ١٢ یعنی خالق و مالک تو ہم خدا ہی کو مانتے ہیں مگر دوسروں کی عبادت اس لئے کرتے ہیں کہ ان کے ذریعہ ہماری خدا تک رسائی ہوجائے اور وہ خدا سے ہماری سفارش کرسکیں۔ قدیم زمانہ سے مشرکین اسی عقیدہ پر چلے آئے ہیں اور یہی شبہ پیش کرتے رہے ہیں۔ ( ابن کثیر) ہمارے زمانہ میں بھی بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اپنے آپ کو موحد مسلمان کہتے ہیں مگر اولیاء اللہ کو پکارتے ہیں۔ ان کو قبروں پر چڑھاوے چڑھاتے ہیں اور ان کے نام کی نذر نیاز مانتے ہیں یا دعا میں ان کا بطور وسیلہ ذکر کرتے ہیں ان سب باتوں سے غرض ان کی یہ ہوتی ہے کہ ان بزرگوں کے ذریعہ انہیں خدا تک رسائی حاصل ہو اور وہ خدا سے ان کی سفارش کرسکیں۔ ف ١ یعنی انہیں بتا دے گا کہ کونسا گروہ حق پر تھا۔ آیا وہ خالص اللہ کی عبادت کرتے ہیں یا وہ جو اس کی عبادت میں دوسروں کو شریک بناتے ہیں۔ ف ٢ جھوٹا نا شکرا وہی ہے جو اللہ کے سوا دوسروں کی عبادت کرتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جس کے دل میں کفر و شرک ہو اور اس کا مقصد ہی اللہ تعالیٰ پر بہتان رکھناہو وہ کبھی ہدایت یاب نہیں ہو سکتا۔ ( ابن کثیر) الزمر
4 ف ٣ یعنی اللہ کا کسی کو بیٹا بنانا تو قطعی محال ہے۔ اگر کوئی بات ہے تو بس اتنی کہ وہ بندوں میں سے جسے چاہتا ہے برگزیدہ کرلیتا ہے اور ظاہر ہے جو اللہ کا بندہ اور اس کا برگزیدہ ہو وہ بیٹا نہیں ہوسکتا کیونکہ خالق اور مخلوق کی جنس ایک نہیں ہو سکتی حالانکہ باپ بیٹے کا ایک جنس سے ہونا ضروری ہے۔ (شوکانی) الزمر
5 ف ٤ یعنی انہیں کھیل تماشہ کے طور پر بے مقصد نہیں بنایا۔ ف ٥ یعنی رات کو دن سے اور دن کو رات سے ڈھانپتا ہے اور اس طرح ان کا ایک دوسرے کے پیچھے آنے کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ ف ٦ یعنی زبردست ایسا ہے کہ اگر تمہیں پکڑنا چاہیے تو کوئی چیز اسے روک نہیں سکتی لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ درگزر کرنے والا بھی ہے۔ اس لئے تمہیں مہلت دیئے جا رہا ہے لہٰذا اس کی دی ہوئی مہلت سے کسی غلط فہمی میں مبتلا نہ ہو۔ الزمر
6 ف ٧ یعنی حضرت حوا ( علیہ السلام) اس آیت میں لفظ ” ثم“ پھر ترتیب بیانی کیلئے نہ کہ ترتیب زمانی کیلئے بعنی مطلب یہ ہے کہ اس نے تمہیں ایک ایسے شخص سے بنایا جس کو اس نے ایک پیدا کیا وہ پھر اس سے اس کا جوڑ انکالا ( دیکھئے سورۂ نساء آیت) ف ٨ جن کا ذکر سورۃ ٔ انعام میں گزر چکا ہے یعنی اونٹ، گائے، بکری اور بھیڑ ان کے چار نر اور چار مادہ مل کر آٹھ طرح کے جانور ہوجاتے ہیں اور نر اور مادہ میں ہر ایک دوسرے کا زوج ہے۔ (ابن کثیر) ف ٩ پہلے نطفہ، پھر خون کا لوتھڑا پھر گوشت کا ٹکڑا پھر ہڈی اور وہ شکل جس میں بچہ پیدا ہوتا ہے۔ ف ١٠ ایک پیٹ کا اندھیرا دوسرا رحم کا اندھیرا اور تیسرا مشیمہ یعنی اس جھلی کا اندھیر جس میں بچہ لپٹا رہتا ہے۔ ف ١١ یعنی اسے چھوڑ کر یا اس کے ساتھ دوسروں کو اپنا معبود بنا رہے ہو جبکہ نہ تمہیں پیدا کرنے میں ان کا کوئی دخل ہے اور نہ زمین و آسمان کی بادشاہی میں ان کا کوئی حصہ ہے۔ الزمر
7 ف ١٢ یعنی وہ تمہارا محتاج نہیں ہے کہ تم اس کی عبادت کرو تو اس کی خدائی قائم رہے اور اگر کفر کرو تو اس کی خدائی ختم ہوجائے۔ حدیث قدسی میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اے میرے بندو ! اگر تم سب کے سب اگلے اور پچھلے انسان اور جن اپنے میں سے فاسق ترین آدمی کے دل کے مانند ہوجائو تو اس سے میری بادشاہی میں کوئی کمی نہ ہوجائے گی۔ ( ابن کثیر) ف ١٣ یعنی وہ اپنے بندوں کی نا شکری کو پسند نہیں کرتا اور نہ اس کا حکم دیتا ہے بلکہ اس کی پسند یہی ہے کہ وہ شکر گزار ہوں اور اسی کی بندگی کرتے ہوئے اپنی زندگی بسر کریں۔ اس نے اپنے پیغمبروں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذریعہ کتابیں نازل فرما کر اپنی پسند و ناپسند کو بیان کردیا ہے۔ اس کے بعد جو شخص نا شکری کرے گا اسے اس کی نا شکری کی سزا ملے گی۔ ف ١٤ یعنی ہر شخص اپنے اعمال کا خود ذمہ دار ہوگا۔ ف ١٥ یعنی وہ تو تمہارے دلوں کے خیالات تک سے واقف ہے پھر تمہارے اعمال اس سے کیوں کر پوشیدہ رہ سکتے ہیں؟ الزمر
8 ف ١ یعنی خدا کو بھول جاتا ہے۔ دوسرا ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ” وہ اس مصیبت کو بھول جاتا ہے جس کے دفع کرنے کے لئے وہ اس نعمت کے ملنے سے پہلے خدا کو پکارتا تھا“۔ ف ٢ یعنی اللہ کی راہ ( اسلام و توحید) سے وہ نہ صرف خود گمراہ ہوتا ہے بلکہ دوسروں کو بھی گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اس مقصد کیلئے وہ بہت سے جھوٹے معبودوں اور پیروں فقیروں کو خدا کے برابر قرار دے کر ان سے جھوٹی کرامتیں منسوب کرتا ہے اور لوگوں میں ان کا چرچا کرتا پھرتا ہے۔ الزمر
9 ف ٣” اس کی روش بہتر ہے یا اس شخص کی جس کا ذکر بھی ہوا“۔ یہ عبارت محذوف ہے۔ حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک شخص کی عیادت کیلئے تشریف لے گئے اور حال دریافت فرمایا۔ وہ بولا ” مجھے اللہ کی رحمت کی امید ہے اور اپنے گناہوں کا ڈر ہے“۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ایسے وقت میں جس بندے میں یہ دونوں باتیں ہوں گی اس کو اللہ تعالیٰ وہی دیگا جس کی اسے امید ہے۔ ( شوکانی) ف ٤ یعنی کیا وہ لوگ جو اللہ و رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بتائی ہوئی باتوں کو سچ جانتے ہیں ان لوگوں کے برابر ہو سکتے ہیں جو ان باتوں کو سچ نہیں جانتے؟ ظاہر ہے کہ دونوں یکساں نہیں ہو سکتے۔ نہ دنیا میں ان کی روش یکساں ہو سکتی ہے اور نہ آخرت میں ان کا انجام ایک سا ہوگا۔ ف ٥ ان سے مراد اہل ایمان ہیں کیونکہ عقل وہی معتبر ہے جو اللہ و رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تابع ہو۔ الزمر
10 ف ٦ یعنی صرف زبان سے توحید کا اقرار کانی نہیں ہے بلکہ تقویٰ کی راہ اختیار کرو۔ یعنی اس کے اوامرکو بجا لائو اور اس کے نواہی سے باز ہو۔ ف ٧ یہ ہجرت کی طرف اشارہ ہے یعنی اگر کسی جگہ رہتے ہوئے آزادی سے اللہ تعالیٰ کی عبادت نہ کی جاسکتی ہو تو انہیں چاہیے کہ کسی دوسری جگہ چلے جائیں جہاں ان کے لئے یہ دشواریاں نہ ہوں۔ ف ٨ یعنی خدا پرستی اور نیکی کی راہ میں جو بھی مصیبتیں اور تکلیفیں پیش آتی ہیں انہیں ہمت و جوانمردی سے برداشت کرتے ہیں مگر راہ حق سے نہیں ہٹتے۔ الزمر
11 الزمر
12 ف ٩ یعنی اس طرح کہ میری بندگی میں شرک اور ریا کا کوئی شائبہ نہ ہو۔ ف ١٠ یعنی اللہ تعالیٰ کی جس توحید کی طرف لوگوں کو دعوت دوں، سب سے پہلے خود اس پر کار بند ہوں، چنانچہ نبیﷺ پہلے شخص تھے جنہوں نے اپنے باپ دادا کے دین سے انکار کیا اور لوگوں کو توحید کی دعوت دی۔ الزمر
13 ف ١١ یعنی اگر ان معبودوں کی بندگی کرنے لگے جس کی تم لوگ مجھے دعوت دے رہے ہو۔ الزمر
14 الزمر
15 ف ١٢ یعنی اگر میرے سمجھانے کے باوجود تم ان جھوٹے معبودوں کی بندگی کرتے رہنے پر مصرہوتو کرتے رہو لیکن بھگتنے کے لئے بھی تیار رہو۔ تمہارے انجام کی کوئی ذمہ داری مجھ پر نہیں ہے۔ ف ١٣ یعنی دوزخ میں گریں گے۔ ف ١٤ جس سے بڑھ کر کوئی خسارہ نہیں اس لئے کہ وہ ایسا خسارہ ہے جس کی تلافی کسی طرح ممکن نہ ہوگی۔ الزمر
16 ف ١٥ یعنی اوڑھنا اور بچھونا دونوں آگ کے ہوں گے۔” ظلل“ چھتر سے مراد آگ کے طبقے ہیں۔ ف ١ یعنی میرے غضب سے ڈر و اور ان گناہوں سے بچوجن کے نتیجے میں تمہیں اس ہولناک عذاب سے دو چار ہونا پڑے۔ الزمر
17 ف ٢ اصل میں لفظ ” طاغوت“ ( بروزن فعلوت لا فاعول اصلہ طغیوت او طغووت) طغیان سے مشتق ہے لہٰذا اس سے مراد شیطان بھی ہے اور بت بھی، کاہن اور پروہت بھی اور ہر وہ انسان بھی جو بندگی کی حد سے نکل کر اپنے آپ کو خدائی کے مقام پر رکھتا ہو۔ اس کی عبادت سے مراد محض اسے سجدہ کرنا نہیں بلکہ اسے مستقبل بالذات آمر و مطاع سمجھتے ہوئے اس کے احکام کی بجا آوری بھی ہے۔ علامہ جوہری لکھتے ہیں۔ ( الطاغوت الکاھن والشیطان وکل راس فی الضلال) کہ اس سے مراد شیطان، کاہن اور ہر وہ چیز ہے جو گمراہی کا منبع بنے۔ امام راغب لکھتے ہیں ( ھو عبارۃ عن کل معبود من دون اللہ) کہ یہ ہر اس چیز سے عبارت ہے جس کی اللہ تعالیٰ کے سوا عبادت کی جائے۔ (روح) الزمر
18 ف ٣” اور بری بات پر توجہ نہیں کرتے“ یا مطلب یہ ہے کہ وہ قرآن و سنت کو دل لگا کر سنتے ہیں اور پھر عمل کے لئے اس حکم کو اختیار کرتے ہیں جو افضل ہوتا ہے یعنی رخصت کی بجائے عزیمت کی راہ پر کار بند ہوتے ہیں واللہ اعلم۔ ف ٤ جنہوں نے اپنی عقلوں کا صحیح استعمال کیا کیونکہ وہی لوگ ایسے ہوتے ہیں جو فکر کرتے اور اصل حقیقت کو سمجھ لیتے ہیں۔ الزمر
19 ف ٥ یعنی جس نے مسلسل ہٹ دھرمی اور بد عملی سے اپنے آپ کو عذاب کا مستحق بنا لیا ہو۔ عذاب کے کلمہ سے مراد اللہ تعالیٰ کا وہ قول ہے جو اس نے تخلیق آدم ( علیہ السلام) کے وقت شیطان سے خطاب کر کے فرمایا تھا۔ یعنی (لا ملان جھنم منک وممن تبعک منھم اجمعین) دیکھئے سورۃ ص آیت ٨٥ ف ٦” یعنی کیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسے ایمان کی راہ پر لا سکتے ہیں ؟“ ظاہر ہے کہ اس سوال کا جواب نفی میں ہے اور اس سے مقصود آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینا ہے جو اپنی قوم قریش کے ایمان لانے کے سخت خواہش مند رہتے تھے۔ الزمر
20 الزمر
21 ف ٧ کیونکہ یہی حال انسان کا ہے۔ پہلے بچہ ہوتا ہے، پھر جوان ہوتا ہے پھر پختہ ہو کر بوڑھا ہوجاتا ہے اور آخر کار دنیا سے سدھار جاتا ہے اور یہی حال دنیا کا ہے۔ اس کی سب زمینیں عارضی اور چند روزہ ہیں اور آخر کار اس کی ہر چیز کو فنا ہونا ہے۔ اس کے ہر کمال کو انحطاط اور ہر عروج کو زوال ہے۔ الزمر
22 ف ٨ وہ اس شخص کی طرح ہوسکتا ہے جس کا دل اللہ کی یاد سے غافل ہو کر سخت ہوگیا ؟“۔ ( افمن کان) کا یہ جواب محذوف ہے اور اگلے جملہ یعنی ( فویل للقاسیۃ قلوبھم من ذکر اللہ) سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں ان لوگوں کا ان سے مقابلہ کیا جا رہا ہے جن کے دل اللہ کی یاد سے غافل ہونے کی وجہ سے سخت ہوگئے ہوں۔ ایک حدیث میں ہے کہ جب نور ایمان سینہ میں داخل ہوجاتا ہے تو وہ کھل کر کشادہ ہوجاتا ہے اور فرمایا اس کی علامت ہے ” آخرت کی طرف دھیان اور دنیا سے بیزاری“ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ اس سے ( یعنی جس کا سینہ کھول دیا گیا) خاص کر حضرت ابو بکر (رض) صدیق مراد ہیں۔ ( شوکانی) ف ٩ دلوں کے سخت ہوجانے کا مطلب یہ ہے کہ ان پر کوئی نصیحت اثر نہیں کرتی اور نہ وہ حق کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ الزمر
23 ف ١٠ یہاں قرآن کو ” حدیث“ کہنا یا تو تازہ بتا زہ نزول کے اعتبار سے ہے اور یا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بیان کرنے کے اعتبار سے ورنہ قرآن اللہ کا کلام اور قدیم ہے۔ ف ١١ یعنی مضامین کے اعتبار سے اس کی آیات ایک دوسری سے ملتی جلتی ہیں اور ان میں اختلاف نہیں ہے۔ ف ١٢ یعنی ان میں واقعات، مواعظ اور احکام کو بار باردہرا کر پیش کیا گیا ہے۔ ف ١ یعنی آخرت کے عذاب کی آیات پڑھ کر یا سن کر ان کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ف ٢ یعنی جن آیات میں اللہ کی رحمت کا ذکر ہے ان کو پڑھ کر یا سن کر وہ پوری رغبت سے اللہ تعالیٰ کی عبادت بجا لاتے ہیں۔ الزمر
24 ف ٣” وہ اس شخص کے برابر ہوسکتا ہے جو بے فکری سے عیش کر رہا ہوگا “۔ افمن۔۔۔۔۔۔ کا یہ جواب محذوف ہے۔ قیامت کے روز چونکہ دوزخیوں کے ہاتھ گردنوں سے بندھے ہوں گے اس لئے وہ عذاب کو روکنے کیلئے چار و نا چار چہروں ہی کو سیر بنائیں گے۔ الزمر
25 الزمر
26 ف ٤ یعنی اللہ کے عذاب سے بچائو کی کوئی تدبیر کام نہ آسکی۔ ف ٥ خزی سے مراد اللہ کے عذاب ہیں جو مختلف صورتوں میں قوموں پر نازل ہوئے۔ ف ٦ یا ” کاش ان کو معلوم ہوتا“ الزمر
27 ف ٧ یعنی ہر قسم کے اولہ و امثلہ سے سمجھایا گیا ہے۔ اس کے بعد کی آیت میں جو مثال بیان ہو رہی ہے یہ اس کے لئے تمہید ہے۔ الزمر
28 ف ٨ جو مکہ اور تمام جزیزہ عرب کی اپنی زبان ہے وہ لوگ ہیں جو قرآن کے اولین محاطب ہیں۔ ف ٩ کہ عرب کا عامی بھی اس کو سمجھ سکتا ہے۔ الزمر
29 ف ١٠ یعنی وہ بیک وقت کئی جھگڑالو آقائوں کا غلام ہے جن میں سے ہر آقا اسے اپنی طرف کھینچتا ہے۔ ف ١١ اسے صرف اسی کو راضی رکھنا ہے اور اسی کے حکموں پر چلنا ہے۔ دوسروں سے کوئی غرض نہیں۔ ف ١٢ یعنی ایسی واضح مثال ان کی سمجھ میں نہیں آتی، اس سے بڑی نادانی اور کیا ہوگی؟ الزمر
30 ف ١٣ یعنی اگر یہ نہیں مانتے تو نہ مانیں۔ ہمیشہ نہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رہنا ہے اور نہ ان کو، دونوں کو ایک نہ ایک دن مرنا ہے۔ یہ آیت منجملہ ان آیات کے جن سے حضرت ابو بکر صدیق (رض) نے نبیﷺ کی وفات کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رحلت فرما ہوجانے پر استدلال کیا جبکہ بہت سے صحابہ (رض) جن میں سر فہرست حضرت عمر (رض) تھے۔ اسے تسلیم کرنے کو تیار نہ تھے۔ ( ابن کثیر) الزمر
31 ف ١٤ یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کافروں سے جھگڑیں گے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان تک ہمارا پیغام پہنچا دیا تھا اور یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جھگڑا کریں گے۔ اسی طرح مومن کافر سے۔ پھر اللہ تعالیٰ سب کے درمیان حق و انصاف سے فیصلہ فرمائے۔ شاہ صاحب (رح) لکھتے :” کافر منکر ہونگے کہ ہم کو کسی نے حکم نہیں پہنچایا، پھر فرشتوں کی گواہی سے اور آسمان وزمین کی اور ہاتھ پائوں کی گواہی سے ثابت ہوگا “۔ (موضح) الزمر
32 ف ١ یعنی کسی کو اس کا شریک یا بیٹا یا بیوی قرار دیا۔ (تعالیٰ عن ذلک عملوا کبیرا) یہ خطاب مشرکین سے ہے۔ ف ٢ الصدق ( سچی بات) سے مراد وہ سچائی ہے جو اللہ تعالیٰ کے سچے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خصوصاً آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لے کر آئے اور لوگوں کو اس پر عمل کرنے کی دعوت دی۔ ( ابن کثیر) ف ٣ اس آیت کے تحت شاہ صاحب (رح) اپنی توضیح میں لکھتے ہیں :” یعنی اگر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جھوٹ خدا کا نام لیا تو اسے سے برا کون اور اگر وہ سچا تھا اور تم نے جھٹلایا تو تم سے برا کون؟ ) (موضح) الزمر
33 ف ٤ مراد نبی ﷺ ہیں اور ہر وہ شخص جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت لے کر کھڑا ہوا۔ ف ٥ مراد تمام مومن ہیں۔ ف ٦ یعنی یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے ہاں عذاب سے محفوظ رہیں گے۔ الزمر
34 الزمر
35 ف ٧ یعنی اسے معاف فرما دے گا، جب برے سے برا عمل معاف ہوگیا تو ظاہر ہے کہ اس سے کم تر درجہ کے عمل تو بدرجہ ولی معاف ہوجائیں گے۔ ف ٨ یعنی انہیں بدلہ ان کے اعمال کے لحاظ سے دیا جائے گا جو ان کے نامہ اعمال میں بہترین ہوں گے کا مطلب یہ ہے کہ ان کے کم تر درجہ کے اعمال بھی بہترین بھنا دیئے جائیں گے۔ الزمر
36 ف ٩ یعنی اگر اسے اللہ تعالیٰ کی حمایت حاصل ہے۔ ( اور ظاہر ہے کہ حاصل ہے) تو کوئی اس کا کیا بگاڑ سکتا ہے۔ ف ١٠ کفار مکہ نبی ﷺ سے کہا کرتے کہ ہمارے معبودوں کی شان میں گستاخی نہ کیا کرو اور ان کے خلاف زبان نہ کھولا کرو اور نہ یہ ناراض ہو کر تم پر کوئی آفت نازل کردیں گے۔ اس کے جواب میں فرمایا :” الیس اللہ بکاف عندہ“۔ الزمر
37 ف ١١ یعنی یہ کفار جو گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے معبودوں کا خوف دلاتے ہیں۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ان کے یہ جھوٹے معبود کسی کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ اصل طاقت اللہ تعالیٰ کی ہے وہ اپنے دشمنوں سے جب چاہے اور جس طرح چاہے انتقام لے سکتا ہے۔ (قرطبی) اس زمانہ کے مشرک اور قبروں کے گدی نشین مج اور بھی جو بزرگوں ولیوں کو پکارتے ہیں۔ لوگوں کو ڈراتے ہیں کہ اگر بزرگوں کا انکار کرو گے تو وہ تمہیں تباہ و برباد کردیں گے اور ایسی باتوں سے احمق نادان ڈر جاتے ہیں اور ان کی پوجا کرنے لگتے ہیں۔ سو یہ سب بزرگوں پر افتراء ہے اور یہ لوگ گمراہ ہیں۔ (حلیفہ) الزمر
38 ف ١٢ مقاتل کہتے ہیں کہ یہ جملہ یعنی ” حسبی اللہ“ اس وقت نازل ہوا جب نبی ﷺ نے کفارمکہ سے مذکورہ دونوں سوال کئے اور وہ جواب میں خاموش رہے۔ ( شوکانی) ف ١٣ حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا جو شخص یہ چاہے کہ سب لوگوں سے زیادہ طاقتور ہوجائے اسے چاہیے کہ اللہ پر بھروسہ کرے اور جو شخص یہ چاہے کہ سب لوگوں سے زیادہ غنی ہوجائے اسے چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم پر زیادہ تکیہ کرلے اس مال و دولت جو اس کے پاس موجود ہے اور جو شخص یہ چاہے کہ وہ سب لوگوں سے زیادہ عزت والا ہو، اسے چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار نہ کرے۔ (ابن کثیر)۔ الزمر
39 الزمر
40 ف ١ یعنی قتل و قید اور غلامی و محکمومی کی ذلت سے کون دو چار ہوتے ہیں۔ ف ٢ شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں : ” یہ ( یعنی رسوائی) دنیا میں اور وہ ( یعنی دائمی عذاب) آخرت میں۔ ( موضح) الزمر
41 ف ٣ دوسرا ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ” حقیقت میں ہم ہی نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یہ کتاب اتاری ہے“ ف ٤ یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کام ان پر سیدھی راہ واضح کرنا ہے۔ اس کے بعد اگر یہ اسے اختیار نہ کریں اور گمراہی میں بھٹکتے پھریں، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کوئی مواخذہ نہ ہوگا۔ الزمر
42 ف ٥” جان دو طرح کی ہے ایک ” نفس الحیاۃ“ یعنی وہ جان جس سے زندگی قائم ہے اور دوسری ” نفس التمیز“ یعنی وہ جان جس سے فہم و ادراک اور احساس و شعور قائم رہتا ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ مرنے والے کی ” نفس الحیاۃ“ اور سونے والے کی نفس التمیز اپنی طرف اٹھا لیتا ہے“۔ یہ تفسیر حضرت ابن عباس (رض) کی طرف منسوب ہے جسے زجاج نے اختیار کیا ہے۔ شاہ صاحب (رح) نے بھی اپنی توضیح میں اسی کو اختیار کیا ہے لکھتے ہیں : کہ نیند میں جو جان کھینچتی ہے۔ یہ جان وہ ہے جسے ہوش ( نفس التمیز) کہتے ہیں اور ایک جان جس سے دم چلتا ہے اور نبضیں اچھلتی ہیں اور کھانا ہضم ہوتا ہے وہ دوسری ہے وہ موت سے پہلے نہیں کھینچتی۔ الغرض اس تفسیر کی بنیاد اس بات پر ہے کہ نفس اور روح دو چیزیں ہیں۔ مگر اس آیت اور صحیح احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں ایک ہی چیز ہیں کیونکہ قبض کا لفظ روح اور نفس دونوں کے لئے آیا ہے۔ اب رہی یہ بات کہ نیند کی حالت میں بھی تو فی ہوتی ہے اور موت کے وقت بھی حالانکہ موت کے وقت آدمی میں جان نہیں رہتی اور نیند کی حالت میں جان باقی رہتی ہے تو پھر ان دونوں میں فرق کیا ہے؟ اس کے جواب حضرت علی (رض) فرماتے ہیں :” نیند کی حالت میں روح کا تعلق جسم سے قائم رہتا ہے جیسے سورج کی شعاع کہ وہ زمین پر بھی پڑتی ہے اور سورج کے ساتھ بھی قائم ہے مگر موت کے وقت وہ تعلق قائم نہیں رہتا جیسا کہ قیامت کے دن سورج کے دم و بے نور کردیا جائے گا“۔ (از احسن) ف ٦ شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں :” نیند میں ہر روز جان کھینچتا ہے پھر بھیجتا ہے۔ یہی نشان ہے آخرت کا ( موضح) مطلب یہ ہے کہ جو خدا سونے والے کی جان قبضے کر کے دوبارہ اس کے بدن میں لوٹا دیتا ہے اس کے لئے کیا مشکل ہے کہ ایک دن مرنے والے کی جان بھی اس کے بدن میں لوٹا دے۔ ( ابن کثیر) الزمر
43 ف ٧ یعنی بجائے اس کے کہ یہ لوگ موت اور نیند کی کیفیت سے کوئی سبق حاصل کریں اور ہر معاملہ کا مختار صرف اللہ تعالیٰ کو سمجھیں، انہوں نے کچھ دوسرے معبود بنا لئے ہیں جنہیں یہ اللہ کے حضور اپنا سفارشی سمجھتے ہیں۔ ف ٨ یعنی کیا پھر بھی تم انہیں اپنا سفارشی سمجھ کر ان کو پوجا کرتے رہو گے ؟ ان کے نام کی نذر نیاز مانتے رہو گے اور اپنی دعائوں میں بطور وسیلہ ان کا ذکر کرتے رہو گے۔ ظاہر ہے کہ تمہارے یہ بت بے جان چیزیں ہیں ان کا نہ کوئی اختیار ہے اور نہ ان میں عقل ہے، پھر کیوں انہیں اپنا سفارشی سمجھتے ہو؟ الزمر
44 ف ٩ یعنی کسی کو کسی کے لئے اس کے اذن کے بغیر سفارش کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ ( دیکھئے بقرہ : ٢٥٥، انبیاء : ٢٨) ف ١٠ نہ کہ کسی اور کی طرف۔ الزمر
45 ف ١١ افسوس ہے کہ آج بھی یہی کیفیت بہت سے ان مسلمانوں کی ہے جواولیاء پرستی کے مرضی میں مبتلا ہیں، ان کے سامنے اللہ کی خالص توحید کا ذکر ہو تو ان کے دل بھینچ جاتے ہیں اور کہتے ہیں، یہ شخص ضرور اولیاء اللہ کا منکر ہے لیکن اگر اولیاء اللہ کے فضائل و کرامات کے من گھڑت قصے سنائے جائیں تو گویا ان کے دل کی کلی کھل جاتی ہے اور خوشی سے ان کے چہرے دمکنے لگتے ہیں۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ انہیں اصل محبت اور دلچسپی اللہ تعالیٰ سے نہیں بلکہ اپنے ان اولیاء سے ہے۔ الزمر
46 ف ١٢ یہ دعا ہے جو گویا اللہ تعالیٰ نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایسے موقع پر پڑھنے کے لئے سکھائی ہے جب لوگ حق بات سنیں اور ناحق جھگڑے کئے جائیں۔ بہت سی احادیث میں اس مضمون کی ادعیہ مذکور ہیں۔ ( شوکانی) الزمر
47 ف ١ یعنی دے کر اپنی خلاصی کرانے کیلئے تیار ہوجائیں۔ ف ٢ یعنی ایسے ایسے عذاب نمودار ہوں گے۔ الزمر
48 الزمر
49 ف ٣ یا ” اس نعمت کے ملنے کا مجھے پہلے سے علم تھا“۔ یا ” اللہ کا علم تھا کہ میں اس نعمت کا مستحق ہوں“۔ ف ٤ کہ آیا وہ اسے پا کر شکر بجا لاتا ہے یا نا شکری پر اتر آتا ہے۔ ف ٥” کہ انہیں جو دولت اور نعمت ملی ہے اس سے اللہ تعالیٰ ان کا امتحان لینا چاہتا ہے“ الزمر
50 ف ٦ جیسے سورۃ قصص ( آیت ٧٨) میں انہی الفاظ کے ساتھ قارون کا قول گزر چکا ہے۔ ف ٧ مثال کے طور پر قارون ہی کا انجام دیکھ لیا جائے۔ الزمر
51 ف ٨ یعنی خدا سے بھاگ کر کہیں نہیں جاسکتے بلکہ اسی کی طرف واپسی ہوگی اور اسے پورا اختیار ہوگا کہ انہیں جو سزا دینا چاہے، دے۔ الزمر
52 ف ٩ یعنی روزی کی تنگی اور کشائش اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہے جس کی حکمت ہماری سمجھ سے بالا تر ہے۔ اس کی کمی بیشی کا مدار ہرگز آدمی کے علم و عقل اور ہنر مندی پر نہیں ہے۔ کتنے عقل مند لوگ رات دن فکر معاش میں سر گردان رہتے ہیں مگر اتنا بھی نہیں پاتے جس سے اپنا اور اپنے بال بچوں کا پیٹ پال سکیں اور کتنے جاہل نادان ہیں جو بے فکر وسعی لاکھوں روپے کے مالک ہیں اور نہ اسکی کمی بیشی کا مطلب ہے کہ جس کو زیادہ روزی دی جا رہی ہے وہ حق تعالیٰ کا پسندیدہ اور جسے کم روزی دی جا رہی ہے وہ اس کی غیر پسندیدہ بندہ ہے۔ بعض اوقات کسی آدمی کو زیادہ روزی اس لئے دی جاتی ہے کہ اس کا امتحان لیا جائے کہ آیا وہ شکر کرتا ہے یا نا شکری پر اتر آتا ہے اور کسی کو فقرہ فاقہ میں اس لئے مبتلا کیا جاتا ہے کہ اس کا امتحان لیا جائے کہ آیا وہ صبر کرتا ہے یا اللہ تعالیٰ کو کو سنے پر اتر آتا ہے؟ الزمر
53 ف ١٠ یعنی اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میرے بندوں سے خطاب کر کے کہہ دیجئے۔ واضح رہے کہ تمام لوگ مسلمان ہوں یا کافر، انبیاء ( علیہ السلام) و الیاء ہوں یا فرشتے سب اللہ کے بندے ہیں حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرتﷺ کو بھی متعدد آیات میں بندہ کہہ کر خطاب فرمایا ہے۔ ف ١١ یعنی کفر و شرک اور گناہوں کا ارتکاب کر کے اپنے آپ کو دوزخ کا مستحق بنا لیا۔ یہاں اسراف میں اور گناہوں کے علاوہ کفر و شرک بھی داخل ہے۔ ف ١٢ یہ رحمت مقید بہ توبہ ہے کیونکہ شرک بغیر توبہ کے معاف نہیں ہوتا۔ یعنی یہ نہ سمجھو کہ ہم اتنے گناہ کرچکے ہیں اب ہماری بخشش کیونکر ہوگی بلکہ اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ کرو اس کی رحمت بڑی وسیع ہے اور ہر انسان کے سامنے توبہ کا دارومدار کھلا ہے۔ ف ١٣ یعنی توبہ کرو گے تو وہ ہر قسم کے گناہ چاہے وہ کتنے ہی زیادہ اور کتنے ہی بڑے کیوں نہ ہوں معاف فرما دے گا حتیٰ کہ توبہ سے تو شرک جیسا گناہ بھی معاف ہوجاتا ہے۔ اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ توبہ کے بغیر سب ہی گناہ معاف ہوجاتے ہیں اس لئے کہ شرک بغیر توبہ کے معاف نہیں ہوتا جیسا کہ آیت ( ان اللہ لا یغفر) الخ ( نساء : ٤٨) میں بیان ہوچکا ہے۔ بہر کیف اس آیت میں گناہ گاروں کو توبہ کی دعوت دی ہے اور اس پر غفران ذنوب ( بشمول شرک) کی خبر دی ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے بعض لوگوں نے شرک کی حالت میں بڑے پیمانے پر قتل اور زنا کا ارتکاب کیا تھا وہ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو دعوت پیش فرما رہے ہیں وہ ہے تو ٹھیک، لیکن یہ بتایئے کہ ہماری بد اعمالیاں بھی معاف ہو سکتی ہیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اور سورۃ فرقان کی آیت ( والذین لا یدعون۔۔۔۔۔) الخ نازل فرمائی۔ (ابن کثیر) الزمر
54 الزمر
55 الزمر
56 الزمر
57 ف ١ یعنی جب کوئی اور عذر نہ ملے تو اللہ تعالیٰ پر الزام دھرنے لگے کہ اسی نے مجھے ہدایت نہ دی، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کو اپنی طرف سے حجت تمام کردی ہے الزمر
58 الزمر
59 الزمر
60 ۔ ف ٢ یقینا ان کا ٹھکانہ دوزخ ہے۔ الزمر
61 ف ٣ یعنی دوزخ سے بچائے گا اور جنت دے کر کامیاب فرمائے گا۔ الزمر
62 ف ٤ یعنی جس طرح ہر چیز کا پیدا کرنے والا صرف اللہ ہے اسی طرح ہر چیز کی تدیبر و حفاظت کرنے والا بھی صرف اللہ ہی ہے نہ اس کے پیدا کرنے میں اس کا کوئی شریک ہے اور نہ اس کی حفاظت و تدبیر کرنے میں۔ الزمر
63 الزمر
64 ف ٥ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ مشرکوں نے اپنی جہالت کی بناء پر رسول اللہﷺ کو اپنے دیوتائوں کی پرستش کی دعوت دی۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ ( ابن کثیر)۔ الزمر
65 ف ١ اس سے مقصود مسلمانوں کو متنبہ کرنا ہے کہ شرک اتنا بڑا گناہ ہے کہ اگر بغرض محال نبی ﷺ بھی جو اللہ تعالیٰ کے محبوب ترین بندے ہیں اس کا ارتکاب کر بیٹھیں تو ان کا سب کیا کرایا اکارت ہوجائے۔ مرتد ہونے سے تمام نیک اعمال باطل اور ضائع ہوجاتے ہیں بشرطیکہ اس کی موت بھی کفر پر ہو۔ اگر تائب ہوجائے تو وہ عمل دوبارہ بحال کردیئے جاتے ہیں۔ ( دیکھئے سورۃ بقرہ آیت ٢١٧) الزمر
66 ف ٢ کہ اس نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو توحید کی توفیق دی اور شرک سے بچایا۔ الزمر
67 ف ٣ بعض لوگوں نے اس کو استعارہ قرار دیتے ہوئے آیت کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ قیامت کے روز زمین و آسمان سب اللہ تعالیٰ کی قدرت میں ہوں گے۔ لیکن صحیح احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ واقعی زمین اور آسمانوں کو اپنے ہاتھ میں لے گا، اس لئے اس آیت کو استعارہ پر محمول کرنا صحیح نہیں۔ صحیحین میں حضرت ابو ہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ زمین کو مٹھی میں لے گا اور آسمانوں کو دائیں ہاتھ میں لپیٹے گا اور پھر فرمائے گا ” میں ہوں بادشاہ، کہاں ہیں دنیا کے بادشاہ؟“ ایسے ہی الفاظ حضرت ابن عمر (رض) کی روایت میں بھی ہیں۔ مسند احمد میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منبر پر خطبہ میں یہ آیت پڑھی اور فرمایا :” اللہ تعالیٰ فرمائے گا میں ہوں جبار، میں ہوں کبریائی کا مالک، میں ہوں عزت کا مالک“۔ یہ کہتے ہوئے آنحضرتﷺ اپنی انگلیوں کو ہلاتے ہوئے انہیں آگے اور پیچھے لے جاتے رہے اور پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایسا لرزہ طاری ہوا کہ منبر لرزنے لگا اور ہمیں خطرہ پیدا ہوا کہ کہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گر نہ پڑیں“۔ ( ابن کثیر) یاد رہے کہ آیات صفات کو سلف (رح) نے ان کے ظاہری معنی پر محمول کیا ہے اور تاویل نہیں کی اور کہا ہے کہ صفات اللہ تعالیٰ کے لئے ثابت ہیں جیسا کہ اس کی شان کے لائق ہے۔ (کتاب التوحید)۔ ف ٤” اس کی ذات ان کے شرک سے ( کہیں) پاک و برتر ہے“۔ الزمر
68 ف ٥ ابن کثیر میں ہے کہ اس سے مراد نفخہ ثانیہ ہے۔ کذافی جامع البیان اور تفسیر فتح البیان میں ہے کہ یہ نفخہ اولیٰ ہے اور جمہور علماء کے نزدیک کل نفخے تین ہیں۔ پہلا نفخہ فزع، دوسرا نفحہ موت اور تیسرا نفخہ بعث ( کذافی الحواشی) شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں : ایک بار نفخ صور ہے عالم کی فناکا نہ وسرا ہے زندہ ہونے کا، تیسرا بے ہوشی کا بعد حشر کے، چوتھا خبر دار ہونے کا، اس کے بعد اللہ تعالیٰ کے سامنے ہوجاویں گے۔ ( موضح) ف ٦” وہ بے ہوش نہ ہوا گے“ بے ہوشی سے مراد موت ہے یا وہ بے ہوشی جو حشر کے بعد ہوگی“۔ (مگر جن کو اللہ چاہے) سے مراد بعض نے مقرب فرشتے لئے ہیں۔ حتیٰ کہ ملک الموت سب سے آخر میں مرے گا۔ ایک حدیث میں آیا ہے کہ اس سے شہداء مراد ہیں۔ (شوکانی، ابن کثیر) ف ٧ یعنی زندہ ہو کر اٹھ کھڑے ہوں گے۔ صحیحین میں حضرت ابو ہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ صور پھونکے جانے پر سب سے پہلے میں اپنا سر اٹھائوں گا تو دیکھوں گا کہ موسیٰ عرش کا پایہ تھامے کھڑے ہیں معلوم نہیں کہ انہوں نے مجھ سے پہلے سر اٹھایا ہوگا یا وہ ان لوگوں میں سے ہوں گے جو بے ہوش نہ ہوں گے۔ (شوکانی) صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ ” دونوں نفخوں میں چالیس۔۔۔۔۔ ( معدو وغیرہ مذکور) کا فاصلہ ہوگا۔ ( ابن کثیر)۔ بعض ضعیف روایات میں چالیس سال کے الفاظ بھی مذکور ہیں۔ ( دیکھئے فتح الباری، ج، ٢ ص ٣١٩) الزمر
69 ف ٨ تاکہ وہ بتائیں کہ جب لوگوں تک اللہ کا پیغام پہنچا تو انہوں نے اس کا کیا جواب دیا اور ان کے اعمال کیسے رہے ؟ گواہوں سے مراد نبیﷺ کی امت کے لوگ ہیں۔ ( دیکھئے بقرہ آیت ١٤٣) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ ان سے مراد فرشتے ہیں جو لوگوں کے اعمال قلمبند کرتے ہیں۔ (ابن کثیر، شوکانی) الزمر
70 ف ٩ یعنی دنیا میں لوگ جو عمل کر رہے ہیں انہیں اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے۔ اسے کسی لکھنے والے یا حساب رکھنے والے یا گواہی پیش کرنے والے کی ضرورت نہیں لیکن اعمال نامہ اس لئے رکھا جائے گا اور پیغمبروں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور گواہوں کو اس لئے لایا جائے گا کہ لوگوں پر حجت تمام ہو۔ الزمر
71 ف ١٠ یعنی اس فیصلہ کے بعد جب کافروں کا جرم ثابت کردیا جائے گا تو وہ ٹولیاں بنا کر دوزخ کی طرف ہانک دیئے جائیں گے۔ ف ١١ یعنی ہاں آئے تھے اور انہوں نے ڈرایا بھی تھا۔ ف ١٢ یعنی ہمیں ایسے اعمال کرتے رہے کہ اللہ کا وہ کلمہ جو اس نے دوزخ کو کافر، جنوں اور انسانوں سے بھرنے کے متعلق فرمایا تھا ہمارے حق میں سچا ثابت ہوا۔ الزمر
72 الزمر
73 ف ١ جیسے کسی معظم و مکرم مہمان کے انتظار میں پہلے سے درازے کھلے رکھے جاتے ہیں اسی کو دوسری آیت میں بصراحت فرمایا ( جنات عدن مفتحۃ لھم الابواب) ہمیشہ رہنے کے باغ جن کے دروازے ان کے لئے کھلے ہونگے (ص ١، ٥) جنت کے آٹھ دروازے ہیں جیسا کہ بعض صحیح احادیث میں نبیﷺ کا ارشاد ہے۔ صحیحین میں حضرت سہل بن سعد (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :” جنت کے آٹھ دروازے ہیں، ان میں سے ایک دروارے کا نام ” ریان“ ہے اس میں سے صرف روزہ دار داخل ہوں گے۔ (شوکانی)۔ ف ٢ یعنی تم ہر مصیبت اور ہر آفت سے سلامتی میں ہو۔ ف ٣ جو دنیا میں کفر، شرک اور گناہوں سے آلودہ نہ ہوئے۔ الزمر
74 ف ٤ یعنی مرنے کے بعد زندہ کرنے اور جنت عطا فرمانے کا جو اس نے ہم سے وعدہ فرمایا تھا وہ اس نے سچا کر دکھایا۔ ف ٥ شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں :” ان کو حکم ہے جہاں چاہیں رہیں لیکن ہر کوئی وہی جگہ لے گا جو اس کے واسطے پہلے سے رکھی ہے“۔ ( موضح) ف ٦ صحیحین میں حضرت ابو ہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” پہلی ٹولی میں جو اہل ایمان جنت میں داخل ہوں گے ان کے چہرے چودھویں رات کے چاند کی طرح چمک رہے ہوں گے اور جو ان کے بعد داخل ہونگے ان کے چہرے آسمان کے روشن ترین ستاروں کی طرح روشن ہوں گے۔ ( وھکذا درجۃ بعد درجۃ ) (شوکانی) الزمر
75 ف ٧ یعنی ان میں سے بعض کو جنت میں اور بعض کو دوزخ میں بھیج کر ان کا ٹھیک ٹھیک فیصلہ کردیا جائے گا۔ ف ٨ یعنی ہر طرف فرشتے اور اہل ایمان اللہ رب العالمین کے عدل و انصاف پر اس کی حمد و ثناء کر رہے ہوں گے۔ الزمر
0 ف ٩ اس سورۃ کے سورۃ مومن، سورۃ غافر اور سورۃ مزمل تین نام ہیں۔ اکثر مفسرین (رح) کے بقول یہ پوری کی پوری سورۃ مکہ معظمہ میں نازل ہوئی، البتہ حضرت ابن عباس (رض) اس کی دو آیتوں ٥٦، ٥٧ اور امام حسن بصری (رح) اس کی ایک آیت ٥٥ کو مدنی قرار دیتے ہیں۔ حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے توراۃ کی جگہ مجھے سات حوامیم ( یعنی وہ سات سورتیں جن کے شروع میں حم آتا ہے) دیں۔ انجیل کی جگہ رات سے طواسبین تک اور زبور کی جگہ طواسین سے حوامیم تک سورتیں دیں اور مفصل سورتوں کے ذریعہ مجھے فضلیت دی انہیں مجھ سے پہلے کسی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نہیں پڑھا۔ ( ابن مرویہ وغیرہ) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں : ” ہر چیز کا ایک مغز ہوتا ہے اور قرآن کا مغز لحم سورتیں ہیں۔ حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا حوامیم قرآن کا دیباج ( رخسار) ہیں۔ ایک حدیث میں ہے جس نے صحیح کے وقت حم مومن کی الیہ المصیر تک اور آیۃ الکرسی کی تلاوت کی وہ شام تک اللہ کی حفاظت میں آگیا اور جس نے ان کی شام کے وقت تلاوت کی وہ صبح تک حفاظت میں آگیا غافر
1 غافر
2 غافر
3 ف ١٠ یعنی اللہ تعالیٰ کی مذکورہ صفات کا تقاضا یہ ہے کہ اس کے سوا کسی مردہ یا زندہ ہستی کے عبادت نہ کی جائے۔ ف ١١ نہ کسی اور کی طرف۔ غافر
4 ف ١٢ اس مقام پر اللہ کی آیتوں میں جھگڑا کرنے سے مراد کج بحثیاں کر کے انہیں جھٹلانا اور رد کرنا ہے۔ یہ کام کافروں کا ہے مسلمان ایسا نہیں کرتے۔ ابو دائود میں جو حضرت ابو ہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ ” قرآن میں جھگڑا کرنا کفر ہے“۔ اس کے بھی یہی معنی ہیں ورنہ قرآن کے ناسخ و منسوخ، راجح و مرجوح اور محکم و متشابہ کو پہچاننے کے لئے بحث کرنا ممدوح اور اہل علم کا مشغلہ چلا آیا ہے جس سے مقصود قرآن فہمی اور اس کے احکام کا علم حاصل کرنا ہے۔ ف ١٣ یعنی ان کی خوشحالی اور چلن دیکھ کر کوئی شخص اس غلط فہمی میں مبتلا نہ ہو کہ یہ اللہ کے پسندیدہ لوگ ہیں۔ دراصل یہ ان کے لئے مہلت ہے اور اللہ کے ہاں مہلت و امہال تو ہے۔ اہمال ( سزا دیئے بغیر چھوڑ دینا) نہیں ہے۔ غافر
5 ف ١ یعنی دین حق کو مٹانے کے لئے ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کئے اور غلط باتوں کو دلیل بنا کر اہل حق سے کج بحثیاں کرتے رہے۔ ف ٢ کہ ” آج دنیا میں ان کا نام و نشان تک باقی نہیں رہا“۔ غافر
6 ف ٣ دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ” اس طرح ان کافروں یعنی نوح ( علیہ السلام) کی قوم اور اس کے بعد کی کافرامتوں پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رب کا ارشاد پورا ہو کر رہا کہ وہ دوزخی ہیں“۔ اب آگے ان کے مقابلے میں مومنین کا حال بیان فرمایا جو اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اس پر ایمان لاتے ہیں اور کج بخشی سے محتنب رہتے ہیں۔ غافر
7 ف ٤ یعنی ” سبحان اللہ وبحمدہ“ کہتے رہتے ہیں۔ ف ٥ اس آیت سے مقصود نبی ﷺ اور مسلمانوں کی حوصلہ افزائی ہے اور ہر زمانہ میں اللہ تعالیٰ کی تائید اور اس کے مقرب فرشتوں کی غائبانہ دعائے مغفرت مومنوں کے شامل حال رہی ہے۔ اسی طرح آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ ” جب کوئی مسلمان اپنے بھائی مسلمان کے لئے اسکی عدم موجودگی میں دعا کرتا ہے تو فرشتہ کہتا ہے۔ (امین ولک مثلہ) آمین اور ایسا ہی تیرے لئے ہو۔ ( ابن کثیر)۔ غافر
8 ف ٦ شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں :” اگرچہ بہشت ہر کسی کو ملتی ہے۔ اپنے عمل سے جو رو، بیٹا اور ماں باپ کام نہیں آتا لیکن تیری حکمتیں ایسی بھی ہیں کہ ایک کے سبب سے کتنوں کو درجہ پر پہنچا دے۔ اپنے عمل سے زیادہ اور شاید بدلہ ہو اپنے ہی عمل کا وہ عمل یہ کہ آرزو رکھتے ہوں کہ ہم بھی اس کی چال چلیں۔ یہ نیت قبول پڑجاوے۔ ( موضح) سعید بن جبیر (رح) کہتے ہیں کہ اہل جنت جب جنت میں چلے جائیں گے تو اپنے عزیزوں کو یاد کرینگے۔ ان سے کہا جائے گا کہ ان کے اعمال تمہاری طرح کے نہ تھے ( اس لئے انہیں کم درجہ میں رکھا گیا ہے۔) وہ کہیں گے کہ ہم نے اپنے لئے اور ان کے لئے عمل کئے تھے تب انکے عزیزوں کو بھی انکے ساتھ کردیا جائے گا۔ ( ابن کثیر) مگر اس کی شرط یہ ہے کہ وہ عزیز ایمان اور عمل صالح کی صفات سے متصف ہوں۔ جیساکہ آیت ” واتبعتھم ذریتھم بایمان الحقنا بھم ذریتھم وما التنا ھم من عملھم من شی) سے واضح ہوتا ہے ( دیکھئے سورۃ طور آیت ٢١) غافر
9 غافر
10 ف ٧ یعنی آج اپنے اعمال نامہ اور سزا کو دیکھ کر تمہیں اپنے آپ پر جتنا غصہ آرہا ہے اس سے زیادہ غصہ اللہ تعالیٰ کو تم پر دنیا میں اس وقت آتا تھا جب۔۔۔۔۔ غافر
11 ف ٨ دو بار مارنے اور دو بار جلانے سے مراد یہ ہے کہ وہ پہلے بے جان نطفے تھے پھر اللہ نے انہیں زندگی بخشی، پھر موت دی اور پھر دوبارہ ز ندہ کیا۔ ( راجع سورۃ بقرہ آیت ٢٨) ف ٩ یعنی ہم اقرار کرتے ہیں کہ اس دوسری زندگی سے انکار کر کے ہم نے سخت غلطی کی اور اسی وجہ سے اپنی پہلی زندگی میں گناہ کرتے رہے۔ ف ١٠ یعنی کیا اس چیز کا امکان ہے کہ اب جب کہ ہم نے اپنے گناہوں کا اقرار کرلیا ہے ہمارا عذر قبول کرلیا جائے اور ہمیں دوبارہ عمل کرنے کے لئے پہلی زندگی کی طرف لوٹا دیا جائے؟ غافر
12 ف ١١ یعنی انہیں جواب ملے گا کہ تم آج جس حال میں مبتلا ہو، وہ اس لئے ہے کہ۔۔۔۔۔ ف ١ یعنی تمہیں انکار تھا تو اس چیز سے کہ اللہ ہی ایک خدا ہے نہ کہ اس چیز سے کہ اللہ بھی خدا ہے اور اس کے ساتھ بہت سے اور بھی ہیں۔ ف ٢ یعنی آج بلا لو اپنے ان دیویوں اور پیروں فقیروں کو جن کو تم خدا سمجھ کر پکارا کرتے تھے۔ اگر وہ واقعی خدا تھے تو تمہاری مدد کو کیوں نہیں پہنچتے؟ غافر
13 ف ٣ یعنی مینہ برساتا ہے جس سے تمہاری روزی پیدا ہوتی ہے۔ ف ٤ اور جو خدا سے پھرا ہوا ہو اور کسی طرح اسے ماننے کو تیار نہ ہو وہ بڑی سے بڑی نشانی دیکھ کر بھی کوئی نصیحت حاصل نہیں کرسکتا کیونکہ اس کی عقل پر تعصب کا پردہ پڑا ہوتا ہے۔ غافر
14 ف ٥ یعنی توحید پر قائم رہو۔ یہ چیز اگر کافروں کو ناگوار ہو تو ہوا کرے، تم اس کی ہرگز پروا نہ کرو، اللہ تمہارا حامی و مددگار ہے۔ غافر
15 ف ٦ دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ” وہ اپنے فرشتوں، پیغمبروں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مومن بندوں کے درجات بلند کرنے والا ہے“۔ ف ٧ عین ساری کائنات کا بادشاہ و فرمانبروا۔ ف ٨ اصل لفظ ” روح“ استعمال ہوا ہے عین مراد وحی ہے۔ کیونکہ وحی وہ چیز ہے جس سے لوگ کفر کی موت سے نکل کر ایمان کی زندگی کی طرف آتے ہیں۔ ف ٩ یعنی قیامت کے دن سے جس میں آسمانوں اور زمین کے رہنے والے تمام اول و آخر، جن و انس اللہ تعالیٰ کے حضور جمع ہو کر ایک دوسرے سے ملیں گے۔ غافر
16 ف ١٠ یہ سوال ہے جو اللہ تعالیٰ قیامت کے روز علانیہ فرمائے گا جب کہ تمام اول و آخر جن و انس جمع ہوں گے۔ لیکن جب کوئی جواب دینے والا نہ ہوگا۔ تو خود ہی فرمائے گا۔۔۔۔۔ یا سب لوگ چاہے وہ مومن ہوں یا کافر، پکار اٹھیں گے۔۔۔۔ غافر
17 ف ١١ یعنی کسی کا ثواب کم نہ کیا جائے گا اور نہ کسی کے عذاب میں، جس کا وہ واقعی مستحق ہے، اضافہ کیا جائے گا ۔ ف ١٢ یعنی اللہ تعالیٰ کو حساب لیتے دیر نہیں لگتی کیونکہ اسے ہر چیز کا علم ہے۔ غافر
18 ف ١٣ یہ محاوہ ہے جسے ہم اردو میں کلیجہ منہ کو آنا سے تعبیر کرتے ہیں۔ ف ١٤ یعنی اس دن جو سفارش کرنے کی اجازت نہ دی جائے گی وہ انبیاء فرشتوں اور نیک بندوں کو دی جائے گی اور وہ بھی صرف اہل ایمان کے لئے، رہے کافر اور مشرک ہو ان کا اس روز کوئی سفارش نہیں ہوگا۔ غافر
19 ف ١٥ آنکھ کے اشارے میں جو غلط جذبات مستور ہوتے ہیں۔ مثلاً کچھ لوگ بیٹھے ہوئے اتنے میں کسی اجنبی عورت کا وہاں سے گزرہو، کوئی آدمی جب لوگوں کا دھیان نیچی رکھے اور جب ان کا دھیان نہ ہو تو نظر بچا کر اس کی طرف دیکھ لے۔ ( ابن کثیر) ف ١٦ یعنی دلوں کے راز اور وسوسوں تک سے واقف ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ وہ اپنے فضل و کرم سے ان پر مواخذہ نہیں کرتا جب تک ان پر عمل نہیں کیا جاتا۔ غافر
20 ف ١٧ یعنی قیامت کے دن اس کے فیصلہ میں کوئی بے انصافی نہیں ہوگی۔ ف ١٨ لہٰذا ان کے متعلق یہ سمجھنا کہ قیامت کے روز فیصلہ کرنے میں ان کا بھی کوئی دخل ہوگا قطعی جہالت اور بے وقوفی ہے۔ غافر
21 غافر
22 ف ١” بنیات“ کا لفظ عام ہے۔ اس سے مراد معجزے بھی ہو سکتے ہیں، روشن دلیلیں بھی اور واضح ہدایات و تعلیمات بھی غافر
23 ۔ ف ٢ نشانیوں سے مراد حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کے نو معجزے ہیں جن کا ذکر سورۂ اعراف اور دوسری کئی سورتوں میں گزر چکا ہے۔ غافر
24 ف ٣ ہامان، فرعون کا وزیر تھا اور قارون سرمایہ دار منافق تھا جو اسرائیل ہونے کے باوجود فرعون کا ساتھی بن گیا تھا۔ اس لئے اس کا ذکربھی حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کی کھلی کھلی تکذیب کرنے والوں کے ساتھ کیا گیا۔ غافر
25 ف ٤ حق ( سچے دین) سے مراد وہ معجزے ہیں جنہیں حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) لے کر آئے تھے اور جو انکی نبوت کے ناقابل تردید ثبوت تھے۔ ف ٥ بنی اسرائیل کے لڑکوں کو قتل کرنے کا یہ دوسری مرتبہ حکم تھا تاکہ ان کی اکثریت نہ ہو اور ذلیل و خوار رہیں اور اس لئے کہ موسیٰ ( علیہ السلام) کو شوم سمجھ کر اس سے بددل ہوجائیں۔ اس آیت کے خاتمہ ” وما کیدا الکفرین الا فی ضلال“ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس مہم میں وہ دوبارہ کامیاب نہیں ہو سکے۔ ( ابن کثیر وغیرہ) غافر
26 ف ٦ گویا اب تک جو وہ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کو قتل کرنے سے رکا ہوا تھا وہ محض اس لئے کہ درباری اسے منع کر رہے تھے یہ بات اس نے محض رعب گانٹھنے کے لئے کہی یا اپنے آپ کو ہمت دلانے کے لئے، حالانکہ اندر سے خدائی طاقت تھی جو اسے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) پر ہاتھ ڈالنے سے روکے ہوئے تھی۔ ( فتح القدیر) شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں : ” فرعون نے کہا مجھ کو چھوڑو، شاید اس کے ارکان مشورہ نہ دیتے ہونگے مارنے کا اس سے کہ معجزہ دیکھ کر ڈر گئے تھے کہیں اس کا رب بدلہ نہ لے۔ (موضح) ف ٧ جس نے اسے اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے دیکھیں وہ مییر ہاتھ سے اسے کیونکر بچاتا ہے؟ ف ٨ یعنی تمہیں اس دین اور اعتقاد کا منکر کر دے جس کے تحت تم مجھے اپنا رب سمجھ کر میری محکمومی و تابعداری پر مطمئن ہو۔ ف ٩ یعنی اگر وہ تمام اہل مصر کو آبائی دین کا منکر نہ کرسکے تو کم از کم یہ خطرہ تو ضرور ہے کہ ان میں سے بعض لوگوں کو توحید کا قائل کرلے اور بعض میری حاکمیت کے قائل رہیں اور پھر آئے دن ملک میں خانہ جنگی کا بازار گرم رہے۔ یہ وہی انداز ہے جسے ہر اقتدار پسند طبقہ یا حکومت پر قابض بادشاہ یا ڈکٹیٹر اہل ملک کے سامنے اندرونی یا بیرونی خطرہ کا ہوا کھڑا کر کے اپنا الو سیدھا رکھنے کے لئے اختیار کرتا ہے۔ غافر
27 غافر
28 ف ١٠ یعنی میں ہر اس شخص کے مقابلے میں جسے آخرت اور اس کے حساب کتاب کا ڈر نہیں ہے اور اس بناء پر وہ شتر بے مہار بن کر جو دل میں آتا ہے کر گزرتا ہے، اس خدائے بزرگ و برترکی پناہ میں ہوں جو میرا نہیں تمہارا بھی رب ہے اور جس کے سامنے تمہاری اور تمہارے بنائے ہوئے اس رب فرعون کی کوئی حیثیت نہیں ہے وہ جب چاہے تمہیں آن کی آن میں فنا کرسکتا ہے، پھر میں تمہاری اس دھمکی سے مرعوب کیوں ہوں؟ میرے قتل کی سکیم جو تم اپنے پیش نظر رکھتے ہو، اسے ضرور عملی جامہ پہنا کر دم لو۔ ف ١١ یعنی تمہیں ایسے نا قابل انکار معجزے دکھا چکا ہے جن سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوگئی ہے کہ اس کا دعویٰ بے دلیل نہیں ہے اور وہ واقعی تمہارے رب۔ اللہ تعالیٰ کا بھیجا ہوا رسول ہے۔ یہی بات یعنی ( اتقتلون رجلال ان۔۔۔۔) حضرت ابو بکر (رض) صدیق نے مشرکین مکہ سے اس وقت کہی جب وہ نبی ﷺ کے درپے آزاد تھے۔ چنانچہ صحیح بخاری (رح) میں حضرت عبد اللہ (رض) بن عمرو بن عاص سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کعبہ کے صحن میں نماز پڑھ رہے تھے کہ عقبہ بن ابی معیط آیا اور اس نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مونڈھا پکڑلیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی گردن میں کپڑا ڈال کر پورے زور سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا گلا گھونٹا۔ حضرت ابو بکر صدیق (رض) آئے اور عقبہ کو دور دھکیلتے ہوئے فرمایا ( اتقتلون رجلا ان۔۔۔) ابو نعیم (رح) اور بزاز (رح) نے فضائل صحابہ (رض) کے سلسلہ میں یہ روایت نقل کی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت علی (رض) نے لوگوں سے پوچھا، بتائو سب سے بہادر کون ہے۔۔۔۔۔ آخر حضرت علی (رض) نے فرمایا کہ سب سے بہادر حضرت ابو بکرصدیق (رض) ہیں جنہوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کفار کے نرغہ سے ایسے وقت میں بچایا جب کسی کو آگے بڑھنے کی ہمت نہ تھی اور فرمایا کہ اللہ کی قسم ! حضرت ابو بکر (رض) کی ایک گھڑی آل فرعون کے مومن کی ساری زندگی سے بہتر تھی وہ اپنا ایمان چھپاتا تھا اور ابو بکر (رض) نے اپنے ایمان کا اعلان رکھا تھا۔ ( شوکانی) جو لوگ نعوذ باللہ حضرت صدیق (رض) پر نفاق کی تہمت لگاتے ہیں اور پھرتقیہ کو جزو ایمان سمجھتے ہیں ان کے لئے اس واقعہ میں درس عبرت ہے۔ ( منہ) ف ١ اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں اور ممکن ہے کہ آل فرعون کے مومن نے دونوں مراد لئے ہوں کیونکہ ایسی بات وہ بھی نہیں کرنا چاہتا تھا جس سے ان کا مومن ہونا صاف طور پر معلوم ہوجاتا۔ ایک یہ کہ اگر واقعی موسیٰ ( علیہ السلام) جھوٹا ہے تو اللہ تعالیٰ انہیں اتنے معجزے کیوں دیتا دوسرے یہ کہ اگر وہ سچا ہے اور تم اتنے جھوٹے الزام لگا رہے ہو تو تمہاری خیر نہیں ہے اور وہ تمہیں ہرگز کامیابی کی راہ نہ دکھائے گا۔ ( جامع البیان)۔ شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں : یعنی اگر جھوٹا ہے تو جس پر جھوٹ بولتا ہے وہی سزا دیگا اور شاید سچا ہو تو اپنا فکر کرو۔ ( موضح) غافر
29 ف ٢ یعنی کیوں اس نعمت اقتداء کی ناشکری کرتے ہو اور کیوں موسیٰ ( علیہ السلام) کو قتل کر کے اپنے آپ کو خدا کے عذاب کا مستحق بناتے ہو؟۔ ف ٣ کیونکہ اگر تم اسے قتل نہ کرو گے تو اپنا نقصان آپ کرو گے “۔ غافر
30 غافر
31 ف ٤ جنہوں نے اللہ کے رسولوں ( علیہ السلام) کو جھٹلایا اور اس کی پاداش میں تباہ کردیئے گئے۔“ ف ٥ یعنی اللہ کو اپنے بندوں سے دشمنی نہیں ہے کہ وہ قصور کریں یا نہ کریں انہیں ضرور تباہ کر دے۔ غافر
32 غافر
33 غافر
34 ف ٦ یعنی ایسے معجزے جن سے ان کا نبی ہونا قطعی طور پر ثابت ہوتا ہے۔ جیسے بادشاہ کے خواب کی تعبیر جس کی بدولت نہ صرف مصر بلکہ ارد گرد کے تمام علاقوں کو انتہائی خوفناک قحط سے نجات نصیب ہوئی تھی۔ ف ٧ یعنی گو تمہارے بادشاہ نے انہیں اپنا ویزر بنا کر عملاً تمام اختیارات ان کے سپرد کردیئے تھے اور تم ان کے اخلاق اور ملکی انتظام میں مہارت کے بھی قائل ہوئے مگر تم نے جیتے جی ان کی نبوت کا اقرار نہ کیا بلکہ شک ہی میں پڑے رہے۔ ف ٨ یعنی ان کی وفات کے بعد جب سلطنت کا بندوست بگڑا گیا تو تم ان کی عقیدت کا اظہار کرنے لگے کہ ان کا قدم مصر کے حق میں بڑا مبارک تھا لیکن عقیدت کے اس اظہار میں تم اس قدر بڑھے کہ کہنے لگے کہ بس وہ اللہ کے آخری رسول تھے۔ ان کے بعد کوئی شخص اللہ کی طرف سے رسول بن کر نہیں آسکتا۔ شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں :” یا وہ انکار یا یہ اقرار یہی اسراف اور یا وہ کوئی ہے“۔ ( موضح) غافر
35 ف ٩ یعنی اللہ تعالیٰ گمراہی میں انہی لوگوں کو مبتلا کرتا ہے جن میں تین صفات پائی جاتی ہے۔ ایک ’ ’ مسرف“ یعنی جو اپنی بد اعمالی یا کسی شخص کی عقیدت میں حد سے بڑھنے والے ہوں۔ دوسرے ” مرتاب“ یعنی اللہ کی آیات اور اس کے رسولوں کی کہی ہوئی باتوں میں شک کرنے والے ہوں اور تیسرے ” لجدال بالباطل“ یعنی قرآن و حدیث پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے کی بجائے ان میں کج بحثیاں کرتے ہوں اور تکبر سے کام لیتے ہوں۔ ف ١ یعنی جب کوئی شخص تکبر و تجبر ( غرور اور اینٹھوپن) میں حد سے گزر جاتا ہے اور کوئی صحیح بات ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتا تو اس کے دل پر مہر لگا دی جاتی ہے۔ پھر اسراف و ارتیاب کے کام اس سے صادر ہوتے رہتے ہیں اور کوئی صحیح بات اور نصیحت اس پر اثر نہیں کرتی۔ غافر
36 غافر
37 ف ٢ یعنی موسیٰ جو دعویٰ کرتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں یا یہ کہ میرا خدا آسمانوں کے اوپر عرش پر ہے تو میرے گمان میں وہ جھوٹا ہے۔ اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں سے اوپر عرش پر ہے اس پر سب انبیاء ( علیہ السلام) و رسل ( علیہ السلام) اور صحابہ (رض) و تابعین (رح) اور ائمہ دین (رح) کا اتفاق ہے۔ ” غنیہ“ میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کا آسمان پر ہونا ہر آسمانی کتاب میں مذکورہ ہے جو کسی پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کی گئی۔ نیز دیکھئے قصص ٣٨ ( وجیز و حاشیہ جامع وغیرہ) ف ٣ برے کاموں سے مراد کفرو شرک کے کام ہیں۔ بھلے کر دکھانے کا مطلب یہ ہے کہ شیطان نے اس کی عقل مار دی، یہاں تک کہ وہ ان کاموں کو اچھا سمجھتے ہوئے ان پر چلتا رہا۔ ف ٤ یعنی اس نے جتنی چالیں چلیں سب اس کی تباہی کا سبب بنتی چلی گئیں۔ یہی حال ہر جھوٹے اور مکار آدمی کا ہوتا ہے۔ غافر
38 غافر
39 غافر
40 ف ٥ یعنی اسے اسی کے بقدر سزا ملے گی۔ غافر
41 ف ٦ یعنی میں تمہیں توحید کی دعت دے رہا ہوں جس کا نتیجہ نجات ہے اور تم مجھے کفر و شرک میں پھنسانا چاہتے ہو جس کا انجام دوزخ ہے۔ غافر
42 ف ٧ یعنی جس کے خدا کا شریک ہونے کا کوئی دلیل نہیں جانتا اسے آنکھیں بند کرکے خدا کا شریک کیسے مان لوں؟ ف ٨ یعنی جو کفر کرے اس سے سخت انتقام لینے والا اور جو اس پر ایمان لائے اس کے گناہ معاف کرنے والا یا باوجود غلبہ اور بزرگی کے توبہ کرنے والے کے گناہ بخشنے والا۔ ( ابن کثیر)۔ غافر
43 ف ١ یعنی اور نہ آخرت میں کسی کی سفارش کرسکتا ہے۔ غافر
44 ف ٢ معلوم ہوتا ہے کہ اس تقریر کے دوران میں اسے پورا یقین ہوگیا تھا کہ فرعون کے یہ آدمی مجھے زندہ نہیں چھوڑیں گے۔ اس لئے یہ آخری فقرہ اس نے اس شخص کے لہجہ میں کہا جسے اللہ تعالیٰ کی مدد پر پورا بھروسہ ہو اور اس کی راہ میں جان دینے کیلئے تیار کھڑا ہو۔ غافر
45 ف ٣ معلوم ہوتا ہے کہ وہ شخص غیر معمولی حیثیت کا مالک تھا اور فرعونیوں کو یہ ہمت نہ ہوسکی کہ اسے علانیہ سزا دے سکیں۔ اس لئے انہوں نے خفیہ تدبیریں اختیار کیں مگر اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت کی اور وہ اس کے قتل میں ناکام رہے۔ قتادۃ (رح) کہتے ہیں کہ وہ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کے ساتھ سمندر کے پار چلا گیا۔ ( شوکانی) ف ٤ اور سب کو سمندر میں غرق ہونا پڑا غافر
46 ف ٥ علماء نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ عالم برزخ ( قبر) میں کفار کو عذاب ہو رہا ہے۔ قرآن کی بعض دوسری آیات میں بھی اس کے متعلق اشارات ملتے ہیں اور حدیث میں بھی ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا : موت کے بعد ہر آدمی کو صبح و شام جنت یا جہنم میں اس کا ٹھکانہ دکھایا جاتا یہ اور اس کی دلیل میں یہی آیت تلاوت فرمائی۔ ( شوکانی) یہ آیت مکی ہے اور متعدد طرق حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ ایک یہودی عورت میرے پاس آئی اور دوران گفتگو میں اس نے کہا ( وقاک اللہ من عذاب القبر) کہ اللہ تعالیٰ تمہیں عذاب قبر سے محفوظ رکھے مجھے تعجب ہوا اور میں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے یہ واقعہ بیان کیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( کذبت الیھودیہ) کہ اس یہودی عورت نے جھوٹ بولاہے مگر چند روز کے بعد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خطبہ دیا اور فرمایا ” لوگو عذاب قبر سے پناہ مانگا کرو۔ بے شک عذاب قبر بر حق ہے“۔ علماء نے لکھا ہے کہ آیت اور حدیث میں تعارض نہیں ہے۔ آیت سے صرف ارواح کا صبح و شام معذب ہونا ثابت ہوتا ہے اور احادیث سے روح مع الجسد کا جس کا علم بذریعہ وحی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مدینہ میں اس یہودیہ کے واقعہ کے بعد ہوا ہوگا۔ ( ابن کثیر) علماء نے اہل سنت کے نزدیک عذاب قبر بر حق ہے اور اس کا انکار بدعت ہے۔ امام سیوطی (رح) نے اپنے رسالہ ” شرح الصدور“ میں ان تمام احادیث کو یکجا کردیا ہے جو اس مسئلہ سے متعلق ہیں۔ علی قاری (رح) نے بھی شرح مشکوٰۃ میں مفصل بحث کی ہے۔ ( منہ (رح) ف ٦” تو فرشتوں کو حکم دیا جائے گا۔۔۔۔۔ “ ف ٧ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ کفار کی نیکیوں کی وجہ سے ان کے عذاب میں تخفیف کردی جائے گی اور ابو طالب کے متعلق آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ( واھون عذابا) فرمایا ہے مگر قرآن کی روایات سے ثابت ہے کہ آخرت میں کافر کا کوئی عمل قابل قبول نہ ہوگا۔ ابو طالب کے قصہ کے متعلق کہا جاسکتا ہے کہ یہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خاصہ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کے ساتھ نیکی کا بدلہ ہے یا ان روایات کے پیش نظر یہ کہہ سکتے ہیں کہ کافر کی نیکی قبول نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ کسی مرحلہ پر بھی اس کے لئے نجات کا سبب نہیں بن سکے گی اور وہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا۔ ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ بعض نیک اعمال بعض اشخاص کیلئے آخرت میں تخفیف عذاب کا سبب بن جائیں جیسا کہ احادیث سے ثابت ہے۔ ( شرح مسلم للنوید و فتح الباری) غافر
47 ف ٨ یعنی آگ کی تکلیف کا کوئی حصہ ہٹا کر اپنے اوپر لے سکتے ہو؟ غافر
48 ف ٩ یعنی اللہ تعالیٰ کا فیصلہ نافذ ہوچکا اب تم اپنی سزا بھگتو، ہم اپنی بھگت رہے ہیں۔ اس عذاب میں کمی بیشی ہمارے بس میں نہیں ہے۔ غافر
49 غافر
50 ف ١٠ ” لیکن ہم نے ان کی بات نہ مانی“ ف ١١ ہم کافروں کی سفارش نہیں کرسکتے۔ شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں : دوزخ کے فرشتے کہیں گے سفارش کوئی ہمارا کام نہیں، ہم عذاب پر مقرر ہیں، سفارش کام ہے رسولوں ( علیہ السلام) کا، رسولوں کے تم بر خلاف تھے۔ ( موضح)۔ غافر
51 ف ١” اس لئے وہ اپنے دشمنوں پر غالب آتے ہیں“۔ مطلب یہ ہے کہ آخر کار دین حق غالب ہو کر رہتا ہے اور جن پیغمبروں کو شہید کردیا گیا ان کا دشمنوں سے طرح انتقام لیا گیا کہ ان کے دشمنوں پر ایسے لوگوں کو مسلط کیا گیا جو انہیں ذلیل و خوار کرتے رہے۔ چنانچہ جن یہودیوں نے حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کو سولی دینے کا پروگرام بنایا، ان پر رومیوں کو مسلط کیا گیا جنہوں نے انہیں ہر طریقہ سے ذلیل و خوار کیا اور پھر حق کی فتح کے لئے مادی غلبہ اور نصرت شرط نہیں ہے۔ ف ٢ گواہوں سے مراد فرشتے ہیں جو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے حضور انبیاء ( علیہ السلام) کے حق میں گواہی دینگے کہ انہوں نے اپنی اپنی قوموں تک تیرا پیغام پہنچا دیا تھا اور کافروں کے خلاف یہ گواہی دیں گے کہ انہوں نے تیرے پیغام کو جاننے اور پہچاننے کے بعد بھی ماننے سے انکار کردیا تھا۔ ( شوکانی از مجاہد و سدی)۔ غافر
52 غافر
53 ف ٣ جیسا کہ دوسری آیت میں توراۃ کو ” ہدی و نور“ فرمایا ہے۔ غافر
54 غافر
55 ف ٤ قصور سے مراد امت کے قصور ہیں یا وہ چھوٹی چھوٹی لغزشیں ہیں جو بتقاضائے بشریت انبیاء ( علیہ السلام) سے سر زد ہوجاتی ہیں جیسے رائے اور اجتہاد کی غلطی یا شدید مخالفت کی فضاء میں کچھ نہ کچھ بے صبری کی کیفیت اور پھر انبیاء ( علیہ السلام) کو استغفار کا حکم اس لئے ہے کہ ان کے درجات زیادہ سے زیادہ بلند ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عبادت میں مشقت اٹھاتے حتیٰ کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پائوں ورم آلود ہوجاتے اور جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا جاتا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ( افلا اکون عبدا شکورا) کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں۔ ( قرطبی وغیرہ) شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں : حضرت رسول اللہﷺ دن میں سو سو بار استغفار کرتے گناہ سے ہر بندے سے قصور ہے، اس کے موافق ہر کسی کو استغفار ہے۔ ( موضح) عصمت انبیاء ( علیہ السلام) کے بارے میں حافظ ابن تیمیہ لکھتے ہیں : اللہ تعالیٰ نے پیغمبروں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو گناہ پر قائم رہنے سے بچایا ہے اور یہی قول ہے موافق ان آثار کے جو سلف (رح) سے منقول ہیں۔ ( تفسیر الایۃ الکریمہ) ف ٥ یعنی ہر آن اللہ تعالٰ کی تسبیح و بحمدہ کرتے رہے یا صبح و شام کے اوقات میں نماز پڑھئے مگر یہ حکم اس وقت تھا جب پنج وقتہ نماز فرض نہیں ہوئی تھی۔ پھر جب معراج کے موقع پر نماز پنجگانہ فرض ہوگئی تو ان کے اوقات کا بھی باقاعدہ تعین کردیا گیا۔ ( شوکانی) غافر
56 ف ٦ یعنی وہ جو یہ چاہتے ہیں کہ محمدﷺ سے اونچے ہو کر رہیں اور انہیں اپنے سامنے جھکا لیں، اس میں وہ ہرگز کامیاب نہ ہو سکیں گے۔ ( کذافی الموضح) ف ٧ یعنی ان کی شرارتوں اور دھمکیوں کے مقابلے میں اللہ واحد و قہار کی پناہ مانگئے۔ جیسا کہ فرعون کی دھمکی کے مقابلے میں موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ کی پناہ مانگی تھی اور پھر بالکل بے فکر ہوگئے تھے۔ ( ابن کثیر) غافر
57 ف ٨ اب ان اصول عقائد کا اثبات ہے جن سے کفار انکار کرتے تھے۔ ( کبیر) اس آیت میں کفار قریش اور ان ہم خیال لوگوں کا رد ہے جو یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ آدمی کا ایک دفعہ مر جانے کے بعد دوبارہ پیدا کیا جانا محال ہے۔ غافر
58 ف ٩ یعنی جس طرح آخرت پر ایمان رکھنے والے اور اس پر یقین نہ رکھنے والے برابر نہیں ہو سکتے۔ یہی معاملہ ان لوگوں کا بھی ہے جو ایمان لا کر نیک عمل کریں اور جو کفر و شرک کی راہ پر چلتے ہیں۔ ف ١٠ اگر سوچو تو یہ حقیقت بڑی آسانی سے تمہاری سمجھ میں آسکتی ہے۔ غافر
59 غافر
60 ف ١١ دعا کے اصل معنی پکارنا ہیں۔ قرآن میں عموماً عبادت کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( الدعا ھوا العبادۃ) کہ دعا عبادت ہی ہے اور پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔ بعض روایات میں دعا کو ( افضل العبادۃ) یا ( مح العبادۃ) بھی فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے سامنے دعا کرنا دراصل اپنی عبودیت کا اقرار کرنا ہے اور حدیث ہے جو اللہ سے دعا نہیں کرتا اللہ اس سے ناراض ہوتا ہے۔ (شوکانی) ف ١٢ شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں :” بندگی کی شرط ہے اپنے رب سے مانگا، نہ مانگنا غرور ہے۔ اگر دنیا نہ مانگے تو مغفرت ہی مانگے۔ ( موضح) غافر
61 ف ١ یعنی اس کی روشنی میں تم ہر چیز دیکھتے ہو۔ ف ٢ یعنی اللہ تعالیٰ کی بندگی کی بجائے دوسروں کا احسان مان کر ان کی عبادت کرتے ہیں حالانکہ تمام احسانات کرنے والا صرف وہ ہے۔ غافر
62 غافر
63 غافر
64 ف ٣ چنانچہ کسی حیوان کو وہ عمدہ شکل و صورت اور جسمانی ساخت حاصل نہیں ہے جو انسان کو حاصل ہے۔ سیدھا قد اور با وقار طریقہ سے دو پائوں پر چلتا ہے جبکہ تمام جانور زمین کی طرف جھک کر چلتے ہیں۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں سب جانوروں سے انسان کی صورت بہتر اور روزی ستھری ہے۔ ( موضح) ف ٤ اس کے سوا کوئی تمہارا مالک نہیں کیونکہ تمہیں یہ نعمتیں دینے میں کسی کا کوئی حصہ نہیں۔ ف ٥ کسی دوسرے کا یہ حق نہیں کہ اسکی نعریف کی جائے اور شکر ادا کرنے کیلئے اس کی بندگی کی جائے۔ غافر
65 غافر
66 ف ٦ پھر مجھ سے یہ توقع کیوں رکھتے ہو کہ میں تمہارا کہنا مانوں اور تمہارے ان جھوٹے معبودوں کی بندگی کرنے لگوں؟ غافر
67 ف ٧ یعنی کوئی پیدا ہونے سے پہلے، کوئی جوانی کو پہنچنے سے پہلے اور کوئی بوڑھا ہونے سے پہلے مر جاتا ہے۔ ف ٨ یعنی اس عمر تک جو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے لکھی ہے با قیامت جبکہ تمام انسانوں کو دوبارہ زندہ ہو کر اپنے رب کے حضور پیش ہونا ہے۔ ف ٩ یعنی اللہ تعالیٰ تمہیں زندگی کے ان مختلف مراحل سے اس لئے گزارتا ہے کہ جب تم اس حیرت انگیز نظام پر غور کرو تو سمجھ سکو کہ کوئی خدا ہے جس نے اس ساری کائنات کو پیدا کیا ہے اور جو اپنی قدرت کاملہ سے اس کا نظام چلا رہا ہے اور یہ کہ وہ اپنی ذات و صفات میں یکتا ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں، جس کی اس کے علاوہ عبادت کی جائے۔ شاہ صاحب (رح) اپنی توضیح میں لکھتے ہیں، یعنی اتنے احوال تم پر گزرے، شاید ایک حال اور بھی گزرے ( اور) وہ ( ہے) مر کر جینا۔ ( موضح)۔ غافر
68 ف ١٠ یعنی کسی دیرکے بغیر فوراً ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اسباب کا محتاج نہیں بلکہ اسباب اسکے حکم سے وجود میں آتے ہیں۔ غافر
69 ف ١ یعنی کسی دلیل کے بغیر ان میں کج بحثیاں کرتے ہیں۔ ( دیکھئے آیت : ٤) ف ٢ یعنی ان کے صحیح ہونے کے دلائل جاننے کے باوجود ان پر ایمان لانے سے کیوں ہٹائے جا رہے ہیں۔ غافر
70 ف ٣ یعنی ان کتابوں کو جو پہلے انبیاء پر نازل ہوئیں۔ یہ مطلب اس صورت میں ہے جب ” الکتاب“ سے مراد قرآن لیا جائے اور اگر اس سے مراد جنس کتاب ہو تو مطلب یہ ہوگا کہ ” جنہوں نے ہماری کتابوں کو جھٹلایا اور اس ( شریعت یا سنت) کو بھی جھٹلایا ہے جسے دے کر ہم نے اپنے ” پیغمبروں کو بھیجا“۔ ( شوکانی) غافر
71 غافر
72 غافر
73 ف ٤ یعنی اگر وہ واقعی خدا کے شریک تھے اور تم اس امید پر ان کی عبادت کیا کرتے تھے کہ وہ مشکل وقت میں تمہاری دستگیری کریں گے تو آج وہ تمہاری مدد کو کیوں نہیں پہنچ رہے؟ (ضلواعنا) یعنی جو امید ہم ان معبودوں سے رکھتے تھے وہ ضائع ہوگئی۔ ( جامع) غافر
74 ف ٥ یعنی وہ مشکل وقت میں ہمیں چھوڑ کر ایسے غائب ہوگئے جیسے دنیا میں ہم نے انہیں پکارا ہی نہ تھا اور وہ ہمیں جانتے تک نہ تھے۔ یہ مطلب اس صورت میں ہے جس ” بل“ کا ترجمہ ” گویا کہ“ کیا جائے اور اگر اس کا ترجمہ ” بلکہ“ کیا جائے جو اس کا معروف ترجمہ ہے تو مطلب یہ ہوگا ” بلکہ ہم دنیا میں کسی چیز کو سرے سے پکارتے ہی نہ تھے“۔ یعنی گھبراہٹ چیز کو سرے سے پکارتے ہی نہ تھے۔ جیسا کہ دوسری آیات میں ہے (واللہ ربنا ما کنا مشرکین) تیسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اب ہم پر یہ بات کھل گئی ہے کہ ہم دنیا میں کسی شی ( چیز) کو نہیں بلکہ لا شی ( نا چیز) ہستیوں کو پکارا کرتے تھے یعنی ہماری محنت رائیگاں گئی۔ ( جامع البیان وغیرہ) ف ٦ یعنی ان کے حواس باختہ کردیتا ہے اور وہ کوئی ڈھنگ کی بات نہیں کرسکتے۔ یہ سزا ہے ان کے شرک کی۔ شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں : اول منکر ہوچکے تھے کہ ہم نے شرک نہیں پکڑا۔ اب گھبرا کر منہ سے نکل جاو گا پھر سنبھل کر انکار کریں گے تو وہ انکار ان کا اللہ نے بچلا دیا اس حکمت سے۔ ( موضح) غافر
75 ف ٧ یعنی تمہاری گردن اکڑی رہتی تھی اور تم کسی کو خاطر میں نہ لاتے تھے۔ غافر
76 غافر
77 ف ٨ یعنی یہ لوگ جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نیچا دکھانے کے لئے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کر رہے ہیں ان سے بے چین نہ ہوں بلکہ آنے والے وقت کا صبر سے انتظار کریں۔ ف ٩” وہ ایک نہ ایک دن ضرور پورا ہو کہ رہے گا“ وعدہ سے مراد کافروں سے انتقام کا وعدہ ہے دنیا یا آخرت میں۔ ف ١٠ یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جیتے جی اس وعدہ کو پورا کردیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی آنکھوں سے دیکھ ہی لیں گے۔ ف ١١ وہاں یہ وعدہ پورا ہوجائے گا اور یہ سخت عذاب میں پکڑے جائیں گے۔ غافر
78 ف ١٢ یعنی بعض کا تفصیلی حال بیان کیا اور بعض کا نہیں کیا۔ بہر حال سب پر ایمان لانا ضروری ہے۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں : یہ یعنی لم نفص ان پیغمبروں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کئی گنا کثیر تعداد میں ہیں جن کے احوال قرآن میں مذکور ہیں۔ جیساکہ سورۃ نساء آیت ٦٤ میں اس پر تنبیہ گزر چکی ہے۔ ( واللہ الحمد وامنہ) کسی قوم کے کسی قدیم رہنماء کے متعلق ( جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے ہو کر گزرے ہیں) قطعی طور پر یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ وہ نبی نہ تھا۔ ممکن ہے کہ وہ نبی ہو اور اس نے توحید ہی کی دعوت پیش کی ہو مگر بعد کے لوگوں نے اس کی تعلیمات کو مسخ کردیا۔ ف ١٣ مطلب یہ ہے کہ معجزہ کوئی کھیل نہیں کہ کافروں نے جب چاہا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کا مطلب کردیا اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب چاہا اسے دکھا دیا۔ بلکہ اسکی حیثیت دو ٹوک فیصلے کی ہے اس لئے اللہ تعالیٰ ہی جب چاہتا ہے اسے اپنے کسی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ سے دکھواتا ہے اور جب تک نہیں چاہتانہیں دکھواتا۔ معجزہ ظاہر ہونے کے بعد مومنوں کی نجات اور باطل پرستوں کی تباہی یقینی ہوجاتی ہے۔ یہ کفار مکہ کے اس مطالبہ کا جواب ہے جو وہ نبی ﷺ سے معجزہ دکھانے کیلئے آئے دن کرتے رہتے تھے۔ غافر
79 ف ١٤ جیسے اونٹ، گائے، بھیڑ اور بکری وغیرہ۔ غافر
80 ف ١ جیسے کہیں کا سفر یا دشمن پر حملہ کرنا۔ غافر
81 ف ٢ یعنی اس کی نشانیاں تو بے شمار ہیں۔ ایک سے انکار کرو گے تو دوسری سامنے آجائے گی۔ علی ہذا القیاس آخر کہاں تک انکار کرتے چلے جائو گے۔ غافر
82 ف ٣ یعنی جب خدا کا عذاب آیا تو نہ ان کی کثرت تعداد انہیں بچا سکی اور نہ ان کا مال و منال ان کے کام آسکا۔ غافر
83 ف ٤ یعنی اپنے فلسفہ، سائنس اور دوسرے دنیوی علوم ہی کو سب کچھ سمجھ کر اپنے آپ کو عقل کل سمجھنے لگے اور انبیاء ( علیہ السلام) کے پیش کردہ وہ علم کا مذاق اڑانے لگے۔ غافر
84 ف ٥ عذاب سے مراد وہ عذاب ہے جوان پر اترنا شروع ہوگیا تھا نہ کہ وہ جس کے ابھی آثار نمودار ہوئے تھے۔ غافر
85 ف ٦ کیونکہ ایمان وہی معتبر ہے جو پوشیدہ حقائق کو آنکھوں دیکھے بغیر ہو۔ عذاب اترنا دیکھ کر تو ہر شخص ایمان لے آتا ہے۔ حضرت عمر (رض) سے روایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( ان اللہ یقبل توبۃ العبد ما لم یغر غر) اللہ تعالیٰ بندے کی توبہ اس وقت تک قبول کرتا ہے جب تک جان کنی کی کیفیت شروع نہ ہو۔ ( ترمذی) ف ٧ زجاج کہتے ہیں کہ کافر ہر وقت خسارہ ( تباہی) میں ہے لیکن وہ اپنے خسارہ کی آنکھوں سے اس وقت دیکھتا ہے جب اس پر عذاب نازل ہوتا ہے۔ ( شوکانی) غافر
0 ف ٨ اس سورۃ کا دوسرا نام سورۃ فضلیت بھی ہے اس کی مکی ہونے پر تمام علمائے تفسیر کا اتفاق ہے تفاسیر میں ہے کہ ایک مرتبہ سرداران قریش نے مشورہ کیا کہ ہم میں سے جو جادو، کہانت اور شعر میں سب سے بڑا ماہر ہو وہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جائے۔ چنانچہ عتبہ بن ربیعہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور ایک طویل گفتگو میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مال، سرداری وغیرہ کا لالچ دیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے دین کی مذمت چھوڑ دیں۔ اس موقع پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عتبہ کے سامنے اسی سورۃ کی ابتداء سے چند آیات تلاوت فرمائیں جن سے وہ بہت متاثر ہوا اور واپس قریش کے پاس آ کر کہنے لگا کہ محمدﷺ کا کلام بر حق معلوم ہوتا ہے اور یہ نہ کہانت ہے اور نہ شعر و شاعری مگر کفارنے اس پر الزام لگایا کہ تم اس کے جادو سے متاثرہو گئے ہو وغیرہ ( ابن کثیر مختصر) فصلت
1 فصلت
2 فصلت
3 ف ٩ یعنی ان میں مختلف مضامین عقائد، حرام و حلال، گزشتہ اقوام کے واقعات اور مثالیں وغیرہ کھول کھول کر واضح انداز میں بیان کئے گئے ہیں۔ ف ١٠ یعنی اصحاب علم و عقل ہیں اور اس کے معانی سمجھتے ہیں۔ فصلت
4 فصلت
5 ف ١ یعنی تمہاری کوئی بات ہم پر اثر انداز نہیں ہو سکتی۔ اور جو دعوت تم لے کر اٹھے ہو اس نے ہمارے اور تمہارے درمیان جدائی ڈالی دی ہے۔ ف ٢ یعنی بتوں کی عبادت اور باپ دادا کی رسوم کی یا دین حق کو مٹانے کی کوشش۔ فصلت
6 ف ٣ یعنی میں تمہارے ہی جیسا ایک انسان ہوں اور وحی کے ذریعہ تمہیں توحید کی طرف دعوت دیتا ہوں اور وہ کوئی ایسی چیز نہیں جسے عقل انسانی سمجھنے سے قاصر ہو۔ میری دعوت میں کوئی ایسی چیز ہے۔ تفرقہ ڈالتی ہو بلکہ یہ تو قومی یک جہتی ہو ہم رنگی پیدا کرنے کا موثر ذریعہ ہے۔ ف ٤” لہٰذا اسی کو پکارو اور اسی سے حاجتیں طلب کرو“۔ ف ٥” زکوٰۃ“ کے لفظی معنی ” پاکیزگی“ کے ہیں اور صدقہ کو زکوٰۃ اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس سے آدمی کا مال پاک ہوجاتا ہے۔ یہ آیت چونکہ مکی ہے اور زکوٰۃ کی فرضیت مدینہ میں ہوئی۔ اس لئے یہاں زکوٰۃ سے مراد صدقہ و خیرات بھی لیا گیا ہے اور اقرار توحید کے ذریعہ نفس کی پاکیزگی بھی۔ ( ابن کثیر) فصلت
7 فصلت
8 ف ٦ یا ’ جس کا ان پر احسان نہ جتایا جائے گا“ لفظ ” غیر ممنون“ کے لغوی طور پر یہ دونوں معنی ہو سکتے ہیں بعض علمائے تفسیر کا خیال ہے کہ یہ آیت بعض علمائے تفسیر کا خیال ہے کہ یہ آیت بیماروں اور کمزوروں کے حق میں نازل ہوئی ہے۔ یعنی قوت اور تندرستی کی حالت میں جتنی عبادت وہ کرنے تھے۔ بیماری کی حالت میں اگر نہ بھی کرسکیں تو انہیں اس عبادت کا ثواب ملتا رہے گا (کدنی الشوکانی) فصلت
9 ف ٧ دو دنوں سے مراد دو عہد زمانے ہیں یا اتنی مقدار جو دو دن کے برابر ہو۔ کیونکہ زمین کی پیدائش سے پہلے موجود دن رات کا وجود نہ تھا بلکہ ان کا وجود زمین اور سورج کی پیدائش کے بعد نمل میں آیاد۔ ( شوکانی) فصلت
10 ف ٨ زمین کی برکت سے مراد درخت اور پودے بھی ہیں پانی بھی اور وہ بے حد و حساب معدنیات بھی جو کھول برس سے اس کے بطن سے نکلتی چلی آرہی ہیں اور تا قیامت نکلتی رہیں گی۔ ف ٩” جن سے وہ زندہ رہیں“ خوراک کے مفہوم میں انسانی زندگی کی ضروریات اور کسب معاش کے جملہ وسائل شامل ہیں۔ ف ١٠ وہ دن زمین کی پیدائش کے اور دو دن اس میں پہاڑوں اور اسباب زیست کی پیدائش کے۔ ف ١١ یعنی یہ وضاحت ان لوگوں کے لئے ہے جو پیدائش کے متعلق سوال کرتے ہیں یا ” سائلین“ کے معنی ہیں ” مانگنے والوں کے لئے“ یعنی ضرورت مندوں کے لئے زمین میں خوراک کا سامان مہیا کردیا ہے۔ فصلت
11 ف ١٢ دھوئیں سے مراد قدیم مفسرین نے پانی کے بخارات لئے ہیں۔ (شوکانی) انہی کو موجودہ سائنس دان ” سیدیم“ یا ” سحابیہ“ سے تعبیر کرتے ہیں۔ یعنی بادلوں کے منتشر اجزاء۔ واللہ اعلم۔ ف ١٣ ائتیا ( آجائو) یعنی میرے حکم کی اطاعت کرو۔ اللہ تعالیٰ نے زمین کو حکم دیا کہ پانی کے چشمے بہا، اپنے نباتات کے خزانے نکال اور آسمان کو حکم دیا کہ سورج، چاند اور ستارے نکالو وغیرہ ( شوکانی) فصلت
12 ف ١٤ اس طرح آسمانوں اور زمین کی پیدائش چھ دن میں مکمل ہوئی۔ ( دیکھئے سورۃ اعراف : ٥٤) ف ١٥ یعنی اس کا نظام جس طرح بنانا تھا بنا دیا۔ ف ١ یعنی شیطانوں کی پہنچ سے اس کی حفاظت کی کہ وہ ملا اعلیٰ کی بات نہ سن سکیں۔ فصلت
13 فصلت
14 ف ٢ یعنی ہر طرف سے ان کے پاس پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آئے۔ ممکن ہے بہت سے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آئے ہوں۔ اگرچہ قرآن میں حضرت ہود ( علیہ السلام) اور صالح ( علیہ السلام) کا ذکر کیا گیا ہے۔ ( موضح) یا ان کے ارد گرد کی آبادیوں میں بہت سے اللہ کے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہو گزرے ہیں جو انہیں اللہ وحدہٗ لا شریک کی عبادت کا حکم دیتے تھے اور یہ ان پیغمبروں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی کرنے والوں کا انجام اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ ( ابن کثیر وغیرہ) ف ٣ نہ کہ تمہیں جو ہماری ہی طرح کے انسان ہو۔ ف ٤ یعنی اس دین کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں جس کے متعلق تمہارا دعویٰ ہے کہ اللہ نے تمہیں دے کر بھیجا ہے۔ یہ وہ اعتراض ہے جو قریش آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کیا کرتے تھے۔ قرآن میں متعدد مقامات پر اس کا جواب دیا گیا ہے۔ فصلت
15 فصلت
16 ف ٥ کئی دنوں سے مراد مسلسل سات راتیں اور آٹھ دن ہیں۔ ( دیکھئے سورۃ الحاقہ آیت ٦، ٧) دنوں کے منحوس ہونے سے مراد یہ ہے کہ وہ ان کے کے حق میں منحوس رہے نہ یہ کہ وہ بجائے خود منحوت تھے۔ فصلت
17 ف ٦ یعنی کافر رہنے کو ایمان لانے پر ترجیح دی۔ فصلت
18 فصلت
19 ف ٧ یعنی اے کفار قریش ! ذرا اس دن کا تصور کرو جب۔۔۔۔۔۔ فصلت
20 ف ١ یا ان کی مثلیں لگائی جائیں گی۔ یعنی ان کی ہر قسم کو الگ الگ جمع کیا جائے گا۔ لفظ ” یوزعون“ کے ” ا گلوں کا روکے جانا“ اور ” مثلیں بنایا جانا“ دونوں معنی صحیح ہیں۔ ( دیکھئے سورۃ نمل ١٧) ف ٢ یہ صورت حال ان منافقین اور کفار کو پیش آئے گی جو اپنے گناہوں کا اقبال کرنے سے انکار کریں گے، فرشتوں کی گواہی کو جھٹلائیں گے اور اپنے نامہ اعمال کی صحت کو تسلیم نہ کریں گے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ حکم دے گا کہ اچھاتم اپنی بکواس بند کرو، دیکھو خود تمہارے ہاتھ پائوں اور دوسرے اعضاء تمہارے خلاف کیا گواہی پیش کرتے ہیں۔ حدیث میں ہے کہ ایک روز آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صحابہ (رض) کی مجلس میں تشریف فرما تھے کہ اچانک مسکرائے اور پھر فرمایا ” کہ کیا تمہیں ہے کہ میں کیوں مسکرایا“ ؟ ہم نے عرض کیا ” نہیں، اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) “ فرمایا میں اس گفتگو سے فرمایا جو قیامت کے روز بندہ اپنے رب سے کرے گا، وہ کہے گا ” یا اللہ ! کیا تو نے ظلم سے مجھے پناہ نہیں دی“۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔ ” ہاں“ بندہ کہے گا ” تو نے اپنے خلاف صرف اس گواہ کی گواہی تسلیم کروں گا جو خود میرا ہو“۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ” تیرے خلاف خود تیری اور تیرے فرشتوں کی گواہی کافی ہے۔ “۔ پھر اس کے منہ پر مہر کردی جائے گی اور اس کے ہاتھ پائوں کو حکم دیا جائے گا کہ گواہی پیش کرو۔ وہ اس کے کرتوتوں کی ساری روداد پیش کردیں گے۔ تب بندہ ان سے کہے گا ” جائو“ مجھ سے دور ہوجائو میں تو جو کرتا تھا تمہارے ہی بچانے کو کرتا تھا۔ ( ابن کثیر)۔ فصلت
21 ف ٣ اور ہم نے تمہارے کرتوتوں کو بیان کردیا، اس میں تعجب کی کونسی بات ہے؟۔ ف ٤ یہ جملہ چمڑوں کی گفتگو کا تتمہ بھی ہوسکتا ہے اور اللہ تعالیٰ کا کلام بھی جو وہ اس موقع پر فرمائے گا۔ فصلت
22 ف ٥ یعنی دوسروں سے چھپتے تھے لیکن چونکہ انہیں یہ اندیشہ نہ تھا کہ خود ہمارے کان، آنکھیں اور چمڑے ہمارے خلاف گواہی دیں گے اس لئے ان سے چھپنے کی ضرورت نہ سمجھتے تھے۔ ف ٦” اس لئے خوب بے باکی سے گناہ کرتے رہتے تھے“۔ حضرت ابن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ میں غلاف کعبہ کے پیچھے چھپا ہوا تھا کہ ایک قریشی اور دو ثقفی یا ایک ثقفی اور دو قریشی آئے اور آپس میں گفتگو کرنے لگے جسے میں سمجھ نہ سکا۔ پھر ایک کہنے لگا ” کیا تم سمجھتے ہو کہ اللہ تعالیٰ ہماری یہ گفتگو سن رہا ہے ؟ دوسرا بولا ” اگر ہم بلند آواز سے گفتگو کریں تب تو وہ سنتا ہے، لیکن اگر ہماری آواز دھیمی ہو تو وہ نہیں سنتا۔ اس پر دوسروں نے کہا : ” اگر وہ یہ سنتا ہے تو سب کچھ سنتا ہے۔ میں نے ان کی اس گفتگو کا ذکر رسول اللہ ﷺ سے کیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے ( وما کنتم تسترون) سے ( من الخاسرین) تک یہ آیتیں نازل فرمائیں۔ ( شوکانی)۔ حضرت معاویہ (رض) بن حیدہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : ” تم اس حال میں اپنے رب کے حضور پیش کئے جائو گے کہ تمہارے منہ پر ڈاٹ لگی ہوگ اور تمہارے خلاف سشب سے پہلے تمہاری رانیں اور تمہاری ہتھیلیاں گواہی دیں گی“۔ اس کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔ ( شوکانی) فصلت
23 ف ٧ حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :” تم میں سے کسی شخص کا انتقال نہیں ہونا چاہیے مگر اس حال میں کہ اللہ سے اس کا گمان اچھا ہو، اس لئے کہ کچھ لوگ ایسے ہیں جن کو اللہ سے ان کا برا گمان ہی لے ڈوبتا ہے، پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔ ( شوکانی) حسن بصری نے یہ آیت تلاوت کی اور پھر فرمایا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ” انا عند من عبدی بی وانا معہ اذا دعانی“ ( میں اپنے بندے کے ساتھ ویسا ہی ہوں جیسا دوسرے ساتھ گمان کرے اور میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں جب وہ مجھ سے دعا کرتا ہے۔) اس کے بعد امام حسن (رض) بصری کچھ دیرخاموش رہے اور پھر بولے ” ہر شخص کا عمل ویسا ہوتا ہے جیسا اس کا اپنے رب سے گمان ہوتا ہے۔ مومن کا اپنے رب سے گمان چونکہ اچھا ہوتا ہے۔ اس لئے اس کا عمل بھی اچھا ہوتا ہے اور کافروں اور منافقوں کا اپنے رب سے گمان چونکہ اچھا نہیں ہوتا اس لئے ان کا عمل بھی خراب ہوتا ہے۔ یہی مطلب ہے اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کا ” وما کنتم۔۔۔۔ الی قولہ من الخاسرین) (ابن کثیر) فصلت
24 ف ٨ مطلب یہ ہے کہ اگر وہ منت سماجت کریں گے تو بھی ان کی شنوائی نہ ہوگی۔ دوسرا مطلب امام ابن جریر (رح) نے یہ بیان کیا ہے کہ اگر وہ یہ چاہیں کہ انہیں دنیا کی طرف لوٹا دیا جائے تو انہیں لوٹا یا نہ جائے گا۔ ( ابن کثیر) فصلت
25 ف ٩ یعنی انسانوں اور جنوں میں سے برے ساتھی ف ١٠ اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ اگر انسان برا ہو تو اسے ساتھی بھی برے میسر آتے ہیں جو اسے سبز باغ دکھاتے رہتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ انسان برائیوں میں مگن ہوجاتا ہے اور آخر کار خود کو اپنے ساتھیوں سمیت لے ڈوبتا ہے۔ ( دیکھئے زخرف : ٣٦) فصلت
26 ف ١١ یعنی جب قرآن پڑھا جاتا ہے تو آپس میں ایک دوسے سے کہتے ہیں۔ ف ١ یعنی قرآن پڑھنے والے کی آواز کو دبا لو اور وہ گھبرا کر قرآن پڑھنا بند کر دے۔ فصلت
27 ف ٢ اس سے برا کام اور کیا ہوگا کہ وہ نہ خود قرآن سنتے اور نہ دوسروں کو سننے دیتے بلکہ اس کے مقابلہ میں بد تمیزی کرتے۔ فصلت
28 فصلت
29 ف ٣ یعنی جن کی ہم دنیا میں پیروی کر کے گمراہ ہوئے۔ ف ٤ حضرت علی (رض) سے اس آیت کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا ’ اس میں جن سے مراد ابلیس اور آدمی سے مراد آدم (علیہ السلام) کا بیٹا قابیل ہے۔ ( شوکانی) فصلت
30 ف ٥ جمہور صحابہ (رض) و تابعین کے نزدیک ” سقامۃ“ سے مراد خلوص عمل اور عقیدۂ توحید پر ثبات ہے۔ ف ٦ یعنی موت یا قبر یا قیامت کی ہولناکیوں سے ڈرو نہیں اور نہ دنیا کے مال و متاع اور اولاد کے چھوٹ جانے پر افسوس کرو۔ فصلت
31 ف ٧ دنیا میں نگہبانی یہ کہ تمہیں نیکی کا الہام کرتے رہے اور آخرت میں بھی تمہارے ساتھی اور مددگار رہیں گے اور تمہیں حفاظت سے جنت تک پہنچائیں گے فرشتے ہر مومن کو اس کی موت کے وقت یہ بشارت دیتے ہیں۔ ( ابن کثیر) فصلت
32 فصلت
33 ف ٨” احسن قولا“ سے مراد قرآن اور داعی سے مراد رسول اللہﷺ ہیں اور پھر قیامت تک ہر وہ شخص اس کے تحت آجاتا ہے جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت لیکر اٹھے۔ یوں با اعتبار معنی اس میں مؤذنین ( آذان دینے والے) اس کے مصداق ہیں۔ جنہوں نے کفار کے نرغہ سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بچایا اور کہا ( اتقتلون رجلا ان یقول ربی اللہ) ( قرطبی وغیرہ) فصلت
34 ف ٩ یعنی کوئی بد خلقی سے پیش آئے تو اس سے خوش اخلاقی سے پیش آئو، کوئی گالی دے تو اسے دعا دو، کوئی غصہ اور خفگی کا اظہار کرے تو اس پر صبر کرو، کوئی ظلم کرے تو اس سے انصاف کرو، الغرض ہر برائی کا مقابلہ اچھائی سے کرو۔ ( نیز دیکھئے، القصص : ٥٤، رعد : ٢٢) فصلت
35 ف ١ یعنی جو اپنے اندر بڑا حوصلہ، عزم، قوت برداشت اور ضبط نفس رکھتے ہیں۔ ف ٢ یعنی جو اللہ تعالیٰ کے ہاں بلند مرتبہ اور اعلیٰ صفات کے مالک ہیں۔ شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں : حوصلہ کشادہ چاہیے کہ بری بات سہار کر سامنے سے بھلی بات کہیے، یہ اقبال مندوں کو ملتا ہے۔ (موضح) فصلت
36 ف ٣ یعنی شیطان دل میں وسوسہ ڈالے اور برائی پر اکسائے۔ شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں :” یعنی کبھی بے اختیار غصہ چڑھ آئے تو یہ شیطان کا دخل ہے۔ ( موضح) ف ٤ صحیحین میں حضرت سلمان (رض) بن صرو سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کی مجلس میں دو آدمی باہم گالم گلوچ کرنے لگے۔ ایک کا پارہ بہت چڑھا ہوا تھا۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مجھے ایک ایسا کلمہ معلوم ہے جسے یہ شخص زبان سے ادا کرے تو اس کا غصہ فرد ہوجائے اور وہ ہے ” اعوذ باللہ من الشیطان الرحیم“ وہ شخص وبولا ” کیا آپ مجھے پاگل سمجھتے ہیں؟ جواب میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ( کچھ کہنے کی بجائے) یہ آیت تلاوت فرمائی ( شوکانی) اس کے متعلق کچھ تشریح سورۃ اعراف ( آیت ٢٠) اور سورۂ مومنوں آیت (٩٧، ٩٨) میں بھی گزر چکی ہے۔ فصلت
37 ف ٥ یعنی یہ چیزیں اللہ تعالیٰ کی بے شمار نشانیوں میں سے چند نشانیاں ہیں جنکی پیدائش اور نظام پر اگر تم غور کرو تو تمہیں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور عظمت کے دلائل مل سکتے ہیں۔ اس آیت سے مقصود ان مشرکین کا رد ہے جو ان چیزوں کو اللہ تعالیٰ کا مظہر سمجھتے ہوئے ان کی پرستش کرتے تھے جیسے صابی اور پارسی حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : ” سورج، چاند اور ہوائوں میں سے کسی کو گالی نہ دو، اس لئے کہ ہوائیں وہ چیز ہیں جو بعض کے لئے رحمت اور بعض کے لئے عذاب بنا کر بھیج جاتی ہیں۔ ( ابن کثیر) ف ٦ یعنی اگر خدا کی عبادت کرنا چاہتے ہو تو براہ راست اسی کو سجدہ کرو جو ان سب کا خالق ہے۔ معلوم ہوا کہ مخلوق کو سجدہ کرنا حرام ہے اور جو لوگ اولیاء کی قبروں اور تعزیہ وغیرہ کو سجدہ کرتے ہیں سو یہ غلط ہے۔ (امام الہند) فصلت
38 ف ٧ یعنی اگر مشرکین اس قدر مغرور و سرکش ہوگئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرنا اپنے شایان شان نہیں سمجھتے تو نہ سمجھیں، اللہ تعالیٰ ان کا محتاج نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کی عظمت کا تو یہ عالم ہے کہ بیشمار مقرب تریں فرشتے جن کے ذریعہ پوری کائنات کا نظام چل رہا ہے دن رات اس کی عبادت اور تسبیح و تقدیس میں مشغول رہتے ہیں اور کبھی نہیں اکتاتے۔ یہ لوگ جھوٹے پندار میں مبتلا رہ کر کسی اور کا نہیں اپنا ہی نقصان کریں گے۔ اس مقام پر سجدہ ہونے میں تو کوئی اختلاف نہیں ہے۔ صرف محل سجدہ میں اختلاف ہے۔ بعض صحابہ (رض) ایاہ تعبدون اور بعض لا یسمون پر سجدہ کرتے تھے۔ ( قرطبی وغیرہ) فصلت
39 ف ٨ یعنی اس میں کھیتی گھاس وغیرہ کچھ نہیں ہوتا۔ زمین کی اسی حالت کو دوسری آیات میں موت سے تعبیر کیا ہے۔ ف ٩ یعنی اس میں کھیتیاں لہلہانے لگتی ہیں، گھاس اگتی ہے۔ الغرض زندگی کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ فصلت
40 ف ١٠ لفظی ترجمہ یہ ہے ” جو لوگ ہماری آیات میں الحاد کرتے ہیں۔ الحاد کے معنی ہیں حق سے پھر کر ٹیڑھی راہ اختیار کرنا۔ اللہ تعالیٰ کی آیات میں الحادیہ ہے کہ ان کا سیدھا سادا اور واضح مطلب لینے کی بجائے غیر متعلق بحثیں کرے اور انہیں غلط مطلب پہنانے کی کوشش کرے۔ جو لوگ مسلمان ہو کر باطل نظریات انظار حدیث، اشراکیت، سرمایہ داری، بدعات وغیرہ کے حامی بن جاتے ہیں وہ یہی طرز اختیار کرتے ہیں، خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ف ١١ اس میں سخت سرزنش ہے کہ یہ لوگ ہماری گرفت سے بچ کر کہیں نہیں جاسکتے۔ فصلت
41 فصلت
42 ف ١ یعنی باطل کی یہ مجال نہیں ہے کہ اس پر کسی پہلو سے حملہ آور ہو سکے، نہ کھلم کھلا سامنے آ کر اور نہ چوری چھپے پیچے سے۔ سو قرآن نقص و زیارت سے محفوظ ہے یا مطلب یہ ہے کہ پہلی کتابیں بھی قرآن کو باطل نہیں کرتیں اور نہ کوئی کتاب پیچھے آئے گی جو اس کو جھٹلا دے۔ فصلت
43 ف ٢ یعنی کفار مکہ اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جادو گر، شاعر، دیوانہ، کاہن یا اسی قسم کے دوسرے ناموں سے یاد کر کے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کو زک دینا چاہتے ہیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اطمینان رکھیں۔ ان کے رکھے ہوئے ناموں میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کا طعنہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے پیغمبروں کو نہ مل چکا ہو۔ لیکن پیغمبروں ( علیہ السلام) نے ہمیشہ صبر کیا اور پوری ہمت سے اپنی دعوت کا سلسلہ جاری رکھا۔ یہی فرض آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اس وقت ہے۔ ف ٣ بخشنے والا ان لوگوں کے لئے ہے جو انبیاء ( علیہ السلام) کے ہاتھ پر اسلامی دعوت قبول کرکے توحید کے قائل ہوگئے اور تکلیف دہ عذاب ان لوگوں کیلئے ہے جنہوں نے انبیاء ( علیہ السلام) کی دعوت کو ٹھکرا دیا۔ فصلت
44 ف ٤ یعنی یہ کفار مکہ بھی عجیب شے ہے۔ اگر ان کے پاس انہی میں سے ایک آدمی عربی میں قرآن لے کر آیا ہے تو کہتے ہیں کہ ایک عرب کا عربی قرآن پیش کرنا کوئی کمال نہیں ہے۔ کمال تو اس وقت ہوتا جب یہ شخص کسی عجمی زبان۔ فارسی، رومی یا ترکی میں قرآن پیش کرتا۔ حالانکہ اگر ہم ان کا مطالبہ مان لیتے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کسی عجمی زبان میں قرآن نازل کردیتے تو یہی لوگ اس وقت اعتراض کرتے کہ یہ عجیب معاملہ ہے کہ عربوں کو دعوت دینے کیلئے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھیجا گیا ہے لیکن قرآن ایک ایسی زبان میں لے کر آیا ہے جسے عرب سمجھ بھی نہیں سکتے۔ ف ٥ یعنی قرآن اگرچہ رشد و ہدایت کا سر چشمہ ہے لیکن وہ ان کافروں کے حق میں کانوں کا بوجھ اور آنکھوں کا پردہ ہے۔ اس کی وجہ ان کی اپنی ہٹ دھرمی اور تعصب ہے۔ اس میں قرآن کا کوئی قصور نہیں ہے بالکل اسی طرح جس طرح سورج روشنی دینے والی چیز ہے لیکن اس کے طلوع ہوتے ہی چمگادڑ کی آنکھیں چند ھیا جاتی ہیں۔ ف ٦ یہ ایک محاورہ ہے اور اس شخص کے حق میں استعمال ہوتا ہے جو کوئی بات نہ سمجھتا ہو۔ ( قرطبی) یعنی یہ لوگ قرآن کو دل سے سننے کی کوشش نہیں کرتے صرف اوپری دل سے سنتے ہیں۔ اس لئے اس سے کوئی ہدایت نہیں پاتے، بالکل اسی طرح جس طرح کسی شخص کو دور سے پکارا جائے اور وہ کوئی آواز تو محسوس کرے مگر مطلب و طلب خاک نہ سمجھے۔ فصلت
45 ف ٧ اس سے مقصود بھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینا ہے۔ یعنی اس سے پہلے موسیٰ ( علیہ السلام) پر توارۃ نازل کی گئی مگر لوگوں نے اسے ماننے اور نہ ماننے میں اختلاف کیا۔ اسی طرح اگر یہ کفار مکہ قرآن کی مخالفت کر رہے ہیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیوں کبیدہ خاطر ہوتے ہیں۔ ( قرطبی) ف ٨ شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں، بات وہی نکل چکی کہ فیصلہ ہے آخرت میں ( موضح) فصلت
46 ف ٩ کہ ان کی نیکیاں برباد کر دے یا ان پر ناکردہ گناہوں کا بوجھ لاد دے۔ مقصد کلیۃً ظلم کی نفی ہے جیسا کہ دوسری آیت میں فرمایا ( ان اللہ لا یظلم الناس شیئا) کہ اللہ تعالیٰ کسی پر ذرہ بھر بھی ظلم نہیں کرتا۔ (قرطبی)۔ فصلت
47 ف 1 یعنی قیامت کب آئے گی ؟ اسے صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے کسی مخلوق کو اس کا علم نہیں ہے۔ روایات میں ہے کہ مشرکین نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا ” اگر تم محمدﷺ دعوائے نبوت میں سچے ہو تو بتائو قیامت کب آئے گی۔ ان کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی۔ (شوکانی) مشہور صحیح حدیث میں ہے کہ حضرت جبریل ( علیہ السلام) نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر قیامت کے بارے میں سوال کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس سے سوال کیا جا رہا ہے وہ سوال کرنے والے سے زیادہ نہیں جانتا نیز دیکھئے اعراف آیت 187 (ابن کثیر) ف 2 مطلب یہ ہے کہ صرف قیامت کا علم ہی نہیں غیب کے متعلق جتنے بھی امور ہیں، ان سب کا علم صرف اللہ تعالیٰ ہی کو ہے۔ کسی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یا ولی کو صرف اسی حد تک امور غیبیہ کا علم ہوسکتا ہے جس حد تک اللہ تعالیٰ نے اسے خبر دی ہوتی ہے۔ ( مزید دیکھئے انعام 59 رعد 8) ف 3 کہ تیرا کوئی شریک ہے یا ہوسکتا ہے کیونکہ اب ہمیں یقین ہوگیا ہے کہ ہم جو دوسروں کو دنیا میں تیرا شریک گردانتے رہے وہ سب غلط تھا۔ یہ بات مشرکین اس وقت کہیں گے جب ایک طرف تو عذاب دیکھیں گے اور دوسری طرف انہیں نظر آئے گا کہ ان کے معبودوں میں سے کوئی بھی ان کی مدد کو نہیں پہنچ رہا۔ فصلت
48 ف 4 یعنی پریشانی کے عالم میں وہ چاروں طرف نگاہ دوڑائیں گے مگر کوئی مددگار نظر نہیں آئے گا۔ فصلت
49 ف 5” خیر“ (بھلائی) سے مراد مال و دولت اور خوشحالی وغیرہ ہے جس کی ہوس سے صرف انبیاء ( علیہ السلام) اور اس کے مخصوص نیک بندے ہی مستثنیٰ ہیں۔ ف 6 جیسے تنگدستی یا بیماری وغیرہ۔ ف 7 اور منہ سے نا شکری کے کلمات نکالنے لگتا ہے۔ فصلت
50 ف 8 یعنی اپنے آپ کو اس کا مستحق گردانتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری کی بجائے اسے اپنی محنت اور ذہانت کا نتیجہ قرار دیتا ہے۔ ف 9 یعنی میں اس کی نظر میں پسندیدہ ہوں تبھی تو اس نے مجھے خوشحالی دی ہے۔ اب یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اگر بالفرض آخرت بھی آئے تو وہ مجھے اپنی گونا گوں نعمتوں سے ہمکنارنہ کرے۔ دنیا پر آخرت کو قیامت کرنا یہ غلط بنیاد پر غلط عقیدہ ہے جس کی متعدد آیات میں قرآن نے تردید کی ہے۔ فصلت
51 ف 10 یعنی اینٹھ جاتا ہے اور حق کے سامنے سرنگوں ہونے کو اپنی کسر شان سمجھنے لگتا ہے۔ فصلت
52 ف 11 لمبی چوڑی دعا سے مراد ایسی دعا ہے۔ جس کے الفاظ زیادہ ہوں مگر مضمون کم ہو۔ (ابن کثیر) ف 12۔ یا ” جو ( اس قرآن کی) انتہائی مخالفت میں پڑاہو۔ لفظ شقاق کے معنی ضد بھی آتے ہیں اور مخالفت بھی۔ فصلت
53 ف 1 انہ کی ضمیر قرآن اور پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے بھی ہو سکتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے لئے بھی پہلی صورت میں آیات سے مراد فتوحات ہونگی اور مطلب یہ ہوگا کہ عنقریب ہی جب گرد و پیش کے ممالک اور خود ان ( قریش) پر فتوحال حاصل ہوں گی ( جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور خلفائے راشدین (رض) کے عہد میں حاصل ہوئیں) تب انہیں یقین حاصل ہوگا کہ قرآن یا پیغمبر بر حق تھے اور یہ ناحق ان کی تکذیب کرتے رہے ہیں اور دوسری صورت میں یہ ہوگا کہ اگر یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کے ان دلائل پر غور کریں جو خود ان کے اندر اور باہر آفاق میں پائے جاتے ہیں تو ان کو اللہ کے یکتا اور خالق و مالک ہونے کا یقین ہوجائے۔ آفاق میں دلائل سے مراد سورج چاند وغیرہ ہیں۔ پہلے مطلب کو ابن جریر (رح) نے اختیار کیا ہے اور دوسرے مطلب کو بعض تابعین علمائے تفسیر نے ترجیح دی ہے۔ ( قرطبی، شوکانی) ف 2 یعنی اسے ہر چیز کا حال معلوم ہے۔ اس بناء پر اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دعوائے نبوت میں معاذ اللہ جھوٹے ہوتے تو وہ ہرگز آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کامیاب نہ ہونے دیتا۔ فصلت
54 ف 3 یعنی انہیں آخرت کے آنے کا یقین نہیں ہے اسی لئے وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکذیب کر رہے ہیں۔ ف 4 یعنی ان کی ایک ایک حرکت کا اسے علم ہے، لہٰذا یہ اس کی گرفت سے بچ نہیں سکتے۔ فصلت
0 ف 5 یہ سورۃ بھی مکی ہے اور اس کا دوسرا نام ” حم عسق“ بھی ہے۔ ( شوکانی) الشورى
1 الشورى
2 الشورى
3 ف 6 یعنی اس سورۃ میں توحید اور حیات بعد الموت سے متعلق جو مضامین بیان کئے گئے ہیں انہیں اللہ تعالیٰ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرح پچھلے تمام انبیاء ( علیہ السلام) کی طرف بھی وحی کرتا رہا ہے۔ یا یہ مطلب ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یہ قرآن نازل کیا ہے اسی طرح وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے انبیاء ( علیہ السلام) پر بھی کتابیں اور صحیفے نازل فرماتا رہا ہے۔ الشورى
4 الشورى
5 ف 7 یعنی اللہ تعالیٰ کی عظمت کے زور سے یا فرشتوں کے ذکر کی کثرت سے تاثیر ہو اور وہ پھٹ پڑیں۔ حضرت ( علیہ السلام) نے فرمایا : آسمانوں میں چار انگشت جگہ نہیں جہاں کوئی فرشتہ سر نہیں رکھ رہا سجدے میں“۔ ( موضح) ف 8 جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا :” ویستغفرون للذین امنوا“ کہ حاملین عرش اور جو فرشتے اس کے ارد گرد ہیں وہ مومنین کے لئے استغفار کرتے ہیں۔ ( مومن 7) بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ فرشتوں کے استغفار سے مراد یہ ہے کہ وہ ایسے اسباب پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں جن سے بندوں کی بخشش ہو اور ان سے عذاب ٹلے تاکہ کافر ایمان لائے اور فاسق توبہ کرے۔” استغفار“ کے یہ معنی لئے جائیں تو مومنوں کے ساتھ استغفار کی تخصیص کی کوئی وجہ نہیں رہتی بلکہ اس معنی میں استغفار زمین کے تمام رہنے والوں کیلئے عام ہوجاتا ہے۔ چاہیے وہ مومن ہو یا کافر اور یوں خود اس آیت میں بھی کوئی ایسا لفظ نہیں ہے جو اسے صرف اہل ایمان کے لئے مخصوص کرتا ہو بلکہ قرطبی نے انہی دوسرے معنی کو راحج قرار دیا ہے۔ ( شوکانی) الشورى
6 ف 9 ” اولیاء“ ( سرپرستوں) سے مراد وہ بت اور دیوتا ہیں جن کی مشرکین پوجا کرتے تھے۔ ف 10 ” حفیظ“ کے معنی حفاظت کرنے والا اور اعمال کا حساب رکھنے والا دونوں ہیں یہاں چونکہ ان کے ساتھ علیھم ( ان پر) کا لفظ استعمال ہوا اس لئے اس کے دوسرے ہی معنی مراد لئے جاسکتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے پاس ان کے تمام اعمال حساب کی فرض سے محفوظ ہیں وہ عنقریب انہیں بدلہ دے گا۔ ف 11 کہ وہ اگر راہ راست پر نہ آئیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر گرفت ہو۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذمہ صرف ہمارا پیغام پہنچا دینا ہے۔ اس سے مقصود آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینا ہے کہ ان کافروں کے ایمان نہ لانے پر کبیدہ خاطر نہ ہو۔ الشورى
7 ف 12 ام القری کے لفظی معنی ہیں بستیوں کی ماں یا جڑ اور گرد سے مراد ساری دنیا ہے۔ مکہ کو ام القری اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ روئے زمین کے تمام شہروں ( قریٰ) سے افضل و اشرف ہے۔ جیسے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ کے بازار میں کھڑے ہو کر فرمایا : واللہ انک لخیر ارض اللہ واحب ارض اللہ الی کہ اللہ کی قسم ! تو اللہ کی سب سے بہتر اور میری سب سے محبوب زمین ہے۔ ( ابن کثیر) شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں ” بڑا گائوں پر فرمایا مکہ کو کہ سارے عرب کا مجمع وہاں ہوتا ہے اور ساری دنیا میں گھر انند کا وہاں ہے آس پاس اسکے اول عرب پھر ساری دنیا۔ ف 13 یعنی قیامت کے دن ( یوم الجمع) نتائج اعمال کے اعتبار سے ایک گروہ جنتی ہوگا اور دوسرا دوزخی یا یہ کہ اللہ تعالیٰ کے علم ازلی میں جنتی اور دوزخی لکھے جا چکے ہیں۔ ( ابن کثیر)۔ الشورى
8 ف 1 یعنی اللہ تعالیٰ کو یہ قدرت تو تھی کہ دوسری مخلوقات کی طرح انسانوں کو بھی بے اختیار پیدا کرتا۔ اگر وہ ایسا کرتا تو تمام انسان ایک ہی دین ( دین حق) پر ہوتے اور ان میں اختلاف نہ ہوتا، مگر اس نے انسان کو اختیار و ارادہ میں آزادی دیکرپیدا کیا تاکہ امتحان ہو۔ الشورى
9 ف 2 یعنی دوسروں کو اپنا سر پرست اور مددگار بنانے سے کیا فائدہ ؟ مددگار بنائے جانے کا حق صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔ الشورى
10 ف 3 یعنی وہی قیامت کے روز فیصلہ فرمائے گا کہ تم میں سے کون حق پر تھا اور کون باطل پر ؟ یا مطلب یہ ہے کہ اگر اہل کتاب اور مشرکین دین کے معاملہ میں تم سے بحث و اختلاف کریں تو کہہ دو کہ اس کے حق و ناحق ہونے کا فیصلہ اللہ کے حکم پر ہے اور نہ کہ تمہاری رائے اور قیاس و اجتہاد پر۔ ای امور الشرائع تتلقی من بیان اللہ جیسا کہ فرمایا ( وانا تنازعتم فی شی فردوہ الی اللہ والرسول) یعنی اگر کسی معاملہ میں اختلاف کرو تو اس کا فیصلہ اللہ و رسول کی طرف پھیر دو۔ ( نساء 59) آج بھی امت مسلمہ کے ما بین تمام اختلافات کا تصفیہ اس اصل پر ہوسکتا ہے۔ ( منہ) ف 4 یعنی جو ہر اختلاف کا فیصلہ کرنے والا اصل حاکم ہے۔ ف 5 یعنی ہر مصیبت اور مشکل کے موقع پر میں اسی کی طرف دیکھتا ہوں اور اسی سے مدد کی درخواست کرتا ہوں اسی کی پناہ ڈھونڈتا ہوں، اسی کی حفاظت پر بھروسہ کرتا ہوں اور اسی کی تعلیم و ہدایت میں اپنے لئے راہ نجات تلاش کرتا ہوں۔ الشورى
11 ف 6 یعنی تمہاری نسل کو زمین کے ہر حصہ میں پھیلاتا ہے۔ ف 7 یعنی کوئی چیز نہ ذات میں اس جیسی ہے اور نہ صفات میں، کیونکہ ہر چیز مخلوق ہے اور وہ خالق اور ظاہر ہے کہ کسی مخلوق کو اپنے خالق سے مشابہت نہیں ہو سکتی۔ اس میں لفظ ” مثل“ پر کاف ( حرف تشبیہ) یا تو زائد ہے اور مطلب یہی ہے کہ اس کی مثال کوئی چیز نہیں ہے۔ یا اس میں ” مثل“ کا لفظ مبالغہ کے لئے استعمال کیا گیا ہے اور مقصد یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کا کوئی مثل ہوتا بھی تو اس جیسی بھی کوئی چیز نہ ہوتی کجا کہ وہ خود اللہ تعالیٰ جیسی ہو۔ ( شوکانی)۔ ف 8 اس سے معلوم ہوا کہ سننا اور دیکھنا اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ہے اور اس کی نفی یا تاویل نہیں کی جاسکتی۔ جیسا کہ سلف کا مسلک ہے مگر لیس کمثلہ شی سے معلوم ہوا کہ اس کا سننا اور دیکھنا مخلوق کی طرح کا نہیں ہے وہ تو بیک وقت ساری کائنات میں ہر چیز کو دیکھ رہا ہے اور ہر ایک کی آواز سن رہا ہے مگر کسی مخلوق کو یہ قدرت حاصل نہیں ہے۔ الشورى
12 ف 9 یعنی وہی جانتا ہے کہ کس کے حق میں زیادہ روزی دینا بہتر ہے اور کس کے حق میں کم روزی دینا۔ الشورى
13 ف 10 یعنی دین ” اسلام“ یا ” توحید“ جس کی طرف آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دعوت دے رے ہیں، کوئی نیادین نہیں ہے بلکہ یہ وہی دین ہے جس کا حکم نوح ( علیہ السلام)، ابراہیم ( علیہ السلام)، موسیٰ ( علیہ السلام)، عیسیٰ ( علیہ السلام) اور پچھلے تمام پیغمبروں ( علیہ السلام) کو دیا گیا تھا۔ یہ تمام پیغمبر ( علیہ السلام) اصول عقائد میں متفق تھے اور لوگوں کو انہی چیزوں پر ایمان لانے کی دعوت دیتے تھے جن پر ایمان لانے کی دعوت آج محمدﷺ دے رہے ہیں۔ ( قرطبی وغیرہ) شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں : ” اصل دین ہمیشہ سے ایک ہی ہے اس کے قائم کرنے کے طریق ہر وقت ( یعنی زمانہ) میں جدا ٹھہر دیئے ہیں اللہ نے اور انہی طرق کو شرائع کیا جاتا ہے۔ ف 11 یا دین کو قائم کرو لفظ اقیمو الدین کے یہ دونوں معنی ہو سکتے ہیں اور انبیاء علیہم السلام دین کو قائم کرنے اور قائم رکھنے دونوں پر مامور ہوتے ہیں۔ ف 12 دین میں پھوٹ ڈالنے سے مراد یہ ہے کہ اللہ و رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعض باتوں کو ماننے سے انکار کیا جائے یا ان کی من مانی تاویل کی جائے۔ ف 13 یا توحید اور اپنے دین میں داخلہ کیلئے چن لیتا ہے۔ ف 14 یعنی اسے اپنے قرب اور نیک عمل کی توفیق دیتا ہے۔ معلوم ہوا کہ اللہ کی توفیق و ہدایت پانے کیلئے اس کی طرف دل سے رجوع ہونا ضروری ہے۔ الشورى
14 ف 15 یعنی یہ فرقہ بندی انہوں نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے علم یعنی واضح ہدایت آجانے کے بعد کی یا اس کا علم ہوجانے کے باوجود کہ فرقہ بندی گمراہی ہے انہوں نے دین میں تفرقہ پیدا کیا۔ ( فتح) ف 1 یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ کے یہود و نصاریٰ۔ ف 2 اور اسی لئے وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان نہیں لا رہے۔ الشورى
15 ف 3 یعنی انہیں خوش کرنے کے لئے دین میں کسی قسم کی مداہنت نہ کیجئے۔ ف 4 یعنی تمہارے ہر نبی اور ہر کتاب کو مانوں، یا تمہارے مقدمات میں انصاف سے فیصلہ کروں یا تم سب کو ایک نظر سے دیکھوں۔ صحیح کو صحیح اور غلط اور غلط قرار دوں، خواہ کہنے والا کوئی ہو۔ ف 5 یعنی جھگڑا کرنے کی ضرورت نہیں۔ جو بات حق تھی وہ ہم نے واضح کردی اور تم سے سن لی۔ اب ماننا یا نہ ماننا تمہارا کام ہے۔ ف 6 وہاں پورا انصاف ہوجائے گا۔ الشورى
16 ف 7 اور جب خدا کو اس کے بندے مان چکے یعنی جب کہ اللہ کے دین اور اس کی کتاب کی صداقت واضح ہوچکی ہے حتیٰ کہ بہت سے تجربہ کار اور سمجھ دار لوگ اسے قبول کرچکے ہیں تو اس کے باوجود جو لوگ ایمان لانے والوں سے الجھتے جھگڑتے اور اس کو اللہ کے دین سے وکتے رہتے ہیں، وہ اللہ تعالیٰ کے غضب اور سخت عذاب کے مستحق ہیں۔ ان کے سب جھگڑے باطل اور تمام بحثیں واہی و لغو ہیں۔ ان جھگڑنے والوں سے مراد یا تو وہ مشرکین ہیں جو اسلام کا روز افزوں غلبہ دیکھنے کے باوجود یہ خیال کرتے تھ کہ شاید جاہلیت کا دور پھر پلٹ آئے۔ اور یا ان سے یہود و نصاری ہیں جو مسلمانوں سے کہا کرتے تھے کہ ہمارا نبی مہراے نبی سے پہلے ہے اور اپنے آپ کو انبیاء کی اولاد ہونے کی وجہ سے سارے جہاں سے افضل بتایا کرتے تھے۔ ( ابن کثیر وغیرہ) الشورى
17 ف 8 المیزان ترازو سے مراد اکثر فمسرین نے عدل و انصاف لیا ہے۔ یعنی کتابیں نازل کرنے کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے عدل و انصاف کا حکم دیا ہے۔ بعض نے اس سے مراد دین حق اور بعض نے جزاو سزا کا قانون لیا ہے مگر یہ سب اقوال با اعتبار مآل ایک ہی ہیں۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ ترازو فرمایا دین کو جس میں بات پوری ہے نہ کم نہ زیادہ (موضح) ف 9 اس لئے عدل و انصاف کا شیوہ مت چھوڑو۔ حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے سوال کیا کہ قیامت کب ہوگی؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” افسوس ہے تجھ پر، تم بتائو کہ اس کے لئے تیاری کیا کی ہے؟ الشورى
18 ف 10 اس لئے کہ وہ اس کے آنے کو محال سمجھتے ہیں اور بطور استہزاء کہتے ہیں کہ اگر وہ واقعی آنے والی ہے تو جلد کیوں نہیں آجاتی۔ روایات میں ہے کہ ایک مجلس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قیامت کا ذکر فرمایا، کچھ مشرکین بھی وہاں موجود تھے۔ وہ ازراہ تکذیب کہنے لگے ’ ’ قیامت کب آئیگی“؟ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں ( شوکانی) ف 11 اس لئے کہ انہیں اس میں محاسبہ کا ڈر ہے۔ ف 12 وہ چونکہ ایمان لانے اور نیک اعمال اختیار کرنے کو بیکار سمجھتے ہیں۔ اس لئے نڈر ہو کر گناہ کرتے ہیں اور جس ٹیڑھی راہ پر چاہتے ہیں اندھا دھند چلتے رہتے ہیں۔ الشورى
19 ف 13 اس لئے ان میں سے بہت سوں کی تکذیب و استہزاء کے باوجود انہیں بھوکا نہیں مارتا بلکہ ان کی تمام ضرورتوں کو اپنے لط و کرم سے پورا کرتا ہے۔ ف 1 یعنی روزی کے سلسلہ میں کسی کا اس پر زور نہیں ہے کہ وہ دینا چاہیے تو اسے روک سکے اور نہ دینا چاہے تو اس سے لے سکے۔ الشورى
20 ف 2 یعنی دنیا میں نیک کاموں کی زیادہ توفیق دیتے ہیں اور آخرت میں دس سے سات سو گنا تک اس کا اجر بڑھائیں گے۔ ف 3 کیونکہ اس نے جو اعمال کئے ان سے ان کی نیت یہ تھی ہی نہیں کہ آخرت کا ثواب حاصل کیا جائے۔ ایک حدیث میں بھی ہے کہ جو شخص آخرت کا عمل کر کے دنیا چاہے گا اس کے لئے آخرت میں کچھ حصہ نہ ہوگا۔ دیکھئے اسرائیل آیت 18) شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں :” دنیا کے واسطے جو محنت کرے موافق قسمت کے ملے، یہ اس محنت کا فائدہ، آخرت میں نہیں“۔ الشورى
21 ف 4” جیسے شرک اور گناہ کا کام“۔ ف 5 یعنی شرک جس کا یہ ارتکاب کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں اتنی بڑی جسارت ہے کہ اگر اللہ نے یہ طے نہ کردیا ہوتا کہ ان کا فیصلہ قیامت کے روز کیا جائے تو کبیھ کا دنیا ہی میں ان عذاب آچکا ہوتا اور یہ سب لوگ تباہ ہوچکے ہوتے۔ الشورى
22 ف 6 دنیا کے عیش و آرام کی اس کے سامنے کوئی حقیقت نہیں۔ الشورى
23 ف 7 یعنی اس تبلیغ رسالت پر میں تم سے کسی دنیوی مفاد کا طالب نہیں ہوں مگر اتنا تو کرو کہ قرابت کا پاس رکھو اور مجھے ناحق نہ ستائو۔ آیت کے یہ معنی صحیحین اور حدیث کی دوسری کتابوں میں حضرت ابن عباس (رض) سے نقول ہیں اور یہی راحج ہیں۔ شاہ صاحب (رح) نے بھی اپنی توضیح اسی کو اختیار کیا ہے۔ بعض نے قربی سے اطاعت کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کا تقریب مراد لیا ہے اور یہ معنی سورۃ فرقان کی آیت 57 کے مطابق ہیں۔ بعض مفسرین نے ” المودۃ فی القربی“ کے یہ معنی کئے ہیں کہ ماسواء اس کے کہ ” میرے اہل بیت سے محبت کرو“ بلا شبہ اہل بیت کی محبت و تعظیم اپنی جگہ پر ہے اور ایمان کا لازمی تقاضا ہے۔ مگر آیت کے یہ معنی کسی اعتبار سے بھی صحیح نہیں ہیں خصوصاً جبکہ یہ آیت مکی ہے اور جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضرت علی (رض) اور فاطمہ (رض) کا نکاح تک نہیں ہوتا تھا کجا کہ ان کے ہاں اولاد ہوتی۔ دوسرا یہ کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اپنے ” اہل بیت“ سے محبت کا مطالبہ کفار قریش سے کرنا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان رفیع کے بھی مناسب نہیں ہے۔ ( ابن کثیر وغیرہ) الشورى
24 ف 8 یعنی نبوت کا جھوٹا دعویٰ کردیا اور قرآن خود تصنیف کر کے خدا کی طرف منسوب کردیا۔ ف 9 یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قلب کو مائوف کر دے اور اب تک اتارا ہوا سارا قرآن سلب کرلے، مطلب یہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یہ الزام قطعی غلط ہے۔ اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خدا پر ادنیٰ سا بہتان بھی باندھتے تو وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہرگز پنپنے نہ دیتا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوری طرح انتقام لیتا۔ ( نیز دیکھئے الحاقہ : 44، 47) شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں :” یعنی اللہ اپنے اوپر کیوں جھوٹ بولنے دے۔ دل کو بند کر دے مضمون نہ آوے“۔ ف 10 یعنی اللہ تعالیٰ کا قاعدہ ہے کہ وہ باطل کو پائیداری نہیں بخشتا اور آخر کار اپنے کلام ہی کے ذریعہ ( یعنی قرآن اتار کر) حق ہی کو غالب کر کے چھوڑے گا، اس لئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کافروں کے جھوٹے الزامات کی ہرگز پروا نہ کریں اور اپنی دعوت کا کام جاری رکھیں۔ شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں :” اور چاہے تو کفر کو مٹا دے بن پیغام بھیجے۔ مگر وہ اپنی باتوں سے دین ثابت کرتا ہے اس اسطے نبی پر کلام بھیجتا ہے“ اس صورت میں ( ویمح اللہ الباطل) کا عطف یختم پر ہوگا اور پہلی صور میں (قلبک) پر کلام تمام ہوگا اور ( ویمح الباطل) جملہ مستانفہ ( کذافی القرطبی) ف 11 یعنی وہ جانتا ہے کہ جو لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یہ الزام لگا رہے ہیں وہ کن فاسد ارادوں سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یہ الزام لگا رہے ہیں ان کی سزا یقینا انہیں مل کر رہے گی۔ الشورى
25 ف 1 یعنی بندوں کے تمام اعمال کا علم رکھنے کے باوجود وہ ان کی توبہ قبول کرتا اور ان کی برائیاں معاف فرماتا ہے بشرطیکہ وہ صدق دل سے اس کی طرف رجوع کریں۔ اس آیت میں توبہ کی ترغیب ہے اور ایک حدیث میں بھی ہے۔ جب بندہ اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس شخص کی بنسبت کہیں زیادہ خوش ہوتا ہے جس کا اونٹ کسی جنگل بیابان میں گم ہوگیا۔ اس اونٹ کی پیٹھ پر اسکا کھانے پینے کا سامان بھی تھا، جب وہ مایوس ہو کر مرنے کو ایک درخت کے نیچے لیٹ گیا تو یکایک کیا دیکھتا ہے کہ اس کی سواری اس کے سامنے کھڑی ہے وہ فرط مسرت سے اللہ تعالیٰ کو یوں خطاب کرتا ہے، اے اللہ تو میرا بندہ اور میں تیرا رب ہوں۔ ( ابن کثیر)۔ الشورى
26 الشورى
27 ف 2 کیونکہ اس وقت کوئی کسی کا محتاج نہ ہوتا۔ اس لئے من مانی کا رروائی کرتا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت ہے کہ اس نے دنیا میں بندے کو دوسرے کا محتاج بنایا اور لوگ ایک دوسرے کے ساتھ باہم تعاون سے زندگی بسر کرتے ہیں۔ یا ” لبغوافی الارض“ کا مطلب یہ ہے کہ انسان مزید کی حرص کرتا اور بے صبری سے مال جمع کرتا ” لو کان لا بن ادم وادیان من ذھب لا تبغی ثالثا“ گو کسی کے پاس مال کی دو وادیاں بھری ہوں تو وہ تیسری کا خواہش مندہو۔ ( قرطبی) ف 3 اس لئے ہر شخص اپنی حد میں رہنے پر مجبور ہے۔ اب جو بعض بندے اپنی ضروریات سے زیادہ روزی پا کر زمین میں فساد برپا کرتے ہیں تو ان کا یہ فساد استثنائی قسم کا ہے عام فساد نہیں ہے۔ الشورى
28 ف 4 یعنی مینہ برستا ہے اور زمین آباد ہوجاتی ہے۔ اس میں حکمت یہ ہے کہ لوگ سمجھ لیں کہ مینہ برسانا بھی صرف اللہ کے اختیار میں ہے اور پھر مایوسی کے بعد بارش کی خوشی بھی بہت زیادہ ہوتی ہے۔ یہ گویا بندوں کو شکر کی دعوت ہے۔ الشورى
29 ف 5 مراد تمام فرشتے، انسانوں، جن اور حیوانات ہیں جو زمین کے علاوہ آسمانوں کے بھی مختلف طبقات میں پھیلے ہوئے ہیں اور سب کی زبانیں شکلیں، رنگ اور جنسیں مختلف ہیں۔ یا دابہ سے مراد وہ جانور ہیں جو زمین پر رہتے ہیں مگر ” فیھما“ لفظ تثنیہ سے تعبیر فرمادیا ہے جیسا کہ آیت ” یخرج منھما لولو المرجان“ میں منھما فرمایا ہے حالانکہ موتی صرف کھاری سمندر سے نکلتے ہیں۔ الشورى
30 ف 6 یعنی تمہارے اپنے برے اعمال کا نتیجہ ہوتا ہے۔ ف 7 یہ اس کی رحیمی اور کریمی ہے۔ اگر وہ ہر قصور پر گرفت کرتا تو زمین پر کوئی جاندار باقی نہ رہتا۔ شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں : یہ خطاب عاقل بالغ لوگوں کو ہے گنار گاہ ہوں یا نیک، مگر بنی ( اس میں) نہیں داخل اور لڑکے ان کے واسطے اور کچھ ہوگا اور سختی دنیا کی بھی آگئی اور قبر کی اور آخرت کی “۔ بھی ( موضح) حضرت ابو موسیٰ ( علیہ السلام) سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : ” بندے کو کوئی چھوٹی یا بڑی مصیبت نہیں پہنچتی مگر وہ اس کے گناہ کی بدولت ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ اس سے جو درگزر فرماتا ہے وہ اس سے زیادہ ہوتا ہے“۔ اور پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔ (شوکانی بحوالہ ترمذی) الشورى
31 ف 8 یعنی وہ گرفت کرنا چاہیے تو اس سے بھاگ کر کہیں نہیں جاسکتے۔ الشورى
32 الشورى
33 ف 9 یعنی جسے اگر مصیبت اور بد حالی پہنچی ہے تو صبر کرتا ہے اور اگر نعمت و خوشحالی نصیب ہوتی ہے تو شکر کرتا ہے، کسی حال میں اللہ تعالیٰ سے غافل نہیں ہوتا اور اپنی بندگی کی حد سے نہیں نکلتا۔ الشورى
34 الشورى
35 ف 1 شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں : ” جو لوگ ہر چیز اپنی تدبیر سے سمجھتے ہیں اس وقت ( سمندر میں ڈوبتے وقت) عاجز رہ جائیں گے۔ (موضح) الشورى
36 ف 2 یعنی یہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جسے پاکر انسان اخروی زندگی سے بے پروا ہوجائے۔ الشورى
37 ف 3 یعنی وہ اعلیٰ درجہ کا بھی ہے اور ہمیشہ رہنے والا بھی جبکہ دنیا کا مال و متاع اس کے مقابلے میں معمولی نوعیت کا بھی ہے اور عارضی بھی۔ ف 4 بڑے گناہوں کی تشریح کے لئے ( دیکھئے سورۃ نساء آیت 31) ف 5 غصہ کو پی کر لوگوں کی خطا معاف کردینا انسان کے بہترین اوصاف میں سے ہے۔ ( دیکھئے آل عمران :130، 133) صحیحین میں حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے کبھی اپنی ذات کیلئے انتقام نہیں لیا البتہ جب اللہ کی قائم کردہ حرمتوں میں سے کسی حرمت کو توڑا جاتا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انتقام لیتے تھے۔ ( ابن کثیر) اور در گزر کا وصف آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد خلفائے راشدین (رض) میں بدرجہ اتم پایا جاتا تھا۔ ( قرطبی) الشورى
38 ف 6 یعنی وہ اپنے تمام اجتماعی، سیاسی مسائل آپس کے صلاح و مشورہ سے طے کرتے ہیں اور اس چیز کو اسلامی نظام اجتماعی کی ہم امتیازی خصوصیت کے طور پر ذکر کیا گیا ہے۔ سورۃ آل عمران ( آیت 159) میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) احکام منصوصہ کے سوا ہر قسم کے مصالح ملکی کے بارے میں صحابہ (رض) سے مشورہ کرتے اور ان کے مشورے قبول فرمایا کرتے تھے اور بعد میں خلافت راشدہ کی بنیاد ہی شوری پر رکھی گئی اور حضرت ابو بکر (رض) کا انتخاب بھی اسی اصل کے تحت ہوا۔ موجود دور کی جمہوریت اور اسلامی شورائی نظام میں اہم بنیادی فرق یہ ہے کہ جدید جمہوریت میں نمائندگان جمہور قانون سازی کے غیر محدود اختیارات رکھتے ہیں، لیکن اسلام میں کتاب و سنت کے نصوص کی موجودگی میں خلیفہ کو مشاورت کی ضرورت نہیں ہے بلکہ جب کسی امر کے متعلق کتاب و سنت کا فیصلہ نہ ملتا ہو تو پھر پیش آمدہ اجتماعی امور میں ” مجلس مش اور ت“ مجاز ہے کہ کوئی فیصلہ کرے۔ ف 7 یعنی فرض زکوٰۃ اور نفلی صدقات ادا کرتے ہیں۔ الشورى
39 ف 8 یعنی وہ ظالم کے مقابلہ میں ڈٹ جانے والے اور ظالم سے اس کے کئے کا پورا بدلہ لینے والے ہیں۔ ہاں جس حد تک ذاتی غصے کا تعلق ہے اس میں عضو سے کام لینا افضل ہے جیسا کہ آگے آرہا ہے۔ الشورى
40 ف 9 یعنی بدلہ لینے میں اس قاعدہ کو ملحوظ رکھنا چاہیے کہ جس قدر زبانی ہوئی ہے اس سے بڑھ کر بدلہ نہ لے۔ ف 10 یعنی اللہ تعالیٰ اسے اجر عطا فرمائے گا۔ حدیث میں ہے کہ قیامت کے روز منادی ہوگی کہ وہ لوگ کھڑے ہوجائیں جن کا ثواب اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے۔ پھر وہی لوگ کھڑے ہونگے جنہوں نے دنیا میں لوگوں کے قصور معاف کئے تھے۔ ( شوکانی) ف 11 ظالم وہ ہے جو برائی کی ابتداء کرے یا برائی کا بدلہ لینے میں اس سے زیادہ برائی کا ارتکاب کرے۔ حضرت ابو ہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو دو شخص اہم گالم گلوچ کریں تو اس کا سارا وبال پہل کرنے والے پر ہے جب تک کہ دوسرا بدلہ لینے میں حد سے تجاوز نہ کرے۔ الشورى
41 ف 12 بشرطیکہ اتنا ہی بدلہ لے جتنا اس پر ظلم ہوا ہے۔ الشورى
42 ف 13 یعنی لوگوں کی جان و مال اور عزت و آبرو پردست درازی کرتے ہیں۔ الشورى
43 ف 14 جو اللہ تعالیٰ کی نظر میں بہت پسندیدہ ہیں اور ان کا اس کے ہاں بڑا اجر ہے۔ الشورى
44 ف 15 یعنی جس کی ضد اور ہٹ دھرمی کا اللہ تعالیٰ یہ بدلہ دے کہ اسے عدل و انصاف صبر اور عفو و درگزر جیسے اعلیٰ اخلاق کی توفیق نہ دے۔ ف 1 تاکہ وہاں برائیوں کی بجائے نیکیاں کریں اور نیک بن کر خدا کے حضور پیش ہوں۔ الشورى
45 ف 2 جیسے کسی کے ہاتھ پائوں باندھ کر تلوار سے مارنے لگیں تو وہ ڈر کے مارے آنکھیں بند کرلے لیکن کبھی کبھی کنگھیوں سے دیکھ لے کہ آیا تلوار سر پر لٹکی ہوئی ہے یا ٹل گئی ہے۔ پوری طرح آنکھ کھول کر نہ دیکھ سکے۔ ف 3 اپنے آپ کو تباہ اس طرح کیا کہ خواہ گمراہ ہوئے اور گھر والوں کو بھی گمراہ کیا۔ ( ابن کثیر) الشورى
46 ف 4 یعنی نہ دنیا میں ہدایت کا راستہ اور نہ آخرت میں نجات یا بہشت کا راستہ الشورى
47 ۔ ف 5 یعنی جسے نہ اللہ تعالیٰ خود ٹالے گا اور نہ کسی دوسرے میں طاقت ہے کہ اسے ٹالنے پر مجبور کرسکے۔ ف 6” بلکہ تمہیں چار و ناچاران کا اقرار کرنے پڑے گا، کیونکہ تمہارے ہاتھ پائوں تک تمہارے خلاف گواہ بن کر کھڑے ہوجائیں گے “۔ یہ مطلب اس صورت میں ہے جب ” نکیر“ کے معنی ” انکار“ کئے جائیں اور اگر اس کے معنی ” منکر“ ( بدلنے والا) کئے جائیں تو مطلب یہ ہوگا کہ نہ کوئی تمہارے حال کو بدلنے والا ہوگا “۔ حافظ ابن کثیر (رح) اس کی تشریح میں لکھتے ہیں کہ ” تمہارے لئے بھیس بدل کر بچ نکلنے کا کوئی بھی موقع نہ ہوگا۔ الشورى
48 ف 7 اور نہ مانیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے باز پرس ہو۔ ف 8 یعنی اللہ تعالیٰ کی سب نعمتوں کو بھول جاتا ہے اور سراپا شکوہ و شکایت بن جاتا ہے۔ یہ بات نوع انسانی کے اکثر افراد کے لحاظ سے فرمائی گئی ہے۔ انبیاء ( علیہ السلام) اور نیک بندے اس سے مستثنیٰ ہیں۔ الشورى
49 الشورى
50 الشورى
51 ف 1 کسی کی مجال نہیں کہ اس کے فیصلہ کو نافذ ہونے سے روک سکے یا اس کی تخلیق و تقسیم پر حرف گیری کرسکے۔ ف 2 یعنی اس طرح کہ دل میں کوئی بات ڈال دے یا خواب میں کچھ دکھا دے جیسے حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) اور حضرت یوسف ( علیہ السلام) کو خواب دکھایا گیا۔ ( الصافات :103، یوسف 4) ایک حدیث میں ہے کہ ” روح القدس ( جبریل ( علیہ السلام) نے میرے دل میں یہ بات ڈال دی کہ کوئی جان اس وقت تک نہ جائے گی جب تک اپنا رزق پورا نہ کرے اور اس کی ہوئی اجل نہ آجائے اور حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی آنے کی ابتداء سچے خوابوں سے ہوئی۔ ( ابن کثیر)۔ ف 3 یعنی اس طرح کہ بندہ آواز سنے مگر بولنے والانظر نہ آئے، جیسے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کو کوہ طورکے دامن میں ایک درخت سے آواز سنائی دی مگر بولنے والا اللہ تعالیٰ ان کی نگاہ سے اوجھل تھا۔ (طہٰ 11، 48 النمل :8، 12 قصص، 3، 35) شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں ” حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) سے کلام ہوئے ہیں پردہ کے پیچے سے “۔ ( موضح) ف 4 یہ وحی آنے کی وہ صورت ہے جو انبیاء ( علیہ السلام) کے ساتھ مخصوص ہے اور جس کے ذریعہ تمام آسمانی کتابیں انبیاء علیہم السلام تک پہنچتی ہیں اور فرشتہ کبھی غیر مرثی شکل میں آتا ہے اور کبھی انسانی شکل میں۔ جیسا کہ احادیث میں ہے کہ حضرت جبریل ( علیہ السلام) وحیہ کلبی کی شکل میں آئے اور ایک مرتبہ ایک اعرابی کی شکل میں آئے اور امور ایمان کے متعلق سوال کیا جن کے چلے جانے کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( جاء یعلمکم دینکم) بہر حال آیت میں وحی کی تمام صورتوں کا احصاء مذکور نہیں ہے۔ الا بتکلف واللہ اعلم۔ الشورى
52 ف 5 یعنی جس طرح پہلے انبیاء پر ہم نے وحی بھیج۔ اسی طرح۔۔۔۔۔ یا وحی کے جو طریقے اوپر مذکور ہوئے ہیں ان سب کے ذریعہ۔۔۔۔۔ ف 6 روح سے مراد قرآن بھی ہے اور حدیث بھی اور قرآن و حدیث کو ” روح“ سے اس لئے تعبیر کیا گیا کہ انہی سے انسان کو اخلاقی زندگی حاصل ہوتی ہے ورنہ وہ اخلاقی اعتبار سے مردہ ہوتا ہے۔ ف 7 یعنی منصب نبوت پر سرفراز ہونے سے پیشتر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہ آئی تھی کہ کبھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کتاب نازل کی جائیگی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صفات باری تعالیٰ اور دین و شریعت کی تفصیلی معلومات دی جائیں گی جن پر آپ خود بھی ایمان لائیں گے اور دوسروں کو بھی ایمان لانے کی دعوت دیں گے۔ تفصیلی معلومات کی قید ہم نے اس لئے لگائی ہے کہ وحی سے قبل انبیاء ( علیہ السلام) توحید اور نفس ایمانکے ساتھ متصف ہوتے ہیں جیسا کہ جمہور اہل علم کا مسلک ہے اور انبیاء ( علیہ السلام) کی سیرت کا مطالعہ اس امر کی شہادت کے لئے کافی ہے۔ مزید تشریح کے لئے دیکھئے سورۃ الضحی : آیت 7) الشورى
53 ف 8 وہی اچھے برے کاموں کا فیصلہ کرے گا اور پھر نیکیوں کا ثواب اور بدوں کو عذاب دے گا۔ اللھم اجعلنا فی زمرۃ الصالحین وبہ تحت سورۃ الشوری والحمد للہ علی ذلک الشورى
0 ف 9 یہ سورۃ مکہ معظمہ میں نازل ہوئی۔ اس پر تمام مفسرین کا اتفاق ہے۔ قرطبی) الزخرف
1 الزخرف
2 ف 10 یعنی اپنے مدعا کو صاف صاف بیان کرنے والی ہے۔ الزخرف
3 ف 11 کیونکہ عربی تمہاری مادری زبان ہے۔ پھر دوسری قومیں تمہارے ذریعہ میں قرآن کو سمجھیں۔ الزخرف
4 ف 12 گو تم اس کی قدر و منزلت نہ کرو غظ حکیم کے دوسرے معنی محکم بھی ہو سکتے ہیں۔ یعنی اس کے دلائل نہیں مضبوط اور احکام غیر منسوخ ہیں اور اس کے مضامین میں کسی قسم کا تضاد یا اختلاف بیان نہیں پایا جاتا۔ الزخرف
5 ف 1” اور قرآن اتارنا موفوف کردیں“؟ ایسا خیال مت کرو کیونکہ تمہاری شرارت اور گمراہی تو قرآن کے اتارے جانے کا اصل سبب ہے تم اگر نہیں مانو گے تو تمہاری نسلوں میں ایسے نیک بخت لوگ پیدا ہوں گے جو اس پر ایمان لائیں گے اور دنیا کے ہادی و رہنما بنیں گے۔ بعض علماء علمائے تفسیر (رح) نے اس کا یہ مفہوم بیان کیا ہے ” کیا تمہارا گمان ہے کہ تم سے در گزر کریں گے اور عذاب نہیں دینگے اور حال یہ ہے کہ تم حد سے گزرے ہوئے لوگ ہو اور ہمارے حکم کے مطابق نہیں چلتے ہو، اس صورت میں ” الذکر“ بمعنی عذاب ہوگا۔ ابن جریر (رح) نے انہی معنی کو ترجیح دی ہے ( ابن کثیر)۔ الزخرف
6 الزخرف
7 الزخرف
8 ف 2 دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ” پہلے لوگوں کی مثال چلی آئی “۔ یعنی ان کا قصہ زبان زد خلائق ہوگیا اور لوگ عبرت کے لئے اسے بیان کرتے ہیں۔ الزخرف
9 ف 3 یعنی زبان سے اللہ تعالیٰ کے خالق ہونے کا اقرار کرتے ہیں اور اسے زبردست علم والا بھی مانتے ہیں لیکن عبادت دوسروں کی کرتے ہیں۔ یہ ان کے انتہائی بد بخت اور مستحق عذاب ہونے کی دلیل ہے۔ الزخرف
10 الزخرف
11 ف 4 یعنی تمہاری ضرورت اور مصلحت کے مطابق آسمان سے بارش کا انتظام فرمایا تاکہ تمہاری اور تمہارے جانوروں کی معیشت کا سامان مہیا ہو۔ اگر بے اندازہ مینہ برساتا تو کھیتیاں تباہ ہوجاتیں اور مکانات ڈھے جاتے اور اگر اندازہ سے کم برساتا تو تمہاری ضرورت پوری نہ ہوتی اور قحط پڑجاتا۔ (کذا قال ابن عباس (رض) الزخرف
12 ف 5” ازواج‘ کے معنی جوڑے بھی ہو سکتے ہیں۔ جیسے آدمی اور جانوروں اور درختوں کے جوڑے یعنی نر اور مادہ اور صنفیں بھی جیسے رات اور دن سردی اور گرمی آسمان اور زمین جنت اور دوزخ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس سے انسان کے عمومی احوال مراد ہوں جیسے خیر و شر، ایمان و کفر نفع و نقصان فقر و غنی اور صحت و سقم وغیرہ الزخرف
13 ۔ ف 6” ہ“ کی ضمیر ” ما ترکبون“ کے لئے ہے یا مراد ہر صنف کی پیٹھ ہے اس لئے ” ظہور کا لفظ جمع ہونے کے باوجود اس کے ساتھ ” ہ“ کی ضمیر استعمال کی گئی ہے جو واحد ہے۔ (قرطبی وغیرہ) الزخرف
14 ف 7 حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے رسول اللہﷺ جب سفر کے لئے اونٹ پر سوار ہوتے تو تین مرتبہ ” اللہ اکبر“ کہہ کر (سبحان الذی سخر لنا ھذا) سے ( لمنقلبون) تک یہ دعا پڑھتے اور پھر فرماتے ( اللھم انی اسئلک فی سفری ھذا البروالتقوی ومن العمل ما ترضی اللھم ھون علینا السفروا طولنا البعد اللھم انت الصاحب فی السفر و الخلیفۃ فی الاھل اللھم اصحبنا فی سفرنا واخلقنا فی اھلنا اور جب سفر سے واپس آتے تو فرماتے ( ائبون تائبون انشاء اللہ عابد ون لربنا حامدون) (ابن کثیر)۔ الزخرف
15 ف 8 جزء سے شریک یا اولاد میں سے خا ص طور پر بیٹیاں مراد ہیں اور محاورہ میں ( اجزات المراہ) کے معنی ہیں عورت نے مادین اولاد کو جنم دیا۔ ( قرطبی) ف 1 جو اپنے مالک کی شان اور عظمت کو نہیں سمجھتا۔ الزخرف
16 ف 2 یعنی یہ انتہائی تعجب کی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عمدہ چیز بیٹے تو تم کو دے دی اور نکمی چیز بیٹیاں اپنے لئے رکھ لی۔ مطلب یہ ہے کہ تم اپنے لئے بیٹے پسند کرتے ہو اور اللہ تعالیٰ کے لئے بیٹیاں ” تلک اذا اقسمد ضمیری) (النجم :22) الزخرف
17 ف 3 یعنی بیٹی کو اس قدر برا سمجھتا ہے لیکن تعجب ہے کہ اسے اس خدا کے لئے تجویز کرتا ہے جسے ہر طرح کی قدرت حاصل ہے۔ الزخرف
18 ف 4 یعنی کیا ایسی نازک اور کمزور اولاد تم خدا کے لئے تجویز کرتے ہو، کیا اس تجویز پر تمہیں شرم نہیں آتی؟ الزخرف
19 ف 5 دوسرا ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ” کیا“ انہوں نے ان کے جسم کی ساخت کو دیکھا ہے“۔ ف 6 یعنی یہ جو فرشتوں کے عورت ذات ہونے کا جھوٹا دعویٰ پیش کر رہے ہیں اسے ان کے نامہ اعمال میں لکھ لیا جائے گا اور قیامت کے دن انہیں اپنے اس جھوٹے دعویٰ پر جواب دہی کرنا پڑے گی۔ (قرطبی) الزخرف
20 ف 7 یہ اپنی گمراہی اور مشرکانہ گستاخی پر کفار مکہ کا ایک اور استدلال تھا یعنی وہ اپنے آپ کو مجرم سمجھنے کے بجائے سارا الزام تقدیر الٰہی پر دھرتے تھے کہ خدا ہی کی یہ مشیت تھی اور اسی نے ہماری قسمت میں یہ لکھ دیا تھا کہ ہم فرشتوں کودیویاں سمجھ کر ان کی پرستش کریں، تقدیر الٰہی سے اس قسم کا غلط استدلال باطل پر شتوں کا ہمیشہ شیوہ رہا ہے اور آج بھی ہے حالانکہ خدا کی مشیت اور چیز ہے اور اس کی پسند دوسری چیز ہے۔ اگر ایسا ہی ہوتاجیسے یہ مشرک کہتے تھے تو اللہ تعالیٰ کو پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر شرک سے روکنے کی کیا ضرورت تھی۔ ( ابن کثیر) ف 8 یعنی وہ تقدیر کی حقیقت کو نہیں سمجھتے اور خدا کی مشیت کو غلط معنی پہناتے ہیں۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں ” یعنی یہ تو سچ ہے کہ بن چاہے خدا کے کوئی چیز نہیں پر اس کا بہتر ہونا نہیں نکلتا۔ اسی نے قوت بھی پیدا کیا اور زہر بھی پر زہرکون کھاتا ہے۔) (موضح) ف 9 یعنی جہالت کی بناء پر ایسی باتیں بناتے ہیں جن کا کوئی سر پر نہیں ہے۔ الزخرف
21 ف 10 یعنی بہتر ہونا اس طرح ثابت ہوتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ کیا اس کتاب سے اپنے پاس کوئی سند رکھتے ہیں کہ فرشتے ہماری بیٹیاں ہیں، اور ہم نے ان کی پرستش کی اجازت دی ہے۔ الزخرف
22 ف 11 مطلب یہ ہے کہ ان کے پاس اپنی گمراہی کے لئے اگر کوئی سند ہے تو بس یہ کہ باپ دادا سے یونہی ہوتا چلا آیا ہے اور انہی نقش قدم پر چلتے ہوئے ہم فرشتوں کی پوجا کر رہے ہیں اسی کا نام اندھی تقلید ہے اور اسی کو بزرگ پرستی کہتے ہیں اور یہی ہر عاجز و درماندہ کی بے بنیاد دلیل ہے۔ الزخرف
23 ف 12 باطل اور ناحق باتوں ( رسوم و بدعات) میں بڑوں اور بزرگوں کی اقتدار کو دلیل بنانا وہ گمراہی ہے جو قدیم زمانے سے چلی آتی ہے اور کفار کا شیوہ رہا ہے کہ وہ انبیا ( علیہ السلام) کے مقابلہ میں اس کو بطور دلیل پیش کرتے چلے آئے ہیں۔ قرآن نے متعدد آیات میں اس کی مذمت کی ہے۔ معلوم ہوا کہ جس بات میں اللہ و رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کوئی سند نہ ہو اس میں باپ دادا یا کسی بزرگ کی تقلید کرنا اور یہ کہنا کہ ہمارے بزرگ چونکہ ایسا کرتے ہی چلے آئے ہیں ہم بھی اسی راہ پر چلیں گے، سراسر باطل ہے۔ (فتح) الزخرف
24 ف 13 پھر بھی تم میری بات نہ مانو گے اور اپنی ڈگر پر چلتے رہو گے؟ ف 14 یعنی اپنے بزرگوں کی تقلید میں پیغمبروں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کو ٹھکرا دیا۔ الزخرف
25 الزخرف
26 ف 1 شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں :” یہاں یہ قصہ اس پر کہا کہ تمہارے پیشوا نے باپ کی راہ غلط دیکھ کر چھوڑ دی تو تم بھی وہی کرو۔“ (موضح) الزخرف
27 ف 2 یعنی میرا تعلق صرف اسی سے ہے کیونکہ اسی نے مجھے پیدا کیا اور وہی میری دستگیری و رہنمائی کرسکتا ہے اور کرے گا۔ الزخرف
28 ف 3 یا رجوع کریں یعنی ان میں سے اگر کچھ لوگ گمراہ ہو کر شرک کرنے لگیں تو توحید پرستوں کی دعوت پر اللہ کی طرف پلٹ آئیں۔ اس میں مکہ والوں کو تنبیہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت قبول کرلو اور یہ کہ اگر تقلید کرنی ہے تو اپنے دادا ابراہیم ( علیہ السلام) کی تقلید کیوں نہیں کرتے جنہوں نے اپنے آبادی دین میں برأت کا اظہار کر کے خالص توحید کی طرف رجوع کیا اور ان کی اولاد میں بھی توحید کی طرف دعوت دینے والے پیدا ہوتے رہے ہیں۔ الزخرف
29 ف 4 اس میں پڑ کر وہ بد مست ہوگئے اور ابراہیم ( علیہ السلام) کے طریق کو بھول گئے۔ الزخرف
30 الزخرف
31 ف 5 یعنی مکہ اور طائف کے کسی سردار پر۔ جس کی شخصیت اس کے شایان شان ہوتی۔ ایک ایسے شخص پر اس کا اترنا باور نہیں کیا جاسکتا جو ریاست و دولت کے اعتبار سے کسی امتیازی شان کا مالک نہیں ہے۔ گویا انہوں نے شرافت کا معیار مال و دولت کو ٹھہرایا۔ ( فتح) الزخرف
32 ف 6 یعنی مال و دولت، جسمانی اور عقلی صلاحیتوں کے اعتبار سے لوگوں کے مختلف درجوں میں ان چیزوں میں سے بعض کو کم اور بعض کو وافر حصہ ملا ہے۔ ف 7 یعنی خدمت لے اور اس طرح کوئی شخص کلی طور پر بے نیاز نہ ہو بلکہ کسی نہ کسی پہلو سے دوسرے کا محتاج رہے۔ یہ درجات کا تفاوت عین فطرت کے مطابق ہے اور دنیا میں رہتے ہوئے اس سے سفر ناممکن ہے۔ ف 8 اس لحاظ سے جسے یہ رحمت ملی وہ تمہارے ان مالداروں سے بہتر ہوا۔ شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں ” اللہ نے روزی دینا کی تو ان کی تجویز پر نہیں بانٹی، پیغمبری کیونکر دے ان کی تجویز پر (موضح)۔ الزخرف
33 الزخرف
34 الزخرف
35 ف 9 یعنی اللہ تعالیٰ کے ہاں اس دنیوی مال و دولت کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے بلکہ یہ اس کی نظر میں اس قدر حقیر چیز ہے کہ اگر یہ خیال نہ ہوتا کہ دنیا میں تمام لوگ کفر کی راہ اختیار کرلیں گے تو ہر کافر کا گھر سونے چاندی کا بنا دیا جاتا اور اسے ہر قسم کا عیش و آرام فراہم کردیا جاتا۔ نہایت احمق ہے وہ شخص جو اس دنیوی مال و دولت کو عزت و شرافت کا معیار سمجھتا ہے۔ حضرت سہل بن سعد (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : ” اگر اللہ کے نزدیک دنیا کی قدر ایک مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تو وہ کافر کو ایک گھونٹ پانی نہ دیتا۔ ( شوکانی بحوالہ ترمذی، ابن ماجہ) الزخرف
36 ف 1 (ذکر الرحمن) سے مراد اللہ تعالیٰ کی یاد بھی ہے اور قرآن بھی جو نصیحت و حکمت سے لبریز ہے۔ ف 2 صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ ہر شخص کے لئے ایک جن ہے جو اس کے ساتھ لگا رہتا ہے۔ ( شوکانی) الزخرف
37 ف 3 یعنی ان کی آنکھوں پر ایسا پردہ ڈال دیتے ہیں کہ وہ بری راہ کو اچھی راہ سمجھتے ہیں۔ یا کافر گمان کرتے ہیں کہ شیطان سیدھی راہ پر ہیں۔ الزخرف
38 ف 4 جس نے دوست بن کر مجھے خراب و برباد کیا اور ہمیشہ کے عذاب میں پھنسا دیا۔ الزخرف
39 ف 5 عموماً دیکھا جاتا ہے کہ مصیبت عام ہو تو وہ کچھ ہلکی محسوس ہونے لگتی ہے۔ مقولہ مشہور ہے مرگ انبوہ جشنے دارد لیکن دوزخ کا عذاب اس قدر شدید ہوگا کہ تمام جن اور انسان اور شیطان کا اس میں شریک ہونا کسی کے لئے بھی باعث تشفی نہ ہوگا۔ ( قرطبی) شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں :” یعنی کافرکہیں گے خوب ہوا کہ انہوں نے ہمیں عذاب میں ڈلوا دیا یہ بھی نہ بچے، لیکن اس کو کیا فائدہ اگر دوسرا بھی پکڑا گیا۔ ( موضح) الزخرف
40 ف 6 اس سے مقصود نبی ﷺ کو تسلی دینا ہے کہ ان کافروں کے ایمان نہ لانے پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غمزدہ نہ ہوں کیونکہ ایسے لوگوں کو راہ راست پر لے آنا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بس میں نہیں ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان تک اللہ کا پیغام پہنچاتے رہیں اور ہدایت کا معاملہ خود اللہ پر چھوڑدیں۔ (ابن کثیر) الزخرف
41 الزخرف
42 ف 7 یعنی ان سے انتقام لینے کے لئے ان پر عذاب ضرور بھیجا جائے گا چاہے یہ عذاب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی میں آئے یا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دنیا سے رخصت ہوجانے کے بعد۔ ف 8 چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی ہی میں بدر کے روز کافروں پر عذنب بھیجا۔ بہت سے مفسرین (رح) نے اس آیت کی یہی تشریح کی ہے اور ابن جریر (رح) نے اسے ترجیح دی ہے۔ حسن بصری (رح) اور قتادہ (رح) کہتے ہیں کہ یہ آیت مسلمانوں کے حق میں نازل ہوئی ہے۔ اور بعض الذی نعدھم سے مرادوہ فتنے ہیں جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد مسلمانوں میں نمودار ہوئے لیکن زیادہ صحیح پہلی ہی ہے ( قرطبی، ابن کثیر)۔ الزخرف
43 ف 9 یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کافروں کی مخالفت سے دل برداشتہ نہیں ہونا چاہیے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے یہ اطمینان کا فی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) راہ حق پر ہیں، لہٰذا نتائج سے بے فکر ہو کر اپنی دعوت کا کام جاری رکھیں اور خود اس پر کار بند رہیں۔ الزخرف
44 ف 10 دوسرا ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ قرآن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قوم ( قریش) کے لئے شرف ہے کیونکہ یہ عربی زبان میں نازل ہوا ہے اور اس کے اولین مخاطب قریش ہیں اور جو عجمی قومیں اس پر ایمان لائیں گی ان کو قرآن کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے عربی زبان حاصل کرنی پڑے گی۔ مگر قرآن شرف کا سبب اسی کے لئے ہے جو اس پر عمل پیرا ہوگا ( القرآن حجۃ لک اوعلیک) حدیث میں ہے ( لیس لاحد علی احد فضل الا بالتقوی) کہ کسی کو کسی پر کچھ فضلیت حاصل نہیں ہے الایہ کہ تقویٰ اختیار کرے۔ ( قرطبی) ف 11 یعنی قیامت کے دن کہ اس نصیحت کی کتاب پر عمل کر کے کسی حد تک اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری کی۔ الزخرف
45 ف 12 یعنی ان کی لائی ہوئی کتابوں سے یا ان کی امت کے لوگوں سے ( جامع) بعض علمائے تفسیر نے اس کا یہ مطلب بیان کیا ہے کہ جب انبیاء ( علیہ السلام) سے ملاقات ہو، جیسے شب معراج میں ہوئی تو ان سے دریافت کرلیجئے مگر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دریافت نہیں کیا۔ علامہ قرطبی نے اس دوسرے مطلب کو ترجیح دی ہے اور شاہ صاحب (رح) نے اپنی توضیح میں دونوں احتمال یکساں ذکر کردیئے ہیں۔ چنانچہ لکھتے ہیں :” پوچھ دیکھ یعنی جس وقت ان کے ارواح سے ملاقات ہو یا ان کے احوال کتابوں میں دریافت کر۔ ( موضح) ف 13 ظاہر ہے کہ اس کا جواب نفی میں ہے کیونکہ شرک کسی مذہب میں روا نہیں۔ الزخرف
46 ف 14 نشانیوں سے مراد نشانیاں ہیں جن کا ذکر سورۃ اعراف ( آیت 133) میں گزر چکا ہے۔ الزخرف
47 ف 1 یعنی ان معجزات پر قہقہے لگانے لگے۔ الزخرف
48 الزخرف
49 ف 2 کہ جب لوگ ایمان لے آئیں تو میں عذاب اٹھالوں گا۔ یا تیرے ملک نے جو عہد منصب نبوت تجھے دیا ہے اس کے واسطہ سے ( بما عھد عندک) کے یہ دونوں مطلب ہو سکتے ہیں۔ بعض نے اس کے یہ معنی کہے ہیں ” اس واسطے کہ تیرے رب نے تیرے ساتھ وعدہ کر رکھا ہے کہ تیری دعا قبول کروں گا۔ (ابن کثیر) الزخرف
50 الزخرف
51 ف 3 یعنی کیا یہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ موسیٰ ( علیہ السلام) میرا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ فرعون نے جب وہ نشانیاں دیکھیں تو ڈر گیا کہ کہیں عوام حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کی طرف مائل نہ ہوجائیں اس لئے یہ بات کہی۔ ( قرطبی)۔ الزخرف
52 ف 4 یعنی حقیہ جس کے پاس نہ مال و دولت ہے اور نہ قوت و اقتدار۔ ف 5 علمائے تفسیر (رح) نے لکھا ہے کہ فرعون کی مراد وہ لکنت ( عقدہ) ہے جو حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کی زبان میں تھی اور حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کے دعا کرنے سے وہ دور ہوگئی تھی۔ لہٰذا فرعون کا یہ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) پر طعن اور جھوٹ ہے۔ ( ابن کثیر) الزخرف
53 ف 6 اس زمانہ میں بادشاہت جب کسی شخص کو اعزاز بخشتے تو اسے سونے کے کنگن پہناتے اور اس کے ساتھ فوج کا ایک جتھہ رہتا۔ اس بناء پر فرعون نے کہا کہ اگر واقعی موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے رسول بنا کر بھیجا ہوتا تو ضروری تھا کہ اس کے پاس خلعت شاہی ہوتا اور فرشتوں کے پرے کے پرے اس کے ساتھ ہوتے۔ اور اب کہ ایسا نہیں ہے تو ہم اسے رسول کیسے مان لیں۔ شاہ صاحب (رح) نے بھی اپنی توصیح میں اسی مفہوم کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ الزخرف
54 ف 7 لفظی ترجمہ یہ ہے کہ ” اس نے اپنی قوم کو ہلکا جانا“ یعنی اس نے اپنے ملک کے باشندوں کی عقل اور سمجھ کو بکائو مال سمجھا اس لئے وہ اپنی مکاریوں اور چال نازیوں سے انہیں پھسلانے اور الو بنانے میں کامیاب ہوگیا یا ان کو مجبور کیا کہ اس کا ساتھ دیں۔ ( قرطبی)۔ ف 8 یعنی فسق و فجور ان کی سرشت بن چکا تھا۔ الزخرف
55 ف 9 یعنی جب وہ اپنی سر کشی اور نافرمانی میں بڑھتے ہی چلے گئے تو ہم نے ان سے انتقام لیا پس گناہ گار کو چاہیے کہ اللہ کے غضب سے ڈر کر توبہ کرے اور اس کے علم و عفو پر مغرور نہ ہو (قرطبی) الزخرف
56 ف 10 دوسر ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ” ہم نے انہیں بعد میں آنے والوں کیلئے پیش رو اور نمونہ عبرت بنا دیا کہ ان کے انجام سے عبرت حاصل کریں“۔ الزخرف
57 ف 11 یعنی قرآن میں ان کا ذکر آوے تو اعتراض کرتے ہیں کہ ان کو بھی خلق پوجتے ہیں انہیں کیوں خوبی سے یاد کرتے ہو اور ہمارے پوجون (بتوں) کو برا کہتے ہو۔ ( موضح) قتادہ (رح) اور مجاہد (رح) کہتے ہیں کہ جب اس سورۃ کی آیت 45 نازل ہوئی۔ یعنی ” واسئل من ارسلنا“ تو مشرکین حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کے معاملے کو لے بیٹھے کہ نصاری ان کی عبادت کرتے ہیں اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ ( قرطی) الزخرف
58 ف 12 یعنی جب ہر وہ شخص جس کی اللہ کے سواعبادت کی جاتی ہے دوزخ کا ایندھن ہے تو ہمارے بتوں اور عیسیٰ ( علیہ السلام) میں کیا فرق رہا۔ ہمیں یہ بات منظور ہے کہ عزیز ( علیہ السلام)، عیسیٰ علیہما السلام اور فرشتے بھی دوزخ میں جائیں اور ہمارے بت بھی۔ ( قرطبی) ف 13 ورنہ اس کی جو حقیقت ہے اسے یہ خود بھی سمجھتے ہیں۔ الزخرف
59 ف 1 قدرت کا نمونہ بنانے سے مراد یہ ہے کہ انہیں بن باپ پیدا کیا اور انہیں ایسے معجزے دیئے جو ان کے زمانہ میں کسی اور کو نہیں ملے۔ (قرطبی) الزخرف
60 ف 2 یعنی ایک عیسیٰ کو بن باپ پیدا کرنا کیا مشکل ہے، تم تو اگر چاہیں تمہاری نسل سے فرشتے پیدا کردیں۔ یا تم میں سے بعض کو فرشتے بنا دیں جو زمین میں تمہارے قائم مقام ہوں۔ آیت کے یہ دونوں مطلب اس صورت میں ہیں جب منکم کا ترجمہ تم میں کیا جائے اور اگر اس کا ترجمہ تمہارے بجائے کیا جائے جو دراصل بدلا منکم کا ترجمہ ہے تو مطلب یہ ہوگا کہ اگر ہم چاہیں تو تم سب کو ہلاک کر کے تمہارے بجائے زمین میں فرشتوں کو بسا دیں جو تمہاری طرح آپس میں ایک دوسرے وارث ہوں۔ یعنی فرشتوں کے آسمان میں رہنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ ان کی عبادت کی جائے یا ان کو اللہ کی بیٹیاں کہہ کر پکارا جائے۔ ( قرطبی وغیرہ) الزخرف
61 ف 3 لفظی ترجمہ یہ ہے کہ اور بے شک وہ قیامت کی ایک نشانی ہے اس وہ سے مراد اکثر مفسرین (رح) نے حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کا آسمان سے اترنا لیا ہے جس کی خبر بکثرت احادیث میں دی گئی ہے اور بقول شوکانی وہ حد تواترکو پہنچ چکی ہیں اور ابن کثیر (رح) نے بھی ان کو متواتر کہا ہے اور ان کے نزول پر امت کا اجماع بھی ہے۔ اس مسئلہ کی تفصیل حجج الکرامۃ میں مذکور ہے بعض نے ہ کی ضمیر سے مراد قرآن اور بعض نے حضرت عیسیٰ کا بن باپ کے پیدا ہونا لیا ہے۔ اس اعتبار سے قرآن آخری کتاب ہے لہٰذا یہ قیامت کی علامت بن سکتی ہے۔ ( شوکانی) ف 4 یعنی توحید کا راستہ جس کی طرف تمہیں بلا رہا ہوں۔ الزخرف
62 الزخرف
63 ف 5 یعنی توراۃ کے بعض احکام جن میں تمہارے درمیان اختلاف ہے، ان کی حقیقت تمہیں سمجھا دوں۔ الزخرف
64 الزخرف
65 ف 6 بعض نے انہیں سچا پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مانا، بعض نے غلو کر کے انہیں خدا کا بیٹا بنا لیا اور بعض نے ان کی اس حد تک مخالفت کی کہ جھوٹا اور مکار قرار دیا اور انہیں سولی دینے کی سکیم بنائی۔ ف 7 مراد آخری دو گروہ ہیں یعنی جنہوں نے انہیں خدا کا بیٹا قرار دے کر شرک کا ارتکاب کیا اور جنہوں نے ان کی مخالفت کی۔ ف 8 مراد قیامت کا دن ہے۔ الزخرف
66 الزخرف
67 ف 9 یعنی صرف انہی لوگوں کی دوستی باقی رہے گی جو دنیا میں صرف اللہ تعالیٰ کے لئے دوستی رکھتے تھے۔ دوسری تمام دوستیاں دشمنی میں تبدیل ہوجائیں گی۔ الزخرف
68 الزخرف
69 الزخرف
70 ف 10 ازواج سے مراد بیویاں بھی ہیں۔ یعنی وہ جنہوں نے نیک اعمال میں ان کا ساتھ دیا تھا اور ایسے لوگ جو دنیا میں ان کے ساتھی اور ہم مشرب رہے تھے۔ الزخرف
71 ف 11 رکابیوں میں طرح طرح کے کھانے اور میوے ہونگے اور کو زوں میں طرح طرح کے پینے کی چیزیں۔ الزخرف
72 ف 1 یعنی اللہ کے فضل سے ان نیک اعمال کی بدولت۔ الزخرف
73 الزخرف
74 الزخرف
75 ف 2 نا امیدہونے سے مراد نجات سے ناامید ہونا۔ الزخرف
76 ف 3 جو رسولوں ( علیہ السلام) کو سمجھانے کے باوجود گناہ پر گناہ کرتے رہے اور اپنی سر کشی سے باز نہ آئے۔ الزخرف
77 ف 4 یعنی ہمارا خاتمہ کر دے تاکہ اس عذاب سے نجات ملے۔ مالک دوزخ کے داروغہ کا نام ہے۔ ف 5 یعنی اسی طرح عذاب کی چکی میں پستے رہنا ہے، موت نہیں آسکتی۔ الزخرف
78 ف 6 یعنی اس سے نفرت کرتے ہیں اور اسے ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ الزخرف
79 ف 7 یعنی کیا انہوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو شہید کرنے یا مکہ سے نکالنے کے لئے کوئی خفیہ منصوبہ تیار کیا ہے ؟ یعنی ضروری بنایا ہے۔ ف 8 یعنی کوئی بات نہیں ہم نے بھی ان کے منصوبے کو ناکام بنانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ الزخرف
80 ف 9 مراد وہ فرشتے ہیں جو آدمی پر مقرر ہیں اور اس کی اچھی بری باتوں کو قلمبند کرتے رہتے ہیں۔ الزخرف
81 ف 10 کیونکہ میں خدا کا بندہ اور اس کا تابعدار ہوں لیکن اللہ کے لئے اولاد کا ہونا محال ہے۔ الزخرف
82 ف 11 یعنی اس کی کوئی اولاد نہیں اور نہ ہو سکتی ہے۔ الزخرف
83 ف 12 اس وقت سب حقیقت کھل جائے گی اور دماغ درست ہوجائے گا۔ دن سے مراد قیامت کا دن ہے یا موت کا دن یا دنیا میں عذاب کا دن۔ الزخرف
84 ف 13 وہی اس چیز کا مستحق ہے کہ زمین پر بھی اس کی پوجا کی جائے اور آسمان میں بھی مطلب یہ ہے کہ زمین کا الگ اور آسمان کا الگ خدا نہیں ہے بلکہ ایک ہی خدا ہے جو دونوں کا بلا شرکت غیرے مالک ہے اور اسی کی دونوں جگہ عبادت ہوتی ہے اور ہونی چاہیے۔ الزخرف
85 ف 1 یعنی ہر جگہ اسی کی بادشاہی اور فرماروائی ہے۔ ف 2 ” نہ کہ کسی اور کی طرف، لہٰذا وہی ہے جو تمہیں تمہارے نیک یا بد اعمال کا بدلہ دے گا “۔ الزخرف
86 ف 3 جیسے حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام)، حضرت عزیز ( علیہ السلام) اور فرشتے۔ وہ چونکہ حق توحید کا یقین رکھ کر اس کی گواہی دیتے تھے اور انہوں نے کبھی لوگوں کو اپنی عبادت کا حکم نہیں دیا، اس لئے وہ اللہ تعالیٰ کے اذن سے سفارش کرسکیں گے۔ رہے بت اور دوسرے جھوٹے دیوتا جن کی مشرکین پوجا کرتے ہیں تو وہ اپنے آپ کو نہ بچا سکیں گے بلکہ دوزخ کا ایندھن بنیں گے۔ کسی کی سفارش کیا کریں گے ؟ دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ کافر خدا کے سوا جن کو پکارتے ہیں ان میں سے جن کو سفارش کرنے کا حق حاصل ہوگا وہ انہی کی سفارش کریں گے جنہوں نے دنیا میں صدق دل سے توحید کی گواہی دی اگرچہ عمل میں کوتاہی ہوگئی۔ بہر حال مشرکین کی کوئی سفارش نہ کرے گا اور نہ کرسکے گا۔ الزخرف
87 ف 4 یعنی اپنے پیدا کرنے والے کو چھوڑ کر کیونکہ دوسروں کی پوجا کرتے پھرتے ہیں۔ ان کے آستانوں پر چڑھاوے چڑھاتے ہیں اور انہیں حاجت روائی اور مشکل کشائی کے لئے پکارتے ہیں۔ الزخرف
88 ف 5 یعنی ہم پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس درد بھری شکایت کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ کافروں کے مقابلہ میں اس کی ضرور مدد کی جائیگی۔ یہ مطلب اس صورت میں ہے جب وقیلہ میں وائو کو قسمیہ مانا جائے۔ بعض مفسرین (رح) نے اسے برائے عطف مانتے ہوئے آیت کا تعلق ( وعندہ علم الساعۃ) سے قرار دیا ہے۔ یعنی اس کے پاس قیامت کا علم بھی ہے اور پیغمبر کے اس کہنے کا بھی کہ۔۔۔۔۔ واللہ اعلم ( ابن کثیر)۔ الزخرف
89 ف 6 یہ اظہار بیزاری و قطع تعلق کا سلام ہے۔ ف 7 یعنی قیامت کے روز یا اسی دنیا میں آگے چل کر انہیں معلوم ہوجائے گا کہ ان کی سرکشی انہیں کس انجام بد سے دو چار کرتی ہے۔ الزخرف
0 ف 8 یہ سورۃ مکہ معظمہ میں نازل ہوئی اس پر سب کا اتفاق ہے البتہ اس کی ایک آیت ( انا کاشفوا العذاب) مدینہ میں نازل ہوئی۔ (قرطبی) حدیث میں ہے کہ جمعہ کی رات کو اس سورۃ کا پڑھنا باعث برکت و فضلیت ہے۔ ( شوکانی) الدخان
1 الدخان
2 الدخان
3 ف 9 برکت والی رات سے مراد لیلۃ القدر ہے جیساکہ سورۃ قدر میں ہے اور سورۃ بقرہ میں ہے ( اشھر رمضان الذی انزل فیہ القرآن) رمضان کا مہینہ جس میں قرآن اتارا گیا۔ ( آیت 85) اس رات کو قرآن کے اترنے کا مطلب تو یہ ہے کہ اس میں اترنے کا سلسلہ شرع ہوا یا اس میں سارے کا سارا قرآن لوح محفوظ سے اتار کر پہلے آسمان میں بیت العزۃ میں رکھ دیا گیا اور پھر 23 برس تک تدریجا ً اترتا رہا۔ ( کذا فی ابن کثیر)۔ الدخان
4 ف 10 یعنی سال بھر میں جو بڑے بڑے کام سر انجام پانے ہوتے ہیں ان کا آخری فیصلہ کردیا جاتا ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ نصف شعبان کی رات دوسرے شعبان تک لوگوں کی عمر کا فیصلہ کردیا جاتا ہے۔ اس کے پیش نظر بعض مفسرین (رح) نے اس سے شعبان کی پندرھویں رات مراد لی ہیں جو عمواماً شب برأت کے نام سے مشہور ہے مگر یہ روایت مرسل ہے۔ ( ابن کثیر) قاضی ابو بکر ابن العربی لکھتے ہیں کہ شعبان کی پندرہویں رات سے متعلق کوئی رعایت قابل اعتماد نہیں ہے نہ اس کی فضلیت کے بارے میں اور نہ اس بارے میں کہ اس رات قسمتوں کے فیصلے ہوتے ہیں۔ ( احکام القرآن) الدخان
5 ف 11 یعنی جبریل ( علیہ السلام) اللہ کے اذن سے ہر حکم لے کر اترتے ہیں۔ الدخان
6 ف 12 یعنی پیغمبروں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خصوصاً حضرت محمدﷺ کو لوگوں کو اللہ کے عذاب سے ڈرانے کے لئے بھیجنا اللہ تعالیٰ کی بڑی رحمت ہے۔ الدخان
7 ف 13 کفار مکہ یہ اقرار کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ ہی ان کا اور اس ساری کائنات کا مالک ہے۔ اس لئے ان سے فرمایا جا رہا ہے اگر تم یہ اقرار دلی یقین سے کرتے ہو تو تمہیں تسلیم کرنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے ہی تمام پیغمبروں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھیجا ہے اور کتابیں اتاری ہیں کیونکہ ایسا کرنا اس کی رحمت کا عین تقاضا ہے۔ الدخان
8 الدخان
9 ف 1 یعنی یہ جو زبان سے خدا کے خالق و مالک ہونے کا اقرار کرتے ہیں۔ یہ محض کھیل کود کے طور پر ایسا کرتے ہیں۔ انہیں دل سے توحید اور قیامت کا یقین نہیں ہے۔ الدخان
10 الدخان
11 ف 2 حضرت حذیفہ (رض) کی روایت میں قیامت کی دس نشانیوں میں سے ایک نشانی دھواں بتائی گئی ہے اور حضرت ابن عباس (رض) نے یہی دھواں مراد لیا ہے جو قیامت کے قریب ظاہر ہوگا بہت سے صحابہ (رض) و تابعین کا بھی یہی قول ہے اور حافظ ابن کثیر (رض) نے اسی کو راجح قرار دیا ہے۔ ( ایضا جامع) لیکن صحیح یہ ہے کہ اس سے مراد اس قحط کا دھواں ہے جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بد دعا سے قریش پر آیا تھا کیونکہ وہی اس آیت کی شان نزول ہے جیسا کہ صحیحین میں حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ جب قریش کی سر کشی حد سے بڑھ گئی تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دعا فرمائی :” اے اللہ ! ان کے مقابلہ میں میری مدد فرما اور ان پر سات برس کا قحط نازل کر جیسا کہ قحط تو نے یوسف ( علیہ السلام) کے زمانہ میں بھجیا تھا“۔ چنانچہ ایسا سخت قحط آیا کہ قریش ہڈیاں تک چوسنے لگے، آدمی آسمان کی طرف دیکھتا تو بھوک کے مارے اسے زمین اور آسمان کے درمیان دھواں سا معلوم ہوتا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ پھر قریش نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بارش کی دعا کے لئے درخواست کی تو بارش ہوئی اس پر اگلی آیت ( انا کاشفوا العذب۔۔۔۔) نازل ہوگی مگر قریش اپنے کفر پر قائم رہے۔ اس پر اگلی آیت ( یوم نبطش۔۔۔ نازل ہوئی اور بدر کے روز اللہ تعالیٰ نے ان سے انتقام لیا۔ ( تنبیہ) لخان میں اختلاف کی طرف بطشۃ کبری میں بھی حضرت ابن عباس (رض) اور ابن مسعود (رض) کے مابین اختلاف ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) نے بطشۃ کبری سے قیامت کے دن کا عذاب مراد لیا ہے اور حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) بدر کا دن مراد لیتے تھے۔ ( ابن کثیر، قرطبی)۔ الدخان
12 الدخان
13 الدخان
14 الدخان
15 الدخان
16 الدخان
17 الدخان
18 الدخان
19 الدخان
20 ف 3 یعنی اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آچکا ہوں جو میرا ہی نہیں تمہارا بھی مالک ہے۔ شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں۔ شاید وہ ڈراتے ہونگے اس سے ( موضح) الدخان
21 ف 4 یعنی مجھ پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش نہ کرو ورنہ تبا ہوجائو گے کیونکہ میں اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آچکاہوں۔ الدخان
22 الدخان
23 الدخان
24 ف 5 حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) نے سمندر عبور کرنے کے بعد چاہا کہ سمندر پر عصا ماردیں تاکہ وہ مل جائے اور فرعون کا لشکر اس میں داخل نہ ہو سکے۔ حکم ہوا کہ ایسا نہ کرو بلکہ سمندر کو اپنے موجودہ حال چھوڑ کر آگے بڑھ جائو تاکہ فرعون کا لشکر اس میں داخل ہوجائے۔ ف 6 چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ فرعون نے جب سمندرکو پھٹاپایا تو لشکر سمیت اس میں داخل ہوگیا اور سب غرق ہوگئے۔ الدخان
25 الدخان
26 الدخان
27 الدخان
28 ف 7 دوسرے لوگوں کا لفظ اگرچہ عام ہے اور اسی لئے بعض مفسرین (رح) نے ان سے مصر کے دوسرے لوگ مراد لئے ہیں، لیکن صحیح یہ ہے کہ ان سے ماراد بنی اسرائیل ہی ہیں جیسا کہ سورۂ شعراء میں ہے ( کذلک و اور ثنا ھا بنی اسرائیل) اسی طرح اور ہم نے بنی اسرائیل کو اس کا وارث بنا دیا) آیت 59) نیز دیکھئے سورۃ اعراف ( آیت 138) شاہ صاحب (رح) بھی لکھتے ہیں، بعض بنی اسرائیل کو جیسے سورۃ شعراء سے معلوم ہوتا ہے فرعون کے غرق ہوئے پیچھے بنی اسرائیل کا دخل ہوا مصر میں۔ ( موضح) ایک مطلب یہ بھی ممکن ہے کہ فراعنہ کی شان و شوکت کا وارث بنی اسرائیل کو بنایا، واللہ اعلم۔ الدخان
29 ف 1 یعنی غرق ہونے کے بعد آسمان و زمین کے رہنے والوں میں سے کسی نے ان کی تباہی پر دو آنسو نہ بہائے۔ یہی حشر ہر ظالم حکمران ٹولے کا ہوتا ہے۔ ف 2 ” کہ توبہ کرلیتے بلکہ ان کی آن میں ڈبو دیئے گئے۔ “ الدخان
30 ف 3 ذلت کے عذاب سے مراد غلامی کی کیفیت ہے اور یہ کہ فرعون ان کے لڑکوں کو مار ڈالتا اور لڑکیوں کو لونڈیاں بنانے کے لئے زندہ رکھتا… آیت کا لفظی ترجمہ یہ ہے ” اور ہم بنی اسرائیل کو ذلت کے عذاب، فرعوکن سے نجات دے چکے ہیں۔“ گویا فرعون خود ان کے لئے ذلت کا عذاب تھا کیونکہ وہی اس عذاب کا سرچشمہ تھا۔ الدخان
31 الدخان
32 ف 4 ان کے زمانے میں“ کی شرط اس لئے ضروری ہے کہ معلق طور پر سب سے بہتر امت مسلمہ ہے (دیکھیے آل عمران) جان بوجھ کر“ کہنے سے یہ بتانا مقصود ہے کہ ہم جانتے تھے کہ وہ اس فضیلت کے لائق ہیں۔ (جامع) الدخان
33 ف 5 یا ” کھلی ہوئی آزمائش تھی الدخان
34 الدخان
35 ف 6 یعنی ایک دفعہ مرنے کے بعد پس فنا ہوجاتا ہے۔ الدخان
36 ف 7 تاکہ ہم آنکھوں سے دیکھ لیں کہ واقعی آدمی مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہوسکتا ہے۔ الدخان
37 ف 8 تبع کو قوم سے مراد یمن کی قوم سبا ہے جس کی تباہی کا حال سورۃ سبا میں گزر چکا ہے۔ تبع دراصل اس قوم کے قبیلہ حمیر کے بادشاہوں کا لقب تھا جیسے کنری ایران کے بادشاہوں کا اور قیصر روم کے بادشاہوں کا فرعون مصر کے بادشاہوں اور نجاشی حبشہ کے بادشاہوں کا لقب ہوتا تھا۔ عموماً مورخین نے ان کا زمانہ حضرت عیسیٰ سے پہلے بتایا ہے۔ ان میں سے ایک بادشاہ نے دنیا میں بڑی فتوحات حاصل کی تھیں اور اسی نے شہر سمر قند بسایا تھا۔ اس نے خانہ کعبہ کا طواف بھی کیا اور واپس یمن پہنچ کر یہودی مذہب کی تبلیغ کی۔ چنانچہ یمنی عوام نے یہ دین اختیار کرلیا اس کی وفات کے بعد پھر کافر ہوگئے۔ اسی بادشاہ کے متعلق امام احمد اور طبرانی وغیرہ نے حضرت ابوہریرہ سے روایت نقل کی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا :” تبع کو گالی نہ دو اس لئے کہ وہ مسلمان ہوگیا تھا۔“ (ابن کثیر مختصراً) ف 9 جیسے عاد اور ثمود اور فرعون کی قوم ف 10 مطلب یہ ہے کہ جب ہم نے ان قوموں کو ان کی سرکشی کی وجہ سے تباہ کردیا حالانکہ وہ خوشحالی اور شان و شوکت میں تم سے کہیں بڑھ چڑھ کے تھے تو تمہیں تباہ کرنا ہمارے لئے کیا مشکل ہے۔ الدخان
38 ف 11 بلکہ اپنی حکمت کاملہ اور صحیح مقصد کے تحت پیدا کئے ہیں۔ دیکھیے سورۃ انبیاء آیت 16 الدخان
39 الدخان
40 ف 12 یعنی قیامت ہی کے دن سب کو زندہ کر کے فیصلہ کے لئے جمع کیا جائے گا۔ اس سے پہلے کسی کو زندہ کر کے سامنے لانا اللہ تعالیٰ کی حکمت کے خلاف ہے۔ الدخان
41 ف 13 جیسا کہ دوسرے مقام پر فرمایا : فاذا الفخ فی الصور فلا انساب بینھم یومئذ ولا یتسآء لون اور جس دن صور پھونکا جائے گا تو ان میں کوئی نسب نہیں ہوں گے اور نہ وہ ایک دوسرے کو پوچھیں گے۔ (مومنون :110) ف 14 یعنی نہ ان کو رشتہ داروں اور دوستوں اور نہ کسی اور سے کوئی مدد مل سکے گی۔ الدخان
42 ف 15 یعنی اس روز کسی سفارش سے بس اسی کو فائدہ پہنچ سکے گا جس پر اللہ تعالیٰ رحم کرے اور اس کی سفارش کرنے کی اجازت دے۔ الدخان
43 الدخان
44 ف 16۔ سورۃ صافات میں ہے کہ یہ زقوم کا درخت جہنم کی تہہ میں اگے گا اور جہنمیوں کو جب بھوک ستائے گی تو انہیں بس یہی کھانے کو ملے گا۔ الدخان
45 الدخان
46 الدخان
47 الدخان
48 الدخان
49 ف 1 یعنی تو دنیا میں اپنے آپ کو بڑا زبردست عزت دار آدمی سمجھتا تھا اس لئے ہم آج بھی تیری یہ عزت کر رہے ہیں کہ دوسرے دوزخیوں سے بڑھ کر عذاب دے رہے ہیں۔ یہ فرشتے طنزاً کہیں گے۔ (ابن کثیر) الدخان
50 الدخان
51 ف 2 امن کی جگہ سے مراد ایسی جگہ ہے جہاں نہ کوئی موت کا کھٹکا ہوگا نہ غم اور پریشانی اور نہ محنت و مشقت۔ حدیث میں ہے کہ اہل جنت سے کہدیا جائے گا کہ یہاں تم ہمیشہ تندرست رہو گے کبھی بیمار نہ ہو گے ہمیشہ زندہ رہو گے کبھی نہ مرو گے ہمیشہ خوشحال رہو گے کبھی خستہ حال نہ ہو گے ہمیشہ جوان رہو گے کبھی بوڑھے نہ ہو گے۔ (ابن کثیر) الدخان
52 الدخان
53 الدخان
54 ف 3 حور ” حورا کی جمع ہے جس کے معنی ” گورے رنگ کی عورت“ کے ہیں اور ” عین عینا“ کی جمع ہے اور اس سے مراد ڑی اور سیاہ آنکھوں والی عورت ہے۔ الدخان
55 ف 4 اطمینان سے منگوانے کا مطلب یہ ہے کہ انہیں بدہضمی یا کسی قسم کی مضرت کا اندیشہ لاحق نہ ہوگا۔ اس لئے وہ جس مقدار میں جو میوہ منگوانا چاہیں گے بے فکری کے ساتھ منگوائیں گے اور وہ فوراً حاضر کردیا جائے گا۔ الدخان
56 ف 5 یعنی وہاں کبھی موت نہ آئے گی۔ صحیحین کی ایک روایت میں ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا : موت کو ایک بھورے رنگ کے مینڈھے کی شکل میں لایا جائے گا اور اسے جنت و دوزخ کے درمیان کھڑا کر کے ذبح کردیا جائے گا پھر کہا جائیگا ” اے جنت والو ! تم ہمیشہ زندہ رہو گے۔“ اور اے دوزخ والو ! تمہیں بھی ہمیشہ رہنا ہے۔ (ابن کثیر) الدخان
57 ف 6 صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :” عمل کرو، میانہ روی اختیار کرو حق سے قریب رہو اور یہ یاد رکھو کہ تم میں سے کسی کا عمل بھی اس کو جنت میں نہ لیجائے گا؟“ لوگوں نے پوچھا اے اللہ کے رسول ! کیا آپ کا عمل بھی آپ کو جنت میں نہیں لے جائے گا؟ فرمایا ! ” ہاں ! میرا عمل بھی نہیں لایہ کہا اللہ تعالیٰ اپنے فضل و رحمت سے مجھے ڈھانک لے۔ (ابن کثیر) الدخان
58 الدخان
59 ف 7 یعنی یہ نصیحت قبول نہیں کر رہے تو آپ دیکھتے رہیں کہ ان کی تباہی کیونکہ آتی ہے اور یہ بھی انتظار کر رہے ہیں کہ آپ جس دعوت کو لے کر اٹھے ہیں اس کا انجام کیا ہوتا ہے۔ الدخان
0 ف 8 یہ پوری سورۃ مکہ معظمہ میں نازل ہوئی۔ البتہ اس کی ایک آیت قل للذین امنوا یغفروا الخ کے بارے میں اختلاف ہے۔ ایک روایت میں حضرت ابن عباس نے اسے مدنی قرار دیا ہے۔ (شوکانی) الجاثية
1 الجاثية
2 ف 9 زبردست ہے یعنی کوئی اس کے حکم سے سرتابی نہیں کرسکتا اور اگر کرتا تو اس کی سزا سے بچ کر کہیں نہیں جاسکتا۔ حکمت والا ہے یعنی اس کا ہر حکم اور ہر کام حکمت سے لبریز ہے۔ الجاثية
3 ف 10 یعنی جو لوگ ماننے اور ایمان لانے کے لئے تیار ہوں وہ اگر اس کائنات کے نظام پر غور کریں تو انہیں صاف پتا چل سکتا ہے کہ نہ ان کی پیدائش خود بخود ہوگئی ہے اور نہ ان کا نظام از خود چل رہا ہے بلکہ ایک زبرسدت حکمت والا خدا ہے جس نے انہیں اپنی قدرت سے پیدا کیا اور جو اس نظام کو اپنی حکمت کے مطابق چلا رہا ہے۔ الجاثية
4 ف 11 رہے وہ لوگ جو شک میں پڑے ہوئے ہیں انہیں کسی چیز میں کوئی نشانی نظر نہیں آتی۔ الجاثية
5 ف 12 ” رات اور دن کے اختلاف‘ سے مراد ان کا آگے پیچھے آنا بھی ہے اور کم و بیش ہونے میں مختلف ہونا بھی۔ ف 13 یہاں ” رزق‘ سے مراد پانی ہے کیونکہ اس سے زمین میں رزق کے اسباب پیدا ہوتے ہیں۔ ف 14 ہوائوں کے رخ بدلنے سے مراد یہ ہے کہ وہ مختلف سمتوں سے چلتی رہتی ہیں اور پھر ان کے اثرات بھی مختلف ہوتے۔ الجاثية
6 ف 1 یعنی جب قرآن کی آیات سن کر بھی وہ اللہ تعالیٰ پر ایمان نہیں لا رہے تو اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر اور کون سی ہستی ہے جس کی بات پر یہ ایمان لائیں گے۔ الجاثية
7 الجاثية
8 ف 2 ” خراب“ یہ ” ویل“ کاترجمہ ہے اور ویل جیسا کہ پہلے بتایا جا چکا ہے دوزخ کی ایک وادی کا نام بھی ہے۔ الجاثية
9 ف 3 یا یہ مطلب ہے کہ جب اسے ہماری آیتوں میں کوئی بات معلوم ہوجاتی ہے۔ (جسے وہ صحیح طور پر سمجھ نہیں پاتا) تو ساری آیات اور شریعت کا مذاق اڑانے لگتا ہے۔ یہ مطلب اس صورت میں ہے کہ اتخذھا میں ” ھا“ کی ضمیر آیات کے لئے قرار دی جائے اور اگر اسی ضمیر کو شیئاً کے لئے قرا دیا جائے تو پہلا مطلب صحیح ہوگا۔ الجاثية
10 الجاثية
11 الجاثية
12 ف 4 یعنی پانی میں باوجود اس کے گہرا ہونے کے جہاز اور کشتیاں غرق نہیں ہوتیں اور یہ محض اس لئے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نظام تکوینی ایسا بنایا ہے کہ انسان برویجر میں نقل و حرکت کرسکے۔ اگر اللہ تعالیٰ کا حکم ایسا نہ ہوتا تو سمندر میں جہازوں اور کشتیوں کے چلنے کا ہرگز امکان نہ ہوتا۔ الجاثية
13 ف 5 یعنی ان چیزوں کو اس نے محض اپنے فضل و کرم سے تمہارے کام میں لگا دیا ہے ورنہ تمہارا اس پر کوئی زور نہ تھا۔ آج سمندروں اور دریائوں سے انسان جو فوائد حاصل کر رہا ہے یہ سب اللہ کا فضل و کرم ہی ہے۔ ف 6 یعنی جو بھی اپنے آپ کو ضد اور ہٹ دھرمی سے الگ کر کے غور و فکر سے کام لے گا۔ وہ اس نتیجہ پر پہنچے بغیر نہیں رہ سکتا کہ کائنات کے اس نظام کو بنانے اور چلانے والا ایک ایسا خدا ہے جو اپنی ذات و صفات میں اکیلا ہے اور ہر چیز پر کامل قدرت رکھتا ہے۔ الجاثية
14 ف 7 ” اللہ تعالیٰ کے دنوں‘ سے مراد وہ دن ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کے دنوں“ سے مراد وہ دن ہیں جن میں اللہ تعالیٰ اپنے دشمنوں کو خاص سزا دیتا ہے یا اپنے فرمانبردار بندوں کو خاص انعام و اکرام سے نوازتا ہے۔ لہٰذا جو لوگ اللہ تعالیٰ کے دنوں کی امیدن ہیں رکھتے اس سے مراد کفار ہیں جو اس کی رحمت سے مایوس اور اس کی گرفت سے بے فکر ہیں۔ ف 8 یعنی ان کی زیادتیوں اور ایذا رسانیوں پر صبر و تحمل سے کام لیں اور ان کا معاوضہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیں … واضح رہے کہ مسلمانوں کو یہ حکم مکہ معظمہ میں دیا گیا جب انہیں کفار کے مقابل ہمیں تلوار اٹھانے کی اجازت نہ تھی۔ بعد میں مدینہ پہنچ کر جب جہاد بالسیف کا حکم نازل ہوا تو یہ حکم منسوخ ہوگیا۔ (ابن کثیر) ف 9 ” قوما‘(ان لوگوں کو) کا لفظ عام استعمال ہوا ہے۔ اس سے مراد مسلمان بھی ہو سکتے ہیں اور کافر بھی۔ مسلمان مراد ہوں تو مطلب یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ انہیں صبر و تحمل پر مناسب اجر عطا فرمائے گا اور اگر کافر مراد ہوں تو مطلب یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ ان کی شرارتوں پر خود ہی کافی سزا دے گا۔ الجاثية
15 الجاثية
16 ف 1 حکمت سے مراد کتاب کا علم و فہم اور دین کی سمجھ ہے اور حکومت سے مراد لوگوں کے درمیان کتاب کے مطابق عدل و انصاف سے فیصلے کرنے کی صلاحیت …دینے سے مراد ان کے درمیان بہت سے پیغمبر بھیجتا۔ (فتح) ف 2 ” اپنے زمانے میں“ کی شرط اس لئے ضروری ہے کہ مطلق طور پر سب سے زیادہ فضیلت (بزرگی) والی امت امت مسلمہ ہے۔ جیسا کہ فرمایا :” کنتم خیر امۃ اخرجت للناس“ تم سب سے بہتر امت ہو جو لوگوں کی ہدایت کے لئے پیدا کی گئی ہو (آل عمران 110) الجاثية
17 ف 3 یعنی ان میں جو اختلاف رونما ہوا وہ جہالت اور ناواقفیت کی بنا پر نہ تھا بلکہ وہ انبیاء کے ذریعہ صحیح راہ کا علم آجانے کے بعد رونما ہوا اور اس کی بنیاد سراسر ضد اور خودپسندی پر تھی۔ الجاثية
18 ف 4 یعنی …کو واضح کرنے کی جو خدمت موسیٰ (علیہ السلام) کے سپرد کی گئی تھی وہی اب آپ کے سپرد کی گی ہے۔ ف 5 یعنی انہیں اپنے قریب کرنے کے لئے دنی کے معاملے میں کسی قسم کی مدہنت سے کام نہ لیں۔ نادانوں سے مراد کفار قریش ہیں الجاثية
19 ف 6 یعنی اگر آپ مداہنت سے کام لیں گے تو وہ آپ کو اللہ کی پکڑ سے نہ بچا سکیں گے۔ الجاثية
20 ف 7 کیونکہ اسی کی بدولت وہ دوزخ سے بچ کر جنت کے مستحق ہو سکتے ہیں، اسے چھوڑ کر نہ دنیا میں فلاح پا سکتے ہیں اور نہ آخرت میں الجاثية
21 ف 8 یعنی دنیا میں ان کی زندگی اور آخرت میں ان کا انجام ایک جیسا ہو۔ ف 9 یعنی اگر وہ ایسا سمجھتے ہیں تو بالکل غلط سمجھتے ہیں اس سے تو نیکی اور بدی میں امتیاز ہی ختم ہوجاتا ہے۔ طبرانی میں روایت ہے کہ حضرت تمیم داری اس آیت کو رات بھر پڑھتے رہے اور روتے ہے یہاں تک کہ صبح ہوگی۔ (ابن کثیر) الجاثية
22 ف 10 یعنی زمین و آسمان کا یہ نظام محض کھیل نہیں بنایا بلکہ یہ ایک بامقصد حکیمانہ نظام ہے جس میں ضروری ہے کہ ہر شخص کو اس کی نیکی اور بدی کا بدلہ دیا جائے اور دنیا و آخرت میں کسی پر ظلم نہ ہو۔ الجاثية
23 ف 1 خواہش کو خدا بنا لینے سے مراد ہے کہ آدمی اپنی خواہش کا بندہ بن جائے۔ جو دل میں آئے کر گزرے خواہ خدا کے قانون میں وہ حرام ہو … علوم ہوا کہ شخص کسی نہ کسی خدا کو پوجتا ہے اگر مالک حقیقی کا بندہ نہیں بنتا تو اپنی خواہش کا بندہ بن کر اس کی پوجا کرتا رہتا ہے۔ ف 2 یعنی جو شخص اپنے نفس کو اپنا خدا بنا لے اور کسی طرح سیدھی راہ پر آنے کے لئے تیار نہ ہو تو اللہ تعالیٰ بھ اسے اس کی اختیار کردہ گمراہی میں بڑھتے رہنے کے لئے چھوڑ دیتا ہے۔ ” جیسا کہ اس کے علم میں تھا۔“ یعنی ازل سے خدا کے علم میں تھا کہ وہ راہ راست پر آنے والا نہیں ہے اور یہ بھی ترجمہ ہوسکتا ہے کہ ” علم ہوت یساقی اللہ نے اسے گمراہ کردیا۔“ یعنی وہ باوجود اس بات کے جاننے کے کہ یہ پتھر بے جان ہیں اور یہ کہ خواہش نفس کی پیروی سراسر گمراہی ہے پھر بھی شرک سے باز نہیں آتا اور ان پتھروں اور مٹی کے ڈھیروں (قبروں) کی پوجا کرتا رہتا ہے۔ (ابن کثیر) الجاثية
24 ف 3 یعنی خدا کا حکم اور ملک الموت وغریہ کچھ نہیں ہے، بس زمانہ کی گردش ہے جس سے ہم بوڑھے ہوجاتے ہیں اور جب اتنے کمزور ہوجاتے ہیں کہ زندہ نہیں ہو سکتے تو مر جاتے ہیں۔ الجاثية
25 ف 4 یعنی ان کو اتنا شعور نہیں کہ جس چیز کو وہ زمانہ کہتے ہیں وہ خود کوئی چیز نہیں ورنہ بجائے خود اسے آدمی پر کوئی اختیار ہے۔ زندگی اور موت کے جو ظاہری اسباب وہ دیکھتے ہیں، انہیں اللہ تعالیٰ ہی نے بنایا ہے اور وہ اسی کے حکم کے تحت کام کر رہے ہیں۔ اسی حقیقت کو آنحضرت نے ایک حدیث میں یوں بیان فرمایا ہے : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آدم کا بیٹا جب زمانہ کو برا بھلا کہتا ہے تو مجھے تکلیف دیتا ہے کیونکہ زمانہ خد کچھ نہیں میں ہی زمانہ نہ ہوں، میرے ہی ہاتھ میں معاملہ ہے اور میں ہی رات اور دن میں الٹ پھیر کرتا ہوں۔ (شوکانی بحوالہ صحیحین عن ابی ہریرہ) ف 5 یعنی اگر اپنے اس عقیدہ میں سچے ہو کر مرے کے بعد ہم پھر جی اٹھیں گے … یہ کفار کی سب سے وزنی دلیل تھی جو آخرت کی نفی کے لئے وہ پیغمبروں کے لئے سامنے پیش کرتے تھے حالانکہ قیامت سے پہلے فرداً فرداً اس دنیا میں زندہ ہو کر واپس آنے کو قرآن نے محال ور ناممکن بتایا ہے۔ قیامت کے دن دوبارہ زندگی کے مکاں پر عقلی دلائل قائم کئے ہیں جو اٹل اور ناقابل انکار ہیں، رہا آخرت پر ایمان تو اس کا انحصار سراسر انبیاء علیہم السلام کی تصدیق پر ہے۔ الجاثية
26 ف 6 یعنی جب تک چاہتا ہے دنیا میں زندہ رکھتا ہے۔ زمانہ بجائے خود کیا کرسکتا ہے؟ ف 7 کیونکہ جس نے ایک مرتبہ زندگی دے کر واپس لے لی اس کے لئے سب کو دوبارہ زندہ کر کے ایک جگہ اکٹھا کرنا کیا مشکل ہے؟ ف 8 یعنی یہ ہے وہ حقیقت جس پر ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے۔ مگر کفار مکہ پر تعجب ہے کہ نہ اسے سمجھ کر ایمان لاتے ہیں اور نہ کوئی معقول دلیل پیش کر کے اس کا رد کرتے ہیں۔ الجاثية
27 ف 9 کیونکہ اس روز حقیقت ان کی آنکھوں کے سامنے آجائے گی اور وہ تلافی مافات کے لئے کچھ نہ کرسکیں گے۔ الجاثية
28 ف 10 یہی خوف و دہشت سے حساب و کتاب کے انتظار میں جیسا کہ مجرم خوف زدہ ہو کر بیٹھتا ہوتا ہے … حضرت عبداللہ بن عمر فرمات یہیں کہ قیامت کے روز ہر امت اپنے نبی سمیت گھنٹوں کے بل بیٹھی ہوگی یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ ایک چبوترے پر ظاہر ہوں گے جو سب سے بلند ہوگا اور وہی مقام محمود ہوگا (شوکانی بحوالہ ابن مردویہ) ف 11 اس سے مراد ہر وہ کتاب بھی ہو سکتی ہے جو کسی نبی پر نازل کی گئی یعنی یہ دیکھنے کیلئے کہ کیا اس امت نے اپنے نبی کی کتاب پر عمل بھی کیا یا نہیں۔ الجاثية
29 ف 1 یعنی ہمارے حکم سے فرشتے لکھتے رہتے تھے تاکہ تم پر حجت قائم کی جا سکے، ورنہ ہمیں تو ہر چیز کا ازل سے علم ہے۔ الجاثية
30 الجاثية
31 الجاثية
32 ف 2 اس سے صاف نکلتا ہے کہ اگر کسی کو حشر نشر، حساب کتاب، فرشتوں، پیغمبروں اور دین کے دوسرے ضروری عقائد میں شک ہو تو (گو انکار نہ ہو) تو بھی) وہ کافر ہے اور کمال ایمان کے لئے پورا یقین ہونا شرط ہے (وحیدی ) الجاثية
33 الجاثية
34 الجاثية
35 ف 3 منانے کے موقع سے مراد توبہ کر کے اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کا موقع ہے۔ الجاثية
36 الجاثية
37 ف 4 یعنی کوئی اس کے برابر کا نہیں ہے وہ سب سے بڑا ہے۔ صحیح حدیث ہیں ہے کہ ” اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بزرگی میری ازار ہے اور بڑائی میری چادر جو شخص ان میں سے کوئی چیز مجھ سے چھیننا چاہے گا اسے میں دوزخ میں ٹھہرائوں گا۔ (بحوالہ صحیح مسلم) الجاثية
0 ف 1 یہ سورۃ بالاتفاق مکی ہے۔ (قرطبی) بعض مفسرین نے اس کی آیت : قل ارائیتم ان کان … کو مدنی قرار دیا ہے طبرانی میں ہے کہ یہ آیت حضرت عبداللہ بن سلام کے مسلمان ہونے کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ (روح) الأحقاف
1 الأحقاف
2 الأحقاف
3 ف 2 یعنی زمین و آسمانا کا یہ نظام کھلونا نہیں ہے بلکہ ایک بامقصد حکیمانہ نظام ہے اور نہ یہ دائمی اور ابدی چیز ہی ہے بلکہ اس کی ایک عمر مقرر ہے جب وہ پوری ہوجائیگی تو یہ لازماً درہم برہم ہوجائیگا اور قیامت آجائے گی۔ الأحقاف
4 ف 3 ابن عباس نے اس کی تفسیر علمی روایت“ سے کی ہے۔ یعنی آنحضرت سے پہلے انبیاء و صلی کی تعلیمات کا کوئی ایسا باقیماندہ حصہ جو بعد کی نسلوں تک کسی قابل اعتماد ذریعہ سے پہنچا ہو۔ مطلب یہ ہے کہ شرک پر کوئی دلیل نہیں ہے۔ (ابن کثیر) الأحقاف
5 ف 4 کیونکہ وہ محض بے جان ہیں۔ مراد بت ہیں اور اگر ان سے مراد انسان ہوں جو مر چکے ہیں اور مشرکین نہیں پکارتے ہیں۔ تو ان کا مشرکین کی پکارے غافل ہونا بھی بظاہر ہے۔ الأحقاف
6 ف 5 بلکہ پن خواہش کے پوجتے رہے۔ وہ فرشتے ہوں یا اللہ کے مقرب بندے یا شیاطین الغرض سب قیامت کے دن ان سے برأت کا اعلان کرینگے اور کہیں گے : تبرء نا الیک ما کانوا ایا نایعبدون (قصص :63) ہم تیرے سامنے ان سے الگ ہوئے وہ ہماری پوجا نہیں کرتے تھے۔ ف 6 یعنی ہمیں معلوم نہیں کہ تم نے ہماری پوجا کی یا ہم نے تمہیں اپنی پوجا کرنے کا حکم نہیں دیا لہٰذا تم جو ہماری پوجا کرتے رہے دراصل اپنی خواہش کی پوجا کرتے رہے۔ الأحقاف
7 ف 7 سچی بات سے مراد قرآن ہے۔ کفار مکہ قرآن کو صریح جادو اس لئے کہتے تھے ایک طرف تو وہ اسے خدائی کلام ماننے کیلئے تیار نہ تھے اور دوسری طرف ان کے دل گواہی دیتے تھے کہ کوئی انسان اسجیسا کلام تصنیف کرنے پر قادر نہیں ہوسکتا ہے۔ اس لئے وہ لوگوں کو قرآن سے بدظن کرنے کیلئے یہ مشہور کرتے کہ یہ صریح جادو ہے۔ الأحقاف
8 ف 8 اس لئے میں یہ جرأت کیسے کرسکتا تھا کہ قرآن اپنے دل سے گھڑ لیتا۔ ف 9 یعنی قرآن کے بارے میں جو بکواس کر رہے ہیں اللہ کو اس کا خوب علم ہے۔ ف 1 لہٰذا وہ میرے حق میں ضرور یہ گواہی دیگا کہ اس نے مجھ پر قرآن نازل کر کے اسے دوسروں تک پہنچانے کا حکم دیا تھا اور یہ کہ تم نے قرآن کی تکذیب کر کے سخت جرم کا ارتکاب کیا تھا۔ ف 2 یعنی اس کے لئے جو تائب ہو کر قرآن پر ایمان لائے اور اس کی تصدیق کرے۔ الأحقاف
9 ف 3 بلکہ مجھ سے پہلے ہزاروں پیغمبر دنیا میں آچکے ہیں اور ان کی دعوت وہی رہی ہے جو میری ہے۔ “ ف 4 آیا مکہ میں رہوں گا یا اس سے نکال دیا جائونگا اور کیا طبعی طریق پر وفات پائوں گا یا دشمنوں کے ہاتھوں شہید کردیا جائیگا ف 5 کیا تم پر عذاب ابھی آئیگا یا تمہیں مزید مہلت دی جائیگی؟“ یہ سب غیب کی باتیں ہیں جن کے متعلق آنحضرت کو بے خبر ہونے کا اعلان کردینے کا حکم دیا گیا۔ رہی آخرت ! تو آنحضرت کو معلوم تھا کہ اس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اور آپ کے متعین کو جنت اور تکذیب کرنے والوں کو دوزخ نصیب ہوگی۔ ابن جریر وغیرہ نے آیت کے اسی مفہوم کو اختیار کیا ہے اور یہی صحیح ہے۔ مگر بعض نے آیت کے مفہوم کو عام رکھا ہے کہ آنحضرت کو آخرت کے بارے میں بھی معلوم نہ تھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کیا معاملہ درپیش آنیوالا ہے۔ اس کی تائید صحیح بخاری کی اس حدیث سے ہوتی ہے جس میں حضرت ام العلا بیان کرتی ہیں کہ عثمان بن مظعون کی وفات پر میں نے کہا۔” ابا السائب ! میں تمہارے متعلق شہادت دیتی ہوں کہ تم اللہ کے ہاں عزت دار ہو۔“ اس پر آنحضرت نے فرمایا کہ تمہیں یہ کیسے معلوم ہوگیا۔ میں اللہ کا پیغمبر ہوں لیکن مجھے معلوم نہیں کہ میر اور تمہارا حال کیا ہونیوالا ہے علما نے لکھا ہے کہ اس مفہوم کے اعتبار سے یہ آیت انا فتحنلک سے منسوخ ہوچکی ہے۔ مگر قرطبی لکھتے ہیں کہ صحیح بخاری میں دوسری روایت مایفعل بہ“ ہے کہ مجھے معلوم نہیں ہے کہ اس (عثمان) کے ساتھ کیا ہونیوالا ہے۔ وھو الصحیح انشاء اللہ تعالیٰ نسخ کی ضرورت نہیں یا یہ کہ حسن تفسیر کو اختیار کیا جائے کہ دنیا میں جو عوارض پیش آنیوالے ہیں ان کا مجھے تفصیلی علم نہیں ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ کسی خاص آدمی کے لئے قطعی ہونے کا حکم لگانا صحیح نہیں ہے بجز ان لوگوں کے جٹکے جنتی ہونے کی شارع نے تصریح کی ہے جیسے عشرہ مبشرہ (قرطبی، ابن کثیر) ف 6 چاہے وہ حکم قرآن میں آیا ہو یا حدیث میں اس کی خبر دی گئی ہو کیونکہ وحی کا اطلاق کتاب اور سنت دونوں پر ہوتا ہے۔ الأحقاف
10 ف 7 یہاں بنی اسرائیل میں سے ایک گواہ“ سے مراد علمائے یہود ہیں جن سے مشرکین عرب آنحضرت کے بارے میں دریافتک رتے تھے۔ مطلب یہ ہے کہ جب وہی بنی اسرائیل (اہل کتاب) آنحضرت کی تصدیق کرچکے ہیں تو تم کیوں ایمان نہیں لاتے۔ واضح رہے کہ علمائے یہود صراحت کے ساتھ اس بات کا اقرار کرچکے تھے کہ بیشک تو رات میں عرب (بنو اسماعیل) میں سے نبی آخر الزمان اور کتاب آنے کی خبر دی گئی ہے اور یہ رسول وہی معلوم ہوتا ہے۔ علمائے یہود کی یہ شہادتیں ان پیشنگوئیوں پر مبنی تھیں جو بائبل میں موجود چلی آرہی تھیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل کا سب سے بڑا گواہ (یعنی حضرت موسیٰ) خود ہی گواہی دے چکا ہے کہ بنی اسرائیل کے بنو عم (بنو اسماعیل) میں سے اسی کی مثل ایک رسول آنے والا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ بعض حق پرست علمائے یہود عبداللہ بن سلام وغیرہ آنحضرت کو دیکھتے ہی آپ پر ایمان لے آئے۔ پس شاہد سے مراد حضرت موسیٰ اور ” مثلہ“ سے مراد توراۃ ہے بعض نے شاہد بنی اسرائیل سے مراد عبداللہ بن سلام لیا ہے اور اس آیت کو ادنی تسلیم کیا ہے۔ مگر عبداللہ بن سلام کے بارے میں اس آیت کے نازل ہونے کے یہ معنی ہیں کہ ان پر یہ آیت چسپاں ہو سکتی ہے اور وہ بھی اس کے مصداق ہیں۔ (ابن کثیر قرطبی) الأحقاف
11 ف 8 ’ بلکہ ہم اسے پہلے اختیار کرنے والے ہوتے۔“ یہ بات سردارن قریش مسلمانوں کے بارے میں اس لئے کہا کرتے تھے کہ وہ اپنے آپ کو معزز اور جہاں دیدہ اور مسلمانوں کو ذلیل و ناتجربہ کار سمجھتے تھے کیونکہ اس زمانہ میں آنحضرت کی پیروی اختیار کرنے والے یا تو غریب طبقہ کے لوگ تھے یا نوجوان ف 9 گویا ان کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ معیار حق ہم ہیں۔ اگر ہم کسی چیز کو قبول کرلیں تو وہ حق ہے ورنہ سراسر باطل جس میں پرانے زمانے سے لوگ اپنی بیوقوفی کی بدلوت پھنستے رہے ہیں۔ الأحقاف
12 الأحقاف
13 الأحقاف
14 الأحقاف
15 ف 1 اس آیت سے حضرت عل نے یہ استدلال کیا اور حضرت عمر حضرت عثمان اور صحابہ کرام کی ایک جماعت نے اس پر ان سے موافقت کی کہ حمل کی کم از کم مدت چھ ماہ ہو سکتی ہے کیونکہ اس آیت میں حمل اور نہ دودھ پلانے کی مجموعی مدت تیس ماہ اور سورۃ بقرہ کی آیت (233) اور سورۃ لقمان کی آیت (14) میں دودھ پلانے کی پوری مدت دو سال بیان کی گئی ہے۔ (ابن کثیر) طبی تجربات سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے اور حکما کے اقوال اس پر شاہد ہیں۔ اس لحاظ سے اگر کوئی عورت نکاح کے چھ ماہ بعد بچہ جنے تو وہ جائز تصور ہوگا اور اگر چھ ماہ سے کم مدت میں بچہ جنے (یعنی وہ اسقاط نہ ہو بلکہ صحیح سالم بچہ ہو) تو وہ حرایم ہوگا۔ اس آیت میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ اولاد پر ماں کا حق باپ کی نسبت زیادہ ہے اس لئے وہ اولاد کے لئے تکلیف اٹھاتی ہے۔ حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے آنحضرت سے سوال کیا کہ میری خدمت کا سب سے زیادہ حقدار کون ہے۔ فرمایا :” تیری ماں“ اس نے دریافت کیا پھر کون؟ فرمایا :” تیری ماں“ اس نے پھر دریافت کیا پھر کون؟ فرمایا :” تیری ماں“ اس نے جب چوتھی بار دریافت کیا پھر کون؟ تو آپ نے فرمایا :” تیرا باپ …(ریاض الصالحین) ف 2 اس سے معلوم ہوا کہ جو شخص چالیس برس کی عمر کو پہنچ جائے اسے یہ دعا کثرت سے کرتے رہنا چاہئے بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت حضرت ابوبکر کے حق میں نازل ہوئی۔ چنانچہ صحابہ میں حضرت ابوبکر کے سوا ایسا کوئی شخص نہ تھا جس کے والدین اور اولاد سب کی مسلمان ہو۔ (قرطبی) الأحقاف
16 الأحقاف
17 ف 3 ان میں سے پھر کوئی بھی قبر سے اٹھ کر نہیں آیا۔“ اس سے مقصد بعث“ دوبارہ زندگی کا انکار ہے یا یہ کہ صرف میں ہی قیامت کا منکر نہیں ہوں بلکہ مجھ سے پہلے بھی ایسی بہت سی قومیں گزر چکی ہیں جو قیامت کی منکر تھیں۔ اس صورت میں یہ جملہ گویا ” انکار بعث“ پر ایک طرح سے استدلا ہوگا۔ روح ) ف 4 یعنی خدا کی دہائی دیتے ہوئے اس سے کہتے ہیں۔ ف 5 جن کو کوئی حقیقت نہیں ہے“ اوپر کی آیت میں ایک مومن شخص کا کردار پیش کیا گیا ہے اور اس آیت میں ایک کافر شخص کا جسے اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان نہیں چونکہ اس سے کوئی آستین شخص مراد نہیں ہے اس لئے اگلی آیت میں اولئک واحد کی بجائے جمع کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے بدوی ہے کہ جب حضرت معاویہ نے اپنے بعد یزید کو نامزد کیا تو مردان کو لکھا کہ مدینہ میں اس کا اظہار کرے چنانچہ مروان نے خطبہ دیا اور حضرت معاویہ کی اس رائے کی تحسین کی۔ اس پر حضرت عبدالرحمٰن بن ابوبکر (رض) کو غصہ آیا اور کہا کہ یہ ہرا قلیت سے ہے مردان نے حضرت عبدالرحمٰن سے لوگوں کو متنفر کرنے کیلئے کہا : ” تم وہی تو ہو جس کے بارے میں آیت والذی قال لولالدبہ افء“ نازل ہوئی ہے۔ حضرت عائشہ نے مروان کی یہ گفتگو سنی تو انہوں نے تین مرتبہ مرد ہن کی تکذیب کرتے ہوئے کہا کہ یہ آیت ہرگز عبدالرحمان کے بارے میں نازل نہیں ہوئی اور مردان کو سخت سست بھی کہا۔ لہٰذا بعض علماء جیسا کہ سہیلی نے ” الاعلام میں نقل کیا ہے۔ کا یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ اس سے مراد حضرت عبدالرحمٰن ہیں کیونکہ یہاں جس شخص کا ذکر ہے اس کے حق میں قرآن نے الذی حق علیہ القول فرمایا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ وہ کافر مریگا۔ اس کے برعکس حضرت عبدالرحمٰن مسلمان بلکہ افاضل صحابہ میں سے تھے اور جنگ یمامہ میں ان کے کارنامے مشہور ہیں۔ (ابن کثیر قرطبی وغیرہ) الأحقاف
18 ف 6 یہ ” امم‘ کا بیان ہے۔ یہ مضمون سودا اعراف :18 اسوہ ہود :119 میں گزر چکا ہے۔ الأحقاف
19 ف 7 اس سے پہلے مضمون کی تاکید مقصود یعنی ہر ایک کو مومن ہو یا کافر اس کے عملوں کے مطابق جزا سزا ملے گی یہ نہیں ہوگا بروں پر ایسے گناہ لادے جائیں جو انہوں نے نہ کئے ہوں یا نیکوں کو ان کی نیکی سے محروم کردیا جائے۔ واضح رہے کہ یہاں مومن کافر سب کے لئے درجات کا لفظ لفظاً استعمال ہوا ہے ورنہ اصل میں منازل جنت کو درجات اور منازل روح کو برکات کہا جاتا ہے۔ الأحقاف
20 ف 1 استکبار سے مراد ایمان سے انکار فسق سے دوسرے گناہ مراد ہیں مطلب یہ ہے کہ ذلت کے عذاب کے دو سبب ہونگے دنیا میں ناحق اکڑنا اور غرور گھمنڈ میں پھنس کر حق کے ماننے سے انکار اور دوسرا فسق یعنی معاصی اور یہ دونوں باتیں کفار کا شیوہ ہیں مسلمان کو اس سے پناہ مانگنی چاہئے۔ واضح رہے کہ بہت سی احادیث میں عیش کو شی اور تہمت پرستی کی مذمت کرے۔ اسی کے پیش نظر حضرت عمر زہد کی زندی بسر کرتے اور دوسروں کو بھی زاہد اختیار کرنے کی ترغیب دیتے اور اس اندیشہ کا اظہار کرتے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم بھی زندگی کی لذات میں مستغرق ہو کر اس آیت کے مصداق بن جائیں ورنہ جو مسلمان اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بن کر دنیا کا مصداق نہیں ہوسکتا اور نہ ہی اس کے درجات میں کمی آسکتی ہے جیسا کہ بعض صوفیہ نے سمجھا ہے۔ اسی کے پیش نظر حضرت ابن عباس فرماتے ہیں۔ ھذا من باب الزھد“ یعنی حضرت کا لوگوں کو گوشت وغیرہ عمدہ کھانوں سے منع کرنا زاہد کے طور پر تھا اور نہ یہ آیت کفار قریش کے حق میں نازل ہوتی ہے۔ واللہ الأحقاف
21 ف 2 توحید و نبوت کے دلائل پیش کرنے کے قوم عاد کا قصہ بیان فرمایا کہ اہل مکہ اس سے عبرت حاصل کریں (رازی) احقاف، حقف کی جمع ہے۔ ریت کے بلند اور مستطیل ٹیلے کو حقف کہتے ہیں۔ یہاں ” احقاف“ سے مراد یمن کے مشرق میں حضرموت کا وہ علاقہ ہے جو عرب کے صحرائے اعظم (ربع خالی) کا حصہ ہے حضرت ہود کی قوم عاد اسی علاقہ میں آباد تھی۔ لیکن آج وہاں کوئی آبادی نہیں ہے۔ ف 3 یعنی قیامت کے دن کا … پس یہاں عظیم یوم کی صفت ہے اور اس دن کی ہولناکی اور سختی کے پیش نظر اس کو بڑا دن کہا ہے بعض نے لکھا ہے کہ یہاں عظیم اصل میں عذاب کی صفت ہے اور بس کا مجرور ہونا یوم کے متصل آنے یعنی جوار کی وجہ سے ہے۔ (روح) الأحقاف
22 الأحقاف
23 ف 4 یعنی وہی جانتا ہے کہ تم پر کب عذاب آئیگا میرے اختایر میں نہیں ہے کہ جب چاہوں تم پر عذاب لے آئوں اور جب تک چاہوں اس کو تم سے ٹالتا رہوں۔ الأحقاف
24 ف 5 یعنی بہت خوش ہوئے کہ بادل آیا جو ہمیں سیراب رے گا۔ ممکن ہے کہ انہیں یہ جواب حضرت ہود نے دیا ہو یا صورت حال انہیں پکار کر یہ کہہ دی ہو۔ ف 6 ممکن ہے کہ انہیں یہ جواب حضرت ہود نے دیا ہو یا صورت حال انہیں پکار کر یہ کہہ رہی ہو الأحقاف
25 ف 7 صحیحین میں حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ ابر نمودار ہوتا تو آنحضرت کے چہر مبارک پر فکر کے آثار نمودار ہوجاتے ہیں۔ میں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول ! کیا بات ہے لوگ جب بادل دیکھت یہیں تو خوش ہوتے ہیں کہ بارش آئی اور آپ کے چہرہ مبارک سے تشویش ظاہر ہونے لگتی ہے؟ فرمایا : عائشہ ! میرے پاس ضمانت نہیں کہ اس ابر میں عذاب نہیں ہوگا۔ ایک قوم پر اسی ابر سے عذاب آچکا ہے اور اسی عذاب کو دیکھ کر ایک قوم نے کہا۔ ” ھذا عارض ممطرنا“ اور حدیث میں ہے جب آندھی چلتی تو آپ دعا کرتے :” اے اللہ ! میں ت جھ سے اس ہوا کی جو چیز اس میں ہے اور جس چیز کے ساتھ اسے بھیجا گیا ہے اس کی خیر طلب کرتا ہوں اور اس کے شر سے پناہ مانگتا ہوں۔ (شوکانی) ف 8 یعنی گھر رہ گئے، گھر والے ختم ہوگئے۔ ف 9 اس کی تفصیل سورۃ ہود میں گزر چکی ہے۔ الأحقاف
26 ف 1 یعنی مال و دولت، طاقت و اقتدار اور جسمانی صلاحیتوں، غرض ہر چیز میں وہ تم سے زیادہ تھے۔ الأحقاف
27 ف 2 جیسے قوم ثمود اور قوم لوط کی بستیاں۔ الأحقاف
28 ف 3 یعنی وقت آن پڑنے پر وہ ان کے کام کیوں نہ آئے؟…سورہ زمر میں گزر چکا ہے کہ انہی کی طرح مشرکین مکہ بھی اپنے دیوتائوں کے بارے میں کہا کرتے تھے۔ ” ما نعبدھم الا لیقربونآء الی اللہ زلفی اور ہم ان کی عبادت صرف اس لئے کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اللہ سے قریب کردیں (آیت :3) اور سورۃ یونس آیت 18 میں ھولاء شفآء نا عند اللہ ” یہ اللہ کے حضور ہمارے سفارشی ہیں۔ ف 4 یعنی جب وہ وقت آیا جس کے لئے ان کی پوجا کی جاتی تھی اور ان کے سامنے نذرانے پیش کئے جاتے تھے تو یوں غائب ہوگئے کہ کہیں ان کا سراغ نہ ملا۔ الأحقاف
29 ف 5 یعنی جہاں قرآن پڑھا جا رہا تھا۔ یہ بطن نخلہ کا واقعہ ہے۔ جب آنحضرت اپنے چند صحابہ کے ساتھ بغرض تبلیغ تشریف لے گئے۔ راستہ میں نخلہ کے مقام پر رات بسر کی اور صبح کی نماز میں قرآن پڑھ رہے تھے کہ جن نصیبن سے آٹھ افراد پر مشتمل ایک وفد وہاں پہنچا۔ ف 6 اس سے معلمو ہوتا ہے کہ وہ جن آنحضرت پر ایمان لے آئے تھے۔ بعد کی آیات بھی اس پر دلیل ہیں۔ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جن متعدد مرتبہ آنحضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں اور ایک یا دو مرتبہ آپ ان کو تعلیم دینے کے لئے باہر بھی تشریف لے گئے۔ (قرطبی ابن کثیر) الأحقاف
30 الأحقاف
31 ف 7 چنانچہ ان کی قوم سے ستر آدمی آپ پر ایمان لے آئے اور انہوں نے آحضرت سے بطحا میں ملاقات کی آپ نے ان کو قرآن پڑھ کر سنایا اور اوامرو نواہی کی تلقین کی۔ ف 8 ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت کی رسالت عام تھی اور آپ جن و انس کی طرف مبعوث تھے جیسا کہ احادیث میں ہے۔ ” وبعثت الی الخلق کافۃ کہ میں تمام مخلوق (جن و انس) کی طرف بھیجا گیا ہوں۔ نیز اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ جن بھی انسانوں کی طرف مکلف ہیں اور آخرت میں ثواب و عقاب کے مستحق ٹھہرینگے۔ جیسا کہ سورۃ انعام کی آیت 130 میں گزر چکا ہے۔ البتہ پیغمبر صرف انسانوں میں سے ہوئے ہیں (یوسف :109) مزیدت فصیل سورۃ الرحمٰن میں آرہی ہے۔ الأحقاف
32 ف 9 یعنی اس سے بھاگ کر کہیں نہیں جاسکتا۔ ف 10 جنوں کے متعلق جس واقعہ کا ان آیات میں ذکر کیا گیا ہے۔ صحیحین وغیرہ کی متعدد روایات سے معلمو ہوتا ہے کہ وہ بطن نخلہ میں پیش آیا جو مکہ معظمہ اور طائف کے درمیان ایک وادی ہے۔ اس واقعہ کی تفصیل میں حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ آنحپرت کی بعث سے پہلے جنوں کو آسمان کی کچھ خبریں مل جایا کرتی تھیں مگر آنحضرت کی بعثت کے بعد یہ سلسلہ بند کردیا گیا اور جن خبریں حاصل کرنے کے لئے اوپر جاتے تو ان کو کثرت سے شہب کی مار پڑتی۔ اس پر انہیں خیال ہوا کہ زمین میں ضرور کوئی نیا واقعہ ہوا ہے جس کی وجہ سے آسمان پر سخت پہرے بٹھا دیئے گئے ہیں۔ اس جستجو میں جنوں کے مختلف گروہ مشرق و مغرب میں پھیل گئے۔ ادھر نبی ﷺ اپنے چند صحابہ کے ساتھ سوق عکاظ جاتے ہوئے بطن نخلہ میں ٹھہرے ہوئے تھے وہاں آپ اپنے صحابہ کے ساتھ فجر کی نماز پڑھ رہے تھے کہ جنوں کی ایک جماعت وہاں آ پہنچی اس کے بعد وہ واقعہ پیش آیا جس کا ان آیات میں ت ذکرہ ہے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بعثت سے کچھ بغد کا واقعہ ہے۔ بعض اصحاب سیرت نے اسے ہجرت سے کچھ پہلے کا واقعہ قرار دیا ہے جب آنحضرت طائف سے زخمی ہو کر بطن نخلہ میں قیام فرما تھے۔ علمائے تفسیر نے یہ بھی لکھا ہے کہ یہ حج کے دنوں کا واقعہ ہے جبکہ آنحضرت مکہ سے باہر صحابہ کے ساتھ صبح کین ماز ادا کر رہے تھے۔ جنوں کی پہلی آمد کے موقع پر آنحضرت نے نہ ان کو دیکھا اور نہ ان کی آمد کا آنحضرت کو پتا چلا حتی کہ سورۃ جن کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں اور وحی کے ذریعہ آپ کو مفصل حال معلوم ہوا۔ اس اواقعہ کے بعد بہت بڑی تعداد میں جن آنحضرت سے ملاقات کر کے ہدایت یاب ہوئے اور آپ نے ان کو احکام بھی سنائے ایک ملاقات کے موقعہ پر حضرت عبداللہ بن مسعود بھی آنحضرت کے ساتھ گئے تھے۔ (ابن کثیر) قرآن و حدیث سے جنوں کا وجودثابت ہے سلف صالح اور خلف جنوں کے وجود کو بالا جماع مانتے ہیں اس کے باوجود جو شخص ان کے وجود کا منجکر ہے اس کے کفر میں شبہ نہیں ہے۔ (سلفیہ) الأحقاف
33 الأحقاف
34 الأحقاف
35 ف 1 اس میں شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے تمام پیغمبر ہی اولو العزم (ہمت والے) تھے لیکن علمائے سلف نے پانچ پیغمبروں حضرت نوح ابراہیم موسیٰ عیسیٰ اور محمد ﷺ کو خاص طور پر اولالعزم قرار دیا ہے۔ ف 2 یعنی قیامت کی ہولناکیوں کو دیکھ کر انہیں دنیا میں اپنے عیش و آرام کا زمانہ بہت ہی مختصر معلوم ہوگا۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں دستور ہے کہ گزاری مدت تھوڑی معلوم ہوتی ہے۔ ف 3 یعنی قرآن کے پہنچ جانے کے بعد حجت تمام ہوگئی اب بھی جو شخص نافرمانی میں پڑا رہے گا وہ اپنی شامت خود بلائے گا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی کو بے قصور نہیں پکڑا جاتا۔ الأحقاف
0 ف 4 اس سورۃ کا دوسرا نام القتال بھی ہے اور یہ بالاتفاق مدنی ہے حضرت بن عمر سے روایت ہے کہ آنحضرت مغرب کی نماز میں اسے پڑھا کرتے تھے۔ شوکانی محمد
1 ف 5 یعنی کافر رہتے ہوئے ان لوگوں نے جو بظاہر اچھے کام کئے ہیں جیسے صدقہ و خیرات، خانہ کعبہ کی مرمت وغیرہ ان پر اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کو کوئی اجر نہیں ملے گا کیونکہ ایمان کے بغیر کسی عمل کی کوئی قیمت نہیں۔ کافروں کے کام اکارت کردینے کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے وہ تمام مکروہ فریب ناکام کردیئے جو وہ اسلام کو سچا دکھانے کے لئے کام میں لاتے تھے۔ محمد
2 ف 6 یعنی دنیا و آخرت دونوں بنا دیں، دنیا میں ان کے لئے عزت اور آخرت میں جنت ہے۔ محمد
3 ف 7 یعنی توحید کی راہ اختیار کی جو حق ہے۔ ف 8 تاکہ ایک طرف حق پرستوں کی کامیابی و بامرادی کو دیکھ کر نیکی کی طرف رغبت پیدا ہو اور دوسری طرف باطل پرستوں کی ناکامی و نامردای دیکھ کر برائی سے نفرت ہو۔ محمد
4 ف 1 مسلمان اور کافر کے مابین امتیازظاہر کرنے کے بعد اب کفار سے جہاد کا حکم فرمایا یہاں کافروں سے مراد مشرکین اور اہل کتاب ہیں بشرطیکہ وہ ذمی نہ ہوں اور نہ ان سے معاہدہ ہو (قربطی) ف 2 قید کرنے کا یہ حکم اس وقت ہے جب کافروں کا زور ٹوٹ چکا ہو اور اگر ان کا زور نہ ٹوٹا ہو تو قید کرنے کی اجازت نہیں جیسا کہ (سورہ انفال 68,67) میں گزر چکا ہے کہ جنگ بدر میں جب مسلمانوں نے کافروں کو قتل کرنے کی بجائے ان سے فدیہ لینے کا فیصلہ کرلیا، حالانکہ ان کا زور نہ ٹوٹا تھا تو اس پر عتاب نازل ہوا۔ ف 3 بعض کے نزدیک یہ حکم آیت ” فاقتلوا المشرکین حیث و جدتموھم“ اور دیگر آیات قتال سے منسوخ ہوچکا ہے اور نابالغ بچے اور عورتوں کے سوا تمام قیدیوں کو قتل کرنا ضروری ہے مگر جمہور علما اور ائمہ تحقیق نے اس آیت کو محکم (غیر منسوخ) تسلیم کیا ہے اور لکھا ہے کہ اسیران جنگ کو فدیہ لے کر یا احسان رکھ کر چھوڑ دینے میں حکومت کو اتخیار دیا گیا ہے۔ جیسا کہ آنحضرت اور خلفائے راشدین کے عمل سے معلوم ہوتا ہے۔ البتہ اگر کوئی قیدی واجب القتل ہے تو اسے قتل کردیا جائے چنانچہ آنحضرت نے بدر کے قیدیوں میں سے نضر بن حارث اور عقبہ بن ابی معیط کو قتل فرمایا اور ان کے علاوہ باقی قیدیوں کو فدیہ لے کر رہا کردیا اور متعدد مواقع پر قیدیوں کو احسان رکھ کر رہا کردیا گیا۔ مثلاً بنی ہو ازن کے قیدی ازراہ احسان چھوڑ دیئے۔ الغرض حکومت کو اسلامی مصلحت کے پیش نظر قتل کرنے، غلام بنا کر رکھے اور فدیہ لے کردیا احسان رکھ کر چھوڑ دینے میں ہر طرح سے اختیار حاصل ہے۔ (قرطبی ابن کثیر) ف 4 یعنی حتی کہ شکست ہوجائے یا اس سے صلح ہوجائے۔ ف 5 یعنی تمہاری آزمائش کرلے کہ کون اس کے راستہ میں جہاد کرتا اور ثابت قدم رہتا ہے اور کون بھاگتا ہے تاکہ ثابت قدم رہنے والوں کو جہاد کا ثواب نصیب ہو اور کافران کے ہاتھ سے قتل ہوا۔ بعض تابعین کا خیال ہے کہ یہ آیت غزوہ احد کے دن نازل ہوئی جس میں بہت سے مسلمان شہید اور زخمی ہوئے اور کفار نے اغل ھبل امبل بت کی فتح کا نعرہ لگایا اور مسلمانوں انکے جواب میں اللہ اعلی واجل کا نعرہ بلند کیا اور مشرکوں نے کہ :” لنا الغزی ولا عزی لکم“ اس پر مسلمانوں نے کہا :” اللہ مولانا ولا مولی لکم۔“ اس کا مفصل بیان سورۃ آل عمران میں گزر چکا ہے۔ ف 6 یعنی ان کی محنت ٹھکانے لگائے گا، انہیں جنت کی راہ پر گامزن کرلے گا اور آخرت میں پیش آنیوالی تمام منازل و مواقف میں ان کی حالت کو درست رکھے گا۔ حدیث شریف میں ہے کہ شہید کو قرض کے سوا ہر چیز معاف کردی جائے گی۔ (ابن کثیر) محمد
5 محمد
6 ف 7 چنانچہ ہر جنتی جنت میں اپنا ٹھکانہ پہچان لے گا۔ حدیث میں ہے کہ اہل جنت میں سے ہر شخص اپنے جنت کے گھر کو اپنے دنیا کے گھر سے زیادہ پہچان لیگا۔“ (ابن کثیر) محمد
7 ف 8 چنانچہ اسلامی تاریخ شاہد ہے کہ جب تک مسلمانوں نے اللہ کے دین کی مدد کی وہ دنیا میں غالب و باعزت رہے اور جب انہوں نے اس کے دین کی مدد چھوڑ دی تو وہ ہر جگہ ذلیل و خوار ہوئے اور ان کے دشمن ان پر غالب آگئے۔ محمد
8 ف 9 ان کے وہ اعمال جن کو وہ نیک خیال کرتے ہیں کیونکہ ایمان کے بغیر کوئی نیک عمل اللہ تعالیٰ کے ہاں قبل نہیں ہو سکتا۔ محمد
9 محمد
10 محمد
11 ف 10 یعنی انہوں نے اپنے لئے جو جھوٹے سہارے بنا رکھے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں ان کے کسی کام نہیں آسکتے۔ غزوہ احد کے دن مسلمانوں کا نعرہ (اللہ مولانا ولا مولیٰ لکم) اسی آیت سے ماخوذ تھا (ابن کثیر) محمد
12 ف 1 یعنی جس طرح جانوروں کو کھانے پینے کے سوا کسی چیز کی فکر نہیں ہوتی ان کافروں کو بھی اس کے سوا کوئی فکر نہیں سر سے پائوں تک دنیا میں غرق ہیں اور کبھی یہ نہیں سوچتے کہ مرنے کے بعد کیا ہوگا۔ یوں بھی بسیار خوری کفار کی عادات میں سے ہے۔ حدیث میں ہے کہ ” مومن ایک آتن میں کھاتا ہے اور کافر سات آنتوں میں۔‘ ‘(ابن کثیر) محمد
13 ف 2 مطلب یہ ہے کہ ان کفار مکہ کی کیا ہستی ہے ہم نے ان سے کہیں زبردست قوموں کو تہس نہس کردیا اور وقت پڑنے پر کوئی ان کی مدد نہ کرسکا حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ ہجرت کے موقع پر جب آنحضرت ﷺ مکہ سے نکل کر غار ثور کے پاس آئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ کی طرف رخ کر کے فرمایا تو اللہ کے نزدیک سب سے پیارا شہر ہے اور مجھے بھی دوسرے شہروں سے زیادہ محبوب سے اگر مشرکوں کے مجھ تجھ سے نکالا نہ ہوتا تو میں تجھ سے ہرگز نہ نکلنا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (ابن کثیر) محمد
14 ف 3 یعنی شیطان نے انہیں بہکا دیا ہے اور کفر و شرک کو ان کی نظروں میں اچھا کر دکھایا ہے جس کی کوئی بنیاد نہیں اور نہ اس کے صحیح ہونے پر دلیل لائی جاسکتی ہے۔ ف 4 اور اللہ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی ہدایت (قرآن و سنت سے) کوئی سروکار نہیں رکھتے۔ محمد
15 ف 5 یعنی کھڑے رہنے یا کسی چیز کی ملاوٹ سے اس میں تغیر نہیں آیا انتہائی صاف شفاف اور شراییں ہے۔ ف 6 یعنی بالکل تازہ دودھ ہے اس کے مزے میں کوئی تغیر نہیں آیا۔ ف 7 یعنی دنیا کی شراب کی طرح نہیں ہے جو بدبو دار اور بد مزہ ہوتی ہے اور اس سے سکر آجاتا ہے۔ ف 8 یعنی موم اور ہر قسم کے میل کچیل سے صاف کیا ہوا شہد ہے۔ ایک حدیث میں آنحضرت نے فرمایا الم یجرج من بطون النحل وہ مکھیوں کے پیٹ سے نکلا۔ حضرت معاویہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :” جنت میں دودھ پانی شہد اور شربا کے ایسے دریا میں جن سے ابھی تک نہیں نکالی گئیں۔ (ابن کثیر) محمد
16 ف 9 یعنی ان صحابہ کرام سے جو علم رکھتے ہیں جیسے حضرت عبداللہ بن مسعود، عبداللہ بن عباس اور ابو الدرو وغیرہ ف 10 گویا آپ کے کلام کی تحقیر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہماری سمجھ میں تو آیا نہیں کہیہ شخص کیا کہتا رہا کیا آپ لوگوں کی سمجھ میں کچھ آیا؟ ف 11 اس لئے رسول اللہ ﷺ کی باتوں کو سن کر بھی کوئی اثر قبول نہیں کرتے بلکہ کفر و شرک سے وابستہ رہتے ہیں۔ محمد
17 ف 12 یعنی ان کے ایمان علم اور دینی بصیرت میں اضافہ فرماتا ہے اور انہیں ت قویٰ کے مقام پر پہنچاتا ہے۔ محمد
18 ف 13 یعنی کونسی نصیحت اور کونسی وعید ہے جو انہیں نہیں سنائی گی لیکن اتنے بدبخت ہیں کہ جب تک قیامت کو اپنی آنکھ سے نہ دیکھ لیں ایمان لانے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ اس لئے گویا اسی کا انتظار کر رہے ہیں لیکن قیامت کے آنے میں بھی کونسی کسر رہ گئی ہے۔ اس کی نشانیاں تو آ ہی چکی ہیں پھر اس کے بعد اس کی آمد میں کونسا شبہ رہ گیا۔ شاہ صاحب فرماتے ہیں :” بڑی نشانی قیامت کی ہماری نبی ﷺ کا پیدا ہونا ہے۔ سب نبی خاتم النبین کی راہ دیکھتے تھے۔ جب وہ آچکے تو اب قیامت ہی باقی ہے۔ حضرت سہل بن سعد کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ آنحضرت نے انگشت شہادت اور بیج کی انگلی کی طرف اشارہ کر کے فرمایا : بعثت انا والساعۃ کھاتین مجھے قیامت کے ساتھ یوں بھیجا گیا ہے جیسے یہ دو انگلیاں باہم ملی ہوئی ہیں یعنی میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ (ابن کثیر بحوالہ صحیح بخاری) ف 1 یعنی اس وقت کا سمجھنا اور ماننا بیکار ہوگا کیونکہ اس سے نجات نہیں ہو سکتی۔ محمد
19 ف 2 ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت نے فرمایا :” لوگو ! اپنے رب کے حضور توبہ کرو اس لئے کہ میں اپنے رب کے حضور ستر مرتبہ سے زیادہ توبہ و استغفار کرتا ہوں۔ (ابن کثیر) اللہ تعالیٰ نے آنحضرت کے اگلے پچھلے گناہ معاف کردیئے تھے لیکن اس کے باوجود آنحضرت کے استغفار کرتے رہنے کا مقصد اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ اللہ کا زیادہ سے زیادہ شکر بجالایا جائے۔ جیسا کہ ایک موقع پر آنحضرت سے کثرت عبادت کا سبب پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا : افلا اکون عبدالشکورا کہ کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں (ابن کثیر) اور استغفار جیسے ان گناہوں سے ہوتا ہے جو انسان سے سر زد ہوچکے ہوں اسی طرح آئندہ گناہوں سے بچنے کے لئے بھی ہوتا ہے۔ (قرطبی) ف 3 یعنی انسان رات اور دن میں جو نقل و حرکت بھی کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے پوشیدہ نہیں ہے۔ محمد
20 ف 4 یعنی ہمیں جہاد کا حکم دیا جاتا اور ہم اللہ کی راہ میں دشمنوں سے لڑتے۔ ف 5 یعنی اس خوف سے کہ اب مسلمانوں کے ساتھ جہاد کے لئے نکلنا پڑیگا ورنہ نفاق کا پردہ چاک ہوجائیگا۔ محمد
21 ف 6 یعنی جہاد کا پختہ حکم آنے پر اس سے گھبرانے اور پیچھے رہنے کی بجائے اگر وہ خدا کے ساتھ سچے رہتے اور آگے بڑھ کر اس کی راہ میں اپنی جان اور مال پیش کرتے تو ان کے حق میں بہتر ہوتا۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں :” یعنی حکم شرع کو نہ ماننے سے کافر ہوجاتا ہے۔ اللہ کا حکم ہر طرح ماننا ہی چاہئے پھر رسول بھی جانتا ہے کہ نامردوں کو کیوں لڑوائے۔ ہاں بہت ہی تاکید آ پڑے اس وقت لڑنا ضروری ہوگا، نہیں تو لڑنے والے بہت ہیں۔ (موضع) محمد
22 ف 7 یعنی تم ہرگز امن و امانسے نہ رہو گے بلکہ نافرمانی اور قطع رحمی کرو گے جس کے نتیجہ میں خانہ جنگی اور لوٹ مار کی وہی حالت عود کر آئے گی جو اسلام سے پہلے تھی۔ احادیث میں رشتے ناتے توڑنے اور ان کے حقوق ادا نہ کرنے پر سخت وعید آئی ہے۔ محمد
23 محمد
24 ف 8 اوپر لی آیت کے سیاق کو محلوظ رکھا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ یہ لوگ ملعون ہونے کی وجہ سے اولاً تو قرآن پر غور و تدبر ہی نہیں کرتے اور اگر کرتے بھی ہیں تو کفر و نفاق کی وجہ سے سمجھ نہیں پاتے۔ ہاں اگر صدق نیت سے غور کرتے تو ضرور سمجھ لینے کیو وجہ جہاد میں کس قدر دنیوی اور اخروی فوائد ہیں۔ محمد
25 ف 9 یعنی ان کے دلوں میں یہ ڈال دیا ہے کہ اگر جہاد نہ کرو گے تو مدت دراز تک زندہ رہو گے اور دنیا کے عیش و آرام سے لطف اٹھائو گے۔ حالانکہ انہیں سجھنا چاہئے تھا کہ موت اپنے وقت پر آتی ہے اور اس میں لمحہ پھر بھی تقدم یا تاخیر نہیں ہو سکتا، پھر جہاد سے بھاگنے کا کیا فائدہ؟ محمد
26 ف 10 یعنی مشرکوں اور یہودیوں سے۔ ف 11 ” بعض باتوں“ سے مراد آنحضرت کی مخالفت اور عداوت ہے اور یہ کہ جب جنگ کا موقعہ آئیتو مسلمانوں کو دھوکا دیا جائے اور ہر طریقہ سے ان کے دشمنوں کی مدد کی جائے۔ ف 1 یعنی ان کی سرگوشیوں اور سازشوں کو جنہیں وہ چھپ کر کرتے ہیں، خوب جانتا ہے۔ محمد
27 ف 2 یعنی کیا انہیں فکر نہیں کہ اس وقت ان کی کیسی گت بنے گی؟ (نیزد یکھیے سورۃ انفال آیت : 5 انعام 93) محمد
28 ف 3 یعنی کفر و شرک اور نفاق کی راہ پر ف 4 یعنی ہر اس کام کو برا سمجھا جس میں اللہ تعالیٰ کی رضا مندیھی جسے ایمان توحید اخلاق تقویٰ اور جہاد وغیرہ۔ ف 5 کیونکہ ان کی بنیاد و اخلاص و ایمان پر نہ تھی یاد رہے کہ ایمان کے بغیر کوئی عمل قبول نہیں ہو سکتا۔ محمد
29 ف 6 یعنی ان کا بھانڈا نہیں پھوڑے گا۔ کینوں سے مراد وہ عداوت ہے جو یہ منافقین آنحضرت اور مسلمانوں کے خلاف دلوں میں رکھتے تھے۔ محمد
30 ف 7 یعنی ان کے انداز گفتگو سے ان کا منافق ہونا معلوم کیا جاسکتا ہے۔ محمد
31 محمد
32 ف 8 یعنی منافقین اور یہود جنہیں یہ معلوم ہوچکا تھا کہ آنحضرت واقعی اللہ کے رسول ہیں اور سب سابقہ میں آپ کی آمد کی بشارت دی جاتی رہی ہے مگر وہ ضد اور عداوت سے آپ کی مخالفت کرتے رہے۔ ف 9 یا ان کی مکاریوں اور چالبازیوں کو ناکام بنا دے گا۔ “ محمد
33 ف 10 معلوم ہوا کہ بسا اوقات معصیت سے نیک عمل ضائع ہوجاتے ہیں اور نیکی اسی صورت میں نفع دے سکتی ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کا فرمانبردار ہے۔ محمد
34 ف 11 یعنی یہ مرنے سے پہلے کفر و شرک سے تائب نہ ہوئے۔ محمد
35 ف 12 یعنی صبرو استقلال سے مقابلہ کرتے رہو اور جب تک وہ برسر پیکار رہیں ان سے صلح کی پیشکش نہ کرو وہاں اگر ان کا زور ٹوٹ جائے اور وہ خود صلح کی درخواست کریں تو بشریا مصلحت تم ان کی درخواست قبول کرسکتے ہوے۔ ملاحظہ ہو (سورہ انفال 61) الغرض یہ آیت اور سورۃ انفال وال آیت دوں حالتوں کے اعتبار سے ہے اور یہ دونوں ناسخ یا منسوخ نہیں ہے۔ (قرطبی) ف 13 یعنی تمہیں آخر کار غلبہ ہوگا۔ بشرطیکہ مومن ہو۔ (آل عمران :129) ف 14 بلکہ اور تمہارے نیک اعمال کا بھرپور اجر عنایت فرمائے گا۔ محمد
36 ف 1 یعنی آخرت کے مقابل ہمیں اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ لہٰذا دنیا میں پھنس کر اپنی آخرت برباد نہ کرو۔ ف 2 یعنی اس کو تمہارے مال و دولت کی ضرورت نہیں۔ اگر زکوۃ و صدقات میں تھوڑا سا مال نکالنے کا اس نے تمہیں حکم دیا ہے تو تموہارے ہی فائدے کے لئے دیا ہے۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں : حق تعالیٰ نے ملک فتح کردیئے مسلمانوں کو تھوڑے ہی دنوں خرچ کرنا پڑا سو جتنا خرچ کیا تھا اس سے سو برابر ہاتھ لگا۔ (موضح) محمد
37 ف 3 یعنی اگر وہ زبردستی تم سے تمہارے اموال مانگے تو تم بخل کرو گے اور تمہارے دلوں کی خفگیاں کھل کر سامنے آجائیں گی۔ محمد
38 محمد
0 ف 4 یہ سورۃ بالاتفاق مدنی دور کی ہے۔ صحیح مسلم میں حضرت انس سے روایت ہے کہ اس کا نزول اس وقت ہوا جب 6 ھ میں آنحضرت کفار مکہ سے صلح حدیبیہ کا معاہدہ کر کے مدینہ منورہ کی طرف واپس تشریف لا رہے تھے اور مسلمان نہایت رنجیدہ تھے کیونکہ ان کو عمرہ کا موقع نہیں ملا تھا اور انہیں قربانی کے اونٹ حدیبیہ میں ذبح کرنے پڑے تھے۔ صرف یہی نہیں بلکہ ان کے خیال میں معاہدہ انتہائی غیر مناسب شرطوں پر طے ایا تھا۔ جب یہ سورۃ نازل ہوئی تو آنحضرت نے حضرت عمر کو بلایا اور فرمایا اس وقت مجھ پر ایسی سورت نازل ہوئی ہے جو ان تمام چیزوں سے مجھے زیادہ محبوب ہے جن پر سورج طلوع ہوا۔ اس سفر میں آنحضرت کے ساتھ پندرہ سو آدمی تھے اور یہ عمرہ آنحضرت نے چونکہ فیصلہ کے اگلے سال ادا کیا اس لئے اسے عمرۃ القضا کہا جاتا ہے۔ (ابن کثیر شوکانی) الفتح
1 الفتح
2 ف 5 اس فتح سے مراد صلح حدیبیہ ہے۔ امام زہری کہتے ہیں، صلح حدیبیہ سے بڑی کوئی فتح نہیں ہوئی۔ شعبی کہتے ہیں کہ آنحضرت کو اس صلح سے جو کچھ ملا وہ کسی غزوہ میں نہیں ملا۔ حضرت برائن عازب کہتے ہیں :” تم لوگ فتح مکہ کو فتح سمجھتے ہو لیکن ہم اصل فتح بیعت رضوان کو سمجھتے ہیں جو حدیبیہ میں ہوئی۔“ (شو کانی بحوالہ صحیحین) ف 6 اس فتح میں آنحضرت سے ایسے کام ہوئے جو اللہ تعالیٰ کے نزیک بڑی قدر رکھتے تھے، اس لئے اس فتح میں آنحضرت کو مغفور ہونے کی خشوخبری سنائی گئی اور ہمیشہ کے لئے بالفرض اگر آپ سے کوئی لغزش سر زد ہو تو اسے معاف فرما دیا گیا۔ حدیث میں ہے کہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد آنحضرت اللہ تعالیٰ کی اس قدر عبادت کرنے کہ رات کی نماز میں کھڑے کھڑے پائوں پر ورم ہوجاتا۔ حضرت عائشہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! جب اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے پچھلے گناہ معاف کردیئے ہیں تو آپ عبادت میں اس قدر مشقت کیوں اٹھاتے ہیں فرمایا ” عائشہ کیا میں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں۔ (ابن کثیر) ف 7 نعمت (احسان) سے مراد وہ تمام ظاہری اور باطنی نعمتیں ہیں جو آنحضرت کو حاصل تھیں جیسے یہاں دنیا میں دین کا قلبا اور آخرت میں مقام محمود ف 8 یہاں تک آپ دنیا سے رخصت ہو کر اس کی جناب میں پہنچ جائیں۔ الفتح
3 ف 9 یعنی ایسی مدد جس کے بعدآپ کا کوئی دشمن آپ کو نیچا نہ دکھا سکے۔ الفتح
4 ف 10 یہ اس طرف اشارہ ہے کہ صلح حدیبیہ کے بعد عام مسلمان بہت رنجیدہ و غمگین تھے لیکن جب اللہ و رسول کی رضا اسی صلح میں پائی تو خوش ہوگئے اور بعد کے حالات سے ان پر صلح حدیبیہ کا فتح مبین ہونا عیاں ہوتا چلا گیا حتی کہ ان کے دل بالکل مطمئن ہوگئے۔ ف 11 یعنی جوں جوں اللہ و رسول کی بتائی باتیں حقیقت بن کر ان کے سامنے آتی گئیں، اللہ و رسول پر ان کا ایمان بڑھتا گیا۔ ایمان میں یہ اضافہ کو مصدق بہ کے اعتبار سے بھی ہوسکتا ہے کیونکہ انہیں اللہ اور رسول کی کسی بات میں شک نہ تھا مگر اصل بات یہ ہے کہ نفس ایمان میں اضافہ تسلیم کیا جائے کہ دلائل کی کثرت سے ایمان میں مزید پختگی حاصل ہوتی ہے۔ ایمان میں کمی و بیشی قرآن کی دوسری آیات اور احادیث سے بھی ثابت ہے صحیح بخاری کتاب الایمان میں امام بخاری نے اس مسئلہ کو مدلل طور پر ثابت کیا ہے۔ ف 12 جیسے فرشتوں جنوں اور انسانوں کی فوجیں۔ ابن عباس نے اس کی یہی تفسیر بیان کی ہے (قرطبی) ف 13۔ یعنی وہ جیسے چاہتا ہے ہے ان کا انتظام فرماتا ہے اور جسے چاہتا ہے دوسری پر غالب کرت اہے۔ مطل یہ ہے کہ مسلمانوں کو جو فتح و کامیابی نصیب ہوئی ہے یا ہو رہی ہے وہ سب اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہے۔ اس میں خود مسلمانوں کا کمال نہیں ہے۔ الفتح
5 ف 1 یعنی بشری کمزوریوں کی بنا پر ان سے جو گناہ سرزد ہوگئے انہیں معاف کر دے گا۔ الفتح
6 ف 2 منافقین سے مراد مدینہ منورہ کے منافین ہیں اور مشرکوں سے مراد مکہ معظمہ کے مشرکین۔ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو ذلت و رسوائی کی سزا دی اور وہ اس وجہ سے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے غلط توقع رکھتے تھے کہ آنحضرت اور صحابہ کرام جو غزوہ حدیبیہ میں آپ کے ساتھ گئے ہیں وہ مدینہ واپس نہیں آسکیں گے اور مشرکین ان کو تباہ و برباد کردیں گے اور مشرکین نے یہ سمجھ رکھات ھ کہ اللہ ہرگز اپنے دین کو مٹنے سے نہ بچا سکے گا اور کفر کا کلمہ بلند ہو کر رہے گا۔ (قرطبی وغیرہ) ف 3 جس سے بچنے کے لئے انہوں نے ہزار جتن کئے۔ الفتح
7 ف 4 اس سے مراد اسی حقیقت کی تائید ہے جو اوپر بیان ہوئی الفتح
8 ف 5 یا حق کی شادت دینے والا‘ یعنی اپنے قول و عمل سے لوگوں کو بتانے والا کہ حق کیا ہے ؟ دیکھیے سورۃ بقرہ آیت 143 و سورۃ نساء آیت (4) الفتح
9 ف 6 یا ” اس کا ساتھ دو۔ ‘ ف 7 یا ” نماز پڑھو“ الفتح
10 ف 8 کیونکہ من یطع الرسول فقد اطاع اللہ جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی …“ اس بیعت سے مراد بیعت رضوان ہے جو نبی ﷺ نے حدیبیہ کے مقام پر صحابہ کرام کو ایک درخت کے نیچے جمع کر کے لی اور وہ اس وقت جب آپ نے حضرت عثمان کو کفارے گفتگو کرنے کے لئے مکہ معظمہ بھیجا اور انہوں نے حضرت عثمان کو روک لیا اور ادھر مسلمانوں میں مشہور ہوگیا کہ حضرت عثمان شہید کردیئے گئے۔ یہ بیعت اس بات پر تھی کہ مرتے دم تک میدان جہاد سے نہیں بھاگیں گے۔ صیحیحن میں حضرت جابر اور دوسری روایات کے مطابق مسلمانوں کی اس وقت تعداد چودہ پندرہ سو کے درمیان تھی اس کی کچھ تفصیل آئندہ آیات میں آرہی ہے۔ (قرطبی) ف 9 یا مطلب یہ ہے کہ ان پر اللہ تعالیٰ کا احسان و کرم ان کی اس بیعت سے کہیں زیادہ تھا یا ان کی قوت و نصرت سے اللہ تعالیٰ کی قوت و نصرت بہت زیادہ ہے۔ (قرطبی) ف 10 حضرت عبادہ بن صامت کہتے ہیں کہ ہم نے ہر حال میں جمع و طباعت پر آنحضرت کی جیت کی تھی کہ کسی حال میں آپ کا ساتھ نہ چھوڑیں گے۔ الفتح
11 ف 11 یعنی حدیبیہ کے سفر میں آپ کے ساتھ نہیں گئے۔ یہ مدینہ منورہ کے گرد رہنے والے قبائل … غفار، مزینہ، جھینہ، اسلم اور اشجع وغیرہ … کے لوگ تھے۔ ف 12 یعنی یہ منافق ہیں اور آپ کو جھوٹا سمجھتے ہیں اس وقت جو آپ سے استغفار کی درخواست کر رہے ہیں۔ یہ ان کی ظاہری ضدی ہے ورنہ حقیقت میں یہ اپنی کسی حرکت پر نادم نہیں ہیں۔ ف 1 یعنی یہ تمہارا خیال قطعاً غلط ہے کہ تم گھروں میں بیٹھ رہے تو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچ جائو گے اگر وہ تمہارے گھروں میں عذاب بھیجن ا چاہے تو تم بچ نہیں سکتے۔ ف 2 یعنی وہ جانتا ہے کہ تمہارا گھروں میں بیٹھے رہنا بال بچوں کی نگہداشت اور ان میں شغل کی وجہ سے نہ تھا۔ یہ برا بہانہ ہے۔ درحقیقت تمہارے دلوں میں نفاق بھرا ہوا تھا۔ الفتح
12 ف 3 یعنی سب کے سب قریش کے ہاتھوں مارے جائیں گے اور ایک یخص بھی زندہ بچ کر نہ آئے گا ف 4 یعنی شیطان نے تمہارے دلوں میں یہ خیال خوشنما بنا کر ڈال دیا تھا اور تم نے اسے قبول کرلیا۔ ف 5 یعنی یہ گمان کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول کی ہرگز مدد ہیں کرے گا۔ ف 6 یعنی اپنی دنیا اور آخرت دونوں تباہ کرلیں۔ یہ ’ دبائر“‘ کی جمع ہے اور ” بائر“ اس غلط کا کار آدمی کو کہتے ہیں جس میں کسی قسم کی خیر نہ ہو۔ اس لئے یہ لفظ نہایت شریر اور فسادی آدمی پر بھی بولا جاتا ہے۔ الفتح
13 ف 7 جیسا کہ تم نہیں لائے الفتح
14 ف 8 اس میں اشارہ فرمایا ہے کہ اب بھی اپنی منافقانہ روش چھوڑ کر مخلص مومن بن جائو تو اللہ کی رحمت کے دامن میں آسکتے ہو۔ الفتح
15 ف 9 جب آنحضرت اور صحابہ کرام حدیبیہ سے واپس آئے تو اللہ تعالیٰ نے ان سے وعدہ فرمایا کہ خیبر فتح ہوگا اور اس کا مال غنیمت صرف ان لوگوں کو ملے گا جو صلح حدیبیہ میں آنحضرت کے ساتھ گئے تھے چنانچہ جب مسلمانوں نے خیبر کا رخ کیا تو یہ گنوار منافق بھی آ پہنچے کہ ہمیں بھی اپنے ساتھ چلنے دو۔ ف 10 اس سے مراد اللہ تعالیٰ کی یہ بات ہے کہ خیبر کے سفر میں صرف ان لوگوں کو ساتھ لیا جائے جو حدیبیہ گئیت ھے اور بیعت رضوان میں ش ریک ہوئیت ھے یا آیت فاستاذنوا اللخروج نقل لن تخرجوا معنی ابدا ولن تقابلو معنی عدوا (توبہ 83) کی طرف اشارہ ہے مگر علمائے تفسیر نے پہلی تاویل کو زیادہ پسند فرمایا ہے۔ (قرطبی) ف 11 یعنی حسد کرتے ہو یکہ غنیمت کے اموال میں ہمارا حصہ کیوں ہو۔ ف 12 جو مخلص مسملانوں کو حسد کا طعنہ دیتے ہیں۔ حالانکہ جانتے ہیں کہ انہیں ہرگز دنیا کی طمع نہیں ہے اور یہ کہ خیبر کی طرف انہیں ان کا جذبہ جہاد لے جا رہا ہے نہ کہ محض مال غنیمت کا حصول الفتح
16 ف 13 یا مسیلمہ کذاب کے قبیلہ بنو حنیفہ کے لوگ یا ہوا زن غطفان وغریہ قبائل جن سے حنین وغیرہ میں مسلمانوں کو نقصان پہنچایا وہ مرتدین جن پر آنحضرت کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر صدیق نے فوج کشی کی۔ اکثر مفسرین نے اس سے مراد بنو حنیفہ کو لیا ہے کیونکہ وہ جنگجو بھی تھے اور ان سے معرکہ بھی اس واقعہ کے بعد جلد ہی پیش آیا۔ (شوکانی) ف 14 اس سے بھی معلوم ہوا کہ وہ ایسے کافر ہونگے، جن سے جزیہ قبول نہ کیا جائے گا بلکہ اسلام یا جنگ یہ تعریف عرب کے کافر قبائل پر ہی صادق آتی ہے۔ الفتح
17 ف 1 یعنی یہ وہ معذور لوگ ہیں جن پر جہاد میں شریک ہونا فرض نہیں ہے۔ الفتح
18 ف 2 یہ اسی بیعت رضوان کی طرف اشارہ ہے جس کا ذکر پہلے ہوچکا ہے۔ نافع سے روایت ہے کہ جس درخت کے نیچے یہ بیعت ہوئی تھی لوگ اس کی زیارت کے لئے جانے لگے حضرت عمر کو اس کا علم ہوا تو انہوں نے اس درخت کو کٹوا دیا ابو دائود ترمذی میں حضرت جابر سے روایت ہے کہ آنحضرت نے فرمایا :” جس شخص نے اس بیعت میں حصہ لیا وہ ہرگز دوزخ میں نہ جائے گا۔ (شوکانی) جب ان صحابہ کرام کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے گواہی دے دی ہے کہ میں ان سے خوش ہوں پھر وہ بڑا خبیث فرقہ ہے جو ان مقبول بندوں سے ناراض اور ان کے ساتھ بغض و عداوت رکھے۔ (امام الہند) ف 3 تسلی سے مراد وہ قلبی اطمینان ہے۔ جس کی بنا پر ایک شخص کسی تردد کے بغیر اپنے آپ کو سخت سے سخت خطرہ میں جھونک دیتا ہے اور اس پر کسی قسم کی گھبراہٹ طاری نہیں ہوتی۔ یہی تسلیم و رضا کا درجہ ہے۔ (قرطبی) الفتح
19 ف 4 ومعالم کثیرۃ“ بدل من فتحاً قریباً والوائو مقحمۃ) چنانچہ حدیبیہ کے تین اور بعد ہی رسول اللہ خیبر کی طرف متوجہ ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے خیبر فتح کرایا۔ بہت سا مال غنیمت مانوں کے ہاتھ آیا اور اس کے علاوہ بہت سے باغ بھی ملے اللہ تعالیٰ کا یہ انعام تھا ان مسلمانوں پر جنہوں نے حدیبیہ کی کٹھن مہم میں آنحضرت کا ساتھ دیا تھا۔ (قرطبی) الفتح
20 ف 5 اس سیم راد وہ دوسری فتوحات ہیں جو خیبر کے بعد مسلمانوں کو پے در پے حاصل ہوتی رہیں۔ الفتح
21 الفتح
22 ف 6 یعنی اللہ تعالیٰ نے حدیبیہ میں جو صلح کرائی اس کی وجہ یہ نہتھی کہ تم کمزورتھے اور کافروں سے لڑ نہ سکتے تھے۔ لڑائی ہوتی تو تم ہی فتحیاب ہوتے اور کافر پیٹھ پھیر کر بھگاتے صلح کرانے میں بہت سی دوسری مصلحتیں ت ھیں جن میں سے بعض تم پر واضح ہوچکی ہیں اور بعض آگے چل کر واضح ہوں گی۔ الفتح
23 الفتح
24 ف 7 حدیبیہ میں صلح کی گفتگو ہو رہی تھی کہ مشرکین مکہ میں سے ستر یا اسی آدمی مسلح ہو کر جبل تغیم سے اتر آئے کہ مسلمانوں پر اچانک حملہ کردیا جائے مگر وہ گرفتار ہوگئے اور آنحضرت نے ان کو رہا کردیا۔ آیت میں اسی مضمون کی طرف اشارہ ہے۔ (قرطبی) شاہ صاحب لکھتے ہیں اور نہ روکے لوگوں کے ہاتھ۔“ یعنی لڑائی نہ ہونے دی۔ الفتح
25 ف 1۔ حالانکہ تم اس مسجد کے ان کی یہ نسبت زیادہ حقدار تھے اور پھرتم نے انہیں سمجھایا بھی کہ ہم لڑنے کے لئے نہیں آئے ہیں۔ صرف عمرہ کر کے واپس ہوجائیں گے۔ ‘ ف 2 یعنی حرم کے اس حصہ تک نہ پہنچ سکے جاں ذبح کرنے کا عام دستور ہے بلکہ حدیبیہ ہی میں رکے رہے اور وہیں ذبح کئے گئے اس موقع پر مسلمانوں کے ساتھ قربانی کے ستر اونٹ تھے۔ (شو کانی) ف 3 یعنی جن کا مسلمان ہونا تمہیں معلوم نہ تھا۔ ان سے مراد وہ مرد اور عروتیں ہیں جو اس وقت مکہ میں موجود تھے اور مسلمان ہوچکے تھے لیکن یا تو انہوں نے اپنا ایمان چھپا رکھا تھا یا بے بسی کی وجہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت نہ کرسکتے تھے بلکہ کفار کے ظلم و ستم کا نشانہ بن رہے تھے۔ ف 4 تو تمہیں لڑائی سے منع نہ کیا جاتا۔ یہ ” لولا“ کا جواب ہے جو محذوف ہے تم کو ان کی طرف سے پہنچنے کا مطلب یہ ہے کہ تم پر مسلمان افراد کے قتل کرنے کرانے کا الزم آتا ہے اور تمہیں دیت ادا کرنی پڑتی ادھر مشرکین کو بھی یہ کہنے کا موقع مل جاتا کہ مسلمان ایسے دشی ہیں کہ لڑائی میں خود اپنے بھائیوں کو مار ڈالتے ہیں۔ ف 5 یعنی تمہیں جو لڑائی سے منع کیا گیا اس کی مصلحت یہ تھی کہ … ف 6 یعنی انہیں کفارہ کے نرغہ سے نکال کر مسلمانوں کی جماعت میں لے آئے، یا (کفار قریش میں سے) جسے چاہے اپنی رحمت میں شریک کرے۔“ یعنی ان میں سے جن لوگوں کا اسلام لانا مقدر تھا، انہیں لڑائی کی کشمکش سے بچائے اور اپنی رحمت … اسلام… میں داخل کرے چنانچہ بعد میں جب مکہ فتح ہوا تو ان میں سے اکثر لوگ اسلام میں داخل ہوئے۔ اگر حدیبیہ کے موقع پر جنگ ہوتی تو نہ معلوم ان میں سے کتنے مارے جاتے۔ ف 7 ” جو پہلے سے مسلمانت ھے یا آزاد مسلمان ہونے والے تھے۔ ف 8 یعنی تمہیں لڑائی کا حکم دیتے اور وہ مارے جاتے یا قید و ذلیل ہوتے۔ ف 9 جاہلیت کی ضد سے مراد کفار مکہ کا یہ کہنا ہے کہ ان مسلمانوں نے ہمارے بھائیوں اور بیٹوں کو قتت کیا ہے اسلئے اگر وہ مکہ میں داخل ہوگئے چاہے عارضی طور پر عمرہ کرنے ہی کے لئے سہی، تو ہماری ناک کٹ جائیگی کیونکہ اردگرد کے تمام عرب قبائل کہیں گے کہ وہ ہمارے علی الرغم ہمارے گھر میں داخل ہوئے اس لئے لات و عزیٰکی قسم ہم انہیں ہرگز عمرہ کرنے کی اجازت نہ دینگے۔ الفتح
26 ف 10 یعنی انہیں صبر و وقار کی توفیق دی اس لئے وہ اللہ و رسول کے فیصلہ پر مطمئن ہوگئے۔ قریش کی جاہلانہ ضد پر مشتعل ہو کر آپے سے باہر نہ ہوئے۔ ف 11” پرہیزگاری کی بات“ یہ مراد وہ بات ہے جس کا تقاضاپرہیز گاری ہے یعنی توحید کا اقرار یا صبر و تحمل اور وایفائے عہد جو پرہیزگاری کا تقاضا ہے ف 12 کیونکہ وہ ایماندار تھے۔ اور رسول اللہ ﷺ کی صحبت کے تربیت یافتہ۔ الفتح
27 الفتح
28 ف 1 ہوا یہ کہ حدیبیہ روانہ ہونے سے پہلے مدینہ منورہ آنحضرت نے خواب دیکھا کہ آپ اپنے صحابہ سمیت اطمینان سے مکہ معظمہ میں داخل ہوئے ہیں اور عمرہ کے ارکانب جا لا رہے ہیں۔ کوئی حلق کر رہا ہے اور کوئی تقصیر یعنی بال ترشوارہا ہے پیغمبر کا خوب چونکہ جھوٹا نہیں ہوسکتا اس لئے مسلمان خوش ہوئے اور عموماً یہ سمجھے کہ اسی سال مکہ میں داخلہ ہوگا لیکن جب مکہ میں داخل ہوئے بغیر حدیبیہ سے پلٹے تو دلوں میں تردد پیدا ہوا اور منافقوں کو یہ طعنہ دینے کا موقعہ ملا کہ پیغمبر کا خواب غلط نکلا۔ اسی وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کر کے واضح فرمایا کہ پیغمبر کو یہ خواب ہم نے دکھایا اور وہ سچا ہے جو یقینا پورا ہوگا۔ چنانچہ اس کے مطابق اگلے سال مکہ معظمہ میں داخل ہوئے اور اطمینان سے عمرہ کر کے واپس آئے۔ خود خواب میں اس کے پورا ہونے کا وقت نہیں بتایا گیا تھا۔ مسلمانوں نے اپنے طور پر یہ سمجھ لیا تھا کہ شاید اسی سال مکہ معظمہ میں داخلہ ہوگا۔ چنانچہ روایات میں ہے کہ حدیبیہ سے واپسی پر حضرت عمر نے آنحضرت سے عرض کی ” کیا آپ نے ہمیں یہ نہیں بتایا کہ ہم مسجد حرام میں داخل ہو کر طواف کرینگے“ آپ نے جواب دیا۔ ” ہاں لیکن کیا میں نے تم سے یہ کہا تھا کہ تم اسی سال مسجد حرام میں دخل ہو گے؟ اور یہی جواب حضرت عمر کو حضرت ابوبکرصدیق نے بھی دیا تھا۔ (ابن کثیر) الفتح
29 ف 2 مراد وہ نور اور وقار ہے جو کثرت عبادت سے انسان کے چہرے پر ظاہر ہوجاتا ہے۔ چنانچہ صحابہ کرام کے چہرے اس اعتبار سے ممتاز نظر آتے تھے۔ امام مالک فرماتے ہیں :” جب صحابہ کرام کی فوجیں شام میں داخل ہوئیں تو وہاں کے عیسائی انہیں دیکھ کر کہ نیل گے۔ ہمیں مسیح کے حواریوں کی جو شان معلوم ہے ان کی شان اس سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ (مختصر از ابن کثیر) ف 3 یعنی اپنے لاگنے والوں کو بھلی لگنے لگی۔ یہ صحابہ کرام کی مثال ہے جوش روع اسلام میں تھوڑے تھے۔ پھر ان کی تعداد بڑھی اور آخر کار ان کا اجتماعی و سیاسی نظام مستحکم بنیادوں پر قائم ہوگیا۔ ف 4 یعنی جو جوں اسلام کی کھیتی بڑھتی اور شاداب ہوتی جائے کافر حسد کی آگ میں جل بھن کر خاک ہوتے جائیں۔ اس آیت سے امام مالک نے رافضیوں کے کافر ہونے پر استدلال کیا ہے اور علماء نے امام مالک سے اتفاق کیا ہے۔ (ابن کثیر) صحابہ کرام کی فضیلت میں بہت سی احادیث مروی ہیں۔ ف 5 یعنی جنت کا جو سب سے بڑی نعمت اور سب سے بڑا اجر ہے۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں، یہ وعدہ دیا ان کو جو ایمان والے ہیں اور بھلے کام کام کرتے ہیں حضرت کے سب صحابہ ایسے ہی تھے صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ آنحضرت نے فرمایا : میرے صحابہ کو برا نہ کہو مجھے اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم میں سے اگر کوئی شخص احد پہاڑ کے برابر بھی اللہ کی راہ میں سونا دے تو وہ ان کے ایک مد یا نصف مد کھجور کے اجر کو بھی نہیں پہنچ سکتا۔ یہ تھا ان کا اخلاص صحابہ کرام پر تنقید کرنے والے خاص طور پر غور فرمائیں۔ الفتح
0 ف 6 اس سورۃ کی مدنی ہونے پر اجماع ہے۔ (قرطبی) الحجرات
1 ف 7 یا ” ان کے آگے پیش قدمی نہ کرو“ یعنی جب اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کا ارشاد سنوتو فوراً بسر و چشم مانل و اور آگے بڑھ کر باتیں مت بنائو، یا ان کے فیصلہ پر اپنی یا کسی کی رائے کو مقدم مت رکھو اور نہ کسی معاملہ میں ان کے فیصلہ سے بے نیاز ہو کر کوئی فیصلہ کرو کیونکہ یہ ان پر ایمان کا کم سے کم تقاضا ہے۔ نواب صاحب فرماتے ہیں جو شخص قرآن و حدیث کا معاوضہ رائے یا اجتہاد سے کرے وہ بھی اللہ و رسول کے سامنے بڑھ کر باتیں بناتا ہے۔ (فتح البیان) ف 8 یعنی اگر تم اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی خلاف ورزی کرو گے تو اس سے تمہارا جرم چھپا نہ رہے گا۔ وہ تمہیں قرار واقعی سزا دیگا۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں :” یعنی مجلس میں کوئی کچھ پوچھے حضرت کی راہ دیکھو کیا فرما دیں تم اپنی عقل سے آگے جواب نہ دے بیٹھو۔ (موضع ) الحجرات
2 ف 9 یہ ہے وہ ادب جو آنحضرت کی مجلس میں بیٹھنے والوں کو سکھایا گیا تھا۔ آج بھی اس ادب کا تقاضا ہے کہ جب بھی نبی ﷺ کا ذکر کیا جائے یا آپ کی احادیث پڑھ کر سنائی جائیں تو انہیں پورے سکون اور دلجمعی کے ساتھ سنا جائے۔ ف 1 حافظ ابن القیم فرماتے ہیں کہ قرآن پاک اور حدیث شریف اور آثار صحابہ سے ثابت ہوتا ہے کہ ارتداد کے سوا دیگر معاصی سے بھی نیک اعمال کے اکارت ہوجانے کا خطرہ ہے جیسا کہ نیکیاں برائیوں کو دور کردیتی ہیں۔ (کذافی الوخیز) الحجرات
3 ف 2 یعنی وہ پرہیز گاری کے امحتان میں پورے اترے ہیں۔ الحجرات
4 ف 3 متعدد روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ قبیلہ بنی تمیم کے کچھل وگتھے جو ایک روز عین دوپہر کے وقت آپ کے حجرے پر آئے اور آپ کا نام لے کرچلانے لگے۔ ” اے محمد باہر نکلو، دیکھو ہماریتعریف موجب زینت اور ہماری مذمت موجب عیب ہے۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے ادب سکھانے کے لئے یہ اور اس سے اگلی آیت نازل فرمائی۔ ابن کثیر الحجرات
5 الحجرات
6 ف 4 تمام مفسرین کا اتفاق ہے کہ یہ آیت والید بن عقبہ بن ابی معیط کے بارے میں نازل ہوئی جسے آنحضرت نے قبیلہ اپنی المصلق سے زکوۃ وصول کرنے بھیجا یہ راستہ میں کسی وجہ سے ڈر گیا (غالباً) اس وجہ سے کہ زمانہ جاہلیت سے بنی المطلق اور اس کے قبیلہ میں دشمنی چلی آتی تھی اور وہیں سے مدینہ واپس ہو کر آنحضرت سے شکایت کی کہ نبی المطلق نے زکوۃ دینے سے انکار کردیا ہے بلکہ وہ مجھے قتل کرنا چاہتے تھے۔ آنحضرت نے یہ سن کر بنی المطلق ادھرسے بنی المطلق کے سردار حارث بن ضرار ام المومنین حضرت جویریہ کے والد اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ آتے نظر آئے۔ قریب پہنچ کر انہوں نے لشکر والوں سے دریافت کیا کہ آپ لوگ کدھر جا رہے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ تمہاری طرف ہی جا رہے ہیں۔ انہوں نے سبب پوچھاتو لشکر والوں نے بتایا کہ آنحضرت نے ولید بن عقبہ کو تمہارے پاس بھیجا اور تم نے زکوۃ دینے سے انکار کردیا بلکہ اسے قتل کرنے پر آمادہ ہوگئے۔ وہ بولے ” مجھے اس ذات کی قسم جس نے آنحضرت کو حق دے کر مبعوث کیا ہے، ولید نہ مارے پاس آیا اور نہ ہم نے اس کی شکل دیکھی۔ پھر یہی بات انہوں نے آحضرت کی خدمت میں حاض رہو کر کہی اور مزید کہا کہ ہم تو خود آپ کی خدمت میں اس لئے حاضر ہوئے ہیں کہ آپ کی طرف سے کوئی نہ کوئی وصول کرنے نہیں پہنچا اور ہم ڈر گئے کہ کہیں آپ ہم سے ناراض نہ ہوگئے ہوں۔“ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (شوکانی) الحجرات
7 ف 5 ” اس لئے کسی کام میں جلدی نہ کرو بلکہ پیغمبر کی طرف رجوع کرو اور جو ارشاد وہاں سے پائو اس پر عمل کرو۔“ شاہ صاحب لکھتے ہیں، یعنی تمہارا مشورہ قبول نہ ہو تو برا نہ مانو، رسول عمل کرتا ہے اللہ تعالیٰ کے حکم پر اسی میں تمہارا بھلا ہے اگر تمہاری بات مانا کرے تو ہر کوئی اپنے بھلے کی کہے پھر کس کس کی بات پر چلے۔ (موضع) ف 6 ” اس لئے بعض اوقات بتقاضائے بشریت تم سے غلطی ہوجاتی ہے مگر ایمان کی بدلوت جلد ہی اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع ہوتے ہو اور نافرمانی اور گناہوں سے باز رہتے ہو۔ “ الحجرات
8 الحجرات
9 ف 7 یعنی دونوں کو سمجھائو اور حق بات ماننے کے لئے کہو۔ یہ خطاب ان مسلمانوں سے ہے جو دونوں گروہوں میں شامل نہ ہوں۔ صحیحین میں حضرت انس سے روایت ہے کہ آنحضرت ایک مرتبہ ایک گدھے پر سوار ہو کر انصار کی ایک مجلس میں گئے جس میں عبداللہ بن ابی منافق بھی تھا۔ وہ بدبخت کہنے لگا ذرا ہٹ کر بیٹھو مجھے تمہارے گدننے کی بدبو سے تکلف ہو رہی ہے۔ ای کانصاری کہنے لگا ” خ دا کی قسم ! آنحضرت کا گدھا تجھ سے زیادہ خوشبودار ہے۔ عبداللہ یہ سن کر غصہ میں آگیا اور دونوں طرف کے لوگ جھڑپوں، جوتوں اور گھونسوں سے باہم مار پٹائی کرنے لگے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (شوکانی) یہ حدیث مختلف الفاظ اور سیاق کے ساتھ کتب حدیث میں مذکور ہے۔ ف 1 حضرت عبداللہ بن عمرو سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن انصاف کرنے والے عرش کی دائیں طرف نور کے منبروں پر ہوں گے۔ یہ وہ لوگ ہوں گے جنہوں نے دنیا میں غیروں اور اپنوں کے درمیان الحجرات
10 ف 2 جیسا کہ حدیث میں ہے۔ ” مسلمان مسلمان کا بھائی ہے۔ نہ وہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ وہ اسے بے یارو مددگار چھوڑتا ہے۔“ دوسری حدیث میں ہے، اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی مدد کرتا رہتا ہے جب تک وہ اپنے بھائی کی مدد کرتا رہتا ہے۔ (ابن کثیر) الحجرات
11 ف 3 جیسے کسی کو فاسق منافق کانا گدھا وغیرہ ناموں سے پکارنا یا کسی کو مسلمان ہوجانے کے بعد اس کے سابق مذہب کی بنیاد پر یہودی نصرانی وغیرہ کہہ کر پکارنا ف 4 یعنی مسلمان پر طعن کرنا، اس کا مذاق اڑانا اور اسے برے ناموں سے پکارنا۔ الحجرات
12 ف 5 اس سے مراد وہ بدظنی ہے جو ایک مسلمان کے بارے میں بلا وجہ کی جائے۔ آیت میں ایسی بدگمانیوں سے منع کیا گیا ہے جن سے فساد اور بہت سی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ ف 6 یعنی بلاوجہ کسی کا راز نہ ٹوٹولو اور اس کے عیب اور کمزوریاں معلوم کرنے کی کوشش نہ کرو بلکہ حتی المقدور ان پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرو۔ حدیث میں ہے کہ جس نے کسی مسلمان کے پوشیدہ عیب پر پردہ ڈالا اس نے گویا ایک زندہ درگور لڑکی کو موت سے بچایا۔“ ایک دوسری حدیث میں ہے اگر تم لوگوں کے پوشیدہ حالات معملوم کرنے کے درپے ہوگئے تو تم انہیں بگاڑو گے۔ خصوصاً حکمران جب لوگوں کے اندر شبہات تلاش کرتا ہے تو انہیں بگاڑ کر رکھ دیتا ہے۔ (ابن کثیر) ف 7 غیبت سے مراد کسی شخص کی عدم موجودگی میں اس کے متعلق ایسی بات کہنا ہے جس یاگر وہ سنے تو برا مانے۔ غیبت کی یہ تعریف آنحضرت نے خود فرمائی ہے۔ نیز آپ نے فرمایا اگر وہ بات اس میں پائی جاتی ہے تو تم نے اس کی غیبت کی اور نہیں پائی جاتی تو بہتان لگایا (جو دوہرا گنا ہے) متعدد احادیث میں یہ مضمون منقول ہے۔ (ابن کثیر) ف 8 گویا ایک مسلمان کے لئے مسلمان بھائی کی عزت اس کے گوشت کی طرح ہے۔ لہٰذا جب وہ اس کی عدم وجودگی میں اس کا ذکر برائی سے کرتا ہیتو اس کے مردہ جسم کا گوشت کھاتا ہے حجتہ الوداع کے موقع پر خطبہ دیتے ہوئے آنحضرت نے فرمایا : مسلمانو ! تمہاری جانیں، تمہاری مال اور تمہاری آبروئیں تم میں سے ایک دوسرے پر اسی طرح حرام ہیں جس طرح یہ شہر، یہ مہینہ اور یہ دن با حرمت ہے (ابن کثیر) الحجرات
13 ف 9 یعنی ایک باپ اور ایک ماں کی اولاد ہونے کی بنا پر تم سب کا مرتبہ یکساں ہے۔ لہٰذا کسی کا اپنے نسب پر فخر کرنا اور دوسرے کے نسب کو ذلیل سمجھنا جہالت ہے۔ ف 10 یعنی اپنی اصل کے اعتبار سے ایک ہونے کے باوجود تمہارا مختلف قوموں اور قبیلوں میں تقسیم ہونا چونکہ فطری امر تھا اس لئے ہم نے تمہیں تقسیم کردیا مگر اس تقسیم کا مقصد برتر اور کمتر کا اامتیاز قائم کرنا نہیں ہے بلکہا یک دوسرے کی پہچان ہے تاکہ باہم تعان کی فطری صورت پیدا ہو۔ ف 11 یعنی ترجیح اور برتری کی بنیاد نسلی امتیازات پر نہیں ہے بلکہ پرہیز گاری پر ہے۔ حجتہ الوداع کے خطبہ میں آنحضرت نے اس کی خوب وضاحت فرمائی ہے۔ الحجرات
14 ف 12 ابن عباس سے روایت ہے کہ بنو اسد ایک مرتبہ قحط سالی کے زمانہ میں مدینہ آئے اور انہوں نے مالی امداد کا مطالبہ کرتے ہوئے بار بار آنحضرت سے یہی کہا ہم جنگ کئے بغیر مسلمان ہوئے ہیں اور ہم نے فلاں قبیلے کی طرح جنگ نہیں کی تو ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی۔ (قرطبی) ف 1 اس سے معلوم ہوا کہ اسلام اور ایمان میں فرق ہے۔ ایمان کے لئے قلبی ایفان بھی شرط ہے مگر اسلام کا لفظ ظاہری اطاعت پربھی بولا جاتا ہے۔ گویا ایمان کو اسلام کی بہ نست خصوصیت حاصل ہے اور یہی بات اس حدیث سے معلوم ہوتی ہے جس میں جبریل نے آنحضرت سے پہلے سلام کے بارے میں سوال کیا اور پھر ایمان کے بارے میں صحیحین میں حضرت سعد سے روایت ہے کہ ایک غزوہ میں آنحضرت نے بعض لوگوں کو دیا تو ایک آدمی کو کچھ نہ دیا۔ حضرت سعید کہتے ہیں میں نے عرض کیا ” اے اللہ کے رسول آپ نے اس شخص کو کچھ نہیں دیا حالانکہ وہ مومن ہے۔“ فرمایا ” یا مسلم ہے یہاں تک کہ میں تین مرتبہ یہ بات دہرائی اور آپ نے ہر مرتبہ یہی جواب دیا۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ظاہری طور پر فرمانبردار کو مسلمان تو کہہ سکتے ہیں مگر یقین کیساتھ مومن نہیں کہہ سکتے۔ (ابن کثیر) الحجرات
15 الحجرات
16 الحجرات
17 ف 2 یعنی سچے مسلمان کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ کسی دوسرے پر اپنے مسلمان ہونے کا احسان جتلائے الحجرات
18 ف 3 یعنی اسے خوب معلوم ہے کہ تمہارا ایمان کتنے پانی میں ہے اور تم کہاں تک دل سے اسلام کی پیروی کررہے ہو لہٰذا کسی پر احسان جتلانے کی ضرورت نہیں جو مانگتا ہے سیدھی طرح مانگو۔ الحجرات
0 ف 4 یہ سورۃ مکی ہے البتہ ایک روایت میں حضرت ابن عباس اس کی آیت 38 کو غیر مکی قرار دیتے ہیں۔ صحیح مسلم وغیرہ کی ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت نماز فجر کی پہلی رکعت میں سورۃ سخی پڑھا کرتے تھے اور اور یہ سنن کی ایک روایت میں ہے کہ آنحضرت عید کی نماز میں سورۃ ق اور بصورہ افترب الساعۃ پڑھا کرتے تھے ابودائود اور ابن ماجہ میں حضرت ام ہشام سے روایت ہے کہ میں نے سورۃ ق کو آپ سے سن سن کر یاد کرلیا ہے کیونکہ آپ ہر جمعہ کے دن خطبہ میں سے پڑھا کرتے تھے۔ (شوکانی) ق
1 ف 5 ” ہمیں نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا ہے لیکن یہ مکہ والے آپ پر ایمان نہیں لائے۔“ قسم کا یہ جواب محذوف ہے۔ ق
2 ف 6 یا ” خود ہم میں سے ایک شخص کا ہمارے پاس اللہ کا رسول بن کر آنا عجب بات ہے۔ ق
3 ف 7 یعنی ہماری سمجھ میں نہیں آتا یا یہ عام عادت کے خلاف ہے۔ ق
4 ف 1 یعنی ان کے جسموں میں سے جتنا کچھ زمین کھاتی جاتی ہے وہ سب ہمارے علم میں ہے پھر ہمارے لئے کیا مشکل ہے کہ بکھرے ہوئے تمام ذروں کو ایک جگہ جمع کردیں اور انہیں جوڑ کر دوبارہ زندگی بخش دیں۔ ق
5 ف 2 یعنی انہیں پیغمبر اور قرآن کے بارے میں ایک بات پر قرار نہیں ہے اور سخت ذہنی الجھن میں پڑے ہوئے ہیں کبھی پیغمبر کو شاعر کہتے ہیں کبھی کاہن کبھی مجنون اور کبھی ساحر اسی طرح قرآن کو کبھی محمد ﷺ کا اپنا تصنیف کیا ہوا کلام کہتے ہیں اور کبھی کہتے ہیں کہ کوئی عجمی شخص انہیں سکھا جاتا ہے اور کبھی اسے جادو کہتی ہیں الغرض ہر موقع پر کوئی نہ کوئی بات گھڑ لیتے ہیں۔ ق
6 ف 3 کہ اس کے کہیں ستون تک نظر نہیں آتے۔ “ ف 4 جیسا کہ دوسری آیت میں فرمایا : ما تری فی خلق الرحمٰن من تفوت“ ” تم اللہ کی خلق میں کوئی خلل نہیں پاتے ہو ق
7 ق
8 ق
9 ق
10 ق
11 ف 5 یعنی مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہو کر اٹھنے میں تعجب کی کونسی بات ہے؟ کیا تم اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھتے کہ ایک زمین بارش نہ ہونے کی وجہ سے بنجر پڑی ہوتی ہے جیسے اس میں زندگی کے کوئی آثار ہی نہیں۔ یکایک بارش ہوتی ہے تو اس میں کھیتیاں لہلہانے لگتی ہیں اور درخت اگتے ہیں گویا مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہوجاتی ہے۔ اس طرح تم بھی مرنے کے بعد زندہ کئے جاسکتے ہو۔ ق
12 ف 6 اصحاب الرس کا ذکر سورۃ فرقان میں گزر چکا ہے۔ ق
13 ق
14 ف 7 ہر ایک نے اگرچہ اپنے اپنے پیغمبر کو جھٹلایا لیکن چونکہ ایک پیغمبر کو جھٹلانا سبھی پیغمبروں کو جھٹلانا ہے اسی لئے ہر ایک نے گویا بھی پیغمبروں کو جھٹلایا۔ ق
15 ف 8 کہ پھر دوسری بار آخرت میں پیدا نہ کرسکیں گے؟ ف 9 یعنی یہ اس چیز کے منکر نہیں ہیں کہ ان کو پہلی بار ہمیں نے پیدا کیا اور یہ کہ پہلی با رپیدا کر کے ہم تھک کر نہیں رہ گئے لیکن اس کے باوجود انہیں شک ہے کہ ہم دوبارہ بھی پیدا کرسکیں گے یا نہیں حالانکہ معمولی غور و فکر سے یہ بات سمجھی جاسکتی ہے کہ ہمیں اگر ہمیں دشواری پیش آتی تو پہلی بار پیدا کرنے میں آتی، دوسری بار پیدا کرنے کا کام تو پہلی بار کی بہ نسبت کہیں آسان ہے۔ (سورہ روم :27) ق
16 ف 1 شاہ صاحب لکھتے ہیں ” گردن کی رگ مراد ہے جس میں جا نپھرتی ہے دل سے دماغ تک اس کے کٹنے سے موت ہے اللہ اندر سے نزدیک ہے اور رگ آخر باہر سے جان سے (موضح) حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ یہاں ہم سے مراد فرشتے ہیں۔ (دیکھیے سورۃ واقعہ آیت 85) ق
17 ف 2 مراد کرام کا تبین فرشتے ہیں جن میں سے دائیں طرف والا فرشتہ نیکیاں اور بائیں طرف والا برائیاں لکھتا ہے۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ بندے کے تمام اعمال کے ریکارڈ رکھنے کا اہتمام اتمام حجت کے لئے ہے کہ قیامت کے دن انسان اپنے کسی عمل سے مکر نہ سکے ق
18 ف 3 یعنی جونہی انسان منہ سے کوئی بات نکالتا ہے فرشتہ لکھ لیتا ہے۔ نیز دیکھیے لفظ 12۔10) ابن عباس کہتے ہیں کہ فرشتہ اس کی ہر بات لکھتا ہے حتی کہ اس کا یہ کہنا بھی کہ میں نے کھانا کھایا میں نے پانی پیا وغیرہ پھر جمعرات کے روز وہ اپنا لکھا ہوا ریکارڈ خدا کے سامنے پیش کرتا ہے اور پھر انہی باتوں کو باقی رکھتا ہے جن کا تعلق ثواب یا عقاب سے ہوتا ہے اور دوسری باتوں کو مٹا دیتا ہے۔ یہی مطلب ہے اللہ تعالیٰ کے اس قول کا یمحواللہ مایشاء ویبت کہ اللہ جو چاہتا ہے مٹاتا ہے اور جو چاہتا ہے باقی رکھتا ہے صحیحین میں ہے کہ آنحضرت نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے اس امت کے دل میں آنے والے خیال معاف کردیئے جب تک انہیں منہ سے نہ نکالے یا ان پر عمل نہ کرے۔ (شو کانی) ق
19 ف 4 یعنی آخرت کی جن باتوں کی انبیاء علیہم السلام نے خبر دی تھی موت آتے ہی بندہ انہیں آنکھوں سے دیکھنا شروع کر دے گا اور ان کے بارے میں اسے کسی قسم کا شبہ نہ رہے گا۔ ق
20 ف 5 اس سے مراد دوسرا نفخہ ہے یعنی وہ جس کے ساتھ ہی تمام مرے ہوئے لوگ دوبارہ زندہ ہو کر جزا و سزا کے لئے اٹھ کھڑے ہونگے۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں بے فکر کیسے رہوں حالانکہ فرشتے نے ” صور“‘ سنبھال یا ہے اور گردن جھکالیا ہے اور وہ اجازت ملنے کے انتظار میں ہے۔ صحابہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! تو ہم کیا کہا کریں، فرمایا یہ کہا کرو : حسبنا اللہ ونعم الوکیل ” ہمارے لئے اللہ کافی ہے اور وہی اچھا کار ساز ہے۔“ (ابن کثیر) ق
21 ف 6 آیت کا یہی مطلب حضرت عثمان اسی کے مطابق شاہ صاحب فرماتے ہیں، ایک فرشتہ ہانک لاتا ہے اور ایک (کے) پاس نامہ اعمال ساتھ ہے۔ (موضح) ق
22 ف 8 یعنی اب تو تمہیں وہ حقیقت نظر آرہی ہے جس کا تم دنیا میں انکار کرتے تھے۔ ق
23 ق
24 ف 8 یہ حکم ہے جو اس روز اللہ تعالیٰ ہانکنے والے اور گواہی دینے والے فرشتے کو دے گا۔ ق
25 ق
26 ق
27 ف 9 اس لئے اسے انبیاء کی کوئی بات پسند نہ آئی اور وہ میرے بھرے میں آگیا۔ ق
28 ق
29 ف 1 یعنی میں نے جو تمہیں جہنم میں ڈالنے کا فیصلہ صادر کردیا ہے وہ اب بدلن ہیں سکتا اور نہ میرا وہ مستقبل فیصلہ بدل سکتا ہے جس سے میں نے تمہیں دنیا میں متنبہ کردیا تھا یعنی : (انعام :16) یا (ہود 119) ” میں جنوں اور انسانوں دونوں سے جہنم بھر دوں گا۔“ (قرطبی شو کانی) ف 2 یعنی میں کسی کو بے قصور سزا نہیں دیتا اور نہ اس کے قصور سے زیادہ سزا دیتا ہوں ق
30 ف 3 یعنی میں نہیں بھری کچھ اور لائو صحیحین میں حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : دوزخ میں لوگ ڈالے جاتے رہیں گے اور وہ برابر کہتی رہے گی ’ ’ ھل من مزید؟“ یہاں تک کہ رب العزت اس میں اپنا قدم رکھے گا اس سے وہ سکڑ جائے گی اور کہے گی ” بس بس !“ مجھے تیرے غلبہ اور کر مکی قسم اور جنت میں خالی جگہ بچ رہے گی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کے لئے ایک اور مخلوق پیدا کرے گا اور اسے جنت کی خالی بچی ہوئی جگہوں میں ٹھہرائے گا۔ یہ مضمون متعدد و احادیث میں بیان ہوا ہے۔ (ابن کثیر) دوزخ کے اس کلام کو بعض مفسرین نے تمثیلی قرار دیا ہے لیکن اگر اسے حقیقت پر معمول کرلیا جائے تو یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت سے بعید نہیں ہے۔ (شوکانی) ق
31 ف 4 یعنی قیامت کے روز وہ ان سے دور نہ ہوگی۔ حشر کے میدان میں کھڑے ہوئے اوہ اسے قریب سے دیکھے اور اس کی تروتازگی اور مہک پائیں گے۔ ق
32 ق
33 ق
34 ف 5 یعنی تمہیں کبھی موت نہ آئیگی اور نہ تم جنت سے نکلو گے۔ ق
35 ف 6 یعنی جو کھ وہ چاہیں گے وہ تو انہیں ملے گا ہی اس کے علاو ہہم انہیں اتنا کچھ اور دیں گے جس کا تصور تک ان کے ذہن میں نہیں آیا کہ وہ اس کی خواہش کریں … یا ” مزید“ سے مراد دیدار الٰہی ہے جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا للذین احسنوا الحسنی کی وزیادۃ جنہوں نے نیک کی ان کو بھلائی ملے گی اور کچھ بڑھ کر بھی یونس 26 حضرت انس فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر روز انہیں اپنی تجلی سے نوازے گا۔ (ابن کثیر) ق
36 ف 7 دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ کاروبار کے سلسلہ میں دنیا بھر کا چکر کاٹتے تھے لیکن جب ہماری گرفت کا وقت آیاتو کیا انہیں کہیں پناہ مل سکی۔ ق
37 ق
38 ف 8 اس آیت سے مقصود ان یہودیوں کی تردید ہے جو کہا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو چھ دنوں میں بنایا اور وہ ساتویں دن تھک کرلیٹ گیا۔ ق
39 ق
40 ف 9 اس سے مراد نماز پڑھنا ہے۔ سورجن نکلنے سے پہلے فجر کی نماز ہے اور سورج ڈوبنے سے پہلے عصر کی نماز ہے اور رات کے وقت تہجد کی نماز ہے۔ ان اوقات میں نماز پڑھنا آنحضرت اور مسلمانوں پر فرض تھا پھر معراج کے موقع پر جب پانچ نمازیں فرض کی گئیں اور ان کے اوقات بھی متعین کردیئے گئے تو فجر اور عصر کی نمازیں تو بدستور فرض رہیں لیکن تہجد کی نماز نفلی قرار دے دی گئی۔ فجر اور عصر کی نماز کی قرآن و حدیث میں خاص طور پر ترغیب آئی ہے اور جو لوگ یہ دو نمازیں پابندی سے پڑھتے ہیں ان کو آخرت میں دیدار الٰہی نصیب ہوگا۔ (ابن کثیر) نماز بعد تسبیح سے مراد سبحان اللہ والحمد اللہ اللہ اکبر کلمات بھی ہو سکتے ہیں جیسا کہ احادیث سے ثابت ہے کہ نماز فرض کے بعد سبحان اللہ الحمد اللہ 33 بار اور اللہ اکبر 34 بار پڑھا جائے۔ بعض نے اس تسبیح سے مراد مغرب کے بعد کی دو رکعتیں لی ہیں۔ (ابن کثیر) ق
41 ف 10 ” قریب کی جگہ سے مردا ایسی جگہ ہے جہاں پر مرنے والے کو قریب سے آواز پہنچ سکے۔ قتادہ کہتی ہیں کہ ہم آپس میں کہا کرتیت ھے کہ اس سے مراد بیت المقدس کا صخرہ ہے۔ (شوکانی) ق
42 ق
43 ق
44 ق
45 ف 1 مراد یہ ہے کہ نبی ﷺ کو جھٹلانا اور آخرت اور توحید وغیرہ سے انکار کرنا۔ ف 2 یعنی آپ کا کام انہیں زبردستی مسلمان بنا لینا نہیں ہے۔ آپ کے ذمہصرف ان تک ہمارا پیغام پہنچا دینا ہے۔ اس کے بعد یہ مانیں تو اپنا بھلا کریں گے اور نہیں مانیں گیتو اپنی شامت خود بلائیں گے …اس آیت سے مقصود ایکطرف آنحضرت کو تشقی دینا ہے اور دوسری طرف کافروں کو وعید سنانا ہے۔ ف 3 باقی رہے وہ لوگ جن کے دلوں میں ڈر نہیں ہے تو ان کے سمجھانے میں وقت لگانا بیکار ہے۔ ق
0 ف 4 تمام مفسرین کا اتفاق ہے کہ یہ سورۃ مکہ میں نازل ہوئی۔ الذاريات
1 الذاريات
2 الذاريات
3 ف 5 ان آیات کی یہ تفسیر حضرت عمر، حضرت علی اور بعض دوسرے صحابہ سے مروی ہے۔ (ابن کثیر) الذاريات
4 الذاريات
5 الذاريات
6 الذاريات
7 الذاريات
8 ف 6 یعنی کبھی آنحضرت کو شاعر بناتے ہیں کبھی کاہن کبھی مجنون اور کبھی ساحر اور کبھی سحر زدہ یا کبھی آخرت سے انکار کرتے ہو اور کبھی شک میں پڑجاتے ہو۔ یا اللہ تعالیٰ کے خالق و مالک ہونے کا اقرار کرتے ہوئے مگر بندگی دوسروں کی کرتے ہو۔ الذاريات
9 ف 7 یعنی جس کی قسمت میں اللہ تعالیٰ نے روز ازل سے کفر و نافرمانی لکھ دی ہے۔ …” من افک“ کا دوسرا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ” جو (حق سے) پھر ہوا ہے۔ یعنی گمراہ ہے۔ الذاريات
10 ف 8 مراد ہیں جھوٹے لوگ جو کسی قابل اعتماد ذریعہ علم کے بغیر محض جو اٹل پچو بات ذہن میں آتی ہے زبان سے ادا کردیتی ہیں جیسا کہ کفار مکہ آنحضرت کو مجنون، کذاب شاعر اور ساحر وغیرہ کہا کرتے تھے الذاريات
11 الذاريات
12 ف 9 یعنی قیامت کے آنے پر یقین نہیں رکھتے اس لئے مذاق کرتے ہوئے پوچھتے ہیں ” اجی ! وہ تمہاری قیامت کب آئیگی۔ الذاريات
13 الذاريات
14 ف 10 یعنی مسلمانوں سے کہا کرتے تھے کہ اگر قیامت آنے والی ہے تو اسے جلدی کیوں نہیں لے آتے؟ الذاريات
15 الذاريات
16 ف 1 یعنی دنیا میں نیک کام کرتے تھے اور برائیوں سے بچتے تھے۔ ان کی نیکو کاری کی تفصیل آگے آرہی ہے۔ الذاريات
17 ف 2 یعنی رات کا اکثر حصہ عبادت میں گزارتے تیھ۔ آنحضرت نے متعدد احادیث میں تہجد کی نماز کی فضیلت بیان فرمائی ہے اور صحابہ کرام کو اس ترغیب دی ہے۔ چنانچہ ایک حدیث میں ہے لوگو ! غریبوں کو کھانا کھلایا کرو، صلہ رحمی کرتے رہو … اور راتکو جب لوگ سو رہے ہوں تو نماز پڑھو، جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہو گے۔ (ابن کثیر) الذاريات
18 ف 3 سحر کے وقت یعنی رات کے آخری حصہ میں …امام حسن بصری فرماتے ہیں یعنی وہ سحرتک نماز لمبی کرتے ہیں اور پھر استغفار کرتے ہیں۔“ ضحاک“ کہتے ہیں کہ اس سے مراد نماز فجر ہے۔ (شوکانی) الذاريات
19 ف 4 یعنی وہ ان کی دستگیری اور مدد کرنے سے دریغ نہیں کرتے۔” حق“ (حصہ) سے مراد نفلی صدقہ ہے۔ کیونکہ یہ سورۃ مکی ہے اور زکوۃ مدینہ منورہ میں فرض ہوئی۔ ” محروم“ سے مراد وہ شخص ہے جو ہو تو محتاج لیکن لوگوں سے سوال نہ کرے اس لئے اسے لوگ غیر محتاج سمجھیں یا جو کسی آفت کی وجہ سے اپنی روزی سے محروم ہوگیا ہو۔ جیسے کوئی بچہ جس کا باپ فوت ہوگیا ہو یا عورت جس کا شوہر انتقال کر گیا ہو یا آدمی جس کا روزگار چھوٹ گیا ہو یا اس کا مال تباہ ہوگیا ہو وغیرہ ہم سبھی مراد ہو سکتے ہیں حضرت فاطمہ بنت قیس کا بیان ہے کہ میں نے آنحضرت سے اس آیت کے بارے میں دریافت کیا تو آپ نے فرمایا مال میں برہ کے علاوہ بھی (غربیوں اور) محتاجوں کا حق ہے۔ (شوکانی) الذاريات
20 ف 5 جو اس نظام کائنات کے خلاق، مالک کے وجود اور آخرت کے امکان بلکہ وجوب و لزوم کی شہادت دیتی ہیں۔ الذاريات
21 ف 6 یعنی باہر کی نشانیوں سے قطع نظر خود تمہاری پیدائش نشوونما جوانی بڑھاپے اور نظام ہضم و صحت میں ایسی سینکڑوں نشانیاں موجود ہیں جن پر اگر تم غور کرو تو تمہیں صاف معلوم ہوسکتا ہے کہ تم خود پیدا نہیں ہوئے ہو بلکہ کسی خالق کے پیدا کرنے سے پیدا ہوئے ہو اور یہ کہ تم مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کہئے جائو گے اور اپنے خلاق و مالک سے اپنے اچھے یا برے اعمال کا بدلہ پائو گے۔ الذاريات
22 ف 7 مراد بارش ہے جو روزی کا سبب ہے۔ ف 8 یعنی حشر و نشر جزا و سزا اور جنت و دوزخ وغیرہ جن کے رونما ہونے کا وعدہتمام انبیاء کی زبانی اور تمام آسمانی کتابوں کے ذریعہ کیا گیا ہے۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ ” آنے والی جو بات ہے اس کا حکم آسمان ہی سے اترتا ہے۔ (موضح) الذاريات
23 ف 9 یعنی جیسے بات کرتے وقت تمہیں اپنے گویا ہونے کا یقین ہوتا ہے۔ الذاريات
24 ف 10 یہ بتلانے کے لئے کہ جن پچھلی قوموں نے انبیاء کی تکذیب کی ان کا انجام کیا ہوا؟ یہاں سیحضرت ابراہیم اور دوسرے انبیاء کے واقعات جکا ذکر شروع ہو رہا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ حضرت ابراہیم کا قصہ حضرت لوط کے قصہ کی تمہید ہو۔ کیونکہ حضرت لوط بھی تو حضرت ابراہیم کی قوم ہی میں سے تھے۔ (رازی) ف 11 عزت دار مہمانوں سے مراد فرشتے ہیں جو حضرت لوط کی قوم کی طرف جاتے ہوئے راستہ میں حضرت ابراہیم کے ہاں مردوں کی شکل میں مہمان بن کر آئے تھے۔ ان کا قصہ سورۃ ہود (رکوع) سورۃ حجردرکوع 4 اور سورۃ عنکبوت رکوع 14 میں پہلے گزر چکا ہے۔ الذاريات
25 ف 12 یعنی اپنی ہئیت کذائی کے اعتبار سے پردیسی معلوم ہوتے ہیں۔ الذاريات
26 الذاريات
27 الذاريات
28 ف 13 کہ کہیں دشمن کے لوگ نہ ہوں جو برے ارادہ سے اس علاقہ میں آئے ہوں۔ عربوں میں قاعدہ تھا اگر کسی کے ہاں برے ارادے سے جاتے تو اس کا کھانا کھاتے۔ یا ان کے کھانا نہ کھانے سے مجھ گئے ہو یہ فرشتے ہیں اور کسی علاقہ میں عذاب نازل کرنے کا حکم لے کر نہ آئے ہوں۔ ف 14 یعنی حضرت اسحاق الذاريات
29 ف 15 بائیبل (باب پیدائش) میں ہے کہ اس وقت حضرت ابراہیم کی عمر سو سال اور حضرت سارہ کی عمر نوے سال تھی۔ الذاريات
30 ف 16 یعنی یہ خوش خبری ہم اپنی طرف سے نہیں دے رہے ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی بنا پر دے رہے ہیں۔ الذاريات
31 ف 1 یعنی اس بشارت کے علاوہ دوسرا اہم کام کیا ہے جسے انجام دینے کے لئے تمہیں اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے؟ خطب کے معنی اہم کام یا مہم کے ہیں الذاريات
32 ف 2 مراد حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم ہے۔ الذاريات
33 الذاريات
34 ف 3 یعنی جن میں سے ہر پتھر پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے نشان لگا دیا گیا ہے کہ اس سے فلاں مجرم کا سر کچلنا ہے۔ سورۃ عنکبوت میں ہے کہ اس کے بعد حضرت ابراہیم نے فرشتوں سے فرمایا : ان فیھا لوطا جس بستی کی طرف تم جا رہے ہو اس میں لوط رہتا ہے۔“ وہ بولے ” نحن اعلم بمن فیھا النجیتہ و اھلہ الا امرانہ، ہمیں خوب معلوم ہے کہ وہاں کون کون ہے۔ ہم بجز ان کی بیوی کے انہیں اور ان کے سب گھر والوں کو بچا لیں گے۔ الذاريات
35 ف 4 یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اشراد ہے۔ اس کی تفصیل کے لئے دیکھئے سورۃ ہود : 77 تا 83 سورۃ حجر : 61 تا 74 سورۃ عنکبوت : 33 تا 34 الذاريات
36 ف 5 یعنی حضرت لوط کا۔ الذاريات
37 ف 6 نشانی سے مراد عذاب کے آثار میں یعنی سیاہ اینٹیں گھروں کے کھنڈر اور وہ ” بحر مردار“ جو اس علاقہ میں ہے اور جس کے اردگرد زمین اس قدر دھسنی ہوئی ہے کہ اس کی سطح سطح سمندر سے تیرہ سو فٹ نیچی ہے۔ ماہرین آثار قدیمہ کا اندازہ ہے کہ قوم لوط کا مرزی شہر سدوم اسی بحر مردار کے جنوبی حصہ میں ڈوبا ہوا ہے۔ الذاريات
38 ف 7 یعنی عصا ید بیضا اور دوسرے معجزات جو اس بات کیصریح دلیل تھے کہ حضرت موسیٰ کو اللہ تعالیٰ ہی نے اپنا رسول بنا کر بھیجا تھا۔ الذاريات
39 ف 8 اصل میں لفظ رکن کے لفظی معنی گوشہ کے ہیں اور اس سے مراد ہر وہ چیز ہوتی ہے جس کا آدمی سہارا لے کر اس موقع پر مفسرین نے اس کے معنی لائو لشکر بھی کئے ہیں اور قوت اور بل بوتا بھی۔ ف 9 یعنی کبھی جادوگر قرار دیا اور کبھی بائولا بتایا تاکہ قوم کو ان کی دعوت قبول کرنے سے باز رکھے سکے۔ الذاريات
40 ف 10 کیونکہ خدائی کا دعویدار تھا اور بنی اسرائیل پر ظلم توڑتا تھا۔ سورۃ دخان میں فرمایا : فما بکت علیھم السمآء و والارض پھر نہ آسمان ان پر رویا اور نہ زمین نے دو آنسو بہائے۔ یعنی خس کم جہاں پاک ۔ انکے فرق ہونے کی تفصیل سورۃ یونس کے رکوع 9 میں گزر چکی ہے۔ الذاريات
41 الذاريات
42 ف 11 عقیم دراصل ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو ہر قسم کی خیر و برکت سے خالی ہو۔ اس سے بانجھ عورت کو عظیم کہا جاتا ہے اور قوم عاد پر جو آندھی مسلط کی گئی تھی وہ بھی بے خیر و برکت تھی اور تباہی و بربادی کے سوا اس سے کچھ حاصل نہ تھا، اس لئے اسے عظیم فرمایا۔ چنانچہ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں : یعنی وہ ہوا جس میں نہ خیر و برکت ہوا اور نہ کسی قسم کی منفعت (روح) سورۃ حاقہ میں ہے کہ قوم عاد پر آندھی آٹھ دن اور سات رات مسلسل چلتی رہی اور یہ پچھمی ہوا تھی۔ حدیث میں ہے نصرت بالصباواھلکت عاد بالدبور کہ میری مدد پوریی ہوا سے کی گئی اور قوم عاد پچھمی ہوا سے ہلاک کی گئی۔ (قرطبی) الذاريات
43 الذاريات
44 الذاريات
45 ف 12 لفظ ” انتصار“‘ میں اپنے آپکو کسی سے بچانے کا مفہوم بھی ہوتا ہے اور اس سے بدلہ لینے کا بھی۔ الذاريات
46 الذاريات
47 ف 1 یعنی اگر چاہیں تو ایسے بے شمار اور آسمان بھی بنا سکتے ہیں۔ یہ مفہوم اس صورت میں ہے جب موسع کا ترجمہ وسع یعنی طاقت والا کئے جائیں اور اگر اس کا ترجمہ وسیع کرنے والا کیا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ ہم آسمان سے بارش برسا کر روزی کشادہ کرنے والے ہیں۔ (کذافی قرطبی ) الذاريات
48 الذاريات
49 ف 2 جیسے نر اور مادہ خشکی اور تری، سورج اور چاند، آسمان اور زمین رات اور دن روشنی اور تاریکی، خیر و شر وغیرہ الذاريات
50 ف 3 مطلب یہ ہے کہ کفر و شرک اور نافرمانی کے کاموں سے توبہ کرو اور اس کے فرمانبردار بندے بن جائو۔ الذاريات
51 الذاريات
52 ف 4 کہ شرک بری بلا ہے تم تباہ ہوجائو گے۔ ف 5 اس سے مقصود آنحضرت کو تسلی دینا ہے کہ اس طرح کی مخالفت سے پہلے تمام پیغمبروں کو بھی سابقہ پیش آتا رہا ہے اس لئے آپ پوری ہمت اور صبر و استقال سے دعوت کا کام جاری رکھئے۔ الذاريات
53 ف 6 جو ہر زمانہ میں پیغمبروں کی ایک ہی طرح سے مخالفت کرتے رہے ہیں۔ ف 7 یعنی ان کی ایک جیسی مخالفت کی وجہ ایک دوسرے کو وصیت نہیں ہے بلکہ سرکشی ہے جو ان سب کی طبیعت میں یکساں پائی گی ہے اور پائی جاتی ہے۔ الذاريات
54 الذاريات
55 ف 8 یعنی آپ نے ان تک ہمارا پیغام پہنچا دیا اور ان کے ایک ایک شبہ کا جواب دے دیا اب بھی اگر یہ ماننے کو تیار نہیں ہیں تو آپ ان کے پیچھے نہ پڑیں اور نہ ان کے معاملہ میں اپنے آپ کو کسی قسم کے غم و فکر میں ڈالیں کیونکہ ان کے نہ ماننے کا کوئی الزام آپ پر نہیں ہے۔ البتہ عام انداز میں سمجھتاے رہیں کیونکہ جن کی قسمت میں اللہ تعالیٰ نے ایمان لکھا ہے وہ آپ کی نصیحت سے فائدہ اٹھائینگے اور ایمان لائیں گے۔ الذاريات
56 ف 9 اس سے معلوم ہوا کہ جن وا انس کو پیدا ہی اس لئے کیا گیا ہے کہ ان کو عبادت و طاعت کا مکلف بنایا جائے تاکہ فرمانبردار کو ثواب اور نافرمان کو سزا دی جائے پھر جو لوگ اللہ کی عبادت نہیں کرتے اور پیغمبروں کی شریعت پر عمل پیرا نہیں ہوتے، وہ اپنی زندگی کے مقصد سے غافل ہیں اور اللہ تعالیٰ کی عبادت میں اصل چیزتوحید کی راہ اختیار کرنا ہے۔ اس بنا پر حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ قرآن میں جہاں بھی اللہ تعالیٰ کی عبادت کا لفظ آیا ہے اس سے مراد توحید ہے۔ امام ابن تیمیمہ فرماتے ہیں کہ عبادت ایک جامع لفظ ہے اور بہت وسیع فمہوم کا حامل ہے یعنی ہر وہ کام جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہو خواہ اس کا تعلق ظاہر سے ہو یا باطن سے) اسے عبادت کہا جاتا ہے۔ حدیث میں ہے۔ ” حتی کہ انسان جو لقمہ اپنی بیوی کے منہ میں ڈالتا ہے وہ بھی موجب اجر ہے۔ (فتح البیان وغیرہ) الذاريات
57 ف 10 یعنی ان کو عبادت کا حکم دینے میں میرا اپنا کوئی فائدہ نہیں ہے بلکہ انہی کے قائدہ کے لئے ہے اور یہ جو فرمایا کہ میں ان سے روزی اور کمائی نہیں چاہتا تو اسسے مقصود اس طرف اشارہ کرنا ہے کہ بندوں سے میرا تعلق دنیا میں ان آقائوں کی طرح کا نہیں ہے جن کی عیش و بسر ہی نوکروں کی کمائی کے سہارے پر ہوتی ہے بلکہ اللہ تعالیٰ بندوں سے کچھ وصول کرنے کی بجائے ان کو روزی بھی دیتا ہے۔ الذاريات
58 ف 11 وہ کسی کا محتاج کیوں ہوگا اور اس سے روزی کیوں مانگے گا۔ الذاريات
59 ف 12 ڈول سے مراد گناہوں کا ڈول ہے اور اس کے بھرنے کا مطلب شامت کی گھڑی کا آ پہنچنا ہے۔ ف 13 یعنی ان کی شامت کی گھڑی قریب آ پہنچی ہے (چاہے دنیا میں اور چاہے مرنے کے بعد آخرت میں) وہ جلدی کیوں مچا رہے ہیں الذاريات
60 ف 14 مراد بدر کا دن ہے جب دنیا میں ان کی شامت آئی یا قیامت کا دن الذاريات
0 ف 15 یہ سورۃ بالا تفاق مکی ہے۔ صحیحین میں حضرت جبیر بن معلم سے روایت ہے کہ میں نے آنحضرت کو مغرب کی نماز میں سورۃ طور پڑھتے سنا۔ (شوکانی) الطور
1 ف 1 مراد وہ پہاڑ ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ سے کلام فرمایا تھا۔ الطور
2 ف 2 مراد قرآن ہے یا لوح محفوظ یا اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئی ہوئی ہر کتاب یا نامہ اعمال۔ الطور
3 الطور
4 ف 3 یعنی اس مسجد کی جو ساتویں آسمان پر ہے اور فرشتوں سے آباد ہے۔ صحیحین کی ایک روایت میں ہے کہ آنحضرت نے فرمایا :” معراج کے موقع پر) پھر ساتواں آسمان پار کرلینے کے بعد مجھے ” البیت المعمود“ کی طرف لے جایا گیا۔ اس میں ہر روز ستر ہزار فرشتے داخل ہوتے ہیں جو قیامت تک دوبارہ اس میں داخل نہیں ہوں گے۔ (شوکانی) الطور
5 ف 4 اور بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد عرش ہے۔ واللہ اعلم (شوکانی) الطور
6 الطور
7 الطور
8 الطور
9 الطور
10 الطور
11 الطور
12 الطور
13 ف 5 یعنی جنہیں فرشتے دھکیل کر دوزخ کی طرف لے جائیں گے۔ الطور
14 الطور
15 ف 6 ” جیسا کہ دنیا میں اللہ تعالیٰ کی کتابوں اور اس کے رسولوں کی باتوں کو جادو بتاتے تھے۔ “ ف 7” جیسے تمہیں دنیا میں حق دیکھنے کے بعد بھی کوئی بات سمجھائی نہ دیتی تھی۔ الطور
16 الطور
17 الطور
18 ف 8 یا جو نعمتیں ان کے رب نے انہیں دی ہوں گی ان سے لذت اندوز ہو رہے ہوں گے۔ “ الطور
19 الطور
20 ف 9 ” حور“ حورا کی جمع ہے اور خور گورے رنگ کی عورت کو کہتے ہیں عین عینا کی جمع ہے اور عیناء بڑی اور سیاہ آنکھوں والی عورت کو کہتے ہیں۔ الطور
21 ف 10 یعنی اولاد کے ساتھ آملنے سے یہ نہیں ہوگا کہ ان کے کسی عمل کا ثواب کم ہوجائے بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کا ان پر فضل و کرم ہوگا کہ ان کی اولاد گو درجات میں کم ہوگی لیکن ان کی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچانے کے لئے انہی کے درجہ میں رکھی جائے گی بشرطیکہ وہ انہی کے راستہ پر چلنے والی ہو حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ آنحضرت نے فرمایا : آدمی جب جنت میں داخل ہوگا تو اپنے والدین بیوی اور اولاد کے بارے میں دریافت کرے گا۔ اس سے کہا جائے گا کہ وہ تیرے درجہ اور عمل کو نہیں پہنچے وہ عرض کرے گا کہ اے اللہ ! میں نے تو اپنے لئے اور ان کے لئے عمل کیا تھا اللہ تعالیٰ حکم دے گا کہ انہیں بلند درجہ دے کر ان کے ساتھ ملا دیا جائے۔“ اس کے بعد حضرت ابن عباس نے یہ آیت پڑھی۔ (شوکانی) اسی طرح نیک اولاد کی وجہ سے ماں باپ کے درجات میں بھی بلندی ہوگی۔ ایک روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ جنت میں نیک بندے کا درجہ بلند فرمائے گا وہ عرض کرے گا ” یہ بلند درجہ مجھے کیسے مل گیا؟“ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ” تیرے لڑکے کے تیرے لئے استغفار کی وجہ سے۔“ (شوکانی) ف 11 یعنی جس طرح گروی رکھی ہوئی چیز پیسہ دیئے بغیر نہیں چھوٹ سکتی اسی طرح ہر آدمی اپنے عمل کا ثواب یا عذاب پائے بغیر نہیں رہ سکتا۔ الطور
22 الطور
23 ف 1 یعنی ان میں شراب کا دور چلے گا اور وہ خوش طبعی کے طور پر ایک دوسرے سے جام چھینیں گے لیکن وہ شراب ایسی ہوگی کہ اس میں نشاط اور لذت تو ہوگی، نشہ، بولاس اور فتور عقل وغیرہ کچھ نہ ہوگا اور نہ اسے پی کر وہ بری حرکات کا ارتکاب کریں گے۔ الطور
24 ف 2 یعنی ایسے موتی جو غلاف یا سیپ کے اندر ہوں اور کسی نے انہیں چھواء تک نہ ہو۔ اس لئے نہایت صاف شفاف ہوں۔ الطور
25 ف 3 یعنی اپٓس میں ایک دوسرے سے دریافت کریں گے کہ جنت کی زندگی کیونکہ گزر رہی ہے الطور
26 ف 4” کہ دیکھو انجام کیا ہوتا ہے اور عذاب سے بچائو ہوتا ہے یا نہیں؟“ الطور
27 ف 5 سموم کے لفظی معنی لو (جھلس ڈالنے والی گرم ہوا) کے ہیں اور یہ دوزخ کے ناموں میں سے ایک نام بھی ہے۔ اس لئے متن میں اس کا ترجمہ دوزخ کیا گیا ہے۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ اگر سموم کے عذاب میں سے اللہ تعالیٰ ایک پورا برابر دنیا والوں پر ڈال دے تو زمین سمیت سب جل کر راکھ ہوجائیں۔ (شوکانی) الطور
28 ف 6 یعنی اس کی عبادت کرتے تھے اور اسی سے دعا کرتے تھے۔ الطور
29 ف 7 اس سے مقصود مشرکین کی تردید ہے جو نبی ﷺ کو کبھی کاہن کہتے اور کبھی بائولا۔ کاہن سے مراد پروہت ہے جو وحی کے بغیر غیب دانی کا دعویٰ کرتا ہے۔ الطور
30 ف 8 یعنی جس طرح قدیم زمانہ کے بہت سے شعراء مر کر ختم ہوگئے یہ بھی ختم ہوجائے گا اور دنیا میں اس کا کوئی نام لیوا باقی نہ رہے گا۔ حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ دارالندوہ میں قریش کا اجتماع ہوا کہ آنحضرت کے معاملے پر غور کیا جائے ایک کہنے والے نے کہا اس شخص کو قید کر دو اور اس کی موت کا انتظار کرتے رہو۔ جیسے نابغہ اور دوسرے شعرا مر گئے یہ بھی مر جائے گا۔ اس بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ شوکانی الطور
31 ف 9 یعنی تم میری ہلاکت کا انتظار کرتے رہو میں تمہاری ہلاکت کا انتظار کر رہا ہوں۔ دیکھو اللہ تعالیٰ کا عذاب مجھ پر آتا ہے یا تم پر؟ الطور
32 ف 10 یعنی یہ جو اس قسم کی بے جوڑ باتیں کرتے ہیں اس کی وجہ یہ نہیں کہ ان کی عقل نہیں اس طرح بے وقوفی کی باتیں سکھاتی ہیں بلکہ اصل وجہ ان کا طغیان یعنی شراتر اور ہٹ دھرمی کی حد سے گزر جانا ہے۔ الطور
33 ف 11 یعنی کیا ان کی بے جوڑ باتوں کی وجہ یہ ہے کہ یہ قرآن کو اللہ تعالیٰ کا نہیں بلکہ محمد ﷺ کا اپنا تصنیف کیا ہوا سمجھتے ہیں ؟ نہیں ایسا نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ زبان دان لوگ ہیں اور خوب سجھتے ہیں کہ کوئی انسان اس قسم کا کلام تصنیف کرنے پر قادر نہیں ہو سکتا۔ اصل بات یہ ہے کہ کفر و عناد ان کی طبیعتوں میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے اور وہ کسی طور ایمان لانے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ الطور
34 ف 12 یعنی اگر یہ سب کچھ جاننے کے باوجود رٹ لگائے جا رہے ہیں کہ قرآن محمد ﷺ کا تصنیف کیا ہوا کلام ہے تو اپنی اس بات کو سچا ثابت کرنے کے لئے ایسا کیوں نہیں کرتے کہ اس جیسا کلام تصنیف کر کے لے آئیں۔ حالانکہ ان میں بڑے بڑے ادیب شاعر اور فلسفی موجود ہیں جنہیں اپنی زبان دانی اور فلسفیانہ موشگافیوں پر ناز ہے؟ ’ مشرکین مکہ کو یہ چیلنج اس سے پہلے کئی مکئی سورتوں میں بھی دیا جا چکا ہے، لیکن کسی موقع پر انہیں اس کا جواب دینے کی ہمت نہ ہوئی۔ یہ قرآن کے خدائی کلام ہونے کا کھلا ثبوت ہے۔ الطور
35 ف 13 اس لئے محمد ﷺ کی بات نہیں مانتے اور سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے معامیل میں خود مختار ہیں جو چاہیں کرتے پھریں؟‘ الطور
36 ف 14 یعنی نہیں وہ اپنے آپ کو زمین و آسمان کا خلاق نہیں سمجھتے لیکن اس کے باوجود محمد ﷺ کی بات نہیں مان رہے اور کفر و شرکت میں ڈوبے ہوئے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ انہیں اللہ تعالیٰ کے وجود اور اس کی صفات پر یقین نہیں ہے محض ناقابل اعتبار قسم کا شک ہے۔ اگر یقین ہوتا تو ہرگز کفر و شرک میں مبتلا نہ رہتے بلکہ آنحضرت کی بات مان کر اللہ تعالیٰ پر اس طرح ایمان لاتے جو اس پر ایمان لانے کا حق ہے۔ الطور
37 ف 15 ” کہ جسے چاہیں روزی دیں اور جسے چاہیں نہ دیں یا جسے چاہیں وہ خدا کا پیغمبر ہو اور جسے نہ چاہیں وہ نہ ہو؟“ ف 16 کہ دنیا میں ہر بات انہی کی مرضی کے مطابق ہوا کرے؟ الطور
38 ف 17 یعنی کیا ان کی رسائی براہ راست فرشتوں بلکہ خدا تک ہوجاتی ہے اس لئے وہ اپنے آپ کو پیغمبر کی رہنمائی سے آزاد سمجھتے ہیں۔ ف 18 کھلی سند سے مراد ایسی سند ہے جس سے معلوم ہو کہ وہ واقعی آسمان تک گیا تھا اور وہاں اس نے اللہ تعالیٰ اور فرشتوں کی باتیں سنی تھیں۔ الطور
39 ف 1 یہ اس طرف اشارہ ہے کہ بہت مشرکین عرب فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں سمجھتے تھے جیسا کہ دوسری متعدد آیات میں ان کے اس عقیدے کا ذکر کر کے اس کا باطل ہونا ثابت کیا گیا ہے۔ الطور
40 ف 2 ” اس لئے آپ کی دعوت قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ الطور
41 ف 3 یعنی ان کے مطابق اپنے معاملات کا فیصلہ کرتے ہیں اور اپنے آپ کو اس قانون سے بے نیاز سمجھتے ہیں جسے خدا کی طرف سے محمد ﷺ نے کر آئے ہیں۔ الطور
42 ف 4 یعنی چاہ کن را چاہ درپیش ولا یحیق المکر السئیی الاباھلہ (فاطر :43) الطور
43 ف 5 یعنی ایسی ہستی جس کا حکم مانا جائے چنانچہ شاہ صاحب نے یہاں ” الہ“ کا ترجمہ ” حاکم“ کیا ہے۔ الطور
44 الطور
45 الطور
46 الطور
47 ف 6 اس سے مراد وہ عذاب بھی ہے جو بدر کے دن قید و بند اور قتل کی صورت میں کفار مکہ پر نازل ہوا اور وہ قحط سالی کا عذاب بھی جس میں سات برس مبتلا رہے اور عذاب قبر بھی۔ حضرت ابن عباس نے خاص طور پر عذاب قبر مراد لیا ہے۔ (شوکانی) الطور
48 ف 7 حدیث میں ہے کہ آنحضرت جب کسی مجلس سے اٹھتے تو فرماتے : سبحانک اللھم وبحمدک اشھد ان لا الہ الا انت استغفرک واتوب الیہ اور فرماتے کہ یہ دعا ان تمام باتوں کا کفارہ ہے جو آدمی مجلس میں کرتا ہے۔ (شوکانی) الطور
49 ف 8 جمہور مفسرین کے قول یہ پوری سورۃ مکی ہے ایک روایت میں حضرت ابن عباس نے آیت الذین یجتنبون کیا براء الاثم و القواحش کو مدنی قرار دیا ہے۔ صحیحین میں حضرت ابن مسعود سے روایت ہے کہ سب سے پہلی سورۃ جس میں سجدہ تلاوت اترا، سورۃ نجم تھی۔ آنحضرت نے سجدہ کیا اور ایک شخص کے سوا سب نے سجدہ کیا۔ علماء نے تصریح کی ہے کہ سجدہ تلاوت مستحب ہے واجب نہیں ہے اور یہی صحیح معلوم ہوتا ہے۔ (شوکانی) الطور
0 النجم
1 ف 9 یعنی غروب ہونے کیلئے جھکے۔ بعض نے کہا ہے کہ اس سے قرآن مراد ہے کیونکہ وہ بھی منجماً (تھوڑا تھوڑا کر کے) نازل ہوا ہے۔ النجم
2 ف 10 جیسا کہ مشرکین مکہ کہتے ہیں۔ ضال (بہکا ہوا) وہ ہے جو جہالت کے سبب صحیح راہ بھٹک جائے اور غادی وہ ہے جو جان بوجھ کر سیدھے رستے سے ہمٹ جائے اور لفظ صاحبکم“ میں اشارزہ ہے کہ یہ لوگ آنحضرت کے حقیقی حال سے خوب واقف تھے۔ (ابن کثیر شوکانی) النجم
3 ف 11 بلکہ جیسا خدا کی طرف سے حکم ہوتا ہے سنا دیتا ہے۔ النجم
4 ف 1 چاہے وہ قرآن کی کوئی آیت ہو یا حدیث پاک ف 2 یعنی دین کے باب میں جو کچھ فرماتے ہیں وہ وحی کے بغیر نہیں فرماتے۔ معلوم ہوا کہ حدیث بھی قرآن کی طرح وحی ہے اور واجب الاتباع ہونے کے اعتبار سے دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ علماء نے قرآن کو وحی متلو اور حدیث کو وحی غیر متلو کہا ہے : والبحث یطول النجم
5 ف 3 اکثر صحابہ بعد کے مفسرین نے اس آیت کی یہی تفسیر کی ہے۔ (شوکانی) النجم
6 النجم
7 ف 4 یعنی آنحضرت تک وحی پہنچا کہ جبرئیل آسمان کیطرف چلے گئے۔ ترجمہ کے مطابق یہ تفسیر سعید بن المسیب اور ابن جبیر سے منقول ہے۔ شاہ صاحب نے فاستوی کا ترجمہ پس سیدھا بیٹھا کیا ہے اور فوائد میں لکھا ہے کہ یہ ابتدائینبوت کا واقعہ ہے کہ حضرت جبرئیل آنحضرت کو اپنی اصل شکل میں نظر آئے کہ آسمان ایک کنارے سے دوسرے کناریتک ان کے وجود سے بھرا ہوا دکھائی دیا۔ یہ دیکھ کر آنحضرت گھبرا گئیتو سورۃ مدثر نازل ہوئی۔ (موضع) حضرت عبداللہ بن سعود فرماتے ہیں کہ آنحضرت نے دو مرتبہ حضرت جبرئیل کو ان کی اصلی شکل میں دیکھا ہے۔ یعنی ایک مرتبہ ابتدائے نبوت میں جس کی طرف ان آشات میں اشارہ ہے اور دوسری مرتبہ معراج کے موقع پر جس کا ذکر آگے آیت 13 سے شروع ہو رہا ہے۔ (ابن کثیر) النجم
8 ف 5 یعنی پھر نیچے زمین پر اترے اور آپ سے قریب ہوئے۔ النجم
9 النجم
10 النجم
11 النجم
12 النجم
13 ف 6 یہ معراج کا واقعہ ہے کہ آنحضرت نے جبرئیل کو دوسری مرتبہ ان کی اصلی شکل میں دیکھا۔ (ابن کثیر) النجم
14 ف 7 صحیح حدیث میں ہے کہ یہ درخت چھٹے یا ساتویں آسمان پر ہے اور اسے منتہی اس لئے کہتے ہیں کہ اس پر تمام مخلوق کا علم ختم ہوجاتا ہے۔ (شوکانی) النجم
15 النجم
16 ف 8 مراد اللہ تعالیٰ کی کی عظمت و جلال کا نور یا فرشتوں کا ہجوم یا سنہری پروانے جیسا کہ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے۔ واللہ اعلم (ابن کثیر) النجم
17 النجم
18 ف 9 نشانیوں سے مراد وہ تمام نشانیاں ہیں جو آنحضرت نے معراج کی رات کو دیکھیں جیسے جنت و دوزخ سدرۃ المنتہی اور حضرت جبریل کی اصلی شکل وغیرہ۔ متعدد صحابہ نے تصریح کی ہے کہ یہاں رویت سے مراد جبرئیل کی رئویت سے نہ کہ اللہ تعالیٰ کا دیدار۔ چنانچہ حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ ” تم سے جو شخص یہ کہے کہ محمد ﷺ نے اپنے رب کو دیکھا وہ جھوٹ کہتا ہے۔“ حضرت ابو ذر فرماتے ہیں کہ آنحضرت سے اپنے رب کو دل سے دیکھا تھا۔ کذا روی عن ابن عباس (ابن کثیر) النجم
19 النجم
20 ف 10 یعنی ان کی پوجا کرنے سے کیا فائدہ؟ یہ تمہیں کسی طرح کا نفع و نقصان پہنچانے پر قدرت نہیں رکھتے۔ زمانہ جاہلیت میں یہ تین بت بہت مشہور تھے اور کعبہ کی طرح لوگ ان کا طواف کرتے تھے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کا ذکر فرمایا۔ ” لات“ طائف میں تھا بنو ثقیف اس کے معتقد تھے۔ عزی قریش کی دیویت ھی۔ اس کا استھان مکہ اور طائف کے درمیان وادی نخلہ میں تھا اور مناۃ کا استھان مکہ اور مدینہ کے درمیان قدید کے قریب مثلل کے مقام پر تھا۔ خزاعہ اوس اور خرزج اس کے معتقد تھے۔ النجم
21 النجم
22 النجم
23 ف 11 یعنی قرآن اور محمد ﷺ کے ذریعہ النجم
24 النجم
25 النجم
26 ف 12 مطلب یہ ہے کہ جب فرشتوں کا یہ حال ہے حالانکہ وہ اللہ تعالیٰ کے مقرب ہیں تو تمہارے ان بتوں کی کیا مجال کہ کسی کی سفارش کرسکیں۔ النجم
27 النجم
28 ف 1 یعنی اعتقادیات کے باب میں ظن و تخمین کافی نہیں ان کی بنیاد یقین پر ہونی ضروری ہے البتہ عملی مسائل کی بنیاد ظن پر ہو سکتی ہے۔ اس لئے قرآن و حدیث میں نص صریح نہ ملنے کی صورت میں قیاس و اجتہاد بھی کام دے سکتا ہے۔ النجم
29 ف 2 یعنی اس کے پیچھے نہ پڑیئے اور اسے سمجھانے میں وقت ضائع نہ کیجیے۔ النجم
30 ف 3 یعنی یہ لوگ صرف دنیا اور اس کے نفع و نقصان کو جانتے ہیں۔ مرنے کے بعد کیا ہوگا ؟ اسے یہ لوگ نہیں جانتے اور نہ اس کے بارے میں کبھی غور فکر کرتے رہیں۔ ف 4 یعنی اللہ تعالیٰ کو ازل سے معلوم ہے کہ ان میں سے کو ایمان لائے گا اور کون کفر و شرک کی بھول بھلیوں میں بھٹکتا رہے گا اور اللہ ہی ہر شخص کو اس کے اچھے یا برے عمل کا بدلہ دے گا۔ لہٰذا ان کا معاملہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑیئے۔ النجم
31 ف 5 یعنی اب بطور نتیجہ ایسا ہونا ضروری ہے کہ … النجم
32 ف 6 لم دراصل کسی چیز کی تھوڑی سی مقداریا اس میں تھوڑی دیر رہنے یا اس کے قریب پہنچ جانے مگر رک جانے کو کہتے ہیں۔ مثلاً الم بالمکان یعنی وہ اس میں تھوڑی دیر ٹھہرا۔ الم بکذا وہ قریب قریب اس تک پہنچ گیا وغیرہ اس بنا پر اکثر مفسرین نے اللمھ سے صغیرہ گناہ مراد لئے ہیں۔ بعض نے لکھا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ تھوڑی دیر کے لئے گناہ میں مبتلا ہوتے ہیں لیکن فوراً باز آجاتے ہیں۔ وغیر ذلک (ابن کثیر) ف 7 یعنی چھوٹے چھوٹے گناہ معاف فرماتا رہتا ہے۔ اگر انسان بڑے گناہوں سے بچتا رہے اور توبہ کرلے تو بڑے گناہ بھی معاف ہوجاتے ہیں۔ ف 8۔ یعنی تمہارے باپ آدم (علیہ السلام) کو پیدا کیا ف 9 یعنی اپنی تعریف مت کرو اور نہ دوسرے سے اپنے آپ کو بہتر سمجھو۔ کیونکہ کسی کو معلوم نہیں کہ اس کا انجام کیا ہونے والا ہے۔ حضرت زینب بنت ابی سلمہ سے روایت ہے کہ آنحضرت نے ” برۃ“ (نیک عورت) نام رکھنے سے منع کیا اور فرما ” اپنی پاکیزگی مت جتائو“ اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ تم میں سے نیک کون ہے۔ (ابن کثیر بحوالہ صحیح مسلم) النجم
33 النجم
34 ف 10 مجاہد ابن زید اور مقاتل کہتے ہیں کہ یہ آیتیں ایک شخص ولید بن مغیرہ کے بارے میں نازل ہوئی ہیں۔ وہ مسلمان ہوگیا لیکن مشرکین نے اسے عار دلائی کہ تم نے اپنے آبائی دین کو چھوڑ دیا۔ اس نے کہا مجھے اللہ کے عذاب کا ڈر ہے۔ عار دلانے والے نے کہا تم مجھے اتنا مال دے دو میں تمہارا عذاب اپنے سر لے لوں گا۔ اس پر وہ شرک کی طرف پلٹ گیا اور اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (قرطبی) النجم
35 ف 11 کہ ” وہ عذاب سے بچ جائے گا؟“ النجم
36 النجم
37 النجم
38 ف 1 یعنی کسی دوسرے کا عمل فائدہ نہیں دے سکتا۔ ہوسکتا ہے کہ حضرت ابراہیم اور حضرت موسیٰ کی شریعت میں یہ حکم عام ہو لیکن ہماری شریعت میں اس میں کچھ مستثنیات ہیں مثلاً گنہگاروں کے لئے انبیاء اور فرشتوں کی شفاعت مردوں کے لئے زندوں کی دعا اور باپ کے عمل سے اولاد کے درجوں کا بلند ہوناتو قرآن سے ثابت ہے اور میت کی طرف سے صدقہ خیرات اور حج کرنا وغیرہ کا نافع ہونا صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ اب رہی نماز اور قرآن خوانی تو اس کے متعلق چونکہ قرآن یا کسی صحیح حدیث میں صراحت نہیں ہے اس لئے یہ اس آیت کے عام حکم کے تحت رہینگے اور انسان کی اولاد بھی چونکہ اس کی سعی کا نتیجہ ہے اس لئے اس کے نیک عمل کا ثواب پہنچنا اس آیت کے تحت داخل ہے۔ (قرطبی) النجم
39 النجم
40 النجم
41 النجم
42 النجم
43 ف 2 یعنی راحت ہو یا مصیبت، خوشی ہو یا غم لذت ہو یا تکلیف دونوں کا خالق اور مسبب الاسباب وہی ہے۔ النجم
44 النجم
45 النجم
46 النجم
47 النجم
48 ف 3 ” اقنی“ کے دوسرے معنی ” صاحب جائیداد بناتا ہے“ اور تیسرے معنی ” خوش کرتا ہے“ بھی ہو سکتے ہیں۔ النجم
49 ف 4 ” شعریٰ“ برج جوزا کے پیچھے ایک چمکدار ستارہ کا نام ہے۔ زمانہ جاہلیت میں قبیلہ خزاء کے لوگ اس کی پرستش کرتے تھے۔ مطلب یہ ہے کہ تمہاری قسمتیں یہ ستارہ نہیں بلکہ وہ خدا بناتا ہے جو اس کا رب ہے۔ النجم
50 ف 5 یعنی حضرت ہود (علیہ السلام) کی قوم اسے ” پہلے عاد“ اس لئے کہا گیا کہ وہ ثمود سے پہلے تھی۔ یا وہ پہلی قوم تھی جو قوم نوح کے بعد تباہ کی گئی ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ قوم عاد دو ہیں پہلی حضرت ہود کی قوم اور دوسری ارم کی قوم جس کا ذکر سورۃ فجر میں آئے گا اور جو ان لوگوں کی نسل سے تھی جو حضرت ہود پر ایمان لائے تھے اور عذاب سے بچ گئے تھے۔ النجم
51 النجم
52 النجم
53 النجم
54 ف 6 یعنی پتھروں کی بارش جیسا کہ دوسری آیات میں مذکور ہے۔ ممکن ہے بحر مردار کا پانی بھی مراد ہو جس میں یہ بستیاں ڈوب گئیں اور وہ ان پر چھا گیا۔ واضح رہے کہ ” غشی“ کے لفظی معنی ” چھا جانا“ ہیں۔ النجم
55 ف 7 سیاق کلام کی بنا پر یہاں نعمت سے مراد ظالم و سرکش قوم کی تباہی ہے۔ معلوم ہوا کہ کہ کسی ظالم و سرکش قوم کو تباہ کرنا بھی انسانیت پر اللہ تعالیٰ کا بڑا انعام ہے۔ النجم
56 ف 8 یعنی حضرت محمد ﷺ دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ” یہ (تباہی جس کا ذکر کیا گیا) پہلے آنے والی تنبیہوں میں سے ایک تنبیہ ہے۔ “ النجم
57 ف 9 یعنی اسے دور نہ سمجھو۔ کیونکہ وہ یکایک اور فوراً آسکتی ہے اس لئے توبہ کرنے میں تاخیر نہ کرو۔ النجم
58 النجم
59 النجم
60 النجم
61 ف 10 سمد سے مراد ایسی غفلت ہے جس کے ساتھ رنگ رلیاں بھی ہوں۔ صالح ابی اقلیل کہتے ہیں کہ جب سے یہ آیت اتری رسول اللہ ﷺ کو کسی نے ہنستے نہیں دیکھا یہاں تک کہ آپ دنیا سے یہ رخصت ہوگئے۔ (شو کانی) النجم
62 ف 11 اس مقام پر سجدہ کرنا مستحب ہے جیسا کہ سورۃ کے شروع میں بیان ہوچکا ہے۔ النجم
0 ف 12 جمہور مفسرین کے نزدیک یہ پوری سورۃ مکی ہے۔ صحیح مسلم اور سنن اربعہ میں حضرت ابو واقد یشی سے روایت ہے کہ آنحضرت عید کی نماز میں سورۃ ق اور یہ سورۃ پڑھا کرتے تھے۔ القمر
1 ف 1 متواتر صحیح احادیث سے ثابت ہے اور تمام علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ چاند کے پھٹنے کا یہ واقعہ بطور معجزہ نبی ﷺ کے زمانہ میں واقعہ ہوچکا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ چاند کے پھٹ جانے پر آپ نے فرمایا ” اشھدوا“ گواہ رہو“ (ابن کثیر) بعض لوگ انشق القمر“ کا یہ مطلب بیان کرتے ہیں کہ قیامت چاند پھٹے گا لیکن یہ مطلب بجائے خود مہمل ہے اور اس سے متواثر احادیث کی مخالفت (لازم آتی ہے اور پھر کسی عقلی دلیل سے بھی اس واقعہ سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔ بایق رہا یہ کہنا کہ چاند پھٹا ہوتا تو تاریخوں میں اس کا ذکر ہوتا تو واضح رہے کہ اول تو یہ ہے بھی رات کا تھوڑی دیر کا واقعہ اس لئے دنیا بھر کے تمام لوگوں کا مطلع ہونا ضروری نہیں اور ضھر بعض ملکوں میں اس وقت دن ہوگا اور بعض میں مطلع کے اعتبار سے چاند کا طلوع بھی نہیں ہوگا۔ تاہم تاریخ فرشتہ وغیرہ میں مذکور ہے کہ ہندوستان میں مہاراجہ ” مالی بار“ نے چاند کو دو ٹکڑوں کی شکل میں دیکھا اور اس وجہ سے وہ اسلام بھی لے آیا۔ ” بینات“ میں اس پر تفصیلی بحث ہے۔ القمر
2 ف 2 احادیث میں مذکور ہے کہ یہ بات کفار مکہ نے شق قمر کا معجزہ دیکھ کر کہی تھی۔ اس سے صاف معلوم ہوا کہ یہ معجزہ آنحضرت کے زمانہ میں ہوچکا ہے اور قرب قیامت میں چاند کے پھٹنے کی تاویل سیاق و سباق کے بھی خلاف ہے۔ القمر
3 ف 3 اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ ایک وقت آئے گا جب ہر چیز کی حقیقت کھل کر سامنے آجائیگی چنانچہ ان کافروں کو بھی پتہ چل جائے گا کہ آنحضرت اللہ کے سچے رسول تھے اور ان کی تکذیب غلط تھی۔ القمر
4 القمر
5 القمر
6 ف 4 یعنی انہیں ان کے حال پر چھوڑ دے اور اس دن کا انتظار کر القمر
7 القمر
8 القمر
9 ف 5 یعنی دھمکیاں دیں اور ہر طریقہ سے لعنت و ملامت کی کہ نبوت کا دعویٰ کرنے اور اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانے سے باز رہے۔ القمر
10 القمر
11 القمر
12 ف 6 یعنی انہیں ڈبونے اور ہلاک کرنے کے لئے ف 7 یعنی جس کا اللہ تعالیٰ نے ان کے حق میں فیصلہ فرما دیا تھا۔ القمر
13 القمر
14 ف 8 یعنی جس کی رسالت ان کے لئے ایک نعمت تھی لیکن انہوں نے اس کی قدر نہ کی۔ مراد حضرت نوح ہیں۔ القمر
15 ف 9 یا ” اس کشتی کو ہم نے قدرت کی نشانی بنا کر چھوڑ دیا۔ “‘ کہتے ہیں کہ یہ کشتی جودی پہاڑ پر ایک مدت تک رہی اور اسے اس امت کے لوگوں نے بھی دیکھا۔ آج بھی اس کے بعض تختوں کی تلاش جاری ہے۔ القمر
16 القمر
17 ف 10 قرآن کے آسان ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ کوئی سطحی کتاب ہے جسے سمجھنے کے لئے نہ کسی محنت کی ضرورت ہے اور نہ کسی علم کی حتی کہ جو شخص عربی زبان تک سے ناواقف ہو وہ جب چاہے اسے ہاتھ میں لے اور حدیث اور علوم حدیث وتفسیر سے بے نیاز ہو کر اس سے جو مسائل چاہے استنباط کرتا رہے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کا انداز بیان اللہ تعالیٰ نے ایسا صاف، سہل اور دل نشین بنایا ہے کہ اس سے نصیحت حاصل کرنا نہایت آسان ہے۔ یہی معنی اس کے کتاب مبین ہونے کے ہیں اور پھر اس کا آسان کرنا یہ بھی ہے کہ یہ سہولت سے حفظ ہوسکتا ہے۔ چنانچہ یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا میں قرآن کے حجم کی کوئی ایسی کتاب نہیں پائی گئی جس کے ہزاروں لاکھوں حافظ ہر زمانہ میں پائے گئے ہوں حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں ” اگر اللہ تعالیٰ کو آسان نہ کرتا تو کوئی آدمی اللہ تعالیٰ کے کلام کو اپنی زبان سے ادا نہ سکتا۔ (شوکانی) القمر
18 القمر
19 ف 1 سورۃ حاقہ (آیت 7) میں ہے کہ یہ آندھی ان پر سات رات اور آٹھ دن مسلسل چلتی رہی۔ اس دن کے منحوس ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ ان لوگوں پر منحوس بن کر آیا۔ یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ بجائے خود منحوس تھا۔ بعض روایات میں ہے کہ وہ مہینے کا آخری بدھ کا دن تھا اور یہ دن منحوس ہوتا ہے۔ لیکن یہ تمام روایات انتہائی ضعیف بلکہ موضوع ہیں۔ گو علامہ قرطبی نے بعض روایات میں ت اویل کی کوشش کی ہے کہ ان ایام کے منحوس ہونے کے معنی کفار کے حق میں منحوس ہونے کے ہیں نہ کہ مسلمانوں کے حق میں۔ واللہ اعلم (قرطبی) القمر
20 القمر
21 القمر
22 القمر
23 القمر
24 ف 2 یعنی حضرت صالح کے بارے میں کہنے لگے کہ ایک تو یہ بشر ہیں فرشتہ یا کوئی دوسری فوق البشر ہستی نہیں ہیں اور دوسرے یہ ہماری اپنی ہی قوم کے ایک فرد ہیں اور تیسرے وہ اکیلے ہیں۔ کوئی لائو لشکر ان کے ساتھ نہیں ہے۔ اس لئے یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ہم انہیں اپنا سردار مان کر ان کی پیروی اختیار کریں۔ القمر
25 ف 3 ” حالانکہ ہم میں اس سے بہتر لوگ موجود ہیں۔ القمر
26 ف 4 کل سے مراد قریب کا زمانہ ہے یعنی اترنے کا وقت یا قیامت کا دن۔ القمر
27 ف 5 یعنی یہ آزمان یکے لئے کہ ہماری واضح نشانی دیکھ لینے کے بعد بھی اپنی سرکشی سے باز آتے ہیں کہ نہیں؟ القمر
28 ف 6 یعنی ایک دن یہ سارا پانی یہ اونٹنی پئے گی اور ایک دن وہ اور ان کے تمام جانور القمر
29 ف 7 ان الفاظ سے اندازہ ہوتا ہے کہ کچھ دنوں تک تو یہ ایک دن کی باری کا سلسلہ جاری رہا لیکن آخر کار وہ لوگ صبر نہ کرسکے اور انہوں نے اونٹنی کا قصہ تمام کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ اس کے لئے انہوں نے اپنے ایک سردار جس کا نام مفسرین نے قدار بن سالف بتایا ہے … کو پکارا کہ تو بہادر جری ہے اور اس کام کو سرانجام دے سکتا ہے۔ القمر
30 القمر
31 ف 8 یعنی جیسے جانوروں کی حفاظت کے لئے سو کھی ٹہنیوں اور کانٹوں کی باڑھ بناتے ہیں اور چند دن میں وہ پائمال ہو کر چورا ہوجاتی ہے اسی طرح وہ لوگ چورا ہو کر رہ گئے۔ القمر
32 القمر
33 القمر
34 القمر
35 القمر
36 ف 1 یعنی حضرت لوط کی سب تنبیوں کو شک و شبہ کی نظر سے دیکھا اور باتوں میں اڑاتے رہے۔ القمر
37 ف 2 مہمانوں سے مراد فرشتے ہیں جو حضرت لوط کے ہاں مہمان بن کر آئے تھے۔ سو رہ ہود اور سورۃ قبر میں مفصل قصہ گزر چکا ہے۔ القمر
38 القمر
39 القمر
40 القمر
41 القمر
42 ف 3 یا ” تنبیہیں آچکیں“ القمر
43 ف 4 یعنی کیا بل بوتے میں ان سے بڑھ کر ہیں کہ ان کی کوئی گرفت نہ کی جا سکے۔ ف 5 یعنی اجازت دے دی گئی ہے کہ جو چاہو کرتے ہو تمہاری کوئی گرفت نہ ہوگی۔ القمر
44 القمر
45 ف 6 یعنی عنقریب نہیں اپنی جتھے بندی کی حقیقت معلوم ہوجائے گی اور ان کے جتھے مسلمانوں کے مقابلہ میں شکست کھا کر بھاگیں گے۔ چنانچہ یہ پیش گوئی چند ہی سال کے بعد ” بدر“ اور دوسری جنگوں میں پوری ہوئی۔ صحیح بخاری میں ہے کہ بدر کے روز آنحضرت نے اپنے خیمے میں دعا فرمائی ” اے اللہ ! میں تجھے تیرے عہد اور وعد کا واسطہ دیتا ہوں۔ اگر تو چاہے کہ آج کے بعد تیری عبادت نہ کی جائے (تو مسلمانوں کی اس تھوڑی سی جمعیت کو مٹ جانے کے لئے بے یارو مددگار چھوڑ دے اور نہ اس کی ضرور مدد فرما۔ حضرت ابوبکر صدیق نے عرض کیا ” اے اللہ کے رسول ! بس کیجیے۔ آپ نے اپنے رب سے نہایت مبالغہ کے ساتھ سلوک کیا ہے۔ اس پر نبی ﷺ زرہ پہنے ہوئے خیمہ سے باہرت شریف لائے اور آپ کی زبان مبارک پر یہ آیت تھی۔ (فتح عذیر) حضرت عمر فرماتے ہیں کہ جب سورۃ قمر کی یہ آیت نادید ہوئی تو میں حیران تھا کہ یہ جتھا کونسا ہے جو عنقریب شکست کھائے لیکن جب جنگ بدر میں کفار شکست کھا کر بھاگ رہے تھے تو میں نے دیکھا کہ آنحضرت زرہ پہنے آگے کی طرف لپک رہے تھے اور آپ کی زبان مہلک پر یہ آیت جاری تھی۔ ابن جریر ف 7 یعنی دنیا میں انہیں جو ذلت ہوگی وہ تو ہوگی ہی ان سے نمٹنے اور عذاب دینے کا اصل وعدہ قیامت کے دن کا ہے۔ القمر
46 ف 8 جس کے سامنے دنیا کی آفتوں اور تکلیفوں کی کوئی حقیت نہیں ہے۔ القمر
47 القمر
48 القمر
49 ف 9 یعنی وہ اس طرح پیش آئے وہی ہے جیسے اللہ تعالیٰ کے علم میں پہلے سے لکھی ہوئی ہے۔ اس کا نام تقدیر ہے جس پر ایمان لانا ضروری ہے اور حدیث میں ’ دقدر پیغمبروں رکھنے کو ضروری قرار دیا گیا ہے۔ جبرئیل کی حدیث میں ہے وتومن بالقدر خیرد وشرہ“ کہ تم تقدیر کے خیرہ شر پر ایمان رکھو۔ ایک حدیث میں ہے اللہ سے مدد طلب کرو اور درماندہ ہو کر بیٹھ جائو۔ اگر تمہیں کوئی چیز پہنچے تو کہو کہ اللہ نے میری تقدیر میں یونہی لکھا تھا اور ہوتا بھی وہی ہے جو اللہ چاہتا ہے اور ہرگز یہ نہ لکھو اگر میں یوں کرلیتا تو ایسے ہوں اس لئے کہ یہ اگر شیطان کے عمل کو کھولتا ہے یعنی اس کی راہ دکھاتا ہے۔ (ابن کثیر) القمر
50 ف 10 یعنی ہم پلک جھپکتے ہیں جو چاہیں کر ڈالیں کسی چیز کے بنانے بگاڑنے میں ہمیں ہرگز دیر نہیں لگتی۔ لہٰذا یہ نہ سمجھو کہ ہم قیامت لانا چاہیں تو اس کے آنے میں دیر ہوجائیگی۔ القمر
51 القمر
52 ف 11 یعنی ان کے اعمالناموں میں لکھی جا چکی ہے۔ قیامت کے روز یہ اعمال نامے ان کے سامنے رکھ دیئے جائیں گے۔ القمر
53 القمر
54 القمر
55 ف 1 حضرت عبید اللہ بن ابی عمرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : انصاف کرنے والے لوگ رحمان کے دائیں ہاتھ نور کے منبروں پر ہوں گے اور اس کے دونوں ہاتھ ہی دائیں ہیں۔ یہ لوگ ہوں گے جو اپنے فیصلوں میں اپنے گھر والوں اور اپنی رعیت کے ساتھ انصاف کرتے ہیں۔ (ابن کثیر) القمر
0 ف 2 اکثر مفسرین کے نزدیک یہ سورۃ مکہ معظمہ میں نازل ہوئی اور بعض اسے مدنی بتاتے ہیں۔ زیاد صحیح بات پہلی ہی ہے اگرچہ یہ ممکن ہے کہ اس کا کچھ حصہ مکہ معظمہ اور کچھ مدینہ منورہ میں نازل ہوا ہوا۔ حضرت جابر سے روایت ہے کہ ایک دن آنحضرت نے صحابہ کرام کو یہ سورۃ سنائی وہ خاموش رہے، آپ نے فرمایا :” میں متہیں خاموش کیوں دیکھتا ہوں۔“ تم سے تو جن اچھیتھے کہ جب میں نے انہیں یہ سورت سنائی تو وہ ہر بار فابی الآء ربکما تکذبات پر کہتے لابشی من بعمک ربنا تکذب ولک الحمد ہمارے پروردگار ! ہم تیری کسی نعمت یا قدرت کو نہیں جھٹلائے حمد تیرے ہی لئے ہے۔ (شوکانی) حضرت علی سے روایت ہے کہ میں نے آنحضرت کو یہ فرماتے سنا۔ ” ہر چیز کی ایک دلہن ہوتی ہے اور قرآن کی دلہن سورۃ رحمان ہے۔ (ایضاً بیہقی) الرحمن
1 الرحمن
2 ف 3 ہو اس کی نعمتوں میں سے سب سے بڑی اور سب سے اونچی نعمت ہے۔ الرحمن
3 الرحمن
4 ف 4 یعنی اس قدرت دی کہ اپنے ماضی الضمیر کو نہایت وضاحت اور حسن و خوبی کے ساتھ ادا کرسکے اور دوسروں کی بات سمجھ سکے اپنی اس صفت کی بدولت وہ خیر و شر ہدایت وضلالت ایمان و کفر کی بدولت وہ خیر و شر ہدایت و ضلالت ایمان و کفر اور دنیا و آخرت کی باتیں سمجھتا اور سمجھاتا ہے اور اسی کو کام میں لا کر فائدہ اٹھاتا ہے۔ الرحمن
5 ف 5 یعنی ایک خاص حساب اور باضابطہ نظام ہے جس میں یہ دونوں عظیم الشان سیارے جکڑے ہوئے ہیں چنانچہ ایک خاص وقت میں طلوع اور غروب ہوتے ہیں اور ایک معین راستہ پر چلتے ہیں۔ اسی وجہ سے انسان اس قابل ہوا ہے کہ وقتوں، دنوں تاریخوں اور مومنوں کا حساب رکھ سکے۔ الرحمن
6 ف 6 ” نجم“ کے مشہور اور متبادر معنی ستارے کے ہیں لیکن یہ ایسے پودے اور بیل بوٹوں کے لئے بھی بولا جاتا ہے جن کا تنا نہیں ہوتا۔ اس لئے متن میں اس کاترجمہ ” بیل“ بھی کیا گیا ہے اور یہ معنی ” الشجر“ کے قرین ہونے کے اعتبار سے انسب ہیں۔ ف 7 یعنی اسی کے حکم کے تابع اور اسی کے قانون کے پابند ہیں۔ اس نے ان کے لئے جو ضابطہ اور نظم مقرر فرما دیا ہے اس سے سرموانحراف نہیں کرتے۔ الرحمن
7 ف 8 یعنی کم نہ تو لو … کم تولنا اتنا بڑا گناہ ہے کہ حضرت شعیب (علیہ السلام) کی قوم پر تباہی آنے کا ایک سبب یہی تھا۔ الرحمن
8 الرحمن
9 الرحمن
10 الرحمن
11 الرحمن
12 ف 9 یعنی آدمیوں کے لئے دانہ اور جانوروں کے لئے بھوسا۔ الرحمن
13 ف 10 یعنی کس کس نعمت کا انکار کرو گے۔ ایک کا انکار کرو گے تو دوسری سامنے آجائے گی اور دوسری کا انکار کرو گے تو تیسری آخر کہاں تک انکار کرتے جائو گے؟ یہ آیت اس سورۃ میں اکیس بار آئی ہے۔ جیسا کہ اوپر بتایا جا چکا ہے اس عن کر لا بشئی من نعمک ربنا نکدب ولک الحمد کہنا مستحب ہے۔ الرحمن
14 الرحمن
15 الرحمن
16 الرحمن
17 ف 11 دونوں پور بوں (مشرقوں) اور پچھموں (مغریوں) سے مراد موسم سرما اور موسم گرما کے مشرق اور مغرب ہیں۔ موسم سرما میں سورج چھوٹا سا دائرہ بنا کر طلوع و غروب ہوتا ہے اور موسم گرما میں بڑا دائرہ بنا کر۔ الرحمن
18 الرحمن
19 الرحمن
20 الرحمن
21 الرحمن
22 ف 12 موتی اور مونگے صرف کھاری پانی سے نکلتے ہیں لیکن جب کھاری اور میٹھا پانی ایک جگہ مل جاتے ہیں تو گویا وہ دونوں کے مجموعہ سے نکلتے ہیں یا ممکن ہے کہ آئندہ تحقیقات سے معلوم ہو کہ جن کھاری سمندروں اور دریائوں سے موتی نکلتے ہیں انکی تہ میں میٹھا پانی ہوتا ہے اور یہ ان پانیوں کے اشتراک عمل سے پیدا ہوتے ہیں۔ الرحمن
23 الرحمن
24 ف 1 اس کے بنائے ہوئے“ اس لحاظ سے ہے کہ اسی نے تمہیں اتنی سمجھ اور مہارت دی کہ تم نے انہیں بنایا۔ الرحمن
25 الرحمن
26 ف 2 یہاں فنا ہوجانے کو نعمت قرار دیا گیا ہے اور وہ اس لحاظ سے کہ فنا ہوجانے کے بعد سب دوبارہ زندہ ہوں گے اور سب کو اپنے اپنے اعمال کے مطابق درجے ملیں گے۔ قرطبی الرحمن
27 ف 3 حدیث میں ہے کہ آنحضرت نے فرمایا الظوبیا ذالجلال والاکرام یعنی ان اسماء حسنیٰ کے ذریعہ سے دعا کیا کرو اور بعض آثار میں ہے کہ ” یا ذالجلال و الاکرام کے ساتھ دعا قبول ہوتی ہے۔ (قرطبی وغیرہ) الرحمن
28 الرحمن
29 ف 4 چاہے زبان قابل سے اور چاہنے زبان حال سے مطلب یہ ہے کہ سب اسی کے محتاج ہیں۔ وہ کسی کا محتاج نہیں ہے۔ ف 5 یعنی کسی کو مارتا ہے کسی کو جلاتا ہے کسی کو مالدار کرتا ہے اور کسی کو محتاج کسی کو عزت بخشتا ہے اور کسی کو ذلت الغرض ہر آن اور ہر وقت اسکی ایک نئی شان کا ظہور ہوتا رہتا ہے۔ شوون الہیہ کی یہ تاویل بعض صحابہ سے مروی ہے جن میں ابوالددردہ اور حضرت عبداللہ بن عمر بھی شامل ہیں۔ (قرطبی شوکانی) الرحمن
30 الرحمن
31 ف 6 اس سے مقصود جنوں اور انسانوں کو متنبہ کرنا ہے کہ تمہارے اعمال کے محاسبہ کا قوت قریب آگیا ہے۔ معلوم ہوا کہ انسانوں کی طرح جنوں کو بھی جزا و سزا ملے گی۔ جمہور علماء اس کے قائل ہیں اور آیت کریمہ و لکل درجات مما عملوا سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ ف 7 یہاں جنوں اور انسانوں کے لئے نقلان کا لفظ اسعتمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں ” زمین کے دو بوجھ“ ان کی قدر و منزلت اور وقار کی وجہ سے ان کو ثقلان فرمایا ہے کہ دوسری مخلوق پر ان کا درجہ بھاری ہے۔ الرحمن
32 الرحمن
33 ف 8 اور تم میں زور کہاں۔ الرحمن
34 الرحمن
35 ف 9 یا ” تم پر بن دھوئیں کی آگ اور پگھلا ہوا اتانبا چھوڑا جائے گا۔“ یعنی اس وقت جب تم ہماری گرفت سے نکل بھاگنے کی کوشش کرو گے۔ ف 10 یعنی اس کا مقابلہ نہ کرسکو گے بلکہ مجبوراً ہر طرف سے گھر کر میدان حشر میں جمع ہوگئے۔ الرحمن
36 الرحمن
37 الرحمن
38 الرحمن
39 ف 11 یعنی ان سے گناہوں کے بارے میں سوال کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی بلکہ وہ اپنے چہروں سے پہچان لئے جائیں گے جیسا کہ اگلی آیت میں آرہا ہے۔ قیامت کے دن متعدد مواقع ہوں گے۔ یہ ایک موقع کا ذکر ہے دوسرا موقع وہ ہوگا جب ان سے سوال کیا جائیگا جیسا کہ فرمایا فوربک لنسئلنھم اجمعین اور تیرے رب کی قسم ہم ان سے ضرور باز پرس کرینگے۔ (حجر 92) یا مطلب یہ ہے کہ قیامت کے روز ان سے جو سوال ہوگا وہ گناہوں کی دریافت کے لئے نہیں ہوگا کیونکہ اللہ تعالیٰ کو خود ہی تمام گاہوں کا علم ہے بلکہ اس لئے ہوگا کہ گنہگاروں کو ملامت کی جائے واللہ اعلم (قرطبی ابن کثیر) الرحمن
40 الرحمن
41 ف 12 جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : یوم تبیض وجوہ وتسود وجوہ جس روز کچھ چہرے سفید ہونگے اور کچھ چہرے سیاہ ہوں گے۔ (آل عمران :106 اور یہ کہ ونحشر المجرمین یومئذ زرقا اور اس روز ہم مجرموں کو جمع کریں گے کہ ان کی آنکھیں نیلگوں ہوں گی۔ (طہ 102) ف 13 یعنی ایک زنجیر سے پیشانی اور پائوں دونوں کس کر جہنم میں پھینک دیئے جائیں گے یا کبھی فرشتے انہیں مشانی کے اوپر کے بال پکڑ کر گھسیٹیں اور کبھی پائوں پکڑ کر۔ الرحمن
42 الرحمن
43 الرحمن
44 ف 1 ینی دوزخ میں جلائے جائیں گے۔ پیاس لگے گی تو کھولتے ہوئے پانی کی طر لے جائے جائیں گے۔ پھر وہاں سے دوزخ کی طرف لائے جائیں گے۔ اس طرح دوزخ اور کھولتے ہوئے پانی کے درمیان چکر کھاتے رہیں گے۔ الرحمن
45 الرحمن
46 ف 2 یعنی اس نے خدا سے ڈرتے ہوئے زندگی بسر کی اور اس بنا پر گناہوں سے بچتا رہا۔ ف 3 ایک جنت عدن اور دوسری جنت نعیم یا ایک بلند اور دوسر اپائیں باغ یا ایک روحانی اور دوسرا جسمانی باغ یا ایک مردانہ اور دوسرا زنانہ باغ یا ایک اطاعت کے بدلہ میں اور دوسرا ترک معصیت کے بدلہ میں یا ایک باغ صحت عقید ہکے بدلہ میں اور دوسرا نیک عمل کے بدلہ میں دو باغوں کے مفسرین نے یہ سب معنی بیان کئے ہیں۔ واللہ اعلم شوکانی الرحمن
47 الرحمن
48 الرحمن
49 الرحمن
50 الرحمن
51 الرحمن
52 ف 4 ایک قسم وہ جس سے وہ دنیا میں آشنا تھا اور دوسری قسم وہ جو کبھی اس کے خواب و خیال میں بھی نہ آئی تھی یا مطلب یہ ہے کہ ایک باغ میں ایک طرح کئے ہیں اور پھول ہوں گے اور دوسرے میں دوسری طرح کے واللہ اعلم۔ الرحمن
53 الرحمن
54 ف 5 یعنی جب انکے استراس شان کے ہوں گے تو ابروں کا کیا کہنا۔ ف 6 یعنی قریب ہوں گے تاکہ توڑنے میں وقت نہ ہو۔ الرحمن
55 الرحمن
56 ف 7 یعنی وہ پاک باز اور حیادار بھی ہوں گی اور بالکل کنواری بھی۔ الرحمن
57 الرحمن
58 ف 8 یعنی ان کے رنگ یا قوت کی طرح چمکدار اور موتی کی طرح سفید ہوں گے۔ الرحمن
59 الرحمن
60 ف 9 یعنی دنیا کے نیک عمل کا بدلہ آخرت میں نیک ہی دیا جائے گا … حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ آنحضرت نے اس آیت کی تفسیر یوں فرمائی : ” جسے توحید کی نعمت دی گئی اس کا بدلہ جنت کے سوا کچھ اور نہیں ہے۔“ (شوکانی) الرحمن
61 الرحمن
62 ف 10 عربی زبان میں دون کا لفظ اگرچہ ماسوا اور علاوہ کے معنی میں بھی اسعتمال ہوتا ہے لیکن اس کا زیادہ تر استعمال ایک چیز کے دوسری چیز کے مقابلہ میں نیچے یا بالحاظ مرتبہ کم ہونے کے معنی میں ہوتا ہے اس لئے بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ دو باغ پہلے سے دو باغوں سے نیچے یا ان کے مقابلہ میں کم مرتبہ ہوں گے۔ ایک حدیث میں ہے کہ دو جلتیں سونے کی ہوں گی اور ان کے برتن اور دوسری ہر چیز سونے کی ہوگی اور دو جنتیں چاندی کی ہوں گی اور ان کے برتن اور دوسری ہر چیز چاندی کی ہوگی۔ شاید پہلی دو جنتیں مقربین اور دوسری دو اصحاب الیمین کے لئے ہوں گے۔ واللہ اعلم (ابن کثیر) الرحمن
63 الرحمن
64 الرحمن
65 الرحمن
66 ف 1 میں ان میں ہر آن نواے کی طرف پانی ابل رہا ہے اور وہ کبھی خشک نہیں ہوتے الرحمن
67 الرحمن
68 ف 2 جنت میں ہر قسم کے پھل جنہیں جنتی لوگ پسند کریں گے نہایت کثرت سے ہوں گے لیکن کجھجور اور انار کا ذکر خاص طور پر اسلئے فرمایا کہ ان دونوں کو عرب بہت پسند کرتیتھے اور وہ ان کی سر زمین میں بکثرت پائے جاتے تھے۔ ان کے مقابلہ میں دوسرے پھلوں سے وہ اس قدر واقف نہ تھے۔ الرحمن
69 الرحمن
70 الرحمن
71 الرحمن
72 ف 3 یعنی پردہ نشین ہوں گی۔ ” حود“ کی تشریح پہلے گزر چکی ہے۔ یعنی ایسی عورتیں جن کے رنگ سفید اور آنکھیں بڑی اور سیاہ ہوں گی۔ جنت کے یہ خیمے موتیوں کے ہونگے۔ حضرت قیس سے مرفو عاً مروی ہے کہ آنحضرتنے فرمایا : جنت میں کھوکھلے موتی کا ایک خیمہ ہے جس کا عرض ساٹھ میل ہے۔ اس کے ہر کونے میں رہنے والے دوسرے کو نے میں رہنے والوں کو نہ دیکھ پائیں گے۔ جنتی ان کے پاس لائے جائینگے۔ (شوکانی) الرحمن
73 الرحمن
74 الرحمن
75 الرحمن
76 ف 4 ” عبقر“ دراصل عربوں کے افسانوں میں جنوں کی ایک بستی کا نام تھا جس کے لئے ہم اردو میں پرستان کا لفظ اسعتمال کرتے ہیں۔ اس کی طرف نسبت کرتے ہوئے اہل عرب ہر غیر معمولی نفیس اور نادر چیز کو عبقری کہا کرتے تھے۔ اب بھی عربی زبان میں یہ لفظ اس شخص کے لئے استعمال ہوتا ہے جو غیر معمولی ذہانت اور قابلیت کا مالک ہو۔ الرحمن
77 الرحمن
78 ف 5 حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ آنحضرت نماز سے لام پھیرن کے بعد صرف اتنی دیر (قبلہ رخ ہو کر) بیٹھتے تھے جتنی دیر میں آپ زبان سے یہ الفاظ ادا فرماتے : الھم انت السلام ومنک السلام تبارکت یا ذالجلال و الاکرام اے اللہ ! تو ہے سلامتی والا اور سلامتی دینے والا اے بزرگی و برتری کے مالک ! تو بابرکت ہے۔ ابن کثیر بحوالہ صحیح مسلم الرحمن
0 ف 6 اکثر مفسرین کے نزدیک یہ پوری سورۃ مکی ہے بعض نے اس کی ایک آیت : وتجعلون رزقکم انکم تکذبون کو اور بعض نے افبھذا الحدیث انتم مذھنون و تجعلون رزقکم انکم تکذبون اور ثلۃ من الاولین وقلیلاً من الاخرین ان چار آیتوں کو مدنی قرار دیا ہے۔ سنن بیہقی وغیرہ میں حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ آنحضرتنے فرمایا :” جس نے رات کو سورۃ واقعہ کی تلاوت کی اسے کبھی فاقہ کی نوبت نہ آئے گی۔ ابن عساکر کی روایت میں ہے۔ ” سورۃ واقعہ سورۃ الغنی (تو نگری کیسورہ) ہے تم اسے خو دبھی پڑھا کرو اور اپنے بچوں کو بھی سکھایا کرو۔“ سورۃ ہود کے شروع میں گزر چکا ہے کہ آنحضرت نے فرمایا : شیبتنی ھود والواقعۃ مجھے سورۃ ہود اور واقعہ نے بوڑھا کردیا۔ (فتح تقدیر) الواقعة
1 الواقعة
2 ف 7 دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جب وہ نازل ہوگی تو اسے ہرگز جھٹلایا نہ جا سکے۔ الواقعة
3 ف 8 یعنی بڑے بڑے متکبروں کو جو دنیا میں معزز اور بلند مرتبہ سمجھے جاتے تھے دھکیل کردوزخ میں پھینکے گی اور بہت سے اہل حق کو جو دنیا میں حقیر و کم مرتبہ نظر آئیتھے جنت کے اعلیٰ مراتب تک پہنچائے گی۔ الواقعة
4 الواقعة
5 الواقعة
6 الواقعة
7 الواقعة
8 ف 9 یعنی ان کی خوش حالی اور عیش و آرام کا کیا پوچھنا ! مراد عام جنتی لوگ ہیں جو عشر کی دائیں جانب ہونگے یا جنہیں حضرت آدم کے دائیں پہلو سے پیدا کیا گیا یا جنہیں ان کے اعمالنامے دائیں ہاتھ میں دیئے جائیں گے یا جنہیں دائیں طرف سے لے جایا جائے گا۔ الواقعة
9 ف 1 یعنی ان کی بدبختی نحوست و بدحالی کا کیا ٹھکانا ! مراد دوزخی لوگ ہیں جو عرش کی بائیں طرف ہوں گی یا جنہیں ان کے اعمال نامے بائیں ہاتھ دیئے جائیں گے وغیرہ الواقعة
10 ف 2 مراد وہ لوگ ہیں جو نہ صرف خود ایمان لائے اور نیکو کار رہے بلکہ ایمان لانے اور ہر ایک نیک عمل … جیسے نماز ہجرت اور جاد وغیرہ … کی انجام دہی میں دوسروں پر سبقت لے جانے والے ہیں۔ الواقعة
11 الواقعة
12 الواقعة
13 الواقعة
14 ف 3 اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں اور قدیم مفسرین سے یہ دونوں مقنول ہیں۔ شاہ صاحب نے بھی اپنے فوائد میں بلا ترجیح دونوں نقل کئے ہیں ایک یہ کہ پہلے تمام انبیائو کے پیروں میں سے اعلیٰ درجہ کے لوگ ملا کر لغت محمدیہ کے اعلیٰ درجہ کے لوگ سے تعداد ہیں زیادہ ہوں گ۔ دوسرا یہ کہ خود امت محمدیہ میں اعلیٰ درجہ کے لوگ پہلے بہت ہوں گے اور بعد میں کم۔ اس دوسرے مطلب کی تائید ابوبکرہ کی روایت سے ہوتی ہے کہ آنحضرت نے فرمایا : ھما جمیعاً من ھذہ الامتہ کہ ان دونوں سے مراد اسی امت کے لوگ ہیں مگر یہ روایت اسناد کمزور ہے اس لئے علماء تفسیر نے اس پر اعتماد نہیں کیا۔ پہلے مطلب کو ابن جریز طبری نے دوسرے مطب کو حافظ بن کثیر نے ترجیح دی ہے۔ ان کے علاوہ حافظ ابن کثیر نے ایک تیسرا مطلب بھی بیان فرمایا ہے کہ ہر امت کے پہلے طبقہ میں جتنے درجہ کے لوگ ہوئے ہیں اتنے اس کے بعد کے طبقہ میں نہیں ہوئے جیسا کہ حدیث ” خیر القرون قرنی“ سے معلوم ہوتا ہے واللہ اعلم۔ الواقعة
15 الواقعة
16 الواقعة
17 ف 4 یعنی کبھی جوان یا بوڑھے نہ ہوگے۔ الواقعة
18 الواقعة
19 الواقعة
20 الواقعة
21 الواقعة
22 الواقعة
23 ف 5 یعنی نہایت صاف و شفاف جن پر گرد و غبار کا کوئی اثر نہ ہو۔ الواقعة
24 الواقعة
25 الواقعة
26 الواقعة
27 الواقعة
28 ف 6 مثلاً گالی گلوچ، غیبت، جھوٹ اور بہتان وغیرہ الواقعة
29 ف 7 حضرت ابوامامہ سے روایت ہے کہ صحابہ کرام اپٓس میں کہا کرتے تھے کہ بعض اوقات اللہ تعالیٰ ہمیں بد دوئوں کے مسائل دریافت کرنے سے بڑا فائدہ پہنچاتا ہے۔ چنانچہ ایک مرتبہ ایک بدو نے آنحضرت سے عرض کیا ” اے الہ کے رسول ! اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ایک ایسے درخت کا ذکر فرمایا ہے جو جنت میں ہوگا حالانکہ وہ تکلیف دہ درخت ہے۔“ رسول ﷺ نے دریافت فرمایا ” وہ کونسا ہے؟؟ کہنے لگا ” بیری ! اس لئے کہ اس میں تو کاٹنے ہتوے ہیں جو چبھتے ہیں۔“ فرمایا ” کیا اللہ تعالیٰ نے ” مختصود“ نہیں فرمایا یعنی یہ کہ اس بیری کے کانٹے صاف کردیئے جائیں گے؟ اللہ تعالیٰ ہر کانٹے کی جگہ ایک بیراگائے گا اور ہر بیر میں بہتر 72 کھانوں کے مزے ہونگے۔“ (شوکانی) الواقعة
30 ف 8 حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :” جنت میں ایک درخت ہے جس کے سائے میں سوار سو سال چلے گا لیکن اسے طے نہ کر پائے گا۔ ” اگر تم چاہو تو آیت“ و ظل ممدود پڑھ لو۔“ (شو کانی) الواقعة
31 الواقعة
32 الواقعة
33 الواقعة
34 ف 9 یعنی خوب دبیز اور اونچے ہوں گے۔ عربی زبان میں ” فرش“ کا لفظ عورت کے لئیبھی بطور کیا یہ استعمال ہوتا ہے اس لئے آیت وفرش مرفوعۃ کا ترجمہ ” شاندار عورتیں“ بھی کیا گیا ہے۔ الواقعة
35 الواقعة
36 ف 10 ان سے مراد دنیا کی عوتریں ہیں جو چاہے بوڑھی ہو کر مری ہوں لیکن انہیں جوان بنا کر جنت میں داخل کیا جائے گا۔ ایک حدیث میں آنحضرت نے اس آیت کو یہی تفسیر بیان فرمائی ہے۔ (ابن کثیر) الواقعة
37 الواقعة
38 الواقعة
39 الواقعة
40 ف 1 اگلے اور پچھلے لوگوں کی تفسیر اوپر ایسی سورۃ میں گزر چکی ہے الواقعة
41 الواقعة
42 الواقعة
43 ف 2 یعنی دوزخیوں کو کہیں سایہ نہ ملے گا۔ سخت کالے دھوئیں ہی کو وہ سایہ سمجھ کر اس کی طرف دوڑیں گے۔ الواقعة
44 الواقعة
45 ف 3 یعنی حرام و حلال سے بے پروا ہو کر نفس کی خواہشوں اور دنیا کی رنگ رلیوں میں مست ہوچکے تھے۔ الواقعة
46 ف 4 یعنی اس سے توبہ نہ کرتے تھے۔ الواقعة
47 الواقعة
48 الواقعة
49 الواقعة
50 الواقعة
51 الواقعة
52 ف 5 اس تھوہر کے درخت سے متعلق سورۃ صافات میں ارشاد ہے کہ وہ ایک ایسا درخت ہے جو دوزخ کی تہ میں اگتا ہے۔ اس کی کلیاں ایسی ہیں جیسے شیطانوں کے سر (یا سانپوں کے پھن) آیت 65۔64) الواقعة
53 الواقعة
54 الواقعة
55 ف 6 اور ” پھر بھی ان کی پیاس نہیں بجھتی“ اونٹ کو ایک بیماری استقاء کی طرح ہوتی جاتی ہے۔ اس میں وہ جتنا پانی پاتا ہے سب پی جاتا ہے لیکن سیراب نہیں ہوتا۔ دوزخیوں کو بھی اس طرح کی پیاس میں مبتلا کیا جائے گا اور پھر پینے کے لئے کھولتا ہوا پانی دیا جائے گا اعاذنا اللہ منھا الواقعة
56 الواقعة
57 ف 7 یعنی اس بات کو سچ کیوں نہیں مانتے کہ جس طرح ہم نے تمہیں پہلے پیدا کیا اسی طرح ہم تمہیں دوبارہ بھی پیدا کریں گے؟ الواقعة
58 ف 8 ” اور رحم مادر میں پہنچ کر بچہ بنتا ہے۔ ‘ الواقعة
59 ‘ ف 9 مطلب یہ ہے کہ اسے ہم نے بنایا۔ تم نہ اسے بنا سکتے تھے اور نہ رحم مادر میں اسے بچہ کی شکل دے سکتے تھے۔ الواقعة
60 ف 10 ” چنانچہ تم میں سے کوئی بچپن میں متر اہے، کوئی جوانی میں اور کوئی بڑھاپے میں۔ الواقعة
61 ف 1 یعنی تمہیں کسی اور جہان میں لے جائیں اور یہاں تمہاری جگہ کسی دوسری مخلوق کو بسا دیں۔ دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تمہاری شکل ایسی بنا دیں جسے تم نہیں پہچانتے۔ یعنی تمہیں بندر اور سور بنا دیں۔ الواقعة
62 ف 2 یعنی جب تم یہ جانتے ہو اور اس کا اقرار بھی کرتے ہو کہ تمہیں پہلی بار ہمیں نے پیدا کیا ہے تو پھر یہ کیوں نہیں مانتے کہ جب تم مر جائو گے تو ہم تمہیں دوبارہ بھی زندگی دے سکیں گے حالانکہ دوسری بار پیدا کرنا پہلی بار پیدا کرنے کی بنسبت آسان تر ہے۔ نیز دیکھیے (سورہ روم آیت 27) الواقعة
63 الواقعة
64 ف 3 یعنی بظاہر زمین میں بیج تم ڈالتے ہو لیکن اسے زمین کے اندر پرورش کرنا اور پھر باہر نکال کر اسے لہلہاتی کھیتی میں تبدیل کرنا کس کا کام ہے؟ کیا تم دعویٰ کرسکتے ہو کہ یہ تمہاری محنت اور تدبیر کا نتیجہ ہے؟ ہرگز نہیں بلکہ ہی کام ہمیں کرتے ہیں۔ الواقعة
65 الواقعة
66 الواقعة
67 الواقعة
68 الواقعة
69 الواقعة
70 ف 4 مسند ابن ابی حاتم کی ایک روایت میں ہے کہ آنحضرت جب پانی نوش فرماتے تو یہ دعا پڑھتے ” الحمد للہ الذی شقانا عذبنا فراتا برحمتہ ولم یجعلہ ملحاً اجاجاً بذنوبنا حمد ہے اس اللہ کے لئے جس نے اپنی رحمت سے ہمیں شیریں اور خوشگوار پانی پلایا اور اسے ہمارے گناہوں کی وجہ سے کھاری اور تلخ نہیں بنایا۔ (ابن کثیر) الواقعة
71 الواقعة
72 ف 5 مراد ہر درخت ہے جو جلانے کے کام آتا ہے یا خاص طور پر وہ درخت ہیں جن میں گرڑ سے آگ پیدا ہوتی ہے جیسے عرب میں مرخ اور عفار کے درخت اور ہمارے ہاں ہانس کا درخت … مطلب یہ ہے کہ ان درختوں میں جلنے یا رگڑنے سے آگ پیدا کرنے کی یہ خاصیت کس نے رکھی ؟ تم نے یا ہم نے ؟ الواقعة
73 ف 6 حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : دنیا کی آگ جسے لوگ سلگاتے ہیں (تیزی میں) جہنم کی آگ کا سترواں حصہ ہے۔ شوکانی ف 7 مقوین کے اصل معنی قوء یعنی بیابان میں ٹھہرنے یا رہنے والے لوگ میں جیسے مسافر یا خانہ بدوش کوئی شک نہیں کہ آگ کی ضرورت ہر ایک کو پڑتی ہے لیکن ان لوگوں کو اس سے بہت زیادہ کام لینا پڑتا ہے خصوصاً سردی کے موسم میں اس لئے ان کا خصوصیت سے ذکر فرمایا ہے۔ الواقعة
74 ف 8 کہ اس نے اپنے فضل و کرم سے انسان کے فائدہ کے لئے ایسی کار آمد چیزیں پیدا کیں۔ الواقعة
75 ف 9 دوسرے معنی یہبھی ہو سکتے ہیں کہ ” میں ستاروں کے ٹوٹنے کی قسم کھاتا ہوں۔“ اور تیسرے معنی یہ بھی کہ ” میں قرآن کے ٹکڑے ٹکڑے ہو کر اترنے کی قسم کھاتا ہوں۔“ اس میں اقسم سے پہلے ” لا“ زائدہ ہے اور ترجمہ اسی کے مطابق ہے۔ الواقعة
76 الواقعة
77 الواقعة
78 ف 10 یعنی لوح محفوظ ہیں۔ الواقعة
79 ف 11 اکثر مفسرین کے نزدیک لایمسہ میں ” ہ“ لوح محفوظ کو وہی ہاتھ لگاتے ہیں جو پاک ہیں یعنی فرشتے بعض نے اس ضمیر کو قرآن کے لئے مانا ہے اور استدلال کیا ہے کہ قرآن کو بے وضو ہونے کی حالت میں چھونا ناجائز نہیں ہے گو بہتر یہ ہے کہ وضو کرلیا جائے۔ موطامالک میں ہے کہ آنحضرت نے عمر دین حزم کو جو خط لکھ کردیا اس میں یہ بھی لکھا کہ لایمس القران الاطاھر کہ قرآن کو سوائے طاہر شخص کے کوئی نہ چھوئے مگر یہ اپنے مفہوم میں صریح نہیں ہے کیونکہ اس کے معنی کفر و شرک سے پاک کے بھی ہو سکتے ہیں کیونکہ مسلمان تو جنابت کی حالت میں بھی پاک ہی رہتا ہے ’ د سبحان اللہ ان المومن (لایحب (الحدیث) الواقعة
80 الواقعة
81 ف 12 یعنی منافقت برتنے والے الواقعة
82 ف 13 جیسے مینہ برسائے لیکن تم یہ کہو کہ فلاں ستارہ فلاں برج میں آگیا تھا اس لئے بارش ہوگئی۔ حدیث میں ہے کہ یہ کفر یا اللہ تعالیٰ کی نا شکری ہے۔ الواقعة
83 الواقعة
84 الواقعة
85 ف 1 یعنی اپنے علم یا ان فرشتوں کے ذریعے جو روحیں قبض کرنے کے لئے مقرر ہیں الواقعة
86 ف 2 یعنی اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی تابعداری و محکومیت سے آزاد سمجھتے ہو الواقعة
87 ف 3 یعنی اسے بدن میں لوٹا کر بیمار کو موت کے ہاتھوں سے کیوں نہیں بچا لیتے ؟ ف 4 یعنی اگر اپنی ناشکری کی موجود ہر وش کو صحیح سمجھتے ہو الواقعة
88 ف 5 یعنی آگے بڑھنے والوں میں سے جن کا ذکر اوپر گزر چکا ہے الواقعة
89 الواقعة
90 الواقعة
91 ف 6 دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تجھے اپنے داہنے ہاتھ والوں کی طرف سے سلام ہو اور تیسرا مطلب یہ بھی کہ تو داہنے ہاتھ والوں کی طرف سے خاطر جمع کر۔ “ الواقعة
92 الواقعة
93 الواقعة
94 الواقعة
95 الواقعة
96 ف 7 حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ پر آیت فسبح باسم ربک العظیم نازل ہوئی تو آپ نے فرمایا :” اسے اپنے رکوع میں پڑھا کرو۔“ اور جب ’ دسبح اسم ربک الاعلیٰ نازل ہوئی تو آپ نے فرمایا ” اسے اپنے سجدہ میں پڑھا کرو۔“ (شوکانی) الواقعة
0 ف 8 یہ سورۃ بالاتفاق مدنی ہے۔ سنن نسائی کی ایک مرسل روایت میں ہے کہ آنحضرت اس وقت تک نہ سوتیت ھے جب تک آپ سبحان نہ پڑھ لیتے اور آپ فرمایا کرتے تھے کہ ان میں ایک آیت ہے جو ہزاروں آیتوں سے افضل ہے۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں ” شاید وہ آیت یہ ہو“ ھو الاول و الاخر و الاطھر و الباطن وھو بکل شی علیم واللہ اعلم (مسبحات سے مراد وہ سورتیں ہیں جن کے شروع میں سبح یا سبح آتا ہے۔ یعنی حدید حشر صف، جمعہ اور تغابن (شوکانی) الحديد
1 ف 9 بعض زبان قال سے اور بعض زبان حال سے گواہی دے رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر عیب اور نقص سے پاک ہے۔ الحديد
2 الحديد
3 ف 10 یعنی وہ سب موجودات سے پہلے تھا اور سب موجدات کے فنا ہوجانے کے بعد باقی رہے گا۔ ف 11 یا کھلا ہوا اور پوشیدہ اور وہ اس لحاظ سے کہ اس کی کاریگری کے آثار کھلے ہوئے ہیں اور اس کی ذات مقدس ہماری نظروں سے پوشیدہ ہے۔ آنحضرت نے ظاہر کی تفسیر بلند اور غالب سے کی ہے ایک ماثور دعا ہے : وانت الظاھر فلیس فوقک شی یعنی تو ہیظاہر ہے اور تیرے اوپر کوئی چیز نہیں۔ (ابن کثیر بحوالہ صحیح مسلم) الحديد
4 ف 12 جیسے بارش کا پانی اور بیج وغیرہ۔ ف 1 جیسے نباتات اور معدنیات وغیرہ ف 2 جیسے بارش فرشتے، شرعی احکام اور قضاء و قدر کے فیصلے وغیرہ ف 3 جیسے فرشتے اور بندوں کے اعمال وغیرہ ف 4 اس لئے صحیح بخاری کی روایت میں ہے کہ جب حضرت جبرئیل نے آنحضرت سے احسان کے متعلق سوال کیا تو آپ نے فرمایا : احسان یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی اس طرح عبادت کرو کہ گویا تم اسے دیکھ رہے ہو اور اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے تو وہ تو تمہیں دیکھ ہی رہا ہے اور اللہ تعالیٰ کی معیت بلحاظ علم کے ہے۔ کذا قال السلف بلکہ حافظ ابن عبدالبر وغیرہ نے لکھا ہے کہ اس پر صحابہ اور تابعین کا اجماع ہے اور اہل علم میں سے کوئی بھی اس کا مخالف نہیں۔ (ابن کثیر و شرح حدیث النزول) الحديد
5 ف 5 ” نہ کہ کسی اور کی طرف“ لہٰذا وہی تمام اعمال کا فیصلہ فرمائے گا اور بندوں کو اس کے متعلق جزا یا سزا دے گا الحديد
6 ف 6 کجا کہ اس سے تمہاری اعمال پوشیدہ رہیں، اگرچہ وہ دلوں میں آنے والے خیالات وساوس پر اس وقت تک مئواخذہ نہیں کرتا جب تک ان پر عمل نہ کیا جائے۔ (وقد مرنی خاتم سورۃ البقر) ف 7 یعنی اللہ تعالیٰ کی توحید اور آنحضرت کی رسالت کا اقرار کرو۔ یہ کفار عرب سے خطاب ہے۔ اگر یہ خطاب مسلمانوں سے ہو تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ تم اللہ و رسول پر ایمان میں مزید پختگی پیدا کرو اور اس پر برقرار رہو۔ کما فی اھدنا الصراط المستقیم الحديد
7 ف 8 یعنی جس میں اس نے تمہیں پچھلے لوگوں کا وارث بنایا یا اپنا غائب بنا کر تصرف کا اختیار دیا۔ ف 9 مطلب یہ ہے کہ جو اموال تمہارے قبضہ میں ہیں حقیقت میں ان کا مالک اللہ تعالیٰ ہے۔ تم محض امین و خزانچی ہو۔ لہٰذا جہاں وہ حکم دے وہیں اس کے نائب ہونے کی حیثیت سے خرچ کرو او اس کے ساتھ یہ بھی یاد رکھو کہ سال پہلے دوسروں کے قبضہ میں آیا۔ اسی طرح تمہارے مرنے کے بعد تمہارے وارثوں کے قبضہ میں چلا جائے گا۔ اس میں سے تمہارے کام صرف وہی آئے گا جو تم اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرو گے۔ ف 10 یعنی جنت لہٰذا ایمان کے مقضی کے مطابق عمل کرو۔ الحديد
8 ف 11 امام ابن جریر نے اس سے مراد وہ اقرار لیا ہے جو اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں سے اس وقت لیا تھا جب اس نے انہیں حضرت آدم کی پشت سے پیدا کیا تھا اور جو ان میں سے ہر ایک کی سرشت میں داخل ہے۔ وقدم فی سورۃ الاعراف 172) شاہصاحب لکھتے ہیں :” اقرار اللہ نے چکا ہے دنیا میں آنے سے پہلے اور اس کا اثر رکھ دیا دل میں۔ (موضح) حافظ ابن کثیر کہتے ہیں کہ اس سے مراد وہ بیعت ہے جو آنحضرت نے صحابہ کرام سے لی تھی جس کا ذکر سورۃ مائدہ میں ہے۔ واللہ اعلم الحديد
9 ف 12 اس لئے اس نے تم میں اپنا رسول بھیجا اور اس پر اپنی کتاب نازل فرمائی۔ الحديد
10 ف 1 کیونکہ اس وقت اظہار ایمان اور اس پر استقامت نہایت مشکل تھی، اس لئے آنحضرت نے بھی ایک موقع پر ایمان لانے والوں سے کہا میرے (سابقین) صحابہ کو برا مت کہو انہوں نے توایک مدیا نصف مد اللہ کی راہ میں خرچ کر کے جو درجہ حاصل کرلیا تم احد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کر کے بھی وہ درجہ نہیں کرسکتے۔ دوسری روایت میں ہے ان کا ایک ساعت کا عمل تمہارے عمر بھر کے عمل سے بہتر ہے۔ (سوکانی) ف 2 یعنی یوں تو اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے کہ جو شخص کسی وقت بھی ایمان لائے گا اور اس کی راہ میں جہاد کرے گا وہ اسے اچھا بدلہ (جنت) عطا فرمائے گا۔ الحديد
11 ف 3 ” قرض حسن“ (اچھے فرض) سے مراد وہ مال ہے جو آدمی دل کی خوشی سے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے اس کی راہ میں خرچ کرے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہے کہ وہ اسے اپنے ذمہ قرض قرار دے رہا ہے حالانکہ انسان کے پاس جو کچھ ہے اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہے کہ وہ اسے اپنے ذمہ قرض قرار دے رہا ہے حالانکہ انسان کے پاس جو کچھ ہے اللہ تعالیٰ ہی کا دیا ہوا ہے۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں قرض کے معنی یہ کہ اس وقت جہاد میں خرچ کرو پھرتم ہی دولتیں برتو گے۔ یہی معنی ہیں دونوں کے دینہ مالک اور غلام میں سود بیاج نہیں جو دیا سو اس کا اور جو نہ دیا سو اس کا۔ “‘ ف 4 یعنی جنت … مزیدت شریح کے لئے دیکھیے بقرہ 245 الحديد
12 ف 5 ” اور اسی کی رہنمائی میں چل کر وہ جنت میں داخل ہوں گے۔“ حضرت عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ یہ نور پر شخص کے ایمان اور عمل صالح کے مطابق ہوگا جس کا ایمان جس قدر پختہ اور عمل جس قدر زیادہ ہوگا اسی قدر اس کا نور زیادہ ہوگا۔ قتادہ سے مرسلام وہی ہے کہ بعض مومن ایسے ہوں گے جن کا نور مدینہ سے صنعا تک پھیلا ہوگا۔ ضحاک اور قتادہ کہتے ہیں کہ نور آگے ہوگا اور ان کے داہنے ہاتھ میں ان کے اعمال نامے ہونگے ابن کثیر یہ مطلب اس صورت میں ہے جب و بایمانھم کو بین ایدھم سے الگ جملہ قرار دیا جائے۔ الحديد
13 ف 6 یعنی تمہاری کچھ روشنی لے لیں اور اس کی رہنمائی میں چلیں۔ ف 7 یعنی فرشتے کہیں گے یا ایماندار جواب دیں گے۔ الحديد
14 ف 8 مطل بیہ ہے کہ یہاں تمہیں روشنی ملنے والی نہیں ہے۔ یہ روشنی تو ایمان اور نیک اعمال کی ہے جو ہم نے دنیا میں کئے تھے۔ اب اگر پلٹ کر دنیا میں جاسکتے ہو تو چلے جائو اور وہاں سے روشنی کما کرلے آئو … ایک روایت میں ہے کہ پل صراط کے پاس اللہ تعالیٰ ہر مومن اور منافق کو روشنی دے گا۔ جب سب لوگ پل صراط پر پہنچیں گے تو اللہ تعالیٰ منافقوں کی روشنی سلب کرلے گا اس وقت ایمانداروں سے درخواست کریں۔ انظھقا نفیس من نورکم اور ایماندار کہیں گے ربنا اتملنا نورناً اے رب ہمارے ہماری روشنی مکمل فرما (یعنی جنت میں داخل ہوجانے تک اسے باقی رکھ) اس موقع پر کوئی کسی دوسرے کو نہ پوچھے گا۔ ف 9 اس دیوار سے مراد وہ دیوار ہے جو جنت اور دوزخ کے درمیان ہوگی۔ (شو کانی) ف 10 جو آج ہمیں اکیلا چھوڑے دیتے ہو۔ ف 11 کہ کب ہم مسلمانوں پر کوء آفت نازل ہوتی ہے۔“ ف 2ۃ یعنی تم سمجھتے رہے بس چند دن میں مسلمان تباہ ہوجائیں گے اور اسلام کا نام و نشان تک مٹ جائے گا۔ الحديد
15 ف 13 اللہ کے باب میں شیطان کا انسان کو دھوکا دیتا کئی ہیں۔“ پل صراط پر کافر نہ چلیں گے۔ وہ پہلے ہی دوزخ میں پڑیں گے مگر جو امت ہے کسی نبی کے سچے یا کچے۔ جب اندھیرا گھیر یگا ایمان والوں کے ساتھ روشنی ہوگی۔ منافق ان کی روشنی میں چلنے لگے وہ شتاب نکل گئے یہ رہے پیچھے پکارت یکہ ہم کو بھی روشنی دو کسی نے کہا کہ پیچھے سے روشنی لائو، وہ پیچھے ہٹے ان کے بیج دیوار کھڑی ہوگئی۔ یعنی روشنی دنیا میں کمائی جاتی ہے وہ جگہ پیچھے آئے۔ (کذا فی الموضح) الحديد
16 ف 1 مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کی حالت یہ ہونی چاہئے کہ جب انکے سامنے اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا جائے اور اس کی کتاب پڑھی جاۓ اور ان کے دلوں میں خشوع و خضوع کی کیفیت پیدا ہو عمش کہتے ہیں کہ صحابہ کرام جب مدنیہ آئے اور انہیں فقر و فاقہ کے بعد کچھ تن آسانی کے اسباب ملے تو ان میں کچھ سستی آگئی۔ اس پر بطور عتاب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی الصا المعانی الحديد
17 ف 2 لہٰذا وہ اس پر بھی قدرت رکھتا ہے کہ لوگوں کو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کرسکے۔ اس سے مقصود عام مسلمانوں کو توبہ کی طرف متوجہ کرنا ہے۔ الحديد
18 الحديد
19 ف 3 یعنی انہیں صدیقین اور شہداء کا متربہ نصیب ہوگا۔ حضرت براء بن عازب سے روایت ہے کہ آنحضرت نے فرمایا : میری امت کے اہل ایمان شہید ہیں، پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔ (ابن جریر) حضرت عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں کہ ہر مومن صدیق اور شہید ہے۔ اسی طرح حضرت عمرو بن مرہ جہنی سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ کی خدمت میں حاض رہو کر عرض کیا ’ د اے اللہ کے رسول اگر میں توحید و رسالتکی شہادت دوں پانچوں نمازیں ادا کرتا رہوں۔ زکوۃ دیتا رہوں، رمضان کے روزے رکھوں اور راتوں کو عبادت کروں تو میں کیا ہوں گا؟ فرمایا : تم صدیقین اور شہداء میں سے ہوں گے۔ (شوکانی) ف 4 یعنی انہیں صدیقین اور شہداء کا ثواب اور نور ملے گا یا انہیں اپنے ایمان اور عمل کے مطابق ثواب اور نور ملے گا۔ الحديد
20 ف 5 یہ سچے اور مخلص اہل ایمان کے مقابلے میں دنیا دار لوگوں کا حال ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی تمام خواہشوں اور دلچسپیوں کا ذکر ان پانچ باتوں میں فرمایا دیا ہے۔ شاہ صاحب فرماتے ہیں ” آدمی کو اول عمر میں کھیل چاہئے پھر تماشا پھر بنائو درست کرنا (یعنی بنئاو سنگھار کی فکر) پھر ساکھے کرنے اور نام حاصل کرنا (یعنی ساکھ بڑھانا اور نام و نمود حاصل کرنا اور جب مرنا قریب آوے تب فکر مال اور اولاد کا کہ پیچھے میرا گھر بنا رہے آسودہ یہ سب دغا کی جنس سے آگے کام آئے گا کچھ اور یعنی ایمان اور عمل صالح یہ کچھ کام نہ آوے گا۔“ ف 6 جیسے دنیا داروں کو ان کی جوانی اور مالداری خوش کرتی ہے۔ ف 7 یہی حال دنیاکی زندگی کا ہے۔ بس چند روز بہار ہے آخر زوال اور پھر فنا ہے۔ ف 1 جس نے دنیا سے دل لگایا وہ دھوکے میں پڑگیا اور اس نے اپنی آخرت تباہ کرلی۔ البتہ ایسے لوگوں کے لئے دنیا کی زندگی دھوکا نہیں ہے جنہوں نے اسے آخرت کا ذریعہ بنایا۔ آخرت کے ماقبلہ میں دنیا کی بے وقعتی کا ذکر بہت سی احادیث میں مذکور ہے۔ الحديد
21 ف 2 یعنی وہ نیک کام کرو جن سے تمہیں اپنے مالک کی خوشنودی اور معافی نصیب ہو۔ ف 3 جب جنت کا عرض اس قدر ہے تو اس کے طول کے کیا کہنے الحديد
22 ف 4 یا زمین اور لم لوگوں کی پیدائش سے پہلے۔“ ف 5 حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا۔“ اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کی تقدیر زمین و آسمان کی پیدائش ہے پچاس ہزا رسال پہلے لکھ دی تھی۔ (ابن کثیر بحو (صحیح مسلم) الحديد
23 ف 6 یا ” تمہیں نہ ملے“ ف 7 ” بلکہ یہ سمجھ کر صبر کرو کہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر پانی تھی۔ اگر اس نے یہ چیز ہماری قسمت میں لکھی ہوئی تو ہمیں ہر صورت مل کر رہتی“ اور اس نے جو ہماری قستم حق میں بہتر نہ تھا۔ اگر بہتر ہوتا تو وہ ضرور ہماری قسمت میں لکھتا۔ ف 8 بلکہ یہ سمجھ لو کہ یہ اللہ تعالیٰ کی دین ہے ہماری اپنی کوشش کا نتیجہ نہیں ہے۔ اس آیت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کسی چیز کے حاصل کرنے کے لئے آدمی کو کوششبھی نہیں کرنی چاہئے۔ بلکہ مطلب یہ کہ کوشش کے بعد اگر ناکامی ہو تو غم نہیں بلکہ صبر کرنا چاہئے اور بصورت کا میابی غرور کرتا نہیں بلکہ شکر بجا لانا چاہئے۔ اسی کو اللہ تعالیٰ تقدیر ایمان کا فائدہ قرار دے رہا ہے۔ اس اصول پر عمل پیرا رہنے سے زندگی میں اعتدال رہتا ہے اور انسان افراط و تفریط کا شکار نہیں ہونے پاتا۔ الحديد
24 ف 9 کیونکہ انہیں اللہ تعالیٰ پر نہیں بلکہ اپنی کوشش اور تدبیر پر بھروسا ہوتا ہے اس لئے سمجھتے ہیں کہ اگر ہمارے ہاتھ سے کوئی چیز چلی گی تو معلوم نہیں وہ ہمیں دوبارہ مل سکے گی یا نہیں اس کے برعکس جن لوگوں کو خدا پر اعتماد ہوتا ہے وہ دنیا کی چیزوں سے ایسی محبت نہیں کرتے کہ ان کا جدا ہونا ان پر شاق گزرتا ہو بلکہ وہ انہیں دل کھول کر اللہ تعالیٰ کی یوں میں صرف کرتے ہیں۔ ف 10 یعنی اس یکسی کی تعریف پامال و دولت کی ضرورت نہیں ہے تماگر اس کی راہ میں خرچ کرو گے تو اپنے ہی بھلے کے لئے کرو گے اور اگر نہیں کرو گے تو اپنا نقصان آپ کرو گے۔ الحديد
25 ف 11 یعنی عدل و انصاف کا حکم دیا۔ ف 12 اخلقنا کے معنی اتارنا بھی ہیں اور پیدا کرنا بھی یہاں پیدا کرنا مراد ہے اور بعض نے کہا ہے کہ لوہے کے کالوں سے نکالنا اور اس کی صفت کی تعلیم دینا مراد ہے۔ نیز دیکھیے سورۃ انعام آیت 43) ف 3ۃ جیسے تلوار بندوق اور دوسرے جنگی ہتھیار اس میں اشارہ ہے کہ دنیا میں امن و امان قائم کرنے کیلئے کتاب و قانون عدل و انصاف کے علاوہ اس شخص کی بھی ضرورت ہے جو ہاتھ میں تلوار رکھتا ہو۔ انصاف پھیلانے کے لئے ہے ایک روایت ہے کہ آنحضرت نے فرمایا ! مجھے قیامت سے پہلے تلوار دے کر بھیجا گیا ہے تاکہ صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کی جائے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ گردانا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی میرے نیزے کے زیر سایہ رکھا اے ور اس شخص کے لئے ذلت اور محکومیت رکھی ہے جو میری مخالفت کرے۔ (ابن کبیر) ف 1 یعنی محض آنحضرت کی تصدیق کرتے ہوئے۔ ف 2 یہ دیکھے کہ کسی کا مقصد تلوار اٹھانے سے دین حق کا بول بالا کرنا ہے۔ ف 3 یعنی اسے کسی کی مدد کی ضرورت نہیں۔ وہ خود زور والازبردست ہے اس نے جو تمہیں جہاد کا حکم دیا اس سے مقصد تمہاری وفاداری کا امتحان لینا ہے۔ الحديد
26 ف 4 چننچہ حضرت ابراہیم کے بعد جتنے پیغمبر آئے سب انہی کی اولاد میں سے تھے ف 5 یعنی وہ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ بڑے نرم اور مہران تھے آیت میں تعریف صحبا ہکرام کی فرمائی گی ہے۔ دیکھیے اس الفتح آیت 29) الحديد
27 ف 6 یعنی دنیا کو چھوڑ دینا، شادی نہ کرنا اور خلقت سے الگ ہو کر جنگلوں اور غاروں میں رہنا بسنا۔ ف 7 یعنی انہوں نے دو جرم کئے ایک رہبانیت درویشی کو دین کا جزو لاینفک قرار دے لیا اور پھر اس درویشی کے حقوق و آداب کی بھی نگہداشت نہ کرسکے۔ چنانچہ انہوں نے ابتداء میں توحید اور درویشی کو ایک ساتھ نبھانے کی کوشش کی لیکن حضرت مسیح کے تیسری صدی بعد سے اپنے بادشاہوں کے بہکانے میں آگئے۔ اور تثلیث کے جر میں پھنس کر توحید کہ چھوڑ دیا۔ پھر درویشی تو درکنار اصل ایمان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔ درویشی کو جاہ ریاست طلبی کا ذریعہ بنالیا اور ابطل طریقوں سے لوگوں کے مال کھانے لگے۔ القرض جہاد کے فریضہ لو چھوڑ کر تصرف کی رسوم اتخیار کرنا ہی رہبانیت ہے جس کی قرآن نے مذمت کی ہے اور پھر درویشی یا دینی پیشوائی کو جاہ و ریاست اور دنیا طلبی نصاریٰ میں عا مو باکی شکل اختیار کر گیا تھا۔ شاہ صاحب فرماتے ہیں یہ فقیری تا اور تارک دنیا بننا نصاریٰ نے رسم نکالی، جنگل میں تکیہ لگا کر بیٹھتے نہ جو رکھتے نہ بیٹا کماتے نہ جوڑے محض عبادت میں رہتے۔ نہ کرنے نہ جوڑتے محض عبادت میں رہتے۔ خلق سے نہ ملنے اللہ نے بندوسوں پر یہ حکم نہیں رکھا مگر جب اپنے اوپر نام رکھا ترک دنیا کا پھر اس پردے میں دنیا چاہنی بڑا وبال ہے۔ (موضع) ف 8 حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ آنحضرت نے فرماا : ایماندار رہنے والوں سے مراد وہ لوگ ہیں جو مجھ پر ایمان لائے اور بے ایمانی سے مراد وہ ہیں جنہوں نے مجھ سے کفر کیا۔ الحديد
28 (ف 9 آ ان سے مراد وہ لوگ ہیں جو پہلے انبیاء پر ایمان رکھتے تھے۔ ف 10 ایک حصہ پہلے انبیاء پر ایمان لانے کا اور دوسرا حصہ آنحضرت پر ایمان لانے کا، اسی کی تشریح میں آنحضرت نے فرمایا : اہل کتاب میں سے جو شخص اپنی نبی پر ایمان اور اپھی مجھ پر ایمان لے آیا سے دوکہرا اجر ملے گا ابن کثیروالا یا جس سے تم دنیا میں دین کی صحیح راہ پر چلنے لگوے گے۔ دونوں صورتوں میں روشنی سے مراد و کتاب پر سنت کی روشنی ہے الحديد
29 ۔ ف 12 یہاں اللہ کے فضل سے مراد وہی ہے جس کا اوپر ذکر ہوا ہے۔ یعنی دوہرا اجر اور گناہوں کی معافی ف 13 آیت کا یہ مطلب اس صورت میں ہے جب ” لئلاء“ میں ” لا“ کو زائدہ مانتے ہوئے اس کاترجمہ ” تاکہ“ کیا جائے اور اکثر مفسرین اسی طرف گئے ہیں۔ شاہ صاحب نے بھی اس کا ترجمہ ” تاکہ جانیں کتاب والے“ ہی کیا ہے اور اس پر فائدہ میں لکھتے ہیں یعنی اہل کتاب پیغمبروں کا احوال سن کر پچھتاتے کہ ہم ان سے دورپڑے ہم کو وہ درجے ملنے محال ہیں سو یہ رسول اللہ نے کھڑا کیا اس کی صحبت میں وہ مل سکتا ہے آگے سے دو ناکمال اور اللہ کا فضل بند نہیں ہوگیا ہے۔ “ الحديد
0 ف 1 یہ پوری سورۃ مدینہ منورہ میں نازل ہوئی۔ اس پر سب کا اتفاق ہے۔ البتہ ایک روایت میں عطاء اس کی پہلی آیتوں کو مکی قرار دیتے ہیں۔ (فتح القدیر) المجادلة
1 ف 2 یہ عورت جیسا کہ تعلقات صحیح بخاری وغیرہ میں حضرت عائشہ اور بعض دوسرے صحابہ کی روایات سے معلوم ہوتا ہے۔ خولہ بنت ثعلثہ تھیں۔ ہوا یہ کہ ان کے خاوند اوس بن صامت پر دماغی عدم توازن کا اخر تھا۔ ایک متربہ انہیں دورہ پڑا تو انہوں نے خولہ سے یہ کہہ دیا کہ تو مجھ پر ایسی ہے جیسے میری ماں کی پیٹھ اصطلاح میں اسے ظہار کہتے ہیں اور یہ زمانہ جاہلیت میں طلاق شمار ہوتات ھا۔ اس کے بعد اوس شرمندہ ہوئے اور خولہ مسئلہ دریافت کرنے کے لئے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔ آپ نے فرمایا کہ اس معاملے میں اللہ تعالیٰ نے کوئی خاص حکم نازل نہیں فرمایا۔ میں خیال کرتا ہوں کہ تو اس پر حرام ہوگئی۔ اب تم دونوں کیونکر مل سکتے ہو۔ وہ شکوہ اور آہ و زاری کرنے لگیں۔ کبھی رسول اللہ علیہ وسلم سے عرض کرتیں۔ ” اے اللہ کے رسول ! ! انہوں نے مجھے طلاق تو نہیں دی۔“ اور کبھی آسمان یک طرف منہ اٹھا کر کہتیں۔ اے میرے خدا ! اب میں کیا کروں۔ میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ انہیں اگر ان کے باپ کو دے دوں تو وہ برباد ہوجائیں گے اور اگر نہ دوں تو انہیں کہاں سے کھلائوں گی؟ الغرض اسی طرح روتی پیٹتی ہیں اور یہ کہتی رہیں کہ میری جوانی تو ان کے پاس گزری، اب بڑھاپا لے کر کہاں جائوں گی؟…آنحضرت ﷺ خاموشی سے ان کی باتیں سنتے رہے۔ اتنے میں حضرت جبرئیل یہ آیتیں لے کر نازل ہوئے اور خولہ کی برکت سے رہتی دنیا تک تمام عورتوں کا بھلا ہوگیا۔ مسند ابن ابی حاتم کی ایک روایت میں ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر اپنی خلافت کے زمانہ میں سوار کہیں جا رہے تھے کہ ایک بڑھیا نے سواری روک لی اور آپ خاصی دیر تک توجہ سے اس کی باتیں سنتے رہے یہاں تک کہ جب اس کی ضرورت پوری ہوگئی تو وہ چل گئی۔ لوگوں نے عرض کیا۔ ” امیر المومنین ! یہ کیا ہوا کہ ایک بڑھیا کے روکنے پر آپ رک گئے اور آپ کیساتھ بہت سے دوسرے لوگوں کو بھی رکنا پڑا۔“ فرمایا ! ” جانتیہو کہ یہ بڑھیا کو نتھی؟“ لوگوں نے کہا ” نہیں۔“ فرمایا یہ خولہ بنت ثعلبہ تھی جس کی فریاد اللہ تعالیٰ نے سات آسمانوں سے سنی۔ بھلا عمر کی کیا مجالت ھی کہ اس کی بات نہ سنتا۔ اگر وہ مجھے صبح تک بھی روکے رکھتی تو میں رکا رہتا اور درمیان میں صرف نماز ادا کرنے کے لئے جاتا۔“ (ابن کثیر) ظہار کے حکم کی تفصیل آگے آرہی ہے المجادلة
2 ف 3 اس کا کرم اور رحم ہے کہ اس نے ظہار کا کفارہ مقرر کر کے اس سے نکلنے کا راستہ پیدا کردیا۔ اگر واقعی بیوی کو ماں کی پیٹھ سے تشبیہ دینے سے اسے طلاق ہوجاتی تو بڑی مشکل پڑتی۔ المجادلة
3 المجادلة
4 ف 4 اگر بلا عذر ایک روزہ بھی ناغہ کرے تواز سر نو دو مہینے کے روزے رکھے اور اگر عذر سے ناغہ کرے۔ (جیسے سفر یا بیماری کی وجہ سے) تو امام سعید بن مسیب حسن بصری مالک اور شافعی کہتے ہیں کہ صرف بقیہ روزے پورے اور امام ابوحنیفہ کہتے ہیں کہ دوبارہ از سر نو دو مہینے کے روزے رکھے۔ (فتح القدیر) ف 5 ضروری نہیں کہ سب کو ایک وقت میں کھانا کھلائے، بلکہ یہ جائز ہے کہ بعض کو ایک دن کھانا کھلائے اور بعض کو کسی اور دن۔ (فتح القدیر) ف 6 اصل لفظ کافرین استعمال ہوا ہے۔ معلوم ہوا کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے حکموں کہو نہیں مانتے، وہ حقیقت میں کافر ہیں چاہے مردم شماری کی رو سے مسلمانوں میں شمار ہوتے ہوں۔ ف 7 حضرت ابن عباس کا بیان ہے کہ جب ظہار کا یہ حکم نازل ہوا تو رسول اللہ ﷺ نے خولہ سے فرمایا :” جائو اپنے خاوند سے کہو کہ ایک غلام آزاد کرے۔“ خولہ نے کہا ” یا رسول اللہ ! وہ غریب سے اور اس کے لئے غلام آزاد کرنا ممکن نہیں۔“ فرمایا ” تو اسے چاہئے کہ دو مہینے کے لگاتار روزے رکھے۔ خولہ نے کہا ” اللہ کی قسم وہ بہت بوڑھا ہے۔ روزے رکھنے کی اس میں طاقتن ہیں۔ فرمایا ” تو اسے چاہئے کہ ایک وسق کھجوریں ساٹھ مسکینوں کو کھلائے۔“ خولہ نے کہا ” اس کے لئے ایسا کرن ابھی ممکن نہیں۔“ فرمایا ” اچھا تو میں ایک عرق پیمانہ کھجوریں دے کر اس کی مدد کروں گا۔“ خولہ نے کہا ایک عرق میں دونگی فرمایا تم نے بہت اچھا کیا جائو اتنی کھجوریں اس کی طرف سے صدقہ کر دو اور اپنے چچا کے لڑکے یعنی اپنے شوہر سے اچھا برتائو کیا کرو۔“ (فتح القدیر بحوالہ بہیقی ابن مردویہ وغیرہ) المجادلة
5 ف 8 کھلی کھلی نشانیوں (یا آیتوں) سے مراد وہ نشانیاں (آیتیں) ہیں جو محمد ﷺ کی صداقت پر ناقابل تردید شہادت پیش کرتی ہیں۔ المجادلة
6 ف 1 یعنی ایک ایک کر کے اس کے ریکارڈ میں محفوظ ہیں اور یہ ریکارڈ قیامت کے روز ان کے سامنے آجائیگا ف 2 یعنی کوئی چیز اس سے پوشیدہ نہیں ہے۔ غیب یا پوشیدہ جو کچھ ہے۔ وہ دوسروں کی نسبت سے ہے نہ کہ خود اس کی نسبت المجادلة
7 ف 3 یعنی اسے ان کی کانا پھوسی کی اطلاع ہوتی ہے اور وہ اپنے علم کے ذریعہ ان کے پاس موجود ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہونے کے اس مفہوم پر بعض مفسرین نے سلف کا اجماع نقل کیا ہے۔ (ابن کثیر) المجادلة
8 ف 4 مفسرین نے لکھا ہے کہ منافقوں اور یہودیوں کی عادت تھی کہ جب وہ کسی مسلمان کو آتادیکھتے تو علیحدہ ہو کر سرگوشیاں کرنے لگتے، تاکہ گزرنے والا مسلمان یہ سمجھے کہ وہ اس کے یا پیغمبر کے خلاف کوئی سازش کر رہے ہیں اور پھر اس مسلمان کو تنگ کرنے کے لئے ایک دوسرے کو آنکھ بھی مارتے مسلمانوں کو اس سے بڑا رنج ہوتا چنانچہ انہوں نے آنحضرت سے اس کا ذکر کیا۔ آنحضرت نے ان یہودیوں اور منافقوں کو بلا کر علیحدہ سرگوشیاں کرنے سے منع فرمایا۔ لیکن وہ باز نہ آئے اور اپنی عادت پر قائم رہے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیات فرمائیں۔ (ابن کثیر) ف 5 یہ خاص طور پر یہودیوں کی عاد تھی کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آتیتو معروف طریقہ سے السلام علیک کہنے کی بجائے السام علیک کہتے۔ سام کے معنی موت کے ہیں۔ اس سے ان کی مراد یہ ہوتی کہ آپ کو موت آجائے۔ آنحضرت بھی ان کے جواب میں صرف علیکم یا وعلیکم (یعنی تم پر) فرما دیتے اور بعض اوقات یہود ان حرکات کا اعتراف بھی کرلیتے۔ اس لئے آنحضرت نے مسلمانوں سے فرمایا :” جب اہل کتاب میں سے کوئی شخص تمہیں سلام کریتو اس کے جواب میں ” علیک“ کہا کرو ایک مرتبہ چند یہودی آنحضرت کی خدمت میں آئے اور انہوں نے حسب عادت السام علیک یا ابالقاسم“ کہہ کر سلام کیا حضرت عائشہ فرماتی ہیں۔ میں نے ان کے جواب میں ” علیکم السام و العنۃ“ کہا یعنی تم پر موت اور لعنتہو۔ اس پر آنحضرت نے فرمایا : ” عائشہ ! اللہ تعالیٰ فحش گوئی کو پسند نہیں کرتا … اگر وہ ایسا کہیں تو تم ان کے جواب میں صرف ” وعلیکم“ کہہ دیا کرو۔ (شوکانی) ف 6 یعنی جلد کیوں کرتیہو ایسی سزا ملے گی کہ اس کے ہوتے کسی دوسری سزا کی ضرورت نہ رہے گی۔ اب رہی پیغمبر کی صداقت تو اس کے لئے یہی دلیل کافی ہے کہ اسے تمہارے دل کی بات کا پتا چل گیا اور ایسا اللہ تعالیٰ کے بتلائے ہی سے ہوسکتا تھا۔ المجادلة
9 ف 7 دیکھئے سورۃ نساء آیت : 114 صحیحین میں حضرت ابن سعود سے روایت ہے کہ آنحضرت نے فرمایا : جب تم تین آدمی ہو تو تم میں سے چاہئے اس لئے کہ اس سے اس تیسرے آدمی کو رنج ہوگا کہ نہ معلوم میرے خلاف کوئی بات کررہے ہیں۔ (ابن کثیر) المجادلة
10 ف 1 ” کیونکہ جس کا وہ حامی و مددگار ہوگا اس کا کوئی کچھ نہ بگاڑ سکے گا کہتے ہیں کہ آنحضرت جب کوئی لشکر روانہ فرماتے تو منافقین مسلمانوں کو رنج دینے کے لئے یوں کانا پھوسیاں کرتے کہ افسوس یہ لشکر والے سب مارے گئے اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں دیا (وحیدی) المجادلة
11 ف 2 اس آیت میں مسلمانوں کو آداب مجلس کی تعلیم ہے کہ ذرا کھل کر بیٹھا کرو تاکہ دوسرے مسلمان بھائیوں کو تکلیف نہ ہو، البتہ اگر بالکل جگہ نہ ہو تو دوسری بات ہے احادیث میں آداب مجلس کی تفصیل دیکھ لی جائے۔ علامہ قرطبی فرماتے ہیں کہ یہ حکم ہر اس مجلس کے لئے ہے جس میں مسلمان کسی نیک کام کے لئے جمع ہوں۔ (شوکانی) ف 3 یعنی جب تمہیں کسی نیک کام کے لئے بلایا جائے تو سستی نہ کرو بلکہ چلنے کو فوراً تیار ہوجائو۔ (شوکانی) ف 4 یعنی سچا ایمان اور صحیح علم آدمی کو ادب و تہذیب سیکھاتا ہے اور تواضح سے انسان کے مراتب بلند ہوتے ہیں ایک حدیث میں ہے ہے کہ من تواضح للہ رفعہ اللہ یہ کام اکھڑا اور متکبر قسم کے جاہلوں کا ہے کہ وہ صرف اتنی سی بات پر بگڑ جاتے ہیں کہ ہمیں دوسروں کے لئے کھلے ہو کر بیٹھنے یا مجلس سے اٹھ جانے کے لئے کہا گیا۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ ” اتنی حرکت کرنے (یعنی دوسرے کو جگہ دینے اور دائرہ مجلس کو وسیع کرنے) میں غرور نہ کریں۔ خوئے نیک پر اللہ مہربان ہے اور بدخو سے اللہ بیزار۔ (موضح) المجادلة
12 ف 5 یعنی ایسے شخص پر صدقہ دینا فرض نہیں۔ وہ اس کے بغیر بھی نبی ﷺ کے کان میں کچھ کہہ سکتا ہے ہوا یہ کہ بہت سے منافقی نے محض اپنی بڑائی جس نے کے لئے نبی ﷺ سے سرگوشیاں کرنی شروع کردیں۔ اس سے دوسرے لوگوں کو بھی تکلیف ہوتی کیونکہ انہیں استفادہ کا موقع نہ ملتا اور خود نبی ﷺ پر بھی ان کا یہ طرز عمل شاق گزرتا لیکن آپ مروت و الخقا کے سبب کسی کو منع نہ فرماتے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ جو شخص بھی آپ سے علیحدگی میں گفتگو کرنا چاہئے۔ وہ اس سے پہلے صدقہ دے کر آیا کرے۔ منافقین نے بخل کے مارے آپ ہی آپ سرگوشی کم کردی۔ اور مطلب حاصل ہوگیا اور بعد میں یہ حکم منسوخ بھی ہوگیا۔ جیسا کہ اگلی آیت میں آرہا ہے۔ کذافی الموضح) المجادلة
13 ف 6 یعنی کیا ڈر گئے کہ ہمارا سارا مال ہی صدقہ میں خرچ ہوجائو گا؟ ف 7 یعنی صدقہ دینے کے حکم سے جو مقصد تھا وہ حاصل ہوگیا اس لئے ہم نے یہ حکم جو وقتی طور پر دیا گیا تھا منسوخ کردیا لیکن اس کے ساتھ یہ ضروری ہے کہ ان احکام کو پوری پابندی سے بجا لاتے رہو جو کبھی منسوخ ہونے والے نہیں ہیں جیسے نماز زکوۃ اور ہر عاملہ میں اللہ رسول کی اطاعت اسی سے تزکیہ نفس ہوتا رہے گا۔ فان لم تفعلوا تو خیر جب تم ایسا نہ کرسکے) سے معلوم ہوتا ہے کہ صدقہ دینے کا یہ حکم بہت تھڑوی مدت اور عام مسلمانوں کے اس پر عمل کرنے کی نوبت ہی نہیں آئی اس لئے بعض روایات میں حضرت علی فرماتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی کاتب میں ایک آیتی ایسی ہے جس پر نہ مجھ سے پہلے کسی نے عمل کیا اور نہ میرے بعد کوئی اس پر عمل کرسکے گا۔ یاھا الذین امنوا اذا ناجیتم الرسول فقد موا بین یدی بخونکم صدقۃ میرے پاس ایک دنیار تھا میں نے اسے دس درہموں میں فروخت کردیا۔ میں جب بھی رسول اللہ ﷺ میں گفتگو کرتا توایک درہم صدقہ کردیتا پھر اگلی آیت سے آیت منسوخ ہوگئی اور کسی کو اس پر عمل کرنے کا موقع میسر نہ آیا۔ علما نے تفسیر نے یہ قصہ نقل کیا ہے۔ واللہ اعلم (شوکانی وغیرہ) المجادلة
14 ف 8 بلکہ دونوں کے درمیان لٹک کر رہ گئے جیسا کہ دوسری آیت میں فرمایا : ” مذبذبین بین ذلک لا الی ھولاء ولا الی ھو لاء ومن تصل اللہ فلن تجدلہ سبیلاً وہ اس کے درمیان لٹکے ہوئے ہیں، نہ ان کی طرف ہیں اور نہ ان کی طرف اور جسے اللہ گمراہ کر دے اس کے لئے تم کوئی نجات کی راہ نہ پائو گے۔“ (نساء 183) ف 9 یعنی مسلمانوں کو قسمیں کھا کھا کر کہتے ہیں کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں اور یہودیوں سے ہماری ہرگز دوستی نہیں ہے، حالانکہ یہ بالکل جھوٹ ہے۔ المجادلة
15 ف 10 اسی کو دوسری آیت میں یوں فرمایا ان المنافقین فی الدزک الاسفل من الناس ولن تجدلھم نصیراً بیشک منافق دوزخ کے سب سے نچلے طبقہ میں ہوں گے اور تم ان کے لئے کوئی مددگار نہ پائو گے۔ (النساء 125) ف 10 یعنی منافقین جن کی مخالفت کرتے رہے۔ المجادلة
16 ف 1 یعنی جیسے ڈھال سے تلوار کا حملہ روکا جاتا ہے، اسی طرح یہ منافقین جھوٹی قسمیں کھا کر مسلمانوں سے اپنی جان اور اپنا مال بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ المجادلة
17 ف 2 جنہیں بچانے کے لئے وہ جھوٹی قسمیں کھاتے ہیں۔ المجادلة
18 “ ف 3 جو اللہ تعالیٰ کے حضور بھی جھوٹ بولنے سے باز نہ آئیں گے۔ حالانکہ وہ تو دلو تک کا حال جاننے والا ہے۔ المجادلة
19 “ ف 4 انہیں دنیا کی رنگ رلیوں میں ایسا مست کردیا کہ وہ بھول گئے کہ کوئی خدا بھی ہے جس سے ڈرنا چاہیے اور اس کے احکام و فرامین پر عمل کرنا چاہئے ف 5 اس سے بڑھ کر تباہی کیا ہوگی کہ انہوں نے جنت کو دوزخ کے بدلے اور ہدایت کو گمراہی کے بدلے بیچ ڈالا۔ المجادلة
20 المجادلة
21 ف 6 یعنی جن پیغمبروں کو جہاد کا حکم دیا گیا ہے وہ بذریعہ تلوار اور دلیل اور جن کو جہاد کا حکم نہیں دیا گیا وہ بذریعہ دلیل دوسروں پر غالب آ کر رہیں گے۔ المجادلة
22 ف 7 مطلب یہ یہ کہ اللہ و آخرت پر ایمان اور اللہ و رسول کے دشمنوں سے دوستی دو ایسی چیزیں ہیں جو ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتیں۔ ف 8 یہ آیت صحابہ کرام کی شان میں نازل ہوئی۔ چنانچہ حدیث و سیرت کی کاتبوں میں ہے کہ جنگ بدر میں حضرت ابوعبیدہ نے اپنے والد کو قتل کیا۔ جنگ اس میں حضرت ابوبکر صدق اپنے بیٹے عبدالرحمٰن کے مقابلے میں نکلے۔ حضرت مصعب بن عمیر نے اپنے بھائی عبید بن عمر کو اور حضرت عمر نے اپنے ماموں قاص بن ہشام کو اور حضرت علی حمزہ اور عبیدہ بن حارث نے عتبہ شبیہ اور ولید بن قلبہ کو (جو ان کے قریبی رشتہ دار تھے) قتل کیا رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کے بیٹے عبداللہ نے جو مخلص مسلمان تھے آنحضرت سے عرض کیا کہ ” اے اللہ کے رسول اگر آپ حک دیں تو میں اپنے باپ کا سر کاٹ کر آپ کی خدمت میں حاضر کر دوں۔“ آپ نے منع فرمایا۔ الفرض ان صحابہ نے اللہ و رسول کے مقابل ہمیں اپنے قریبی رشتہ داروں تک کی پروا نہ کی۔ یہ بات ان کے مناقب میں سنہری حروف میں لکھی جانے کی ہے۔ (ابن کثیر وقرطی) ف 9 یا ” اپنے فیض غیب سے انکی مدد کی“ یعنی انہیں وہ غیبی نور عطا فرمایا جس سے دل کو اطمینان و سکون اور روح کو تقویت حاصل ہوتی ہے اور پھر دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت انہیں شکست نہیں دے سکتی۔ صاحب جامع البیان لکھتے ہیں :” یہاں روح سے مراد غلبہ یا نور ایمان ہے واللہ اعلم ف 1 یہ ہے وہ تصدیق نامہ جو صحابہ کرام کو اللہ تعالیٰ کی جناب سے حاصل ہوا۔ بایں ہمہ کیا ان لوگوں کی بدبختی کا اندازہ ہوسکتا ہے جو ان کو برا کہتے ہیں؟ شاہ صاحب لکھتے ہیں : یعنی جو دوستی نہیں رکھتے اللہ کے مخالف سے اگرچہ باپ بیٹا ہو وہی سچے ایمان والے ہیں۔ ان کو یہ درجے ہیں المجادلة
0 الحشر
1 ف 2 یہ سورۃ بالاتفاق غزوہ بنی نفسیر کے بعد مدینہ منورہ میں نازل ہوئی۔ (شوکانی) ف 3 یعنی بعض زبان حال سے اور بعض زبان قال سے گواہی ہی دے رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر عیب اور ہر نقص سے پاک ہے۔ الحشر
2 ف 4 بنو نضیر یہودیوں کا ایک قبیلہ تھا جو مدینہ منورہ کی مشرقی جانب چند میل کے فاصلہ پر آباد تھا۔ یہ لوگ بڑے طاقتور اور سرمایہ دار تھے اور انہیں اپنے مضبوط قلعوں پر بڑا ناز تھا دراصل ان کے آباء و اجداد فتنہ بنی اسرائیل کے زمانہ میں اس نیت سے مدینہ منورہ میں آباد ہوئیتھے کہ جب نبی آخر الزمان کا ظہور ہوگا تو وہ ان پر ایمان لائیں گے۔ مگر آنحضرت کی بعثت کے بعد انہوں نے نہ صرف ایمان لانے سے انکار کردیا بلکہ الٹے آپ کی مخالفت پر کمر بستہ ہوگئے۔ جب آنحضرت نے ہجرت کر کے مدینہ تشریف بے گئے تو بظاہر انہوں نے معاہدہ کرلیا مگر در پردہ قریش مکہ کے ساتھ مل کر سازشیں کرتے رہے اور ایک موقع پر انہوں نے اسکیم بنائی کہ آنحضرت پر اوپر سے پتھر اگر آپ کو قتل کردیا جائے۔ ان کی اس قسم کی شرارتوں سے تنگ آ کر بالاخر آنحضرت نے ان پر چڑھائی کی اور وہ اپنے قلعوں میں محصور ہوگئے۔ مسلمانوں نے اللہ کے حکم سے جنگی تدبیر کے طور پر ان کے بہت سے درخت کاٹ ڈالے۔ بالآخر انہوں نیصلح کرلی اور یہ طے پایا کہ مدینہ خالی کردیں اور جتنا مال اٹھا کرلے جاسکتے ہیں لے جائیں۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا اور اپنے مکانوں کے شتیر تک اکھاڑ کرلے گئے۔ یہ لوگ کچھ خیبر اور باقی شام چلے گئے۔ ان آیات میں اسی واقعہ کی طرف اشارہ ہے۔ چونکہ یہود کے لئے جلا وطنی کا یہ پہلا موقعہ تھا اس لئے اسے پہلا حشر کہا گیا ہے۔ یا پہلی جلا وطنی مدینہ سے خیبر کی طرف ہوئی اور دوسری مرتبہ حضرت عمر کے زمانہ میں انہیں خیبر سے شام بھیج دیا گیا۔ الحشر
3 ف 5 جن قتل ہوتے یا قید ہوتے یا بیماری وغیرہ سے ہلاک ہوتے جیسا کہ بنو قریظہ کا یہی حشر ہوا۔ الحشر
4 الحشر
5 ف 6 جب اسلامی لشکر نے جنگی تدبیر کے طور پر بنی نضیر کے درخت کاٹے اور آگ بھی لگائی تو یہود نے یہ صورت حال دیکھ کر آنحضرت کو آواز دی اور کہا ” اے محمد آپ کا دعویٰ ہے کہ آپ اللہ کے بنی ہیں اور اصلاح کرنی چاہتے ہیں۔ کیا ان درختوں کا کاٹنا اور جلانا بھی اصلاح ہے؟“ ان کی یہ بات آنحضرت اور مسلمانوں پر شاق گزری۔ ان کے جواب میں یہ آیت اتری (شوکانی) اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنحضرت کو قرآن کے علاوہ اور احکام بھی دیئے گئے ہیں کیونکہ یہاں جس کے متعلق فرمایا ہے کہ ” انہوں نے اللہ کے حکم سے کیا۔ ظاہر ہے کہ یہ قرآن میں نہیں ہے بلکہ وحی کے ذریعہ سے دیا گیا ہے جسے حدیث کہا جاتا ہے مطلب یہ ہے کہ وحی صرف قرآن تک محدود نہیں ہے۔ الحشر
6 ف 1 یعنی غالب کرتا ہے۔ ف 2 مسلمان کافروں سے جو مال لڑکر حاصل کریں۔ اسے غنیمت کہا جاتا ہے جس کے احکام سورۃ انفال آیت 41 میں گزر چکے ہیں اور جو مال لڑائی کے بغیر حاصل ہوا سے قے کہا جاتا ہے۔ اس میں فوج کا حصہ نہیں ہوتا بلکہ وہ خلاصہ اللہ و رسول اور ان لوگوں کا حصہ ہوتا ہے جن کا ذکر اگلی آیت میں آرہا ہے۔ بنو نضیر کے اموال چونکہ صلح نامہ کے تحت حاصل ہوئے تھے۔ اس لئے قرآن نے اسے اموال فے قرار دیا۔ ان کو آنحضرت نے مہاجرین میں تقسیم کردیا۔ اس طرح انصار پر سے ان کا بار ہلکا ہوگیا اور کچھ حصہ آنحضرت نے رکھ لیا اس سے جو آمدنی ہوتی اس سے اپنے گھر والوں کے لئے سال بھر کا خرچ نکال لیتے اور جو بچتا اے اللہ کی راہ میں صرف کردیتے۔ (ابن کثیر) الحشر
7 ف 3 یعنی اس کی تقسیم کے جو مصارف بیان کئے گئے ہیں وہ اس لئے ہیں کہ یتیموں، بیکسوں کی خبر گیری ہوتی رہے اور یہ محض دولت مندوں ہی کلٹ پھیر میں پڑ کر انہی کی جاگیریں کر نہ رہ جائے۔ ف 4 یعنی زندگی کے کسی معاملے کے متعلق آنحضرت کا جو حکم ہوا اس پر عمل کرو۔ اور جس سے آپ منع فرمائیں اس سے باز ہو۔ اس آیت نے آنحضرت کے حکم کو ایک مستقل تشریع کی حیثیت دی ہے اور اسے قرآن کی معوافقت کے ساتھ مقید نہیں فرمایا۔ لہٰذا آنحضرت کا جو حکم بذریعہ صحیح روایت ثابت ہوگا وہ واجب العمل ہوگا اور کسی حکم کے قرآن میں بالتصریح مذکور نہ ہونے کے یہ معنی نہیں ہیں کہ وہ حکم قرآن کے خلاف ہے۔ ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن مسعود نیفرمایا : اللہ تعالیٰ نے افزائش حسن کے لئے ہاتھ گود نے مصنوعی بال لگانے اور فتوں میں سوراخ کرنیوالی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے۔ اس پر ایک عورت نے کہا کہ قرآن میں تو یہ مسئلہ نہیں ہے … حضرت عبداللہ بن مسعود نے فرمایا اگر تم نے واقعی قرآن پڑھا ہوتا تو وہ تمہیں ضرور مل جاتا کیا تم نے آیت ” وما اتاکم الرسول فخذوہ ومانھاکم عنہ فانتھوا“ نہیں پڑھی اس نے جواب دیا کہ ” ہاں پڑھی ہے“ فرمایا تو اللہ کے رسول نے اس سے منع فرمایا ہے۔ (روح المعانی) ایک حدیث میں آنحضرت نے تصریح فرمائی ہے۔ ” سن رکھو ! مجھے قرآن ملا ہے اور اس کے ساتھ دیسی ہی ایک اور چیز یعنی سنت جس پر عمل کرنا بھی اسی طرح ضروری ہے۔ الحشر
8 ف 5 یعنی جنہیں کفار مکہ نے ان کے گھر بار سے نکال دیا اور مال و دولت سے محروم کردیا۔ ف 6 اللہ کے فضل سے مراددنیا کی روزی اور اس کی رضا مندی سے مراد آخرت کا ثواب ہے۔ ف 7 یعنی دین اسلام کی راہ میں کفار سے جہاد کرتے ہیں۔ الحشر
9 ف 8 بلکہ خوش ہوتے ہیں کہ ہمارے یہ مہاجر بھائی آرام سے آیت میں مہاجرین مراد ہیں اور اس آیت میں انصار، (از موضح) ف 9 صحیحین میں حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ آنحضرت کی خدمت میں ایک شخصحاض رہوا اور اس نے اپنی محتاجی کا ذکر کیا … حضرت ابوطلحہ اسے اپنے ساتھ لے گئے اور بیوی سے کہا یہ اللہ و رسول کا مہمان ہے۔ بیوی نے کہا۔ واللہ میرے پاس صرف بچوں کا کھانا ہے۔ ابو طلحہ نے کہا کہ بچوں کو سلا دو اور جب کھانا رکھو تو چراغ بجھا دینا تاکہ وہ ان کھالے اور ہم بھوکے رہیں۔ صبح کیقوت مہان آنحضرت کی خدمت میں حاضر ہوا آپ نے فرمایا ” رات ان دونوں نے جو کام کیا اللہ تعالیٰ اس سے بہت خوش ہوا اور ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔ صحابہ کرام میں ایثار کا یہ جذبہ بے پناہ پایا جاتا تھا کتب حدیث میں اس قسم کے متعدد واقعات مذکور ہیں۔ الحشر
10 ف 10 ان سے مراد بعد میں ہجرت کر کے آنے والے صحابہ بھی ہیں اور قیامت تک آنے والے وہ مسلمان بھی جو صحابہ کرام کے نقش قدم پر چلیں۔ ف 1 پہلے ایمان لانے والوں میں صحابہ کرام بذریعہ اولی شامل ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو شخص اسلام کا دعویٰ کرنیکے باوجود صحابہ کرام کی پوری جماعت کے لئے مغفرت اور روضان کی دعا نہیں کرتا وہ اللہ تعالیٰ کے اس آیت میں دیئے ہوئے حکم کی خلاف ورزی کرتا ہے اور اگر وہ اپنے دل میں ان کی طرف سے کینہ رکھتا ہے تو وہ دراصل شیطان کا پیروی ہے کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندوں اور امت محمدیہ کے بہترین طبقہ کے خلاف اپنے دل میں دشمنی رکھتا ہے اور اگر وہ مرنے سے پہلے اپنی اس روش سے توبہ نہیں کرتا تو حقیقت یہ ہے کہ اس کا خاتمہ بالخیر نہیں ہے۔ الحشر
11 ف 2 منافقوں کو اہل کتاب ابنی نفیر وغیرہ) کا بھائی فرمایا۔ کیونکہ ان یک درمیان کفر قدر مشترک تھی اگرچہ دونوں کے کفر کی نوعیت مختلف تھی۔ الحشر
12 ف 3 چنانچہ جب بنی نضیر کا محاصرہ کیا گیا اور انہیں جلا وطن کیا گیا تو ابن ابی منافق اور اس کے ساتھی ان کی کسی طور مدد نہ کرسکے حالانکہ وہ اس سے پہلے ان تک اس طرح کے پیغامات بھیجتے رہے تھے۔ لہٰذا منافقین کی طرف سے ہرگز فکر مند نہ ہوں۔ الحشر
13 ف 4 یعنی بنتے تو بڑے عقلمند ہیں اور اسی لئے دوغلے پن کی راہ چل رہے ہیں۔ لیکن حقیقت ہے کہ ان سے بڑھ کر کوئی بیوقوف نہیں۔ آخرت تو آخرت اپنی دنیا بھی تباہ کر رہے ہیں۔ الحشر
14 ف 5 جیسا کہ نامردوں اور بزدلوں کا قاعدہ ہوتا ہے۔ میدان میں آنا پسند نہیں کرتے بلکہ مکانوں اور قلعوں کی آڑ لے کر دور ہی سے لڑنا پسند کرتے ہیں۔ محفوظ بستیوں سے مرادقلعے یا وہ بستیاں ہیں جن کے گرد فصیل یا خندق ہوتی ہے۔ ف 6 اگر عقل رکھتے تو حق کو پچانتے الحشر
15 ف 7 یہی مفہوم شاہ صاحب نے اپنے فوائد میں ذکر کیا ہے اور ہوسکتا ہے کہ ان سے ” یہود بنی فیقاع“ مراد ہوں جن کو رسول اللہ ﷺ نے بنی نفیر سے تھوڑی مدت پہلے مدینہ سے نکال دیا تھا۔ یہ قول قتادہ اور محمد بن اسحاق کا ہے۔ اس یہی ٹھیک معلوم ہوتا ہے۔ ابن کثیر الحشر
16 ف 1 شیطان کو حقیقت میں خدا کا ڈر نہیں ہے محض آدمی سے پچیھا چھڑانے کے لئے اس سے کہتا ہے کہ مجھے خدا کا ڈر ہے اس لئے مجھے اپنی مدد سے معذور سمجھو۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں : ” شیطان آخرت میں یہ کہے گا اور بدر کے دن بھی ایک کافر کی صورت میں لوگوں کو لڑواتا تھا۔ جب فرشتے نظر آئے تو بھاگا۔ یہ کہاوت ہے منافقوں کی۔“ مطلب یہ ہے کہ منافق بھی یہود کو ایسا دھوکہ دیتے ہیں جب شیطان نے انسان کو دیا۔ (جامع البیان) الحشر
17 الحشر
18 الحشر
19 ف 2 یعنی اپنی نجات کی فکر سے غافل ہوگئے اور اس بنا پر گناہوں میں پڑے ہے اور عذاب آخرت سے بچنے کے لئے نیک اعمال کی راہ اختیار نہ کی۔ الحشر
20 الحشر
21 ف 3 یعنی افسوس کا مقام ہے کہ آدمی کے دل پر قرآن کا اثر نہیں ہوتا حالانکہ قرآن اپنی تاثیر قوت بیان اور مواعظ و نصائح پر مشتمل ہونے کے اعتبار سے اس قدر عظیم اللہ کتاب ہے کہ اگر پہاڑ جیسی سخت چیز بھی اترا جاتا اور اس میں سمجھا کا مادہ ہوتا تو وہ بھی اللہ تعالیٰ کے سامنے جھک جاتا اور خوف کے مارے پھٹ کر پارہ پارہ ہوجاتا۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں جبھی کافروں کے دل بڑے سخت ہیں کہ یہ کلا اس کو ایمان نہیں لاتے اگر پہاڑ سمجھے تو وہ بھی دب جائے۔ صموضع) الحشر
22 ف 4 کھلی اور چھپی باتیں“ دوسروں کے اعتبار سے فرمایا اور نہ اللہ تعالیٰ کے اعتبار سے تو ہر بات کھلی ہے۔ الحشر
23 ف 5 یا ان چیزوں سے پاک ہے جنہیں لوگ اکا شریک قرار دیتے ہیں۔ الحشر
24 “ ف 6 یعنی ان مذکورہ صفات کے علاوہ بھی اللہ تعالیٰ کے لئے صفات کمال ثابت ہیں جنہیں قرآن نے اسماء حسنی سے تعبیر کیا ہے ف 7 یعنی اپنی زبان حال بازبان قال سے شہادت دے رہے ہیں کہ وہ ہر عیب پر نقص سے پاک ہے۔ ف 8 بعض روایات میں جو اگرچہ ضعیف ہیں اس آیت کی فضیلت بیان ہوئی ہے۔ مثلاً حضرت انس سے روایت ہے کہ آنحضرت نے فرمایا ” جو شخص تین بار اعوذ باللہ السمیع العلیم من الظیطان الرجیم پڑھے، اور پھر سورۃ حشر کا آخری حصہ پڑھے۔ اللہ تعالیٰ اس کے پاس ستر ہزار فرشتے بھیج دیگا جو شیطان جنوں اور شیطان انسانوں سے اس کی حفاظت کرینگے۔ اگر رات کے وقت پڑھے گا تو صبح تک اور اگر دن میں پڑھے گا تو شام تک (شوکانی) الحشر
0 ف 1 یہ سورۃ بالاتفاق مدینہ منورہ میں نازل ہوئی۔ مفسرین کا بیان ہے کہ اس سورۃ کی ابتدائی آیات ایک صحابی (حاطب بن) ابی بلتعہ کے بارے میں نازل ہوئیں جو اگرچہ سچے اور پکے مسلمان تھے اور بدری صحابہ میں سے تھیلیکن ان سے ایک غلطی سر زد ہوگئی صلححدیبیہ کے بعد مسلمانوں کا کفار مکہ سے معاہدہ قائم تھا اور وہ دو برس قائم رہا لیکن اسی اثناء میں کفار مکہ نے خلاف ورزی شروع کردی۔ بنی ﷺ نے خاموشی کے ساتھ فوج جمع کر کے فتح مکہ کا ارادہ فرمایا اور خبروں پر پابندی لگا دی مبادا کفار مکہ کو اطلاع ہوجائے اور وہ لڑائی کا سامان شروع کردیں۔ حاطب نے ایک عورت کے ذریعہ کفار مکہ کو خط روانہ کیا کہ مسلمانوں کا لشکر تم پر حملہ آور ہونے والا ہے۔ آنحضرت کو بذریعہ وحی اس کی اطلاع ہوگئی اور حضرت علی اور ان کے ساتھ چند آدمی بھیج کر وہ خط راستہ میں پکڑ لیا اور خاطب سے دریافت کیا کہ تم نے یہ حرکت کیوں کی۔ تو اس نے جواب دیا کہ میرے اہل و عیال مکہ میں ہیں اور میں چاہتا تھا کہ کفار مکہ کی کچھ ہمدردی حاصل ہوجائے اور وہ میرے اہل و عیال کی خبرگیری کرتے ہیں۔ ان سے اچھا سلوک کریں۔ حضرت عمر کو یہ سن کر بہت غصہ آیا، مگر آنحضرت نے اس کا قصور معاف فرما دیا کیونکہ وہ بدری صحابہ میں سے تھے۔ یہ واقعہ صحیحین اور دوسری کتابوں میں مذکورہ ہے اور اس کے صحیح ہونے میں کسی قسم کا شبہ نہیں ہو سکتا۔ (ابن کثیر) الممتحنة
1 ف 2 یہ حاطب کی مذکورہ بالا غلطی کی طرف اشارہ ہے۔ ف 3 یا تم از راہ دوستی انہیں پیغام بھیجتے ہو۔ ف 4 اس لئے انکے دشمن خدا ہونے سے شک نہیں۔ ف 5 اس سے بڑا ظلم اور اس سے بھڑ کر اللہ تعالیٰ سے دشمنی اور کیا ہو سکتی ہے۔ ف 6 یا ” چپکے چپکے انہیں دوستی کا پیغام بھیجتے ہو۔“ ف 7 یہ دوسری بات ہے کہ وہ توبہ کرے اور اللہ تعالیٰ اس کی سچائی دیکھ کر اس کا قصور معاف فرما دے جیسا کہ آنحضرت ﷺ نے حاطب بن ابی مبلعہ کا قصور معاف فرما دیا۔ الممتحنة
2 ف 8 یعنی تمہارا چپکے چپکے ان سے دوستی گانٹھنا کوئی فائدہ نہ دے گا۔ الممتحنة
3 ف 9 یعنی تم اپنے ایمان کی بدولت جنت میں جائو گے اور وہ اپنے کفر کی بدلوت دوزخ میں تمہارا اور ان کا کیسا ؟ دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ تمہارا اور ان کا فیصلہ کر دیگا لہٰذا یہ کافر رشتہ دار تمہارے کسی کام نہ آئیں گے۔ الممتحنة
4 ف 1 یعنی ہماری راہ توحید کو اختیار نہ کرو گے۔ مطلب یہ ہے کہ جس طرح حضرت ابراہیم اور ان کے ساتھی اپنے شرک رشتہ داروں سے الگ ہوگئے تھے۔ اسی طرح تمہارا بھی یہ فرض ہے کہ اپنے مشرک رشتہ داروں سے کسی قسم کا تعلق رکھو۔ ف 2 یعنی اس قول میں حضرت ابراہیم کی پیروی جائز نہیں اور انہوں نے یہ وعدہ اس وقت کیا جب کہ حضرت ابراہیم کو معلوم نہ تھا کہ مشرک کے لئے مفغرت کی دعا کرنا جائز نہیں ہے۔ بعد میں جب انہیں معلوم ہوا کہ اللہ کے دشمن کے لئے مففرت کی دعا نہیں کی جاسکتی اور ان کا والد اللہ کا دشمن ہے تو وہ اس سے الگ ہوگئے۔ دیکھیے (توبہ 114) ف 3 یعنی صرف درخواست کرسکتا ہوں نفع کو نقصان کا مجھے اتخیار نہیں ہے۔ یہ اختیار صرف اللہ تعالیٰ کو ہے وہ اگر چاہے گا تو میری درخواست قبول فرما کر تمہیں بخش دے گا اور نہ میں اس سے زبردستی تمہاری بخشش نہیں کر اسکتا۔ الممتحنة
5 ف 4 یعنی ہمیں نیک عمل اور پختہ کردار کی توفیق دے ایسا نہ ہو کہ ہماری بد عملی اور اخلاقی کمزوری کو دیکھ کر یہ کافر ایمان لانے سے باز رہیں اور غلط راہوں پر چلتے رہیں۔ دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان کافروں کو ہم پر غلبہ نصیب نہ فرما۔ کیونکہ اس صورت میں وہ یہ سمجھیں گے کہ وہ حق پر ہیں اور ہم باطل پر اور اس طرح وہ ایمان لانے سے باز رہیں گے۔ الممتحنة
6 ف 5 یعنی آخرت کی بازپرس کا ڈر ہو۔ ف 6 یعنی اقنا نقصان آپ کرو گے۔ اللہ تعالیٰ کو کسی کی دوستی یا دشمنی کی کوئی پروا نہیں۔ وہ اپنی ذات سے تمام خوبیوں اور تمام کمالات کا مالک ہے تم دشمنی کر کے اسے کیا نقصان پہنچا سکتے ہو۔ الممتحنة
7 ف 7 یعنی اللہ تعالیٰ کی قدرت اور رحمت سے بعید نہیں ہے کہ جو کافر آج تمہارے بد ترین دشمن ہیں وہ کل انہیں توفیق دے اور وہ مسلمان ہوجائیں اور اس طرح تمہارے اور ان کے درمیان درست تعلقات قائم ہوجائیں۔ چنانچہ فتح مکہ کے بعد ایسا ہی ہوا۔ اس آیت سے مقصود مسلمانوں کو تسلی دینا ہے کہ کفار مکہ سے ترک موالات کا جو حکم دیا جا رہا ہے وہ صرف تھوڑے رصہ کے لئے ہے جلد ہی ایسے حالات پیش آئیں گے کہ تمہیں اس پر عمل کرنے کی ضرورت باقی نہ رہے گی۔ (موضح) الممتحنة
8 ف 8 ان سے مراد وہ عورتیں بچے بوڑھے اور بیمار لوگ ہیں جو جنگ نہیں کرسکتے یا وہ عرب قبائل جیسے خزاعہ اور بنو الحارث جو اگرچہ کافر تھے لیکن مسلمانوں کا ان سے معاہدہ تھا کہ وہ ان کے مقابلے میں قریش کی مدد نہ کریں گے اور وہ اپنے اس معاہدہ پر قائم ہے (ابن کثیر) حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں : مکے کے لوگوں میں سے بعض یاییس بھی تھے کہ آپ مسلمان نہ ہوئے ہونے والوں سے ضد بھی نہ کی۔“ آخر حضرت اسماء کا آنحضرت کی اجازت سے اپنی والدہ مشرکہ) کے ساتھ اچھا سلوک کرنا تو ثابت ہی ہے۔ الممتحنة
9 ف 9 یعنی تمہارے نکالنے میں ان کا ساتھ دیا۔ الممتحنة
10 ف 1 یعنی انہیں آزما لو کہ وہ حقیقت میں مسلمان ہیں بھی کہ نہیں؟ مسور بن محزمہ مروان بن حکم سے راوی ہے کہ جب حدیبیہ کے روز آنحضرت کا قریش سے معاہدہ ہوا تو کچھ مسلمان عورتیں آپ کے پاس چلی آئیں انہی کے بارے میں آیت نازل ہوئی (شوکانی) ف 2 یعنی اللہ تعالیٰ کو تو معلوم ہے کہ وہ ایماندار ہیں یا نہیں لیکن تمہیں چونکہ حقیقت حال نہیں ہے اس لئے ان عورتوں کو آزمائے بغیر اپنے ہاں پناہ نہ دو شاہ صاحب لکھتے ہیں : ” طاہر میں ان کا جانچنا یہ کہ اگلی آیت میں جو حکم ہیں یہ قبول کریں۔“ ف 3 اس سے معلوم ہوا کہ مسلمان عورت کا نکاح کافر ( مرد سے نہیں ہوسکتا اور کافر کی بیوی مسلمان ہوجائے تو اس سے کے شوہر سے جا کردیا اور اگر شوہر بھی مسلمان ہوجائے تو نکاح برقرار یہ کہ اگلی آیت میں جو حکم ہیں۔ ف 4 یعنی ان کی عدت گزر جانے کے بعد جیسا آلہ و جوب عدت سے دلائل سے معلوم ہوتا ہے۔ (شوکانی) ف 5 یعنی اگر شوہر مسلمان ہوجائے اور بیوی شرک پر قائم تو ایسی عورت کو چھوڑ دینا چاہئے۔ اس نے روجیت میں رکھنا جائز نہیں ہے البتہ اگر وہ کتابیہ (یہودی یا عیسائی) ہو تو اسے چھوڑنا ضروری نہیں ہے۔ محمد بن اسحاق نے امام زہری سے روایت کی ہے کہ جب یہ آیت اتری تو حضرت عمر نے اپنی دونوں کافروں کو طلاق دے دی۔ اسی طرح حضرت طلحہ نے بھی اپنی ایک بیوی کو طلاق دی۔ (ابن کثیر) ف 6 یعنی اگر وہ ان عورتوں کو اپنے پاس رکھنا چاہیں۔ ف 7 یعنی جب وہ عورتیں مسلمان ہو کر تمہارے پاس آئیں اور کافروں کو ان کی عورتوں کا مہر واپس کردینے کا حکم بسبب عہد کے تھا اور نہ یہ مراد جب نہیں۔ (جامع البیان) شاہ صاحب بھی لکھتے ہیں۔ ” یہ حکم جب تھا کافروں سے صلح ٹھہر گئئی تھی پھیر دینے پر اب یہ حکم نہیں مگر کہیں ایسی صلح کا اتفاق ہوجاوے۔ الممتحنة
11 ف 8 یعنی اگر کافر ان عورتوں کا مہر مسلمانوں کو واپس نہ کریں جو کافر ہو کر یا کافر رہ کر دارالاسلام سے کافر کے ہاں چلی جائیں تو مسلمانوں کو چاہئے کہ کافروں کو جو مال لوٹیں اس میں سے ان مسلمان شوہروں کا خرچ ادا کریں جن کی بیویاں داراظفر آجائیں یا دارالکفر سے جو عورتیں مسلمان ہو کر دارالاسلام آجائیں ان کے مہر کافروں کو واپس کرنے کی بجائے ان مسلمان شوہروں کو ادا کریں جن کی بیویاں دارالکفر بھگ جائیں …… کافروں کو سزا دینے کے مفہوم میں یہ دونوں چیزیں شامل ہیں یعنی لڑائی میں مال غنیمت حاصل کرنا یا مقابلہ میں ان کی عورتوں کا مہر ادا کرنا۔ مختلف مفسرین نے یہ دونوں معنی مراد لئے ہیں۔ چنانچہ حافظ بن کشمر لکھتے ہیں اس میں غاقب تم کے مفہوم میں وسعت ہے اگر کفار کا مہر ادا کرنا باقی ہو تو مسلمانوں کو وہ دے دیا جائے ورنہ مال غنیمت سے اس کے نقصان کا جبر کردیا جائے۔ ان جریدہ نے اس کو ترجیح دی ہے۔ واللہ الحمد واللہ ف 9 یعنی ایمان کے لئے تقویٰ شرط ہے یعنی انسان کے دل میں اللہ تعالیٰ کا ڈر ہو اور اپنی ذمہ داری ادا کرنے کا احساس اس اندرونی شعور کا نام ہی دراصل تقویٰ ادا کرنے کا احساس اس اندرونی شعور کا نام ہی دراصل تقویٰ ہے اور قرآن و حدیث میں اسی شعور کو پیدا کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ الممتحنة
12 ف 10 حمل کو روکنا یا وقت سے پہلے گرا دینا بھی اس کے تحت آتا ہے بشرطیکہ کسی طبعی یا شرعی مجبوری کے تحت نہ ہو۔ ف 11 شاہ صاحب لکھتے ہیں : ایک معنی یہ کہ بیٹا جنا کسی اور سے اور لگا دیں کسی اور کو یا بن جنا ڈال لیویں اور باپ لگا دیں۔ حدیث فرمایا : جو عورت بیٹا لگا دے کسی کا کسی کو، اس پر بہشت کی بو حرام ہے۔ (موضح) ف 12 یعنی آپ کی شریعت کے خلاف کوئی کام نہ کریں جیسے مصیبت میں نوحہ کرنا یا بیاہ شادی کے موقع پر ایسی رسموں کے پابندی کرنا جن سے مال کی بربادی کے علاوہ لاتعداد اخلاقی اور اجتماعی خرابیاں جنم لیتی ہیں اور جو سراسر جاہل مشرک قوموں کی نقالی ہے۔ ف 13 حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ نبی ﷺ ہجرت کر کے آنے والی عورتوں سے اس آیت کے مطابق اقرار لیا کرتے تھے جو عورت یہ اقرار کرلیتی آپ اس سے فرماتے : ” میں نے تم سے زبانی بیعت لے لی۔“ اللہ کی قسم ! آپ نے کسی بیعت کرنے والی عورت کا ہاتھ نہیں چھوا، سب عورتوں نے آپ سے یونہی زبانی بیعت کی۔ (شکافی) الممتحنة
13 ف 1 مراد تمام کافر ہیں چاہے وہ یہودی ہوں یا نصاریٰ یا مشرک یا منافق ف 2 یعنی انہیں یہ امید نہیں ہے کہ کوئی شخص قبر میں جانے کے بعد پھر اٹھے گا اور ان سے ملاقات کرے گا…دوسرا ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جیسے قبر والوں میں سے کافر مایوس ہوچکے۔“ یعنی انہوں نے مرنے کے بعد جب آخرت کے عذاب کو آنکھوں سے دیکھ لیا تو وہ آخرت کے ثواب اور نجات سے بھی مایوس ہوگئے الممتحنة
0 ف 3 تمام مفسرین کے بقول یہ سورۃ مدینہ منورہ میں نازل ہوئی۔ ایک روایت میں حضرت ابن عباس اسے مکی قرار دیتے ہیں لیکن یہ روایت صحیح نہیں ہے۔ (شوکانی) الصف
1 ف 4 یعنی زبان حال یا قال سے شہادت دے رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر عیب اور ہر نقص سے پاک ہے۔ الصف
2 الصف
3 ف 5 ان آیات کی شان نزول … جیسا کہ حضرت ابن عباس سے مروی ہے … گو خاص ہے اور وہ یہ کہ جہاد فرض ہونے سے پہلے کچھ مسلمان کہا کرتے تھے اگر ہمیں پتا چل جائے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے محبوب عمل کون سا ہے تو ہم اس پر عمل کر کے دکھائیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں بتایا کہ اس کے نزدیک سب سے محبوب عمل اس پر ایمان لانا اور اس کی راہ میں کافروں سے جہاد کرنا ہے۔ اس کے بعد جب جہاد کا حکم نازل ہوا تو وہ ان پر شاق گزرا اور وہ تردد میں پڑگئے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں لیکن ان کا حکم عام ہے اور ان کی رو سے وہ شخص انتہائی قابل مذمت ہے جو زبان سے کسی چیز کا وعدہ و اقرار کرتا ہے لیکن اس پر عمل نہیں کرتا۔ احادیث میں اس کو منافق کے خصائل میں شمار کیا ہے۔ (ابن کثیر) الصف
4 ف 6 یعنی تم پوچھتے ہو کہ اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب کون لوگ ہیں تو سنو اللہ کو سب سے زیادہ محبوب وہ ہیں جو ف 7 ” جس میں کوئی رخنہ نہیں ہوتا تاکہ دشمن اس میں گھس سکے۔ “ الصف
5 ف 8 یعنی انہیں یہ سزا ملی کہ ان کے دل سخت ہوگئے۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ ” یعنی بنی اسرائیل ہر بات میں ضد کرتے اپنے رسول سے آخر مردود ہوگئے۔“ ف 9 اس آنحضرت کو تسلی دی ہے کہ کچھ لوگ اگر جہاد میں پس و پیش کر رہے رہیں تو آپ رنجیدہ خاطر نہ ہوں۔ موسیٰ اور عیسیٰ بھی اپنی قوم سے ایسی تکالیف اٹھا چکے ہیں۔ الصف
6 ف 10 یعنی میں اس کے احکام و تعلیمات پر یقین رکھتا ہوں اور میں اس کی دی ہوئی خبر کا مصداق ہوں۔ (ابن کثیر) ف 11 ” احمد“ جس کے لفظی معنی ” بہت تعریف کیا ہوا“ ہیں ہمارے رسول کا نام تھا احادیث میں آنحضرت کے متعدد نام مذکور ہیں۔ صحیح بخارق میں جبیربن مکلم سے روایت ہے کہ آنحضرت نے فرمایا : میرے پانچ نام ہیں یعنی جو پہلی امتوں میں بھی مشورہ ہے۔ ان میں پہلا محمد اور دوسرا ” احمد“ ہے اور یہ دونوں نام قرآن میں مذکور ہیں۔ زہری فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو رئوف رحیم کا لقب دیا ہے۔ موجودہ اناجیل میں اس نام کا مذکورہ نہ ہونا اس کی نفی کی دلیل نہیں بن سکتا کیونکہ ان میں تحریف ہوچکی ہے اور اس کی بڑی دلیل ہے کہ اگر قرآن کا یہ بیان غلط ہوتا تو نزول قرآن کے نزول کے عیسائی ضرور اس کی تردید کرتے۔ پھر اس تحریف کے باوجود اناجیل میں آنحضرت کی صداقت کے دلائل موجود ہیں بلکہ اجیل جو حنا میں تو ” فارقلیط“ کے آنے کی بشارت دی گی ہے جو یونانی لفظ پاکلوطورس معرب ہے اور یہ لفظ ” احمد“ کا مترادف ہے اور پھر مولاناوحید الزامان کی روایت کے بموجب روما میں انجیل کے بعض قلمی نسخوں میں ” احمد“ کا لفظ اب تک موجود ہے۔ چنانچہ مولانا مرحوم لکھتے ہیں : الحمد اللہ اب وہ انجیل مل گئی یعنی انجیل بربناس حواری جاری کہ اس میں مراحتاً کا مترادف ہے اور پھر اس تحریف کے باوجود انا جیل میں آنحضرت کی صداقت کے دلائل موجود ہیں بلکہ انجیل یوحنا میں تو فارقلیط“ کے آنے کی بشارت دی گی ہے جو یونانی لفظ ’ دپارکلوطوس“ معرب ہے اور یہ لفظ ” احمد“ کا مترادف ہے اور پھر مولانا وحید الزمان کی روایت کے بموجب دو ماہ میں انجیل کے بعض قلم نسخوں میں ” احمد“ کا لفظ اب تک موجود ہے۔ چنانچہ مرحوم لکھتے ہیں، الحمد اللہ اب وہ انجیل مل گئی یعنی انجیل برباس حواری کہ اس میں صراحتاً ہمارے پیمبر ﷺ کا نام مذکور ہے۔ (وحیدی) یہ انجیل اس وقت بھی لندن کے ایک کتب خاینے میں ہے۔ الصف
7 ف 1 یعنی شرک کرے اور اللہ کے لئے بیٹا یا بیوی قرار دے۔ الصف
8 ف 2 یعنی جھوٹی باتیں بنا کر یا طعن و تشنیع کر کے قرآن یا اسلام کو بے اعتبار کردیں تاکہ لوگ مسلمان نہ ہوں۔ ف 3 یعنی کافر اس نور … دین اسلام … کو مٹانے اور اس کا راستہ روکنے کے لئے چاہے کتنا ہی زور صرف کر ڈالیں اللہ تعالیٰ اسے پوری طرح غالب کر یک رہے گا۔ الصف
9 الصف
10 الصف
11 الصف
12 ف 4 ” عدن“ کے عنی رہنے کے بھی ہیں اور یہ جنت کے ایک حصہ کا نام ھی ہے۔ اس لئے ” جنات عدن“ کا مطلب ” عدن کے باغ“ بھی ہوسکتا ہے اور ” ہمیشہ رہنے والے باغ بھی۔ الصف
13 ف 5 یعنی قریش پر غالب آئو گے اور مکہ فتح کرو گے۔ الصف
14 ف 6 حواریوں سے مراد حضرت عیسیٰ کے وہ ساتھی جو ان پر سب سے پہلے ایمان لائے۔ مزید تشریح کے لئے دیکھئے (آل عمران آیت 52) ف 7 شاہ صاحب لکھتے ہیں : ” حضرت عیسیٰ کے بعد ان کے یاروں نے بڑی محبتیں کیں تب ان کا دین نشر ہوا۔ ہمارے رسول کے پیچھے بھی خلیفوں نے اس سے زیادہ کیا۔ ” قتادہ“ کہتے ہیں : بحمد اللہ مسلمانوں نے اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد پر عمل کیا جب کہ (مدینہ ایک حج کے موقع پر آنحضرت کے پاس سترآدمی آئے اور انہوں نے عقبہ کے پاس آپ کے ہاتھ پر بیعت کی پھر آپ کو اپنے ہاں پناہ دی اور آپ کے دین کی مدد کی۔ آنحضرت نے عقبہ کی رات انصار سے فرمایا تھا :” تم اپنے لوگوں میں سے بارہ آدمی منتخب کرو جو اپنے قبیلہ کا ذمہ لیں جیسے حواریوں نے عیسیٰ بن مریم کا ذمہ لیا تھا۔ (شوکانی) ف 8 پھر جب حضرت عیسیٰ آسمان پر تشریف لے گئے تو ایمان لانے والوں (نصاریٰ) میں بھی اختلاف ہوگیا۔ کوئی آپ کو خدا کا بیٹا کہنے لگا اور کوئی توحید پر قائم رہا گویا اصل ایمان لانے والے ایمان لانے والے یہی موحد تھے۔ ف 1 یعنی جو صحیح عقیدہ پر برقرار رہے اور پھر آنحضرت پر ایمان لے آئے ہم نے دلیل و برہان کے اعتبار سے بھی اور قوت و سلطنت کے اعتبار سے بھی ان کی ایمان نہ لانے والے گروہوں کے مقابلے میں مدد فرمائی وہ غالب آگئے اور قیامت تک غالب رہیں گے۔ آخری مکمل غلبہ اس وقت ہوگا جب حضرت عیسیٰ آسمان سے اتریں گے اور مسلمان آپ کے ساتھ مل کر دجال کو قتل کریں گے۔ (کذای جامع لبیان) الصف
0 ف 2 اس سورۃ کے معدنی ہونے پر سب کا اتفاق ہے۔ صحیح مسلم اور سنن اربعہ میں حضرت ابوہیرہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو جمعہ کی نماز میں سورۃ جمعہ اور سورۃ منافقوں پڑھتے سنا۔ اس مضمون کی ایک روایت حضرت ابن عباس سے بھی مروی ہے اور سنن بیہقی میں حضرت جابر بن سمرہ سے روایت ہے کہ آنحضرت جمعہ کی رات کو مغرب کی نماز میں قل میا ایھا الکفرون اور قل ھو اللہ احد اور عشا کی نماز میں سورۃ جمعہ اور سورۃ منافقون پڑھا کرتے تھے۔ (شوکانی) الجمعة
1 الجمعة
2 ف 3 یعنی حضرت محمد ﷺ جو عرب تھے اور ان پڑھ بھی تھے۔ کہتے ہیں کہ عرب کے ہر قبیلہ کے ساتھ آپ کی کچھ نہ کچھ رشتہ داری تھی سوائے بنی تغلب کے جو عیسائی تھے … عربوں کو امی یا تو اکثریت کے اعتبار سے فرمایا ہے اور یا اس اعتبار سے کہ آنحضرت سے پہلے کوئی کتاب الٰہی ان میں نہ آئی تھی ان کے مقابلہ میں یہود و نصاریٰ کو اہل کاتب کہا گیا کیونکہ ان کے ہاں توراۃ و انجیل وغیرہ آسمانی کتابیں آچکی تھیں … آٰنحضرت کو امی کہنے کی وجہ یہ نہیں ہے کہ آپ بے علم تھے بلکہ یہ ہے کہ آپ نے کسی استاذ کے سامنے زانوئے تلمذ تہ نہیں کیا۔ آنحضرت کے پاس جو علم تھا وہ اللہ تعالیٰ سے بذریعہ وحی حاصل کیا گیا تھا لہٰذا یہ صحیح نہیں ہے کہ پہلے امی یا تو ان پڑھ کے معنی بے علم سمجھے جائیں اور پھر آپ کو عالم ثابت کر کے آپ کی نبوت پے بے جا اعتراضات کئے جائیں جیسا کہ مستشرقین سے متاثر ہو کر بعض لوگوں نے سمجھ لیا ہے۔ ف 4 یہ حکمت (دانائی) وہی چیز ہے جسے عام اصطلاح میں حدیث یا سنت کے لفظ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس کی تعلیم اللہ تعالیٰ نے آنحضرت کے فرائض منصبی میں سے ایک اہم فریضہ قرار دیا ہے۔ ف 5 یعنی بت پرستی میں مبتلا تھے۔ کسی پیغمبر کی تعلیم سے واقف نہ تھے۔ ان کے ہاں لوٹ مار اور قتل و غارت کا بازار گرم رہتا تھا۔ ان کے ہر قبیلہ کا خدا دوسرے قبیلہ کے خدا سے الگ تھا۔ الغرض انتہائی پستی اور گمراہی کی حالت میں پڑے ہوئے تھے اور اقوام عالم میں ان کا کوئی مقام نہ تھا۔ الجمعة
3 ف 6 واخرین الخ اس کا عطف فی الامیین پر ہے یعنی یہی رسول دوسرے ان پڑھوں کے واسطے بھی ہے۔ (موضح) ان سے مراد دنیا بھر کے وہ تمام لوگ ہو سکتے ہیں جو قیامت تک پیدا ہوں گے۔ صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے آنحضتر سے دریافت کیا کہ ” ان ابھی نہ ملنے والے لوگوں سے مراد کون لوگ ہیں؟“ آپ نے حضرت سلمان فاسری کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا مجھے اس ذات کی قسم ! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر ایمان ثریا ستارے کے پاس بھی ہو تو وہ اہل فارس میں سے کچھ لوگ اسے ضرور پالیں گے شوکانی الجمعة
4 الجمعة
5 ف 7 کیا وجہ ہے کہ ان مسلمان علماء کا حال اس سے مختلف ہو جو قرآن و حدیث کا علم رکھتے ہیں لیکن اس پر عمل نہیں کرتے یا یہودیوں کی طرح ان کی من مانی تاویلیں کرتے ہیں۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں :” یہود کے عالم ایسے تھے کتاب پڑھی اور دل میں کچھ اثر نہ ہوا، اللہ ہم کو پناہ دے۔“ (واضح) ف 8 یعنی انہیں اپنے علم سے فائدہ اٹھانے کی توفیق نہیں ہوئی۔ الجمعة
6 ف 1 کیونکہ جو شخص یہ سمجھتا ہو کہ اسے مرنے کے بعد جنت نصیب ہوگی وہ لازماً یہ چاہے گا کہ دنیا کے جھنجھٹ سے جلد از جلد نجات پائے الجمعة
7 ف 2 یہی مضمون سورۃ بقرہ آیت 94 تا 96 میں بیان ہوا ہے وہاں اس کی تشریح دیکھ لی جائے۔ الجمعة
8 الجمعة
9 ف 3 مراد وہ اذان ہے جو امام کے منبر پر بیٹھنے کے قوت دی جاتی ہے کیونکہ نبی ﷺ کے زمانہ میں جمعہ کی صرف یہی اذان ہوتی تھی حضرت عثمان نے اپنے زمانہ خلافت میں جب لوگ زیادہ ہوگئے تو ایک اور اذان کا اضافہ کردیا اور وہ زوراء کے مقام پر دی جاتی تھی۔ ف 4 اس آیت کی رو سے ہر بالغ و عاقل مسلمان پر جمع کی نماز با جماعت فرض ہے اور یہی چیز آنحضرت کی سنت سے ثابت ہے۔ نسائی بروایت حضرت حفضہ اور بلاعذر جمعہ کے ترک پر وعید آئی ہے جمعہ کی نماز ہر اس جگہ ہوجاتی ہے جہاں اتنے لوگ جمع ہوجائیں جن سے جماعت ہوجائے حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ آنحضرت کی مسجد میں جمع شروع ہونے کے بعد سب سے پہلا جمعہ اسلام میں ہوا وہ بحرین کے ایک گائوں جواتی“ میں ہوا۔ جن لوگوں نے اس کی فرضیت کے لئے مصر جامع یا حاکم مسلم یا مقتدیوں کی ایک خاص تعداد وغیرہ کی شرطیں عائد کی ہیں ان کے پاس قرآن و سنت سے کوئی دلیل نہیں ہے … فاسعوا کے لفظی معنی کوشش کرنے اور دوڑنے کے آتے ہیں۔ یہاں اس سے پہلے معنی مراد ہیں یعنی نہایت اہتمام اور مستعدی سے جانا نہ کہ دوڑ کر (قرطبی) ف 5 اس میں اس چیز کی قطعی دلیل ہے کہ جمعہ کی اذان ہوجائے تو مسلمان کے لئے اپنے کاروبار میں لگے رہنا حرام ہے ف 6 ظاہر ہے کہ اخروی ثواب کے مقابلہ میں دنیوی فوائد کی احقیقت رکھتے ہیں۔ الجمعة
10 ف 7 شاہ صاحب فرماتے ہیں۔ ” یہود کے ہاں عبادت کا دن ہفتہ تھا اور نصاریٰ کے ہاں، اتوار) سارا دن سودا صکاروبار) منع تھا۔ اس واسطے فرما دیا کہ تم نماز کے بعد روزی کی تلاش کرو اور روزی کی تلاش میں بھی اللہ کو نہ بھولو۔ الجمعة
11 “ ف 8 صحیح روایات کے مطابق مدینہ منورہ میں گرانیتھی اور لوگ غلہ کے سخت ضرورتمند گرانی تھی اور لوگ غلہ کے سخت ضرورتمند تھے۔ آنحضرت منبر پر کھڑے جمعہ کا خطبہ دے رے تھے۔ اتنے میں شام سے ایک قافلہ غلہ لے کر آ پہنچا۔ سب لوگ اس کی طرف چل دیئے یہاں تک کہ مسجد میں صرف بارہ آدمی رہ گئے۔ اس کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی (شوکانی) اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جمعہ کا خطبہ کھڑے ہو کردینا چاہئے ف 9 جمعہ کی نماز اور خطبہ سے متعلق مزید احکام کتب حدیث میں دیکھ لئے جائیں۔ الجمعة
0 ف 10 یہ سورۃ بالاتفاق مدنی ہے (شوکانی) سورۃ جمعہ کے شروع میں گزر چکا ہے کہ آنحضرت جمعہ کی رات کو عشا کی نماز میں اور کبھی کبھی جمعہ کی نماز میں سورۃ جمعہ کے ساتھ یہ سورۃ پڑھا کرتے تھے۔ المنافقون
1 ف 1 یعنی زبان سے جو بات کہتے ہیں وہ اپنی جگہ صحیح ہے لیکن یہ ان کے دل کی بات نہیں ہے۔ اللہ جانتا ہے کہ وہ جھوٹے ہیں دل میں ہرگز آپ کو سچا رسول نہیں سمجھتے شاہ صاحب لکھتے ہیں :” یعنی وہ قائل نہیں عرض کو کہتے ہیں۔ المنافقون
2 “ ف 2 اس معنی میں کہ جھوٹی قسمیں کھا کر اپنی جانوں اور مالوں کو مسلمانوں سے بچانا چاہتے ہیں۔ ف 3 یعنی لوگوں کے دلوں میں شکوک و شبہات پیدا کرتے ہیں اور اسی طرح انہیں مسلمان ہونے نہیں دیتے۔ المنافقون
3 ف 4 یعنی صرف ظاہر میں ایمان لائے حقیقت میں کافی ہی رہے یا مسلمانوں کے سامنے ایمان کا اظہار کیا اور کافروں کے سامنے کفر کا۔ المنافقون
4 ف 5 یعنی نہایت فصاحت اور چرب زبانی سے ایسی لچھے دار باتیں رتے ہیں کہ خوام خواہ سننے کو جی چاہئے۔ ف 6 یعنی جیسے لکڑیوں میں عقل اور سمجھ نہیں وتی اسی طرح یہ بھی عقل اور سمجھ سے عاری ہیں۔ جب یہ آپ کی مجلس میں بٹھیں تو یہ سمجھئے کہ آدمی بیٹھے ہیں بلکہ یوں سمجھئے کہ لکڑیاں ہیں جو ٹیک لگا کر رکھی دی گئیں ہیں گوبظاہر خوبصورت نظر آتے ہیں۔ (قرطبی) ف 7 یعنی انتہائی بزدل اور ڈرپوک ہیں۔ اپنے سنگین جرائم اور بے ایمانیوں کی وجہ سے انہیں ہرآن دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کہیں ان کی دغا بازیوں کا پردہ چاک نہ ہوجائے۔ ِ 8 کیونکہ یہ مار آستین ہیں اور کافر کھلے دشمن اور ظاہر ہے کہ جو نقصان گھر کا بھیدی پہنچا سکتا ہے وہ باہر کا دشمن نہیں پہنچا سکتا المنافقون
5 ف 9 یعنی جب ان کی دغا بازی کا بھانڈا پھوٹ جاتا ہے اور کوئی سچا مسلمان ان سے کہتا ہے کہ اب تو ان حرکتوں سے باز آجائو اور آنحضرت کی خدمت میں حاضر ہو کر معافی مانگ لو المنافقون
6 ف 10 اس سے مقصود آنحضرت کو تسکین دیتا ہے کیونکہ منافقوں کی تمام شرارتوں اور بے ادبیوں کے باوجود آپ اپنی طبعی رحمت و شفقت کی بنا پر چاہتے تھے کہ ان کے لئے معافی کی دعا فرمائیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان کے لئے دعا کرنے سے منع فرمایا کیونکہ ان کی سرکشی حد سے بڑھ چکی تھی۔ المنافقون
7 ف 1 1 یعنی رسول اللہ ﷺ کا ساتھ نہ چھوڑ دیں … یہ بات ان مردود و منافقین کے سردار عبداللہ بن ابی نے ایک سفر میں مہاجرین کے بارے میں انصار کے چند لوگوں سے کہی تھی۔ مفصل روایت آگے آرہی ہے۔ ف 12 وہی سب کا رازق ہے اگر بالفرض مدینہ کے لوگ ان غریب مہاجرین کی خبر گیری نہ کریں گے تو وہ بھوکے نہ مر جائیں گے۔ المنافقون
8 ف 1 یہ بات بھی عبداللہ بن ابی نے کہی تھی لیکن چونکہ اس نے اس بات کے ذریعہ تمام منافقین کی ترجمانی کی تھی اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کو تمام منافقین کی بات کے طور پر ذکر فرمایا عزت والے سے کم بخت نے اپنے آپ کو اور ذلت والے سے نبی ﷺ اور آپ کے ساتھیوں کو مراد لیا تھا۔ صحیحین میں ہے کہ مسلمان آنحضرت کے ساتھ غزوہ نبی المصلق میں تھے۔ ایک مہاجر اور ایک انصاری آپ سمیں لڑ پڑے۔ دونوں نے اپنی حمایت کے لئے اپنے اپنے لوگوں کو پکار آنحضرت کو اطلاع ہوئی تو آپ نے اسے جاہلیت کی پکار قرار دیا اور اس کی مدت کی۔ عبداللہ بن ابی کو پتا چلا تو اسے گویا موقع ہاتھ آگیا۔ کہنے لگا ” اچھا اب ان لوگوں کو یہ جرأت ہوگئی ہے اور انصار کو مہاجرین کے خ لاف خوب اکسایا اور بدبخت کہنے لگا ان قریشی کناگالوں کی مثال ایسی ہے کہ اپنے کتے کو پالو تک تمہارے کھانے کو دوڑے۔ آج تم ان سے ہاتھ کھینچ لو تو یہ چلتے پھرتے نظر آئیں وغیرہ پھر اس نے قسم کھا کر کہا :” مدینہ پہنچ کر ہم میں سے جو عزت والا ہے وہ بے عزت کو نکال باہر کریگا۔“ آنحضرت کو اس کی یہ بات پہنچ گئی۔ حضرت عمر نے عرض کی۔ اے اللہ کے رسول با اجازت دیجیے کہ میں اس منافق کی گردن اڑادوں۔ آپ نے فرمایا :” رہنے دو ! کہیں لوگ یہ نہ کہیں کہ محمد (ﷺ) اپنے ساتھیوں کو قتل کرتا ہے۔“ (ابن کثیر شوکانی) المنافقون
9 ف 2 کیونکہ وہ باقی کو چھوڑ کر فانی میں مشغول ہوگئے۔ مال و اولاد تو وہی اچھی ہے جو آخرت سے غافل نہ کرے ورنہ اس سے بڑھ کر کوئی فتنہ نہیں المنافقون
10 ف 3 حضرت ابو عباس سے روایت ہے کہ آنحضرت نے فرمایا ” جس کے پاس اتنا مال ہو کہ اس پر حج یا زکواۃ فرض ہوجائے اور وہ ایسا نہ کرے تو مرتے وقت وہ دنیا میں لوٹنے کی تمنا کرتا ہے۔ (شوکانی) المنافقون
11 ف 4 یعنی مرتے وقت یہ دعا اور تمنا کرنا بیکار ہے عقلمند کو چاہئے کہ مرنے سے پہلے آخرت کا توشہ فراہم کرے۔ المنافقون
0 ف 5 اکثر مفسرین کے نزدیک یہ سورۃ دینہ منورہ میں نازل ہوئی۔ بعض نے اسے مکی قرار دیا ہے ایک روایت میں حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ سورۃ مکہ میں نازل ہوئی۔ البتہ اس کی آخری آیتیں یا ایھا الذین امنوا ان من ازواجکم سے آخر سورۃ تک مدینہ میں اس وقت نازل ہوئیں جب عوف بن مالک نے اپنی بیوی اور لڑک کی آنحضرت کے سامنے شکایت کی۔ التغابن
1 ف 6 دنیا میں اگر کسی کو اتخیار اور تعریف حاصل ہے تو وہ اسی کا فیض اور عصیہ ہے۔ التغابن
2 ف 7 اللہ تعالیٰکا علم اور چیز اور ہے اور اس کی مرضی اور چیز کسی شخص کے متعلق اگر اس نے تقدیر میں یہ لکھا کہ وہ کافر ہوگا تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس کی مرضی بھی یہ تھی کہ وہ کافر ہو۔ مرضی تو اس کی یہ تھی کہ تمام لوگ ایمان کا راستہ اتخیار کریں اور اسی لئے اس نے رسول بھیجے اور کتابیں نازل کیں لیکن اس کے ساتھ وہ چونکہ جبر کرنا نہیں چاہتا تھا اس لئے اس نے لوگوں کو ارادہ و اختیار کی آزادی دی کہ چاہے ایمان کا راستہ اختیار کریں اور چاہے کفر کا۔ اس آزادی سے غلط فائدہ اٹھا کر بعض لوگوں نے کفر کا راستہ اختیار کیا۔ وہ اپنی مخلوق کے حال و مستقبل سے پوری طرح باخبر ہے۔ التغابن
3 ف 8 یعنی بامقصد پیدا کیا ہے تاکہ ابتلاء کے ذریعہ نیک و بد کو جزا و سزا دی جائے۔ نیز دیکھئے (سورہ روم : 8) ف 9 یعنی اس نے اپنی تمام مخلوقات میں سے تمہاری شکل و صورت اور بناوٹ بہترین بنائی۔ دیکھنے میں بھی خوبصورت اور عقل و استعداد کے اعتبارے بھی سب سے ممتاز۔ ف 1 نہ کہ کی اور طرف لہٰذا ناگزیر ہے کہ تم اس کے حضور اپنے نیک اعمال کا نیک اور برے اعمال کا برا بدلہ پائو۔ التغابن
4 ف 2 مطلب یہ ہے کہ تمہارا کوئی بڑے سے بڑا اور چھوٹے سے چھوٹا عمل اللہ تعالیٰسے پوشیدہ نہیں ہے کہ اس کی سزا سے بچ سکو۔ التغابن
5 التغابن
6 ف 3 یعنی اللہ تعالیٰ کو اگر ہماری رہنمائی مقصود تھی تو اسے چاہئے تھا کہ آسمان سے فرشتے بھیجتا نہ کہ ہم جیسے یہ آدمی گویا ان کے نزدیک کوئی پیغمبر بشر (آدمی) نہیں ہوسکتا تھا۔ اللہ تعالیٰنے متعدد ٓیات میں اس خیال کے باطل ہونے کے دلائل دیئے۔ دیکھئے سورۃ ابراہیم 10-10 سورۃ کہف 110 سورۃ مومنون 33 سورۃ شعراء 86 سورۃ یٰسین 15 ف 4 یعنی وہ اپنی ذات میں تمام خوبیوں کا مالک ہے اسے کسی کی عبادت کی ضرورت نہیں ہے جو شخص اس کی عبادت کرتا ہے اپنے بھلے کے لئے کرتا ہے اور جو شخص اس کی بادت سے منہ موڑتا ہے وہ اپنا نقصا آپ کرتا ہے۔ التغابن
7 ف 5 کیونکہ دوبارہ پیدا کرنا پہلی بار پیدا کرنے کی بنسبت آسان تر ہے اور کفار مکہ … جیسا کہ متعدد آیات سے معلوم ہوتا ہے۔ اس چیز کیقائل تھے کہ انسانوں کو پہلی بار اللہ تعالیٰنے پیدا کیا ہے … یہ تیسری آیت ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو آخرت کے آنے پر قسم کھانے کا حکم دیا ہے۔ دیکھیے (سورہ یونس) سورۃ ساء 30) التغابن
8 ف 6 قرآن کو نور (روشنی) اس لئے فرمایا گیا کہ اس کے ذریعہ آدمی کو کفر و ضلالت کے اندھیروں میں حق کی طرف رہنمائی ملتی ہے التغابن
9 ۔ ف 7 یعنی اس روز کافر ہاریں گے اور مومن جیتیں گے۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں :” ہ رآدمی کا ایک گھر ہے جنت میں ایک دوزخ میں، بہشت والوں نے اپنے بھی گھر لئے اور دوزخیوں کے بھی، دوزخی ہارے اور بہشتی جیتے (موضح) ف 8 یعنی انہیں معاف فرما دے گا۔ التغابن
10 التغابن
11 ف 1 یعنی اس کے ارداہ اور مشیت سے آتی ہے کیونکہ اس کے ارادہ مشیت کے بغیر کوئی چیز واقع نہیں ہو سکتی … کہتے ہیں کہ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب کافروں نے کہا کہ اگر مسلمانوں کو دین سچا ہوتا تو ان پر دنیا کی مصیبتیں کیوں آتیں؟ ] شوکانی) ف 2 یعنی اسے صبر و استقامت کی توفیق دے گا اور گھبرا کر کفر و ناشکری کا کوئی کلمہ زبان سے نہ نکالے گا کیونکہ اسے یقین ہوگا کہ مجھ پر یہ مصیبت میرے پروردگار نے بھیجی ہے کہ میرے ایمان کا امتحان لے اور اگر میں امتحان میں کامیاب رہا تو میری نیکیاں زیاندہ اور میری برائیاں کم کر دے گا۔ التغابن
12 ف 3 یعنی وہ جو مصیبت یا تکلیف بھیجتا ہے ہمیں علم و حکمت کی بنا پر بھیجتا ہے۔ اسے معلوم ہے کہ تم میں سے کون واقعی صبر و استقامت کی راہ اتخیار کر کے اپنے درجات بلند کریگا اور کون بے صبری اور ناشکری کا مظاہرہ کر کے اپنی بدبختی میں اضافہ کرے گا۔ ف 4 یعنی مصیبت کے وقت بے صبری اور نا شکری کا مظاہرہ نہ کرو بلکہ اپنے آپ کو اللہ و رسول کی اطاعت میں مشغول کر کے اپنی تکلیف کے احساس کو کم کرو اور اللہ کے ہاں اجر کے مستحق ہو۔ ف 5 سو اس نے پہنچا دیا اگر تم اسے نہ مانو گے تو اپنی ہی عاقبت خراب کرو گے۔ پیغمبر ﷺ کو ہرگز کوئی الزام نہ دے سکو گے۔ التغابن
13 ف 6 توکل کے لئے دیکھیے (آل عمران 160) التغابن
14 ف 7 بعض اوقات آدمی بیوی بچوں کی محبت میں پھنس کر اللہ و رسول کے احکام کو بھلا دیتا ہے اور اپنی آخرت تباہ کرلیتا ہے۔ ظاہر ہے کہ جو اہل و عیال اس تباہی کا باعث نہیں ان سے بڑھ کر آدمی کا کوئی دشمن نہیں ہو سکتا۔ اس لئے اللہ تعالیٰنے فرمایا کہ ایسے دشمنوں سے ہوشیار ہو ایسا نہ ہو کہ تم ان کی محبت میں پڑ کر اپنی آخرت تباہ کرلو۔ حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ مکہ معظمہ میں کچھ لوگ تھے جو مسلمان ہوچکے تھے اور ہجرت کر کے مدینہ آنا چاہتے تھے۔ لیکن ان کے بیوی بچوں نے انہیں ہجرت کرنے سے باز رکھا پھر جب وہ آخر کار ہجرت کر کے مدینہ منورہ آئے اور انہوں نے دیکھا کہ دوسرے لوگ آنحضرت کی صحبت میں رہ کر دین کا خوب علم حاصل کرچکے ہیں تو انہیں سخت افسوس ہوا اور انہوں نے اپنے بیوی بچوں کو سزا دینے کا ارادہ کیا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (شوکانی) التغابن
15 ف 8 یعنی اللہ تعالیٰمال و دولت دیکر تمہاری آزمائش کرتا ہے کہ کون اللہ و رسول کے احکام کی اطاعت کرتا ہے اور کون دنیا کی محبت میں مشغول ہو کر اعراض کرتا ہے۔ حضرت بریدہ سے روایت ہے کہ حضرت حسن اور حسین لال کرتے پہنے گرنے پڑتے آپہنچے۔ آنحضرت منبر پر خطبہ دے رہے تھے آپ نے منبر سے اتر کر ان کو اپنے دونوں طرف اٹھا لیا اور فرمایا :” اللہ تعالیٰنے سچ فرمایا ہے کہ تمہارے مال اور اولاد آزمائش ہیں (شوکانی) التغابن
16 التغابن
17 ف 9 یعنی اپنی حلال کی کمائی میں سے خوشدلی کے ساتھ اس کی راہ میں خرچ کروں گے۔ ف 10 اور قدانی یہ ہے کہ تھوڑے عمل پر بہت ثواب دیتا ہے۔ التغابن
18 ف 11 یعنی اسے ظاہری اعمال اور پوشیدہ نیتوں کی خبر ہے۔ اپنی زبردست قوت اور حکمت سے اس کے مطابق بدلہ دے گا التغابن
0 الطلاق
1 ف 1 یعنی طہر کی حالت میں جس میں صحبت نہ کی ہو۔ یہ تشریح خود آنحضرت نے فرمائی ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی۔ آنحضرت سخت خفا ہوئے اور رجوع کا حکم دیا اور فرمایا کہ اگر طلاق دینا چاہیت ہو تو اس اطہر کے بعد اگلے طہر میں دے سکتے ہو یہی وہ عدت ہے جس کے شروع میں اللہ تعالیٰ نے طلاق دینے کا حکم دیا ہے۔ اس کے بعد آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی (شوکانی) احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ حیض کے دنوں میں عورت کو طلاق تو ممنوع ہے ہاں اگر طلاق دے دی جائے تو نافذ ہوجائے گی۔ حضرت عبداللہ بن عمر سے تمام راویوں نے بالاتفاق یہی روایت کیا ہے۔ (دار قطنی 427) ف 2 یعنی وہ وقت یاد رکھو جب طلاق دی گی تاکہ عدت کا ٹھیک ٹھیک حساب لگایا جا سکے۔ سورۃ بقرہ (آیت 128)؛ یہ عدت تین حیض ہے۔ (3) یعنی ان کے شوہروں کے گھروں سے جن میں انہیں طلاق دی گئی ہے۔ ف 4 تو انہیں بطور سزا گھروں سے نکالا جاسکتا ہے۔ کھلی بدکاری سے مراد زنا ہے اور بعض مفسرین کے بقول بدکاری اور بد زبانی بھی … حضرت ابن عمر فرمات یہیں کہ عورت کا عدت پوری ہونے سے پہلے بلا ضرورت نکلنا (بجائے خود) کھلی بدکاری ہے۔ (شوکانی) ف 5 یعنی شاید آدمی کے دل میں عورت کی محبت آجائے اور وہ اپنے کئے پر یشمان ہو کر رجوع کرے۔ اس لئے عورت کو اس کے گھر میں رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ یہ حکم ہر اس عورت کے لئے ہے جس کو طلاق رجعی دی گئی ہو کیونکہ یہاں ” امرا“ سے مراد رجوع ہے اور تین طلاق کے بعد رجوع کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ امام احمد بن جنبل اور سلف کی ایک جراعت کی یہی رائے ہے اور بعض احادیث ہیں اس کی تصریح بھی مذکور ہے۔ مگر یہ ہوسکتا ہے کہ یہ حکم عام ہو اور رجعیہ اور مضبوط دونوں کو شامل ہو۔ علامہ قرطبی لکھتے ہیں والرجعیۃ والمبوتہ فی ذلک سواء ھذا الحق حفظہ الرجل (شوکانی) الطلاق
2 ف 6 مطلب یہ ہے کہ طلاق دو یا رجوع کرو بہرحال ان سے شرافت کا برتائو اور محض تنگ کرنے کی نیت سے رجوع نہ کرو۔ ف 7 مسند عبدالرزاق میں ہے کہ کسی نے حضرت عمران بن حصین سے کہا :” ایک شخص نے طلاق دی پھر رجوع کیا اور گواہ نہیں کیا۔“ فرمایا :” اس نے برا کیا اس نے بدعث کے طریقہ سے طلاق دی اور غیر مضمون طریقہ سے رجوع کیا۔ اسے چاہئے کہ طلاق اور رجوع دونوں پر گواہ کرے اور اللہ سے استغفار کرے۔ بعض کے نزدیک یہ حکم استحباب پر محمول ہے تاکہ تہمت سے بچا جائے اور بعض نے کہا ہے کہ رجوع پر گواہ مقرر کرلینے واجب ہیں اور چھوڑنے پر مستحب امام شافعی اور احمد کا یہی مذہب ہے شوکانی الطلاق
3 ف 8 اس آیت کی تفسیر میں مفسرین کے متعدد اقوال ہیں۔ شعبی اور ضماک کہتے ہیں کہ مراد یہ ہے کہ جو شخص مسنون طریقہ سے طلاق دیتا ہے اللہ تعالیٰمدت میں رجوع کے لئے اس پر راستہ کھول دیتا ہے یا مصیبت میں صبر پر دوزخ سے بچ کر جنت میں داخل ہونے کا راستہ بنا دیتا ہے۔ اول کلبی کا ہے یا یہ کہ اللہ تعالیٰ حرام کاموں سے بچنے کا راستہ نکال دیتا ہے وغیرہ آیت اپنے عموم کے اعتبار سے ان تمام اقوال کو شامل ہے۔ (شوکانی) ف 9 حضرت عمر سے روایت ہے کہ آنحضرت نے فرمایا اگر تم اللہ تعالیٰپر صحیح بھروسا کرو تو وہ تمہیں پرندوں کی طرح روزی دے جو صبح کو خالی پیٹ نکالتے ہیں اور شام کو پیٹ بھر کر پلٹتے ہیں۔ (ترمذی) ف 10 ینی کوئی بھروسا کرے یا نہ کرے بہرحالت قدیر کا نوشتہ پورا ہو کر رہے گا پھر توکل کا ثواب کیوں کھویا جائے۔ ف 11 یعنی خوشحالی ہو یا تنگدستی بہرحال اس کی ایک انتہا ہے۔ الطلاق
4 ف 12 یعنی تمہیں معلوم نہ ہو کہ ان کی عدت کیا ہے۔ ف 3ۃ یعنی عام عورت کی عدت اگرچہ تین حیض ہے لیکن جس عورت کا حیض بڑھاپے کی وجہ سے موقف ہوگیا ہو یا اس کمسنی کی وجہ سے ابھی حفیض آنا شروع نہیں ہوا اس کی عدت تین ماہ ہے۔ واضح رہے کہ یہ عدت طلاق کی صورت میں ہے شوہر کے مر جانے کی صورت میں ہر عورت کی عدت چار ماہ دس دن ہوگی۔ (بشرطیکہ حاملہ نہ ہو) سورۃ بقرہ آیت 234) ف 14 مراد احاملہ عورتیں ہیں چاہے انہیں طلاق ہو یا انکے شوہر کا انتقال ہو۔ ف 1 چاہے ایک منٹ کے بعد اور چاہے کتنی ہی طویل مدت کے بعد یہ چیز آیت کے الفاظ سے بھی ظاہر ہے اور صحیح احادیث میں بھی اس کی تصریح۔ شوکانی) الطلاق
5 الطلاق
6 ف 2 یعنی عدت گزرنے تک نہیں خچ اور رہنے کے لئے مکان دو مراد وہ عورتیں ہیں جنہیں رجعی لاق دی جائے۔ رہی وہ عورت جسے تین طلاقیں مل چکی ہوں تو اسے نہ خرچ دینا ضروری ہے اور نہ رہنے کے لئے مکان فاطمہ بنت قیس کی حدیث میں آنحضرت نے یہ تصریح کردی ہے کہ سکنی اور نفقہ اس عورت کے لئے ہے جسے رجی طلاق دی گی ہو اور جب تین طلاقیں دے دی گئی ہوں تو اس کے لئے کوئی نفقہ و سکنی نہیں ہے۔ وقدم ابن کثیر ف 3 یعنی سکوتن اور خرچ کے معاملہ میں ان پر تنگی نہ کرو۔ ف 4 مطلقہ حاملہ عورت کے لئے تا وضع حمل نفقہ اور سکنی کے واجب ہونے پر تمام علماء کا اتفاق ہے بشرطیکہ اسے رجعی طلاق دی گئی ہو اور تین طلاق ہونے کی صورت میں بھی اکثر علماء کے نزدیک واجب ہے۔ اختلاف صرف اس حاملہ کے بارے میں ہے جس کے شوہر کا اتنقال ہوگیا ہو حضرت علی ابن عمر ابن مسعود شرجیح نخفی اور شعبی وغیرہ ہم کہتے ہیں کہ اس پر پورے سال میں سے خرچ کیا جائے گا اور حضرت ابن عباس، ابن الزبیر جابر بن عبد اللہ، ائمہ ثلاثہ (شافعی مالک اور ابوحن یفہ کہتے ہیں اس پر اس حصے میں سے خرچ کیا جائے گا جو اسے بطور ترکہ ملے گا۔ ولعلہ ھوالصحیح (شوکانی) ف 5 یعنی عورت زیادہ اجرت مانگے اور مرد اتنی اجرت دینے کو تیار نہ ہو۔ ف 6 یعنی شوہر اپنے بچے کو کسی دوسری عورت سے دودھ پلوا لے۔ اس پر نہ یہ واجب ہے کہ بیوی کو اتنی اجرت ضرور ہے اور نہ یہ جائز ہے کہ جس اجرت پر چاہے بیوی کو دودھ پلانے پر مجبور کرے۔ شوکانی جتنی اجرت پر کوئی دوسری عورت دودھ پلانے کو تیار ہو وہ اگر بیوی کو بھی منظور ہو تو وہ دودھ پلائے گی کیونکہ اپنے بچے پر اس کا حق زیادہ ہے۔ (ابن کثیر) الطلاق
7 ف 7 اگر اختلاف ہو تو قاضی اسلامی عدالت اس کا فیصلہ کر دے گا کہ خاوند کی آمدنی اور حیثیت کے لحاظ سے دودھ پلانے کا کیا خرچ دلایا جائے؟ (وحیدی) ف 8 اگر اختلاف ہو تو قاضی (اسلامی عدالت) اس کا فیصلہ کر دے گا کہ خاوند کی آمدنی اور حیثیت کے لحاظ سے دودھ پلانے کا کیا خرچہ دلایا جائے؟ (وحیدی) ف 9 یہ اللہ تعالیٰ کی طر سے وعدہ ہے کہ جو شخص اپنی وسعت کے مطابق خرچ کرے گا اسے تنگی کے بعد فراغت نصیب ہوگی۔ الطلاق
8 ف 10 اب تک اللہ تعالیٰ نے اپنے احکام کا ذکر فرمایا تھا۔ یہاں سے بتایا جا رہا ہے کہ پچھلی جن بستیوں نے احکام الٰہی کی پروا نہ کرتے ہوئے سرکشی اختیار کی ان کا حشر کیا ہوا۔ اس سے مقصود مسلمانوں کو ان احکام کی اہمیت بتانا اور ان کی پابندی کی تلقین کرنا ہے۔ الطلاق
9 الطلاق
10 الطلاق
11 ف 1 ذکر سے مراد قرآن ہے اور اگر ذاکر کے معنی میں لیا جائے تو اس سے مراد خود آنحضرت بھی ہو سکتے ہیں۔ ف 2 یعنی جنت میں انہیں فراخ روزی دی جو نہ کبھی فنا ہوگی اور نہ کم الطلاق
12 ف 3 آسمانوں کی طرح زمینوں کے بھی سات ہونے کا صحیح احادیث میں واضح طور پر ذکر ہے۔ صحیح بخاری وغیرہ میں ایک دعائے ثورہ میں اللھم رب السموت السبع وما اظللن و رب الارضین السبع وما اقلن صحیح مسلم میں ہے کہ ” جو شخص ظلم سے ایک بالشت زمین چھینے گا۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے روز اسے سات زمینوں کا طوق پہنائے گا۔ (شوکانی) ممکن ہے کہ سات زمینوں سے مراد چاند مریخ وغیرہ ہوں جنہیں ہم ستارے کہتے ہیں کیونکہ یہ بھی ہماری زمین کی طرح زمین ہیں اور موجودہ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ ان میں پہاڑ، دریا اور آبادیاں ہیں۔ (واللہ اعلم) ف 4 یہ سورۃ بالاتفاق مدنی ہے اور اس کا دوسرا نام سورۃ النبی بھی ہے۔ اس کی ابتدائی آیات دو واقعات کے سلسلے میں نازل ہوئیں۔ ایک یہ کہ آنحضرت حضرت زینب بنت حش کے ہاں جا کر دودھ اور شہد پیا کرتے تھے۔ حضرت عائشہ اور حفضہ نے باہم طے کیا کہ ہم میں سے جس کے پاس آنحضرت تشریف لائیں وہ آپ سے یہ کہے کہ مجھے آپ کے منہ عرفط (ایک قسم کا گوند) کی بو آتی ہے چنانچہ حفصہ کے پاس تشریف لائے تو انہوں نے آپ سے یہی بات کہی۔ آپ نے فرمایا ” نہیں میں نے تو زینب کے ہاں شہد پیا تھا۔ اب آئندہ سے یہ شہد نہ پیوں گا۔ (بخاری) دوسرا واقعہ یہ یان کیا جاتا ہے کہ آنحضرت کی ایک لونڈی تھی جس سے آپ سے یہی بات کہی۔ آپ نے فرمایا۔” نہیں۔ میں نے تو زینب کے ہاں شہد پیا تھا۔ اب آئندہ سے یہ شہد نہ پیوں گا۔ بخاری دوسرا واقعہ یہ بیان کیا جاتا ہے کہ آنحضرت کی ایک لونڈی تھی جس سے آپ صحبت فرماتے تھے حضرت عائشہ اور حفصہ نے زور دیا کہ اس سے آپ تعلق نہ رکھیں۔ ان کے مسلسل اصرار پر آپ نے اسے اپنے اوپر حرام کرلیا۔ یہ روایت سنن نسائی حاکم وغیرہ میں حضرت انس سے مروی ہے۔ دوسری روایت میں اس لونڈی کا نام ماریہ قبطیہ مذکور ہے اور ساتھ ہی آپ نے حفضہ کو تاکید کی کہ کسی دوسری بیوی سے اس کا ذکر نہ کرنا مگر انہوں نے حضرت عائشہ سے اس کا ذکر دیا۔ اس کی اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے آپ کو اطلاع دی۔ (شوکانی) الطلاق
0 التحريم
1 ف 5 حلال چیز کو اپنے اوپر حرام کرلینے کا مطلب یہ ہے کہ نبی ﷺ نے اسے عقیدہ حلال سمجھتے ہوئے عہد کرلیا تھا کہ آئندہ اسے اسعتمال نہ کروں گا۔ اس قسم کا عہد کسی امتی کے لئے تو جائز ہے مگر نبی کی شان اس سے بلند ہے کہ ایک حلال چیز کو اپنے اوپر حرام کر کے امت کو تکلیف میں مبتلا کرے۔ ف 6 اس لئے اس نے آپ کی غلطی معاف فرما دی۔ التحريم
2 “ ف 7 یعنی اگر نامناسب چیز ہر قسم کھالو، تو اللہ تعالیٰ نے اس کا کافرہ مقرر کردیا۔ (سورہ مائدہ :89) تم اسے ادا کر کے اپنی قسم توڑ سکتے ہو۔ چنانچہ حضرت عمر (یا حضرت ابن عباس) فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ نے کفارہ ادا کیا اور ماریہ سے تعلق قائم رکھا۔ (ابن کثیر بحوالہ نسائی) بعض لوگ (جیسے احناف) کہتے ہیں کہ محض کسیچیز کو اپنے اوپر حرام کرلینا قسم ہے۔ لیکن آیت سے اس کی تائید نہیں ہوتی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس پر عتاب کیا اور پھر فرمایا :” قد فرض اللہ لکم تحلۃ ایمانکم“ اور اس آیت کی شان نزول کے سلسلہ میں جو واقعات روایات میں مذکور ہیں ان میں واضحطور پر یہ مذکور ہے کہ آنحضرت نے پہلے ایک خبر کو اپنے اوپر حرام کیا اور پھر اس کی قسم کھائی معلوم ہوا کہ قسم سے کفارہ واجب ہوتا ہے نہ کہ محض حرام کرلینے سے۔ (شوکانی) التحريم
3 ف 8 مرا حضرت حفضہ ہیں۔ ف 1 یعنی حضرت عائشہ کو ف 2 یعنی بذریعہ وحی بتا دیا کہ اس نے دوسری بیوی سے یہ راز کی بات کہہ دی ہے۔ التحريم
4 ف 3 یعنی اللہ تعالیٰنے ف 4 یعنی تمہارے دل راہ اعتدال سے ہٹ کر ایک طرف جھک گئے ہیں۔ ف 5 ” لہٰذا تم اسے کوئی نقصان نہ پہنچا سکو گی۔ التحريم
5 “ ف 6 مطلب یہ ہے کہ اس خیال میں نہ رہو کہ پیغمبر (ﷺ) کو ہم سے بہتر بیویاں نہیں مل سکتیں؟ اس لئے ہم جیسے چاہیں ان پر دبائو ڈال لیں۔ التحريم
6 ف 7 یعنی نیک اعمال کرو اور گناہوں سے بچو اور اپنے گھر والوں کو بھی اس کی تلقین کرو تاکہ خود بھی جہنم سے بچو اور انہیں بھی بچائو۔ ف 8 یعنی کوئی دوزخی سے ان سے رحم کی درخواست کرے تو انہیں رحم نہیں آتا۔ التحريم
7 ف 9 یہ خطاب کافروں سے قیامت کے روز اس وقت ہوگا جب دوزخ سامنے لائی جائے گی۔ التحريم
8 ف 10 یعنی ایسی توبہ جو دل سے ہو اور اس کے بعد پھر گناہ کرنے کی نیت نہ ہو۔ علامہ نووی ریاض الصالحین میں لکھتے ہیں :” علماء کا کہنا ہے کہ ہر گناہ سے توبہ کرنا واجب ہے اگر وہ گناہ اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان ہے تو توبہ کی قبولیت کے لئے تین شرطیں ہیں۔ ایک یہ کہ آدمی گناہ سے باز آئے۔ دوسری یہ کہ اس پر پشیمان ہو اور تیسری یہ کہ پختہ ارداہ کرے کہ آئندہ کبھی اس کا ارتکاب نہ کرے گا اگر ان تین شرطوں میں سے ایک کی بھی کمی ہوئی تو توبہ سجی نہ ہوگی اور اگر اس گناہ کا تعلق کسی آدمی سے ہیتو اس کی قبولیت کے لئے ان شرطوں کے علاوہ چوتھی شرط یہ بھی ہے کہ وہ اس آدمی کے دبائے ہوئے حق سے دست بردار ہو۔ اگر وہ مال یا جائیداد ہے تو اسے واپس کرے اور مگر قابل حد کام کیا ہے تو اپنے اوپر حد جاری کرنے کا موقع دے یا اس سے معافی طلب کرے جس پر تہمت لگائی ہے۔ ف 1 یعنی اس وقت جب وہ پل صراط پر چل رہے ہوں گے۔ چنانچہ اس کی رہنمائی میں وہ چل کر جنت میں داخل ہوں گے۔ (دیکھیے سورۃ حدیث آیت 12) التحريم
9 ف 2 یعنی ان کے مقابلہ میں نرمی کا رویہ اختیار نہ کریں (دیکھیے سورۃ الفتح 29) التحريم
10 ف 3 خیانت (چوری) سے مراد دینی خیانت ہے نہ کہ اخلاقی خیانت عکرمہ اور ضحاک کہتے ہیں کہ وہ کافر ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ حضرت نوح کی بیوی لوگوں سے کہا کرتی تھی کہ یہ (حضرت نوح) دیوانہ ہیں اور حضرت لوط کی بیوی قوم کو اپنے گھر آنے والے مہمانوں کی خبر دیا کرتی تھی۔ بعض کہتے ہیں کہ وہ منافق تھیں الغرض اس پر اجماع ہے کہ کسی نبی کی بیوی نے بدکاری کا ارتکاب نہیں کیا۔ یہی چیز ان عاسکر کی ایک مرفوع روایت میں بھی آئی ہے۔ (شوکانی) ف 4 اس مثال سے مقوصد کافروں کو یہ بتانا ہے کہ کفر کے ساتھ کوئی نیک کام نہیں آتی حتی کہ پیغمبر کی رشتہ داری بھی فاء نہیں دیتی۔ اس سے امہات المومنین (حضرت عائضہ و حفصہ) کو تنبیہ کرنا ہے۔ (شوکانی ) التحريم
11 ف 5 ظالم لوگوں سے مراد اہل مصر یا قبطی ہیں۔ حضرت سلمان کہتے ہیں کہ فرعون کی بیوی کو دھوپ میں لٹا کر سزا دیتے تھے۔ جب وہ پلٹ جاتے تو فرشتے اپنے پروں سے سایہ کرتے، اس وقت وہ جنت میں اپنا گھر دیکھتی۔ (شوکانی) التحريم
12 ف 6 جس سے ان کو حمل ہوگیا اور پھر حضرت عیسیٰ پیدا ہوئے۔ ف 7 یعنی ان فرشتوں کو سچ مانا جو پچھلے پیغمبروں پر اتریں بعض مفسرین کہتے ہیں کہ کلمات سے مراد حضرت جبرئیل کے یہ الفاظ ہیں ” الما انا رسول ربک نیز فرشتوں کے یہ الفاظ یا مریم ان اللہ اصطفاک آلایۃ ف 8 دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ” وہ شریف اور نیک خاندان میں سے تھی۔“ صحیحین میں حضرت ابو موسیٰ شعری سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ علیہ وسلم نیفرمایا : مردوں میں بہت سے کامل ہوئے ہیں لیکن عورتوں میں سے صرف چار کامل ہوئی ہیں اسٓیہ زوجہ فرعون مریم بنت عمران، خدیجہ بنت خویلد اور عائشہ کی فضیلت دوسری عورتوں پر ایسی ہے جیسے ثرید کے دوسرے کھانوں پر مسند احمد میں حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :” جنت کی تمام عورتوں میں سے افضل چار ہیں خدیجہ بنت خویلد، فاطمہ بنت محمد، مریم بنت عمران اور فرعون کی بیوی آسیہ بنت مزاحم (شوکانی) التحريم
0 ف 1 یہ سورۃ بالاتفاق مکی ہے اور اس کے چار نام بھی ہیں ” تبارک، الواقعہ ” المجیہ“ المانعہ‘ حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ آنحضرت نے فرمایا : اللہ کی کتاب میں ایک سورۃ نے جو تیس آیتوں پر مشتمل ہے ایک آدمی کے لئے شفاعت کی یہاں تک کہ اسے بخش دیا گیا اور وہ سورۃ تبارک الذی بیدہ الملک ہے۔ (شوکانی) حضرت عبداللہ بن مسعود کی روایت میں ہے کہ سورۃ ” المک“ قبر کے عذاب سے مالکہ (رکاوٹ) ہے اور ابن عباس نے فرمایا سورۃ ” تابرک“ پڑھو اور اپنے گھر والوں تمام بچوں اور پڑوسیوں کو سکھائو اس لئے کہ وہ اپنے پڑھنے والوں کی طرف سے قیامت کے دن مدافعت کرے گی اور انہیں نجات دلائے گی۔ آنحضرت کا ارشاد ہے۔” میں چاہتا ہوں کہ میری امت کے ہر شخص کے دل میں سورۃ ملک ہو۔ (مسند رک حاکم) حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ آنحضرت سورۃ الم تنزیل السجدہ اور سورۃ تبارک الذی بیدہ الملک ہر رات پڑھتے اور سفر و حضر میں کبھی ناغہ نہ کرتے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو ان کے پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ بخاری کی بعض شروع میں ہے کہ رویت ہلال پر اس کی قرأت مندوب ہے۔ امید ہے کہ اس کا پڑھنے والا اس مہینہ کے شرور سے محفوظ رہے گا۔ (روح) الملك
1 الملك
2 ف 2 یعنی موت اور زندگی کا یہ سلسلہ جو دنیا میں چل رہا ہے اللہ تعالیٰ کے قائم کردہ ہے اور اس سے مقصود یہ ہے کہ آدمی کے اعمال کا امتحان لیا جائے اور ایمان و اطاعت کے بعد یہ دیکھا جائے کہ کمال احسان کا درجہ کس میں پایا جاتا ہے اگر عمل اچھے ہوں گے تو آخرت میں ان کا اچھا اجر پائے گا اور اگر برے ہوں گے تو آخرت میں برا بدلہ پائے گا۔ موت و حیاۃ کا یہ سلسلہ بے مقصد نہیں ہے بلکہ آخروی شاہ صاحب لکھتے ہیں :” اگر مرنا نہ ہوتا تو بھلے برے کام کا بدلہ کہاں ملتا۔“ (موضح) ف 3 زبردست ہے یعنی اسے کوئی دوسرا اپنا فیصلہ نافذ کرنے سے نہیں روک سکتا اور بخشنے والا ہے یعنی جو شخص توبہ کرے اور اس کی طرف متوجہ ہو وہ اسے دوزخ سے بچا کر جنت میں داخل کرنے والا ہے۔ الملك
3 ف 4 یعنی انہیں ایک دوسرے کے اوپر بنایا۔ معراج کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر دو آسمانوں یک درمیان پانچ سو برس کی مسافت ہے۔ (ابن کثیر) ف 5 یعنی تمام خلوق حکمت اور کاریگری سے بنائی ہے جس پر بھی غور کرو گے وہ یکساں طور پر اپنے بنانے والے پر گواہی دے گی۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں ” تفاوت“ (فرق) یہ کہ جیسا چاہئے ویسا نہ ہو۔“ ف 6 ” مراد اس سے بار بار نظر کرنا ہے۔“ یعنی ایک دفعہ دیکھنے سے معلوم نہ ہو تو دوبارہ دیکھو۔ یہ ہر اس شخص سے خطاب ہے جو دیکھنے اور غور و فکر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ الملك
4 ف 7 یعنی دیکھتے دیکھتے نگاہ تھک جائے گی لیکن آسمان ( اور اسی طرح دوسری مخلوق) میں کوئی عیب نظر نہ آئے گا۔ الملك
5 ف 8 یعنی ان سے شعلے نکلتے ہیں جو شیطانوں پر پھینکے جاتے ہیں تاکہ وہ آسمان میں ” ملاء اعلیٰ“ کی گفتگو سن کر غیب سے متعلق کوئی بات اچک نہ سکیں۔ یہ آسمان میں ستاروں کا دوسرا فائدہ ہے۔ (دیکھیے صافات 7) واضح رہے کہ مصابیح مصباح کی جمع ہے اور اس سے مراد روش ستارے ہیں عام اس سے کہ وہ سیارے ہوں یا ثوابت کیونکہ سب اپنے افلاک اور مجاری میں ہیں۔ سلف کے ہاں معروف یہ ہے کہ سماء اور فلک ایک نہیں ہیں ان کو ایک کہنا صرف ان لوگوں کا قول ہے جنہوں نے متقدمین فلاسفہ اور شریعت کے نظریات کو مع کرنے کی کوشش کی یہ۔ ف 9 یعنی آخرت میں انہیں (شیاطین) کو دوزخ کا عذاب دیا جائے گا۔ الملك
6 الملك
7 ف 10 گدھے کی آواز کافروں کو جب دوزخ میں جھونکا جائیگا تو وہ اس میں سے ایسی آواز سنیں گے۔ الملك
8 ف 11” جس نے تمہیں اس دن آنے سے خبر دار کیا ہو۔ الملك
9 “ ف 12 یعنی تم اور تمہارے پیرو سب گمراہی میں پڑے ہوئے ہو۔ اللہ نے تم پر کوئی کتاب نازل نہیں کی اور نہ تمہیں بندوں تک پہنچانے کے لئے کوئی پیغام دیا۔ الملك
10 الملك
11 ف 1 سحق (پھٹکار) سے مراد یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دور ہوں۔ سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ ” سخق“ دوزخ کی ایک وادی کا نام ہے واللہ اعلم (شواکفی) الملك
12 ف 2 ” بن دیکھے“ سے مراد یہ ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے اور نہ اس کے عذاب کو محض انبیاء کی تصدیق کرتے ہوئے وہ اس پر ایمان رکھتے ہیں اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں۔ بالغیب کا دوسرا ترجمہ ” تنہائی میں بھی ہوسکتا ہے جیسا کہ صحیحین کی حدیثت ’ دسبعتہ بظلھم اللہ فی ظلہ“ میں ساتواں وہ شخص شمار کیا ہے جس نے تنہائی میں اللہ تعالیٰ کو یاد کیا اور اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔“ (ابن کثیر) الملك
13 الملك
14 ف 3 دوسرا ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ” جس نے پیدا کیا کیا وہ جانتا نہیں ہے؟“ پہلا صحیحہ ” من“ کو مفعول اور دوسرا ترجمہ فاعل ماننے کی صورت میں ہے۔ الملك
15 ف 4 ” ذلولا“ کے لفظی معنی ہیں ذلیل سخر اور تابعدار ملائم بنا دیا ہے کہتم جیسے چاہو اسے کھو دو، اس میں راستے بنائو اور اس کی مٹی سے کچی اور پکی عمارتیں تعمیر کرو وغیرہ ف 5 ” مناکب“ کے لفظی معنی ” کندھوں“ کے ہیں۔ مراد زمین کے راستے، اطراف اور پہاڑ ہیں۔ یعنی تین طرف چاہو سفر کرو، کسب و تجارت کے لئے چلو پھرو۔ ف 6 یعنی کھائو پیئو مگر آزادی سے نہیں بلکہ سمجھتے ہوئے کہ آخر کار تمہیں اپنے رب کے سامنے حاضر ہوتا ہے جو تم سے ایک ایک چیز کا حساب لے گا کہ اسے کن ذرائع سے حاصل کیا اور کہاں خرچ کیا؟ الملك
16 ف 7 یعنی بھونچال سے لرزنے لگے… پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے انعامات کا ذکر فرمایا تھا اور اس میں اپنی شان قہاریت کا اظہار کیا ہے … مطلب یہ ہے کہ زمین کوچہ تمہارے تابع کردی گئی ہے کہ تم جیسے چاہو اس میں تصرف کرسکو لیکن یاد رکھو کہ یہ اسی آسمان والے کی ملکیت ہے وہ چاہے تو تمہیں اس کے اندر دھنسا دے اور چاہے تو بھونچال سے لرزنے لگے۔ لہٰذا اس پر سرکش و خود مختار ہو کر نہیں بلکہ تابعداروں کی طرح ڈرتے ہوئے زندگی بسر کرو۔ الملك
17 ف 8 جیسا کہ اس نے قوم لوط اور اصحاب فیل پر پتھرائو کیا۔ ف 9 یعنی سچ تھا یا جھوٹ؟ لیکن تمہارا اس وقت جاننا تمہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکے گا، لہٰذا اس وقت جو مہلت تمہیں مل رہی ہے اس سے فائدہ اٹھائو اور توبہ کرو۔ الملك
18 ف 10 ” نکیر“ (عذاب) دراصل اس انتقامی کارروائی کو کہتے ہیں جو کسی کے خلاف اس کے طرز عمل کو غلط اور ناپسندیدہ سمجھ کر کی جاتی ہے۔ الملك
19 ف 11 یعنی اپنی کسی مخلوق سے بے خبر نہیں ہے۔ الملك
20 ف 12 دوسرا یہ بھی ہے کہ وہ کون سا لشکر ہے جو اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں تمہاری مدد کرسکتا اور اس کے عذاب سے تمہیں بچا سکتا ؟ ف 13 جو یہ سمجھتے ہیں کہ یہ بت اور جھوٹے معبود اللہ تعالیٰ کے مقابل ہمیں ان کی مدد کرسکیں گے اور اسی کے حضور سفارش کر کے انہیں اس کی پکڑ سے نجات دلا سکیں گے۔ الملك
21 الملك
22 ف 1 یہ مومن اور کافر کی مثال ہے۔ کافر باطل خیالات اور شرک کی تاریکیوں میں پھنسا ہوا ہے، جیسے کوئی اندھا ہو کر منہ کے بل چل رہا ہو۔ وہ بھلا صحیح راستہ پر کیسے چل سکتا ہے کہ اپنی مراد کو پہنچے۔ اس کے برعکس مومن توحید کی راہ پر سیدھا اتنا ہوا چل رہا ہے وہ یقینا اپنی منزل مقصود یعنی جنت تک پہنچے گا۔ الملك
23 ف 2 اللہ کی نعمتوں کا شکر یہی ہے کہ انہیں اس کی رضا مندی کے کاموں میں استعمال کیا جائے۔ کان کا شکریہ ہے کہ اس سے حق بات سنی جائے اور آنکھ کا شکریہ ہے کہ اس سے وہی چیز دیکھی جائے جس کے دیکھنے کا اللہ نے حکم دیا ہے یا اجازت دی ہے اور دل کا شکریہ ہے کہ اس میں وہی خیالات رکھے جائیں جو حق کے مطابق ہوں۔ یہی حال اللہ تعالیٰ کی دوسری نعمتوں کا ہے۔ الملك
24 الملك
25 ف 3 یعنی از راہ مذاق کہتے ہیں کہ جس قیامت کی تم ہمیں دھمکی دیتے رہے ہو وہ کب آئے گی؟ الملك
26 ف 4 یعنی وقت کی تعیین میں نہیں کرسکتا۔ اس کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔ میرا کام تو صرف یہ تھا کہ اس کے آنے سے پہلے تمہیں متنبہ کرتا سو میں نے تمہیں متنبہ کردیا۔ لہٰذا اب بھی وقت ہے کہ تم کفر و شرک کی روش سے باز آجائو اور توحید کی سیدھی راہ اختیار کرو تاکہ یقینی طور پر آنے والے درد ناک اور رسوا کن عذاب سے محفوظ رہ سکو۔ الملك
27 ف 5 یعنی غم اور افسوس کے مارے روسیاہ ہوجائیں گے اور ان پر ہوائیاں اڑنے لگیں گی۔ ف 6 یعنی بار بار پیغمبر اور مسلمانوں سے کہا کرتے تھے کہ بتائو یہ وعدہ کب پورا ہوگا الملك
28 ف 7 یعنی بچا لے دونوں صورتوں میں ہمارا جو انجام ہونا ہے وہ ہوگا مگر … ف 8 جو نہ صرف اس سے بچنے کی تدبیر نہیں کرتے بلکہ اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے پیغمبر اور مسلمان بچیں یا نہ بچیں کافروں کے متعلق تو یہ بات یقینی ہے کہ وہ اس سے بچنے والے نہیں ہیں لیکن وہ اتنے بدبخت ہیں کہ اپنی تو فکر نہیں کرتے پیغمبر اور مسلمانوں کے بارے میں انتظار کر رہے ہیں کہ ان پر عذاب کب آتا ہے ؟ الملك
29 الملك
30 ف 9 یعنی کوئی نہیں۔ تفسیر جلالین میں ہے کہ اس آیت کو پڑھنے اور سننے والے کو ” اللہ رب العلمین“ کہنا مستحب ہے۔ (وحیدی) الملك
0 ف 10 یہ سورۃ مکہ معظمہ میں نازل ہوئی۔ بعض کہتے ہیں کہ اس کا ابتدائی حصہ مکہ معظمہ میں اور آخری حصہ مدینہ منورہ میں نازل ہوا حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ سب سے پہلے سورۃ اقراء اتری پھر ن پھر مزتل اور پھر مدثر۔ ایسا قول حضرت عائشہ سے بھی منقول ہے۔ (شوکانی) ف 11 یہ حروف مقطعات میں سے ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد و رات ہے کیونکہ آگے قلم کا ذکر آرہا ہے۔ واللہ اعلم القلم
1 ف 12 (لوگوں کے) لکھنے کی“ یا ” اس کی جسے (فرشتے یا لوگ) لکھتے ہیں …“ قلم سے مراد قلم تقدیر ہے یا قلم بطور جنس مفسرین نے دونوں احتمال ذکر کئے ہیں۔ حدیث میں ہے کہ ” سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے قلم کو پیدا کیا۔“ (ابن کثیر) القلم
2 القلم
3 ف 1 یعنی آپ غمگین نہ ہوں۔ ان کے دیوانہ کہنے اور آپ کے برداشت کرتے چلے جانے سے آپ کے اجر میں اضافہ ہوگا اور آپ کو یقینا بے انتہا اجر ملے گا۔ القلم
4 ف 2 یہ آنحضرت کا ” خلق عظیم“ تھا کہ آپ کافروں کے ہاتھوں اور ان کی زبان سے طرح طرح کی تکلیفیں اٹھاتے تھے لیکن ان کے لئے بد دعا کا کوئی کلمہ زبان پر نہ لاتے تھے۔ حدیث میں ہے کہ آنحضرت نے کسی سے اپنی ذات کے لئے اتنقام نہیں لیا۔ ہاں اگر کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی حرمتوں کو پامال کرتا تو اسے اللہ کے لئے انتقام لیتے۔ ایک دوسری حدیث میں آنحضرت نے اپنی بعثت کا مقصد ہی عمدہ اخلاق کی تکمیل بتایا ہے کتاب الشمائل عام ترمذی اخلاق نبوی کے بیان پر بہترین مرقع ہے۔ (ابن کثیر) القلم
5 القلم
6 ف 3 یعنی قیامت کے روز جب حق واضح ہوگا اور ان دیکھی حقیقتوں سے پردہ اٹھے گا تو پتا چل جائے گا کہ حقیقت میں دیوانہ کون تھا۔ القلم
7 القلم
8 ف 4 ” کہا ماننے“ کی توضیح اگلی آیت میں آرہی ہے۔ القلم
9 ف 5 یعنی آپ ان کے معبودوں کو برا کہنا چھوڑ دیں تو وہ آپ کو اتنی مذہبی آزادی دیں کہ آپ کسی محدود جگہ میں اپنے رب کی عبادت کرتے ہیں۔ اسی مذہبی آزادی کا نام مداہنت ہے جس سے قرآن منع فرما رہا ہے۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں ” یعنی ان کے بتوں کو بھلا کر تو وہ تیری باتوں کو پسند کریں۔ القلم
10 القلم
11 القلم
12 القلم
13 “ ف 6 ” یہ سب کافر کے وصف ہیں۔ آدمی اپنے اندر دیکھیے اور یہ خصلتیں چھوڑے۔“ نیم“ (بد ذات) شاہ صاحب لکھتے ہیں ” بدنام یعنی بدی کرمشور“ یا جو غلط طور پر کسی خاندان کی طرف منسوب ہو اس لئے علمائے تفسیر نے اس کی تفسیر ” حرا مزادہ“ سے بھی کی ہے۔ روایات میں کئی لوگوں کے نام ہیں جنج کے بارے میں یہ آیات نازل ہوئیں (ابن کثیر) القلم
14 القلم
15 ف 7 یعنی ڈھکو پہلے یا من گھڑت قصے جن کا کوئی اعتبار نہیں۔ القلم
16 ف 8 یعنی اسے خوب رسوا اور روسیاہ کریں گے دنیا میں بھی اور قیامت کے روز بھی۔ القلم
17 ف 9 یعنی باغ والوں کی طرح ہم نے انہیں بھوک اور قمر و سالی میں مبتلا کردیا۔ ان باغ والوں کا قصہ مکہ والوں میں مشہور و معروف تھا کیونکہ یہ باغ یمن کے شہر صنعا سے چند میل کے فاصلہ پر بنو ثفیف کے ایک نیک شخص کا تھا۔ وہ اس کی پیداوار میں سے اللہ کے حکم کے مطابق صدقہ و خیرات کرتا اس کے انتقال کے بعد جب اس کے وارث آئے تو انہوں نے فقیروں کا حق نکالنا بند کردیا۔ اس کا نتیجہ کیا ہوا اس کا ذکر آگے آرہا ہے۔ (شوکانی) ف 10 تاکہ فقیر و محتاج اپنا حق مانگنے کے لئے جمع نہ ہو سکیں۔ القلم
18 ف 11 تاکہ فقیر و محتاج اپنا حق مانگنے کے لئے جمع نہ ہو سکیں۔ دوسرا ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ” غریبوں کے لئے“ کچھ نہ چھوڑیں گے۔ القلم
19 “ ف 12 پھیرا کرنے والی بلا سے مراد آگ کا بگولا ہے جس نے رات کے وقت اس باغ کو جلا ڈالا بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد حضرت جبریل ہیں جنہوں نے باغ کے تمام درختوں کو جڑوں سے اکھاڑ پھینکا (شوکانی) حدیث میں ہے کہ گناہ سے بچو … بعض گناہ ایسے ہیں جن کی بدولت انسان اس رزق سے محروم ہوجاتا ہے جو اس کے لئے تیار کیا گیا ہے پھر آنحضرت نے یہ آیت تلاوت کی اور فرمایا یہ لوگ اپنے گناہ کی بدولت اپنے باغ کی پیداوار سے محروم ہوگئے۔ ( شوکانی) القلم
20 ف 13 ۃ فرار نے ” صریم“ کی تفسیر ” کالی رات“ سے کی ہے۔ یعنی وہ باغ جل کر راکھ ہوگیا۔ (شوکانی) القلم
21 القلم
22 القلم
23 القلم
24 القلم
25 ف 14 علی حررر“ کے مفسرین نے کئی مطلب بیان کئے ہیں بعض کہتے ہیں کہ ” وہ تیزی اور زور سے چلے“ یا ” وہ غصہ سے چلے“ یا ” وہ اپنے آپ کو نجیلی پر قادر سمجھتے ہوئے چلے“ یا ” حرد“ ان کے باغ کا نام تھا، یعنی وہ اپنے آپ کو اس باغ پر قادر سمجھتے ہوئے چلے۔“ بہرحال وہ یہ سمجھتے ہوئے صبح سویرے چل دیئے کہ جاتے ہی سارا میوہ اپنے قبضہ میں کرلیں گے اور غریبوں مسکینوں کے لئے کچھ نہ چھوڑیں گے۔ القلم
26 ف 15 یعنی شاید ہم کسی دوسری جگہ آگئے ہیں۔ یہ باغ جوکٹا ہوا یا جلا ہوا ہے ہمارا نہیں ہے۔ ف 6 1 یعنی بعد میں جب انہوں نے غور کیا تو سمجھ گئے کہ نہیں یہ جگہ تو ہمارے ہی باغ کی ہے لیکن ہماری قسمت پھوٹ گئی اور ہم اللہ تعالیٰ کی درگاہ سے دھتکار دیئے گئے۔ القلم
27 القلم
28 ف 1 ” لولا تسبحون“ کے لفظی معنی ہیں ” تم تسبیح کیوں نہیں کرتے“ اس مقام پر تسبیح سے مراد ” انشاء اللہ“ بھی ہوسکتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کرنا اور قول و عمل سے اس کا شکر بجالانا بھی۔ القلم
29 القلم
30 ف 2 ایک دوسرے پر الزام دھرنے لگے کہ تمہارے ہی مشورہ پر چل کر ہم اس تباہی سے دوچار ہوئے۔ القلم
31 ف 3 ” حد سے بڑھنا یہی تھا کہ انہوں نے خدا کا خیال چھوڑ دیا اور اس کے دیئے ہوئے مال کو اپنا سمجھنے لگے۔ اس لئے ایسی تجویزیں سوچنے پر اتر آئے کہ فقیروں اور محتاجوں کو ان کے حق سے محروم کردیا۔ حتی کہ ” انشاء اللہ“ کہنے کی بھی ضرورت محسوس نہ کی۔ القلم
32 ف 4 یا ” اپنے مالک کی طرف رجوع کرتے ہیں۔“ یعنی اپنے کئے پر شرمندہ ہو کر اس کے حضور توبہ استغفار کرتے ہیں۔ القلم
33 ف 5 ” جیسے وہ مکہ والوں پر یا ان باغ والوں پر اترا۔ القلم
34 القلم
35 “ ف 6 ” ھمزہ“ برائے انکار اور فاء عاطفہ ہے اور اس کا عطف مقدر پر ہے : ای فیعیف فی الحکم فیجعل المسلمین کا لکافرین یعنی ہرگز برابر نہ کریں گے کیونکہ اگر ایسا ہو تو جزا سزا کا سارا قانون ہی بے معنی ہو کر رہ جائے۔ یہ آیت ” ان المتقین“ کی تاکید ہے اور اسسے مقصود کفار مکہ کے اس خیال کی تردید ہے کہ اگر واقعی قیامت آئی جیسا کہ محمد (ﷺ) کا دعویٰ ہے تو اس میں ہمارا اور مسلمانوں کا حال وہی ہوگا جو اس دنیا میں ہے۔ ہم چونکہ یہاں مالدارو خوشحال ہیں اس لئے آخرت میں بھی مسلمانوں سے زیادہ عنایات و انعامات سے نوازے جائیں گے یا کم از کم ان کے برابر تو ہوں گے ہی۔ القلم
36 القلم
37 القلم
38 القلم
39 القلم
40 ف 7 یعنی ان میں سے کون اس چیز کا ذمہ لیتا ہے کہ آخرت میں انہیں وہی ملے گا جو مسلمانوں کو ملے گا بلکہ اس سے بھی زیادہ۔ القلم
41 ف 8 ” جو اس چیز کا ذمہ لیتے ہیں اور انسے اس باطل خیال میں موافقت کرتے ہیں؟ القلم
42 “ ف 9 یعنی ان کی پیٹھ کی پسلیاں جڑ کر یخ بستہ ہوجائیں گی اور وہ سجدہ کے لئے جھلک نہ سکیں گے۔ اس آیت کی یہ تفسیر حدیث سے ثابت ہے حضرت ابوسعید خدری سے روایت ہے کہ آنحضرت نے فرمایا : ” ہمارا پروردگار اپنی پنڈلی کھولے گا۔ تمام ممن مرد اور عورتیں اس کو سجدہ کریں گے، لیکن جو لوگ دنیا میں محضدکھلاوے اور شہرت کے لئے سجدہ کرتے تھے وہ رہ جائیں گے، وہ سجدہ کرنا چاہیں گے لیکن ان کی پیٹھ تخ ہیک طرح اکڑ جائے گی…یہ حدیث صحیحین اور دوسری کتابوں میں متعدد اسانید سے آئی ہے۔ (شوکانی) بعض مفسرین نے کہا ہے کہ یہاں کشف ساق“ کنایہ ہے شدت سے کہ قیامت کا دن بڑا سخت ہوگا، چنانچہ جاہد ابراہیم نخعی اور عکرمہ وغیرہ نے یہی تفسیر بیان کی ہے اور حضرت ابن عباس سے بھی متعدد طرق کے ساتھ مروی ہے اور بعض علماء سے ایک دوسری تاویل بھی منقول ہے یعنی ” ساق الشی“ کسی چیز کے اصل کو کہا جاتا ہے پس اس کے معنی یہ ہیں کہ ’ دجس روز حقیقت حال ظاہر کردی جائے گی۔“ چنانچہ بیع بن انس نے اس کی تفسیر ” یوم یکشف الغطاء“ سے کی ہے۔ مگر پہلی تفسیر حدیث سے ثابت ہے کہ یہاں ساق سے مراد سابق باری تعالیٰ ہے اور یہ آیت متشا بہات سے ہے اور اللہ تعالیٰ کی صفات کی کوئی تاویل کرنا بدعت پرست متکلمین کا طریقہ ہے۔ سلف صالحین ان کی کوئی تاویل نہیں کرتے بلکہ انہیں ان کے ظاہری معنی مجمول کرتے ہیں۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ سمع، بصر، میں اور وجہ کی طرح اللہ تعالیٰ کی پنڈلی ہونا بھی قرآن و حدیث سے ثابت ہے اس لئے ہم اس پر بلا کیف ایمان رکھتے ہیں۔ متاولین نے الہ حدیث اور سلف کو عدم تاویل کی وجہ سے تجبیم و تشبیہ کا طعنہ دیا ہے حالانکہ دوسری طرف ان کی یہ تاویلات لطفی الی التعطیل ہیں۔ شاہ ولی اللہ صاحب فرماتے ہیں، جو لوگ اہل حدیث کو تجسیم و تشبیہ کا قائل قرار دیتے ہیں وہ خود خطاء پر ہیں (وحید) القلم
43 ف 10 گویا آخرت میں انہیں یہ سزا جائے گی کہ انہیں سجدہ کرنے کے ناقابل بنا دیا جائے گا۔ کعب الاحبار کہتے ہیں کہ یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو نماز با جماعت میں شریک نہیں ہوتے۔ (شوکانی) القلم
44 ف 1 یعنی دنیا میں ان کے لئے طرح طرح کی عیش و آرام کے اسباب فراہم کریں گے تاکہ وہ اور زیادہ غافل ہوجائیں اور پھر آخر کار جہنم میں چلے جائیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا استدراج اور مکر ہے جس کا متعدد آیات میں ذکر کیا گیا ہے۔ (مومنوں 56 انعام آیت 44۔ اعراف 183) القلم
45 القلم
46 ف 2 یعنی ایسا ہرگز نہیں ہے۔ القلم
47 ف 3 اس لئے یہ آپ کے اتباع کی ضرورت نہیں سمجھتے ؟ ظاہر ہے کہ ایسا بھی ہرگز نہیں ہے۔ القلم
48 ف 4 یعنی استقلال اور تن دہی سے دعوت و تبلیغ کے کام میں لگے رہئے عنقریب اللہ تعالیٰ خود حکم نازل فرمائے گا کہ ان کفار سے کیا معاملہ کرنا ہے۔ القلم
49 ف 5 فضل سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں توبہ کی توفیق دی اور تسبیح واستغفار پڑھنا شروع کیا۔ القلم
50 ف 6 یعنی ان کا متربہ اور بڑھایا اور انہیں اعلیٰ درجہ کے نیک اور شائستہ بندوں میں داخل رکھا۔ صحیحین میں حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ آنحضرت نے فرمایا : کسی شخص کو یہ نہیں کہنا چاہئے کہ میں (حضرت) یونس بن متی سے بہتر ہوں۔ (ابن کثیر) حضرت یونس کا قصہ سورۃ یونس آیت 98 اور سورۃ انبیاء آیت 88-87 میں تفصیل سے گزر چکا ہے۔ القلم
51 ف 7 یعنی آپ کی طرف انتہائی غصہ سے بھری ہوئی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ القلم
52 ف 8 ” پھر جو شخص ایسا کلام سنائے بھلا بائو لا ہوسکتا ہے۔ القلم
0 “ ف 9 یہ سورۃ بالا تفاق مکی ہے۔ حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ آنحضرت فجر کی نماز میں سورۃ حاقہ اور اس جیسی دوسری سورتیں پڑھا کرتے تھے۔ (شوکانی) الحاقة
1 ف 10 مراد قیامت ہے اسے ” حق ہونیوالی“ اس لئے فرمایا گیا کہ اس کا اور اس میں جزا و سزا کا واقع ہونا حقیقت ہے۔ الحاقة
2 الحاقة
3 ف 11 یعنی اس کی اور اس میں واقع ہونیوالے دلگداز مناظر کی پوری حقیقت آپ کو بھی معلوم نہیں ہے۔ الحاقة
4 ف 12 قیامت کے بہت سے نام ہیں۔ ان میں سے ایک قارعہ (کھڑاکھڑانیوالی) ہے اس لئے کہ وہ اپنی شدت سے دلوں کو ہلادیگی۔ الحاقة
5 ف 13 یا ” وہ اپنے کفر و سرکشی کی بدلوت تباہ کردیئے گئے۔ لفظ ” طاغیہ“ کے یہ دونوں مفہوم ہو سکتے ہیں۔ الحاقة
6 الحاقة
7 ف 14 ” حسوماً کے معنی ” برابر“ یعنی لگاتار اور ” منحوس“ دونوں ہو سکتے ہیں۔ (دیکھیے حم السجدہ :16) ف 1 یعنی کھوکھلے اور بے جان تنے جن کے سر اوپر سے کٹ گئے ہیں۔ اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ عاد کے عام لوگ بڑے قد آور اور گرانڈ یل پہلوان تھے۔ صحیحین میں ہے کہ آنحضرت نے فرمایا : ” عاد پر دبور یعنی پچھوا ہوا چلائی گئی اور میری صبا یعنی مشرق سے آنیوالی ہوا کے ذریعہ مدد کی گئی (ابن کثیر) الحاقة
8 ف 2 مطلب یہ ہے کہ سب تباہ کردیئے گئے اور ان میں سے کوئی بھی باقی نہ بچا۔ الحاقة
9 ف 3 جیسے قوم نوح اور قوم شعیب۔ الحاقة
10 ف 4 یعنی ان میں سے کسی قوم نے اپنے مالک کے پیغمبر کا کہا نہ مانا۔ الحاقة
11 ف 5 یعنی تمہارے آبائو اجداد کو جبکہ تم ان کی پشتوں میں تھے کشتی میں سوار کرلیا۔ الحاقة
12 ف 6 ” ھا“ کی ضمیر کشتی کے لئے بھی ہو سکتی ہے اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کشتی کو تمہارے لئے یادگار بنائیں۔ اس صورت میں کشتی سے مرا خاص حضرت نوح کی کشتی بھی ہو سکتی ہے اور ہر کشتی بھی کیونکہ وہ اس کی جنس سے ہونے کی وجہ سے اس کی یادگار ہے۔ قتادہ کہتے ہیں کہ حضرت نوح کی کشتی کو اس امت کے ابتدائی لوگوں نے دیکھا ہے۔ (ابن کثیر) ف 7 مراد ہر وہ شخص ہے جو واقعات کو سن کر انہیں سمجھنے اور یاد رکھنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ الحاقة
13 ف 8 جیسا کہ پچھلیآیات کے تحت بیان کیا جا چکا ہے۔ صور دو مرتبہ پھونکا جائے گا۔ پہلی مرتبہ اس وقت جب تمام مخلوقات فنا ہوجائے گی اور دوسرا اس وقت جب تمام لوگ زندہ ہو کر اپنی قبروں سے نکلیں گے۔ الحاقة
14 الحاقة
15 الحاقة
16 الحاقة
17 ف 9 کیونکہ وہ درمیان سے پھٹ جائیگا۔ ضحاک کہتے ہیں اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرشتوں کے حکم دے گا تو وہ زمین پر اتر آئیں گے اور اسے اور اس کے رہنے والوں کو گھیر لیں گے۔ (شوکانی) ف 10 یا ” فرشتوں کی آٹھ صفیں اٹھائینگی جن کی تعداد صرف اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے جیسا کہ ابن عباس سے متعدد طرق کے ساتھ مروی ہے مگر قرآن کے ظاہری الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ آٹھ فرشتے ہونگے اور اس کی تائید بعض صحیح روایات سے بھی ملتی ہے۔ ابن عربی نیفتوحات میں ملۃ العرش پر مفصل بحث کی ہے اور لکھا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ عظمت الٰہی کی ہے اور لکھا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ عظمت الٰہی کی تمثیل ہو اور اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہونا حساب سے کنایہ ہو۔ (روح) الحاقة
18 الحاقة
19 الحاقة
20 ف 11 اس آیت میں ” یقین“ کے لئے اصل لفظ ” ظن“ اسعتمال ہوا ہے۔ ظن کے لفظی معنی اگرچہ گمان کے ہیں لیکن یہاں اس سے مراد یقین لنیا ضروری ہے کہ آخرت میں نجات کا انحصاریقین پر ہے۔ ضحاک کہتے ہیں کہ قرآن میں جہاں لفظ ظن مومن کی طرف منسوب ہوا ہے وہاں اس کے معنی یقین کے ہیں اور جہاں کافر کی طرف ہوا ہے اس سے مراد شک ہے۔ الحاقة
21 الحاقة
22 الحاقة
23 ف 12 یعنی اتنے نیچے ہوں گے کہ آدمی انہیں ہاتھ سے توڑے گا۔ الحاقة
24 الحاقة
25 الحاقة
26 ف 1 یعنی مجھے پتا ہی نہ چلتا کہ میرا حساب کیسا ہے اور کیسا نہیں ہے۔ الحاقة
27 ف 2 یعنی کاش ! میں مرنے کے بعد دوبرہ زندہ ہی نہ کیا جاتا۔ الحاقة
28 الحاقة
29 ف 3 ” سلطان“ سے مراد دلیل و حجت اور دولت و حکومت چیز ہو سکتی ہے۔ مقاتل کہتے ہیں کہ اس سے مراد وہ اقتدار ہے جو ہر شخص کو اپنے ہاتھ پائوں پر ہوتا ہے چنانچہ قیامت کے روز جب کافر کے ہاتھ پائوں اس کے خلاف گواہی دینگے تو وہ کہے گا ” ھلک عنی سلطانیہ“ آج میرا اقتدار مجھ سے جاتا رہا۔ (شوکانی) الحاقة
30 الحاقة
31 الحاقة
32 ف 4 حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ وہ ” زنجیریں اس کے پیچھے سے داخل کر کے منہ سے نکالی جائیں گی۔“ (ابن کثیر) الحاقة
33 الحاقة
34 ف 5 یعنی اتنا کنجوس تھا کہ نہ اپنے آپ کو اور نہ اپنے علاوہ دسروں کو غرباء اور محتاجوں کو کھانا کھلانے پر ترغیب دیتا تھا گویا نہ اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کرتا تھا اور نہ اس کے بندوں کے۔ (ابن کثیر) الحاقة
35 الحاقة
36 ف 6 یا ” زخموں کا دھوئوں“ عموماً مفسرین نے غسلین کے یہی معنی بیا نکئے ہیں۔ ضحاک اور ربیع کہتے ہیں کہ وہ ایک درخت ہے جسے دوزخی کھائیں گے۔ قتادہ کہتے ہیں کہ وہ بدترین قسم کا ایک کھانا ہے۔ ابن زید کہتے ہیں کہ اس کی اور زقوم کی حقیقت اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ دوسری آیت میں ہے۔ لیس لھم طعام الامن ضریع“ ان کو ضریع کے سوا کوئی کھانا نصیب نہ ہوگا۔ اس لئے ممکن ہے غسلین سے مراد ” ضریع“ ہی ہو۔ (شوکانی) الحاقة
37 الحاقة
38 ف 7 جیسے زمین و آسمان، آدمی اور جانور وغیرہ … آیت کا یہ مطلب اس صورت میں ہے جب فلا میں لا کو زائد مانا جائے جیسا کہ اکثر مفسرین کا خیال ہے ورنہ مطلب یہ ہوگا کہ ” مجھے ان چیزوں کی قسم کھانے کی ضرورت نہیں جنہیں تم دیکھتے ہو الحاقة
39 الحاقة
40 ف 8 مراد حضرت جبریل ہیں مگر“ رسول کریم“ سے مراد آنحضرت ہو تو مطلب یہ ہوگا کہ یہ قرآن ایک عزت والے پیغمبر کے پڑھ کر سنانے کی چیز ہے۔ الحاقة
41 الحاقة
42 “ ف 9 یعنی بالکل غور نہیں کرتے۔ اگر غور کرتے تو ہرگز اس قسم کی بکواس نہ کرتے۔ الحاقة
43 الحاقة
44 الحاقة
45 ف 10 شاہ صاحب فرماتے ہیں یعنی اگر جھوٹ بناتا اللہ پر تو اول اس کا دشمن اللہ ہوتا اور ہاتھ پکڑتا۔ یہ دستور ہے گردن مارنے کا کہ جلاد اس کا ہاتھ پکڑ رکھتا ہے اپنے بائیں ہاتھ میں تا سرک نہ جائے۔ (موضح) الحاقة
46 ف 11 یعنی گردن کی وہ رگ جو دل سے ملتی ہے اور اس کے کٹنے سے آدمی فوراً مر جاتا ہے۔ الحاقة
47 ف 12 یعنی اسے ہمارے عذاب سے نہ بچا سکتا۔ یہ بات آنحضرت کی نبوت کی صداقت پر بطور دلیل کے نہیں فرمائی بلکہ یہاں اس سے مقصد یہ ہے کہ آنحضرت جو اللہ کے سچے پیغمبر ہیں اس قرآن میں اپن طرف سے ایک حرف ایک شوشہ کا بھی اضافہ نہیں کرسکتے۔ اگر آپ ایسا کرتے تو ایک لمحہ کے لئے بھی آپ کو مہلت نہ دی جاتی۔ اس آیت کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ جھوٹا نبی فوراً ہلاک کردیا جاتا ہے … اس زمانہ میں ایک جھوٹے مدعی نبوت نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ اگر میں جھوٹا ہوتا تو میری نبوت کا زمانہ 3 ہ سال سے زائد نہ ہوتا جو آنحضرت کی نبوت کا زمانہ ہے بلکہ میں اس سے پہلے ہی ہلاک کردیا جاتا۔ ایک استدلال غلط اور دوسرے نبوت کا زمانہ 23 سال سے زائد کا افتراء جھوٹا نبی ہی باندھ سکتا ہے کیونکہ جو لوگ ان کی تاریخ سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ اس نے نومبر 19-1 میں نبوت کا دعویٰ کیا اور 26 مئی 1908 ء کو بمقام لاہور بمرض ہیضہ انتقال کر گیا۔ (تفسیر ثنائی میں یہ بحث مفصل مذکور ہے) الحاقة
48 الحاقة
49 ف 13 یعنی قرآن کو نہیں مانتے ہم انہیں عنقریب سزا دیں گے۔ الحاقة
50 ف 14 یعنی جب وہ قیامت کے دن اپنے برے اور اہل ایمان کے اچھے انجام کو دیکھیں گے تو حسرت کریں گے کاش ہم بھی اگر قرآن پر ایمان لے آتے تو آج اس برے انجام سے دوچار نہ ہوتے۔ الحاقة
51 ف 15 یعنی اس کے کلام الٰہی ہونے میں ذرہ بھر شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔ الحاقة
52 الحاقة
0 ف 1 اس سورۃ کے مکی ہونے پر سب کا اتفاق ہے۔ (شوکانی) المعارج
1 المعارج
2 ف 2 حضرت ابن عباس فرماتے ہیں یہ شخص جس نے عذاب مانگا نضر بن حارث تھا جبکہ اس نے یہ کہا تھا اللھم ان کان ھذا ھو الحق میں عندک فامطر علینا حجارۃ من السمآء اوئینا بعذاب الیم چنانچہ یہ شخص بدر کے روزمارا گیا۔ جمہور علماء تفسیر نے یہی تاویل کی ہے۔ یا ممکن ہے عذاب مانگنے والے سے مراند آنحضرت ہی ہوں۔ چنانچہ شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ ” یعنی پیغمبر نے تم پر عذاب مانگا ہے وہ کسی سے نہ ہٹایا جائیگا۔ (موضح) مگر پہلی تاویل قابل ترجیح ہے۔ المعارج
3 المعارج
4 ف 3 یعنی وہ پچسا ہزار سال میں اس مقام تک پہنچے گا جہاں یہ فرشتے ایک دن میں چڑھ جاتے ہیں۔ یہ مطلب اس صورت میں ہے جب دن کا تعلق فرشتوں کے چڑھنے سے ہو۔ اگر اس کا تعلق عذاب سے ہو تو مطلب یہ ہوگا کہ یہ عذاب اس دن ہوگا جس کی مدت پچاس ہزار سال ہے یعنی قیامت کا دن۔ (شوکانی) المعارج
5 المعارج
6 المعارج
7 المعارج
8 المعارج
9 المعارج
10 ف 4 یعنی ہر شخص کو اس کے عزیز دوست دکھلائے جائیں گے لیکن ایسا نفسا نفسی کا عالم ہوگا کہ وہ انہیں دیکھے اور پہچانے گا مگر ان کی ہرگز فکر نہ کرے گا جیسا کہ دوسری آیات میں ہے۔ (دیکھیے 127) اور یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ اس سے سوال نہیں کرے گا کہ اس کے گناہوں کا کچھ بوجھ اٹھا لے کیونکہ اس سے وہ مایوس ہوگا۔ المعارج
11 المعارج
12 المعارج
13 المعارج
14 المعارج
15 المعارج
16 المعارج
17 المعارج
18 المعارج
19 المعارج
20 ف 5 مصیبت یعنی محتاجی اور بیماری وغیرہ المعارج
21 المعارج
22 المعارج
23 ف 6 یعنی جو کوئی نماز ترک نہیں کرتے یا جو ہمیشہ وقت پر نماز پڑھتے ہیں۔ یہاں نماز سے نماز فرض مراد ہے مگر عموم پر محمول کرنا بہتر ہے۔ اس سے عبادت پر دوام کی فضیلت نکلتی ہے۔ ابوسلمہ فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ نے مجھ سے بیان کیا کہ آنحضرت نے فرمایا : خذو امن العمل ماتطیقون فان اللہ لا یمل حتی تملوا قالت فکان احب الاعمال الی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مادام علیہ وان قل عبادت اتنی کرو جتنی طاقت ہو۔ یعنی حد سے زیادہ اپنے اوپر بوجھ نہ ڈالو ورنہ تم اکتا کر چھوڑ بیٹھو گے۔ حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ آنحضرت کو سب سے محبوب عمل وہ ہوتا جسے آپ ہمیشہ کرتے خواہ تھوڑا ہی ہو۔ المعارج
24 المعارج
25 المعارج
26 ف 1 یعنی اپنے اعمال سے تصدیق کرتے ہیں کہ انہیں قیامت کے آنے کا یقین ہے۔ المعارج
27 المعارج
28 ف 2 لفظی مطلب یہ ہے کہ وہ ایسا نہیں ہے کہ اس سے بے خوف ہوا جائے۔ المعارج
29 المعارج
30 المعارج
31 ف 3 یعنی جو اپنی بیوی یا لونڈی کے علاوہ کسی اور ذریعہ سے اپنی شہوت پوری کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے ہی لوگ حرام کاری کا ارتکاب کرنے والے ہیں۔ (دیکھیے مومنون :7) المعارج
32 المعارج
33 ف 4 یعنی سچی گواہی دیتے ہیں کسی کے ڈر یا طمع سے گواہی دینے میں جھوٹ نہیں بولتے اور نہ کوئی بات چھپاتے ہیں دیکھیے (سورہ بقرہ 42-40) المعارج
34 ف 5 یعنی اسے دھیان سے تمام ارکان و شرائط کے ساتھ وقت پر ادا کرتے ہیں۔ اوپر کی آیت میں نماز پر دوام کی تعریف کی ہے اور اس آیت میں نفس نماز کی حافظت پر مومنین کی صفات کی ابتداء اور انتہا میں نماز کی حفاظت پر زور دیا ہے اور کیوں نہ ہو جبکہ نماز ہی مومن کی معراج ہے اور باری تعالیٰ کے ساتھ مناجات ہے۔ اس بناء پر آنحضرت نے فرمایا ہے : جعلت قرۃ عینی فی الصلوۃ کہ میری آنکھ کی ٹھنڈک نماز میں رکھی گئی ہے۔ (روح) المعارج
35 ف 6 یعنی یہ ہیں ان لوگوں کی صفات جو بہشت میں عزت سے رہیں گے۔ المعارج
36 المعارج
37 المعارج
38 ف 7 یعنی ان کے جھنڈ کے جھنڈ آپ کی مجلس میں آ کر بٹھتے اور آپ کی زبان مبارک سے قرآن کی آیتیں سنتے ہیں لیکن آپ کی کسی نصیحت پر عمل نہیں کرتے بلکہ آپ کا مذاق اڑاتے ہیں۔ کیا اس پر بھی ان میں سے ہر شخص یہ امید رکھتا ہے کہ وہ جنت میں داخل کیا جائے گا؟… مفسرین کہتے ہیں کہ مشرکین مکہ کہا کرتیت ھے کہ اگر مسلمان جنت میں جائیں گے تو ہم ان سے پہلے جنت میں پہنچیں گے۔ ان کے اسی زعم باطل کی اس آیت میں تردید فرمائی گئی ہے۔ (فتح القدیر) المعارج
39 ف 8 یعنی ایک حقیر قطرہ سے اس پر اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں یہ سرکشی اور یہ بے خوفی؟ المعارج
40 ف 9 مشرق (پورب) کئی ہیں کیونکہ ہر روز سورج ایک نئی جگہ سے طلوع ہوتا ہے اسی طرح مغرب پچھم) کیونکہ ہر روز سورج ایک نئی جگہ غروب ہوتا ہے۔ (تفصیل سورۃ صافات کی آیت 5 کے تحتگزر چکی ہے۔) المعارج
41 ف 10 یعنی ہم چاہیں تو انہیں ہلاک کردیں اور ان کی جگہ ایسے لوگ زمین میں بسا دیں جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت گزار ہوں۔ ہم ایسا کرنا چاہیں تو ان کییہ ہرگز مجال نہیں ہے کہ ہمیں اپنے ارادہ سے باز رکھ سکیں، لیکن ہماری اپنی حکمت کا تقاضا ہے، اس لئے ہم انہیں مہلت پر مہلت دیئے جا رہے ہیں۔ ان کی انتہائی بدبختی ہے کہ اس مہلت سے فائدہ اٹھانے کے بجائے سرکشی میں بڑھتے جا رہے ہیں۔ المعارج
42 ف 11 یعنی قیامت کا دن المعارج
43 ف 1 یعنی گویا کوئی خاص نشان ہیں جن کی طرف یہ تیزی سے دوڑ رہے ہیں یا ” نصب“ سے مراد ان کے وہ استھان ہیں جن پر وہ دنیا میں اپنے جانور ذبح کیا کرتے تھے اور ان کی طرف لپکا کرتے تھے۔ فی زماننا جو ائمہ کے تابوت یا ان کی قبروں کی پوجا کرتے ہیں وہ ان کی طرف دوڑ کر جاتے ہیں گویا یہ مشرکین کی پرانی عادت ہے۔ المعارج
44 المعارج
0 ف 2 یہ سورۃ مکہ میں نازل ہوئی ایک روایت میں ہے کہ جب آنحضرت کو حضرت نوح اور ان کی قوم پر شہادت کے لئے بلایا جائے گا تو آپ بطور دلیل کے ان کے سامنے سورۃ نوح تلاوت فرمائیں … مستدرک حاکم میں ہے کہ اکثر صحابہ کے نزدیک حضرت نوح کا زمان حضرت ادریس سے پہلے کا ہے، اور حضرت نوح اور آدم کے درمیان دس قرن کا زمانہ ہے اور سب سے پہلے نبی ہیں جن پر شریعت نازل ہوئی اور انہوں نے اپنی قوم کو شرک سے ڈرایا اس بنا پر حضرت نوح کو شیخ المرسلین اور آدم ثانی بھی کہا جاتا ہے۔ نوح
1 ف 3 حضرت نوح پہلے رسول ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے بندوں کو شرک کے انجام سے ڈرانے کا حکم دیا۔ ان کے زمانہ اور عجم وغیرہ کے متعلق بحث سورۃ عنکبوت میں گزر چکی ہے۔ ف 4 مراد دوزخ کا عذاب بھی ہوسکتا ہے اور طوفان کا بھی۔ نوح
2 نوح
3 ف 5 ” اور اسی کے بندے بن کر رہو۔“ ” عبادت“ کے لفظ میں پوجا اور بندگی دونوں کا مفہوم شامل ہے۔ نوح
4 ف 6 دوسرا ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ” وہ تمہارے گناہ بخش دے گا۔“ اس صورت میں ” من“ کا لفظ زائد ہوگا۔ نوح
5 ف 7 یعنی ایک مدت تک حضرت نوح اپنی قوم کو سمجھاتے رہے لیکن وہ اپنی سرکشی سے باز نہ آئے۔ اس پر آخر کار حضرت نوح نے دعا کی۔ نوح
6 ف 8 یعنی میرے بلانے پر ایمان تو کیا لاتے ایمانسے انہیں اور زیادہنفرت ہوگئی، گویا میرے بلانے کا ان پر الٹا اثر ہوا۔ نوح
7 ف 9 مطلب یہ ہے کہ انہوں نے دشمنی پر کمر باندھ لی۔ ف 10 یعنی کفر و شرک کو چھوڑنے پر تیار نہ ہوئے۔ نوح
8 نوح
9 ف 11 یعنی مجمعوں میں دعوت عام کے ذریعے بھی سمجھایا اور انفرادی طور پر ایک ایک شخص کو بھی۔ الغرض ان کے سمجھانے میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا۔ نوح
10 ف 12 یعنی تمہارے گناہ بخش دے گا۔ نوح
11 نوح
12 ف 1 معلوم ہوا کہ استغفار سے صرف آخرت ہی نہیں بلکہ دنیا میں بھی خوشحال اور مال و دولت اور اولاد میں برکت نصیب ہوتی ہے اسی بناء پر نماز استسقا میں اس سورۃ کا پڑھنا مستحب ہے۔ حضرت عمر سے متعلق روایات میں ہے کہ آپ استقاء (بارش کی دعا) کیلئے منبر پر چڑھے تو صرف استغفار کیا اور استغفار سے متعلق آیات کی تلاوت کی، جن میں ایک یہ آیت تھی۔ پھر منبر سے اتر کر فرمایا : لقد طلبت الغیث بمخارج السمآء التی یستزل بھا المطر میں نے آسمان کے ان سوراخوں کے ذریعہ بارش کی دعا کی ہے جن سے بارش اتاری جاتی ہے۔ (ابن کثیر) ربیع بن صبیح فرماتے ہیں کہ امام حسن بصری سے جب کوئی شخص تکلیف کی شکایت کرتا تو آپ فرماتے استغفار کرو اور فرماتے کہ یہ نسخہ حضرت نوح نے اپنی قوم کو بتایا ہے۔ (مختصراً ازروح المعانی) نوح
13 ف 2 یعنی خدا سے اس طرح کیوں نہیں ڈرتے جس طرح کہ اس کی عظمت کا تقاضا ہے۔ دوسرا مطلب یہ بھی ہے کہ تم اللہ سے ثواب کی امید اور عذاب کا ڈر کیوں نہیں رکھتے؟ تیسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تم اللہ کا حق کیوں نہیں پہچانتے اور اس کی نعمت کا شکر کیوں نہیں بجا لاتے؟ … کوئی مطلب لیا جائے، مقصود یہ ہے کہ تم اللہ پر ایمان لائو، اسی کو معبود برحق مانو اور اسی کی اطاعت کرو تمہاری ہر آفت ٹلے گی اور تمہیں دنیا و آخرت میں عزت نصیب ہوگی۔ نوح
14 ف 3 یہ اشارہ ہے ان مراحل کی طرف جن سے آدمی اپنی پیدائش سے پہلے ماں کے پٹ میں اور پھر پیدا ہونے کے بعد اپنی زندگی میں گزرتا ہے۔ پہلے وہ نطفہ ہوتا ہے، پھر خون کا لوتھڑا، پھر گوشت کا ٹکڑا، پھر ہڈیاں اور گوشت پھر بچہ، پھر جوان، پھر بوڑھا اور آخر کار خاک میں جا ملتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جو ذات تمہیں ان مراحل سے گزارتی ہے تم اس کے واقر اور عظمت کا حق ادا کرنے میں کوتاہی کیوں کرتے ہو؟ نوح
15 نوح
16 ف 4 یعنی چاندصرف روشنی دیتا ہے اور سورج روشنی کے علاوہ گرمی بھی۔ نوح
17 ف 5 یعنی تمہارے باپ آدم کو مٹی سے بنایا… دوسرا مطلب یہ بھی ہے کہ ” اللہ نے تمہیں زمین سے (یعنی زمین سے نکلنے والی نباتات کے ذریعہ) بڑھا کر بڑا کیا۔ نوح
18 نوح
19 نوح
20 ف 6 زمین کے بچھونا ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ پھیلی ہوئی برابر معلوم ہوتی ہے اور اس پر چلنے اور بیٹھنے میں تکلیف نہیں ہوتی، اگرچہ وہ گول ہے۔ نوح
21 ف 7 یعنی مجھے چھوڑ کر اپنے ان سرکش سرداروں اور مالداروں کی پیروی کرتے ہیں جنہیں ان کے مال و دولت اور اولاد نے آخرت سے اندھا کر رکھا ہے اور اس بنا پر وہ سخت نقصان میں پڑے ہوئے ہیں۔ نوح
22 ف 8 یعنی دوسروں کو میرے در پے آزاد کیا اور خود بھی مجھے ستانے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔ نوح
23 ف 9 مراد وہ بت اور مورتیاں ہیں جن کی وہ لوگ پوجا کرتے تھے۔ ف 10 بتوں کا عام انداز میں ذکر کرنے کے بعد ان میں سے پانچ کا نام لے کر ذکر کیا کیونکہ وہ ان کے سب سے بڑے بت تھے اور اکثر لوگ انہی کے معتقد تھے۔ محمد بن کعب کہتے ہیں کہ یہ درصال حضرت نوح سے پہلے چند نیک لوگتھے۔ انکے مرنے کے بعد شیطا ننے لوگوں کو بہکایاا کہ ان کی مورتیاں بنا کر عبادت کے وقت اپنے سامنے رکھ لیا کرو، تو تمہارا عبادت میں خوب جی لگے گا۔ انہوں نے ایسا ہی کیا، ان کے مرنے کے بعد شیطان نے ان کی اولاد کو بہکایا کہ تمہارے باپ دادا انہی مورتیوں کی پوجا کیا کرتے تھے، تم بھی ان کی پوجا کرو۔ اس طرح ان کی پوجا ہوگئی اور اس طرح بت پرستی کا آغاز ہوا (فتح القدیر) نوح
24 ف 11 کیونکہ جب ان کی گمراہی بڑھے گی تو وہ مزید عذاب کے سزا وار ٹھہریں گے۔ نوح
25 ف 12 یعنی مرتے ہی ان پر آگ کا عذاب شروع ہوگیا۔ ظاہر ہے کہ اس سے مراد وہ عذاب ہے جسے احادیث میں عذاب قبر سے تعبیر کیا گیا ہے۔ نوح
26 ف 13 یعنی سب کو ہلاک کر دے۔ یہ بد دعا حضرت نوح نے اس وقت فرمائی جب وہ قوم کے ایمان لانے سے بالکل مایوس ہوگئے۔ قتادہ کہتے ہیں کہ یہ بد دعا اس وقت کی جب اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف یہ وحی فرمائی انہ لن یومن من قومک الا من قدا من یعنی آپ کی قوم کے جو لوگ ایمان لانے والے تھے لے آئے اب کوئی نیا آدمی ایمان نہ لائے گا۔ (شوکانی) نوح
27 ف 1 یہ حضرت نوح نے اس تجربہ کی بنا پر فرمایا جو انہیں اپنی قوم میں 95 سال تک دعوت و تبلیغ کا کام کرتے رہنے کے بعد حاصل ہوا تھا۔ نوح
28 ف 2 میرے گھر میں آ کر پناہ لے یا میری مسجد میں آئے یا میری کشتی میں سوار ہو۔ ف 3 اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح کی یہ دعا قبول فرمائی اور طوفان بھجیا جس نے تمام مشرکوں اور کافروں کو غرق کردیا۔ حضرت نوح کی یہ دعا قیامت تک آینوالے تمام ایماندار مردوں اور عورتوں اور ظالم مشرک و کافر مردوں اور عورتوں کے لئے ہے۔ نوح
0 ف 4 یہ سورۃ بالاتفاق مکہ معظمہ میں نازل ہوئی۔ (فتح القدیر) الجن
1 ف 5 سورۃ احقاف میں گزرچکا ہے کہ نبی ﷺ نماز پڑھ رہے تھے کہ چند جنوں کا ادھر سے گزر ہوا۔ انہوں نے جب قرآن سنا تو اس پر سچے دل سے ایمان لائے پھر اپنے قبیلے کی طرف واپس ہوگئے اور اسے قرآن پر ایمان لانے کی دعوت دی۔ اسی واقعہ کا ذکر سورۃ جن کی ان آیات میں کیا گیا ہے اور یہاں جنوں کی اس تقدیر کو جو انہوں نے واپس جا کر اپنے قبیلے کے سامنے کی زیادہ تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ اس واقعہ سے متعلق دوسری تفصیلات کو سورۃ احقاف کی آیت 29 تا 32 کیتحت فوائد ہیں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔ ف 6 یعنی جو اپنی فصاحت و بلاغت طرز بیان قوت تاثیر اور علوم و مضامین کے اعتبار سے حیرت انگیز ہے۔ الجن
2 ف 7 اس میں بنی آدم خصوصاً رئوسا نے قریش میں سے کافر لوگوں کو شرم دلائی گئی ہے کہ جنوں نے جب پہلی ہی مرتبہ قرآن سنا تو وہ سمجھ گئے کہا یسا کلام کسی انسان کا تصنیف کیا ہوا نہیں ہو سکتا، لیکنتم ہو کہ بار بار قرآن کو سنتے ہو لیکن اس پر ایمان نہیں لاتے بلکہ یہی رٹ لگائے جا رہے ہو کہ محمد (ﷺ) نے یہ قرآن خود تصنیف کرلیا ہے یا کوئی عجمی ہے جو انہیں یہ قرآن سکھا جاتا ہے الجن
3 ف 8 یعنی بیوی اور اولاد رکھنا اس کی شان عظمت کے منافی ہے۔ شاہ صاحب فرماتے ہیں :” جو گمراہیاں آدمیوں میں تھیں وہ جنوں میں بھی تھیں۔ اللہ کے جورو اور بیٹا بتاتے تھے۔“ (موضح) الجن
4 ف 9 یعنی یہ کہتا تھا کہ اللہ کی بیوی اور اولاد ہے۔ بیوقوف سے مراد سرکش شرک جن ہیں یا خاص طور پر ابلیس الجن
5 ف 10 ” اور اسی غلط فہمی پر ہم نے ان کی بات مان لی تھی اور یہ عقیدہ رکھنے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی بیوی اور اولاد ہے لیکن اب معلوم ہوا کہ یہ کمبخت جھوٹے بے وقوف تھے۔ الجن
6 ف 11 یوں میں بعض مشرکین کا قاعدہ تھا کہ وہ جنوں سے غیب کی خبریں پوچھتے، ان کے نام کی نذریں چڑھاتے اور نیازیں دیتے اور جب سفر کے دوران میں رات کو کسی خوفناک مقام پر اترتے تو کہتے کہ اس علاقہ کے جنوں کا جو سردار ہے ہم اس کی پناہ میں آتے ہیں تاکہ وہ اپنے ماتحت جنوں سے ہماری حفاظت کرے۔ ان باتوں نے جنوں کو اور بھی زیادہ مغرور بنا دیا کیونکہ وہ سمجھنے لگے کہ ہم تو آدمیوں کے بھی سردار ہوگئے۔ اسی لئے وہ ہماری پناہ ڈھونڈھتے ہیں۔ مقاتل کہتے ہیں کہ سب سے پہلے یمن کے کچھ لوگوں نے جنوں کی پناہ لینا شروع کی، پھر قبیلہ بنی حنیفہ کے کچھ لوگوں نے اور پھر ہوتے ہوئے تمام عرب میں اس کا رواج ہو یا۔ جب اسلام آیا تو وہ جنوں کے بجائے اللہ تعالیٰ کی پناہ لینے لگے۔“ (فتح القدیر) الجن
7 ف 12 یا ” جن بھی اے آدمیو ! تمہاریطرح یہ سمجھنے لگے۔“ ف 13 یا ” اللہ تعالیٰ کسی کو پیغمبر بنا کر) مبعوث نہ کریگا۔“ مطلب یہ ہے کہ وہ آخرت یا رسالت کے منکر ہوگئے۔ الجن
8 ف 14 یعنی اس میں فرشتے کثرت سے پہرا دے رہے ہیں جو کسی شیطان کو غیب کی خبر سننے کے لئے اس کے قریب تک پھٹکنے نہیں دیتے اور جو شیطان اس کی جرأت کرتا ہے اس پر آگ کے شعلے برسائے جاتے ہیں۔ اس سے ہم نے سمجھا کہ زمین میں کوئی نیا واقعہ پیش آیا ہے جس کی بدولت آسمان کی حفاظت کے لئے یہ نئے انتظامات کئے گئے ہیں۔ الجن
9 ف 1 گویا شہاب ثاقب کا آتشین گولا گھات میں ہے کہ جونہی کوئی جن فرشتوں کی باتیں سننے کے لئے آسمان پر پہنچے وہ اس کے تعاقب کے لئے لپکے۔ یہ مضمون سورۃ حجر میں تفصیل سے گزر چکا ہے۔ (دیکھیے اس کی آیات 18-17) الجن
10 ف 2 علما کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ نبی ﷺ کی بعثت سے پہلے شہاب ثاقب کا وجود تھا یا نہیں؟ صحیح یہ ہے کہ اس کا وجود تھا مگر اس کثرت سے نہیں۔ اسی بنا پر جن زمین میں ہر طرف بکھر گئے تھے کہ معلوم کریں کونسا غیر معمولی واقعہ پیش آیا ہے جس کی وجہ سے آسمان کی پہلے سے زیادہ حفاظت ہونے لگی ہے۔ یہاں تک کہ وہ دلوی بطن نخلہ میں پہنچے جہاں نبی ﷺ قرآن کی تلاوت فرما رہے تھے۔ اسے سن کر وہ ایمان لائے اور سمجھ گئے کہ اسی وجہ سے آسمان پر پہروں کا انتظام پہلے سے سخت کردیا گیا ہے۔ (ابن کثیر) الجن
11 ف 3 امام سعید بن المسیب اور مجاہد کہتے ہیں کہ آدمیوں کی طرح جنوں کے بھی مختلف گروہ تھے۔ چنانچہ کوئی مسلمان تھا کوئی یہودی کوئی نصرانی اور کوئی مجوسی (قرطبی) الجن
12 ف 4 یعنی زمین یا آسمان میں کہیں بھاگ جائیں، اس کے اتخیار اور پکڑ سے باہر نہیں جاسکتے کیونکہ ہر جگہ اسی کی حکومت ہے۔ الجن
13 ف 5 مراد قرآن ہے جو انہوں نے نبی ﷺ کی زبان مبارک سے سنا۔ ف 6 یعنی نہ یہ ڈر ہوگا کہ اس کینیکیوں میں کمی کردی جائے گی اور یہ اندیشہکہ اس کی برائیوں میں اضافہ کردیا جائے گا۔ الجن
14 ف 7 یعنی انہوں نے راہ حق کی تلاش کی یہاں تک کہ اسے پا لیا۔ الجن
15 ف 8 اس سے معلوم ہوا ہوا کہ جنوں میں سے بھی بعض دوزخ میں جائیں گے اور بعض جنت میں (تفصیلی بحث کے لئے دیکھیے سورۃ رحمٰن آیت 3) اس آیت پر مسلمان جنوں کا کلام ختم ہوگیا جو انہوں نے اپنے قبیلہ کے لوگوں سے کیا۔ آگے اللہ تعالیٰ کا اپنا کلام شروع ہو رہا ہے، گویا اس کا عطف قل اوحی الی انہ پر ہے۔ (فتح قدیر) الجن
16 ف 9 یعنی خوب پانی برساتے جس سے بکثرت پھل اور غلے پیدا ہوتے اور وہ خوشحال ہوتے۔ ” آزمانے“ سے مراد یہ ہے کہ اس میں بھی ان کا امحتان ہو کر آیا خوشحال پا کر شکر بجا لاتے ہیں یا کفر و ناشکری پر اتر آتے ہیں۔ مقاتل کہتے ہیں کہ یہ آیت کفار مکہ کے بارے میں نازل ہوئی جب ان پر سات سال کا قحط پڑا بعض مفسرین نے طریقہ سے مراد کفر وضلالت کا راستہ ہے یعنی اگر یہ لوگ کفر و ضلالت کے راستہ پر ہی جمع رہتے تو ہم بطور استدراج انہیں خوف بارغ البالی اور خوشحالی دیتے جیسا کہ دوسرے مقام پر فرمایا : فلما نسواما ذکروابہ فتحنا علیھم ابواب کل شی حتی اذا فرحوا بما اوتواحدنا ھم بغتہ فاذا ھم مبلسون“ پھر جب وہ اس نصیحت کو فراموش کر بیٹھے جو انہیں کی گی تھی تو ہم نے ان پر ہر قسم کی خوشحالی کے دروازے کھول دیئے، یہاں تک کہ جب وہ بخشوں میں جو انہیں دی گئی تھیں خوب مگن ہوگئے تو اچانک ہم نے انہیں پکڑ لیا اور ان کا حال یہ ہوگیا کہ وہ ہر خیر سے مایوس تھے۔“ (انعام 44) د ’ آزمانے“ کے لفظ کو دیکھا جائیتو اسی دوسرے مطلب کی تائید ہوتی ہے۔ (ابن کثیر) الجن
17 ف 10 یعنی انجام کار وہ دوزخ کے درد ناک عذاب سے دوچار ہوگا۔ الجن
18 ف 11 یوں تو کسی بھی جگہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کو پکارنا جائز نہیں ہے لیکن خصوصیت کے ساتھ مسجدوں میں جو خاص اللہ تعالیٰ ہی کی عبادت کے لئے بنائی گئی ہیں کسی اور کو پکارنا شرک کی بدترین صورت ہے۔ قتادہ کہتے ہیں کہ یہود و نصاریٰ جب اپنے گرجوں میں داخل ہوتے تو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ صرف مجھے پکارو خصوصاً جبتم مسجدوں میں داخل ہوجاو میرے ہی نام پر میری ہی عبادت کے لئے بنائی گئی ہیں۔ “ ) بعض مفسرین نے مساجد سے مراد جسم کے وہ اضعاء لئے ہیں جنہیں سجدہ کے وقت زمین پر رکھا جاتا ہے یعنی پیشانی دونوں ہاتھ دونوں گھٹنے اور دونوں پائوں اس صورت میں آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ یہ تمام اعضاء اللہ تعالیٰ ہی کے دیئے ہوئے ہیں، لہٰذا یہ جائز نہیں ہے کہ ان کے ذریعے اپنے حقیقی خالق و مالک کے علاوہ کسی اور کوئی بھی سجدہ کرو۔ (ابن کثیر) الجن
19 ف 12 یعنی قرآن سننے کے شوق میں ایک دوسرے کو ہٹا کر آپ کے زیادہ سے زیادہ قریب ہونا چاہتے تھے۔ یہ واقعہ وادی بطن نخلہ میں پیش آیا جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے۔ (فتح القدیر) آیت کا دوسرا مطلب جسے امام ابن جریر نے اختیار کیا ہے، یہ ہے کہ جبی نبی ﷺ نے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلانے کا آغاز فرمایا تو مشرکین عرب مخالفت کے لئے آپ پر ٹوٹ پڑے یعنی آپ کے در پے آزار ہوگئے۔“ حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں کہ ” اگلی آیت کو دیکھا جائے تو یہی (دوسرا) مطلب اظہر (زیادہ واضح) قرار پاتا ہے۔ الجن
20 الجن
21 الجن
22 ف 13 لہٰذا خود تمہارا مجھے پکارنا بھی حماقت ہے۔ “ الجن
23 الجن
24 ف 1 مراد دنیا کا عذاب بھی ہوسکتا ہے اور آخرت کا عذاب بھی ف 2 یعنی تم جو ہم پر جتھے بنا بنا کر ہجوم کرتے ہو اور کہتے ہو کہ محمد (ﷺ) اور ان کے ساتھی کمزور اور تھوڑے ہیں تو جب اللہ کا یہ عذاب آئے گا اس وقت پتا چلے گا کہ حقیقت میں کس کے ساتھی کمر ہو اور تھوڑیتھے۔ الجن
25 ف 3 یعنی یہ عذاب تو تم پر یقینا آئے گا لیکن متعین طور پر وہ کب آئے گا؟ آیا بہت جلد آئے گا یا اس کے آنے میں ایک لمبی مدت ہے؟ اس کا علم مجھے نہیں دیا گیا کیونکہ یہ ان امور غیب میں سے ہے جنہیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا الجن
26 الجن
27 ف 4 یعنی بطور معجزہ تاکہ وہ اس کی نبوت پر دلیل ہو۔ (نیز دیکھیے سورۃ آل عمران آیت 179) اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا غیب کا علم کسی نبی کو بھی نہ تھا۔ اگر تھا تو صرف اتنا جتنا خود اللہ تعالیٰ نے اسے بتایا نجومی کاہن وغیرہ اللہ کے نبی نہیں ہوتے اس لئے ان کے غیب پر مطلع ہوجانے کا سوہل ہی پیدا نہیں ہوتا۔ امام رازی سے اس مقام پر لغزش ہوئی ہے کہ غیب سے مرادصرف قیامت کے آنے کا وقت ہے اور دوسری باتیں بعض کاہنوں کو بھی معلوم ہوجاتی ہیں چنانچہ شق اور سطبیح نامی دو کاہنوں نے آنحضرت کے ظہور کی بشارت دی اور وہ پوری ہوئی۔ خواب کی تعبیر بتانے والے ایک تعبیر بتاتے ہیں اور وہ سچ نکلتی ہے مگر شق سطیح کا واقعہ آنحضرت کی بعثت سے پہلے کا ہے۔ جب شیاطین آسمان پر پہنچ کر چوری چھپے ” ملا اعلیٰ“ سے کوئی بات سن کر کاہنوں کے کان میں ڈال دیتے تھے اس لئے وہ سچ نکلتی تھی۔ خواب کی تعبیر کا مدار محض اٹکل پر ہوتا ہے جو کبھی پوری ہوتی ہے اور کبھی پوری نہیں ہوتی۔ البتہ پیغمبر جو تعبیر دیں وہ ہمیشہ سچ ہوتی ہے کیونکہ اس کی بنیاد اللہ تعالیٰ کی وحی پر ہوتی ہے۔ (شوکانی) ف 5 یعنی رسول کو بھی جو غیب کی بات پہنچائی جاتی ہے وہ نہایت احتیاط اور حفاظت سے پہنچائی جاتی ہے اس طرح کہ اس کے آگے پیچھے فرشتوں کا زبردست پہرا ہوتا ہے تاکہ ایسا نہ ہو کہ شیاطین اس کا کوئی حصہ اچک کر کاہنوں تک پہنچا دیں۔ الجن
28 ف 6 یعنی اسے اس کے من جانب اللہ ہونے کا یقین ہو۔ دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ” وہ یعنی اللہ تعالیٰ مشاہدہ سے بھی جان لے کہ انہوں نے یعنی فرشتوں نے پیغمبروں تک یا پیغمبروں نے عام لوگوں تک اپنے مالک کا پیغام بے کم و کاست ٹھیک ٹھیک پہنچا دیا یہ کہ ابلیس جان لے کہ پیغمبروں نے اپنے مالک کا پیغام پہنچا دیا۔ (شوکانی) ف 7 یعنی پیغمبروں کے پاس یا پہرے دار فرشتوں کے پاس۔ ف 8 چاہے وہ پہلے ہوچکی ہو یا اب موجود ہو یا آئندہ کبھی ہونیوالی ہو اور چاہے وہ فضا میں ہو یا پانی میں یا خشکی میں۔ ف 9 اکثر مفسرین نے اس پوری سورۃ کو مکی قرار دیا ہے۔ حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ میں نے اپنی خالہ (ام المومنین) میمونہ کے ہاں رات گزاری۔ آنحضرت رات کو تہجد کی نماز کے لئے بیدار ہوئے اور آپ نے فجر کی سنتوں سمیت تیرہ رکعت نماز پڑھی۔ ان میں سے ہر رکعت اتنی لمبی تھی جتنی سورۃ مزمل۔ (شوکانی بحوالہ ابی دائود) الجن
0 المزمل
1 ف 10 یہ خطاب آنحضرت سے ہے کیونکہ شروع میں جب حضرت جبریل وحی لاتے تو آپ پر کپکپی سی طاری ہوجاتی اور آپ کمبل اوڑھ لیتے۔ چنانچہ جب پہلی مرتبہ حضرت جبریل وحی لائے اور آپ پر کپکپی کی کیفیت طاری ہوگئی تو آپ حضرت خدیجہ سے فرمانے لگے زماونی زماونی زملونی مجھے کپڑا اوڑھا دو … اس بنا پر آنحضرت کو اس لفظ سے خطاب کیا گیا۔ المزمل
2 ف 11 اس سے معلوم ہوا کہ ابتدا میں آنحضرت پر تہجدکی نماز فرض تھی جیسا کہ سورۃ اسراء کی آیت 79 کے تحت بیان ہوچکا ہے۔ المزمل
3 المزمل
4 ف 12 مطلب یہ ہے کہ آدھی رات عبادت کیجیے اور آدھی رات سویئے یا دو تہائی رات عبادت کیجیے اور تہائی رات سویئے۔ علی ہذا القیاس چنانچہ آنحضرت اور آپ کے ساتھ بعض صحابہ انہی مختلف مقداروں میں تہجد کی نماز پڑھا کرتیتھے۔ یہ حکم جیسا کہ صحیحین اور سنن کی کتابوں) میں حضرت عائشہ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے …ایک سال تک رہا۔ اگلے سال جب اسی سورۃ کی آخری آیات نازل ہوئیں تو اس میں تخفیف کردی گئی۔ (شوکانی) ف 13 یعنی اس طرح کہ ہر ایک طرف کا الگ الگ پتا چلے اور پڑھتے وقت قرآن کا مفہوم بھی ذہن میں آئے حضرت ام سلمہ سے روایت ہے کہ آپ ہر آیت پر قطع (وقف) فرماتیت ھے۔ متعدد احادیث میں قرآن کو ترتیلکے ساتھ پڑھنے کی فضیلت بیان ہوئی ہے۔ (ابن کثیر) المزمل
5 ف 14 شاہ صاحب فرماتے ہیں :” یعنی ریاضت کرتو بھاری بوجھ آسان ہو۔“ مطلب یہ ہے کہ رات کو عبادت کر کے اپنے آپ کو سختی برداشت کرنے کا عادی بنایئے۔ آئندہ آپ پر قرآن اور تبلیغ کا گرانبار فریضہ ڈالا جانے والا ہے۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں سردی کے موسم میں جب آپ پر وحی آتی تو آپ کی پیشانی پسینہ سے شرابور ہوجاتی۔ (بخاری) المزمل
6 ف 15 کیونکہ وہ نفس پر بہت شاق گزرتا ہے۔ ف 16 کیونکہ اس وقت دل و دماغ حاضر ہوتے ہیں۔ المزمل
7 ف 17 یعنی دوسری ضرورتوں کے لئے تو دن میں بڑا وقت مل جاتا ہے اس لئے رات کو اپنے رب کی عبادت کیجیے۔ جس کے دوسرے معنی مشغولیت کے بھی ہیں۔ المزمل
8 المزمل
9 المزمل
10 المزمل
11 المزمل
12 ف 1 یعنی ان کی شامت آیا چاہتی ہے ذرا انتظار کیجیے۔ چنانچہ بدر کے دن مشرکین مکہ کی یہ شامت آگی۔ المزمل
13 المزمل
14 المزمل
15 ف 2 یعنی قیامت کے دن تم سب کے متعلق گواہی دے گا کہ کس نے اس کا کہنا مانا اور کس نے نافرمانی کی۔ المزمل
16 ف 3 اس میں کفار قریش کو تنبیہ ہے کہ تم نے بھی اگر اپنے رسول کی نافرمانی کی توت مہارا بھی وہی حال ہوگا جو فرعون کا ہوا۔ المزمل
17 المزمل
18 المزمل
19 ف 4 یعنی کفر و شرک کو چھوڑ کر توحید کی راہ پر آجائے یہ راہ اسے ٹھیک ٹھیک خدا تک پہنچا دے گی۔ المزمل
20 ف 5 یعنی متعین طور پر اسی کو معلوم ہے کہ تم کتنی رات سوتے ہو اور کتنی رات جاگ کر عبادت کرتے ہو۔ ف 6 یعنی رات کی نماز تہجد تم پر فرض نہیں رکھی بلکہ اسے نفل قرار دے دیا ہے اور نہ اس میں وقت یا مقدار کی کوئی قید رکھی ہے۔ اوپر بیان ہوچکا ہے کہ تخفیف کی یہ آیت ثم اللیل الا قلیلاً کے ایک سال بعد نازل ہوئی گویا ایک سال تہجد کی نماز تمام مسلمانوں پر فرض رہی بہرنقل ہوگئی۔ واللہ اعلم۔ ف 7 امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب نے اس آیت سے یہ استدلا کیا ہے کہ نماز میں مطلق قرآن پڑھن افرض ہے۔ سورۃ فاتحہ متعین نہیں ہے مگر یہ استدلا حضرت عبادہ بن صامت والی حدیث کے صریح خلاف ہے جس میں لاصلوۃ الا بفاتحتہ الکتاب فرمایا ہے کہ جس نے سورۃ فاتحہ نہ پڑھی اس کی نماز نہیں ہوتی۔ پھر یہ آیت مکی ہے اور حدیث مدنی ہے۔ ف 1 یعنی اسے معلوم ہوا ہے کہ ان لوگوں کے رات کی نماز (تہجد) پابندی شاق گزرے گی۔ ف 2 یعنی تہجد کی نماز سے معافی کا یہ مطلب نہیں ہے کہ پنج وقتہ فرض نماز سے بھی چھٹی ہوگئی بلکہ اس کا درستی کے ساتھ ادا کرنا علی حالہ فرض ہے۔ ف 3 قرض حسن سے مراد نفلی صدقہ ہے جو حلال مال میں سے خوشدلی کے ساتھ اللہ کی راہ میں دیا جائے۔ گویا اس آیت میں فرض زکوۃ کے علاوہ نفلی صدقہ کا بھی حکم دیا گیا ہے۔ ف 4 یعنی تمام احکام بجا لانے کے بعد بھی اللہ تعالیٰ سے عفو و درگزر کی دعا کرتے رہو اس لئے کہ چاہے کتنی احتیاط کرو تم سے کوتاہی ہی ہی جائے گی۔ المزمل
0 ف 5 یہ سورۃ مکہ معظمہ میں نازل ہوئی۔ اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ صحیح روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ سب سے پہلے سورۃ ” اقراء“ نازل ہوئی پھر ایک عرصہتک وحی کا آنا موقوف رہا، اس کے بعد جو پہلی سورۃ نازل ہوئی وہ یہی سورۃ (مدثر) تھی ابن کثیر المدثر
1 ف 6 یہ خطاب آنحضرت سے ہے۔ روایات میں ہے کہ وحی کے آغاز میں جپ آپ نے حضرت جبریل کو ان کی اصلی شکل میں دیکھا تو گھبرا گئے اور آپ نے حضرت خدیجہ سے فرمایا دشرونی وترونی کہ مجھے کپڑا اوڑھائو مجھے کپڑا اوڑھائو شوکانی المدثر
2 المدثر
3 المدثر
4 ف 7 مراد حسی اور اخلاقی یا ظاہری اور باطنی ہر قسم کی طہارت ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نماز کے لئے کپڑوں کا پاک ہونا بھی ضروری ہے۔ حدیث میں ہے الطھارۃ شطر الایمان کہ طہارت آدھا ایمان ہے۔ المدثر
5 ف 8 جیسا کہ دوسری جگہ دوسری جگہ فرمایا فاخبنیوا الرجس من الاوثان“ اور بتوں کی گندی سے بچو“ (حج 30) رجز کے دوسرے معنی گناہ کے بھی ہیں یعنی ہر اس کام سے الگ رہو جو گناہ کا باعث ہو۔ المدثر
6 ف 9 یعنی کسی کو اس نیت سیت حفہ نہیں دینا چائے کہ کل اس سے بڑاتحفہ وصول کیا جائے۔ … دوسرا مطلب یہ بھی ہے کہ نبوت کا جو بار آپ پر ڈالا گیا ہے۔ اس یبڑا سمجھتے ہوئے اپنے رب پر احسان جتانے سے پرہیز کیجیے۔ ان جریر نے اسمفہوم کو پسند کیا ہے اور حاظ ابن کثیر نے اسے واضح تربتایا ہے۔ المدثر
7 المدثر
8 المدثر
9 المدثر
10 المدثر
11 ف 10 یعنی ننگ دھڑنگ خالی ہاتھ جو دنیا میں آیا تو نہ اس کے پاس مال تھا اور نہ اولاد۔ مفرسین کہتے ہیں کہ یہ سخت وعید ہے جو قریش کے سردار ولید بن مغیرہ کو سنائی گئی ہے۔ المدثر
12 المدثر
13 المدثر
14 المدثر
15 ف 11 امام حسن بصری کہتے ہیں کہ ولید کہا کرتا تھا اگر محمد (ﷺ) سچا ہے تو جنت مریے لئے بنائی گئی ہے۔ (شوکانی) المدثر
16 المدثر
17 ف 12 ترمذی وغیرہ کی بعض روایات میں ہے کہ آنحضرت نے فرمایا : ” صعود“ دوزخ میں آگ کا پہاڑ ہے۔ کافر ستر برس تک اس میں چڑھایا جاتا رہے گا پھر نیچے گرے گا پھر چڑھایا جائیگا اور اسی طرح اسے چڑھنے اترنے کا یہ عذاب ہوتا رہے گا۔“ ان روایات کی چونکہ سند کمزور ہے اس لئے امام ابن جریر وغیرہ نے آیت کا یہ مطلب یہ بیان کیا ہے کہ ” میں اسے ایسا مشقت طلب عذاب دوں گا جس میں کوئی آرام نہ ہوگا۔ ابن کثیر المدثر
18 ف 13 یعنی وہ اس بارے میں سوچ بچار کرتا اور ذہنی گھوڑے دوڑاتا رہا کہ جب لوگ اس سے محمد ﷺ پر اتاری جانے والی کتاب ” قرآن“ کے بارے میں سوال کریں گے تو وہ انہیں یہ اور یہ کہہ کر گمراہ کرے گا۔ المدثر
19 المدثر
20 المدثر
21 المدثر
22 ف 1 یعنی جیسے جادوگر ایک دوسرے کو جادہ سکھاتے چلے آئے ہیں اسی طرح محمد ﷺ نے بھی یہ قرآن کسی جادوگر سے سیکھ لیا ہے۔ المدثر
23 المدثر
24 المدثر
25 ف 2 یعنی ہرگز خدائی کلام نہیں ہوسکتا جیسا کہ محمد (ﷺ) کا دعویٰ ہے … حضرت عکرمہ کا بیان ہے کہ ولید آنحضرت کی خدمت میں حاضر ہو آپ نے اسے قرآن کا کچھ حصہ پڑھ کر سنایاتو اس کا دل قدرے نرم پڑگیا۔ ابوجہل کو پتہ چلاتو وہ اس کے پاس گیا اور کہنے لگا چچا ! قریش کے لوگ چاہتے ہیں کہ آپ کے لئے مال جمع کریں۔ پوچھا ” کیوں؟“ جواب دیا ” اسلئے کہ آپ محمد ﷺ کے پاس جا کر اس کا کلام سن کر آئے ہیں۔“ ولید بولا ” قریش کے لوگوں سے یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ مجیھ مال کی ضرورت نہیں ہے اس لئے کہ میں ان سب سے زیادہ مالدار ہوں۔“ تو ابوجہل نے کہا کہ کوئی ایسی بات کہو جس سے لوگوں کو پتا چل جائے کہ تو محمد (ﷺ) کے کلام کو ناپسند کرتا ہے۔ لوگوں نے ولید کو مختلف مشورے دیئے مگر بالآخر اس نے سوچ کر جو بات کہی تو یہ کہ ’ دیہ قرآن جادو ہے جو چلا آتا ہے اور یہ آدمی کا کلام ہے۔“ اسی بارے میں یہ آیات نازل ہوئیں۔ (ابن کثیر) المدثر
26 ف 3 ینی گوشت ہڈی اور پسلی ہر چیز کو بھسم کر کے رکھ دے گی۔ المدثر
27 المدثر
28 المدثر
29 ف 4 بشر کے ایکم عنی ” کھال“ کے ہیں اور دوسرے معنی ” لوگوں“ کے اس لئے دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ” وہ لوگوں (یعنی دوزخیوں) کو (جلا کر) کالا کر دے گی۔ المدثر
30 “ ف 5 حضرت براء سے روایت ہے کہ کچھ یہودیوں نے آنحضرت کے ایک صحابی سے پوچھا کہ دوزخ کے داروغہ کہتے ہیں؟ اسنے جواب دیا ” اللہ جانے اور اس کا رسول کس وقت آنحضرت کو بتانے کے لئے حضرت جبرئیل یہ آیت لے کر نازل ہوئے۔ (شوکانی) المدثر
31 ف 6 یعنی وہ آدمی نہیں ہیں کہ آدمیوں کی کوئی بڑی سے بڑی تعداد بھی انہیں مغلوب کرسکے۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جب ابوجہل نے یہ سنا کہ دوزخ کے دارہ خائوں کی تعداد انیس ہے تو کہنے لگا لوگو ! گواہ رہو کہ محمد (ﷺ) کے کل مددگار انیس ہیں اور تم اتنے ہو کہ تم میں سے سو آدمی بلکہ دس آدمی مل کر دوزخ کے ایک داروغہ پر غالب آجائیں گے۔ اسی کا جواب اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں دیا ہے۔ (شوکانی) ف 7 یعنی جب وہ دیکھیں گے کہ اہل کتاب جب وہ دیکھیں گے کہ اہل کتاب کی کتابیں قرآن کی تائید کر رہی ہیں تو قرآن اور پیغمبر پر ان کا ایمان مزید پختہ ہوجائے گا۔ ف 8 یعنی اس نے انیس داروغہ کیوں مقرر کئے؟… معلم ہوا کہ اس قسم کے امور میں بحث اور نکتہ سنجی مسلمان کا کام نہیں ہے۔ ف 9 یعنی اللہ تعالیٰ کی لاتعداد مخلوقات کا علم اس کے سوا کسی کو نہیں ہے۔ المدثر
32 المدثر
33 ف 10 یعنی اندھیرا چھانے لگے۔ (شوکانی) المدثر
34 المدثر
35 المدثر
36 المدثر
37 المدثر
38 المدثر
39 ف 11 یعنی وہلوگ جنہیں ان کا نامہ اعمال دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا یا جو دائیں ہاتھ چلائے جائیں گے یا جو حضرت آدم کی پشت کی دائیں جانب سے نکلے یا جو دنیا میں سیدھی راہ پر چلتے رہے۔ المدثر
40 المدثر
41 ف 12 یہ ترجمہ اس صورت میں ہے جب عن ٗالحرمین میں عن کو زائدماناجائے اور اسے زائد منایا جائیتو ترجمہ لف ہوگا وہ آپس میں ایک دوسرے سے مجرموں کے بارے میں دریافت کریں گے (یہ کہتے ہوئے کہ )……“ المدثر
42 المدثر
43 المدثر
44 ف 1 یعنی نہ خدا کا حق ادا رتے تھے اور نہ بندوں کا المدثر
45 ف 2 شاہ صاحب لکھتے ہیں : ” یعنی امان کی باتوں پر انکار کرتے سب کے ساتھ مل کر“ مطب یہ ہے کہ خدائے تعالیٰ پیغمبر اور قرآن و قیامت کا مذاق اڑاتے۔ المدثر
46 المدثر
47 ف 3 ’ دیقین“ فرمایا ہے موت کو کیونکہ اس کا آنا یقینی ہے۔ نیز دیکھیے سورۃ حجر 99) المدثر
48 ف 4 کیونکہ وہ کفر کی حالت میں مرے اور کافروں کی آخرت میں کوئی سفارش نہیں کریگا اور نہ سفارش کی اجازت ہوگی۔ المدثر
49 المدثر
50 المدثر
51 ف 5 یا ” جو تیر انداز شکاریوں کو دیکھ کر بھاگے گا۔ شوکانی نے اس معنی کو انسب قرار دیا ہے۔ حضرت ابن عباس نے اس کے معنی ” سب الرجال (یعنی آدمیوں کے جتھے) کئے ہیں۔ علمائے تفسیر نے لکھا ہے کہ ’ دقسورہ کے معنی ” دٓمیوں کا شور“ بھی آتے ہیں۔ (رازی) المدثر
52 المدثر
53 ف 6 ” اس لئے وہ ایسی بیہودہ اور بے تکی باتیں کرتے ہیں۔ المدثر
54 المدثر
55 “ ف 7 شاہ صاحب لکھتے ہیں : یعنی ایک پر اتری تو کیا ہوا کامت و سب کے آتی ہے۔ ف 8 کیونکہ ایمان کی توفیق دینے والا وہی ہے۔ المدثر
56 ف 9 حضرت انس سے روایت ہے کہ آنحضرت نے یہ آیت تلاوت کی اور فرمایا : تمہارے رب کا ارشاد ہے کہ میں ہی اس لائق ہوں کہ مجھ سے ڈرا جائے اور میرے علاوہ کسی کو معبود نہ بنایا جائے۔ لہٰذا جو شخص بھی یہ دونوں کام کرے گا تو میں ہی اس لائق ہوں کہ اسے بخش دوں۔ (شوکانی) المدثر
0 ف 10 یہ سورۃ بالاتفاق مکہ معظمہ میں نازل ہوئی۔ (شوکانی) القيامة
1 ف 11 مفسرینتقریباً اس پر متفق ہیں کہ یہاں لا زائدہ ہے اور کلام بلیغ میں ” لا“‘ کا زائدہ آنا شائع و ذائع ہے۔ دیکھیے سورۃ اعراف 12 و سورۃ الحدید : 29) شوکانی القيامة
2 ف 12 چونکہ قیامت کے دن ہی اس ملامت کا ظہور ہوگا حتی کہ ابن عباس فرماتے ہیں کہ نیک لوگ بھی اپنے آپ کو ملامت کرینگے کہ کیوں نہ زیادہ نیکی حاصل کرلی اس لئے مجازاۃ کے وقوع پر ” نفس لوامۃ“ کی قسم کھا کر اس کو بطور شاہد پیش کیا ہے۔ (راز) اور یوم قیامت چونکہ مجازۃ کا ظرف ہوگا لہٰذا اس کا تعلق بھی ظاہر ہے۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں :” آدمی کا جی اول کھیل اور مزوں میں غرق ہوتا ہے ہرگز نیکی کی طرف رغبت نہیں کرتا۔ ایسے جی کو کہتے ہیں ” امارۃ بالسوء“ (سورۃ یوسف 53) پھر ہوش پکڑا، نیک و بد سمجھا تو باز آیا۔ کبھی اپنی خو پر دوڑ پڑا۔ پیچھے پھر آپ کو الاہنا دیا (ملامت کی) ویسا جی ہے لوامہ پھر جب پورا سنور گیا دل سے رغبت نیکی ہی پر رہی بیہودہ کام سے آپ ہی بھاگے اور ایذا کھینچے۔ ویسے کا نام ہے مطمئنہ (الفجر 27، القيامة
3 القيامة
4 ف 13 اس سے معلوم ہوا کہ آخرت میں حشر و نشر اور جزا و سزا صرف روح کے ساتھ نہیں بلکہ جسم اور روح دونوں کے ساتھ ہوگی۔ اس کو اللہ تعالیٰ نے قسم کھا کر یہاں تاکید کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔ القيامة
5 ف 14 یعنی یہ کہتا ہے کہ ابھی کیا ہے گناہ کرتے رہو آگے چل کر توبہ کرل ینا۔ یہاں تک موت آجاتی ہے اور توبہ کی نوبت ہی نہیں آتی۔ القيامة
6 القيامة
7 القيامة
8 القيامة
9 القيامة
10 القيامة
11 القيامة
12 القيامة
13 ف 1 یعنی جو اچھے برے اعمال کر کے اس نے بطور توشہ آخرت آگے بھیجے القيامة
14 ف 2 یعنی اس کے اپنے ہاتھ پائوں اس کے خلاف گواہی دیں گے۔ یا یہ مطلب ہے کہ آدمی اپنی برائیوں اور خوبیوں کو خوب جانتا ہے۔ القيامة
15 ف 3 شاہ صاحب لکھتے ہیں یعنی اپنے احوال میں غور کرے تو رب کی وحدانیت جانے اور جو کہے میری سمجھ میں نہیں آتا یہ بہانے میں (موضح) القيامة
16 القيامة
17 القيامة
18 ف 4 صحیحین وغیرہ میں حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی اترتے وقت سختی ہوتی تو آپ جلدی جلدی اپنی زبان اور ہونٹ ہلاتے رہتے اس ڈر سے کہ کہیں وحی کا کوئی حصہ آپ بھول نہ جائیں آپ یہ چاہتے کہ اسے اس طرح محفوظ کرلیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نییہ آیات نازل فرمائیں چنانچہ اس کے بعد جب وحی آتی تو آپ خاموش رہ کر سنتے رہتے، جب حضرت جبریل چلے جاتے تو آپ جو انہوں نے پڑھایا ہوتا اللہ تعالیٰ کے وعدہ کے مطابق پڑھ دیتے۔ نیز دیکھیے سورۃ طہ 114 (شو کانی) القيامة
19 ف 5 یعنی اس کے حلال و حرام اور دوسرے احکام و تعلیمات کی تفسیر و تضویح کا بھی ہم ذمہ لیتے ہیں۔ یہی وہ چیز ہے جسے سنت یا حدیث کے لفظ سے تعبیر کیا جاتا ہے کیونکہ وہ قرآن ہی کی تفسیر و توضیح ہے۔ معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے جس طرح قرآن کو آنحضرت کے سینہ میں محفوظ رکھنے کا ذمہ لیا ہے اسطرح اس کی توضیح و تشریح بتانے کا بھی ذمہ لیا ہے جسے آپ لوگوں کے سامنے بیان فرمائیں گے اور وہ قیامت تک محفوظ رہے گی۔ چنانچہ شاہ صاحب لکھتے ہیں اور معنی تحقیق کرنے کی بھی حاجت نہیں یہ بھی ہمارا ذمہ ہے اور وقت پر بیان کا سمجھانا (موضع) القيامة
20 القيامة
21 ف 6 یعنی دنیا میں منہمک اور آخرت سے بے پروا ہو اسی لئے آخرت سے انکار کرتے ہو۔ تمہارے انکار آخرت کی بنیاد ہرگز کوئی عقلی یا علمی دلیل نہیں ہے۔ القيامة
22 القيامة
23 ف 7 آیت کے اس معنی کی تائید متواتر صحیح احادیث سے ہوتی ہے جن میں واضح طور پر یہ بیان کیا گیا ہے کہ قیامت کے دن مومن اپنے پروردگار کو اس طرح دیکھیں گے جس طرح دنیا میں سورج اور چاند کو دیکھتے ہیں جبکہ مطلع صاف ہو۔ آخرت میں اس رئویت باری تعالیٰ پر تمام صحابہ و تابعین اور علمائے سلف کا اجماع ہے اور ائمہ سنت میں سے کسی امام نے بھی اس سے انکار نہیں کیا۔ (ابن کثیر) صرف بعض اہل بدعت (معتزلہ وغیرہ) اس رئویت کا انکار کرتے ہوئے احادیث کی صراحت کے خلاف اس آیت کیتاویل کرتے ہیں۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ ” یقین ہے کہ آخرت میں اللہ کو دیکھنا ہے۔ گمراہ لوگ منکر ہیں کہ ان کے نصیب میں نہیں (موضح) القيامة
24 القيامة
25 ف 8 ” فاقرہ“ لفظی معنی ہیں ” کمرتوڑ دینے والی“ یہاں یہ لفظ“ سختی“ کے لئے استعمال ہوا ہے۔ القيامة
26 ف 9 یعنی موت کی گھڑی آ پہنچے گی۔ القيامة
27 ف 10 مطلب یہ ہے کہ جب جان بچانے کے لئے تمام علاج اور ٹونے ٹوٹکے بیکار ہو کر رہ جائیں گے۔ القيامة
28 القيامة
29 ف 11 یا جیسے کفن میں دونوں پنڈلیاں ملا کر لپیٹی جاتی ہیں۔ القيامة
30 ف 12 یعنی دنیا کی زندگی ختم ہوئی اب جواب دہی کا وقت آیا۔ القيامة
31 القيامة
32 القيامة
33 القيامة
34 القيامة
35 ف 13 حضرت بن عباس کہتے ہیں کہ یہ الفاظ رسول اللہ ﷺ نے ابوجہل سے فرمائے تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں قرآن میں نازل فرمایا۔ (شوکانی) القيامة
36 القيامة
37 القيامة
38 ف 14 یعنی اس کے اعضا بنائے اور اس میں روح پھونکی۔ القيامة
39 القيامة
40 ف 15 قاری کے لئے اس کے بعد سبحانک اللھم و بلی کہنا مستحب ہے۔ حدیث میں من قرہ کے الفاظ ہیں یعنی جو اس سورۃ کو پڑھے بعض نے سامع سننے والے کو بھی قاری پڑھنے والے کے حکم میں داخل کیا ہے چنانچہ امام نووی لکھتے ہیں کہ سب سے علماء نے سننے والے کے لئے بھی اس کو مستحب قرار دیا ہے خواہ نماز میں مقتدی ہو یا مقتدی نہ ہو۔ (تحفہ) القيامة
0 ف 1 اس سورۃ کے تین اور نام بھی ہیں یعنی ” ھل اتیٰ“ اور ” امشاج“ جمہور مفسرین اسے مدنی قرار دیتے ہیں۔ بعض اسے مکی کہتے ہیں اور بعض نے کہا ہے اس کی شروع کی بائیس آیتیں مدنی ہیں اور آخری نو آیتیں مکی۔ حدیث میں ہے کہ آنحضرت ﷺ جمعہ کے روز صبح کی نماز میں الم تنزیل السجدہ اور ” ھل اتیٰ“ پڑھا کرتے تھے۔ (ابن کثیر) الإنسان
1 ف 2 یعنی پیدائش سے پہلے وہ کوئی چیز نہ تھا کہ کوئی اس کا ذکرتک کرتا۔ اس آیت میں ” ھل“ بمعنی قدر ہے اور اس لحاظ سے اس کا ترجمہ کیا گیا ہے۔ سیبویہ، کسائی اور دوسرے ائمہ لغت کا اس پر اتفاق ہے۔ (شوکانی) الإنسان
2 ف 3 شرعی احکام دے کر آیا ان سے انکار کرکے کفروشرک کی راہ اختیار کرتا ہے یا ایمان لا کر نیک عمل کرتا ہے۔ الإنسان
3 ف 4 یعنی عقل اور سمجھ بھی دی اور اس کی طرف پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی بھیجے جنہوں نے اس پر شکر گزاری اور ناشکری کے راستے واضح کردیئے اور دونوں پر چلنے کے انجام سے خبردار کردیا۔ الإنسان
4 الإنسان
5 ف 5 یہ کافور جنت کا ہوگا اسے دنیا کے کافور سے کوئی نسبت نہیں۔ الإنسان
6 ف 6 یعنی وہ ان کے اختیار میں ہوگا، وہ جدھر اور جیسے چاہیں گے اس کی نالیاں بہنے لگیں گی۔ الإنسان
7 ف 7 نذر سے مراد وہ نیکی ہے جسے بندہ اپنے اوپر ازخود لازم کرلے۔ ظاہر ہے کہ جب اللہ کے یہ نیک بندے دنیا میں اپنے اوپر خود لازم کی ہوئی نیکیوں کو پورا کرتے تھے تو اللہ و رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی لازم کی ہوئی نیکیوں کو بدرجہ اولیٰ پوری کرتے ہوں گے۔ ف 8 یعنی قیامت کے دن سے جس کی سختی بلائے عام ہوگی اور جس میں ہر شخص پریشان ہوگا۔ الا من شآء اللہ : الإنسان
8 ف 9 یعنی ان کی ضرورت کو اپنی ضرورت پر مقدم رکھتے تھے۔ چنانچہ اگر کھانا کم ہوتا تو خود بھوکے رہ کر انہیں کھانا پیش کردیتے تھے۔ قیدی سے مراد ہر قیدی ہے چاہے وہ مسلمان ہو یا کافر۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ بت کے روز رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام (رض) کو حکم دیا کہ قیدیوں کے ساتھ اچھا برتائو کریں۔ اس حکم کی تعمیل میں صحابہ کرام (رض) قیدیوں کو اپنے سے بہتر کھانا کھلاتے تھے حالانکہ وہ قیدی مسلمان نہ تھے ظاہر ہے کہ مسلمان قیدی کا حق تو اس سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ بعض مفسرین نے ” قیدی“ کے لفظ میں غلام اور عورت کو بھی شامل سمجھا ہے کیونکہ وہ بھی ایک طرح سے قیدی ہیں۔ نبی ﷺ نے اپنی وفات سے پیشتر جو آخری وصیت فرمائی وہ یہ تھی الصلٰوۃ وماملکت ایمانکم“ نامز اور اپنے لونڈی غلاموں کا خیال رکھنا “۔ (ابن کثیر) الإنسان
9 ف 10 یعنی زبان حال سے کہتے تھے۔ ابن جبیر (رح) کہتے ہیں :” اللہ کی قسم وہ اپنی زبان سے کچھ نہ کہتے تھے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے دلی جذبہ کو دیکھ کر ان کی تعریف فرمائی تاکہ دوسروں میں بھی رغبت پیدا ہوا۔ (ابن کثیر) ف 11 یعنی یہ نہیں چاہئے کہ تم ہمارے بھی کسی کام آئو یا لوگوں کے لئے ہماری سخاوت کا ذکر کرو۔ الإنسان
10 ف 12 یعنی جس کی شدت اور ہولناکی سے چہرے اداس ہوں گے اور ان کی تیوری چڑھی ہوگی، مراد قیامت کا دن ہے۔ الإنسان
11 الإنسان
12 ف 13 یعنی اللہ و رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عائد کردہ احکام بجالائے تھے اور ان کی منع کردہ چیزوں سے بازر ہے تھے۔ ف 14 جس کا پہننا ان پر دنیا میں حرام کیا گیا تھا اور انہوں نے کبھی اسے نہ پہنا تھا۔ الإنسان
13 ف 15 یعنی نہایت معتدل اور خوشگوار موسم ہوگا۔ صحیحین میں حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : دوزخ نے اپنے پروردگار کے حضور شکایت کی کہ میرے بعض حصے بعض حصوں کو کھاگئے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے اسے دوسانس لینے کی اجازت دی۔ ایک سانس موسم گرما میں اور دوسرا سانس موسم سرما میں تو جاڑے کی سخت سردی اور گرما کی سخت گرمی اسی کے اثر سے ہے “۔ (فتح القدیر) گویا اللہ تعالیٰ انہیں دوزخ کے اثر سے محفوظ رکھے گا۔ الإنسان
14 ف 1 تاکہ جب چاہیں، انہیں توڑ لیں اور توڑنے میں ذرا بھی زحمت نہ اٹھانا پڑے۔ الإنسان
15 الإنسان
16 ف 2 یعنی ان میں پینے کی چیز ٹھیک اتنی آئے گی جتنی جنتیوں کو پینے کی خواہش ہوگی، نہ کم اور نہ زیادہ، شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں :” یعنی ان کی پیاس برابر“۔ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں :” تم دنیا میں چاندی کو کوٹ کر چاہے مکھی کے پر کے برابر باریک کرلو، مگر وہ ایسی شفاف نہیں ہوسکتی کہ اس کے پیچھے سے پانی نظر آئے، لیکن جنت کی چاندی شیشے کی طرح شفاف ہوگی“۔ (فتح القدیر بحوالہ بیہقی وغیرہ ) الإنسان
17 ف 3 عرب کے لوگ شراب میں سونٹھ ملانا پسند کرتے تھے تاکہ وہ خوشبودار ہوجائے۔ واضح رہے کہ جنت کی سونٹھ دنیا کی سونٹھ سے مشابہ نہ ہوگی۔ اس میں مہک اور مزا تو پایا جائے گا، لیکن وہ تیزی نہ ہوگی جوزبان یا حلق کو تکلیف دے۔ یہی حال جنت کی تمام چیزوں کا ہے۔ ان کا دنیا کی چیزوں سے صرف ناکام کا اشتراک ہے حقیقت بالکل مختلف ہے۔ نام کا اشتراک لوگوں کو ان کا تصور دلانے کے لئے ہے ورنہ حقیقت میں وہ ایسی ہیں جنہیں نہ کسی آنکھ نے دیکھا نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی دل میں ان کا خیال گزرا۔ الإنسان
18 ف 4 ” سلسبیل“ کے لفظی معنی نہایت خوشگوار اور لذیذ شراب کے ہیں اور وہ ” سلاسہ“ (خوشگواری) سے ماخوذ ہے۔ (فتح القدیر) الإنسان
19 الإنسان
20 ف 5 یعنی جنت کا ہر شخص عظیم الشان نعمتوں اور بھاری شاہی سامان سے مالا مال نظر آئے گا۔ الإنسان
21 ف 6 قدیم عرب میں سونے اور چاندی کے کنگن پہننا شاہی لباس کا جز تھا اس لئے فرمایا گیا کہ جنتی لوگوں کو چاندی کے کنگن پہنائے جائیں گے۔ دوسری آیات میں سونے کے کنگنوں کا بھی ذکر ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ان کی آن بان ہر لحاظ سے شاہانہ ہوگی۔ ف 7 یعنی ایسی شراب جس میں کسی قسم کی نجاست اور بدبو نہ ہوگی جس کے پینے سے ہرگز سرگردانی نہ ہوگی بلکہ دل و دماغ کی تمام کدورتیں صاف ہوجائیں گی۔ اس لئے شاہ صاحب (رح) نے ” طھوراً“ کا ترجمہ کیا ہے ” جو دل کو دھو گئی الإنسان
22 الإنسان
23 “۔ ف 8 مطلب یہ ہے کہ اسے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود تصنیف نہیں کرلیا ہے جیسا کہ یہ مشرکین خیال کرتے ہیں۔ الإنسان
24 ف 9 یہ اس طرف اشارہ ہے کہ عنقریب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کفار سے جہاد کرنے کا حکم دیا جائے گا۔ جب تک یہ حکم نہ آئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی ایذارسانی کو صبرو ہمت سے برداشت کرتے رہے۔ ف 10 یعنی یہ اگر دھمکی یا لالچ دے کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دعوت حق کے کام سے بازرکھنا چاہیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی بات پر ہرگز کان نہ دھریں بلکہ دعوت کا کام پوری توجہ اور تندہی سے جاری رکھیں۔ کہتے ہیں کہ بدکار سے مراد عتبہ بن ربیعہ ہے اور ناشکرے سے مراد ولید بن مغیرہ، کیونکہ ان دونوں بدبختوں نے آنحضرت ﷺ سے کہا تھا کہ آپ ﷺ لوگوں کو خالص توحید کی طرف بلانے سے باز آجائیے، ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جتنی دولت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چاہیں گے دیں گے اور جس عورت سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چاہیں گے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نکاح کردیں گے۔ (فتح القدیر) الإنسان
25 ف 11 یعنی ہر آن اس کا ذکر کرتے رہے، یا یہ مطلب ہے کہ صبح اور شام (یعنی فجر اور عصر) کی نماز پڑھئے۔ الإنسان
26 ف 12 یعنی تہجد کی نماز پڑھئے۔ یہ حکم استحباب کے لئے ہے، اگر یہ کہا جائے کہ تہجد کی نماز نبی ﷺ پر بھی فرض نہ تھی بلکہ عام مسلمانوں کی طرح صرف نفل تھی۔ یا یہ حکم صرف نبی ﷺ کے لئے ہے، اگر یہ کہا جائے کہ تہجد کی نماز آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر فرض تھی۔ الإنسان
27 ف 13 یعنی اس کی کوئی پروا نہیں کرتے اور نہ اس کی تیاری کرتے ہیں۔ الإنسان
28 ف 14 دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ” ہم جب چاہیں ان کی موجودہ ہستیوں کو (ختم کرکے) دوبارہ ایسی ہی ہستیاں بناکر کھڑی کردیں“۔ الإنسان
29 الإنسان
30 ف 1 کیونکہ بندہ کا چاہنا اللہ تعالیٰ کے چاہنے کے تابع ہے۔ وہی جانتا ہے کہ کس کی قابلیت واستعداد کس قسم کی ہے۔ پھر اسی کے مطابق وہ اسے نیکی کی توفیق دیتا ہے یا برائی کے راستہ پر چلتے رہنے کے لئے چھوڑ دیتا ہے۔ ف 2 یعنی اللہ تعالیٰ کسی بندے کے حق میں جو فیصلہ فرماتا ہے وہ اطل ٹپ نہیں ہوتا اور نہ اس میں کسی طرح کی بے انصافی پائی جاتی ہے بلکہ وہ سراسرعلم و حکمت پر مبنی ہوتا ہے۔ الإنسان
31 الإنسان
0 ف 3 اکثر مفسرین کے نزدیک یہ پوری سورۃ مکہ معظمہ میں نازل ہوئی۔ قتادہ اور ایک روایت میں حضرت ابن عباس (رض) نے اس کی ایک آیت : واذا قیل لھم ارکعوالایرکعون۔ کو مدنی قرار دیا ہے۔ صحیحین میں حضرت ابن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ ہم نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ منیٰ کے ایک غار میں تھے کہ وہیں یہ سورۃ نازل ہوئی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسے پڑھ رہے تھے اور میں اسے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دہن مبارک سے لے رہا تھا۔ اتنے میں ہم پر ایک سانپ آپڑا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اسے مارڈالو۔ ہم اس کی طرف لپکے تو وہ بھاگ گیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” وہ تمہارے ہاتھ سے بچ نکلا جیسے تم اس کی پھنکار سے بچ گئے۔” صحیحین ہی میں حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ میں یہ سورۃ پڑھ رہا تھا کہ ام فضل (رض) نے مجھ سے کہا :” بیٹا ! مجھے تمہارے اس پڑھنے سے یاد آگیا کہ یہ آخری سورۃ ہے جسے میں نے رسول اللہ ﷺ کو مغرب کی نماز میں پڑھتے سنا۔“ (فتح القدیر) المرسلات
1 ف 4 یعنی پے درپے چلتی ہیں۔ آیت کا یہ مطلب جمہور مفسرین نے بیان کیا ہے۔ بعض نے ” مرسلات“ سے مراد بھیجے ہوئے فرشتے یا انبیاء لئے ہیں اور ” عرفا“ کا ترجمہ ” بھلائی (یعنی اچھے احکام) دے کر کیا ہے۔ (فتح القدیر)۔ المرسلات
2 ف 5 بعض نے ان سے مراد ہوائوں کو زور سے ہانکنے والے فرشتے لئے ہیں۔ (ایضاً)۔ المرسلات
3 ف 6 بعض نے ان سے مراد فرشتے لئے ہیں جو بادلوں کو یا اپنے پروں کو خوب پھیلا دیتے ہیں۔ (ایضاً)۔ المرسلات
4 ف 7 بعض نے ان سے مراد فرشتے لئے ہیں یا قرآنی آیات یا انبیائ ( علیہ السلام) جو ہق کو باطل سے جدا کرتے ہیں۔ (ایضا)ً۔ المرسلات
5 ف 8 اکثر مفسرین نے اس آیت کا یہی مطلب بیان کیا ہے۔ بعض نے مراد انبیاء ( علیہ السلام) لئے ہیں جو بندوں تک اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچاتے ہیں۔ (ایضاً)۔ المرسلات
6 ف 9 دوسرا ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے :” معاف کرنے کو یا ڈرانے کو “۔ یعنی مومنوں کے لئے معافی کا وعدہ لاتے ہیں اور کافروں کے لئے عذاب کی خبر۔ المرسلات
7 المرسلات
8 المرسلات
9 المرسلات
10 المرسلات
11 ف 10 یعنی وہ فیصلہ کے لئے اپنی اپنی امتوں کو لے کر اللہ تعالیٰ کے حضور باری باری حاضر ہوں۔ المرسلات
12 المرسلات
13 المرسلات
14 المرسلات
15 ف 11 یعنی انہیں سخت تباہی اور مصیبت کا سامنا ہوگا۔ المرسلات
16 المرسلات
17 المرسلات
18 المرسلات
19 المرسلات
20 المرسلات
21 المرسلات
22 المرسلات
23 ف 12 یعنی ہم نے ایک ایسی مدت مقرر کی جس میں بچہ کی ساخت مکمل ہوجاتی ہے، نہ کوئی چیز ضرورت سے زائد بنتی ہے اور نہ کوئی ضروری چیز رہ جاتی ہے۔ جب تک اس کے لئے رحم کے اندر رہنا ضروری ہوتا ہے وہ اس میں رہتا ہے اور جب باہر آنا ضروری ہوتا ہے تو وہ باہر آجاتا ہے۔ یہ مدت ہم نے مقرر کی اور ہم کتنا ٹھیک اندازہ کرنے والے ہیں۔ ” قدرنا“ کا دوسرا ترجمہ ” ہم قادر ہوئے“ بھی ہوسکتا ہے یعنی ہم نے پانی کی ایک بوند کو بتدریج ترقی دیتے دیتے کامل وعاقل انسان بنایا۔ اس سے تم سمجھ سکتے ہو کہ ہم کیا خوب قدرت رکھنے والے ہیں۔ المرسلات
24 المرسلات
25 ف 1 یعنی جب تک لوگ زندہ رہتے ہیں، اس پر رہتے بستے ہیں اور جب مرجاتے ہیں تو اس کے اندر چلے جاتے ہیں۔ المرسلات
26 المرسلات
27 المرسلات
28 المرسلات
29 المرسلات
30 المرسلات
31 المرسلات
32 ف 2 یعنی بہت بڑی بڑی۔ المرسلات
33 المرسلات
34 ف 3 ایسا قیامت کے بعض مواقف میں ہوگا، بعض مواقف میں وہ بولیں گے، جیسا کہ دوسری آیات میں بیان ہوا ہے۔ المرسلات
35 المرسلات
36 ف 4 کیونکہ وہاں تو بدلہ پانے کا وقت ہوگا۔ عذر اور توبہ کرنے کا وقت دنیا میں گزرچکا ہوگا۔ المرسلات
37 المرسلات
38 المرسلات
39 ف 5 یعنی جیسے تم دنیا میں ہمارے عائد کردہ احکام و فرائض سے بچنے کے لئے بہت سے دائوں کیا کرتے تھے۔ آج بھی اگر ہمارے عذاب سے نکل بھاگنے کے لئے کوئی چال چل سکتے ہو تو چل دیکھو۔ المرسلات
40 المرسلات
41 المرسلات
42 المرسلات
43 المرسلات
44 ف 6 جھٹلانے والوں کے مقابلے میں یہ پرہیز گاروں کا حال بیان ہوا۔ پھر بہت ہی بدبخت ہیں وہ لوگ جو قیامت کو جھٹلاتے ہیں اور پرہیز گاری (خدا کا ڈر) اختیار نہیں کرتے۔ المرسلات
45 المرسلات
46 المرسلات
47 المرسلات
48 ف 7 جھکنے سے مراد اللہ تعالیٰ کے عام احکام کے سامنے جھکنا بھی ہوسکتا ہے، اگرچہ متب اور معنی نماز میں جھکنا ہی ہیں۔ المرسلات
49 المرسلات
50 ف 8 یعنی قرآن جو اللہ تعالیٰ کا اپنا کلام ہے اور جس کا انداز بیان انتہائی مؤثر اور دلنشین ہے۔ اگر یہ کفار اس پر بھی ایمان نہیں لارہے تو آخر کون سی کتاب ہے جس کا وہ انتظار کررہے ہیں کہ وہ آئے تو اس پر ایمان لائیں ؟ کیا قرآن کے بعد بھی کوئی کتاب آنے والی ہے ؟۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب کوئی شخص اس آیت پر پہنچے تو اسے یہ کہنا چاہئے ” امنا باللہ“ ہم اللہ پر ایمان لائے۔ (ابن کثیربحوالہ ابودائود ترمذی، مسند امام احمد وغیرہ ) المرسلات
0 ف 1 اس سورۃ کا دوسرا نام ” عم“ اور ” المعصرات“ بھی ہے اور یہ بالاتفاق مکی ہے۔ (شوکانی) النبأ
1 ف 2 یا کس چیز کے متعلق باتیں کررہے ہیں، مفسرین کہتے ہیں جب آنحضرت ﷺ کی بعث ہوئی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کو توحید اور زندگی بعد موت کی خبر دی اور انہیں قرآن سنانا شروع کیا تو کفار آپس میں چہ میگوئیاں کرنے لگے کہ یہ کیا چیز ہے جسے محمد ﷺ پیش کررہے ہیں۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں۔ (شوکانی) النبأ
2 النبأ
3 ف 3 قیامت، قرآن یا خود آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں مگر جمہور علما نے اس سے قیامت ہی مراد لی ہے۔ یعنی کوئی قیامت کے آنے میں شک کرتا ہے کوئی اس سے بالکل انکار کرتا ہے۔ قرآن میں اختلاف یہ ہے کہ کوئی قرآن کو سحر کہتا ہے اور کوئی پہلوں کے افسانے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں بھی وہ مختلف قسم کی چہ میگوئیاں کرتے کبھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ساحر کبھی شاعر اور کبھی مجنوں کہتے ہیں۔ (قرطبی) النبأ
4 النبأ
5 ف 4 اس میں تقریع وتوبیخ ہے کہ عنقریب جب قیامت آجائے گی اور غیب سے پردہ اٹھ جائے گا تو انہیں معلوم ہوجائے گا کہ جن چیزوں کے بارے میں وہ اختلاف میں پڑے ہوئے تھے اور جزا سزا کا انکار کررہے تھے وہ سب حقیقت تھیں۔ ویسی ہی حقیقت جیسی انبیاء علیہم السلام نے ان سے بیان کی تھی۔ النبأ
6 النبأ
7 ف 5 تاکہ زمین میں اطمینان کی کیفیت پیدا ہو اور وہ ڈگمگاتی نہ رہے اور زمین سھاد“ بنانا یا اصل خلقت کے اعتبار سے ہے اور یا پیدا کرنے کے بعد ہے۔ بہرحال اس کا مواد، ہوتا ” کرۃ“ ہونے کے منافی نہیں ہے۔ حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین پیدا کی تو اس میں اضطراب سا تھا۔ پھر جب پہاڑ پیدا کئے تو اس میں اطمینان کی کیفیت پیدا ہوگئی۔ (نحل :115) النبأ
8 ف 6، ازواج، کے معنیٰ مختلف شکلیں اور رنگ بھی ہو سکتے ہیں اور یہ بھی کہ مذکر و مؤنث کے نطفہ کے اختلاط سے پیدا کیا۔ النبأ
9 النبأ
10 ف 7 یعنی جس طرح آدمی کپڑے پہن کر اپنے آپ کو چھپا لینا ہے اسی طرح رات کی تاریکی تمہاری پردہ پوشی کرتی ہے۔ النبأ
11 ف 8 یہ عمومی حالت بیان فرمائی جو فطری ہے یعنی دن کو کام اور رات کو آرام، گواس مشینی دور میں بعض لوگ ایسے بھی ہیں جنہیں دن کو سونا اور رات کو جاگنا پڑتا ہے۔ النبأ
12 ف 9 کہ ہزاروں برس گزرنے پر بھی ان میں کوئی خرابی پیدا نہیں ہوئی۔ النبأ
13 ف 10 وھاج، ایسی چیز کو کہتے ہیں جو روشن بھی ہو اور گرم بھی اسی لئے اس سے مراد سورج لیا گیا ہے۔ النبأ
14 ف 11 مراد بادل ہوں تو اس کے معنی نچڑنے والے، ہوں گے اور ہوائیں مراد ہوں تو نچوڑنے والی، ترجمہ کیا جائے گا۔ النبأ
15 النبأ
16 ف 12 ان تمام چیزوں کا ذکر کرنے سے مقصود یہ بتانا ہے کہ جو ذات ایسا نظام بنا اور چلا سکتی ہے اس کے لئے دوبارہ پیدا کرنا کچھ مشکل نہیں ہے۔ اسی مناسبت نے آگے آخرت کا ذکر آرہا ہے۔ النبأ
17 النبأ
18 ف 13 مراد دوسری بار کا صور پھونکنا ہے جس کے بعد تمام لوگ زندہ ہو کر اٹھ کھڑے ہوں گے۔ (ابن کثیر) النبأ
19 ف 14 آسمان اس لئے پھٹے گا کہ فرشتے زمین پر اتر سکیں جیسے فرمایا : ویوم تشقق السماء بالغمام ونزل الملائکۃ تنزیلا۔ (سورہ فرقان :25) معلوم ہوا کہ آسمان میں ” خرق“ ممتع نہیں ہے جیسا کہ فلاسفہ کا مشہور مذہب ہے گوملاصدرانے اسفاراربعہ، میں تحقیق سے ثابت کیا ہے کہ امتناع خرق، اساطین فلاسفہ کا قول نہیں ہے۔ آج کل کے فلاسفہ نے معروف آسمان کا بھی انکار کیا ہے مگر کوئی ایسی تحقیق پیش نہیں کی جس کی بنا پر آیات و احادیث صحیحہ کی تاویل کرنی پڑے۔ النبأ
20 ف 15 جو دوپہر کے وقت درسے دیکھنے والے کو پانی کی طرح نظر آتا ہے مگر درحقیقت پانی نہیں ہوتا۔ مطلب یہ ہے کہ قیامت کے دن پہاڑ بظاہر پہاڑ نظر آئیں گے مگر حقیقت میں کچھ نہیں ہوں گے۔ قرآن میں پہاڑوں کے مختلف احوال بیان ہوئے ہیں اول یہ کہ ریزہ ریزہ کئے جائیں گے۔ (الفجر :121) پھر وہ دھنی ہوئی اون کی طرح نظر آئیں گے، (القارعہ : 5) پھر غبار کے پراگندہ ذرات کی طرح بن جائیں گے پھر چلائے جائیں گے۔ (الواقعہ :6، النمل :88) اور دور سے سراب کی طرح نظرآئیں گے جیسا کہ یہاں بیان ہوا ہے۔ (فتح لبیان) علما نے لکھا ہے کہ پہاڑوں کی یہ حالت (سراب بن جانا) نفخہ ثانیہ کے بعد ہوگی لیکن ان کا پھٹنا اور ریزہ ریزہ ہونا ” نغمہ اولیٰ، کے وقت ہوگا (درج) النبأ
21 النبأ
22 النبأ
23 ف 16 اور ظاہر ہے کہ اعقاب کبھی ختمہ نہ ہوں گے لہٰذا مقصد یہ ہے کہ وہ کفارکبھی دوزخ سے نہیں نکالے جائیں گے (کذانی الشوکانی عن الحسن البصری) النبأ
24 النبأ
25 ف 17 دوزخ کا ایک طبقہ مہریر بھی ہے جہاں بے انتہا سردی ہے اسے مزے کی ٹھنڈک نہیں کہہ سکتے۔ (وحیدی) النبأ
26 النبأ
27 النبأ
28 النبأ
29 ف 1 یعنی ہمارے پاس ان کے اعمال کا پورا پورا ریکارڈ موجود ہے۔ لہٰذا وہ کسی عمل کی سزا سے بچ نہیں سکیں گے۔ النبأ
30 ف 2 یعنی جس طرح تم کفر وتکذیب میں برابر پڑھتے چلے گئے اسی طرح ہم بھی تمہارا عذاب برابر بڑھاتے رہیں گے اور کسی لمحہ اس میں تخفیف نہ کریں گے۔ (نساء :156، اسراء :57) النبأ
31 النبأ
32 النبأ
33 ف 3 آپس میں دوسرے کی ہم سن یا جنتیوں کی ہم سن۔ النبأ
34 النبأ
35 النبأ
36 ف 4 یعنی ان کا کوئی چھوٹے سے چھوٹا عمل ایسا نہ ہوگا جو حساب میں نہ آئے اور ” حساباً“ کا مطلب بعض مفسرین نے کانیا، بیان کیا ہے یعنی اتنا بدلہ جس سے زیادہ کی خواہش بھی نہ ہو۔ النبأ
37 ف 5 یعنی انتہائی لطف و رحمت کے باوجود قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کا جلال اس قدر ہوگا کہ کوئی اس کے سامنے لب کشائی نہ کرسکے گا۔ النبأ
38 ف 6 روح کہا جانداروں کو یا نام جبریل ( علیہ السلام) کا ہے“ (موضح) ف 7 اگر شفاعت کرے گا تو اسی کی جو واقعی شفاعت کا مستحق ہوگا اور ظاہر ہے کہ شفاعت کا مستحق وہی ہوگا جس نے دنیا میں ٹھیک بات کہی تھی۔ یعنی کلمہ توحید۔ اگرچہ اس سے بعض کو تاہیاں سرزد ہوگئی ہوں یا وہی شخص بات کرسکے گا جسے اللہ تعالیٰ اجازت دے گا اور صحیح بات کہے یعنی غیر مستحق کی شفاعت نہ کرے۔ (کذانی جامع البیان) شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں :” جو مسلمان قابل سفارش کے ہے اسی کے واسطے کہا النبأ
39 ۔“ ف 8 یعنی اس دن کا آنا یقینی ہے۔ اگر کسی کو اپنی بھلائی مطلوب ہے تو اسے چاہئے کہ اس کے لئے تیاری کرے۔ النبأ
40 ف 9 یعنی آدمی نہ ہوتا تو آج اس عذاب میں مبتلا نہ ہوتا۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ قیامت کے دن تمام مخلوقات حتیٰ کہ جانوروں، چرندوں اور پرندوں تک کو جمع کیا جائے گا پھر اللہ تعالیٰ کا انصاف اس قدر ہوگا کہ بن سینگ والی بکری کو بھی سینگ والی بکری سے بدلہ دلایا جائے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ ان سے فرمائے گا کہ مٹی ہوجائو۔ اس وقت کافر کہے گا کہ کاش میں بھی آج مٹی ہوجاتا۔ بہائم کا حشر اور ان کا ایک دوسرے سے بدلہ لینا حدیث و آثار سے ثابت ہے اور جمہور اس کے قائل ہیں۔ (روح شوکانی) النبأ
0 ف 10 اس سورۃ کا دوسرا نام ” ساھرہ“ بھی ہے اور یہ بالاتفاق مکی ہے۔ (شوکانی) النازعات
1 ف 11 یعنی وہ نکلنا نہیں چاہتیں تو انہیں زبردستی باہر گھسیٹتے ہیں۔ اس آیت میں ” نازعات“ (نکالنے والوں) سے مراد فرشتے ہیں۔ جمہور مفسرین کا اس پر اتفاق ہے اور اسی طرح اگلی آیات میں ” ناشطات“ سابحات، اور سابقات، سے بھی تمام مفسرین نے فرشتے مراد لئے ہیں مگر بعض نے ” نازعات“ سے مراد موت لی ہے جو جان کو بدن سے نکالتی ہے۔ بعض نے ستارے جو ایک افق سے دوسرے افق تک ڈوب کر جاتے ہیں، بعض نے کمانیں جو زور سے کھینچی جاتی ہیں۔ یہاں تک کہ سارا تیر پیکان تک ان کے اندر چلا جاتا ہے اور بعض نے تیر انداز مجاہدین جو کمان کو پورا کھینچتے ہیں۔ (قرطبی۔ رازی) النازعات
2 ف 12 شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں کہ فرشتے مسلمان کی روح گرہ کھول کر نکالتے ہیں۔ وہ اپنی خوشی سے عالم پاک کی طرف دوڑتی ہے۔ بدن کی تکلیف الگ ہے اس میں کافر اور مسلمان برابر ہیں۔ (ازموضح تبصرف) ف 13 یا ” جوروحوں کو نکالنے کے لئے بدنوں میں تیرتے ہیں۔ یا جو اللہ تعالیٰ کے احکام لے کر جلدی سے زمین کی طرف آتے ہیں، بعض مفسرین نے سابحات، اسے مراد گھوڑے لئے ہیں جو لڑائی میں تیزی کے ساتھ دوڑتے ہیں گویا سمندر میں تیر رہے ہیں۔ النازعات
3 النازعات
4 النازعات
5 ف 1 یعنی اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق کائنات کا نظام چلاتے ہیں۔ اس آیت میں ” مدتبرات“ سے فرشتے ہونے پر تمام مفسرین کا اتفاق ہے۔ (شوکانی) النازعات
6 ف 2 یعنی پہلی مرتبہ صورپھونکنا۔ شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں ” یعنی زمین کو بھونچال چلاجاوے۔ (موضح) النازعات
7 ف ٣۔ یعنی دوسری مرتبہ صور پھونکنا یعنی لگاتار بھونچال چلا جاوے۔ النازعات
8 النازعات
9 النازعات
10 النازعات
11 النازعات
12 ف 4 یعنی اس صورت میں تو ہمارا خسارہ ہی خسارہ ہے۔ یہ بات ازراہ مذاق کہتے۔ (جامع البیان) النازعات
13 ف 5 یعنی آخرت کو محال نہ سمجھا بس… النازعات
14 ف 6 ساھرۃ، دراصل روئے زمین کو کہتے ہیں مراد حشر کا میدان ہے۔ النازعات
15 ف 7 اس مقام پر حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کا واقعہ بیان کرنے سے مقصود آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینا ہے۔ کہ ان کافروں کی تکلیف اور ایذا رسانی پر گھبرائیں نہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے موسیٰ ( علیہ السلام) کو بھی اس قسم کے حالات سے سابقہ پیش آچکا ہے۔ (گذانی فتح البیان) النازعات
16 ف 8 یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) اپنے گھروالوں کے ساتھ مدین سے مصر آرہے تھے اور ایک پہاڑ پر آگ جلتی دیکھ کر اس کی طرف گئے تھے۔ (طہ :1009۔ سورۃ قصص :29) النازعات
17 ف 9 یعنی بندگی کی حدود سے نکل کر خدائی تک کا دعویٰ کرنے لگا ہے۔ النازعات
18 ف 10 یعنی کفروشرک کی گندگی سے پاک ہوجائے۔ النازعات
19 النازعات
20 ف 11 یعنی اس کے بندوں پر ظلم کرنے سے بازآئے۔ ف 12 یعنی ایسی تدبیریں سوچنے لگا جن سے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کو زک دے سکے اور لوگوں کو ان کی آواز پر کان دھرنے سے باز رکھ سکے۔ النازعات
21 النازعات
22 ف 13 یعنی مجھ سے اوپر کون خڈا ہے جس کے متعلق موسیٰ ( علیہ السلام) دعویٰ کرتا ہے کہ وہ اس کا بھیجا ہوا ہے؟ النازعات
23 النازعات
24 ف 14 آخرت میں دوزخ کا ایندھن بنے گا۔ اور دنیا میں ڈوب کر مرا۔ النازعات
25 النازعات
26 النازعات
27 النازعات
28 النازعات
29 ف 15 رات اور دن کو آسمان کی طرف منسوب کیا گیا کیونکہ دونوں کا تعلق سورج کے طلوع وغروب سے ہے۔ النازعات
30 ف 16 اس سے معلوم ہوا کہ زمین کا پھیلانا، یا بچھانا آسمان کی پیدائش کے بعد ہوا ہے لیکن اس کی پیدائش آسمان سے پہلے ہوچکی تھی جیسا کہ سورۃ فصلت میں ہے : ثم استویٰ الی السماء۔ پھر زمین کو پیدا کرنے کے بعد) اللہ تعالیٰ آسمان کی طرف بلند ہوا۔ (آیت :11) چنانچہ حضرت ابن عباس (رض) کے سامنے ایک شخص نے ان دونوں آیتوں میں تعافی کا اشکال پیش کیا تو انہوں نے یہی جواب دیا۔ مگر بعض نے ” ثم استویٰ الی السماء، میں کلمہ ثم کو تراخی پر محمول کیا ہے یعنی آسمان کی خلق زمین کی خلق سے زیادہ تعجب خیز ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہاں بعد ذلک سے تاخر بلحاظ زمانہ مراد نہ ہو، بلکہ تاخر بلحاظ خبر ہوجیسا کہ فرمایا : عتل بعدذلک زینم، یعنی اس کے بعد ہم زمین ومافیہا کی خلق کے متعلق خبر دیتے ہیں یوں زمین ومافیہا کی خلق آسمان سے پہلے ہے جیسا کہ آیت بقرہ اور آیت دخان سے بظاہر معلوم ہوتا ہے۔ یہ تاویل انسب سے اور اس پر علمائے تفسیر متفق ہیں۔ کیونکہ حضرت ابن عباس (رض) والی تاویل کی روسے اصل اشکال رفع نہیں ہوتا۔ واللہ اعلم (روح) النازعات
31 ف 17 یعنی زمین میں دریا اور چشمے جاری کئے اور کھانے کے لئے درخت اور میوے آگائے اور جانوروں کے لئے گھاس اگائی۔ النازعات
32 ف 1 یعنی ان کی وجہ سے وہ دبی رہتی ہے اور ہچکولے نہیں کھاتی۔ النازعات
33 النازعات
34 النازعات
35 النازعات
36 ف 2 یعنی مومن ہوں یا کافر سب اسے دیکھیں گے۔ مومن اسے دیکھ کر اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لائیں گے کہ اس سے محفوظ رہے اور کافر شدید غم اور حشرت میں مبتلا ہوں گے۔ النازعات
37 النازعات
38 النازعات
39 النازعات
40 ف 3 یعنی اس نے اپنی زندگی اس سے ڈرتے ہوئے بسرکی۔ النازعات
41 النازعات
42 ف 4 لفظی ترجمہ یہ ہے کہ اس کا وقوع (یاقیام) کب ہوگا؟“ متعدد آیات میں گزرچکا ہے کہ کافر یہ سوال معلومات کے لئے نہیں بلکہ ازراہ مذاق کیا کرتے تھے۔ النازعات
43 النازعات
44 ف 5 یعنی وہی جانتا ہے اور کوئی نہیں جانتا۔ شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں : یعنی پوچھتے پوچھتے اسی تک پہنچتا ہے بیچ میں سب بے خبر ہیں۔ (موضح) النازعات
45 ف 6 یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کام اس کا وقت بتانا نہیں ہے بلکہ اس سے ڈرانا ہے جس کے دل میں اس کا ڈر ہوگا وہ اس کے لئے تیاری کرے گا اور جس کے دل میں ڈر نہیں ہوگا وہ اس کا وقت ہی پوچھتا رہ جائے گا۔ النازعات
46 ف 7 یا (قبروں میں) پہر بھر شام، یا پہر بھر صبح رہے“ یعنی بہت تھوڑی دیر رہے۔ النازعات
0 ف 8 اس سورۃ کا دوسرا نام ” سفرہ“ بھی ہے اور یہ بالاتفاق مکی ہے۔ (شوکانی) عبس
1 عبس
2 ف 9 تمام مفسرین کا اتفاق ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس قریش کے کچھ سردار بیٹھے تھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چاہتے تھے کہ یہ مسلمان ہوجائیں تو اسلام کو قوت نصیب ہو۔ اس لئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انہیں سمجھا رہے تھے۔ اتنے میں حضرت عبداللہ (رض) ابن ام مکتوم جو نابینا تھے آپہنچے اور دین کو سمجھنے کے لئے کچھ سوالات کرنے لگے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ان کا قطع کلامی کرنا ناگوار گزرا، اس لئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی طرف سے منہ پھیر لیا۔ اسی پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں۔ (شوکانی) عبس
3 ف 10 یعنی گناہوں سے پاک ہوجانا۔ عبس
4 عبس
5 ف 11 یا جو (ایمان اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نصیحت سے) بے نیاز بنتا ہے یعنی اس کی کوئی پروانہیں کرتا۔ یہ دو ترجمے اس لحاظ سے ہیں کہ استغنی، کے معنی مالدار بننا بھی ہیں، اور بے نیاز بھی۔ عبس
6 عبس
7 ف 12 یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کام اللہ کا پیغام دینا تھا سو وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کافروں تک پہنچا دیا اب اگر یہ نہ مانیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ان کے نہ ماننے کی ذمہ داری نہیں ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے پیچھے اس قدر کیوں پڑتے ہیں جیسے سمجھا کر ہی دم لیں گے۔ عبس
8 عبس
9 عبس
10 عبس
11 عبس
12 ف 1 یعنی اسے پڑھے لکھنے یاد کرے یا سوچے سمجھے۔ اللہ تعالیٰ کی درگاہ میں غریب اور امیر دونوں برابر ہیں۔ مالدار کو غریب پر ترجیح نہیں ہے یہی برتائو اس کے رسول (ﷺ) کو بھی کرنا چاہیے۔ عبس
13 ف 2 مراد لوح محفوظ کے ورقے ہیں۔ عبس
14 ف 3 دوسرے مقام پر فرمایا لایمسہ الا المطھرون۔ اسے صرف پاک (فرشتے) ہی چھوتے ہیں۔“ (واقعہ :79) عبس
15 عبس
16 ف 4 یعنی وہاں عزت دار خدا کے تابع دار فرشتے اسے لوح محفوظ سے لکھتے ہیں اور پھر اسی کے مطابق وحی آتی ہے۔ عبس
17 ف 5 مراد وہ آدمی ہے جو قرآن جیسی نعمت کی قدر نہیں کرتا اور اس سے نصیحت حاصل نہیں کرتا، یا عام لوگ مراد ہیں۔ عبس
18 عبس
19 ف 6 یہاں قدر، بمعنی ” صلح“ ہے یعنی اس کے ہاتھ پائوں، کان ناک اور دوسرے اعضاء درست ہے۔ عبس
20 ف 7 یا۔ (خیر اور شرکاراستہ اس پر آسان کیا۔ اس لحاظ سے آیت اس آیت کے مشابہ ہے جس میں ارشاد ہے۔ وھدیناہ النجدین۔ اور ہم نے اسے دونوں راستے دکھانے۔۔ عبس
21 ف 8 تاکہ ایسا نہ ہو کہ زمین پر پڑے رہنے سے درندے اور پرندے اس کا گوشت نوچیں اور زندوں کے سامنے اس کی بے حرمتی ہو۔ معلوم ہوا کہ میت کو دفن کرنا مشروع ہے اور اس میں کسی کو اختلاف نہیں ہے یہاں تک ابتداء سے لے کر انتہا تک انسان کے تمام احولا بالاجمال بیان کردیئے ہیں اب اس کے بعد جزائے اعمال کا ذکر ہے۔ عبس
22 عبس
23 ف 9 یعنی کافروں کا یہ خیال غلط ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے وہ تمام حقوق ادا کردیئے جو ان پر عائد ہوتے ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ آدمی نے بحیثیت مجموعی ہرگز اپنے مالک کا حق نہیں پہنچانا اور اس کے وہ فرائض ادا نہیں کئے جو اس پر عائد کئے تھے۔ آیت کا یہی مطلب اکثر قدیم مفسرین نے بیان کیا ہے۔ حافظ ابن کثیر نے اس کا تعلق پچھلی آیت سے سمجھا ہے اور لما نقص اور ما امرہ، کا فاعل اللہ تعالیٰ کو قرار دیا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ جب چاہے گا آدمی کو زندہ کرکے اٹھائے گا لیکن ابھی وہ ایسا نہیں کرے گا کیونکہ ابھی اس نے وہ حکم پورا نہیں کیا جو دنیا میں انسانی زندگی کے متعلق اس نے کوئی قدری لحاظ سے دیا تھا جب دنیا میں وہ تمام انسان آجائیں گے جن کے پیدا کرنے کا فیصلہ اس نے اپنی قبضہ وقدر میں کیا تھا تو دنیا ختم کردی جائے گی اور قیامت قائم ہوجائے گی۔ واللہ اعلم عبس
24 ۔ ف 10 یعنی اپنے اس کھانے پر جس کے سہارے وہ زندہ رہتا ہے شاید اس پر غور کرنے سے وہ اللہ تعالیٰ کے اوامر کو ادا کرنے کے لئے تیار ہوجائے۔ عبس
25 عبس
26 ف 11 یعنی خود بیج کی یہ طاقت نہ تھی کہ وہ زمین کو پھاڑ کر باہر نکل سکتا۔ اس میں یہ طاقت ہم نے رکھی ہے۔ عبس
27 عبس
28 عبس
29 عبس
30 عبس
31 ف 12 اب سے مراد دراصل وہ گھاس یا چارہ ہے جسے لوگ نہیں کھاتے بلکہ جانور کھاتے ہیں اور وہ زمین سے آدمی کی کوشش کے بغیر خود بخود پیدا ہوتا ہے۔ (فتح القدیر) عبس
32 ف 13 یعنی ان میں سے بعض چیزیں ایسی ہیں جو تمہارے کام آتی ہیں اور بعض ایسی جو تمہارے جانوروں کے کام آتی ہیں۔ عبس
33 ف 14 مراد صور پھونکے جانے کی آواز ہے۔ عبس
34 ف 15 تاکہ ایسا نہ ہو کہ وہ اس سے کچھ نیکیاں مانگیں۔ الغرض نفسا نفسی کا عالم ہوگا صحیح بخاری میں ہے کہ قیامت کے دن اولوالعزم پیغمبروں ( علیہ السلام) میں سے ایک ایک کے پاس لوگ جائیں گے کہ ان کی شفاعت کریں لیکن وہ کہیں گے کہ ہم تو آج اللہ تعالیٰ سے صرف اپنی سلامتی کے طلب گار ہیں۔ یہاں تک کہ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کہیں گے کہ مجھے صرف یہی فکر ہے میں اپنی والدہ مریم ( علیہ السلام) کے لئے بھی شفاعت نہیں کرسکتا۔ (ابن کثیر) عبس
35 عبس
36 عبس
37 ف 16 حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قیامت کے دن تم ننگے پائوں اور ننگے بدن جمع کئے جائیں گے حضرت عائشہ (رض) نے عرض کیا :” تو کیا ہم میں سے ہر شخص دوسرے کا ستر دیکھے گا ؟“ فرمایا : ”(ں ہیں) اس روز ہر آدمی کو ایسی فکر پڑی ہوگی جو اسے دوسرے کی طرف دیکھنے ہی نہ دے گی“ (ابن کثیر) بحوالہ ترمذی، نسائی وغیرہ ) عبس
38 عبس
39 ف 17 یعنی مومنوں کے چہرے جو نور ایمان سے دمک رہے ہوں گے انتہائی مسرت سے شادماں ہوں گے۔ عبس
40 عبس
41 عبس
42 ف 18 یعنی ان کے چہروں پر کفروبدکاری کی پھٹکار ہوگی۔ عبس
0 ف 19 یہ سورۃ بالاتفاق مکی ہے۔ حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جسے یہ بات خوش کرے کہ وہ قیامت کے دن کو اس طرح دیکھے جیسے وہ اس کی آنکھوں کے سامنے ہے تو اسے چاہئے کہ ان الشمس کورت اذا السماء انفطرت اور اذا السماء الشفقت سورتیں پڑھے۔ (شوکانی) التكوير
1 ف 1 یا جب سورج لپیٹ لیا جائے التكوير
2 “ ف 2 یا ” جب ستارے ماند پڑجائیں“۔ یعنی ان کے اپنی جگہوں سے زائل ہونے کی بنا پر۔ (قرطبی) التكوير
3 ف 3 یعنی اپنی جگہ سے اکھاڑ کر ہوا میں اڑائے جائیں۔ التكوير
4 ف 4 یہ گابھن اونٹنیاں عربوں کی نظر میں انتہائی قابل قدر ہوتی تھیں اور وہ ان سے کسی حال میں غافل نہ ہوتے تھے لیکن قیامت کی ہولناکی ایسی ہوگی کہ کسی کو ان کا بھی ہوش نہ رہے گا۔ مطلب یہ ہے کہ آدمی کو اس دن اپنے قیمتی سے قیمتی اور پیارے سے پیارے مالک کا بھی ہوش نہ رہے گا۔ التكوير
5 ف 5 یعنی انہیں زندہ کیا جائے گا تاکہ ایک دوسرے سے قصاص دلایا جائے۔ جیسا کہ صحیح حدیث میں ہے کہ اس دن انتہائی انصاف ہوگا۔ حتیٰ کہ بے سینگ بکری کو سینگ والی بکری سے بدلہ دلایا جائے گا۔ یا مطلب یہ ہے کہ جنگلی جانور مارے مصیبت کے آبادیوں میں آگھسیں گے۔ یا یہ کہ وہ مارڈالے جائیں گے۔ (شوکانی) التكوير
6 ف 6 جیسے تنور کو دھونکا جاتا ہے یعنی ان کا پانی گرم ہو کر دھواں اور آگ بن جائے یا مطلب یہ ہی کہ ان کا پانی مل کر ایک ہوجائے یا سوکھ جائیں۔ عربی زبان میں ” سجر“ کا لفظ ان تمام معانی کو شامل ہے۔ التكوير
7 ف 7 یا یہ مطلب ہے کہ جنت میں نیکیوں کو نیکوں کے ساتھ اور دوزخ میں بدوں کو بدوں کے ساتھ جوڑدیا جائے۔ وغیرذلک۔ التكوير
8 التكوير
9 ف 8 تاکہ جب وہ یہ جواب دے کہ اسے بے قصور زمین میں دفن کیا گیا تو اس کے قاتل کو سزا دی جائے۔ اس سے مقصود یہ بتانا ہے کہ فقرو عار کی وجہ سے اولاد کو قتل کرنا، جیساکہ بعض عرب قبائل میں اس کا دستور تھا۔ نہایت گھنائونا جرم ہے جس کی سزا قیامت کے دن ضرور ملے گی۔ التكوير
10 التكوير
11 ف 9 جیسا کہ ذبح کئے ہوئے جانور کی کھال اتاری جاتی ہے۔ اس سے مراد بعض مفسرین نے یہ لی ہے کہ آسمان کو اس کی جگہ سے ہٹا دیا جائے گا یا لپیٹ دیا جائے گا۔ واللہ اعلم (شوکان) التكوير
12 ف 10 شروع سورۃ سے یہاں تک کل بارہ چیزوں کا ذکر ہوا ہے بعض مفسرین کہتے ہیں پہلی چھ کا وقوع قرب قیامت کے دنوں میں ہوگا اور اگلی چھ چیزوں یعنی از وادالنفوس تاولو الجنۃ ازلفث) کا آخرت میں۔ جب یہ بارہ چیزیں ہوجائیں گی تو کیا ہوگا؟ اس کا جواب اگلی آیت میں آرہا ہے۔ التكوير
13 التكوير
14 ف 11 یعنی اچھے اعمال لایا ہے یا برے۔ التكوير
15 التكوير
16 ف 12 ان سے مراد جیسا کہ مفسرین نے لکھا ہے پانچ سیارے ہیں یعنی زحل، مشتری، مریخ، زہرہ اور عطارد (شوکانی) شاہ صاحب ( علیہ السلام) لکھتے ہیں : ان کی چال اس ڈھب سے ہے کہ کبھی مغرب سے مشرق کو چلیں یہ سیدھی ہوتی ( اور) کبھی ٹھٹک کر الٹے پھریں اور کبھی سورج کے پاس آکر غائب رہیں کتنے دنوں تک۔ (موضح) یہاں بھی ” فلا اقسم“ میں لا‘ زائد ہے اس لئے مطلب یہ ہے کہ میں قسم کھاتا ہوں۔ التكوير
17 التكوير
18 التكوير
19 التكوير
20 التكوير
21 التكوير
22 التكوير
23 ف 13 یعنی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت جبریل ( علیہ السلام) کو آسمان کے کھلے کنارے پر ان کی اصلی شکل میں دیکھا۔ یہ واقعہ مقام بطحا کا ہے جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جبریل ( علیہ السلام) کو پہلی مرتبہ دیکھا۔ سورۃ النجم آیت : وعلمہ شدید القوی، میں یہ بحث گزرچکی ہے۔ التكوير
24 ف 14 یعنی اسے بغیر کمی کے پورا پورا پہنچا دیتا ہے، ضنین، کے دوسرے معنی مہہتم کے بھی ہیں یعنی وحی کے بارے میں اس پر جھوٹ کی تہمت نہیں لگائی جاسکتی۔ التكوير
25 التكوير
26 ف 15 یعنی اس قرآن کی اطاعت سے کیوں منہ موڑ رہے ہو؟ التكوير
27 التكوير
28 التكوير
29 ف 16 یعنی تمہارا نیکی کا ارادہ کرنا بھی اسی کی مشیت اور توفیق پر موقوف ہے۔ دیکھئے سورۃ یون :100، انعام :112، قصص :56، سورۃ انسان : 30) التكوير
0 ف 1 یہ سورۃ بالا اتفاق مکی ہے۔ حضرت جابر سے روایت ہے کہ حضرت معاذ نے لوگوں کو عشاء کی نماز لمبی پڑھائی (یعنی لمبی قرأت کی) نبی ﷺ نے ان سے فرمایا : معاذ ! کیا تم لوگوں میں فتنہ پیدا کرنا چاہتے ہو؟ تم یہ سورتیں کیوں نہیں پڑھتے : سبح اسم ربک الاعلی والضحی اذا السماء انفطرت؟ ” فتح القدیر بحوالہ نسائی : سورۃ تکویر کے شروع میں یہ حدیث گزر چکی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا :” جسے یہ بات خوش کرے کہ وہ قیامت کے دن کو یوں دیکھے جیسے وہ اس کی آنکھوں کے سامنے ہے تو اسے چاہئے کہ اذا الشمس کورٹ اذا السمآء الفطرت اور اذا السمآء انشقت سورتیں پڑھے۔ الإنفطار
1 “ ف 2 یعنی اللہ تعالیٰ کی بیبت سے یا فرشتوں کے اترنے کے لئے پھٹ جائے جیسا کہ دوسری آیت میں ہے ” یوم تشق السمآء بالغمام و نزل الملائکہ تنزیلاً اور جس دن بادل کے ساتھ آسمان پھٹے گا اور فرشتوں کے پرے کے پرے اتارے جائیں گے۔ (فرمان :25) الإنفطار
2 الإنفطار
3 الإنفطار
4 الإنفطار
5 ف 3 یعنی جس کے ثواب یا عذاب کا سلسلہ اس کے مرنے کے بعد بھی جاری رہا دوسرا مطل بیہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ اس کام کو بھی جان لیگا جو اس نے پہلے شروع عمر میں کیا اور اس کام کو بھی جان لیگا جو اس نے بعد میں آخری عمر میں کیا تیسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے عائد کردہ اس فریضہ کو بھی جان لے گا جو اس نے آگے بھیجا (یعنی اسے توشہ آخرت بنایا) اور اس فریضہ کو بھی جان لیگا جو اس نے موخر کیا (یعنی اسے بچا نہ لایا)۔ الإنفطار
6 ف 4 یعنی کس چیز نے تجھے اس سے غافل اور اس کی نافرمانی کی طرف مائل کردیا ؟ الإنفطار
7 ف 5 یعنی متناسب اعضاء دیئے یہ نہیں کہ ایک ٹانگ لمبی دی اور دوسری چھوٹی یا ایک آنکھ بڑی دی اور دوسری چھوٹی شاہ صاحب فرماتے ہیں : ” یعنی ٹھیک کیا بدن میں برابر کیا (خوبصورتی کے ساتھ بنایا) خصلت میں“ موضح) الإنفطار
8 ف 6 یعنی ہر ایک کو الگ رنگ الگ شکل اور الگ روپ دیا۔ الإنفطار
9 ف 7 یعنی یہی نہیں کہ تم اپنے خالق و مالک سے غافل ہو بلکہ قیامت سے بھی انکار کرتے ہو اس لئے شتر بے مہار کی طرح جو چاہتے ہو کرتے ہو۔ اس چیز نے تمہاری زندگی کو حیوانوں سے بدتر بنا دیا ہے۔ الإنفطار
10 الإنفطار
11 ف 8 عزت والے اس لئے کہ وہ لکھنے میں رہتے دیتے ہیں اور نہ کوئی بات زیادہ لکھتے ہیں حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ تمہیں ننگے ہونے سے منع فرماتا ہے لہٰذا تم اپنے ساتھ رہنے والے کراماً کاتبین فرشتوں سے شرم کرو جب تم میں سے کوئی شخص کھلی جگہ نہائے تو اسے چاہئے کہ کپڑے سے پردہ پوشی کرلے یا دیوار یا اونٹ وغیرہ کی اوٹ کرلے۔ (ابن کثیر بحوالہ بزار) الإنفطار
12 ف 9 لہذا تمہارا یہ سمجھ کر زندگی گزارنا سراسر حماقت ہے کہ شاید تمہارا کوئی گناہ اللہ تعالیٰ کے ریکارڈ میں نہ آیا ہو، اور تم اس پر سزا پانے سے بچ جائو۔ یہ فرشتے ہر انسان پر چار کی چار تعداد میں مقرر ہیں۔ دو اس کی نیکیاں لکھتے ہیں اور دو برائیاں۔ (تفصیل کے لئے دیکھیے سورۃ رعد آیت 11 مع فائدہ) الإنفطار
13 الإنفطار
14 الإنفطار
15 الإنفطار
16 ف 10 ” بلکہ ہمیشہ اس میں رہیں گے“ دوزخ سے غائب ہونے کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ پہلے بھی اس سے جدا نہ تھے بلکہ برزخی زندگی میں بھی اس کی کچھ نہ کچھ گرمی نہیں لگتی رہتی تھی۔ الإنفطار
17 الإنفطار
18 ف 11 یہ انداز بیان ذہن میں روز قیامت پر ایمان کی اہمیت و عظمت کو نقش کرنے کے لئے اختیار کیا گیا ہے۔ الإنفطار
19 ف 12 اس لئے نبی ﷺ نے اپنے قبیلہ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا :” اے بنی ہاشم ! اپنے آپ کو آگ کے عذاب سے بچائو میں اللہ کی پکڑ میں تمہارے کسی کام نہیں آسکتا۔“ یہ حدیث سورۃ شعراء کے آخر میں تفصیل سے گزر چکی ہے۔ ف 13 اس کو دوسری آیت میں یوں فرمایا لمن الملک الیوم اللہ الواحد القھار آج بادشاہی کس کی ہے؟ صرف اللہ واحد قہار کی (غافر 16) رہی شفاعت تو وہ بھی جیسا کہ متعدد آیات میں تاکیداً بیان ہوا اس کے حکم اور اجازت سے ہوگی۔ الإنفطار
0 ف 14 بعض مفسرین اس سورۃ کو مکی اور بعض مدنی قرار دیتے ہیں اور بعض کہتے ہیں کہ یہ مکہ اور مدینہ کے درمیان نازل ہوئی۔ ایک روایت میں حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ یہ آخری سورۃ ہے جو مکہ میں نازل ہوئی بہیقی کی روایت میں ان کا بیان یہ ہے کہ نبی ﷺ جب مدینہ تشریف لائے تو وہاں کے لوگ ناپ تول میں کمی کیا کرتے تھے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ سورۃ نازل فرمائی۔ (فتحالقدیر) ف 5ۃ پہلے بیان ہوچکا ہے کہ ویل“ دوزخ کی ایک وادی کا نام بھی ہے۔ المطففين
1 ف 15۔ بیان ہوچکا ہے ویل دوزخ کی ایک وادی کا نام بھی ہے۔ المطففين
2 المطففين
3 ف 1 دوسرے کئی مقامات پر اللہ تعالیٰ نے پورا تولنے اور پورا ناپنے کا حکم دیا ہے۔ مثلاً سورۃ اسراء میں ارشاد ہے : واوفوا الکیل اذا کلتم وزنوا بالقسطاس المستقیم ذلک خیر و احسن تاویلا اور جب تم پیمانے سے دو تو پیمانہ بھر کو دو اور جب تولو تو ٹھیک ترازرو سے تولو۔ یہ اچھا طریقہ ہے اور انجام کے لحاظ سے بہتر ہے۔“ (آیت :35) حضرت شعیب (علیہ السلام) کی قوم پر جوتباہی آئی، اس کا ایک سبب یہی تھا کہ وہ ناپنے اور تولنے میں کمی کرتی تھی۔ حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :” کسی قوم نے عہد شکنی نہیں کی مگر اس پر دشمط کو مسلط کردیا گیا اور کسی قوم نے ماپنے میں کمی نہیں کی مگر اسے پیداوار کی کمی اور قحط میں مبتلا کردیا گیا۔“ (فتح القدیر بحوالہ ابن مردویہ) المطففين
4 المطففين
5 المطففين
6 ف 2 اور اپنے آدھے کانوں تک پسینے میں ڈوبے ہوں گے۔“ جیسا کہ صحیحین میں حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : طبرنی حاکم اور بیہقی میں حضرت ابن عمر ہی سے رویا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس آیت کے بارے میں فرمایا :” لوگو ! اس روز تمہارا کیا حال ہوگا جب اللہ تعالیٰ تمہیں اس طرح جمع کرے گا جیسے ترکش میں تیر جمع کئے جاتے ہیں۔ پھر پچاس ہزار برس تک وہ تمہاری طرف دیکھے گا بھی نہیں؟“ (فتح القدیر) المطففين
7 المطففين
8 المطففين
9 ف 3 یعنی ایک دفتر ہے جس میں تمام بدکاروں اور کافروں کے نام اور کام درج ہیں قادہ سعید بن جبیر مقاتل اور مجاہد غیرہ کہتے ہیں کہ سجین اس جگہ کا نام ہے جہاں کافروں اور بدکاروں کے نامہ اعمال رکھے جاتے ہیں اور وہ ساتویں زمین کے نیچے ایک چٹان ہے اس لئے شاہ صاحب فرماتے ہیں :” یعنی ان کے نام وہیں داخل ہوتے ہیں مر کر وہاں پہنچیں گے۔“ (موضح) المطففين
10 المطففين
11 المطففين
12 المطففين
13 ف 4 یعنی من گھڑت قصے اور فرسودہ کہانیاں ہیں جو پہلے لوگ اپنی جگہ بیٹھے بناتے رہتے تھے۔ المطففين
14 ف 5 یعنی درصال وہ قرآن کو پچھیل لوگوں کی کہانیاں اس لئے بتاتے ہیں کہ وہ گناہ کرتے کرتے ان کے اس قدر عادی ہوگئے ہیں کہ ان کے دلوں کو زنگ لگ گیا ہے اب ان کے لئے یہ ممکن ہی نہیں رہا کہ صحیح سوچیں اور معقو بات زبان پر لائیں۔ دلوں کو زنگ لگ جانے سے مراد یہ ہے کہ وہ گناہ کرتے کرتے سیاہ ہوگئے۔ ان (زنگ) کی تفسیر حضرت ابوہریرہ کی ایک روایت میں مرفوعاً مروی ہے۔ (شوکانی) المطففين
15 ف 6 اس سے معلوم ہوا کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ نظر آئیگا کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو اس آیت کا کوئی مطلب نہ ہوتا۔ البتہ ہوگا یہ کہ مومن اس کے دیدار سے نوازے جائینگے اور کافر اس سے محروم رہیں گے جیسا کہ دوسری آیت میں فرما ای : وجوہ یومئذ والصرۃ الی ربھا ناظرۃ کچھ چہرے اس روز ترو تازہ ہونگے اپنے پروردگار کی طرف دیکھ رہے ہونگے۔“ (قیامہ :22) المطففين
16 المطففين
17 المطففين
18 المطففين
19 المطففين
20 ف 7 یعنی ایک دفتر ہے جس میں نیک لوگوں کے نام اور کام درج ہیں ضحاک مجاہد قتادہ اور دوسرے مفسرین کہتے ہیں کہ علیون سے مراد ساتواں آسمان ہے جہاں مومنوں کی روحیں لے جائی جاتی ہیں بعضے کہتے ہیں کہ اس سے مراد جنت ہے بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد مقرب فرشتے ہیں کیونکہ اس کے لفظی معنی اوپر والے کے ہیں واللہ اعلم (فتح القدیر) المطففين
21 ف 8 یعنی خوش ہو کر اسے دیکھیت ہیں ” شھد“ کے دوسرے معنی گواہی دینے کے بھی ہیں۔ اس لئے بعض مفسرین نے یہ مطلب بیان کیا ہے کہ قیامت کے دن مقرب فرشتے اس کے مندرجات کی گواہی دینگے۔ المطففين
22 المطففين
23 ف 9 دیکھنے سے مراد یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ دوزخیوں کی طرف دیکھ رہے ہوں گے اور یہ بھی کہ وہ دیدار الٰہی سے اپنی آنکھوں کو شاد کر رہے ہوں گے۔ المطففين
24 ف 10 یعنی جنت کی نعمتوں سے ان کے چہرے ایسے ترو تازہ اور پرونق ہوں گے کہ دیکھنے والے دیکھتے ہی پہچان لے گا کہ یہ لوگ نہایت عیش و آرام میں ہیں۔ المطففين
25 ف 11 یعنی جس برتن میں وہ شراب ہوگی وہ سربمہر ہوگا جتنے لوگ اس کی مہر توڑیں گے۔ المطففين
26 ف 12 یہ ترجمہ اس صورت میں کہ ” ختام“ کے معنی ” آخری گھونٹ“ کیہوں۔ اس کے دوسرے معنی ” مہر“ کے بھی ہیں، اس لئے یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ وہ مہر موم یا لاکھ کے بجائے مشک پر جمی ہوئی شاہ صاحب فرماتے ہیں :’ دشراب کی نہریں ہیں ہر کسی کے گھر میں لیکن یہ شراب نادر ہے جو زیر مہر رہتی ہے اور اس کی قدر کے موافق مہر جمتی ہے ” مشک پر“ (موضح) المطففين
27 ف 13 یعنی یہ ہے اصل چیز جسے حاصل کرنے کے لئے تمہیں ایک دوسرے سے آگے لے جانے کی کوشش کرنی چاہئے نہ کہ دنیا کی عارضی اور بے حقیقت لذتیں دیکھیے۔ (صافات :61) المطففين
28 ف 1 یعنی مقرب لوگ اس چشمہ کی شراب خلاص پیتے ہیں اور ” ابرار“ کو اس کی ملونی دی جاتی ہے جیسے کسی کو شربت پلاتے وقت اس میں روح کیوڑا یا عرق گلاب ملایا جائے۔ المطففين
29 ف 2 کو ان پر کیا پاگل پن سوار ہے کہ محسوس اور موجود لذتوں کو چھوڑ کر ان دیکھی موہوم لذتوں کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔“ ف 3 کہ یہی وہ سر پھرے لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ ہمیں صرف اللہ تعالیٰ کی رضا مندی مطلوب ہے اس لئے انہوں نے اپنے آپ کو دنیا کی ہر لذت سے محروم رکھا ہے۔ ‘ المطففين
30 المطففين
31 ‘ ف 4 یعنی مسلمانوں پر پھبتیاں کستے ہوئے۔ ف 5” جو محمد (ﷺ) کی باتوں میں آگئے اور اسی لئے انہوں نے آخرت کی موہوم امید پر اپنی دنیا تج دی۔ المطففين
32 ف 6 کہ ان کی ایک ایک حرکت پر نگاہ رکھیں حالانکہ انہیں اصل فکر اپنی اصلاح کی چاہئے تھی۔ المطففين
33 المطففين
34 ف 7 کہ یہ لوگ کیسے احمق اور کوتاہ اندیش تھے کہ دنیا کی عارضی خوشحالی اور فانی لذتوں کو پا کر ایسے مست ہوگئے کہ آخرت کی ہمیشہ رہنے والی زندگی اور اس کی پائیدار نعمتوں سے غافل ہوگئے بلکہ الٹا ان لوگوں کا مذاق اڑاتے رہے جو انہیں سیدھی راہ کی طرف بلاتے تھے۔ المطففين
35 المطففين
36 ف 8 یعنی جو ندیا میں مسلمانوں کا مذاق اڑاتے رہے۔ اب اس کا مزا چکھا کہ نہیں؟ بدبخت لوگ اگر پہلے ہی سمجھ جاتے تو آج اس انجام بد سے دوچار تو نہ ہوتے۔ المطففين
0 ف 9 یہ سورۃ بالاتفاق مکی ہے۔ حضرت ابوہریرہ نے عشا کی نماز میں یہ سورۃ پڑھی اور اس میں سجدہ کیا۔ ایک دریافتک رنے والے نے دریافت کیا تو فرمایا :” میں نے اس میں ابوالقاسم (ﷺ) کے پیچھے (نماز پڑھتے ہوئے) سجدہ کیا تو میں نے اس میں سجدہ کرت ارہوں گا، تانکہ آپ سے جاملوں۔“ (فتح القدیر بحوالہ صحیحین) الانشقاق
1 ف 10 یعنی اللہ تعالیٰ کی ہیبت سے یا فرشتوں کے اترنے کے لے پھٹ جائے جیسا کہ دوسری آیت میں فرمایا : یوم تشقق السمآء بالغمام و نزل المئکتہ تنزیلاً جس روز بادل کے ساتھ آسمان پھٹے گا اور فرشتوں کے پرے کے پرے اتارے جائیں گے۔“ (فرقان 25) الانشقاق
2 ف 11 یعنی اس کا یہ پھٹنا اپنے مالک کے حکم سے ہوگا۔ الانشقاق
3 ف 12 یعنی ربڑ کی طرح کھینچ کر پھیلا دی جائے۔ یہاں تک کہ اس میں کوئی اونچ نیچ باقی نہ رہے اور پھر تمام اگلے اور پچھلے لوگ اس پر کھڑے ہو سکیں۔ حضرت جابر سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” قیامت کے دن زمین چمڑے کی طرح تان کر پھیلا دی جائے گی، پھر بھی ہر آدمی کو اس میں صرف پائوں رکھنے کی جگہ مل سکے گی (کیونکہ اگلے پچھلے تمام لوگ جمع ہوں گے۔ “ ) (فتح القدیر بحوالہ سیوطی بسید جید) الانشقاق
4 الانشقاق
5 ف 13” جب یہ باتیں ہوجائیں تو سمجھ لو کہ قیامت آگئی۔“ …” اذا“ کا یہ جواب محذوف ہے۔ الانشقاق
6 ف 14 یعنی دنیا میں اپنی استعداد و فطرت کے مطابق نیکی یا برائی میں جدوجہد کر رہا ہے۔ ف 15 یعنی اپنے مالک سے جا ملے گا یا اپنی جدوجہد کے نتیجہ سے دوچار ہوگا۔ الانشقاق
7 الانشقاق
8 ف 16 یعنی اس کے گناہ اسے بتلائے ضرور جائیں گے لیکن ان پر کوئی باز پرس اور جرح نہ ہوگی بلکہ وہ معاف کردیئے جائیں گے صحیحین میں حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’ دجس کا حساب لیا گیا وہ تباہ ہوگیا۔“ میں نے عرض کیا۔” کیا اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد نہیں ہے کہ جس کو اس کا نامہ اعمال داہنے ہاتھ میں ملے گا اس سے تو آسانی سے حساب لیا جائیگا۔“ فرمایا :” یہ حساب نہیں ہوگا یہ صرف پیشی ہوگی اور جس سے حساب لینے میں باز پرس کی گئی وہ تباہ ہوگیا۔ شوکانی) الانشقاق
9 الانشقاق
10 ف 17 یہ انتہائی کراہت کا اظہار ہے گویا فرشتے اس کی صورت دیکھنا پسند کریں گے۔ اس لئے اس کا اعمال نامہ پیٹھ کے پیچھے سے بائیں ہاتھ میں تھمائیں گے۔ الانشقاق
11 ف 1 یعنی عذاب کے ڈر سے ” ہائے موت ! ہائے موت !“ پکارے گا تاکہ موت آئے اور وہ عذاب سے نجات پائے۔ الانشقاق
12 الانشقاق
13 ف 2 یعنی اپنی عاقبت سے بے کفر اور رنگ رلیوں میں مست تھے۔ الانشقاق
14 ف 3 یعنی اپنے اعمال کی کسی باز پرس کا اندیشہ نہ تھا، اس لئے جو دل میں آتا کرتا تھا۔” حور“ کے لفظی معنی پلٹنے کے بھی ہیں اور کایا پلٹ ہونے کے بھی اس لئے یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ وہ سمجھتا تھا کہ اسے جو دولت اور خوشحالی حاصل ہے، وہ کبھی کم نہ ہوگی اور اسے کبھی غریبی و بدحالی کا منہ نہ دیکھنا پڑے گا۔ الانشقاق
15 ف 4 یعنی اس کا بڑے سے بڑا اور چھوٹے سے چھوٹا کوئی عمل ایسا نہیں تھا جو اس کے مالک سے پوشیدہ تھا، اس لئے اس کا یہ سمجھنا کہ شاید وہ اس پر پکڑ سے محفوظ رہے، قطعی غلط اور بے بنیاد تھا۔ ف 5 شفق سے مراد وہ سرخی ہے جو سورج کے غروب ہوجانے کے بعد عشا تک آسمان کے کنارہ پر رہتی ہے۔ فلا اقم کا لفظی ترجمہ میں قسم نہیں کھاتا ہوں“ کیونکہ اس میں لا زائد ہے۔ تفصیلی بحث سورۃ قیاء کے شروع میں گزر چکی ہے۔ الانشقاق
16 الانشقاق
17 ف 6 دوسرا ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ” جن چیزوں کو راستہ سمیٹتی ہے“ اور وہ اس لحاظ سے کہ دن میں تمام جاندار و بے جان چیزیں بکھری ہوتی ہیں رات کو اپنے ٹھکانے پر آجاتی ہیں الانشقاق
18 ف 7 یعنی یکے بعد دیگرے متعدد حالات اور مراحل سے گزرنا ہے۔ چنانچہ تم پہلے نطفہ ہوتے ہو پھر وہ نطفہ خون کا لوتھڑا بنتا ہے، پھر گوشت کا ٹکڑا پھ رسا میں روح پھونکی جاتی ہے پھر تم پیدا ہوتے ہو، پھر بچے سے جوان اور جوان سے بوڑھے ہوتے ہو یہاں تک کہ تمہیں موت آجاتی ہے۔ موت کے بعد عالم رزخ اور عالم برزخ کے بعد قیامت کے بے شمار مراحل ہیں جن سے درجہ بدرجہ تمہیں گزرنا ہے۔ تمہارے جسم کی ساخت اور زندگی کا نظام بنایا ہی اس طریق پر گیا ہے کہ اگر تم غور کرو تو خود سمجھ سکتے ہو کہ جس طرح موت کا آنا یقینی ہے اسی طرح موت کے بعد مختلف مراحل سے گزر کر جنت یا دوزخ میں پہنچنا بھی ناگزیر ہے۔ الانشقاق
19 ف 8 حالانکہ یہ ایمان ملانا ان کی اپنی عقل کا تقاضا اور اپنے دل کی آواز ہے۔ جیسا کہ ابھی بیان ہوا۔ الانشقاق
20 الانشقاق
21 ف 9 یعنی اپنے رب کے حضور عاجزی اور تابعداری اختیار نہیں کرتے اور نہ نماز پڑھتے ہیں۔ اس مقام پر سجدہ تلاوت مسنون ہے جیسا کہ اوپر بیان ہوا۔ الانشقاق
22 الانشقاق
23 ف 10 یعنی پیغمبر ﷺ کی دعوت کو ٹھکرانے کے لئے دلوں میں جو بہانے اور اسکی میں تیار کرتے ہیں ان سب کا اللہ تعالیٰ کو خوب علم ہے۔ الانشقاق
24 الانشقاق
25 ف 11 جو کبھی ختم یا کم نہ ہوگا۔ الانشقاق
0 ف 12 یہ سورۃ مکہ معظمہ میں نازل ہوئی اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ عشاء کی نماز میں سورۃ پڑھا کرتے تھے نیز ظہر اور عصر کی نماز میں بھی اس کا پڑھنا ثابت ہے (شوکانی) البروج
1 ف 13 برجوں سے مراد وہ منزلیں ہیں جنہیں سورج ایک سال کی مدت میں طے کرتا ہے یا وہ قلعے جن میں فرشتے پہرہ دیتے ہیں یا بڑے بڑے ستارے البروج
2 البروج
3 ف 14 دوسرا ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے۔ ” حاضر ہونے والے کی اور جس کے پاس وہ حاضر ہوگا اس کی قسم“ اس لحاظ سے شاہد سے مراد لوگ ہیں اور مشہور سے مراد و عجائب و غرائب جنہیں وہ قیامت کے روز دیکھیں گے۔ اکثر صحابہ و تابعین اس طرف گئے ہیں کہ شاہد سے مراد جمعہ کا دن اور مشہور سے مراد عرفہ کا دن ہے۔ ایک مرفوع حدیث میں یہ خود آنحضرت سے بھی ثابت ہے اور صحیح بھی ہے۔ (شوکانی) البروج
4 البروج
5 البروج
6 البروج
7 البروج
8 البروج
9 ف 1 ” اصحاب الاخدود“ (کھائیاں کھودنے والوں) کا قصہ کتب صحاح وغیرہ میں مذکور ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ قدیم زمانہ میں ایک کافر بادشاہ کے پاس ایک کاہن رہتا تھا جب وہ کاہن بوڑھا ہوگیا تو اس نے بادشاہ سے عرض کی کہ کوئی زیرک قسم کا لڑکا مجھے دو تاکہ میں اسے اپنا علم سکھلا دوں بادشاہ نے ایک لڑکا اس کے حوالے کردیا۔ وہ لڑکا ہر روز کاہن کی خدمت میں جا کر جادو کا علم حاصل کرنے لگا۔ اس کے راستہ میں ایک راہبر رہتا تھا جو مسلمان تھا ہوتے ہوتے وہ لڑکا خفیہ طور پر اس کے ہاتھ پر مسلمان ہوگیا۔ ایک روز اس نے دیکھا کہ ایک بڑے جانور (شیر یا سانپ) نے لوگوں کا راستہ روک رکھا ہے جسے راستہ سے ہاٹنے سے وہ عاجز ہیں اس نے اس جانور کو ایک پتھر مارا اور دعا کی کہ یا اللہ اگر اس راہب کا دین سچا ہے تو اس جانور کو میرے پتھر سے مار ڈال پتھر لگتے ہی وہ جانور مر گیا۔ اسی طرح اس کی شہرت ہوگئی اور اس نے دعا کر کے ایک نابینا کی بینائی بھی واپس دلوا دی۔ بادشاہ کو خبر ہوئی تو اس نے راہب اور اندھے کو قتل کر وا دیا اور لڑکے کو مختلف طریقوں سے قتل کرنے کی کوشش کی مگر وہ قتلنہ ہوا آخر لڑکے نے خود ہی بتایا کہ مجھے اس طور پر قتل کرسکتے ہو۔ چنانچہ انہوں نے صلیب پر لٹکا کر اس لڑکے کے تجویز کے مطابق ” بسم اللہ رب ھذا الغلام“‘ پڑھ کر اسے تیر مارا اور وہ لڑکا اپنے رب کے نام پر قربان ہوگا ی۔ یہ منظر دیکھ کر لوگ لڑکے کے رب پر ایمان لے آئے۔ بادشاہ نے بڑی بڑی کھائیاں کھدوائیں اور انہیں آگ سے بھرا پھر اعلان کیا جو شخص اسلام سے نہ پھرے گا اس سے ان کھائیوں میں جھونک دیا جائے گا۔ لوگ کھائیوں میں ڈالے جا رہے تھے لیکن اسلام سے نہ پھرتے تھے۔ یہی واقعہ ہے جس کی طرف ان آیات میں اشارہ کیا گیا ہے۔ (ابن کثیر وغیرہ) البروج
10 ف 2 ’ دفتنوا“ یہ فتنہ“ سے مشتق ہے اور فتنہ کے اصل معنی ہیں کسی چیز کو آگ میں گلانا تاکہ کھوٹا الگ ہوجائے پھر یہ لفظ آگ میں جلانے کے معنی میں بھی اسعتمال ہونے لگا ہے اور سکی کو حق سے برگشتہ کرنے کے لئے ’ ستانا“ کے لئے بھی آجاتا ہے۔ اصحاب تفاسیر نے یہ دونوں معنی بیان کئے ہیں۔ یعنی جلانا اور ستانا پہلے معنی ابن عباس کی طرف منسوب ہیں اور دوسرے معنی امام شوکانی نے قیل کے ساتھ بیان کئے ہیں۔ (ملاحظہ موقع القدیر و ابن کثیر) ف 3 جیسا کہ کہتے ہیں کہ کھائیاں کھودنے والوں کا حشر ہوا۔ شاہ صاحب فرماتے ہیں :’ داللہ کا غضب آیا وہی آگ پھیل پڑی اور بادشاہ اور امیروں کے گھر سارے پھونک دیئے۔“ (موضح) لیکن اس کا اصل مطلب یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے لئے آخرت میں دوزخ کا عذاب ہے۔ البروج
11 البروج
12 البروج
13 ف 4 معلوم ہوا کہ سارا اختیار اسی کا ہے لہٰذا اس کے عذاب سے ڈرنا چاہئے یا یہ کہ وہی مجرموں کو دنیا میں سزا دیتا ہے اور وہی آخرت میں سزا دیگا ابن جریر نے اسی مفہوم کو اختیار کیا ہے۔ (شوکانی) شاہ صاحب لکھتے ہیں :’ د یعنی دنیا کا عذاب اور (پھر) آخرت کا البروج
14 البروج
15 البروج
16 البروج
17 ف 5 یعنی ضرور پہنچا ہے۔ اس سے مقصود نبی ﷺ کو تسلی دینا ہے کہ ان کا انجام زہن میں رکھیں کہ کس طرح انہوں نے انبیاء کو جھٹلایا اور پھر کس طرح اللہ تعالیٰ نے ان سے انتقام لیا۔ البروج
18 البروج
19 البروج
20 ف 6 یعنی وہ ہر آن اس کی پکڑ میں ہیں اس سے بچ کر کہیں نہیں جاسکتے۔ البروج
21 ف 7 اس لئے اگر جھٹلاتے ہیں تو اپنا ہی نقصان کرتے ہیں۔ قرآن کی شان اور بزرگی میں کوئی کمی نہیں کرتے اور نہیں کرسکتے۔ البروج
22 ف 8 جو ہر قسم کے تغیر و تبدل سے محفوظ ہے۔ فرشتے اس کی حفاظت کرتے ہیں اور جیسے جیسے اللہ تعالیٰ کا حکم ہوتا ہے اس سے قرآن نقل کر کے صاحب وحی تک پہنچاتے رہتے ہیں۔ البروج
0 ف 9 یہ سورۃ بالا تفاق مکی ہے حضرت خالد عدوانی کہتے ہیں کہ میں نے ثقفیف (طائف) کے بازار میں رسول اللہ ﷺ کو کمان یا لکڑی پر ٹیک لگائے کھڑے دیکھا۔ آپ ثقیف والوں سے اللہ کی راہ میں مدد طلب کرنے کے لئے ان کے ہاں آئے تھے آپ نے سورۃ الطارق سنائی میں نے اسے یاد کرلیا حالانکہ میں اس وقت کافر تھا پھر اسلام کی حالت میں نے اسے پڑھا۔ (فتح القدیر بحوالہ تاریخ امام بخاری) الطارق
1 الطارق
2 الطارق
3 ف 10 مراد ہر چمکدار تارا ہے۔ الطارق
4 ف 1 اسی کو دوسری آیت میں فرمایا :” وان علیکم لحفظین بیشک تم پر نگہبان (فرشتے) ہیں۔“ (نفطار :10) مراد وہ فرشتے ہیں جو ہر آن آدمی کے ساتھ رہتے ہیں اور بلائوں سے اس کی حفاظت کرتے ہیں یا اس کے اعمال کا ریکارڈ رکھتے ہیں۔ (دیکھیے سورۃ رعد :11) الطارق
5 ف 2 یعنی اپنی حقیقت اور بساط پر غور کرزنا چاہئے کہ کس برتے پر اللہ ذوالجلا والا کرام کے مقابلے میں اکڑفون دکھاتا ہے۔ الطارق
6 الطارق
7 الطارق
8 ف 3 یعنی اللہ تعالیٰ کیونکہ عقل خود تسلیم کرتی ہے؟ کہ کس چیز کو دوبارہ بنانا اسے ابتداء بنانے کی بہ نسبت کہیں آسان ہوتا ہے۔ الطارق
9 ف 4 یعنی اس کے تمام راز طشت از بام ہوجائیں گے اور ان کی جانچ پڑتال کی جائے گی۔ الطارق
10 الطارق
11 ف 5 اصل لفظ رجع استعمال ہوا ہے جس کے لفظ معنی پلٹنے کے ہیں۔ اکثر مفسرین نے اس سے مراد بارش ہی لی ہے کیونکہ وہ آتی ہے اور پلٹ پلٹ کر برستی ہے اور یوں بھی جو پانی آسمان سے برستا ہے وہ دراصل زمین ہی سے یعنی سمندروں اور دریائوں سے بھاپ بن کر اوپر گیا ہوتا ہے۔ اور پھر ٹھنڈا ہو کر زمین کی طرف پلٹتا ہے (قرطبی وغیرہ) الطارق
12 ف 6 یعنی جس میں شگا پڑتے ہیں اور ان شگافوں سے درخت پودے اور چشمے وغیرہ پھوٹ کر باہر آتے ہیں۔ الطارق
13 ف 7 یعنی دو ٹوک کلام جس سے حق و باطل الگ الگ ہوجاتے ہیں اور کسی کو دن کے پہچاننے میں دقت نہیں رہتی۔ الطارق
14 ف 8 بلکہ ہر شک و شبہ سے بالا سنجیدہ کلام ہے۔ اس کی ایک ایک بات پر ایمان لانا ضروری اور اس کی بتائی ہوئی کسی حقیقت میں شک کرنا کفر ہے۔ الطارق
15 الطارق
16 ف 9 یعنی ایسی تدبیر کر رہا ہوں جس سے ان کے تمام مکر و فریب ناکام ہو کر رہ جائیں اور وہ اپنے جاں میں خود پھنس جائیں۔ مراد وہ استدراج ہے جس کے متعلق فرمایا : سنستدرجھم من حیث لایعمون و املی لھم ان کیدی مبین انہیں ہم درجہ بدرجہ اس طرح تباہی کی طرف لے جائیں گے کہا نہیں خبر تک نہ ہوگی میں انہیں مہلت دے رہا ہوں میری چال بڑی پختہ ہے۔“ (اعراف 183-182) ہجرت سے پہلے کفار مکہ نے نبی ﷺ کو قتل کرنے کی خفیہ اسکیم بنائی لیکن اللہ تعالیٰ نے بری طرح ناکام بنایا۔ الطارق
17 ف 10 یعنی عنقریب وہ اپنی خفیہ سازشوں اور اسکیموں کا انجام اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے لہٰذا آپ گھبرائیں نہیں بلکہ صبر و ہمت سے دعوت کا کام جاری رکھیں۔ الطارق
0 ف 11 جمہور مفسرین کے بقول یہ سورۃ مکی ہے۔ صحیح بخاری میں حضرت براء بن عازب کی روایت سے اسی کی تائید ہوتی ہے۔ مسند امام احمد وغیرہ میں حضرت علی سیر وایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو یہ سورۃ بڑی پسند تھی صحیح مسلم اور سنن میں حضرت نعمان ابن بشیر سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ عیدین اور جمعہ کی نماز میں یہ سورۃ اور ھل اتی اک حدیث الغاشیہ پڑھا کرتے تھے اور اگر عید جمعہ کے روز ہوتی تو دونوں میں یہی دو سورتیں پڑھتے۔ (فتح القدیر) الأعلى
1 ف 12 یعنی جو باتیں اس کی شان کے لائق نہیں ہیں (جیسے شرک یا بندوں جیسی کمزوریاں وغیرہ) ان سے اس کی پاکی بیان کیا کرو۔ حضرت عتبہ بن عامر کہتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :” اسے اپنے سجدوں کے لئے مخصوص کرلو۔“ اس لئے سجدہ میں ’ دسبحان ربی الاعلی کہا جاتا ہے۔ (شوکانی) الأعلى
2 ف 13 یعنی جس چیز میں جو صفات اور فوائد ہونے چاہئیں تھے وہ اس نے اس میں رکھے اور ظاہری طور پر بھی اس کی ساخت نہایت موزوں رکھی۔ الأعلى
3 ف 14 یعنی اول تقدیر لکھی پھر اسی کے موافق دنیا میں دای (موضح) گویا دنیا میں آنے کی راہ بتائی۔ عموماً مفسرین نے آیت کی یہی تفسیر کی ہے۔ مجاہد کہتے ہیں کہ اس نے آدمی کو خیر و شر اور سعادت و شقاوت کی راہ بتائی۔ بعض کہتے ہیں کہ اس نے تقدیر میں ہر ایک کی روزی لکھی اور پھر ہر ایک کو وہ راہ بتائی جس سے وہ اپنی روزی حاصل کرے۔ (کذافی ابن کثیر وغیرہ۔ الأعلى
4 الأعلى
5 ف 15 تاکہ وہ دوسرے استعمالات میں آسکے اور اس کا ذخیرہ بھی کہا جا سکے۔ الأعلى
6 ف 16 حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ بھول جانے کے اندیشہ سے قرآن یاد کرتے رہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آپ فکر مند نہ ہوں۔ آپ کو قرآن یاد رکھوانا ہمارا ذمہ ہے۔ (فتح القدیر بحوالہ ابن مردویہ) ف 17 یعنی قرآن میں بعض آیات کی تلاوت منسوخ کردی گئی تو وہ بھولنے کے ضمن میں نہیں آتی۔ دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو کچھ بھلانا چاہے تو بھلا سکتا ہے مگر اس نے ایسا نہیں چاہا۔ الأعلى
7 ف 18 اس میں یہ چیز شامل ہے کہ کوئی پکار کر قرآن پڑھے یا آہستہ پڑھے اللہ تعالیٰ دونوں کو جانتا ہے۔ الأعلى
8 ف 19 یعنی وحی کا یاد رکھنا ہو یا کوئی بھی نیکی کا کام وہ ہماری توفیق کی بدلوت آپ پر آسان ہوجائیگا۔ الأعلى
9 ف 20 ان نفعت الذکری کا لفظی ترجمہ یوں ہے اگر سمجھانا فائدہ دے“ یہ صرف ایک حالت کا ذکر ہی دوسری حالت یہ ہے کہ سمجھانے کا فائدہ نہ ہو نبی صلعم پر لوگوں کو سمجھانا چونکہ دونوں حالتوں میں ضروری تھا اس لئے ترجمے میں آیت کا مطلب یہ بیان کیا گیا ہے کہ آپ (لوگوں کو) سمجھایئے۔ فائدہ ہو (یا نہ ہو) “ قاضی شو کانی نے آیت کے اس مطلب کو ترجیح دی بعض مفسرین نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ لوگوں کو اس وقت تک سمجھایئے جب تک سمجھانا فائدہ دے۔ یعنی موقع کی مناسبت سے لوگوں کو سمجھایا کیجیے کہ سمجھنے کے لئے متوجہ ہوں اور ملول نہ ہوں۔ الأعلى
10 الأعلى
11 الأعلى
12 الأعلى
13 الأعلى
14 الأعلى
15 فوائد صفحہ ہذا ف 1 آیت کا یہی مطلب واضح ہے بعض مفسرین نے … جیسے عطار … نے لفظ ” تزکی“ کے لفظ سے یہ سمجھا ہے کہ اس آیت میں زکوۃ یعنی صدقہ فطر ادا کرنے پھر تکبیریں کنے اور پھر عید کی نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے لیکن یہ مطلب لینا اس لئے صحیح نہیں ہے کہ آیت مکی ہے حالانکہ صدقہ فطر اور عید کا حکم مدینہ میں دیا گیا ہے۔ (تنبیہ) اس آیت سے معلوم ہوا کہ تکبیر تکریمہ (یعنی نماز شروع کرتے وقت ” اللہ اکبر“ کہنا) فرض ہے اور یہی چیز حدیث میں نبی ﷺ سے ثابت ہے چنانچہ آپ کا ارشاد ہے :” نماز کی کنجی طہارت ہے، اس کی تحریم ” اللہ اکبر“ کہنا ہے اور اس کی تحلیل (کھولنا) سلام پھیرنا ہے۔“ (ابودائود۔ ترمذی وغیرہ من علی) حنفیہ نے محض یہ دیکھ کر کہ آیت میں ” اللہ کا نام لینے“ کا تو ذکر ہے، لفظ ” اللہ اکبر“ کا ذکر نہیں ہے۔ یہ مسئلہ نکالا ہے کہ نماز شروع کرتے وقت ” اللہ اکبر“ کہنا فرض نہیں ہے، اللہ تعالیٰ کا مطلق نام لینا جس سے اس کی تعظیم ظاہر ہوجاتی ہو کافی ہے البتہ ” اللہ اکبر“ کہنا سنت یا واجب قرار پائے گا۔ (تفسیر عثمانی) حالانکہ جس چیز کا آیت میں حکم دیا گیا ہے۔ اس کو نبی ﷺ نے ” اللہ اکبر“ کا حکم دے کر مطلق سے مقید فرما دیا ہے۔ اس کے ہوتے ہوئے نماز کو ” اللہ اکبر“ کے علاوہ کسی اور لفظ سے شروع کرنا ہرگز صحیح نہیں ہو سکتا۔ واضح رہے کہ حنفیہ کے نزدیک واجب کا لفظ فرض کے معنی میں نہیں ہے بلکہ وہ اس سے کم تردرجہ کی چیز ہے۔ کیونکہ وہ رہ جائے تو نماز کے آخر میں سجدہ سہو سے اس کی تلاف یہو جاتی ہے جبکہ فرض رہ جائے تو اسے ادا کئے بغیر اس کی کسی طرح تلافی نہیں ہو سکتی۔ الأعلى
16 الأعلى
17 ف 2 مخاطب ہر وہ شخص ہے جو نماز نہیں پڑھتا اور ذکر الٰہی کا خیال نہیں کرتا۔ الأعلى
18 ف 3 یعنی دنیا کا فانی اور آخرت کا بہترو پائیدار ہونا۔ الأعلى
19 الأعلى
0 ف 4 یہ سورۃ بالاتفاق مکی ہے اوپر حضرت نعمان بن بشیر کی یہ روایت گزر چکی ہے کہ رسول اللہ ﷺ عیدین اور جمعہ کی نمازیں پہلی رکعت میں : سبح اسم ربک الاعلی“ اور دوسری رکعت میں یہ سورۃ پڑھا کرتے تھے۔ (فتح القدیر) الغاشية
1 ف 5 قیامت کو ” چھا جانے والی“ اس لئے فرمایا کہ اس کی دہشت تمام دلوں پر چھا جائیگی۔ الغاشية
2 الغاشية
3 ف 6 یعنی طرح طرح کے عذاب جھیلتے جھیلتے درماندہ و خستہ حال ہوں گے۔ الغاشية
4 الغاشية
5 ف 7 مفسرین کہتے ہیں کہ اس چشمہ کا پانی اس قدر گرم ہے کہ اگر اس کا ایک قطرہ کسی پہاڑ پر گر جائے تو وہ پگھل جائے۔ (فتح القدیر) الغاشية
6 ف 8 یہ کہ ایک کانٹے دار جھاڑی ہے۔ قریش کی زبان میں اگر تر ہو تو اسے شبریق اور سوکھ جائے تو ضریع کہا جاتا ہے۔ وہ سوکھ کر اس قدر زہریلی اور بدبو دار ہوجاتی ہے کہ کوئی جانور اس کے قریب تک نہیں جاتا۔ الغاشية
7 الغاشية
8 الغاشية
9 ف 9 یعنی مطمئن ہوں گے کہ دنیا میں نیک اعمال کی جو کمائی کی، اس کا پھل ملا۔ الغاشية
10 الغاشية
11 الغاشية
12 الغاشية
13 الغاشية
14 الغاشية
15 الغاشية
16 الغاشية
17 ف 10 اونٹ اپنی ظاہری شکل و صورت اور اندرونی ساخت دونوں کے اعتبار سے دوسرے تمام جانوروں کی بہ نسبت عجیب ہے۔ چھوٹا سر اور لمبی گردن رکھتا ہے جس سے اونچے اونچے درختوں کے پتے ت وڑ توڑ کر کھاتا ہے۔ اس کے پیٹ میں فانے ہوتے ہیں جن میں پانی بھر لیتا ہے اور پھر دس دن تک صحرا میں بھوکا پیاسا سفر کرسکتا ہے اور منوں بوجھ اٹھا سکتا ہے۔ عربوں کو اپنی صحرائی زندگی میں اس سے خاص لگائو تھا۔ اس لئے خاص طور پر اس کی طرف توجہ دلائی گئی۔ الغاشية
18 ف 11 کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت سے معلق کھڑا ہے اور اس کا کوئی ستون تک نظر نہیں آتا۔ الغاشية
19 ف 1 کہ اپنی جگہ سے جنبش نہیں کرسکتے۔ الغاشية
20 ف 2 کہ گول ہونے کے باوجود سطح معلوم ہوتی ہے اور اسی لئے اس پر رہنا سہنا اور آرام کرنا ممکن ہے۔ الغاشية
21 الغاشية
22 ف 3 یعنی آپ کے ذمہ صرف سمجھانا اور ڈرانا ہے۔ آپ کا کام یہ نہیں ہے کہ ایمان کو زبردستی لوگوں کے دلوں میں اتار دیں۔ دلوں میں ایمان اتارنا یا نہ اتارنا اللہ تعالیٰ کا کام ہے۔ الغاشية
23 الغاشية
24 الغاشية
25 الغاشية
26 ف 4 اس آیت کے خاتمہ پر اللھم حاسبنا حساباً یسراً کہنا مستحب ہے یعنی اے اللہ ہم سے آسان حساب لے۔ الغاشية
0 ف 5 یہ سورۃ بالاتفاق مکی ہے۔ (شوکانی) الفجر
1 ف 6 صبح سے مراد ہر صبح ہے یا خاص یکم محرم کی صبح کیونکہ اس سے سال کی ابتدا ہوتی ہے یا یکم ذی الحجہ کی صبح کیونکہ اس سے ان دس راتوں کی ابتدا ہوتی ہے جن کا ذکر بعد کی آیت میں آرہا ہے۔ الفجر
2 ف 7 اگرچہ دس راتوں کا لفظ عام ہے مگر حضرت جابر کی ایک مرفوع روایت کے مطابق اس سے عشرہ ذی الحجہ کی پہلی راتیں مراد ہیں۔ وتر سے مراد عرفہ اور شفیع سے مراد یوم نحر (10 ذی الحجہ) امام حاکم نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے اس لئے جمہور مفسرین اسی طرف گئے ہیں کہ اس سے ذی الحجہ کی پہلی دس راتیں مراد ہیں حافظ ابن کثیر نے اس روایت کے موقوف ہونے کی تصحیح کی ہے۔ ایک حدیث میں ان دس راتوں کے نیک عمل کو دوسرے دنوں کی نیکی سے افضل قرار دیا گیا ہے۔ (ابن کثیر بحوالہ صحیح بخاری ص ابن عباس) الفجر
3 ف 8 اگرچہ جفت اور طاق کے الفاظ عام ہیں اس لئے ان سے مراد وہ تمام چیزیں ہو سکتی ہیں جو جفت اور طاق ہوں لیکن ان سے خاص طور پر یوم النحر (ذی الحجہ) اور یوم عرفہ مراد ہے جیسا کہ اوپر حضرت جابر کی روایت میں بیان ہوا ہے۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جفت سے مراد مخلوق اور طاق سے مراد اللہ تعالیٰ ہے جیسا کہ صحیحین میں ہے کہ اللہ تعالیٰ طاق ہے، طاق کو پسند کرتا ہے واللہ اعلم (ابن کثیر) الفجر
4 ف 9 مراد ہر رات ہے۔ بعض نے مزدلفہ کی رات مراد لی ہے۔ (شوکانی) شاہ صاحب نے اس سے مراد وہ رات لی ہے جس میں آنحضرت معراج پر تشریف لے گئے۔ الفجر
5 ف 10 کیونکہ یہ تمام چیزیں اپنی جگہ بڑی عظمت رکھتی ہیں۔ الفجر
6 الفجر
7 ف 11 ” ارم“ قوم عاد کے اجداد میں ایک شخص کا نام تھا۔ عاد کی اس کی طرف نسبت کرنے سے شاید یہ بتانا مقصود ہے کہ یہاں ” عاد“ سے مراد عاد اولیٰ سے نہ کر عادثانیہ۔ بعض کا خیال ہے کہ ارم خاص اس جگہ کا نام تھا جہاں عاد رہتے تھے واللہ اعلم۔ ف 12 ” ذات العماد“ کے لفظی معنی ہیں ’ دستونوں والے۔“ ان کایہ لقب یا تو اس لئے ہے کہ وہ بڑے قد آور تھے اور یا اس لئے ہے کہ وہ بڑے بڑے ستونوں والی عمارتیں بناتے تھے واللہ اعلم۔ الفجر
8 الفجر
9 ف 13 مفسرین کہتے ہیں کہ ثمود پہلے لوگ ہیں جنہوں نے پہاڑوں کو کاٹ کر گھر بنائے۔ (شوکانی) آج کل اس ” وادالقریٰ“ کا نام ” اعلاء“ ہے اور وہ مدائن صالح جو ثمود کا مرکزی شہر تھا) سے تقریباً بیس میل کے فاصلہ پر واقع ہے۔ (دیکھیے حجر :82) الفجر
10 الفجر
11 الفجر
12 ف 14 یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر و شرک اور اس کی مخلوق پر ظلم و ستم۔ الفجر
13 ف 15 ان میں سے کوئی آندھی سے تباہ ہوا کوئی غرق ہو کر اور کوئی زبردست زلزلے سے الفجر
14 الفجر
15 ف 16 یعنی میں اسی لائق تھا اس لئے اس نے مجھے عزت اور دولت سے نوازا۔ الفجر
16 ف 1 میری قدر نہ کی … کافر یہ بات اس لئے کہتا ہے کہ وہ آخرت پر ایمان نہیں رکھتا۔ وہ ددنیا کے مال و متاع کو عزت اور افلاس کو ذلت سمجھتا ہے۔ الفجر
17 ف 2 یعنی تمہارا یہ خیال درست نہیں کہ جس پر وہ روزی تنگ ہے وہ اس کی نظر میں ذلیل ہے اور جس کو وہ بھرپور دولت دیتا ہے وہ اس کے نزدیک پسندیدہ ہے بلکہ بسا اوقات کفار کو دنیاوی مال و متاع سے نوازا جاتا ہے تاکہ اپنی سرکشی میں مزید ترقی کرتے رہیں۔ اسی کا نام اسد درج ہے۔ الفجر
18 الفجر
19 ف 3 یعنی اس کے ترکہ میں سے یتیموں کا حصہ بھی اڑا لیتے ہو اور عورتوں کا حصہ بھی ادا نہیں کرتے۔ الفجر
20 ف 4 یعنی تمہارا نقطہ نظر خالص مادی ہے اور اخلاقیات کی تمہاری نظر میں کوئی قیمت نہیں ہے۔ الفجر
21 ف 5 یا مطلب یہ ہے کہ اس کے تمام پہاڑ اور ٹیلے کوٹ کوٹ کر ریزہ ریزہ کردیئے جائیں اور وہ چٹیل میدان ہوجائے۔ الفجر
22 الفجر
23 ف 6 حضرت عبداللہ بن معسود سے روایت ہے کہ آنحضرت نے فرمایا : اس روز دوزخ کو ستر ہزار باگیں لگا دی جائیں گی اور ہر باگ کو ستر ہزار فرشتے کھینچ رہے ہوں گے۔ (شوکانی بحود مسلم ترمذی) الفجر
24 ف 7 یعنی دنیا میں نیک اعمال کا توشہ فراہم کر لیات۔ الفجر
25 الفجر
26 الفجر
27 الفجر
28 ف 8 چین سے رہنے والی جان سے مراد وہ جان ہے جو حق کے ساتھ رہتی ہے اور حق کے ساتھ پھرتی ہے۔ (ابن کثیر) الفجر
29 الفجر
30 ف 9 یہی بشارت مومن کو وفات کے وقت بھی دی جاتی ہے۔ (ابن کثیر) الفجر
0 ف 10 یہ سورۃ بالا تفاق مکی ہے۔ (فتح القدیر) البلد
1 ف 11 یہ ترجمہ ” لا اقسم“ میں ” لا“ کو زائد مانتے ہوئے ہیں۔ اس کی متعدد مثالیں پہلے گزر چکی ہیں۔ البلد
2 البلد
3 ف 12 اللہ تعالیٰ نے پہلے مکہ معظمہ کی قسم کھائی اور آگے بھی ” والد وما ولد“ کی قسم آرہی ہے۔ آرہی ہے۔ درمیان میں بطور جملہ معترضہ نبی ﷺ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک دن آپ اس شہر میں آزاد ہوں گے یعنی آپ کے لئے اس میں لڑنا اور کافروں کو قتل کرنا جائز ہوگا حالانکہ یہ حرم ہے اور کسی کے لئے اس میں لڑنا جائز نہیں ہے۔ یہ فتح مکہ کی پیشین گوئی ہے جو 8 میں پوری ہوئی۔“ مکہ معظمہ کے متعلق نبی ﷺ کا ارشاد ہے :” اس میں لڑنا مجھ سے پہلے کسی کے لئے حلال نہیں ہوا اور نہ میرے بعد کسی کے لئے حلال ہوگا۔ اور میرے لئے بھی صرف ایک گھڑی یعنی عصر سے مغرب تک کے لئے حلال کیا گیا ہے (پھر اپنی حرمت کی طرف پلٹ آیا) “ … آیت کا یہ مطلب اس صورت میں ہے جب ” حل“ کے معنی حلال یا محل ہوں یعنی وہ شخص جس پر حرمت کی قید نہ ہو۔ بعض مفسرین نے اس کے معنی حال یا نازل یعنی ” رہنے والا“ کئے ہیں۔ اس حافظ سے آیت کا ترجمہ یہ ہوگا کہ ” میں اس شہر مکہ کی قسم کھاتا ہوں بحالیکہ آپ اس میں قیام پذیر رہیں۔“ یعنی یہ شہر خود بھی بڑی فضیلت والا ہے لیکن اس کی فضیلت اس لحاظ سے دو چند ہوگئی ہے کہ آپ اس میں قیام پذیر ہیں۔۔ ف 13 یا باپ سے مراد حضرت ابراہیم ہیں اور اولاد سے مراد ان کی اولاد، دقیل غیر ذلک البلد
4 ف 14 یعنی ابتداء سے انتہا تک سختیاں اور مصیبتیں ہی جھیلتا رہتا ہے کبھی بیماری میں گرفتار ہے کبھی رنج میں کبھی فقر و فاقہ میں اور کبھی کسی اور فکر میں۔ عمر بھر میں مشکل ہی سے کوئی لمحہ آتا ہے جب وہ ہر لحاظ سے بے فکر اور مطمئن ہو البلد
5 ف 15 یعنی جن ستخیوں اور مصیبتوں کو جھیلتے ہوئے آدمی زندگی بسر کرتا ہے ان کا تقاضا تو یہ تھا کہ وہ اپنی حقیقت کو پہچانتا اور اس میں عاجزی و انکساری کا جذبہ پیدا ہوتا لیکن اس کی حالت یہ ہے کہ اکڑ خوں دکھاتا ہے اور سمجھتا ہے کہ مجھ پر کو نقابو پاسکتا ہے البلد
6 ف 16 یعنی حق کی مخالفت یا جاہلانہ رسم و رواج میں روپیہ لٹانے کو بڑا کمال سمجھتا ہے اور اسے فخریہ بیان کرتا ہے۔ البلد
7 ف 17 مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے تمام کرتوت دیکھ رہا ہے۔ اس کی سزا سے بچ کر وہ کہیں نہیں جاسکتا۔ البلد
8 البلد
9 البلد
10 ف 1 اچھا راستہ ایمان کا اور برا راستہ کفر و شرک کا اچھا راستہ اس لئے بتایا گیا کہ اسے اختیار کرے اور برا راستہ اس لئے کہ اس سے بچے یہ بتلانا اجمالی وطر پر فطرت و عقل سے ہوا اور تفصیلی طور پر انبیاء علیہم السلام ہی زبان سے البلد
11 ف 2 یہاں نیکی اور ثواب کے کام کو جس کا ذکر آگے آرہا ہے، گھاٹی کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے اور وہ اس لحاظ سے کہ اسے انجام دینا نفس پر دشوار گزرتا ہے۔ البلد
12 البلد
13 ف 3 یعنی غلام آزاد کرنا یا کسی قرضدار کی گردن قرض سے آزاد کرانا۔ احادیث میں گردن آزاد کرنے کی فضیلت مذکور ہے۔ (فتح القدر) البلد
14 البلد
15 ف 4 یعنی یوں تو قحط اور بھوک کے وقت ہر یتیم کو کھانا کھلانا ثواب کا کام ہے، لیکن جو یتیم رشتہ دار بھی ہو، اس کی خبر گیری کرنا مزید اس کا باعث ہے۔ اسی معنی میں حضرت سلمان بن عامر سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :” مسکین پر صدقہ کرنا صدقہ ہے اور رشتہ دار مسکین پر صدقہ کرنا صدقہ بھی ہے اور صلہ رحمی بھی“ (ابن کثیر بحوالہ ترمذی نسائی وغیرہ) البلد
16 ف 5 یعنی جو محتاجی کی وجہ سے خاک میں رل رہا ہو جس کا نہ کوئی گھر ہوا اور نہ اس کے پاس پہننے کے لبے لباس رہا ہو۔ قرضوں کا بوجھ سر پر الگ لدا ہوا۔ البلد
17 ف 6 یعنی اللہ تعالیٰ کے احکام بجا لانے پر صبر و استقلال کی اور مخلوق پر رحم کھانے کی تلقین کرتے ہیں۔ البلد
18 ف 7 یہ دو ترجمے اس لحاظ سے ہیں کہ میمنہ کے معنی دائیں جانب کے بھی ہیں اور خوش بختی کے بھی۔ دائیں جانب والوں سے مراد وہ ہیں جنہیں عرش کی دائیں جانب جگہ ملے گیا یجنہیں ان کا نامہ اعمال دائیں ہاتھ میں دیا جائے وہ جو دنیا میں سیدھی راہ پر چلتے رہے۔ البلد
19 ف 8 یہ دو ترجمے بھی اس لحاظ سے ہیں کہ مشمہ کے معنی بائیں جانب کے بھی ہیں اور نحوست و بدنصیبی کے بھی بائیں جانب والوں سے مراد وہ ہیں جو عرش کی بائیں جانب کھڑے کئے جائیں گے یا جنہیں ان کا نامہ اعمال بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا۔ ف 9 یعنی انہیں دوزخ میں پھینک کر اس کے تمام دروازے بند کردیئے جائیں گے تاکہ انہیں کسی طرف سے ہوا نہ لگنے پائے اور نہ وہ بھاگ کر کہیں جا سکیں۔ البلد
20 البلد
0 ف 10 یہ سورۃ بالاتفاق مکی ہے۔ (شوکانی) الشمس
1 الشمس
2 ف 11 یعنی جب وہ سورج کے غروب ہونے کے بعد نکلے۔ ایسا مہینے کے نصف اول میں ہوتا ہے۔ الشمس
3 ف 12 یعنی جب سورج اس میں پوری تابناکی کے ساتھ چمکے۔ ف 13 یعنی جب خوب تاریکی پھیل جائے اور سورج کی کوئی روشنی باقی نہ رہے۔ الشمس
4 الشمس
5 ف 14 بنانے سے مراد یہ ہے کہ اس کے اعضا اور قویٰ کو ٹھیک کی۔ الشمس
6 الشمس
7 الشمس
8 ف 15 یہ بتلانا عقل و فطرت سے بھی ہوا اور پھر انبیاء علیہم السلام کی زبان سے بھی اچھی باتیں اس لئے بتلائی گئیں کہ انہیں اتخیار کرے اور بری باتیں اس لئے کہ ان سے بچے۔ الشمس
9 ف 16 دوسرا ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ” جس نے اپنی جان کو سنوارا (یعنی اسے شرک و کفر سے بچایا) اس نے مراد پا لی۔“ مگر پہلا ترجمہ زیادہ صحیح ہے کیونکہ اس کی تائید حدیث سے ہوتی ہے۔ حضرت زید بن ارقم سے روایت ہے کہ رسول اللہ دعا کرتے تھے : اللھم ات نفسی تقواھا ورکدا انت خیر من رکاھا انت ولیھا ومولاھا اے اللہ ! تو میرے نفس کو اس کا تقویٰ دے اور اسے پاک کر تجھ سے بڑھ کر کوئی اسے پاک نہیں کرسکتا تو ہی اس کا کار ساز اور مولیٰ ہے۔ فتح (مقدیر بحوالہ حمد نسائی) الشمس
10 ف 17 دوسرا ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ” جس نے اپنی جان کو دبا دیا۔ (یعنی خاک میں ملا دیا۔ بہکادیا) وہ تباہ ہوگیا۔ الشمس
11 الشمس
12 “ ف 18 یعنی اس نے اونٹنی کو ٹھکانے لگانے کا بیڑا اٹھایا۔ اس کا نام عموماً مفسرین نے قدار بن سالف بتایا ہے۔ الشمس
13 ف 19 اس کی تفصیل سورۃ شعر میں یہ بیان ہوئی : قال ھذہ نافۃ لھا شرب ولکم شرب یوم معلوم (صالح نے) کہا کہ یہ اونٹنی ہے۔ ایک دن اس کے پانی پینے کا ہے اور ایک دن تم سب کے پانی لینے کا۔“ (آیت :155) الشمس
14 ف 20 اونٹنی کو اگرچہ تنہا قدار بن سالف نے مارا لیکن چونکہ اسے پوری قوم کی پشت پناہی حاصل تھی بلکہ اس نے قوم ہی کے مطالبہ پر اونٹنی کو مارا تھا، اسلئے سبھی لوگ مجرم گردانے گئے اور یوں کہا گیا کہ ” انہوں نے اونٹنی کو مار ڈالا۔ الشمس
15 ‘ ف 21 یعنی ایسا غارت کیا کہ ان میں کوئی چھوٹا یا بڑا زندہ نہ بچا، صرف وہ لوگ بچے جو حضرت صالح پر ایمان لائے … یہ مطلب اس صورت میں ہے جب ” سواھا“ میں ” ھا“ کی ضمیر قوم کے لئے ہو بعض مفسرین نے اسے ” زمین“ کے لئے قرار دیا ہے۔ اس صورت میں ترجمہ یوں ہوگا ” انہیں زمین سے ملا دیا“ اور بعض نے اسے ملک میں شورش برپا ہوجائے … ” عقباھا میں ” ھا“ کی ضمیر تابہ کرنے کے عمل کے لئے بھی ہو سکتی ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کو کوئی پروا نہ ہوئی کہ انہیں تباہ کرنے کا انجام کیا ہوتا ہے۔ الشمس
0 ف 1 جمہور مفسرین کے نزدیک یہ سورۃ مکی ہے۔ بعض اسے مدنی کہتے ہیں۔ (شوکانی) الليل
1 ف 2 یعنی اس کا اندھیرا پھیل جائے۔ الليل
2 ف 3 یا ” نر اور مادہ بنانے کی قسم۔ الليل
3 الليل
4 ف 4 چنانچہ کوئی ایسا کام کرتا ہے جس کا بدلہ جنت ہے اور کوئی ایسا جس کا بدلہ دوزخ ہے۔ کوئی اپنے پیش نظر صرف اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی رکھتا ہے اور صرف اخروی فلاح چاہتا ہے اور کوئی دنیا کا طلب گار ہے۔ کوئی فراخ دلی اور سخاوت سے کام لیتا ہے اور کوئی تنگ دلی اور بخل برتتا ہے۔ الليل
5 الليل
6 الليل
7 ف 5 یعنی توحید کا قائل ہوا۔ ف 6 یعنی اس کی عادت اور خواہش کے مطاب نیک اعمال کو اس پر آسان کر دینگے اور انجام کا وہاں پہنچائیں گے جہاں اسے آرام ملے۔ یعنی جنت میں … کچھ یہی مفہوم ہے جسے ” ہمت مرداں مدد خدا“ کا محاورہ ادا کرتا ہے۔ الليل
8 الليل
9 ف 7 یعنی توحید کو جھٹلایا اور کفر و شرک کا قائل ہوا۔ الليل
10 ف 8 یعنی اس کی کوئی مدد نہ کریں گے اور اسے اس کے حال پر چھوڑ دیں گے۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ ایسے کام کرتا رہے گا جو اس کے لئے دنیا و آخرت میں جنجال اور وبال بنیں گے۔ اس کو دوسری آیت میں یوں فرمایا : ونقلب افئدتھم وابصارھم کمالم یومنوا بہ اول مرۃ وندرھم فی طغیانم یعمھون اس طرح ہم ان کے دلوں اور نگاہوں کو پھیر دیتے ہیں جس طرح یہ پہلی مرتبہ ایمان نہیں لائے تھے اور ہم انہیں ان کی سرکشی میں بھٹکنے کے لئے چھوڑ دیتے ہیں۔ (انعام :11) ایک حدیث میں ہے آنحضرت نے فرمایا عمل کرو۔ کل میسر لما خلق لہ ہر ایک کو اس کام کے لئے تیار کردیا جاتا ہے جس کے لئے وہ پیدا کیا گیا۔“ (ابن کثیر بحوالہ صحیح مسلم) الليل
11 الليل
12 ف 9 اسی وعدہ کا ایفا اللہ تعالیٰ نے انسانی فطرت میں خیر کی طرف میلان رزکھ کر اور پھر کتابیں اور انبیاء پر بھیج کر کیا۔ الليل
13 ف 10 یعنی دونوں ہمارے اختیار و تصرف میں ہیں لہٰذا جو شخص ان دونوں کا یاد دونوں میں سے کسی ایک کا طالب ہو، اسے ہمیں سے مطالبہ کرنا چاہئے، یا یہ مطلب ہے کہ دنیا اور آخرت دونوں کا ثواب ہمیں دینے والے ہیں۔ الليل
14 الليل
15 الليل
16 ف 11 یعنی کافر یہاں آگ میں جانے سے مراد اس میں ہمیشہ کے لئے جانا ہے کہ پھر کبھی نکلنا نصیب نہ ہو۔ گناہگار مسلمان اگرچہ اس میں جائیں گے لیکن ان کا جانا ہمیشہ کیلئے نہیں ہوگا بلکہ وہ اپنی مقررہ سزا بھگت کر اس سے نکال لئے جائیں گے جیسا کہ دوسری متعدد آیات و احادیث سے معلوم ہوتا ہے۔ الليل
17 الليل
18 الليل
19 ف 12 یعنی بخل، ریاء، نمود و نمائش اور دوسری دنیوی اغراض سے اس کا نفس اور حرام کی ملاوٹ سے اس کا مال پاک ہو اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کا شمار ان لوگوں میں ہو جو اپنے ہر کام سے صرف اسی کی رضا مندی چاہتے ہیں۔ الليل
20 الليل
21 ف 13 یعنی آخرت میں بیش بہا نعمتیں اور بلند مرتاب پا کر خوش ہوجائے گا۔ الليل
0 ف 14 یہ سورۃ بالاتفاق مکی ہے صحیحین میں جندب تجلی سے روایت ہے کہ آنحضرت بیمار ہوئے اس لئے آپ دو تین دن قیام نہ کرسکے۔ ایک عورت آپ کے پاس آئی اور کہنے لگی ” اے محمد (ﷺ) میرا خیال ہے کہ تمہارے شیطان نے تمہیں چھوڑ دیا ہے۔ اس پر یہ سورۃ نازل ہوئی۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت جبریل کچھ عرصہ کے لئے وحی نہ لائے تو مشرکین نے عیب لگایا کہ محمد (ﷺ) کو اس کے رب نے چھوڑ دیا اس پر یہ سورۃ نازل ہوئی۔ (ابن کثیر) الضحى
1 ف 15 مراد سا ارا دن ہے اس لئے کہ اگلی آیت میں رات کی قسم کھائی جا رہی ہے۔ (ابن جریر) الضحى
2 الضحى
3 الضحى
4 ف 1 اس لئے آنحضرت دنیا سے بے رغبت اور آخرت کی طرف متوجہ رہتے۔ ایک حدیث میں آنحضرت نے دنیا کی بے ثباتی بیان فرماتے ہوئے انسان کی مثال ایک مسافر سے دی ہے جو چند ساعتیں کسی درخت کے سایے میں آرام کرتا ہے اور پھر چل دیتا ہے۔ الضحى
5 الضحى
6 ف 2 شاہ صاحب لکھتے ہیں : حضرت کے باپ مر گئے پیٹ میں چھوڑ کر۔ دادا (عبدالمطلب) نے پالا وہ بھی مر گئے آٹھ برس کا چھوڑ کر پھر چچا نے پالا جب تک جوان نہیں ہوئے۔ (کذافی المواضح) الضحى
7 ف 3 یعنی آپ حق کی تلاش میں سرگردان اور نبوت وغیرہ حقائق سے قطعی غافل تھے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو راہ حق کی توفیق دی۔ نبوت جیسی نعمت سے نوازا اور آپ پر اپنی کتاب اتاری۔ (کذا فی للرضح) الضحى
8 ف 4 وہ اس طرح کہ حضرت خدیجہ نے آپ سے مضاربت کا معاملہ کیا اور پھر آپ کی دانت و امانت سے اس قدر تمثا رہوئیں کہ آپ سے نکاح کرلیا اور اپنا تما مال آپ کے حوالہ کردیا۔ (کذافی فی الموضح) الضحى
9 ف 5 یعنی کسی پہلو سے اس پر ظلم نہ کرو اور نہ اسے حقیر جانو بلکہ اس کی دلجوئی اور خبر گیری کرتے رہو۔ صحیح بخاری میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :” جنت میں“ میں اور یتیم کی پرورش کرنے والا یوں ہوں گے جیسے یہ دو انگلیاں یہ کہتے ہوئے آپ نے بیچ کی انگلی اور شہادت کی انگلی کی طرف اشارہ فرمایا۔ الضحى
10 ف 6 یعنی ہو سکے تو کچھ دے دو اور نہ ہو سکے تو کشادہ روئی اور نرمی سے جواب دے دو۔ الضحى
11 ف 7 یعنی یعنی ہو سکے تو کچھ دے دو اور نہ ہو سکے تو شادہ روئی اور نرمی سے جواب دے دو۔ الضحى
0 ف 8 یہ سورۃ بھی بالاتفاق مکی ہے۔ (شوکانی) الشرح
1 ف 9 یعنی اسے منور کیا۔ اس میں علوم و معارف کے خزانے بھر دیئے اور وہ اطمینان اور حصولہ دیا جس سے آپ نبوت جیسے منصب عظیم کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے قابل ہوگئے۔ قرآن میں شرح صدر کا یہی مفہوم مذکور ہے۔ (زمر آیت 33) یوں روایات سے ثابت ہے کہ معراج کے موقع پر ( اور اس سے پہلے ایک مرتبہ بچپن میں) فرشتوں نے ظاہری طور پر بھی آنحضرت کا سینہ چاک کیا اور اس میں اللہ تعالیٰ کی معرفت اور ایمان و اطمینان کا نور بھرا (ابن کثیر) الشرح
2 الشرح
3 ف 10 یعنی آپ کے تمام گناہ معاف کردیئے یا منصب رسالت جیسی کٹھن ذمہ داری کو آپ پر آسان کردیا۔ الشرح
4 ف 11 یعنی انبیاء اور فرشتوں میں آپ کا نام بلند کیا اور دنیا و آخرت میں آپ کے نام کا چرچا کیا۔ چنانچہ کوئی مسلمان اللہ تعالیٰ کا نام نہیں لیتا مگر اس کے ساتھ آپ کا نام ضرور لیتا ہے۔ کلمہ شہادت، اذان اقامت، خطبہ اور تشہد وغیرہ میں اللہ تعالیٰ کے نام کے بعد آپ کا نام لیا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے جہاں بندوں کو اپنی اطاعت کا حکم دیا ہے وہیں آپ کی اطاعت کا بھی حکم دیا ہے۔ الشرح
5 الشرح
6 ف 12 ایک سختی کے ساتھ دو آسانیاں لگی ہیں۔ اس میں آنحضرت کو بغایت کمال آئی ہے کہ دعوت و تبلیغ میں جس قدر مشقت برداشت کرو گے اس سے دوگنا راحت و اکرام نصیب ہوگا۔ الشرح
7 الشرح
8 ف 3ۃ یعنی اسی سے اپنی حاجت مانگئے اور ہر معاملہ میں اسی پر بھروسا کیجیے۔ الشرح
0 ف 14 جمہور مفسرین کے نزدیک یہ سورۃ مکہ معظمہ میں نازل ہوئی۔ (شوکانی) التين
1 ف 15 انجیر اور زیتون دو مشہور پھل ہیں جو متعدد پہلوئوں سے انسانی صحت کے لئے نہایت مفید ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کی قسم کھائی بعض مفسرین نے انجیر اور زیتون سے مسجد اقصیٰ (بیت المقدس) مراد لی ہے۔ (شوکانی) التين
2 ف 16 انجیر اور زیتون دو مشہور پھل ہیں جو متعدد پہلوئوں سے انسانی صحت کے لئے نہایت مفید ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کی قسم کہا گیا ہے۔ التين
3 التين
4 التين
5 ف 17 شاہ صاحب لکھتے ہیں :” اسے لائق بنایا فرشتوں کے مقام کا جب منکر ہو تو جانوروں سے بدتر۔“ (موضح) التين
6 ف 1 اگر سفل سافلین سے ارذل العمر یعنی بڑھاپا مراد لیا جائے تو اس استثناء کا مطلب یہ ہوگا کہ مومن اگر بڑھاپے میں نیک عمل نہ کرسکے تو ان سے ان عملوں کا ثواب ملتا رہے گا جو وہ جوانی اور تندرستی کی حالت میں کیا کرتا تھا۔ مگر ححافظ ابن قیم نے دوسرے معنی کو ترجیح دی ہے یعنی کہ جو لوگ منکر ہوتے ہیں وہ تو جانوروں سے بھی بدتر ہوتے ہیں اور ان ٹھکانا دوزخ ہوجاتا ہے، لیکن جو لوگ اپنی خداد صلاحیتوں سے کام لے کر ایمان لاتے اور نیک عمل کرتے ہیں، انہیں آخرت میں بے انتہا ثواب ملے گا۔ التين
7 ف 2 یہ ترجمہ اس صورت میں ہے جب خطاب کافر سے ہو اور اگر خطاب نبی ﷺ سے ہوا تو ترجمہ یوں ہوگا۔ ”(اے پیغمبر) یہ سب باتیں جان کر کون ہے جو آپ کو (قیامت کے روز) بدلہ ملنے کے باب میں جھٹلائے؟ التين
8 “ ف 3 کہ تم یہ سمجھو کہ وہ بندوں کو ان کے اچھے یا برے کاموں کا کوئی بدلہ دے گا یا وہ انہیں دوبارہ پیدا نہ کرسکے گا؟“ حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم یہ سورۃ پڑھو اور الیس اللہ باحکم الحاکمین پر پہنچو تو یہ کہو ’ دبلی وانا علی ذلک لمن الشاھدین کیوں نہیں اور میں اس کی شہادت دینے والوں میں سے ہوں“ (فتح القدیر بحوالہ ترمذی ۔ ابن مردویہ) التين
0 ف 4 اس سورۃ کا دوسرا نام ” اقراء“ بھی ہے اور یہ بالاتفاق مکی ہے۔ یہ قرآن کی سب سے پہلی سورۃ ہے جو نبی ﷺ پر نازل ہوئیں صحیحین میں حضرت عائشہ کی مفصل ہے جس میں یہ الفاظ آتے ہیں ” آنحضرت ﷺ غار میں تھے کہ آپ کے پاس حق خدا کی طرف سے فرشتہ آیا اور اس نے آپ سے کہا :” اقراء“ پڑھیے آپ نے فرمایا : مانا بقاری میں خواندہ نہیں ہوں“ فرشتہ نے دوسری مرتبہ آپ کو زور سے دبایا اور پھر وہی لفظ ” اقراء“ کہا آپ وہی وما انا بقاری جواب دیتے رہے۔ تیسری مرتبہ فرشتہ نے زور سے دبا کر کہا۔ اقراء باسم ربک … فتح القدیر العلق
1 العلق
2 العلق
3 العلق
4 ف 5 قتادہ کہتے ہیں کہ ’ دقلم اللہ تعالیٰ کی بات بڑی نعمت ہے۔ اگر وہ نہ ہوتا تو کوئی دین قائم ہوتا اور نہ زندگی کی اصلاح ہوئی (فتح القدیر) شاہ صاحب فرماتے ہیں :’ حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کبھی لکھا پڑھا نہ تھا۔ فرمایا کہ قلم سے بھی وہی علم دیتا ہے۔ یوں عقبی وہی دے گا۔“ (موضع) العلق
5 ف 6 یعنی آدمی کا بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو کچھ نہیں جانتا۔ اللہ تعالیٰ ہی آہستہ آہستہ اسے سکھاتا ہے۔ لہٰذا وہی اپنے ایک ان پڑھ بندے کو عالم بلکہ عالموں کا سردار بنائے گا۔ العلق
6 العلق
7 ف 7 یعنی اپنی پیدائش کی حقیقت کو بھول جاتا ہے اور ذرا دولت ملے تو سرکشی پر اتر آتا ہے … بعض مفسرین کہتے ہیں کہ یہ ابوجہل کی سرکشی کی طرف اشارہ ہے اور آخر سورۃ تک اسی کا ذکر کیا گیا ہے۔ یہ آیات اوپر کی پانچ آیتوں کے بعد نازل ہوئیں۔ (فتح قدیر) العلق
8 العلق
9 العلق
10 العلق
11 العلق
12 العلق
13 العلق
14 العلق
15 ف 8 مطلب یہ ہے کہ ابوجہل مردود چاہے سیدھے راستہ پر ہو (جیسا کہ وہ اپنے آپ کو سمجھتا تھا اور چاہے دین حق کا منکر دونوں صورتوں میں اسے سمجھنا چاہئے تھا کہ اللہ تعالیٰ اس کی ہر حرکت کو دیکھ رہا ہے اور وہ یہ کبھی پسند نہیں کرتا کہ اس کے کسی بندے کو نماز پڑھنے سے روکا جائے۔ العلق
16 العلق
17 العلق
18 ف 9 یعنی میرے مقابلہ کے لئے اپنے حمایتوں کو بلا لے۔ العلق
19 ف 10 حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نماز پڑھنے کے لئے کھڑے ہوئے۔ ادھر ابوجہل آگیا اور کہنے لگا :’ د کیا میں نے تمہیں اس حرکت (نماز سے منع کیا تھا تم جانتے ہو کہ مکہ کی سر زمین میں مجھ سے زیادہ کسی کے ساتھی اور حمایتی نہیں ہیں“ اسی کا جواب اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں دیا ہے (ترمذی ابن جریر وغیرہ) حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ ابوجہل کہنے لگا :” کیا محمد (ﷺ) تمہارے درمیان اپنا چہرہ زمین پر رکھتا (یعنی سجدہ کرتا) ہے؟“ لوگوں نے کہا ” ہاں“ بولا ” مجھے لات و عزی کی قسم اگر میں نے اسے نماز پڑھتے دیکھا تم میں اس کی گردن دبوچ لوں گا اور اس کا چہرہ زمین میں گاڑ دوں گا۔ پھر وہ اس ارادہ سے رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا۔ آپ نماز پڑھ رہے تھے۔ لوگوں نے دیکھا کہ وہ آگے بڑھنے کے بجائے پیھچے ہٹ رہا ہے اور ہاتھوں سے اپنی روک کر رہا ہے۔ لوگوں نے پوچھا ” کیا ہوا؟“ کہنے لگا ” میرے اور اس شخص کے درمیان آگ کی ایک خناق اور دہشت اور بہت سے پر ہیں۔“ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” اگر وہ میرے قریب آتا تو فرشتے اس کی تکا بوٹی کر ڈالتے۔“ (مسلم نسائی احمد وغیرہ) فتح القدیر ف 11 اس مقام پر سجدہ تلاوت ہے (ابن کثیر) بحوالہ صحیح مسلم عن ابی ہریرہ) العلق
0 ف 12 اس سورۃ کو بعض مفسرین نے مکی اور بعض نے مدنی بتایا ہے۔ (فتح تقدیر) القدر
1 ف 1 ” اور پھر ضرورت کے مطابق پہلے آسمان سے رسول اللہ ﷺ پر تھوڑا تھوڑا کر کے اترنا شروع ہوا۔“ دوسری آیت میں :” انا انزلناہ فی لیلۃ مبارکۃ ” ہم نے اس (قرآن) کو ایک مبارک رات میں اتار ا ” دخان اس سے مراد یہی لیلتہ القدر ہے اور وہ رمضان کے آخری عشرہ کی کوئی طاق رات ہوتی ہے جیسا کہ متعدد صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ رمضان میں ہونے کی تصریح خود قرآن میں بھی ہے جیسا کہ فرمایا : شھر رمضان الذی نزل فیہ القرآن“ رمضان کا مہینہ جس میں قرآن نازل ہوا۔“ (بقرہ : 185) القدر
2 القدر
3 ف 2 یعنی اس میں عبادت کرنا ہزار مہینوں کی عبادت سے زیادہ ثواب رکھتا ہے۔ القدر
4 ف 3 یعنی سال بھر میں جو کام ہوتا ہے اس رات اللہ تعالیٰ اس کا فیصلہ کرتا ہے اور فرشتے اور روح اس کے مطابق عمل درآمد کتے ہیں جیسا کہ سورۃ دخان میں لیلۃ مبارکہ کے ذکر کے بعد فرمایا فیھا یفرق کل امرحکیم امرا من عندنا اس میں ہمارے حکم کے مطابق ہر حکمت والے کام کا انتظام کیا جاتا ہے۔“ (آیت 5-4)’ دروح“ سے مراد حضرت جبریل ہیں، اگر مفسرین کے اس بارے میں بعض اور اقوال بھی ہیں۔ القدر
5 ف 4 یعنی اس میں اہل ایمان شیطان کے شر سے سلامتی میں رہتے ہیں۔ یا یہ مطلب ہے کہ اس میں فرشتے اہل ایمان پر سلام بھیجتے ہیں۔ لیلتہ القدر کی فضیلت میں متعدد روایات ثابت ہیں جنہیں حدث کی کتابوں میں دیکھا جاسکتا ہے۔ القدر
0 ف 5 جمہور مفسرین کے نزدیک یہ سورۃ مدنی ہے اور بعض اسے مکی کہتے ہیں۔ صحیحین میں حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضر ابی بن کعب سے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ تمہیں سورۃ لم لکن الذین سنائوں؟ انہوں نے عرض کیا :” کیا اللہ تعالیٰ نے میرا نام لیا ہے؟“ فرمایا :” ہاں“ یہ سن کر حضرت ابی (خوشی سے) رونے لگے۔ (فتح القدیر) البينة
1 البينة
2 البينة
3 ف 6 یعنی پیغمبر آخر الزمان اور قرآن بھیجنے کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ اہل کتاب (یہود و نصاریٰ) اور مشرکین عرب کو راہ حق پر لایا جائے، کیونکہ یہ لوگ اس قدر بگڑے ہوئے تھے کہ ان کا راہ حق پر آنا اس کے بغیر ممکن نہ تھا کہ ایک پیغمبر آئے جو ایک مقدس آسمانی کتاب جس میں عمدہ و دلنشیں مضامین ہوں، انہیں پڑھ کر سنائے۔ کسی حکیم یا صوفی یا بادشاہ عادل کے بس کی بات نہ ت ھی کہ انہیں راہ راست پر لے آتا۔ البينة
4 ف 7 یعنی ان کے محمد ﷺ پر ایمان نہ لانے کی وجہ ہرگز یہ نہ تھی کہ انہیں آپ کی صداقت میں شک تھا وہ تو سب نشانیاں اور بشارتیں جو پچھلی کتابوں میں آپ کے بارے میں بیان ہوئی تھیں، خوب اچھی طرح جانتے تھے اور انہیں یقین تھا کہ آپ ہی پیغمبر آخر الزماں ہیں لیکن اس کے باوجود محض حسد اور عناد کی وجہ سے آپ کے بارے میں جدا جدا ہوگئے کوئی ایمان لایا اور کوئی اپنے کفر پر ڈٹا رہا۔ حسد اور عناد یہی تھا کہا آپ کی بعثت بنی اسماعیل میں کیوں ہوئی حالانکہ آپ سے پہلے تمام انبیاء بنی اسرائیل میں آتے رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ معمولی درجہ کے مجرم نہیں ہیں بلکہ بڑے درجہ کے مجرم ہیں جو جانتے بوجھتے حق کو جھٹلا رہے ہیں۔ البينة
5 ف 8 جس کی طرف پیغمبر آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دعوت دیتے ہیں۔ اس لئے یہ لوگ اگر حسد کی بیماری میں مبتلا نہ ہوتے تو ہرگز آپ پر ایمان لانے سے نہ رک سکتے تھے۔ البينة
6 ف 9 کیونکہ وہ جان بوجھ کر حق بات کو چھپا رہے ہیں۔ البينة
7 البينة
8 البينة
0 ف 1 اس سورۃ کو بعض مفسرین مدنی اور بعض مکی کہتے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمرو سے روایت ہے کہ ایک شخ نے نبی ﷺ سے عرض کیا کہ مجھے کوئی جامع قسم کی سورۃ سکھایئے۔ آپ نے اسے یہ سورۃ سکھائی اس نے کہا ” مجھے اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے، میں بس اسی کو پڑھتا رہوں گا۔“ آپ نے فرمایا :” یہ آدمی کامیاب ہوگیا۔“ (فتح القدیر بحوالہ احمد ابو دائود، نسائی، بیہقی وغریہ) الزلزلة
1 ف 2 یعنی قیامت کے قریب جب وہ صور پھونکے جانے سے دہل جائے اور اس میں بھونچال آجائے۔ الزلزلة
2 الزلزلة
3 الزلزلة
4 ف 3 یعنی ہر شخص کے متعلق بتا دے گی کہ اس نے میری پشت پر یہ کام کئے، چاہے وہ کام اچھے ہوں یا برے حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : زمین ستونوں کی طرح اپنے جگر کے ٹکڑے جو سونے اور چاندی کے ہوں گے نکالے گی۔ قاتل آئے گا اور کہے گا کہ اسی کی وجہ سے میں نے قتل کیا۔ قطع رحمی کرنے والا آئے گا اور کہے گا کہ اسی کی وجہ سے میں نے قطع رحمی کی۔ چور آئے گا اور کہے گا کہ اسی کی وجہ سے میرا ہاتھ کاٹا گیا۔ پھر سب اسے چھوڑ کر چل دیں گے اور اس میں سے کچھ نہ لیں گے۔“ (مسلم ترمذی) حضرت ابوہریرہ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ آیت پڑھ کر فرمایا : کیا تم جانتے ہو کہ زمین کی خبریں کیا ہوں گی؟ لوگوں نے عرض کیا ” اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں“ فرمایا اس کی خبریں یہ ہیں کہ وہ ہر بندے اور بندی کے خلاف گواہی دے گی کہ اس نے میری پشت پر یہ اور یہ کام کیے یہی اس کی خبریں ہوگی۔ (ترمذی، نسائی، ابن جریر وغریہ) فتح القدیر) الزلزلة
5 الزلزلة
6 ف 4 یا یہ مطلب ہے کہ ’ حساب کتاب کی جرگہ سے جنت یا دوزخ کی طرف) پلٹیں گے۔“ الگ الگ کا مطلب یہ ہے کہ ان میں سے کوئی خوفزدہ ہوگا، کوئی بے خوف کسی کا رنگ اہل جنت کا یعنی سید ہوگا اور کسی کا ہل دوزخ کا یعنی سیاہ کوئی دائیں طرف چل رہا ہوگا اور کوئی بائیں طرف یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ کافر ایک گروہ ہوں گے، مشرک ایک گروہ اور منافق ایک گروہ اسی طرح شرابی ایک گروہ ہوں گے، بدکار ایک گروہ چور ایک گرروہ وعلی ہذا القیاس۔ ف 5 تاکہ برے عمل والوں کی رسوائی ہو اور نیک عمل والوں کی سرخروئی الزلزلة
7 الزلزلة
8 الزلزلة
0 ف 6 بعض مفسرین کے نزدیک یہ سورۃ مکی اور بعض کے نزدیک مدنی ہے۔ (فتح القدیر) العاديات
1 ف 7 یعنی ٹاپوں کی آواز یا ہانپنے کی آواز العاديات
2 العاديات
3 ف 8 عربوں کی عادت تھی کہ دشمن پر صبح کے وقت اچانک چھاپا مارتے جبکہ اس کے عام لوگ غفلت کی گہری نیند سو رہے ہوں۔ اس آیت میں صبح کے وقت اچانک چھاپا مارنے والے گھوڑوں کی قسم کھائی گئی۔ العاديات
4 ف 9 یا ” اس جگہ گرد اڑاتے ہیں۔“ یہ دو ترجمے میں لحاظ سے ہیں کہ ” بہ“ میں ہ کی ضمیر وقت کیلئے بھی ہو سکتی ہے اور جگہ کے لئے بھی العاديات
5 العاديات
6 ف 10 یعنی اس کی نعمتوں کی قدر نہیں کرتا اور نہ ان کا حق پہنچانتا ہے۔ العاديات
7 ف 11 یعنی زبان حال سے خود گواہی دیتا ہے کہ میں بڑا ناشکرا ہوں۔ یہ مطلب اس صورت میں ہے جب ” انہ“ میں ’ ہ“ کی ضمیر انسان کے لئے ہو اور اگر یہ اللہ تعالیٰ کے لئے ہو تو مطلب یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ اس کی ناشکری کو دیکھ رہا ہے۔ العاديات
8 ف 12 یعنی حرص و طمع اور بخل نے اسے اندھا کردیا ہے یہاں تک کہ اپنے منعم حقیقی کو بھی بھلا بیٹھا ہے۔ العاديات
9 ف 13 یعنی کیا اسے اس وقت کا کوئی ڈر نہیں ہے؟ العاديات
10 العاديات
11 ف 14 لفظی ترجمہ یہ ہے ” بے شک ان کا رب ان سے اس دن خوب باخبر ہوگا۔“ لیکن مطلب یہی ہے کہ ان کی خوب خبر لے گا۔ اس کی مثال دوسرے مقام پر یہ ہے : اولئک الذین یعلم اللہ مافی قلوبھم۔“ (نساء 63) اس کا بھی نقشی ترجمہ یہ ہے کہ ’ داللہ ان کے دلوں کی باتوں کو جانتا ہے۔“ لیکن مطلب یہی ہے کہ انہیں ان کے اعمال کا بدلہ دیئے بغیر نہ چھوڑے گا۔ العاديات
0 ف 1 یہ سورۃ بالاتفاق مکی ہے۔ (فتح القدیر) القارعة
1 القارعة
2 القارعة
3 ف 2 مراد قیامت ہے جس سے دل دہل جائیں۔ القارعة
4 ف 3 یعنی سخت گھبرائے ہوئے اور پریشان حال ہونگے۔ جدھر کسی کا منہ اٹھے گا چل کھڑا ہوگا القارعة
5 القارعة
6 القارعة
7 القارعة
8 ۔ ف 4 یعنی نیک اموال کم اور برے اعمال زیادہ ہوں گے۔ القارعة
9 القارعة
10 ف 5 ” ھاویۃ“ کے لفظی معنی گڑھے کے ہیں جس میں گرا جائے۔ مراد دوزخ کا گڑھا ہے۔ القارعة
11 ف 6 یعنی دوزخ کی دہکتی آگ جو دنیا کی آگ سے ستر گنا زیادگرم ہے۔ اعاذ نا اللہ منھا القارعة
0 ف 7 تمام مفسرین کے نزدیک یہ سورۃ مکی ہے امام بخاری کی روایت میں یہ مدلی ہے۔ (فتح القدیر) حضرت عبداللہ بن شحیر سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس وقت آپ سورۃ ” الھکم التکاثر“ پڑھ رہے تھے۔ دوسری روایت میں ہے کہ اس وقت آپ پر سورۃ الھکم التکاثر … نازل ہوئی تھی … آپ فرما رہے تھے۔“ آدم کا بیٹا میرا مامل، میرا مال کہتا رہتا ہے حالانکہ تمہارا مال وہی ہے جو تم نے کھا کر ختم کر ڈالا یہ پہن کیا یا صدقہ کردیا اور پھر تم آگے چل دیئے۔ “‘ (ابن کثیر بحوالہ صحیح مسلم) حضرت عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” جس نے کسی رات ہزار آیتیں پڑھیں، وہ اللہ تعالیٰ سے خوش و خرم ملاقات کرے گا۔“ لوگوں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! ایک ہزار آیتیں کون پڑھ سکتا ہے؟ آپ نے بسم اللہ پڑھ کر اس سورۃ کی تلاوت کی اور پھر فرمایا :” مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، یہ سورۃ ہزار آیتوں کے برابر ہے“ (ایضات) بحوالہ دھیمی خطیب فی المفق و للفترق) التکاثر
1 التکاثر
2 ف 8 یعنی مرتے دم تک اس حرص و طمع میں پھنسے رہے کبھی اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہونے کی فرصت نہ ملی۔ اسی مضمون کو نبی ﷺ نے اپنی ایک حدیث میں یوں بیان فرمایا ہے :” مگر آدمی کے پاس مال کی بھری ہوئی ایک وادی ہو تو وہ چاہتا ہے کہ دوسری وادی اور ہو اور اگر اس کے پاس دو وادیاں ہوں تو وہ چاہتا ہے تیسری وادی اور ہو سچ یہ ہے کہ) آدمی کے پیٹ کو صرف (قبر کی مٹی ہی بھر سکتی ہے اور اللہ جس پر چاہتا ہے نظر کرم فرماتا ہے۔“ (جامع صغیر لیستوطی بحوالہ صحیحین ترمذی مسند امام احمد من انس) ایک اور حدیث میں آپ کا اشراد ہے ” میت کے پیچھے تین چیزیں جاتی ہیں دو چیزیں واپس آجاتی ہیں اور ایک چیز اس کے ساتھ رہتی ہے۔ اس کے پیچھے اس کے گھر والے جاتے ہیں اور اس کا مال اور اس کا عمل گھر والے اور مال واپس آجاتے ہیں اور عمل اس کے ساتھ رہتا ہے (ابن کثیر بحوالہ صحیحین ترمذی نسائی عن انس) التکاثر
3 التکاثر
4 التکاثر
5 ف 9 یقینا معلوم ہوتا یعنی اس میں کوئی شک و شبہ نہ ہوتا معلوم ہوا کہ آخرت سے غفلت اللہ تعالیٰ کے ذکر سے غفلت کا موجب بنتی ہے۔ ف 10 یہ خطاب تمام لوگوں سے ہے۔ جیسے فرمایا :” قران منکم الا وارھا“ اور تم میں سے کوئی نہیں جو اس پر آنیوالا نہ ہو۔ التکاثر
6 التکاثر
7 ف 11 بعض لوگ (یعنی اہل ایمان) اسے دور سے دیکھیں گے اور بعض لوگ (یعنی کفار) اسے قریب سے دیکھیں گے جبکہ وہ اس کے اندر پھینکے جائیں گے۔ التکاثر
8 ف 12 یعنی صحت عافیت کھانے پینے اور دوسری تمام نعمتوں کے بارے میں سال ہوگا کہ ان کا کہاں تک شکر ادا کیا؟ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی چھوٹی سے چھوٹی لذت اور معمولی سے معمولی عافیت ایسی نہیں جس کے بارے میں سوال نہ ہو۔ حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ ایک دن نبی ﷺ ابوبکر اور عمر بھوک کی وجہ سے گھر سے نکلے اور ایک انصاری کے گھر آئے۔ اس نے صحابی میں کھجوریں اور بکری کا گوشت پیش کیا۔ آپ نے گوشت اور کھجوریں کھائیں اور اوپر سے شیریں پانی پیا جب خوب سیر ہوچکے تو آپ نے فرمایا :” مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم سے قیامت کے دن اس نعمت کے بارے میں بھی سوال ہوگا۔ (فتح مقدر بحوالہ مسلم و اہل السنین التکاثر
0 ف 13 جمہور مفسرین کے نزدیک یہ سورۃ مکی ہے اور بعض نے اسے مدنی قرار دیا ہے۔ حضرت ابومزینہ داری سے روایت ہے کہ نبی ﷺکے صحابہ میں سے دو آدمی جب آپس میں ملتے تو اس وقت تک جدا نہ ہوتے جب تک ان دونوں میں سے ایک دوسرے کو سورۃ العصر پڑھ کر نہ سناتا پھر وہ ایک دوسرے کو سلام کر کے جدا ہوتے۔“ (فتح القدیر بحوالہ بہیقی طبرانی) امام شافعی فرماتے ہیں :” اگر صرف یہی سورۃ نازل ہوتی تو لوگوں کے لئے کافی ہوتی، اس لئے کہ اس میں تمام علوم آگئے ہیں۔ (روح المعانی) العصر
1 ف 14 یہ ترجمہ اس لحاظ سے ہے کہ ” عصر“ کے معنی عصر کے وقت یا نماز کے بھی ہیں اور زمانہ کے بھی۔ بعض مفسرین نے زمانہ سے مراد خاص طور پر نبی ﷺ کا زمانہ لیا ہے۔ زمانہ کی قسم اس لحاظ سے کھائی کہ آگے جو حقیقت بیان کی جا رہی ہے اس کی سچائی پر زمانہ کے واقعات گواہ ہیں، اور عصر کی اس لحاظ سے کہ وہ بڑا بابرکت وقت ہے۔ اس میں رات اور دن کے فرشتے جمع ہوتے ہیں، یہاں تک کہ نبی ﷺ کا ارشاد ہے کہ جس سے عصر کی نماز قضا ہوگئی گویا اس سکا سب گھر بار لٹ گیا۔ (قرطبی وغیرہ) العصر
2 العصر
3 ف 1 حق سے مراد ہے توحید و رسالت پر ایمان، شریعت کے عائد کردہ احکام پر عمل اور منع کردہ امور سے اجتناب۔ ف 2 یعنی راہ حق میں پیش آنے والی دشواریوں اور مصیبتوں سے حوصلہ نہ ہارنے کی ایک دوسرے کو تلقین کرتے رہے۔ العصر
0 ف 3 یہ سورۃ بالاتفاق مکی ہے۔ (فتح القدیر) الهمزة
1 ف 4 یعنی جو منہ پیا پیٹھ پیچھے لوگوں کے عیب بیان کرتا ہے۔ ” ویل“ جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے، دوزخ کی ایک وادی کا نام بھی ہے۔ الهمزة
2 ف 5 یعنی انتہائی حریص اور بخیل ہے۔ خزانہ پر سانپ بن کر بیٹھتا ہے۔ الهمزة
3 الهمزة
4 الهمزة
5 الهمزة
6 الهمزة
7 ف 6 شاہصاحب لکھتے ہیں :” یعنی جس دل میں ایمان ہے تو نہ جلاوے کفر ہے تو جلاوے (مرضح) الهمزة
8 ف 7 یعنی انہیں اس آگ میں ڈال کر تمام دروازے بند کردیئے جائیں گے تاکہ سنا نہیں کسی طرف سے ہوا لگنے پائے اور نہ وہ بھاگنے کی کوشش کرسکیں بلکہ ہمشہ اس میں پڑے جلتے رہیں۔ الهمزة
9 ف 8 یا یہ مطلب ہے کہ ” آگ کے شعلے لمبے لمبے ستونوں کی طرح بلند ہوں گے۔ الهمزة
0 ف 9 یہ سورۃ بالاتفاق مکی ہے۔ (فتح القدیر) الفیل
1 ف 10 یہ واقعہ اس سال کا ہے جس سال نبی ﷺ کی ولادت باسعادت ہوئی۔ آپ نے اگرچہ اسے نہیں دیکھا لیکن وہ اتنا مشہور تھا کہ قریش کا بچہ بچہ اس سے واقف تھا اور اس کا ہمیشہ تذکرہ رہتا تھا، اس لئے اسے دیکھنے سے تعبیر فرمایا۔ ف 11 اصحاب فیل کا واقعہ جس کا اس سورۃ میں ذکر کیا گیا ہے۔ مختصراً یہ ہے کہ حبشہ کے بادشاہ کی طرف سے میں پر ” ابرہہ“ نامی ایک گورنر مقرر تھا جو سخت متعصب عیسائی تھا۔ اس نے جب دیکھا کہ سارے عرب میں کعبہ کی بڑی تعظیم کی جاتی ہے اور لوگ ہر طرف سے اس کا حج اور عمرہ کرنے آتے ہیں تو اس نے اپنے ہاں ’ دصنعا‘ میں ایک گھر بنایا اور لوگوں کو ترغیب دی کہ کعبہ کے بجائے اس کا حج وعمرہ کریں، لیکن عربوں کو یہ چیز کیسے گوارا ہو سکتی تھی۔ کسی نے غصہ میں آ کر ابرہہ کے بنائے ہوئے اس گھر میں پائخانہ کردیا۔ ابرہہ کو غصہ آیا اور وہ ایک بہت بڑا لشکر جس میں آگے آگے ہاتھی تھے، لے کر روانہ ہوا تاکہ کعبہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جائے۔ قریش اپنے گھر بار چھوڑ کر پہاڑوں کی طرف نکل گئے ابرہہ جب وادی محسر (جو مکہ معظمہ کے قریب ہے) میں پہنچا تو سمندر کی طرف سے سبز اور زرد رنگ کے پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ آتے نظر آئے۔ ہر پرندے کی چونچ اور پنجوں میں چھوٹی چھوٹی کنکریاں تھیں۔ انہوں نے لشکر کے سر پر پہنچ کر وہ کنکریاں پھینکنا شروع کردیں۔ جس فوجی کے کوئی کنکری لگتی وہ وہیں ڈھیر ہوجاتا کیونکہ کنکری اس کے یک طرف سے داخل ہو کر دوسری طرف سے نکل جاتی تھی۔ اکثر فوجی وہیں مارے گئے اور بھاگے وہ دوسری بڑی بڑی تکلیفیں اٹھا کر مرے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے گھر کی حفاظت فرمائی اور قریش پر اس کا احسان جتایا۔ اس واقعہ کی تفصیل سیرت کی ہر کتاب میں مل سکتی ہے۔ الفیل
2 الفیل
3 الفیل
4 الفیل
5 الفیل
0 ف 12 جمہور مفسرین کے نزدیک یہ سورۃ بھی مکی ہے بعض نے اسے مدنی قرار دیا ہے۔ قریش
1 ف 13 شاہ صاحب لکھتے ہیں ” حضرت سے بارہویں پشت میں ایک شخص تھا نضحہ بن کنایہ اس کی اولاد قریش ہیں، سب جمع تھے مکے میں۔ (موضح) قریش
2 قریش
3 قریش
4 ف 1 قریش تاجر پیشہ تھے۔ سال میں وہ بغرض تجارت دو سفر کرتے تھے۔ ایک جاڑے میں یمن کی طرف اور دوسرا گرمی میں شام کی طرف جو سرسبز اور سرد ملک ہے۔ جہاں سے وہ گزرتے لوگ ان کو کعبہ کے خادم سمجھ کر انتہائی عزت و احترام کی نظر سے دیکھتے اور ان کے جان و مال سے کسی قسم کا تعرض نہ کرتے … حالانکہ جزیرہ عرب میں ہر طرف لوٹ کھسوٹ اور چوری ڈکیتی کا بازار گرم رہتا تھا۔ قریش کو یہی احسان اللہ تعالیٰ نے اس سورۃ میں یاد دلایا ہے کہ اسی گھر کی بدلوت تمہاری ساری عزت اور معاشی زندگی قائم ہے اور اسی کی بدلوت تمہیں امن اور چین نصیب ہے پھر تم اس کے مالک کی بندگی کیوں نہیں کرتے اور کیوں دوسروں کو اس کا شریک گرد ان کو ان کے اگے سجدے کرتے اور ان کے آستانوں پر نذیر دیتے اور چڑھاوے چڑھاتے ہو۔ قریش
0 ف 2 اس سورۃ کے تین نام اور ہیں ” الذین ارایت اور ” یتیم“ جمہور مفسرین کے بقوال یہ سوہر مکہ معظمہ میں نازل ہوئی۔ الماعون
1 ف 3 یعنی سمجھتا ہے کہ کوئی آخرت و اخرت نہیں آئے گی اور نہ اچھے برے اعمال کا بدلہ دیا جائیگا اس لئے ہر معاملہ میں اس کا نقطہ نظر خالص دنیوی اور مادہ پرستانہ کا ہے اخلاق اور اخلاقی اقدار کی اس کی نظر میں کوئی قیمت نہیں ہے۔ الماعون
2 ف 4 یعنی اس سے ہمدردی و غمزاری کی بجائے سنگدلی و بے رحمی سے پیش آتا ہے۔ الماعون
3 الماعون
4 الماعون
5 ف 5 یعنی کبھی نماز پڑھتے ہیں اور کبھی نہیں پڑھتے پڑھتے بھی ہیں تو نہایت بد دلی سے جلدی جلدی۔ الماعون
6 الماعون
7 ف 6 یعنی خدا کے لئے نہیں پڑھتے بلکہ اس لئے پڑھتے ہیں کہ لوگ انہیں غازی و پرہیز گار جانیں اور عزت و احترام کا مقام دیں۔ ف 7 یعنی معمولی اور عمومی استعمال کی چیزیں۔ مطلب یہ ہے کہ نہایت بخیل اور بے مروت ہیں نہ خدا کی عبادت ٹھیک طرح سے کرتے ہیں اور نہ خلق خدا سے وہ برتائو کرتے ہیں جو میل جول کا کام سے کم تقاضا ہے۔ الماعون
0 ف 8 اکثر مفسرین کے نزدیک یہ سورۃ مکی اور بعض اسے مدنی کہتے ہیں۔ الكوثر
1 الكوثر
2 ف 9 ” الکوثر“ کے معنی ” خیر کثیر“ کے ہیں یعنی بہت بھلائی اور بہتری … اکثر مفسرین اس طرف گئے ہیں کہ اس سے مراد جنت کی ایک نہر ہے اس کی تصریح خود آنحضرت نے بھی فرمائی ہے۔ اس لئے یہی صحیح ہے۔ نیز آپ نے فرمایا :” میری امت کے لوگ اس پر قیامت کے دن پانی پئیں گے۔ (شوکانی) ف 10 یعنی فرض نمازوں کی پابندی کیجیے اور نفل نمازیں بھی پڑھیے۔ ف 11 یعنی نماز کی طرح آپ کی قربانی بھی خلاص اللہ تعالیٰ کے لئے ہو صحیح مسلم میں ہے کہ جس نے اللہ کے سوا اور کسی کے لئے قربانی کی اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے (فتح البیان) …اکثر مفسرین نے ” وانحر“ کے معنی قربانی کرنا ہی لئے ہیں اور یہی راجح ہیں۔ (دبہ قال غیر واحد من سلف مگر بعض نے اس کے معنی نماز میں سینہ پر ہاتھ باندھنا بھی کئے ہیں۔ یہ حضرت علی سے ایک روایت ہے ولایصح (ابن کثیر) الكوثر
3 ف 12 یعنی اسکا کوئی پیرو اور نام لیوا دینا میں نہ رہے گا۔ اس کے برعکس آپ کے کروڑوں اربوں پیر و دنیا کو آباد کریں گے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ آپ کا نام بھی بلند کرتے رہیں گے۔ روایات میں ہے کہ آنحضرت کی کوئی نرینہ اولاد چونکہ زندہ نہ رہی تھی اس لئے بعض مشرکین کہا کرتے تھے کہ اس شخص کا کوئی وارث اور نام لویا نہیں رہا۔ انہی کی تردید میں اللہ تعالیٰ نے آیت نازل فرمائی۔ الكوثر
0 ف 3ۃ اکثر مفسرین کے نزدیک یہ سورۃ مکی ہے اور بعض نے اسے مدنی قرار دیا ہے۔ حدیث میں ہے کہ آنحضرت صبح اور مغرب کی سنتوں میں یہ سورۃ اور سورۃ اخلاص پڑھا کرتے تھے۔ (قرطبی) الكافرون
1 الكافرون
2 الكافرون
3 الكافرون
4 الكافرون
5 الكافرون
6 ف 14 یعنی میرا تم سے کوئی تعلق نہیں۔ اگر میرے سمجھانے سے نہیں سمجھتے تو نہ سمجھو آئندہ چل کر آخرت میں اپنا حشر دیکھ لو گے۔ دیکھیے سورۃ شوریٰ (آیت 15) الكافرون
0 ف 1 یہ سورۃ بالا اتفاق مدنی ہے متعدد صحیح روایات سے ثابت ہے کہ جب یہ سورۃ نازل ہوئی تو آنحضرت سمجھ گئے کہ یہ آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بلاوا ہے۔ اس لئے آپ عبادت الٰہی میں پہلے سے بھی زیادہ منہمک رہنے لگے۔ اس سلسلے میں متعدد روایات ہیں حافظ ابن کثیر نے ان کو ایک جگہ جمع کردیا ہے۔ النصر
1 ف 2 مطلب یہ ہے کہ وہ کام پایہ تکمیل کو پہنچ گیا جس کے لئے آپ کو دنیا میں بھیجا گیا تھا۔ النصر
2 النصر
3 ف 3 یعنی اب اس کی طرف واپسی کی تیاری کیجیے۔ نبی ﷺ کے اپنے لئے بخشش مانگنے کا مطلب کتنی جگہ واضح کیا جا چکا ہے۔ النصر
0 ف 4 یہ سورۃ بالا تفاق مکی ہے (فتح القدیر) الہب
1 ف 5 یعنی اس کی دنیا و آخرت دونوں تباہ ہوگئیں۔ یہ ابو لہب (جس کا نام عبدالعزیٰ بن عبدالمطلب تھا) نبی ﷺ کا حقیقی چچا تھا لیکن اپنے کفر اور بدبختی کی بدولت آپ کا شدید ترین دشمن تھا اور آپ کو ہر طرح سے ستانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھتا تھا حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ جب آیت وانذر عشیر تک الاقربین نازل ہوئی تو نبی ﷺ صفا کی پہاڑی پر چڑھ گئے اور یاصباء کہہ کر اپنے قبیلے قریش کو پکارا۔ جب وہ سب جمع ہوگئے تو آپ نے فرمایا :” مجھے یہ بتائو کہ اگر میں تم سے یہ کہوں کہ اس پہاڑی کے پیھچے سے کچھ گھوڑ سوار تم پر حملہ کیا چاہتے ہیں تو کیا تم مجھے سچا سمجھو گے، انہوں نے کہا ” ہمیں آج تک جھوٹ کا تجربہ نہیں ہوا۔“ فرمایا تو میں ایک درد ناک عذاب کے آنے سے پہلے تمہیں اس سے ڈراتا ہوں۔“ ابواب بولا ” تیرے لئے تباہی ہو کیا تو نے اسی لئے ہمیں جمع کیا تھا؟ آپ پہاڑی سے اتر آئے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ سورۃ نازل فرمائی۔ (فتح القدیر بحوالہ صحیحین) الہب
2 ف 6 یعنی اس کی کوئی چیز اسے تباہی سے نہ بچا سکی۔ ” مال“ سے مراد اس کا جمع کردہ مال ہے اور ” کمائی“ سے مراد اولاد، عزت و درجات وغریہ یا مال سے مراد اس کا موروثی مال ہے اور کمائی سے مراد اس کا اپنا کمایا ہوا مال۔ الہب
3 الہب
4 ف 7 یہ بدبخت عورت بھی آنحضرت ﷺ کی دشمین پر ادھار کھائے رہتی تھی۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ اس سے اور کچھ نہ ہوسکتا تو اپنے سر پر کانٹے اٹھا کر لاتی اور جس راستہ سے آنحضرت ﷺ گزرت یا نہیں وہاں بچھا دیتی تاکہ آپ کو تکلیف ہو۔ (فتح القدیر بحوالہ ابن جریر بیہقی) الہب
5 ف 8 اسی رسی میں وہ کانٹے باندھ کر لایا کرتی تھی۔ ضحاک کہتے ہیں کہ ” ایک روز وہ رسی اس کے گلے میں اٹک گئی اور وہ دم گھٹ کر مر گئی۔ (فتح القدیر) بعض مفسرین کہتے ہیں کہ یہ اس طرف اشارہ ہے کہ قیامت کے دن اس کے گلے میں آگ کی رسی ہوگی جو ہمیشہ اس کے گلے میں پڑے رہے گ۔ (ابن کثیر) الہب
0 ف 9 اکثر مفسرین کے نزدیک یہ سورۃ مکی ہے اور بعض اسے مدنی کہتے ہیں۔ اس کی فضیلت میں متعدد احادیث ثابت ہیں جن میں سے ہم اختصار کے پیش نظر صرف دو کا ذکر کرتے ہیں۔ حضرت ابوسعید خدری سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرما ای :” مجھے اس ذات پاک کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ یہ سورۃ تہائی قرآن کے بارے ہے۔“ (بخاری) حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ایک شخص کو جہاد میں سردار بنا کر بھیجا۔ وہ جب لولوں کو نماز پڑھاتا تو قرات ختم کرنے سے پہلے سورۃ تہائی قرآن کے برابر ہے۔“ بخاری حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ایک شخص کو جہاد میں سردار بنا کر بھیجا۔ وہ جب لوگوں کو نماز پڑھا تا تو قرأت ختم کرنے سے پہلے سورۃ قل ھو اللہ احد ضرور پڑھتا۔ لوگوں نے اس کا تذکرہ نبی ﷺ سے کیا۔ آپ نے فرمایا :” اس سے دریافت کرو کہ وہ ایسا کیوں کرتا ہے؟“ لوگوں نے دریافت کیا تو اس نے کہا کہ اس سورۃ میں اللہ تعالیٰ کی صفت بیان ہوئی ہے اور میں اسے پڑھنا پسند کرتا ہوں۔ آپ نے فرمایا :” اسے بتا دو کہ اللہ تعالیٰ اس سے محبت کرتا ہے۔“ (صحیحین فتح القدیر) الاخلاص
1 الاخلاص
2 الاخلاص
3 ف 10 اس سے نصاریٰ کا رد ہوا جو حضرت عیسیٰ کو خدا کا بیٹا بناتے ہیں اور مشرکین عرب کا بھی رد ہوا جو فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں رکھا کرتے تھے۔ الاخلاص
4 الاخلاص
0 ف 12 یہ سورۃ اکثر مفسرین کے نزدیک مکی ہے اور بعض اسے مدنی کہتے ہیں۔ اس سورۃ کی فضیلت میں متعدد احادیث ثابت ہیں۔ اختصار کے خیال سے ہم صرف چند کا ذکر کرتے ہیں۔ حضرت ابوحابس سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے خطاب کر کے فرمایا : قل اعوذبرب الفلق اور قل اعوذ برب الناس بہترین تعویز ہیں جن کے ذریعہ پناہ مانگنے والوں نے اللہ تعالیٰ کی پنا ہمانگی۔“ (نسائی بیہقی وغیرہ) حضرت عائشہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی طبیعت اگر ناساز ہوئی تو آپ معوزمین پڑھ کر پھونکا کرتے تھے جب آپ کی تکلیف بڑھ گئی تو میں یہ سورتیں پڑھ کر آپ پر ہاتھ پھیرتی تھی تاکہ ان کی برکت سے آپ کو شفا ہو۔ (صحیحین موطا امام مالک) حضرت زید بن ارقم سے روایت ہے کہ ایک یہودی نے نبی ﷺ پر جادو کردیا۔ آپ کو تکلیف ہوگئی۔ جبرئیل معوزمین لے کر نازل ہوئے اور کہنے لگے ” ایک یہودی نے آپ پر جادو کردیا ہے اور جادو فلاں کنوئیں میں ہے۔“ آپ نے حضرت علی کو بھیجا اور اسے لے آئے۔ آپ نے حکم دیا کہ گرہیں کھولیں اور ہر گرہ پر سورۃ پڑھتے رہیں۔ جب تمام گرہیں کھل گئیں تو نبی ﷺ اس طرح اٹھ کھڑے ہوئے گویا آپ کو کوئی تکلیف نہیں۔“ (عبد بن حمید) بیہقی میں یہی روایت حضرت عائشہ سے مفصل آئی ہے۔ (فتح القدیر) الفلق
1 ف 1 بیعض روایات میں ہے کہ فلق دوزخ کے ایک کنوئیں کا نام ہے۔ (فتح القدیرض) الفلق
2 الفلق
3 ف 2 شاہ صاحب فرماتے ہیں :” اس میں سب تاریکیاں آگئیں، ظاہر اور باطن کی اور تنگدستی اور پریشانی اور گمراہی۔ (موضح) الفلق
4 ف 3 ابو عبید کہتے ہیں کہ جادو گرنیوں سے مراد لبید بن اعصم یہودی کی بٹیاں ہیں جنہوں نے نبی ﷺ پر جادو کیا تھا۔“ جادو کے متعلق نبی ﷺ کا ارشاد ہے۔” جو کوئی گنڈا لگائے اور پھر اس پر پھونکے اس نے جادو کیا اور جس نے جادو کیا اس نے شرک کیا اور جو کسی چیز سے چمٹا وہ اسی کی طرف چھوڑ دیا گیا۔ (فتح القدیر بحوالہ نسائی وغیرہ عن ابی ہریرہ) الفلق
5 الفلق
0 ف 4 یہ سورۃ بھی اکثر مفسرین کے نزدیک مکی ہے اور بعض نے اسے مدنی لکھا ہے۔ اس کے فضیلت میں احادیث کا ذکر اوپر گزر چکا ہے۔ الناس
1 ف 5 اگرچہ اللہ تعالیٰ تمام مخلوق کا بادشاہ اور مالک ہے لیکن انسان چونکہ اشرف المخلوقات ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ کی الوہیت کی شان سب سے زیادہ نمایاں ہے۔ اس لئے اس کا خاص طور پر ذکر کیا گیا ہے۔ اس میں اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ملک تصرف دنیاوی بادشاہوں کی طرح محض غلبہ اور تسلط کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ تمام لوگوں کا معبود ہونے کی وجہ سے ہے جس کی بنیاد الوہیت پر ہے اور الوہیت ہی وہ صفت ہے جو احیاء و اہاتت ایجادو اعدام وغیرہ پر تصرف کلی کی مقتضی ہے۔ لہٰذا شیطان کے شر سے بچنے کی صرف ایک ہی صورت ہو سکتی ہے کہ اسی کو الہ مان کر اس کی پناہ حاصل کرو۔ الناس
2 الناس
3 الناس
4 ف 6 شیطان کا نام ” خناس“ ہے یعنی اللہ کے ذکر سے پیچھے ہٹ جانے والا۔ حضرت ابن عباس سے ایک روایت میں ہے کہ شیطان بنی آدم کے دل میں بیٹھ جاتا ہے اور وسوسہ اندازی کرتا رہتا ہے جب انسان اللہ کو یاد کرتا ہے تو پیچھے مٹ جاتا ہے اور جب غافل ہوتا ہے تو پھر وسوسہ ڈالنا شروع کردیتا ہے۔ (رواہ الحاکم) شاہ صاحب لکھتے ہیں : شیطان گناہ پرسنکارے اور آپ نظر نہ آئے۔ (موضح) واضح رہے کہ شیطان کا انسان کے اندر داخل ہو کر وسوسہ انداز ہونا عقلاً بعید نہیں ہے۔ خصوصاً جبکہ حدیث سے ثابت ہے اور حدیث مجری الدم سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ بعض عقلا نے وساس انداز ہونا عقلاً بعید نہیں ہے۔ خصوصاً جبکہ حدیث سے ثابت ہے اور حدیث مجرم الدم سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ بعض عقلا نے وسواس سے قوت متخیلہ یا قوت واہمہ مراد لی ہے کہ جب وہ عقل کے تابع نہیں رہتی تو الٹی چال چلنا شروع کردیتی ہے جسے قرآن نے حناس سے تعبیر کیا ہے۔ مگر یہ تفسیر آثار و روایات کے خلاف ہے علامہ آلوسی لکھتے ہیں : ولایخفی ان تفسیر کلام اللہ تعالیٰ بامثال ذلک من شر الوسواس الخناس ۔ (روح) الناس
5 الناس
6 ف 7 دوسری آیات میں بھی بیان ہوا ہے کہ شیطان جنوں میں سے ہے اور آدمیوں میں سے بھی (سورہ انعام :113) یہ الذی یوموس کا بیان ہے یا یوسوس کے متعلق ہے۔ اس صورت میں ” من“ ابتداء غایت کے لئے ہوگا۔ جنات کے وساوس شیاطین الانس سے کچھ مختلف ہوتے الحمد اللہ کہ آج بروز عید الفظر یہ عظیم الشان اور بابرکت کام بتوفیق الٰہی سرانجام پایا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اس خدمت کو درجہ قبولیت بخشے اور اسے میرے لئے میرے والدین اور اساتذہ کے لئے زاد راہ بنائے۔ آمین ختم آمین الناس
Flag Counter