Maktaba Wahhabi

آیت نمبرترجمہسورہ نام
1 بسم اللہ الرحمن الرحیم (1) اس سورت کو الفاتحہ اس لیے کہتے ہیں کہ قرآن مجید کی کتابت اور نماز میں قرات اسی سے شروع ہوتی ہے اس اعتبار سے گویا قرآن کا دیباچہ ہے عہد نبوت میں اس کا مشہور تر نام یہی تھا اور اسی عتبار سے اسے ام الکتاب اور ام القرآن بھی کہا جاتا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مجملا قرآن کے جمیع علوم پر حاوی ہونے کی و جہ سے ام الکتاب سے ملقب کردیا گیا ہو نیز ان کے نام الصتوہ السبع الثانی اور القرآن العظیم بھی مر فو عا ثاتب ہیں صحابہ وتابعین سے اس کے بہت سے اور نام بھی منقول ہیں مثلا الوافیہ، اساس القرآن الشفاء وغیرہ (قر طبی) احادیث میں اس سورت کے بہت سے فضائل منقول ہیں دارمی میں ہے فاتحہ الکتاب شفاء من کل سقم کہ سورت فاتحہ ہر بیماری کے لیے شفاء ہے حضرت ابوہریرہ (رض) سے ایک روایت ہے کہ یہ مدینہ میں نازل ہوئی مگر علماء نے لکھا ہے کہ اس کی فضیلت مدینہ میں نازل ہوئی ہے اور بعض اس کا نزول مکرر بھی مانتے ہیں (ابن کثیر۔ قرطبی) (2) قرآن کی تلاوت شروع کرتے وقت اعوذ بااللہ من الشیطن الرجیم پڑھ لینا چاہیے جیسا کہ سورت نحل میں ہے فا ذاقرأت القران فاستعذ باللہ من الشیطن الرجیم اور ابو سعید الخدری سے ایک روایت میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز میں سورت فاتحہ تعوذ پڑھ لیا کرتے تھے ( ابن کثیر۔ قرطبی) مسئلہ اس سورت کا نماز کی ہر رکعت میں پڑھنا فرض ہے جیسا کہ عبادہ بن صامت سے روایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (صاح ستہ) کہ جس نے سورت فاتحہ نہ پڑھی اس کی کوئی نماز نہیں ہے اور یہ حکم ہر شخص کے لیے ہے خواہ وہ تنہا نماز بڑھ رہا ہو یا جماعت سے امام ہو یا مقتدی نماز جبری ہو یا ستری، فرض ہو یا نفل اور حضرت عبادہ ہی بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صبح کی نماز پڑھائی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پہ قرات گراں ہوگئی۔ سلام پھیرنے کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میرا خیال ہے کہ تم لوگ امام کے ہوتے ہوئے قرات کرتے ہوں ہم نے عرض کی جی ہاں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لا تفعلوا الا بام فاتحہ لا صلوہ لمن لم یقرء بھا ایسا نہ کرو مگر سورت فاتحہ ضرور پڑھ لیا کرو کیونکہ اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی ( سنن ابوداؤد۔ ترمذی) (3) سورت نحل میں یہ جزو آیت ہے اور بلا جماع سے سورت فاتحہ اور دوسری اور سورتوں کی جز و ہے ورنہ فصل کے لیے کوئی اور علامت بھی متعین ہو سکتی تھی جہری نمازوں میں اسے جہر ( بلند آواز) سے پڑھنا چاہیے یا ستر (یعنی پوشیدہ) سے احادیث سے دونوں طرح ثابت ہے صحیحین میں حضرت انس (رض) اور مسلم میں حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ انحضرت اور خلفائے اربعہ نماز میں قرات الحمد اللہ رب العلمین سے شروع کرتے تھے یعنی بسم اللہ سترا) آہستہ) پڑھا کرتے تھے دوسری روایات میں جہری نمازو میں بالجہر ( بلند آواز سے) پڑھنا بھی ثابت ہے (ورمنشور۔ نیل) ابن القیم رحمہ اللہ نے زادالمعاد میں پوشیدہ پڑھنے کو ترجیح دی ہے مگر احیا نا سترا اور احیا جہرا پڑھ لیا جائے تو بہتر ہے تاکہ دونوں قسم کی احادیث یہ عمل ہوجائے ( المنار) نماز دونوں طرح ہوجاتی ہے اس پر تمام علماء کا اتفاق ہے ابن کثیر ) الفاتحة
2 (4) یہ کلمہ اظہار عبودیت اور اعتراف نعمت کے معنی پر مشتمل ہے اور شکر الہی کے اظہار کے لیے اس سے بڑھ کر کوئی کلمہ نہیں ہے حدیث میں ہے الحمد راس الشکر فما شکر اللہ عبدا یحمدہ ” رب“ یہ اسمائے حسنی سے ہے اور اضافت کے بغیر اللہ تعالیٰ کے سوا کسی پر اس کا اطلاق جائز نہیں ہے العا لمین یہ علم کی جمع ہے اور اللہ تعالیٰ کے سوا تمام کائنات پر اس کا اطلاق ہوتا ہے ( قرطبی، حضرت ابن عباس (رض) رب العالمین کی تفسیر میں فرماتے ہیں ان الخلق کلہ تمام مخلوقات کا معبود۔ الفاتحة
3 (5) یہ اسمائے حسنی میں سے ہیں۔ رحمان بروزن نعملان ہے جس میں کسی کی کثرت پائی جاتی ہے اور رحیم بروزن فعیل ہے جس میں دوام کے معنی پائے جاتے ہیں گو یا اللہ تعالیٰ بہت رحم کرنے والا ہے اور ہمیشہ رحم کرنے والا بھی ہے بعض نے کہا ہے کہ دنیا میں عموم رحمت کے اعبات سے رحمن ہے جو ہر مومن اور ہر کافر کا شامل ہے اور آخرت میں خاص طور پر اپنے فرما نبردار بندوں پر رحمت کے اعتبار سے رحیم ہے الفاتحة
4 (6) یوم الدین کے معنی یوم جزاء کے ہیں اس دنیا میں بھی مکافات یعنی جزائے اعمال کا سلسلہ جاری رہتا ہے مگر اس جزا کا مکمل ظہور چونکہ قیامت کے دن ہوگا اس لیے قیامت کے دن کو خا ص طور پر یوم الدین کہا گیا ہے ( رازی) اور اللہ تعالیٰ کے اس دن کا مالک ہونے کے یہ معنی ہیں کہ اس روز ظاہری طور پر بھی مالکیت اور ملوکیت کا یہ سلسلہ ختم ہوجائے گا اور مخلوقات سے جملا اختیارات ظاہری بھی سلب کرلیے جائیں گے ( قرطبی ) الفاتحة
5 (7) عبادت کے معنی ذلت اور انکساری کا اظہار کرنے کے ہیں شرعا یہ ذلت اور انکساری اس صورت میں عبادت بنے گی جب اس ہستی کو ماورا الاسباب غیبی تسلط اور قدرت کا ما لک سمجھ کر کمال محبت کے ساتھ اس کے سامنے ذلت و انکساری کا اظہار کیا جائے گا جیسا کہ عبادت اللہ تعالیٰ کے ساتھ خا ص ہے۔ اسی طرح کسی معاملہ میں ماورا الا سباب اللہ تعالیٰ کے سوا کسی سے مدد مانگنا بھی جائز نہیں ہے مشلا مرض کے علاج کے لے دواؤں کا ستعمال تا جائز ہے مگر دوا اور علاجھ کو چھوڑ کر محض غیبی شفا کسی اور سے طلب کرے تو یہ شرک ہوگا اس قسم کی استعانت کے متعلق فرمایا اذا ستفت فاستین باللہ۔ مسئلہ عموما دعاؤں میں بحر مت یا لطیف فلاں بزرگ ( یا خود آنحضرت کی ذات گرامی) کے الفاظ رواج پاگئے ہیں مگر قرآن اور احادیث صحیحہ سے اس کی صراحت نہیں ملتی ہاں صرف حدیث پاک میں دورد شریف کی قبولیت دعا کے اسباب میں سے قرار دیا گیا ہے ( مشکوہ 786، حافظ تیمیہ لکھتے ہیں دعاؤں میں اس قسم کے الفاظ صحابہ تابعین اور سلف امت سے ثابت نہیں ہیں ( مختر الفتادی المصر یہ ص 195) اسی طرح الوسی زادہ اپنی تفسیر روح المعانی ( ج 2 ص 300) میں لکھتے ہیں لم یعھد التومن الابالجاہ والحر متہ من احمد من الصحا بتہ لہذا یہ دعا با لتو سل بدعت ہے الفاتحة
6 (8) طبعی اور فطری ہدایت کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے انسان اپنے منا فع و مضرات کا اندازہ کرسکتا ہے اور سب سے بڑی نعمت ہدایت دین ہے جو اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ پیغمروں کے ذریعہ نازل ہوئی۔ ہدایت کی ان جملہ انواع کا ذکر قرآن میں مذکور ہے اور پھر سب سے بڑے کر انبیاء اسؤہ حسنہ ہے جو ہدایت الہی کی عملی تعبیر ہے یہی وجہ ہے کہ دعا میں صراط مستقیم کی ہدایت کی بیان میں صراط الذین انعمت لایا گیا ہے، صراط مستقیم قرآن و حدیث کی اتباع کا نام ہے اجتہادی مسائل میں غلطیوں کا زیادہ امکان ہے اس لیے پانچ اوقات نماز میں یہ دعا اسی شعور کے ساتھ ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر قسم کی لغزشوں سے دور رکھے۔ (9) یعنی انبیاء صدقین، شہدا اور صالحین دیکھیے سورۃ النساء آیت 69۔ الفاتحة
7 (10) بہکئے والوں سے مراد وہ لوگ ہیں جو ازراہ جہالت صحیح راستہ سے بھٹک گئے ہوں اور جن پر غصہ کیا گیا، سے سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے جا بوجھ کر علیحح راستہ اختیار نہ کیا ایک مرفوع حدیث میں نصاری کو ضالین اور یہود کو مغضوب علیہم قرار دیا گیا ہے متعدد آیات میں بھی اس کی تا ئید ہوتی ہے (ابن کثیر) اور یہی تفسیر صحا بہ اور علماء تفسیر سے منقول ہے (فتح البیان) مسئلہ تفسیر درمنثور میں ہے کہ جبر یل نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فاتحہ الکتاب پڑھائی تو آخر میں کہا کہ آمین کہیے اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے آمین کہی۔ فائدہ آمین کے معنی ہیں ہماری دعا قبول فرما، سورت فاتحہ میں ولا الضالین کے نون کے بعد آمین کہنا مستحب ہے جہری نمازوں میں امام اور مقتدی دونوں کا بآواز بلند آمین کہنا متعدد احادیث سے ثابت ہے، حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب امام آمین کہے تم بھی آمین کہو اس لیے کہ جس شخص کی آمین فرشتوں کی آمین سے مل گئی اس کے پچھلے گناہ معاف کردیے گئے ایسے ہی حضرت وائل بن حجر سے روایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ولا لضا لین کے بعد آواز سے آمین کہتے تھے (ترمذی) مسئلہ سنت طریق یہ ہے ہے کہ ٹھہر ٹھہر کر قرات کرے ام سلمہ (رض) بیان فرماتی ہیں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر آیت کو الگ الگ پڑا ھا کرتے تھے مثلا الحمد اللہ رب العلمین پر ٹھہر جاتے پھر الر حمن الرحیم پڑھتے اور ٹھہر جاتے (ترمذی) یہ سورت اللہ تعالیٰ نے بندوں کو زبان سے فرمائی ہے ( مو ضح) الفاتحة
0 (1) چند آیات کے علا وہ تما سورت مدنی ہے۔ اس کا زمانہ نزول ہجرت کا ابتدائی زمانہ ہے۔ اس کا شمار السبع الطول میں ہے جن کہ اہمیت کے پیش نظر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : من اخذ السبع فھو حبر" کہ جس نے یہ سات سوتیں حاصلی کرلیں وہ بہت بڑا عالم دین بن گیا۔ (ابن کثیر) اس سورت کے مواعظ واحکام کے متعد بہ حصہ پر مشتمل ہونے کی وجہ سے اسے " سنام القرآن " فرمایا ہے۔ (صحیح مسلم) حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ اپنے گھروں کو مقبرے نہ بناؤ۔ شیطان اس گھر میں داخل نہیں ہوتا جس میں سورت البقرہ کی تلاوت ہوتی رہے۔ ( ابن کثیر) خالد بن معدان سے روایت ہے کہ سو رت البقرہ حاصل کرو، اس کا سیکھنا باعث برکت ہے اور اسے چھوڑدینا موجب حسرت۔ ( دارمی ) البقرة
1 (2) سورتوں کے شروع میں جو حروف آئے ہیں ان کو مقطعا کہا جاتا ہے کیونکہ یہ الگ الگ کرکے پڑھے جاتے ہیں خلفاء اربعہ، حضرت عبد اللہ بن مسعود اور دیگر اکا بر صحا بہ کا خیال ہے کہ یہ حروف راز خداوندی ہیں جسے اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی ان حروف کی تفسیر میں کوئی بات ثابت نہیں ہے مگر بعض صحابہ مثلا عبداللہ بن عباس اور بعض تابعین سے اس کی تاویل میں مختلف اقوال مروی ہیں مگر صحت سند کے ساتھ ثابت نہیں ہیں صرف ایک قول عبد الر حمن بن زید سے ثابت ہے کہ انہوں نے ان حروف کو اسمائے سورۃ قرار دیا ہے وکھوا لصحیح ( کشاف رازی۔ متآ خرین علماء نے ان حروف کو کو لطا ئف دقائق بیان کئے ہیں مگر یہ سب فنی کاوش الغازو تعمیہ کی حثیت رکھتی ہیں ایک احتمال کچھ قرین قیاس معلوم ہوتا ہے کہ اوائل سورۃ میں ان کے نزول سے تحدی مقصود ہو۔ اور عرب کے فصحا اور بلغا کو دعوت معارضہ دی گئی ہو کہ قرآن ان حروف تہجی سے مرکب ہے جن سے تم اپنا کلام ترکیب دیتے ہو اگر یہ اللہ تعالیٰ کا کلام نہیں ہے تو تم بھی اس اس جیسا کلام بنا لاؤ ورنہ سمجھ لو کہ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے لیکن اس بارے میں تو قف اور سکوت بہتر ہے علامہ شوکانی فرماتے ہیں۔ ہر اس شخص کے لیے جو نجات کا خواہاں اور سلف صالحین کی پیروی کا خواہشمند ہے اتان جان لینا کافی ہے کہ ان حروف کے اتار نے میں کوئی ایسی حکمت ہے جس تک ہماری رسارئی ممکن نہیں ہے پس اس سے زیادہ گہرائی میں جانے کی سعی کرنا لا حا صل ہے۔ (فتح القدیر ) البقرة
2 (3) قرآن مجید کے جہاں اور بہت سے نام ہیں وہاں اس کا ایک نام الکتب بھی ہے یعنی وہ آخری کتاب جس کے نزول کی کتب سابقہ میں انبیا یا زبان پر خبری دی گئی ہے۔ ( خازن) گو یا ذالک الکتب فرماکر یہود مدینہ کی تردید کی ہے جو اس کے آخری کتاب ہونے کو منکر ہیں۔ ف 4 ہدایت کے ایک معنی تو رہنمائی وار شاد کے ہیں اس اعتبار سے تو قرآن پاک ھدی للناس ہے اور دسرے معنی تائید توفیق کے ہیں۔ یعنی ہدایت سے الفل فیضیاب ہونا اسی اعتبار سے قرآن کو ھد المتقین فرمایا ہے (دیکھئے سورت قصص آیت 56) اور متقی کا لفظ وقاریہ سے مشتق ہے جس کے معنی بچاؤ اور حفا ظت کے ہیں مگر اصطلاح شریت میں متقی وہ ہے ہو ہر ایسی چیز سے اپنے آپ کو باز رکھے جس کے کرنے یا چھو ڑنے سے یہ اندیشہ ہو کہ وہ اللہ تعالیٰ کے عذاب کا مستحق ہوسکتا ہے ( الکشاف) او تقوی پیدا کرنے کا بہترین طریق یہ ہے کہ انسان سلف صالحین یعنی صحابہ و تا بعین کی سیرت کا مطالعہ کرے اور اس کی اتباع اختیار کرے۔ ( ابن کثیر ) البقرة
3 ف 5 ایمان تصدیق کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور اصلاح شریعت میں قول وفعل اور اقرار کے مجموعہ کو ایمان کہا جاتا ہے ابن ماجہ) اور یہاں الغیب سے وہ حقائق مراد ہیں جو عقل وحواس کی رسائی سے ماورا ہیں۔ مثلا ذات باری تعالیٰ و حی الہی عذاب قبر اور جملہ امور آخرت (قرطبی) پس اہل تقوی کی صفت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے بیان پر اعتبار کرتے ہوئے ان حقائق پر ایمان رکھتے ہیں اور عقل و حواس سے ادراک و احساس کا مطالبہ نہیں کرتے۔ ف 6 یعنی اس کو صحیح اوقات میں ارکان وسنن کی حفاظت اور خشوع کے ساتھ ادا کرتے ہیں اور نماز باجماعت میں صفیں سید ھی باندھتے ہیں کند ھے سے کندھا پیر سے پیر اور ٹخنے سے ٹخنہ ملا کر کھڑے ہوتے ہیں حدیث میں ہے۔ تسویتہ الصفوفہ من اقامتہ الصلوہ ( بخاری) ف 7 ی نفقہ عام اور جملہ حقوق مالی کو شامل ہے۔ البقرة
4 ف 8 پہلی کتابوں پر ایمان لانا صرف یہ ہے کہ ان کے منزل من اللہ ہون نے کی تصدیق کی جائے مگر عمل صرف قرآن و حدیث پر کیا جائے۔ (ابن کثیر ) ف 9۔ آخرت نشاۃ ثانیہ سے عبارت ہے (مفردات)۔ اور بعث بعد الموت اور امور آخرت پر یقین رکھنا ایمان کا جزو ہے البقرة
5 ف 1 یعنی اہل تقوی جو مذ کورہ صفات سے متصف ہوتے ہیں وہی کامل فلا سے سرفراز ہوں گے ( قرطبی) ابن عمر (رض) سے مرفو عا مروی ہے کہ آلم سے المفلحون تک اہل جنت کا ذکر ہے۔ اور پھر عظیم تک اہل دوزخ کا۔ (سلفیہ ) البقرة
6 ف 2 یعنی جو اللہ تعالیٰ کے علم ازلی میں کافر قرار پا چکے ہیں ان کو انذار سے فائدہ نہیں ہوگا ( قرطبی) اس کے معنی یہ نہیں کہ انذار بالکل فضول ہے نہیں بلکہ منذر کو تو تبلیغ رسالتہ کا حق ادا کرنے کا ضرور ثواب ملتا ہے رہے گا اس لیے علیہم فرمایا کہ ان کے حق میں انذار اور عدم انذار برابر ہے۔ البقرة
7 ف 3 یعنی گنا ہوں کو کثرت سے ان کتے ضمیر مردہ ہوچکے ہیں اور قبول حق کے استعداد جو فطرتا ہر شخص میں ودیعت کی گئ ہے ان سے سلب ہوچکی ہے اباان حق ناحق کی تمیز باقی نہیں ر ہی گویا ان کے دل ایسے ہوگئے ہیں فیسے کسی چیز کو بند کرکے اس پر مہر لگا دی جائے گا یا یہ کہا جائے کہ ختم ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مگر ہے ان کے مسلسل گناہوں کے ارتکاب کی وجہ سے چنانچہ حضرت ابوہریرہ (رض) سے مر فو عا مروی ہے کہ جب مومن گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ پڑجاتا ہے پھر اس نے توبہ کرلی تو بڑھنے سے رک گیا اور گناہ سے بچنے کی کوشش کی تو اس کا دل صاف ہوگیا۔ اور اگر وہ گنا پر گنا کرتا گیا تو وہ سیاہ نقطہ پھیل کر سارے دل پر چھا گیا۔ فرمایا یہی زنگ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان فرمایا ہے۔ ( ابن جریر) ف 3 یعنی گناہوں کو کثرت سے ان کے ضمیر مردہ ہوچکے ہیں اور قبول حق کے استعداد جو فطرتا ہر شخص میں ودیعت کی گئ ہے ان سے سلب ہوچکی ہے اباان حق ناحق کی تمیز باقی نہیں ر ہی گویا ان کے دل ایسے ہوگئے ہیں فیسے کسی چیز کو بند کرکے اس پر مہر لگا دی جائے گا یا یہ کہا جائے کہ ختم ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مگر ہے ان کے مسلسل گناہوں کے ارتکاب کی وجہ سے چنانچہ حضرت ابوہریرہ (رض) سے مر فو عا مروی ہے کہ جب مومن گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ پڑجاتا ہے پھر اس نے توبہ کرلی تو بڑھنے سے رک گیا اور گناہ سے بچنے کی کوشش کی تو اس کا دل صاف ہوگیا۔ اور اگر وہ گناہ پر گناہ کرتا گیا تو وہ سیاہ نقطہ پھیل کر سارے دل پر چھا گیا۔ فرمایا یہی زنگ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان فرمایا ہے۔ ( ابن جریر ) البقرة
8 ف 4 اہل ایمان اور کھلے ڈلے کفار کا ذکر نے کے بعد اس آیت میں ان منافقین کا ذکر ہو رہا ہے جو بظاہر ان کا دعوی کرتے تھے مگر حقیقت میں ان کے دل یقین و اذعان اور نور ایمان سے یکسر خالی تھے اور ان کی تمام ہمدرد دیاں کفر اور اہل کفر کے ساتھ تھیں، یہ بیان تا آخر رکوع 13 آیات میں پھیلا ہوا ہے۔ البقرة
9 ف 5 یعنی زبان سے اسلام کا اظہار کر کے اور دلوں میں کفر چھپاکر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کو دھوکا دینے کی کو شش کرتے ہیں تاکہ مسلم معاشرے میں کچھ مراعات سے بہرہ مند ہوں اور ان کے راز بھی معلوم کرتے رہیں میگر یہ لوگ خود فیر یبی میں مبتلا ہیں۔ گو یہ بات ان کی سمجھ میں نہیں اتی مگر ایک نہ ایک دن ان کے نفاق کی سزا ان کو مل کر رہے گی۔ البقرة
10 ف 6 یعنی شک ونفاق ریا کاری ارومومنوں سے حسد و بغض وغیرہ کے امراض قلبیہ میں مبتلا تھے ہی اب اسلامی اقتدار کی روز افزوں ترقی سے اور جل بھن رہے ہیں ( قرطبی) حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ ایک بیماری یہ کہ جس دین کو دل نہ چاہتا تھا نا چار قبول کرنا پڑا۔ اور دوسری بیماری اللہ تعالیٰ نے یہ زیادہ کردی یکہ حکم دیا جہاں کا جب کے خیر خواہ تھے ان سے لڑنا پڑا۔ ( مو ضح) البقرة
11 ف 7 فساد دراصل صلاح کی ضد ہے ارواس کے معنی ہیں استقامت سے ہٹ جا نا یہاں فساد سے مراد ہے کفر و معصیت کا ارتکاب حضرت عبدا اللہ مب مسعود (رض) اور دیگر صحا بہ نے یہی تفسیر کی ہے۔ ( ابن کثیر) یہ واقعہ ہے کہ ہر زمانے میں مفسد اور گم راہ لوگ نشر و اشاعت کے لیے خوبصورت عنوان تجویز کرتے رہے ہیں جیسا کہ آجکل دعا بتول سل غیر کے نام سے شرک ہو رہا ہے ( للنار)۔ ہمارے زمانے میں بھی منافقوں کی چھوٹی ذریت پیدا ہوئی ہے جس کا دعوی تو مسلمانوں کی اصلاح و ترقی کا ہے۔ اور وہ خود کو پکے مسلمان سمجھتے ہیں مگر در اصل وہ اسلام کے ڈھانے اور اس کے عقائد و شرائع اور احکام کو نیست وبابود کرنے کی فکر میں جس ترقی کے یہ لوگ خواہاں ہیں وہ مسلمانوں کی ترقی نہیں بلکہ کفر زنفاق کی ترقی ہے۔ (ودحیدی) البقرة
12 البقرة
13 ف 8 منافقین کا ایک شیوہ وہ یہ بھی تھا کہ جو لوگ صدق دل سے اسلام قبول کر کے اپنے آپ کو تکا لیف اور خطرات میں مبتلا کر رہے تھے ان کو بے وقوف سمجھتے۔ البقرة
14 البقرة
15 ف 1 عام محاروے میں ہر برے کام کی جزا یا جواب کو اسی برائی کا نام دے دیا جاتا ہے قرآن مجید کئی مقامات پر یہ محاورہ استعمال کیا ہے چنانچہ اسی محاورہ کے مطابق کے مکر و فریب اور ہنسی مذاق کے مقابلہ میں جو انھیں مہلت دی اور اب ہر فورا گرفت نہ کی اس کے متعلق فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ان سے ہنسی ٹھٹھہ کرتا ہے مطلب یہ ہے کہ ان منافقین سے ہمارا یہ بر تاؤ اس وجہ سے نہیں ہے کہ ہم ان سے خوش ہیں بلکہ یہ ہمارا غضب ہے اور یہ امہال دراصل ان کے ہنسی مزاح کا بد لہ ہے جو وہ مسلمانوں سے کر رہے ہیں تاکہ وہ اپنی سر کشی میں خوب قدم بڑھا لیں جیسے فرمایا ( :إِنَّمَا نُمْلِی لَہُمْ لِیَزْدَادُوا إِثْمًا : آل عمران آیت 178)۔ ابن عباس فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے استہزا کی یہ صورت آخرت میں پیش آئے گی قرطبی ) البقرة
16 ف 2 یعنی ہدایت و ایمان کی راہ چھوڑکر اور کفر و ضلالت کی راہ اختیار کر کے انہوں نے ب جائے فائے کے نقصان اٹھا یا ہے جو سنت کی راہ چھوڑ کر بد عت کی۔ البقرة
17 ف 2 جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہجرت کر کے مدینہ تشریف لا آئے تو کچھ لوگوں نے اسلام قبول کیا اور بعد میں منا فق ہوگئے۔ ان لوگوں کے حال کی یہاں مثال بیان فرمائی کہ ایمان لا کر انہوں نے کچھ روشنی کو کھو دیا اور نفاق کے اندھیرے میں پڑگئے اور وہ تمیز بھی جاتی رہی۔ ( فتح القدیر ) البقرة
18 ف 4 یعنی عقل و فکر کھو دیے میں زبان سے بھی بوجہ بز دلی کے اعتراف حق نہیں کرسکتے تو پھر راہ حق کی طرف سے کیسے رجوع ہو سکتے ہیں ؟ البقرة
19 ف 5 یہ مثال اللہ تعالیٰ نے منافقین کی دوسرے گروہ کی بیان فرمائی ہے یعنی وہ لوگ جو بظاہر ہر مسلمان تو ہوگئے تھے، مگر صعف ایمان کی وجہ سے ہمیشہ شک وتذبذب میں مبتلا رہتے تھے۔ راحت وآرام کی صورت میں مطمئن نظر آئے تے اور تکا لیف کا سامنا ہوتا تو شک میں پڑجاتے۔ اگلی آیت میں ان کے اسی تذبذب کو بیان فرمایا ہے کہ جب کبھی ان پر رشنی پڑتی ہے تو حل دیتے ہیں اور جب اندھیرا ہوتا ہے تو ٹھہر جاتے ہیں۔ (ابن کثیر) شاہ صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں : دین اسلام میں آخرت اسی سے آبادی ہے۔ اور اول کڑک ہے اور بجلی ہے منا فق لوگ اول سختی سے ڈرجاتے ہیں اور ان کو آفت سامنے نظر آتی ہے اور جیسے بادل کی چمک میں کبھی اجا لا ہوتا ہے اور کبھی اندھیرا سی طرح منا فق کے دل میں کبھی اقرار ہے کبھی انکار۔ ( مو ضح) البقرة
20 ف 6 اس آیت میں ان لوگوں کو متنبہ کیا ہے جو اپنی خداد او صلاحیتوں کو سلب کرلے اور تم اندھے گونگے اور بہرے بن کر وہ جاؤ۔ (جامع البیان ) البقرة
21 ف 7 یہاں تک تو تمہید تھی کہ قرآن جو ہدایت کا اصلی سر چشمہ ہے اسے ماننے اور نہ ماننے کے اعتبار سے تین قسم کے لوگ ہیں اب آگے بنی نوع انسان کے سامنے وہ اصل بات پیش کی جا رہی ہے جو قرآنی دعوت کا حقیق نصب الیعن ہے اور جس کے لیے کتابوں کی تنزیل اور انبیاء کی بعثت کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے وہ ہے دعوت الہی التو حید یعنی اللہ تعالیٰ کو ایک ماننا اور اس کی عبادت اور دعا میں کسی کو شریک نہ سمجھنا۔ ف 8 حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ اعبدوا کے معنی ہیں وحدوا یعنی اللہ تعالیٰ کو ایک مانو اور شرک سے بچو۔ (ابن کثیر) جب آیت سے مقصد یہی ہے تو خلق کا ذکر تو محض اقامت حجت کے طور پر ہے یعنی جس اللہ کو خالق کائنات مانتے ہو اور اس کا امور تکوینی پر تصرف اور اختیار تسلیم کرتے ہو عبادت بھی اسی کی کرو اور حاجت کے لی دعا بھی اسی ایک سے مانگو۔ ابن کثیر۔ فتح القدیر ) ف 9 اس کا تعلق اعبدوا سے ہے یعنی توحید کا عقیدہ اختیار کر لوگے تو یقینا تمہارے اندر تقوی پیدا ہوجائے گا۔ قرآن میں لعل کا اعتبار عموما یقین کے معنوں میں ہوا ہے۔ ( المنار) البقرة
22 ف 1۔ السماء سے مراد اس جگہ بادل ہے۔ ابن کثیر ) ف 2 اندادا کا واحد ند ہے جس کے معنی اور شریک کے ہیں یعنی جب تم جب تم جانتے ہو کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا خالق ہے اور نفع ونقصان بھی اس کے قبضہ قدرت میں ہے تو پھر دوسرا کا ہمسر کیوں سمجھتے ہو شرک کے بہت سے شعبے ہیں اور آنحضرت نے اس کا سد باب کرنے کے لیے ہر ایسے قولو فعل سے منع فرمایا ہے جس میں شرک کا شائبہ تک بھی پایا جاتا ہے۔ حدیث میں ہے کہ ایک آدمی نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا ماشاء اللہ وما شئت اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ؛ اجعلتنی للہ ندا کہ تو نے مجھے اللہ کا شریک ٹھہرا دیا ( نسائی ابن ماجہ) حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے شرک بہت خفی ہے، ایک شخص کسی کی جان کی قسم کھاتا ہے یا یہ کہتا ہے کہ فلاں بطخ نہ ہوتی تو گھر میں چور آجاتے وغیرہ کلمات بھی ایک طرح سے ند کے تحت آجاتے ہیں۔ (ابن کثیر ) البقرة
23 ف 3 گزشتہ دو آیتوں میں توحید کی دعوت اور شرک کا رد ہے اب یہاں سے رسالت اور بنوت پر ایمان لانے کی دعوت دی جا رہی ہے اور اس سلسلے میں قرآن کے معار ضہ کی دعوت دی جا رہی ہے اس سے پہلے یہی چیلنچ مکے میں کئی بار دیا جا چکا ہے۔ (دیکھئے سورت یونس رکوع :5 سجفہ ہو ورکوع 2 وغیرہ) البقرة
24 یعنی نہ گز شتہ میں تم سے یہ کام ہوا اور نہ آئندہ میں کبھی ہوسکے گا یہ ایک دوسرا معجزہ ہے چنانچہ آج تک کس نے بھی یہ چینچ قبول کرنے کی جرات نہیں کی۔ (ابن کثیر ) ف 5 حضرت عبد اللہ بن مسعود اور دیگر صحابہ سے مروی ہے کہ یہاں حجارہ سے گندھک کے پتھر مراد ہیں۔ یہی قول ابن عباس کا ہے امام باقر اور دیگر تابعین نے اس سے وہ اصنام اور انداد مراد لیے ہیں جن کی کفار پوجا کرتے تھے۔ (دیکھئے رسورت الا نبیاء آیت 98۔ ابن کثیر فتح القدیر) ف 6 ای قد اعدت۔۔ یعنی متقد یر قد یہ جملہ حالیہ ہے جس نے ثابت ہوتا ہے کہ جہنم اس وقت بھی موجود ہے۔ احادیث سے جنت ودوزخ کا اس وقت موجود ہونا ثابت ہے اہل سنت اور سلف امت کا یہی کے خلاف ہے۔ (ابن کثیر۔ رازی ) البقرة
25 ف 7 کفار کو تہدید کے بعد اب ترغیب دی جا رہے ہے اور قرآن میں عمو ما یہ دونوں مقردن ہیں۔ اس اسلوب بیان کی وجہ سے اسے المثانی کہا جاتا ہے ( ابن کثیر) ایمان کے ساتھ عمل صالح کی تصریح سے مقصد یہ ہے کہ جنت میں جانے کے لیے عمل صالح بھی ضروری ہے۔ کسی عمل کے صالح ہونے کے یہ معنی ہیں کہ خلوص نیت کے ساتھ ہو اور سنت کے مطابق ہو۔ سنت کی مخالفت سے نیک عمل بدعت بن جاتا اور عدم خلوص سے نفاق پیا ہوتا ہے۔ اسی کو دوسرے الفاظ میں اسلام اور احسان سے تعبیر فرمایا ہے۔ (دیکھئے حاشیہ آیت 112) نفاق اور بدعت سے عمل برباد ہوجاتا ہے۔ (ابن کثیر) ف 8 دینا کے میووں کے ہم صورت ہوں گے یا آپس میں ہم شکل ہوں گے حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ جنت کی نعمتوں کے نام تو دنیا والے ہی ہوں گے مگر ان کی حقیقت سے آگاہی ناممکن ہے حدیث میں : مالا عین رات ولا اذن سمعت ولا خطر علی قلب بشر۔ نہ ان کو آمکھ نے دیکھا نہ کان نے سنا اور نہ کبھی کسی انسان کے دل میں ان کا خیال ہی آیا۔ ( ابن کثیر) ف 9 یعنی جنتی عورتیں ہر قسم کی ظاہر اور باطنی آلائشوں سے پاک و صاف ہوں گی۔ (ابن کثیر) ف 10۔ یہاں خلود کے معنی ہمیشگی کے ہیں اور یہی اس حققی معنی ہیں۔ (قرطبی) البقرة
26 ف 1۔ قرآن پاک میں متعدد مقامات پر مدعا کو واضح کرنے کے کے لیے مکڑی اور مکھی وغیرہ کی مثالیں بیان کی گئی ہیں اور ابتدا میں منافقین کی حالت سمجھانے کے لیے ان کے متعلق مثالیں بیان کی ہیں۔ کفار اور منافقین اعتراض کرتے تھے کہ اگر یہ قرآن کتاب الہی ہوتی تو اس قسم کے حقیر جانور وغیرہ کی مثالیں بیان نہ ہوتیں ان آیات میں انہی کے اعتراض کا جواب دیا ہے عھد اللہ سے مراد وہ وصیت بھی ہو سکتی ہے جو انبیاء کی زبانی آسمانی کتابوں میں اپنے اوا مر ونواہی بجا لانے کے لیے کی ہے اور ہوسکتا ہے کہ تورات میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لا نے کا جو عہد اہل کتاب سے لایا گیا ہے وہ مراد ہو۔ البقرة
27 البقرة
28 ف 2۔ تعجب اور انکار کے طور پر فرمایا کہ توحید کے دلائل کی وضاحت کے بعد تمہارا شرک قابل تعجب ہے۔ (بیضاوی) یہاں دو موتوں اور دو زندگیوں کا ذکر ہے۔ انسان پہلے معدوم تھا پھر وجود میں آیا، عدم پہلی موت اور وجود پہلی زندگی ہے دوسری موت یہ معروف موت ہے اور دوسری زندگی آخرت کی زندگی ہے۔ (فتح القدیر) البقرة
29 ف 3۔ یہی معنی اما بخاری نے ابو العالیہ سے اور ابن جریر نے ربیع بن انس رحمہ اللہ سے رایت کیے ہیں۔ یہ یعنی استوی الی السمآء یا استو علی العرش اللہ کی صفت ہے اور صفات الہیہ کے بارے میں سلف تاویل کے قائل نہیں بلکہ ان کو ظاہری معنی پر محمول کرتے ہیں۔ (ترمذی) اس ایت سے معلوم ہوتا ہے کہ زمین آسمان سے پہلے پیدا کی گئی۔ اور یہی بات حم السجدہ کی آیات سے ثابت ہوتی ہے مگر سورۃ اناز عات میں والا رض بعد ذالک دحھا بظاہر اس کے خلاف ہے صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت ابن عباس (رض) سے جب اس کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ تخلیق تو پہلے ہے مگر وحو بعد میں ہے۔ (ابن کثیر) ف 4 حدیث میں ہے کہ دو آسمانوں کے درمیان پانچ سو سال کی مسافت ہے۔ نیز) حدیث میں ہے کہ جس نے ظلم سے کسی کی ایک بالشت زمین پر بھی قبضہ کرلیا قیامت کے دن اس کے گلے میں سات زمینوں کا طوق ڈلا جائے گا۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ زمینیں بھی سات ہیں اور آیت "ومن الارض مثلھن سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ ( ابن کثیر۔ قرطبی) البقرة
30 ف 5۔ اس آیت اور دوسری آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ ملا ئکہ انسان سے الگ اور مستقل ایک مخلوق ہیں اور تدبیر عالم ان کے سپرد ہے۔ اس کا ثبوت بہت سی احادیث سے ملتا ہے حکمائے اشراق بھی ملائکہ کو ایک مستقل نوع مانتے ہیں اس زمانہ کے طبیعین کہتے ہیں کہ ملائکہ کائنات عالم کو قوائے فطر یہ کا نام ہے یہ نظریہ دراصل قدیم علمائے طبیعین کا ہے جن سے آجکل کے تجدد پسند حضرات نے اخذ کیا ہے شیخ بو علی سینا اپنے رسالہ النبوت میں لکھتے ہیں فمن العادہ فی الشر یعتہ تسمتہ القوی اللطیفتہ الغیر المحسو ستہ ملائکتہ۔ شریعت اپنی اصطلاح میں قو سی لطیفہ غیر محسوستہ کو ملا ئکہ سے تعبیر کرلیتی ہے مگر اس نظر یہ کو مان لینے سے ایمان باملائکہ نے حقیقیت ہو کر رہ جاتا ہے۔ ف 6۔ خلیفہ سے مراد جنس آدم بھی ہو سکتی ہے اور انسان کے اللہ تعالیٰ کا خلیفہ (نائب) ہونے کی یہ معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے تفو لض کردہ احکام اس کی مرضی کے مطابق چلائے آدم کے فقہ میں اس کو صیغہ فی الا رض قرار دینے سے اوپر کی آیت خلق لکم مافی الا رض جمیعا پر بھی دلیل قائم ہوگئی /(المنار)۔ اور فرشتوں کا یہ استفسار دریافت حال کے لیے تھا نہ کہ بطور اعتراض یا حسد وبغض کے۔ (فتح البیان) ف 7 جیسا کہ حدیث شفاعت کبری میں آدم (علیہ السلام) کے متعلق تحریر ہے اعلمک اسما کلی شیء ( ابن کثیر) اور یہ تعلیم القاء والہام کے ذریعے تھی۔ (فتح القدیر) البقرة
31 ف 8۔ یعنی اس بات کہ تم میں اصلاح و انتظام کی صلاحیت ہے اور خلافت ارضی کا کام سنبھا سکتے ہو۔ البقرة
32 ف 8 سبحانک۔ کہ کلمہ تنز یہیہ ہے یعنی تیری ذات ہر قسم کے نقائص سے پاک ہے اس میں فرشتوں نے اپنی عاجزی اور نادانی کا اعتراف کیا ہے اور اللہ تعالیٰ کے لیے کمال علم وحکمت کا اعتراف۔ (ابن کثیر) البقرة
33 ف 1۔ اس سے معلوم ہوا کہ فرشتوں کا علم جزوی حثیت کا ہے اور وہ باوجود مقرب ہونے کے علم غیب نہیں رکھتے۔ حدیث عائشہ (رض) میں ہے کہ جو شخص یہ گمان کرے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کل کی بات جانتے ہیں تو اس نے اللہ تعالیٰ پر بہت بڑا بہتان باندھا۔ (صحیح مسلم) پھر نجومیوں اور کا ہنوں کے متعلق یہ اعتقاد کہ وہ غیب کی باتیں جانتے ہیں صریح نادانی اور جہالت ہے۔ (وحیدی) اور کوئی غیب کی بات پوچھنے کے لیے کاہن یا نجومی کے پاس جا نا اور اس کی تصدیق کرنا کفر ہے۔ (قرطبی۔ ابن کثیر) ف 2۔ علم کے ذریعہ آدم (علیہ السلام) کی فضیلت ظاہر کرنے کے بعد اب فرشتوں پر اسے دوسرے اشرف یہ بخشا کہ ان کو آدم کو سامنے سجدہ کا حکم دیا۔ اس سجدہ سے مراد محض تسخیر نہیں ہے بلکہ اپنی ہبیت کے ساتھ ہے علما نے بیان کیا ہے کہ یہ سجدہ تعظیمی تھا جو پہلی امتوں میں جائز چلا آرہا تھا اسلام نے سے ممنوع اور حرام قرار دیا ہے۔ ورنہ سجدہ عبادت تو غیر اللہ کے لیے شرک ہے اللہ تعالیٰ اس کا حکم فرشتوں کو کیسے دے سکتے تھے اور صحابہ کرام نے آنحضرت سے اجازت مانگی کہ ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سجدہ کرلیا کریں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اگر میں کسی بشر کو دوسرے بشر کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو سب سے پہلے عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے۔ ( قرطبی۔ فتح القدیر) مگر افسوس ہے جاہل صوفی اور عوام جب مشائخ کی خدمت میں حاضری دیتے ہیں تو ان کو سجدہ انہوں نے اپنا شعار بنا لیا ہے۔ البقرة
34 ف 3۔ ابلیس کے متعلق اکثر علماء کا خیال یہ ہے کہ وہ فرشتوں میں سے تھا۔ ابن جریر نے اسی کو ترجیح دی ہے۔ قرطبی اور آیت کان من الجن۔ (الکہف :5) کا جواب یہ دیا ہے کہ قرآن میں لفظ جن کا اطلاق فرشتوں پر بھی ہوا ہے۔ (اصافات :158) بعض نے لکھا ہے کہ اصل میں تو ابلیس جنوں میں سے تھا مگر بوجہ کثرت عبادت کے فرشتوں میں شمار ہونے لگا تھا اور اس کا نام عزازیل تھا پھر بعد میں نافرمانی کی وجہ سے ابلیس کے نام سے موسوم کردیا گیا جس کے معنی ناامید کے ہیں۔ (قرطبی۔ وحیدی) اور کان من الکا فرین کے معنی یہ ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے علم ازلی میں پہلے سے کافر تھا۔ (المنار ) البقرة
35 ف 4۔ اس آیت میں آدم (علیہ السلام) کی تیسری فضیلت کا بیان ہے کہ فرشتوں سے سجدہ کر وانے کے بعد انہیں جنت میں سکونت کی اجازت دی بعض نے اس جنت سے زمین پر کوئی باغ مراد لیا ہے مگر صحیح یہ ہے یہ جنت آسمان پر تھی پھر جس درخت کے قریب جا نے سے آدم کو منع فرمایا ہے اس کی تعبین میں اختلاف ہے حافظ ابن کثیر مختلف اقوال نقل کرنے بعد لکھتے ہیں قرآن نے اس کے نام یا خاصیت کی کوئی تصریح نہیں فرمائی اور نہ کسی حدیث سے اس کی تعیین ہوتی ہے پھر نہ اس کے جاننے میں کوئی علمی یا اعتقادی فائدہ پہناں ہے اور نہ اس کے نہ جاننے میں کوئی ضرور ہے لہذا بہتر یہ ہے کہ اس کی تعبین سے احتراز کیا جائے یہی رائے حافظ ابن القیم اور امام رازی کی ہے اور اکثر سنف امت کا بھی یہی قول ہے، عصمت انبیاء کے لیے دیکھئے سورت ص اور حوا کی پیدائش کے لیے نساء اور اعراف) البقرة
36 ف 5۔ شیطان اس روغلانے کا سورت اعراف آیت :2) میں ذکر کیا ہے اس نے کچھ قسمیں کھا کر آدم اور حوا (علیہ السلام) کے دل میں وسوسہ پیدا کردیا اور الی حین کے معنی تاقیا مت کے ہے بعض علمانے یہاں شیطان کے جنت میں چلے جانے کے متعلق ایک عجیب وغریب قصہ نقل کیا ہے جو اسراتیلیات سے ماخوذ ہے۔ (ابن کثیر) البقرة
37 ف 6۔ یہ کلمات وہی ہی جن کا ذکر سورۃ اعراف (آیت :23) میں ہے یعنی ربنا ظلمنا بعض تابعین نے کچھ ادعیہ ماثورہ بھی نقل کی ہیں اور ثلقی کے معنی بذریعہ وحی یا الہام اخذ کرلینے کے ہیں۔ ف 7۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے آدم کی تو بہ قبول فرمائی۔ خالص توبہ کے لیے تین امور شرط ہیں علم، حال اور عمل، گناہ کے ضرر کے احساس کو علم کہا جاتا ہے اور اس احساس کے بعد دل میں نو ندامت پیدا ہوتی ہے اسے حال کہتے ہیں اور آئندہ گناہ نہ کرنے کا عزم کہلا تا ہے اس جملہ معلوم ہو کہ گناہ کے اثرات لازمی اور طبعی نہیں جن کی لا محلا لہ سزا مل کر رہے گی کسی چیز کے مؤثر ہونے کا مدار اللہ تعالیٰ کے اختیار اور مشیت پر ہے۔ انسان کے تو بہ کرنے سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے گناہ کے اثر کو ختم کردیا ہے جاتا ہے، (رازی) البقرة
38 ف 8۔ تو نہ کی قبولیت کے بعد اس جملہ کا اعاد اس غرض سے ہے کہ اب تم زمین پر ہی رہو اب تمہیں نبوت سے سرفراز کیا جاتا ہے اصل میں اس کا تعلق پہلے اھبطوا کے ساتھ ہے دوبارہ ھبطوا کا جملہ لاکر اس ربط کی طرف اشارہ کردیا ہے۔ ف 9۔ مخاطب تو آدم (علیہ السلام) اور ان کی زوجہ ہیں مگر مراد انکی ذریت سے یعنی تمہارے پاس میری طرف سے انبیاء ورسل وحی کی ہدایت لے کر آتے رہیں گے۔ (ابن کثیر) ہدایت کا یہ سلسلہ آدم (علیہ السلام) سے شروع ہو کر محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ختم ہوگیا۔ انحضرت اللہ تعالیٰ کے آخری نبی اور قرآن مجید آخری کتاب ہدایت ہے۔ تاریخ بخاری اور مستدرک حاکم میں ہے کہ انبیاء کی کل تعداد ایک لا کگ چو بیس ہزار ہے جن میں سے تین سو پندرہ نبی مرسل ہیں۔ (قرطبی) آج ہمارے پاس ہدایت الہی کے دو نوشتے ہیں یعنی کتاب وسنت۔ ان کے ساتھ منسلک سے ہی ہم ضلا لت سے بچ سکتے ہیں۔ ف 10۔ حزن وہ افسوس جو مافات اور خوف آئندہ متوقع خطرے سے مقصدیہ ہے کہ متعین ہدایت آخرت میں تو دنیا کی زندگی پر افسوس کریں گے جیسا کہ کہ کفار کو افسوس ہوگا ( الانعام :27) اور قیامت کے احوال وشدا انہیں کو اندیشہ نہ ہوگا (النل :79 الا نبیاء :3) البقرة
39 ف 1۔ یا یھا الناس سے لیے کر یہاں تک عمومی انعامات کا ذکر فرمائے ہیں اب خاص کر ان انعامات کا بیان ہے جو نبی اسرا ئیل پر کئے۔ (ابن کثیر۔ شوکانی) اسرائیل حضرت یعقوب (علیہ السلام) کا دوسرا زمانہ یا لقب ہے جس کے معنی ہیں اللہ کا بندہ یا بر گزیدہ۔ بایں وجہ ان کی اولاد کی بنی اسرائیل کہا جاتا ہے بنی اسرائیل میں پہلے پیغمبر یوسف (علیہ السلام) اور آخرت پیغمبر عیسیٰ (علیہ السلام) ہیں۔ (قرطبی) یہاں سے لے کر ایک سو سنتالیس آیا تک دس انعامات دس قبائح اور دس سزاؤں کا ذکر ہے جو ان کی بد کر داریوں کی وجہ سے ان کو دی گئیں۔ (صفوہ) البقرة
40 ف 2 بعض نے عہد اول سے خاص کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اتباع کا عہد مراد لیا ہے مگر عموم پر محمول کرنا بہتر ہے۔ (قرطبی) بنی اسرا ئیل کی طرح متعدد آیات میں امت محمدی سے بھی ایفائے عہد کا تقاضا کیا گیا ہے۔ البقرة
41 ف 3۔ یعنی طلب دنیا کے لیے احکام الہی میں تبدل وتغیر نہ کرو، حسن بصری فرماتے ہیں آیات الہی کے بدلہ میں ساری دنیا بھی مل جائے تو متاع قلیل ہی ہے۔ ابن کثیر) اور ہر وہ شخص جو رشوت لے کر غلط فتوے دیتا ہے وہ بھی اس میں داخل ہے۔ (فتح البیان) اور اول کافر ہونے سے مرا یہ ہے کہ دیدہ ودانستہ پہلے کافر نہ ہو مشرکین مکہ نے جو اس سے پہلے کفر کیا تھا وہ ازر جہل تھا دانستہ نہ تھا لہذا اشکال لازم نہیں آتا (بیضاوی) البقرة
42 البقرة
43 ف 4۔ یعنی نماز باجماعت ادا کرو بعض علمانے اس آیت سے نماز باجماعت کا وجوب ثابت کیا ہے مگر صحیح یہ ہے کہ سنت مؤکدہ ہے۔ اور اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ فتح القدیر ) البقرة
44 ف 5۔ یاتم اپنے آپ کو کیوں نہیں روکتے قتادہ کہتے ہیں اللہ تعالیٰ نے یہودی علماء کے اس طرز عمل پر عاردلائی ہے جو دوسروں کے سامنے اسلامن کی تعریف کرتے اور خود اسلام قبول نہ کرتے تھے اس سے یہ نہیں سمجھنا چا ہیئے کہ جو شخص خود عمل پیرا نہ ہو وہ دسرو کو بھی منع نہ کرے کیونکہ یہود کر زجر ان کے امربا لمعروف پر نہیں ہے بلکہ ترک عمل پر ہے زیادہ سزا ملے گی۔ حدیث میں ہے قیاتم کے روز ایک شخص کو دوزخ میں ڈالا جائے گا اس کی انتڑیاں نکل کر ڈھیر ہوجائیں گی اور وہ شخص آگ میں ان کے گرد یوں کھومے گا جیسے گدھا چکی کے گرد گھومتا ہے لوگ اس سے دریافت کریں گے کیا تم ہم کو نیکی کا حکم نہیں دیتے تھے اور برائی سے منع نہیں کرتے تھے وہ جواب دے گا بیشک مگر میں خود عمل نہیں کرتا تھا۔ (ابن کثیر) البقرة
45 ف 6۔ یعنی مصائب کے برداشت کرنے میں ان دوچیزوں کا سہا را لو۔ حدیث میں ہے کہ جب کوئی ناگہ حاد ثہ پیش آتا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز کی طرف لپکتے اور مزید مروی ہے تمام انبیاء کی یہی عادت تھی۔ (فتح القدیر) اللہ تعالیٰ کی طاعت پر صبر معصیت سے بچنے پر صبر۔ البقرة
46 (فتح القدیر) نماز کی پابندی ویسے تو ایک نہایت مشکل ذمہ داری ہے مگر جن کے دو لوں میں اللہ تعالیٰ کا خوف اور آخرت کا یقین ہے ان پر یہ بھا ری نہیں ہے۔ (وحیدی ) البقرة
47 ف 8۔ اوپر آیت 40، میں اجمالی طور پر بنی اسرائیل کو اپنے احسانات یاد دلائے اب تفصیل کے ساتھ ان کا بیان شروع کرنے کے لیے دوبارہ خطاب کیا ہے اور وعظ کا یہ انداز نہایت ملبوغ اور مؤثر ہوتا ہے (اللنار) نیز ان کو توجہ دلائی ہے کہ نبی آخرالزمان کی مخا لفت اور دوسری بیہود گیوں سے باز آجاؤ سارے جہان کے لوگوں پر بزرگی دی یعنی اس دور کے لوگوں پر اور بنی اسرائیل کی یہ فضیلت توحید کا داعی ہونے کی وجہ سے تھی اور امت محمد یہ سے پہلے یہ مرتبہ بنی اسرائیل کے سوا کسی دوسری قوم کو حاصل نہیں ہوا آنحضرت صلی اللہ علیہ ووسلم کی بعثت کے بعد کنتم خیر امتہ فرماکر امت محمدیہ کو فضیلت عنا یت کردی (وحیدی) بنی اسرائیل پر جو انعامات کئے اردوسروں پر ان کو جو فضیلت اور امتیاز حاصل ہوا بعد کی آیات میں اسی اجمالی کی تفصیل ہے۔ البقرة
48 ف 1۔ تذکیر نعمت کے بعد ان کو قیامت کے عذاب سے ڈرا یا۔ ( ابن کثیر) بنی اسرائیل میں فساد کی اصل وجہ یہ تھی کہ وہ اپنے انبیاء اوعلماء پر نازاں تھے اور سمجھتے تھے کہ ہم خواہ کتنے گناہ کرلیں ہمارے بزرگ اور آباء واجداد ہمیں بخشو الیں گے ان کے اس زعم باطل کی یہاں تردید کی ہے یہ مسئلہ اپنی جگہ پر محقق ہے کہ آخرت میں اللہ تعالیٰ کی رضا اراذن کے بعد ہی شفا عت ہوگی کہ گنہگار موحدین کو شفاعت کے ذریعہ جہنم سے نکا لا جائے گا۔ (قرطبی ) البقرة
49 ف 2۔ فرعون اس زمانہ میں مصر کے بادشاہ کا لقب ہوتا تھا موسیٰ علی السلام کے زمانے میں جو فرعون مصر تھا اس کے نام میں اختلاف ہے تفا سیر میں عموم ولید مصعب مذکور ہے اور آل فر عون سے اس کے اتباع اور ہم مذہب لوگ مراد ہیں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی پیدا ئش سے قبل فرعون نے ایک خواب دیکھا کہ بیت المقدس سے ایک آگ نکلی ہے جس نے مصر کا احاطہ کرلیا ہے اور تمام قبطی اس لئے لپیٹ میں آگئے ہیں صرف بنی اسرا ئیل میں ایک لڑکا پیدا ہوگا جو تیری سلطنت اور تیرے دین کو تباہ کر دے گا اس پر فرعون نے حکم دیا کہ بنی اسرائیل کے ہاں جو لڑکا پیدا ہو اسے مار ڈالا جائے اور جو لڑکی پیدا ہو اسے زندہ رہنے دیا جائے چنانچہ منصوبے کے تحت ہزار ہا بچے موت کے گھاٹ اتاردیے گئے مگر اللہ تعالیٰ کے ارادہ کو کون روک سکتا تھا۔ اسی ہنگامئہ کشت و خون میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پیدا ہوئے۔ فرعون کے گھر میں ان کی نشو منا کرائی اور انہی کے ہاتھوں آخرت کار فرعون اور اس کی حکومت تباہ ہوگئی یہاں پر بلاء سے مراد انعام و احسان ہے یا مصیبت وآزمائش۔ (ابن کثیر ) البقرة
50 ف 3) بآلا خر فرعون کے مظالم برداشت کرنے کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) ایک رات بنی اسرائیل کو مصر سے روانہ ہوگئے اور راستہ بھو لنے کی وجہ سے صبح کے قریب مصر سے مشرق کی طرف بحر قلزم کے شمالی تنگنائے پر پہنچ گئے۔ اب دائیں بائیں پہاڑ یاں تھیں اور پیچھے سے فرعون کا لشکر تعاقب میں تھا اللہ تعالیٰ کے حکم سے سمندر کا پانی سمٹ کر دونوں جانب پہاڑوں کی طرح کھڑا ہوگیا اور درمیان میں راستہ بن گیا۔ اسرائیلی سمندر پار کر گئے ان کے تعاقب میں فوعونی بھی سمندر میں داخل ہوگئے اتنے میں سمندر کا پانی حسب معمول آگیا اور فرعون اپنے لاؤ لشکر سمیت غرق ہوگیا مفصل دیکھئے ( سورۃ شعرا رکوع :4) یہ واقعہ عاشورہ کے دن پیش آیا صحیحین کی ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ تشریف لائے تو آپ نے دیکھا کہ یہود عاشورہ کے دن کا روزہ کھتے ہیں۔ دریافت کرنے پر انہوں نے جواب دیا کہ ایک مبارک دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن سے نجات دلائی تھی اس لیے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس دن کا روزہ کھا تھا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا موسیٰ سے ہمیں خصیت حاصل ہے چنانچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نے خود بھی روزہ کھا اور صحابہ کو بھی حکم دیا، (ابن کثیر ) البقرة
51 ف 4 فرعون سے نجات پانے کے بعد جب اسرائیل جزیرہ نمائے سینا میں پہنچے تو اب ان کے پاس کوئی کتاب نہ تھی چنانچہ اللہ تعالیٰ موسیٰ (علیہ السلام) کو چالیس دن رات کے لیے کوہ طور پر بلایا تاکہ انہیں تورات عطا کردی جائے بعد میں بنی اسرا ئیل نے ایک بچھڑے کی پوجا شروع کردی اسی بنا پر یہاں ان کو ظالم قرار دیا ہے کہ وہ صریح طور پر شرک کے مر تکب ہوئے تھے اور شرک سے بڑھ کر اور کو نسا ظلم ہوسکتا ہے۔ البقرة
52 البقرة
53 ف 5 الکتاب سے مراد وہ قوت ہے جو حق وباطل میں امتیاز کے لیے موسیٰ (علیہ السلام) کو عطا ہوئی تھی اگر واؤ کو زائدہ مان لیا جائے تو دونوں سے تورات مراد ہوگی اس میں چونکہ حلال و حرام کے مسائل نہایت تفصیل سے بیان کئے گئے ہیں اس لیے اسے الفرقان کہا ہے۔ ( قرطبی۔ خازن ) البقرة
54 ف 6۔ حضرت ابن عباس (رض) کے قول کے مطابق اس کی صورت یہ تھی کہ جن لوگوں نے بچھڑے کی پر ستش نہیں کی وہ ان کو قتل کریں جو اس جرم کے مر تکب ہوئے ہیں چنانچہ اس پر عمل شروع ہونے پر اللہ تعالیٰ نے ان کو معاف فرمادیا۔ اوپر آیت 52، میں جس عفو کی خبر دی گئی ہے وہ اس قتل کے بعد کا ہے۔ ( رازی۔ قرطبی) ارتد اد کی سزا قتل ہے حدیث میں من بد لا دینہ فاقتلوہ کو جو شخص مرتد ہوجائے اسے قتل کردو۔ (ابو دوؤد) جب مو دی (علیہ السلام) مع ستر آدمیوں کے تورات لے کر پلٹے تو انہوں نے کہا کہ ہم تمہارے کہنے یہ باور نہیں کریینگے کہ اللہ تعالیٰ تم سے ہم کلام ہوئے ہیں جب تک ہم خود اپنی خود اپنی آنکھ سے اللہ تعالیٰ کو نہ دیکھ لیں اس پر وہ رجفتہ ( زلزلہ) اور بجلی کی کڑک سے بیہوش ہو کر مرگئے بھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا دے دو بارہ زندہ ہوئے۔ (ابن کثیر۔ فتح البیان) یہاں موت کی تفسیر نے ہوش سے کرنا تفیسر سلف کے خلاف ہے۔ (سلفیہ) البقرة
55 البقرة
56 البقرة
57 ف 1۔ جزیرہ نمائے سینا میں ان کے غذا کے ذخیرے ختم ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے ان پر خاص قسم کے بادل سے سایہ کیا اور کھانے کے لیے من و سلوی اتارا۔ دھنیے کے دانوں جیسی میٹھی چیز تھی جوان پو اوس کی مانند رات کے وقت گرتی اور لشکر کے گرد ڈھیر لگ جاتے مفسرین نے لکھا ہے ایک قسم کا گوند تھا جو نہا یت شریں اور لذیذ تھا۔ اور سلوی بٹیر کی طرح ایک پرند تھا جو شام کے وقت لشکر کے گرد ہزاروں کی تعداد میں جمع ہوجاتا اور بنی اسرائیل انہیں پکڑ کھا لیتے ہیں ابن کثیر، قرطبی) البقرة
58 ف 2۔ یہ آٹھو اں انعام ہے سابقہ انعامات کا تعلق دنیوی زندگی سے تھا اور اس تعلق دینی زند گی سے ہے۔ اس میں مقام تیہ کی شدتوں سے نجات اور گناہوں کو نجشش کا طریقہ بتلا یا ہے۔ ( کبیر) اس شہر مراد ہے اس بارے میں علمائے تفسیر نے مختلف اقوال نقل کیے ہیں بعض نے کہا ہے کہ اس سے اریحا شہر مرا اد ہے مگر یہ قیاس ہے کیونکہ اسرائیل اس وقت بیت المقدس جارہے تھے اور یہ راستے پر نہیں ہے۔ اور بعض نے مصر فرعون ہی ماد لے لیا جو پہلے قول سے بھی زیادہ مستبعد ہے لیکن زیادہ صحیح قول جسے اکثر مفسرین نے اختیار کیا ہے یہ ہے کہ اس سے بیت المقدس کا شہر ہی مراد ہے جیسا کہ سورت مائدہ میں ہے ( اے میر قوم اس قوم اس مقدس سر زمین میں چلے جاؤ جسے اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے ( ابن کثیر) یہاں پر یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ بیت المقدس تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی زندگی میں فتح ہی نہیں ہوسکا حالانکہ فبدل کی فاء سے معلوم ہوتا ہے کہ اس حکم کے بعد وہ فورا شہر میں چلے گئے۔ امام رازی نے اس اشکال کا حل پیش کیا ہے کہ ضروری نہیں کہ یہ حکم موسیٰ (علیہ السلام) کی زبان پر دیا گیا ہو بلکہ عین ممکن ہے کہ حضرت یو شع (علیہ السلام) کے دور نبوت میں یہ حکم ملا ہوجیسا کہ واقعات سے اس کی تائید ہوتی ہے تو مطلب یہ ہے کہ چالیس سال کی صحرا نو ردی کے بعد حضرت یو شع کے عہد نبوت میں جب بیت المقدس فتھ ہو اتو ہم نے ان کے حکم دیا کہ اس فتح کی شکر گزاری میں اللہ تعالیٰ کے عاجز بندوں کی طرح سجدہ ریز ہو کر اپنے گنا ہوں کی بخشش مانگتے ہوئے شہر میں داخل ہونا۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں یہ حکم ویسے ہی تھا جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو سورت نصر میں فتح پر تسبیح واستغفار کا حکم دیا گیا ہے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ میں داخل ہونے کے بعد نماز فتح ( آٹھ رکعات) ادا کی ہے حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ وہ دروازہ جس سے شہر میں داخل ہوئے یعنی گنا ہوں کی بخشش کے علاوہ مزید درجات حاصل ہوں گے احسان کے معنی اخلاص عمل کے ہیں حدیث میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے احسان کی حیقیقت کے متعلق سوال کیا گیا۔ جس کے جواب میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ان نعبد اللہ کانک تراہ فان لم تکن تراہ نانہ یراک کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرو گو یا تم اسے دیکھ رہے ہو ورنہ یہ سمجھ کر کہ عبادت کرو کہ وہ ضرور تمہیں دیکھ رہا ہے۔ البقرة
59 ف 3۔ مگر ان ظالموں نے اللہ کے اس حکم کا مذاق اڑایا اور حطتہ کی ب جائے حنطتہ فی شھرہ ( یعنی گندم بالی میں) کہتے ہوئے ب جائے نیازیی مندی اور سجدہ ریز ہونے کے اپنے سرینوں کو زمین پر گھسیٹتے ہوئے داضل ہوئے۔ بتایئے کہ اس سے بڑھ کر عناد اور حکم الہی کی مخالفت اور کہا ہو سکتی تھی اس عظیم نافرمانی کو قرآن نے فسق سے تعبیر فرمایا ہے جس کے معنی طاعت حدود کلیتہ نکل جانے کے ہیں اس بنا پر ان کو ظالم قرار دیا اور ان کے اس ظلم کی سزا میں ان پر طاعون کا عذاب نازل فرمایا ہے رجز کے معنی گو مطلق عذاب کے ہیں مگر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ طاعون " مراد ہے سنن نسائی میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا الطا عون رجز عذابہ من قبلکم کہ طاعون بھی رجز یعنی عذاب ہے جو تم سے پہلی قوموں پر نازل کیا گیا تھا بعض نے اس کی تفسیر عضب الہی سے کی ہے جو پہلے قول کے منا فی نہیں ہے۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ یہ قصہ سورۃ المائدہ میں بھی مذکور ہے مگر وہ سورۃ چونکہ مکی ہے اس لیے ضمیر غائب سے ان کو ذکر کیا ہے اور یہ سورۃ مد نیے اور مدنیہ میں یہود سامنے تھے اس لیے ضمیر مخاطب لائی گئی ہے۔ الغرض ان دونوں قصوں ( بقرہ اور مائدہ) کے مابین با عتبار سیاق دس وجوہ سے فرق پایا جاتا ہے جن میں سے بعض کا تعلق الفاظ سے ہے اور بعض کا معنی ہے علامہ مخشری نے ان کی خوب وضاحت کی ہے اور اس سیاق میں بعید کی آیت بھی شامل ہے مگر اما رازی نے پہلی دو آیتوں کے تحت سوال وجواب کے رنگ میں ان وجوہ عشرہ کو بیان فرمایا ہے واللہ اعلم۔ البقرة
60 ف 4۔ بارہ چشمے اس لیے کہ بنی اسرائیل کے بھی کل بارہ اسبا ط (قبیلے) تھے اللہ تعالیٰ نے ہر قبیلہ کے لے الگ چشمہ نکال دیا جزیرہ نمائے سینا میں اب بھی ایک چٹان پائی جاتی ہے جس پر چشموں کے شگاف ہیں اور سیاح اسے دیکھنے آتے ہیں اور جس مقام پر یہ چٹان موجود ہے وہ عیون موسیٰ کے نام سے مشہور ہے جس پتھر پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) عصا ماتے تھے اس کے متعلق مفسرین عجیب و غریب حکایات نقل کی ہیں کہ وہ پتھر کس شکل کا تھا اور کہاں سے لایا گیا تھا مگر صحیح یہ ہے وہ کوئی سمعین پتھر نہ تھا بلکہ بوقت ضرورت جس پتھر پر بھی عصا مارتے تو اس سے چشمے جاری ہوجاتے حسن بصری سے یہی منقول ہے وھذا اظھر فی المعجز ہ ابین فی القد رہ۔ ( ابن کثیر) البقرة
61 ف 1 من اور سلوی دونوں کی طعام واحد ایک کھانا قرار دینا اس بنا پر ہے کہ روزانہ یہی کھاتے اور اس میں کوئی تبدیلی نہ ہوتی یہ ان پر اللہ تعالیٰ نعمت تھی مگر ان بد بختوں نے اس نعمت کی قدر نہ کی اران سے کمتری چیزوں کا مطالبہ کرنے لگے حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ وہ مصر میں جس قسم کی چیزوں کے عادی تھے وہی طلب کرنے لگے۔ (ابن کثیر) ف 2 یہ اں مصرا کا لفظ متصرف اور تنوین کے ساتھ ہے کیونکہ مصاحف عثمانیہ کے رسم الخط میں الف موجود ہے لہذا اس سے مراد کوئی ایک شہر ہے حضرت ابن عباس (رض) نے اس کی یہی تفسیر کی ہے بعض نے مصر فرعون مراد لیا ہے۔ (ابن کثیر) ف 3 عضب بھی اللہ تعالیٰ کی صفت ہے۔ بعض علماء نے اس کی تاویل کی ہے اور اس سے ارادہ عقوبت یا نفس عقوبت مراد لی ہے (قرطبی) مگر سلف صالح کا اس پر اتفاق ہے کہ صفات الہی کو بلا تاویل ماننا صروری ہے۔ ( جامع البیان) ف 4 حدیث میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اشد الناس عذابا یوم القیامتہ رجل قتلہ نبی اوقتل نبیا کہ قیامت کے دن سب سے زیادہ عذاب اس شخص کو ہوگا جسے نبی قتل کر ڈالے یا وہ نبی کو قتل کر ڈالے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بد بخت لوگ ایسے بھی ہیں جن کے ہاتھ سے نبی قتل ہوسکتا ہے۔ ف 5 یہود اپنی نافرمانی اور سر کشی میں اس حدی تک بڑھ گئے تھے کہ وہ آیات الہی کے انکار اور انبیاء کے قتل سے بھی باز نہ رہے احکام الہی کو سمجھنے کے با وجود بدل ڈالتے اور انبیاء کے قتل کے بارے میں حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ وہ روزانہ بہت سے انبیاء کو قتل کر ڈالتے۔ جن انبیاء کو انہوں نے قتل کیا ان میں شعیا، زکریا، اور یحیی جیسے جلیل القدر انبیاء تک شامل ہیں۔ (ابن کثیر) اس کی سزا اللہ تعالیٰ نے انہیں یہ دی کہ ان پر ذلت اور مسکنت مسلط کردی وہ جہاں کہیں رہے۔ دوسروں کے غلام بن کر رہے اور بعض اوقات انتہائی مال دار ہونے کو باوجود انہوں نے ذلیل و خوار ہو کر زند گی بسر کی اگر کبھی دنیا میں انہیں امن چین نصیب ہوا بھی اور ان کی برائے نام حکومت قائم ہوئی تو اپنے بل پوتے پر نہیں بلکہ دوسروں کے سہارے پر۔ البقرة
62 ف 6 اس آیت میں یہود کی عصبیت گردہی کی تردید مقصود ہے، وہ سمجھتے تھے کہ بس اللہ تعالیٰ کو خوشنودی اور نجات ہمارے لیے مخصوص ہے۔ یہا ‏ ‏ں پر قرآن نے نجات کا مدار ایمان باللہ عمل صالح اور ایمان بالا خرہ پر ہے۔ اللہ تعالیٰ پر ایمان وہی معتبر ہوسکتا ہے جو انبیاء کے ذریعہ ہو۔ اور عمل صالح کی تعین بھی انبیاء ہی کرسکتے ہیں اور آخرت پر ایمان کے لیے بھی انبیاء کی رہنمائی کی اشد ضرورت ہے۔ قرآن کا منشا یہ ہے کہ اپنے اپنے وقت کے انبیاء کی ہدا یت کے تحت جو بھی اللہ تعالیٰ اور آخرت پر ایمان لائے گا اور اس وقت کے نبی کی شریعت کے مطابق اس نے عمل صالح بھی کیے ہوں گے اسے آخرت میں فلاح حاصل ہوجائے گی اس میں مسلمان یہود اور صابی سب برابر ہیں پھر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے بعد ان مذکورہ انبیاء کے علاوہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانا بھی شرط نجات ہے کیونکہ آپ کی آمد سے شرئع سابقہ منسوخ ہوگئی ہیں الصابی یہ صبا یصبو سے مشتق ہے جس کے اصل معنی کسی طرف دل سے مائل ہوجا نے کے ہیں۔ اہل علم کا کہنا ہے کہ صانی ہر وہ شخص ہے جو ایک دین کو چھوڑ کر دوسرادین اختیار کرلے اس بنا پر کفار عرب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صابی کہہ کر پکار تے کیونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آبائی دین کو چھوڑ کر ایک نئے دین کا اعلان کیا تھا۔ یہ لفظ حنیف کے با لمقابل ہے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے قبل سب لوگ صابی دین کے حامل چلے آرہے تھے۔ یہ قوم حضرت شیث کے صحائف کے متبع تھی مگر تدریجا ان میں شرک سرایت کر گیا اور کواکب سبع کی پو جا کرنے لگے یہ اپنے عقیدہ کے مطابق جملہ حوادث کو کو اکب کی طرف منسوب کرتے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی بعشت کے وقت کلدانی یہ عقیدہ رکھتے تھے اور بابل شہر ان کا مرکز تھا حضرت ابراہیم نے ہر قسم کو کو اکب اور بت پرستی سے برا ءت کا اظہار کر کے ان کے با لمقابل حنیفیت کی بنیاد رکھی۔ پھر تدریجا یہ لوگ نصاری میں شامل ہوگئے یہ لوگ اپنے مذہب کا نہا یت درجہ اخفا کرتے ہیں۔ شعیہ اسما عیلیہ نے کتمان مذہب انہی سے اخذ کیا ہے۔ اور ان کی دعوت کا منتہی بھی صابئین ہیں۔ ان کے اہل کتاب ہونے میں صحابہ وتابعین کے مختلف آثار ہیں۔ تفصیل کے لے دیکھئے جصاص الفہر ست الا بن ندیم الملل ولنحل ) البقرة
63 ف 7 یہ دسویں نعمت کا ذکر ہے کیونکہ اخذ میثاق بھی ان لوگوں کی مصلحت کے لیے تھا ( کبیر) جب تو رات نازل ہوئی تو اسرائیل شرارت سے کہنے لگے کہ اتنے احکام کی پیروی ہم سے نہ ہو سکے گی۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے ایک پہاڑ کو حکم دیا جو ان کے سروں پر چھتری کی طرح چھا گیا۔ آخر کار اسرائیل نے کوئی چارہ کار نہ دیکھ کر احکام کی پیروی کا اقرار کیا۔ البقرة
64 البقرة
65 ف 1 بنی اسرائیل پر انعامات ذکر کرنے کے بعداب یہاں بعض تشدید کا بیان شروع ہو رہا ہے مفصل سورۃ عمران میں ہے کہ ہفتہ کے دن ان کو شکار کی ممانعت تھی مگر اس ممانعت کے باوجود انہوں نے فریب اور حیلہ سازی سے شکار کرنا شروع کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس جرم کی سزا میں ان کی شکلیں مسخ کر کے بندروں جیسی بنا دیں۔ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ مسخ شدہ قوم تین دن کے بعد زندہ نہیں رہتی۔ (قرطبہ) ایک صحیح حدیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے جو صحیح مسلم (کتاب القدر) میں حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) سے مروی ہے بخاری میں جو بندروں کے رجم کا واقعہ ہے اول تو یہ کہ عمرو بن میمون تابعی نے ایک جاہلی واقعہ بیان کیا ہے حدیث نہیں ہے اور اس میں میں بہت سے احتمالات ہو سکتے ہیں اور پھر بخاری کے اکثر نسخوں میں یہ واقعہ مذکور بھی نہیں ہے اس بنا پر یہ قابل اعتراض نہیں ہوسکتا۔ (قرطبی) اس آیت میں امت محمدیہ کو بھی تنبیہ ہے کہ مبادا تم بھی یہود کی روش اختیار کو لو اؤ تم پر اللہ تعالیٰ کا عذاب آجائے گا حدیث میں ہے کہ یہود کی طرح ادمی ترین حیلوں سے اللہ تعالیٰ کے محارم کو حلال بنانے کی کو شش نہ کرنا۔ ابن کثیر بحوالہ ابن ماجہ) مغرب کے یہود اور عیسائیوں کے ہاں سے علم اور ضرورت کے نام سے بعض مسئلے آتے ہیں تو مسلمانوں کو مرعوب ذہن ارتقائی ضرورتوں کی آڑ میں قرآن و حدیث سے ان کے جواز پر دلائل کشید کرنا شروع کردیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسلام کو ایسے نادان دوستوں سے محفوظ رکھے (م، ع) البقرة
66 البقرة
67 ف 2 جیسا کہ آیت :72 میں آرہا ہے نبی اسرائیل میں یاک شخص قتل ہوگیا اور وہ ایک دوسرے پر الزام دھر نے لگے اس آیت میں جو اللہ تعالیٰ نے بنی اسرا ئیل کو کا گائے زبح کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس کی وجہ قدیم مفسرین یہی بیان کی ہے کہ اس طرح قاتل کو نشانی دہی کی جائے حاصل قصہ یہ ہے کہ بنی اسرائیل میں ایک مالدار شخص کو اس کے بھتیجے نے قتل کردیا تاکہ اس کا وارث بن جائے، پھر رات کو لاش کو اٹھا کر دوسرے شخص کے دروازے پر ڈال دی اور صبح کے وقت ان پر خو نبہا کا دعوی کردیا۔ اس پر لوگ لڑائی کے لیے تیار ہوگئے بآلا خر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے حکم دیا حافظ ابن کثیر یہ واقعہ کی جملہ تفصیلات اسرائیلیات سے ما خوذ ہیں اور ان پر کلی اعتماد نہیں کیا جاسکتا ابن کثیر ) البقرة
68 البقرة
69 البقرة
70 البقرة
71 ف 3 اسرائیلی روایات میں یہ بھی ہے ہے کہ آخر کار انہیں ان تمام صفات کی گائے ایک ایسے شخص کے پاس ملی جس کے پاس کوئی دوسری گائے نہ تھی اس لیے وہ کہنے لگا میں اپنی گائے اس قیمت پر فروخت کروں گا کہ تم اس کی کھا مجھے سونے سے بھر دو۔ نچا نچہ انہوں نے اسی قیمت پر ان سے یہ گائے خریدی ،۔ (ابن جریر) حدیث میں ہے کہ ابتداء میں اگر وہ کوئی گائے بھی ذبح کردیتے تو کافی ہوجاتی مگر انہوں نے تغنت اور بے جا سوالات کئے تو اللہ تعالیٰ نے تشدید برتا۔ (فتح القدیر ) ف 1 یعنی گراں قیمت اور فضیحت کے خطرے اور ان کے ت عنت کی وجہ سے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ اسے ذبح کرنا نہیں چاہتے۔ حدیث میں ہے کہ اگر انشاء اللہ کہتے و آخر ابد تک حال گائے کانہ کھلتا اس کو ابن ابی حاتم نے ابوہریرہ سے مرفوعا روایت کیا ہے ،۔ ( فوائد سلفیہ) مسئلہ۔ جس طرح اس ترسہ اوصاف کے بیان کرنے کو تعین کے لیے کافی سمجھا ہے۔ اسی طرح آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قتل خطا اور شبہ عمد میں دیت کے اونٹوں کے بھی اوصاف بیان کیے ہیں، اس سے ثا بت ہوتا ہے کہ اوصاف کے بیان سے حیوان کی تعیین ہوجاتی ہے لہذا حیوان میں بیع سلم جائز ہے یہی جمہور علماء سلف وخلف کا مسلک ہے مگر اما ابو حنیفہ اور علمائے کوفہ اس میں بیع سلم کے جواز کے قاتل نہیں ہیں۔ (ابن کثیر )۔ اس قصہ سے یہود کو تنبیہہ بھی مقصود ہے جس طرح گائے کے زبح کرنے میں طرح طرح کے جھگڑے نکا لنے کی وجہ سے تمہارے بزرگ اللہ تعالیٰ کی طرف سے شدائد میں گرفتار ہوئے اس طرح بھی نبی آخرالزمان کے اوصاف چھپا کر ان کی اتباع سے گریز کی راہیں نکالتے رہو گے تو تمہارا انجام بھی اچھا نہیں ہوگا۔ (قرطبی۔ رازی ) البقرة
72 البقرة
73 ف 2 گائے کے کس عضو کو انہوں نے مقتول پر ما را اس کی کسی صحیح اثر یا حدیث سے تعیین ثابت نہیں ہے لہذا اسے مہہم ہی رہنے دیا جائے جیسا کہ قرآن نے اسے مہبم چھوڑا ہے۔ (ابن کثیر) کذالک یحییی اللہ الموتی کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح اس وقت ایک مردہ شخص کو کا ایک ٹکڑا مار کر زندہ کرے گا یہ خطاب ان لوگوں سے بھی ہوسکتا ہے جو اس واقع کے وقت موجود تھے اور ان لوگوں سے بھی جو نزول قرآن کے زمانہ میں موجود تھے۔ فتح القدیر) فائدہ۔ اس سورت میں اللہ رتعالی نے پانچ مواضع پر موتی کو زندہ کرنے کا ذکر فرمایا ہے (1) ثم بعثنا کم من بعد تکم۔ (2) ان لوگوں کا قصہ جو ہزاروں کی تعداد میں موت سے ڈر کر اپنے گھر سے نکل پڑتے تھے۔ (3) اس شخص کا قصہ جو ایک برباد شدہ شہر سے گزرا۔ (4) حضرت ابراہیم اور چار جانوروں کا قصہ۔ (5) اس قتیل کا قصہ جو یہاں مذ کور ہے اور اللہ تعالیٰ نے بارش سے زمین کو زندہ کرنے سے اجسام دوبارہ زندہ کرنے پر استدلال کیا ہے۔ (ابن کثیر ) البقرة
74 ف 3 امام رازی لکھتے ہیں کہ جب ایک شی میں دوسری شی سے متا ثر ہونے کی صلاحیت ہو اور پھر کسی عارضہ کے سبب وہ صلاحیت سلب ہوجائے تو عربی زبان میں اس پر قاصی یا لفظ بولا جاتا ہے یہی حال انسان کے دل کا ہے کہ اس میں دلائل وآیات سے متاثر ہونے کی صلاحیت ہوتی ہے مگر جب عوارض کے سبب وہ صلاحیت سلب ہوجاتی ہے تو عدم تاثیر میں اسے پھتر کے ساتھ تشبیہ دی جاتی ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو سرزنش فرمائی کہ عجب کمبخت قوم ہو کہ مردہ کا جی اٹھنا تک تو تم نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا۔ مگر پھر بھی تم اپنے کفر اور شرک پر ڈٹے رہے اور تمہارے دل نرم ہونے کی بجائے اور سخت ہوگئے جیسے پتھر بلکہ اس سے بھی زیادہ سخت۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اہل کتاب کا رویہ اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے وَلا یَکُونُوا کَالَّذِینَ أُوتُوا الْکِتَابَ مِنْ قَبْلُ فَطَالَ عَلَیْہِمُ الأمَدُ فَقَسَتْ قُلُوبُہُمْ (الحدید :16) یعنی ان لوگوں کی طرح نہ ہوجائیں جنہیں اس سے پہلے کتاب دی گئی پھر ان پر مدت دراز گزر نے سے ان کے دل سخت ہوگئے۔ (_ابن کثیر) بعض نے یہاں پتھر کی طرف خشیت کی نسبت کو مجاز پر محمول کیا ہے مگر اس کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ جمادات میں شعور اور احساس متعدد آیات اور احادیث سے ثابت ہے۔ مثلا آیت احادیث صحاح میں ہے صحیح مسلم) وغیر ذلک۔ (ابن کثیر پھر اس کا انکار کرنا بڑی گمراہی وضلالت ہے فوئد سلفیہ) ہم پر لفظ قرآن کا حجت ہے اتباع ظاہر لفظ کا فرض البقرة
75 ف 4 یہ خطاب مسلما نوں سے ہے کہ یہود سے ایمان کی تو قع بے سود ہے ان کے اسلاف یہ ہیں کہ وہ دیدہ ودانستہ کلام اللہ یعنی تورات میں تحریف کر ڈالتے تھے۔ اس جگہ لفظ تحریف لفظی اور معنوی دونوں قسم کی تحریف کی شامل ہے انہوں نے تورات کے الفاظ بھی بدل ڈالے تھے مگر زیادہ ترغلط تاویلوں سے معانی تبدیل کرنے کی کو شش کرتے تھے موجود یہود کے علماء نے ان آیات تورات کو بد ڈلا تھا جن میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اوصاف مذکور اور اپنے دل سے حلال کو حرام اور حرام کو حلال ٹھہرا دیا ہے۔ ملخص ابن کثیر وقرطبی) آجکل کے باطل پرست علماء بھی اپنے مز عومہ مسائل کی صحت ثابت کرنے کے لیے ہر قسم کے حوالہ جات قرآن حدیث سے تراش رہے ہیں اور شریعت میں تحریف کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ (ترجمان) البقرة
76 ف 5 یہود کی اخلاقی پستی اور خدا سے بخوفی کا یہ عالم تھا کہ ان میں سے بعض لوگ جب مسلمانوں سے ملتے تو اپنے ایمان کا دعوی کرتے اور راز راہ نفاق و خوشامد ان سے ان علامتوں اور پیشنیگو ئیوں کا تذ کرہ بھی کرتے جو تورات اور ان کی دوسری کتابوں میں نبی آخزالزمان کے متعلق موجود تھیں لیکن جب وہ آپس میں ملتے تو ایک دوسرے کو ملامت کرتے کہ تم ان مسلمانوں کو وہ باتیں کیوں بتاتے ہو جو اللہ تعالیٰ نے صرف تم ہی بتائی ہیں ؟ کیا تم نہیں سمجھتے کہ یہ مسلمان آخرت میں اللہ کے سامنے تمہاری اپنی فراہم کردہ معلومات کی بنا پر تم پر حجت قائم کریں گے کہ تم نبی آخرالز مان کو جاننے اور پہچان لینے کے باوجود ان پر ایمان نہیں لائے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ عبد بمعنی فی ہو یعنی تمہارے پروردگار کے بارے میں تم پر غالب رہیں۔ (قرطبی۔ ابن کثیر ) البقرة
77 البقرة
78 ف 1 بنی اسرائیل کے عناد اور سرکشی کو بیان کرنے کے بعد اب ان کے مختلف فرقوں کا بیان ہو رہا ہے اس آیت میں عوام کی حالت بیان کی ہے۔ (کبیر) امی وہ ہے جو لکھنا پڑھنا نہ جانتا ہو اور امانی جمع ہے امنیتہ کی جس کے معنی آرزوؤں یا من گھڑت روایات کے ہیں یعنی یہود میں ایک طبقہ جوان پڑھ اور عوام کا ہے جنہیں الکتاب یعنی توریت کا تو کچھ علم نہیں ہے مگر وہ اپنے سینوں میں بعض بے بنیاد قسم کی آرزوئیں پائے ہوئے ہیں۔ مثلا یہ کہ ان بزرگوں کو وجہ سے اللہ انہیں ضرور بخش دے گا یا یہ کہ جنت میں یہود کے سوا کوئی نہیں جائے گا وغیرہ قسم کی خرافات کا عقیدہ باندھے ہوئے ہیں یہ ان کی غلط آرزوئیں ہیں من گھڑت قصے ہیں جو انہوں نے سن رکھے ہیں اور یہ نری بکواس کرتے ہیں ( ترجمان ) البقرة
79 ف 2 یہ تعلم یافتہ طبقہ کی حالت ہے جو خود گمراہ ہیں اور دوسروں کو گمراہ کرنے کے لیے فتوے دیتے رہتے ہیں مطلب یہ ہے کہ وہ عوام کو ‏محض دنیا کمانے کے لیے ان کی خواہشات مطابق پاتیں جوڑ کر لکھ دیتے ہیں اور انہیں بڑی ڈھٹائی اور جرات سے خدا اور رسول کی طرف منسوب کردیتے ہیں۔ ( فتح البیان) ایسے لوگوں کے لیے ویل ہے ترمذی میں مرفوعا روایت ہے کہ دیل جہنم میں یاک وادی کا نام ہے کافر ستر سال کی مسافت تک اس کی گہرائی میں چلا جائے گا مگر اس کی گہرائی تک نہ پہنچے گا۔ اور دیل کے معنی ہلاکت اور تبا ہی ہلاکت کے بھی آتے ہیں۔ (ابن کثیر) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں مسلمانوں ! جب اللہ نے تمہیں بتا دیا ہے کہ اہل کتاب نے اپنی کتاب کو بدل ڈالا ہے وہ خود اپنے ہاتھوں سے لکھ کر اور اسے اللہ کی کتاب ٹھہر اکر سستے داموں فروخت کر ڈالتے ہیں اور تمہارے پاس اللہ کی تازہ کتاب قرآن مجید موجود ہے پھر تم کو اہل کتاب سے کچھ دریافت کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ (ابن کثیر) ابن عباس کے اس قول پر ان حضرات ہی کیا ہے۔ (ابن کثیر) ابن عباس کے اس قول پر ان حضرات کو خاص طور پر غور کرنا چاہیے جو صحیح احادیث کر چھوڑ کر توریت، انجیل اور تلمودے کے محرف اقوال سے شغف فرماتے ہیں نیز اس آیت پر ان لوگوں کو بھی غور کرنا چاہیے جو کتاب و سنت کو چھوڑ کر ادھر ادھر کی بے سند کتابوں کو اپنا دین بنائے ہوئے ہیں۔ مسئلہ الدارامنثور میں الجلال السیوطی نے سلف سے چند ایسے آثار نقل کیے ہیں جس نے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ مصحف (قرآن مجید) کی بیع مکروہ سمجھتے ہیں کہ مصاحف کی خرید و فر خت جائز ہے۔ لا باس بھا یعنی اس میں کچھ حرج کی بات نہیں ہے۔ فتح القدیر ) البقرة
80 ف 3 اس آیت میں یہود کی قوم گیر گمراہی کا بیان ہے جس میں عوام اور علماے بھی مبتلا تھے یعنی ہم اللہ کے محبوب اور بیارے ہیں ہم چاہے کتنے گناہ کریں جہنم میں نہیں ڈالے جائیں گے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ یہود خیبر نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا ہم تھوڑے دن جہنم میں رہیں گے اور پھر ہماری جگہ تم لے لوگے اس پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اخساو لا نخللفکم فیھا ابدا۔ (نسائی) یعنی تم جھوٹے ہو ہم تمہاری جگہ کبھی نہیں لے گے حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کے یہودی کہا کرتے دنیا کی عمر سات ہزار سال ہے اس لیے ہم ہر ہزار سال کے بدلے صرف ایک دن جہنم میں رہیں گے کبھی کہتے کہ ہم نے صرف جالیس سن بچھڑے کی پوجا کی ہے اس لیے چالیس روز جہنم میں رہیں گے ان کی تردید میں یہ آیت نازل ہوئیں۔ (ابن کثیر) اتخذ تم عند اللہ عھدا میں ہمزہ انکار لے لیے ہے یعنی کیا تم نے اللہ سے اس پر کوئی عہد لے لیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے خلاف نہیں کرے گا ؟ نہیں بلکہ تم محض جھوٹی اور باطل باتیں کرتے ہو۔ (فتح القدیر) البقرة
81 ف 5 اس آیت میں سیئہ اور خطیعتہ سے مراد بعض مفسرین نے شرک، بعض نے گناہ کبیرہ اور بعض نے ایسے صغائر مراد لیے ہیں جو کبا ئر کا موجب بن سکتے ہیں ابن کثیر فرماتے ہیں کہ تمام اقوال تقریبا ہم معنی ہیں اور حدیث میں ہے : کہ چھوٹے چھوٹے گناہوں سے بچتے رہوں اس لیے کہ یہ جمع ہو کر انسان کو ہلاک کر ڈالتے ہیں ان آیات میں یہود کے نظریہ کی تردید کی ہے کہ آخرت میں فلاح ونجات اور عذاب تمہاری خواہش کے مطابق نہیں ہوگا بلکہ اعمال سیئہ اور حسنہ کے مطابق فیصلہ ہوگا واحاطت بہ خطیئتہ کے معنی یہ ہیں کہ جس کے پاس قیامت کے دن کوئی نیکی بھی نہ ہوگی لہذا اس سے مراد کافر یا مشرک ہیں ورنہ گنہگار مومن جنہوں نے شرک نہ کیا ہوگا آخر سزا پاچکنے کے بعد شفاعت کی بنا پر عذاب سے نکال لیے جائیں گی جیسا کہ متعدد احادیث سے ثابت ہے اکثر صحابہ و تابعین اور اہلسنت والجماعہ کا یہی مسلک ہے۔ (قرطبی۔ رازی) عمل صالح کے لیے دیکھئے آیت 25۔ البقرة
82 البقرة
83 ف 1 آیات سابقہ میں بنی اسرائیل کو وہ تاریخ احسانات یاد لائے گئے ہیں جوان کے بزرگوں پر کئے گئے اور انہوں نے شکر گزاری کی بجائے کفر کیا جس کے نتیجہ میں ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کئی بار عتاب نازل ہوا اب یہاں ان کو وہ عہد یاد لایا جا رہا ہے جو اصل احکام (عبادات ومعامالات) دیتے وقت ان سے لیا گیا تھا اور بتایا جارہا ہے کہ بنی اسرائیل نے اس عہد کی پابندی نہ کو او اعراض واہمال کو اپنا شعار بنا لیا اسی قسم کا حکم سورتہ نساء (آیت :26) میں امت مسلمہ کو بھی دیا گیا ہے۔ اب ن کثیر عبادت کی چار قسمیں ہیں (1) بدنی جیسے طواف۔ رکوع سجدہ وغیرہ (2) مالی جیسے صدقہ خیرات کرنا اور نذرانیاز ماننا،(3) لسانی جیسے کسی کے نام وظیفہ جپنا یا اٹھتے بیٹھے چلتے پھر تے کسی کا نام لینا۔ (4) قلبی جیسے کسی پر بھروسہ رکھنا کسی سے خوف کھانا یا امید رکھانا۔ یہ سب عبادتیں اللہ کے لیے ہیں ان میں جس نے اللہ کے ساتھ کسی اور کو شریک بنایا وہ شرک کا مرتکب ہوگیا۔ سلفیہ) ماں باپ کے ساتھ نیکی کے ساتھ پیش آنے کو اللہ تعالیٰ علاؤ اس آیت کے متعدد دوسری آیات میں عبادت الہی کے ساتھ بیان فرمایا ہے جس سے ثابتج ہوتا ہے کہ حقوق العباد میں سب سے افضل عمل یہی ہے عبد اللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ انہوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریا فت کیا سب سے افضل عمل کو نسا ہے ؟ فرمایا الصلوہ لوقھا کہ نمازوں کو اول وقت پر ادا کرنا۔ پوچھا پھر کو نسا : فرمایا بر الولدین ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرنا ،(ابن کثیر اور قولو اللناس حسنا میں ہر وہ چیز داخل ہے جس پر شرعی لحاظ سے حسن ہونے کا اطلاق ہوسکتا ہو اور یہ لفظ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو بھی شامل ہے۔ (ابن کثیر) حضرت ابو ذر (رض) سے روایت ہے کہ آنحضرت نے فرمایال : کسی نیکی کو حقیر نہ سمجھو اگر تم کچھ اور نہ کرسکو تو کم سے کم اپنے بھائی سے خندہ پیشانی ہی سے پیش آجاؤ (صحیح مسلم۔ ترمذی) حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں پہلے احسان بالفعل کا حکم دیا ہے اور پھر قولو اللناس حسنا میں احسان قولی کا حکم ہے اس کے بعد اقیموا الصلوتہ اوتو الز کوہ میں اس عبادت اور احسان کو متعین کردیا ہے اور اس سے وہ نماز اور زکوہ مراد ہیں جو ان کے مذہب میں تھیں۔ پس یہ آیت ہر قسم کی عبادت بدنی مالی۔ قولی اور قلبی پر مشتمل ہے اور عبادات ومعاملات کے اصول بحیثیت مجموعی اس آیت میں آجاتے ہیں۔ البقرة
84 ف 2 یعنی آپس میں ایک دوسرے کو نہ قتل کرو اور نہ گھروں سے نکالو کیونکہ ملی زندگی اس کے بغیر ممکن نہیں یہاں قرآن نے آپس میں ایک دوسرے قتل کرنے کو اپنے تئیں قتل کرنا کہا ہے کیونکہ افرا ملت بمنزلہ ایک جسم کے ہوتے ہیں تو گو یا کسی کو قتل کرنا اپنے آپ کو قتل کرنا ہے۔ حدیث میں ہے : کہ اہل ایمان باہمی دوستی بیمار ہوتا ہے تو سارا دن بخار اور پریشانی میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ مسئلہ : اسلام میں خود کشی حرام اور کبیرہ گناہ ہے اسی طرح اپنے گھر کو چھوڑ کر بن باسی اختیار کرنا بھی ممنوع ہے مروی ہے کہ حضرت عثمان بن مظعون نے چند صحا بہ کے ساتھ مل کر عہد کیا کہ وہ ٹاٹ کا لباس پہنیں گے اور گھر چھوڑ کر جنگلوں میں بھرتے رہیں گے انحضرت کو اس کی اطلاع ہوئی تو آپ نے فرمایا : کہ یہ میری سنت اور ملت اسلام کے خلاف ہے جو میری سنت سے اعراض برتے گا اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ قرطبی۔ ابن کثیر ) البقرة
85 ف 3 مدینہ منورہ میں یہود کے تین قبیلے تھے بنو قینقاع، بنو نضیر اور بنو قریضہ۔ مدینہ کے عرب قبیلوں سے ان کے حلیفانہ تعلقات تھے۔ بنو قینقاع اور بنو نضیر قبیلہ خزرج اور بنو قر یظہ قبیلہ اوس کے حلیف تھے خزرج اور اوس کی آپس میں جنگ رہا کرتے تھی۔ جب کبھی ان کے درمیان لڑائی ہوتی تو وہ دنوں کو حلیف یہودی قبیلے بھی اپنے اپنے حلیف کا ساتھ دیتے یہودی اپنے دشمن کو مارتا اور کبھی دوسرے یہودی کو بھی قتل کر یتا اور اس کا گھر بار لوٹ لیتا۔ وہ جانتے تھے کہ ان کایہ فعل توریت میں دیئے ہوئے احکام کو خلاف ہے لیکن لڑائی ختم ہوتی اور مغلوب قبیلے کے کچھ آدمی غالب کی قید میں آجاتے تو وہ خود ہی فدیہ دے کر غالب قبیلہ سے اپنے قیدی بھایئوں کو آزاد کراتے اور کہتے کہ ہمیں کتاب الہی کا حکم ہے کہ اپنے بھائیوں کی مدد کرو اور انہیں قید سے آزاد کراؤ ،۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے ان سے فرماتے ہیں کہ تو یاد رکھتے ہو مگر اس چیز کو بھول جاتے ہو کہ تمہیں آپس میں ایک دوسرے کے خلاف لڑنے اور ایک دوسرے سے نکا لنے سے بھی منع کیا گیا تھا۔ گو یا تم کتاب الہی کے جس حکم کو اپنی مرضی کے مطابق پاتے ہو اسے مانتے ہو اور جسے اپنی مرضی کے مطابق نہیں پاتے اس کی کوئی پرواہ نہیں کرتے۔ اگر تم واقعی خدا کے حکم پر چلتے ہو تو دونوں جگہ چلو۔ (ابن کثیر) اہل علم فرماتے ہیں کہ ان سے چا عہد لیے گئے تھے (1) قتل (2) اخراج اور ایک دوسرے کے خلاف مدد نہ کرنا اور قیدی کو فدیہ دے کر چھڑالینا وہ صرف فدیہ پر عمل کرتے اور باقی تین کی مخالفت کرتے اور بے محابا ان کا ارتکاب کرتے۔ (قرطبی) البقرة
86 البقرة
87 ف 1 یہاں الکتاب سے توریت مراد ہے جسے یہود نے بدل ڈالا تھا اور قفینا من بعدہ بالر سل کے معنی یہ ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد ان کے پاس مسلسل پیغمبر آتے رہے جیسے فرمایا : ثُمَّ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا تَتْرَا ( المومنون : ٤٤) اور آخر کار بنی اسرا ئیل کے انبیاء کایہ سلسلہ عیسیٰ (علیہ السلام) پر ختمج ہوگیا اور بتینا سے معجزات مراد ہیں جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو دیئے گئے جسے مردوں کو زندہ کرنا مٹی سے پرن بنا کر اس میں روح پھونکنا کوڑی اور اندھے کو صحتیاب کرنا وغیرہ جن کا ذکر سورت آل عمران آیت 49) اور مائدہ (آیت 110) میں آیا ہے قر طبی۔ ابن کثیر) اور روح سے مراد حضرت جبریل (علیہ السلام) ہیں۔ اور ان کو روح کے نام سے اس لیے پکارا گیا ہے کہ وہ امرتکوینی سے ظہور میں آئے تھے جیسا کہ خود حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو روح کہا گیا ہے اور القدس سے ذات الہی مراد ہے اور اس کی طرف روح کی اضافت تشریفی ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ روح القدس سے انجیل مراد ہو جیسا کہ قرآن کو رحامن امرنا (42۔52) فرمایا ہے۔ مگر اس سے جبریل (علیہ السلام) مراد لینا زیادہ صحیح ہے ابن جریر نے بھی اس کو تر جیح دی ہے کیوکہ آیت (110۔ المائدہ) میں روح القدس اور انجیل دونوں الگ الگ مذکور ہیں اور ایک آیت (26۔193) میں حضرت جبر یل (علیہ السلام) کو الروح۔ الامین فرمایا ہے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت حسان کے متعلق فرمایا اللھم ایدہ بروح القدس اے اللہ روح القدس سے اس کی تائید فرما۔ ایک دوسری حدیث میں ہے " وجبریل معک کہ جبریل تمہارے ساتھ ہیں معلوم ہوا کہ روح القدس جبریل (علیہ السلام) ہی ہیں ( فتح البیان۔ ابن کثیر) ف 2 جن پیغمبروں کی انہوں نے تکذیب کی ان میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شامل ہیں اور جب کو قتل کیا ان میں حضرت زکریا۔ اور حضرت یحیی (علیہ السلام) داخل ہیں۔ (قرطبی) البقرة
88 ف 3 یہود کہا کرتے ہمارے دلوں پر غلاف ہیں یعنی تمہاری کوئی بات ہم پر اثر نہیں کرتی جیسا کہ دوسرے مقام پر ہے قلوبنا فی اکند مما تد عونا الیہ یعنی جو دعوت دیتے ہو اس سے ہمارے دل پر دہ میں ہیں) اما احمد جنبل نے مر فو عا ذکر کیا ہے ہے اور حضرت حذیفہ سے موقوفا مردی ہے کہ دل چار قسم کے کے ہیں ان سے ایک دل اغلف ہے یعنی کافر کا دل جس پر مہر لگادی گئی ہے اور ہو حق سے متاثر نہیں ہوتا بعض علمائے تفسیر نے غلف کے یہ معنی کیے ہیں کہ ہمارے دل علم و حکمت سے پر ہیں کسی دوسرے علم کی ان میں گنجائش نہیں ہے۔ اس پر قرآن نے فرمایا ہے کہ حق سے متاثر نہ ہونا فخر کی بات نہیں ہے یہ تو اللہ تعالیٰ کی لعنت کی علامت ہے (ابن کثیر) ف 4 یعنی ان کے دلوں پر کفر غالب ہے اور ایمان ہے بھی تو بہت کمزور اور نہایت قلیل پس قلیلا مسدر مخدوف کی صفت ہے لایومنون الا ایمانا قلہلا۔ (قرطبی) البقرة
89 ف 5 نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے یہودی عرب کے مشرکین سے مغلوب ہوئے تو وہ دعا کیا کرتے تھے کہ نبی آخرالزمان جلد ظاہر ہوں تاکہ ہم ان کے ساتھ مل کر ان کافروں پر غلبہ حاصل کریں اس صورت میں یستفحون کے معنی نصرت اور غلبہ حاصل کرنا ہو نگے۔ ابن کثیر) اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کے معنی خبر دینے کے ہوں یعنی وہ کہا کرتے تھے کہ عنقریب نبی آخرالزمان ظاہر ہوگا اور ہم اس کے ساتھ مل کر تم پر غالب آئیں گے چنانچہ عاصم بن عمربن قتادہ انصاری روایت کرتے ہیں ہیں کہ ہمارے بزرگ کہا کرتے تھے عرب کے قبائل میں ہم سے زیادہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق کوئی نہ جانتا تھا اس لیے کہ ہم یہودیوں کے ساتھ رہتے تھے اور ہو اہل کتاب تھے اور ہم بت پرست وہ ہم سے کبھی مغلوب ہوتے تو کہتے کہ ایک بنی کی بعثت ہونے والی ہے اور اس کا زمانہ آپہنچا ہے اس کے ساتھ مل کر ہم تمہیں عاد وارم کی طرح قتل کریں گے جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت ہوئی ہم نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی اختیار کرلی اور یہ یہود یوں کے بارے میں نازل ہوئی ابن جریر، فتح القدیر) بعض نے حضرت ابن عباس (رض) سے یستفتحون کے یہ معنی نقل کیے ہیں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ظہور سے پہلے جب یہو دوں کا عرب سے مقابلہ ہوتا تو وہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وسیلہ سے دعا کرتے اور کہتے کہ اے اللہ ہم بحق نبی امی تجھ سے دعا کرتے ہیں کہ ہمیں دشمنوں پر غلبہ عنایت کر مگر یہ روایت نہایت ضعیف ہے۔ قرطبی نے ابن عباس سے نقل کی ہے۔ (الباب القل سیوطی امستدک حاکم مع تلخیص ج 2 ص 263) البقرة
90 ف 6 یعنی انہوں نے جو قرآن اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے سے انکار کیا اس کی وجہ ان کا صرف یہ حسد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا آخری ان میں کیوں نہ بھیجا اور اپنے فضل سے ایک ان پڑھ قوم عرب کو کیوں نوازا؟ ان کے حسد کا نتیجہ یہ ہوا کہ انہوں نے اللہ کا وہ ہر غضب مول لیا۔ پہلا غضب اس وجہ سے کہ انہوں نے تورات میں تحریفیں کیں انجیل اور عیسیٰ (علیہ السلام) کا انکار کیا اور دوسرا غضب اس وجہ سے کہ وہ قرآن اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر محض صد اور حسد کی وجہ سے ایمان نہ لائے اسی طرح یہود نے اور بھی بہت سے جرائم کے تھے جن کی وجہ سے ان پر اللہ کا غضب اترا ہے پس غضب علی غضب کے معنی پہلا اور دوسرا غضب نہیں ہے بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ ان پر اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا غضب نازل ہوا جس کی وجہ سے ان کو مغضوب علیہم فرما گیا گیا ہے۔ (قرطبی ) البقرة
91 ف 1 یعنی اول تو تمہارا قرآن کو نہ ماننا نے معنی بات ہے کہ کیونکہ وہ تورات کی تصدیق کرنے والی کتاب ہے پھر اگر تمہارا یہی دعوی ہے کہ تم صرف تورات کو مانتے ہو تم نے پہلے انبیاء کو کیوں قتل کیا حالانکہ تورات میں تمہیں انبیاء کو قتل کرنے سے منع کیا گیا ہے اور یہ تما انبیاء تمہیں تورات کی طرف دعوت دینے آئے ہیں معلوم ہوا کہ یہ تکذیب بغض وعناد اور تکبر کی وجہ سے کر رہے ہو۔ (ابن کثیر ) البقرة
92 ف 2 یعنی تمہارا یہ دعوی کہ ہم صرف تورات کو مانتے ہیں ایک دوسری وجہ سے بھی غلط ہے کہ تم نے حضرت موسیٰ سے کیا سلوک کیا جو اپنی نبوت کی واضح نشانیاں اور ناقابل تردید دلیلیں لیے کر تمہارے پاس آئے تھے جیسے طوفان ٹڈی مینڈک، خون عصا۔ من وسلوی اور ابر کا سا دریا کا بھٹ کر در ٹکڑے ہوجا نا اور پتھر سے بارہ چشموں کا جا ری ہونا وغیرہ۔ (ابن کثیر) ف 3 یعنی ان واضح نشانیوں کو دیکھ لینے کے بعد یا حضرت موسیٰ کے طور پر جا نے کے بعد۔ (ابن کثیر۔ فتح البیان) البقرة
93 ف 4 یعنی ماننے کا اقرار کیا لیکن پورا نہ کیا (دجیز) ف 5 یعنی درحقیت تم مومن ہو ہی نہیں اس لیے کہ ایمان کے ہوتے ہوئے تم بچھڑے کی پوچا جیسا کھلا شرک اروآنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکذیب کر ہی نہیں سکتے تھے (فتح القدیر) البقرة
94 یعنی اگر تم اس دعوی میں سچے ہو کہ جنت میں تمہارے سوا کوئی نہیں جائے گا تو موت کی تمناکرو کیونکہ جس شخص کو یقین ہو کہ مرنے کے بعد فورا جنت میں پہنچ جائے گا وہ موت سے نہیں ڈرسکتا اب جریر اور بعض دوسرے علمائے تفسیر نے یہی معنی کیے ہیں اہل کتاب یعنی یہود کو دعوت مباہلہ دی گئی ہے کہ اگر تم اپنے آپ کو سچا سمجھتے ہو تو جو فریقین میں سے جھوٹا ہے اس کے لیے موت کی دعا کرو۔ حافظ ابن کثیر نے انہی دوسرے معنی کو صحیح کہا ہے اور لکھا ہے کہ اس کی نظیر سورۃ جمعہ کی آیات ( 6 تا 8) ہیں جن میں ان کو مباہلہ کی دعوت دی گئی ہے۔ جیسا کہ سورت آل عمراب آیت 21) میں نجران کے عیسائیوں کی دعوت مباہلہ دی گئی ہے اور جس طرح عیسائی ڈر گئے تھے یہود بھی بد دعا سے ڈرگئے اور تمنی نہ کی معلوم ہوا کہ ہو جھوٹے ہیں۔ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے بھی انہی دوسرے معنی کو تر جیح دی ہے۔ البقرة
95 ف 7 حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ اگر یہو ددی ایک دن بھی یہ آرزو کرتے تو روئے زمین پر کوئی یہو دی باقی نہ رہتا، یہ ویسی ہی بات ہے جیسا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وفد نجران پر حجت قائم کرنے کے بعد جب انہیں دعوت مبادلہ دی تو انہوں نے ایک دوسرے سے کہا کہ اگر تم نے اس نبی سے مباہلہ کیا تو تم میں سے کوئی شخص بھی زندہ نہ بچ سکے گا۔ چنانچہ انہوں نے جزیہ پر صلح کرلی (ابن کثیر ) البقرة
96 البقرة
97 ف 1 یہاں قرآن کے نزول کا محل آنحضرت کے قلب مبارک یعنی دل کو قرار دیا ہے جس سے اشارہ ہے حضرت جبریل (علیہ السلام) کو قرآن ایسے طریقہ سے پڑھا یا کہ انحضرت کے دل پر نقش ہوگیا۔ (رازی) ف 2 علمائے تفسیر نے اس کا شان نزول بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ایک مرتبہ چند یہودی علماء نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے ابا القاسم ہم آپ سے چند سولات کرتے ہیں اگر آپ نے ان کا جواب دے دیا تو ہم آپ کی تباع اختیار کرلے گے ان میں سے ایک یہ کہ اللہ کی نبی کی علامت بتایئے اور ہمیں یہ بھی بتایئے کہ اسرا ئیل یعنی یعقوب (علیہ السلام) نے کونسی چیز اپنے اوپر حرام کی تھی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سوالات کے صحیح صحیح جواب دیئے آخر میں کہنے لگے اچھا ہمیں یہ بتایئے کہ فرشتوں میں سے آپ کا دوست کون ہے ؟ یہ ہمارا آخری سوال ہے اس کے جواب پر یا تو ہم آپ سے سے مل جائیں گے یعنی ایمان لے آئیں گے اور یا آپ کو چھوڑ دیں گے۔، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میرے دوست جبریل ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جو نبی بھی بھیجا ہے جبریل ہی اس کے دوست رہے ہیں یہودی علماء کہنے لگے تب تو ہم آپ کا ساتھ نہیں دے سکتے اگر آپ کا دوست کوئی دوسرا فرشتہ ہوتا تو ہم آپ کی تصدیق کرتے اور آپ پر ایمان لے آتے فرمایا کیوں ؟ کہنے لگے یہ ہمارا دشمن ہے یہ حرب وقتال اور عذاب کا فرشتہ ہے اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں بعض نے اس کی شان نزول میں حضرت عمر (رض) کا یہود سے مناظرہ ذکر کیا ہے جس میں یہود نے حضرت جبر یل (علیہ السلام) سے عداوت کا اظہار کیا اور حضرت عمر (رض) نے کہا انتم اکفر من الحمیر کہ تم گدھے سے بھی زیادہ ضدی اور سرکش ہو جبریل (علیہ السلام) اومیکایل (علیہ السلام) دونوں اللہ کے فرشتے ہیں اگر ایک سے دشمنیے تو سب سے دشمنی ہے اس پر یہ دو آیتیں نازل ہوئیں اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لقدء افقک اللہ یاعمر ان آیات کا مفہوم یہ ہی کہ کسی شخص کو جبریل (علیہ السلام) سے دشمنی رکھنے کا حق حاصل نہیں ہے کیونکہ جبریل (علیہ السلام) یہ قرآن ازخود نہیں بلکہ ہمارے پاس سے اور ہمارے حکم سے لائے ہیں اس لحاظ سے کہ وہ ہماری طرف سے امامو ہیں۔ (رازی۔ ابن کثیر) البقرة
98 ف 3 یہود جو نکہ میکا ئیل (علیہ السلام) کو اپنا دوست کہتے تھے اس لیے اس آیت میں اللہ تعالیٰ ان کا جبر یل کے ساتھ ذکر فرایا کہ ایک سے دشمنی بعینہ دوسرے سے دشمنی ہے بلکہ خود اللہ تعالیٰ سے دشمنی ہے کیونکہ یہ مقرب فرشتے اللہ تعالیٰ کے دوست ہیں۔ ایک حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : من عادی لی ولیا فقد بارزنی نی بالعرب (بخاری) کہ جس نے میرے دوست سے دشمنی رکھی وہ گویا مجھ سے لڑنے نکلا یہی وجہ ہے کہ جبریل سے عداوت پر اللہ تعالیٰ نے غصہ کا اظہار فرمایا ہے۔ (ابن کثیر ) البقرة
99 ف 4 کھلی آیتیں یعنی واضح نشانیاں جن میں آنحضرت کی نبوت کا بین ثبوت موجود ہے۔ اما رازی لکھتے ہیں کہ قرآن پاک کے علاوہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جملہ معجزات اس کے تحت آسکتے ہیں۔ (ابن کثیر۔ رازی ) البقرة
100 ف 5 یہاں سے یہود کی ایک اور عادت کا بیان ہو رہا ہے یہود یوں سے نبی آخرالزمان کی مدد کرنے اور اس پر ایمان لانے کا بھی عہد لیا گیا تھا مگر وہ اس عہد سے پھر گئے اور کہنے لگے ہم سے قسم کا کوئی عہد نہیں لیا گیا۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت کو تسلی دی ہے کہ عہد شکنی تو ان لوگوں کا پرانا شیوہ ہے جب بھی ان سے کوئی عہد لیا گیا ان میں سے ایک گروہ نے اسے پس پشت ڈال دیا بلکہ ان میں بہت سے لوگ تو تورات پر سرے سے ایمان ہی نہیں رکھتے ایسے لوگ اگر اب عہد شکنی کرتے ہیں تو تعجب کی کیا بات ہے۔ (رازی) البقرة
101 ج 6 یعنی تورات اور دیگر آسمانی کتب لما معھم) میں نبی آخرالز مان کے جواوصاف مذکور تھے وہ سب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں موجود تھے۔ اس اعتبار سے آنحضرت تورات اور مامعھم کے مصداق تھے مگر یہود کی بد نصیبی کہ انہوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکذیب کر کے تورات کو پس پشت ڈال دیا۔ گو یا اپنی کتاب کا بھی پتہ نہیں۔ (ابن کثیر ) البقرة
102 ف 7 یعنی یہود نے کتاب اللہ کو پس پشت ڈال دیا اور سحر یعنبی جادو کی اتباع کرنے لگے ہیں یہ قصہ یو ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے عہد میں شیاطین جادو کی نشر واشاعت کرتے رہے حتی کہ وہ وعلوم یہود میں رواج پا گئے اور عوام میں مشہور ہوگیا کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے نبی نہیں تھے بلکہ جادو گر تھے پھر عوام میں مشہور ہوگیا حضرت سلیمان (علیہ السلام) اللہ تعا لیے کے نبی نہیں تھے بلکہ جادو گر تھے پھر جب قرآن نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو انبیاء کی صف میں شامل کیا تا یہود نے ان کے جادو گر ہونے طعن دیا۔ اس پر یہ دو آتییں نازل ہوئیں اور انہوں نے بتایا کہ حضرت سلیمان کا دامن ان سے پاک ہے ہے کہ سحر وغرہ سیاطین کی تصنیف ہے دوسری قسم جادو کی وہ تھی جس کی یہود اتباع کرتے تھے کہ ہاروت وماروت دو فرشتے بابل شہر میں آدمی کی شکل میں رہتے تھے، ان کو اللہ تعالیٰ نے سحر کا علم دے کر بطور آزمائش کے بھیجا تھا چنانچہ جو کوئی ان سے یہ علم سیکھنے جاتا تو وہ کہتے تم یہ علم نہ سیکھو تمہار ایمان جاتا رہے گا اس پر بھی اگر وہ اصرار کراتا تو وہ تو اسے سکھا دیتے۔ ( اب کثیر) اس مقام پر بعض مفسرین نے ہاروت وماروت کے متعلق عجیب وغریب داستانیں نقل کردی جن میں ایک عورت نا کا معاشقہ اور پھر زہرہ کے ستارہ بن جانے کا واقعہ بھی داخل ہے علمائے محققین نے ان قصوں کو یہود کی افسانہ طرازی قرار دیا ہے۔ حافظ اب کثیر کہتے ہیں : بعض صحانہ اور تابعین سے اس قسم کی روایات منقول ہیں مگر زیادہ سے زیادہ ہم ان کو نو مسلم یہو دی عالم کعبالاحبا کا قول دے دے سکتے ہیں۔ (ابن کثیر۔ البدایتہ ج 1 ص 237۔38) حافظ منذری رحمہ اللہ بھی لکھتے ہیں ان الصحیح وقفہ علی کعب (ترغیب ج 2 ص 108) اس دور کے علا مہ احمد شاکر مصری نے تعلیق مسند احمد (ج 9 ص 35۔41) میں بڑی عمدہ بحث کر کے حاظ ابن کثیر کی تائید کی ہے حضرت الا میر قنوجی لکھتے ہیں : قرآن پاک کا ظاہر سیاق اجمال قصہ ہے۔ بسط وتفصیل نہیں اس لیے جس قدر قرآن میں آیا ہے اس پر ہم ایمان لاتے ہیں باقی خدا جا نے۔ (ترجمان ج 1 ص 36) مگر ہاروت ومارت کے متعلق یہ ساری بحث اس پر منحصر ہے کہ وما انزل علی اللکین میں ما مو صولہ ہو اور اس کا عطف ماتتلوا الشیاطین پر اور پھر ہاروت ماروت کو ملکین سے عطف بیان تسلیم کیا جائے لیکن اگر اس ما کو نافیہ مانا جائے وما کفر سلیمن پر اس کا عطف ہوتا آیت کے معنی یہ ہو نگے نہ تو حضرت سلیمان نے کفر کیا اور نہ دورفرشتوں پر کچھ نازل کیا گیا اس سے یہود کے ایک دسرے نظریے کی تردید ہوجائے گی کہ جادو گر وغیرہ جبریل اور مکا عیل لیکر حضرت سلیمان پر نازل ہوئے تے۔ اس صورت میں ہاروت وماروت شیاطین سے بدل ہوگا ہاروت وماروت جو جن یا انسانوں میں سے دو شیطان تھے لوگوں کو جا دو کی تعلیم دیتے تھے وللہ الحمد۔ رازی) فلا تکفر سے ثابت ہوتا ہے کہ جادو گری سیکھنا اور اگر وہ جادو کلمات کفر پر مشتمل ہے تو ایسا ساحر کافر ہوگا اور اس کی سزا قتل ہے۔ حدیث میں ہے حد ضربہ بالسیف کہ جادو گر کی سزا تلوار سے قتل کرڈالنا ہے ورنہ نجوی می یا کاہن کو قتل کرنا جائز نہیں ہے ہاں تعزیر ہو سکتی ہے۔ (قرطبی) کا ہن یا نجومی سے قسمت معلوم کرانا اور اس کی تصدیق کرنا کفر ہے (ابن کثیر بحوالہ المستدرک) ف 8 یعنی بغض کا عمل۔ اس سے معلوم ہوا کہ جادو کا یہ اثر بی ہوتا ہے کہ دو آدمیوں میں دشمنی پیدا ہوجائے علاوہ ازیں جادو کی تا ثیر احادیث سے بھی ثابت ہے۔ اکثر علما نے حن و بغض کا عمل کرنا اسی طرح طلسمات شعبدات احاضرات اور مسمر یزم کو سحر میں داخل کیا ہے جو شخص متبع سنت ہو اس کو ان باتوں سے پر ہیز کرنا لازم ہے بعض عورتیں ایسے تو ہمات میں گرفتار ہوتی ہیں اگر وسوسہ آئے تو یہ دعا پڑھے۔ اللھم لا یاتی بالحسنات الا انت ولا یصرف السیات لا انت ( وحیدی ) البقرة
103 البقرة
104 ف 1 حضرت ابن عباس (رض) فراماتے ہیں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجلس میں بعض یہود بھی شامل ہوجاتے مسلمان کوئی بات سمجھنا چاہتا تو راعنا کہتا یعنی ہماری رعایت کریں اور ہماری طرف متوجہ ہوں یہود نے اپنے لہجہ میں اس کلمہ کو بطور شتم استعمال کرنا شروع کردیا اور اسے زبان سے دبابر راعنا کے معنی احمق بھی آتے ہیں۔ اس اشتباہ کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اس مشتبہ کلمہ کے استعمال سے منع فر دیا اور اس کی بجائے انظرنا کی تعلیم دی (قرطبی) البقرة
105 البقرة
106 ف 2 نسخ کے معنی کسی چیز کو نقل کرنے کے ہیں اور اصطلاح علماء میں ایک حکم شرعی کو دوسرے شرعی سے مو قوف کردینے کو نسخ کہا جاتا ہے قرآن میں ایک آیت کی جگہ دوسری آیت تبدیل کردینے کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ (دیکھئے النحل آیت 101) نسخ کی دو صورتیں ہیں صرف نسخ حکم یا مع تلاوت جمہور علماء نے یہاں نسخ کی یہی دو صورتیں بیان کی ہیں۔ اس آیت میں یہود کی تردید ہے جو تورات کو ناقابل نسخ مانتے تھے اس بنا پر انہوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کی تکذیب کی کہ وہ توریت کے بعض احکام کو منسوخ ہیں۔ لہذا یہ اللہ تعالیٰ کا کلام نہیں ہوسکتا قرآن نے ان کے جواب میں فرمایا کسی کو موقوف قرار دے دینا کوئی عییب کی بات نہیں ہے۔ اللہ کو ہر چیز پر قدرت حاصل ہے اور خلق وامر سی کے قبضہ قدرت میں ہے وہ جس طرح چاہے اپنی مخلوق اور احکام شریعت میں تصرف کرسکتا ہے یعنی نسخ بھی منجملہ مقددرات الہیہ کے ہے لہذا اس کا انکار کے لیے ہے ان کا موقوف کردینا بھی معنی پر مصلحت ہے۔ اگر کوئی حکم موقوف کردیا جاتا ہے یا اس کی تنزیل مؤخر کردی جاتی ہے تو اس کی بجائے بہتر یا اسی جیسا دوسرے حکم اتار دیا جاتا ہے۔ (المنار سلفیہ تبصرف) واضح رہے نسخ بہر دو صورت قرآن و حدیث میں جود ہے سلف اس پر متفق ہیں۔ سب سے پہلے ایک بد عتی فرقہ کے ایک سر کردہ عالم ابو مسلم اصفہانی (محمد بحر المتو فی 323 ھ) المعتزلی نے اس کا انکار کیا ہے اور علماء نے اس کی تردید کی ہے۔ (ترجمان نواب تبصرف) بعض نے نسخ کے معنی میں توسع سے کام لے کر تقید وتخصیص پر بھی اس کا اطلاق کردیا ہے اس بنا پر آیات منسوخہ کی تعداد بڑھ گئی ہے ابن العربی اور سیوطی کے نزدیک بائیس اور شاہ صاحب رحمہ اللہ نے القوذ میں صرف پانچ آیتیں تسلیم کی ہے اور لکھا ہے کہ یہ بھی بحث طلب ہیں اب تیمیہ نے اس پر مفید لکھے یاد رہے کہ احادیث میں ناسخ تو موجود ہے مگر نسخ اجتہبا دی باطل ہے۔ (ترجمان ) البقرة
107 البقرة
108 ف 1 یہود اعتراف کرتے اور بعض لوگ ازراہ عناد سوال کرتے ان آیات میں ایسے لوگوں کی مذمت فرمائی اور متنبہ کیا کہ پیش آمدہ مسائل کے علاوہ دور ازکار اور نے مسائل میں الجھنا جائز نہیں ہے صحیح بخاری میں ہے کہ سب سے بڑال مجرم مسلما نوں میں وہ ہے جس کے مسئلہ پوچھنے کی وجہ سے ایک حلال چیز مسلمانوں پر حرام کردی جائے۔ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے کہ میں نے صحا بہ کرام سے بہتر کوئی قوم نہیں دیکھی انہوں نے آنحضرت سے از خود صرف بارہ سوال کیے جن کا قرآن میں یسئلو نک عن الشھر الحرام وغیرہ الفاظ سے ذکر ہوا ہے (ابن کثیری) متعدد احادیث میں قیل وقال کی مذمت آئی ہے۔ (ترجمان ) البقرة
109 ف 2 مروی ہے کہ جنگ احد میں مسلمانوں کو نقصان پہنچا تو یہود اسلام کے خلاف نفرت پھیلانی شروع کردی اور بعض صحابہ کو یہو دیت کی دعوت دی اس پر یہ آتیں نازل ہوئیں اور مسلمانوں کو صبر کی تلقین کی گئی کہ جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے مقابلہ کے لیے دوسرا حکم نہ آجائے اس وقت تک عفو ودرگزر سے کام لو اور ان کے اچھے حملوں اور حسد وبغض کی وجہ سے بے قابو نہ ہوں چنانچہ یہ حکم بعد میں اجازت قتال کی صورت میں آگیا۔ (ابن کثیر) اس دور میں بھی علماء یہود ونصاری علم وتحقیق کے نام سے کتاب وسنت پر حملے کررہے ہیں اور مسلمانوں کو ان کے عقائد اور طریق سلف سے بر گشتہ کرکے بد عت و ضلالت کی راہ پر ڈالنا چاہتے ہیں مسلمانوں کو ایسے لوگوں سے ہوشیار رہنا ضروری ہے۔ البقرة
110 البقرة
111 ف 3 یہود ہر آن اس کوشش میں رہتے کہ مسلمانوں کو اسلام سے برگشتہ کردیا جائے کبھی کہتے کہ جنت صرف یہودیوں کے لیے ہے اور نصاری صرف اپنے آپ کو جنت کا حقدار ظاہر کرتے قرآن نے بتایا کہ یہ جھوٹے دغا باز ہیں اور ان کی یہ جھوٹی اور بے بنیاد قسم کی آرزوئیں ہیں جن کے صحیح ہونے کی سندان کے پاس نہیں ہے۔ فتح القدیر) نیز دیکھے (آیت :80) آجکل مسلمان بھی محض آوزؤں میں مبتلا ہیں اولیاء اللہ اور بندگوں کے نام کا ختم پڑھنے یا ان کے مقبروں پر پھول چڑھادینے کو نجات کے لے کافی سمجھتے ہیں حدیث میں العاجزمن اتبع جفسہ وتمنی علی اللہ لا مانی (رازی ) البقرة
112 ف 4 بلی یعنی ان کا یہ دعوی جھوٹا ہے اخروی نجات کے لیے تو اخلاص وعمل شرط ہے من اسلم وجھہ اللہ اخلاص کی طرف اشارہ یت اور وھو محسن کے معنی یہ ہیں کہ عمل سنت کے مطابق ہو ورنہ وہ عمل بدعت اور مردود ہے (ابن کثیر) اور اخلاص نہ ہوگا تو ریا کاری اور منافقت ہے ( دیکھئے آیت :28۔38،) البقرة
113 ف 5 اس آیت کا شان نزول بیان کرتے ہوئے حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ وفد نجران کی آمد پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجلس میں چند یہودی علماء بھی جمع ہوگئے اور ان کا آپس میں جھگڑا شروع ہوگیا ہر ایک گروہ نے دوسرے کی کتاب اور نبی کی تکذیب کی اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ ان کا با ہم تعصب اور عناد اس حد تک بڑھا ہوا ہے ہوا یک دوسرے پر کفر کا فتوی لگا تے ہیں حالانکہ یہ تعلیم یافتہ ہیں ہر فرقے کی کتاب میں دوسرے کی تصدیق موجود ہے۔ (ابن کثیر) نہا یت افسوس ہے آجکل امت محمدی میں گروہ بندی کایہ عالم ہے کہ سب قرآن کی تلاوت کرتے ہیں اور ایک دوسرے پر کفر کا فتوی لگا تے ہیں۔ (رازی ) ف 1 یعنی عرب کے کافر جو اپنے دین کے سوا جملہ ادیان کو باطل سمجھتے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بے دین اور صابی کہتے اہل کتاب کے جہلاء بھی مراد ہو سکتے ہیں اور یہود ونصاری کے علماء پر بھی طنز ہوسکتا ہے کہ یہ جاہلوں جیسی باتیں کرتے ہیں۔ ( معالم۔ وحیدی بتصرف) البقرة
114 ف 2 ابن جریر لکھتے ہیں کہ اس سے بخت نصر اور عیسائی جنہوں نے بیت المقدس کی تخریب کی اور یہود کو اس سے روک دیا۔ حضرت ابن عباس (رض) سے بھی یہی روایت ہے کہ عیسائیوں کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی ہے کہ انہوں نے محض عداوت کی بنا پر یہود کو بیت المقدس میں عبادت گزازنے سے روک دیا تھا۔ (قرطبی) مگر بخت نصر کا زمانہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے 233 سال قبل کا ہے پھر دو اور ان کے مدد گا عیسائی کیسے مرادہو سکتے ہیں۔ (المنار۔ الجصاص) لہذا اس سے مراد یا تو وہ عیسائی ہو سکتے ہیں جنہوں نے نطوس یا یتطوس رومانی کے ساتھ مل کر بنی اسرائیل سے جنگ کی اور بیت المقدس کو ویران کیا اور یہ آیت مشر کین کے حق میں نازل ہوئی ہے جنہوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام کو عمرہ سے روک دیا تھا جس کے نتیجہ میں صلح حدیبیہ ہوئی اور کسی مسجد میں لوگوں کو عبادت سے روکنا اس کو ویران کرنے کے مترادف ہے۔ (رازی۔ قرطبی) حافظ ابنالقیم لکھتے ہیں کہ آخری قول اقرب الی الصواب معلوم ہوتا ہے۔ مسئلہ اہل کتاب کے معبودوں کی بے حرمتی تو ممنوع ہے مگر اولیاء اور بزرگان دین کے مقابر پر جو مساجد بنی ہوئی ہیں۔ یہ چونکہ عبادات بغیر اللہ کا ذریعہ بنی ہوئی ہیں اس لیے ان کا گزانا ضروری ہے جیسا کہ انحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسجد ضرار کو گرا دینے کا حکم دیا تھا۔ (المنار بحوالہ الزواجر لا بن حجر مکی) اس میں پیش کوئی بھی کی ہے کہ آئندہ یہ مشرک بیت اللہ (کعبہ) میں چھپ چھپا کر ہی داخل ہو سکیں گے چنانچہ ایسا ہی ہوا اور 9 ھ میں الا لا حیجن بعدا لعام مشرک کا اعلان کردیا گیا۔ (ابن کثیر) ف 3 یہاں خزی سے ہر قسم کی رسوائی مرادہو سکتی ہے اور اس رسوائی کی یہ سزا یہود ونصاری اور مشرکین تینوں گروہ پاچکے ہیں۔ (ابن کثیر ) البقرة
115 ف 4 بعض نے لکھا ہے تحویل قبلہ پر یہود نے اعتراض کیا تو ان کے جواب میں یہ آتی نازل ہوئی اور بعض نے کہا ہے کہ یہ آیت سفر اور خوف کی حالت میں نماز کے متعلق ہے جس طرف موقع ملے اداہو سکتی ہے۔ ایک واقعہ ہے کہ صحابہ کرام نے سفر میں رات کے وقت غیر قبلہ کی طرف نماز ادا کی تو اس پر اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ تمہاری نماز ہوگئی۔ البقرة
116 ف 5 اس آیت میں ارواس سے اگلی آیت میں یہو دونصاری اور مشرکین کی تردید ہے جنہوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) حضرت عزیر (علیہ السلام) اور فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی اولاد قرار دے رکھا تھا اور بتایا کہ یہ سب اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں اور اس کے فرنبردار بندے اللہ تعالیٰ اس قسم کی نسبت سے پاک اور منزہ ہے۔ (ابن کثیر) قنوت کے معنی کے لیے دیکھئے آیت 238۔ البقرة
117 البقرة
118 ف 6 ان فرق ثلاثہ عقیدہ توحید پر قدح کے بعد ان نبوت پر ان کا اعتراض نقل فرمایا ہے کے بے علم لوگ اس قسم کے اعتراض کرتے ہیں چلے آرہے ہیں۔ یہ لوگ توحید و نبوت کی حقیقت سے آگاہ نہیں ہیں تشا بھت قلو بھم۔ یعنی ان سب کی ذہن نتیں ایک جیسی ہیں اور فرمایا کہ قرآن کریم سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت رواضح ہے اگر یہ لوگ اہل یقین میں سے ہوتے تو یہی کافی تھے (المنار ) البقرة
119 ف 7 یعنی آپ سے اس کے متعلق باز پرس نہیں ہوگی کہ یہ لوگ مسلمان کیوں نہیں ہوئے۔ البقرة
120 ف 1 اس آیت میں سخت وعید اور تہدید ہے کہ یہود ونصاری کو خوش کرنے کے لیے اگر تم نے انے مشن کو چھوڑ دیا تو سمجھ ہو کہ بس تمہارے لیے کوئی جائے پناہ نہیں ہوگی اس آیت کے مخاطب گو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں مگر پوری امت کے اہل علم حضرات کو ہدایت دی جا رہی ہے کہ وہ اہل بدعت اور بیروال مذاہب باطلہ کے پاس خاظر کے لیے سنت کی پیری میں کسی قسم کی مداہنت سے کام نہ لیں۔ (فتح القدیر) البقرة
121 ف 2 یہود کے افعال قبیحہ کا ذکر کرنے کے بعد اب ان سے نیک اور خدا ترس لوگوں کا ذکر کیا ہے کہ وہ توریت کو غور وفکر سے پڑھتے ہیں اس وجہ سے وہ اسلام سے شرف یاب ہوچکے ہیں۔ ان سے مراد عبد اللہ بن سلام اور ان کے ساتھی ہیں ،۔ (رازی۔ ابن کثیر) قرآن کا حق تلاوت بھی یہی ہے کہ اسے غور سے پڑھے اور پھر اس کی ہدایت پر عمل کرے چنانچہ علما نے اس آیت کے یہ معنی کیے ہیں کہ اس کے احکام پر عمل کرتے ہیں اور غلط تاویلات سے کام نہیں لیتے۔ (ابن کثیر) البقرة
122 البقرة
123 ف 3 یہاں سے دوبارہ اہل کتاب کو متنبہ کیا جا رہا ہے کہ اوپر بیان کی ہوئی بد کرداریوں کی و جہ سے تم ظالم ٹھہرتے ہو سواب امامت وقیادت امت جانشین ہوں گے۔ (ترجمان) اس سے دوبارہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اتباع پر ابھارنا مقصود ہے۔ (شوکانی ) البقرة
124 ف 4 ان کلمات کی تعیین میں علما کے مختلف اقوال منقول ہیں مناسک حج سنن فطرت دعوت توحید ہجرت وغیرہ سب امور اس کے تحت ذکر کئے گئے ہیں ہوسکتا ہے کہ وہ جملہ آزمائشیں مرادہوں جن پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ثابت قدرم اور پکے نکلے سو اللہ تعالیٰ نے ان کو امامت اور پیشوائی کے شرف سو نوازا۔ ابن جریر) امام شوکانی لکھتے ہیں جب ان کلمات کا تعیین کسی مرفوع حدیث سے ثابت نہیں تو بہتر یہ ہے کہ بعد کی آیات کو ان کا بیان قرار دیا جائے۔ (شوکانی) ف 5 جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے پوری انسانیت کا امام بنادیا تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی اولاد کے حق میں دعا فرمائی چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمائی اور قیامت تک کے لیے سلسلہ نبوت ان کی اولاد میں کردیا۔ (دیکھئے عنکبوت آیت 27) مگر اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو بتا دیا کہ تمہاری اولاد میں ظالم لوگ اس نعمت سے سرفراز نہیں ہو سکیں گے۔ اس سے گمراہ کتاب اور بنی اسمعیل کے مشرکین کو متنبہ کرنا مقصود ہے کہ ان کے عقائد و اعمال خراب ہوچکے ہیں۔ محض حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد سے ہونا ان کے کام نہیں آسکتا۔ البقرة
125 ف 6، مقام ابراہیم (علیہ السلام) کی تفسیر میں مختلف اقوال اور پھر وہاں کھڑے ہو کر دورکعت نماز ادا کی جیسا کہ حاجی لوگ پڑھتے ہیں۔ نیز یہ آیت بھی حضرت عمر رضی اللہ کے موافقات سے ہے جن کی تعداد اٹھار ہے۔_(ابن کثیر ) البقرة
126 ف 1 اس آیت میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا کا زکر ہے جو انہوں نے منصب امامت کے بعد اللہ تعالیٰ کے حضور میں فرمائی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ دعا قبول فرمائی اور مکہ معظمہ کو ان والا شہر قرار دے دیا۔ اب حرم کی حدود میں اس کے درختوں کو کا ٹنا۔ شکار کو بھگانا وغیرہ جائز نہیں ہے۔ دوسری دعا میں مومنوں کے لیے پھلوں کے رزق کی دعا کی۔ مگر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ رزق کا معاملہ امامت سے مختلف ہے۔ دنیا میں رزق ہر مومن کافر کو ملے گا مگر آخرت میں کفار کو سخت عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یادرہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے یہ دعا اسمعیل (علیہ السلام) کے مکہ سکونت اختیار کرلینے اور حضرت اسحق (علیہ السلام) کی پیدا ئش کے بعد کی تھی حضرت اسحق (علیہ السلام) حضرت اسمعیل (علیہ السلام) سے تیرہ سال چھوٹے تھے۔ البقرة
127 ف 2 اس آیت میں خانہ کعبہ کی تعمیر کا تذکرہ ہے۔ اس کی تعمیر پر مختلف ادوار گزر چکے ہیں۔ آیت سے ظاہر ہے کہ سب سے پہلے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اس کا سنگ بنیاد رکھا اور پھر اس کی تعمیر کی بعض مفسرین نے بیت اللہ (کعبہ) کی قدامت ثابت کرنے کے لیے اس کا آدم (علیہ السلام) سے بھی پہلے کا قرار دیا ہے بلکہ یہاں تک کہ منھامدت الا رض اور یہ کہ خانہ کعبہ آسمان سے نازل ہوا، طوفان نوح کے وقت دوبارہ آسمان پر آٹھا لیا گیا۔ آدم (علیہ السلام) اور ان کے بعد جملہ انبیاء اس کی زیارت سے مشرف ہوتے رہے۔ عرفہ کے مقام پر حضرت آدم (علیہ السلام) اور حوا (علیہ السلام) کا تعارف ہوا اور جدہ میں حضرت ام ما حوا (علیہ السلام) کی قبر ہے وغیرہ اسی طرح حضر اسود کے متعلق بھی عجیب وغریب حکایات نقل کردی ہیں مگر کعبہ کا شرف تو محض اس وجہ سے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے قبلہ قرار دیا ہے ورنہ وہ بھی ایک عمارت ہے جو مکہ کی پہاڑیوں کے پتھر سے تعمیر ہوئی ہے جیسا کہ انبیاء علیہم السلام جسم ولباس میں ہمارے جیسے بشر ہوتے ہیں مگر شرف نبوت سے سرفراز ہونے کی وجہ سے وہ دوسرے لوگوں سے افضل اور ممتاز ہوجاتے ہیں چنانچہ حضرت عمر (رض) نے حجر اسود کا استلام کرتے وقت فرمایا میں جانتا ہوں کہ توایک پتھر ہے جس میں نفع نقصان پہنچانے کی طاقت نہیں ہے میں صرف اس لے ؛ ا ستلام کرتا ہوں کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تیرا استلام کرتے دیکھا ہے۔ ابن لوگوں نے کعبہ حجراسود اور غلاف کعبہ کے متعلق مختلف قسم کی رسوم و بدعات اختیار جن کا شریعت میں کوئی ثبوت نہیں ہے۔ (المنار جاہلیت میں جب قریش نے بیت اللہ کی تعمیر کی تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عمر مبارک 35 سال تھی۔ قریش کے نزاع پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حجر اسود کو اس کے مقام پر اپنے دست مبارک سے کھا۔ دور اسلام میں پہلی مرتبہ حضرت عبداللہ بن زبیر (رض) نے بیت اللہ دوبرہ تعمری کیا اس کے بعد عبدالملک کے دور خلافت میں حجاز نے اس کی از سرنو تعمیر کی اور جاہلی طرز پر بنا دیا۔ حدیث میں ہے کہ آخر زمانہ میں ایک حبشی خانہ کعبہ کو ویران کرے گا۔ (ابن کثیر ) البقرة
128 البقرة
129 ف 3 یہ حضرت ابرا ہیم (علیہ السلام) اور اسمعیل (علیہ السلام) کی دعا کی کا خاتمہ ہے رسولا سے مراد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں کیونکہ حضرت اسمعیل (علیہ السلام) کی دوریت میں انحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سوا کوئی دوسرا نبی نہیں ہو۔ حدیث میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں اپنے باپ ابراہیم کی دعا، عیسیٰ (علیہ السلام) کی بشارت اور اپنی والدہ کا خواب ہوں۔ زمانہ حمل میں میں آمنہ (رض) نے ایک خواب دیکھا تھا کہ ان کے اندر سے ایک نور نکلا ہے جس سے شام محلات روشن ہوگئے ہیں۔ اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی بشارت کا تو قرآن نے ذکر کیا ہ۔ اور خواب میں شام کی تخصیص اس لیے ہے کہ آخر زمانہ میں شام ہی اسلام کا مرکز بنے گا اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا نزول بھی شام میں ہوگا اور حدیث میں جس گرد کے تاقیامت رہنے کی خبر دی گئی ہے اوہ بھی شام میں ہوں گے۔ (ابن کثیر۔ بحوالہ مسند احمد) الکتاب سے مراد قرآن مجید اور الحکمتہ سے راد حدیث پاک ہے اور اسلام کی یہی دوبنیادی اصول ہیں کتاب سے مراد اس کے معانی ومطالب کی وضاحت سے پاک کرے اطاعت و اخلاص کی تعلیم دے۔ (قرطبی۔ فتح القدیر ) البقرة
130 ف 4 اس آیت میں کفار مکہ اور یہود کی تردید ہے مت ابراہیم (علیہ السلام) کے مدعی تھے مگر انہوں نے ملت ابراہیمی میں مختلف قسم کی بدعات اور محدثات شامل کر کے اصل دین سے انحراف اختیار کرلیا تھا۔ قرآن نے بتیا ہے کہ دین ابرہیم سے انحراف واقعی حماقت ہے حضرت ابرہیم (علیہ السلام) تو اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ پیغمبر تھے اور وہ آخرت میں سعادت مند اور صالحین کے زمرہ میں شامل ہوں گے۔ یعنی تمہارا یہ ادعا غلط اور مبنی پر حماقت ہے۔ البقرة
131 البقرة
132 ف 1 یہاں الدین" سے ملت اسلام مراد ہے جیسا کہ آیت کے خاتمہ میں صراحت ہے اس آیت میں دین اسلام یا توحید پر سختی سے کار بند رہنے کی ہدایت کی گئی ہے تاکہ خاتمہ بھی اسی پر ہو۔ (فتح القدیر) اس حالت پر موت گر انسان کے اختیار کی چیز نہیں ہے کہ کو نکہ نیک خاتمہ اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے عموم ہوتا یہ ہے کہ انسان اپنے دل لگاؤ کے ساتھ راستہ بھی اختیار کرلیتا ہے موت بھی اسی حالت پر ہوتی ہے کیونکہ اللہ کریم کی سنت یہی ہے کہ انسان نیک یا بد جو راستہ بھی اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسی کی توفیق دیدی جاتی ہے۔ ( دیکھئے آیت اللیل 5؛10) ( ابن کثیر تبصرف) ان آیات میں بھی یہود ونصاری اور مشر کین مکہ کی تردید جو اپنے آپ و حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کی اولاد کی طرف منسوب کرتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ ان کا دین بھی یہی یہودیت اور نصراینت تھا۔ قرآن نے بتایا ہے کہ تم ان بزرگوں پر بہتان باندھ رہے ہو ان کا دین بھی یہی اسلام تھا جس میں توحید اور اخلا ص کی تعلیم دی گئی ہے۔ البقرة
133 البقرة
134 ف 3 یہود کو تنبیہ کی ہے کہ وہ انبیا اور صلحاء کی طرف انتساب سے مغرور نہ ہوں یہ انتساب تمہارے کچھ کام نہیں آسکے گا بلکہ نجات کا مداد انسان کے خود اپنے اعمال پر ہے ان کے اعمال ان کے ساتھ گئے اور تمہارے اعمال تمہارے ساتھ ہوں گے سلسلہ بیان کے لیے دیکھئے آیت 141) البقرة
135 ف 4 اہل کتاب مسلمانوں کو یہودیت اور نصرانیت کی دعوت دیتے اور ہدایت کو اپنے دین میں منحصر مانتے چنانچہ مروی ہے کہ ایک یہو دی ابن صوریا اعور آنحضرت صل اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوا اور کہنے لگا راہ ہدایت صرف وہ ہے جس پر ہم گامزن ہیں لہذا آپ بھی ہمارا طریق اختیار کرلیجئے۔ اس پر یہ آیت ہوئی کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) توملت حنیفی کے علمبردار تھے اور شرک وتقلید سے بیزار اور تم دونوں گروہ شرک اور تقلید آباء (بزرگان) کے پھندے میں گرفتار ہو (ابن کثیر) اسلام دراصل عقائد اور اصول واحکام کے مجموعہ سے عبارت سے دین وملت بھی عقائد واصول سے عبادت ہے اس لحاظ سے تو شرائع اور احکام میں ہے۔ حضرت نواب صاحب لکھتے ہیں اسی طرح آجکل اہل تقلید ہم سے کہتے ہیں کہ ہمارا مذہب برحق ہے تم بھی ہمراے مام کی تقلید اختیار کرلو راہ ہدایت پالو گے سوان کو ہمارا جواب بھی یہی ہے کہ ہم کسی خاص امام کی تقلید کرنا نہیں چاہتے۔ ہم تو براہ راست رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متبع ہیں جو اللہ تعالیٰ کی وحی کے تابع تھے (ترجمان) یہود ونصاری اور مشرکین نے ملت حنیفی کو ترک کر کے کچھ رسوم وبدعات کی پابندی کو دین ہدایت سمجھ رکھا تھا اور دوسرے پر ضلالت اور گمرا ہی کا فتوی لگا تے تھے جیسا کہ آجکل اہل بدعت نے اصل کتاب وہ سنت کے ترک کے عید میلاد النبی۔ عید معراج اور کچھ ایصال ثوت کے طریقے ایجاد کر کے ان کو اشعائز اسلامیہ اور عبادات کا درجہ دے رکھا ہے اور بیت اللہ کی بجائے حج کے لے بزرگوں کے مقبروں پر جاتے ہیں نماز۔ روزہ زکوہ کے تارک ہوتے ہیں اگر کوئی توحید واصل دین کی طرف دعوت دے تو اس پر وہاہابیت (بے دینی کا فتوی لگا دیتے ہیں۔ (المنار تبصرف) البقرة
136 ف 5 الا سباط۔ یہ سبط کی جمع ہے حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے بارہ بیٹے تھے ان میں سے ہر ایک کی اولاد سبط کہلاتی ہے یہ لفظ قبیلتہ کے مترادف ہے۔ مفردات ) البقرة
137 ف 6 اس آیت میں مسلمانوں کی ہدایت اور ایمان کی تعلیم فرمائی ہے یعنی قرآن پاک سے پہلے جتنی آسمانی کتابیں ہیں اور جنتے اللہ تعالیٰ کے پیغمبر ہو گزرے ہیں سب پر مجملا ایمان لانا اور عمل کرنا ضرور ہے اس سلسلہ میں بعض انبیاء کے اسماء صراحت سے اور بقیہ کی طرف اجمالی اشارہ فرمادیا ایک حدیث میں ہے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تو رات انجیل اور زبور کے سچا ہونے کا اقرا کرو مگر عمل صرف قرآن پر کرو کیونکہ قرآن کے نزول سے پہلی تما کتابیں منسوخ ہوگئی ہیں حضرت ابوہریرہ سے ایک اور روایت میں ہے کہ اہل کتاب عبرانی زبان تورات پڑھتے اور مسلمانوں کے سامنے عربی میں۔ اس کی تفیسری کر کے سناتے۔ اس پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ کتاب کی نہ تصدیق کرو اور نہ تکذیب کرو بلکہ ان سے یہ کہو امنا بالللہ۔ (ابن کثیر۔ قرطبی) بعینیہ یہی بات اہل سنت کا گروہ اہل بدعت اور اصحاب تقلید سے کہتا چلا آرہا ہے کہ تم سب علماء اور اولیاء اسلام اور ائمہ دین کو مانو مگر قرآن وسنت کے سوا کسی کے قول کو سند نہ سمجھو عمل صرف قرآن پر کرو۔ (ت، ن) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عموما فجر کی سنت کی پہلی رکعت میں یہ آیت اور دوسری رکعت میں آل عمران کی وہ آیت جس میں فقولوا شھدوا بانا مسلمون آتا ہے ہے پڑھا کرتے تھے۔ صحیح مسلم۔ ابوداؤد) ف 1 چنانچہ یہ وعد سچا ہو۔ بنو قریظہ قتل ہوئے اور بن نضیر جلاوطن کردیئے گئے۔ (وحیدی) البقرة
138 ف 2 اس آیت میں اللہ تعالیٰ کے رنگ سے مراد اسلام یا وہ فطرت ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو پیدا کیا ہے۔ (وحیدی) اور اس کو صبغتہ اللہ سے تعبیر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ نصاری نے عیسایت کے لیے ایک زرد رنگ کا پانی مقرر کر رکھا تھا جب کوئی بچہ پیدا ہوتا یا کوئی شخص ان کے دین میں داخل ہوتا تو اس کو اس پانی سے غسل دیتے اور کہتے کہ اب پاک اور صحیح معنوں میں نصرانی ہو اہے۔ اس رسم کا نام ان کے ہاں معمودیہ یعنی بتبسمہ دینا ہ۔ (قرطبی) چنانچہ اس آیت میں ان کی تردید فرمائی کہ سب سے بہتر رنگ اللہ کا رنگ ہے یعنی دین اسلام ہے جسے حضرت نوح (علیہ السلام) سے لے کرتمام انبیاء لیکر مبعوث ہوئے ہیں۔ تمہیں چاہیئے کہ اس کی پابندی کرویہاں صبغتہ اللہ منصوب علی الا غراء ہے (ابن کثیر۔ شوکانی) البقرة
139 ف 3 یہود مسلمانوں سے نزاع کرتے کہ جملہ انبیاء بنی اسرائیل میں سے ہوئے ہیں پھر یہ آخری نبی سے کیسے مبعوث ہوگئے ہمارا دین بہتر اور تمام انبیاء کا دین ہے۔ اس آیت میں ان کی تردید فرمائی ہے ہمارا تمہارا سب کا پروردگار ایک ہے اور ہم عبادت میں مخلص بھی ہیں پھر تمہار یہ کہنا کہ ہم بہتر ہیں صحیح نہیں ہے۔ البقرة
140 ف 4 یعنی اللہ تعالیٰ نے تو ہمیں یہ بتایا ہے کہ یہ انبیاء نہ یہودی اور نصرانی ہونے کا دعوی کرتے ہو پھر تم ہی بتاؤ زیادہ علم تم کو ہے یا اللہ تعالیٰ کو ؟ ف 5 یعنی تم اچھی طرح جانتے ہو کہ یہ انبیاء یہودی یا نصرانی نہیں تھے بلکہ سب کا دین وہی اسلام تھا جس کی طرف آج محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دعوت دے رہے ہیں۔ مگر بایں ہمہ تم اس شہادت کو چھپا رہے ہو نیز تمہیں اپنی کتابوں کو ذریعہ خوب معلوم ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ کے سچے اور آخری نبی ہیں جب کے متعلق تمہاری کتابوں میں بشارت تیں موجود ہیں اور یہ بھی جانتے ہو کہ یہ قرآن واقعی اللہ تعالیٰ آخری کتاب ہے مگر تم ان سب شہادتوں کو محض تعصب اور حسد اور نغض کی بنا پر چھپا رہے ہو پھر بتاؤ کہ تم سے بڑھ کربھی دنیا میں کوئی ظالم ہوسکتا ہے۔ (ابن کثیر۔ شوکانی ) البقرة
141 ف 6 اس آیت میں دوبارہ تنبیہہ اور تہدید کی ہے کہ آخری نجات اور سعادت کا تعلق تو کسب و عمل پر ہے اگر نجات چاہتے ہو تو عمل صالح میں ان انبیاء اور صالحین کی اتباع کرو ورنہ محض ان شخصیتوں کی طرف انتساب اور ان کی کرامتیں بیان کرنا مفید نہیں ہو سکے گا۔ ایک حدیث میں ہے کہ من ابطاء بہ عملہ لم یسرع بہ نسبہ / کہ جس کے عمل کنے اسے پیچھے رکھا اس کا نسب آگے بڑھ سکے گا۔ (ابن کثیر) اس سے ان لوگوں کی عبرت حاصل کرنی چاہئے جو خود بے عمل رہ کر اپنے بزرگو کے اعمال پر تکیہ کر کے اپنے آپ کو بے بنیاد اور غلط قسم کی آرزؤں میں مگن رکھتے ہیں۔ (ترجمان ) البقرة
142 ف 1 آنحضرت ہجرت کے بعد مدینہ پہنچے تو اصح قول کے مطابق سترہ ماہ تک بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے مگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہمیشہ یہ خواہش رہی کہ کعبہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے کا حکم آجائے اس کے لیے اکثر دعابھی فرماتے اور آسمان کی طرف نظر اٹھاکر بھی دیکھتے۔ آخر جب کعبہ کی جانب منہ کرنے کا حکم آگیا تو یہود منافقین اور مشرکین عرب سبھی نے نسخ قبلہ کے حکم پر تبصرے شروع کردیئے یہود نے اسے اپنے جسدو بغض پر محمول کی ا۔ منافقین نے شہبے ڈالنے شروع کیے کہ اگر یہ واقعی اللہ تعالیٰ کے نبی ہوتے تو بیت اللہ المقدس کو چھوڑ کر کعبہ کو اپنا کیوں بناتے۔ یہود کے ہاں شرائع میں بھی محال ہے لہذا اس پہلے نسخ کو انہوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت پر طعن کا سبب بنایا قرآن نے ماولھم فرماکر جملہ اعترضات کے طرف اشارہ فرمادیا ہے۔ ( کبیر فتح القدیر) ف 2 یہ ان کے شبہ کا جواب ہے کہ اللہ تعالیٰ صاحب اداد حاکم مطلق ہے مشرق ومغرب سب جہات اسی کی ہیں جس طرف قبلہ بنانے کا حکم دینا چاہے دے سکتا ہے اصل بات اللہ تعالیٰ کے احکام کی فرمانبرداری ہے اور کعبہ کی طرف متوجہ ہونے کا حکم بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے لہذا نہ تو شرائع میں نسخ محال ہے اور نہ یہ امر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت وصداقت پر طعن کا مو جب ہوسکتا ہے (کبیر) البقرة
143 ف 3 صراط مستقیم۔ اصل میں تو جملہ افکار واخلاق اور اعمال میں راہ اعتدال کا نام ہے یہاں اس امر کی طرف اشارہ کہ کعبہ کو قبا قرار دینا بھی صراط مستقیم کی طرف ہدایت میں داخل ہے یہود اور منافقین کے اعتراضات محض حسد کی بنا پر ہیں حدیث میں ہے کہ تین باتوں پر یہود مسلمانوں سے حسد کرتے ہیں کے کعبہ قبلہ ہونے پر۔ جمعہ کے دن پر اور امام کے پیچھے آمین کہنے پر۔ (قرطبی۔ ابن کثیر) ف 4 الوسط کے معنی بہتر اور افضل کے ہیں اور ابو سعید الخدری (رض) سے مرفو عا ثابت ہے کہ یہاں وسط بمعنی ہے جس کے معنی ثقہ اور قابل اعتماد بھی ہو سکتے ہیں اور یہ بھی کہ اعتقاد واخلاص اور اعمال میں معتدل اور امم سابقہ کی افراط و تفریط سے پاک اور (قرطبی۔ ابن کثیر) کذالک اس تشبیہ کے ایک معنی تو یہ ہیں یہ جس طرح ہم نے تم پر ہدایت کی نعمت پوری کی ہے جس میں قبلہ کی طرف استقبال کا حکم بھی داخل ہے اسی طرح ہم نے تمہیں امت واسط بنا کر تم پر اپنی نعمت کا اتمام کردیا ہے اور دوسرے معن یہ ہیں کہ جس طرح ہم نے کعبہ کو قبلہ قرار دیا ہے جو سب قبیلوں سے افضل اور انبیاء کے امام حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا قبلہ ہے اس طرح ہم نے تمہیں سب امتوں سے افضل امت قرار دیا ہے۔ ( کبیر۔ ابن کثیر) ف 5 یعنی تمہیں امت وسط قرار دینے سے غرض یہ ہے کہ تم کو دنیا اور آخرت میں لوگوں پر شاہد ہونے کا درجہ حاصل ہوجائے تم قیامت کے دن انبیاء کے حق میں گواہی دو کہ انہوں نے اپنی امتوں تک اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچادیا تھا اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ گواہی دی کہ تم نے اس کے مطابق عمل کر کے دکھا یا حضرت جابر عبد اللہ سے روایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں اور میری امت قیامت کے دن ایک بلند ٹیلے پر بیٹھے ہوں گے جب کبھی کوئی امت اپنے نبی کی تکذیب کرے کی تو ہم گواہی دیں گے کہ بے شک اس نبی نے اپنی امت کو اللہ تعالیٰ کے احکام پہنچادیئے تھے۔ امت کی یہ شہادت پر مات محمد یہ سے پوچھا جائے گا کہ تمہیں ان وقعات کا کیسے علم ہو اتو کہیں گے۔ جا ونا نبینافا خبرنا ان الرسل قد بلغوا۔ کہ ہمیں ہمارے پیغمبر نے خبر دی تھی کہ تمام انبیاء نے اپنی امتوں کو اللہ تعالیٰ کے احکام پہنچا دیئے۔ (ابن کثیر بحوالہ بخاری وغیرہ) امت محمدی کی دنیا میں شہادت کے متعلق بھی احادیث وارد ہیں۔ ایک حدیث میں ہے اچھے اور برے لوگوں کی تمیز اور مغفرت تمہاری شہادت پر ہوگئی جس کی تم نے مذت کردی وہ برا ہے۔ ایک مرتبہ دو جنازوں کے بارے میں بھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جنتی اور دوزخی ہونے کا حکم صحابہ کی شہادت پر ہی فرمایا تھا اور ساتھ ہی اس کی وجہ بیان فرمائی کہ انتم شھد اء اللہ فی الا رض کہ تم زمین میں اللہ کی طرف سے گواہ ہو۔ (ابن کثیر) ف 6 یعنی پہلے بیت المقدس جو عارضی طور پر قبلہ قرار دیا تھا اور اب کعبہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے کا حکم دے دیا ہے۔ یہ اس لیے لوگوں کے ایمان کی آزمائش ہوجائے اور تمہارے سامنے یہ واضح ہوجائے گا کہ کون متبع ہے او کون مرتد یہی وجہ ہے کہ بعض نے السابقول الا ولون۔ انہی انصار اور مہاجرین کو قرار دیا ہے جنہوں نے قبلین کی طرف نماز پڑھی ہے۔ (ابن کثیر ) البقرة
144 ف 7 یعنی تمہیں دونوں قبلوں کی طرف متوجہ ہو کر نماز پڑھنے کا ثواب ملے گا۔ (ابن کثیر) بخاری میں حضرت براء رضی اللہ عہ بن عازب اور ترمذی ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ تحویل پر مسلمان ان لوگوں کو متعلق تشویش میں پڑگئے جو اس سے قبل وفات پا چکے تھے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما کر ان کو تسل دی۔ (ابن کثیر) نماز، نیت، قول اور عمل جو ارح پر مشتمل ہے اور ان تینوں کے مجموعہ کا نام ایمان سے اس لیے نماز کو ایمان فرمایا۔ (قرطبی) ف 8 یہ تحویل قبلہ کا صل حکم ہے مکہ میں تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دونوں رکنوں کے درمیان کھڑے ہو کر صخرہ بیت المقدس کی طرف رخ کر کے اس طرح نماز پڑھتے رہے کہ کعبہ بھی سامنے ہوتا اور دونوں طرف رخ ہوجاتا مگر مدینہ پہنچ کر بیک وقت دونوں کی طرف کرنا ممکن نہ رہا۔ آپ کو خواہش پر تحویل کا حکم آیا جیسا کہ مذ کور ہوا۔ (ابن کثیر) مسجد نبوی میں کعبہ کی طرف منہ کر کے سب سے پہلے نماز عصر ادا کی گئی۔ بعض علمان نے تفسیر نے لکھا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسجد بنی سلمہ میں ظہر کی نماز پڑھارہے تھے کہ تحویل کا حکم نازل ہوا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ظہر کی آخری دورکعت کی طرف رخ پھیر کر ادا کیں اس لیے کو مسجد البلتین کہا جاتا ہے یہ قصہ بعض روایات میں، مذکور ہے۔ (قرطبی) ف 9 اس میں کو تہدید ہے۔ یعنی یہود اپنی کتابوں کی پیش کوئی کی بنا پر خوب جانتے ہیں کہ نبی آخرزلزمان کا قبلہ مسجد حرام یعنی خانہ کعبہ ہوگا مگر وہ کفر حسد اور عناد کی بنا پر لتمان کر رہے ہیں۔ (ابن کثیر) البقرة
145 ف 1 یعنی وہ کعبہ کے قبلہ ہونے کو خوب جانتے ہیں مگر ان کا عباد اس قدر بڑھا ہوا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قبلہ کو تسلیم نہیں کریں گے۔ ف 2 اور آپ بھی حکم وحی کے پابند ہونے کی وجہ سے ان کے قبلہ کو اختیار نہیں کرسکتے۔ (شوکانی) ف 3 اور ان کے باہمی عباد کا یہ حال ہے کہ وہ ایک دوسرے کے قبلہ کو پسند نہیں کرتے۔ یہود صخرہ کی طرف رخ کرتے ہیں اور نصاری بیت المقدس کی مشرق جانب کی طرف۔ (قرطبی) ف 4 اس کے مخاطب تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں مگر مراد امت ہے اگر ایک شخص علم دین ہو کر اہل بد عت وہوی کی پیرعی کرتا ہے تو اس پر بھی عتاب ہے ( ابن کثیر۔ قرطبی) پھر کیا حال ہوگا ان علماء کا جو اہل بدعت کی مخالفت کی بجائے ا ان کی محفلوں (عیدمیلاد النبی، تعزیہ وغیرہ کے جلوس) میں شریک ہوتے ہیں۔ (المنار) البقرة
146 ف 5 اوپر کی آیت میں بیان ہوچکا ہے کہ اہل کتاب کعبہ کے قبلہ پر حق ہونے کو خوب جانتے تھے مگر بوجہ ضد اور ہٹ دھرمی کے انکار کرتے تھے اب اس آیت میں بتایا جارہا ہے کہ قبلہ کی طرح اہل کتاب کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نبی آخرالز مان ہونے کچھ شبہ نہیں ہے مگر پھر بھی ان سے اہل علم کا ایک گروہ اس لیے فرمایا کہ اہل کتاب میں بعض علماء جیسے عبداللہ بن سلام وغیرہ بھی تھے جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت کے جاننے کے بعد مسلمان ہوگئے تھے ،_(ابن کثیر۔ قرطبی) البقرة
147 ف 6 اس میں تنبیہ ہے کہ منافقین اور یہود کے پروپکنڈے سے متاثر نہیں ہونا چاہیے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حق لے کر آئے ہیں جو شک وشبہ سے بالا تر ہے۔ (قرطبی۔ المنار) البقرة
148 ف 7 اب اس آیت میں بتایا جا رہا ہے کہ کسی بھی ددر میں تعین قبلہ کے حکم کو اصول دین کو حیثیت حاصل نہیں ہوتی کہ اس میں رد وبد نہ ہو سکے دوسرے احکام کی طرح اس میں نسخ ہوتا رہا ہے۔ چنانچہ یہ واقعہ ہے کہ صخرہ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور نصاری بیت المقدس کی شرقی جانب کی طرف رخ کرت ہیں طرح ان پہلی امتوں کے لیے بھی ایک سمت مقرر تھی اس اصل تحت تمہارے لیے کعبہ کو قبلہ قرار دے دیا تمہیں چاہیے کہ نیک کاموں میں سبقت کرو۔ (ابن کثیر۔ المنار) اس میں اشارہ ہے کہ نماز بھی اول وقت ادا کرنے چاہیے حدیث میں ہے خیر الاعمال الصلوہ الاول قعتھا۔ کہ سب سے بہتر عمل اول وقت پر نماز ادا کرنے ہے۔ (بخاری مسلم) فائدہ۔ حاظ ابن تیمہ نے الردعلی المنطقیین (س 29) اور حافظ ابن القیم نے بدائع الفوا ئد (ج 2 ص 168۔173) میں محققا نہ طور پر ثاتب کیا ہے کہ بیت المقدس کو قبیلہ بنانا اجتہادی امرتھا اور اللہ تعالیٰ نے کسی بھی نبی کو حکم نہیں دیا کہ بیت المقدس کی طرف متوجہ ہو کر نماز پڑھیں،(کتاب الایمان ص 11) ج 8 یعنی آخر تم سب کو اللہ تعالیٰ کے حضور جمع ہونا ہے اور نیک کاموں کے متعلق تم سے پوچھا جائے گا۔ (قرطبی) البقرة
149 البقرة
150 ف 9 مسجد حرام کی طرف متوجہ ہونے کے حکم کا تین بار اعادہ کیا ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ یہ چونکہ اسلام میں نسخ ہے اس لیے تکرار برائے تاکید بعض نے لکھا ہے کہ پہلی مرتبہ حکم اس شخص کو ہے جو قبلہ کے سامنے ہو اور دوسری مرتبہ اسے نظر نہ آتا ہو اور رتیسری مرتبہ نسخ قبلہ پر مفر ضین کے اعتراض کو ختم کرنا ہوجیساکہ لئلایکون للناس علیکم حجتہ سے معلوم ہوتا ہے یعنی اہل کتاب کے لیے اس اعتراض کی گنجائش بھی نہ رہے کی نبی آخرالز مان کا قبلہ تو کعبہ ہوگا اور یہ بیت المقدس کی طرف ہو کر نماز پڑھتے ہیں۔ (کبیر۔ ابن کثیر) ف 1 حتی کہ استفان کعبہ کا حکم بھی تمام نعمت کے طور پر ہے (المنار) البقرة
151 ف 2 اس تشبیہ کا مفہوم یہ ہے کہ خانہ کعبہ کو قبلہ قرار دے کر ہم نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا کو شرف قبولیت بخشا ہے جو انھوں نے کعبہ کے بارے میں کی تھی جس طرح کہ نبی آخرالزمان کو مبعوث فرماکر ان کی اس دعا کو قبول کیا ہے جو انہوں نے بعثت رسول کے بارے میں کی تھی۔ قرآن میں الکتاب والحکمتہ سے مرادت کتاب وہ سنت ہے اور مالم تکونواتعلمون سے مسائل یا بعد الطبیعیات ( حشر ونشر مبدء نبوت وغیرہ ( مراد ہیں دیکھئے آیت :129) البقرة
152 ف 3 فاذکر ونی فار تفر یع لاکر اشارہ فرمایا ہے کہ مذکورہ انعامات کا تقاضا یہ ہے کہ میری شکرگزاری کے لیے مجھے دیا کرتے ہو ذکر الہی اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور فرمانبر داری کا نان ہے ایک حدیث میں ہے من اطاع اللہ فقد ذکر اللہ یعنی جس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی اس نے اللہ تعالیٰ کو یاد کیا ایسی احادیث میں ذکر کی بہت فضیلت آئی ہے ( ابن کثیر )،( نیز دیکھئے سورت احزاب 41) البقرة
153 ف 4 ذکر وشکر کے ساتھ صبر وصلوہ کی تعلیم دی ہے احکام شریعت پر عمل کرنے میں جو دشواریاں پیش آتی ہیں اور مصائب برداشت کرنے پڑتے ہیں صبر صلوہ پر دوام ان مشکلات کا مقابلہ کرنے لیے ہر حال میں بہتری ہے تکلیف کی حالت میں صبر کرتا ہے اور خوشحالی میں شکر گزار رہتا ہے۔ (قرطبی۔ ابن کثیر ) البقرة
154 ف 5 اوپر کی آیت میں اقامت دین کے لیے صبر وصلوہ سے کام لینے کا حکم دیا گیا ہے اب یہاں جہاد کی ترغیب ہے۔ ( کبیر) جب غزوہ بدر میں کچھ صحابہ (چودہ) شہید ہوگئے تو بعض لوگ کہنے لگے فلاں مرگیا۔ اس سے زندگی کا عیش وآرام چھین گیا۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ شہدا کے متعلق کفا رنے اس قسم کی باتیں کیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی (فتح البیان کبیر) شہیدوں کو بر زخی حیات حاصل ہے اور احادیث سے ثابت ہے کہ ان کی روحیں جنت میں عیش وآرام سے بسر کر رہے ہیں (دیکھئے آل عمران حاشیہ آیت 169۔170) اور قرآن و حدیث سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ مرنے کے بعد برزخ ( قبر) میں ہر شخص کو زندگی حاصل ہے۔ دیکھئے سورت غافر حاشیہ آیت 11۔46) سورت نوح آیت 25، ابراہیم 27) مگر مومن کی روح راحت میں ہے اور کافر کی روح کو عذاب ہورہا ہے مروی ہے القبر روضتہ من ریاض الجنتہ او حفرہ من جفر الناد (مشکوہ) حا فظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ مرنے کے بعد ہر مومن کی روح جنت میں چلی جاتی ہے جیسا کہ حدیث میں ہے۔ نسئمتہ امومن طاتر تعلق فی شجر الجنتہ حتی یر جعہ الی حسد یوم یبعثہ (مسند احمد) کہ ہر مومن کی روح پرند کی شکل میں جنت میں درختوں میں جھولتی ہے اور بزخی زند گی انبیاء علیہم السلام کو علی الو جہ ال اکمل حاصل ہے مگر شہدا کی تعظیم وتکریم کے لیے قرآن نے خصو صیت سے ان کو احیا کہا ہے۔ (ابن کثیر ) البقرة
155 البقرة
156 ف 6 مصیبت ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس سے انسان کو اذیت پہنچے خواہ کتنی معمولی کیوں نہ ہو۔ قرطبی۔ شوکانی) اناللہ۔۔ کلمہ بستر جاع ہے حضور قلب کے ساتھ یہ کلمہ زبان سے کہا جائے تو سہی اظہار عبودیت بھی ہے اور دوبارہ زندہ ہو کر جزائے اعمال کا اعتراف بھی۔ (قرطبی۔ شوکانی) اور آیت اذا صابتھم مصیبتہ میں کلمہ اذا میں اشارہ ہے کہ مصیبت پہنچتے ہی صبر کرنا اور یہ کلمہ کہنا چاہیے۔ جیسا کہ ایک حدیث میں ہے انما الصبر عند الصتد تمہ الا ولی (بخاری) کہ مصیبت جب تازہ ہو تو صبر ہے مصیبت پر ستر جاع کی احادیث میں فضیلت بھی آئی ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ اگر مصیبت پر انا للہ۔۔۔ کے بعد یہ دعا بھی پڑھی جائے اللھم اجرنی فی مصیبتی ھذہ اوخلف لی خیرا منھا (اے للہ مجھے اس مصیبت کا اجر دے اور اس کے بدلے مجھے اس سے بہتر عطا فرما) تو اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ ایسا ہی معاملہ کرتا ہے (ابن کثیر۔ بحوالہ مسلم ) البقرة
157 ف 7 صلوہ کے بعد رحمتہ کا لفظ تا کید اور اشباع معنی کے لیے ہے جیسے آیت لا نسمع ستر ھم سلجو نھم میں سر کے بعد نحوی کے بعد کا لفظ ہے ! البقرة
158 ف 1 صفا اور مروہ مسجد حرام کے قریب دو چھوٹی پہاڑیوں کے نام ہیں۔ ان کے درمیان سعی کرنا حضرت ابراہیم کے زمانہ سے مناسک حج وعمرہ شامل تھا مگر زمانہ جاہلیت میں مشر کین نے حج اور عمرہ کے منا سک میں کئی رسوم شرکیہ شامل کرلی تھیں۔ ان میں سے ایک یہ کہ صفا اور مروہ پر دوبت نصب کر رکھے تھے۔ ایک کا نام اساف اور دوسے کا نائلہ تھا جب ان کے درمیان سعی کرتے۔ تو ان بتوں کا استلام بھی کرتے۔ مسلمان ہونے کے بعد ان کے دلوں میں یہ شبہ پیدا ہوا کہ یہ سعی محض جاہلیت کی ایک رسم ہے۔ اسے نہیں کرنا چاہیے اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ سعی کے ضرور ہونے پر تو مسلمان متفق تھے تاہم آیت کے ظاہری الفاظ دیکھ کر بعض لوگوں کے دلوں میں یہ سوال پیدا ہوا کہ سعی نہ بھی کی جائے تو کوئی حرج نہیں ہے چنانچہ حضرت عروہ نے اپنی خالہ حضرت عائشہ (رض) کے سامنے اس شبہ کا اظہار کیا۔ حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا کہ اگر آیت کا یہی مفہوم ہوتا تو قرآن میں ان لا یطوف بھما ہونا چاہیے تھا، پھر حضرت عائشہ (رض) نے مزید وضاحت کے لیے بیان فرمایا کہ عرب کے بعض قبائل (ازد، غسان) منات الطاغیہ بت کی پوجا کرتے تھے۔ یہ بت انہوں نے مشلل پہاڑی پر نصب کر رکھا تھا یہ لوگ حج کے لیے جاتے تو اس بت کے نام کا تلبیہ کرتے اور اس کا طواف کرتے اور مکہ میں پہنچ کر صفا اور مروہ کے درمیان سعی کو گناہ سمجھتے تھے۔ مسلمان ہونے کے بعد اس بارے میں انہوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مقرر فرمادی ہے۔ اب کسی کو اس کے ترک کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان اللہ کتب علیکم السعی فاسعوا کہ اللہ تعالیٰ نے سعی فرض کردی ہے۔ لہذا سعی کرو اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حجتہ الوداع میں فرمایا : لتاخذوا اعنی منا سککم کہ مجھ سے منا سک حج سیکھ لو اور ان میں سعی بھی داخل ہے۔ (ابن کثیر۔ قرطبی ) البقرة
159 ف 6 یعنی ایسا کرنے والا ملعون ہے۔ البینات سے مراد واضح دلائل اور الہدی سے احکام شریعت مراد ہیں۔ بعض نے لکھا ہے کہ دونوں سے ایک ہی مراد ہے۔ یہ آیت گو یہود کے حق میں نازل ہوئی ہے جو توریت میں ذکر کئے ہوئے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اوصاف اور شریعت کی بیان کردہ حدود کو چھپاتے تھے لیکن اس میں ہر شخص کے لیے وعید ہے جو حق کو جانتے ہوئے کسی دینوی مفاد کے لیے اسے چھپائے رکھتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ من سد عن عم فکتمتہ انجم یوم القیامتہ بلعام من نار۔ کہ جس شخص سے کوئی مسئلہ دریافت کیا گیا اور اس نے اسے جاتنے بو جھتے چھپا یا قیامت کے روز اس کے منہ میں آگ کی لگام دی جائے گی۔ (ابن کثیر) اگر کسی کو مسئلہ سے غلط فہمی پیدا ہوتی ہو اور عوام میں فتنہ کا خوف ہو تو البتہ اسے عوام کے سامنے بیان کریں ورنہ جو لوگ اس حالت کفر میں مرگئے وہ ہمیشہ کے لیے لعنت کے عذاب میں گرفتار رہیں گے۔ مسئلہ اس آیت کی روسے علماء اس امر پر متفق ہیں کہ کفار پر عمومی لعنت کی جاسکتی ہے اور کسی کافر کا نام لیے کر بھی یہ فعل جائز ہے۔ (ابن کثیر۔ قرطبی ) البقرة
160 البقرة
161 البقرة
162 البقرة
163 ف 4 اوپر کی آیت میں کتمان حق پر وعید فرمائی ہے۔ اب اس آیت میں بیان فرمایا ہے کہ سب سے پہلے جس چیز کا اظہار ضروری ہے وہ مسئلہ توحید ہے۔ قرطبی )۔ ( نیز دیکھئے آل عمران آیت 1) البقرة
164 ف 1 اوپر کی آیت میں اللہ تعالیٰ کے الا واحد ہونے کا بیان تھا اس آیت میں وحدنیت پر دلائل کا بیان ہے۔ قرآن نے ان امور ثمانیہ کو وجود باری تعالیٰ اور اس کی وحدانیت کے ثبوت میں متفرق طور پر جا بجا ذکر کیا ہے مگر یہاں ان سب کو جمع کردیا ہے۔ ان امو رر تکو ینیہ سے ذکر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ان کے متعلق خود مشرکین کو بھی اعتراف تھا کہ ان کی خلق میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کوئی دوسرا شریک نہیں ہے۔ (کبیر) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ قریش نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کیجئے کہ وہ ہمارے لیے کوہ صفا کو سونا بنا دے اگر اس نے ایسا کردیا تو ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لے آئیں گے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ یہ لوگ صفا کے سونا بن جانے کا کیسے مطالبہ کررہے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور قدرت کے بڑے بڑے دلائل موجود ہیں صرف عقل وفکر کی ضرورت ہے۔ (ابن کثیر ) البقرة
165 ف 2 اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے دلائل دیکھنے کے باوجود دنیا میں ایسے بد بخت لوگ بھی پائے جاتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسروں کو انداد بناتے ہیں اور ان کی نہ صرف عبادت کرتے ہیں بلکہ ان کی محبت میں ائنا فلو کرتے ہیں جتنی کہ مومنوں کو اللہ تعالیٰ سے محبت ہے۔ ( فالمدد مضاف الی المفعول اعا کحب المو منین اللہ۔ (شوکانی) یہاں انداد سے وہ اصنام مراد ہیں جن کی وہ اللہ تعالیٰ کے سوا پوجا کرتے تھے۔ (قرطبی۔ روح) مگر یہ لفظ عام ہے اور ند ہر اس چیز کو کہہ سکتے ہیں جو انسان کے دل پر مسلط ہو کر اللہ تعالیٰ سے غافل اور مشغول کردے جیسے فرمایا : افرایت من اتخذ الھہ ھو اہ۔ کہ ان لوگوں نے اپنی خواہش کو معبود بنارکھا ہے۔ ( کبیر) آج کل جن جبتوں اور قبتوں کی پوجا کی جاتی ہے۔ ان کو یہ لفظ بالا ولی شامل ہے کیونکہ عوام ان کی تعظیم وتکریم میں اللہ تعالیٰ کو بھول چکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کی شریعت کی تباع کی بجائے پیروں کی نذر نیاز اور قبر پرستی ہی دین بن گئی ہے۔ مشر کین اللہ تعا کے ساتھ محبت میں ان "انداد" کو بھی شریک کرلیتے ہیں مگر مومنین کی اللہ تعالیٰ سے محبت سراسر خالص اور ہر قسم کے شائبہ شرک سے پاک ہوتی ہے ( مدارج السا لیکن ج 3 ص 13۔14) نیز انداد کی تشریح کے لیے دیکھئے حاشیہ آیت 22۔ مومنین کی اللہ تعالیٰ سے محبت کا بیان۔ آل عمران حاشیہ آتی 31) ف 3 یہاں جواب لو مخذوف ہے۔ ای لو یری الذین ظلمو افی الدنیا عذاب آلا خرتہ لعلموا حین یر ونہ ان لقوتہ۔ بعض نے لکھا ہے کہ یہاں یرھا بمعنی یعلم کے ہے۔ ای لو لیعلم الذعن ان القوتہ اور لو کا جواب مخذوف ہے۔ ای لتبینوا ضرراتخاذ ھم لالھتہ۔ یعنی اگر یہ ظالم لوگ اللہ تعالیٰ کی قوت وقدرت اور اس کے عذاب کی شدت کو صحیح طور پر جان لیں تو ان پر شرک کے مضرات از خود واضح ہوجائیں۔ مگر افسوس یہ ہے کہ مشرک کے دل میں اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کی شدت عذاب کا تصور نہیں ہوتا۔ اس لیے وہ دوسروں کو صاحب قوت واقتدار سمجھ کر ان کے سامنے سرنگوں ہوتا ہے۔ (شوکانی۔ کبیر) البقرة
166 البقرة
167 ف 4 ان آیتوں میں قیامت کے دن مشر کین اور ان کے پیشواؤں کی حالت زار کا ذکر ہے کہ جن رؤسا اور پیشواؤں کی محبت یہ دم بھرتے ہیں قیامت کے دن وہ ان سے بیزاری اور لا تعلقی کا اظہار کریں گے اور اللہ تعالیٰ کے عذاب کو دیکھتے ہی ان کے باہم تعلقات قطع ہوجائیں گے آخر کار یہ اپنے پیشواؤں کی دیدہ شوئی کو دیکھ کر بایں الفاظ اپنے غیظ وغضب کا اظہار کریں گے کے کاش ہمیں پھر دنیا میں لوٹا دیا جائے تو ہم بھی تم سے بیزاری کا اظہار کریں جس طرح آج تم ہم سے کر رہے ہو۔ ان کی بد اعمالیاں ان کے دلوں میں حسرت بن کر رہ جائیں گی۔ وما ھم بخا رجین من النار۔ سے ثاتب ہوتا ہے کہ کفار ابدی جہنمی ہیں اور یہ کہ جہنم کبھی فنا نہ ہوگا۔ (قربطی ) البقرة
168 ف 5 سورت بقرہ میں یا یھا الناس کے لفظ کے ساتھ خطاب یہاں دوسری مرتبہ کیا گیا ہے۔ اوپر کی آتیوں میں اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کو انداد بنانے سے تحذیر کا ذکر چلا آرہا ہے۔، مشرکین ان انداد کی تعظیم وتکریم میں اسقدر غلو کرتے کہ عبادت ودعا میں بھی انہی کو پکارتے اور ان کے نام پر بہت سے مویشی بھی حرام قرار دے دیتے۔ ان پر نہ سواری کرتے اور نہ ان کا گوشت کھاتے ان کو تقرب الی اللہ کا ذریعہ سمجھتے۔ سورۃ انعام 138۔139) چنانچہ اس آیت میں اس قسم کی تحریمات سے منع فرمایا اور اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ حلال اور طیب چیزیں کھانے کا حکم دیا۔ صحیح مسلم میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔ جو مال بھی میں نے اپنے بندوں کو بخشا ہے وہ اس کے لیے حلال اور طیب ہے مگر شیاطین ان کو گمراہ کردیتے ہیں اور وہ حلال چیزوں کو حرام ٹھہرا لیتے ہیں چنانچہ یہاں بھی فرمایا کہ شیطان کی اتباع کر کے ان کو حرام نہ ٹھہراؤ۔ سنن اور شرئع کے ماسوا معصیت۔ خطم الشیطان میں داخل۔ حدیث میں ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حضور میں یہ آیت تلاوت کی گئی تو سعد بن ابی وقاص نے عرض کیا، اللہ کے رسول ! دعا فرمایئے کہ میں مستجاب الدعوہ بن جاؤں۔ اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ حلال اور طیب کھاؤ تو تمہاری دعاقبول ہوگی۔ (ابن کثیر) یعنی شیطان ایک طرف تو معاشرے میں اخلاقی برائیوں ( سؤ فحشاء) کو فروغ دیتے ہیں اودوسری طرف دین میں بدعات پیدا کر کے لوگوں کے عقائد و اعمال خراب کرتے ہیں۔ ہر وہ بات جو کتاب وسنت ثابت نہ ہو وہ ان تقو لو اعلی اللہ تعلمون میں داخل ہے بیان کے لیے دیکھئے سورت اعراف۔ آیت 28) ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ السؤ اس برائی کو کہتے ہیں جس میں کوئی جک حد شرعی معین نہ ہو اور فحشا وہ برائی ہے جس کے ارتکاب پر حد معتین ہو۔ (قرطبی) البقرة
169 البقرة
170 ف 1 آج کل اہل بدعت کا بھی یہی حال ہے کہ کتاب وسنت کی بجائے آباؤ اجداد کے رسوم کو سند سمجھتے ہیں۔ بقول ابن عباس (رض) یہ آیت گو یہود کے حق میں نازل ہوئی مگر اس میں ان تمام لوگوں کی سخت مذت کی گئی ہے جو اپنے مذہبی پیشواؤں کے اقوال پر کسی نظرو استدلال ککے بغیر چلے جارہے ہیں چونکہ تقلید کی تعریف بھی یہی ہے کہ کسی دوسرے کی بات کو اس کی دلیل معلوم کئے بغیر قبول کرلیا جائے۔ اس لیے جو لوگ ائمہ کے مسائل قیاسہ کو ان کی دلیل معلوم کیے بغیر واجب العمل سمجھتے ہیں انہیں سوچنا چاہیے کہ آیا وہ بھی اس مذمت کے تحت نہیں آجاتے۔ ( سلسلہ بیان کے لیے دیکھئے سورت اعراف آیت 28) البقرة
171 ف 2 تر جمہ میں کی ہوئی وضاحت کے مطابق کفار کو گمراہی اور ضلالت میں ان جانوروں کے ساتھ تشبیہ دی ہے جوراعی کی آواز تو سنتے ہوں مگر کچھ سمجھتے نہیں۔ ای مثلک یا محمد ومثل الذین کفروا الخ اور دوسرے معنی یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ کفار کو بتوں کے پکار نے میں اس راعی کے ساتھ تشببیہ دی گئی ہو جو بھیڑ بکریوں کے دور سے بلاتا ہے۔ ای ‏مثل الذین کفروا ودعائھم الا صنام کمثل الذی الخ مفسرین نے اس مثل کے یہ دونوں مطلب بیان کیے ہیں مگر حاظ ابن کثیر نے پہلی تشبیہ کو پسند فرمایا ہے۔ البحر المحیط۔ ابن کثیر ) البقرة
172 ف 3 اس میں اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر ایمان کو حلال اور پاکیزہ روزی کمانے اور کھانے کا حکم دیا ہے۔ کیونکہ اس کے بغیر کوئی دعا اور عبادت قبول نہیں ہوتی۔ حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ آنحضرت نے فرمایا لو گو ! اللہ تعال طیب ہے او طیب کے بغیر کچھ قبول نہیں فرماتا۔ اس نے پانے رسولوں کو بھی پاک غذاکھانے کا حکم دیا ہے۔ (دیکھئے آیت 5 سورت المومنون) اس کے بعد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک ایسے شخص کا ذکر فرمایا جو لمبا سفر کرتا ہے گرد آلود ہے اور اس کے بال پر اگندہ ہیں۔ ایسی حالت میں وہ ہاتھ اٹھاکر یا رب یادب پکارتا ہے مگر اس کا کھانا حرام ہے اور لباس حرام ہے پھر بھلا اس کی یہ دعا کیسے قبول ہو سکتی ہے۔ (قرطبی۔ ابن کثیر بحوالا صحیح مسلم ) البقرة
173 ف 4 اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے انما کلمہ حصر کے ساتھ صرف چار چیزوں کا کھانا حرام قرار دیا ہے۔ علاوہ ازیں سب جانوروں کا گوشت حلا ہے ماسوا ان کے جن کو حدیث میں حرام قرار دیا گیا ہے مثلا درندہ جانور اور پنجہ سے شکار کرنے والا پرندہ اور الحمر لا ھلیتہ یعنی گدھا۔ المیتتہ ہر اس حلال جانور کو کہا جاتا ہے جو بدوں ذبح شرعی کے مرگیا ہو عام اس سے کہ طبعی موت مراہو یا کسی حادثے سے ہلاک ہوگیا ہو (دیکھئے سورت الانعام آیت 145) اور حدیث میں ہے : احلت لنا میتتان الحوت والجر ادودمان الکبدو الطحال کہ دو مردو جانور ہمارے لیے حلال ہیں یعنی مردہ مچھلی اور ٹڈی اور دو خون جگر اور تلی۔ ( قرطبی بحوالہ دار قطنی) اور الدم سے دم مسفوح مراد ہے یعنی وہ خون جو جانور کی رگوں سے بہا دیا گیا ہو لہذا جو خون گوشت کے ساتھ ملا ہوتا ہے وہ بالا جماع حلال ہے حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ میں گو شت پکاتی تو ہنڈیا کے اور پر خون کی وجہ سے زردی سی آجاتی آنحضرت صل اللہ علیہ وسلم اسے تناول فرمالیتے اور اس پر انکار نہ فرماتے۔ (قرطبی) سؤر کی چربی بھی گوشت کی طرح حرام ہے۔ سمندر کے مردہ جانوروں کے لیے دیکھئے۔ ( سورت المائدہ آیت) اور ما اھل لغیر اللہ میں وہ تمام جانور اور دوسری چیزیں آجاتی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ کے سوا کسی او کی نذر نیاز کے لیے مخصوص کردیا جائے ایسے جانور کا گوشت حرام ہے خواہ ذبح کے وقت کسی بزرگ یا قبر یابت کا نام لیا جائے اور خواہ اسے بسم اللہ واللہ اکبر کہہ کر ذبح کیا جائے مفسرین نے اھل لغیر اللہ کی تفسیر میں عندالذیح یعنی ذبح وقت اس پر غیر اللہ کا نام لا جائے) کی قید لگائی ہے تو یہ اس وقت کے عمومی رواج کے پیش نظر لکھ دیا ہے اس طرح غیر شرعی تہواروں پر جو جانو ذبح کیے جاتے ہیں ہو بھی اھل لغیر اللہ میں داخل ہیں۔ حضرت عائشہ (رض) سے استفسار کیا گیا عجمی لوگوں کے تہواروں میں ذبح ہونے والے جانوروں کا گوشت کھانا حلال ہے یا نہیں تو حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا جو جانور خاص اس دن کے لیے زبح ہوں ان کو مت کھاؤ۔ (قرطبی۔ کبیر) امام شوکانی فرماتے ہیں اس حکم میں وہ جانور بھی آجاتے ہیں جو فرط اعتقاد سے بزرگوں کی قبروں پر ذبح کئے جاتے ہیں۔ ) (فتح القدیر) سلسلئہ بیان کے لیے دیکھئے) سورت الا نعام آیت : ا 145) ایک حدیث میں غیر اللہ کے نام پر ذبح کی وعید بھی آتی ہے۔ چنانچہ فرمایا ھلعون من ذج لغیر اللہ۔ یعنی غیر اللہ تقرب حاصل کر کے لیے ذبح کرنے والا ملعون جامع صیغہ ج 3 ص 266) نیز تفسیر نیشاپوری میں ہے۔ اجمع العلماء لو ان مسلما ذبحتہ ویرید بذ بحھا التقرب الی غیر اللہ صادمرتد ااوذبحتہ ذیبحتہ مرتد ؛ علماء کا اس پر اجماع ہے کہ اگر کوئی مسلمان غیر اللہ تقرب حاصل کرنے کے لیے ذبح کرے تو وہ مرتد ہوجائے گا اور اس کا ذیبحہ مرتد کا ذیبحہ ہے۔ تفسیر عزیزی ص 611) نیز سورت الا نعام آیت 3) البقرة
174 ف 1 یہ آیات گو علمائے یہود کے حق میں نازل ہوئی ہیں جو دینوی مال وجاہ کے حصول کی خاطر توریت میں ذکر کیے ہوئے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اوصاف چھپا رہے تھے۔ (دیکھئے آیت 159) مگر اس سے وہ شخص مراد ہوسکتا ہے جو دینوی مفاد کی خاطر دین فروشی کرے ( قرطبی۔ بحر) ولا یکلمھم اللہ میں نفی خطاب بطریق لطف وعنایت ہے ورنہ بطریق عتاب وزجر تو باری تعالیٰ ان سے مخاطب ہوں گے۔ (دیکھئے المو منون آیت 108) الکتاب میں اختلاف بطریق تحریف یا ایمان ببعض الکتاب اور کفر بالبعض کی صورت میں۔ ( دیکھئے آیت 75۔85۔91) البقرة
175 البقرة
176 البقرة
177 ف 2 ای لکن البر بؤ من امن) تحویل قبلہ کا حکم نازل ہو اتو یہ اہل کتاب اور بعض مسلمانوں پر بہت شاق گزرا۔ (ابن کثیر) اس میں بحث وجدال نے یہاں تک شدت اختیار کرلے کہ اس کو حق وباطل کا معیار سمجھا جانے لگا اس پر یہ آیت نازل ہوئی جس میں اللہ تعال نے تحویل قبلہ کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ نیکی یہ ہے نہیں کہ تم مشرق ومغرب کی طرف اپنا رخ کرتے ہو۔ اصل مقصود اور اصل نیکی اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے۔ اس سلسلہ میں اللہ تعالیٰ نے نیک اعمال کا ذکر فرمایا کہ ان پر عمل پیرا ہونا اصل نیکی اور تقوی۔ ہے (ابن کثیر۔ کبیر) دراصل یہ آیت جمیع انوع بر حاوی ہے اور اصول عقائد کے ساتھ اعمال واخلاق کے تمام بڑے شعبوں کا اس میں بیان ہے۔ ( البحر۔ المحیط) ایمان باللہ یہ ہے کہ قرآن و حدیث میں آمد و صفات باری تعالیٰ کو بلاتا ویل مان کر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا دل وزبان سے اقرار کیا جا وے اور لکتاب سے سب آسمانی کتابیں مراد ہیں جو انبیاء پر نازل کی گئیں۔ ان پر ایمان یہ بات خاص طور پر ضروری ہے معانی کے ساتھ ان کے الفاظ کے بھی منزل من اللہ سمجھا جائے۔ (دیکھئے سورت القیامہ آیت :18۔19) اور قرآن پاک کو اشرف الکتب اور آخری کتاب مانا جائے اور یہ کہ پہلی کتابوں کو مصداق اوان پر مہہین ہے۔ (المائد ہ۔ ایت 41) جملہ انبیاء کو بشر اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے مبعوث مانا جائے اور آنحضرت کو خاتم النبین تسلیم کیا جائے۔ ( دیکھئے الا حزاب آیت 40) صبر درحقیقت ایک جامع صفت ہے جو جملہ اخلاق پر حاوی ہے۔ (راغب) مگر الباساء (مالی اور معاشی پر یشانیاں) الضرء (بدنی امراض) اور حین الباس (جنگ کی حالت) ان تین حالتوں میں صبر نہایت مشکل اور دشوار ہوتا ہے اس لیے ان حالتوں کو خاص طور پر ذکر کردیا ہے۔ (ابن کثیر ) البقرة
178 ف 3 زمانہ جاہلیت میں کوئی شخص کسی دوسرے قبیلے کہ آدمی کو قتل کر ڈالتا تو اس قبیلہ کے لوگ صرف قاتل کو قتل کرنے پر اکتفا نہ کرتے بلکہ اس کے بدلے متعدد آدمیوں کو قتل کئے بغیر صبر نہ کرتے سعید بن جبر کہتے ہیں اسلام سے پہلے دو عرب قبیلوں کی آپس میں جنگ ہوئی تھی ابھی انہوں نے آپس میں بدلہ نہ لیا تھا کہ مسلمان ہوگئے۔ ایک قبیلہ والوں نے قسم کھائی کہ جب تک ہم اپنے غلام کے بدلے دوسرے قبیلہ کے آزاد آدمی کو اور عورت کے بدلے مدر کو قتل نہ کرلیں گے آرام سے نہ بیٹھیں گے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ ( ابن کثیر۔ شوکانی 9 اور بدلہ لینے میں تعداد سے منع فرمادیا ہے۔ القتلی اس کا واحد قتیل ہے جو معنی مقتول کے ہے۔ (م۔ ع) ف 4 اس آیت سے بظاہر یہ ثابت ہوتا ہے کہ غلام کے بدلے آزاد عورت کے بدلے مرد قتل نہیں ہوسکتا۔ پہلے مسئلہ میں تو اختلاف ہے مگر دوسرے مسئلہ میں پر اتفاق ہے کہ عورت کا قاتل اگر مرد ہے تو عورت کے بدلے مرد قتل کیا جائے گا۔ حدیث میں ہے۔ المسلمون تیتکا فادماءھم کہ مرد عورت وضیع شریف الغرض سب مسلمانوں کے خون برابر ہیں۔ (قرطبی) اور الحر بالحر سے بظاہر یہ مفہوم نکلتا ہے کہ کافر کے بدلے مسلمان کو قتل کیا جاسکتا ہے یہ مسئلہ گومختلف فیہ ہے مگر صحیح یہ ہے کہ کافر کے بدلے مسلمان قتل نہیں ہوسکتا جیسا کہ بعض روایات سے ثابت ہوتا ہے۔ (سلسلئہ بیان کے لیے دیکھئے لمائدہ ح آیت 45) ف 1 آیت میں فمن میں من سے مراد قاتل ہے اور اخیہ سے مقتول ( جو مسلمان ہونے کے اعتبار سے اس کا بھائی ہے) اللہ تعالیٰ کی طرف سے تخفیف یعنی آسانی کے معنی یہ ہیں کہ پہلی امتوں میں دیت کا حکم نہ تھا بلکہ قصاص ہی لیا جاتا۔ اس امت کو اللہ تعالیٰ نے دیت کی اجازت عطا فرماکر آسانی کردی۔ (قرطبی) اور پھر اس کے بعد جو زیا دتی کرے یعنی دیت پر راضی ہوجانے یا خون معاف کردینے کے بعد بھی قاتل کو مار ڈالے تو اس کے لیے آخرت میں درد ناک عذاب ہے۔ حدیث میں ہے اگر کوئی شخص مارا گیا یا زخمی ہو اتو اسے تو اسے تین چیزوں میں سے ایک کا اختیار ہے۔ قصاص لے یادیت یا معاف کردے۔ فان ارادالرہ نعتہ فخذواعلی ید یہ۔ یعنی اگر وہ تین کے علاوہ کوئی چوتھا فعل کرنا چاہے تو تم اس کے ہاتھ پکڑ لو اس کے لیے نار جہنم ہے۔ (ابن کثری۔ بحوالہ مسند احمد ) البقرة
179 ف 2 قصاص میں زند گی کے معنی یہ ہیں کہ اس سزا کے خوف سے لوگ قتل سے رک جائیں گے اور کوئی دوسرے کے قتل پر جرات نہیں کرے گا۔، پس تتقون کے معنی یہ ہیں کہ تم دوسرے کو قتل کرنے سے بچو گے مگر اسے عام معنی پر محمول کرنا بہتر ہے کہ معصیت سے کنارہ کر کے آخرت میں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچ جاؤ علماء نے لکھا ہے کہ یہ آیت ایجاز اور جامعیت میں بے نظیر ہے۔ ( کبیر ) البقرة
180 ف 3 جاہلی عرف کے مطابق اولاد کے سوا کوئی وارث نہیں بن سکتا تھا لہذا اس آیت میں والدین اور اقربا کے لیے وصیت فرض کردی تاکہ یہ بالکل محروم نہ رہ جائیں مگر وصیت کایہ حکم شروع زمانے میں دیا گیا تھا بعد میں جب اللہ تعالیٰ نے میراث کا قانو نازل فرمادیا۔ (دیکھئے سورت النساء 1) تو ورثہ کے حق میں وصیت کا حکم منسوخ ہوگیا چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم نے آیت میراث کے نازل ہوکے بعد فرمایا ان اللہ قد اعطی کل ذی حق حقہ فلا وصتیتہ لوارث۔ کہ اللہ تعالیٰ نے ہر حق دار کو اس کا حق دیدایا ہے۔ لہذا ابن کسی کے لیے وصیت جائز نہیں ہے۔ (ابن کثیر۔ قرطبی) البتہ غیروارث رشتہ داروں کے حق میں اب بھی وصیت جائز ہے مگر وصیت کایہ حق کل مال کے ایک تہائی حصے سے زیادہ کے لیے نہیں ہے۔ نچانچہ حضرت سعد نے اپنی بیماری کے دوران میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے وصیت کی اجازت مانگی تو آپ نے فرمایا : لثلث والثنث کثیر۔ کہ ایک لیک ثلث (تہائی) کی اجازت ہے اور یہ بھی بہت ہے۔ (ابن کثیر بحوالہ بخاری ) البقرة
181 البقرة
182 ف 4 فاصلح بینھم یعنی ورثہ کو سمجھابجھا کر ان میں صلح کر ادے وصیت کا بدلنا بڑا گناہ ہے اور اس میں کتمان یعنی وصیت کو چھپانا بھی داخل ہے لیکن اگر اس میں کسی کی حق تلفی ہو یا خلاف شریعت کسی امر کی وصیت کی جائے مثلا شراب پلانے کی ناچ کرنے کی کسی قبر پر چراغاں کرنے یا میلہ اور عرس وغیرہ کرانے کی تو ایسی وصیت کا تبدیل کرنا واجب او ضرور ہے۔ (وحیدی) حدیث میں ہے الجنف جی الوصیتہ من انکبا ئر کہ وصیت میں کسی کی حق تلفی کبیرہ گناہ ہے اور سنن نسائی میں ہے کہ آنحضر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسے شخص کو جنازہ کی نماز نہ پرھنے کی سرزنش فرمائی ہے۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ ایک شخص ستر سال تک نیک عمل کرتا رہتا ہے مگر مرتے وقت وصیت میں ظلم کرجاتا ہے فرمایا : فیختم لہ لبشر ھملہ فید خل النار۔ کہ اس کا خاتمہ بہت برے عمل پر ہوتا ہے جس کی پاداش میں آگ میں چلا جاتا ہے (قرطبی۔ ابن کثیر ) البقرة
183 ف 5 اس آیت میں روزے کی فرضیت کا بیان ہے اگلے لوگوں سے جمیع امم سابقہ یا خاص کر یہود ونصاری مراد ہیں اور کما کتب میں تشبیہ فرض ہونے کے لیے اعتبار سے ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس تشبیہ وقت اور ہیئت کا اعتبار بھی مقصود ہو کیونکہ بعض آثار اور ابن حنظلہ کی مر فوع روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ ماہ رمضان کے روزے سے پہلی امتوں پر بھی فرض کیے گئے تھے۔) قرطبی، ابن کثیر) روزے کی فرضیت 2 ھ میں نازل ہوئی اور روزے نے موجود ہیئت بتدریج اختیار کی ہے ہجرت کے بعد مدینہ پہنچ کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حسب سابق عاشورہ اور ہر ماہ تین دن کا روزہ کھتے رہے حتی کہ رمضان کے روزے فرض ہوگئے ابن کثیر) الصیام والصوم کے لغوی معنی ہر اس چیز سے رک جانے کے ہیں جو نفس کو مرغوب ہو۔ (مفردات) اور شریعت میں روزہ کی نیت سے صبح صادق سے سورج کے غروب ہونے کے بعد تک مفطرات ثلاثہ یعنی کھانے پینے اور جماع) سے رکے ہنے کا نام روزہ ہے لعلکم تتقون یہ روزے کی حکمت بیان فرمادی ہے کہ اسلامی روزے کا مقصد تعذیب نفس نہیں بلکہ دل میں تقوی یعنی جی کو روکنے کی عادت پیدا کرنا ہے یہی وجہ ہے کہ حدیث میں الصیام جنتہ آیا ہے کہ روزہ گناہوں سے بچنے کے لیے ڈھال ہے اور صحیحین میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ماہ رمضان کو شھرالصبر فرمایا ہے یعنی نفس پر ہر طرح کی بندش کا مہینہ۔ (ترغیب) اور فرمایا کہ جو شخص روزہ کھ کر دوسرے کی غیبت کرتا ہے یا جھوٹ بولتا ہے اس کا روزہ نہیں ہے۔ (ترغیب ) البقرة
184 ف 6 آیت میں یطیقونہ کے معنی حضرت ابن عباس اربعض علمانے جن میں امام بخاری بھی شامل ہیں یتجشمو نہ کئے ہیں یعنی جن کو رو سے سے سخت مشقت ہوتی ہے وہ رزہ رکھنے کی بجائے ہر روز ایک مسکین کو کھانا کھلا دیا کریں۔ بوڑھے مرد اور عورت کے لیے اب بھی یہ حکم باقی ہے۔ اکثر علمانے یطیقونہ کے معنی روزے کی طاقت رکھنا ہی کئے ہیں اور بعد کی آیت سے اسے منسوخ مانا ہے۔ (رازی۔ ابن کثیر) بہر حال یطیقو نہ کا دیا ہوا ترجمہ اور جن کو روزہ کھنے کی طاقت ہی نہیں ہے محل نظر ہے۔ الکشاف) ف 7 مثلا ایک سے البقرة
185 ف 1 یعنی وہ ایام معدودہ ماہ رمضان ہے لہذا اس پورے مہینہ کے روزے رکھے جائیں۔ علاہ ازیں ماہ رمضان کی فضیلت یہ ہے کہ قرآن پاک تمام آسمانی کتابیں اس مہینہ میں انبیاء پر نازل ہوئی ہیں۔ علماء تفسری نے لکھا ہے کہ اولا قرآن پاک شہر رمضان میں شب قدر کو لوح محفوظ سے پہلے آسمان پر بیت العزہ میں بتمعا مہ نازل کردیا گیا۔ (دیکھئے سورت القدر آیت 1) اس کے بعد 23 سال میں بتدریج حسب ضرور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہو تارہا۔ لہذایہ بھی صحیح ہے کہ قرآن مجید رمضان میں نازل کیا گیا اور یہ بھی کہ لیلتہ القدر میں نازل ہوا اور یہ بھی کہ 23 سال میں متفق طو پر نازل کیا گیا۔ (ابن کثیر) یہی وجہ ہے کہ آنحضرت رمضان میں قرآن پاک کا حضرت جبریل (علیہ السلام) سے دور فرمایا کرتے تھے۔ (صحیح بخاری باب بد الوحی) اور بہت سے روایتوں میں ماہ رمضان کی راتوں میں قیام کی فضیلت آئی ہے اور فرمایا کہ اس سے سب پچھلے گناہ معاف ہوجاتے ہیں یہ قیام آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے 23۔25۔27 تین روز تراویح کی نماز باجماعت پڑھائی۔ فتح الباری ج 1 ص 59) میں بحوالہ قیام اللیل مر وزی بروایت جابر لکھا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آٹھ رکعت تراویح اور وتر سے قیام فرمایا۔ ارمضان میں قرآن کی تلاوت سے خصوصی شغف احادیث کے علاوہ تعامل سلف سے بھی ثابت ہے جس سے رمضان اور قرآن کا تعلق بخوبی واضح ہوجاتا ہے ف 2 یعنی سفر یابیماری کو جہ سے اگر رمضان کاروزہ نہ رکھ سکے تو دوسرے دنوں میں رمضان کے دنوں کی گنتی پوری کرلے۔ ( ابن کثیر۔ فتح لقدیر) ف 3 اس سے علماء نے عیدک الفطر میں تکبیرات کی مشروعیت اخذ کی ہے پہنچ کر نماز کے کھڑاہو نے تک تکبیریں کہتا رہے۔ الفاظ اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ واللہ اکبر اللہ اکبر واللہ الحمد۔ (دراقطنی۔ ابن کثیر) (سلسلئہ بیان کے لیے دیکھئے سورت الا علی آیت 1، سورت الکوثر ) البقرة
186 ف 4 ایک شخص نے آنحضر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ ہمارا رب نزدیک ہے تو ہم اس سے مناجات کریں دور ہے تو ہم اس کو پکاریں اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (ابن کثیر) اس آیت میں اللہ تعالیٰ سے دعا کی ترغیب ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر دعا کو سنتا ہے لہذا تمہیں چاہیے کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرو ماہ رمضان کے سلسلہ میں اس آیت کے اجانے کا مطلب یہ ہے کہ ماہ رمضان خصوص روزے کی حالت دعاؤں کے قبول ہونے کا خاص سبب ہے۔ ( ابن کثیر) ایک حدیث کے ضمن میں ہے کہ روزے دار کی دعا رائگاں نہیں جاتی۔ اس کی دعا کے لیے بھی آسمان کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ (ترمذی۔ نسائی) ایک دوسری حدیث میں ہے کہ افطار کے وقت دعاقبول ہوتی ہے۔ مشکوہ۔ کتاب الدعوات) یہی وجہ ہے یہ ماہ رمضان کے دران میں کثرت استغفار کا حکم دیا گیا ہے۔ (ترغیب۔ درمنشور) البقرة
187 ف 5 ابتدا میں جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو افطار سے صرف نام عشاتک کھانا پینا اور عورت سے مقاربت جائز تھی۔ اگر کسی شخص نے عشا کی نماز پڑھ لی یا وہ اس سے پہلے سوگیا تو اس کا روزہ شروع ہوجاتا تھا پھر اگلے روز افطار یعنی سورج غروب ہونے تک کھانا پینا اور جماع اس پر حرام ہوتا تھا، بعض لوگ ضبط نہ کرسکے اور رات کو عشا کے بعد بیویوں سے مقاربت کر بیٹھے ایک انصاری قیس بن صرمہ کے متعلق روایت ہے وہ روزے کی حالت میں دن بھر کھیت میں کام کرتے رہے۔ افطار کے وقت گھر آئے اور بیوی سے پوچھا کوئی چیز کھانے کے لیے ہے ؟ بیوی بیوی نے جواب دیا نہیں۔ آپ ٹھہریئے میں جاکر پڑسیوں سے لاتی ہوں بیوی کے چلے جانے کے ان کی آنکھ لگ گئی اور وہ سو گئے۔ بیوی کو دیکھ کر نہایت افسوس ہو۔ پھر اگلے دن روزہ رکھنا پڑا ابھی آدھا دن نہیں گزرا تھا کہ کمزوری کی وجہ سے غش کھاگئے، اس واقعہ کا علم آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہوا تو یہ آیت نازل ہوئی۔ (ابن کثیر بحوالہ صحیح بخاری وابوداؤد) ف 6 صبح کو سفید دھاری سے مراد صبح صادق ہے۔ اس خیط اسود اور خیط بیض کے سمجھنے میں بعض صحابہ کرام کو غلط فہمی ہوگئی تھی۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اس سے صبح کاذب مراد ہیں۔ (ابن کثیر) معلوم ہوتا ہے کہ قرآن فہمی کے لیے صرف عربی زبان جان لینا کافی نہیں ہے بلکہ حدیث کی بھی ضرورت ہے۔۔ مسئلہ : رمضان کا روزہ کھنے کے لیے رات کو نیت ضروری ہے جیساکہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : من لم الصیام من االلیل فلا صیام لہ کہ جو شخص رات کو روزہ کی بختہ نیت کر اس کا روزہ نہیں ہے۔ (قرطبی ) ف 1 رمضان سے چونکہ اعتکاف کا خاص تعلق ہے اس لیے یہاں اعتاف کے احکام کی طرف اشارہ فرمادیا۔ یہی وجہ ہے کہ فقہا محدثین کتاب الصیام کے بعد کتاب ال اعتکاف کا عنوان قائم کرتے ہیں معتکف کے لیے بیوی سے مقاربت یعنی جماع اور جماع کے داعی (بوس وکنار) سے مجتنب رہنا ضروری ہے۔ ہاں خانگی ضروریات کے سلسلہ میں عورت اپنے خاوند سے ملا قات کرسکتی ہے جیسا کہ بعض ازواج مطہرات نے مسجد میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ملاقات کی اور بیوی خدمت بھی کرسکتے ہے۔ (ابن کثیر۔ فتح القدیر) اگر معتکف نے اپنی بیوی سے جماع کرلیا تو اس کا اعتکاف ختم ہوگیا اسے نئے سرے سے اعتکاف کرنا چاہیے۔ فتح البیان) ف 2 یعنی یہ احکام اروبعہ (مباشرت کی اباحت، صبح تک کھانے پینے کی اجازت، طلوع فجر سے غروب آفتاب تک روزہ پورا کرنا، اعتکاف کی حالت میں عورت سے مقاربت کی ممانعت) حدود الہی ہیں۔ ان کی سختی سے پابندی کرو۔ (ابن کثیر) مسئلہ : احادیث میں سحر کے وقت کھاناکا کر روزہ رکھنے کی ترغیب دی گئی ہے فرمایا : تسحرووفان فی السحروبرکتہ کہ سحری کھاؤ سحری کے کھانے میں برکت ہے۔ ایک حدیث میں ہے ہمارے اور اہل کتاب کے روزے میں فرق صرف یہ ہے کہ ہم سحری کھاتے ہیں۔ لہذا سحرہ کے وقت کچھ کھائے بغیر روزہ نہیں رکھنا چاہیے۔ (ابن کثیر ) البقرة
188 ف 3 جو مال بھی جائز طریقے سے حاصل کیا جائے خواہ مالک کی راضامندی بھی شامل ہو تو وہ باطل (ناحق) طرق سے کھانا ہے۔ مثلا زنا کی اجرت نجومی کی فیس۔ شراب کی فروخت۔ لاٹری یا جوئے کے ذریعہ کمائی یا گانے بجانے اجرت۔ العرض تمام ناجائزومسائل اکل بالبابل کے تحت آجاتے ہیں۔ اسی طرح رشوت دیکر یا حکام کے سامنے جھوٹی گواہیاں پیش کر کے کسی کے مال پر قانونی تصرف حاصل کرلینا بھی حرام ہے محض حاکم کے فیصلہ سے کوئی حرام مال حلال نہیں ہوجاتا۔ حضرت ام سلمہ (رض) سے ررایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اگر کسی فریق کے دلائل سن میں اس کے حق میں فیصلہ کردوں تو میرے فیصلہ سے ایک کے لیے دوسرے کا مال حلال نہیں ہوجائے گا۔ اسے یہ سمجھنا چاہیے کہ اس نے آگ کا ایک ٹکڑا حاصل کیا ہے۔ بخاری ومسلم) اس حدیث سے معلم ہوا کہ ظاہری بیانات کی بنا پر ناحق فیصلہ سے حرام چیز حلال نہیں ہوجاتی۔ صحابہ، تابعین اور ائمہ کرام یہی مذہب ہے۔ امام ابو حنیفہ سے ایک قول اس کے خلاف بیان کیا جاتا ہے۔ _(قرطبی) البقرة
189 ف 4 اھلتہ یہ جمع ہلال کی ہے اور چاند کے پورا ہونے سے پہلے اسے ہلال کہا جاتا ہے۔ لوگوں نے اس کی کمی بیشی کا سبب دریافت کیا اللہ تعالیٰ نے مواقیت للناس فرما حکیمانہ انداز میں اس کے فوائد کی طرف اشارہ فرمادیا ہے چاند کے بڑھنے گھٹنے کے فائدے یہ ہیں کہ عبادات اور معاملات جیسے طلاق کی عدت حج، عید الفطر وغیرہ اس کے ساتھ معلق ہیں ان کی معرفت حاصل ہوجاتی ہے۔ (شوکانی) ف 5 اس کا تعلق بھی چونکہ حج سے ہے اس لیے یہاں بیان فرمادیا جاہلیت میں توہم پرستی کا غلبہ تھا ان کے ہاں یہ رسم تھی کہ وہ حج کے لیے احرام باندھ لیتے اور پھر گھر میں آنے کی ضرورت پڑتی تو دروازے کی بجائے پیچھے سے چھت پر چڑھ کر آتے۔ کیونکہ ان کا عقیدہ تھا کہ احرام باندھ لینے والے کے لیے جائز نہیں ہے کہ اس کے اور آسمان کے درمیان کوئی چیز حائل ہو۔ اس آیت میں ان کی غلط رسم کی تردید فرمائی ہے۔ (شوکانی ) البقرة
190 ف 6 اوپر کی آیت میں دو حکم مذ کور ہیں۔ (شو کانی) معرفت الہی میں استقامت جس کا تعلق علم سے ہے اور طاعت میں تقوی کے راہ اختیار کرنا جو عمل کے متعقل ہے۔ اس آیت میں جہاد کا حکم ہے جو عملا تقوی کی مشکل تریں صورت ہے۔ (کبیر) جملہ اہل علم اس امر پر متفق ہیں کہ ہجرت سے قبل قتال ممنوع تھا۔ مدینہ میں ہجرت کے بعد یہ پہلا حکم ہے جو قتال کی اجازت میں نازل ہوا۔ اس آیت کے تحت جب تک کہ عام اجازت نازل نہیں ہوئی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انہیے لڑتے جو پہل کرتے اس کے بعد عام اجازت ہوگئی۔ اس آیت میں اعتدا۔ یعنی ہر قسم کے ظلم وزیادتی سے منع فرمادیا ہے۔ چنانچہ حضرت بریدہ سے روایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (جب کوئی لشکر روانہ فرماتے تو) تو حکمدیتے جاؤ اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے لڑو جو اللہ تعالیٰ کے منکر ہیں لڑو مگر خیانت بدعہدی اور مثلہ نہ کرو۔۔ بچوں، عورتوں اور دوریشوں (راہبوں) کو قتل نہ کرو۔ (صحیح مسلم) معلوم ہوا کہ یہ جملہ امور اعتدا میں داخل ہیں جس سے منع فرمایا ہے۔، (ابن کثیر، کبیر) بعض نے اس آیت کو بلا وجہ منسوخ قراردیدیا ہے۔ (کبیر) البقرة
191 ف 7 چنانچہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب مکہ فتح کیا تو اس آیت آیت کے تحت حرم سے ہر شخص کا نکال دیا جو اسلام نہ لایا تھا اور پھر حرم مدینہ سے بھی یہود کو جلا وطن کردیا اور فرمایا : ییتقع دینان فی جز یرہ العرب۔ کہ اب عرب میں دودین اکٹھے نہیں ہو سکتے۔ (شوکانی۔ کبیر) ف 8 یعنی مکہ کے حرم یا ماہ حرام میں مقابلہ بے شک جرم ہے مگر الفتنہ یعنی شرک اور دین سے بر گشتہ کرنے کے لیے مسلمانوں کو ظلم وستم کا نشانہ بنانا اس مقابلہ سے بھی جرم ہے لہذا کسی اند یشہ کے بغیر مشرکین کو قتل کرو گو یا اس آیت میں بھی حرم مکہ یا شہر حرم میں مقاتلہ کی مشروط اجازت دی ہے۔ کبیر۔ فتح القدیر) ف 1 یعنی سرزمین مکہ نے شک حرم یعنی جائے امن ہے اس میں قتل وقتال ممنوع ہے مگر جب ظلم وتشدد کی ابتدا ان (کفار) کی طرف سے ہوئی ہے تو اب لڑائی جائز ہے۔ پھر بھی فتح مکہ کے موقع پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا کہ اسی کو قتل کرو جو ہتھیار اٹھائے اور باقی سب کے لیے امن عام کا اعلان فرمادیا۔ ابن کثیر۔ بخاری وغیرہ ) البقرة
192 البقرة
193 ف 2 یعنی ان سے اس وقت تک بر سر پیکار ہو جب تک کہ فتنہ شرک اور ظلم وستم) کا ہر طرح سے قلع قمع ہوجاتا اور اللہ تعالیٰ کا دین ہر طرح سے غالب نہیں آجاتا۔ ایک حدیث میں ہے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، مجھے اس وقت تک لڑنے کا حکم ملا ہے جب تک وہ الا لہ الا اللہ کے قائل نہیں ہوجاتے جب وہ اس کے قائل ہوجا "ئیں گے تو ان کے جان ومال محفوظ ہیں۔ الایہ کہ ان پر اسلام کی روسے کوئی حق عائد ہو تو اسے پورا کیا جائے گا۔ (ابن کثیر، بحوالہ صحیحین) ف 3 یعنی اگر یہ شرک اور مسلمانوں کے ساتھ مقاتلہ سے باز جائیں تو اس کے بعد جو شخص ان سے جنگ کرے گا وہ ظالم ہے اور اسے اس زیادتی کی سزا ملے گی یہاں عدوان کا لفظ ایسی ہی سزا کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ ابن کثیر ) البقرة
194 ف 4 آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ذع القعدہ 2 ھ میں جب عمرہ کے لیے تشریف لے گئے تو کفار نے مزاحمت کی اور عمرہ سے روک دیا مگر آخر کار صلح ہوگئی اور قرار پایا کہ مسلمان آئندہ سال عمرہ کریں یہ معاہدہ صلح حدیبیہ کے نام سے مشہور ہے۔ پھر جب دو سرے سال 7 ھ میں مسلمان عمرہ کے لیے روانہ ہوئے ان کو اندیشہ ہوا کہ ماہ حرام اور حرم مکہ میں لڑائی ممنوع ہے لیکن اگر کفار نے بد عہدی کی اور ہمیں عمرہ نہ کرنے دیا تو ہم کیا کریں گے اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (ابن کثیر کبیر) یعنی اگر کفار حرام مہینوں کا لحاظ نہ کریں تو تم بھی نہ کرو اور اگر وہ بد عہدی کریں تو تم بھی حرم مکہ کا لحاظ مت کرو۔ (قرطبی۔ ابن کثیر) فائدہ واضح رہے کہ اشہر حرم (حرام مہینے) چار ہیں۔۔ ذوالقعدہ، 2۔ ذولعقدہ، 3۔ محرم، 4۔ رجب ف یعنی اللہ کی راہ میں جہاد اور مال خرچ کرنے سے دریغ کرنا گویا اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈلنا ہے۔ حضرت ابو ایوب انصاری (رض) سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا یہ آیت ہمارے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ جب اسلام پھیل گیا اور اسے قوت حاصل ہوگئی تو انصار جمع ہوئے اور نہوں نے آپس میں مشہو رہ کیا کہ اب لڑائی بند ہوچکی ہے لہذا اگر ہم اہل وعیال میں رہ کر کچھ گھر کا دھندہ کرلیں تو اچھا ہے اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ ابن کثیر) مگر آیت اپنے مفہوم کے اعتبار سے عام ہے اور سب نیک کاموں میں مال خرچ کرنے کا حکم ہے اور دینی اور دینوی خطروں سے دور رہنے کا حکم ہے۔ (شوکانی ) البقرة
195 البقرة
196 ف 6 یعنی ان کے ارکان پوری طرح ادا کرو حج تو بلا اتفاق فرض ہے اور ارکان اسلام میں سے ہے مگر عمرہ کے وجوب میں اختلاف ہے بعض کے نزدیک وجب ہے جیسا کہ اس آیت سے معلوم ہوتاے اور بعض سینیت کے قائل ہیں احادیث میں دونوں طرح کا ثبوت ملتا ہے مگر احرام باندھ لینے کے بعد اس کا اتمام سب کے نزدیک واجب ہے۔ (شوکانی) ف 7 روکے جاؤ یعنی خانہ کعبہ تک نہ پہنچ سکو توایک ہدی ( اونٹ۔ گائے۔ یا بکری) حسب ماتیسر جہاں روکے جاؤ ذبح کر کے احرام کھولاؤ اور آئندہ سال حج یا عمرہ کرلو۔ ف 8 اس کا عطف اتموالحج پر ہے اور یہ حکم حالت امن کے ساتھ مخصوص ہے یعنی حالت امن میں اس وقت تک سزا سر نہ منڈو تو (احرام۔ نہ کھو لو جب تک کہ حج وعمرہ کے اعمال پو ری طرح ادا کر کے فارغ نہ ہوجاؤ۔ ف 9 یعنی احرام باندھنے کے بعد تمہیں بیماری یا کسی عذر کی بنا پر سر منڈوانے کی ضرورت پیش آجائے تو سرمنڈوا کر تین چیزوں میں سے کسی ایک چیز کو بطور فدیہ انجام دو۔ (1) تین دن کے روزے (2) یاچھ مسکینوں کا کھانا کھلا نا (3) یا ایک جانور کی قربانی جیسا کہ کعب بن عجرہ کی حدیث میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی تصریح فرمائی ہے۔ ( ابن کثیر) ف 9 حج کی تین قسمیں ہیں۔ 1۔ حج افراد۔ یعنی میقات (مقرہ جگہ) سے صرف حج کی نیت سے احرام باندھے۔2۔ حج اور عمرہ دونوں کی ایک ساتھ نیت کر کے احرام باندھے حج کی ان دونوں صوروتوں میں یوم الفحر ( 10 ذی الحجہ) سے پہلے احرام کھو لنا جائز نہیں ہے 3۔ حج تمتع یعنی میقات سے صرف عمرے کا احرام باندھے اور مکہ پہنچ کر عمرہ کر کے احرام کھول دے۔ پھر آٹھویں ذی الحجہ (یوم الترویہ) کو مکہ ہی سے حج کا احرام باندھ کر حج ادا کرے اور فارغ ہونے کے بعد یوم النحر یعنی دسویں تاریخ کو احرام کھلا جائے۔ آیت میں اس تیسری قسم (حج) کے احکام کا ذکر ہے۔ یعنی ایسی صورت میں حسب تو فیق دم تمتع (قربانی) ضرور جو کم از کم ایک بکری ہے سب ائمہ اس پر متفق ہیں۔ شوکانی۔ ابن کثیر ) ف 1 حج کے دنوں سے مراد ہے یوم عرفہ یعنی نویں ذی الحجہ سے پہلے کے آٹھ دن یعنی تین روزے تو ان دو نوں میں رکھے اور سات روزے وطن پہنچ کر۔ (ابن کثیر) ف 2 یہاں عشرہ کے بعد کا ملتہ کا لفظ بطور تاکید لا یا گیا ہے اور نے لکھا ہے کہ کاملتہ کے لفظ سے اس معنی کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ ان روزوں سے ہدی یعنی قربانی کاپورا ثواب مل جائے گا۔ (قرطبی) ف 3 یعنی حج تمتع کی اجا زت صرف ان لوگوں کے لیے ہے جو اہل حرم نہ ہوں اور اہل حرم سے مراد یا تو وہ لوگ ہیں جو مکہ کے اندر رہتے ہوں اور یا باہر رہتے ہوں مگر ان کی مسافت قصر صلوہ کی مسافت سے کی ہو۔ (ابن کثیر 9) اور بعض نے لکھا ہے کہ حدود میقات کے اندر رہنے والوں کو ‏من لم کین الھلہ حاضری المسجدالحرام (جس کے گھر والے مسجد حرام کے پاس نہ رہتے ہوں) کہ جائے گا۔ (ابن کثیر، ابن جیریر ) البقرة
197 ف 4 اشھر معلومات کی یہی تشریح حضرت عبداللہ بن عمر (رض) اور دیگر صحابہ وتابعین سے مروی ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حج کا احرام بھی غرہ شوال سے پہلے نہ باندھا جائے جیسا کہ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں من السنتہ ان لا یحرم باالحج الا فی اشھر الحج۔ کہ سنت یہ ہے کہ حج کا احرام حج کے مہینوں کے سوا دوسرے مہینوں میں نہ باندھا جائے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ کا یہ قول مرفوع حدیث کے حکم میں جسکی تائید حضرت جابر (رض) کی روایت سے بھی ہوتی ہے جو مرفوع اور موقوف دونوں طرح سے مروی ہے اور یہی مسلک صحیح اور راحج ہے۔ (شوکانی، ابن کثیر) مسئلہ۔ عمرہ تو سارے سال میں جب چاہے کرسکتا ہے مگر حج کے لیے یہ مہینے مقرر ہیں اور عشرہ ذی الحجہ میں اس کے مناسک اتمام پاتے ہیں اور یوم النحر کی رات گزرجانے کے بعد حج ختم ہوجاتا ہے۔ (ابن کثیر) مسئلہ حج کا احرام تو مکہ کے اندر سے ہی باندھا جاسکتا ہے مگر عمرے کے احرام کے لیے باہر حل میں جانا ضروری ہے اور اس میں آفاقی اور مکی دونوں برابر ہیں ( متوطا) ف 5 حج کو اپنے اوپر لازم کر نایہ ہے کہ حج کی نیت کے ساتھ احرام باندھ لے اور زبان سے البیک کیے۔ ( اب کثیر) ف 6 یعنی حج میں یہ سب باتیں حرام ہیں۔ فث (شہوت کی باتوں) سے جماع اور تمام وہ چیزیں مراد ہیں جو جماع کی طرف مائل کرنے والی ہوں اور فسوق کا لفظ ہر قسم کے گناہ کو شامل ہے کہ جس نے حج کیا اور اس میں رفث وفسق نہیں کیا تو وہ گنا ہوں سے اس طرح پاک ہوگیا جیسے ماں کے پیٹ سے پید ہونے کے وقت تھا۔ (ابن کثیر) ف 3 یہ معنی "التقوی کے لغوی معنی کی بنا پر ہیں۔ (روح المعانی) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ اہل یمن حج کو نکلتے تو کوئی زاد راہ ساتھ نہ لیتے اور اپنے آپ کو متوکل کہتے اس پر یہ آیت نازل ہوئی یعنی زاد راہ ساتھ نہ لینا اور اپنے آپ کو تکالیف میں ڈالنا کوئی نیکی نہیں ہے بلکہ بہترین زلو تقوی یعنی منھیات سے بچنا ہے۔ ابن جریر۔ ابن کثیر ) البقرة
198 ف 8 ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ لوگ ایام حج کو ذکر الہی کے ایام سمجھتے۔ اس لیے ان میں کسب معاش کو گناہ خیال کرتے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی حج کے دوران خرید وفروخت ممنوع نہیں ہے بلکہ یہ مال ودولت بھی اللہ تعالیٰ فضل وکرم ہے اس لیے روزی کمانا منع نہیں ہے۔ (ابن کثیر۔ شوکانی) ف 9 نوذالحجہ کو عرفات میں وقوف کرنا (ازوال آفتاب تاغروب شمس) حج کاسب سے بڑارکن ہے ایک طویل حدیث کے ضمن میں ہے الحج عرفتہ کہ عرفات میں وقوف ہی حج ہے۔ یوم النحر کی صبح سے پہلے سے پہلے جس نے وقوف کرلیا اس کا حج ہوگیا۔ مشعر حرام سے مراد مزدلفہ اور حرم کے اندر ہونے کی وجہ سے اسے "الحرام " کہد دیا گیا ہے عرفات سے پلٹ کر حجاج رات یہاں بسر کرتے صبح کی نما غلس میں پڑھ کر قرب اطلوع آفتاب تک ذکر الہی میں مشغول رہتے۔ آیت میں اسی کا حکم ہے۔ (ابن کثیر، شوکانی ) البقرة
199 ف 10 عرفات کامیدان حرم کی حدود سے باہر اس لے قریش مزدلفہ سے آگے نہ جاتے۔ ان کو حکم دیا کہ سب لوگوں کے ساتھ عرفات پہنچ کر لوٹنا ضروری ہے۔ (ابن کثیر ) البقرة
200 ف 11 اسلام سے پہلے اہل عرب لوگ حج سے فارغ ہوتے تو منی میں میلہ لگاتے اور اپنے آباؤ اجداد کا خوب تذکرہ کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ اس طرح ذکر الہی کیا کرو۔ (شوکانی) البقرة
201 البقرة
202 ف 1 (یعنی بہت جلد اور لامحاسبہ ہونے ولا ہے) ذکر الی کا حکم دینے کے بعد دعا کی کیفیت بیان فرمائی اور بتایا کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرنے والے دو طرح کے لوگ ہوتے ایک وہ صرف دنیا کے طالب ہوتے ہیں ایسے لوگ آخروی نعمتوں سے یکسر محروم رہیں گے۔ (دیکھئے الشوری آیت 20) اور دوسرے وہ جو دنیا وآخرت دونوں کی بھلائی طلب کرتے ہیں۔ اصل کامیابی انہی لوگوں کی ہے۔ (رازی۔ شوکانی) دنیا کی بھلائی (حسنہ) میں صحت، دسعت رزق، علم دین اور عبادت الہی کی توفیق۔ الغرض سب نیک اعمال شام ہیں اور آخرت کی بھلائی میں دوزخ سے نجات جنت اور رضا الہی کا حصول حساب میں آسانی وغیرہ داخل ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز اور عام اوقات میں بھی یہ دعا بکثرت فرمایا کرتے تھے۔ فر الجملہ یہ ایک نہایت جامع دعا ہے متعدد احادیث میں اس کی ترغیب آئی ہے۔ طواف کے وقت رکن یمانی اور حجر اسود کے مابین یہ دعا مسنون ہے (ابن کثیر۔ روح المعانی) البقرة
203 ان ایام سے ایام تشریق یعنی 11۔12۔13، ذی الحجہ کے دن مراد ہیں ان ایام میں ذکر الہی یہ ہے کہ رمی کے وقت ہر کنکر کے ساتھ بآواز بلند تکبیر کہی جائے۔ نیر عام اوقات خصو صافرض نماوں کے بعد تکبیرات اور ذکر الہی میں مشغول رہا جائے۔ صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) اپنے خیمہ میں اور چلتے پھر تے اور نما زوں کے بعد بلند آواز سے تکبیرات پڑھتے۔، حدیث میں ہے۔ ایاما التشریق ایام اکل وشرب وذکر اللہ۔ کہ تشریق کے دن کھا نے پینے اور ذکر الہی کے دن میں تکبیر ات کی ابتدا اور انتہا میں گو اختلاف ہے مگر صحیح یہ ہے کہ عرفہ کے دن صبح کی نماز سے شروع کی جائیں اور تشریق کے آخری دن یعنی 13 تاریخ کا نماز عصرتک تیئس نمازوں کے بعد کہی جاتیں۔ یہی مسلک اکا بر صحابہ کا ہے اور حدیث سے بھی مرفوعا ثابت ہے ارتکبیر کے الفاظ یہ ہیں اللہ اکبر (تین مرتبہ) کہ کر پھر کہے الا لہ اللہ الا للہ واللہ اکبر اللہ اکبر و اللہ الحمد (اللہ تعالیٰ ہی بڑا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور اس کے کے لیے تعریف ہے۔ (فتح البیان، رازی) نیز دیکھئے سورت الحج آیت 28) ف 3 یعنی گیا رہ اور بارہ کو دو دن میں رمی حجار بھی جائز ہے اور اگر تا خیر کرے یعنی پورے تین دن منی میں ٹھہر ارہے تو بھی جائز ہے بشرطیکہ انسان کے دل میں تقوی ہو اور جملہ مناسک حج خلوص سے ادا کرے۔ (ابن کثیر ) البقرة
204 البقرة
205 البقرة
206 ف 4 اوپر کی آیتوں میں جمن الناس سے لے کر دو قسم کے لوگ ذکر کیے یعنی طالب دنیا اور طالب آخرت۔ اب یہاں سے منافقین کے اوصاف کا بیان ہے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد مبارک میں چند ایسے چالباز لوگ تھے ان آیات میں ان کی صفات بیان فرماک ان سے چوکس رہنے کی ہدایت فرمائی ہے۔ (اقرطبی۔ فتح اقدیر) علماء تفیسر کے بیان کے مطابق یہ آیت گو اخنس بن شریق ثقفی کے بارے میں نازل ہوئی ہے مگر اپنے معنی کے اعتبار سے ہر اس شخص کو شامل ہے جو ان صفات خمسہ کے ساتھ متصف ہو۔ (رازی) الدالخصام (سخت جھگڑالو) ایک حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے برا وہ شخص ہے جو بخٹ جھگڑالو ہو۔ ( فتح البیان بحوالہ صحیح بخاری) اور حدیث میں ہے کہ منافق آدمی جب جھگڑا تا ہے تو بد کلامی پر اترآتا ہے۔ اخذتہ العذہ بلا ثم۔ ( تو غرور اس کو گناہ میں پھنسا دیتا ہے) حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں یہ بات اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے بڑے گناہوں میں داخل ہے کہ جب اس کہا جائے اللہ تعا سے ڈرر تو الٹا نصیحت کر والے کو ڈانٹ دے اور کہے تم ہوتے کون ہو نصحیت کرنے والے تم اپنی نبیڑو۔ ( فتح القدیر) یعجبک قو لہ فی الحیوہ الد نیاء یعنی دنیاوی زندگی اور اسباب معاش کے بارے میں حیرت انگیز معلومات رکھنے ولا۔ اللہ تعالیٰ کی قسمیں کھا کھا کر اپنے ایمان واخلاص کا یقین دلانے والے۔ مگر عملا تخریبی کاروائیوں میں مشغول رہ کر لوگوں کے جان و مال کو تباہ کرنے والا فھدہ خستہ خصال۔ (المنا ر) البقرة
207 ف 5 اوپر کی آیات میں اس شخص کا بیان ہوا ہے جو طلب دنیا کی خاطر دین و ایمان کو بیچ ڈالتا ہے۔ اب اس آتی میں اس شخص کا بیان ہے جو طلب دین کے لیے دنیا کو قربان کردیتا ہے۔ ( رازی) یہ آیت صہبیب عمار بلال اور دیگر صحابہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے جن کو کفار نے سخت سزائیں دیں مگر وہ اسلام و ایمان پر ثابت قدم رہے، حضرت صہیب (رض) کے متعلق مروی ہے کہ جب وہ ہجرت کرنے لگے تو مشرکین نے کہا کہ تم اپنا مال لے کر نہیں جاسکتے چنانچہ وہ سارا مال ومتاع چھوڑ کر مدینہ چلے آئے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا صہیب (رض) کو سودے میں نفع ہو اہے۔ (ابن کثیر۔ رازی ) البقرة
208 ف 6 مومن مخلص کی مدح وستائش کے بعد تمام مومنوں کو حکم ہوتا ہے کہ تم بھی پورے اسلام اور ساری شریعت پر چلو۔ اس آتی کا نزر ان اہل کتاب کے بارے میں ہوا ہے جو مسلمان ہونے کے بعد بھی خود ساختہ بد عات اومحد ثات پر عمل پیرا رہنا چاہتے تھے۔ (شوکانی۔ ترجمان) ان کو متنبہ کیا کہ اسلام قبول کرلینے کے بع اب زندگی کے دوسرے فلسفوں کو چھوڑ کر عقائد واعمال اور اخلاق و معاشرت کے باب میں السلم یعنی اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہونا پڑے گا اور اس سے کسی طور انحراف بھی شیطان کے نقش قدم پر چلنا ہے۔ گمراہی کا سر چشمہ یا تو روشن خیالی اور جدت پسندی ہے اور یا پھر توہم پرستی اور اہل تصوف کی بد عات ہیں۔ البقرة
209 البقرة
210 ف 1 رجز وتہدید ہے یعنی یہ لوگ کیا چاہتے ہیں ؟ یہی تاکہ جو کچھ قیامت میں ہونے والا ہے وہ آج ہی ہوجائے۔ (قرطبی) قیامت کے دن مذکورہ صورت میں اللہ تعالیٰ کا نزول احادیث سے ثابت ہوتا ہے لہذا اللہ تعالیٰ کے دوسرے صفات و افعال اور شوؤن کی طرح اس پر بھی بلا کیف اور بغیر تاویل کے ایمان لانا ضروری ہے۔ سلف صالح کا یہی مسلک ہے متکلمین اور عقل پر ستوں کی تاویلات مذہب اہل حدیث اور سلف امت کے خلاف میں۔ (روح۔ ترجما ن) اور بقول اما رازی اگر یہ کہہ دیا جائے کہ اس آیت میں یہود کے عقیدہ کی حکایت اور ان کے خیال کی ترجمانی ہے قطع نظر اس سے کہ ان کا یہ خیال غلط ہے یا صحیح اور یہود چونکہ تشبیہ کے قائل تھے لہذا آیت سے اپنے ظاہر معنی پر محمول ہے اور تاویل کی ضرورت نہیں تو بالکل بجا ہے۔ (کبیر) البقرة
211 ف 2 یہ سوال بطور زجر توبخ ہے اور توجہ دلائی ہے کہ مسلمانوں کا چاہیے کہ بنی اسرائیل کی تاریخ سے عبرت حاصل کریں کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اودوسرے انبیاء کے ذریعہ ان کے پاس کس قدر دلائل بھیجے گئے لیکن وہ ان دلائل وآیات سے ہدایت اور راہ نجات حاصل کرنے کی بجائے ان میں تحریف وتاویل کر کے ضلالت وہلاکت میں پڑگئے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انہیں دنیا میں بھی سزا ملی اور آخرت میں بھی اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نہ بچ سکے گے۔ (رازی۔ ابن کثیر) البقرة
212 ف 3 یعنی ان کے اعراض اوکفر کا سبب یہ ہے کہ دنیا کے چند روز عیش وعشرت اور رنگ رلیوں میں بد مست ہو کر رہ گئے ہیں اور اہل حق کی تذلیل اور ان کی سادہ زندگی مذاق اڑانے کو انہوں ن مشغلہ بنا رکھا ہے مگر قیامت کے دن اہل تقوی ہر اعتبار سے ان پر فائق ہوں گے کیونکہ مومن علی علیین میں ہوں گے اور کفار اسفل السافلین میں۔ بیضاوی) جنت میں رزق کا بغیر حساب ہونا یا تو دائمی اور غیر فانی ہونے کے اعتبار سے ہے۔ (دیکھئے ہود آیت 108) یا اس اعتبار سے کہ انہیں مزید اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے نوازا جائے گا۔ (دیکھئے غافر آیت :40) لہذا یہ عطاء حسابا ( النساء 36) کے منافی نہیں ہے۔ رازی) البقرة
213 ف 4 اس آیت میں اس تاریخی حقیقت کا انکشاف فرمایا ہے کہ انسان یت کی ابتدا کفرو شرک اور بظاہر پرستی سے نہیں بلکہ خالص دین توحید سے ہوتی ہے ابتدا میں تمام انسان ایک ہی دین توحید رکھتے تھے اور ایک ہی ان کی ملت تھی، حضرت آدم (علیہ السلام) کے بعد حسب تصریح ابن عباس دس قرنوں (ایک ہزار سال) تک تمام لوگ موجود تھے اس کے بعد شیطان کے بیکانے ان میں شرک آیا اور اختلاف پیدا ہوئے۔ تب اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) کو بھیجا اور پھر مسلسل انبیاء آتے رہے اور ان پرکتابیں نازل ہوتی رہیں تاکہ ان کو اختلافات سے نکال کر ہدایت الہی کی طرف لایا جائے پس آیت میں فبعث اللہ الخ۔ ا کا عطف مخذف پر ہے یعنی فاختلفو افبعث اللہ۔ (کبی ابن جریر دیکھئے سورت یو نس آیت 19۔) ف 1 یعنی پہلی امتوں میں ضد اور سرکشی کی وجہ سے اختلافات پیدا ہوئے اور اس کی بدولت وہ گمراہو گئیں اب اللہ تعالیٰ نے اپنا آخری نبی بھیج کر اور ان پر اپنی آخری کتاب نازل فرماکر تما اختلاف کا فیصلہ کردیا اور اپنی توفیق خاص (باذنہ) سے مومنوں کو صراط مستقیم کی طرف ہدایت کردی ہے ( بیضاوی۔ فتح البیان) واضح رہے کہ امت محمد یہ میں بھی تمام کے تمام قرآن و حدیث کی بلا واسطہ اتباع کرتے رہے پھر جب دین میں غلط رائے کے خام اجتہاد اور تقلید پر جمود پیداہو گیا لوگ آراء اور اہوا پرستی کو دین سمجھنے لگ گئے تو امتفرقوں میں بٹ کر تباہ ہوگئی۔ اس سے صرف متبع سلف (اہل حدیث) ہی محفوظ رہے۔ (للہ الحمد)، ( تبصرہ) صحیحین میں برایت حضرت عائشہ (رض) مذکور ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تہجد میں دعا استفتاح میں یہ پڑھا کرتے۔ اھدنی لما اختلف فیہ من الحق باذنک تھدی من تشآء الی صراط مستقیم ( ابن کثیر) البقرة
214 ف 2 حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ مدینہ میں ہجرت کے بعد جب مسلمانوں کو (مشرکین منافقین اور یہود سے سخت تکالیف پہنچیں تو یہ آیت نازل ہوئی۔ (رازی) اور مسلمانوں کو تسلی دی گئی کہ دین کی راہ میں یہ مصائب وشدائد کچھ تم پر ہی نہیں آرہے ہیں بلکہ تم سے پہلے لوگ تو فقرفاقہ۔ جانی ومالی نقصان اور سخت قسم کے خوف وہراس میں مبتا کردیے گئے تھے حتی کہ الرسول یعنی اس زمانے کا پیغمبر) اور اس کے متبعین متی نصر اللہ) پکار اٹھے تھے پھر جیسے ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد نازل ہوئی تمہاری بھی مدد کی جائے گی۔ چنانچہ غزؤہ احراب میں جب یہ مرحلہ آیا تو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی مدد فرمائی۔ (دیکھئے سورت احرزاب آیت 10 تا 20) ان کا متی نصر اللہ " کہنا اعتراض وشکوہ کے طور پر نہ تھا بلکہ عالم اضطرار میں الحاح وزاری کی ایک کیفیت کا اظہار تھا اور نصر اللہ قریب فرماکر مومنوں کو بشارت دی ہے، (رازی، ابن کثیر) حضرت خباب بن ارت سے روایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : پہلے لوگوں کے سروں پر آرہ چلا کر ان کو چیر دیا گیا اور لوہے کی کنگھی سے ان کے گوشت اور پوست کر نوچا گیا مگر یہ چیز ان کو دین سے نہ پھیر سکی۔ (بخاری ) البقرة
215 ف 3 ایک شخص عمر و بن جمبوح بہت مالدار تھا اس نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا کہ ہم کیا خرچ کریں اور کن لوگوں پر خرز کریں اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور بتایا کہ خرچ تو ہر آدمی اپنی طاقت کے مطابق کرے مگر ترتیب کے ساتھ خرچ کے مصارف بتا دیئے۔ میمون مہران اس آیت کو پڑھ کر کہنے لگے یہ ہیں مسلمان کے خرچ کرنے کی جگہیں۔ ان میں طلبہ۔ سارنگی۔، چوبی تصویروں اور گھر کی آرائش کا ذکر نہیں ہے ،(ابن کثیر، رازی) معلوم ہوا کہ اس قسم کے تمام فضول مصارف باطل اور اسراف میں داخل ہیں۔ آخر میں بتایا کہ جو خرچ نیک راہ میں ہوگا اللہ تعالیٰ اس کی قدر دانی ضرور فرمائے گا اور اس کا پورا بدلہ دے گا۔ مسئلہ آیت میں صدقہ تطوع کا بیان ہے ورنہ ماں باپ کو زکوہ دینا جائز نہیں ہے۔ دیکھئے سورت توبہ آیت 60) البقرة
216 ف 4 آیت میں اتصتال سے مراد قتل نوع انسانی نہیں بلکہ جہاد ہے اور اسلام میں جہاد سے مقصود اللہ تعالیٰ کے دین کو سربلندی کرنا کفر وشرک کی بیخ کنی کرنا اور مسلمانوں کی کفار کے شر سے بجانا ہے اور امت مسلمہ پر یہ فریضہ قیامت تک عائد رہے گا، حدیث میں ہے کہ میری امت قیامت تک جہاد کرتی رہے گی یہاں تک کہ خیر امت دجال سے جنگ کردے گی اور فتح کے روز آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اب فتح مکہ کے بعد مدینہ ہجرت کی ضرورت نہیں لیکن جہاد اور نیت باقی ہے۔ (ابن کثیر، وحیدی) البقرة
217 ف 1 ذوالقعدہ، ذولحجہ، محرم اور رجب، یہ چارمہینے حرمت والے ہیں۔ عہد جاہلیت سے ہی ان میں لوٹ مار اور خون ریزی حرام سمجھی جاتی تھی۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ 2 ھ میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عبداللہ بن جحش کی سر کردی میں ایک دستہ فوج جہاد پر روانہ کیا۔ انہوں نے کافروں کے ایک قافلہ پر حملہ کیا جس سے ایک آدمی مارا گیا اور بعض کو ان کے مال سمیت گرفتار کر کے مدنیہ میں لے آئے۔ یہ واقعہ ماہ رجب میں پیش آیا کفار نے مسلمانوں کو طعنہ دیا کہ تم نے رجب میں جنگ کر کے اس کی حرمت کو توڑا ہے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ مارہ رجب میں جنگ کرنا اگرچہ واقعی گناہ ہے مگر تم اس سے بھی برے گناہوں کا ارتکاب کر رہے ہو ( جو آیت میں مذکور ہیں) لہذا اگر مسلمانوں نے تلوار اٹھالی ہے تو قابل مواخزہ نہیں۔، (ابن کثیر، شوکانی) شہر حرام میں لڑائی کی حرمت سورت برات کی آیت : فاقتلوا المشرکین الخ سے منسوخ ہوچکی ہے جمہو فقہا کا یہی مسلک ہے۔ (ابن العربی۔ الجصاص) قتال فیہ بدل اشتمال من الشھر الحرام وصد عطف علی کبیر والمسجد الحرام عطف علی سبیل اللہ واخرج اھلہ عطف علی صد واکبر عنداللہ خیر صدوماعبف علیلہ۔ ( شوکانی) یہاں الفتنہ سے مراد ہے مسلمانوں کو دین اسلام سے برگشتہ کرنے کے لیے ظلم وستم کا نشانہ بنانا۔ ف 2 اس آیت سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص نعوذباللہ) مرتد ہوجائے تو اس کے تمام عمل ضائع ہوجاتے ہیں لیکن اگر پھر سچے دل سے تائب ہو کر اسلام قبول کرلے تو ارتداد سے قبل کے اعمال ضائع نہیں جاتے بلکہ ان کا ثواب کا مل جاتا ہے۔ (فتح البیان ) البقرة
218 ف 3 ہجرت کے معنی ہیں ایک جگہ چھوڑ کر دوسری جگہ سکونت پذیر ہونا مگر اس ہجرت سے مراد ہے دارالکفر کو چھوڑ کر دارالاسلام میں چلے جانا۔ مفردات راغب) عبد اللہ بن جحش (رض) اور انکے ساتھیوں کے بارے میں جب گزشتہ آیت اتری اور وہ لوگ ڈرنے لگے کہ شاید ہمیں کوئی ثواب بھی نہ ملے اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ فتح البیان۔ ابن کثیر ) البقرة
219 ف 4 اس آیت میں گو شراب اور جوئے کی حرمت کی تصریح نہیں ہے مگر قطعی طور پر ان کی تحریم کے لیے تمہیدہ ضرور ہے۔ آخر کار سورت مائدہ آیت 9۔19) میں ان کو قطعی اور صاف طور پر "حرام کردیا گیا۔ (ابن کثیر) حدیث میں ہے : کل مسکر حرام (صحیحین) یعنی ہر نشہ آور چیز خمر ہے لہذا ہر نشہ آور شراب اس کے تحت حرام ہے خواہ وہ انگور سے کشید کی گئی ہو یا کسی اور چیز سے۔ اور احادیث میں شراب نوشی کی سخت مذمت آئی ہے اور پینے پلانے والوں کے علاوہ خرید وفروخت اور بنانے بنوانے اور حمالہ یعنی مزدوری کرنے والوں پر بھی لعنت کی گئی ہے۔ ابو داؤد) اور ایسے دسترخوان پر بیٹھنے سے بھی منع فرمایا جس پر شراب موجود ہو۔ (ترغیب) اور میسر قمار (جوئے) کو کہتے ہیں اور آجکل پانسے لاٹری اور سٹے وغیرہ کے نام کسے جو کاروبار ہو رہے ہیں سب قماری بازی کے شعبے ہیں اور علمائے سلف نے جوئے اور شطرنج کو بھی قمار میں شامل کیا ہے۔ (ترجمان وحیدی) سلسلئہ بیان دیکھئے سورت مائدہ آیت 90) ف 5 عفو سے مراد وہ مال ہے جو اہل عیال اور لازمی ضروریات پر خرچ کرنے کے بعد بچہ رہے اور جس کے خرچ کرنے کے بعد انسان خود اتنا محتاج نہ ہوجائے کہ دوسروں سے سوال کرنے لگے۔ حدیث میں ہے بہتر صدقہ وہ ہے جو خوشحالی کے ساتھ ہو اور تم پہلے اپنے اہل و عیال پر خرچ کرو (بخاری) یہ حکم زکوہ کے علاوہ نفلی صدقہ کا ہے اور حدیث میں ہے کہ مال میں زکوہ کے علا وہ بھی حق ہے (فتح القدیر) ف 6 یعنی دنیا اور آخرت دونوں کی فکر رکھو مگر دنیا چند روزہ ہے اوآخرت ہمیشہ رہنے والی ہے لہذا بنیادی ضروریات کے بعد جو مال بچ رہے اس کا آخرت ہی کے لیے جمع کرنا بہتر ہے۔ کذافی حدیث۔ (ابن کثیر ) البقرة
220 ف 1 ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ جب یہ آیت ان الذین یاکلون اموال الیتمی ظلما۔ نازل ہوئی تو تو جو لوگ یتیموں کے کفیل تھے وہ بہت ڈر گئے اور ان کے کھانے پینے کا نتظام بھی الگ کردیا پھر بعض اوقات یتیم کے لیے تیار کی ہوئی چیز اس کے کام نہ آتی تو ضائع ہوجاتی اس طرح کئی مشکلات پیش آنے لگیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ اصل یتیموں کی بہتری اور ان کے مال کی اصلاح ہے لہذا اگر ان کے اموال کو ساتھ ملانے میں ان کی بہتری ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ آخر یہ یتیم بچے تمہارے بھائی ہیں اگر کبھی تم نے ان کا اور انہوں نے تمہارا کچھ کھا پی لیا تو بھائیوں اور رشتہ داروں کے درمیان ایسا ہوتا ہی ہے اس پر لوگوں نے یتیموں کی کھانے پینے کی چیزوں کو پھر اپنے طعام و شراب کے ساتھ جمع کرلیا۔ (ابن جریر۔ ابن کثیر) نیز دیکھئے۔ (سورت اسرائیل آیت 34، الا نعام آیت 152) البقرة
221 ف 2 حضرت حذیفہ یا عبداللہ بن رواحہ کے گھر میں ایک سیاہ فام لونڈی تھی۔ انہوں نے اسے آزاد کر کے نکاح کرلیا ان کے دوستوں نے اس نکاح کر پسند کہ کیا اور ایک مشرکہ کا نام لے کر انہیں پیش کیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (شو کانی۔ ابن کثیر) بعض نے لکھا ہے کہ ابو مرثد الغنوی کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ہے اس نے مکہ کی ایک مشرکہ عورت "غناق" سے نکاح کا ارادہ کیا جس سے جاہلیت میں اس کے تعلقات تھے چنانچہ اس نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا تو یہ آیت نازل ہوئی (قرطبی) آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ مشرک عورت سے مسلمان مرد نکاح کرنا حرام ہے اسی طرح مومن عورت کا مشرک مرد سے نکاح حرام ہے۔ ہاں کتابیہ عورت سے نکاح جائز ہے۔ دیکھئے سورت المائدہ آیت 5) حدیث میں ہے کہ عورت سے نکاح کے وقت چار باتیں مد نظر ہوتی ہیں مال دار حسب خوبصورتی اور دینداری کو دوسری باتوں پر ترجیح دو (صحیحین ) البقرة
222 ف 3 حیض کہتے ہیں خون کو جو عورتوں کی عادت ہے اور عادت کے خلاف جو خون آوے وہ استحاضہ (بیماری) ہے حیض کے دونوں میں عورت سے مجامعت کرنا اور عورت کے لیے نماز روزہ سب حرام ہیں حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ یہوں حالت حیض میں عورت کے ساتھ کھانے پینے اور گھر میں اس کے ساتھ اختلاط کو جائز نہیں سمجھتے تھے، صحابہ نے اس بارے میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا تو یہ آیت اتری۔ اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : حالت حیض میں جماع کر علاوہ ہر طرح سے عورت کے ساتھ اختلاط جائز ہے اور اس حالت میں الگ رہنے کا مطلب صرف ترک مجامعت ہے۔ ( ابن کثیر بحوالہ مسلم وغیرہ) ف 4 یعنی جب تک پاک ہو کر غسل نہ کرلیں اس پر جمیع علماء کا اتفاق ہے۔ صرف امام ابو حنیفہ اس مسئلہ میں دوسروں سے منفرد ہیں وہ کہتے ہیں کہ اگر حیض اپنی پوری مدت میں یعنی دس دن پر موقوف ہو تو غسل سے پہلے ہی مجامعت درست ہے مگر یہ قول تطھرون کے خلاف ہے جس معنی اچھی طرح پاک ہوجانا کے ہیں۔ (ابن کثیر۔، ابن العربی) ف 5 یعنی عورت سے اس کی آگے کی جانب شرم گاہ میں مجا معت کرو۔ اس سے ثاتب ہوتا ہے کہ عورت سے غیر فطری مجامعت حرام ہے۔ (ابن کثیر ) البقرة
223 ف 6 حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں کہ یہوس کہا کرتے تھے اگر عورت کو پیٹ کے بل کر کے مجامعت کی جائے تو احول (بھینگا) پیدا ہوتا ہے، اس پر یہ آیت اتری کہ عورتیں کھیتی ہیں جماع کے لیے کوئی سن مقرر نہیں ہے ہر آسن پر جماع کرسکتے ہو مگر اولاد پیدا ہونے کی جگہ میں ہو۔ بعض لوگ غصہ میں آکر کسی نیک کام کے نہ کرنے کی قسم کھا لیتے ہیں اور پھر اس قسم کو نیکی سے باز رہنے کے لیے آڑ بنا لیتے ، البقرة
224 اس آیت میں اس قسم کے لوگوں کو ہدایت دی جا رہی ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کے نام کی قسمیں اس لیے نہ کھاؤ کہ نیکی پر ہیز گاری لوگوں میں صلح کرانے نیک کاموں سے باز رہنے بہانہ ہاتھ آجائے کیونکہ ایک غلط قسم پر اڑے رہنا گناہ ہے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عبدالر حمن بن سمرہ سے فرمایا اگر تم قسم کھالو اور پھر دیکھو کہ غیر قسم بہتر ہے تو تم اس بہتر کام کو کرو اور اپنی قسم توڑنے کا کفارہ دو۔ (ابن کثیر بحوالہ صحیحین) قسم توڑنے کا کفارہ دس مسکینوں کو کھانا کھلانا یا نہیں کپڑے پہنانا یا ایک غلام آزاد کرنا ہے اور جو شخص ایسا نہ کرسکے اس کے لیے تین روزے رکھنا ہے۔ (دیکھئے سورت المائدہ آیت 89) البقرة
225 ف 1 لغو قسموں سے مراد وہ قسمیں ہیں جو بے ساختہ عادت کے طور پر یو نہی زبان سے نکل جاتی ہیں، نہیں پکڑے گا۔ یعنی ایسی قسموں پر کسی قسم کا کفارہ یا سزا نہیں ہے ہاں جو قسمیں دل کے ارادہ کے ساتھ کھائی جائیں اور پھر ان کی خلاف روزی کی جائے تو ان پر کفارہ یا سزا ہے۔ فقہ کی زبان میں ایسی قسم کو منعقدہ کہتے ہیں مگر کوئی شخص عمداجھوٹی قسم کھائے تو یہ کبیرہ گناہ ہے اس کا کفارہ نہیں ہے ایسی قسم کو یین غموس کہا جاتا ہے۔ البقرة
226 ج 6 ان دو آیتوں میں "ایلاء" کا مسئلہ بیان ہوا ہے ایلاء کے لفظی معنی قسم کھانے کے ہیں اور اپنی عورتوں سے ایلاء کے معنی یہ ہیں کہ مر دقسم کھا لے کہ وہ اپنی عورت سے جنسی خواہش پوری نہیں کرے گا پھر اگر قسم چار ماہ اس سے کم مدت کے لیے کھائی ہو تو اسے اپنی قسم پورا کرنے کا اختیار ہے۔ اگر وہ مدت پوری کر کے اپنی بیوی سے تعلق قائم کرے گا تو اس پر کوئی کفارہ نہیں ہوگا اور اگر اس مدت سے پہلے تعلق بحال کرلے گا تو کفارہ دینا ہوگا۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک مرتبہ اپنی بیویوں سے تعلق نہ رکھنے کی قسم کھائی تھی جب مدت گذر گئی تو آپ نے ان سے تعلق قائم فرمالیا اور کوئی کفارہ ادا نہیں کیا۔ (شوکانی) اور اگر چا رماہ سے زیادہ مدت کے لیے یا مدت تعین کے بغیر قسم کھائے تو ایسے شخص کیلے اس آیت میں چار ماہ کی مدت مقرر کردی ہے کہ یا تو اس مدت کے پورا ہوتے ہیں اپنی بیوی سے تعلقات قائم کرے اور یا پھر سیدھی طرح سے طلاق دیدے۔ پہلی صورت اختیار نہ کرے تو حاکم وقت کو اختیار ہوگا کہ وہ اسے کسی ایک کے اختیار کرنے پر مجبور کرے اکثر صحابہ اور جمہور ائمہ کا یہی قول ہے۔ ( ابن کثیر) البقرة
227 البقرة
228 ف 3 مسئلہ یہ ہے کہ اگر کوئی خاوند جماع کے بعد اپنی عورت کو طلاق دے اور اسے حیض نہ آتا ہو تو اس کے لیے عدت تین ماہ ہے اور اگر حاملہ ہو تو وضح حمل۔ (دیکھئے سورت الطلاق آیت 4) اگر جماع سے پہلے ہی طلاق ہوجائے تو اس پر کوئی عدت نہیں ہے۔ (دیکھئے آیت 237) پس اس آیت میں المطلقات سے ان عورتوں کو عدت کا بیان کرنا مقصو ہے جن سے خاوند صحبت کرچکے ہیں اور ہو حاملہ نہ ہوں اور ان کو حیض بھی آتا ہو تو ان کی عدت تین طہر یا تین حیض ہے۔ ابن کثیر۔ شوکانی) قردء کا لفظ جمع ہے اور اس کا واحد قوء ہے اور یہ طہر اور حیض دونوں پر بو لا جاتا ہے گو از روئے دلائل اول حج ہیں مگر فتوی دونوں پر صحیح ہے۔ (سلسلئہ بیان لیے دیکھئے سوررت الطلاق آیت 1) حضرت اسماء بنت عتت مقرر نہ تھی جب مجھے طلاق ہوئی تو یہ آیت نازل ہوئی۔ (ابن کثیر) ف 4 یعنی حمل یاحیض کے بارے میں عورت غلط بیانی سے کام نہ لے اور یاد رکھو باہمی حقوق ادا کرنے میں میاں بیوی دونوں برابر ہیں مگر مردکو عورت پر فضیلت حاصل ہے۔ (دیکھئے سورت النساء آیت 34) اس لیے عدت کے اندر اگر خاوند رجوع کرنا چاہیے تو عورت کا لا زما ماننا ہوگا۔ (ابن کثیر) ف حضرت عائشہ (رض) اور دیگر صحابہ کی روایات کے بموجب ابتدائے ہجرت میں جا ہلی دستور کے مطابق مرد عورتوں کو کئی کئی بار طلاق دیتے اور عدت کر اندر رجوع کرتے رہتے تھے۔ مقصد بیوی کو تنگ کرنا ہو تو تھا اس صورت حال کو روکنے کے لیے یہ آیت نازل ہوئی کہ رجعی طلاق زیادہ سے زیادہ دو مرتبہ ہے اس کے بعد امساک بمعور یا تو عدت کے اندر رجوع کرنا ہے اور یا تسر یح با حسان یعنی حسن سلوک کے ساتھ تیسری طلاق دینا ہے۔ یہ تفسیر مر فوعا ثابت ہے اور ابن جریر نے اس کو ترجیح دی ہے۔ بعض نے اوا تسریح باحسان سے یہ مراد لیے ہے کہ دو طلاق کے بعد رجوع نہ کرے حتی کہ عدت گزارنے کے بعد وہ عورت خود بخود اس سے الگ ہوجائے (ابن جریر۔ ابن کثیر ) البقرة
229 ف 6 عورت اگر خاوند سے طلاق کا مطالبہ کرے اور خاوند طلاق دیدے تو اسے طلاق خلع کہتے ہیں یوں تو خاوند کے لیے عورت کو تنگ کر کے حق مہر واپس لینا جائز نہیں ہے مگر خلع کی صورت میں خاوند معاوضہ لے کر طلاق پر راضی ہو تو یہ واپسی جائز ہے۔ مسئلہ طلاق خلع کی عدت ایک حیض ہے۔ (ترمذی ) البقرة
230 ف 1 یعنی تیسری طلاق کے بعد اب جب تک عورت کسی دوسرے خاوند سے نکاح کے بعد ایک مرتبہ مجامعت سے لذت اندوز نہ ہو لے اور پھر دوسرا خاوند اسے از خود طلاق نہ دے تو پہلے خاوند کے لیے اس سے نکاح حلال نہیں۔ اس کے یہ معنی ہیں کہ دوسرے خاوند سے اس غرض سے نکاح کرے کہ پہلے خاوند کے لیے حلال ہوجائے کیونکہ ایسے نکاح پر تو احادیث میں لعنت آئی ہے بلکہ دوسرے خاوند سے مستقل طور پر اس کی بیوی بن کر رہنے کے لیے نکاح کرے اور پھر کسی وجہ سے طلاق ہوجائے یا دوسرا خاوند فوت ہوجائے تو اب سابقہ خاوند کے لیے اس سے نکاح جائز ہے۔ (ابن کثیر۔ شوکانی) مسئلہ ایک مجلس میں بیک وقت تین طلاق دی جائیں تو وہ ایک ہی شمار ہوگی جیسا کہ صحیح مسلم میں حضرت ابن عباس (رض) سے ایک مرفوع روایت میں ثابت ہے۔ مسند امام احمد میں ہے کہ رکا نتہ نے اپنی بیوی کو ایک مجلس میں تین طلاق دیں، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر چاہو تو رجوع کرسکتے ہو۔ (ج 5 ص 163) نیز دیکھئے فتاوی ابن تیمیہ (ج 3 ص 13۔25۔36۔43) اغائتہ اللہ بضان 183۔338) ف 2 یعنی دوسرا خاوند از خود طلاق دے یا اس کا انتقال ہوجائے تو عدت کے بعد وہ عورت اپنے پہلے خاوند سے نکاح کرسکتی ہے لیکن حلالہ کی شرط سے جو نکاح ہوگا وہ باطل ہے۔ حلالہ کرنے او کروانے والے پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لعنت فرمائی ہے۔ (مسند احمد وغیرہ ) البقرة
231 ف 3 ایعنی اگر تم اپنی بیویوں کو طلاق رجعی دو، ان کی عدت پوری ہونے سے پہلے تمہیں رجوع کا حق پہنچتا ہے مگر یہ رجوع محض ان ستانے اور نقصان پہنچانے کی غرض سے نہ ہو کیونکہ ایسا کر ناظلم وزیادتی اور احکام الہی سے مذاق کرنا ہے ،۔ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے مذاق مذاق میں اپنی بیوی کو طلاق دے دی۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی : ای لا تتخذو الخ مگر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس طلاق کا نافذ فرمادیا۔ (ابن کثیر) حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ تین چیزوں میں مذاق بھی سنجیدگی قرار پائیگی یعنی نکاح، طلاق۔ اور رجوع، (ابن کثیر بحوالہ جامع ترمذی) ف 4 یہاں الحکمت سے مراد سنت ہے یعنی کتاب وسنت کی جو نعمت تم پر نازل کی ہے اسے مت بھو لو، یہ دونوں وحی الہی میں اور دلیل ہونے میں دونوں برابر ہیں لہذا منکر حدیث کا بھی وہی حکم ہے جو منکر قرآن کا ہے۔) ترجمان) مطلب یہ ہے کہ ان آیات میں بیان کردہ عائلی مسائل کو حدیث پاکی روشنی میں زیر عمل لانا ضروری ہے۔ (م، ع) حضرت معقل بن یسار کہتے ہیں کہ ہمارے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ہے۔ واقعہ یوں ہوا کہ میری بہن کو اس کے شوہر نے ایک طلاق دیدی اور جوع نہ کیا حتی کی عدت گزر گئی پھر دونوں نے باہمی رضامندی سے دوبارہ نکاح کرنا چاہا۔ جب وہ میرے پاس پیغام لے کر آیا تو میں نے اسے خوب برا بھلا کہا اور قسم کھائی کہ اب تم دونوں کا دوبارہ نکاح ہونے دوں گا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی لہذا میں نے نکاح کی اجازت دے دی اور قسم کا کفارہ ادا کردیا۔ (صحیح بخاری) اس آیت سے معلوم ہوا کہ عورت خود بخود اپنا نکاح نہیں کرسکتی بلکہ ولی کی اجا زت ضروری ہے۔ حدیث میں ہے : لا تروج الموء ہ المرءہ ولا تزوج المرء ہ نفسھا فان الزنیتہ ھی التی تزوج نفسھا۔ یعنی کوئی عورت نہ خود اپنا نکاح کرسکتی ہے اور نہ کسی دوسری عورت کا نکاح کرسکتی ہے جو عورت ولی کے بغیر ازخود اپنا نکاح کرالتی ہے وہ زانیہ ہے۔ (ابن کثیر) اگر عورت خود اپنا نکاح کرسکتی تو عورت کے اولیاء کو قرآن مخاطب نہ کرتا تم ان کو مت روکو۔ (معالم ) البقرة
232 البقرة
233 ف 1 نکاح و طلاق کے بعد اس آیت میں رضاعتہ (بچے کو دودھ پلانے) کے مسائل کا بیان ہے کیونکہ ایسا ہوسکتا ہے کہ ایک عورت کو طلاق ہوجائے یا اس کے شوہر کا انتقال ہوجائے اور اس کی گود میں دودھ پیتا بچا ہو اس سلسلے میں معمول رہا ہے کہ وہ بچوں کو پورے دو سال تک دودھ پلائیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ بچے کو دودھ پلانا ماں پر فرض ہے خصوصا جب بچہ اس کے علاوہ کسی دوسری عورت کا دودھ پینے کے لیے تیار نہ ہو۔ (دیکھئے سورت طلاق) نیز اس سے دو باتیں اور بھی معلوم ہوئیں، ایک یہ رضاعت کی زیادہ سے زیادہ مدت دوسال ہے لہذا اس دو سال کی عمر کے بعد اگر کوئی بچہ کسی عورت کا دودھ پی لے تو حرمت رضاعت ثابت نہیں ہوگی۔ صحیحین میں حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے۔ انما الر ضاعتہ منالجھجا عتہ۔ یہی قول جمہور ائمہ کا ہے۔ ان جمہور میں ائمہ اربعہ فقہا سبعہ اور اکابر صحابہ بھی شامل ہیں۔ ازواج مطہرات میں صرف حضرت عائشہ (رض) رضاعت کبیر کی قائل تھیں ،(نیز دیکھئے سورت النساء آیت 23) دوم یہ کہ اس عدت کی تکمیل ضروری نہیں ہے اس سے پہلے بھی بچہ کا دودھ چھڑایا جاسکتا ہے۔ (ابن کثیر۔ قرطبی) ف 2 اس معلوم ہوا کہ دودھ پلانے والی ماں کو۔ جب کہ اسے طلاق ہوچکی ہو۔ عام معروف طریقہ کے مطابق کھانا اور لباس مہیا کرنا بچے کے والد پر فرض ہے۔ عام حالات میں جبکہ طلاق نہ ہوئی ہو بیوی کا کھانا اور لباس اس کے شوہر پر ویسے ہی فرض ہے جیسے (نیز دیکھئے سورت الطلاق آیت 6) ماں کو تکلیف دینا یہ ہے کہ وہ مثلا بچے کو اپنے پاس رکھنا چاہے مگر باپ اس سے زبر دستی چھین لے یا اسے دودھ پلانے پر مجبور کرے اور باپ کو تکلیف دینا یہ ہے کہ ماں بچے کا سارا بوجھ اس پر ڈال دے یا دودھ پلانے سے انکار کردے یا بھاری اخرجات کا مطالبہ کرے جو باپ کی وسعت سے باہر ہوں اس آیت کا دوسرا ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بچہ ماں ضررپہنچاکر باپ کو تکلیف دے اور نہ باپ بچہ کو چھین کر ماں ضرر پہنچائے۔ پہلی صورت میں لا تضار صیغہ فعل مجہول ہوگا اور دوسرے ترجمہ کے اعتبار سے صیغہ معروف واکمال واحد۔ (ابن کثیر۔ رازی) ف 4 یعنی اگر باپ مر جائے تو جو بھی اس کا وارث ہو اس پر فرض ہے کہ وہ بچتے کو دودھ پلانے والی ماں کے یہ حقوق ادا کرے جمہور نے یہی تفسیر کی ہے۔ (ابن کثیر ) ف 5 یعنی اگر تم بچہ کو اس کی ماں کے ماسو اکسی دوسری عورت سے دودھ پلوانا چاہو تو اس میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ جو معاوضہ تم دینا چاہتے ہو وہ معروف طریقہ سے پورا پورا ادا کر دو۔ (رازی۔ ابن کثیر ) البقرة
234 ف 6 یہ عدت وفات تمام عورتوں کے لیے یکساں ہے عام اس سے کہ انہیں اپنے شوہروں سے مساس ہوچکا ہو یا نہ ہو اہو۔ وہ جوان ہوں یا بوڑھی جیساکہ آیت کے عموم سے معلوم ہوتا ہے اور ایک حدیث میں صراحت کے ساتھ مذکور بھی ہے۔ (ابن کثیر بحوالہ جامع ترمذی) البتہ حاملہ عورت کی عدت وفات وضع حمل ہے۔ (سورت الطلاق آیت 4) اس عدت کے دوران میں عورت کے لیے نہ صرف نکاح کرنا حرام ہے بلکہ سوگ منانا یعنی ہرقسم کی زینت سے پر ہیز کر نابھی ضروری ہے صحیحین میں حضرت زینب بن جحش (رض) سے روایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث میں فرمایا : عورت اپنے شوہر کی موت پر چار ماہ دس دن تک سوگ منائے گی۔ نیز فرمایا : اور وہ شوخ رنگ کا کپڑا پہنے گی سوائے یمنی چادر کے نہ سرمہ لگائیگی اور نہ خوشبو استعمال کرے گی۔ (ابن کثیر ) البقرة
235 ف 1 یعنی عدت کے دوران میں عورت کو صاف الفاظ کے ساتھ پیغام نکاح دینا جائز نہیں ہے البتہ مناسب طریقے سے یعنی اشارہ کہا یہ سے کوئی بات کہہ دینے میں کوئی حرج نہیں لیکن یہ حکم اس عورت کا ہے جس کے شوہر کے وفات ہوگئی ہو اور مطلقہ ثلاث کا بھی یہی حکم ہے جیسا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فاطمہ بنت قیس سے فرمادیا تھا کہ جب تمہاری عدت گزر جائے تو اطلاع دینا مگر وہ عورت رجعی طلاق دی گئی ہو تو اس کے شوہر کے سواکسی دوسرے شخص کے لیے اشارہ کنایہ سے بھی بات کرنا جائز نہیں ہے۔ (ابن کثیر۔ شوکانی) ف 2 یعنی ان سے خفیہ معاہدے نہ کرو ؛ ہاں معروف طریقہ سے نکاح کا تذکرہ کرسکتے ہو مثلا یہ کہ تم تو ابھی جوان ہو یا میں بھی شادی کا خواہشمند ہوں وغیرہ (ابن کثیر) ف 3 یعنی جب تک عدت پوری نہ ہوجائے نکاح کا عزم نہ کرو۔ اس پر تمام ائمہ کا اجماع ہے کہ عدت کے اندر نکاح صحیح نہیں ہے۔ ( ابن کثیر۔ فتح القدیر) ف 4 اس میں نکاح کے سلسلہ میں شرعی احکام کے خلاف حیلے نکالنے پر وعید اور توبہ کی ترغیب ہے۔ البقرة
236 ف 4 یعنی جس عورت کا عقد کے وقت کوئی مہر مقرر نہ ہو اہو اگر شوہر اسے قبل از مسیلس (نجامعت یا خلوت صحیحہ) طلاق دے دے تو شوہر پر مہر وغیرہ کی صورت میں کسی قسم کا مالی تاوان نہیں ہے۔ آیت میں لا جناح فرما کر اسی طرف اشارہ فرمایا ہے ہاں یہ ضرورہے کہ شوہر اپنی مالی حالت کے مطابق اسے کچھ دے کر رخصت کرے اس احانت کو متعہ طلاق کہا جاتا ہے۔ سورت احزاب آیت 49۔ میں مزید بتایا کہ قبل از مسیس طلاق کی صورت میں عورت پر عدت بھی نہیں ہے بلکہ وہ شو ہر سے خصت ہو کر فورا نکاح کرسکتی ہے۔ ( شو کانی ) البقرة
237 ف 6 یہ دسری صورت ہے کہ مہر مقرر کیا جا چکا ہو اور شو ہر نے قبل از مسیس (مجامعت یا خلوت صحیحہ) طلاق دے دی اس صورت میں عورت نصف مہر کی حقدار ہوگی ہاں اگر وہ عورت خود یا اس کے اولیا معاف کردیں تو دوسری بات ہے بعض نے پیدہ عقدہ النکاح سے شوہر مراد لیا ہے اور اس کی طرح عفویہ ہے کہ وہ اپنی خوشی سے پورا مہر دینا چاہے تو دے سکتا ہے اور پھر، ان تعفوا اقرب اللتقوی فرمایا شوہر کی تر غیب دی ہے کہ پورا مہر دے دینا ہی اقرب الی التقوی ہے۔ (ابن کثیر، شوکانی) مسئلہ اگر اس صورت میں شوہر قبل از مسیس وفات پاجائے توبیوی پورے مہر کی حقدار ہوگی اسے ورثہ بھی ملے گا اور پر عدت بھی ہوگی جیسا کہ بروع بنت واشق کی حدیث میں ہے۔ (شوکانی) واضح رہے کہ مطلقہ عورت کی دو قسمیں اور ہیں (1) مہر مقرر ہوچکا تھا اور خاوند نے بعد ازمسیس طلاق دے دی۔ دیکھئے آیت 229۔ (2) عقد کے وقت مہر مقرر نہ تھا مگر بعد ازمسیس طلاق دی اس صورت میں عورت مہر مشل کی حقدار ہوگی یعنی جتنا مہر عموما اس کے خااندان کی عورتوں کا مقرر ہوتا ہے اس کے مطابق اسے مہر دلوایا جائے گا جیسا کہ سورت نسا آیت 24 کے تحت مذکور ہوگا۔ (شوکانی) البقرة
238 ف 7 الصلوہ الوسطی۔ بیچ والی نماز اس کی تعیین میں گواہل علم کے مابین اختلاف ہے مگر جمہو علمائے کے نزدیک اس سے عصر کی نماز مراد ہے یہی اضح اور ارجح ہے۔ متعدد احادیث سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ صحیحین اور سنن کی کتابوں میں متعدد صحابہ سے یہ روایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غزوہ احزاب کے موقعہ پر فرمایا : شغلو ناعم الصلوہ الو سطی صلوہ العصر مالاء اللہ ج قبرھم واجوافھم نارا۔ کہ انہوں نے ہمیں صواہ وسطی یعنی عصر کی نما سے غافلک کردیا، اللہ تعالیٰ نے ان کی قبروں ارگھروں کو آگ سے بھر دے نیز بہت سے آثار صحابہ سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ (ابن کثیر۔ شوکانی) ف 8 اور ادب سے کھڑے رہو۔ یعنی نماز میں کوئی ایسی حرکت نہ کرو جو نماز کی حالت کے منافی ہوجیسے کھانا پینا اور کلام وغیرہ۔ عر بی زبان میں قنوت کے کئی معنی آئے ہیں مگر یہاں سکوت کے معنی میں ہے۔ صحیحین میں زید بن ارقم سے روایت ہے کہ ہم نماز میں گفتگو کرلیتے تھے پھر جب یہ آیت نازل ہوئی تو کلام کرنا منسوخ ہوگیا اور ہمیں سکوت کا حکم دیا گیا۔ (ابن کثیر ) البقرة
239 ف 1 اس آیت میں نماز کی حفاظت کی مزید تاکید کی ہے کہ خوف اور ہنگامی حالت میں بھی نماز معاف نہیں ہے۔ بلکہ پیدل سوار جس حالت میں بھی ممکن ہو خوف کے وقت نماز ادا کرلو۔ ہاں خوف زائل ہونے کے بعد نماز کو ان پورے ارکان وشرائط اور آداب کے ساتھ ادا کرو جن کی تمہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کے ذریعے تعلیم دی ہے۔ صلواہ خوف کے احکام کے لیے دیکھئے سورت النساۓ آیت 102۔ (شوکانی، ابن کثیر ) البقرة
240 وصیتہ لا زواجھم۔ یعنی جو لوگ وفات پاجائیں ان کی بیویوں کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ وصیت کی ہے یا مرنے سے قبل ان کو چاہیے کہ وصیت کر جائیں۔ ای اوھی اللہ وصیتہ اوفلیو صسو اوصیتہ۔) شوکانی) ابتدا میں یہ حکم تھا کہ جس عورت کا شوہر فوت ہوجائے۔ اسے ایک سال کے لیے شوہر والے مکان میں سکونت پذیر رہنے کے لیے حقوق حاصل ہیں اور اس مدت کے پورے مصارفف متوفی کے اولیاء کے ذمہ ہوں گے۔ ہاں اگر بیوی چاہے تو سال پورا ہونے سے پہلے رخصت ہو سکتی ہے اس صورت میں اولیاء قصوروار نہ ہوں گے اکثر علما کے نزدیک یہ دونوں حکم (نفقہ سنتہ وسکنی) ہی منسوخ ہیں سورت نساء آیت میراث 12 سے ایک سال کے مصارف اروحق سکونت کا وجوب منسوخ ہوگیا اوپر کی آیت 234 میں متوفی عنہا کی دعت چارماہ دس دن اور رسورت طلاق آیت 4 میں حاملہ کی عدت واضح حمل قرار پانے کے بعد ایک سال کی عدت بھی منسوخ ہوگئی۔ اب متوفی عنہا کے لیے لازم ہے کہ آیت 234 کے مطابق شوہر والے مکان میں چا رماہ دس دن عدت گزارے یا اگر حاملہ ہے تو وضح حمل تک اسی مکان میں رہے جیسا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابو سعید خدری کی بہن ذلیعتہ بنت مالک کو اس کے شوہر کی وفات کے بعد حکم دیا تھا کہ امکثی فی بیتک حتی یبلغ الکتاب اجلتہ۔ اور بعد میں حضرت عثمان (رض) نے ایک مقدمہ میں اس حدیث کے مطابق فیصلہ بھی فرمایا۔ (ابن کثیر، شوکانی۔ بحوالہ سنن اربعہ ومؤطامالک) البقرة
241 ف 3 اوپر کی آیت 236 میں خاص صورت میں متعہ طلاق کا حکم تھا اب اس آیت میں ہر مطلقہ کے لیے متاع یعنی متعہ طلاق کا حکم دیا ہے۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ مطلقہ عورت کو کچھ دے کر رخصت کرنا چاہیے تاہم اس کے وجوب پر ارتفاق نہیں ہے۔ ( درمنشور۔ ابن کثیر) یہاں تک نکاح وطلاق وغیرہ سے متعلقہ مسائل ختم ہوئے۔ (موضح) آخر میں ان معا شرتی مسائل کی اہمیت کے پیش نظر اہل عقل کو مخاطب کیا ہے البقرة
242 البقرة
243 ۔ ف 5 یہ لوگ کون تھے اور کہاں سے نکلے تھے اس بارے میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کوئی حدیث ثابت نہیں ہے البتہ حضرت ابن عباس (رض) اور بعض دوسرے مفسرین کہتے ہیں کہ اسرائلی تھے۔ جہاد میں قتل کے خوف یا طاعون سے بچنے کے لیے اپنے شہر سے بھاگے جن ایک مقام پر پہنچے تو اللہ کے حکم سے سب مرگئے، اتفاق سے اللہ تعالیٰ کے ایک نبی وہاں سے گزر ہوا اس نے دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں دوبارہ زندہ کیا۔ (قرطبی۔ رازی) یو آیت کے شرو میں لفظ الم تر سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا قصہ نزول آیت کے وقت عام طور پر مشہور ومعروف تھا۔ (فتح القدیر) یہ قصہ قیامت یے روز معاد جسمانی کی قطعی دلیل ہے اور جہاں ذکر کرنے سے مقصد جہاد کی ترغیب ہے۔ صحیحین میں حضرت عبدالر رحمن بن عوف سے روایت ہے کہ جس مقا پر وبا پھوٹ پڑے وہاں سے فراف کرنے سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منع فرمایا ہے اور اس مقام پر جانے سے بھی منع فرمایا ہے۔ (ابن کثیر ) البقرة
244 البقرة
245 ف 6 جو اللہ تعالیٰ کو قرضہ حسنہ دے یعنی خالص اللہ تعالیٰ کی رضا اور ثواب حاصل کرنے کے لیے مال خرچ کرے اور اس میں ریاکاری یاکسی کو ستانے اور اس پر احسان رکھنے کا جذبہ کا رفرمانہ ہو ایسے خرچ کو اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ قرض دیا ہے اور اس پر کئی گنا اجر کا وعدہ فرمایا ہے۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے ایک مرفوع حدیث میں ہے ان اللہ یضاعف الحسنتہ الفر ائف حسنتہ۔ اللہ تعالیٰ ایک کہ اللہ تعالیٰ ایک نیکی کی بیش لاکھ نیکیاں بنا دیتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو ایک شخص ابو الد حادح نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنا ایک باغ جس میں کھجور کے چھ سودرخت تھے اللہ کی راہ میں صدقہ کردیا۔ ابن کثیر۔ شوکانی) البقرة
246 ف 7 اوپر کی آیتوں میں جہاد اور نفاق فی سبیل اللہ کا حکم دیا ہے اس کے بعد ان آیات میں بنی اسرائیل کی ایک قوم کا قصہ بنان کیا ہے جنہوں نے حکم جہاد کی مخالفت کی اس وجہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ظآلم ٹھہر۔ اس قصہ سے مقصد جہاد کی ترغیب ہے۔ الملا شاہ رفیع الدین نے اس کا ترجمہ سرداران قوم کیا ہے اور یہی انسب ہے۔ عموما مفسرین نے اس کے معنی اشراف اور ؤسا کیے ہیں۔ (ابن جریر۔ رازی۔) اصل میں ملاء کے معنی پر کردینے کے ہیں اور اشراف ورؤسا بھی اپنی ہیبت اور رعب سے انکھیں پھیر دیتے ہیں ہی اس یے ان کا ملا کہا جاتا ہے۔ رازی) البقرة
247 ف 1 بایئبل میں اس نبی کا نام سموئیل (شموئیل) لکھا ہے جن کا زمانہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے تقریبا ایک ہزار سال بیشتر کا ہے۔ قدیم مفسرین نے اس واقعہ کی تفصیل میں لکھا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد کچھ عرصہ توبنی اسرائیل کا کام ٹھیک چلتا رہا پھر ان میں بدعات نے راہ پالی حتی کہ بعض لوگ بتوں کی پوجا کرنے لگے تب اللہ تعالیٰ نے ان پر ان کے دشمنوں کو مسلط کردیا۔ جنہوں نے جالوگ بادشاہ کی سردکردگی میں ان کے بہت سے علاقے چھین لیے اور لاتعداد افراد کو غلام بنا لیا وہ لوگ بھاگ کر بیت المقد میں جمع ہوئے اور اپنے نبی حضرت شمو ئیل (علیہ السلام) سے درخواست کی کہ ہمارے لیے ایک بادشاہ مقرر کردیجئے تاکہ اس کے زیر کمان ہم اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرسکیں۔ شمو ئیل (علیہ السلام) نے انہیں اس بے جا مطالبہ سے باز رکھنے کی کو شش کی مگر وہ اس پر سختی سے مصر رہے چنانچہ حضرت شموئیل (علیہ السلام) نے اللہ کے حکم سے طالوت کا انتخاب کردیا مگر وہ لوگ اس پر اعتراض کرنے لگے۔ (ابن کثیر۔ اقرطبی) ف 2 اس لیے کہ بنی اسرائیل میں نبوت تولادی کی نسل میں چلی آرہی تھی اور بادشاہی حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے بڑے بیٹے یہودا کی نسل میں اور طالوت اس نسل سے نہ تھے بلکہ وہ ایک معمولی قسم کے فوجی تھے۔ اس پر بنی اسرائیل کے سرداروں نے اعتراض کیا۔ بائیبل نے طالوت کا نام ساؤل مذکور ہے اور لکھا ہے کہ وہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے سب سے چھوٹے بیٹے بن یامین کی نسل سے تھے اور بنی اسرائیل میں ان جیسا خوبصورت اور قد آور کوئی شخص نہ تھا۔ ف 3 یعنی طالوت کا انتخاب اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے۔ یہ علمی قابلیت اور جسمانی صلاحتیں کی وجہ سے تم پر فائق ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ کسی کو موروثی طوپر بادشاہی کا حق نہیں ہے اور یہ کہ خلیفہ کا مالدار گھرانے سے ہونا بھی شرط نہیں ہے ہاں علم و فضل کے علاوہ فوجی صلاحتیوں کا مالک ہونا ضروری ہے تاکہ ملک کا دفاع کرسکے۔ البقرة
248 ف 4 مفسرین کے بیان کے مطابق یہ تابوت سکینتہ ایک صندوق تھا جو بنی اسرائیل میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) زمانے سے چلا آرہا تھا اور اس میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ہارون (علیہ السلام) اودسرے انبیاء کے کچھ متبرک آثار (بقیی) تھے۔ بنی اسرائیل اپنی لڑائیوں میں اسے آگے آگے رکھتے اور اسے دیکھ کر حوصلہ اور ہمت محسوس کرتے تھے مگر ان کی بد اعمالیوں کے باعث ان کے دشمن یہ تابوت ان سے چھین کرلے گئے تھے۔ انہوں نے اسے اپنے معبد میں بت کے نیچے رکھ دیا تھا اس وجہ سے ان میں وبا پھوٹ پڑی اور تقریبا پانچ شہر ویران ہوگئے۔ چنانچہ انہوں نے اسے منحوس سمجھ کر اور رات کو بیل گاڑی پر رکھ کر بنی اسرائیل کی طرف دھکیل دیا۔ فرشتے بیلوں کو ہانک کر بنی اسرائیل کی بستی تک لے آئے اور وہ رات کے وقت طالوت کے گھر کے سامنے آموجود ہوا۔ اس سے بنی اسرائیل میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور وہ طالوت کے زیر قیادت اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے آمادہو گئے۔ (ابن کثیر۔ معالم) (نیز سکینتہ کے لیے دیکھئے التوبہ آیت 26 والفتح آیت 26) مگر قرآن کے انداز بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ اس تابوت کی آمد اعجازی حثیت کی حامل تھی اس لیے اسے ایتہ قرار دیا ہے۔ (رازی) البقرة
249 ف 1 اس نہر سے مراد دریائے اردن ہے جیسا کہ حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے جس کی فلسطین میں بہت اہمیت ہے۔ مطلب یہ تھا کہ جو شخص جہاد کی راہ میں بھوک پیاس اور تکالیف برداست کرنے کی ہمت رکھتا ہے وہ میرے ساتھ چلے اور جو یہ ہمت نہیں رکھتا وہ ابھی سے الگ ہوجائے۔ ف 2 اتنی تعداد جتنی غزوہ بدر میں مسلمانوں کی تھی۔ یعنی تین سو تیرہ۔ حضرت براء کہتے ہیں کہ ہم آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ آپس میں باتیں کیا کرتے تھے کہ بدر کے روز مسلمانوں کی تعداد اتنی تھی جتنی ان لوگوں کی جنہوں طالوت کے ساتھ نہر کو پار کیا۔ (قرطبی۔ ابن کثیر) ف 3 بعض نے لکھا ہے کہ یہ کہنے والے وہی لوگ تھے جنہوں نے نہر پر پہلے ہی اپنی بے صبری کا مضاہرہ کردیا تھا لیکن عبارت کے سیاق و سباق سے معلوم ہوتا ہے کے یہ بات ام مومنین نے کہی جنہوں نے طالوت کے ساتھ نہر کو پار کیا تھا۔ ممکن ہے انہوں نے جالوت کے لشکر کی کثرت اور اپنی قلت کو دیکھ کریہ کہہ دیا ہو۔ البقرة
250 البقرة
251 ف 4 انہی تین سو تیرہ میں سے ایک حضرت داؤد (علیہ السلام) تھے۔ اسرائیل روایات میں ہے کہ ان کے ہاتھ میں غلیل تھی جس سے انہوں نے یکے بعد دیگرے جالوت کو تین پتھر مارے جو اس کے ماتھے پر لگے اور وہ مرگیا۔ طالوت نے ان سے وعدہ کررکھا تھا کہا گر وہ جالوت کو قتل کردیں گے تو ان سے اپنی بیٹی کی شادی کر دے گا اور سلطنت میں انہیں اپنا سہیم بنالے گا چنانچہ طالوت نے اپنا وعدہ پورا کیا اللہ تعالیٰ نے حضرت دادؤد کے متعلق فرمایا : اور اللہ تعالیٰ نے اسے سلطنت دی، یعنی حضرت شمو ئیل (علیہ السلام) کے بعد نبوت (ابن کثیر) اور علمہ ممایشاء سے ان آیات کی طرف اشارہ ہے جو حضرت داؤد (علیہ السلام) کو عطا ہوئی تھیں۔ (معالم) علاوہ ازیں مطلق علم دین بھی مراد ہوسکتا ہے۔ ( رازی) ف 5 نادان لوگ کہتے ہیں کہ لڑائی کرنا نبیوں کا کام نہیں۔ اس قصہ سے معلوم ہوا کہ جہاد ہمیشہ سے رہا ہے اور اگر جہاد نہ ہو تو مفسد لوگ شہروں کو ویران کر ڈالیں (موضح) اور جملہ ولو لا دفع اللہ الناس۔ الخ۔ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جب کوئی گروہ قوت واقتدا کے نشے میں بد مست ہو کر انسانی حد سے آگے بڑھنا چاہتا ہے تو اس کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ کسی دوسرے گروہ کو اٹھا کر اس کی سرکوبی کرا دیتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو زمین میں کبھی امن قائم نہ ہوسکتا۔ سلسلہ بیان کے لیے دیکھئے سورت حج آیت 40۔ (ابن کثیر) آیت میں مدافعت کرنے والوں سے انبیاء ائمہ اور نیک بادشاہ مراد ہیں جو شرائع کی حفاظت اور اس سے مدافعت کرتے رہتے ہیں۔ (رازی ) البقرة
252 ف 6 یعنی پچھلی امتوں کے یہ وقعات جو ہم آپ سنا رہے ہیں آپ کے نبی صادق ہونے کی واضح دلیل ہیں کیونکہ آپ نے نہیں کسی کتاب میں پڑھا اور نہ کسی سے سنا۔ بھر بھی انہیں اس طرح ٹھیک ٹھیک بیان کر رہے ہیں کہ بن اسرائیل بھی ان کی تصدیق کرتے ہیں۔ (ابن کثیر، رازی ) البقرة
253 ف 1 تلک الرسل سے وہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مراد ہیں جن کا اس سورت میں ذکر آیا ہے۔ یہ عقیدہ کہ انبیاء درجات میں مختلف ہیں اور ان میں جو تفاضل پایا جاتا ہے اور پھر یہ کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمام انبیاء سے افضل ہیں اور بالکل صحیح اور امت کا اجماعی عقیدہ ہے۔ رازی نے انہیں دلائل سے ثابت کیا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جملہ انبیاء پر فضیلت حاصل ہے اور اس سلسلہ میں شبہات کے جوابات دیئے ہیں۔ (کبیر) لیکن صحیحین میں حضرت ابوہریرہ (رض) سے یہ بھی روایت کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : لا تفضلونی علی الانبیاء (کہ مجھے انبیاء پر فضیلت نہ دو) جو بظاہر اس آیت کے معارض ہے علماء نے اس کے متعدد جوابات دیئے ہیں، واضح ترین جواب یہ ہے کہ میری فضیلت ایسے انداز سے بیان نہ کرو جس سے دوسرے کسر شان کا پہلو نکلتا ہو۔ امام شوکانی لکھتے ہیں کہ اس آیت سے انبیاء کے مابین تفاضل ثابت ہوتا ہے لیکن حدیث میں مقابلہ کی صورت میں تفاضل سے منع فرمایا ہے یا فضیلت جزوی مراد ہے۔ پس کتاب و سنت میں کوئی تعارض نہیں والحمد للہ علی ذلک۔ ابن کثیر، فتح القدیر) ف 2 جیسے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)۔ صحیح ابن حبان کی ایک حدیث میں حضرت آدم (علیہ السلام) کا بھی نبی مکلم ہونا ثابت ہے۔ (ابن کثیر، کبیر) ف 3 چنانچہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لیلتہ الاسرا میں بحسب مراتب آسمانوں پر انبیاء کو دیکھا۔ (ابن کثیر ) ف 4 یہاں البینات سے مراد واضح دلائل اور معجزات ہیں جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو دیئے گئے۔ ( دیکھئے آل عمران آیت 49) اور روح القدس سے حضرت جبریل (علیہ السلام) مراد ہیں۔ (بقرہ آیت 78) ف 5 یعنی انبیاء کے متبعین میں یہ اختلاف اور پھر اس اختلاف کی بنا پر باہم قتال اللہ تعالیٰ کی مشیت و حکمت سے ہے جس کی ہمارے فہم سے بالا تر ہے تقدیر کے متعلق ایک سائل کے جواب میں حضرت علی (رض) نے فرمایا : یہ ایک بھید ہے جو تم سے مخفی رکھا گیا ہے لہذا تم اسے معلوم کرنے کی کو شش نہ کرو۔ فتح البیان) اس آیت میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی ہے کہ کفر و ایمان میں لوگوں کا اختلاف تو پہلے سے چلا آتا ہے کوئی نبی ایسا نہیں کہ ساری امت اس پر ایمان لے آئی ہو لہذا ان کے انکار سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رنجیدہ خاطر نہ ہوں۔ (کبیر ) البقرة
254 ف 6 انسان پر سب سے زیادہ مشکل جان ومال کی قربانی ہے اور عموما شریعت کے احکام کا تعلق ان دونوں سے ہے۔ اس سورت میں پہلے قاتلو افی سبیل اللہ فرماکر جہاد کا حکم دیا اور آیت من ذالذی یقرض اللہ " سے جہاد کے لیے مال خرچ کرنے کی ترغیب دی اس کے بعد قصہ طالوت سے پہلے حکم کی تاکید کی اور اس آیت میں دوسرے ام کو مؤکد کرنے کے لیے دوبارہ صرف مال کا حکم دیا۔ (کبیر) مقصد یہ کہ انسان دنیاوی اسباب و وسائل کو چھوڑ کر اکیلا ہی اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضر ہوگا لہذا آخرت میں نجات کے لیے صدقہ وخیرات ایسے نیک اعمال کو وسیلہ بناؤ۔ قیامت کے دن دنیاوی مودت نسبی تعلق، شفاعت وغیرہ یہ چیزیں کام نہیں آئیں گی۔ (ابن کثیر) اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ زکوہ کا منکر کافر ہے چنانچہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعدد حضڑت ابو بکر الصدیق (رض) نے منکرین زکوہ سے جہاد کیا جیسا کہ کفار سے کیا جاتا ہے۔ (قرطبی ) البقرة
255 ف 7 قرآن نے متعدد آیات میں اس بات پر زور دیا ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے اذن کے بغیر کوئی شخص کسی کی شفاعت نہیں کرسکے گا۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی قیامت کے دن جو شفاعت فرمائیں گے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شفاعت قبول بھی کی جائے گی تو یہ بھی اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بعد ہی ہوگی جیساکہ حدیث شفاعت میں ہے تحت العرش فاخر ساجدا۔۔ لم یقال لی ارفع راسک وقل تسمع وشفع تشفح کہ میں عرش کے نیچے سجدہ میں گرجاؤں گا۔ پھر مجھ سے کہا جائے گا کہ سجدہ سے اٹھو جو بات کہو گے سنی جائے گی شفاعت کرو تو قبول کی جائے گی۔ اس آیت سے مطلقا شفاعت کی نفی نہیں کی جیساکہ معتز اہل بدعت کا خیا ہے ہے۔ (کبیر۔ ابن کثیر) ف 8 اللہ تعالیٰ کی کر سی کی وسعت کا بیان احادیث میں مذکور ہے یعنی یہ کہ سات آسمان اور زمین کی نسبت کر سی کے کے مقابلہ میں ہی ہے جو جنگل میں پڑے ل ہوئے ایک حلقہ کی ہوتی ہے پس صحیح یہ ہے کہ کہ کر سی کے لفظ کو اس کے ظاہر معنی پر محمول کیا جائے اور تاویل نہ کی جائے کیونکہ یہ آیات صفات اور ان کے ہم معنی احادیث صحیحہ میں سب سے بہتر طریق سلف صالح کا طریق ہے یعنی امر وھا کما جا ءت من غیر تقیید و لا تکبیف۔ (ابن کثیر۔ شوکانی) حضرت ابن عباس (رض) اور بعض سلف سے منقول ہے کہ یہاں کرسی سے علم مراد ہے مشہور محدث علامہ سھیلی فرماتے ہیں سلف اگر یہ تاویل ثآبت بھی ہو تو ان کا مقصد کرسی کی تفسیر علم سے کرنا نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی عظمت اس کے علم و قدرت کے احاطہ کی طرف اشارہ ہے۔ (الروح ج 2 ص 375) ف 1 اس آیت کو ایتہ الکرسی کہا جاتا ہے متعدد احادیث میں اس کی فضیلت مذکور ہے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو اعظم ایتہ فی کتاب اللہ اور سیدہ ای القرآن وربع القرآن فرمایا ہے۔ رات کو سوتے وقت اسے پڑھنا لینا شیطان سے حفاظت کا ضامن ہے اور ہر نماز کے بعد پڑھنے والے شخص کو جنت کی خوشخبری دی گئی ہے۔ طبرانی کی ایک روایت میں اس کے ساتھ سورت اخلاص کو ملالینے کا بھی ذکر ہے۔ یہ آیت دس جملوں پر مشمل ہے اور ہر جملہ اسماء حسنی یا صفات باری تعالیٰ کے بیان پر مشتمل ہے یہ خوبی اس کی فضیلت کے لئے کافی ہے۔ ایک روایت کی روسے یہ آیت اسم اعظم پر مشتمل ہے ابن کثیر۔ شوکانی ) البقرة
256 ف 2 حضرت ابن عباس (رض) وغیرہ سے منقول ہے کہ جاہلیت میں انصار مدینہ کے بعض لڑکے مختلف اسباب کے تحت یہو دی یا عیسائی ہوگئے تھے ان کے والدین مسلمان ہوئے تو انہوں زبر دستی ان کو دائرہ اسلام میں لانا چاہا اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ گو نزول خاص ہے مگر حکم عام ہے۔ (ابن کثیر) حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ اسلام میں جہاد زبر دستی منوانے کا نام جہاد ہے۔ (موضح بتصرف) البقرة
257 ف 3 طاغوت (برزن فعلوت) کا لفظ طغیان سے مشتق ہے جس کے اصل معنی کسی چیز کے اپنی حد سے آگے بڑھ جانے کے ہیں اس سے مرا شیطان بھی ہوسکتا ہے ہے اور ہر معبود باطل بھی حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں طاغوت شیطان ہے۔ (ابن کثیر) نیز ہر وہ شخص جو راس الضلال بن کرلوگوں سے اپنی بندگی اور اطاعت کر اتا ہے اسے طاغوت کھا جاتا ہے۔ (ترجمان) ف 4 قرآن پاک میں جہاں بھی ظلمات اور نور کے الفاظ آئے ہیں ان سے مراد کفر و ایمان ہی ہے ماسوائے آیت سورت الانعام وجعل الظلمات والنور کے کہ یہاں رات اور دن مراد ہیں۔ (کبیر) اس آیت میں نور کا لفظ بصیغہ واحد اوظلمات کا لفظ بصیغہ جمع استعمال ہوا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ حق ہمشہ ہر جگہ ایک ہی ہے اور کفر وشرک اور جہالت کی قسموں کا شمار نہیں ہے اور وہ سب باطل ہیں۔ (ابن کثیر) آیت سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسان پہلے کافر ہوتا ہے اور ایمان لانے کے بعد کفرکی تاریکی سے نکل کر ایمان کی روشنی میں داخل ہو تو ہے مگر یہ معنی مراد نہیں ہیں بلکہ جو شخص ابتدا سے ہی مسلمان ہے اس کے حق میں بھی توفیق و رحمت کے اعتبار سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے کفر کی تاریکی سے نکال کر ایمان کی روشنی میں لے لیا مثلا قرآن میں ہے : فلما امنوا کشفنا عنھم عذاب الخذی (یونس 18) حالانکہ ان پر تاحال عذاب نازل نہیں ہو اتھا اسی طرح فرمایا : وَمِنْکُمْ مَنْ یُرَدُّ إِلَی أَرْذَلِ الْعُمُرِ ( النحل : ٧٠) حالانکہ وہ کبھی پہلے ارذل لعمر میں تھے جس کی طرف وہ وبارہ لوٹائے گئے ہوں۔ حدیث میں ہے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک شخص سے سنا کہ اس نے کہا اشھد ان محمد ارسول اللہ تو آپ نے فرمایا خرج من لنار (یہ شخص آگ سے نکل آیا) حالانکہ وہ پہلے آگ میں نہیں تھا۔ یوسف (علیہ السلام) نے کہا ترکت ملتہ قوم لا یومنون باللہ۔ کہ میں نے ان لوگوں کی ملت چھوڑ دی جو اللہ تعالیٰ پر ایمان نہیں رکھتے حا لانکہ یوسف (علیہ السلام) کبھی بھی ان کی ملت میں داخل نہیں تھے۔ الغرض قرآن و حدیث میں اس قسم کے مح اور ات بکثرت مذکور ہیں۔ خوب سمجھ لو (کبیر) ف 5 یعنی یہ کافر اور انکے باطل معبود سب جہنم میں ڈالے جائیں گے دیکھئے بقرہ 24۔ الا نبیاء 98۔ (کبیر، ابن کثیر ) البقرة
258 ف 6 اوپر کی آیت میں بتایا گیا ہے کہ ہل ایمان اصحاب نور ہیں اور اہل کفر اصحاب ظلمت ہیں۔ اب تین قصے بیان کئے جن سے اہل ایمان اور اہل کفر کے احوال پر روشنی پڑتی ہے۔ امام رازی لکھتے ہیں پہلے قصہ سے صانع کا اور دوسرے دونوں قصوں سے حشر ونشر کا اثبات مقصود ہے اور کافر ان دونوں (مبد ومعد کے منکر ہیں۔ کبیر تبصرف) مفسرین نے اس بادشاہ کا نام نمرود بن کنعان لکھا ہے جو اہل (عراق) کا بادشاہ تھا اور صانع کی ہستی کا منکر تھا۔ تفسیر ابن کثیر میں ہے کہ یہ منا ظرہ وجود با ری تعالیٰ میں تھا کہ اس علام کا کوئی صانع موجود ہے یا نہیں چنانچہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے وجود باری تعالیٰ کی یہ دلیل دی کہ دنیا میں انسان سمیت تمام چیزیں پیدا ہوتی ہیں اور پھر وجود سے عدم چلی جاتی ہیں۔ اس معلوم ہوا کہ کوئی فاعل مختار ہستی موجود ہے جس کے تصرف سے یہ سب کچھ ہورہا ہے کیونکہ جہاں میں وجود فنا کا یہ سلسلہ از خود قائم نہیں ہوسکتا۔ نمرود دلیل کو سمجھ لینے کے باوجود ہٹ دھرمی اور ضد سے کام لیا اور جواب دیا کہ میں بھی یہ سب کچھ کرسکتا ہوں، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اس کی ضد اور ہٹ دھرمی بھانپ کر دوسری دلیل پیش کی کہ اللہ تعالیٰ تو رسورج کو مشرق سے مغرت کی طرف لے جارہا ہے اگر تم باوجود منکر اور خود خدائی کے دعویدار ہو تو اس نظام شمسی کو ذرابد کر دکھاؤ یعنی سورج کو مغرب سے مشرق کی طرف لے آؤ۔ اس پر وہ قطعی لاجواب ہو کر رہ گیا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے منا ظرہ کی یہ نہایت بہتر ہے یہاں پہلی دلیل چھوڑ کر دوسری دلیل اختیار نہیں کی بلکہ پہلی دلیل کو دوسری دلیل کے لیے بمنزلہ مقدمہ قرار دے کر نمرود کے دعوی کا کلیتہ بطلان ظاہر کیا ہے۔ (ابن کثیر) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا یہ مناظرہ آگ سے خروج کے بعد ہوا تھا اور بعض نے کہا ہے کہ بتوں کو توڑنے کے بعد کا واقعہ ہے۔ (کبیر ) البقرة
259 ف 1 یہاں اؤعطف کے لے ہے اور باعتبار معنی پہلے قصہ پر عطف ہے ای ھل رایت کالذی حاج اوکا لذی مرعلی قربیتہ " اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہاں کاف زائدہ ہو ای الم ترالذی مر علی قریتہ "(رازی۔ شوکانی) پہلے قصہ سے اثبات صانع مقصو تھا اب دسرے قصہ سے اثبات حشر ونشر مقصو ہے کما مر۔ (رازی) اس آیت میں جس شخص کا ذکر ہے حضرت علی (رض) سے ایک روایت کے مطا بق اس سے حضرت عزیر (علیہ السلام) مراد ہیں۔ یہ قول حضرت ابن عباس (رض) کا اور بعض تابعین سے بھی مروی ہے اور جس بستی میں ان کا گزر ہوا۔ مشہور یہ ہے کہ اس مراد "بیت المقدس " ہے جب کہ بخت نصر نے اسے تباہ کر ڈلا تھا اور بنی اسرائیل کے بہت سے لوگوں قیدی بناکر لے گیا تھا۔ (ابن کثیر) اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت عزیر (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے نبی تھے تو انہوں نے انی یحییی ھذاللہ بعد موتھا (کہ اللہ تعالیٰ اسے کیسے زندہ کرے گا) بطور استبعاد یہ سوال کیسے کیا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت عزیر (علیہ السلام) نے یہ سوال بطور استعباد نہیں کیا تھا کہ انہیں قیامت کے آنے اور دبارہ زندہ ہونے کے بارے میں کوئی شک تھا بلکہ اس سے طمانیت حاصل کرنا مقصو تھا اور وہ دوبارہ زندہ ہونے کا مشاہدہ کرنا چاہتے تھے جیسا کہ انبیاء کوہر حقیقت کا عینی مشاہدہ کر دایا جاتا ہے۔ ان ہر دو واقعات سے یہ بتانا مقصود ہے کہ جس شخص کا دوست اور کارساز اللہ تعالیٰ ہوتا ہے اسے کس طرح اندھیروں سے نکال روشنی کی طرف لے آتا ہے،(کبیر) مروی ہے کہ جب حضرعزیر (علیہ السلام) نے وفات پائی تھی اس وقت کچھ دن چڑھا ہوا تھا اور جب دوبارہ زندہ ہوئے تو سورج غروب ہورہا تھا اس لیے انہوں نے باوجود سو سال تک فوت رہنے کے یہ سمجھا کہ ایک دن یا اس کا کچھ حصہ گزرا ہے۔ (ابن کثیر ) البقرة
260 ف 6 حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے پیغمبر تھے، اللہ تعالیٰ کے فرشتے اور حکم ان کے پاس آتے رہتے تھے ان کو مردوں کے جی آٹھنے میں کوئی شک نہ تھا لیکن آنکھ سے دیکھ لیا چاہنا انسانی عادت ہے کہ وہ علم کے بعد عینی مشاہدہ چاہتی ہے۔ چنانچہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے علم الیقین کے بعد عین الیقین کا مرتبہ حاصل کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ (وحیدی۔ ابن کثیر) ف 3 فصرھن کے معنی عموما املھن کئے گئے ہیں یعنی ان کو ہلالے شاہ صاحب اپنے فائدے میں لکھتے ہیں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ہلانے کو اس لیے فرمایا گیا تاکہ زندہ ہونے کے بعد وہ خوب پہچانے جا سکیں کہ واقعی وہی ہیں جو ذبح کر کے پہاڑ پر رکھے گئے تھے اور کوئی اشتباہ نہ رہے اس صورت میں ثم اجعل سے پہلے قطعھن مخذوف ماننا پڑے گا اور کہا جائے گا بعد کا جملہ چونکہ اس پر دلالت کررہا ہے اس لیے اسے حذف کردیا گیا ہے۔ (معالم صحابہ وتابعین اور اہل لغت کی ایک جماعت نے صرھن کے معنی قطھن بھی بتائے ہیں یعنی ان کو پارہ پارہ کردے چنانچہ ابن جیریر طبری نے اس معنی پر بہت سے شواہد پیش کئے ہیں اصل میں یہ لفظ صار یصور یصیر سے امر کا صیغہ ہے جس کے معنی قطع کرنا بھی آئے ہیں اور مائل کرنا بھی اور اس میں قرات کے اختلاف نے اور زیادہ استباہ اور وسعت پیدا کردی اور علمائے لغت نے اسے اضداد میں ذکر کیا ہے۔ (اضداد ابی الطیب مجا زابی عبیدہ) اس جگہ سوال وجواب کے انداز اور سیاق کلام سے قطع کے معنی راجح معلوم ہوتے ہیں اور اس پر سلف مفسرین بھی تقریبا متفق نظر آتے ہیں واللہ اعلم۔ ان چار جانوروں کی تعین میں علمائے تفسیر کا اختلاف ہے بعض نے مور۔ مرغ۔ کوا اور کبوتر بتائے ہیں اور بعض نے دوسرے نام ذکر کیے ہیں اور پھر چار پہاڑوں پر ان کو الگ الگ رکھنے اور ان کے درمیان کھڑے ہو کر ہر ایک کا نام لے کر پکارنے کی کیفیت بھی بعض تابعین سے منقول ہے مگر حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں جانوروں کی یہ تعین لاطائل اور بے فائدہ ہے اس کی کچھ اہمیت ہوتی تو قرآن خاموش نہ رہتا (ترجمان نواب) تاہم ان جانوروں کے ذبح اور زندہ ہونے کی اجمالی کیفیت پر علمائے سلف کا اجماع ہے۔ (کبیر) اس اجماعی تفسیر کے خلاف سب سے پہلے ابو مسلم اصفہانی معتزلی نے اپنی ذاتی رائے سے اس کانیا مطلب بیان کیا ہے جسے آجکل کے جدت پسند طبقہ نے عمدا اختیار کیا ہے یعنی یہ کہ فھر ھن سے صرف ان جانوروں کو ہلا لینا مراد ہے کاٹنا اور ان کے اجزا کو بکھیر نامراد نہیں ہے آلوسی زادہ ان پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں یہ تفسیر اجماعی کے خلا اور ایک قسم کی بکواس ہے۔ ارباب کے نزدیک یہ تفسیر قابل التفا نہیں ہے۔ ظاہر آیت کے خلاف ہونے کے علاوہ ان آثار صحیحہ راجھہ کے بھی خلاف ہے جن سے آیت کے ظاہری معنی کی تائید ہوتی ہے لہذا حق یہ ہے کہ جماعت کی اتباع کی جائے (روح المعانی) ف 4 یعنی اللہ تعالیٰ جمیع ممکنات پر غلبہ اور قدرت حاصلی ہے اور وہ ہر چیز کے انجام اور غایت کو خوب جانتا ہے ( رازی ) البقرة
261 البقرة
262 ف 1 یعنی یہ ثواب صر ان لوگوں کو حاصل ہوگا جو رضائے الہی کے لیے خرچ کرتے ہیں اور خرچ کرنے کے بعد نہ کسی پر احسان جتلاتے ہیں اور نہ زبان وعمل سے کوئی تکلیف دیتے ہیں کسی کو کچھ دے کر احسان جتلا نا گناہ کبیرہ ہے۔ صحیح مسلم کی ایک حدیث میں ہے کہ احسان جتلانے والا ان تین شخصوں میں سے ایک ہوگا جن کی طرف اللہ تعالیٰ نظر رحمت سے دیکھے گا نہ ان کا تزکیہ کرے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہوگا۔ ( فتح البیان) البقرة
263 ف 2 صحیح مسلم کی ایک حدیث میں ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اچھی بات صدقہ ہے اور یہ بھی نیکی ہے کہ تم اپنے بھائی کے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش آؤ۔ (فتح البیان) البقرة
264 ف 3 یعنی کسی کو صدقہ دینے کے بعد اس پر احسان جتلا کرے اسے تکلیف دے کر اس منافع کی طر اپنے اعمال کو ضائع نہ کرو جو صرف ریاکاری کے جذبہ کے تحت اپنا مال خرچ کرتا ہے اور اس کا اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان نہیں ہے۔ (ابن کثیر) سف 4 یعنی یہ ریا کار بظاہر اللہ تعالیٰ کی راہ میں صدقہ کرتا نظر آتا ہے لیکن حقیقت میں وہ صدقہ اس مٹی کی طرح ہے جو کسی صاف چٹان پر جمع ہوئی ہو اور دیکھنے والا اسے قابل کاشت زمین خیال کرے لیکن جو نہی بارش ہو اس کی تمام مٹی دھل جائے اور وہ صاف چٹان کی چٹان رہ جائے ہ اسی طرح ریاکاروں کے عمل ان کے صحیفہ اعمال سے مٹ جائیں گے اور نہ انھیں ان کا کوئی اجر ملے گا۔ اوپر کی آتی میں مثال تھی مخلص مومن کے صدقہ وخیرات کی جو محض رضائے الہی کے لیے خرچ کرتا ہے اور مثال ہے ریاکارکے خرچ کرنے کی جس کا اللہ تعالیٰ اور آخرت پر ایمان نہیں ہے۔ (ابن کثیر ) البقرة
265 ف 5 یہ ریاکاروں کے مقابلہ میں مخلص مومنوں کی دوسری مثال ہے یعنی جو لوگ محض اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لیے خرچ کرتے ہیں اور دل کے اس اطمینان کے ساتھ کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں اس کا وافر اجر عطا فرمائے گا اور ان کا عمل ضائع نہیں ہوگا۔ (کبیر) ان کے خرچ کرنے کی مثال اس باغ کی ہے جو کسی پر فضا اور بلند مقام پر ہو اگر اس پر زور کی بارش ہو تو وہ دوسرے باغوں سے دگنا پھل دے اور اگر زور کی بارش ہو تو ہلکی بارش ہی کا فی رہے۔ یہی حالت مومن کے عمل کی ہے وہ کسی صورت بھی ضائع نہ ہوگا بلکہ اللہ تعالیٰ اسے قبول فرمائے گا اور ہر ایک کو اس کے عمل کے مطابق جزادے گا۔ (ابن کثیر) شاہ صاحب لکھتے ہیں : زور کے مینہ سے مراد زیادہ مال خرچ کرنا ہے اور طل (اوس) سے مراد تھوڑا مال۔ سو اگر نیت درست ہے تو بہت خرچ کرنا بہت ثواب اور تھوڑا بھی کام آتا ہے جیسے خالص زمین پر باغ ہے جتنا مینہ برسے گا اس کا فائدہ ہے بلکہ اوس بھی کافی ہے۔ اور نیت درست نہیں تو جس قدر زیادہ خرچ کرے ضائع ہے کیونکہ زیادہ مال دینے میں دکھا وابھی زیادہ ہے جیسے پتھر پردانہ، جتنا زور کا مینہ برسے اور ضرر دے کہ مٹی دو ھوئی جائے (موضح) البقرة
266 ف 1 یعنی نہ خود اس میں اتنی طاقت کہ باغ دوبارہ لگا سکے اور نہ اس کی اولاد اس قابل ہے کہ اس کی مدد کرسکے اسی طرح منافق صدقہ وخیرات کرتا ہے مگر ریاکاری سے کام لیتا ہے تو قیامت کے دن جو نہایت احتیاج کا وقت ہوگا اس کا ثواب ضائع ہوجائے گا۔ اور اس وقت ثواب حاصل کرنے کے لیے دوبارہ نیکی کا وقت بھی نہیں ہوگا صحیح بخاری میں حضرت ان عباس (رض) سے اس کی ایک دوسری تفسیر منقول ہے جسے حضرت عمر (رض) بھی پسند فرمایا ہے۔ اس کا حاصل یہ ہے کہ مثال اس شخص کی ہے جو عمر بھر نیک عمل کر تارہتا ہے لیکن آخر عمر میں اس کی سیرت بد جاتی ہے اور نیک عمل کی بجائے برے عمل کرنے لگتا ہے اس طرح وہ اپنی پہلی نیکیاں بھی بر باد کرلیتا ہے اور قیامت کے دن جو کہ بہت تنگی کا وقت ہوگا وہ نیکی اس کے کچھ کام نہ آئے گی اور اس نازک وقت میں اس کا عمل اس سے خیانت کرے گا۔ (ابن کثیر) چنانچہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایسے شخص کی حالت سے پناہ مانگا کرتے تھے ایک دعا میں ہے اللھم اجعل اوسع رزقک علی عندکبر سنی انقضاء عمری۔ کہ یا اللہ بڑھاپے کی عمر میں مجھ پر اپنا رزق وسیع فرمادے۔ (مستدرک) البقرة
267 ف 2 اوپر کی آیات میں بتایا ہے کہ صدق ہ وخیرات اور انفاق فی سبیل اللہ کی قبولیت کے لیے شرط یہ ہے کہ اخلاص و ایمان ہو اور یہ بھی بتایا ہے کہ ریاری احسان جتلانے اور تکلیف دینے سے صدقہ ضائع ہوجاتا ہے اور پھر مثالوں سے وضاحت کر کے سمجھا یا ہے۔ (کبیر) اب اس آیت میں قبولیت صدقہ کے لیے ایک اور شرط بیان کی ہے کہ صدقہ میں دی جانے والی چیز کا عمدہ اور طیب ہونا ضروری ہے۔ اگر کوئی شخص ردی چیز دے گا تو وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں قبول نہ ہوگی حضرت برابن عازب (رض) فرماتے ہیں کہ یہ آیت ہم انصار کے بارے میں نازل ہوئی ہے جب کھجور کا موسم آجاتا تو کچھلوگ کھجوروں کی ڈالیا لا کر مسجد نبوی کے ستونوں پر لٹکا جاتے۔ اصحاب صفہ میں سے کسی کو بھوک لگتی تو وہ اس میں حسب ضرورت کھجوریں تو ڑکر کھالیتا بعض لوگ نکمی اور سڑی ہوئی ڈالیاں لٹکا نے لگے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (ابن کثیر) گو شان نزول میں نفلی صدقہ کا ذکر ہے مگر یہ حکم فرض زکوہ اور نفلی صدقہ دونوں کو شامل ہے۔ حدیث میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دو قسم کی ردی کھجوروں (الجعرور، ابن ابی الحبیق) کو صدقہ میں قبول کرنے سے منبع فرمایا اور لفظ طیب جس طرح عمدہ مال کے معنی میں آتا ہے اسی طرح اس میں وہ مال بھی آجاتا ہے جو حلا طریقے سے کمایا ہوا ہو۔ پس معنی یہ ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں پاکیزہ اور حلال کے طریقے سے کما یا ہوا مال خرچ کرو۔ خبیث یعنی حرام مال سے صدقہ قبول نہیں ہوتا۔ حدیث میں ہے لا یکسب عبد مالا مرید حرام فینفق منہ فیبارک لہ ولا یتصدق منہ فیقبل منہ۔ کہ جو شخص حرام مال میں سے خرچ کراتا ہے اس میں برکت نہیں ہوتی اور اگر اس سے صدقہ کرے تو اللہ کے ہاں قبول نہیں ہوتا۔ (ابن کثیر ) البقرة
268 ف 3 اوپر کی آیت میں عمدہ مال خرچ کرنے کی تر غیب دی گئی تھی۔ اب یہاں شیطان کے وسوسہ سے ہو شیار رہنے کی تلقین کی جا رہی ہے۔ (کبیر) ڈراتا ہے محتا جی سے " یعنی انسان کے دل میں وہم اور سوسہ سے پیدا کرتا رہتا ہے کہ اگر نیک کاموں میں خرچ کروگے تو فقیر ہوجاؤ گے اور فحشاء یعنی بخل کی ترغیب دیتا ہے اور اس پر اکساتا رہتا ہے۔ اور فحشاء سے بدکاری اور بے حیائی کے کام بھی مراد ہو سکتے ہیں کہ شیطان ان میں مال صرف کرنے کی ترغیب دیتا ہے مگر اس کے مقا بلہ میں اللہ تعالیٰ کا وعدہ یہ ہے کہ صدقہ خیرات تمہارے گناہوں کا کفارہ بھی ہوگا اور اس پر کئی گنا زیادہ اجر بھی ملے گا اور مال میں برکت بھی ہوگی۔ حدیث میں ہے کہ ہر رات فرشتہ پکارتا ہے الھم اعاط کل منفق خلفا کہ اے اللہ خرچ کرنے والے کو اور زیادہ دے۔ ایک اور روایت میں ہے کہ صدقہ سے مال کم نہیں ہوتا (ابن کثیر۔ رازی ) البقرة
269 ف 4 یہاں الحکمہ سے مراد دین دین کا صحیح فہم۔ علم وفقہ میں صحیح بصیرت اور خشیت الہی سب چیزیں ہو سکتی ہیں۔ حدیث میں ہے راس الحکمتہ مخافتہ اللہ کہ اللہ تعالیٰ کا خوف حکمت کی جڑ ہے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) سے مرفو عا مروی ہے کہ جن دو آدمیوں پر رشک کرنا چاہیے ان میں سے ایک وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے حکمت دی اور وہ رات دن اس حکمت سے لوگوں کے فیصلے کرتا ہے۔ (ابن کثیر بحوالہ صحیحین) البقرة
270 ف 5 یعنی اللہ تعالیٰ ہر حال میں تمہاری نیت اور عمل سے واقف ہے۔ اس میں ایک طرف مخلصین کے لیے وعدہ ہے اور دوسری طرف ریاکار اور غیر اللہ کی نذریں ماننے والوں کے لیے وعید بھی ہے کہ ایسے لوگ ظالم ہیں اور انہیں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے کسی صورت رہائی نہیں ہوسکے گی۔ نذر یہ ہے کہ انسان اپنی مراد کے پوراہو جانے کی صورت میں اپنے اوپر کسی ایسے نفقہ یا کام کو لازم قرار دے لے جو اس پر لازم نہ ہو۔ (کبیر) پھر اگر یہ مراد جائز کام کی ہو اور اللہ تعالیٰ سے مانگی گئی ہو اور جس کام یا خرچ کی نذر مانی گئی ہے وہ بھی جائز ہو تو ایسی نذر کاپوراکر نا بھی واجب ہے ورنہ اس کا ماننا ارپورا کرنا لازم نہیں ہے۔ البقرة
271 ف 6 یعنی صدقہ علا نیہ دینا بھی گو اچھا ہے مگر پوشیدہ طو پر دینا زیادہ فضیلت رکھتا ہے۔ جمہور مفسرین کے نزدیک اس سے نفلی صدقات مراد ہیں۔ (شوکانی) اس کے بر عکس فرض زکوہ گوپوشیدہ طور پر دینا جائز ہے مگر اس کا اظہار افضل ہے۔ اما طبری لکھتے ہیں کہ اس امت کا اجماع ہے۔ (فتح الباری ج 6 ص 22) متعدد احادیث میں نفلی صدقت کو پوشیدہ طور پر دینے کی فضیلت آئی ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ نفلی صدقہ چھپا کردینے والا قیامت کے دن ان سات شخصو میں سے ایک ہوگا جنکو اللہ تعالیٰ اپنے سایہ میں جگہ دے گا جس روز کہ کوئی اور سایہ نہیں ہوگا۔ (بخاری مسلم ) البقرة
272 ف 1 اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ غیر مسلم کے ساتھ صلہ رحمی جائز ہے اور اگر وہ محتاج ہو تو نفلی صدقات سے اس کی مدد کر نابھی جائز ہے حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں حکم دیتے کہ صدقات صرف مسلمانوں کو دیئے جائیں گے مگر جب یہ آتی نازل ہوئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہر ضرورت مند سائل کو صدقہ دینے کی اجازت دے دی۔ البتہ قرآن نے بتایا کہ اجر تب ملے گا جب وہ صدقہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے دیا جائے۔ (شوکانی۔ ابن کثیر) لیکن واضح رہے کہ فرض زکوہ صرف مسلمانوں کا حق ہے غیر مسلم پر اس کا صرف کرنا جائز نہیں ہے اس پرتمام ائمہ کرام کا اجماع ہے۔ (معالم السنن) صدقہ فطر بھی صرف مسلمانوں کا حق ہے۔ صرف امام ابو حنیفہ کے نزدیک غیر مسلم پر صرف ہوسکتا ہے۔ (المغنی۔ ردالمختات) البقرة
273 ف 2 حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں یہ ان سے مراد اصحاب صفہ ہیں۔ (شوکانی) مگر آیت اپنے عموم کے اعبتار سے ان سب فقرا کو شامل ہے جو مذکورہ صفات کے حامل ہوں اور آیت کا منشا یہ ہے کہ صدقہ وخیرات کے اولین یہ لوگ ہیں یعنی مجاہدین اور علم دین کے طالب علم۔ (ابن کثیر۔ وحیدی) شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ فی زمانہ ماننا جو لوگ علم دین کی نشر واشاعت کے لیے وقف ہوچکے ہیں اگر ان کے پاس کوئی ذریعہ نہ ہو تو ان کی مدد کی جائے۔ (موضح بتصرف) الحافا۔ یعنی وہ لپٹ کر سوال نہیں کرتے جیسا کہ بھکاریوں کی عادت ہے اور یہ عادت بہت بری ہے۔ (رازی۔ وحیدی) یہ جملہ دراصل تعفف (سوال نہ کرنا) کی تفسیر ہی ہے۔ علمائے تفسیر نے اس کے یہ معنی بھی کئے ہیں کہ وہ بالکل سوا ہی نہیں کرتے (روح) ایک حدیث میں ہے مسکین وہ نہیں ہے جو لقمہ اور دو لقموں کے لیے دربدر پھرتا رہتا ہے بلکہ اصل مسکین وہ ہے جو لوگوں سے لپٹ کو سوال نہیں کرتا۔ نیز احادیث میں نے حاجت سوال کی بڑی مذمت آئی ہے چنانچہ ایک حدیث کے ضمن میں ہے جس کے پاس دوپہر یارات کا کھانا ہے پھر وہ لوگوں سے سوال کرتا ہے تو وہ دوزخ کے انتارے سمیٹتا ہے۔ ( ابو داؤد) البقرة
274 البقرة
275 ف 3 یعنی سود خوار قیامت کے دن مخبوط الحواس اور پاگل ہو کرا اٹھیں گے الربا (سود) کے لفظی معنی مطلق زیادتی کے ہیں اور اصلاح شریعت میں خاص شرح کے ساتھ جو اضافہ اصل (راس المال) پر لیا جاتا ہے اسے ربا کہتے ہیں۔ (راغب) یعنی کسی قرض پر بغیر کسی مالی معاوضہ کے محض مہلت بڑھادینے کے بنا پر زیادتی حاصل کیجائے (ابن العربی) جاہلیت میں عام طور پر سود کی صورت یہ تھی کہ جب ادائے قرض وقت آجاتا ہے تو صاحب مال کہتا یا تو قرض ادا کرو یا مہلت لے کر سود دینا منظو کرو۔ سود کی یہ شکل بالا جماع حرام ہے۔ شوکانی لفظ ربا اپنے وسیع ترمعنی کے اعتبار سے مذکورہ صورتکو بھی شامل ہے لیکن یہ کل ربا نہیں ہے بعض قبائل میں تجارتی سود بھی رائج تھا۔ علامہ طبری لکتے ہیں کہ کان ربا یتبایعون بہ جی الجاھلیتتہ۔ (ج 4 ص 107) یعنی جاہلیت میں ایک صورت رباکی یہ بھی تھی جو خرید وفروخت میں ہوتا۔ علامہ سیوطی لکھتے ہیں : نزلت فی العباس ورجل من بنی المغیرتہ کانا شر یکین جی الجا ھلیتہ سلفافی الرباالی اناس من ثقیف (ایضا) کان بنو المغیرتہ یر جون لثقیف (درمنشور) یعنی ربا جس کی مذمت میں یہ آیات نازل ہوئی ہے وہ جاہلی دور میں بسلسلئہ کاروبار ( تجارت) تھا جو ثقیف اور بنو المغیرہ ؤغیرہ قبائل باہم بطور شرکت کیا کرتے اور جو سودی قرض کا لین دین جاری تھا موجود سودی نظام بھی اس کے تحت آتا ہے۔ نیز دیکھئے آل عمران آیت :130) ف 4 یعنی ان کو یہ سزا اس لیے ملے گی کہ وہ سود اور تجارت میں کچھ فرق نہیں سمجھتے تھے جیسا کہ آج کل بھی تجدد پسند طبقہ سود کو ایک کاروبارسمجھتا ہے حالانکہ تجارت اور سود میں بتعدد وجوہ فرق ہے۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ تجارت میں مفع ونقصان دونوں کا احتمال موجود ہے مگر سود خوار مقروض سے اصل زر کے علاوہ ایک متعین رقم بہر حال وصول کرلیتا ہے۔ جو مفت خوری بد تریم شکل ہے۔ ( رازی) ف 1 یعنی اللہ تعالیٰ نے معاف کردیا ہے اب اس کا واپس کرنا ضروری نہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : عفا اللہ عما سلف۔ پچھلا اللہ تعالیٰ نے معاف کردیا۔ ابن کثیر، شوکانی) پس امرہ الی اللہ کا مطلب یہ ہے کہ سود کی تحریم یاماسلف کا عفو اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے لہذا اس نے معاف فردیا ہے۔۔ (شوکانی) یہ مطلب ترجمہ میں دی گئی وضاحت کی بہ نسبت قابل ترجیح ہے۔ ف 2 سود خواروں کے لیے سخت وعید ہے، بعض نے ومن عاد کے یہ معنی کیے ہیں کہ تحریم کے بعد بھی اگر کوئی شخص بیع اور رباکو یکساں قرار گا اور سود کو حلال سمجھ کر کھائے گا ایسا شخص چونکہ کافر ہے اس لیے اسے ہمیشہ کے لیے دوزخی قرار دیا ہے۔ (شوکانی) البقرة
276 ف 3 یعنی سود کا مال بظاہر کتنا ہی بڑھ جائے۔ اللہ تعالیٰ اس میں خیر و برکت عطا فرماتا چنانچہ سود خوار پر دنیا بھی لعنت بھیجتی ہے اور آخرت میں بھی اسے وہ سزا ملے گی جو کسی دوسرے مجرم کو نہ ملے گی۔ ایک حدیث میں ہے کہ سود خواہ کتنا ہی بڑھ جائے انجام کا روبار وہ کم ہی ہوتا ہے۔ (ابن کثیر) اس کے مقا بلہ میں صدقہ وخیرات میں برکت ہوتی ہے۔ صحیحین وغیرہ میں حضرت ابوہریرہ ر ضی اللہ عنہ سے ایک روایت ہے کہ جس شخص نے اپنی پاکیز ہ کمائی سے ایک کھجور کے برابر صدقہ دیا اللہ تعالیٰ اسے قبول فرماتا ہے اور بڑھاتا ہے حتی کہ وہ احد پہاڑ کے برابر ہوجاتا ہے۔ (قرطبی ) البقرة
277 البقرة
278 ف 4 یعنی مالدار ہو کر اپنے بھائی کو بلا سود قرض نہ دے یہ نعمت الہی کی ناشکری ہے۔ (موضح بتصرف ) ف 5 یعنی حرمت ؟ آنے سے قبل جو کچھ وصول کرچکے سو کرچکے اب اس حرت کے بعد لوگوں کے ذمہ جو بھی سود ہوا ہے تم اسے لینے کا حق نہیں۔ رکھتے جنانچہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وہ تمام سود باطل قرار دے دیئے جو قریش ثقیف اور دوسرے عرب قبائل میں سے بعض تاجروں کے اپنے قرض داروں کے ذمہ باقی تھے۔ حجتہ الوداع کے موقعہ پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اعلان فرمایا۔ جاہلیت کے تمام سود باطل قرار دیئے جاچکے ہیں اور سب سے پہلے میں اپنے خاندان یعنی حضرت عباس (رض) بن عبد المطلب کا سود باطل کرتا ہوں۔ لہذا وہ سارے کا سارا باطل ہے۔ (ابن کثیر ) البقرة
279 ف 6 یعنی اس کے خلاف اعلان جنگ ہے اور وہ وعید ہے جو دوسرے کسی جرم کے بارے میں اللہ و رسول کی طرف سے نہیں دی گئی۔ حضرت ابن عباس (رض) ابن سرین حسن بصری اور بعض دیگر ائمہ کے نزدیک سود خوار کو توبہ پر مجبور کیا جائے کا گر پھر بھی روش نہ بدلے گا تو اسے قتل کردیا جائے گا۔ (ابن کثیر) ف 7 اصل زر سے نائد وصول کرو یہ تمارا لوگوں پر ظلم ہوگا اور اگر تمہیں اصل زر بھی نہ ملے تو یہ لوگوں کا تم پر ظلم ہوگا اور یہ دونوں چیزیں ہی انصاف کے خلاف ہیں (ابن کثیر ) البقرة
280 ف 8 تنگد سست مقروض کو کشائش تک مہلت دینا یا معاف کردینا بڑی نیکی ہے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا من انظر معسر ااووضع عنہ الظلہ اللہ فی ظلہ۔ کہ جس نے اپنے قرض دار کو مہلت دی یا اسے اصل زر ہی معاف کردیا اس کو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنا سایہ عنایت کرے گا (ابن کثیر بحوالہ صحیح مسلم ) البقرة
281 ف 9 متعد روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ قرآن کی سب سے آخری آیت ہے جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہوئی۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے بعد بعض روایات کے مطابق اکیس روز اور بعض کے مطابق صرف نو روز رہے۔ نیز ایک روایت میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس کو الربا اور الدین دنوں آیتوں کے درمیان لکھو۔ ابن کثیر۔ روح المعانی ) البقرة
282 ف 1 اس آیت کو ایتہ الدین کہا جاتا ہے۔ اور یہ قرآن کی سب سے لمبی آیت ہے۔ اس میں ادھار یا قرض کے معاملہ کے احکام بیان فرمائے ہیں اور اصولی طور پر باتیں ضروری قرار دی ہیں۔ ایک تو تحریر ہوجانی چاہیے دوسرے مدت کی تعین تیسرے گواہ بھی۔ عموما لوگ ادھا یا قرض کے معاملے میں تحریر کرنے اور گواہ بنانے کو معیوب اور باہمی نے اعتمادی کی علامت سمجھتے ہیں۔ آیت کے آخری میں اس کی حکمت بیان فرمادی گئی کہ یہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک مبنی بر انصاف گواہی کو زیادہ درست رکھنے والی اور ہر قسم کے شک و شبہ بچانے والی چیز ہے۔ بنا بریں ایسے معلاملات میں اس قسم کی احتیاط مناسب ہے تاکہ آئندہ جھگڑا پیدا نہ ہو سکے۔ (ابن کثیر بتصرف) حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) نے فرمایا کہ اس آیت سے بیع سلم کا جواز ثابت ہوتا ہے اور اسی کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی ہے۔ (شوکانی) اور بیع سلم یا سلف یہ ہے کہ کسی چیز کی بیشگی قیمت دے کر کچھ مدت کے بعد اس چیز کو وصول کرنا احادیث میں اس کے شرائط مذکور ہیں حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ آئے تو دیکھا کہ اہل مدینہ کھجور میں بیع سلف کرتے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : من سلف فی تمر ففی کیل معلوم اووزن معلوم الی اجل معلوم۔ کہ جو شخص بھی بیع سلف کرے تو ناپ تول اور مدت کی تعین ہونی چاہیے۔ (ابن کثیر) ف 2 یعنی جو دیانت وامانت اور اخلاق کے اعتبار سے تم میں قابل اعتبار سمجھے جاتے ہوں۔ قبول شہادت کے دس شرائط ہیں جو کتب فقہ میں مذکور ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ مسلمان عاقل اور بالغ ہو، غیر مسلم کی شہادت قابل قبول نہیں ہوگی۔ (معالم) ف 3 یعنی اگر تجارت میں لین دین نقد ہو ادھار نہ ہو تو گواہ بنا لینے ہی کافی ہیں لکھنا ضروری نہیں ہے کیونکہ اس میں کلفت ہے اور یہ بھی واجب نہیں ہے۔ مستحب ہے۔ (شوکانی۔ خازن) ف 4 یہاں یضار فعل، معروف بھی ہوسکتا ہے اور مجہول بھی۔ یہ ترجمہ مجہول قرات کی بنا پر ہے اور اگر صیغہ معروف کی قرات ہو تو معنی یہ ہوں گے کہ لکھنے والے اور گواہی دینے والے کو چاہیے کہ نقصان نہ پہنچائے۔، مثلا لکھنے وال غلط بات لکھ دے جس سے صاحب حق یا مدیون کو نقصان پہنچے یا گواہ شہادت میں ہیر پھیر کرکے غلط گواہی دے اور کاتب اوشاہد کو نقصان پہنچانا یہ ہے کہ انہیں مشغولیت کے وقت تنگ کر کے بلا یا جائے وغیرہ۔ البقرة
283 ف 1 یہ بیع کی ایک دوسرے شکل ہے۔ یعنی اگر تم سفر میں قرض کا معاملہ کرو اور تمہیں لکھنے ولا یا ادوات تحریر میسر نہ ہوں تو تحریر کی بجائے مدیون کو چاہیے کہ صاحب دین کے پاس کوئی چیز رہن کرھ دے۔ سفر کا ذکر اس لیے کیا گیا کہ یہ چیز زیادہ ترسفر میں پیش آسکتی ہے ورنہ رہن حضرت میں بھی جائز ہے۔ خود آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی زرہ ایک یہو دی کے پاس گروی رکھ کر عملا اس کی وضاحت کردو،) صحیحین) پس سفر میں تورہن کی نص قرآن سے ثابت ہے اور حضر میں آنحضرت کے فعل سے۔ (شوکانی) یعنی قرضدار لینے والے کا اعتبار کرے اور اس کی کوئی چیز رہن رکھے بغیر اسے قرض دے دے تو سے بھی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے اس کا قرض ادا کردے۔ حدیث میں ہے : علی الید ما اخذت حتی تؤ دیہ۔ کہ ہاتھ نے جو کچھ لیا ہے اس کے ذمہ ہے جب تک کہ ادا نے کردے۔ (ابن کثیر) ف 3 اس میں اثم (گناہ) کی نسبت دل کی طرف کی ہے اس لیے کہ کتمان دل کا فعل ہے اور اسکے دواعی اولادل ہی ہوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ یہ وعید ہے کہ کتمان شہادت اتنا بڑا گناہ ہے کہ اس سے دل مسخ ہوجاتا ہے۔ نعوذباللہ من ذلک (شوکانی) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ جھوٹی گواہی دینا اور اسی طرح گواہی کو چھپا نا کبیرہ گناہ ہے۔ (ابن کثیر) سعیش بن مسیب اور ابن شہاب کا قول ہے کہ آیت ریا اور آیت دین سب سے آخر میں نازل ہوئی ہیں۔ (شوکانی ) البقرة
284 ف 4 اس سے معلوم ہوا کہ خیالات پر بھی محاسبہ ہوگا مگر ان سے مراد وہ خیالات ہیں جن پر انسان کو اختیا رہو اور جنہیں وہ دل میں جاگزیں کرلے اور جو خیالات انسان کی طاقت اور اختیار سے باہر ہوں اور ان کو اپنے دل میں جگہ نہ دے تو ان پر محاسبہ نہ ہوگا جیسا کہ اگلی آیت : لا یکلف اللہ۔ الخ میں ہے حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ جب آیت للہ مافی السموات۔۔۔ نازل ہوئی تو صحانہ پر گراں گزری اور انہوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا ہم نماز، روزہ وغیرہ اعمال بجا لا رہے ہیں اس آیت کے مطابق تو بڑی مشکل پڑے گی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا تم بھی پہلے اہل کتاب کی طرح سمعنا وعصینا کہنا چاہتے ہو بلکہ تم یوں کہو سمعنا واطعنا غفر انک ربنا والیک المصیر۔ جب صحا بہ نے اس کا اقرار کرلیا تو اللہ تعالیٰ نے اگلی آیت : امن الرسول۔۔ نازل فرمائی اور آیت : اوتخفوہ یحاسبکم بہ اللہ۔ کو منسوخ کردیا اور جب اگلی آیت لا یکلف اللہ۔۔۔۔ الخ نازل فرمائی تو اس کے ہر دعا ئیہ جملہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے قد فعلت (میں نے ایسا کردیا) فرمایا۔ (احمد۔ مسلم) واضح رہے کہ یہاں دوسری آیت سے پہلی کے منسوخ ہونے کے معنی یہ ہیں کہ پہلی آیت میں جو ابہام تھا اس کی وضاحت فرما دی، حافظ اب القیم لکھتے ہیں کہ صحا بہ کرام نسخ کا لفظ وضاحت کے معنی میں بھی استعمال کرتے تھے۔ حضرت ابو ہریرہ (رض) سے ایک دوسری روایت میں ہے کہ انحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میرے لیے اللہ تعالیٰ نے میری امت کے لوگوں کو وہ خیالات اور وساویس معاف کردیئے ہیں جو ان کے دلوں میں آئیں تاوقتیکہ انکو زبان پر نہ لائیں یاان پر عمل نہ کریں۔ (ابن کثیر۔ شوکانی ) البقرة
285 ف 5 یعنی ایسا نہیں ہے کہ ہم بعض انبیاء کو مانتے ہوں اور بعض کا انکار کرتے ہوں بلکہ ہم تمام انبیا کو مانتے ہیں۔ ف 6 اس آیت اور اس سے اگلی آیت کی فضیلت میں متعدد احادیث ثابت ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) سے ورایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے رات کو سورت بقرہ کی آخری دو آیتیں پڑھیں وہ اس کے لیے کافی ہوگئیں، حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ ایک روز آسمان کا ایک دروازہ کھلا اور ایک فرشتے نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں عرض کی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دونوروں کی بشارت ہو جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیئے گئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے کسی نبی کو نہیں دیئے گئے یعنی سورت بقرہ کی آخری دو آیتیں اور سورت فاتحہ۔ (ابن کثیر ) البقرة
286 ف 1 مرسل روائیوں میں ہے کہ حضرت جبر یل (علیہ السلام) نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تلقین کی کہ ان آیتوں کے خاتمہ پر آمین کہیں۔ چنانچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آمین یارب العالمین فرمایا۔ ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سورت کے خاتمہ پر سات مرتبہ اللھم ربنا ولک الحمد فرمایا۔ ( درمنشور) بعض صحا بہ سے بھی اس کے خاتمے پر آمین کہنا ثابت ہے اور ایک اروایت میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان آیتوں کے بعد آمین کی تر غیب دی۔ ( ابن کثیر ) البقرة
0 ف 2 اس سورت کے مدنی ہونے پر مفسرین کا اتفاق ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ پہلی 83 آیتیں وفد نجران کے بارے میں نازل ہوئیں ہیں جو 9 ھ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسل کی خدمت میں حاضرہو اتھا۔ (فتح القدیر) یہ وفد کل ساٹھ سواروں پر مشتمل تھا جن میں چودہ ان کے معزز افراد شمارہوتے تھے اور تین آدمی عاقبہ عبدالمسیح۔ السید الالہم اور ابو حارثہ ان سے میں نمایاں حیثیت رکھتے تھے۔ اور ابو حارثہ کو تو مذہبی رہنما ہونے کی حثیت سے لاٹ پادری سمجھا جاتا تھا۔ ان سے دوسری باتوں کے علا اوہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کی الو ہیت پر بھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مناظرہ ہوا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مسیح علی السلام فنا ہوجائے گا اور اللہ تعالیٰ ہی حی ہے یعنی ہمیشہ زندہ ہے اور رہے گا وغیرہ دلائل پیش کیے جس پر وہ خاموش ہوگئے۔ اس پر یہ سورت نازل ہوئی۔ بقیہ تفصیل کے لیے دیکھئے آیت مبابلہ 61۔ (معالم۔ ابن کثیر) حروف مقطعات کی تشریح ابتدا سورت بقرہ میں گزر چکی ہے۔ آل عمران
1 آل عمران
2 ف 4 الحیی القیوم یہ اسماء حسنی صفات باری تعالیٰ ہیں۔ حیات اللہ تعالیٰ کی صفات ذاتیہ میں سے ہے۔ حدیث میں ہے کہ دو آیتوں میں اسم اعظم ہے جس کے واسطہ سے اللہ تعالیٰ سے دعا کی جائے تو اللہ تعالیٰ دعا رد نہیں فرماتے۔ شروع آیتہ الکرسی اللہ لا الہ الا ھو الحیی القیوم وشروع آیتہ آل عمران۔ بعض ورایات میں تین آیتیں مذکو رہیں اور تیسری آیت سورت طہ کی ہے یسعنت الوجوہ اللحی القیوم۔ (ابن کثیر ) آل عمران
3 ف 5 یہاں الکتاب سے مراد قرآن مجید ہے اور بالحق سے اس کے سچا اور منزل من اللہ ہونے پر دلالت ہے اور اس سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرنے کا مطلب یہ ہے کہ کتب سابقہ میں جو خبریں اور بشارتیں مذکور ہیں اس میں بھی وہی خبریں اور بشارتیں ہیں۔ ایک خبر یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آخری رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بنا یر بھیجے گا اور بشارت یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ ان پر قرآن نازل فرمائے گا۔ (ابن کثیر۔ کبیر) ف 6 تورات سے مراد وہ کتاب ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلامک پر نازل ہو کی گئی اور انجیل سے مراد وہ کتاب ہے جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر نازل کی گئی۔ اس وقت یہ دنوں کتابیں اپنی اصلی شکل میں موجود نہیں ہیں۔ تورات بائبل کے عہد قدیم کی پہلی پانچ کتابوں کا نام ہے اور انجیل بیئبل کے عہد جدید کی پہلی چار کتابوں میں متفرق طور پر درج ہے۔ یہود و نصاری نے انہیں بڑی حد تک بدل ڈلا ہے اور ان میں کچھ تشریحات اپنی طرف سے ملا کر خلط ملط کردیا ہے الفرقان سے مراد قرآن مجید ہے جس سے تورات وانجیل کے صحیح اور غلط اجزائے کے مابین فرق کیا جاسکتا ہے۔ (کبیروغیرہ ) آل عمران
4 ف 7 یعنی اللہ تعالیٰ کے احکام ماننے سے انکار کردیا۔ (شوکانی ) آل عمران
5 ف 8 اس آیت میں پہلے یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو آسمان وزمین کی ہر بڑی اور چھوٹی ظاہر اور پوشیدہ چیز کا علم ہے حالا نکہ وہ عرش معلی پر ہے۔ (وحیدی) اور پھر اس طرف اشارہ کیا ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ایک بندہ مخلوق ہیں جس طرح دوسرے انسانوں کو اللہ تعالیٰ نے ماں کے پیٹ میں پیدا کیا اسی طرح حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو بھی ماں کے پیٹ میں جیسے چاہا پیدا کیا۔ پھر وہ خدا یا خدا کا کا بیٹا کیسے ہوسکتا ہے جیسے عیسائیوں کا غلط عقیدہ ہے۔ آل عمران
6 کیف یشاء۔ یعنی مذکر یا مؤنث اسود احمر تام ناقص وغیرہ اور انسان کی سعادت وشفاعت عمر اور رزق بھی اسی وقت لکھ دیا جاتا ہے جیسا کہ متعدد احادیث میں مذکور ہے۔ (شوکانی۔ ابن کثیر ) آل عمران
7 ف 1 محکمات وہ آیات ہیں جن کا مفہوم بالکل واضح اور صریح ہے اور ان میں کسی قسم کی تاویل کی کنجائش نہیں ان کو ام الکتاب قرار دیا ہے۔۔ یعنی میں لوگوں کو دین کی طرف دعوت دی گئی ہے اور انہی میں دین کے بنیادی عقائد، عبادات اور احکام بیان کیے گئے ہیں۔ قرآن مجید کے نصائح عبر اور انسانی گمراہیوں کی نشانی دہی بھی انہی آیات میں لی گئی ہے۔ متشابہات جن کا مفہوم سمجھنے میں اکثر لوگوں کی اشتباہ ہوجاتا ہے ان میں تاویل کی گنجائش نکل سکتی ہے جن میں ایسے حقائق کا بیان ہے جب پر مجمل طور پر ایمان لانا تو ضروری ہے لیکن ان کی تفصیلات کو جا ننا انسان کے لیے ضروری ہے اور نہ عقل استعداد کے ساتھ ممکن ہے۔ جیسے حروف مقطعات مرنے کے بعد برزخی اور اخری زندگی کی مختلف کیفیات وغیرہ۔ تفسیر وحیدی میں لکھا ہے کہ صفات الہیہ کے منکرین تو استوۓ ید اور نزول وغیرہ کو متشابہات قرار دیتے ہیں مگر اہل حدیث ان کو محکم مانتے ہیں۔ نیز اس میں نصاری کو بھی تنبیہ ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق کلمتہ وروح منہ وغیرہ آیات سے عیسیٰ (علیہ السلام) کی الوہیت اور انبیت پر تو استد الال کرتے ہیں مگر دوسری آیات ان ھو الا عبد ان مثل عیسیٰ کمثل ادم، الخ پر دھیان نہیں دیتے۔ (ابن کثیر) متشابہا کے معنی کے لیے دیکھئے (الزمر آیت 23) یعنی جو لوگ مخلص ہوتے ہیں اور اس کے ساتھ علم وفہم بھی رکھتے ہیں وہ محکمات کو اصل سمجھتے ہیں اور متشابہات کے من عند اللہ ہونے پر وہ ایمان تو رکھتے ہیں لیکن ان کی تفصیلات سمجھنے اور متعین کرنے کے درپے نہیں ہوتے۔ اس کے برعکس جو لوگ اہل زیغ ہیں جن کا مشغلہ ہی محض فتنہ جوئی ہو تو ہے وہ محکمات کو چھوڑ کر متشابہات کی عقلی تاویل کے چکر میں سرگردان رہتے ہیں حضرت عا ئشہ (رض) سے ورایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آیت کو الوالالباب تک پڑھا اور پھر فرمایا جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو متشابہات کے پیچھے پڑتے ہیں تو سمجھ لو کہ یہ وہی لوگ ہیں جن کی اللہ تعالیٰ نے نشاندہی فرمائی ہے سو تم ان سے بچو۔ (بخاری) حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ قرآن میں جھگڑنا کفر ہے۔ (ابو داؤد) پس ضروری ہے کہ قرآن کا جو حصہ محکم ہے اس پر عمل کیا جائے اور جو متشابہ ہے اس پر جوں کاتوں ایمان رکھا جائے اور تفصیلات سے بحث نہ کی جائے۔ (فتح البیان۔ ابن کثیر) آل عمران
8 ف 3 یہ وہ دعا ہے جو علم میں راسخ حضرت اللہ کے حضور کرتے رہتے ہیں۔ حضرت ام سلمہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسل یہ دعا فرمایا کرتے تھے۔ یا مقلب القلوب ثبت قلبی علی دینک اے اللہ میرے دل کو اپنے دین پر ثابت رکھ )، پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔ (ابن جریر ) آل عمران
9 آل عمران
10 آل عمران
11 ف 4 یعنی جس طرح کا عذاب قوم فرعون اور امم سابقہ کو ان کے رسولوں کو جھٹلا نے کی وجہ سے دیا گیا اسی طرح کا عذاب مالدار کفار کو بھی دیا جائے گا۔ یہاں ان کفار سے مراد وفد نجران یہودی مشرکین عرب اور دوسرے تمام کفار بھی ہو سکتے ہیں۔ (ابن کبیر۔ شوکانی ) آل عمران
12 ف 1 عاصم بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عزوہ بدر سے واپس تشریف لائے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہود کو سوق بنی قینقاع میں جمع کر کے فرمایا۔ اے گروہ یہود تم مسلمان ہوجاؤ اس سے قبل کہ تمہا را بھی وہی حشر ہو جو قریش بدر میں ہوا ہے۔ وہ بولے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! تم اس گھمنڈ میں نہ رہو کہ تم نے قریش کے ایک ناتجربہ کار گروہ کو جو لڑنا نہیں جانتا تھا۔ مار ڈالا ہے۔ جب تمہارا ہم سے مقابلہ ہوگا تو معلوم ہوجائے گا اصل آدمی یعنی ماہرین جنگ تو ہم ہیں جن کا کوئی مقابلہ نہیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ اور اس سے اگلی آیت نازل فرمائی۔ (ابن کثیر) اس کے نزول کے بعد بنو قریظہ کے قتل۔ بنی نضیر کے جلا وطن اور خیبر کے فتح ہوجانے سے قرآن کی یہ پیش گوئی بحمداللہ حروف بحروف سچی ثابت ہوئی۔ (شوکانی) آل عمران
13 ف 2 یعنی متذکرہ بالا پیش گوئی کے مبنی پر صداقت ہونے کے لیے معرکہ بدر میں بہت بڑی آیت (دلیل موجود ہے۔ (شوکانی۔ ابن کثیر) یرو نھم مثلھم صیغہ غائب یا کے ساتھ پڑ ھا جائے تو اس کے دو معنی ہو سکتے ہیں ایک یہ کہ مسلمان کفار کو اپنے سے صرف دو چند دیکھ رہے تھے حالانکہ وہ سہ چند تھے تاکہ مسلمانوں کو ثبات حاصل ہو چنانچہ مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی۔ دوم یہ کہ کفار مسلمانوں کے اپنے سے دو چند دیکھ رہے تھے حالا نکہ ان کی تعداد ایک ہزار کے قریب تھی اور مسلمان کل 313 مگر مسلمان دوچند اس لیے نظر آتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی مدد کے لیے فرشتے بھیج دیئے تھے۔ اکثر مفسرین نے پہلے معنی کو ترجیح دی ہے اور بعض نے دوسرے کو۔ (ابن کثیر۔ شوکانی) اور ترونھم پڑھیں تو معنی اور بن سکتے ہیں۔ (شوکانی) واضح رہے کہ دوچند دکھلا نا لڑائی سے قبل تھا ورنہ لڑائی کے وقت تو ہر گروہ دوسروں کو اپنے سے کم خیال کر رہا تھا۔ دیکھئے سورت برات آیت 130 (وحیدی ) آل عمران
14 ف 3 اشھوات۔ یہ شہوت کی جمع ہے جس کے معنی ہیں (کسی مرغوب چیز کی طرف نفس کا کھینچ جانا) یہاں کا الشہوات سے مراد وہ چیزیں ہیں جو طبعیت کو مرغوب ہیں اور من النساء میں من بیانیہ ہے یعنی وہ چیزیں یہ ہیں۔ القناطیر کا واحد قنطار ہے۔ اس کی مقدار میں مختلف اقوال ہیں مگر سب کا حاصل یہ ہے کہ مال کثیر کو قنطار کہا جاتا ہے۔ (ابن کثیر۔ شوکانی) ہماری زبان میں اس کا ترجمہ خزانے ہوسکتا ہے اور متاع اس سامان کو کہا جاتا ہے جس سے فائدہ حاصل کیا جائے۔ مزے کا لفظ اس کا تعبیری ترجمہ ہے۔ حاصل یہ کہ انسان ان چیزوں کی محبت میں پھنس کر خدا اور اس کے دین سے غافل ہوجائے اور انہیں تفاخر اور زینت کا ذریعہ سمجھے اور غرور وتکبر پر اتر آئے تو یہ تما چیزیں مذموم۔ ورنہ اگر ان تمام چیزوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نعمت خیال کرتے ہوئے ذریعہ آخرت بنایا جائے اور شریعت کی حدود میں رہ کر ان سے فائدہ اٹھا یا جائے تو یہ مذموم اور مبغوض نہیں بلکہ نہایت مرغوب اور محمود ہیں۔ اصل چیز نیت اور عمل ہے۔ اس لیے حدیث میں ایک طرف تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد یہ ہے کہ میرے بعد مردوں کے لیے کوئی ضرر رساں فتنہ عورتوں سے بڑھ کر نہیں ہے۔ بخاری) اور دوسری طرف آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ فرمایا ہے کہ دنیا متاع ہے اور اس کی بہترین متاع عورت ہے۔ اور یہ کہ دنیا میں میرے لیے عورت اور خوشبو پسندید بنادی گئی ہیں۔ بخاری وغیرہ یہی حال باقی تمام نعمتوں کا ہے۔ آیت کے آخر میں ان کو دنیاوی زندگی کا سامان قرار دیکر دنیاوی زندگی میں زہد اور آخرت میں رغبت پر زور دیا ہے۔ (ماخوذازابن کثیر وشوکانی ) آل عمران
15 آل عمران
16 ف 4 حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ جب آیت زین اللناس نازل ہوئی تو میں نے کہا یا للہ ! اب جب کہ تو نے خودہے ان چیزوں کو ہمارے لے پسند یدہ بنادیا ہے تو ہم اس فتنہ سے کیسے بچ سکتے ہیں ؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ جنہیں آخرت میں مذکورہ نعمتیں حاصل ہوں گی وہ ہیں جو یہ دعا کرتے ہیں اور جن میں وہ صفات پائی جاتی ہیں جن کا اگلی آیت میں ذکر آرہا ہے۔ آل عمران
17 ف 1 یا یہ کہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی بجا آوری اور اس کے محرمات سے پرہیز مشقت اٹھانے والے۔ ف 2 اس آیت سے خاص طور پر سحر (پچھلی رات) کے وقت استغفار کی فضیلت معلوم ہوتی ہے۔ کتب احادیث میں متعدد صحابی سے یہ روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے : جب رات کایک تہائی یا نصف باقی رہ جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ پہلے آسمان سے پر اتر کر یہ فرماتے ہیں ہے کوئی مانگنے والا کہ میں اس کو دوں؟ ہے کو دعا کرنے والا میں اس کی دعا قبول کروں ؟ ہے کوئی استغفار کرنے والا میں اس کی مغفرت کروں؟ اور ہر رات پکار کر یہی پوچھا جاتا ہے۔ ابن کثیر ) آل عمران
18 ف 3 قائما القسط حال من الا وم الشرد یعنی قا ٗم بالقسط حال من الا الشر یفتد اور آیت کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جو اس پوری کائنات کا خالق رازق اور مدتبر ہے وہ خود یہ گواہی دے رہا ہے اور اس کی گواہی سے بڑھ کر سچی اور منبی بر حقیت کسی کی گواہی ہو سکتی ہے کہ اپنی مخلوقات کا صرف وہی معبود ہے اور اس کا ہر کام اس کا ئنات میں جو بھی ہو ہستی ہے وہ اسی کی پیدا کردہ اسی کی متحاج اور اس کے رزق پر جینے وا لی ہے اور پھر یہی گواہی فرشتے اور وہ تمام اہل علم بھی دے ر ہے رہیں جو کتاب وسنت کے ماہر ہیں اور جنہو نوں نے اس کا ئنات کی حقیقت اور اس کے مبدائ اور معاد پر خوب غور کیا ہے۔ (شوکانی۔ ابن کثیر ) آل عمران
19 ف 4 دین اسلام کا نام ہے یعنی محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بتائے ہو ہوئے طریقہ کے مطابق اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اس کی عبادت کرنے اور اسی کے احکام کے مطابق اپنی پوری زندگی گزارنے کا۔ اس آیت میں بتایا کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں جس دین کا اعتبار ہے وہ صرف یہی اسلام ہے۔ نیز جو شخص آنحضرت صلی اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کا قائل نہیں ہے اور نہ آپ ﷺ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق اپنا عمل اور عقیدہ ہی درست کرتا ہے اس کا دین اللہ تعالیٰ کے ہاں معتبر نہیں ہے خواہ وہ توحید کا قائل ہو اور دوسرے ایمانیات کا قرار کرتا ہو۔ (م۔ ع) اسلام۔ ایمان اور دین اپنی حقیقت کے اعتبار سے تینوں ایک ہیں۔ (قرطبی) ف 5 یعنی اللہ تعالیٰ نے جتنے انبیا بھیجے ان سب کا دین یہی اسلام تھا۔ اہل کتاب نے اس حقیت کو جان لینے کے بعد کے اسلام دین حق ہے، محض وعناد کی بنا پر اسلام سے انحراف کیا ہے۔ آج بھیسن کے لیے صحیح روشن یہی ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ کی رسالت پر ایمان لیے آئیں اور دین اسلام کو اختیار کرلیں۔ آل عمران
20 ف 6 یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے جلد محاسبہ ہونے والا ہے اور آیت الہیٰ سے کفر کی سزا مل کر رہے گی۔ ف 7 اوتوا اہل کتاب اور مشرکین عرب سب کو مالعموم اسلام کی دعوت دو۔ جنا نچہ آنحضرت ﷺ نے اس آّیت کے مطابق عرب وعجم کے تمام ملوک وامر گو دعوت خطوط لکھے اور اپنی عمومی رسالت کا اعلان کیا۔ ایک حدیث میں ہے بعث الی الا حمر ولا اسود۔ کہ عرب و عجم کی طرف معبوث کیا گیا ہوں۔۔ حضرت ابو ہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا : والذی نفس محمد بیدہ ولا یسمع بی احدمن ھذہ الا متہ یھوددی ولا نصر انی ومات ولم یومن بالذی ارسلت بہ الا کان من اھل النار کہ قسم ہے اس ذات پاکی کی جس کے قبضہ میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جان ہے اس امت میں سے کوئی بھی یہودی یا نصرانی اگر میرا نام سن کر میری رسالت پر ایمان نہیں لائے گا تو وہ دوزخ میں جائے گا اور آنحضرت ﷺ کی بعثت کے عالگیر اور تا قیامت ہونے پر کتاب و سنت میں بکثر دلائل موجود ہیں۔ (ابن کثیر، شوکانی ) آل عمران
21 8 اس میں اہل کتاب کی مذمت ہے جن کی پوری تاریخ شاہد ہے کہ انہوں نے نہ صرف احکام الہیٰ پر عمل کرن سے انکار کیا بلکہ انبیا اور ان لوگوں کو قتل کرتے رہے ہم میں جنہوں نے کبھی ان کے سامنے دعوت حق پیش کی اور یہ انہتائی تکبر ہے۔ حضرت ابو عبیدہ (رض) بن جراح نے آنحضرت ﷺ سے سوال کیا کہ قیامت کے دن سب سے سخت عذاب کس شخص کو دیا جائے گا آپ ﷺ نے فرمایا : اس کو جس نے کسی نبی یا امر المعروف ونہی عن المنکر کرنے والے شخص کو قتل کیا۔ اس کے بعد آنحضرت ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔ (ابن جریر۔ْ ابن کثیر ) آل عمران
22 آل عمران
23 ف 1۔ اس آیت میں کتاب اللہ سے مراد تو رات وانجیل ہے اور مطلب یہ ہے کہ جن انھیں خود ان کی کتاب کو طرف دعوت دی جاتی ہے کہ چلو انہی کو حکم مان لو اور بتا و کہ ان میں آنحضرت ﷺ پر ایمان لانے کا حکم دیا گیا ہے یا نہیں تو یہ اس سے بھی پہلو تہی کر جاتے ہیں اور ظاہر کرتے ہیں جیسے ان کو کسی چیز کا علم ہی نہیں ہے۔ آل عمران
24 ف 2 یعنی جس چیز نے حق سے کھلم کھلا انحراف اور بڑے بڑے گناہ کا بے شرمی سے ارتکاب پر دلیر جری بنا دیا ہے وہ یہ ہے کہ انہیں خدا کی پکڑ اور سزا کا کوئی ڈر نہیں ہے۔ ان کو آبا واجداد انہیں طرح طرح کی خام خیالوں اور جھوٹی اور چہتیے ہونے کا دعوی کرتے ہیں۔ مائدہ آیت 18) اور کہتے ہیں کہ جنت بنی ہی ہمارے لیے ہے۔ ( بقرہ : آیت 111) اور کبھی کہتے ہیں کہ اگر ہمیں تھوڑی بہت سزا ہوئی بھی تو چند دن سے زیادہ نہ ہوگی۔ ہمارے بزرگوں کا جن کے ہم نام لیو اور دامن گرفتہ ہیں، خدا پر اینا زور ہے کہ وہ چاہے بھی توہ میں سزانہ دے سکے گا (مزید دیکھئے بقرہ آیت :80) اور نصاری ٰ نے تو کفارہ کا مسئلہ گھڑکے ؛ ؛ معا صی پرسزا کا سارا معاملی ہی ختم کردیا ہے۔ آل عمران
25 ف 3 ینعی انہیں جان لینا چاہیے کہ قیامت کے روز جب ہمارے حضور جمع ہوں گے تو ان کا بہت براحال ہوگا ان کے یہ من گھڑت عقیدے انہیں بزرگوں سے جھو ٹی محبت اور دامن گیری خدا کے عذاب سے بچا سکے گی۔ کوئی نبی یا ولی اللہ تعالیٰ کی مرضی کے غیر سفارش کا بھی مجاز نہ ہوگا۔ (ترجمان۔ وحیدی) آل عمران
26 ف 4 یہود اس غلط فہمی مبتلا تے کہ حکم و نبوت کایہ سلسلہ ہمشہ ان میں رہے گا۔ دوسری قوم اس کا استحقاق نہیں رکھتی مگر جب نبی آخرالزمان ﷺ ایک متی قوم بنی اسمعیل سے مبعوث ہوگئے تو ان کے غیظ وغضب اور حسد کی انتہا نہ رہی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی غلط فہمی کودو کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ خود مختار اور مالک الملک ہے۔ وہ جس قوم کو چاہتا ہے دنیا میں عزت و سلطنت سے نوازا دیتا ہے۔ لہذا نبوت جو بہت بڑی عزت ہے اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے جس کو چاہا پسند فرما لیا اللہ تعالیٰ پر کسی کو اعتراض کا حق نہیں ہے۔ یہاں دعا کے انداز میں مسلمانوں کو بشارت بھی دے دی کہ تمہیں اس دنیا میں غلبہ واقتدار حاصل ہوگا اور آنحضرت خاتم الا نبیا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا انعام ہے ْ لہذا تمہیں چاہیے کہ اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لاو آل عمران
27 ف 5 اس سے موسموں کے اعتبار سے رات اور دن کے بڑھنے اور گھٹنے کی طرف اشارہ ہے۔ ف 6 حاٖفظ طبرانی (رح) نے ایک حدیث ذکر کی ہے کہ قل اللھم تابغیر حساب میں اللہ تعالیٰ کا اسم اعظم ہے جس کی تلاوت کر کے دعا کی جائے تو اسے قبولیت حاصل ہوتی ہے۔ حضرت معاز (رض) نے اپنے اوپر قرض بڑھ جانے کی شکایت کی تو آنحضرت ﷺ نے انہیں اس آیت کے تلاوت کرنے اور اس کے ساتھ یہ دعا پڑ ھنے کی ہدایت فرمائی : رحمان الدنیا والا خرۃ رحیمھما تعطی متشا منھماوتمنع من تشا ارحمنی رحمۃ تغنینی مھا رحمۃ من سواک اللھم اغنی من الفقرواقض عنی الدنیا : اے دنیا اور آخرت میں رحم کرنے والے تو جسے چاہتا ہے عنایت کرتا ہے اور جس سے چاہتا ہے روک لیتا ہے مجھ پر ایسی رحمت فرماکر اس کے بعد دوسروں کی رحمت سے بے نیاز ہوجاوں۔ اے اللہ مجھے فقر سے غنی کر دے اور میرا قرض ادا فرمادے۔ (ابن کثیر۔ شوکانی ) آل عمران
28 ف 1 اس آیت میں کفار کے ساتھ موالات اور دستی رکھنے سے منع فرمایا ہے اس پر سخت وعید سنائی ہے۔ صرف بچاو اور تدبیر سلطنت کی حد تک ظاہری طور پر موالاۃ کی اجا زت دی ہے بشر طیکہ یہ اظہار رول میں نفرت کے ساتھ ہو۔ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں لقیہ صرف زبان سے اظہار کی حد تک جائز ہے نہ کہ عمل سے۔ نیز حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ بعض یہودی روسا نے انصار کے ایک گروہ سے تعلقات قائم کر رکھے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ کسی موقع پر ہم ان کو دین اسلام سے پھیر نے میں کا میاب ہوجائیں گے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (ابن کثیر۔ شوکانی) دراصل یہ اور اس مفہوم کی دوسری آیات اسلامی حکومت کی خارجہ پالیسی وضع کرنے میں اصل کی حثیت رکھتے ہیں۔ مزید تشریح کے لیے دیکھئے ما ئدہ آیت 51۔56 اور مسئلہ تتقیتہ کی تفصیل کے لیے سورت نحل آیت 106 ملا حظہ فرمائیں۔ آل عمران
29 آل عمران
30 آل عمران
31 ف 2 یہود نصایٰ اور مشرکین سبھی یہ دعو یٰ کرتے ہیں تھے کہ ہم اللہ تعالیٰ نے ان کی تردید فرمائی اور آنحضرت ﷺ کو حکم دیا کہ تم ان سے کہہ دو کہ اب اللہ تعالیٰ کی محبت کے حصول کا صرف ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ یہ ہے کہ تم مجھے اللہ تعالیٰ کا نبی مان کر میری اتباع اختیار کرلو۔ (وحیدی) اور اس خطاب کا تعلق مسلمانوں سے بھی ہے کہ اگر تم اللہ تعالیٰ کی محبت کا دعویٰ ہے تو اس کے لیے زبانی اظہار محبت کافی نہیں ہے بلکہ جمع اقوال وافعال میں میری پیروی اختیار کرو۔ حدیث میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : شرک غلط محبت کی راہ سے سرایت کرتا ہے۔ اور الدین نام ہے اللہ تعالیٰ کے لیے دوستی کرنے اور اللہ تعالیٰ کے لیے دشمنی کرنے کا۔ (شوکانی۔ ابن کثیر ) آل عمران
32 ف 3 اس آیت میں اطاعت الہیٰ کے ساتھ الر سول محمد ﷺ۔ کی اطاعت کا مستقبل حثیت سے حکم دیا گیا ہے اور آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد الرسول۔ ﷺ۔ کی اطاعت سنت کی پیروی سے ہی ہو سکتی ہے۔ بعض لوگ غلط فہمی کی بنا پر کہہ دیتے ہیں کہ حدیث وہی حجت ہوگی جو قرآن کے مطابق ہو حالا نکہ قرآن نے متعدد موقعوں پر حدیث کو مستقل دلیل اور ما خذ شریعت کی حثیت دی ہے۔ لہذا قانون کا ماخذ قرآن سے زائد حکم تو ہو سکتے ہیں مگر کوئی صحیح حدیث قرآن کے خلاف نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے تو یہ اس کے عقل وفہم کا قصور ہے یا اس کی نیت کا فتور۔ (سلسلہ کلام کے لیے دیکھئے سورت النجم 4) آل عمران
33 ف 4 اوپر کی آیات میں آنحضرت ﷺ کی اتباع کا حکم دیا ہے اور اب اس آیت میں آپ کی رسالت کے اثبات کے سلسلہ میں فرمایا رہا ہے کہ آّنحضرت ﷺ کا تعلق بھی اس خاندان نبوت سے ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے چن لیا ہے۔ (شوکانی) عمران نام کی دو سخصتیں گذری ہیں ایک موسیٰ ( علیہ السلام) و ہارو ( علیہ السلام) کے والد اور دسرے حضرت مریم (رض) کے والد اکثر مفسرین (رح) نے یہاں عمران ثانی مراد لیا ہے کیونکہ انہی کی آل۔ حضڑت مریم ( علیہ السلام) وعیسی ( علیہ السلام)۔ کا قصہ بیان کیا جا ہا ہے۔ (ابن کثیر۔ کثیر) غالبا اس سورۃ کا نام آل عمران اسی قصہ پر رکھا گیا ہے۔ آل عمران
34 آل عمران
35 ف 5 تفاسیر امئر ۃ عمران کا نام حنتہ مذکور ہے اور ظاہر دمشق میں ان کی قبر ہے۔ (ابن کثیر، بحر) اس زمانہ میں دستور تھا کہ بعض لڑکوں کو ماں باپ اپنے حق سے آزاد کر کے اللہ تعالیٰ کے نذر کردیتے ہیں اور عبادت خانے کے سپرد کردیتے۔ عمرانن کی بیوی حاملہ تھیں انہوں نے بھی یہی نذر مانی۔ اور محررا کے معنی ہیں ہے کہ خالصہ کنیسہ کی خدمت کے لیے وقف رہے گا۔ (قرطبی ) آل عمران
36 ف 1 یہ درمیان میں جملہ معترضہ ہے اور فرمان باری تعالیٰ ہے۔ (قرطبی) چنانچہ یہ دعا قبول ہوئی۔ حدیث میں ہے آنحضرت ,ﷺ نے فرمایا ؛ مامن مولود یولد الامسہ الشیطان حین یولد جفستھل صارخامن مسہ ایاہ ال امرکم دانبھا۔ کوئی بچہ ایسا نہیں جس کو ولادت کے وقت شیطان مس نہ کرتا ہو مگر مریم ( علیہ السلام) اور اس کا بیٹا ( علیہ السلام)۔ ( بخا ری۔ مسلم ) آل عمران
37 ف 3 ابن اسحاق نے اس کی وجہ حضرت مریم ( علیہ السلام) کی یتیمی بیان کی ہے اور دوسرے مئو رخین نے بنی اسرئیل میں قحط سالی کو سبب کفالت قرار دیا ہے۔ حضرت زکرریا ( علیہ السلام) مریم ( علیہ السلام) کے خالو تھے اور بعض نے بہنوئی بھی لکھا ہے۔ چنانچہ حدیث معراج میں آنحضرت ﷺ نے یحیی ( علیہ السلام) اور عیسیٰ ( علیہ السلام) کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کو ابنا خالتہ قرار دیا ہے لیکن شار حین نے اسے مجاز پر محمول کیا ہے۔ (ابن کثیر) ف 4 لفظ محراب سے مرادمعروف محراب نہیں ہے جو مسجدوں میں امام کے لیے بنائی جاتی ہے۔ اس کے معنی تو اس چھوٹے سے کمرہ کے ہیں جو تنہائی کے لیے بنایا جاتا ہے یہود اور نصاریٰ عبادت خانہ سے الگ کچھ بلندی پر یہ محراب بناتے تھے جس میں کنیسہ کے مج اور رہتے تھے۔ ف 5 اسلوب کلام سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ رزق خرق عادت کے طو پر حضرت مریم ( علیہ السلام) کے پاس پہنچ رہا تھا۔ اکثر تابعین (رح) سے منقول ہے کہ حضرت زکریا ( علیہ السلام) جب بھی مریم ( علیہ السلام) کے حجرہ میں جاتے تو ان کے ہاں بے موسم کے تازہ پھل پاتے۔ اور رزق سے علم مرادلینا صحیح نہیں ہے۔ (ابن جریر۔ ابن کثیر ) آل عمران
38 ف 6 حضرت زکریا ( علیہ السلام) بوڑھے ہوچکے تھے اور ابھی تک بے اولاد تھے۔ بظاہر انہیں اولاد کی کوئی امید نہ تھی لیکن یہ دیکھ کر کہ کس طرح حضرت مریم ( علیہ السلام) کو خرق عادت کے طور بے موسم کا رزق پہنچ رہا ہے ان کے دل میں بھی یہ خواہش پیدا ہوئی کہ بے موسم کا رزق پہنچا نے ولا مایوسی کے عالم میں اولاد بھی فرما سکتا ہے۔ چنانچہ اسی جگہ اور اسی وقت اللہ تعالیٰ کے حضور نیک اولاد کی دعا کی بعض علما نے حضرت مریم ( علیہ السلام) کو خرق عادت میوے پہنچنے کا انکار کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ محاورہ ہے کہ خدا رسیدہ لوگ ہر نعمت کو (من عند اللہ) اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کردیتے ہیں مگر حضرت زکریا ( علیہ السلام) کا اس حالت کو دیکھ کر اظہار تعجب اور دعا کرنا بتا رہا ہے کہ یہ رزق خرق عادت ہی مل رہا تھا۔ (م۔، ع ) آل عمران
39 ف 7 کلمتہ اللہ یہ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کا لقب ہے جیسے حضرت جبریل ( علیہ السلام) کا لقب روح القدس ہے کیونکہ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) بغیر باپ کے کلمہ کن سے پیدا ہوئے۔ جمہور مفسرین نے یہی منعی کیے ہیں، ّ(کبیر شوکانی) حضرت یحیی ( علیہ السلام) حضرت عیسیٰ ٰ ( علیہ السلام) سے تین سال بڑے تھے اور سب سے پہلے انہو نے حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کی تصدیق کی تھی۔ (ابن کثیر۔ شوکانی) ف 8 حصو رسے مراد ایسا شخص ہے جسے اپنی جنسی خواہش پر پوری طرح حاصل ہو۔ (فتح البیان ) آل عمران
40 آل عمران
41 ف 1 یعنی تم تین دن تک صحیح سالم ہونے کے باجود ہاتھ یا ابرو کے اشارے کے سوا لوگوں سے بات چیت نہ کرسکو گے۔ اس حال میں تم اپنا سارا وقت اللہ تعالیٰ کے ذکر و شکر اور تسبیح میں صرف کرو۔ (ابن کثیر ) آل عمران
42 ف 2 اس آیت میں حضرت مریم ( علیہ السلام) کے بر گزیدہ ہونے کا دو مرتبہ ذکر ہوا ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ محض تاکید کے لیے ہو یا پہلی برگیزیدہ گی سے مراد بچپن میں حضرت مریم ( علیہ السلام) کو سرف قبولیت بخشنا ہو جو آیت : فتقبلھا ربھا بقبول حسن میں مذکور ہے اور دوسری برگزیدگی سے مراد اللہ تعالیٰ کا نہیں انہیں حضرت ﷺ عیسیٰ ( علیہ السلام) کی پیدا ئش کے لیے منتخب فرماتا اور خصوصی فضیلت عطا کرتا ہو۔ نسا العالمین۔ سے صرف اس زمانہ کی عورتیں مراد ہیں کیونکہ احادیث میں حضرت مریم ( علیہ السلام) کی طرح حضرت خدیجہ (رض)۔ حضرت فاطمہ (رض) اور حضرت عائشہ (رض) کی فضیلت میں بھی اسی قسم کے الفاظ مذکور ہیں۔ حضرت علی (رض) سے روایت ہے کہ‘ آنحضرتﷺ نے فرمایا، دنیا کی بہترین عورت خدیجہ (رض) بنت خویلید ہے۔ بخاری ومسلم) دوسری حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا مردوں میں توبہت سے لوگ کامل ہوئے مگر عورتوں میں صرف حضرت مریم ( علیہ السلام) بنت عمران اور آسیہ زوجہ فرعون ہیں اور عائشہ کی فضیلت دوسری عورتوں پر ایسی ہے جیسی ثرمد کی بقیہ کھانوں پر۔ (بخاری ومسلم ) آل عمران
43 آل عمران
44 ف 3 یعنی یہ غیب کی باتیں ہیں جن کا علم آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ کی وحی کے سوا کسی اور ذریعہ سے نہیں ہوسکتا تھا لہذا ان باتوں کا صحیح صحیح بیان کرنا آپ ﷺ کو رسول ہونے کے صریح دلیل ہے۔ (ابن کثیر۔ کبیر) ف 4 اس قرعہ اندازی کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ حضرت مریم ( علیہ السلام) یہودیوں کے بہت بڑے عالم عمراب کی بیٹی تھیں۔ جن ان کی والدہ نے انہیں اپنی عبادت گاہ کی نذر کیا تو عبادت گاہ کے مجاوروں میں جھگڑا ہوا کہ ان کی سرپرستی اور نگرانی کا شرف کون حاصل کرے، آ خر کار انہوں نے قرعہ اندازی کی اور قرعہ حضرت زکریا ( علیہ السلام) کے نام نکلا۔ (ابن کثیر، قرطبی) آل عمران
45 ف 5 اس آیت میں حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک کلمہ قرار دیا گیا ہے جس کی تشریح پہلے گزر چکی ہے۔ (دیکھئے آیت 38، ص 2) مسیح کا لفظ مسح سے مشتق ہے جس کے معنی ہاتھ پھیر نے یا زمین کی مساحت کرنے کے ہیں لہذا حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کو مسیح یا تو اس لیے کہا گیا ہے کہ وہ بیماروں اور کرڑھیوں پر ہاتھ پھیرتے تھے اور وہ تند رست ہوجائے تے تھے۔ یا اس بنا پر کہ آپ زمین میں ہر وقت سفر کر تھے رہتے تھے ،(ابن کثیر ) آل عمران
46 ف 6 سورت مریم آیت 30۔33، میں وہ باتیں بھی مذکور ہیں جو حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) نے اپنی پیدا ئش کے بعد مہد میں کیں۔ حدیث میں ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا : ماں کی گود میں چار بچوں نے کلام کیا۔ عیسیٰ بن مریم ( علیہ السلام) شاہد یوسف م، صاحب جریج اور فرعون کی ماشطہ کے لڑکے نے (فتح البیان ) آل عمران
47 ف 7 حضرت مریم ( علیہ السلام) کو جب لڑکے کی خوشبری دی گئی تو انہوں نے تعجب کا اظہار کیا (انی یکون لی ولد) کہ مجھے تو آج تک کسی مردنے ہاتھ تک نہیں لگا یا پھر میرے ہاں بچہ کیسے ہوسکتا ہے۔ ؟ اللہ تعالیٰ نے کذالک اللہ الخ فرماکر انہیں تسلی دی یعنی اللہ تعالیٰ کے لیے یہ کوئی مشکل نہیں ہے۔ مزید دیکھئے (سورت مریم آیت 20۔21) آل عمران
48 ف 1 یعنی جب وہ رسول بن کر آئیں گے تو ان کی عوت یہ ہوگی۔۔۔۔ الخ آل عمران
49 ف 2 یہاں خلق کا لفظ ظاہر شکل و صورت بنانے کے معنی میں استعمال ہو اہے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے کہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ تصویر بنانے والوں سے فرمائے گا احیو اما خلقتم (کہ تم نے جو خلق کیا اسے زندہ کرو) پیدا کرنے اور ندگی دینے کے معنی ہیں خالق صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ ف 3 یہاں باذن اللہ لا لفظ مکر ذکر کرنے سے یہ بتا نا مقصود ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کا حکم نہ ہوتا تو حضرت عیسیٰ ٰ ( علیہ السلام) یہ معجزات نہ کھا سکتے۔۔ اور یہی ہر نبی کے معجزات کا حال ہے۔ (شو کانی۔ ابن کثیر) ف 4 اللہ تعالیٰ نے اپنے ہر نبی ( علیہ السلام) کو اس کے زمانے کے منا سب حال معجزات عطا فرمائے ہیں۔ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کے زمانے میں جا دو اور جا دوگروں کا دور تھا۔ سو اللہ تعالیٰ نے انہیں وہ معجزات دے کر بھیجا جن سے تمام جاد وگر دنگ رہ گئے اور ان کی عقل چکرا گئی۔ بآلا آخر از خود مسلمان ہوئے اور اسلام کی راہ میں پھا نسی تک کے لیے تیار ہوگئے۔ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کے زمانہ میں طیب اور علوم طبیعہ (سائنس) کا چرچہ تھا۔ سوا للہ تعالیٰ نے انہیں وہ معجزات عنایت فرمائے جن کے سامنے تمام اطبا اور سائنسدان اپنے عاجز اور درماندہ ہونے کا اعتراف کیے بغیر نہ وہ سکے ہمارے رسول ﷺ کے زمانے میں فصاحت وطلا غت اور شعر و ادب کا ڈنکا بجتا تھا۔ سو اللہ تعالیٰ نے نے ان پر وہ کتاب نازل فرمائی جس نے تمام فصحا اور بلغا کی گردنیں خم کردیں اور وہ بار بار چیلنج سننے کے باوجود اس جیسی دس سورتیں تو کجا ایک سورت بلکہ ایک آیت تک پیش نہ کرسکے کیوں اس لیے کہ پروردگار کا کلام مخلوق کے کلام سے مما ثلث نہیں رکھتا، (ابن کثیر۔ کبیر آل عمران
50 ف 5 حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کے وقت تورات میں سے کئی حکم جو مشکل تھے موقوف ہوئے باقی وہی تورات کا حکم تھا۔ (موضح) حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) اپنی کوئی الگ مستقل شریعت لیکر مبعوث نہیں ہوئے تھے بلکہ مسوی شریعت کی تائید و تصدیق کرنے اور بنی اسرائیل کو اقامت تورات کی دعوت دینے کے لیے آئے تھے۔، البتہ تورات میں بعض چیزیں جو بطور تشدید ان پر حرام کردی گئی تھیں ان کو اللہ تعالیٰ کے حکم سے حلال قرار دینا بھی ان کے مشن میں شامل تھا۔ جیسے اونٹ کا گوشت اور حلال جا نوروں کی چربی و غیرہ بعض علما نے کہا ہے کہ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) نے صرف ان چیزوں کو حلال قرار دیا جنہیں یہود نے آپس کے اختلا فات اور مو شگافیوں کی رج سے حرام قرار دے لیا تھا۔ لیکن زیادہ ص صحیح یہی ہے کہ انہوں نے بعض چیزوں کی حرمت کو منسوخ کیا ہے۔۔ (ابن کثیر ) آل عمران
51 آل عمران
52 ف 6 یعنی کوئی ہے جو اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانے میں میرا مددگار بنے۔ حضرت عیسیٰ ٰ ( علیہ السلام) کا یہ قول ویسا ہی ہے جیسا کہ آنحضرت ﷺ ہجرت سے پہلے زمانہ حج میں مختلف عرب قبائل سے فرمایا کرتے تھے۔ کون ہے جو مجھے پناہ دے تاکہ میں لوگوں تک اپنے رب کا پیغام پہنچا سکوں۔ اس لیے کہ قریش نے مجھے پیغام پہنچانے سے روک رکھا ہے تاآنکہ آپ ﷺ کی انصار (رض) مل گئے جنہون نے آپ ﷺ کو پناہ دی اور اپنے جان ومال سے آپ ﷺ کی مدد کی۔ (ابن کثیر) ف 7 حواریوں کے قریب وہی معنی ہیں جو ہمارے ہاں انصار (رض) کے ہیں۔ اور یہ بنی اسرائیل کا وہ طائفہ ہے جنہوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت قبول کرلی تھی، ان کی کی کل تعداد بارہ تھی۔ بائیبل میں ان کے لیے شاگردوں کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ آل عمران
53 آل عمران
54 ف 1 یہود کے علما نے اس وقت باشاہ کو بہکا یا کہ یہ شخص ملحد اور تو رات کے احکام کو بد لنا چاہتا ہے اور ان پر اتہام لگائے تو اس بادشاہ نے حضرت عیسیٰ ٰ ( علیہ السلام) کو قتل کرنے کے لیے کچھ آدمی مقرر کردیئے۔ انہوں نے ایک مکان کے اند حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کا محاصرہ کرلیا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ ٰ ( علیہ السلام) کو آسمان پر اٹھا لیا۔ (ابن کثیر) حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں ہیں : اور ایک صورت ان کی رہ گئی اسی کو پکڑ لائے پھر سولی پر چڑھا دیا۔ (موضح) آل عمران
55 ف 2 التوفی کے معنی کسی چیز کو پورا پورا لینے اور وصول کرلینے کے ہیں، اور یہ اس لفظ کے اصل معنی ہیں۔ اس بنا پر آیت میں متوفیک کے معنی ہیں میں تمہیں پورا پورا لینے والا ہوں۔ اور یہ اس صوت میں ہوسکتا ہے کہ عیسیٰ ( علیہ السلام) کے روح مع البدن اٹھا لیا جاتا۔ دہلوی متراجم ثلاثہ میں بھی توفی کے اس مفہوم کو ملحوظ رکھ کر ترجمہ کیا گیا ہے اور اس کی ایک توجیہ وہ ہے جو متراجم (رح) نے اختیار کی ہے یوں تو قرآن میں اس کے معنی سلادینا بھی آئے ہیں۔ جیساکہ آیت وھو الذی یتو فٰفکم بالفبل (الف م آیت 60) اور آیت والتی لم تمت فی منا مہا (الذمر 42) میں مذ کور ہے شیخ الا سلام ابن تیمہ نے الجواب الصحیح میں لکھا ہے کہ لغت عرب توفی کے معنی استیفا اور قبض کے آئے ہیں اور یہ نیند کی صورت میں ہو سکتا ہے اور موت کی صورت میں بھی۔ اور یہ توفی الروح مع البدب جمیعا کے لیے بی آتا ہے۔ اور اس آیت میں یہی معنی مراد ہیں حضرت ابن عباس سے بھی اصح روایت منقول ہے کہ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) آّسمان پر زندہ اٹھائے گئے۔ روح) پھر قریب قیامت کے زمانہ میں حضرت عیسیٰ السلام کا نزول اور دجال کو باب لد میں قتل کرنا متواتر احادیث سے ثابت ہے اور امت مسلمہ کا اس پر اجماع ہے۔ (ابن کثیر) تخصیص) آج تک کوئی مسلمان اس کا قاتل نہیں ہوا کہ عیسیٰ ٰ ( علیہ السلام) مر گئے ہیں اور دوبارہ آسمان سے نزول نہیں فرمائیں گے۔ (وحیدی) اور آنحضرت ﷺ نے یہود کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ان عیسیٰ لم یمت وانہ راجع الیکم۔ کہ عیسیٰ ( علیہ السلام) نے وفات نہیں پائی اور وہ لوٹ کر آئیں گے۔ (ابن کثیر، ابن جریر) بقیہ بحث کے لیے دیکھئے۔ (النسا آیت 58) آل عمران
56 آل عمران
57 ف 3 حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کے اول تابع نصاری ٰ تھے پیچھے سو ہمیشہ غالب رہے۔ ( موضح) حافظ ابن تیمہ لکھتے ہیں ان سے مراد صرف نصاریٰ بھی ہو سکتے ہیں اور مطلب یہ ہے کہ یہود جو مسیح ( علیہ السلام) کے منکر ہیں ان پر عیسائی ہمیشہ غالب رہیں گے۔ (تفسیر ابن کثیر ) آل عمران
58 آل عمران
59 ف 4 یہ سورت شروع سے لر کر یہاں تک وفد نجران کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ اس وفد نے آنحضرت ﷺ سے بحث کے دوران میں حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کی بنوہ (بیٹا ہونا) پر اس سے استدلال کیا کیا کہ وہ بغیر باپ کے پیدا ہوئے ہیں۔، اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے تر دید فرمائی کہ اگر بغیر باپ کے پیدا ہو با بنوہ کی دلیل ہوسکتا ہے تو آدم ( علیہ السلام) جو ماں باپ کے بغیر پیدا ہوئے وہ بالا ولیٰ اللہ کا بیٹا کہلا نے کے حقدار ہیں مگر نہ یہ صراحتاباطل ہے۔ اصل میں اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ ( علیہ السلام) کی طرح حضرت مسیح ( علیہ السلام) کو بھی کن سے پیدا کر کے اپن قدرت کاملہ کو ظاہر فرمادیا ہے۔ (اب ن کثیر ) آل عمران
60 ف 5 یعنی حضرت عیسیٰ ٰ ( علیہ السلام) کے بارے میں تمہارے سامنے جو کچھ بیان ہوا ہے وہ حق ہے اور اس میں شک وشبہ کی ہرگز گنجائش نہیں ہے۔ (ابن کثیر) یہ خطاب بظا ہر نبی ﷺ سے ہے مگر مقصود تمام مسلمانوں کو تنبیہ کرنا ہے۔ رازی) آل عمران
61 ف 1 جب عیسیٰ ( علیہ السلام) کے بارے میں اظہار حق اور دلائل کے کے باوجود وفد نجران نے عناد کی راہ اختیار کی تو آخری فیصلہ کے لیے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو ان سے مباہلہ کا حکم دی اجس کی صورت یہ تجویز ہوئی (جیسا کہ آیت میں مذکور ہے) کہ فریقین اپنی جان اور اولاد کے ساتھ ایک جگہ حاضر ہوں ارجو فریق چھوٹا ہے نہایت عجزوانکسار کے ساتھ اس کے حق میں بد دعا کریں کہ اس پر خدا کی لعنت ہو۔ چنانچہ آنحضرت ﷺ مباہلہ کے لیے حضرت فا طمہ (رض)، امام حسن (رض)، امام حسین (رض) اور حضرت علی (رض) کو لے کر نکل آئے۔ اور بعض روایات میں ہے کہ خلفائے اربعہ اور ان کی اولاد بھی ساتھ تھی۔ یہ منظر دیکھ کر نصارےٰ نے ایک دوسرے سے کہا کہ ہم ان سے ملا عنہ نہ کریں۔ خدا کی قسم اگر یہ اللہ کے نبی ہوئے اور اس کے باوجود ہم نے ملا عنہ کرلیا توس ہما ری اور ہماری اولاد کی خیر نہیں ہوگی، چنانچہ انہوں نے آنحضرت سے عرض کی آپ ﷺ جو چاہتے ہیں ہم آپﷺ کو دیں گے۔ لہذا آُپﷺہمارے ساتھ کوئی امانتدار آدمی بھیج دیجئے۔ نبی ﷺ نے حضرت ابوعبیدہ (رض) کو کھڑے ہونے کا حکم دیا اور فرمایا : ھذا آمین ھذہ الا متہ۔ کہ یہ اس امت کے امین ہیں۔، یہ حدیث صحیح میں مذکور ہے۔ (ابن کثیر۔ شوکانی) اس آیت سے علما نے استدلال کیا ہے کہ معاند عن الحق سے مباہلہ ہوسکتا ہے۔ آل عمران
62 آل عمران
63 ف 2 چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ وفد نجران والوں نے مباہلہ کی دعوت قبول کرنے سے انکار کردیا اور یہ بات واضح ہوگئی کہ یہ لوگ محض دینا کی خاطر آنحضرت ﷺ کی اتباع اختیار کرنے سے انکار کر رہے ہیں ورنہ ان کے پاس اپنی ضد پر اڑے رہنے کے لئے کوئی وجہ جواز نہیں ہے ایک حدیث میں ہے آنحضرت ﷺ نے فرمایا اگر یہ لوگ مباہلہ کرلیتے تو یہ وادی ان پر آگ برساتی۔ اور حضرت ابن عباس (رض) نے فرماتے ہیں کہ اگر یہ لوگ مباہلے کے لئے نکلتے تو اپنے گھروں کو اس طرح لوٹتے کہ نہ کوئی مال پاتے اور نہ اہل وعیال۔ (ابن کثیر۔ شوکانی ) آل عمران
64 ف 3 یعنی اہل کتاب کو اس مشترکہ عقیدہ کی طرف دعوت دو۔، چنانچہ آنحضرت ﷺ نے جب ہر قل (شاہ روم) کو خط لکھا تو یہی آیت لکھ کر اس کے سامنے دعوت اسلام پیش کی جیسا کہ صحیح بخاری میں مذکور ہے۔ اور مدینہ کے یہود کے سامنے بی اسی کلمہ سوائ کی دعوت پیش کی اور آپس میں ایک دوسرے کو رب بنانے کے مفہوم میں سجدہ کرنا بھی شامل ہے۔، اور یہ بھی کہ کسی کے قول کو بلاد لیل اسی طرح مان لینا کہ جس چیز کو حلال کہے اسے حلال سمجھا جائے اور جس چیز کو حرام کہے اسے حرام خیال کیا جائے اور کتاب وسنت سے صرف نظر کرلی جائے۔ مزید دیکھئے۔ التو بہ آیت :31۔ (شوکانی۔ وحیدی بتصرف) حاٖفظ ابن کثیر (رح) نے اس آیت پر ایک اشکال پیش کیا ہے اور وہ یہ کہ محمد بن اسحاق نے اس آیت کے مطابق اگر آل عمران کی ابتدائی 83 آیتوں کا سبب نزول وفد نجران کی آمد کو قرار دیا جائے جو بالا تفاق 5 ھ میں مدینہ آیا تو پھر آپ ﷺ نے ہر قل کی طرف یہ آیت کیسے لکھ کر بھیج دی جو 7 ھ کا واقعہ ہے۔ پھر اس کے چار حل پیش کیے ہیں۔ فی الجملہ یہ کہ آیت 1 کا نزول دو مرتبہ تسلیم کیا جائے یا 2 38 آیتوں کی تعین کو محمد بن اسحق کا وہم قرار دیا جائے۔ آنحضرت ﷺ نے دعوت اسلام کے لیے یہ جملے اپنے طور پر لکھ کر بھیجے ہوں۔ بعد میں یہ آیت اس کے مطابق نازل ہوئی ہوجیساکہ بہت سے آیات حضرت عمر (رض) کے موافق نازل ہوئیں۔ ہوسکتا ہے کہ وفد نجران کی آمد صلح حدیبیہ سے قبل ہو۔ (ابن کثیر) ف 4 یعنی اگر اہل کتاب اس عقیدہ کے ماننے سے انحراف کریں تو تم اپنی طرف سے عقیدہ پر قائم رہنے کا اعلان کردو۔ اس میں متتبہ کیا ہے کہ اہل کتاب اس عقیدہ سے منحرف ہوچکے ہیں کیونکہ انہوں نے حضرت عزیر ( علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کے بیٹے قرردے لیا تھا۔ (ابن کثیر۔) آل عمران
65 ف 5 یہود حضرت ابراہم ( علیہ السلام) کو یہودی ہونے کے دعوے دارتھے اور نصاریٰ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کے نصرانی ہونے کے مدعی تھے اور یہ بات ایسی تھی جو بد ہتہ غلط تھی۔ حضرت ابراہیم کا زمانہ حضرت موسیٰ ٰ ( علیہ السلام) سے تقریبا ڈھائی ہزار برس پہلے کا ہے پھر وہ یہو دی یا نصرانی کیسے ہو سکتے تھے چنانچہ اس آیت میں ان کے اس دعویٰ کی تردید فرمائی ہے۔ (ابن کثیر۔ ابن جریر ) ف 6 اس آیت میں زصرف غلط پر جھگڑا کرنے سے منع کیا گیا ہے بلکہ مطلقا مجادلہ سے گریز کی نصحیت بھی کی ہے۔ ابن کثیر، فتح القدیر) آل عمران
66 آل عمران
67 ف 1 اس آیت اشارہ ہے کہ یہود ونصایٰ اپنے آپ کو اہل کتاب کہلواتے ہیں مگر درحقیقت وہ مشرک ہیں۔ انہوں نے اپنے مشائخ اور علما کو خدا بنا رکھا ہے اور حضرت عزیر ( علیہ السلام) اور عیسیٰ ( علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا مانتے ہیں۔ (وحیدی) مطلب یہ کہ اگر تم اس معنی میں حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کو یہود یا نصرانی کہتے ہو کہ ان کی شریعت سے ملتی چلتی ہے تو یہ بھی غلط ہے کیونکہ شریعت محمدی کو شریعت ابراہیمی سے زیادہ منا سب ہے۔ تو اس اعتبار سے مسلمانوں کو یہ کہنے کا تم سے زیادہ حق پہنچتا ہے کہ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) ہمارے اسے طریق پر تھے۔ (وحیدی) آل عمران
68 ایک حیدیث میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا لکلی نبی ولا ۃ من النبین وان ولی منھم ابی واخلینلی کہ ابنیا سے ہر نبی کا کوئی تعلق ہے اور میرا تعلق میرے باپ اور خلیل حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) سے ہے پھر آپﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔ (ابن جریر۔ ترمذی) آل عمران
69 ف 3 یہاں طائفہ اہل کتاب سے مراد بنو نضیر اور بنو قریظہ ہیں جو بعض مسلمانوں کو یہودی بنانے میں کو شاں رہتے تھے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ فرمایا مسلمانوں تو ان کے بہکانے میں کیا آئیں گے۔ (شوکانی۔ وحیدی ) آل عمران
70 ف 4 آیات اللہ سے مراد نبوت محمد ﷺ یہ کے بارے میں وہ بشارتیں ہیں جو اگلے انبیا ( علیہ السلام) سے منقول تھیں۔ یہود ان کے اپنے طور پر صحیح سمجھتے تھے مگر آیات علی العموم بھی مرادہو سکتی ہیں۔ (شوکان وحیدی) آل عمران
71 آل عمران
72 ف 5 اہل کتاب کی مذہبی شقاوتوں کی طرف اشارہ ہے اوپر کی آیت میں علمائے یہود کی یہ شقاوت بیان کی گئی ہے کہ وہ آنحضرﷺ کی صداقت کے دلائل جان لینے کے باوجود کفر کر رہے ہیں۔ اب یہاں بتایا جا رہا ہے کہ حق کو باطل کے ساتھ ملانا اور حق کو چھپا نا ان کا عام شیوہ بن چکا ہے۔ پہلی آیت میں ان کی گمراہی کا بیان تھا اور اس آیت میں دسروں کو گمراہ کرنے کا ذکر ہے۔، دیکھئے سورت بقرہ آیت 42،(کبیر، ترجمان) یہ مقام عبرت ہے کہ ہمارے دور کے تجدد زدہ حضرات بھی دینوی اور مادی اغراض و مصالح کے پیش نظر قرآن مجید کے ساتھ وہی سلوک کر رہے ہیں جو ان کے پیش رو یہود ونصاری ٰ تو رات وانجیل کے ساتھ کرتے رہے ہیں۔ آنحضرت ﷺ نے بالکل صحیح فرمایا ہے لتتعن سنن من کان قبلکم۔ کہ تم لاز ما پہلی امتوں کے نقش قدم چلے گے۔ (م۔ ع) ف 6 کمزور دل مسلمانوں کے دلوں میں اسلام کے متعلق شکوک وشہبات پیدا کرنے کے لیے یہود مختلف سازشیں کرتے رہتے تھے یہ بھی اسی سلسلہ کی ان کی ایک سازش کا بیان ہے کہ صبح کے وقت قرآان اور پیغمبر پر ایمان کا اظہار کرو اور شام کو کفر وانحراف کا اعلان کردو۔ ممکن ہے اس طریقہ کے اختیار کرنے سے بعض مسلمان بھی سوچنے لگیں کہ آخر یہ پڑھے لکھے مسلمان ہونے کے بعد اس تحریک سے الگ ہوگئے ہیں تو آخر انہوں نے کوئی خرابی یا کمزور پہلو ضرور دیکھا ہوگا َ؟۔ ( ابن کثیر، شوکانی) آل عمران
73 ف 7 یہ بھی ان ظائفوں کا کلام ہے جن کا اوپر سے ذکر چلا آرہا ہے اور اس سے ان کا مذہبی تعصب اور حسد ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے متبعین کو تاکید کرتے رہتے ہیں۔ الخ مترجم (رح) توضیحات سے آیت کو جو مفہوم ظاہر ہوتا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ جملہ ان یئوتی ٰ اور او یحاجو کم کا تعلق لاتومنوا سے ہے ای لئلایوتی اولئلا یحاجو کم مگر امام طبری (رح) نے ایک دوسری توجیہ اختیار کی ہے اور وہ یہ کہ دونوں جملے لا تومنوا کے تحت ہیں اور معنی یہ ہیں کہ اپنے مشروب کے سوا کسی کی بات پر یقین نہ کرو نہ یہ تسلیم کرو کہ تمہاری طرح کسی کو علم وفضل ملا ہے اور نہ یہ مانو کہ مسلمان اللہ تعالیٰ کے حضور جا کر تم پر کوئی حجت قائم کرسکیں گے بایں صورت قل ان الھدی الخ جملہ معترضہ اواس کا ربط قل ان الفضل بید اللہ کے ساتھ ہوگا۔ (ابن کثیر۔ ابن جریر) یہاں تک ان کی خیانت دینی اور مذہبی تعصب کا بیان تھا۔ اب اگلی آیت میں ان کی خیانت عالی اور مسلمانوں سے بغض کا بیان ہے۔ (کبیر ) آل عمران
74 آل عمران
75 ف 1 یعنی خدائے تعالیٰ پر جان بوجھ کر الزام رکھ رہے ہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کبھی کسی کی امانت میں خیانت کا حکم نہیں دیا خواہ وہ اسرائیل ہو یا عرب بلکہ اسلام نے تو کسی ذمی کے مال کو بھی بلا اجازت لینا جائز قرار نہیں دیا اور کسی حربی کے مال کو خیانت سے کھانے کی اجازت دی ہے۔ آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے : کذب اعدا اللہ مامن شئی کان فی الجاھلیتہ الا وھو تحت قد منی ھاتین الا الا ما نتہ فانھا مئو داۃ الی البروالفاجر کہ اللہ تعالیٰ کے دشمنوں نے جھوٹ کہا زمانہ جا ہلیت کی سب چیزیں میرے پاوں تلے آگئیں (یعنی باطل قرار دے دی گئیں مگر امانت کہ اسے بہر حال ادا کیا جائیگا خواہ وہ امانت نیک کی ہو یا بد کی۔ (ابن کثیر ) آل عمران
76 ف 2 بلی ٰ کیوں نہیں یعنی اس کی بد عہدی اور خیانت پر ضرور مئو خذہ ہوگا اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ اور محبوب شخص تو وہی ہے جو اللہ تعالیٰ اور بندوں سے کیا ہوا عہد پورا کرتا ہے۔ (اس میں آنحضرت ﷺ پر ایمان لانے کا عہد بھی داخل ہے) اور پھر ہو معالہ میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے اواس شریعت کی اتباع کرتا ہے جو آنحضرت ﷺ لے کر مبعوث ہوئے۔ آل عمران
77 ف 3 عبد اللہ بن ابی اوفیٰ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے بازار میں سامان لگا یا اور جھوٹی قسمیں کھا کر بیجنے لگا تاکہ کوئی مسلمان خریدے اور اسے دھوکادے سکے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ یعنی جو لوگ بد عہدی خیانت اور جھوٹی قسمیں کھا کر لوگوں کا مال کھاتے ہیں ان پر اللہ تعالیٰ ناراض ہوں گے اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس شخص نے مسلمانوں کا مال ہضم کرنے کے لیے جھوٹی قسم کھائی قیامت دن وہ اللہ تعالیٰ سے اس حال سے ملے گا کہ اللہ تعالیٰ اس پر سخت ناراض ہوں گے اور ایک حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن تین شخصوں سے اللہ تعالیٰ کلام نہیں کریں گے ان میں سے ایک وہ ہے جو جھوٹی قسم کھا کر اپنا مال فروخت کرتا ہے ،(ابن کثیر۔ شوکانی ) آل عمران
78 ف 4 اس کا عطف پہلی آیت جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اوپر کی آیت بھی یہود کے بارے میں نازل ہوئی ہے (کبیر) آیت کے معنی یہ ہیں کہ تورات وانجیل میں تحریف کرتے ہیں اور اس میں خصوصا ان آیات میں جن میں آنحضرت ﷺ کی نعمت مذکور ہے) کچھ چیزیں اپنی طرف سے بڑھا کر اس انداز اور لہجہ سے پڑھتے ہیں کہ سننے والا ان کو منزل من اللہ سمجھ لیتا ہے حالا نکہ وہ منزل نہیں ہے۔ پھر یہی نہیں بلکہ ان کی خدا سے بے خوفی اور ڈھٹائی کی حد ہے ان چیزوں کے خدا کی طرف سے ہونے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں۔ اس آیت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ موجود تورات وانجیل محرف ہیں اور اپنی آصلی شکل میں موجود نہیں ہیں۔ علما نے اس پر بہت کچھ لکھا ہے۔ (روح المعانی۔ ابن کثیر ) آل عمران
79 ف 1 توراۃ وانجیل میں اہل کتاب کی تحریف بیان کرنے کے بعد اشارہ فرمایا ہے کہ انجیل میں عیسیٰ ٰ ( علیہ السلام) کی الوہیت کے دعویٰ کی خاطر بھی تحریف کی گئی ہے ورنہ نبی تو بشر ہوتے ہیں اور وحی نبوت ایسی صفات سے مشرف ہونے کے بعد ان سے اپنی الوہیت کا دعویٰ محال ہے۔ (کبیر) تفسیر ابن کثیر میں ہے کہ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ نجران کے عیسائی اور مدینہ کے چند یہود علما آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آنحضرت ﷺ نے عیسیٰ ٰ ( علیہ السلام) اور عزیر ( علیہ السلام) کی بنوۃ خدا کا بیٹا ہونے) کا رد کیا او ان مسلمان ہونے کی دعوت دی۔ اس پر ایک یہود عالم نے ابو رافع القرضی کہنے لگا اے محمد ﷺ کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ ہم آپ ﷺ کی عبادت کرنے لگیں۔ نبی ﷺ نے فرمایا معاذ اللہ کہ ہم غیر اللہ کی عبادت کریں یا کسی کو اس کا حکم دیں۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس لیے نہیں بھیجا ہے او نہ مجھے اس کا حکم دیا ہے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی (ایضا کبیر) پھر جب نبی اس کا مجاز نہیں کہ لوگ اس کی عبادت کریں تو دوسرے مشائخ اور اٗئمہ اس مرتبہ پر کیسے فائز ہو سکتے ہیں۔ انبیا کی بحیثیت نبی ہونے کی اتباع واجب ہوتی ہے مشائخ اور ائمہ تو واجب الا تباع بھی نہیں ہو سکتے۔ (ابن کثیر بتصرف، شوکانی) الربنی۔ رب پر الف نون بڑھا کر یا نسبت لگا دی گئی ہے اور اس کے معنی عالم باعمل کے ہیں۔ مبرو فرماتے ہیں کہ یہ ربہ یر بہ فھو ربان ہے۔ یعنی صیغہ صفت ربان کے ساتھ یا نسبت ملحق ہے۔ (فتح البیان) بما کنتم میں با برائے مصیبت ہے یعنی چونکہ تم تعلیم ودراست کا مشغلہ رکھتے ہو اس لیے تمہیں عالم باعمل اور خدا پرست بننا چاہئے (بضاوی) حضرت شاہ صا حب لکھتے ہیں : ہاں تم کو ( اے اہل کتاب) یہ کہتا ہے کہ تم میں جو آگے دینداری تھی کتاب کا پڑھنا اور سکھا نا وہ نہیں رہی۔ اب میری صحبت میں پھر وہی کمال حاصل کرو۔ اور یہ بات اب قرآن کریم کے پڑھنے پڑھانے اور سکھنے سکھانے سے ہی حاصل ہو سکتی ہے۔ فائدہ کسی شخص میں اگر علم اوکتب الہٰیہ کی دراست سے خد اپرستی کی خصلت پیدا نہیں ہوتی تو یہ مشغلہ تحضیع اوقات ہے اور آنحضرت ﷺ نے ایسے علم سے پناہ مانگی ہے لا ینفع ( اے للہ ! میں ایسے علم سے پناہ مانگتا ہوں و غیر نافع ہو) (رازی۔ فتح البیان ) مضمون اور نزول کے اعبتار سے آیت سابق سے متعلق ہے۔ یہود ونصاریٰ میں نبیوں اور فرشتوں کی پر ستش کی جاتی تھی۔ علامہ قرطبی لکھتے ہیں کہ نصاریٰ نے انبیا ( علیہ السلام) اور فرشتوں کی تعظیم میں اس قدر غلو کیا کہ ان کو الو ہیت کے مقام پر کھڑکر دیا۔ (جامع البیان) حدیث اتخذوا قبور انبیا ھم مساجد او صورو فیھم تیک الصور (کہ انہوں نے انبیا کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا اور انمیں ان کی تصویریں لٹکا دیں) سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ کسی نبی ( علیہ السلام) یا فرشتے کی پرستش صریح کفر ہے اور کوئی ایسی تعلیم یا فلسفہ جو اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی بندگی سکھائے یا اللہ تعالیٰ یا اس کے نبی ( علیہ السلام) کی تعلیم نہیں ہو سکتی۔ ایا مر کم میں استفہام انکاری ہے یعنی یہ ممکن ہی نہیں۔ کیونکہ انبیا تو لوگوں کی عبادت الہی کی تعلیم دینے اور مسلمان بنانے کے لیے مبعوث ہوتے ہیں نہ کہ الٹا کافر بنانے کے لیے۔ (قرطبی۔ ابن کثیر) ان آیات سے مقصود ایسے دلائل کی وضاحت ہے جو آنحضرت ﷺ کی نبوت پر دال ہوں۔ (کبیر) یعنی اللہ تعالیٰ نے آدم اور ان کے بعد ہر نبی ( علیہ السلام) سے عہد لیا ہے کہ وہ اپنے بعد آنے والے نبی ( علیہ السلام) کی تصدیق اور اس کی مدد کریگا اور اس بارے میں کسی کی گروہ بندی اور عصیت اس کے راستے رکا وٹ نہیں بنے گی۔ اگر وہ نبی ( علیہ السلام) اس کی زندگی میں آجائے تو بذات خود اس پر ایمان لائے کا اراگر اس کی وفات کے بعد آئے تو وہ اپنی امت کو بعد میں آنے والے نبی ( علیہ السلام) پر ایمان لانے اور اس کی مدد کرنے کا حکم سے جائے گا۔ اساعتبار سے گو یا حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) سے حضرت عیسیٰ ٰ ( علیہ السلام) پر اور حضرت عیسیٰ ٰ ( علیہ السلام) سے آّنحضرت ﷺ پر ایمان لانے کا عہد لیا گیا ہے، بعض نے یہ بھی لکھا ہے کہ پہلے تمام انبیا ( علیہ السلام) سے فروادایہ عہدلیا گیا تھا کہ اگر ان کے زمانے میں نبی آخرالز مان ظاہر ہوجائے تو اس پر ایمان لا نا اور اس کی مدد کرنا ہوگا۔ (وحیدی) بہر حال آنحضرﷺ اللہ تعالیٰ کے آخری نبی اور واجب الا تباع ہیں۔ اب آپ ﷺ کے سوا کسی اور نبی کی اتباع جائز نہیں ہے۔ مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر (رض) آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان کے ہاتھ میں چند اوراق تھے جو ان کی کسی یہودی نے تورات سے لکھ کردیئے تھے۔ حضرت عمر (رض) نے وہ اوراق پیش کرنے کی اجا ازت مانگی۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا مجھے اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میر جان ہے اگر تم میں موسیٰ ( علیہ السلام) بھی آجائیں اور تم مجھے چھوڑ کر ان کی پیروی کرنے لگو تو گمراہ ہوجا و گے۔ (س دارمی ) آل عمران
80 آل عمران
81 ف 4 اس آیت میں اہل کتاب کو متنہ کرنا ہے کہ تم آنحضرت ﷺ پر ایمان نہ لاکر دراصل اس عہد کی خلاف ورزی کر رہے ہو جو تمہارے انبیا ( علیہ السلام) اور ان کے ذریعہ تم سے لیا گیا ہے۔ اب بتا و کہ تمہارے فاسق ہونے میں کوئی شک وشبہ ہوسکتا ہے۔ (کبیر) سامنے سرنگوں ہے اور اختیا ری و غیرہ اختیاری طور پر اس کے تابع فرمان ہے تو یہ لوگ اس کے قانون شریعت، دین اللہ کو چھوڑ کر دوسرے راستہ کیوں اختیا کرتے ہیں۔ ان کو چاہیئے کہ اگر نجات اخروی چاہتے ہیں تو جو اللہ تعالیٰ کا دین اس وقت آنحضرت ﷺ لے کر مبعوث ہوئے اس کو اختیار کر کوئی کرلیں۔ نیز دیکھئے حا آیت :84۔) آل عمران
82 آل عمران
83 آل عمران
84 آل عمران
85 ف 1 تشریح کے لیے دیکھئے سورت بقرہ آیت ف 2 یعنی محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مبعوث ہوجا نے کے بعد جو شخص آپ ﷺ کی فرما نبر داری اور اطاعت کا راستہ چھوڑ کر کوئی اور راستہ اختیار کرے گا یا کسی پہلے راستہ پر چلنا رہے گا وہ چا ہے کتنا ہی توحید پرست کیوں نہ ہو اور پچھلے انبیا ( علیہ السلام) پر ایمان رکھنے والا ہو اگر وہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان نہیں رکھتا تو اس کی دینداری اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول نہ ہوگی اور وہ آخرت میں نامراد وناکام ہوگا۔ اس معنی ہیں آنحضرت ﷺ کا رشاد بھی ہے۔ من عمل عملا لیس علیہ امر نا فھو رد یعنی جس نے کوئی ایسا کام کیا جو ہمارے طریقہ کے مطابق نہیں ہے وہ مردود ہے۔ ابن کثیر۔ شوکانی ) ف 3 یعنی جو لوگ حق کے پوری طرح واضح ہوجانے اور انحضرت ﷺ کے شچا نبی ہونے کے روشن دلائل دیکھنے کے باوجود محض کبر وحسد اور حب جادو مال کی بنا پر کفر کی روش پر قائم رہے یا ایک مرتبہ اسلام قبول کرلینے پر کفر کی روش پر قائم رہے یا ایک مرتبہ اسلام قبول کرلینے کے بعد پھر مرتد ہوگئے وہ دوسرا ظالم وبد بخت ہیں۔ ایسے لوگوں کو راہ ہدایت دکھا نا اللہ تعالیٰ کا قانون کا قانون نہیں ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ مرتد کافر سے زیادہ مجرم ہے۔ (ابن کثیر۔ شوکانی ) آل عمران
86 آل عمران
87 آل عمران
88 آل عمران
89 ف 4 اس سے معلوم ہوا کہ اگر مرتد صدق دل سے توبہ کرلے اور دوبارہ اسلام لے آئے تو اللہ تعالیٰ اس کی پچھلی غلطی کو معاف فرمادیتے ہیں۔ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ انصار میں سے ایک آدمی (حارث بن سوید) اسلام لانے کے بعد مرتد ہوگیا اور مشرکوں سے جا ملا۔ پھر وہ نادم ہوا اور اس نے اپنے قبلے کے لوگوں سے کہلا بھیجا کہ تم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کر وکہ آیا میری توبہ قبول ہو سکتی ہے۔ ؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی اس کے بعد اس کے بھائی نے اس کے پاس یہ آیت بھیج دی اور وہ دوبارہ مسلمان ہوگیا اور سچا مسلمان رہا۔ (ابن کثیر۔ ابن جریر) البتہ جو شخص ارتداد پر اصرا کرے اس کی سزا قتل ہے۔ آل عمران
90 ف 5 یعنی یہود پہلے اقرار کرتے تھے یہ نبی تحقیقی ہے جب ان سے معاملہ ہو اتو وہ منکر ہوگئے۔ (موضح) اور ایسے لوگ بھی اس کا مصداق ہو سکتے ہیں جو اسلام سے مردتد ہونے کے بعد موت کے وقت تک کفر پر قائم رہتے ہیں انے بارے میں فرمارہے ہیں کہ حالت نزع میں اگر یہ لوگ توبہ کریں گے بھی تو ان کی توبہ قبول نہ کی جائے گی۔ آنحضرت ﷺ کا ارشاد : یقبل توبتہ العبد مالم یغر غر۔ کہ بندے کی توبہ اس وقت تک قبول ہوتی ہے جب تک ہوجان کنی کی حالت تک نہ پہنچ جائے۔ (ترمذی۔ نسائی) نیز دیکھئے (النسا آیت : 18) اور الضالون سے مراد کامل درجہ کے گمراہ ہیں (کبیر) آل عمران
91 ف 6 اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو کفر کی روش اختیار کرتے اور کفر کی حالت میں جان دیتے ہیں۔ حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا : کے قیامت کے روز جہنمی سے کہا جائے گا کہ اگر دنیا کی ہر چیز تمہاری ہوجائے تو کیا تم نجات حاصل کرنے کے لیے اسے فدیہ میں دے دوگے وہ کہے گا ہاں اس پر اللہ تعالیٰ فرمائے گا میں نے تم سے ایک نہایت آسان چیز کا مطالبہ کیا تھا، میں نے تمہارے باپ آدم ( علیہ السلام) کی پیٹھ میں تم سے یہ عہد لیا تھا کہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھراو گے تم شرک کرنے سے باز نہ آئے۔ (ابن کثیر بحوالہ صحیحین) اس یہ بھی ثابت ہو تو ہے کہ کفر کی حالت میں کافر کی کوئی نیکی صدقہ وخیرات قبول نہیں ہوتی چنانچہ آنحضرت ﷺ سے عبد اللہ بن حبدعان کے متعلق سوال کیا گیا کہ وہ بڑا مہمان نواز تھا۔ جو بھوکوں کھانا کھلاتا اور قید یوں کو فد یہ دے کر چھڑا تارہا ہے کیا اسے یہ نیکیاں کچھ فائدہ پہنچا رہی ہیں۔ ؟ اس پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا نہیں کیونکہ اس نے عمر بھر میں ایک بھی قیامت پر ایمان لاکر اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی مغفرت طلب نہ کی۔ (ابن کثیر) مگر ابو طالب کو آنحضرت ﷺ کی حمایت کی وجہ سے یہ فائدہ ہوگیا کہ اسے سب سے ہلکا عذاب ہوگا۔ حدیث میں ہے کہ اسے آگ کے جوتے پہنائے جائیں گے جس سے اس کا دماغ ابلے گا (مسلم ) آل عمران
92 ف 1 پہلی آیت میں بیان فرمایا ہے کہ کافر کا انفاق سے کچھ بھی نفع نہیں ہوگا اب اس آیت میں مومنین کو انفاق کی کیفیت بتلائی جس سے وہ آخرت میں منتفع ہوں گے۔ (کبیر) یہاں ما تحبون عام ہے یعنی مال ودولت اور جاہ و عزت سب کو شامل ہے خطاب یہود سے ہو تو ان کو تنبیہ ہوگی کہ جب تک کہ اپنی جاہ و ریاست کو خیر باد کہہ کر آنحضرت ﷺ کی اتباع اختیار نہیں کرو گے تم ابرار اور مومنین کے زمرہ میں شامل نہیں ہو سکتے (موضح) اور اگر خطاب مومنین سے ہوجیسا کہ عموما تفاسیر میں مذکور ہے تو مقصد یہ ہوگا جو کچھ بھی فی سبیل اللہ صرف کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے اور انسان کو بشرطیکہ مسلمان ہو اخلاص سے خرچ کرے) اس کے بدلہ ضرور ملے گا مگر نیکی میں کامل جو درجہ حاصل کرنے کے لیے ضرور ہے کہ عزیز ترین چیز صرف کی جائے۔ حدیث میں ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضرت ابوطلحہ انصاری (رض) آنحضرت ﷺ میری محبوب ترین جائداد بیرحا (باغ) ہے جو عین مسجد نبوی کے سامنے ہے سو یہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں صدقہ ہے۔ (شوکانی۔ ابن کثیر) بعض روایات میں ہے کہ حضرت عمر (رض) نے بھی اس آیت سے متا ثر ہو کر خیبر میں اپنا حصہ وقف کردیا تھا۔ (ابن کثیر ) آل عمران
93 آل عمران
94 ف 6 اوپر کی آیات میں آنحضرت ﷺ کی نبوت کے اثبات کے اثبات میں دلائل پیش کیے اور اہل کتاب پر الزامات قائم کیے ہیں۔ اب یہاں سے انکے شہبات کا جواب ہے ج وآنحضرت ﷺ کی نبوت پر پیش کرتے تھے۔ (کبیر) جب قرآن نے بیان کیا کہ یہود کے ظلم وبغی کو جہ سے بہت سی چیزیں ان پر حرام کردی گئیں۔ (النسائ آیت 160 الا نعام آیت 146) اور نہ یہ چیزیں حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کے عہد نبوت میں حلال تھیں تو یہود نے ان آیات کی تکذیب کی اور کہنے لگے کہ یہ چیزیں تو حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کے وقت سے حرام چلی آتی ہیں اس پر یہ آیات نازل ہوئیں (شوکانی) بعض مفسرین نے ان آیات کل الطعام تا الظالمون کی شان نزول میں لکھا ہے کہ یہود تو رات میں نسخ کے قائل نہیں تھے اور حضرت عیسیٰ ٰ ( علیہ السلام) کی تکذیب بھی یہود نے اسی لیے کہ تھی کہ وہ تورات کے بعض محرکات کو حلال قرار دیتے ہیں اسی طرح انہوں نے قرآن کے ناسخ منسوخ پربھی اعتراض کیا تو ان کے جواب میں یہ آیات نازل ہوئیں کہ یہ نسخ تو خود تمہاری شریعت میں بھی موجود ہے جب تک تورات نازل نہیں ہوئی تھی تمام ماکولات تمہا رے لیے حلال کی تھیں بعض اونٹ کا گوشت اور دودھ شامل ہے پھر جب یعقوب ( علیہ السلام) عراق النسا کے مرض میں مبتلا ہوئے تو انہوں صحت یاب ہونے پر بطور نذر اونٹ کا گوشت حرام قرار دے لیا تھا ( اور تحریم حلا لکی یہ نذر ان کی شریعت میں رواتھی خود آنحضرت ﷺ نے بھی ایک واقعہ میں شہد پینے کو اپنے اوپر حرام قرار دے لیا تھا گو یہ نذر نہ تھی مگر قرآن نے اس قسم کی نذر اور تحریم حلال سے منع فرمادیاے اور کفارہ مقرر کردیا سورالتحریم پھر جب تورات نازہوئیہ تو اس میں اونٹ کا گوشت اور دودھ حرام قرار دے دیا گیا۔ (ابن کثیر۔ الکشاف بعض نے لکھا ہے کہ یہود آنحضرت ﷺ کی نبوت کے سلسلہ میں اعتراض بھی کرتے رتھے کہ یہ پیغمبر ﷺ خود کو ملت ابراہیمی کی اتباع کا مدعی بتاتا ہے اور اونٹ کا گوشت کھاتا ہے حالا نکہ یہ گوشت ملت ابراہیمی میں حرام ہے اس پر یہ آیات نازل ہوئیں کہ نزول تورات سے قبل تو یہ سب چیزیں حلال کی تھیں پھر ملت ابراہیمی میں یہ کیسے حرام ہو سکتی ہیں اگر اپنے دعوی میں سچے ہو تو تورات میں دکھاو ورنہ اللہ تعالیٰ کے متعلق اس قسم کی افرا بردازی سے باز رہو (ابن کثیر ) آل عمران
95 ف 3 یعنی اللہ تعالیٰ کا یہ بیان مبنی بر صداقت ہے کہ طعام کی یہ قسم پہلے حلال تھی اس کے بعد اسرائیل اور اس کی اولاد پر حرام کردی گئی لہذا نسخ صحیح ہے اور تمہارا شبہ باطل ہے اور آنحضرت ﷺ نے جو ان کی حلت کا فتوی دیا ہے یہ عین ملت ابراہیمی کے مطابق ہے لہذا تم بھی ملت ابراہیم میں داخل ہو ہوجا و اور دین اسلام میں دا خل ہوجا و جو اصول وہ فروغ کے اعتبار سے عین دین ابراہیم کے مطا بق ہے۔ (کبیر۔ ابن کثیر ) آل عمران
96 ف 4 یہ یہود کے دوسرے شبہ کو جواب ہے کہ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) نے شام کی طرف ہجرت کی اور ان کی اولاد میں سے تمام انبیا شام میں ہوئے ان کا قبلہ بیت المقدس تھا اور مسلمانوں نے اس قدیم قبلہ کو چھوڑ کر کعبہ قبلہ بنالیا ہے پھر یہ ملت ابراہیم کے متبع کیسے ہو سکتے ہیں۔ قرآن نے بتایا کہ دنیا بخشا۔ اس پر بہت سے واضح دلائل موجود ہیں جن میں سے ایک دلیل یہ ہے کہ جاہلیت سے یہ محترم چلا آتا ہے کہ اگر کسی کے باپ کا قتل اس میں داخل ہوجائے تو وہ اس سے تعرض نہیں کرتا نیز اس میں مقام ابرہیم ( علیہ السلام) یعنی وہ پتھر موجود ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ اس کے بانی حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) ہیں اور یہ کہ ابراہیمی قبلہ ہے کیونکہ بائبل کے بیان کے مطابق بیت المقدس کے بانی حضرت سلیمان ( علیہ السلام) ہیں (کبیر۔ ابن کثیر )۔ آل عمران
97 ف 5 یعنی ہر عاقل وبالغ مسلمان پر جو کعبہ تک پہچنے کی استطاعت رکھا ہے عمر بھر میں ایک حج فرض ہے اس پر امت کا اجماع ہے حدیث میں استطاعتہ کی تفسیر زاد راہ اور سواری سے کی گئے ی ہے (ترمذی) اور استطاعت کے مفہوم میں یہ چیز بھی داخل ہے کہ راستہ پر امن ہو اور کسی قسم کے جان ومال کے تلف ہونے کا اندیشہ نہ ہو عورت کے لیے کسی محرم کا ساتھ ہونا بھی ضروری ہے۔ (ابن کثیر۔ شوکانی) ف 6 یعنی جس نے استطاعت کے باوجود انکار کیا۔ حدیث میں ہے جو شخص بلا کسی عذر کے حج کیے بغیر مر جائے فلا علیہ ان یموت یھود یا اونصرا نیا۔ ابن کثیر ) آل عمران
98 آل عمران
99 ف 1 رد شبہات کے بعد ان آیات میں اہل کتاب کو زجر وتوبیخ کی کہ تم نہ صرف یہ کہ حق پر خود ایمان نہیں لاتے بلکہ جو لوگ اس پر ایمان لا چکے ہیں ان میں طرح طرح کے فتنے اور مئو شے چھوڑ کر حق کی راہ میں کجی پیدا کرنے کی کو شش کرتے ہو اور پھر یہ سب کچھ جان بوجھ کر کر رہے ہو اللہ تعالیٰ کو تمہارے یہ کر توت خوب معلوم ہیں۔ تمہیں اپنے اس جرم کی سزا بھگتی پڑے گی (کبیر) آل عمران
100 ف 2 اوپر کی دو آیتوں میں اہل کتاب کو دعوت سنائی گئی جو لوگوں کو گمراہ کر رہے تھے اب یہاں سے مسلمانوں ج کو نصحیت فرمائی جارہی ہے کہ ان سے ہو شیار رہیں اور گمراہی میں نہ پڑجائیں (کبیر۔ فتح القدیر) شاہ صاحب (رح) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کے شبہوں کا جواب دے کر مسلمانوں سے فرمایا کہ ان کی بات مت سنویہی علاج ہے نہیں تو شب ہے سنتے سنتے اپنی تازہ اپنی راہ سے پھسل جاو گے اب بھی مسلمان کا فرض ہے کہ اصحاب تشکیک کی بات نہ سنے اس میں دین کی سلامتی ہے اور بحث و جدال سے شب ہے بڑھتے ہیں۔ (وحید ی) اانصار کے دو قبیلوں اور و خزرج کے درمیان اتحاد واتفاق پر یہود کو بہت حسد تھا ایک روز شاس بن قیس یہودی ان کی مجلس کے پاس سے گزرا اور ان کو اکٹھے بیٹھے دیکھ کر غصے سے جل بھن گیا اس نے ایک نو جوان یہودی کو بھیجا کہ انصار کی مجلس میں جا کر جنگ بعاث کر تذکرہ شروع کر دو اور اوس و خز راج نے جو ایک دوسرے لے مقابلہ میں اشعار کہے ہیں ان کو دہرا و۔ اس نے ایسا ہی کیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ فریقین کے درمیان پرانی دشمنی کے جذبات بیدا ہوگئے اور ایک دوسرے کے خلاف تلواریں اٹھالیں۔ آنحضرت ﷺ کو اطلاع ہوئی تو مہاجرین کے لوگ فورا وہاں پہنچ گئے اور فریقین کو ٹھنڈا کیا اس پر یہ آیات نازل ہوئیں (ابن کثیر ) آل عمران
101 ف 3 اوپر وعید کے بعد یہ وعدہ ہے یعنی جس شخص کا اللہ تعالیٰ پر ایمان مظبوت ہوگا وہی سیدگی راہ کی طرف ہدایت پاسکتا ہے اس کے مخاطب ہرچند صحابنہ کرام ہیں لیکن نصیحت کا تعلق تمام مسلمانوں سے ہے آج گو ہمارر درمیان آنحضرت ﷺ بنفس نفیس موجود نہیں ہیں مگر اللہ تعالیٰ کی کتاب یعنی قرآن اور آنحضرت ﷺ کی سنت موجودہ جن پر عمل پیراہو کر موجود دور کے فتنوں ہر قسم کی بد عت وضلالت سے مسلمان محفوظ وہ سکتے ہیں۔ آل عمران
102 ف 4 یعنی یہاں تک تمہارے بس میں ہے جیسا کہ دوسرے آیت میں فرمایا ؛ فاتقوا اللہ ما استطعتم (تغابن آیت 16) لہذ یہ منسوخ نہیں ہے (کبیر۔ شوکانی 9 حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں اس کی صحیح صورت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی جائے اور اس کی نافرمانی سے بچا جائے (کبیر) مومنوں کو اہل کتاب کی تشکیک سے دور رہنے کی نصیحیت فرماکر اب یہاں سے چند اصولی باتوں کا حکم دیا ہے جن کے التزام سے انسان ہر قسم کے فتنوں سے محفوظ رہ سکتا ہے یعنی اللہ تعالیٰ کو خوف اعتصام بحبل اللہ اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی یاد کرنا (کبیر ) آل عمران
103 ف 5 یہاں حبل اللہ۔ اسے مراد قرآن ہے متعدد احادیث میں بھی قرآن کو حبل اللہ الممدود فرمایا گیا ہے۔ (شوکانی مسلمان ہو جو فرقہ بندویوں بھی اسی صورت میں نجات پا سکتے ہیں کہ قرآن کا لا ئحہ عمل قرار دیں اور ذاتی آراو وخیالات کو ترک کر کے سنت کی روشنی میں قرآن کو سمجھنے کی کو شش کریں اور ائمہ دین کے اقوال و فتاوی ٰ کا قرآن وسنت کا درجہ دے کر تحرتب اختیار کریں۔ ف 6 اسلام سے پہلے اوس و خزرج ہی نہیں بلکہ عرب شرک و کفر اور باہمی عداوتوں میں مبتلا تھے اسی کو یہاں آگ کے کنارے کھڑا ہونے سے تعبیر فرمایا ہے مقصد یہ ہے کہ اسلام کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے تمہیں آگ میں گر نے سے بچالیا اور عداوت کی بجائے اخوت پیدا کردی (قرطبی۔ ابن کثیر ) آل عمران
104 ف 1 یعنی اللہ تعالیٰ کہ رسی کو مضبوط پکڑ نے اور اختلاف و خلالت سے بچنے کی صورت یہ ہے کہ تم میں جماعت امر بالمعروف ونھی عن المنکر کا فریضہ انجام دیتی رہے جب تک اس قسم کی جماعت قائم رہے گی لوگ ہدا یت پر رہیں گے ایک حدیث میں ہے کہ تم میں سے جو شخص بھی برائی دیکھے اس چاہیے کہ ہاتھ سے بدلنے کی کو شش کرے اگر ایسا نہ کرسکے تو بذریعہ تبلغ کے ارد اگر ایسا بھی نہ کرسکے تودل سے اسے برا جانے اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔ّ(مسلم) امر بالمعروف ونہی عن المنکر کو وجوب کتاب و سنت سے ثابت ہے اور شریعت میں اسے ایک اصل اور رکن کی حثیت حاصل ہے اس کے بغیر سریعت کا نظام کا مل طور پر نہیں چل سکتا۔ (شوکانی) ف آل عمران
105 2 اس آیت میں جس اختلاف کی مذمت ہے اس سے وہ اختلاف مراد ہے جو کتاب وسنت کے نصوص کو چھوڑ کر اختیار کیا جائے عام اس سے کہ اصولی ہو یا فروعی ورنہ اجتہادی مسائل میں اختلاف کی گنجائش چلی آئی ہے بشر طیکہ تعصب سے ہٹ کر اجتہاد کیا جائے اور اجتہادی مسائل پر عمل کرنے میں جمود نہ ہو بلکہ جس امام کو فتویٰ ادب الی الکتاب والسنتہ ہو اسی پر عمل کرلیا جائے الغرض اجتہادی مسائل میں بھی تقلید شخص کی گنجا نہیں۔ الذین تفر قوا وال ضتلوفوا سے مراد یہود ونصاری ہیں پھر اس امت کے اہل بدعت کے تمام فرقے بھی اس میں داخل ہیں جو اختلاف وتفریق میں یہود کی روش پر چل رہے ہیں ایک حدیث میں ہے پہلی امتوں کے بہتر فرقے ہو گے اور میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گیا فرمایا سب دو زخیی ہیں مگر ایک فرقہ جو ما انا علیہ واصحابی پر عمل پیرا رہے گا۔ آل عمران
106 ف 3 ایمان لائے بعد کافرہو گئے تھے۔ اس بظا ہر تو مریت دین مراد ہیں مگر دورحقیقت یہ تمام کفار کو شامل ہے کیونکہ جب ثابت ہے کہ ذر اول اول کے وقت سب نے اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کا اقرار کیا تھا اور حدیث میں یہ بی ہے کہ ہر شخص دین فطرف پر پیدا ہوتا ہے لہذا جو بھی کفر اختیار کریگا وہ ایمان لا نے کے بعد ہی کافر ہوا اس لیے علما نے لکھا ہے کہ اس آیت میں کافر اصلی مرتدین منا فیقین اور پھر اہل بدعت سبھی آجاتے ہیں کیونکہ یہ سب ایما لانے کے بعد کفر کر رہے ہیں۔ (الکبیر)۔ شوکانی) حضرت شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں : معلوم ہوا کہ سیاہ منہ ان کے ہیں جو مسلمانی میں کفر کرتے ہیں منہ سے کلمہ اسلام کہتے ہیں اور عقیدہ خلاف رکھتے ہیں سب گمراہ فرقوں کا یہی حکم ہے۔ (موضح ) آل عمران
107 ف 4 ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ سفیدی اور سیاہی قیامت کے دن ہوگی۔ اھل السنتہ والجماعتہ کے چہرے سفید ہوں گے اور بد عتی فرقوں کے چہرے سیا ہوں گے ابو مامتہ (رض) نے مسجد دمشق کی سیڑھی پر کچھ لوگوں خارجیوں کے سر رکھے ہوئے دیکھ کر فرمایا۔ یہ جہنم کے یئے ہیں آسمان کے نیچے سب سے برے مقتول ہیں۔ جن لوگوں کو انہوں نے قتل کیا وہ بہترین مقتول ہیں۔ (ابن کثیر ) آل عمران
108 ف 5 یا یہ کہ دنیا اور آخرت کے معالات کی اصل حقیقت تم پر واضح کرنے کے لیے نازل فرماتے ہیں ،۔ (ابن کثیر) ف 6 اور کفار کو جو سزا ملنے والی ہے اس سے ان کو آگاہ کردیا ہے تاکہ کسی پر ظلم نہ ہو (شواکانی) یعنی جہاد اور امر بالمعروف کا جو حکم فرمایا یہ ظلم نہیں خلق پر اس میں ان کی تربیت ہے۔ (موضح) جب اللہ تعالیٰ کو ہر چیز کا علم ہے اور ہر چیز پر قدرت حاصل ہے تو اسے کسی پر ظلم کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ (ابن کثیر ٌ) آل عمران
109 آل عمران
110 ف 7 یعنی آنحضرت ﷺ چونکہ انبیائ سے افضل ہیں اس لیے امت محمدی علی صاحبھا الف تحیتہ وسلام تمام امتوں سے افضل اور بہتر ہے جیسا کہ حدیث تفضیل علی الا نبیا میں ہے وجعلت امتی خیر الا ھم کہ میری امت تمام امتوں سے بہتر بنائی گئی ہے نیز دیکھئے۔ بقرہ آیت 143) اور امت کی یہ فضیلت آیت میں مذکورہ صفات کی وجہ سے ہے ایک امر بالمعروف ونہی عن المنکر یعنی جہاد فی سبیل اللہ دوسری ایمان باللہ یعنی خالص توحید کا عقیدہ۔ ایمان اللہ میں اللہ تعالیٰ کے تمام رسول ( علیہ السلام) اور کتابوں پر ایمان لانا بھی داخل ہے حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں جو شخص افضل امت میں داخل ہونا چاہتا ہے اسے چاہئے کہ اس مذکورہ شرط کو پورا کرے حضرت ابن عباس (رض) اس خیر امتہ سے صرف مہاجرین مراد لیتے ہیں مگر آیت عام ہے اور اقیامت تک ہر قرن کے مسلمان اپنے زمانہ کے اعتبار سے دوسروں سے افضل ہیں۔ (شوکانی، ابن کثیر) ف 8 اس میں اہل کتاب کو اسلام کی تر غیب ہے اور معا مذین کی مذمت ،(ابن کثیر) یہود نے صحابہ رضی (رض) سے بحث کی اور کہا کہ ہم سب امتوں سے افضل ہیں اور ہمارا دین سب دینوں سے بہتر ہے تب یہ آیت اتری۔ (وحیدی ) ف 9 جیسے اللہ تعالیٰ پر بہتان باندھنا کتابوں میں تحریف کرنا اور تم پر بہتان طرزیاں کرنا وغیرہ (شوکانی) گویا اس آیت میں ای دوسرے طریق سے ایمان پر ثبات کی تر غیب دی ہے (کبیر ) آل عمران
111 ف 10 چنانچہ ایسا ہی ہوا یہود کو مسلما نوں کے مقابلہ ہر جگہ شکست ہوئی اور رسوائی منہ توڑ دیکھنا پڑا اور بآ لا خر نبی ﷺ اور آپ کے صحابہ انہیں جزیرہ عرب سے جلا وطن کردیا۔ یہ بہت اخبار بالغیب اور پیشین گوئی پر مشتمل ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس میں فتح کامیابی اور نصرت کی بشارت دی ہے کہ کذافی آیات (کبیر۔ ابن کثیر ) آل عمران
112 ف 1 یعنی مغلوب ہونے کے ساتھ ان پر ذلت بھی مسلط کردی گئی دیکھئے سورت بقرہ آیت 61 کبیر) بعض کے نزدیک اللہ کی پناہ یہ ہے کہ مسلمان ہوجائیں اور لوگوں کی پناہ یہ کہ معابد اور ذمی بن کر رہیں۔ ( خازن) مگر یہ صحیح نہیں ہے بلکہ دونوں جگہ ہی حبل سے مراد عہد ذمہ اور امان ہے اور منعی یہی ہیں کہ وہ امان میں آجائیں اور معا ہد اور زمنی بن کر رہیں مگر ذمی کو امان حاصل ہوتی ہے وہ دو قسم کی ہے ایک جزیہ کی صورت میں جس پر قرآن نے الا ان یعھو الجزیتہ عن ید وھم صاغر ون (التوبہ 29) فرماکر تنصیص کی ہے اور حبل اللہ سے یہی مراد ہے دوسری وہ جس کی شرائط واختیارات امام اور حکومت کے ہاتھوں میں ہوتے ہیں یعنی جزیہ میں کمی بیشی اسی کو آیت میں حبل من الناس سے تعبیر فرمایا ہے۔ (کبیر) حضرت شاہ صاحب نے حبل کے معنی دستاویز کے ہیں اور فائدہ میں لکھا ہے یعنی یہود کہیں اپنی اپنی حکومت سے نہیں رہتے دستاویزات اللہ کے کہ بعض رسمیں تورات کی عمل میں لاتے ہیں اور اس کے طفیل پڑے ہیں اور بغیر دستاویز لوگوں کے یعنی کسی کی رعیت میں اس کی پناہ میں پڑے ہیں (موضح) ف 2 یعنی نافرمانی اور اعتد کایہ اثر ہوا کہ لگے کفر کرنے اور پیغمبروں کو مانے اور پھر کفر وقتل انبیا ( علیہ السلام) کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا غضب اترا ذلیل اور محتاج ہوگئے حکومت اور ریاست چھن گئی۔ (وحیدی) حاصل یہ کہ ذلت وغضب اور مسکنت کی علت کفر اور قتل انبیا ہے اور کفر اور قتل انبیا کی علت ان کی نافرمانی اور زیادتی ہے۔ پس ذالک بما عصوا سے علت العلتہ کی طرف اشارہ ہے چنانچہ امام رازی نے لکھا ہے جو شخص ترک آداب کرے گا اس سے ترک سنن کا ارتکاب ہوگا اور ترک سنن کا نتیجہ ترک فرائض کی صورت میں ظاہر ہوگا اور ترک فرائض سے شریعت کی اہانت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور ابانت شریعت سے انسان کفر کے گرھے میں گر جاتا ہے۔ (کبیر ) آل عمران
113 ف 3 بلکہ بعض مومن اور بعض مجرم ہیں۔ (ابن کثیر) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ جب عبد اللہ بن سلام اسد بن عبید۔ تعلبہ بن شعبہ اور ان کے رفقا مسلمان ہوگئے تو یہودی علما کہنے لگے ہم میں سے وہی لوگ محمد ﷺ پر ایمان لائے جو ہم میں سے بد ترین لوگ شمار ہوتے ہیں اگر یہ بھلے لوگ ہوتے تو اپنے باپ دادا کے دین کو چھوڑ کر دوسرا دین اختیار نہ کرتے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیات ( تابا لمتقین) نازل فرمائیں۔،(ابن جریر) ف 4 یہاں قائمہ بمعنی ستقیمہ یعنی آنحضرت ﷺ کے فرماں بردار اور شریعت کے متبع ہیں۔ (ابن کثیر) او یہ بھی ہوسکتا ہے کہ قائمہ بمعنی ظابت ہو یعنی دین حق پر مظبوطی سے قائم رہنے والیے اور اس کے ساتھ تمسک کرنے والے۔ ( کبیر) ف 5 یعنی رات کو قیام کرتے ہیں اور صلوٰۃ تہجد میں قرآن کی تلاوت کرتے ہیں۔ ابن کثیر ) آل عمران
114 ف 6 یعنی خالص توحید کے قائل ہیں اور یوم آخرت کے ڈر سے معاصی کو ترک کرتے ہیں اور نیک کاموں میں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھکر حصہ لیتے ہیں مختصر یہ کہ مذکورہ تمام صفات سے متصف ہیں یہ اصل میں یہود پر طنز ہے کہ ایسے لوگوں کا شمار تو نیکو کار۔ لوگوں میں ہوتا ہے۔ نہ کہ ذلیل اور بد ترین لوگوں میں ( خازن۔ رازی) یعنی اہل کتاب میں سے جو لوگ بھی صفات مذکورہ سے متصف ہوجائیں گے انہیں صرف ان کے نیک اعمال کا ثواب ہی نہیں ملے گا بلکہ اسلام میں داخل ہونے سے قبل کی نیکیوں کا اگر ملے گا ان میں سے ایک وہ شخص ہے جو اپنے نبی پر ایمان لایا اور پھر مجھ (ﷺ) پر (ابن کثیر) نیز دیکھئے سورت قصص آیت 54) آل عمران
115 آل عمران
116 آل عمران
117 ف 8 یعنی جو مال خرچ کیا اور اللہ تعالیٰ کی رضا پر نہ دیا آخرتے میں دیا نہ دیا برابر ہے ْ۔ ( موضح) اوپر کی آیات میں مومن اور متقی کے نیک اعمال کا انجام ذکر فرمایا ہے کہ ان کی ادنی نیکی بھی ضائع نہیں ہوگی بلکہ اس کا پورا پورا بدلہ ملے گا اب اس آیت میں کافر کے صدقہ وخیرات اور رفاہی کاموں کو آخرت میں بے فائدہ اور ضائع ہونے کے اعتبار سے ظالم کی اس کھتی سے تشبیہ دی ہے جو دیکھنے میں سرسبز وشاداب نظر آئے لیکن یکایک سرد ہوا چلے اور اسے تباہ وبرباد کر کے رکھ دے یہی حال کفار کے صدقہ وخیرات کا ہے۔ وہ چونکہ ایمان واخلاص کی دولت سے محروم ہیں اسے لیے آخرت میں ان کے اعمال تباہ وبرباد ہوجائیں گے اور انہیں ان کا کچھ بھی اجر نہ ملے گا کیونکہ آخرت میں نیک اعمال کی حفاظت کا صرف ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ ہے ایمان و اخلاص کا احصار یہ نہیں تو تمام اعمال بیکار ہوں گے واضح رہے کہ قرآن میں عموما ریح کا لفظ عذاب کے لیے استعمال ہوا ہے اور یاح) جمع کا لفظ رحمت کے لیے اسفردات۔ ف 1 یعنی ان کے اعمال جو ضائع وبرباد ہوگئے یہ اس وجہ سے نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر ظلم کیا ہے بلکہ خود ان کے اپنے اوپر ظلم کا نتیجہ ہے کیونکہ انہوں نے نہ تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں اور کتابوں کی تصدیق کی اور نہ خالص اللہ تعالیٰ کے لیے عمل کیے بلک ریا کاری کرتے ہیں۔ آل عمران
118 ف 2 بطا نتہ (راز ور) یہ باب نصر سے مصدر ہے اور واحد جمع دونوں پر بولا جاتا ہے۔ من دونکم (مسلمانوں کے سوا) اس کا تعلق آیت وان تطیعو افریقامن الذین اوتوا الکتاب سے ہے اور اس میں کفار کی طرف میلان سے ممانعت کی تاکید کی ہے۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ اسلام سے پہلے مدینہ کے انصار اور یہود کے درمیان میل جول اور دوستانہ تعلقات قائم تھے پھر جب یہ لوگ مسلمان ہوگئے تو تب ان میں سے بعض لوگوں نے یہود یوں سے ذاتی تعلقات برقرار کھے جن کی وجہ سے بعض راز کی باتیں بھی ان پر افشا کردیتے اس پر یہ آیت نازل ہوئی (ابن جریر) مگر یہ آیت عام ہے اور یہو و نصاری منافقین اور مشرکین سبھی من دونکم میں داخل ہیں اس بنا پر حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ اسلامی حکومت میں کسی اسامی پر غیر مسلم سے مشورہ لینا منع ہے۔ (قرطبی۔ ابن کثیر) ف 3 خبالا فاساد اور شرارت اس میں مذکور (لاتتخذوابطانتہ) کی وجہ اور علت کی طرف سے اشارہ ہے یعنی اگرچہ یہ لوگ اپنی منافقت کی بنا پر تم سے ایسی باتیں کرنا نہیں چاہتے جن سے تمہیں ان کی اسلام دشمنی کا پتہ چل شکے مگر شدت عداوت کیوجہ سے ان کی زبان پر ایسے الفاظ آہہی جاتے ہیں جن سے تم اندازہ کرسکتے ہو کہ یہ تمہارے خیر خواہ نہیں بلکہ بد ترین دشمن ہیں اور تمہارے خلاف جو جذبات اپنے دلوں میں چھپائے ہوئے ہیں وہ اس سے کہیں بڑھ کر ہیں۔ (خازن) یعنی کفار سے ترک موالات کے سلسلہ میں یہود یوں کے بغض و عناد اور ان کے دلی حسد سے متعلق ہم نے پتے ی باتیں کہہ دی ہیں اب غور و فکر کرما تمہا را کام ہے۔ (روح ) آل عمران
119 ف 5 الکتاب سے تمام آسمانی کتابیں مراد ہیں یعنی تم تو سب کتابوں پر ایمان رکھتے ہو وہ کسی کتاب پھر بھی ایمان نہیں کرکھتے ہیں پھر بجائے اس کے کہ تم ان سے نفرت کرو الٹی ان سے دوستی کرتے ہو اور وہ بجائے دوستی کے تم سے دشمنی رکھتے ہیں اور منانفقت سے تمہیں بے خوف بنانے کی کو شش کرتے ہیں۔ کذافی ابن کثیر ) آل عمران
120 ف 6 اس آیت میں مسلمانوں کو تعلیم دی ہے دشمنوں کے مکرو فریب اور ان کی چالوں سے محفوظ رہنے کا طریقہ صرف یہ ہے کہ تم صبر و استقلال اور تقوی سے کام لو اگر یہ اصول اپنا لوگے تو وہ تم کو نقصان نہیں پہنچا سکیں گے (مدارک) شاہ صاحب فرماتے ہیں یکہ اکثر منا فق بھی یہودی میں تھے اس واسطے ان کے ذ کر کے ساتھ یہود کا ذکر بھی فرما دیا ابآگے جنگ احد کی باتیں مذکو رہیں کیونکہ اس میں بھی مسلما نوں اپنے نفاق کی باتیں ظاہر کی تھیں (موضح ) آل عمران
121 ف 7 اب یہاں سے جنگ احد کا بیان ہے۔ جنگ بدر میں میں ذلت آمیز شکست کے بعد مشرکین نے جوش انتقام میں مدینہ پر حملہ آور ہونے کا منصوبہ بنایا اور اردگر سے مختلف قبائل کو جمع کر کے تین ہزار کا مسلح لشکر لیا اور جبل احد کے قریب آکر ٹھہر گئے آنحضرت ﷺ بھی صحابہ (رض) سے مشورہ کرنے کے بعد ایک ہزار کی جمعیت لے کر باہر نکلے۔ مقام شوط پر عبد اللہ بن ابی نے دھوکا دیا اور اپنے تین سو ساتھیوں کے ساتھ لوٹ آیا اس بعض مسلمانوں کے حوصلے بھی پست ہوگئے جیسا کہ آگے آرہا ہے مگر اللہ تعالیٰ نے ان کے ثا بت قدمی بخشی آنحضرت ﷺ سات سو صحانہ (رض) کی یہ جمعت لے کر آگے بڑھے اور احد کی قریب وادی میں فوج کو آراستہ کیا جس کی طرف قرآن کی طرف قرآن نے اس آیت میں اشارہ فرمایا ہے۔ اسلامی فوج کی پشت پر جبل احد تھا اور ایک جانب ٹیلے پر عبد اللہ بن جبیر کی سرگردگی میں پچاس تیز اندازوں کا دستہ متعین تھا اور آپ ﷺ نے ان کو حکم دیا تھا کہ کہ جگہ کسی بھی صورت میں چھوڑ کرم مت آنا مگر وہ کفار کو پسیا ہوتے دیکھ کر نیچے اتر آئے اور اس گھاٹی کو چھوڑ دیا جس سے مشرکین کو عقب سے حملہ کرنے کا موقعہ مل گیا اس اچانک حملہ سے مسلمانوں کے پاوں اکھڑ گئے۔ آنحضرت ﷺ اور چند صحابہ (رض) آپ ﷺ کے ساتھ ثابت قدم رہے۔ آنحضرت ﷺ کے دندان مبارک شہید ہوگئے اور پیشانی مبارک بھی زخمی ہوگئی آخرکار صحابہ (رض) آنحضرت ﷺ کے گرد دوبارہ جمع ہوئے جس سے میدان جنگ کا نقشہ بدل گیا اور دشمن کا نا کام ہو کر لوٹ جا نا پڑا۔ ان آیات میں بعض وقعات کی طرف اشارے آگے آرہے ہیں۔ (ابن کثیر ) آل عمران
122 ف 8 ان دو گروہوں سے مراد انصار (رض) کے دو قبیلے۔ بنو سلمہ اور بنو حارثہ۔ ہیں جو عبد اللہ ابن ابی کی جماعت کی واپسی دیکھ کر دل شکشتہ ہوگئے تھے۔ اور نھوں نے واپس آنے کا ارادہ کرلیا تھا۔ (قربطی ) آل عمران
123 ف 1 اذلتہ کے لفظ سے مسلمانوں کی قلت تعداد اور ضعف حال کی طرف اشارہ ہے مقام بدر مدینہ سے قریبا 60 میل جنوب مغرب کی طرف واقع ہے۔ یہ وقعہ بروز جمعہ 27 رمضان المبارک 2 ھ ( مارچ 624) کو پیش آیا، اس آیت میں جنگ احد میں شکست کے اسباب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے معر کہ بدر کے وقعات پر غور وفکر کی دعوت اور آئندہ ثابت قدم رہنے کے لیے تقوی یٰ کی تعلیم دی ہے۔ جنگ بدر کی تفصیل کے لیے سورۃ انفال آیت 41 دیکھئے (شوکانی، ابن کثیر ) آل عمران
124 آل عمران
125 ف 2 اذ تقول للمئو منین میں ظرف کا تعلق یا تو ولقد نصر کم اللہ ببدر سے ہے اور جنگ احد سے۔ امام طبری نے اول کو ترجیع دی ہے۔ یعنی جب کفارہ کی تیاری اور کثرت تعداد کو دیکھ کر مسلمانوں کے دلوں میں تسویش دی۔ چن نچہ بدر میں فرشتے نازل ہوئے (ابن کثیر۔ شو کانی) اور مسومین سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اسی کام کے لیے مقرر کر رکھا تھا۔ بدر کے میدان فرشتوں کی تعداد ایک ہزار اور تین ہزار بھی منقول ہے جو منقول ہے جو بظاہر تعارض ہے۔ اس کا حل سورۃ انفال آیت 9 میں ملا حظہ ہو، ابن کثیر۔ قرطبی) بعض کے نزدیک اس وعدہ کا تعلق جنگ احد سے ہے اور انہیں نے کہا ہے چونکہ مسلمانوں نے توکل اور صبر سے کام نہ لیا اس لیے اللہ تعالیٰ نے مدد کو روک لیا ورنہ ظاہر ہے کہ فرشتے نازل ہوتے تو مسلمان شکست نہ کھاتے۔ (ابن جریر ) آل عمران
126 آل عمران
127 آل عمران
128 ف 3 اس آیت میں پیغمبر سے فرمایا کہ بندے کو اختیار نہیں ہر قسم کے اختیار رات اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں۔ (ازموضح) تفاسیر میں ہے کہ احد کے دن جب آپ ﷺ کے دندان مبارک شہید ہوگئے اور آپ ﷺ کی چہرہ مبارک زخمی ہوگیا تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا کیف یفلح قوم شجو ابیتھم اور بخاری میں ہے کہ آپ ﷺ نے نمازوں میں قنوت بھی شروع کردی جس میں نام لے کر مشرکین پر لعنت بھجتے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور آپ ﷺ نے دعاقنوت ترک کردی اور یہ وقعہ ہے کہ جب کے نام لے کر آپ ﷺ بدعا کرتے تھے وہی قبلیے بعد میں مسلمانوں ہوگئے۔ اسی طرح ااو یتوب علیھم کا منظر سامنے آگیا ابن کثیر ،۔ قرطبی) جنگ احد کے تذکرہ میں سود کی حرمت کی حکم بظاہر بے ربط سا معلوم ہوتا ہے مگر علما نے لکھا ہے کہ اوپر جہاد میں فشل نامردی کا ذکر ہوا ہے اور سود خواری سے قوم میں دھن اور بزدلی پیدا ہوتی ہے خود غرضی اور بخل کا جذبہ فروغ پا جاتا ہے۔ اور سود خوار قوم جہاد کے قابل نہیں رہتی اور پھر انصار کے یہود کے ساتھ سودی لین دین کے تعلقات تھے اور احد میں منافقین یہود کی وجہ سے نقصان پہنچا تھا گویا اس کو حرام قرار دیکر ان تعلقات کو ختم کردیا۔ ( حواشی مختلفہ) زمانہ جا ہلیت میں بہت سے لوگ دوسروں کو سودی قرضے دیا کرتے جب قرضہ کی میعاد ختم ہوجاتی تو مقروض سے کہتے قرض اد اکر و ورنہ سو میں اضافہ کرو۔ قرض ادا نہ کرنے کی صورت میں میعاد میں توسیع کردی جاتی اور سود کی مقدار اصل زرسے بھی کئی گنا زیادہ ہوجاتی اور یہ سود تجارتی اور غیر تجارتی دونوں طرح کا ہوتا تھا۔ جیسا کہ آیت کی تفسیر کے تحت تابعین نے تصریح کی ہے سودی کاروبار کی اس بھانک صورت حال کی طرف قرآن نے اضعافا مضا فعتہ کے الفاظ سے اشارہ فرمایا ہے ورنہ یہ ملطب نہیں ہے کہ مرکب سود حرام ہے اور سادہ جائز ہے۔ اسلام میں ہر قسم کا سود حرام ہے اور اس کا ادنی ترین گناہ ماں سے بد کاری کے برابر ہے۔ باقی دیکھئے بقرہ آیت 275 شوکانی ،۔ ابن کثیر ) آل عمران
129 آل عمران
130 آل عمران
131 ف 5 اس میں اشارہ ہے کہ سود کھانا ارکھلا نا مسلمان کا کام نہیں ہوسکتا جو شخص یہ کام کرتا ہے وہ صریحا کافر ہے اور اسے اپنے آپ کو جہنم کی آگ کے لیے تیارکھنا چاہیے۔ قر طبی ) آل عمران
132 ف 1 یعنی اللہ تعالیٰ کی رحمت کا امید وار تو وہی شخص ہوسکتا ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کا فرمانبردار ہو۔ سود کھانا اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کی امید رکھنا دو متضاد چیزیں ہیں اس میں ہر نافرمان کے لیے عتاب ہ وسکتا ہے۔ کبیر ) آل عمران
133 ف 2 یعنی جس طرح سود خوار کافر کے لیے دوزخ تیار کی گئی ہے اسی طرح تابعدار متقی کے لیے جنت تیار کی گئی ہے اور پھر جنت کے متعلق عر ضھا السموات والا رض فرماکر اس کی وسعت کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت ﷺ سے ایک شخص نے اس آیت کے متعلق سوال کیا کہ اگر جنت کا عرض آسمان کے برابر ہے تو دوزخ کہاں ہوسکتا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا کہ رات چھا جائے تودن کہا ہوتا ہے ؟ اس نے کہا جہاں اللہ تعالیٰ کی مشیت ہو آپ ﷺ نے فرمایا یہی حال دوزخ کا ہے۔ یعنی تکون حیث شاہ اللہ اس کے معنی یہ ہیں کہ جس طرح ایک جانب رات ہوتی ہے اور دوسری جانب دن ہوتا ہے یہی حال جنت دوزخ کا ہے اس سوال کا یہی جواب حضرت عمر (رض) اور عبد اللہ بن عباس (رض) سے مروی ہے۔ (ابن کثیر) جنت اور جہنم کے جو اوصاف قرآن و حدیث میں مذکور ہیں ان پر بلا کیف ایمان رکھان ضروری ہے خواہ ہمارے عقل وذہن کی رسائی ان تک نہ ہو اور یہی نہیں بلکہ جملہ امور آخرت کا یہی حال ہے۔ آل عمران
134 ف 3 اب ان آیات میں اہل کتاب میں اہل جنت کی صفات کا ذکر ہے چنانچہ ان کی پہلی صفت یہ ہے کہ خوشحالی اور تنگدستی ہر حالت میں وہ اپنی استطاعت کے مطابق خرچ کرتے رہتے ہیں اور نیک کا موں اور رضائے الہٰی کے لیے مال صرف کرنے سے انہیں کوئی چیز غافل نہیں کرتے ف 3 اب ان آیات میں اہل جنت کی صفات کا ذر کر ہے چنانچہ ان کی پہلی صفات یہ ہے کہ خوشحالی اور تنگدستی ہر حالت میں وہ اپنی استعاعت کے مطابق خرچ کرتے رہتے ہیں اور نیک کاموں اور رضائے الہٰی کے لیے مال صرف کرنے سے انہیں کوئی چیز غافل نہیں کرتی۔ (ابن کثیر ) ف 4 ان کی دوسری صفت یہ ہے کہ وہ غصہ سے مغلوب ہونے کی بجائے اس پر قابو پالیتے ہیں کہ۔۔ ایک روایت میں ہے پہلوان وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے آپ کو پر قابو رکھے۔ (بخاری۔ مسلم) حضرت ابن عباس (رض) سے راویت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے پسند یدہ گھونٹ غصہ کا گھونٹ ہے جسے بندہ پہ لیتا ہے۔ جو شخص اپنا غصہ پی لیتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے پیٹ کو ایمان بھردیتا ہے۔ مسند احمد) ف 5 یہ دراصل غصہ پی جانے کا لازمی تقاضا ہے۔ ایک حد یث میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے قسم کھاکر فرمایا جو کوئی عفودودر گزر کام لیتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی عزت افزائی فرماتے ہیں اس باب متعدد احادیث وارد ہیں۔ (ملا حظہ ہو ابن کثیر ) آل عمران
135 ف 6 یعنی اگر بشر تقاضے کے تحت ان سے کسی گناہ کا ارتکاب ہوجاتا تو وہ فورا اللہ تعالیٰ کو یاد کر کے توبہ واستغفار کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ معافی چاہتے ہیں۔ صحیحین کی ایک روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے نے فرمایا جب کوئی بندہ گناہ کر کے توبہ استغفار کرلیتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے بندے کو معلوم ہے کہ اس کا ایک رب ہے جو گناہ معاف کرتا ہے میرے بندے کو معاف کردیا۔ ابن کثیر) ف 7 اصرار کے معنی ہیں اڑجانا اور لا پر وائی سے گناہ کرتے جا نا اور ان پر ندامت کا اظہار نہ کرنا ارونہ تو بہ ہی کرنا ورنہ اگر کسی شخص سے سچے دل سے توبہ کرنے کے بعد گناہ سرزد بھی ہوجاتا ہے تو اسے اصرار نہیں کہتے۔ چنانچہ ایک حدیث میں ہے ما اصر من استغفر وان عادفی الیوم اسبعین مرہ کے سچے دل سے توبہ واستغفار کے بعد اگر کسی شخص سے ایک دم میں ستر مرتبہ بھی گناہ سرزد ہوجائے تو اسے مٖصر نہیں کہا جائے گا۔ (ابن کثیر۔ قرطبی) وھم یعلمون یعنی وہ جانتے ہیں کہ جو شخص توبہ کرلے اللہ تعالیٰ اس کے گناہ معاف کردیتے ہیں۔ ابن کثیر آل عمران
136 آل عمران
137 ف 8 اوپر کی آیات میں طاعت اور معصیت سے توبہ پر غفران اور جنت کا وعدہ فرمایا۔ اب یہاں طاعت اور توبہ کی ترغیب کے لیے پہلی امتوں کی تاریخ پر غور فکر کا حکم دیا ہے تاکہ ان مطیع اور عاصی کے احوال پر غور کر کے انسان اپنے لیے سامان عبرت حاصل کرے۔ (کبیر۔ ابن کثیر) سنت کے معنی طریق مستقیم اور اس نمونے کے ہیں جس کی اتباع کے لیے نمونہ اور طریق مستقیم ہوتا ہے اس لیے اسے سنت کہا جاتا ہے۔ ّ(کبیر) جنگ احد میں جب ستر مسلمان شہید ہوگئے اور کچھ زخمی ہوئے تو اس شکست سے مسلمانوں کو قدرتی طو پر بہت تکلیف ہوئی۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے تسلی کہ اس شکست اسے افسردہ خاطر نہیں ہونا چاہیے کہ یہ بات تو امم سابقہ اور اور نبیا ﷺ کے متبعین میں ہوتی چلی آئی ہے کہ ابتدا میں ان کو تکالیف سے دوچار ہوتا ہے اور بآلا خر جھٹلانے والے ذلیل وخوار ہوئے۔ (ابن کثیر ) آل عمران
138 ف 9 یعنی قرآن میں اس کا واضح ثبوت موجود ہے کہ پہلی امتوں کا ان کے دشمنوں کے ساتھ مقابلہ میں کیا حال ہوا۔ چنانچہ قرآن جابجا متقین کے نیک انجام اور مکذبین کی ہلاتک کا تذکرہ فرمایا ہے۔ (کبیر، ابن کثیر ) آل عمران
139 ف 10 اوپر کی آیت : قد خلت الخ اس بشارت کی تمہید تھی اور انتم الا علون کے لیے بمنزلہ دلیل کی امم سابقہ کی تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ اہل باطل کو گو عارضی غلبہ حاصل ہو امگر آخر کار وہ تباہ برباد ہوگئے یہی حال تمہار ہے اس لیے کسی قسم کے دھن اور ضعف سے کام نہ لو۔ آخرکار غلب رہوگے چنانچہ اس کے بعد ہر لڑائی میں مسلمان غالب ہوتے رہے کبیر، وحیدی) آل عمران
140 ف 1 یعنی اگر احد کے دن تمہیں ان مشرکین کے ہا تھوں نقصان پہنچا ہے تو تم بدر کے دن انہیں اسی قسم کا نقصان پہنچا چکے ہو اور یہ کچھ پر یشانی کی بات نہیں الحرب سجال جب بھی دوگروہوں میں جنگ ہوئی ہے تو کبھی ایک کا پلڑا بھارہا ہے اور کبھی دوسرے کا۔ (ابن کثیر۔ شوکانی ) آل عمران
141 ف 2 جنگ احد میں امسلمانوں کو سخت جانی نقصان پہنچا اور یہود ومنا فقین کے مطا عن مزید دل آزاری کا با عث بنے۔ منافق کہتے تھے کہ اگر آنحضرت ﷺ سچے نبی ہوتے تو مسلمان یہ نقصان اور بزمیت کی ذلت کیوں اٹھاتے وغیرہ۔ ان آیات میں مسلمانوں کو تسلی دی ہے کہ فتح وشکست تو ادلتی بدلتی چیز ہے یہ حق ونا حق کا معیار نہیں ہے۔ آج اگر تم نے زخم کھا یا ہے تو کل وہ جنگ بدر میں تمہارے ہاتھوں اسی قسم کا زخم کھاچکے ہیں اور خود اس جنگ میں اتبدا ان کے بہت سے آدمی مارے جا چکے ہیں جیسا کہ اذتخسو نھم باذنہ سے معلوم ہوتا ہے۔ تمہارے شکست کھانے کا فائدہ یہ ہوا کہ ایمان واخلاص اور کفر ونفاق میں تمیز ہوگئی مومن اور منافق الگ الگ ہو گے مومنوں کو شہادت نصیب ہوئی جو عند اللہ بہت بڑا شرف ہے ورنہ اس عارضی فتح کا یہ مطلب نہیں کہ اللہ تعالیٰ ظالموں اور مشرکوں کو پسند کرتا ہے بلکہ فتح وشکست کے اس چکر سے مومنوں کو تمحیص اور کفار کی طاقت کو ختم کرنا مقصو ہے اس طرح کہ وہ اپنی عارضی فتح پر مغرورر ہو کر پھر لڑنے آئیں گے اور اس وقت ان کی وہ سرکوبی ہوگی کہ دوبارہ اس طرف رخ کرنے کا نام نہیں لے گے چنانچہ غزوہ احزاب کے موقع پر ایسا ہی ہوا کہ اس کے بعد کفا رن دفاعی جنگیں تو لڑی ہیں مگر خود حملہ کی جرات نہ کرسکے۔ (ماخوذ از کبیر وشوکانی وغیرہ) آل عمران
142 ف 3 یہاں ام بمعنی بل ہے (قرطبی) ابھی اللہ تعالیٰ نے اپنے علم میں جو کچھ تھا اسے ظاہر نہیں کیا اور کھول کر انہیں دکھا یا کہ کون جہاد کرتے اور لڑائی میں ثا بت قدم رہتے ہیں کیا تم سمجھتے ہو کہ ایسی آزمائش سے پہلے تم کو جنت میں لعلی ٰ مراتب مل جائیں گے مطلب یہ ہے کہ جب تک اس قسم کی آزمائشوں میں پورے نہیں اترو گے جنت میں اعلی ٰ مرابت حاصل نہیں ہو سکتے۔ (وحیدی بتصرف ) آل عمران
143 ف 4 الموت جنگ یا شہادت۔ (معالم) جن لوگوں کو جنگ بدر میں حاضری کا موقع نہیں ملا تھا وہ تمنا کیا کرتے تھے کہ دشمن سے مقا بلہ کا موقع ملے تو ہم بھی شہدا بدر کا درجہ حاصل کرلیں مگر جب جنگ احد میں یہ موقع ملا تو ثابت قدم ہ رہے اور مقابلہ سے بھاگ نکلے۔ْ اس آیت میں صحابہ (رض) کو مخاطب کرکے فرمایا تمہاری تمنا کہ مطابق اب یہ موقع آیا ہے تو تمہیں چاہیے تھا کہ پوری جوانمردی سے دشمن کا مقابلہ کرتے اور پا مردی کا ثبوت دیتے۔ حدیث میں ہے کہ دشمن سے مڈ بھیڑ ہونے کی تمنا نہ کرو اللہ تعالیٰ سے عافیت طلب کر ور لیکن اگر مڈبھیٹ ہو تو ثابت قد رہو اور جان لو جنت تلواروں کے سایہ تلے ہے۔ ( ابن کثیر از صحیحین ) آل عمران
144 ف 5 جنگا احد میں بعض صحابہ (رض) نے تو مرتبہ شہادت حاصل کیا اور بعض میدان چھوڑ کر فرار ہونے گلے آنحضر ﷺ بھی زخمی ہوگئے اوکسی شیطان نے آپ ﷺ کی شہادت کی افواہ پھیلا دی صحابہ (رض) اس افواہ سے انتہائی شکستہ خاطر ہوگئے اور ہمت ہار بیٹھے اور منافقین نے طعن طنز کے نشتر حپھبو نے شروح کردیئے کہ اگر محمد ﷺ اللہ تعالیٰ کے رسول ہوتے تو قتل کیوں ہوتے۔ اس پر یہ آیات نازل ہوئیں کہ کیا پیغمبر کے قتل ہونے یا طبعی موت مر جانے سے اللہ تعالیٰ کا دین چھوڑ بیٹھو گے ؟ تمہیں چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرتے رہو (ابن کثیر قرطبی) شاہ صاحب لکھتے ہیں اور اشارات نکلتی ہے کہ حضرت ﷺ کی وفات پر بعض لوگ پھر جاویں گے۔ اسی طرح ہوا کہ بہت سے لوگ حضرت ﷺ کے بعد مرتد ہوئے اور حضرت صدیق (رض) نے ان کے پھر مسلمان کیا اور بعض کو مارا۔ (مو ضح) احادیث میں ہے کہ آنحضرت ﷺ ہو یہ تو حضرت عمر (رض) اپنا ذہنی توازن بر قرار نہ رکھ سکتے اور لوگوں سے خطاب کیا کہ جو شخص یہ کہے گا کہ محمد ﷺ کا انتقال ہوگیا ہے اس کا سر تلوار سے قلم کر دوں گا۔ اتنے میں حضرت صدیق (رض) اکبر تشریف لے آئے اور تقریر فرمائی کہ جو شخص محمد ﷺ پرستش کرتا تھا اسے جان لینا چاہیے کہ محمد ﷺ کی وفات ہوگئی اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی پر ستش کرتا تھا تو اللہ تعالیٰ ہمیشہ زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا۔ اس کے آپ (رض) یہ آیت تلاوت فرمائی تو لوگوں کو ایسا محسوس ہوا کہ اس موقعہ کے لئے ہی یہ آیت اتری ہے۔ (ابن کثیر ) آل عمران
145 ف 1 جب منافقین نے یہ افواہ اڑائی کہ محمد ﷺ قتل ہوگئے اب اپنا آبائی دین اختیار کرلو یا صحابہ (رض) کرام جب جنگ احد سے واپس آئے اور ان میں سے کچھ صحابہ شہید ہوچکے تھے تو منافقین نے کہا لو کانوا عندنا ماماتوا وما قتلوا کہ اگر ہو مدینہ میں رہتے قتل نہ ہوتے۔ پس اس قسم کے شبہات کو رفع کرنے کے لئے یہ بات نازل ہوئی (کبیر) اس سے مقصود مسلمانوں کو جہاد پر ابھار نا اور ان کے زہن میں یہ بات بٹھا نا ہے کہ موت سے فرار کی راہ اختیار کرنے سے انسان موت کے پنچہ سے نجات نہیں پا سکتا، اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کو موت کا ایک وقت مقرر فرمایا ہے جس میں تقدم تاخر نہیں ہوسکتا۔ پس اذن بمعنی علم ہے یعنی ہر شخص کی موت کا وقت اللہ تعالیٰ کے علم میں مقدر ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اذن معنی قضا وقدر کے ہو۔ الغرض تمہیں چاہیے کو موت سے بھاگنے کی فکر چھوڑ کر بے جگری سے اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرو اور اس جہاد سے تمہارا مقصود آخرت کا ثواب ہونا چاہیے ورنہ اگر تم صر دنیا کا ثواب شیرت اور مان غنیمت وغیرہ۔ ہی چاہو گے تو تمہیں صرف وہی ملے گا اور وہ بھی اللہ تعالیٰ کی مشیت پر۔ اور آخرت سے محروم رہو گے۔ یہاں کتابا موجلا اللہ تعالیٰ کی مشیت پر۔ اور آخرت سے محرور رہو گے یہاں کتابا موجلا سے مراد وہ کتاب ہے جو آجالج پر مشتمل ہے بعض نے لوح محفوظ مراد لیا ہے احادیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قلم سے فرمایا : اکتب فکتب ما ھو کا ئن کہ لکھ دے پس قلم نے جو کچھ ہونے والا تھا سب لکھ دیا۔، آیت میں اشارہ ہے کہ جنگ احد میں حاضر ہونے والے لوگ اپنی نیتوں کے اعبتار سے دو قسم کے تھے۔ بعض غنیمت کے طالب تھے اور بعض آخرت کے، یہ آیت گو خاص طور پر جہاد کے بارے میں نازل ہوئی ہے مگر حکم کے اعتبار سے خام ہے اور تمام اعمال صالحہ کا مدار انسان کے ارادے اور نیت پر ہے (کبیر) معلوم ہوا ہے کہ مقتول بھی اپنی اجل سے مرتا ہے اور احبل میں ممتنع ہے۔ آل عمران
146 ف 6 ربییون یہ ربہ کی طرف ہے جس کے معنی جماعت کے ہیں اور یہ جملہ حالیہ ہے ای دمعہ ربییون کثیر استکا نوا۔ یہ سکون سے باب افتعال ہے کاف کے بعد الف بر ائے اشباع ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کون سے استفعال ہو لیکن پہلے اشتقاق کی آیت کے معنی سے زیادہ منا سبت ہے۔ (قرطبی۔) ان تینوں آیتوں سے مقصود ان لوگوں پر عتاب ق اور تنبیہ جو احد کے دن شکست کے آثار دیکھ کر ہمت ہار بیٹھے اور آنحضرت ﷺ کی شہادت کی افواہ سن کر بالکک ہی پست ہوگئے پس فرمایا تم سے پہلے انبیا کے متبعین گزر چکے ہیں ان کی اتباع کرو اور اس قسم کی کمزوری نہ دکھا و (قرطبی ابن کثیر) یعنی ان لوگوں میں بہت سے رتیون اپنے انبیائ کے ساتھ مل کر جہاد کرتے رہے لیکن انہوں نے اپنی قلت تعداد اور بے سرو سا مانیے باوجود کبھی ہمت نہ ہاری اور نہ کبھی اپنے انبیا کے وفات پا جانے یا شہید ہوجا نے کے بعد کی صورت میں وساوس میں مبتلا ہوئے ہمیشہ اور ہر حال میں صبر و استقلال سے کام لیتے رہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں دنیا و آخرت دونوں کے ثواب سے نواز دیا۔ آل عمران
147 آل عمران
148 آل عمران
149 ف 3 احد کی شکست کے بعد کفار نے جن میں منافقین یہود ونصاری اور مشر کین سبھی شامل تھے۔ مسلمانوں کے دلوں میں مختلف قسم کے شکو کو شبہاے پیدا کر کے ان کو اسلام سے برگشتہ کرنے کی کو شش کی۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی متنبہ کیا کفار کے فریب میں مت آنا ورنہ تم خسارے میمن پڑجا و گے پس یہ آیت بھی آیات کا تتمہ ہے یادررہے کہ دنیا میں سب سے بڑ اخسارہ یہ ہے یہ کہ کوئی انسان اپنے دشمن کے سامنے سپر انداز ہوجائے اور آخرت کا خسارہ ثواب سے محرومی اور عذاب میں گرفتاری ہے پس خسارہ عام ہے۔ (کبیر) آل عمران
150 ف 4 یعنی تم کفار کی اطاعت تو اس لیے کرو گے کہ وہ تمہاری کچھ مدد کریں مگر یہ سراسرجہالت ہے۔ دراصل تمہارا حامی وناصر اللہ تعالیٰ ہے اس پر بھروسہ رکھو گے تو دنیا کی کوئی طاقت تمہار بال بیکا نہیں کرسکتی یادر ہے کہ اللہ تعالیٰ کو خیر الناصرین محاورہ کلام کے اعتبار سے فرمایا ہے ورنہ یہ معنی نہیں ہیں کہ وہ بھی ان ناصرین کی جنس سے ہے۔ () کبیر) آل عمران
151 ف 5 آیت اپنے سیاق کے اعتبار سے اوپر کے بیان کا تتمہ ہے اور اللہ تعالیٰ نے مختلف وجوہ سے جہاد کی ترغیب دی ہے اور کفار کے خوف کو دلوں سے نکا لا یہاں فرمایا ہے کہ اگر تم اللہ تعالیٰ پر بھروسا رکھوگے اور اسی مدد مانگو گے تو اللہ تعالیٰ کفار کی دلوں میں تمہارا خوف ڈال دتے گا اس طرح تمہیں ان پر غلبہ حاصل ہوجائے گا کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کو شریک ٹھہراتے ہیں۔ پس مبا اشر کوا میں با براے سببیب ہے۔ (قرطبی) حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں مشرک چور میں اللہ تعالیٰ کے اور چور کے دل میں ڈرہو تا ہے کہ (موضح) چنانچہ اللہ تعالیٰ یہ وعدہ سچ ہوا اور احد میں باوجود غالب ہونے کے چپکے سے میدان چھوڑ کر بھاگ گئے عمائے تفسیر کا بیان ہے کہ راستہ میں انہوں نے دوبارہ مدینہ پر حملہ کا ارادہ کا ارادہ کیا مگر مرعوب ہوگئے صحیحین میں حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا : پانچ چیزوں میں مجھے پہلے انبیا پر فضیلت دی گئی ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ ایک ماہ کی مسافت پر دشمن کے دل میں میرا رعب ڈال دیا گیا ہے۔ (قرطبی ابن کثیر) حدیث سے معلوم ہوتا ہوا کہ اس وعدہ یا تعلق خاص احد ہی سے نہیں ہے بلکہ عام ہے۔ ( کبیر ) آل عمران
152 ف 1 جنگ احد میں ج پہلے پہل اللہ تعالیٰ کی مدد مسلما نوں کے شامل حال رہی اور وہ مشرکین کے سر قلم کرتے رہے حتی کہ جب فتح کے آثار نظر آنے لگے اور مشرکین نے بھاگنا شروع کیا تو پچاس سوار جن کو آنحضرت ﷺ نے عبدا للہ بن جبیر (رض) کی سرکردی میں متعین کیا تھا کہ ادھر سے مشرک حملہ آور نہ ہوں انہوں نے مال غنیمت دیکھ کر با ہم جھگڑا شروع کردیا اور ان میں سے اکثر آنحضرت کے حکم کی نافرمانی کر کے اپنی جگہ چھوڑ کر مال غمیت کی طرف دوڑ پڑے۔ اس سبب سے مشرکین کو عقب سے حملہ آور ہونے کا موقع مل گیا اور مسلما نوں کو بہت بڑا نقصان اٹھا نا پڑا اس آیت میں اسی واقعہ کی طرف اشارہ ہے۔ ّابن کثیر۔ کبیر) جنگ کے بعد جب آنحضرتﷺ مدینہ آئے تو بعض لو کہ نے لگے کہ یہ مصیبت ہم پر کیسے آگئی حالا نکہ اللہ تعالیٰ نے نصرت کا وعدہ فرمایا تھا اس پر یہ آیت نازل ہوئی (قرطبی) ف 2 یعنی غلبہ کے بعد ان کے مقابلہ میں تمہیں پسپائی دلائی تاکہ تمہا ری آزمائش ہو کہ کون سچا مسلمان ہے اور کون کمزر ایمان اور جھوٹا،(قرطبی) ف 3 یعنی گو تم آنحضرتﷺ کی نافرمانی اور جنگ سے فرار کی راہ اختیار کر کے نہا یت جرم کا ارتکاب کیا تھا جس کی تمہیں سخت سزادی جاسکتی تھی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے تمہارا سارا قصور معاف فرمادیا۔ آل عمران
153 ف 4 یہ شکست کھائے ہوئے مسلمان کی کیفیت کا ذکر ہے کہ آنحضرت ﷺ میدان جنگ تمہیں پکا رہے تھے الی عباد اللہ مگر تم پہاڑ پر چڑھے چلے رہے تھے اور کسی کی بات پر دھیان نہیں دے رہے تھے۔ یعنی ایک شکست کا غم سے سخت تر تھا۔ پس بغم کے معنی علیٰ غم ہیں اور بعض نے با کو سببیت کے لیے مانا ہے یعنی آنحضرت ﷺ کو مغموم کرنے کی وجہ سے تمہیں غم پہنچا۔ مگر پہلے معنی زیادہ صحیح ہیں۔ ( ابن کثیر۔ شوکانی) ف 6 یعنی تمہیں دوہرے غم میں مبتلا کردیا تاکہ تمہیں نہ تو مال غنیمت کے ہاتھ سے نکل جانے رانج ہو اور نہ شکست ہی پر کببدہ خاطر ہو۔ کیونکہ متواتر سختیوں سے انسان تحمل مشاق کا عادی ہوجاتا ہے۔ آل عمران
154 ف 7 اس طائفہ سے مراد پکے اور سچے مسلمان ہیں۔ یعنی ان پر امن واطمینان کی کیفیت طاری کردی اور ان کو اونگھ آنے لگی۔ حضرت ابو طلحہ (رض) کا بیان ہے کہ اونگھ سے میری کیفیت یہ تھی کہ باربار تلوار مرے ہاتھ گرتی اور بڑی مشکل سے اس پر قابو پاتا۔ ( ابن کثیر) ف 7 اس طائفہ سے منا فق اور ضعیف ال ایمان کے لوگ مراد ہیں جو محض مال غنیمت کے لالچ میں لٹرنکلے تھے۔ (قرطبی) ظن الجا ھلیہ یہ غیر الحق سے بدل ہے ینی وہ یہ گمان کر رہے تھے کہ دین اوسلام اور اس کے حا ملین بس اب ہلاک ہوگئے۔ مسلمانوں کی کبھی مدد نہ ہوگی اور نہ یہ دعوت حق پر وان پڑھیگی۔ (ابن کثیر۔ شوکانی) یہ جملہ نظینون سے بدل ہے اور من الا مر سے مراد فتح اور نصرت ہے یعنی بالکل مایو سی کا اظہار کرنے لگے اور یہ کہنا شروع کردیا کی ہمیں کبھی فتح بھی نصیب ہوگی اور کچھ ملے گا بھی ؟ یا یہ کہ ہمیں تو مجبورا ساتھ دینا پڑا اور نہ ہم تو باہر نکل کر لڑنے کے حق میں نہ تھے۔ بعض نے یہ معنی بھی کئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جو چاہا سو کیا ہمارا اس میں کیا اختیار ہے۔ (فتح القدیر۔ وحیدی) ف 10 یعنی نفافق اور مسلمانوں کی بد خو اہی۔ (وحید ی) ف 11 شاہ صاحب کے ترجمہ لڑی جائے تو آج ہمارا یہ ہمارا یہ جانی نقصان نہ ہوتا مگر ہماری کسی نے نہ سنی۔ یہ بات یا تو ان منافقین نے کہی کہ جو جنگ میں شریک تھے جیسا کہ حضرت زبیر (رض) سے منقول ہے کہ انہوں نے معتب بن قشیر (منافق) سے اس قسم کے کلمات سنے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ بات ان منافقین نے کہی ہو جو ابن ابی کے ساتھ مد ینہ کو لوٹ آئے تھے۔ اس صورت میں ھنا کا اشارہ قریب معرکہ احد کی طرف ہوگا۔ (قرطبی۔ شوکانی) ف 12 اس سے ان کے خیال کی تردید یا مقصود ہے یعنی اگر تم اپنے گھروں میں بیٹھے رہتے تب بھی جن لوگوں کی قسمت میں قتل ہونا لکھا جا چکا تھا وہ صرف اپنے گھروں سے نکلتے اور جہاں اب مارے گئے وہیں مارے جاتے کیونکہ قضا الہی سے مفر کی کوئی صورت نہیں۔ (شوکانی ) ف 1 یہ جملہ مخذوف کی علت ہے یعنی جنگ احد میں کچھ ہو اور جن حالات سے مسلمان دوچار ہوئے اس سے مقصود یہ تھا کہ تمہارے دلوں کی حالت ظاہر ہوجائے اور تمہارے دل وسا وس سے پاک ہوجائیں یا یہ کہ منافقین کے دلوں کا نفاق باہر نکل آٗے چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ احد کی لڑائی بگڑ نے سے یہ سارا بھانڈا پھوٹ گیا۔ (وحیدی) آل عمران
155 ف 2 یہ ستزل کے متعلق ہے کہ اور جملہ اس کی خبر ہے یعنی احد کی دن جو مسلمان میدان جنگ سے ہٹ گئے تو یہ ان کے کئے کی شامت میں یعنی گذشتہ گنا ہوں کا نتیجہ ہے۔ من جملہ ان کے یہ بھی ہے کہ انہوں نے آنحضرت ﷺ کی حکم کی مخالفت بھی کی تھی۔ (زشوکانی) سلف سے مروی ہے کہ ایک نیک کام کرنے سے دو سرے نیک کام کی تو فیق ملتی ہے اور اگر ایک گناہ دوسرے گناہ کے ارتکاب کا سبب بنتا ہے۔ ( ابن کثیر) مقصد یہ کے بعض مسلمان جو اس دن بھاگ کھڑے ہوئے وہ اس وجہ سے نہیں بھاگے کہ اسلام سے پھر گئے تھے یا منا فق تھے بلکہ شامت نفس اور اغوائے شیطان کے باعث یہ گنا کہ ان سے سرزد ہوا۔ (وحیدی) ف 3 یعنی جو واقعی دل میں اخلا ص رکھتے تھے ان کی تو بہ اور معذرت کے سبب الہ تعالیٰ نے ان کو معاف کردیا۔ اب نہ ان پر کوئی گناہ ہے اور نہ کسی کو طعن کا حق ہے ،۔ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے کسی نے بطور طعن فرار ہوگئے تھے ؟ حضرت ابن عمر (رض) کہا ہاں ہے تو صحیح مگر قرآن نے ان کے لیے عفو اور مغفرت کا اعلان بھی تو کردیا ہے ،۔ لہذا فضیوں کا حضرت عثمان (رض) پر یہ طعن کرنا نری نادارنی اور حماقت ہے۔ ( قرطبی۔ وحیدی ) آل عمران
156 ف 4 مراد منافقین ہیں جو ظاہر میں مسلمان اور درحقیقت کافر ہیں۔ ( وحیدی) ان کی طرح مت بنو یعنی ان جیسے خیا لات دل میں نہ لا و اور ان کی طرح یہ عقیدہ مت رکھو۔ مروی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے بئر معونہ کی طرح ایک دستہ بھیجا وہ شہید ہوگیا تو اس پر منافقین نے اس قسم کے خیالات کا اظہار کیا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور مسلمانوں کو اس قسم کے خیالات دم لانے سے منع فرمادیا۔ ( قرطبی۔ ابن کثیر) اسی قسم کے خیالات کا اظہار شہدا احد کے متعلق بھی کیا گیا۔ (دیکھئے آیت 168) ف 5 اپنے مسلمان بھائی بندوں کے حق میں یعنی لام سببیت ہے اور ان کو اپنا بھائی کہنا نسبی رشتہ داری کی بنا پر ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اخوان سے ان کے دوسرے ہم مسلک منا فق بھائی مراد ہوں۔ اس صورت میں امام تبلیغ کا ہوگا یعنی انہوں نے اپنے منافق بھا ئیوں سے کہا ترجمہ میں پہلی شق کی اختیار کیا گیا ہے۔ (قرطبی۔ وحیدی) ف 6 غزی یہ غاز کی جمع ہے جیسا کہ راکع کی جمع رکع آجاتی ہے اور لیجعل اللہ میں لام کا تعلق قالوا سے ہے یعنی ان کا یہ قول ان کے دلوں میں حسرت کا مو جب بن رہا ہے (شو کانی) پس مسلمان کو منع فرمایا کہ تم جلادت سے کام لو اور اس قسم کے کلمات زبان پر مت لا و تاکہ تمہارے اس عدم تائثر کی وجہ سے اس بات سے ان کے دلوں میں حسرت پیدا ہو (المنار) اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ لام عاقبت کاہو اور اس کا تعلق لاتکونو صغیہ نہیں سے ہو یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کے ضعف اعتقاد کی وجی سے اس قسم کے کلمات ان کی زبان پر جا ری کردیتے ہیں تاکہ وہ ساری عمر اسی ہی واہی تبا ہی باتیں کر کے اپنے مقتول بھا ئیوں پر پچھتاتے رہیں۔ پس لاتکو نوا فرماکر مسلما نوں کو متنبہ کیا کہ تم اس قسم کے کلمات زبان پر مت لا و ورنہ تم ان کی طرح حسرت وافسوس کی زندگی بسر کرو گے ( المنار۔ وحیدی ) آل عمران
157 ف 7 اس میں ان کے شبہ کا اصل جواب ہے کہ موت وحیات تو اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہے پس جنگ یا سفر سے گریز کرنا موت سے نہیں بچا سکتا ف 8 یعنی اگر تمہارا مرنا یا قتل ج ہونا اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہے تو یہ یقینا تمہارے لیے مغفرت اور حمت کا سبب بنے اور یہ مغفرت و رحمت اس مال ومتاع سے بہتر ہے جس کے جمع کرنے کی فکر میں یہ کفار اور منافقین ہر آن لگے رہتے ہیں یہ ان کی شبہ کا دوسرا جواب ہے۔ آل عمران
158 ف 9 اوپر کی آیت میں خاص قسم کے قتل اور موت کا ذکر تھا جس پر رحمت ومغفرت کی خوشخبری تھی۔ اب یہاں عمومی موت وقتل کا ذکر ہے ( یای سبب کا ن) مطلب یہ کہ تمہیں مر کر بہر حال ہمارے پاس آنا اور اپنے اعمال کا اچھا یا برا بدلہ پانا ہے۔ اگر تمہاری جو زند گی اللہ تعالیٰ کے کلمہ کو بلند کرنے کی خاطر ہو اور موت اسی کی راہ میں ہو تو تم اپنے اعمال کا خوش کن بدلہ پا و گے۔ (شو کانی ک۔ المنار ) آل عمران
159 ف 10 احد کے دن مسلما نوں نے خوفناک غلطی کی اور میدان چھوڑ کر فرار اختیار کیا۔ پھر جب آنحضرت ﷺ کی دعوت سے دوبارہ ج جمع ہوگئے تو آپ ﷺ نے ان کو کسی قسم کی سرزنش نہیں کی بلکہ حسن سے پیش آئے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آنحضرت ﷺ کا یہ حسن خلق اللہ تعالیٰ ج کے خاص فضل واحسان اور رحمت کا نتیجہ ہے ورنہ مسلمانوں کی شیراز ہ بندی ناممکن تھی۔ (قرطبی۔ رازی ) ف 1 حضرت شاصاحب (رح) فرماتے ہیں : شاید حضرت ﷺ کا دل مسلما نوں سے خفا ہوگا اور چاہا ہوگا کہ اب سے ان سے مشورہ نہ پو چھئے۔ سو حق تعالیٰ نے سفارش کی کہ اول مشو رہ لینا بہتر ہے جیسے ایک بات ٹھہر چکے پھر پس وپیش نہ کرے۔ ( اس آیت میں آنحضر ﷺ کو حکم دیا رہا ہے کہ جب کبھی جنگ یا انتظامی قسم کا کوئی ایسا معاملہ درپیش ہو جس میں ہما ری طرف سے بذریعہ وحی کوئی متعین کم نہ دیا جائے تو اپنے ساتھیوں سے مشورہ کرلیا کرو تاکہ ان کی دل جوئی ہو اور انہیں بعد میں باہمی مشورہ سے مل کر کام کرنے کی تربیت بھی حاصل ہو۔ چنانچہ آنحضرت ﷺ نے اکثر اہم امور میں صحابہ کرام (رض) سے مشورے فرمائے اور اب پر عمل بھی ہوا۔ (دیکھئے ابن کثیر ج 1 ص 420) آپ ﷺ کے بعد خلفا راشدین سے بھی اس سنت پر پوری طرح کار بند رہے۔ پھر اگر مشورہ کے بعد کسی چیز کا فیصلہ کرلیا جائے تو اسے پوری دلجمعی سے کر گزر نے اور نتیجہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دینے کا نام توکل ہے۔ چنانچہ مذکور ہے کہ جنگ احد کے موقع پر کھلے میدان میں لڑائی کرنے کے فیصلے کے بعد جب آپ ﷺ مسلح ہر کر تشریف لے آئے اور صحابہ (رض) نے اپنی غلطی کا احساس کرتے ہوئے آپ ﷺ کی رائے کے مطابق شہر میں رہ کر مقابلہ ج کرنے پر رضامندی ظاہر کی تو آپ ﷺ ن نے فرمایا۔ لاینبغی لنبی اذا لبس سلا حہ ان یضعھا حتیٰ یقاتل۔ (قر طبی) یہ آیت اور آیت وامر ھم سوری ٰ بینھم (الشوریٰ آیت) اسلامی طرز حکومت کے کے لیے اساسی حیثیت کی حامل ہیں مگر شارع ( علیہ السلام) اور خلفا راشدین نے اس شورائی نظام کی کوئی ہیئت متعین نہیں کی اور اسے ہر دور کے تقا ضوں پر چھوڑ دیا ہے۔ احادیث میں مشورہ سے کام کرنے کی ترغیب آئی ہے۔ چنانچہ فرمایا ما ندم من استشار ولا خاب من استغار کہ مشورہ ہے بعد انسان کی مذامت نہیں اٹھانی پڑتی۔ ابن عطیہ فرماتے ہیں۔ شوریٰ قواعد شریعت اور احکام عزیمت میں داخل ہے جوا میر علمائے دین سے مشورہ نہ لیتا ہو اسے معزول کرنا واجب ہے ولا خلاف فیہ امام بخاری (رح) فرماتے ہیں آنحضرت ﷺ کے بعد خلفا (رض) برابر دیانت داراہل علم سے مشورہ لیتے رہے۔ (قرطبی ) آل عمران
160 آل عمران
161 ف 2 اوپر کی آیات میں جہاد احدم میں جو تیر اندازی اپنی جگہ چھوڑ کر مال غنیمت کی طر لپک پڑے تھے بعد میں آنحضرتﷺ نے ان سے حکم عدولی کی وجہ دریافت فرمائی۔ انہوں نے جب کمزور ساعذر پیش کیا ہمیں ابدیشہ ہوا کہ ہیں ایسا نہ ہو کہ مسلمان مال غنیمت پر قبضہ کرلیں اور ہم محروم رہ جائیں تو آپﷺ نے فرمایا اظننتم انا نغل ولا نقسم کہ تم نے یہ کیسے گمان کرلیا کہ ہم مال غنیمت میں غلول کریں گے اور مساوی تقسیم نہیں کرنیگے اس پر یہ آیت نازل ہوئی یعنی غلول شان نبوت کے منافی ہے۔ کبیر) بعض علمائے تفسیر کا بیان ہے کہ بدر کی لڑائی میں کوئی چیز غنیمت سے گم ہوگئی تو کسی شاید آپ ﷺ نے اپنے لیے رکھ لی ہوگی۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (معالم۔ رازی) شان نزول سے معلوم ہوا کہ غلول کے معنی تقسیم میں جور کے بھی آتے ہیں اور یہ بھی غلول ہے کہ تقسیم سے پہلے مال غنیمت میں سے کوئی چیز بلا اجازت اٹھالی جائے (قرطبی) اور غل کے معنی کینہ کے بھی آتے ہیں چنانچہ شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں : اس آیت سے مسلما نوں کی خاطر جمع کرنی ہے تا یہ نہ جانیں کہ حضرتﷺ ہم کو ظاہر معاف کیا ہے اور دل میں خفا ہیں کبھی خفگی نکا لیں گے۔ (فرمایا) یہ کام نبیوں کہ دل میں کچھ اور ظاہر میں کچھ۔ (مو ضح ) آل عمران
162 آل عمران
163 ف 3 مطلب یہ ہے کہ عام لوگوں میں دیا نتدار اور خائن برابر نہیں ہو سکتے تو پیغمبر جس کا درجہ بہت بلند ہے وہ یہ کام کیسے کرسکتے ہیں۔ حضرت شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں۔ نبی اور دسری مخلوق ایک جیسی نہیں طمع کے کام تو ادنی نبیوں سے بھی سرزد نہیں ہو سکتے۔ (مو ضح ) آل عمران
164 ف 4 اللہ تعالیٰ کی نعمت عظمی ٰ ہونے کی اعتبار سے آنحضرت ﷺ کو وجود تمام دنیا کے لیے احسان ہے مگر استفادہ کے پیش نظر یہاں سرف مومنین پر احسن کا ذکر ہے۔ (رازی) من انفسھم یعنی انہی کی جنس سے ان جیسے بشر ہیں۔، (قرطبی) او پر کی آیت میں جب یہ بیان فرما دیا کہ خیانت اور غلول ایک نبی کی شان سے بعید ہے اور نبوت و خیانت یکیجا جمع نہیں ہو سکتے تو اب اس آیت میں سی کی مزید تاکید فرمائی کہ آنحضرت ﷺ کو ایک پاکیزہ اور اعلی نصب العین دے کر مبعوث کیا گیا ہے۔ ان کی بعثت کا مقصد یہ ہے کہ تمہیں کتاب وسنت کی تعلیم دی جائے اور ذائل سے پاک کیا جائے۔ پھر ایسی پاکیزہ ہوہستی کی طرف جو اتنے عظیم مقصد کے حصول کی خاطر مبعوث ہوئے ہوں کوئی عقلمند آدمی غلول کی نسبت کیسے کرسکتا ہے یا کسی کے دل میں یہ خیال کیسے آسکتا ہے کہ آپ ﷺ خیانت جیسے کبیرہ اور مذموم فعل کا ارتکاب کرسکتے ہیں (رازی) آنحضرتﷺ نے بہت سی آحادیث میں اسی معصیت کو کبیرہ قرار دیا ہے۔ حتی کہ فرما یہ کہ حکام کا ہد یہ قبول کرنا بھی غلول میں داخل ہے۔ (قرطبی) آل عمران
165 ف 5 یعنی احد کے دن جبکہ مسلمانوں کے ستر افراد شہید ہوگئے۔ (ابن کثیر ) ف 1 یعنی جنگ بدر میں جب مشرکین کے ستر آدمی قتل ہوئے تھے اور اتنے ہی قید بن کر آئے تھے۔ (ابن کثیر) ف 2 (ای بذ نو بکم لو بلختیار رکم (القدیر) یعنی تمہاری اپنی کمزوریوں اور کوتاہیوں کو وجہ سے اور آنحضرت ﷺ کی نافرمانی کی وجہ سے جس کا تیر اندازوں نے اپنی جگہ چھوڑ کر ارتکاب کیا ( قرطبی) دوسری صورت میں اس کے یہ معنی ہوں گے کہ تمہارے فدیہ کو اختیار کرنے سے۔ آنحضرتﷺ نے بدر کے قید یوں کے بارے میں صحا بہ (رض) کر اختیار دیا تھا کہ اگر تم فدیہ لینا چاہتے ہو تو اس کے بدلے آئندہ تمہارے ستر آدمی شہید ہوں گے۔ چنانچہ صحانہ کرام (رض) نے اسے منظور کرلیا تھا۔ قرآن نے یہاں ھوں عندکم کے لفظ سے اسی حقیقت کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ (ابن کثیر۔ قرطبی ) آل عمران
166 آل عمران
167 ف 3 یعنی جنگ احد میں تمہیں جس نقصان کا سامنا کرنا پڑا وہ اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کی مشیئت سے تھا اور اس میں حکمت یہ تھی کہ اہل ایمان اور اہل نفاق کے درمیان تمیز ہوجائے۔ ف 4 آنحضرت ﷺ جنگ احد میں ایک ہزار کی جمیعت لے کر احد کی طرف چلے۔ مقام شوط پر پہنچے تو عبد اللہ بن ابی اپنے تین سو ساتھیوں سمیت وہاں سے سے لوٹ آیا۔ عبد الہ بن عمر و بن حرا انصاری (رض)۔ اخو نبی سلمہ۔ حضرت جابر (رض) کے والد ان کے پیچھے گئے اور ان سے کہا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد نہیں کرسکتے تو کم از کم مسلمانوں کے ساتھ تو رہو تاکہ کثرت تعداد کا دشمنوں پر اثر پڑے اور وہ آگے بڑھنے کی جرات نہ کرے۔ اکثر مفسرین نے اوادفعوا کے یہی معنی بیان کئے ہیں مگر بعض نے ادفعوا کے یہ معنی بھی کئے کہ حمیت قومی اور حفاظت وطن کی خاطر ہی لڑائی میں شامل رہو، الغرٖ ض حضرت عبد اللہ (رض) بن عمر و نے ان کو ہر طریقے سے واپس لانے کی کو شش کی مگر وہ تیار نہ ہوئے اور وہ جواب آگے ْآرہا ہے۔ (قرطبی۔ ابن کثیر) ف 5 وہ کہنے لگے کہ کوئی لڑائی وڑائی نہیں ہوگی اگر واقعی لڑائی کی توقع ہوتی تو ہم ضرور تمہارا ساتھ دیتے یا مطلب یہ ہے کہ کوئی ڈھب کی جنگ ہوتی اور فریقین میں کچھ تبا سب ہوتا تو ہم ضرور شرکت کرتے مگر ادھر تین ہزار کا مسلح لشکر ہے اور او ادھر ایک ہزار بے سر وسامان آدمی ہیں یہ کوئی جنگ ہے یہ تو اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا ہے اس پر ہم ساتھ نہیں دے سکتے (ابن کثیر۔ رازی) حضرت شاہ صا حب لکھتے ہیں کہ یہ کلمہ انہوں نے طعن کو طور پرکہا تھا اور مطلب یہ تھا کہ مسلمان فنون حرب سے با لکک نا آشنا ہیں ورنہ ہماری رائے مان لی جاتی تو مدینہ کے اندر رہ کر مدافعت کی جاتی۔ (موضح) ف 6 یعنی اس سے قبل تو وہ بظاہر مسلمانوں کے ساتھ شامل تھے گو ان کے باطن میں کفر تھا مگر علانیہ اس کا اظہار نہیں کرتے تھے لیکن اس روز انہوں نے علا نیہ ایمان چھوڑ کر کفر اختیار کرلیا۔ یا مطلب یہ ہے کہ اس دن انہیں ایمان کی نسبت سے کفر کا مفاد زیادہ عزیز تھا اور انہوں نے واپس ہو کر مسلمانوں کو کمزور کیا اور کفر کو تقویت بخشی۔ (رازی۔ قرطبی) حضرت شاہ صاحب (رح) لکتھے ہیں یہ کلمہ انہوں نے طعن کر طور پر کہا تھا۔ پس اس لفظ کی و جہ سے کفرکے قریب ہوگئے اور ایمان سے دور۔ (موضح) ف 7 یعنی بظاہر یہ کلمہ کہ کر عذر لنگ اور بہانہ بناتے ہیں مگر جو جذبات ان کے دلوں میں مستور ہیں ان کا صاف طور پر اظہار نہیں کرتے در اصل یہ مسلمانوں کی ہلاکت کے متمنی ہیں۔ لیکن انہیں یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ان کے دل کی باتوں سے خوب واقف ہے۔ آل عمران
168 ف 8 جو مسلمان جنگ احد میں شہید ہوئے ان کے بارے میں منافقین اس قسم کا اظہار کیا تاکہ لوگوں کو جہاد میں شمولیت سے متنفر کیا جا سکے۔ قرآن نے ان کے اس شبہ کی تردید کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر واقعی گھروں میں بیٹھے رہنا تمہیں موت سے بچا سکتا ہے تو ذارا اپنے اوپر واقع ہونے والی موت کو ٹال کر دکھا و۔ آل عمران
169 ف 9 اس آیت میں منافقین کے اس شبہ کی دوسرے طریقے سے تردید کی ہے کہ جہاد میں شامل خواہ مخواہ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا ہے فرمایا کہ نہیں بلکہ اس سے دئمی زندگی حاصل ہوتی ہے۔ شہدا کو اللہ تعالیٰ کے ہاں بلند درجے ملتے ہیں۔ پروردگار کے ہاں انہیں ہر قسم کا تغم اور تلذذ حاصل ہے۔ احادیث میں ہے کہ شہدا کی روحیں سبز پر ندوں کے اجواف یا حواصل میں جنت کی سیر کرتی ہیں اور عرش کے نیچے قندیلوں کے ساتھ آویز اں رہئی ہیں۔ عالم برزخ کی یہ زندگی شہدا کو حاصل ہے۔ مزید وضاحت کے لیے دیکھئے سورت البقر آیت 154) آل عمران
170 ف 10 یعنی اپنے جب مسلمانوں بھا ئیوں کو جہاد فی سبیل اللہ مشٖغول چھوڑ آئے ہیں ان کا تصور کر کے خوز ہوتے ہیں کہ ان کو بھی ہماری طرح پر لطف اور بیخوف و خطر زندگی حاصل ہوگی۔ بعض روایات میں ہے کہ شہدا بئر معونہ نے اللہ تعالیٰ سے یہ خواہش کی کہ ہم جس عیش و خوشی میں زندگی بسر کر رہے ہیں ہمارے بھائیوں کو اس کی اطلاع پہنچا دی جائے تاکہ وہ بھی جہاد فی سبیل اللہ میں رغبت کریں چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ التجا منظور فرمائی اور یہ آیات نازل فرمائیں۔ (کبیر ) آل عمران
171 آل عمران
172 ف 1 یہ حمر الا سد یعنی جنگ احد سے اگلے روز کا واقعہ ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے احد سے پلٹ کر جب مشرکین چند منزل دور چلے گئے تو آپس میں کہنے لگے کہ ہم نے یہ کیا حماقت کی کہ مسلمانوں کی استیصال کئے بغیر واپس چلے آئے۔ چنانچہ مدینہ پر دوبارہ حملہ کرنے کا منصوبہ بنانے لگے۔ ادھر ّنحضرت ﷺ کی جب یہ اطلاع ملی تو آپ ﷺ نے اب تمام مسلمانوں کو جو جنگ احد میں شریک ہوئے تھے مشرکین کے تعاقب میں نکلنے کا حکم دیا تاکہ وہ واقعی پلٹ کر مدینہ پر حملہ نہ کردیں۔ اس وقت اگرچہ جنگ احد میں سے اکثر لوگ سخت زخمی اور تھکے ہوئے تھے لیکن اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے حکم کی تعمیل میں فورا نکل کھڑے ہوئے۔ جب مدینہ سے چند میل فاصلہ پر مقام حمرا الا سد ( جو مدینہ سے تقریبا آٹھ میل کے فاصلہ پر ہے) پر پہنچے تو مشرکین کو ان کے آنے کی اطلاع مل گئی اور انہوں نے آپس میں کہا کہ اس مرتبہ تو واپس چلتے ہیں اگلے سال پھر آئیں گے۔ اس صورت حال کے پیش نظر نبی ﷺ بھی مدینہ واپس لے آئے۔ چانچہ آیت میں اسی واقعہ کی طرف اشارہ ہے اور مسلمانوں کی بشارت دی (ابن کثیر) یہاں منھم میں لفظ من محض تبیین کے لیے ہے کیونکہ جن لوگوں نے اس مہم میں اللہ و رسول ﷺ کی دعوت پر کہی وہ سب ایسے ہی تھے۔ (الکشاف ) آل عمران
173 ف 2 یہ آیت بھی وقعہ حمرا الاسد ہی سے متعلق ہے اور وہ اس طرح کہ جب ابو سفیان کو۔ جو ان وقت مشرکین کی قیادت کر رہا تھا۔ مسلمانوں کے تعاقب کی اطلاع ملی تو اس نے ایک تجارتی قافلہ کے ذریعہ آنحضر ﷺ کو یہ چلینج بھیجا کہ میں نے بڑا لاو لشکر جمع کرلیا ہے اور میں مدینہ پر پھر سے حملہ کرنے والا ہوں۔ یہ سن کر مسلمانوں میں خوف یا کمزری کے بجائے مزید ایمانی قوت پیدا ہوئی اور آنحضرت ﷺ اور صحا بہ (رض) نے فرمایا حسبنا اللہ ونعم الوکیل (ابن کثیر) بعض نے لکھا ہے کہ یہ آیت غزوہ بدر الصغری ٰ کے متعلق نازل ہوئی ہیں جس کا پس منظر یہ ہے کہ جنگ احد میں کے خاتمہ پر ابو سفیان نے اعلان کیا تھا کہ آئندہ سال پھر بدر میں لڑائی ہوگی۔ آنحضرت ﷺ نے حضرت عمر (رض) سے کہا کہ منظور کرلو اور کہدو ان شا التہ عالی۔ جب اگلا سال آیا۔ ابو سفیان مکہ سے فوج لے کر نکلا جب مر نفہر ان میں پہنچا تو مرعوب ہوگیا۔ قحط سالی کا عذار کر کے مکہ کو لوٹنا چاہا اتفاق سے ابو نعیم بن مسعود الا سجعی سے ملا قات ہوگئی جو عمرہ کر کے واپس جا رہا تھا۔ اس کو کچھ انٹوں کا لالچ دے کہا کہ مدینہ پہنچ کر ہماری طرف سے خبر مشہور کردینا کہ وہ بہت بڑی جمیعت لے کر آرہے ہیں تاکہ مسلمان خوف زدہ ہوجائیں اور نکلنے کی جرات نہ کریں۔ چنانچہ اس نے مدینہ پہنچ کر اسی قسم کی افواہیں پھیلادیں کچھ مسلما نن مرعوب بھی ہوئے مگر آنحضرت ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی قس کھا کر فرمایا۔ میں ضرور جاوں گا خواہ مجھ اکیلے کو ہی جانا پڑے۔ مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے ہمت دی اور انہوں نے کہا اللہ ہی ہم کا کافی ہے آخر مسلمان وہاں پہنچے۔ بدرالصغریٰ (مابنی کنانتہ) میں بڑابازار لگتا تھا۔ تین روز رہ کر تجارت کے ذریعے خوب نفع کمایا اور صحیح سلامت مدینہ لوٹ آئے مشرکین بھی مرا الظہرن سے لوٹ گئے تھے انہوں ن اپنی اس مہم کا نام حبیش السو یق رکھا۔ (رازی۔ ابن کثیر ) آل عمران
174 ف 3 یہاں فضل سے مراد وہی مالی فائدہ ہے و انہوں نے تجا رت سے حاصل کیا تھا۔ آل عمران
175 ف 4 وہ شخص جو افواہیں پھیلا رہا تھا اسے شیطان فرمایا اور بتایا کہ یہ اپنے منا فق درستوں کو ڈرہا ہے مسلمانوں کا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے سواکسی کا اندیشہ دل میں نہ لائیں (رازی ) آل عمران
176 ف 5 کافر اور منافق مختلف طریقوں سے آنحضرت ﷺ کی مخاطب کرتے رہتے جس سے طبعی طوپر آپ ﷺ رنجیدہ خاطربھی جاتے خصوصا غزوہ احد کے واقعہ کو منافقین نے بہت ہو ادی اور بعض مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف نصرت سے مایوس کردیا۔ اس پر آیات نازل ہوئیں اور آنحضرت ﷺ کو تسلی دی کہ اس قسم کی مخالفتوں سے کفار اسلام کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے بلکہ اس قسم کا رویہ اختیار کر کے خودہی حظوظ آخرت سے محرومی ہو رہے ہیں۔ (رازی، ترجمان ) آل عمران
177 ف 6 یعنی ایمان کے بجائے کفر اختیار کر کے خود برا کر رہے ہیں۔ اس کے نتیجہ میں دردناک عذاب سے دوچار ہوں گے ، آل عمران
178 ف 1 یعنی مفید نہیں ہے بلکہ اس طرح کی زندگی سے ان کے کنارہ دن بدن بڑھتے جارہے ہیں، قیامت کے دن سب کو کسر نکل جائے گی۔ (ترجمان) جنگ احد میں کفر و نفاق اور ایمان و اخلاص الگ ہو کر سامنے آگئے۔ امام رازی (رح) لکھتے ہیں اس آیت کا تعلق بھی قصئہ احد سے ہے۔ جنا نچہ اس حادثہ میں قتل وہزمیت پھر دشمن کا تعاقب اور اس کے بعد ابو سفیان کے چیلنج کے جواب میں بدر الصغریٰ کا غزوہ وغیرہ سب ایسے واقعات تھے جن سے کفر و نفاق اور ایمان وخلاص الگ الگ ہو کر سامنے آگئے اور مومن اور منافق میں امتیاز ہوگیا ج۔ چونکہ منافقین کامو منوں کے ساتھ ملاجلا ہنا حکمت الہی کے خلاف تھا اس لیے یہ تمام واقعات پیش آئے (کبیر) آل عمران
179 ف 3 یعنی ایسا نہیں ہوسکتا کہ تمہیں براہ راست غیب پر مطلع کر دے اور اتم بروں کو اچھوں سے الگ پہچان لو بلکہ منصب رسالت کے لیے تو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے انتخاب فرماتا ہے اور اسے بذریعہ وحی اپنے غیب سے جتنی باتوں کا علم دینا چاہے دے دیتا ہے۔ (کذافی الروح) علم غیب پ ربحث کے لیے دیکھئے ( سورت انعام آیت 59) ف 4 قریش کے کافر اور مدینہ کے منافق کہتے تھے کہ اگر یہ سچا نبی ہے تو نام بنام کیوں نہیں بتاتا فلاں مامن ہے فلاں کافر ہے اس پر یہ آیت نازل ہوئی (قرطبی) فرمایا کہ تمہیں غیب کی باتوں سے کیا اسروکار۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کی مشیت پر موقوف ہے تمہارا کام تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی باتوں پر ایمان لانا اور اتقوی ٰ اختیار کرنا ہے تاکہ اجر عظیم کے مستحق قرار باو) وحیدی) آل عمران
180 ف 5 اور برتر غیب جہاد کے سلسلہ میں جانی قربانی پر زور دیا ہے اور جو حفاظت جان کی خاطر اس سے فرار کرتے ہیں بیس ان کے حق میں وعید سنائی ہے۔ اب یہاں جہاد میں مالی قربانی پر زور دیا جارہا ہے اور بخل کرنے والوں کی مذمت کی جا رہی ہے۔ (کبیر) مقصد یہ ہے کہ ان منافقین کو جس طرح اپنی جان پیاری ہے اسی طرح ان کو اپنا مال بھی پیارا ہے۔ جو لوگ مال کے حقوق ادا کرنے سے پہلو تہی کرتے ہیں قیامت کے دن یہی مال ان کے لیے وبال بن جائے گا۔ ؟ صحیح بخاری میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے کچھ مال دیا ہے اور وہ اس کی زکوٰۃ ادا نہیں کرتا قیامت کے دن اس کے مال کو ایک گنجے سانپ کی شکل دے دی جائے گیا اور وہ طوق بناکر اس کے گلے میں ڈال دیا جائے گا۔ وہ اسے اپنے دونوں جبڑوں سے بکڑے گا اور اس سے کہے گا۔ میں ہوں تمہارا مال میں ہوں تمہارا خزانہ پھر نبی ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔ (ابن کثیر) یادرہے کہ حقوق واجبہ کر ادا نہ کرنے کا نام بخل ہے اور قرآن و حدیث میں اس کی سخت مذمت آئی ہے۔ کہ بخل سے بڑھ کر اور کون سامرض ہوسکتا ہے۔ (قرطبی) نیز دیکھئے۔ التوبہ آیت 35) ف 6 یعنی جب زمین و آسمان کی ہر چیز اللہ تعالیٰ ہی کی میراث اور ملکیت ہے تو جس مال کے بظا ہر تم وارث بنائے گئے ہو اس میں بخل کیوں کرتے ہو۔۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ اللہ وارث ہے آخرتم مر جا و گے اور مال اسی کا ہو رہے گا۔ تم اپنے ہاتھ سے دو ثواب پا و (موضح ) آل عمران
181 ف 7 اوپر کی آیات میں انفاق فی سبیل اللہ پر زور دیا۔ اب ان آیات میں یہود کے شبہات کا بیان اور ان کا رفع کرنا مقصود ہے۔ دراصل یہود یہ شہبات نبو پر طعن کی غرض سے کرتے تھے۔ (رازی) کسب تفسیر میں ہے کہ جب آیت من ذا الذی یقرض اللہ ذصا حسنا نازل ہوئی تو بعض یہود نے اس کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا فوجی ! اللہ میاں بھی فقیہ ہوگئے ہیں اور بندوں سے قرض مانگنے پر اتر آئے ہیں۔ ان کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی۔ ( ابن کثیر۔ کبیر) یہود اس قسم کے شہبات عوام کو انفاق فی سبیل اللہ سے متنفر کرنے کی غرض سے وارد کرتے تھے ورنہ وہ بھی خوب جانتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی نسبت اس قسم کے خیالات کا اظہار کفر ہے (قرطبی) ف 8 یعنی ان کی اللہ تعالیٰ کے بارے میں یہ گساخی اور رسولوں کا ناحق قتل کرنا سب ان کے نامئہ اعمال میں درج کیا جارہا ہے۔ قیامت کے دن ایسے مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا اور عذاب حریق کی سزا میں گرفتار ہوں گے۔ آل عمران
182 ف 1 اس مبالغہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے ظلم کی نفی کے یہ معنی ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے نعوذباللہ رتی برابر بھی ظلم صادر ہو تو وہ ظلام ٹھہرے گا اور اور اللہ تعالیٰ کی ذات ظلم سے منزہ ہے (کبیر ) آل عمران
183 ف 2 یہ ان کا دوسرا شبہ ہے جو انہوں نے آنحضرت ﷺ کی نبوت پر ایمان نہ لانے کے سلسلہ میں پیش کیا کہ بنی اسرائیل سے اللہ تعالیٰ نے یہ عہد لیا ہے کہ اگر کوئی نبی یہ معجزہ پیش نہ کرے تو اس پر ایمان نہ لائیں۔ (کبیر) حالانکہ ان کی کسی کتاب میں یہ حکم نہیں ہے۔ ہاں بعض انبیا ( علیہ السلام) ( علیہ السلام) کے بارے میں یہ ضرور مذکور ہے کہ جب کوئی سوختی قربانی (نذر) پیش کی جاتی تو وہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے۔ اس قربانی (نذر) کی علامت قبولیت کے طور پر آسمان سے آگ اترتی جو اسے جلا ڈالتی جیساکہ حضرت ایلیا ( علیہ السلام) اور حضرت سلیمان ( علیہ السلام) کے متعلق مذکور ہے۔ (کبیر، ابن کثیر) ف 3 یہ ان کی اس شبہ کا جواب ہے جو اوپر مذکور ہوا کہ اگر واقعی تم اس دعویٰ میں سچے ہو تو پھر تمہارے آباواجداد نے ان بہت سے انبیا ( علیہ السلام) کو قتل کیوں کر ڈالا جو اپنے دعوائے صدق نبوت پر دوسری واضح نشانیوں کے ساتھ (وبالذی قلتم) معجزہ بھی لے کر آئے جس کا تم مطالبہ کررہے ہو (کبیر ) آل عمران
184 ف 4 یہود کے تمسخر اور شبہات کا جواب دینے کے بعد آنحضرت ﷺ کو تسلی دی ہے کہ اس قسم کے شہبات پیدا کر کے اگر یہ لوگ آپ ﷺ کی تکذیب کررہے ہیں تو یہ غم کی بات نہیں کیونکہ آپ ﷺ سے پہلے بہت سے انبیا ( علیہ السلام) کے ساتھ وہ یہی سلوک کرچکے ہیں۔ (کبری) البینات سے دلائل عقلیہ اور معجزات دونوں مراد ہیں۔ الزبر یہ زبور کی جمع ہے اس سے وہ چھو ٹے چھوٹے صحیفے مراد ہیں جو مواعظ و زواجر اور حکم پر مشتمل ہوتے ہیں۔ حضرت داود ( علیہ السلام) کو جو کتاب دی گئی تھی قرآن نے اسے بھی زبور کہا ہے کیونکہ اس میں بھی رواجر ومواعظ کا پہلو نمایاں ہے اور قرآن کی اصطلاح میں الکتاب سے مراد وہ بڑی کتاب ہے جو احکام وشرئع سب پر حاوی ہو۔ مگر ان سب کتابوں میں قرآن مجید کے سوا کسی کتاب کو اعجازی حثیت حاصل نہیں ہے۔ ( بیضاوی۔ رازی ) آل عمران
185 ف 5 بخلیوں کا حال اور ان کا کفر بیان کرنے کے بعد یہاں بتایا کہ دنیا کے جس مال ومتاع کے جمع کرنے کے لیے انسان بخل کرتا ہے۔ یہ سب کچھ فانی اور نہ باقی رہنے والی چیز ہے اور آخرت کی زندگی ہی باقی اور ابدی ہے لہذا انسان کو چاہیے کہ آخرت کی فکر کرے اور اس میں کامیابی کے لیے کوشاں رہے۔ (قرطبی) اور یہ جو فرمایا کہ قیامت ہی کے دن پورے پورے بدلے دیئے گائیں گے۔ تو اس کے معنی یہ ہیں کہ انسان کو دنیا یا برزخ میں بھی کچھ نہ کچھ اعمال کا بدلہ ملتا ہے مگر پورا پورا بدلہ، ثواب وعقاب۔ قیامت کے دن ہی ملے گا۔ اس پہلے ممکن نہیں۔ (قرطبی۔ کبیر) اور دنیا کی زندگی متاع الغرور ہے اس کی ظاہر زیب وزینت سے دھوکا نہیں کھانا چاہیے۔ اصل کامیابی آخرت کی کامیابی ہے لا عیش الا عیش الا خرۃ (ابن کثیر) آل عمران
186 ف 6 یہ خطاب نبی ﷺ اور عام مسلمانوں سے ہے آئندہ بھی جان ومال میں تمہارا آزمائش ہوگی اور تمہیں ہر قسم کی قربانیا پیش کرنا ہوں گی جیسے اموال کاتلف ہوجاتا بیمار پڑنا وغیرہ اہل کتاب اور مشرکین کی زبانوں سے تمہیں انتہائی دل آزار اور جگر خراش طعن وتشنیع بیہودہ گفتگو اور جھوٹے الزامات سننا پڑیں گے جسیا کہ منافقین نے ہر طرح سے ستایا ہے اور کعب بن اشرف یہودی نے آپ ﷺ اور صحابہ (رض) کی بجو اور مسلمان خواتین کی تشبیب میں قصائص نظم کئے۔ مگر ان سب کا علاج یہ ہے کہ تم صبر ثابت قدمی اور استقلال سے کام لو اور اللہ تعالیٰ کا نقوی ٰ اپنے دلوں میں رکھو۔ اگر صبر وتقویٰ سے ان آزمائشوں کا مقابلہ کروگے تو یہ نہایت ہمت حوصلہ اور الو العزمی کا کام ہے۔ چنانچہ آحضرت ﷺ کو جب تک قیال کی اجازت نہیں ملی آنحضرت ﷺ اور صحابہ (رض) کرام عفو اور دوگزر سے کام لیتے رہے۔ (ابن کثیر۔ قرطبی ) آل عمران
187 ف 1 یعنی اہل کتاب سے یہ عہد لیا گیا تھا کہ ان کی کتابوں میں جو احکام دیئے گئے ہیں اور نبی آخرالزمان (ﷺ) کے متعلق جو بشارتیں اور علامتیں بیان کی گئی ہیں۔ ان کا اعلانیہ اظہار کریں گے اور ان کو چھپانے کا جرم کا ارتکاب نہ کریں گے۔ مگر انہوں نے دنیا طلبی میں پڑکر اس عہد کی کوئی پر وا نہ کی اور ان احکام کی بھی لفظی اور معنوی تحریف کی اور ان بشارتوں اور علامتوں کو چھپایا فبئس ایشترون۔ اس آیت میں ضمنا مسلمان علمائ کو بھی یہ ہدایت کی گئی ہے کہ وہ حق بات کو جانتے بوجھتے چھپانے کے جرم کا ارتکاب نہ کریں حدیث میں متعدد طریق سے آنحضرت ﷺ کا یہ ارشاد مردی ہے من سل عن علم فکتمہ الجم یوم القیامتہ بلجام ناذ کہ جس سے کوئی مسئلہ پوچھا گیا اور اس سے اسے چھپایا قیامت کے دن اس کے منہ میں آگ کی لگام دی جائے گی۔ (ابن کثیر ) آل عمران
188 ف 2 یہ کہ جو کام انہوں نے کئے ہیں ان پر اتر تے چلے ت جاتے ہیں اور جو کام انہوں نے نہیں کئے ہیں ان کے متعلق بھی جانتے ہیں کہ انہیں انکے کار ناموں میں شمار کیا جائے ایسے لوگوں کے بارے میں ہرگز یہ خیال نہ کرو وہ اللہ کی پکڑ اور اس کی عذاب سے چھوٹ جائیں گے یہ آیت دواصل یہود اور ان کے منافقین کے حق میں نازل ہوئی ہے (ابن جریر) نچانچہ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں آنحضرت ﷺ نے یہود سے کوئی بات دریافت کی۔ انہوں نے اس کاغلط جواب دیا پھر خوش ہوئے کہ ہم نے آنحضرت ﷺ کو مطمئن اب انہیں ہماری تعریف کرنی چاہیے (بخاری مسلم) حضرت ابو سعید خدری کہتے ہیں کہ یہ آیت منافقین کے بارے میں نازل ہوئی۔ وہ اس طرح کہ جب آنحضرت ﷺ جنگ کے لیے نکلتے تو وہ واپس تشریف لاتے تو آپ ﷺ کے سامنے جھوٹی قسمین کھا کھا کر عذا پیش کرتے اور چاہتے کہ ان کی تعریف ہو۔ (بخاری) مگر یہ حکم اہل کتاب اور سب مسلمانوں کے لیے ہے جو بھی خوشامد مد پسند ہوگا اور قسم کا زہن رکھے گا اس کے لیے وہ وعید ہے جو اس آیت میں مذکور ہے۔ (شوکانی، ابن کثیر ) آل عمران
189 ف 3 یعنی جب حقیقت یہ ہے اور تم بھی اس کا انکار نہیں کرسکتے تو تمہیں اللہ تعالیٰ کے انتقام سے ڈر تے ہوئے اس کے کسی حکم کی خلاف ورزی نہیں کرنی چاہئے۔ (ابن کثیر ) آل عمران
190 ف 4 حضرت ابن عباس (رض) بیان فرماتے ہیں کہ یہود کے سکھائے پڑھائے آنحضرت ﷺ سے موقع بہ موقع یہ مطالبہ کرتے رہئے کہ جب حضرت موسیٰ ٰ ( علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کے ید بیضا اور احیا موتی جیسے معجزاے تھے تو آپ ﷺ بھی کم از کم کو صفا کو سونا تو بنا دیں۔ ایسے مطالبوں کے جو اب میں یہ آیت نازل ہوئی کہ ایمان لانے کے لیے ایسی باتوں کو دیکھنے کی ضرورت نہیں۔ سمجھدار لوگوں کے لیے کائنات میں اللہ تعالیٰ کی قدر کی لاکھوں نشانیاں مو جود ہیں ( درمنشور) مگر حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں کہ اس واقعہ کو شان نزول قرار دینا مشکل ہے کیونکہ یہ آیات مدنی ہیں اور صفا کو سونا بنانے کا مطا لبہ مکہ میں کیا گیا تھا۔ (ابن کثیر) فائدہ اس آیت سے آخر سورت تک آیات کی بڑی فضیلت ہے۔ آنحضرت ﷺ رات کو تہجد کے لیے اٹھتے تو ان کی تلاوت فرمایا کرتے تھے۔ آل عمران
191 ف 5 پہلی آیت ربوبیت کی تقریر تھی اب عبو دیت کا ذکر ہے یعنی دل وزبان اور جوارح ہر حالت میں ذکر الہیٰ میں مشغول رہتے ہیں (بیضاوی) اس آیت کے تحت آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اگر بیٹھ کہ نماز نہ پڑھ سکو تو (لیٹ کر) پہلو پر پڑھ لیا کرو،(ابن کثیر) ف 6 یعنی زمین آسمان کو پیدا کرنے میں اللہ تعالیٰ نے جو حکمت رکھی ہے وہ پر غور وفکر کرتے ہیں۔ حضرت حسن بصری (رح) فرماتے ہیں ایک ساعت کا غور و فکر رات بھر کے قیام سے بہتر ہے۔ حضرت عمر (رض) بن عبدالعزیز فرماتے ہیں زبان سے اللہ کا ذکر کرنا اچھا ہے لیکن اللہ کی نعمتوں پر غورو فکر کرنا اس سے بھی بہتر ہے (ابن کثیر) علوم ہیئت فلکیات اور ریاضی کو اگر دینی نقطہ نظر سے پڑھا جائے تو فی الجملہ عبادت میں داخل ہے۔ ک ف 7 عبث نہیں بنایا یعنی اس عالم کی انتہا ہے دوسرے عالم میں (مو ضح) ف 8 یعنی غوروفکر سے ان پر یہ حقیقت کھلتی ہے کا کا ئنات کا یہ سارا نظام یوہی نہیں پیدا کیا گیا بلہ اس کے پیچھے یہ مقصد کار فرما ہے کہ انسان دنیا میں اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق زندگی بسر کرے تو اجر وثواب پائے اور نافرمانی کرے تو آخرت میں عذاب کی سزا بھگتے اس لیے وہ آگ سے محفوظ کئے جانے دعا کرتے رہتے ہیں۔ (وحیدی) آل عمران
192 آل عمران
193 ف 9 اس سے مراد آنحضرت ﷺ ہیں یا قرآن اور پھر ہر وہ شخص مراد ہوسکتا ہے جو دعوت الہیٰ الحق پیش کرے (قرطبی کبیر) ف 10 ابراد یہ بر کی جمع ہے اور اسکا مطلب یہ ہے کہ نیک لوگوں ساتھ ہمارا حشر فرما اور ابرار سے مراد خاص طور انبیا ( علیہ السلام) بھی ہو سکتے ہیں یعنی مرنے کے بعد ہمیں ان کے غلاموں میں شامل فرما (وحیدی ) آل عمران
194 ف 11 یعنی یعنی اپنے رسولوں کے ذریعے ان کی تصدیق اور اتباع کرنے پر دنا اور آخرت میں جس اور اجر ثواب کا تو نے ہم سے وعدہ فرمایا ہے وہ ہمیں عطا فرما (المنار ) ف 1 یعنی ہمیں یہ اندیشہ تو نہیں ہے کہ تو وعدہ خاف ورزی کرے گا بلکہ ہمیں ڈرا پنے ہے اعمال سے ہے کہ یہ اچھے نہیں ہیں۔ اگر تو اپنی رحیمی و کر یمی اور ستاری سے ہماری کو توہیوں کو معاف فرمادے توہماری عین سر فرازی اور تیری بندہ نوازی ہے۔ (وحیدی) پس کلمہ انک لاتخلف المیعاد سے مقصد خضوع وذلت اور عبودیت کا اظہار ہے نہ کہ اس کا مطالبہ کیونکہ باری تعالیٰ سے خلف وعدہ تو ایک دم محال ہے۔ پھر مومنین اس کا تصور کیسے کرسکتے ہیں (کبیر) قبولیت کا یہ وعدہ ایمان اور عمل صالح پر مترتب ہوتا ہے لہذا دعا کی قبولیت کے لیے کسی نیک ہستی کو وسیلہ بنانا کہ یا اللہ فلاں کی طفیل میری یہ مشکل حل فرمادے قرآن و حدیث میں جو ادعیہ ماثو رہ ہیں ان کے خلاف ہے۔ (المنا ر) آل عمران
195 ف 2 یہاں قرآن نے اسبابت دعا کو فا سببیہ کے ساتھ بیان فرمایا ہے یعنی اوصاف مذکورہ کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا کو شرف قبولیت بخشا پھر ان کی دعا کی قبولیت کی صورت اور کیفیت کا بھی ذکر فرمادیا ہے کہ ذات باری تعالیٰ کسی عمل کے عمل کو ضائع نہیں ہونے دے گی یعنی ہر عامل کو اس کے عمل کی جز اور ثواب مل کر رہے گا اور یہ دعا بھی من جملہ نیک ہے اعمال کے ہے لہذا اس پر بھی جزامترتب ہوگی اور ہر جملہ انی لا اضع علم عامل منکم میں تنبیہ فرمائی ہے کہ اخروی نجات اور حسن ثواب کے ساتھ فوزو فلاں عمل میں احسان واخلاص پر ہے نسیبی شرف یا مرد ہونے کی اس میں کچھ دخل نہیں ہے۔ اخروی وعند اللہ درجات حاصل کرنے میں مرد اور عورت دونوں برابر ہیں۔ عورت یہ خیال نہ کرے کہ مرد کو اجتماعی سیادت حاصل ہے لہذا اس کو نیک اعمال کا بدلہ بھی عورت سے زیادہ ملے گا۔ یہ نہیں ہے بلکہ جب یہ دونوں انسانیت میں مساوی حاصل نہیں ہو سکتی۔ قرآن نے من ذکر اوانلی بعضکم من بعض فرماکر عورت کے مقام کو مرد کے برابر کردیا ہے اور آنحضرت ﷺ نے یہ فرما کر النسا سق لو الر جال کہ طبا ئع و اخلاق میں عورتوں مردوں کے برابر ہیں) عورت کی حیثیت کو بلند اور ارفع بنا دیا ہے۔ قبل ازاسلام عورت کو ایک مرد کی جنسی خواہش پوری کرنے کے لیے وجود میں آئی ہے اور بعض لوگ تو عورت میں روح کے ہی قائل نہ تھے اور بعض مذاہب مرد کو محض مردہو نے کی وجہ سے عورت پر فوقییت دیتے تھے۔ قرآن نے بعضکم من بعض فرماکر ان سب نظریات کی تر ید فرمادی تاہم مرد و عورت کی جدا کانہ ذمہ داریوں کے اعتبار سے فطر تا ان کی صلاحتیوں میں بھی اختلاف ہے۔ اجتماعی اور معاشرتی زندگی میں نہ مر دعورت بن سکتا ہے اور نہ عورت مرد کی جگہ لے سکتی ہے۔ (المنار) سلسلہ بحث کے لیے دیکھئے (سورت النسا آیت 34) ف 3 یعنی جنہوں نے آنحضرت ﷺ کی خدمت کے لیے اپنی خوشی سے ہجرت کی اپنے وطن اور مال ومنال کو خیر باد کہکر مرکز اسلامی میں پہنچ گئے اور وہ لوگ جن پر کفار نے ظلم وستم ڈھائے۔ انہیں سخت اذیتیں پہنچاکر گھر بار چھوڑ نے پر مجبور کردیا۔ انہیں کسی طرح چین سے نہ بیٹھے دیا اور انہیں محض اس لیے تکا لیف کا نشانہ بنایا کہ انہوں نے دین اسلام کی راہ اختیار کی جیسا کہ دوسرے مقام پر فرمایا۔ یُخْرِجُونَ الرَّسُولَ وَإِیَّاکُمْ أَنْ تُؤْمِنُوا بِاللَّہِ رَبِّکُمْ ( سورت المتحنہ : ١) یعنی یہ کافر پیغمبر ﷺ اور تمہیں گھروں سے محض اس جرم کی باداش میں نکا لتے ہیں کہ تم اپنے رب پر ایمان رکھتے ہو۔ نیز سورت ابروج میں فرمایا : وما انقمو امنھم الا ان یمو منو اباللہ العزیز الحمید کہ ان مومنوں کی یہی بات بر لگتی ہے کہ وہ خدا پر ایمان لے آئے ہیں جو غالب اور قابل ستائش ہے دفی ہذا آیات کثیر ۃ (ابن کثیر، کبیر ) آل عمران
196 آل عمران
197 ف 4 اوپر کی آیات میں مومنوں سے غفران ذنوب اور ثواب عظیم کا وعدہ فرمایا ہے حالا نکہ وہ فقر وفاقہ کی حالت میں بسر کر رے ہیں تھے ان کے بالمقابل کفا نہایت عیش وتنعم میں تھے ان کو دیکھ کر بعض اوقات مسلمان غلط فہمیوں کا شکار ہوجاتے اور مختلف خیالات کی دنیا میں چلے جا نے لہذا ان آیات میں مسلمانوں کا ذہن صاف کرنے کے لیے کفار کا انجام بیان فرمایا ہے اور مسلمانوں کو تسلی دی ہے۔ (کبیر) مروی ہے کہ بعض مسلمانوں نے کہا اللہ تعالیٰ کے دشمن تو بڑی عیش وعشرت کی زندگی بسر کر رہے ہیں اور ہم نہایت عسرت اور تنگی میں مبتلا ہیں تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی فرا کا بیان ہے کہ یہ آیت یہود کے بارے میں ناز ہوئی ہے (المنا) مقصد یہ ہے کہ کفار کے شہروں میں تجا رتی کا روبار ان کی خوشحالی اور مال ودولت کی فروانی کو دیکھ کر مسلمانوں کے دلو میں کسی قسم کا حزن وغم اور بغض نہیں آتا چاہیے نہ ان کے پاس کا شکار ہونا چاہئے ارونہ منا فیقن ہی کو جو شدت و خوف کے وقت پکار اٹھتے ہیں۔ ماوعد نا اللہ روسولہ غرور۔ ( احزاب آیت 12) یعنی پیغمبر نے تو ہم سے محض فریب اور دھو کے کا وعدہ کیا ہے اس استدلال کرنا چاہیے یہ چند روزہ زندگی کا سامان اور عارضی بہار ہے مرنے کے بعد ان کا ٹھکانہ جہنم ہے اور ہو نہایت ہی برا ٹھکانہ ہے اس کے مخاطب بظاہر تو آنحضرت ﷺ مگرمراد امت ہے (المنار۔ شوکانی) اس کے اگلی آیت میں مومنین کی جزا کا ذکر فرمایا ہے تاکہ مزید تشفی حاصل ہو اور چونکہ کفار کے مقابلہ میں بیان کی جارہی ہے اس لیے لکن کا لفظ بطور استدراک ذکر فرمادیا۔ (المنار ) آل عمران
198 آل عمران
199 ف 1 یہ آیت ان اہل کتاب (یہود اور عیسا ئیوں) کے حق میں نازل ہوئی ہے جو سچے دل سے مسلمان ہوگئے تھے، بعض روایات میں ان کی کل تعدادد 80 مذکور ہے جن میں عبد اللہ بن سلام اور اصجمہ نجاشی بادشاہ حبشہ بھی شامل ہے۔ نجا شی کی موت کی خبر آنے پر آنحضرت ﷺ نے مدینہ اس کی غائبانہ نماز جنازہ بھی پڑھائی۔ (لباب النقول، کبیر ) آل عمران
200 ف 2 اصبروا یعنی اسلام پر ثابت قدمی سے جم ہے رہو۔ صابر وا یعنی کافر کے مقابلہ میں ان سے بڑھ کر دین اسلام پر پامردی اور ثابت قدمی کا مظاہر کرو رابطوا۔ دشمنوں سے جباو کے لیے ہمیشہ مستعد رہو۔ صحیح بخاری میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں رباط (سرحدوں کی حفاظت) دنیامافیہا سے افضل ہے اور احادیث میں تکلیف کے اوقات میں پوری طرح وضو کرنے مسجد کو چل کر آنے اور پھر ایک نماز بعد دوسری نما کا انتظار کرنے کو بھی آنحضرت ﷺ نے رباط فرمایا ہے ( ابن کثیر ) ف 3 یعنی ان سب عمال کی روح تقویٰ ہے۔ تقویٰ کے باعث ہی یہ اعمال فلاح کا سبب بن سکتے ہیں۔ آل عمران
0 ف 4 یہ پوری سورت مدنی ہے۔ صحیح بخاری میں حضرت عائشہ (رض) سے مروی ہے کہ سورت النسا اس وقت نازل ہوئی جب بنا (رخصتی) کے بعد آنحضرتﷺ گھرآچکی تھی اور حضرت عائشہ (رض) کی رخصتی ہجرت سے آٹھ ماہ بعد عمل میں آئی (ابن کثیر۔ المنار۔ ابن کثیر النسآء
1 ) ف 5 یعنی پوری نوع انسانی ابو ال لبشر آدم (علیہ السلام) کی نسل سے ہے اسی ایک نفس سے اللہ تعالیٰ نے اس کا جوڑا (حوا) پیدا کیا۔ بعض نے منھا کر ترجمہ ای من جنسھتا کیا ہے مگر یہ صحیح نہیں کیونکہ اس سے لازم آّتا ہے کہ نفس واحدۃ نہیں بلکہ دونفسوں انسان کی تخلیق کی ابتدا ہوئی اور ظاہر ہے کہ نص قرآن کے خلاف ہے۔ روح لمعامی) اب یہ سوال کہ آدم ( علیہ السلام) سے ان کی زوج کی تخلیق کیسے ہوئی قرآن نے اسے بیان نہیں نہیں کیا اور احادیث صحین سے یہ تو ثابت ہے کہ عورت پسلی سے پیدا ہوئی ہے اور بعض روایات میں فالھر خلقن من ضلع بھی بھی آیا ہے کہ سب عورتیں پسلی سے پیدا ہوئی مگر کسی صحیح حدیث سے یہ ثابت نہیں ہے کہ خصوصیت کے ساتھ حضرت حوا ( علیہ السلام) (زوج آدم) آدم ( علیہ السلام) کی پسی سے پیدا کی گئی ہیں۔ بلکہ یہ روایت حضرت ابن عباس (رض) پر موقوف ہے اور یہی تصریح چونکہ توراۃ میں بھی وارد ہے اس لیے اغلب یہ ہے کہ یہ روایت اہل کتاب سے اخذ کی گئی ہے۔ اس بنا پسلی سے پیدا کئے جانے والی روایت کتاب سے اخذ کی گئی ہے۔ اس بنا پر پسلی سے پیدا کئے جانے والی روایت کی علما نے تاویل کی ہے کہ اس سے عورت کی فطرت اور طبعیت کی طرف اشارہ ہے اور بعد میں حدیث کا تتمہ فان ذھبت تقنھا کسر تھا اوکما قال سے مزید اس تاویل کی تائید ہوتی ہے۔ واللہ اعلم) ف 6 اس کا عطف اللہ پر ہے ای وتقوا الارحام یعنی قطع رحمی اور رشتے داروں کے ساتھ بد سلو کی سے بچو۔ اس کو الا رحام کسریوم کے ساتھ بڑھنا لحن ہے اور قواعد نحو یہ کی روسے بھی ضعیف ہے ہاں معنی کے اعتبار سے صحیح ہے یعنی قطع رحمی سے ڈرو جس کے واسطے تم ایک دوسرے سے سوا کرتے ہو۔ (کذافی القرطبی) امام شوکانی فرماتے ہیں کہ تمام عمائے شریعت ولغت کا اتفاق ہے کہ ارحام سے محروم اور غیر محرم تمام رشتے مراد ہیں۔ (فتح القدیر) قرآن و حدیث میں قطع رحمی کی بہت مذمت آئی ہے ایک حدیث میں ہے کہ رحم کا عرش معلمہ کے ساتھ معلق ہے اور کہہ رہا ہے جو شخص مجھے توڑے گا اللہ تعالیٰ بھی اسے توڑے گا اور جو مجھے جوڑے گا اللہ تعالیٰ بھی اسے جو ڑے گا۔ ( بخاری مسلم) ف 7 یعنی تمہارے تمام احوال واعمال کو دیکھ رہا ہے۔ (ابن جریر) النسآء
2 ف 8 یعنی جب یتیم بالغ ہوجائیں تو ان کے اموال ان کے سپرد کر دو اور یہ نہ کرو کہ یتیم کے مال سے اچھی چیز لے ر اس کی جگہ ردی چیز رکھ دو، بعض نے طیب اور خبیث کے یہ معنی کئے ہیں کہ اپناما حلال مال چھوڑ کر دسرے کا حرام مال مت کھا و (ابن کثیر) اور آیت میں الی بمعنی مع کے ہے یعن ان کے اموال کو ناجائز کھا نے کے لیے اپنے مالوں کے ساتھ مت ملا ایسا کرنا کبیرہ گنا ہے حوب کے معنی گناہ کے ہیں ایک دعا میں ہے۔، اللھم اغفر حوبتی اے اللہ مرے گناہ بخش دے۔ (قربطی) النسآء
3 ف 9 آیت کی شان نزول کے بارے میں حضرت عائشہ (رض) عروہ بن زبیر (رض) کے ایک استفسار کے جواب میں فرماتی ہیں کہ بعض یتیم لڑکیاں لوگوں کے دامن پر ورش میں ہوتیں وہ ان لڑکیوں کے مال دار اور قبول صورت ہونے کی وجہ سے ان کے مال وجمال پر گرویدہ ہوجاتے اور ان سے نکاح کرلیتے لیکن ان کو اپنے گھر کی لڑکیاں سمجھ کر پرائے گھر کی لڑکیوں جیسا نہ تو مہر دیتے اروانہ ان کے دوسرے حقوق ہی ویسے ادا کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں انہیں ایسا کرنے سے منع فرمایا کہ اگر یتیم لڑکیوں سے تم ان کے مہر اور نفقات میں انصاف نہیں کرسکتے تو ان کے علاوہ تمہیں دوسری عورتوں س نکاح کی اجازت ہے۔ (قرطبی۔ شوکانی) اس آیت حضرت ابن عباس (رض) اور جمہور علمائے نے لکھا ہے کہ ایک شخص کے لیے بیک وقت چار سے زائد عورتیں اپنے حرم میں رکھنا جائز نہیں ہے۔ امام شافعی فرماتے ہیں کہ سنت سے صراحت کے ساتھ یہ مسئلہ ثابت ہوتا ہے، حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں وھذالذی قالہ الشافعی مجع علیہ من العلما غیلان بن سلمتہ الظقفی اور بعض دیگر صحابہ (رض) کے متعلق مذکور ہے ہے کہ جب وہ مسلمان ہوئے تو ان کے حرم میں چار عورتیں تھیں۔ آپ ﷺ نے ہر ایک فرمایا ختر منھن اربعا کہ ان میں سے صرف چار کا انتخاب کرلو اور باقی کو طلاق دیدو۔ امام قرطبی لکھتے ہیں رافضی اور بعض دیگر علمائے اس آیت سے استدلال کرتے ہیں کہ چار سے زائد بھی جائز ہیں۔ مگر یہ لغت اور سنت سے جہالت کا نتیجہ ہے۔ ان کے مقابلہ میں اسلام کے تعداد ازواج کے مسئلہ پر معاندین نے اعتراضات بھی کئے ہیں جن کے علما نے مسکت جوابات دیئے ہیں ف 10 یعنی قرآن نے انصاف نہ کرسکنے کے اندیشہ کی بنا پر ایک سے زائد بیو یوں شادی نہ کرنے کی تلقین کی ہے اور فرمایا ہے کہ ظلم سے بچنے کی یہ قریب ترین صورت ہے، بعض نے ان لا تعو لوا کے یہ معنی بھی کئے ہیں کہ تمہارے عیال زیدہ نہ ہوجائیں اور تم فقیر نہ ہوجا و مگر پہلے معنی زیادہ صحیح ہیں۔ ابن کثیر ) النسآء
4 ف 1 لیکن بعض مفسرین نے اس کے معنی واجبتہ اور فریضتہ کئے ہیں اور اس پر اجماع ہے کہ شوہر کے ذمہ بیوی کا مہر ادا کرنا واجب ہے۔ (فتح القدیر) ف 2 ہاں اگر عورت اپنی خوشی سے بغیر کسی دباو کے مہر معاف کر دے تو نہ دینے میں کوئی حرج نہیں ہے (ابن کثیر النسآء
5 ) ف 3 یہاں بیوقوفوں کی صلا حیت نہ رکھتے ہوں۔ اس میں چھو ٹے بچے اور ناتجر نہ کار بیوی بھی آجاتی ہے اور نادان یتیم بھی۔ یعنی اگر تجربہ کار اور کم عقل ہوں تو وصی یا متولی کو چاہیے کہ یتیم کے مال سے اس کے کھا نے پینے اور لباس کا انتظام کرتا رہے مگر وہ مال اس کے سپرد نہ کرے۔ اس آیت سے علما نے سفیہ (کم عقل) پر حجر کا حکم اخذ کیا ہے کہ حاکم وقت اس کے تصرف پر پابندی لگا سکتا ہے (ابن کثیر ) النسآء
6 ف 4 یعنی یتیموں کا امتحان اور ان کی تربیت کرتے رہو جس کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ پہلے تھوڑا سامال دے کر ان کو کسی کام پر لگا کے دیکھو کہ آیا یہ اپنے مال کو بڑھاتے یا نہیں پھر جب وہ بالغ ہوجائیں اور ان میں رشد ہو تو با توقف مال ان کے حوالے کر دو۔ رشد سے مراد عقلی اور ادینی صلاحیت ہے پس بالغ ہونے کے علاوہ مال کی سپرد داری کے لیے رشد بھی شرط ہے۔ اگر کسی شخص میں رشد نہیں ہے تو خواہ وہ بوڑھا ہی کیوں نہ ہوجائے متولی یا وصی و چاہئے کہ وہ مال اس کے حوالے نہ کرے (قرطبی۔ ابن کثیر) ف 5 یعنی جس سے کم از کم ضرورت پوری ہو سکتے ف 6 یتیم کے متولی یا وصی کو حکم ہے کہ گواہوں کے روبرو مال واپس کرے تاکہ کل کو اس پر کوئی الزام نہ آۓ۔ النسآء
7 ف 7 اس آیت میں ایک اصولی حکم دیا ہے کہ ماں باپ اور رشتہ داروں کی چھوڑی ہوئی جائداد میں چاہے وہ کسی نو عیت کی ہو جس طرح مردوں کا حق ہے اسی طرح عورتوں اور چھو ٹے بچوں کا بھی حق ہے اس عرب کے جاہلی دوستو کارد کرنا مقصود ہے۔ وہ عورتوں اور بچوں کو میت کے متروکہ مال اور جائداد سے محروم کردیتے اور صرف بالغ لڑ کے ہی جائدا پر قبض کرلیتے۔ آیت کی شان نزول ارمردوں اور عورتوں کے حصوں کی تعین بعد کی آیات میں آرہی ہے (ابن کثیر۔ شوکانی ) النسآء
8 ف 8 یعنی ورثہ کو چاہئے کو متر کہ مال میں سے کچھ حصہ بطور صدق وخیرات ان رشتہ داروں یتیموں اور مسکینون کو بھی دیں جو خاندان میں موجود ہوں تقسیم کے وقت موقع پر پہنچجائیں اراگر یہ لوگ زیادہ کی حرص کریں تو نرمی سے ان سے بات کرو۔ یعنی معذرت کردو یہ وارثﷺ کا مال ہے تمہار حق نہیں ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں فرائض یعنی روثہ کے مقررہ حصے نازل ہونے سے پہلے یہ حکم تھا۔ فرائض نازل ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ نے ہر صاحب حق کو اس کا حق دے دیا ہے اب یہ بخشش نہیں ہے اور صدقہ و خیرات میت کی وصیت سے ہی ہوسکتا ہے یہی مذہب جمہور فقہا ائمہ اور ابعہ اور ان کے متبعین کا ہے لیکن بعض اب بھی کچھ صدقہ وخیرات کے قائل ہیں۔ چنانچہ بخاری میں حضرت ابن عباس (رض) سے یہ بھی مروی ہے کہ یہ آیت محکم ہے اور روثہ کو حکم ہے کہ تقسیم تر کہ وقت رشتہ داروں صلہ رحمی کر کریں ( ابن کثیر۔ قرطبی) النسآء
9 ف 1 یہ حکم میت کے وصیت سن کر نافذ کرنے والوں کو ہے اور ان لوگوں کو بھی جو یتیموں کے سر پرست اور وصی مقرر ہوں۔ ان سب کو ہدایت کی جارہی ہے وہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے میت کی اولاد اور یتیموں کو مفاد کا سی طرح خیال رکھیں جس طرح وہ چاہتے ہیں کہ ان کے مرنے کے بعد ان کی چھو ٹی اور بے بس اولاد کے مفاد کا خیال رکھا جائے۔ لہذا انہیں یتیموں سے بہتر سے بہتر سلوک کرنا چاہیے اور ان کی عمدہ سے عمدہ تعلیم و تربیت کرنا چایئے یتیموں کے اولیا سے اس آیت کا تعلق انسب معلوم ہو تو ہے کیونکہ بعد میں یت امیٰ کی حق تلفی کرنے والوں کو متعلق جو وعید آرہی ہے اس کے ساتھ زیادہ منا سبت پائی جاتی ہے، ( ابن کثیر۔ قرطبی) النسآء
10 ف 2 علاوہ ازیں احادیث میں بھی ایسے لوگوں کے حق میں سخت وعید آئی ہے ایک حدیث میں ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا اخبتنو السبع الموبقات کہ سات مہلک گناہوں سے بچوں ان میں سے ایک گناہ یتیم کا مال کھانا ہے۔ (بخاری مسلم بروایت ابوہریرہ (رض) ایک دسری حدیث میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا معراج کے موقع پر مجھے ایسے آدمیوں کے پاس لے جایا گیا جن میں سے اک کا ہو نٹ اونٹ جیسا تھا ان پر کچھ لوگ مقر تھے جو ان کے جبڑے اکھاڑتے اور آگ کا یاک بتھر ان کے منہ میں ڈالتے تھے وہ پھتر ان کے نیچے سے نکل جاتا اور وہ انتہائی زور سے چیختے چلاتے۔ میں نے جبرئیل سے دریافت کیا کہ کہ کون لوگ ہیں انہوں نے جواب دیا ظلم سے یتیموں کا مال کھا نے والے۔ (ابن کثیر ) النسآء
11 ف 3 اب اس رکوع میں روثہ کے تفصیل حصص کا بیان ہو رہا ہے۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ دونوں آیتیں اور اس سورۃ کے خاتمہ والی آیت علم وراثت میں اصول کی حیثیت رکھتی ہیں۔ وراثت کے تمام مسائل ان تین آیات سے منتنبط ہیں اور وراثت سے متعلق احادیث بھی ان آیات ہی کی تفسیر ہیں۔ ( ایک حدیث میں ہے کہ جب حضرت جابر (رض) بن عبد اللہ بیمار ہوئے تو آنحضرتﷺ اور حضرت ابو بکر (رض) ان کی عیات کے لیے تشریف لے گئے جابر (رض) نے آنحضرت ﷺ سے اپنے مال کے بارے میں دریافت کیا اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور بعض روایت میں ہے سعد بن ربیع وفات پاگئے اور ان کے چچا نے ان کا سارا ورثہ سنبھال لیا۔ سعد (رض) کی دو لڑکیاں تھیں ان کی بیوی نے آنحضرت ﷺ سے ورثہ کا سوال کیا تو یہ آیت نازل ہوئی مطلب یہ ہے کہ جب اولاد میں لڑکے اور لڑکیاں دونوں موجود ہوں تو لڑکے کو لڑکی سے دوگنا حصہ ملے گا۔ اس کو دو حصو دینے کو جہ سے ہے کہ مرو پر نہ نسبت عورت کے معاشی ذمہ داریاں بہت زیادہ ہوتی ہیں اس بنا پر اس کو عورت سے دوگنا حصہ دینا عین قرین انصاف ہے۔ ( قرطبی۔ ابن کثیر) ف 4 یہی حکم دو لڑکیوں کا بھی ہے۔ حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ سعد (رض) بن ربیع کی دو لڑکیاں ہی تھیں جب کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی ہے چنانچہ آنحضرت ﷺ نے ان کو دہ تہائی حصہ کا حکم دیا۔ (ابو داود۔ ترمذی) پھر اس سورت کی آخری آیت میں جب دو بہنوں کو تہا حصہ دیا گیا ہے تو دو بیٹو کو بدر جہ اولی ٰ دیا جاتا ہے چاہئے۔ لہذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ دو لڑکیوں کا دوتہائی حصہ قرآن و حدیث دونوں سے ثابت ہے۔ (ابن کثیر۔) اس حکم سے چند صورتیں مستثنی ہیں (1) حدیث میں ہے کہ آنحضرت نے فرمایا لا نورث مابر کنا صدقتہ لہذا آنحضرت ﷺ کی میراث تقسیم نہیں ہوگی۔ (دیکھئے سورت مریم آیت 6) عمدا قتل کرنے والا اپنے مقتول کا وارث نہیں ہوسکتا یہ حکم سنت سے ثابت ہے اس پر امت کا اجماع ہے 3) حدیث میں ہے لا یرث المسلم الکافر کہ کافر مسلمانوں کا وارث سے محروم ہوگا۔ قرطبی) ف 5 اس سے بھی معلوم ہوا کہ جب ایک بیٹی کو حصہ نصف ہے تو دو یادو سے زیادہ بیٹیوں کا حصہ دو تہائی ہونا چاہئے۔، یعنی میت کی اولاد ہونے کی صورت میں ماں باپ دونوں میں سے ہر ایک کل ترکہ کا چھٹا حصہ ملے گا بشرطیکہ ذوی الفروض میں دوسرا اور کوئی موجود نہ ہو۔ مثلا میت کی ایک بیٹی اور ماں باپ میں تو تر کہ اور باقی دو حصے باپ کو دے دیئے جائیں (ابن کثیر) ف 7 یہ ماں باپ کی دوسری حالت ہے یعنی اگر میت کی کوئی اولاد نہ ہو اور اس کے ماں پاب زندہ ہوں تو ماں کو ایک تہائی حصہ ملے گا اور بقیہ د وتہائی حصہ باپ کو مل جائے گا اور اگر ماں باپ کے ستھ میت کے مرد ہونے کی صورت میں بیوی اور عورت ہونے صورت میں اس کا شوہر بھی زندہ ہو تو شوہر کا حصہ۔ جس کا ذکر آتے آرہا ہے۔ پہلے نکالنے کے بعد باقی ماندہ میں سے ماں کو ایک تہائی اور باپ کو دو تہائی حصہ ملے گا۔ اس صورت میں تو بعض علما کل مال سے ماں کو ایک تہائی دینے کے قائل ہیں مگر اصح یہی ہے کہ بقیہ میں سے ایک تہائی دی جائے گا، چنانچہ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں : وھو قول الفقھا السبعہ الائمہ الا ربعتہ جمھور العلم (ابن کثیر) ف 8 یہ ماں باب کی تیسری حالت بیان ہے یعنی اگر میت کے کوئی اولادنہ ہو اور ماں باپ کے علا وہ صرف بھائی ہوں (خواہ ماں باپ دونوں سے یا صرف ماں سے یا صرف باپ سے) تو باپ کی موجودگی میں انہیں کیوئی حصہ نہیں ملے گا البتہ وہ ماں کا حصہ تہائی سے چھٹا کردیں گے اور اگر ماں کے ساتھ سوائے باپ کے کوئی دوسرا ورث نہ ہو تو بقیہ سارا حصہ 5 6 باپ کو مل جائے گا اور یہ یاد رہے کہ اخوۃ جمع کا لفظ ہے اویہ جمہور علما کے نزدیک وہ کو بھی شامل ہے لہذا گر صرف ایک بھائی ہو تو وہ ماں کا تہائی سے چھٹا حصہ نہیں کرسکتا۔ (ابن کثیر) ف 9 میت کے مال سے اول متعلقہ ادا کئے جائیں پھر کفن ودفن پر صرف کیا جائے پھر باقی ماندہ سے حسب مراتب قرض ادا کیا جائے گا پھر ثلث مال سے وصیت کا نفاذ ہو اس کے بعد ورثہ کے درمیان باقی تر کہ کے حصے کئے جائیں۔ (قرطبی) قرآن میں گو قرض کا ذکر وصیت کے بعد ہے مگر سلف وخلف کا اس پر اجماع ہے کہ ادائے قرض پر مقدم ہے لہذا پہلے قرض ادا کیا جائے پھر وصیت کا نفاز ہونا چاہئے امعان نظر کے بعد آیت کے فو یٰ سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے نیز حضرت علی (رض) بن ابی طالب سے روایت ہے کہ آنحضرتﷺ نے وصیت سے قبل قرض ادا کرنے کا حکم ادا کرنے حکم فرمایا (ترمذی) اس حدیث میں حارث اعو گو مجروح ہے مگر کان حافظا اللفرائض معتنیا بھا وبا لحساب (ابن کثیر) الہذا یہ حجت ہے اور یہ روایت دار قطنی نے حارث اعور کی بجائے عاصم بن ضمرۃ عن علی (رض) ذکر کی ہے اور قرآن میں اس تقدیم ذکری کے علما نے متعد جوابات دیئے ہیں۔ (قرطبی) ف 10 یعنی اللہ تعالیٰ علیم وحکیم ہے۔ میراث کا یہ قانون اس لیے مقرر فرمایا کہ تم اپنے نفع ونقصان کو نہیں سمجھتے اگر تم اپنے اجتہاد سے ورثہ تقسیم کرتے تو تو حصوں کا ضبط میں لانا مشکل تھا۔ (قرطبی ابن کثیر) شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں یعنی ان حصوں میں عقل کا دخل نہیں اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمائے ہیں وہ سب سے دانا تر ہے۔ (موضح) النسآء
12 ف 11 یہ بیوی کی ایک حالت ہے۔ اولاد کی عدم موجودگی میں پوتوں کا بھی یہی حکم ہے اس پر علما کا اجماع ہے۔ (قرطبی۔ شوکانی) ف 1 ی دوسری حالت ہے پھر بیوی ایک ہو یا ایک سے زیادہ سب چوتھائی یا آٹھوین حصہ میں شریک ہوں گی، اس پر علما کا اجماع ہے۔ قرطبی۔ ابن کثیر) ف 2 کوئی مرد یا عورت مرجائے اور اس کا باپ اور اولاد نہ ہو تو اس کے ورثہ کو کلا لہ کہا جاتا ہے۔ کلالہ کی یہی تشریح حضرت ابو بکر (رض) حضرت عمر (رض) اور حضرت علی (رض) سے مروی ہے اور اسی کو جمہور اہل علم نے قبول کیا ہے بعض ایسی میت کو بھی کلالہ کہتے ہیں۔ (قرطبی، شوکانی) بھائی بہن تین طرح کے ہوتے ہیں۔ عینی یعنی یک ماں باپ سے علاتی یعنی باپ کی طرف اخیافی یعنی صرف ماں کی طرف سے۔ یہاں بالا تفاق اخیافی بھائی بہن مراد ہیں جیسا کہ ایک قرات میں بھی ہے۔ (ابن کثیر) ف 4 اور ان میں سے ہر ایک کو برابر حصہ ملے گا یعنی مرد کو عورت پر فضلیت نہیں ہوگی جیسا کہ آیت میں شرکا فی الثلث کہا یک تہائی میں سب شریک ہوں گے اسے معلوم ہوتا ہے۔ اسی کی مطابق حضرت عمر (رض) نے فیصلہ فرمایا او ظاہر ہے کہ ایسا فیصلہ محض اجتہاد سے نہیں ہوسکتا۔ (ابن کثیر) اس کے مطابق حضرت عمر (رض) نے فیصلہ فرمایا ( ابن کثیر) فائدہ اخیافی بھائی چاراحکام میں دوسرے وارثوں سے مختلف ہیں (1) یہ صرف ماں کی جہت سے ورثہ لیتے ہیں (2) ان کے مرد عورت کو مساوی حصہ دیا جاتا ہے (3) ان کو صرف میت کے کلام ہونے کی صورت میں حصہ ملتا ہے (4) خواہ کتنے ہی ہوں ان کا حصہ ثلث سے زیادہ نہیں ہوتا مثلا ایک میت کا شوہر۔ ماں دو اخیافی اور دوسرے عینی بھائی بھی موجود ہوں تو جمہور اہل علم کے نزدیک شوہر کو نصف ماں سدس ملے گا اور بقیہ تہائی حصے میں اخیافی بھائیوں کے ساتھ عینی بھائی شریک ہوں گے، حضرت عمر (رض) نے اسی قسم کے ایک مقدمہ یہی فیصلہ صادر ررماتا تھا اور صحابہ (رض) میں سے حضرت عثمان (رض)، ابن مسعود، ابن عباس اور زید (رض) بن ثابت اور ائمہ میں سے امام مالک (رح) اور شافع (رح) کا یہی مسلک ہے البتہ حضرت علی (رض) اخیافی بھائیوں کو دیگر سگے بھائیوں کو وصبہ ہونے وجہ سے محروم قرار دیتے ہیں شوکانی اس دوسرے مسلک کو تر جیح دی ہے۔ ( ابن کثیر۔ فتح القدیر) ف 5 مھیر صار یہ منصوبہ علی الحال ہے اور اس کا تعلق وصیت اور قرض دونوں سے ہے۔ وصیت میں نقصان پہنچا نا ایک تو یہ ہے کہ تہائی مال سے زیادہ وصیت کرے ایسی صورت میں تہائی سے زائد وصیت کا نفاذ نہیں ہوگا دوسری صورت یہ ہے کہ کسی وارث کو مزید رعایت سے زائد مال دلو ایا جائے اس کا بھی اعبتار نہیں ہوگا۔ الا یہ کہ تمام ورثہ برضاروغبت اسے قبول کرلیں اور قرض نقصان پہنچانا یہ ہے کہ محض وارثو کا حق تلف کرنے کے کے لیے مرنے ولا ہے اپنے ذمہ کسی ایسے قرض کا اقرار کرے جو حقیقت میں اس کے ذمہ نہ ہو۔ حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ وصیت میں نقصان پہنچا نا کبیرہ گناہ ہے جو مسند احمد میں حضرت ابوہریر (رض) سے روایت ہے کہ ایک آدمی ستر برس تک نیک عمل کرتا رہتا ہے مگر مرتے وقت وصیت میں ظلم کرتا ہے جہنم میں چلا جاتا ہے۔ (ابن کثیر۔ قر طبی ) النسآء
13 النسآء
14 النسآء
15 ف 1 اوپر کی آیات میں عورتوں کے ساتھ احسان اور ان کے مہر ادا کرنے اور مردوں کے ساتھ ان کے وراثت میں شریک قرار دیکر ان کے حقوق کی حفاظت کا بیان تھا۔ اب یہاں سے عورتوں کی تادیب اور ان پر سختی کا بیان ہے تاکہ عورت اپنے آپ کو بالکل ہی آزاد نہ سمجھے (قرطبی) پہلی آیت میں زنا کار عورتوں کی سزابیان کی کہ زنا شہادت سے ثابت ہوجائے تو انہیں تاعمر گھر میں محبوس رکھا جائے یہاں تک کہ وہ مرجائیں۔ یا اللہ تعالیٰ انکے بارے میں کوئی دو سری سزانازل فرمادے۔ اسلام زنا کار عورتوں کے لیے یہ پہلی سزا ہے جو بعد میں حد زنا نازل ہونے سے منسوخ ہوگئی۔ سورت نور جو سو کوڑوں کی سزا نازل ہوئی یہاں سبیلا سے اسی طرف اشارہ ہے دوسری آیت میں زانی مرد اور زنا کار عورت کے متعلق یہ حکم دیا گیا کہ ان کو اذیت دسیجائے اوذلیل کیا جائے حتی ٰ کہ تا ئب ہوجائیں یہ سزا بھی پہلی سزا کے ساتھ ہی ہے۔ بعد میں یہ دونوں سزائیں منسوخ وہ گئیں چنانچہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا خذ واعنی خذ قدجعل اللہ لھن سبیلا البکر نالبکر جلد مائتہ وتغریب عام والثیب جلد مائتہ والر جم۔ کہ لو اللہ تعالیٰ نے نے کے متعلق راہ نکا لدی جب کنوار کنواری سے زنا کرے تو اس کے لیے سوکوڑے اور ایک سال کی چلا وطنی ہے اور شادی شدہ شادی شدہ سے زنا کرے تو انکے لیے سوکوڑے اور سنگسار ہے۔ ( مسلم۔ ابو داود) سلسلہ بیان کے لیے دیکھئے سورت نور آیت 2 (ابن کثیر قرطبی) النسآء
16 النسآء
17 ف 2 یہا علی اللہ کے معنی یہ ہیں کہ ایسے لوگوں کی توبہ قبول کرنا اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے اپنے ذمہ لے لیا ہے رونہ اللہ تعالیٰ پر کوئی چیز لازم نہیں ہے۔ (قرطبی) بحھالہ یعنی اگر کبھی نادانی اور جذبات سے مغلوب ہو کر گناہ کا ارتکاب کر بھی لیتے میں تو من قریب یعنی جلد ہی توبہ کرلیتے ہیں۔ بعض علما نے لکھا ہے کہ یہاں بجھالتہ کی قید احتراز کے لیے نہیں ہے۔ بلکہ بیان واقعہ کے لیے ہے یعنی ہر گناہ جہالت اور نادانی کی وجہ سے ہوتا ہے اور من قریب کا مفہوم یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ع موت کے آثار مشاہدہ کرنے سے پہلے پہلے تائب ہوجاتے ہیں۔ ان دو شرطوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول فرمالیتا ہے۔ (قرطبی۔ ابن کثیر) توبہ کے شرائط کے لیے دیکھئے سورت مریم آیت 8۔ النسآء
18 ف 3 یعنی ایسے لوگوں کی توبہ قبول نہیں ہوتی، ترمذی میں عبد اللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا ان اللہ یقبل توبتہ العبد مالم یفر غر کہ اللہ تعالیٰ اس وقت تک اپنے بندے کی توبہ قبول فرماتا ہے جب تک وہ جان کنی کی حد تک نہیں پہنچ جاتا۔ (ترمذی) اس معنی میں اور بھی بہت سی مسند اور مرسل ورایات موجود ہیں (ان کثیر۔ قرطبی) النسآء
19 ف 4 یعنی جو لوگ تادم مرگ شرک میں مبتلا رہتے ہیں اور موت کے آثار دیکھ کر تو بہ کرنا چاہتے ہیں انکی توبہ بھی قبول نہیں ہوتی حضرت ابو ذر (رض) سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ بندے کی توبہ اس وقت تک قبول فرماتے ہیں کہ جب تک حجاب نہ گرے صحابہ (رض) نے دریافت کیا کہ حجاب گرنے سے کیا مراد ہے فرمایا یہ کہ جان نکلنے اور وہ مشرک ہو (ابن کثیر) بعض نے لکھا ہے کا فرمرنے کے بعد جب عذاب کا مشاہدہ کریں گے تو اس وقت تو بہ کریں گے مگر وہ تو بہ قبول نہ ہوگی۔ (قرطبی) ف 5 زنا وغیرہ کے سلسلہ میں ضمنا توبہ کے احکام بیان فرمانے کے بعد اب یہاں سے پھر عورتوں کے حقوق کا بیان ہو رہا ہے اور اسے مقصد عورتوں کو اس ظلم وزیادتی سے نجات دینا ہے جو جاہلیت میں ان پر روا رکھی جاتی تھیں۔ (کبیر قرطبی اس کے مخاطب تو شوہر کے اولیا میں جیسا کہ امام بخاری (رح) اور بعض دوسرے محدثینن نے اس آیت کی شان نزول میں حضرت ابن عباس (رض) سے نقل کیا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں میت کو اولیا دوسری چیزوں کی طرح اس کی بیوی کے بھی مالک ہوتے۔ ان میں سے اگر کوئی چاہتا تو اس سے خود شادی کرلیتا یا کسی دوسرے سے اس کی شادی کردیتے اور مہر خود لے لیتے اور اگر چاہتے تو عورت کو کلیتا شادی سے ہی روک دیتے حتی کہ وہ مر جاتی اور اس کے مال کے وارث بن جاتے عورت کے اولیا کو اس سلسلہ میں کچھ اختیار نہ ہوتا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور عورت پر انکے تسلظ کو ختم کردیا۔ (ابن کثیر، قرطبی) اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کے مخاطب شوہر ہوں چنانچہ بعض علما نے اس کی شان نزول میں لکھا ہے کہ وہ عورتوں کو طلاق نہ دیتے اور تنگ کرتے رہتے تاکہ اگر مر جائیں تو ان کے وارث بن جائیں اور اگر طلاق لینا چاہے تو مہر میں سے کچھ مال بطور واپس کرے اس پر یہ آیت نازل ہوئی پہلی صورت میں اس کا حاصل یہ ہے کہ خاوند کے مرنے کے بعد اسے نکاح سے روکنا جائز نہیں ہے بلکہ وہ جہاں چاہے نکاح کرسکتی ہے اور اولیا اس طرح زبر دستی سے اس کے وارث نہیں بن سکتے اور دوسری صورت میں یعنی جب کہ شوہر مخاطب ہوں تو خلاصہ یہ ہوگا کہ شوہر کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ عورت سے مہر واپس لینے کی غرض سے اسے تنگ کرتا رہے اور طلاق نہ دے یہ دوسری صورت زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے اور ابن عطیہ وغیرہ نے اسی کو پسند کیا ہے اس لیے کہ آیت کے بقیہ حصے کا تعلق قطعا شوہروں کیساتھ ہے کیونکہ فاحشہ کے ارتکاب کیصورت میں خاوند ہی کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ اسے روک رکھے تاکہ اس سے مہرو وغیرہ جو کچھ دیا ہے واپس لیکر طلاق دے۔ شوہر کے اولیا کو یہ اختیار نہیں ہے (فتح القدیر۔ قرطبی) اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ خطاب عام مسلمانوں سے ہو جس میں شوہر والیاں میت اور دوسرے مسلمان سبھی آجاتے ہیں۔ فتح القدیر۔ کبیر) ف 6 بعض صحابہ (رض) اوتابعین نے کہا ہے کہ یہاں فاحشہ مبینہ سے مراد زنا ہے مگر صحیح یہ ہے کہ اسے عام رکھا جائے یہ اور فحش کلامی بد خلقی ایذار سانی زنا اور اس قسم کے جملہ ذائل کو شامل ہو اور مطلب یہ ہوگا کہ اگر زیادتی عورت کی طرف سے ہو تو تم ان کو خلع لینے پر مجبور کرسکتے ہوتا کہ وہ لیا ہو امال واپس کردیں۔ اس پر یہ استثنا اخذ اموال سے ہوگا اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ عضل مذکور سے استثنا ہو یعنی تمہا رے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ ان کو روک رکھو الا یہ کہ وہ فاحشہ کا ارتکاب کریں تو اس صورت میں ان کو روک سکتے ہو۔ (کبیر۔ قرطبی) ف 7 یہ عورتوں سے متعلق تیسرا حکم ہے کہ بہتر طریقے سے ان کے ساتھ بسر کرو۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا خیر کم خیر کم لا ھلہ وانا خیر کم الا ھلی یعنی تم میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جو اپنے گھر ووالوں کے لے بہتر ہے اور میں اپنے گھر والوں سب سے بہتر ہوں۔ (ابن کثیر۔ ف 8 یہ بھی حسن معاشرہ کا تتمہ ہے یعنی اگر کسی اخلاقی کمزوری یا بد صورت ہونے کی وجہ سے تمہیں ان سے نفرت ہوجائے اور ان کو طلاق دینا چاہو تو بھی فو را طلاق نہ دو بلکہ بہتر طریق سے ان کو اپنے پاس رکھو ہو سکتا ہے کہ ان کی صحبت سے خیر کثیر یعنی اولاد حاصل ہوجائے اور تمہاری نفرت محبت میں تبدیل ہوجائے ایک حدیث میں ہے کہ کوئی مومن مرد کسی مومن عورت کو بنظر کراہت نہ دیکھے اگر اسے اس کی ایک عادت باپسند ہے تو دوسری عادت اچھی بھی ہوگی۔ (ابن کثیر) اس کے دوسرے یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ اگر نفرت کے سبب تم ان سے مفارقت اختیار کرنا چاہو تو ہوسکتا ہے کہ اس مفارقت میں ان کے لیے خیر کثیر مضمر ہو مثلا ان کو بہتر خاوند مل جائے (کبیر) النسآء
20 ف 1 یہ عورتوں کے متعلق چوتھا حکم ہے جب پہلی آیت میں بیان فرمایا کہ اگر سو عشرت عورت کی جانب سے ہو تو مہر واپس لینے کے لیے اسے تنگ کرنا جائز ہے۔ یہاں بتایا کہ جب زیادتی حرام ہے۔ (کبیر) یعنی کہ بلا وجہ تنگ کر کے ان سے مہر واپس لو گے تو یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی بہتان باندھ کر واپس لے رہا ہے اور اس صورت میں تم ان پر دو ہر اظلم کروگے بلا وجہ تنگ کرنا اور مہر واپس لینا۔ اس لیے اسے اثمامبینا فرمایا (کبیر) آپ سے ثابت ہوا کہ جماع کے بعد دیا ہوا مہر واپس نہیں ہوسکتا چنانچہ مذکور ہے کہ آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں ایک شخص نے کسی عورت سے نکاح کرلیا۔ جب اس کے پاس گیا تو معلوم ہوا کہ وہ زنا سے حاملہ ہے اس پر وہ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو آنحضرت ﷺ نے ان کے دومیان تفریق کرادی اور مہر واپس لینے سے منع فرمادیا۔ (ابوداود) اس آیت سے دوسرا مسئلہ یہ بھی ثابت ہوا کہ زیادہ مہر کوئی حدمعین نہیں ہے خاوند اپنی حثیت کے مطابق جتنا مہر دینا چاہے دے سکتا ہے۔ چنانچہ حضرت عمر (رض) نے ایک مرتبہ خطبہ دیا کہ لوگوں زیادہ غلو کے ساتھ مہر نہ باندھا نہ کرو۔ خطبہ کے بعد ایک بڑھیا نے یہی آیت پیش کی۔ اس پر حضرت عمر (رض) نے کہا یا اللہ ! مجھے معاف فرمادے عمر (رض) سے تو ہر زیادہ فقیہ ہے۔ (ابن کثیر ) النسآء
21 ف 6 پختہ عہد سے مراد عقدہ نکاح ہے بعض نے اس کی تفسیر خطبئہ نکاح سے بھی کی ہے۔ (ابن کثیر ) النسآء
22 ف 3 جاہلیت کے دستو رکے مطا بق بیٹے کے لیے باپ کی منکو حہ (سوتیلی ماں) سے شادی کرلینا چائز تھا۔ چنانچہ حضرت قیس (رض) نے اسلت نے اپنے والد کی وفات پر جب اپنی سوتیلی ماں سے نکاح کرنا چاہا تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور اسے سخت حرام قرار دیا۔ (ابن کثیر) حدیث سے ثابت ہے کہ ایسا نکاح کرنے والا واجب القتل ہے۔ (مسند احمد ) النسآء
23 ف 4 قرآن نے چودہ ناتے حرام قرار دیئے سات نسبی اور سات رضاعی سسرال وغیرہ کی جانب سے (ابن عباس) یہاں تک سات نسبی رشتوں کی حرمیت کا بیان تھا ماں کے حکم میں نانی اور دادی بھی شامل ہیں اور بیٹی کے حکم میں پوتی اور نواسی بھی آجاتی ہے اور بہن سگی ہو یا علاتی یا اخیافی بہر حال حرام ہے اور پھو پھی میں دادا کی بہن بھی داخل ہے اور خالہ کا لفظ ماں نانی دادی سب کی بہنوں کو شامل ہے اور بھتیجی اور بھانجی کے حکم میں پوتی اور نوسی بھی آجاتی ہے (قرطبی) ف 5 یعنی نسبی ماں اور بہن کی طرح رضاعی ماں اور بہن بھی حرام ہے ایک حدیث میں ہے ہر وہ رشتہ جو نسب سے حرام ہے رحاعت سے بھی حرام ہوجاتا ہے۔ یہ یادر رہے کہ قرآن نے مطلق رضاعت کو حرمت کاسبب قرار دیا ہے۔ ف 6 یعنی مطلقا حرام خواہ جماع سے پہلے اپنی بیوی کو طلاق دی ہو یا اس کا انتقال ہوگیا ہے جمہور سلف کا یہ مسلک ہے۔ (فتح القدیر) ف 7 ربیبہ یعنی بیوی کے دوسرے خاوند سے جو لڑکی ہو وہ بھی حرام ہے بشرطیکہ اپنی بیوی اس لڑکی کو ماں سے جماع کرلیا ہو اگر قبل از جماع طلاق دیدی ہو تو عورت کی لڑ کی سے نکاح جائز ہے۔ اس پر علما کا اتفاق ہے۔ (ابن کثیر۔ قرطبی) ف 8 یعنی صرف صلبی بیٹوں کی بیویاں نہ کہ منہ بو لے بیٹوں کی بیویاں دیکھئے سورت احزاب آیت 27) ف 9 یہ محل رفع میں ہے ای وحرمت علیکم اجمع بین االا ختین اسی طرح آنحضرت ﷺ نے ایک عورت اور اس عورت کی پھوپھی کو بیک وقت نکاح میں رکھنے سے منع فرمایا ہے نیز حدیث کی روسے عورت اور اس کی خالہ کو بیک وقت نکاح میں رکھنا بھی منوع ہے۔ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن کے علاوہ سنت بھی ایک مستقل مآخذ شریعت ہے ( ابن کثیر۔ قرطبی) ف 10 یعنی پہلے جو ایسے رشتے ہوچکے ہیں ان کا کچھ گناہ نہیں ہے اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ ان کو برقرار رکھا جائے گا۔ النسآء
24 ف 1 اوپر آیتہ التحریم میں مذکورہ محارم تو بہر صورت حرام ہیں خواہ وہ ملک یمین ہی میں آجائیں اس بنا پر علما نے لکھا ہے کہ ملک یمین کے ساتھ جمع بین الا ختین بھی حرام ہے۔ (ابن کثیر) اب یہاں فرمایا کہ شوہر والی عورتیں بھی حرام ہیں ہاں دارالحرب سے قیدی بن کر آجائیں تو اموال غنیمت کی تقسیم کے بعد کے حصہ میں آئیں گی ان کے لیے استبر کے بعد ان سے صحبت جائز ہے خواہ دارالحرب میں ان کے خاوند موجود ہی کیوں نہ ہو استبرا یہ ہے کہ عورت ایک حیض سے پاک ہوجائے یا اگر حاملہ ہے تو واضع حمل ہوجائے صحیح مسلم اور سنن میں ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ 8 ھ غزوہ اوطاس دیار غطفان میں ایک وادی کا نام ہے) میں دوسرے اموال غنیمت کیسا تھ عورتیں بھی قیدی بن کر آئیں صحابہ کرام (رض) نے اس خیال سے کہ ان کے شوہر دارالحرب میں موجود ہیں۔ ان سے صحبت کرنے میں تامل کیا۔ اس یہ آیت نازل ہوئی (شوکانی۔ قرطبی فائدہ اخصان کے معنی محفوظ ہونے کے ہیں قرآن میں یہ لفظ چند معانی میں استعمال ہوا ہے اور المحصنات کا لفظ شادہ شدہ نیز آزاد عورت پر بھی بولا جاتا ہے جیسے اگلی آیت میں اور مائدہ آیت 5 میں اور پاکدامن پر جیسے محصنات غیر مسافحات اور مسلمان ہونے پر جیسے فاذا احصن (فتح القدیر) ف 6 یعنی جن مح اور کا اوپر ذکر ہوا ہے یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے جس کا ماننا تم پر لازم ہے۔ ( ابن کثیر 9 ف 3 بشرطیکہ حدیث میں ان کی حرمت نہ آئی ہو مثلا آنحضرت ﷺ نے کسی عورت کے ساتھ اس کی خالہ یا پھوپھی کے بیک وقت نکاح میں رکھنے سے منع فرمایا ہے۔ (ابن کثیر) ایسی ہی چند صورتیں اور بھی ہیں (وحیدی) ف 10 موضح میں ہے کہ ان مذکورہ محارم کے سوا سب حلال ہیں مگر چار شرطوں کے ساتھ اول یہ کہ طلب کرو یعنی دونوں طرف سے ربانی ایجاب وقبول ہو۔ دوسرے یہ کہ مال یعنی مہر دینا قبول کرو تیسرے یہ کہ ان عورتوں کو قید (دائمی قبضہ) میں لانا غرض ہو ) ( صرف) مستی نکا لنے کی غرض نہ ہو۔ جیسے زنا میں ہوتا ہے) یعنی وہ عورت اس مرد کی بندی ہوجائے چھوڑے بغیر نہ چھوٹے یعنی کسی مہینے یا برس (مدت) کا ذکر نہ آوے اس سے معلوم ہوا کہ متعہ حرام ہے اور حلالہ بھی کیونکہ اس میں بھی جماع کے بعد طلاق کی نیت ہوتی ہے چوتھی یہ کہ چھپی یاری نہ ہو یعنی لوگ نکاح کے شاہد ہوں کم سے کم دو مرد یا ایک مرد اور دوعورتیں یہی شرط اربعہ اس آیت سے مفہوم ہوتی ہیں ،(م۔ ع) ف 5 یعنی نکاح کے بعد جن عورتوں سے صحبت کرو ان کے پورے مہران کے حوالے کردو۔ اکثر مفسرین سلف وخلف نے یہی معنی ج کئے ہیں کہ استمتاع سے نکاح کے بعد صحبت مراد ہے رافضیوں نے اس سے متعہ کو جواز ثابت کیا ہے مگر علمائے سنت بالا جماع اس کو حرمت کے قائل ہیں ہجرت کے ابتدائی برسوں میں بیشک آنحضرت ﷺ نے اس آیت کی روسے نہیں بلکہ) بعض مواقع پر حسب ضرورت متعہ کی اجازت دی اور یہ اجازت جاہلی عرف کی بنا پر تھی جسے دلیل استصحاب کہا جاتا ہے مگر بعد میں اس کی حرمت کا اعلان کردیا خصوصا حجتہ الوداع کے خطبہ میں آنحضرتﷺ نے یا یھا الناس انی کنت اذنت لکم فی الا ستمتاع من النسا و وان اللہ حرم ذالک الی یوم القیامتہ کے اے لوگو میں نے تمہیں عورتوں سے نکاح متعہ کی اجازت دی تھی اب اللہ تعالیٰ نے اسے قیامت تک کے لیے حرام کردیا ہے بعض طرق میں حضرت ابن عباس (رض) کی طرف اس کی حلت کی نسبت مروی ہے مگر انہوں نے اس سے رجوع کرلیا تھا۔ ( ابن کثیر۔ معالم ) النسآء
25 ف 6 یعنی اگر خاوند بیوی باہمی رضامندی ہے طے شدہ مہر میں کمی پیشی کرلیں تو کچھ حرج نہیں ہے۔ ( ابن کثیر) ف 7 یعنی اگر کسی شخص کی مالی حالت اس امر کیا اجازت نہیں دیتی کہ آزاد مسلمان عورت سے نکاح کرے تو کسی دوسرے مسلمان کی لو نڈی سے نکاح کرلے بشرطیکہ وہ لونڈی مسلمان ہو کسی شخص کو اپنی لو نڈی سے نکاح کرنے اجازت نہیں ہے مگر یہ کہ اسے آزاد کر دے اور پھر اس سے نکاح کرے۔ (فتح القدیر) ف 8 تم سب حضرت آدم ( علیہ السلام) کی اولاد ہو اور تمہاری ملت بھی ایک ہے پھر محضر لو نڈی ہونے کی وجہ سے اس سے نکاح ترددنہ کرو (شوکانی) ف 9 یعنی جیساکہ آزاد مسلمان عورت سے نکاح کے لیے ولی (سرپرست) کی اجا زت ضروری ہے اسی طرح لونڈی سے نکاح کے لیے بھی اس کے مالک کی جازت ضروری ہے۔، ف 10 اجو رھن کے لفظ سے بعض نے سمجھا ہے کہ مہر لونڈی کا حق ہے لیکن اکثر علمائے سلف کے نزدیک یہ مہر لو نڈی کے مالک کا ہوگا ان کی طرف اجور کی اضافت مجازی ہے۔ (فتح القدیر) ف 11 چھپی یاری منع فرمایا تو نکاح میں شاہد لازم ہوئے (موضح) ف 12 یعنی آزاد مسلمان مرد یا عورت زنا کرے تو اس کی سزا سو کوڑے یا سنگسار ہے لین سنگساری کی تضیف نہیں ہو سکتی اس لیے علما نے لکھا ہے کہ یہاں نصف عذاب سے مراد پچاس کوڑے ہیں مگر جب لونڈی شادی شدہ نہ ہو تو اس پر تعزیر ہے حد نہیں ہے۔ ف 13 مذکورہ شر طوں کے لونڈی سے نکاح صرف اسی صورت میں جائز ہے جب بد کاری میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہو۔ ف 14 اس سے اکثر علما نے استدلال کیا ہے کہ لو نڈی سے نکاح نہ کرنا ہی بہتر ہے کیونکہ ایسی منکوحہ لونڈی کی اولاد بھی اس کے مالک کی غلامی ہوتی ہے (ابن کثیر ) النسآء
26 النسآء
27 ف 1 یعنی اللہ تعالیٰ اپنے احکام اس لیے بیان فرمارہا ہے کہ تم کو حلال وحرام کا پتا چل جائے اور پہلے لوگوں کے عہدہ طریق کی ہدایت ہوجائے پہلے لوگوں سے مراد انبیا ( علیہ السلام) اور ان کی امتوں کے نیک لوگ ہیں۔ (ابن کثیر، شوکانی) ف 2 یعنی شہوت پر ستوں کے کہنے میں نہ آو مراد یہود و نصاریٰ یا مجوسی ہیں جو محارم کے ساتھ بھی نکاح جائز سمجھتے تھے ،۔ (رازی قرطبی ) النسآء
28 ف 3 یعنی اللہ تعالیٰ کو انسان کی کمزوری کا خوب علم ہے اس لیے احکام شریعت میں اس کی سہولت کا خیال رکھا گیا ہے اور دن میں سختی نہیں برتی گئی۔ حدیث میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا میں تمہارے پاس نہایت آسان حنفیفی شریعت لے کر آیا ہوں۔ (رازی، شوکانی ) النسآء
29 ف 4 نفوس کے احکام کے بعد اب اموا میں اتصرف کے احکام کا بیان ہے۔ (رازی) کسب معاش کے جتنے ناجائز ذریعے ہیں سب بالباطل میں ّآجاتے ہیں حتی کہ حیلہ سازی کے ساتھ کسی کا مال کھانا بھی حرام ہے ارواپنے مال کو غلط طریقوں سے اڑنا بھی اسی میں داخل ہے (کبیر، ابن کثیر) ف 5 ہاں تجارت کے ذریعہ جس میں پورے طور پر رضا مندی ہو کما و اور کھا و پورے طور پر رضا مندی میں یہ چیز بھی داخل ہے کہ جب تک بائع اور مشتری اس مجلس میں بیع سے الگ نہ ہوں اس وقت تک ایک دوسرے کو بیع رد کرنے کا حق ہے۔ ( ابن کثیر شوکانی) ف 6 خود کشی حرام ہے۔ حدیث میں ہے کہ جس آلہ سے کو کہ انسان اپنے آپ کو قتل کرے گا دوزخ کے اندر اس آلہ سے اس کو عذاب پہنچا یا جائے گا۔ (ابن کثیر اور یہ معنی کئے گئے ہیں کہ معاصی اک ارتکاب کر کے اپنے آپ کو یا ایک دوسرے کو قتل نہ کرو (شوکانی ) النسآء
30 ف 7 ذٰ لک اشارہ قتل نفس کی طرف بھی ہو کھانے کی طرف بھی حضرت ابن عباد (رض) فرماتے ہیں کہ ابتائے سورت سے یہاں تک جتنے مناہی بیان ہوئے ہیں ان سب کی طرف اشارہ ہے۔ (ابن جریر، کبیر) ف 8 یہ انداز بیان تہدید میں مبالغہ پر دال ہے (کبیر) موضح میں ہے یعنی مغرور نہ ہوں کہ ہم مسلمان دوزخ میں کیونکر جاویں گے اللہ تعالیٰ پر یہ آسان ہے کبیرہ گناہ وہ ہے جن کے متعلق قرآن یا حدیث میں صاف طور پر دوزخ کی وعید آئی ہو یا اللہ تعالیٰ کے غصہ کا اظہار ہو یا شریعت میں اس پر حد مقرر فرمائی گئی ہو اور سیئات وہ گنا ہیں جن سے صرف منع کیا گیا ہو اور ان پر وعید وارد نہ ہوئی ہو۔ (کبیر۔ ابن کثیر ) النسآء
31 ف 10 یعنی اگر تم کبا ئر سے اجتناب کرتے رہو گے تو صغیرہ گناہ تمہارے تمہارے نیک اعمال کی وجہ سے ہم معاف کردیں گے بعض روایات کبائر کا شمار بھی آیا ہے مثلا اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا کسی جان کو ناحق قتل کرنا قمار بازی شراب خوای پاک دامن عورتوں پر تہمت لگا نا وغیرہ مگر ان کی کوئی تہدید نہیں ہے اس لیے حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ من اسبع الی السبعین بل الی سبعما ئتہ (رازی) اور روایات میں ہے کہ اصرار کے ساتھ کوئی گناہ صغیرہ نہیں ہے اور تو بہ کے بعد کوئی کبیرہ نہیں ہے۔ (قرطبی کبیر) ف 11 یعنی بہشت میں ( وحیدی) النسآء
32 ف 1 یعنی یہ نہ کہو کہ کاش یہ درجہ یا مال مجھے مل جائے یہ حسد ہے اور احادیث میں اس کی مذمت آئی ہے حضرت ام سلمہ (رض) نے نبی ﷺ سے دریافت کیا کہ مرد لوگ جہاد کرتے ہیں اور شہادت کے مراتب حاصل کرلیتے ہیں اور ہم اس سے محروم ہیں۔ اس پر یہ ّ آیت نازل ہوئی۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے ہاں تقرب نیک اعمال سے ہے مرد کو محض مرد ہونے کی وجہ سے خورت پر عمل میں فضیلت نہیں ہے اور عورت محض عورت ہونے کی وجہ سے نیک عمل کے ثواب سے محروم نہیں تم بجائے کہ حسد کے اللہ تعالیٰ سے اس کا فضل چاہا کرو۔ (ابن کثیر۔ معالم ) النسآء
33 ف 2 جاہلیت میں دوشخص آپس میں عقد مولاۃ باندھ لیتے جس کی روسے ایک دوسرے کی مدد کرتے اور ایک دوسرے کے وارث بھی ہوتے۔ ابتدا ہجرت میں ّآنحضرت ﷺ نے بھی مہاجرین (رض) اور انصار (رض) کے درمیان مواخاۃ کارشتہ قائم کیا تھا آیت میں والذین عقدت الخ سے اسی عہد کی طرف اشارہ ہے۔ اس عہد کی روسے وراثت کا حکم کے بعد میں سورت انفال کی آیت وَأُولُو الأرْحَامِ بَعْضُہُمْ أَوْلَی بِبَعْضٍ فِی کِتَابِ اللَّہِ (٧٥) سے منسوخ ہوگیا۔ آنحضرت ﷺ نے بھی اعلان فرمادیا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر صاحب حق کو اس کا حق دیدیا ہے اب آئندہ حلف سے وارث نہیں ہو سکتے آیت میں موالی سے مراد عصبہ میں اور عصہ کی وراثت لا قرب فالا قرب کا اصول مقرر ہے یعنی اول سب سے زیادہ قریبن ہوگا۔ اور اس پر علما کا اجماع بھی ہوچکا ہے لہذا صلبی لڑکے کی موجودگی میں پوتا وارث نہیں ہوسکتا ( دیکھئے فتح الباری ج 2 ص 294، انصار دبلی ٰ لمحلیٰ ج 9 ص 271، احکام جصاص ج 2 ص 224) النسآء
34 ف 3 شریعت نے خانگی شیرازہ بندی کے لیے مرد کو گھر کا قوام (نگران ذمہ دار) قرار دیا ہے اور عورت کو اس کے ما تحت رکھا ہے۔، قرآن نے اس کی دو وجہیں بیان کی ہیں ایک تو یہ کہ مرد کو طبعی طور پر امتیاز حاصل ہے کہ وہ منتظم بنے اور دسرے یہ کہ گھر کے سارے اخراجات بیوی کے نفقہ سمیت مرد کے ذمہ ہیں۔ اس بنا پر گھر کانگران بننے کا حق مردکو ہے عورت کو نہیں یہی حاْل حکومتی امور کا ہے کہ مسلمان کا امیر یا خلیفہ عورت نہیں ہوسکتی بلکہ ایک حدیث میں آنحضرت ﷺ نے اس کی مذمت فرمائی ہے۔ لن یغلح قوم ولوا امر ھم امئرۃ (کبیر۔ شوکانی) ف 4 اس آیت کی تشریح وہ حدیث کرتی ہے جس میں نبی ﷺ کا ارشاد ہے بہترین بیوی وہ ہے جسے اگر تم دیکھو تو تمہیں خوش کرے اگر تم اسے کسی بات کا حکم دے تو وہ تمہارے اطاعت کرے اور جب تم تھر میں نہ ہو تو تمہارے پیچھے وہ تمہارے مال کی اواپنے نفس کی حفاظت کرے (ابن کثیر ابن جریر بردایت ابو ہر یرہ) ف 5 یعنی اللہ تعالیٰ نے خاوندوں کو عورتوں کے ساتھ حسن معاشرت کا حکم دیکر کا حکم دیکر ان کے حقوق محفوظ کردیئے ہیں اس کے بدلے میں وہ خاوندوں کی غری حاضری میں ان کے مال اور عزت وآبرو کی حفاظت رکھتی ہیں۔ (کذافی شافی) یا یہ کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے موافق ان کے مال و عزت اور حقوق کے حفاظت کرتی ہیں اور خیا نت سے کام نہیں لیے تیں (کذافی الشوکانی ) ف 6 یعنی بآّخر اگر باز نہ آئیں تو انا کا چہرہ بجا کر تھوڑا سا مار سکتے ہو۔ ( شافی) آنحضرت ﷺ نے بعض ناگریز حالات میں ما رنے کی اجازت دی ہے مگر ساتھ ہی اسے ناپسند بھی فرمایا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کیا کوئی شخص اپنی بیوی کو اس طرح مارتا ہے جس طرح غلام کو ما را جاتا ہے پھر رات کو اس سے ہمبستری کرتا ہے ؟ اور کسی حالت میں ایسی مار پیٹ کی اجازت نہیں ہے جوجسم پر نشان چھوڑ یا جس سے کوئی ہڈی ٹوٹ جائے۔ (ابن کثیر ) النسآء
35 ف 7 دو حکم ّپنج) مقرر کرنے کا اختیار حاکم کو ہے اور یہ اس وقت ہے جب تعلقا زیادہ خراب ہوجائیں ارجدئی کا اندیشہ ہو اکثر علما کے نزدیک ان حکموں کو یہ بھی اختیار ہوگا کہ اگر وہ صلح کرانے میں ناکام رہیں تو میاں بیوی کے درمیان تفریق کا فیصلہ کردیں، تفسیر ابن کثیر میں ہے کہ اس پر علما کا اجماع ہے (ابن کثیر) ف 8 یعنی وہ دونوں حکم اگر نیک نیتی سے صلح کر انے کی کوشش کرینگے تو اللہ تعالیٰ ان کی کو شش میں برکت عطا فرمائے گا (ابن کثیر ) النسآء
36 ف 9 یعنی یہ ہیچ صورت ( ثنائی) اور اس کا ساجھی نہ بنا نا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی کر ہر چیز کا مالک کو مختار تسلیم کیا جائے اور اس کی کسی صفت میں کسی زندہ یا مردہ مخلوق کو شریک نہ قرار دیا جائے۔ تمام مرادیں اور حاجات اسی سے مانگی جائیں کہ وہی عالم میں متصرف ہے اور کوئی نہیں (م، ع) ف 10 توحید کا حکم دینے کے بعد درجہ رشتہ داروں اور دوسرے لوگوں کے حقوق بیان فرمائے ہیں۔ شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں : اول اللہ تعالیٰ ج کا پھر ماں باپ کا اور ان کا درجہ بدرجہ (موضح) صحیحین میں بردایت انس (رض)، آنحضرتﷺ کے ارشاد کا حاصل یہ ہے کہ رشتہ داروں سے حسن سلوک عمر میں برکت اور رزق میں فراخی کاسبب ہے۔ (ابن کثیر) ف 11 حدیث میں ہے آنحضرت ﷺ نے فرمایا میں اور یتیم کی پر ورش کرنے والا جنت میں اس طرح ہوں گے اور یہ فرماتے ہوئے آپﷺ انگشت شہادت اور بیچ کی انگلی اوپر اٹھا تے ہوئے اشارہ فرمایا۔ (صحیح بخاری) ف 12 صحیحین میں حضرت ابو ہر یر (رض) سے روایت ہے کہ ختاج کی ضرورت پوری کرنے والے کو جہاد کا ثواب ہوجاتا ہے۔ (ابن کثیر) ف 13 قریبی ہمسایہ سے مراد رشتہ دار ہمسایہ اور غیر ہمسایہ سے مراد غیر رشتہ دارہمسا یہ ہے ہمسائیگی کے حقوق کے نگہداشت متعدد چار حدیث میں وارد ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جبر ئیل مجھے ہمسایہ کے بارے میں اتنی وصیت کرتے رہے کہ میں نے خیال کی کہ شاید وہ اسے وارث قرار دید ینگے (بخاری مسلم بردایت ابن عمر) دوسری حدیث میں ہے کہ نبی ﷺ نے تین مرتبہ بتا کید فرمایا۔ اللہ کی قسم تم سے وہ شخص مومن نہیں ہوسکتا جس کا ہمسایہ اس کی شرارتوں سے امن نہیں پاتا۔ (صحیحین بردایت ابوہریرۃ) ف 1 پاس پیٹھنے والے سے مراد ہمنیشن دوست بھی ہوسکتا ہے اور سفر کا ساتھی بھی۔ ف 2 مسافر مراد اکثر سلف کے نزدیک مہمان بھی ہے۔ ارشاد نبوی ہے مسلمانوں کو چاہیے کہ عزت اور خاطر داری کریں۔ (ا، ت) ف 3 صحیح احادیث میں ہے کہ مرض الموت میں آنحضرت ﷺ اپنی امت کو نصحیت کرتے ہوئے باربار فرماتے الصلوۃ وما ملکت ایمانکم دیکھو دوچیزوں کا خیال رکھنا ایک نماز کا اور دوسرے لونڈی غلام کا (ابن کثیر) حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ آدمی کو اتنا ہی گناہ کافی ہے کہ وہ ان لوگوں سے اپنے ہاتھ کو روکے جن کی معاش کا وہ ذمہ دار ہے (مسلم ) النسآء
37 ف 4 اس آیت میں بخل کی مذمت کی گئی ہے اور بخیل کے لیے کافر کا لفظ استعمال کیا گیا ہے کیونکہ وہ بھی اللہ تعالیٰ کی نعمت کو چھپانے والا ہوتا ہے۔ بعض سلف نے اس آیت میں بخل کے لفظ کو یہود یوں کے بخل پر محمول کیا ہے جو آنحضرت ﷺ کی صفات اور علامات کو لوگوں سے چھپاتے تھے۔ (ابن کثیر ) النسآء
38 ف 5 بخیلوں کی مذمت کے بعد اب ریاکاروں سے خرچ کر نیوالوں کی مذمت کی جارہی ہے اور انہیں شیطان کا ساتھی قرار دیا گیا ہے حدیث میں ہے تین آدمیوں کو سب سے پہلے آگ میں جھو نکا جائے گا اور وہ ہیں ریاکر عالم۔ ریاکار مجاہد اور ریا کر سخی۔ (ابن کثیر) حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں : مال دینے میں بخل کرنا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک برا ہے ویسے ہی خلق کے دکھا نے کودینا۔ قبول وہ ہے جو حقداروں کو دے جن کا اول مذکور ہوا اور پھر خدا کے یقین اور آخرت کی تو قع سے دے (موضح) بخل اور ریاکاری کی مذمت کے بعد ایمان و طاعت اور صدقہ وخیرات کی ترغیب دلائی پھر مزید ترغیب کے لیے فرمایا جب ذرا ذرا اسی چیز کا اللہ تعالیٰ کئی گنا اجر دیتے ہیں پھر لوگ کیوں نیک کاموں میں سستی کرتے اور ریا کاری سے کام لیکر اپنے اجر کو ضائع کرتے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ قیامت کے دن ایک شخص کی تمام نیکیاں لوگوں کو دے دی جائینگی حتی ٰ کہ صرف ذرہ بھر نیکی اس کے پاس رہ جائیگی تو اللہ تعالیٰ اسے کئی گنا بڑھاکر اسے جنت میں داخل فرمادینگے پھر عبد اللہ بن مسعود یہ آیت پڑھ (قرطبہ ) النسآء
39 النسآء
40 النسآء
41 النسآء
42 ف 7 اوپر کی آیتوں میں قیامت کے دن ظلم کی نفی اور کئی گہا اجر کا وعدہ فرمایا اب یہاں بیان فرما جارہا ہے کہا اچھا یا برا بدلہ پیغمبر کی شہادت سے ملے گا جن کو اللہ تعالیٰ نے مخلوق پر حجت بنا کر بھیجا ہے۔ (کبیر) اس مقصود اکفار کو وعید سنانا ہے جو اس موقعہ پر آزاد کرنیگے کاش ہم آدمی نہ ہوتے اور زمین میں مل کر خاک ہوجاتے۔ دیکھئے سورت النبا : 40 بقرۃ : 143۔ (ابن کثیر) ف 8 کفارکے متعلق یہ بھی ہے کہ وہ اپنے شرک سے انکار کرینگے (الا نعام :23) مگر یہ آیت اس کے خلاف نہیں ہے کہ انکار کے بعد جب ان کے ہاتھ پاوں ان کے خلاف گواہی دینگے۔ ( سورت فصٰلت آیت :21۔23) تو پھر اللہ تعالیٰ سے کوئی بات نہیں چھپا سکیں گے . اور علما نے یہ بھی لکھا ہے کہ قیامت کے دن بہت سے مواقع ہو نگے، کسی موقع پر وہ انکا کرے گے اور دسرے موقع پر اپنے شرک اور بدا عمالی پر افسوس کرینگے۔ (دیکھئے سورت الا نعام : کبیر۔ ابن کثیر ) النسآء
43 ف 1 شراب کی مذمت اور قباحت کے سلسلے میں سب سے پہلے سورت بقرۃ کی آیت 219 نازل ہوئی جس میں شراب کو مضرت رساں قرار دیا ہے۔ اس پر بہت سے مسلمانوں نے شراب چھوڑدی۔ تاہم بعض لوگ بدستور پیتے رہے۔ اس اثنا میں ایک صحابی نشے کی حالت میں نماز کے لیے کھڑے ہوئے تو سورت کافرون میں لاعبد کی بجائے اعبد پڑھا جس آیت کے معنی کچھ کے کچھ ہوگئے اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور لوگوں نے نماز کے اوقات شراب تر کردی تآنکہ سورت مائدہ کی آیت 90۔91 نازل ہوئی جس سے شراب قطعی طور پر حرام کردی گئی (ابن کثیر) بعض علما نے یہاں وانتم سکا دی (جمع سکران سے نیند کا غلبہ مراد لیا ہے اور اس کے مناسب صحیح بخاری کی وہ حدیث ذکر کردی جس میں ہے کہ رسول ﷺ نے نیند کی حالت میں نماز سے منع فرمایا کہ معلو نہیں کیا پڑھے اور کیا پڑھے مگر صیح یہ ہے کہ اس سے نشہ شراب مراد ہے۔ یہی قول جمہور صحابہ (رض) و تابعین کا ہے اور تمام مفسرین اس پر متفق ہیں کہ یہ آیت شراب نوشی کے بارے میں نازل ہوئی ہے (کبیر۔ ابن کثیر) ف 2 مگر راہ چلتے ہوئے یعنی سفر میں کہ اس کا ذکر آگے آتا ہے۔ (موضح) لیکن اس تفسیر کی بنا پر سفر کے ذکر میں تکرار لازم آتی ہے۔ بنا بریں اکثر سلف (رح) نے اس کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ جنا بت کی حالت میں الصلوٰۃ یعنی مواضح صلوٰۃ (مسجدوں) میں نہ جا و ہاں اگر امسجد سے گزرنا پڑے تو اضطراری صورت میں گزر سکتے ہو (ٹھہر نہیں سکتے) ابن کثیر نے اس کو راجح قرر دیا ہے پس یہاں مضاف مخذوف ہے ای لاتھتر بو اموا ضع الصلوٰۃ (جامع البیان ،۔ ابن جریر) اور یہی جمہور علما کا مسلک ہے کہ جنبی یا حا ئضہ کے لیے مردر جائز ہے ٹھہرنا جائز نہیں ہے جیسا آنحضرت ﷺ نے فرمایا میں جنبی اور حائضہ عورت کے لیے مسجد کو حلال نہیں کرتا۔ ائمہ ثلاثہ کا یہی مسلکے مگر امام احمد جنبل وضو کے بعد جنبی کے لیے مسجد میں ٹھہرنا جائز قرار دیتے ہیں اور ان کی دلیل یہ ہے کہ صحابہ کرام کا یہی عمل تھا (ابن کثیر بحوالہ سنن سعید منصور) مستند روایتوں میں ہے کہ بعض صحابہ (رض) کے گھر مسجدکی طرف اس طرح کھلتے تھے کہ بغیر مسجد سے گزرے وہ مسجد سے باہر نہیں آسکتے تھے اور گھروں میں غسل کے لیے پانی نہیں ہوتا تھا۔ جنا بت کی حالت میں مرور ان پر شاق گزرتا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (ابن کثیر) ف 3 سفر سے مراد مطلق ہے، اکثر علما کے نزدیک مسافت قعر شرط میں اور جائے ضرور سے لوٹے کے تحت ہر وہ چیز آجاتی ہے جس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے عورتوں کی چھونے سے مراد راجح مسلک کو بنا پر جماع ہے ورنہ مطلق چھونا نا قض وضو نہیں ہے چنانچہ حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ میں گھر میں لیٹی ہوتی ّآنحضرت ﷺ نفلی نماز پڑتھے تو سجدہ کی وقت اپنے ہاتھوں سے میرے سامنے سے ہٹادیتے (صیحین) فعیدا فیبا سے مراد پاک مٹی ہے مطلق جنس ارض نہیں ہے کیونکہ حدیث میں ہے وجعلت تربتھا لنا طھور کہ زمین کی مٹی خاص طور پر ہمارے سے سحہو بنائی گئی (ابن کثیر) ف 4 تیمم کے سلسلہ میں بعض احادیث میں ہے کہ مٹی پر دو مرتبہ ہاتھ مارے پہلی مرتبہ اس سے چہرے کا مسح کرے اور دوسری مرتبہ کہنیوں تک ہاتھوں کا مگر ان دو ضرب والی روایات میں ضعف پایا جاتا ہے صحیح ترین روایت حضرت عمار (رض) کی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا التیمم ضربتہ للوجہ والکفین کہ تیمم کے لیے صرف ایک مرتبہ مٹی پر ہاتھ مارا جائے اور پھر پھر چہرے اور کلائی تک ہاتھوں پر مسح کرلیا جائے۔ امام مالک (رح) امام احمد (رح) اور محدثین اس مسلک کے قائل ہیں النسآء
44 ف 5 یعنی یہود خود گمرہ ہیں اور تم کو بھی بہکانا چاہتے ہیں (ابن کثیر ) النسآء
45 النسآء
46 ف 6 اوپر کی آیت میں بیان فرمایا ہے کہ وہ گمراہی مول لیتے ہیں اب اس آیت میں چند امور کے ساتھ اس گمراہی کی تشریح فرمائی اور ان کلو توا نصیبامن الکتاب اس لیے فرمایا کہ انہوں نے توراۃ میں موسیٰ ٰ ( علیہ السلام) کی نبوت تو معلوم کرلی مگر آنحضرت ﷺ کی نبوت کا ادراک نہ کر سے (کبیر) یعنی تورات کے احکام میں تحریف کرتے ہیں یعنی تورات کے احکام میں تحریف کرتے ہیں (دیکھئے سورت مائدہ :13۔41) سورت مائدہ میں من بعد مواضعہ ہے یعنی تحریف لفظی کرتے ہیں اور ان الفاظ کو تورات سے نکال ڈالتے ہیں مثلا یہاں عن مواضعہ سے مراد تحریف معنوی ہے یعنی تاویلات فسدہ سے کام لتیے ہیں مگر حضرت ابراہیم کی اپنے اکلوتے بیٹے کی قربانی کہ یہاں اکلوتے بیٹے کی بجائے حضرت اسحق ( علیہ السلام) کو بنا دیا ہے۔ (کبیر۔ شوکانی) ہمارے زما میں بھی تمام بدعتیوں کا شیوہ ہ ہویا ہے کہ جو آیت یا حدیث امام مجتہد یا پیر ومرشد کے قول کے خلاف نظر آتی ہے اس کی تا ویل کرتے ہیں اور خدا اور رسول ﷺ سے نہیں شرماتے کہ پیر و مرشد اور امام معصوم نہ تھے بخلاف پیغمبر ﷺ کے کہ ان سے خطا نہیں ہو سکتی (وحیدی) ف 7 یعنی زبان کو توڑ مروڑ کے راعینا کہتے ہیں جو کلمہ ششم ہے (دیکھئے سورۃ بقرہ آیت 104 ان کی ایک گمراہی یہ بھی ہے کہ جب آنحضرت ﷺ سے کوئی حکم سنتے ہیں تو بظاہر سمعنا کہتے ہیں مگر ساتھ ہی فرط عناد کی بنا پر عصینا (نہ مانا) بھی کہہ دیتے ہیں اسی طرح آنحضرت ﷺ کو خطاب کرتے تو کہتے سنو تم کو کوئی نہ سنائے ظاہر میں یہ نیک دعا ہے کہ تم ہمیشہ غالب رہو کوئی تم کو بری بات نہ سنا سکے اور دل میں نیت رکھتے کہ توبہرا ہوجائے ایسی شرارت کرتے (کبیر، ابن کثیر) ف 8 یعنی یہ سب حرکتیں کر رہے ہیں اور پھر دین میں طعن کی غرض سے کہتے ہیں کہ اگر یہ شخص نبی ہوتا توہمارا فریب معلوم کرلیتا اس پر اللہ تعالیٰ نے ان کے خبث کو ظاہر فرمادیا ہے اور وہی طعن الٹا آنحضرت ﷺ کی صدق نبوت کے لیے دلیل قاطع بن گیا۔ (کبیر۔، ف 9 یعنی اگر یہ اس قسم کی حرکات اور طعن کی بجائے ایسے کلمات استعمال کرتے ہیں جن میں شرارت کی آمیزش نہیں ہوسکتی اور اخلاص سے پیش آتے مثلا عصینا کی بجائے اطعنا کہتے اور غیر مسمع کی بجائے انظونا تو ان کے حق میں بہتر ہوتامگر افسوس ہے کہ یہ بہت ہی تھوڑے احکام پر ایمان رکھتے ہیں پس قلیلا یہاں مصدر معخدوف ایمانا کی صفت ہے۔ النسآء
47 ف 1 کی شرارتوں کو بیان کرنے بعد اب اس آیت میں ان کو ایمان کی دعوت دی اور ہٹ دھرمی کی بنا پر احکام خداوندی بجا نہ لانے پر وعید سنائی کیونکہ یہود عالم تھے اور علم ومعروف کے باوجود ہٹ دھرمی سے کام لے رہے تھے ( ْ کبیر) اس وعید کا تعلق یا تو قیامت کے کے دن سے ہے یا دنیا میں چہروں کو مسخ کردینا مراد ہے اور اصحاب سبت جیسی لعنت سے مراد یہ ہے کہ جس طرح ان کو بندر خنزیر منادیا تھا تمہیں ویسا ہے بنا دیا جائے۔ اصحاب سبت کے قصہ کے لیے دیکھئے سورت اعراف آیت 163) النسآء
48 ف 2 یہود کو تہدید وعید فرمانے کے بعد اس آیت میں اشارہ فرمایا کہ یہ تہدید شرک وکفر کی وجہ سے ہے ورنہ دوسرے گناہ تو قابل عفو ومغفرت ہی اور اللہ تعالیٰ کی مشیت کے تحت ہیں جسے چاہے اللہ تعالیٰ معاف فرماسکتے ہیں (کبیر) یہود نصاریٰ کی طرح نام کے مسلمان جو شرک میں گرفتار ہیں اولیا اللہ کے نام کا روزہ رکھتے ہیں ان کی قبروں کو پو جتے ہیں ان کے نام پر جا نور کا ٹتے اور اسکی منتیں مانتے ہیں اٹھتے بیٹھتے ان کو پکار تے ہیں وہ بھی مشرکوں کے حکم میں آتے ہیں (وحیدٰ ف 3 یعنی ناقابل عفو گناہ کا ارتکاب کیا۔ (مزید دیکھئے سورت لقمان 130) النسآء
49 ف 4 فتیل دراصل اس پتلے سے دھاگے کو کہتے ہیں جو کھجور کی کٹھلی کے کٹاو پر نظرآتا ہے۔ یہ محاورہ ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ ان پر ذرہ ومعصوم سمجھتے اور اللہ تعالیٰ کے بیٹے اور محبوب ہونے کا دعویٰ کرتے۔ ان کی تردید فرمائی کہ کسی کو پاکباز انسان قرار دینا تو اللہ تعالیٰ کا کام ہے اپنی طرف آپ کرنا انسان کے لیے مہلک ہے حدیث میں ایاکم واتما دح فانہ الذحج کہ خود پسندی اور اپنی تعریف سے بچو یہ تو اپنے آپ کو ذبح کرنے دینے کے مترادف ہے۔ نیز حضرت عمر (رض) سے مروی ہے وہ اپنی ہی رائے کو پسند کرنا ہے۔ (ابن کثیر ) النسآء
50 النسآء
51 ف 5 الجبت بت کو کہتے ہیں اور جادوگر کاہن ٹونے ٹوٹکے اور اس قسم کی سب چیزیں الجبت میں داخل ہیں۔ حدیث میں ہے اطیر ۃ والعیافتہ والطرق من الجبت شگون لینا پرندوں کو اڑاکر اور زمین پر لکیریں کھینچ کرفال گری کرنا جنت میں شامل ہیں اور الطاغوت سے مراد شیطان ہے اور ہر وہ شخص معاصی کی دعوت دے اس پر یہ لفظ بولا جاتا ہے۔ عرب میں بتوں کے ترجمان ہوتے تھے جو ان کی زبان سے جھوٹ نقل کرتے اور لوگوں کو گمراہ کرتے ان کو طاغوت کہا جاتا تھا (کبیر) ف 6 یہودیوں کی آنحضرتﷺ سے مخالفت ہوئی تو انہوں نے مشرکین مکہ سے رابطہ قائم کرلیا اور ان سے کہنے لگے کہ تمہارا دین مسلمانوں سے بہتر ہے۔ یہ سب کچھ اس حسد کی وجہ سے تھا کہ نبوت اور ریاست دینی ہمارے سوا دوسروں کو کیوں مل گئی۔ اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں ان کو الزام دیا۔ تفسیر معالم میں ہے کہ یہ یہود کعب بن اشرف تھے جو غزوہ احد کے بعد مکہ مکرمہ گئے اور مشرکین کو اپنے ساتھ ملانے کے لیے ان کے بتوں کو بھی سجدہ کرگزرے۔ النسآء
52 النسآء
53 ف 7 اوپر کی آیت میں یہود کو جہالت بیان کی کہ وہ بتوں کی پوجا کو اللہ تعالیٰ کی عبادت پر ترجیح دیتے ہیں اس آیت میں ان کے بخل اور حسد کو بیان فرمایا ہے (کبیر) بخل تو یہ ہے کہ نعمت اللہ تعالیٰ نے کسی کودی ہو دوسروں سے اسے روک لینا۔ اور حسد یہ ہے کہ یہ نعمت اللہ تعالیٰ نے دوسروں کودی ہے اس پر جلے بھنے اور آرزو کرے کہ اس سے چھین جائے اور مجھے مل جائے پس حسد اور بخل دونوں میں یہ بات قدر مشترک ہے کہ دوسروں سے نعمت کو رکنا اور یہ گوارا نہ کرنا کہ اپنی ذات کے سوا دوسروں کو بھی فائدہ پہنچے (کبیر، قرطبی) یہود میں یہ دونوں صفتیں اتم اور اکمل طوپر پائی جاتی تیں۔ قرآن نے یہ بتایا کہ یہ مسلمان پر حسد کرتے ہیں اور ان کے بخل کا یہ حال ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کے ملک وسلطنت میں ان کو اختیار ہوتا تو کسی کو تل برابر بھی کچھ نہ دتیے نقیر دراصل اس نقطہ کر کہتے ہیں جو گٹھلی کی پشست پر ہوتا ہے اور یہ قلت ضرب المثل ہے۔ النسآء
54 ف 1 مطلب یہ ہے کہ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کے بیٹے اسحاق ( علیہ السلام) کی اولاد میں مدت دراز تک نبوت اور بادشاہی رہی اور حضرت داود ( علیہ السلام)، حضرت سلیمان ( علیہ السلام) اور دوسرے اولو العزم پیغمبر ہو گزرے ہیں۔۔ اب بنو اسمعیل ( علیہ السلام) میں سے آنحضرتﷺکو نبوت ورسالت سے سرفراز فرمادیا گیا ہے تو یہ کیوں حسد کررہے ہیں۔ یہاں من فضلہ سے مراد نبوت اور دین دنیا کی وہ عزت مراد ہے جو نبوت کی برکت سے حاصل ہوئی الکتاب سے مراد کتاب الہیٰ ادر الحمت سے اس کا فہم اور اس پر عمل مراد ہے اور ملک عظیم سے مراد سلطنت اور غلبہ وقتدار ہے۔ (رازی۔ ابن کثیر ) النسآء
55 النسآء
56 ف 2 اٰ من بہ میں بہ کی ضمیر ایتا کی طرف بھی راجع کرسکتی ہے جو اتینا سے مفہوم ہوتا ہے یعنی بعض تو اس ایتا انعام پر ایمان لے آئے اور بعض نے اعراض کیا اور لوگوں کو بھی روکنے کوشش کی، لہذآپ ﷺ نے ان کے کفر سے لگیر نہ ہوں (ابن کثیر) اور اگر اس ضمیر کا مرجع آنحضرت ﷺ کو مانا چائے تو معنی یہ ہوں گے کہ یہ سب کچھ دیکھ لینے کے باوجود یہود میں سے کچھ لوگ تو آنحضرتﷺ پر ایمان لانا چاہتے ہیں انہیں بھی روکنا چاہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی سزا کے لیے جہنم کافی ہے۔ ْ( فتح القدیر۔ کبیر) یہاں بتاکہ یہ سزا صرف اہل کتاب کے ایک گروہ کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ سب کفار کو ملے گی ،(کبیر) بدلناھم جود اغیر ھا سے اہل جہنم کے عذاب کی سختی بیان کرنی مقصود ہے بعض آثار و روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ دن میں سینگڑو مرتبہ چمڑوں کی یہ حالت تبدیل ہوگی اران کے چمڑے ستر گز مو ٹے ہوں گے اور ایک جہنمی کی ڈاڑھ احد کی مثل ہوگی۔ اس طرح ان کو دئمی عذاب ہوتا رہے گا ،(ابن کثیر۔ کبیر ) النسآء
57 ف 4 قرآن پاک میں عموما دندہ اور وعید کو ایک ساتھ بیان فرمایا گیا ہے اور اس اسلوب کی وجہ سے قرآن کو لتابا متشابھا فرمایا ہے اور وعظ تذکیر کایہ مئو ثر ترین انداز ہے۔ آیت سے بعض نو سمجھا ہے کہ عمل صالح ایمان کا غیر ہے کیونکہ یو دونوں عطف کے ساتھ مذکور ہیں مگر قرآن نے متعدد آیات میں عمل صالح پر زور دینے کے لیے عمل صالح کو الگ عطف سے ساتھ بیان کردیا ہے۔ ورنہ یہ بھی ایمان میں داخل ہے (ابن کثیر، شوکانی) آیت میں ظلا ظلیلا (گھنے سائے) نہایت درجہ کی راحت سے کنا یہ ہے۔ (کبیر) گھنے سائے تفسیر میں امام ابن جریر (رح) نے حضرت ابو ہریرہ (رض) کی یہ روایت نقل کی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جنت میں ایک درخت ہے جس کے سایہ میں سوار سو برس تک چلے گا پھر بھی اسے طے نہ کرسکے گا۔ وہ ہمیشگی کا درخت ہے۔ (ابن کثیر ) النسآء
58 ف 5 درمیان میں کفار کے احوال اور ان کے حق میں وعید کا ذکر آگیا تھا اب دوبارہ سلسلئہ احکام کا بیان شروع ہو رہا ہے۔ یہود امانت میں خیانت کرتے اور فیصلہ میں رشوت لے کر جوا کرتے۔ مسلمانوں کو ان باتوں سے دور رہنے کا حکم دیا۔ یہاں امانت سے مراد گو ہر قسم کی امانت ہے اس کا تعلق مذہب ودیا نت سے ہو یا دنیاوی معاملات سے لیکن یہود کتمان حق کر کے امانت علمی میں خیانت کے مرتکب تھے بعض روایات میں ہے کہ جب مکہ فتح ہوا تو رسول اللہ ﷺ نے عثمان بن طلحتہ بن ابی طلحتہ احجبی سے کعبی کی کنجی لے لی۔ اس پر جبرائیل نازل ہوئے اور کنجی واپس کردینے کا حکم دیا (ابن جریر) آیت میں ہر قسم کے ذمہ کو اس کے اہل کے سپر کرنے کا حکم دیا ہے نیز حکم دیا ہے کہ ہر قسم کے فیصلوں سے عدل وانصاف کو ملحوظ رکھا جائے صحیحین کی ایک روایت میں خیانت درامان کو نفاق کی ایک خصلت قرار دیا ہے۔ نیز آپﷺ کا ارشاد ہے کہ جب تک حاکم بے انصافی پر اتر آتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس سے اس کے حوالے کردیتا ہے اور ایک اثر میں ہے کہ ایک دن عدل کرنا جالیس سال کی عبادت بہتر ہے (ابن کثیر ) النسآء
59 ف 6 مو ضح کا ترجمہ اوفائدہ یہ ہے اولی الا مر اختیار والے باشاہ اور قاضی اور جو کسی کام پر مقرر ہو اس کے حکم پر چلنا ضروری ہے جبتک وہ خلاف خدا اور سول ﷺ حکم نہ کرے اگر صریح خلاف کرے تو وہ حکم نہ مانے ایک امیر کی اطاعت کے سلسلہ میں آپ ﷺ نے فرمایا انما الطاعتہ فی المعروف کہ امیر کی اطاعت صرف معروف یعنی نیکی میں ہے (ابن کثیر بحوالہ صحیحین) ف 7 اس آیت میں ایک نہایت اہم حکم دیا ہے یعنی باہمی نزاع کی صورت میں اللہ و رسول ﷺ کی طرف رجوع ہونا شرط ایمان ہے۔ اللہ تعالیٰ کی اطاعت تو قرآن کی اتباع ہے اور رسول ﷺ کی اطاعت ہے۔ آپﷺ کی زندگی کے بعد آپ ﷺ کی سنت کی اطاعت ہے اور یہ اطاعتیں مستقل ہیں اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن کی طرح رسول اللہ ﷺ کی حدیث بھی اسلامی قانون کا مستقل ماخذ ہے۔ حضرت نواب صاحب لکھتے ہیں۔ اس آیت سے مقلدین دلیل لیتے ہیں تقلید کے واجب ہونے پر لیکن یہ دلیل نہیں ہو سکتی اولی الا مر سے بادشاہ اور حکام مراد ہیں (دیکھئے فوائد موضح) لیکن اگر سلف (رح) سے یہ منقول ہے کہ علمائے دین مراد ہیں تو اس میں اول تو کسی عالم کی تخصیص نہیں ہے دوسرے ہر فرض تسلیم عالم کی تقلید کا حک اسی وقت تک ہے کہ اس کا حکم قرآن و حدیث کے موافق ہو پھر خود رائمہ اربعہ نے اپنی تقلید سے منع فرمایا ہے اور قرآن نے حکم دیا ہے کہ ائمہ (رح) کی اتباع میں جھگڑ اہو تو اللہ و رسول ﷺ کی طرف رجوع ہونا چاہیے (ترجمان) ف 1 اگر دو مسلمان جھگڑتے ہیں ایک نے کہا چل شرع کی طر رجوع کریں دوسرے نے کہا میں شرع کو (کچھ) نہیں سمجھتا یا مجھے شرع سے کام نہیں وہ بے شک کافرہوا (موضح) النسآء
60 ف 2 اوپر کی آیتوں میں تمام مسلمانوں پر واجب کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت کریں اب یہاں فرمایا کہ منافق ہمیشہ رسول ﷺ کی نافرمانی کرتے ہیں اور کبھی آنحضرت ﷺ کے فیصلے اور حکم پر راضی نہیں ہوتے (رازی) اس حد تک مفسرین متفق ہیں کہ یہ آیات منافقین کے بارے میں نازل ہوئی ہیں اور بظاہر ہر آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل کتاب میں سے کسی منا فق کے بارے میں نازل ہوئی ہیں تاہم اس کے تحت مختلف اسباب نزول مذکور ہیں (رازی) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ معتب ن قشیر اور رافع بن زید میں جھگڑا ہوگیا مسلمانوں نے ان سے کہا چلو نبی ﷺ سے فیصلہ کر اتے ہیں۔ انہوں نے جواب دیا کہ نہیں جابلی کاہنوں کے پاس چلتے ہیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی (فتح البیان) گو اس کے شان نزول خاص ہے مگر آیت میں ہر اس مسلمان کی مذمت ہے جو کتاب وسنت کو چھوڑ کر دوسرے باطل طریقے سے فیصلہ کروانے کی کو شش کرے اور اسی کا نام طاغوت ہے (ابن کثیر ) النسآء
61 النسآء
62 ف 3 آیت کا پہلا حصہ جملہ معترضہ ہے اور ثم جاعوت سے پہلی آیت کے ساتھ مربوط ہے ان آیات کی دوسری شان نزول یہ بھی بیان کی گئے ی ہے کہ مدینے میں ایک یہودی اور ایک مسلمان (منافق) کی کسی معاملہ میں نزاع ہوگئی یہو دی کو معلوم تھا کہ آنحضرت ﷺ حق فیصلہ کریں گے اور رعایت سے کام نہیں لیں گے اس لیے منافق سے کہا کہ چلو محمد ﷺ سے فیصلہ کرواتے ہیں منانفق کہا تم یہودیوں کے عالم رکعب بن اشرف کے پاس چلیں آخر دونوں آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے نبی اکرم ﷺ نے بیان سن کر یہودی کو سچاقرار دیا۔ منا فق نے باہر آکر کہا کہ اچھا اب عمر (رض) کے پاس چلیں یہ آنحضرت ﷺ کے حکم سے مدینے میں فیصلہ کرتے تھے۔ منافق نے غالبا یہ خیلا کیا ہوگا کہ حضرت عمر (رض) حمیت مذہبی کے باعث یہو دی کے مقابلے میں اس کی رعایت کریں گے چنانچہ وہ دونوں حضرت عمر (رض) کے پاس آئے یہودی نے سارا ماجرا کہہ سنایا کہ حضرت ﷺ کے پاس سے آئے ہیں اور انہوں نے مجھے سچا قرار دیا ہے حضرت عمر (رض) یہ سن کر گھر کے اندر تشریف لے گئے اور تلوار لاکر منافق کا سرقلم کردیا اور فرمایا جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا فیصلہ پسند نہ کر اس کے بارے میں میرا فیصلہ یہ ہے منا فق کے ورثا رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور حضرت عمر (رض) پر قتل کا دعویٰ کردیا اور قسمیں کھا نے لگے کہ حضرت عمر (رض) کے پاس تو اس لیے گئے تھے کہ شاید باہم صلح کرادیں رسول اللہ ﷺ نے فرمای کہ میں یہ یقین نہیں کرسکتا کہ عمر (رض) کسی مسلمان کو ناحق قتل کردیں اس پر یہ آیات نازل ہوئیں اور حضرت جبرائیل ( علیہ السلام) نے آنحضرت کو بتایا کہ عمر (رض) نے حق ارباطل کے درمیان فیصلہ کردیا ہے۔ چنانچہ اس روز سے آنحضرت ﷺ نے حضرت عمر (رض) کو فارق کا لقب عطا فرمایا۔ (قرطبی۔ (فتح الباری باب سکرلانہار) اختلاف الفاظ کے ساتھ یہ قصہ معالم اور ابن کثیر میں بھی مذکور ہے مگر ابن کثیر میں فاروقی کی وجہ تسمیہ والا حصہ ساقط ہے۔ ( م۔ ع) النسآء
63 ف 4 یعنی ان منافقوں کے دل کا چور اللہ تعالیٰ کو خوب معلوم ہے تم کو معلوم نہیں تم ان سے اپنا ظاہری معاملہ درگزر کارکھو اور ان کو دلپذیرنصیحت کرتے رہو شاید کسی کے دل میں کوئی بات اترجائے (ا، ت ) النسآء
64 ف 5 اطاعت رسول کی دوبارہ ترغیب دی ہے (رازی) یعنی اللہ کے رسول دنیا میں اس لیے آتے ہیں کہ جمیع امور میں اللہ تعالیٰ کی توفیق واعانت سے ان کی اطاعت کی جائے معلوم ہوا کہ ہر رسول صاحب شریعت ہوتا ہے۔ (ابن کثیر، رازی ) ف 6 جب ان لوگوں نے آنحضرت ﷺ کے فیصلے سے انحراف کر کے معصیت کا ارتکاب کیا ہے تو ان کو چاہئے تھا کہ بجائے حیلہ بازیوں اور سخن سازیوں کے اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرتے اور رسول اللہ ْْﷺ سے بھی اپنے لیے مغفرت کی دعا کر واتے اگر ایسا کرتے تو اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول فرماتا اور ان پر رحم کرتا (تنبیہ) اس جگہ حافظ ابن کثیر نے ایک بدوی کی حکایت نقل کردی ہے جس نے آنحضرت ﷺ کے روضئہ مبارک کے پاس آکر یہ آیت پڑھتے ہوئے کہا کہ یا حضرت ﷺ میں اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتا ہوں اور آپ ﷺ کو سفیع بناتا ہوں اس پر قبر انور کے پاس بیٹھنے والے ایک شخص نے کہا۔ خواب میں آنحضرت ﷺنے مجھ سے فرمایا ہے کہ اس بدوی کو بخش دیا گیا لیکن یہ ایک حکایت ہے جو آیت کی مناسبت سے درج کردی ہے یہ آیت کی تفسیر یا حدیث نہیں ہے الصارم المنکی (ص 238) میں لکھا ہے کہ اس حکایت کی سند نہایت کمزور ہے آیت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کی حیات مبارکہ میں آپﷺ سے دعائے مغفرت کرائی جاسکتی تھی مگر آپ ﷺ کی وفات کے بعد قبر مبارک سے استشفاع پر استدلال ککسی طرح صحیح نہیں ہے۔ (ترجمان نواب) النسآء
65 ف 1 اس آیت سے معلوم ہوا کہ آنحضرت ﷺ کے فیصلہ کے خلاف دل میں ذرہ بھر بھی تنگی اور باپسند ید گی محسوس کی جائے تو یہ ایمان کے منا فی چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کی خواہش نفس میرے لائے ہوئے طریقہ کے تابع نہ ہوجائے بعض نے کہا ہے کہ یہ ّآیت پہلے قصہ کے ساتھ ہی متعلق اور بعض نے لکھا ہے کہ حضرت زبیر (رض) اور ایک انصاری کے درمیان شراج حرۃ کے پانی کے بارے میں نزاع ہوگئی آنحضرت ﷺ نے حضرت زبیر (رض) سے رعایت کی سفارش کی اور فرمایا اپنے باغ کو پانی دے کر اپنے پڑوسی کے لیے چھوڑ دے اس پر انصاری نے کہا یہ اس لے کہ زبیر (رض) تمہارے پھوپھی زاد بھائی ہیں۔ مطلب یہ تھا کہ اس رشتے کی رعایت کی ہے اس پر آنحضرت ﷺ کو تکلیف محسوس ہوئی اور فرمایا کہ زبیر (رض) اپنے باغ کو اتنا پانی دو کہ دیوار تک چڑھ آئے پر اس کے لیے چھوڑ دو اس پر انصاری اور زیادہ تلملا یا اور یہ آیت نازل ہوئی (بخاری تفیسر و کتاب الشرب) معلوم ہے کہ آنحضرت ﷺ کا ہر فیصلہ تنقید ہے بالا ہے اور ہر حاکم وقت کے فیصلہ سے بلند ہے اور یہ اس لے کہ آپﷺ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں (م، ع) النسآء
66 ف 2 اس آیت کا تعلق بھی منافقین سے ہے اور اس میں ان کو اخلاص اور ترک نفاق کی ترغیب دی گئی ہے (رازی) یعنی چاہئے تو یہ کہ اللہ تعالیٰ کا حکم مانے میں جان سے بھی دریغ نہ کیا جائے (مگر یہ ایسے ہیں کہ) اگر کہیں ان کو اللہ تعالیٰ اپنی جانیں ہلاک کر ڈالنے یا اپنے گھر چھوڑ دینے کا حکم دے دیتا تو یہ اس کو کب بجالانے والے تھے جو حکم ہم نے انہیں دیئے ہیں وہ نہایت آسان اور محض ان کی خیر خواہی کے لیے ہیں نصیحت مانیں اور ان احکام پر چلیں نفاق جاتا رہے گا ایمان کامل نصیب ہوگا اس امر کو غنیمت سمجھیں۔ (از موضح) فائدہ اللہ تعالیٰ کے تمام احکام چونکہ وعدہ وعید اس لیے ان کو لفظ وعظ سے تعبیر فرمایا ہے (رازی) النسآء
67 النسآء
68 النسآء
69 ف 3 صدیق یہ صدق سے مبالغہ کا صیغہ ہے یعنی جو جملہ امور دین کی تصدیق کرنے ولا ہو اور کبھی کسی معاملہ میں خلجان اور رشک اس کے دل میں پیدا نہ ہو یا وہ جو رسول ﷺ کی تصدیق میں سبقت کرنے کی وجہ سے دوسرے کے لیے اسوۃ بنے اس اعتبار سے اس امت کے صدیق حضرت ابوبکر (رض) ہی ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) دوسرے افاضل صحابہ (رض) کے لیے نمومہ بنتے ہیں حضرت علی (رض) بھی اول مسلمانوں میں شمار ہوتے ہیں۔ مگر چھوٹے بچے ہونے کی وجہ سے دوسروں کے لیے نمونہ نہیں بن سکتے چونکہ نبی کے بعد صدیق کا درجہ ہے اس لیے علما اہل سنت کا اجماع ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق (رض) آنحضرت ﷺ کے بعد سب سے افضل ہیں شہدا یہ شہید کی جمع ہے اس سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے راستہ میں جان دی اور امت محمد ﷺ کے بھی شہدا ہونے کا شرف حاصل ہے اور صالحین سے مراد وہ لوگ ہیں جو عقیدہ وعمل کے اعتبار سے ہر قسم کے فساد سے محفوظ رہے۔ ( رازی) مجموعہ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ صحابہ (رض) کے دل میں استیاق پیدا ہوا کہ جنت میں آنحضرت ﷺ کی رفاقت حاصل ہوجائے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی صحیح مسلم میں ربیعہ بن کعب سلمی ٰ (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے آنحضرتﷺ سے درخواست کی کہ جنت میں آپﷺ کا ساتھ نصیب ہو آپ ﷺ نے فرمایا : کثرت سجود (کثرت نوافل) سے میری مدد کرو ترمذی کی ایک حدیث میں ہے التاجر الصدوق الامین لنبتین والصد یقین والشدآ کہ امانتدار اور سچ بولنے والا تاجر قیامت کے دن انبیا اور شہدا کے ساتھ ہوگا (ابن کثیر۔ رازی) النسآء
70 ف 4 یعنی اطاعت واخلاص پر رفاقت کا درجہ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا فضل وکرم ہے اور لوگوں کی حالت معلوم ہے (رازی) اوپر کی آیات میں اللہ تعالیٰ اور اسکے رسول ﷺ کی اطاعت کا حکم فرمایا اور اس کی ترغیب کے سلسلہ میں یہ بھی بتایا کہ اطاعت سے انبیا صدیقین شہدا اور صالحین کی رفاقت حاصل ہوگی اب اس آیت میں جہاد کا حکم فرمایا ہے جو سب سے مشکل طاعت ہے اور منافقین کے بارے میں محتاط رہنے کا حکم دیا ہے۔ (رازی ) النسآء
71 النسآء
72 النسآء
73 ف 1 مراد منافقین ہیں اور ان کو ظاہری اختلاط اعتبار سے منکم کہہ دیا ہے مگر مفسرین کی ایک جماعت سے منقول ہے کہ ان سے مراد ضعیف الا یمان ہیں پس منکم اپنے معنوں میں ہے۔ (رازی) یعنی ان کو تمہاری فتح کی خوشی ہے ارونہ تمہیں نقصان پہنچنے کا غم انہیں تو صرف مطلب سے مطلب ہے۔ فتح اوشکست دونوں حالتوں میں اس قسم کا وطیرہ اختیار کرتے ہیں کہ جیسے بالکل اجنبی ہوتے ہیں اور تمہارے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے پر آیت کان لم تکن بینکم وبینہ مودۃ جملہ معترضہ ہے اور یا لیتنی الخ لیقولن کا مقولہ ہے (رازی ) اوپر کی آیتوں میں جہاد سے مبطین اور پیچھے رہنے والے اور دوسروں کو روکنے ولے) کی مذمت کے بعد اب مخلصین کو ترغیب دی جارہی ہے (رازی) شریٰ یشری کے معنی بیچنا اور خرید نا دونوں آتے ہیں یہاں ترجمہ بیچنا کا کیا گیا ہے اور اکثر مفسرین نے اسی کو ترجیح دی ہے لیکن اگر اسے خرید نے کے معنی میں لیا جائے تو ّآیت کا مطلب یہ ہوگا کہ جو منافق گھر میں بیٹھے رہنے کی وجہ سے آخرت کے بدلے دنیا خرید کر رہے ہیں ان کو چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کو نکلیں۔ (فتح القدیر۔ ابن جریر) ف النسآء
74 3 یعنی مسلمانوں کو چاہیے کہ زندگی دنیا پر نظر نہ رکھیں آخرت چاہیں اور سمجھیں کہ اللہ تعالیٰ کے حکم میں ہر طرح نفع ہے (موضح) مطلب یہ کہ اللہ تعالیٰ کی راہ جنگ کے دو ہی نتیجے ہو سکتے ہیں یعنی شہادت یا فتحمندی اور دونوں مسلمان کے حق میں خوش کن ہیں کیونکہ دونوں ہی میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اجر عظیم کا وعدہ ہے۔ حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مخلص مجاہدین کے لیے دوچیزوں میں سے ایک کی ضمانت دی ہے اگر شہید ہوجائے تو سے جنت میں داخل کرے گا اور زندہ واپس آئے تو اجر وغنیمت کے ساتھ واپس آئے گا (قرطبی) النسآء
75 ف 4 اس کا تعلق بھی ترغیب جہاد سے ہے یعنی دو وجوہ کی بنا پر تمہیں کفار سے لڑنا ضروری ہے اول اعلائے کلمتہ اللہ یعنی اللہ تعالیٰ کے دین کی سربلندی کے لیے دوم ان مظلوم مسلمانوں کے نجات دلانے کے لیے جو کفار کے چنگل میں بے بس پڑئے ہیں (قرطبی) مکہ معظمہ میں بہت سے ایسے لوگ رہ گئے تھے جو آنحضرت ﷺ کے ساتھ ہجرت نہ کرسکے تھے اور ان کے تعارب ان پر تشدد کرنے لگے تھے نانہ اسلام سے پھیر کر ان کو پھر سے کافر بنا لیں پس القریتہ الظالم اھلھا سے مکہ مراد ہے۔ اور مشرک ہونے کی وجہ سے یا مظلوم مسلمانوں کی ستانے کی وجہ سے اس کے باشندوں کو ظالم فرمایا ہے حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ میں اور میر والدہ بھی ان بے بس مسلما نوں شامل تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے معذور قرار دیا ہے (رازی۔ ابن کثیر) مدینہ میں آنحضرت ﷺ ان مستضعفین کے حق میں نام لے لیکر دعا فرمایا کرتے تھے اللھم انج الوالید بن الولید وسلمتہ بن ھشام وعیاش بن ابی ربعیہ والمستضعفین من المو منین۔ یا اللہ ولید بن ولید بن ہشام، عیاش، بن ابی ربیعہ اور مکہ میں گھرے ہوئے دوسرے بے بس مسلمانوں کو رہائی دلا (بخاری ) النسآء
76 ف 5 جہاد کی فرضیت اور ترغیب کے بعد اس آیت میں بتایا کہ جہاد کی ظاہر صورت کا عتبار نہیں ہے بلکہ جہاد اپنے مقصد کے اعتبار سے جہاد ہے۔ مومن ہمیشہ اعلا کلمتہ اللہ کے لیے جہاد کرتا ہے اور کافر کسی طاغوتی طاقت کو بچانے یا مضبوط کرنے کے لیے لڑتے ہیں لہذاتم ان سے خوب لڑو شیطان خواہ اپنے دوستوں کے کتنے ہی مکر وفریب سمجھا دے مگر تمہارے خلاف و کامیابی نہیں ہو سکتی (رازی) النسآء
77 ف 1 یعنی جب تک مسلمان مکے میں تھے اور کافر ایذا دیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو لڑنے سے روکے رکھا اور صبر کا حکم دیا فرمایا اب جو (مدینہ منورہ) میں لڑائی کا حکم آیا ہے تو ان کو سمجھنا چاہیے کہ ہماری مراد ملی لیکن کچے مسلمان کنارہ کرتے رہیں اور موت سے ڈرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے برابر آدمیوں سے خطرہ کرتے ہیں۔ (موضح) روایات میں ہے مسلمانوں نے مکی زندگی میں کئی دفعہ چاہا کہ ظالموں سے دو بدو نمٹیں مگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو حکم ہوتا کہ ابھی نماز اور زکوٰۃ (نفاق مال) کا جو تم کو حکم ہوا ہے اس کی خوب عادت ڈالو تاکہ تمہاری تربیت ہوجائے۔ مدینہ منورہ میں بھی ہجرت کے ابتدائے برسوں میں مسلمانوں کی خواہش یہی تھی لیکن جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے لڑائی کی اجازت آگئی تو اب بعض خام قسم کے مسلمان اس سے ہچکیمانے لگے اس پر یہ آیت نازل ہوئی (ابن کثیر۔ قرطبی) ف 2 شاہ صاحب کر ترجمہ یہ ہے کہ کیوں نہ جینے دیا ہم کو تھوڑی سی عمر جواب آگے ہے۔ ف 3 دنیا کی بے ثباتی کا ذکر کے کر جہاد کی ترغیب دی ہے۔ صحیح مسلم میں اور اس کی انگلی میں تھوڑی سی نمی رہ جائے ایسی ہی مثال دنیا ارآخرت کی ہے۔ نیز فرمایا کہ میری اور دنیا کی مثال ایک مسافر کی ہے جوایک درخت کے نیچے دوپہر کو آرام کرتا ہے اور پھر ورانہ ہوجاتا ہے۔ (معالم، قرطبی) النسآء
78 ف 4 یعنی جب موت سے تمہیں کسی حال میں چھٹکا را نہیں تو پھر اللہ کی راہ میں جہاد سے کیوں ہچکچاتے ہو مقصد جہاد کی ترغیب ہے (کبیر) ف 5 اوپر بیان فرمایا کہ منا فیقن جہاد سے جی چراتے ہیں اور موت سے ڈرتے ہیں۔ اب یہاں ان کی ایک دوسر مذموم خصلت کا ذکر فرمایا جو پہلی بھی بری ہے یعنی نحوست کہ آنحضرتﷺ کی طرف نسبت کرتے ہیں۔ (کبیر) یہاں الحسنہ سے مرا اد نصرت غلبہ اور خو شحالی وغیرہ ہے اور اس کے مقابلے میں السئیہ سے مراد بلا مصیبت قتل وہزیمت وغیرہ ہے۔ ف 6 یہ ان کے کلام کا جواب ہے کہ برائی بھلائی دونوں اسی کی طرف سے اور اسی حکم سے ہیں۔ ہر چیز کا پیدا کرنے والا وہی ہے بلا اور مصیبت کو کسی کی نحوست قرار دینا قطعی غلط ہے۔ شاہ صاحب فرماتے ہیں یہ منافیقن کا ذکر ہے کہ گر تدبیر جنگ درست آئی اور فتح اور غنیمت ملی تو کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوئی یعنی اتفاقا بن گئی حضرت ﷺ کی تدبیر کے قائل نہ ہوتے تھے اور اگر بگڑگئی تو الزام رکھتے حضرت ﷺ کی تدبیر پر اللہ صاحب نے فرمایا کہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے یعنی پیغمبر کی تد بیر اللہ کا الہام ہے غلط نہیں اور بگڑ ی کو بگڑا نہ بوجھو یہ اللہ تم کو سدھاتا ہے تمہاری تقصیر پر۔ اگلی آیت میں کھول کر بیان فرمادیا ہے (موضح) ف 7 یعنی تعجب ہے کہ اتنی بدیہی حقیقت بھی ان کی سمجھ میں نہیں آتی (رازی) النسآء
79 ف 8 اس میں برائی اور بھلائی کا ایک قانون بیان فرمادیا ہے کہ بھلائی تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اور جو برائی پہنچتی ہے اس کا بھیجنے والا بھی گو اللہ تعالیٰ ہی ہوتا ہے مگر اس کاسبب تمہارے اپنے گناہ ہوتے ہیں۔ (دیکھئے سورت شوریٰ آیت 3) اس لیے سلف صالحین کا خام قاعدہ تھا کہ جن کوئی اجتہادی رائے ئ پیش کرتے تو کہتے کہ اگر یہ صحیح ہے تو اللہ تعالیٰ کے طرف سے اور اسی کی توفیق سے اور اگر غلط ہے تو ہماری طرف سے اور شیطان کی طرف سے (ابن کثیر) اوپر کی آیت میں خلق وایجاد کے اعتبار سے حسنتہ اور سیئہ دونوں کو من عند اللہ قرار دیا ہے اور اس آیت میں باعتبار کسب وسبب کے سیئہ کو انسان کی طرف منسوب کردیا ہے لہذا تعارض نہیں ہے۔ کذافی الکبیر) موضح میں ہے بندہ کو چاہیے نیکی اللہ کا فضل سمجھے اور تکلیف اپنی تصصیر سے۔ تصصیروں سے اللہ تعالیٰ واقف ہے اور وہی خبر دیتا ہے۔ ف 9 یعنی آپ کا اصل منصب رسالت اور تبلیغ ہے اور اللہ گواہ ہے کہ آپ ﷺ نے اس امانت کے ادا کرنے میں کسی قسم کی تقصیر نہیں کی پھر اس کے بعد بھی اگر کسی کو ہدایت نہیں ہوتی تو آپ ﷺ کا اس میں کوئی قصور نہیں ہے۔ (کبیر) نیز آنحضرت ﷺ کی عمومی رسالت کا بیان ہے (دیکھیے اعراف 58 اسبا 128) النسآء
80 ف 10 یعنی آنحضرتﷺ چونکہ اللہ کے رسول اور مبلغ ہیں اس لیے ان کی اطاعت اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے۔ نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج اور دیگر احکام شریعت ایسے ہیں جن کو آنحضرت ﷺ کی توضیح کے بغیر سمجھنا ممکن نہیں ہے لہذا قرآن کے لیے کوئی شخص سنت سے بے نیاز نہیں ہوسکتا۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کی طاعت عین طاعت الہیٰ ہے۔ (تفصیل کے لیے ملا حظہ ہو الرسالتہ للشافع رقم 57۔85 (الربع) ف 11 یعنی اس کے بعد بھی اگر لوگ گمراہ ہوتے ہیں تو اس کی ذمہ داری آپﷺ پر نہیں ہے اس میں آنحضرت ﷺ کو تسلی دی ہے۔ (کبیر ) النسآء
81 ف 12 یہاں منافقین کی ایک اور مذموم خصلت بیان فرمائی ہے اور ان کو سرزنش کی ہے اور آنحضرتﷺ کو ان کی حرکات شبیعہ سے چشم پوشی اور اللہ تعالیٰ پر توکل کا حکم فرمایا ہے بیتت کا لفظ اصل میں بیت (گھر) سے ہے اور انسان چونکہ عمو مارات کو اپنے گھر میں رہتا ہے اس لیے بات کے معنی ثب باشی کے ہیں پھر چونکہ رات کے فارغ اوقات میں آدمی اپنے معالات پر غوروفکر کرتا ہے اس لیے بتیت کا لفث کسی معاملہ میں نہایت غور وفکر کرنے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ( رازی) النسآء
82 ف 1 ابتدائے ہجرت میں منافقین کی حرکتوں سے چشم پوشی کا حکم تھا اس کے بعد آیت جاھد الکفار والمنا فقین ( کہ کفار اور منافقین سے جہاد کرو) سے یہ حکم منسوخ ہوگیا ہے منافقین سے جہاد کے یہی معنی ہیں کہ ان کو زجرو وملامت کی جائے اور ان کی حرکتوں چشم پوشی نہ کی جائے تفصیل کے لیے دیکھئے التوبہ آیت 3) مگر امام رازی اس نسخ پر راضی نہیں ہیں (کبیر) ف 2 منافقین کے مکر وفریب اور مذموم خصائل کے ضمن میں قرآن کی حقانیت کے اثبات کی ضرورت ہے اس لیے پیش آئی کہ منافقین یہ سب مکرو فریب اور سازشیں اس بنا پر کررہے تھے کہ وہ آپ ﷺ کو سچا نبی نہیں سمجھتے تھے۔ لہذا یہاں آنحضرت ﷺ صدق نبوت پر بطور دلیل کے قرآن کو پیش کیا اور قرآن حکیم آنحضرت کے صدق نبوت کے تین وجوہ سے دلیل بنتا ہے اول اپنی فصاحت وبلاغت کے اعتبار سے۔ (دیکھئے سورت بقرہ آیت 23) دوم امور غیب کی خبروں پر مشتمل ہونے کی وجہ سے سوم اختلاف وتناقض سے پاک اور مبرا ہونے کی بنا پر یہاں اسی تیسری چیز کو بیان فرمایا ہے (رازی) مطلب یہ ہے کہ ایسا ممکن نہیں کہ ایک انسان برس ہابرس تک مختلف حالتوں میں مختلف موضوعوں پر خصاصا امور غیب سے متعلق۔ اس قدر تفصیل سے گفتگوکر تا رہے مگر اس کی ایک بات بھی دوسری سے متصادم نہ وہ یہ خصوصیت صرف قرآن میں پائی جاتی ہے جو غور و فکر کرنے والے کے لیے اس کے کلام الہی ہونے کی دلیل ہے۔ (شوکانی) اختلاف سے پاک ہونا درجہ فصاحت وبلاغت کے اعتبار سے بھی ہوسکتا ہے کیونکہ کوئی انسان خواہ کتنا ہی فصیح وبلیغ کیوں نہ ہو جب اتنی بڑی کتاب لکھے گا تو اس کے کلام میں قدرے تفاوت ضررور ہوگا اور ساری کتاب بلاغت میں یکساں مرتبہ کی نہیں ہوگی اور پھر یہ منافقین خفیہ طور پر در نہیں کرتے۔ ہیں اور وحی کے ذریعہ آنحضرت ﷺ کی ان کے بھید من وعن بتادیئے جاتے ہیں اور کبھی یہ نہیں ہوا کہ کسی راز کے افشار میں قرآن نے تھوڑی بہت بھی غلطی یو ہو۔ یہی اس کے کلام الہی ہونے کی دیلیل ہے۔ ( کبیر) فائدہ معلوم ہوا کہ قرآن پاک میں تدبر کے بغیر انسان کے شکوک وشبہات دور نہیں ہو سکتے اور نہ قرآن صحیح طور پر سمجھ میں آسکتا ہے (م۔ ع ) النسآء
83 ف 3 امن کی خبر یہ کہ مسلمانوں کی فتح ہوئی ارخوف کی خوف کی خبر یہ کہ فلاں مقام پر مسلمانوں کو شکست ہوگئی آنحضرتﷺ مسلمانوں کے مختلف سراپا تھے۔ لڑائی کے لیے بھیجتے رہتے تھے، اس لیے اس قسم کی افواہیں مدینہ میں اکثر پہنچتی رہتی تھیں لیکن منافقین اور بے احتیاط قسم کو مسلمان بجائے اسکے کہ انہیں سب سے پہلے آنحضرت ﷺ یا آپ ﷺ کے ذمہ دار اصحاب تک پہنچائیں از خودان افواہوں کی تشہیر شروع کردیتے۔ ان کے اسی شرط حمل کی یہاں مذمت کی جار ہی ہے۔ (شوکانی۔ قرطبی) ف 4 تعلمہ الذینیستنبطو نہ منھم کا دوسر اترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے تو اسے وہ لوگ جان لیتے جوان میں سے یعنی مسلمانوں سے) تحقیق کی صلا حیت رکھتے ہیں حافظ ابن کثیر شوکانی اور دسرے اکثر مفسرین نے اسی کو اختیار کیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر یہ لوگ خبر سن کر از خود اس کی تشیہر کرنے کی بجائے اسے آنحضرت اور آپ ﷺ کے ذمہ دار اصحاب تک پہنچادیتے تو وہ اس پر غور وخوض کرکے پہلے یہ فیصلہ کرتے کہ آیا یہ صحیح ہے یا غلط اور آیا اس کی اشاعت کرنی چاہئے یا نہیں ؟ اس کے بعد اگر وہ قابل اشاعت ہوتی تو اسے نشر کرتے ورنہ روک دیتے۔ اجتماعی زندگی میں اس ہدایت پر عمل نہا یت ضروری ہے ورنہ جماعتی زندگی بے حد نقصانات پہنچ سکتے ہیں۔ ف 5 شاہ صاحب لکھتے ہیں یہ جو فرمایا اگر اللہ کا فضل تم پر نہ ہوتا تو شیطان کے پیچھے چلتے مگر تھوڑے یعنی ہر وقت احکام تربیت کے نہ پہنچتے ہیں تو کم لوگ ہدایت پر قائم رہیں ،( موضح) النسآء
84 ف 6 اوپر کی آیات میں جہاد کی ترغیب دی اور اس کے بع منافقین کی سرگرمیوں کا ذکر کیا۔، اب اس آیت میں فرمایا کہ آپ ﷺ ان منافقین ساتھ ہونے یا نہ ہونے کی پرواہ نہ کریں آپ ﷺ کی ذمہ داری یہ ہے کہ آپ ﷺ خو دبھی جہاد کے لیے نکلیں اور دوسرے مومنوں کو بھی ترغیب دیں۔ النسآء
85 ف 7 اللہ تعالیٰ کی طرف سے عسیٰ کا لفظ یقین کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ پس آیت میں وعدہ کیا جارہا ہے کہ عنقریب کفا رکا زور ٹوٹ جائے گا اور مسلمانوں کو غلبہ نصیب ہوگا۔۔ ف 8 اوپر کی آیت میں آنحضرت کو حکم دی کہ مومنوں کو جہاد کی ترغیب دیں جو اعمال حسنہ میں میں سے یہاں تبایا کہ آپ ﷺ کو اس پر اجر عظیم ملے گا پس یہاں سفاعت حسنہ سے ترغیب جہاد مراد ہے اور شفاعت سیئہ سے اس کا کار خیر سے رکنا ہے۔ صحیح حدیث میں ہے اشفعر اتوجروا کہ نیک سفارش کرواجر پاو گے۔ (رازی۔ ابن کثیر ) النسآء
86 ف 9 جہاد کا حکم دینے کے بعد فرمایا اگر کفار صلح پر راضی ہوجائیں تو تم راضی ہوجا و یا یہ جنگ میں اگر کوئی شخص سلام کہدے تو اسے قتل نہ کرو (رازی) تحیہ کے معنی درازئی عمر کی دعا کے ہیں اور یہاں مراد سلام ہے (معالم) ف 10 گو یا تناہی جواب دینا فرض اور اس سے بہتر جواب دینا مستحب ہے۔ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ تحیہ کے ہر جملہ پر دس نیکیاں ملتی ہیں۔ پس اسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبراکا تہ پر (آنحضرت ﷺ نے فرمایا) تیس نیکیاں ملیں گی (ابن کثیر ) النسآء
87 النسآء
88 ف 1 یہ آیات کب اتریں اور ان میں منافقین سے مراد کون لوگ ہیں اس بارے میں صحابہ (رض) کرام سے مختلف روایات ہیں حضرت زید (رض) بن ثابت سے روایت ہے کہ جب نبی اکرم ﷺ غزوہ احد کے لیے نکلے تو کچھ لوگ آپﷺ کا ساتھ چھوڑ کر راستہ ہی سے واپس ہوگئے (ابن ابی اور ان کے ساتھی) اس کے بارے میں میں مسلمانوں کے دو گروہ ہوگئے ایک گروہ کہنے لگا کہ ہم انہیں قتل کریں اور دسرا گروہ اس کے خلاف تھا۔ اس پر یہ آیت نازل ہو (بخاری ومسلم) امام شوکانی فرماتے ہیں ؛ نزول کے اسباب میں یہ روایت سب سے اصح ہے۔ دوسری روایت حضرت عبدالرحمن (رض) بن عوف سے ہے کہ عرب کے کچھ لوگ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر مسلمان ہوگئے پھر وہ بیمار ہو کر واپس چلے گئے۔ ان کے بارے میں مسلمانوں کے دوگروہ ہوگئے ایک گروہ انہیں منافق قرار دیتا تھا اور دوسرا مسلمان سمجھتا تھا اس پر یہ آیت نازل ہوئی (مسند احمد) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ مکہ میں کچھ لوگ اسلام کا کلمہ پڑھتے تھے لیکن مسلمانوں کے خلاف مشرکوں کی مدد کیا کرتے تھے۔ ان کے بارے میں مسلمانوں کی دو رائیں ہوگئی تھیں لہذا اس آیت میں ان منافقین کے مسلمان قرار پانے کے لیے مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کا بطور شرط ذکر کیا گیا ہے۔ اس لیے ابن جریر اور بعض دوسرے مفسرین نے حضرت ابن عباس (رض) کی تفسیر کی بقہ تمام تفا سیر پر تر جیح دی ہے۔ بعض نے لکھا ہے کہ اہل افک کے بارے میں نازل ہوتی ہے (ابن کثیر، کبیر) آیت میں فئنین منصوب علی الحال ہے اور استفہام انکاری ہے۔ ( شوکانی ) النسآء
89 النسآء
90 ف 2 یعنی اگر یہ منافقین کیس ایسے قبیلے سے اتصال رکھتے ہوں جس کا تم سے معاہد ہوچکا ہے تو تم انہیں قتل نہ کرو کیونکہ معاہدہ کا احترام اور اس کی پابندی لازم ہے آیت کا یہ مفہوم صحیح ہے بعض نے یصلون سے اتصال مراد لیا ہے مگر صحیح نہیں ہے کیونکہ اتصال نسبی قتال کے مانع نہیں ہوتا بلکہ اس آیت میں ان لوگوں کا استثنا ہے جو کسی معاہد قبیلہ کے جوار میں رہتے یا ان کے حلیف ہوتے، کیونکہ س وقت قبائل عرت دو حصوں میں تقسیم بعض کا معاہدہ مسلمانوں سے تھا اور بعض مشرکین مکہ کے حلیف یا ان کے جوار میں رہتے تھے چنانچہ صلح حدیبہ میں بی یہ شق موجود ہے یہاں ان سے مراد بنو بکر۔ بنو اور خزاعتہ وغیر ہم کے قبائل جو اس وقت قریش کے حلیف تھے۔ ف 3 یہ بھی استثنا کے تحت ہے اور اوجاکم کا عطف یصلون پر ہے ای الا الذین جا و کم اور حصرت صدورھم جا و کی ضمیر سے جملہ حالیہ ہے ای وفد حصرت حمد ورھم حاصل یہ کہ ان لوگوں سے لڑ نا اور ان کو قتل کرناک بھی تمہارے لیے جائز نہیں ہے۔ شوکانی) ف 4 یعنی یہ اللہ تعالیٰ کا تم پر فضل وکرم ہے یہ لوگ اگر تمہارے ساتھ مل کر اپنی قوم (قبیلے) سے۔ لڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں تو اس کے ساتھ مل کرتم سے لڑ نے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں ورنہ یہ بھی ممکن تھا کہ وہ غیر جانبدار نہ رہتے اور اپنی قوم کے ساتھ مل کر تمہارے خلاف جنگ کرتے (کبیر) ای لو شا اللہ لسلطھم علیکم ولو شا اللہ لقاتلو کم (الکشاف) ف 5 یعنی جب تک وہ غیر جانبدار نہ پالیسی پر کار بند رہیں اور تم سے کوئی چھیڑ چھاڑ نہ کریں ان کو کسی طرح تکلیف پہنچانا صحیح نہیں ہے (ابن کثیر ) النسآء
91 ف 6 یعنی ایسے منافقین جو دل سے مشرکوں کے ساتھ ہیں لیکن محض مطلب براری ارموقع شناسی خاطر تمہیں اپنے مسلمان ہونے یا غیر جانبدار رہنے کا یقین دلاتے ہیں اور ان کا حال یہ ہے کہ تمہارے خلاف سازش کرتے اور تمہیں مصیبت میں مبتلا کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جا نے دیتے اس سے اسد وغطفان بعض قبائل مراد ہیں جو آنحضرت ﷺ کے پاس مدینہ آتے اور ریاکاری سے مسلمان ہوجاتے پھر مکہ واپس جاتے تو بت پرستی شروع کردیتے تو فرمایا کہ ایسے لوگ اگر کنارہ کش نہ رہیں تو ان سے لڑو۔ ( شوکانی۔ کبیر ) یہاں سلط نا مبینا سے یا تو مراد یہ ہے کہ ان سے لڑنے اور ان کو قتل کرنے کے تمہارے پاس دلیل موجود ہے وہ یہ کہ بد عہد ہیں کھلے دشمن ملے تو مسلمانوں کو نقصان پہنچانے سے دریغ نہیں کرتے یا یہ کہ ایسے لوگوں سے لڑنے کی اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہیں کھلے اجازت ہے (کبیر ) النسآء
92 ف 2 کفارکے ساتھ جنگ کی اجازت نازل ہوئی تو یہ عین ممکن تھا کہ کسی شخص کو کافر حربی سمجھ کر مسلمان قتل کردیں اور بعد میں معلوم ہو کہ وہ مسلمان تھا۔ اس لیے اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمان کو قتل خطا کے احکام بیان فرمادیئے (کبیر) ّآیت میں الا بمعنی لکن ہے اور مستثنی منقطع ہے یعنی کسی حال میں مسلمان کو قتل کرنا جائز نہیں ہے لیکن اگر غلطی سے مارا جائے تو اس پر کفارہ ہے جس کا بعد میں مذکور ہے آیت کے سبب نزول میں مختلف روایات مذکور ہیں مروی ہے کہ عیاش بن ابی ربعیہ مسلمان ہونے کے بعدہجرت کر مدینہ چلا آیا اور یہ آنحضرت ﷺ کی ہجرت سے پہل کا واقعہ ہے چنانچہ ابو جہل اور حارث بن زید بن ابی اینسہ مدینہ آکر اسے واپس لے گئے اور مکہ پہنچ کر اسے کوڑوں س پیٹا اور اس کی مشکیں کس دیں۔۔ عیاش نے حارث سے کہا کہ ابو جہل تو ماں کی طرف سے میرا بھائی ہے تم کون مارنے والے ہو اور قسم کھائی کہ اگر مجھے تنہا مل گیا تو تجھے قتل کرڈالوں۔ بعد میں حارث بھی مسلمان ہوگیا عیاش نے اسے قتل کر ڈالا اور پھر جب معلوم ہوا کہ وہ مسلمان ہوچکا تھا تو اس پر پشیمان ہوا اور آیت نازل ہوئی۔ (کبیر۔ شوکانی) ف 3 یعن جب اس طرح کوئی مسلمان غلطی سے مارا جائے تو اس کے دو حکم ہیں ایک کفاہ اور دوسرے دیت (خون بہا) کفارہ تو یہ ہے کہ مسلمان غلام کو آزاد کرے اور اگر اس کی طاقت نہ ہو تو دو ماہ کے مسلسل روزے رکھے اور اس کے وارثوں کی دیت ادا کرے کفارہ تو کسی حال میں ساقط نہیں ہوتا۔ ہاں دیت اگر وارث معاف کردیں تو ساقط ہوسکتی ہے مگر یہ اس وقت ہے جب مقتول کے وارث بھی مسلمان ہوں یا کافر ہوں لیکن ان سے معاہدہ ہو یا ذمی ہوں جیسا کہ آگے آرہا ہے۔ ف 4 لیکن اگر اس کے وارث حربی کافرہوں تو پھر قاتل کے ذمہ صرف کفارہ ہے یعنی ایک مسلمان غلام کو آزاد کرنا یا دو ماہ مسلسل روزے رکھنا مقتول کے وارثوں کو خون بہا ادا کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ وہ دشمن ہیں (قرطبی) ف 5 اس جملہ کا بظاہر تو مطلب یہ ہے کہ اگر وہ مقتول مسلمان ایسی قوم سے تعلق رکھتا ہو جن سے تمہارا معاہدہ ہے یا ذمی ہیں تو اس صورت میں بھی دوچیزیں واجب ہوں گی کفارہ اور دیت (خون بہا) جیساکہ اوپر گزر چکا ہے مگر بعض نے لکھا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ وہ مقتول معاہد یا ذمی ہو (مسلمان نہ ہو) تو اس صورت میں بھی کفارہ اور وارثوں کو خون بہا ادا کرنا پڑے گا حنفی مذہب میں تو پوری یدت ادا کرنی پڑے گی مگر دوسرے فقہا کے نزدیک نصف دیت ہوگی۔ ایک حدیث میں ہے کہ یافر کا خون بہا مسلمان سے نصف ہوگا۔ (نسائی۔ ابن ماجہ) ایک دوسری روایت میں ہے کہ نبی ﷺ کے زما نہ میں خون بہا کی نقد قیمت آٹھ سو دینار یا آٹھ ہزار درہم تھی اور اہل کتاب کا خون بہا مسلمان سے نصف ہے ( ابوداود) ف 6 اگر کسی شرعی عذر۔ مرض حیض یا نفاس۔ کے بغیر ایک بھی روزہ نئے سرے سے دومہینے کے روزے رکھنے پڑینگے۔ ّقرطبی) النسآء
93 ف 7 قتل خطا کا حکم بیان کرنے کے بعد اب اس آیت میں قتل عمہد قصد قتل کرنے کا حکم بیان کیا ہے اس کا ایک حکم تو بیانب ہوچکا ہے یعنی اس صورت میں قصاص یا دیت واجب ہے۔ (یکھئے سورت بقرہ آت 17) یہاں صرف اس کے گناہ ارر وعید کا ذکر ہے متعدد آیات میں قرآن نے اس جرم کو شرباللہ کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ یہاں فرمایا کہ ایسے شخص اللہ تعالیٰ کا غضب اور لعنت ہے اور آخرت میں بڑا عذاب ہے جس میں سہ ہمیشہ رہے گا۔ اس بنا پر بعض علما نے سلف سے منقول ہے کہ اس کی توبہ قبول نہیں ہوتی مگر اکثر علمائے سلف کے نزدیک یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ توبہ تو مشرک کی بھی قبول ہوجاتی ہے لیکن یہ توبہ اس وقت ہے جب اپنے آپ کو قصاص کے لیے پیش کردے۔ (شوکانی) حدیث میں ہے کسی مسلمان کا خون صرف تین صورتوں میں سے ایک حلال ہے اس نے کسی کو قتل کردیا ہو اس کے بدلہ میں قتل کیا جائے یا شادی شدہ ہونے کے بعد جرم زنا کا ارتکاب کرے یا وہ اسلام کو چھوڑ کر مرتد ہوجائے (بخاری) مزید دیکھئے سورت الفرقان آیت 68) النسآء
94 ف 1 حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ ایک شخص بکریاں چرارہا تھا کہ مسلمانوں کا ایک سریہ (دستہ) اس کے پاس سے گزرا۔ اس نے اسلام علیکم کہ الیکن مسلمانوں نے اسے قتل کر ڈالا اور اور اس کا مال لے لیا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (بخاری وغٖیرہ) چنانچہ آنحضرت ﷺ نے مقتول کے وارثو کے پاس اس کی دیت بھیج دی اور اس کی بکریاں بھی واپس کردیں۔ (بخاری وغیرہ) اس قاتل اور مقتول کے بارے میں اختلاف ہے یا حافظ ابن عبدالبر (رح) نے الا ستصاب میں نقل کیا ہے کہ قاتل محلم بن جثامہ اور مقتول عامر بن اضبط ہے۔ آنحضرت نے محلم کے حق میں بد دعا کی اور وہ اضبط ہے۔ آنحضرت ﷺ نے محلم کے حق میں بد دعا کی اور وہ ساتویں دن مرگیا اسے تین مرتبہ دفن کیا گیا جب بھی دفن کرتے زمین اس کی لاش باہر پھینک دیتی۔ آخر کار اسے کسی گھاٹی میں ڈال دیا گیا اور بعض روایات میں ہے کہ اس سریہ میں مقداد (رض) بن اسود تھے انہوں نے اس کو قتل کیا اس پر آپ ﷺ نے مقداد (رض) کو مخاطب کر کے فرمایا تم نے کیسے مسلمان کو قتل کر ڈالا نے الا الہ الا اللہ کا اقرار کیا کل اللہ تعالیٰ کے سامنے اس کا کیا جواب دو گے محض کچھ مال غنیمت کے لالچ میں تم نے یہ اقدام کیا۔ (فتح القدیر) علامہ قرطبی لکھتے ہیں کہ عین ممکن ہے کہ یہ مختلف واقعات یکے بعد دیگرے پیش آئے ہوں اور سب کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی ہو (قرطبی، شوکانی) یہاں تبین یعنی تحقق کرلینے کا حکم سفر کے ساتھ خاص ذکر کیا ہے مگر یہاں سفر کی قید بیان کے لیے ہے یعنی یہ حادثہ جس کے متعلق آیت نازل ہوئی ہے سفر میں پیش آیا تھا ورنہ تحقیق کا حکم جس طرح سفر میں ہے اسی طرح حضر میں بھی ضروری ہے (قرطبی) ف 2 یعنی یہی حالت پہلے تمہاری تھی۔ تم کافروں کے شہر میں رہتے تھے اور اپنے ایمان کو چھپاتے تھے، اللہ تعالیٰ نے دین کا غالب کر کے تم پر احسام کیا ( قرطبی) النسآء
95 ف 3 جہاد کے فرض عین ہونے کی صورت میں تو کسی شخص کو باعذر گھر میں بیٹے رہنے کی اجازت نہیں ہو سکتی اور ایسی صورت میں جہاد میں شامل نہ ہونا صریح نفاق ہے مگر جب نفیر عام نہ ہو اور امام کی طرف سے یہ اعلان کیا جائے کہ جو شخص جہاد کے لیے نکل سکتاہو نکلے اور جو اپنے کام کی وجہ سے نہیں نکل سکتا اسے اپنے گھر میں بیٹھے رہنے کی اجازت ہے آیت میں اسی صورحال کے پیش نظر فضیلت کا ذکر ہے کہ امام کی اجازت کے باوجود جو لوگ گھروں میں بیٹھے رہتے ہیں اور جو اپنی خوشی سے جہاد میں شریک ہوتے ہیں یہ دونوں برابر نہیں ہو سکتے زید (رض) بن ثابت سے روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو آنحضرت ﷺ نے مجھے بلایا۔ میں کتابت کے لیے حاٖضر ہوا تو عبد اللہ ابن ام مکتوم جو نابینا تھے آگئے اور کہنے لگے اے اللہ کے رسول ﷺ اگر میں جہاد کرسکتا تو ضرور جہاد کرتا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ پر وحی نازل فرمائی اور غیر اولی الضر کا کلمہ نازل ہوا اور آنحضرت ﷺ نے مجھے لکھو ادیا (بخا ری مسلم) معلوم ہوا کہ جس شخص کی نیت جہاد کی ہو مگر کسی عذر کی بنا پر جہاد میں شریک نہ ہو سکے اس کو مجاہدین کے برابر ثواب ملتا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے کسی غزوہ سے واپس ہوتے ہوئے فرمایا مدینہ میں کچھ لوگ ایسے ہیں کہ تم نے کوئی وادی طے نہیں کی مگر وہ اجر وثواب میں تمہارے شریک ہیں ان کو صرف عذار نے تمہارے ساتھ آنے سے روک دیا ہے۔ بعض دوسری روایات سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے ایک حدیث میں ہے کہ جب کوئی شخص بیمار پڑجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرشتوں کی حکم دیتے میرے بندے کے لیے اس عمل کا ثواب لکھ دو جو حالت صحت میں کیا کرتا تھا جب تک کہ یہ تندرست نہ ہوجائے یا میں اس کی روح قبض نہ کرلوں (قرطبی ) النسآء
96 النسآء
97 ف 4 ان لوگوں سے مراد وہ لوگ ہیں جو مکہ معظمہ اور دوسرے مقامات پر اسلام لا چکے تھے لیکن مجبوری کے بغیر مدینہ کی طرف ہجرت نہیں کر رہے تھے اور دارالا سلام کی زندگی چھوڑ کر دارالکفر میں رہنے پر قانع تھے۔ روایات میں ہے کہ اہل مکہ کی ایک جماعت مسلمان ہوگئی اور ان لوگوں نے آنحضرتﷺ کے سامنے اظہار ایمان بھی کیا مگر جب آنحضرتﷺ نے ہجرت کی تو انہوں نے مکہ میں اپنی قوم کے پاس رہنا پسند کیا اس پر یہ آیت نازل ہوئی (قرطبی) ف 5 یعنی فرشتے تقریع اور توبیخ کے انداز میں ان سے پو چھتے ہیں کہ تم مسلمان تھے یا کافر دارالکفر میں پڑے کیا کرتے رہے اور مدینہ کی طرف ہجرت کیوں نہیں کی ؟ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسے لوگ مسلمان ہونے کے باوجود بلاعذر ترک ہجرت کی بنا پر ظالم کی موت مرے ہیں۔ (قرطبی) النسآء
98 ف 1 اس آیت میں ان لوگوں کو مستثنی ٰ قرار دیا ہے جو واقعی بے بس اور معذور تھے اور ہجرت نہیں کرسکتے تھے۔ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں میں اور میر والدہ ان لوگوں میں سے تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے معذور قرار دیا ہے اور ان لوگوں میں عیاش بن ابی ربیعہ ابن ہشام وغیر ہم بھی شامل ہیں جن کے حق میں آنحضرت ﷺ کفار کے پنجے نجات کے لیے دعا کیا کرتے تھے۔ (قرطبی، ابن کثیر) فائدہ حضرت ابن عباس (رض) کی والدہ ام الفضل بنت حارث ہیں اور ان کا نام لبابہ ہے جو میمود (رض) بنت حارث ام المومنین کی بہن تھیں حارث نو بہنیں تھیں جن کے حق میں رسول اللہ ﷺ نے الا خوات المو منات فرمایا تھا، ان میں اک اسما بنت عمیس خثمیہ تھیں جو ماں کی طرف سے میمونہ (رض) کی بہن تھیں اور جعفر (رض) بن ابی طالب کی بیوی۔ جعفر (رض) کے بعد حضرت ابوبکر (رض) نے ان سے نکاح کرلیا اور حضرت ابو بکر (رض) کے حضرت علی (رض) کے نکاح میں آگئیں (رض) (قرطبی) ہجرت کے ساتھ فی سبیل اللہ کا ذکر کرنے میں اس طرف اشارہ ہے کہ ہجرت کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے سوا اور کچھ نہیں ہونا چاہئے جیسا کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے جس شخص ہجرت اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف ہے اس کی ہجرت اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف ہے اور جس شخص کی ہجرت دنیا حاصل کرنے کے لیے ہے یا کسی عورت سے شادی کرنے کی غرض سے ہے تو اس کی ہجرت اسی چیز کی طرف ہے جس کی طرف اس نے ہجرت کی (بخاری ومسلم ) النسآء
99 النسآء
100 ف 3 مراغما یہ مرغم کی جمع ہے اور ہجرت کر کے نکلنے اور وار ہجرت پالینے کو مراغما اس لیے فرمایا ہے کہ جو شخص ہجرت کر کے نکلتا ہے گویا وہ تمام قریش کی ناک کو خاگ آلود کردیتا (قرطبی) اس آیت میں اگرچہ ان لوگوں کو مدینہ کی ہجرت کرن کی ترغیب دی گئی ہے جو مکہ اور دسرے مقامات پر دارالکفر میں پڑے زندگی بسر کر رہے تھے اور ہجرت نہیں کر رہے تھے لیکن یہ آیت عام ہے اور متعد احادیث میں ہجرت کی ترغیب دی گئی ہے۔ّ(فتح القدیر) عکرمہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب ہجرت نہ کرنے کے بارے میں وعید نازل ہوئی تو جندع (رض) بن صمرۃ لیثی جو مکہ میں مستضعفین میں سے تھے بیمار تھے۔ چنانچہ انہوں نے حالت مرض میں سفر شروع کردیا حتی کہ تنعیم میں پہنچ کر انتقال کر گئے اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔، اسی طرح خالد (رض) بن حزام کے متعلق بھی بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی اروراستہ میں سانپ کے ڈسنے سے وفات پاگئے (قرطبی) فائدہ ہجرت کے معنی ہیں دارالحرب سے دارالاسلام کی طرف منتقل ہونا، یہ آنحضرت ﷺ کی زندگی میں فرض تھی اور اس کی فرضیت تاقیامت باقی ہے جس ہجرت کو آنحضرت نے لا ھجرۃ بعد الفتح فرماکر منسوخ فرمایا ہے وہ خاص مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت تھی اسی طرح اہل بدعت کی آبادی سے بھی ہجرت کرنا چاہئے امام مالک (رح) فرماتے ہیں کسی شخص کے لیے ایسے مقام پر رہنا جائز نہیں ہے جہاں سلف کو گالیاں دی جاتی ہوں۔ علی ہذالقیاس جس علاقہ میں حلال روزی نہ ملتی ہو یا دین میں فتنہ کا خوف ہو وہاں سے ہجرت کی بھی ترغیب آئی ہے۔ (قرطبی) النسآء
101 ف 4 مغرب اور صبح کی نماز کے علاوہ دوسری نمازوں میں چار کی بجائے دو رکعت پڑھنے کا نام قصر ہے تم پر کچھ گناہ نہیں کے الفاظ سے ثابت ہوتا ہے کہ حالت سفر میں قصر واجب نہیں۔ اس کی صرف اجازت ہے یہی اکثر علمانے سلف کا مسلک ہے مگر آنحضرت ﷺ کی سنت کو دیکھتے ہوئے امام شافعی احمد بن جنبل اور اکثر محدثین کے نزدیک قصر افضل ہے، بعض علما نے حضرت عائشہ (رض) کی حدیث فرضت الصلوٰۃ رکعیتن ( کہ نماز دورکعت فرض ہوئی) کے پیش نظر قصر کو واجب مانا ہے مگر حضرت عائشہ (رض) کی اس حدیث کے متن میں اضطراب ہے اور حضرت عائشہ (رض) کا عمل اور فتویٰ اس کے خلاف ہے اور پھر حضرت ابن عباس (رض) اور عبداللہ بن عمر (رض) قصر کو سنت کہتے ہیں ناین المذھب عن قولھا۔) قرطبی) سفر سے مراد بظاہر تو عام سفر ہے جسے عر ف میں سفر کہا جاتا ہو اب رہی میلوں کی یا دونوں کی مقدار کی تعین تو نہ قرآن کی کسی آیت میں اس کا صاف ذکر ہے اور نہ نبی ﷺ کی کسی صریح حدیث میں بنا بریں جن ائمہ اور علمانے کسی مقدار کی تعین کی ہے انہوں نے عموما نبی صلعم کے سفروں کے دیکھتے ہوئے اپنے اجتہادی سے کی ہے تاہم سب سے بہتر دلیل مقداد سفر میں صحیح مسلم میں حدیث انس (رض) ہے جس کی روسے نو کوس تک کا سفر ہونا چاہئے نیز کسی صحیح حدیث میں نبی صلعم سے یہ ثابت نہیں ہے کہ آپ ﷺ نے کسی سفر میں فرض نماز سے پہلے یا بعد میں سنت ادا کی ہو ہاں رات کے وقت اور صبح کی سنتیں آپ ﷺ ہر سفر میں پڑھا کرتے تھے اور کبھی نہیں چھوڑتے تھے۔ (زادالمعاد) صحابہ (رض) میں سے ابوبکر (رض)، عمر (رض) اور ابن عمر (رض) کا اسی پر عمل تھا (بخاری) البتہ بعض صحابہ (رض) سفر میں فرض نماز سے پہلے اور بعد میں سنتیں اور نفل پڑھا کرتے تھے اس لیے یہ جائز ہیں۔ مسافر اگر مقیم کے پیچھے نماز پڑھے گا تو قصر نہیں کریگا، حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ یہ ابو القاسم ﷺ کی سنت ہے (مسند احمد) النسآء
102 ف 5 کافروں کے ستانے کا ڈر اس وقت تھا جب یہ حکم آیا اس تقریب سے ہر وقت کے لیے معافی ملی۔ (موضح) یہ آیت چونکہ جہاد کے سلسلہ میں نازل ہوئی ہے اس لیے اس میں نماز میں قصر کی اجازت کیساتھ تمہیں کافروں کے ستانے کا ڈر ہو کو الفاظ بھی استعمال ہوئے ہیں۔ باقی رہا عام سفر جس میں دشمن کا خوف نہ ہو تو اس میں قصر کے حکم سے یہ آیت ساکت ہے اسے نبی صلعم نے اپنے وقل وعمل سے واضح فرمایا ہے حضرت عمر (رض) سے ایک شخص نے سوال کیا کیا وجہ ہے کہ لوگ سفر میں قصر کر رہے حالانکہ قرآن میں خوف کے ساتھ مقید ہے حضرت عمر (رض) نے فرمایا خود مجھے بھی اس تعجب ہو اتھا اور میں نے آنحضرت سے اس کا ذکر کیا آپ ﷺ نے فرمایا یہ ایک صدقہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے تم پر کیا ہے لہذا تم اس کا صدقہ قبول کرو ( بخاری مسلم) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں نبیﷺمدینہ سے مکہ سے تشریف لے گئے اور اس وقت رب العٰلمین کے سوا کسی کا خوف نہ تھا مگر آپ ﷺ نے دو رکعت نماز پڑھی، (ترمذی۔ نسائی) ف 6 دوسر ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے جب وہ سجدہ کرلیں یعنی آپ ﷺ کے ساتھ ایک رکعت پوری کرلیں تو پیچھے چائیں فتح القدیر) ف 7 یعنی آپ دوسری رکعت میں آپ کے ساتھ شامل ہوں اور ایک رکعت نماز پڑھیں۔ فوائد صفحہ ہذا ف 1 یہ صلوٰۃ خوف کی صرف ایک صورت کا ذکر ہے جبکہ دشمن موجود ہیں اور اس کے حملہ کا خطرہ ہو مگر عملا جنگ نہ ہو رہی جنگ نہ ہو رہی ہو۔ ابن العربی لکھتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے چودہ مرتبہ صلوٰۃ خوف پڑھی ہے، امام احمد بن جنبل (رح) فرماتے ہیں۔ پس صلوٰۃ خوف میں تمام احایث صحیح اور ثابت ہیں۔ لہذا جس صورت میں نماز ادا کرلی جائے جائز ہے حافظ ابن لقیم (رح) زادالمعاد میں فرماتے ہیں سب احادیث کا مر جع چھ ساتھ صورتوں کی طرف ہے ت جن میں ہر صورت پر حسب موقع عمل کیا جاسکتا ہے۔ ( زادامعاد ) النسآء
103 ف 2 کہ مبادا تمہیں غافل پاکر وہ تم پر اچانک حملہ کردے۔ ف 3 یعنی ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی یاد میں مصروف رہو۔ یاں تک کہ عین اس وقت بھی جب معر کہ قتال گرم ہو جمہور مفسرین نے اس کے یہی معنی کئے ہیں، بعض مفسرین نے اس کے یہ معنی بتائے ہیں کہ جب نماز پڑھنا چاہو تو معر کہ قتال گرم ہونے کی وجہ کھڑے، بیٹھے لیٹے جس طرح نماز پڑھ سکتے ہو پڑھ لو۔ لیکن پہلا قول زیادہ ظاہر ہے۔ (قرطبی) ف 4 یعنی جب خوف کی حالت ختم ہوجائے اور تم میدان جنگ سے پلٹ کر اپنے گھروں میں آجاتو نماز کے اس کے جملہ ارکان شرئط اور حددد کے ساتھ مقررہ اوقات پر ادا کرو۔ اور قصر نہ کرو۔ ( قرطبی) دوسرا مطلب جیسا کہ شاہ صاحب (رح) نے لکھا ہے یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اگر خوف کے وقت نماز میں کوتاہی ہو تو نماز کے بعد اللہ تعالیٰ کو اور طرح سے یاد کرو نماز میں قید ہے کہ وقت پر ہو اور اللہ تعالیٰ کا ذکر ہر حال میں دورست ہے (موضح) بعض نے لکھا ہے کہ جنگ احد کے موقع پر یہ آیت نازل ہوئی ہے بہت سے مسلمان زخمی ہوچکے تھے مگر آنحضرت نے دشمنوں کے تعاقب میں دوبارہ نکلنے کا حکم صادر فرمایا اور یہ حکم بھی صرف انہی کو تھا جو احد میں شریک تھے (دیکھئے آل عمران 72) یعنی زخمی ہونے میں تو دشمن بھی تو تمہارے ساتھ شریک تھے، گو تمہیں یہ خصوصیت حاصل ہے کہ تم بوجہ ایمان کے اللہ کے ہاں اجر وثواب کے امید وار ہو اور ان کو بوجہ کفر کے یہ نعمت حاصل نہیں ہے لہذا ان کے تعاقب میں کمزروی مت دکھاو (قرطبی) النسآء
104 النسآء
105 ف 6 یعنی شریعت کے قواعد کے مطابق فیصلہ کرو جیسے اللہ نے تجھ کو دکھلا یا یعنی وحی بھیج کر یا کسی اور طریقے سے آپ ﷺ کو سمجھایا حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں یہ ادراک اللہ کا آنحضرتﷺ کے ساتھ ٰ خاص تھا کہ آپ ﷺ کی رائے اللہ تعالیٰ کے سمجھانے سے ٹھیک ہوتی تھی اس لیے آپ ﷺ کا فیصلہ واجب الا تباع ہے، آنحضرت ﷺ کے بعد یہ ممصب کسی اور کو حاصل نہیں ہے۔ اور امام یا مجتہد کی ہر بات صحیح نہیں ہوتی لہذا اس پر عمل کرنا بھی ضروری نہیں ہے (کذافی اللوحیدی) ف 7 ان آیات کی شان نزول کے تحت عطا نے لکھا ہے کہ انصار کے قبیلہ بنی ظفر میں ایک شخص طعمہ یا بشر بن ابیر تھا۔ اس نے ایک انصاری کی زرہ چرالی اور اسے ایک یہودی کے گھر میں پھینک دیا۔ یہود نبی ﷺ کے پاس پہنچا کہ بنی ابریق طعمہ اور اس کے بھائیوں) نے یہ زرہ چوری کر کے میرے گھر میں پھینک دی۔ جب بنی ظفر کے لوگوں کو اس کا علم ہوا تو انہوں نے آپس میں صلاح مشورہ کر کے ایکا کرلیا اور پھر شور مچا تے نبی ﷺ کے پاس پہنچے کہ یہود دی جھوٹا ہے زرہ اسی نے چرائی ہے طعمہ اور اس کے بھائی اس الزام سے بری ہیں، قریب تھا کہ آنحضرت ﷺ اس یہو دی کے خلاف فیصلہ صادر فرمادیتے اور بنی ابیرق پر الزام رکھنے پر اسے سرزنش بھی کرتے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (ابن جریر) عغا بازوں سے مرد طعمہ اور اس کے بھائی ہیں، یعنی آپﷺ ان کی حمایت نہ کریں۔ اصل یہی مجرم ہیں۔ معلوم ہوا کہ متہم شخص کی حمایت چائز نہیں ہے اور کافروں ذمی کا مال بھی مسلما نن کے مال کی محفوظ ہے۔ (قرطبی) النسآء
106 ف 8 یعنی آپ ﷺ نے جو طعمہ کو بری اور یہودی کو مجرم قرار دینے کا ارادہ کیا تھا اس پر اللہ تعالیٰ سے استغفار کیجئے۔ (قرطبی۔) انبیا ( علیہ السلام) کو باوجود معصوم ہونے استغفار کا حکم رفع درجات کے لیے دیا جاتا ہے اور علما تفسیر نے یہ بھی کئے ہیں کہ ان گنہگا روں کے لیے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتے۔ النسآء
107 ف 1 مطلب یہ ہے کہ جو شخص دغا کرتا ہے سب سے پہلے اپنے آپ سے دغا کرتا ہے۔ النسآء
108 ف 2 یعنی ان لوگوں کا حال یہ ہے کہ گنا ہوں کا ارتکاب کرنے میں لوگوں سے تو شرم کرتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ سے جو ان کے ظاہر وباطن کو جنتا ہے شرم نہیں کرتے۔ ف 3 یعنی جاننے، دیکھنے اور سننے کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ ہر جگہ موجود ہے ورنہ بذاتہ تو اللہ تعالیٰ مستوی علی العرش ہے ،( قرطبی، ابن کثیر) ف 4 جیسے جھوٹی شہادت پر ایکا کرنا ارنے قصو پر چوری کا الزام لگانا۔ ف 5 تو اس سے بچ کر کہاں جائے گے۔ النسآء
109 ف 6 جو ان کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نجات دلا سکے، اس کے مخاطب بنی ظفر اور دوسرے وہ لوگ ہیں جو طعمہ اور اس کے بھائیوں کی طرف سے جھگڑ رہے تھے، (قرطبی، ابن کثیر ) النسآء
110 ف 7 حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ اس ّآیت میں بنی بیرق سے توبہ کے لیے کہا جا رہا ہے۔ آیت میں ہر قسم کے گناہوں کی پاداش سے محفوظ رہنے کا راستہ بتایا گیا ہے، اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے توبہ واستغفار السو وہ گنا ہے جن سے انسان اپنے علاوہ دوسروں کو بھی نقصان پہنچاتا ہے۔ جسے جھوٹی شہادت اور بے گناہ کو متہم کرنا۔ اور او یظلم نفسہ سے ان گناہوں کی طرف اشارہ ہے جن سے انسان صرف اپنے آپ کو نقصان پہنچاتا ہے جیسے ترک صلوٰۃ اور شراب نوشی وغیرہ۔ ضحاک فرماتے کہ حضرت حمزہ (رض) کا قاتل وحشی آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حا ضر ہوا اور عرض کی کہ مجھے اپنے فعل پر سخت ندامت ہے کیا میر توبہ قبول ہوسکتی ہے ؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ حدیث میں ہے کہ کسی شخص سے گناہ سرزد ہوجائے اور وہ وضو کر کے دورکعت نماز پڑھے اور اللہ تعالیٰ سے استغفار کرنے تو اللہ تعالیٰ اسے بخش دیتا ہے ، النسآء
111 ف 8 یعنی وہی اس کی سزا بھگتے گا کوئی دوسرا اس گناہ میں نہیں پکڑا جائے گا، کسب کا لفظ ہر اس فعل پر بولا جاتا ہے جس سے کوئی نفع یا نقصا حاصل ہو۔ اس بنا پر اللہ تعالیٰ کی طرف کسب کی نسبت نہیں ہو سکتی۔ (قرطبی) النسآء
112 ف 9 خطیئتہ کا لفظ غیر ارادی گناہ پر بھی بولا جاتا ہے اور اس کے کے بر عکس اثم وہ ہے جو ارادی طور پر کیا جائے مطلب یہ ہے کہ خود گناہ کا ارتکاب کرنے کے بعد کسی بے قصوی آدمی کو اس سے ملوث کرنے ی کو شش کرنا بہت بڑا گنا ہے کسی نے گناہ شخص پر تہمت لگانے کو بہتان کہا جاتا ہے (قرطبی) النسآء
113 ف 10 مگر اللہ تعالیٰ کے فضل و رحمت سے ان کے بہکانے کا کوئی اثر نہ ہوا اللہ کی رحمت یہ کہ آپ ﷺ کو واقعہ کی حقیقت سے مطلع فرمادیا۔ ف 11 کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کی حفاظت کا خاص انتظام کیا ہے۔ ف 1 یعنی وحی کے ذریعہ آپ ﷺ کو وہ علم دیا جو آپ ﷺ کے پہلے حاصل نہیں تھا۔ (دیکھئے سورت اشوریٰ آیت 52) اور یہ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑافضل ہے۔ ( قرطبی ) النسآء
114 ف 2 نجو یٰ دوسروں سے علیحدٰ ہو کر صلا و مشورہ کرنے کو کہتے ہیں یہ مصدر ہے اور مبالغہ کے طور پر عدل ورضی کی طرح جمع پر بولا جاتا ہے اور الا کے بعد نجو یٰ مخذوف ہے ن ای الا نجویٰ ج من امر بصد قتہ الخ ف 3 معررو کا لفظ جمیع اعمال خیر کو شامل ہے حتی ٰ کہ کہ کسی کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آنا بھی معروف میں داخل ہے۔ حدیث میں ہے ولو ان تلقی اخاک بو۔ حہ طلق اور اصلا بین الناس کا لفظ مسلمانو کے درمیان ہر قسم کے اختلافات ختم کرنے کو شامل ہے حدیث میں ہے جس نے دو مسلمانوں میں صلح کر ادی ہے اس کے لئے آگ سے براۃ لکھی جاتی ہے ( قرطبی) النسآء
115 ف 4 یعنی جو شخص یا گروہ وہ شریعت کے خلاف راستہ اختیار کرے اور حق معلوم ہوجانے کے باوجود مسلمانوں کی سیدھی اور صاف روشن ہے ہٹ جائے تو ہم بھی اسے ٹیڑھی راہ پر لگا دیتے ہیں جو اس کو جہنم میں لے جا کر ڈال دیتی ہے۔ مومنوں کی راہ میں دراصل تو کتاب و سنت کی راہ ہے اور کسی اجماعی مسئلے کی مخالفت کرنا بھی غیر مومنوں کی راہ پر چلنا ہے۔ (قرطبی) امت محمد یہ کو اللہ تعالیٰ نے یہ شرف بخشا ہے کہ وہ اجتماعی طور پر غلطی اور خطا سے محفوظ رہی ہے اور رہے گی ،۔ یعنی ایسا نہیں ہوسکتا ساری امت صدیوں ایک غلط راہ پر چلتی رہے۔ اس بارے میں بہت سی صحیح احادیث وارد ہیں حتی ٰ کہ بعض علما ان کے تواتر کے قائل ہیں امام شافع (رح) نے اجماعی کے حجت ہونے کا اس آیت سے استنباط کیا ہے اور یہ استنبا ط بہت قوی اور عمدہ ہے ( ابن کثیر) شیخ الا سلام ابن تیمہ (رح) نے اپنی کتاب معارج الو صول میں اس پر مٖصل بحث کی ہے اور امام شافعی (رح) کے استدلال کی پر زور تائید کی ہے (م، خ) مذکورہ بالا واقعہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی آجانے کے بعد جب نبی ﷺ نے طعمہ چوری کی حد جاری کرنے کا حکم دیا تو وہ مرتد ہوگیا اور مدینہ سے بھاگ کر مکہ کے مشرکین جاملا۔، اس آیت میں اس کے اسی طرزعمل کی طرف سے اشارہ کیا گیا ہے۔ ویسے یہ آیت عام ہے اور اس میں ان لوگوں کے لیے سخت وعید ہے جو نبیﷺ کی سنت اور سلف صالحین کے مسلک سے منہ موڑ کر دوسروں کی پیروی کرتے ہیں اور آئے دنئی نئی بدعات ایجاد کرتے رہتے ہیں۔ یہ بتا نے کی ضرورت نہیں ہے کہ تقلید کی ایجاد بھی بعد کی صدیوں میں ہوئی سلف صالح کے دور میں اس کا قطعا کوئی ثبوت نہیں ہے اور نہم کتاب وسنت کی کسی دلیل سے اس کی گنجائش نکلتی ہے۔ النسآء
116 ف 6 معلوم ہوا کہ مشرک کے سوا مسلمان گنہگار ہمیشہ جہنم میں نہیں رہے گے اس سے ان لوگوں کو رد نکلتا ہے جو مر تکب کبیرہ کو دائمی جہنمی کہتے ہیں۔ (قرطبی) ف 7 اوپر سے منا فقوں کا ذکر آرہا ہے جو پیغمبر ﷺ کے ٖٖٖ فیصلوں کو پسند نہ کرتے او جدا راستے پر چلتے تھے، اس آیت میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ شرک کو نہیں بخشا معلوم ہوا کہ اسلام کے سواکسی دوسرے دین (طریقہ) کو محبوب رکھا جائے اور اس کو معمولی بنایا جائے تو یہ مشرک ہے۔، کیونکہ اسلام کے سوا جو دین بھی ہے سب شرک ہے اگرچہ پرستش کا شرک نہ بھی کیا جائے (ازموضح) النسآء
117 ف 8 اناثا سے مراد یا تو بت ہیں جن کے نام (اللات منات عزی) سب مئو نث تھے اور یا فرشتے مراد ہیں جنہیں وہ اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے۔ آیت میں غیر اللہ کے پکارنے کو شرک قرار دیا ہے۔ جو شخص بھی غیبی مدد کے لیے کسی کو اللہ کے سوا پکار تا ہے وہ مشرک ہے کیونکہ عبادت دراصل اسی پکارنے کا نام ہے۔ ( قرطبی۔ ابن کثیر) ف 9 کیونکہ شیطان ہی نے انہیں بتوں یا فرشتوں کی پرستش پر لگایا ہے ْ( قرطبی) النسآء
118 ف 10 یعنی تیرے بندوں میں سے اک گروہ کو اپنی راہ پر ڈال لوں گا وہ اپنے مال میں میرا حصہ مق ر کر رکھیں گے جیسے بتوں وار قبروں کے نام کی نذر نیاز نکالی جاتی ہے ،(موضح) جنتے کمراہ دوزخی ہیں سب نصیب شیطان میں داخل ہیں (قرطبی) النسآء
119 ف 11 کہ گناہ کرتے رہو اللہ تعالیٰ بڑا غفور رحیم ہے۔ مسلمان کے دل میں ایمان ہونا چاہئے نماز پڑھنے اور دوسرے نیک اعمال کرنے کی کیا ضرورت ہے یا ابھی جلدی کیا ہے مرتے وقت توبہ کرلیں گے یاجن بزرگوں اور پیروں کا تم دم بھرتے ہو ان کا اللہ تعالیٰ پر بڑا زور ہے تم ان کا دامن تھام لینا وہ تمہیں سیدھے جنت میں لے جائیں گے وغیرہ اس قسم کے تمام خیالات وظنوں شیطانی آرزوں داخل ہیں کذافی القر طبی وابن کثیر۔ (وحیدی) ف 12 البتک کے معنی قطع کرنا کے ہیں۔ یعنی پھر ان پر سواری کرنا حرام سمجھیں گے جن کو بحیرہ وسائبہ وغیرہ کہتے تھے (دیکھئے سورت مائدہ آیت 103) ف 13 یعنی اللہ تعالیٰ نے جو چیزیں پیدا کی ہیں اس کی شکل وصورت بھی تبدیل کریں گے اور حلت وحرمت کے اعتبار سے ان کے احکام بھی بدل دیں گے اس میں رہبا نیت عمل قوم لوط مردوں کو خصی کرنا عورتوں کو بانجھ بنانا ان کو گھروں سے نکال کر ان کے فطری فرائض سے سبکدوش کرکے مردوں کی صف میں کھڑا کردینا یہ سب کام تغیر خلق اللہ میں داخل ہیں ( ماخوذ قرطبی، ابن کثیر ) النسآء
120 ف 1 یعنی شیطان کی مذکورہ بالاتمنائیں اور دعوے سب غرور (خدیعہ) میں بظاہر خوشنما نظر آتے ہیں اندر سے مہلک ہیں۔ النسآء
121 النسآء
122 ف 2 جس طرح شیطان اپنی پیروی کرنے والوں سے وعدہ کرتا ہے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ بھی اپنے نیک بندوں سے جنت اور بلند درجات کے وعدے سراسر یقینی اور قطعی ہیں درآنحالیکہ شیطان کے وعدے سراسر دھوکا اور فریب ہیں۔ النسآء
123 ف 3 اہل کتاب کی تمنائیں بہت خوشنما تھیں۔ ہم اللہ کے محبوب اور بیٹے ہیں، ہمارے سوا کوئی جنت میں نہیں جائے گا ہمارے گناہوں پر ہم سے مواخذ ہ نہیں ہوگا وغیرہ وغیرہ۔ اسی قسم کے خیالات میں آجکل نادان مسلمان بھی گرفتار ہیں۔ فرمایا جو براکام کرے گا اس کی سزا پائے گا کوئی ہو کسی کی پیش نہیں جاتی (موضح) النسآء
124 ف 4 یعنی اصل چیز ایمان لاکر نیک عمل کرنا جس کے عمل نیک ہوں گے وہ جنت میں جائے گا اور جن کے عمل برے ہوں گے ان کو برے اعمال کی سزا مل کر رہے گی چاہے وہ نام کا مسلمان ہو یا یہودی نصرانی ہو مسروق کہتے ہیں ہو یا یہودی نصرانی ہو مسروق کہتے ہیں کہ مسلمان اور اہل کتاب آپس میں فخر کرنے لگے مسلمان کہتے کہ ہم تم سے زیادہ ہدایت یافتہ ہیں۔ اور اہل کتاب کئے کہ ہم تمہاری بہ نسبت راہ حق پر ہیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی (ابن جریر، قرطبی) حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی کہ برا عمل کرے گا اس کی سزا پائے گا تو مسلمان کو سخت تشویش ہوئی۔ نبی و نے فرمایا نیک اعمال میں کو شش کرو ( سددواقابوا) مسلمان پر جو بھی مصیبت آتی ہے وہ اس کے گناہوں کا کفارہ بنتی ہے یہاں تک کہ اگر کانٹا بھی اسے چبھتا ہے تو اس کے گناہ معاف ہوتے ہیں اس مضمون کی متعدد روایات کتب میں مذکورہ ہیں۔ (قرطبی، ابن کثیر ) النسآء
125 ف 5 یعنی خالص توحید کی راہ اختیار کی اور ہر کام اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے حکم کے مطابق کرتا ہے۔ احسان یہ ہے کہ عمل خالص اللہ کے لیے ہو اور سنت کے مطابق ہو، اگر خلوص نہیں ہے تو ریاکاری ہے اور سنت کے مطابق نہیں ہے تو بدعت ہے۔ (م، ع) ف 6 جن کی دوستی میں کسی پہلو سے کوئی خامی نہ تھی، حضرت جندب (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺ کو آپ ﷺ کی وفات سے پہلے یہ فرماتے سنا اللہ تعالیٰ نے مجھے بھی خلیل بنایاا ہے جیسے حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کو خلیل بنا دیا تھا۔ (مستد رک حاکم بسند صحیح ) النسآء
126 النسآء
127 ف 7 گویہاں یہ صراحت نہیں ہے کہ عورتوں کے بارے میں کیا سوال کررہے تھے۔ لیکن اگلی چار آیات جو فتویٰ دیا گیا ہے اس سے اس سوال کا خود بخود پتا چل جاتا ہے۔ تفاسیر میں ہے کہ صحابہ کرام (رض) نے عورتوں کو وارثت اور ان کے متعلقہ چند احکام کے بارے میں استفسار کیا تو یہ آیت نازل ہوئیں۔ (قرطبی) ف 1 یعنی قرآن تم کو حکم دیتا ہے شروع سورت میں یتیم لڑکیوں کے بیان کردو حقوق کی طرف اشارہ ہے۔ (دیکھئے۔ آیت ب 3) ف 2 یہ تر جمہ اس صورت میں ہے جب توغبون کا صلا فی مخذوف مانا جائے ارواگر اس کا صلہ عب مخذ وف ماان جائے تو ترجمہ یوں ہوگا تم ان سے نکاح کرنا پسند نہیں کرتے۔ حضرت عائشہ (رض) کی حدیث سے اس دوسرے ترجمہ کی تا ئید ہوتی ہے زمانہ جاہلیت میں یتیم بچیوں پر دونوں طرح ظلم کیا جاتا ہے تھا۔ ابتدا سورت میں اس کی تفصیل گزرچکی ہے۔ (قرطبی) اس آیت کے مطلب میں شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں اس سورت کے اول میں یتیم کے حق کا ذکر تھا اور فرمایا تھا کہ یتیم لڑکی جس کا کوئی ولی نہ ہو مگر اس کا چچا زاد۔ سو وہ اگر سمجھے کہ میں اس کا حق ادانہ کرسکو تو وہ اس کو اپنے نکاح میں نہ لائے کسی دوسرے سے اس نکاح کر دے اور خود اس کا ولی بن جائے۔ اب مسلمانوں نے ایسی عورتوں کو نکاح میں لانا موقوف کردیا۔ پھر دیکھا گیا کہ بعض اوقات لڑکی کے ولی کو یہی اسے نکاح میں رکھنا بہتر ہوتا ہے اس بنا پر حضرت ﷺ سے رخصت مانگی گئی اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور اجازت مل گئی اور فرمایا وہ جو کتاب میں منع کیا گیا تھا وہ اس وقت ہے کہ اس حق پورا نہ دو اگر ان کے حق کے بہتری سوچو تو رخصت ہے۔ ( ماخوذ از موضح) ف 3 یعنی ان کے بارے میں بھی اپنے احکام یاد لاتا ہے جو اس سورت کے شروع میں بسلسلئہ میراث دیے گئے ہیں۔ (دیکھئے آیت 10۔12) النسآء
128 شرارتے یہ ہے کہ اس سے بدسلوکی کرے اس کو حقیر سمجھے اس کے پاس سونا بیٹھنا چھوڑدے اسے نان ونفقہ نہ دے مانے پیٹنے کے لیے بہانے تراشے وغیرہ ف 5 مطلب یہ ہے کہ آپس میں مصالحت کرلیں اور شرارت یابے پروای کیفیت کو ختم کردیں اس سلسسلہئہ میں مصالحت کی جو صورت میں اختیار کرلیں وہ جائز ہے مثلا یہ کہ عورت اپنی باری چھوڑدے مہر کم کردے یا تھوڑے سے نان ونفقہ پر راضی ہوجائے حضرت عائشہ (رض) اور ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ جب حضرت سودہ (رض) ضعیف ہوگئیں اور انہیں ی اندیشہ ہوا کہ آنحضرت ﷺ ان کو طلاق نہ دے دیں تو انہوں نے اپنی باری حضرت عائشہ (رض) کو ہبہ کردی۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ ( ابو دود۔ ترمذی) بعض نے اس شان نزول میں رافع (رض) بن خدیج اور ان کی بیوی محمد بن مسلمہ لڑکی کا قصہ بھی بیان کیا ہے کہ رافع نے ایک جوان لڑکی سے نکاح کرلیا تھا کچھ عرصہ لڑائی جھگڑے کے بعد ان کی بیوی نے اس جوان لڑکی کو اپنے حقوق بخش کر رافع سے صلح کرلی کہ میں تمہاری بیوی بن کر رہنا پسند کرتی ہوں مگر پہلی شان نزول صحیح ہے۔ ( ابن کثیر۔ لباب النقول ) النسآء
129 ف 6 یعنی طلاق اگرچہ جائز ہے مگر وہ پسند یدیہ فعل نہیں ہے جیساکہ حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے ابغض الحلال الی اللہ الطلاق کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ ناپسند یدہ چیز طلاق ہے۔ ( ابو داود) ف 7 یعنی اللہ انسان کا بخل اور لالچ تو فطری امر ہے۔ مرد کا شح (بخل) یہ ہے کہ عورت سے استمتاع کرے مگر اس کے پورے حقوق ادا نہ کرے اور عورت کا شح یہ ہے کہ مہر اور نان ونفقہ تو پورا وصول کرے مگر حقوق ادا کرنے میں کوتاہی برتے۔ ف 8 یعنی اس لالچ کے جذبہ کے باوجود اگر میاں بیوی ایک دو سرے سے احسام اور فیاضی کاسلوک کریں تو اس کا اجر اللہ کے ہاں ضرور پائینگے ف 9 یعنی دویادو سے زیادہ بیویوں کے درمیان ہر لحاظ سے پوری پوری مساوات برتنا انسانی طاقت سے باہر ہے کیونکہ عورتیں طبائع اخلاق اور شکل وصورت میں ایک دوسرے سے متفادت ہوتی ہیں۔ ایسی حالت میں اگر مرد کا میلان ایک کی طرف زیادہ اور دوسری کی طرف کم ہو تو ایک فطری امر ہے جس پر وہ چاہے بھی تو قابو نہیں پاسکتا۔ لہذا قرآن نے اس بات پر زوہ دیا ہے کہ تعدد ازواج کی صورت میں ایک کی طرف اس طرح جھک جانا کہ دوسری معلق ہو کر رہ جائے گو یا اس کا کوئی شوہر نہیں ہے یہ تو حرام ہے۔ ظاہری حقوق میں عورتوں سے مساوی سلوک کیا جائے دل کے میلان پر گرفت نہیں ہے اس لیے آنحضرت ﷺ فرمایا کرتے تھے اللھم ھذ اقسھی فی ما املک فلا تلمنی فیما الا املک اے اللہ یہ میری بیویوں کے درمیان اس چیز کی تقسیم ہے جس کا میں اختیار رکھتا ہوں یعنی کھانا پینا کپڑا۔ سونا بیٹھنا وغیرہ) لہذا تو مجھے اس چیز پر ملامت نہ فرماجس کا میں اختیار نہیں رکھتا یعنی دلی میلان اور محبت۔ (ابوداو۔ ترمذی) ف 10 یعنی اس فرق کو جو تمہاری دلی محبت اور رغبت میں پایا جائے گا۔ النسآء
130 ف 11 مردکو دوسری بیوی مل جائے گی جائے گی جو اسے پسند ہو اور عورت کو دوسرا شوہر مل جائے گا۔ جو اس سے پسند ہو اور عورت کو دوسرا زشوہر مل جائے گا جو اسے محبت کرے اور اس کی تمام ضرورتوں کا خیال رکھے (قرطبی) ف 12 یعنی کوئی یہ نہ سمجھے کہ کسی کا رزق میرے ہاتھ میں ہے۔ اگر میں نہ دوں گا تو وہ بھو کا مرجائے گا۔ اللہ تعالیٰ رازق مطلق ہے اور اور اس کے انتظامات انسانی سمجھ کر بالا تر ہیں۔ اس نے جس طرملاپ میں حکمت رکھی ہے جدائی میں بھی رکھی ہے۔ النسآء
131 ف 13 گذشتہ آیات میں عورتوں اور یتیم بچوں سے متعلق بچوں سے متعلق احکام بیان کئے گئے تھے، اب جو یہ فرمایا کہ زمین و آسمان کی ہر چیز اللہ کی ہے تو اس سولوگوں کو یہ بتانا مقصود ہے کہ ان احکام پر عمل کرنے عمل کرنے میں تمہارا ہی فائدہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کسی کے فائدہ ونقصان سے بے نیاز ہے۔ ف 1 یعنی اس کے دیے گئے احکام پر عمل کرو۔ یہ جملہ تمام آیات قرآن کے لیے بمنزلہ (رخی) چکی کے ہے کہ اس کی لٹھ پرہی تمام آیات گھومتی رہتی ہیں۔ النسآء
132 ف 2 شاہ صاحب لکھتے ہیں : تین بار فرمایا کہ اللہ کا ہے جو کچھ آسمان وزمین میں ہے پہلی بار کشانش کا بیان ہے دوسری باربے پروائی کا اگر تم منکر ہو اور تیسری بار کارسازی کا اگر تم تقوی ٰ پکڑو۔ (موضح) جب یہ آّیت نازل ہوئی تو آنحضرت ﷺ نے سلمان کی طرف اشارہ کر کے فرمایا : ھم فوم ھذ کہ یہاں آخرین سے مراد یہ لوگ ہیں (قرطبی) النسآء
133 النسآء
134 ف 4 یعنی شریعت کے احکام پر عمل کرنے میں دنیا اور آخرت دونوں کا فائدہ ہے۔ لہذا دنیا کے لالچ میں آکر اللہ تعالیٰ کے احکام سے اعراض نہ کرو۔ (م۔ ع) النسآء
135 ف 5 یعنی سچی شہادت دوچاہے وہ تمہارے خلاف ہی پڑے اور اس میں پڑے اور اس میں تمہارا ذاتی نقصان ہی کیوں نہ ہو۔ (ابن کثیر) ف 6 اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ اولاد کی شہادت ماں باپ کے خلاف قبول ہوگی اور یہ ان کے ساتھ بر یعنی احسان کے منافی نہیں ہے۔ والدیں اوبھائی کی شہادت بھی سلف کے نزدیک مقبول ہے۔ مگر یہ اسی صورت میں ہے جب وہ عدل ہوں اور ان پر تہمت نہ ہو۔ اسی تہمت کے پیش نظر بعض ائمہ نے میاں بیوی کی ایک دوسرے کے حق میں میں شہادت کو جائز رکھا ہے اور بعض نے ود کیا ہے۔ ( قرطبی) یعنی جس کے خلاف تمہاری گواہی پڑرہی ہے وہ دولتمند ہے تب اور غیر یب سے تب کسی حال میں اللہ کی شریعت سے زہادہ تمہاری طرف داری کا مستحق نہیں ہو سکتا۔ لہذا نہ تم دولتمند سے ڈر کر اس کی طرفداری کرو اور نہ غریب پر ترس کھا کر اس کی بے جارعایت کر بلکہ ہر صورت میں اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق سچی گوایہ دو۔ سدی کہتے ہیں کہ دو آدمی نبی ﷺ کے پاس اپنا جھگڑا لے کر آئے جن میں سے ایک دولتمند تھا اور دوسرا غریب۔ آپ ﷺ کا دلی رحجان غریب کی طرف تھا۔ کیونکہ آپﷺ کا خیال تھا کہ یہ بیچارہ امیر آدمی پر کیسے زیادتی کرسکتا ہے۔ اس پر کہ آیت نازل ہوئی (قرطبی۔ ابن کثیر) یعنی اگر اس طرح بناکر پیش کرو گے کہ جس کے خلاف گواہی پڑنی چاہیے وہ بچ جائے یا سرے سے گواہی ہی نہ دو گے تو جیسا کروگے اللہ کے ہاں اس کی سزا پاو گے (قرطبی۔ شوکانی) النسآء
136 ف 9 یعنی ایمان پر ثابت قدم رہو یا اپنے ایمان میں اخلاص پیدا کرو۔ اس کے مخاطب تمام مومنین ہیں بعض نے لکھا ہے ہے کہ اس کے مخاطب مومنین اہل کتاب ہے۔ لکن الصیح ھوالاول (فتح القدیر) علامہ قرطبی لکھتے ہیں کہ بعض کا خیال ہے کہ یہ خطاب منافقین سے ہے، ان کے بظاہر مسلمان ہونے کی وجہ سے ایمان والے۔ فرمادیا اور معنی یہ ہیں کہ جب تک دل میں کامل یقین پیدا نہ کرو گے اور خالص اللہ کو نہ مانو گے تو خدا کے ہاں مسلمان نہیں ہو سکتے۔ (کذافی المو ضح) ف 10 پہلی کتابوں پر ایمان رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ ان کے متعلق یہ عقیدہ رکھا جائے کہ وہ بھی قرآن کی طرح اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئی تھیں باقی رہا عمل تو وہ ان پر نہیں بلکہ قرآن ارنبی ﷺ کی سنت پر کیا جائے گا۔ ان کتابوں میں جو چیز کتاب وسنت کے مطابق ہوگی اس کی تصدیق کی جائیگی۔ اور جوان کے خلاف ہوگی اسے رد کردیا جائے گا۔ ف 1 یعنی اگر ان میں سے کسی ایک چیز کا بھی انکار کیا تو گویا تمام چیزوں کا انکار کردیا النسآء
137 ف 2 ان لوگوں سے مراد جیسا کہ آیت کے ترجمہ سے ظاہر یہود ہیں اور ان کے زیادہ کفر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ کفر پر قائم رہے اور کفر ہی حالت میں مرے کیونکہ کفر کا یہی وہ درجہ ہے جس کی کشش نہیں ہوتی لیکن اگر کوئی شخص تائب ہوجائے اور ایمان لے آئے تو اس کے تمام گناہ بخشے جاتے ہیں۔ بشر طیکہ اس کے اسلام میں احسان ہو یعنی ثابت قدم رہے اور دوبارہ کفر کا ارتکاب نہ کرے، حدیث میں ہے صحابہ کرام (رض) نے آنحضرت (رض) سے سوال کیا اے اللہ کے رسول ﷺ کی ان اعمال پر مواخذہ ہوگا جو ہم نے جاہلیت میں کئے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا جس نے اسلام لانے کے بعد احسان سے کام لیا اس سے تو مواخذہ نہیں ہوگا۔ مگر جس نے دوبارہ کفر کیا۔ تو وہ تمام گناہوں میں پکڑا جائے گا۔ بعض مفسرین نے ان لوگوں سے منافق مود لیے ہیں جنہوں نے ایمان وکفر کو کھیل بنا رکھا ہے جب ترنگ آئی ایمان لے آئے جب دماغ میں دوسری لہر اٹھی کافر ہوگئے جب ادھر دغا دیکھا تو ایمان کا نعرہ بلند کودیا ہے اور دسری طرف مفاد دیکھا تو کافر ہونے کا اعلان کردیا۔ اس لیے ان کے متعلق فرمایا گیا کہ ان کی بخشش نہیں ہو سکتی، بعد میں منافقین کے ذکر کے ساتھ یہ انسب معلوم ہوتا ہے النسآء
138 النسآء
139 ف 3 آج کل بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں ،۔ جو اپنے مغربی آقاوں کو خوش کرنے کے لیے اور ان نظروں عزت کا مقام ہے حاصل کرنے کے لیے قرآن و حدیث کے صریح احکام کا مذاق اڑاتے ہیں۔ النسآء
140 ف 4 اسے پہلے سورت انعام ہیں یہ حکم نازل ہوچکا تھا۔ (دیکھئے آیت 68) لیکن ان کے باوجود منافقین کی پرورش تھی کہ مسلمانوں کو چھوڑ کر یہودیوں اور مشرکوں کی مجلسوں میں شریک ہوتے اور مشرکوں کی مجلسوں میں شریک ہوتے اور وہاں آیات الیٰ کا مذاق اڑیا جاتا، آیت میں اس روش کی طرف اشارہ ہے ویسے آیت عام ہے اور ہر ایسی مجلس میں شرکت حرام ہے جہاں قرآن وسنت کا مذاق اڑایا جاتا ہو۔ چاہے وہ مجلس کفار ومشرکین کی ہو یا ان اہل بدعت کی۔ ف 5 جو شخص ایک مجلس میں اپنے دین کے عیب سے پھر اس میں بیٹھے اگرچہ آپ نہ کہے وہ منا فق ہے۔ (موضح) النسآء
141 ف 6 یعنی ہم بھی مسلمان ہیں اور تمہاری طرح کلمہ پڑھتے ہیں۔ لہذا مال غنیمت میں ہمیں بھی حصہ دو۔ (قرطبی) ف 7 یعنی ایسے وسائل اختیار کر کے جن سے مسلمانوں کے حوصلے میں پستی آگئی اور وہ شکست کھانے پر مجبور ہو ہوگئے مطلب یہ ہے کہ جس فریق کا غلبہ ہوتا منافقین اپنے آپ کو ان میں شامل کرنے کی کوشش کرتے۔ آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ منافقین غزوات میں شرکت کرتے اور مسلمان ان کو غنیمت میں حصہ نہ دیتے اور وہ اس کا مطالبہ کرتے۔ (قرطبی) ف 8 یعنی دنیا میں تو ان منافقین نے بظاہر کلمہ پڑھ کر اپنے آپ کو بچالیا لیکن آخرت میں ان کی حقیقت کھول دی جائے گی اور تمہیں پتہ چلے گا کہ تم میں کون مومن تھا او کون منافق۔ النسآء
142 ف 1 بشرطیکہ مسلمان ان صحیح معنی ہیں مسلمان ہوں اور اپنے دین کے تقا ضوں کو پوری طرح ادا کرتے ہوں وہ اگر کافروں کے ہاتھوں مغلوب ہوں گے تو اپنے ہی کرتوتو کی بدولت۔ (دیکھئے الشوریٰ آیت 30) ابن عربی لکھتے ہیں کہ یہ توجیہ نہایت اچھی ہے اور صحیح مسلم میں ثوبان (رض) کی حدیث سے اس کی تائید ہوتی ہے جس میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے امت کے لیے دعا کی۔ الا یسلط علیھم عدواسوی انفسھم کہ ان کی ذات کے سواباہر سے ان پر دشمن کا تسلط نہ ہو۔ (قرطبی) ف 2 اللہ تعالیٰ کو فریب دینے سے مراد یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کے سامنے زبان سے کلمہ پڑھتے ہیں حالانکہ دل میں میں کفر چھپائے ہوئے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کا انہیں فریب دینا یہ ہے کہ وہ انہیں ان کی فریب کاریوں کا بدلہ دیتا ہے اور انہیں دنیا وآخرت دونو میں ذلیل وخوات کرتا ہے ،(دیکھئے۔ سورت بقرہ آیت :9) یعنی وہ محض ریاکاری کی نمازیں پڑھتے ہیں مگر ان نمازوں میں غیر حاضر رہتے ہیں جن میں نمائش نہیں ہو سکتی ہے جیسے صبح اور عشا کی نماز حدیث میں ہے منافقین پر صبح اور عشا کی نمازوں سے زیادہ گراں ہے۔ حالا نکہ وہ جانتے کہ ان کا کیا ثواب ہے تو وہ ان میں حاضر ہوتے چاہے ان میں گھسٹ کر آنا پڑتا۔ (بخاری مسلم) ف 4 یعنی جلدی جسیے کوئی بیگار ٹالنا مقصود ہے صحیح احادیث میں ہے کہ منافقین بیٹا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ جب سورج شیطان کے دونوں سینگوں کے درمیان (یعنی غروب ہونے کے باکل قریب) ہوجاتا ہے تو کھڑا ہوتا ہے اور زمین پر چادر ٹھونگیں مارلیتا ہے جن میں اللہ کو بہت ہی کم یاد کرتا ہے۔ (ابن کثیر ) النسآء
143 ف 5 یعنی جو شخص سب کچھ جاننے اور سمجھنے کے باوجود خود گمراہی میں پڑاہوا ہوا اور باطل پرستی کی طرف راغب ہو تو اسے راہ راست پر لانے کے لیے کوئی انسانی نصیحت اور کوشش کار گر نہیں ہو سکتی بلکہ وہ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی ہوئی سزا کے طور پر گمراہی ارباطل پرستی میں پختہ ترہو تا چلا جائے گا النسآء
144 ف 6 یعنی اس کے حکم کی خلاف ورزی کرکے عذاب الہی کے لیے ایسی واضح اور کھلی دلیل اپنے اوپر قائم کرنا چاہتے ہو کہ اس کے بعد مستحق عذاب ہونے میں کسی قسم کا شک وشبہ نہ رہے ان آیات کی شان نزول میں لکھا ہے کہ بعض انصار اور یہود میں ہجرت سے پہلے دوستی اررضاعی قرابت مندی تھی ان انصار (رض) نے اس تعلق کے باقی رکھنے کا مسئلہ آنحضرت ﷺ سے پوچھا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (خازن النسآء
145 ف 7 آخرت میں دارالعذب کے کئی درجے ہیں جن کا قرآن کی مختلف آیات میں ذکر ہوا ہے پہا درجہ جہنم دوسرا الظیٰ ہاد یہ ہے یہی ہاو یہ جو سب سے نچلا درجہ ہے منافقین کا ٹھکانہ ہوگا۔ کھلے کافروں کو اور مشرکوں اس سے اوپر کے درجوں میں رکھا جائے گا حضرت عبد اللہ بن عمر (رض) فرماتے ہیں تین گرہوں کی قیامت کے دن سب سے سخت عذاب ہوگا۔ منافقین اصحاب مائذہ میں سے جنہوں نے کفر کیا اور آل فرعون منافقین کے متعلق تو یہی آیات ہے اور آل فرعون کے متعلق فرمایا ادخلو ال فرعون اشد العذاب اور اصحاب مائدہ کے متعلق فرمایا فانی عذبہ عذابا لا اعذ بہ احد امن العالمین (قرطبی) النسآء
146 النسآء
147 ف 8 جن منافقین کی اوپر مذمت کی ہے ان کی نجات کے لیے بطور استثنا چاباتیں فرمائیں ایک یہ کہ اپنے پچھلے رویہ پرنادم ہوں۔ دوسرے یہ کہ آئندہ کے لیے اپنی پوری طرح اصلاح کرلیں تیسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ کی رسی مضبوط پکڑیں یعنی اس کی کتاب کے احکام پر پوری طرح عمل کریں چوتھی یہ کہ دین کا جو کام کریں خالص اللہ کی رضامندی حاصل کرنے کے لیے کریں۔ (احسن التفاسیر) یہ چاروں کام درجہ بدرجہ اور ایک دوسرے پر مترتب ہوتے ہیں۔ رازی ) النسآء
148 ف 1 یعنی اگر کسی میں کوئی دینی یا دنیو عیب پایا جاتا ہے تو اسے بر سر عام رسو انہ کیا جائے اور ہر شخص کو بتایا جائے کیونکہ یہ غیبت ہے او غیبت قطعی حرام ہے۔ البتہ جب کوئی شخص ظلم پر اتر آئے تو اس کے عیوب دوسروں کے سامنے بیان کرنے جائز ہیں حدیث اذکر وا الفاسق بما فیہ کی تحذ رہ الناس کہ فاسق کے فسق کو لوگوں کے سامنے بیان کرو تاکہ لوگ اس سے محتاط رہیں نیز کوئی شخص باوجود وسعت کے دوسرے کا حق نہ دیتا ہو تو اس کو طعن ملامت جائز ہے حدیث میں ہے لتی الو جد ظلم یحل عرضہ وعقو بتہ کہ کسی غنی آدمی کا صاحب حق کا حق ادانہ کرنا ظلم ہے جو اس کی آبرو اور عقوبت کو حلال کردیتا ہے۔ اسی طرح جو پہلے زیاتی کرے جیسے حدیث میں ہے المتساباب ماقالاہ قد لی البادی منھما ما لم یعتد المظلوم کہ دوشخص آپس میں گالم گلوچ کریں تو سارا گناہ ابتدا کرنے والے پر ہے بشر طیکہ مظلوم زیادتی نہ کرے اس آیت کے تحت علمائے تفسیر نے لکھا ہے کہ ظالم کے حق میں بد عا کرنی بھی جائز ہے ( دیکھئے شوری ٰ آیت 41) حالت اکراہ میں برا کلمہ بھی الامن ظلم مستثنیٰ متصل بحذف مضاف ای الا جھر من ظلم وان کان الجھر مبتنی المجا ھر فلا حذف ویحتمل ان یکون منقطعا ای لکن من ظلم فلہ ان یقول ظلمنی فلان۔ (قرطبی) فائدہ گذشتہ آیات میں منافقین کے عیوب کا بیان تھا۔ یہاں استدراک کے طور پر بتایا کہ چونکہ ظالم ہیں تاہم حتی الوسع نام لے کر عیب بیان نہ کرے (موضح) النسآء
149 ف 2 اس میں عفو کی ترغیب ہے (قرطبی) یعنی اگرچہ ظالم کا شکوہ یا اس کے حق میں بد دعاجائز ہے تاہم عفو درگزر سے کام لینا بہتر ہے حدیث میں ہے ولا زاداللہ عبدا بعفوا الا عزا کہ جو شخص معاف کر یتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی عزت میں اضافہ کرتا ہے۔ (ابن کثیر) یہ دو جملے برو خیر کے تمام شعبوں پر مشتمل ہیں (کبیر ) النسآء
150 ف 3 منافقین کے قبائح بیان کرنے کے بعد یہاں سے اہل کتاب (یہود نصاری ٰ) کے خیالات اور شبہات اور ان کی تر دید کا بیان شروع ہو رہا ہے اور یہ سلسلئہ بینا سورت کے آخرتک چلا گیا ہے (کبیر) اللہ تعالیٰ کو ماننا اور رسالت و نبوت اور شرئع کا انکار کفر ہے (قرطبی) اس لیے کہ اللہ کا ماننا یہی ہے کہ زمانہ کے پیغمبر کا حکم مانے اس کے بغیر اللہ کا ماننا غلط ہے۔ (مو ضح) نیز شرائع کا انکار عبودیت کا انکار ہے اور عبودیت کا انکار صانع کے انکار کو مستلزم ہے (قرطبی) ف 4 مراد اہل کتاب ہیں اور عطف تفسیری ہے (قرطبی) یہود حضرت موسیٰ ٰ ( علیہ السلام) پر ایمان رکھتے اور حضرت عیسیٰ ٰ ( علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ ٰ ( علیہ السلام) کو مانتے مگر محمد ﷺ کا انکار کرتے۔ (ابن کثیر) ف 5 یعنی سب کو ماننا ایمان ہے اور سب کا انکا رکفر ہے اور یہ بعض پر ایمان لاکر اور بعض سے انکار کرکے ایک تیسری راہ اختیار کرنا چاہتے ہیں اور اس کا نام یہودیت یا نصرانیت رکھتے ہیں جیسا کہ فی زماننا مادہ پرستوں نے اسلام اور کفر کے آمیرزہ کا نام مذہب رکھ چھوڑا ہے۔ النسآء
151 ف 6 ان لوگوں کے کافر ہونے میں کسی قسم کا شک وشبہ نہیں حقا مصدر محذ وف کی تاکید ہے۔ ( کبیر ) النسآء
152 ف 7 مراد امت محمدی ہے ج تمام پیغمبر روں پر ایمان رکھتی ہے لہذا ان کے لیے بشارت ہے (قرطبی) النسآء
153 ف 8 اس آیت میں یہو دکی دوسری جہالت کا بیان ہے اور اس سے مقصد ان کے تعنت اور جبلی صد وعناد کو بیان کرنا ہے۔ (کبیر) آنحضرت ﷺ کی رسالت پر ایمان تو لانا نہیں چاہتے تھے مگر ازراہ شرارت نت نئے وارد کرتے رہتے تھے۔ ایک مرتبہ کچھ یہود آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگے کہ موسیٰ ( علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تختیاں ملی تھیں آپ ﷺ بھی اللہ تعالیٰ کے ہاں سے اسی طرح کی کتاب لاکر دکھائیں تاکہ ہم آپ ﷺ کی تصدیق کریں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئیں (ابن جریر) قرآن نے اس شبہ کے جواب میں پہلے تو ان پر الزامات عائد کئے اور پھر انا اوحینا الا یہ سے اس شبہ کو تحقیقی جواب دیا ہے، کبیر) اور یہ سلسلئہ بیان آیت 107 تک چلا گیا ہے اس کے بعد یا ھل الکتاب الا تغلوا سے نصاریٰ سے خطاب ہے۔ (فتح الر حمن) ف 9 فرمایا کہ موسیٰ ٰ ( علیہ السلام) کتاب لائے تو تم نے اس سے بھی بڑا مطالبہ پیش کردیا یعنی یہ کہ ہمیں اللہ تعالیٰ کا دیدار حاصل ہو۔ (دیکھئے سورت بقرہ آیت 55) ف 1 یعنی کو انہوں نے تعنت اور عناد سے کام لیا لیکن آخر کا رمو سی ٰ ( علیہ السلام) کو سلطنت واقتدار حاصل ہوگیا اور یہ لوگ ان کے حکم کے خلاف ورزی نہ کرسکے۔ اس میں بر سبیل تنبیہ آنحضرت ﷺ کی بشارت دی ہے کہ آخر کار معاند مغلوب ہوں گے۔ اس کے بعد ان کی دوسری جہالتوں کا بیان ہے (کبیر) النسآء
154 ف 2 یہاں سجدہ اپنے لغوی معنی میں ہے یعنی تواضع اور انکساری (مفردات) نیز دیکھئے بقرہ آیت 58) ف 3 اصحابہ سبت کے قصہ کی طرف اشارہ ہے جن کو ہفتہ کے دن مچھلی کے شکار سے منع کیا گیا تھا۔ (دیکھئے بقرہ آیت 65 نیز سورت اعراف آیت 163) النسآء
155 ف 4 فبما نقضھم اس میں ما زائدہ توکید کے لیے ہے اور بامتعلق بمخذوف ہے ای لعنا ھم۔ (قرطبی۔ رازی) یعنی تورات پر عمل کا عہد اور دوسرے عہود توڑنے کی و جہ سے الخ ہم نے ان لعنت مسلط کردی۔ بقیہ حواشی کے لیے دیکھئے سورت بقرہ آیت 61۔ ف 5 یہ غلاف کی جمع ہے ( کبیر) تو کسی کی بات ہم کیسے سن سکتے ہیں یا یہ کہ ہمارے دل علم کے خزانے ہیں ہمیں مزید علم کی ضرورت نہیں یہ کہہ کر وہ انبیا کی تکذیب کیا کرتے تھے۔ (رازی) ف 6 جیسے عبد اللہ بن سلام اور ان کے چند ساتھی دوسرامطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ قلیلا مصدر مخذوف کی صفت ہو یعنی وہ ایمان نہ لا ئینگے مگر تھوڑا۔ یعنی حضرت موسیٰ ٰ ( علیہ السلام) اور تورات پر یہ ان کے زعم کے اعتبار سے فرمایا ہے ورنہ ایک نبی ( علیہ السلام) کی تکذ یب جملہ انبیا ( علیہ السلام) کی تکذیب ہے (رازی) النسآء
156 بکفرھم کے معنی یہ ہیں کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کے بغیر باپ کے پیدا ہونے کو محال سمجھا جس سے اللہ تعالیٰ کی قدرت کا انکار کر کے صریح کفر کا ارتکاب کیا اور پھر حضرت مریم ( علیہ السلام) کی طرف زنا کی نسبت کر کے مزید بہتان باند ھا (رازی ) النسآء
157 ف 8 یا یہودی انہیں محض طنزار سول اللہ ( علیہ السلام) کہا کرتے تھے اور پھر بزم خود قتل کرنے پر اس طرح کا فخر یہ ان کا انتہائی سنگین جرم تھا۔) رازی۔ قرطبی) اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ عیسیٰ ٰ ( علیہ السلام) کے قتل کا دعویٰ کرتے ہوں اور اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ ٰ ( علیہ السلام) کو رفعت شانکے پیش نظر یہ القاب ذکر فرادیئے ہوں (رازی) ف 9 یعنی اللہ تعال نے ان کی ایک صورت بنا دی اس صورت کو سولی چڑھا یا۔ (مو ضح) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جب یہودی حضرت مسیح ( علیہ السلام) کو پکڑ نے کے لیے گئے تو آپ ( علیہ السلام) نے اپنے حواریوں سے فرمایا تم میں سے کون شخص اس بات پر راضی ہے کہ اسے میرا شبیہ بنا دیا جائے ایک حواری اس پر راضی ہوگیا چنانچہ حضرت مسیح ( علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے آسمان کی طرف اٹھالیا اور اس نو جوان کو حضرت مسیح ( علیہ السلام) کی شکل و صورت میں تبدیل کردیا گیا یہودی آئے اور اسے سولی دیدی (ابن کثیر، ابن جریر بسند صحیح) ان اختلاف کرنے والوں میں یہود اور نصاریٰ دونوں شامل ہیں۔ یہود میں سے بعض تو کہتے ہیں کہ ہم نے واقعی مسیح ( علیہ السلام) کو سولی دے اور بعض مترد ہیں اور نصاری ٰ میں سے بعض تو کہتے ہیں کہ حضرت مسیح ( علیہ السلام) کے ناسوت یعنی جسم کو سولی دی گئی اور لاہوت (خداوندی) کے کو اوپر اٹھالیا گیا اور بعض دونوں کی سولی کے قائل ہیں غیرہ قرآن نے ان سب کی تکذیب کی۔ (وحیدی) النسآء
158 ف 11 یعنی جسم اور روح دونوں کے ساتھ اللہ تعال نے حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کو اپنی طرف آسمان پر اٹھلالیا جہا وہ زندہ موجود ہیں۔ قیامت سے پہلے دوبارہ دنیا میں آئیں گے کئی سال یہاں زندگی گزریں گر اور دجال کو قتل کرنے کے بعد اپنی طبعی موت مریں گے حضرت مسیح ( علیہ السلام) کا اپنے ناسوتی بدن کے ساتھ آسمان کی طرف رفع اور ان کی حیات ! یہ امت مسلمہ کا متفقہ عقیدہ ہے جس کی بنیاد قرآنی تصریحات اور ان تفصیلات پر ہے جو احادیث میں وارد ہیں۔ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں : اتفق اصحاب الا خبار والتفسیر علی ٰ ان عیسیٰ رفع ببدنبہ حیا (تلخیص الجیر 319) کہ تمام اصحاب تفسیر ائمہ حدیث اس پر متفق ہیں کہ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) اپنے بدن سمیت زندہ آسمان پر اٹھائے گئے لہذا حیات مسیح کے انکار سے قرآن و حدیث کا انکار لازم آتا ہے جو موجب تضلیل ہے۔ النسآء
159 ف 12 یعنی یہودی کہ حاضر شوندنزول عیسیٰ ( علیہ السلام) را البتہ ایمان آرند واللہ اعلم (فتح الرحمن اور یہودی ونصاریٰ سب اب پر ایمان لاوینگے کہ یہ مرے نہ تھے۔ (مو ضح) یعنی جب حضرت مسیح ( علیہ السلام) قیامت سے کچھ پہلے نازل ہو نگے تو ان کی طبعی وفات سے قبل جو اہل کتاب اس وقت موجود ہو نگے سب ان کے رسول اللہ ہونے اور آسمان پر زندہ اٹھائے جانے پر ایمان لاچکے ہونگے فاقو وان شئتم : وان من اھل الکتٰب الا یمئو منن بہ قبلموتہ یعنی اگر تم بطور استثنا چاہو تو یہ آیت پڑھو مطلب یہ یہ کہ آحادیث کے علاوہ اگر اس پیش گوئی کو قرآن کی روشنی میں دیکھنا چاہو تو یہ آیت پڑھ لو۔ (ابن کثیر شوکانی) محققین کے نزدیک حضرت مسیح ( علیہ السلام) کے قرب قیامت نزول کی روایت متواتر ہیں۔ (دیکھئے ججج الکرامتہ ص 39۔434 ) اور امام شوکانی نے التو ضح بما تو اتر من احادیث نزول المسیح کے نام کا ایک مستقل رسالہ لکھا ہے جس میں پچاس سے زیادہ احادیث لائے ہیں حضرات النواب مذکورہ کتاب حجج الکرمتہ میں تمام احادیث لے آئے ہیں۔ بنابریں یہ مسئلہ اسلام کے ضرور عقائد سے شمار کیا گیا ہے چنانچہ ایک جنبلی علام علامہ محمد بن احمد سفارینی (متوفی 1188 ھ) علامت قیامت کے سلسلسہ میں لکھتے ہیں ونزولہ ثابت بالکتاب والسنتہ والا جماع پھر دلیل میں آیت زیر تفسیر حدیث ابو ہریرہ (رض) بیان کر کے لکھتے ہیں والما الاع فقد اجمعت الر متہ نزولہ ولا یخالف فیہاحد من اھل الشریعتہ شرح عقیدہ سفار دینی ج 2 ص 79۔90) یعنی یہ نزول امت محمدیہ ﷺ کے اتفاق سے قطعی ثابت ہے۔ کوئی بھی مسلمان اس کا مخالف نہیں۔ ف 13 یعنی اس وقت یہود کے خلاف گواہی دینگے کہ انہوں نے میری تکزیب کی اور نصاریٰ کے خلاف کہ انہوں نے مجھے اللہ کا بیٹا قرار دیا۔ دیکھئے سورت مائدہ آیت 120) النسآء
160 ان کو شرارتوں کے ذکر کے بعد ان پر تشد کا ذکر ہے (کبیر) یہاں طیبات سے مراد ان انعامات کا موقوف کردینا ہے جو باشاہی نبوت ونصرت وغیرہ شکل میں ان کو حاصل تھے۔ وایں مشابہ ایں آیت است وضربت علیہم الزلتہ (فتح الرحمن) ف 2 یعنی اوپر سب شرارتیں جو ان کی ذکر کیں بعض پہلے بیان ہوئیں اور بعض پیچھے لیکن یہ کہ گناہ پر دلیر تھے اس واسطے ان کی شریعت سخت رکھی کہ سرکشی ٹوٹے۔ (موضح) النسآء
161 ف 3 اس وقت جو توراۃ موجود ہے اس میں بھی متعدد مقامات پر سو دکوحرام قرار دیا گیا ہے۔ (دیکھئے کتاب خروج باب 22۔25۔27) ف 4 یعنی رشوت جوا دھوکا اور دوسرے ناجائز ذرائع سے تمام گناہ دو قسم پر ہیں ظلم علی الخلق واعابض عن الحق آیت میں وبصدھم سے ظلم علی الخلق سے ہے (کبیر ) النسآء
162 ف 5 یعنی اندھی تقلید نہیں کرتے۔ (وحیدی) یہ مومنین اہل کتاب کو بشارت ہے جو حضرت موسیٰ ٰ ( علیہ السلام) کے بعد آنحضرت ﷺ پر بھی ایمان لے آئے (کبیر اس آیت میں والمتعیمین الصلوٰۃ منصوب علی ٰ المدح ہے (کبیر ) النسآء
163 ف 6 یہ ان کے شہبے (ان تنزل علیہم کتابا من السما کا اصل معاملہ دوسرے یعنی وحی اور دعوت الی ٰ الحق میں آنحضرتﷺ کا معاملہ دوسرے انبیا سے مختلف نہیں ہے۔ حضرت نوح ( علیہ السلام) سے لے کر جتنے انبیا ورسل ( علیہ السلام) ہوئے ہیں سب کو الگ الگ معجزات ملے اور تورت کے علاہ کسی کو بی یکبارگی کتاب نہیں دی گئی پھر جب یکبارگی کتاب ان پر نازل نہ کرنے سے ان کی نبوت پر حرف نہیں آتا تو آپ ﷺ کی نبوت کے لیے کیسے وجب قدح ہوسکتا ہے حضرت نوح ( علیہ السلام) صاحب شریعت نبی سب سے پہلے حضرت نوح ( علیہ السلام) تھے اور حضرت نوح ( علیہ السلام) ہی وہ بی ( علیہ السلام) ہیں جن کی قوم پر عذاب نازل ہوا اور رد شرکا وعظ بھی حضرت نوح ( علیہ السلام) سے شروع ہوا اس لیے سب سے پہلے ان کا نام ذکر کی ہے قرطبی۔، کبیر) وحی کے اصل معنی تو کسی مخفی ذریعہ سے کوئی بات سمجھا دینا کے ہیں اور ایحا (افعال) یعنی الہام بھی آجاتا ہے۔ (بحث کے لیے الشوریٰ آیت 51) ف 7 یعنی تم زبور کو تو اللہ تعالیٰ کی کتاب تسلیم کرتے ہو حالا نکہ وہ بھی حضرت داود ( علیہ السلام) پر تورات کی مثل تختیوں کی شکل میں نازل نہیں ہوئ تھی پھر قرآن کے منزل من اللہ ہونے کا کیوں انکار کرتے ہو۔ (کبیر) موجود زیور میں ایک سو پچاس سورتیں ہیں جن میں دعائیں، نصحیتیں اور تمثلیں مذکور ہیں رحلت وحرمت کے احکام نہیں ہیں (وحیدی) یعنی حضرت موسیٰ ٰ ( علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے اپنی ہم کلامی کا شرف بخشا جو اور کسی کو حاصل نہیں ہوا۔ (دیکھئے سورت مقرہ آیت 253) پھر اگر موسیٰ ٰ ( علیہ السلام) کے اس شرف سے دوسرے انبیا پر طعن نہیں آسکتا تو تورات کا یک باری کی نزول کسے مو جب طعن ہوسکتا ہے (کبیر ) النسآء
164 النسآء
165 ف 9 یعنی انبیا ( علیہ السلام) کی بعثت کا مقصد تو صرف یہ ہے کہ جو لوگ ایمان لیے آئیں اور اس کے مطابق اپنے آپ کو درست کرلیں انہیں جنت کی خوش خبری دیں اور جو کفر ونافرمانی پر جمے رہیں انہیں اس طرح ان پر اتمام حجت ہوجائے اور وہ اللہ کے ہاں کوئی عذار پیش نہ کرسکیں کہ ہمارے پاس تو تیری طر سے کوئی خوشخبری دینے یا تنبیہ کرنے ولا نہیں آیا اور یہ مقصد کتاب وشریعت کے نازل کرنے سے حاصل ہوجاتا ہے عام اس سے کہ وہ کتاب یک بارگی دی جائے یا تدریجا نازل ہو، بعثت کے اس مقصد اصلی پر اس سے کوئی اثر نہیں پڑتا بلکہ وہ کتاب کے حسب ضرورت تدریجا نازل کرنے سے تو یہ مقصد علی وجہ الا تم حاصل ہوتا ہے پھر ان کا یہ کہنا کہ مو سیٰ ( علیہ السلام) کی طرح یکباری گی کتاب لائیں گے تو مانیں گے ورنہ نہیں یہ محض ضد اور عناد ہے (کبیر ) النسآء
166 ف 1 یعنی وحی ہر پیغمبر آتی رہے پھر نیاکام نہیں۔ پر اس کلام میں اللہ تعالیٰ نے اپنا خاص علم اتارہ اور اللہ تعالیٰ اس حق کو ظاہر کردے چنانچہ ظاہر ہوا کہ جس قدرت ہدایت اس نبی سے ہوئی اور کسی سے نہیں ہوئ (موضح) یہ آیت بھی یہود کے مذکورہ سوال کے جواب میں ہے کہ اگر یہود قرآن کے کتاب الیٰ ہونے کا انکار کرتے ہیں تو اس سے قرآن کی صداقت مجروح نہیں ہوتی کیونکہ اللہ تعالیٰ یہ گواہی دیتا ہے جی قرآن اللہ تعالیٰ نے اپنے علم اور حکمت بالغہ کے ساتھ نازل کیا ہے۔ جو اس کے انتہائی کامل ہونے کی دلیل ہے یہاں بعلمہ کا لفظ بطور محارہ استعمال ہو اہے۔ جیسے کہا جاتا ہے ہے فلاں نے یہ کتاب اپنے کامل علم وفضل کے ساتھ تصنیف کی ہے یعنی اپنے پورے علوم سے مدد لی ہے جو اس کتاب کے نہایت عمدہ ہونے کی دلیل ہے، کبیر یا مطلب یہ ہے کہ اس نے یہ قرآن اپنے علم سے یعنی یہ سب جانتے ہیں ہوئے اتارا ہے کہ دنیا بھر کے انسانوں سے بڑھ کر آپﷺ ہی اس چیز کے اہل تھے کہ آپﷺ پر یہ قرآن نازل کیا جاتا اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ علم نفس ذارباری تعالیٰ سے الگ صفت ہے۔ ف 2 وکفی باللہ ای کفی اللہ والبا زائد ۃ (قرطبی) حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ چند یہو دی نبی ﷺ کے پاس آئے آپ ﷺ نے ان سے فرمایا : اللہ کی قسم میں جانتا ہوں کہ تم کو میرے رسول اللہ ہونے کا خون علم ہے وہ کہنے لگے ہمیں تو اس کا علم نہیں ہے اس پر یہ آیت نازل ہوئی (ابن جریر) النسآء
167 ف 3 ان لوگوں سے مراد یہودی ہیں جو نبی ﷺ پر خود بھی ایمان نہ لاتے تھے او لوگوں کو بھی یہ کہہ کر روکا کرتے تھے کہ اس شخص کی کوئی صفت ہماری کتاب میں مذکور نہیں یا یہ کہ نبوت کا دائرہ تو حضرت ہارو ن ( علیہ السلام) اور داود ( علیہ السلام) کی اولاد تک محدودد ہے یا یہ کہ حضرت موسیٰ ٰ ( علیہ السلام) کا لائی ہوئی شریعت منسوخ نہیں ہوسکتی انکی اس قسم کی کوششوں ہی کو قرآن نے دور کی گمراہ فرمایا ہے . النسآء
168 ف 4 ان کی گمراہی کی کیفیت بیان کرنے کے بعد اب ان کو وعید سنائی جارہی ہے (کبیر) یعنی گناہوں کا ارتکاب کیا یا آخری نبی کی صفات کو چھپاکر آنحضرت ﷺپر ظلم کیا یا دوسرے لوگوں کو اسلام کی راہ سے برگشتہ کر کے ان پر ظلم کیا۔ (قرطبی) النسآء
169 ف 5 یعنی جب کفر ہی کی حالت میں مرجائینگے اور مرنے سے پہلے توبہ نہ کرینگے تو سیدگی جہنم میں جائیں گے اواس میں ہمیشہ رہیں گے اور ان کی جہنم میں لے جا نا پھر ہمشہ وہاں رکھنا اللہ تعالیٰ پر کچھ مشکل نہیں ہے (وحیدی) لہذا اب بھی ان کے لیے موقع ہے کہ کفر وعناد سے بار آجائیں اور اآنحضرت ﷺ کی اتباع اختیار کرلیں۔ النسآء
170 ف 6 متعدد جو و سے یہود کے شبہ کی تردید اور قرآن کی حقانت ثابت کرنے کے بعد اب سب لوگوں کو آنحضرت ﷺ کی رسالت اور قرآن پر ایمان لانے کی دعوت دی جارہی ہے جن میں یہود بھی شامل ہیں کہ جب یہ رسول بر حق اور قرآن بھی اللہ تعالیٰ کی چی کتاب ہے تو تم کو چاہئے کہ اس دعوت کو قبول کرلو، اس میں تمہارا بھلا ہے اور انجام کے لحاظ سے بھی بہتر ہے۔ ورنہ یادرکھو کہ زمین و آسمان میں جتنی مخلوق ہے سب کا مالک اللہ تعالیٰ ہے وہ تمہیں تمہارے بر اعمال پر سزا ینے کی بھی پوری قدرت رکھتا ہے (کبیر) النسآء
171 ف 7 علامہ رازی لکھتے ہیں کہ یہود کے شبہات کا جواب دینے کے بعد اب اس آیت میں نصاری ٰ کے شبہ کی تردید کی جارہی ہے کذافی فتح الرحمن) مگر بعض علمانے لکھا ہے کہ یہ خطاب یہود نصاریٰ دونوں سے ہے اس لیے کہ غلو راہ اعتدال کے چھوڑ دینے کا نام ہے اور یہ افراط وتفریط دونوں صورتوں میں ہے اک طرف نصاری نے حضرت مسیح ( علیہ السلام) کے بارے میں افراط سے کام لے کر ان کو خدا کا بیٹا قرار دے رکھا تھا تو دوسری طرف یہود نے حضرت مسیح ( علیہ السلام) کے بارے میں یہا شک تفریط برتی کہ انکی رسالت کا بھی انکار کردیا۔ قرآن نے بتایا کہ یہ دونوں فریق غلو کر رہے ہیں اعتدال کی راہ یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) نہ تو خدا کے بیٹے ہیں کہ ان کو معبود بنالیا جائے اور نہ ہی جھوٹے نبی ہیں بلکہ وہ اللہ کے بندے اور رسول ہیں قرطبی) آجکل اس قسم غلو مسلمانوں میں بھی آگیا ہے اور ایسے لوگ موجود ہیں جو نبی ﷺ کو اور اولیا امت کا درجہ اس قدر بڑھا دیتے ہیں کہ انتہائی درجہ کی گستاخی شمار کرتے ہیں حالانکہ اس غلو سے آنحضرت ﷺ کو بشر سمجھنا انتہائی درجہ کی گستاخی شمار کرتے ہیں حالانکہ اس غلو سے آنحضرت ﷺ نے سختی سے منع فرمایا ہے حضڑت عمر (رض) سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا لا تطرونی کما اطوت انصارٰی عیسیٰ ٰ ابن مریم فرمنا نا عبد فقولو اعبد اللہ روسولہ یعنی مجھے اس طرح حد سے نہ بڑھا و جس طرح عیسیٰ ( علیہ السلام) ابن مریم ( علیہ السلام) کر بڑھا یا، میں صرف ایک بندہ ہوں لہذا مجھے صرف اللہ تعالیٰ کا بندہ اور اس کا رسول کہا کرو (ابن کثیر بحوالہ مسند احمد) ف 8 یعنی انہیں کلمہ کن سے بنایا اور اس طرح ان کی پیدائش بن باپ کے ہوئی ورنہ یہ معنی نہیں ہے کہ وہ کلمہ عیسیٰ ٰ ( علیہ السلام) بن گیا (ابن کثیر ف 9 یعنی اس کی پیدا کر وہ روح۔ اس سے حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کی عظمت کا اظہار مقصود ہے جیسا کہ ناقتہ اللہ (اللہ کی انٹنی بیتی (میرے گھر کو) میں ہے ورنہ تمام لوگوں کو روحیں اللہ تعالیٰ ہی کی پیدا کردہ ہیں جیسے فرمایا اجمیعامنہ (الجاشیہ) یعنی سب چیزیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں اواسی کی پیدا کردہ اریہ من تبعیضہ نہیں ہے بلکہ ابتدا افایت کے لیے ہے (ابن کثیر اور روح بمعنی رحمت بھی ہوسکتا ہے جیسا کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا انما انا رحمتہ مھداۃ کہ میں اللہ تعال کی رحمت ہوں اور اللہ تعالیٰ کے رسول ( علیہ السلام) لوگوں کو روحانی زندگی بخشتے ہیں اس لیے ان کو روح کہا جاتا ہے۔ (کبیر) ف 10 یعنی حضرت عیسیٰ ٰ بھی اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں پس تم دوسرے پیغمبروں کی طرح ان کو اللہ تعالیٰ کا رسول مانو اور انہیں الو ہیت امقام مت دو (کبیر) ف 11 ثلاثتہ مبصتدا محذوف کو خبر ہے۔ ای الا قایم ثلاثتہ اوٰالھتنا ثلاثتہ .عیسائی بیک وقت خدا کو ایک بھی تسلیم کرتے ہیں اور پھر اقانیم ثلاثتہ کے بھی قائل ہیں۔ یہ اقانیم ثاثتہ کا چکر بھی نہایت پر پیج اور ناقابل فہم ہے (کبیر) جس طرح مسلما نوں میں نور من اللہ کا عقیدہ نہایت ہی گمرہ کن ہے عیسائی کبھی تو اس سے مراد وجودعلم اور حیاۃ بناتے ہیں اور کبھی ان کو باپ بیٹا اور روح القدس سے تعبیر کرلیتے ہیں اور پھر باپ سے وجود روح سے حیات اور بیٹے سے حضرت مسیح ( علیہ السلام) مراد لے لیتے ہیں اور یہ بھی کہتے کہ اقانیم ثلاثتہ سے مراد اللہ تعالیٰ مریم ( علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) ( علیہ السلام) ہیں۔ اس آخری تو جیہ کا قرآن نے بھی ذکر کیا ہے (دیکھئے لمائدہ آیت 116) الغرض عیسائیوں کے عقیدہ تثلیث سے زیاد بعید از عقل کوئی عقیدہ نہیں ہے اور اس بارے میں ان کے اندر اس قدر انتشار ہے کہ دنیا کے کسی عقیدہ میں نہیں ہے (کبیر۔ ابن کثیر) اس لیے قرآن نے انہیں دعوت دی کہ تم تین خداوں کے گو رکھ دھند کے چھوڑکر خالص توحید کا عقیدہ اختیار کرلو۔ ف 12 یعنی نہ اس کوئی شریک ہے نہ بیو اور نہ کوئی رشتہ دار نہ اس نے کسی کو جنا اور نہ کسی نے اس کو جنا (ابن کثیر ) فوائد صفحہ ہذا ف 1 اور جس کو تم نے اس کا شریک ٹھہرایا ہے وہ بھی دوسرے انسانوں کی طرح اس کا مملوک اور مخلوق ہے اور جو شخص مملوک یا مخلوق ہو وہ خالق یا مالک کا بیٹا یا شریک کیسے ہو سکتا ہے۔ ف 6 یعنی اس کو بیٹے کی ضرروت بھی کیا ہے سارے کام بنانے والا تو وہ خود ہی ہے (ازموضح) النسآء
172 ف 3 اس میں عیسائیوں ارمشرکین دونوں کے غلط عقیدہ کی تردید ہے کیونکہ عیسائی حضرت مسیح ( علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا اور مشرکین فرشتوں کو خدا کی بیٹاں کہتے تھے، اللہ تعالیٰ فرمارہے ہیں کہ دونوں خدا کی بندگی کا اقرار کرتے ہیں اور اس کا بندہ ہونے پر کچھ بھی شرم محسوس نہیں کرتے یہی حال ہمارے نبی ﷺ کا تھا جب کوئی شخص آپ ﷺ کا بندہ کہتا تو آپ کو بے انتہا خوشی ہوتی کیونکہ اس مالک الملک اور شہنشاہ مطلق کا بندہ ہونا انتہائی عزت وشرف کا مقام ہے نہ کہ کسی ذلت و رسوائی کا امام ابن القیم (رح) نے اپنی کتاب انوار القلوب میں لکھا ہے کہ آدمی کے لیے بندگی کے مقام سے زیادہ عزت کا کوئی مقام نہیں ہے اکر م الخلق محمد ﷺ کو تین مقامات پر جو کہ نہایت عزت کے مقامات ہیں لفظ عبد (بندہ) کہہ کر ذکر گیا ہے۔ (از فوائد سلفیہ ) النسآء
173 النسآء
174 ف 4 جب اللہ تعالیٰ نے تمام فرق ضالتہ منافقین کفار یہود نصاری ٰ پر دلائل قائم کر دئے اور ان کے شہبات کی بھی مکمل طور پر تر دید فرمادی تو اب اس آیت میں آنحضرت ﷺکی رسالت پر ایمان لانے کی عام دعوت دی ہے یہاں ابران سے مراد آنحضر ﷺ کی ذات ہے کیونکہ آپﷺکاکام ہی اثبات حق اور ابطال اور البطال باطل تھا۔ اور نووامبینا سے مراد قرآن پاک ہے جو انسانوں کو ضلالت کے اندھروں سے نکال کر ہدایت کی روشنی کی طرف لاتا ہے اور دل میں نو ایمان پیدا ہونے کا سبب بنتا ہے (راز ی) النسآء
175 النسآء
176 ف 5 سورت کی ابتدا احکام اموال سے ہوئی تھی اب آخرت انہی احکام کے ساتھ سورت کے ختم کیا جارہا ہے درمیان سورت میں مخالفین سے مجادلہ اور ان کی تردید ہے (رازی) کلالہ پر بحث آیت 11 میں گزر چکی ہے، بخاری ومسلم اور حدیث کی دوسری کتابوں میں حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ میں بیمار ہوا اور بیہوش تھا َ نبی ﷺ میری عیادت کے لیے تشریف لائے آپﷺ نے وضو فرمایا اور وضو سے بچے ہوئے پانی کے میرے منہ پر چھینٹے دیئے۔ جس میں مجھ ہوش آگیا میں نے عرض کی میں کلالہ میری میراث کیسے تقسیم ہوگی۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی (ابن جریر) ف 6 بعض علمانے اس سے استدلال کیا ہے کہ جن کی اولاد نہ ہو خواہ اس کا باپ زندہ یہہو اسے کلالہ کہ جائے گا مگر جمہور علمائے کے نزدیک اس یہ ہے من لا ولد لہ الا والد کہ جس کی نہ اولاد ہو اور با نہ باپ اس لیے تشریح میں نہ باپ کا لفظ بڑھا دیا ہے۔، مزید دیکھئے آیت 11 (ابن کثیر) ف 7 یہا بہن سے عینی یا علاتی بہن صرف باپ کی طرف سے) مراد ہے کیونکہ اخیافی بہن ( جو صرف ماں کی طرف سے ہو) کا حکم سے پہلے گزرچکا ہے۔ (ان کثیر) ف 8 ولد کا لفظ بیٹا بیٹی پر بولا جاتا ہے۔ اس بنا پر بعض نے کہا ہے کہ بیٹی صورت میں بہن محرم رہیگی حضرت ابن عباس (رض) امام داود ظاہر اور علما کی ایک جماعت کا یہی مسلک ہے لیکن اکثر صحابہ تابعین اور بع کے اہل علم کا مسلک یہ ہے کہ بیٹی کی موجودگی میں بہن بحیثیت حصہ اپنا حصہ لے گی جیساکہ آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں حضرت معاذ (رض) نے بیٹی کو نصف اور باقی بہن و بطور عصبہ یا۔ اور دوسری صحیح حدیث میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے خود بیٹی کو نصف پوتی کو سد میں اور باقی ماندہ بہن کردیا۔ یہاں ولد سے مراد صرف لڑکے ہیں (شوکانی ) ف 1 اور یہی حکم دو سے زیادہ بہنوں کا ہے۔ (شوکانی ) النسآء
0 ف 2 سورت مائدہ کی مدنی ہونے میں کوئی اختلاف نہیں ہے متعدد روایات سے معلوم ہوتا ہے پوری کی پوری سورت بیک وقت نازل ہوئی حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں یہ سب سے آخری سورت ہے لہذا اس کے حلال کو حلال اور اس کے حرام کو حرام سمجھو (ابن کثیر ) المآئدہ
1 ف 3 یہ عقد کی جمع ہے اور مراد احکام شریعت ہیں قرآن نے ان کو عھود بھی فرمایا ہے دیکھئے سورت بقرہ آیت 41 ( عام عہدو پیمان بھی مراد ہو سکتے ہیں یہ حکم اکک قاعدہ کلیہ کی حیثیت رکھا ہے اس کے بعد نیچے اس کی تفصیل بیان ہو رہی ہے (کبیر، ابن کثیر) ف 4 بھمتہ الا نعام میں اضافت نیانیہ ہے یعنی ھیمہ جانوروں میں سے صرف انعام حلال ہیں ارانعام سے مرد اونٹ گائے۔ قربھیڑ بکری ہے، دیکھئے سورت نحل آیت 5، انعام 146، (کبیر، ابن کثیر) ف 5 یعنی اس سورت کی تیسری آیت میں، ف 6 حالت احرام میں شکار بھی م ممنو ع ہے اور شکار کرنے والے کسی طریقے سے مدد کرنے کی بھی احادیث میں ممانعت آئی ہے اور حدود حرمین کے اندر بھی یہی حکم ہے دیکھئے آیت 95۔96 (ابن کثیر ) المآئدہ
2 ف 7 شعائر یہ شعیرہ (یا سعارۃ) کی جمع ہے اوشعیرہ (نعیلہ) یعنی مشعرۃ (مفعلہ) ہے یعنی وہ چیز جس پر نشان لگایا ہو یا جو بطور علامت مقرر کی گئی ہو اس سے مراد شریعت کے جملہ اور نواہی ہیں۔ ان کو حلال نہ سمجھنے کا مطلب یہ ہے کہ ان کو ترک نہ کرو یا بے حرمتی نہ کرو۔ بعض نے مناسک حج بھی مراد لیے ہیں (کبیر) ف 8 یہ چار مہینے میں ذوالقعدۃ ذوالحجہ۔ محرم اور رجب مطلب یہ کہ ان میں جنگ کر کے ان کی بے حرمتی نہ کرو تفصیل کے لیے سورت توبہ 36۔ (کبیر) ف 9 بدیٰ خانہ کعبہ کی نیاز کے جانور یعنی جو قربانی کے جانور خانہ کعبہ بھیجے جائیں ان کو راستے میں مت روکو، یہ جانور گو شعائر اللہ کے تحت ہی آجاتے تھے لیکن ان کے مزید احترام کی خاطر ان کو الگ بیان کردیا گیا ہے ف 10 یہ قلادۃ کی جمع ہے جس سے مراد وہ رسی ہے جس میں جوتی وغیرہ پروکر بدی کے گلے میں بطور علامت باندھ دی جاتی ہے اس کا اطلاق اس جا نور پر بھی ہوتا ہے جس کے گلے میں یہ پٹہ ڈالاہوا ہو چنانچہ ترجمہ اسی کے پیش نظر ہے۔ ف 11 دب کے فضل سے مراد رزق ہے ج تجارت وغیرہ کے ذریعہ کمایا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا مندی سے مراد حج یا عمرہ ہے جو طلب ثواب کے لیے کیا جاتا ہے مطلب یہ ہے کہ حج یا عمرہ میں تجارت کی نیت بھی کرلی جائے تو ممنو ع نہیں ہے بعض نے فضل سے ثواب ہی مراد لیا ہے یعنی وہ اللہ تعالیٰ نے ثواب اور اس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے مکہ جا رہے ہیں (ابن کثیر) اگر اس کے تحت مشرک بھی داخل ہوں تو معنی یہ ہوں گے کہ وہ بھی اپنے زعم میں اللہ تعالیٰ کی خشنودی حاصل کرنے کے لیے جاتے ہیں لہذا ان کو تکلیف مت دو مگر یہ حکم سورت توبہ آیت 28 کی روسے منسوخ ہوگا۔ (ابن کثیر قرطبی) ف 12 یہ مربرائے اباحت یعنی احرام کھولنے کے بعد شکار جائز ہے ( ابن کثیر) ف 13 حضرت زید (رض) بن اسلم فرماتے ہیں حدیبیہ کے سال تقریبا ڈیڑ ھ ہزار مسلمان عمرہ کیے بغیر واپس چلے آئے تو ان کے دل میں نہایت غصہ اضطراب تھا۔ اس سال نجد کے کچھ مشرک بھی عمرہ کے لیے مکہ معظمہ جارہے تھے وہ مدینہ کے پاس سے گزرنے لگے تو مسلما نوں نے ارادہ کیا کہ جس طرح مشرکین مکہ نے ہمیں عمرہ سے روک دیا ہے ہم بھی ان کو روک دیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرائی (ابن کثیر) مطلب یہ کہ انہوں نے گو شعائر اللہ کی بے حرمتی کی ہے مگر تم اس سے دشمنی سے مغلوب ہو کر انتقامی کاروائی مت کرو۔ ف 1 ہر قسم کا نیک کام کرنے کا نام بر ہے اور برائی کرترک کرنے کا کام تقویٰ ہے باہم تعاون اور عدم تعاون کے لیے ایک اصول مقرر کردیا ہے جس سے اسلامی معاشرہ میں برائیوں کا سدباب ہوسکتا ہے۔ حدیث میں ہے انصر اخاک ظالما او مظلوما کہ مسلمان بھائی کی مدد کرو خواہ وہ مظلوم یا ظالم ہی کیوں نہ ہو اور ظلم ہی کیوں نہ ہو اور ظالم ہونے کی صورت میں اس کی مدد یہ ہے کہ اسے ظلم سے روکا جائے ،(ابن کثیر ) المآئدہ
3 ف 2 اس سے معلوم ہوا کہ غیر خدا کے نام پر جانور ذبح ہو یا غیر خدا کی تعظیم میں وہ مردار ہے (موضح) مزید تشریح کے لیے دیکھئے سورت بقرہ آیت 173) ف 3 مثلا کسی ایسے آلہ سے قتل کردیا جائے جو تیز نہ ہو اور نہ اسے شرعی طریقہ ہی سے ذبح کیا گیا ہو۔ زمانہ جاہلیت میں جانور کو لاٹھی سے مارتے جب وہ مر جاتے تو اس کا گوشت کھالیتے اسی کو قرآن نے المو قوذۃ فرماکر قرار دیا ہے۔ (ابن کثیر) ف 4 یہ مستثنی ٰ متصل ہے یعنی جو جانور مذکورہ بالا صورتوں میں سے کسی ایک صورت کا شکار ہو مگر ابھی اس میں جان باقی ہو اور تم اسے شرعی قاعدے سے ذبح کرلو تو وہ حرام نہیں رہتا اسے کھان جائز ہے بض نے اسے مستثنی ٰ منقطع مانا ہے یعنی مذکورہ چیزیں تم پر حرام ہیں لیکن جو تم زبح کرو وہ حرام نہیں ہے (قرطبی) زکاۃ شرعی ہے کہ بسم اللہ واللہ اکبر کہہ کر تیز دھار ولی چیز سے حقل کی رگوں کو غلصمہ کے نیچے سے کاٹ کر خون بہا دیا جائے حدیث میں ہے انما الذکوٰۃ فی الحلق کہ ذبح وہ ہے جو حقل میں ہو پھر بحالت اضطراری جس چیز سے بھی جسم کے کسی حصہ سے خون بہا دیا جائے اس ذبیحہ کا کھانا بھی جائز ہے۔ (قرطبی) ف 5 نصب (تھانوں یا استھانوں) سے مراد وہ پتھر ہیں جن کی مشرکن مکہ تعظیم وپرستش کرتے تھے اور ان پر اپنے جا نور ذبح کرتے تھے مطلب یہ ہے کہ ان پتھروں کی تعظیم کے لیے جو جانور زبح کیا وہ حرام ہوگا ورنہ محض ان پتھروں پر ذبح کرنے سے جانور حرام نہیں ہوجاتا اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ علیٰ بمعنی لام ہو یہ بھی دراصل ما اھل لغیر اللہ میں داخل ہے مگر ان پتھروں پر بکثرت ذبح کیے جانے کے سبب اس کو الگ ذکر کردیا گیا ہے (کبیر، قرطبی) بعض مفسرین نے الاذلام (پانسوں سے مراد تقسیم کے تیر لیے ہیں جو زمانہ جاہلیت میں جا نور کا گوشت بانٹنے میں استعمال ہوتے تھے اور وہ جوئے کی ایک صورت تھی جسے ہمارے زمانہ میں لاٹری کہا جاتا ہے، چنانچہ ترجمہ اس کو ملحوظ رکھا گیا ہے لیکن اکثر مفسرین نے ان سے مراد وہ تیر لیے ہیں جن سے مشرکین مکہ یہ معلوم کرنے کی کو شش کرتے تھے کہ پیش آمدہ سفر جنگ یا کسی معاملہ میں ان کی قسمت میں کیا لکھا ہے یہ تیر قریش کے سب سے بڑے بت ہبل کے پاس رکھے رہتے تھے ان میں سے کسی پر امرنی ربی (میرے رب نے حکم دیا) لکھا ہوتا تھا کسی پر نہانی ربی (میرے رب نے مجھے منع کیا) اور کسی پر کوئی تحریر نہ ہوتی تھی۔ عرب لوگ کسی پیش آمدہ معاملہ میں وہ تیر گھماتے اور جو تیر نکل آتا اس کے مطابقا عمل کرتے۔ نرد اور سطرنج بھی اسی میں داخل ہیں اور نجومیوں کا حساب لگا کر قسمت بتانا بھی اسی کے تحت آجاتا ہے۔ (قرطبی) ف 7 یعنی اب تمہارے طاقت اس قدر مستحکم ہوگئی ہے کہ تمہارے دشمنوں کی کمر ٹوٹ گئی ہے اور وہ اس چیزسے قطعی مایوس ہوگئے ہیں کہ تمہارے دین کو نیچا دکھا سکیں آج سے مراد حجتہ الوداع (10 ھ میں عرفہ کا دن ہے جس میں آیت نازل ہوئی۔ ّقرطبی) ف 8 دین کو مکمل کردینے سے مراد یہ ہے کہ اس کے تمام ارکان فرائض سنن حدود اور احکام بیان کردیئے گئے اور کفر وشرک کا خاتمہ کرکے اس نعمت کو مکمل کردیا گیا نبی ﷺ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد 18 دن زندہ رہے بعد وفات پاگئے۔ علمانے لکھا ہے کہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد آیت ربا (سود کی حرمت) اور آیت کلالہ نازل ہوئی ہیں پس دین کے مکمل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ دین کا بڑا حصہ مکمل کردیا گیا ہے (ابن کثیر، قرطبی) ف 9 یعنی ایسا مجبور اور لاچار آدمی اگر مذکورہ بالا حرام چیزوں میں سے کچھ کھا لے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس پر کچھ مواخذ ہ نہ ہوگا بشر طیکہ خواہ مخواہ حرام کھانے کا شوق نہ ہو اور جان بچانے کی حد سے زیادہ نہ کھائے (دیکھئے سورت بقرہ آیت 173) المآئدہ
4 ف 10 مواشی کا حکم تو فرمادیا۔ پھر لوگون نے اور چیزوں کو پوچھا تو فرمایا ستھر چیزیں تم کو حلال ہیں۔ سو حضرت ﷺ جو چیزیں منع فرمائیں معلوم ہوا کہ وہ ستھری نہیں جیسے پھاڑنے والا جانور مثلا شیر چیتا باز یا چیل اور اس میں داخل ہوئے مردرار خوار سارے کو 3 وغیرہ اور جسئے گدھا اور خچر اور جیسے کیڑے کے مثلا چوہا وغیرہ (از موضح) ف 11 شکاری جا نور سے ہر وہ درندہ یا پرندہ مراد ہے جس کا شکار کے لیے رکھا اور سدھا یا جاتا ہے اور اس کے سدھائے ہوئے ہونے کی علامت یہ ہے کہ وہ شکار پر چھوڑا جائے تو اس کو پانے مالک کے لیے پکڑے اگر وہ شکار پکڑ کر خود کھانے لگے تو اس کا شکار کھانا درست نہیں ہے اور یہی معنی مما امسکن کے ہیں حضرت عدی (رض) نبی ﷺ یہ مسئلہ دریافت کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا اگر اسے (یعنی شکاری کتے کو) چھوڑ تے وقت تم نے اللہ کا نام لیا ہے تو اسے کھا و ورنہ مت کھا و اور اگر اس نے شکار سے کچھ کھالیا ہے تو بھی نہ کھا و کیونکہ اس نے دراصل وہ شکار اپنے لیے پکڑا ہے (بخاری ) المآئدہ
5 ف 1 حاصل یہ کہ اہل کتاب یہود ونصاریٰ) کا طعام (جس میں ذبیحہ بھی شامل ہے) مسلمانوں کے لے حلال ہے بشرطیکہ انہوں ن غیر اللہ کے نام پر ذبح نہ کیا ہو۔ حدیث میں ہے کہ ایک یہود عورت نے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں ایک بھنی ہوئی بکری پیش کی اور آپ ﷺ نے اس میں سے کھالیا۔۔ اس طرح بعض صحابہ (رض) نے وہ چربی کھائی جو خیبر کی جنگ میں یہودیوں سے حاصل ہوئی تھی مگر جو چیزیں ہماری شریعت میں فی نفسہ حرام ہیں جیسے مردار خون اور اسئو کا گوشت وغیرہ ان کا اہل کتاب کے دستر خوان پر کھنا بھی حرام ہے ،(قرطبی، ابن کثیر) ف 2 یعنی ان سے نکاح کرنا درسرت ہے چاہے وہ اپنے دین پر قائم رہیں لیکن اس شر ط کے ساتھ کہ وہ پاک دامن ہوں نہ کہ آزادنش اور آوارہ قسم کی جو انسان کے ایمان کو بھی تباہ کر ڈالیں جمہور کے نزدیک یہاں المحصنات سے یہی منعی مراد ہیں تاکہ حشفا وسو کیلتہ (ردی کھجور اور برا ماپ) کی ضرب المثل صادق نہ آئے (ابن کثیر گو یا دوسری مشرک عورتوں سے ان کو مستثنیٰ قرار دیا ہے اور بہت سے صحابہ (رض) نے اس آیت کے تحت کتابی عورتوں سے نکاح کر رکھتے تھے مگر حضرت عبد اللہ بن عمر (رض) صرف موحہ کتابیہ سے نکاح جائز سمجھتے تھے۔ (شوکانی) ف 3 اس میں تنبیہ کی گئی ہے کہ اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح کرنا صرف جائز ہے مستحب اور مستحسن نہیں ہے اور یہ کہ جو شخص اس اجازت سے فائدہ اٹھائے اس اپنے ایمان کی طرف سے ہو شیار رہنا چاہیے ایسا نہ ہو کہ وہ اپنی غیر مسلم بیوی سے متاثر ہو کر اپنے ایمان واخلاق سے ہاتھ دھو بیٹھے (م۔ ع) المآئدہ
6 ف 4 اوپر کی آیات میں افو بالعقود کے تحت حلال اور حرام چیزیں بتائی گئی تھیں اب اس آیت میں اس کے تحت وضو اور تیمم کے احکام بیان فرمائے ہیں جو کہ عقود میں داخل ہیں اور سہولت پر مشتمل ہونے کا اعتبار سے اتمام نعمت بھی ہیں (کبیر، قرطبی) غزوہ مریسیع (5 ھ) میں حضرت عائشہ (رض) کا ہار گم ہوگیا تھا ہا رکی تلاش میں صبح ہوگئی اور پانی موجود نہ تھا صحانہ (رض) نے پانی نہ ملنے کی صورت میں تیمم کی رخصت حاصل کی ہے کیونکہ وضو تو پہلے بھی معلوم تھا، اس لیے علما نے اس آیت کو آیت وضو کہنے کی بجائے آیت تیمم بھی کہا ہے (قرطبی) اور بے وضو ہو کی قید جمور اہ علم نے لگا یہ ہے کہ کیونکہ اگر انسان پہلے سے باوضو ہو تو دوبارہ وضو کرنا فرض نہیں بلکہ مستحب ہے۔ (کبیر ) اس آیت میں فرائض وضو کا بیان ہے۔ وضو میں سب سے پہلے نیت ضروری ہے کیونکہ حدیث میں ہے انما الا عمال بالنیات کہ تمام اعمال عبادت کے لیے نیت ضروری ہے اس لیے امام بخاری فرماتے ہیں کہ اس میں ایمان وضو، نماز،، زکوٰۃ، حج، روزہ۔ الغرض تمام اعمال داخل ہیں پھر قرآن نے اعضا اربعہ کا وضو ذکر کیا ہے۔ معلوم ہوا کہ ان کے علاوہ باقی سب آداب وسنن ہیں (قرطبی) ف 5 یعنی کہنیوں سمیت حدیث میں ہے جب آنحضرتﷺ وضو فرماتے تو تو اپنی کہنیوں پر بھی پانی ڈالتے (دارقطنی) مگر مگر یہ حدیث ضعیف ہے (ابن کثیر) ف 6 گوعلمان لکھا ہے کہ سارے سرکا مسح فرض نہیں ہے بلکہ سر کے کچھ حصہ کا مسح کرلیا جائے تو بھی کافی ہے مگر قرآن کے ظاہر اراکثر احادیث کے روسے سارے سرکا مسح کرنا چاہیے ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے اپنے آپﷺنے باقی سرکا مسح عمامہ مبارک پر پور کیا۔ لہذا اس حدیث سے بعض حصہ سر (خصوصاربع راس) کی تخصیص پر استدلال صحیح نہیں ہے) قرطبی) سرکے مسح میں کانوں کا مسح بھی شامل ہے مگر چونکہ یہ احادیث سے ثابت ہے اس لیے بعض سلف نے اس کو مستقل سنت قرار دیا ہے۔ واللہ اعلم (قربطی) سرکے ساتھ گردن کے مسح کا کوئی ثبوت نبی ﷺ یا صحابہ (رض) سے نہیں ملتا۔ ف 7 وارجلکم میں لام کے زبر اور زیر کے ساتھ دو قرا تیں مروی ہیں فتح لام والی قرات کی روسے تو ظاہر ہے کہ پاوں کا ٹخنوں تک دھونا ثابت ہوتا ہے جمہور بلکہ جمیع علما سنت کا یہی مذ ہے ہے اور آنحضرتﷺ سے تواتر کے ساتھ ثابت ہے کہ آپﷺ پاوں دھو یا کرتے تھے اور مسح نہ فرماتے تھے۔ صحابہ (رض) میں سے صرف حضرت علی (رض)، ابن عباس (رض) اور حضرت انس (رض) سے (کسرۃ لام والی قرات کی رو سے) وضو میں پاوں پر مسح کی روایات ملتی ہیں مگر ان سے بھی جو رجوع ثابت ہے۔ فتح لیکن مسح کے معنی غسل خفیف بھی آتے ہیں لہذا ان کی مراد یہی معنی ہیں۔ (قرطبی) ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے کچھ صحابہ (رض) کو وضو کرتے دیکھا کہ ان کی ایڑیوں کی خشکی چمک رہی ہے تو نبیﷺ نے بلند آواز سے دو یاتین مرتبہ فرمایا کہ ان یڑیوں کے لے آگ کا عذاب ہے یعنی ایڑیو ن کو اچھی طرح سے دھو و حتی ٰ کہ خشک رنہ رہنے پائیں (بخاری مسلم) فقہا میں سے ابن جریر، طبری کے متعلق مشہور ہے کہ وہ پاوں غسل اور مسح دونوں میں تھنیر کے قائل تھے مگر حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں دراصل طبری کایہ مذہب نہیں ہے بلکہ مسح بمعنی ولک یعنی پاوں کو مل دھونے کے معنی میں ہے یعنی امام طبری صرف دھونے کے قائل نہیں تھے بلکہ مل کر دھونے ضروری قرار دیتے تھے (ابن کثیر) مسئلہ وضو میں ترتیب بھی ضروری ہے جیسا کہ فاغسلوا فا سے ثابت ہوتا ہے کہ چہرہ کا پہلے دھونا ضروری ہے لہذا باقی اعضا میں بھی ترتیب ضروری ہوگی ورنہ اجماع لازم آئے گا اور پھر آنحضرت ﷺ نے ہمیشہ وضو مرتب کیا ہے۔ ف 8 تیمم کے لیے دیکھئے سورت نسا آیت 43) المآئدہ
7 المآئدہ
8 ف 1 اس آیت میں نعمت سے مرا اسلام ہے اور میثاق (اقرار) سے مراد وہ عہد ہے جو آنحضرت ﷺ ہر آدمی سے مسلمان ہونے پرلیا کرتے تھے کہ وہ خوشی اور رنج ہر حال اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ سمع واطاعت کرے گا یہ عہد اگرچہ نبی ﷺ لیاکر تے تھ لیکن چونکہ وہ اللہ کے حکم سے تھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی طرف منسوب فرمایا فتبا لمنکر السنتہ اور اس سے مراد وہ عہد بھی ہوسکتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے ذریت آدم سے لیا تھا اور یہ بھی کہ یہود کی متنبہ فرمایا ہو کہ آخری نبی آنحضر ﷺ کی متابعت کا جو عہد تم سے لیا گیا ہے اس کو پورا کرو مگر پہلا قول زیادہ صحیح ہے (ابن کثیر) ف 2 آیت کریمہ میں اللہ سے حقوق الہیٰ کی نگہداشت کی طرف اشارہ ہے یعن خاص اللہ تعالیٰ کی رضامند ی حا صل کرنے کے لیے حق پر قائم رہو۔ اور شھد دابلقسط سے حقوق العباد کی نگرانی کا حکم ہے۔ (کبیر) یہ تمہید ہے اور اس کے بعد دشمن کے بارے میں کچھ ہدایات دی ہیں جن کا تعلق حقوق العباد سے ہے اس لیے آگے انہی کی تفصلی ہے یعنی کسی نے تمہارے ساتھ کتنی ہی دشمنی کا معاملہ کیوں نہ کیا ہو تم بہرحال اس سے معاملہ کرتے وقت عد ل وانصف کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑے۔ یہ آیا یہود بنو نضیر کے بارے میں نازل ہوئیں نبی ﷺ ایک دیت کے سلسلہ میں ان کے ہاں تشریف لے گئے تو انہوں نے آپ ﷺ کو قتل کرنے کی سازش کی ابن کثیر۔ ابن جریر) شاہ صاحب (رح) لکتھے ہیں اکثر کافروں نے مسلمانوں سے بڑی دشمنی کی تھی پیچھے مسلمان ہوئے تو فرمایا کہ ان سے وہ دشمنی نہ نکالو۔ اور ہر جگہ یہی حکم ہے حق بات میں دوست اور دشمن برابر ہیں۔ ( مو ضح) المآئدہ
9 المآئدہ
10 المآئدہ
11 ف 3 عمومی انعامات کے بیان کے بعد اب خصوصی انعامات کا ذکر ہے۔ (کبیر) حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ ایک سفر کے دوران میں غزوہ ذات الرقاع میں) آنحضرتﷺ نے ایک جنگ میں پڑا و فرمایا صحابہ کرام (رض) سائے کی تلاش میں ادھر ادھر بکھر گئے آپ ﷺ بھی ایک درخت کے سائے میں لیٹ گئے اور تلوار درخت سے لٹکا دی۔ اتنے میں ایک بدو (غورثبن حارث) آیا اور تلوار سونت کر کہنے لگا اب آپ کو مجھ سے کون بچاسکتا ہے آپ ﷺ نے فرمایا اللہ اس پر تلوار اس کے ہاتھ سے گرگئی آپ ﷺ نے اسے اٹھا لیا اور اس بدو سے فرمایا اب بتاو تمہیں کو ب بچائے گا وہ کہنے لگا آپ بہترین پکڑنے والے نہیں آپ ﷺ نے فرمایا کہ اتم گواہی دیتے ہو کہ اللہ کے سوا کوئی الہٰ نہیں اور یہ کہ میں اس کا رسول ﷺ ہوں وہ کہنے لگا میں عہد کر تاہوں کہ نہ آپ ﷺ سے خود جنگ کرو نگا اور نہ آپ ﷺ سے جنگ کرنے والوں کی م دد کرونگا اس پر آپ ﷺ نے اسے چھوڑ دیا۔ حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ ایک دیت کے سلسلہ میں نبی ﷺ بن نضیر مدینہ کے یہودیوں کے ایک قبیلہ کے ہاں تشریف لے گئے انہوں نے آپ ﷺ اور آپ کے ساتھیوں کو ایک دوسرے کو سائے میں بٹھا یا اور آپس میں اسکیم بنائی کہ ان کے اوپر چٹان یا چکی کا پاٹ گرادیا جائے اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو خبردار کردیا اور آپ ﷺ نے وہاں سے اٹھ گئے (ابن کثیر، فتح البیان) ممکن ہے قرآن نے اس ایک آیت میں ان متعدد وقعات کی طرف اشارہ فرمادیا ہو اور یہ بھی ہوتا ہے کہا یک آیت ایک وقعہ کے متعلق نازل ہوتی ہے پھر یاد دہانی کے لیے دوسرے واقعہ میں اس کی طرف اشارہ کردیا جاتا ہے (المنار۔ قرطبی ) المآئدہ
12 ف 4 یعنی سمع وطاعت کا یہ عہد سے نہیں لیا گیا بلکہ تم سے پہلے بنی اسرائیل سے بھی اسی قسم کا عہد لیا گیا تھا مگر انہوں عہد شکنی کی اور ذلت ومسکنت میں گرفتا رہو گئے لہذا مسلمانو تم ان جیسے نہ بنو۔ ( کبیر) بنی اسرائیل کے کل بارہ قبیلے تھے اللہ تعالیٰ نے ان میں سے ہر ایک قبیلہ پر ایک سردار خود ہی اس قبیلہ سے مق ر کرنے کا حک دیا تھا تاکہ وہ ان کے حالات پر نظر رکھے اور انہیں اپنے وعہد پر قائم رہنے کی ہدایت کرتارہے بعض مفسرین (رض) نے لکھا ہے کہ یہ نقباان جبارین قوم کی خبر لانے کے لیے مقرر کئے تھے جن کا ذکر آگے آرہا ہے (ابن کثیر) ظاہر الفاظ سے پہلی بات صحیح معلوم ہوتی ہے آنحضرت ﷺ نے بھی لیلہ اعقبہ میں جب سمع وطاعت پر بیعت لی تھی تو ان پر اور نقیبہ ہی مقرر کئے تھے (قرطبی) المآئدہ
13 ف 1 یعنی اس کی راہ میں خرچ کرتے رہو گے، جو شخص اللہ تعالیٰ کی راہ میں مال خرچ کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ چونکہ اس کا کئی گنا بدلہ عنایت فرمائے گا اس لیے قرآن کی متعدد آیات میں اس مال خرچ کرنے کو قرض کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے یہ خطاب یا تو بنی اسرائیل سے ہے اور یا اس کے مخاطب صرف نقبا ہیں (کبیر) ف 2 یعنی ان کے دلوں میں نفاق بھر گیا ہے قسیتہ یا قا سیتہ اصل میں اس سکے کو کہتے ہیں جس میں ملاوٹ ہو، یہ قسوۃ سے جس کے معنی شدت اوسختی کے ہیں خالص سونا اور چاندی نرم ہوتے ہیں اور جتنی ان میں ملاوٹ زیادہ ہو اتنا ہی وہ زیادہ سخت ہوجاتے ہیں اس تشبیہ کی رعایت سے ان کے دلوں کو جن میں نفاق بھرا ہوتا ہے قاسیتہ فرمایا ہے (قرطبی۔ کبیر) یعنی ایک لفظ کی بجائے دوسرالفظ رکھ دیتے یا اس کی غلط تاویل کرتے اور اپنے ہی کرتب سے انہوں نے نبی ﷺ کی ان صفات کو بد ڈالا تھا جو تورات میں مذکورتھیں (قرطبی) ف 4 یعنی تورات کے بہت سے حصہ پر عمل تر کردیا جیساک آنحضرت ﷺ پر ایمان لانا اور زانی کو سنگسار کرنا وغیرہ (کبیرہ۔ ابن کثیر) ف 5 خاتنتہ بمعنی مصدر ای الخیانتہ اور صفتہ ای علی ٰ فرقتہ خائنتہ (کبیر) یعنی ان سے آئے سن کسی ہ کسی خیانت اور بد عہد ی کا ظہو رہوتا رہے گا یا ان میں ہمیشہ ایسے لوگ موجود رہیں گے جو خیا نت اور بد عہد ی کا ارتکاب کرتے رہنیگے اور آپ ﷺ کو ہرگز ان کی طرف سے امن نصیب نہ ہوگا۔ ف 6 یعنی ان میں چند لوگو ایسے ہیں جو کسی خیانت وبد عہدی کا مظاہرہ نہیں کرینگے ان سے خا ص کر عبد اللہ بن سلام اور ان کے ساتھ مراد ہیں یا پھر تمام وہ تمام لوگ جنہوں نے کفر کے باوجود کسی قسم کی خیانت یا بد عہدی نہیں کی (کبیر) ف 7 یعنی ان کی انفرادی خیانتوں اوابدعہد یوں سے نہ کر ان بد عہد یوں سے جو اجتماعی طور پر ہو کرتے ہیں۔ کیونکہ اس صورت میں تو وہ واضع طورپ حربی قرار پائیں گے جن کی سرکوبی بہر حال کی جائے گی (المنا ر) یا یہ کہ نوجوان میں سے خیانت کا ارتکاب نہیں کرتے اور اپنے عہد پر قائم ہیں ان کی دوسری لغزشوں سے درگزر فرمائیں (کبیر) ان دونوں صورتوں میں یہ آیت محکم رہے گی ورنہ اسے آیت قتال سے منسوخ کہا جائے گا۔ (کبیر ) المآئدہ
14 ف 8 یعنی اللہ کے مددگار چونکہ یہ لوگ اپنے اس دعویٰ میں جھوٹے ہیں اس لیے اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ ہم نے نصاری سے اقرار لیا بلکہ یہ فرمایا کہ ہم نے ان لوگوں سے اقرار لیا جو اپنے آپ کو نصاریٰ کہتے ہیں مطلب یہ ہے کہ یہود کی طرح نصاری ٰ سے بھی ہم نے توحید اور نبی آخرالزمان پر ایمان لانے کا عہد لیامگر انہوں نے بھی اس عہد کو توڑ ڈالا (کبیر، قرطبی) ف 9 چنانچہ اس وقت بھی ان میں باہم مذہبی عداوت پائی جاتی ہے اور پھر خود عیسائیوں کے بھی بہت سے فرقے ہیں جو آپس میں ایک دوسرے کے دشمن اور ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں (کبیر) ف 10 یعنی دنیا میں اس سزا کے علاوہ آخرت میں ان کو سخت سزا کا سامنا کرنا پڑے گا۔ شاہ صاحب فرماتے ہیں اس سے معلوم ہوا کہ جب آدمی اللہ کے کلام سے اثر پکڑ نا اور حکم شرع پر محبت سے قائم رہنا چھو ڑدے ارفقط مذہب کا جھگڑا اروحمیت رہ جائے تو وہ راہ سے بہک جائے ( مو ضح) المآئدہ
15 ف 11 یہود ونصاریٰ کے نقض عہد اور اعراض عن الحق کا ذکر کرنے کے بعد اب ان کو آنحضرت ﷺ پر ایمان لانے کی دعوت دی ہے (کبیر) ایک یہ کہ بہت سے احکام جو وہ چھپا یا کرتے تھے ان کو بیان کرتے ہیں جیسے رجم کی آیت سبت والوں کا قصہ جن کو مسخ کرکے بندر خنزیر بنادیا گیا تھا اور اآنحضرت ﷺ کی صفات سے متعلق آیات الغرض یہود ونصاری ان تمام باتوں کو چھپایا کرتے تھے چنانچہ ایک مرتبہ چند یہو دی آنحضرت ﷺ کے پاس آئے اور رجم کے بارے میں سوال کرنے لگے آپ ﷺ نے ان کے سب سے برے علام ابن صوریا کو قسم دلائی اور اس سے دریافت فرمایا کہ رجم کی آیت تورات میں ہے یا نہیں َ؟ بآلاخر اس کو قسم کی وجہ سے اعتراف کرنا پڑا اس پر یہ آیت نازل ہوئی (ابن جریر) ف 1 یعنی آنحضرت ﷺ کا دوسرا وصف یہ ہے کہ آپﷺ ان کی بہت سے چوریوں اور خیانتوں در گزر کرتے ہیں تاکہ وہ متاثر ہو کراسلام کے قریب آجائیں لیکن وہ ایسی باتیں ہیں جن کا دین میں اظہار ضروری نہیں ہے۔ (کبیر، قرطبی) ف 2 نور سے مراد شریعت اسلام ہے۔ اور کتاب مبین سے مراد قرآن پاک ہے یعنی یہ کتاب دین کے وہ تمام احکام بیان کرتی ہے جن کی لوگوں کو راہ ہدایت پانے کے لیے ضرورت ہے۔ المآئدہ
16 ف 3 یعنی جس شخص کا مطلب رضا الہی ٰ اور دین حق کی پیروی کرنا ہے اس کے لیے یہ کتاب راہ ہدایت دکھاتی ہے مگر جنہوں نے نظر واستدلال کو چھوڑکر اپنا دین ہی بزرگوں کی تقلید کربنالیا ہے وہ اس کی ہدایت سے مستفیض نہیں ہو سکتے ّ(ماخوذ از کبیر ) المآئدہ
17 ف 4 یعنی خدا اور مسیح ( علیہ السلام) ایک چیز ہیں اور ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے زمانہ قدیم میں یہ صرف عیسائیوں کے ایک فرقے یعقوب کا عقیدہ تھا مگر اس زمانہ میں عیسائیوں کے جو تین فرقے پرر ٹسٹنٹ کیتھو لک اور آرتھو ڈیکس پائے جاتے ہیں وہ سب کے سب کے سب اگرچہ ثلیث کے قائل ہیں لیکن ان کا اصل مقصد مسیح لوہیت ہے گویا وہ سب کے سب خدا اور مسیح ( علیہ السلام) کے ایک چیز ہونے کے کر قائل ہیں اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان سب پر کافر ہونے کا حکم لگایا ہے (المنار) ف 5 وہ مالک کل ارمختار ہے اور سب چیزوں پر اے قدرت اور تفوق حاصل ہے وہ چاہے توسب کی آن کی آن میں فنا کرسکتا ہے اگر مسیح ( علیہ السلام) خدا ہوتے کم از کم اپنی والدہ کو تو بچاسکتے تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی والدہ کو فوت کرلیا اور ان کو بھی وقت مقرر پر فوت کرے گا تو یہ بچ نہیں سکیں گے جس سے صاف ظاہرہ کہ وہ تو خدا ہیں اور نہ خدا کے بیٹے ہیں بلکہ اس کے بندے اور رسول ( علیہ السلام) ہیں۔ (کبیر۔ قرطبی) ف 6 اور جس کو جیسے چاہتا ہے بناتا ہے آدم ( علیہ السلام) کو اس نے ماں باپ دونوں کے بغیر پیدا کیا تو عیسیٰ ( علیہ السلام) کو بغیر ماں کے پیدا کردینا اس کے لیے کیا مشکل تھا محض باپ کے بغیر باپ کے پیدا ہونے سے کوئی بندہ خدا نہیں بن جاتا۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی جگہ نبیوں کے حق میں ایسی بات فرماتے ہیں تاکہ ان کی امت والے ان کو بندگی کی حد سے زیادہ چڑھائیں واللہ نبی اس لائق کا ہے کو میں ،(موضح) المآئدہ
18 ف 7 حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ آنحضرتﷺ یہود کی ایک جماعت کو اسلام کی طرفک دعوت دی اور ان کو عذاب الہیٰ سے ڈارایا اس پر ہو کہنے لگے کہ تم ہمیں اللہ کے عذاب سے کیسے ڈراتے ہو ہم تو اللہ تعالیٰ ٰٗ کے بیٹ اور اس کے محبوب ہیں، چنانچہ اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور انجیل میں ہے کہ حضرت مسیح ( علیہ السلام) نے نصاری ٰ سے کہا میں اپنے اور تمہارے باپ کے پاس جاتا ہوں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ دونوں گروہ اللہ تعالیٰ کے ابنا اور احبا ہونے کے مدعی تھے بعض نے یہاں مضاف محذوف مانا ہے ای نحن ابنا رسل اللہ واحباہ، حاصل یہ ہے کہ اہل کتاب اپنے آپ کو دوسروں سے فائق سمجھتے ہیں اور ان کا دعویٰ تھا کہ ہمارے اسلاف کی وجہ سے ہمیں عذاب نہیں ہوگا۔ قرآن نے ان کی تردید کی (قرطبی، کبیر) ف 8 یعنی یہ قانون ہے کہ گناہ کریگا اسے سزا ملے گی اور جس کے عمل نیک ہوں گے اسے انعام ملے گا جس طرح دوسرے لوگوں پر نافذ ہوگا تم پر بھی نافذ ہوگا پھر تمہاری ایسی کونسی خصوصیت ہے جس کی بنا پر تم اپنے آپ کو اس کے بیٹے اور چہتیے کہتے ہو (ابن کثیر، قرطبی) ف 9 اس میں یہود یوں کے لیے تبنہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی گرفت سے بچ نہیں سکتے آخرکار تمہیں اس کے حضور میں پیش ہونا ہے وہاں تمہاری جو بھی سزا ہوگی تمہیں مل کر رہے گی لہذ اتم اب بھی اپنی بداعمالی سے باز آجاو (ابن کثیر، شوکانی) المآئدہ
19 ف 10 یعنی ایک مدت سے رسولوں کی آمد کا یہ سلسلہ منقطع ہوچکا تھا۔ حضرت عیسیٰ ٰ ( علیہ السلام) بن اسرائیل کے آخری نبی تھے انکی بعثت پر بھی تقریبا چھ سال گزر چکے تھے اور کوئی نبی نہیں آیا تھا پھر آخری نبی آنحضرتﷺ مبعوث ہوئے اس آیت پر حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں حضرت عیسیٰ ٰ ( علیہ السلام) کے بعد کوئی رسول نہیں آیا تھا سو فرمایا کہ تم افسوس کرتے کہ ہم رسولوں کے وقت میں نہ ہوئے کہ تربیت ان کی پاتے، اب بعد مدت تم و رسول کی صحبت میسر ہوئی غنیمت جانو اور اللہ تعالیٰ قادر ہے اگر تم قبول کر وگے اور خلق کھڑی کر دیگا تم سے بہتر۔ یہ جیسے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کے ساتھ ان کی قوم نے جہاد کرنا پسند نہ کیا اللہ نے ان کو محروم کردیا۔ اور دن کے ہاتھ سے ملک شام فتح کرایا (موضح) ف 1 اس آیت میں آنحضرت ﷺ کی بعثت کا اساسی مقصد بیان فرمایا ہے یعنی عرصہ دراز سے کسی الوا العزم رسول کے نہ آنے کی وجہ سے شرائع میں تغیر وتبدل اور تحریف ہوچکی تھی اور حق و باطل میں امتیاز با قی نہ رہا تھا جو لوگوں کے لیے شرئع سے اعراض کرنے کا واضح عذر تھا پس آنحضرت ﷺ نے تبدل وتغیر اور تحریف سے ملت ابراہیمی کو پاک کر کے لوگوں کو شریعت حقہ سے روشناس کر یا تاکہ ان پر اتمام حجت ہوجائے اور عذر کی کنجائش باقی نہ رہے (کبیر قرطبی) ف 2 یعنی محمد ﷺ۔ لہذا اب تم اپنے کفر پر جمے رہنے کے لیے اللہ کے ہاں کوئی عذار نہیں پیش کرسکتے (کبیر) المآئدہ
20 ف 3 اس کا تعلق آیت : ولقد اخذ اللہ میثاق بنی اسرائیل کے ساتھ ہے یعنی ان سے عہد لیا اور حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) نے ان کو انعامات الہیٰ یاددلا کر جبارین (عمالقہ) سے جنگ کا حکم دیا لیکن اسرائیل نے عہد شکنی کی اور عمالقہ کے ساتھ جنگ کرنے سے انکار کردیا۔ (کبیر) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے تین نعمتوں کا خصوصیت سے ذکر کیا ہے یعنی ان سے جلیل القدر انبیا مبعوث کئے جیسے حضرت اسحق ( علیہ السلام)، حضرت یعقوب ( علیہ السلام)، حضرت یوسف ( علیہ السلام) اور حضرت موسیٰ علیہم السلام دوم یہ کہ ان کو آزادی اور حکومت دی اور توحید کا علمبر دار بنایا جبکہ دوسری تمام قومیں شرک میں مبتلا تھیں (کبیر، قر طبی) المآئدہ
21 ف 4 یا جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے تمہارے دادا حضرت یعقوب ( علیہ السلام) سے وعدہ فرمایا تھا کہ اسے آپ کی اولاد میں سے اہل ایمان کی وارث بناوں گا (ابن کثیر) بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) جبل لبنان پر چڑھے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا دیکھوْ ! جہاں تک تمہاری نظر پہنچے گی وہ ارض مقدس ہے اور تیری ذریت کی میراث ہے۔ کبیر) ف 5 حضرت موسیٰ ٰ ( علیہ السلام) کا بنی اسرائیہ سے یہ خطاب س موقع پر ہے جب وہ مصر سے نکلنے کے بعد جزیرہ نمائے سینا میں خمیہ زن تھے اران پر من وسلویٰ اتررہا تھا۔ (ابن کثیر) تاریخی اور اثرمی تحقیقات کے مطابق خروج کا زمانہ 440 ق م ہے اور فلسطین پر فوج کشی کا زمانہ 400 ق م ہے گواس مدت کے بیان میں موسیٰ ( علیہ السلام) نے خطاب کیا اور صحیفہ استثنا کے بیان کے مطابق دریائے یرون کے اس پار اب کے میدان میں تقریر ارشاد فرمائی۔ المآئدہ
22 ف 6 قوت ایمانی کے کمزور ہونے کی وجہ سے اپنی مرعبیت کا اظہار کر رہے ہیں ؎( یہ اطلاع فارس کے مقام پر پیش کی گئی) لیکن جس انداز سے بعض تفسیری روایات میں ان لوگوں (جبارین کا نقشہ پیش کیا گیا ہے وہ تمام اسرائیلی روایات ہیں جن کو ایک معمولی عقل کا انسان بھی تسلیم نہیں کرسکتا خصوصا عوج بن عنق کا فسانہ جس کے متعلق حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ یہ سب من گھڑت افسانے ہیں جن کی کوئی حقیقت نہیں۔ حدیث میں ہے کہ حضرت آدم ( علیہ السلام) کا قد ساٹھ ہاتھ تھا اور اس کے بعد سے لوگ برابر گھٹ رہے ہیں۔ (بخاری مسلم پھر عوج بن عنق کا قد تین ہزار تین سو تنتیس ہاتھ کیسے ہوسکتا ہے (ابن کثیر) ف 7 یعنی ان کو آپ معجزانہ طور پر اس سر زمین سے نکال دیں تو ہم جانے کے لیے تیار ہیں۔ المآئدہ
23 ف 8 اللہ تعالیٰ نے ان دو آدمیوں کا ذکر بطور نکرہ فرمایا ہے اور کسی حدیث میں بھی ان کے ناموں کی صراحت نہیں آئی تاہم تورات کی ایک روایت کے مطابق حضرت ابن عباس (رض) اور دوسرے تمام مفسرین نے ان کا نام یوشع بن نون اور کالب بن یافنا بتایا ہے اور یہ دونوں ان بارہ نقیبوں میں تھے جن کا ذکر گزر چکا ہے (ابن کثیر قرطبی) المآئدہ
24 ف 9 ان برعکس صحابہ (رض) کرام نے ہر موقعہ پر عزم وہمت کا ثبوت دیا۔ اس کا انداز ہ جنگ بدر کے واقعہ سے ہو سکتا ہے کہ جب مہاجرین (رض) کے بعد آنحضرت ﷺ نے انصار کی رائے معلوم کرنی چاہی تو حضرت سعد بن معاذ (رض) اپنی تقریر میں فرمایا اے اللہ کے رسولﷺ اگر آپ ہمیں لے کر اس سمندر میں کود نا چاہیں تو ہم میں سے کسی کو انکار نہ ہوگا۔ ہم حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کے ساتھیوں کی طرح نہیں ہیں جنہوں نے کہا تھا آپ اور آپ کا پروردگار جا کر جنگ کریں ہم تویہاں بیٹھے ہیں۔ (ابن کثیر ) المآئدہ
25 ف 1 یعنی ہم کو ان سے علیحدہ کردے ایسا نہ ہو کہ تیرا عذاب نازل ہو اور ان کے ساتھ ہم بھی اس کی لپیٹ میں آجائیں (کبیر، ابن کثیر ) المآئدہ
26 ف 2 حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ اس کے بعد یہ لوگ چالیس سال تک بیابان (دشت فاران بیابان شور اور دشت صین) میں پڑے بھٹکتے رہے، جب چالیس سال گزر گئے (یعنی تقریباتو (اولا) حضرت ہارو ن ( علیہ السلام) اور ان کے کچھ عرصہ بعد حضرت موسیٰ ٰ ( علیہ السلام) کوہ عباریم پر وفات پاگئے (حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کی عمر اس وقت ایک سو بیس سال تھی) اور ہر اس شخص کا نتقال ہوگیا جس کی عمر چالیس سال زیادہ تھی جب چالیس ساگزرگئے توحضرت یوشع ( علیہ السلام) جو حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کے بعد ان کے خلیفہ مقرر ہوئے۔ باقیماندہ لوگوں کو لے کر ورانہ ہوئے اور انہوں نے مشرق کی جانب سے دریائے اور دن پار کر کے اریحا فتح کیا یہ فلسطین کا پہلا شہر تھا پھر تھوڑی مدت میں بیت امقدس فتح کرلیا (ابن جریری) شاہ صاحب لکھتے ہیں اہل کتاب کو قصہ سنایا اس پر کہ اگر تم پیغمبر کی رفاقت نہ کرو گے تو یہ نعمت اوروں کو نصیب ہوگی آگے اس پر قصہ سنایا ہابیل قابیل کا کہ حسد مت کرو حسد والا مردود ہے۔ (موضح ) المآئدہ
27 ف 3 اوپر کی آیات میں یہ بیان فرمایا تھا کہ مخالفین ہر طرح سے مسلمان پر مصائب وشدائد لا نا چاہتے ہیں (وھمو ان یبسطوا الیکم الخ) مگر اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے مسلمانوں کی حفاظت کررہا ہے اس کے بعد آنحضرت ﷺ کو تسلی دینے کے لیے کچھ واقعات بیان فرمائے جن سے یہ ثابت کرنا مقصو ہے کہ جس شخص کو بھی اللہ تعالیٰ نے دینی اور دنیاوی نعتوں سے نوا زا ہے لوگ اس سے ہمیشہ حسد وبغض سے پیش آتے رہے ہیں چنانچہ یہود ونصاری کی مخالف بھجی ان کے تمرد اور حسد وبضض پر منبی ہے فلا تاس علی القوم الفا سقین لہذا ان پر افسوس اور غم نہ کیجئے اب یہاں ابنی ادم کا قصہ بیان کیا ج و اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے کیونکہ ایک بھائی کا دسرے کو قتل کرنا حسش کی بنا پر تھا۔ الغرض ان جملہ واقعات ان جملہ واقعات سے آنحضرت کو تسلی دینا مقصود ہے اور ہو سکتا ہے کہ بتانا مقصود ہو کہ یہود اپنے زعم میں اللہ تعالیٰ کے محبوت ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ( نحن ابنا اللہ واحبنا ہ) اور انبیا کی اولاد ہونے پر ان کو فخر ہے مگر کفر اروحسد وعنادے ساتھ یہ نسبی شرف ان کے لیے مفید نہیں ہوسکتا اور آدم کے دو بیٹوں کا قصہ اس پر شاہد ہے (کبیر۔ قرطبی) اس سے مقصد تحذیر عن الحسد ہے حسن بصری (رح) فرماتے ہیں کہ یہ دونوں آدمی بنی اسرائیل سے تھے یہود کا حسد بیان کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ ٰٗ نے بطور مثال یہ واقعہ بیان کیا ہے جیسا کہ من اجل ذلک کتبنا الایہ کی تفریع اس پر دال ہے (کبیر۔ قرطبی) بالحق یعنی یہ کوئی باطل قصہ یا افسانہ نہیں ہے بلکہ امر واقعی ہے (کبیر) ف 4 یہاں تقوی ٰ سے مراد شرک سے بچنا ہے کیونکہ معاصی گناہ قبولیت عمل کو مانع نہیں ہوتے اس پر اہلسنت کا اجما ہے (قرطبی) المآئدہ
28 ف 5 یعنی میں تیرے قتل کرنے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھا ونگا ورنہ مدافعت تو ضروری ہے اس پر امت کا اجماع ہے (قرطبی) اگر مقتول بھی اپنے قتل کے درپے ہو توایسی صورت میں دونوں جہنمی ہیں جیسا کہ ایک حدیث میں ہے کہ قاتل کے ساتھ مقتول بھی جہنمی ہیں جیسا کہ ایک حدیث میں ہے کہ قاتل کے ساتھ مقتول بھی جہنم میں جائے گا کیونکہ وہ اپنے ساتھی کے ساتھ مقتول بھی جہنم میں جائے گا کیونکہ وہ اپنے ساتھ کو قتل کرنے کے دربے تھا۔ ( بخاری ) المآئدہ
29 ف 6 میرے گناہ کے ساتھ یعنی جو مجھ اس صورت میں ہوتا جب بھی تجھے قتل کرنے کے درپے ہوتا جیسا کہ اوپر کی حدیث میں بیان ہوچکا ہے یا یہ کہ میرے گناہوں کا بوجھ بھی تجھ پر ڈالا جائے گا جیسا کہ ایک حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن ظالم کو لایا جائے گا اور اس کی نیکیاں مظلوم کو دیدی جائیں گی اور مظلم کے گناہ اس پر ڈال دیے جائیں گے (قرطبی) المآئدہ
30 المآئدہ
31 ف 7 یعنی اس کی دنیا بھی برباد ہوگئی اور آخرت میں بھی سخت ترین عذاب کا مستحق قرار پایا۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا دنیا میں کوئی شخص ظلم کی راہ سے قتل نہیں ہوتا مگر آدم ( علیہ السلام) کا پہلا بیٹا یعنی قابیل بھی اس کے وبال میں شریک ہوتا ہے کیونکہ اس نے سب سے پہلے قتل کی سنت جاری کی (بخاری مسلم) ف 8 اور نقل میں یو آیا ہے کہ ایک کوے نے زمین کھود کر دوسرے کوے کو دفن کیا اس نے کوے کی خیر خواہی دوسرے کوے کے لیے دیکھی تو اپنے فعل پر پشمیان ہوا (از مو ضح) مگر یہ اسرائیلی روایات سے ماخوذ ہے۔ قرآن کے ظاہر الفاظ جو چیز معلوم ہوتی ہے ہو یہی ہے یہ اسے زمین کرید تے دیکھا ہے اس نے سمجھ لیا کہ اسے دفن کردینا چاہیے (قرطبی) المآئدہ
32 ف 1 یعنی بھائی کے مر نے پر نہ کہ اپنے فعل پر کیونکہ اگر وہ اپنے فعل پر ندامت کا اظہار اور تو بہ کرتا گناہ معاف ہوجاتا اور دنیا میں جو قتل ہوئے ہیں اس کا گناہ اس پر نہ ہوتا (قرطبی) ف 6 یعنی ایسے شخص کو ناحق مار ڈالے جس نے نہ کوئی خون کیا ہو نہ ازراہ بغاوت کوئی فساد برپا کیا ہو۔ گناہ کی شدت بیان کرنے کے لیے جمیعا کہدیا ہے کہ گو یا سب کو قتل کرڈالا ورنہ اسے گناہ توایک کے قتل کا ہی ہوگا یا مطلب یہ ہے کہ جیسے سب کے قتل کرنے سے انسان جہنم میں جائے گا کسی ایک مسلمان کے ناحق قتل کردینے کی سزا بھی جہنم ہے یعنی تشبیہ نہ نفس عتاب کے لحاظ سے ہے کہ کمیت وکیفیت عذا کے اعتبا سے (قرطبی کبیر ) ف 3 یعنی اگر کسی ایک شخص کو ظالم کے ہاتھ سے بچا لے گا تو اسکا ثواب اتنا ہے گویاسب لوگوں کو بچیا (کذافی الموضح) ف 4 یعنی لوگوں پر ظلم اور دست درازی کرتے رہتے ہیں اور ناحق خون کرنے سے باز نہیں آتے اور اب پیغمبر اور جماعت حقہ کے قتل اور ایذار سانی کے درپے ہیں پھر ان کے مصرف ہونے ہونے میں کیا شبہ ہے ہو سکتا ہے جو کھلے کھلے معجزات دیکھ کر بھی اللہ تعالیٰ سے نہیں ڈرتے۔ ف 5 یعنی اس حکومت کے خلاف بغاوت کرتے ہیں جو اللہ روسول ﷺ کی احکام کو نافذ کرنے ولی ہے ارواسلام کی سرزمین میں ڈاکہ زنی لوٹ مار اور قتل وغا رت کا بازار گرم رکھتے ہیں۔ المآئدہ
33 ف 6 اکثر مفسرین کے نزدیک یہ آیت قبیلہ عکل اور عرینہ کے ان لوگو کے بارے میں میں نازل ہوئی ہے جن کاْقصہ حضرت انس (رض) نے یوں بیان کیا ہے کہ یہ لوگ مسلمان ہو کر مدینہ منورہ آئے لیکن وہاں کی آب وہوا انہیں موافق نہ آئی وہ بیمار ہوگئے نبی ﷺ نے انہیں مدینہ سے باہر صدقہ اونٹوں میں رہنے کا حکم دیا کہ ان کا دودھ اور بیشاب پیئیں یہ لوگ وہاں چلے گئے تندرست ہونے کے بعد وہ اسلام سے پھر گئے اور چر واہے (لیسار نوبی) کو قتل کر کے اونٹ ہنکا لے گئے۔ آنحضرت ﷺ نے ان کے تعاقب میں سوار بھیجے جو انہیں پکڑ کر مدینہ منورہ لے آئے نبی ﷺ نے حکم دی ان کے ہاتھ پاوں کاٹ ڈالے جائیں اور انکی آنکھیں میں لو ہے کی گرم سلائیاں پھیری جائیں یہ 6 ھ کا واقعہ ہے مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے گرم سلائیاں پیھر نے کا حکم اس لیے دیا تھا کہ انہوں نے چرواہے کے ساتھ یہی سلوک کیا تھا۔ (بخاری۔ مسلم) یہ سزا ان حربیوں کی ہے جو حکومت اسلامی کے باغی بن کر ملک کے اندر فساد پھیلا نے میں سرگرم رہتے ہیں حاکم وقت ان سزاوں میں سے جو سزا مناسب سمجھے ان کو سے سکتا ہے عام اس سے کہ وہ مشرک یا یہودی ہوں یا باغی مسلمان ہوں (قرطبی ) المآئدہ
34 ف 7 یعنی ایسے لوگوں کا قصو معاف کردیا کیونکہ ان کا گرفتا ہونے سے پہلے ازخود اپنے آپ کو حوالے کردینا یہ معنی رکھتا ہے کہ انہوں نے اپنے جرائم سے توبہ کرلی ہے مگر انہوں نے جو حقوق بندوں کے تلف کیے ہو نگے وہ معاف نہیں ہو کئے جاسکتے ان میں بہر حال ان کو پکڑا جائے گا اسی طرح شراب، زنا سرقہ وغیرہ کی حد بھی توبہ سے معاف نہیں ہو سکتی ہاں ان گناہوں پر دنیا میں اللہ تعالیٰ پردہ ڈال دے تو عند الہ توبہ سے معاف سکتے ہیں (قرطبی) المآئدہ
35 ف 8 یعنی رسول کی اطاعت میں جو نیکی کرو وہ قبول ہے اور بغیر اس کے عقل سے کرو سو وہ قبول نہیں (موضح) لفظ وسیلتہ توست الیہ سے فعیلتہ کے وزن پر ہے اس کی جمع ہے رسائل آتی ہے اس سے مراد ہر وہ نیکی یا عبارت ہے جس سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہو اور وسیلتہ جنت میں ایک بلند درجہ بھی ہے جو نبی ﷺ کے لے مخصوص ہے حدیث میں ہے یہ جس نے میری لیے وسلیہ کی دعا کی اس کے لیے میری شفاعت حلال ہوگئی (قرطبی) یہود کو اپنے نسب پر فخر تھا اور اس خوشی فہمی میں ہر قسم کے جرائم کا ارتکاب کرتے رہتے تھے اور اپنا آپ کو اللہ تعالیٰ کا محبوب سمجھتے تھے جیساکہ اوپر کی آیات میں گزرچکا ہے اب اس آیت میں مسلمانوں کو تعلیم دی ہے کہ تم اگرچہ بہتر امت ہو اور تمہارا نبی ﷺ بھی سب سے افضل ہے مگر تمہیں چاہیے کہ نیک اعما کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کو شش کرو اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرو تاکہ آخرت میں فلاح حاصل کرسکو یعنی یہود کی طرح بدعمل نہ بنو (کبیر) المآئدہ
36 ف 1 حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ایک جہنمی کو لایاجائے گا اور اس سے پوچھا جائے گا کہ اگر تمہارے پاس زمین بھر سونا ہو تو کیا تم اسے اپنے فدیہ میں دے دو گے وہ کہے گا ہاں اس پر اللہ تعالیٰ فرمائے گا تم جھوٹ بولتے ہو میں نے تمہیں اس سے کہیں ہلکی چیز کا مطالبہ کیا تھا یعنی یہ کہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہر انا) مگر تم نے اسے پورا نہ کیا (ابن کثیر بحوالہ صحیح مسلم آیت سے مقصود یہ ہے کہ ان لازما عذاب ہوگا اور کسی صورت اس سے رہائی نہیں پاسکیں گے (کبیر ) المآئدہ
37 ف 2 یہ آیت کفار فکے حق میں ہے جیسا کہ اوپر کی آیت میں انا بصراحت ذکر کیا گیا ہے را ہے گنہگار مسلمان تو صحیح احادیث میں ہے کہ ان کو گناہوں کی سزا بھگت لینے کے بعد جہنم سے نکال لیا جائے گا۔ (ابن کثیر ) المآئدہ
38 ف 3 اوپر کی آیت میں محارمین ( جوفساد پھیلاتے ہیں اور لوٹ مار کرتے ہیں) کی سزا تو یہ بیان فرمائی کہ ان کے ہاتھ پاوں کاٹ دیے جائیں اب اس آیت میں چوری کی حد قانونی سزا بیان فرمائی کہ مرد ہو یا عورت ان کے ہاتھ کاٹ دیئے جائیں مگر آیت میں عموم اور اجمال ہے حدیث میں ہے تقطع ید السا ق فی ربع دینار فصاعدا کہ کم از کم چوتھائی دینار سرقہ ہو تو کلائی کے پاس سے اس کا دہنا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا (قرطبی) مسئلہ اگر کوئی شخص قبر یا مسجد سے چوری کرے تو اس کے بھی یہی سزادی جائے گی جمہور علما نے کا یہی مذہب ہے اور نالامن نمہ فرما کر اشارہ فرمایا کہ یہ عقوبت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے علاوہ ازیں مسرقہ مال اس کے مالک کو واپس کرنا پڑیگا (دیکھئے قرطبی) المآئدہ
39 ف 4 یہاں ظلم سے مراد مسرقہ چوری ہے یعنی جس نے چوری کے بعد توبہ کر کے اپنی اصلاح کرلی اللہ تعالیٰ ان کا گناہ معاف فرامائے گا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ توبہ کرلینے سے چوری کی حد اس سے ساقط ہوجائے گی۔ نبی ﷺ کی خدمت میں چورتوبہ کرتے ہوئے آتے لیکن آپ ﷺ ان پر حد جاری فرماتے دار قطنی کی ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺ ایک چورکا ہاتھ کٹوایا اور پھر اس سے فرمایا تب الی الہ یعنی توبہ کرو اللہ تعالیٰ تمہارا قصور معاف فرمائے ( از فتح القدیر ( یہ باکل صحیح ہے کہ حد دو کفارہ میں محض ان کی حیثیت زواجر کی نہیں ہو ہے مگر ساتھ ہی توبہ کی بھی ضرورت ہے۔ (ماخوذ از قرطبی) المآئدہ
40 ف 5 یہ اس لیے فرمایا کہ کوئی تعجب نہ کرے کہ چورکو تھوڑی خطا پر بڑی سزا فرمائی ہے ( موضح) اس آیت کا خطاب تو آنحضرتﷺ سے ہے لیکن مراد تمام لوگ ہیں یا ہر شخص سے شخص سے خطاب ہے (فتح البیان) یعنی اللہ تعالیٰ کے ہاں سے کسی کو رعایت نہیں مل سکتی جو بھی جرم کا ارتکاب کرے گا اسے ضرور سزا ملے گی اس معاملہ میں کسی شریف کو وضیع پر فوقیت حاصل نہیں ہے یا یہ کہ اللہ تعالیٰ کسی جرم پر سزا چاہے مقرر فرمادے اسے مخلوق پر اختیار کلی حاصل ہے () قرطبی) المآئدہ
41 ف 6 کفر پر دوڑے پڑتے ہیں یعنی جب بھی انہیں کوئی مقع ہاتھ آتا ہے تو فورا کفر کی طرف پلٹ جاتے ہیں یا کافروں سے مل جاتے ہیں اس کا تعلق منافقین سے ہے ( کبیر ) ف 7 جھوٹی باتیں سنتے ہیں یعنی جو کچھ ان کے روسا تورات میں تحریف کرکے اور آنحضرتﷺ کی نبوت پر طعن پر کہتے ہیں اسے قبول کرلیتے ہیں اور پھر یہ ان لوگوں کے جاسوس بن کر آپ ﷺ کے پاس آتے ہیں جو وازراہ تکبر آپ ﷺ کی مجلس میں آنا پسند نہیں کرتے (کبیر) ف 8 یعنی تورات میں تحریف کرتے ہیں اسکے الفاظ بھی بد دیتے ہیں اور غلط تاویلیں بھی کرتے ہیں جس سے حلال کو حرام اور حرام کو حلال قرار دیتے ہیں مثلا انہوں نے رجم (سنگساری) کی بجائے جلدکوڑوں کی کی سزا مقرر کررکھی تھی۔ (کبیر ) المآئدہ
42 ف 1 علمائے تفسیر نے لکھا ہے کہ یہود میں سے ایک مر اور ایک عورت نے زنا کا ارتکاب کرلیا وہ دونوں شاد ی شدہ تھے۔ ان کے علماے نے باہم مشورہ کر کے طے کیا اس مقدمہ کا فیصلہ محمد ﷺ سے کرالیتے ہیں کیونکہ وہ نرم شریعت لے کر آئے ہیں۔ْ اگر انہوں نے کوڑے مارنے کا حکم دی اتو ہماری مراد بر آئے گی اور اگر انہوں نے سنگسار کرنے کا حکم دیا تو ہم ان کا فیصلہ ٹھکرا دیں گے چنانچہ اس بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔ (ابن کثیر) کتب صحاح میں ہے کہ جب یہودی اپنا یہ مقدمہ لے کر آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ ﷺ نے انہیں تورات پڑھنے کا حکم دیا تو چنانچہ ایک آدمی پڑھنے لگا اور جب وہ آیت رجم پر پہنچا تو اس پر ہاتھ رکھ کر اگلی آیت پڑھی دی اس پر حضرت عبد اللہ بن سلام نے اسے ٹوک دیا اور اس کا ہاتھ ہٹاکر آیت رجم پڑھنے کا حکم دیا چنانچہ آنحضرت ﷺ کے سامنے سار معاملہ کھل گیا اور آپ ﷺ نے زانی اور زانیہ کو سنگسار کرنے کا حکم دیا اور فرمایا انی احکم بما فی التورات کہ میں تورات کے مطابق تمہارے مقدمہ کا فیصلہ سے رہاہوں (قر طبی، ابن کثیر) ف 2 سحت کے لفظی معنی مٹانے اور ہلاک کرنے کے ہیں گویا مال حرام وہ چیز ہے جو انسان کی تمام نیکیوں کو اکارت کر کے رکھ دیتی ہے اور ہر اس خسمیں مال پر سخت کا لفظ بولا جاتا ہے جس کے لینے میں رہو اور خفیہ طور پر لیا جائے نے اس میں رشوت بھی شامل ہے اور احادیث میں زانیہ کی اجرت کتے شراب اور مردار بیجنے کو سخت کہا گیا ہے سود چوری کا مال اور جوئے سے کمایا ہو امال بھی سحت میں داخل ہے ( کبیر، قرطبی) ف 3 جس زمانے میں یہ آیت نازل ہوئی یہودیوں کی ٖحیثیت محض ایک معاہد قوم کی تھی اور وہ نرمی یعنی اسلامی حکومت کی رعایا نہ تھے اس لیے نبیﷺ کی عدلت کو اختیا ردیا گیا کہ چاہیں تو انکے مقدمات کا فیصلہ کریں اور چاہیں تو انکار کردیں اور یہی اختیار اسلامی حکومت کو کسی غیرمسلم معاہد قوم کے درمیان فیصلہ کرنے کے بارے میں ہے رہے ذمی لوگ سوا گر وہ اپنے مقدمات اسلامی عدلت میں لائیں تو ان کے مقدمات کا فیصلہ کرنا ضروری ہوگا۔ (المنار ) یہی تفصیل امام شافعی (رح) نے منقول ہے پس اس تخیتر کا تعلق معاہد قوم سے ہے۔ (کبیر) مگر دوسرے علما کا خیال ہے کہ یہ تخیر منسوخ ہے جن میں حضرت عمر (رض) بن عبدالعزیز اور مام نخعی (رح) بھی شامل ہیں سخاس نے بھی ناسخ منسوخ میں یہی لکھا ہے اور حضرت عکرمہ (رض) سے بھی یہی مروی ہے کہ آیت وان احکم بینھم بما انزل اللہ (مائدہ آیت 48) سے یہ آیت منسوخ ہے امام شافعی کا اصح قول بھی یہی ہے امام زہری (رح) فرماتے ہیں شروع سے یہ طریقہ چلاآیا ہے کہ باہمی حقوق اور احکام وراثت میں اہل کتاب کا فیصلہ ان کے دین کے مطابق کیا جائے ہاں اگر وہ اپنی خوشی سے اسلامی قانون کے مطابق فیصلہ کے خواہشمند ہوں تو پھراسی کے مطابق کردیا جائے گا اس تفصیل سے ثابت ہوتا ہے کہ گو بعض جزئیات میں علما کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے تاہم ان کی اکثر یت نسخ کی قائل ہے (قرطبی) ف 4 یہاں ان کی جہالت اوعناد کا بیان ہے یعنی وہ جانتے ہیں کہ جو مقدمہ آپ ﷺ کے پاس لارہے ہیں اس کا فیصلہ تو رات میں موجود ہے تاہم آپ ﷺ کے پاس اس لیے مقدمہ لاتے ہیں کہ شاید آپﷺ کا فیصلہ تورات کی بہ نسبت کچھ ہلکا ہو لیکن جب آپﷺ کا بھی وہی ہوتا ہے جو تورات کا ہوتا ہے تو وہ اسے ماننے سے انکار کردیتے ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ نہ تو وہ تورات پر ایمان رکھتے ہیں اور نہ آپ ﷺ پر اصل میں یہ اپنی اغراض کے بندے ہیں اور ان کا مقصد جیات ہی دینوی مصالح کا حاصل کرنا ہے۔ (کبیر ) المآئدہ
43 ف 5 اس میں یہود کو تنبیہہ ہے جو حد رجم (سنگساری) کا انکار کرتے تھے اور ان کو ترغیب دی ہے کہ وہ اپنے اسلاف۔ انبیا احبار اور علمائے ربانی کا مسلک اختیار کریں۔ (کبیر) بنی اسرائیل میں حضرت موسیٰ ٰ ( علیہ السلام) کے بعد حضرت عیسیٰ ٰ ( علیہ السلام) تک سینگڑوں پیغمبر ایسے گزرے ہیں جن پر کوئی نئی کتاب نازل نہیں کی گئی اور وہ اپنے زمانے میں لوگوں کو تورات ہی پر عمل کرنے کی نصیحیت کرتے اور ان کے مابین اسی کے احکام کے مطابق فیصلے کرتے تھے خود حضرت عیسیٰ ٰ ( علیہ السلام) کو کوئی نئی شریعت نہیں دی گئی بلکہ ان کی بعثت کا مقصد تورات ہی کی شریعت کو زندہ کرنا تھا۔ الذین ااسلموا یہ صفت مدح ہے اور ان انبیا ( علیہ السلام) کے کے مسلمان ہونے کے یہ معنی ہیں کہ وہ دین ابراہیم کے تابع تھے یا للہ تعالیٰ کے فرمانبر دار تھے (قرطبی) المآئدہ
44 ف 1 آیت میں بما استحفظو کی با کا تعلق الریا یو ن والا حبار سے ہے مطلب یہ ہے کہ جس زمانے میں کوئی نبی نہیں ہوتا تھا ویہ درویش اور تعلیم یافت لوگ یہودیوں کے مابین تورات کے مطابق فیصلے کیا کرتے تھے کیونکہ انبیا ( علیہ السلام) نے انہی کو اللہ تعالیٰ کی کتاب تورات کا محافظ قرار دیا تھا اور ان کی ذمہ داری تھی کہ اس میں کو تحریف نہ ہونے پائے اور شھدآ کے یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ وہ تورات کے من عند الہ ہونے پر گواہ تھے بعض علما نے بما اتحفظوا کی با کا تعلق یحکم سے بیان کیا ہے کہ اللہ کی کتاب کی جو امانت ہ ان کے سپرد کی گئی تھی وہ اس کے مطابق فیصل کرتے تھے۔ ّ(قرطبی، کبیر) یعنی تم بھی اپنے انبیا اور بزرگوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے تورت میں کوئی تحریف نہ کرو اور حق پر چلتے ہوئے تورات میں کوئی تحریف نہ کرو اور حق بات کہنے اور محمد ﷺ کے جو حالات اس میں مذکور ہیں ان کے بیان کرنے میں لوگوں کو پر واز کرو اور صرف میرے انتقام اور عذاب کا ڈر اپنے دلوں میں رکھو (کبیر) ف 3 حضرت حسن بصری (رح) فرماتے ہیں کہ حکام پر اللہ تعالیٰ نے تین چیزیں لازم کی ہیں خواہش کی پیرو کی نہ کریں صحیح ٖفیصلہ کرنے میں کسی کی پروانہ کری ن اور رشوت لے کر غلط فیصلہ کریں ،(قرطبیف 4 یہ خطاب یہود سے ہے یعنی جب یہ عمد وتورات کے فیصلے کو چھپاتے ہیں اور اس پر عمل کرنا نہیں چاہتے تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ باوجود زبانی دعوی ٰ کرنے کے درحقیقت یہ کافر ہیں مگر آیت کے الفاط عام ہیں مسلمان حاکم پر کفر کا فتوی اسی وقت لگا سکتے ہیں جب وہ قرآن و حدیث کا انکار کرکے ان کے خلاف فیصلہ صادر کرے ایسے شخص کے کافر ہونے میں کچھ شبہ نہیں ہوسکتا اگلی آیات میں ایسے شخص کو ظالم اور فاسق بھی قرار دیا گیا۔ ( قرطبی) المآئدہ
45 ف 5 اس آیت میں بھی یہود کی توبیخ ہے یعنی انہوں نے جس طرح رجم (سنگساری) کے حکم کے تبدیل کرندیا تھا اسی طرح ان پر نفوس اور جر دح میں برابر رکھی گئی تھی جواب بھی تورات کی کتاب خروج باب 21 آیت 23۔25 میں موجود ہے مگر انہوں نے اس کو تبدیل کر کے معطل کر ڈالا اور عملا اس کی خلاف ورزی کر کے ظالم بن گئے آنحضرت ﷺ کے زمانے میں یہو دی قبائل میں سئے بنی نضیر طاقتور اور بنو قریظہ کمزور تھے اس لیے یہوی بنو نضیر کا قصاص بنونضیر سے نہ لیتے تھے۔ (ابن کثیر۔ کبیر) اس آیت کے مشمولات کے حجت ہونے پر ااجماع ہے پس عورت کے بدلے مرد قتل کیا جائے گا چنانچہ آنحضرت ﷺ ن عمر و بن حزم کو جو کتاب لکھ کر بھیجی اس میں یہ حکم بھی لکھا کہ عورت کے بدلے مرد کو قتل کیا جائے اور دوسری حدیث میں ہے المسلمو ن تتکا فا دماھم کہ مسلمانوں کے خون کے برابر ہیں جمہور علما کا یہی مسلک ہے احناف نے آیت کے عموم کے تحت کافر اور غلام کے بد لے مسلمان قتل کرنے کا حکم ثابت کیا ہے مگر صحیحین کی حدیث میں ہے لا یقتل مسلم بکافر کہ کافر کے بدلے مسلمان کو قتل نہ کیا جائے اور متعد آثار سے ثابت ہے غلام کے بدلے آزاد کو قتل نہیں کیا جاتا تھا بنابریں ان دونوں مسئلوں میں جمہور علما نے احناف کی مخالفت کی ہے بلکہ امام شافعی (رح) نے احناف کے خلاف اجماع نقل کیا ہے۔ (ابن کثیر) ف 6 حدیث میں بھی ہے کہ جس مسلمان کو دوسرے سے جسمانی اذیت (زخم) پہنچے اور وہ اسے معاف کر دے تو اللہ تعالیٰ اس بدولت ایک درجہ بلند کرتا ہے اور گناہ کم کرتا ہے (ترمذی ابن ماجہ ) المآئدہ
46 ف 7 یعنی حضرت مسیح ( علیہ السلام) کوئی نئی شریعت یا نیا دین لے کر نہیں آئے تھے بلکہ وہ تورات ہی کی تصدیق کرنے اور اسی کی شریعت کو زندہ کرنے آئے تھے۔ وہ خود بھی اسی کی شریعت پر چلتے تھے اور انجیل بھی اسی شریعت پر چلنے کا حکم دیتی تھی۔ (ابن کثیر۔ کبیر) تورات انجیل اور پھر قرآن کریم کے متعلق ھد ی ونور کے اوصاف بیان ہوئے ہیں۔ ان کتب منزلہ کا ہدایت ہونا تو احق اعتبار سے ہے کہ یہ مبدا دمعاد کے حقائق کے بیان پر مشتمل ہیں اور نو راد روشنی ہونا اس لحاظ سے ہے کہ انسان کے عملی زندگی میں رہمنائی کا کام دیتی ہے (کبیر ) المآئدہ
47 ف 7 انجیل کے مطابق ٹھیک ٹھیک فیصلہ کرنے کے معنی یہ ہیں کہ انجیل جو نبی آخرالزمان ﷺ کے متعلق پیش گوئیا اور دلائل موجود ہیں ان کو چھپانے ان کے غلط تاویلیں کرنے کی کو شش نہ کریں یا یہ کہ نزول انجیل کے وقت جو نصاریٰ تھے ان کو یہ حکم دیا گیا تھا بعض نے لکھا ہے یہ آیت منسوخ ہے اور ان کو یہ حکم اس وقت تھا جب نبی ﷺ کی بعثت نہیں ہوئی تھی آپ ﷺ کی بعثت کے پچھلی تمام بعثتیں منسوخ کر ہوگئی ہیں (کبر قرطبی) المآئدہ
48 ف 1 اوپر کی آیات میں تورات وانجیل کے اوصاف بیان کئے اور اہل کتاب کو ان پر عامل نا ہو کی وجہ سے فاسق کافر اور ظالم قرار دیا اب اس آیت میں قرآن کریم کی توصیٖف بیان کیا ہے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کر کے فرمایا ہے کہ قرآن کے مطابق فیصلے کرو۔ مھیمن کے معنی محافظ نگہبار اقورشاہد کے آتے ہیں۔ قرآن پاک کتب سابقہ کا محا فظ ہے یعنی جو کچھ ان کتب میں امانت کی گئی ہے اس کو نہا یت صحت کے ساتھ بیان کرتا ہے او یہود کی غلط تاویلات و تحریفات کو واضح کرتا ہے یا معنی یہ ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہم نے اس قرآن کا امین مقرر کیا ہے (کبیر، قرطبی) پس تورات وانجیل کے ہر مضمون کو قرآن کی کسوٹی پر پر کھ کہ دیکھا جائے گا۔ صحیح اترنے کی صورت میں قبول کرلیا جائے گا ورنہ رد کردیا جائے گا۔ ( 2 مروع ہے کہ چند یہودی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنی طرف مائل کرنے کے لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جانتے ہیں کہ ہمارا شمار یہود کے اشراف اور علما میں ہوتا ہے اگرچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) متبع ہوجائیں تو تمام یہود آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی اختیار کرلیں گے ہمار اپنے قبیلہ کے چند لوگوں سے نزاع ہوگیا ہے ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس مقدمہ لائیں گے اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے حق میں فیصلہ فرمائیں تو ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لے آئیں گے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حق پر ثابت قدم رہنے کی ہدایت فرمائی گئی (ابن کثیر۔ کبیر) ف 3 اس کے مخاطب یہود ونصاریٰ اور مسلمان ہیں یعنی گوتمام انبیا کا دین ایک ہے مگر اپنے اپنے وقت میں ہر امت کی شریعت (احکام فرعیہ) اور طریق مختلف رہے ہیں ہر بعد میں آنے والے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شریعت میں شرائع سابقہ سے مختلف احکام پائے جاتے ہیں اس طرح نبی آخرالزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شریعت ہر لحاظ سے مکمل اور قیامت کے لیے ہے ایک حدیث میں ہے کہ تمام انبیا علاتی بھائی ہیں جن کی مائیں مختلف اور باپ ایک ہے یعنی سب کا دین اور اصول تواک ہیں اختلاف جو کچھ بھی ہے وہ صرف فروعی احکام کی حد تک ہے ف 4 یعنی شرائع کا یہ اختلاف تمہارا امتحان کرنے کے لیے ہے کہ کون حق پر پیرا رہتا ہے اور کون اس سے انحراف اختیار کر ہے تاکہ اس پر جز امترتب ہو سکے (قرطبی، کبیر) ف 5 یعنی خواہ مخواہ کی کج بحثیوں کے چھو ڑکر ان نیکیوں کو اختیار کرنے کی طرف سبقت دکھاو جن کا اب تمہیں اس آخری شریعت میں حکم دیا جارہا ہے۔ ف 6 الی اللہ مرجعکم جمیعا یہ جملہ مستانعہ ہے اور نیکیوں کی طرف مسابقت کا جو حکم دی گیا ہے اس کی علت ہے یعنی چونکہ اللہ تعالیٰ کے پاس تم سب کو حاضر ہو کر جواب دینا ہے اور وہاں پہنچ کر ہر قسم کے اختلافات اور شکوک وشہبات دور ہوجائیں گے اس لیے اس دنیا میں ہی نیکی کرلو تاکہ اچھا بدلہ مل سکے (کبیر ) المآئدہ
49 ف 7 یعنی یہ اہل کتاب آپس میں دست وگریباں رہیں مگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے باہمی اختلاف سے متاثر نہ ہوں اور اللہ تعالیٰ کی اتاری ہوئی شریعت کے مطابق فیصلہ کریں اور ان سے ہوشیار رہیں ایسیا نہ ہو کہ ان کے کسی گروہ کو خوش کرنے یا ان سے مصالحت کی کوئی خواہش آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ حکم سے برگشتہ کر دے (دیکھئے ف 2) ف 8 یعنی اس دنیا میں ان کو چلاوطنی جزیہ یا قتل کے سزا دے کیونکہ ان میں انصاف پسند اور حق پر چلنے والے بہت تھوڑے ہیں (کبیر، ابن کثیر ) المآئدہ
50 ف 9 یعنی کہ اللہ تعالیٰ کی اتاری ہوئی شریعت کے مطابق کئے ہوئے فیصلہ کو چھوڑ کر کفر وجا ہلیت کے زمانہ کا فیصلہ پسند کرتے ہیں جس کا بنیاد سراسر ذاتی خوہشات پر ہوتی تھی اس جن میں کمزور کا مقابلے میں طاقتور کی طر فداری کی جاتی تھی اسی کا نام یہودیت ہے کہ وہ وضیع کے مقابلہ میں شریعت کی رعایت کرتے کمزور پر حدود قائم کرتے ہیں اور مالدار کی رعایت کرتے (کبیر، قرطبی) المآئدہ
51 ف 10 یہودیوں کے قبیلہ بنو قینقاع کی مسلمانوں سے جنگ ہوئی تو منافقوں کے سردار ابن ابی نے یہودیوں کا ساتھ دیا کیونکہ اس کے قبیلہ بنو خزرج کا ان یہودیوں سے معاہدہ تھا لیکن حضرت عبادہ (رض) بن صامت نے بنو خذرج میں سے ہونے کے باجود ان یہودیوں کا ساتھ نہ دیا اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر ان کے معاہدے اور انکی دوستی سے براہت کا اعلان کردیا۔ اسی موقع فان حزب اللہ ھم الغالبون تک یہ آیات نازل ہوئیں (ابن جریر وغیرہ) اس آیت میں یہود و نصاریٰ بلکہ تمام کفار کے ساتھ دو ستانہ تعلقات قائم رکھنے سے منع فرمایا ہے (دیکھئے سورۃ آل عمران :28۔118) المآئدہ
52 ف 1 یعنی منافقین جو یہود ونصاریٰ کے ساتھ دوستی کئے جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کہیں مسلمان ان سے مغلوب ہوگئے تو ان کی دوستی ہمارے کام آئے گی سو اللہ تعالیٰ نے فرمایا یا تو عنقریب کافر ہلاک ہوں گے اور مسلمانوں کو ان پر فتح ہوگی یا یہ ملک سے چلاوطن ہو نگے چنانچہ اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ پورا ہوا۔ مسلمان کو فتح نصیب ہوئی بنو قریضہ کے یہود قتل ہوئے اور بنو نظیر کو سرزمین مدینہ سے باہر نکال دیا گیا اور یہ لوگ اپنے نفاق پر کف افسوس ملنے لگے (قرطبی، کبیر ) المآئدہ
53 ف 2 اور کافروں کے طرف دار نہیں ہیں مگر اب تو ان کا جھوٹ صاف کھل گیا (وحیدی ) ف 3 دنیا و آخرت دونوں برباد ہوئیں دنیا میں ذلیل ہوئے اور آخرت میں سخت ترین عذاب کے مستحق قرار پائے (وحیدی ) المآئدہ
54 ف 4 قتادہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرامائی کیونکہ اسے پہلے سے یہ معلوم تھا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد بہت سے عرب قبائل اسلام سے مرتد وہو جائیں گے چنانچہ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انتقال ہو اتوتین مقامات مکہ، مدینہ، بحرین کے علاوہ تمام مقامات سے عرب قبائل کے ارتداد کی خبریں آنے لگیں وہ کہنے لگے ہم نماز تو پڑہینگے لیکن زکوٰۃ ادا نہیں کریں گے۔ اس وقت حضرت ابو بکر (رض) صدیق نے ان مرتدین سے جہاد کی اس لیے حضرت علی (رض) حسن (رض) ضحاک (رح) اور بہت سے دوسرے مفسرین کہتے ہیں کہ اس آیت میں جن لوگوں کایہ کہہ کر ذکر فرمایا گیا ہے کہ وہ اللہ سے محبت کریں گے اور اللہ ان سے محبت رے گا ان سے مراد حضرت ابوبکر (رض) صدیق اور ان کے ساتھی ہیں (ابن کثیر، شوکانی) حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں جب حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات پر عرب دین سے پھرے تو حضرت صدیق (رض) نے یمن سے مسلمان بلائے ان سے جہاد کر وایا کہ تمام عرب مسلمان ہوئے یہ ان کے حق میں بشارت ہے (موضح) صاحب الکشاف نے لکھا ہے کہ اہل ردہ کے گیارہ فرقے تھے تین فرقے تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حیات میں ہی مرتعد ہوگئے بنو مدیح جن کارنیس اسود عنسی تھا اور فیروز دیلمی نے اس کو قتل کیا تھا، مسیلمہ کذاب کی قوم بنو حنیفہ جس سے حضرت ابوطکر (رض) نے جنگ کی اور حضرت حمزہ (رض) کے قاتل وحشی کے ہاتھ سے مسیلمہ کذاب قتل ہوا بنو اسدجن کارئیس طلیحہ بن خویلد تھا آنحضرت نے خالد (رض) کو اس کو اس کی سرکوبی کے لیے روانہ کیا تھا (کبیر) ایک مرفوع حیدیث میں ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابومو سی اشعری (رض) کی طرف اشارہ کر ہو فرمایا ھم قوم ھذا کہ وقہ اس شخص کی قوم کے لوگ ہیں ( ابن کثیر ) المآئدہ
55 ف 5 اوپر کی آیات میں کفار سے موالا ۃ کو ممنوع قرار دیا اب اس آیت میں انما کلمہ حصر کے ساتھ مومنین سے موالاۃ کا حکم فرمایا یعنی یہود کو مددگار اور ادوست نہ بنا و بلکہ صرف مومنین کو اپنا دوست ارمدد گار سمجھو۔ (کبیر، ابن کثیر) یہاں وھم رالعون کے معنی ہیں فروتنی اور عاجزی کرنے والے۔ چنانطہ قرآن میں ودسرے مقام پر ہے وَالَّذِینَ یُؤْتُونَ مَا آتَوْا وَقُلُوبُہُمْ وَجِلَۃٌ المومنین : ٦٠) کہ وہ لوگ جو صدقہ و خیرات اس حال میں کرتے ہیں کہ ان کے دل کانپ رہے ہوتے ہیں (کبیر۔ ثنائی) بعض علمانے وھم راکعون کو یو تون الزکوٰۃ کے فاعل سے حال قرار دے ت کریہ ترجمہ کی ہے کہ وہ رکوع کو حالت میں زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور پھر بعض روایات سے ثابت کیا ہے کہ حضرت علی (رض) نے رکوع کی حالت میں انگو ٹھی صدقہ کی تھی اس پر ان کی تعریف میں یہ آیت نازل ہوئی مگر یہ روایات بہت ضعیف اور کمزور ہیں۔ حافظ ابن کثیر نے ان روایات پر سخت تنقید کی ہے اور ان کے نے اصل قرار دیا ہے وہ فرماتے ہیں کہ ان روایات کی روسے تو پھر یہ ماننا پڑے گا کہ رکوع کی حالت میں زکوٰۃ کی حالت میں زکوٰۃ ادا کرنا زکوٰۃ دینے کی افضل ترین صورت ہے مگر آج تک کسی عالم نے نہ فتوی نہیں دیا۔ (ابن کثیر المنار ) پس صحیح یہ ہے کہ آیت عامومنین کے حق میں نازل ہوئی ہے اور حضرت عبادہ (رض) بن صامت اور ان کے رقا (رض) اس آیت کے اولین مصداق ہیں جنہوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر یہود کی مولاۃ سے ب رات کا اعلان کردیا تھا امام ابو جعفر محمد بن علی بن حسین (رض) سے پوچھا گیا کہ وہ ولیکم سے مراد حضرت علی (رض) ہیں تو انہوں نے فرمایا کہ حضرت علی (رض) بھی من جملہ مومنین کے ہیں یعنی یہ آیت سب مومنین کے حق میں ہے باقی رہی یہ بات کہ یہاں اقامتہ الصلوٰۃ الخ میں جو صفات مذکورہ ہیں ان سے کیا مقصود ہے تو ہم کہتے ہیں کہ مذکورہ صفات سے منافقین پر طنز مقصود ہے جو ان صفات سے عاری تھے۔ (کبیر) ج المآئدہ
56 ف 6 شعیہ حضرات علی (رض) کی امامت بلا فصل ثاتب کرتے ہیں ان کے استدلال کا مدار تو اس بات پر ہے کہ یہ آیت خالص کر حضرت علی (رض) کے حق میں نازل ہوئی ہے مگر ہم نے یہ ثاتب کیا ہے کہ آیت عبادہ (رض) بن صامت اور ان کے رفقا (رض) کے حق میں نازل ہوئی ہے اور حضرت علی (رض) فی الجملہ ان میں داخل ہی اسکے علاوہ جب اس آیت میں تمام صیغے جمع کے ہیں تو پھر صرف حضرت علی (رض) کیسے مراد ہو سکتے ہیں اور پھر جب آیت کے نزول کے ساتھ ہی مومنین کی ولادت ثابت ہوگئی تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعدتک اس کو ملتوی رکھنا نے معنی ہے نیز ولی کے معنی دوست اور مددگار کے بھی آتے ہیں اور والی اور متصف کے بھی سیاق وسباق معنی اول کا مئو ید ہے تو بلا قرینہ سیاق کیخلاف دوسرے معنی لینے کے لیے کونسی وجہ جواز ہو سکتی ہے۔ امام رازی (رح) نے آٹھ دلائل سے ثاتب کیا ہے کہ آیت ولی کے پہلے معنی مراد ہیں اور دوسرے معنی دلائل کے خلاف ہیں۔ (کبیر ) المآئدہ
57 ف 1 اوپر کی آیت میں خاص کر یہود ونصاریٰ کی مولاۃ سے منع فرمایا۔ اب یہاں بالعموم تمام کفار سے مولاۃ کو منع قرار دیا ہے (کبیر) اس آیت کی روسے ان اہل بد عت سے دوستی رکھنا بھی حرام ہے جنہوں نے دین کو ہنسی کھیل بنا رکھا ہے۔ کیونکہ جب ان میں بھی وہی وصف پایا جاتا ہو جو اہل کتاب ہی میں پایا جاتا ہے تو لازما ان کا حکم بھی وہی ہونا چاہیے جو اہل کتاب کا ہے۔ (نفع القدیر) یعنی اس کی نقلیں اتارتے ہیں تمسخر سے اس کے الفاظ بدلتے ہیں اور اس پر آوازے کستے اور شور ہنگامہ برپا کرتے ہیں۔ (ابن کثیر کبیر ) المآئدہ
58 ف 2 ان میں اگر کچھ بھی عقل ہوتی تو اذان کی آواذ سن کر ان کے دل نرم پڑتے اور وہ حق کی طرف متوجہ ہوتے یا کم از کم مسلمانوں سے مذہبی اختلافات رکھنے کی باوجود اس قسم کی گھٹیا حرکات نہ کرتے۔ المآئدہ
59 ( ف 4 یعنی پہلی کتابوں پر جیسے تورات، زبور اور انجیل و غیرہ مطلب یہ ہے کہ تما جانتے ہو کہ ہمارا ایمان ان ہی چیزوں پر ہے جنہیں تم بھی صحیح مانتے ہو پھر ہم سے کیوں دشمنی کرتے ہو یہاں استفہام برائے تعجب ہے حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ یہود کا ایک گروہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا کہ کن پیغمبروں کو سچامانتے ہو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منجلہ دوسرے پیغمبروں کی حضرت عیسیٰ ٰ ( علیہ السلام) کا نام بھی ذکر فرمایا تو انہوں نے حضرت عیسیٰ ٰ ( علیہ السلام) کی رسالت سے انکار کردیا اور کہنے لگے کہ پھر تو تمہارا دین بہت برا دین ہے (کبیر) ف 5 یعنی اصل بات یہ ہے کہ تم میں سے اکثر لوگ خاص اور بد کار ہیں اور تمہا ری ساری مذہبی اجارہ داری گروہی تعصب اور غلط قسم کی روایات پر قائم ہے اس لیے تم اپنے علاوہ کسی دوسرے میں بھی کوئی اچھی بات دیکھنا پسند نہیں کرتے۔ یہاں فسق سے مراد فسق فی الدین ہے یعنی مذہبی روایات کے نقل کرنے میں عدول نہیں ہو (کبیر ) المآئدہ
60 ف 6 (ای فی زعمکم) یعنی تم تو ہم میں عیب نکالتے ہو اور کہتے ہو کہ ہمارا دین برا ہے لیکن ذرا اپنی تاریخ پر بھی غور کرو اور اپنے ان اسلاف کے بارے میں بھی کچھ کہنے کی جرات کرو جن کا انجام اللہ کے ہاں اس سے بھی کہیں بدتر ہونے والا ہے جس کا تم ہمارے بارے میں دعوی ٗ کرتے ہو (ماخوذ از کبیر) ف 7 یعنی یہ لوگ تمہارے ہی آباو اجداد تھے جو دین کا مذاق اڑانے اور مختلف جرائم کے مرتکب ہونے کی وجہ سے اللہ کی لعنت اور اس کے غضب میں مبتلا ہوئے ہیں ان میں سے بہت سوں (اصحاب سبت) کی صورتیں مسخ کردی گئیں اور وہ شیطان کے بہکانے سے تھی دواصل شیطان کی عبادت تھی۔ ف 8 یعنی تم ہمیں کتنا ہی گمراہ کہہ لو لیکن یہ بات مانے بغیر چارہ نہیں کہ تمہارے باپ دادا گمراہ تھے اور ان کا انجام اللہ کے ہاں ہم سے کہیں بدتر ہوگا۔ المآئدہ
61 ف 9 یہود سے وہ منافق مراد ہیں جو مدینہ اور اس کے قریب وجوار میں رہتے تھے (رازی) ف 10 یعنی ان کے دلوں میں مسلمانوں کے متعلق نہایت ہی بغض وحسد بھرا ہوا ہے ورنہ ان پر کچھ نہ کچھ اثر تو ضرور ہوتا (کبیر ) المآئدہ
62 ف 11 اثم سے مراد وہ گناہ ہے جس کا نقصان کرنے والے کو ہوتا ہے جیسے جھوٹ، شرک کفر و بدعت اور عدون وہ گنا ہے جس سے دوسرے کو بھی نقصال پہنچتا ہے جیسے ظلم وزیادتی حق تلفی وغیرہ۔ سھت حرام مال جو بھی ناجائز ذریعے سے کما یا جائے (دیکھئے آیت 42) المآئدہ
63 ف 1 جنہوں نے سچ بات کہنے اور منکر ات سے روکنے سے اپنی زبانوں کو گنگ بنا لیا ہے ایسے مشا ئخ اور مولویوں کو یقینا گناہ کرنے والوں سے بھی سخت سزاملے گی (ابن جریر ) المآئدہ
64 ف 2 جب ان پر کوئی سخت وقت آتا اور تنگدستی میں ہوتے ہیں تو اس قسم کے کفر بات بکتے جیسا کہ آج کل بعض جاہل قسم کے مسلمان اس قسم کے کلمات کہہ دیتے ہیں حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں ایک یہودی نے اللہ تعالیٰ کی طرف بخل کی نسبت کی اس پر یہ آیت ناز ل ہوئی۔ (ابن جریر) ف 3 یعنی ان کے ہاتھ تنگ ہوں اور ہو پھٹکارے جائیں، ان کے حق میں بددعا ہے۔ (ابن کثیر) ف 4 یعنی وہ انتہائی سخی اور فیاض ہے زمین و آسمان کے تمام خرانے اس کے ہیں وہ جس طرح چاہتا ہے خرچ کرتا ہے حضرت ابو ہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا ہاتھ بھرا ہوا ہے اور اسے دن رات کا خرچ کچھ بھی کم نہیں کرتا۔ (بخاری ومسلم وغیرہ) قرآن و حدیث سے اللہ تعالیٰ کے لے یہ ہاتھ ثابت ہیں قدرت وغیرہ کے معنی کر کے اس کی تاویل کرنا سلف کے خلاف ہے اہل حدیث اس قسم کی آی تو اور حدیثوں کو تسلیم کرتے ہیں اور ان کے ظاہر معنی پر ایمان لاتے ہیں اور کیفت اللہ تعالیٰ ٗ کے سپرد کرتے ہیں اور اس کی کسی بھی مخلوق کی مشابہت سے پاک جانتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ کی ذات بے مثل ہے ویسے ہی اس کی صفات بھی بے مثل ہیں (م۔ وحیدی) ف 5 در اصل یہ لوگ دلائل کے وضح ہونے کے بعد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا انکار محض حسد و بغض اور حب جاہ ومال کی وجہ سے کررہے تھے یہی وجہ تھی کہ قرآن کے تدریجی نزول کے ساتھ ان کے کفر وانکار میں بھی اضافہ اور غلو ہورہا تھا قرآن نے ان کے دلوں کی اسی کیفیت کو بیان فرمایا ہے کہ نزول قرآن سے وہ اپنے کفر اور شرارت میں مزید ترقی کرتے جائیں گے ،(ماخوذ از کبیر) ف 6 یعنی اللہ تعالیٰ کی ان پر دوسری پھٹکار یہ ہے کہ ان میں باہم فرقہ بند ی اور عداوت پائی جاتی ہے اس لیے مسلمانوں کے خلاف جتنے منصوبے بناتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ناکام بنا یے جاتے ہیں چنانچہ یہودیوں نے مسلمانوں کے خلاف جتنی شرارتیں کیں اور ان سے جتنی جنگیں لڑیں ان سب کر تاریخ اس حقیقت کی کھلی شہادت ہے۔ المآئدہ
65 المآئدہ
66 ف 7 یعنی ان پر عمل کرتے وار ان میں تحریف نہ کرتے حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ وما انزل الیھم سے قرآن مجید مراد ہے (ابن کثیر) ف 8 ہر قسم کی فراوانی مراد ہے یعنی اوپر سے پانی برستا اور نیچے (زمین) سے غلہ اور میوہ پیدا ہوتا اور انہیں روزی کمانے کے سلسلے میں کسی قسم کی پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا۔ (قابن کثیر) ف 9 یعنی افراط وتفریط سے بچ کر اعتدال کی راہ چلنے والا اس گروہ سے مراد وہ اہل کتاب ہیں جو مسلمان ہوگئے تھے جیسے عبد اللہ بن سلام اور ان کے ساتھی (کبیر) ف 10 یعنی بقیہ یہو دی جو ایمان نہیں لائے۔ المآئدہ
67 ف 1 یعنی اللہ تعالیٰ کے پیغام میں سے اگر کچھ چھپا لیاتو گویا سرے سے اس کا پیغام ہی نہیں پہنچا یا خصو صا یہود ونصاری اور منافقین کے متعلق اعلانات اس آیت ان لوگوں کی تردید ہے جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق یہ کہتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرآن کی بعض آیات عام مسلمانوں تک نہیں پہنچائیں بلکہ صرف علی (رض) اور اہل بیت کو بتائیں۔ حضرت علی (رض) نے ان کے اس خیال کی تردید فرمائی ہے چنانچہ مروی ہے کہ ابو حجیفہ نے حضرت علی (رض) سے دریافت کیا کہ آپ اہل بیت کے پاس کچھ اور آیتیں ایسی ہیں جو اس قرآن میں نہیں ہیں انہوں نے جواب دیا۔ نہیں ہر گر نہیں اس ذات کی قسم جس نے دانے پھاڑ کر اگایا اور جان کو پید کیا البتہ فہم ہے جو اللہ تعالیٰ کسی کو قرآن کو بارے میں عطا فرماتا ہے (بخاری) حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ ج شخص یہ کہتا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وحی کا کچھ حصہ چھپالیا وہ جھوٹا ہے۔ ( بخاری۔ مسلم) مام زہری (رح) فرماتے ہیں کہ حجتہ الوداع کے موقع پر چالیس ہزار کے مجمع نے ابلاغ رسالت اور ادا مانت کی شہادت دی ہے اور آنحضر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے خطبہ میں دریافت فرمایا تم سے میرے متعلق پوچھا جائے گا تو تم اللہ تعالیٰ کے سامنے کیا جواب دو گے سب نے بیک وقت کہا ہم گو اہی دیتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پہنچا دیا اور اللہ کی امانت کا) حق ادا کردیا اور امت کی پوری خیر خواہی کی اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا الھم ھل بلغت کہ اے اللہ 1 میں پہنچا دیا کہ ایک روایت میں ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا الھم اشھد اے اللہ ( گواہ ہیو) ابن کثیر۔ کبیر) ف 6 اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنی خاص نگرانی میں لے لیا ہے چنانچہ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رات کا پہرہ موقوف فرمادیا (حاکم بہیقی) اور اور یہی بات دوسرے متعدد صحابہ (رض) سے بھی مروی ہے (ابن کثیر) ف 3 یعنی اللہ تعالیٰ کفار کو ان کے ارادوں میں کامیاب نہیں ہونے دیگا (کبیر) حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ یعنی اگر وے (وہ) دشمن ہوں تو تم بے فکر پہنچا و اور خطرہ نہ کرو (نوضح) یا مطلب یہ ہے کہ ہدایت وگمراہی اللہ کے ہاتھ میں ہے اس لیے اگر یہ لوگ ایمان نہیں لاتے تو غم نہ کرو ( ابن کثیر) المآئدہ
68 ف 4 تورات اور انجیل کی اقامت کے معنی یہ ہیں کہ ان میں جو عہد ان سے دلائل موجود ہیں ان کا اقرار کریں اور تورات وانجیل کے احکام وحدود پر عمل پیرا ہوں (کبیر) مطلب یہ ہے کہ اگر پورے طور پر ان کتابوں پر عمل نہ کرو گے تو نہ تمہاری کوئی حیثیت اور نہ تمہاری کوئی دینداری ّابن کثیر) ف 5 تشریح کے لے حاشیہ آیت 64۔ ف 6 اس لیے کہ جو کچھ کر رہے ہیں اس سے اپنے آپ کوہی نقصان پہنچا رہے ہیں اور اس کا وبال خود بھگت کر رہینگے (کبیر) ف 7 اوپر کی آیت میں بتایا کہ ال کتاب جب تک ایمان لاکر عمل صالح کریں ان کا کوئی مذہب نہیں ہے اس آیت میں بتایا کہ سب کا یہی حکم ہے۔، بظاہر تو الصا ئبین منصوب آنا چاہیے تھا مگر سیبو بہ اور خلیل نے لکھا ہے کہ یہ مرفوع بالا بتداعلی نیتہ التا خیر ہے یعنی اصل میں ولاھم یحزنون کے بعد ہے اسی الصر بئون کذلک اور اس کے مو خر لانے کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ دواصل یہ سب فرقوں سے زیادہ گمراہ فرقہ ہے اور مطلب یہ ہے کہ ان فرقوں میں سے جو بھی ایمان لاکر عمل صالح کریگا اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول فرمائے گا حتی کہ اگر صابی بھی ایمان لے آئیں تو ان کے بھی یہ رعایت مل سکتی ہے۔ (کبیر) الصابئین کی تشریح کے لے دیکھئے سورت بقرہ آیت 62 اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مبعوث ہونے کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت پر بھی ایمان لانا ضروری ہے۔ (ابن کثیر ) المآئدہ
69 ف 8 یہ تشریح اس صورت میں ہے ج ان الذین امنو سے منافق مرادلیے جائیں جو بظاہر ہر مسلمان اور احقیقت میں کافر تھے (م، ع) المآئدہ
70 ف 9 اس مقصود بنی اسرائیل کی سرکشی اور وفائے عہد سے انحراف کو بیان کرنا ہے گویا اس کا تعلق ابتدائے سورت (اوفو بالعقود) سے ہے (کبیر) یعنی ان سے عہد لیا کہ توحید وشریعت پر قائم رہیں گے اور جو رسول ان کی طرف بھیجے جائیں گے ان کی بات سنیں گے اور مانیں گے (ابن کثیر) ف 10 یعنی شرائع اور احکام کی تعریف وارتشریح کے لے (کبیر) ف 11 تو ان سے دشمنی کی پس کلما کا جواب محذوف ہے ای نا صبوہ کیونکہ بعد کا کلام اس پر دال ہے (کبیر ) المآئدہ
71 ف 12 لفظ فتنتہ کے اصل معنی آزمائش کے ہیں مطلب یہ کہ ہم کیسے ہی گناہ کرلیں خواہ انبیا تک قتل کریں چونکہ ہم اللہ کے بیٹے اور چہتیے ہیں اس لیے ہم پر دنیا میں کسی قسم کی ادربار ونحوست یا غلبہ دشمن کوئی بلا نازل نہیں ہوگی (کبیر ) ف 13 مگر ان پر بلا نازل ہوئی چنانچہ جب وہ پہلی مرتبہ حضرت شعیب ( علیہ السلام) کے زما نہ میں حق سے بہرے اور اندھے ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے ان پر بابل کے کافر اور ظالم بادشاہ بخت نصر کو مسلط کردیا جس نے ان کی مسجد اقصی ٰ کو جلا ڈالا ان کے اموال لوٹے اور ان کی اکثریت کو لونڈی غلام بنا کر بناکر بابل لے گیا ( دیکھئے بن بنی اسرائیل آیت 4۔8) ف 14 یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کو بخت نصر کی غلامی سے نجات دی اور انہوں نے اپنی حالت سدھاری اور کچھ عرصہ کے لیے ٹھیک رہا ف 15 یعنی پھر دوبارہ جیسی سرکشی پر اتر آئے یہاں تک کہ انہوں نے حضرت زکریا ( علیہ السلام) اور حضرت یحیی ( علیہ السلام) جیسے جلیل القدر انبیا کو قتل کر ڈالا اور حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) سے انتہائی توہین آمیز سلوک کیا بلکہ انہیں قتل کرنے کے درپے ہوئے بعض نے گمراہی کے پہلے دور کو حضرت زکریا ( علیہ السلام) حضرت یحیی ( علیہ السلام) کے زمانہ کے ساتھ اور یہاں کثیر منھم فرمانے سے اشارہ ہے کہ ان میں سے بعض حق پرست مسلمان ہوگئے تھے جیسے حضرت عبداللہ بن سلام اور ان کے رفقا اور ہوسکتا ہے کہ لتفسدن فی الارض مرتین ان دو دو روں کی طرف اشارہ ہو (کبیر) ف 16 اس سے تہدید مقصود ہے (کبیر ) المآئدہ
72 ف 1 سلسلئہ بیان کے لیے دیکھئے آیت 17، یہود کے بعد اب نصاری ٰ کی گمراہیوں کا بیان اوان پر تہدید شروع ہورہی ہے (کبیر) ان لوگوں سے عیسائیوں کا کوئی خاصک فرقہ نہیں بلکہ سب کے سب عیسائی مراد ہیں کیونکہ وہ سب تثلیث کے قائل ہیں گو تعبیر وتشریح میں ان کے مابین اختلاف پایا جاتا ہے اس لیے صحیح یہ ہے کہ سب کافر ہیں (ابن کثیر، ابن جریر) ف 2 حضرت مسیح ( علیہ السلام) کا یہ بیان نصاریٰ کے عقیدہ کی تردید میں حجت قطعی کی حیثیت رکھتا ہے (کبیر) اور انجیل یوحنا باب 7 آیت 3 میں حضرت مسیح ( علیہ السلام) کایہ قول آج بھی موجود ہے یہی ہمیشہ رہنے والی زندگی ہے کہ وہ تجھ حقیقی الہٰ کو اور اس یسو ( علیہ السلام) مسیح ( علیہ السلام) کو پہچانیں جسے تو نے رسول بنا کر بھیجا ( المنار) ف 3 یہ وعید ہے یعنی عذاب سے کسی طور پر بھی نجات نہیں پاسکیں گے (کبیر ) المآئدہ
73 ف 4 یعنی باپ بیٹا اور روح القدس تثلیث کاہر پہلو ذکر کر کے ان کی ضلالت کو واضح فرمایا ہے (دیکھئے آیت 17) ف 5 اور خالص توحید نہ کریں گے جس کی طرف انبیا دعوت دیتے رہے ہیں (وحیدی) المآئدہ
74 ف 6 مر کا لفظ الا ستفہام ( کبیر) یعنی ان کایہ جرم انتہائی سنگین اور صریحا شرک کی حدتک پہنچا ہوا ہے تاہم اگر توبہ کرلیں تو ان کا یہ قصور معاف ہو سکتا ہے ( ابن کثیر ) المآئدہ
75 ف 7 اور ان کی ذات سے بھی ایسے ایسے معجزات کا ظہور ہوا جو انسانی طاقت سے باہر تھے تو جس طرح یہ تمام انبیا اپنے ان معجزات کی بنا پر خدا نہیں ہوگئے مسیح ( علیہ السلام) بھی محض بن باپ کے پیدا ہونے اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے مردوں کو زندہ اور بیماروں کو شفا یاب کرنے کی وجہ سے خدا نہیں بن سکتے (کبیر، قرطبی) ف 8 یعنی عبودیت کے اعلی مقام پر فائز تھیں جو نبوت کے بعد دوسرا درجہ ہے (دیکھئے التحریم آیت 12۔ النسا :69) بنیہ نہیں تھیں ج جیسا ابن حزم وغیرہ کا خیال ہے کیونکہ جمہور علما کے نزدیک انبیا رجال سے ہوئے ہیں (دیکھئے سورت یوسف :109۔ النحل 43، الا نبیا :7) ابو الحسن اشعری نے اس پر اجماع نقل کیا ہے (ابن کثیر) ف 9 یعنی یہ دونوں عام انسانوں جیسے انسان تھے جن میں تمام بشر خاصیتیں اسی طرح موجود تھیں جس طرح دوسرے انسانوں میں پائی جاتی ہیں ( ابن کثیر) ف 10 یعنی اب وہ اپنے کروہی تعصب کی بنا پر اپنے غلط عقیدے سے چمٹے رہیں تو چمٹے رہیں ورنہ کوئی عقلی یانقلی دلیل ان کے پاس نہیں ہے جس کے بودے پن کو دو اور دو چار کی طرح واضح نہ کردیا گیا ہو (ابن کثیر) یہ نصاری کے عقیدہ کی ترید پر دوسری دلیل ہے (کبیر) مطلب یہ ہے کہ جن کی تم عبادت کرتے ہو ان میں الوہیت کا کوئی وصف بھی نہیں ہے، ان کا دوسروں کو نفع ونقصان پہنچا نا تو کجا خود اپنے سے دشمن کے ظلم کو دفع کرنے کے لیے اللہ کے حضور گڑگڑا کر دعا کرتے رہے کہ اے اللہ مجھ سے مصیبت کلیہ وقت ٹال دے پھر اس کے بعد بھی اگر تم اس سمیع وعلیم کو چھوڑ کر حضرت عیسیٰ ٰ ( علیہ السلام) کو اپنا معبود بناو تو اس بڑھ کر جہالت اور کیا ہو سکتی ہے (ابن کثیر، رازی ) المآئدہ
76 المآئدہ
77 ف 12 یہود ونصاری کی الگ الگ تردید کے بعد اب دونوں کو مظاطب فرمایا ہے (کبیر) نصاری نے حضرت مسیح ( علیہ السلام) کے معاملہ میں غلو کیا ہے اور ایک بشر جسے اللہ تعالیٰ نے نبوت بخشی تھی اور اسے اپنی قدرت کا ملعہ کی نشانی دے دی اور ان کی پسلیوں کو ریزہ ریزہ کرڈالا (کبیر، ابن کثیر) یہ حقیقت ہے کہ دین جو بھی خرابی آئی ہے وہ اسی غلو (یعنی راہ اعتدال کو چھوڑنے) کی وجہ سے آتی ہے اسی لیے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسلمانوں کو باربار نصیحت فرمائی کہ میرے معاملہ میں حد سے نہ بڑھنا اور مجھے بشریت کے مقام سے اٹھاکر خدائی کے مرتبہ تک نہ پہنچا دینا ( ماخوذ از وحیدی) ف 1 پہلے فرمایا کہ گمراہ ہوئے پھر فرمایا کہ سیدھی راہ سے بہک گئے گویہ دو نو بظاہر ایک ہی ہیں مگر علما نے لکھا ہے کہ اول سے مراد ی ہے کہ وہ گمراہ ہوئے اور دوسرے ضلو سے مراد یہ ہے کہ وہ اب تک اس گمراہی پر جمے ہوئے ہیں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ پہلی گمراہی سے مراد عقیدہ کی گمراہی ہو اور ادوسری سے عمل کی گمرہی مراد ہو (کبیر ) المآئدہ
78 ف 3 پہلے حضرت دواد نے ان لوگوں پر لعنت فرمائی ہے جنہوں نے سبت کا قانون توڑا اور پھر حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) نے اصحاب مائدہ پر لعنت فرمائی جو یہ معجزہ دیکھنے کے باوجود ایمان نہ لائے بعض علمانے نے لکھا ہے کہ یہود اللہ کے بیٹے اور چہیتے ہونے کا دعوی کرتے تھے قرآن نے فرمایا کہ تم تو انبیا کی زبان پر معلون ہو اور فرمایا کہ یہ لعنت نافرمانی میں حد سے گزر جانے کی وجہ سے ہوئی تھی (کبیر۔ ابن کثیر) یہ ان کی معصیت ور اعتدال کی تفسیر ہے (کبیر) یعنی وہ امر بالمعرو ونہی عن المنکر کا فریضہ بھلا بیٹے تھے اور ان کے نیک لوگ یہ سمجھنے لگے کہ اگر کچھ لوگ برے کا کر رہے ہیں تو کرتے رہیں انکا وبال خود ان پر ہوگا ہم تو اپنی جگہ پر نیک ہیں۔ ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ بنی اسرائیل میں پہلے یہ خرابی آئی کہ آج یک شخص دوسرے سے ملتا ہے تو اسے برائی پر ٹوکتا اور اسے اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کی نصیحت کرتا لیکن کل یہی شخص اس کے ساتھ کھانے پینے لگتا۔ جب یہ معاملہ حد سے بڑھ گیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دل آپس میں ْٹکرادیئے اس کے بعد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت تلاوت فرمائی پھر صحابہ (رض) سے فرمایا سن رکھو یعنی اللہ تعالیٰ کی قسم کھاکر کہتا ہوں تم لوگ نیکی کا حکم کرتے رہو اور برائی سے روکتے رہو ورنہ اللہ تعالیٰ تم پر بھی اسی طرح لعنت فرمائے گا جس طرح اس نے بنی اسرائیل پر لعنت فرمائی (ابو داد ترمذی) حدیث میں ہے کہ جن کوئ ی قوم ام بالمعروف ونہی عن المنکر کا فریضہ چھوڑ بٹھتی ہے اس کی دعاقبول نہیں ہوتی (ابن کثیر) یعنی اسلاف کی وہ حالت تھی اور اب جو موجود ہیں ان کی یہ حالت ہے (کبیر) جیسے کعب بن اشرف اور مدینہ کے یہودی قبائل کے دوسرے افراد مسلمانوں کی دشمنی میں مکہ کے مشرکین سے دوستی رکھتے تھے مجاہد فرماتے ہیں منافقین مراد ہیں جنہوں نے مومنین کی بجائے کفار سے دوستانہ تعلقات قائم کر رکھے تھے، (کبیر ابن کثیر ) المآئدہ
79 المآئدہ
80 ف 5 یعنی کفار (مشرکین مکہ) سے دوستی قائم کرکے انہوں نے مسلمانو کے خلاف جو تیار کی ہے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ دنیا میں ان پر اللہ کا غضب ہو اور وہ آخرت میں بھی دائمی عذاب کے مستحق قرار پا ئے المآئدہ
81 ف 6 یا یہ کہ اگر وہ واقعی اللہ تعالیٰ پر اور اپنے نبی حضرت موسیٰ ٰ ( علیہ السلام) یا حضرت عیسیٰ ٰ ( علیہ السلام) اور ان پر نازل شدہ کتاب توراۃ انجیل پر ایمان رکھتے تو کبھی مسلمانوں کوچھوڑ کر کفار سے دوستی قائم نہ کرتے کیونکہ توراۃ میں اسے حرام قرار دیا گیا ہے اور یا یہ کہ اگر وہ کفار اسلام لے آتے تو پھر کبھی ان سے دوستی پیدا نہ کرتے ( کبیر۔ ابن کثیر ) المآئدہ
82 ف 7 یہ ایک دائمی حقیقت ہے جس کا اس زمانہ میں کبھی مشاہدہ کیا جاسکتا ہے آج بھی جو دشمنی دیہودیوں اور مشرکوں ( گو سالہ پرست اور موتیوں کے پچاریوں) کو مسلمانوں وہ بہر حال عیسائیوں کو نہیں ہے ہاں جن عیسایئوں پر یہود غالب ہے وہ واقعی مسلمانوں ج کے سخت دشمن ہیں (م۔ ع ) ف 8 یہود اور نصاری کے درمیان جو تفاوت مذکوہ ہوا ہے یہ اس کی علت ہے جس طرح یہو