آیت نمبر | ترجمہ | سورہ نام |
1 |
چونکہ یہ سورت بندوں کی زبان پر گویا ایک عرضی کا مسودہ نازل ہوا ہے۔ اس لئے اسکے ترجمہ سے پہلے ” کہو“ محذوف سمجھنا چاہئے۔ یعنی اے میرے بندوں ! تم یوں کہو کہ ہم شروع کرتے ہیں سب کام اللہ کے نام سے جو باوجود گناہ بندوں کے بڑا ہی مہربان نہائت رحم والا ہے۔ عرض مطلب سے پہلے ہم اس امر کا اعتراف کرتے ہیں کہ سب تعریفیں اللہ پاک کیلئے ہیں جو سب جہان والوں کا پرورش کرنے والا ہے۔ سب مخلوق کیا چھوٹی کیا بڑی سب اسکی نمک خوار اور غلام ہیں۔ نہ صرف پرورش کرتا ہے بلکہ باوجود انکے گناہوں کے بڑا مہربان نہائت رحم والا ہے۔ اور اگر دنیا میں باوجود کثرت احسانات کے اسکی طرف رجوع نہ کریں۔ اور اپنے تکبر اور سرکشی میں پھنسے رہیں اس نے ایک دن بد بختوں اور نیک بختوں کی تمیز کرنے کو مقرر کر رکھا ہے۔ جس کا نام روز قیامت ہے۔ اس قیامت کے دن کا مالک بھی وہی ہے۔ چوں کہ ایسے اللہ مالک الملک کے حکم سے رو گردانی کرنابہت ہی مذموم اور قبیح امر ہے۔ نیزایسا مالک الملک کوئی اور نہیں۔ لہٰذا ہم سب سے علیحدہ ہو کر اے ہمارے مہربان مولا ! تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور ہر ایک کام کی انجام دہی میں تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔ چنانچہ بالفعل ہماری ایک ضروری حاجت ہے جس کے سبب سے ہم تیرے عاجز بندے ایک دوسرے سے مخالف اور دشمن ہو رہے ہیں۔ اور نہائت ہی زور سے کوشش کرچکے ہیں تاہم کوئی فیصلہ بیّن طور پر نہیں ہوتا لہذاہم نیازمندان سب کے سب عاجز آکر التماس کرتے ہیں کہ تو ہی اے مولا ! مہربان ہم کو اس میں کامیاب کر۔ |
الفاتحة |
2 |
شان نزول الحمدللہ :
مکہ شریف میں جب نماز فرض ہوئی تھی تو یہ سورت نازل ہوئی۔ (فتح البیان) ١٢
اس سورت کے کئی نام ہیں ہر نام اس کی فضیلت ظاہر کرتا ہے اس کو فاتحۃ الکتاب بھی کہتے ہیں کیونکہ ابتدا کتاب اللہ کے آتی ہے اور سورت الشکر بھی اس کا نام ہے اس لئے کہ اس کے اول میں حمد ہے جو شکر سے بڑہکر ہے اس کا نام سورت الرقیہ یعنی دم کی سورت بھی ہے کیونکہ صحابہ کرام اس کو پڑھ کر بیماروں پر دم کیا کرتے تھے۔ ترمذی نے آنحضرتﷺ سے نقل کیا ہے کہ اس سورت جیسا بابرکت کلام نہ تورٰیت میں ہے نہ انجیل میں نہ کسی آسمانی کتاب میں نازل ہوا یہی قرآن عظیم ہے جو مجھ (آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ملا ہے۔ (منہ) |
الفاتحة |
3 |
|
الفاتحة |
4 |
|
الفاتحة |
5 |
|
الفاتحة |
6 |
وہ مطلب یہ کہ دین میں ہمیں سیدھی راہ پر پہنچا اور اگر یہی ہے جس پر ہم ہیں تو اسی پر ہمیں قائم رکھ اے ہمارے مولا ! ہماری یہ آرزو نہیں کہ جس راہ کو ہم ناقص العقل لوگ سیدھی سمجھیں یا ہمارے اور بھائی اچھی جانیں وہ دکھا۔ حاشا وکلا بلکہ ان بزرگوں کی راہ پر پہنچا جن پر تو نے بوجہ ان کی دینداری کے بڑے بڑے انعام کئے عطیات دیے اور مہربانیاں مبذول فرمائیں۔ نہ ان بے ایمان لوگوں کی جن پر انکی بدعملی کے سبب سے غضب کیا گیا جیسے یہودی وغیرہ۔ نہ ان لوگوں کی جو بوجہ اپنی کو تہ اندیشی کے گمراہ ہیں جیسے عیسائی وغیرہ۔ اے ہمارے مہربان مولا ! ہم عاجزوں کی یہ التماس مخلصانہ قبول فرما۔
اِھْدِنَا۔ یہ پہلا موقع قرآن کریم کا ہے کہ دعا کا اس میں ذکر آیا۔ نہ صرف ذکر آیا بلکہ تعلیم کی گئی۔ قرآن کریم اور حدیث شریف سے یہ بات واضح طور پر ثابت ہوتی ہے کہ دعا جب دل کی توجہ سے کی جائے تو ضرور ہی قبول ہوتی ہے۔ قرآن کریم میں تو صریح ارشاد ہے۔ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَان یعنی مانگنے والا جب مجھ سے دعا مانگتا ہے تو میں قبول کرتا ہوں۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ اللہ ایسا جوّاد ہے کہ دعا گو بندے کے ہاتھ خالی پھیرنے سے اسے شرم آتی ہے۔ اسی مضمون کی آیات اور احادیث کثیر التعداد ہیں۔ جملہ اہل اسلام بلکہ جمہور انام بھی اس امر پر متفق ہیں اور عقل بھی اسی کی مقتضی ہے کہ ایک عاجز بندہ جو اپنے اللہ کو سب طاقتوں کا مالک جان کر اس سے اپنے ارادوں کے پورا ہونے میں امداد چاہتا ہے۔ تو ایسے وقت میں اس عاجز بندے کی حاجت روائی نہ کرنا ایک قسم کا بخل ہے۔ جب کہ انسانی طبائع کا تقاضا ہے کہ اگر کسی سائل کا سوال الحاج کو پہونچتا ہے تو طبیعت انسانی اس کی حاجت روائی پر متوجہ ہوتی ہے۔ حالانکہ انسانی طبائع میں بخل بھی ہے پھر جو ذات ستودہ صفات بخل اور امساک سے مبرّا ہو اس کا یہ تقاضا ہو کہ سائل کے سوال پر متوجہ نہ ہو۔ تو اس سے زیادہ بخل کیا ہوگا؟ تعَالی اللّٰہ عن ذٰلک علوّا کبیرا یَسْئَلُہٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ کُلَّ یَوْمٍ ھُوَ فِیْ شَانٍ فَبِاَّیِّ اٰلَآئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَانِ۔ یہی وجہ ہے کہ سب لوگ بالطبع تکلیف کے وقت اس فعل پر مجبور ہوتے ہیں اور اس کی طفیل سے اپنی حاجت روائی کی امید رکھتے ہیں۔ مگر اس زمانہ کے محقق سر سید احمد خاں علی گڈھی اس امر میں نہ صرف اہل اسلام بلکہ جملہ انام سے بھی مخالف ہو بیٹھے ہیں اور قبولیت دعا کے وہ معنے نہیں مانتے جو سب لوگ مانتے ہیں۔ چنانچہ اپنی تفسیر کی پہلی جلد میں یوں رقمطراز ہیں :۔
” دعا جب دل سے کی جاتی ہے ہمیشہ مستجاب ہوتی ہے۔ مگر لوگ دعا کے مقصد اور استجابت کا مطلب سمجھنے میں غلطی کرتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ جس مطلب کے لئے ہم دعا کرتے ہیں۔ دعا کرنے سے وہ مطلب حاصل ہوجائے گا۔ اور استجابت کے معنے اس مطلب کا حاصل ہوجانا سمجھتے ہیں۔ حالانکہ یہ غلطی ہے۔ حصول مطلب کے لئے جو اسباب اللہ نے مقرر کئے ہیں وہ مطلب تو انہی اسباب کے جمع ہونے سے حاصل ہوتا ہے۔ مگر دعا نہ تو اس مطلب کے اسباب سے ہے اور نہ اس مطلب کے اسباب کو جمع کرنے والی ہے بلکہ وہ اس قوت کو تحریک کرنے والی ہے۔ جس سے اس رنج و مصیبت اور اضطراب میں جو مطلب کے نہ حاصل ہونے سے ہوتا ہے تسکین دینے والی ہے“ (صفحہ ١٨)
ناظرین غور کریں کہ سرسیّد کی کس قدر جرأت ہے اور مجھے ہمیشہ ان کی جرأت پر تعجب ہوا کرتا ہے کہ تمام جہان کے مقابلہ پر خم ٹھونک کر کھڑے تو ہوجائیں مگر اس کے سامان مہیا نہیں کرتے۔ کوئی دلیل قوی تو کجا ضعیف بھی اپنے دعویٰ پر پیش نہیں کرتے۔ بتلا دیں تو اس مسئلہ میں جو سب لوگوں کے خلاف رائے ظاہر کی۔ تو اس کی کوئی دلیل بھی بیان کی ہے؟
ہمارے خیال میں سرسید کا یہ کہنا تو صحیح ہے کہ اس مطلب کے اسباب میں سے نہیں مگر یہ فرمانا کہ نہ اس مطلب کے اسباب کو جمع کرنے والی ہے غلط ہے۔ ہم حسب درخواست سید صاحب تفسیر القرآن بالقرآن کئی ایک آیتیں بتلاتے ہیں جن سے سرسیّد کے اس بیان کی غلطی ناظرین و نیز سید صاحب پر پورے طور سے منکشف ! ہوجائے گی۔ اس مطلب کو بہت سی جگہ اللہ تعالیٰ نے بیان کیا ہے کہ انبیاء سابقین نے جب تنگ آکر دعا کی تو ہم نے فوراً ان کے دشمنوں کو ہلاک کیا۔ چنانچہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی نسبت فرمایا فَدَعَا "رَبَّہٗٓ اَنِّیْ مَغْلُوْبٌ فَانْتَصِرْ۔ فَفَتَحْنَآ اَبْوَاب السَّمَآئِ بِمَآَئِ مُّنْھَمِرٍ وَّفَجَّرْنَا الْاَرْضَ عُیُوْنًا فَالْتَقَی الْمَآئُ عَلٰیٓ اَمْرٍ قَدْ قُدِرَ۔ عربی زبان کا قاعدہ ہے کہ فآء کو جس کا ترجمہ ” پس“ ہے۔ جب کسی کلام پر تعاقب لاتے ہیں تو پہلا کلام پچھلے کے لئے سبب ہوتا ہے جیسے سبَّنی زیدٌ فضربتُہ ” مجھے زید نے گالی دی پس میں نے اسے پیٹا“ اس سے صاف ظاہر ہے کہ گالی دینا پیٹنے کے لئے سبب ہے۔ اسی طرح اس آیت میں فَدَعَا رَبَّہٗ۔ فَفَتَحْنَا کے لئے علت ہے جس سے صاف سمجھ میں آتا ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی دعا بارش کے لئے یا کم سے کم بارش کے اسباب جمع کرنے کے لئے سبب ہوئی۔ گو کفار کی ہلاکت کے اسباب کچھ اور ہی ہوں۔ مگر اس میں شک نہیں کہ ان اسباب کو جمع کرنے میں دعا کو بھی دخل ہے ورنہ ” ف“ لا کر فَفَتَحْنَا فرمانا بے معنے ہے۔ دوسری جگہ بھی اسی طرح فرمایا۔ اِنَّ قَوْمِیْ کَذَّبُوْنِ فَافْتَحْ بَیْنِیْ وَبَیْنَھُمْ فَتْحًا وَّنَجِّنِیْ وَمَنْ مَّعِیَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ فَاَنْجَیْنٰہ وَمَنْ مَّعَہٗ فِی الْفُلْکِ الْمَشْحُوْنِ ثُمَّ اَغْرَقْنَا بَعْدُ الْبَاقِیْنَ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً وَّمَا کَانَ اَکْثَرُھُمْ مُّؤْمِنِیْنَ ناظرین ذرہ غور فرمائیں کہ کس طرح پہلے کلام پر پچھلے کو تقریباً بیان فرمایا ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) نے دعا کی کہ ” اے اللہ تو ہم میں فیصلہ کر اور مجھے اور میرے ساتھیوں کو اس سے نجات دے“ اس سے آگے کے لفظوں میں ارشاد ہے کہ ” پس نوح ( علیہ السلام) کی دعا کرتے ہی ہم نے اس کو اور اس کے ساتھیوں کو نجات دی“ جس سے ایک جزء دعا کا پورا ہوا۔ ” پھر دوسروں کو ہلاک کردیا“ جس سے حضرت نوح ( علیہ السلام) کی دعا کے دونوں جزء پورے کر دئیے ” بیشک اس میں بڑی نشانی ہے کہ اللہ اپنے بندوں کی دعا کو ضائع نہیں کیا کرتا۔ لیکن بہت سے لوگ (مثل سید صاحب کے) نہیں مانتے “۔
ایک اور مقام پر اس سے بھی واضح طور پر بیان فرمایا بلکہ اجابت دعا کے معنے بھی صاف صاف بتلا دیئے۔ چنانچہ ارشاد ہے۔
فَاَسْتَجَابَ لَکُمْ رَبُّکُمْ اَنِّیْ مُمِدُّکُمْ بِاَلْفٍ مِّنَ الْمَلٰٓئِکَۃِ مُرْدِفِیْنَ یعنی اے مسلمانو ! تمہاری دعا فتح اسلام کے بارے میں اللہ نے اس طور سے قبول کی کہ میں تمہاری مدد کرنے کو ایک ہزار فرشتہ# نشاندار بھیجوں گا “
سرسید نے بجواب مولوی مہدی علی ملقب نواب محسن الملک مرحوم درخواست کی ہوئی ہے کہ آپ اپنے مطلب پر دلیلی عقلی یا نقلی ضرور پیش کریں۔ اور دلیل نقلی کی تعریف سید صاحب نے یہ کی ہے کہ تفسیر القرآن بالقرآن ہو۔ (دیکھو تہذیب الاخلاق بابت رمضان ١٣١٢ھ صفحہ ٢٥٤)
! طبع اوّل تفسیر ہذا سرسید مرحوم کی زندگی میں ہوا تھا۔ اور یہ جلد ان کو پہونچ چکی تھی۔ ہم بگمان حسن خاتمہ دعا کرتے ہیں رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بالْاِیْمَانِ (منہ)
" نوح نے اپنے رب کو پکارا کہ میں مغلوب ہوں۔ میری مدد کر پس ہم نے جوش والا پانی آسمان سے برسایا اور زمین سے چشمے نکالے پس پانی اپنے اندازہ (ہلاکت کفار) کو پہنونچ گیا (ترجمہ) منہ
سید صاحب کا مذہب نزول ملائکہ کی نسبت ہمیں معلوم ہے اس کا ذکر اپنے موقعہ پر آئے گا وہ ہمیں کسی طرح مضر نہیں ہمارا مطلب تو صرف اس سے ہے کہ اِسْتَجَابَ کا مفعول اَنِّیْ مُمِدُّکُمْ واقع ہے پس اگر ہمارا مطلب صحیح نہ ہو تو کلام میں کذب لازم آئے گا۔ وللتفصیل مقام اٰخر (منہ)
اس سے صاف اور صریح طور پر معلوم ہوا کہ قبولیت دعا کے یہ معنے ہیں کہ جو مراد مانگی جائے وہ حاصل ہوجائے جیسے کہ صحابہ کرام کو جنگ بدر میں حاصل ہوئی۔ اس قسم کی بہت سی آیات قرآنی ہیں جن سے صاف صاف اگر بے تعصبی سے باقاعدہ سمجھنا چاہیں تو مفہوم ہوتا ہے کہ ہاں دعا بھی واقع حصول مطلب میں دخل رکھتی ہے بلکہ بھاری سبب ہے۔ نہیں معلوم سید صاحب کو اس کے مخالف کون سی دلیل عقلی یا نقلی سوجھی جو اس سے انکاری ہو بیٹھے۔ اگر وہی شبہ ہے جو عموماً عام لوگوں کو ہوا کرتا ہے کہ جس کام کے لئے دعا کی جاتی ہے اگر وہ شدنی ہے۔ تو دعا بے فائدہ ہے اور اگر ناشدنی ہے تو دعا سے ہو نہیں سکتا۔ تو اس کا جواب وہی ہے جو حافظ ابن قیم (رح) نے ” الجواب الکافی“ میں دیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ دعا بھی مثل دیگر اسباب خورد و نوش کے ہے۔ جیسے کھانا بھوک کے لئے اور پینا پیاس کے لئے۔ پس اگر یہی سوال کھانے اور پینے پر وارد ہو کہ اگر بھوک نے جانا ہی ہے تو کھانے کی بھی حاجت نہیں اور اگر نہیں جانا تو کھانے سے بھی نہیں جائے گی پھر اس سوال کا جواب غالباً سرسید بھی یہی دیں گے کہ کسی چیز کا مقدر ہونا اس چیز کے متسبب ہونے کے مخالف نہیں ورنہ دنیا میں کوئی چیز بھی ایک دوسری سے مسبب نہ ہو اس لئے کہ سب امور واقعیہ کی تقدیر ہوچکی ہے۔ پس اسی پر دعا کو بھی قیاس فرما لیجئے۔
اصل یہ ہے کہ دنیا میں جس قدر اسباب اللہ نے مقرر فرمائے ہیں ان سب کا یہی حال ہے کہ بعض دفعہ ان کے ہونے سے بھی وہ مطلب حاصل نہیں ہوتا اس لئے کہ محض اسباب کے ہونے سے ہی متسبب کا وجود نہیں ہوا کرتا۔ جب تک کہ اس کے موانع بھی معدوم نہ ہوں مثلاً آفتاب دھوپ کے لئے ایک سبب ہے حالانکہ اس کے طلوع سے جب تک کہ موانع مثل بادل وغیرہ کے مرتفع نہ ہوں دھوپ نہیں ہوتی۔ اس ہماری تقریر سے ایک اور شبہ بھی دور ہوگیا۔ جو دعا کے سبب ہونے پر کیا جاتا ہے جسے سید صاحب نے بھی تہذیب الاخلاق ماہ ربیع الاوّل ١٣١٣ھ میں پیش کیا ہے۔ کہ بسا اوقات دعا کی جاتی ہے مگر حاجت پوری نہیں ہوتی۔ پس معلوم ہوا کہ دعا کوئی سبب حصول مقصود کے لئے نہیں ہے ورنہ ایسا نہ ہوتا“ اس لئے کہ اگر حاجت روائی نہ ہونے سے دعا کے سبب ہونے میں شبہ آتا ہو تو دھوپ کے لئے آفتاب کے سبب ہونے میں یہی شبہ ہونا چاہیے بلکہ جو لوگ فی زماننا نوکری کے لئے پڑھتے ہیں اور سید صاحب بھی تعلیم علوم جدیدہ کو زمانہ حال میں معاش کا بڑا بھاری سبب جانتے ہیں۔ حالانکہ بہت سے تعلیم یافتہ حیران و سر گردان ہیں پس ان کی ناکامی سے معلوم ہوا کہ علوم جدیدہ حصول معاش کے لئے سبب نہیں؟ حالانکہ ان کی ناکامی بہ نسبت دعا گوئوں کے تعجب انگیز ہے کیونکہ دعا گوئوں کو علیم حکیم سے معاملہ ہے جس کی نسبت یہ بھی گمان ہے کہ اس کے علم اور حکمت میں مطلوب کا ملنا ان کو مفید نہ ہو یا ان میں بعض امور ایسے ہوں جو دعا کی قبولیت کو مانع ہوں جیسے حدیث میں آیا ہے کہ بعض لوگ حالانکہ ان کا کھانا پینا اور لباس سب حرام ہوتا ہے پھر ان کی دعا کیسے قبول ہو؟“ قرآن کریم نے بھی فلیستجیبولی کہہ کر اس طرف اشارہ فرمایا ہے۔ خلاصہ یہ کہ دعا بھی مثل اور اسباب کے ایک سبب ہے پس جیسے اور اسباب پر حصول مطلب ضروری نہیں باوجود اس کے ان کی سببیت میں شبہ نہیں آتا اسی طرح اس میں بھی نہیں۔ ودلیلہ ما مرفتذکّرٰ (منہ) |
الفاتحة |
7 |
|
الفاتحة |
0 |
|
البقرة |
1 |
سورۃ بقرہ
میں ہوں اللہ سب سے بڑے علم والا اگر تم میرے علم پر یقین رکھتے ہو تو جان لو کہ یہ کتاب جس کا نام قرآن شریف ہے بلا شک (صحیح) اور میری طرف سے ہے اور جو یہ شبہ ہو کہ اگر یہ کتاب بلا شک صحیح ہے تو اس کو سب لوگ کیوں نہیں مانتے ؟ تو اس کا جواب سنو ! کہ مخلوق تین قسم پر ہے ایک وہ لوگ ہیں جنکو یہ خیال ہے کہ ہمارا کوئی مالک ہے جو ہم سے ہمارے افعال کی نسبت سوال کرے گا کہ تم نے کیا کچھ کیا ؟ ایسے لوگ تو ہمیشہ مجھ (اللہ) سے ڈرتے رہتے ہیں۔ دوسری قسم وہ لوگ ہیں جو ہمیشہ اپنے خیالات کو دوسروں پر ترجیح دیتے ہیں اگرچہ غلط ہوں دوسرے کی سنتے ہی نہیں خواہ کیسی ہی کہے بلکہ الٹے حق گوئوں سے جو ان کی رائے کے مخالف ہوں دشمن ہوجاتے ہیں۔ تیسری قسم وہ ہیں جو اپنی غرض کے یار مطلب کے آشنا۔ نہ اسلام سے عداوت نہ کفر سے عار۔ بلکہ جس طرف دنیاوی مطلب ہو اسی طرف کے غلام اگر مسلمان ہیں تو اپنے مطلب کو۔ کافر ہیں تو اپنی غرض سے۔ پس یہ قرآن بیشک پہلی قسم کے لوگوں یعنی اللہ سے ڈرنے والوں کے لئے ہدایت ہے۔ بعد ہدایت یابی کے انکی پہچان کے دو نشان ہیں۔ اول نشانی اور بڑی ضروری نشانی یہ ہے جو وہ بِن دیکھی غیب کی باتیں حسب فرمان الٰہی مانتے ہیں اور نماز کو ایسا ادا کرتے ہیں کہ پانچوں وقت جماعت سے پڑھتے ہیں اور علاوہ اسکے ممسک اور بخیل بھی نہیں بلکہ ہمارے دیے ہوئے سے خرچ بھی کرتے ہیں اور دوسری نشانی یہ سمجھو کہ اللہ سے ڈرنے والے وہ ہیں اے پیغمبر ! تیری طرف اتری ہوئی کتاب اور تجھ سے پہلے اتری ہوئی کتابیں بھی مانتے ہیں نہ صرف زبانی دنیا داروں کی طرح یا جھوٹے واعظوں کی مانند کہ کہیں کچھ اور کریں کچھ بلکہ وہ نیک کام اور اخلاص میں ایسے مشتاق ہیں کہ ان کی اخلاص مندی دیکھ کر بے ساختہ منہ سے نکلتا ہے کہ یہی لوگ قیامت کو مانتے ہیں جو ہر وقت اسی کی فکر میں لگے رہتے ہیں جو کام کرتے ہیں قیامت کی عزت اور ذلت کا لحاظ اس میں پہلے
اس سورت کی فضیلت حدیثوں میں بہت آئی ہے۔ ایک حدیث میں جو ترمذی وغیرہ نے نقل کی ہے وارد ہے کہ یہ سورت قیامت کے روز اپنے پڑھنے والے کے ساتھ جناب باری میں آئے گی اور اس کی طرف سے بطور وکالت کے گفتگو کرے گی اور اس کی سفارش میں کہے گی کہ اے اللہ تیرے بندے نے مجھے تیرا کلام جان کر پڑھا تھا اور مجھ پر عمل کیا اس کو معاف کر دے۔ اسی طرح ہر ایک پڑھنے والے کی سفارش کر کے معافی کرائے گی۔ (منہ)
! (الٓمّٓ) ان حروف مقطعات کے معنے بتلانے میں بہت ہی اختلاف ہوا۔ جس کا مفصل ذکر تفسیر اتقان اور معالم میں مرقوم
کرلیتے ہیں ایسے لوگوں کی نسبت ہم بھی شہادت دیتے ہیں کہ بے شک یہی لوگ اپنے رب کے فرمان پر چلنے والے ہیں اور اگر یہ اسی طرز پر رہے تو بے شک یہی لوگ مراد کو پہنچنے والے ہیں ہاں وہ لوگ جو عناد کے سبب ہر ایک حقانیت سے انکاری ہیں یعنی جن کو تیرا سمجھانا یا نہ سمجھانا برابر ہے وہ اس کتاب کو نہیں مانیں گے ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ بھی اپنی جناب سے دور کردیا ہے۔
ہے۔ میرے نزدیک زیادہ صحیح وہ معنے ہیں جو ابن عباس (رض) سے مروی ہیں کہ ہر ایک حرف اللہ کے نام اور صفت کا مظہر ہے اسی لئے میں نے یہ ترجمہ جسے آپ دیکھ رہے ہیں کیا ہے۔ یہ حضرت ابن عباس (رض) سے منقول ہے (منہ)
(اور تجھ سے پہلے اتری ہوئی) بسا اوقات دیکھنے میں آیا ہے کہ جب کبھی کسی مسلمان نے عیسائیوں سے انجیل کے کلام الٰہی ہونے کی دلیل مانگی تو جھٹ سے انہوں نے یہ آیت یا اس کے ہم معنے کوئی دوسری آیت پڑھ دی اور سائل مسلمان پر زور ڈالا کہ تمہارا قرآن کتب سابقہ کی شہادت دیتا ہے۔ بلکہ ان کی تسلیم کو داخل ایمان بتاتا ہے۔ پھر تم اس سے زیادہ ثبوت کیا چاہتے ہو۔ اس لئے مناسب ہے کہ اس جگہ جو پہلا ہی موقع کتب سابقہ کی تصدیق کا آیا ہے ہم اس امر کی تحقیق کردیں کہ کتب سابقہ جن کی قرآن کریم تصدیق کرتا ہے وہ یہی ہیں جن کے کلام الٰہی ہونے کا ثبوت زمانہ حال کے عیسائیوں سے مطلوب ہے یا اور۔ اور ان کتابوں کی قدر و منزلت کہاں تک ہے اور یہ بھی واضح کردیں کہ اس مطلب پر عیسائیوں کا اس آیت کو پیش کرنا مثبت مدعا ہے یا صرف دفع الوقتی یا ناسمجھی۔ پس واضح ہو کہ کتب سابقہ جن کی تصدیق قرآن کریم نے کی ہے بحیثیت مجموعی یہ نہیں جو اس وقت متدادل ہیں۔ یہ تو ایک مثل کتب تواریخ کے ہیں۔ اس ہمارے دعویٰ کا ثبوت ان کا موجودہ طرز ہی بتلا رہا ہے تورٰیت ابتدا سے انتہا تک۔ انجیل اوّل سے آخر تک پڑھنے سے صاف سمجھ میں آتا ہے کہ ان کے والے حضرت موسیٰ اور حضرت مسیح علیہما السلام کے سوا کوئی اور ہی ہیں چنانچہ حضرت موسیٰ اور مسیح علیہما السلام کے بعد کے واقعات کا اس میں درج ہونا اس امر کا بین ثبوت ہے کہ ان جملوں کی حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) اور مسیح ( علیہ السلام) کو خبر تک نہیں کجا یہ کہ اللہ کی طرف سے ان پر الہام ہوئے ہوں مثلاً حضرت موسیٰ کی وفات اور بعد وفات کے واقعات کا ذکر بھی تورٰیت میں مذکور ہے۔ تورٰیت کی پانچویں کتاب استثناء میں لکھا ہے :۔
” سو اللہ کا بندہ موسیٰ ( علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے حکم کے موافق ہوآب کی سرزمین میں مر گیا اور اس نے اسے ہوآب کی ایک وادی میں بیت مغفور کے مقابل گاڑا آج کے دن تک کوئی اس کی قبر کو نہیں جانتا اور موسیٰ ( علیہ السلام) اپنے مرنے کے وقت ایک سو بیس برس کا تھا کہ نہ اس کی آنکھیں دھندلائیں اور نہ اس کی تازگی جاتی رہی۔ سو بنی اسرائیل موسیٰ ( علیہ السلام) کے لئے موآب کے میدانوں میں تیس دن تک رویا کئے“ (باب ٣٤۔ فقرہ ٥)
آگے چل کر دسویں فقرے میں لکھا ہے :۔ ” اب تک بنی اسرائیل میں موسیٰ ( علیہ السلام) کی مانند کوئی نبی نہیں اٹھا “
اورؔ حضرت مسیح ( علیہ السلام) کے سولی پر جان دینے کا مذکور اناجیل میں بصراحت موجود ہے بلکہ سولی کے بعد کے واقعات بھی ان میں پائے جاتے ہیں ان سب امور پر غور کرنے سے یہ نتیجہ باآسانی نکل سکتا ہے کہ ان واقعات کے دیکھنے اور لکھنے والے سوا ان دو صاحبوں کے کوئی اور شخص ہوں گے اور اگر عیسائیوں کا عقیدہ بھی بغور دیکھیں تو وہ بھی اس امر کے قائل نہیں کہ تورٰیت انجیل موجودہ کے مصنف موصوفہ انبیاء ہیں۔ بلکہ ان کے خیال کے مطابق بھی ان کے بعد کے لوگ ہیں اناجیل کے مصنف تو یہی لوگ ہیں جن کے نام سے اناجیل مروج ہیں ایسا ہی تورٰیت وغیرہ کا لکھنے والا اور واقعات کا جمع کرنے والا بھی کوئی شخص ہوگا یوشع بن نون ہو یا کوئی اور۔ ہاں اہل اسلام اور عیسائیوں کا
یہ واقعہ منقول ہے۔
صرف اس قدر اختلاف ہے کہ عیسائی اس کے قائل ہیں کہ جو کچھ اناجیل وغیرہ میں مذکور ہے بیشک حواریوں ہی نے لکھا مگر وہ اس کے لکھنے میں معصوم تھے ان کی حفاظت اللہ کے یا بقول ان کے مسیح کے ذمہ تھی جو خود اللہ ہے۔ جو واقعات مسیح کے تھے ان کو الہام کے ذریعہ معلوم ہوتے تھے وہ لکھتے جاتے تھے۔ مثلاً جو واقعات حضرت مسیح کو پیش آئے کہیں انہوں نے کلام الٰہی کا وعظ کہا کہیں اپنے معمولی بشری کاموں کھانے پینے میں مصروف رہے سب کے سب مصنفوں نے اناجیل میں درج کردیئے۔ چنانچہ ان کے اختلافات سے یہی ثابت ہوتا ہے کیونکہ ایک واقعہ کو تو ایک لیتا ہے دوسرا نہیں لیتا۔ مثلاً مسیح کا زندہ ہو کر آسمان پر چلا جانا مرقس لیتا ہے متی نہیں لیتا۔ متی کا مسیح کے پیچھے ہو لینا متی بیان کرتا ہے۔ مرقس وغیرہ نہیں کرتے۔ اسی طرح اور سینکڑوں واقعات ہیں جو ایک انجیل میں ہیں دوسری میں نہیں۔ اصل یہ ہے کہ ایسے واقعات کا چھوٹ جاناکچھ تعجب بھی نہیں۔ بالخصوص جب کہ ثبوت کی بنا صرف سماع ہی پر ہو۔ چنانچہ لوقا اپنی انجیل کے شروع میں ظاہر کرتا ہے کہ میں نے بلکہ سب نے راویوں سے سن سن کر واقعات لکھے ہیں۔ پس ثابت ہوا کہ تورٰیت انجیل جن کی قرآن کریم نے شہادت دی ہے یہ نہیں۔ ان کو ان کے ساتھ بجز شراکت اسمی کے کوئی شراکت نہیں جیسے کوئی شخص خاندان مغلیہ کا حال لکھ کر اس کا نام گلستان رکھ دے تو وہ شیخ سعید کی گلستان نہ ہوگی۔ پس اس انجیل موجودہ کے ثبوت میں آیت قرآنی کا پیش کرنا اور آیت شریفہ قرآنیہ کو اپنے دعویٰ کا مثبت جاننا ہرگز صحیح نہیں۔ قرآن شریف نے کہیں یہ نہیں بتلایا کہ انجیل متداول مسیح پر نازل ہوئی یا یہ کہ اس کو بھی مانو بلکہ ایمان کے موقع پر اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ اَو مَآ اُوْتِیَ مُوْسٰی وَ عِیْسٰے یعنی ان کتابوں کو جو تجھ سے پہلے اتریں اور موسیٰ اور عیسیٰ کو ملیں۔ ان الفاظ شریفہ سے تعبیر کرنے میں اسی طرف اشارہ ہے جو ہم لکھ آئے ہیں۔ رہی یہ بات کہ عیسائی ان کے مصنفوں کو الہامی مانتے ہیں۔ سو پڑے مانیں۔ اسی کا ثبوت ہم کو دیں کسی عقلی یا نقلی دلیل سے ثابت کریں کہ متی مرقس وغیرہ الہامی تھے اور یہ کتابیں ان کے الہام سے ہیں و دونہ ! خرط القتاد۔ آیت قرآنی کو پیش کرتے ہوئے خیال کریں کہ دعویٰ کیا ہے اور دلیل کیا۔ دعوٰے اناجیل موجودہ کے مصنفوں کے الہامی ہونے کا ہے اور دلیل سے حضرات موسیٰ اور مسیح کا الہام ثابت ہوتا ہے فآنیّٰ ھٰذا مِن ذاک۔ بعض عیسائی بھولے مسلمانوں کو دھوکا دینے کی غرض سے کہا کرتے ہیں کہ اگر موجودہ اناجیل اصلی نہیں تو اصل لا کر دکھائو۔ ہم اس سے مقابلہ کر کے دیکھیں جبکہ تمہارا قرآن شریف ان کی شہادت دیتا ہے تو ان کا وجود بھی بتلائو کہ کہاں ہے؟ اس کا جواب ہے کہ اگر کوئی شخص جنگل میں کسی کو ایک چاندی کا ٹکڑہ دکھا کر کہے کہ یہ انگریزی روپیہ ہے وہ شخص بوجہ اس کے کہ اس پر انگریزی سکّہ نہیں اس سے انکار کرے تو شخص مدعی کا حق ہے؟ کہ اپنے عوٰے کی یہ دلیل بیان کرے کہ اگر یہ روپیہ نہیں تو اصلی روپیہ لا کر دکھائو۔ اس سے مقابلہ کرو تاکہ معلوم ہوجائے کہ اصلی کون ہے اور نقلی کون۔ اگر نہ ملے تو میرا دعوٰے ماننا ہوگا۔ ہرگز یہ کلام مدعی کا صحیح نہیں۔
کیونکہ اس کے انکار کی وجہ تو یہ تھی کہ چونکہ اس ٹکڑے پر جو نشان روپیہ بننے کے ہونے چاہئیں وہ نہیں اس لئے یہ ٹکڑا روپیہ نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح اناجیل موجودہ کی نسبت بھی مسلمانوں کا یہ خیال ہے کہ قطع نظر ان کے موجودہ طرز کے چونکہ ان میں ایسے واقعات بھی درج ہیں جو حضرت موسیٰ اور مسیح کے زمانہ کے قطعاً نہیں ہوسکتے اس لئے ہم ان کو انجیل مسیحی نہیں مانتے۔ علاوہ اس کے ہوسکتا ہے اور ممکن ہے کہ اصلی انجیل کلا یا جزء اً اسی میں ہوجیسے کہ بعض فقرات جو حضرت مسیح نے بطور وعظ کے فرمائے ہیں یہی بتلا رہے ہیں مگر چونکہ ایسے فقرات الہامی۔ مجموعہ غیر الہامی میں آکر وہی رنگ اختیار کرلیتے ہیں اس لئے ہم من حیث المجموعہ ان پر غیر الہامی کا حکم لگاتے ہیں پس اناجیل موجودہ کی مثال بالکل یہ ہوگی کہ ایک واعظ قرآن کریم کی ایک دو آیتیں پڑھ کر گھنٹہ دو گھنٹہ تک وعظ کہے۔ پھر
! یہ ایک محاورہ ہے جو مشکل کام پر بولا جاتا ہے۔
اسی وعظ کو کوئی شخص اوّل سے آخر تک کسی اخبار یا رسالہ میں چھپوا دے پس جیسا کہ یہ اخبار یا رسالہ الہامی نہیں ہوسکتا گو اس میں آیات قرآنی بھی ہیں۔ ایسا ہی اناجیل موجودہ الہامی نہیں جب تک کہ عیسائی اس امر کا ثبوت نہ دیں کہ ان کے مصنف بھی الہامی تھے۔ ودونہ خرط القتاد۔ منہ
تحقیق اس کی یہ ہے کہ ہر زمانہ میں دستور ہے کہ بزرگوں کے واقعات سب کے سب چاہے کیسے ہی ہوں مسلسل قلم بند کیا کرتے ہیں گو ان میں اس بزرگ کے معمولی مشاغل کھانا پینا چلنا پھرنا بھی کیوں نہ ہو پھر اسی پر بس نہیں بلکہ وفات اور بعد وفات کے حالات بھی درج کیا کرتے ہیں۔ چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق (رض) اور حضرت صلحائے امت وغیرہ بزرگان کی سو انح عمریاں اس کی شاہد عدل ہیں۔ ان وقائع کے جمع کرنے سے مصنفوں کی یہ غرض ہوتی ہے کہ جو واقعات ان بزرگوں کی زندگی کے یا بعد مرنے کے جو ان کے تعلق ہوں بعض کو بطور مسائل شرعیہ اور بعض کو بغرض رقت قلب بیان کریں۔ یہ خیال ان کو ہرگز نہیں ہوتا کہ ان بزرگوں کے الہامی واقعات ہی کو لکھیں یہی وجہ ہے کہ ایسی تصنیفوں میں ان واقعات کا ذکر بھی ہوتا ہے جو ان بزرگوں کے الہامی تو کجا اختیاری بھی نہیں ہوتے مثلاً سوتے وقت خراٹے مارنا یا بحرکت طبعی گاہے بلندی سے پستی میں گر پڑنا یا موت کے وقت بتقاضائے طبیعت اللہ کو ایلی ایلی کہہ کر پکارنا وغیرہ وغیرہ۔ پس اسی طرح حضرت موسیٰ اور مسیح علیہما السلام کے خادموں نے بھی وہ واقعات جو ان صاحبوں کے سامنے بلکہ اس سے پہلے اور پچھلے جو ان سے متعلق تھے سب کو یکجا جمع کردیا۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت مسیح کے پیدا ہونے کے پہلے کے حالات اور بقول ان کے بعد وفات کے واقعات بھی اپنی تحقیق اور حافظہ اور سماع کے مطابق ایک ایک جگہ جمع کر کے کتابیں بنائیں جسے فی زماننا اناجیل کہتے ہیں آخر کار لوگوں نے انہی کو بایں لحاظ کہ مسیح کے واقعات بتلا رہے ہیں۔ حضرت مسیح کی انجیل سمجھ لیا۔ نہ اس خیال سے کہ مسیح کی زندگی میں ان پر نازل ہوئی تھی بلکہ اس خیال سے کہ مسیح کے حالات بتلا رہے ہیں۔ قربان جائیں سرور عالم سید الانبیاء فداہ روحی علیہ الصلوٰۃ و السلام کے جنہوں نے ابتدا میں اسی لحاظ سے کہ شائد لوگ میرے واقعات اور میرے کلام اور کلام الٰہی میں فرق نہ کرسکیں اور یہود و نصاریٰ کی طرح مورو اعتراض بنیں۔ اپنی حدیثیں لکھنے سے بھی منع فرما دیا تھا۔ لیکن جب لوگوں کو اس امر کی تمیز بخوبی ہوگئی کہ واقعات نبویہ اور ہوں۔ کلام الٰہی اور۔ وحی متلو اور ہو۔ اور غیر متلو اور۔ تو پھر احادیث نبویہ کے لکھنے کی اجازت ! بخشی۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آج مسلمانوں کے ہاں علوم حدیث اور ہیں اور علوم قرآن اور۔ نہ جیسا کہ یہود و نصاریٰ کے ساتھ معاملہ گذرا۔ جس کا دفعیہ ان سے مشکل ہو رہا ہے۔ ہماری اس مفصل تقریر سے اس شبہ کا جواب بھی ہوسکتا ہے جو عیسائی قرآن کریم کے قصص بنی اسرائیل پر کیا کرتے ہیں کہ فلاں قصہ جو قرآن شریف نے بنی اسرائیل کا بیان کیا ہے۔
کتب سابقہ میں نہیں۔ فلاں واقعہ جس طرح کہ قرآن شریف نے بیان کیا ہے اسی طرح کتب سابقہ میں نہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔ اس لئے کہ یہ کتابیں سب کی سب مجموعہ بائیبل مثلا ایک تاریخ کے ہیں پس کسی واقعہ کا ان میں نہ ہونا یا کسی قصہ کا ان میں قرآن کریم کے مخالف ہونا قرآن پر اعتراض نہیں لا سکتا۔ کیونکہ بہت سی کتب تواریخ کا یہی حال ہے کہ کوئی کسی واقعہ کو چھوڑ جاتا ہے کوئی کسی قصہ کو کسی طرح بیان کرتا ہے دوسرا کسی طرح۔ پس جیسا کہ ان میں احتمال اس امر کا ہوتا ہے کہ مؤرخ کو یہ واقعہ سرے سے ملا نہ ہو یا ملا تو ہو مگر اس نے اس کو صحیح یا اپنے مذاق کے مطابق نہ پایا ہو۔ یا ناتمام ملا ہو۔ اسی طرح جا معین بائیبل پر احتمال ہے کہ ان کو وہ واقعہ جس کو قرآن کریم نے بیان کیا ہے نہ ملا ہوگا۔ یا ملا مگر ناقص یا غلط۔ ان کے ایسا ہونے سے قرآن الہامی پر شبہ نہیں آسکتا۔ ہمارے اس بیان کی شہادت یوحنا مؤلف انجیل بھی دے رہا ہے جو اپنی انجیل یوحنا میں لکھتا ہے :۔
” پر اور بھی بہت سے کام ہیں جو یسوع نے کئے اور اگر وہ جدا جدا لکھے جائیں تو میں گمان کرتا ہوں کہ کتابیں جو لکھی جاتیں تو دنیا میں نہ سما سکتیں“ (کیا سچ ہے یا الہامی مبالغہ؟) (باب ٢١۔ فقرہ ٢٥)
پس اگر ایک واقعہ کتب سابقہ میں نہیں اور قرآن کریم میں ہے تو اس کے جھٹلانے کی یہ وجہ نہیں ہوسکتی کہ چونکہ ان میں نہیں۔ اس لئے غلط ہے کیونکہ کتب سابقہ میں کسی واقعہ کا نہ ہونا اس امر کی دلیل تو بیشک ہے کہ ان کے مصنف کو یہ واقعہ نہ ملا ہو یا اس کو حسب مذاق اپنا نہ سمجھا ہو مگر اس کی دلیل ہرگز نہیں ہوسکتا کہ یہ واقعہ وقوع پذیر ہی نہ ہوا ہو۔ اس لئے کہ عدم علم سے عدم شیء لازم نہیں آتا۔ منہ
٢ ؎ سَوَائُ عَلَیْھِمْ بدل ہے صلہ (کَفَرُوْا) سے اور لَا یُؤْمِنُوْنَ خبر ہے ان کی۔ فاندفع ما اور داو کا دیرد۔ منہ
فیہ اشارہ
! بخاری باب کتاب العلم۔ |
البقرة |
2 |
|
البقرة |
3 |
|
البقرة |
4 |
|
البقرة |
5 |
|
البقرة |
6 |
|
البقرة |
7 |
اب انکی ایسی بری حالت ہے کہ کوئی سچی بات انکے ذہن تک رسائی کر ہی نہی سکتی اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے انکے دلوں کو قبو لیت حق سے اور کانوں کو حق سننے سے بند کردیا اور انکی آنکھوں پر پردہ ہے پس تینوں طریق انسان کی ہدایت کے ہوتے ہیں سو اللہ تعالیٰ نے انکی سر کشی اور لا پر واہی کے سبب سے تینوں کو بند کردیا اور اسی پر بس نہیں بلکہ چونکہ یہ لوگ بڑے معاند اور مفسد ہیں قیا مت کے دن انکو عذاب بھی بڑاہی ہوگا۔
(خَتَمَ اللّٰہُ) اس مقام پر بعض لوگوں کو شبہ ہوتا ہے کہ جب خود اللہ ہی نے ان کافروں کو گمراہ کیا اور ان کے دلوں اور کانوں پر مہر کردی اور ان کی آنکھیں بند کردیں تو پھر ان کا قصور کیا؟ ایسے لوگوں کو عذاب کرنا انصاف سے دور ہے۔ اس مضمون کی اور بھی بہت سی آیتیں ہیں چونکہ یہ پہلی آیت ہے اس لئے ہم اس کے حاشیہ میں کسی قدر مفصل لکھیں گے اور پھر موقع بموقع اس کے حوالہ ہی پر قناعت کر جائیں گے مگر تحقیقی جواب سے پہلے یہ بتلانا ضروری ہے کہ اسلام کے قدیمی مہربان عیسائیوں نے اس مسئلہ کے متعلق جو زبان درازیاں کی ہیں بالکل انصاف سے بعید اور فہم کلام سے دور ہیں اور ان جنٹل میں عیسائیوں کی ایمانداری کا پورا ثبوت ہے۔ کہ انہوں نے اس معاملہ میں سونکن کے جلانے کو اپنی ناک کی بھی پرواہ نہ کی۔ قرآن کریم کی ان آیات پر اعتراض کرتے ہوئے انہوں نے اپنے ہاں کی بھی خبر نہ لی کہ تورٰیت انجیل نے بھی اس مسئلہ کو متعدد مقامات پر بوضاحت لکھا ہے۔ تورٰیت کی دوسری کتاب سفر خروج باب ٤ کے فقرہ ٢١ میں ہے :۔
عیسائیوں کی دوسری غلطی :
” اللہ نے موسیٰ ( علیہ السلام) سے کہا کہ جب تو مصر میں داخل ہو دے تو دیکھ سب معجزے جو میں نے تیرے ہاتھ میں رکھے ہیں فرعون کے آگے دکھلائیو۔ لیکن میں اس کے دل کو سخت کروں گا وہ ان لوگوں کو جانے نہ دے گا “
ایضاً ١٠ باب کے فقرہ ٢٧ میں لکھا ہے :۔
” اللہ نے فرعون کے دل کو سخت کردیا۔ اس نے ان کا جانا نہ چاہا “
ایضاً ١١ باب کا فقرہ ١٠:۔
” موسیٰ ( علیہ السلام) اور ہارون ( علیہ السلام) نے یہ عجائب فرعون کو دکھائے اور اللہ نے فرعون کے دل کو سخت کردیا کہ اس نے اپنے ملک سے بنی اسرائیل کو جانے نہ دیا “
اسی طرح مقامات ذیل میں بھی اس مسئلہ کا ذکر ہے۔ بغرض اختصار ہم صرف نام بتلانے ہی پر قناعت کرتے ہیں :۔
استثناء ٢ باب کا فقرہ ٣٠۔ ایضاً ٢٩ باب کا فقرہ ٤۔ یشوع ١١ باب کا ١٠۔ قاضیون ٩ باب کا ٢٣۔ سلاطین ٢٢ باب کا ٢١۔ زبور ١٠٥۔ ٢٥۔ ایضاً ١٤٨۔ ١٦۔ مثال ١٦ باب کا ٤۔ یسعیا ٦ باب کا ٩۔ ایضاً ٢٩ باب فقرہ ٩۔ متی ١٣ باب کا ١٤۔ لوقا ٨ باب کا ١٠۔ یوحنا ٦ باب کا ٢٤ وغیرہ۔
پادریوںؔ نے اپنے ہاں کی تو خبر نہ لی۔ لی ہوگی تو اپنی کلیسا میں رسوخ بڑھانے کو ناحق اسلام سے الجھے۔ پس پادری لوگ تو جب تک ان مقامات مذکورہ کا جواب نہ سوچ لیں ہم سے مخاطب نہیں ہوسکتے۔ فماَ ھو جوابھم فھو جوابناَ۔ رہا یہ امر کہ ایسی آیات قرآنی کا کیا مطلب ہے اور اس سوال کا حقیقی جواب کیا ہے۔ سو اس کے جواب دینے سے پہلے ہم چند اصول بتلانا مناسب جانتے ہیں تاکہ جواب سمجھنے میں آسانی ہو۔
اوّل : سوائے اللہ کے دنیا میں کوئی خالق نہیں۔ دنیا میں کیا جوہر کیا عرض بغیر خلق الٰہی کے پیدا نہیں ہوسکتا+
دوم : اللہ کا علم بہت ہی وسیع ہے ہر ایک چیز کو اس نے ایک ہی آن میں جان لیا ہوا ہے خواہ وہ چیز ہزارہا سال بعد کیوں نہ پیدا ہو -
سوم : اللہ کی قدرت سب پر غالب ہے۔ اگر وہ چاہے تو مخلوق سے خلاف طبع کام بھی کرا سکتا ہے۔
چہارم : اللہ نے انسان کو ایسی طاقتیں دے رکھی ہیں کہ اگر ان کو استعمال کیا جائے تو ترقی پذیر ہوئی ہیں اور اگر مہمل چھوڑی جائیں تو بیکار بلکہ قریب زوال بھی ہوجاتی ہیں۔
پنجم : کسی شخص کی نسبت قیافہ شناسی یا کسی اور وجہ سے پیشگوئی کرنا اس کو مجبور نہیں کرنا۔
ششم : انسان کو اللہ نے کسی قسم کی تمیز اور قدرت ضرور دے رکھی ہے جس کی وجہ سے وہ دیگر حیوانات سے ممتاز ہو کر اشرف المخلوقات ہوا۔
ہفتم : کسی بیمار صاحب الفراش کا کسی برے کام میں چل کر شریک نہ ہونا اس کی مدح کا باعث نہیں ہوسکتا۔
پسؔ اب ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ انسان جو قوانین الٰہی بلکہ قوانین شاہی کا بھی مکلف ہوتا ہے اسے ان احکام کے ادا کرنے کی طاقت بھی ہے یا نہیں۔ بیشک بموجب اصول ششم ہے مگر خانہ زاد نہیں کسی کی دی ہوئی ہے اور وہ طاقت بموجب اصول چہارم اس قابل ہے کہ اسے کام میں نہ لایا جائے تو بیشک تنزل پذیر ہوتی ہے بلکہ اگر ایک مدت تک مہمل ہی رہے تو قریب فنا بھی ہوجاتی ہے۔ اس امر کی وضاحت کے لئے ہم چوروں اور ڈاکوئوں کا حال تمثیلاً بتلاتے ہیں کہ زمانہ ابتدا میں ان کو بڑے بڑے کام کرنے کی جرأت نہیں ہوتی اس لئے کہ ان کے دل میں اس کام کے عیوب نمایاں اور اس کی پاداش کا ڈر ہوتا ہے۔ پھر رفتہ رفتہ وہ ایک حد تک پہونچ کر ایسے ہوجاتے ہیں کہ بے کس۔ مظلوم۔ یتیم۔ بیوہ عورتوں کا مال بھی اگر ملے تو نہیں چھوڑتے۔ وجہ اس کی بغیر اس کے کیا ہے کہ انہوں نے اللہ کی عطاء کردہ طاقت سے کام نہیں لیا۔ جو آخر کار رفتہ رفتہ ایسی ہوگئی کہ گویا معدوم ہے مگر دراصل معدوم نہیں بلکہ مغلوب ہے۔ اسی مغلوبیت کو اس آیت میں ختم اللّٰہ کے ساتھ تعبیر کیا ہے۔ ہاں اس میں شک نہیں کہ بموجب اصول سوم اگر اللہ چاہے تو ان کو
بھی ہدایت کر دے اور ان کو ان کی بے جا حرکتوں سے جو مثل طبعی کے ہو رہی ہیں جبراً روک دے۔
انہی معنے کی طرف آیات وَلَوْ شِئْنَا لَاٰتَیْنَا کُلَّ نَفْسٍ ھُدٰھَا+ وَلَوْ شَآَئَ رَبُّکَ مَا فَعَلُوْا+ وَلَوْ شَآئَ رَبُّکَ مَآ اَشْرَکُوْا وغیرہ میں ارشاد فرمایا اور اگر انسان اپنی مغلوب طاقت سے کچھ کام لینا چاہے تو اللہ تعالیٰ بھی بموجب اصول چہارم اس پر نظر رحمت کرتا ہے۔ وَیَھْدِیْٓ! اِلَیْہِ مَنْ یُّنِیْبُ یہی بتلا رہا ہے اور اگر توجہ ہی نہ ہو تو مطابق اسی اصول مذکور کی دن بدن حالت ردی اور ابتر ہوتی جاتی ہے ذٰلِکَّ" بِمَا عَصَوْا وَّکَانُوْا یَعْتَدُوْنَ اور فَلَمَّا زَاغُوْآ اَزَاغ اللّٰہُ قُلُوْبَھُمْ اسی مطلب کو واضح کرتی ہیں۔
رہایہؔ سوال کہ انسان کا قصد کون پیدا کرتا ہے۔ سو اس کا جواب بموجب اصول ششم یہ ہے کہ اللہ نے جو انسان کو تمیز دے رکھی ہے اسی تمیز اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ کو انسان ایک طرف اپنے اختیار سے لگا لیتا ہے اسی کا نام قصد ہے۔ اگر کہا جاوے کہ اللہ اس کے بد ارادوں کو روکتا کیوں نہیں تو اس کا جواب بموجب اصول ہفتم یہ ہے کہ اس صورت میں انسان کسی مدح کا مستحق نہیں ہوسکتا بلکہ ” عصمت بی بی ست از بے چادری“ کا مصداق۔ علاوہ اس کے اگر اللہ انسان کو بد ارادوں سے جبراً روک دے تو ایمان بالجبر کس کا نام ہے یہی تو محل نزاع ہے۔ اگر یہ سوال ہو کہ انسان کے دل میں ایسے خیالات جن کو وہ اپنے اختیار اللہ سے قصد اور ارادہ تک پہونچاتا ہے کون ڈالتا ہے انسان کا تو کام نہیں۔ بسا اوقات ہمیں بلا اختیار جی میں ایسی باتیں آجاتی ہیں جن کا ہمیں وہم و گمان بھی نہیں ہوتا۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہر قسم کے خیالات اللہ ہی ڈالتا ہے۔ اَلْھَمَھَا فُجُوْرَھَا وَتَقْوٰھَا اس کا مثبت ہے مگر اتنی ہی حد تک جو اس کے بس میں نہیں۔ انسان پر کوئی عذاب بھی نہیں۔ بلکہ محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس حد تک نیک خیال پر اجر بھی ملتا ہے ہاں جب اس سے بڑھ کر انسان اس خیال کو قصد تک پہونچاتا ہے تو پھر وہی حال ہوتا ہے۔ جو ہونا چاہیے۔ اگر سوال کیا جائے کہ اس حدیث کے اور اس کی ہم معنے آیتوں کے کیا معنے ہوں گے؟ جن میں صاف آیا ہے۔ کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ سے فرمایا کہ خواہ خصی ہوجائو یا نہ ہوجائو جو زنا تمہاری قسمت میں لکھا ہوگا وہ تم سے ہو کر ہی رہے گا۔ اس سے تو صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ انسان خواہ کتنے ہی انتظام کرے گناہ مقدر سے بچ نہیں سکتا۔ تو اس کا جواب بموجب اصول دوم و پنجم یہ ہے کہ بیشک ایسا ہی ہوتا ہے مگر ایسا ہونا انسان کو مجبور نہیں بناتا بلکہ یہ تو با اختیار بناتا ہے۔ ہاں اس سے اللہ تعالیٰ کے علم کی وسعت اور حقانیت ضرور ثابت ہوتی ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ بادشاہ اپنے نوکر کو حکم کرے کہ کل صبح چھ بجے میرے پاس حاضر ہوجیؤ۔ اتفاق سے بادشاہ اس وقت اپنے مقام معہود پر نہ تھا۔ نوکر نہ اس خیال سے کہ بادشاہ وہاں نہیں ہے بلکہ اس کی موجودگی کے علم پر بھی نہ آیا تو کیا وقت مواخذہ نوکر کا یہ عذر ہوسکتا ہے؟ کہ آپ اس وقت دربار میں نہ تھے۔ اس لئے میں نہ آیا۔ اگر کہے تو بادشاہ اس کا جواب یوں دے گا کہ گو میں اپنے دربار میں نہ تھا لیکن تم نے تو غیر حاضری اپنے قصد سے کی تھی پس اس کی سزا تم کو ملے گی۔ اسی طرح انسان بھی جو کچھ کرتا ہے اس کے مقدر میں ہوتا ہے مگر کرتا تو اپنے اختیار سے ہے اس سے اختیار ثابت ہوتا ہے نہ جبر۔ اسی کے مطابق ارشاد وارد ہے وَلَقَدْ#ذَرَاْنَا لِجَھَنَّمَ کَثِیْرًا۔ اگر یہ سوال ہو کہ اس آیت مَنْ یَّھْدِی۔ اللّٰہُ فَھُوَ الْمُتْہَدِ وَمَنْ یُّضْلِلْ فَلَنْ تَجِدَلَہٗ وَلِیًّا مُّرْشِدًا کے کیا معنے ہوں گے؟ اس سے تو صاف ثابت ہے کہ بجز اللہ تعالیٰ کی ہدایت
اگر ہم چاہتے تو سب کو ہدایت کردیتے۔
! اللہ اپنی طرف ہدایت کرتا ہے جو اس کی طرف جھکتا ہے۔
" کیونکہ انہوں نے سرکشی کی۔ جب وہ ٹیڑھے رہے تو اللہ نے ان کے دل ٹیڑھے کر دئیے۔
# اللہ نے بہت سی مخلوق جہنم کے لئے بنائی ہے۔
۔ جس کو اللہ تعالیٰ ہدایت کرے وہی راہ یاب ہے اور جس کو گمراہ کرے تو اس کا کوئی حمائتی نہ ہادی ہوگا۔
سے کوئی بھی ہدایت نہیں پا سکتا۔ اور جس کو اللہ گمراہ کرے اس کو کوئی بھی ہدایت نہیں کرسکتا۔ معلوم ہوا کہ سب کچھ اللہ ہی کے قبضہ قدرت میں ہے تو اس کا جواب بموجب اصول اوّل یہ ہے کہ جو چیز دنیا میں پیدا ہوتی ہے خواہ وہ جوہر ہو یا عرض۔ بغیر مشیت اور ارادہ الٰہی کے ہرگز نہیں ہوسکتی۔ اور یہ ظاہر ہے کہ ہدایت اور ضلالت بھی دنیا میں اعراض سے ہیں تو پس ان کے وجود کی بابت اگر یوں ارشاد ہو کہ بدون ہماری مشیت اور ارادہ کے نہیں ہوسکتے جیسے اور چیزیں تو اس میں کیا موقع اعتراض یا اشتباہ ہے؟ پس اس آیت کریمہ کے معنے بالکل روشن اور واضح یوں ہوئے کہ گو تم اپنے ارادہ اللہ تعالیٰ سے ہدایت کی طرف متوجہ ہو لیکن جس کی ہدایت کو ہم ہی پیدا کریں اور وجود دیں وہی ہدایت پر آسکتا ہے اسی طرح جو شخص اپنے ارادے سے گمراہی کی طرف جھکے اور اللہ کی طرف سے اس کی گمراہی وجود پذیر بھی ہوجائے تو پھر کوئی نہیں جو اس کو ہدایت دے سکے اس لئے کہ بجز ذات پاک کوئی دوسرا خالق ہی نہیں جو ضلالت موجود کو فنا کر کے ہدایت پیدا کردے۔ یہ امر بالکل واضح ہے۔ رہا یہ سوال کہ ایسی آیتیں ہی کیوں نازل فرمائیں؟ جن سے کہیں تو گمراہی کو شیطان وغیرہ کی طرف نسبت کیا اور کہیں اپنی طرف کیا جس سے کئی قسم کی غلط گمانیاں پیدا ہوگئی۔ ایکؔ تو یہ کہ گمراہ کرنے والا اللہ کو سمجھ گئے۔ دومؔ یہ کہ اس میں شیطان کو بھی اللہ جیسا اختیار ثابت ہوا حالانکہ بحیثیت تعلیم اسلامی یہ دونوں خیال غلط ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ جہاں کہیں گمراہی کو اپنی طرف نسبت کیا ہے اس سے تو مجوسیوں اور مشرکوں کو تغلیط کرنی منظور ہے جو اس بات کے قائل تھے کہ دنیا میں خیر جس میں ہدایت بھی داخل ہے ایک اللہ پیدا کرتا ہے اور شر جو گمراہی کو بھی شامل ہے دوسرا اللہ بناتا ہے اس لئے وہ دو الہٰوں اھرمنؔ اور یزدانؔ کے قائل تھے چونکہ یہ عقیدہ جیسا کہ سب انبیاء کی تعلیم کے خلاف تھا ویسا ہی عقل سلیم کے بھی مخالف تھا اس لئے قرآن کریم نے اس باطل عقیدہ کے رد کرنے کو صاف اور صریح الفاظ یُضِلُّ مَنْ یَّشَآئُ وَیَھْدِیْ مَنْ یَّشَآئُ کی منادی کرا دی۔ ہدایت اور اضلال کے معنے اس سے پہلے ہم بتلا آئے ہیں اور جہاں کہیں شیطان وغیرہ کی طرف نسبت کیا ہے وہ حسب محاورہ سبب کی طرف ہے نہ کہ اصلی فاعل کی طرف جیسے کہ انبت الربیع البقلَ (موسم نے بہار لگا دی) بولا کرتے ہیں۔
اب ہم بتلانا چاہتے ہیں کہ قرآن کریم نے اس امر کی تکذیب بھی کی ہے کہ انسان کو بالکل بیکار کاٹھ کی پتلی مثل حجر شجر کے مانا جائے۔ کفار نے یہ سن کر کہ جو کچھ ہوتا ہے اللہ کے ارادے سے ہوتا ہے اپنی پاکدامنی پر اس سے حجت پکڑی وَلَوْ شَآئَ اللّٰہُ مَآ اَشْرَکْنَا نَحْنُ وَلَآ اٰبَآئُ نَا زبان پر لائے۔ چونکہ یہ بے سمجھی کی بات تھی نیز ایک کافر فاسق کو ایک قسم کا بہانہ تھا اسی لئے اس کے جواب میں وہ الفاظ استعمال کئے جن سے سخت اور نہ ملیں کَذٰلِکَ ! کَذَّبَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ کہہ کر اس نافہمی پر ناراضگی ظاہر فرمائی۔ پس اگر قرآن کریم کی تعلیم کا یہی منشا ہوتا کہ انسان اپنے افعال میں اپنے ارادے میں اپنی حرکات میں مثل جمادات کے ہے تو اس کا ایسے شدو مد سے رد نہ فرماتے بلکہ موقع غنیمت سمجھ کر کہ ہمارے ہم خیال ہوئے جاتے ہیں اس کی تائید کرتے۔ رہا یہ سوال کہ اللہ نے ایسا کیوں نہ کیا کہ سب مخلوق نجات پاتی؟ دنیا میں جس قدر مذاہب مختلف ہیں یقینا بعض ان میں سے غلطی پر ہیں پھر ان کی نجات کا بھی تو کوئی ذریعہ ہونا چاہئے تھا۔ آخر وہ بھی تو اسی کی مخلوق ہیں۔ مانا کہ اللہ نے ہدایت کی راہ سب کو دکھائی اور جیسا کہ ثابت ہوا انسان اپنے ہی ارادہ سے غلطی کرتا ہے مگر کوئی صورت ایسی کیوں نہ کی کہ سب کے سب مدامی عیش میں رہتے؟ اس کا جواب علاوہ اصول سابقہ کے اور دو اصول پر مبنی ہے۔ اگر اللہ چاہتا تو ہم نہ ہمارے باپ دادا شرک کرتے۔
! اسی طرح پہلے لوگوں نے جھٹلایا تھا۔ |
البقرة |
8 |
اور تیسری قسم عام انسانوں میں بعض لوگ ایسے ہیں جو مسلمانوں سے رسوخ پیدا کرنے کو کہتے ہیں کہ ہم اللہ کو مانتے اور قیامت پر یقین رکھتے ہیں مگر یہ باتیں انکی سب زبانی ہی ہیں اوپر سے چاپلوسی کرتے ہیں حالانکہ دل سے ان کو ایمان نہیں ایسے بد معاش مطلب کے یار ہیں اگر ہوسکے تو اللہ کو بھی فریب دیے جائیں چنانچہ یہ کاروائی ان کی دیکھنے سے دانا صاف جان جائیں گے کہ گو یا اللہ کو دھو کہ دیتے ہیں کیونکہ ایمان کا اظہار کرنا اور اندر کفر چھپانا اس لئے ہے کہ اللہ ان کے ظاہری ایمان کو دیکھ کر ان سے مومنوں کا سا معاملہ کرے ہرگز نہیں اللہ تو عالم الغیب ہے البتہ عام مسلمانوں کو جو غیب نہیں جانتے دھوکہ دیتے ہیں اور ان سے جو مطلب نکالنا ہو نکال لیتے ہیں مگر جان رکھیں کہ درحقیقت اپنی جانوں ہی سے فریب کرتے ہیں کیونکہ اس کا وبال آخر کار انہی کی جانوں پر ہوگا لیکن اپنی نادانی سے سمجھتے نہیں بھلا وہ ضرر کو سوچیں بھی کیا ؟ ان کے دلوں میں تو بیماری ہے۔ اور اللہ حکیم نے مطلق کی بتلائی ہوئی دوا قرآن مجید کو استعمال نہیں کرتے پس اللہ نے بھی ان کی بیماری زیادہ کردی یہ نہ جانیں کہ اس دوا کرنے سے نہ چھوٹ جائیں گے
جس چیز کی چند صفات ہوں اس کی ہر صفت کا ظہور ضروری ہے خواہ وہ صفات متضاد ہی کیوں نہ ہوں اپنے اپنے موقع ہر سب کا ظاہر ہونا ضروری ہے۔ جیسے انسان کی صفات اٹھنا۔ بیٹھنا۔ بولنا۔ سکوت کرنا۔ چلنا۔ ٹھیرناوغیرہ ہر ایک صفت باوجود تضاد کے اپنا اپنا اثر دکھا رہی ہے۔
! اللہ تعالیٰ جیسا خالق، مالک، رحیم، عادل، کامل ہے ویسا ہی اس کا غضب بھی اعلیٰ درجہ کا ہے جس کی برداشت ممکن نہیں۔
بلکہ جس قدر صفات کاملہ مخلوق میں پائی جاتی ہیں سب کی سب ذات باری جل مجدہٗ کی صفات کاملہ کے نمونے ہیں۔
پسؔ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اللہ کی صفت خلق (پیدا کرنے کی) تو خلقت کے پیدا کرنے سے ظاہر ہوئی لیکن اتنی ہی
بات سے باقی صفات کا تقاضا پورا نہیں ہوسکتا تھا۔ جب تک کہ ان کے آثار بھی نہ پائے جائیں چونکہ وہ صفات بظاہر کسی قدر متضاد بھی ہیں اس لئے اللہ عالم جل مجدہٗ نے جو بڑا عالم الغیب ہے ان صفات کے ظہور کے لئے جیسے کہ صفات مختلف نہیں ویسے ہی طریق اظہار بھی مختلف ایجاد کئے ایک طرف شیطان اور شہوات نفسانیہ پیدا کیں۔ جو لوگ ان کے پیچھے چلیں وہ مورد غضب بنیں۔ چونکہ بلحاظ انسانی طبائع کے قریب قریب تمام لوگوں کا اس میں پھنس جانا بھی کچھ مشکل نہ تھا۔ اور یہ طریق صفت عدل کے مخالف تھا۔ اس مخالفت کے دور کرنے کو اللہ نے انبیاء علیہم السلام بھیجے اور قویٰ ملکوتیہ کو پیدا کیا۔ جن سے انسان اپنے نفع نقصان کو سوچے۔ بعد سوچ کے موافق ارشاد انبیاء علیہم السلام سیدھی راہ پر چلے تو صفت عدل کا تقاضا پورا ہو۔ کہ وعدہ الٰہی کے موافق انعام اکرام کا مستحق ٹھیرے۔ رہا تقاضا رحم سو اس طرح پورا کیا کہ جو لوگ بعد قصور اپنے آپ کو نادم کریں اور اللہ کے آگے گڑگڑائیں۔ یا باوجود تقصیرات کے کسی ضروری حکم کی تعمیل کرچکے ہوں تو ان کو یا تو بغیر کسی مواخذہ کے معافی دی جائے یا بعد کسی قدر مواخذہ کے چھوڑا جائے بلکہ بعض بوجہ اخلاص کامل کے مورو انعام بھی ہوں۔ پس ثابت ہوا کہ یہ تمام سلسلہ ظاہری اور باطنی دراصل صفات اللہ کے آثار ہیں اور ایسا ہونا بھی ضروری تھا۔ اس ہمارے تقریر سے اس شبہ کا بھی جواب آگیا جو عوام لوگ کیا کرتے ہیں کہ اللہ نے شیطان کو کیوں پیدا کیا انبیاء کو کیوں بھیجا؟ اور یہ بھی ثابت ہوا کہ صفات اللہ باوجود تضاد کے اس طریق سے سب کی سب پوری ہوجاتی ہیں نہ جیسا کہ عیسائیوں نے غلط فہمی سے اللہ کے عدل کو پورا کرنے کے لئے مسیح کا کفارہ تجویز کیا۔ جو بجائے عدل کے سراسر ظلم ہے۔ وللبحث مقام اٰخر (منہ) |
البقرة |
9 |
|
البقرة |
10 |
|
البقرة |
11 |
|
البقرة |
12 |
|
البقرة |
13 |
|
البقرة |
14 |
|
البقرة |
15 |
|
البقرة |
16 |
|
البقرة |
17 |
|
البقرة |
18 |
|
البقرة |
19 |
|
البقرة |
20 |
|
البقرة |
21 |
(21۔25)۔ اب ہم تمہیں ١ ے۔ لوگو ! ایک ضروری امر بتلاتے ہیں زرا دل کے کان لگا کر سنو ! اور اس کی تعمیل بھی کرو۔ وہ یہ کہ تم اپنے مولا کریم کی صدق دل سے عبادت کرو اور اسی سے اپنی مرادیں مانگو جس نے تم کو اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا۔ اس پیدا کرنے کے شکر میں نہ سہی اس خیال سے کر وکہ شائد تم اس کے عذاب سے جو گردن کشوں پر آنیوالا ہے بچ جاؤ۔ بھلا ایسے مالک کی عبادت سے منہ پھیرنا کیسی نادانی ہے جس نے تمہارے لئے زمین کو مثل فرش کے بنایا جہاں چاہو سورہو جہاں چاہو لیٹ رہو باوجود اس کے اگر کھیتی بھی چاہو تو کرسکو چنانچہ کرتے ہو اور آسمان کو مثل چھت کے سجایا اور علاوہ اسکے ہمیشہ تمہارے لئے بادلوں سے بارش اتارتا ہے۔ پھر اس بارش کے پانی کے ساتھ تمہارے لئے ہر قسم کے میوہ جات سے رزق پیدا کرتا ہے۔ پس جبکہ وہ ذات پاک ان سب کاموں میں اکیلا خود مختار ہے تو تم بھی دیدہ دانستہ اس اللہ کے لئے شریک نا بناؤ اور ہماری رضا جوئی ہمارے رسول کی معرفت سیکھو اور اگر تمہیں بوجہ غلط فہمی یا سوء ظنی کے اس کتاب کی سچائی میں شبہ ہو جو ہم نے اپنے بندے محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بزریعہ وحی نازل کی ہے۔
تو اس غلطی کا دفعیہ یوں ہوسکتا ہے کہ چونکہ تم بھی اس جیسے آدمی ہو تمہاری انسانیت اور اس آدمیت میں کوئی فرق نہیں ظاہر تعلیم و تعلم میں بھی وہ تم لوگوں پر مزیت نہیں رکھتا۔ سو تم بھی اس جیسا ایک ٹکڑہ بنالاؤ اور سوا اللہ کے سب اپنے مددگاروں کو بلالو جو اس امر میں تمہاری مدد کریں اور تم کو اس مقابلہ میں کامیاب کرائیں اگر اس دعوٰی میں سچے ہو کہ اس رسول نے آپ ہی آپ بغیر الہام الٰہی کے کتاب بنالی ہے۔ تو ضرور مقابلہ پر آؤ۔ پس باوجود اس ابھارنے کے نہ کرو اور ہم تو ابھی سے کہے دیتے ہیں کہ تم نہ کرو گے پس باوجود عاجز آنے کے تو عناد سے باز آؤ اور اس آگ سے بچو جس کا ایندھن مشرک آدمی اور ان کے جھوٹے معبودوں، بتخانوں اور قبروں کے پتھر ہونگے جن سے تمام عمر ان کی منتیں مانگتے ہی گزری ہوگی وہ بھی ان کے ہمرکاب بھڑکتی جہنم میں ہونگے اب تم اس کی گرمی کا اندازہ خود ہی کرلو۔ کہ دنیا کی آگ میں جب پتھر ڈالے جائیں تو سرد ہوجاتی ہے مگر وہ آگ اس غضب کی ہوگی کہ اس میں ایسی چیزیں مثل ایندن کے کام دینگی کیوں نہ ہو جبکہ تیار ہی کی گئی ہے کافروں گردن کشوں کے کئے تو اس کی اس درجہ حرارت بھی مناست ہے۔ پس تو اے پیغمبر ایسے سرکشوں مفسدوں سے منہ پھیر اور جو لوگ ایمان لاکر نیک عمل کرتے ہیں ان کو مژدہ سنا۔ کہ ان کے لئے اللہ کے ہیں باغ ہیں جن کے مکانوں کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں۔ وہ ان باغوں میں نعمتوں کی ایسی کثرت میں ہونگے کہ کثرت اقسام کی وجہ سے جب کبھی انکو کوئی پھل کھانے کے لئے ملے گا، وہ بوجہ مغائرت قلیلہ کے کہیں گے کہ یہ تو وہی ہے جو ہمیں ابھی ملا تھا اس کی وجہ یہ ہوگی کہ انکو ملتا جلتا ہی ملے گا صورت میں مشابہ ہوگا۔ بھر یہ نہیں کہ اس عیش وعشرت میں تجرد کی وجہ سے انکو تکلیف ہوگی بلکہ ان کے لئے ان باغوں میں بیویاں بد اخلاقی وغیرہ سے پاک ہوں گی۔ اور خاوندوں کی بڑی پیاری یہ بھی نہیں کہ ایسی نعمتوں میں چند روزہ ہی رہیں گے۔ بلکہ وہ ان باغوں میں ہمہشب رہیں گے۔
(ایک ٹکڑا بنا لائو) اس آیت میں اللہ جل شانہٗ قرآن کریم کی صداقت بیان فرماتا ہے۔ مطلب اس کا یہ ہے کہ اگر تم کفار مکہ وغیرہ اس قرآن کو سچی الہامی کتاب نہیں مانتے تو اس جیسی ایک سورت تم بھی بنا لائو اگر نہ بنا سکو اور یقین ہے کہ نہیں بنا سکو گے حالانکہ تم بھی اسی رسول محمدﷺ کی طرح آدمی ہو۔ بلکہ اس سے کسی قدر دنیاوی معاملہ فہمی میں زیادہ واقف۔ تو پھر کیا وجہ کہ وہ بنا سکے اور تم نہ بنا سکو بیشک اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں کوئی طاقت تم سے زیادہ ہے جو تم میں نہیں۔ وہ وہی ہے مایَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی اِنْ ھُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰی یہ خلاصہ ہے اس آیت کی تقریر کا۔
سر سید کی دوسری غلطی :
رہیؔ یہ بحث کہ مثل سے کیا مراد ہے سو اس کے متعلق بیان کس قدر بسیط چاہیے۔ پہلے ہم مفسرین کی رائے دریافت کرتے ہیں پھر ان میں جس رائے کو بقرائن قرآنیہ مرحج سمجھیں گے ترجیح دیں گے۔ مفسرین تو سلفاً و خلفاً اس پر متفق ہیں کہ مثل سے مراد مثل فی البلاغت ہے۔ تفسرا کبیر الوسعود۔ فتح البیان۔ ابن کثیر۔ کشاف۔ معالم۔ بیضادی۔ جامع البیان۔ جلالین۔ کو اشی وغیرہ سب کے سب متفق ہیں کہ مثل فی البلاغت مراد ہے۔ مگر سرسید نے اس مسئلہ میں بھی سب کا مقابلہ کیا ہے۔ کہتے ہیں :۔
” مثلیت قرآن کی فصاحت بلاغت کے لحاظ سے نہیں“ گویہ بھی مانتے ہیں کہ :۔
” قرآن مجید بیشک بہت بڑا فصیح ہے مگر اس کی فصاحت کی بے نظیری اس کے من اللہ ہونے کی دلیل نہیں ہوسکتی اس لئے کہ بہت سے کلام دنیا میں بے نظیر ہیں مگر وہ من اللہ نہیں ہوسکتے۔ اور نہ قرآن میں اس کا کوئی اشارہ ہے کہ مثلیت سے مراد فصاحت ہے بلکہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ مثلیت سے مراد ہدایت مثلیت ہے۔ سورۃ قصص میں فرمایا کہ ” کافروں سے کہ دی کہ تورٰیت اور قرآن سے زیادہ ہدایت کرنے والی کتاب لائویں اس کے پیچھے چلوں گا“ پس ثابت ہوا کہ قرآن گو کیسا ہے فصیح ہو مگر جو معارضہ ہے وہ اس کے ہادی ہونے میں ہے۔ ہاں فصاحت بلاغت اس کو زیادہ روشن کرتی ہے“ (تفسیر احمدی جلد اوّل صفحہ ٣٠٣)
پسؔ پہلے ہم ان آیتوں میں قریتہ تلاش کرتے ہیں جن میں معارضہ چاہا گیا ہے۔ تاکہ سید صاحب کے قول (نہ آیت
قرآنیہ میں اس کا کوئی اشارہ ہے) کی تصدیق یا تکذیب ہوسکے۔ علاوہ اس آیت سورۃ بقرہ کے سورۃ یونس میں ارشاد ہے :
اَمْ یَقُوْلُوْنَ افْتَرَاہُ قُلْ فَاْتُوْا بِسُوْرَۃٍ مِّثْلِہٖ وَادْعُوْا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ سورۃ ہود میں فرمایا اَمْ ! یَقُوْلُوْنَ افْتَرٰہٌ قُلْ فَاْتُوْا بِعَشْرِ سُوَرٍ مِّثْلِہٖ مُفْتَرَیَاتٍ وَّادْعُوْا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ سورۃ بنی اسرائیل میں فرمایا قُلْ لَئِنِ اجْتَمَعَتِ" الْاِنْسُ وَالْجِنُّ عَلٰیٓ اَنْ یَّاْتُوْا بِمِثْلِ ھٰذَا الْقُرْاٰنِ لَا یَاْتُوْنَ بِمِثْلِہٖ وَلَوْ کَانَ بَعْضُھُمْ لِبَعْضٍ ظَھِیْرًا۔ اس میں تو شک نہیں کہ یہ آیات تحدی سب کی سب اس پر متفق ہیں کہ کفار عرب کے مقابلے اور ان کے عاجز کرنے کو نازل ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ صرف مخاطبوں ہی کو نہیں بلکہ تمام ان کے اعوان اور انصار کو اس میں دعوت دی گئی ہے کہ مل کر مقابلہ پر آئو اور ساتھ ہی اس کے پیش گوئی بھی ہو رہی ہے کہ نہ کرسکو گے پڑے ایک دوسرے کے مددگار بھی بنو کچھ نہ بن سکے گا۔ اور یہ امر ظاہر ہے کہ مقابلہ میں ایسی باتوں کا ذکر کہ تم سب کے سب مل کر اتفاق بھی کرلو تو بھی ہمارا کچھ نہ بگاڑ سکو گے وہاں بھی مناسب ہوتا ہے کہ جس امر پر اتفاق کرنے سے فریق مقابلہ کو بھی کچھ امید کامیابی ہوجیسا کہ ایک بڑی زبردست سلطنت ماتحت ریاستوں سے مقابلے کے وقت کہے کہ تم سب کے سب بھی متفق ہوجائو۔ تو بھی تم ہمارا کچھ بگاڑ نہیں سکتے نہ کہ ایسے امر کی نسبت ان کا اتفاق ذکر کر کے دھمکی دی جاتی ہے کہ جس امر کے حصول کی نسبت ان کو بعد اتفاق بھی وہم و گمان نہ ہو کجا وہ امر کہ اس کے حصول ہی کو برا سمجھیں پس بعد اس تمہید کے ہم دیکھتے ہیں کہ کفار عرب کو یہ جتلانا کہ تم سب کے سب مل کر بھی اس سورت بنانا چاہو تو نہ بنا سکو گے کیا معنے رکھتا ہے؟ اگر مثلیت سے مراد ہدایت میں مثل ہوجیسا کہ سید صاحب کہتے ہیں تو کلام بالکل بے معنے ہے۔ اس لئے کہ ان کا خیال ہی نہ تھا کہ ہم اتفاق کرلیں تو قرآن جیسی ہادی کوئی کتاب بنا لیں بلکہ ان کو تو قرآن کی ہدایت سے سخت نفرت تھی۔ بار بار یہی کہتے تھے کہ اس قرآن کو بدل ڈال۔
کوئی اور کتاب ہمارے پاس لا۔ یہ تو اچھا نہیں۔ ہمارے معبودوں کو برا کہتا ہے اس کی تکذیب کی وجہ معقول ان کے نزدیک ہی تھی کہ اَجَعَلَ اْلاٰلِھَۃَ اِلٰھًا وَّاحِدًا اِنَّ ھٰذَا لَشَیْئٌ عُجَابٌ پس ایسے لوگوں کے سامنے جو اس کتاب کی ہدایت سے بیزار اور سخت متنفر ہوں اور یہی وجہ ان کی نفرت کی ہو۔ اور کبھی اس کی ہدایت کو پسند نہ کریں اور کبھی اس جیسی ہادی بنانے کی طرف رخ نہ لادیں۔ ایسے لوگوں کو
کیا کافر کہتے ہیں کہ رسول نے قرآن کو خود بنا لیا ہے تو کہہ اس جیسی ایک سورت تو لائو اور اللہ کے سوا جن کو بلا سکتے ہو بلا لو اگر تم سچے ہو۔
! کیا کافر کہتے ہیں کہ قرآن اس جیسی بنائی ہوئی دس سورتیں تو لے آئو اور اللہ کے سوا جن کو چاہو بلا لو اگر تم سچے ہو۔
" تو کہہ اگر تمام انسان اور جن بھی جمع ہو کر اس قرآن جیسی کوئی کتاب لانا چاہیں گے تو اس جیسی نہ لا سکیں گے گو ایک دوسرے کے مددگار بھی ہوں۔
یہ کہنا کہ تم سب کے سب مل کر اس کتاب جیسی کوئی کتاب ہادی انام بنا لائو اور ساتھ ہی یہ پیش گوئی بھی کردینا کہ ” ہرگز نہ لا سکو گے“ بالکل اس کے مشابہ ہے کہ جیسے کوئی ہندو بت پرست یا عیسائی تثلیث پرست کسی مسلمان کو (جو ان کی کتابوں سے ایسی ہی تعلیم کے سبب سے بیزار ہو) یہ کہے کہ اگر تو ہماری کتاب متضمن تعلیم بت پرستی اور تثلیث پرستی کو نہیں مانتا تو اس جیسی کوئی ہادی کتاب بنا لا اور ساتھ ہی اس کے یہ پیش گوئی بھی کرے کہ تو اور تیرے حمایتی ہرگز ایسی نہ بنا سکو گے‘ تو میں نہیں سمجھتا کہ کوئی دانا اہل الرائے اس کی اس پیش گوئی کی کچھ وقعت کرے ہاں اس قائل کی حمایت کی دلیل کافی جانے گا۔ کیونکہ جو وجہ مسلمانوں کو اس کتاب کی تسلیم سے مانع ہے اسی قسم کی کتاب کا اس سے مطالبہ کرنا گویا ایک تکلیف بالمحال ہے اسی قاعدہ پر کفار عرب کا جواب پر آمادہ ہونا اور لَوْ لَشَآئُ لَقُلْنَا مِثْلَ ھٰذَٓا اِنْ ھٰذَا اِلَّآ اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ کہنا صاف جتلاتا ہے کہ وہ اس کے طرز بیان کی نسبت معارضہ سمجھے تھے ورنہ یہ نہ کہتے اور ساتھ ہی اس کے اس آمادگی اور استعداد کی وجہ بھی بتلانا کہ اِنْ ھٰذَٓا اِلَّآ اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ بالکل واضح کر رہا ہے کہ مثل سے مراد مثل فی الہدایت نہیں۔ ورنہ ایسی مستعدی نہ بتلاتے بلکہ بجائے اس کے یہ کہتے کہ ہم تو اس قرآن کو اور اس کے مثل ہادی بنانے کو ہی کفر جانیں سونکن کے ساڑے اپنی ناک تھوڑی ہی کٹوانی ہے۔ نیز اس موقع پر کفار عرب کا کہنا کہ قرآن کا بنانا کیا مشکل ہے۔ یہ تو پہلے لوگوں کی داستانیں ہیں۔ قابل غور ہے اس لئے کہ ہدایت کی وجہ سے تو اس کو وہ بالکل نیا سمجھتے تھے مَا ! سَمِعْنَا بِھٰذَا فِیْ المِلَّۃِ الْاٰخِرَۃِ اِنْ ھٰذَآ اِلَّا اخْتِلَاقْ صاف مظہر ہے کہ قرآن کو باعتبار ہادی ہونے کے ایک نئی چیز جانتے تھے بلکہ باعتبار ہادی ہونے کے موجب نفرت کہتے تھے۔ پس ان دونوں آیتوں کے ملانے سے صاف سمجھ میں آتا ہے۔ کہ کفار عرب خود اس معارضہ کو باعتبار ہدایت نہیں جانتے تھے بلکہ باعتبار طرز بیان سمجھتے تھے جب ہی تو اس سہولت کی وجہ بتلانے میں حکایات سابقہ کہتے تھے ہاں سرسید نے جس آیت سورۃ قصص کا ذکر کیا ہے اور دلیل بیان کی ہے کہ مثل سے مراد ہادی ہے۔ ان کی نسبت حیرت افزاء ہے۔ سید صاحب نے (حسب دستور قدیم) یہ تو خیال نہ فرمایا کہ دعوٰی کیا ہے اور دلیل کیا۔ دعوٰے مثلیت کا اور دلیل افضل کی اور وہ بھی من عند اللّٰہ۔ سید صاحب ! دعوٰے تو آپ کا یہ ہے کہ آیات تحدی میں جو معارضہ چاہا گیا وہ ہدایت میں ہے جس کی دلیل آپ نے یہ بیان کی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر قرآن اور تورات دونوں سے منہ پھیر کر (اے کفار مکہ) اپنے آپ ہی کو ہدایت پر جانتے ہو۔ اور ان دونوں کی تعلیم توحید کو غلط جانتے ہو اور ان کو بناوٹی کتابیں سمجھتے ہو اور خود دین الٰہی کے تابع کہلاتے ہو تو ان دونوں سے بڑھ کر کوئی ہادی کتاب اللہ کی طرف سے آئی ہوئی لاکر دکھائو۔ اگر وہ واقع میں اللہ کی طرف سے ہوئی تو میں اسی کے پیچھے ہو لوں گا۔ اس مضمون کو آیت تحدی سے کوئی علاقہ نہیں۔ یہ تو کفار کو صرف اس بات پر الزام دیا جاتا ہے کہ باوجود یکہ تمہارے پاس کوئی سمادی کتاب بھی نہیں۔ پھر بھی اس قدر مخالفت پر جمے ہوئے ہو کہ پناہ اللہ جیسا کہ کوئی بڑا واقف اسرار الٰہی اپنی کہتا ہوا دوسرے کی نہیں سنتا۔ پس اگر تم بھی دین سے ایسے ہی واقف اور آگاہ ہو تو اس کتاب الٰہی کو جس کے ذریعہ سے تمہیں ایسی آگاہی ہوئی ہے لا کر دکھائو۔ معلوم ہوجائے گا کہ حق بجانب کس کے ہے۔ اس مضمون کو کئی آیات میں بیان کیا ہے۔ سورۃ قلم میں فرمایا اَمْ لَکُمْ کِتَابٌ فِیْہِ تَدْرُسُوْنَ اِنَّ لَکُمْ فِْیِہ لَمَا تَخَیَّرُوْنَ سَلْھُمْ اَیُّھُمْ بِذٰلِکَ زَعِیْمٌ پس اس آیت کو جس میں اَھْدی کتاب اور وہ بھی من عند اللّٰہ کی طلب ہے ان آیات کی تفسیر بنانا جن میں مثل کا معارضہ ہو۔ صریح غلط فہمی اور تفسیر الکلام بمَا لا یرضیٰ بہ قائلہ نہیں تو کیا ہے۔ بھلا اگر یہ آیت ان آیات کی تفسیر ہوتی تو اس میں من عند اللّٰہ کا
ؔ اگر ہم چاہیں تو اس جیسا کلام ہم بھی کہہ لیں یہ تو پہلے لوگوں کی صرف حکایتیں ہیں۔
! ہم نے یہ (توحید) پہلی قوموں میں نہیں سنی یہ تو بالکل نہیں ہے۔ لفظ کیوں ہوتا؟ حالانکہ ان آیات تحدی میں کفار کی بنائی ہوئی کتاب کا مطالبہ ہے اور اس آیت میں (جو بقول آپ کے ان کی تفسیر ہے) اللہ کی طرف سے آئی ہوئی کتاب کا تقاضا نہیں۔ تفاوت راہ از کجا ست تا بکجا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آپ نے ترجمہ میں من عند اللّٰہ کو (جس کے معنے اللہ کے پاس سے ہیں) اڑا دیا۔ کیونکہ آپ کے دعویٰ کو مضر تھا۔ حضرت ! قرآن کریم کا کوئی لفظ مضر نہیں۔ بلکہ شِفَآئٌ لِّمَا فِی الصُّدُوْرِ ہے۔ یہ تو انسان کی اپنی ہی غلط فہمی ہے۔ پس اصل مطلب ان آیات کا وہی ہے جو ہم نے بد لائل بینہ ثابت کیا ہے کہ قرآن کی مثل سے مراد فصاحت بلاغت اور طرز بیان میں مثل ہے کہ مقدمات یقینیہ سے نتیجہ نکالنا اور ایسے طرز پر نتیجہ نکالنا کہ ہر مرتبہ کا آدمی اس سے مستفیض ہو۔ ذرہ سورۃ قیامت ہی پر غور کیجئے اَیَحْسَبُ الْاِنْسَانُ اَنْ یُّتْرَکَ سُدًی دعویٰ ہے اَلَمْ یَکُ نُطْنَۃً مِّنْ مَّنِیٍّ یُمْنَی ثُمَّ کَانَ عَلَقَۃً فَخَلَقَ فَسَوّٰی فَجَعَلَ مِنْہُ الزَّوْجَیْنِ الذَّکَرَ وَاَلْاُنْثٰی دلیل بیان فرما کر نتیجہ پر اطلاع دیتے ہیں اَلَیْسَ ذٰلِکَ بِقَادِرٍ عَلٰٓی اَنْ یُّحْیِیَ الْمَوْتٰی اس دلیل پر جس مرتبہ کا آدمی غور کرتا ہے اپنی طبیعت کے موافق نتیجہ پیدا کرسکتا ہے۔
ایسا باریک مسئلہ انسانی پیدائش اور معاد کا جس میں بڑے بڑے حکماء حیران پریشان ہیں ایسے سہل اور نرم الفاظ میں بیان کردیا کہ جن سے بڑھ کر ممکن ہی نہیں۔ یہی قرآن کی اعلیٰ درجہ کی بلاغت ہے اور یہی اس کی فلاسفی۔ ہاں سرسید کا یہ کہنا کہ ” بہت سے ایسے کلام فصیح ہیں جن کی مثل بنایا نہیں گیا۔ مگر وہ من اللّٰہ نہیں ہوسکتے۔“ محض دعویٰ ہی دعویٰ اور مدعی سست گواہ چست والا معاملہ ہے۔ ورنہ کوئی کلام یا متکلم ایسا بتلا دیں؟ جس نے اہل زبان کے سامنے دعوٰے کیا ہو۔ نہ صرف دعویٰ بلکہ وَلَنْ تَفْعَلُوْا کے اعلان سے منکروں کی عاجزی کو دوبالا کردیا بجز اس ایک ذات ستودہ صفات آپ کے جدا مجد فداہ ابی و امی کے پس ہمارا ایمان ہے کہ قرآن مجید بے مثل بلیغ کلام ہے۔ اس جیسا نہ کسی نے کلام بنایا نہ کوئی بنا سکے گا۔
نظیر اس کی نہیں جمتی نظر میں غور کر دیکھا
بھلا کیونکہ نہ ہو یکتا کلام پاک رحماں ہے |
البقرة |
22 |
|
البقرة |
23 |
|
البقرة |
24 |
|
البقرة |
25 |
|
البقرة |
26 |
یہ نہ سمجھنا کہ ان کافروں سے اللہ کو خواہ مخواہ عناد ہے۔ بلکہ انہی کا قصور ہے کہ جب کبھی اللہ انکو شرک سے بچانے کے لئے کوئی بات بطور مثال کے کہتا ہے جیسے کہ ان مشرکوں کی مثال ہم نے ایک جگہ مکڑی سے دی ہے جو اپنا گھر بناکر اپنے زعم میں بڑا پنا ہگیر ہوجاتا ہے اور انکے معبودوں کی قدرت بتلائی ہے کہ اتنی بھی نہیں کہ سب کے سب مل کر ایک مکھی بھی بنا سکیں۔ ایسا ہی کہیں مچھر کی اور کہیں کسی کمزور جانور کی مثال دیتے ہیں تو یہ نادان بجائے ہدایت پانے کے الٹے ہم سے الجھتے ہیں کہ اللہ ان حقیر چیزوں کے نام ہی کیوں لیتا ہے؟ بھلا ان کے کہنے سے اللہ ہدایت کے لئے مثال بتانی بھی چھوڑ دیگا؟ ہرگز اللہ ہدائیت کے بتلانے سے نہیں روکتے۔ چھوٹی ہو یا بڑی مچھر کی ہو یا اس سے اوپر کی اس لیے کہ مثال تو صرف سامع کے سمجھانے کو ہوتی ہے اس میں کچھ متکلم کی شان کا لحاظ نہیں جو مثال مطلب بتانے میں مفید ثابت ہو وہی عمدہ ہے چاہے کیسی ہی حقیر اور چھوٹی چیز کی ہو۔ اسی بنا پر اللہ بھی سمجھانے کی غرض سے گاہے بگاہے کوئی مثال دیتا ہے پس جو لوگ مؤمن ہیں وہ تو جان جاتے ہیں کہ بے شک یہ مثال نہایت مناسب اور بالکل سچ ہے اور ان کے رب کی طرف سے بتلائی ہوئی ہے اور جو لوگ کافر ہیں بجائے ہدائیت حاصل کرنے کے الٹے یوں۔ کہنے لگتے ہیں کہ اللہ نے اس مثال بتلانے سے کیا چاہا جو مکھیوں اور مچھروں سے دیتا ہے ایسا عالیشان ہو کر ان خسیس اشیاء کا نام لیتا ہے آخر نتیجہ اس کا یہ ہوتا ہے کہ اس مثال کے ذریعہ اللہ بہتوں ان جیسوں کو ان کی بیجا نکتہ چینی کی وجہ سے گمراہ کردیتا ہے ان کو مطلقاً اس کا فائدہ سمجھ میں نہیں آتا اور بہت سے صاف باطن لوگوں کی راہ نمائی بھی کردیتا ہے نہ اس مثال کا قصور ہے نہ کسی اور کا بلکہ ان کی شامت اعمال سے ہے جب ہی تو سوائے ان فاسقوں بدکرداروں کے کسی دوسرے کو گمراہ نہیں کرتا۔
(ان کے لئے باغ ہیں) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے جنت اور اس کی نعمتوں کا ذکر مجملاً بیان فرمایا ہے۔ قرآن کریم میں بہت سی جگہ جنت دوزخ کا مذکور ہے جو بالکل کھلے کھلے لفظوں میں بیان ہوا ہے سب کی سب آیتیں اس پر متفق ہیں کہ قیامت کے روز انسان کو بشرط ایمان جنت یا دوسرے لفظوں میں باغ اور نعمتیں ملیں گی اور یہی مذہب تمام اہل اسلام کا ہے کسی معتبر فرقہ نے اس سے انکار نہیں کیا۔ صحابہ کرام سے لے کر آج تک سب کا اتفاق پایا جاتا ہے اور قرآن کریم میں اس مضمون کی آیتیں اس قدر ہیں کہ بجائے خود جو ایک دفتر ہے مگر افسوس سرسدر احمد خاں مرحوم نے حسب دستور اس میں بھی مسلمانوں کا خلاف کیا ان کا خیال ہے کہ جنت میں ایسی نعمتوں کا ہونا صرف وہمی اور کوڑ مغز ملائوں اور شہوت پرست زاہدوں کے خیالی پلاؤ ہیں وہاں اس قسم کی کوئی بات نہیں۔ بلکہ ایک روحانی لذت ہے جس کو کوئی نہیں سمجھتا۔ چنانچہ اپنی تفسیر جلد اوّل کے صفحہ ٣٨ پر لکھتے ہیں :۔
” یہ سمجھنا کہ جنت مثل ایک باغ کے پیدا ہوئی ہے اس میں سنگ مرمر کے اور موتی کے جڑاؤ محل ہیں باغ ہیں شاداب اور سرسبز درخت ہیں دودھ و شراب کی نہریں بہہ رہی ہیں۔ ہر قسم کا میوہ کھانے کو موجود ہے ساقی و ساقنیں نہایت خوبصورت چاندی کے کنگن پہنے ہوئے جو ہمارے ہاں کی گھوسنیں پہنتی ہیں شراب پلا رہی ہیں ایک جنتی ایک حور کے گلے میں ہاتھ ڈالے پڑا ہے۔ ایک نے ران پر سر دھرا ہے ایک چھاتی سے لپٹا رہا ہے۔ ایک نے لب جاں بخش کا دبایں ریش (فش) بوسہ لیا ہے کوئی کسی کو نے میں کچھ کر رہا ہے۔ کوئی کسی کونے میں کچھ۔ بیہودہ ہے جس پر تعجب ہوتا ہے کہ اگر بہشت یہی ہے تو بے مبالغہ ہمارے خرابات اس سے ہزار درجہ بہتر ہیں“ (حوالہ مذکور)
یہ ہیںؔ سید صاحب کے الفاظ شریفہ جن پر آپ کو اور آپ کے دل داروں کو بڑا فخر ہے کہ ہم محقق ہیں حالانکہ تحقیق اس کا نام نہیں کہ مخالفوں کے اعتراضوں سے دب کر اپنے مذہب کے مسلمات ہی سے انکار کیا جاوے جیسے کہ ایک بزدل کے مکان میں چور آگھسے اس بیچارے سے اتنا تو نہ ہوسکا کہ ان کا مقا بلہ کر کے اپنا مال بچائے مجبوراً اپنی ہمت کے موافق یہی مناسب جانا کہ گھر کا سارا اسباب چھوڑ کر بالکل علیحدہ ہوجائے تاکہ اس بلا سے نجات ہو۔ یہی حال سرسید کا ہے کہ مخالف ملحدوں کے اعتراض تو اٹھا نہ سکے ان کا تدارک یہی مناسب سمجھا کہ اپنے مسلمات ہی میں تصرف کیا جاوے۔ قرآن کریم تو بقول آپ کے جدا ١ ؎ مجد کے ساکت ہے جس طرف پھیریں اسے انکار نہیں۔ اسی قول پر آپ نے بنا کر کے جو چاہا کہہ دیا اور بعض سے منوا بھی لیا۔ مگر علماء کی تو یہ شان نہیں کہ ایسے مٹی کے کھلونوں سے کھیلتے پھریں۔ جب تک دلیل نہ دیکھیں آپ اپنے مذہب کی توضیح یا دلیل ان لفظوں میں فرماتے ہیں :۔
” جنت یا بہشت کی ماہیت جو اللہ تعالیٰ نے بتلائی ہے وہ تو یہ ہے کہ فَلَا تَعْلَمْ نَفْسٌ مَّآ اُخْفِیَ لَھُمْ مِّنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ جَزَآئً بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ یعنی کوئی نہیں جانتا کہ کیا ان کے لئے آنکھوں کی ٹھنڈک (راحت) چھپا رکھی ہے
اس کے بدلہ میں جو وہ کرتے تھے۔ پیغمبر (علیہ السلام) نے جو حقیقت بہشت بیان فرمائی جیسا کہ بخاری مسلم نے ابوہریرہ کی سند پر بیان کیا ہے وہ یہ ہے کہ قال اللّٰہ تعالیٰ اعددت لعبادی الصآلحین مالا عین رأت ولا اذن سمعت ولا خطر علٰے قلب بشر (صفحہ ٣٦)
سید صاحب ! فرمائیے تو مِنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ مَّآ اُخْفِیَ کا بیان ہے یا کچھ اور؟ بیشک یہی ہے پس آیت کا ترجمہ یہ ہوا کہ جو ان کے لئے آنکھوں کی ٹھنڈک چھپائی گئی ہے اس کو کوئی نہیں جانتا۔ جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ چھپی ہوئی چیز کوئی ایسی ہے جو دیکھنے سے راحت بخشتی ہوگی سو وہی ہے جس کو مفسرین نے اس آیت کی تفسیر میں دیدار رب العالمین بتلایا ہے۔ بلکہ اس آیت کی تفسیر خود دوسری آیت ہی کر رہی ہے۔ دیکھے تو کس وضاحت سے ارشاد ہے وُجُوْہٌ یَّوْمَئِۃٍ نَّاضِرَۃٌ اِلٰی رَبِّھَا نَاظِرَۃٗ۔ شکر ہے کہ اس آیت میں بھی علام الغیوب نے مِنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ کا لفظ جوڑا ہوا تھا جس سے اہل انصاف ہمارے بیان کی تصدیق بخوبی کرسکتے ہیں پس اب اس آیت کو جو رویت کے متعلق ہے ان آیتوں کی تفسیر یا توضیح بنانا جن میں ایسی نعماء جنت مذکور ہیں جو نہ صرف دیکھنے سے متعلق ہوں گی (بلکہ دیکھنے سے تو ھٰذا ! الَّذِیْ رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ کہیں گے جو ایک قسم کی ناخوشی کا مظہر ہے۔ ہاں کھانے پینے سے بیشک تعلق رکھتی ہوں گی اور ان کی نسبت کُلُوْا وَاشْرَبُوْا بِمَآ اَسْلَفْتُمْ فِی الْاَیَّامِ الْخَالِیَۃٍ وَفَاکِھَۃٍ مِّمَّا یَتَخَیَّرُوْنَ وَلَحْمِ طَیْرٍ مِّمَّا یَشْتَھُوْنَ وغیرہ ارشاد ہوتا ہے) غلط فہمی یا خلاف منشا متکلم کلام کی تفسیر نہیں تو کیا ہے؟ رہا سید صاحب نے جو حدیث نبوی سے استدلال پیش کیا ہے سو یہ اگر مطلب برآری اور الزام دہی کی غرض سے نہیں تو ہمیں حد سے زیادہ خوشی ہے کہ سید صاحب بھی حدیث نبوی کا نام لیں جس سے کو سوں دور بھاگا کرتے تھے۔ غالباً صفائی نیت سے بخاری مسلم یا مشکوٰۃ کی تلاش نہیں کی تھی جب ہی تو فہم مطالب میں غلطی کھائی۔ شکر ہے کہ اسی حدیث کے اخیر میں یہ بھی مرقوم ہے کہ اقرء وا ان شئتم فلا تعلم نفس ما اخفی لھم من قرۃ اعین
(مشکوٰۃ باب صفۃ الجنہ صفحہ ٤٨٧)
پس اس لفظ سے بھی معلوم ہوا کہ حدیث نبوی اس آیت کی تفسیر ہے جس کو ہم ثابت کر آئے ہیں کہ وہ ان اشیاء سے متعلق ہے جو مشاہدہ اور روئت سے راحت بخش ہوں گی جیسے دیدار رب العالمین جس کی احادیث نبویہ میں تصریح اور قرآن میں بھی اشارہ ہے۔ نہ ان اشیاء سے جو کھانے پینے سے لذت دیں گی جن کی بابت کلوا واشربوا ارشاد ہدایت بنیاد صادر ہوگا۔ پس اس سے بھی سید صاحب کا مدعا ہنوز و ربطن قائل ہے اسی مدعیٰ پر سرسید نے ایک اور روایت ترمذی سے نقل کی ہے۔ مگر چونکہ اس کی تلاش میں بھی اخلاص نیت نہ تھا۔ اس لئے اس کے معنے سمجھنے میں بھی غلطی سے محفوظ نہیں رہے۔ چنانچہ لکھتے ہیں :۔
” اس امر کے ثبوت کے لئے کہ بانی مذہب کا ان چیزوں کے بیان کرنے سے صرف اعلیٰ درجہ کی راحت کا بقدر فہم انسانی خیال پیدا کرنا مقصود تھا۔ نہ واقعی ان چیزوں کا دوزخ و بہشت میں موجود ہونا ایک حدیث کا ذکر کرنا مناسب سمجھتا ہوں۔ جو ترمذی نے بریدہ سے روایت کی ہے اس میں بیان ہے کہ ایک شخص نے آنحضرتﷺ سے پوچھا کہ بہشت میں گھوڑا بھی ہوگا آپ نے فرمایا کہ تو سرخ یاقوت کے گھوڑے پر سوار ہو کر جہاں چاہے گا اڑتا پھرے گا۔ پھر ایک شخص نے پوچھا کہ حضرت ! وہاں اونٹ بھی ہوگا؟ آپ نے فرمایا کہ وہاں جو کچھ چاہو گے سب کچھ ہوگا۔
کئی منہ اس روز اپنے پروردگار کی طرف دیکھتے ہوئے خوش خرم ہوں گے۔
پس اس جواب سے مقصود یہ نہیں ہے کہ درحقیقت بہشت میں گھوڑے اور اونٹ موجود ہوں گے بلکہ صرف ان لوگوں کے خیال میں اس اعلیٰ درجہ کی راحت کے خیال کا پیدا کرنا ہی جو ان کے اور ان کی عقل و فہم طبیعت کے موافق اعلیٰ درجہ کی ہوسکتی ہے “
تعجبؔ بلکہ تاسف ہے۔ سید صاحب ! اب سو فسطائیہ کا زمانہ نہیں جو ایک اور ایک دو سے بھی انکاری ہوں۔ بھلا کوئی اہل عقل کہہ سکتا ہے کہ اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے جو آپ نے ایجاد کیا؟ اچھا اگر یہی مضمون بتلانا ہوتا کہ واقعی جنت میں گھوڑے اور اونٹ بھی ہوں گے۔ تو کس طرح اور کن لفظوں میں بتلاتے کوئی عبارت ایسی آپ ہی تجویز کریں جس سے یہ مطلب صاف صاف بلا تاویل سمجھ میں آوے۔ پھر دیکھیں کہ تفسیر الکلام بمالا یرضیٰ بہ قائلہ کس پر صادق آتا ہے۔ سید صاحب کی اس امر میں کہاں تک شکایت کی جائے۔ ماشاء اللہ بےدلیل کہنے کے آپ ایسے خو گیر ہیں کہ یہ عادت طبیعت میں پختہ ہوگئی ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ دوسروں کو الزام لگانہ اور بدنام کرنے میں بڑے ہوشیار ہیں۔ کہیں ان کا نام کوڑ مغز ملا رکھا ہے۔ کہیں شہوت پرست کے لفظ سے عزت بخشتی ہیں کہیں یہودیوں اور عیسائیوں کے مقلد بتلاتے ہیں۔ سچ ہے اور بالکل سچ ہے ؎
بلا سے کوئی اور ان کی بدنما ہوجا
کسی طرح سے تو مٹ جائے دلولہ دل کا
سید صاحب ! بھلا آپ جو اتنے ہاتھ پائوں جنت کی تاویل کرنے میں مارتے ہیں۔ براہ مہربانی پہلے یہ تو بتلا دیں کہ ایسی جنت کا ہونا جسے اہل اسلام عموماً مانتے ہیں جس کا فوٹو یہ ہے کہ ایک باغ (بلا تشبیہ) مثل شالا مار باغ لاہور کے ہو جس میں ہر قسم کے میوجات ہوں۔ اس میں نیک صلحا لوگ رہیں اور ان کی عافیت کو وہاں پر عورتیں پاکیزہ (جن کی صفت میں قاصرات الطرف ہے) بھی ہوں کسی دلیل عقلی یا نقلی سے محال ہے؟ اگر محال ہے تو براہ نوازش اور کرم گستری بیان کردی ہوتی۔ اگر آج تک نہیں کی تو کر دیجئے۔ اجی حضرت ! جس اللہ نے یہ نعمتیں ہم کو دنیا میں بلا کسی نیک کام کے عنایت کی ہیں۔ وہ کسی نیک کام کے عوض آخرت میں جسے روز انصاف آپ بھی مانتے ہیں اور واقعی ہے بھی۔ نہیں دی سکتا؟ یا دنیا میں دینے سے اس پر کوئی اعتراض اور اس کی قد و سیت کے خلاف نہ ہوا۔ مگر آخرت میں یہی نعمتیں مرحمت فرمائے تو وہ ذات ستودہ صفات محل اعتراض ہو؟ دنیا میں تو تجرد بلائے عظیم معلوم ہو اور اگر تاہل ہو تو اللہ کا لاکھ لاکھ شکر کریں۔ مگر آخرت میں ان نعمتوں کا ملنا بجائے احسان کے اس منعم حقیقی کی ذات ستودہ صفات کی شان کے خلاف سمجھیں؟ واہ ہماری سمجھ ؎
گر ہمیں مکتب است وایں ملا
کار طفلاں تمام خواہد شد
اگر یہ ارشاد ہے کہ دلیل عقلی سے تو محال نہیں مگر چونکہ دلیل نقلی قرآنی سے اس کا ثبوت نہیں جیسا کہ آپ نے وجود ملائکہ کی نسبت عذر کیا ہے تو بسم اللہ لیجئے ایک نہیں بیسیوں‘ بیسیوں کیا سینکڑوں آیتیں اس مضمون کی چاہیں تو ہم سناتے ہیں سورۃ الرحمن ہی کی چند آیتیں سنئے وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ جَنَّتٰنِ الاٰیۃ سورۃ الواقعہ میں بھی مختصر سا جملہ اسی کے قریب قریب ہے اِنَّآ اَنْشَاْ نَاھُنَّ اِنْشَآئً الاٰیۃ فرمائے اس سے بھی کوئی صریح دلالت ہوگی۔ معلوم نہیں کہ باوجود اس قطعیت اور عدم مانع دلیل عقلی کے اس ایچ پیچ کرنے سے جو آپ کر رہے ہیں کیا فائدہ
ہٹ چھوڑئے اب برسر انصاف آئے
انکاری رہے گا مری جان کب تلک؟
اصل یہ ہے کہ سید صاحب چونکہ حشر اجساد کے قائل نہیں جیسے کہ اہل مکہ اس سے منکر تھے اور بار بار یہی مشکلات پیش کیا کرتے تھے۔ ئَ اِذَامِتْنَا وَکُنَّا تُرَابًاط ذٰلِکَ رَجْعٌ بَعْیِدٌ اسی لئے سید صاحب نعمائے جنت کے بھی منکر ہیں کہ روحانی زندگی سے روحانی نعمتیں مطابق ہوجائیں۔ پس ان آیتوں کی ذیل میں جن میں حشر اجساد کا ذکر آئے گا۔ ہم سید صاحب کی اس غلط بنا کی حقیقت کھولیں گے اور ثابت کریں گے کہ سرسید کی تاویل بناء فاسد علی الفاسد سے کم نہیں۔ انشاء اللہ تعالیٰ (منہ)
جب کئی مقامات پر اللہ تعالیٰ نے مشرکوں اور بت پرستوں کی تشبیہیں بغرض تفہیم بیان فرمائیں۔ کہیں مشرکوں کو مکڑی وغیرہ سے تشبیہ دی۔ کہیں معبودات باطلہ کی کمزوری بیان کرنے کو فرمایا کہ اگر مکھی بھی ان سے کوئی چیز چھین لے تو اس سے بھی وہ چیز واپس نہیں لے سکتے تو یہ مثالیں سن کر مخالفوں نے عناداً بطور طعن کے کہا کہ اللہ کو ایسی مثالوں سے کار مطلب؟ ان کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی ١٤ معالم |
البقرة |
27 |
جو اللہ کے عہد کو جو کبھی تکلیفوں اور تنگیوں کے وقت اللہ سے باندہا کرتے ہیں کہ اگر تو اس بلا سے ہم کو نجات بخشے گا تو ہم تیرے سب احکام مانیں گے مضبوط وعدہ کرنے کے بعد بھی توڑ ڈالتے ہیں پھر اسی کفر شرک اور دنیا سازی میں مبتلا ہوجاتے ہیں علاوہ اس کے ان میں ایک خرابی اور بڑی بھاری ہے کہ انسانی تعلق جس کے ملانے کا اللہ نے حکم دیا ہے اس کو توڑ ڈالتے ہیں اللہ نے تو حکم کیا کہ آپس میں رشتہ دار سلوک کیا کریں مگر یہ لوگ بجائے سلوک کے الٹا رشتہ داروں ہی سے عناد رکھتے ہیں اور باوجود اس کے ملک میں فساد مچاتے ہیں اگر کوئی مخلص عاقل بالغ باختیار خود مسلمان ہوتا ہے تو اس کو بلاوجہ تنگ کرتے ہیں حالانکہ اس تنگ کرنے کا ان کو کوئی حق حاصل نہیں جب ہی تو ان پر یہ فرد جرم ہے کہ یہی لوگ ٹوٹا پانے والے ہیں۔ کسی کا کچھ نہیں بگاڑتے اپنا ہی زیاں کرتے ہیں |
البقرة |
28 |
کوئی ان سے یہ پوچھے کہ بھلا تم اللہ کی توحید سے انکار کیسے کرتے ہو حالانکہ اس کی طرح طرح کی تم پر مہربانیاں ہیں تم اپنی اصل حالت کو نہیں دیکھتے کہ پہلے تو تم نطفہ کی صورت میں بے جان تھے۔ پھر اس نے تمہیں جان بخشی پھر بعد اس کے تم کو پرورش بھی کیا اور ایک مدت مقررہ تک زندہ رکھ کر پھر تم کو مار بھی دیتا ہے پھر مر کر بھی تم ایسے نہ ہوگے کہ اللہ سے کہیں غائب ہوجاؤ بلکہ بعد مرنے کے وہ تمھیں ایک روز زندہ کرے گا۔ بعد اس زندگی کے یہ نہ ہوگا کہ تم ایسے ہی مزے کرو۔ بلکہ تمہاری ساری لیاقت کھل جائے گی۔ اور اسی اظہار لیاقت کے لئے تم اس مالک الملک کی طرف پھیر جاؤ گے۔ |
البقرة |
29 |
یہ حقوق مالکیت کچھ ایسے نہیں کہ خواہ مخواہ جابرانہ تسلط ہو۔ بلکہ وہ ذات پاک وہی ہے جس نے تمھیں پیدا کیا اور دنیا کی سب چیزیں تمہارے لئے پیدا کیں۔ تاکہ تم ان سے منافع حاصل کرو ورنہ اللہ کو بھی کوئی چزم کام آتی ہے؟ چار پارے ہیں تمہارے لئے نباتات ہیں تو تمہارے لئے جمادات ہیں تو تمہاری خاطر۔ تمہاری خاطر زمین پیدا کی زمین میں ہر قسم کی قوتیں ودیعت کیں۔ پھر تمہاری ہی فائدہ کو آسمان کو قصد کیا تو حسب ضرورت اس نے ان کو سات عددبنا دیا کسی پر چاند کسی پر سورج کسی پر کوئی ستارہ کسی پر کوئی اس لئے کہ وہ ہر چیز کو جانتا ہے جو کچھ مناسب مقتضائے علم ہوتا ہے وہی کرتا ہے اس کے علم کامل کی شہادت علاوہ دلائل عقلیہ کے واقعات بھی بتلارہے ہیں۔ |
البقرة |
30 |
(30۔33) یاد تو کر جب اس مالک الملک تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین پر اپنا ایک نائب بنانے کو ہوں۔ جو سب دنیا کی آبادی پر حکمرانی کرے۔ اور تمام اشیاء اس کی تابعدار ہوں یعنی آدم اور اس کی اولاد۔ یہ معلوم کرکے کہ اس نائب حکومت میں ہر قسم کی خواہشات بھی ہونگی وہ بولے کہ اس کے اجزا عناصراربعہ تو آپس میں متضاد ہیں ایسی ترکیب کی شئے سے بے جاجوش اور خون خرابے کچھ بعید نہیں۔ کیا آپ ایسے شخص کو نائب حکومت بناتے ہیں جو اس زمین میں فساد کرے۔ اور خون بہائے۔ اگر خلیفہ ہی بنانا منظور ہو تو ہم خاکسار ان خدام قدیمی اس منصب کے لیے ہر طرح سے قابل ہیں۔ اس لیے کہ ہم تو علاوہ اخلاص قلبی کے تیری خوبیاں بیان کرتے رہتے ہیں اور تجھے پاکی سے یاد کرتے ہیں۔ علاوہ اس کمال عملی کے ہم میں کمال علمی بھی پایا جاتا ہے کہ ہم سب کچھ جانتے ہیں۔ چونکہ ان کا یہ ضمنی دعویٰ کہ ہر چیز کو جاتے ہیں بالکل غلط تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کو کئی طرح سے غلط کیا پہلے تو یہ کہا کہ یقینا میں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔ جس نیابت کے لئے انسان کو بنایا جاتا ہے اس نیابت کی اسی میں قابلتج ہے۔ دوم عملی طور سے اس کو غلط کیا کہ آدم کو بعد پیدائش سب چیزوں کے نام سکھائے پھر وہ فرشتوں کو دکھا کر۔ کہا کہ ان اشیاء کے نام مجھے بتاؤ۔ اگر تم اپنے دعوے ہمہ دانی میں سچے ہو۔ اس عملی مقابلہ سے عاجز آکر وہ بولے کہ بیشک ہمارا علم ناقص ہے توں سب نقصانوں سے پاک ہے ہمارا خیال ہمہ دانی غلط ہے بلکہ اصل یہ ہے کہ ہم کچھ بھی نہیں جانتے مگر اسی قدر جو تو نے ہم کو سکھایا ہے۔ بیشک ہمیں یقین ہے کہ تو ہی بڑے علم اور حکمت والا ہے جو کچھ تو کرتا ہے اس میں کمال درجہ کی حکمت ہوتی ہے اور اس حکمت کو بھی کما حقہ سوا تیرے کوئی نہیں جانتا۔ اس کے بعد ان کا بقیہ گمان دفع کرنے کو آدم سے کہا کہ اے آدم تو ان کو ان چیزوں کے نام بتلادے۔ پس جب حسب ارشاد اللہ اس (آدم علیہ السلام) نے ان کو ان چیزوں کے نام بتلائے اور فرشتوں نے سب ماجرا بچشم خود دیکھا اور جان لیا کہ ہمارا زعم کہ ہم سب کچھ جانتے ہیں غلط ہے تو اللہ نے تنبیہاً ان کو خطاب کرکے کہا۔ کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ میں آسمان و زمین کی سب چھپی ہوئی چیزیں جانتا ہوں۔ اور جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو اور چھپاتے ہو وہ بھی جانتا ہوں
سر سید کی چوتھی غلطی :
(فرشتوں سے کہا) یہ پہلا ہی موقع ہے کہ قرآن کریم میں فرشتوں کا صریح ذکر آیا ہے۔ چونکہ زمانہ حال کے محققوں نے اس مسئلہ میں بھی عجیب قسم کا اختلاف نہ صرف مسلمانوں سے بلکہ جملہ ادیاں (یہود و نصارٰی) سے بھی بلاوجہ پیدا کیا ہے اس لئے اس موقع پر ہم بھی اگر کسی قدر تفصیل سے لکھیں تو ہمارا حق ہے فرشتہ کا لفظ (جسے عربی میں ملک اور ملایکہ کہتے ہیں) اصلی تو انہیں معنے میں اطلاق ہوتا ہے جس کو عام مسلمان بلکہ یہود نصارٰی اور عرب کے مشرک سمجھا کرتے تھے کہ اللہ کی ایک مخلوق ہے جو گناہوں سے پاک اور اللہ کے حکم کی تابعدار۔ اس کی عبادت میں ہر وقت مشغول رہتے ہیں کسی کا زمین سے تعلق ہے۔ کسی کا آسمان سے۔ آسمان والے بحکم الٰہی زمین پر آجاتے ہیں اور زمین والے آسمان پر جاسکتے ہیں۔ ان کو اللہ نے ایسابنایا ہے کہ ہوا کی طرح مرئی اور مشاہد نہیں ہوتے ہاں جب چاہیں اپنی شکل یا کسی آدمی کی صورت میں دکھائی دے سکتے ہیں وہ انبیاء پر اللہ کا پیغام لاتے ہیں اگر کوئی قوم سرکشی کرے تو اس کی ہلاکت بھی بحکم الٰہی انہیں کے ہاتھوں سے ہوتی ہے۔ یہ خلاصہ ہے ان معنوں کا جن پر اہل ادیان ” فرشتہ“ بولتے ہیں مگر مشرکین عرب میں ایک بات زائد تھی کہ وہ ملائکہ کو بوجہ ان کے مستور ہونے کے اللہ کی بیٹیاں کہا کرتے تھے چنانچہ قرآن کریم نے ان کی مذمت کے موقع پر فرمایا وَجَعَلُوا الْمَلٰئِکَۃَ الَّذِیْنَ ھُمْ عِبَادْ الرَّحْمٰنِ اِنَاثًا اور اس قول شنیع کے رد کے لئے ارشاد فرمایا اَمْ خَلَقْنَا الْمَلٰٓئِکَۃَ اِنَاثًا وَّھُمْ شَاھِدُوْنَ یہود و نصاریٰ کی کتاب تورٰیت انجیل تو اس مضمون سے پر ہیں احادیث نبویہ میں تو اس کا ذکر تبصریح ہے کہ حضرت جبرئیل آنحضرتﷺ کے پاس دحیہ کلبی صحابی کی صورت میں آیا کرتے تھے۔ غرض ان معنے سے کسی مسلمان نہ کسی یہودی نہ عیسائی کو انکار ہے کہ فرشتے اللہ کی ایک مخلوق جدا گانہ ہیں۔ ہم انہیں نہیں دیکھ سکتے۔ مگر زمانہ حال کے محقق سرسید احمد خاں ان معنے کو تسلیم نہیں کرتے بلکہ اس سے سخت انکاری ہیں چنانچہ اپنی تفسیر کی جلد اوّل کے صفحہ ٤٩ پر رقمطراز ہیں :۔
” جن فرشتوں کا قرآن میں ذکر ہے ان کا کوئی اصلی وجود نہیں ہوسکتا بلکہ اللہ کے بے انتہا قدرتوں کے ظہور کو اور ان قویٰ کو جو اللہ نے اپنی تمام مخلوق میں مختلف قسم کی پیدا کی ہیں ملک یا ملائکہ کہا ہے جن میں سے ایک شیطان یا ابلیس بھی ہے “
تعجب ہے کہ سرسید اوروں پر تمسخر اور ہنسی تو آڑایا کرتے ہیں کہ ہمارے مفسرین کو بےدلیل کہنے کی عادت ہے۔ فلاں قوم امام رازی کا بےدلیل ہے فلاں توجیہ بیضاوی کی بے ثبوت مگر خود کہتے ہوئے یہ قاعدہ ہی بھول جائیں۔ کہ دعویٰ پر دلیل پیش کرنا بھی کوئی شئے ہوتا ہے۔ سید صاحب ! اس پر کیا دلیل ہے کہ ملائکہ سے مراد انسان کے قویٰ ہیں۔ حالانکہ انسان کے پیدا ہونے سے پہلے ہی فرشتوں کو اعلان کیا جاتا ہے کہ جب ہم آدم کو پیدا کریں گے تو تم نے اسے سجدہ کرنا۔ اس آدم سے مراد آپ نوع انسان ہی مراد لے لیں۔ اور اس قصہ کو ایک فطری تمثیل ہی کیوں نہ کہیں۔ بہر حال یہ تو آپ کو ماننا ہوگا کہ انسان سے فرشتوں کا (یا بقول آپ کی قویٰ کا) وجود پہلے تھا۔ تو پھر فرما دیں کہ کسی شئے کے عوارض کو (جو وجود میں بہرحال اس سے مؤخر ہوں) مقدم سمجھ کر ایک مضمون گانٹھنا فرضی نہیں تو کیا ہے؟ جسے آپ بھی صفحہ ٥٤ پر شاعرانہ جھوٹ فرما چکے ہیں۔ نیز کفار کا درخواست کرنا کہ اس رسول کی طرف کوئی فرشتہ کیوں نہیں اترتا جو اس کے ساتھ ساتھ ہو کر لوگوں کو ڈراوے بالکل بے معنے ہے اس لئے کہ قویٰ انسانیہ کا (جو بقول آپ کے ملائکہ ہیں) ظاہر ہو کر کسی کو ڈرانا کیا معنے؟ وہ تو ایسے مستور ہیں کہ ان کا بذات خود ظاہر اور مشاہد ہونا ہی مشکل بلکہ محال ہے۔ ہاں آپ کا ابوعبیدہ کے شعر ؎
لست لانسی واکن بملاک
تنزل فی جوّ السماء بصوب
سے استدلال کر کے اس امر کا ثبوت دینا کہ عرب قدیم اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ کے مشرک قویٰ پر ملَک کا لفظ بولا کرتے تھے بہت ہی تعجب انگیز ہے جناب من ! کیا یہ نہیں ہوسکتا کہ قائل کا مذہب بھی یہی ہو کہ مینہ برسانے پر فرشتے مقرر ہیں اور ممدوح کو ان فرشتوں سے تشبیہ دیتا ہو۔ جیسا کہ عرب کے شعرا کا عموماً دستور ہے چنانچہ ایک شاعر نے اپنی محبوب کو چاند سے تشبیہ دے کر کہا ہے
لاتعجبوا ! من بلاغالتہ
قد زراز رارہ علے القمر
اس قسم کی تشبیہیں تو کوئی عرب ہی کا خاصہ نہیں۔ آپ نے اردو کا شعر بھی سنا ہوگا ؎
وہ نہ آئیں شب وعدہ تو تعجب کیا ہے
رات کو کس نے ہے خورشید درخشاں دیکھا؟
(اے ممدوح) تو آدمی نہیں بلکہ فرشتہ ہے جو آسمان سے بارش اتارتا ہے۔
! میرے محبوب کے دامن کہنہ ہونے سے تعجب نہ کر کیونکہ وہ ہے اس کا لباس کتان ہے جو قمر کو پہنایا گیا ہے۔
دیکھیں یہاں پر شاعر نے ایسا مبالغہ کیا ہے کہ محبوب کو ہو بہو سورج ہی بنا دیا۔ پھر آپ کا اس آیت قرآنی قالُوْا لَوْلَآ اُنْزِلَ عَلَیْہِ مَلَکٌ وَّلَوْ اَنْزَلْنَا مَلَکًا لَّقُضِیَ الْاَمْرُ ثُمَّ لَایُنْظَرُوْنَ۔ وَلَوْ جَعَلْنَاہُ مَلَکًا لَّجَعَلْنَاہُ رَجُلًا وَّلَلَبَسْنَا عَلَیْہِمْ مَایَلْبِسُوْنَ کو نفی وجود ملائکہ بالمعنے المتعارف میں پیش کرنا پہلے سے بھی زیادہ تعجب انگزل ہے۔ خوش قسمتی سے جو دلیل آپ کے مخالف کی ہوتی ہے اسے شاید یاد بھی نہ ہو۔ آپ اسے اپنی سمجھ کر پیش کردیتے ہیں۔ بھلا اگر ملک کا اطلاق قویٰ ملکوتیہ پر ہے تو آیت کے کیا معنے ہوں گے یہ کہ اس رسول پر قویٰ کیوں نہیں اتاری گئیں۔ جس کا جواب ملتا ہے کہ اگر ہم قویٰ ملکوتیہ اس رسول کو بناتے تو ضرور اس رسول کو (یا ان قویٰ کو) بشر بناتے۔ پھر بھی تم کو وہی شبہ ہوتا جو ہو رہا ہے۔ سبحان اللہ ! اس قرآن دانی اور فہم معانی کے کیا کہنے۔ حضرت ! اوّل تو کفار کو کیسے خبر تھی کہ اس رسول کے قویٰ نہیں جن کے نزول کی انہوں نے درخواست کی۔ درخواست سے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ کسی شئے مرئی اور مشاہدہ کی تھی جو بالکل دیکھنے سے تعلق رکھتی ہو۔ قویٰ کا مرئی ہونا کیا معنے؟ پھر جناب باری کی طرف سے یہ جواب ملنا کہ اگر ہم قویٰ ملکوتیہ اس رسول کو بناتے تو ضرور بشر ہی بناتے۔ کیسا منطبق ہوگا۔ سید صاحب ! آپ بھولے کیوں پھرتے ہیں۔ اس آیت کی تفسیر تو دوسری آیت سورۃ فرقان کی کر رہی ہے۔ لَوْلَآ اُنْزِلَ عَلَیْہِ مَلَکٌ فَیَکُوْنَ مَعَہٗ نَذِیْرًا دیکھئے تو اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ کفار کو کسی شئے مرئی کی خواہش تھی چنانچہ اسی سورۃ کی دوسری آیت میں اس سے بھی واضح بیان ہے۔ قَالَ الَّذِیْنَ لَا یَرْجُوْنَ لِقَآَئَ نَا لَوْلَآ اُنْزِلَ عَلَیْنَا الْمَلٰٓئِکَۃُ اَوْ نَریٰ رَبَّنَا۔ اس سے تو صاف روز روشن کی طرح معلوم ہوتا ہے کہ واقعی کفار کو کسی چیز قابل دید کی درخواست تھی جب ہی تو جناب باری تعالیٰ نے ان کے جواب میں یْوَم یَرَوْنَ الْمَلٰٓئِکَۃَ لَابُشْرٰی یَوْمَئِذٍ لِّلْمُجْرِمِیْنَ فرمایا۔ اگر شئے مرئی کی درخواست نہ ہوتی تو جواب میں رویت کا ذکر کیا معنے رکھتا ہے پس ثابت ہوا کہ کفار عرب ملک کے لفظ کو کسی شئے مرئی پر بولتے تھے۔ جو قوٰے ملکوتیہ کی طرح نہیں ہوسکتیں۔ کیونکہ وہ مرئی اور مشاہد نہیں ہیں۔ پھر سرسید کا کہنا کہ ” جہاں تک ہم نے تفتیش کی ہے قدیم عربوں کے لفظ ملک یا ملائکہ کی نسبت ایسا خیال جیسا کہ یہودیوں کا ہے ثابت نہیں ہوا۔“ بالکل بے معنی ہے اس لئے کہ اوّل تو عدم علم سے عدم شئے کا لازم نہیں آتا۔ ممکن ہے کہ ہو اور ان کو نہ ملا ہو۔ اور اگر واقع میں قدیم عرب نے ملک کا لفظ ان معنے مشہور میں استعمال نہ کیا ہو تو کیا حرج ہے جب کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں یہ ثابت ہوتا ہے کہ عرب کے مشرک ملک کے یہی معنے سمجھتے تھے اور اسی کے موافق ان کی درخواست بھی تھی جس کا جواب بھی یہی جتلا رہا ہے کہ جناب باری تعالیٰ کو بھی ان معنے سے انکار نہیں تو پھر یہ عذر تار عنکبوت سے کچھ زائد قوت بھی رکھتا ہے؟ اس کی مثال شرع میں صلوٰۃ زکوٰۃ ہے ان لفظوں کو قدیم عرب سے آپ ثابت کرسکتے ہیں کہ انہیں معنے میں اطلاق کرتے تھے۔ جن میں کہ اب ہو رہے ہیں۔ دوسری مثال اس کی ہمارے زمانہ میں پریس لمپ وغیرہ ہیں کسی تحریر میں اگر پریس اور لمپ کا ذکر ہو تو کوئی شخص اس عذر سے اس کے معنے بدلنے چاہے کہ قدیم ہند میں ان لفظوں کو ان معنے میں نہیں بولتے تھے جن میں انگریزی رواج کے بولے جاتے ہیں۔ تو کیا اس کی یہ وجہ قابل شنوائی اہل دانش ہوگی؟ ہرگز نہیں۔ پھر بھلا اگر قدیم عرب ملک کو معنے متعارف پر نہ بولتے ہوں اور آنحضرت (علیہ السلام) کے عہد رشد مہد میں اس کا رواج ان معنے میں ہوا ہو۔ جس کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بلکہ خود اللہ نے مسلم رکھا۔ تو معتبر نہ ہوگا۔ فتفکر۔ باقی رہا آپ کا کلام مقصود اور غیر مقصود میں فرق کرنا سو یہ بھی قطع نظر فی الجملہ غلطی کے اس جگہ نہیں چل سکتا۔ اس لئے کہ یہاں پر ملائکہ کا ذکر (حسب تقریر آپ کے) غیر مقصود نہیں بلکہ عین مقصود ہے کیونکہ وجود ملائکہ پر کسی امر کی تعلیق نہیں جو اس کو غیر مقصود کیا جائے بلکہ ایسے امر کی خبر ہے جو قرآن کریم کا مطلب اصلی ہے یعنی ثبوت قیامت اگر فرما دیں کہ قرآن کریم میں بہت سی جگہ کفار کے خیالات مان کر بھی ان کو توحید سکھائی گئی ہے تو گذارش ہے کہ یہ تو مشرکین عرب کا بھی عندیہ نہیں تھا کہ ایک دن ایسا ہوگا کہ اس میں ہم ملائکہ کو دیکھیں گے اور وہ روز جزا بھی ہے بلکہ وہ تو اسی وجہ سے قرآن پر خفا تھے کہ یہ قیامت کیوں بتلاتا ہے
ئَ اِذَا مِتْنَاوَکُنَّا تُرَابًاط ذٰلِکَ رَجْعٌ بَعْیِدٌ اس کا شاہد عدل ہے۔ ہمیں تعجب ہے کہ سید صاحب یہ مانتے ہیں کہ ” ہمارے پاس کسی ایسی مخلوق کے ہونے سے جو کسی قسم کا جسم و صورت بھی نہ رکھتی جو ہم کو نہ دکھائی دیتی ہو انکار کرنے کی کوئی وجہ نہیں۔“ ص ٤٢ پھر فرشتوں کے ایسا ہونے سے کیوں انکاری ہیں نہ صرف انکاری۔ بلکہ ان کو نفی پر بزعم والا دلائل بیان کرتے ہیں۔ گو ان دلائل کا حاصل یہی ہوتا ہے۔
دوست ہی دشمن جاں ہوگیا اپنا حافظ !
نوش دارو نے کیا اثر سم پیدا
اگر یوں فرما دیں کہ میرا انکار تو جب ہی تک ہے کہ قرآن سے فرشتوں کا ثبوت بمعنی متعارف ہو۔ اگر قرآن کی کسی آیت سے ان کا وجود مستقل ثابت ہوجائے گا تو مجھے بھی تسلیم سے انکار نہیں جیسا کہ صفحہ ١٤٢ سے مفہوم ہوتا ہے اور یہی تقاضا ایمانی ہے۔ تو گذارش ہے کہ آپ اگر انصاف سے غور کریں اور قرآن کو اس طور سے پڑھیں جس طور سے عرب کے رہنے والے سیدھے سادے جن کی زبان میں قرآن نازل ہوا تھا پڑھتے اور سمجھتے تھے۔ انہیں کے لغت پر بھروسہ کریں تو مطلب بالکل صاف ہے اور اگر اٰمَنْتُ باللّٰہِ کو بی بی آمنت کا بلا بتلا دیں تو خیر۔ دیکھو تو کیسے صریح لفظوں میں فرشتوں کا ثبوت ملتا ہے قال عز من قائل جَاعِلِ الْمَلٰئِکَۃِ رُسُلًا اُولِیْٓ اَجْنِحْۃٍ مَثْنٰی وَثُلٰثَ وَرُبَاعَ یَزِیْدُ فِی الْخَلْقِ مَا یَشَآئُ۔ سرسید اور ان کے اتباع بتلا دیں اور ہماری معروضہ بالا گذارش کو زیر نظر رکھیں کہ ملائکہ کا رسول ہونا بلکہ پروار ہونا بھی ثابت ہے یا نہیں؟ اس پر بھی آپ بے پر کی اڑائیں تو اختیار۔ (منہ)
١ ؎ آریہ قوم کی غلطی :
(اور آدم کو سب نام سکھائے) اس آیت کے متعلق بھی نافہموں نے بہت ہی ہاتھ پائوں مارے ہیں مگر بعد غور ثابت ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ ان کی نافہمی اور تعصب کے نتائج ہیں۔ قرآن کریم اپنے معانی بتلانے میں بالکل صاف ہے اور بفضلہ تعالیٰ اس کے سمجھنے اور سمجھانے والے ہر زمانہ میں موجود رہے اور ہیں اور ہوں گے۔ ہماری ہمسایہ قوم آریہ نے اس کے متعلق بہت سے ورق سیاہ کئے ہیں جن کے دیکھنے سے اس قوم کی شوخی اور نئے جوش کا اندازہ ہوتا ہے۔ افسوس کہ اس قوم نے باوجود دعوٰی توحید کے جس کی وجہ سے یہ لوگ اسلام سے بہت ہی قریب ہوگئے تھے۔ بجائے فہم و فراست کے تعصب اور ضد سے کام لیا۔ اس آیت کے متعلق ان کے اعتراضات حسب تفصیل ذیل ہیں۔ (١) اللہ نے فرشتوں سے مشورہ کیا جس سے اس کی بے علمی ثابت ہوتی ہے (٢) باوجویکہ فرشتوں نے جواب معقول دیا مگر اللہ نے (معاذ اللہ) اپنی ہی بات پر ہٹ کی جس کا نتیجہ آخر وہی ہوا جو فرشتوں نے کہا (٣) اللہ نے فرشتوں سے (معاذ اللہ) دھوکا کیا۔ کہ ان کے مقابل آدم کو سب نام بتلا دئے اور مقابلہ کرایا۔ اگر یہی نام فرشتوں کو بتلا دیتا تو وہ بھی بتلا سکتے تھے آدم کی اس میں کون سی بزرگی ہے؟ جواب۔ میں کہتا ہوں سب آفتوں کی جڑ یہی ہے کہ متکلم سے اس کے کلام کے معنے دریافت کرنے سے پہلے ہی اس پر رائے زنی کی جائے اور آپ ہی آپ اس کی شرح کر کے حاشیہ چڑھایا جاوے۔
اس آیت کے معنی جن کی طرف ہم نے تفسیر میں اشارہ کیا ہے سمجھنے ہی سے سب اعتراضات اٹھ جاتے ہیں جو دراصل اپنے ہی دل کے غبارات ہیں۔ پہلے یہی غلط کہ اللہ نے مشورہ کیا۔ مشورہ نہیں کیا تھا۔ بلکہ اس امر کے متعلق ان فرشتوں کو ایک حکم سنانا تھا اس کے اعلان کرنے کو یہ اظہار کیا۔ چنانچہ اسی قصہ کو دوسرے مقام پر یوں بیان کیا ہے :۔ اِنِّیْ خَالِقٌ بَشَرًا مِّنْ طِیْنٍ فَاِذَا سَوَّیْتُہٗ وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُوْحِیْ فَقَعُوْا لَہٗ سٰجِدِیْنَ یہ مشہور ہے کہ ” تصنیف را مصنف نیکو کند بیاں“ پس اس قاعدہ کلیہ سے اس آیت نے اس کی پوری تفسیر کردی ہے کہ فرشتوں پر اس امر کا ظاہر کرنا اس غرض سے تھا کہ ایک حکم کی ان کو اطلاع دی جائے یہی وجہ ہے کہ اس آیت میں اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَہً کہہ کر ماتقولون فی ھٰذا الامر نہیں کہا جو مشورہ کا دستور ہے جیسا کہ بلقیس بیگم نے جس کا ذکر قرآن کریم میں ہے اپنا خیال ظاہر کر کے ماذَا تَاْمُرُوْنَ کہا تھا۔
دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ ؎
رموز مملکت خویش خسرواں دانند
گدائے گوشہ نشینی تو حافظا مخروش
یہی وجہ ہے کہ فرشتوں نے بھی اس امر کو تسلیم کیا۔ اور اِنَّکَ اَنْتَ الْعَلِیْمُ الْحَکِیْمُ کہہ کر قصور مہم کا اعتراف کیا۔ تیسرے سوال کا جواب بھی میں نے تفسیر میں ادا کردیا ہے یعنی یہ کہ فرشتوں نے علاوہ اپنی پاکی اور بزرگی جتلانے کے دعوٰے ہمہ دانی بھی کا تھا یعنی نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ وَ نُقَدِّسُ لَکَ کے علاوہ ونعلم الاشیاء کلھاّ بھی کہا تھا اس لئے کہ صرف بزرگی اور زہد تو خلاف کو مستلزم نہیں جب تک کہ ثبوت علمی نہ ہو۔ قرینہ اس حذف کا یہ ہے کہ فرشتوں کے دعوٰے تقدیس اور زہد پر جناب باری تعالیٰ کی طرف سے اَنْبِئُوْنِیْ بِاَسْمَآئِ ھٰؤٓلَآئِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ ارشاد ہے اگر فرشتوں کی طرف سے دعوٰے علم نہ ہوتا تو یہ بالکل اس کے مشابہ ہوتا ہے جو کسی مولوی صاحب نے کسی دہقانی کو سمجھایا کہ تہبند ٹخنوں سے اونچا رکھ وہ بولا کہ تیرے باپ نے دعوت کی تھی تو نمک زائد نہیں ڈال دیا تھا؟ مولوی صاحب نے پوچھا اس قصہ کو میرے وعظ سے کیا تعلق۔ دہقانی بولا۔ تعلق ہو یا نہ ہو۔ بات سے بات نکل آتی ہے۔ سو اگر فرشتوں نے دعوٰے علم نہ کیا ہوتا تو بجائے لَاعِلْمَ لَنَا کہنے کے یہ کہتے کہ صاحب ! اس سوال کو یہاں کہ علاقہ؟ ہمارا دعویٰ زہد ہے اور سوال ہم سے علم کا۔ چہ خوش : ع بہ ببین تفاوت راہ از کجاست تابکجا۔ پس یہ ارشاد اَنْبِئُوْنِیْ اور اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ جب ہی درست اور مناسب ہوسکتا ہے کہ فرشتوں نے کوئی دعویٰ علمیت بھی کیا ہو۔ جس کے جواب میں ان کی غلط فہمی رفع کرنے کو یہ ضروری ہوا کہ حضرت آدم ( علیہ السلام) کو سب نام سکھائے جائیں تاکہ انہیں معلوم ہو کہ بہت سے امور ایسے بھی ہیں جنیں ہم نہیں جانتے جب بھی تو اس الزام کے بعد سُبْحٰنَکَ لَاعِلْمَ لَنَآ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَآ پکار اٹھے اور اپنے نقصان علم کے مقر ہوئے۔ اب بتلا دیں مدعی سست گواہ چست کا سا معاملہ ہے یا نہیں؟ اور فہم قرآن سے بے نصیبی کے آثار ہیں یا کچھ اور؟ رہا شیطانی جھگڑا سو اس کا جواب ختم اللّٰہ کے حاشیہ میں دے آئے ہیں فتذکر (منہ) |
البقرة |
31 |
|
البقرة |
32 |
|
البقرة |
33 |
|
البقرة |
34 |
اور ایک واقعہ بھی اسی کے متعلق قابل شنید ہے جو گویا اس بیان کا تتمہ ہے سنو ! جس سے ہمارا کمال علمی ظاہر ہوجائے گا۔ سوچو توسہی کہ جب ہم نے تمام فرشتوں اور ان کے اتباع کو معہ ان کے حکم دیا تھا کہ آدم کی بزرگانہ تعظیم و پس سب نے تعظیم کی۔ مگر شیطان اس سے اترایا اور اپنے جی میں بڑا بن بیٹھا اور اپنے غرور میں اس حکم کے منکروں سے ہوگیا۔ جب ہی تو اپنے کئے کی پاداش کو پہنچا کہ بوجہ حسد بیجا کے ہمیشہ کے لئے ذلیل ہوا اس کے بعد بجائے اس کے کہ اس کے حسد سے آدم کا کچھ بگڑتا اسی کی عزت افزائی ہوئی گیا وہ ہمارا مہان ہوا
(تعظیم کرو) اس آیت کے متعلق بھی ہمارے نامہربان پڑوسی آریہ وغیرہ نے دانت پیسے ہیں اور طرح طرح سے بے سمجھی کے سوالات کئے ہیں اور نئی توحید کے نشہ میں معلم التوحید قرآن شریف پر اعتراض کئے ہیں کہ وہ بت پرستی اور شرک سکھاتا ہے چنانچہ فرشتوں سے آدم ( علیہ السلام) کو سجدہ کروایا۔ کعبہ کو پجوایا۔ موسیٰ ( علیہ السلام) نے آگ کو پوجا۔ طرفہ یہ کہ شیطان نے بوجہ توحید کے جو اس کے پہلے سے تعلیم ہوئی تھی سجدہ نہیں کیا۔ تو اس کو لعنتی گردانا وغیرہ وغیرہ۔“ باقی آیات کا جواب تو اپنے موقعہ پر آئے گا۔ بالفعل ہم اس آیت کے متلعق ان کی سمجھ کا پھیر بتلاتے ہیں۔ بھلا آدم ( علیہ السلام) کو سجدہ عبودیت کا تھا یا کچھ اور۔ اگر عبودیت کا تھا تو بے شک قرآن شرک کی تعلیم دیتا ہے اور اوّل درجہ کا مشرک ہے لیکن ایسا نہیں۔ بلکہ ایک تعظیمی سجدہ تھا جس کو دوسرے لفظوں میں سلام تعظیم کہتے ہیں۔ اس لئے کہ اگر یہ عبادت ہوتا تو شیطان اپنی معذوری اور جواب دہی میں اَنَا خَیْرٌ مِّنْہُ خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّاٍر وَّخَلَقْتَہٗ مِنْ طِیْنٍ نہ کہتا بلکہ صاف کہتا کہ جناب والا یہ کیا انصاف ہے۔ کہ ہمیں ایک طرف تو شرک سے روکا جاتا ہے اور دوسری طرف اسی شرک کی تعلیم ہوتی ہے کیونکہ وہ تو بڑا ہی شیطان ہے اسے تو یہ عذر ضرور ہی سوجھنا چاہیے تھا۔ جب کہ اس کے شاگردوں کو ایسی سوجھتی ہے کہ پناہ بخدا۔ تو پھر استاد کو ایسی کیوں نہ سوجھی۔ بلکہ اس نے تو ایک معنی سے یہ سجدہ خود ہی جائز سمجھا۔ کیونکہ وہ اپنے رکنے کی وجہ یہ بتلا رہا ہے کہ میں اس سے اچھا ہوں اس لئے اسے سجدہ نہ کروں گا۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر آدم کو جو اس کے خیال میں اس سے ادنیٰ تھا۔ اس کو سجدہ کرنے کا حکم ہوتا تو شیطان کو اپنے لئے سجدہ کروانے میں کسی طرح کا تامل نہ ہوتا اور نہ تعلیم توحید اس سے مانع ہوتی۔ پس ان دونوں آیتوں کے ملانے سے معلوم ہوا کہ یہ سجدہ سجدہ عبادت نہ تھا۔ بلکہ محض ان معنے میں تھا جیسے کسی سردار یا نواب کا ماتحت ایک خاص وقت میں حاضر ہو کر اسلام کیا کرے۔ جس سے اس سردار کی رفعت اور ماتحتوں کی وفا داری کا ثبوت ہوتا ہے جو شیطان کو پسند نہ آیا (منہ) |
البقرة |
35 |
اور ہم نے کہا کہ اے آدم ! تو اور تیری بیوی حوّاء اس باغ جنت میں رہو۔ اور اس میں سے جہاں چاہو کھلا کھاتے پھرو مگر اس انجیر کے درخت سے ایسا پرہیز کرنا کہ اس کے قریب بھی نا جائیو۔ نہیں تو ظالم ٹھہرو گے۔ |
البقرة |
36 |
(36۔39) پس آخر کار شیطان نے ان کو اس جنت سے لغزش دی اور غلطی کراکر ان نعمتوں سے جن میں وہ دونوں بیوی خاوند رہتے تھے نکلوادیا۔ جب ان سے غلطی ہوئی تو ہم نے بھی کہا۔ تم اس جنت سے پستی میں اتر جاؤ۔ اس لئے کہ قطع نظر اس عداوت اور شررات کے جو شیطان نے تم سے کی خود تم آئندہ نسلوں کے لوگ آپس میں ایک دوسرے کے دشمن ہوگے اور بہشت ایسے دشمنوں کے لئے نہیں ہے۔ کیا تم نے نہیں سنا پس تم اس سے نکل جاؤ اور زمین پر جارہو اس میں تمہارے لئے ٹھہرنے کو جگہ اور زندگی تک گذارہ بھی مہیا ہے اس حکم کے مطابق نیچے تو آگئے۔ چونکہ ان سے یہ قصور واقع میں سہوًا ہوا تھا۔ نہ عنادًا۔ اس لئے وَے ہمیشہ اس کے تدارک میں لگے رہے اور رحمت الٰہی بھی ان کی یہ حالت دیکھ کر موجزن ہوئی پھر آخر کار آدم نے اپنے اللہ کے الہام سے چند باتیں سیکھیں (ربنا ظلمنا انفسنا کی طرف اشارہ ہے۔ ٢١) جن کا خلاصہ یہ تھا کہ اے اللہ ہم سے سہوًا غلطی ہوگئی تو ہی رحم والا مہربان ہے پس اللہ نے اس پر رحم کیا اس لئے کہ وہ بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے۔ بعد اس رحم کے حسب دستور آدم نے اپنا مسلوبہ مقام حاصل کرنا چاہا۔ اور دخول جنت کی درخواست کی۔ تو ہم نے کہا یہ نہ ہوگا بلکہ مناسب یہ کہ اب تم سب یعنی آدم۔ حوا اور ان کی اولاد اس باغ سے نیچے ہی اترے رہو پس اس حکم میں تبدیلی نہ ہوگی ہاں ایک ذریعہ تمہارے دخول جنت کے لئے ہم بتائے دیتے ہیں وہ یہ کہ اگر میری طرف سے تم کو کوئی پیغام ہدایت پہنچے تو جو لوگ تم میں سے اس میری ہدایت کے تابع ہوں گے سو وے بیشک جنت کے قابل ہوں گے نہ اس کو کچھ خوف ہوگا نہ غم کریں گے۔ اور جو لوگ اس ہدایت کے منکر ہونگے اور علاوہ اس ہدایت کی ہماری ہدایت کی نشانیاں جھٹلاویں گے وے ہرگز جنت میں نہ جاویں گے بلکہ جہنم کی۔
آگ کے قابل ہونگے نہ صرف چند روز بلکہ ہمیشہ کے لئے اس میں رہیں گے۔ اس امر کو اور لوگ بھولیں تو بھولیں۔ |
البقرة |
37 |
|
البقرة |
38 |
|
البقرة |
39 |
(40۔46) مگر افسوس یہ کہ تم اے بنی اسرائیل اہل علم ہو کر بھی بھولتے ہو۔ حالانکہ میں نے تم پر کئی احسانات کئے اور ہر طرح کی نعمتیں بھی عطا کیں۔ ہمیشہ تم میں رسول بھی بھیجے زمین کا تم کو حاکم بھی بنایا پس تم میری نعمتیں یاد کرو جو میں نے تمہیں دیں اور میرے وعدہ کو جو اس رسول آخرالزمان کے متعلق خاص کر تم سے لیا ہوا ہے کہ جب وہ آئے تو اس پر ایمان لانا۔ اسے پورا کرو اس کے عوض میں بھی تمہارا وعدہ بخشش کا پورا کروں گا۔ اس ایفاء عہد اور ایمان لانے میں تنگی معاش کی فکر نہ کرو۔ رزق دینے والا میں ہوں پس تم مجھ ہی سے ڈرو جو تمہاری تنگی اور ثروت کا مالک ہوں پس تم مجھے ہی متولی امور جانو اور میری اتاری ہوئی کتاب کو مانو جو تمہاری ساتھ والی کتاب تورات کی تصدیق کرتی ہے اور اس کی اصلیت کو مانتی ہے اور اگر تم نے انکار کیا اور تم کو دیکھ کر اور لوگوں نے بھی یہی وطیرہ اختیار کیا تو ان سب کا گناہ تمہاری جان پر ہوگا۔ پس مناسب ہے کہ مان لو اور سب سے پہلے منکر نہ بنو اور اس وعدہ کو پھیر پھار کر اپنے ماتحتوں سے میرے حکموں کے بدلہ میں دنیا کا حقیر مال نہ لیا کرو۔ آخر کتنا کچھ لوگے سب کا سب بمقابلہ ان نعمتوں کے جو نیک بندوں کو آخرت میں ملنے والی ہے۔ دنیا کا سارا مال بھی تھوڑا اور ذلیل ہے میں تمھیں سچ کہتا ہوں کہ حق کے اختیار کرنے میں کسی سے مت ڈرو فقط مجھ ہی سے ڈر و۔ جو میں تمہارے عذاب اور رہائی پر قادر ہوں جھوٹی تاویلیں کرکے سچ کو جھوٹ سے نہ ملاؤ۔ اور نہ جان بوجھکر دنیاوی منافع کے لئے حق کو چھپایا کرو اور سیدھے سادھے مسلمان ہو کر نماز پڑھو اور مسلمانوں کی طرح مال کی زکوٰۃ بھی دیا کرو اور سب دینی کاموں کو چستی سے ادا کیا کرو بالخصوص نماز میں تو ایسے چالاک ہوجاؤ کہ پانچوں وقت پڑھو اور رکوع کرنیوالوں کے ساتھ مل کر رکوع کیا کرو یعنی باجماعت ادا کیا کرو تاکہ تمہارے دین کا اظہار پورے طور سے ہو بجائے اس کے تم الٹے نا بلد ہورہے ہو۔
کیا لوگوں کو بھلی باتیں بتلاتے ہو؟ ( بعض علماء یہود کا شیوہ تھا کہ جب ان سے کوئی قریبی رشتہ دار آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حالات سے سوال کرتا تو اس پر اسلام اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت ظاہر کرتے اور خود اسی کفر پر اڑے رہتے۔ ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی۔ معالم) گرجوں اور دیگر معبدوں میں لوگوں کو اپنے خیال کے مطابق اچھے کام بتلاتے ہو اور اپنے آپ کو باوجود کتاب پڑھنے کے بھلاتے ہو۔ کیا تم ہوش نہیں کرتے ؟ ہم پھر مکرر تمھیں کہتے ہیں کہ لوگوں سے مت ڈرو اس لئے کہ یہ شرک خفی ہے بلکہ اگر تم کو کوئی تکلیف آوے تو تم اس کے دفع کرنے میں صبر اور نماز کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے مدد مانگا کرو اس لئے کہ تکلیف میں صبر کے ساتھ جب آدمی مستقل ہو کر اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہے تو ضرور ہی تکلیف رفعہ ہوجاتی ہے۔ ہاں ظاہری اسباب سے منہ پھیر کر یہ مدد چاہنا اور صبر کرنا بیشک کارے دارد خاص کر ایک سی حالت میں نماز پڑھنا اور نماز کے ساتھ مدد چاہنا تو بہت بھاری ہے مگر اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والوں پر بھاری نہیں کیونکہ وہ ہر کام کی علت العلل اللہ تعالیٰ ہی کو جانتے ہیں اگر وہ ظاہری اسباب کی طرف بھی رخ کرتے ہیں تو ان کا انجام بھی اللہ تعالیٰ ہی کے سپرد کرتے ہیں اس لئے کہ یہ لوگ ایسے ہی پاکیزہ خیال ہیں جو اس بات کا پختہ خیال رکھتیں ہیں کہ وہ اس تکلیف کے عوض میں اپنے مولا سے نیک بدلا ضرور پاوینگے اور یہ بھی مانتے ہیں کہ مر کر بھی وہ اسی کی طرف جائیں گے
(بحذف مضافٍ ای ملاقوا جزأء ربھم) |
البقرة |
40 |
|
البقرة |
41 |
|
البقرة |
42 |
|
البقرة |
43 |
|
البقرة |
44 |
|
البقرة |
45 |
|
البقرة |
46 |
|
البقرة |
47 |
(47۔53) افسوس اے بنی اسرائیل کی قوم تم ایسے نہ ہوئے حالانکہ میں (اللہ) نے تم پر ہر طرح سے احسان بھی کئے اور کچھ نہیں کرسکتے ہو۔ تو میرے احسان ہی یاد کرو جو میں نے تم پر کئے دنیا میں عزت دی کہ ملک کا حاکم بنایا اور دین میں بھی تم کو سب کا پیشوا بنایا۔ خلاصہ یہ کہ میں نے سب جہان کے لوگوں پر تم کو بزرگی دی کیا احسان کا شکریہ یہی ہے جو کررہے ہو۔ اب بھی باز آؤ اور اس دن سے ڈرو جس میں کوئی نفس کسی کے کچھ بھی کام نہ آئیگا۔ نہ اس کی تکلیف خود اٹھا سکے گا۔ اور نہ سفارش کرسکے گا اور اگر فرضاً کرے بھی تو اس کی سفارش بھی قبول نہ ہوگی اور اگر اپنی نیکیاں دیکر بھی دوسرے کو چھڑانا چاہے گا تو اس سے عوض بھی نہ لیا جائے گا۔ بلکہ جو کچھ دنیا میں اس نے کیا ہوگا اس کی پورری جز اسزا پاویگا نہ اس میں کسی طرح کی تخفیف ہوگی اور نہ کمی اور نہ ان مجرموں کو کسی قسم کی مدد پہنچے گی اور وہ وقت بھی یاد کرو جب ہم نے تم کو فرعونیوں یعنی اس سے اور اس کی فوج سے چھڑایا تھا جو ہر طرح سے تم کو بڑے بڑے عذاب پہنچاتے تھے تمہارے لڑکوں کو جان سے مارڈالتے اور لڑکیوں کو زندہ اپنی خدمت کرانے کو چھوڑتے۔ اس واقع میں اللہ کی طرف سے تم پر بڑا احسان ہے کہ ایسے ظالم کے پنجہ سے بچا کر اصل ملک میں تم کو پہنچا دیا اور راہ میں بھی تم پر ہر طرح سے احسان کئے جب تمہارے لئے ہم نے دریا کو پھاڑا پس تم کو ڈوبنے سے بچایا۔ اور تمہارے دشمن فرعونیوں کو تمہارے دیکھتے دیکھتے ہی اسی میں غرق کردیا اور اس نجات بدنی کے بعد ہم نے تمہاری روحانی نجات کے اسباب بھی مہیا کئے کہ حضرت موسیٰ کی معرفت تم کو کتاب دی اور ہدایت کی اور جب ہم نے موسیٰ سے چالیس راتوں کا وعدہ کیا تھا کہ ہم تجھ کو چالیس دن بعد تورات دیں گے۔ وہ تو تمہاری خاطر کوہ طور پر کتاب لینے گیا۔ پھر تم نے اس کے پیچھے بچھڑے کو اپنا معبود بنالیا لگے اس کی منت منائیں۔ سچ پوچھو تو تم بڑے ظالم ہو کہ ایک بے جان کو تمام جہان کا مالک سمجھ بیٹھے اور نہ جانا کہ یہ تو ہمارے ہی ہاتھوں کا بنا ہوا ہے باوجود ایسے قصور کے پھر بھی ہم نے بعد اس کے تم کو معاف کیا تاکہ تم شکر گزار بنو اور احسان یاد کرو جب ہم نے تمہاری ہی بھلائی کے لئے موسیٰ کو کتاب دی اور اس کے ثبوت کے لئے بڑے بڑے معجزے بھی دئے تاکہ تم دین کی سیدھی راہ پاؤ۔ اسی کتاب کی برکت تھی کہ تم نے بعض موقع پر اپنی جان دینے سے بھی دریغ نہیں کیا۔
سر سید کی پانچویں غلطی : (دریا کو پھاڑا) اس آیت میں اللہ سبحانہ بنی اسرائیل کو وہ نعمت یاد دلاتا ہے جو تمام دنیا کی نعمتوں سے بڑھ کر تھی یعنی ان کے دشمن فرعون کی ہلاکت اور ان کی نجات پھر وہ بھی ایسے طرز سے کہ قدرت اللہ کے نشانات بینہ ظاہر ہوں وہی پانی جس میں سے بنی اسرائیل باوجود بے سامانی کے بچ کر صاف نکل گئے اسی میں فرعون مع اپنے جرار لشکر کے باوجود سامان کثیر کے ڈوبا اس پر (کہ بنی اسرائیل کی خاطر اللہ نے دریا پھاڑا تھا۔ جس میں سے وہ بسلامت چلے گئے اور فرعون اسی میں ڈوبایا گیا) قرآن کریم اور تورات دونوں متفق ہیں مگر سرسید احمد خاں بہادر نے اس میں بھی بہادری دکھائی کہ سرے سے منکر ہی ہو بیٹھے کہ قرآن کریم سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ حضرت موسیٰ کی خاطر دریا پٹھا تھا۔ بلکہ یہ تو ہمارے علما نے اپنی عادت قدیمہ کے موافق یہودیوں سے ایسی روایتیں لے کر قرآن کی تفسیر میں جڑی ہیں۔ حالانکہ نہ کوئی دریا پٹھا اور نہ کوئی خلاف عادت معجزہ ظہور میں آیا تھا۔ بلکہ اس دریا کی سمندر کی طرح عادت ہی تھی کہ مدو جزر چڑھنا اترنا آناً فاناً اس میں ہوا کرتا تھا۔ پس رات کو جب موسیٰ ( علیہ السلام) بنی اسرائیل کے سمیت وہاں سے گزرے تھے اس وقت خشک تھا اور جب فرعون گزرنے لگا تو اتفاقاً چڑھ گیا (جلداوّل صفحہ ٩٩) چونکہ اصل وجہ انکار سید صاحب کی اس واقعہ سے یہ ہے کہ یہ واقعہ خرق عادت ہے اس لئے ہم سب باتوں سے پہلے خرق عادت کے امکان یا محال ہونے پر گفتگو کرتے ہیں تاکہ سید صاحب کی بناء فاسد علی الفاسد خوب واضح ہوجائے۔ خرق یا خلاف عادت پر سپر نیچرل اس کو کہتے ہیں جو قوانین مروجہ کے خلاف ہوجیسے پانی کا نیچے کی طرف کو جانا ایک قانون مروج ہے اگر پانی اوپر کی طرف کو جائے یا باوجود نیچے جگہ ہونے کے ٹھیر جائے تو خلاف عادت کہا جائے گا یا مثلاً آگ کا کام جلانا ہے اگر بلا مانع ظاہری نہ جلائے تو خرق عادت ہوگا۔ بحث اس میں ہے کہ یہی مروجہ قوانین قدرتی قانون ہیں یا ان کے سوا اور بھی ہیں؟ کچھ شک نہیں کہ اللہ کے جتنے کام ہیں سب اپنے اپنے اسباب سے وابستہ ہیں۔ مگر ان سب قوانین پر کوئی فرد بشر مطلع نہیں ہوسکتا۔ مثلاً پیدائش کے متعلق اس کا قانون ہے کہ بکری کا بچہ مثلاً چار ٹانگ اور دو سینگ اور دو آنکھوں والا ہوتا ہے۔ مگر باوجود اس کے لکھنؤ کے عجائب خانہ میں بکری کے بچہ کی شبیہہ ایسی ملتی ہے جس کی ایک ہی آنکھ ماتھے پر ہے اور بس۔ تو کیا یہ خلاف قانون ہے؟ نہیں اس کے لئے بھی ضرور کوئی قانون ہوگا۔ مگر ہمیں اس کی اطلاع نہیں۔ ٹھیک اسی طرح ایسے امور جو حضرات انبیاء علیہم السلام سے بطور معجزہ کے ظاہر ہوتے ہیں ان کے لئے بھی مخفی اسباب ہوتے ہیں ان اسباب میں سے نبوت یا رسالت کا مجہول الکیف تعلق بھی ایک سبب ہے جس کی کیفیت ہماری سمجھ سے بالا ہے مگر ہے۔ حقیقت میں تو وہ اپنے ہی اسباب سے ظاہر ہوتے ہیں لیکن چونکہ ان اسباب پر عامہ مخلوق کو اطلاع نہیں ہوئی بلکہ عوام کے نزدیک جو ان افعال کے اسباب ہیں ان کے خلاف یہ امور ہوتے ہیں اس لئے ان کو خرق عادت یا سپر نیچرل کہا جاتا ہے ورنہ حقیقت میں سپر نیچرل نہیں ہوتے۔ بلکہ عین نیچرل ہوتے ہیں۔ پس ثابت ہوا کہ دنیا کے معمولی قانون مروج کے خلاف بھی ہونا کوئی محال امر نہیں۔ اسی کا نام معجزہ ہے کہ ایک امر خلاف قانون مروجہ مگر ممکن بالذات کا وقوع بلا اسباب مدعی نبوت سے وقوع پذیر ہو۔ ایسے امر ممکن بالذات کی اگر کوئی مخبر صادق خبر دے تو اس کے تسلیم کرنے میں چون و چرا کرنا فضول ہے۔ پس بعد اس تمہید کے ہم یہ بیان کرنا چاہتے ہیں کہ یہ معجزہ عبور موسیٰ کا جو ایک امر ممکن ہے واقع بھی ہوا ہے یا نہیں اور اس کے واقع ہونے کو قرآن کریم نے بیان کیا ہے یا نہیں اور تورٰیت میں بھی جو اس زمانہ کے واقعات کی مخبر ہے جس کو سید صاحب بھی غیر محرف مانتے ہیں اس امر کا ثبوت ہے یا نہیں۔ پس سنئے ! پہلی آیت سورۃ بقرہ میں ہے جس کے الفاظ شریفہ یہ ہیں وَاِذْ فَرَقْنَا بِکُمُ الْبَحْرَ فَاَنْجَیْنٰکُمْ وَاَغْرَقْنَآ اٰلَ فِرْعَوْنَ وَ اَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ۔ اس آیت کا سیاق ہی بتا رہا ہے کہ نبی اسرائیل پر کسی بڑے احسان کا جتلانا منظور ہے جب ہی تو فرما دیا کہ ہم نے تمہارے لئے دریا کو پھاڑا اور تمہیں بچایا اور تمہارے دشمن کو تمہارے دیکھتے دیکھتے غرق کیا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ کچھ ایسے طور سے ہوا ہوگا جسے احسان بھی کہہ سکیں۔ افسوس کہ سید صاحب اس سیاق کلام سے غافل ہو کر کہتے ہیں کہ :۔
” اس آیت میں کوئی ایسا لفظ نہیں جس سے دریا کے جدا ہوجانے یا پھٹ جانے کو خلاف قانون قدرت قرار دیا جا سکے“ صفحہ ٧٦
حالانکہؔ یہ بات صریح لفظوں میں ہے کہ تمہارے لئے ہم نے دریا کو پھاڑا اور تمہیں نجات دی۔ اور تمہارے دشمن فرعون کو اس میں غرق کیا اور اس کے سباق سے احسان جتلانا مفہوم ہے مگر اس بلاوجہ انکار کا علاج کیا۔ بھلا صاحب یہ لفظ نہ سہی جس سے خلاف قانون قدرت پھٹنا معلوم ہو۔ لیکن اتنا تو معلوم ہوتا ہے کہ اس فعل سے غرض بنی اسرائیل کی نجات اور فرعون کی ہلاکت تھی پس اس سے بھی آپ کے جوار بھاٹ کو کسی قدر صدمہ پہنچے گا۔ کیونکہ جوار بھاٹ کی نسبت جو ہمیشہ سے ہوتا آیا تھا ایسا فرمانا کہ ہم نے تمہارے لئے کیا اور اس کرنے سے تمہاری نجات علت غائی تھی بالکل بے معنے ہے اور بنی اسرائیل پر کوئی احسان نہیں۔ دوسری آیت سورۃ شعرا میں ہے۔ اَوْحَیْنَآ اِلٰی مُوْسٰٓی اَنِ اضْرِبْ بِعَصَاکَ الْبَحْرَ فَانْفَلَقَ فَکَانَ کُلُّ فِرْقٍ کَالطَّوْدِ الْعَظِیْمِ اس آیت میں صاف ارشاد ہے کہ ہم نے حضرت موسیٰ سے کہا کہ تو اپنی لکڑی دریار پر مار پس وہ اس کے مارنے سے ایسا پھٹ گیا کہ اس کا ایک ایک ٹکڑا بڑے بڑے ڈھیر کی طرح ہوگیا۔ باوجودیکہ یہ آیت نہایت ہی اپنے معنے (دریا کے پھٹنے) میں صاف تھی مگر سید صاحب نے اس کو بھی ٹیڑھی گھیر بنانا چاہا چنانچہ فرماتے ہیں کہ
” اس آیت میں ضرب کے معنے زدن کے نہیں بلکہ رفتن کے ہیں اور البحر پر فی محذوف ہے پس صاف معنے یہ ہوئے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو کہا کہ اپنی لاٹھی کے سہارے سے سمندر میں چل۔ وہ پھٹا ہوا یا کھلا ہوا ہے یعنی پایاب ہو رہا ہے“ (صفحہ ٨٨ جلد اوّل)
یہ توجیہ سید صاحب کی دیکھ کر مجھے ایک حکایت زمانہ طالب علمی کی یاد آئی جس سے یہ ثابت ہوگا کہ ایسے حذف محذوف نکالنا بالکل اس کے مشابہ ہے کہ ملا آں باشد کہ چپ نشود۔ جن دونوں میں ” فیض عام“ کانپور میں پڑھتا تھا ایک طالب علم سے جو میرے ساتھ صدرا وغیرہ میں شریک تھے میں بھولے سے پوچھ بیٹھا کہ اِنَّہٗ تَعَالٰی جَدُّ رَبِّنَا کے کیا معنے ہیں وہ بولے کہ بڑا ہے دادا ہمارے رب کا۔ میں نے کہا باپ ہی نہیں۔ تو دادا کہاں؟ فرمانے لگے کہ بڑے کے معنے ہیں بہت بلندی پر یعنی معدوم اور یہ دلیل انی ہے کہ باپ ہی نہیں۔ آخر کار میں خاموش ہوگیا۔ اسی طرح سید صاحب کی عادت شریفہ ہے کہ کیسی ہی صریح عبارت دکھلائو۔ خواہ مخواہ اسے ٹیڑھی بنائیں گے۔ بھلا صاحب ! کسی شعر عرب کا بھی حوالہ دیا؟ یا کسی مستند شخص کے قول سے استشہاد بھی کیا؟ اگر فرما دیں کہ حروف جارہ کا حذف جائز ہے تو گذارش ہے کہ ہمشہ نہیں ورنہ فرمایا کہ صلی فی المسجد سے فی کو حذف کر کے صلی المسجد کہنا بھی جائز ہے یا دعالہ سے جارہ کو محذوف کر کے دعاہ کہنا۔ پھر اس سے وہی معنے سمجھنا جو دعالہ کا مفہوم ہیں درست ہے؟ اصل یہ ہے کہ آپ چونکہ ہمیشہ سے بےدلیل کہنے کے عادی ہیں۔ اس لئے ایسی باتیں آپ سے کچھ بعید نہیں جنتی چاہیں کہے جائیں مثل مشہور ہے جہاں سو وہاں ایک پر سو۔ ہاں ایک دلیل آپ کی قابل ذکر ہے جہاں فرمایا کہ :۔
” فی کے حذف ہونے کا قرینہ یہ ہے کہ اسی قصہ کو سورۃ طہٰ میں فاضْرِبْ لَھُمْ طَرِیْقًا فِی الْبَحْرِ یَبَسًا فرما پس ایک جگہ لفظ فی مذکور ہے تو یہی قرینہ باقی مقامات میں اس کے محذوف ہونے کا ہے۔ “
پھر کہا کہ :۔
” شاہ ولی اللہ صاحب نے اس آیت کا یہ ترجمہ کیا ہے ” پس برو برائے ایشاں درراہ خشک“ یعنی شاہ صاحب نے ضرب کے معنے زون کے نہیں لئے رفتن کے لئے ہیں۔“ (جلد اوّل صفحہ ٩٨)
میں کہتا ہوں اس دلیل سے سرسید کا مطلب ثابت نہیں ہوتا اس لئے کہ یہ کوئی قاعدہ نہیں کہ ایک جگہ اگر حرف جر مذکور ہو تو دوسری جگہ بھی اسی کو قرینہ بنا کر محذوف مانا جائے۔ یہ جب ہے کہ طریق بیان اور مطلب ایک ہو۔ الا اگر مطلب بدل جائے تو کلا (ہرگز نہیں) مثلاً ایک جگہ دعاہ ہے دوسری جگہ دعالہ ہو تو یہاں حرف جر کا مذکور ہونا پہلے میں اثر نہ کرے گا۔ اسی طرح اَنِ اضْرِبْ بِعَصَاکَ الْبَحْرَ میں راستہ بنانے کا بیان ہے اور فاضْرِبْ لَھُمْ طَرِیْقًا فِی الْبَحْرِ میں اس راہ چلنے کا حکم ہے چانچہ شاہ صاحب کا ترجمہ ہی اس کا محاکم بناتا ہوں جس سے یہ بھی ثابت ہوجائے گا کہ آپ نے جو ترجمہ نقل کیا ہے وہ غلط ہے۔ شاہ صاحب فرماتے ہیں ” بس بساز برائے ایشاں راہ خشک در دریا“ دیکھو حمائل مطبوعہ انصاری دہلی اور ایک نسخے میں تو بالکل ہی آپ کے دعویٰ کی تردید ہے۔ کہ شاہ صاحب نے ضرب کے معنے رفتن کے کئے ہیں ” بزن برائے ایشاں“ دیکھو حمائل مطبوعہ ہاشمی میرٹھ۔ ہاں ہم انصاف سے کہتے ہیں کہ آپ کا منقولہ ترجمہ بھی ایک قرآن مطبوعہ فارقی دہلی میں ہے۔ لیکن دو نسخے اس سے مخالف ہیں اس مخالفت کا فیصلہ اگر کثرت نسخ کے اعتبار سے آپ منظور کریں تو ہمیں مفید ہے ورنہ اذا تعارضا تساقطا تو نتیجہ لازمی ہے پس آپ کا دونوں آیتوں کے ملانے سے ضرب کے معنے دونوں جگہ چلنے کے لینا اور فی کو محذوف ماننا ہرگز صحیح نہیں دونوں آیتیں اپنا اپنا مطلب ادا کرنے میں بالکل واضح ہیں اَنِ اضْرِبْ والی آیت کے صاف معنے یہ ہیں کہ دریا کو اپنی لکڑی سے مار تاکہ وہ راہ بن جائے اور فاضْرِبْ لَھُمْ طَرِیْقًا کے معنے ” بنا ان کے لئے دریا میں خشک راستہ“ ہیں۔ پس کچھ ضرور نہیں کہ ضرب کے معنے دونوں جگہ چلنے کے لئے جاویں یا ایک جگہ لینے سے دوسری جگہ لینے ضرور ہوجائیں۔ ہر ایک آیت اپنے اپنے معنے بتلانے میں جدا گانہ ہے پھر آپ نے جو فانفلق کی توجیہ میں تحریر یا تحریف فرمائی ہے انصاف سے کہیں وہ اس قابل ہے کہ عالم کی زبان سے نکلے۔ چونکہ آپ کی اس موقع کی ساری در افشانی اہل علم کے ملاحظہ کے قابل ہے اس لئے میں اسے من وعن نقل کرتا ہوں (قولہ) ” انفلق ماضی کا صیغہ ہے اور عربی زبان کا یہ قاعدہ ہے۔ کہ جب ماضی جزا میں واقع ہوتی ہے تو اس کی دو حالتیں ہوتی ہیں۔ اگرچہ ماضی اپنے معنے پر نہیں رہتی بلکہ شرط کی معلول ہوتی ہے۔ تو اس وقت اس پر ” ف“ نہیں لاتے اور جب کہ وہ اپنے مضمون پر باقی رہتی ہے اور جزا کی معلول نہیں ہوتی۔ تب اس پر ” ف“ لاتے ہیں۔ جیسے کہ اس مثال میں ان اکرمتنی فاکر متک امس یعنی اگر تعظیم کرے گا تو میری تو میں تیری تعظیم کرچکا ہوں۔ اس مثال میں جزا (یعنی گزشتہ کل میں تعظیم کا کرنا) شرط کا معلول نہیں ہے کیونکہ وہ اس سے پہلے ہی ہوچکی تھی۔ اسی طرح اس آیت میں سمندر کا پھٹ جانا یا زمین کا کھل جانا ضرب کا معلول نہیں ہے۔ کیونکہ وہ اس سے پہلے ہی ہوچکی تھی۔ اسی طرح اس آیت میں سمندر کا پھٹ جانا یا زمین کا کھل جانا‘ ضرب کا معلول نہیں“ (جلد اوّل صفحہ ٨٢)
سید صاحب کیا فرماتے ہیں۔ کہاں شرط اور جزاء کا مسئلہ اور کہاں یہ صورت اور آپ کی کہاں مثال۔ سچ ہے ؎
بنے کیونکر کہ ہے سب کار الٹا
ہم الٹے بات الٹی یار الٹا
بقول شیعہ اہل بیت معصوم تھے مگر آج تو آپ نے ان کی خوب ہی تغلیط کی۔ اوّل ! تو یہ قاعدہ ہی غلط ہے کہ ماضی اپنے معنوں میں رہ کر جزا واقع ہوسکتی ہے۔ بلکہ وہ دلیل برجزا ہوتی ہے جزا نہیں۔ آپ کوئی مثال ایسی نہ بتلا سکیں گے جس میں ماضی اپنے معنوں میں رہ کر جزا واقع ہوتی ہو۔ پس آپ کا مثال میں ان اکرمتنی فاکرمتک امس پیش کرنا بھی غلط ٹھیرا۔ اس لئے کہ اس مثال میں بھی فاکرمتک امس جزا نہیں بلکہ دلیل برجزا ہے جیسا کہ متنبی کے اس شعر میں ؎
ان تفق الانام وانت منھم
فان المسک بعض دم الغزالٖ
یا آیت کریمہ اِنْ یَّسْرِقْ فَقَدْ سَرَقَ اَخٌ لَّہٗ ہاں ان معنوں سے صحیح ہوسکتی ہے جو ہم نے حاشیہ پر لکھے ہیں ۔ مگر ان کو یہاں علاقہ ہی نہیں۔ سید صاحب اس طرح کے ہاتھ پائوں مارنے سے بجزا اس کے کہ اہل علم میں ہنسی ہو کچھ فائدہ نہیں۔ عالموں سے
غلطی بھی ممکن ہے مگر عالم کا فرض ہے کہ کہتے ہوئے اپنی تقریر کو مخالفانہ نظر سے دیکھے۔ ورنہ محبت تو ایسی بلا ہے کہ اپنا کانا بیٹا بھی سنوانکھا دکھاتی ہے۔ ہاں ایک توجیہ آپ کی عبارت کی ہوسکتی ہے شائد آپ نے اپنے جی میں وہی رکھی ہو جو (بقول نواب محسن الملک مرحوم) اللہ کو بھی نہ سوجھی ہو۔ کہ تقدیر کلام یوں ہے اَنِ اضْرِبْ بِعَصَاکَ الْبَحْرَانْ ضَرَبْتَ نَجَوْتَ فَانْفَلَقَ فَکَانَ کُلُّ فِرْقٍ کَالطَّوْدِ الْعَظِیْمِ۔ یعنی (بقول آپ کے) ہم نے موسیٰ ( علیہ السلام) سے کہا کہ دریا میں اپنی لکڑی کے سہارے چل۔ اگر چلے گا تو بچ جائے گا اس لئے کہ وہ دریا کھلا ہوا اور پایاب ہے پس اس صورت میں فانفلق اگرچہ جزا نہیں۔ مگر دلیل بزجزا جسے مجازاً جزا کہیں تو ہوسکتا ہے۔ سو اگر یہی آپ کی مراد ہے تو شاباش میرے نام ہے جس نے آپ کے مدعا کو جو دربطن قائل کا مصداق تھا ظاہر کیا۔ مگر اس پر بھی گذارش ہے کہ اوّل یہ بتلا دیں کہ اگر اتنی بڑی عبارت کا حذف جائز رکھا جائے اور ہر جگہ اس ٹوٹے پھوٹے ہتھیار کو پیش کیا جائے تو کوئی مسئلہ بھی قرآن کریم کا ثابت ہوسکتا ہے؟ ہر ایک جگہ یہی قاعدہ جاری ہوگا۔ کہ یہ حذف ہے وہ حذف ہے۔ حتی کہ مطلب ہی حذف ہے۔ دومؔ یہ کہ سیاق کلام کے بھی مخالف ہے کیونکہ سیاق سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ کلام بطور نتیجہ کے ہم کو سنایا جاتا ہے اسی لئے آگے کے جملوں کو اس پر عطف کرتے گئے ہیں چنانچہ فرماتے ہیں فَکَانَ کُلُّ فِرْقٍ کَالطَّوْدِ الْعَظِیْمِ وَاَزْلَفْنَا ثَمَّ الْاٰخَرِیْنَ وَاَنْجَیْنَا مُوْسٰی وَمَنْ مَّعَہٗٓ اَجْمَعِیْنَ ثُمَّ اَغْرَقْنَا الْاٰخَرِیْنَ اور سب سے اخیر کیا ہی مختصر نتیجہ نکالا ہے۔ اِنَّ فِیْ ذَلٰکِ لَاٰیَۃً وَّمَا کَانَ اَکْثَرُھُمْ مُّؤْمِنِیْنَ یعنی موسیٰ اور اس کے ساتھیوں کے بچانے اور فرعون کے غرق کرنے میں بڑی نشانی ہے۔ کہ اللہ کی قدرت کاملہ اور تصرف فی الامور کا پورا ثبوت ملتا ہے۔ لیکن بہت سے لوگ (مثل سید صاحب کے) اسے نہیں مانتے پس جب یہ کلام بطور نتیجہ کے ہمیں سنایا جاتا ہے تو فانفلق سے لے کر اخیر تک حضرت موسیٰ کو خطاب نہیں اور کسی طرح نہیں ہوسکتا۔ تیسری آیت سورۃ طہٰ کی ہے اَوْحَیْنَآ اِلٰی مُوْسٰٓی اَنْ اَسْرِ بِعِبَادِیْ فَاضْرِبْ لَھُمْ طَرِیْقًا فِی الْبَحْرِ یَبَسًا یعنی موسیٰ کو ہم نے پیغام بھیجا کہ تو ہمارے بندوں کو رات ہی سے لے چل پھر ان کے لئے دریا میں راستہ خشک بنا۔ یہ آیت بھی جتلا رہی ہے کہ اس دریا سے عبور کرنے میں حضرت موسیٰ کے فعل کو بھی دخل ہے۔ ورنہ حضرت موسیٰ کو کیوں حکم ہوتا کہ تو ان کے لئے خشک راستہ بنا۔ غضب یہ کہ اس آیت کو سید صاحب اپنے دعوٰے اَنِ اضْرِبْ بِعَصَاکَ الْبَحْرَ میں حذف فی کا قرینہ بتاتے ہیں جس کا جواب ہم پہلے دے آئے ہیں۔ پس بعد اللُّتیا والّٰتِی ہم اس دعویٰ پر کہ حضرت موسیٰ کا عبور خرق عادت تھا جو قرآن کی صریح الفاظ سے ثابت ہوتا ہے تورٰیت سے بھی جسے سید صاحب غیر محرف لفظی مانتے ہیں۔ شہادت پیش کرتے ہیں تاکہ سید صاحب کہ حسب عادت قدیمہ کوئی عذر نہ رہے کہ کتب سابقہ میں اس کا ذکر نہیں اس لئے قابل تاویل ہے۔ تورٰیت کی دوسری کتاب سفر خروج ١٤ باب ١٩ آیت سے اخیر تک مذکور ہے۔
” اللہ کا فرشتہ جو اسرائیلی لشکر کے آگے چلا جاتا تھا پھرا اور ان کی پشت پر آرہا اور بدلی کا وہ ستون ان کے سامنے سے گیا اور ان کی پشت پر جا ٹھہرا اور مصریوں اسرائیلی لشکر کے بیچ میں آیا اور وہ ایک اندھیری بدلی ہوگئی پر رات کو روشن ہوئی سو تمام رات ایک لشکر دوسرے کے نزدیک نہ آیا۔ پھر موسیٰ نے دریا پر ہاتھ بڑھایا۔ اور اللہ نے بہ سبب بڑی پوربی آندھی کے تمام رات میں دریا کو چلایا اور دریا کو سکھایا اور پانی کو دو حصہ کیا۔ اور بنی اسرائیل دریا کے بیچ میں سے سوکھی زمین پر ہوکے گذرگئے۔ اور پانی کے ان کے دہنے اور بائیں دیوار تھی اور مصریوں نے پیچھا کیا اور ان کا پیچھا کئے ہوئے وسے اور فرعون کے سب گھوڑے اور اس کی گھوڑیاں اور اس کے سوار دریا کے بیچو بیچ تک آئے اور یوں ہوا کہ اللہ نے پچھلے پہر اس آگ اور بدلی کے ستون میں سے مصریوں میں سے مصریوں کے لشکر پر نظر کی اور مصریوں کی فوج کو گھیرا دیا اور ان کی گاڑیوں کے پہیوں کو نکال ڈالا ایسا کہ مشکل سے چلتی تھیں چنانچہ مصریوں نے کہا آؤ اسرائیلیوں کے منہ پر سے بھاگے جائیں۔ کیونکہ اللہ ان کے لئے مصریوں سے جنگ کرتا ہے۔ اور اللہ نے موسیٰ سے کہا کہ اپنا ہاتھ دریا پر بڑھا تاکہ مصریوں اور ان کی گاڑیوں پر اور ان کے سواروں پر پھر آوے اور موسیٰ نے اپنا ہاتھ دریا پر بڑھایا اور دریا صبح ہوتے اپنی قوت اصلی پر لوٹا اور مصری اس کے آگے بھاگے اور اللہ اور اللہ نے مصریوں کو دریا میں ہلاک کیا اور پانی پھرا اور گاڑیوں اور سواروں اور فرعون کے سب لشکر کو جو ان کے پیچھے دریا کے پیچ آئے تھے چھپا لیا اور ایک بھی ان میں سے باقی نہ چھوٹا۔ پر بنی اسرائیل خشک زمین پر دریا کے بیچ میں چلے گئے اور پانی کی ان کے دہنے بائیں دیوار تھی سو اللہ نے اس دن اسرائیلیوں کو مصریوں کے ہاتھ سے یوں بچایا اور اسرائیلیوں نے مصریوں کی لاشیں دریا کے کنارے پر دیکھیں اور اسرائیلیوں نے بڑی قدرت جو اللہ نے مصریوں پر ظاہر کی دیکھی اور لوگ اللہ سے ڈرے تب اللہ اور اس کے بندے موسیٰ پر ایمان لائے۔ “
پسؔ ثابت ہوا کہ اس واقعہ (عبور موسیٰ) کے خرق عادت ہونے کے بیان میں قرآن کریم سے تورٰیت نے نہ صرف اجمالی اتفاق کیا ہے بلکہ اس طرح کہ اس کی کیفیت مفصل بیان کی ہے۔ پھر نہیں معلوم سر سید کو باوجود تورٰیت کو غیر محرف ماننے کے کون سا امر باعث ہے کہ ان دونوں کتابوں (قرآن اور تورٰیت) کے ظاہری اور صریحی الفاظ سے مخالفت کر رہے ہیں۔ ہاں میں بھولا۔ دوامر ان کو باعث ہیں۔ ایک تو وہی پرانی لکیر کا پیٹنا یعنی سپر نیچرل (خلاف قانون قدرت) نہیں ہوسکتا۔ جس کا مفصل جواب گذر چکا۔ دوسرا مانع ایک نقلی امر ہے جس کو آپ بطلیموس سے نقل کرتے ہیں چنانچہ لکھتے ہیں :۔
” معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانہ میں جب بنی اسرائیل نے عبور کیا تھا بحر احمر ایسا تھا قہار سمندر نہ تھا۔ جیسا کہ اب ہے گو اس زمانہ کا صحیح جغرافیہ ہم کو نہ ملے مگر بہت پرانا جغرافیہ جو بطلیموس نے بنایا تھا مع اس کے نقش جات کے جو بطلیموس کے جغرافیہ کے مطابق بنائے گئے ہیں خوش قسمتی سے ہمارے پاس موجود ہے اور اس میں بحر احمر کا بھی نقشہ ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بطلیموس کے زمانہ تک بحر احمر میں تیس چھوٹے بڑے جزیرے موجود تھے اور یہ صاف دلیل اس بات کی ہے کہ اس زمانہ میں بحر احمر ایسا قہار سمندر نہ تھا جیسا کہ اب ہے یا جیسا کہ ہمارے علماء اسلام بارہ سو برس سے اس کو دیکھتے آئے ہیں بحر احمر کی اس حالت پر خیال کرنے سے بالکل یقین ہوجاتا ہے کہ وہ مقام جہاں سے بنی اسرائیل اترے بلاشبہ جوار بھاٹ کے سبب سے رات کو پایاب اور دن کو عمیق ہوجاتا ہوگا۔ الیٰ ان قال مؤرخین کے قول کے بموجب بنی اسرائیل سن عیسوی سے دو ہزار پانسو تیرہ برس قبل بحر احمر کی شاخ سے اترے تھے اور بطلیموس جس نے جغرافیہ لکھا ہے جس کو کلاڈس ٹانی کہتے ہیں سنہ عیسوی کی دوسری صدی میں تھا۔ پس بنی اسرائیل کے عبور کرنے کے دو ہزار سات سو برس تک وہ جزیرے موجود تھے۔ یہ بطلیموس یونانی تھا مگر مصر میں رہتا تھا اور اس لئے بحر احمر کا حال جو اس نے لکھا ہے زیادہ اعتبار کے لائق ہے (جلد اوّل صفحہ ١٠٠)
مگر سید صاحب (وآلٔہ) انصاف تو کریں کہ یہ ہتھیار ٹوٹا پھوٹا آپ کا کہاں تک کام دے سکتا ہے۔ آپ کی اس دلیل کو دیکھ کر مجھے محدثین (رض) کی دور اندیشی کی تصدیق ہوئی کہ اخیر عمر کے محدث کی روایت قابل حجت نہیں۔ یا تو آپ جانتے ہیں کہ مقابل میں بقول آپ کے کوڑ مغز ملاّیان مساجد ہیں کہ ان کو کچھ بھی سمجھ نہیں۔ کہاں میرے کلام پر غور کریں گے اور کہاں حسن قبیح سے واقف ہوں گے یا یہ خیال سمایا ہے کہ آخر بے خبروں سے ملک خالی نہیں بلکہ قریباً دوتہائی ایسے ہی ہیں بالخصوص مذہبی باتوں سے تو بالکل ناواقف۔ بھلا یہ تو فرما دیں اگر تاریخی واقعات پر پچھلے لوگ آپ کے کمالات اور قومی خدمات کو معلوم کرنا چاہیں گے تو منشی ! سراج الدین احمد اڈیٹر سرمور گزٹ کی تحریر (جو آپ کے حالات دیکھنے والے ہیں) ان کے نزدیک زیادہ معتبر ہوگی یا ان مورخوں کی جو تین ہزار برس بعد قریب قیامت ہوں گے؟ حاشا وکلا۔ یہی وجہ ہے کہ سلطان محمود غزنوی رضی" اللہ عنہ وارضاہ کے حالات دریافت کرنے کو تاریخ یمینی سب سے زیادہ قابل اعتبار ہے جو واقعات کو بچشم خود دیکھتا یا دیکھنے والوں سے سنتا رہا۔ پس یہ قاعدہ ہمیشہ صحیح ہے اور ہونا چاہیے کیونکہ لیس الخبر کالمعائنۃ۔ تو پھر تمام تاریخ سے وہ تاریخ جو حضرت موسیٰ کے دیکھنے والوں نے لکھی ہوگی یعنی تورٰیت کیوں معتبر نہ ہوتی۔ خاص کر آپ تو ضرور ہی مانیں گے کیونکہ جناب والا اس کی نسبت تحریف لفظی کے قائل نہیں۔ پس انصاف سے سید صاحب وآلہ بتلا دیں اور سچ بتلا دیں اپنے نانا کے لحاظ ہی سے بتلا دیں کہ تورٰیت کی عبارت مذکورہ بالا کیا بتلا رہی ہے مجھے تعجب ہے سرسید کی تحقیقات پر کہ اس موقع پر انہوں نے تورٰیت کا نام تک نہیں لیا گویا کسی مسجد کے امام صاحب بن گئے۔ کہ تورٰیت انجیل کا پڑھنا پڑھانا بلکہ دیکھنا بھی حرام سمجھا۔ حالانکہ مطلب کے لئے تورٰیت کو پیش نظر رکھ کر آیات قرآنی میں بھی تاویل یا تحریف کردیا کرتے ہیں۔ کیوں نہ ہو
وَ اِذَا تَکُوْنُ کَرِیْھَۃٌ اُدْعٰی لَھَا
وَ اِذَا یُحَاسُ الْخَیْسُ یُدْعٰی جُنْدَبٗ
اے صاحب ! ہم اس کو بھی تسلیم کئے لیتے ہیں کہ بطلیموس نے بھی ٹھیک لکھا۔ مگر اس سے یہ کیونکر ثابت ہوا کہ بنی اسرائیل کے لئے دریا نہیں پھٹا تھا۔ اوّل تو اس میں دریا کے جوار بھاٹ ہونے کا کوئی ذکر نہیں اور میں کہتا ہوں۔ اگر صریح لفظوں میں بھی بطلیموس لکھ جاتا کہ میرے دیکھتے ہوئے اس دریا میں جوار بھاٹ ہوتا رہا۔ تو بھی ہمیں مضر نہ تھا۔ اس لئے کہ تناقض کے نئے وحدت زمانہ کی بھی علماء منطق نے شرط لگائی ہے یہ نہیں کہ ایک شخص خبر دے کہ زید صبح کے وقت مسجد میں تھا۔ اور دوسرا بتلاوے کہ شام کو بازار میں تھا۔ تو ان دونوں میں کسی قسم کا تناقض یا تدافع ہو۔ پس ممکن ہے کہ بطلیموس کے زمانہ میں جو قریباً تین ہزار برس بعد میں ہوا بحر احمر میں جوار بھاٹ بقواعد علم جو الجی ہوگیا بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ کسی تاریخ سے بفرض محال اگر یہ بھی ثابت ہو کہ زمانہ عبور بنی اسرائیل میں جوار بھاٹ تھا۔ تو بھی ہمارے دعوٰی کو مضر نہیں۔ ممکن ہے کہ ہو مگر جب بنی اسرائیل گذرے ہوں تو خاص ان کی خاطر اللہ نے بہتے ہوئے دریا کو بند کردیا ہو۔ چنانچہ وَاِذْ فَرَقْنَابِکُمُ الْبَحْرَ فَکَانَ کُلُّ فِرْقٍ کَالطَّوْدِ الْعَظِیْمِ بتلا رہا ہے اور تورٰیت کی عبارت مذکورہ اس کی مشرح کیفیت بتلا رہی ہے۔ میں حیران ہوں کہ سید صاحب کس بناء پر قرآن کریم کو الہامی کتاب مان کر ایسی تاویلات رکیکہ اور اعذار بار وہ کیا کرتے ہیں۔ اس پر بھی طرہّ یہ کہ علماء کا لقب خشک ملا۔ کوڑ مغز۔ شہوت پرست آپ نے تجویز کر رکھے ہیں۔
کئے لاکھوں ستم اس پیار میں بھی آپ نے ہم پر
اللہ ناخواستہ گر خشمگیں ہوتے تو کیا کرتے
رہا آپ کا یہ اعتراض کہ ” اگر یہ واقعہ خلاف قانون قدرت ہوا تھا۔ تو اللہ تعالیٰ سمندر کے پانی کو ہی ایسا سخت کردیتا کہ مثال زمین کے اس پر سے چلے جاتے“ (جلد اوّل صفحہ ٧١) اس کا جواب آپ نے خود ہی صفحہ ١٩٢ پر دے کر اس تکلیف سے ہمیں سبکدوش فرمایا جزاک اللّٰہ خیر الجزائ۔ جہاں پر آپ نے سمت قبلہ کے اختیار کرنے اور دوسری جانب کو چھوڑنے کی ترجیح بلا مرحج کے سوال کو اٹھانے کو فرمایا ہے کہ :۔
” یہ شبہ بطور ایک شبہ عاتمہ الورود کے ہوگا جسے تمام عقلا لغو اور بیہودہ سمجھتے ہیں کیونکہ اگر بالفرض دو مساوی چیزوں میں سے ایک کے ترک اور ایک کے اختیار کرنے کی کوئی وجہ نہ ہو تو جو شبہ اس پر وارد ہوتا ہے وہی اس وقت بھی وارد ہوگا جب کہ مختار کو ترک اور متروک کو اختیار کیا جائے“ (جلد اوّل صفحہ ١٩٢)
پس اسی طرح کی یہاں صورت ہے آپ بتلا دیں آپ کے سوال کا نام وہی عقلاء کیا تجویز کریں گے۔ غالباً وہی لقب دیں گے جو آپ نے ایسے شبہ کے لئے تجویز فرمایا یعنی لغو اور بہ۔ علاوہ اس کے ہم اس شبہ کی لغویت اور طرح بھی ثابت کرتے ہیں کہ اگر اسی پانی کو ایسا سخت کیا جاتا تو آپ جیسے منکرین معجزات کو ایک قسم کی گنجائش مل جاتی کہ وہ پانی حسب نیچر سردی کی وجہ سے سخت ہوگیا ہوگا جیسا عموماً پہاڑوں میں ہوتا ہے کوئی سپر نیچرل (خرق عادت) معجزہ نہیں پس اسی بھید سے علام الغیوب اللہ تعالیٰ نے اس شق کو متروک اور اس کو اختیار کیا۔ فالحمدُللّٰہ علٰی ذٰلک (منہ) |
البقرة |
48 |
|
البقرة |
49 |
|
البقرة |
50 |
|
البقرة |
51 |
|
البقرة |
52 |
|
البقرة |
53 |
|
البقرة |
54 |
(54۔59)۔ جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ بھائیو ! تم نے بچھڑے کو معبود بنانے کی وجہ سے اپنے پر ظلم کیا۔ اس کا علاج سوائے توبہ کے نہیں پس تم اپنے خالق کی طرف دل سے جھک جاؤاور آپس میں ایک دوسرے کو قتل کرو۔ جو بچھڑا پوچنے میں شریک نہیں ہوئے وہ شریک ہونے والوں کو ماریں۔ یہ کشت وخون گو بظاہر تم کو برا معلوم ہوتا ہے لیکن تمہارے خالق کے ہاں یہی بہتر ہے پس تمہارے جھکنے کی ہی دیر تھی کہ اس مولانے بھی تم پر رحم کیا۔ اس لئے کہ وہ تو بڑا ہی رحم کرنے والا نہایت مہربان ہے باوجود اتنی مہربانیوں کے بھی تم باز نہ آئے اور ہمارے رسول موسیٰ کے ساتھ گستاخی اور بے ادبی ہی سے پیش آتے رہے۔ چنانچہ وہ واقعہ بھی تمہیں یاد ہے کہ جب تم نے کہا تھا کہ اے موسیٰ ! ہم تجھے ہرگز نہیں مانیں گے۔ جب تک کہ اللہ کو سامنے اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لیں پس تمہاری اس گستاخی کا بدلا تم کو یہ ملا کہ اسی وقت بجلی نے تمہارے دیکھتے ہی تم کو پکڑ لیا اور ہلاک کرڈالا۔ پھر موسیٰ نے دعا کی کہ اے اللہ میری قوم کے لوگ مجھ کو ملامت کرینگے تو اپنی مہربانی سے انہیں زندہ کردے۔ پھر ہم نے بعد تمہاری موت کے تم کو زندہ کیا۔ تاکہ تم اس نعمت کا شکر کرو اگر اسی موت سے مرے رہتے تو بسبب گناہ سابق کے سخت عذاب میں مبتلا ہوتے۔ اب جو تم کو زندہ کیا تو اس سے توبہ کی گنجائش تم کو ملی پس اس نعمت کا شکر تم پر واجب ہوا۔ مگر تم ایسے کہاں تھے کہ شکر گذار بنتے۔ اگر ایسے ہوتے تو اس نعمت کا شکر کرتے۔ جب ہم نے جنگل بیابان میں تم پر بادلوں کا سایہ کیا اور موسم برسات میں بارشیں کیں اور من سلوٰی بھی تم پر اتارا اور عام اجازت دی کہ ہماری نعمتیں کھاؤ جو ہم نے تم کو دی ہیں۔ آخر کار اس نعمت کی بھی ناشکری ہی تم سے ہوئی جس کا زوال بھی ان ناشکروں پر پڑا جسے انہوں نے بھگتا اور ہم پر اس ناشکری کی وجہ سے انہوں نے کوئی ظلم نہ کیا لیکن اپنا ہی نقصان کرتے تھے اور بھی سنو ! جب ہم نے کہا کہ اس بستی بیت المقدس میں چلے جاؤ۔ پھر اس شہر میں جہاں چاہو کھلم کھلا کھاتے پھرو۔ ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ تکبر نہ کرو اور شہر کے دروازہ میں بعاجزی جھکتے ہوئے داخل ہونا۔ اور یہ بھی کہتے جانا۔ کہ ہماری گناہ کی معافی ہو۔
ہم تمہاری خطائیں بخش دیں گے نہ صرف معاف ہی کریں گے بلکہ جو لوگ توبہ ہی پر رہیں گے اور اعمال نیک کریں گے ان
نیکوکاروں پر مزید عنائیت بھی ہم کریں گے۔ پھر بھی ہمارا حکم انہوں نے نہ مانا۔ بلکہ ظالموں نے بجائے اس کے جو ان کو حکم ہوا تھا کچھ اور ہی بدل دیا۔ اپناہی گیت گانے لگے بجائے حطّہ (معانی) کے حنطہ (گیہوں) کہنے لگے پس اس نافرمانی کا بدلہ بھی ان کو یہ ملا کہ ان ظالموں پر ہم نے خاص کر ان کے فساد اور فسق و فجور کے سبب سے آسمان سے عذاب اتارا جس سے وہ سارے کے سارے ہلاک ہوگئے ہم نے تو ان پر ہر طرح سے بندہ نوازی کی تھی مگر ان کی طبیعتیں ہمیشہ فتنہ پردازی میں لگی رہیں۔ |
البقرة |
55 |
|
البقرة |
56 |
|
البقرة |
57 |
|
البقرة |
58 |
|
البقرة |
59 |
|
البقرة |
60 |
(60۔66)۔ اور سنو ! جب حضرت موسیٰ نے اپنی قوم بنی اسرائیل کے لئے ہم سے پانی مانگا اور ہم نے حکم دیا کہ پتھر کو اپنی لکڑی مار۔ جب اس نے ماری تو بہہ نکلے اس سے بارہ چشمے اتنے ہی اس کی قوم کے مختلف قبائل تھے۔ لہٰذا ہر ایک شخص نے یہ جان کر کہ ہماری جماعتوں کے برابر ان چشموں کا شمار ہے اپنااپنا گھاٹ پہچان لیا۔ ہم نے بھی حکم دیا کہ کھائو پیئواللہ کے دیے ہوئے میں سے اور زمین پر فساد کرتے ہوئے نہ پھرو پھر اس نعمت کا بھی تم سے شکر نہ ہوا بلکہ الٹا کفران نعمت کیا پھر اسی پر بس نہیں اور سنو ! جب ہم نے تم پر میدان بیاباں میں من سلوٰی آسمان سے اتارا اور آرام سے تم کچھ مدت کھاتے رہے آخر کار بجائے شکریہ کے تم نے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) سے کہا کہ ہم تو ہرگز ایک ہی قسم کے کھانے من سلوٰی پر صبر نہیں کریں گے پس ہمارے لئے اپنے رب سے دعا مانگ کہ وہ ہمارے لئے ایسی چیزیں پیدا کرے جو زمین سے نکلتی ہیں یعنی ساگ ککڑی گیہوں مسور اور پیاز وغیرہ تاکہ ہم اپنی ترکاریاں چٹ پٹی بنایا کریں اس کے جواب میں موسیٰ ( علیہ السلام) نے کہا تعجب ہے تمہارے حال پر کیا اچھی چیز من سلوٰی کے بدلہ میں ادنیٰ چیز مسور وغیرہ لینا چاہتے ہو۔ اگر تمہارا یہی شوق ہے تو کسی شہر میں جا بسو پس جو مانگتے ہو وہ تم کو وہاں ملے گا جب کہ انہوں نے خود ہی ان اشیاء کی درخواست کی تو اسی کے مناسب ان کی گت ہوئی اور ان پر ذلت اور محتاجی ڈالی گئی جیسے کہ عموماً دہقانوں پر ہوتی ہیں نہ صرف مفلسی اور تنگ دستی بلکہ بعد اس کے بھی انہوں نے بے فرمانی کر کے اللہ تعالیٰ کا غضب اپنے پر لیا یہ اس لئے کہ ہمیشہ اللہ کے احکام کو جھٹلاتے رہے یہاں تک اس میں دلیر ہوئے کہ احکام شرعیہ کی عموماً گستاخی کرتے اور اللہ کے نبیوں کو جو کہ بڑی بھاری اللہ تعالیٰ کی نشانی ہوتی ہے ناحق ظلم سے قتل کرتے تھے چنانچہ حضرت یحیٰے ( علیہ السلام) اور زکریاکو ناحق انہوں نے قتل کیا قاعدہ ہے کہ ابتدا میں انسان چھوٹے چھوٹے گناہ دلیری سے کرتا ہے آخر نوبت یہ ہوتی ہے کہ بڑوں سے بھی پرہیزی نہیں کرتا چنانچہ یہ قتل قتال نبیوں کا جو بنی اسرائیل نے کیا اس وجہ سے تھا کہ وہ پہلے ہی سے نافرمانی اور سرکشی کیا کرتے تھے آخر نوبت بآں جا رسید کہ انہوں نے اپنے دنیاوی منافع کے لئے اللہ کے رسولوں کو قتل کر ڈالا اے بنی اسرائیل جو کچھ تم نے اور تمہارے بزرگوں نے پہلے سے کیا سو کیا اب بھی اگر تم باز آجائو گے تو ہم تمہیں معاف کردیں گے کیونکہ ہمیں اس بات کا خیال نہیں کہ کوئی کون ہے اور کوئی کون بلکہ ہمارے ہاں تو ایمان اور اخلاص معتبر ہے اس لئے ہم اعلان عام دیتے ہیں کہ جو لوگ سرسری اور ظاہری طور پر اللہ اور رسول کو مانتے ہیں یا جو لوگ یہودی ہیں جو سچے رسول حضرت محمد رسول اللہ ﷺسے سخت بے جا عداوت رکھتے ہیں یا عیسائی یا دہرئے بےدین جو ایسے عقل سے خالی ہیں کہ اپنا خالق کسی کو نہیں مانتے کوئی ہو جو کوئی ان میں سے اللہ کے حکموں کو دل سے مانے اور قیامت کے دن کا یقین کرے اور عمل بھی شریعت محمدیہ کے مطابق اچھے کرے پس ان لوگوں کی مزدوری بڑی ہی محفوظ ان کے مالک اللہ عالم کے پاس ہے۔ نہ ان کو زندگی میں اس کے ضائع ہونے کا خوف ہے اور نہ وہ بعد مرنے کے اس کے ضائع ہونے سے غمناک ہوں گے اس لئے کہ وہ ضائع ہی نہ ہوں گی مگر تم ایسے کہاں کہ چپکے سے مان لو تمہاری تو ابتدا سے انکار اور غرور کی عادت رہی اور سنو ! کہ جب ہم نے تم پر پہاڑکواونچا کرکے تم سے وعدہ لیا کہ توریت پر عمل کرنا اور حضرت موسیٰ کی زبانی تاکید بھی کی کہ جو تم کو ہم نے دیا اسے مضبوط پکڑے رہنا اور جو اس میں ہے اسے دل سے یاد کرنا اور اس امر کی امید رکھنا کہ شائد تم عذاب سے چھوٹ جائو مگر تم ایسے کہاں تھے کہ سیدھے رہتے پھر بھی اپنے عہدوپیمان سے تم پھر گئے جس کے سبب مورد عتاب ہوئے پھر اگر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہوتی تو بے شک تم ٹوٹا پاتے کہ دین اور دنیا میں تم کو سخت ذلت پہنچتی کیا تمہیں کچھ اس میں شک ہے کہ جو لوگ ہمارے حکموں سے رو گردانی کرتے ہیں ان کو کیسی ذلت اور خواری پہنچتی ہے حالانکہ یقینا تم ان شریر لوگوں کو جان چکے ہو جنہوں نے تم میں سے ہفتہ کے حکم میں زیا دتی کی جو ان کو حکم تھا کہ ہفتہ کے روز دنیاوی کام نہ کرنا انہوں نے اس کی پرواہ نہ کی کسی حیلہ بہانہ سے دنیاوی کام کرتے ہی رہے پس ہم نے ان کو حکم دیا کہ تم پھٹکارے ہوئے ہو بندر ہوجائو چنانچہ وہ ہوگئے پس ہم نے کیا اس قصہ کو ہیبت ناک نظارہ اس کے سامنے دیکھنے والوں کے لئے اور اس سے پچھلوں کے لئے اور اللہ سے ڈرنے والوں کے حق میں نصیحت بنایا اس انکار اور سرکشی کی عادت تم میں نئی نہیں ہے بلکہ یہ بد خوئی تم میں ابتدا ہی سے چلی آتی ہے
سر سید کی چھٹی غلطی :
(پتھر کو اپنی لکڑی مار) اس آیت میں اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ کے ایک معجزے کا بیان فرماتا ہے مطلب اس آیت کا تو صرف اتنا ہے کہ حضرت موسیٰ کے پانی مانگنے پر ہم نے ان کو پتھر پر لکڑی مارنے کا حکم دیا جب اس نے پتھر کو لکڑی سے مارا تو اس میں سے بارہ چشمے حسب تعداد قبائل بنی اسرائیل جاری ہوگئے۔ یہ واقعہ بعینہ تورٰیت میں بھی اسی طرح مذکور ہے۔ تورٰیت کی دوسری کتاب سفر خروج ١٧ باب اوّل آیت میں یوں ہے۔
” تب ساری بنی اسرائیل کی جماعت نے اپنے سفروں میں اللہ کے فرمان کے مطابق سین کے بیابان سے کوچ کیا اور فیدم میں ڈیرا کیا۔ وہاں لوگوں کے پینے کو پانی نہ تھا۔ سو لوگ موسیٰ سے جھگڑنے لگے اور کہا ہم کو پانی دے کہ پیویں۔ موسیٰ نے انہیں کہا تم مجھ سے کیوں جھگڑتے ہو۔ اور اللہ کا کیوں امتحان کرتے ہو۔ اور وہی لوگ وہاں پانی کے پیاسے تھے سو لوگ موسیٰ پر جنجھلائے اور کہا کہ تو مصر سے کیوں ہمیں نکال لایا کہ ہمیں اور ہمارے لڑکوں اور ہمارے مواشی کو پیاس سے ہلاک کرے۔ موسیٰ ( علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے فریاد کر کے کہا کہ میں ان لوگوں سے کیا کروں وہ ہی سب تو ابھی مجھے سنگسار کرنے کو تیار ہیں۔ اللہ نے موسیٰ کو فرمایا کہ لوگوں کے آگے جا اور بنی اسرائیل کے بزرگوں کو اپنے ساتھ لے اور اپنا عصا جو تو دریا پر مارتا تھا اپنے ہاتھ میں لے اور جا دیکھ کہ میں وہاں حورب کی چٹان پر تیرے آگے کھڑا ہوں گا تو اس چٹان کو مار تو اس سے پانی نکلے گا تاکہ لوگ پیویں چنانچہ موسیٰ نے بنی اسرائیل کے بزرگوں کے سامنے یہی کہا اور اس نے اس لئے کہ بنی اسرائیل نے وہاں جھگڑا کیا تھا اور اس لئے کہ انہوں نے اللہ کو امتحان کیا تھا اور کہا تھا کہ اللہ ہمارے بیچ میں ہے کہ نہیں اس جگہ کا نام مسہ اور مریبہ رکھا (یعنی امتحان کی جگہ)۔
گویہ واقع بھی سیدھے سادھے الفاظ سے قرآن کریم میں مذکور ہے اور تورٰیت میں اس کا مفصل ذکر ہے مگر سرسید کو وہی پرانی سوجھی انہوں نے اس پر بھی ہاتھ صاف کرنا چاہا اور یہ درفشانی کی :۔
” حجر کے معنے پہاڑ کے ہیں۔ اور ضرب کے معنے رفتن کے۔ پس صاف معنے یہ ہوئے کہ اپنی لاٹھی کے سہارے سے پہاڑ پر چل۔ اس پہاڑ کے پرے ایک مقام ہے۔ وہاں بارہ چشمے پانی کے جاری تھے جن کی نسبت اللہ تعالیٰ نے فرمایا فانْفَجَرَتْ مِنْہُ اثْنَتَا عَشْرَۃَ عَیْنًا یعنی اس سے پھوٹ نکلے ہیں بارہ چشمے (جلد اوّل صفحہ ١١٢)
کاش کہ اسی پہاڑ سے ہی کہہ دیا ہوتا کہ مِنْہُ کی ضمیر مجرور اسی حجر کی طرف پھرجاتی ہیں۔ اس میں تو شک نہیں کہ جو کچھ مضمون سید صاحب تراش رہے ہیں۔ موجود الفاظ سے وہ معنے کسی طرح مفہوم نہیں ہوتے۔ رہا حذف حروف جارہ کا۔ سو جب تک موجودہ عبارت معنے بتلانے میں بے غبار ہے اور وہ معنے فی نفسہ صحیح اور ممکن اور منقولات سے مبرہن ہیں تب تک کسی قسم کا خذف بلا ضرورت جائز نہیں۔ اور اگر ایسے بلا ضرورت حروف جارہ کا حذف مانیں تو فرمائے کہ مَنْ شَھِدَ مِنْکُمُ الشَّھْرَ فَلْیَصُمْہُ سے اگر کوئی حرف جار کو حذف سمجھ کر تقدیر کلام فَلْیَصُمْ فِیْہِ بتلائے جس سے سارے مہینے رمضان کے روزوں کی فرضیت غیر ضروری ہو۔ بلکہ چند روزے رکھنے سے مکلف عہدہ برآہو سکے تو ایسے شخص کے جواب میں غالباً آپ بھی یہی کہیں گے کہ ایسے موقع پر جہاں کلام میں حذف کرنے سے موجودہ عبارت سے معنے ہی دگرگوں ہوجائیں حذف جائز نہیں اس لئے کہ حذف عبارت مثل مردار کے ہے۔ جب تک حلال (موجودہ عبارت) سے کام چل سکے تب تک حرام (حذف) کی طرف خیال کرنا گویا بلا ضرورت مردار خوری ہے۔ سو ہماری طرف سے بھی یہی جواب باادب یا اس کے ہم معنے یا لازم معنی گذارش ہوگا۔ اصل یہ ہے کہ سید صاحب کو ایسے مواقع میں ہمیشہ وہی سپر نیچرل (خلاف قانون قدرت) کی مشکل در پیش آتی ہے جس کا جواب مفصل ہم اذفرقنا کے حاشیہ میں معروض کر آئے ہیں۔ گر قبول افتدز ہے عزو شرف۔ علاوہ اس کے گذراش خاص یہ ہے کہ اتنا تو سرسید بھی مانتے ہیں کہ عناصر میں کون و فساد بھی ہونا نہ صرف ممکن بلکہ مشاہد ہے یعنی ہوا سے پانی اور پانی سے ہوا وغیرہ بنتا ہے پس ممکن ہے کہ اس پتھر میں بھی جس سے بنی اسرائیل کے لئے پانی نکلا تھا کچھ اس قسم کے مسامات دقیقہ ہوں جن میں ہوا کی درآمد برآمد ہوتی ہو۔ اور اس کے اندر پہنچ کر بہ سبب برودت کے پانی ہو کر بہہ جاتی۔ لیجئے صاحب آپ کا نیچرل بھی بحال رہا اور آیت کے معنے بھی آپ کی آفت سماوی سے محفوظ رہے۔ رہا یہ شبہ کہ اس میں زدن کو کیا دخل تھا جس کے مارنے کا حضرت موسیٰ کو حکم ہو رہا ہے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہم معجزے کی تعریف میں کہہ آئے ہیں کہ بغیر اسباب کے محض قدرت اللہ سے ہوتا ہے۔ گو کہ یہ ضروری ہے کہ اس کے اسباب بھی کچھ ہوں مگر چونکہ وہ ان اسباب سے جو عام طور پر بطور عادت اور نیچرل کے اس کے لئے سمجھے جایا کرتے ہیں۔ خالی ہوتا ہے اس لئے اس کو بلا اسباب ہی کہا کرتے ہیں۔ پس اسی طرح ضرب موسیٰ ( علیہ السلام) کو بھی گو حسب عادت اس میں دخل نہیں۔ لیکن ممکن ہے کہ ان اسباب خفیہ سے جن سے یہ بھی ایک خفی سبب ہی خلاف عادت اللہ تعالیٰ نے اس امر کا ظہور فرمایا ہو۔
اخیر میں ہم سرسید کی کمال تحقیق کا ذکر کرنے کے بغیر بھی نہیں رہ سکتے۔ کہ انہوں نے اس موقع پر تورٰیت کے اصل مقام مناسب کا نام تک نہیں لیا۔ اور جولیا بھی تو ایسے ایک بے لگائو مقام کا کہ جس سے آیت کو کچھ بھی تعلق نہ تھا۔ مگر چونکہ اس میں بارہ چشموں کا مذکور تھا اس لئے غنیمت جان کر فوراً ذکر کردیا۔ گو وہ واقعہ ایلیم کا ہے اور یہ رفیدیم کا سچ ہے ؎
کالے گورے پہ کچھ نہیں موقوف
دل کے لگنے کا ڈھنگ اور ہی ہے
(منہ) |
البقرة |
61 |
|
البقرة |
62 |
|
البقرة |
63 |
|
البقرة |
64 |
|
البقرة |
65 |
|
البقرة |
66 |
|
البقرة |
67 |
(67۔71)۔ اور سنو ! جب حضرت موسیٰ نے اپنی قوم سے جب انہوں نے ایک بے گناہ آدمی کو قتل کر ڈالا تھا اور آپس میں ایک دوسرے پر بہتان لگائے جیسا کہ آگے آتا ہے تو اس کے فیصلے کے لئے کہا کہ اللہ تعالیٰ اس معاملہ میں تم کو یہ حکم دیتا ہے کہ تم ایک گائے ذبح کرو تمہارے بزرگوں نے اس کی حکمت تو نہ سمجھی الٹے اعتراض کرنے لگے اور حضرت موسیٰ کے سامنے گستاخی سے بولے کہ اے موسیٰ کیا تو ہم سے مسخری کرتا ہے ؟ ہم تو ایک خون کا مقدمہ تیرے پاس لائے ہیں اور تو ہم کو گائے کا قصہ سناتا ہے سوال ازآسماں جواب ازریسماں کا معاملہ نہیں تو کیا ہے موسیٰ نے نہایت تہذیب کے ساتھ ان کو جواب میں کہا کہ ٹھٹھہ مسخری کرنا تو بازاری لوگوں اور جاہلوں کا کام ہے پناہ اللہ تعالیٰ کی اس سے کہ میں جاہل بنوں میں تو اللہ تعالیٰ کارسول ہوں اور اس کے احکام سناتاہوں موسیٰ کا یہ جواب سن کر ذراسرد پڑے مگر بیہودہ سوالات کی عادت نہ گئی آخر بولے کہ بہترہم آپ کا حکم مانتے ہیں لیکن اپنے اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ ہمیں صاف بتلادے کہ وہ گائے کیسی ہے اور اس کی عمر کیا ہے موسیٰ نے کہا کہ اللہ فرماتا ہے کہ وہ گائے نہ بوڑھی ہے نہ بہت چھوٹی بلکہ درمیانی عمر کی ہے اب سوال مت کرو جو کچھ تم کو حکم الٰہی ہوتا ہے وہی کرو مگر وہ اپنی عادت نہ بھولے کہنے لگے ایک دفعہ اور اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ ہمیں بتلادے کہ اس گائے کا رنگ کیسا ہے موسیٰ نے کہا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ گائے زرد رنگ کی ہے ایسا عمدہ ہے رنگ اس کا کہ دیکھنے والوں کو نہایت بھلی لگتی ہے اتنا سن سناکر بھی باز نہ آئے اور بولے کہ ایک دفعہ پھر اپنے رب سے دعا کیجئے کہ بتلادے ہم کو کہ وہ گائے کیسی ہے وہ دودھ دینے والی ہے یا کام کرنے وا لی جیسا کہ بعض گائیں ہل جوتنے میں کام دیتی ہیں کیونکہ اس قسم کی گائیں ہمارے ہاں بہت ہیں اس لئے مختلف قسم کی گائیں ہم پر مشتبہ ہو رہی ہیں پورے طور سے معلوم نہیں ہوتا کہ اللہ کو کون سی گائے منظور ہے ہماری غرض اس سے تحقیق حق ہے انشاء اللہ آپ بتلادیں گے تو ہم ضرور ہی پا جائیں گے۔
موسیٰ نے کہا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وہ گائے کام کرنے وا لی نہیں جو ہل چلاکر زمین کو پھاڑتی ہو نہ کسی کھیت کو پانی پلاتی ہے بلکہ وہ بے
عیب اور تندرست ہے کوئی داغ بھی اس میں نہیں یہ سب فضول جھگڑے کرکے بولے کہ صاحب ! اب آپ نے ٹھیک بات بتائی پس اللہ اللہ کرکے انہوں نے اس گائے کو ذبح کیا ان کے جھگڑے سننے والوں کو تعجب ہوتا تھا اور دیکھنے والوں کو امید نہ تھی کہ وہ کریں گے |
البقرة |
68 |
|
البقرة |
69 |
|
البقرة |
70 |
|
البقرة |
71 |
|
البقرة |
72 |
(72۔74)۔ اس آخرالزماں رسول سے بھی تمہارا انکار کوئی تعجب کی بات نہیں تم تو موسیٰ سے بھی در پردہ کبھی منکر ہوجایا کرتے تھے یاد کرو جب ایک نفس کو مار کر تم نے اس میں تنازع کیا کوئی کہتا تھا اس نے مارا کوئی کہتا اس نے تمہارا گمان تھا کہ اللہ تعالیٰ موسیٰ کو خبر نہ کرے گا مگر اللہ ایسے امور پر اپنے رسولوں کو ضرور مطلع کیا کرتا ہے اور جس امر کو تم چھپاتے تھے اللہ نے اس کو ظاہر کرنا تھا کیونکہ ظاہری قانون قدرت ہے کہ ظاہری اسباب سے کام ہوتے ہیں پس ہم نے حکم دیا کہ اس گائے مذبوحہ میں سے ایک ٹکڑا اس مردے سے لگائو انہوں نے اسی طرح حسب الحکم لگایا وہ مردہ زندہ ہوگیا مگر افسوس کہ تم نے ایسے نشان قدرت دیکھ کر بھی ایسی بداعمالیاں اختیار کیں گویا روز جزا ہی بھول گئے اور جان لیا کہ مر کر اللہ کے سامنے نہیں جانا بلکہ زندہ ہی نہیں ہونا سو یاد رکھو ! بے شک اللہ تعالیٰ اسی طرح باسباب مؤثرہ مردوں کو زندہ کرے گا جس طرح کہ یہ تمہارا مردہ بظاہر بلا اسباب مگر در حقیقت بااسباب مؤثرہ زندہ کر کے دکھلا دیا اور پہلے زندہ کرنے کے تم کو اپنی نشانیاں دکھاتا ہے تاکہ تم سمجھ جائو مگر تم ایسے کہاں تھے کہ اتنی بڑی نشانی دیکھ کر بھی ہمیشہ کیلئے مان لیتے بعد اس کے پھر تمہارے دل سخت ہوگئے پس وہ سختی میں مثل پتھروں کی ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ سخت کہ پتھروں کی سختی تو طبعی ہے اور بعض پتھر ایسے بھی ہیں کہ ان میں سے نہریں جاری ہوتی ہیں اور بعض ایسے ہیں کہ وہ کسی قدر پھٹ جاتے ہیں پھر بسبب پھٹنے کے ان میں سے تھوڑا تھوڑا پانی نکل آتا ہے۔ اور بعض پتھر ایسے ہیں کہ اللہ کے خوف سے گر جاتے ہیں مگر تم ایسے ہو کہ ان پتھروں سے بھی سخت دل اور بے پرواہ بن رہے ہو۔ یہ مت سمجھو کہ اس کی سزا تم کو نہ ہوگی۔ بے شک ہوگی۔ اس لئے کہ ظالموں کی سرکو بی سے خاموش رہنا غافلوں کا کام ہے اور اللہ تمہارے کاموں سے غافل نہیں ہے |
البقرة |
73 |
|
البقرة |
74 |
|
البقرة |
75 |
کیا تم اے مسلمانو ! ان کی ایسی کاروائیاں دیکھتے اور سنتے ہو پھر امید بھی رکھتے ہو کہ تمہاری باتیں مان لیں گے حالانکہ علاوہ واقعات گزشتہ کے اب بھی ایک گروہ ان میں ایسا ہے جن پر دنیا کی محبت ایسی غالب ہے کہ باوجود اہل علم اور پادری ہونے کے تورات کو جسے کلام الٰہی بھی مانتے ہیں اٹھا کر نہیں دیکھتے اور اگر کوئی انکو لاکر دکھا دے بھی تو کلام الٰہی کو سن کر۔ اپنے مطلب کی طرف پھیر لیتے ہیں۔ یہ نہیں کہ غلط فہمی سے ایسا کرتے ہیں بلکہ بعد سمجھنے کے دیدہ ودانستہ حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ ہم جو کچھ کرتے ہیں واقعی برا ہے۔
(کلام الہٰی) اس آیت میں اللہ یہودیوں کے فعل شنیع کا حال بیان کرتا ہے۔ اس آیت کے متعلق اس بحث سے قطع نظر کہ یہ تحریف لفظی ہے یا معنوی خاص طور پر ایک اشکال وارد ہوتا ہے۔ جس کی طرف کسی مفسر کی توجہ میری نظر سے نہیں گذری اور اس کے دفع کرنے کی طرف میں نے تفسرت میں اشارہ کیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ اس تحریف کے کرنے والوں کی تعیین میں مفسرین نے دو توجیہیں کی ہیں۔ ایک تو یہ کہ یہ لوگ وہ ہیں جو حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کے ساتھ کوہ طور پر کلام الٰہی سننے گئے تھے اور انہوں نے آکر بنی اسرائیل سے جب بیان کیا تو سب کچھ کہہ کر اخیر میں اپنی طرف سے یہ بھی کہہ دیا کہ اللہ نے فرمایا تھا کہ یہ کام تم کیجئیو اگر تم میں طاقت ہو۔ اور اگر نہ ہو تو خیر دوسری توجیہہ یہ ہے کہ یہ لوگ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد ہدایت مہد میں تھے انہیں دوسرے معنوں کی آئندہ آیت تائید کرتی ہے کیونکہ جو حال اگلی آیت میں بیان ہوا ہے وہ کسی طرح سے ان لوگوں پر صادق نہیں آسکتا۔ جو حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کے ہمراہ تھے پس اس صورت میں یہ مشکل پیش آئے گی کہ تحریف کرنا خواہ لفظی ہو یا معنوں اس میں شک نہیں کہ علماء کا کام ہے اور کلام ہے اور کلام کا سن کر عمل کرنا جہلا کا کام۔ حالانکہ اس آیت میں فرمایا کہ سنتے ہیں اور تحریف کرتے ہیں جو ایک طرح سے متضادین کا جمع کرنا ہے بظاہر مناسب یوں تھا کہ پڑھتے ہیں اور تحریف کرتے ہیں اس اعتراض کی طرف میں نے تفسیر میں اشارہ کیا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اس فعل شنیع کے بیان کرنے میں ان کی ایک قسم کی اور شناخت بیان ہو رہی ہے۔ کہ یہ لوگ کتاب اللہ کو خود تو بشوق پڑھتے نہیں۔ ہاں اگر کوئی مقابل میں لاکہ پیش کرے اور اس کے متعلق کچھ سوال کرے تو سن کر اس کی تحریف کردیتے ہیں۔ راقم کہتا ہے کہ ایسے افعال شنیعہ اور اطوار قبیحہ مسلمانوں میں بھی عام طور پر مروج ہوگئے ہیں۔ کتاب اللہ قرآن کریم چھوڑ کر نَبَذُوْا کِتَاب اللّٰہِ وَرَائَ ظُھُوْرِھِمْ کے مصداق بن رہے ہیں۔ جھوٹی روایات اور قصص واہیات کے بیان کے محل۔ اب ہمارے ممبر ہیں قرآن مجید جو عین وعظ تھا اور وعظ ہی کے لئے اترا تھا اور اسے ہی حضور اقدس فداہ روحی ہمیشہ اپنے خطبوں میں پڑھ کر لوگوں کو وعظ نصیحت کیا کرتے تھے۔ اسی کی یہ حالت ہے کہ خطبوں میں بھی اس کو جگہ نہیں ملتی۔ وہ جگہ ہی مروج خطب مصنفہ نے جن میں بعض نظم اور بعض نثر ہیں۔ اپنے لئے مخصوص کرلی ہے۔ ہاں تبرکاً اگر کوئی آیت منہ سے نکل جائے تو اور بات ہے واحسرتا اس روز ہم کیا جواب دیں گے۔ جب ہم پر اس مضمون کی نالش ہوجائے گی۔ وَقَال الرَّسُوْلُ یَا رَبِّ اِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوْا ھٰذَا الْقُرْاٰنَ مَھْجُوْرًا۔ (رسول (علیہ السلام) بروز قیامت کہیں گے کہ اے میرے پروردگار ! میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ دیا تھا) (منہ) |
البقرة |
76 |
(76۔82)۔ یہ تو انکی علمی کاروائی تھی اب عملی کیفیت بھی سنو ! ہر ایک کام میں اپنا مطلب مدنظر رکھتے ہیں اور جب کبھی مسلمانوں سے ملتے ہیں تو بوجہ اپنی دنیا داری کے ان سے بگاڑنا نہیں چاہتے بلکہ بطور دھوکہ دہی اور مطلب براری کے کہتے ہیں کہ ہم نے تمہارے دین کو مدت سے مانا ہوا ہے کہ سچی ہے اور واقعی اس نبی کی بابت پہلے ہی سے حضرت موسیٰ نے خبردی ہوئی ہے اور جب ایک دوسرے سے اپنی مجالس میں ملتے ہیں تو بطور ملامت کے کہتے ہیں۔ کہ تم بھی عجیب احمق ہو۔ کیا ان مسلمانوں کو وہ راز بتاتے ہو۔ جو اللہ تعالیٰ نے خاص تم ہی کو بتلائے ہیں کیا ان مسلمانوں کو اس غرض سے بتلاتے ہوتاکہ وہ تم سے بعد مرنے کے اسی دلیل سے اللہ تعالیٰ کے سامنے جھگڑا کریں۔ اگر یہی خیال ہے تو بڑے ہی نادان ہو۔ کیا تم سمجھتے نہیں ہو کہ اس کا ضرر کس پر ہوگا۔ افسوس ہے ان پر کیا یہ گمان کرتے ہیں کہ انکے چھپانے سے چھپ جائے گا۔ اور نہیں جانتے کہ اللہ ان کی باتیں جو ظاہر کرتے ہیں اور جو چھپاتے ہیں سب جانتا ہے ایک گروہ کا تو یہ حال ہے جو سن چکے ہو۔ اور بعض ان میں سے ایسے ناواقف ہیں جو کتاب میں سے کچھ بھی نہیں جانتے ہاں اپنی بے جا امنگیں ضرور لئے ہوئے ہیں حالانکہ ان امنگوں کو درست ہونے کا بھی ان کو علم نہیں بلکہ یوں ہی اٹکلیں چلاتے ہیں اصل یہ ہے کہ اہل کتاب دو قسم پر ہیں۔ ایک تو عالم ہیں جن کو دعوٰی ہے کہ ہم اہل دانش اور اسرارالٰہی سے واقف ہیں۔ دوسرے عوام ہیں اہل علم عوام کا لانعام کو دھوکہ میں ڈالنے کی غرض سے اپنی ہاتھ کی لکھی ہوئی باتوں کو اللہ کی طرف لگاتے ہیں۔ پس افسوس ہے ان نام کے عالموں کو جو اپنے ہاتھ سے ایک منصوبہ لکھتے ہیں۔ پھر لوگوں سے کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے اس بناوٹ سے ان کی غرض کوئی ہدائیت خلق اللہ نہیں حاشا وکلا بلکہ سارے حیلے حوالے اس لئے کرتے ہیں تاکہ اس کے عوض میں کسی قدر دنیا کا مال حاصل کریں دیکھو تو کیسا بڑا ظلم کرتے ہیں۔ پس افسوس ہے ان کے حال پر ان کے لکھنے کی وجہ سے اور افسوس ہے ان پر ان کی کمائی سے منجملہ ان کی دروغگوئی کے یہ ہے کہ اپنے تئیں محبوب الٰہی ہونے کے مدعی ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم چاہے کچھ بھی کریں۔ ہم کو چند روز سے زیادہ آگ کا عذاب نہ ہوگا۔ نہایت سے نہایت چالیس روز تک اس لئے کہ ہمارے بزرگوں نے چالیس روز تک بچھڑے کی عبادت کی ہے۔ اے رسول تو ان سے کہ دے کہ تم نے کوئی اللہ سے اس امر کا اقرار لیا ہے کہ جو چاہو سو کیا کرو میں تمہیں کبھی بھی مواخذہ نہ کروں گا۔ اگر کوئی عہد لیا ہوا ہے تو بیشک قابل اعتماد ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ اپنے عہد کے خلاف نہیں کرے گا۔ مگر واقعی بات یہ ہے کہ اس امر کا اقرار ہی کوئی نہیں۔ تو کیا اللہ کی نسبت ایسی بے ہودہ باتیں کہتے ہو۔ جو خود بھی نہیں جانتے۔ ہاں سنو ! حق یہ ہے کہ جو شخص گناہ کرے اور اس درجہ اس کی بداعمالیاں پہنچیں کہ اس کے ایمان کو بھی گھیر لین یعنی ہر قسم کے کفر وشرک وغیرہ میں مبتلا ہو۔ تو ایسے لوگ بے شک آگ میں جائیں گے نہ صرف چند روزہ بلکہ وہ ہمیشہ اسی میں رہیں گے۔ اور جو لوگ اللہ تعالیٰ پر ایمان لائیں گے اور موافق مرضی اس کی کے اچھے کام کریں ایسے لوگ بیشک جنت میں جائیں گے۔ نہ صرف جائیں گے بلکہ وہ ہمیشہ اسی میں رہیں گے تعجب کہ یہود کس منہ سے کہتے ہیں کہ ہم کو عزاب نہ ہوگا جو چاہیں ہم کئے جائیں۔ |
البقرة |
77 |
|
البقرة |
78 |
|
البقرة |
79 |
|
البقرة |
80 |
|
البقرة |
81 |
|
البقرة |
82 |
|
البقرة |
83 |
(83۔86)۔ کیا ان کو یاد نہیں کہ جب ہم نے بنی اسرائیل سے اس امر کا عہد لیا تھا کہ سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ، قریبیوں، یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ احسان کرنا اور علاوہ اس کے سب لوگوں سے اچھی طرح بولنا نہ صرف دنیا سازوں کی طرح کہ کہیں کچھ اور کریں کچھ۔ بلکہ خود بھی عمل کرنا اور نماز پڑھنا اور زکوٰۃ مال کی دیا کرنا اس لئے کہ ان دو کے کرنے سے بدنی اور مالی دونوں عبادتیں پوری ہوجاتی ہیں مگر تم اپنی ہٹ سے باز نہ آئے پھر بعد اس عہدوپیمان کے بھی تم سب اس سے پھر گئے۔ مگر بہت تھوڑے سے تم میں سے ثابت قدم رہے پھر کیونکر ہوسکتا ہے کہ تھوڑے ہی روز تم کو عذاب ہو۔ حالانکہ اب بھی تم اللہ کے حکموں سے منہ پھیرے جاتے ہو۔ نہ صرف یہی عہد تم نے توڑا بلکہ کئی اس سے پہلے پیچھے اور بھی توڑے۔ اور سنو ! جب ہم نے تم سے یہ عہد لیا تھا کہ آپس میں خون ریزی نہ کرنا اور اپنے بھائی بندوں کو ان کے وطن سے نہ نکالنا پھر تم نے اقرار بھی کیا اور اب تک تم اس امر کے شاہد ہو۔ مگر ظاہر جو ہوا وہ صرف زبانی جمع خرچ تھا۔ پھر تم نے اے بنی اسرائیل کے لوگو ! سب حکموں کا خلاف کیا چنانچہ پہلے ہی حکم کو تم نے اس طرح سے پلٹا کہ اپنے بھائی بندوں کو قتل کرتے ہو اور دوسرے حکم کا خلاف یہ کیا کہ اپنے میں سے ایک جماعت کو ضعیف جان کر بجائے جگہ دینے کے ان کے گھروں سے بھی نکال دیتے ہو۔ پھر اسی پر بس نہیں بلکہ اور بھی جہاں تک ہوسکتا ہے کر گزرتے ہو۔ اور ان کو تکلیف پہنچانے میں ان کے دشمنوں کے گناہ اور ظلم میں مدد کرتے ہو۔ یہ نہیں سمجھتے ہو کہ یہ بیچارے آخری بھائی بند تو تمھارے ہیں جیسا کہ اس وقت سمجھتے ہو جب ان پر کوئی بیرونی دشمن غالب آتا ہے اور ذلیل کرتا ہے اس وقت تو ایسے مہربان بنتے ہو کہ اگر وہ تمہارے پاس دشمن کے ہاتھ قیدی ہو کر آویں تو بدلہ بھی دیکر ان کو چھڑا لیتے ہو۔ حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ ان مظلوموں کا نکالنا بھی تو تم پر حرام ہے۔ اس کا خلاف کیوں ہمیشہ کرتے ہو۔ کیا آدھی کتاب کے حکموں کو مانتے ہو اور کچھ حصہ سے انکار کرتے ہو۔ پس جو کوئی تم میں سے یہ وطیرہ اختیار کرے اس کو دنیا میں خواری اور ذلت کے سوا کچھ بھی نصیب نہ ہوگا اور اسی پر بس نہیں بلکہ قیامت کے روز جو واقعی یوم الجزا ہے سخت عذاب میں پہنچائے جائیں گے۔ اس لیے کہ یہ بات بڑی مجرمانہ حرکت ہے۔ اور اللہ تمھارے کاموں سے کسی طرح بے خبر نہیں۔ ایسے شریروں کی سزا اس قدر کچھ زائد اور حد سے متجاوز نہیں۔ ان کا جرم بھی تو اعلیٰ درجہ کا ہے یہی تو ہیں جنہوں نے دنیا کو آخرت کے عوض میں لیا۔ محض دنیاوی فوائد کے لحاظ سے اپنی آخرت کا خیال نہیں کیا۔ پس ان کے جرم کے مناسب یہی سزا ہے کہ نہ تو ان سے عذاب تخفیف ہوگا اور نہ ان کو کسی سے مدد پہنچے گی۔ |
البقرة |
84 |
|
البقرة |
85 |
|
البقرة |
86 |
|
البقرة |
87 |
(87۔93)۔ بھلا اور قصہ بھی سن لو ! جس کے سننے کے بعد تم جان جاؤ گے کہ واقعی یہ لوگ اسی سزا کے لائق اور مستوجب ہیں ابتداء سے ہم نے ان پر ہر طرح کے احسان کئے۔ فرعون کی قید سے نکال کر ان کو حاکم بنایا۔ اور ان کی ہدائیت کے لئے موسیٰ (علیہ السلام) کو ہم نے کتاب بھی دی۔ مگر چونکہ طبیعت میں ان کی شرارت اور کجروی تھی۔ اس لئے حضرت موسیٰ کی زندگی ہی میں اس سے بھی الجھتے تھے بعد اس کے تو زیادہ ہی بگڑنے کا موقع تھا۔ اس لئے موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد ہم نے اس کے خلیفہ بنائے۔ اور اس کے پیچھے کئی رسول بھی بھیجے مگر ان لوگوں نے ایسے ظلم اور ستم ڈھائے کہ کسی کو قتل کیا اور کسی کو نکال دیا۔ سب سے اخیر ہم نے عیسیٰ ابن مریم کو روشن معجزے دئیے اور اس کو جبرئیل کے ذریعے سے قوت بھی دی کہ اکثر اوقات مسیح کے ہم رکاب رہتا۔ لیکن انہوں نے کبھی کسی نبی کی کما حقہ تعظیم نہیں کی۔ بلکہ ہمیشہ معاملہ دگرگوں ہی کرتے رہے۔ کوئی ان سے یہ تو پوچھے کہ جب کبھی تمہارے پاس کوئی رسول ایسے حکم لایا جنہیں تمہارے دل نہیں چاہتے تھے۔ تو کیا تم نے ان کے ماننے سے واقعی انکار اور تکبر کیا تھا۔ ایک جماعت کو جھٹلا یا اور ایک کو قتل بھی کیا۔ اس کے جواب میں بڑی دلیری سے اقرار کرتے ہیں اور اپنے زعم باطل کے مطابق اس کی وجہ بتلاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم نے اس لئے ان کو نہیں مانا تھا کہ ہمارے دل محفوظ ہیں ان کی جھوٹی باتیں وہاں تک رسائی نہ کرسکتی تھیں۔ دیکھو تو کیا عذر گناہ بدتر از گناہ کے مصداق ہیں۔ یہ عذر ان کا بالکل غلط ہے یہ ہرگز نہیں کہ وہ جھوٹی باتیں ان کو سناتے تھے بلکہ اصل بات یہ ہے کہ ان کے کفر اور بے ایمانی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان پر لعنت کی ہے پس اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اب یہ لوگ کسی سچی بات کو بھی بہت کم مانیں گے ان کی بے ایمانی اور طمع دنیاوی کا ثبوت بین سننا ہو تو اور سنو ! جب اللہ کی طرف سے ان کے پاس ایک کتاب بذریعہ محمد رسول اللہﷺ پہنچی جس کی سچائی کو خوب ہی پہچان چکے ہیں جو ذاتی سچائی کے علاوہ ان کے ساتھ والی کتاب کی اصلیت کو مانتی ہے۔ تو بوجہ محض دنیاوی اغراض کے اس سے ناکاری ہوگئے حالانکہ اس سے پہلے اسی کے وسیلہ سے اپنے مخالف کفار پر فتح یابی چاہا کرتے تھے آڑے وقت میں کہا کرتے تھے۔ خداوندا ! ہم تیرے دین کے خادم اور نبی آخرالزمان کے منتظر ہیں۔ پس تو ہم کو دشمنوں پر فتح دے۔ کیا اس سے یہی زیادہ دنیاداری کا ثبوت ہوگا پس اس کا لازمی نتیجہ ہے کہ اللہ کی لعنت ہے ان جیسے کافروں پر جو دنیا کے عوض میں دین کو بیچ رہے ہیں۔ اگر غور کریں تو بری ہے وہ چیز جس کے عوض میں اپنی جانوں کو دے چکے ہو اور عذاب الٰہی کے مستحق ہوگئے۔ وہ بدکاری کہ جس کے سبب سے اپنے آپ کو مورد عذاب بناچکے ہیں۔ یہ ہیں کہ اللہ کی اتاری ہوئی (کتاب) قرآن نہیں مانتے نہ بوجہ غلط فہمی کے بلکہ محض حسد سے اس بات کے کہ اللہ اپنا فضل اپنے بندوں میں سے کسی پر اتارے پس اسی وجہ سے تو غضب پر غضب اللہ کا انہوں نے لیا اور دنیا کے عذاب سے بڑھ کر ان کافروں کو قیامت میں نہائیت ذلیل کرنے والا عذاب ہے۔ عوام دنیا دار تو جو چاہیں سو بے پر کے اڑائیں۔ خواص بھی کسی طرح سے کم نہیں جو چاہتے ہیں سو کہہ دیتے ہیں اور جب کوئی بطور نصیحت ان سے کہے کہ اللہ کی اتاری ہوئی (کتاب) کو مان لو تمہاری نجات ہوجائے گی۔ تو اس کے جواب میں کیسی بے ڈھب بات کہتے ہیں۔ کہ ہم تو صاحب ! اسی کتاب کو مانیں گے جو ہماری طرف اتری ہوئی ہے یعنی تورات گویا اسی کتاب پر حصر ہے کہ اسی کو مانیں اور جو اس کے سواہے سب سے انکار ہی کریں گے۔ حالانکہ ہر امر کی تکذیب کے لئے دوباتیں ہوا کرتی ہیں یا تو وہ امر فی نفسہٖ پائیہ صداقت سے گراہو یا وہ کسی عقیدہ سابقہ مسلمہ کے خلاف ہو حالانکہ قرآن میں ان دونوں مواقع میں سے ایک بھی نہیں اپنے ثبوت میں وہ بالکل حق ہے دوسری وجہ بھی اس میں نہیں کہ ان کے کسی عقیدے کے خلاف ہو بلکہ ان کی ساتھ والی کتاب کی تصدیق کرتی ہے پھر کیا وجہ ہے کہ اس سے انکاری ہوئے جاتے ہیں۔ اور بار بار یہی منہ پر لاتے کہ ہم تو اپنی ہی کتاب کو مانیں گے۔ بھلا ان کا یہ عذر بھی نہ رہے بایں غرض کہ بدرا بدیایدرسانید تو اے رسول ان سے کہہ کہ اگر تم ایماندار ہو اور ہمیشہ سے تورات کو مانتے چلے آئے ہو تو پھر گذشتہ زمانے میں اللہ کے نبیوں کو کیوں قتل کرتے تھے۔ کیا تورات میں نبی کا قتل جائز ہے؟ پس تمہارے ایسے ہی افعال شنیعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ تم ہمیشہ سے دنیا کے طالب رہے نہ تم کو تورات سے غرض نہ حضرت موسیٰ سے مطلب۔ پس تمہارا قرآن مجید سے انکار کرنا اور اس انکار کی وجہ یہ بتلانا کہ ہم تورات ہی کو مانتے ہیں اس لئے قرآن کے ماننے کی ہمیں حاجت نہیں۔ بالکل غلط ہے بلکہ بہت سے نبی تورات ہی کی تکمیل کو آئے تم نے ان کو بھی قتل کردیا۔ اگر یہ وجہ تمہاری معقول ہوتی تو ان کو کیوں مارتے؟ اصل وجہ یہ ہے کہ تم ہمیشہ سے اپنی خواہشوں کے تابع رہے اور دین کی آڑ میں بےدینی کے کام کئے گئے۔ چنانچہ اسی کی ایک نظیر اور سنو ! جب تمہارے پاس حضرت موسیٰ اپنی نبوت کی صاف صاف دلیلیں یعنی معجزے لایا اور تم نے اسے تسلیم بھی کیا۔ اور اس نے تم کو انہی معجزات کے ذریعہ فرعون سے نجات دلائی۔ جنگل میں تمہیں چھوڑ کر حسب ارشاد اللہ کوہ طور پر تمہاری ہدایت کے لئے گیا۔ پھر تم نے اس کے پیچھے بچھڑے کو معبود بنالیا اور اس کی پوجا شروع کردی یہ بھی کوئی نئی بات نہیں ہمیشہ سے تمہاری عادت ہی کجروی کی ہے اور نیز تم ظالم ہو۔ اور بھی کئی دفعہ تم نے ایسی ہی کجروی کی۔ سنو تو ! جب ہم نے تم سے باربار سمجھانے کے بعد کوہ طور تم پر کھڑا کرکے عمل کرنے کا وعدہ لیا اور کہا کہ خوب مضبوط قوت سے اس کو پکڑو جو ہم نے تم کو دیا ہے اور جو کچھ ہم کہیں دل لگا کرسنو ! تو تمہارے باپ دادا بولے کہ صاحب ہم نے تو سن لیا اور جی میں ٹھان چکے کہ ہم کرنے کے نہیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ایک تو طبیعت کی ان میں آزادی۔ اور دوسرے یہ کہ ان کے دلوں میں ان کے کفر کی شامت سے بچھڑے کی محبت رچ گئی تھی۔ تو کہہ دے اگر یہی ایمانداری ہے۔ تو تمہارا ایمان تم کو بری راہ بتلاتا ہے۔ اب بھی اگر تم ایسے ہی ایماندار ہو۔ تو براہ مہربانی اسے چھوڑ دو۔ اگر باوجود صریح الزام کے دعوٰی نجات ہی کئے جاویں۔ اور یہی کہے جاویں کہ قیامت کے دن ہم ہی نجات پاویں گے تو ایسے سینہ زوروں کو جو کسی دلیل کی طرف توجہ نہ کریں اور نہ اپنی ہٹ سے باز آویں۔ |
البقرة |
88 |
|
البقرة |
89 |
|
البقرة |
90 |
|
البقرة |
91 |
|
البقرة |
92 |
|
البقرة |
93 |
|
البقرة |
94 |
(94۔96)۔ تو اے نبی ! کہ کہ اگر سب لوگوں سے علیحدہ تمہارے ہی لئے اللہ کے ہاں نجات اخروی ہے اور کسی کو اس میں شرکت نہیں اور تم کو اس کے حاصل ہونے میں صرف موت کی دیر ہے مرتے ہی سرگباشی اور جنتی ہوجاؤ گے تو پس تم اللہ تعالیٰ سے اپنے لیے موت مانگو۔ تاکہ مرتے ہی حقیقی عیش میں جا بسو اور ناحق تکلیف دنیاوی میں کیوں پھنس رہو۔ اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو تو ضرور ایساہی کرو اگر آرزو موت کی نہ کریں تو ثابت ہوجائے گا کہ ان کو مذہب سے کوئی لگائو نہیں صرف اپنی خواہش نفسانی کے پیچھے چلتے ہیں۔ اور ہم ابھی سے کہے دیتے ہیں کہ اپنے کیے ہوئے بد اعمالی کہ وجہ سے جن کی سزاکا بھگتنا ان کو بھی یقینی ہے ہرگز کبھی موت کی خواہش نہ کریں گے باوجود اس بد اعمالی اور جسارت کے دعویٰ نجات کرنا کیسا ظلم ہے پھر کیوں نہ ان کو سزا ملے حالانکہ ان کے ظلم پر ظلم بڑھتے جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ظالموں کو خوب جانتا ہے کوئی اس سے چھپا نہیں بھلا یہ موت مانگیں گے ؟ یہ تو ایسے حریص ہیں اگر تم تمام جہان بھی تلاش کرو تو سب لوگوں سے زیادہ زندگی کا خواہش مند انہی لوگوں کو پائو گے حتیٰ کہ مشرکوں سے بھی زیادہ ان کی خواہش کا اندازہ اسی سے کرلو ان میں ہر ایک یہی چاہتا ہے کہ ہزار برس کی عمر ملے حالانکہ عمر کی زیادتی ان کو کچھ بھی عذاب سے دور نہیں کرسکے گی۔
اس لئے کہ اللہ ان کے اعمال دیکھتا ہے جس قدر عمر دراز ہو کر سر کشی کریں گے سب کی سزا دیگا
شان نزول : (تو کہہ دے) یہودی کہا کرتے تھے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے پیارے بندے ہیں اور بزرگوں کی اولاد ہیں۔ ہمیں عذاب اخروی ہرگز نہ ہوگا۔ اگر ہم میں سے کسی کو بد اعمالی کی وجہ سے ہوا بھی تو صرف چند روز ہوگا۔ پھر ہم ہمیشہ کو نجات پاویں گے۔ اور کوئی سوائے ہمارے نجات نہ پاوے گا۔ ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی مگر انہوں نے موت کی خواہش نہیں کی۔ حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ اگر یہ لوگ موت چاہتے تو اسی وقت اپنا ہی تھوک نگلنے سے مر جاتے۔ اور کوئی یہودی دنیا میں زندہ نہ رہتا۔ (معالم) |
البقرة |
95 |
|
البقرة |
96 |
|
البقرة |
97 |
(97۔101)۔ بھلا یہ بھی کوئی دینداروں کی بات ہے جو یہ کہتے ہیں کہ ہم تو قرآن کو اس لئے نہیں مانتے کہ اس کا لانے والا جبرئیل فرشتہ ہے اور اس سے ہماری ابتدا سے دشمنی ہے کیونکہ وہ ہم پر ہمیشہ طرح طرح کے عذاب لاتا رہا اس نے ہم سے کبھی خیر نہیں کی۔ اے رسول ! تو کہدے یادرکھو جو کوئی ! جبرائیل سے دشمن ہوگا وہ سخت ٹوٹا پائے گا۔ اس لئے کہ وہ تو محض مامور ہے جو کچھ اسے حکم ہوتا ہے وہی کرتا ہے یہ قرآن مجید بھی اسی نے تیرے دل پر (اے محمدﷺ!) اللہ کے حکم سے نازل کیا ہے اگر اس میں کوئی ان یہودیوں کی برائی مذکور ہے تو اس کا قصور نہیں سو یہ وجہ تکذیب کی بیان کرنا بھی عبث ہے بلکہ اصل وجہ تکذیب کی جیسا کہ ہم پہلے بتلاآئے ہیں دوہی امر ہوا کرتے ہیں یا وہ کلام فی نفسہ کسی دلیل سے ثابت نہ ہو یا ثابت ہو یا ثابت ہو مگر کسی عقیدہ سابقہ مسلمہ کے خلاف ہوسو پہلے عذر کا جواب یہ ہے کہ یہ قرآن سچا بتلاتا ہے اپنے سامنے والی کتاب یینت تورات کو اور فی نفسہ کامل اور سچی ہدائیت ہے اور بڑی خوشخبری ہے اس کے ماننے والوں کو۔ اب بتلاؤ کہ مامور سے عداوت امر سے عداوت ہے یا نہیں۔ بھلا کوئی شخص کسی سپاہی سے جو حاکم کا حکم لیکر اس کے پاس آیا ہے۔ عداوت رکھے کہ یہ حکم کیوں لایا ہے تو ایسا شخص در اصل سپاہی سے عداوت نہیں رکھتا بلکی حاکم سے رکھتا ہے۔ ایسا ہی جبرئیل سے عداوت رکھنا گویا اللہ تعالیٰ سے بلکہ تمام اس کے مقربین ملائکہ سے عداوت ہے سو یاد رکھو جو شخص اللہ تعالیٰ سے اور اس کے مقربین ملائکہ یا اس کے رسولوں سے یا جبرئیل یا میکائیل سے عداوت رکھے گا وہ اپنی بہتری نہ دیکھے گا اس لئے کہ اللہ ایسے بے ایمان کافروں کا خود دشمن ہے ایسا ہی معاملہ ان سے کریگا اور ایسے عذاب میں پھنسائے گا جیسا کوئی دشمن کسی دشمن کو پھنسایا کرتا ہے جس سے کبھی رہائی نہ ہوگی بھلا یہ عذر ان کا کیسے مسموع ہوسکتا ہے حالانکہ ہم نے تیری طرف کھلی کھلی آیتیں اتاری ہیں جنہیں کسی طرح کا ایچ پیچ نہیں جن کو سب راست باز تسلیم کرتے ہیں اور بڑا بھاری ثبوت ان کی حقانیت کا یہ ہے کہ بدکار لوگ ہی ان سے انکاری ہوتے ہیں۔
کیا یہ سمجھتے ہیں کہ ہم بھی بڑے راستباز اور دیانت دار ہیں حالانکہ جب کبھی انہوں نے ہم سے کوئی عہد کیا کہ آئیندہ ضرور تابعدار رہیں گے تو ایک فریق نے ضرور اسے ایسا چھوڑا کہ گویا پیٹھ کے پیچھے پھینک دیا۔ پھر اسی پر بس نہیں کی بلکہ بہت سے ان میں سے مانتے ہی نہیں سرے سے دین مذہب سے منکر ہیں۔ اور ان کی بے ایمانی کا ثبوت سنو ! کہ جب ان کے پاس اللہ کے ہاں سے ایک رسول (محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آیا۔ جس کی رسالت کو بقرائن شہادت کتاب خوب ہی پہچان چکے ہیں جو ان کے ساتھ والی کتاب کی توحید میں تصدیق کرتا ہے تو با ایں ہم ایک جماعت نے ان کتاب پانے والوں میں سے اس رسول کا انکار کردیا اور کتاب اللہ تورات کو بھی اپنی پیٹھ پیچھے پھینک دیا اور ایسے ہوگئے گویا کچھ بھی نہیں جانتے
شان نزول :
(جو کوئی جبرئیل) ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ ایک یہودی نے آنحضرتﷺ سے سوال کیا کہ آپ کے پاس کون فرشتہ قرآن لاتا ہے؟ آپ نے فرمایا جبرئیل۔ وہ بولا جبرئیل تو ہمارا قدیم سے دشمن ہے اس کی ہماری تو کبھی بنی ہی نہیں۔ ہمیشہ ہم پر عذاب لاتا رہا۔ اگر میکائیل ہوتا تو ہم مان لیتے۔ اس کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی۔ (معالم)
سر سید کی ساتویں غلطی :
! (جو کوئی جبرئیل کا) اس آیت میں اللہ تعالیٰ جبرئیل کا ذکر فرماتا ہے اور اس کی ہستی جدا گانہ کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ یہ مسئلہ (کہ جبرئیل ایک فرشتہ ہے جو انبیاء پر اللہ تعالیٰ کا کلام لایا کرتا ہے) تمام اہل الکتاب (یہود نصاریٰ اہل اسلام) میں متفق علیہ ہے۔ قرآن مجید میں اس کا کئی جگہ ذکر صریح آیا ہے اور احادیث نبویہ تو بھری پڑی ہیں مگر باایں ہمہ سر سید احمد خاں نے حسب عادت قدیمہ باوجود دعوٰے اسلام کے اس سے بھی انکار کیا ہے۔ چنانچہ اپنی تفسیر کی جلد اوّل میں فرماتے ہیں :۔
” یہ جبرئیل ایک ملکہ فطرتی کا نام ہے جو انبیاء میں ابتداء فطرت سے ہوتا ہے وہی ملکہ اس کو بلاتا ہے وہی اس (نبی) میں نئے نئے خیالات پیدا کرتا ہے یا پیدا کرنے کا باعث ہوتا ہے جیسا کہ ایک لوہار کو اپنے فن آہنگری میں نئے نئے قسم کے خیالات سوجھتے ہیں یا جیسا کہ (معاذ اللہ) ایک دیوانہ کو نئے نئے جوش از خود اٹھتے ہیں حالانکہ اس کے پاس کوئی نہیں ہوتا۔ مگر وہ کسی کو اپنے پاس کھڑا سمجھ کر باتیں کیا کرتا ہے۔ اسی طرح (بقول سید صاحب) نبی اپنی نبوت کو نباہتا ہے اس کے پاس بھی سوائے اس ملکہ نبوت کے کوئی جبرئیل نہیں آتا۔ مگر وہ اس ملکہ کے ذریعہ سے سمجھتا ہے کہ میرے پاس کوئی کھڑا مجھ سے باتیں کر رہا ہے حالانکہ دراصل کوئی بھی اس سے باتیں نہیں کرتا۔ بلکہ اس کے دل سے فوارہ کی طرح وحی اٹھتی ہے اور اسی پر گرتی ہے جس کو وہ خود ہی الہام کہتا ہے (خلاصہ صفحہ ٢٩)
ناظرینؔ! یہ ہے سرسید کی کمال تحقیق۔ جس پر بڑا فخر کرتے ہوئے علماء اسلام کو کوڑ مغز ملا شہوت پرست زاہد وغیرہ وغیرہ القاب بخشا کرتے ہیں جس کے جواب میں علماء کہا کرتے ہیں
بدم گفتی و خر سندم عفاک اللہ نکوگفنی
نہیں معلوم سید صاحب کو بے ثبوت کہنے کی کیوں عادت ہے بےدلیل بات اور بے ثبوت دعویٰ کرنے کے خوگیر کیوں تھے؟ ہم اپنے ناظرین ہی سے نہیں بلکہ سید صاحب کے بااخلاص احباب سے بھی دریافت کرتے ہیں کہ آپ نے اس امر پر کوئی دلیل ایسی بھی بیان کی ہے جس سے ایسا بڑا اہم مسئلہ جس کے ماننے کی تعلیم تمام سلسلہ نبوت میں پائی جاتی ہے طے ہوجائے۔ ہاں میں بھول گیا۔ ایک دلیل بھی بزعم خود لائے ہیں جس کا ذکر بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ فرماتے ہیں :۔ قولہٗ:۔
” اللہ نے بہت سی جگہ قرآن (مجید) میں جبرئیل کا نام لیا ہے مگر سورۃ بقر میں اس کی ماہیت بتا دی ہے جہاں فرمایا ہے کہ جبرئیل نے تیرے دل میں قرآن کو اللہ کے حکم سے ڈالا ہے۔ دل پر اتارنے والی یا دل میں ڈالنے والی چیز وہی ہوتی ہے جو خود انسان کی فطرت میں ہو نہ کوئی دوسری چیز جو فطرت سے خارج اور خود اس کی خلقت سے جس کے دل پر ڈالی گئی ہے جدا گانہ ہو“ (جلد اوّل صفحہ ٣٠)
سید صاحب کے کیا کہنے ہیں یہ تو خیال فرما لیا ہوتا کہ ماہیت شئے کس کو کہتے ہیں ماہیت تو ذاتیات کو سنا تھا جن کا ذات سے تاخر محال ہے جیسے کہ انسان کی ماہیت حیوان ناطق (وغیرہ) کا تاخر انسان سے ممکن نہیں۔ پس اب میں پوچھتا ہوں کہ اگر تنزیل ماہیت جبرئیل ہے تو جب سے جبرئیل ہے تب سے ہی تنزیل ہوگی۔ حالانکہ تنزیل آنحضرتﷺ پر چالیس سال بعد شروع ہوئی اور جبرئیل تو بقول آپ کے ابتدائے پیدائش ہی سے ہوتا ہے چنانچہ آپ نے اس امر کی تصریح بھی کردی ہے جو لکھتے ہیں :۔
” جس میں اخلاق انسانی کی تعلیم و تربیت کا ملکہ بمقتضائے اس کی فطرت کے اللہ تعالیٰ سے عنائت ہوتا ہے وہ پیغمبر کہلاتا ہے“ (صفحہ ٢٨)
پھر آگے چل کر تحریر فرماتے ہیں :
” جس طرح اور قوٰی انسانی بمناسبت اس کے اعضاء کے قوی ہوتے جاتے ہیں اسی طرح یہ ملکہ بھی قوی ہوتا جاتا ہے اور جب اپنی قوت پر پہنچ جاتا ہے تو اس سے وہ ظہور میں آتا ہے۔ جس کو عرف عام میں بعثت سے تعبیر کرتے ہیں“ (صفحہ ٢٩)
بتلا دیں ذات کا تقدم ذاتیات یا ماہیت سے ہوا یا نہیں فافھم فانہ دقیق خیر اس کو تو آپ ” شعر مرا بمدرسہ کہ برد“ کا مصداق بتادیں گے اور مولویا نہ فضول جھگڑا بتاویں گے اس لئے ہم بھی اس سے درگذر کرتے ہیں لیکن یہ بات کہ دل پر اتارنے والی یا دل میں ڈالنے والی وہی چیز ہوتی ہے جو خود انسان کی فطرت میں ہو نہ کوئی دوسری چیز جو فطرت سے خارج ہو اور خود اس کی خلقت سے جس کے دل پر ڈالی گئی ہے جدا گانہ ہو جس سے آپ نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ :۔
” اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اسی ملکہ نبوت کا جو اللہ تعالیٰ نے انبیاء میں پیدا کیا ہے جبرئیل نام ہے“ (صفحہ ٣٠)
ہرگز قابل پذیرائی نہیں اس لئے کہ دل میں ڈالنا یا دل پر کسی چیز کا اتارنا یہ محاورہ ہے اس کے ذہن نشین کرنے سے بھلا اور کسی کی شہادت اس بارے میں تو آپ کا ہے کوئی مانیں گے آپ ہی کے لخت جگر آنریبل سید محمود صاحب مرحوم (جو بفحوائے ابن الفقیہ نصف الفقیہ گویا کہ آپ ہی ہیں) کا کلام پیش کرتا ہوں جو غالباً آپ کے ملاحظہ سے گذر کر تہذیب الاخلاق نمبر ٢ بابت ذی قعدہ ١٣١١ ھ صفحہ ٣٢ کلام ٢ میں چھپا ہے جو میرے اس دعویٰ کی کامل شہادت ہے وہو ہذا :۔
سید محمود کی شہادت :
” میں سلطان کے پاس جاتا ہوں۔ ٹھیرمت جا۔ میں ابھی اس کے حضور سے آتا ہوں۔ اور اس دل میں ایسی باتیں ڈال آیا ہوں جو غرناطہ کے بادشاہ کو زبیا ہیں “
فرماویں اور سچ فرماویں کہ اس کا قائل کون تھا؟ کیا کوئی اہل زبان اس کے معنے یہ سمجھے گا کہ اس کلام کا قائل بادشاہ کے قویٰ ہیں۔ دور کیوں جائے گا اپنے صاحبزادے ہی سے ذرہ دریافت فرمالیں کہ انہوں نے کیا سمجھ کر اس کو لکھا تھا۔ یا اپنی کا نشنس (طبیعت) سے بانصاف استفسار کریں کہ آپ نے اس کلام سے بھی یہی معنے سمجھے تھے جو اس آیت سے بتلا رہے ہیں۔ حاشا وکلا ہرگز نہیں۔ سید صاحب ! یہی عرب کا محاورہ ہے اور اس میں کسی زبان کی کچھ خصوصیت بھی نہیں۔ سب زبانوں میں برابر یہی محاورہ بولا جاتا ہے۔ میں یقین سے کہتا ہوں کہ سب اہل زبان اس میں مجھ سے اتفاق رائے کریں گے۔ پس آپ کا جبرئیل اس آیت سے ثابت نہ ہوا کہ وہ انسانی قویٰ ہیں ہاں یہ ثابت ہو کہ جبرئیل بھی کوئی شخص ہے جو قرآن مجید آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فدا روحی کے ذہین نشین کیا کرتا تھا۔ پھر یہ دلیل آپ کی ہوئی یا آپ کے مخالف کی؟ سچ ہے ؎
دوست ہی دشمن جاں ہوگیا اپنا حافظؔ
نوش دارو نے کیا اثر سم پیدا
پھر آپ کا فرمانا کہ :
” یہی مطلب قرآن کی بہت سی آیتوں سے پایا جاتا ہے جیسا کہ سورۃ قیامہ میں فرمایا ہے کہ اِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہٗ وَقُرْاٰنَہٗ۔ یعنی ہمارے ذمہ ہے وحی کو تیرے دل میں اکٹھا کرنے اور اس کے پڑھنے کا۔ فَاِذَا قَرَئْ نَاہُ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَہٗ۔ پھر جب ہم اس کو پڑھ چکیں تو اس پڑھنے کی پیروی کر ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَہٗ پھر ہمارا ذمہ ہے اس کا مطلب بتانا۔ ان آیتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اور پیغمبر میں کوئی واسطہ نہیں خود اللہ تعالیٰ ہی پیغمبر کے دل میں وحی جمع کرتا ہے وہی پڑھتا ہے وہ مطلب بتاتا ہے اور یہ سب کام اسی فطری قوت نبوی کے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے مثل دیگر قویٰ انسانی کے انبیاء میں بمقتضائے ان کی فطرت کے پیدا کی ہے اور وہی قوت ناموس اکبر ہے۔ اور وہی قوت جبرئیل پیغمبر“ (جلد اوّل صفحہ ٣٠)
عجیب ہی رنگ دکھا رہا ہے۔ سید صاحب ! واسطہ کی نفی تو جب ہوگی کہ اس فطری قوت کا بھی انکار کیا جاوے جسے آپ تسلیم کرتے ہیں اس کے ہوتے ہوئے واسطہ کی نفی کرنا آپ جیسے دانائوں کی شان سے بعید ہے شائد کہ آپ فطری قوت نبوی میں اور جناب باری میں اتحاد محض کے قائل ہوں وھو کما ترٰی۔ سید صاحب انصاف فرمائے کہ آپ نے کس قدر اس آیت میں تصرفات کئے۔ اول تو آپ نے قرءنا میں نسبت حقیقی سمجھی پھر اسے بھول کر سب کو فعل فطری بنایا وھل ھٰذا لاتھافت قبیح وتناقض صریح۔ اگر آپ اس کی یہ توجیہ فرما دیں کہ قرئت حقیقتہً اس قوت فطری کا فعل ہے لیکن مجازاً اسی جناب باری سے نسبت کرسکتے ہیں اس لئے ہم کہتے ہیں کہ خود اللہ ہی پیغمبر کے دل میں وحی جمع کرتا ہے اور پڑھتا ہے اور مطلب بتاتا ہے اور یہ سب کام اسی فطری قوت کے ہیں“ تو آپ کا اور ہمارا چنداں اختلاف نہ رہے گا اس لئے کہ ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ اس آیت میں نسبت مجازی ہے جیسی کہ یُجَادِلُنَا فِیْ قَوْمِ لُوْطٍ میں ہے یعی حقیقت میں تو قرئت فعل جبرئیل کا ہے مگر مجازاً جناب باری نے اپنی طرف منسوب کر کے فاذا قراء نا فرمایا ہے پس جب تک کہ آپ دلائل خارجیہ سے اس امر کا ثبوت نہ دیں کہ جبرئیل کا وجود مستقل یا یوں کہئے کہ بالمعنے المتعارف نہیں ہوسکتا اور اس سے مراد قویٰ فطری ہیں جو مثل دیگر قویٰ کے انبیاء میں ہوا کرتے ہیں تب تک آپ کی یہ توجیہیں تار عنکبوت سے بھی ضعیف سمجھی جائیں گی۔ ودونہ خرط القتاد۔ اسی طرح سورۃ والنجم کی آیت وَلَقَدْ رَاٰہُ نَزْلَۃً اُخْرٰی کی نسبت آپ کا فرمانا کہ
” یہ تمام مشاہدہ اگر انہیں ظاہری آنکھوں سے تھا تو وہ عکس خود اپنی دل کی تجلیات ربانی کا تھا جو بمقتضائے فطرت انسانی و فطرت نبوت دکھائی دیتا تھا۔ اور دراصل بجز ملکہ نبوت کے جس کو جبرئیل کہو یا اور کچھ۔ کچھ نہ تھا۔ (صفحہ ٣٠)
ہرگز قابل التفات نہیں جب تک کہ آپ اس کا ثبوت نہ دیں کہ جبرئیل کا وجود مستقل (جیسا کہ قرآن مجید کے ظاہری الفاظ سے ثابت ہوتا ہے اور تمام اہل ادیان (یہود نصارٰی مسلمان اس کو تسلیم کرتے ہیں) نہیں ہوسکتا سنا تھا کہ اہل علم قدیماً و حدیثاً اس سے پرہیز کرتے تھے۔ کہ کوئی بات ایسی منہ سے نہ نکالیں جس کی دلیل نہ ہو۔ مگر آپ نے اس شنید کی خوب ہی تکذیب کی۔ سچ ہے
ترا دیدۂ و یوسف را شنیدہ
شنیدہ کے بود مانند دیدہ
بلا سے کبھی آپ نے کوئی دلیل مثبت مدعا بیان کی ہو جس کا جواب دینا مقابل پر ضروری ہو بجز اس کے کہ دعویٰ کی دلیل دعوٰے ہوتا ہے۔ ہاں اس میں شک نہیں کہ بہت سے لوگ بوجہ علوم شرعیہ سے ناواقفی اور آپ سے حسن ظن رکھنے کے آپ کی بےدلیل باتیں بھی قبول کرلیں گے۔ مگر اہل علم تو ایسی بےدلیل بات پر توجہ نہیں کیا کرتے۔ کیونکہ ان کے ہاں یہ اصول ہے
نگفتہ ندار و کسے باتو کار
ولیکن چوگفتی دلیلش بیار
(منہ)
مولانا عبدالحق صاحب مصنف تفسیر حقانی دہلوی نے اس ملکہ کا جواب یہ دیا ہے کہ اگر جبرئیل ملکہ نبوت کا نام تھا تو یہود کے جواب میں جو جبرئیل کو اپنا دشمن جانتے تھے یہ کیوں نہ کہہ دیا کہ جس جبرئیل (ملکۂ نبوت) کے ساتھ تمہاری عداوت ہے وہ تو اپنے نبی کے ساتھ چلا گیا۔ کیونکہ عوارض اپنے معروض سے ہوتے ہیں۔ یہ تو جبرئیل (ملکۂ نبوت محمدی) اور ہی ہے۔ لیکن میں نے اس لئے اس کو نقل نہ کیا کہ شاید سید صاحب ماہیت نوعیہ سے عداوت بتلا دیں۔ جو تغیر افراد سے بدلا نہیں کرتی۔ جیسی کرپانی اور آگ یا انسان اور سانپ میں۔ ١٢ فافہم |
البقرة |
98 |
|
البقرة |
99 |
|
البقرة |
100 |
|
البقرة |
101 |
|
البقرة |
102 |
اور پیچھے ہولئے ہیں ان واہیات باتوں کے جو بدمعاش شیاطین سلیمان کے زمانہ میں پڑھتے اور رواج دیتے تھے جن میں کئی باتیں کفر کی بھی تھیں لیکن حق یہ ہے کہ سلیمان کے زمانہ میں ایسے واقعات ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ بھی اس میں شریک تھا حاشا وکلاسلیمان نے کبھی کفر نہیں کیا ہاں بدمعاش شیاطین یعنی ہاروت ماروت نے کفر کیا۔ اور کفر کی باتیں عوام میں پھیلاتے تھے اور لوگوں کو جادو کے کلمات واہیات سکھاتے تھے اور طرح طرح سے عوام کو ورغلاتے یہ بھی مشہور کرتے کہ یہ کلمات جادو گری کے آسمانی علم جبرئیل میکائیل دونوں فرشتوں پر شہر بابل میں اترا تھا حالانکہ نہ اتارا گیا تھا ان دو فرشتوں پر (شہر) بابل میں اور نہ کوئی آسمانی علم تھا بلکہ مہض ان ہاروت ماروت کی چالبازی تھی اس سے غرض ان کی صرف وثوق جتلانا تھا جبھی تو ان کی یہ عادت تھی کہ زبانی جمع خرچ بہت کچھ کرتے اور کسی کو جادو نہ سکھاتے جب تک یہ نہ کہہ لیتے کہ میاں ہم تو خود بڑے بدکردار بلا میں پھنسے ہوئے مبتلا ہیں پس تو بھی مثل ہمارے ایسی باتیں سیکھنے سے کافر مت ہو۔ اس کہنے سے ان کا جاہلوں میں اور بھی زیادہ رسوخ پیدا ہوتا اور عوام میں مشہور ہوجاتا کہ سائیں صاحب بڑے منکسر المزاج ہیں جیسا کہ فی زماننا دغا باز پیروں۔ کا کام ہے پھر بھی لوگ ان سے متنفر نہ ہوتے بلکہ سیکھتے ان سے وہ کلمات جن کی وجہ سے خاوند بیوی میں جدائی ڈالتے اور اس کے عوض میں زانیوں سے کچھ کماتے اور اللہ کا غضب اپنے پر لیتے یہ مت سمجھو کہ ان کے منہ میں کوئی خوبی تھی یا قلم میں کوئی تاثیر تھی کہ جس کو چاہیں نقصان اور مضرت پہنچائیں بلکہ ان کے کلمات بھی مثل اور ادویہ کے تھے جب ہی تو کسی کو سوا اذن اللہ کے ضررنہ دے سکتے تھے چونکہ قانون خداوندی جاری ہے کہ ہر فعل انسانی پر اس کے مناسب اثر پیدا کردیتا ہے اگر کوئی سرد پانی پیتا ہے تو اسے ٹھنڈک بخشتا ہے زہر کھاتا ہے تو اس کی جان بھی ضائع ہوجاتی ہے اسی طرح ان کے جادو کا حال تھا کہ وہ ان کے حق میں مثل زہر کے مضر تھا لیکن وہ بہت خوشی سے اس کا استعمال کرتے اور اللہ تعالیٰ اپنی عادت جاریہ کے موافق اس پر آثار بھی ویسے ہی مرتب کردیتا مگر وہ لوگ اس بھید کو نہ سمجھتے اور وہی چیز سیکھتے جو ان کو ہر طرح سے جسمانی اور روحانی ضرر دے اور کسی طرح سے نفع نہ بخشے تعجب ہے کہ یہ لوگ اس زمانہ کے مدعیان علم بھی ان کے پیچھے ہولئے میں حالانکہ یقینا جان چکے ہیں کہ جو شخص اس جادو کی واہیات باتوں کو لے گا۔ قیامت میں اس کے لئے بھلائی سے حصہ نہیں باوجود اس جاننے کے اس میں ایسے منہمک ہیں کہ اپنی جانوں تک بھی اس کے عوض میں دیکر عذاب کے مستوجب ہو رہے ہیں یاد رکھیں برا ہے وہ کام جس کے بدلہ میں اپنی جانوں کو عذاب میں دے چکے ہیں کاش یہ لوگ سمجھتے ہوں گو جانتے اور سمجھتے ہیں پر جاننے پر جب عمل ہی نہیں تو گویا جانتے ہی نہیں
اس آیت کی نسبت مفسرین نے عجیب عجیب قصے بھرے ہیں۔ کچھ تو حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی نسبت اور کچھ ہاروت ماروت کے متعلق۔ کسی نے ہاروت ماروت کو فرشتہ بنایا اور نبی آدم ( علیہ السلام) بنا کر زمین پر اتارا اور کسی نے فاحشہ عورت سے زنا کرنا اور شراب پینا۔ بت کو سجدہ کرنا۔ پھر اللہ کی طرف سے ان کو دنیاوی اور اخروی عذاب میں مخیر کرنا اور ان کا لوگوں کو جادو سکھانا وغیرہ وغیرہ بتلایا ہے۔ مگر امام رازی جیسے محققوں نے ان سب قصوں کو خرافات اور اباطیل سے شمار کیا ہے جو ترجمہ میں نے اختیار کیا ہے وہی قرطبی نے پسند کیا ہے چنانچہ تفسیر ابن کثیر اور فتح البیان وغیرہ میں مذکور ہے مولانا نواب محمد صدیق حسن خان صاحب مرحوم نے بھی نقل کیا ہے بلکہ ترجیح دی ہے کہ ہاروت ماروت شیاطین سے بدل ہے جس کو دوسرے لفظوں میں یوں کہنا چاہیے کہ شیاطین سے یہی دو شخص ہاروت ماروت مراد ہیں۔ اگر قرآن مجدج کی آیات پر غور کریں تو یہی معلوم ہوتا ہے کیونکہ پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے شیاطین کا فعل تعلیم سحر فرمایا ہے یُعَلِٓمُوْنَ النَّاس السِّحْرَ دوسری میں اسی تعلیم کی کیفیت بتلائی ہے یعنی مایُعَلِّمٰنِ مِنْ اَحَدٍ حَتّٰی یَقُوْلَا۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ دونوں تعلیموں کے معلم ایک ہی ہیں یعنی شیاطین کیونکہ یہ نہائت قبیح اور مخل فصاحت ہے کہ مجمل فعل کے ذکر کے موقع پر تو ایک کو فاعل بتلایا جاوے اور تفصیل کے موقع پر کسی اور کو بتلایا جاوے۔ رہا یہ سوال کہ یہ مبدل منہ جمع ہے یعنی شیاطین اور بدل تثنیہ ہے یعنی ہاروت ماروت۔ سو اس کا جواب یہ ہے کہ مبدل میں جمعیت باعتبار اتباع کے ہیں اور بدل تثنیہ باعتبار ذات کے ہے۔ پس مطلب آیت کا بالکل واضح ہے کہ یہود کی اس امر میں شکایت ہو رہی ہے کہ اللہ کی کتاب کو چھوڑ کر واہیات باتوں کے پیچھے لگ گئے پھر طرفہ کہ ان واہیات عقائد اور اباطیل کو بزرگوں کی طرف نسبت کرتے ہیں کہ حضرت سلیمان نے یہ باتیں سکھائی ہیں اور اس پر اللہ کے دو فرشتے جبرئیل میکائیل لائے تھے۔ سو ان کی اس آیت میں تکذیب کی جاتی ہے کہ یہ باتیں ان کی خرافات سے ہیں نہ سلیمان نے ان کو سکھلائی ہیں نہ کسی نبی یا ولی نے ان کو بتلائی ہیں۔ بلکہ اس زمانہ کے بدمعاش جن کے سرگردہ ہاروت ماروت تھے۔ لوگوں کو ایسی باتیں سکھاتے تھے۔ راقم کہتا ہے یہی حال آج کل کے مسلمانوں کا ہے عقائد میں ان کے وہ خرابیاں ہیں کہ پناہ اللہ کوئی کہتا ہے کہ پیر صاحب نے بارہ برس کے بعد ڈوبے ہوئے بیڑے کو مریدوں کی خاطر نکالا۔ کوئی کہتا ہے پیر صاحب نے ایک مرید کے زندہ کرنے کو کئی ہزار روحیں عزرائیل سے چھڑا دیں۔ کوئی کہتا ہے مجلس مولود میں آنحضرتﷺ بذات خود تشریف لاتے ہیں غرض عجیب عجیب قسم کے خرافات اپنے ذہنوں میں ڈال رکھے ہیں بعینہٖ وہی عقائد باطلہ جن کی تکذیب کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہزارہا پیغمبر بھیجے تھے ان نام کے مسلمانوں نے اختیار کرلئے ہیں۔ انہیں کی طفیل سے ہمارے قدیمی مہربان پڑوسی آریہ وغیرہ کو یہ جرأت ہوئی کہ عام طور پر کہنے لگے ہیں کہ اسلام میں بھی شرک ہے گو ان کا یہ حملہ اسلام پر دانائوں کے نزدیک بزدلانہ طریق ہے۔ مگر اس بات کو تو سمجھنے والے بہت ہی کم ہیں ؎ اڑ گئے دانا جہاں سے بے شعورے رہ گئے۔
یہ تو عقائد کا حال ہے اعمال کا تو پوچھے ہی نہیں۔ تمام عمر بھر دنیاوی کام کریں گے۔ علوم مروجہ جن سے صرف چند روزہ دنیاوی گذارہ مقصود ہو سیکھیں گے۔ بلا سے کبھی آٹھویں روز ہی قرآن کی دو آیتیں پڑھ لیں۔ الی اللّٰہ المشتکٰی الیہ الماٰب والرجعیٰ۔ افسوس ہم نے بدقسمتی سے یہ سب کچھ دیکھنا تھا۔ منہ |
البقرة |
103 |
(103۔104)۔ اور اگر یہ ایماندارہوتے یعنی اللہ کے حکموں کو مانتے اور پرہیزگاری کرتے تو بڑی عزت پاتے کیونکہ اللہ کے ہاں کا بدلہ سب سے اچھا ہے کاش یہ سمجھیں سمجھیں تو اب بھی مان جائیں افسوس کہ بجائے ماننے کے انہوں ایک عادت قبیحہ اختیار کر رکھی ہے کہ گول مول الفاظ بولتے ہیں کہ جس سے مخاطب کچھ اور سمجھے اور ان کے جی میں کچھ اور ہو چنانچہ تمہاری محفل میں جب آتے ہیں تو ہمارے رسول کو دبی زبان سے راعنا کہہ کر گالی دی جاتی ہے جس کا مطلب تم لوگ اپنے خیال میں یہی سمجھتے کہ آنحضرت سے التجا کرتے ہیں کہ ہماری طرف التفات فرمائیے مگر وہ یہودی اس سے اپنے جی کچھ اور ہی خیال کر کے کہتے ہیں انہیں کو دیکھ کر تم بھی ایسا بولنے لگ گئے ہو۔ اس لئے ہم اعلان دیتے ہیں کہ اے مسلمانو ! تم راعنا مت کہا کرو گو تمہاری وہ مراد نہیں جو ان کم بختوں کی ہے پھر بھی کیا ضرورت ہے کہ ایسے کلمات بولو جن سے ان کی بیہودہ گوئی کارواج ہو اس لئے مناسب ہے کہ یہ چھوڑ دو اور انظرنا کہا کرو جو اسی کے ہم معنیٰ ہے بہتر تو یہ ہے کہ جب تم رسول کی خدمت میں آئو تو کچھ بھی نہ کہا کرو بلکہ خاموش رہو اور سنتے رہا کرو اس لئے کہ بولتے بولتے انسان کو زیادہ گوئی کی عادت ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے کبھی نہ کبھی گستاخی کر بیٹھتا ہے جس کے سبب سے کفر تک نوبت پہنچ جاتی ہے اور کافروں کو نہائت درد ناک عذاب ہوگا۔
شان نزول : (ولا تقولو اراعنا) یہودی حضور اقدس کی خدمت میں حاضر ہوتے تو اپنے بھرے ہوئے غصہ سے جو شوکت اسلام کی وجہ سے ان کے دلوں میں جوش زن تھا آنجناب کو صریح لفظوں میں تو کچھ نہ کہہ سکتے پر کمینوں کی طرح ایک ایسا لفظ بولتے کہ جس سے عام مسلمان صاف معنے سمجھیں اور وہ اپنے دلی جوش کے مطابق کچھ اور ہی مراد لیں چنانچہ انہوں نے راعِنَا کو اس مطلب کے لئے تجویز کیا جس کے معنے یہ تھے کہ آپ ہماری طرف التفات فرمائے اور اگر اس کو ذرا لمبا کر کے راعِیْنَا کہیں تو اسی کے معنے ہوجاتے ہیں ” خادم اور کمینہ ہمارے“ وہ اسی طرز سے کہتے پس مسلمانوں کو اس کلمہ کہنے سے منع کیا گیا اور بجائے انظرنا جو اسی کی مثل دیکھنے کے معنے میں تھا مقرر ہوا تاکہ ان کی بھی عادت چھوٹ جائے۔ منہ |
البقرة |
104 |
|
البقرة |
105 |
(105۔107 (۔ بھلا یہ کیونکر نہ جلیں بھنیں تمہاری تو دن بدن شوکت ہو اور یہ کتاب والے کافر اور مکہ کے مشرک ہرگز اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ اللہ کی طرف سے کچھ بھلائی تم کو ملے اور یہاں معاملہ ہی دگرگوں ہے کہ تم روز افزوں ترقی پر ہو اس لیے انکو بجز دشنام دہی کے کچھ نہیں سوجتا پس گالیاں بکتے ہیں مگر یاد رکھیں تمہارا کچھ نہیں بگاڑیں گے اس لئے اللہ جس کو چاہتا ہے اپنی رحمت خاصہ کے ساتھ مخصوص کرلیتا ہے کسی کا اس پر نہ اجارہ ہے نہ کیونکہ زور اللہ بڑے فضل والا ہے ہمیشہ اپنے بندوں پر مناسب حال کرم بخشی کرتا ہے یہ تو ان کی غلطی ہے کہ اسلام کی اشاعت کو اپنے لئے مضر جانتے ہیں کیونکہ ان کو اپنی قومی عزت (یہودیت) پر بڑاناز ہے یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام چونکہ ہماری قومیت کے بر خلاف ہے اس کو مٹادے گا اس لئے اسلام کو کم درجہ جان کر اعراض کرتے ہیں حالانکہ ہمارے ہاں قاعدہ ہے کہ جب کبھی کوئی نشان قومی یا شخصی شرعی یاعرفی ہم تبدیل کریں یا بحالت موجود چند روز کے لئے اس کو پیچھے چھوڑرکھیں تو پہلی صورت میں اس سے اچھالے آتے ہیں یا بصورت دیگر اس جیساپس یہودیت کے آثار مٹنے سے اسلام ان کے اور سب کے حق میں بہتر ہوگا کیا تمہیں یہ معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے اور کیا تم نہیں جانتے کہ آسمانوں اور زمینوں کی تمام حکومت اللہ کو ہی حاصل ہے وہ جو چاہے اپنی رعیّت میں احکام جاری کرے اسے کوئی مانع نہیں اور اللہ کے سوا تمہارا نہ کوئی والی ہے نہ مددگار جو اس کی پکڑسے تم کو بچائے |
البقرة |
106 |
|
البقرة |
107 |
|
البقرة |
108 |
|
البقرة |
109 |
تعجب ہے کہ تم لوگ ایسے زبر دست مولا کے تابع فرمان نہیں ہوتے ہو بلکہ چاہتے ہو کہ اپنے رسول سے جو مولا نے محض تمہاری ہدائت کے لئے بھیجا ہے ایسے سوال کر کے وقت کھویا کرو۔ جیسے کہ پہلے حضرت موسیٰ سے کیے گئے تھے کہ کفار کے بتوں کو دیکھ کر کہ بنی اسرائیل جھٹ بول اٹھے تھے کہ اے موسیٰ ہمارے لئے بھی کوئی اللہ بنا دے جیسا کہ ان کے لئے ہیں۔ اور یہ نہ سمجھے کہ ہم تو انہی بتوں کو چھوڑکر اب اہل توحید ہوئے ہیں اور یہ عام دستور ہے کہ جو شخص کفر کو ایمان سے بدلے یعنی موّحد بن کر پھر مشرک بنے تو جان لو کہ وہ سیدھی راہ سے بھٹک گیا کیا مسلمانو ! یہ سن کر بھی تم انہیں کتاب والوں کی چال چلوگے ؟ حالانکہ قطع نظر ان کی ذاتی خباثت کے تمہارے حق میں بھی خیر نہیں چاہتے بلکہ اکثر اہل کتاب بعد ظاہر ہونے حق بات کے بھی محض اپنے حسد سے یہی چاہتے ہیں کہ بعد مسلمان ہونے کے بھی تم کو کافر بنادیں پس ایسے لوگوں کا علاج تو یہ ہے کہ بالکل ہی انہیں چھوڑ دو اور ان کا خیال بھی نہ لائو یہاں تک کہ اللہ کا حکم یعنی اس کی مدد تم کو پہنچے اور تمہارا ہی بول بالا ہو یہ تمہارے حاسد حسد سے مرتے رہیں۔ ہاں اللہ سے ہر وقت بھلائی کی امید رکھو اس لئے کہ اللہ ہر کام پر قدرت رکھتا ہے ایسے کام تو اس کے ہاں کچھ ان ہوئے نہیں ہیں
شان نزول : مشرکوں کا ایک درخت تھا جس کا نام تھا ذات انواط وہ اس کی پوجا کرتے تھے ان کو دیکھ کر بعض سادہ لوح مسلمانوں نے بھی آنحضرت سے سوال کیا کہ ہمارے لئے بھی ایک ذات انواط مقرر کیجئے ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی۔ (تفسیر کبیر) |
البقرة |
110 |
پس اسی پر بھروسہ کرو اور نماز ہمیشہ پڑھتے رہو زکوٰۃ بھی دیتے رہو اور بھی جو کچھ بہتری کے کام اپنے لئے آگے بھجوں گے ضرور ان کو اللہ کے ہاں پائو گے ہرگز ضائع نہ ہونگے نہ کسی منشی کی وجہ سے نہ کسی سپاہی کے سبب سے اس لئے کہ اللہ تمہارے کاموں کو خود دیکھ رہا ہے |
البقرة |
111 |
(111۔121)۔ تعجب ہے ان یہود و نصاریٰ کے حال پر تمہارے حسد میں باوجود آپس کی عداوت شدیدہ کے ایک ہو رہے ہیں طرح طرح کے منصوبے باندھتے ہیں۔
(شان نزول :
جنگ احد میں جب مسلمانوں کو قدرے تکلیف پہنچی جس کی تفصیل آگے آتی ہے۔ تو یہودیوں نے حذیفہ اور عمار سے کہا کہ اگر تمہارا دین سچا ہوتا۔ تو تمہیں تکلیف کیوں پہنچتی پس آئو ہمارے دین میں داخل ہوجائو ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی۔ (معالم)
اور کہتے ہیں کہ جنت میں وہی جائے گا جو یہودی ہو یا عیسائی مگر مسلمان نہ ہو یہ سب ان کی اپنے نفس کی خواہشیں ہیں کوئی اس پر دلیل ان کے پاس نہیں بھلا آزمانے کو تُو کہہ تو دے بھلا اپنی دلیل تو لائو اگر اس دعوے میں سچے ہو اس لئے کہ بلا دلیل کسی کی بھی سنی نہیں جاتی ورنہ ہر ایک اپنی جگہ اپنا ہی گیت گا رہا ہے ہم بتلائے دیتے ہیں کہ کوئی ان کے پاس اس دعویٰ پر دلیل نہیں اور نہ یہ دعویٰ فی نفسہٖ صحیح ہے ہاں جنت کے حق دار ہم بتلاتے ہیں جو کوئی اپنے آپ کو اللہ کے تابع کردے اور وہ اس تابعداری میں صرف زبانی جمع خرچ نہ رکھتا ہو بلکہ نیکو کار فرمانبردار ہو تو ایسے اشخاص کی نجات ہوگی اور ان کی مزدوری اور اخلاص مندی کا بدلہ ان کے مو لیٰ کے پاس ہے جس کا کسی طرح سے نہ ان کو خوف ہوگا اور نہ غم اٹھائیں گے پس چونکہ یہودو نصارٰی بالکل اپنی خواہشوں کے غلام ہو رہے ہیں جس طرف ان کی خواہش لے جائے اسی طرف چلتے ہیں تو پھر کیونکر ان کو پہنچتا ہے کہ یہ دعوی کریں کہ سوا ان کے کوئی شخص بھی نجات کا مستحق نہیں ادھر تو تمہارے مقابلے میں یہ کہتے ہیں خواہ یہودی ہو یا عیسائی مگر مسلمان نہ ہو ادھر آپس میں ان کا یہ حال ہے کہ یہود کہتے ہیں کہ عیسائیوں کا کچھ ٹھیک نہیں اور عیسائی کہتے ہیں کہ یہودیوں کا کچھ ٹھیک نہیں حالانکہ اپنی زعم میں یہ دونوں فریق اللہ کی کتاب یعنی تورات پڑھتے ہیں یہ تو بھلا تھے ہی ایسا ہی بے علم عرب کے مشرک بھی انہی کی طرح بولتے ہیں کہ ہم ہی نجات کے حق دار ہیں سوائے ہمارے کوئی نجات نہ پاوے گا جب تک کہ بت پرستی نہ کرے گا ہرگز نجات نہ ملے گی پس تم ان کے خیا لات واہیات نہ سنو اللہ ہی ان کے جھگڑوں میں قیا مت کے دن فیصلہ کرے گا جس کا فیصلہ آخری ہوگا بھلا اور اختلاف تو ہوا سو ہوا اللہ کے ذکر میں بھی کسی کو اختلاف ہے ؟ پھر کس منہ سے یہ کافر دینداری کا دعوی کرتے ہیں حالانکہ مسلمانوں کو اللہ کے ذکر سے بھی روکتے ہیں۔
(اس آیت کے متعلق بعض بلکہ اکثر مفسرین نے لف و نشر مانا ہے مگر لف و نشر میں کمال درجہ عداوت مفہوم نہیں ہوتی جیسی کہ اس توجیہہ میں۔ فَتَأَ مَّلْ۔ )
اور کون بڑا ظالم ہے ان لوگوں سے جو اللہ کی مسجدوں میں اللہ کا ذکر کرنے سے روکیں اور ان کی خرابی میں کوشش کریں اس لئے کہ جب ذکر والوں کو ہی روک دیا تو پھر ان میں کون آئے گا خیر چند روزہ روز دکھا لیں گے تھوڑے ہی دنوں بعد ان لوگوں کو قدرت نہ ہوگی کہ ان مساجد میں داخل ہوں مگر دل میں ڈرتے ہوئے
(یہ پیش گوئی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی میں فتح مکہ کے بعد پوری ہوئی)
نہ صرف یہی بلکہ دنیا میں انہی کو ذلت و رسوائی نصیب ہوگی اور قیامت میں بھی انہی کو بڑا عذاب ہوگا اگر تم کو اے مسلمانو ! یہ کفار مکہ روکتے ہیں اور کعبہ میں نماز نہیں پڑھنے دیتے تو کوئی حرج نہیں نماز ہر جگہ ہوسکتی ہے اس لئے کہ اللہ ہی کا تو سارا مشرق و مغرب ہے
(شان نزول :
! چند صحابہ نے جنگل میں بہ سبب اندھیری کے خلاف جہت کعبہ نماز پڑھی اور نیز نوافل سواری پر بھی پڑھا کرتے تھے تو اس مسئلہ کے بتلانے کو کہ اگر غلطی سے کعبہ کی طرف نہ ہوسکو یا نوافل سواری پر پڑھ لو تو جائز ہیں۔ یہ آیت نازل ہوئی۔ (معالم)
پس ! جدھر کو منہ پھیرو گے وہیں اللہ کی توجہ اپنے حال پر پائو گے بے شک اللہ بڑی ہی وسعت والا ہے اس کے ملک کی وسعت کسی دنیا کے جغرافیہ میں محدود نہیں ہوسکتی پھر یہ بھی نہیں کہ کسی کے حل سے بے خبر ہو یا بتلانے کی حاجت پڑے بلکہ بڑے ہی وسیع علم والا ہے اس نے تو ہر ایک چیز کو ایک آن میں جان رکھا ہے کوئی چیز اس کے علم سے باہر نہیں جاسکتی تم چاہے جنگل بیا باں میں پڑھو خواہ دریا وریگستان میں وہ سب کو جانتا ہے تمہارے دلی اخلاص کے مطابق تم کو بدلہ دے گا ان بے ایمانوں کے کہنے سننے سے تم ملول نہ ہوا کرو یہ تو اللہ پر بھی بہتان لگانے سے نہیں رکتے دیکھو تو کیا کہتے ہیں کہ اللہ نے بھی ہماری مثل اپنے لئے اولاد بنائی ہے کوئی کہتا ہے کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں کوئی کہتا ہے کہ مسیح اور عزیر اللہ کے بیٹے ہیں حالانکہ وہ ان کی بے ہودہ گوئی سے پاک ہے کوئی اسکا بیٹا بیٹی نہیں بلکہ سب آسمان اور زمین والے اسی کے غلام ہیں یہ بھی نہیں کہ کوئی غلام سر کشی کرسکے اور قہری حکم سے کسی طرح انکار کرے بلکہ سب کے سب اسی کے آگے گردن جھکانے والے ہیں۔ بھلا کیوں نہ ہو وہ پاک ذات ایسی قدرت وا لی ہے کہ آسمان اور زمین کو جو کہ اپنی ہیئت اور مضبوطی میں اپنی نظیر نہیں رکھتے بلا نمونہ اسی نے بنایا ہے اور کمال یہ کہ جس وقت کوئی چیز چاہتا ہے تو صرف اتنا ہی کہتا ہے کہ ہوجا پس وہ مطلوب چیز فوراً موجود ہوجاتی ہے اور بھلا تم ان کی باتوں سے ملال پذیر ہوتے ہو جو اتنا بھی نہیں سمجھتے کہ ہم منہ سے کیا کہہ رہے ہیں آیا وہ امر ہو بھی سکتا ہے یا ہماری ہی ندامت کا باعث ہے سنو ! تو یہ بے علم ونادان عرب کے مشرک اپنی بے علمی کی وجہ سے کہتے ہیں کہ بھلا صاحب ! یہ رسول جو اللہ کی طرف سے آکر ہمیں سمجھاتے ہیں اللہ ہی کیوں نہیں ہم سے سامنے ہو کرباتیں کرتا تاکہ ہم جلدی سے مان بھی لیں یا کوئی ایسی نشانی ہمارے پاس آوے جس سے ہم جان جائیں کہ کہ بے شک یہ سچا رسول اللہ کی طرف سے ہے اصل میں یہ ان کے بہانے ہیں ان سے پہلے لوگوں نے بھی ایسا ہی کہا تھا کہ اللہ ہم کو سامنے لا کر دکھائو پھر ہم مانیں گے بغور دیکھا جائے تو بالکل ان کے دل ایک سے ہو رہے ہیں ایک ہی بیماری میں مبتلا ہیں سو جو علاج ان کا ہوا تھا ان کا بھی ہوگا بھلا یہ بھی کوئی بات ہے کہ ہر ایک شخص مرضی کے موا فق نشانیاں مانگتا پھرتا ہے اصل نشانی نبوت کی تو قائل کی صفائی ہے کہ اس کی حالت دیکھو کہ وہ کیسا ہے آیا وہ دنیا ساز مکار ہے جنونی ہے یا کیا ہے ؟ بے شک یہی نشانی مفید ہے سو ایسی ہم بہت سی نشانیاں ماننے والوں کے لئے بیان کرچکے ہیں جن کو ان با توں کی تمیز ہے کہ نبوّت کی بناء کن امور پر ہوا کرتی ہے۔ سو بعد تلاش تجھ میں ضرور پائیں گے اس لئے کہ ہم نے تجھ کو سچی ہدائت کے ساتھ بھلے کاموں پر خوش خبری دینے والا اور برے اطوار پر ڈرانے والا مقرر کر کے بھیجا ہے۔ اگر یہ نالائق تیری بات نہ مانیں تو تجھے ان کی طرف سے ہرگز ملال نہ ہو اس لئے کہ تجھ سے دوزخ والوں کے حال سے سوال نہ ہوگا کہ یہ کیوں دوزخ میں پہنچے ہم جانتے ہیں کہ جتنے تیرے مخالف ہیں سب عنادی ہیں خاص کر اہل کتاب جو اپنے آپ کو اہل علم جانتے ہیں ان کا تو یہ حال ہے کہ ہرگز تجھ سے خوش نہ ہوں گے نہ یہودی نہ نصاریٰ یہاں تک کہ تو ہی ان کے غلط مذہب کا پیرو بنے پس تو ان سے کہہ دے کہ ہدائت تو اصل وہی ہے جو اللہ کے ہاں سے ہو۔ نہ کہ تمہاری اذلیات کہ اللہ نے اولاد بنائی اور اپنے بیٹے کو کفارہ کیا۔
وغیر ذلک من الخرافات ایسے ہی لوگوں کی چال سے ہوشیار رہو اگر تو بھی فرضاً بعد پہنچنے علم یقینی کے ان کی خواہش کے پیچھے چلا تو بس تیری بھی خیر نہیں سخت بلا میں مبتلا ہوگا پھر تیرا نہ کوئی اللہ کے ہاتھ سے ہمائتی ہوگا کہ اس سے رہائی دلا سکے اور نہ کوئی مددگار جو اس کی پکڑ سے چھڑا لے تجھے ان کے انکار سے کیوں ملال ہوتا ہے تیرے تابع تو ایسے لوگ بھی ہیں جن کو ہم نے کتاب دی ہے وہ اس کو پڑھتے ہیں جیسا پڑھنا چاہئے یہی لوگ اس کو مانتے ہیں
(شان نزول :۔ کئی ایک صحابہ مشرکین سے تنگ آکر حبشہ کو چلے گئے وہاں کا حاکم عیسائی تھا۔ وہ کسی کے مذہب سے پریشان حال نہیں ہوتا تھا۔ جب انہوں نے آنحضرتﷺ کا حال سنا کہ آپ مدینہ منورہ میں ہجرت کر آئے ہیں اور سب مسلمان آپ کے ساتھ جمع ہوگئے ہیں یہ سن کر وہاں سے مدینہ کو چل پڑے راہ میں بوجہ بحری سفر کے ان کو نہایت تکلیف ہوئی۔ ان کی خاطرداری کو یہ آیت نازل ہوئی (معالم)
اور جو لوگ اس سے انکاری ہیں قیا مت میں وہی ٹوٹا پاویں گے کیا ایسے عنادی بھی اس قابل ہیں کہ تو ان کو خوش کرنے کی فکر کرے ہرگز نہیں خاص کر یہودی تو ایسی نرمی اور مداہنت سے زیادہ بگڑتے ہیں میں نے جس قدر ان پر احسان کیے سب کو بھلائے بیٹھے ہیں |
البقرة |
112 |
|
البقرة |
113 |
|
البقرة |
114 |
|
البقرة |
115 |
|
البقرة |
116 |
|
البقرة |
117 |
|
البقرة |
118 |
|
البقرة |
119 |
|
البقرة |
120 |
|
البقرة |
121 |
|
البقرة |
122 |
(122۔129)۔ اے بنی اسرائیل کے لوگو یاد کرو میرے احسان جو میں نے تم پر کیے کہ تمہیں فرعون جیسے موزی سے چھڑایا اور تمام جہان کے لوگوں پر تم کو عزت دی کہ تم میں نبی اور رسول بھیجے پھر کیا میری شکر گزاری یہی کرتے ہو کہ میرے سچے رسول کو نہیں مانتے بلکہ بجائے ماننے کے سبّ و شتم سے پیش آتے ہو آخر ایک روز تو میرے سامنے آئو گے اب بھی اگر اپنی بہتری چاہتے ہو تو مراے رسول پر ایمان لے آئو اور اس دن کے عذاب سے بچ جائو جس میں کوئی کسی کے کام نہ آئے گا اور نہ اس سے بدلہ لیا جائے گا اور نہ اس کو کسی کی سفارش ہی کچھ کام دے گی اور نہ ان مجرموں کو کسی زبر دست کی طرف سے مدد پہنچے گی کہ ہماری پکڑ سے ان کو رہائی دلا سکے بلکہ سب کے سب اپنے ہی حال میں حیران سرگردان ہونگے تعجب ہے کہ تم نے اپنے بڑوں کی اقتدا بھی چھوڑدی اور ابراہیم ( علیہ السلام) کی حالت بھی بھول گئے جب کہ اس ابراہیم ( علیہ السلام) کو اس کے اللہ نے چند باتوں کا حکم دیا پس اس بندہ کامل نے ان سب کو پورا کیا جب اس کے انعام میں اللہ نے اس کو کہا کہ میں تجھ کو سب لوگوں کا امام اور پیشوا بنائوں گا وہی لوگ نجات پائیں گے جو تیرے پیچھے چلیں گے وہ اپنے نیک ارادوں سے بولا ! یا اللہ مجھے امام بنا اور میری اولاد میں سے بھی کسی کو یہ رتبہ نصیب کر کہ وہ بھی مخلوق کی رہنمائی کریں کیونکہ اولاد کی لیا قت آنکھوں کی ٹھنڈک ہے اللہ تعالیٰ نے کہا بے شک تیری اولاد سے بھی یہ رتبہ بعض کو ملے گا مگر چونکہ پانچوں انگلیاں بھی یکساں نہیں ہوتیں اس لئے ان میں بعض بد کردار بھی ہونگے جو آپس میں ظلم و ستم کریں گے پس ایسے ظالموں کو یہ میرا وعدہ نہیں پہنچے گا ایسے اخلاص اور اطاعت کے سبب سے ہم نے ابرا ہیم ( علیہ السلام) کے نیک کام کو قبول کیا تمہیں یاد نہیں ؟ کہ جب ہم نے ابراہیم ( علیہ السلام) کے بنائے ہوئے کعبہ کو لوگوں کا مرجع اور بڑے امن کی جگہ بنایا اور عام طور پر حکم دیا کہ ابرا ہیم ١ ؎ ( علیہ السلام) کی جگہ نماز پڑھو
(شان نزول :۔
حضرت عمر (رض) نے آنحضرتﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ آپ مقام ابراہیم میں نماز پڑھا کریں۔ ان کی درخواست پر یہ آیت نازل ہوئی۔ راقم کہتا ہے اس آیت سے بلحاظ اس قصہ کے فاروق اعظم (رض) کی کمال بزرگی ثابت ہوتی ہے مگر دیکھنے کو چشم بصیرت چاہیے۔)
اور اس کی دعا کا کسی قدر ظہور تو اس کی زندگی میں ہی ہوگیا تھا کہ ہم نے ابراہیم ( علیہ السلام) اور اس کے بڑے بیٹے اسمٰعیل ( علیہ السلام) کو حکم بھیجا کہ میرا عبادت خانہ طواف اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع سجود کرنے والوں کے لئے شرک کی آلودگی سے صاف ستھرا رکھو اس پر بھی اس بندہ کامل نے پورا عمل کیا اس کی اخلاص مندی کا ایک واقعہ اور بھی سنو ! جب ابراہیم ( علیہ السلام) نے دعا کی کہ اے میرے مولا اپنی مہربانی سے اس شہر مکہ کو بڑے آرام کی جگہ بنا جس طرح اس کے ارد گرد لوٹ گھسوٹ ہوتی ہے اس میں نہ ہو اور ابراہیم ( علیہ السلام) نے اپنے دل میں یہ سمجھا کہ مثل سابق اب کی دفعہ بھی میری دعا فی الجملہ واپس نہ ہوگی۔ اس لئے اس نے بعد سوچ بچار ڈرتے ڈرتے یہ کہا کہ اس کے رہنے والوں کو جو پختہ طور سے اپنے اللہ کو مانیں اور قیامت کے دن پر یقین لاویں محض اپنی مہربانی سے عمدہ عمدہ میوے نصیب کر چونکہ یہ درخواست ابراہیم ( علیہ السلام) کی کچھ ایسے مطلب کی نہیں تھی جو کسی قوم نیک یا بد سے مخصوص ہو اس لئے کہ دنیا کا رزق تو عام طور پر ایسا ہے کہ باتیرے مومن حیران ہیں اور بہتیرے فاسق و فاجر مزے میں گزارتے ہیں اس لئے اللہ نے کہا ہاں بے شک ایمان داروں کو دوں گا اور ان کے سوا کافروں کو بھی دنیا میں کسی قدر نفع مند کروں گا پھر اس کے بعد ان کو عذاب میں پھینکوں گا جو بہت ہی بری جگہ ہے یہ سن کر ابراہیم ( علیہ السلام) بہت خوش ہوا اور اپنے کام میں مشغول رہا با لکل کسی طرح سے اس کے دل میں کوئی ایسی بات نہ آئی تھی جو اخلاص سے خالی ہو اور سنو ! جب ابراہیم ( علیہ السلام) اور اس کا بیٹا اسمٰعیل ( علیہ السلام) کعبہ کی بنیاد بحکم ربّانی اٹھا رہے تھے تو اس وقت بھی یہی کہتے تھے اے ہمارے مولا تو ہم سے اس کار خیر کو قبول کر اسلئے کہ تو ہی ہماری باتیں سننے والا ہے اور ہمارے دل کی آرزوئیں جانتا ہے پھر اسی پر بس نہیں بلکہ اپنی ترقی درجات کے لئے ہمیشہ دست بدعا رہے کہ ہمارے مولا ہم کو اپنا فرمانبردار بندہ بنا نہ صرف ہم کو بلکہ ہم کو اور ہماری اولاد میں سے بھی ایک گروہ کو ضرور ہی اپنا تابعدار کیجیے اور اے ہمارے مولا چونکہ ہم تیرے عاجز بندے ناقص العقل تیری رضا خود بخود دریافت نہیں کرسکتے جب تک تو ہی اپنی مرضی پر مطلع نہ کرے اس لئے ہم عرض پرداز ہیں کہ تو ہم کو ہماری عبادت کے طریقے بتلا اور اگر اس بتلائے ہوئے میں کسی طرح کا ہم سے قصور واقعہ ہو تو ہم پر رحم فرما اس لئے کہ تو ہی ہے بڑا رحم کرنے والا مہربان۔ یہ دونوں باپ بیٹا نیک کاموں میں کچھ ایسے حریص تھے کہ علاوہ مذکو رہ بالا دعا کے آئندہ کو بھی اپنی اولاد کے لئے درخواست کرتے رہے کہ اے میرے ہمارے مولا ! چونکہ بغیر کسی ھادی کے انسان کا ہدائت یاب ہونا مشکل امر ہے اس لئے گزارش ہے کہ تو ان لوگوں میں انہی میں سے ایک رسول بھی پیدا کیجیو جو ان کو تیری آیتیں پڑھ کر سنائے اور تیری کتاب آسمانی کے احکام اور نیک اخلاق ان کو سکھلاوے اور اپنی صحبت موثرہ میں ان کو اخلاق رویہ مثل شرک کفر حسد بغض کینہ کبر وغیرہ سے پاک صاف کرے تو تو ایسے بہت سے کام کرسکتا ہے بے شک تو ہر کام پر غالب ہے جو چاہے سو کرتا ہے اور ساتھ ہی اس کے بڑی حکمت والا بھی ہے جس کسی کو اس خدمت کے لائق سمجھے گا معمور کرے گا۔
(ایک رسول پیدا کیجیو) اس آیت میں اللہ نے سید الانبیاء محمد مصطفیٰ علیہ وعلیٰ آلہ التحیۃ کی نبوت کی طرف اشارہ فرمایا ہے اس بات کا ثبوت کہ آپ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کی اولاد سے ہیں محتاج دلیل نہیں کل دنیا کے لوگ یہود نصارٰے اہل اسلام اس پر متفق ہیں کہ آپ بلکہ آپ کا تمام خاندان قریش بلکہ قریب قریب کل عرب حضرت اسمٰعیل ( علیہ السلام) کی اولاد ہیں اور اسمٰعیل ابراہیم علیہما السلام کے بڑے بیٹے تھے جن کے حق میں تورٰیت سے بھی اتنی شہادت ملتی ہے :۔
” اور ہاجرہ ابرہام کے لئے بیٹا جنی اور ابرہام نے اپنے بیٹے کا نام جو ہاجرہ جنی اسمٰعیل رکھا۔ اور جب ابرہام کے لئے ہاجرہ سے اسمٰعیل پیدا ہوا تب ابرہام چھیاسی برس کا تھا۔“ (پیدائش ١٦ باب ١٨ آیت)
اسی کتاب کی دوسری جگہ لکھا ہے :۔
” اسمٰعیل ( علیہ السلام) کے حق میں (اے ابراہیم ( علیہ السلام) میں نے تیری سنی دیکھ میں اسے برکت دوں گا۔ اور اسے برومند کروں گا اور اسے بہت بڑھائوں گا اور اس سے بارہ سردار پیدا ہوں گے اور میں اسے بڑی قوم بنائوں گا“ (١٧ باب ٢٠ آیت)
پس عبارت مذکورہ بالا تورات سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ حضرت اسمٰعیل ( علیہ السلام) ابراہیم ( علیہ السلام) کے نہ صرف بیٹے بلکہ موعود بالبرکت تھے گو یہ واقع بناء کعبہ تو تورٰیت میں مصرح مذکور نہیں اور اس کے مذکور نہ ہونے کی وجہ شائد وہی ہے جس کا مفصل ذکر ہم عیسائیوں کی پہلی غلطی کی ذیل میں کر آئے ہیں لیکن اتنا تو معلوم ہوتا ہے کہ ابراہیم ( علیہ السلام) کو اپنے بیٹے اسمٰعیل ( علیہ السلام) کے لئے بہت کچھ خیال تھا۔ جس کے جواب میں ارشاد باری پہنچا کہ میں نے تیری سنی۔ خاندان نبوت اور سلسلہ رسالت بلکہ عام اہل اللہ کے حالات دیکھنے سے بھی اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ وہ ایسے موقعہ پر دنیاوی برکت اور ظاہری کثرت تعداد سے خوش نہیں ہوا کرتے جب تک کہ ان کی اولاد میں سے بڑھ کر کوئی پیدا نہ ہو پس ان وجوہ کے لحاظ سے الفاظ قرآن اور تورٰیت دونوں متفق ہیں کہ اسمٰعیل ( علیہ السلام) کی اولاد سے کوئی نبی ہونا چاہیے جس سے ان کی اولاد کو بابرکت کہا جائے پس وہ نبی وہی ہے جو سیّد ولد اٰدم ولا فخر کا مصداق ہے بیشک سچ ہے ؎
ہوئے پہلوئے آمنہ سے ہویداَ
دعائے خلیل اور نوید مسیحا |
البقرة |
123 |
|
البقرة |
124 |
|
البقرة |
125 |
|
البقرة |
126 |
|
البقرة |
127 |
|
البقرة |
128 |
|
البقرة |
129 |
|
البقرة |
130 |
(130۔141)۔ بتلائو تو ایسے بھلے آدمی ابراہیم ( علیہ السلام) کی راہ سے سوا احمقوں کے کون روگردان ہوگا حالانکہ ہم نے اس کو تمام دنیا کے لوگوں میں پسند کیا ہے اور آخرت میں بھی وہ نیک بندوں کی جماعت میں ہوگا اس کی بزرگی میں شک ہو تو یاد کرو جب اللہ نے اسے کہا کہ میری تابعداری کرو وہ فوراً بو لا کہ میں دست بستہ حاضر اللہ ربّ العٰلمین کا بڑی مدّت سے تابعدار ہوں
(شان نزول :۔ ع (ومن یرغب) عبداللہ بن سلام (رض) نے اپنے دو بھتیجوں کو کہا کہ تم بھی مسلمان ہوجائو۔ ایک تو ان میں سے ہوگیا دوسرے نے انکار کیا ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی (معالم)
بعد اس کے پھر ہمیشہ تک ایسا ہی اخلاص مند رہا اور ابراہیم ( علیہ السلام) نے اور اس کی تاثیر صحبت سے اس کے پو تے یعقوب ( علیہ السلام) نے اپنے بیٹوں سے وصیت کی کہ اے میرے بیٹو ! اللہ نے تمہارے لئے یہی توحید کا دین پسند کیا ہے پس تم مرتے دم تک اسی پر رہیو بلکہ اس امر کے تو تم بھی گواہ ہو یعقوب ( علیہ السلام) نے فوت ہوتے وقت اپنے بیٹوں بطور نصیحت اور آز مائش کہا تھا کہ میرے بعد کس کی عبادت کرو گے جس سے اس کی غرض ہی تھی کہ ان کے منہ سے نکلوا لوں کہ صرف اللہ کی ہی عبادت کریں گے چنانچہ انہوں نے یہی اس کے منشاء کے مطابق ہی کہا کہ ہم اکیلے اللہ تعالیٰ ہی کی عبادت کریں گے جو تیرا اور تیرے باپ دادا ابراہیم ( علیہ السلام) اور اسمٰعیل اور اسحق کا اللہ تعالیٰ ہے اور ہم تو اب بھی اس کے فرمانبردار ہیں
(شان نزول :۔ ١ ؎ (ام کنتم شھدائ) یہودیوں نے کہا کہ حضرت یعقوب نے فوت ہوتے وقت اپنے بیٹوں کو یہودیت کے قائم رکھنے کی وصیت کی ہوئی ہے آپ ہم کو یہودیت سے کیوں بدلاتے ہیں؟ ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی ١٢ معالم)
یہ ایک جماعت کسیا بابرکت تھی جو اپنے وقت میں گزر گئی صرف زبانی جمع خرچ کرنے والوں کا ان سے کیا علاقہ ان کی کمائی ان کو ہوگی تمہاری کمائی تم کو ہے تمہیں ان کے کیے سے سوال نہ ہوگا نہ ان کو تمہارے کیے کی پوچھ۔ تم ان سے علیحدہ وہ تم سے جداتعجب ہے کہ با وجود زبانی جمع خرچ کے۔ یہ لوگ اپنے ہی کو ہدایت پر جانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہماری طرح یہودی یا عیسائی ہوجاؤ اس سے ہدایت یاب ہوجاؤ گے گویا ان کے نزدیک سوائے یہودیت کے کوئی طریق درست نہیں تو کہہ دے کہ تمہاے زئلیات تو ہم ہرگز نہ سنیں گے اور نہ ان پر عمل کریں گے بلکہ ہم تو حضرت ابراہیم یک رخہ کے پیچھے چلیں گے اور اسی کی راہ ہم نے پکڑ رکھی ہے۔ جو تمام نفسانی خواہشوں سے پاک وصاف ہو کر اللہ کا بندہ ہوگیا تھا اور وہ مشرک نہ تھا۔
(شان نزول :۔ (قالو اکونوا ھودا) یہود مدینہ اور نصاریٰ نجران دونو مسلمانوں سے آکر جھگڑنے لگے اور ہر ایک اپنے مذہب کی طرف بلاتا تھا ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی ١٢ ف)
جیسے کہ تم ہو۔ پس ہم تمہارے پیچھے چل کر مشرک بننا نہیں چاہتے۔ اس تمہارے کہنے سے اگر لوگوں میں یہ مشہور کریں کہ مسلمان توریت انجیل کو اللہ کا کلام نہیں مانتے تو تم بلند آواز سے کہہ دو کہ یہ الزام ہم پر غلط ہے سب سے پہلے ہم اللہ واحد کو مانتے ہیں اور اس کتاب کو مانتے ہیں جو ہماری طرف اتری اور اس کو بھی مانتے ہیں جو حضرت ابراہیم اور اس کے بڑے بیٹے اسمٰعیل اور چھوٹے بیٹے اسحاق اور اس کے پوتے یعقوب اسرئیل اور اس کی اولاد علیہم السلام کی طرف اللہ کے ہاں سے اتاری گئی اور خاص کر اس کلام کو مانتے ہیں جو کچھ حضرت موسیٰ اور عیسیٰ کو اللہ کے ہاں سے زندگی میں ملا تھا اور جو عموماً سب نبیوں کو اللہ کی طرف سے ملا ہم سب کو تسلیم کرتے ہیں اور بدل وجان قبول کرتے ہیں بڑی بات ہم میں یہ ہے کہ اللہ کے نبیوں میں تفریق نہیں کرتے کہ بعض کو مانیں اور بعض سے انکاری ہوں جیسے تم حضرت مسیح اور سیدالانبیاء محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منکر ہو اور ہم میں بفضلہ تعالیٰ یہ عیب بھی نہیں کہ ہم تمہاری طرح مطلب کے وقت اللہ کے حکموں پر غیروں کو ترجیح دیں بلکہ ہم تو صرف اسی کے تابعدار ہیں پس بعد اس اظہار صریح کے اگر وہ تمھاری مانی ہوئی کتاب یعنی قرآن مجید کو مان لیں تو جان لوکہ ہدایت پر آگئے اور اگر حسب دستور قدیم اعراض کریں تو معلوم کرو کہ وہ سخت ضدی ہیں اگر وہ تجھ سے (اے رسول) کچھ اذیت کا قصد کریں تو پس اللہ تعالیٰ تجھ کو ان کی شرارت سے بچائے گا اس لئے کہ وہ تیرے مخالفوں کی سرگوشیاں اور باہمی مشورے سنتا ہے اور ان کے دلی عنادوں کو بھی جانتا ہے ان کا یہ بھی ایک داؤ ہے کہ اپنے مذہب میں لاتے ہوئے رنگ کے چھینٹے ڈالتے ہیں اور اس کو الٰہی رنگ کہتے ہیں اور عوام لوگوں کو اس دھوکہ سے کہ آؤ اس سچے رنگ سے اپنے کو رنگو دام میں لاتے ہیں۔ سوئم ان کے جواب میں کہدو کہ تمہارا رنگ تو پھیکا بلکہ سرے سے کچھ بھی نہیں اصل اللہ کا رنگ ہم نے اختیار کیا ہے یعنی اس کے خالص بندے بن چکے ہیں۔ بھلا بتلاؤ تو اللہ سے کس کا رنگ اچھا ہے؟ تمہاری طرح ہم زبانی جمع خرچ نہیں رکھتے۔ بلکہ ہم تو دل وجان سے اللہ کے حکموں کو مانتے ہیں اور ہم اسی کی عبادت کرتے ہیں۔ اب بھی اگر یہ اہل کتاب باز نہ آئیں اور اے رسول ! تیری نبوت کو اس وجہ سے جھٹلاویں کہ تو نبی اسمٰعیل (علیہ السلام) سے ہے اور ان کا خیال ہے کہ نبوت خاصہ بنی اسرائیل کا ہے۔ تو تو ان سے کہہ دے کیا تم ہم سے اللہ کے فضل اور بخشش کے بارے میں جھگڑتے ہو۔ کیا نبوت اپنا ہی حق جانتے ہو اور ہم کو اس سے علیحدہ ہی رکھنا چاہتے ہو۔ بھلا تم میں کون سی ترجیح ہے حالانکہ بندگی میں ہم تم سب برابر ہیں۔ اور وہ ہمار اور تمہارا سب کا مالک ہے اور اعمال میں بھی تم کو کسی قسم کی رعائیت نہیں کہ اوروں کی کمائی تم کو مل جائے بلکہ ہمارے اعمال ہم کو اور تمہارے اعمال تم کو جو کرے وہ بھرے ہاں اگر غور کیا جائے تو قابل ترجیح بات ہم میں ہے کیونکہ ہم اس کے سب احکام کو مانتے ہیں۔ اور ہم دل سے اسی کے اخلاص مند ہیں نہ کہ تمہاری طرح مطلب کے یار۔ غرض ہو تو اللہ کے بن گئے۔ جب مطلب حاصل ہوا تو پھر کون۔ یہ بھی تو ان سے پوچھو کہ کیا تم بجائے چھوڑنے اس واہیات خیالات کے یہ کہتے ہو کہ حضرت ابراہیم اور اس کے دونوں بیٹے اور پوتا اسمٰعیل او اسحاق اور یعقوب علیہم السلام اور اس کی سب اولاد تمہاری طرح یہودی یا عیسائی تھے۔ تو اے رسول ! ان سے کہہ دے بھلا کیونکر ہم تمہاری باتیں مانیں کہ وہ ایسے تھے حالانکہ ہم کو اللہ نے پختہ طور سے بتلایا ہے کہ ان بزرگوں کی یہ روش نہ تھی جو تم نے نکال رکھی ہے کیا تم خوب جانتے ہو یا اللہ خوب جانتا ہے۔ جی میں تو یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ حضرات ان جیسے نہ تھے مگر لوگوں کی شرم سے چھپاتے میں اور نہیں جانتے کہ یہ بھی ایک قسم کی شہادت ہے اور کون زیادہ ظالم ہے اس شخص سے جو اپنے پاس سے اللہ کی بتائی ہوئی شہادت کو چھپائے۔
یقینا جانو کہ اللہ تم کو اس کتمان پر مواخزہ کرے گا۔ اس لئے کہ اللہ تمہارے کاموں سے بے خبر نہیں۔ اصل پوچھو تو تم یہودو نصارٰی کو ان بزرگوں سے کیا مطلب؟ یہ ایک جماعت پسندیدہ تھی جو اپنے اپنے وقت پر گزرگئی ان کی کمائی ان کو ہے اور تمہاری تم کو اور تم ان کے کئے سے نہ پوچھے جاؤ گے اور نہ وہ تمہارے کردار سے۔ تم ان سے اجنبی وہ تم سے بیگانے پھر بار بار ان کا نام لینے سے کیا فائدہ۔ جب تک کہ ان کی تابعداری نہ ہو۔ |
البقرة |
131 |
|
البقرة |
132 |
|
البقرة |
133 |
|
البقرة |
134 |
|
البقرة |
135 |
|
البقرة |
136 |
|
البقرة |
137 |
|
البقرة |
138 |
|
البقرة |
139 |
|
البقرة |
140 |
|
البقرة |
141 |
|
البقرة |
142 |
(142۔147)۔ چونکہ تم مسلمان حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کے تابع ہو اس لئے مناسب ہے کہ اسی کے قبلہ کی طرف نماز پڑھو۔ مگر اس کی مصلحت اور حکمت نہ سمجھنے والے بے وقوف لوگ جھٹ سے کہیں گے کہ کسی چیز نے ان مسلمانوں کو ان کے پہلے قبلہ بیت المقدس سے پھیردیا جس پر یہ پہلے سے تھے
} شان نزول :۔ ١ ؎ (سَیَقول السُّفھآئ) جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ میں تشریف لے گئے تو آپ بیت المقدس کی طرف جو انبیاء کا قبلہ رہا تھا قریباً سولہ مہینے نماز پڑھتے رہے مگر دل میں یہ شوق غالب تھا کہ میں اپنے باپ سید الموحدین ابراہیم (علیہ السلام) کے کعبہ کی طرف نماز پڑھوں چونکہ اس خواہش کے پورا ہونے پر مخالفین (یہود نصاریٰ مشرکین عرب اور چھپے دشمن ان کے بھائی منافقوں) نے شور مچانا تھا اس لئے حکم آنے سے پہلے ہی ان کے حال سے اطلاع دی گیش اور کسی قدر اجمالی اور تفصیلی جوابات کے بعد تحویل قبلہ کا حکم صادر فرمایا کہ تعمیل میں آسانی ہو۔ منہ){
تو ان کے جو اب میں کہہ دیجیو۔ کیا ہم بیت المقدس کی عبادت کرتے تھے کہ اب اس میں فرق آگیا ہرگز نہیں بلکہ اللہ کی عبادت کرتے ہیں اور مشرق مغرب جنوب شمال تو سب اللہ ہی کا ہے ہر ایک طرف سجدہ ہوسکتا ہے ہاں تعین جہت اس کے حکم سے ہے جس طرف کا حکم دے گا اسی طرف کو جھک جائیں گے ہاں یہ بیشک ہے کہ کسی جانب کی تعیین جب بھی ہوتی ہے۔ کہ اس میں کوئی مصلحت اور دوسروں سے ترجیح پائی جائے لیکن ایسے مصلحت آمیز امور ہر ایک کی سمجھ میں نہیں آیا کرتے اللہ ہی جس کو چاہتا ہے سیدھی راہ کی طرف راہنمائی کرتا ہے جیساکہ ہم کو اسی نے اس کعبہ کی طرف نماز پڑھنے کا حکم دیا اور ساتھ ہی اس کے یہ بھی سمجھا دیا کہ ابراہیمی یادگار کا قائم رکھنا مناسب ہے جس نے اللہ کی مرضی کے حاصل کرنے کے لئے تمام لوگوں کی ناگوارسختیوں کو بھی برداشت کیا تاکہ لوگ اس امر کو جان کر کہ اللہ اپنے بندوں کے اخلاص کے موافق قدر افزائی کیا کرتا ہے اخلاص مندی کا سبق حاصل کریں جیسا کہ ہم نے تم کو کعبہ ابراہیمی کی راہنمائی کی ہے اسی طرح ہم نے تم کو ایک اور نعمت بھی عطا کی ہے وہ یہ کہ تم کو میانہ روش بنایا ہے دنیاوی اور مذہبی امور میں افراط تفریط سے بالکل صاف اور ظلم اور بیجا قومی حمایت سے پاک۔ سچ پوچھو تو یہ خصائل ترقی قومی اور بہبودی ملکی کے لئے ضروری ہیں اسی وجہ سے تم (اصحاب) کو ایسا بنایا تاکہ تم اور لوگوں پر حکمران ہو۔ اور رسول جو ان صفات سے ہر طرح کامل اور مکمل ہے تم پر حاکم بنے
} (لِتَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَھِیْدًا) اس آیت کے معنے جمہور مفسرین نے یہ کئے ہیں کہ ” تم لوگوں پر گواہ بنو اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم پر گواہ بنے“ پھر اس میں اختلاف ہوا ہے کہ یہ شہادت دنیا کے متعلق ہے یا آخرت میں۔ تفسیر کبیر میں پہلے لوگوں کی تقریر میں لکھا ہے۔
فھٰذہ الشھادۃ اما ان تکون فی الاٰخرۃ او فی الدنیا لاجائزان تکون فی الاٰخرۃ لان اللّٰہ تعالیٰ جعلھم عدولا فی الدنیا لاجل ان یکونوا شھداء وذٰلک یقتضی ان یکونوا شھداء فی الدنیا انما قلنا انہ تعالیٰ جعلھم عدولا فی الدنیا لانہ تعالیٰ قال وکذٰلک جعلٰنکم امۃ و ھٰذا اخبار عن الماضی فلا اقل من حصولہ فی الحال و انما قلنا ان ذٰلک یقتضی صیرورتھم شھودا فی الدنیا لانہ تعالیٰ قال وکذٰلک جعلٰنکم امۃ وسطا لتکونوا شھداء علی الناس رتب کونھم شھداء علٰے صیرورتھم وسطا ترتیب الجزا علے الشرط فاذا حصل وصف کونھم وسطا فے الدنیا وجب ان یحصل وصف کونھم شھداء فی الدنیا (تفسیر کبیر جلد ٢ ص ١٠)
یہ شہادت (دو حال سے خالی نہیں) یا تو آخرت میں ہوگی یا دنیا میں (لیکن) آخرت میں تو اس کا ہونا نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ اللہ نے ان کو دنیا میں عادل اس لئے بنایا تاکہ وہ گواہ بنیں اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ دنیا میں گواہ ہیں اور یہ جو ہم نے کہا ہے کہ اللہ نے ان کو دنیا میں عادل کیا اس کی دلیل یہ ہے کہ اللہ نے وکذٰلک جعلٰنکم فرمایا ہے اور یہ خبر واقعہ گذشتہ سے دی گئی ہے پس کم سے کم اس کا حصول زمانہ حال میں ہونا چاہیے اور یہ جو ہم نے کہا کہ اس سے ان کا دنیا میں گواہ ہونا لازم آتا ہے اس کی دلیل یہ ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ہم نے تم کو امت متوسط بنایا تاکہ تم لوگوں پر اور رسول تم پر گواہ ہو۔ اس کلام کو ایسا مرتب کیا جیسے شرط جزا ہوا کرتی ہے۔ پس جب ان کا وسط ہونا دنیا میں حاصل ہے تو گواہ بھی دنیا میں ہونا واجب اور ضروری ہوگا“ انتہیٰ)
رہاؔ یہ سوال کہ دنیا میں ان کی گواہی کا کیا مطلب۔ سو اس کا جواب ان لوگوں کے نزدیک جو اس شہادت کو دنیا کے متعلق مانتے ہیں یہ ہے کہ اس شہادت سے مراد اجماع ہے۔ چنانچہ تفسیر کبیر میں اس سے آگے چل کر کہا ہے کہ :۔
فثبت ان لایۃ تدل علیٰ ان الا جماع ججۃ (ج ٢ ص ١)
ثابت ہوا کہ آیت اجماع کے حجت ہونے پر دلالت کرتی ہے۔
بعض لوگ بلکہ اکثر کہتے ہیں کہ یہ شہادت قیامت میں ہوگی جب انبیاء کی امتیں تبلیغ رسل سے انکار کریں گی تو اس وقت امت محمدیہ انبیاء کی طرف سے شہادت دے گی کہ بے شک انہوں نے اپنی اپنی امت کو پہنچا دیا۔ اور جناب رسالت مآب اپنی امت کا تزکیہ کریں گے کہ میری امت کے لوگ سچے گواہ ہیں اس مضمون کی ایک حدیث بھی صحیح مسلم میں آئی ہے جو ان معنے کو تقویت دیتی ہے مگر چونکہ پہلے لوگوں کی دلیل بھی قوی ہے اس لئے امام رحمہ اللہ نے تفسیر کبیر میں دونوں کو جمع کرنا چاہا ہے اور کہا ہے کہ :۔
فالحاصل ان قولہ تعالیٰ فتکونوا شھداء علی الناس اشارۃ ان قولھم عند الاجماع حجۃ من حیث ان قولھم عند الاجماع یبین للناس الحق ویؤکد ذٰلک قولہ تعالیٰ ویکون الرسول علیکم شھیدا یعنے مودیا ومبینا ثم لایمتنع مع ذٰلک لھم الشھادۃ فی الاٰخرۃ فیجری الواقع منھم فی الدنات مجری التحمل لاٰنھم اذا اثبتوا الحق عرفوا عندہ من القائل ومن الرّاد ثم یشھدون بذٰلک یوم القیمۃ کما ان الشاھد علی العقود یعرف ما الذی لم وما الذی ثمّ یتم لم یشھد بذٰلک عند الحاکم (ج ٢ صفحہ ١)
حاصل اس بحث کا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ تم گواہ بنو گے اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ ان کی بات
اجماع کے وقت دلیل ہوگی اس لحاظ سے کہ اجماع کے وقت لوگوں کو حق بتا دیں گے اور اسی کی تائید کرتا ہے اللہ تعالیٰ کا فرمانا کہ رسول تم پر گواہ ہوگا یعنی ادا کرنے والا اور بیان کرنے والا یہ ہو کر بھی اجماع حجت ہے اور اس دلیل سے دنیاوی شہادت معلوم ہوتی ہے ممکن ہے کہ قیامت میں بھی ان کی شہادت ہو پس دنیا کی شہادت ان کے حق میں گویا کہ دریافت واقع ہے اس لئے کہ جب انہوں نے دنیاوی شہادت سے ایک امر کو ثابت کیا تو گویا اس وقت وہ ماننے اور نہ ماننے والوں کو جان لیں گے پھر اس بات کی قیامت میں شہادت دیں گے جیسا کہ گواہ وقت بیع عقد تام اور غیر تام کو جانتا ہے پھر اس امر کی حاکم کے پاس شہادت ادا کرتا ہے۔“ انتہیٰ
میں کہتا ہوں یہ طریق جمع بین الشہادتین جو امام ممدوح نے بیان کیا ہے اس میں ایک طرح کا شبہ ہے کیونکہ امام صاحب نے دنیاوی شہادت کو بمنزلہ تحمل شہادت کے قرار دیا ہے۔ حالانکہ اس شہادت کو اس شہادت سے مبائنت ہے اس لئے کہ بعد تسلیم اس امر کے کہ اس آیت سے اجماع کی حجیت ثابت ہوتی ہے یہ کہنا باقی ہے کہ اجماع مثبت فروعات شرعیہ کا ہوتا ہے اور شہادت اخروی جیسے کہ حدیث مذکور سے ثابت ہے امم سابقہ کے مقابلہ پر ہوگی۔ جن کو فروعات شرعیہ محمدیہ سے کوئی علاقہ نہیں پس جب کہ حسب منشاء امام جمع بین الشہادتین ہی ضروری ہے اور یہ امر ہر حال میں اولیٰ اور انسب ہے کہ اس آیت سے دونوں شہادتین مراد ہوں تو کوئی وجہ نہیں۔ کہ شہادت کے معنے گواہی دادن کے لے کر کلام صحیح ہوسکے اس لئے میں نے شہادت کے معنے حکمرانی کے لئے ہیں پس یہ معنی نہ تو حدیث کے خلاف رہے اور نہ امام کے منشاء (جمع بین الشہادتین) کے مخالف ہاں شہادت کے مصداق متنوع ہوں گے یعنی دنیا میں حکمرانی اور نوع کی ہوگی اور قیامت میں اور قسم کی جیسا کہ عموم مجاز یا عموم مشترک (علیٰ تقریر جوازہ) کی صورت میں ہوا کرتا ہے۔ رہا یہ سوال کہ شہادت کے معنے حکمرانی کے ہیں؟ سو اس کا جواب یہ ہے کہ مفسر بیضاوی نے اِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ کی تفسیر میں لکھا ہے کہ شہید حاکم کو بھی اس لئے کہتے ہیں کہ وہ مجالس میں واسطے تصفیہ مقدمات کے آیا جایا کرتا ہے۔ اور اگر آیت پر غور کیا جائے تو یہی معنے مناسب ہیں۔ اس لئے کہ تحویل قبلہ کا وقت ایک نہایت اضطراب اور بے قراری کا مسلمانوں کے حق میں تھا۔ جس میں ان کو ہر طرف سے کس و ناکس کے اعتراضات سننے پڑتے تھے ایسے موقع پر نہایت ضروری تھا کہ ان کی گھبراہٹ کے دفع کرنے کو کوئی خبر ایسی فرحت بخش سنائی جاتی جس سے ان کے لئے اس گھبراہٹ کا بہت جلد تبادلہ ہوتا چنانچہ بعد تدبران آیات سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ کی تسکین ہر طرح سے مقصود تھی کہیں تو ان کو طمع دی جاتی تھی۔ کہیں ان کو کفار کے شر سے بچنے کی تاکید ہو رہی ہے۔ اور بار بار اس امر کی تاکید ہے کہ ضرور اس کام پر پختہ ہوجائو اور کسی کی مت سنو اللہ بھی چاہتا ہے کہ تم پر اپنی نعمتیں پوری کرے۔ وغیرہ وغیرہ۔ پس شہداء کے معنے حکمران لینا اور اس کو ایک قسم کی دلجوئی بلکہ پیشگوئی قرار دینا سیاق و سباق سے نہایت مناسب بلکہ انسب ہے ١٢ منہ){
یہ لوگ ایسے بے ہودہ بکواس ہی میں رہ جائیں گے۔ اور تم ان کے دیکھتے ہی ترقی کرجاؤگے۔ جو تمہاری سچائی کی دلیل ہوگی۔ رہا ان ظاہر بین نادانوں کا سوال کہ کبھی کسی طرف نماز پڑھتے ہیں اور کبھی کسی طرف سواس میں بھی کئی ایک مصلحتیں اور حکمتیں ہوتی ہیں جو تمہاری ترقی کے لئے ایک زینہ ہے یادرکھیں کہ تیرا اصل قبلہ تو یہی کعبہء ابراہیمی ہے جس پر اعتراض کررہے ہیں مگر درمیان میں ہم نے اس قبلہ بیت المقدس کو جس کی طرف تو بالفعل متوجہ ہے اس لئے تجویز کیا تھا کہ رسول کے مخلص تابعین کو نافرمانوں اور دوزخی چال والوں سے ممتاز کریں جو سنتے ہی مان جائے گا وہ اخلاص مند ثابت ہوگا اور جو ایچ پیچ کرے گا۔ اس کی گردن کشی ثابت ہوگی۔ سچ تو یہ ہے کہ ایسے لوگوں کی تمیز بھی نہایت ضروری ہے اس لئے کہ جب تک کسی قوم کے سب لوگ یکجان ہو کر اپنے مقاصد میں ساعی نہ ہوں ترقی مسدود ہوتی ہے ہاں اس میں شک نہیں کہ یہ انقلاب کعبہ بہت دشوار ہے مگر ایسے لوگوں پر دشوار نہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے رہنمائی کی ہو اور وہ جانتے ہوں کہ رسول کے احکام ہر حال میں قابل تسلیم ہوتے ہیں شاباش تم ایمانداروں پر جو اپنے ایمان کی حفاظت دل وجان سے کرتے ہو۔ اللہ تعالیٰ بھی تمہارا ایمان اور اعمال صالحہ ضائع نہیں کرے گا اس لئے کہ اللہ تعالیٰ سب لوگوں کے حال پر عموماً اور ایسے مسلمانوں کے حال پر خصوصاً بڑا مہربان رحم کرنے والا ہے
} (شان نزول : (وَمَا کَان اللّٰہُ) تحویل قبلہ سے پہلے جو مسلمان بیت المقدس کی طرف نماز پڑھتے ہوئے فوت ہوگئے تھے۔ ان کی بابت ان کے احباب نے حضور مقدس سے سوال کیا کہ ان کی نمازیں مقبول ہوئیں یا نہیں۔ ان کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی کہ ضائع نہ ہوں گی ١٢ جلالین۔){
تو پھر رحم اور مہربانی اسی کا نام ہے کہ کئے ہوئے کام (نماز روزہ) بھی بلا وجہ ضائع کردے چونکہ تیرا مدت سے یہی جی چاہتا ہے کہ کعبہء ابراہیم کی طرف ہی (جو سب سے اول عبادت خانہ ہے) نماز پڑھے چنانچہ تیرے منہ کا آسمان کی طرف بانتظار وحی پھر ناہم دیکھ رہے ہیں نیز تعیین جہت سے کوئی یہ غرض نہیں کہ اس جہت کی عبادت کرائی جائے بلکہ عبادت تو ہماری ہے تعیین قبلہ تو صرف ایک عارضی امر ہے پس تجھ کو ہم اسی کعبہ کی طرف پھیریں گے۔ جسے تو پسند کرتا ہے لیجئے بس اب سے آئندہ کو اپنا منہ عزت والی مسجد یعنی کعبہ ابراہیمی کی طرف پھیر کر اور عام مسلمانوں کو بھی اعلان دیدو کہ جہاں کہیں تم ہو نماز کے وقت اپنا رخ اسی کی طرف کیا کرو۔
}آریوں اور عیسائیوں کی غلطی :
(اپنا منہ عزت والی مسجد کی طرف پھیرا کر) اس آیت کے متعلق بھی نافہم مخالفوں نے کئی طرح سے دانت پیسے ہیں سب سے بڑا اعتراض تو یہ ہے کہ اسلام نے بت پرستی کو رواج دیا جو سچے مذہب کے شایاں نہیں۔ کس طرح دیا؟ اس طرح کہ کعبہ جو پتھروں کا بنا ہوا مثل ایک بت کے ہے اس کی عبادت کا حکم کیا اور ایسا کیا کہ بغیر اس طرف رخ کرنے کے نماز قبول ہی نہیں ہوتی۔ دوسرا اعتراض نسخ احکام کے متعلق ہے کہ پہلے حکم کو اٹھانا اس کے ناتجربہ اور لاعلمی پر مبنی ہوتا ہے اس لئے جائز نہیں کہ احکام خداوندی میں سے کوئی حکم کسی زمانہ میں صادر ہو کر پھر اٹھا دیا جائے جیسا کہ یہاں پر پہلے کعبہ سے دوسرے کعبہ کی طرف منہ پھرنے کا حکم ہوا کیونکہ اللہ تعالیٰ تو علام الغیوب ہے۔ یہ خلاصہ ہے ان دفتروں کا جو ہمارے قدیمی مہربان عیسائی اور ہمسایہ قوم آریہ وغیرہ نے بھرے ہیں پہلے سوال کا جواب دو طرح سے ہے اجمالی اور تفصیلی۔ اجمالی تو دو ٹوک بات ہے کہ شرک اور بت پرستی اسے کہتے ہیں کہ غیر اللہ کی عبادت کی جاوے یا کم سے کم اس سے وہ معاملے کئے جاویں جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہونے چاہئیں مثلاً امید بھلائی یا دفع ضرر مگر چونکہ کعبہ کی نسبت اسلام نے کوئی حکم ایسا نہیں دیا بلکہ صاف اور صریح لفظوں میں فَلْیَعْبُدُوْا رَبَّ ھٰذَا الْبَیْت فرمایا۔ یعنی کعبہ کے اللہ کی عبادت کریں۔
تو اب اسلام کی نسبت یہ گمان کرنا کہ کعبہ پرستی اور بت پرستی سکھاتا ہے۔ سراسر انصاف کا خون کرنا ہے۔ تفصیلی جواب سے پہلے مسلمانوں کی نماز کا مطلب بیان کرنا بھی کسی قدر مفید ہوگا۔ تاکہ ثابت ہوجائے کہ اسلامی نماز جس پر تمام اہل اسلام فخر کیا کرتے ہیں کہاں تک توحید سے یا شرک سے بھری ہوئی ہے۔ پہلے میں اس نوٹس اذان کا مضمون سناتا ہوں جو نماز پنجگانہ کی حاضری کے لئے تجویز ہوا ہے۔ کچہری (مسجد) کے دروازہ یا کسی کونے میں چپڑاسی (موذن) کھڑا ہو کر بلند آواز سے کہتا ہے کہ
اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اکبر اشھدان لا الہ الا اللہ اشھد ان لا الہ الا اللہ اشھد ان محمد الرسول اللہ اشھد ان محمد رسول اللہ حی علی الصلوۃ حتی علی الصلوۃ حی علی الفلاح حی الفلاح اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ۔
اللہ تعالیٰ! سب سے بڑا ہے (چار دفعہ) میں گواہی دیتا ہوں کہ سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی معبود برحق نہیں (دو دفعہ) میں اس امر کا شاہد ہوں کہ محمد (ﷺ) اللہ کے رسول ہیں (جن کو سوا پیغام پہونچانے کے خدائی میں کسی طرح کا حق نہیں) اے سب سننے والو ! آئو نماز پڑھنے کو (دو دفعہ) آئو عذاب سے رہائی پانے کو (دو دفعہ) اللہ سب سے بڑا ہے (دو دفعہ) سوائے اس کے کوئی بھی معبود برحق نہیں۔ یہ ہے مضمون اس نوٹس کا جو رسول اسلام (فداہ روحی) نے حاضری دربار رب العالمین کے لئے مقرر کیا ہے۔ سچ ہے ع سالیکہ نکوست از بہارش پیداست۔ اس نوٹس کے الفاظ میں نے حاشیہ پر نقل کر دئے ہیں تاکہ ہر موافق مخالف کو یہ موقع ملے کہ مسجد میں جا کر (اللہ کرے کہ سب جائیں) اپنے کان سے سن کر ہماری تصدیق کا اندارہ کرے اب میں اس نماز کا مضمون سناتا ہوں جس کے لئے یہ اعلان تجویز ہے۔ کھڑے ہوتے ہی (بایں خیال کہ میں اس وقت دنیا اور ماسوا اللہ سے علیحدہ ہوں) دونوں ہاتھ اٹھا کر کہتا ہے کہ
اللہ اکبر سبحنک اللھم بحمدک وتبارک اسمک وتعالی جدک ولا الہ غیرک اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم الحمدللہ رب العلمین الرحمن الرحیم ملک یوم الدین ایاک نعبد وایاک نستعین اھدنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیھم غیر المغضوب علیھم والا الضالین۔
اللہ سب سے بڑا ہے۔ یہ کہہ کر نوکروں اور غلاموں کی طرح دونوں ہاتھ باندھ کر اقرار کرتا ہے۔ اے اللہ تو سب عیوب سے پاک ہے میں تیری تعریف کرتا ہوں بڑی برکت والا ہے نام تیرا اور بلند ہے ذات تیری اور سوا تیرے کوئی معبود نہیں۔ شیطان مردود سے پناہ میں ہو کر اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں اور اس بات کا صریح لفظوں میں اقرار کرتا ہوں کہ سب تعریفوں کا مستحق اللہ ہی ہے جو سب جہان کا پالنہار ہے بڑا بخشنے والا نہایت مہربان۔ انصاف کے دن کا حاکم (اس کے بعد مخاطب ہو کر اپنی آرزو کا اظہار کرتا ہے کہ) ہم تیری ہی اے ہمارے مولا ! بندگی کرتے ہیں اور تجھ ہی سے اپنے اڑے کاموں میں مدد چاہتے ہیں تو ہی ہم کو سیدھی راہ پر پہنچا۔ ان لوگوں کی راہ پر پہنچا کہ جن پر تو نے بڑے بڑے انعام و اکرام کئے اور نہ ان کی جن پر غصہ ہوا اور نہ گمراہوں کی۔ اس کے بعد کوئی سورت قرآنی بغرض ربط مخلوق بخالق پڑھ کر اللّٰہ اکبر (اللہ سب سے بڑا ہے) کہہ کر رکوع میں جاتا ہے اور اس امر کا اقرار کرتا ہے کہ سبحان ربی العظیم۔ میرا ! مالک مربی اللہ بڑی بزرگی والا ہے (کم سے کم تین دفعہ) پھر سر اٹھاتے ہوئے اللہ کی عام قدرت کا اقرار کرتا ہے سمع اللہ لمن حمدہ۔ یعنی اللہ سنتا" ہے ان کی پکار کو جو اس کی تعریف کرتے ہیں۔ پھر ساتھ ہی اس کے یہ بھی اظہار ہے کہ ربنا لک الحمد۔ اے # ہمارے مولا ! تو ہی سب تعریفوں کا مالک ہے پھر اللّٰہ اکبر (اللہ سب سے بڑا ہے) کہتا ہوا سجدہ میں جاتا ہے وہاں تو خوب ہی بن آتی ہے من مانی دعائیں جی میں آئی عرضیں کرتا ہے سبحان ربی الاعلیٰ (پاک ہے رب میرا سب سے بلند) (کم سے کم تین دفعہ) کہہ کر اللّٰہ اکبر کہتا ہوا سر اٹھاتا ہے۔۔ پھر دوسرا سجدہ بھی اسی کیفیت سے کرتا ہے یہاں پہنچ کر ایک رکعت ختم ہوئی۔ ( دونوں سجدوں کے درمیان میں دعا پڑھنا لازمی رسول اللہﷺ سے مرفوع ہے۔ (١) ربی اغفرلی۔ (٢) ربی اغفرلی ورحمنی… الخ) اسی کیفیت کی دو تین چار جیسا وقت ہو پڑھتا ہے۔ سب سے اخیر بیٹھ کر اپنے مالک کی تعریف کے کلمات (التحیات للہ والصلوت والطیبت السلام علیک ایھا النبی ورحمۃ اللہ وبرکاتہ السلام علینا وعلی عباد اللہ الصالحین اشھد ان لا الہ الا اللہ واشھد ان محمدا عبدہ ورسولہ اللھم صلی علی محمد وعلی ال محمد کما صلیت علی ابراھیم وعلی ال ابراھیم انک حمید مجید اللھم بارک علی محمد وعلی ال محمد کما برکت علی ابراھیم وعلی ال ابراھیم انک حمید مجید۔) کہہ کر اور اپنے پیرو مرشد سچے رسول کے حق میں نیک دعا کر کے اور اپنے حق میں بھی کچھ کہہ سن کر نماز سے فارغ ہوتا ہے پس یہ ہے وہ نماز اور وہ عبادت جس کو ایک ناخواندہ (مگر خوندوں کے معلم) جنگلی ملک کے رہنے والے (فداہ روحی) نے بالہام الہٰی تجویز کیا ہے۔ کیا اس میں کوئی کلمہ بھی ایسا ہے کہ جس میں کعبہ کی مدح یا تعظیم ہو۔ پھر اس نماز کو بھی ہمارے نافہم مخالف شرک اور بت پرستی کہیں گے تو اس کے جواب میں ہم سے یہی سنیں گے
پس تنگ نہ کرنا صح ناداں مجھے اتنا
یا چل کے دکھا دے دہن ایسا کمر ایسی
بعد اس کے ہم اپنے مخالفین سے پوچھتے ہیں کہ اگر اسلام کو کعبہ پرستی منظور ہوتی اور شرک اور بت پرستی کا رواج مدنظر ہوتا تو کیا وجہ ہے کہ ساری نماز میں کعبہ کا ذکر تک بھی نہیں۔ نہ اس کو خطاب ہے۔ نہ اس سے استمداد۔ نہ اس کا نام۔ پھر کعبہ پرستی ہے تو کہاں ہے؟ میں نہیں جانتا کہ کوئی منصف مزاج اس معروضہ تقریر پر غور کر کے اسلام پر کعبہ پرستی کا الزام لگائیں۔ رہا یہ سوال کہ نماز میں تو بیشک شرک کی بو تک نہیں۔ مگر اس کی کیا وجہ ہے کہ نماز پڑھتے ہوئے کعبہ کی طرف رخ کرنے کا حکم آیا ہے۔ انسان کو اس امر میں مختار کیوں نہیں کیا گیا کہ جس طرف منہ کر کے چاہتا اپنے مالک کی عبادت کرتا۔ سو اس کا جواب بعد ایک تمہید کے ہم دیتے ہیں۔ وہ یہ ہے :۔
ہمیشہ قاعدہ ہے کہ ایک امر مقصود اصلی کے ساتھ کوئی مقصود تبعی بھی ہوا کرتا ہے مثلاً علم کا پڑھنا مقصود اصلی ہے تو حروف ابجد کا سیکھنا غیر اصلی لازم ہے گو بعد حصول علم حروف ابجد کا خیال تک بھی نہیں رہتا۔ اسی طرح دفع دشمن کے لئے تلوار بندوق کا اٹھانا لازم ہوجاتا ہے حالانکہ ان کے اٹھانے سے بجز تحمل بوجھ کوئی فائدہ نہیں مگر بایں لحاظ کہ یہ بوجھ ایک ضروری کام (دفع دشمن) کے لئے ذریعہ ہے یہی عمدہ اور احسن ہوجاتا ہے اس تقریر سے یہ بھی ثابت ہوا کہ جو امر کسی دوسرے امر کا ذریعہ ہوا کرتا ہے اس کا حسن و قبح اصل ذی ذریعہ کے لحاظ سے ہوتا ہے۔ یہی تلوار کا اٹھانا جو بلحاظ اس امر کے کہ یہ تلوار دفع دشمن کے لئے ایک ذریعہ ہے احسن اور عمدہ ہے اور اس لحاظ سے کہ کسی بیکس مظلوم پر چلائی جائے۔ تو قبیح ہوتا ہے۔ ہاں اس امر کی پہچان بعض دفعہ مشکل ہوجاتی ہے کہ مقصود اصلی کیا ہے اور تبعی کیا۔ سو اس کے لئے عام قاعدہ یہ ہے کہ ان دونوں میں سے جو امر ایسا ہو کہ اس کے حصول کے بعد دوسرے کے لئے تردد کرنا باقی رہے۔ اور مقصود سے فارغ البالی نہ ہو۔ تو وہ مقصود اصلی نہیں اور جس کے حصول کے بعد دوسرے کی تلاش نہ رہے تو وہ امر مقصود اصلی ہوگا۔ مثلاً دوا کا بنانا اور گھوٹنا ایک ایسا امر ہے کہ اس کے حصول پر قناعت نہیں کی جاسکتی۔ جب تک کہ بیمار کو بھی شفا نہ ہولے۔ ہاں اگر بغیر دوا نوشی کے مرض سے عافیت ہوجائے تو دوا کا مطلق خیال بھی نہیں ہوتا۔ ہماری اس تقریر سے یہ امر بھی بخوبی واضح ہوتا ہے کہ مقصود اصلی کسی حال میں متروک اور مفروغ عنہ نہیں ہوسکتا۔ پس اب ہمیں پہلے یہ دیکھنا ہے کہ تعیین جہت کو اسلام نے کوئی مقصود اصلی قرار دیا ہے یا تبعی۔ بعض مواقع پر اس حکم کا ساقط ہوجانا صاف دلیل ہے کہ یہ کوئی امر اصلی نہیں۔ مثلاً جنگ کی حالت میں بشدت خوف جدھر رخ ہو نماز پڑھتے جانا خواہ کعبہ کی طرف پیٹھ بھی ہو۔ اس امر کو ثابت کررہا ہے کہ کعبہ کی طرف توجہ کرنا مقصود اصلی نہیں۔ بلکہ صرف اس امر کے لئے ہے کہ مسلمانوں میں جیسا کہ معنوی اتحاد ہے صوری موافقت بھی حاصل رہے۔ یہی وجہ ہے کہ جماعت سے نماز پڑھنے کی تاکید کی گئی ہے جو اختیار دینے کی صورت میں متصور نہ تھا کیونکہ جب ہر ایک کو اختیار ملتا اور اس بات کا مجاز ہوتا کہ دوسرے کے منہ کی طرف منہ کرے یا پیٹھ ایک مشرق کو رخ کرے تو دوسرا مغرب کو۔ تیسرا جنوب کو چوتھا شمال کو۔ یہ فائدہ جو یک جہتی سے حاصل ہے نہ ہوتا۔ پس یہی وجہ اس کے تبعی مقصود ہونے کی ہے۔ یہ تقریر بالخصوص اس وقت بخوبی سمجھ میں آسکتی ہے کہ نماز کے معانی اور مطالب ذہن نشین کر کہ یہ دیکھا جائے کہ اس میں تو کسی جہت یا کعبہ کا نام تک بھی نہیں پس اگر یہ مقصود اصلی ہوتا تو اصل عبادت کے طریق اور اس کے الفاظ میں اس کا ذکر ہوتا کیونکہ بغیر مقصود کسی کام کا کرنا کون نہیں جانتا کہ علاوہ لغو ہونے کے تضیع اوقات اور بیہودہ پن ہے۔ پس ہماری ہمسایہ قوم آریہ اور عیسائی وغیرہ اسلام کے مخالف ہماری اس تقریر پر غور کریں اور نتیجہ سے ہمیں اطلاع دیں اگر کچھ شبہ ہو تو تمام قرآن میں تلاش کر کے کوئی آیت اس مضمون کی نکالیں جس سے ثابت ہو کہ نماز میں کعبہ کی پرستش ہے۔ نہ ملنے پر ہم آپ سے صرف ایک چیز چاہتے ہیں۔ جو نہایت آسان ہے گو کسی مخالف حق کے حق میں مشکل اور گراں سے گراں ہے وہ وہی ہے جس کا پیارا نام ” انصاف“ ہے جو انسان کو ہر ایک جگہ عزت دلاتا ہے اور عزاز سے یاد کراتا ہے۔ رہا یہ سوال کہ کعبہ کی جہت کیوں مقرر ہوئی۔ اور طرف کیوں نہ ہوگئی؟ مانا کہ نماز میں شرک نہیں اور تعین جہت شرک ہے لیکن اتنا تو ہے کہ اور اطراف بھی اس کے مساوی ہیں آخر اس میں کیا ترجیح ہے جو اس کو اختیار کیا گیا۔ کیا ترجیح بلا مرحج محال نہیں؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس جہت میں سب سے بڑھ کر ایک ایسی ترجیح پائی جاتی ہے جو ہم خرما وہم ثواب کی مصداق ہے۔ یعنی یہ کعبہ ایک بڑے نامور سید الموحدین اس نیک بندے کا بنایا ہوا ہے جس نے اللہ تعالیٰ کی محبت اور توحید کے اختیار۔ کرنے کی وجہ سے اپنے بیگانے سے وہ تکالیف دیکھی تھیں جن کا نمونہ آج کل تمام دنیا میں نہ مل سکے پس ایسے شخص کی یاد گار دل میں قائم رکہنے کی غرض سے کعبہ مقرر کیا گیا۔ تاکہ اور لوگوں کو بھی اخلاص مندی اور توحید کا اس سے سبق حاصل ہو۔ اسی حکمت سے حضور اقدس (فداہ روحی) کا دل تڑپتا تھا کہ میں کعبہ ابراہیمی کی طرف نماز پڑھوں ورنہ اس میں کچھ شک نہیں کہ کعبہ بھی مثل اور جہات کے ایک جہت ہے۔ ہاں کوئی وصف ہے تو یہ ہے
بگفتا من گلے ناچیز بودم
ولیکن مدتے باگل نشستم
رہا اعتراض نسخ احکام کے متعلق سو اس کا جواب یہ ہے کہ نسخ یعنی حکم سابق کا اٹھا دینا یہ دو طرح پر ہے۔ ایک تو جس طرح سے حکام زمانہ کوئی قانون بعد ترویج بدلتے ہیں جس کی بابت پہلی ترتیب کے وقت ان کو علم نہیں ہوتا کہ اس میں کیا خرابی ہوگی جس کے سبب سے اس میں کچھ تغیر آئے گا۔ دوسری قسم طبیب کی تبدیلی نسخہ جات کی طرح ہے کہ رفتہ رفتہ بتدریج طبیعت کو درستی پر لاتا ہے۔ منضج دے کر مسہل تجویز کرتا ہے ان دو قسموں میں سے قسم اول تو بیشک حاکم کی لاعلمی پر دلالت کرتا ہے۔ مگر قسم دوم بجائے لاعلمی کے کمال بتلاتا ہے۔ اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ اہل اسلام کون سے نسخ کے قائل ہیں؟ قسم اوّل کے۔ حاشا وکلّا (ہرگز نہیں) ان کی پاک کتاب کی تعلیم ہے یَعْلَمْ مَابَیْنَ اَیْدِیْہِمْ وَمَا خَلْفَھُمْ اور اِنَّہٗ عَلِیْمٌ بِذَات الصُّدُوْرِ۔ بھلا اس صریح تعلیم کے خلاف وہ کیونکر کہہ سکتے ہیں اور اگر کہیں بھی تو یہ اعتراض ان پر ہوگا۔ نہ کہ اسلام پر۔ قسم دوم کے البتہ جمہور اہل اسلام معترف ہیں کتب اصول میں لکھا ہے کہ :۔
النسخ ھو بیان لمدۃ الحکم المطلق الذی کان معلوماً عند اللّٰہ الا انہ اطلق فصار ظاھرہ البقأ فی حق البشر فکان تبدیلا فی حقناببانا فی حق صاحب الشرع (نور الا نواز ص ٢٠٨)
نسخ صرف ایک مدت کا اظہار ہوتا ہے جو کسی حکم بلا قید میں مراد ہوتی ہے اور اللہ کو معلوم ہے کہ یہ حکم فلاں وقت
تک رکھوں گا مگر بظاہر اس کو غیر مفید فرما دیتا ہے جس سے لوگ اس کو دوامی سمجھ جاتے ہیں پس اسی وجہ سے وہ ہمارے خیال میں پہلے حکم کی تبدیلی ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ صرف ایک مدت کا اظہار ہوتا ہے “
پسؔ ایسے نسخ سے نہ تو اللہ کے علم میں کوئی نقصان آتا ہے اور نہ کوئی دوسرا اعتراض ہے۔ کون نہیں جانتا کہ ابتدائے اصلاح قوم میں مصلحان کو کیا کیا دقتیں پیش آیا کرتی ہیں کبھی وہ مشکل سے مشکل کام بھی کر گذرتے ہیں اور کروا لیتے ہیں اور کبھی آسان سے آسان بھی بوجہ کسی مصلحت اور حکمت کے ان سے نہیں ہوسکتے ایک شخص کے خیالات کا اندازہ کرنا اور اس کی طبیعت مدت سے بگڑی ہوئی کو اصلاح پر لانا ہاتھ میں انگار لینا ہے تو پھر ایک قوم کی قوم کو یکدم پلٹا دلانے میں کیا کیا دقتیں نہ پیش آتی ہوں گی۔ سچ ہے اور بالکل سچ ہے
پانی میں ہے آگ کا لگانا دشوار
بہتے دریا کا پھیر لانا دشوار
دشوار تو ہے مگر نہ اتنا جتنا
بگڑی ہوئی قوم کا بنانا دشوار
ایک حدیث میں جو امام مسلم نے نقل کی ہے مذکور ہے کہ آپ نے لوگوں کی مشرکانہ عادت دیکھ کر قبرستان کی زیارت سے منع فرمایا تھا بعد اصلاح اجازت دے دی اور ان کے بخل کے مٹانے کی غرض سے قربانیوں کے گوشت تین دن سے زائد رکھنے سے منع کردیا تھا جس کی بعد میں اجازت دے دی ایسا ہی شراب کے برتنوں میں بھی کھانا پینا منع کیا تھا۔ مگر بعد میں ان کے استعمال کی اجازت بخشی اس حدیث سے ہمارے بیان کی تصدیق ہوتی ہے کہ اسلامی نسخ بے علمی پر مبنی نہیں بلکہ کمال دور اندیشی کی خبر دیتا ہے۔ ہمارے خیال میں ایسے مصلح اور رفارمر کی کسی پالیسی (حکمت عملی) یا دوسرے لفظوں میں نسخ پر کوئی اعتراض کرنا گویا ثابت کرنا ہے کہ اصول رفارمری سے ناواقف ہیں۔ سچ ہے سخن شناس نئی دلبر اخطا اینجاست۔ اسلامی نسخ جس قدر کہ ہے اس قسم کا ہے ہاں اس میں شک نہیں کہ بعض مفسرین نسخ بتلانے میں ذرا جلدی بھی کر جاتے ہیں سو جس نے آیات منسوخہ کی صحیح تعداد اور ان کے متعلق محققانہ بحث دیکھنی ہو وہ رسالہ فوز الکبیر مصنفہ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی قدس سرہٗ کا مطالعہ کرے تمام تلاش میں شائد کوئی آیت منسوخ ملے گی۔ واللہ اعلم منہ
اس لفظ میں استثناء باب ١٨۔ اور اعمال باب ٣ کی طرف اشارہ ہے۔ ١٢ منہ{
اس امر کا خطرہ نہ کرو کہ جہاں اہل کتاب (یہود ونصاریٰ) تم کو طعن مطعن دیں گے اگر دیں تو کچھ پرواہ نہیں اس لئے کہ جو لوگ کتاب کے جاننے والے ہیں خوب جانتے ہیں کہ یہ (حکم) واقعی ان کے (اور تمہارے سب کے) مالک کی طرف سے ہے کیونکہ وہ بشہادت تورات ونیز بقرائن خارجہ اسے خوب سمجھتے ہیں کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سچا نبی اور حضرت موسیٰ کی مانند رسول مستقل ہے۔ پس جو کچھ وہ حکم کرے گا ممکن نہیں کہ غلط اور باطل ہوگوہ بوجہ دنیا سازی مانتے نہیں سو یادرکھیں کہ اللہ ان کے کاموں سے بے خبر نہیں ضد اور تعصب میں تو یہاں تک بڑھے ہوئے ہیں کہ اگر تو ان کے پاس ہر طرح کے نشان بھی لاوے گا تو جب بھی تیرے قبلہ ابراہیمی کی طرف نماز نہ پڑھیں گے اور نہ کسی طرح تو ان کے قبلہ کو مانے گا ان کی یہ مخالفت تیری حقانیت میں خلل انداز نہیں ہوسکتی پہلے وہ آپس میں تو فیصلہ کرلیں اس لئے کہ آپس میں بھی ایک دوسرے کے قبلہ کو نہیں مانتے۔ یہود نصاریٰ سے مخالف اور نصاریٰ یہود سے۔ حالانکہ دونوں گروہ تورات کو مانتے ہیں پھر تجھ سے بھی الجھنے کی کیا وجہ کوئی دلیل ان کے پاس ہے ؟ کہ انہی کے قبلہ کی طرف نماز پڑھی جاوے ہاں نفسانی خواہش تو بے شک ہے اور یاد رکھ کہ اگر تو بفرض محال باوجود جان لینے ان کی اندرونی حالت کے ان کی خواہش پر چلا تو بے شک تو بھی اسی وقت بے انصاف ثابت ہوگا اصل میں یہ ضد جہلاء اور نیم، ملّائوں میں زیادہ ہے ورنہ جن لوگوں کو ہم نے کتاب تورات کی سمجھ دی ہے وہ تو اس رسول کو ایسا سچا پہچانیں جیسا اپنے بیٹوں کو جب ہی تو ماننے میں بھی دیر نہیں کرتے۔ ہاں ایک فرقہ نیم ملّائوں کا ان میں سے بے شک دیدہ دانستہ حق بات چھپاتے ہیں اور اس کو شش میں ہیں کہ کسی طرح حق ظاہر نہ ہونے پائے مگر تو سن رکھ کہ حق وہی ہے جو تیرے رب کی طرف سے ہے پس تو ان کی باتوں سے کسی طرح کا شک نہ کی جیو ان کی مخالفت سے کیا ہوتا ہے پڑے مخالفت کریں اللہ تعالیٰ نے اس دین کو ضرور ہی پھیلانا ہے۔ |
البقرة |
143 |
|
البقرة |
144 |
|
البقرة |
145 |
|
البقرة |
146 |
|
البقرة |
147 |
|
البقرة |
148 |
(148۔176)۔ اور ہم ابھی سے بتلائے دیتے ہیں کہ ہر ایک فر قہ کے لئے ایک جانب کعبہ کی مقرر ہے وہ فر قہ اس جہت کی طرف نماز میں اپنا رخ ضرور پھیرے گا جنوب شمال مشرق مغرب تمام اطراف کے لوگ اپنی اپنی طرف سے کعبہ کی طرف نماز پڑھیں گے جس کا مطلب دوسرے لفظوں میں یہ ہے کہ اسلام کی اشاعت اطراف میں ہوگی ہاں اس میں شک نہیں کہ ابتدا میں تم کو کسی قدر تکلیف ہوگی سو کچھ حرج نہیں تکلیف میں بہت بڑا اجر ہے پس تم اس سے مت ڈرو بلکہ ایسی نیکیوں کے کرنے میں جلدی کرو اور یہ وہم مت لائو کہ مشرق مغرب کے لوگ اس کعبہ میں کیونکر آویں گے اور کیونکر آپس میں ملیں گے اس لئے کہ جہاں کہیں تم ہو گے اللہ تم سب کو ایک جگہ لے آئے گا بے شک اللہ سب کام کرسکتا ہے یہ کام اللہ کے سپرد کر اور اس کی تعمیل ارشاد میں مصروف ہو
} (اپنا رخ ضرور پھیرے گا) اس آیت کے معنے بتلانے میں بھی مفسرین کا قدرے اختلاف ہوا ہے بعض کہتے ہیں ہر ایک کے لئے ایک جہت ہے جو وہ اپنا منہ اس طرف پھیرتا ہے مثلاً یہودی ایک طرف عیسائی ایک طرف مشرکین عرب ایک طرف حالانکہ بہتر وہی جہت ہے جو اللہ کے حکم سے ہو پس تم کعبہ کی طرف منہ کرو جو منشاء ایزدی کے موافق ہونے کی وجہ سے ہر طرح سے افضل اور فائق ہے بعض کہیں ھو کی ضمیر اللہ کی طرف پھرتی ہے پس اس توجیہ پر آیت کے معنے دو طرح سے ہوں گے ایک تو یہ کہ ہر ایک کے لئے جہان والوں سے ایک رخ ہے کہ اللہ نے ان کو اس طرف پھیرا ہے۔ مثلاً یہود کو ایک طرف عیسائیوں کو ایک طرف۔ دوسرے معنے یہ ہوں گے کہ ہر ایک کے لئے تم مسلمانوں سے کعبہ کی ایک جہت ہے کہ اللہ تم کو اس طرف پھیرے گا ان معانی کا مفصل ذکر تفسیر کبیر میں مرقوم ہے من شاء فلیرجع الیہ۔ جو معنے میں نے کئے ہیں وہ بہئیت کذائی کسی کے کئے ہوئے تو میرے سے نظر سے نہیں گذرے لیکن انہی وجہ مذکورہ سے مستنبط ہوسکتے ہیں میں نے کل کا مضاف الیہ مخاطب یعنی مسلمان لئے ہیں اور ھو کی ضمیر کل کی طرف ہی پھیری ہے جو متبادر ہے یہ سب اس لئے کیا کہ ان معنے میں ایک قسم کی پیشگوئی ترقی اسلام کے متعلق معلوم ہوتی ہے جو ایسی گھبراہٹ کے زمانہ میں مناسب بلکہ انسب ہے جیسی کہ سَیُھْزَمُ الْجَمْعُ وَیُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ اور جنگ خندق میں آپ نے عین گھبراہٹ کے وقت ایک روشنی دیکھ کر صحابہ کو تسلی فرمائی کہ مجھے روم شام کا ملک دکھایا گیا ہے اور بتلایا گیا ہے کہ یہ ملک میری امت کو ملے گا۔ چنانچہ یہ پیشگوئی معہ ان دو قرآنی پیشگوئیوں کے اللہ کے فضل سے پوری ہوگئیں۔ فالحمدُللّٰہ علٰے ذٰلک {
اور مدینہ سے باہر جہاں نکلے وہاں نماز پڑھنے لگے تو اسی عزت والی مسجد یعنی کعبہ شریف کی طرف نماز میں اپنا منہ پھیر اس لئے کہ وہی سچا حکم تیرے مالک کی طرف سے ہے اور جان لو کہ اللہ تمہارے کاموں سے غافل نہیں اس تکلیف کا یہ بدلہ تم کو ضرور دے گا اس لئے ہم تم کو بار بار بتاتے ہیں کہ جہاں سے تو نکلے پس اسی مسجد عزت والی کی طرف نماز میں اپنا منہ پھیرو اور تم بھی مسلمانو ! جہاں کہیں ہوئو نماز پڑھتے وقت اسی طرف اپنا منہ پھیرو تاکہ لوگوں کا جھگڑا تم سے نہ رہے کہ دعوٰی تو ملت ابراہیمی ( علیہ السلام) کا کریں اور کعبہ ابراہیمی ( علیہ السلام) کو چھوڑدیں ہاں جو ان میں سے با لکل ہی کجرو ہیں سو ان سے مت ڈرو اور مجھ ہی سے ڈرو تاکہ تم ترقی کرو اور تاکہ میں اپنی نعمت تم پر پوری کروں اور تاکہ تم اللہ تعالیٰ کی راہ پر پہنچو یہ نعمت یہ کامیابی بھی کوئی کم چیز نہیں بلکہ ویسی ہی جیسا کہ ہم نے تمہارے پاس ایک رسول تمہاری جنس کا بھیجا ہے۔ جو ہماری آیتیں تم پر پڑھتا ہے اور کدورت باطنی مثل کفر شرک کینہ نفاق وغیرہ سے تم کو پاک کرتا ہے اور تم کو کتاب آسمانی اور رتہذیب روحانی سکھا تا ہے اور علاوہ اس کے ضروری ضروری باتیں وہ باتیں بھی تم کو سکھاتا ہے جو پہلے اس کے تم نہیں جانتے تھے بڑی بھاری اخلاقی بات جو تم ہمارے رسول سے سیکھتے ہو طریقہ ذکر ہے اس لئے کہ بہت سے لوگ اس میں بھولا کرتے ہیں پس تم اسی طریقہ معلومہ سے میری یاد کیا کرو میں بھی اس کے عوض میں تمہیں انعام خاص سے یاد کروں گا اور اس ہدایت کا احسان مان کر میرا شکریہ ادا کرو اور نا شکری مت کرو کہ اس طریقہ محمدیہ کو چھوڑ کر نئی نئی راہیں نکالنے لگو اور جس طریق سے ہمارے پیغمبر نے تم کو تعلیم نہیں دی اس طور سے ذکر کرنے لگ جائو کیونکہ الہی معلم کے طریق کو چھوڑنا بڑی بھاری نا شکری ہے اس میں شک نہیں کہ ذکر اور شکر بھی ایک مشکل کام ہے مگر اس کے لئے ایک آسان طریق ہم بتلاتے ہیں پس اے مسلمانو ! تم صبر اور نماز کے ساتھ مدد چاہا کرو یعنی تکلیفوں کے وقت صبر کے خو گیر ہوجائو اور ہر وقت اس کا خیال رکھو اور جب کبھی تکلیف ناگہانی آجاوے تو نفل پڑھ کر دعا کیا کرو ان دونوں کے استعمال اور مزاولت سے تم پکے ذاکر شاکر بن جائو گے اس لئے کہ ان دونوں کاموں پر بہت سے آثار باطنی فیضان ہوتے ہیں بڑی بات تو یہ کہ بے شک اللہ تعالیٰ کی ہر وقت مدد صابروں کے ساتھ ہے تمہارے صبر کی نشانوں میں سے یہ بھی ہے کہ تم اپنے بھائی بندوں کے مرنے پر واویلا نہ کیا کرو اور خاص کہ ان لوگوں کو جو اللہ کی راہ میں لڑتے ہوئے قتل ہوتے ہیں مردے مت کہا کرو
} شان نزول :۔ (وَلَا تَقُوْلُوْا) جنگ بدر میں چودہ مسلمان شہید ہوئے تھے ان کے وارث حسب طبیعت انسانی ان کا رنج رکھتے تھے اور ان کا ذکر کرتے ہوئے کہ فلاں شخص مر گیا فلاں قتل ہوا ان کو ملال ہوتا تھا۔ ادھر کفار نے بھی یہ کہنا شروع کیا کہ یہ لوگ ناحق (ایک شخص (محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے ہو کر جان دیتے ہیں۔ اس لئے مسلمانوں کو شہداء کے مردہ کہنے سے جو ان کے حق میں باعث رنجیدگی کا ہو روکنے کو یہ آیت نازل ہوئے۔ {
اس لئے کہ جب تم آپس میں بول چال کرتے ہوئے کہتے ہو کہ فلاں مر گیا فلاں قتل ہوگیا تو اس کہنے سے تمہیں ایک قسم کا بے اختیاری قلق ہوتا ہے پس ایسا کہنا ہی چھوڑ دو بلکہ یہ سمجھو کہ وہ زندہ ہیں اور اگر غور کیا جائے تو زندہ ہی ہیں اس لئے کہ جو زندگی کا حاصل ہے وہ ان کو بطریق احسن حاصل ہے ہر طرح کے عیش و آرام میں ہیں لیکن تم اس کی کیفیت نہیں جانتے کہ کس قسم کا ہے کیونکہ تمہاری نظر سے غائب ہیں سچ پوچھو تو صبر ایک عجیب ہی وصف جامع کمالات ہے اس لئے ہم تم کو صبر کی ہدائت کرتے ہیں اور آئندہ تمہیں کس قدر دشمنوں کے خوف اور بھوک یعنی تنگی معاش اور مال و جان اور پھلوں کے نقصانات سے تجر بہ کار بنادیں گے جو ایسے وقت میں کامیاب ہوں گے انہی کے حق میں اپنے رسول کو ہدائت کرتے ہیں کہ تو ایسے صبر والوں کو خوش خبری سنا۔ جو مصیبت کے وقت بجائے بے ہودہ شور و غل کرنے کے بجائے بجوش دل کہتے ہیں کہ ہم تو اللہ ہی کی ملک ہیں جس طرح چاہے ہم میں تصرف کرے ہمیں کوئی عذر نہیں اور ہو بھی کیسے جبکہ بلا شک ہم اس کے حضور جا نے کو ہیں تو جیسا کچھ ہوگا وہاں کھل جائے گا سچ تو یہ ہے کہ انہی لوگوں پر ان کے رب کی شا باش ہے اور رحمت ہوگی اور یہی لوگ سیدھی دانائی کی راہ پر چلنے والے ہیں کیونکہ یہ کمال دا نائی ہے کہ ما تحت اپنے افسر سے بگاڑے نہیں اگرچہ اس کی طرف سے کیسی ہی تکلیفیں پہنچیں سب کو بڑی خوشی سے اٹھائے با لخصوص ایسا افسر جو تمام اختیا رات کاملہ رکھتا ہو دیکھو ہم تمہیں اس صبرکے متعلق ایک حکائت سناتے ہیں کہ جب حضرت اسمٰعیل ( علیہ السلام) کی والدہ نے جس وقت ابراہیم ( علیہ السلام) اس کو بحکم خداوندی جنگل میں چھوڑ گئے تو اس نے صبر وشکر سے کام لیا اور جب اسے پیاس کی سخت تکلیف پہنچی تو وہ بیچاری پانی کی تلاش میں ان دونوں پہاڑیوں پر جو شہر مکہ کے قریب ہیں جس کا نام صفا مروہ ہے دوڑنے لگی کہ کہیں سے پانی ملے اسوقت کی اس صابرہ کی یہ دوڑ ہمیں ایسی بھلی معلوم ہوئی کہ علاوہ ان احسانات کے جو اس وقت اس پر اور اس کے بچے پر کیے ہم نے عام طور پر اس صابرہ کا صبر جتلانے اور اس پر اپنی خوشی کا اظہار کرنے کو اعلان کردیا کہ صفا اور مروہ دونوں پہاڑیاں بے شک اللہ کی قبولیت کی نشانیاں ہیں جو شخص دیکھنا چاہے کہ اللہ صبر پر بھی کچھ بدلہ دیتا ہے وہ صفا مروہ کو دیکھ لے یہاں سے اس کو اسمٰعیل ( علیہ السلام) اور اس کی ماں کا قصہ معلوم ہوجائے گا کہ ہم نے کیونکر اس کو صبر کا بدلہ دیا کہ عموماً اس کی نسل سے تمام عرب کو آباد کیا پھر اسی پر بس نہیں کی بلکہ اس کے پانی کی تلاش والی چال ان دونوں پہاڑیوں میں ہمیں یہاں تک بھلی معلوم ہوئی کہ ہم نے عام طور پر لوگوں کو حکم دیا کہ جو کوئی حج یا عمرہ کرنے کو آوے تو ان دو پہاڑیوں کے گرد بھی پھر لے تو اس پر کوئی گناہ نہیں بلکہ ثواب ہے اور جو کوئی ایسے ثواب بھی کمائے گا تو ضرور اللہ اس کو بد لہ دے گا اس لئے کہ اللہ تو بڑا قدر دان اور ان کو جاننے والا ہے
} شان نزول :۔ مدینہ کے لوگوں کے زمانہ کفر میں صفا مروہ پر دو بت رکھے تھے اور ان کا طواف کیا کرتے تھے جب اسلام لائے تو انہوں نے ان بتوں کے طواف کو تو برا سمجھا ہی تھا۔ یہاں تک ان سے بیزار ہوئے کہ صفا مروہ (جن پر وہ بت رکھے تھے) کے درمیان سعی کرنا بھی انہوں نے حرام جانا ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی {
با وجود اس کے بعض لوگ خبیث النفس ایسے بھی ہیں کہ ہمارے احکام متعلقہ صبر وغیرہ عوام سے چھپاتے ہیں صاف طور پر بیان نہیں کرتے سو یاد رکھو کہ جو لوگ ہمارے اتارے ہوئے کھلے کھلے احکام اور ہدائت لوگوں سے چھپاتے ہیں بعد اس کے جو ہم نے اس کو کتاب میں لوگوں کے لئے بیان بھی کردیا تو ایسے ہی لوگوں کو اللہ لعنت کرتا ہے اور تمام دنیا کے لعنت کرنے والے بھی لعنت کرتے ہیں
} یہود نصاریٰ کے علماء سچی باتوں کو اکثر لوگوں سے چھپاتے تھے جس سے غرض ان کی محض لوگوں کو خوش کرنا تھا۔ ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی۔ علماء اسلام اس سے متنبہ ہوں کہ تھوڑی تھوڑی اغراض نفسانی کے لئے حق پوشی نہ کیا کریں ورنہ ان میں اور ان میں کیا فرق ہوگا۔ {
ہاں جنہوں نے اس گناہ سے توبہ کی اور آئندہ کو عمل اچھے کیے اور اپنی پہلی غلطیاں بیان بھی کردیں تو ان لوگوں پر میں بھی رحم کرتا ہوں۔ اور میں ہمیشہ سے بڑا ہی رحم والا مہربان ہوں جو کوئی مجھ سے ڈر کر ذرہ بھی جھکے تو میں فوراً اس کو اپنی رحمت میں لے لیتا ہوں ہاں جو لوگ شریر اور متکبر ہیں کہ میری کتاب اور رسول سے منکر ہوئے اور تمام عمر بھی اس سے باز نہ آئے بلکہ اسی حالت کفرہی میں مرے تو ان پر اللہ اور اللہ کے فرشتوں اور سب نیک بندوں کی طرف سے لعنت ہے اور اسی لعنت کے وبال میں ہمیشہ رہیں گے نہ انکے عذاب میں تخفیف ہوگی اور نہ عذرداری کے لئے ان کو مہلت ہی ملے گی کیونکہ انکا جرم بھی تو بہت بڑا ہے کہ توحید اور خداوندی احکام سے منکر ہیں اور اوروں کو اللہ بناتے ہیں حالانکہ تمہارا سب کا اللہ ایک ہی ہے اس کے سوا کوئی بھی اللہ نہیں وہ بڑا رحم والا نہائت مہر بان جس کی انہوں نے قدر نہ کی بلکہ بجائے شکر گزاری کے نا شکری کو پسند کیا تو کیسی نادانی کی بھلا ایسے اللہ مالک الملک کا بھی کوئی انکاری ہوسکتا ہے کہ جس کے وجود کی شہادت چاروں طرف سے آتی ہو آسمان ! اور زمین کی پیدائش میں اور رات دن کی تبدیلی میں اور ان جہازوں میں جو سمندر میں لوگوں کے نفع کو چلتے ہیں اور اللہ کے آسمان سے اتارے ہوئے پانی میں جس سے زمین کو بعد خشکی کے تازہ کرتا ہے اور اس میں ہر قسم کے جانور پھیلاتا ہے اور ہوا کے ادھر ادھر پھیرنے میں اور ان بادلوں میں جو زمین اور آسمان کے درمیان گھرے ہوئے ہیں بے شک عقل والوں کے لئے بہت نشانیاں ہیں جو ان اشیا کے ہیر پھیر سے اس نتیجہ پر پہنچ جاتے ہیں کہ واقعی ان کا بنانے والا واحد لا شریک ہے اور وہی لائق عبادت ہے مگر باوجود ایسے نشانوں کے بھی بعض لوگ ایسے احمق ہیں کہ اللہ کے سوا اور معبود بناتے ہیں یہ نہیں کہ ان کو اپنا خالق جانتے ہوں یا رزاق سمجھتے ہوں نہیں طرفہ تو یہی ہے کہ رزق کا مالک ایک ہی اللہ کو جانتے ہیں باوجود اس کے ان بناوٹی معبودوں سے ایسی محبت اور دلی لگائو کرتے ہیں کہ جیسی اللہ سے چاہئے یہ بھی تو ایک قسم کا شرک ہے کہ اللہ کی سی محبت اوروں سے کی جائے یہی وجہ ہے کہ جو مومن ہیں وہ دلی لگائو اور قلبی خلوص سب سے زائد اللہ کے ساتھ رکھتے ہیں کیونکہ وہ اپنی کمال دور اندیشی سے جانتے ہیں کہ ہمارا جس قدر تعلق اللہ کے ساتھ ہے اس طرح کسی اور کے ساتھ نہیں ہماری عزت، ذلت، غربت، امارت سب اسی کے قبضہ میں ہے بخلاف پہلے لوگوں کے جو اوروں میں بھی کچھ طاقت کارروائی کی سمجھتے ہیں اس بے وقوفی کا انجام آخرت میں تو دیکھ ہی لیں گے اگر ابھی سے یہ ظالم اپنے اس باطل عقیدے کی سزا اور عذاب کی گھڑی کو دیکھ لیں تو جان جائیں کہ بے شک ہم غلطی میں ہیں کہ اوروں میں بھی توا نائی سمجھتے ہیں اب معلوم ہوا کہ توانائی سب اللہ ہی کو ہے اور سوائے اس کے کسی کو نہیں اگر ہوتی تو ہمیں مصیبت سے ضرور ہی بچا لیتے ایسے ہی مشکل وقت میں قدر معلوم ہوگی اور یہ بھی معلوم ہوگا کہ واقعی اللہ کا عذاب سخت ہے ابھی تو یہ احمق اپنے شرک کی بلا میں پھنسے ہوئے کچھ نہیں سمجھتے لطف تو جب ہوگا کہ جس وقت ان کے جھوٹے پیشوا اپنے پیروکاروں سے بیزار ہوجاویں گے اور سامنے سے عذاب دیکھیں گے اور ان کے سب علاقے ٹوٹ جاویں گے اور پیرو کار مرید تنگ آکر بول اٹھیں گے کہ اگر ہم دنیا میں ایک مرتبہ پھر جاویں تو ضرور ہی ہم بھی ایسے دغا بازوں سے ایسے ہی بیزارہوں جیسے کہ یہ ہم سے ہوئے اور کبھی بھی تو ان کی نہ سنیں گے چاہے جتنا بھی زور لگائیں مگر اس وقت کا افسوس کیا مفید نہ ہوگا ایسا ہی کئی دفعہ اللہ انکے اعمال قبیحہ ان کو دکھائے گا کہ اپنی بد کرداری پر افسوس کریں اور ہمیشہ ہی ان کو جہنم میں رکھے گا جس کی آگ سے کبھی بھی نکل نہ سکیں گے بعض لوگ اپنی غلط فہمی سے یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ سے محبت جبھی ہوتی ہے کہ تمام کاروبار دنیاوی اور لذیذاشیا کو ترک کردیں ورنہ نہیں۔ سو ایسے لوگوں کی غلط فہمی دور کرنے کو ہم عام طور پر اعلان دیتے ہیں کہ اے لوگو کھائو اور پیئو دنیا کی حلال اور پاک چیزیں ایسی جائز لذت اٹھانے میں کوئی حرج اور ممانعت نہیں حرج تو اس میں ہے کہ اس کھا نے میں غرور ہو سو تم ایسا مت کرو اور شیطان کے پیچھے مت جائو وہ ضرور تمہارا صریح دشمن ہے کبھی تم سے بہتری سے پیش نہ آئے گا بلکہ ہمیشہ تمہاری برائی ہی کی تدبیریں سوچے گا اور سوچتا ہے کیونکہ وہ بجز بد اخلاقی اور بے حیائی کے کوئی بھی تم کو راہ نہیں بتلاتا اور ہمیشہ بری بری باتیں سکھلاتا ہے سب سے بری یہ سکھاتا ہے کہ تم اللہ کی نسبت ایسی بے ہودہ بات کہو جسے تم خود بھی یقیناً نہیں جانتے چنانچہ تم سے اللہ کا شریک اور ساجھی کہلواتا ہے اور اس کی اولاد کی تلقین کرتا ہے کہ مسیح اللہ کا بیٹا ہے حالانکہ تم بھی یقینی طور پر نہیں کہ سکتے ہو کہ اللہ کا کوئی ساجھی یا اولاد ہے اس کی بڑی بھاری چال بازی یہ ہے جس کسی کو بہکاتا ہے یہی کہہ کر بہکاتا ہے کہ تمہارے باپ دادا ایسا ہی کرتے آئے ہیں پس تمہیں بھی اسی راہ چلنا چاہئے کیا تم ان سے زیادہ دانا ہو کیا وہ بے وقوف ہی تھے ؟ پس لوگ اسی پر جم جاتے ہیں اور جب ان سے کوئی شخص بطور نصیحت کہنے لگے کہ اللہ کی اتاری ہوئی کتاب کی پیروی کرو تو فوراً کہہ دیتے ہیں کہ ہم تو اسی راہ پر چلیں گے جس پر ہمارے باپ دادا تھے کیسی نادانی کا جواب ہے کہ کیا ان باپ دادوں ہی کے پیچھے چلیں گے گو باپ دادا ان کے ایسے احمق ہوں کہ کسی کے سمجھانے پر بھی نہ سمجھیں اور نہ خودہی راہ پر ہوں سچ تو یہ ہے کہ جب کسی کے دل میں باپ دادا کے اتباع کا خاقل بیٹھ جائے تو پھر کوئی ہدائت اثر نہیں کرتی بلکہ ایسے کافروں کو ہدایت اور راہ راست کی طرف بلانے والے کی مثال اس شخص کی طرح ہے جو کسی ایسے جانور کو بلاتا ہے کہ جو سوائے پکار اور آواز کے کچھ نہیں سنتا یہی حال ان احمقوں کا ہے جو کوئی ان کو ہدایت کی طرف بلائے اس کی آواز تو صرف سنتے ہیں مگر مطلب کی طرف جی نہیں لگاتے کہ کیا کہہ رہا ہے حق ہے یا باطل کیونکہ یہ لوگ اپنے خیالی پلائو میں حق سننے سے گویا بہرے ہیں سچ بولنے سے گونگے اور اپنی کج روی دیکھنے میں اندھے ہیں پس یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ حق نہیں سمجھتے ہاں یہ خیال مت کرنا کہ اللہ کی محبت عمدہ اور لذت دار چیزوں سے روکتی ہی نہیں سنو ! ہم اعلان دیتے ہیں کہ اے ایمان والو ! ہماری دی ہوئی حلال چیزوں میں سے خوب کھائو اور جی میں یہ سمجھ کر کہ اللہ ہی نے دی ہیں اللہ کا شکر کرو اگر تم اس کے کامل بندے بننا چاہتے ہو تو یہی مناسب ہے کیا تم نے شیخ سعدی کا قول نہیں سنا ــ” درویش صفت باش کلاہ تتری دار“ ہاں میتہ یعنی خود مردہ چیز اور ذبح کے وقت کا خون اور گوشت خنزیر اور جو اللہ کے سوا غیر کے نام سے پکاری ہو کہ فلاں ١ ؎ پیر کی نیازیا فلاں دیوی کا بکرا بے شک تم پر حرام ہے پھر بھی جو کوئی مجبور ہو نہ حرام خوری کی چاٹ میں حرام خوری کی تلاش کرنے والا ہو کر بلکہ پابند شریعت اور تابعدار من پسند ہو اور نہ کھانے میں حد سے بڑھنے والا ہو تو اس شخص پر کوئی اس گناہ کا مواخذہ نہیں بقدر حاجت کھا لے گو یہ اشیا اصل میں حرام ہیں لیکن بوجہ تنگی اس کی کے معافی دی گئی کیونکہ اللہ تعالیٰ بڑی بخشش والا مہربان ہے
} فلاں پیر کی نیاز) زمانہ حال میں یہ اختلاف ہے کہ غیر اللہ کے نام کی اشیاء جو بغرض تقرب مقرر کی جاتی ہیں جب ان کو بسم اللہ سے ذبح کیا جاوے تو حلال ہیں یا حرام؟ بعض لوگ اس کو حلال مانتے ہیں مگر محققین کے نزدیک حرام ہیں۔ حضرت حجۃ الہند شاہ عبدالعزیز صاحب محدث دہلوی قدس سرہ العزیز نے اسی کو پسند کیا ہے اور مولانا عبدالحق صاحب مصنف تفسیر حقانی دہلوی بھی اسی کو ترجیح دیتے ہیں اس لئے کہ ایسی اشیاء کی حرمت کچھ ایسی عارضی نہیں ہوتی جیسے بغیر اجازت چیز میں ہوتی ہے جو بعد اجازت حلال ہوجاتی ہے بلکہ ان کی حرمت کا سبب شرک ہے جو ابتداء ہی سے اس میں اثر کر گیا ہے۔ سرسید سے اس مسئلہ میں مشرکوں کی تائید ہوگئی ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ :۔
” حرام نہیں ہونا چاہیے کیونکہ سوائے اللہ کے کسی کے نام کی کوئی چیز مقرر کر دیناشرک نہیں بلکہ اقدام علی الشرک ہے شرک جب ہوگا کہ اسی کے نام پر ذبح کی جائے اور جب ذبح اللہ کے نام پر ہے تو پھر اقدام علی الشرک سبب حرمت نہیں “
میں کہتا ہوں سید صاحب کا یہ فرمانا کہ تسمیہ غیر اللہ کے نام کا شرک نہیں صحیح نہیں بلکہ یہ بھی شرک ہے اس لئے کہ شرک تو نیت کے متعلق ہے نہ کہ خاص فعل سے لَنْ یَّنَال اللّٰہَ لُحُرْمُھَآ وَلَا دِمَآؤُھَا وَلٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ اس کا مؤید ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی قدس سرہٗ نے غیر اللہ کی نسبت غلامی کو بھی شرک قرار دیا ہے۔ فرماتے ہیں :۔
” از ینجا دانستہ شد کہ شرک در تسمیہ نوعیست از شرک چنانکہ اہل زمان ما غلام فلاں وعبد فلاں نام مے نہند“ (حاشیہ ترجمہ قرآن پارہ ٩ ربع ثالث)
پسؔ آپ کا یہ فرمانا کہ یہ نیت اقدام علی الشرک ہے شرک نہیں۔ قابل نظر ہے۔ رہا ان لوگوں کا جھگڑا جو ایسی چیزوں کو اس تاویل سے کہ ہمیں ثواب رسانی مقصود ہوتی ہے۔ نہ کہ ان بزرگوں سے تقرب حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سو یہ تنازع لفظی ہے اس لئے کہ ان کی تقریر سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ تقرب غیر اللہ (تقرب غیر اللہ اس کو کہتے ہیں کہ سوا اللہ کے کسی کے نام کا بکرا یا کوئی اور چیز اس نیت سے دی جائے کہ یہ صاحب میری اس نیاز کو قبول کریں۔) اگر ہو تو بے شک حرام ہے مگر صورت مروجہ میں نہیں پایا جاتا۔ پس اب ہماری تلاش یہ ہوگی کہ ایسے موقعہ پر ہم بقرائن دریافت کریں کہ ان لوگوں کی غرض کیا ہوتی ہے۔ حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب نے
بھی ایک قرینہ بتلایا ہے وہ یہ ہے کہ ان لوگوں سے کہا جائے کہ تم اس بکرے جتنا گوشت بازار سے لے کر مساکین کو کھلا دو اور پیر صاحب کو ثواب پہنچا دو۔ تو ہرگز نہیں مانیں گے۔ معلوم ہوا کہ غرض ان کی صرف غیر اللہ کے نام پر جان دینے کی ہے نہ کچھ اور سو یہی شرک ہے۔ پس اس موقعہ پر بسم اللہ سے ذبح کرنا کیا مفید ہوسکتا ہے؟
راقم کہتا ہے۔ تمام لوگوں کا پیر صاحب کے نام سے ذبح کرنا اور اس سے ایصال ثواب مقصود رکھنا میری سمجھ میں نہیں آتا۔ کیا وجہ ہے کہ حضرت آدم کے نام کی کوئی نیاز نہیں کرتا۔ کسی نے آج تک حضرت موسیٰ کے نام کی چاء نہیں پکائی۔ کبھی نہیں سنا کہ کسی نے بکرے کا ثواب حضرت ابوبکر (رض) اور حضرت عمر (رض) کو پہنچایا ہو۔ حالانکہ اگر باعتبار بزرگی کے دیکھا جائے۔ تو اس تعظیم میں وہی لوگ زیادہ حق رکھتے ہیں جن کی بزرگی دلیل قطعی سے ثابت ہو۔ پس یہ بھی ایک قرینہ اس امر کا ہے کو ثواب رسانی مقصود نہیں۔ علاوہ اس کے ہم نے بذات خود ایسے لوگوں کا حال دیکھا ہے جن کو پیروں کے نام پر نیازیں دینے کی عادت ہے بالکل یہی جانتے ہیں اس نیاز کی قبولیت پیر صاحب کی طرف سے ہے اور اس قبولیت کے عوض میں وہ ہماری بلا ضرور ہی دفع کردیں گے۔ یا حصول مطلب کرا دیں گے۔ ہاں بعض لوگوں کا اعتراض بھی قابل ذکر ہے کہ پاک کتاب کی تفسیر ایسے سوالوں کے ذکر کے مناسب نہیں مگر اس لئے کہ ایسے لوگوں کا شبہ بھی حل ہوجائے کچھ لکھا جاتا ہے ایسے لوگ کہتے ہیں کہ اگر پیر صاحب کا بکرا کہنے سے وہ بکرا حرام ہوجاتا ہے تو پھر کوئی چیز بھی حلال نہ ہوگی اس لئے کہ ہر ایک چیز کو ہم کہا کرتے ہیں کہ یہ روٹی زید کی ہے اور وہ بیوی عمرو کی پس یہ بھی حرام ہوئیں سبحان اللّٰہ ما اَصْدَقَ رسول اللّٰہِ فداہُ ابِیْ و اُمِّی یٰرْفَعُ الْعِلْمُ وَیَفْشُوا لْجَھْلُ قَبْلَ الْقِیَامَۃِ۔ افسوس ان حضرات نے یہ نہیں سمجھا کہ ان صورتوں میں تو اضافت تملک ذات یا منافع کی ہے۔ پیر صاحب کی نسبت میں کون سی اضافت ہے۔ اگر یہی ہے تو مردہ کی ملک کیونکر ہوئی اور اگر ہوئی تو بلا اجازت ان کے اس چیز کو کیوں کھاتے ہو؟ اصل یہ ہے کہ ان لوگوں کے دلوں میں بنی اسرائیل کی طرح بچھڑے کی محبت گھر کرگئی ہوئی ہے۔ اس لئے ایسی باتیں ان سے کچھ بعید نہیں۔ اَللّٰھُمَّ اھْدِ قَوْمِیْ فَاِنَّھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ {
ایسے صاف اور صریح احکام سن کر ان کتاب والوں کے پاس کوئی حجت نہیں رہتی۔ تو ایک نئی بات نکالتے ہیں کہ اس نبی کے حق میں پہلی کتابوں میں کوئی پیش گوئی نہیں اور اگر یہ نبی برحق ہوتا تو اس کے لیے کتب سابقہ میں ضرور کوئی خبر ہوتی حالانکہ جانتے ہیں کہ اکثر انبیاء نے یہ خبر دی ہوئی ہے مگر ان کے ظاہر ہونے سے ان کو نقصان پہنچتا ہے اس لیے ان کو چھپاتے ہیں سو یاد رکھیں کہ بے شک جو لوگ اللہ تعالیٰ کی تاری اور بتلائی ہوئی خبریں کتاب سماوی سے مخفی کرتے ہیں اور عوام لوگوں کو جو یہ بات ان سے پوچھتے ہیں تو اور ہی معنی بتلاتے ہیں اور اس کے عوض میں دنیائے دوں کا کسی قدر مال لیتے ہیں تاکہ مزے سے چند روزہ زندگانی بسر کریں وہ یہ نہ سمجھیں کہ ہم پلاؤ گوشت کھا رہے ہیں بلکہ سراسر آگ ہی اپنے پیٹ میں ڈال رہے ہیں جس کا بدلہ ان کو آگ ہی ملے گا اور نہ قیامت کے دن اللہ ان سے مہربانی سے کلام کرے گا اور گناہوں سے ان کو معافی دے گا بلکہ بجائے معافی کے مواخذہ ہوگا اور اس مواخذہ میں ان کو سخت عذاب پہنچے گا اس لیے کہ یہی تو ہیں جنہوں نے گمراہی کو ہدایت کے بدلہ میں قرآن جیسی پاک کتاب چھوڑ کر اپنے اپنے خاچلات واہیہ میں پھنسے اور عذاب الٰہی کو بخشش کے عوض میں لے چکے ہیں۔ پس دیکھیے کیسے صابر ہیں آگ کے عذاب پر اس قدر ان پر سختی کی وجہ یہ ہے کہ اللہ نے تو سچی کتاب قرآن کریم اتاری ہے اور جو لوگ اس میں کج روی سے مخالف ہیں ان کا حال ہم پہلے ہی بتلا چکے ہیں کہ وہ بڑی بھاری بدبختی میں ہیں |
البقرة |
149 |
|
البقرة |
150 |
|
البقرة |
151 |
|
البقرة |
152 |
|
البقرة |
153 |
|
البقرة |
154 |
|
البقرة |
155 |
|
البقرة |
156 |
|
البقرة |
157 |
|
البقرة |
158 |
|
البقرة |
159 |
|
البقرة |
160 |
|
البقرة |
161 |
|
البقرة |
162 |
|
البقرة |
163 |
|
البقرة |
164 |
|
البقرة |
165 |
|
البقرة |
166 |
|
البقرة |
167 |
|
البقرة |
168 |
|
البقرة |
169 |
|
البقرة |
170 |
|
البقرة |
171 |
|
البقرة |
172 |
|
البقرة |
173 |
|
البقرة |
174 |
|
البقرة |
175 |
|
البقرة |
176 |
|
البقرة |
177 |
(177۔188)۔ باوجود اس بد دیانتی کے جس کا ذکر تم سن چکے ہو اہل کتاب اس امر پر نازاں ہیں کہ ہم ہی انبیا کے کعبہ بیت المقدس کی طرف نماز پڑھتے ہیں اس لئے وہ سن رکھیں کہ بغیر اقرار رسالت یہ کوئی نیکی نہیں کہ تم اپنا منہ مشرق مغرب کی طرف پھیرتے جائو ہاں نیکی والے حقیقتاً وہ لوگ ہیں جو سب سے پہلے اللہ کو اپنا خالق مالک رازق مطلق مانیں اور قیامت کے دن کو یقینی جانیں اور اللہ کے فرشتوں کو اور سب کتابوں اور نبیوں کو سچے مانیں جن میں سے محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خاص کر واجب الاتباع جانیں۔ اور عملی پہلو ان کا یہ ہو کہ اپنا مال عزیز باوجود اس کی خواہش اور ضرورت کے محتاج قریبیوں اور یتیموں اور مسکینوں اور بے سامان مسافروں اور ہر قسم کے مانگنے والوں کو دیویں اور غلاموں کی رہائی میں خرچ کریں نہ کہ تمہاری طرح کہ سب جہان کو کھا جا ئو اور ہنوز روزہ دار ہی کہلائو اور نیکی والوں کی تعریف میں یہ بھی ہے کہ وہ نماز کی پابندی رکھتے ہوں اور زکوٰۃ بھی دیتے ہوں اور معاملہ کے ایسے صاف ہوں کہ جب کبھی کسی سے وعدہ کرتے ہیں تو پورا کرتے ہیں اور سختیوں اور بیماریوں میں اور جہاد کے وقت صابررہتے ہیں یہی لوگ اپنے دعوٰے میں سچے راست باز ہیں اور یہی لوگ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے ہیں باقی سب خلط
” شان نزول :
(لَیْسَ الْبِرَّ) تحویل قبلہ پر یہودیوں نے اعتراض کئے اور اپنی شیخی بگھاری تو ان کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی۔ “
ہاں یہ نہیں کہ اگر ان لوگوں پر کوئی نااہل زیادتی کرے یہاں تک کہ ان کو یا ان کے بھائی بندوں کو جان سے مار دے تو وہ اپنے صبر ہی میں خاموش رہیں ایسا صبر تو ان کی جان پر وبال ہوجائے گا صبر یہ نہیں کہ ظالموں کو دلیر کیا جائے بلکہ ایسے نالائقوں سے بدلہ لینا بھی ضروری ہے اس لئے ہم اعلان دیتے ہیں کہ اے ایمان والو ! مقتولوں کا بد لہ لینا تمہیں جائز ہے اس میں کسی خاص شخص یا قوم کی فضیلت بھی نہیں کہ ان میں کا قاتل چھوڑا جائے یا ان کے آزاد کے عوض غلام کو لیا جائے یا ان کی عورت دوسروں کی عورتوں کے ہم پلہ نہ ہوسکے بلکہ آزاد قاتل بدلے آزاد مقتول کے خواہ کوئی ہو مارا جائے گا اور غلام بدلہ غلام کے چاہے کوئی ہو مارا جائے گا اور عورت قاتلہ عوض عورت مقتولہ کے خواہ کسی قوم کی ہو ماری جاوے ہاں اگر باہمی صلح کی ٹھہرے تو پس جس قاتل کو اس کے بھائی مقتول کے وارثوں کی طرف سے کچھ معافی ملے کہ وہ اس کا مارنا چھوڑ کر کسی قدر نقدی پر فیصلہ کریں تو دستور کے موافق اس وارث کا یہ احسان شکریہ سے لینا واجب ہے۔ یہ نہیں کہ اپنی ہی اکڑخانی میں رہو کہ ہم جان تو دے دیں گے پر احسان نہ مانیں ایسا مت کرو اور بخوشی اس وارث کا حق اس کو پہنچاؤ۔ کیا یہ نہیں سمجھتے ہو کہ تمہارا کتنا بڑا جرم تھا جو اس نے بالکل ہی معاف کردیا اور ہم نے بھی اسے جائز رکھا۔ سچ پوچھو تو یہ تمہارے رب کی طرف سے آسانی ہے اور مہربانی ورنہ حق یہی تھا کہ جو کوئی کسی کو قتل کرے وہ ضرور ماراجائے پس بعدا اس فیصلہ کے جو کوئی ان میں سے کسی دوسرے پر زیادتی کرے گا یعنی معاف کرکے بدلہ لینے کی ٹھیرائے۔ یا وعدہ ادا کرنے رقم کا کرے اور ادانہ کرے تو اس کو سخت عذاب بھگتنا ہوگا۔
” شان نزول : (اَلْحُرُّ بالْحُرِّ) عرب کے بعض قبیلے ایک دوسرے پر فضیلت جانتے تھے۔ یہاں تک کہ اگر شریف قبیلے کا ایک آدمی مارا جاتا تو دوسرے کے دو مار کر برابر سمجھتے۔ اگر شریف قبیلے کی عورت کو کوئی رذیل قبیلے کی عورت مارتی تو اس عورت کے بدلہ میں اس قبیلے کے مرد کو مارتے۔ یہاں تک ایک دوسرے پر فخر اور علو ہوتا تھا کہ شریف قبیلے رذیلوں کی لڑکیاں بلا مہر لے لیتے جب مشرف باسلام ہوئے اور ہنوز ان کے بعض معاملات خون کے تصفیہ طلب تھے شریف قبیلے نے حسب دستور قدیم خواہش کی اور اللہ کو یہ خواہش ان کی ناپسند تھی تو ان کے تصفیہ کرنے کو یہ آیت نازل ہوئی۔ معالم بتفصیل “
ہاں اس میں شک نہیں کہ خونی کے قتل کرنے میں تمہاری گویا زندگی ہے اے عقل والو ! حتی الامکان یہی کیا کرو۔ تاکہ تم اس خوف سے کہ اگر قتل کردیں گے تو اس کے بدلہ میں مارے جائیں گے اس فعل شنیع سے بچتے رہو۔ چونکہ تنگدستی بھی ایک قسم کی گویا موت ہے خاص کر ایسے شخص کے حق میں جس کے ماں باپ یا اولاد کا ترکہ دوسرے لوگ لے جائیں اور وہ محروم ہی رہیں اس لئے جیسا کہ تم کو قتل قتال سے روکا اسی طرح تم پر فرض ١ کیا گیا ! ہے کہ اگر کوئی تم میں سے مال اسباب پیچھے چھوڑتا ہو تو مرتے وقت اپنے ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں کے لئے دستور شرع کے موافق وصیت کر جائے کہ میرے بعد میرے ماں باپ اور میری لڑکیوں اور بہنوں کو اتنا دینا اور فلانے کو اتنا فلانے کو اتنا کسی پر طرح کا ظلم زیادتی نہ کرنا بلکہ موافق شریعت کے تقسیم کرنا گویا یہ وصیت ہر ایک کے حق میں مفید اور مناسب ہے مگر خاص کر پر ہیز گاروں پر تو ضروری ہے
” شان نزول : (کَتِبَ عَلَیْکُمْ) عرب میں دستور تھا کہ سوائے لڑکے کے کوئی وارث نہ ہوتا تھا ان کی یہ عادت قبیحہ مٹانے کو یہ آیت نازل ہوئی
(تم پر فرض کیا گیا ہے) اس آیت کی تفسیر میں بھی مفسروں کا کسی قدر اختلاف ہوا ہے۔ کوئی کہتا ہے اس آیت کا حکم پہلے تھا کہ ہر ایک شخص پر مرتے ہوئے اپنے مال کے متعلق وصیت کرنا فرض تھا کہ میری جائداد کو اس طرح تقسیم کرنا اتنا فلاں کو اور اتنا فلاں کو۔ لیکن جب آیت میراث نازل ہوئی تو اس میں اللہ تعالیٰ نے خود ہی حصے فرما دئے کہ بیٹے کا بیٹی سے دوگنا ہووے۔ بیوی کا اتنا۔ خاوند کا اتنا۔ اس لئے یہ آیت منسوخ ہوگئی بعض علماء کہتے ہیں کہ منسوخ نہیں بلکہ یہ حکم استحبابی ہے اور ان لوگوں کے حق میں ہے جن کا آیت میراث میں حصہ مذکور نہیں۔ جیسے باپ بیٹے کے ہوتے ہوئے چچا یا اس کی اولاد۔ پس اگر ایسے لوگوں کے حق میں کچھ وصیت کرے تو جائز ہے اور وصیت کی حد حدیث صحیح میں ثلث مال تک آئی ہے۔
خاکسار راقم کے نزدیک بھی قرآن کی دونوں آیتوں سے کوئی آیت منسوخ نہیں بلکہ آیت میراث اس آیت کی شرح ہے کیونکہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے وصیت کرنے کا حکم فرمایا تھا مگر چونکہ اس وصیت میں کمی زیادتی کرنا انسان طبائع سے کچھ بعید نہ تھا اس لئے خدائے عالم الغیب نے اس وصیت کی آپ ہی شرح کردی بلکہ اس فعل کو جو اس کی شرح میں مستعمل تھا خاص اپنی طرف نسبت کیا اور فرمایا یُوْصِیْکُمُ اللّٰہُ فِیْٓ اَوْلَادِکُمْ للذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ ” یوصی“ کے لفظ کو اس جگہ لانا اور یحکم جو عموماً ایسے مواقع پر بولا جایا کرتا ہے نہ فرمانا اسی طرف اشارہ ہے کہ یہ افعال (ایصائ) اس فعل (وصیت مکتوبہ) کی شرح ہے جو پہلے مجمل تھی پس اب آیت موصوفہ کے معنے یہ ہوں گے کہ اپنے ان وارثوں کے حق میں جن کے حصے اللہ تعالیٰ نے مقرر فرما دئیے ہیں یہ وصیت کرنا تم پر فرض ہے کہ اپنے اپنے حصے موافق شریعت کے لیں۔ کوئی کسی پر ظلم زیادتی نہ کرے مگر ان ورثاء کے علاوہ اور لوگ بھی میت سے دور نزدیک کا تعلق رکھنے والے ہوتے ہیں ان کی نسبت وصیت کی کوئی شرح نہیں بلکہ وہ میت کے اختیار میں رکھا اور مِنْ بَعْدِ وَصِیَّۃٍ یُّوْصِیْ بِھَآ اَوْدَیْنٍ میں اسی اختیار کی طرف اشارہ ہے ہاں اس کو بھی ایسا کھلا نہیں چھوڑا کہ سارے مال کی وصیت کسی کے حق میں کر جائے بلکہ اس کو بھی غَیْرَ مُضَآرٍّ سے مقید فرمایا ہے جس کی شرح حدیث میں ثلث تک آئی ہے۔ کہ تہائی مال کی وصیت کو آنحضرت (ﷺ) نے جائز رکھا اور غَیْرَ مُضَآرٍّ کی شرح فرما دی اور وارث کے حق میں لاوَصِیَّتَ لِوَارِثٍ کہہ کر یُوْصِیْکُمُ اللّٰہُ کو کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْوَصِیَّۃُ کی شرح ہونے کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ خلاصہ دونوں آیتوں کا یہ ہوا کہ جن کے حق میں اللہ عالم الغیب نے حصے مقرر کردیئے ہیں ان کی نسبت تو مقرر حصص کے لیے وصیت کرنے کی حاجت نہیں بلکہ ان کی وہی وصیت ہے جس کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی طرف منسوب فرمایا ہے اور جن لوگوں کے حصص مقرر نہیں کئے ان کے حق میں میت کو ثلث مال تک وصیت کرنے کی اجازت حاصل ہے پس سرسید احمد خاں کا فرماناکہ :۔
سر سید کی دسویں غلطی :
” قرآن مجید کی دونو آیتوں کے ملانے سے نتیجہ یہ نکلا کہ مرنے والے نے اگر کوئی وصیت کی ہے تو اس کا مال اس کی وصیت کے مطابق تقسیم کیا جائے اور اگر اس نے کچھ وصیت نہیں کی یا جس قدر کہ وصیت کی ہے اس سے زیادہ مال چھوڑا ہے تو اس کے مالکی یا اس قدر کی جو وصیت سے زیادہ ہے آیت توریث کے مطابق تقسیم ہوجائے گی پس دونوں آیتوں کا حکم بحال اور قائم ہے“ (صفحہ ٢١٥)
صحیح نہیں۔ کیونکہ بحکم القراٰن یفسر بعضہ بعضا۔ قرآن جو اپنی تفسیر آپ کرتا ہے۔ وہ ہر طرح مقدم ہے۔ سرسید کی تفسیر اس اصول کے خلاف ہے امید ہے کہ سید صاحب ہمارے معروضہ بالا بیان پر غور فرمائیں گے تو اپنی اس رائے کو واپس لیں گے (تفسیر ثنائی کا بہت سا حصہ سرسید مرحوم کی زندگی میں چھپ گیا تھا اور ان کو پہنچ بھی گیا تھا۔) اس لیے کہ سید صاحب کو اس کہنے کی وجہ یہی پیش آئی ہے کہ کوئی آیت کسی آیت یا حدیث سے منسوخ نہ ہو سو ہم نے نہ کسی آیت کو آیت سے منسوخ ٹھیرایا ہے نہ حدیث سے بلکہ ایک آیت اور حدیث کو دوسری آیت کی تفسیر اور شرح بنایا ہے جو بالکل القراٰن یفسّر بعضہ بعضا کے مطابق ہے۔ فافھم “
ہاں جو لوگ اس وصیت کو بعد سننے کے بھی بدلیں گے تو اس ظلم کا گناہ انہیں بدلنے والوں پر ہوگا۔ نہ کہ اس میت پر بے شک اللہ اس میت کی باتیں سنتا ہے اور ان بدلنے والوں کی حرکات ناشائستہ کو جانتا ہے پھر کیسا ہوسکتا ہے کہ اس میت کو باوجود وصیت کے کرجانے کے بھی موخذہ ہو۔ ہاں جو کوئی اس میت وصیت کنندہ سے کسی وارث کی حق تلفی کے سبب سے کجروی معلوم کرے یا کسی کو اس کے حق سے زائد دلانے یا کسی ناجائز جگہ صرف کرنے کی وجہ سے گناہ معلوم کرکے اس میں اصلاح مناسب کردے اگرچہ موصی کی وصیت میں تغیر ہی آوے۔ تو بھی اس پر گناہ نہیں بلکہ اس کی کوشش کا اس کو عوض ملے گا بے شک اللہ بڑی بخشش والا نہایت مہربان ہے مخلصوں کی تھوڑی سے محنت بھی ضائع نہیں کرتا یہ بھی اس کی مہربانی ہے کہ محض اپنے فضل سے تمہیں ایسے کام بتلاتا ہے جو تمہیں ہر طرح سے مفید ہوں یہی وجہ ہے کہ اے مسلمانو ! تم پر روزہ فرض ہوا ہے جو تمہارے حق میں سراسر مفید ہے اس میں تمہاری خصوصیت نہیں بلکہ تم پر جو ہوا تو ویسا ہی ہوا جیساتم سے پہلے لوگوں پر ہوا تھا اس میں ہماری کوئی ذاتی غرض نہیں بلکہ یہی ہے تاکہ تم شہوات نفسانہل اور عذاب الٰہی سے بچ جاؤ گھبراؤ نہیں چند ہی ایام ہیں پھر ان میں بھی ہر طرح سے آسانی کی گئی ہے کہ جو کوئی تم میں سے رمضان کے دنوں میں بیمار ہو جس سے وہ روزہ نہ رکھ سکے یا مسافر تو وہ بجائے ان دنوں کے اور دنوں سے شمار پورا کرے۔
”(فرض ہوا ہے) اس آیت کے متعلق بھی کسی قدر اختلاف ہوا ہے بعض مفسر کہتے ہیں کہ یہ روزے اور ہیں اور رمضان کے روزے اور لیکن جب رمضان فرض ہوا تو یہ منسوخ ہوگئے۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ روزے وہی ہیں جن کی تفسیر خود کلام اللہ نے کردی ہے کہ وہ رمضان ہے خاکسار کے نزدیک بھی یہ رائے ارحج ہے اس لئے کہ کوئی وجہ نہیں کہ ہم آیات قرآنی کو خواہ مخواہ توجیہ ہوتے ہوئے بی منسوخ قرار دیں۔ خیر یہ اختلاف تو تھا ہی اس سے آگے کی آیت یُطِیْقُوْنَہٗ میں اس سے بھی کسی قدر زیادہ بحث ہوئی ہے بعض مفسرین اس کے معنے یہ کرتے ہیں کہ جو لوگ روزہ کی طاقت رکھتے ہیں وہ اگر نہ رکھیں تو اس کے عوض میں ایک مسکین کو کھاناکھلا دیں ساتھ ہی اس کے یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ حکم دوسری آیت فَمَنْ شَھِدَ مِنْکُمُ الشَّھَرَ فَلْیَصُمْہُ سے منسوخ ہے اس لئے کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے روزہ کا حکم قطعی طور پر دے کر وہ (بیمار اور مسافر) ہی کو مستثنیٰ کیا ہے۔ معلوم ہوا کہ باقی لوگ روزہ ضرور رکھیں بعض صاحب نسخ سے بچنے کو اس کے معنے میں لا کو مقدر سمجھتے ہیں یعنی جو لوگ روزہ کی طاقت نہیں رکھتے اور بعض کی رائے ہے کہ باب افعال کا ہمزہ سلب کے لئے بھی آتا ہے یعنی حذف لا کی حاجت نہیں بلکہ یطیقونہ ہی کے معنے عدم طاقت کے ہیں غرض ان کی رائے سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت منسوخ نہیں بعض کہیں یطیقون کے معنے دشواری سے روزہ رکھنے کے ہیں۔ پس یہ آیت منسوخ نہ ہوئی صحیح بخاری کتاب التفسیر میں اس آیت کی تفسیر کے ماتحت سلمہ سے روایت ہے کہ شروع اسلام میں جو چاہتا روزہ رکھتا تھا جو چاہتا افطار کر کے فدیہ طعام دیتا تھا یہاں تک کہ اس سے بعد کی آیت نازل ہوئی۔ سلمہ (رض) کا مطلب یہ ہے کہ یُطِیْقُوْنَ کے معنے طاقت رکھنے کے ہیں مگر دوسری آیت مَنْ شَھِدَ مِنْکُمْ الشَّھْرَ فَلْیَصُمْہُ نے اس اختیار کو منسوخ کردیا۔ اسی صحیح بخاری میں ابن عباس سے روایت ہے کہ یطیقون کے معنی ہیں یطوقون یعنی بدقت و دشواری روزہ رکھنیوالے مراد ہیں جیسے بہت بوڑھے لوگ اس قول کے مطابق آیت منسوخ نہیں بلکہ کمزور بوڑھوں کے حق میں بحال ہے۔ میں نے جو ترجمہ کیا ہے۔ وہ ابن عباس کی روایت کی بنا پر کیا ہے لیکن سلمہ بن اکوع نے جو طاقت رکھنے والے بتائے ہیں ان معیک کی تردید کی میں کوئی دلیل نہیں پاتا۔ نیز اس تفسیر سے آیت موصوفہ کو منسوخ کہنے پر بھی کوئی قطعی دلیل از قرآن و حدیث میں مجھے نہیں ملی۔ رہی یہ بحث کہ یہ کون لوگ ہیں جن کو دقت اور دشواری ہوتی ہے۔ بہت سے مزدور تمام روز گرمی میں کام کرتے ہوئے بھی روزہ رکھتے ہیں اور بہت سے بابو لوگوں کو سرد مکانوں میں بیٹھے ہوئے بھی تکلیف محسوس ہوتی ہے سواس کی تعیین یوں ہے کہ جو لوگ ایسے ہوں کہ ان کے ہم عمر دوسرے لوگ روزہ رکھ سکتے ہیں تو وہ معذور نہ سمجھے جائیں گے اور جو لوگ ایسے ہوں کہ ان کی عمر ہی ایسے مرتبہ کو پہنچ چیی ہو جو روزہ رکھنے کی طاقت نہیں رکھتے اور نہ آئندہ کو انہیں طاقتور ہونے کی امید ہے جیسے شیخ فانی تو ایسے لوگ بیشک معذور ہیں اور ہونے بھی چاہئیں۔ سر سید نے اس موقع پر ناتوانوں کی تفصیل نہیں کی بلکہ مطلقاً اختیار دیا ہے کہ :۔
” جن لوگوں کو روزہ رکھنے میں زیادہ سختی اور تکلیف ہوتی ہے اور مشکل روزہ رکھ سکتے ہیں ان کو اجازت ہے کہ روزوں کے بدلہ میں فدیہ دیں مگر ان کے حق میں فدیہ دینے سے روزہ رکھنا بہتر ہے“ (ج ١‘ ص ٢٢٩)
(اس مضمون کی ایک حدیث بھی آئی ہے کہ بڈھی ارزل العمر کی روزہ کے بجائے ایک مسکین کو کھانا کھلانا جائز ہے حاملہ عورت اور دودھ پلانے والی اگر روزہ رکھنے سے اس کے حمل کو یا بچہ کو کچھ نقصان پہنچتا ہے تو وہ بھی بیمار کی طرح معذور ہے۔ بعد فراغت رکھ سکتی ہے۔)
اسؔ لئے گذارش ہے کہ یا تو تفصیل کیجئے اور اگر تفصیل منظور نظر نہیں بلکہ ہر ایک تکلیف اور سخی اٹھانے والے کو خواہ اس کی ناطاقتی صنفی ہو یا شخصی اجازت ہے تو فرما دیں مَنْ شَھِدَ مِنْکُمُ الشَّھْرَ فَلْیَصُمْہُ والی آیت کا جو باستثناء دو قسم (مریض اور مسافر) مطلقاً فائدہ وجوب کا دیتی ہے۔ کیا جواب؟ رہی یہ بحث کہ سارے مہینے کے روزے قرآن سے ثابت ہیں یا نہیں۔ اس لئے کہ فَلْیَصُمْہُ کی ضمیر منصوب مفعول فیہ کے لئے استیعاب ضروری نہیں بلکہ کسی قدر اشتعال کافی ہے جیسا کہ دخلت الدار اور دخلت المسجد شبہ مولوی حشمت علی اہل قرآن کی مفید ایجاد ہے سواس کا جواب یہ ہے کہ ضمیر منصوب اس کی جگہ مفعول فیہ نہیں بلکہ مفعول بہ ہے تلویح میں لکھا ہے جو شخص کہے علی ان اصوم فی الشھر اسے تو مہینہ میں کم ازکم ایک روزہ واجب ہے اور جو شخص ان صوم الشھر کہے اسے سارا مہینہ رکھنے پڑتے ہیں اس لئے کہ الشھر مفعول فیہ مشابہ مفعول بہ کے ہوگیا۔ یہ محاورہ کسی قدر ہمارے ہاں بھی ملتا ہے اگر کوئی کہے کہ میں نے اس ہفتہ رخصت لی ہے تو اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ چند ایام نہ تمام ہفتہ۔ اور اگر کہے کہ میں نے یہ ہفتہ رخصت لی ہے تو اس کے معنے سارے ہفتہ کے دن ہوتے ہیں پس اسی طرح فلیصم فیہ اور فلیصمہ میں فرق ہے۔ فتدبر ١٢ منہ
(فرضیت کے بارے میں) اس آیت کی تفسیر میں بھی کسی قدر اختلاف ہوا ہے اکثر صاحب اس کے ترجمہ میں حذف مضاف نہیں مانتے بلکہ صاف ترجمہ یوں کرتے ہیں کہ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل ہوا اور اس کی توجیہ یوں کرتے ہیں رمضان میں لوح محفوظ سے پہلے آسمان پر سارا قرآن آگیا تھا پھر حسب موقع ایک ایک سورت نازل ہوتی رہی بعض صاحب اس کا ترجمہ یوں کرتے ہیں کہ :۔
(القول الثانی) فی تفسیر قولہ انزل فیہ القراٰن قال سفیان انزل فیہ القراٰن معناہ انزل فی فضلہ القراٰن وھٰذا اختیار الحسین ابن الفضل قال و مثلہ ان یقال انزل فی الصّدیق کذا اٰیۃ یریدون فی فضلہ قال ابن الانباری انزل فے ایجاب صومہ علے الخلق کما یقال انزل فی الزکوٰۃ کذا و کذا یرید فی ایجابھا و انزل فے الخمر کذا یرید فے حرمتھا۔
رمضان کی فضیلت میں قرآن نازل ہوا بعض کہیں رمضان کی فرضیت میں قرآن نازل ہوا جیسا کہ کہا کرتے ہیں کہ زکوٰۃ میں قرآن کی فلاں آیت اتری اور شراب میں فلاں آیت نازل ہوئی جس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ زکوٰۃ کی فرضیت میں اور شراب کی حرمت میں نازل ہوئی۔
میرےؔ نزدیک بھی یہی معنے ارحج ہیں چنانچہ میں نے انہیں کو اختیار کیا ہے اس لئے کہ اس سے آگے کی آیت میں ارشاد ہے فَمَنْ شَھِدَ مِنْکُمُ الَّشْھَر فَلْیَصُمْہُ جس سے متبادر معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکم پہلے بیان پر تفریع مذکور ہے چنانچہ لفظ ف جس کے معنے پس کے ہیں یہی جتلا رہا ہے سو یہ تفریع جبھی صحیح اور درست ہوگی کہ اس سے پہلی آیت میں کچھ ایسا مذکور ہو جس کے ساتھ وجوب صیام تفریع پذیر ہوسکے وہ یہی ہے کہ انزل فی ایجاب صومہ یعنی اس کے روزوں کے فرض ہونے میں قرآن نازل ہوا ہے پس جو کوئی حاضر ہو وہ روزہ رکھے پہلے دونوں معنے کہ اس میں قرآن نازل ہوا یا اس کی فضیلت میں نازل ہوا۔ اس تقریر سے ایسے منطبق نہیں جیسے کہ یہ ہیں فافھم رہی سورۃ قدر کی آیت اِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ اس میں بھی اگر حذف مضاف مانا جائے جیسا کہ بعض نے مانا ہے تو کوئی حرج نہیں۔ دونوں آیتوں میں تطبیق ہوجاتی ہے۔ اور انہیں تو جو وجہ میں نے بیان کی ہے وہاں چونکہ وہ نہیں اس لئے وہاں اس کے متبادر معنی بھی لئے جائیں تو کوئی حرج نہیں۔ فتفکر “
اور جو لوگ بوجہ غائیت ضعف جسمانی اور پیرا نہ سالی بد قّت ودشواری اس روزہ کی طاقت رکھتے ہیں وہ اگر روزہ نہ رکھیں تو ان پر ایک مسکین کا کھانا دینا واجب ہے پھر جو کوئی شوق سے نیکی زیادہ کرے کہ ایک کے بدلہ میں دو کو کھلاوے پس وہ دو کا کھلانا اس کے لئے بہتر ہے اور سب سے بہتر تو یہی ہے کہ روزہ ہی رکھو گو تکلیف شدید ہی ہو اس لئے کہ روزہ مثل ایک مسہل کے ہے جو سال بعد ہر ایک کو کرلینا چاہئے گو وہ کسی مرتبہ کاہو۔ اگر دینی رموز جانتے ہو تو ایسا ہی کرو۔ تم جانتے ہو کہ یہ ایام مذکورہ کیا ہیں اور کب ہیں سنو ! ماہ رمضان ہی وہ مہنہ ہے جس کے روزہ رکھنے کی فرضیت کے بارے میں قرآن نازل ہوا ہے جو سب لوگوں کے لئے ہدایت اور ہدایت کی بین نشانیاں اور حق باطل کا فیصل ہے پس اب تو ضرور ہے کہ جو کوئی تم میں سے اس رمضان کے مہینے کو پائے وہ اس کے سارا مہینہ روزے رکھے اور جو کوئی بیمار یا مسافر ہو وہ اور دنوں سے جب وہ تندرست ہوجائے یا سفر سے واپس آجائے تو اسی قدر شمار پورا کردے اللہ تعالیٰ کو تمہاری تکلیف باجج منظور نہیں بلکہ اخلاص منظور ہے یہی وجہ ہے کہ اللہ اپنے احکام میں تمہارے حق میں ہمیشہ آسانی چاہتا ہے اور کبھی تنگی نہیں چاہتا اور بیمار اور مسافر کو تمام مافات کا حکم بھی اسی لئے دیا تاکہ حتی المقدور تم اس مبارک مہینے کی گنتی پوری کرسکو اور بعد ختم ہونے رمضان کے بتلائے ہوئے طریق سے عید کے روز اللہ وحدہٗ لا شریک کی بڑائی اور تکبیریں بیان کرو تاکہ تم گناہوں کی معافی پر شکریہ کرو اس قسم کی مہربانی اور بخشش دیکھ کر جب میرے چاہنے والے بندے تجھ سے میرا حال دریافت کریں کہ اللہ ہم سے دورہے یا نزدیک؟ ہم کسی طرح سے اس کو مل سکتے ہیں یا نہیں؟ تو تو میری طرف سے ان کو کہہ دے کہ میں تم سے ہر حال میں قریب ہوں یہ کہ جس طرح تم ایک دوسرے کی باتیں سنو تو دریافت کرسکو بلکہ ہوں تو جہاں ہوں البتہ پکارنے والے کی پکار سنتا ہوں۔ نہ کسی خاص حالت اور وقت میں بلکہ جب کبھی اور جس وقت مجھے پکاریں اور مجھ سے مانگے فوراً حسب الحکمت اس کو قبول کرتا ہوں پس تم کو اور کیا چاہئے اب اگر لوگ مجھ سے ملنا چاہیں اور اپنی دعاؤں کی قبولیت کے خواہشمند ہوں تو میری بات مانیں اور میری نسبت ایمان درست کریں اور دل میں مجھ ہی کو دینے والا جانیں تاکہ وہ اپنی مراد کی راہ پاویں یہ نہ سمجھو کہ میرے قریب ہونے سے تمہاری سب لذتین چھوٹ جائیں گی نہیں اسی طرح لذت حاصل کروگے جب ہی تو تمہارے لئے رمضان کی راتوں میں بھی عورتوں سے جماع کرنا حلال کیا گیا کہ تم ان کے نہ ملنے سے تکلیف نہ اٹھاؤ اس لئے کہ وہ تمہارے لباس کی طرح ہیں اور تم ان کی پوشاک کی مانند ہو نہ وہ تم سے جدا ہوسکتی ہیں نہ تم ان سے علیحدہ۔ یہی وجہ ہے کہ اس سے پہلے تم سے غلطیاں بھی ہوتی رہیں سو اللہ تعالیٰ نے جان لیا کہ تم اپنے نفسوں کی خیانت کرتے ہو کہ رمضان کی راتوں میں عورتوں سے جماع کرنے سے رکتے ہو جس سے تمہیں سخت تکلیف ہوتی ہے پس تم پر رحم کیا کہ تمہاری حاجت کے موافق تم کو اجازت دی اور پہلے قصور کو تم سے معاف کردیا پس اب سے رمضان کی راتوں کو ان عورتوں سے ملا کرو اور جو اولاد اللہ تعالیٰ نے تمہارے حق میں لکھی ہے اس کی طلب کرو۔ اور اسی نیت سے جماع کرو کہ اللہ تعالیٰ کوئی نیک اولاد عنایت کرے جو بعد مرنے کے نیک دعا سے یاد کرتا رہے
” شان نزول :۔ اوّل اوّل صحابہ میں دستور تھا کہ رمضان کی راتوں میں عورتوں سے جماع نہ کرتے بعض لوگوں سے طبعی جوش اس کے برخلاف بھی ظاہر ہوا جس سے ان کو سخت رنج ہوا ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی “
اور رمضان کی راتوں کو خوب جی بھر کرکھاتے پیتے رہو جب تک کہ صبح کی سفید دھاری رات کی کالی دھاری سے علیحدہ ہو یعنی صبح صادق ہوجائے تو بس کرو
” شان نزول : اوّل اوّل صحابہ میں دستور تھا کہ افطار کے وقت ہی جو چاہیے سو کھا لیتے پھر نہیں۔ چنانچہ ایک صحابی اپنے کھیت سے تھکا ماندہ ہو کر گھر میں آیا اور کھانا تیار نہ تھا اتنے میں تو سو گیا اور بوجہ سونے کے کھانا کھانے سے محروم رہا۔ اور دوسرے روز بھی اسے روزہ رکھنا پڑا جس سے اس کو بہت بڑی تکلیف ہوئی۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی “
پھر شام تک کھانے پینے۔ جماع۔ غیبت۔ شکائیت۔ جھوٹ۔ وغیرہ سے بندر رہ کر روزہ پورہ کرو اور جب تم مسجدوں اخیردھاکہ رمضان میں مثلاً اعتکاف کرتے ہو تو دن رات میں کسی وقت بھی عورتوں سے مت چھوؤ یہ چند احکام مذکورہ گویا حدود خدا وندی ہیں پس خبردارہو ان سے گذرنا تو درکنار ان کے نزدیک بھی نا جائیو اسی طرح اللہ لوگوں کی ہدایت کے لئے اپنے احکام بیان کرتا ہے تاکہ وہ ان پر تعمیل کرکے جہنم سے بچ جائیں پس تم ان احکام پر کار بندر ہو اور معاملہ مابین مخلوق بھی درست رکھو کہ آپس میں ایک دوسرے کے مال ناجائز طریق اور فریب سے مت کھانا اور اس مال کو جھوٹی نابشوں کے ذریعہ سے حکام تک نہ پہنچاناکہ ناحق جھوٹی ڈگریاں کرواکر لوگوں کے مال کا کچھ حصہ جان بوجھ کر کھاجاؤ۔
” شان نزول :۔ ! دو شخصوں کا آپس میں کچھ تنازع تھا۔ مدعی نے حضور اقدس میں دعویٰ دائر کیا۔ آپ نے اس سے گواہ طلب کئے۔ وہ بولا میرے پاس گواہ نہیں۔ حضور نے حسب دستور مدعا علیہ کو قسم کا حکم دیا۔ وہ قسم کھانے پر تیار ہوگیا۔ آپ نے فرمایا اگر جھوٹی قسم کھا کر اس کا مال کھائے گا تو قیامت کے روز اللہ کا غضب اپنے پر لے گا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی “
مگر تعجب ہے کہ یہ لوگ ان حکموں کی تعمیل کرتے نہیں۔ ہاں بے کار سوال کرنے کے بڑے مشتاق ہیں۔ |
البقرة |
178 |
|
البقرة |
179 |
|
البقرة |
180 |
|
البقرة |
181 |
|
البقرة |
182 |
|
البقرة |
183 |
|
البقرة |
184 |
|
البقرة |
185 |
|
البقرة |
186 |
|
البقرة |
187 |
|
البقرة |
188 |
|
البقرة |
189 |
(189۔210۔ چنانچہ تجھ سے چاند کا حال دریافت کرتے ہیں کہ چاند کم وبیش کیوں ہوتا ہے اس کا فائدہ کیا ہے تو اے بنی علیک السلام ان کو کہہ کہ یہ چاند کا کم زائد ہونا لوگوں کے کاروبار کے اوقات اور حج کی تاریخ کے لئے ہے پس اسے ہی کافی سمجھو اور اپنی سمجھ سے بالا تر سوال نہ کرو۔
” بعض لوگوں نے آنحضرت سے سوال کیا کہ چاند کم زائد کیوں ہوتا ہے؟ یہ مسئلہ ان کے فہم سے عالی تھا اس کے سمجھنے کو علم ہئیت بھی چاہئے اس لئے اس کے سبب سے اعراض کر کے اس کے فائدہ کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی۔ “
اصل بات تو یہ ہے کہ جو امر دینی نہ ہو اس کا سوال پیغمبر سے کرنا ایسا ہی لغو ہے جیسا کہ تمہارا یہ فعل کہ حج کرکے مکانوں کے دروازوں سے نہیں آتے ہو بلکہ اوپر سے چھت پھاڑ کر اترتے ہو۔ اور اس کو بڑا نیکی کا کام ! جانتے ہو۔ حالانکہ ہمارے نزدیک یہ کوئی نیکی کا کام نہیں کہ تم اپنے گھروں میں بجائے دروازوں کے چھت کی طرف سے آؤ
” شان نزول :۔ ! عرب میں دستور تھا کہ حج کر کے واپسی کے وقت گھروں کے دروازوں سے اندر نہیں آتے تھے بلکہ پیچھے کی طرف سے چڑھ کر اوپر سے اترتے تھے اور اس کو ثواب جانتے چونکہ یہ رسم ان کی محض خیالی تھی اس لئے اس سے روکنے کو یہ آیت نازل ہوئی “
ہاں نیکی کے کام تو ان لوگوں کے ہیں جو متقی ہیں سو تم بھی اگر نیک بننا چاہو تو یہ واہیات خیال چھوڑو اور گھروں کے دروازوں سے آیا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو جو کام کرو اس میں پہلے اللہ کی رضا عدم رضا کو سوچ لیاکرو۔ تاکہ تم مراد حقیقی کو پاؤ تمہاری مرادیابی کا پہلا زینہ یہ ہے کہ جو لوگ تم سے دین کی وجہ سے ناحق لڑتے ہیں تم انسے اللہ کی راہ میں اللہ کے خوش کرنے کو لڑو۔
” شان نزول :۔ " مکہ شریف میں تو مسلمانوں کو اس امر کی ممانعت تھی کہ کسی سے تعرض اور لڑائی کریں۔ جب مدینہ میں ہجرت کی تو یہ آیت نازل ہوئی معالم “
”(لڑو) یہ پہلی آیت جہاد کے متعلق آئی ہے۔ اس مسئلہ (جہاد) پر تو جو کچھ مخالفین اسلام نے اپنی بے سمجھی کے گل کھلائے ہیں‘ عیاں راچہ بیاں‘ کسی صاحب نے اسلام کو ایمان بالجبر کا معلم بنایا۔ کسی نے ظالم کا خطاب عطا فرمایا۔ کسی نے ترقی اسلام کا ذریعہ اسی کو سمجھا۔ مگر داراصل یہ سب کچھ ان کی بے سمجھی اور تعصب کے آثار ہیں ؎
سخن شناس نئی دلبر اخطا ایں جاست
اسلامیؔ جہاد بالکل طبیعت انسانی کے موافق اور انصاف کے مطابق ہے۔ اس کا بیان کرنے سے پہلے ہم کسی قدر اس زمانہ کی آزادی کا مختصر ذکر مناسب سمجھتے ہیں جس وقت مسلمانوں کو جہاد کا حکم ہوا تھا۔ اس لئے کہ واقعات کو ملحوظ رکھ کر رائے لگانا ہی انصاف ہے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (فداہ روحی) نے جب تک دعویٰ نبوت نہ کیا تھا تمام ملک آپ کی نسبت حسن ظن رکھتا تھا۔ اور آپ کو نہایت ہی راستباز جانتے تھے اس پر کل مورخین (مسلم کافر) متفق ہیں کہ آپ کی نسبت پہلے دعوٰے نبوت کے کسی کو بھی کوئی اعتراض نہ تھا بلکہ بعد دعوٰے نبوت کے بھی آپ کے معاملات کی صفائی کے قائل تھے۔ اور آپ کو امین جان کر اپنی امانتیں آپ کے پاس رکھا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ جس روز آپ انہیں کفار کے ستائے ہوئے اپنا وطن مالوف چھوڑ کر مدینہ منورہ میں مسافرانہ تشریف لے گئے اس روز بھی آپ کے پاس مانتیں رکھی تھیں۔ جن کے ادا کرنے کو آپ اپنے چچا زاد بھائی علی (رض) کو وکیل کر گئے انہوں نے تین روز میں سب امانتیں ادا کردیں۔ باوجود اس صفائی حال اور صدق مقال کے آپ کو اور آپ کے اتباع کو جس قدر تکالیف شدیدہ مخالفین نے پہنچائیں کتب تاریخ ان سے پر ہیں کسی کو انکار مجال نہیں۔ امام مسلم نے ابوذر غفاری (رضی اللہ عنہ) کے مشتے نمونہ خروار حالات اپنی کتاب میں لکھے ہیں۔ ابوذر صحابی (رض) کہتے ہیں :۔
جملہ مخالفین کی غلطی :
” جب میں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کی خبر سنی تو میں نے اپنے بھائی انیس کو جو بڑا شاعر تھا دریافت حال کے لئے بھیجا۔ اس نے آکر بتایا کہ لوگ اس کو شاعر کہتے ہیں مگر میں نے اس کا کلام شعرا کے کلام سے مقابلہ کیا اور شعرا کے سامنے پیش کیا لیکن چہ نسبت خاک را باعالم پاک۔ ابوذر کہتے ہیں میں نے اس تحقیق کو ناکافی جان کر مکہ کا قصد کیا۔ میں نے سن رکھا تھا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام لینے سے لوگ بگڑتے ہیں اور آپ کا نام بےدین (صابی) رکھا ہوا ہے میں نے مکہ میں آکر ایک شخص کو نہایت کمزور غریب طبع کم حیثیت سمجھ کر اس سے پوچھا کہ جس کو لوگ بےدین کہتے ہیں وہ کہاں ہے اس نے فوراً سب کو جمع کرلیا۔ ان لوگوں نے میری ایسی گت بنائی کہ میرا تمام جسم خون آلود سرخ ہوگیا۔ پھر میں نے کسی کے پاس آپ کا یہ نام بھی ظاہر نہ کیا۔ یہاں تک کہ قریباً میں پندرہ روز کعبہ شریف کی مسجد میں پڑا رہا اور ڈرتا ہوا کسی سے اتنا بھی نہ پوچھتا کہ یہ بےدین کہاں رہتا ہے۔ ایک روز آپ کا چچا زاد بھائی حضرت علی (رض) نے (جو اس وقت کم سن لڑکے تھے) مسافر جان کر یہ کہا کہ ابھی مسافر کو اپنی منزل معلوم نہیں ہوئی کہ یہاں سے جائے مگر نہ تو میں ان سے ڈرتا ہوا کچھ کہہ سکتا تھا اور نہ انہوں نے ازخود مجھے کچھ کہا۔ یہاں تک کہ تین روز پے در پے ایسا ہوا۔ اخیر کو انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ تم یہاں اتنی مدت سے کیوں ٹھیرے ہو میں نے کہا اگر بتلانے کا وعدہ کرو تو کہتا ہوں ان سے پختہ وعدہ لے کر میں نے حضور اقدس کا ٹھکانہ پوچھا۔ انہوں نے کہا میرے ساتھ آئو۔ لیکن چونکہ میں حضور کے خدام سے مشہور ہوں میرے ساتھ چلنے سے لوگ تمہیں تکلیف دیں گے۔ اس لئے میں جب کسی موذی کو دیکھوں گا تو پیشاب کے بہانہ ٹھیر جائوں گا۔ تو آگے چلا جائیو۔ چنانچہ اللہ اللہ کر کے دونوں اسی طرح درد حالت تک پہونچے۔ حضور اقدس نے مجھے تلقین اسلام کر کے فرمایا کہ تو اپنی قوم میں چلا جا۔ میں نے عرض کیا کہ ایک دفعہ تو ضرور ان میں باآواز بلند حقانیت ظاہر کروں گا۔ چنانچہ میں نے آکر کعبہ شریف میں بلند آواز سے کلمہ پڑھا تو سنتے ہی سب نے مجھ پر ہجوم کیا اور خوب ہی خبر لی اتنے میں آپ کے چچا عباس ( جو ابھی تک مشرف باسلام نہ ہوئے تھے) آئے اور انہوں نے مجھے چھوڑایا۔ اس وجہ سے نہیں کہ انہوں نے میرے اسلام کی حمایت کی بلکہ یہ کہا کہ تم (مشرکین عرب) شام کے ملک کو تجارت کے لئے جاتے ہوئے اس کی قوم سے ہو کر جاتے ہو۔ اگر اس کو ایسا تنگ اور بے عزت کرو گے تو نفصان تجارت کا اندیشہ ہے آخر کار میں وہاں سے اپنے وطن کو چلا گیا۔
بلالؔ اور صہیبؔ کو ان کے مالک ہر روز دھوپ میں کھڑا کر کے سخت بے رحمانہ مارتے۔ ابوبکرؔ جیسے معزز رئیس اور عمرؔ جیسے بہادر شجاع پر ہر روز بلا جرم حرم کعبہ میں (جہاد کوئی باپ کے قاتل کو بھی کچھ نہ کہتا تھا) حملے ہوتے۔ تنگی معاش کا یہ حال تھا کہ سب قریش نے اتفاق کرلیا تھا کہ مسلمانوں اور ان کے حمائتی ابوطالب بلکہ کل آپ کے خاندان بنی ہاشم سے خرید و فروخت ناطہ و نکاح وغیرہ بند کردیئے اور اس پر ایک مجمع عام میں بعد منظوری دستخط ہوئے جس پر تین سال تک عمل درآمد ہوتا رہا۔ حضور اقدس معہ چند مسلمانوں اور ابوطالب کے ایک پہاڑی میں بستے رہے کوئی قریش ان لوگوں سے لین دین تو کجا گفتگو تک بھی نہ کرتا تھا آپ راستہ میں چلے جائیں تو کنکر پتھر کے علاوہ پائخانہ آپ کے بدن مبارک (فداہ ابی و امی) پر ڈالا جاتا۔ آخر نوبت باں رسید کہ آپ نے اپنا وطن مالوف چھوڑ کر طائف کی راہ لی وہاں بھی جو سلوک خدام والا سے ہوا اس کے بیان سے قلم عاجز ہے۔ انیٹیں پتھر برسائے گئے۔ چھوٹے چھوٹے بچوں کو پیچھے لگا کر تالیاں پٹوا کر شہر سے باہر نکالے گئے۔ پھر وہاں سے لوٹتے ہوئے مکہ شریف کو آئے۔ جہاں آپ کے جدی مکانات تھے اور جہاں کے آپ خاندانی رئیس تھے۔ اسی شہر میں آپ کو (فداہ روحی) قدم رکھنے کی اجازت نہیں۔ اللہ اکبر آخر ایک معمولی آدمی کی پناہ لے کر اندر آئے (عربوں میں دستور تھا کہ جب کوئی کسی کی پناہ سے شہر میں آتا تو اس کو کچھ نہ کہتے۔) تو آکر بھی کون سی عافیت تھیں ادھر مسلمانوں کا یہ حال کہ کفار لوگوں سے تنگ آکر گھر بار بیوی بچے چھوڑ کر حبشہ کو چلے گئے تھے۔ آخر یہ ہوا کہ خود ولت بھی مکہ شریف کو جو آپ کا وطن مالوف تھا چھوڑ کر سب ! سے چھپ کر چلے گئے مگر آپ لوگ اس پر بھی راضی نہ ہوئے مدینہ تک بھی پیچھا کیا۔ سو سو اونٹ پکڑنے والے کے لئے مقرر کئے۔ چنانچہ ایک بڑا بہادر ڈاکو مدینہ کی راہ میں جا ہی ملا۔ لیکن ؎
ہوگا کیا دشمن اگر سارا جہاں ہوجائے گا
جبکہ وہ با مہر ہم پر مہرباں ہوجائے گا
تھوڑی ہی دور تھا کہ اس کا گھوڑا بحکم الٰہی زمین میں دھس گیا۔ یہاں تک مجبور ہوا کہ اس نے خود ہی درخواست کی کہ آپ میرے لئے دعا کر کے مجھے چھڑائیں میں آپ تک کسی کو آنے نہ دوں گا اور وہ اپنے تجربہ سے یہ بھی جان گیا کہ آپ کی ضرور ترقی ہوگی چنانچہ اس نے ایک امان بھی اسی وقت ایک چمڑے کے ٹکڑے پر لکھوالی اور اپنے وعدہ کے موافق لوٹتے ہوئے جو تلاش کنندہ اس کو ملا اس نے پتہ نہیں بتلایا۔ پھر اس پر بھی بس نہیں کی بلکہ مدینہ پر بھی فوج لائے اور منہ کی کھا کر گئے۔ آخر کار جنگ اخزاب میں تو تمام ملک کو جن میں مشرکین عرب اور ہمارے جنٹلمین اہل کتاب (باوجود معاہدہ امن اور عہد صلح کے) بھی شریک تھے۔ آکر تمام مدینہ کو گھیر لیا اور قریباً ١٨۔ ١٩ روز تک گھیرے رہے تمام شہر میں دہلی کے غدر سے کئی حصے زائد بربادی اور گھبراہٹ رہی۔ آخر کار خائب خاسر ہو کر واپس ہوئے۔ دیکھو اور غور سے پڑھو وَاَرْسَلْنَا عَلَیْھِمْ رِیْحًا وَّجُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْھَا۔ اس برتے پر بھی اعتراض ہیں کہ پیغمبر اسلام نے جہاد کئے اور جہاد کی تعلیم دی ؎
اللہ رے ایسے حسن یہ یہ بے نیازیاں
بندہ نواز ! آپ کسی کے اللہ نہیں
اب سوال یہ ہے کہ یہ اور اس کے سوا اور تکالیف جن کے لکھنے سے قلم کو رعشہ ہوتا ہے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے اللہ کو کیوں پہنچائی گئیں۔ اسلام کے مخالفو ! ہمارے علاتی بھائی عیسائیو !
(حدیث شریف میں آیا ہے کہ انبیاء سب کے سب علاتی بھائی ہیں یعنی توحید میں جو اصل الاصول ہے سب شریک ہیں اس لحاظ سے عیسائیوں کو علاتی بھائی لکھا گیا گو انہوں نے توحید چھوڑ دی ہے مگر نام لیوا اتباع انبیاء تو ہیں۔)
ہمارے مہربان پڑوسی ہندوئو ! ذرا انصاف سے اس سوال کو سوچو اور اللہ سے ڈر کر اس کا جواب صاف اور صحیح لفظوں میں دو۔ مگر آپ لوگ تو اپنے بھائیوں کے لحاظ سے حق کے لئے کہیں گے ہم ہی اس کی صحیح وجہ بتلاتے ہیں وہ یہی تھی کہ
مکش بہ تیغ ستم والہان ملت را
نہ کردہ اند بجز پاس حق گناہ دگر
سب جھوٹے خدائوں کو چھوڑ کر ایک ہی مولا کریم سے لو لگائی تھی ذرا غور سے پڑھو اور خوب سمجھو یُخْرِجُوْنَ ! الرَّسُوْلَ وَاِیّٓاکُمْ اَنْ تُؤْمِنُوْا باللّٰہِ رَبِّکُمْ (سورہ ممتحنہ) کیا آپ یا آپ کا کوئی اور بھائی ثابت کرسکتا ہے کہ ان مظلوموں کا بجز اس کے کوئی اور گناہ بھی تھا۔ کیا حضور مقدس ( فداہ روحی) یا آپ کے خدام نے مکہ میں کسی پر ظلم کئے تھے۔ کیا کسی کا مال کھایا تھا یا جاگیر دبائی تھی؟ یا کسی کے باپ یا بیٹے کا قتل کیا تھا یا کم سے کم کسی مشرک کا پانی چھو دیا تھا؟ کچھ نہیں کہا اور ہرگز نہیں کیا۔ پھر کیا ان (مشرکین اور اہل کتاب) کا حق تھا؟ ان کو بھی بوجہ تبدیل مذہب ایسے تنگ کریں کہ جس کا ذکر شتے نمونہ از خرداء سن چکے ہو جس کا ادنے اثر ہو کہ وہ بیچاری مظلوم بجان آکر اپناوطن مالوف اور بیوی بچے بھی چھوڑ کر غیر وطن میں جابسے۔ اگر ان کا یہ حق تھا تو ہر ایک کا جو اپنے کو سچے مذہب کا پیرو سمجھے یہ حق ہونا چاہیے۔ پس صحابہ کا یہی حق تھا کہ ان ظالموں سے علاوہ بدلہ لینے کے اس حق کے لحاظ سے بھی بخوبی پیش آویں مگر واقعہ یہ ہے کہ انہوں نے ایسا نہ کیا۔ اگر ان مشرکوں کا حق نہ تھا تو جو کچھ انہوں نے کیا اسے انصافاً بے جا تو کہو اور اپنے بھائیوں کی بے جا حمائت تو چھوڑ دو۔ پھر بتلائیے کہ ایسے ظلم پر ظلم کی کہاں تک برداشت ہوسکتی ہے اور کہاں تک طبیعت انسانی متحمل ہے اور ساتھ ہی اس کے مذہبی رکاوٹ کے اٹھانے کا جوش بھی اندازہ کر کے بتلائوں۔ سنو ! اس جنگ جہاد کی وجہ قرآن کریم نے خود ہی بتلائی ہے اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَ بِاَنَّھُمْ ظُلِمُوْا وَاِنَّ اللّٰہَ عَلٰی نَصْرِھِمْ لَقَدِیْرٌ اَلَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِھِمْ بِغَرِرس حَقٍّ اِلَّآ اَنْ یَّقُوْلُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ الایۃ اس آیت کو ذرا آنکھیں کھول کر پڑھو اور دل لگا کر سمجھو کہ اس جہاد کے بانی مبانی آپ ہی کے بھائی صاحبان تھے یا کوئی اور۔ میں سچ کہتا ہوں اگر مسلمانوں کو آزادی اور امن ہوتا اور کفار نانہجار کی طرف سے وہ سلوک جو پیش آئے نہ آئے ہوتے تو ان کو جہاد کی بھی ضرورت نہ ہوتی اور نہ وہ اس طرف خیال کرتے بلکہ اپنی صفائی حال اور صدق مقال سے ایسی ترقی کرتے اور آسائش میں رہتے جو اس جنگ و جہاد سے ان کو میسر نہ ہوئی تھی۔ اس آیت میں بھی جس کا حاشیہ ہم لکھ رہے ہیں جہاد کی طرف اشارہ فرمایا ہے اور باوجود اس کے کہ اب ایک موقع بدلہ لینے کا ہے اور بدلہ بھی ایسے لوگوں سے جن کے ظلم و ستم کی کوئی حد ہی نہ رہی ہو۔ پھر بھی زیادتی کرنے سے روک دیا نہ صرف روک دیا بلکہ اس پر وعید شدید فرمایا کہ زیادتی کرنے والے اللہ کو کسی طرح بھی نہیں بھاتے۔ پھر اسی آیت میں بانیان جہاد پر الزام لگایا ہے کہ فتنہ وفساد کرنا جو تم کر رہے ہو جس سے طرح طرح کی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ قتل سے بھی برا ہے اس وقت لکھتے ہوئے مجھے اس کی وجہ کہ یہاں پر والْفِتْنَۃُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ جناب باری نے کیوں فرمایا سمجھ میں آئی ہے کہ اس میں حال کے عیسائیوں اور آریوں وغیرہ کو الزام دیا جاتا ہے کہ تم اسلام پر تو منہ پھاڑ پھاڑ کر اعتراض کرتے ہو کہ اس نے جہاد کی تعلیم کی ہے مگر یہ نہیں دیکھتے کہ تمہارے بھائیوں نے کیا کچھ نہیں کیا۔ سب فتنوں کی جڑ تو وہی ہیں جو فتنہ پروازی کرتے ہیں ایک اور آیت میں بھی اس امر کی طرف کہ مسلمان بمجبوری لڑتے ہیں اشارہ ہے قاتِلُوا الْمُشْرِکِیْنَ کَافَّۃً کَمَا یُقَاتِلُوْنَکُمْ کَآفَّۃً مگر افسوس کہ مخالفین اسلام بجائے اس کے کہ اس آیت پر غور کر کے نادم اور خجل ہوتے۔ الٹے الجھتے ہیں کہ صاحب یہاں پر قرآن نے فیصلہ ہی کردیا کہ سب کافروں کو مار ڈالو۔ مگر وہ اس کو نہیں دیکھتے کہ کَمَا یُقَاتِلُوْنَکُمْ کَآفَّۃً کے بھی تو کچھ معنی ہیں۔ بھلا اگر اسلام اور قرآن کا یہی منشا ہوتا کہ کوئی کافر بھی دنیا میں زندہ نہ رہے تو ذمی کافروں کو رکھنے کا حکم اور ان کی حفاظت مثل مسلمانوں کے ہونے کا ارشاد کیوں ہوتا ہے۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کو دفع فساد منظور ہے نہ کہ کشت و خون چنانچہ ایک جگہ صریح ارشاد ہے وَلَوْلَ ! دَفْعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعْضَھُمْ بِبَعْضٍ لَّھُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِیَعٌ وَصَلٰوۃٌ وَّمَسَاجِدُ یُذْکَرُ فِیْھَا اسْمُ اللّٰہِ کَثِیْرًا (الحج) جس جس آیت میں قتل قتال کا ذکر ہے سب میں نہیں تو اکثر میں ضرور ہی ہوگا کہ اس جہاد سے مقصود دفع مظالم ہیں۔ سنو ! وَمَا لَکُمْ لاَ تُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَالْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَ الْوِلْدَانِ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا مِنْ ھٰذِہِ الْقَرْیَۃِ الظَّالِمِ اَھْلُھَا اس آیت نے اور بھی واضح کردیا کہ جہاد سے مقصود اصلی دفع مظالم اور آزادی کا کھولنا ہے ورنہ اسلام کی اصلی غرض تو منادی اور اعلائے کلمۃ الحق ہے اگر کوئی اس میں خلل انداز نہ ہو اور بلاوجہ مزاحمت نہ کرے تو اسلام نے بھی اس سے تعرض کی اجازت نہیں دی۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے زمانہ کے مخالفین عیسائی اور ہندو (آریہ) اعتراض کرتے ہوئے اپنے گریبان میں منہ نہیں ڈالتے کہ جس جہاد پر ہم منہ پھاڑ پھاڑ کر اعتراض کر رہے ہیں وہ ہمارے ہی بھائیوں کی مہربانی کا ثمرہ ہے افسوس ہے کہ ہم نے کسی مخالف سے زبانی نہ تحریری یہ سنا کہ بیشک جو کچھ مشرکین عرب اور اس زمانہ کے جنٹلمین اہل کتاب نے حضور مقدس (فداہ روحی) اور آپ کے اللہ سے سلوک کئے واقعی حد سے متجاوز تھے۔ حیرانی ہے کہ ان مظلوم صحابہ کی نسبت عام اخلاق انسانی بھی بھول گئے کسی گلیڈ اسٹونی کو بھی اس پر آرمینیا کی نسبت سے عشر عشیر بھی رنج نہ ہوا سچ ہے الکفر ملّۃ واحدۃ۔ جانب واری ایسی ہی بلا ہے کہ آنکھوں پر پٹی بندھوا دیتی ہے سب سے زیادہ تعجب تو عیسائیوں کے حال پر ہے کہ اسلام پر تو منہ پھاڑ پھاڑ کر معترض ہیں حالانکہ ان کی کتب عہد عتیق ایسے ہی جہادوں سے پر ہیں۔ اسے تو جانے دیجئے۔ حال ہی میں جو کچھ یورپ کے عیسائیوں نے کیا ہے وہی دیکھئے کہ چین میں چند مشزیوں کو جو خواہ مخواہ لوگوں کے گھروں میں حسب دستور خویش ہندوستان پنجاب ہی سمجھ کر گھستے ہوں گے کسی قدر تکلیف پہنچنے پر تمام یورپ برانگیختہ ہوگیا۔ ملکہ معظمہ بھی اپنی تقریر افتتاح پارلیمنٹ ١٥۔ اگست ١٨٩٥ء میں اس طرف توجہ دلالتی ہیں لارڈ سالسبری وزیر اعظم انگلستان بھی گورنمنٹ چین کو لکھ رہے ہیں کہ اس کا کامل انتظام نہ ہوا تو انگلستان مزید کارروائی کرنے پر مجبور ہوگا۔ آرمینیا کا جھگڑا جو بات سے بتنگڑ بنیا گیا تھا قابل دید ہے کہ ان روشن ضمیر عیسائیوں اور تقدس مآب مشزیوں نے کہاں تک قوم کی حمائت جی کھول کر نہیں کی اور کس قدر ان کے امن اور عافیت کے اسباب مہیا کرنے میں کوششیں نہیں کیں اور کہاں تک ممکنات سے گذر کر محالات تک نہیں پہنچے۔ جو ناظرین اخبارات ١٨٩٥ء سے پوشیدہ نہ ہوں گے۔ انہوں نے تو سب کچھ کیا اور امن عامہ اور ہمدردی قومی کے نام لینے سے نہ صرف بری ہوئے بلکہ قابل قدر بھی جانے گئے مگر اسلام نے قاتِلُوْا ! فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَکُمْ وَلَا تَعْتَدُوْا اِنَّ اللّٰہَ لَایُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ اگر کہہ دیا تو چاروں طرف سے گونج آرہی ہے کہ یہ کیا وہ کیا۔ ظلم کیا۔ ستم کیا۔ کوئی نہیں پوچھتا۔ کیوں صاحب چین کے مشزیوں اور آرمینیا کے مفسدوں کو جس قدر تکلیف ہوئی مکہ کے معزز رؤسا ابوبکر عمر اور دیگر صحابہ اور خود سید الانبیاء (فداہ ابی و امی) کو کیا کم ہوئی تھی؟ ان روشن ضمیر عیسائیوں کو تقدس مآب پادریوں نے یہاں تک بھی سمجھا رکھا ہے کہ مسلمانوں کے مذہب میں فرض ہے کہ ساری عمر میں ایک آدھ عیسائیوں کو ضرور ہی ماریں۔ مسٹرویب نو مسلم امریکن لکھتے ہیں۔ کہ مجھے ایک عیسائی نے پوچھا کہ کیا سچ ہے مسلمانوں کو جنت میں جگہ نہ ملے گی جب تک وہ ایک آدھ عیسائی کا خون نہ کریں افسوس ہے کہ اس روشنی کے زمانہ میں بھی روشنی کے لحاظ سے یورپ اندھیر نگری ہے۔ ہندوستان میں مشزی لوگ ایسے خیال ظاہر کرنے سے اس لئے رکتے ہیں کہ ان کو ڈر ہے کہ یہاں بھانڈا پھوٹ جائے گا اور علماء اسلام ہماری جہالت کی قلعی کھول دیں گے۔ خلاصہ یہ کہ اسلامی جہاد جس قدر ہے صرف امن عامہ اور آزادی کے قائم کرنے اور وسعت سلطنت کے لئے ہے نہ کہ کافروں کو کفر کی سزا دینے یا جبراً مسلمان بنانے کو ان دونوں اوہام کو ذمیوں کے حقوق اور حفاظت پورے طور سے دفع کر رہے ہیں۔ فاعتبروا یا اولی الالباب۔
ابؔ ہم مخالفین اسلام (عیسائیوں اور آریوں) کی کتابوں سے بتلانا چاہتے ہیں کہ ان میں کس قسم کا جہاد بھرا ہے اور وہ کس قسم کے جہاں کی تعلیم دیتے ہیں عیسائیوں کی مقدس کتاب تورٰیت میں لکھا ہے :۔
” پھر اللہ تعالیٰ نے موسیٰ کو خطاب کر کے فرمایا کہ اہل مدیان سے بنی اسرائیل کا انتقام لیں۔ تب موسیٰ نے لوگوں کو فرمایا کہ بعضے تم میں سے لڑائی کے لئے تیار ہوویں اور مدیانیوں کا سامنا کرنے جاویں۔ انہوں نے مدیانیوں سے لڑائی کی۔ جیسا اللہ تعالیٰ نے موسیٰ کو فرمایا تھا۔ اور سارے مردوں کو قتل کیا اور بنی اسرائیل نے مدیان کی عورتوں اور ان کے بچوں کو اسیر کیا اور ان کے مویشی اور بھیڑ بکری اور مال و اسباب سب کچھ لوٹ لیا۔ اور ان کے سارے شہروں کو جن میں وہ رہتے تھے اور ان کے سب قلعوں کو پھونک دیا اور انہوں نے ساری غنیمت اور سارے اسیر انسان اور حیوان کے لئے تم ان کے بچوں کو جتنے لڑکے ہیں سب کو قتل کرو اور ہر ایک عورت کو جو مرد کی صحبت سے واقف ہیں جان سے مارو لیکن وہ لڑکیاں جو مرد کی صحبت سے واقفت نہیں ہوئیں۔ ان کو اپنے لئے زندہ رکھو (گنتی ٣١ باب) اور جب کہ خداوند تیرا اللہ انہیں تیرے حوالے کر دے۔ تو تو انہیں ماریو اور حرم کیجئیو۔ نہ تو ان سے کوئی عہد کریو نہ ان پر رحم کریو نہ ان سے بیاہ کرنا۔ تم ان سے یہ سلوک کرو تم ان کے مذبحوں (ذبح کی جگہ) کو ڈہا دو ان کے بتوں کو توڑو۔ ان کے گھنے باغوں کو کاٹ ڈالو اور ان کی تراشی ہوئی مورتیں اگر ہیں جلا دو کیونکہ تو خداوند اپنے اللہ کے لئے پاک قوم ہے۔ خداوند تیرے اللہ نے تجھے چن لیا۔ کہ تم سب گروہوں کی بہ نسبت جو زمین پر ہیں اس کی خاص گروہ“ (استثنا ٧ باب)
انؔ حوالجات سے مسئلہ صاف ہے۔ عیاں زاچہ بیاں۔ مگر ناظرین اس کی پوری تفصیل ہمارے رسالہ تقابل ثلاثہ میں دیکھ سکتے ہیں اب سنئے ہمارے لالہ صاحبان کی کتھا۔ وہ کیا کہتے ہیں۔ وید جس کو مخزن علوم و فنون کہا جاتا ہے جس کو بہت کچھ مجلّٰی کر کے نادانوں کے ہاتھ سونے کے بھائو بیچنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اسی وید میں بھی جہاد کی اعلیٰ درجہ کی تعلیم ہے پس سنئے !
” اے دشمنوں کے مارنے والے اصول جنگ میں ماہر بے خوف و ہراس پر جاہ وجلال عزیزوا اور جوان مردو ! تم سب رعایا کے لوگوں کو خوش رکھو پر میشور کے حکم پر چلو اور بدفرجام دشمن کو شکست دینے کے لئے لڑائی کا سرانجام کرو۔ تم نے پہلے میدانوں میں دشمنوں کی فوج کو جیتا ہے تم نے حواس کو مغلوب اور روئے زمین کو فتح کیا ہے۔ (کب؟ شائد سلطان محمود کے زمانے میں) تم روئیں تن اور فولاد بازو ہو اپنے زور سجاعت سے دشمنوں کو تہ تیغ کرو تاکہ تمہارے زور بازو اور ایشور کے لطف و کرم سے ہماری ہمیشہ فتح ہو“ (تھرووید کانڈ ١٦ نوواک اور گ ٩٧ منتر ٣)
گو نمونہ تو اسی ایک ہی منتر سے معلوم ہوسکتا ہے کہ ویدہاں وید مقدس میں جہاد کے متعلق (انہیں نہیں بلکہ تمام دنیا پر سلطنت کا سکہ جمانے کے لیے) یہ حکم ہے۔ جس نے مفصل بحث دیکھنی ہو وہ ہمارے رسالہ حق ! پر کاش۔ ترک اسلام اور جہاد وید وغیرہ میں ملاحظہ کریں۔ فاعتبروا الخ۔ “
کیونکہ ان کا ظلم وستم حد کو پہنچ چکا ہے جس کا دفعیہ اللہ کو منظور ہے پس جس قدر تمہیں تنگ کریں اسی قدر تم بھی کرو اور ظلم زیادتی نہ کرنا۔ اسی لئے کہ ظلم زیادتی کرنے والے اللہ کو نہیں بھاتے۔ البتہ ایسے ظالموں سے جو ناحق ظلم ہی پر کمر بستہ ہوں بدلہ لینا اور ان کی پوری گت بنانا کوئی زیادتی میں داخل نہیں بے شک بدلہ لو اور جہاں ان کو پاؤ قتل کرو اور جہاں سے وہ تمہیں نکال چکے ہیں تم ان کو نکال دو۔ اس لئے کہ باہمی فتنہ فساد جو وہ کررہے ہیں قتل سے بھی بدتر ہے۔ باوجود ان کی شرارت اور خباثت کے ہم ان کو مہلت اور سہولت دیتے ہیں کہ اگر وہ کعبہ شریف میں پناہ گیر ہوں تو نہ انہیں ستاؤ اور عزت والی مسجد یعنی کعبہ کے پاس ان سے نہ لڑو جب تک وہ خود تم سے اس میں نہ لڑیں پھر اگر وہ اس مسجد میں بھی تم سے لڑیں اور تمہارے دینی امرور میں خلل انداز ہوں تو تم بھی ان سے خوب لڑو پھر ان کی کسی بات کا لحاظ نہ کرو اسی طرح کی سزا ہے ظالموں کی جو ظلم وستم پر کمربستہ ہوں باوجود اس کے پھر بھی اگر وہ باز آویں اور اپنی پہلی خباثتیں چھوڑدیں تو اللہ بھی ان کو معاف کرے گا کیوں کہ وہ بڑا بخشنہار مہربان ہے اور اگر شرارت ہی پر کمربستہ رہیں تو ان سے خوب لڑو یہاں تک کہ ان کا فتنہ فساد معدوم ہوجائے۔ اور بالکل امن صورت ہو کر دین یعنی قانون اللہ کا جاری ہوجائے پھر بھی اگر اپنی شرارت سے باز آویں اور فتنہ فساد نہ کریں اور امن عامہ میں خلل انداز نہ ہوں تو ان پر کسی طرح کی دست اندازی جائز نہیں مگر ان لوگوں پر جو عہد شکنی کی وجہ سے ظالم ہیں بے شک ہاتھ بڑھاؤ یہاں تک کہ اگر وہ مہینے حرام میں بھی تم سے لڑیں اور عہد شکنی کریں تو تم بھی اسی مہینہ میں لڑو اس لئے کہ عزت کا مہینہ عزت والے مہینے کے مقابل ہے۔ جب وہ تمہارے مہینے کی عزت نہیں کرتے تو تم بھی ان کے مہینے کی عزت نہ کرو اور ہتک حرمت کا یہی بدلہ ہے جبکہ وہ تمہاری عزت کی پرواہ نہیں کرتے تو تم بھی ان کی مت کرو۔ بیشک موقع مناسب میں ان سے بدلہ لو۔ پھر بھی اس امر کا لحاظ رکھو کہ جو کوئی تم پر زیادتی کرے اس سے اس کی زیادتی جتنا بدلہ لو اور اس سے زیادہ بدلہ لینے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو۔
” شان نزول :۔ مسلمانوں کو جب اپنے دفعیہ کے لئے لڑنے کا حکم ہوا تو ان کے دل میں خیال آیا کہ اگر کفار عرب میہنے حرام میں ہم سے لڑیں گے تو ہم کیا کریں گے اس مہینے میں تو لڑنا جائز نہیں ان کے اس خیال پر یہ آیت نازل ہوئی (موضح القرآن) مہینے حرام کے وہ ہیں جن میں لڑائی کی ابتدا کرنی حرام ہے اور وہ چار ہیں۔ ذوالقعدہ۔ ذوالحجہ۔ محرم اور رجب “
اور اس ڈرنے میں اپنا نقصان نہ سمجھو بلکہ دلی یقین سے جانو کہ اللہ تعالیٰ کی مدد ڈرنے والوں کے ساتھ ہے ہاں ایسے بھی مت ہوجاؤ کہ قتل قتال کے جھگڑوں میں پڑ کر سبھی کچھ چھوڑ دو۔ کیونکہ لڑائی جھگڑا بھی اپنی حد تک ہی اچھا ہے حد سے زیادہ مصروفی کسی کام میں بھی اچھی نہیں۔ جنگ وجدال کی بھی کوئی حد ہے کہ جب کبھی تم کو کفار تنگ کریں اور احکام الٰہی کے تابع نہ ہوں تو اس کا دفعیہ ضروری ہے ہاں ایک کام ایسا ہی ہے جس کی کوئی بہارخزاں نہیں بلکہ سب موسم اس کے لئے بہار ہیں وہ یہ کہ اللہ کو اپنا داتا اور رازق مطلق جانو اور اللہ عالم الغیب کی راہ میں حسب موقع اپنے کمائے ہوئے حلال مال خرچ کرو اور بخل کی وجہ سے اپنی جانوں کو ہلاک نہ کرو
” شان نزول :۔ جب لوگوں کو مسکینوں پر خرچ کرنے کا حکم ہوا تو بعض لوگوں نے کہا کہ اگر ہم مال اپنا اسی طرح پر خرچ کرتے رہے تو ہم خود مسکین ہوجائیں گے ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی۔ “
اور سب لوگوں کے حال پر چاہے کوئی ہو احسان اور مہربانی کیا کرو اس لئے کہ احسان کرنے والے اللہ کو بھاتے ہیں مال خرچ کرنا دو قسم پر جانو ایک تو یہ کہ دوسروں کو دیا جائے جیسے صدقہ وغیرہ۔ دوسری قسم وہ ہے جو خاص اپنی ہی جانوں پر خرچ کرو تو بھی تم کو ثواب ہے جیسے سفر حج میں پس تم پہلی قسم میں خرچ کرو اور حج اور عمرہ کو بھی مال حرچ کر کے جاؤ اور ان کو خالص لِلّٰہِ نیت سے پورا کیا کرو۔ پھر اگر راہ میں کسی وجہ سے گھر جاؤ اور کعبہ تک نہ پہنچ سکو تو جو چیز قربانی کی تم کو میسر ہو راستے ہی میں ذبح کردیا کرو۔ یا بھیج سکو تو بھیج دو اور اپنے سر نہ منڈواؤ اور احرام کی صورت جو پہلے سے تم نے دربار الٰہی کے لائق بنارکھی ہو۔ اسے نہ بدلا کرو جب تک کہ قربانی تمہاری اپنے ٹھکانے پر نہ پہنچ لے یعنی ذبح ہوجائے
” ایک شخص نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا کہ میں اپنا عمرہ کس طرح کروں اس کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی ١٢ ف یعنی عمرہ میں جو احکام ہیں کہ احرام باندھ کر مثل حج کے طواف کرنا سو کرو اور جو امور منع ہیں ان سے بچتے رہو ““
ہاں جو شخص تم میں سے بیمار ہو۔ یا اس کے سر میں بالخصوص کوئی تکلیف ہو جس کے سبب سے وہ احرام کی تکلیف نہیں اٹھا سکتا۔ ایسا شخص اگر احرام توڑ دے تو اس توڑنے کے بدلہ میں تین روزے یا ساڑھے سات سیراناج کا صدقہ یا قربانی اس پر واجب ہے پھر جب تم بے خوف ہوجاؤ تو جو شخص عمرہ کرکے دنیاوی لذائد اور فوائد سے حج تک بہرہ یاب ہو تو وہ اس کے شکریے میں ایک قربانی کرے جیسے اسے میسر ہو اور جس کو قربانی نہ ملے وہ تین روزے حج کے دنوں میں رکھے اور سات جب وطن کو لوٹو یہ دھاکہ پورا اس پر واجب ہے نہ ہر ایک کو یہ حکم ہے بلکہ ان لوگوں کو ہے جن کے گھر والے مسجد حرام یعنی مکہ میں نہ رہتے ہوں بلکہ آفاقی ہوں اور اللہ سے ڈرتے رہو بتلائے سے کمی زیادتی نہ کرو اور یہ جان لو کہ احکام شرعیہ میں کمی زیادتی کرنے والوں کے لئے اللہ تعالیٰ کا عذاب بہت سخت ہے ایسانہ ہو کہ حج کی فضیلت سن کر دیگر صدقات کی طرح ہر وقت ہی اس کے ادا کرنے میں لگو نہیں بلکہ اس حج کے لئے چند مہینے یعنی شوال ذوالقعدہ اور اول ہفتہ ذوالحج مقرر ہیں تمام عمر بھر کا فرض ان میں ادا ہوجاتا ہے ہر سال آنا جانا کچھ ضروری نہیں ہاں یہ ضروری ہے کہ جو کوئی ان مہینوں میں حج کو اپنے ذمہ لے وہ چند امور ممنوعہ سے ضرورہی بچتارہے بیوی سے جماع نہ کرے۔ فسق فجور نہ کرے اور نہ حج کے دنوں میں کسی سے جھگڑا کرے۔ گر چہ حق پر ہو۔ کیونکہ دربار شاہی میں اس قسم کی باتیں بے ادبی میں داخل ہیں اس کے سوا اور بھی جو کچھ بھلائی کروگے اس کا بدلہ پاؤ گے کیونکہ اللہ اس کو جانتا ہے اور ایسے زاہد اور متوکل بھی نہ بنو۔ کہ حج کو جاتے ہوئے کھانا کپڑا ہی چھوڑ جاؤ جس سے آخر کار مجبوری مانگنے تک نوبت آئے اس لئے سفر حج میں بلکہ ہر سفر میں سفر خرچ ساتھ لیا کرو
” شان نزول :۔ بعض لوگ بلا خرچ حج کو چلے آتے اور اپنا نام متوکل کہلاتے مگر مکہ شریف میں آکر مانگتے ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی “
کیونکہ خرچ کا بڑا فائدہ سوال سے بچنا ہے جو سفر خرچ نہ ہونے کی حالت میں تم کرتے ہو پس ایسے بے جا سوال اور ناحق کے بخل کرنے میں اے عقل والو ! مجھ سے ڈرتے رہو ہاں اس میں تمہیں کوئی گناہ نہیں کہ تم اپنے رب کریم سے تجارت کے ذریعہ فضل یعنی نفع چاہو بے شک حج کے موسم میں اسباب فروختنی لے جاؤ اور کماؤ اس میں تم پر گناہ نہیں۔ گناہ اس میں ہے کہ دنیا کمانے میں اللہ کو بھول جاؤ سو ایسا مت کرنا بلکہ اس کی یاد سب دنیاومافیہا سے افضل جانا کرو۔ پھر جب تم عرفات سے واپس آؤ تو مشعرالحرام پہاڑی کے پاس اللہ کو خوب یاد کرو نہ اپنے بناوٹی طریق سے بلکہ اس کو اسی طرح یاد کرو جیسا اس نے تم کو بتلایا اس لئے کہ ابھی تم اس سے پہلے گمراہ تھے۔ پھر تمہاری رائے کا کیا ٹھیک ہے۔ تم تو کہیں اپنے خاول میں ایسے کلمات بولو جو شریعت میں پسند نہ ہوں۔ ! پھر لوٹو تم اے قریشیو ! جہاں سے اور عرب لوگ لوٹتے ہیں یعنی عرفہ سے اور اپنے بے جا ہٹ کو چھوڑ دو اور اپنے پہلے فعلوں پر اللہ سے بخشش مانگا کرو۔ وہ بخشے گا کیونکہ اللہ بڑاہی بخشنے والا مہربان ہے۔
” قریش کے لوگ اور ان کے اتباع مزدلفہ میں جو عرفات سے ورے ایک میدان ہے ایام حج میں ٹھیر کر واپس مکہ ہوتے تھے اور دوسرے لوگ عرفات سے واپس ہوتے تھے اور حکم الہٰی دوسروں کے مطابق تھا اس لئے قریش کے لیے بطور فہمائش یہ آیت نازل ہوئی ١٢ (صحیح بخاری) “
چونکہ حج میں مقصود صرف ذکرالٰہی ہے اس لئے اس کی ابتدا انتہا میں کوئی فرق نہیں۔ پس مناسب بلکہ واجب ہے کہ جیسے ابتدا میں اللہ کو یاد کرتے رہے ہو اسی طرح جب تم حج کے کام پورے کرچکو تو اللہ کو ایسا یاد کرو جیسا کہ اپنے باپ دادا کو بعد حج کے بطور فخریہ یاد کرتے ہو۔ بلکہ اس سے بھی زائد۔ کیونکہ باپ دادا کا مذاکرہ تو تمہاری باہمی مفاخرت اور ایک نکمی بڑائی کے لئے ہے اور اللہ کے ذکر سے تو تمہاری عاقبت بخیر ہوجائیگی ہماری تعلیم تو ایسی صاف ہے مگر پھر بھی بعض لوگ ایسے کوتاہ اندیش ہیں کہ دعا کرتے ہوئے یہی کہتے ہیں کہ اے ہمارے مولا ! جو کچھ تو نے ہم کو دینا ہے اسی دنیا میں دے ہم بھی ایسے ویسوں کو جس قدر کچھ دینا ہوگا دیں گے اور آخرت میں ان کو ایسا بے نصیب کریں گے کہ ان کے لئے بھلائی سے کچھ بھی حصہ نہ ہوگا اور ان کے مقابل بعض لوگ وہ ہیں جو اللہ کو سب طاقتوں کا مالک سب کچھ دینے والا جان کر دعا کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اے ہمارے مولا؟ تو دنیا میں بہت ہم کو نعمت اور ہر طرح سے عافیت دے اور قیامت میں بھی نعمت اور آسائش نصیب کر اور سب سے زائد تیری رحمت سے یہ توقع ہے کہ تو ہم کو آگ کے عذاب سے رہائی دیجئیو۔ ان دوراندیشوں اور ان کو تہ بینوں کی مثال بین یہ ہے کہ یہ تو اللہ سے گویا عمدہ سی غذا مع سالن اور حبوب ہاضمہ کے مانکتے ہیں۔ اور وہ کم بخت گویا صرف روکھی روٹی اللہ مالک الملک سے چاہتے ہیں۔ پس تم آپ ہی فیصلہ کرلو کہ ان میں سے بہتر اور دنا کون ہے یقینا ان کی دور اندیشی اور بلند پروازی میں کسی کو کلام نہ ہوگا۔ جب ہی تو ان کی کمائی کا حصہ ان کو ہے اور ان کی دعا بھی قبول ہوگی اور اللہ ان دونوں کا بہت جلد محاسبہ کرنے والا ہے جس سے تمام اجر بجر فریقین کا کھل جائے گا اپنے اپنے برتے کے موافق پھل پاویں گے پس تم بھی اے لوگو ! اگر اللہ کے کامل بندے بننا چاہتے ہو تو اللہ سے اس طرح کے سوال کرو جو دونوں جہانوں میں کار آمد ہوں اور ہر حال میں اللہ کو یاد کرو۔ بالخصوص چند دنوں میں یعنی بعد حج کے گیا رہویں بارہویں تیرھویں پھر بھی جو کوئی دو دن میں ہی جلدی کرے اور بارھویں کو لوٹ آوے تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔ بلکہ ثواب ہے ہاں ہر ایک کو نہیں بلکہ ان کو جو پرہیز گاری کریں اور ہر کام میں اخلاص مند ہوں۔ پس تم اخلاص مند بنو اور اللہ سے ہر وقت ڈرتے رہو۔ اور دل سے جان رکھو کہ تم نے اسی کے پاس جمع ہو کر جانا ہے مناسب تمہارے اعمال کی جزا سزا دے گا۔ اپنی ظاہر داری پرنازاں نہ ہو اس لئے کہ وہ تمہارے حال سے خوب واقف ہے تمہارے دلوں کے بھیدوں کو جانتا ہے۔ ہاں تم آپس میں ایک دوسرے کے حال سے مطلع نہیں ہوسکتے۔ یہی وجہ ہے کہ بسا اوقات تمہارا دشمن دوست بن کر تم کو دھوکا دے جاتا ہے اور تم نہیں جان سکتے اور بعض ! لوگ ایسے بھی ہیں کہ جن کی بناوٹی باتیں باوجود رسول ہونے کے اے رسول تجھ کو بھی دنیا کے معاملات میں بھلی معلوم ہوں اس لئے کہ غیب سے ناواقف ہے اور وہ طلاقت لسانی سے ادھر ادھر کی تجھ کو سناتا ہے اور اپنے مافی الضمیر پر بڑے صادق اور راست بازوں کی طرح اللہ کو گواہ کرتا ہے کہ اللہ قسم میں تمہارا دل سے خیر خواہ ہوں مجھے آپ سے بڑی محبت ہے حالانکہ وہ تمہارا سخت دشمن ہے اس کی دشمنی کا ثبوت اس سے زیادہ کیا ہوگا۔ کہ مسلمانوں کو ہر طرح سے تکلیف پہنچاتا ہے اور جب تیری مجلس سے پھر جاتا ہے تو زمین کی بربادی میں تگ ودو کرتا ہے کہ زمین میں فساد پھیلائے اور کھیتوں کو برباد کرے اور چارپایوں کی نسل کو مارے اگرچہ تو کبھی ایسے مدمعاش سے بوجہ ناواقفی کے خوش ہوگیا ہو یا آئندہ کو ہوجائے مگر اللہ تو ہرگز ان سے خوش نہ ہوگا اس لئے کہ اللہ فساد اور فسادیوں کو پسند نہیں کرتا۔
” شان نزول :۔ بعض لوگ منافقانہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آکر نرم نرم باتیں کرتے اور اپنا اخلاص ظاہر کرتے۔ اور ہر طرح سے قسمیں کھا کر بھی یقین دلاتے کہ ہم خیر خواہ ہیں حالانکہ باہر جا کر ہر طرح سے ایذا رسانی میں کوشش کرتے اور مسلمانوں کی مال و جان کے ضائع کرنے میں بھی دریغ نہ کرتے چنانچہ اخنس بن شریق ایک شخص منافقانہ حضرت کی خدمت میں آیا کرتا تھا۔ ایک دفعہ جب اس کا دائو چلا تو رات کو جاتے ہوئے مسلمانوں کے کھیت جلا گیا اور مویشی قتل کر گیا۔ اس کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی۔ ١٢ جلالین “
یہ تو ایسا مفسد اور متکبر ہے کہ جب کوئی اسے بطور نصیحت کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ڈر اور ایسے بیہودہ کاموں سے توبہ کر تو اپنی اکڑ خانی کی وجہ سے زیادہ گناہ پر اڑجاتا ہے اور کہنے سننے والوں کی تحقیر کرتا ہے بھلا کہاں تک کرے گا۔ ہم نے بھی اس کے لئے جہنم تیار کر رکھی ہے پس وہی جہنم اس کے غرور توڑنے کو کافی ہے اور وہ برا ٹھکانہ ہے جہاں اسے رہنا ہوگا۔ جیسا کہ یہ اعلیٰ درجہ کا متکبر اور مغرور ہے اسی طرح اس کی مقابل بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو اپنی جان بھی اللہ کے خوش کرنے میں دے دیتے ہیں ایسے ہی لوگ مورد الطاف خدا وندی ہیں بھلا کیوں نہ ہوں ایک تو ان کی نیک نیتی اور ساتھ ہی اس کے یہ کہ اللہ اپنے بندوں پر بڑا مہربان ہی ٹھیک ہے کہ اللہ کا بندہ بننا صرف زبانی خرچ سے نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کے سب احکام نہایت تعظیم وتکریم سے نہ نبا ہے جائیں۔ جب ہی تو تم کو حکم ہوتا ہے کہ اے مسلمانو ! سب احکام الٰہی کی فرمانبرداری کیا کرو۔ اور بعض کو کرنے اور بعض کو چھوڑنے میں شیطان کے پیچھے مت چلو اس لئے کہ وہ تمہارا صریح دشمن ہے۔ وہ کبھی تم سے بھلائی نہ کرے گا پس بعد پہنچنے صریح اور روشن احکام کے بھی اگر تم بھولو گے تو جان لو کہ تم اپنا ہی نقصان کروگے۔
” شان نزول بعض لوگ مسلمان ہو کر بھی اپنی رسوم چھوڑنے سے جی چراتے بعض یہودی مشرف باسلام ہو کر اونٹ کے گوشت سے حسب عادت سابقہ پرہیز کرتے تھے ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی “
اور اللہ تو بڑا غالب اور بڑی حکمت والاہے جب کھبی کوئی کام چاہتا ہے تو فوراً کردیتا ہے اور نہائیت حکمت سے کرتا ہے کسی مخلوق کی اطاعت سے اسے فائدہ نہیں کسی کی سرکشی سے اس کا نقصان نہیں۔ مگر یہ دنیا کے بندے کفار مکہ ایسے اللہ کے رسول کی بھی اطاعت نہیں کرتے اور ناحق ادھر اور ادھر کی باتیں بناتے ہیں۔ یہ مشرک لوگ گویا اب اس امر کی انتظاری کرتے ہیں کہ خود اللہ اہی بادلوں کے سایہ میں ان کے پاس چلکر آوے اور ساتھ ہی اس کے فرشتے بھی ہوں اور آخری کام کا فصلہز ہوجائے نیکوں اور بدوں میں تمیز ہو۔ ان کی ایسی بے جا آرزوؤں اور تمسخر کی سزا خوب ہی ملے گا آخر تو سب کام اللہ وحدہ لا شریک ہی کی طرف پھرتے ہیں ایسے لوگ تو پہلے بھی ہوچکے ہیں جو بظاہری نازو نعمت پر مغرور ہو کر اللہ تعالیٰ کے حکموں کو بھولے تھے۔ پھر آخر کار عذاب الٰہی نے ان کو خوب گرفت کی۔ |
البقرة |
190 |
|
البقرة |
191 |
|
البقرة |
192 |
|
البقرة |
193 |
|
البقرة |
194 |
|
البقرة |
195 |
|
البقرة |
196 |
|
البقرة |
197 |
|
البقرة |
198 |
|
البقرة |
199 |
|
البقرة |
200 |
|
البقرة |
201 |
|
البقرة |
202 |
|
البقرة |
203 |
|
البقرة |
204 |
|
البقرة |
205 |
|
البقرة |
206 |
|
البقرة |
207 |
|
البقرة |
208 |
|
البقرة |
209 |
|
البقرة |
210 |
|
البقرة |
211 |
(211۔230)۔ ذرہ پوچھ تو بنی اسرائلس سے کہ کتنے ہم نے ان کو احسان خدا وندی کے نشان دئے۔ مگر انہوں نے بجائے شکر کے یہ سمجھا کہ ہماری لیاقت پر ہم کو ملے ہیں اس کی ناشکری کی سزا میں اللہ تعالیٰ نے ان پر وبال نازل کئے کیوں نہ ہو جبکہ عام قاعدہ ہے کہ جو شخص اللہ کی نعمت کو بعد حاصل ہوجانے کے بدلتا ہے یعنی بجائے شکر کے کفر کرتا ہے تو انجام کار سوائے ہلاکت کے اس کو کچھ بھی نصیب نہیں ہوتا اس لئے کہ ایسے نالائقوں کے لئے اللہ تعالیٰ کا عذاب سخت ہے۔ ہمیشہ سے کوتاہ اندیش ظاہر بینی پر مرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ کافروں کو دنیا کی زندگی کی نمائش اچھی لگتی ہے اور مسلمانوں سے بسبب ان کی تنگدستی کے مسخری کرتے ہیں اس چند روزہ زندگی اور اس کے تھوڑے سے اسباب کے لحاظ سے ان کو حقیر جانتے اور ان کا نام درویش اور ملانے رکھتے ہیں حالانکہ اللہ سے ڈرنے والے اہل ایمان قیامت کے روز ان سے بلند مرتبہ میں ہوں گے باقی رہی دنیاوی زیب وزینت سو یادر کھیں یہ کام اللہ کے ہیں جس کو چاہتا ہے رزق بے حساب دیتا ہے اس میں اس کی مصلحتیں ہوتی ہیں
” شان نزول کفار عموماً غربا مسلمانوں سے مسخری کرتے اور کہتے تھے کہ یہی لوگ جنت کے مالک ہیں؟ ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی “
یہ کوئی لیاقت کی دلیل نہیں بہت سے نالائق جن کو بات کرنے کا بھی شعور نہیں ان کے آگے بہتیرے ذی شعور خادم بنے پھرتے ہیں کیا یہ نہیں جانتے کہ
بناداں آنچناں روزی رساند
کہ دانا اندراں حیراں بماند
رہا ان کا یہ سوال کہ اللہ خود ہی آکر ان کو ہدائیت کرے سو یہ امر نہ کبھی ہوا اور نہ ہوگا اور نہ ہوسکتا ہے۔ دنیا کی ابتدا تاریخ سے دیکھیں تو ان کو معلوم ہوگا کہ ہمیشہ سے بنی آدم ہی رسول ہو کر آتے رہے۔ اول اول تو سب لوگ ایک ہی دین پر متفق تھے۔ چند دنوں پر انہوں نے اس میں اختلاف کیا کوئی توحید پر رہا کوئی شرک میں پھنسا۔ جب یہ حالت ان کی ہوئی تو اللہ نے بنی آدم سے نبی بھیجے بھلے کاموں پر خوشی سنانے والے اور برے کاموں سے ڈرانے والے اور ان کے ساتھ ایک ایک سچی کتاب بھی نازل کی تاکہ وہ کتاب ان لوگوں کے اختلافوں کا فیصلہ کرنے اسے بہت لوگ مان گئے گو بعض اپنی جہالت پر بھی اڑے رہے خیر وہ زمانہ بھی گذرا بعض ہدائیت پر آئے اور بعض گمراہ رہے۔ طرفہ تو یہ کہ اس زمانہ کے لوگوں کی ابتر حالت دیکھ کر ہم نے ہدایت کے لئے رسول بھیجا تاکہ لوگوں کو راہ راست پر لائے اس کے ماننے میں بھی ان لوگوں نے پس و پیش کیا اور سب سے زیادہ اختلاف رائے اس میں انہیں لوگوں نے کیا جن کو پہلے الہامی کتاب تورات انجیل ملی تھی اور وہ اس سلسلہ رسالت سے واقف ہیں نہ یہ کہ لاعلمی بلکہ بعد پہنچنے نشانات بینہ کے محض اپنے حسد کی وجہ سے منکر ہوئے۔ پس اس کا انجام یہ ہوا کہ یہی لوگ بے نصیب رہے اور اللہ تعالیٰ نے سچائی ماننے والوں کو محض اپنے فضل وکرم سے حق کی وہ راہ دکھائی جس میں یہ لوگ آپس میں مختلف ہورہے ہیں کیوں نہ ہو اللہ تعالیٰ جسے چاہے سیدھی راہ کی طرف راہنمائی کرتا ہے وہ با اختیار حاکم ہے۔ اور ہمیشہ اپنے اخلاص مندوں کی قدر کیا کرتا ہے۔ ہاں اس میں شک نہیں کہ ہدائیت پر ثابت قدم رہنا ذرا مشکل کام ہے۔ علاوہ تکلیف احکام شرعیہ کے ناا ہلوں سے تکالیف اور اذیتیں بھی اٹھانی پڑتی ہیں جیسی کہ پہلے لوگوں کو ہوئیں اسی طرح تم پر بھی اے مسلمانوں تکالیف آئیں گی اور ضرور آئیں گی کیا تم خیال کئے بیٹھے ہو کہ جنت میں جھٹ سے داخل ہوجاؤ گے حالانکہ ابھی تم پر وہ تکالیف نہیں آئیں جو تم سے پہلے لوگوں پر آئی تھیں ہر طرح کی سختیاں اور تکلیفیں بھی ان کو پہنچیں اور مخالفوں کے خوف سے کانپتے رہے یہاں تک ان کو تکلیف پہنچی تھی کہ اس زمانہ کے رسول اور اس کے تابعدار مومن بعض دفعہ بول اٹھے تھے کہ اللہ کی مدد جس کا ہم سے وعدہ ہوا ہے کب ہوگی اس حال سے زیادہ مناسب وقت مدد کا کونسا ہوگا۔ اس پر اللہ کی طرف سے بطور تسلی ان سے کہا جاتا تھا کہ خبردار رہو۔ اللہ کی مدد بہت قریب ہے وہ حکمت والا ہے جب مناسب ہوگا مدد پہنچائے گا۔ ایسی تکلیفوں پر صبر تو کجا ابھی تو مسلمانوں پر یہ آئی ہی نہیں۔
” شان نزول مکہ میں تو صرف مشرکین ہی کی تکلیف تھی مدینہ میں جب آپ نے ہجرت کی تو وہاں پر ایک طرف یہودی اور دوسری طرف چھپے دشمن دنیا دار منافق تیسرے مشرک سب ساتھ مل کر جنگ احزاب میں مدینہ منورہ پر حملہ آور ہوئے جن میں یہود نصارٰے‘ اہل کتاب باوجود عہد مصالحت کے سب سے پیش قدم تھے ایسے واقعات سے صحابہ کرام کو بڑی تکلیف پہنچی ان کی ہمت بڑھانے کو یہ آیت نازل ہوئی۔ (معالم) “
ابھی تو اللہ کے فضل سے ہر طرح کی آسائش ہے مال ودولت کا یہ حال ہے کہ تجھ سے از خود ! سوال کرتے ہیں کہ اللہ کی راہ میں کیا خرچ کریں۔ چاندی دیں یا سونا یا حیوانات یا پیداوار
” ایک صحابی عمرو بن جموع نے جو بہت مال دار تھا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا کہ میں کیا خرچ کروں اس کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی “
تو کہہ دے اس امر سے کیا پوچھو جس کی توفیق ہو خرچ کرلو ہاں اس امر کا لحاظ رکھو کہ بیجا نہ دیا جائے بلکہ جو کچھ خرچ کرنا چاہو وہ پہلے ماں باپ کو دواگر وہ محتاج ہوں (” یہ صدقات سوائے زکوٰۃ کے مراد ہیں۔ زکوٰۃ کا مال ماں باپ کو دینا جائز نہیں “ )
پھر اور قریبیوں یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کو جن کا خرچ منزل تک نہ ہویا کا فی نہ ہو وہ ان کے علاوہ جس کو حقدار سمجھو دیتے رہو تمہارا دینا ضائع نہ ہوگا اس لئے کہ جو کچھ بھی تم نیکی کا کام کرتے ہو اللہ اس کو خوب جانتا ہے اور یہ جو تم بعض اوقات خرچ کرنے سے رکتے ہو اس کی وجہ یہ نہیں کہ خرچ کرنا ہی واقع میں اچھا نہیں بلکہ یہ ناخوشی تمہاری بھی اسی طرح جیسے کہ جنگ کرنا تم پر فرض ہوا ہے اور وہ تم کو ناپسند ہے تمہاری طبیعتوں کا کیا ٹھیک؟ تم تو بسا اوقات ایک چیز کو ناپسند کروحالانکہ وہ تمہارے حق میں بہتر ہوئی ہے اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک چیز کو پسند کرتے ہو حالانکہ وہ تمہیں مضر ہوتی ہے تمہاری بھلائی برائی اللہ ہی کو معلوم ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ سب چیزوں کو جانتا ہے اور تم تو اپنا نفع نقصان بھی نہیں جانتے۔
” شان نزول : مشرکین اور کفار ناہنجار کی تکالیف مسلمانوں کے حق میں از حد سرفزوں ہوگئیں تو ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی۔ “
جب تم مسلمانوں کا یہ حال ہے تو ان کافروں کا کیا ٹھکانہ۔ ان کی نادانی کا تو یہی ثبوت کافی ہے کہ بطور طعن کے تجھ ! سے حرام مہینے میں لڑنے کا حکم پوچھتے ہیں یہ سمجھ کر کہ اگر اس نے لڑنا جائز ہے کہہ دیا تو تمام عرب میں اس کی بدنامی کریں گے یہ نہیں جانتے کہ حق بات کے ظاہر کرنے میں کبھی چوکنے کے نہیں۔ تو بے شک کہہ دیکہ اس مہینہ میں لڑنا بڑا گناہ ہے مگر صرف یہی گناہ نہیں بلکہ سیدھی راہ سے تمہاری طرح ٹیڑھے چلنا اور لوگوں کو بھی اللہ کی راہ دین اسلام سے اور مسجد حرام یعنی کعبہ شریف میں نماز پڑھنے سے روکنا اور اس کے حکموں کا انکار کرنا اور اس مسجد کے رہنے والوں کو محض اسلام کی وجہ سے اس سے نکال دینا اور ناحق تنگ کرنا یہ سب سے بڑا گناہ ہے اور فتنہ فساد کرنا جو تم کررہے ہو۔ قتل قتال سے بھی بڑا ہے پھر کسی منہ سے کیسے سوال کرتے ہیں اور ذرہ سی مسلمانوں کی غلطی کو بات کا بتنگڑ بنارہی ہیں اور سنو مسلمانو ! کافرلوگ اسی گزشتہ پر بس نہیں کریں گے بلکہ ہمیشہ تم سے لڑتے رہیں گے یہاں تک کہ تم کو تمہارے دین اسلام سے بھی پھیردیں مگر کیا یہ کام کرسکتے ہیں ہاں اگر طاقت رکھیں تو ضرورہی کریں لیکن انشاء اللہ کبھی بھی ان کو اس امر کی طاقت نہ ہوگی۔ ہاں تمہیں بھی آگاہ رہنا چاہئے اور ہمارا اعلان سن رکھنا چاہئے کہ جو لوگ تم میں سے اپنا دین اسلام چھوڑ کر کفر کی حالت میں مریں گے تو ان کے نیک کام جس قدر کہ ہوں گے دنیا اور آخرت میں سب کے سب ضائع ہوجاویں گے۔ اور آخر کاریہ لوگ آگ ہی کے لائق ہونگے جس میں ہیشہ تک رہیں گے
” صحابہ کرام (رض) سے ایک موقع پر بوجہ غلطی کے یکم رجب میں (جو حرام کا مہینہ تھا) جنگ واقع ہوگئی اس پر مشرکین عرب نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ پر طعن کرنے شروع کئے کیونکہ ان مہینوں میں لڑنا پہلے سے منع چلا آیا تھا اور عرب میں دستور عام تھا اس پر یہ آیت نازل ہوئی ١٢ ک۔ … اسؔ میں مفسرین کا اختلاف ہے کہ یہ سوال کن لوگوں نے کیا تھا بعض اہل اسلام کو سائل بتاتے ہیں اور بعض کفار کو میرے نزدیک آخری صورت یہ ہے اس لئے کہ آئندہ کے لفظوں میں بطور عار دلانے کے جو الفاظ فرمائے گئے ان کے مصداق کفار ہی ہوسکتے ہیں مسلمان نہیں “
ہاں جو لوگ اللہ کی توحید پر ایمان لائے اور اگر کفار نا ہنجار تنگ کریں تو بجائے دین چھوڑنے کے اپنا گھر اور وطن مالوف چھوڑ کر ہجرت کر آئے اور اگر اس پر بھی دشمنوں نے پیچھا نہ چھوڑا تو ایسے دشمنوں سے اللہ کے راہ میں خوب لڑنے انہی کو اللہ کی رحمت کی امید ہے اور اللہ کی طرف سے علاوہ ان کی مزدوری کے بہت سی خلعتیں بھی ملیں گی اس لئے کہ اللہ تو بڑا بخشنے والا مہربان ہے یہ بھی اس کی ایک مہربانی ہے جو ان کو ایسی سمجھ دے رکھی ہے کہ باوجود ایسی جہالت سابقہ کے جو کچھ کرتے ہیں پوچھ کر ہی کرتے ہیں گو وہ کام ان کی قدیمی عادت میں ہی کیوں نہ ہو دیکھو تو باوجود عادت قدیمہ کے تجھ سے شراب اور جوئے کا مسئلہ پوچھتے ہیں کہ مفید ہے یا نہیں
” شان نزول :۔ حضرت عمر اور معاذ بن جبل اور بعض انصار نے شراب اور جوائے کی بابت سوال کئے کہ حضرت ان کی بابت ہمیں حکم دیجئے۔ یہ تو بہت ہی مذموم فعل ہیں ان کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی ١٢ م راقم کہتا ہے چونکہ عرب میں مثل یورپ کے شراب کی از حد کثرت تھیں اس لئے بتدریج ہٹانے کی غرض سے اس آیت میں سہل طریق برتا گیا۔ جب وہ لوگ متنفر ہوئے تو اسی کو فعل شیطانی کہہ کر سختی سے روکا گیا۔ “
تو کہہ دے کہ ان دونو میں بڑا گناہ ہے اور کسی قدر لوگوں کے نفعے بھی ہیں کہ ایک قسم کا چند روزہ فربہ پن اور غیر معمولی تموّل ہوجاتا ہے مگر باوجود اس کے ان کو نہ کرنا چاہئے۔ اس لئے کہ ان میں قباحتیں بہت ہیں اور گناہ بھی ان کا نفع سے بڑا ہے اہل ایمان سے امید قوی ہے کہ ایسے افعال شنیعہ کے کرنے میں ہرگز پیش قدمی نہ کریں گے اس لئے کہ وہ ہمیشہ فائدہ اخروی ملحوظ رکھا کرتے ہیں جو ان میں مفقود ہے
ان کی اس خصلت حمیدہ کی یہ قوی دلیل ہے کہ جب سنتے ہیں کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنا بھی ایک ضروری امر ہے تو برمناو رغبت تجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا خرچ کریں کتنا رکھیں اور کتنا دیں جس قدر ارشاد ہو اتنا ہی دیں
” شان نزول : آنحضرتﷺ نے جب صدقہ کی ترغیب دی تو بعض صحابہ نے آپ سے پوچھا کہ حضرت کتنا مال خرچ کریں یعنی کس قدر دیں اور کس قدر رکھیں؟ ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی “
تو ایسے پاک باطنوں سے کہہ دے کہ سارا مال خرچ کرنے میں اگرچہ اعلیٰ درجہ حاصل ہوتا ہے لیکن ہر ایک آدمی اس کا متحمل نہیں ہوتا۔ اس لئے تم اپنی حاجت سے زائد یعنی مال کا چالیسواں حصہ خرچ کرو اسی طرح اللہ تمہارے لئے اپنے احکام بیان کرتا ہے اور کرتا رہے گا۔ تاکہ تم دنیا اور آخرت میں غور کرو اور فانی کو ترک کرکے باقی کو اختیار کرو کیا اس دنیا کے فانی ہونے میں بھی کسی کو شک ہے؟ کیا نہیں دیکھتے کہ بہت سے لوگ ان کے دیکھتے دیکھتے جارہے ہیں اور اپنی چھوٹی چھوٹی اولاد جن کو نہائیت ہی شفقت سے رکھتے تھے اپنے پیچھے یتیم چھوڑ جاتے ہیں اور یہ لوگ نہایت اخلاص سے ان یتیموں کی بابت تجھ ! سے سوال کرتے ہیں کہ کس طرح اس نے معاملہ کریں۔
” ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ جب یتیموں کے مال کھانے کی ممانعت نازل ہوئی تو جن لوگوں کے پاس یتیم بچے رہا کرتے تھے اور وہ ان کو اپنے کھانے پینے میں کسی قدر خرچ لے کر شامل کرلیتے تھے انہوں نے یہ سمجھا کہ ایسا نہ ہو کہ ہم کچھ ان کا غلطی سے کھالیں۔ ان یتیموں کے کھانے کا بندوبست علیحدہ کردیا۔ اس عیحدے گی میں یتیموں کا خرچ زائد ہونے لگا۔ تو انہوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا تو ان کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی “
تو کہہ دے بہر حال ان کی اصلاح کرنا اچھا ہے اور اگر ان کو اپنے ساتھ ہی ملالو اور ساتھ ان کو کھانا کھلاؤ گو ان سے اس کھانے دام بھی وصول کرو تو بھی کوئی حرج نہیں اس لئے کہ وہ تمہارے بھائی ہیں اگر تمہاری نیت میں کوئی فساد ہوگا کہ ان کو ساتھ ملاکر ان کا مال کھا جائیں تو اس کی سزا پاؤ گے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کو مفسد اور مصلح سب معلوم ہیں۔ سب کو ان کی نیت کے موافق بدلہ دے گا۔ غور کرو تو یتیموں کے ساتھ ملانے کا حکم محض تمہاری ہی آسائش کے لئے ہے۔ ورنہ اگر اللہ چاہتا تو تم کو سخت تکلیف میں ڈال دیتا کہ بالکل ان سے کسی طرح کا ملنا ملانا ایک جگہ بیٹھ کر کھانا بھی منع کردیتا ہے جس سے تمہیں بڑی دقت ہوتی۔ آخر وہ تمہارے بھائی ہیں بے شک اللہ بڑا زبردست حکمت والا ہے۔ یہ بھی اسی کی حکمت سے ہے کہ تم کو ایسے حکم دیتا ہے کہ تم خود بھی مشرک نہ بنو اور مشرک عورتوں سے نکاح بھی نہ کرو۔ جب تک وہ مسلمان نہ ہوں کیونکہ بیوی خاوند میں تفرقہ مذہبی خاص کر توحید اور شرک کا اختلاف مقصود خانہ واری میں مخل ہے ہمیشہ کے جھگڑے اور فساد دور تک نوبت پہنچاتے ہیں۔ اگر مقصود خانہ داری حاصل کرنا ہو تو کسی مؤمن موحدہ عورت سے نکاح کرو۔ اس لئے کہ کمینی لونڈی کو بھلی ایماندارمشرکہ خاندانی سے بہتر ہے۔ گو بوجہ حسن ظاہری وہ مشرکہ تم کو بھلی معلوم ہو اس میں تمہاری خانہ داری مقصود خوب حاصل ہوگا۔ اس میں تم کو ہمیشہ کی دقت ہوگی ایسا ہی یہ بھی تم کو ضروری ہے کہ اپنی لڑکیوں کو مشرکوں سے نہ بیاہ ہوکسی ایماندار نیک بخت سے بیاہ دیا کرو۔ گو وہ غلام ہی ہو۔ کیونکہ غلام مؤمن دیندار، مشرک بےدین سے اچھا ہے۔ اگرچہ وہ مشرک بوجہ اپنی ظاہری وجاہت کے تم کو بھلا معلوم ہو۔
” ابومرثد صحابی نے ایک عورت خوبصورت مشرکہ سے نکاح کرنے کی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اجازت چاہی اس پر یہ آیت نازل ہوئی ١٢ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے نکاح کے متعلق ایک عمدہ اصول بتلایا ہے کہ دامادی کی بابت ہمیشہ دین داروں کو ترجیح ہونی چاہیے۔ مگر افسوس کہ مسلمانوں نے جہاں اور احکام خداوندی سے غفلت کی ہیں معقول اصول سے بھی بے پروائی کی۔ کیسا ہی ہو۔ مال دار ہو۔ ہمیشہ قابل ترجیح سمجھتے ہیں جس کی وجہ سے بہت سے نالائقوں سے پالا پڑ کر تمام عمر لڑکی کی جہنم میں گذرتی ہے مگر یہ سب کام انہیں لوگوں کے ہیں جن کی نسبت اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی سے فرمایا وفَرِحُوْا بالْحَیٰوۃِ الدُّیْنَا “
اس لئے کہ یہ مشرک رشتہ دار لوگ عذاب آگ کی طرف تم کو بلاتے ہیں اور اللہ تو محض اپنی مہربانی سے تم کو بہشت اور بخشش کی طرف بلاتا ہے اور ہمیشہ لوگوں کے لئے اپنے احکام کھول کر بیان کرتا ہے۔ تاکہ وہ نصیحت پاویں۔ اور ہر اک امر دریافت کرکے عمل کیا کریں۔ جیسا کہ یہ مسلمان لوگ تجھ سے حیض والی عورتوں کا مسئلہ دریافت کرتے ہیں کہ حیض کے دنوں میں ان عورتوں سے کیسا برتاؤ کریں؟ یہودیوں کی طرح بالکل علیحدہ ہی کردیں یا کچھ میل جول بھی رکھیں؟
” شان نزول :۔ یہودیوں میں دستور تھا کہ جب عورت کو حیض آتا تو اس کو اپنے سے بالکل علیحدہ ہی کردیتے حتے کہ کھانا پینا سب اس کا الگ کردیتے صحابہ نے بھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی معالم “
تو کہہ دے میل جول میں تو کوئی حرج نہیں بے شک ساتھ کھلاؤ پلاؤ ہاں حیض ایک قسم کی ناپاکی بے شک ہے سو حیض کی مدۃ میں عورتوں کے ساتھ ملاپ کرنے سے علیحدہ رہو اور ان سے اس حالت میں صحبت تو کجا قریب بھی نہ جاؤ جب تک کہ حیض کی ناپاکی سے پاک نہ ہوجائیں۔ پھر جب پاک ہوجائیں اور غسل بھی کرلیں تو بے شک ان سے ملاپ کرو۔ مگر ایسا ہی وحشیوں کی طرح بے سوچے سمجھے جہاں طبیعت چاہے نہ کرنے لگو بلکہ جہاں سے اللہ نے تم کو حکم دیا ہے یعنی جو اولاد پیدا ہونے کا قدرتی راستہ ہے اور اس ملاپ سے غرض یہ رکھو کہ اللہ تعالیٰ اولاد صالح عنائیت کرے اور اس اولاد طلبی میں کفر شرک میں نہ پھنس جاؤ بلکہ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف جھکو اس لئے کہ اللہ جھکنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ حیض کے دنوں میں بند کرتا صرف اسی وجہ سے ہے کہ یہ خون ناپاک اور عورت کے رحم کی غلاظت ہوتا ہے اس کا بہہ جانا ہی مناسب ہے ورنہ عورتیں تمہاری کھیتی ہیں سو جیسا کھیتوں میں بیج بوتے ہو اسی طرح اپنی عورتوں کی کھیتیوں کو جس طرح چاہو حسب منشا آباد کرو اولاد کے قابل بناؤ
” شان نزول :۔ یہودیوں کا خیال تھا کہ اگر پیچھے کھڑے ہو کر عورت کے موضع مخصوص میں جماع کریں تو بچہ بھینگا پیدا ہوتا ہے۔ ان کے اس خیال کی تغلیط کو یہ آیت نازل ہوئی ١٢ ف۔ راقم کہتا ہے اس سے یہ سمجھنا کہ عورت کے پیچھے میں دخول کرنا بھی جائز ہے بڑی غلط فہمی ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے حرث (کھیتی) سے عورت کو تشبیہہ دی ہے اور حرث جب ہی ہوگی کہ ایسے موضع میں دخول ہو جہاں سے پیداوار کی بھی امید ہو۔ اور پیچھے میں تو سب کچھ ضائع ہوتا ہے اور علاوہ اس کے عورت کو بجائے لذت کے سخت تکلیف پہنچتی ہے۔ کیونکہ وہ سوراخ اس غرض کے لئے نہیں بنا۔ اس لئے ایسا کرنا آدمیت کے خلاف ہے۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ جو شخص عورت کے پیچھے میں جماع کرے اللہ تعالیٰ اس پر لعنت کرتا ہے “
اور محض شہوت رانی میں نہ لگے رہو۔ بلکہ اپنی جانوں کے لئے آئندہ کی فکر کرو۔ اور ہر حال میں اللہ سے ڈرتے رہو۔ اور صدق دل سے جان رکھو کہ ایک روز تم کو اس سے ملنا ہے اور تو اے رسول (علیہ السلام) احکام خداوندی ماننے والوں کو خوشخبری سنا جو ہر وقت اور ہر حال میں قانون شریعت کا لحاظ رکھتے ہیں اور ان کو یہ بھی سمجھا دے کہ تمہارے ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ کو اپنی قسموں کا بہانہ نہ بنایا کرو کہ قسموں کی آڑ میں نیکی کرنی چھوڑ دو۔ اور پرہیز گاری کے کام نہ کرو۔ اور لوگوں میں فتنہ فساد کے وقت صلح نہ کراؤ اور جو اس سے پہلے قسمیں کھاچکے ہو ان کی بابت جناب باری میں عذر کرو وہ معاف کریگا۔ اس لئے کہ اللہ سب کی باتیں سننے والا اور سب کے دلوں کے حالات جاننے والا ہے۔ اگر ایسی قسموں کو جن میں نیکی کے کام کرنے سے روکنا ہو توڑ کر کفارہ دیدو گے تو کوئی مواخذہ نہ کرے گا جیسا کہ بلاقصد قسمیں کھانے پر اللہ تعالیٰ تم کو نہیں پکڑے گا۔ جیسے عام لوگ واللہ با للہ کہا کرتے ہیں۔ ہاں جو دل سے پورے طور پر تم نے قسمیں کھائی ہیں کہ واللہ باللہ ضرور ایسا ہی کرنگا ان پر مواخذہ کرے گا اور مواخذہ میں بھی یہ سہولت ہوگی کہ کفارہ دینے سے تمہارے گناہ بخشے جائیں گے کیونکہ اللہ بڑا بخشنے والا اور حلم والا ہی چھچھورے کم حوصلے حاکموں کی طرح تھوڑے سے قصور پر جلدی سے نہیں پکڑتا۔
” دو صحابہ کو آپس میں کچھ رنج ہوا اس پر ایک نے قسم کھالی کہ نہ تو میں تیرے مکان پر آئوں گا۔ اور نہ کبھی تیرے معاملہ میں دخل دوں گا۔ چونکہ آپس کا رشتہ تھا۔ جب کوئی اس کی بابت اس کو کہے تو وہ کہہ دے کہ میں اس کے معاملہ میں دخیل نہ ہوں گا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ معالم “
یہ بھی اس کی مہربانی کا اثر ہے کہ مخلوق کو ظلم زیادتی سے روکتا اور ان کو ان کی عادات قبیحہ سے جو انہیں کے لئے مضر ہیں منع کرتا ہے۔ چنانچہ تمہاری عادت ابلا کے متعلق جو بڑی قبیحہ ہے اس سے عورت پر بلا وجہ از حد ظلم ہوتے ہیں۔ اس لئے اس کے متعلق قاعدہ بتایا جاتا ہے کہ جو لوگ ! اپنی بیویوں سے ایلا کرتے ہیں وہ بیوئییں چار مہینوں تک ان کی انتظاری میں ٹھیریں پھر اس سے بعد اگر وہ اپنے کہے سے باز آویں اور آرام چین سے رہیں تو اللہ بھی ان کے سابقہ قصور معاف کردے گا اس لئے کہ اللہ بڑا بخشنے والا مہربان ہے
” عرب کے لوگوں کا دستور تھا کہ عورت سے خفا ہو کر اس کے قریب جانے کی قسم کھا لیتے پھر نہ اسے چھوڑتے اور نہ اسے آباد ہی کرتے۔ بلکہ ہمیشہ کو تکلیف پہنچاتے۔ ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی “
”(جو لوگ اپنی بیویوں سے ایلا کرتے ہیں) اس آیت میں مسئلہ ایلا کا شروع ہوا ہے۔ ایلا کے معنی قسم کے ہیں۔ عرب میں یہ ایک دستور قیحے تھا کہ عورت کو تکلیف پہونچانے کی غرض سے قسم کھا لیتے کہ میں تیرے پاس نہیں آئوں گا۔ اس سے نہ تو وہ عورت اس خاوند سے مطلقہ ہوتی اور نہ آباد ہی رہتی۔ اسلام نے جہاں ان کی اور خرابیوں کی اصلاح کی تھی اس کی اصلاح بھی مناسب کردی کہ ایسے ظالموں کے لئے ایک مدت مقرر کردی کہ جو لوگ ایسی بیہودگی کریں ان کو ہمیشہ تک کامیابی نہ ہو۔ کہ اپنی مرضی کے مطابق عورتوں کو ستائیں بلکہ چار مہینے تک عورتیں ان کی انتظاری کریں اگر وہ رجوع کر آویں تو خیر و اس کی عورت اور وہ اس کا خاوند۔ اور اگر چار مہینے تک رجوع نہ کریں تو طلاق ہوجائے گی۔ آگے پھر کسی قدر علماء کا اختلاف ہے۔ کہ چار مہینے گزرنے سے طلاق خودبخود ہوجائے گی یا قاضی یا حاکم وقت کی بھی حاجت ہے۔ سو خیر یہ کچھ اختلاف ایسا نہیں جو مقصود قرآنی میں خلل انداز ہو۔ غرض تو یہ ہے کہ عورت سے مظالم جابرانہ کو دفع کیا جاوے۔ رہی یہ بحث کہ ایلا کے احکام مختلفہ کیا ہیں؟ اور ان میں ہر ایک کے دلائل کیا ہیں؟ سو کتب فقہ میں سب مذکور ہیں “
” احق میں یہاں تفصیل نہیں جیسے کہ حدیث کے لفظ فان جاء صاحبھا فھوا حق بھا میں نہیں۔ “
اور اگر چھوڑنے کی ہی ٹھان لیں اور بعد چار مہینے کے بھی صلح صفائی نہ کریں اور منہ سے طلاق دیں یا دل میں اس کو چھپا دیں تو بے شک اللہ سنتا اور جانتا ہے ان کی طلاق ہوجائے گی۔ اور وہ عورتیں مطلقہ کہلائیں گی اور مطلقہ عورتیں تین حیضوں تک اپنے کو ٹھیرائے رکھیں جب تک وہ تین حیضوں سے بعد طلاق پاک نہ ہولیں نکاح ثانی نہ کریں۔ اگر بوجہ پیرانہ سالی کے حیض نہ آوے تو تین مہینے تک ٹھہریں اور اگر بوجہ حمل خون بند رہے تو وضع حمل تک انتظار کریں اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے ان کے پیٹوں میں پیدا کر رکھا ہوا ہے اس کو بغرض جلدی نکاح نہ چھپاویں۔ اگر اللہ کو مانتی ہیں اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتی ہیں تو ایسا ہی کریں اور خاوند ان کے جنہوں نے اب تک ایک یا دو ہی طلاقیں دی ہیں اس مدت کے اندر اندر پھیرنے کا حق رکھتے ہیں۔ اگر ان کی غرض مصالحت کی ہو۔ بعد اس مصالحت کے تکلیف نہ دیں بلکہ جان لیں کہ جیسے عورتوں پر مردوں کے حقوق ہیں ویسے ہی عورتوں کے بھی ان مردوں پر دستور کے موافق حقوق ہیں یہ نہیں کہ اپنے حقوق تو پورے لیں اور ان کے حقوق کی پرواہ نہ کریں حالانکہ مردوں کو عورتوں پر ایک قسم کی برتری ضرور ہے۔ یہ ان کے حاکم ہیں اور وہ ان کی گویا محکوم۔ پھر باوجود اس برتری کے ان پر ظلم کرنا گویا شان حاکمی کے خلاف ہے اور اب بھی اگر ان کے حقوق میں غفلت کریں گے تو سن لیں کہ اللہ تعالیٰ بھی ان پر غالب ہے ان کی طرف سے خود بدلہ لے گا اور بڑی حکمت والا ہے کسی ایسے چکر میں پھنسائے گا کہ جہاں کا ان کو وہم وگمان بھی نہ ہو۔
یہ نہیں کہ ہر ایک خاوند بعد طلاق روک سکتا ہے نہیں بلکہ جیسا ہم پہلے اشارہ کر آئے ہیں روکنے والی رجعی طلاقیں دو تک ہیں !
” شان نزول :۔ عرب میں نہائت قبیح دستور تھا کہ عورت کی طلاق کی کوئی حد نہ تھی طلاق سے جب عدت گزرنے کو آوے تو خاوند رجوع کرلیتے اور پھر کچھ مدت بعد طلاق دے کر اسے خراب کرتے۔ پھر عدت کے قریب زبانی دارو مدار سے رجوع کرلیتے۔ جہاں تک چاہتے عورت کو تنگ کرتے رہتے ان کے منع کرنے کو یہ آیت نازل ہوئی کہ روکنے والی دو ہی طلاقیں ہیں اور بس۔ “
” (طلاق) اس مسئلہ طلاق پر مخالفین اسلام خفا ہیں جیسے کہ تعدد ازواج پر ناراض۔ مگر دراصل وہی مثل ہے ع گل ست سعدی و در چشم دشمنان خارست۔ تعدد ازواج کا جواب تو ہم اسی موقع پر دیں گے جہاں اس حکم کی آیت آئے گی۔ اور یہ بتلا دیں گے کہ اسلامی مسئلہ تعدد ازواج ہی عقل سلیم اور فطرت انسانی اور نظام عالم کے مطابق ہے۔ بالفعل یہاں طلاق کے ذکر کا موقع ہے۔ مخالف کہتے ہیں کہ طلاق کا مسئلہ رواج دینا اخلاق سے خلاف ہے جو اسلام نے کیا۔ کیونکہ جو شخص کسی دوسرے سے کچھ وقت بھی بسر کرے اور ہم راز بنائے اس کو ایسا چھوڑنا کہ پھر اس سے ملاپ ہی نہ ہو اخلاق سے کس قدر دور ہے۔ میں کہتا ہوں جس بنا پر اسلام نے اس مسئلہ کی اجازت دی ہے۔ وہ انسانی طبیعت کے موافق اور بالکل اصول معاشرت کے مطابق ہے۔ ہر ایک شخص اپنے خانگی معاملات پر غور کرنے سے اس نتیجہ پر پہنچ سکتا ہے کہ کوئی عورت تو ایسی ہوتی کہ ہمہ تن خاوند کی محبہ‘ پس و پیش یکساں خیر خواہ۔ حکم کی فرمانبردار۔ صورت کی دلکش۔ بخلاف اس کے بعض ایسی بھی ہوں جن کی مختصر کیفیت سعدی کے اس شعر میں ہے ؎ تھی پائے رفتن بہ از کفش تنگ۔ بلائے سفر بہ کہ درخانہ جنگ۔ زبان دراز۔ بدخو۔ منافق۔ بنے ہوئے گھر کو برباد کرنے والی۔ صورت کریہہ منظر۔ ایسی صورت میں آپ ہی بتلا سکتے ہیں کہ شخص مذکور کی عورت موصوفہ سے معاشرت کیسی ہوگی۔ دوسرا نکاح کرے تو بھی آپ صاحبان کی اجازت نہیں۔ ایسی بلا کے دفعیہ کو اسلام نے ایک اصول قائم کیا ہے جو نہایت ہی حسن معاشرت پر مبنی ہے وہ طلاق ہے۔ یہ بھی ایک ہی دفعہ نہیں بلکہ اس کا بھی وہ طریق رکھا ہے کہ اگر معمولی سی خفگی ہو تو دور ہوجاوے۔ اور باہمی سلوک بھی ممکن ہو۔ وہ یہ کہ ایک مہینے ایک طلاق دیوے وہ بھی ایسے وقت میں دیوے جس وقت طبعی نفرت بھی اس عورت سے نہ ہو یعنی طہر (بندش خون) کے زمانہ میں دے جس وقت عموماً عورت اپنے آپ کو حتے المقدور دلکش بناتی ہے اس کے بعد بھی مرد کو اختیار ہے کہ اپنے اس کہنے سے پھرجائے اور عورت کو بلا کسی سزا دہی کے اپنے پاس بلالے اگر ایک مہینے میں بھی اس کی خفگی زائل نہ ہوئی تو دوسرے مہینے میں دوسری طلاق دیوے۔ پھر بھی اسے مثل سابق واپس بلانے کا اختیار ہے اور اس فعل پر بھی کوئی سزا نہیں۔ اگر اتنی مدت میں بھی اس کی ناراضگی نہ جائے اور صفائی نہ ہو تو اب اسے تیسری طلاق دینے کا اختیار ہے۔ پس اس طلاق سے (جس کی حد پر پہنچنے سے ان کی صفائی سے بھی مایوسی ہوتی ہے) بالکل علیحدگی ہوجائے گی چونکہ اتنی مدت مدید میں خاوند نے اپنی خفگی کو دور نہیں کیا اس لئے اگر وہ بعد طلاق ثانی کے اس کو واپس لانا چاہے تو اس کے لئے بدون ایک سزا بھگتنے کے یہ کام درست نہ ہوگا۔ وہ یہ کہ جب تک وہ عورت دوسرے خاوند سے نکاح نہ کرے اور وہ اپنی مرضی سے اس کو طلاق نہ دے اس کے قبضے میں نہیں آسکتی تاکہ خاوند ثانی کی غیرت اس کے حق میں ایک قسم کی سزا ہو کہ اس کی ہٹ سے اس کی بیوی نے دوسرے کا منہ دیکھا۔ حدیث میں آیا ہے کہ جس کی عورت ناراضگی کا کام کرے تو اسے زبان سے سمجھائے اگر نہ مانے تو اس کی طرف پیٹھ پھیر کر سوئے۔ اگر پھر بھی نہ مانے تو اس سے بسترا الگ کرلے۔ اگر اب بھی نہ مانے تو کسی قدر خفیف سا مارے اگر پھر بھی باز نہ آئے تو طلاق دے۔ اس تفصیل سے مخالفین کے سوالات جڑ سے کٹ گئے۔ اس سے عمدہ حسن معاشرت بھی ہے؟ اور ہوسکتی ہے؟ ؎
بس تنگ نہ کر ناصح نادان مجھے اتنا
یا چل کے دکھاوے دہن ایسا کمر ایسی “
پھر بعد اس کے یا تو اس کو روک لینے کا حق ہے۔ یا بھلائی سے رخصت کرنے کا حکم اور بھلائی میں یہ بھی داخل ہے۔ کہ اپنے دیے ہوئے میں سے کچھ نہ لو۔ ہاں جب دونوں (خاوند بیوی) یہ جانیں کہ ہم سے اللہ کے احکام متعلقہ زوجیت ادا نہیں ہونگے اور اس ملاپ میں ہمیں ہمیشہ تکلیف ہی رہے گی پھر اس صورت میں تم برادری کے لوگ بھی اگر بقرائین موجودہ یہ جانو کہ واقعی یہ دونوں خاوند بیوی احکام خدا وندی متعلقہ خانہ داری ادا نہیں کریں گے تو ایسی صورت میں ان پر گناہ نہیں کہ عورت اپنے پاس سے کچھ دے کر رخصت لے (اس کا نام خلع ہے۔) یہ احکام اور اسی کی مثل اور بھی گویا حدود خداوندی ہیں پس ان سے نہ گذرو بلکہ بدل وجان ان پر کاربند رہو۔ اور جان لو کہ جو لوگ اللہ کی حدود سے تجاوز کرتے ہیں وہی ظالم ہیں اپنے ظلم کا بدلہ بے شک پاویں گے۔ پھر بعد ان دو طلاقوں کے جن میں خاوند عورت کو روک سکتا ہے اگر تیسری طلاق اس کو دے تو وہ اس کو حلال نہ ہوگی جب تک کہ اس کے سوا اور خاوند سے نکاح نہ کرے۔ پھر اگر وہ دوسرا خاوند اپنی مرضی سے اس کو طلاق دے اور عدت بھی گذر جائے تو ان دونوں کو آپس میں ملاپ کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اگر جانیں کہ احکام خداوندی متعلقہ زوجیت ادا کرسکیں گے ایسا نہ ہو کہ مثل سابق جوت پیزار کھڑکے یہ احکام مذکورہ گو یا اللہ تعالیٰ کی حدود ہیں۔ جیسا کہ بادشاہوں کے احکام متعلق رعیت ہوتے ہیں جاننے والوں کے لئے کھول کھول کر بیان کرتا ہے جو اس امر کو جانتے ہیں کہ احکام خدا وندی قابل تسلیم اور تعمیل ہوتے ہیں انہیں کو اس بیان سے فائدہ ہوتا ہے۔ |
البقرة |
212 |
|
البقرة |
213 |
|
البقرة |
214 |
|
البقرة |
215 |
|
البقرة |
216 |
|
البقرة |
217 |
|
البقرة |
218 |
|
البقرة |
219 |
|
البقرة |
220 |
|
البقرة |
221 |
|
البقرة |
222 |
|
البقرة |
223 |
|
البقرة |
224 |
|
البقرة |
225 |
|
البقرة |
226 |
|
البقرة |
227 |
|
البقرة |
228 |
|
البقرة |
229 |
|
البقرة |
230 |
|
البقرة |
231 |
(231۔242)۔ گو یہ احکام ابتدا سے عورتوں کو دفع ضرر کے لئے ہی ہیں۔ مگر تاہم ہم صاف اور صریح لفظوں میں تم سے کہتے ہیں کہ جب تم عورتوں کو ایک یا دو طلاق دے چکے اور وہ عدت ختم کرنے کو ہوں۔ تو اس حال میں تمہیں اختیار ہے کہ ان کو بھلے طریق سے رجوع کرکے اپنے پاس رکھ لو یا شریفانہ طرز سے چھوڑ دو اور یا درکھو کہ دکھ دینے کے لئے ان کو مت روکنا کہ ناحق ان پر ظلم کرنے لگو اور سن رکھو کہ جو کوئی ظلم کا کام کرے گا۔ تو جان لے کہ اس نے کسی کا کچھ نہیں بگاڑا۔ بلکہ اپنی ہی جان پر ظلم کیا ٖ۔ جس کا وبال اسے اٹھانا ہوگا پس تم دل سے ان حکموں کو مانو اور اللہ کی آیتوں اور قوانین کو ہنسی اور مسخری نہ سمجھو اور اپنے حق میں اللہ تعالیٰ کی نعمتیں یاد کرو۔ اور اسے بھی یاد کرو جو تمہاری طرف کتاب اور تہذیب الحکمت اتاری ہے۔ اور ان پر عمل کرو اللہ تم کو اس کتاب کے ذریعہ سے سمجھاتا ہے اور اس میں حکم ہے کہ اللہ سے ڈرو اور دل میں جان رکھو کہ اللہ ہر ایک چیز کو جانتا ہے تمہارا اخلاص اور غرور بھی اس سے مخفی نہیں اور یہ بھی اس سے مخفی نہیں کہ جو تم ناحق کے رنج اور کدورت میں اپنی رشتہ دار عورتوں کو ان کے خاوندوں سے ملنے نہیں دیتے اس لئے تمہیں بتلایا جاتا ہے کہ جب تم اپنی رشتہ دار عورتوں کو ان کے خاوندوں سے بوجہ ناچاقی کے طلاق دلاچکو اور وہ اپنی مدت ٹھیرنے کی پوری کرچکیں اور انہیں خاوندوں سے دوبارہ ان کی مرضی ہو تو تم ان کو ان کے پہلے خاوندوں سے جب وہ آپس میں دستور کے موافق راضی ہوجائیں نکاح کرنے سے مت روکا کرو اس امر کی خاص کر ان کو نصیحت کی جاتی ہے جو تم میں سے بصدق دل اللہ کو مانتے ہیں اور قیامت کے دن پر یقین رکھتے ہیں
” شان نزول ایک شخص نے اپنی بیوی کو طلاق دی اور عدت گزر گئی تو اسی عورت سے دوبارہ نکاح کی درخواست کی۔ عورت کی مرضی نکاح کرنے کی تھی لیکن اس کے بھائی نے بوجہ غیرت کے نکاح سے انکار کیا اور غیظ و غضب میں سخت سست بھی کہا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی (معالم) راقم کہتا ہے کہ یہ طلاق ایک یا دو ہوں گی اور مدت گذر چکی ہوگی اس لئے کہ اگر تین ہوتیں تو پہلی آیت کے موافق ان کا نکاح بدون نکاح ثانی کے درست نہ ہوتا۔ اس آیت کے متعلق اور توجیہیں بھی ہیں میرے نزدیک یہ بہت صحیح ہے “
غور کرو تو یہ حکم تمہارے لئے بڑا ہی ستھرا رہنے کا ذریعہ ہے اور بڑا ہی پاکیزہ ہے اور اللہ ہی اس کی خوبی کما حقہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ تمہیں تو اپنی روزمرہ کی باتیں بھی معلوم نہیں مثلاً شیر خوا بچہ کا دودھ پلانے کی مدت بھی تم نہیں جانتے کہ کتنی ہوتی ہے اس لئے ہم ہی ٹھیک ٹھیک بتلاتے ہیں کہ جو مائیں اپنے بچے کو پوری مدت دودھ پلانا چاہیں وہ پورے دو برس پلائیں اور جو اس سے پہلے ہی بچہ قوی تندرست جان کر چھڑا دیں تو انہیں اختیار ہے اور اس دودھ پلانے کی مدت میں ان کا ! کھانا کپڑا موافق دستور کے باپ کے ذمہ ہے۔
” چونکہ بعد تولد بچہ کے خاوند بیوی میں علیحدگی بھی ہوجاتی ہے اس لئے یہ حکم فرمایا ورنہ خانہ دار عورت کا نفقہ تو خاوند کے ذمہ ہی ہوتا ہے۔ “
یہ نہ ہوگا کہ عورت اس کو مجبور کرے کہ میں پلاؤ ہی کھاؤں گی اور اطلس ہی پہنوں گی اور بچے کا باپ طاقت نہیں رکھتا بلکہ جس قدر اس کو وسعت ہو اتنا ہی دے اس لئے کہ ہر ایک نفس کو اس کی ہمت کے موافق ہی حکم ہوا کرتا ہے۔
نہ تو ماں اپنے بچے کی وجہ سے خاوند کو ضرر پہنچاوے کہ خواہ مخواہ خاوند سے زیادہ ہی مانگے اور نہ باپ اپنے بچہ کے سبب سے اس کی ماں کو تکلیف دے کہ خواہ مخواہ بلا ضرورت اس سے جدا کرکے کسی دوسری دایہ ہی سے دودھ پلوائے جس سے اس کی ماں کو بہ سبب جدائی بچہ کے تکلیف پہنچے غرض ہر ایک دوسرے کی آسائش اور آرام کے مخالف کام نہ کرے اور اگر باپ نہ ہو تو اسی قدر باپ کے وارثوں کے ذمہ ہے یعنی اگر تایا چچا یا دادا وغیرہ ہیں تو ان کے ذمہ ہے کہ اس بچہ کی پرورش کا خرچ اس کی ماں کو دیویں اگر وہ بھی نہ ہوں تو اسی بچہ کے مال سے جو اس کو وراثتاً باپ سے ملتا ہے اس کی ماں کا خرچ دیا جاوے پھر اگر وہ دونوں (ماں باپ) اپنی مرضی اور مشورہ سے بچے کو قوی لائق کھانے پینے کے جان کر مدت سے پہلے ہی دودھ بڑھانا یعنی چھڑانا چاہیں تو اس بڑھانے میں ان پر کوئی گناہ نہیں اس لئے کہ ماں باپ سے زیادہ شفیق دنیا بھر میں کوئی نہ ہوگا مناسب قوت بچے کے جب چاہیں بڑھا سکتے ہیں اور اگر کسی وجہ سے مشورہ کر کے کسی دایہ سے اپنی اولاد کو دودھ پلوانا چاہو اور بچے کی ماں سے وعدہ کرلو کہ ہم بچے کو تجھ سے ہر روز یا دوسرے روز ملا دیا کریں گے اور وہ اس کو مان بھی جائے تو اس میں تمہیں کوئی گناہ نہیں بشرطیکہ جو کچھ ان کی دائیوں سے دینا کیا ہے دستور کے موافق دے دیا کرو۔ یعنی ماؤں اور دائیوں سے حسب وعدہ برتاؤ کرو اور اس ایفاء عہد میں اور نیز دیگر امور دینی اور دنیاوی میں اللہ سے ڈرتے رہو اور دل سے جان لو کہ اللہ تمہارے کاموں کو دیکھ رہا ہے یہ احکام مذکورہ متعلق زیست تو سن چکے ہو۔ اب کسی قدر موت کے متعلق بھی سنو ! جو لوگ مرتے ہوئے اپنے پیچھے بیویاں چھوڑ جاتے ہیں۔ وہ بیویاں ان کے ماتم میں چارمہینے دس روز سوگ میں بیٹھا کریں
” شان نزول عرب میں دستور تھا کہ شوہر کی موت کے بعد ایک سال تک بیوہ ماتم میں رہتی اور کسی قسم کی غلاظت بھی بدن سے دور نہ کرتی بعد ایک سال کے کسی چارپایہ کے منہ سے اپنا فرج لگا کر ایک مینگنی اپنے سر کے اوپر سے پیچھے کو پینک دیتی جس سے اس کی عدت کا خاتمہ سمجھا جاتا چونکہ اس قدر درازی مدت عورت کے لئے بلائے عظیم تھی اس کی مدت کم کرنے کو یہ آیت نازل ہوئی “
پھر جب اپنی مدت پوری کرچکیں۔ تو جو کچھ وہ اپنے حق میں موافق دستور زیب وزینت بغرض نکاح ثانی کریں تو اس میں تم پر کوئی گناہ نہیں تم اس سے ناراض نہ ہو اور اگر بوجہ بیہودہ عار اس امر کے کہ ہماری بہن یا بھاوج دوسرے سے نکاح کیوں کرتی ہے ان کو منع کروگے تو یادرکھو کہ اللہ تمہارے کاموں سے پوری خبر رکھتا ہے خوب ہی سزا دے گا۔ اور یہ بھی مت کرو کہ یہ سمجھ کر کہ بعد عدت کسی اور سے نکاح نہ کرے ابھی سے اس کا انتظام کرلو۔ ہاں اس میں تم پر گناہ نہیں کہ اشاروں سے پیغام نکاح پہنچاؤ مثلاً کسی ایسے شخص سے کہو جو اس عورت سے ملنے والا ہو۔ مرد یا عورت کہ اگر کوئی عورت پاک دامن ہمیں مل جائے تو ہم اس سے نکاح کرلیں یا اسی عورت ہی کو اشاروں سے کہہ دو کہ تیرے جیسی شریف عورت کو کون نہیں چاہتا یا اپنے جی میں اس راز کو چھپائے رکھو کہ بعد عدت میں اس سے نکاح کروں گا۔ اس سے بھی اگر تم کو روکا جاوے تو تم رک نہیں سکتے اس لیے کہ اللہ کو معلوم ہے کہ تم ان کو ضرور یاد کرو گے اس امر کا کسی نہ کسی طرح سے اظہار بھی کروگے سواتنی کی تو اجازت ہے لیکن چپکے چپکے ان سے وعدہ نہ لیا کرو کہ ہم سے نکاح کرنا‘ ہاں اتنی اجازت ہے کہ بھلی بات ان سے کہو جس سے وہ تمہاری خواہش دریافت کرکے بعد فراغت ماتم سے تمہارا خیال رکھیں۔ اور پھر ہم کہتے ہیں کہ نکاح کا وعدہ ہرگز پختہ نہ کیجو جب تک کہ عدت پوری نہ ہولے اس لئے کہ ماتم کے زمانہ میں عورت حواس باختہ ہوتی ہے ایسے وقت میں اسے تمیز نہیں ہوتی کہ کس سے کرنا ہے کس سے نہیں کون لائق ہے کون نالائق وہ بیچاری غم رسیدہ مردکانام بھی غنیمت سمجھتی ہے چاہے انجام اس کا اچھا ہو یا برا۔ لیکن بعد عدت جوایک زمانہ دراز ہے سب کچھ سوچ سمجھ کر کرے گی۔ جس کا انجام بھی اچھا ہوگا۔ سو تم ان کو ایسی مصیبت کے وقت کچھ نہ کہو اور جان لو کہ اللہ تمہارے دل کی باتیں بھی جانتا ہے سو اس سے ڈرتے رہو جس قدر اس نے اجازت دی ہے اسی پر اکتفا کرو اور جو کچھ غلطی ہوجاوے اس پر توبہ کرو۔ اور توبہ کرتے ہوئے دل سے جانو کہ اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا بردبار ہے۔ ایسا نہیں کہ تھوڑے سے گناہ پر سخت عذاب نازل کردے اس بردباری کی وجہ سے تمہاری توبہ پر زیادہ توجہ ہوگی اس لئے کہ جو کوئی بالادست حاکم کو باوجود بردبار سمجھنے کے اس سے ڈرتا ہے اس کے آگے گڑگڑاتا ہے اس سے اچھا ہے جو اس کو غضب ناک جان کرنادم ہو اور ڈرے یہ بھی اس کی مہربانی کے آثار ہیں کہ تم کو سمجھاتا ہے کہ اگر بوجہ کسی خرابی ظاہری یا باطنی کے ملاپ کے ذریعہ عورتوں کو چھونے اور مہر باندھنے سے پہلے ہی طلاق دیدو تو تمہیں کوئی گناہ نہیں۔ ہاں یہ ضروری ہے کہ ان کو بے عزت نہ کرو۔ اور کچھ خرچ ان کو دیا کرو۔ یہ نہیں کہ سو ہزار دینا فرض ہے نہیں بلکہ وسعت والا اپنے مناسب اور تنگی والا اپنے مناسب اچھی طرح گذارہ دستور کے موافق دیوے۔ گو یہ حکم عام طور پر بھی ہے لیکن بھلے لوگوں پر واجب ہے کہ دیویں کیونکہ وہ تو حتی المقدور کسی کی دل شکنی نہیں کیا کرتے پھر ایسے موقع پر کیوں نہ دیں جہاں چند پیسوں سے کسی زخم خودرہ کی دلجوئی ہوسکے اور اگر مہر باندھ کر ژقاف یعنی خاوند بیوی کے ملاپ سے پہلے طلاق دو تو مقررہ مہر سے نصف دینا تم پر واجب ہے
” شان نزول : ایک شخص نے انصار میں سے ایک عورت سے نکاح کیا تھا اور مہر بھی پختہ ٹھیرا تھا کہ ملنے سے پہلے ہی کسی وجہ سے رنجش ہونے پر طلاق دے دی اس پر یہ آیت نازل ہوئی معالم “
مگر جب عورتیں سب ہی معاف کردیں یا خاوند جو نکاح کا مالک ہے اپنا دیا ہوا سارا چھوڑدے اور نصف واپس نہ لے تو کوئی حرج نہیں اور حق تو یہ ہے کہ اگر پہلے دے چکے ہو تو سارا ہی معاف کرنا پرہیز گاری اور احسان کے زیادہ مناسب ہے اگر محسن ہو تو دیا ہوا واپس نہ لو اور باہمی احسان کرنا نہ سمجھ لو اس احسان کا عوض ضرور پاؤگے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے کاموں کو دیکھتا ہے۔ ایسا بھی نہ ہو کہ عورتوں کے جھگڑوں میں پھنس کر اللہ کی یاد ہی بھول جاؤ اسی لئے ہم تمہیں خبردار کرتے ہں۔۔ کہ پنجگانہ نمازوں ! کو اپنے اپنے وقت میں جماعت سے ادا کیا کرو خاص کر درمیانی نماز یعنی عصر کی پورے طور سے نگہبانی کرو۔
”(حافظوا) صحابہ کرام نماز میں ایک دوسرے سے باب چیت کرلیا کرتے تھے ان کو روکنے کے لئے یہ آیت نازل ہوئی معالم “
اور اللہ کے آگے نماز پڑھتے ہوئے عاجزی سے کھڑے ہوا کرو۔ یہ جان کر اللہ تعالیٰ ہم کو اور ہمارے دلی ارادوں کو دیکھتا ہے تم اگر نماز کے وقت کسی دشمن کے حملہ سے ڈرو تو تمہیں اختیار ہے کہ پاپیا وہ پڑھو یا سوار جس طرح تم کو اپنا بچاؤ معلوم ہواسی طرح کرو مقصود صرف توجہ الی اللہ ہے نہ کہ استقبال قبلہ پھر جب تم بے خوف ہوجاؤ تو نماز میں اللہ کو یادر کیا کرو۔ جیسا کہ اس نے اپنے رسول کی معرفت تم کو سکھایا ہے جو تم نہیں جانتے تھے اس لئے کہ رسول کے بھیجنے سے غرض اصلی یہی ہوتی ہے کہ جس امر دینی کو قوم نہ جانتی ہو ان کو بتادے اور ان کی بیہودہ رسوم کو مٹا دے جیسے کہ تمہاری یہ رسم ہے کہ جو شخص مرتے وقت کہہ مرے کہ میری بیوی میرے مرنے کے بعد میرے ہی مکان میں ایک سال تک رہ کر گذارہ کرے تو اس کی بیوی پر ضروری ہوتا ہے کہ ایسا ہی کرے اور اس کے ورثا بھی اس بیچاری کو مجبور کرتے ہیں حالانکہ یہ ایک بے ہودہ رسم ہے جس سے اس بیوہ پر ازحد تکلیف ہوتی ہے اتنی مدت مدیدہ میں وہ کسی سے نکاح نہیں کرسکتی ہے پس اس رسم قبیح کے مٹانے کو ہم حکم دیتے ہیں۔
” شان نزول عرب میں دستور تھا کہ مرتے ہوئے اگر خاوند اس مضمون کی وصیت کرجاتا تو خاوند کے ورثاء پر اس کی پابندی ضروری ہوتی ان کے رد میں یہ آیت نازل ہوئی “
کہ جو لوگ مرتے ہوئے بیویاں پیچھے چھوڑ جائیں اور بغیر نکالنے کے سال بھر تک ان بیویوں کو خرچ دینے کی وصیت بھی کرگئے ہوں ! پھر بھی وہ عورتیں اگر بعد چار مہینے دس روز عدت شرعی پوری کرکے ان خاوندوں کے گھروں سے نکل جائیں۔ تو ان کو روکو نہیں اس لئے کہ جو کچھ وہ دستور کے موافق اپنے حق میں زیب وزینت بغرض نکاح کریں گی اس میں تم پر گناہ نہیں اور اگر تم ان کو روکو گے یا وہ خود ناجائز طریقے سے شرع کی مخالفت کریں گے تو اللہ ان کو خود سزا دے سکتا ہے اس لئے کہ اللہ ہر کام پر غالب ہے اور ساتھ ہی اس کے بڑی حکمت والا دنیا میں کسی ایسی بلا میں پھنسا دے گا کہ تمہیں پہلے سے اس کی خبر تو کجا وہم بھی نہ ہو پس اس سے ڈرو
”(وصیت بھی کرگئے ہیں) اس آیت کی تفسیر میں بھی قدرے اختلاف رائے ہوا ہے بعض بلکہ اکثر مفسرین اس کی تفسیر اسے طرز سے کرتے ہیں جس سے انہیں اس آیت کو منسوخ ٹھیرانا پڑتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس کے معنے ہیں ” جو لوگ فوت ہوں وہ اپنی بیویوں کے حق میں وصیت کر جائیں کہ سال کامل تک ان کو گذارہ ملے“ اور یہ حکم ابتدائے اسلام میں تھا۔ بعد اس کے چار مہینے دس روز عدت والی آیت (جو اس سے پہلے آچکی ہے) نازل ہوئی تو اس نے اس حکم کو منسوخ کردیا۔ بعض صاحب کہتے ہیں کہ پہلی آیت اور اس آیت کے اپنے اپنے موقع پر معنے ہیں منسوخ ان میں سے کوئی نہیں۔ اگر عورت بعد وفات شوہر خاوند کے گھر میں رہنا پسند نہ کرے تو وہ چار مہینے دس روز عدت گذارے اور اگر اس میں رہنا پسند کرے تو سال بھر رہے۔ تیسری توجیہ اس آیت کے متعلق یہ ہے کہ ” جو لوگ مرتے ہوئے وصیت کر جاتے تھے کہ میری بیوی کو سال تک نہ نکالنا اور اس کا سارا خرچہ دیتے رہنا۔“ ان کی اس رسم کو مٹانا منظور ہے اختلاف اس لئے ہے وَصِیَّۃً سے پہلے ایک فعل محذوف ہے کیونکہ وصیت مفعول مطلق یا مفعول بہ ہے اس کا فعل محذوف ہے سو پہلے لوگ اس کا فعل فَلْیُوْصُوْا نکالتے ہیں جس کے معنے ہیں ” پس وصیت کر جائیں“ اور بعض علماء وَقَدْ اَوْصَوْا نکالتے ہیں جس کے معنے یہ ہیں کہ ” وصیت کر گئے ہوں“ تفسیر کبیر میں امام رازی (رح) نے اس توجیہ کے کرنے پر تین دلیلیں لکھی ہیں جو یہ ہیں :۔
(احدھا) ان النسخ خلاف الاصل فوجب المصیر الی عدمہ بقدر الا مکان (والثانی) ان یکون الناسخ متاخرا عن المنسوخ فی النزول واذا کان متاخرا عنہ فی النزول کان الاحسن ان یکون متاخراً عنہ فی التلاوۃ ایضا لان ھٰذا الترتیب احسن فاما تقدم الناسخ علے المنسوخ فی التلاوۃ فھو وان کان جائزا فی الجملۃ الا انہ یعد من سوء الترتیب وتنزیہ کلام اللّٰہ تعالیٰ عنہ واجب بقدر الا مکان ولما کانت ھٰذہ الاٰیۃ متاخرۃ عن تلک فی التلاوۃ کان الاولیٰ ان لایحکم بکونھا منسوخۃ بتلک (والوجہ الثالث) وھو انہ ثبت فی علم اصول الفقہ انہ متی وقع التعارض بین النسخ وبین التخصیص کان التخصیص اولیٰ وھھنا ان خصصنا ھاتین الاٰیتین بالحالتین علیٰ ماھو مذھب مجاھد اندفع النسخ فکان المصیر الیٰ قول مجاھد اولی من التزام النسخ من غیر دلیل وامآ علیٰ قول ابی مسلم فالکلام اظھر لانکم تقولون تقدیر الاٰیۃ فعلیھم وصیۃ لازواجھم او تقدیرھا فلیوصوا وصیۃ فانتم تضیفون ھذا الحکم الیٰ اللّٰہ تعالیٰ وابومسلم یقول بل تقدیر الاٰیۃ والذین یتوفون منکم ولھم وصیۃ لازواجھم او تقدیرھا وقد اوصوا وصیۃ لازواجھم فھو یضیف ھٰذا الکلام الیٰ الزوج واذا کان لابد من الاضمار فلیس اضمارکم اولیٰ من اضمارہ ثم علیٰ تقدیر ان یکون الا ضمارما ذکرتم بلزم تطرق النسخ الیٰ الاٰیۃ وعند ھٰذا یشھد کل عقل سلیم بان اضمار ابی مسلم اولیٰ من اضمارکم وان التزام ھٰذا النسخ التزام لہ من غیر دلیل مع ما فی القراٰن بھٰذا النسخ من سوء الترتیب الذے یجب تنزیہ کلام اللّٰہ عنہ وھٰذا کلام واضح واذا عرفت ھٰذا فنقول ھٰذہ الاٰیۃ من اولھا الیٰ اٰخرَھا تکون جملۃ واحدۃ شرطیۃ فالشرط ھو قولہ والذین یتوفون منکم ویذرون ازواجا وصیۃ لازواجھم متاعا الیٰ الحول غیر اخراج فھٰذا کلہ شرط والجزاء ھو قولہ فان خرجن فلا جناح علیکم فیما فعلن فی انفسھن من معروف فھٰذا تقریر قول ابی مسلم وھو فے غایۃ الصحّۃ (جلد ثانی ص ٢٩٢)
ایک ! تو یہ کہ نسخ اصل کے خلاف ہے (یعنی اصل یہ ہے کہ ہر حکم جناب باری کا بحال رہے) پس حتی المقدور اسی طرف رجوع ہونا چاہیے (دوسری ٢ؔ دلیل) یہ ہے کہ ناسخ منسوخ سے اترنے میں پیچھے ہو۔ جب نزول میں پیچھے ہو تو انسب ہے کہ پڑھنے میں بھی پیچھے ہو اس لئے کہ یہی ترتیب (کہ ناسخ دونوں طرح منسوخ سے پیچھے ہو) بہت عمدہ ہے گو کہ کسی قدر ناسخ کا منسوخ سے پڑھنے میں پہلے ہونا بھی جائز ہے لیکن اس میں شک نہیں کہ یہ ترتیب (کہ ناسخ پڑھنے میں پہلے ہو) اچھی نہیں سمجھی جاتی اور جہاں تک ہوسکے ایسی بے ترتیبیوں سے کلام اللہ کو پاک سمجھنا چاہیے اور یہ آیت (جس کو منسوخ ٹھیراتے ہیں) اس ناسخہ سے پڑھے جانے میں پیچھے ہے تو بہتر یہ ہے کہ اس کو اس سے منسوخ نہ ٹھیرایا جاوے۔ (تیسری دلیل) کا خلاصہ ١ ؎ بھی یہی ہے کہ جہاں تک ہوسکے دو آیتوں کو جمع کرنا ہی بہتر ہے منسوخ کرنے سے (اس کے بعد امام علام نے محاکمہ کیا ہے کہ) یہ تقریر ابومسلم کی نہایت ہی صحیح ہے“ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ علام امام رازی مرحوم بھی اسی کو پسند کرتے ہیں۔
حدیث ہے جو بخاری مسلم نے ام سلمہ کی روایت سے بیان کی ہے کہ ایک عورت نے آپ کی خدمت میں عرض کیا کہ میری لڑکی کا شوہر فوت ہوگیا ہے اور قبل عدت اس کی آنکھیں دکھتی ہیں اس کو سرمہ لگا دیں؟ آپ نے فرمایا ہرگز نہیں اب تو عدت صرف چار مہینے دس روز ہے اتنے میں تم کھساھ جاتی ہو اور ایام کفر میں تو کامل ایک سال تک اسی طرح بیٹھا کرتی تھیں اور بعد سال کے حسب دستور مینگنی ڈالا کرتی تھیں۔
اس حدیث شریف میں جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (فداہ روحی) نے اس عورت کو سال بھر عدت کا عار دلانے کے لئے ایام کفر یاد دلائے اور یہ نہ فرمایا کہ اس سے پہلے اللہ تعالیٰ کا حکم سال بھر بیٹھنے کا تھا۔ اب اس نے اپنی مہربانی سے چار مہینے دس روز کردیئے ہیں تم اب بھی گھبراتی ہو۔ اس سے دلالۃً مفہوم ہوتا ہے کہ سال بھر عدت اسلام میں پہلے نہیں تھی جس کو منسوخ کہا جائے اگر کوئی صاحب کہیں کہ ان ایام کفر کے یاد دلانے سے ان کی مینگنی کی رسم کی مذمت کا بیان کرنا منظور تھا سو قلت مدبر ہے سیاق حدیث سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مدت سابقہ کی درازی کا جتلانا منظور ہے۔ نہ کہ مینگنی کا جھگڑا جسے طول یا قصر مدت سے کوئی بھی علاقہ نہ ہو۔ بہر حال یہ وجوہ ہیں جن کی وجہ سے میں نے اس آیت کو منسوخ نہیں ٹھیرایا۔ واللّٰہ اعلم وعلمہ اتم “
( ای متمضمن للشرط۔
اس دلیل کی تقریر چونکہ اصولی طرز پر ہے جو عوام سمجھ نہیں سکتے اور خواص عربی ہی میں سمجھ سکتے ہیں اس لئے اسکا ترجمہ نہیں کیا۔ ) “
اور طلاق والیوں کا موافق دستور جو گذارہ ہے وہ ان کو دیا کرو بالخصوص پر ہیز گاروں یعنی نیک وکاروں پر ضروری ہے اس لئے کہ وہ عدت کے دنوں میں تمہارے ہی فراق میں ہیں تمہارے ہی زخم رسیدہ ہیں پھر کیا انصاف ہے کہ ان کی خبر نہ لو اسی طرح تمہارے لئے اللہ اپنے احکام بیان کرتا ہے تاکہ تم سمجھو اگر مال کی کمی سے ڈرتے ہو تو کیا تم نہیں جانتے کہ اگر اللہ چاہے تو بغیر خرچ کرنے کے بھی اس کو ضائع کردے۔ یہ تو مال ہی ہے اللہ تو ایسا زبردست مالک ہے کہ تمہاری جانیں بھی اس کے قبضہ میں ہیں اگر چاہے تو ایک ہی آن میں تم سب کو فنا کردے |
البقرة |
232 |
|
البقرة |
233 |
|
البقرة |
234 |
|
البقرة |
235 |
|
البقرة |
236 |
|
البقرة |
237 |
|
البقرة |
238 |
|
البقرة |
239 |
|
البقرة |
240 |
|
البقرة |
241 |
|
البقرة |
242 |
|
البقرة |
243 |
(243۔252 (۔ کیا تمہیں ! ان لوگوں کا قصہ معلوم نہیں جو اپنے"گھروں سے ہزاروں جمع ہو کر موت سے ڈرتے ہوئے نکلے تھے یہ سمجھ رہے تھے کہ نکلنے سے ہماری جان سلامت رہے گی جیسا تم سمجھتے ہو کہ مال کے روکنے سے مال بچ رہے گا۔ اور خرچ سے کم ہوگا۔ پھر اللہ نے ان کو حکم دیا کہ مر جاؤ فوراً مرگئے پھر اس نے ان کو زندہ کیا
” شان نزول :۔ مشرکین عرب قیامت سے منکر تھے اور ہمیشہ یہی کہتے تھے کہ مر کر زندہ ہونا ایک محال امر ہے ان کے مقابلہ میں یہ آیت دلیل نقلی کے طور پر نازل ہوئی “
”(جو اپنے گھروں سے) ان لوگوں کی تعیین میں اختلاف ہے کہ کون تھے۔ بعض سلف کہتے ہیں کہ ایک بستی میں وبا پڑی تھی وہاں کے بعض اشخاص نکل کر دوسری جگہ چلے گئے جب بعد دفع وبا کے واپس آئے تو ان کی صحت دیکھ کر پیچھے رہنے والوں نے کہا کہ اگر اب کے وبا پڑی تو ہم بھی نکل جائیں گے اتفاقاً پھر ایک دفعہ وبا پڑی تو وہ لوگ بھی نکل بھاگے۔ راہ ہی میں اللہ نے ان کو فوت کردیا۔ حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ ایک بادشاہ نے بنی اسرائیل میں سے اپنی قوم کو جہاد کا حکم دیا۔ وہ بہانہ کرتے ہوئے بولے کہ جس ملک میں ہمیں جانا ہے اس میں وبا ہے جب تک آرام نہ بنو لے ہم نہیں جائیں گے پس اللہ نے ان سب کو مار دیا ان کی دلیل ہے کہ اس سے آگے اللہ تعالیٰ جہاد کی ترغیب دیتا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ قصہ بھی مجاہدین کا ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ حزقیل نبی (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو جہاد کی ترغیب دی تھیں وہ اس سے گھبرائے تو انہوں نے دعا کی کہ یا اللہ ان کو کوئی نشانی انہیں کی جانوں میں دکھا تاکہ
یہ تیرے حکم کو مانیں پس اللہ نے ان کو مار دیا اور پھر زندہ کیا۔ ان روایتوں سے کوئی روایت صحیح ہو یا کوئی غلط۔ قرآن کے مضمون کو اس سے بحث نہیں۔ قرآن کریم سے اتنا تو بوضاحت ثابت ہوتا ہے کہ اللہ نے ان کو مار کر پھر زندہ بھی کیا۔ باقی رہی سر سید اور مرزا صاحب قادیانی کی تاویلات (یاتحریفات) سو الفاظ قرآنی کے مقابلہ میں تار عنکبوت سے بھی ضعیف ہیں۔ ہرگز اس قابل نہیں کہ ادھر توجہ کی جائے کیونکہ دلائل عقلیہ سے احیاء اموات کا امکان اور نقلیہ سے اطلاق ثابت ہے۔ رہا سپر نیچرل (خلاف عادت) سو اس کا مفصل جواب پہلے گذر چکا “
تاکہ وہ اور ان کے اس قصہ کے سننے والے عبرت پاویں اور یہ سمجھیں کہ ہماری زندگی ہماری ترقی ہماری عمدہ تدبیروں پر مبنی نہیں بلکہ اصل میں سب اللہ کی مہربانی ہے بے شک اللہ لوگوں کے حال پر بڑا ہی مہربان ہے لیکن بہت سے لوگ اس مہربانی کا شکریہ نہیں کرتے۔ بلکہ اپنی ترقی اور اپنی صحت اور سلامتی اپنی تدابیر ناقصہ سے جانتے ہیں۔ یہی شکر نہیں کہ ہر کام میں زبانی شکر شکر کیا کرو۔ بلکہ شکریہ ہے کہ حسب توفیق اللہ تعالیٰ کے لئے خرچ بھی کرو اور (مسلمانو !) جب موقع ہو تو اللہ کی راہ میں مخالفوں سے لڑاکرو۔ اور دل میں جان رکھو کہ اللہ ہر ایک کی سنتا ہے اور جانتا ہے
بعض لوگ جب خرچ کرنے کا نام سنتے ہیں تو ان پر مثل موت کے گراں گذرتا ہے یہ نہیں جانتے کہ دیا ہوا کہیں جانے کا نہیں آخرتم دنیا میں قرض بھی تو ایک دوسرے کو دیتے ہو۔ جو بعد مدت تم کو وصول ہوجاتا ہے۔ اسی طرح کوئی ہے جو اللہ کو بھی قرض حسنہ ہی سمجھ کر دے پھر اس کی طرف سے تمسک لکھوالے کہ اخلاص مندی پر وہ کئی گنازیادہ اس کو دیگا
” جہاد وغیرہ ضروریات مذہبی اور قومی میں خرچ کرنے کی ترغیب دینے کو یہ آیت نازل ہوئی۔ “
پس اے سودخوارو ! دنیا میں چار آنے آٹھ آنے روپیہ سینکڑا سو دلینے والو ! آؤ غربا پر احسان کرو اور اللہ سے اس کے عوض میں کئی گنا سود لو اور اگر اب بھی باز نہ آؤ تو یادرکھو کہ اللہ ہی تنگی اور فراخی کرتا ہے سیدھے منہ نہ دوگے تو اسے تنگ کردینا بھی آتا ہے اس کے حکم سے جو کچھ دوگے اس سے زیادہ تم کو دے گا۔ آخر تو تم نے اس کی طرف لوٹنا ہے اپنی بھلے کی سوچو اور بعض کوتاہ اندیشوں کی طرح بوالہوس نہ بنو کہ باوجود جاننے مفید کام کے محض اپنی عافیت ظاہری چند روز کے لئے ان سے منہ پھیر جاتے ہیں جس کی وجہ سے آخر کار دقت پر دقت ان کو نصیب ہوتی ہے۔ کیا مثال کے لئے تمہیں بنی اسرائیل کی جماعت کا قصہ حضرت موسیٰ کے بعد کا معلوم نہیں
” شان نزول :۔ ! جہاد میں ترغیب دینے کو یہ آیت بصوراک تاریخی واقع کے نازل ہوئی۔ “
جب انہوں نے خود ہی اپنے وقت کے نبی سے درخواست کی تیص کہ ہمارے لئے کوئی بادشاہ اعلیٰ فوجی افسر مقرر کردے جس کے ساتھ ہو کر ہم اللہ کی راہ میں اپنے دشمنوں سے جن کے ہاتھ سے ہم جاں بلب ہیں لڑیں اس (نبی) نے کہا کہ اگر اس بادشاہ کی طرف سے تم کو لڑنے کا حکم ہوا تو تم سے لڑنے کی امید نہیں تم تو بزدلی سے بھاگ جاؤ گے وہ بولے کہ اللہ کی راہ میں ہم کیوں نہ لڑیں گے حالانکہ اس سستی اور غفلت ہی کا نتیجہ ہے کہ ہم اپنے ملک اور بال بچوں سے نکالے گئے ہیں اور سب مال اسباب ہمارا دشمنوں نے لوٹ لیا پس خلاصہ یہ کہ جب ان کو بادشاہ کی طرف سے لڑنے کا حکم ہوا تو سوائے چند اشخاص کے سب نے پیٹھ دیدی اور بد عہدی سے اپنی جانوں پر ظلم کئے جس کی سزا ان کو بھگتنی پڑی اس لئے کہ اللہ تو ظالموں کو خوب جانتا ہے تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ برطبق ان کی خواہش کے ان کے نبی نے ان سے کہا کہ اللہ نے تمہارے لئے ایک شخص طالوت کو (جو بوجہ) اپنی دینداری اور لیاقت علمی کے اس کام کے لائق ہے بادشاہ (اعلیٰ افسر) بنایا ہے۔ اس کی فرمانبرداری کرو۔ اور اس کے ساتھ ہو کر اللہ تعالیٰ کی راہ میں دشمنوں سے لڑو۔ انہوں نے اپنی کوتاہ اندیشی سے اس کی لیاقت اور دین داری پر تو غور نہ کی اور ظاہر بینوں کی طرح جھٹ سے بولے کہ بھلا وہ ہم پر کیسے حاکم ہوسکتا ہے حالانکہ ہم اس سے حکومت کا حق زیادہ رکھتے ہیں اس لیے کہ ہم تو کسی قدر مالدار بھی ہیں اسے تو مال کی بھی چنداں فراخی نہیں ہے۔ اس نبی نے ان کو سمجھاتے ہوئے کہا کہ گو مال اس کے پاس نہیں اور نہ مال کی اس میں چنداں ضرورت ہے جن امور کی حکومت کے لئے ضرورت ہے وہ تو تین ہی باتوں میں منحصر ہیں ایک تو دینداری کہ ناحق کے ظلم وستم نہ کرتا پھرے دوسری لیاقت علمی کہ امور مملکت کو بخوبی انجام دے سکے۔ تیسری کسی قدر جسامت اور ظاہری ڈیل ڈول بھی ہو ایسا دبلا پتلا بھی نہ ہو کہ دیکھنے سے بجائے ہیبت کے بے رعبی ہو۔ سو ان تینوں باتوں میں وہ کامل ہے۔ اس میں شک نہیں کہ اللہ نے اس کو تم پر بزرگی دی ہوئی ہے اور علم بھی اس کو وسیع دیا ہوا ہے۔ اور بدن میں فربہی ( تروتازگی) بخشی ہے۔ علاوہ اس کے یہ ہے کہ اللہ اپنا ملک اور اس کی حکومت جس کو چاہتا ہے دیتا ہے۔ تمہارا کوئی حق نہیں کہ تم سوال کرو اور اپنے استحقاق جتلاؤ مناسب غیر مناسب کو وہ خود ہی جانتا ہے تمہارے جتلانے کی حاجت نہیں اور اللہ بڑی ہی وسعت والا علم والا ہے باوجود اس بیان شافی کے انہوں نے قناعت نہ کی اور اس نبی سے اس کی حکومت کی نشانی مانگی جس کے جواب میں ان کے نبی نے ان سے کہا کہ اس کی حکومت کی نشانی یہ ہے کہ تمہارے پاس ایک صندوق آئے گا
”(صندوق آئے گا) اس کا نام تابوت سکینہ تھا اس میں بنی اسرائیل کے بزرگوں کے تبرکات رکھے رہتے تھے لڑائی کی وقت بنی اسرائیل اس کو میدان جنگ میں بڑی جانفشانی سے لڑتے ایک تو اس کے سبب سے جوش مذہبی ہوتا تھا۔ دوم یہ خطرہ رہتا کہ کہیں سستی کرنے سے دشمن اس کو لوٹ نہ لیں۔ جس کا لٹ جانا ان کو ایسا ناگوار تھا۔ جیسا کہ امت میں نبی کا قتل ہوجانا مگر بنی اسرائیل کے ضعف سے آخر تابوت سکینہ مخالفوں کے پاس چلا گیا۔ انہوں نے اس کو بڑی بے ادبی سے پائخانہ میں رکھا تھا۔ جس کا بنی اسرائیل کو سخت رنج تھا۔ نبی نے ان کو خوشخبری سنائی کہ طالوت کی حکومت کی یہ علامت ہے کہ تابوت سکینہ تمہارے پاس آجائے گا چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ مخالفوں نے اس کو نکال کر بیل گاڑی میں لادا تو بیل فرشتوں کی تحریک سے سیدھے بنی اسرائیل میں چلے آئے بنی اسرائیل اس کو دیکھ کر شاد شاد ہوئے اور مقابلہ میں جان توڑ کر لڑے اور فتح یاب ہوئے “
جس میں اللہ کی طرف سے تمہیں تسکین ہوگی اور حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون کی قوم کی چھوڑی ہوئی چیزیں ہوں گی یعنی عصا وغیرہ بزرگوں کی مستعملہ اشیاء ہونگی جن کو بنی اسرائیل بڑی متبرک سمجھتے تھے فرشتے اس کو اٹھائے ہوئے لاویں گے اور تمہارے بیچ میں رکھ دیں گے جس کے دیکھنے سے تمھیں تسلی ہوجائے گی۔ بیشک اس صندوق کے اس طور سے آنے میں تمہارے لئے بڑی نشانی ہوگی اگر تم ماننے والے ہوئے تو اسی پر قناعت کروگے اور اگر ضدی ہوئے تو کوئی علاج نہیں چنانچہ ایساہی ہوا اور بعد دیکھنے اس واقعہ کے ان کے دلوں میں غیرت مذہبی اور غیظ ملکی جوش زن ہوا اور انہوں نے اس طالوت کو اپنا حاکم سمجھا پس اس نے فوج کی کمان شروع کی اور جہاد کے لئے سب نے تیاری بھی کرلی مگر چونکہ ان میں بہت سے ناآزمودہ کار اور خام جوشیلے تھے۔ نیز بسا اوقات کثرت ہجوم سے انتظام میں خلل بھی آجاتا ہے جس کے سبب سے انجام کار ہزیمت ہوجاتی ہے اس لئے ایسے وقت میں کسی زبردست پالیسی (حکمت عملی) کی ضرورت تھی پس اس نے ایسا ہی کیا کہ جب طالوت اپنی فوج کے ساتھ باہر کو چلا تو بولا کہ اللہ تم کو ایک نہر کے پانی سے آزمائے گا۔ پس جو شخص اس نہر سے پئے گا وہ میری جماعت سے نہ ہوگا اور جو نہ پئے گا تو وہ میرا ہمراہی ہوگا۔ مگر جو شخص بوجہ شدت پیاس کے ایک چلو ہاتھ سے بھر لے گا اس کو معافی دی جائے گی پس جب لوگ اس نہر پر پہنچے تو سوائے چند لائق اشخاص کے سب نالائقوں نے اس سے پانی پی لیا۔ پس طالوت نے اپنے پہلے حکم کے مطابق ان کو علیحدہ کردیا پھر جب وہ اور اس کے حکم کے ماننے والے مخلص تابعدار اس کے ساتھ اس نہر سے آگے بڑھے۔ تو بعض لوگ دشمن (جالوت) کی شوکت دیکھ کر بول اٹھے کہ آج تو ہم میں جالوت اور اس کی فوج کے مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں لیکن سب یکساں نہیں ہوتے جن لوگوں کو یقین تھا کہ اللہ کی مدد پاویں گے۔ وہ ان کے جواب میں بولے کہ گھبراتے کیوں ہو کیا ہوا اگر دشمن کی فوج عظیم اور بے شمار وباشوکت ہے بہت دفعہ تھوڑے لوگ بہتوں پر اللہ کے حکم سے غالب آجایا کرتے ہیں تم اللہ پر بھروسہ کرو اور اگر کچھ تکلیف پہنچے تو صبر کرو اللہ کی مدد صابروں کے ساتھ ہے۔ اور ان کے اس کہنے سے سب فوج کو تسلی ہوگئی اور مستقل ہو کر آگے بڑھے اور جب وہ جالوت کی فوج کے مقابل لڑنے کو آئے تو سب سے پہلے وہ اللہ سے مستدعی ہوئے کہ اے ہمارے مولا ! ہمیں تکلیفوں پر صبر عطاکر اور دشمنوں کے مقابلہ میں ہمارے قدم مضبوط رکھ اور ہمیں ان کافروں کی قوم پر فتح نصیب کر بے شک تو ہی اپنے بنددوں کا مددگار ہے۔ اور تیری مدد سے بیڑا پار ہے پس اللہ نے ان کی یہ مخلصانہ دعا قبول کرلی اور انہوں نے ان سب جالوطیوں کو اللہ کے حکم سے بھیگا دیا اور ان کے بادشاہ جالوت کو حضرت داؤد (علیہ السلام) نے جو ان دنوں جوان اور طالوت کی فوج میں سپاہی تھے‘ قتل کیا پھر تو طالوت کی فتح نمایاں ہوگئی اور اللہ نے داؤد کو طالوت کے بعد سب ملک کا اختیار دیا اور اصل تہذیب اور شائستگی جو حکومت کے لئے ضروری ہے حضرت داؤد کو سکھائی اور بوقت ضرورت اس داؤد نے جو سیکھنا چاہا اللہ تعالیٰ نے اس کو سکھایا جس کے سبب سے اس کا لقب خلیفۃ اللہ ہوگیا پھر تو ان کے تمام دشمن دب گئے اور فتنہ وفساد فرد ہوگئے بے شک اگر اللہ بعض لوگوں ظالموں کو بعض عادلوں کے ذریعہ سے دفعہ نہ کرے تو زمین سب خراب ہوجائے۔ لیکن اللہ ایسے ظالموں کو جن کا ظلم اپنی حد تک پہنچ جاتا ہے ضرور ہلاک کرتا ہے اس لئے کہ وہ دنیا کے رہنے والوں پر بڑا ہی مہربان ہے کہ ان کے نقصانات کو کسی قسم کے ہوں جسمانی یاروحانی پورا کردیتا ہے یہ قصہ اور اس کے مشابہ ہماری بتلائی ہوئی خبریں ہیں ان کو ہم تجھ سے واقعی طور پر بیان کرتے ہیں اور تو بھی صحیح طور سے لوگوں کو سناتا ہے اس لئے کہ بے شک تو اللہ کے رسولوں سے ہے جیسے کہ وہ غائب کی خبریں با طلاع الٰہی سنایا کرتے تھے اسی طرح تو بھی بتلاتا ہے |
البقرة |
244 |
|
البقرة |
245 |
|
البقرة |
246 |
|
البقرة |
247 |
|
البقرة |
248 |
|
البقرة |
249 |
|
البقرة |
250 |
|
البقرة |
251 |
|
البقرة |
252 |
|
البقرة |
253 |
(253۔257)۔ گو رسالت کے مرتبہ میں سب برابر ہیں آغاز الجز الثالث من التفسیر :۔ مگر تاہم ہم نے ان رسولوں میں سے بعض کو بعض پر بزرگی اور فضیلت دی ہے۔ مثلاً تجھ کو اے محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سب سے افضل بنایا۔ اور بعض ان میں سے ایسے بھی ہیں کہ جن سے اللہ نے باتیں بھی کیں جیسے حضرت موسیٰ اور بعض کے کسی اور وجہ سے درجہ بلند کئے اور عیسیٰ مریم کے بیٹے کو کھلی نشانیاں ہم نے دیں اور روح پاک جبرئیل سے اس کو قوت دی
” روح القدس کی تفسیر خود قرآن نے دوسری جگہ کردی ہے قل نزلہ روح القدس (یعنی جبرئیل (سورۃ النحل) “
نہ جیسا کہ اس کے مخالف یہودیوں کا خیال ہے کہ وہ جھوٹا نبی تھا اور نہ جیسا کہ اس کے نادان دوست عیسائیوں کا غلط گمان ہے کہ وہ اللہ وحدہ لا شریک کا بیٹا اور ایک حصہ تھا یہ ایسے خیالات واہیہ سب کے سب انبیاء سے پچھلے لوگوں نے تراشے ہیں اور اگر اللہ چاہتا تو نبیوں سے پچھلے لوگ بعد آنے دلائل واضح کے آپس میں نہ لڑتے جھگڑتے لیکن چونکہ انہوں نے باہمی اختلاف کیا یعنی بعض تو مان گئے اور بعض انکاری رہے جس کا اثر لازمی حسب عادت جاریہ قتل قتال اور لڑائی جھگڑا ہوا باوجود اس کے بھی اگر اللہ چاہتا تو کبھی نہ لڑتے وہ ان کے اثر لازمی کو بھی روک سکتا تھا۔ لیکن اللہ نے ایسا نہ چاہا اس لئے کہ وہ عموماً وہ کام کرتا ہے جو ارادہ کرے اور اس کا ارادہ ہمیشہ علل پر جیسی کہ ہوں آثار مرتب کرتا ہے جب ہی تو تمہیں حکم دیتا ہے کہ اے مسلمانو ! ہمارے دیے ہوئے میں سے غربا کی حاجت روائی میں خرچ کیا کرو۔ پہلے اس سے کہ وہ دن آپہنچے کہ جسمیں نہ تجارت ہوگی کہ اس مال سے فائدہ اٹھا سکو اور نہ کسی کی دوستی اور نہ سفارش ہی بلا اذن کام آئیگی۔ صرف نیک اعمال اور ہاتھ کا دیا ہی کام آئے گا۔ سو تم اگر اس دن کی تکلیف سے بچنا چاہتے ہو تو سب سے مقدم یہ ہے کہ اللہ کی توحید پر پختہ ہوجاؤ اور جان لو کہ توحید سے منکر ہی بڑے ظالم ہیں کیونکہ ایک سیدھی راہ چھوڑ کر ٹیڑھے جارہے ہیں یعنی اللہ کے سوا اور معبود مانتے ہیں حالانکہ سوائے اللہ کے کوئی دوسرا معبود نہیں تھا نہ اب ہے نہ آئندہ ہی ہوسکتا ہے اس لئے کہ وہ ہمیشہ سے ہمیشہ تک زندہ بلکہ سب چیزوں کو زندگی بخشنے والا ہے اور اکیلا ہی بذات خود سب مخلوق کا انتظام کرنے والا اس کے کسی کام میں فتور نہیں آسکتا۔ اس لئے کہ نہ اس کو اونکھ آتی ہے نہ نیند۔ جو کچھ آسمان اور زمین میں ہے سب اسی کی ملک ہے۔ وہ شہنشاہ ایسی ہیبت کا مالک ہے کہ کسی کی مجال نہیں کہ اس کے سامنے چوں کرے کون ہے جو بلا اجازت اس کے پاس کسی کی سفارش کرے کیا نبی کیا ولی کیا مومن کیا کافر سب اس کی ہیبت سے لرزاں اور ترساں ہیں۔ کمال علمی اس کے کی کوئی حد نہیں۔ وہ لوگوں کے آگے پیچھے کی سب چیزیں جانتا ہے اور لوگ اس کے معلومات سے کچھ بھی نہیں جان سکتے۔ مگر جس قدر کہ خود ہی بتلانا چاہے۔ اس کی حکومت ١ نے تمام آسمان اور زمین کو گھیر رکھا ہے مجال نہیں کہ کوئی چیز اس کی حفاطت سے باہر ہو اور ہو بھی کیسے جبکہ محافظ ایسا زبردست ہے کہ باوجود اس قدر وسعت کے ان کی حفاظت سے تھکتا نہیں۔ اور وہ سب سے بلند اور بڑی عظمت اور بزرگی والا ہے
” اس آیت میں جو کرسی کا لفظ ہے اس کے معنے میں بھی مفسرین کا قدرے اختلاف ہے بعض کہتے ہیں کرسی ایک چوکی ہے جو تمام آسمانوں سے اوپر ہے جس کے اوپر عرش ہے بعض کہتے ہیں کرسی سے مراد یہاں علم ہے۔ میں نے جو ترجمہ اختیار کیا ہے۔ یہ ترجمہ حضرت شاہ ولی اللہ علیہ الرحمہ کا ہے اور اسی پر یہی انسب ہے۔ کرسی کے معنے علم کے بھی آئے ہیں۔ یہ معنے بھی موقع کے مناسب ہیں۔ “
باوجود اس بیان واضح کے اگر تیری نہ مانیں تو غم نہ کر اس لئے کہ دین میں ظلم جبر نہیں کہ خواہ مخواہ کسی کو بزور پکڑ کر اسلام میں لایا جائے
” شان نزول :۔ ! عرب میں دستور تھا کہ جب کسی عورت کی اولاد زندہ نہ رہتی تو وہ نذر مانتی تھی کہ اگر میرا بچہ زندہ رہے گا تو میں اس کو یہودی بنائوں گی جیسے ہمارے ملک کی عورتیں مشرکانہ خیال والی کہا کرتی ہیں کہ اگر میرا بچہ زندہ رہا تو فلاں قبر والے کا مرید بنائوں گی اور اس کی نشانی یہ ہوتی ہے کہ اس کے نام کی چوٹی اس کے سر پر رکھی جاتی ہے) چنانچہ بہت سے لوگوں کی اولاد اتفاقاً زندہ رہ کر اسی طرح یہودی بنی ہوئی تھی جب آپ نے بنی نضیر کے یہودیوں کو ان کی بدعہدی کی وجہ سے عرب سے خیبر کی طرف جلا وطن کیا تو اس قسم کے بچے بھی ان یہودیوں میں تھے ان کے مسلمان ورثاء نے اس وجہ سے کہ یہ بچے ماں باپ کی غلطی سے یہودی بنائے گئے تھے چاہا کہ ان کو جبراً روک لیں اور یہودیوں کے ساتھ نہ جانے ویں اس پر یہ آیت نازل ہوئی (معالم) مخالفین ذرہ غور سے دیکھیں ١٢ منہ “
ہدائیت کی راہ گمراہی سے ممتاز ہوچکی ہے پس جو کوئی جھوٹے معبودوں سے منہ پھیر کر اکیلے سچے اللہ پر ایمان رکھے تو جان لو کہ اس نے ایک ایسا نجات کا مضبوط سہارا لیا جو ہرگز نہ ٹوٹے گا اور جو کچھ یہ لوگ کہتے ہیں اللہ سنتا ہے جانتا ایسے ہی مؤمنوں کا بالخصوص اللہ متولی امور ہے ہر طرح ان کی بہتری کے سامان مہیا کردیتا ہے چنانچہ محض اپنی مہربانی سے شرک کفر وغیرہ کے اندھیروں سے ان کو نکال کر نور توحید کی طرف لے جاتا ہے او توحید کو ان کے دلوں میں ایسا مضبوط کرتا ہے کہ مشرک کیسی ہی کوشش کریں ان کو شرک میں پھنسا دیں ہرگز نہیں پھنسا سکتے اور جو لوگ توحید سے منکر ہیں وہ چونکہ زاندئہ درگاہ ہیں اس لئے ان کے دوست شیاطین ہیں ہمیشہ ان کو ایمان سے اندھیروں کی طرف لے جاتے ہیں اور یہی ذہن نشین کرتی ہیں کہ فلاں بت یا فلاں قبر سے حاجت روائی ہوتی ہے جس کا آخری نتیجہ یہ ہے کہ یہی لوگ جہنم کی آگ کے لائق ہیں۔ اور اس میں ہمیشہ رہیں گے تو ان کی بیہودہ باتیں سن کر کیوں تعجب کرتا ہے۔ ہمیشہ سے قاعدہ ہے کہ لوگ دو قسم کے ہوتے ہیں ایک تو دیندار چاہے کسی مذہب کے پیرو کار ہوں وہ تو بعد سمجھنے حق بات کے ہدایت سے سرتابی نہیں کرتے۔ دوسرے دنیا دار جو اپنے مذہب کو یونہی برائے نام بتلادیں اصل میں ان کا کوئی مذہب نہیں ہوتا صرف چالبازی جانتے ہیں ایسے لوگ باوجود دیکھنے بین ثبوتوں کے بھی اپنے غلط خیال چھوڑا نہیں کرتے۔ |
البقرة |
254 |
|
البقرة |
255 |
|
البقرة |
256 |
|
البقرة |
257 |
|
البقرة |
258 |
(258۔260)۔ کیا تجھے اس گمراہ شخص کا حال معلوم نہیں جس نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے بوجہ اس کے کہ ابراہیم اللہ کی توحید کا قائل تھا اور وہ ملحد سرے سے اللہ کا منکر اپنے پروردگار کی بابت عناد سے جھگڑا کیا تھا۔ اس وجہ سے کہ اللہ عالم الغیب نے اس کو بادشاہ بنایا تھا پھر وہ اپنی چند روزہ بادشاہی پر ایسا نازاں ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا مدعی بن بیٹھا۔ جب ابراہیم نے اس کے سوال (کہ میرے سواتیرا اللہ کون ہے) کے جواب میں کہا میرا پروردگا وہ ہے جو سب کو زندہ کرتا اور مارتا ہے۔ وہ بولا کہ زندہ تو میں رکھتا ہوں اور مارتا بھی میں ہوں چنانچہ اسی وقت ایک قصور وار مجرم کو چھوڑ دیا اور بے قصور کو مروا دیا۔ ابراہیم نے جانا کہ اس بات سے یہ نادان قائل نہ ہوگا اس کو کسی ایسے پیچ میں لائیں کہ اس کا جواب نہ دے سکے یہ سوچ کر ابراہیم نے کہا کہ اللہ تو سورج کو ہر روز مشرق سے لاتا ہے اگر تو ہی اللہ ہے تو ایک روز اس کو مغرب سے چڑھا اس لیے کہ جب مشرق سے تو لا سکتا ہے تو مغرب سے لانے میں کیا دقّت ہے۔ پس یہ سن کر وہ کافر حیران رہ گیا۔ جواب کچھ نہ بن پڑا چونکہ معانن تھا یہ نہ ہوا کہ ہدایت کو قبول کرتا اور اپنے مالک کے آگے جھکتا۔ الٹا ابرہیم سے الجھنے لگا جس کی سزا اس کو یہ ملی کہ اللہ نے اسے سمجھ ہی نہ دی کہ ابراہیم کے اس سوال کا جواب کیا دے اس لئے کہ اللہ ایسے ظالموں کو صادقوں کے مقابلہ میں راہنمائی نہیں کیا کرتا۔ جیسا یہ قاعدہ ظالوں کو ہدائیت نہ کرنے کا اللہ نے مقرر کر رکھا ہے ایسا ہی یہ بھی مقرر ہے کہ جو کوئی با خلاص نیت کوئی سوال حل کرانا چاہے اور اللہ سے مدد مانگے اللہ اس کو آسان کرکے اس کی راہ نمائی کرتا ہے کیا تو اس شخص کو نہیں ! جانتا جو ایک پرانی گری ہوئی بستی پر سے گذرا اور اس کو خراب اور اس کے رہنے والوں کو مرے پڑے دیکھ کر بولا کہ اس بستی کے رہنے والوں کو بعد مرنے کے اللہ کیونکر زندہ کرے گا؟ یہ ایک قسم کا تردد اسے ہوا جس کے دریافت حال کو اس نے سوال کیا چونکہ یہ سوال اس کا محض دینداری کی وجہ سے تھا اس لئے اللہ نے اس کو ایسے طور سے تشفی دی کہ بعد اس کے کسی دلیل کا محتاج نہ رہا۔ پس اللہ نے سو برس تک اس کو مار رکھا۔ پھر بعد سو برس کامل کے اس کو زندہ کرکے پوچھاکہ کتنی مدت توں یہاں پر ٹھیرا ہے۔ وہ بوجہ مرنے کی حالت سے بے خبر ہونے کے بولا کہ ایک دن یا کچھ حصہ دن کا ٹھیرا ہوں (اللہ نے) کہا ایک آدھ دن تو کجا بلکہ سو برس تک ٹھیرا ہے مگر تجھے معلوم نہیں۔ یہ ہماری ہی قدرت ہے کہ تجھے سو برس بعد زندہ کیا نہ صرف تجھے ہی زندہ کیا بلکہ تیرے متعلق کئی ایک اور بھی خرق عادت محض اپنی قدرت کاملہ سے کئے تیری ایسی چیزیں جو عموماً درازی زمانہ سے بگڑ جاتی ہیں وہ تو صحیح سالم رکھیں ہیں اور جن کو کسی قدر درازی مضر نہیں ان کو بگاڑ دیا اور بگڑی ہوئی کو تیرے سامنے درست بھی کریں گے۔ پس تو دیکھنا چاہے تو اپنے کھانے اور پانی کو دیکھ کہ باوجود سریع الزوال ہونے کے ابھی تک نہیں بگڑا اور اپنی سواری کی طرف دیکھ کہ کیسی گلی پڑی ہے تجھے بعد سو برس کے زندہ کرکے تیری تشفی کرتے ہیں اور ہم تجھ کو لوگوں کے لئے نشانی بنا دیں گے۔ تاکہ آئندہ جن لوگوں کو مردوں کے زندہ ہونے میں شک ہو وہ تیرے تاریخی حالات سن کر یقین کریں اور اپنی سواری کی ہڈیوں کو دیکھ کہ کس طرح ان کو ابھار کر گوشت چڑھائیں گے پھر تیرے سامنے ہی زندہ ہو کر پھرنے لگ جائے گا۔ پس جب اسے اصل حال معلوم ہوگیا ہاں بے شک اللہ ہی بڑی قدرت والا ہے تو بولا کہ میں خوب جانتا ہوں کہ اللہ سب کام کرسکتا ہے۔ چونکہ یہ سوال اس کا محض دینداری سے تھا اس لئے وہ فوراً سمجھ گیا۔
”(کیا تو اس شخص کو نہیں جانتا) اس قصہ اور اس سے آئندہ قصہ ابراہیمی کی نسبت کل مفسرین کا اتفاق ہے کہ یہ واقعات ان دونوں سائلوں کی بیداری میں واقع ہوئے گو ان کا پہلے قصے میں بسبب نہ ہونے نام سائل کے کسی قدر اختلاف ہوا ہے کہ یہ سائل کون تھا بعض نے کہا کہ کوئی کافر تھا بعض نے کہا مؤمن۔ بعض نے کہا نبی۔ بعض نے اس نبی کا نام بھی بتلایا کہ وہ حضرت عزیر تھے۔ تفسیر کبیر میں حضرت ابن عباس (رض) سے ایک روایت منقول ہے اس سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ سائل حضرت عزیر (علیہ السلام) تھے مگر سرسید احمد خاں کو یہاں بھی ایک نیا ہی خواب آیا۔ کہ انہوں نے اس قصہ کا سرے سے انکار کر کے جان چھڑائی اور اس کو خواب سے متعلق بتلایا کہتے ہیں کہ اس بزرگ نے خواب میں اللہ تعالیٰ سے احیاء موتیٰ کا سوال کیا اور خواب ہی میں اپنے کو سو برس تک مرے ہوئے دیکھا اور حضرت ابراہیم نے بھی جو کچھ کیا خواب ہی میں کیا۔ وجہ اس انکار کی تو وہی سپر نیچرل (خلاف عادت کا استحالہ ٹوٹا پھوٹا ہتھیار ہے۔
دلیل ان کی یہ ہے کہ :۔
” بزرگوں کو جو اس قسم کے خلجان قلبی پیش آیا کرتے ہیں ان کا دفعیہ ان کو کشف اور خواب ہی میں ہوا کرتا ہے پس ضرور ہے کہ ان بزرگوں کو بھی جو ایک عقدہ دربارہ احیاء موتے پیش آیا ہے اس کا دفعیہ خواب میں ہوا ہوگا۔ حضرت ابراہیم سے نہ تو پہلے کسی نے اور نہ خود ابراہیم نے مردہ کا زندہ ہونا دیکھا تھا اس لئے کوئی ذی عقل اس قسم کے سوالات اللہ سے نہیں کرسکتا“ (تفسیر جلد اوّل ص ٢٩٢)
دوسریؔ دلیل جو ذکر میں پہلے حضرت ابراہیم سے مخصوص ہے کہ :۔
” یہ سوال ابراہیم (علیہ السلام) کا رویت سے ہے اور یہ ظاہر ہے کہ رویت کیفیت احیا موتی نہیں ہوسکتی اس لئے کہ غائت مافی الباب یہ ہے کہ اگر ہمارے سامنے مردہ زندہ ہوجائے یا کوئی بیمار اچھا ہو۔ تو ہم اتنا تو جان لیں گے کہ زندہ بیمار اچھا ہوگیا مگر اس کی زندگی کی کیفیت ہمیں معلوم نہ ہوگی کہ کس طرح ہوا پس حضرت ابراہیم کا سوال رویت قلبی سے متعلق تھا جو خواب میں ان کو حل ہوگیا (صفحہ ٢٩١)
ناظرینؔ! سید صاحب کی اس قسم کی تاویلات سے آپ کو تو تعجب ہوتا ہوگا۔ مگر دراصل تعجب نہیں اس لئے کہ جناب تو اسی کے خوگیر ہیں بھلا اس کا بھی کچھ ثبوت دیا کہ بزرگان دین کو ہمیشہ عقدہ کشائی اور حل مطالب خواب ہی میں ہوا کرتا ہے۔ کیا حضرت زکریا (علیہ السلام) کو بے ٹا کی خبر سے تعجب نہیں ہوا تھا قالَ اَنّٰی یَکُوْنُ لِیْ غُلَامٌ وَقَدْ بَلَغْتُ مِنَ الْکِبَرِ عِتِیًّا۔ کیا حضرت مریم علیہا السلام کا عقدہ اَنّٰی یَکُوْنُ لِیْ غُلَامٌ وَّلَمْ یَمْسَسْنِیْ بَشَرٌ بھی خواب میں خواب ہوا تھا۔ سید صاحب ! جیسا کہ پہلے کہہ آیا ہوں کہ علماء کا دستور تھا کہ کہتے ہوئے دعویٰ کی دلیل بھی سوچ لیتے تھے مگر آپ نے جیسا کہ مذہب میں تجدید کی طریق مناظرہ اور اثبات دعا دی میں بھی سب سے تجرد اور انفراد کیا سچ ہے؟
قتل عاشق کسی معشوق سے کچھ دور نہ تھا
پر تیرے عہد سے پہلے تو یہ دستور نہ تھا
پھر آپ کا یہ ارشاد کہ ” ابراہیم سے پہلے اور نہ خود ابراہیم نے مردوں کو زندہ ہوتے دیکھا تھا اس لئے یہ سوال ذی عقل کا کام نہیں“ حضرت ! بے ادبی معاف۔ حضرت موسیٰ سے پہلے کسی نے یا خود موسیٰ نے بھی پہلے سوال رویت (رَبِّ اَرِنِیْٓ اَنْظُرْ اِلَیْکَ) کے اللہ کو دیکھا تھا؟ پس بتلا دیں ایسی بے معنی بات جو جی میں آئے کہہ دینا ذی عقل کا کام ہے؟ نہیں بیشک نہ تو حضرت ابراہیم سے پہلے اور نہ خود ابراہیم نے احیاء اموات دیکھا تھا۔ مگر ممکن سمجھتے تھے ممکنات مقدورات باری سے سوال کرنا ہر ذی عقل اور ایماندار کا کام ہے گو آپ کا نہ ہو۔ ہاں آپ کا یہ کہنا کہ مردہ زندہ ہونا تو ہم دیکھ سکتے ہیں مگر اس کی کیفیت نہیں دیکھ سکتے۔“ بہت خوب دلیل ہے۔ قطعی ہے۔ جناب والا حضرت ابراہیم کا سوال بھی اسی رویت سے متعلق تھا۔ جس کو آپ بھی مانتے ہیں ان کو اس کیفیت سے جو مقولہ کیفہ (لا یقتضی القسمۃ واللّٰہ قسمتہ) سے ہی بحث نہیں تھی۔ یہ تو وہ جانتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کو اسباب اور آلات کی حاجت نہیں چنانچہ ان کا بَلٰے کہنا اس کی وضاحت کرتا ہے اطمینان قلبی وہ صرف رویت امر عجیب کے متعلق چاہتے تھے آپ کیف سے بلاکیف بگڑ گئے اور یہ سمجھ گئے کہ یہ کیفیت فلسفیانہ کیفیت ہے حالانکہ یہ کلام عرف پر مبنی ہے جیسا کوئی کسی مسحریزم والے کو کہے کہ میرے سامنے عمل کرتا کہ میں اس کی کیفیت دیکھوں تو اس کے معنے حسب عرف عام ہم یہی سمجھتے ہیں کہ اس سوال سے تاثیر فعل کا دیکھنا منظور ہے نہ کہ کیفیت فعل کا پس آپ کا فرمانا کہ کیفیت احیاء اموات تو کسی طرح مرئی نہیں ہوسکتی عرف عام اور خطابیات سے چشم پوشی ہے۔ رہا آپ کا ٹوٹا پھوٹا ہتھیار نیچرل سو اس کا جواب قرأت مرات گذر چکا ہے۔ فتذکر۔ جیسے سر سید احمد خاں ان واقعات سے انکاری ہیں ایسے ہی ان کے روحانی فیض یاب (مراز قادیانی) بھی منکر ہیں کیوں نہ ابن الفقہ نصف الفقیہ مشہور ہے ١٢ منہ “
اسی کی مثل ایک اور واقعہ بھی سنو ! جب ١ ابراہیم نے محض دینداری سے بغرض دریافت حال اپنے رب سے کہا کہ اے میرے مولا ! مجھ کو دکھاکہ تو مردوں کو کسی طرح زندہ کرے گا۔ اللہ تعالیٰ تو اس امر کو جانتا تھا کہ ابراہیم کا سوال بغرض تسلی اور مزید اطمینان ہے نہ کہ انکار اور عناد سے مگر اس خیال سے کہ بعدلوگ ابراہیم کے اس سوال سے اس کا نقصان ایمانی نہ سمجھیں اس امر کے اظہار کرنے کو ابراہیم سے کہا کہ تجھے یقین نہیں؟ کہ مردے زندہ ہوں گے (ابراہیم نے) کہا ہاں لیکن میں محض اطمینان قلبی کے لئے (پوچھتا ہوں) کہ مجھے علم الیقین سے عین الیقین ہوجائے (اللہ عالم الغیب نے) کہا کہ چار جانور لے کر اپنے پاس رکھ لے تاکہ تجھے بخوبی ان کی پہچان ہو۔ پھر ان کو ذبح کرکے ان کا ایک ایک ٹکڑا ہر ایک پہاڑ پر جو اس وقت تیرے ارد گرد ہیں رکھ دے پھر ان کو بلا تو دیکھ کہ وہ فوراً تیرے پاس اللہ کے حکم سے بھاگتے ہوئے آوینگے اور بخوبی جان رکھ کہ اللہ تعالیٰ بڑا زبردست حکمت والا ہے کسی کام کے کرنے سے عاجز نہیں
” شان نزول مشرکین عرب قیامت کو مردوں کے زندہ ہونے کے سخت مخالف تھے‘ اور اس کو ایسا مشکل محال جانتے تھے جیسا کہ سیاہ اور سفید کا ایک جگہ جمع ہونا ان کو سمجھانے کی خاطر حضرت ابراہیم (جن کو وہ لوگ بھی اپنا مقتدا مانتے تھے) کا واقع نقل کرنے کو یہ آیت نازل ہوئی ١٢ منہ “
” عام طور پر اس آیت کا مطلب یہی بتایا جاتا ہے مگر تدقیق نظر سے ان معنے کا ثبوت قرآن مجید کے لفظوں سے نہیں ہوتا قرآنی عبارت میں دو لفظ قابل غور ہیں (١) صُرْ اس کے اصلی معنے ہیں جھکا چنانچہ تفسیر معالم وغیرہ میں اس کا ترجمہ اَمِلْ کیا گیا ہے اور شاہ عبدالقادر دہلوی نے بھی یہی ترجمہ کیا ہے۔ دوسرا لفظ جزو ہے جب وہ ایک چیز کی طرف نسبت ہوتا ہے تو اس چیز کا ایک ٹکڑا مراد ہوتا ہے اور جب کسی جمع کی طرف مضاف ہوتا ہے تو اس جمع میں سے ایک فرد مراد ہوتا ہے جیسے کہیں یہ لڑکا دسویں جماعت کا جزو ہے قرآن مجید میں بھی جزء مقسوم انہیں معنے سے آیا ہے پس اس صورت میں معنے آیت کے یہ ہوئے کہ ان چار جانوروں کو اپنی طرف مائل کر پھر ان میں سے ایک ایک کو پہاڑ پر رکھ کر بلا تیرے پاس آجاویں گے تو اس سے سمجھ لے گا کہ جس طرح یہ وحشی جانور تیرے بلانے پر آگئے ہیں اللہ کے بلانے پر سب مردہ چیزیں زندہ ہوجاویں گی انشاء اللہ تعالیٰ منہ “ |
البقرة |
259 |
|
البقرة |
260 |
|
البقرة |
261 |
(261۔266)۔ اس کے تمام کام باحکمت ہیں جو احکام لوگوں کی طرف بھیجتا ہے ان میں بھی صد ہا حکمتیں ہوتی ہیں مگر ان حکمتوں کو پورے طور سے وہ خود ہی جانتا ہے کسی کو غریب کرکے صبر کا حکم دیتا ہے اور کسی کو امیر بنا کر اس کو خرچ کا حکم دیتا ہے۔ اور مثال کے لئے بتلاتا ہے کہ جو لوگ ! اللہ کی راہ میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں اور غریبوں کو حاجت کے موافق دیتے ہیں ان کے خرچ کی مثال ایک دانہ کی طرح ہے جس سے سات بالیں نکلیں۔ ہر بال میں ایک سو دانہ ہے بتلاؤ تو اس کسان کو کتنابڑا فائدہ ہوگا کہ ایک دانہ کے سات سو دانہ ہوگئے
” حضرت عثمان (رض) نے جنگ تبوک کے دنوں میں (جو نہایت تنگی کے زمانہ میں ہوئی تھی) ایک ہزار اونٹ معہ سازو سامان کے دے دئیے اور حضرت عبدالرحمن بن عوف نے چار ہزار درہم نقد دیئے ان دونوں صاحبوں کے حق میں نازل ہوئی ١٢ ف مگر افسوس کہ ایسے بزرگوں کی نسبت بھی نادانوں کی آنکھ کا تنکا ابھی باقی ہے ع
گدر خانہ اگر کس ست یک حرف بس ست (١٢ منہ “
اسی طرح جو اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ان کو بھی ایک پیسہ کے ساتھ سو پیسے ملیں گے اور اس سے بھی زائد جس کے لئے اللہ چاہے گا زیادہ کریگا اور اس کے اخلاص کے موافق اس کو بدلہ دے گا اس کے ہاں کسی طرح کی کمی نہیں اللہ بڑا فراخی والا بڑا جواد سب کے اخلاص کو جاننے والا ہے۔ پس سود خواروں کو اطلاع ہو کہ اگر اپنی دولت سے واقعی نفع اٹھانا چاہیں تو اللہ سے معاملہ کریں اس کی صورت یہ ہے کہ غربا پر رحم کریں اور جہاں تک ہوسکے ان کی حاجت برآری میں ساعی ہوں اور نہیں تو کم از کم اتنا تو کریں کہ ان پر ظلم زیادتی سے ہاتھ صاف کریں اور یہ بھی ضروری ہے کہ اگر غربا پر کچھ احسان کریں تو بعد احسان کرنے کے ان پر کسی قسم کا بیجا دباؤ یا طعنہ نہ کریں۔ اس لئے کہ جو لوگ اللہ کی راہ میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں اور بعد خرچنے کے نہ احسان جتلاتے ہیں نہ کسی قسم کی تکلیف پہنچاتے ہیں ان ہی لوگوں کے خرچ کا بدلہ اللہ کے پاس ہے جہاں سے ان کو نہ ضائع ہونے کا خوف ہوگا اور نہ کسی قسم کے نقصان سے وہ غمناک ہوں گے سچ پوچھو تو محتاجوں سے اچھی طرح نرمی سے بولنا۔ اور معاف کرو کہہ کر واپس کردینا اور اگر مسائل بدزبانی کرے تو اس کی بدزبانی کو معاف کردینا بہتر ہے اس خیرات دینے سے جس کے دینے کے بعد تکلیف پہنچے اور احسان جتلایا جائے اس لئے کہ اس کا کسی قدر اللہ کے ہاں بدلہ بھی ہے مگر اس صدقہ خیرات کا عوض کچھ نہیں کیونکہ اللہ ایسے صدقات لینے سے بے پرواہ ہے بلکہ ایسے صدقہ دینے والے مستوجب سزا ہیں مگر اللہ بڑا برد بار حوصلہ والاہے جو ان کی عذاب رسانی میں جلدی نہیں کرتا اس لئے ہم عام اعلان دیتے ہیں کہ مسلمانو ! اپنی خیرات احسان جتلانے اور تکلیف پہنچانے سے ضائع مت کیا کرو اس شخص کی طرح جو لوگوں کے دکھانے کو خرچ کرتا ہے کہ انہیں سے شاباش سنوں اور اللہ کو جزا سزا کا گویا مالک نہیں مانتا اور قیامت کے دن پر یقین نہیں رکھتا جس کی وجہ سے اس کے تمام صدقات ضائع ہوجاتے ہیں پس اس کے خرچ کی مثال ایک پتھر کی سی ہے جس پر کچھ مٹی ہو اور اس مٹی کی وجہ سے اس پر کچھ روئیدگی بھی ہو۔ پھر اس پر بڑے زور کا مینہ برس کر اس کو بالکل صاف مصفیٰ کر چھوڑے اسی طرح ان کا حال ہے جو لوگوں کو دکھانے کی غرض سے خرچ کرتے ہیں کہ ان کو مال کے خرچ کرنے سے کچھ بھلائی کی امید ہوتی ہے جیسے کہ پتھر کو دیکھ کر کسان کو۔ مگر اس پر انکا ریا جو مثل زور دار مینہ کے آپڑتا ہے بالکل ہی اس کو صاف کرجاتا ہے یہاں تک کہ اپنی کمائی میں سے کچھ بھی حاصل نہیں کرسکتے۔ سب کاسب ضائع کر بیٹھتے ہیں مگر اتنا نہیں سمجھتے کہ لوگوں کو خوش کرتے ہم کیا لیں گے کوئی ایک آدھ گھڑی اگر خوش بھی ہوا اور اچھا بھی کہہ گیا تو اور کیا اور جو نہ کہہ گیا تو کیا مخلوق کی اتنی ہی شاباش کے لئے حقیقی مالک کی دائمی جزا سے محروم رہنا عقلمندی نہیں مگر غور نہیں کرتے اور اللہ بھی ایسے بے ایمان کافروں کو ہدایت نہیں کرتا یہ ان کے جی میں ڈالتا ہی نہیں کہ بھلا کس جانب ہے اور جو لوگ اپنے مال محض اللہ کی خوشی حاصل کرنے اور اللہ تعالیٰ کے حکموں پر اپنے نفسوں کو مضبوط کرنے کو خرچ کرتے ہیں ان کے خرچ کی تشبیہ ایک باغ کی سی ہے جو کسی میدان صاف کی نرم زمین میں ہو جہاں زور کی بارش پہنچنے سے وہ باغ دوسروں کی نسبت دوگنا پھل لادے پھر اگر گاہے اس باغ پر گاہے بارش نہ بھی ہو تو بھی بوجہ اس کی نرمائش زمین کے شبنم ہی کافی ہے اسی طرح ان کا حال ہے کہ ان کے خرچ کا بدلہ بھی جس قدر ملنا چاہئے تھا ان کے اخلاص کی وجہ سے اس سے بھی دو گنا ملے گا اور اگر کبھی ایسے مخلص لوگ نامناسب جگہ جان کر نہ بھی دیں تو اس کا بدلہ بھی ان کو ضرور ہی ملے گا اس لئے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے کاموں کو دیکھتا ہے جس نیت سے کرتے ہو اس کے موافق بدلہ دے گا۔ حاصل یہ کہ اخلاص مندی سے دیا ہوا ہی کام آتا ہے ریا کاری تو ایسی بری بلا ہے کہ بھرے گھر کو تباہ کرنے والی ہوتی ہے پھر تم ریا کرکے کیا کرلو گے کیا کوئی تم میں سے یہ چاہتا ہے کہ اس کا ایک باغ کھجوروں اور انگوروں کا ہو۔ جس کے نیچے نہریں بہتی ہوں اور اس باغ میں اس کے لئے ہرقسم کے میوجات بھی ہوں اور وہ خود عمر رسیدہ اور ضعیف ہو اور ساتھ ہی اس کے بچے بھی چھوٹے چھوٹے قابل پرورش ہوں پس ایسے نازک وقت میں اس باغ کو (جو سب اثاث البیت اس کا تھا اور اس پر اس کے سارے امور موقوف تھے) ایک لوکا جھوکا چل جائے جس میں آگ کی مانند گرمی ہو۔ پس وہ باغ اس گرم ہو اسے جل جائے بتلاؤ کہ کوئی شخص بھی ایسی مصیبت کو اپنے پر لینا چاہتا ہے؟ کہ عین حاجت شدید کے وقت پھر وہ حاجت بھی نہ صرف ذاتی بلکہ اپنے جملہ ضعفا کی بھی ساتھ ہی ہو پس ایسا ہی جان لو کہ اس حاجت سے (جس کا کسی قدر نقشہ تمہیں بتلایا ہے) بھی بڑھ کر ایک سخت حاجت تم پر آنے والی ہے جس میں تم اپنے خرچ کئے ہوئے مالوں کے اس ضعیف العمر سے بھی زیادہ محتاج ہوگے اگر ان میں ریاکاری یا محتاجوں کو دیکھ کر احسان جتلانا یا کسی قسم کی تکلیف پہنچانا مخلوط ہوگا تو سب کے سب اپنے ہاتھ سے دیے ہوئے مال مثل اس باغ کے راکھ ہوئے دیکھو گے اسی طرح اللہ کھول کھول کر احکام بتلاتا ہے تاکہ تم غور وفکر کرو اور مضر سے بچکر مفید کی طرف آؤ |
البقرة |
262 |
|
البقرة |
263 |
|
البقرة |
264 |
|
البقرة |
265 |
|
البقرة |
266 |
|
البقرة |
267 |
(267۔284)۔ تمہارے ہی فائدہ کو بتلاتا ہے کہ مسلمانو ! اپنی کمائی میں سے عمدہ عمدہ چیزیں اللہ کی راہ میں خرچ کیا کرو اور اس میں سے بھی دو جو ہم تمہارے لئے زمین سے نکالتے ہیں اور یہ سمجھ کر کہ یہ سب کچھ اللہ ہی کا دیا ہوا ہے اسی نے ہمارے لئے زمین سے پیدا کیا ہے اس میں سے گندی چیز کے دینے کا قصد نہ کیا کرو۔ کیا ایسی گندی چیز اللہ کی راہ میں دیتے ہو۔ حالانکہ اگر تم کو کوئی دے تو خود اسے نہیں لیتے ہو ہاں جب قصداً اس سے چشم پوشی کرجاؤ اور بوجہ ناداری مقروض یا اپنی ضروری حاجت کے وہی معیوب لے لو تو اور بات ہے مگر اللہ تعالیٰ کو نہ تو حاجت ہے کہ خواہ مخواہ یہی قبول کرے اور نہ تمہارے فقر فاقہ کی اسے پرواہ کہ اپنے حق کے ضائع ہونے سے ڈرے ایسے خیالات فاسدہ کو دل میں نہ آنے دو اور یقینا جانو کہ اللہ تمہارے مال متاع اور خرچ برچ سے بالکل بے نیاز اور اپنی ذات میں تعریف والاہے تم نے کیا سمجھا کہ وہ تمہارے مالوں کا محتاج ہے ہرگز نہیں۔ وہ تو تمہارے ہی بھلے کو کہتا ہے۔ اگر بھلائی چاہتے ہو تو فوراً خرچ کرو۔ ورنہ شیطان تمہارا دشمن قدیم تمہارے پیچھے لگا ہوا ہے وہ ہر وقت تم کو فقر فاقہ سے ڈراتا ہے کہ اگر کارخیر میں خرچ کرو گے تو تمہاری فلاں حاجت رک جائے گی ۔ بیٹے بیٹی کی شادی پر تمہیں اتناروپیہ چاہیے۔ اور برے کاموں اور بے حیائی کے طریق بتلاتا ہے ہمیشہ شراب نوشی کراتا ہے رنڈیوں کا ناچ دکھلاتا ہے
” ہمارے زمانہ کے امراء اس آیت کو بغور دیکھیں جن کی امیری سے بجز رنڈیوں اور شراب فروشوں کے کسی کو فیض نہیں ١٢ منہ “
اور اللہ تو باوجود اس کے کہ سب کچھ اسی کا دیا ہوا ہے پھر بھی تمہیں اس کے خرچ کرنے پر اپنی بخشش اور فراخی کا وعدہ دیتا ہے اور اللہ بڑی ہی وسعت والا اور جاننے والاہے جس کو چاہے سمجھ اور تہذیب دے دیتا ہے جس سے وہ اپنے آپ کو پہچان کر اللہ سے اپنی نسبت جان جاتا ہے اور جسے اس امر کی سمجھ ملے کہ میں کیا ہوں اور اللہ کا کہاں تک محتاج ہوں اور اس سے میری نسبت کیا ہے سچ جانو کہ اسے تو بہت سے بھلائی مل گئی مگر اس بات کو سوائے کا مل عقل والوں کے کوئی نہیں سمجھتا اور کوتاہ اندیشوں کا خیال اس کے برخلاف ہے۔ وہ بھلائی دولت کا نام رکھتی ہیں حالانکہ دولت کوئی عزت یا دانائی کی موجب نہیں بہت سے دولت مند ایسے احمق ہیں کہ قطع نظر ان کی دولت مندی کے کوئی ان کی بات سننے کو بھی پسند نہیں کرتا۔ اور بہت سے امیر اپنی بدکرداری اور بخل کی وجہ سے ہر ایک نظر میں حقیر اور ذلیل ہوتے ہیں کیا تم نہیں جانتے کہ جو کچھ تم بخوشی خاطر اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہو یا بوقت ضرورت اللہ کے لئے کوئی نذر اپنے ذمہ مانتے ہو۔ تو سب کی جزا موافق تمہاری نیت کے ملے گی اس لئے کہ اللہ اس کو خوب جانتا ہے اور جو لوگ دیتے ہوئے ریا کو داخل کرتے ہیں ایسے ظالموں کو سخت سزا ملے گی اور ان کا کوئی حمائتی نہیں ہوگا جو ان کو اللہ کی پکڑسے بچاسکے جب ہی تو تمہیں حکم دیا جاتا ہے کہ اخلاص مندی سے خرچ کرو چاہے تھوڑا کرو اگر بہ نیت اخلاص ظاہر کر کے خیرات دو گے تو بھی بہتر ہے اور اگر چھپا کر فقراء کو بانٹو گے تو وہ بہت ہی بہتر ہے اس لئے کہ چھپانے میں بہ نسبت اظہار کے ریا کو دخل کم ہے غرض ریا سے بچو گے تو اللہ تمہارے صدقات قبول کرے گا اور اللہ تمہارے گناہ دور کرے گا اس لئے کہ اللہ تمہارے کاموں سے خبردار ہے جیسا کرو گے ویسا بھرو گے تو اے رسول سچی راہ بتلادے اور خرچ کرنے کے طریق سکھا دے یہ تیرے ذمہ نہیں کہ ان کو راہ رست پر لاوے لیکن اللہ جس کو چاہے سیدھی راہ پر لے آتا ہے۔ ہر ایک کام کی سمجھ دیدیتا ہے کہ اسلام کیا ہے۔ صدقات خیرات کا کیا ڈھب ہے۔ اور تو یہ بھی بتلادے کہ جو مال تم خرچ کرتے ہو سو تمہارے ہی لئے ہے اور مناسب نہیں کہ اللہ کی خوشی حاصل کرنے کے سوا کسی اور غرض سے خرچ کرو۔ اور اس طریق سے جو مال خرچ کروگے اس کا بدلہ تم کو پورا ملے گا اور تمہارا کچھ بھی نقصان نہ ہوگا۔ جیسا کہ دینے میں اخلاص نیت ضروری ہے ایسا ہی مصرف کی تلاش بھی لازم ہے یعنی یہ بھی دیکھا کرو کہ کسی کو دیں ایسا نہ ہو کہ تم اخلاص سے دو مگر لینے والا اس کا مستحق نہ ہو جس سے مستحق کی حق تلفی لازم آوے اس لئے ہم ہی بتلائے دیتے ہیں کہ اس خرچ کے زیادہ حقدار کون ہیں ان محتاجوں کو دو جو اللہ کی راہ میں علم دینی پڑھنے کی وجہ سے بند ہو رہے ہیں۔ باوجود حوائج ضروریہ کے دین خدمت کے خاطر ایسے ہو رہے ہیں کہ زمین میں سفر نہیں کرسکتے۔ ناواقف لوگ ان کو نہ مانگنے سے مالدار جانتے ہیں مگر تو اور تیرے جیسا دانا ان کے چہرے سے ان کو پہچان لاتن ہے ہر ایک کا کام نہیں کہ ان کو پہچانے اس لئے کہ وہ لوگوں سے لپٹ کر نہیں مانگتے پس ایسے لوگوں کی خاطر جہاں تک ہوسکے مقدم سمجھو اور سن رکھو کہ جو مال خرچ کروگے تو اس کا بدلہ ضرور ہی پاؤ گے اس لیے کہ اللہ اس کو پورے طور سے جانتا ہے۔ پس جو لوگ اللہ کے احکام سنتے ہیں ان کی تعمیل کرنے کو شب و روز پوشیدہ اور ظاہر اپنے مال خرچ کرتے ہیں ان کا بدلہ ان کے رب خدا وند عالم کے ہاں موجود ہے جہاں سے نہ ان کو تلف ہونے کا خوف ہے اور نہ ضائع ہونے سے غمناک ہوں گے اس لئے ضائع ہی نہ ہوگا۔ بلکہ کل کا کل محفوظ رہے گا۔
” شان نزول :۔ پہلی آیت کو سن کر حضرت علی اور عبدالرحمن بن عوف (رض) نے رات کو چھپا کر اللہ کی راہ میں مال خرچ کئے ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی۔ منہ “
یہ تو ان کا حال ہے جو بغرض تعمیل احکام خدا وندی اپنے مال خرچ کرتے ہیں اور ان کے مقابل جو لوگ بجائے فیض رسانی کے بوقت ضرورت حاجتمندوں کو قرض دیکر بجائے فیض رسائی کے قرض پر ان سے سود لے کر کھاتے ہیں قیامت میں سخت ذلیل ہوں گے نشانی ان کی یہ ہوگی کہ قبروں سے اٹھتے ہوئے مخبوط الحواسوں کی طرح جنہیں کسی بھوت نے چھوا ہو اہو اٹھیں گے۔
” شان نزول :۔ عرب کے مال دار لوگ عوام سے بے تحاشا سود لیتے تھے جیسا کہ ہمارے ملک کے ظالم بنئے سو سے ہزار تک نوبت پہنچاتے ہیں اس قسم کی کارروائی عام اخلاق سے بھی مخالف ہے ان کے روکنے کو یہ آیت نازل ہوئی۔ علاوہ اس ممانعت کے امیروں پر غربا پروری کے لئے زکوٰۃ بیل فرض کردی گئی ہے۔ مخالفین اس رحم کو غور سے دیکھیں ١٢ منہ “
یہ بری حالت ان کی اس لئے ہوگی کہ وہ دنیا میں اپنی نفسانی خواہش میں پھنس کر بغرض طیب قلبی کہا کرتے تھے کہ تجارت اور سود ایک سے ہیں حالانکہ ان میں بہت فرق ہے۔ جب ہی تو اللہ نے تجارت کو جائز کیا اور سود کو حرام۔ پس جس کے پاس ہدائیت خداوندی پہنچ گئی اور وہ اس فعل شنیع سود خوری سے باز رہا تو جو کچھ اسے پہلے وصول ہوا اسی کا ہے اور اس کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد چاہے عذاب کرے چاہے چھوڑدے اور جو لوگ بعد سننے نصیحت کے پھر وہی فعل سود خوری کریں گے تو یہی آگ کے لائق ہوں گے۔ جس میں وہ ہمیشہ تک رہیں گے۔ سود خوری تو اس قدر مزموم ہے کہ اللہ سود کو ہمیشہ گھٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سود خور ایسا ممسک ہوتا ہے کہ کسی سے بلا عوض احسان کرنا نہیں چاہتا اور مثل تن گدستوں کے ہمیشہ منہ تاکتا رہ جاتا ہے گیا وسعت ہی نہیں رکھتا کہ اپنے مال سے کچھ بہرہ ور ہو۔ اور جو صدقات اور احسان کرنے کے خوگیر ہوں ان کے حوصلے فراخ اور بلند خیالات ہوں ہر کار خیر سے وہ حصہ لیں۔ کیا تم نہیں سنا۔
سخیاں زا موال برمیخورن
بخیلاں غم سیم وزر میخورند
علاوہ اس ذلت اور خواری کے جو سودخوروں کو دنیا میں نصیب ہے اللہ تعالیٰ کی جناب میں ناشکروں کے دفتر میں لکھے جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کو ناشکرے بدکار کسی طرح نہیں بھاتے سچ پوچھو تو ان کا ایمان بھی درست نہیں ورنہ جو لوگ پکے مؤمن ہیں اور عمل بھی نیک کرتے ہیں لوگوں سے احسان بھی کرتے ہیں اور نماز باجماعت وقت پر پڑھتے ہیں اور مالداری کی صورت میں زکوٰۃ بھی دیتے ہیں بے شک ان کا بدلہ ان کے رب خداوند عالم کے ہاں محفوظ ہے نہ ان کو ضائع ہونے کا خوف ہے اور نہ وہ اس کی گم ہونے پر غمناک ہوں گے پس مسلمانو ! تم اللہ سے ڈرتے رہو۔ اور بقایا سود کا چھوڑ دو اگر تم سچے دل سے مؤمن ہو۔ پھر اگر بعد سننے کے بھی نہ کرو گے اور آئندہ کو سود ہی لیتے رہو گے تو اللہ اور رسول کی لڑائی کے لئے خبردار ہوجاؤ اس لئے کہ باوجود تاکید شدید کے نہ ماننا گویا مقابلہ کرنا ہے پس جب تمہاری یہ حالت ہے تو اللہ تعالیٰ بھی تم سے اسی کے مناسب معاملہ کرے گا۔ اور اگر باز آؤ تو تمہارے اصلی مال تم کو مل جائیں گے نہ کسی پر ظلم کرو۔ نہ تم پر ظلم ہوگا۔
” شان نزول :۔ حضرت عباس اور عثمان (رض) نے کسی کسان سے کچھ معاملہ کیا تھا۔ جب کھیتی کٹنے کا وقت آیا تو کسان بولا کہ اگر تم اپنا سارا حق لے لو گے تو میرے کھانے کو بھی کچھ نہ رہے گا نصف لے لو اور نصف کے بدلے آئندہ کو میں تمہیں دگنا دوں گا۔ جب دوسرا موسم آیا اور انہوں نے جب وعدہ زیادہ چاہا تو یہ معاملہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت شریف میں پہنچا۔ تا اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ ان دونوں بزرگوں نے سنتے ہی اس حکم کی تعمیل کی ١٢ م بیشک بڑوں کی بڑی باتیں ہیں ١٢ منہ “
اپنے حقوق اصلی بیشک پورے لوہاں لینے میں ایسی تنگی نہ کرو کہ خواہ مخواہ اس کے گلے پر چھری رکھ دو۔ نہیں آرام سے لو اور اگر (مقروض) تنگدست ہے تو فراخٰ تک اس کو ڈھیل دینا چاہئے۔ اور اگر بالکل معافی کے قابل ہو تو معاف کرنا ہی تمہارے حق میں بہتر ہے اگر جانتے ہو تو ایسا ہی کرو اور حیلے کرتے ہوئے اس دن سے ڈرو جس میں تم اللہ کی طرف پھر و گے پھر ہر ایک جان کو اس کی مزدوری پوری ملے گی اور ان کا کسی طرح سے نقصان نہ ہوگا اسی ظلم سے بچانے کو ہم اعلان دیتے ہیں کہ مسلمانو ! جب تم ایک مدت مقررہ تک قرض پر معاملہ کرنے لگو تو اس کو لکھ لیا کرو۔ آپ ہی نہ لکھو بلکہ کوئی کہنے والا تم میں انصاف سے لکھے اور لکھنے والا حیلے بہانہ سے رکے نہیں۔ کہ میرا خط اچھا نہیں ۔ یا مجھے کچھ کام ہے جیسا اللہ نے اس کو سکھایا ہے لکھنے سے انکار نہ کرے پس یہ سمجھ کر کہ اللہ نے مجھ کو محض اپنی مہربانی سے سکھایا ہے ضرور لکھے اور جس پر قرض ہے وہ بیان کرتاجائے اور بتلاتا ہوا اللہ سے ڈرے جو اس کا رب اور کارساز ہے اور اس کے حق میں سے کوئی چیز کم نہ کرے ہاں اگر مقروض ناسمجھ ہو کہ جانتاہی نہیں کہ سو اور پچاس میں کیا فرق ہے۔ یا بہت ہی بوڑھایا ناتواں ہے یا کسی مانع سے بتلا نہیں سکتا۔ تو ان سب صورتوں میں اس کا متولی انصاف سے بتلاتاجائے اور بعد تحریر کاغذ دو مردوں کو گواہ بنایا کرو۔ اور اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دوعورتیں جو بوجہ دینداری کے تمہاری پسندیدہ گواہوں سے ہوں۔ مقرر کرو۔ تاکہ ایک کے بھولتے وقت دوسری اسے یاددلا دے اس لئے کہ عورتوں میں عموماً نسیان غالب اور حافظہ مغلوب ہوتا ہے اور مقرر کدہ گواہ بلاتے وقت انکار نہ کریں اور مدت مقررہ تک لکھنے میں سستی نہ کیا کرو چھوٹا ہو خواہ بڑا۔ یہ لکھنا اللہ کے ہاں بہت انصاف کی بات ہے اور بڑا مضبوط ذریعہ شہادت یاد رکھنے کا ہے اور اس سے امید ہے کہ تم بروقت ادائے شہادت شک میں نہ پڑو گے۔ ہاں جبکہ معاملہ دست بدست ہو جس کو اسی وقت ہاتھ بہ ہاتھ لیتے دیتے ہو تو اس کے نہ لکھنے میں تمہیں گناہ نہیں۔ اور خاص خاص صورتوں میں خریدو فروخت کرتے ہوئے گواہ مقرر کرلیا کرو سنو ! اس قسم کے معاملات میں نہ محرر کو نقصان پہنچا یا جائے اور نہ گواہ کو کہ خواہ مخواہ موقع بے موقع ان کو کھینچتے پھر و جس سے ان کا نقصان ہو اور اگر اس کام میں اس کا قدرے نقصان ہو تو اس کا ان کو عوض دیا کرو اگر ایسا کروگے یعنی محرر اور کاتب کا نقصان کروگے اور ان کا ہر جانہ ان کو نہ دوگے تو یہ تمہارے حق میں گناہ کی بات ہوگی ایسا مت کرنا اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ اللہ تعالیٰ تم پر مہربان ہے اور تمہارے بھلے کی باتیں تم کو سکھاتا ہے اور اللہ تعالیٰ بعد سکھانے کے غافل اور بے خبر نہیں بلکہ ہر چیز کو جانتا ہے۔
” شان نزول :۔ معاملہ صفا رکھنے کو یہ آیت نازل ہوئی۔ ١٢ منہ “
اور اگر تم سفر میں ہو اور محرر نہ پاؤ تو اپنی کوئی چیز قرض خواہ کے ہاتھ میں بغیر سود گرو دیدیا کرو ہاں اگر کوئی شخص کسی کو معتبر جانے اور اس سے کوئی چیز گرو نہ لے تو وہ معتبر اپنے قرضہ کو ضرورادا کر دے اور اس کی حق تلفی میں اللہ سے ڈرے جو اس کا مالک ہے اگر کسی قسم کی بددیانتی کرے گا تو گویا اپنے مالک سے بگاڑے گا جس کا نتیجہ اس کے حق میں اچھا نہ ہوگا۔ اور اگر تم کسی معاملہ میں گواہ ہو تو گواہی نہ چھپاؤ جو کوئی اس کو چھپائے گا خواہ کسی غرض سے چھپاوے تو جان لو کہ اس کا دل بگڑا ہوا ہے اس کی سزا پائے گا۔ کیونکہ اللہ تمہارے کاموں کو جانتا ہے اس کا علم نہایت وسیع ہے اس لئے کہ اللہ ہی کا ہے جو کچھ آسمانوں ! اور زمینوں میں ہے جبکہ ملک اتنا وسیع ہے تو علم بھی وسیع کیوں نہ ہو پس تم یہ سمجھ کر کہ اللہ سب کچھ جانتا ہے ظاہر وباطن گنا چھوڑ دو اور اگر تم اپنے جی کی بات ظاہر ہو کر کرو گے یا پوشیدہ اس کو کرو گے تو ہر حال میں اللہ تم سے اس کا حساب لے گا پھر جس کو چاہے گا بخشے گا اور جس کو چاہے گا عذاب کرے گا۔ نہ ہوگا کہ کسی قوی اور زبردست سے دب جائے کیونکہ اس سے تو کوئی زبردست ہی نہیں۔ اس لئے کہ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے جیسا کہ اللہ اپنی صفات خداوندی میں کامل اور یکتا ہے اسی طرح بعض بندے بھی اپنی صفات بندگی میں کامل ہیں جو حکم ان کو پہنچے خواہ ان کی طبیعت کے مخالف ہو یا موافق سب کو تسلیم کرتے ہیں
” شان نزول :۔ معاملہ سابقہ کی تاکید کرنے کو کہ انصاف سے کرو اور کسی کی جانبداری نہ کرو۔ یہ آیت نازل ہوئی۔ (منہ) “ |
البقرة |
268 |
|
البقرة |
269 |
|
البقرة |
270 |
|
البقرة |
271 |
|
البقرة |
272 |
|
البقرة |
273 |
|
البقرة |
274 |
|
البقرة |
275 |
|
البقرة |
276 |
|
البقرة |
277 |
|
البقرة |
278 |
|
البقرة |
279 |
|
البقرة |
280 |
|
البقرة |
281 |
|
البقرة |
282 |
|
البقرة |
283 |
|
البقرة |
284 |
|
البقرة |
285 |
(285۔286)۔ چنانچہ یہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اس کے ساتھ والے مسلمان کیسے اپنے اللہ کی اتاری ہوئی باتوں کو مان گئے۔ گو ان کی سمجھ میں نہ آئی لیکن انہوں نے فہم پر تسلیم کو مقدم رکھا پس سب کے سب اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کے رسولوں اور اس کی کتابوں پر یقین لائے اور بولے کہ ہم اللہ کے کسی رسول کے ماننے میں فرق نہیں کریں گے۔ کہ یہود نصاریٰ کی طرح بعض کو مانیں اور بعض سے انکاری ہوں۔ اور یہ بھی بولے کہ حکم ہم کو ہوا ہم نے دل لگا کرسنا اور قبول کرکے اس کی اطاعت کی اگر اس میں ہم سے غلطی ہوجائے تو اے ہمارے اللہ ہم تیری بخشش چاہتے ہیں اور اس امر کا اقرار کرتے ہیں کہ مر کر تیری طرف پھرنا ہے اللہ کی طرف سے بھی ایسے نیک بندوں کی دعا قبول ہوئی اس لئے اللہ کسی کو طاقت اس کی سے بڑھ کر حکم نہیں دیتا
” شان نزول :۔ پہلی آیت جس میں اِنْ تُبْدُوْا ہے اس کے ظاہری معنی تھے کہ اگر تم اپنے جی کی بات کو چھپائو گے تو بھی عذاب ہوگا اس سے صحابہ کو رنج اور بیقراری ہوئی اور عرض کیا کہ اگر ہمارے دلوں کے خیالات فاسدہ پر بھی ہمیں سزا ملی تو پھر ہمارا کیا حال ہوگا دل میں تو خیالات ہر طرح کے بلا اختیار آجاتے ہیں آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ بنی اسرائیل کی طرح گھبرائو نہیں بلکہ جو حکم آئے اس کو تسلیم کرو اللہ علیم و حکیم ہے کوئی مناسب حکم اتارے گا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ ہم کسی کو اس کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہیں دیتے جو غلط خیالات تمہارے دل میں بلا اختیار پیدا ہوتے ہیں یا آئندہ کو ہوں گے ان پر تم کو پکڑ نہ ہوگی ١٢ (ترمذی بتفصیل منہ) “
بعد مناسب حکم دینے کے جو کچھ کوئی نیکی کرے وہ اسی کو ملے گی اور جو برائی کرے اس کا وبال بھی اسی پر ہوگا یہ سن کر بھی وہ مؤمن یہی کہتے رہے کہ ہمارے مولا ! نہ پکڑ ہم کو اگر ہم سے بھول چوک سے گناہ ہوجاوے اے ہمارے مولا ! نہ رکھ ہم پر بوجھ بھاری جیسا کہ رکھا تھا تو نے ہم سے پہلوں پر کہ ان کی توبہ قتل نفس سے ہوئی۔ اے ہمارے مولا ! ہم کو ایسے حکم نہ دیجئو جن کی ہم میں طاقت نہ ہو اے ہمارے مولا ! اور ہماری آرزو ہے کہ ہمارے قصورہم سے درگزر کر اور ہم کو اپنی مہربانی سے بخش اور ہم پر رحم فرما تو ہی ہمارا والی ہے پس تو کافروں کی قوم پر (جو تیری توحید اور تیرے رسول کے ماننے کی وجہ سے ہمیں ستائیں) ہم فتح یاب کر۔
” اسؔ آیت کے فضائل احادیث میں بہت ہیں۔ ایک حدیث میں جو مسلم نے روایت کی ہے مذکور ہے کہ ایک فرشتے نے آسمان سے آکر حضرت اقدس کو مبارک باد دی کہ آپ کو دو چیزیں ایسی ملی ہیں کہ آپ سے پہلے کسی کو نہیں ملیں۔ وہ سورۃ فاتحہ اور سورۃ بقر کی اخیر کی آیتیں ہیں “ |
البقرة |
286 |
|
البقرة |
0 |
|
آل عمران |
1 |
(1۔20)۔ اللہ فرماتا ہے میں ہوں اللہ بڑا جاننے والا اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں نہ مسیح نہ عزیر نہ پیر نہ فقیر نہ کوئی کیونکہ لائق عبادت وہ ہو جو دائم زندہ مخلوق کو تھامنے والا زندہ رکھنے والا ہو اور مسیح تو خود اپنی حیات اپنی بقا میں اللہ کا محتاج ہے پھر وہ کس طرح اللہ اور معبود ہوسکتا ہے۔
شان نزول (الٓمّٓ) بخران (شہر) سے قریب ساٹھ کے عیسائی حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آئے اور گفتگو کرنے سے پہلے انہوں نے اپنے طریق پر مسجد نبوی میں نماز ادا کی بعد نماز کے مجلس مناظرہ قائم ہوئی آپ نے ان کو فرمایا مسلمان ہوجائو وہ بولے ہم تو پہلے ہی سے مسلمان ہیں آپ نے فرمایا تم مسلمان نہیں ہوسکتے جب تک اللہ تعالیٰ کے لیے بیٹے ہونے کا عقیدہ اور صلیب کی عبادت اور خنزیر کا کھانا نہ چھوڑو۔ مسیح کی الوہیت میں گفتگو کرچکے تو آپ نے فرمایا کہ تم نہیں جانتے کہ اولاد باپ کے مشابہ ہوتی ہے۔ بولے ہاں آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ ہمارا مالک تو ہمیشہ سے زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا اور مسیح تو فنا ہوجائے گا۔ اللہ تعالیٰ تو تمام زمین و آسمان کی چیزیں جانتا ہے اور مسیح تو سوا ان اشیاء کے جو اللہ تعالیٰ نے اس کو بتلائی ہیں نہیں جانتا۔ کیا تمہیں یہ بھی خبر نہیں کہ مسیح کو اس کی ماں نے مثل اور عورتوں کی پیٹ میں اٹھایا اور وہ پیٹ میں بھی وہی غذا پاتا رہا جو اور بچے پاتے ہیں یہ سن کر خاموش ہوگئے۔ اس پر یہ سورت نازل ہونی شروع ہوئی (معالم مختصراً) یہ سورت الوہیت مسیح کے ابطال میں نازل ہوئی ہے۔ منہ
راقم کہتا ہے کہ یہ واقعہ اخلاق محمدیہ کا کامل ثبوت ہے۔ عیسائی لوگ مسجد نبوی میں نماز اپنے طریق پر پڑھیں اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (فداہ روحی) خاموش ہیں اور باوجود قدرت کے کچھ نہ کہیں والے برحال تاکہ ہم ایسے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت ہیں جو غیروں کو بھی اپنی مسجد سے منع نہ کرے ہم ایک فریق دوسرے کو بایں جرم کہ ہمارے طریق کے خلاف نماز کیوں پڑھتا ہے گو مسلمان ہے مسجد سے باہر نکال دیتے ہیں اتنی ہی بات پر قناعت نہیں بلکہ کچہریوں میں غیر مسلموں سے اس امر کا فیصلہ کراتے ہیں کہ کون سا فریق مسجد میں رہنے کا حق دار ہے سچ ہے
شنیدم کہ مردان راہ اللہ
دل دشمناں ہم نہ کروند تنگ
تراکنے میسر شود ایں مقام
کہ بادو ستانت خلاف است و جنگ
وہی اللہ جو سچا معبود ہے اس نے تیرے پاس اے محمد (علیہ السلام) سچی کتاب قرآن کی صورت میں بھیجی ہے جو اپنے سے پہلی کتب نازلہ کو سچا بتلانے والی اور غلط واقعات کی تغلیظ کرنے والی کیونکہ یہ کتاب نگہبان ہے واقعات گذشتہ پر مسیح کی الوہیت کے مضمون سے جو یہ کتاب انکاری ہے تو اس لیے کہ وہ مضمون منزّل من اللہ نہیں نہ اس لیے کہ یہ کتاب تورات اور انجیل کو مانتی نہیں بلکہ تورات اور انجیل کی بابت تو صاف لفظوں میں منادی کرتی ہے کہ اللہ نے تورات و انجیل کو پہلے سے لوگوں کی ہدائت کے لئے اتارا تھا اور ان کی تبلیغ عام کا حکم بھی دیا تھا مگر چونکہ نادان لوگوں نے ان میں کمی زیادتی اور بے جا تاویلیں کرنی شروع کردیں اس لئے اللہ نے فیصلہ کرنے والا قرآن شریف نازل کیا پس جو لوگ اللہ کے ان حکموں سے منہ پھیریں اور اپنی ہی ہٹ پر اڑ رہیں اور اللہ کے بندہ کو اللہ کہنے سے باز نہ آویں ان کے لیے سخت عذاب ہے اور اللہ تعالیٰ بڑا زبردست بدلہ لینے والا ہے۔ یہ لوگ اتنا بھی نہیں سمجھتے کہ مسیح میں خدائی علامات میں سے تو کوئی بھی نہیں مسیح کو توکل کی خبر بھی معلوم نہ تھی اور اللہ تعالیٰ سے تو کوئی چیز چھپی نہیں نہ آسمان کی نہ زمین کی اور مسیح تو مخلوق ہے اور اللہ خالق وہی اللہ تمہاری صورتیں تمہاری ماؤں کے رحموں میں جس طرح چاہتا ہے بنا دیتا ہے کسی کو اس فعل میں دخل نہیں یہ صفات لازمہ الوہیت مسیح کہاں ہیں پس یقینا جانو کہ اس کے سوا ساری دنیا میں کوئی بھی معبود نہیں جو بوجہ صفات مذکورہ کے بڑا غالب کسی سے مغلوب نہ ہونے والا نہ کسی سے دبنے والا اور بڑی حکمت والا ہے جس کام کو کرنا چاہے ایسی حکمت سے کرتا ہے کہ کسی کے وہم وگمان میں بھی نہ ہو۔ نہ کہ دشمنوں سے دب کر۔ ایلی ایلی پکارے (انجیل متی ٢٧ باب کی طرف اشارہ ہے جہاں لکھا ہے کہ مسیح نے سولی پر چڑھ کر کہا ایلی ایلی بمقتنی اے میرے اللہ تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا۔ ١٢ منہ) اور پھر بھی دعویٰ الٰہی کرے یادرکھو اسی زبردست غالب حکمت والے نے تیری طرف اے نبی واضح ہدائیت کرنوالی کتاب اتاری ہے جس میں سے بعض احکام بالخصوص وہ احکام جن میں یہ لوگ کجروی کرتے ہیں جیسے توحید خداوندی واضحہ لائحہ ہیں یہی ہیں اصل مقصود کتاب کے جس کے لئے کتاب بھیجی ہے جو ان حکموں کے الفاظ سے سمجھ میں آتا ہے وہی مراد ہے اور ان الفاظ کا کوئی ترجمہ اور معنی بھی خلاف مطلب نہیں
” اٰیٰتٌ مُّحْکَمٰتٌ اس آیت کے معنی بتلانے میں علما کا کسی قدر اختلاف ہے کہ محکمات اور متشابہات کیا ہیں ہر ایک نے اپنے اپنے خیال کے مطابق ان کی تفسیر کی ہے کوئی کہتا ہے جو ہر مذہب اور ملت میں برابر حکم رکھتے ہیں جیسے صدق و کذب محکمات ہیں اور جو ادیان میں مختلف ہیں وہ متشابہات ہیں کوئی کہتا ہے توحید محکم ہے اور اس کے سوا بعض احکام متشابہ ہیں۔ بعض کی رائے ہے کہ ناسخ محکم ہے اور منسوخ متشابہ بعض کہتے ہیں جو آیت اپنے معنی صاف لفظوں میں بتلا دے وہ محکم ہے اور جو کسی قدر خفا رکھتی ہو وہ متشابہ ہے اصل تحقیق اس امر کی قرآن کی اسی آیت پر غور کرنے سے ہوسکتی ہے اس جگہ اللہ تعالیٰ نے گو محکم اور متشابہ کی ماہیت اور تعیین نہیں بتلائی لیکن اس میں شک نہیں کہ متشابہات کا نتیجہ بتلا دیا جس سے ان کی ماہیت کا بھی من وجہ علم ہوگیا۔ چنانچہ ارشاد ہے کہ جن لوگوں کے دلوں میں کجی ہے وہ متشابہات کے پیچھے بغرض فتنہ پردازی پڑتے ہیں اور یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ہم ان کے اصلی معنی سمجھنا چاہتے ہیں یا جو ہم نے بیان کئے ہیں یہی اصلی ہیں۔ اب ہم اپنے زمانہ کے اہل زیغ (عیسائیوں اور آریوں ہندئوں وغیرہم) کو دیکھتے ہیں تو اس آیت کی بالکل صداقت پاتے ہیں کہ یہ لوگ قرآن شریف کی جن آیتوں پر اعتراض کرتے ہیں وہ آیات بول رہی ہیں کہ ہم متشابہات ہیں اور ہم پر نکتہ چینی کرنے والے اہل زیغ ہیں مثلاً آیت نَسُواللّٰہَ فَنَسِیَھُمْ جس کے ظاہری معنی ہیں ” منافق اللہ تعالیٰ کو بھول گئے اور اللہ منافقوں کو بھول گیا اہل زیغ تو سنتے ہی کود اٹھے کہ اللہ بھی کسی کو بھول جاتا ہے۔ دیکھو مسلمانوں کا اللہ بھولتا ہے ایسا ہے ویسا ہے یا دوسری آیت اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰہَ یَدُ اللّٰہِ فَوْقَ اَیْدِیْھِمْ الآیہ۔ جس کے ظاہری معنی ہیں کہ ” جو لوگ تجھ سے بیعت کرتے ہیں وہ تو اللہ ہی سے کرتے ہیں‘ اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہے“ اس پر اہل زیغ نے شور مچایا کہ محمد (ﷺ) تو خود بخود خدائی کے مدعی ہیں اپنے ہاتھ کو اللہ کا ہاتھ بتلاتے ہیں۔ یا آیت مسیح (علیہ السلام) کے روح اللہ اور کلمۃ اللہ والی جس کے ظاہری معنی سے اہل زیغ نے ورقوں کے ورق سیاہ کردیئے کہ قرآن بھی مسیح کی الوہیت کا مقر ہے حالانکہ اس قسم کی آیتوں کا مطلب حسب محاورہ زبان صاف ہونے کے علاوہ خود قرآن شریف میں اس کا قرینہ بھی موجود ہے پہلی آیت کا قرینہ یہ ہے کہ خود اللہ نے فرما دیا وَمَا کَانَ رَبُّکَ نَسِیًّا (تیرا رب کسی کو بھولتا نہیں) اس سے معلوم ہوا کہ نَسِیَہُمْ اپنے ظاہری معنی پر نہیں ملے کہ اس کے معنی ہیں کہ اللہ نے بھی ان کو اس بھول کی سزا دی۔ دوسری آیت کے معنی سمجھنے کو بھی قرآن مجید میں لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌ (کہ اللہ کی مثل اور مشابہ کوئی چیز نہیں) موجود ہے۔ پس آیت موصوف کے معنی بالکل صاف ہیں کہ لوگ جو کچھ تیرے ساتھ معاملہ کرتے ہیں چونکہ ہمارا رسول ہے اس لئے وہ دراصل ہمارے ہی ساتھ ہے۔ بیعت کے وقت تیرا نہیں گویا خود اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہے اس میں کیا اعتراض ہے اسی طرح حضرت مسیح کی الوہیت کے متعلق اہل زیغ نے وہ مقامات قرآن مجید کے نہ دیکھے یا دانستہ اغماض کیا جن میں صریح لفظوں میں اس مسئلہ کو قرآن شریف نے رد کیا ہے چنانچہ اسی جلد کے کسی مقام میں مفصل آتا ہے۔ غرض اس قسم کی کارروائیاں اہل زیغ کی دیکھ کر یقین ہوتا ہے کہ قرآن مجید کی بعض آیتیں بیشک متشابہ ہیں اور بعض محکم کیونکہ متشابہات کے معنی ہیں ملی جلی جس کو کم فہم مخاطب سرسری نظر سے نہ پہچان سکے۔ لیکن جو لوگ سمجھ دار اور راسخ فی العلم ہیں ان کو تو ان باتوں کی خوب پہچان ہے۔ اس کی مثال محسوس میں دیکھنی ہو تو سونے اور ملمع کا زیور ایک جگہ رکھ کر دیکھیں کہ کس طرح ناسمجھ آدمی دھوکہ کھا کر سونے کو چھوڑ کر ملمع کے پیچھے پڑتے ہیں اور صرف ایک نظر میں تاڑ جاتے ہیں کہ اصل کیا ہے اور نقل کیا ہے۔ ہاں یہ سوال رہا کہ اللہ تعالیٰ کو جب معلوم تھا کہ ان آیتوں پر لوگ معترض ہوں گے تو ایسے الفاظ میں مدعا کو بیان ہی کیوں کیا تو یہ سوال بالکل اس سوال کے متشابہ ہے جیسا مجھ سے کسی دہر یہ نے کہا تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ ہے اور وہ بقول تمہارے رحیم و کریم بھی ہے تو بدہضمی کرنے والی چیزیں کیوں پیدا کیں اس کا جواب تو شاید کسی قدر مشکل بھی ہو متشابہات کے سوال کا جواب تو بالکل صاف ہے اور خود قرآن مجید میں مذکور ہے اِنَّا اَنْزَلْنَاہُ قُرْاٰنًا عَربِیًّا لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ یعنی قرآن ہم (اللہ) نے عربی زبان میں اتارا ہے۔ جو عربی کے محاورات ہوں گے انہی کے موافق مضمون ادا ہوگا بھلا اسی طرح ہم اہل زیغ سے پوچھتے ہیں کہ پر میشور نے جو وید میں اگنی کا لفظ بولا ہے جس سے عام ہندو اور حامیان وید نے آگ سمجھ کر آتش پرستی شروع کردی حالانکہ (بقول آریہ سماج) اگنی سے ذات باری مراد ہے تو اگنی کے بجائے کوئی اور لفظ مناسب کیوں نہ رکھ دیا جس سے بت پرستوں کو شبہ نہ ہوتا اسی طرح بایئبل میں اللہ کے نیک بندوں کو اللہ کا فرزند کہا ! جس سے حامیان بایئبل خواہ مخواہ اعتراضات کے بچھاڑ میں آگئے ان کی بجائے کوئی اور مناسب لفظ کیوں نہ رکھ دیا۔ پس ہماری تقریر سے ثابت ہوا کہ متشابہات وہی احکام اور آیات قرآنی ہیں جن کو اہل زیغ بغرض فتنہ پردازی اشاعت کریں عام اس سے کہ وہ حروف مقطعات ہوں۔ نعماجنت ہوں یا عذاب دوزخ۔ سمع۔ بصر۔ صفات خداوندی ہوں یا معجزات نبوی۔ احکام متبدلہ ہوں یا ثابتہ۔ اگر قرآن شریف پر غور کیا جاوے تو یہ معنی ٹھیک معلوم ہوتے ہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کل قرآن مجید کو محکم بھی فرمایا کِتَابٌ اُحُکِمَتْ اٰیَاتُہٗ اور سب کو متشابہ بھی بتلایا ہے کِتَابًا مُّتَشَابِھًّا پس یہ دونوں وصف باوجود متضاد ہونے کے صرف مخاطبین کے اعتبار سے جمع ہیں ہاں اس آیت میں جس کا ہم عاشیہ لکھ رہے ہیں بعض کو محکم اور بعض کو متشابہ فرمایا تو اس زمانے کے اعتبار سے ہے جو صرف توحید خالص اور ثبوت قیامت پر ٹھوکر کھاتے ہیں اور تعلیم توحید کو سن کر اَجَعَل"الْاٰلِھَۃَ اِلٰھًا وَّاحِدًا اِنَّ ھٰذَا لَشَیْئٌ عُجَابٌ کا شور مچاتے تھے۔ پس جو آیات اہل زیغ کے لیے مزلۃ الاقدام ہوں اور بے سمجھی سے ان کے ذریعہ فتنہ پردازی کریں وہی متشابہات ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ آج کل زیغ نے کل قرآن کو حتی کہ بسم اللہ کو بھی اعتراض سے خالی نہیں چھوڑا پس اس لحاظ سے کل قرآن متشابہ ہوا جو دراصل سب کا سب ” محکم“ ہے اس مسئلہ کے متعلق ہمارا ایک مستقل رسالہ ” آیات متشابہات“ بھی ہے جو دیکھنے کے قابل ہے۔ منہ “
اور دوسرے کچھ ملے جلے ہیں جن کے ظاہر الفاظ کا مطلب اصل مطلب سے غیر ہے پس جن کے دلوں میں کجی ہے وہ اس کتاب میں سے ملتے جلتے احکام یا اخبار کے پیچھے پڑیں گے تاکہ لوگوں کو گمراہ کریں اور بظاہر یہ غرض جتلا دیں گے کہ ان کی اصل مراد پاویں اور لوگوں کو اصل مطلب سے آگاہ کریں حالانکہ ان کا اصل مطلب اللہ تعالیٰ اور راسخ علم والوں کے سوا کوئی نہیں جانتا ان کو اتنا رسوخ فی العلم کہاں کہ ان کی طرح یہ بھی سمجھیں یہ تو سرسری لفظوں کے تراجم اور ظاہری مفہوم کو بلا قرینہ سن کر بڑبڑا اٹھتے ہیں لائق اور قابل لوگ اس بھید کو جانتے ہیں جب ہی تو کہتے ہیں کہ ہم اس قرآن کو مان چکے ہیں بے شک یہ سب اول سے آخر تک ہمارے اللہ کے پاس سے ہے اور اس بھید کو بخیر عقل والوں کے کوئی نہیں سمجھتا سمجھ داروں کی نشانی یہ ہے کہ وہ سب اپنے دینی اور دنیاوی امور سپرد اللہ کرتے ہیں اور اپنی تمام آرزوئیں اسی سے مانگتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے اللہ ہمارے دلوں کو بعد ہدایت کرنے کے ٹیڑھا مت کر کہ ہم بھی تیرے کلام سمجھنے میں کجروی نہ کریں اور اپنے ہاں سے ہم کو رحمت سے حصہ مرحمت کربیشک تو ہی بڑا فیاض ہے اور نشانی داناؤں کی یہ ہے کہ وہ اللہ اور اس کے فرمودہ پر ایمان کامل رکھتے ہیں اور اس امر کا اقرار کرتے ہیں کہ اے ہمارے اللہ بے شک تو سب بنی آدم کو ایک دن جمع کرے گا جس میں کوئی شک نہیں اس لئے کہ اللہ کبھی اپنے وعدے خلاف نہیں کیا کرتا اس کی الوہیت خلاف وعدہ کرنے کے خلاف ہے یہی لوگ ہمارے ہاں مقبول بندے ہیں گو بوجہ ناداری ظاہربینوں کی نظر میں حقیر اور ذلیل ہوں اس لئے کہ مال ودولت ہمارے ہاں کوئی قابل عزت نہیں کیا تم نہیں جانتے کہ جو لوگ مال و دولت کے گھمنڈ میں ہمارے احکام کے منکر ہیں ان کو جب سزا ملنے لگے گی تو ان کے مال اور اولاد اللہ کے عذاب سے انہیں کچھ بچانہ سکیں گے۔ اور یہ لوگ جہنم کی آگ کا ایندھن ہوں گے ان منکروں کی حالت اور عادت بعینہ فرعونیوں کی اور ان سے پہلوں کی سی ہے جنہوں نے ہمارے حکموں کو جھٹلایا پس باوجود مال ودولت کے عذاب الٰہی سے نہ بچ سکے آخر کار ان کے گناہوں کی وجہ سے اللہ نے ان کو پکڑا اور اللہ کی پکڑ سے کوئی ان کو بچا نہ سکا اس لئے کہ اللہ تعالیٰ بڑے سخت عذاب والا ہے۔ اسے کوئی چیز مانع نہیں ہوسکتی اسی طرح یہ کفار تیرے معاند بھی جو اپنے ظاہری اعزاز پرنازاں ہیں ان کا بھی یہی انجام ہوگا۔ بے شک ابھی سے تو ان منکروں کو کہہ دے کہ تم بھی تھوڑے دنوں تک مغلوب کئے جاؤ گے جیسے تم سے پہلے لوگ مغلوب ہوچکے ہیں۔ اور بعد مغلوب ہونے کے جہنم میں جمع کئے جاؤ گے جہاں تم کو ہمیشہ رہنا ہوگا اور وہ جہنم بہت برا ٹھکانہ ہے۔ باز آجائو ورنہ ذلیل و خوار ہوگے
” قُل لِلَّذِیْنَ کَفَرُوْا جنگ بدر کے فیصلہ کے بعد حضرتﷺ نے یہود کو ایک جگہ جمع کر کے کہا کہ دیکھو عزت بچا کر مسلمان ہوجائو ایسا نہ ہو کہ پھر تم بھی مثل کفار مکہ کے ذلیل و خوار ہو انہوں نے کہا کہ جن مشرکوں پر تم نے فتح پائی ہے وہ بیچارے سیدھے سادھے فن جنگ سے ناآشنا تھے ہم سے اگر مقابلہ ہوا تو دیکھو گے ہم کیسے ہاتھ دکھائیں گے ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی۔ “
اگر اپنی صنعت جنگ وغیرہ پر ناز رکھتے ہو تو واقعات گذشتہ کو دیکھو تمہارے لئے ان دو فوجوں میں جو جنگ بدر میں بھڑی تھیں کمال قدرت اللہ کریم کی نشانی ہے ایک جماعت ان میں سے جو مسلمان تھی اللہ کی راہ میں بغرض نصرت دین لڑتی تھی اور دوسری جماعت جو کافر اور ظالم تھی علاوہ سازو سامان کے ان کی کثرت بھی اس درجہ تھی کہ مسلمان ان کو اپنے سے دو گنا آنکھوں سے دیکھتے تھے مگر پھر بھی ان ضعیف اور کمزور لوگوں کی فتح ہوئی جو علاوہ بے سروسامانی کے تعداد میں بھی بہت کم تھے اس لیے کہ اللہ اپنی مدد سے جس کو چاہتا ہے قوت دیتا ہے بے شک اس واقعہ میں سمجھ داروں کے لئے بڑی نصیحت ہے مگر چونکہ سردست اسلام میں تکلیف پر تکلیف ہے اور ان لوگوں کو اپنی خواہش کی چیزیں خوبصورت عورتیں اور اہل و عیال بیٹے بیٹیاں اور چاندی سونے کے ڈھیر اور بڑے خوبصورت پلے ہوئے گھوڑے اور چار پائے اور کھیتی باڑی وغیرہ اشیاء ہم کو جو قسم بھلی معلوم ہوتی ہے اس لیے اسلام سے رکتے ہیں۔ لیکن اللہ کے بندے جانتے ہیں کہ یہ سب کچھ اگر ہے تو صرف دنیا کا گذاراہ ہے جو چند روز کے بعد فنا ہے اور اللہ کے ہاں نیک کاموں پر بڑی عزت کا مرتبہ ہے تو ان سے کہہ دے کہ میں تم کو اس دنیاوی عیش وعشرت سے اچھی چیز بتاؤں سنو ! جو لوگ بری باتوں سے پرہیز کرتے ہیں ان کے لئے اللہ کے ہاں باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں یہ نہیں کہ ان باغوں میں ان کا چند روز ہی بسیرا ہوگا بلکہ ہمیشہ ان میں رہیں گے اور اس عیش و آرام میں ان کو تجرد کی بھی تکلیف نہ ہوگئی اس لیے کہ ان کے لیے ان باغوں میں بڑی ستھری بیویاں ہوں گی اور بڑی بھاری نعمت ان کے لئے خوشنودی اللہ کریم کا اعزازی تمغہ ہوگا کیوں نہ ہو اللہ اپنے بندوں کو دیکھ رہا ہے جو اس کے راستہ میں تکلیف اٹھاتے ہوتے کہتے ہیں اے ہمارے اللہ بے شک ہم تیرے احکام پر ایمان لائے پس تو ہمارے گناہ بخش دے اور بروز قیامت ہم کو عذاب جہنم سے بچائیو تکلیف پہنچے تو اس میں بڑی جوانمردی اور ثابت قدمی سے صبر کرتے اور باوجود کثیر المشاغل ہونے کے بھی سچ بولتے اور ہر کام میں اللہ کی تابعداری کرتے اور حسب توفیق خرچ کرتے اور صبح کے وقت جو بڑی راحت کا وقت ہوتا ہے اٹھ کر اللہ سے بخشش مانگتے ہیں بھلا ان کی روش کیوں نہ پسند یدہ ہو جبکہ خود اللہ تعالیٰ اور اس کے سب فرشتے اور دنیا کے سب سچے علم والے ظاہر کرتے ہیں کہ سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی معبود برحق نہیں جو اکیلا باانصاف گناہوں گی سزا اور نیکیوں کا عوض دینے والا حاکم ہے پس سوائے اس کے کوئی معبود برحق نہیں نہ مسیح نہ کوئی وہ سب پر غالب بڑی حکمت والا ہے یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک معتبر مذہب اسلام ہے جو حضرت محمد رسول اللہ علیہ وسلم کا دین اور طریقہ ہے اور اب یہ اہل کتاب یہودونصاری جو اس امر میں مخالف ہوئے ہیں تو بعد پہنچنے واضح علم کے محض ضد سے مخالف ہوئے ہیں چونکہ ایک کا کام دوسرے کو ضرور معیوب معلوم ہوتا ہے اس لئے جو لوگ بوجہ حق سمجھتے اسلام کے مسلمان ہوتے ہیں دوسرے ان کی دشمنی سے خواہ مخواہ ان پر اعتراض کرتے ہیں اور عوام میں اپنا رسوخ بڑھاتے ہیں پس یادرکھیں کہ جو کوئی اللہ کے حکموں سے انکاری ہوگا خواہ کسی وجہ سے کسی کی ضد سے یا اپنی ہٹ سے تو اللہ تعالیٰ بہت جلد ان سے حساب لینے والا ہے دنیا کی زندگی کے چند روز ان کو مہلت ہے مرتے ہی ان کے لئے ہاویہ جہنم تیار ہے چونکہ معلوم ہوچکا ہے کہ یہ لوگ محض اپنی ضد سے مخالف ہیں۔ پس اگر تجھ سے کسی امر میں جھگڑا کریں تو تو ایسے ضدیوں کو بفحوائے جواب جاہلاں باشد خموشی کہدیجویو کہ میں اور میرے اتباع سب لوگ تو اللہ کے تابعدار ہوگئے ہیں۔ تم جانو تمہارا کام اپنے کئے کا بدلہ پاؤ گے یہ کہہ کر جھگڑا چھوڑدے اور تو بطور نصیحت ان کتاب والوں اور عرب کے ان پڑھوں سے کہہ دے کہ کیا تم بھی اللہ تعالیٰ کے تابعدار ہوتے ہو یا نہیں پس اگر وہ اللہ تعالیٰ کے تابعدار ہوگئے تو جان لیجو کہ ہدایت پاگئے اور اگر منہ پھیریں تو تیرا بھی کوئی حرج نہیں کیونکہ تیرے ذمہ تو صرف پہنچا دینا ہے اور اللہ جس سے انجام کار ان کو معاملہ ہے اپنے کل بندوں کو دیکھ رہا ہے یہ نہ سمجھیں کہ جو چاہیں کریں کوئی پوچھنے والا نہیں |
آل عمران |
2 |
|
آل عمران |
3 |
|
آل عمران |
4 |
|
آل عمران |
5 |
|
آل عمران |
6 |
|
آل عمران |
7 |
|
آل عمران |
8 |
|
آل عمران |
9 |
|
آل عمران |
10 |
|
آل عمران |
11 |
|
آل عمران |
12 |
|
آل عمران |
13 |
|
آل عمران |
14 |
|
آل عمران |
15 |
|
آل عمران |
16 |
|
آل عمران |
17 |
|
آل عمران |
18 |
|
آل عمران |
19 |
|
آل عمران |
20 |
|
آل عمران |
21 |
(21۔30)۔ بے شک جو لوگ اللہ کے حکموں سے انکار کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے نبیوں کو ناحق ظلم سے قتل کرتے ہیں۔ اور جو ان کے اس فعل قبیح کو پسند کرتے ہیں اور اسی پر بس نہیں بلکہ حق بات سے ان کو اس درجہ عداوت ہے کہ جو لوگ اہل علم میں سے انصاف اور حق پسندی کی بات بتلاتے ہیں ان کو بھی قتل کر ڈالتے ہیں یا ان کی مخالفت کرتے ہیں تو ان کو درد ناک عذاب کی خوشخبری سنادے کہ آخرتمہارا بڑے گھر میں بسیرا ہوگا انہی کے اعمال نیک بھی دونوں جہانوں دنیا وآخرت میں برباد ہوں گے نہ دنیا میں اس پر کوئی اثر مرتب ہوگا اور نہ آخرت میں ان کو بدلہ ملے گا بلکہ بجائے ثواب پانے کے گناہوں میں مبتلا ہوں گے اور کوئی بھی ان کا مددگار نہ ہوگا
یہ لفظ خوشخبری کے مقابلہ میں محاورہ کا بولا گیا ہے عموماً حکام مجرموں کو جیل خانہ کی نسبت یہ لفظ کہا کرتے ہیں کہ تو بڑے گھر میں جائے گا یوں بھی کہا کرتے ہیں کہ تو سال بھر سرکاری مہمان رہے گا یعنی جیل خانہ میں قید ہوگا۔
ان سے جتنی سختی ہوبے جا نہیں یہ بھی تو جان بوجھ کراندھے بنے ہوئے ہیں کیا تو نے اے مخاطب ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن کو کتاب اللہ کریم سے جو بندوں کی ہدائیت کے لئے وقتاً فوقتاً آیا کرتی ہے اور وہی کتاب کسی زمانہ میں تورات انجیل زبور وغیرہ کے نام سے موسوم ہوئی تھی حصہ ملا تھا وہی لوگ جب اللہ تعالیٰ کی کتاب کی طرف جو حسب مقتضائے زمانہ قرآن کے نام سے ہو کر آئی ہے بلائے جاتے ہیں تاکہ ان میں ان کے جھگڑوں کا فیصلہ کرے اور ان کو مذہبی باتوں میں سچی راہ بتاوے اور یہ بھی سمجھائے کہ جن کو تم نے غلطی سے خدائی حصہ دے رکھا ہے ان کو خدائی میں کوئی حصہ نہیں یا اور امور جو تصفیہ طلب ہوں ان میں تصفیہ کرے تو بجائے تسلیم کرنے کے ایک جماعت جو اپنے آپکو اہل علم کہتے ہیں منہ موڑ کر پھرجاتی ہے اور اس امر کو ہرگز نہیں سوچتے کہ اس بے اعتنائی کا انجام کیا ہوگا۔
” شان نزول :۔ (الم تر الی الذین اوتوا نصیبا) حضرتﷺ ایک دفعہ یہودیوں کے ایک مدرسہ میں تشریف لے گئے اور ان کو مسلمان ہونے کی بابت کہا دو آدمی ان میں سے بول اٹھے کہ آپ کس دین پر ہیں۔ آنحضرت نے فرمایا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے طریق پر ہوں وہ بولے ابراہیم ( علیہ السلام) تو یہودی تھا۔ آپ نے فرمایا لائو توریت اسی پر فیصلہ رہا۔ یہ سن کر تورات لانے سے وہ انکار کر گئے۔ ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی۔ (معالم)
(اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ اُوْتُوْا نَصِیْبًا) اس آیت کے مضمون میں ہم نے اس مشہور سوال کے جواب کی طرف اشارہ کیا ہے جو عام طور پر عیسائی اور اسلام کی مخالفت میں ان کے ہمنوا آریہ اور دیگر مخالفین کیا کرتے ہیں جس کا مطلب ” عدم ضرورت قرآن ہے۔ تقریر اس سوال کی یوں کی جاتی ہے کہ قرآن نے جو تعلیم دی ہے وہ پہلی کتابوں کے ذریعہ سے پہلے لوگوں کو دی گئی تھی تو اتنی بڑی مخلوق کو کیوں محروم رکھا علاوہ اس کے کوئی نئی بات قرآن میں نہیں وہی احکام عشرہ تورٰیت کا تکرار اور عام اخلاقی امور ہیں جو ہر مذہب و ملت میں رائج ہیں۔ اور اگر شق اوّل ہے یعنی پہلی کتابوں میں پہلے لوگوں کو وہ تعلیم دی گئی تھی تو قرآن کی کیا ضرورت تھی یہ ہے ان تحریروں کا خلاصہ جن سے ہمارے قدیمی مہربان عیسائیوں نے ورقوں کے ورق اور جزوں کے جز سیاہ کئے ہیں اور ان کے شاگرد (مگر خاص اسلام پر اعتراض کرنے کے فن میں) آریوں نے بھی بڑے زور سے اس پر حواشی چڑھائے ہیں مگر اصل میں یہ اعتراض بالکل قرآن سے ناواقفی پر مبنی ہے۔
مفصل جواب سے پہلے ہم اپنے مخاطبوں سے الزامی طور پر پوچھتے ہیں کہ آپ ہی بتلاویں کہ مسیح نے جو تعلیم دی ہے وہ پہلے لوگوں کو دی گئی تھی یا نہیں بلکہ ذرہ اوپر چڑھ کر بھی ٹٹولئے کہ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) نے جو تعلیم بذریعہ تورٰیت بنی اسرائیل کو سنائی وہ پہلے لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے کسی کی معرفت دی تھی یا نہیں اگر نہیں تو ان کو محروم کیوں رکھا اور اگر دی تھی تو تورٰیت کی کیا حاجت تھی۔ اسی طرح آریوں سے پوچھتے ہیں کہ دید کی تعلیم جن کو بقول یورپین مورخوں کے دو ہزار برس بنے ہوئے گذرے ہیں
آریہ تو ویدوں کی عمر ابتدا سے دنیا سے بتاتے ہیں جس کا ثبوت ان کے پاس بجز اس کے کوئی نہیں کہ پنڈت دیانندے رگوید بھاش بھومکا میں لکھا ہے اس مسئلہ کی تحقیق میں کہ آریوں کا یہ دعویٰ غلط ہے ہمارا ایک مستقل رسالہ ” حدوث وید“ ہے قیمت۔ ١٢
اس کی تعلیم پہلے لوگوں کو بھی یا نہیں اگر نہیں تھی تو محروم کیوں رکھا اور اگر تھی تو اس کی کیا حاجت تھی۔ اس اعتراض سے وہی قوم بچے گی جو کسی پختہ دلیل سے اپنی کتاب کی قدامت ثابت کر دے جو مشکل بلکہ محال ہے۔ خیر اب ہم اصل مضمون پر آتے ہیں قرآن شریف نے کہیں دعویٰ نہیں کیا کہ میں ایک نئی چیز لایا ہوں جو تم سے پہلے لوگوں کو نہیں ملی تھی بلکہ صاف لفظوں میں بے ایچ بیچ اس بات کا مقر ہے کہ میں وہی دین الہٰی ہوں جو ہمیشہ سے نبیوں کی معرفت لوگوں کو پہنچا ہے اسی کو تازہ کرنے کی غرض سے آیا ہوں چنانچہ آیات ذیل اس مطلب کے لیے شاہد عدل ہیں۔
شرع لکم من الدین ما وصی بہ نوحا والذی اوحینا الیک وما وصینا بہ ابراھیم وموسیٰ و عیسیٰ ان اقیمو الدین ولا تتفرقوا فیہ۔
تمہارے لئے وہی دین جاری کیا ہے جس کی بابت ہم نے نوح کو اور ابراہیم کو اور موسیٰ کو اور عیسیٰ کو ہدایت کی اور جو تیری طرف کتاب اتاری ہے کہ دین (رضاء مولا) کو قائم رکھو اور جدا جدا متفرق نہ ہو۔ “
ما یقال لک الا ماقد قیل للرسل من قبلک ان ربک لذو مغفرۃ و ذوعقاب الیم (السجدہ ع ٤)
تجھے اے محمد (ﷺ) اللہ کی طرف سے وہی بات کہی جاتی ہے جو تجھ سے پہلے رسولوں کو کہی جاتی تھی بیشک تیرا رب بندوں کے حال پر پڑی بخشش کرنے والا ہے اور نافرمانوں ناشکروں کے حق میں سخت عذاب والا ہے۔
قل اننی ھدانی ربی الی صراط مستقیم دینا قیما ملۃ ابراھیم حنیفا وما کان من المشرکین۔
’ تو کہہ دے کہ میرے پروردگار نے مجھے سیدھی راہ یعنی ابراہیمی طریق کی ہدایت کی ہے جو یک رخہ اللہ تعالیٰ کا بندہ تھا اور مشرکوں سے نہ تھا۔ “
ثم اوحینا الیک ان اتبع ملۃ ابراہیم حنیفا وما کان من المشرکین (نحل ع ١٠١)
” پھر ہم نے تجھ کو حکم دیا ہے کہ تو ابراہیم موحد کے دین کا جو مشرک نہ تھا اتباع کر۔
آیات مذکورہ بالا جو مضمون بتلا رہی ہیں وہ مخفی نہیں بالکل واضح طور پر کہہ رہی ہیں کہ قرآن کی تعلیم کوئی نئی تعلیم نہیں بلکہ وہی پرانی حقانی تلقین ہے جو ابتدائے دنیا سے مخلوق کی ہدایت کے لیے آئی تھی لیکن یہ سوال کہ قرآن کی بصورت جدید کیا ضرورت تھی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اس زمانہ کے اہل کتاب کی بد اطواری خصوصاً تبلیغ احکام کے متعلق بددیانتی اور تورٰیت و انجیل کی طرز موجودہ اور مشرکین عرب کی ہدایت ہی موجب اس کی ہوئی کہ قرآن شریف بصورت جدید آوے چنانچہ ان امور کو قرآن شریف نے مفصلاً بیان کیا ہے پہلی آیت وہ ہے جہاں ارشاد ہے۔
واذ اخذ اللّٰہ میثاق الذین اوتوا الکتب لتبیننہ للناس ولا تکتمونہ فنبذوہ وراء ظھورھم واشتروا بہ ثمنا قلیلا فبئس مایشترون (اٰل عمران ع ١٩)
اللہ عالم الغیب نے کتاب والوں سے عہد لیا تھا کہ اس کتاب کو لوگوں کے سامنے بیان کرتے رہنا اور اس کو مت چھپانا لیکن انہوں نے اس کی کوئی پرواہ نہ کی اور اس کو اپنے پیچھے پھینک دیا اور اس کے عوض میں دنیا داروں سے چند پیسے لینے شروع کردیئے پس جو لیتے ہیں بہت برا ہے۔
من الذین ھادوا یحرفون الکلم عن مواضعہ (نساء ع ٧)
بعض یہودی کلام کو اس کی اصل جگہ سے بدل دیتے ہیں۔
یٰٓاھل الکتب لم تلبسون الحق بالباطل و تکتمون الحق وانتم تعلمون۔
اے کتاب والو سچ کو جھوٹ سے کیوں ملاتے ہو اور دانستہ حق کو کیوں چھپاتے ہو۔ “
وان منھم لفر یقایلوون السنتھم بالکتاب لتحسبوہ من الکتاب وما ھو من الکتاب ویقولون ھو من عنداللّٰہ وما ھو من عنداللّٰہط ویقولون علے اللّٰہ الکذب وھم یعلمون (آل عمران ع ٧‘ ٨)
بیشک ان اہل کتاب سے ایک فریق ہے جو زبانوں کو کتاب کے پڑھتے ہوئے مروڑتے ہیں تاکہ تم اس کو بھی جو دبی زبان سے کہتے ہیں کتاب جانو حالانکہ وہ کتاب سے نہیں اور کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہاں سے ہے حالانکہ اللہ کے ہاں سے نہیں ہے اور اللہ کے ذمہ دانستہ جھوٹ لگاتے ہیں ۔
فبمالقضہم میثاقھم لعناھم وجعلنا قلوبھم قاسیۃ یحرفون الکلم عن مواضعہ ونسوا حظا مما ذکروا بہ ولا تزال تطلع علی خائنۃ منہم الا قلیلا منھم فاعف عنھم واصفح ان اللّٰہ یحب المحسنین٭
پس ان کے وعدے توڑنے کی وجہ سے ہم نے ان پر لعنت کی اور ان کے دلوں کو سخت کردیا کتاب اللہ کو اصلی
جگہ سے بدلتے ہیں اور جس چیز کی ان کو نصیحت ہوئی تھی ایک عظیم حصہ اس کا بھول بیٹھتے ہیں تو ہمیشہ ان کی خیانتوں پر بجز چند لوگوں کے مطلع ہوتا رہے گا پس تو ان سے درگزر کر اور منہ پھیر کیونکہ اللہ نیکوں سے محبت رکھتا ہے “
ومن الذین قالوا انا نصاری اخذنا میثاقھم فنسوا حظا مما ذکروا بہ فاغرینا بینھم العداوۃ والبغضاء الی یوم القیمۃ وسوف یبنہم اللّٰہ بما کا نوا یصنعون (مائدہ)
عیسائیوں سے بھی ہم نے عہد لیا تھا پھر وہ بھی بہت سا حصہ اس میں سے بھلا بیٹھے پھر ہم نے قیامت تک ان میں عداوت اور بغض ڈال دیا اور اللہ ان کو ان کے کاموں سے قیامت کے روز خبر دے گا۔ “
وھذا کتاب انزلنہ مبارک فاتعبوہ واتقوا لعلکم ترحمون ط ان تقولوا انما انزل الکتاب علی طالفتین من قبلنا و ان کنا عن دراستھم لغافلین (انعام ع ٢٠)
مشرکین عرب کو ارشاد ہے کہ ہم نے اس کتاب کو اس لئے اتارا ہے کہ تا تم نہ کہنے لگو کہ ہم سے پہلے دو گروہوں کو کتاب ملی تھی اور ہم (بوجہ مغائرت زبان) ان سے بے خبر تھے۔
بالخصوص بیان لحاظ کہ تورٰیت و انجیل کے مضامین میں خلط ملط عظیم ہوا ہے جو اس کی طرز تحریر جتلا رہی ہے اور ان کی تعلیم واقعی یا بناوٹی کا بگاڑ کہ ایک اللہ کے تین اور تین سے پھر ایک بنانا جو نہ صرف انجیل بلکہ تورٰیت سے مستنبط کیا جاتا ہے بیشک اس بات کا مقتضی تھا کہ اللہ کی سچی تعلیم بالکل الگ کر کے حسب حال زمانہ ایسی طرز سے بیان کی جائے کہ اس میں کجرووں کو بالکل مجال سخن نہ ہو۔ اور پھر ساتھ ہی اس کے اس کتاب کی حفاظت صوری اور معنوی کا کوئی خاص انتظام ہو چنانچہ ایسا ہی کیا گیا کہ اللہ کی سچی تعلیم ایک ایسے قالب میں لا کر بیان کی گئی جس سے کجرووں کی کجروی نمودار اور عیاں ہوگئی جس نے صاف لفظوں میں کہہ دیا کہ۔
ما کان لبشر ان یوتیہ اللّٰہ الکتاب والحکم والنبوۃ ثم یقول للناس کونوا عبادا لی من دون اللّٰہ ولکن کونوا ربا نیین بما کنتم تعلمون الکتب وبما کنتم تدرسون (آل عمران ع ١٨)
” کسی بندے کی شان ہی نہیں کہ اس کو اللہ کتاب عنایت کرے اور وہ لوگوں سے کہنے لگے کہ اللہ سے ورے ورے مجھے بھی اللہ مانو لیکن یہ کہے گا کہ اپنے علم اور درس کی وجہ سے اللہ والے بنو۔ “
وانزلنا الیک الکتاب بالحق مصدقا لما بین یدیہ من الکتاب ومھیمنا علیہ فاحکم بینہم بما انزل اللّٰہ ولا تتبع اھواء ھم عما جاءک من الحق (المائدہ ع ٧)
ایک آیت میں صاف ارشاد ہے کہ ہم نے تیری طرف سچی کتاب اتاری ہے جو پہلی کتاب کو حق بتلاتی ہے علاوہ تصدیق کے اس پر خبرگیر بھی ہے (کہ اس میں کجرووں کی کجروی جو ہوئی ہو اس کی تغلیظ اور مضامین حقہ کی تصدیق کرے) پس تو ان میں اللہ کے اتارے ہوئے (قرآن) سے فیصلہ کر (کیونکہ وہ بلاشبہ صاف اور حق ہے) اور تیرے پاس جو سچی تعلیم آئی ہے اسے چھوڑ کر ان کی خواہشوں کے (اور من گھڑت مطالب کے) پیچھے مت ہوجیؤ۔
ان آیات میں پہلی کتابوں کی تصدیق کر کے ان کے مخلوط بالغیر ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے اور ساتھ ہی قرآن شریف کے بصورت جدید آنے کی علت بتلائی ہے کہ قرآن اور کتب سابقہ کی مثال بالکل صحیح اور درست مسودہ اور مبیضہ کی سی ہے یعنی جس طرح مسودہ کو جس میں کئی زائد کم باتیں ملی ہوئی ہوں صاف کر کے مبیضہ بنایا جاتا ہے تو مسودہ سابقہ کو ردی میں پھینک دیا کرتے ہیں اسی طرح کتب سابقہ کے مضامین جن میں بجائے توحید خالص کے تثلیث اور مردم پرستی قائم کی گئی تھی ان کو صاف کر کے صحیح مضامین کو چھانٹ کر ایک صحیح مبیضہ تیار کیا گیا اور آئندہ کو اس کی حفاظت بندوں سے ہٹا کر اللہ عالم الغیب نے خود اپنے ذمہ لی۔
(تورٰیت اور انجیل کے مسودہ سے تشبیہہ اس کی حالت موجودہ کے لحاظ سے ہے جس میں ایسے مضامین بھی ہیں کہ حضرت لوط نے (معاذ اللہ) شراب پی کر اپنی لڑکیوں سے زنا کیا (پیدائش ١٩ باب) مسیح نے شراب کی دعوت میں شراب کے کم ہونے پر معجزہ سے شراب کو بڑھا دیا (یوحنا ٢ باب) اور نہ حقیقی تورٰیت انجیل نور ہدایت اور رحمت تھی جن کے مضامین قرآن میں آکر وہی لقب لے رہے ہیں۔ (فافہم) منہ)
چنانچہ ارشاد ہے کہ
اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحَافِظُوْنَ (الجزء ١٢)
” تم ہی نے اس نصیحت (قرآن) کو اتارا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں “
چونکہ اللہ کے کام بذریعہ اسباب ہوا کرتے ہیں اس لئے اس حفاظت کا انتظام بھی حسب دستور اس نے اپنے بندوں سے اس طرح لیا کہ عموماً مسلمانوں میں بفضلہ تعالیٰ حافظان قرآن پائے جاتے ہیں۔ اس تنزل کے زمانہ میں بھی اللہ کی حفاظت کا یہ اثر ہے کہ مثلاً یہی شہر (امرت سر) جس میں تقریباً تین سو مسجد ہے رمضان میں عموماً ہر مسجد میں تراویح پڑھنے کو دو حافظ تو ضروری ہی ہوتے ہیں جس سے اوسط حساب چھ سو حافظ ہوتے جو خاص شہر کی آبادی کا حساب ہے اور گردو نواح کا اندازہ بھی اسی پر قیاس کرلیجئے پھر تمام اسلامی دنیا کا اس پر حساب ہونا آسان ہے حالانکہ یہ زمانہ عام طور پر مذہبی امور سے غفلت کا ہے اسی طرح نسلاً بعد نسل کرتے آئے ہیں اور کرتے جائیں گے جس سے کوئی کتنا بھی زور لگائے ایک زبر سے زیر اور پیش سے جزم نہ ہوگی۔ کیا کوئی اور قوم ہے جو اسلام کی اس خوبی اور پیشگوئی کا مقابلہ کر کے دکھائے
بس تنگ نہ کر ناصح ناداں مجھے اتنا
یا چلئے دکھاوے دہن ایسا مکر ایسی
یہ ایک ایسی حفاظت ہے کہ مسلمانوں کو اسی کی بدولت وہ بدزمانہ دیکھنا نصیب نہیں ہوا کہ اس کہنے پر مجبور ہوں کہ فلاں آیت الحاقی ہے اور فلاں باب جعلی ہے جیسا کہ عیسائیوں کو کہنا پڑا (دیکھو تفسیر ہارن)
پس خلاصہ یہ ہے کہ قرآن کی تعلیم بالکل وہی ہے جو ابتدا سے اللہ نے اپنے بندوں کو دی تھی جس کو قرآن کریم نے خود ہی بیان کیا ہے۔
ولقد وصینا الذین اوتوا الکتاب من قبلکم وایاکم ان اتقوا اللہ وان تکفروا فان للّٰہ ما فی السموت وما فی الارض وکان اللّٰہ غنیا حمیدا (نساء ع ١٩)
” تم کو اور تم سے پہلے لوگوں کو بھی ہماری یہی نصیحت رہی تھی کہ ہر ایک معاملہ میں اللہ سے ڈرتے رہا کرو۔ اور اگر تم ناشکری کرو گے تو جان رکھو کہ اللہ ہی کا ہے جو آسمان میں ہے اور جو زمین میں ہے اور اللہ سب سے بے نیاز بذاتہ تعریفوں کے لائق ہے۔ “
ایک جگہ فرمایا :
کتاب احکمت ایاتہ ثم فصلت من لدن حکیم خبیر ان لا تعبدوا الا اللّٰہط
اس کتاب کے حکم بڑے محکم اور اللہ کے پاس سے مفصل بیان ہوچکے ہیں کہ سوائے اللہ کے کسی کی عبادت نہ کرو۔
اس تعلیم سابق کا بطرز جدید بصورت قرآن بیان کر کے آئندہ کو ہمیشہ کے خطرات سے اسے محفوظ کردیا کہ دوبارہ کجرووں کے اختلاط سے بگڑنے نہ پاوے یہی وہ نسخ ہے جو عام طور پر اہل اسلام تورٰیت انجیل کو منسوخ کہا کرتے ہیں
نہ از لات و عزیٰ براورد گرد
کہ تورٰیت و انجیل منسوخ کرو
اور یہی دلیل آپ کے خاتم نبوت ہونے کی ہے اس لئے کہ نبی کی بڑی ضرورت تو یہ ہے کہ حقانی تعلیم کی نسبت ہو غلو ہوا ہو اس کو معدوم کر کے اصل بات صاف صاف لوگوں کو پہنچا دے۔ لیکن جب اس تعلیم کا اللہ محافظ ہے اور اسی کی حفاظت کی وجہ ہے کہ اس میں کوئی خلل نہیں آیا تو نبی کے بھیجنے کی ضرورت کیا۔ رہی تبلیغ سو یہ عام طور پر علمائے اسلام کے ذریعہ سے ہوسکتی ہے چنانچہ انہی معنی سے حدیث میں آیا ہے۔
علماء امتی کا انبیاء بنی اسرائیل (حدیث)
” میری امت کے علماء بنی اسرائیل کے نبیوں کا منصب رکھتے ہیں “
رہا یہ سوال کہ اگر قرآن شریف وہی خداوندی حقانی تعلیم ہے جو ہمیشہ سے بندوں کو ملتی رہی تھی تو ان میں رسوم مذہبی کا اختلاف کیوں ہے۔ مسلمانوں کی نماز وغیرہ عبادات عیسائیوں اور یہودیوں اور دیگر اہل کتاب سے کیوں مختلف ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ حقیقت میں کوئی اختلاف نہیں اسلامی عبادات صرف چار ہی ہیں نماز‘ روزہ‘ حج‘ زکوٰۃ (خیرات) نماز میں جو ارکان (قیام۔ رکوع۔ سجود) پائے جاتے ہیں پہلے لوگوں کو بھی یہی حکم تھا چنانچہ صدیقہ مریم کو ارشاد ہوتا ہے۔
یا مریم اقنتی لربک واسجدی وارکعی مع الراکعین (آل عمران ع ٥)
” مریم اپنے اللہ کے سامنے کھڑی ہو اور سجدہ اور رکوع کرنے والوں سے مل کر رکوع اور سجدہ کر۔ “
اسی طرح زکوٰۃ کا بھی ان کو حکم تھا جیسا کہ فرمایا۔
وما امروا الا لیعبدو اللّٰہ مخلصین لہ الدین حنفاء ویقیموا الصلوٰۃ ویوتوا الزکوٰۃ وذلک دین القیمۃ (منہ)
” ان کتاب والوں کو یہی حکم تھا کہ خالص دل سے اللہ تعالیٰ کی ہی عبادت کریں اور نماز پر مضبوط رہیں اور زکوٰۃؔ (خیرات) دیتے رہیں یہی دین مضبوط دین الہٰی ہے۔ “
کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم لعلکم تتقون (بقرہ)
روزوں کی بابت بھی صاف حکم ہے کہ جس طرح تم پر روزہ فرض ہوا ہے اسی طرح پہلے لوگوں پر بھی ہوا تھا۔
اذن فی الناس بالحج یاتوک رجالا وعلی کل ضامر یاتین من کل فج عیق لیشھدوا منافع لھم ویذکروا اسم اللّٰہ فی ایام معلومات علی ما رزقھم من بھیمۃ الانعام فکلوا منھا واطعموا البائس الفقری (الحج ع ٤)
” ایسا حج کی بابت بھی ارشاد ہے کہ ابراہیم کو اللہ نے حکم کیا تھا کہ لوگوں میں حج کی منادی کر دے۔ تیرے پاس
پاپیادہ اور دبلی دبلی اونٹنیوں پر دور دراز راستے سے سوار ہو کر آویں گے تاکہ اپنے منافع پر حاضر ہوں اور اللہ کا نام معین تاریخوں میں اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے مویشی پر یاد کریں پس تم خود بھی ان میں سے کھائیو اور محتاج فقیروں کو بھی کھلائیو۔ “
باقی رہے اخلاقی مضامین (سچ بولنا۔ زنا نہ کرنا۔ چوری نہ کرنا۔ ظلم نہ کرنا وغیرہ وغیرہ) سو یہ تو ایسے احکام ہیں کہ کسی شریعت اور قانون کی ذیل میں بیس آکر مبتدل نہیں ہوسکتے۔ چنانچہ اسلام نے بھی ان میں کسی طرح سے تغیر نہ کیا بلکہ مزید تاکید ہی ان کے متعلق فرمائی۔ ہاں بعض عبادات اہل کتاب کی اسلام سے بیشک مختلف ہیں جیسے مسیح کی عبادت صلیب کی پرستش وغیرہ۔ سو اس کے ذمہ دار خود یہی جنٹلمین ہیں جن کی یہ خانہ ساز ہیں اسلام تو اللہ کی تعلیم حقانی کا مظہر ہے نہ کہ ان کے ایجاد کا بلکہ سچ پوچھو تو ایسی باتیں ہی تعلیم الہٰی کو بہ لباس قرآن لانے کے لئے مقتضی ہوئیں چنانچہ ارشاد ہے۔
یا اھل الکتاب قد جاء کم رسولنا یبین لکم کثیرا مما تخفون من الکتاب ویعفوا عن کثیر قد جاء کم من اللہ نور وکتب مبین (مائدہ ع ٣)
” اے کتاب والو بیشک تمہارے پاس ہمارا رسول (محمد ﷺ) آگیا ہے جو تمہاری بہت سی چھپائی ہوئی کتاب کو ظاہر کرتا ہے اور بہت سے تمہارے ذاتی عیوب سے درگذر کرتا ہے بیشک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے نور اور کتاب روشن آپہنچی۔ “
پس مختصر یہ کہ قرآن شریف وہی حقانی تعلیم ہے جو ابتدائے آفرنیش سے بندوں کی ہدایت کے واسطے آئی تھی جو کجروؤں کی کجروی سے ردو بدل ہو کر مخلوط بالغیر ہوچکی تھی اسی کو صاف و مصفیٰ کر کے مع بعض واقعات تاریخیہ بطور عبرت بیان کیا گیا ہے پس جو مضمون اس محفوظ مضمون کے مخالف ہوگا وہ مردود متصور ہوگا اور جس کی قرآن شریف تصدیق کرے گا وہی صحیح اور قابل اعتبار ہوگا۔ رہی یہ بحث کہ تورٰیت و انجیل میں تحریف لفظی ہے یا معنوی سو یہ بحث طویل الذیل ہے اس لئے اس کو ہم کسی اور موقع پر چھوڑ کر اس حاشیہ کو ختم کرتے ہیں اور اخیر میں ارشاد خداوندی سب اہل کتاب کو سناتے ہیں۔
یایھا الذین اوتوا الکتاب امنوا بما نزلنا مصدقا لما معکم من قبل ان نطمس وجوھا فنردھا علی اذبار ھا او نلعنھم کما لعنا اصحب السبت وکان امر اللّٰہ مفعولا۔ (النساء ع ٧)
اے کتاب والو ! ہماری اتاری ہوئی کتاب (قرآن) کو مانو جو تمہارے ساتھ والی کی تصدیق کرتی ہے۔ اس سے پہلے (مانو) کہ ہم کئی منہ بگاڑ کر ان کی پیٹھ کی شکل پر ان کو کردیں یا ان کو لعنت کریں جیسی کہ سبت والوں کو لعنت کی تھی اور اللہ تعالیٰ کا کام کیا ہوا ہے۔ (منہ) “
مگر چونکہ ہر ایک امر جائز ہویاناجائز کسی وجہ پر مبنی ہوتا ہے اور اس کے کرنے والے کے نزدیک کوئی نہ کوئی وجہ (خواہ واقع میں کیسی ہی غلط ہو) ہوا کرتی ہے یہ بے پروائی ان کی بھی اس وجہ سے ہے (دیکھو تو کیسی غلط وجہ سے) کہ انہوں نے سمجھ رکھا ہے کہ ہمیں اگر ہوا تو چند روز ہی عذاب ہوگا کیونکہ ہم خاندان موت سے ہیں انبیاء کی اولاد بزرگوں کی ذریت ہیں مسیح ہمارا کفارہ ہے کیا ہمارا اتنا بھی لحاظ نہ ہوگا کہ ہمیں تھوڑا سا عذاب جتنے روز ہمارے بزرگوں سے بچھڑے کی پوجا ہوئی تھی ہو کر رہائی ہوجائے دیکھو تو کیسا ان کو مذہب کے بارے میں ان کے جھوٹے ڈھکوسلوں نے فریب دے رکھا ہے پس اگر یہ ایسے ہی خیالات واہیہ پر رہے تو ان کا کیا حال ہوگا جب ہم ان کو جمع کریں گے جو بلاشبہ ہونیوالا ہے اور ہر شخص کو اس کی کمائی کا پورا بدلہ ملے گا اور ان پر کسی طرح ہماری طرف سے ظلم نہ ہوگا۔ اس روز ان کی کارستانی کی قلعی کھلے گی اور خوب جان لیں گے کہ اللہ تعالیٰ کی کچہری ایسی نہیں کہ وہاں کوئی چون وچرا کرسکے اور اپنے خاندانی حقوق جتلائے بلکہ جو کچھ عرض معروض کرنا ہوعاجزانہ سے ہوگا طریق چونکہ محکمہ اللہ کریم میں عجزونیاز ہی کام آتا ہے اس لئے ہم تجھے (اے نبی) ہدائت کرتے ہیں کہ تو اگر اپنی حاجت بر آری چاہتا ہے تو یوں کہہ کہ اے اللہ تمام ملک کے مالک تو جس کو چاہے دنیا کا ملک اور حکو مت دیتا ہے اور جس سے چاہے دیا ہوا چھین بھی لیتا ہے اور جس کو چاہے عزت دیتا ہے اور جس کو چاہے ذلیل کرتا ہے حق یہ ہے کہ تیرے ہی اختیار میں ہر طرح کی بھلائی ہے بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے یہ تیری ہی قدرت کے آثار ہیں کہ تو رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں کبھی دن کو بڑھاتا ہے اور کبھی رات کو اور زندہ کو مردہ جیسے نطفہ سے نکالتا ہے اور مر دہ کو زندہ زندہ سے باہر نکالتا ہے اور ساتھ ہی یہ کمال قدرت ہے کہ جس کو چاہے بے حساب رزق دیتا ہے
” شان نزول :۔ (قُلِ اللّٰھُمَّ مَالِکَ الْمُلْکِ) آنحضرتﷺ نے اپنی امت کو وعدہ فتوحات کثیرہ کا دیا تو منافقین کوتاہ اندیشوں نے اس سے تعجب کیا کہ کیونکر ایسی فتوحات ضعیف مسلمانوں کو ہوسکتی ہیں۔ اس واقع پر یہ آیت نازل ہوئی (معالم) “
پس ایسے خیالات اور اعتقادات موجب نجات ہیں اور اگر کسی کافر یا فاسق کی محبت میں بیٹھ کر تم بگڑے تو گئے۔ اس لئے ہم کہتے ہیں کہ مسلمان مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں سے دوستی مت لگائیں تاکہ ان کی طرح بد اخلاق نہ ہوجائیں اور اللہ کے غضب میں نہ آجائیں جو کوئی یہ کام کرے وہ اللہ سے بے تعلق ہے ہاں اگر ان سے ضرر کا اندیشہ ہو تو کسی قسم کا بچاؤ کرلو تو جائز ہے تاکہ ان کے ظلم سے بچے رہو اور دنیاوی معاملات میں ان سے سلوک کرنا چاہو تو کرو اس میں کوئی حرج نہیں۔ حرج اس میں ہے کہ تم دل سے ان کی محبت اور خیر خواہی کو مومنوں کی محبت اور بہی خواہی پر ترجیح دو خبردار ایسا نہ کیجیو اللہ تم کو اپنے آپ سے ڈراتا ہے بہتر ہے کہ تم سمجھ جاؤ اور جان لو کہ انجام کار تمہیں اللہ کی طرف پھر نا ہے اگر اس کی مرضی حاصل کی ہوگی تو نجات پاؤ گے ورنہ نہیں اور اگر ظاہر میں تیری بات کو ہاں ہاں کریں اور دل میں کافروں سے محبت رکھیں تو تو ان سے کہہ دے کہ اگر تم اپنے دل کی بات چھپاؤ یا اس کو ظاہر کرو تو دونو طرح سے اللہ اس کو جانتا ہے کیونکہ وہ بڑا علام الغیوب ہے وہ تمام آسمان اور زمین کی چیزیں بھی جانتا ہے علاوہ اس کے وہ ہر ایک کام کرنے پر قدرت رکھتا ہے
” شان نزول : (لایتخذ المؤمنون الکافرین) بعض سادہ مزاج مسلمان اہل کتاب سے دوستی محبت رکھتے تھے۔ دور اندیش مسلمانوں نے یہود و نصاریٰ کی عداوتیں بین دیکھ کر ان کو اس دوستی سے منع کیا مگر وہ اس سے باز نہ آئے ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی۔ “
بدکاروں کو ایسی سزا دے گا کہ یاد کریں گے کب دیگا؟ جس روز ہر ایک شخص اپنا بھلا برا کیا ہوا اپنے سامنے پاویں گے تو اپنے برے اعمال کی سزا دیکھ کر آرزو کرے گا کہ مجھ میں اور اس برے کام میں دوری دراز ہوجائے تاکہ میں اس پر وحشت چیز کے دیکھنے سے آرام پاؤں مگر اس آرزو کا کوئی نتیجہ نہ ہوگا اسی وجہ سے اللہ تم کو اپنے آپ سے اور اپنے عذاب سے ڈراتا ہے کہ تم اس کے آنے سے پیشتر باز آجاؤغور کرو تو یہ بھی اس کی مہربانی ہے کہ بار بار تم کو اس سے متنبہ کرتا ہے اس لئے کہ اللہ اپنے بندوں پر مہربان ہے وہ نہیں چاہتا کہ کوئی بندے بے خبری میں پھنس جائے |
آل عمران |
22 |
|
آل عمران |
23 |
|
آل عمران |
24 |
|
آل عمران |
25 |
|
آل عمران |
26 |
|
آل عمران |
27 |
|
آل عمران |
28 |
|
آل عمران |
29 |
|
آل عمران |
30 |
|
آل عمران |
31 |
(31۔41)۔ انہیں کے بھلے کے لیے تو ان سے کہہ دے کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو غلط خیالات شرکیہ کفریہ چھوڑ کر میرے پیچھے چلو جس کا فائدہ تم کو یہ ہوگا کہ اللہ تم کو درجہ محبت سے ترقی دے کر درجہ محبوبیت میں پہنچا کر تم سے محبت کرے گا اور تمہیں یہ انعام عطا ہوگا کہ تمہارے گناہ معاف کردے گا کیوں کہ اللہ بڑا بخشنے والامہربان ہے
تیری تابعداری تو اس لئے ہے کہ تو اللہ کا رسول ہے پس تو کہہ دے کہ اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو مطلب کو پہنچ جاؤ گے
شان نزول :۔ (قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ) یہود و نصاریٰ اپنے کو اللہ کا محب اور محبوب بتایا کرتے تھے اور مشرکین عرب بتوں کی عبادت کرنے کی یہی وجہ بتلایا کرتے تھے کہ ہم اللہ کی محبت کی غرض سے ان پوجا کرتے ہیں اصل مقصود ہمیں محبت الہٰی ہے
پھر اگر وہ تیری بات سے منہ پھیریں تو جان لے کہ کافر اللہ کو ہرگز نہیں بھاتے بھلا اگر تیری نہ سنیں تو کیا حیرانی ہے جبکہ یہ لوگ اللہ کے بندے کو خدائی میں شریک سمجھتے ہیں اور اس کو اللہ اور اللہ کا بیٹا کہتے ہیں
حالانکہ جس کی نسبت لوگوں کو یہ خیال ہے اس کا ساراخاندان عبودیت میں کمال کو یہاں تک پہنچا ہوا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے آدم اور نوح کو جیسا چنا تھا ویسا ہی ابراہیم اور عمران کے خاندان کو جو مسیح ( علیہ السلام) کے نانا تھے برگزیدہ کیا تھا ان میں سے ایک دورسرے کی اولاد تھے اور اللہ ہر ایک کی باتیں سنتا اور جانتا ہے
” شان نزول :۔ (اِنَّ اللّٰہ اصْطَفٰٓے اٰدَمَ) یہودیوں کا ہمیشہ سے بیہودہ دعویٰ تھا کہ ہم انبیاء کی اولاد ہیں اور اللہ کے پیارے ان کے حق میں یہ آیت اتری کہ بتلاوے کہ انبیاء کی اولاد کو اللہ نے محض ان کے اخلاص قلبی کی وجہ سے برگزیدہ کیا تھا اگر ان جیسا ہونا چاہتے ہو تو اخلاص قلبی حاصل کرو ورنہ زبانی دعا دی کون سنتا ہے۔ نیز اس میں بالخصوص فرقہ عیسائیوں کی تردید کی تمہید ہے۔ معالم (بتفصیل منہ) “
ان کی اخلاص مندی کا ثمرہ تھا کہ ان کو معزز کیا ان کی بے ہودہ گوئی کا نتیجہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں مردود ہوں گے یاد کرو جب عمران کی عورت مسیح کی نانی حنہ نے کہا تھا کہ اے میرے اللہ میں نے اپنے پیٹ کا بچہ خالص تیرے لئے نذر مانا ہے پس تو مجھ سے قبول کر بے شک تو ہر ایک کی باتیں سننے والا اور ہر ایک کے دلی خیالات جاننے والاہے۔ پس جب اس نے لڑکی جنی اور وہ (حنہ) حسب عادت عورتوں کے لڑکے کی امید رکھتی تھی تو حسرت سے بولی کہ اے میرے اللہ میں نے لڑکی جنی ہے اور نذر مانتے وقت میرے جی میں بیٹے کی امید تھی گو اللہ کو خوب معلوم تھا جو جنی تھی تاہم اس نے اپنی آرزو کا اظہار کیا اور کہا کہ لڑکی مثل لڑکے کے نہیں ہوا کرتی (تشبیہ مقلوبی ہے۔ دراصل کلام یوں ہے۔ لیس الانثی کالذکر۔) جو کام لڑکا بآسانی کرسکتا ہے لڑکی سے بمشکل بھی نہیں ہوتا۔ خیر تیرے دینے پر شکر کرتی ہوں اور اس کا نام میں نے مریم عابدہ رکھا ہے اور میں اس کو اور اس کی اولاد کو شیطان مردود سے تیری پناہ میں دیتی ہوں پس اللہ تعالیٰ نے اس کے اخلاص کے موافق اس لڑکی کو اچھی طرح سے قبول کیا اور عمدہ طرح سے پالاچونکہ مریم کا باپ نہیں تھا۔ اس لئے زکریا اس کا کفیل اور خبر گیر ہوا زکریا نے اس کو اپنے پاس چوبارہ میں رکھا تو مریم کو زکریا کے بااخلاص شاگردوں کی طرف سے زکریا کی بے خبری میں بھی کھانا دانا پھل پھول وغیرہ پہنچ جاتا۔ یہاں تک کہ جب کبھی زکریا اس کے پاس چوبارہ میں جاتا کچھ نہ کچھ کھانا اس کے پاس پاتا
یہ واقعہ دیکھ کر زکریا نے ایک دفعہ اسے پوچھا کہ مریم یہ کھانا تجھ کو کہاں سے آتا ہے؟ مریم نے کہا یہ اللہ کے ہاں سے ہے مریم کو بے گمان کھانا پہنچ جاتا تعجب کی بات نہیں اللہ جس کو چاہے بے انداز رزق دے دیتا ہے
” اس آیت کے معنی میں عام طور پر خرق عادت کا اظہار کیا جاتا ہے یعنے مریم کو سردی کے میوے گرمی میں اور گرمی کے سردی میں پہنچتے تھے مجھے کسی خرق عادت یا کرامت سے انکار نہیں لیکن بغیر ثبوت خرق عادت ماننے سے بھی طبیعت رکتی ہے۔ بحال یہ کہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ ایک روز پڑوسن نے حضرت فاطمہ کو کھانا بطور تحفہ بھیجا آنحضرتﷺ نے دریافت فرمایا کہ یہ کہاں سے آیا ہے فاطمہ ممدوحہ نے کہا ھُوَ مِنْ عِنّدِ اللّٰہِ یہ اللہ کے پاس سے ہے (تفسیر و رمنثور) اس سے معلوم ہوا کہ اللہ والے لوگ ہر معمولی واقعہ کو بھی اللہ ہی کی طرف نسبت کیا کرتے ہیں۔ منہ “
زکریا چونکہ لاولد بلکہ ضعیف تھا اور عورت اس کی بھی ضعیفہ اور بانجھ تھی اس بے گمان رزق کی وصولی کو دیکھ کر اسی وقت زکریا نے اپنے رب سے دعا کی کہ میرے اللہ جس طرح تو مریم کو بے گمان کھانے وغیرہ دیتا ہے مجھ کو بھی اپنے ہاں سے اولاد نیک بخش بے شک تو سب کی دعا سننے والا اور قبول کرنے والا ہے پس اس کی دعا کرنی ہی تھی کہ فرشتے نے اسے جب وہ اپنی نماز گاہ میں کھڑا تھا پکارا کہ اللہ نے تیری دعا قبول کی اور تجھے تیرے بیٹے یحییٰ کی خوشخبری دیتا ہے جیسا کہ تو نے مانگا ہے ویسا ہی ہوگا وہ اللہ کی باتوں کی تصدیق کرنے والا اور اپنے زمانہ کے دینداروں کا سردار اور عبادت اور یاد الٰہی میں محصور اور مشغول اور سب سے بڑھ کر یہ نیک بندوں میں سے اللہ کا نبی ہوگا۔ یہ مژدہ سن کرزکریا کو ایک طبعی خیال پیدا ہوا جس کا دفعیہ بھی اس نے اسی وقت چاہا بولا اے میرے اللہ میرے ہاں لڑکا کیسے ہوگا حالانکہ بظاہر ہر کئی ایک طبعی مانع موجود ہیں میں نہائیت بڑھاپے کو پہنچ چکاہوں اور عورت میری بانجھ ہے جس سے آج تک جوانی میں بھی اولاد نہیں ہوئی اللہ کے فرشتے نے اسے جواب میں کہا بے شک (واقعہ) ایسا ہی ہے جو تو نے کہا (لیکن) اللہ جو چاہے کردیتا ہے اسے کوئی امر طبعی اور طبی مانع نہیں ہوسکتا زکریا نے یہ جواب سن کر مزید تسلی کے لئے پھر کہا کہ اللہ کریم میرے لئے اس امر کی کوئی نشانی بتا اللہ کے فرشتے نے جواب میں کہا تیری نشانی خود تیرے اندر یہ ہوگی کہ تو تین روز لوگوں سے بول نہیں سکے گا لیکن اشارہ سے پس لازم ہے کہ تو اس احسان کا شکریہ کی جیو اپنے پروردگار کا ذکر بہت کیا کرو اور پاکی سے صبح وشام اس کی یاد کیا کر۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا جب زکریا لوگوں سے بولنا چاہتا باوجود صحت نہ بول سکتا اس سارے قصے سے تم کو بخوبی واضح ہوگیا کہ مسیح اور اس کا تمام خاندان و متعلقات اللہ کے آگے کیسے عاجزانہ التماس کیا کرتے تھے اور اللہ کی طرف سے ان سب کو مالکانہ جواب ملتا۔ یہ نہ تھا کہ کوئی ان میں سے اللہ یا اللہ کا بیٹا ہونے کا مدعی ہو |
آل عمران |
32 |
|
آل عمران |
33 |
|
آل عمران |
34 |
|
آل عمران |
35 |
|
آل عمران |
36 |
|
آل عمران |
37 |
|
آل عمران |
38 |
|
آل عمران |
39 |
|
آل عمران |
40 |
|
آل عمران |
41 |
|
آل عمران |
42 |
(42۔54)۔ اب خاص ایک قصہ حضرت مسیح کی ماں کا بھی سنو جس سے ان دونوں گروہوں یہودو نصاریٰ کی غلطی تم پر واضح ہوجائے گی
جب اللہ تعالیٰ کے فرشتے نے مریم سے کہا اے مریم اللہ تعالیٰ نے تجھے چنا ہے اور بری خصلتوں شرک کفر بداخلاقیوں سے پاک کیا ہے اور جہان کی موجودہ عورتوں پر تجھے بزرگی دی
” اِذْ قَالَتِ الْمَلٰٓئِکَۃُ ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ ایک ایسے بزرگ اور پاک آدمی کی پیدائش کا اجمالی بیان کرتا ہے جس کی پیدائش وفات بلکہ کل زندگی کے واقعات میں لوگوں کی مختلف رائیں ہو رہی ہیں عموماً ہر ایک شخص سے یہ معاملہ تو ہوتا ہے کہ اس کے دوست دشمن کی آراء مختلف ہوتی ہیں۔ مگر یہ بزرگ (سیدنا عیسیٰ علیہ السلام) اس بات میں بھی سب سے نرالے ہیں۔ یہود ان کے دشمن (بلکہ دراصل اپنے دشمن) تھے ان کی رائے ان کی نسبت مخالفانہ تو اسی اصل (عداوت) کی فرع اور کسی شاخ کا ثمر ہے مگر ان کے نادان دوستوں (عیسائیوں) نے بھی آپ کی نسبت دراصل مخالفانہ ہی رائے لگائی جس کا ذکر اپنے موقع پر آئے گا۔ طرفہ یہ کہ جس مسئلہ (بے باپ ولادت) کے لئے یہ حاشیہ تجویز ہوا ہے اس میں سب کے سب ایک زبان متفق ہیں گو ان کے اتفاق کی بنا مختلف ہی کیوں نہ ہو آپ کے مخالف یہود تو اس حیثیت سے آپ کو بے باپ (حقیقی) مانتے ہیں کہ وہ جناب کی پیدائش بدگمانی اور گستاخی سے ناجائز طور کی کہتے ہیں۔ عیسائیوں نے تو جناب والا کی نسبت عجیب عجیب بعید از قیاس باتیں گھڑی ہیں۔ اللہ تعالیٰ اور اللہ کا بیٹا تو ان کے ہاں عام طور پر زبان زد ہے۔ باپ کے ہونے کے وہ بھی زمانہ شروع اسلام سے آج تک اسی امر کے قائل ہیں کہ مسیح بے باپ پیدا ہوئے تھے مگر اس زمانہ خیر میں سرسید احمد خاں مرحوم نے اس سے انکار کیا ہے فرماتے ہیں کہ وہ بے باپ نہ تھے بلکہ مثل دیگر بچوں کے ماں باپ دونوں سے پیدا ہوئے تھے اس لئے اس حاشیہ میں ہم مسیح کی ولادت کے متعلق دو طرح سے بحث کریں گے ایک ان آیات سے جن میں مسیح کی ولادت مذکور ہے۔ دوسری ان بیرونی شہادتوں سے جن کو سید صاحب بھی کسی قدر معتبر جانتے ہیں۔ اسی سورۃ آل عمران میں یوں فرمایا۔
اذ قالت الملئکۃ یمریم ان اللّٰہ یبشرک بکلمۃ منہ اسمہ المسیح عیسے ابن مریم وجیھا فی الدنیا والاٰخرۃ ومن المقربین٭ ویکلم الناس فی المھد وکھلا ومن الصالحین٭ قالت رب انی یکون لی غلام ولم یمسسنی بشرط قال کذٰلک اللّٰہ یخلق مایشاء اذا قضی امرا فانما یقول لہ کن فیکون (سورہ آل عمران آیات ٤٥ تا ٤٧)
جب فرشتے نے کہا اے مریم بیشک اللہ تجھے اپنی طرف سے ایک لڑکے کی خوشخبری دیتا ہے جس کا نام عیسے مسیح مریم کا بیٹا دنیا اور آخرت میں معزز اور (اللہ کے) مقربوں سے ہوگا اور لوگوں سے گہوارہ اور بڑھاپے میں کلام کرے گا اور وہ نیکو کاروں سے ہوگا۔ مریم نے کہا اے میرے رب مجھے کس طرح سے لڑکا ہوگا حالانکہ مجھے کسی بشر نے ہاتھ نہیں لگایا فرشتے نے کہا تو ایسی ہے اللہ جو چاہتا ہے کردیتا ہے جب کسی چیز کو پیدا کرنا چاہتا ہے تو اسے اتنا ہی کہہ دیتا ہے کہ ہوجا پس وہ ہوجاتی ہے “۔
دوسری جگہ سورۃ مریم میں اس سے بھی کسی قدر مفصل بیان ہے۔
واذکر فی الکتاب مریم اذ انتبذت من اھلھا مکانا شرقیا٭ فاتخذت من دونھم حجابا فارسلنا الیھا روحنا فتمثل لھا بشرا سویا٭ قالت انی اعوذ بالرحمن منک ان کنت تقیا ٭ قال انما انا رسول ربک لاھب لک غلاما زکیا٭ قالت انی یکون لی غلام ولم یمسسنی بشر ولم اک بغیا٭ قال کذلک قال ربک ھو علی ھین ولنجعلہ ایۃ للناس ورحمۃ منا وکان امرا مقضیا٭ فحملتہ فانتبذت بہ مکانا قصیا٭ فاجاء ھا المخاض الی جذع النخلۃ قالت یلیتنی مت قبل ھذا وکنت نسیا منسیا فنا داھا من تحتھا ان لاتحزنی قد جعل ربک تحتک سریا٭ وھزی الیک بجذع النخلۃ تساقط علیک رطبا جنیا٭ فکلی واشربی وقری عینا فاما ترین من البشر احد فقولی انی نذرت للرحمن صوما فلن اکلم الیوم انسیا (سورہ مریم آیات ١٦ تا ٢٣)
” مریم کا ذکر کتاب میں بیان کر جس وقت وہ اپنے گھر والوں سے مشرق کی جانب ہوگئی اور ان سے ورے ایک پردہ اس نے بنا لیا۔ پس اسی حال میں ہم نے اپنا رسول (جبرئیل) اس کی طرف بھیجا وہ کامل آدمی کی شکل میں اس کے سامنے آیاوہ (مریم بوجہ اپنی پاکدامنی کے) اس سے بولی کہ میں تجھ سے اللہ کی پناہ میں ہوں (یعنے تیرے سامنے آنے کو پسند نہیں کرتی) اگر تو نیک ہے (تو آگے سے ہٹ جا) وہ بولا میں آدمی نہیں ہوں بلکہ) تیرے رب کا قاصد ہوں کہ تجھے ایک لڑکا ہونے کی خبر دوں۔ مریم نے کہا مجھے لڑکا کیسے ہوگا حالانکہ مجھے نہ تو خاوند نے چھوا ہے اور نہ ہی میں بدکار ہوں۔ فرشتے نے کہا تو ایسی ہی ہے تیرے رب نے کہا ہے کہ مجھ پر یہ کام آسان ہے اور ہم ایسا ہی کریں گے تاکہ اس کو لوگوں کے لئے نشانی اور اپنی رحمت بنا دیں اور یہ کام تو ہوا ہے۔ پس مریم حاملہ ہوئی پھر وہ دور کی جگہ میں چلی گئی پھر وہ درد زہ کی وجہ سے درخت کھجور کے پاس آئی تو بولی ہائے افسوس میں اس سے پہلے ہی مر کر بھولی بسری ہوجاتی پس فرشتے نے اسے اس سے نچلے مکان سے پکارا کہ تو غم نہ کر تیرے رب نے (تیرے لئے) تیرے نیچے نہر جاری کردی ہے اور اپنی طرف کھجور کے تنے کو ہلا وہ تجھ پر تروتازہ کھجور گرائے گی پھر تو کھائیو اور پانی پیجیئو اور خوش رہئیو۔ اگر کسی آدمی کو دیکھے تو (اشارہ سے) کہہ دیجیئو کہ میں نے اللہ کے لئے منہ بند رکھنے کی نذر مانی ہے۔ پس میں آج تمام دن کسی سے نہ بولوں گی یہ سب باتیں اشارہ سے کہیئو “۔
سورۃ آل عمران میں صرف اسی قدر اشارہ ہے۔
ان مثل عیسٰے عند اللّٰہ کمثل ادم خلقہ من تراب ثم قال لہ کن فیکون
(سورہ آل عمران آیت ٥٩) مسیح اللہ کے نزدیک آدمی کی طرح ہے جس کو مٹی سے بنا کر ہوجا کہا وہ ہوگیا۔
ان آیات کریمہ پر کوئی حاشیہ لگانے کی حاجت نہیں اردو ترجمہ جو لفظی ترجمہ ہے ان کا مطلب صاف بتلا رہا ہے پس جو مطلب ناظرین اردو سے سمجھے ہوں گے وہی مطلب عرب کے فصیح بلیغ باشندے قرآن مجید کا سمجھتے تھے۔ ہمارے خیال میں ہی مسئلہ (دلات مسیح) بعد بیان ان آیات کے ناظرین کے فہم و فراست اور انصاف پر چھوڑنے کے لائق ہے۔ لیکن اس خیال سے کہ سید صاحب یا ان کے دوست رنجیدہ نہ ہوں کہ ہمارے عذرات قوم تک نہیں پہنچائے اسی نے کسی قدر شرح کر کے آپ کے عذرات (رکیکہ) مع جوابات معروض ہوں گے۔
پہلی اور دوسری آیت اس امر پر متفق اور یک زبان ہیں کہ مریم ( علیہ السلام) نے لڑکے کی خوشخبری سن کر اسے اپنے مناسب حال نہیں سمجھا بلکہ سخت لفظوں میں اس سے انکار کیا اور استعجاب بتلایا کہ مجھ جیسی کو لڑکا کہاں سے ہوسکتا ہے جس کو کسی مرد نے نہیں چھوا (در صورت حمل متعارف ہونے کے (جیسا کہ سید صاحب کا خیال ہے) فرشتے کی طرف سے یا اللہ کی جانب سے اس کا یہ جواب ملنا کہ اللہ پر یہ کام آسان ہے دانائوں کی توجہ چاہتا ہے ہاں اگر یہ جواب فرشتے کی طرف سے ہوتا کہ گو ابھی تک مرد نے تجھے نہیں چھوا لیکن چھونا ممکن ہے“ تو اس سے حضرت مریم ( علیہ السلام) کی تسلی ہوجاتی اور سید صاحب کو بھی متعدد صفحات لکھنے کی تکلیف نہ ہوتی اب جائے غور ہے کہ بجائے اس جواب کے یہ جواب دینا کہ بیشک تو ایسی ہے لیکن اللہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ پھر اسی پر بس نہیں بلکہ اس کو بھی مدلل اور مفصل کر کے بیان کیا کہ اللہ جب کبھی کسی چیز کا ہونا چاہتا ہے تو اسے صرف اتنا ہی کہتا ہے کہ ہوجا پس وہ ہوجاتی ہے اگر سید صاحب کا خیال (کہ مسیح بطریق متعارف پیدا ہوئے تھے ٹھیک ہو تو کچھ شک نہیں کہ یہ جواب طول طویل مریم کے استبعاد کے متعلق نہیں ہوسکتا بلکہ ” سوال از آسمان جواب از ریسماں“ کا مصداق ہے۔ پھر مریم ( علیہ السلام) کے بچہ کو اٹھا لانے کے وقت قوم کا طعن مطعن شروع کرنا اور طعن میں ایسے الفاظ بولنا جو اس پاکدامن کی عصمت میں خلل انداز ہوں یعنے نہ ” تیرا باپ زانی تھا نہ تیری ماں بدکار زانیہ تھی“ صاف ثابت کرتا ہے کہ حضرت مسیح کی ولادت کے وقت یہودیوں کا گمان فاسد ناجائز طور پر مولود پیدا ہونے کا تھا۔ جس کو حضرت مسیح نے اپنے جواب میں دفع کیا کہ میں اللہ کا نبی ہوں مجھے اس نے کتاب دی ہے اس لئے کہ بموجب کتب بنی اسرائیل حرامی بچہ دس پشت تک اللہ تعالیٰ کا نبی نہیں ہوسکتا۔ میں جب نبی ہوں تو حرامی کیسے ہوسکتا ہوں۔ افسوس کہ سید صاحب نے اس جواب پر غور نہیں کیا اس لئے جھٹ سے اعتراض جما دیا کہ
” اگر اس وقت یہودیوں کی مراد اس سے تہمت بدنسبت حضرت مریم ( علیہ السلام) کے اور ناجائز مولود ہونے کی نسبت حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کی ہوتی تو ضرور حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) اپنے جواب میں اپنی اور اپنی ماں کی بریت اس تہمت سے ظاہر کرتے۔ جلد دوم ص ٣٧ و ٣٨ طبع جدید ص ٣٣۔ (کتاب استثناء ٢٣ باب کی ٢ آیت (منہ)
ہم نے بتلا دیا ہے کہ حضرت مسیح نے اپنی ماں کی بریت عمدہ طبع سے فرمائی ہے۔ سید صاحب نے ہمارے پہلے طریق استدلال (یعنے عدم مطابقت سوال بجواب) کی طرف تو خیال ہی نہیں کیا تھا اور اس امر پر شاید غور کرنے کا انہیں اتفاق ہی نہیں ہوا اگر ہوتا تو غالباً تصویر کا رخ دوسرا ہوتا البتہ دوسری طرز استدلال کی طرف کسی قدر متوجہ ہو کر فرمایا ہے۔
” یہودیوں کے اس قول سے بھی کہ یَا مَرْیَمُ لَقَدْ جِئْتِ شَیْئًا فَرِیًّا۔ یَا اُخْتَ ھَارُوْنَ مَاکَانَ اَبُوْکِ امْرَئَ سَوْئٍ وَماَ کَانَتْ اُمُّکٍ بَغِیًّا حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کے بن باپ کے پیدا ہونے پر استدلال نہیں ہوسکتا اس لئے کہ اس زمانہ میں جب کہ یہودیوں نے حضرت مریم ( علیہ السلام) سے یہ بات کہی کوئی بھی حضرت مریم پر بدکاری کی تہمت نہیں کرتا تھا طبع جدید ص ٣٢ جلد ٢ “
سید صاحب کو ایسی غفلت مناسب نہ تھی ص ٢٨ طبع جدید ص ٢٠ پر آپ خود مانتے ہیں کہ
” یہی وجہ ہے کہ یہودیوں نے نعوذ باللہ حضرت مریم ( علیہ السلام) پر جو بہتان باندھا تھا وہ یوسف کے ساتھ نہ تھا بلکہ پنتراٹامی کے ساتھ منسوب کیا تھا کیونکہ یوسف ان کے شرعی شوہر ہوچکے تھے “
صفحہ ٢٠ کچھ دور نہیں تھا یہاں پر آپ کا اس کو بھول جانا کلام الٰہی لِکَیْلَا یَعْلَمَ من بعد علم شیئا کی تصدیق ہے۔ اگر فرما دیں کہ ص ٢٠ کی عبارت ولادت کے متعلق ہے اور ص ٣٢ پر جو انکار ہے وہ اس وقت کے متعلق ہے جب حضرت مریم ( علیہ السلام) حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کو اٹھا لائی تھیں دونوں عبارتیں مجھے یاد ہیں میں بھولا نہیں۔
ہمارا مدعا بھی یہی ہے کہ وقت ولادت یہودیوں نے مریم ( علیہ السلام) پر تہمت لگائی تھی جس سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مسیح ان کے نزدیک ناجائز مولود تھے جس سے ہمارا دعویٰ (بے باپ ولادت مسیح) تقویت پذیر ہے۔ آپ کا فرمانا کہ نہ اس آیت میں اس قسم کی تہمت کا ارشارہ ہے حیرت افزا ہے۔ کاش آپ اس ” آیت کی بجائے“ قرآن میں کا لفظ لکھ دیتے تو مدت تک فیصلہ ہوجاتا کوئی مخالف آپ کے سامنے وَقَوْلِھِمْ عَلٰی مَرْیَمَ بُھْتَانًا عَظِیْمًا پیش نہ کرسکتا سید صاحب اب بھی موقع ہے معاملے طے کردیں۔
مٹا نہ رہنے دے جھگڑے کو یار تو باقی رکے ہے ہاتھ ابھی ہے رگ گلو باقی
آپ فرماتے ہیں۔ فری کے معنی بدیع و عجیب کے ہیں۔ اس لفظ سے غالباً یہودیوں نے مراد ہوگی شیئاً عظیماً منکراً مگر اس سے یہ بات کہ انہوں نے حضرت مریم ( علیہ السلام) کی نسبت ناجائز مولود ہونے کی تہمت کی تھی لازم نہیں آتی بلکہ قرینہ اس کے برخلاف ہے کیونکہ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) نے اس کے جواب میں اس تہمت دے بری ہونے کا کوئی لفظ بھی نہیں کہا ص ٢٧ طبع جدید ص ٣٢ “
بیشک کہا ملاحظہ ہو ص ٢٧ تفسیر ثنائی جلد ہذا۔ اس جواب میں بھی حسب عادت قدیمہ مطلب سے تجاہل عارفانہ کر گئے ہیں فری کے معنی کرنے میں وقت کھو دیا حالانکہ ان نالائقوں کے صریح الفاظ تھے کہ اے مریم تیرا باپ زانی نہ تھا تیری ماں زانیہ بدکار نہ تھی تو ایسا لڑکا بقول سید صاحب) اوپرا کہاں سے لے آئی۔ کیا اس قدر مغلظ الفاظ کسی نے اپنی بیگانی لڑکی کی نسبت کہے ہیں یا کہتے سنا؟ یہودیوں کے یہ الفاظ کہنے کی وجہ سرسید یوں بیان کرتے ہیں “
” جب انہوں (حضرت مسیح) نے بیت المقدس میں یہودی عالموں سے گفتگو کی اس بات پر یہودی عالم ناراض ہوئے اور انہوں نے آکر حضرت مریم ( علیہ السلام) سے کہا کہ تیرے ماں باپ تو بڑے نیک تھے تو نے یہ کیسا عجیب یعنی بد مذہب لڑکا جنا ہے حضرت مریم ( علیہ السلام) نے خود اس کا جواب نہیں دیا اور حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کو اٹھا لائیں (گود میں یا کندھوں پر) اس وقت انہوں نے فرمایا کہ اِنِّیْ عَبْدُاللّٰہِ اٰتَانِیَ الْکِتٰبَ وَجَعَلَنِیْ نَبِیًّا : ص ٣٦ طبع جدید ص ٣١ “
افسوس سید صاحب ! یہ مسئلہ حل نہ ہوگا جب تک آپ صریح الفاظ کو نہ لیں گے اور ان کے متبادل ترجمہ کو تسلیم نہ کریں گے جو واقعی قابل تسلیم ہے۔ آپ کے بیان مذکورہ بالا سے معلوم ہوتا ہے کہ یہودیوں کی بدزبانی پہلے سن کر حضرت مریم ( علیہ السلام) مسیح کو اٹھا لائیں مگر قرآن کریم کے بیان سے ظاہر ہے کہ مریم کا بچہ کو اٹھا کر لانا پہلے ہے اور یہودیوں کی بدزبانی پیچھے۔ دیکھو تو کیا وضاحت سے ارشاد ہے کہ۔
فاتت بہ قومھا تحملہ قالوا یا مریم لقد جئت شیئًا فریًّا
” پس اس (مسیح) کو اٹھا کر اپنی قوم کے پاس لائی وہ بولے کہ اے مریم تو تو عجیب چیز لائی ہے “
سید صاحب ان باتوں سے بجز اس کے کہ علماء میں ہنسی ہو کیا فائدہ آپ اپنا عندیہ کیوں نہیں کہہ دیتے کہ اس کھینچ تان سے آپ کا مطلب کیا ہے کہ جہاں آپ کو کچھ نہیں سوجھتا وہاں خواب میں چلے جاتے ہیں چنانچہ حضرت مریم (رض) کی فرشتے سے گفتگو کو جو آپ کے مذہب کے خلاف تھی (کیونکہ فرشتوں کے وجود خارجی سے آپ منکر ہیں) خواب کا واقعہ بتلایا ہے اور اس کی نسبت یوں ارشاد فرمایا ہے کہ
” سورۃ مریم میں حضرت مریم ( علیہ السلام) کی رویا (خواب) کا واقع بیان ہوا ہے کہ انہوں نے انسان کی صورت دیکھی جس نے کہا کہ میں اللہ بھیجا ہوا ہوں تاکہ تم کو بیٹا دوں طبع جدید ص ٣١ “
جناب ! خواب کس لفظ کا ترجمہ ہے۔ اسی برتے پر آپ علماء کو یہودیوں کے مقلد شہوت‘ پرست‘ زاہد‘ کوڑ مغز ملا وغیرہ وغیرہ الفاظ بخشا کرتے ہیں
اللہ رے ایسے حسن پہ یہ بے نیازیاں
بندہ نواز آپ کسی کے اللہ نہیں
آپ ہی بتلا دیں اگر کسی صحیح روایت کے اعتبار پر بات کہنے سے یہودیوں کا مقلد بننا لازم آتا ہے تو بے ثبوت بات کہنے پر کس کار خیر اس کا فیصلہ۔ تو ہم آپ کے جدا مجد (فداہ ابی و امی) کے روبرو کرائیں گے انشاء اللہ۔ اب ہم اس مسئلہ (ولادت مسیح) کے متعلق بیرونی شہادتیں دریافت کرتے ہیں اس میں تو کچھ شک نہیں کہ یہود و نصاریٰ اور مسلمان سب کے سب اس امر پر متفق ہیں کہ حضرت مسیح بے باپ ہیں عیسائیوں اور مسلمانوں کی نسبت تو آپ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ عیسائی اور مسلمان دونو خیال کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) صرف اللہ تعالیٰ کے حکم سے عام انسانی پیدائش کے برخلاف بغیر باپ پیدا ہوئے تھے ص ٢٢ جلد ٢ طبع جدید ص ١٥ رہے یہودی سو ان کی بابت قرآن سے ثابت ہے کہ مسیح کی ولادت کو کیسے مغلظ الفاظ سے بیان کرتے تھے پس حضرت مسیح کے حالات دیکھنے والے یہود۔ نصاریٰ دونوں قومیں جو ان کے حالات کو تحقیق کرنے میں ہم سے زیادہ مشغول تھیں (گو اغراض ان کی مختلف ہوں یہود بوجہ عداوت اور نصاریٰ بوجہ عقیدت) ان دونو کا اس امر پر اتفاق ہونا کہ جناب مسیح کا باپ نہیں قابل غور نہیں؟ اس اتفاق کی تائید ان کی کتابوں سے بھی ہوتی ہے۔ انجیل متی میں صاف بیان ہے۔
” اب یسوع مسیح کی پیدائش یوں ہوئی کہ جب اس کی ماں مریم کی منگنی یوسف کے ساتھ ہوئی تو ان کے اکٹھا آنے سے پہلے وہ روح القدس سے حاملہ پائی گئی۔ تب اس کے شوہر یوسف نے جو راستباز تھا اور نہ چاہا کہ اسے تشہیر کرے ارادہ کیا کہ اسے چپکے سے چھوڑ دے۔ وہ ان باتوں کی سوچ ہی میں تھا کہ دیکھو اللہ تعالیٰ کے فرشتے نے اس پر خواب میں ظاہر ہو کر کہا اے یوسف ابن دائود اپنے جورو مریم کو اپنے یہاں لے آنے سے مت ڈر کیونکہ جو اس کے رحم میں ہے سو روح القدس ہے“ انجیل متی باب اول درس ١٨۔
انجیل لوقا میں یوں مذکور ہے۔
اور چھٹے مہینے جبرئیل فرشتہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جلیل کے ایک شہر میں جس کا نام ناصرت تھا بھیجا گیا ایک کنواری کے پاس جس کی یوسف نامی ایک مرد سے جو دائود کے گھرانے سے تھا منگنی ہوئی تھی اور اس کنواری کا نام مریم تھا اس فرشتے نے اس کے پاس اندر آ کے کہا کہ اے پسندیدہ سلام ! اللہ تعالیٰ تیرے ساتھ تو عورتوں میں مبارک ہے۔ پر وہ اسے دیکھ کر اس کی بات سے گھبرائی اور سوچنے لگی کہ یہ کیسا سلام ہے۔ تب فرشتے نے اس سے کہا کہ اے مریم مت ڈر کہ تو نے اللہ کے حضور فضل پایا اور دیکھ تو حاملہ ہوگی اور بیٹا جنے گی اور اس کا نام یسوع رکھے گی وہ بزرگ ہوگا اور اللہ تعالیٰ کا بیٹا (نیک بندہ) کہلائے گا اور اللہ تعالیٰ اس کے باپ دائود کا تخت اسے دے گا اور سدا یعقوب کے گھرانے کی بادشاہت کرے گا اور اس کی بادشاہت آخر ہوگی۔ تب مریم نے فرشتے سے کہا یہ کیونکر ہوگا جس حال میں میں مرد کو نہیں جانتی فرشتے نے جواب میں اس سے کہا کہ روح القدس تجھ پر اترے گی اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کا سایہ تجھ پر ہوگا اس سبب سے وہ قدوس بھی جو پیدا ہوگا اللہ کا بیٹا کہلائے گا۔ انجیل لوقا باب اول درس ٢٦۔
(یہ ایک انجیلی محاورہ ہے کہ نیک بندوں کو اللہ تعالیٰ کے فرزند کہا جاتا ہے انجیل متی۔ ٥ باب۔ منہ)
اس صاف اور سیدھے بیان انجیل کو بھی سید صاحب نے ٹیڑھا بنانا چاہا آپ فرماتے ہیں۔
” اس بات کو خود حواری حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کے اور تمام عیسائی تسلیم کرتے ہیں کہ حضرت مریم ( علیہ السلام) کا خطبہ یوسف سے تھا۔ یہودیوں کے ہاں خطبہ کا یہ دستور تھا کہ شوہر اور زوجہ میں اقرار ہوجاتا تھا کہ اس قدر میعاد کے بعد شادی کریں گے یہ معاہدے حقیقت میں فقد نکاح تھے زوجہ کا گھر میں لانا باقی رہ جاتا تھا۔ یہودیوں کے ہاں اس رسم کے ادا
ہونے کے بعد مرد اور عورت باہم شوہر اور زوجہ ہوجاتے تھے یہاں تک کہ اگر بعد اس رسم کے اور قبل رخصت کرنے کے ان دونوں میں اولاد پیدا ہو تو وہ ناجائز اولاد تصور نہیں ہوتی تھیں شاید خلاف رسم بات ہونے سے معیوب گنی جاتی ہوگی اور دونوں کو ایک شرم اور خجالت کا باعث ہوگی خلاصہ ص ٢٧ طبع جدید ص ١٩ جس سے آپ نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ ” پس کوئی وجہ اس بات کے خیال کرنے کی نہیں ہے کہ یوسف فی الواقع حضرت مسیح کے باپ نہ تھے متی کی انجیل میں جو یہ لکھا ہے کہ یوسف نے جب دیکھا کہ حضرت مریم ( علیہ السلام) حاملہ ہیں تو ان کے چھوڑ دینے کا ارادہ کیا اگر یہ بیان (متی کا) تسلیم کیا جاوے تو اس کا سبب صرف یہی ہوسکتا ہے کہ عام رسم کے برخلاف حاملہ ہوجانے سے یوسف کو رنج اور خجالت ہوئی ہوگی جلد ٢ ص ٢٨ طبع جدید ص ٢٠
جناب سیادت مآب ایسی باتوں سے کیا فائدہ یوں تو ہم نے بھی ٹھیکہ نہیں لیا کہ آپ کو خاموش ہی کرا کے رہیں گے مگر آخر جہاں تک آپ کے جدا مجد (فداہ روحی) کی محبت کا ہمیں جوش ہے آپ کی حق ادائی کریں گے گو کسی استاد قول ؎ ملاآں باشد کہ چپ نہ شود“ صحیح ہے۔
بھلا حضرت ! اگر مریم ( علیہ السلام) کو خلاف رسم حمل تھا اور وہ حمل شرعاً درست اور بالکل بے عیب تھا جیسا آپ بھی ص ٢٧ پر تسلیم کر آئے ہیں تو یوسف اس پر اس قدر رنجیدہ کیوں ہوا کہ اس بیچاری حاملہ کے چھوڑنے پر کمر بستہ ہوگیا۔ آخر وہ اتنا تو جانتا ہوگا کہ یہ کرتوت ساری میری ہے۔ بالفرض اگر اس کو خلاف رسم حمل ہونے سے شرم تھی تو فرشتے نے خواب میں آکر اس کی کیا تسلی کی کہ اے یوسف ابن دائود اپنی جورو مریم کو یہاں سے آنے سے مت ڈر کیونکہ جو اس کے رحم میں ہے سوروح القدس سے ہے۔ متی باب ١ آیت ٢ کیا اس سے وہ حمل وہ خلاف رسم سے ہوا تھا موافق رسم ہوگیا ایسے فرشتے کو یوسف خواب ہی میں جواب دے دیتا کہ حضرت جس خجالت کی وجہ سے میں اسے چھوڑتا ہوں وہ روح القدس سے حاملہ ہونے سے تو نہیں جاسکتی۔ میں تو اس لئے چھوڑتا ہوں کہ خلاف رسم حمل ہے۔ میری رسومات متعلقہ شادی ابھی باقی ہیں۔ میں روح القدس کو کیا کروں میں اس شرم کے مارے پانی پانی ہوئے جاتا ہوں آپ مجھے روح القدس کا راگ سنائے جاتے ہیں۔ افسوس ! سید صاحب نے جیسا حضرت مریم کے سوال اَنّٰی یَکُوْنُ لِیْ غُلَامٌ کے جواب کَذٰلِکِ اللّٰہُ یَخْلُقُ مَایَشَآئُ پر غور نہیں فرمایا اسی طرح اس پر بھی تدبر سے کام نہیں لیا اس امر پر بھی سید صاحب بحوالہ انجیل متی ولوقا مصر ہیں کہ مسیح کو ابن دائود ابن ابراہیم کہا گیا ہے ص ٢٤ اور قرآن میں ابراہیمی ذریت سے ہونا ثابت ہوتا ہے ص ٢٥ نہیں معلوم ایسے صریح بیانات کے مقابلہ میں ایسے ضعیف احتمالات کیا مفید ہوسکتے ہیں سید صاحب ! اصول شاشی میں بھی لکھا ہے کہ عبارت النص اشارہ وغیرہ پر مقدم ہوتی ہے فافہم جس کو دوسرے لفظوں میں یوں کہیں کہ صریح بیان ہر طرح سے ایسی تاویلات پر مقدم ہوتا ہے پس جب کہ صریح بیان انجیلی اور قرآنی دونوں اس پر (بشرطیکہ انصاف ہو) متفق ہیں کہ مسیح (علیہ السلام) بے باپ تھے تو ایسی تاویلات رکیکہ کی کیا قدر ہوگی حالانکہ قرآن کریم میں نواسے کو بھی بیٹا کہا گیا ہے جہاں مباہلہ کا حکم ہوتا ہے کہ تو ان سے کہہ دے کہ آئو ہم اپنے بیٹے اور تمہارے بیٹے اور اپنی عورتیں اور تمہاری عورتیں بلا کر مباہلہ کریں جس پر آنحضرتﷺ نے اپنے نواسوں کو بلا کر مباہلہ کرنا چاہا تھا اور سیدنا حضرت حسن (رض) کو حضور نے اٹھا کر فرمایا تھا کہ میرے اس بیٹے کی طفیل اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے دو گروہوں میں صلح کرائے گا۔ کتب الفتن جلد ٢ ص ١٠٥٣ (دیکھو صحیح بخاری) تو کیا امام حسن آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بیٹے تھے نہیں نواسے کو بھی عام طور پر بیٹا کہا جاتا ہے۔ پس حضرت مسیح کو ابن دائود یا ابن ایراہیم کہا گیا ہے تو مریم کی وجہ سے کہا ہوگا غالباً آپ بھی اس محاورہ کو صحیح جانتے ہیں جب ہی تو یہ عذر کرتے ہیں کہ۔
” یہودی شریعت میں عورت کی طرف سے نسب قائم نہیں ہوسکتا دوسرے یہ کہ حضرت مریم ( علیہ السلام) کا دائود کی نسل سے ہونا ثابت نہیں“ ص ٢٥ گو یہ بھی اسی صفحہ پر تسلیم ہے کہ۔
” حضرت مریم ( علیہ السلام) حضرت زکریا کی بیوی الیشع کی رشتہ دار تھیں اور الیشع ہارون کی بیٹی تھی مگر نہ یہ معلوم ہے مریم اور الیشع میں کیا رشتہ تھا اور نہ یہ معلوم کہ ہارون کس کی اولاد تھے“ ص ٢٥
حضرت ! ان باتوں سے بجز اس کے کہ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا ہو کیا ہوسکتا ہے جب ہمیں انہیں اناجیل مروجہ میں صاف اور صریح الفاظ میں حضرت مسیح کا بے باپ ہونا اور عیسائیوں کا متفق علیہ عقیدہ اسی پر ہونا ثابت ہے تو پھر ایسے ویسے بعید از قیاس احتمالات کو کون سن سکے گا۔ ان کے رد کرنے کو صرف اسی قدر کافی ہے کہ یوسف دائود کے گھرانے سے تھا (دیکھو انجیل لوقا باب اول فقرہ ٢٧) جب یوسف دائود کے گھرانے سے تھا تو غالباً مریم بھی اسی خاندان سے ہوں گی جب تک کہ کسی قوی دلیل سے ثابت نہ ہو کہ مریم خاندان دائودی یا اسرائیلی سے نہیں تھیں اسی قدر کافی ہے۔
ہاں آپ کا اس فقرہ انجیلی پر کہ جیسا کہ گمان تھا وہ (مسیح) یوسف کا بیٹا تھا (لوقا باب ٣ درس ٣٣) نظر ڈالنا بھی حیرت بخش ہے جب کہ یہی لوقا باب الفاظ میں مسیح کی ولادت بے باپ لکھتا ہے تو پھر ایسے محاورات سے کیا نتیجہ۔ علاوہ اس کے ہوسکتا ہے کہ یہ بیان ان کا اس پر بنی ہو کہ مسیح بعد ولادت اس کے گھر میں رہے جیسا کہ ربیب کو بیٹا کہہ دیا کرتے ہیں۔ افسوس ہے کہ سید صاحب اس مسئلہ میں اہل معانی کا قاعدہ بھی بھول گئے کہ موحد اگر (انبت الربیع البقل) کہے تو اس میں نسبت مجازی ہے
اولم یر الانسان انا خلقناہ من نطفۃ
فلینظر الانسان مم خلقط خلق من ماء دافق۔
اسی مسئلہ (ولادت مسیح) پر سید صاحب کے ہم خیال ان آیات سے بھی استدلال کیا کرتے ہیں جن میں انسان کی پیدائش کی ابتداء نطفہ سے بیان ہوئی ہے مگر بعد غور دیکھیں تو یہ استدلال بھی ضعیف ہے اس لئے کہ ان آیات میں قضیہ کلیہ نہیں بلکہ مہملہ ہے جس میں کل افراد پر حکم ضروری نہیں جس کو دوسرے لفظوں میں یوں کہیں کہ ان آیتوں میں سب انسانوں کی پیدائش کا ذکر نہیں بلکہ اکثر کا ہے۔ قرینہ اس کا یہ ہے کہ اس پیدائش کے بیان سے متصل ہی انسان کی ناشکری‘ غرور‘ تکبر‘ گردن کشی کا بیان عموماً مذکور ہوتا ہے جو اکثر افراد انسان میں تو ہے کل میں نہیں بالخصوص حضرات انبیاء اور مسیح (علیہم السلام) کو تو ان سے کو سوں دوری ہے پس ان آیتوں سے تمام افراد انسان کی پیدائش کا نطفہ سے ثبوت دینا گویا کل انبیاء کی نسبت یا کم سے کم مسیح کی نسبت ان گناہوں کا گمان کرنا ہے جو ان آیتوں میں بیان ہیں۔ علاوہ اس کے اگر سب افراد پر بھی حکم ہو تو اس اجمالی بیان سے دوسری آیت مسیح کو نکال سکتی ہے جیسا کہ عام مخصوص البعض کا قاعدہ ہے مثلا ایک آیت میں فرمایا کہ “
والذین یتوفون منکم ویذرون ازواجا یتربصن بانفسہن اربعۃ اشھر وعشرا۔
جن عورتوں کے خاوند مر جائیں وہ چار مہینے دس روز ٹھیر کر دوسرا خاوند کرسکتی ہیں۔“ (دوسری آیت میں فرمایا)
واولات الاحمال اجلھن ان یضعن حملھن۔
” حاملہ عورت بعد جننے کے نکاح کرسکتی ہے۔ “
خواہ وہ بعد مرنے خاوند کے ایک گھڑی بعد جنے خواہ نو مہینے بعد حالانکہ پہلی آیت کے مطابق اس کو چار مہینے دس روز کی عدت بیٹھ کر نکاح کی اجازت چاہیے تھی مگر ایسا نہیں کیونکہ دوسری آیت میں ” حاملہ کا خصوصیت سے ذکر آچکا ہے۔“ اس لئے پہلی آیت کے ذیل میں اس کو لانا گویا دوسری آیت سے غفلت ہے اس قسم کی کئی ایک مثالیں قرآن شریف میں بلکہ ہر ایک کتاب اور محاورہ میں ہوتی ہیں پس جیسا کہ ان دونوں آیتوں کے ماننے والے دونوں پر اس طرح عمل کرتے ہیں کہ پہلے عام فہم سے حاملہ کو نکال کر دوسری آیت کے ذیل میں لاتے ہیں تاکہ ایک ہی کے ذیل میں لانے سے دوسری سے انکار لازم نہ آئے اسی طرح ہم لوگوں کو جو سارے قرآن کو صحیح مانتے ہوں ان آیتوں سے (در صورت تسلیم عموم) مسیح کی پیدائش کو خاص کرنا ہوگا ورنہ ایک ماننے سے دوسری کا انکاز لازم آئے گا۔ سید صاحب اور ان کے حواریوں سے بڑھ کر ان حضرات سے تعجب ہے جو مسیح کی ولادت بے باپ کے قائل ہیں اور اس امر کو بھی مانتے ہیں کہ سب مسلمان سلفاً و خلفاً اسی طرح بے باپ ہی مانتے چلے آئے ہیں مگر (بقول ان کے) قرآن سے بے پاب ہونا ثابت نہیں حضرت ! ثابت تو روز روشن کی طرح ہے ” آفتاب آمد دلیل آفتاب مگر یوں کہیے کہ غور نہیں یا انصاف نہیں۔
سرسید نے جیسا مسیح کے بن باپ ہونے سے انکار کیا ویسے ہی ان کے کلام فی المھد (چھوٹی عمر میں بولنے) سے بھی منکر ہوئے ہیں کیوں نہ ہوں دونوں انکار ہی باپ کے توام ہیں یعنی سپر نیچرل (خلاف عادت) کے استحالہ کی فرع ہیں آپ سورۃ مریم کی آیت پر غور کرتے ہیں کہ۔
قرآن مجید سے ثابت نہیں ہوتا کہ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) نے ایسی عمر میں جس میں حسب فطرت انسانی کوئی بچہ کلام نہیں کرتا کلام کیا تھا قرآن مجید کے یہ لفظ ہیں کَیْفَ نُکَلِّمُ مَنْ کَانَ فِی الْمَھْدِ صَبِیًّا اس میں لفظ کان کا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ایک ایسے سے ہم کیونکر کلام کریں جو مہد میں تھا یعنی کم عمر لڑکا ہماری گفتگو کے لائق نہیں۔ یہ اسی طرح کا محاورہ ہے جیسے کہ ہمارے محاورہ میں ایک بڑا شخص ایک کم عمر لڑکے کی نسبت کہے کہ ابھی ہونٹ پر سے تو اس کے وہ بھی نہیں سوکھا کیا یہ ہم سے مباحثہ کے لائق ہے۔ تفسیر احمدی جلد ٢ ص ٣٧
سید صاحب کے اس امر کی تو ہم داد دیتے ہیں اور واقعی ہے بھی قابل داد کہ اپنے اصول نیچر کو بھولتے نہیں بلکہ جہاں تک ہوسکے دوسروں کو ان کی بات بہلانے کی کوشش کرتے ہیں مگر آخر وہی مثل صادق آجاتی ہے۔ ” بکری کی ماں کب تک خیر منائے گی “۔ آپ سورۃ مریم میں ناحق تکلیف کرنے چلے گئے اسی سورۃ آل عمران میں جس کا حاشیہ لکھنے کو بیٹھے ہیں غور فرماتے تو کان یکون کی گردان سے مخلصی ہوتی دیکھئے تو کس وضاحت سے بیان ہے ویکلم الناس فی المھد وکھلا اس آیت کا ترجمہ اور کسی کا کیا ہوا تو آپ کا ہے کو مانیں گے آپ ہی کی تفسیر سے جو خودبدولت کے قلم سے نکلا ہے پیش کرتا ہوں (مسیح) ” کلام کرے گا لوگوں سے گہوارہ میں اور بڑھاپے میں“ اسی کے انتظام کو آپ نے خطوط واحدانی ڈال کر (یعنے بچپنے میں) لکھ دیا ہے دیکھو صفحہ ٢١ حضرت اسی وجہ سے تو نحویوں نے اس کان کو ربط بتلایا ہے کہ دیکھو شرح ملا جامی اور سرح الشرح۔
علاوہ اس کے اس آیت (من کان فی المھد صبیا) کو آپ کے دعویٰ سے کیا تعلق؟ آپ تو اس واقعہ کو اس وقت سے متعلق کرتے ہیں جس وقت حضرت مسیح بڑے ہو کر وعظ گوئی کے لائق ہوچکے تھے اس وقت یہودیوں نے مریم کو کہا تھا کہ ہم اس لڑکے سے کیونکر بولیں جو گہوارہ میں کھیلا کرتا تھا (جلد ٢ ص ٣٦ طبع جدید ص ٣١) مگر اللہ تعالیٰ کا کلام (تکلم الناس فی المھد) میں تو نہ کان ہے نہ یکون بلکہ صاف ترجمہ ہے کہ مسیح لوگوں کے ساتھ بولے گا گہوارے میں اور بڑھاپے میں ہمارا استدلال تو اس کلام سے ہے اس سے نہیں پس اس کے جواب میں اس کا پیش کرنا کیا مفید ہوسکتا ہے آپ اس امر کی بابت بھی بار بار سوال کرتے کہ (مسیح کو) بن باپ پیدا کرنے میں حکمت الہٰی کیا ہوسکتی ہے ص ٢٣ آپ کے اس سوال سے مجھے بادشاہ اکبر کے دربار کا ایک واقعہ یاد آیا۔ ایک دفعہ مجمع علماء میں کسی صاحب فضل سے دوسرے کسی صاحب نے سوال کیا کہ موسیٰ ( علیہ السلام) کیا صیغہ ہے وہ بیچارہ خاموش رہ کر دوسرے روز دربار میں حاضر نہ ہوا اکبر نے اسے بلا کر عدم حاضری کی وجہ دریافت کی تو بولا بندہ نواز آج تو اس نے موسیٰ ( علیہ السلام) کا صیغہ پوچھا ہے کل کو عیسیٰ ( علیہ السلام) کا پوچھے گا۔ سو اسی طرح آپ کے ان سوالات سے ہم ڈرتے ہیں کیا شاید آپ یہ بھی نہ دریافت کریں کہ اللہ تعالیٰ نے دونوں آنکھیں سامنے کیوں لگائیں ایک آگے ہوتی ایک پیچھے تاکہ دونوں طرف کی چیزیں دیکھنے سے بہ نسبت حال کے دگنا فائدہ ہوتا۔ حضرت من ! اللہ عالم الغیب کے اسرار اللہ ہی جانتا ہے کہ اس نے ایسا کیوں کیا۔ ہاں جس قدر وہ بتلا دے اسی قدر ہم بھی کہہ سکتے ہیں سچ ہے اور بالکل سچ ہے۔ لَایُحِیْطُوْنَ بِشَیْئٍ مِّنْ عِلْمِہٖٓ اِلَّا بِمَاشَآئَ
پس جب ہم اس غرض سے کہ امر کے متعلق اللہ عالم الغیب کی بتلائی ہوئی وجہ کیا ہے کلام الہٰی پر غور کرتے ہیں تو اس قدر پتہ چلتا ہے وَلِنَجْعَلَہٗ ٓاٰیَۃً للنَّاسِ (مریم) (تاکہ ہم اس (مسیح) کو نشانی بنا دیں گے۔ اس کے مقابلہ میں آپ کا عذر جب کہ
” اللہ تعالیٰ اقسام حیوانات کو بغیر توالد تناسل کے عادتاً پیدا کرتا رہتا ہے اور حضرت آدم ( علیہ السلام) کو بے ماں و باپ کے پیدا کیا تھا تو حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کے صرف بے باپ پیدا کرنے میں اس سے زیادہ قدرت کاملہ کا اظہار نہ تھا“ جلد ٢ ص ٢٣
تار عنکبوت سے بھی ضعیف ہے آپ نے یہ خیال نہ فرمایا کہ کس امر کی نشانی حضرت من ! اس امر کی نشانی کہ بعد جاری کرنے اس سلسلہ کائنات کے بھی اللہ اس کے الٹ کرنے پر قادر ہے۔ پس اگر اقسام حیوانات بغیر توالد تناسل کے پیدا ہوتے ہیں تو ان کے لئے وہی سلسلہ پیدائش مقرر کر رکھا ہے۔ اور حضرت آدم ( علیہ السلام) کی پیدائش بھی ابتدا سالہ میں تھی اس لئے وہ بھی خرق عادت نہیں ہوسکتی اس پر آپ کا یہ شبہ کہ
” اگر خیال کیا جائے کہ صرف ماں سے پیدا کرنا دوسرے طور پر اظہار قدرت کاملہ تھا تو بھی صحیح نہیں ہوتا اس لئے کہ اظہار قدرت کاملہ کے لئے ایک امر تین اور ایسا ظاہر ہونا چاہیے کہ جس میں کسی کو شبہ نہ رہے بن باپ کے مولود کا پیدا ہونا ایک ایسا امر مخفی ہے جس کی نسبت نہیں کہا جاسکتا کہ اظہار قدرت کاملہ کے لئے کیا گیا ہے جلد ٢ ص ٢٣
بالکل اس کے مشابہ ہے جیسا کہ اکثر لوگ کہا کرتے ہیں کہ سید صاحب کو نہ تو کوئی شبہ ہے اور نہ ہی وہ اپنے مذہب کو قابل پذیرائی جانتے ہیں بلکہ انہوں نے خواہ مخواہ ایک تماشہ دیکھنے کو یہ نیا مذہب بنا رکھا ہے اس لئے شبہ ہو تو کسی ایسے امر میں جو کسی محاورہ زبان سے رفع ہوسکے نہ ایسے شبہات جو رفع ہوتے ہوئے قرآن کو بھی مرفوع کر جائیں پس جیسا کہ آپ کی دیانت داری اور قومی جوش اور ہائی ایجوکیشن کے نعرے سننے والے اس امر کو جانتے ہیں کہ آپ نے اسلام میں کھیل کے لئے تجدید مذہب نہیں کیا بلکہ دراصل آپ کی تحقیق ہی ہے ایسا ہی مریم صدیقہ کے حالات دیکھنے والے اور اس کی عفت کو جاننے والے اس قدر جانتے تھے کہ نہ تو مریم کا خاوند ہے اور نہ فاحشہ ہے پھر ایسی عفیفہ لڑکی کو جو بچہ پیدا ہوا ہو تو ضرور ہے کہ بے باپ کے ہوگا یہی وجہ ہے کہ بداندیشوں کو بجز اس کے نہ سوجھا کہ مریم ( علیہ السلام) کو تہمت سے ملوث کیا پھر بعد دیکھنے کمالات مسیحیہ کے شبہ جاتا رہا۔
اصل یہ ہے کہ سید صاحب چونکہ سپرنیچرل (خلاف عادت) محال سمجھتے ہیں اس لئے جہاں کہیں کوئی بات سپر نیچرل ہو اس کی تاویل میں ہاتھ پائوں مارنے شروع کردیتے ہیں حالانکہ خود ہی فرماتے ہیں کہ
یہ بات سچ ہے کہ تمام قوانین قدرت ہم کو معلوم نہیں ہیں اور جو معلوم ہیں وہ نہایت قلیل ہیں اور ان کا علم پورا نہیں بلکہ ناقص ہے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ جب کوئی عجیب واقعہ ہوا اور اس کے وقوع کا کافی ثبوت بھی موجود ہو اور اس کا وقوع معلومہ قانون قدرت کے مطابق بھی نہ ہوسکتا ہو اور یہ بھی تسلیم کرلیا جائے کہ بغیر دھوکہ و فریب کے فی الواقع واقعہ ہوا ہے تو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ بلاشبہ اس کے وقوع کے لئے کوئی قانون قدرت ہے مگر ہم کو اس کا علم نہیں“ جلد ٢ ص ٣٤۔ ثبوت کے لئے آیات قرآنی بشرط انصاف ملاخطہ ہوں۔
زمانہ حال کے منکرین سپر نیچرل کے لئے ایک واقعہ کا بیان شاید دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ پیسہ اخبار لاہور ٢٨ نومبر ١٨٩٦ء میں بعنوان مرغی سے مرغا یہ خبر لکھی تھی کہ
” موضع آساپور ضلع دربھنگہ میں ایک شخص گوہر خاں کے یہاں عرصہ سے ایک مرغی تھی چند دفعہ انڈے دیئے اور بچے نکالے ایک دفعہ اس کے سر پر تاج مرغ جسے ہندی میں مور کہتے ہیں بڑھنا شروع ہوا اور معمول سے زیادہ تجاوز کر گیا تب اس نے بانگ مثل مرغوں کے دینا شروع کیا اب مرغیوں سے جفتی کرتا ہے مختصر یہ کہ مرغی سے مرغا بن گیا۔ (راقم خریدار ١٢٨٧٢)
اس خبر کی تحقیق کو کہ کہیں بازاری گپ نہ ہو راقم خبر کا دفتر اخبار مذکور سے معلوم کر کے میں نے خط لکھا کہ معتبر آدمیوں کی تحریر جنہوں نے اس واقعہ کو بچشم خود دیکھا ہو مع دستخط خاص میرے پاس بھجوا دیں جس کے جواب میں صاحب مضمون کا خط پہنچا جو ذیل میں درج ہے۔
مولوی صاحب سرچشمہ فیض و کرم مدافضالہٗ
وعلیکم السلام : آپ نے اس خبر کی جو میں نے ٢٨ نومبر ١٨٩٦ء کے پیسہ اخبار میں دی ہے تصدیق طلب فرمائی ہے میں اسجگہ کلکتہ میں ہوں اور اس امر کے جائے وقوع یعنی اپنے مکان شہر دربھنگہ سے تین سو میل کے بعد پر ہوں ایسی حالت میں مجھ سے فوراً انجام ہونا آپ کے حکم کا محال ہے لیکن اس بات کا وعدہ کرتا ہوں کہ کچھ دنوں بعد ضرور اس خبر کی تصدیق آپ کی خواہش کے مطابق آپ کے پاس بھجوائوں گا“ خادم محمد جلیل نمبر ٧ مکلوڈ اسٹریٹ کلکتہ ٦۔
اس کے بعد راقم خبر کی کوشش سے واقعہ دیکھنے والوں کا دستیطا خط پہنچا۔
مخدوم مکرم جناب مولانا صاحب مدظلہ العالی
السلام علیکم وعلیٰ من لدیکم۔ الحمد للہ مزاج مبارک میں بمقام جالہ ضلع دربھنگہ مدرس مدرسہ تاج المدارس ہوں اتفاقاً بماہ ربیع الثانی ١٣١٤ھ مدرسہ سے رخصت لے کر بمقام آساپور ضلع دربھنگہ قبل پہنچنے کے اثنائے راہ میں سنا کہ بھائی گوہر خاں کی ایک مرغی مرغ ہوگئی ہے کچھ خیال نہ کیا افوا کو لغو سمجھا۔ جب بھائی موصوف کے مکان پر پہنچا قدرت صانع مطلق نمودار اپنی آنکھوں سے دیکھا ایک پرند ہے ہیئت بجنسہ مرغی کی مؤز اور طوق جس کی ہندی مور ہے ایک گرہ دیکھا اور بانگ دینا جو خاصہ مرغ کا ہے اس سے بار ہا سنا اور جفتی کرتے ہوئے دیکھا۔ جنابا ! یہ وہ مرغی ہے جس نے تین بار بیضے دیئے اور اس کے بچے ہوئے اگرچہ یقین کامل اس کے دیکھتے ہی ہوجاتا ہے کہ یہ مرغی ہے اور مرغ بھی ہے تاہم بیسیوں تاویل اور توجیہ احقر نے کیا لیکن اس کی دلیل ایسے قوی ہیں کہ لامحالہ کہنا پڑتا ہے کہ امر واقعی ہے اور توجیہات اور تاویلات سے مقصود تھا کہ کہیں دھوکا نہ ہوگیا ہو مثلاً اسی صورت کا مرغ رہا ہو خلاصہ یہ کہ سرمو اس میں کلام نہیں حسب الطلب مالک مرغی و چند اشخاص نمازی عادل کے دستخط بقلم ان کے پشت پر ثبت ہیں روانہ خدمت عالی کرتا ہوں والسلام۔ فقیر محمد اسحق مدرس مدرسہ تاج المدارس تاریخ ٢٢ رجب ١٣١٤ھ
مرغی مرغا ہوگیا العبد محمد رمضان خاں بقلم گلزار خاں۔ العبد ظہور خاں۔ گوہر خاں (مالک مرغی) بقلم امید علی خاں پسر گوہر خاں۔ کئی ایک دستخط گجراتی یا کسی دوسری اجنبی زبان میں ہیں جو یہاں کسی سے پڑھے نہ گئے۔
فروری ١٩٣٢ئ میں ایک واقعہ ظہور پذیر ہوا جس نے پنجاب کے اخباروں میں بڑی شہرت حاصل کی تھی یہاں ہم اخبار حمائت اسلام لاہور کے الفاظ نقل کرتے ہیں۔
ایک محیر العقول واقعہ
ایک سترہ سالہ طالب علم لڑکی بن گیا۔ لاہور ٢٦ فروری۔ میو ہسپتال میں ایک حیرت انگیز مریض زیر علاج ہے۔ ایک نوجوان طالب علم مرد کے اوصاف کھو کر عورت بن رہا ہے۔ واقعہ یوں بیان کیا جاتا ہے کہ خالصہ کالج امرتسر کا ایک طالب علم جس کی عمر اس وقت ١٧ سال کے قریب ہے مردانہ نشانات کھو کر عورتوں کے نشانات پا رہا ہے کچھ عرصہ ہوا اس کے جسم میں درد شروع ہوا اور رفتہ رفتہ اس کے فوطے گھٹنے شروع ہوئے حتی کہ گولیاں معدوم ہوگئیں تھوڑے عرصے کے بعد عضو مخصوص گھٹنا شروع ہوا اور گھٹتے گھٹتے اس کا بھی نشان باقی نہ رہا پھر چھاتی میں درد شروع ہوا اور تھوڑی دیر کے بعد اس لڑکے کی چھاتی اس طرح ابھر آئی جیسی عورتوں کی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ اس کی نقل و حرکت بھی عورتوں جیسی ہوتی گئی اب اسے اس غرض کے لئے ہسپتال لایا گیا اور کرنل ہارپرنیس انچارج میو ہسپتال کے سامنے پیش کیا گیا۔ انہوں نے بھی اس حیرت انگیز مریض کا معائنہ کیا والدین کو فکرو امنگیر ہوئی کہ کہیں ان کا نور نظر لڑکی نہ بن جائے کیونکہ جہاں اس کے تمام اعضا عورتوں جیسے ہو رہے تھے وہاں اس کی داڑھی کے بال بھی نہیں اگے کرنل ہارپرنیس کے مریض کا معائنہ کیا اور دوا وغیرہ دی لڑکا دوا لے کر چلا گیا کرنل صاحب کے خیال میں اس مرض کا نام (F۔ TIB- SPNIL۔ WSS) ہے جس سے مرد عورت بن جاتا ہے۔ اس مرض کی ابتدا پہلے یورپ سے ہوئی اور یہاں سے امریکہ پہنچی شمالی ہند میں پہلا موقع ہے اور میو ہسپتال میں اس سے پیشتر ایسا مریض کوئی نہیں آیا۔
(حمایت اسلام لاہور ٣ مارچ ١٩٣٢ئ ص ٥)
قدرت کاملہ اس قسم کے واقعات کبھی کبھار دکھاتی رہتی ہے تاکہ لوگ اللہ کی قدرت کاملہ پر ایمان لائیں۔ بالآخر ہم سید صاحب ہی کی تحریرات سے اپنی رائے کی تائید نقل کر کے حاشیہ کو ختم کرتے ہیں۔
اس میں کچھ شک نہیں ہوسکتا ہے کہ پہلی ہی صدی میں حضرت مسیح (علیہ السلام) کے باپ میں اختلاف شروع ہوا اور یہ اختلاف ہونا ضروری تھا۔ پیدائش اور بناوٹ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی ایسی تھی کہ وہ خود اس اختلاف کا ہونا چاہتے تھے جو شخص ان کی ظاہری صورت کو دیکھتا تھا وہ یقین جانتا تھا کہ وہ انسان و ابن مریم اور جب یہ خیال کرتا تھا کہ وہ کسی ظاہری سبب سے پیدا نہیں ہوئے تو وہ یقین کرتا تھا کہ وہ روح ہیں اور یہ ظاہری انسانی صورت صرف اس سبب سے حاصل ہوئی ہے کہ جبرئیل فرشتہ اللہ انسان کی صورت میں اللہ کا پیغام مریم کے پاس لے کر آیا۔ اگر وہ کسی اور صورت میں لے کر آتا تو بلا شبہ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) اسی صورت میں پیدا ہوتے۔ اور جب کوئی شخص ان کے اس مقتدرانہ معجزہ کو دیکھتا تھا کہ مردوں کو زندہ کرتے ہیں جو اللہ کا کام ہے تو ان کو اللہ اور اللہ کا حقیقی بیٹا کہتا تھا۔ پس جس شخص نے ان کی ظاہری صورت پر نظر کی اس نے ان کو نرا انسان جانا اور جس نے انسانی صورت بننے کی وجہ پر خیال کیا اس نے ان کو صرف روح جانا اور جس نے ان کے معجزہ پر نظر کی اس نے اللہ اور ابن اللہ جانا اور جس نے سب پر نظر کی اس نے رسول اور کلمۃ اللہ اور روح اللہ مانا اور ان سب چزنوں کو اللہ نے واحد سے جانا اور پھر سب کو ایک مانا تصانیف احمد یہ جلد دوم ص ٤
اس درس میں جو یہ لکھا ہے کہ (اس سے پہلے کہ وہ ہمبستر ہو) اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ بعد اس کے حضرت مریم یوسف سے ہمبستر ہوئی ہوں کیونکہ منگنی کے بعد حضرت مریم کا بیاہ ہونا پایا نہیں جاتا بلکہ تبقدیس اور اس بزرگی کے جو اللہ تعالیٰ نے اس اعجازی حمل سے حضرت مریم کو مرحمت فرمائی تھی یوسف نے حضرت مریم کا ادب کیا اور بیاہ سے باز رہا۔ چنانچہ بعض علماء مسیحی نے اس درس میں سے اس فقرہ کو کہ (قبل اس کے کہ ہمبستر ہوں) بعض نسخوں میں سے قصداً نکال ڈالا تھا کہ حضرت مریم ( علیہ السلام) کی ہمیشہ کی دوشیزگی پر کچھ شبہ نہ رہے (تصانیف احمدیہ جلد دوم ص ٣٨٠)
” جب یہ واقعہ یوسف کو معلوم ہوا تو نہایت متعجب ہوا کیونکہ حضرت مریم ( علیہ السلام) کا حمل ایسے عجوبہ طریقہ سے ہوا تھا کہ انسان کی سمجھ سے باہر تھا مگر یوسف نے اپنی نیکی اور بردباری اور سرتاپا خوبی سے اس کا مشہور کرنا نہ چاہا کیونکہ اگر یہ بات اس طرح پر ہوتی جس طرح کہ یوسف کے دل میں وہم ہوا تھا تو یہودی شریعت کے بموجب حضرت مریم ( علیہ السلام) کو سنگسار کرنے کی سزا دی جاتی اس لئے یوسف نے چاہا کہ چپ چپاتے اس منگنی کو چھوڑ دے مگر اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم ( علیہ السلام) کی ستھرائی اور برگزیدگی ظاہر کرنے اور یوسف کے دل کا شک مٹانے کو اپنا فرشتہ خواب میں یوسف پاس بھیجا اور فرشتے نے کہا کہ تو مریم کو مت چھوڑ اور کچھ اندیشہ مت کر کیونکہ وہ روح قدس سے حاملہ ہے اس الہام سے یوسف کے دل کا شک مٹ گیا اور حضرت مریم ( علیہ السلام) کے تقدس کا اس کو یقین ہوا اور اس نے اس کو اپنے پاس رہنے دیا۔“ تصانیف احمدیہ جلد ٢ ص ٣٩۔
اس درس میں وہ عبری لفظ جس کے معنی کنواری کے لئے ہیں (علمہ) ہے مگر یہودی اس پر تکرار کرتے ہیں اور وہ جوان عورت کے معنی بتاتے ہیں اور ترجمہ ای کوئلا میں بھی جو ٢٩ ء میں ہوا اور ترجمہ تھیوڈوشن میں بھی جو ١٧٥ئ میں ہوا اور ترجمہ ستیکس میں جو ٢٠٠ئ میں ہوا اس کا ترجمہ جوان عورت کیا ہے اور بائیبل میں بھی بعض لوگوں نے صرف ایک جگہ جوان عورت کے معنی کہے ہیں مگر یہ تکرار یہودیوں کی درست نہیں ہے۔ اصلی معنی اس لفظ کے (پوشیدہ) کے ہیں اور جو کہ یہودی اپنی لڑکیوں کو لوگوں سے چھپاتے تھے اس لئے یہ لفظ کنواری لڑکی کے معنی میں ظ بولا جاتا تھا چنانچہ کتب عہد عتیق میں کئی جگہ یہ لفظ آیا ہے اور اس کے معنی کنواری کے ہیں۔ لیکن اگر کہیں ایسا قرینہ ہو کہ اس کے سبب جوان عورت سمجھی جاوے تو اصلی استعمال سے پھیر کر بطور مجاز جوان عورت کے معنی لیتے ہیں مگر اس درس میں کوئی ایسا قرینہ نہیں بلکہ خلاف اس کے قرینہ ہے کیونکہ اشیاہ بنی نے معجزہ بتایا ہے۔ اور معجزہ جب ہی ہوتا ہے جب کنواری بیٹا جنے اس لئے اس جگہ بلاشبہ کنواری کے معنی ہیں نہ (بید) یعنے جوان عورت کے اور کچھ شبہ نہیں کہ ان پہلے تینوں مترجموں نے اس کے ترجمہ میں غلطی کی چنانچہ سبٹو ایجنٹ میں جس کو بہترّ علماء یہود نے مل کر ترجمہ کیا اس لفظ کا اس مقام پر کنواری ترجمہ کیا ہے (تصانیف احمدیہ جلد ٢ ص ٤٠)
” غرض کہ ایک ایسا زمانہ آگیا تھا کہ روحانی تقدس کسی میں نہیں رہا تھا اس لئے ضرور تھا کہ کوئی ایسا شخص پیدا ہوتا جو روحانی تقدس اور روحانی روشنی لوگوں کو سکھاوے پھر وہ کوئی ہوسکتا تھا مگر وہ جو صرف روح سے پیدا ہوا ہو نہ کسی ظاہری سبب سے چنانچہ اس روحانی روشنی کے چمکانے کو حضرت مسیح (علیہ السلام) صرف روح اللہ سے پیدا ہوئے۔ تصانیف احمدیہ جلد دوم ص ٢۔
پس اب ہم سید صاحب کے بیانات کے بعد اہل مذاق کے انصاف پر بھروسہ کر کے حاشیہ کو ختم کرتے ہیں۔ واللّٰہ یقولالحق وھو یھدی السبیل۔ منہ “
اے مریم چونکہ تو اللہ تعالیٰ کی بندی ہے اپنے رب کی عبادت میں لگی رہ بالخصوص نماز تو نمازیوں کے ساتھ جماعت میں پڑھا کر بھلاجس عورت کو اللہ تعالیٰ یہ بزرگی دے اس کی نسبت فحش اور بے حیائی کا خیال کرنا جیسا کہ یہودی کرتے ہیں کیسا جھوٹ ہے بلکہ کفر ہے کہ ایسی اللہ تعالیٰ کی بندی کے بیٹے کو اللہ سمجھنا انہیں دونوں گروہوں کی ہدائیت کے لئے یہ غیب کی خبریں تیری طرف ہم بھیجتے ہیں ورنہ تو ان کے پاس نہ تھا جب وہ اپنے قلم یعنی قلموں کے لکھے ہوئے پر چے بطور قرعہ اندازی کے بایں غرض ڈالتے تھے کہ کون ان میں سے مریم کا مربی اور کفیل ہو اور نہ تو اس وقت ان کے پاس تھا جب وہ آپس میں جھگڑ رہے تھے
” آمد مریم برسر مطلب اب وہ بات بھی سنو جس کے لیے یہ ساری تمہید تھی یعنی مسیح کی عبودیت کا ثبوت اور الوہیت کا ابطال۔
” اصل میں شروع سورت سے ابطال الوہیت مسیح کی تمہید ہے جیسا ہماری تقریر سے واضح ہو رہا ہے۔ ١٢ منہ “
یاد کرو جب اللہ تعالیٰ کے فرشتے نے مریم سے کہا اللہ تعالیٰ تجھے اپنے ایک حکم کی خوشخبری دیتا ہے کہ اس حکم سے تیرے رحم میں ایک بچہ پیدا ہوگا کہ اس کا نام مسیح بن مریم ہوگا دنیا اور آخرت میں بڑی عزت والا اور نیز اللہ کے مقرب بندوں سے ہوگا اور گہوارہ یعنی چھوٹی عمر میں اور بڑھاپے میں لوگوں سے ہدائیت کی باتیں کرے گا نہ جیسا یہودی کہتے ہیں کہ (معاذ اللہ) ناجائز مولود تھا یا نصاریٰ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اور اللہ کا بٹار اور جزو ہے بلکہ وہ اللہ کانبی اور نیکو کاروں سے ہوگا مریم چونکہ اس وقت کنواری تھی بیٹے کی خبر سے گھبرا کر بولی میرے اللہ مجھے لڑکا کیسے ہوگا؟ بظاہر جو اسباب اولاد ہونے کے ہیں وہ تو مجھ میں مفقود ہیں بڑا بھاری سبب مرد کا اجتماع ہے سو مجھ کو تو ابھی تک کسی مرد نے ہاتھ سے نہیں چھوا پھر لڑکا ہوگا تو کیسے ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کے فرشتے نے جواب میں کہا کہ بے شک بات یہی ہے جو تو نے کہی مگر اللہ کی قدرت سب سے نرالی ہے اللہ جو چاہتا ہے کردیتا ہے گو بظاہر اسباب ہر شے کے اس نے رکھے ہیں تاہم اسباب کا خالق بھی وہی ہے پس جب کوئی چیز کرنی چاہتا ہے تو اس کے لئے صرف یہی کہتا ہے کہ ہوجاپس وہ ہوجاتی ہے اسی تیرے بچہ کے اسباب بھی گو بظاہر مفقود ہیں لیکن وہ قادر قیوم تو ایک آن میں سب کچھ کرسکتا ہے وہ ضرور ایسا ہی کرے گا۔ اور اس کو کتاب سماوی تہذیب اخلاق تورات اور انجیل سکھادے گا اور بنی اسرائیل کی طرف رسول ہوگا بایں پیغام کہ میں تمہارے اللہ کی طرف سے رسالت کی یہ نشانی لایا ہوں کہ مٹی سے جانور کی شکل تمہارے سامنے بناکر اس میں پھونکتا ہوں۔ تو وہ اللہ کے حکم سے پرندہ بن جاتا ہے اور اندھے مادر زاد اور کوڑھیوں کو اچھا کرتا ہوں اور مردوں کو تمہارے سامنے محض اللہ کے حکم سے زندہ کرتا ہوں اور تم کو بتلا دیتا ہوں جو تم کھاتے ہو اور جو تم اپنے گھروں میں ذخیرہ کرتے ہو بے شک اس میں میری نبوت پر تمہارے لئے نشانی ہے اگر تم کسی کی ماننے والے ہو اور اگر تم یہ سمجھ کر مخالفت کرو کہ میں تمہاری کتاب کا منکر ہوں تو یہ بھی تمہاری غلطی ہے میں تورات کی جو مجھ سے پہلے آئی ہوئی ہے تصدیق کرتا ہوں البتہ میں اس لئے بھی آیا ہوں کہ بعض چیزیں جو تم پر حرام ہیں اللہ کی طرف سے تم کو حلال بتائوں اور یہ میرا کسی چیز کو حلال حرام کہنا بےدلیل نہیں بلکہ میں اللہ کی طرف سے رسول ہوں اور تمہارے اور اپنے اللہ کی طرف سے اس دعویٰ پر نشان لایا ہوں پس تم اللہ اکیلے سے ڈرو اور شریعت میں مرای تابعداری کرو اس معجزہ نمائی سے مت خیال کرو کہ میں الوہیت میں کوئی حصہ رکھتا ہوں ہرگز نہیں بے شک اللہ ہی میرا اور تمہارا پالنہار ہے پس اسی کی عبادت کرو نہ کہ میری بھی یہی راہ سیدھی نجات تک پہنچانے والی ہے۔ مگر یہودیوں نے مسیح کی ایک نہ سنی بلکہ اس کو جھٹلاتے ہی رہے پس جب یہودی شرارت میں حد سے بڑھ گئے اور مسیح نے ان سے انکار ہی پایا تو بغرض تمیز یگانوں اور بیگانوں کے نیز واسطے اظہار عجز اور عبودیت اپنی کے کہا کہ کون ہے میرا مددگار اللہ کی راہ میں حواری جو اس وقت مسیح کے مخلص دوست تھے بولے ہم اللہ کے دین کے مددگار ہیں۔ ہم اللہ کے حکموں کو مانتے ہیں پس تو گواہ رہ کہ ہم اللہ کے تابعدار اور اس کے دین کے خدمت گار ہیں یہ کہہ کر اللہ کی طرف جھک کر دعا کرنے لگے اے ہمارے اللہ ہم تیری اتاری ہوئی (کتاب) کو مانتے ہیں اور تیرے رسول عیسیٰ مسیح کے تابع ہیں پس تو ہم کو اپنی توحید کی گواہی دینے والوں میں لکھ رکھ اور یہودیوں نے مسیح کی ایذا کے لئے طرح طرح کے مخفی داؤ کئے اللہ نے ان سے داؤ کیا یعنی ان کی بے خبری میں حضرت مسیح کی حفاظت اور یہود کی ناکامی کے احکام جاری کئے یہی اللہ کا داؤ ہے اللہ سب داؤ کرنے والوں سے اچھا یعنی سب پر غالب ہے آخر یہودیوں کی شرارت کی یہاں تک نوبت پہنچی کہ اس کی ہلاکت کے درپے ہوئے مگر اللہ اس کا ہمیشہ مددگار رہا اور موذیوں کی ایذا سے حفاظت کرتا رہا۔ |
آل عمران |
43 |
|
آل عمران |
44 |
|
آل عمران |
45 |
|
آل عمران |
46 |
|
آل عمران |
47 |
|
آل عمران |
48 |
|
آل عمران |
49 |
|
آل عمران |
50 |
|
آل عمران |
51 |
|
آل عمران |
52 |
|
آل عمران |
53 |
|
آل عمران |
54 |
|
آل عمران |
55 |
یاد کرو جب اللہ نے کہا اے عیسیٰ تو ان موزیوں کی ایذا سے بے فکر رہ تیری جان تک نہیں پہنچ سکیں گے بے شک میں ہی تجھے فوت کرنے والا اور اپنی طرف اٹھانے والا اور ان کافروں کی بد زبانی سے بذریعہ قرآن پاک کرنے والا اور تیرے تابعداروں کو تیرے منکروں پر قیامت تک غالب رکھنے والاہوں پھر بعد مرنے کے میری ہی طرف تم کو آنا ہے پس جس جس بات میں تم جھگڑتے ہو تم میں فیصلہ کروں گا مومنوں کو ثواب دوں گا اور کافروں کو عذاب۔
سید صاحب و مرزا صاحب کی غلطی :۔
(اِنِّیْ مُتَوَفِیْکَ) اس آیت میں اللہ تعالیٰ اسی بزرگ (حضرت مسیح علیہ السلام) کے متعلق (جن کی تمام زندگی کے حالات کے علاوہ مرنے جینے میں بھی لوگ مختلف ہیں) ان کی وفات کا ذکر فرماتا ہے۔ اس آیت کے معنی میں علماء کا قریب قریب اتفاق ہے کہ یہاں موت مراد نہیں بلکہ دنیا سے اٹھانا مراد ہے مگر ہم نے سید احمد صاحب جو اس مسئلہ (وفات مسیح) کے موجد ہیں اور مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے لحاظ سے (جو سید صاحب کے اس مسئلہ اور دیگر استحالہ سپر نیچرل میں پیرو ہیں) اس آیت کے معنی میں انہیں کا ترجمہ منظور کیا ہے اور متوفی کے معنی موت دینے والا ہی لکھا ہے مسئلہ ولادت مسیح میں تو سید صاحب ہی ہمارے مخاطب تھے اس مسئلہ (وفات مسیح) میں دونو صاحبوں ( سید صاحب و مرزا صاحب) سے (جو دراصل پیرو پیرو ہیں) ہمارا روئے سخن ہے۔ اس بیان سے پہلے کہ قرآن شریف نے اس مسئلہ کے متعلق کیا فیصلہ دیا ہے بیرونی شہادت دیکھنی بھی ضروری ہے۔ یہود و نصاریٰ جو حضرت مسیح (علیہ السلام) کے حالات کو بچشم خود دیکھنے والے اور ایک دوسرے سے نسلاً بعد نسل سننے والے ہیں اس پر متفق ہیں کہ حضرت ممدوح سولی دیئے گئے گو ان کے اتفاق کے نتائج مختلف ہیں یہود کا نتیجہ بموجب تعلیم تورٰیت استثنا ١٣ باب فتح یابی ہے اور عیسائیوں کا نتیجہ کفارہ گناہ ہے خیر اس کا یہاں ذکر نہیں ہماری غرض صرف یہ ہے کہ دونوں فریق اس پر متفق ہیں کہ مسیح ! ؔسولی ہی دیئے گئے۔
پس ان دونوں گروہوں کے اتفاق سے یہ امر باآسانی سمجھ میں آسکتا ہے کہ حضرت مسیح موت طبعی سے نہیں مرے ورنہ ممکن نہ تھا کہ دونوں گروہوں سے ان کی موت مخفی رہتی کیونکہ یہود اور نصاریٰ سے زائد اور نصاریٰ یہودیوں سے بڑھ کر ان کے حالات کے متلاشی تھے۔ یہودیوں کی غرض یہ تھی کہ وہ کہیں ملیں تو ان کو موت کا مزہ چکھائیں۔ عیسائیوں کو ان سے دلی محبت تھی اس لئے وہ ان کے حال کی تلاش میں سرگرم تھے چنانچہ اناجیل مروجہ سے اس بات کا پتہ باآسانی ملتا ہے کہ عیسائیوں کو مسیح کے حالات سے کس قدر مانوسیت تھی کہ ان کے معمولی مشاغل چلنا پھرنا بھی قلم بند کر رکھا ہے۔ پھر اگر وہ موت طبعی سے مرتے تو ممکن نہیں کہ عیسائیوں کو اس کی خبر نہ ہوتی پس سید صاحب کا فرمانا۔ کہ
(حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) تین چار گھنٹے کے بعد صلیب پر سے اتار لئے گئے تھے۔ اور ہر طرح پر یقین ہوسکتا ہے کہ وہ زندہ تھے رات کو وہ لحد میں سے نکال لئے گئے اور وہ مخفی اپنے مریدوں کی حفاظت میں رہے حواریوں نے ان کو دیکھا اور ملے اور پھر کسی وقت اپنی موت سے مر گئے۔ بلاشبہ ان کو یہودیوں کے خوف سے نہایت مخفی طور سے کسی نامعلوم مقام میں دفن کردیا ہوگا جو اب تک نامعلوم ہے اور یہ مشہور کیا ہوگا کہ وہ آسمان پر چلے گئے۔ ص ٤٥
تارعنکبوت سے بھی ضعیف ہے۔ یہ کبھی ممکن نہیں کہ سچے نبی کے تابعدار جن کی قرآن" میں بھی تعریف آئی ہے ایسے صریح کذب کے مرتکب ہوں اور بے فائدہ اپنے نبی اور اللہ پر افترا کریں کہ وہ آسمان پر چلا گیا۔ حالانکہ نہ گیا ہو۔ علاوہ اس کے اگر مسیح حواریوں کو ملے اور اپنی موت سے مرے تو کیا اتنی دیر میں یہودیوں کو خبر نہ ہوئی کہ وہ اپنی ناکامیابی پر افسوس کرتے اور دوبارہ سعی بلیغ کر کے کامیابی حاصل کرتے۔ پس سید صاحب کے احتمال کو نہ صرف واقعات جھٹلاتے ہیں بلکہ روایت و درایت دونوں اس کی تکذیب کرتی ہیں۔ حاصل یہ کہ یہودیوں اور عیسائیوں کا اس امر پر متفق ہونا کہ مسیح (علیہ السلام) موت طبعی سے فوت نہیں ہوئے ضرور قابل غور ہے۔ خصوصاً مرزا صاحب قادیانی کے نزدیک تو یہ طریق استدلال بہت ہی صحیح ہے کیونکہ وہ اس طریق سے خود بھی مستدل ہیں۔ چنانچہ لکھتے ہیں۔
بائیسویں آیت (وفات مسیح پر یہ ہے کہ فاسْئَلُوْا اَھْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَاتَعْلَمُوْنَ یعنی اگر تمہیں ان بعض امور کا علم نہ ہو جو تم میں پیدا ہوں تو اہل کتاب کی طرف رجوع کرو اور ان کے واقعات پر نظر ڈالو تا اصل حقیقت تم پر منکشف ہوجائے۔ سو جب ہم نے موافق حکم اس آیت کے اہل کتاب یعنی یہود و نصاریٰ کی کتابوں کی طرف رجوع کیا اور معلوم کرنا چاہا کہ اگر کسی نبی گذشتہ کے آنے کا وعدہ دیا گیا تو وہی آجاتا ہے یا ایسی عبارت کے کچھ اور معنی ہوتے ہیں تو معلوم ہوا کہ اسی امر متنازعہ فیہ کا ہم شکل ایک مقدمہ حضرت مسیح ابن مریم ( علیہ السلام) آپ ہی فیصل کرچکے ہیں اور ان کے فیصلہ کا ہمارے فیصلہ کے ساتھ اتفاق ہے دیکھو کتاب سلاطین و ملا کی نبی اور انجیل جو ایلیا کا دوبارہ آسمان سے اترنا کس طور پر مسیح نے بیان فرمایا ہے۔“ ازالہ ص ٦١٦
مذکورہ بالاتقریر میں میرزا صاحب نے جو علمیت اور قابلیت کا اظہار کیا ہے وہ تو اہل علم سے مخفی نہیں۔ دعویٰ وفات مسیح ہے اور دلیل عدم رجوع کیا ہی تقریب تام ہے لیکن بلحاظ اس کے کہ میرزا صاحب تو علم لدنی کے عالم ہیں علوم ظاہر یہ مناظرہ وغیرہ ہے بے نصیب ہونا ان پر کوئی الزام عائد نہیں کرسکتا ہاں بطور معارضہ بالمثل جو ہم نے استدلال کیا ہے اس میں بفضلہ تعالیٰ تقریب تام ہے کیونکہ ہمارا دعویٰ عدم وفات بموت طبعی ہے اور (بقول مرزا صاحب) حسب الحکم آیت کریمہ جب ہم نے اہل کتاب سے وفات مسیح بموت طبعی کے متعلق سوال کیا تو دونوں گروہ نے بالاتفاق جواب دیا کہ نہیں۔ اب ہم آیات قرآنی پر غور کرتے ہیں سورۃ مائدہ میں کسی قدر تفصیل سے اس واقعہ کا بیان ہے۔ دونوں فریق یہود و نصاریٰ کہتے ہیں کہ مسیح مصلوب و مقتول ہوا ہے۔
وما قتلوہ وما صلبوہ ولکن شبہ لھم وان الذین اختلفوا فیہ لفی شک منہ مالھم بہ من علم الا اتباع الظن وما قتلوہ یقینا بل رفعہ اللّٰہ الیہ وکان اللّٰہ عزیزاً حکیماً۔ وان من اھل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ ویوم القیمۃ یکون علیہم شھیداً
حالانکہ انہوں نے اس کو قتل کیا اور نہ سولی دیا لیکن وہ ان کے سامنے مشتبہ کیا گیا جو لوگ اس امر میں (کہ مسیح کو
قتل و سولی نہیں ہوئی قرآن کے بیان سے) مخالف ہیں وہ اس واقعہ سے بے خبری میں ہیں۔ اس دعویٰ کی دلیل ان کے پاس نہیں۔ ہاں اٹکلوں اور خیالوں کے تابع ہیں انہوں نے ہرگز اس کو قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے اپنے پاس اس کو اٹھا لیا اور اللہ غالب ہے حکمت والا۔
اس آیت میں اللہ نے کئی باتیں بیان فرمائی ہیں اول تو صحیح لفظوں میں اس امر کا رد کیا جو یہود و نصاریٰ مسیح کے مصلوب ہونے کا خیالی پلائو پکا رہے تھے دوم اس واقعہ کی اصلیت پر اطلاع دی کہ اس کو اپنی طرف اٹھا لیا یہاں تک تو ہمارا اور ہمارے مخاطبوں کا اتفاق ہے صرف اختلاف اس میں ہے کہ رفع کے کیا معنی ہیں ہمارے مخاطب کہتے ہیں کہ رفع سے مراد رفع درجات ہے۔ رفع جسم نہیں۔ ہم کہتے ہیں اگر رفع سے مراد رفع درجات ہو تو یہودیوں کے قول کی مخالفت کیا ہوئی جو لفظ بل سے ہونی چاہیے تھی۔ بھلا یہودیوں نے اگر مسیح کو سولی دیا ہو تو رفع درجات نہیں ہوسکتا۔ جب کہ شہدا کی بابت عام طور پر قرآن بلندی مراتب کی خبر دیتا ہے بلکہ غور کیا جاوے تو ان معنی سے وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتٌ بَلْ اَحْیَائٌ وَّلٰکِنْ لَاتَشْعُرُوْنَ یہودیوں کے قول کی تائید ہوتی ہے کیونکہ اگر مسیح کو واقعی انہوں نے صلیب دیا ہو تو کون نہیں جانتا کہ یہ صلیب مسیح کو صرف دین داری کی وجہ سے ملی ہوگی جس سے ان کے درجات کی بلندی ہر طرح سے ظاہر و باہر ہے پھر قرآن کریم نے ان کے اس قول کی کہ ہم نے مسیح کو سولی دے دیا (بقول آپ کے) یہ کہہ کر ہم نے اس کے درجے بلند کردیئے گویا ایک قسم کی تائید ہے اگر یہی معنی ہیں تو قرآن کا مطلب بالکل اس قصے کے مشابہ ہوجائے گا جو کسی بادشاہ اور اس کے زمانہ کے نیک دل لوگوں کا مشہور ہے ایک بادشاہ سے جاہل فقیروں نے کہا آپ نے فوج کے اخراجات خواہ مخواہ اپنے ذمہ لے رکھے ہیں بادشاہ نے جواب میں کہا کہ دشمن کے خوف کا کیا علاج ہوسکتا ہے انہوں نے کہا ہم دعا کرتے رہیں گے اللہ فضل کرے گا مجال نہیں کوئی دشمن غالب آجائے۔ چنانچہ شامت زدہ بادشاہ اس دائو میں آگیا اور فوج کو یک لخت موقوف کردیا اتفاقاً دشمن نے فوج کشی کر کے جو مناسب تھا کیا جب بادشاہ نے اپنی حالت تباہ دیکھی تو دعا گوئوں کو بلا کر یہ ماجرٰی سنایا کہ دشمن نے تمام ملک لے لیا اگر آج فوج ہوتی تو ایسا کیوں ہوتا دعا گوئوں نے بیک زبان کہا کہ دشمن نے تو ہمارا کچھ نہیں لیا بلکہ ہم نے ان کا دین و ایمان چھینا کیونکہ انہوں نے ہم پر ظلم کیا جس کی وجہ سے وہ بے ایمان ہوئے۔
سو اگر آپ دونوں صاحبوں (سید صاحب و مرزا صاحب) کے معنی سنے جائیں تو قرآن شریف کا بَلْ بھی اسی صوفیکل سوسائٹی کے بلکہ کی طرح ہوجئاے گا کیونکہ آیت کریمہ کے معنی یہ ہوں گے جیسا کوئی کہے کہ حضرت حمزہ (رض) کو کفار نے قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے ان کا مرتبہ بلند کیا یا پیغمبر علیہ الصلوٰۃ و السلام کو مشرکین نے مکہ سے نہیں نکالا بلکہ اللہ نے ان کی عزت افزائی کی تو ایسے محاورات سے کون نہیں سمجھتا کہ بجائے اس کے کہ فعل مذکور کی نفی ہو الٹا مع فوائد ثبوت ہوتا ہے علاوہ اس کے آیت مذکورہ کے آگے وَکَان اللّٰہُ عَزِیْزًا حَکِیْمًا (اللہ غالب ہے حکمت والا) بھی متصل ہے جو ان تراشیدہ معنی سے بالکل بے محل ہے۔ اس لئے کہ اس لفظ کا محل کسی تعجب کا رفع کرنا اور مشکل بات کو سہل بتلانا ہے اور کسی نیک آدمی خصوصاً انبیاء کے مراتب کی رفعت کو کون شخص مشکل اور انہونی جانتا ہے؟ جس کو اس آیت نے آسان بتلایا پس معلوم ہوا کہ اگر رفع درجات کے لیں تو نہ صرف یہی کہ یہودیوں کی تکذیب کے بجائے تصدیق ثابت ہوتی ہے بلکہ ساتھ ہی آیت کے تمام الفاظ بھی درست اور چسپاں نہیں ہوتے جب تک یہ معنی نہ لیں کہ اللہ نے مسیح کو زندہ آسمان پر چڑھا لیا اگر اس پر خیال گذرے کہ کیسے اٹھا لیا اتنے دشمنوں کے ہوتے ہوئے وہ کیونکر صحیح سالم بچ کر چلے گئے تو اس کا جواب اس آیت میں اللہ نے دیا کہ ہم بڑے غالب اور حکمت والے ہیں جس کام کو کرنا چاہیں مجال نہیں کہ کوئی روک سکے ان معنی پر جو اعتراضات بے سود کئے گئے ہیں ان سب کا جواب آخر بحث میں ہم دیں گے پس جب اس آیت میں رفع سے مراد رفع درجات نہیں ہوسکتا تو آیت زیر بحث (اِنِّیْ مُتَوَفِّیَکَ وَرَافِعُکَ) میں بھی رفع سے مراد رفع درجات نہیں کیونکہ اس رفع میں جو وعدہ تھا اسی کو بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰہُ نے پورا کردیا جیسا کہ مرزا صاحب کو مباحثہ دہلی میں یہ مسلم ہے کہ رفعہ اللّٰہ رافعک کے وعدے کا ایفاء عہد ہے پس اس میں بھی وہی معنی ہوں گے جو رفعہ اللہ میں ہیں یعنے بجسد عنصری زندہ اٹھانا اور اگر دوسرے حصہ آیت وَاِنْ مِّنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ والے کو دیکھیں تو مطلب اور بھی عمدہ طور سے واضح ہوجاتا ہے۔ اس وضاحت کے لئے ہم اس آیت کا ترجمہ اپنا کیا ہوا نہیں بتلاتے بلکہ خود مرزا صاحب کے خلیفہ ارشد مولوی حکیم نور الدین صاحب کا جن کے علم و فضل کا کل اتباع مرزا بلکہ خود مرزا صاحب کو بھی ناز ہے پیش کرتے ہیں۔ غور سے سنیے۔
نہیں کوئی اہل کتاب سے مگر البتہ ایمان لادے گا ساتھ اس کے پہلے موت اس کی کے اور دن قیامت کے ہوگا اوپر ان کے گواہ (فصل الخطاب لمقدمۃ اہل الکتاب جلد ٢ ص ٨٠ حاشیہ نمبر ٢
ترجمہ مذکورہ صاف بتلا رہا ہے کہ مرزا صاحب کا مطلب غلط ہے کیونکہ حکیم صاحب نے تمام ضمیریں مسیح کی طرف پھیری ہیں جو شخص قیامت میں گواہ ہوگا اسی کے ساتھ اس کی موت سے پہلے اہل کتاب ایمان لاویں گے اور اس میں تو شک نہیں کہ عیسائیوں پر قیامت کے دن حضرت مسیح ہی گواہ ہوں گے پس مرزا صاحب ہی کی تحریر سے (کیونکہ حکیم صاحب بفحوائے من تو شدم تو من شدی عین مرزا صاحب ہیں) ثابت ہوگیا کہ مسیح (علیہ السلام) فوت نہیں ہوئے۔ ان معنی پر مرزا صاحب نے کئی ایک لایعنی اعتراضات سے تمام کتابیں بھری ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ متوفی کا لفظ جو پہلے ہے اس کا ترجمہ پیچھے کیوں ہوتا ہے کہیں اس تاخیر کو فعل شیطانی کہا ہے کہیں تحریف یہود بتلایا۔ غرض بہت کچھ اس ترجمہ پر جوش مسیحائی ظاہر کیا ہے جو علاوہ اظہار مسیحیت کے لیاقت علی کا بھی مظہر ہے۔
حضرت من ! شرح ملا جامی۔ نورالانوار۔ حسامی۔ توضیح تلویح۔ مختصر معانی۔ مطول وغیرہ کتب نحو اصول اور معانی کو ملاحظہ فرمائیے کہ واو کا لفظ ترتیب کے لئے نہیں ہوتا اگر اس کی مثال قرآن سے چاہیں تو سنئے۔ ایک شخص مال دار کا سال تمام یکم رمضان کے دن ظہر کے وقت پورا ہوا اب بحکم آیت اَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَ (بقول آپ کے) اس پر فرض ہے کہ پہلے نماز پڑھے اور پھر زکوٰۃ دے اور اگر پہلے زکوٰۃ دے گا تو شاید آپ کے نزدیک گناہ گار ہو بلکہ زکوٰۃ اس کی ادا بھی نہ ہوگی کیا کوئی بھی اس میں آپ کے ساتھ ہے دوسری آیت اَقِیْمُوا ! الصَّلوٰۃَ وَلَا تَکُوْنُوْا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ کے بموجب (بقول آپ کے) ضرور ہے کہ پہلے نماز ادا کرے اس کے بعد شرک چھوڑے اگر پہلے شرک چھوڑے گا تو شاید آپ خفا ہوں گے تیسری آیت اللہ نے فرعون کے جادوگروں کے قول کو ایک جگہ یوں بیان فرمایا ہے کہ بَرِبِّ مُوْسٰی وَھٰرُوْنَ پ ٩ ع ٤ دوسری جگہ بِرَبِّ ھَارُوْنَ وَمُوْسٰی پ ١٦ ع ١٢ آیا ہے جو پہلے کے الٹ ہے حالانکہ جادوگروں نے یقینا ایک ہی طریق سے کہا ہوگا سو اگر وہ طریق اول ہے تو دوسرے میں کذب آئے گا اور اگر دوسرا ہے تو پہلا جھوٹ ہوگا علاوہ اس کے کئی ایک مقام پر انبیاء سابقین کا لاحقین سے پیچھے ذکر کیا ہے چنانچہ کَذٰلِکَ یُوْحِیْٓ اِلَیْکَ وَاِلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکَ اللّٰہُ پس جب واو کا لفظ ترتیب کے لئے نہیں ہوتا بلکہ محض جمعیت کے لئے ہے تو متوفی کے معنی رافع سے پیچھے کرلینے میں کون سی قباحت ہوگی بالخصوص جب کہ پہلی آیت سے ہم صعود بجسد عنصری ثابت کر آئے ہیں جس سے دونوں آیتوں کی تطبیق لفظی معنوی بخوبی ہوجاتی ہے تقدم تاخر کی مزید تحقیق منظور ہو تو اتقاق ملاحظہ ہو جس میں چوالیسویں نوع خاص اسی مطلب کے لئے مصنف نے مقرر کی ہے کہ بعض الفاظ مقدم ہوتے ہیں لیکن ترجمہ ان کا مؤخر ہوتا ہے چنانچہ انی متوفیک ورافعک بھی انہی میں سے ایک ہے۔ اب ہماری تقریر کے مطابق اس آیت کا ترجمہ یہ ہوا۔ کہ
” اے عیسیٰ ( علیہ السلام) میں ہی تجھ سے یہ سب معاملہ قیامت تک کروں گا “
اللہ کی شان یہ لقب (خلیفہ) ہم نے طبع اول کے وقت دیا تھا جس وقت مرزا صاحب زندہ تھے اور حکیم صاحب خلیفہ نہ تھے۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ وہی خلافت پر متمکن ہیں ایسا فقرہ کہیں مرزا صاحب کی تحریر میں ہوتا تو اللہ جانے کیسی اعلیٰ درجہ کی پیشگوئی بن جاتا۔ منہ
رہا یہ کہ پہلے کیا ہوگا اور پیچھے کیا اس کا ذکر نہیں اس کو دوسری آیت نے حل کردیا کہ رفع ہوچکا ہے۔ توفی اب آئندہ ہوگی۔ اگر یہ سوال ہو کہ بیشک پہلی آیت سے رفع بجسد عنصری مراد لینا ہی مناسب ہے اور کہ لفظ واو ترتیب کے لئے بھی نہیں ہوتا مگر آخر کلام اللہ تعالیٰ تو بڑا فصیح بلیغ ہے اس کا کیا سبب ہے؟ کہ متوفی کو پہلے لائے ہیں آخر بلاوجہ تو نہیں اس کا جواب یہ ہے کہ ہاں بلاوجہ نہیں بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت مسیح کو بتقاضائے بشریت اعدا سے ہر وقت خوف رہتا تھا ان کی تسلی کے لیے اس لفظ کو پہلے کردیا کہ اے عیسیٰ ( علیہ السلام) میں ہی تجھے موت طبعی سے ماروں گا یہ نہ ہوگا کہ تیرے دشمن تجھے کچھ تکلیف پہنچا سکیں اور یہ روشن قرآن کریم کی بلکہ کل فصی کی عموماً ہے کہ کلام تسلی بخش کو پہلے لایا کرتے ہیں چنانچہ آنحضرتﷺ کی تسلی کے لئے عَفَا ! اللّٰہُ عَنْکَ پہلے لا کر لِمَ اَذِنْتَ لَھُمْ کو پیچھے فرمایا۔ تیسری آیت اس مسئلہ (وفات مسیح) پر سید صاحب نے یہ لکھی ہے کہ
اذ قال اللّٰہ یعیسٰے ابن مریم ءاَنْتَ قلت للناس اتخذونی وامی الھین من دون اللّٰہ قال سبحانک مایکون لی ان اقول مالیس لی بحق ان کنت قلتہ فقد علمتہ تعلم ما فی نفسی ولا اعلم ما فی نفسک انک انت علام الغیوب۔
جب اللہ تعالیٰ مسیح سے کہے گا کیا تو نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو اللہ کے سوا اللہ بنا لو مسیح کہے گا کہ تو پاک ہے شرک سے مجھے لائق نہیں کہ میں ایسی بات منہ پر لائوں جو میرا حق نہ ہو اگر میں نے کہی ہوگی تو جانتا ہے کیونکہ تو میرے اندر کی بات کو بھی جانتا ہے اور میں تیری مخفی بات نہیں جانتا تو غیب دان ہے۔
ماقلت لھم الا ما امرتنی بہ ان اعبدوا اللّٰہ ربی وربکم وکنت علیہم شہیدا ما دمت فیھم فلما توفیتنی کنت انت الرقیب علیہم وانت علی کل شیء شھید (المائدہ)
میں نے تو ان سے یہی کہا تھا کہ اکیلے اللہ کی جو میرا اور تمہارا رب ہے عبادت کرو اور میں خود جب تک ان میں تھا ان کا نگہبان رہا اور جب تو نے مجھے فوت کرلیا تو ہی ان پر نگہبان تھا اور ہر چیز تیرے سامنے ہے۔
اس آیت کے ترجمہ میں قائلین نیچر کا باہمی اختلاف ہے۔ سید صاحب تو اس کے معنی (جب اللہ کہے گا) کرتے ہیں اور مرز صاحب (جب اللہ نے کہا) کہتے ہیں اور مرزا صاحب کے خلیفہ اول مولوی حکیم نور الدین صاحب سید صاحب سے متفق ہیں (دیکھو مقدمہ اہل کتاب ص ١٧٨) غرض مرزا صاحب ماضی اور سید صاحب و حکیم صاحب مضارع مراد لیتے ہیں جس سے مطلب میں بھی کسی قدر فرق آجاتا ہے مگر انصاف سے دیکھیں تو سید صاحب و حکیم صاحب کے معنی صحیح ہیں اس لئے کہ حضرت مسیح کے جواب میں اللہ کی طرف سے جو جواب الجواب دیا جائے گا وہ یہ ظاہر کر رہا ہے یہ سوال و جواب بروز قیامت ہوگا۔ چنانچہ ارشاد ہے کہ یہی دن ہے کہ سچوں کا سچ ان کو نفع دے گا۔ اور یہ ظاہر ہے کہ ایسا دن جس میں اعمال حسنہ کا حقیقی نفع ہو وہ دن قیامت کا ہے خیر اس تصفیہ کے بعد ہم آیت کے طلب کی طرف آتے ہیں۔ ہمارے مخاطب کہتے ہیں اس سے صاف پایا جاتا ہے کہ حضرت مسیح فوت ہوگئے کیونکہ وہ خود کہیں گے کہ جب تک میں ان میں تھا میں جانتا ہوں اور جب تو نے مجھے فوت کرلیا تو توہی ان کا نگہبان تھا۔
میں کہتا ہوں کہ ہاں بیشک جس وقت (یعنے بروز قیامت) حضرت مسیح یہ کلام کہیں گے اس وقت سے پہلے فوت ہوچکے ہوں گے ہم بھی تو اس امر کے قائل ہیں کہ قرب قیامت دنیا میں تشریف لا کر بنی آدم کی طرح فوت ہوں گے اس سے یہ کہاں ثابت ہوا کہ اس وقت بھی فوت شدہ ہیں ہاں ہم پر یہ اعتراض ہوگا کہ سوال اللہ تعالیٰ کا مطلب تو یہ تھا کہ تو نے ان کو اپنی الوہیت کی طرف بلا لیا تھا جس کا جواب حضرت مسیح نے یہ دیا اور پھر اس پر بس نہ کی بلکہ یہ بھی کہا کہ جب تک میں ان میں تھا ان کا نگران حال تھا اور جب تو نے مجھے فوت کرلیا تو تو ہی نگہبان تھا اس سے صاف سمجھ میں آتا ہے کہ حضرت مسیح کو عیسائیوں کے شرک کی کوئی خبر نہیں اور یہ جب ہی صحیح ہوسکتا ہے کہ اب حضرت مسیح زندہ نہ ہوں کیونکہ اگر زندہ ہیں اور دنیا میں آویں گے (جیسا کہ مسلمانوں کا عام طور پر عقیدہ ہے) تو عیسائیوں کے کفر و شرک کی ان کو ضرور خبر ہوگی پھر اس سے انکار کیوں کریں گے۔“ اس کا جواب یہ ہے کہ معترض نے کچھ تو دھوکا کھایا اور کچھ اپنی طرف سے حاشیہ لگایا۔ سوال خداوندی جس کا جواب حضرت مسیح کے ذمہ ہے صرف اتنا ہے کہ ” تو نے لوگوں کو کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو اللہ بنا نو جس کے جواب میں حضرت مسیح مع شے زائد جواب دیں گے کہ یا اللہ تو شرک سے پاک ہے جو بات مجھے لائق نہیں میں وہ کیوں کہتا۔ اصل سوال کا جواب یہاں تک آگیا اب آگے اس کام پر صرف اپنی بیزاری کا اظہار کرنا ہے مگر اس میں حضرت کو ان لوگوں کی جنہوں نے جناب والا کی نسبت یہ افترا کیا تھا۔ سفارش بھی کرنی ہے اس لیے دونوں مطلبوں کو حاصل کرنے کو اپنی بیزاری بھی ظاہر کی کہ جب تک میں ان میں تھا ان کا نگہبان تھا (جس سے کسی قدر استحقاق شفاعت ثابت ہوتا ہے) اور جب تو نے مجھے فوت کرلیا تو تو ہی ہر چیز پر نگہبان رہا ہے جیسے وہ ہیں تو جانتا ہے اس سے آگے ان کی ضمناً سفارش بھی کی کہ اگر تو ان کو عذاب کرے تو تیرے بندے ہیں کوئی تجھے روک نہیں سکتا اگر تو ان کو بخشے تو اِنْ تُعَذِّبْھِمْ فَاِنَّھُمْ عِبَادُکَ وَاِنْ تَغْفِرْلَھُمْ فَاِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ۔ تو بڑا غالب بڑی حکمت والا ہے کوئی نہیں جو تیری اس بخشش کو خلاف مصلحت سمجھے۔ اب بتلائیے۔
اگر حضرت مسیح خود ہی ان کی نالائقی کا اعتراف کرلیتے تو ان کی سفارش کیونکر کرتے۔ حالانکہ ان کے شرک کرنے نہ کرنے سے سوال ہی نہ تھا بلکہ سوال صرف اس سے تھا کہ تو نے ان سے کہا تھا کہ مجھے اللہ بنا لو پس جب کہ سوال ہی اس سے نہیں اور اس کا اقرار ان کی سفارش میں خلل انداز بھی ہے تو مسیح کو کیا غرض کہ وہ اس کا اقرار کریں کہ یہ مشرک تھے ہاں کمال یہ ہے کہ انکار بھی نہیں کیا کس طرح کرتے جب کہ جان چکے تھے کہ ان عیسائیوں نے بیشک میری نسبت یہ افترا کیا ہوا ہے ہاں اس میں شک نہیں کہ جناب مسیح کے اقرار عدم اقرار پر کوئی بات موقوف نہیں معاملہ خدائے غیب دان سے ہے جس کو یہ بھی خبر ہے کہ انہوں نے شرک کیا اور یہ بھی خبر ہے کہ مسیح بھی اس کو جانتا ہے مگر مسیح کو کیا غرض پڑی کہ بلا سوال ایک ایسے جواب کی طرف متوجہ ہوں جس کا ان کو بھی ایک طرح سے امر مطلوب میں مضر ہونے کا اندیشہ ہو کہ وقت سفارش حکم ہو اے مسیح تو خود ہی ان کے شرک کو مانتا ہے اور آپ ہی ان کے حق میں شفاعت کرتا ہے پس اس آیت سے بھی یہ نتیجہ نکالنا کہ مسیح (علیہ السلام) اس وقت مردہ اور فوت شدہ ہیں کسی طرح ٹھیک نہیں پس حضرت مسیح ( علیہ السلام) کی وفات کا واقعہ بلحاظ کتب اسلامیہ اور نصرانہو اس طرح ہے کہ حضرت مسیح کی جب چاروں طرف سے دار و گیر شروع ہوئی تو ان کے شاگرد یہود اسکریوطی نے ان کے پکڑوا نے پر رشوت لیلی اور ایک مقام پر آسانی سے پکڑوانا چاہا تو اللہ تعالیٰ نے ان کو بحفاظت اٹھا لیا اور ان کی شکل کا حلیہ دوسرے کی مخالف شخض پر ڈال دیا اسی بیان سے آیت شبہ لھم اور قول ابن عباس (رض) کہ فبعث اللّٰہ جبرئیل فادخلہ فی خواختہ فی سقفہا روزنۃ فرفعہ الی السماء من تلک الروزنۃ فالقی اللہ شبہ عیسیٰ علیہ فقتلوہ وصلبوہ (تفسیر معالم مختصرا)
اللہ تعالیٰ نے ایک شخص کو جو مسیح کو پکڑوانے کے لئے مکان کے اندر گیا تھا مسیح ( علیہ السلام) کی شکل پر بنا دیا اور مسیح کو مکان کی چھت کی روزن سے آسمان پر اٹھا لیا (دیکھو تفسیر معالم)
اور اناجیل مروجہ بھی منطبق ہوجاتی ہیں اور اگر غور کیا جائے تو روایۃً بھی یہی بات ثابت ہوتی ہے کیونکہ بموجب بیان اناجیل مروّجہ جن کو سید صاحب بھی معتبر جانتے ہیں (تبیسن الکلام) اور مرزا صاحب تو ان کی طرف رجوع کرنا فرض بتلاتے ہیں (ازالہ ص ٦١٦) ثابت ہے کہ جب اس شخص کو (جس پر مسیح کی شبیہ ڈالی گئی تھی پھانسی دی گئی تو اس نے ایسی گھبراہٹ کا اظہار کیا جو انبیا تو کجا عوام صلحا کی شان سے بھی بعید ہے تکلیف کے وقت چلانا۔ شور مچانا اور اللہ تعالیٰ کی شکایت کرنا (جیسا کہ انجیل مرقس کے حوالہ منقولہ حاشیہ سے معلوم ہوتا ہے) کون نہیں جانتا کہ صلاحیت اور نبوت سے کو سوں دور ہیں اس قسم کی تکالیف میں ذرا صحابہ کرام پھر اس مسیح نے دوبارہ جا کر دعا مانگی اور کہا کہ اے میرے باپ (یعنی خدا) اگر میرے پینے کے بغیر یہ پیالہ (موت) مجھ سے نہیں گذر سکتا تو خیر تیری مرضی انجیل متی باب ٤٦ درس نمبر ٤٢ اور یسوع (مسیح) نے بڑے شور سے چلا کر جان دی انجیل متی نمبر ٢٧ درس نمبر ٥ اور پون گھنٹہ یسوع بڑی آواز سے چلا کر بولا ایلی ایلی مما سبقتنی جس کا ترجمہ یہ ہے کہ میرے خدا تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا۔ مرقس باب نمبر ١٥۔ کا حال بھی ملا حظہ کیجئے کیسے استقلال اور بردباری سے جان دے رہے ہیں اور بجائے چوں و چرا کرنے کے شکریہ کرتے ہیں۔ نمونہ کے لئے ذرا خُبَیْبکا حال ہی دیکھئے جس کا قصہ صحیح بخاری میں بھی موجود ہے کہ کس استقلال اور صبر سے جان دیتا ہے اور دشمنوں کے سامنے یہ اشعار پڑھتا ہے۔
ولا ابالی حِیْنَ اقتل مسلما علی ای شق کان فی اللہ مصرعی
جب میں مسلمانی میں قتل کیا جائوں تو مجھے کچھ پرواہ نہیں کہ میں کس پہلو پر گروں
وذٰلک فی ذات الالٰہ وَاِنْ یشا یبارک علیٰ اوصال شلو ممزع
یہ میرا مرنا تو اللہ کی راہ میں ہے اگر وہ چاہے گا تو کٹے ہوئے جوڑوں میں بھی برکت کر دے گا
کیا حضرت مسیح ( علیہ السلام) اس صحابی سا بھی حوصلہ نہ رکھتے تھے معاذ اللہ وہ اللہ کے مقرب رسول وَجِیْہًا فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِیْنَ صحابی کی کیا شان کہ حضرت مسیح کی گرو پا کو بھی پہنچے گو اپنے مرتبہ میں کیسا ہی بزرگ ہو وہ معصوم اور اولوالعزم پیغمبر وہ کلمۃ اللہ وہ روح اللہ پھر کیا وجہ کہ اس امتحان مقابلہ میں وہ فیل شدہ ہیں اس سے صاف سمجھ میں آتا ہے کہ شخص پھانسی شدہ مسیح نہ تھا مگر سرسید کہیں تو مسیح کو سولی پر چڑہاتے ہیں‘ تفسیر احمدی ص ٤٢ جلد ٢) اور جب ان کو ماصَلَبُوْا کا خیال ہوتا ہے تو یہ کہہ کر ” حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) صلیب پر مرے نہ تھے بلکہ ان پر ایسی حالت طاری ہوگئی تھی کہ لوگوں نے ان کو مردہ سمجھا (ص ٤٥) ٹال دیتے ہیں اور کہیں لٰکن شُبِّہَ لَھُمْ کا ترجمہ (لیکن ان پر صلیب پر مار ڈالنے کی شبیہ کردی گئی“ ص ١٦٥ جلد ٢ کہہ کر آگے چل دیئے ہیں لیکن چلا کہ جان دینے پر سب کچھ بھول جاتے ہیں کیوں نہ ہوجان دینے کا موقع ایسا ہی ہے کہ سب بھول جاتے ہیں۔
رہا اصل اعتراض کہ مسیح کی شکل دوسرے پر کس طرح ہوگئی یہ تو سپر نیچرل (خلاف عادت) ہے جو سید صاحب کا قدیمی ٹوٹا پھوٹا ہتھیار ہے تو اس کا جواب یہی ہے کہ جس اللہ نے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کی لکڑی کی شکل بدل کر سانپ اور سانپ سے لکڑی بنا دی وہ مسیح کی سی شکل والا دوسرے کو بھی بنا سکتا ہے۔ جو اللہ مرغی انڈا دیتی کو مرغا انڈے دلانے والا بناتا ہے وہ ایک شکل کے دو آدمی یا ایک کی شکل دوسرے کو بھی دے سکتا ہے۔
گو ہماری معروضہ بالا تقریر سے کل مسئلہ حیات و ممات مسیح بالکل صاف ہے مگر بنظر استحسان مرزا صاحب کی پیش کردہ تیس آیات کا مفصل جواب بھی دیتے ہیں۔ مرزا صاحب نے حسب عادت شریفہ اس دعویٰ کو اس قدر بڑھایا ہے کہ رائی سے ہمالہ کی صورت دکھائی ہے چنانچہ کھینچ تان کر مجموعہ تیس آیات کا اس دعویٰ پر پیش کیا ہے مگر میرے خیال میں اگر ایسی ہی آیات کو جمع کرنا تھا تو چالیس پچاس بھی ہوسکتی تھیں بہر حال جو کچھ مرزا صاحب سے ہوسکا وہ یہی مجموعہ تیس آیات کا ہے جو مندرجہ ذیل ہیں۔
مرزا صاحب کی تقریر حسب عادت طوالت سے بھری ہونے کی وجہ سے بہت سی جگہ چاہتی ہے اس لئے ہم ان کے مطلب کو خلاصہ کر کے لکھیں گے جو اصل سے بالکل مطابق ہوگا جس کو شبہ ہو وہ اصل سے مقابلہ کرلے۔
(١) پہلی آیت یَا عِیْسیٰ اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ وَمُطَھِّرُکَ مِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَجَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ۔ ازالہ اواہم ص ٥٩٨
اس آیت کا ترجمہ ہی کر کے چھوڑ دیا جو ہم نے کردیا ہے جس پر مفصل بحث ہوچکی ہے۔
(٢) دوسری آیت بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیْہِ رفع سے مراد باعزت موت ہے جیسے کہ حضرت ادریس کے لئے وَرَفَعْنَاہُ مَکَانًا عَلِیًّا ص ٥٩٩ اس کی بحث بھی مفصل ہوچکی ہے مزید یہ ہے کہ حضرت مسیح والا بَلْ یہاں نہیں۔
(٣) تیسری آیت فَلَمَّا تَوَفَیْتَنِیْ کُنْتَ اَنْتَ الرَّقِیْبَ توفی کا لفظ موت کے لئے ہے پس ثابت ہوا کہ مسیح فوت ہوچکے ہیں ص ٦٠٠
اس کی بحث بھی ہمارے مضمون سابق میں آگئی ہے۔
(٤) چوتھی آیت وَاِنْ مِّنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ اِلَّا لَیُؤْمِنَنَّ بِہٖ قَبْلَ مَوْتِہٖ اور ہم (مرزا) اسی رسالہ میں اس کی تفسیر بیان کرچکے ہیں۔ ص ٦٠٢
اس تفسیر کا خلاصہ یہ ہے کہ
” تمام اہل کتاب اپنی موت سے پہلے مسیح کی موت طبعی پر ایمان لے آتے ہیں اور مصلوب ہونے کے اعتقاد سے پھرجاتے ہیں۔ “
اس آیت کے پیش کرنے میں تو مرزا صاحب نے کمال کر دکھایا جس آیت سے مرزا جی کے مخالف حیات مسیح کا ثبوت پیش کرتے ہیں مرزا جی نے جھٹ سے اسے اپنے قبضہ میں کرنا چاہا۔ ہم اس آیت پر مفصل بحث نہیں کرتے صرف مرزا صاحب کے خلیفہ راشد حکیم نور الدین صاحب کا ترجمہ جو ہم نے بصفحہ (٣٢) نقل کیا ہے پیش کردیتے ہیں اس بارے میں ہمارے وہی حکم ہیں ناظرین صفحہ مذکور پر تفسیر مذکور میں نظر ڈالیں۔
(٥) پانچویں آیت ہے مَا الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَ اِلَّا رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلٌ وَاُمُّہٗ صِدِّیْقَۃٌ کَانَا یَاْکُلَان الطُّعَامَ اس آیت میں ماں بیٹے (مریم و مسیح کے ذکر میں ” کھانا کھاتے تھے“ کہا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اب نہیں کھاتے اور چونکہ بغیر کھانا کھانے کے زندگی محال ہے اس لئے ضرور ہے کہ مسیح فوت ہوگئے ہیں ص ٦٠٣ “
مرزا جی ! میدان مناظرہ مریدوں کا حلقہ نہیں کہ ” بیائد گفت اینک ماہ وپردیں“ کا مصداق ہو۔ یہ تو ان کی حالت مشہودہ مسلمہ فریقین سے جو دنیا میں ان پر آرہی تھی استدلال ہے اسے اس سے کیا علاقہ کہ اب وہ نہیں کھاتے۔ یہ کون سی دلالت ہے عبارۃ النص ہے۔ یا اشارۃ النص۔ دلالت النص ہے یا اقتضاء النص۔ اگرچہ آپ اپنے مولوی صاحبان سے دریافت فرما لیں کہ ” کانا“ کے لفظ سے زمانہ حال کی نفی نہیں ہوتی۔
لیجئے ہم آپ کی خاطر مانے لیتے ہیں کہ بیشک حضرت مسیح اس وقت کھانا نہیں کھاتے تو کیا ان کی زندگی محال ہے کیا حضرت آدم ( علیہ السلام) دنیا میں آنے سے پہلے جنت میں کھانا کھاتے تھے حالانکہ آپ کے نزدیک تو جنت میں صرف روحانی لذائذ ہیں نہ کہ جسمانی چنانچہ آپ کی تقریر جلسہ مذاہب لاہور مندرجہ رپورٹ اس کی مظہر ہے۔ خیر یہ تو الزامی جواب ہے حقیقی جواب یہ ہے کہ شرعی طور پر بغیر طعام زندگی گزارنے کا ثبوت ملتا ہے کیا آپ کو وہ حدیث یاد نہیں جس میں آنحضرتﷺ نے وصال صیام سے منع فرمایا تو صحابہ کے عرض کرنے پر کہ حضرت ! آپ کیوں وصال کیا کرتے ہیں آپ نے فرمایا تھا اَبِیْتُ عِنْدَ رَبِّیْ یُطْعِمُنِیْ وَیَسْقِیْنِیْ یعنی میں اپنے رب کے پاس رات گذراتا ہوں وہ مجھے کھانا کھلاتا ہے اور پانی پلاتا ہے تم میرے جیسے نہیں “
اگر یہ حقیقی کھانا تھا تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وصال صیام ہی نہیں تھا حالانکہ اسی کے کرنے کی دلیل بیان ہے۔ پھر آپ کا مسیح کی بابت مخول کرنا کہ اللہ کے پاس کیا کھاتا ہے تو پائخانہ کہاں پھرتا ہے وغیرہ وغیرہ قابل مخول ہے یا نہیں۔ کیا آپ نے اصحاب کہف کا قصہ بھی قرآن شریف میں نہیں لکھا کہ تین سو نو برس غار میں بے خبر سوتے رہے اور زندہ رہے اگر آپ کو ان کی موجودہ زندگی میں شبہ ہے جیسا ص ٦٠٥ ازالہ سے مفہوم ہوتا ہے تو کیا فَلَبِثُوْا فِیْ کَھْفِھِمْ ثَلٰثَ مِائَۃٍ سِنِیْنَ وَازْدَادُوْا تِسْعًا بھی شبہ ہے جو نص قطعی ہے اگر کہیں کہ وہ تین سو نو برس بے طعام نہ تھے بلکہ کھاتے پیتے تھے تو ان کے باہمی سوالات کا کیا مطلب ہے جو انہوں نے بعد بیداری آپس میں کئے تھے کہ۔
قال قائل منھم کم لبثتم قالوا لبثنا یوم او بعض یوم قالوا ربکم اعلم بما لبثتم (کھف)
” ایک ایک نے دوسرے سے پوچھا کہ تم کتنی مدت ٹھیرے ہو بولے کہ ایک دن یا کم (بعد غور و فکر بولے کہ اللہ خوب جانتا ہے جتنے ٹھیرے ہو۔ “
اگر وہ غذا کھاتے پیتے تو ان کو اپنے ٹھیرنے کا بھی وقت نہ معلوم ہوتا جس کی مدت اللہ نے تین سو نو برس بتلا دی ہے کیا آپ نے وہ حدیث بھی نہیں دیکھی جو مشکوٰۃ کے باب علامات الساعۃ کی دوسری فصل میں ہے جس کا مضمون ہے کہ تسبیح تہلیل بھی بندوں کی غذا کا کام دے سکتی ہیں پس جب تک ہمارے سوالات کو نہ اٹھائیں اس آیت کا پیش کرنا آپ کا حق نہیں ودونہ خرط القتاد۔
(٦) چھٹی آیت ہے وَمَا جَعَلْنَاھُمْ جَسَدًا لَّایَاکُلُوْنَ الطَّعَام سنت اللہ ہے کہ کوئی جسم خاکی بغیر طعام زندہ نہیں رہ سکتا۔ (ازالہ ص ٦٠٤)
اس کا جواب آیت سابقہ میں آگیا علاوہ اس کے اس آیت کا مطلب بالکل صاف ہے۔ اللہ فرماتا ہے ہم نے ان کو ایسے جسم نہیں بنایا کہ کھانا نہ کھائیں یعنی کھانے کو چھوئیں نہیں۔
یہ مشرکین عرب کا جواب ہے جو کہا کرتے تھے کہ یہ کیسا رسول ہے کہ کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں پھرتا ہے جس کے جواب میں ارشاد پہنچا۔
مالھذا الرسول یاکل الطعام ویمشی فی الاسواق۔ کہ پہلے نبیوں کو کبھی ہم نے ایسا نہ بنایا تھا کہ وہ کھانا نہ کھاتے۔ اس سے تو یہ ثابت ہوا کہ ایسا کوئی بشر نہیں ہوا جو کھانا نہ کھاتا ہو۔ یہ نہیں کہ ہمیشہ کھاتے رہیں کیا پیغمبرﷺ روزہ وصال میں کئی کئی روز جو کھانا ترک فرماتے تھے تو وہ اس وقت وہ جسم نہ تھے؟ مرزا جی ! مطلقہ عامہ کے ثبوت سے وائمہ مطلقہ لازم نہیں آتا اگر نہ سمجھے ہوں تو کسی سے پوچھ لیجئے۔
(٧) ” ساتویں آیت یہ ہے {وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ اَفَاِنْ مَاتَ اَوْقُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰی اَعْقَابِکُمْ} یعنی محمد ﷺ سے پہلے سب نبی فوت ہوگئے ص ٦٠٦ “
شاباش مرزا صاحب باوجود دعویٰ الہام وغیرہ وغیرہ اتنی چالاکی
کئے لاکھوں ستم اس پیار میں بھی آپ نے ہم پر
خدا نخواستہ گرخشمگین ہوتے تو کیا کرتے
کیا ہی عمدہ ترجمہ آپ نے گھڑ لیا کہ فوت ہوگئے جناب کے مرید تو سن کر علماء کو کو ستے ہوں گے کہ صاف آیت میں لکھا
ہے۔ ” سب نبی فوت ہوگئے“ تو پھر جو علماء نہیں مانتے بیشک یہودیوں کی طرح ان کے دل سیاہ ہیں بیشک ایسے ہیں ویسے ہیں بیشک ان کے پیچھے نماز درست نہیں ان سے سلام علیکم ناجائز ہے لیکن یہ معلوم نہیں کہ پیغمبر اللہ کی پیشگوئی ١ ؎ کا ظہور ہو رہا ہے بھلا مرزا جی ! ” فوت ہوگئے“ کس لفظ کا ترجمہ ہے شاید ” خَلَتْ“ کی طرف توجہ سامی لگ رہی ہے جس کے معنی گذرنے‘ جانے‘ خالی کرنے وغیرہ کے ہیں جو ان تمام معانی میں مستعمل ہوا ہے وَاِذَا خَلَوْا اِلٰی شَیَاطِیْنِہِمْ۔ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِکُمْ سُنَنٌ۔ فِی الْاَیَّامِ الْخَالِیَۃِ۔ پس آیت کے صاف معنی یہ ہیں کہ تجھ سے پہلے کل نبی اپنے اپنے وقت میں کام کر کے چلے گئے جیسے کوئی کہے کہ موجودہ لفٹنٹ گورنر سے پہلے کئی لفٹنٹ گذر گئے تو کیا اس سے یہی مفہوم ہے کہ سب مر گئے پس اسی تقریر سے نویں آیت تِلْکَ اُمَّۃٌّ قَدْ خَلَتْ کا جواب بھی آگیا کیونکہ آپ وہاں بھی خلا ہی میں تیر رہے ہیں۔
(٨) آٹھویں آیت ہے وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّنْ قَبْلِکَ الْخُلْدَ اَفَاِنْ مِتَّ فَھُمُ الْخٰلِدُوْنَ۔ کوئی بشر ہمیشہ زندہ نہیں رہا اس لئے مسیح بھی نہائت بوڑھے ہو کر فوت ہوگئے ہوں گے ص ٦٠٦ کیوں نہ ہوں؟ دو اور دو چار روٹیاں“ کی مثال اسے ہی کہیں۔
حضرت ! آیت کا مطلب تو بالکل صاف ہے کہ ہم نے تجھ سے پہلے کسی بشر کے لئے ہمیشگی نہیں کی بھلا اگر تو مر گیا تو کیا یہ کافر ہمیشہ رہیں گے ہرگز نہیں۔ بتلائیں کس کے مخالف ہے کیا ہم مسیح کو ہمیشہ زندہ رہنے والا مانتے ہیں کیا دائمہ مطلقہ کے سلب سے متعلقہ عامہ مسلوب ہوجاتا ہے یہ نئی منطق ہے بیشک آیت کا مطلب بالکل صاف ہے لیکن جب خود غرض کے قبضے میں آپھنسے تو کیا کرے۔
(١٠) دسویں آیت وَاَوْصَانِیْ بالصَّلوٰۃِ وَالزَّکوٰۃِ مَادُمْتُ حَیًّا ص ١٦٠٧
اس آیت سے بھی معلوم نہیں مرزا صاحب کیا مطلب لے رہے ہیں شاید یہ مطلب ہے کہ زندگی تک تو زکوٰۃ کا حکم ہے اگر وہ اب زندہ ہیں تو زکوٰۃ کس کو دیتے ہوں گے۔ پس معلوم ہوا کہ مسیح فوت ہوگئے۔ چہ خوش ! ہمیں بار بار وہی دو اور دو چار روٹیاں والی مثال یاد آتی ہے۔ اجی حضرت آپ یہ تو بتلا دیں کہ جتنے روز مسیح دنیا میں رہے تھے زکوٰۃ کس کو دیتے تھے مرزا صاحب غلطی تو ہر ایک انسان سے ممکن ہے لیکن ایسی غلطی کہ ” بدوز دطمع دیدہ ہوشمند“ پناہ باللہ۔ کیا زکوٰۃ کے لئے اہل و اسباب زائد عن الحاجت ہونا بھی ضروری ہے یا نہیں تو پس جب کہ ان کے پاس مال دنیاوی موجود ہی نہیں تو زکوٰۃ کیسے دیں اور کس کو دیں۔ اس آیت میں مرزا جی نے ایک عجیب بات بھی لکھی ہے جس کو ہم بعینہ نقل کرتے ہیں۔
” اس سے بھی ظاہر ہے کہ انجیل کے طریق نماز پڑھنے کے لئے حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کو وصیت کی گئی تھی اور وہ آسمان پر عیسائیوں کی طرح نماز پڑھتے ہیں اور حضرت یحییٰ ( علیہ السلام) ان کی نماز کی حالت میں ان کے پاس یونہی پڑے رہتے ہیں مردے جو ہوئے اور جب دنیا میں حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) آویں گے تو برخلاف اس وصیت کے امتی بن کر مسلمانوں کی طرح نماز پڑھیں گے۔“ ص ٦٠٧
مرزا صاحب نے اس جگہ یہ بڑا استحالہ قائم کیا ہے کہ حضرت مسیح دو طرح کی نماز کس طرح پڑھیں گے کاش بتلایا ہوتا کہ عیسائیوں کی نماز ہاں اصل عیسائی نماز کس طرح کی ہے اور وہ کتنے حصے میں اسلامی نماز سے مخالف ہے۔ کیا آپ نے مسیح کی والدہ کی بابت فرمان ربانی نہیں سنا یٰمَرْیَمُ اقْنُتِیْ لِرَبِّکِ وَاسْجُدِیْ وَارْکَعِیْ مَعَ الرَّاکِعِیْنَ بتلائیے آپ کی نماز سے یہ نماز کتنی کچھ مخالف ہے۔ ہاں آپ نے موجودہ عیسائیوں کی نماز دیکھی ہوگی۔ جس میں تثلیث کی پرستش بھی کرتے ہیں بیشک ہم بھی مانتے ہیں کہ حضرت مسیح اس نماز سے مخالف نماز پڑھیں گے بلکہ اس نماز کے مٹانے کے لئے تشریف لادیں گے چنانچہ آپ بھی براہین جلد رابع ص ٤٩٩ میں تسلیم کرتے ہیں معلوم نہیں مرزا صاحب کو ایسی باتوں سے کیا فائدہ ہوگا چونکہ علم لدنی کے متعلم ہیں اس لئے بقول صوفیاء کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین غلطی ممکن ہے۔
(١١) گیا رہویں آیت والسَّلَامُ عَلَیَّ یَوْمَ وُلِدْتُّ وَیَوْمَ اَمُوْتُ وَ یَوْمَ اُبْعَثْ حَیًّا اس آیت میں مسیح کے تین واقعات ولادت موت اور بعثت کے ایام کئے گئے ہیں یوم رفع نہیں گنا اس لئے وہ کوئی جدا نہیں بلکہ بذریعہ موت ہی ہوا“ ص ٦٠٨
مرزا جی کی قوت استنباط یہ بہت صحیح ہے حالانکہ بوجہ بڑھاپے اور بیماری کے زرد رنگ میں مسیح کے مشابہ بھی بنا سکتے ہیں۔ خیر اس سے ہمیں بحث نہیں مگر مرزا صاحب یہ تو بتلا دیں کہ عدم ذکر سے عدم شے لازم آتا ہے؟ انسان کے لئے تین ہی واقعات عام طور پیش آتے ہیں اور یہ تینوں محل خطر ہیں موت اور قیامت کے دن کا خطرناک ہونا ظاہر البتہ پیدائش کے دن کا خطرناک ہونا جس کی طرف مسیح نے اشارہ کیا ہے دو وجہ سے ہے ایک تو اس حدیث کی وجہ سے جس کا مضمون ہے کہ
مَامِنْ مَوْلُوْدٍ اِلَّا وَیَمَسُّہُ الشَّیْطَانُ اِلَّا مَرْیَمُ وَاِبْنُھَا (اوکما قال)
ہر ایک بچہ کو شیطان وقت ولادت چھوتا ہے سوا مسیح اور اس کی ماں کے کہ ان دونوں کو نہ چھوا تھا
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ ولادت کا وقت بھی ایک خطرناک وقت ہے جس کی سلامتی کی طرف حضرت مسیح نے
اشارہ کیا ہے دوسری وجہ یہ ہے کہ یہودی حضرت مسیح کی ولادت ناجائز بتلاتے تھے اور ناجائز ولادت والے کو اللہ کی بادشاہت میں ذلیل سمجھتے ! تھے اس لئے مسیح نے ایسے واقعات کا جو سب لوگوں کو پیش آنے والے ہیں جن کے وقوع کا سب کو یقین ہے ذکر کیا اور رفع بجسد عنصری کا ذکر نہیں کیا کہ جو پہلے سے منکر ہیں کہیں اور بھی زیادہ نہ بگڑیں علاوہ ان توجیہات کے ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ حضرت مسیح کو یہ کلام بولتے وقت اپنے رفع بجسد عنصری کا علم ہی نہ تھی کیونکہ جب تک اللہ کریم کوئی وعدہ نہ کرے یا کوئی خبر نہ بتلادے نبی ہو یا رسول بلکہ افضل الرسل (علیہم السلام) کو بھی خبر نہیں ہوتی لایُحِیْطُوُن" بِشَیْئٍ مِّنْ عِلْمِہٖ اِلَّا بِمَاشَآئَ کو پڑھ لو۔
(١٢) بارھویں آیت وَمِنْکُمْ مَّنْ یُتَوَفّٰی وَمِنْکُمْ مَّنْ یُّرَدُّ اِلٰی اَرْذَلِ الْعُمُرِ لِکَیْلَا یَعْلَمَ بَعْدَ عِلْمٍ شَیْئًا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان عمر طبعی تک پہنچ کر مر جاتا ہے پس مسیح بھی جو عمر طبعی تک پہنچ گئے ہیں ضرور فوت ہوگئے ہوں گے ص ٦٠٨ عجیب نئی منطق ہے۔
مرزا صاحب مسیح عمر طبعی کو دنیا ہی میں پہونچے ہوئے تھے یا اب پہونچے ہوں گے اگر دنیا ہی میں پہنچے تھے تو کیا ثبوت؟ حالانکہ روایات سے جیسا کہ تفسیر ابن کثیر میں میں مرقوم ہیں صاف مفہوم ہے کہ حضرت مسیح کی عمر بوقت رفع تیتیس ٣٣ سال تھی اور اگر بعد رفع عمر طبعی کو پہنچے ہیں تو غنیمت ہے کہ آپ نے ان کا رفع بجسدہ تو مانا بعد رفع بجسدہ کے موت کا ثبوت آپ کے ذمہ ہے دیجئے ودونہ خرط القتاد علاوہ اس کے عمر طبعی بھی تو مختلف ہے ایک عمر طبعی آپ کی ہے اور ایک حضرت نوح ( علیہ السلام) کی تھی جن کے صرف وعظ کا زمانہ ساڑھے نو سو برس کا قرآن کریم میں مذکور ہے تو کل عمر بلوغت کے سات اور بعد طوفان ملا کر دیکھیں تو اور بھی بڑھ جاتی ہے اور قصص میں بعض نبیوں کی عمر چودہ سو برس تک بھی پہونچتی ہے۔ نص قرآنی سے تو آپ کو انکار نہ ہوگا۔ پھر بتلادیں کہ آیت موصوفہ سے آپ کے دعویٰ کو کہاں تک تقویت یا تائید ہوتی ہے کیا ممکن نہیں کہ حضرت مسیح کی عمر طبعی کا اندازہ کوئی غیر محدود زمانہ ہو جس کی مثال دنیا میں آج تک کیی فرد بشر پر نہ آئی ہو۔
اس جگہ ایک لطیفہ بھی قابل بیان ہے جو مرزا جی کی تحریر سے نہیں بلکہ ان کے بعض مریدوں کی زبان سے سنا گیا ہے کہ حضرت مسیح کو آج تک زندہ سمجھیں تو حی قیوم کی صفت اللہ عالم الغیب میں شریک ہوجاتا ہے اور شرک تو کسی طرح اسلام میں درست نہیں پس ثابت ہوا کہ مسیح بھی کسی طرح زندہ نہیں رہ سکتے۔ کسی شہدے کو مولوی صاحب نے نماز کی تاکید کی تھی شہدا بولا کہ آپ نے دعوت کی تھی تو نمک زائد نہیں ڈالا تھا؟ مولوی صاحب نے فرمایا اس بات کو یہاں کیا علاقہ؟ شہدا بولا کہ بات سے بات نکل آتی ہے سو یہی حال ہماری اس الہامی جماعت کا ہے مسیح کی موت کے پیچھے ایسے پڑے ہیں کہ اگر ان کے لئے ایک سکینڈ کا اختیار بھی مل جائے تو سب سے پہلے جو کام ان سے سرزد ہو وہ یہی ہو کہ حضرت مسیح کو فوت کریں لیکن نہیں جانتے وَمَکَرُوْا وَمَکَرَ اللّٰہُ وَاللّٰہُ خَیْرُ الْمَاکِرِیْنَ بھلا حضرات اگر درازی عمر کی وجہ سے کوئی جاندار اللہ عالم الغیب کا شریک ہی ہوجاتا ہے تو جس کی عمر مسیح سے ہزارہا سال پہلے اور ہزارہا سال بعد تک ہوگی اگر اپنے بزرگ سرسید کی طرح شیطان قوائے حیوانیہ کو جانتے ہو تو قرآن کریم میں غور کرو قال فَانْظِرُنِیْ اِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ۔
(١٣) تیرہویں آیت ہے وَلَکُمْ فِی الْاَرْضِ مُسْتَقَرٌّوَّمَتَاعٌ اِلٰی حِیْنٍ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ جسم ! خاکی آسمان پر جا نہیں سکتا ص ٦٠٩
مرزا جی دوسری آیت پر بھی غور کرلیا ہوتا جس میں مثل اس آیت کے لَکُمْ آیا ہوا ہے وَلَکُمْ"فِیْھَا مَنَافِعُ وَمَشَارِبُ اَفَلَا تَشْکُرُوْنَ اگر اس آیت سے جس خاکی کا آسمان پر جانا منع معلوم ہوتا ہے تو اس آیت سے سوا چار پایوں کے دودھ اور منافع کے اور چیزوں کا دودھ اور منافع بلکہ تمام دنیا کے پانی پینے بھی منع ہوگئے کیونکہ اگر اس آیت میں مستقر مبتدا موخر ہے تو اس میں مَنَافِعُ اور مَشَارِبُ وہی حکم رکھتا ہے حالانکہ ہم تمام دنیا کے کنؤں کا پانی پیتے ہیں اور تمام چیزوں سے نفع لیتے ہیں کوئی چار پائیوں کی خصوصیت نہیں بتلاویں تو (بقول آپ کے) یہ دجال کا گدھا ریل گاڑی کون سے چار پایوں کا نفع ہے حالانکہ بقول آپ کے آیت میں ہے کہ سوا چار پایوں کے اور کسی چیز میں ہمارا نفع نہیں اور نہ ہمارے بچے کسی جاندار کا خواہ وہ بچے کی والدہ ہو دودھ پی سکتے ہیں کیونکہ مشارب کا لفظ اس سے روکتا ہے اگر یہی معنی ہیں تو میں نہیں جانتا کہ اس آیت سے (نعوذ باللہ) کوئی کلام غلطی میں مقابلہ کرسکے۔
مرزا صاحب نے اس آیت کی تقریر میں کچھ علمیت کے جوہر بھی دکھائے ہیں آپ فرماتے ہیں۔
” کیونکہ لَکُمٗ جو اس جگہ فائدہ تخصیص کا دیتا ہے اس بات پر بصراحت دلالت کر رہا ہے کہ جسم خاکی آسمان پر جا نہیں سکتا بلکہ زمین سے نکلا اور زمین میں ہی رہے گا اور زمین میں ہی داخل ہوگا ص ٦٠٩ “
مرزا صاحب ! اس جگہ تو آپ نے ایک پرانا قصہ ہم کو یاد دلایا جس کو ہم آپ کے خاندان نیچر یہ کے بانی سرسید مرحوم کے لئے کسی جگہ لکھ آئے ہیں کہ ایک دفعہ بادشاہ دہلی مدرسہ عربی کا امتحان لینے گئے ایک طالب علم سے پوچھا کہ اَلْحَمْدُ لِوَلِیِّہٖ میں واو کیسا ہے طالب علم جھٹ سے بولا بندہ نواز ! عطف کا بادشاہ نے کہا یہ بھی لائق انعام ہے کیونکہ اتنا تو جانتا ہے کہ واو عطف کا بھی ہوتا ہے“ ہم بھی مرزا صاحب کو قابل انعام سمجھتے ہیں اور وقعی مرزا صاحب کی تعریف کرتے ہیں کہ آنجناب حصر کو جانتے ہیں لیکن بڑے ادب سے عرض ہے کہ اگر لکم فائدہ حصر کا دیتا ہے تو غالباً یہ حصر مسند الیہ (مُسْتَقَرٌّ) کا مسند میں ہوگا جیسا کہ مختصر معانی اور مطول سے مفہوم ہوتا ہے تو بتلائیے کہ اس حصر کا مطلب کیا ہوگا اور آیت کے معنی کیا بنیں گے وہی جو مختصر معانی اور مطول میں لکھے ہیں لَّافِیْھَا غَوْلٌ بخلاف خمور الدنیا فان فیھا غولا یعنی تمہارے لئے زمین مستقر (جگہ) ہے نہ کہ کسی اور جانور کے لئے بھلا اس حصر سے جسم خاکی کا آسمان پر جانا کیونکر منع ہوا ہاں یہ تو بیشک ثابت ہوا کہ دنیا میں سوائے انسان کے جو لکم کے مخاطب ہیں کسی جاندار کی جگہ نہیں۔ یہ معنی قطع نظر اس سے کہ واقع میں صحیح ہوں یا غلط آپ کے دعویٰ (جسم خاکی آسمان پر جا نہیں سکتا) سے کیا علاقہ انی ھٰذا من ذاک۔
ہاں اگر آپ کے معنی مراد ہوتے تو کلام خداوندی میں فی الارض مقدم ہوتا یعنی آیت یوں ہوتی وفی الارض مستقر ومتاع الٰی حین ایسی اصلاح قرآن شریف میں کرنا کون نہیں جانتا کہ اَتُنَبِّئُوْنَ#َ اللّٰہَ بِمَا لَا یَعْلَمُ فِی السَّمَآئِ وَلَا فِی الْاَرْضِ کے مصداق ہے۔
رہی یہ بحث کہ گو حصر مسند کا نہیں لیکن یہ تو معلوم ہوا کہ زمین میں مستقر ہے پس آسمان کا مستقر ہونا اس کے خلاف ہوا تو اس کا جواب یہ ہے کہ جب حصر نہیں تو خلاف بھی نہیں۔ نہیں تو بتلا دیں کہ مسلمان جو سب محمد رسول اللّٰہ پڑھتے ہیں جس کا ترجمہ محمد (ﷺ) اللہ کے رسول ہیں تو کیا حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) رسول نہیں صرف محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی رسول ہیں۔ پس جس طرح کہ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہنے سے موسیٰ ( علیہ السلام) رسول اللہ کی نفی نہیں ہوتی اسی طرح فی الارض مستقر کہنے سے فی السماء مستقر کی نفی لازم نہیں۔ علاوہ اس کے آسمان میں تو مستقرہی نہیں خصوصاً لکم کے مخاطبین کا جو تمام نبی انسان ہیں اگر مسیح چند روز چلے گئے۔ اول تو عارضی ہے۔ دوم وہ ایک فرد مخصوص ہیں مَا من عام الاوقد خص منہ البعض کو یاد کرو ایسے استدلالات میں ہاتھ پائوں مارنے سے بجز اس کے کہ علماء میں ہنسی ہو اور کیا فائدہ؟
(١٤) چودھویں آیت یہ ہے ” وَمَنْ نُعَمِّرْہُ نُنَکِّسْہُ فِی الْخَلْقِ یعنی درازی عمر میں حواس اور عقل زائل ہوجاتی ہے اگر مسیح اب تک زندہ ہوں تو ان کی عقل میں فرق آگیا ہوگا جس سے یقینی معلوم ہوتا ہے کہ وہ مدت سے مر گئے ہوں گے ص ٦١٠
مرزا صاحب چونکہ علم لدنی کے متعلم تھے اس لئے بیچارے علوم ظاہر یہ کی اصطلاحات بدیعہ سے بالکل نہ واقف ہوں تو ان کی ذات ستودہ صفات میں کوئی نقص نہیں آتا۔ یہی وجہ ہے کہ مرزا جی کے کان مبارک ” تقریب تام“ سے جو علم مناظرہ میں اہم اصول ہے کبھی آشنا نہیں ہوئے مرزا صاحب کا دعویٰ ممات مسیح اور دلیل لو سُلّم نقصان عقل یہیں تفاوت راہ از کجاست تابکجا۔ مرزا صاحب اگر کوئی شخص ستر ٧٠ برس کی عمر سے (جس کو آپ انتیسویں آیت میں امت محمدیہ کے لئے محدود کرتے ہیں) متجاوز ہوگیا جیسے کہ مولانا فضل الرحمن صاحب مرحوم گنج مراد آبادی یا قاری عبدالرحمن صاحب پانی پتی یا مولانا سید محمد نذیر حسین صاحب دہلوی جن میں سے بعض صاحب سو اور بعض سو سے بھی متجاوز تھے کیا آپ کے نزدیک ان کا جنازہ بغیر روح نکلے ہی درست ہے کیونکہ آپ کی دلیل کا مقدمہ تو ثابت ہے کہ عمر درازی موت کو متلزم ہے پھر مدعا کیوں ثابت نہیں آئندہ کو آپ کے خاندان میں سے جو شخص ستر برس سے متجاوز ہو تو بغیر نکلے روح کے اس کو میت قرار دے کر قبر میں داخل کردیا کریں پھر دیکھیں نتیجہ کیا ہوتا ہے۔ افسوس مرزا صاحب کو یہ خبر نہیں یا جان بوجھ کر تجاہل عارفانہ کرتے ہیں کہ عمر درازی کو اگر کچھ لازم ہے تو نکوس لازم ہے جو خود زندگی کو چاہتا ہے مردہ کی بابت نکوس فی الخلق کون کہے گا نکوس کے معنی اوندھا کرنے کے ہیں مطلب آیت کا بالکل واضع ہے کہ جس کی عمر دراز ہوتی ہے اس کی خلقت اور عادت پیرانہ سالی میں جوانی سے مغائر بچپن کی سی ہوجاتی ہے بالکل درست ہے صدق اللّٰہ وصدق رسولہ لیکن اس کو موت خصوصاً مسیح کی موت سے کیا علاقہ اگر آپ کے نزدیک ستر برس سے متجاوز پر نکوس فی الخلق ضروری ہے تو حضرت نوح ( علیہ السلام) تو آپ کے نزدیک تمام تبلیغ نکوس کے زمانہ بلکہ موت میں کرتے رہے ہوں گے یا للعجب۔
(١٥) پندرھویں آیت یہ ہے اللّٰہُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِنْ ضُعْفٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْ بَعْدِ ضُعْفٍ قُوَّۃٌ ثُمَّ جَعَلَ مِنْ بَعْدِ قُوَّۃٍ ضُعْفًا وَّشَیْبَۃً اس آیت سے صریح معلوم ہوتا ہے کہ زمانہ انسان کی عمر پر اثر کرتا ہے یہاں تک کہ پیر فوت ہوجاتا ہے اور پھر مر جاتا ہے۔ ص ٦١٠
آمنا وصدقنا بیشک اثر کرتا ہے مگر اس کی حد مختلف ہے ایک حد بقول آپ کے ساٹھ ستر برس ہے دوسری بقول اللہ تعالیٰ کے عمر نوحی ہے جب تک آپ مسیح کے لئے حد نہ لگا دیں اس آیت کو پیش کرنے کا حق نہیں رکھتے اعمارا متی بین الستین کا جواب آگے آتا ہے۔
(١٦) سولہویں آیت اِنَّمَا مَثَلُ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا کَمَآئٍ اَنْزَلْنٰہٗ مِنَ السَّمَآئِ فَاخْتَلَطَ بِہٖ نَبَاتُ الْاَرْضِ مِمَّا یَاْکُلُ النَّاسُ وَالْاَنْعَام یعنی کھیتی کی طرح انسان بعد کمال زوال کی طرف رخ کرتا ہے کیا اس قانون سے مسیح باہر رکھا گیا ہے“ ص ٦١١
مرزا صاحب کل بنی نوع انسان کی اگر یہ حالت ہے تو بتلا دیں کہ ایک بچہ جو ایک دن کا ہو کر مر جاتا ہے اس کا وہی کمال ہے؟ دوسرا آپ کی طرح بوڑھا ہو کر اس کے لئے وہی کمال ہے ایک ایسا ہوتا ہے کہ حضرت نوح ( علیہ السلام) کی طرح ہزار سال تک بھی اس کمال کو نہیں پہنچتا ہے پس اسی تفاوت سے اگر مسیح کو بھی وہ کمال جس کے بعد ان کو زوال آنا ہے (جو بقول آپ کے موت کا مترادف ہے) ابھی تک نہ آیا ہو تو کیا محال ہے فاعتبروا یا اولی الابصار۔
(١٧) سترھویں آیت ثُمَّ اِنَّکُمْ بَعْدَ ذٰلِکَ لَمَیِّتُوْنَ تم اپنا کمال پورا کرنے کے بعد زوال کی طرف میل کرتے ہیں“ ص ٦١١
بکشر سچ ہے اس کا جواب آیت سابقہ کی تقریر میں پڑھو۔
(١٨) اٹھارھویں آیت اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآئِ مَآئً فَسَلَکَہٗ یَنَابِیْعَ فِی الْاَرْضِ ثُمَّ یُخْرِجُ بِہٖ زَرْعًا مَخْتِلَفًا اَلْوَانُہٗ ثُمَّ یَھِیْجُ فَتَرَاہُ مُصْفَرًّا ثُمَّ جَعَلَہْ حُطَامًا اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَذِکْرٰی لِاُولِی الْاَلْبَاب انسان کھیتی کی طرح اپنی عمر کو پورا کرکے مر جاتا۔ ص ٦١٢
بالکل سچ ہے لیکن عمریں مختلف ہیں۔
(١٩) انیسویں آیت وَمَا اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ اِلَّا اِنَّھُمْ لَیَاْکُلُوْنَ الطَّعَامَ وَیَمُشُوْنَ فِی الْاَسْوَاقِ کوئی انسان بغیر کھانے پینے کے زندہ نہیں رہ سکتا ص ٦١٢
اس کا جواب پانچویں آیت کی تقریر میں ملاحظہ ہو۔
(٢٠) بیسویں آیت یہ ہے والَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ لَایَخْلُقُوْنَ شَیْئًا وَّھُمْ یُخْلَقُوْنَ۔ اَمْوَاتٌ غَیْرُ اَحْیَآئٍ وَّمَا یَشْعُرُوْنَ اَیَّاَنَ یُبْعَثُوْنَ اس آیت میں مصنوعی معبودوں کی موت کی خبر دی گئی ہے مسیح ٢! بھی عیسائیوں کے مصنوعی معبود ہیں پس ضرور ہے کہ وہ بھی فوت ہوگئے ہوں ص ٦١٢ “
مرزا صاحب نے اس آیت کے لفظ ” اموات“ سے استدلال کیا ہے مگر اس امر پر غور نہیں فرمایا کہ اموات جمع میت کی ہے جو خود آنحضرتﷺ اور کفار مکہ کے حق میں عین زندگی میں وارد ہوا ہے غور سے پڑھو اِنَّکَ مَیِّتٌ وَّاِنَّھُمْ مَّیِّتٰوْنَ کیا مرزا صاحب ! اس آیت کے اترتے وقت آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (فداہ ابی وامی) اور کفار مکہ سب کے سب فوت شدہ تھے؟ تو پھر اس سے بعد کی آیتیں بلکہ خود یہی آیت کس پر نازل ہوئی تھی؟ اور اگر فوت شدہ نہ تھے تو کیوں نہ تھے؟ حالانکہ میت کا لفظ بقول آپ کے موت سابقہ چاہتاوہ ممکنات ہالک الذات ہیں نہ دائم الحیات حالانکہ معبودیت کے لئے غیر ہالک الذات دائم الحیات ہونا چاہیے۔ پس علیٰ طریق ہے۔ مرزا صاحب تو یونہی ادھر ادھر جاتے ہیں آیت کا مطلب بالکل واضح ہے یعنی اللہ فرماتا ہے کہ جن لوگوں کو یہ مشرک پکارتے ہیں البرہان آیت کے مطلب کی تقریریوں ہوگی معبود کم ممکن الفناء ولا شیء من ممکن الفناء بمعبود نتیجہ صریح ہے کہ تمہارے مصنوعی معبود لائق عبادت نہیں۔ اموات کے معنی ممکن الموت کے لینا ایک تو ایت موصوفہ اِنَّکَ مَیِّتٌ بتلا رہی ہے دوئم ممکن الموت کا لفظ تمام معبودات باطلہ کو خواہ وہ نزول آیت سے پہلے کے ہوں یا اسی وقت کے یا پیچھے کے سب کو شامل ہے اور اگر اموات کے معنی فوت شدہ کے لیں تو یہ فائدہ متصور نہیں غیر احیاء کے معنی غیر دائم الحیات کے ہم نے اس لئے کئے ہیں کیونکہ خدائی صفت دائم الحیات ہے نہ چند روزہ حیات۔ پس ہماری تقریر بفضلہ تعالیٰ ہر طرح سے قابل پذیرائی اور مشتمل بہ مزید فوائد ہوئی اور آپ کی مطلب براری در بطن قائل کہیں جناب والا کے کسی حوا ٣ ؎ ری کو یہ شبہ نہ ہو کہ شکل اول میں فعلیت صغرٰی ضروری ہے اور مذکورہ شکل میں صغریٰ ممکنہ ہے پس منتج نہ ہوگی اس لئے کہ امکان شکل مذکور میں ربط کی قید نہیں بلکہ خود محکوم بہ ہے۔ فافہم۔
(٢١) اکیسویں آیت یہ ہے ماکَانَ مُحَّمَدٌ اَبَا اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ چونکہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاتم الانبیاء ہیں اس لئے مسیح ان کے بعد نہیں آسکتا پس معلوم ہوا کہ فوت شدہ ہے ص ٢١٤
مرزا جی یہاں بھی اصطلاحات بدعیہ سے معذوری کی وجہ سے تقریب تام سے غافل ہوگئے دعویٰ موت مسیح اور دلیل عدم تشریف آوری انّٰی ھٰذا من ذٰلک آیت کا مطلب تو بالکل صاف ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاتم الانبیاء ہیں ان کے بعد کسی کو نبوت نہیں ملے گی پس مسیح قرب قیامت باوصف نبوت آنحضرت کی امت بن کر آویں گے تو کچھ مضائقہ نہیں کیونکہ ان کو نبوت آنحضرتﷺ کے بعد نہیں ملی بلکہ نبوت سابقہ ہی سے موصوف ہوں گے پس جیسے حضرت ہارون ( علیہ السلام) بلکہ خود حضرت مسیح پہلے تورٰیت کے احکام کی تبلیغ کرتے رہے اسی طرح بعد تشریف آوری قرآن شریف کے تابع ہو کر رہیں گے اس میں کوئی حرج نہیں صاف ارشاد ہے لَوْ کَانَ مُوْسٰی حَیًّا لَمَا وَسِعَہٗ اِلَّا اتِّبَاعِیْ۔ ایک نبی اگر دوسرے نبی کی کتاب کا تابع ہو تو اس میں کیا برائی حالانکہ اللہ تعالیٰ نے سب نبیوں سے عام طور پر وعدہ لیا ہوا ہے کہ جب تمہارے زمانہ میں کوئی رسول آوے تو تم نے اس کو مان لینا اور اس پر ایمان لانا یہ تو مرزا جی کے ڈوبتے کو تنکے کے سہارے ہیں۔
(٢٢) بائسویں آیت ہم نے بصفحہ ٢٥ نقل کی ہوئی ہے وہیں مع جواب ملاحظہ ہو۔
(٢٣) تیئسویں آیت یٰٓاَیُّھُّاَ النَّفْسُ الْمُطْمَبْنَّۃُ اِرْجِعِیْ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً فَادْخُلِیْ فِیْ عِبَادی وادْخُلِیْ جَنَّتِیْ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ جب تک آدمی مرے نہیں اللہ تعالیٰ کی نیک بندوں میں نہیں ملتا چونکہ بموجب شہادت حدیث معراج حضرت مسیح نیک بندوں میں داخل ہوچکے ہیں“ اس لئے ضرور فوت شدہ ہیں ص ٦١٧ “
کیا نئی منطق ہے مرزا صاحب بموجب شہادت حدیث معراج خود آنحضرتﷺ نیک بندوں میں داخل تھے یا نہیں پھر آپ اس سے بعد دنیا میں دوسری زندگی سے آئے یا اسی سے؟ مرزا صاحب کو موت نہ اپنی بلکہ مسیح کی موت سے بڑی محبت ہے آیت کا مطلب بالکل صاف ہے اس آیت کی تفسیر وہی صحیح ہے جو حبرالامت ابن عباس (رض) نے کی ہے (جن کی تفسیر کو مرزا صاحب عموماً اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ میں پیش کیا کرتے ہیں اور اس کے منوانے کے لئے مخالفوں پر بڑا زور دیا کرتے ہیں) ابن عباس فرماتے ہیں کہ جب نیک بندے قیامت کو قبروں سے اٹھیں گے تو اس وقت اللہ تعالیٰ کے فرشتے ان سے کہیں گے ” اے نفس اللہ کے ذکر سے تسلی پانے والے اللہ تعالیٰ کی طرف چل اور راضی خوشی اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں میں داخل ہو“ (دیکھو تفسیر معالم) اس کو مسیح کے فوت شدہ ہونے سے کیا تعلق ہے۔
(٢٤) چوبیسویں آیت اللّٰہُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ ثُمَّ رَزَقَکُمْ ثُمَّ یُمِیْتُکُمْ ثُمَّ یُحْیِیْکُمْ اس آیت میں چار واقعات انسان کی زندگی کے ہیں پیدائش پھر تکمیل و ترتیب کے لیے رزق مقسوم کا ملنا پھر اس پر موت کا وارد ہونا۔ پس معلوم ہوا کہ مسیح فوت شدہ ہیں ص ٦١٩
مرزا صاحب تکمیل ترتیب کی حدود مختلف ہیں رزق مقسوم بھی ہر زندگی کے مناسب ہوتا ہے فافہم
(٢٥) ” پچیسویں آیت یہ ہے کُلُّ مَنْ عَلَیْھَا فَانٍ وَّیَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ ذُوالْجَلَالِ وَالْاِکْرَامِ ہر نفس پر ہر دم فنا آتی رہتی ہے ” فَانٍ“ کا لفظ لانا اور یفنی نہ لانا اسی طرف اشارہ ہے کہ فنا کا سلسلہ برابر جاری رہتا ہے مگر ہمارے مولوی صاحب گمان کر رہے ہیں کہ مسیح ابن مریم اس خاکی جسم کے ساتھ جس کو ہر دم فنا لگی ہوئی ہے زمانہ کے اثر سے محفوظ ہے ص ٦١٩ “
مرزا صاحب کی اس نئی منطق سے ہم تنگ آرہے ہیں کہ کہاں کی دلیل کہاں کا دعویٰ بے ربط بے ضبط کہیں کی کہیں کہہ دیتے ہیں۔ بھلا ہر دم فنا وارد ہونے سے فوت ہونا کیسے ثابت ہوا کیا آپ بھی اس فنا کے اثر سے متاثر ہیں یا نہیں ضرور ہوں گے کیونکہ بقول
اگر موسیٰ زندہ ہوتے تو بغیر تابعداری میری کے ان کو کچھ بھی جائز نہ ہوتا۔ (حدیث)
آپ کے جیسے مسیح کو کوئی آیت مستثنیٰ کرنے والی نہیں آپ کو بھی نہیں پس محض فنا سے متاثر ہونا اگر فوتیدگی کو چاہتا ہے تو آپ بھی اپنے کفن کی تیاری کریں۔ مرزا صاحب ! اب تو اس آیت کے معنی ڈاکٹری تحقیقات سے بھی متحقق ہوچکے ہیں کہ سات سال بعد موجود جسم تمام کا تمام فنا ہوجاتا ہے لیکن موت اور شے ہے کیونکہ اس فنا کے ساتھ بدل بھی ہوتا رہتا ہے پس آیت موصوفہ کے معنی بالکل صاف ہیں کہ ہر زمین والے کو فنا دامنگیر ہے جو بالکل صحیح ہے ناظرین ! مرزا جی کی قوت علمیہ اور راستبازی کو دیکھیں کہ اپنے مطلب کے لئے آیت قرآنی کے لفظ ” عَلَیْہَا“ کو ہضم ہی کر گئے کیونکہ اس کے ہوتے ہوئے آیت کے معنی یہ بنتے تھے کہ جو شخص زمین پر ہے فنا ہونے والا ہے چونکہ مرزا جی کے مخاطب مسیح کو آسمان پر مانتے ہیں پھر وہ اس آیت میں کیسے آسکتے ہیں۔ ہاں اگر آسمان پر ہونا کسی دلیل سے باطل کریں تو اصلی دللک وہ ہوگی نہ کہ یہ آیت پھر اس آیت کا پیش کرنا بجز اس کے کہ تعداد تیس کی پوری ہو کیا معنی رکھتا ہے لیکن اگر ہم سے پوچھ لیتے تو ہم مرزا جی کو ایسی آیات بتلاتے کہ جن سے بجائے تیس کے پچاس تک تعداد پہنچتی۔
(٢٦) چھبیسویں آیت اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنَّاتٍ وَّنَھَرٍ فِیْ مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِیْکٍ مُّقْتَدِرٍ اللہ تعالیٰ کے پاس جا کر بندے جنت میں داخل ہوجاتے ہیں اور یہ سب کچھ بعد موت کے ہے ص ٦٢٠ “
بیشک اس آیت میں جس جنت کا ذکر ہے وہ بعد موت ہی ہے لیکن حضرت مسیح کا ایسی جنت میں داخل ہونا جو بعد موت کے ہے کسی دوسری آیت سے ثابت کریں جب وہ ثابت ہوگا تو جواب دیں گے وددنہ خرط القتاد۔
(٢٧) ستائیسویں آیت یہ ہے اِنَّ الَّذِیْنَ سَبَقَتْ لَھُمْ مِّنَّا الْحُسْنٰی اُولٰٓئِکَ عَنْہَا مُبْعَدُوْنَ لَایَسْمَعُوْنَ حَسِیْسَھَا وَھُمْ فِیْمَا اشْتَھَتْ اَنْفُسُھُمْ خَالِدُوْنَ۔ اس آیت سے مسیح اور عزیرکا جنت میں داخل ہونا ثابت ہوتا ہے جو بعد موت کے واقع ہے ص ٦٢١ “
حضرت !” جنت“ جس لفظ کا ترجمہ ہے جس میں آپ نے مسیح اور عزیر کو داخل کیا ہے فیما اشتھت کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں ” اپنی مرادوں میں رہیں گے“ کیا بامراد ہونا جنت ہی کو چاہتا ہے آپ کی مراد منکوحہ ! آسمانی ہے اس کے حاصل ہوتے ہی آپ جنت میں چل بسیں گے۔ آپ کے دشمن جنت میں جائیں آپ ایسے وہم و گمان کو پاس بھی نہ آنے دیں علاوہ اس کے اس آیت کا لفظ سَبَقَتْ لَھُمْ مِّنَّا الْحُسْنٰی خود جناب رسالت مآب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (فداہ ابی و امی) اور ان کے صحابہ کبار (رض) و دیگر بزرگان کو بھی جن کو بےدین لوگ پکارتے ہیں اور ان سے حاجات طلب کرتے ہیں شامل ہے یا نہیں تو کیا یہ بزرگ آیت کے اترنے کے وقت سب کے سب فوت شدہ تھے؟ تو کیا پھر یہ آیت آپ پر نازل ہوتی ہے؟ یہ بھی تو آپ کے مرید مان لیں لیکن مشکل یہ ہے کہ پھر آپ سَبَقَتْ لَھُمْ مِّنَّا الْحُسْنٰی سے خارج ہوتے ہیں کیونکہ اس میں داخل ہونے سے تو آپ کو موت سوجھتی ہے فافھم۔
(٢٨) اٹھائیسویں آیت اَیْنَمَا تَکُوْنُوْا یُدْرِکُکْمُ الْمَوْتُ وَلَوْ کُنْتُمْ فِیْ بُرُوْجٍ مُّشَیِّدَۃٍط اس آیت سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ انسان جہاں ہو موت اور لوازم موت اس پر جاری ہوجاتے ہیں۔ بطور اشارۃ النص کے مسیح کو بھی شامل ہے ص ٦٢٢ “
بیشک صحیح ہے لیکن اپنے وقت مقدر پر اِذَا جَآئَ اَجَلُھُمْ لَایَسْتَاْخِرُوْنَ سَاعَۃً وَّلَا یَسْتَقْدِمُوْنَ کون کہتا ہے کہ مسیح کو نہیں پائے گی بے شک پاوے گی۔ اس آیت میں اشارۃ النص کا لفظ سن کر بے ساختہ میرے منہ سے ” پیریکہ دم زعشق زند بس غنیمت ست“ نکل گیا کہاں مرزا جی اور کہاں اشارۃ النص کا لفظ بھولے برہمن نے گائے کھائی ہے۔
لیکن ہمارا جو خیال تھا کہ مرزا جی بقول خود علم لدنی کے متعلم ہونے کی وجہ سے ظاہری علوم کے بوجھ سے سبکدوش ہیں وہ صحیح نکلا۔ حضرت ! اشارۃ النص اسے کہتے ہیں
اما اشارۃ النص فہی ماثبت بنظم اننص لغۃ وھو غیر ظاھر من کل وجہ ولا سیق الکلام لاجلہ۔ شاشی۔ نور الا نوار۔ توضیح وغیرہ
جو کلام کے ظاہری ترجمہ سے سمجھ میں آئے اور کلام سے مقصود اصلی نہ ہوجیسے کوئی کہے کہ میں مرزا جی سے آتھم کی پیشگوئی کے زمانہ میں ملا تھا تو آتھم کی پیشگوئی کا ذکر صاف لفظوں کے ترجمہ سے سمجھ میں آتا ہے لیکن متکلم کی غرض اصلی ملاقات کا واقعہ بتلانا ہے۔ پس آپ جو مسیح کا ذکر بطور اشارۃ النص فرماتے ہیں کس لفظ کے ترجمہ سے سمجھ آتا ہے اگر کنتم کی ضمیر مخاطب سے عام بنی آدم مراد ہوں جیسا کہ آپ کا ماضی الضمیر ہے۔ پھر تو مسیح کے لیے عبارۃ النص ہے جو اشارۃ النص سے قوی ہے اشارہ کہنے کے کیا معنی بہر حال اشارۃ کا لفظ آپ نے بول کر ہمارے موہومی خیال کو مضبوط کردیا اللہ تعالیٰ آپ کو اس کا نیک عوض دے اور راہ راست دکھائے۔
(٢٩) انتیسویں آیت مَا اٰتٰکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَھٰکُمْ عَنْہُ فَانْتَھُوْا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہم کو دیا ہے کہ ! اَعْمَارُ اُمَّتِیْ مَا بَیْنَ السِّتِّیْْنَ اِلَی السَّبْعِیْنَ وَاَقَلُّھُمْ مَّنْ یَّجُوْزُ نیز فوت ہوتے وقت فرمایا مَا مِنْ نَفْسٍ مَّنْقُوْسَۃٍ یَّاْتِیْ عَلَیْھَا مِائَۃُ سَنَۃٍ وَھِیَ حَیَّۃٌ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جو زمین پر پیدا ہوا اور خاک میں سے نکلا وہ کسی طرح سو برس سے زیادہ نہیں رہ سکتا ص ٦٢٣ “
شاباش ” این کا راز تو آیدو مرداں چنیں کنند“ مرزا صاحب بہادری اسی کا نام ہے مرزا صاحب نے دو حدیثیں اس باب میں نقل کی ہیں جن میں سے پہلی حدیث کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرتﷺ فرماتے ہیں کہ میری امت کی عموماً ساٹھ ستر برس عمر ہوا کرے گی بہت کم لوگ ہوں گے جو اس حد سے بڑھیں گے اس مضمون کو تو مرزا صاحب کے دعویٰ سے کچھ بھی تعلق نہیں حدیث میں بعض لوگوں کی عمر متجاوز ہونے کا بھی ثبوت ہے ممکن ہے کہ مسیح بھی انہیں میں ہوں علاوہ اس کے حضرت مسیح ہنوز آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت میں محسوب بھی نہیں ہوئے تھے تو ان کا حکم ان پر کیسے لگا۔ جب تشریف لاویں گے اس وقت امتی بنیں گے بعد امتی بننے کے چالیس سال زندہ رہ کر فوت ہوجائیں گے علاوہ اس کے آپ کے نزدیک مسیح امت محمدیہ میں نہیں ہے تو پھر امت محمدیہ کا حکم ان پر کیوں لگاتے ہو اگر بطور الزام ہے تو امت محمدیہ بننے کے بعد نہ کہ پہلے ہی۔
دوسری حدیث کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (فداہ ابی و امی) نے فوت ہوتے وقت فرمایا تھا کہ جو جاندار زمین پر ہیں آج سے سو سال تک کوئی بھی زندہ نہیں رہے گا یعنی ان کی نسل رہ جائے گی خود نہیں رہیں گے۔ چونکہ اس حدیث میں لفظ علیٰ ظہر الارض بھی تھا جس کے معنی ہیں کہ ” زمین پر رہنے والے جاندار“ اور مرزا جی کے مخاطب تو مسیح کو زمین پر نہیں مانتے جس سے مرزا جی کی دلیل میں ضعف آتا تھا اس لئے حدیث پر ہاتھ صاف کرنا چاہا اور جھٹ سے تاویل یا تحریف کردی کہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ” جو زمین پر پیدا ہوا اور خاک میں سے نکلا“ مرزا جی کی اس تقریر سے مجھے ایک قصہ یاد آگیا۔ ایک دفعہ کسی عیسائی سے تثلیث کے متعلق گفتگو تھی عیسائی بولا کہ آپ تو یونہی اس کا انکار کرتے ہیں حالانکہ تثلیث تو قرآن سے بھی ثابت ہے میں نے کہا کہاں قرآن میں تو تثلیث کا مدلل رد ہے۔ بولا دیکھو تو پہلے ہی بسم اللہ۔ الرحمن۔ الرحیم اللہ سے مراد باپ (اللہ تعالیٰ) ہے اور رحمن سے مراد مسیح اور رحیم سے مراد روح القدس ہے۔ کیا خوب؟
چہ خوش گفت ست سعدی ور زلیخنا
الایا ایہا الساقی اور کا ساونا ولہا
میں حیران ہوں کہ میرزا جی اپنی تقریر پر مخالفانہ نظر کیوں نہیں ڈالا کرتے۔ کیوں اس تقریر کو پیار سے دیکھا کرتے ہیں جس کا نتیجہ ” اپنا بیٹا کا نا بھی ہو تو سو انکھا نظر آئے“ ہوتا ہے۔ یہ تو ہم نے سنا ہے کہ بعض مریدوں سے مشورہ کیا جاتا ہے لیکن مریدوں سے مشورہ اور عیوب نمائی۔ ایں خیال سب و محال ست و جنوں۔
لیجئے مرزا صاحب آپ کہاں جا رہے ہیں۔ ہم آپ کو بتلاتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے اس بارے میں کیا فرمایا ہے۔ سنو اور انصاف سے سنو ! کیف فیکم اذا نزل فیکم ابن مریم من السماء واما مکم منکم یعنی کیسے اچھے ہوگے تم جس وقت مسیح ابن مریم آسمان سے اتریں گے حالانکہ امیر المومنین خلیفہ اسلام بھی اس وقت تم میں سے ہوگا۔ رواہ البیہقی واصلہ فی البخاری۔
اور بھی فرمان نبوی سننے ہوں تو مشکوٰۃ میں باب نزول عیسیٰ کو انصاف سے پڑھیئے۔
(٣٠) تیسویں آیت یہ ہے اَوْتَرْقی فِی السَّمَائِ قل سبحان ربی ھل کنت الا بشرا رسولا کفار مکہ نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے درخواست کی کہ آپ آسمان پر چڑھ جائیں جواب ملا کہ یہ عادت اللہ نہیں کہ خاکی جسم آسمان پر چڑھ جاوے پس مسیح بجسد عنصری آسمان پر نہیں گئے بلکہ بعد موت گئے ہیں ص ٦٢٥
سبحان اللہ ھذا بہتان عظیم آیت کا مطلب بالکل صاف ہے کفار مکہ نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا تھا کہ جب تک تو آسمان پر نہیں چڑھے گا ہم تیری بات نہیں مانیں گے۔ جواب ملا کہ اللہ تعالیٰ تو سب کچھ کرسکتا ہے وہ ایسے کاموں سے عاجز نہیں وہ تو عاجزی سے پاک ہے ہاں میرا کام نہیں کہ میں خود بخود چڑھ جائوں میں تو صرف اس کا رسول ہوں جو مجھے ارشاد ہوگا تعمیل ارشاد کو حاضر ہوں۔ بتلائیے یہ کس لفظ کا ترجمہ ہے کہ ” عادۃ اللہ نہیں“ کہ خاکی جسم آسمان پر جائے تو آپ نے سبحان ربی کے معنی تو خوب تراش لئے کہ ایسے خلاف عادت کام کرنے سے میرا اللہ پاک ہے مگر ھَلْ کُنْتُ اِلَّا بَشَرًا رَّسُوْلًا کو کیا کریں گے جو اپنے عہدو عبودیت کا مظہر ہے جس سے صاف سمجھ میں آتا ہے کہ میں اس سوال کا مخاطب نہیں ہوسکتا چنانچہ دوسری آیات سے بھی یہی مفہوم ہے لااَمْلِکُ لَکُمْ ضَرًّا وَّلَا رَشَدًا وَّلَنْ اَجِدَ مِنْ دُوْنِہٖ مُلْتَحَدًا کو غور سے پڑھو۔ اخیر اس طویل بحث کے جس کی طوالت کی وجہ سے ناظرین کے ملال طبیعت کا اندیشہ ہے مرزا صاحب کی ایک حیرت انگیز کارروائی پر ناظرین کو متنبہ کرنا ضروری ہے مراز صاحب اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ والی آیت کو ہمیشہ پیش کیا کرتے ہیں اور مریدوں کو ایسی ضبط کرا رکھی ہے کہ خواب میں بھی ان کو شاید ہی سوجھتی ہے اور اس کی شرح میں حضرت ابن عباس کی تفسیر نقل کیا کرتے ہیں یعنی اِنِّیْ مُمِیْتُکَ اس آیت اور اس تفسیر عباسی پر بڑا نور دے کر اپنے مخالفین سے موت مسیح کا اقرار کرانا چاہتے ہیں مگر واہ ری قرآن کی سچائی کس طرح ظہور کرتی ہے (لِکَیْلَا یَعْلَمَ بَعْدَ عِلْمٍ شَیْئًا) مرزا صاحب اپنی مطلب براری کی وجہ سے یا اگر ہم ان سے حسن ظن کریں۔ تو عمر رسیدہ ہونے کی وجہ سے بہت کچھ بھول جاتے ہیں۔ اسی آیت اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ کا ترجمہ مرزا صاحب نے اپنی الہامی کتاب براہین احمدیہ جلد چہارم ص ٤٩٩ پر موفی اجرک (پورا بدل دینے والا) کیا ہے۔ اور موت کے معنی جس سے ابن عباس کا قول ” مُمِیْتُ“ ماخوذ ہے نوم اور غشی کے خود ہی کیے ہیں دیکھو ازالہ وہام ص ٦٦٥ پس اگر ہم مرزا صاحب کی ان دونوں الہامی کتابوں کے ترجمہ کو لکھتے تو ہمیں بہت کچھ آسانی تھی۔ یعنی توفی کے معنی اجر پورا دینا۔ لیتے یا ابن عباس کی تفسیر کو بسند صحیح مان کر ممیت کے معنی منیم اور مغشی کے کرتے تو ہمیں آسانی تھی مگر ہم نے کسی الزامی جواب پر کفایت نہ کی کیونکہ الزامی جواب جدل ہونے کے علاوہ آج کل کے مناظرہ میں پسند بھی نہیں۔
مضمون وفات و حیات مسیح قادیانی مباحث کے لئے فیصلہ کن نہیں۔ فیصلہ کن وہی صورت ہے جو خود مرزا صاحب نے میرے حق میں بذریعہ اشتہار مورخہ ١٥ اپریل ١٩٠٧ء کو شائع کی تھی۔ جس کا خلاصہ دو حرفہ مرزا صاحب کے الفاظ میں یہ ہے۔
” مگر یہ دعویٰ مسیح موعودہونے کا محض میرے نفس کا افترا ہے اور میں تیری (اللہ کی) نظر میں مفسد اور کذاب ہوں اور دن رات افترا کرنا میرا کام ہے تو نے میرے پیارے مالک میں عاجزی سے تیری جناب میں دعا کرتا ہوں کہ مولوی ثناء اللہ صاحب کی زندگی میں مجھے ہلاک کر اور میری موت سے ان کو اور ان کی جماعت کو خوش کر دے۔ “
اس کا نتیجہ کیا ہوا؟ یہی کہ مرزا صاحب موصوف اس اشتہار کے ایک سال دو ماہ گیارہ روز بعد ٢٦ مئی ١٩٠٨ء کو میری زندگی ہی میں فوت ہوگئے فالحمد للّٰہ الذی اظہر الحق وابطل الباطل بکلماتہ |
آل عمران |
56 |
(56۔68)۔ پس کافروں اور تیرے منکروں کو دنیا اور آخرت دونوں میں عذاب دونگا اور ان کا کوئی بھی مددگار نہ ہوگا اور جو تیری رسالت پر ایمان لائے اور نیک عمل کرتے ہیں (میں) اللہ انکو ان کی نیکیوں کا پورا بدلہ دے گا اور اللہ کو ظالم لوگ نہیں بھاتے اے محمد رسول اللہ یہ قصہ جو تجھ کو سناتے ہیں اللہ کی نشانیاں اور حکیمانہ نصیحت ہے جس سے تجھ کو اور تمام سننے والوں کو بخوبی معلوم ہوسکتا ہے کہ مسیح اور اس کی ماں بلکہ اس کا سارا خاندان بھی مثل دیگر انسانوں کے اللہ تعالیٰ کے بندے اور مخلص بندے تھے ان میں کوئی اس قسم کی مزیت نہ تھی جس کے سبب سے وہ اللہ یا اللہ کا بیٹا بن سکیں ہاں ایک بات جس سے نافہموں کو شبہ ہوتا ہے کہ مسیح بے باپ پیدا ہوا تھا اس لئے اللہ کا بیٹا تھا سو اس بات میں مسیح کی مثال اور مشا بہت اللہ کے نزدیک بالکل آدم کی سی ہے جیسا اس کو مٹی سے بنایا پھر اس کو حکم دیا کہ موجود ہوجا پس وہ ہوگیا اسی طرح مسیح کو مریم کے رحم میں اللہ نے محض اپنے حکم سے پیدا کیا جیسا آدم کو کیا تھا اس سے بھی مسیح کا مخلوق ہونا ثابت ہوتا ہے نہ کہ اللہ ہونا پس سچی بات تیرے رب کی طرف سے ہے پس تو اسی کو مانیو اور ہرگز اس میں شک کرنے والوں میں سے مت ہوجیو بلکہ دل میں اس امر کا یقین رکھیوکہ مسیح اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہے نہ کہ اللہ یا اس کا بیٹا پھر جو کوئی بعد آنے علم اور عقل کی بات کے تجھ سے کج بحثی کرے اور اسی پر اڑارہے کہ مسیح اللہ اور اللہ کا بیٹا ہے۔ تو تو ایسے لوگوں کو جو کسی دلیل کو نہ جانیں کسی علمی بات کو نہ سمجھیں بغرض بدر ابدرباید رسانید کہہ دے کہ آئو ایک آخری فیصلہ بھی سنو ہم اپنے بیٹے اور تمہارے بیٹے اپنی بیٹیاں اور تمہاری بیٹیاں اپنے بھائی بند نزدیکی اور تمہارے بھائی بھائی بند نزدیکی بلائیں پھر عاجزی سے جھوٹوں پر اللہ کی لعنت کریں اللہ خود فیصلہ دنیا ہی میں کر دے گا جو فریق اس کے نزدیک جھوٹا ہوگا وہ دنیا میں ہی برباد اور مورد عذاب ہوگا بے شک تو اپنے دعویٰ توحید پر مضبوط رہ اس لئے کہ یہی بیان جو مسیح کی عبودیت کا ہم نے تجھ کو سنایا ہے صحیح ہے اور اللہ کے سوا کوئی بھی معبود نہیں اور بے شک اللہ ہی بڑا غالب اور بڑی حکمت والا ہے پھر اگر وہ عیسائی جو مسیح کی الوہیت کے قائل ہیں کوئی دعا کرنے سے منہ پھیریں تو تو پروا نہ کر کیونکہ اللہ مفسدوں کو خوب جانتا ہے تو کہدے اے کتاب والو یہودیو ! اور عیسائیو ! اختراعی باتیں چھوڑ کر ایک بات کی طرف آئو جو ہمارے اور تمہارے درمیان مساوی ہے اور تینوں فریق کی کتابیں (قرآن تورات اور انجیل) بھی اس کی تاکید کرتی ہیں وہ یہ ہے کہ ہم تم سوائے اللہ کے کسی کی عبادت نہ کریں اور نہ اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائیں اور نہ کوئی ہم میں سے سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی دوسرے کو مالک اور مربّی سمجھے کہ اس کے خوف سے سچی بات کے اظہار سے رکا رہے پس یہ امور ایسے ہیں کہ ان پر عمل کرنے سے ہمارا تمہارا قصہ طے ہوتا ہے پس اگر یہ لوگ اللہ کو اور اس کے رسولوں کو مانتے ہونگے تو اس فیصلے سے راضی ہونگے اور اگر ضد میں آکر منہ پھیریں۔ تو تم مسلمانو ! کہدو کہ گواہ رہو کہ ہم اللہ کے تابعدار ہیں کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ توحید کی تعلیم دی ہے اسی طرح ہم مانتے ہیں اپنی بات بنانے کے لئے دیکھو تو کیسے حیلے بہانے بناتے ہیں کہ انبیا کے جد امجد حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کو اپنے خیالات کا پابند بتلاتے ہیں پس تو ان سے کہدے کہ اے کتاب والو کیوں ابراہیم ( علیہ السلام) کے معاملے میں جھگڑتے ہو کہ یہودی تھا یا نصرانی تھا حالانکہ تورات اور انجیل جن سے یہودیت اور عیسائت بالخصوص تمہارے خیالات کی ابتدا ہوئی ہے وہ تو اسکے بعد اتری ہیں
شان نزول :۔ (یاھل الکتب) یہود نصاریٰ کا دعویٰ تھا کہ ابراہیم ( علیہ السلام) ہمارے مذہب پر تھے مگر چونکہ یہ خیال غلط تھا اس لئے کہ ابراہیم (علیہ السلام) توحید میں تو سب کے استاد تھے لیکن جو دین یہود و نصاریٰ کا تراشا ہوا تھا اس سے حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) بالکل پاک صاف تھے ان کے رد میں یہ آیت نازل ہوئی۔ (معالم)
پھر باوجود اس بعد بعید کے تم یہ دعوی کرتے ہو کیا اس غلطی کو سمجھتے نہیں ہو ؟ دیکھو تو جس چیز کے متعلق تمہیں کسی قدر علم تھا اس میں تو تم نے جھگڑا بھی کیا اور وہ جھگڑا کسی قدرمناسب بھی تھا لیکن ایسے معاملات میں کیوں جھگڑتے ہو جن کا تمہیں کچھ بھی علم نہیں کیا تمہاری کتابوں میں لکھا ہے کہ ابراہیم ( علیہ السلام) یہودی تھا یا عیسائی اللہ اس کے حال کو بخوبی جانتا ہے اور تم نہیں جانتے اللہ نے ہمیں بتلایا ہے ابراہیم نہ تو یہودی تھا نہ عیسائی بلکہ سیدھا اللہ کا فرمانبردار تھا بندہ خالص توحید کا قائل مشرک بھی نہ تھا اسی لئے یہ بات بلاشبہ ہے کہ سب لوگوں میں سے ابراہیم ( علیہ السلام) سے قرب روحانی رکھنے والے وہی لوگ تھے جو توحید میں اس کے تابع ہوئے تھے اور یہ نبی محمد (علیہ السلام) اور جو اس پر ایمان لائے پس انہی کا آپس میں روحانی تعلق ہے۔ اور اللہ سب ایمانداروں کا متولی اور کارساز ہے۔ اللہ کی کارسازی کے ہوتے ہوئے کون ہے جو ضرر دے سکے کیا یہ لوگ آج تک تمہارا کچھ بگاڑ سکے ہیں |
آل عمران |
57 |
|
آل عمران |
58 |
|
آل عمران |
59 |
|
آل عمران |
60 |
|
آل عمران |
61 |
|
آل عمران |
62 |
|
آل عمران |
63 |
|
آل عمران |
64 |
|
آل عمران |
65 |
|
آل عمران |
66 |
|
آل عمران |
67 |
|
آل عمران |
68 |
|
آل عمران |
69 |
(69۔80)۔ حالانکہ پادریوں کی ایک جماعت کتاب والوں میں سے تم کو پھسلا نا چاہتے ہیں اور یہ نہیں سمجھتے کہ ہمیں اس سے انجام کار فائدہ کیا ہوگا یہی کہ گمراہی میں کوشش کرنے کا وبال اپنی گردن پر لیں گے اس لئے کہ حقیقت میں اپنی ہی جانوں کو گمراہ کر رہے ہیں کیونکہ کسی بندہ کو اللہ کی راہ سے بہکانے کا وبال بہکا نے والے کی گردن پر ہوتا ہے مگر یہ لوگ مسلمانوں کے عناد میں سر گرم ہیں اور سمجھتے نہیں
شان نزول :۔ (وَدَّتْ طَائِٓفَۃٌ) معاذ بن جبل اور حذیفہ بن یمان (رض) کو یہودیوں نے اپنے مذہب کی طرف دعوت دی ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی۔ معالم
تعجب ہے تم سے اے کتاب والو کیوں اللہ کے حکموں سے جان بوجھ کر منکر ہوتے ہو اے کتاب کا دعوٰی کرنے والو یہودیو ! اور عیسائیو ! کیوں سچ کو جھوٹ کے ساتھ ملاتے ہو ؟ اور کیوں خالص حق کو دانستہ چھپاتے ہو ؟ اور اس کے چھپانے میں ہر طرح سے کوشش بذریعہ رسالوں اور واعظوں کے کرتے ہو ہوشیار رہو مسلمانو ! ہم تم کو ان کتاب والوں کی نئی شرارت سے اگاہ کرتے ہیں اہل کتاب میں ایک جماعت پادریوں اور احبار نے تجویز سوچ کر اپنے چیلے چانٹوں سے کہا کہ تم صبح کے وقت مسلمانوں کے قرآن کو مان لو اور شام کے وقت منکر ہوجائو جاہل لوگ تمہارے انکار کو دیکھ کر مذبذب ہوجائیں گے اور کہیں گے کہ اسلام میں کوئی نقص ہے تو ایسے اہل علم کتابوں کے جاننے والے اس سے پھر گئے اس حیلہ سے شائد وہ بھی پھر آویں کیونکہ مشہور عام ہے ہر چہ گیرو علتی علت شود۔ کفر گیر کامل ملت شود۔ سوائے اپنے ہم مشربوں کے کسی کی بات نہ مانو کسی کی بات کی تصدیق نہ کرو چاہے وہ کچھ ہی کہے تو اے نبی ان سے کہہ دے کہ اصل ہدائت تو اللہ کی طرف سے ہوتی ہے جس کو نصیب ہوجائے خواہ کسی قوم کا ہو تم میں سے ہو یا ہم میں سے کہتے ہیں کہ یہ مت سمجھو کہ کسی کو بھی تمہارے جیسی بزرگی اور شرافت مل سکے گی یا اللہ کے ہاں پہنچ کر تم سے مقابلہ کرے تو ان نادانوں سے کہہ دے کہ مہربانی اور فضل تو سب اللہ کے ہاتھ ہے جسکو چاہے دیتا ہے اور اللہ بڑی وسعت والا جاننے والا ہے تم کس طرح سمجھ بیٹھے ہو کہ تمہارے برابر کسی کو عزت اور شرافت اللہ کے ہاں نہیں ہوسکتی وہ تو اپنی رحمت سے جس کو چاہے خاص کرلیتا ہے اللہ بڑے فضل کا مالک ہے علاوہ اس عناد اور ہٹ کے بد اخلاقی میں یہ لوگ کمال رکھتے ہیں۔ گو سب قوم انکی یکساں نہیں بعض تو ان کتاب والوں میں سے بے شک ایسے بھی ہیں کہ اگر تو ان کے پاس ایک خزانہ بھی امانت رکھے تو بوقت طلبی فوراً تجھے ادا کردیں گے اور بعض بلکہ اکثر ان میں سے ایسے بد دیانت ہیں کہ اگر تو ان کے پاس ایک دینار (روپیہ یا اس سے کم و بیش) امانت رکھے تو تجھے واپس نہ دیں گے بلکہ اس کا اقرار بھی نہ کریں گے مگر جب تک تو ان کے سر پر کھڑا رہے اور تقاضا کرتا جائے۔ اسلام کے مخالف سب سے زیا دہ یہی لوگ ہیں یہ بد معاملگی ان کی اس لئے ہے کہ یہ لوگ اپنے جی میں ٹھان چکے ہیں کہ عرب کے جہلا ان پڑھوں کا مال کھانے میں کوئی گناہ نہیں گویا اللہ نے ان کو اجازت دی ہوئی ہے کہ جس کو چاہو لوٹ لو۔ کوئی گناہ نہیں (معاذ اللہ) ایک تو بری طرح کھاتے ہیں دوسرا اللہ کے ذمہ دانستہ جھوٹ لگاتے ہیں کہ ہم کو اللہ نے اجازت دی ہوئی ہے یہ اللہ کا حکم ہرگز نہیں ہاں حکم خدا وندی یہ ہے کہ جو شخص اپنے وعدہ کو خواہ کسی سے کیا ہو بشرطیکہ خلاف شریعت نہ ہو پورا کرے اور ہر ایک کام میں اللہ سے ڈرتا رہے تو ضرور اس کا بدلہ پاوے گا ایسے پرہیز گار نیک خصلت اللہ کو بھاتے ہیں اللہ کو صرف یہی منظور نہیں کہ میری اتاری ہوئی کتاب کو زبانی مان لو اور بظاہر اس کی تلاوت اور اس کے نام کی تعظیم بھی کرو مگر عملی پہلو کا یہ حال کہ حافظ شیرازی کا مقولہ
حافظائے خورو رندی کن وخوش باش ولے
دام تزویرمکن چوں دگراں قرآن را
تمہارے حق میں صادق آوے نہیں ہرگز نہیں بلکہ شریعت خداوندی یہ ہے کہ جو لوگ اللہ کے نام کے وعدے اور قسمیں تھوڑے سے دنیاوی مال کی خاطر توڑ دیتے ہیں خواہ کتنا ہی کیوں نہ لیں دنیا کا کل اسباب متاع قلیل ہے بے شک ان لوگوں کے لئے آخرت میں کوئی حصہ نہیں اور اللہ نہ تو ان سے بخوشی خاطر کلام کرے گا اور نہ بنظر رحمت آخرت میں ان کو دیکھے گا اور نہ گناہوں سے انکو پاک کرے گا بلکہ ہر طرح کی ذلت و خواری میں رہیں گے اور ان کو عذاب درد ناک ہوگا پس خود ہی سوچ لو کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی شریعت میں کس قدر دور ہیں پھر اسی پر ہی بس نہیں بلکہ دھوکہ بازی میں ایسے چالاک ہیں کہ ایک جماعت ان میں سے زبان مروڑ کر کتاب پڑھتی ہے کئی فقرے اس کے ساتھ اور پڑھ دیتے ہیں۔
تاکہ تم اس ملائے ہوئے کو کتاب سے سمجھو اور یہ جانو کہ ان کو مذہبی حکم یہی ہے جو یہ کہتے ہیں۔ حالانکہ وہ کتاب اللہ سے نہیں۔ اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے مگر وہ اللہ کے ہاں سے نہیں بلکہ خود بد عملی کرتے ہیں اور اللہ کے ذمہ دانستہ جھوٹ لگاتے ہیں اللہ ہی پر جھوٹ باندھنے میں بس نہیں کرتے بلکہ اپنے رسولوں اور پیشوایان دین پر بھی جھوٹ باندھتے ہیں کہتے ہیں کہ مسیح نے ہمیں اپنی الوہیت کی تعلیم دی ہے
حالانکہ کسی بشر کا یہ کام نہیں کہ اللہ اسکو کتاب آسمانی سکھاوے اور علم پڑھائے اور نبو ّت دے پھر وہ۔ بنو نہ یہ مناسب ہے کہ تم کو حکم کرے کہ تم فرشتوں اور نبیوں کو اپنے حقیقی پرورش کرنے والے رب بنا لو
(ماکان لبشر ان یوتیہ اللہ) شروع سورت سے جس مضمون (خلاف العقل والنقل عیسائیوں کے عقیدہ الوہیت مسیح) کی تمہید تھی یہاں پر اس کا صریح اظہار فرمایا گیا ہے مسیح کے تمام خاندان کا ذکر دراصل تمہید تھا مقصود اس سب سے یہ تھا کہ الوہیت مسیح باطل ہے چنانچہ موقع بموقع ہم تفسیر میں اشارہ کرتے آئے ہیں اس مسئلہ میں قرآن شریف نے کئی دلائل بیان کئے ہیں مگر ان دلائل کے بیان سے پہلے عیسائیوں کا عقیدہ مذکورہ جو ان کے نزدیک مدار نجات ہے بیان کردینا بھی ضروری ہے جیسا عیسائیوں کی مشہور کتاب ” دعائے عمیم“ میں مسلمہ عقیدہ مقدس اتھا ناسیس کا یوں لکھا ہے۔ ” جو کوئی نجات چاہتا ہو اس کو سب باتوں سے پہلے ضرور ہے کہ عقیدہ جامعہ رکھے اس عقیدہ کو جو کوئی کامل اور بےداغ نگاہ نہ رکھے وہ بے شک عذاب ابدی میں پڑے گا اور عقیدہ جامعہ یہ ہے کہ ہم تثلیث میں واحد اللہ کی اور توحید میں تثلیث کی پرستش کریں نہ اقانیم کو ملائیں نہ ماہیت کو تقسیم کریں کیونکہ باپ ایک اقنوم اور روح القدس ایک اقنوم ہے۔ مگر باپ بیٹے اور روح القدس کی الوہیت ایک ہی ہے جلال برابر عظمت ازلی۔ یکساں جیسا باپ ہے۔ ویسا بیٹا اور ویسا ہی روح القدس ہے باپ غیر مخلوق بیٹا غیر مخلوق اور روح قدس غیر مخلوق بیٹا غیر محدود اور روح قدس غیر محدود باپ ازلی بیٹا ازلی اور روح قدس ازلی تاہم تین ازلی نہیں بلکہ ایک ازلی اسی طرح تین غیر محدود نہیں اور نہ تین غیر مخلوق بلکہ ایک غیر مخلوق اور ایک غیر محدود یونہی باپ قادر مطلق بیٹا قادر مطلق اور روح قدس قادر مطلق تو بھی تین قادر مطلق نہیں بلکہ ایک قادر مطلق ہے ویسا ہی باپ اللہ بیٹا اللہ اور روح قدس اللہ قس پر بھی تین اللہ نہیں بلکہ ایک اللہ اسی طرح باپ اللہ تعالیٰ اور روح القدس اللہ تعالیٰ تو بھی تین اللہ تعالیٰ نہیں بلکہ ایک اللہ تعالیٰ۔ دعائے میم مطبوعہ افتخار دہلی ١٨٨٩ء ص ٢٤)
عیسائیوں کے بڑے پادری فنڈر لکھتے ہیں۔
” ایمانداروں (عیسائیوں) پر لازم اور واجب ہے کہ جیسا باپ اور بیٹے پر ویسا ہی روح القدس پر ایمان لا کر اس کی عبادت اور بندگی کریں اور عنایت اور نعمت کی امید اس سے رکھیں۔ (مفتاح الاسراء طبع پنجم ص ٤٥)
عبارات مذکورہ بالا سے صاف سمجھ میں آتا ہے کہ ہر ایک ان تینوں (باپ۔ بیٹا۔ روح قدس) میں سے مستقل اللہ تعالیٰ اور معبود ہے یہ ہے عیسائیوں کا دعویٰ جس پر مذکورہ ذیل دلائل کی نقلی دیا کرتے ہیں۔ یوں تو کہنے کو عیسائیوں کا دعویٰ ہے کہ انجیل سے کیا تورات بلکہ کل نبیوں کی کتب اور تحریروں بلکہ نیچرل لسٹ (نظام عالم) کے ہر ورق سے تثلیث اور الوہیت مسیح ثابت ہوتی ہے تاہم وہ اس بات کے قائل ہیں کہ تورات میں اس کا اشارہ ہوا ہے (مفتاح الاسراء ص ٤٩) اور انجیل میں بالوضاحت بیان ہے (مفتاح ص ٢٣) اس لئے ہم بھی ان دلائل کے بیان کرنے میں (بقول ان کے) انجیلی حوالوں پر نہیں بلکہ انہیں کے الفاظ پر قناعت کرتے ہیں۔ مفتاح الاسراء کے مصنف پادری فنڈر جو ہندوستان میں عیسائیوں کے امام مناظرہ مانے جاتے ہیں رسالہ مذکورہ میں یوں رقمطراز ہیں۔
” مسیح نے اللہ کی ذات و صفات اور لفظ اللہ کو بھی اپنے ساتھ نسبت دیا ہے چنانچہ آئندہ آیتوں سے معلوم ہوتا ہے اور اس بات سے صاف ظاہر ہے کہ ان معنی سے اللہ کا بیٹا نہیں ہے جن معنی سے متقی پرہیزگار ایماندار لوگ اللہ کے فرزند کہے جاتے ہیں بلکہ اس معنی سے اللہ کا بیٹا ہے کہ صفات اور ذات میں اللہ کے برابر ہے پرہیزگار اور ایماندار لوگ تو اپنے ایمان کی جہت سے اللہ کے بیٹے ہیں لیکن مسیح وحدت اللہ کی نسبت اللہ کا بیٹا ہے چنانچہ مسیح نے اپنی الوہیت کا اشارہ کر کے یوحنا کے ٨ باب ٢٣ آیت میں یہودیوں سے ایسا فرمایا ہے کہ تم پستی سے ہو اور میں بلندی سے ہوں تم اس جہان کے ہو میں اس جہان کا ہوں اور اسی باب کی ٥٨ آیت میں فرمایا ہے کہ پیشتر اس کے کہ ابراہیم ہو میں ہوں اور اس بات کو بیان کر کے یوحنا کے ١٧ باب کی ٥ آیت میں کہا ہے کہ اے باپ اب تو مجھے اپنے ساتھ اس جلال سے جو میں دنیا کی پیدائش سے پیشتر تیرے ساتھ رکھتا تھا بزرگی دے۔ اور مکاشفات کے پہلے باب کی ١١ آیت میں فرمایا ہے کہ میں الفا اور آئے گا اول و آخر ہوں اب ان آیتوں میں مسیح صاف بیان کرتا ہے کہ میں آسمان سے اترا اور ابراہیم سے پیشتر بلکہ سارے عالم کے پیدا ہونے سے پہلے موجود اور اول و آخر ہوں پس ظاہر و عیاں ہے کہ مسیح قدیم اور ازلی ہے پھر متی کے ١١ باب کی ٢٧ آیت میں اس نے فرمایا کہ میرے باپ نے سب کچھ مجھے سونپا اور اپنے بیٹے کو کوئی نہیں جانتا مگر باپ اور باپ کو کوئی نہیں جانتا مگر بیٹا اور وہ جس پر بیٹا اسے ظاہر کیا چاہتا یعنی بیٹا کاشف ذات ہے پھر متی کے ٣٨ باب کی ١٨ آیت میں اس نے اپنے شاگردوں سے کہا ہے کہ آسمان اور زمین کا سارا اختیار مجھے دیا گیا یعنی انسانیت کی نسبت تو یہ سب اختیار اسے دیا گیا تھا اور الوہیت کے رو سے وہ اس حکومت کے لائق تھا ایسا ہی یوحنا کے ٥ باب کی ١٧ و ١٨ و ٢١ و ٢٢ و ٢٨ و ٢٩ آیتوں میں مسیح نے اپنی الوہیت ظاہر کرنے کے لئے یہودیوں سے کہا ہے کہ میرا باپ اب تک کام کرتا ہے اور میں بھی کام کرتا ہوں میں تم سے سچ سچ کہتا ہوں کہ بیٹا آپ سے کچھ نہیں کرسکتا مگر جو کچھ کہ وہ باپ کو کرتے دیکھتا ہے بیٹا بھی اسی طرح وہی کرتا ہے یعنی بیٹا باپ کے ساتھ ایسا ایک اور متحد ہے کہ ممکن نہیں کہ کچھ اور کرے مگر وہی جو باپ کرتا ہے اور بیٹا ارادت اور قدرت اور ذات میں باپ کے ساتھ ایک ہے پھر کہا کہ جس طرح باپ مردوں کو اٹھاتا ہے اور جلاتا ہے بیٹا بھی جنہیں چاہتا ہے جلاتا ہے اور باپ کسی شخص کی عدالت نہیں کرتا بلکہ اس نے ساری عدالت بیٹے کو سونپ دی اس سے تعجب مت کرو کیونکہ وہ وقت آتا ہے جس میں وہ سب جو قبروں میں ہیں اس کی آواز سنیں گے جنہوں نے نیکی کی ہے زندگی کی قیامت کے واسطے اب دیکھو کہ ان آیتوں میں مسیح نے قادریت اور عالمیت کی صفتوں کو کھلا کھلی اپنے ساتھ منسوب کیا ہے کیونکہ جس صورت میں یہ کہتا ہے کہ جو کچھ باپ کرتا ہے میں بھی وہی کرتا ہوں اور مردوں کو جلاتا ہوں اور زمین اور آسمان میں ساری قدرت مجھے دے گئی ہے اور باپ یعنی ذات کو جانتا ہوں اور قیامت کے دن کا حاکم میں ہوں تو ان سب باتوں سے ظاہر ہے کہ مسیح نے اپنے قادر ہونے کا اقرار کیا ہے کیونکہ جو کوئی وہی کام کرے جو اللہ کرتا ہے اور جس کا حکم ساری زمین اور آسمان پر ہووے چاہیے کہ قادر ہو اور جو کوئی قیامت کے دن ساری خلقت کا حاکم اور ان کے سب فکروں اور کاموں سے واقف ہو چاہیے کہ وہ عالم ہووے اور یہ کہ مسیح نے آیات مذکورہ میں اپنی الوہیت کا اشارہ کیا ہے اس بات سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہودیوں نے ان باتوں کو سن کر اس کے قتل کا ارادہ کیا جیسا کہ یوحنا کے ٥ باب کے ١٨ آیت میں لکھا ہے کہ تب یہودیوں نے اور بھی زیادہ اس کو قتل کرنا چاہا کیونکہ اس نے اللہ کو اپنا باپ کہہ کر اپنے تئیں اللہ کے برابر کیا اور ایسا ہی متی کے ١٨ باب کی ٢٠ آیت میں مسیح اپنی الوہیت کا اشارہ کر کے کہتا ہے کہ جہاں کہیں دو یا تین میرے نام پر اکٹھے ہوں وہاں میں ان کے بیچ ہوں اور صعود کے وقت جو اپنے شاگردوں کو حکم دیا تھا کہ سارے عالم میں جا کر میرا کلام بیان کر کے تعلیم دو تب ایسا کہا کہ دیکھو میں زمانہ کے آخر تک ہر روز تمہارے ساتھ ہوں جیسا متی کے ٢٨ باب کی ٢٠ آیت میں لکھا ہے پس اس سے کہ مسیح نے اپنے صعود کے وقت یہ بات فرمائی ظاہر ہے کہ اس کا حاضر ہونا جسمانی نہیں بلکہ روحانی طور پر ہوگا اور اس حال میں یہ وعدہ کہ انتہا عالم تک میں تمہارے ساتھ ہوں نہ صرف ایک سے بلکہ سارے شاگردوں اور ایمانداروں سے کیا ہے تو ظاہر ہے کہ ان باتوں سے اور اگلی آیت سے بھی اس نے حاضریت کی صفت کو اپنے ساتھ منسوب کیا خلاصہ اور ان آیتوں میں مسیح نے اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کو ایسا صریحا اپنے ساتھ نسبت کیا ہے کہ رد کے قابل نہیں ہے اور مابعد کی آیتوں میں تو ماقبل سے واضح تر اپنے تئیں ذات الٰہی کے ساتھ موصوف اور منسوب کیا ہے چنانچہ یوحنا کی ١١ باب کی ٢٥ آیت میں فرمایا ہے کہ قیامت اور زندگی میں ہوں۔ اور یوحنا کی ١٠ باب کی ٣٠ آیت میں کہا کہ میں اور باپ ایک ہیں اور پھر یوحنا کے ١٤ باب کی ٩ آیت سے ١١ تک مسیح نے فیلبوس کو فرمایا کہ جس نے مجھے دیکھا ہے باپ کو دیکھا ہے اور تو کیونکر کہتا ہے کہ باپ کو ہمیں دکھلا کیا تو یقین نہیں کرتا کہ میں باپ میں اور باپ مجھ میں ہے۔ یہ باتیں جو میں تمہیں کہتا ہوں میں آپ سے نہیں کہتا لیکن باپ جو مجھ میں رہتا ہے وہ یہ کام کرتا ہے میری بات یقین کروں کہ میں باپ میں ہوں اور باپ مجھ میں ہے اور اسی وحدانیت کی نسبت جو مسیح نے ان آیتوں میں اپنے ساتھ منسوب کی اور جس کے سبب باپ کے ساتھ یعنی اللہ کے ساتھ ذات میں ایک ہے اس نے ہم بندوں پر واجب کیا کہ جیسا باپ کو ویسا ہی اس کو بھی مانیں اور اس کی عبادت اور بندگی کریں جیسا کہ یوحنا کے ٥ باب کی ٢٣ آیت میں لکھا ہے کہ مسیح نے فرمایا کہ سب جس طرح باپ کی عزت کرتے ہیں بے ٹس کی عزت کریں وہ جو بیٹے کی عزت نہیں کرتا باپ کی جس نے اسے بھیجا ہے عزت نہیں کرتا اور علاوہ اس کے مسحگ نے اللہ کا لفظ بھی اپنے ساتھ منسوب کیا ہے یعنی اپنے قیام کے بعد ثوما کو جو اپنے شاگردوں میں سے تھا اجازت دی کہ اسے اللہ کہے جیسا کہ یوحنا کہے۔ ٢٠ باب کی ٢٨ و ٢٩ آیتوں میں ذکر ہے یعنی جب شاگردوں نے ثوما کو کہا کہ مسیح نے قیام کیا ہم نے اسے دیکھا ہے تب اس نے انہیں کہا کہ میں جب تک میخوں کا نشان اس کے ہاتھ میں نہ دیکھوں اور اپنی انگلی میخوں کے نشان میں نہ ڈالوں اور اپنا ہاتھ اس کی پسلی میں نہ رکھوں تب تک باور نہ کروں گا آٹھ دن کے بعد مسیح نے پھر ان پر ظاہر ہو کے ثوما سے کہا کہ اپنا ہاتھ پاس لا اور میری پسلی ٹٹول اور بے ایمان مت ہو بلکہ ایمان لا تب ثوما نے سجدہ کر کے کہا اے میرے اللہ اے میرے اللہ اب اس صورت میں کہ مسیح نے اس کو منع نہ کیا بلکہ یوں فرمایا کہ اے ثوما اس لئے کہ تو نے مجھے دیکھا ہے ایمان لایا مبارک دے ہیں جنہوں نے نہیں دیکھا اور ایمان لائے پس ظاہر ہے کہ اپنی الوہیت کا اشارہ کر کے اپنے تئیں اللہ کہلاتا زیادتی نہ جانا۔ مفتاح الاسراء طبع پنجم ص ١٤۔ ١٨۔
ناظرین کرام ! کیسی (ناراست) صاف گوئی سے کام لیا ہے کتنے زور سے مسیح کے الٰہ ہونے کا ثبوت دیا ہے اسے یاد رکھئے اور مزید بیان سنئے۔ رسالہ مسیح ابن اللہ کا مصنف بھی اپنا خیال یوں ظاہر کرتا ہے۔ اب ہم پرانے وثیقوں اور نئے وثیقوں کی بعضی آیتوں کو جدول ذیل میں باہم مقابلہ کر کے لکھتے ہیں تاکہ یہ ہمارے اس منشا کا کہ اسی طرح اور آیتیں بھی مقابلہ کر کے دیکھی جائیں ایک نمونہ ملاحظہ ہو۔ جدول یہ ہے
پرانا وثیقہ اللہ کے حق میں کیا کہتا ہے
اللہ کریم کہتا ہے کہ آسمان اور زمین مجھ سے بھرتے ہیں
پرمیاہ۔ ٢٣ باب ٢٤ آیت
تیرا تخت قدیم سے مستحکم ہے تو تو ازلی ہے ٩٣ زبور ٢ آیت میں اول اور میں آخر میں ہوں اور میرے سوا کوئی اللہ نہیں یسیا ٤ باب ٦ آیت
نیا ! وثیقہ عیسیٰ کے حق میں اور عیسیٰ اپنے حق میں کیا کہتا ہے۔
وہ جو اترا وہی ہے جو سارے آسمانوں پر چڑھاتا کہ سب کو بھرپور کرے
افیون ٤ باب ١٠ آیت
وہ بیٹے سے کہتا ہے اے بیٹا تیرا تخت ابد ال آباد ہے خط عبرانیوں کو پہلا باب ٨ آیت میں اول اور آخر ہوں اور وہی ہوں جو ہوا تھا اور زندہ ہوں مکاشفات پہلا باب ١٧ و ١٨ آیات
میں یہودہ ہوں اور تبدیل نہیں ہوتا
یسوع مسیح کل اور آج اور ابد تک یکساں ہے
ملا کی ٣ باب۔ ٦۔ آیت
میں قادر مطلق اللہ ہوں۔ پیدائش ١٧ باب پہلی آیت
تو اپنی تلاش سے اللہ کو پا سکتا ہے ایوب ١١ باب ٧ آیت
خط عبرانیوں کو ١٣ باب ٨ آیت
میں قادر مطلق ہوں۔ مکاشفات پہلا باب ٨ آیت
کوئی بیٹے کو نہیں جانتا مگر باب متی ١١ باب ٢٧ آیت
میں اللہ تیرا قدوس اللہ ہوں۔ یسیاہ ٤٣ باب ٣ آیت
ابتدا میں اللہ نے آسمان کو اور زمین کو پیدا کیا
پیدائش پہلا باب پہلی آیت
میں اللہ سب کا بنانے والا ہوں میں اکیلا آسمان کو تانتا اور آپ تنہا زمین کو فرش کرتا ہوں۔ یسیاہ ٤٤ باب ٢٤ آیت
تم نے اس قدوس اور راست کار کا انکار کیا۔ اعمال ٣ باب ٤ آیت
ابتدا میں کلام تھا سب چیزیں اس سے موجود ہوئیں
یوحنا پہلا باب ١ و ٣ آیات
کیونکہ اس سے ساری چیزیں جو آسمان اور زمین پر ہیں دیکھی اور ان دیکھی کیا تخت کیا خاوند یاں کیا ریاستیں کیا مختاریاں پیدا کی گئیں خط کلیسیوں کو پہلا باب ٦ آیت
انجیل سے پہلے حصے کا نام ہے۔
انجیل سے آخر تک حصہ کا نام ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ہر چیز اپنے لئے بنائی۔ امثال ١٦ باب ٤ آیت
اللہ تعالیٰ ساری زمین کا بادشاہ عظیم ہے
٤٧ زبور ٢ آیت
اس لئے کہ تو فقط سارے ہی آدم کے دلوں کو جانتا ہے۔ پہلا سلاطین پہلا باب ٣٩ آیت
اللہ ہی عدالت کرنے والا ہے۔
٥٠ زبور۔ ١٦ آیت
اس کی بادشاہت سب پر مسلط ہے۔ زبور ١٠٣۔ آیت ١٩
اس دن ایک اللہ ہوگا اور اس کا ایک نام ہوگا۔ زکریا ١٤ باب ٩۔ آیت
دیکھو خداوند اللہ زبردستی کے ساتھ آوے گا اس کا صلہ اس کے ساتھ ہے۔ یشعیاہ۔ ٤ باب۔ ١ آیت
میں ہی اللہ تعالیٰ ہوں میرے سوا کوئی بچانے والا نہیں ۔ یشیاہ ٤٣ باب ١١ آیت
وہ ظفر مندی سے موت کو نگل جائے گا۔
یشعیا۔ ٢٥ باب ٨ آیت
میں نے اپنی حیات کی قسم کھائی ہے کلام صدق میرے منہ سے نکلتا ہے اور نہ پھرے گا کہ ہر ایک گھٹنا میرے آگے جھکے گا اور ایک زبان میری قسم کھائے گی۔ یشعیاہ۔ ٤٥ باب ٢٣۔ آیت
ساری چیزیں اس سے اور اس کے لئے پیدا ہوئیں خط کلیسیوں کو پہلا باب ١٦ آیت بادشاہوں کا بادشاہ اور خداوندوں کا خداوند
مکاشفات ١٩ باب ١٦ آیت
اور ساری کلیسائوں کو معلوم ہوگا کہ میں وہی ہوں جو دلوں اور گردوں کا جانچنے والا ہوں۔ مکاشفات ٢ باب ٢٣ آیت
کیونکہ ہم سب کو ضرور ہے کہ مسیح کی مسند عدالت کے آگے حاضر ہوویں ٢ خط قرنیتوں کو ٥ باب ١٠ آیت
وہ سب کا اللہ تعالیٰ ہے۔ اعمال۔ ١٠ باب ٣٦ آیت
اور ایک خداوند ہے جو یسوع مسیح ہے جس کے سبب سے ساری چیزیں ہوئیں اور ہم اس کے وسیلے سے ہیں پہلا خط قرنیتوں کو ٨ باب ١٦ آیت
دیکھ میں جلد آتا ہوں اور میرا اجر میرے ساتھ ہے۔
مکاشفات ٢٢ باب ١٢ آیت
اور وہ کامل ہو کر اپنے سب فرمانبرداروں کے لئے نجات کا باعث ہوا خط عبرانیوں کو ٥ باب ١٩ آیت
اور کسی دوسرے سے نجات نہیں کیونکہ آسمان کے تلے آدمیوں کو کوئی دوسرا نام نہیں بخشا گیا جس سے ہم نجات پا سکیں۔ اعمال ٤ باب ١٢ آیت
اب ہمارے بچانے والے یسوع مسیح نے موت کو نیست کیا۔ دوسرا تمطائوس پہلا باب۔ ١٠ آیت
ہم سب مسیح کے تخت عدالت کے آگے حاضر کئے جائیں گے چنانچہ یہ لکھا ہے کہ خداوند کہتا ہے کہ اپنی حیات کی قسم ہر ایک گھٹنا میرے آگے جھکے گا اور ہر ایک زبان اللہ کے سامنے اقرار کرے گی خط رومیوں کو ١٤ باب ١ و ١١ آیات
عیسیٰ کے نام پر ہر ایک گھٹنا جھکے گا خط فلیبیون کا ٢ باب ١٠ آیت
اگرچہ اس جدول کو طول دینا آسان تھا لیکن ہمارا منشا خاص کر دونوں وثیقوں کی مطابقت کا نمونہ دکھلانا ہے ورنہ اس قسم کی سب آیات کو پیش کرنا بڑے فائدے کی بات ہوگی۔ اگر اس جدول کے دیکھنے سے ناظرینوں کو اس امر کی طرف رغبت ہوجاوے کہ اس ضروری مسئلہ کے ثبوت میں پاک کتاب کے دونوں حصوں کی شہادت کو آپ ہی دریافت کریں اگر اس طرح کی تحقیقات صداقت سے کریں تو ان کی خاطر جمع ہوجاوے گی کہ ضرور عیسیٰ حقیقی اور ابدی اللہ ہے اور وہ دریافت کریں گے کہ جو کچھ ایک وثیقہ میں خاص باپ کی طرف منسوب ہے وہ سب دوسرے میں بالکل عیسیٰ ناصری کی طرف منسوب ہے اور وہ دیکھیں گے کہ اللہ کے خاص خطاب اور قدرت اور کاملیت اور الٰہی کاروبار نئے وثیقے میں سب کے سب عیسیٰ کی طرف منسوب ہیں اور یہ نسبت انہیں الفاظ کے ساتھ بیان کی جاتی ہے جو کہ قدیم الایام سے پاک نبیوں اور خود اللہ نے پورا نے وثیقے میں استعمال کئے تھے بلکہ وہ یہ بھی دیکھیں کہ بار بار مابین اس پاک وجود کے جس نے پہلے آسمان سے کلام کیا اور عیسیٰ کے جس نے کئی صدیوں کے بعد انسانی شکل میں زمین پر گفتگو کی اصلی یگانگت تھی۔“ (رسالہ مسیح ابن اللہ ص ١٢٩ و ص ١٣٣ مطبوعہ لدیانہ ١٨٨٨ئ)
گو اہل انصاف اس مسئلہ کی تصویر سے ہی متنفر ہو کر اس کے دلائل سے اور ہی نفرت کر گئے ہوں گے اور ہرگز امید نہیں کہ کسی صاف دل میں اس سیدھے گورکھ دھندے کو جگہ ملے تاہم اس کے ابطال میں کسی قدر دلائل واضح کا بیان کردینا اہل مذاق کے لئے ہر طرح مفید ہوگا۔ پس ہم ان دلائل کو پہلے بیان کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی پاک کتاب (قرآن شریف) نے بیان کئے ہیں۔
لیکن چونکہ ان دلائل میں حکیمانہ طرز سے استدلال کئے گئے ہیں اس لئے بطور تمہید پہلے کئی امور کا بیان ضروری ہے قاعدہ عقلیہ ہے کہ جب دو نقیضوں میں سے ایک کو باطل کردیا جائے تو دوسری کا وجود ضرور ہوتا ہے یا ایک کا وجود ثابت ہو تو دوسری کا عدم ہوگا۔ مثلاً ثابت کیا جاوے کہ کسی خاص وقت میں رات نہیں تو دن ضرور ہوگا اور اگر ثابت کیا جاوے کہ کسی خاص وقت میں دن ہے تو رات نہ ہوگی۔ اس قسم کی دلیل کو علماء مناظرہ دلیل خلف کہتے ہیں اور جو حکم بعد تتبع اور تلاش جزئیات کثیرہ کے لگایا ہوا اس کو استقرا کہتے ہیں جیسا کہ بہت سے افراد انسانی کو خلقتہ دو پایہ دیکھ کر سب پر حکم لگایا جاوے کہ سب افراد انسانی دو پائے ہیں یہ بھی ایک قسم دلیل سے ہے مگر خلف کی نسبت سے کمزور اور جو بطور مشابہت کے حکم ہو اس کو تمثیل کہتے ہیں جیسا شراب کے نشہ پر دوسری نشہ آور چیزوں کو بھی قیاس کرلیں یہ قسم بھی گو درجہ اول کے برابر زور آور نہیں لیکن کسی قدر کارآمد ہے پس انہیں دلائل ثلثہ کی طرف قرآن شریف نے اشارہ کر کے فرمایا ہے۔
ما المسیح ابن مریم الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل و امہ صدیقۃ کانا یاکلان الطعام انظر کیف نبین لھم الایت ثم انظر انی یوفکون۔ (المائدہ)
” کہ مسیح تو صرف اللہ کا رسول ہے اس سے پہلے کئی رسول گذر چکے ہیں اور اس کی ماں صدیقہ (نیک بندی) تھی دونوں (ماں بیٹا) کھانا کھایا کرتے تھے دیکھ تو ہم کیسے دلائل بیان کریں پھر بھی یہ کیسے بہکے جا رہے ہیں۔ “
اس لفظ میں کہ مسیح تو صرف ایک اللہ کا رسول ہے تمثیل کی طرف اشارہ ہے یعنی جیسے اور رسول ہیں جن کو بندگی سے بڑھ کر اللہ کریم میں ذرہ دخل نہیں اسی طرح مسیح بھی فقط رسول ہی ہے نہ کہ اللہ اور اس لفظ میں کہ اس سے پہلے کئی رسول گذر چکے استقرا کی طرف اشارہ ہے یعنی کل رسول جو اللہ کی طرف سے آئے ہیں ان کے لئے بجز بندگی کے اور مرتبہ نہیں ہوتا پھر مسیح کا کیونکر ہونے لگا اور اس لفظ میں کہ اس کی ماں اللہ کی نیک بندی تھی اور وہ دونوں کھانا کھاتے تھے۔ اس بڑی زبردست دلیل کی طرف اشارہ ہے جس کو دلیل خلف کہتے ہیں یعنی جب اس کی ماں تھی اور وہ بھی پھر اللہ کی نیک بندی اور وہ دونوں کھانے کے بھی محتاج تھے تو ایک دو وجہ سے نہیں بلکہ کئی وجہ سے مسیح کی عبودیت ثابت ہوئی ایک تو یہ کہ اس کی ماں ہے جس نے اس کو جنا۔ دوم یہ کہ اس کی ماں اللہ کی نیک تابعدار بندی تھی تو بیٹا بھی ضرور بالضرور بحکم الولد سر لابیہ اللہ کا بندہ ہوگا۔ سوم یہ کہ وہ دونوں ماں بیٹا طعام کے محتاج بھی تھے ایسے کہ جیسے اور لوگ محتاج ہوں اور یہ ظاہر ہے کہ جو کوئی محتاج الی الغیر ہو وہ مخلوق ہے کیونکہ اگر اللہ تعالیٰ بھی طعام وغیرہ کا محتاج ہو تو اس میں شک نہیں کہ طعام بلکہ کل دنیا کی چیزیں حادث ہیں ایک وقت سے ان کی ابتدا ہوئی ہے جس سے پہلے نہ تھیں پس جس وقت نہ تھیں تو اللہ کا گذارہ کیسے چلتا ہوگا یا تو اللہ بھی اس وقت نہ تھا تو اللہ بھی حادث ہوا یا تھا تو بڑی وقت میں گذارہ کرتا ہوگا۔ چونکہ اس بات کو ہمارے مخاطبین بھی مانتے ہیں کہ جو شے کھانے وغیرہ کی محتاج ہو وہ بیشک مخلوق ہوگی اس لئے اس پر زیادہ زور دینا کچھ ضروری نہیں پس قرآن کریم کی تینوں دلیلوں کی شرح ہوگئی کس خوبی سے بالاجمال مختصر الفاظ میں تینوں کی طرف اشارہ ہے مسیحی دوستو ! اب بھی قرآن کی بلاغت کے قائل نہ ہو گے؟ علاوہ اس فائدہ کے یہ فائدہ بھی ان آیات سے باآسانی حاصل ہوا کہ عیسائیوں کے فرقہ رومن کیتھلک کے خیالات بھی رد ہوگئے جو مسیح اور اس کی ماں دونوں کی عبادت کرتے ہیں ان آیات میں بھی جن پر ہم حاشیہ لکھ رہے ہیں دلیل خلف کو ایسے طریق سے بیان کیا ہے کہ جس کی کوئی کسر نہیں چھوڑی چنانچہ تفسیر میں ناظرین نے ملاحظہ فرمایا ہوگا۔
چونکہ یہ دلیل قرآنی ایسی بدیہی اور پرزور ہے کہ ادنیٰ عقل کا آدمی بھی اس سے انکار نہ کرے اس لئے عیسائیوں نے بھی صریح انکار تو نہیں کیا لیکن ایک عذر بارد اس کے متعلق یوں کیا۔
” مسیح بندہ بھی ہے اور مالک بھی ہے اور آدمی ہے اور اللہ بھی ہے اسی سبب سے بعض آیتوں میں اس کی بشریت اور بعض میں الوہیت بیان و عیان ہوئی ہے۔“ (مفتاح الاسماء ص ١٩ دفعہ پنجم)
” کیونکہ ایمان صحیح یہ ہے کہ ہم اعتقاد اور اقرار کریں کہ اللہ کا بیٹا ہمارا اللہ یسوع مسیح اللہ اور انسان بھی ہے۔ اللہ ہے باپ کی ماہیت سے عالموں کے پیشتر مولود اور انسان ہے اپنی ماں کی مایہت سے عالم میں پیدا ہوا کامل اللہ اور کامل انسان نفس ناطقہ اور انسان جسم کے ساتھ۔“ (دعائے عمیم ص ٢٥ مطبوعہ افتخار دہلی)
ناظرین غور فرما سکتے ہیں کہ کہاں تک اجتماع ضدین ہے۔ اس پر بھی یہ سوال ہے کہ کیا مسیح بشریت اور الوہیت سے مرکب تھا اگر مرکب تھا تو حادث ہوگا کیونکہ ترکیب حدوث کو مستلزم ہے پس پھر بھی اللہ نہ ہوا بلکہ حادث بنا جو اپنی ترکیب اور حدوث میں ترکیب دہندہ اور پیدا کرنے والے کا محتاج ہے علاوہ اس کے اگر مسیح میں بھی اللہ تھا اور دوسرے دو حصوں میں بھی اللہ ہے تو تین اللہ ہوئے تو پھر شرک کس کا نام ہے جس کے ماننے والے کو تم بھی عیسائی مذہب سے خارج جانتے ہو۔ (مفتاح مذکور ص ٤١)
عیسائی اس پیش بندی کے لئے ایک اور چال چلتے ہیں جس سے صریحاً تثلیث کی بیخ کنی ہوتی ہے وہ یہ کہ شرک تو جب ہو کہ تم مسیح روح القدس اور اللہ کو مستقل اللہ جانیں بلکہ ہم تو یہ کہتے ہیں کہ اللہ باپ۔ اللہ بیٹا اور اللہ روح القدس کہنا یعنی ہر نام کے اول لفظ اللہ کا استعمال کرنا درحالیکہ کوئی ان تینوں میں سے بغیر دوسرے کے اللہ نہیں ہوسکتا درست نہیں ہے۔ الوہیت کے اقانیم (حصے) ثلثہ کے ایسے استعمال سے عیسائیوں کو محتاط رہنا چاہئے کیونکہ یہ ہمارا عقیدہ نہیں کہ صرف بیٹا یا روح القدس یا فقط باپ اللہ ہے ہم اکیلے باپ (اللہ) کو بھی اللہ نہیں کہتے۔ تشریح التثلیث ص ٨٠
ناظرین ! ذرا غور سے ان تعلیم یافتہ لوگوں کی باتیں سنئے انہیں کچھ بھی اپنے مذہب میں تخالف یا تناقض کا خوف ہے؟ پہلی عبارتیں عقیدہ اتھاناسیس اور پادری فنڈڈر کی عبارت صاف بتلا رہے ہیں کہ تینوں اللہ مستقل ہیں جس سے صاحب تشریح کو انکار ہے۔ خیر ہمیں اس سے بھی بحث نہیں کہ آپس میں مخالف ہیں یا موافق۔ ہم اس پہلو پر بھی نظر کرتے ہیں بھلا جب اللہ تین اجزا سے مل کر مرکب ہوا تو حادث پھر کس کو کہتے ہیں اس کا ترکیب و ہندہ پھر کون ہے اور یہ ظاہر ہے کہ جو حادث ہو وہ ایک وقت پر پہنچ کر فنا بھی ہوگا جس سے لازم آتا ہے کہ اللہ بھی ایک وقت میں فنا ہو۔ کیا پھر عجب نہیں کہ اپنے پرستاروں کو بدلہ دینے سے پہلے ہی چل دے جس سے ان کی حق تلفی کا الزام بھی اس پر عائد رہے گا۔ ایسے اللہ سے تو ہر وقت اندیشہ ہے کہ ہم سے بیگا رہی نہ لیتا ہو دینے دلانے کا شاید اسے موقع ہی نہ ملے۔ علاوہ اس کے جب چل دے گا تو اس وقت اللہ کا قائم مقام کون ہوگا اور اس کو قائم مقام کرنے والا بڑا اللہ کون ہوگا تو پہلے ہی سے اسے ہی کیوں نہیں اللہ مان لیتے اس لفٹنٹ کی کیا حاجت ہے اور اگر اس کا قائم مقام کرنے والا کوئی نہیں بلکہ جس کا زور چلے گا وہ ہوجائے گا تو دنیا کی بربادی کا کیا انتظام؟ سچے اللہ کا سچا فرمان بیشک سچ ہے
لو کان فیھما الھۃ الا اللہ لفسدتا۔ الآیۃ
کہ اگر دنیا میں چند معبود ہوتے تو مدت کی خراب ہوچکی ہوتی۔
اس پہلو سے بچنے کو عیسائیوں نے ایک مفتر نکالا ہے وہ بھی قابل سماع ہے وہ یہ ہے کہ مسیح خود ہی اللہ تھا جو آسمان و زمین کا مالک ہے کوئی دوسرا کوئی نہیں تھا جس نے موسیٰ کو کوہ طور پر درخت میں جلویٰ دکھایا وہ مسیح تھا۔
(مفتاح الاسراء مصنفہ پادری فنڈر رفعہ ٥ ص ٣٨)
ناظرین ! گھبرائیے نہیں آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔ بہت اچھا صاحب جس نے آسمان و زمین کو پیدا کیا وہ مسیح ہی تھا لیکن یہ تو بتلا دیں اس سے تثلیث کیونکر ثابت ہوئی۔ غایت مانی الباب اس سے تو حلول ثابت ہوا جس کو آپ اور آپ کے پیرو و مرشد پادری فنڈر مفتاح کے ص ٢٠ پر رد کرتے ہیں پس اگر حلول بھی نہیں بلکہ عینیت ہے تو وہی اللہ کے کلام کی دلیل خلف اس پہلو پر بھی وارد ہوگی کیونکہ کانا یا کلان الطعام اس صورت میں بھی عیسائیوں کو کھانا۔ پینا بھلاتا ہے اس بلائے ناگہانی سے بچنے کی تدبیر عیسائیوں نے یہ کی ہے کہ مسیح کی عبودیت کے اقراری ہو کر صرف مسیح سے اللہ کا ایک علاقہ خاص بتلایا ہے جس کی کیفیت ہم نہیں جانتے چنانچہ پادری فنڈر صاف مظہر ہے کہ وہ ایک خاص علاقہ ہے جس کی ماہیت اسرار الٰہی میں سے ہو کر عقل کی دریافت سے خارج اور معدوم الدرک کی قسم سے ہے مفتاح مذکور ص ٢٠ اور ڈاکٹر پادری کلارک میڈیکل مشنری امرت سر نے تو بالکل ہی صاف کہہ دیا کہ کثرت فی الوحدت ایک ایسا مسئلہ ہے کہ نہ اس کا سمجھنے والا پیدا ہوا۔ نہ ہوگا۔ (جنگ مقدس ص ٩٥)
شاباش عیسائیوں کے حال پر کہ ملا آں باشد کہ چپ نہ شود۔ پر انہوں نے عمل کر کے دکھا دیا۔ اب کوئی اپنا سر ناحق پھوڑے جب کہ یہ مدار نجات ہی سمجھ میں نہیں آتا اور نہ آنے کی امید ہے تو پھر کسی بحث مباحثہ سے کیا فائدہ؟ بھلا وہ تعلق مانا کہ مجہول الکیفیت ہی ہے لنکی اس سے مسیح کی الوہیت کا ثبوت کیونکر ہوا کیا تمام مخلوق سے اللہ کا تعلق نہیں؟ علاوہ اس کے عیسائیوں کو اس میں بھی غلطی لگی ہے کہ وہ دو راز عقل اور خلاف از عقل میں فرق نہیں کرتے بعید از عقل تو اسے کہتے ہیں کہ عقل اس کی کیفیت کو پا نہیں سکتی جیسے اللہ کے کاموں (مثلاً انسان کا دیکھنا سننا۔ زبان سے ذائقہ چکھنا اور کسی چمڑہ سے یہ کام نہ ہونا) سے عموماً حیران رہتی ہے ایسے تو اللہ تعالیٰ کے ہوتے ہی ہیں خلاف از عقل یہ ہے کہ عقل ایک امر دریافت کرے اور بڑی تحقیق سے ثابت کر دے جس میں کوئی شبہ نہ رہے لیکن اللہ کی شریعت اس امر ثابت شدہ کے خلاف کہے مثلاً دلائل قطعیہ سے ثابت ہوچکا ہے کہ دو دونے چار ہوتے ہیں مگر اللہ کی تعلیم ہم سے دو دونے پانچ کہلوا دے تو ایسی تعلیم اللہ کی طرف سے نہ ہوگی مسیح کی الوہیت کا مسئلہ بعید از عقل نہیں بلکہ خلاف عقل ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کی تعلیم نہیں ہوسکتا۔ مختصر یہ کہ اگر مسیح۔ روح القدس۔ اللہ تینوں مستقل معبود ہیں جیسا کہ مفتاح ص ٤٥ سے مفہوم ہوتا ہے تو شرک صریح لازم آتا ہے جو کسی کے نزدیک بھی جائز نہیں جس کو عیسائی بھی قبیح مانتے ہیں دیکھو مفتاح ص ٤١ اور اگر تینوں مل کر ایک اللہ بنتا ہے جیسا کہ تشریح التثلیث کا مضمون ہے تو ترکیب الٰہ ضروری ہوگی جس سے اللہ کا حادث ہونا لازم آئے گا اور اگر مسیح وہی اللہ ہے جو تمام جہان کا مالک ہے تو مسیح کی بشریت اور الوہیت مرکب ہو کر حدوث لازم آئے گا اور اگر الوہیت میں بشریت کو دخل نہیں بلکہ مسیح سے اللہ کا تعلق ظرف مظروف کا سا ہے جیسا کہ پانی کا برتن سے تو حلول لازم آیا جس کو تم بھی ناجائز جانتے ہو دیکھو مفتاح ص ٢٠ اور اگر مسیح سے اللہ کا کوئی خاص تعلق ہے جو عام افراد انسانی سے نہیں تو اس کا انکار کس کو ہے بیشک اللہ کا اپنے نیک بندوں سے جو تعلق خاص اور نظر عنایت ہے وہ عام لوگوں سے نہیں ہوتا اللہ کی پاک کتاب بتلاتی ہے کہ
اللہ ولی الذین امنوا یخرجھم من الظلمات (الآیۃ)
اللہ ایمانداروں کا والی ہے اندھیروں سے ان کو نور کی طرف لے جاتا ہے۔
وھو یتولی الصالحین۔ (الایۃ)
اور وہ نیکو کاروں کا ہمیشہ متولی ہوا کرتا ہے۔
لیکن اس سے مسیح کی الوہیت کو کیا علاقہ نظر عنایت سے مخصوص ہونے سے الوہیت کا ثبوت نہیں ہوسکتا نہیں تو بہت سے اللہ کے نیک بندے اللہ بنیں گے اور اگر کوئی ایسا تعلق ہے جو ہم نہیں جانتے اور نہ جان سکتے ہیں جیسا کہ مفتاح ص ٢٠ سے مفہوم ہے تو جب ہم اس تعلق کی کیفیت ہی نہیں جانتے تو یہ کیونکر کہہ سکتے ہیں کہ اس تعلق سے مسیح کی الوہیت ثابت ہے نیک بندوں کا جیسا اللہ سے تعلق ہوتا ہے ویسا ہی ہوگا اس سے بڑھ کر ایسا تعلق کہ اس سے الوہیت کا ثبوت ہو چونکہ بنفسہ محال ہے اس لئے اس مجہول تعلق کی تعیین بھی ایسے تعلق سے نہ کی جاوے گی جو مثبت الوہیت ہو ورنہ وہ تعلق بھی محال ہوگا کیونکہ مستلزم محال محال ہے فتدبروا۔ بعض عیسائیوں نے مجھ سے بالمواجہہ یہ کہا کہ تم مسلمان توحید محض کے مدعی ہو حالانکہ تم بھی کثرت فی الوحدت مانتے ہو کیونکہ ذات باری کی صفات (مثلاً صفت علم۔ صفت خلق۔ صفت حیات وغیرہ وغیرہ) کو تم بھی مانتے ہو پس یہ بھی کثرت ہے محض وحدت تو جب ہو ذات بحت کو بلا صفات ہی مانو (ایسا ہی مفتاح سے بھی مفہوم ہے) سو اس کا جواب دو طرح سے ہے الزامی اور تحقیقی۔ الزامی تو یہ کہ اگر صفات سے بھی تعدد آتا ہے تو تمہارے بھی تین اللہ نہیں مع صفات کئی اللہ ثابت ہوں گے کیونکہ صفات اللہ کریم کے تم بھی قائل ہو پھر تثلیث ہی پر بس کیوں کرتے ہو آگے بھی چلو اور اگر آگے کے عدد میں کوئی خلل ہے تو بتلائو کیوں؟ کون سی چیز تعدد صفات سے تعدد آلہ کو روکتی ہے جو تم بتلائو گے وہی ہماری طرف سے ہوگی۔ تحقیقی جواب یہ ہے کہ تعدد صفات سے تعدد حقیقی موصوف کا نہیں آیا کرتا۔ اگر کوئی شخص مثلاً زید چار پیسے (سوت کا تنا۔ کپڑا بننا۔ کپڑے سینا۔ کپڑا رنگنا) جانتا ہے تو کیا ایک زید سے چار زید ہوگئے؟ کوئی دانا یہ کہے گا؟ اسی طرح صفات اللہ کریم کا معاملہ ہے ہاں اعتباری تعدد ضرور ہے یعنی اس لحاظ سے کہ اللہ علیم ہے اور ہے اس لحاظ سے کہ اللہ قدیر ہے اور ہے مگر ایسے اعتبارات بالکل اس قصے کے مشابہ ہوں گے جو دو منطقی بھائیوں کا مشہور ہے کہ آپس میں گالی گلوچ ہو پڑے مگر چونکہ دونوں کی ماں بہن ایک تھی اس لئے گالی دیتے ہوئے قید اعتباری لگا دیں کہ تیری ماں کو اس حیثیت سے کہ تیری ماں ہے دوسرا بھی اسی ماں کو گالی دے مگر بقید حیثیت اس حیثیت سے کہ تیری ماں ہے پس جیسا ان کی ماں میں حقیقۃً تعدد نہ تھا بلکہ یہ ان کی جہالت کا ثبوت تھا اسی طرح صفات کے اعتبار سے اللہ میں تعدد پیدا کرنا ایک نادانی کا اظہار ہے۔ پادری فنڈر بھی اسی کے قریب قریب نئی طرز پر چلے ہیں کہ قائلین وحدت الوجود کے اقوال کو سنداً بیان کر کے اپنا مطلب نکالنا چاہا ہے کہ جس طرح یہ لوگ تجلی اول اور تجلی ثانی جناب باری کے مراتب مختلفہ مانتے ہیں اسی طرح ہم بھی ثالوث فی التوحید کے قائل ہیں چنانچہ مفتاح ص ٥٨ سے مفہوم ہے ہمارے خیال میں عیسائیوں کو پادری صاحب کا مشکور ہونا چاہئے کہ انہوں نے اس تثلیث جیسے ناقابل ثبوت مسئلہ کو حتی الامکان پوری کوشش سے نباہا ہے بھلا پادری صاحب یہ تو غور کیا ہوتا کہ وحدت الوجود کے قائلوں کے نزدیک درجہ وحدت میں تعدد کہاں ہے تعدد تو درجہ شخصیت میں ہے جو مخلوق ہے الکفر ملۃ واحدۃ جیسے ان کے خیالات واہی ویسے ہی ان کی تباہی۔ علاوہ اس کے اس میں بھی پادری صاحب کو غلط فہمی ہوئی ہے کیونکہ وحدۃ الوجود والے مرتبہ تعین کو ممکن اور مخلوق جانتے ہیں صرف مرتبہ تجلی اول کو معبود برحق مانتے ہیں باقی کو نہیں اور آپ تو دونوں تینوں تعناوت کو درجہ الوہیت دے رہے ہیں فانی لہ من ذلک اگر کہو کہ تم مسلمان بھی جب کہ انجیل۔ تورات کو کلام الٰہی مانتے ہو پھر مسیح کی الوہیت جب کہ ان میں صاف مرقوم ہے تو کیوں نہیں تسلیم کرتے۔ اس کا جواب یہ ہے ہم جلد اول میں زیر آیت وما انزل من قبلک ثابت کر آئے ہیں کہ تورات انجیل موجودہ کو ہم کلام الٰہی نہیں مانتے بھلا کر کیونکر مانیں حالانکہ جس کے ذریعہ سے ہمیں ان کو ماننا تھا وہ تو ایسے مضامین کی صاف صاف الفاظ میں تردید کرتا ہے اور ایسے مضامین کو تمہارے ہی ساختہ بتلا کر صاف کہتا ہے کہ
یا اھل الکتب لا تغلوا فی دینکم ولا تقولوا علی اللہ الا الحق انما المسیح عیسیٰ بن مریم رسول اللہ وکلمتہ القاھا الی مریم و روح منہ فامنوا باللہ ورسلہ ولا تقولوا ثلثۃ
اے کتاب والو اپنے دین میں زیادتی مت کرو اور اللہ کے ذمہ سچی بات ہی کہو (یہ نہ کہو کہ مسیح اللہ یا بیٹا اس کا ہے) مسیح تو فقط (اللہ کی بندی) مریم کا بیٹا اور اللہ کا رسول اور اس کے حکم سے جو مریم کی طرف بھیجا تھا پیدا شدہ ہے اور اللہ کی طرف سے ایک معزز روح ہے پس اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائو اور تین اللہ مت کہو۔
قرآن شریف جب کہ صریح الفاظ میں تثلیث اور الوہیت مسیح کا رد کرتا ہے تو پھر مسلمانوں پر یہ الزام کیسا ہے کہ تم تورات انجیل کو مانتے ہو حالانکہ خود ہی عیسائی انکار الوہیت مسیح کو تورات و انجیل کا انکار لازم جانتے ہیں (دیکھو مفتاح مذکور طبح ٥ ص ٣٥) پس جب کہ مسلمان اور مسلمانوں کی الہامی کتاب الوہیت مسیح کی انکاری ہے تو ان سابقہ کتابوں کو جن میں الوہیت مسیح واقع میں یا بقول تمہارے مذکور ہوگی ان کو کیسے تسلیم کریں گے۔
تقریر بالا سے نہ صرف الوہیت مسیح کا بطلان ہوا بلکہ تورات انجیل کا جن میں الوہیت مسیح مذکور ہے ابھی اعتبار نہ رہا اور کلام اللہ ہونے کے مرتبہ سے ساقط الاعتبار ہوگئیں پس تثلیثی عیسائیوں پر واجب ہے کہ یا تو الوہیت مسیح اور تثلیث کے عقیدہ سے باز آئیں اور جن مقامات میں مسیح کی الوہیت مذکور ہے ان کی تاویلات مثل یونیٹرین کے کریں اور اگر وہ قابل تاویل نہ ہوں تو ایسے گورکھ دھندے سے باز آئیں اور سیدھی اور صاف تعلیم کو مانیں جس میں کوئی ایچ پیچ نہیں۔
قل ھو اللہ احد اللہ الصمد لم یلد ولم یولد ولم یکن لہ کفوا احد۔
لیس کمثلہ شیء وھو المسیع البصیر۔
اللہ ایک ہے۔ اللہ سب سے بے نیاز ہے۔ نہ کسی کو اس نے جنا۔ نہ اس کو کسی نے جنا نہ اس کا کوئی ہم قوم ہے۔
نہ اس جیسا کوئی اور ہے اور وہ سنتا اور دیکھتا ہے۔
نہ پرستش کا تو محتاج نہ محتاج عبادت
نہ عنایت تجھے درکار کسی کی نہ حمایت
نہ شراکت ہے کسی سے نہ کسی سے ہے قرابت
نہ نیازت نہ ولادت نہ بفرزند تو حاجت
تو جلیل الجبروتی تو امیر الامرائی
(منہ)
بھلا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا بندہ جسے محض لوگوں کی ہدائت کے لئے رسول کر کے بھیجے وہی شرک پھیلائے کیا مسلمان ہونے کے بعد تم کو کفر بتلائے ہرگز نہیں پس جب ایسی آیات بیّنات یہ لوگ سنتے ہیں اور تو کوئی عذر نہیں کرتے جھٹ سے کہہ دیتے ہیں کہ اگر یہ نبی (محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بر حق ہوتا تو اس کے لئے کوئی پیش گوئی پہلی کتابوں میں ضرور ہوتی حالانکہ وہ اس دعوے میں بھی جھوٹے ہیں کہ پیش گوئی نہیں |
آل عمران |
70 |
|
آل عمران |
71 |
|
آل عمران |
72 |
|
آل عمران |
73 |
|
آل عمران |
74 |
|
آل عمران |
75 |
|
آل عمران |
76 |
|
آل عمران |
77 |
|
آل عمران |
78 |
|
آل عمران |
79 |
|
آل عمران |
80 |
|
آل عمران |
81 |
(81۔91)۔ ذرہ یاد تو کریں جب اللہ تعالیٰ نے ہر ایک نبی کو حکم دیا اور تعمیل کا اس سے وعدہ لیا کہ میں نے جو تم کو کتاب اور حکمت تہذیب اور اخلاق کی تعلیم دی ہے پھر اس کے بعد تمہارے پاس کوئی رسول آوے جو تمہارے ساتھ والی تعلیم کی تصدیق کرتا ہو تو تم اس کو ناگوار سمجھ کر مخالف نہ ہوجا نا بلکہ اس پر ایمان لانا اس کی مدد کرنا پھر مزید تا کید کے لئے اللہ تعالیٰ نے کہا کہ کیا تم اقراری ہو اس پر میرا عہد قبول کرتے ہو یا نہیں وہ بیک زبان بولے ہم اقراری ہیں اللہ تعالیٰ نے کہا کہ تم اس معاملہ میں گواہ رہو اور میں خود بھی تمہارے ساتھ گواہ ہوں پس جو کوئی تم میں سے یا تمہاری امت میں سے بعد اس اقرار کے پھرجائے گا سو وہی بد کار ہوگا بھلا نبیوں کا عہدو پیمان جو بحکم خدا وندی انہوں نے کیا تھا جب نہیں مانتے تو کیا دین الٰہی سوائے اور دین چاہتے ہیں حالانکہ تمام آسمان و زمین کے لوگ چار و نا چار اسی کے زیر فرمان ہیں اور انجام کار اسی کی طرف پھیریں گے پس تو بلند آواز سے کہہ دے کہ جائو جو تمہارا جی چاہے کرو ہم تو سب سے پہلے اکیلے اللہ تعالیٰ کو مانتے ہیں اور جو کچھ ہماری طرف اور ابراہیم ( علیہ السلام) اور اسماعیل ( علیہ السلام) اور اسحٰق ( علیہ السلام) اور یعقوب ( علیہ السلام) اور اس کی ساری اولاد کی طرف اللہ تعالیٰ کے ہاں سے اتارا گیا اور بالخصوص جو موسیٰ ( علیہ السلام) ٰ اور عیسیٰ ( علیہ السلام) ٰ اور نبیوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملا ہے سب کو مانتے ہیں ہم ان نبیوں میں سے کسی میں تفریق نہیں کرتے کہ بعض کو مانیں اور بعض سے انکاری ہوں جیسے کہ تم اور بڑی بات یہ ہے کہ ہم اسی کے مخلص بندے ہیں نہ کہ تمہاری طرح مشرک کہ مسیح کو بھی اللہ مانتے ہو چونکہ ہمارے دین اسلام میں توحید اور اخلاص اعلیٰ درجہ کا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی عام اعلان ہے کہ جو کوئی سوائے اسلام کے اور دین تلاش کرے گا ہرگز اس سے قبول نہ ہوگا اور وہ آخرت میں زیانکاروں سے ہوگا بھلا ایسے لوگوں کو کیونکہ اللہ جنت کی راہ دکھائے جو بعد ایمان لانے کے بغرض دنیوی منکر ہوگئے حالانکہ شہادت بھی دے چکے تھے کہ رسول بر حق ہے اور سچائی کے دلائل بھی ان کو پہنچ چکے مگر بایں ہمہ سب سے منکر ہو بیٹھے تو اللہ تعالیٰ نے بھی اپنی رحمت سے ان کو محروم کردیا اس لیے اللہ تعالیٰ ایسے ظالموں کو جنت کی راہ نہیں دکھاتا سزا ان کی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اور فرشتوں کی اور جہان کے سب لوگوں کی ان پر لعنت ہو جس سے وہ کبھی رہائی نہ پاویں گے بلکہ ہمیشہ اس میں رہیں گے نہ ان کے عذاب میں تخفیف ہوگی نہ ان کو عذر کی مہلت ملے گی لیکن جو لوگ دنیا میں بھی بعد اس کفر کے باز آئے اور اپنے اعمال بد کو سنوارا تو ایسے لوگ بخشش کا حصہ رکھتے ہیں کیونکہ اللہ بڑا بخشش کرنے والا نہائت مہر بان ہے اس کی بخشش کو اگر کسی کی سخت بد عملی مانع نہ ہو تو فوراً بندوں کو دبوچ لیتی ہے قابل ملامت وہ لوگ ہیں جو بعد ایمان لانے کے کافر ہوئے پھر کفر ہی میں بڑھتے گئے یہاں تک کہ مر گئے ان کی توبہ بروز قیامت کریں گے ہرگز قبول نہ ہوگی اور نہ ہی ان پر نظر رحمت ہوگی یہی لوگ اصلی راہ سے بھولے ہوئے ہیں اس لئے کہ ہمارے ہاں عام دستور یہ ہے کہ جو لوگ کافر ہوں اور کفر کی حالت میں مر جائیں تمام عمر بھر اسلام اور فرمانبرداری کی طرف نہ آئیں ہمیشہ عذاب میں مبتلا رہیں گے۔ ایسے کہ ان میں سے کسی سے زمین بھر کر بھی سونا ہرگز قبول نہ ہوگا گو بغرض محال وہ اپنا جرمانہ بھی اتنے سونے سے ادا کرنا چاہے کسی طرح کی رعائت نہ ہوگی بلکہ ان کو درد ناک عذاب ہوگا اور کوئی بھی ان کا مددگار نہ ہوگا دیکھو تو یہی مال جس کے جمع کرنے میں انہوں نے از حد فزوں جانفشانی کی تھی وہ بھی اس قابل نہ ہوا کہ آخرت میں ان کے کام آتا۔ کیونکہ دنیا میں انہوں نے اس کو مناسب موقع پر خرچ نہیں کیا تھا یعنی اللہ کی مرضی میں نہیں لگایا بلکہ یا تو اس کی نگر انی اور حفاظت ہی کرتے رہے یا عیش و عشرت میں کھو یاسو تم بھی مسلمانو ! اس مال سے اگر یہی معاملہ کرو گے تو ان لوگوں کی طرح بے نصیب رہو گے |
آل عمران |
82 |
|
آل عمران |
83 |
|
آل عمران |
84 |
|
آل عمران |
85 |
|
آل عمران |
86 |
|
آل عمران |
87 |
|
آل عمران |
88 |
|
آل عمران |
89 |
|
آل عمران |
90 |
|
آل عمران |
91 |
|
آل عمران |
92 |
پس اگر تم اپنی بہتری چاہتے ہو تو اس مال کو اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور یہ سمجھ رکھو کہ شکستہ دلی سے ردی مال کا خرچ کرنا تمہیں کسی طرح کام نہ آئے گا بلکہ تم نیکی اور اجر ہرگز نہ پائو گے جب تک اخلاص کے ساتھ اپنی پسندیدہ چیزوں میں سے خرچ نہ کرو گے اور پسندیدہ چیزدیتے ہوئے تنگ نہ ہو کیونکہ جو کچھ تم خرچ کرو گے اس کا عوض ضرور پائو گے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ اس کو خوب جانتا ہے مناسب اس کا بدلہ دے گا سب باتوں کی اصل تو اخلاص ہے
شان نزول :۔ (لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ) بعض لوگ طلباء کے لئے کچھ کھجوروں کے گچھے لٹکا جاتے تھے جن میں اکثر ردی اور ناقص ہوتے ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی۔ |
آل عمران |
93 |
یونہی دوسروں پر زبان درازی کرنا اور خود اعمال حسنہ سے بے بہرہ رہنا جیسا کہ یہودیوں کا حال ہے کچھ مفید نہیں بھلا یہ بھی کوئی دینداری کی باتیں ہیں جو یہ کہہ رہے ہیں اور عوام الناس میں مشہور کرتے ہیں کہ مسلمان دعوٰی تو انبیاء سابقین کی اتباع کا کرتے ہیں اور تورات کے خلاف جانوروں کو کھاتے ہیں کیونکہ تورات میں حلال مویشی کے بعض ٹکڑے حرام ہیں اور یہ سب کچھ ہضم کر جاتے ہیں حالانکہ ماکول اللحم جانوروں کا سارا گوشت بنی اسرائیل کو بھی حلال تھا یہ نہیں کہ ایک ہی جانور کا ایک ہی ٹکڑا حلال ہو اور دوسرا حرام بلکہ جو جانور حلال ہے اس کے کھانے کی سب چیزیں حلال ہیں اور پہلے بھی تھیں لکنا جتنا حصہ یعقوب ( علیہ السلام) نے کسی مصلحت سے تورات کے اترنے سے پہلے چھوڑ رکھا تھا سو وہ حکم اسی کی ذات کیلئے مخصوص تھا نہ کہ تمام لوگوں کیلئے تو اے نبی کہہ تورات لاکر پڑھو اگر سچے ہو کہ مویشیوں کے بعض حصوں کی حرمت تورات میں ہے تورات بھی نہ لاویں اور یوں ہی کہتے جائیں کہ اللہ تعالیٰ کا یہی حکم ہے
شان نزول :۔ (کُلُّ الطَّعَام حِلَّا) یہودیوں نے الزاماً حضرت اقدس سے کہا کہ آپ تو اتباع ابراہیمی کا دعویٰ کرتے ہیں حالانکہ ابراہیم اور اس کی اولاد اونٹ کا گوشت ہرگز نہیں کھاتے تھے ان کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی معالم عام طور پر یہی شان نزول بیان کیا جاتا ہے اصل بحث حاشیہ ذیل میں ملاحظہ ہو۔
(کل الطعام) اس آیت کے معنی میں عموماً یہ روایت بیان کی جاتی ہے کہ یہودی اونٹ کا گوشت نہیں کھاتے تھے اور کہتے تھے کہ تورات میں منع ہے اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ جو کھانے مسلمانوں کو حلال ہیں وہ یہودیوں کو بھی حلال تھے جس کا مطلب یہ ہے کہ تورات میں اونٹ کی حرمت نہیں بلکہ یہودی غلط کہتے ہیں مگر یہ معنی نہ تو تورات موجودہ کے مطابق ہیں نہ قرآن کے۔ تورات کے اس لئے مطابق نہیں کہ تورات کی تیسری کتاب احبار کے باب ١ ١ میں اونٹ کی حرمت آج تک مرقوم ہے پس ایسی صریح حرمت کے ہوتے ہوئے یہودیوں کو اس زور و شور سے تورات کے لانے پر ابھارنا بے معنی ہے اگر یہ خیال ہو کہ یہ آیت الحاقی ہے تو اگر آنحضرتﷺ سے پہلے کی الحاقی ہے تو بھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وقت یہودیوں سے تورات طلب کی جاتی ہے تو انہوں نے کیوں نہ کہہ دیا کہ یہ دیکھو تورات میں صاف حکم اونٹ کی حرمت کا ہے جس کو ہم مانتے ہیں اور اگر بعد کی الحاقی ہے تو اس کا ثبوت کیا ہے اور قرآن شریف کے موافق یہ معنی اس لئے نہیں کہ کل کا لفظ الطعام معرف باللام پر آیا ہے جس سے استغراق اجزا ہوگا نہ استغراق افراد اصول میں محقق ہے کہ
فان دخلت (کل) علی المنکر او جبت عموم افرادہ وان دخلت علی المعروف او جبت عموم اجزائہ حتی فرقوا بین قولھم کل دمان ماکول وکل الرمان ماکول بالصدق والکذب
(نور الانوار ص ٧٦)
کل جب معرف باللام پر آوے تو احاطہ اجزا کرتا ہے اور اگر نکرہ پر آوے تو احاطہ افراد کرتا ہے پس اصول مذکورہ کے مطابق الطعام کے افراد مراد نہیں ہوں گے بلکہ اجزا ہوں گے جس سے ترجمہ آیت کا یہ ہوگا کہ ” سارا کھانا“ نہ کہ ” سارے کھانے“ جو عموم افراد پر مشتمل ہے۔
خیر بعد اس کے ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ اصل قصہ کیا ہے اور وہ قصہ موجودہ تورات سے بھی ملتا ہے یا نہیں تورات کی پہلی کتاب پیدائش کے ٣٣ باب سے پایا جاتا ہے کہ حضرت یعقوب (اسرائیل) کی ران دکھنے کی وجہ سے بنی اسرائیل ران کی نس کو نہیں کھاتے تھے عجب نہیں کہ اصل میں اسرائیل نے کسی وجہ ناموافق سے اس کا کھانا چھوڑ دیا ہو۔ رفتہ رفتہ یہ مذہبی شعار ہوگیا۔ حالانکہ دراصل مذہبی حکم نہ تھا چنانچہ لکھا ہے۔
” اسی سبب سے بنی اسرائیل اس نس کو جو ران میں بہیتر وار ہے آج تک نہیں کھاتے کیونکہ اس نے یعقوب کی ران کی نس کو جو بہیتر وار ہے چڑھ گئی تھی چھوا تھا۔ پیدائش باب ٣٢۔ آیت ٣٢ تفسیر کبیر میں قفال سے بحوالہ ترجمہ تورات اس قصے کو لکھا ہے۔
اللہ تعالیٰ اس قصہ کی طرف اشارہ کر کے فرماتا ہے کہ حضرت یعقوب کا نس کے کھانے سے پرہیز کرنا شرعی امر تھا اور نہ ہی تمہارا اس کو چھوڑنا کوئی شرعی مسئلہ ہے مسلمانوں میں اس کی مثال دیکھنی ہو تو کشمیریوں کو دیکھو۔ کشمیر کے ایک گائوں اسلام آباد میں ایک بزرگ گذرے ہیں (واللہ حسیبہ) جنہوں نے (بقول ان کے) گوشت نہیں کھایا کیونکہ گوشت کے کھانے سے ان کو شغل عبادت میں خلل آتا تھا اب ان کے اس ترک پر بنا کر کے (خواہ ان کا ترک کسی وجہ سے تھا اور تھا بھی تو کوئی (امر شرعی نہ تھا) اس گائوں والے کشمیریوں پر نسلاً بعد نسل ہر سال تین چار روز گوشت کا چھوڑنا مثل فرض کے ہے جب وہ دن آتے ہیں تو حضرات کشامرہ ایک روز پہلے ہی کل برتن جن میں گوشت پکا ہوتا ہے ان کو دھو کر بالکل صاف کر کے گوشت کے نام سے ایسے بیزار ہوتے ہیں کہ سال بھر خنزیر سے بھی ایسے بیزار ہوتے ہوں گے ان کا اعتقاد ہے کہ ان دنوں میں اگر ہم (اسلام آباد کے رہنے والے) گوشت کھا لیں تو ہمارے مکانوں کو آگ لگ جاتی ہے راقم خاکسارکا خاندان بھی اسلام آباد کے باشندے ہیں لیکن
ہنر بنما اگر داری نہ جوہر
گلست از خار ابراہیم از آذر |
آل عمران |
94 |
تو یاد رکھیں کہ جو لوگ بعد اس کے اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھیں گے کہ بغیر بتلائے اللہ تعالیٰ کے کوئی حکم تجویز کرکے شرعی بتلاویں اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہی لوگ ظالم ہیں |
آل عمران |
95 |
تو کہہ دے اللہ تعالیٰ نے سچ بتلایا ہے اب تم ایچ پیچ چھوڑ کر یک طرفہ ابراہیم ( علیہ السلام) کے دین کی پیروی کرو جو اللہ تعالیٰ کا نیک مخلص بندہ تھا اور وہ اپنی ہوا و ہوس کے پیچھے چلنے والے مشرکوں میں سے نہ تھا |
آل عمران |
96 |
(96۔97)۔ مگر ان یہودیوں کو ابراہیمی ( علیہ السلام) اتباع کا صرف دعویٰ ہی دعویٰ ہے ورنہ در اصل بات بجز جاہ طلبی اور ابلہ فریبی کے ان میں کوئی نہیں چنانچہ اسی بنا پر ہے جو لوگوں میں مشہور کر رہے ہیں کہ مسلمان دعویٰ اتباع انبیاء سابقین کا کرتے ہیں اور نماز ان کے قبلہ کی طرف نہیں پڑھتے
حالانکہ بنظر غور دیکھا جائے تو کعبہ جو مکہ میں ہے سب سے پہلا مکان ہے جو لوگوں کے عبادت کے لئے بنا ہے بنابڑی برکت والا اور سب کے لئے ہدائت کا منبع ہے اس میں کئی نشانیاں اللہ تعالیٰ کی ہیں منجملہ ان کے مقام ابراہیم ہے اور یہ کہ جو اس میں داخل ہوتا ہے بے خوف ہوجاتا ہے اسی بزر گی اور قبولیت کی وجہ سے جو لوگ کعبہ تک پہنچ سکیں اللہ تعالیٰ کے حکم سے عمر بھر میں ایک دفعہ حج کرنا ان پر فرض ہے اور جو بموجب ہدائت شرع کرے گا وہ تو بدلہ پاوے گا اور جو اس سے سرتابی کرے گا وہ کچھ اپنا ہی کھوئے گا اللہ تعالیٰ تو سب جہان سے بے پرواہ ہے
شان نزول :۔ (اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ للنَّاسِ) یہود نے مسلمانوں پر طعناً کہا کہ ہمارا قبلہ بیت المقدس سب روئے زمین سے بہتر ہے مسلمانوں نے ان کے جواب میں اپنے کعبہ شریف کی فضیلت کا اظہار کیا اس قصے کے متعلق یہ آیت نازل ہوئیں۔ معالم |
آل عمران |
97 |
|
آل عمران |
98 |
(98۔102)۔ اب بھی اگر یہ لوگ ایسی ویسی باتیں کریں تو تو کہہ دیجو کہ اے کتاب والو ! کیوں اللہ کے حکموں سے جو ہم پر بذریعہ وہی اترے ہیں انکاری ہوتے ہو حالانکہ اللہ تعالیٰتمہارے سب کاموں پر نگران ہے تو ان کو یہ بھی کہہ دے اے کتاب والو ! کیوں بے جا حیلوں حوالوں سے ایمان لانے والوں کو اللہ کی راہ سے روکتے ہو ؟ اس میں عیب جوئی کرتے ہو حالانکہ تم اس کی حقیقت کے گواہ ہو سنو ! اور یاد رکھو کہ اللہ عالم الغیب تمہارے کاموں سے بے خبر نہیں تمہاری بد اعمالیوں کی پوری پوری سزا دے گا اصل یہ ہے کہ جس کے دل میں خوف اللہ نہ ہو اور اپنی ہی بات پر اس کو ضد ہو تو ایسے شخص کو کسی طرح ہدائت متصور نہیں بلکہ دوسروں کو اس سے ضرر کا خوف ہے
اس لئے ہم کہتے ہیں کہ مسلمانواگر تم ان کتاب والوں میں سے جو محض ضد سے حق کو چھوڑے ہوئے ہیں کسی ایک گروہ کے بھی مذہبی باتوں میں تابع ہوئے اور ان کی باتوں کو دل آویزلفظوں میں سن کر پھنس گئے تو یاد رکھو کہ وہ ایمان لانے کے بعد بھی تم کو کافر کر ڈالیں گے تم کیسے ان کی سن کر کافر ہونے لگے کیا تم ان سے مسائل دینی پوچھتے ہو حالانکہ شب و روز اللہ کے احکام تم پر پڑھے جاتے ہیں اور اس کا رسول بذات خود تم میں موجود ہے پس تم اللہ کی ہدائت جو رسول سے سنو اس کی اتباع کرو۔ اور اسی پر بس کرو کیونکہ جو شخص اللہ سے مضبوط تعلق کرتا ہے بیشک وہ سیدھی راہ پر ہے جو عنقریب اس کو منزل مقصود تک پہنچا دے گی
شان نزول :۔ (یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْ اِنْ تُطِیْعُوُا) انصار مسلمانوں کے دو قبیلے اوس او خزرج تھے قبل اسلام ان میں بہت ہی کشت و خون ہوچکی ہوئی تھی بعد حصول شرف سلام پہلا کینہ اور عداوت کا ان میں نشان بھی نہ رہا اس الفت اور برادری کو دیکھ کر جنٹلمین اہل کتاب یہودیوں کو رشک پیدا ہوا ایک شخص شماس نامی انصار کی مجلس میں آیا اور ان کو پہلے مناقشات یاد کرانے لگا چونکہ نئی نئی مصلح تھی اس کے مغالطہ میں آکر انصار آپس میں ناچاقی کرنے لگے یہاں تک کہ دونوں قبیلوں کے مقابلہ کے لئے ایک دن مقرر ہوا کہ آپس میں جنگ کریں گے جب یہ خبر حضور اقدس کو پہونچی تو آپ مخالفوں کی غرض کی تہ کو فوراً پہنچے اور بذات خود موقع لڑائی پر تشریف لے جا کر دونوں قبیلوں کو سمجھایا پھر کیا تھا سب سمجھ گئے اور اسی وقت آپس میں ملاقات اور معانقہ ہوگئے اس قصے کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی۔ معالم بتفصیل منہ
مسلمانو اس لئے تمہیں کہا جاتا ہے کہ ان کو چھوڑو اور اللہ ہی سے ڈرتے رہو جتنا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے جیسا وہ حقیقی شہنشاہ دنیا اور آخرت کا مالک ہے اسی انداز سے اس کا ڈر رکھو اور مرتے دم تک اسی کے تابع رہو |
آل عمران |
99 |
|
آل عمران |
100 |
|
آل عمران |
101 |
|
آل عمران |
102 |
|
آل عمران |
103 |
(103۔109)۔ اور سب مل کر اللہ تعالیٰ کی رسی قرآن مجید کو مضبوط پکڑو۔ اور اس کی تبلیغ میں پھوٹ نہ ڈالو ورنہ تمہارے دشمن تم پر غالب آجائیں گے اور اپنے حال پر اللہ کا احسان یاد کرو جب تم آپس میں دشمن تھے پھر اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈالی پس تم اس کے فضل اور مہربانی سے آپس میں بھائی بھائی ہوگئے اور یاد کرو جب تم آگ کے گڑھے کے کنارے پر تھے اور قریب تھا کہ مرتے ہی اس آگ میں داخل ہوجاتے پھر اس نے تم کو اپنے رسول کے ذریعہ اس سے بچایا جس طرح تم کو اس بلا سے رہائی دی اسی طرح حسب مصلحت تمہارے لئے احکام بیان کرتا رہے گا تاکہ تم راہ پائو۔
دیکھو ! تمہاری ہدائت کے لئے ہم نے یہ انتظامی حکم دیا ہے کہ تم میں سے ایک جماعت علماء کی ہمیشہ موجود رہے جو لوگوں کو بھلائی کی طرف بلائے اور انکو نیکی کے کام بتلائے اور بروں سے روکے اور خود بھی نیک عمل کرے یہی لوگ اللہ تعالیٰ کی خوش نودی حاصل کریں گے اور یہی لوگ با عزاز و اکرام نجات پاویں گے
یہ آیت علماء کرام کے اظہار عزت کو کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی کامیابی اور عزت کی خبر دیتا ہے ہاں ذمہ داری بھی بڑی ہے سب سے بڑھ کر یہ کہ کہنے پر عمل بھی کریں ورنہ لم تقولون مالا تفعلون کا عتاب ہے۔ ١٢
البتہ یہ ضرور ہے کہ علم پڑھ کر اغراض دنیوی کی وجہ سے ایک دوسرے کے دشمن ہو کر دھڑے بندی نہ کرنا اور ان لوگوں کی طرح مت ہونا جو اغراض دنیاوی کے لئے آپس میں پھوٹ پڑے۔ اور احکام پہنچنے اور سمجھنے کے بعد مختلف ہوگئے کیونکہ دنیا میں بھی دانائوں کے نزدیک یہ لوگ ذلیل ہیں اور قیامت کے روز بھی ان خود غرض لوگوں کو بڑا عذاب ہوگا جس دن بہت سے چہرے اپنی نیک کرداری کی وجہ سے چمکتے اور بہت سے اپنی بد کرداری کی وجہ سے سیاہ ہونگے پس اس روز سیاہ منہ والوں سے فرشتے پوچھیں گے کیا تم ایمان کی باتیں پہنچنے کے بعد منکر ہوئے تھے پس اپنے کفر اور انکار کی وجہ سے عذاب کا مزہ چکھو جس سے تمہاری نجات نہ ہوگی اور دوسرے لوگ ان کے مقابل سفید چہرے والے اللہ کی رحمت میں ہمیشہ رہیں گے اور نعماء الٰہی میں عیش و عشرت سے گزاریں گے یہ اللہ تعالیٰ کے احکام ہیں جو تجھ کو (اے نبی) راستی سے سناتا ہے جو چاہے نیک عمل کر کے رحمت الٰہی سے حصہ لے اور جو چاہے سیاہ منہ کر کے عذاب میں پھنسے اپنے اپنے کئے کا پھل پاویں گے تیرا کیا لیں گے اللہ تعالیٰ کا ارادہ جہان کے لوگوں پر ظلم کرنے کا ہرگز نہیں کیونکہ سب کچھ جو آسمان اور زمین میں ہے اللہ ہی کا مخلوق اور ملک ہے اور انکی حاجتوں کے سب کام اللہ ہی کی طرف رجوع ہیں پس جبکہ پیدائش بھی اسی کی اور محتاج بھی اسی کے پھر بھلا وہ ظلم کیوں کرنے لگا بلکہ وہ تو ہمیشہ اپنے بندوں کی ہدائت کے لئے رسول بھیجتا رہا نیک بندوں کو لوگوں کی ہدائت کے لئے پیدا کرتا رہا |
آل عمران |
104 |
|
آل عمران |
105 |
|
آل عمران |
106 |
|
آل عمران |
107 |
|
آل عمران |
108 |
|
آل عمران |
109 |
|
آل عمران |
110 |
(110۔117)۔ چنانچہ تم بھی اے مسلمانو ! ایک عمدہ اور نیک جماعت ہو جو لوگوں کی بھلائی کے لئے پیدا کئے گئے ہو نیک کاموں کا حکم کرتے ہو اور برے کاموں سے روکتے ہو اللہ اکیلے پر ایمان رکھتے ہو بھلے کام لوگوں کو سکھلاتے ہو اگر یہ کتاب والے بھی تمہاری طرح قرآن کو مان لیتے تو ان کے لئے اچھا ہوتا گو بعض ان میں سے مومن ہیں لیکن بہت سے ان میں کے بد کار ہیں اس لئے تو یہ تم سے عداوت رکھتے ہیں
لیکن یاد رکھو کہ بجز زبانی ایذا کے کوئی تکلیف تم کو نہ پہنچا سکیں گے
شان نزول (لَنْ یَّضُرُّوْکُمْ اِلَّآ اَذٰی) عبداللہ بن سلام (رض) اور اس کے ساتھی جب مسلمان ہوئے تو یہودیوں نے ان کو تکلیف پہنچانے کا قصد کیا ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی۔ معالم
اور اگر بقول شخصے
چوحجت نماند جفا جوئی را
بہ بیکار کردن کشد روئے را
تم سے لڑنے کو آئیں گے تو پیٹھ دیکر بھاگیں گے پھر یہ بھی نہیں کہ مجتمع ہو کر غلبہ اور فتح پاویں گے بلکہ ذلیل و خوار ہو نگے کبھی انکو اللہ کے ہاں سے مددنہ پہنچے گی کیونکہ اللہ کے ہاں سے ذلت ان پر غالب کی گئی ہے جہاں پائے جائیں گے ذلیل رہیں گے مگر اللہ کی پناہ اسلام میں یا لوگوں کی پناہ میں جزیہ اور ٹیکس دے کر رہیں گے تو امن پاویں گے اور اللہ کے غضب میں آئے ہوئے ہیں اور ان پر ذلت اور خواری برس رہی ہے کیونکہ اللہ کے حکموں سے انکار کرتے اور نبیوں کو ناحق قتل کرتے تھے یہ ان کی حالت اس لئے ہوئی کہ ابتدا میں شریعت کی بے فرمانی کرتے اور حد سے بڑھتے تھے حتی کہ نوبت بایں جا رسید
ہاں یہ ٹھیک ہے یہ سب یکساں بھی نہیں ان کتاب والوں میں سے بعض لوگ سیدھی راہ پر بھی ہیں جو سجدہ کرتے ہوئے اللہ کی آیتیں دن رات پڑھتے ہیں اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر کامل یقین رکھتے ہیں اور نیک کام بتلاتے ہیں اور برے کا موں سے روکتے ہیں اور نیک کاموں کو تو ایسے خوش ہو کر کرتے ہیں کہ گو یا ان میں دوڑتے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ ہے کہ وہ عام حالت میں نیک ہیں اور اپنے کئے پر مغرور نہیں ہوتے
شان نزول (لَیْسُوْا سَوَآئً) عبداللہ بن سلام وغیرہ کے مسلمان ہونے پر یہودیوں نے طعن کیا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ شریر شریر لوگ ہوتے ہیں کوئی شریف نہیں ہے اگر شریف ہوتے تو اپنے باپ دادا کے طریق کو کیوں چھوڑتے اس قصہ کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی۔ معالم۔ راقم کہتا ہے باپ دادا کے طریق کی محبت اکثر دفعہ عوام کو باعث گمراہی ہوتی ہے جس کا بارہا تجربہ ہوچکا ہے۔ مسلمان بھی اسی بلا میں پھنسے ہوئے ہیں۔ اَللّٰھُمَّ اھْدِ قَوْمِیْ فَاِنَّھُمُ لَایَعْلَمُوْنَ
یہی وجہ ہے اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کی قبولیت ہے اور آئندہ کو عام مژدہ ہے کہ جو نیکی کا کام کریں گے ان کی بے قدری نہ کی جا وے گی کیونکہ اللہ پرہیزگاروں کو خوب جانتا ہے ان نیک نیتی کا ان کو بدلہ دیگا اور جو لوگ اس کے حکموں سے منکر ہیں وہ بہت ہی بری حالت میں ہوں گے ان کے مال اولاد اللہ ہاں ان کو کچھ کام نہ آویں گے۔ یہی لوگ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے
دنیا میں جو کچھ بغرض اشاعت مذہب خرچ کرتے ہیں کہ کسی طرح سے لوگ ان کے دام تزویر میں پھنسیں یہ نہ سمجھیں کہ اس کا ان کو ثواب ہوگا بلکہ وہ پالے والی بائو کی طرح ہے جو ظالموں کے کھیت پر پہنچ کر اس کو ضائع کرتی ہے اسی طرح ان کے چندے ہیں جو لوگوں کے گمراہ کرنے میں خرچتے ہیں باقی اعمال کو جو کبھی نیت خالص سے کئے ہوں ضائع کردیتے ہیں اللہ تو ان پر کسی طرح ظلم نہیں کرتا لیکن یہ لوگ خود اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا غضب لیتے ہیں
شان نزول :۔ (مثل ماینفقون) اہل کتاب تو ہمیشہ اس فکر میں تھے کہ کسی طرح مسلمانوں کو پھسلاویں اس تدبیر میں سینکڑوں ہزاروں روپیہ بھی خرچ کرتے جیسا کہ آج کل پادری لوگ کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے خرچ اور چندہ کے متعلق بیان فرماتا ہے (معالم بتفصیل منہ)
اس تشبیہہ میں وقت ہے یعنی فاعل کو فاعل سے تشبیہہ دی ہے یا مفعول کو مفعول سے۔ اکثر بزرگوں کی تفسیر اور تراجم سے معلوم ہوتا ہے کہ مفعول کو فاعل سے تشبیہہ ہے کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ ان کے کفر و شرک کی وجہ سے ان کے نفقات ضائع ہیں۔ میں نے اس میں دقت سمجھی ہے اس لئے نفقات کو ہالکات نہیں بتایا بلکہ مہلکات بتایا ہے۔ اس کے مقابل میں مشبہ بہ رنج ہے جو مہلک ہے۔ فافھم منہ |
آل عمران |
111 |
|
آل عمران |
112 |
|
آل عمران |
113 |
|
آل عمران |
114 |
|
آل عمران |
115 |
|
آل عمران |
116 |
|
آل عمران |
117 |
|
آل عمران |
118 |
(118۔120)۔ انسان کی گمراہی کا سبب بسا اوقات بد صحبت بھی ہوتی ہے اس لئے تم کو ہدائت کی جاتی ہے کہ مسلمانو ! اپنی قوم کے سوا غیر قوموں کو راز دار دوست مت بنانا وہ تمہیں نقصان پہنچانے میں کمی نہیں کرتے تمہارے رنج سے خوش ہوتے ہیں تمہاری عداوت ان کے مونہوں سے کئی دفعہ ظاہر ہوچکی ہے اور ابھی تو جو کچھ تمہارے متعلق ان کے دلوں میں خلاف وشقاق مخفی ہے بہت بڑا ہے
شان نزول :۔ (یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَاتَتَّخِذُوْا) بعض مسلمان بوجہ قرابت اور صداقت یہودیوں سے دوستی رکھتے تھے ان کے روکنے کو یہ آیت نازل ہوئی۔ معالم
ہم نے تمہارے سمجھنے کیلئے نشانات بتلائے ہیں اگر تم سمجھدار ہو تو سمجھ لو دیکھو تو کیا بات ہے کہ تم تو انہیں چاہتے ہو وہ تم کو نہیں چاہتے اور تم سب کتابوں تورات انجیل وغیرہ کو مانتے ہو اور وہ دل سے سب کو نہیں مانتے بلکہ الٹے مسخری کرتے ہیں اور جب کبھی تم سے ملتے ہیں تو براہ مخول کہتے ہیں کہ ہم بھی قرآن کو مانتے ہیں اور جب تم سے علیحدہ ہوتے ہیں تو تمہارے حسد میں اپنی انگلیاں چباتے ہیں کہ ہائے ان کی دن دگنی ترقی کیوں ہو رہی ہے تو بھی ان شریروں کی پرواہ نہ کر اور کہہ دے کہ اپنے غصے میں مر رہو اللہ تمہارے دلوں کی باتوں کو بھی جانتا ہے خوب ہی سزا دے گا ان کی شرارت تو اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ اگر تم کو بھلائی پہنچے تو رنجیدہ ہوتے ہیں اور اگر تم کو تکلیف ہو تو اس سے خوش ہوتے ہیں کہ اچھا ہوا ان مسلمانوں کی ذلت ہوئی اگر تم ہوشیار رہو گے اور تکلیف کے وقت صبر کرتے اور حدود شرعی کے تجاوز سے بچتے رہو گے تو ان کی فریب بازیاں تم کو کچھ بھی ضرر نہ دیں گی۔ یقینا اللہ انکے کاموں کو گھیرے ہوئے ہے ہمیشہ انکے حیلے اور فریب تم سے دفع کرتا رہے گا |
آل عمران |
119 |
|
آل عمران |
120 |
|
آل عمران |
121 |
(121۔129)۔ اور بطور نظیر اس وقت کو یاد کر اور ان کو سنا کہ دیکھو کس طرح اللہ نے کفار کے مکر تم سے دفع کیے تھے جب تو اپنے گھر والوں سے نکل کر مومنوں کو لڑائی کی جگہ بٹھا تا تھا اور کفار بھی فوجیں جرار لے کر تمہارے مارنے اور تباہ کرنے کو آئے تھے اور بڑے دعووں سے کہتے تھے کہ کسی مسلمان کو زندہ نہیں چھوڑیں گے اور جو کچھ وہ کہتے یا کرتے تھے۔ اللہ اس کو سنتا اور جانتا تھا اور اس وقت جبکہ اپنی جماعت کی قلت اور مخالفوں کی کثرت دیکھ کر تم میں سے دو قبیلوں نے پھسلنا چاہا کہ چلو نبی کو چھوڑ چلیں اور اپنی جان بچائیں مگر چونکہ اللہ ان کے اخلاص سابق کی وجہ سے ان کا والی تھا ان کے حال پر خاص نظر عنائت تھی اس لئے اس نے ان کو تھام لیا آخر کار انہوں نے اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کیا اور اصل میں مومنوں کو چاہئے کہ اللہ تعالیٰ پر ہی بھروسہ کیا کریں تاکہ اپنی بہبودی کو پاویں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ضائع نہیں کیا کرتا
شان نزول :۔ (وَاِذْ غَدَوْتَ) جنگ احد کے متعلق جو تیسرے سال ہوئی تھی) یہ آیات نازل ہوئیں۔ معالم
شان نزول :۔ (اِذْھَمَّتْ طَائِٓفَتَانِ) جنگ احد میں مسلمان قریباً ایک ہزار لڑنے کو نکلے تھے جن میں سے تقریباً تین سو کے جو صرف ظاہری مسلمان اندرون منافق تھے میدان م |