Maktaba Wahhabi

آیت نمبرترجمہسورہ نام
1 یعنی میں اللہ تعالیٰ کے ہر نام سے ابتدا کرتا ہوں کیونکہ لفظ ” اسم“ مفرد اور مضاف ہے جو تمام اسمائے حسنی کو شامل ہے۔ ﴿اللّٰہ﴾ وہ ذات ہے جو بندگی کے قابل اور معبود ہے، وہ اکیلا ہی عبادت کا مستحق ہے کیونکہ وہ الوہیت کی صفات سے متصف ہے اور وہ صفات کمال ہیں۔ ﴿الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ﴾ دو نام ہیں جو اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ بے پایاں اور عظیم رحمت کا مالک ہے۔ اس کی رحمت ہر چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے اور ہر زندہ چیز کے لئے عام ہے اور اللہ تعالیٰ نے اصحاب تقویٰ اور اپنے انبیاء و رسل کے پیروکاروں کے لئے اس رحمت کو لازم کردیا ہے۔ پس یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے رحمت مطلقہ ہے اور ان کے علاوہ دیگر لوگوں کے لیے اس کی رحمت میں سے کچھ حصہ ہے۔ معلوم ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات اور احکام صفات پر ایمان لانا ایمانیات کے ان قواعد میں شمار ہوتا ہے جن پر تمام سلف اور ائمہ امت متفق ہیں، مثلاً وہ ایمان رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ رحمٰن ہے، رحیم ہے اور رحمت کا مالک ہے جس سے وہ متصف ہے اور اس کا تعلق ان لوگوں سے ہے جن پر رحم کیا جاتا ہے۔ پس تمام نعمتیں اللہ تعالیٰ کی رحمت کے آثار ہیں اور یہی اصول تمام اسمائے حسنیٰ میں جاری ہے جیسے (الْعَلِيمُ) کے بارے میں کہا جائے گا کہ اللہ تعالیٰ علیم اور صاحب علم ہےاور اس علم کے ذریعے سے ہر چیز کو جانتا ہے۔ وہ (قَدِیْر) یعنی صاحب قدرت ہے، ہر چیز پر قادر ہے۔ الفاتحة
2 ﴿الْحَمْدُ لِلَّـهِ﴾ یہ اللہ تعالیٰ کی صفات کمال اور اس کے ان افعال کی ثنا ہے جو فضل و عدل کے درمیان دائر ہیں۔ پس ہر پہلو سے کامل حمد کا مالک وہی ہے۔ ﴿رَبِّ الْعَالَمِينَ﴾ ” جہانوں کا پروردگار ہے۔“ (رَبِّ) وہ ہستی ہے جو تمام جہانوں کی مربی ہے۔ (اَلْعَالَمِينَ) سے مراد اللہ تعالیٰ کے سوا تمام مخلوق ہے۔ اس نے ان کو پیدا کیا، ان کے لئے ان کی زندگی کا سروسامان مہیا کیا اور پھر انہیں اپنی ان عظیم نعمتوں سے نوازا کہ اگر وہ نہ ہوتیں تو ان کے لئے زندہ رہنا ممکن نہ ہوتا۔ پس مخلوق کے پاس جو بھی نعمت ہے وہ اللہ تعالیٰ ہی کی عطا کردہ ہے۔ مخلوق کے لئے اللہ تعالیٰ کی تربیت (پرورش کرنے) کی دو قسمیں ہیں۔ (١) تربیت عامہ (2) تربیت خاصہ۔ تربیت عامہ سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوق کو پیدا کیا، ان کو رزق بہم پہنچایا اور ان مفادات و مصالح کی طرف ان کی راہ نمائی کی جن میں ان کی دنیاوی زندگی کی بقا ہے۔ تربیت خاصہ وہ تربیت ہے جو اس کے اولیا کے لئے مخصوص ہے پس وہ ایمان کے ذریعے سے ان کی تربیت کرتا ہے، انہیں ایمان کی توفیق سے نوازتا اور ان کی تکمیل کرتا ہے وہ ان سے ان تمام امور کو دور کرتا ہے جو راہ حق پر چلنے سے انہیں باز رکھتے ہیں اور ان تمام رکاوٹوں کو ہٹاتا ہے جو ان کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان حائل ہوتی ہیں۔ تربیت خاصہ کی حقیقت یہ ہے کہ اس سے ہر بھلائی کی توفیق ملتی اور ہر برائی سے حفاظت نصیب ہوتی ہے۔ شاید یہی معنی انبیائے کرام علیہ السلام کی دعاؤں کا سرنہاں ہے کہ ان میں اکثر ” رب“ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے کیونکہ انبیائے کرام کی فریادیں تمام کی تمام اللہ تعالیٰ کی ربوبیت خاصہ کے تحت آتی ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿رَبُّ العٰلَمِیْنَ﴾ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے جس نے تمام مخلوق کو تخلیق کیا ہے۔ وہ اکیلا ہی ان کی تدبیر کرتا ہے اور اسے کمال بے نیازی حاصل ہے اور تمام عالم ہر پہلو اور ہر اعتبار سے اس کا محتاج ہے۔ الفاتحة
3 ﴿الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ﴾ دو نام ہیں جو اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ بے پایاں اور عظیم رحمت کا مالک ہے۔ اس کی رحمت ہر چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے اور ہر زندہ چیز کے لئے عام ہے اور اللہ تعالیٰ نے اصحاب تقویٰ اور اپنے انبیاء و رسل کے پیروکاروں کے لئے اس رحمت کو لازم کردیا ہے۔ پس یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے رحمت مطلقہ ہے اور ان کے علاوہ دیگر لوگوں کے لیے اس کی رحمت میں سے کچھ حصہ ہے۔ معلوم ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات اور احکام صفات پر ایمان لانا ایمانیات کے ان قواعد میں شمار ہوتا ہے جن پر تمام سلف اور ائمہ امت متفق ہیں، مثلاً وہ ایمان رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ رحمٰن ہے، رحیم ہے اور رحمت کا مالک ہے جس سے وہ متصف ہے اور اس کا تعلق ان لوگوں سے ہے جن پر رحم کیا جاتا ہے۔ پس تمام نعمتیں اللہ تعالیٰ کی رحمت کے آثار ہیں اور یہی اصول تمام اسمائے حسنیٰ میں جاری ہے جیسے (الْعَلِيمُ) کے بارے میں کہا جائے گا کہ اللہ تعالیٰ علیم اور صاحب علم ہےاور اس علم کے ذریعے سے ہر چیز کو جانتا ہے۔ وہ (قَدِیْر) یعنی صاحب قدرت ہے، ہر چیز پر قادر ہے۔ الفاتحة
4 ﴿مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ﴾ ” وہ جزا کے دن کا مالک ہے“ (اَلْمَالِک) وہ ہستی ہے جو ملک کی صفت سے متصف ہو۔ جس کے آثار یہ ہیں کہ وہ ہستی حکم دیتی ہے اور روکتی ہے، نیکی پر ثواب عطا کرتی ہے اور گناہوں پر سزا دیتی ہے، وہ اپنی مملوکات میں ہر قسم کا تصرف کرتی ہے اور اس کی ملکیت کی اقسام میں سے ایک جزا کا دن بھی ہے اور وہ قیامت کا دن ہے۔ جس دن لوگوں کو ان کے اچھے یا برے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا۔ اس لئے اس روز اللہ تعالیٰ کی ملکیت کاملہ اور اس کا عدل اور حکمت مخلوق پر بالکل ظاہر ہوجائے گی اور یہ بھی واضح ہوجائے گا کہ مخلوق کے اختیارات میں کچھ نہیں ہے، حتی کہ اس دن بادشاہ اور رعایا، غلام اور آزاد سب برابر ہوں گے۔ اس روز تمام مخلوق اس کی عظمت و عزت کے سامنے سرنگوں اور سرافگندہ ہوگی۔ تمام لوگ اس کی جزا و سزا کے فیصلے کے منتظر ہوں گے، اس کے ثواب کے امیدوار اور اس کی سزا سے خائف ہوں گے۔ اسی بنا پر اس نے خاص طور پر اس دن کی ملکیت کا ذکر کیا ہے ورنہ قیامت کے دن اور دیگر دنوں کا وہی مالک ہے۔ الفاتحة
5 ﴿إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ﴾ ” ہم تیری ہی عبادت کرتے اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں“ یعنی تجھ اکیلے ہی کو ہم عبادت اور استعانت کے لئے مخصوص کرتے ہیں کیونکہ (نحوی قاعدے کے مطابق) معمول کا اپنے عامل سے پہلے آنا حصر کے معنی پیدا کرتا ہے اور حصر سے مراد صرف مذکور کے لئے حکم کا اثبات اور اس کے سوا کسی اور کے لئے اس حکم کی نفی کرنا ہے۔ گویا بندہ کہتا ہے : ” ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تیرے سوا کسی کی عبادت نہیں کرتے اور صرف تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں اور تیرے سوا کسی سے مدد کے طلب گار نہیں ہوتے۔ “ عبادت کو استعانت پر مقدم کرنا عام کو خاص پر مقدم کرنے کی نوع میں سے ہے نیز اللہ تعالیٰ کے حق کو گندے کے حق کو بندے کے حق پر مقدم کرنے کا اہتمام ہے۔” عبادت“ ایک ایسا اسم ہے جو ان تمام ظاہری اور باطنی اعمال و اقوال کا جامع ہے جن کو اللہ پسند کرتا ہے اور جن سے وہ راضی ہوتا ہے۔ (اِسْتِعَانَۃ) کا مطلب، جلب منفعت اور دفع ضرر کے حصول میں پورے وثوق کے ساتھ اللہ تعالیٰ پر اعتماد اور بھروسہ کرنا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کے قیام، منافع کے حصول اور نقصان کے ازالے میں صرف اسی سے مدد کا طلبگار ہونا ابدی سعادت کا وسیلہ اور تمام برائیوں سے نجات کا ذریعہ ہے۔ پس نجات کا راستہ یہی ہے کہ عبادت بھی صرف ایک اللہ کی کی جائے اور مدد بھی صرف اسی سے مانگی جائے۔ اور عبادت اس وقت تک عبادت نہیں جب تک کہ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حاصل نہ کیا گیا ہو اور اس سے مقصود اللہ تعالیٰ کی رضا نہ ہو۔ ان دو امور کے وجود سے عبادت متحقق ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ” استعانت“ کو ” عبادت“ کے بعد ذکر کیا ہے حالانکہ استعانت عبادت میں داخل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بندہ اپنی تمام عبادات میں اللہ تعالیٰ کی مدد کا محتاج ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی مدد نہ فرمائے تو بندہ اللہ تعالیٰ کے او امر پر عمل اور اس کی منہیات سے اجتناب نہیں کرسکتا۔ الفاتحة
6 پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ﴾ یعنی سیدھے راستے کی طرف ہماری راہ نمائی فرما اور سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق سے ہمیں نواز۔ (صراط مستقیم) سے مراد وہ واضح راستہ ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کی جنت تک پہنچاتا ہے۔ یہ معرفت حق اور اس پر عمل پیرا ہونے کا نام ہے۔ پس اس راستے کی طرف راہ نمائی فرما اور اس راستے میں ہمیں اپنی راہ نمائی سے نواز۔ صرف مستقیم کی طرف راہنمائی کا مطلب، دین اسلام کو اختیار کرنا اور اسلام کے سوا دیگر تمام ادیان کا ترک کردینا ہے اور صراط مستقیم میں راہنمائی سے نوازنے کے معنی یہ ہیں کہ تمام دینی معاملات میں علم و عمل کے اعتبار سے ہماری صحیح اور مکمل راہنمائی فرما، لہٰذا یہ دعا سب سے زیادہ جامع اور بندہ مومن کے لئے سب سے زیادہ فائدہ مند ہے۔ بنابریں انسان پر واجب ہے کہ وہ اپنی نماز کی ہر رکعت میں اس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ سے دعا کرے کیونکہ وہ اس کا ضرورت مند ہے۔ یہ صراط مستقیم نبیوں، صدیقوں، شہیدوں اور صالحین کا راستہ ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمتوں سے سرفراز فرمایا یہ ﴿الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ﴾ لوگوں کا راستہ نہیں جن پر غضب نازل ہوا، جنہوں نے حق کو پہچان کر بھی اسے ترک کردیا مثلاً یہود وغیرہ۔ اور نہ یہ ﴿الضَّالِّينَ ﴾ یعنی گمراہ لوگوں کا راستہ ہے جنہوں نے نصاریٰ کی مانند حق کو ترک کر کے جہالت اور گمراہی کو اختیار کیا۔ پس یہ سورت اپنے ایجاز و اختصار کے باوجود ایسے مضامین پر مشتمل ہے جو قرآن مجید کی کسی اور سورت میں نہیں پائے جاتے۔ سورۃ فاتحہ توحید کی اقسام ثلاثہ کو متضمن ہے۔ ١۔ توحید ربوبیت : اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿رَبِّ الْعَالَمِينَ﴾ سے ماخوذ ہے۔ 2۔ توحید الوہیت : یعنی صرف اللہ تعالیٰ ہی کو عبادت کا مستحق سمجھنا۔ لفظ ” اللہ“ اور اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ﴾ سے ماخوذ ہے۔ ٣۔ توحید اسماء و صفات : توحید اسماء و صفات سے مراد ہے کہ بغیر کسی تعطیل، تمثیل اور تشبیہ کے اللہ تعالیٰ کے لئے ان صفات کمال کا اثبات کرنا جن کو خود اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے لئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے لئے ثابت کیا ہے اور اس پر لفظ (الحمد) دلالت کرتا ہے۔ جیسا کہ گزشتہ صفحات میں اس کا ذکر گزر چکا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ﴾ اثبات نبوت کو متضمن ہے کیونکہ سیدھے راستے کی طرف راہنمائی نبوت و رسالت کے بغیر ناممکن ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ﴾ سے اعمال کی جزا و سزا ثابت ہوتی ہے نیز یہ جزا اور سزا عدل و انصاف سے ہوگی کیونکہ ” دین“ کے معنی ہیں عدل کے ساتھ بدلہ دینا۔ اور سورۃ فاتحہ تقدیر کے اثبات کو بھی متضمن ہے نیز اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ بندہ ہی درحقیقت فاعل ہے۔ قدر یہ اور جبر یہ کے نظریات کے برعکس، بلکہ ﴿اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ﴾ تمام اہل بدعت و ضلالت کی تردید کو متضمن ہے، کیونکہ صراط مستقیم سے مراد حق کی معرفت اور اس پر عمل پیرا ہونا ہے اور بدعتی اور گمراہ شخص ہمیشہ حق کا مخالف ہوتا ہے۔ ﴿إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ﴾اس بات کو متضمن ہے کہ دین کو اللہ کے لئے خالص رکھا جائے، چاہے اس کا تعلق عبادات سے ہو یا استغانت سے۔ فالحمد للّٰہ رب العالمین الفاتحة
7 الفاتحة
0 بسم اللہ کی تفسیر گزشتہ صفحات میں گزر چکی ہے۔ البقرة
1 بعض سورتوں کی ابتدا میں جو حروف مقطعات آئے ہیں ان کے بارے میں محتاط اور محفوظ مسلک یہ ہے کہ بغیر کسی شرعی دلیل کے ان کے معانی معلوم کرنے کے لئے تعرض نہ کیا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ عقیدہ بھی رکھا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے حروف مقطعات کو بے فائدہ نازل نہیں فرمایا بلکہ ان کے نازل کرنے میں کوئی حکمت پنہاں ہے جو ہمارے علم کی دسترس سے باہر ہے۔ البقرة
2 ﴿ذٰلِكَ الْكِتَابُ﴾ یعنی یہ کتاب عظیم ہی درحقیقت کتاب کہلانے کی مستحق ہے جو بہت بڑے علم اور واضح حق جیسے امور پر مشتمل ہے جو پہلے انبیاء کی کتابوں میں نہیں ہیں۔ ﴿لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ﴾ یہ ایک ایسی کتاب ہے کہ کسی بھی پہلو سے اس میں کوئی شک نہیں۔ اس کتاب عظیم کے بارے میں شک و شبہ کی نفی اس کی ضد کو مستلزم ہے، جبکہ شک و شبہ کی ضدیقین ہے۔ پس یہ کتاب ایسے علم یقینی پر مشتمل ہے جو شکوک و شبہات کو زائل کرنے والا ہے یہ ایک نہایت مفید قاعدہ ہے کہ نفی سے مقصود مدح ہے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ یہ اس کی ضد کو متضمن ہو اور وہ ہے کمال۔ کیونکہ نفی عدم محض ہوتی ہے اور عدم محض میں کوئی مدح نہیں ہے۔ جب یہ کتاب عظیم یقین پر مشتمل ہے اور ہدایت صرف یقین ہی کے ذریعے سے حاصل ہوتی ہے تو فرمایا : ﴿هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ﴾ ” متقیوں کے لئے ہدایت ہے۔“ (اَلْهُدٰي) وہ چیز ہے جس کے ذریعے سے گمراہی اور شبہات کی تاریکی میں راہ نمائی حاصل ہو اور جو فائدہ مند راستوں پر گامزن ہونے میں راہنمائی کرے اور اللہ تعالیٰ نے لفظ ﴿ هُدًى ﴾ استعمال کیا ہے اور اس میں معمول کو حذف کردیا گیا ہے اور یہ نہیں کہا کہ فلاں مصلحت اور فلاں چیز کی طرف راہنمائی (ہدایت) ہے۔ کیونکہ اس سے عموم مراد ہے اور اس کے معنی یہ ہیں کہ یہ کتاب دنیا و آخرت کے تمام مصالح کی طرف راہنمائی ہے، لہٰذا یہ تمام اصولی اور فروعی مسائل میں بندوں کی راہنما ہے، باطل میں سے حق کو اور ضعیف میں سے صحیح کو واضح کرتی ہے، نیز بندوں کے سامنے بیان کرتی ہے کہ دنیا و آخرت کے لئے فائدہ مند راستوں پر انہیں کیسے چلنا چاہئے۔ ایک دوسرے مقام پر ﴿هُدًي لِّلنَّاسِ﴾ (البقرہ : 2؍581) ” تمام لوگوں کے لئے ہدایت ہے“ فرما کر اس کو عام کردیا۔ اس مقام پر اور بعض دیگر مقامات پر فرمایا : ﴿هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ﴾ کیونکہ یہ فی نفسہ تمام لوگوں کے لئے ہدایت ہے، لیکن چونکہ بدبخت لوگ اس کی طرف توجہ نہیں کرتے اور اللہ تعالیٰ کی راہ نمائی قبول نہیں کرتے، اس لئے اس کے ذریعے سے ان پر حجت قائم ہوگئی ہے کہ انہوں نے اپنی بدبختی کے سبب سے اس ہدایت سے فائدہ نہیں اٹھایا۔ رہے متقی لوگ تو انہوں نے حصول ہدایت کے لئے سب سے بڑا سبب پیش کیا ہے اور وہ ہے تقویٰ اور تقویٰ کے معنی ہیں اللہ تعالیٰ کے اوامر کی اطاعت اور اس کی منہیات سے اجتناب کرتے ہوئے ایسے امور کو اختیار کرنا جو بندے کو اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور اس کے عذاب سے بچاتے ہیں۔ پس اہل تقویٰ نے اس کتاب کے ذریعے سے راہ پائی اور اس سے بے انتہا فائدہ اٹھایا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن تَتَّقُوا اللَّـهَ يَجْعَل لَّكُمْ فُرْقَانًا﴾ (الانفال ٨؍٩2) ” اے ایمان والو ! اگر تم اللہ سے ڈرو گے تو وہ تمہارے لئے ایک کسوٹی بہم پہنچا دے گا۔“ پس اصحاب تقویٰ ہی آیات قرآنیہ (احکام الٰہیہ) اور آیات کونیہ (قدرت کی نشانیوں) سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اس لئے کہ ہدایت کی دو قسمیں ہیں : (١) ہدایت بیان (2) ہدایت توفیق۔ متقی لوگ ہدایت کی دونوں اقسام سے بہرہ مند ہوتے ہیں ان کے علاوہ دیگر لوگ ہدایت توفیق سے محروم رہتے ہیں اور ہدایت بیان، توفیق عمل کی ہدایت کے بغیر، حقیقی اور کامل ہدایت نہیں۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اصحاب تقویٰ کے عقائد، اعمال باطنہ اور اعمال ظاہرہ کا بیان فرمایا ہے، کیونکہ تقویٰ ان امور کو متضمن ہے۔ البقرة
3 فرمایا : ﴿الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ﴾ ” وہ لوگ جو غیب کی باتوں پر یقین رکھتے ہیں“ حقیقتِ ایمان ان امور کی کامل تصدیق کا نام ہے جن کی خبر انبیاء و رسل نے دی ہے یہ تصدیق جو ارح کی اطاعت کو متضمن ہے۔ اشیاء کے حسی مشاہدہ سے ایمان کا کوئی تعلق نہیں کیونکہ اس کے ذریعے سے مسلمان اور کافر کے درمیان امتیاز نہیں کیا جاسکتا۔ ایمان کا تعلق تو اس غیب سے ہے جسے ہم دیکھ سکتے ہیں نہ اس کا مشاہدہ ہی کرسکتے ہیں۔ محض اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے خبر دینے سے ہم اس پر ایمان لاتے ہیں۔ یہی وہ ایمان ہے جس کے ذریعے سے مسلمان اور کافر کے درمیان امتیاز کیا جاتا ہے کیونکہ یہ ایمان مجرد اللہ اور اس کے انبیاء و مرسلین کی تصدیق ہے۔ پس مومن وہ ہے جو ہر اس چیز پر ایمان لاتا ہے جس کی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں نے خبر دی ہے خواہ اس نے اس چیز کا مشاہدہ کیا ہو یا نہ کیا ہو خواہ اس نے اسے سمجھا ہو یا اس کی عقل و فہم کی رسائی وہاں تک نہ ہوسکی ہے۔ زنا دقہ اور امور غیب کی تکذیب کرنے والوں کا معاملہ اس کے برعکس ہے کیونکہ ان کی عقل ان امور کو سمجھنے سے قاصر رہی اور وہ ان امور تک نہ پہنچ سکے بنا بریں انہوں نے ان امور کو جھٹلا دیا جن کا احاطہ ان کا علم نہ کرسکا۔ پس ان کی عقل فاسد ہوگئی اور ان کا فہم خرابی کا شکار ہوگیا اور امور غیب کی تصدیق کرنے والے اہل ایمان کی عقل اور بڑھ گئی جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی ہدایت کو راہنما بنا لیا۔ ایمان بالغیب سے مراد ان تمام امور غیب پر ایمان لانا ہے جن کا تعلق ماضی، مستقبل، احول آخرت، اللہ تعالیٰ کی صفات اور انکی کیفیات سے ہے اور جن کی خبر اللہ تعالیٰ اور اس کے انبیاء و مرسلین نے دی ہے۔ پس اہل ایمان نہایت یقین کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی صفات اور ان کے وجود پر ایمان رکھتے ہیں اگرچہ وہ ان کی کیفیت کو سمجھنے سے قاصر رہیں۔ ﴿وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ﴾ ” اور وہ نماز کو قائم کرتے ہیں۔“ یہ نہیں کہا کہ وہ نماز کا فعل بجا لاتے ہیں یا وہ نماز کو ادا کرتے ہیں کیونکہ ظاہری صورت وہیئت کے ساتھ نماز پڑھنا ہی کافی نہیں بلکہ اقامت صلوٰۃ یہ ہے کہ نماز کو جہاں ظاہری شکل و صورت، اس کے تمام ارکان کی کامل ادائیگی اور اس کی شرائط و واجبات کے ساتھ قائم کیا جائے، وہاں اس کو باطنی اعتبار سے اس کی روح کے ساتھ، یعنی اس کے اندر حضور قلب اور اپنے قول و فعل کا میں کامل تدبر کے ساتھ قائم کرنا بھی ضروری ہے۔ یہی وہ نماز ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ﴾ (العنکبوت 29؍35) ” بے شک نماز فحش کاموں اور برائیوں سے روکتی ہے۔“ اور یہی وہ نماز ہے جس پر ثواب مرتب ہوتا ہے۔ پس بندہ مومن کو اس کی صرف اسی نماز کا ثواب ملتا ہے جسے وہ سمجھ کر ادا کرتا ہے اور نماز میں فرائض اور نوافل سب داخل ہیں۔ ﴿وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ﴾ ” اور ان میں سے جو ہم نے ان کو دیا، وہ خرچ کرتے ہیں“ اس میں تمام نفقات واجبہ مثلاً زکوٰۃ، بیویوں کا نان و نفقہ، قریبی رشتہ داروں اور اپنے غلاموں پر خرچ کرنا بھی شامل ہے اور بھلائی کے تمام کاموں میں نفقات مستحبہ پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ جن لوگوں پر خرچ کیا جانا چاہئے ان کا یہاں ذکر نہیں کیا کیونکہ اس کے اسباب اور ایسے لوگوں کی اقسام بہت زیادہ ہیں نیز خرچ جہاں کہیں بھی کیا جائے تقرب الٰہی کا ذریعہ ہوگا۔ ﴿ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ ﴾ میں (من) تبعیض کے لئے ہے اور یہ بات کی طرف توجہ دلانے کے لئے ہے کہ ان کے رزق اور اموال میں سے تھوڑا سا حصہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنا مقصود ہے جس کا خرچ کرنا ان کے لئے نقصان دہ اور گراں نہ ہو بلکہ اس اتفاق سے خود انہیں اور ان کے بھائیوں کو فائدہ پہنچے۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿ رَزَقْنَاهُمْ ﴾میں اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ ہے کہ یہ مال و متاع جو تمہارے قبضے میں ہے تمہیں تمہاری اپنی قوت اور ملکیت کے بل بوتے پر حاصل نہیں ہوا بلکہ یہ تو اللہ تعالیٰ کا رزق ہے۔ اسی نے تم کو عطا کیا ہے اور اسی نے تم کو اس نعمت سے نوازا ہے۔ پس جس طرح اس نے تمہیں اور بہت سی نعمتوں سے نوازا ہے اور اس نے تمہیں اپنے بہت سے بندوں پر فضیلت عطا کی، تو تم بھی اللہ کا شکر ادا کرو اور ان نعمتوں کا کچھ حصہ اپنے مفلس اور نادار بھائیوں پر خرچ کر کے ان کی مدد کرو۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اکثر مقامات پر نماز اور زکوٰۃ کو اکٹھا ذکر کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نماز معبود کے لئے اخلاص کو متضمن ہے اور زکوٰۃ اور انفاق فی سبیل اللہ اس کے بندوں کے ساتھ حسن سلوک کو متضمن ہے۔ پس بندہ مومن کی سعادت کا عنوان یہ ہے کہ اس کا اخلاص معبود کے لئے ہو اور اس کی تمام تر کاوش مخلوق کو نفع پہنچانے کے لئے ہو، جیسے بندے کی بدبختی اور شقاوت کا عنوان یہ ہے کہ وہ ان دونوں چیزوں سے محروم ہو اس کے پاس اخلاص ہو نہ حسن سلوک۔ البقرة
4 ﴿وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ﴾” اور وہ لوگ جو یقین رکھتے ہیں اس پر جو آپ کی طرف اتارا گیا“ اس سے مراد قرآن اور سنت ہے اللہ تعالیٰ نے ایک اور مقام پر فرمایا : ﴿وَأَنزَلَ اللَّـهُ عَلَيْكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ﴾ (النساء :113؍3) ” اور اللہ تعالیٰ نے آپ پر کتاب اور حکمت (یعنی سنت) نازل کی۔“ پس اصحاب تقویٰ ان تمام چیزوں پر ایمان رکھتے ہیں جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسم) لے کر مبعوث ہوئے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ وحی میں تفریق نہیں کرتے کہ اس کے کسی حصے پر تو ایمان لے آئیں اور کسی حصے پر اپنے انکار یا ایسی تاویل کے ذریعے سے جو اللہ اور اس کے رسول کی مراد نہ ہو، ایمان نہ لائیں۔ جیسا کہ اہل بدعت کا وتیرہ ہے جو قرآن و سنت کی ان نصوص کی تاویل کرتے ہیں جو ان کے قول کے خلاف ہوتی ہیں جو کہ درحقیقت ان نصوص کے معانی کی تصدیق نہیں ہے۔ وہ اگرچہ ان نصوص کے ظاہری الفاظ کی تصدیق کرتے ہیں مگر ان پر حقیقی طور پر ایمان نہیں لاتے۔ ﴿وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ﴾” اور اس پر جو آپ سے پہلے اتارا گیا“ یہ آیت کریمہ گزشتہ تمام کتابوں پر ایمان رکھنے پر مشتمل ہے اور گزشتہ کتابوں پر ایمان لانا اس بات کو متضمن ہے کہ انبیائے سابقین پر ایمان لایا جائے۔ نیز ان حقائق پر ایمان لایا جائے جن پر یہ الہامی کتابیں خاص طور پر تورات، انجیل اور زبور مشتمل ہیں۔ یہ اہل ایمان کی خصوصیت ہے کہ وہ تمام کتب سماویہ اور تمام انبیاء و مرسلین پر ایمان لاتے ہیں ان میں سے کسی کے درمیان تفریق نہیں کرتے۔ ﴿وَبِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ﴾” اور وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔“ آخرت ان تمام امور کا نام ہے جو مرنے کے بعد انسان کو پیش آئیں گے۔ عمومی ایمان کے ذکر کے بعد آخرت پر ایمان کو خاص طور پر ذکر کیا ہے، کیونکہ آخرت پر ایمان لانا ارکان ایمان میں سے ایک اہم رکن ہے، نیز آخرت پر ایمان رغبت، خوف اور اعمال صالحہ کا باعث ہے۔ اور (یقین) ایسے علم کامل کو کہتے ہیں جس میں ادنیٰ سا بھی شک نہ ہو۔ یقین عمل کا موجب ہوتا ہے۔ البقرة
5 ﴿أُولَـٰئِكَ﴾یعنی وہ لوگ جو ان صفات حمیدہ سے متصف ہیں۔ ﴿ عَلَىٰ هُدًى مِّن رَّبِّهِمْ﴾ اپنے رب کی طرف سے عظیم ہدایت پر ہیں، کیونکہ یہاں﴿هُدًى﴾ کا نکرہ استعمال ہونا اس کی تعظیم کی بنا پر ہے اور کون سی ہدایت ایسی ہے جو صفات مذکورہ سے عظیم تر ہو جو صحیح عقیدے اور درست اعمال کو متضمن ہیں؟ ہدایت تو درحقیقت وہی ہے جس پر اہل ایمان عمل پیرا ہیں اس کے علاوہ دیگر تمام مخالف راستے گمراہی کے سوا کچھ نہیں۔ اس مقام پر (علی) کا صلہ استعمال کیا گیا ہے جو بلندی اور غلبے پر دلالت کرتا ہے اور ” ضلالت“ کا ذکر کرتے ہوئے (فی) کا صلہ استعمال کیا گیا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں ﴿وَإِنَّا أَوْ إِيَّاكُمْ لَعَلَىٰ هُدًى أَوْ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ﴾ (سبا :37؍37) ” ہم یا تم یا تو سیدھے راستے پر ہیں یا صریح گمراہی میں“ کیونکہ صاحب ہدایت بر بنائے ہدایت بلند اور غالب ہوتا ہے اور صاحب ضلالت اپنی گمراہی میں ڈوبا ہوا اور نہایت حقیر ہے۔ ﴿وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ﴾” اور یہی لوگ ہیں فلاح پانے والے“ (فلاح) اپنے مطلوب کے حصول میں کامیابی اور خوف سے نجات کا نام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فلاح کو اہل ایمان میں محصور اور محدود کردیا کیونکہ اہل ایمان کے راستے پر گامزن ہوئے بغیر فلاح کی منزل کو نہیں پایا جاسکتا۔ اس راستے کے سوا دیگر راستے بدبختی، ہلاکت اور خسارے کے راستے ہیں جو اپنے چلنے والوں کو ہلاکت کے گڑھوں میں جا گراتے ہیں۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے جہاں اہل ایمان کی حقیقی صفات بیان فرمائی ہیں وہاں رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عناد رکھنے والے کھلے کافروں کی صفات کا ذکر بھی کردیا۔ البقرة
6 اللہ تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ جنہوں نے کفر کا رویہ اختیار کیا یعنی کفر کی صفات سے متصف ہوئے اور کفر کے رنگ میں اس طرح رنگ گئے کہ کفر ان کا وصف لازم بن گیا جس سے کوئی ہٹانے والا ان کو ہٹا نہیں سکتا اور نہ کوئی نصیحت ان پر کارگر ہوسکتی ہے۔ وہ اپنے کفر میں راسخ اور اس پر جمے ہوئے ہیں، لہٰذا اس کے لئے برابر ہے تم انہیں ڈراؤ یا نہ ڈراؤ وہ ہرگز ایمان نہیں لائیں گے۔ حقیقت میں کفر اس تعلیم یا اس کے بعض حصے کا انکار کرنے کا نام ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لے کر آئے۔ پس ان کفار کو کوئی دعوت فائدہ نہیں دیتی البتہ اس دعوت سے ان پر حجت ضرور قائم ہوجاتی ہے۔ اس آیت میں گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس امید کو ختم کردیا گیا جو آپ کو ان کے ایمان لانے کی تھی اور فرما دیا گیا کہ آپ ان کے ایمان نہ لانے پر غمزدہ نہ ہوں اور ان کفار کے ایمان نہ لانے پر افسوس اور حسرت کے مارے آپ ہلکان نہ ہوں۔ پھر ان موانع کا ذکر کیا ہے جو ان کے ایمان لانے سے مانع ہیں۔ البقرة
7 ﴿خَتَمَ اللَّـهُ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ وَعَلَىٰ سَمْعِهِمْ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر مہر لگا دی ہے، لہٰذا ایمان ان میں داخل نہیں ہوسکتا۔ پس وہ کسی فائدہ مند چیز کو یاد کرسکتے ہیں نہ کسی فائدہ مند چیز کو سن سکتے ہیں۔ ﴿وَعَلَىٰ أَبْصَارِهِمْ ﴾ یعنی ان کی آنکھوں کے سامنے پردہ ہے جو انہیں فائدہ مند چیزوں کو دیکھنے سے روکتا ہے۔ یہی وہ ذرائع ہیں جو علم اور بھلائی کے حصول میں استعمال ہوتے ہیں۔ ان ذرائع کو ان پر مسدود کردیا گیا ہے، لہٰذا ان سے کسی قسم کی توقع نہیں کی جاسکتی اور نہ ان سے کسی بھلائی کی امید کی جاسکتی ہے۔ ان پر ایمان کے دروازے صرف اس لئے بند کردیئے گئے کہ انہوں نے حق کے عیاں ہوجانے کے بعد بھی کفر، انکار اور عناد کا رویہ اختیار کئے رکھا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَنُقَلِّبُ أَفْئِدَتَهُمْ وَأَبْصَارَهُمْ كَمَا لَمْ يُؤْمِنُوا بِهِ أَوَّلَ مَرَّةٍ﴾ (الانعام :110؍6) ” اور ہم ان کے دلوں اور آنکھوں کو الٹ دیں گے وہ اس قرآن پر اس طرح ایمان نہ لائیں گے جس طرح وہ پہلی بار ایمان نے لائے۔ “ یہ دنیاوی عذاب ہے۔ پھر آخرت کے عذاب کا ذکر کیا اور فرمایا : ﴿وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ﴾ ” اور ان کے لئے بہت بڑا عذاب ہے“ یہ جہنم کا عذاب اور اللہ جبار کی دائمی ناراضی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان منافقین کا ذکر فرمایا جو ظاہری طور پر مسلمان ہیں مگر ان کا باطن کفر سے لبریز ہے۔ البقرة
8 معلوم ہونا چاہئے کہ نفاق کا اظہار کرنے اور باطن میں برائی چھپانے کا نام ہے۔ اس تعریف میں نفاق اعتقادی اور نفاق عملی دونوں شامل ہیں۔ جیسے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی اپنے اس فرمان میں اس کا ذکر فرمایا : " آيَةُ المُنَافِقِ ثَلاَثٌ: إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ، وَإِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ " [صحيح بخاري، الإيمان، باب علامات المنافق، حديث: 33] ” منافق کی تین نشانیاں ہیں : جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے، جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو اس میں خیانت کرے۔“ ایک اور روایت میں آتا ہے وَإِذَا خَاصَمَ فَجَرَ [حوالہ سابق حدیث: 34]” جب جھگڑا کرے تو گالی گلوچ کرے۔ “ رہا نفاق اعتقادی جو دائرہ اسلام سے خاج کرنے والا ہے۔ تو یہ نفاق ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے منافقین کو اس سورت میں اور بعض دیگر سورتوں میں متصف فرمایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت سے پہلے اور ہجرت کے بعد تک نفاق کا وجود نہ تھا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے غزوہ بدر میں اہل ایمان کو غلبے اور فتح و نصرت سے سرفراز فرمایا۔ پس مدینہ میں رہنے والے وہ لوگ جنہوں نے اسلام قبول نہیں کیا تھا، ذلیل ٹھہرے۔ چنانچہ ان میں سے کچھ لوگوں نے خوف کی وجہ سے دھوکے کے ساتھ اپنا مسلمان ہونا ظاہر کیا تاکہ ان کا جان و مال محفوظ رہے۔ پس وہ مسلمانوں کے سامنے اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتے تھے درآں حالیکہ وہ مسلمان نہیں تھے۔ اہل ایمان پر اللہ تعالیٰ کا لطف و کرم تھا کہ اس نے ان منافقین کے احوال و اوصاف ان کے سامنے واضح کردیے جن کی بنا پر وہ پہچان لیے جاتے تھے تاکہ اہل ایمان ان سے دھوکہ نہ کھا سکیں نیز منافقین اپنے بہت سے فسق و فجور سے باز آجائیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿يَحْذَرُ الْمُنَافِقُونَ أَن تُنَزَّلَ عَلَيْهِمْ سُورَةٌ تُنَبِّئُهُم بِمَا فِي قُلُوبِهِمْ﴾ (التوبة: ٩؍٣٦) ” منافق ڈرتے ہیں کہ کہیں ان کے بارے میں کوئی ایسی سورت نہ نازل کردی جائے جو ان کے دل کی باتوں سے مسلمانوں کو آگاہ کر دے۔ “ پس اللہ تعالیٰ نے ان کے اصل نفاق کو بیان کیا اور فرمایا : ﴿وَمِنَ النَّاسِ مَن يَقُولُ آمَنَّا بِاللَّـهِ وَبِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَمَا هُم بِمُؤْمِنِينَ﴾ ” بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے اللہ پر اور آخرت کے دن پر، حالانکہ وہ ایمان لانے والے نہیں ہیں“ کیونکہ یہ لوگ اپنی زبان سے ایسی بات کا اظہار کرتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہوتی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ﴿ وَمَا هُم بِمُؤْمِنِينَ ﴾ کہہ کر انہیں جھوٹا قرار دیا۔ اس لئے کہ حقیقی ایمان وہ ہے جس پر دل اور زبان متفق ہوں، ان منافقین کا یہ اظہار ایمان تو اللہ تعالیٰ اور اہل ایمان کو دھوکہ دینا ہے۔ البقرة
9 (اَلْمُخَادَعَةُ) ” دھوکہ“ یہ ہے کہ دھوکہ دینے والا شخص جس کو دھوکہ دیتا ہے اس کے سامنے زبان سے جو کچھ ظاہر کرتا ہے اس کے خلاف اپنے دل م یں چھپاتا ہے تاکہ اس شخص سے اپنا مقصد حاصل کرسکے جسے وہ دھوکہ دے رہا ہے۔ پس منافقین نے اللہ تعالیٰ اور اہل ایمان کے ساتھ اسی رویہ کو اختیار کیا تو یہ دھوکہ انہی کی طرف لوٹ آیا (یعنی اس کا سارا وبال انہی پر پڑا) اور یہ عجائبات میں سے ہے، کیونکہ دھوکہ دینے والے کا دھوکہ یا تو نتیجہ خیز ہوتا ہے او اسے اپنا مقصد حاصل ہوجاتا ہے یا وہ محفوظ رہتا ہے اور اس کا نتیجہ نہ تو اس کے حق میں ہوتا ہے اور نہ اس کے خلاف مگر ان منافقین کا دھوکہ خود ان کی طرف پلٹ گیا۔ گویا کہ وہ مکر اور چالبازیاں جو دوسروں کو نقصان پہنچانے کے لئے کر رہے تھے وہ درحقیقت اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے کے لئے کر رہے تھے۔ اس لئے کہ ان کے دھوکے سے اللہ تعالیٰ کو کوئی نقصان پہنچ سکتا ہے نہ اہل ایمان کو۔ پس منافقین کے ایمان ظاہر کرنے سے اہل ایمان کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا، اظہار ایمان سے انہوں نے اپنے جان و مال کو محفوظ کرلیا اور ان کا مکرو فریب ان کے سینوں میں رہ گیا اس نفاق کی وجہ سے دنیا میں ان کو رسوائی ملی اور اہل ایمان کو قوت اور فتح و نصرت سے سرفراز ہونے کی وجہ سے وہ حزن و غم کی دائمی آگ میں سلگنے لگے۔ پھر آخرت میں ان کے جھوٹ اور ان کے کفر و فجور کے سبب سے ان کے لئے درد ناک عذاب ہوگا، جب کہ ان کا حال یہ ہے کہ وہ اپنی حماقت اور جہالت کی وجہ سے اس کے شعور سے بے بہرہ ہیں۔ البقرة
10 اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿فِيْ قُلُوبِهِمْ مَّرَضٌ ﴾ ” ان کے دلوں میں روگ ہے“ سے مراد شکوک و شبہات اور نفاق کا مرض ہے۔ قلب کو دو قسم کے امراض لاحق ہوتے ہیں جو اسے صحت و اعتدال سے محروم کردیتے ہیں۔ ١۔ شبہات باطلہ کا مرض 2۔ اور ہلاکت میں ڈالنے والی شہوات کا مرض۔ پس کفر و نفاق اور شکوک و بدعات یہ سب شبہات کے امراض ہیں۔ زنا، فواحش و معاصی سے محبت اور ان کا ارتکاب یہ سب شہوات کے امراض ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿فَيَطْمَعَ الَّذِيْ فِيْ قَلْبِهٖ مَرَضٌ﴾ (الاحزاب :32؍33) ” پس وہ شخص جس کے دل میں مرض ہے، وہ طمع کرے گا“ اس مرض سے مراد شہوت زنا ہے۔ برائی سے صرف وہی بچے گا جو ان دو امراض سے محفوظ ہوگا۔ پس اس کو ایمان و یقین حاصل ہوتا ہے اور معاصی کے مقابلے میں صبر کی ڈھال عطا کردی جاتی ہے اور وہ عافیت کا لباس زیب تن کر کے ناز و ادا سے چلتا ہے۔ منافقین کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ فَزَادَهُمُ اللَّـهُ مَرَضًا﴾ میں گناہ گاروں کے گناہوں کی تقدیر کی بابت اللہ تعالیٰ کی حکمت کا بیان ہے کہ یہ روگ نفاق ان کے سابقہ گناہوں کا نتیجہ ہے، نیز اللہ تعالیٰ انہیں اس کے سبب سے مزید گناہوں میں مبتلا کردیتا ہے جو ان کے لئے مزید سزا کے موجب بنتے ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَنُقَلِّبُ أَفْئِدَتَهُمْ﴾ (الانعام :110؍6) ” اور ہم ان کے دلوں اور آنکھوں کو الٹ دیں گے (وہ اس قرآن پر اسی طرح ایمان نہ لائیں گے جس طرح) وہ پہلی مرتبہ ایمان نہ لائے تھے“۔ اور فرمایا : ﴿فَلَمَّا زَاغُوا أَزَاغَ اللَّـهُ قُلُوبَهُمْ﴾ (الصف :5؍6؍1) ” جب وہ ٹیڑھے ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو ٹیڑھا کردیا۔“ اور فرمایا : ﴿وَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ فَزَادَتْهُمْ رِجْسًا إِلَىٰ رِجْسِهِمْ﴾ (التوبہ :125؍9) ” اور رہے وہ لوگ جن کے دلوں میں مرض ہے تو اس سورت نے ان کی گندگی میں گندگی کو اور زیادہ کردیا۔“ پس گناہ کی سزا، گناہ کی دلدل میں مزید دھنستے چلے جانا ہے۔ جیسے نیکی کی جزا یہ ہے کہ اس کے بعد اسے مزید نیکی کی توفیق عطا ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿وَيَزِيدُ اللَّـهُ الَّذِينَ اهْتَدَوْا هُدًى﴾ (مریم :1؍6؍19) ” اور وہ لوگ جو ہدایت یاب ہیں اللہ تعالیٰ ان کو اور زیادہ ہدایت دیتا ہے۔ “ البقرة
11 جب ان منافقوں کو زمین میں فساد پھیلانے سے روکا جاتا ہے اور فساد سے مراد اعمال کفر اور معاصی ہیں۔ نیز دشمن کے پاس اہل ایمان کے راز پہنچانا اور کفار کے ساتھ دوستی رکھنا ہے تو کہتے ہیں کہ ہم تو اصلاح کرتے ہیں۔ پس انہوں نے دو باتوں کو اکٹھا کردیا۔ (١) فساد فی الارض کا ارتکاب (2) اس بات کا اظہار کہ یہ فساد پھیلانا نہیں، بلکہ اصلاح ہے۔ یوں گویا ایک تو انہوں نے حقائق کو بدل دیا (فساد کا نام اصلاح رکھا) دوسرے، فعل باطل اور اس کے حق ہونے کے اعتقاد کو جمع کردیا۔ یہ لوگ ان لوگوں سے زیادہ بڑے مجرم ہیں جو گناہ کو حرام سمجھتے ہوئے گناہ کا ارتکاب کرتے ہیں۔ یہ لوگ سلامتی کے زیادہ قریب ہیں اور ان کی بابت ارتکاب گناہ سے باز آجانے کی زیادہ امید ہے۔ چونکہ ان کے قول ﴿إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ﴾ ” بیشک ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں“ میں اصلاح ان کی جانب محدود و محصور ہے جس سے ضمناً یہ مفہوم نکلتا ہے کہ اہل ایمان اصلاح والے نہیں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کا دعویٰ انہی پر پلٹ دیا۔ البقرة
12 فرمایا : ﴿أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُونَ﴾ ” خبردار ! بے شک یہی لوگ فساد کرنے والے ہیں۔“ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ جنگ کرنے والوں کے ساتھ دوستی رکھنے سے بڑا کوئی فساد نہیں۔ اس کے باوجود وہ اس زعم میں مبتلا ہیں کہ وہ اصلاح کر رہے ہیں۔ کیا اس فساد کے بعد بھی کوئی اور فساد رہ جاتا ہے؟ لیکن وہ اپنے فساد کے بارے میں ایسا علم نہیں رکھتے جو انہیں فائدہ پہنچا سکے اگرچہ وہ اس کے بارے میں ایسا علم ضرور رکھتے ہیں جو ان کے خلاف حجت قائم کرے گا اور صرف ان کے اعمال ہی زمین کے اندر فساد کا باعث ہیں کیونکہ برے اعمال اور گناہوں کے سبب سے روئے زمین پر آفتیں اور مصائب نازل ہوتے ہیں جو غلے، پھلوں، درختوں اور نباتات کو بھی خراب کردیتے ہیں۔ زمین کے اندر اصلاح یہ ہے کہ اسے ایمان اور اطاعت الٰہی سے معمور رکھا جائے۔ اسی اطاعت و ایمان کے لئے اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کر کے اس کو زمین پر آباد کیا اور ان پر رزق کے دروازے کھول دیئے تاکہ وہ اس رزق کی مدد سے اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کی اطاعت کرے، لہٰذا جب اللہ تعالیٰ کی عبادت و اطاعت کے خلاف عمل کیا جائے گا تو یہ عمل گویا زمین میں فساد برپا کرنا اور اس کو اجاڑنا ہوگا۔ البقرة
13 یعنی جب منافقین سے کہا جاتا ہے کہ ایمان لاؤ جیسے لوگ ایمان لائے ہیں۔ یعنی جیسے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ایمان لائے ہیں جو کہ قلب و زبان کا ایمان ہے تو یہ اپنے زعم باطل میں جواب دیتے ہیں ” کیا ہم ویسا ایمان لائیں جیسا بیوقوف لوگ ایمان لائے ہیں؟“ ان کا برا ہو۔ بیوقوف لوگوں سے ان کی مراد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں، کیونکہ ان کے زعم باطل کے مطابق صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی بیوقوفی اور حماقت ہی ان کے ایمان، ترک وطن اور کفار سے دشمنی مول لینے کی موجب ہے۔ ان کے نزدیک عقل اس کے متضاد اور برعکس رویئے کا تقاضا کرتی ہے۔ بنابریں انہوں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو سفاہت و حماقت سے منسوب کیا۔ ضمنی طور پر اس سے سے یہ مفہوم بھی نکلتا ہے کہ صرف وہی عقل مند اور اصحاب دانش و بینش ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس دعوے کی تردید کرتے ہوئے خبر دی کہ درحقیقت وہی بیوقوف اور احمق ہیں۔ کیونکہ بیوقوفی کی حقیقت یہ ہے کہ انسان اپنے مصالح سے بے خبر اور ایسے کاموں میں سرگرم ہو جو اس کے لئے ضرر رساں ہوں اور یہ صفت ان منافقین ہی پر منطبق ہوتی ہے۔ اور عقل اور دانش و بینش یہ ہے کہ انسان کو اپنے مصالح کی معرفت حاصل ہو اور وہ فائدہ مند امور کے حصول اور ضرر رساں امور کو روکنے کے لئے کاوش کرے۔ یہ صفت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور اہل ایمان پر منطبق ہوتی ہے۔ پس (کسی چیز کا) اعتبار مجرد دعوے اور خالی خولی باتوں سے نہیں ہوتا بلکہ اوصاف اور دلائل کی بنا پر ہوتا ہے۔ البقرة
14 یہ قول ان کی ان باتوں میں سے ہے جس کا اظہار وہ اپنی زبانوں سے کرتے تھے درآں حالیکہ ان کے دل میں ایسا نہیں ہوتا تھا۔ کیونکہ جب یہ منافقین اہل ایمان کے پاس جاتے ہیں تو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ ان کے طریقے پر گامزن ہیں اور ان کے ساتھ ہیں اور جب وہ اپنے شیطان سرداروں یعنی شریر رؤسا سے تنہائی میں ملتے ہیں تو ان سے کہتے ہیں :” ہم تو درحقیقت تمہارے ساتھ ہیں ہم تو اہل ایمان کو یہ کہہ کر کہ، ہم تمہارے ساتھ ہیں، ان کا مذاق اڑا رہے تھے۔“ ” ہم تو درحقیقت تمہارے ساتھ ہیں ہم تو اہل ایمان کو یہ کہہ کر کہ، ہم تمہارے ساتھ ہیں، ان کا مذاق اڑا رہے تھے۔“ یہ ہیں ان کے ظاہری اور باطنی احوال، بری چال کا وبال اسی پر پڑتا ہے جو یہ چال چلتا ہے۔ البقرة
15 ﴿اللَّهُ يَسْتَهْزِئُ بِهِمْ وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ﴾ ” اللہ ہنسی کرتا ہے ان سے اور بڑھاتا ہے ان کو ان کی سرکشی میں (اور) وہ سرگرداں پھرتے ہیں۔ “ اللہ تعالیٰ کا یہ استہزان کے اس استہزا کی جزا ہے جو وہ اللہ کے بندوں کے ساتھ کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا استہزایہ ہے کہ وہ ان کے بدبختی کے اعمال اور خبیث احوال کو ان کے سامنے مزین اور آراستہ کردیتا ہے چونکہ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو ان پر مسلط نہیں کیا اس لئے وہ سمجھتے ہیں کہ وہ اہل ایمان کے ساتھ ہیں۔ قیامت کے روز ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا استہزایہ ہوگا کہ وہ اہل ایمان کے ساتھ انہیں ظاہری روشنی عطا کرے گا۔ جب اہل ایمان اس روشنی میں چلیں گے تو منافقین کی روشنی بجھ جائے گی۔ وہ روشنی کے بجھ جانے کے بعد تاریکی میں متحیر کھڑے رہ جائیں گے۔ پس امید کے بعد مایوسی کتنی بری چیز ہے۔ ﴿يُنَادُونَهُمْ أَلَمْ نَكُن مَّعَكُمْ ۖ قَالُوا بَلَىٰ وَلَـٰكِنَّكُمْ فَتَنتُمْ أَنفُسَكُمْ وَتَرَبَّصْتُمْ وَارْتَبْتُمْ﴾ (الحدید :17؍58) ” وہ منافق اہل ایمان کو پکار کر کہیں گے کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے ! اہل ایمان جواب دیں گے کیوں نہ تھے مگر تم نے اپنے آپ کو فتنے میں ڈالا اور تم ہمارے بارے میں کسی برے وقت کے منتظر رہے اور تم نے اسلام کے بارے میں شک کیا۔ “ ﴿وَيَمُدُّهُمْ﴾یعنی اللہ تعالیٰ ان کو زیادہ کرتا ہے ﴿فِي طُغْيَانِهِمْ ﴾ یعنی ان کے فسق و فجور اور کفر میں ﴿ يَعْمَهُونَ ﴾ یعنی وہ حیران و سرگرداں ہیں، یہ ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا استہزا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی حقیقت احوال کو منکشاف کرتے ہوئے فرمایا : البقرة
16 یعنی وہ گمراہی کی طرف اس طرح راغب ہوئے جیسے خریدار کسی ایسے سامان تجارت کو خریدنے کی طرف مائل ہو جسے خریدنے کی اسے سخت چاہت ہو چنانچہ وہ اس رغبت کی وجہ سے اس میں اپنا قیمتی مال خرچ کرتا ہے اور یہ بہترین مثال ہے، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے گمراہی کو جو کہ برائی کی انتہا ہے، سامان تجارت سے تشبیہ دی ہے اور ہدایت کو جو کہ بھلائی کی انتہا ہے، اس سامان تجارت کی قیمت سے تشبیہ دی۔ پس انہوں نے ہدایت کو، اس سے بے رغبتی کی وجہ سے اور گمراہی کی طرف رغبت اور چاہت کی وجہ سے، گمراہی کے بدلے میں خرچ کردیا۔۔۔ پس یہ تھی ان کی تجارت کتنی بری تجارت تھی اور یہ تھا ان کا سامان بیع اور کتنا برا سامان بیع تھا۔ جب کوئی شخص ایک درہم کے مقابلے میں ایک دینار خرچ کرتا ہے تو خائب و خاسر کہلاتا ہے، تب اس شخص کے خسارے کا کیا حال ہوگا جو جواہر خرچ کر کے اس کے بدلے میں ایک درہم حاصل کرتا ہے اور پھر اس شخص کا خسارہ کتنا بڑا ہوگا جو ہدایت کے بدلے گمراہی خریدتا ہے، خوش بختی کو چھوڑ کر بدبختی اختیار کرتا ہے اور بلند مقاصد کو ترک کر کے گھٹیا امور کی طرف راغب ہوتا ہے۔ اس کی تجارت نے اسے کوئی نفع نہ دیا بلکہ وہ سب سے بڑے خسارے میں مبتلا ہوگیا۔ ﴿قُلْ إِنَّ الْخَاسِرِينَ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۗ أَلَا ذَٰلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِينُ﴾ (الزمر :15؍39) ”(اے نبی !) فرما دیجیے کہ بے شک خسارہ اٹھانے والے وہ ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو قیامت کے روز خسارے میں ڈالا۔ آگاہ رہو ! کہ یہی صریح خسارہ ہے۔“ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿وَمَا كَانُوا مُهْتَدِينَ﴾” اور نہ ہوئے وہ راہ پانے والے“ ان کی گمراہی کو متحقق کرنے کے لئے ہے نیز یہ کہ ہدایت سے ان کو کوئی حصہ نہیں ملا۔ پس یہ ان منافقین کے بدترین اوصاف ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کے احوال کو واضح کرنے کے لئے ایک تمثیل بیان کی، فرمایا : البقرة
17 یعنی ان کی مثال، جو ان کے احوال کی آئینہ دار ہے، اس شخص کی سی ہے جس نے آگ جلائی ہو۔۔۔ یعنی یہ شخص اندھیرے میں تھا، آگ کی اسے سخت ضرورت تھی اس نے کسی اور سے لے کر آگ روشن کی۔ یہ آگ اس کے پاس تیار اور موجود نہ تھی۔ جب آگ نے اس کے ماحول کو روشن کردیا اور اس نے اس جگہ کو دیکھا جہاں وہ کھڑا تھا، ان خطرات کو دیکھا جنہوں نے اسے گھیر رکھا تھا اور اس امن کو دیکھا (جو اسے اس روشنی کے باعث حاصل ہوا تھا) اس نے اس آگ سے فائدہ اٹھایا اور اس آگ سے اسے اطمینان حاصل ہوا وہ سمجھتا تھا کہ اس آگ پر اسے پوری قدرت حاصل ہے اور اسی خیال میں غلطاں تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اس سے روشنی لے کر زائل کردی اس کے ساتھ اس کی مسرت بھی چلی گئی اور وہ سخت تاریکی اور جلتی ہوئی آگ میں کھڑا رہ گیا۔ آگ کی روشنی چلی گئی مگر اس کی جلا دینے والی حرارت باقی رہ گئی۔ پس وہ متعدد تاریکیوں میں گھرا ہوا رہ گیا، رات کی تاریکی، بادلوں کا اندھیرا، بارش کا اندھیرا اور ایک وہ اندھیرا جو روشنی کے بجھنے کے فوراً بعد محسوس ہوتا ہے تب اس بیان کردہ شخص کی کیا حالت ہوگی؟ یہی حال ان منافقین کا ہے۔ انہوں نے اہل ایمان سے ایمان کی آگ لے کر آگ روشن کی، کیونکہ وہ ایمان کی روشنی سے بہرہ ورنہ تھے، انہوں نے وقتی طور پر اس آگ سے روشنی حاصل کی اور اس سے فائدہ اٹھایا، اس طرح انہوں نے اپنے جان و مال کو محفوظ کرلیا اور دنیا میں ان کو ایک قسم کا امن حاصل ہوگیا وہ اسی حالت میں تھے کہ اچانک ان پر موت حملہ آور ہوئی اور اس روشنی سے حاصل ہونے والے تمام فوائد اس سے چھین لے گئی، ہر قسم کا عذاب اور غم ان پر مسلط ہوگیا کفر و نفاق اور گناہوں کی مختلف تاریکیوں نے ان کو گھیر لیا اس کے بعد انہیں جہنم کے اندھیروں کا سامنا کرنا ہوگا کفر و نفاق اور گناہوں کی مختلف تاریکیوں نے ان کو گھیر لیا اس کے بعد انہیں جہنم کے اندھیروں کا سامنا کرنا ہوگا جو بدترین ٹھکانا ہے۔ البقرة
18 بنابریں اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں فرمایا : ﴿صُمٌّ﴾ وہ بھلائی کی بات سننے سے بہرے ہیں۔ ﴿بُكْمٌ﴾ وہ بھلائی کی بات کہنے سے گونگے ہیں۔ ﴿عُمْيٌ﴾ حق کے دیکھنے سے اندھے ہیں ﴿فَهُمْ لَا يَرْجِعُونَ﴾ چونکہ انہوں نے حق کو پہچان کر ترک کیا ہے اس لئے اب یہ واپس نہیں لوٹیں گے۔ ان کی حالت اس شخص کی حالت کے برعکس ہے جو محض جہالت اور گمراہی کی بنا پر حق کو ترک کرتا ہے کیونکہ وہ اسے سمجھتا نہیں۔ ان کی نسبت اس شخص کے بارے میں زیادہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ حق کی طرف رجوع کرے۔ البقرة
19 پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿أَوْ كَصَيِّبٍ مِّنَ السَّمَاءِ ﴾ یا (ان کی مثال) اس شخص کی مانند ہے جس پر موسلا دھار بارش ہو رہی ہے۔ (صَيِّبٍ) سے مراد وہ بارش ہے جو موسلادھار برستی ہے۔ ﴿فِيهِ ظُلُمَاتٌ﴾ ” اس میں اندھیرے ہیں۔“ اس سے مراد ہے، رات کا اندھیرا، بادل کا اندھیرا اور بارش کی تاریکیاں۔ ﴿وَرَعْدٌ﴾ ” اور کڑک کی آواز ہے۔“ جو کہ بادل سے سنائی دیتی ہے۔ ﴿وَّبَرْقٌ﴾ اور بجلی کی وہ چمک ہے جو بادلوں میں دکھائی دیتی ہے۔ ﴿كُلَّمَا أَضَاءَ لَهُم﴾ یعنی اس بجلی کی چمک جب اندھیرے میں روشنی کرتی ہے۔ ﴿مَّشَوْا فِيهِ وَإِذَا أَظْلَمَ عَلَيْهِمْ قَامُوا﴾ ” تو چلتے ہیں اس میں اور جب ان پر اندھیرا ہوتا ہے تو کھڑے ہوجاتے ہیں“ یعنی وہ کھڑے رہ جاتے ہیں۔ البقرة
20 پس اسی قسم کی حالت منافقین کی ہے جب وہ قرآن مجید، اس کے اوامرونواہی اور اس کے وعدو وعید سنتے ہیں، تو اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں ٹھونس لیتے ہیں۔ اس کے اوامرونواہی اور وعدو وعید سے اعراض کرتے ہیں وعید ان کو گھبراہٹ میں مبتلا کرتی ہے اور اس کے وعدے ان کو پریشان کردیتے ہیں۔ وہ حتی الامکان ان سے اغراض کرتے ہیں اور اس شخص کی مانند اسے سخت ناپسند کرتے ہیں جو سخت بارش میں گھرا ہوا بجلی کی کڑک سنتا ہے اور موت کے ڈر سے اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتا ہے اس شخص کو تو بسا اوقات سلامتی اور امن مل جاتا ہے۔ مگر منافقین کے لئے کہاں سے سلامتی آئے گی؟ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور علم نے انہیں چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے۔ وہ اس کی پکڑ سے بھاگ نہیں سکتے اور نہ وہ اس کو عاجز کرسکتے ہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ ان کے اعمال کو اعمال ناموں میں محفوظ کردیتا ہے اور وہ ان کو ان کے اعمال کی پوری پوری جزا دے گا۔ چونکہ وہ معنوی بہرے پن، گونگے پن اور اندھے پن میں مبتلا ہیں اور ان پر ایمان کی تمام راہیں مسدود ہیں اس لئے ان کے بارے میں فرمایا : ﴿وَلَوْ شَاءَ اللَّـهُ لَذَهَبَ بِسَمْعِهِمْ وَأَبْصَارِهِمْ﴾ ”اور اگر اللہ چاہے تو لے جائے ان کے کان اور ان کی آنکھیں“ یعنی ان کی حس سماعت اور حس بصر سلب کرلے۔ اس آیت کریمہ میں ان کو دنیاوی سزا سے ڈرایا گیا ہے تاکہ وہ ڈر کر اپنے شر اور نفاق سے باز آجائیں۔ ﴿إِنَّ اللَّـهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ﴾ ” بلاشبہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔“ اس لئے کوئی چیز اسے عاجز نہیں کرسکتی۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت میں سے یہ بات بھی ہے کہ جب وہ کوئی کام کرنا چاہتا ہے تو کر گزرتا ہے۔ کوئی اس کو روکنے والا اور اس کی مخالفت کرنے والا نہیں۔ اس آیت اور اس قسم کی دیگر آیات میں قدر یہ کا رد ہے جو یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ انسانوں کے افعال اللہ تعالیٰ کی قدرت میں داخل نہیں ہیں کیونکہ انسانوں کے افعال بھی من جملہ ان اشیاء کے ہیں جو ﴿إِنَّ اللَّـهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ﴾ کے تحت، اس کی قدرت میں داخل ہیں۔ البقرة
21 یہ تمام لوگوں کے لئے امر عام ہے اور وہ اللہ کی عبادت ہے جو اللہ تعالیٰ کے احکام کی اطاعت، اس کے نواہی سے اجتناب اور اس کی خبر کی تصدیق کی جامع ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے بندوں کو اس چیز کا حکم دیا جس کے لئے ان کی تخلیق کی گئی ہے۔ فرمایا : ﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ  ﴾ (الذاریات :56؍51) ” میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لئے پیدا کیا تاکہ وہ میری عبادت کریں۔ “ پھر صرف ایک اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے پر اس بات سے استدلال کیا ہے کہ وہ تمہارا رب ہے اس نے تمہیں بہت سی نعمتوں سے نواز کر تمہاری تربیت اور پرورش کی۔ وہ تمہیں عدم سے وجود میں لایا، اس نے ان لوگوں کو پیدا کیا جو تم سے پہلے تھے، اس نے تمہیں ظاہری اور باطنی نعمتیں عطا کیں، اس نے زمین کو تمہارے لئے فرش بنایا جہاں تم اپنا ٹھکانا بناتے ہو، جہاں تم عمارات تعمیر کر کے، زراعت اور کاشتکاری کر کے اور ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کر کے مختلف فوائد حاصل کرتے ہو، اس کے علاوہ تم زمین کے بعض دیگر فوائد سے استفادہ کرتے ہو۔ اس نے تمہارے اس مسکن کے لئے آسمان کو چھت بنایا۔ اس نے تمہاری ضروریات اور حاجات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس چھت میں بھی بہت سی نفع بخش چیزیں مثلاً سورج، چاند اور ستارے پیدا کئے۔ البقرة
22 ﴿وَأَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً﴾ ” اور اتارا اس نے آسمان سے پانی۔“ ہر وہ چیز جو آپ کے اوپر اور بلند ہے وہ آسمان کہلاتی ہے۔ بنا بریں علمائے تفسیر کہتے ہیں کہ یہاں آسمان سے مراد بادل ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے بادلوں سے پانی برسایا ﴿فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَرَاتِ﴾اور اس پانی کے ذریعے سے مختلف اقسام کے غلہ جات، مختلف انواع کے پھل اور میوہ جات، کھجوریں اور دیگر کھیتیاں اگائیں ﴿رِزْقًا لَّكُمْ﴾ ” تمہارے رزق کے طور پر“ جس سے تم رزق اور خوراک حاصل کرتے ہو، اس رزق سے زندگی بسر کرنے کا سامان کرتے ہو اور اس سے تم لذت حاصل کرتے ہو۔﴿فَلَا تَجْعَلُوا لِلَّـهِ أَندَادًا﴾ پس تم مخلوق میں سے اس کی برابری کرنے والے ہمسر بنا کر ان کی عبادت نہ کرو جیسے تم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہو، اور ان سے ایسی محبت نہ کرو جیسے تم اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہو، وہ بھی تمہاری مانند مخلوق ہیں ان کو بھی رزق دیا جاتا ہے اور ان کی زندگی کی بھی تدبیر کی جاتی ہے۔ وہ زمین و آسمان میں ایک ذرے کے بھی مالک نہیں۔ وہ تمہیں نفع پہنچا سکتے ہیں نہ نقصان ﴿وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ ﴾ ” حالانکہ تم جانتے ہو“ کہ تخلیق کرنے، رزق عطا کرنے اور کائنات کی تدبیر کرنے میں اس کا کوئی شریک اور کوئی نظیر نہیں اور نہ الوہیت اور کمال میں اس کی کوئی برابری کرنے والا ہے۔ یہ سب کچھ جانتے ہوئے پھر تم کیسے اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسرے معبودوں کی عبادت کرتے ہو۔ یہ بڑی عجیب بات اور سب سے بڑی حماقت ہے۔ یہ آیت کریمہ صرف ایک اللہ تعالیٰ کی عبادت کے حکم اور اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور ہستی کی عبادت کرنے سے ممانعت کو جمع کرنے والی ہے، نیز اللہ تعالیٰ کی عبادت کے وجوب کی واضح دلیل اور اس کے سوا کسی اور کی عبادت کے بطلان کے بیان پر مشتمل ہے۔ یہ توحید ربوبیت ہے جو اس امر کو متضمن ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی تخلیق کرتا، وہی رزق عطا کرتا اور وہی کائنات کی تدبیر کرتا ہے۔ جب ہر ایک شخص یہ اقرار کرتا ہے کہ ان تمام امور میں اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک نہیں تو اسے یہ اقرار بھی کرنا چاہئے کہ عبادت میں بھی اس کا کوئی شریک نہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی توحید کے اثبات اور شرک کے بطلان پر واضح ترین عقلی دلیل ہے۔ ﴿ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ﴾ ” تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ“ اس آیت کریمہ میں ایک معنی کا احتمال یہ ہے کہ جب تم ایک اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو گے تو اس کی ناراضی اور عذاب سے بچ جاؤ گے، کیونکہ تم نے ایک ایسا سبب اختیار کیا ہے جو اللہ تعالیٰ کی ناراضی کو دور کرتا ہے۔ اس کے ایک دوسرے معنی یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ جب تم اللہ تعالیٰ کے عبادت گزار بندے بن جاؤ گے تو تم متقین میں شمار ہو گے جو تقویٰ کی صفت سے آراستہ ہوتے ہیں۔ دونوں معنی صحیح ہیں اور دونوں میں تلازم پایا جاتا ہے، یعنی جو کوئی کامل طور پر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا ہے اس کا شمار اہل تقویٰ میں ہوتا ہے اور جو کوئی متقی بن جاتا ہے اسے اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور اس کے عذاب سے نجات حاصل ہوجاتی ہے۔ البقرة
23 یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت اور وحی الٰہی کی صحت کی عقلی دلیل ہے۔ گویا فرمایا :” اے رسول کے ساتھ عناد رکھنے والو ! اس کی دعوت کو رد کرنے والو ! اور اسے جھوٹا سمجھنے والو ! اگر تم اس وحی کے بارے میں کسی شک و شبہ میں مبتلا ہو جو ہم نے اپنے بندے پر نازل کی ہے کہ آیا یہ حق ہے یا نہیں تو یہاں ایک ایسا معاملہ موجود ہے جسے ہم تمہارے اور اس کے درمیان فیصلہ کن انداز میں بیان کرتے ہیں اور وہ یہ کہ وہ بھی تمہاری طرح بشر ہے کسی اور جنس سے نہیں، جب سے وہ پیدا ہوا ہے اس وقت سے تم اسے جانتے ہو وہ لکھ سکتا ہے نہ پڑھ سکتا ہے۔ اس نے تمہارے سامنے ایک کتاب پیش کی ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور تم کہتے ہو کہ اس نے اسے خود گھڑا ہے اور اللہ تعالیٰ پر بہتان باندھا ہے۔ اگر معاملہ ایسے ہی ہے جیسے تم کہتے ہو تو اس جیسی ایک سورت ہی بنا لاؤ اور اپنے جن اعوان و انصار اور حمایتیوں کو اپنی مدد کے لئے بلا سکتے ہو بلا لو ! تمہارے لئے یہ کام بہت آسان اور معمولی ہے خاص طور پر جبکہ تم فصاحت و خطابت کے میدان کے شاہسوار ہو اور اس رسول کی عداوت میں بھی بہت آگے ہو۔ اگر تم نے اس کتاب جیسی ایک سورت بھی پیش کردی تو تم اس کتاب کو جھوٹ، بہتان کہنے میں حق بجانب ہو اور اگر تم اس جیسی ایک بھی سورت پیش نہ کرسکے اور اسے پیش کرنے سے مکمل طور پر عاجز آگئے تو تمہارا یہ عجز اور بے بسی رسول اور وحی الٰہی کی صداقت کی بڑی نشانی اور واضح دلیل ہے۔ پھر تم پر لازم ہوجاتا ہے کہ تم اس کی پیروی کرو اور اس آگ سے بچو جس کی گرمی اور حرارت اتنی زیادہ ہے کہ اس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے دنیاوی آگ کی مانند نہیں جسے (لکڑی کے) ایندھن سے بھڑکایا جاتا ہے۔ یہ بیان کردہ آگ اللہ اور اس کے رسول کا انکار کرنے والوں کے لئے تیار کی گئی ہے، اس لئے جب تمہیں یہ معلوم ہوگیا کہ یہ رسول برحق ہے تو اس کا انکار کرنے سے ڈرو۔ اس آیت اور اس قسم کی دیگر آیات کو آیات تحدی (مقابلہ کرنے کی دعوت دینے والی آیات) کہا جاتا ہے ” تحدی“ سے مراد ہے مخلوق کو قرآن جیسی کوئی کتاب پیش کرنے اور اس کا مقابلہ کرنے سے عاجز کردینا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿قُل لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنسُ وَالْجِنُّ عَلَىٰ أَن يَأْتُوا بِمِثْلِ هَـٰذَا الْقُرْآنِ لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا﴾ (بنی اسرائیل 88؍17) ” کہو اگر تمام جن و انس اس بات پر جمع ہوجائیں کہ وہ اس جیسا قرآن بنا لائیں تو اس جیسا قرآن بنا کر نہیں لا سکتے اگرچہ وہ ایک دوسرے کے مددگار ہی کیوں نہ ہوں۔“ پس مشت خاک سے بنے ہوئے انسان کا کلام رب الارباب کے کلام کی مانند کیسے ہوسکتا ہے؟ یا ناقص اور تمام پہلوؤں سے محتاج ہستی اس کامل ہستی کے کلام جیسا کلام کیسے پیش کرسکتی ہے جو تمام پہلوؤں سے کمال مطلق کی اور بے پایاں بے نیازی کی مالک ہے؟ یہ چیز دائرہ امکان اور انسانی بساط سے باہر ہے۔ ہر وہ شخص جو کلام کی مختلف اصناف کی تھوڑی بہت بھی معرفت رکھتا ہے جب قرآن کا اصحاب بلاغت کے کلام سے تقابل کرے گا تو اس پر ظاہر ہوجائے گا کہ دونوں میں بہت بڑا فرق ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿وَإِن كُنتُمْ فِي رَيْبٍ﴾ ” اگر تم شک میں مبتلا ہو۔“ میں اس بات کی دلیل ہے کہ جس کے لئے ہدایت کی توقع کی جاسکتی ہے یہ وہ شخص ہے جو شک میں مبتلا اور حیران و پریشان ہے۔ جو گمراہی میں سے حق کو نہیں پہچان سکتا۔ اگر وہ طلب حق میں سچا ہے تو اس کے لئے حق واضح ہوجانے کے بعد اس کا اتباع کرنا زیادہ مناسب ہے۔ وہ شخص جو حق کے ساتھ عناد رکھتا ہے اور حق کو پہچان کر بھی اسے ترک کردیتا ہے اس کے حق کی طرف رجوع کرنے کا کوئی امکان نہیں کیونکہ اس نے حق کو اپنی جہالت کی وجہ سے ترک نہیں کیا بلکہ اس نے حق کو اس کے واضح ہوجانے کے بعد رد کیا ہے۔ اسی طرح وہ متشکک شخص جو تلاش حق میں سچا جذبہ نہیں رکھتا بلکہ وہ حق سے گریز کرتا ہے اور تلاش حق میں تگ و دو نہیں کرتا وہ اکثر و بیشتر قبول حق کی توفیق سے محروم رہتا ہے۔ اس مقام عظیم پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصف عبدیت کو بیان کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ عبدیت آپ کی سب سے بڑی صفت ہے۔ اس مقام بلند تک اولین و آخرین میں سے کوئی شخص بھی آپ کے مقام تک نہیں پہنچ سکا۔ جیسے معراج کے موقع پر آپ کی عبدیت کو بیان فرمایا۔ فرمان باری تعالیٰ ہے : ﴿سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا﴾ (بنی اسرائیل :1؍17) ” پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے کو رات کے ایک حصے میں سفر کرایا۔ “ قرآن کی تنزیل کے وقت بھی آپ کی عبدیت کو بیان فرمایا : ﴿تَبَارَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَىٰ عَبْدِهِ لِيَكُونَ لِلْعَالَمِينَ نَذِيرًا ﴾ (الفرقان :1؍25) ” نہایت برکت والی ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے پر فرقان نازل کیا تاکہ وہ تمام جہانوں کو ڈرائے۔ “ البقرة
24 اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿أُعِدَّتْ لِلْكَافِرِينَ﴾ ” جہنم کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے۔“ اور اس قسم کی دیگر آیات سے اہل سنت کے اس مسلک کی تائید ہوتی ہے کہ جنت اور جہنم دونوں پیدا کی ہوئی ہے۔ جب کہ معتزلہ اس بات کے قائل نہیں۔ اس آیت کریمہ سے اہل سنت کے اس عقیدے کی بھی تائید ہوتی ہے کہ گناہگار اور کبائر کے مرتکب گناہ گار موحدین ہمیشہ جہنم میں نہیں رہیں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یہ جہنم کفار کے لئے تیار کی گئی ہے۔ خوارج اور معتزلہ کے عقیدے کے مطابق اگر گناہ گار موحدین کے لئے جہنم میں دوام اور خلود ہوتا، تو یہ صرف کفار کے لئے تیار نہ کی گئی ہوتی۔ نیز اس آیت میں اس بات کی بھی دلیل ہے کہ عذاب اپنے اسباب یعنی کفر اور مختلف گناہوں کے ارتکاب سے ثابت وہتا ہے۔ البقرة
25 جب اللہ تعالیٰ نے کفار کی جزا کا ذکر کیا تو اعمال صالحہ سے آراستہ اہل ایمان کی جزا بھی بیان فرما دی، جیسا کہ قرآن مجید میں اس کا طریقہ ہے کہ وہ ترغیب و ترہیب کو اکٹھا بیان کرتا ہے، تاکہ بندہ مومن اللہ کی رحمت کی رغبت بھی رکھے اور اس کے عذاب سے ڈرتا بھی رہے۔ اس کے دل میں عذاب کا خوف ہو تو رحمت و مغفرت کی امید سے بھی سرشار ہو۔ ﴿وَبَشِّرِ﴾ یعنی اے رسول ! آپ اور آپ کا قائم مقام خوشخبری دے دے۔ ﴿الَّذِينَ آمَنُوا﴾” یعنی جو اپنے دل سے ایمان لائے“﴿وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ﴾ اور انہوں نے اپنے جوارح سے نیک کام سر انجام دیئے۔ پس انہوں نے اعمال صالحہ کے ذریعے سے اپنے ایمان کی تصدیق کی۔ اللہ تعالیٰ نے اعمال خیر کو (الصالحات) سے تعبیر کیا ہے کیونکہ ان کے ذریعے سے بندے کے احوال، اس کے دینی اور دنیاوی امور اور اس کی دنیاوی اور آخروی زندگی کی اصلاح ہوتی ہے اور اس کے ذریعے ہی سے احوال کا فساد زائل ہوتا ہے پس اس کی وجہ سے اس کا شمار صالحین میں ہوجاتا ہے جو جنت میں اللہ تعالیٰ کی مجاورت اور اس کے قرب کی صلاحیت سے بہرہ ور ہیں۔ پس ان کو خوشخبری سنا دیجئے ﴿أَنَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ ﴾ ” کہ ان کے لئے جنت کے باغات ہیں“ جن میں عجیب اقسام کے درخت، نفیس انواع کے پھل، گہرے سائے اور درختوں کی نہایت خوبصورت شاخیں ہوں گی۔ اسی وجہ سے اس کا نام جنت ہے۔ اس میں داخل ہونے والے اس کے باغوں اور گہری چھاؤں سے فیض یاب ہوں گے اور اس میں رہنے والے اس میں عیش و عشرت کی زندگی گزاریں گے۔﴿تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ﴾ ” یعنی جنت میں پانی، دودھ، شہد اور شراب کی نہریں بہتی ہوں گی۔ وہ جیسے چاہیں گے انہیں جاری کرلیں گے اور جہاں چاہیں گے انہیں پھیر لیں گے۔ انہی نہروں سے جنت کے درخت سیراب ہوں گے اور مختلف اصناف کے پھل پیدا ہوں گے۔ ﴿ كُلَّمَا رُزِقُوا مِنْهَا مِن ثَمَرَةٍ رِّزْقًا ۙ قَالُوا هَـٰذَا الَّذِي رُزِقْنَا مِن قَبْلُ﴾ ” جب بھی ان کو ان میں سے کھانے کو کوئی پھل دیا جائے گا، تو کہیں گے یہ تو وہی ہے جو پہلے ہمیں دیا گیا“ یعنی جنت کا یہ پھل دنیا کے پھلوں کی جنس میں سے ہوگا اس میں دنیا کے پھلوں کی سی صفات ہوں گی۔ خوبصورتی اور لذت میں جنت کے پھل دنیا کے پھلوں سے ملتے جلتے ہوں گے۔ ان میں کوئی بد ذائقہ پھل نہ ہوگا اور کوئی وقت ایسا نہ ہوگا جس میں اہل جنت لذت نہ اٹھا رہے ہوں گے بلکہ وہ دائمی طور پر جنت کے پھلوں کی لذت سے لطف اندوز ہوں گے۔ ﴿وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا﴾” اور دیئے جائیں گے ان کو پھل ملتے جلتے“ کہا جاتاہے کہ (جنت کے پھل) نام میں مشابہت رکھتے ہیں اور ذائقے میں مختلف ہیں۔ بعض کی رائے ہے کہ اس سے مراد ہے کہ وہ رنگ میں مشابہت رکھتے ہیں مگر نام مختلف ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد ہے کہ وہ خوبصورتی، لذت اور مٹھاس میں ایک دوسرے سے مشابہ ہیں۔ شاید یہی تعبیر احسن ہے۔ پھر جہاں اہل جنت کے مساکن، ان کی خوراک، طعام و مشروبات اور پھلوں کا ذکر کیا ہے وہاں ان کی بیویوں کا ذکر بھی کیا ہے۔ نہایت ایجاز و اختصار کے ساتھ مکمل اور واضح طور پر ان کا وصف بیان کیا ہے۔ ﴿وَلَهُمْ فِيهَا أَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ﴾ ” ان کے واسطے ان میں بیویاں ہوں گی پاک“ اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ وہ فلاں عیب سے پاک ہوں گی، کیونکہ یہ تطہیر، طہارت کی تمام اقسام پر مشتمل ہوگی۔ ان کے اخلاق پاک ہوں گے، ان کی تخلیق پاکیزگی پر مبین ہوگی، ان کی زبان پاک ہوگی اور ان کی نظر پاک ہوگی۔ ان کے اخلاق کی پاکیزگی یہ ہے کہ وہ دلکش ہوں گی اور اپنے اخلاق حسنہ، حسن اطاعت اور قولی و فعلی آداب کے ساتھ اپنے شوہروں سے اظہار محبت کریں گی۔ حیض و نفاس، منی، بول و براز، تھوک، بلغم اور بدبو سے پاک ہوں گی۔ نیز اپنی جسمانی تخلیق میں بھی پاک ہوں گی وہ کامل حسن و جمال سے بہرہ ور ہوں گی۔ ان کے اندر کسی قسم کا عیب اور کسی قسم کی جسمانی بدصورتی نہ ہوگی بلکہ وہ نیک سیرت اور خوبصورت ہوں گی۔ وہ پاک نظر اور پاک زبان ہوں گی۔ وہ نیچی نگاہوں والی ہوں گی اور ان کی نگاہیں اپنے شوہروں سے آگے نہ بڑھیں گی۔ ان کی زبانیں ہر گندی بات سے محفوظ پاک ہوں گی۔ اس آیت کریمہ میں مندرجہ ذیل امور کا ذکر کیا گیا ہے : (1) خوشخبری دینے والا۔ (2) جس کو خوشخبری دی گئی ہے۔ (3) جس چیز کی خوشخبری دی گئی ہے۔ (٤) وہ سبب جو اس خوشخبری کا باعث بنتا ہے۔ خوشخبری دینے والے سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات یا وہ لوگ ہیں جو آپ کی امت میں سے (ابلاغ علم میں) آپ کے قائم مقام ہوں گے۔ خوشخبری دیئے جانے والے وہ لوگ ہیں جو اہل ایمان ہیں اور نیک اعمال بجا لانے والے ہیں۔ جس چیز کی خوشخبری دی گئی ہے وہ ہے جنت، جو بیان کردہ صفات سے متصف ہے۔ اس خوشخبری کے باعث اور سبب سے مراد ایمان اور عمل صالح ہیں۔ ایمان اور عمل صالح کے بغیر اس خوشخبری کے حصول کا کوئی ذریعہ نہیں۔ یہ سب سے بڑی خوشخبری ہے جو بہترین اسباب کے ذریعے سے افضل ترین ہستی کی زبان مبارک سے دی گئی ہے۔ اس آیت کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ اہل ایمان کو خوشخبری دینا اعمال صالحہ اور ان کے ثمرات کا ذکر کر کے ان میں نشاط پیدا کرنا مستحب ہے کیونکہ اس طرح اعمال صالحہ آسان ہوجاتے ہیں۔ سب سے بڑی بشارت جو انسان کو حاصل ہوتی ہے وہ ایمان اور عمل صالح کی توفیق ہے۔ پس یہ اولین بشارت اور اس کی بنیاد ہے۔ اس کے بعد دوسری بشارت وہ ہے جو موت کے وقت اسے حاصل ہوتی ہے اور اس کے بعد وہ بشارت ہے جو نعمتوں سے بھرپوردائمی جنت میں پہنچ کر اسے حاصل ہوگی۔ ہم اللہ تعالیٰ سے اس کے فضل کا سوال کرتے ہیں۔ البقرة
26 ﴿إِنَّ اللَّـهَ لَا يَسْتَحْيِي أَن يَضْرِبَ مَثَلًا مَّا﴾ ” اللہ تعالیٰ اس بات سے نہیں شرماتا کہ وہ کوئی سی بھی مثال بیان کرے“ خواہ وہ کسی قسم کی مثال ہو ﴿بَعُوضَةً فَمَا فَوْقَهَا﴾” مچھر کی ہو یا اس چیز کی جو اس سے بڑھ کر ہو“ کیونکہ مثال حکمت اور ایضاح حق پر مبنی ہوتی ہے اس لئے اللہ تعالیٰ حق سے نہیں شرماتا۔ اس آیت کریمہ میں گویا اس شخص کو جواب دیا گیا ہے جو معمولی اور حقیر اشیاء کی مثال دینے کا منکر ہے اور اس بارے میں اللہ تعالیٰ پر اعتراض کرتا ہے، پس یہ اعتراض کا مقام نہیں بلکہ یہ تو اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں کو تعلیم دینا اور ان کے ساتھ مہربانی کا معاملہ کرنا ہے، لہٰذا ضروری ہے کہ اسے شکر کرتے ہوئے قبول کیا جائے۔ بنا بریں فرمایا : ﴿فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا فَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِن رَّبِّهِمْ﴾ ” پس وہ لوگ جو ایمان لائے تو وہ جانتے ہیں کہ یہ ان کے رب کی طرف سے حق ہے“ پس وہ اسے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس میں غور و فکر سے کام لیتے ہیں۔ پس اگر انہیں اس کے مشمولات کا تفصیلی علم حاصل ہوجاتا ہے تو ان کے علم و ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔ ورنہ انہیں معلوم ہے کہ یہ حق ہے اور حق باتوں پر ہی مشتمل ہے اور اگر اس میں حق کا پہلوان پر مخفی رہے تب بھی انہیں یقین ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے بے فائدہ بیان نہیں فرمایا، بلکہ اس میں یقیناً کوئی حکمت بالغہ اور نعمت کاملہ مضمر ہے۔ ﴿وَأَمَّا الَّذِينَ كَفَرُوا فَيَقُولُونَ مَاذَا أَرَادَ اللَّـهُ بِهَـٰذَا مَثَلًا﴾” لیکن کافر لوگ، تو وہ کہتے ہیں، اللہ نے اس مثال سے کیا چاہا ہے؟“ یعنی کافر حیران ہو کر اعتراض کرتے ہیں اور اپنے کفر میں اور اضافہ کرلیتے ہیں جیسے اہل ایمان کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿يُضِلُّ بِهِ كَثِيرًا وَيَهْدِي بِهِ كَثِيرًا﴾” وہ اس سے بہتوں کو گمراہ کرتا اور بہت سوں کو ہدایت دیتا ہے“ پس آیات قرآن کے نزول کے وقت یہ اہل ایمان اور کفار کا حال ہے۔ اللہ تعالیٰ ایک اور مقام پر فرماتا ہے : ﴿وَإِذَا مَا أُنزِلَتْ سُورَةٌ فَمِنْهُم مَّن يَقُولُ أَيُّكُمْ زَادَتْهُ هَـٰذِهِ إِيمَانًا ۚ فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا فَزَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَهُمْ يَسْتَبْشِرُونَ وَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ فَزَادَتْهُمْ رِجْسًا إِلَىٰ رِجْسِهِمْ وَمَاتُوا وَهُمْ كَافِرُونَ ﴾ ” جب کوئی سورت نازل کی جاتی ہے تو ان میں سے بعض تمسخر کے طور پر کہتے ہیں اس سورت نے کس کا ایمان زیادہ کیا ہے؟ جو لوگ ایمان لائے ان کا ایمان تو اس سورت نے زیادہ کیا اور وہ خوش ہوتے ہیں اور جن کے دلوں میں نفاق کی بیماری ہے تو اس سورت نے ان کی گندگی میں گندگی کو اور زیادہ کردیا اور وہ کفر کی حالت ہی میں مر گئے۔“ پس بندوں پر قرآنی آیات کے نزول سے بڑھ کر اور کوئی نعمت نہیں۔ اس کے باوجود یہ قرآنی آیات کچھ لوگوں کے لئے آزمائش، حیرت، گمراہی اور ان کے شر میں اضافے کا باعث بنتی ہیں اور کچھ لوگوں کے لئے انعام، رحمت اور ان کی بھلائیوں میں اضافے کا سبب بنتی ہیں۔ پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندوں کے درمیان تفاوت قائم کیا۔ صرف وہی ہے جو ہدایت سے نوازتا ہے اور وہی ہے جو گمراہ کرتا ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس عدل و حکمت کا ذکر کیا ہے جو اس شخص کی گمراہی میں کار فرما ہوتی ہے جسے وہ گمراہ کرتا ہے۔ ﴿وَمَا يُضِلُّ بِهِ إِلَّا الْفَاسِقِينَ ﴾ یعنی وہ صرف ان ہی لوگوں کو گمراہ کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے باہر ہیں، جو اللہ تعالیٰ کے رسولوں سے عناد رکھتے ہیں، فسق و فجور ان كا وصف بن گیا ہے اور وہ اس وصف کو بدلنا نہیں چاہتے۔ پس اللہ تعالیٰ کی حکمت کا یہ تقاضا ہوا کہ وہ ان کو گمراہی میں مبتلا کرے کیونکہ ان میں ہدایت کو قبول کرنے کی صلاحیت ہی نہیں۔ جیسے اس کی حکمت اور اس کا فضل اس شخص کی ہدایت کا تقاضا کرتے ہیں جو ایمان سے متصف اور اعمال صالحہ سے مزین ہو۔ فسق کی دو اقسام ہیں : ایک قسم وہ ہے جو انسان کا دائرہ اسلام ہی سے خارج کردیتی ہے۔ فسق کی یہ قسم ایمان سے خارج ہونے کا تقاضا کرتی ہے جیسا کہ اس آیت میں اور اس قسم کی دیگر آیات میں ذکر کیا گیا ہے۔ فسق کی دوسری قسم وہ ہے جو انسان کو دائرہ ایمان سے خارج نہیں کرتی جیسا کہ اس آیت کریمہ میں وارد ہوا ہے: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا﴾ (الحجرات :6؍79) ” اے ایمان والو اگر تمہارے پاس کوئی فاسق کوئی خبر لے کر آئے تو اچھی طرح تحقیق کرلو۔ “ البقرة
27 پھر اللہ تعالیٰ نے فاسقوں کا وصف بیان کیا، فرمایا: ﴿الَّذِينَ يَنقُضُونَ عَهْدَ اللَّـهِ مِن بَعْدِ مِيثَاقِهِ﴾” وہ جو اللہ کے عہد کو اس کو پختہ کرنے کے بعد توڑ دیتے ہیں“ عہد کا لفظ عام ہے، اس سے مراد وہ عہد بھی ہے جو ان کے اور ان کے رب کے درمیان ہے اور اس کا اطلاق اس عہد پر بھی ہوتا ہے جو انسان آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ کرتے ہیں۔ اللہ نے عہد کے پورا کرنے کی سخت تاکید فرمائی ہے۔ کافران عہدوں کی پروا نہیں کرتے، بلکہ وہ ان کو توڑتے ہیں اور وہ اللہ تعالیٰ کے اوامر کو ترک کرتے ہیں، اس کے نواہی کے مرتکب ہوتے ہیں اور وہ ان معاہدوں کا بھی پاس نہیں کرتے جو ان کے درمیان آپس میں ہوتے ہیں۔ ﴿وَيَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللَّـهُ بِهِ أَن يُوصَلَ﴾” اور اس چیز کو قطع کرتے ہیں جس کے ملانے کا اللہ نے حکم دیا ہے“ اس میں بہت سی چیزیں داخل ہیں : اولاً: اللہ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم اس تعلق کو جوڑیں جو ہمارے اور اللہ کے درمیان ہے۔ (اس کی صورت یہ ہے کہ ہم) اللہ پر ایمان لائیں اور اس کی عبادت کریں۔ ثانیاً: ہمارے اور اس کے رسول کے درمیان جو تعلق ہے، اسے قائم کریں، یعنی اس پر ایمان لائیں، اس سے محبت رکھیں، اس کی مدد کریں اور اس کے تمام حقوق ادا کریں۔ (رسول کی مکمل اطاعت کریں) ثالثاً: وہ تعلق ہے جو ہمارے اور ہمارے والدین، عزیز و اقارب، دوست احباب اور تمام مخلوق کے درمیان ہے، ان سب کے حقوق کی ادائیگی بھی اس تعلق کے جوڑنے میں شامل ہے جس کا حکم ہمیں اللہ تعالیٰ نے دیا ہے۔ اہل ایمان ان تمام رشتوں، حقوق اور تعلقات کو جوڑے رکھتے ہیں جن کو جوڑنے کا اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم دیا ہے اور ان حقوق کو بہترین طریقے سے ادا کرتے ہیں۔ رہے اہل فسق تو وہ ان رشتوں کو توڑتے ہیں اور ان کو اپنی پیٹھ پیچھے پھینک کر (ان کے تقدس کا پاس نہیں کرتے) اس کی بجائے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتے ہیں، قطع رحمی سے کام لیتے ہیں اور گناہوں کے کام کرتے ہیں اور یہی زمین میں فساد برپا کرنا ہے۔ ﴿أُولَـٰئِكَ﴾” یعنی یہی لوگ جو اس صفت سے متصف ہیں۔﴿هُمُ الْخَاسِرُونَ﴾ دنیا و آخرت میں خسارے میں پڑنے والے ہیں۔ خسارے کو ان فاسقین میں اس لیے محصور و محدود رکھا کیونکہ ان کا خسارہ ان کے تمام احوال میں عام ہے۔ ان کے نصیب میں کسی قسم کا کوئی نفع نہیں، کیونکہ ہر نیک کام کے مقبول ہونے کے لئے ایمان شرط ہے۔ پس جو ایمان سے محروم ہے، اس کے عمل کا کوئی وزن اور اعتبار نہیں، یہ خسارہ کفر کا خسارہ ہے۔ رہا وہ خسارہ جو کبھی کفر ہوتا ہے، کبھی گناہ اور معصیت کے زمرے میں اور کبھی مستحب امور کو ترک کرنے کی کوتاہی کے زمرے میں آتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں مذکور ہے۔ ﴿إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِي خُسْرٍ ﴾ (العصر:103؍2)” بے شک انسان ضرور گھاٹے میں ہے۔“ اس خسارے میں تمام انسان داخل ہیں سوائے ان لوگوں کے جو ایمان اور عمل صالح کی صفات، ایک دوسرے کو حق کی وصیت کرنے اور ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کرنے کی خوبیوں سے متصف ہیں نیز بھلائی سے محرومی کی حقیقت سے بھی وہ آشنا ہوتے ہیں، جس کو بندہ حاصل کرنے کے درپے ہوتا ہے اور اس کا حصول اس کے امکان میں ہوتا ہے۔ البقرة
28 اس آیت میں استفہام تعجب، زجر و توبیخ اور انکار کے معنی میں ہے۔ یعنی تم کیسے اللہ تعالیٰ کا انکار کرتے ہو جو تمہیں عدم میں سے وجود میں لایا اور اس نے تمہیں انواع و اقسام کی نعمتوں سے نوازا پھر وہ تمہارے وقت پورا ہونے پر تمہیں موت دے گا اور قبروں کے اندر تمہیں جزا دے گا پھر قیامت کے برپا ہونے پر تمہیں دوبارہ زندہ کرے گا۔ پھر تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے اور وہ تمہیں تمہارے اعمال کا پورا پورا بدلہ دے گا۔ پس جب تم اللہ تعالیٰ کے تصرف میں ہو، اس کی تدبیر اور اس کے احسان کے تحت زندگی بسر کر رہے ہو، اور تم (دنیا میں) اس کے احکام دینیہ اور اس کے بعد (آخرت میں) اس کے قانون جزا و سزا کے تحت آتے ہو، تب کیا تمہیں یہ لائق ہے کہ تم اس کا انکار کرو؟ کیا تمہارا یہ رویہ ایک بڑی جہالت اور ایک بڑی حماقت کے سوا کچھ اور ہے ؟ اس کے برعکس تمہارے لئے مناسب تو یہ تھا کہ تم اس سے ڈرتے، اس کا شکر ادا کرتے، اس پر ایمان لاتے، اس کے عذاب سے خوف کھاتے اور اس کے ثواب کی امید رکھتے۔ البقرة
29 ﴿ هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُم مَّا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا﴾” وہی ہے جس نے پیدا کیا تمہارے واسطے جو کچھ زمین ہے سب کا سب“ یعنی اس نے تم پر احسان اور رحم کرتے ہوئے تمہارے فائدے، تمہارے تمتع اور تمہاری عبرت کے لئے زمین کی تمام موجودات کو پیدا کیا ہے۔ یہ آیت کریمہ اس بات کی دلیل ہے کہ تمام اشیاء میں اصل، اباحت اور طہارت ہے۔ (یعنی ہر چیز جائز اور پاک ہے) کیونکہ یہ آیت احسان جتلانے کے سیاق میں ہے۔ اس جواز سے تمام ناپاک چیزیں نکل جاتی ہیں، اس لئے کہ ان کی حرمت بھی فحوائے آیت اور بیان مقصود سے ماخوذ ہے۔ نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ان اشیاء کو ہمارے فائدے کے لئے تخلیق فرمایا ہے، لہٰذا ان میں سے جس کسی چیز میں کوئی نقصان ہے تو وہ اس اباحت سے خارج ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی نعمت کاملہ ہے کہ اس نے ہمیں خبائث سے منع کیا تاکہ ہم پاکیزہ رہیں۔ ﴿ثُمَّ اسْتَوَىٰ إِلَى السَّمَاءِ فَسَوَّاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ ۚ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ ﴾ ” پھر قصد کیا اس نے آسمان کی طرف، سو ٹھیک کردیا ان کو سات آسمان، اور وہ ہر چیز کا جاننے والا ہے۔ “ کلمہ ” استوی“ کے معانی : استویٰ قرآن مجید میں تین معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ (1) کبھی یہ حرف کے ساتھ مل کر متعدی نہیں ہوتا تب یہ ” کمال‘ اور ” اتمام“ کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَلَمَّا بَلَغَ أَشُدَّهُ وَاسْتَوَىٰ﴾ ( القصص :14؍28 )” جب وہ اپنی جوانی کو پہنچا اور کامل جوان ہوا۔ “ (2) کبھی یہ ارتفاع اور بلند ہونے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور یہ اس وقت ہوتا ہے جب یہ "علیٰ" کے ساتھ متعدی ہو۔ جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿الرَّحْمَـٰنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَىٰ ﴾ (طہ :20؍5) ” رحمٰن جس نے عرش پر قرار پکڑا۔“ اور ارشاد ہے۔ ﴿لِتَسْتَوُوا عَلَىٰ ظُهُورِهِ﴾ (الزخرف : 34؍ 13) ” تاکہ تم اس کی پیٹھ پر قرار پکڑو“۔ (3) اور کبھی ” یہ قصد کرنے“ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ اس وقت یہ ” الیٰ“ کے ساتھ متعدی ہوتا ہے، جیسا کہ زیر تفسیر آیت میں ہے۔ یعنی جب اللہ تعالیٰ نے زمین پیدا کی تو پھر اس نے آسمانوں کی تخلیق کا قصد کیا ﴿فَسَوَّاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ﴾ ” پھر اس نے انہیں ٹھیک سات آسمان بنادیا“ یعنی آسمانوں کو پیدا کیا، ان کو مستحکم اور مضبوط کیا۔ ﴿وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ ﴾ ” اور وہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے“ یعنی ﴿يَعْلَمُ مَا يَلِجُ فِي الْأَرْضِ وَمَا يَخْرُجُ مِنْهَا وَمَا يَنزِلُ مِنَ السَّمَاءِ وَمَا يَعْرُجُ فِيهَا﴾ (الحدید : 57 ؍ 4) ” جو کچھ زمین میں داخل ہوتا ہے، جو کچھ زمین سے نکلتا ہے، جو کچھ آسمان سے اترتا ہے اور جو کچھ آسمان میں چڑھتا ہے وہ اسے جانتا ہے“ اور﴿يَعْلَمُ مَا تُسِرُّونَ وَمَا تُعْلِنُونَ﴾ (النحل : 16 ؍ 19) ” جو کچھ تم چھپاتے ہو اور جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو، وہ سب جانتا ہے“ اور﴿يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفَى﴾(طہ:20؍7) ” وہ تمام بھیدوں اور چھپی ہوئی چیزوں کا علم رکھتا ہے۔ “ اللہ تعالیٰ نے بہت سے مقامات پر اپنی قدرت تخلیق اور اپنے لئے اثبات علم کو ساتھ ساتھ بیان فرمایا جیسا کہ اس آیت میں اور ایک دوسری آیت میں بیان فرمایا ہے : ﴿أَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ ﴾ (الملک : 67؍ 14) ” کیا وہ نہیں جانتا جس نے پیدا کیا، اور وہ تو تمام پوشیدہ باتوں کو جاننے والا اور باخبر ہے۔ “ کیونکہ مخلوقات کو پیدا کرنا اس کے علم و حکمت اور اس کی قدرت کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ البقرة
30 ﴿وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً﴾ ” اور جب آپ کے رب نے فرشتوں سے کہا، میں زمین میں ایک خلیفہ بناؤں گا“ یہ ابوالبشر حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کی ابتدا اور ان کی فضیلت کا ذکر ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے آدم کی تخلیق کا ارادہ کیا تو اس نے فرشتوں کو آگاہ کیا اور فرمایا کہ وہ آدم کو زمین کے اندر خلیفہ بنائے گا۔ اس پر تمام فرشتوں نے کہا ﴿ أَتَجْعَلُ فِيهَا مَن يُفْسِدُ فِيهَا﴾” کیا تو زمین میں اس کو بنائے گا جو اس میں فساد کرے گا“ یعنی گناہوں کا ارتکاب کرکے زمین پر فساد برپا کرے گا ﴿ وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ﴾” اور خون بہائے گا“ یہ عموم کے بعد تخصیص ہے اور اس کا مقصد قتل کے مفاسد کی شدت کو بیان کرنا ہے اور یہ فرشتوں کے گمان کے مطابق تھا کہ وہ ہستی جسے زمین میں خلیفہ بنایا جارہا ہے اس کی تخلیق سے زمین کے اندر فساد ظاہر ہوگا، چنانچہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی پاکیزگی اور عظمت بیان کرتے ہوئے عرض کیا کہ وہ اس طریقے سے اللہ تعالیٰ کی عبادت کررہے ہیں جو تمام مفاسد سے پاک ہے۔ چنانچہ انہوں نے کہا ﴿ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ﴾ ” اور ہم تیری پاکیزگی بیان کرتے ہیں تیری خوبیوں کے ساتھ“ یعنی ہم ایسی تنزیہ کے ساتھ تیری پاکیزگی بیان کرتے ہیں جو تیری حمد و جلال کے لائق ہے۔ ﴿وَنُقَدِّسُ لَكَ﴾اس میں ایک معنی کا احتمال یہ ہے کہ ہم تیری تقدیس بیان کرتے ہیں یعنی (نُقَدِّسَكَ) اس صورت میں لام تخصیص اور اخلاص کا فائدہ دے گا۔ دوسرا احتمال یہ ہے کہ اس کے معنی ہوں۔ ( وَنُقَدِّسُ لَكَ أ َ نفُسَنَا) ” ہم اپنے آپ کو تیرے لئے پاک کرتے ہیں“ یعنی ہم اپنے نفوس کو اخلاق جمیلہ جیسے محبت الہٰی، خثیت الہٰی اور تعظیم الہٰی کے ذریعے سے پاک کرتے ہیں اور ہم اپنے نفسوں کو اخلاق رزیلہ سے بھی پاک کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے کہا ﴿ إِنِّي أَعْلَمُ﴾یعنی میں جانتا ہوں کہ یہ خلیفہ کون ہے۔ ﴿مَا لَا تَعْلَمُونَ﴾جو تم نہیں جانتے کیونکہ تمہارا کلام تو ظن اور گمان پر مبنی ہے جب کہ میں ظاہر و باطن کا علم رکھتا ہوں اور مجھے معلوم ہے کہ اس خلیفہ کی تخلیق سے جو خیر اور بھلائی حاصل ہوگی وہ اس شر سے کئی گنا زیادہ ہے جو اس کی تخلیق میں مضمر ہے اور اس میں یہ بات بھی نہ ہوتی، تب بھی اللہ تعالیٰ کا یہ ارادہ کہ وہ انسانوں میں سے انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کو چنے، اس کی نشانیاں مخلوق پر واضح ہوں اور اس سے عبودیات کی وہ کیفیتیں حاصل ہوں جو اس خلیفہ کی تخلیق کے بغیر حاصل نہ ہوسکتی تھیں، جیسے جہاد وغیرہ ہیں اور امتحان اور آزمائش کے ذریعے سے خیر و شر کی وہ قوتیں ظاہر ہوں جو مکلفین کی فطرت میں پوشیدہ ہیں اور اللہ تعالیٰ کے دشمنوں، دوستوں، اس کے خلاف جنگ لڑنے والوں اور حزب اللہ کے مابین امتیاز ہو اور ابلیس کا وہ شر ظاہر ہو جو اس کی فطرت میں پوشیدہ ہے اور جس سے وہ متصف ہے۔ تو آدم علیہ السلام کی تخلیق میں یہ حکمتیں ہی اتنی عظیم ہیں کہ ان میں سے چند ایک بھی اس کی تخلیق کے لئے کافی ہیں۔ البقرة
31 پھر چونکہ فرشتوں کے قول میں ان کے اس خیال کی طرف اشارہ ہے کہ انہیں اس خلیفہ پر فضیلت حاصل ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا کہ وہ فرشتوں پر آدم کی فضیلت کو واضح کردے، تاکہ اس کے ذریعے سے وہ آدم کی فضیلت اور اللہ تعالیٰ کے کمال حکمت اور اس کے علم کو جان لیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا﴾ یعنی اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو تمام چیزوں کے اسماء اور ان کے مسمی کا علم عطا کردیا۔ پس اس نے اسے اسم اور مسمی دونوں کی تعلیم دی۔ یعنی الفاظ اور معانی دونوں سکھا دئیے۔ یہاں تک کہ اسماء میں سے مکبر اور مصغر کے مابین امتیاز کو بھی واضح کردیا، مثلاً ” قَصْعَةٌ “ (پیالہ) اور ” قُصَیْعَةٌ “ (چھوٹا سا پیالہ) ﴿ثُمَّ عَرَضَهُمْ ﴾ یعنی پھر ان مسمیات کو پیش کیا۔ ﴿عَلَى الْمَلَائِكَةِ﴾” فرشتوں پر“ یعنی فرشتوں کو آزمانے کے لئے کہ آیا یہ ان مسمیات کو پہچانتے ہیں یا نہیں اور فرمایا: ﴿فَقَالَ أَنبِئُونِي بِأَسْمَاءِ هَـٰؤُلَاءِ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ﴾اگر تم اپنے اس دعوے اور گمان میں سچے ہو کہ تم اس خلیفہ سے افضل ہو تو مجھے ان چیزوں کے نام بتاؤ۔ البقرة
32 ﴿قَالُوا سُبْحَانَكَ﴾ فرشتوں نے جواب دیا کہ ہم نے تجھ پر جو اعتراض کیا تھا اور تیرے حکم کی مخالفت کا ارتکاب کر بیٹھے۔ اس سے تجھے منزہ اور پاک تسلیم کرتے ہیں۔ ﴿ لَا عِلْمَ لَنَا﴾یعنی ہمیں کسی بھی پہلو سے کوئی علم نہیں ﴿ إِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا﴾سوائے اس علم کے جو تو نے اپنے فضل و کرم سے ہمیں عطا کیا ہے۔ ﴿إِنَّكَ أَنتَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ ﴾( اَلْعَلِيمُ )اس ہستی کو کہا جاتا ہے، جس نے اپنے علم کے ذریعے سے ہر چیز کا احاطہ کررکھا ہو۔ اس کے علم سے کوئی چیز باہر نہ ہو آسمانوں اور زمین میں کوئی ذرہ بھر چیز بھی اس سے پوشیدہ نہ ہو، اس ذرے سے بڑی یا اس سے چھوٹی کوئی چیز بھی اس سے چھپی ہوئی نہ ہو۔ (اَلْحَکِیْم) اس ہستی کو کہا جاتا ہے جو کامل حکمت کی مالک ہو۔ کوئی مخلوق اس کی حکمت سے باہر نہ ہو اور کوئی مامور اس حکمت سے علیحدہ نہ ہو۔ پس اللہ تعالیٰ نے کوئی چیز ایسی پیدا نہیں کی جس میں کوئی حکمت نہ ہو اور نہ کوئی ایسا حکم دیا ہے جو حکمت سے خالی ہو۔ حکمت سے مراد ہے کسی چیز کو اس کے اس مقام پر رکھنا جو اس کے لائق ہے۔ فرشتوں نے اللہ تعالیٰ کی حکومت اور علم کا اقرار اور اعتراف کیا اور اس بات کو بھی تسلیم کیا کہ وہ ایک ادنیٰ سی چیز کی معرفت سے بھی قاصر تھے۔ انہوں نے اس حقیقت کا بھی اعتراف کیا کہ ان پر اللہ تعالیٰ نے فضل کیا اور انہیں وہ کچھ سکھایا جو وہ نہ جانتے تھے۔ البقرة
33 پس اس وقت اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿يَا آدَمُ أَنبِئْهُم بِأَسْمَائِهِمْ﴾ اے آدم ! ان کو ان کے ناموں کی خبر دو“ یعنی ان تمام مسمیات کے اسماء کے بارے میں آگاہ کرو جن کو اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے سامنے پیش کیا تھا اور فرشتے ان کے نام بتانے سے قاصر رہے۔ ﴿فَلَمَّا أَنبَأَهُم﴾” جب آدم علیہ السلام نے فرشتوں کو ان ناموں سے آگاہ کیا“ تو ان پر آدم کی فضیلت ظاہر اور اس کو خلیفہ بنانے میں باری تعالیٰ کی حکمت اور اس کا علم ثابت ہوگیا۔ ﴿ قَالَ أَلَمْ أَقُل لَّكُمْ إِنِّي أَعْلَمُ غَيْبَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ﴾” اللہ نے فرمایا، کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ میں آسمانوں اور زمین کی چھپی ہوئی چیزوں کو جانتا ہوں۔“ غیب سے مراد ہر وہ چیز ہے جو ہم سے اوجھل ہوا اور ہم اس کا مشاہدہ نہ کرسکتے ہوں۔ جب وہ غائب چیزوں کا علم رکھتا ہے تو مشہودات کو وہ بدرجہ اولیٰ جانتا ہے۔ ﴿  وَأَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ﴾یعنی میں جانتا ہوں اس چیز کو جسے تم ظاہر کرتے ہو ﴿مَا كُنتُمْ تَكْتُمُونَ﴾” اور جو کچھ تم چھپاتے ہو“۔ البقرة
34 پھر اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ آدم علیہ السلام کے اکرام و تعظیم اور اللہ تعالیٰ کی عبودیت کے اظہار کے لئے آدم علیہ السلام کے سامنے سجدہ ریز ہوں۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم کی اطاعت کی اور تمام فرشتے اسی وقت سجدے میں گر گئے ﴿ إِلَّا إِبْلِيسَ أَبَىٰ﴾سوائے ابلیس کے، اس نے سجدہ کرنے سے انکار کردیا۔ اس نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے سامنے تکبر کا اظہار کیا اور آدم علیہ السلام سے اپنے آپ کو بڑا سمجھا۔ اس نے تکبر سے کہا : ﴿ أَأَسْجُدُ لِمَنْ خَلَقْتَ طِينًا﴾(بنی اسرائیل :61؍17)” کیا میں ایسے شخص کو سجدہ کروں جسے تو نے مٹی سے تخلیق کیا ہے۔“ یہ انکار اور استکبار اس کے اس کفر کا نتیجہ تھا جو اس کی سرشت میں پوشیدہ تھا۔ اس وقت اللہ تعالیٰ اور آدم علیہ السلام سے اس کی عداوت ظاہر ہوگئی اور اس کا کفر و استکبار عیاں ہوگیا۔ ان آیات کریمہ سے کچھ نصیحتیں اور کچھ نکات ماخوذ ہوتے ہیں۔ (1) اللہ تعالیٰ کے لئے کلام کا اثبات، وہ ہمیشہ سے کلام کرتا رہا ہے، وہ جو چاہتا ہے کہتا ہے، وہ جو چاہتا ہے کلام کرتا ہے، وہ علم والا اور حکمت والا ہے۔ (2) بندے پر جب بعض مخلوقات اور مامورات میں پوشیدہ اللہ تعالیٰ کی حکمت مخفی رہ جائے تو اس پر سر تسلیم خم کرنا، اپنی عقل کو ناقص ٹھہرانا اور اللہ تعالیٰ کی حکمت کا اقرار کرنا واجب ہے۔ (3) ان آیات سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے معاملے کو اہمیت دی، ان پر احسان عظیم فرمایا، جس چیز کے بارے میں وہ جاہل تھے اس کی انہیں تعلیم دی اور جس کا انہیں علم نہ تھا اس پر انہیں متنبہ فرمایا۔ ان آیات میں مندرجہ ذیل وجوہ سے علم کی فضیلت بیان ہوئی ہے۔ (الف) اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتوں کو اپنے علم و حکمت کی معرفت عطا کی۔ (ب) اللہ تعالیٰ نے ان کو اس حقیقت سے واقف کرایا کہ آدم علیہ السلام کو بربنائے علم فضیلت حاصل ہے اور علم بندے کی افضل ترین صفت ہے۔ (ج) جب آدم علیہ السلام کے علم کی فضیلت واضح اور عیاں ہوگئی تو اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ آدم علیہ السلام کے اکرام و تکریم کے لئے اسے سجدہ کریں۔ (د) کسی اور کو کسی امتحان کے ذریعے سے آزمانا جبکہ اس امتحان میں کچھ لوگ پورے نہ اترے ہوں، پھر امتحان میں پورا اترنے والے صاحب فضیلت سے یہ امتحان لے تو یہ اس شخص سے زیادہ کامل ہے جس سے ابتدا میں امتحان لیا گیا تھا۔ (ھ) جن و انس کے والدین کے احوال سے عبرت پذیری، آدم علیہ السلام کی فضیلت، اس پر اللہ تعالیٰ کے احسانات اور آدم کے ساتھ ابلیس کی عداوت کا اظہار اور اس جیسی دیگر عبرتیں۔ البقرة
35 ﴿وَقُلْنَا يَا آدَمُ اسْكُنْ أَنتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ وَكُلَا مِنْهَا رَغَدًا﴾ ’’اور ہم نے کہا، اے آدم ! رہ تو اور تیری بیوی جنت میں اور کھاؤ تم اس سے خوب سیر ہو کر۔“ جب اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو تخلیق کیا، اس کو فضیلت عطا کی، تو خود اسی میں سے اس کی بیوی کو پیدا کر کے اس پر اپنی نعمت کا اتمام کردیا تاکہ وہ اپنی بیوی کے پاس سکون، راحت اور انس حاصل کرے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو حکم دیا کہ وہ جنت میں رہیں اور جنت میں مزے سے بے روک ٹوک کھائیں پئیں۔ ﴿ حَيْثُ شِئْتُمَا﴾یعنی جہاں سے چاہو، مختلف اصناف کے پھل اور میوے کھاؤ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿ إِنَّ لَكَ أَلَّا تَجُوعَ فِيهَا وَلَا تَعْرَىٰ وَأَنَّكَ لَا تَظْمَأُ فِيهَا وَلَا تَضْحَىٰ  ﴾(طہ۔2؍118۔119)’’یہاں تجھے یہ آسانی حاصل ہوگی کہ تو اس میں بھوکا رہے گا نہ عریاں ہوگا نہ تو اس میں پیاسا ہوگا اور نہ تجھے دھوپ لگے گی۔ “ ﴿ وَلَا تَـقْرَبَا ھٰذِہِ الشَّجَرَۃَ ﴾” اور دونوں اس درخت کے قریب نہ جانا“ یہ جنت کے درختوں میں سے ایک درخت ہے۔ واللہ اعلم۔ آدم اور اس کی بیوی کو صرف ان کی آزمائش اور امتحان کے لئے یا کسی ایسی حکمت کے تحت اس درخت کے قریب جانے سے روکا گیا تھا جو ہمارے علم میں نہیں۔ ﴿ فَتَکُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِیْنَ﴾” پس تم بے انصافوں میں سے ہوجاؤ گے“ یہ آیت اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ یہاں نہی تحریم کے لئے ہے، کیونکہ اس ممانعت پر عمل نہ کرنے کو ظلم کہا ہے۔ ان کا دشمن (ابلیس) ان کے دلوں میں وسوسے ڈالتا رہا اور اس درخت کے پھل کو تناول کرنے کی خوبیوں کو مزین کر کے انہیں اس پھل کو کھا لینے کی ترغیب دیتا رہا حتیٰ کہ وہ انہیں پھسلانے میں کامیاب ہوگیا۔ ابلیس کی تزئین نے ان کو اس لغزش پر آمادہ کیا۔ ﴿ وَقَاسَمَهُمَا إِنِّي لَكُمَا لَمِنَ النَّاصِحِينَ﴾(الاعراف : 7؍ 21) ” اس نے ان دونوں کے سامنے قسم کھائی کہ میں تمہارا خیر خواہ ہوں۔“ چنانچہ وہ دونوں اس کی باتوں میں آ کر دھوکا کھا گئے اور اس کے پیچھے لگ گئے اور اس نے ان دونوں کو نعمتوں اور آسائشوں کے گھر سے نکال باہر کیا اور ان کو دکھوں، تکلیفوں اور مجاہدے کی سرزمین پر اتار دیا گیا۔ البقرة
36 ﴿ بَعْضُکُمْ لِبَعْضٍ﴾” تمہارا ایک، دوسرے کا دشمن ہے۔“ یعنی ابلیس اور اس کی ذریت، آدم علیہ السلام اور اولاد آدم کی دشمن ہوگی اور ہمیں معلوم ہے کہ دشمن اپنے دشمن کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا ہے۔ ہر طریقے سے اس کی برائی چاہتا ہے اور ہر طریقے سے اسے بھلائی سے محروم کرنے کے در پے رہتا ہے۔ اس ضمن میں بنی آدم کو شیطان سے ڈرایا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔﴿إِنَّ الشَّيْطَانَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوهُ عَدُوًّا ۚ إِنَّمَا يَدْعُو حِزْبَهُ لِيَكُونُوا مِنْ أَصْحَابِ السَّعِيرِ﴾(فاطر:35؍ 6)’’بے شک شیطان تمہارا دشمن ہے تم اسے دشمن ہی سمجھو وہ تو اپنی جماعت کو بلاتا ہے تاکہ وہ جہنم والے بن جائیں۔“ ﴿أَفَتَتَّخِذُونَهُ وَذُرِّيَّتَهُ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِي وَهُمْ لَكُمْ عَدُوٌّ ۚ بِئْسَ لِلظَّالِمِينَ بَدَلًا﴾ (الکھف: 18؍50 )’’کیا تم اسے اور اس کی اولاد کو میرے سوا اپنا دوست بناتے ہوحالانکہ وہ تمہارے دشمن ہیں؟ اور ظالموں کے لیے بہت ہی برا بدلہ ہے۔ “ پھر انہیں زمین پر اتارے جانے کے مقصد سے آگاہ کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ وَلَکُمْ فِی الْاَرْضِ مُسْـتَقَرٌّ﴾یعنی زمین کے اندر تمہارا مسکن اور ٹھکانا ہوگا۔ ﴿ وَّمَتَاعٌ اِلٰی حِیْنٍ﴾تمہارا وقت پورا ہونے تک (تم نے اس سے فائدہ اٹھانا ہے) پھر تم اس گھر میں منتقل ہوجاؤ گے جس کے لیے تمہیں اور جسے تمہارے لئے پیدا کیا گیا ہے۔ اس آیت کریمہ میں واضح ہے کہ اس زندگی کی مدت عارضی اور ایک خاص وقت تک کے لیے ہے، یہ دنیا حقیقی مسکن نہیں ہے۔ یہ تو ایک راہ گزر ہے جہاں سے اگلے جہان کے لئے زادراہ حاصل کیا جاتا ہے (دوران سفر) اس راہ گزر میں مستقل ٹھکانا تعمیر نہیں کیا جاتا۔ البقرة
37 آدم علیہ السلام نے (کچھ کلمات) سیکھ لیے اور یاد کرلیے، اللہ تعالیٰ نے یہ کلمات آدم کو الہام کئے تھے۔ وہ کلمات یہ تھے﴿ رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ﴾ (الاعراف : 7؍ 23) ” اے ہمارے رب ! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر تو نے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ فرمایا تو ہم ضرور خسارہ پانے والوں میں سے ہوجائیں گے۔“ آدم علیہ السلام نے اپنے گناہ کا اعتراف کر کے اللہ تعالیٰ سے اس کی مغفرت کا سوال کیا۔ ﴿فَتَابَ عَلَیْہِ ۭ اِنَّہٗ ھُوَ التَّوَّابُ﴾ ’’پس اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کی توبہ قبول کرلی اور اس پر رحم فرمایا جو کوئی توبہ کرتا اور اس کی طرف رجوع کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے بندوں کی طرف رجوع کرنے کی دو قسمیں ہیں۔ (1) سب سے پہلے اللہ تعالیٰ بندے کو توبہ کی توفیق عطا کرتا ہے۔ (2) پھر جب توبہ کی تمام شرائط پوری ہوجاتی ہیں تو اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرلیتا ہے۔ ﴿ الرَّحِیْمُ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر بہت ہی رحم کرنے والا ہے۔ ان پر اس کی رحمت یہ ہے کہ اس نے انہیں توبہ کی توفیق سے نوازا اور ان کو معاف کر کے ان سے درگزر فرمایا۔ البقرة
38 ﴿ قُلْنَا اھْبِطُوْا مِنْہَا جَمِیْعًا ﴾” ہم نے کہا اتر واس سے اکٹھے“۔ زمین پر اتارے جانے کا مکرر ذکر کیا، تاکہ اس پر وہ حکم مرتب کیا جائے جس کا ذکر یہاں کیا جا رہا ہے۔ ﴿ فَاِمَّا یَاْتِیَنَّکُمْ مِّـنِّیْ ھُدًی﴾ یعنی اے جن وانس ! اگر تمہارے پاس میری طرف سے کسی وقت اور کسی بھی زمانے میں ہدایت پہنچے، یعنی کوئی رسول اور کوئی کتاب آئے جو اس راستے کی طرف تمہاری راہنمائی کرے جو تمہیں میرا تقرب عطا کرے، میرے اور میری رضا کے قریب کرے۔ پس جو کوئی میری اس ہدایت کی پیروی کرتے ہوئے میرے رسولوں اور میری کتابوں پر ایمان لائے اور ان رسولوں کو راہنما بنائے۔۔۔ اور اس سے مراد ہے کہ وہ تمام انبیاء و مرسلین اور کتب وحی کی دی ہوئی خبر کی تصدیق کرے، اللہ کے اوامر پر عمل کرے اور اس کی منہیات سے اجتناب کرے۔ تب اس صورت میں﴿فَلَا خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ﴾ ” ان پر کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔“ ایک دوسرے مقام پر آتا ہے۔﴿فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقَىٰ﴾۔ (طٰہ: 20؍ 123) ’’جو کوئی میری ہدایت کی پیری کرے گا وہ نہ تو گمراہ ہوگا نہ بدبختی میں پڑے گا۔ “ البقرة
39 پس اللہ تعالیٰ کی ہدایت کی پیروی پر چار چیزیں مرتب ہوتی ہیں۔ بندے سے حزن و خوف کی نفی۔ حزن اور خوف میں فرق یہ ہے کہ اگر غیر پسندیدہ امر گزر چکا ہو تو وہ دل میں حزن کا باعث ہوتا ہے اور اگر وہ اس غیر پسندیدہ امر کا منتظر ہو تو یہ خوف پیدا کرتا ہے۔ پس جس کسی نے ہدایت الٰہی کی پیروی کی اس سے حزن و خوف دور ہوگئے اور جب اس سے حزن و خوف کی نفی ہوگئی تو ان کی ضد ثابت ہوگئی اور وہ ہے ہدایت اور سعادت، لہٰذا جو کوئی بھی اس کی ہدایت کی پیروی کرتا ہے اسے امن، دنیاوی اور اخروی سعادت اور ہدایت حاصل ہوتی ہے اور ہر تکلیف دہ چیز یعنی حزن و خوف اور ضلالت و شقاوت اس سے دور کردی جاتی ہے۔ ہر مرغوب چیز اسے عطا کردی جاتی ہے اور خوف زدہ کرنے والی چیز اس سے دور ہٹا دی جاتی ہے۔ اس کے برعکس اس شخص کا معاملہ ہوگا جس نے اللہ تعالیٰ کی ہدایت کی پیروی نہ کی، پس اس کا انکار کیا اور اس کی آیات کو جھٹلایا۔ ﴿ اُولٰۗیِٕکَ اَصْحٰبُ النَّارِ﴾” یہی لوگ جہنمی ہیں“ یعنی جہنم ان کے لئے لازم ہے۔ جیسے ساتھی دوسرے ساتھی سے اور قرض خواہ مقروض سے چمٹا رہتا ہے۔ ﴿ ھُمْ فِیْہَا خٰلِدُوْنَ﴾” وہ اس جہنم میں ہمیشہ رہیں گے۔“ کبھی اس سے باہر نہیں نکلیں گے جہنم کا عذاب کبھی ان سے کم نہ ہوگا اور نہ ان کو کوئی مدد پہنچے گی۔ ان آیات کریمہ اور ان جیسی دیگر آیات سے ظاہر ہوتا ہے کہ مخلوق میں سے تمام جن و انس، اہل سعادت اور اہل شقاوت کی اقسام میں منقسم ہیں۔ ان آیات میں دونوں فریقوں کی صفات اور ان اعمال کا ذکر کیا گیا ہے جو سعادت یا شقاوت کے موجب ہیں۔ ان آیات سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ” جن“ ثواب و عقاب کے معاملے میں انسانوں کی طرح ہیں جس طرح وہ ان کی مانند امرو نہی کے مکلف ہیں۔ البقرة
40 پھر اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر اپنی نعمتوں اور اپنے احسانات کا ذکر شروع کیا۔ فرمایا : یہاں اسرائیل سے مراد حضرت یعقوب علیہ السلام ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا یہ خطاب بنی اسرائیل کے ان گروہوں سے ہے جو مدینہ اور اس کے گرد و نواح میں آباد تھے۔ اس خطاب میں بعد میں آنے والے اسرائیلی بھی شامل ہیں۔ پس ان کو ایک عام حکم دیا ہے۔ فرمایا : ﴿ اذْکُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْٓ اَنْعَمْتُ عَلَیْکُمْ﴾” میری ان نعمتوں کو یاد کرو جو میں نے تم پر کیں“ ان نعمتوں میں تمام نعمتیں شامل ہیں۔ ان میں سے بعض کا ذکر عنقریب اس سورت میں آئے گا۔ یہاں ان نعمتوں کے یاد کرنے سے مراد دل میں ان نعمتوں کا اعتراف کرنا، زبان سے ان کی تعریف کرنا اور جوارح کے ذریعے سے ان نعمتوں کو ایسی جگہ استعمال کرنا ہے جہاں اللہ پسند کرتا ہے اور اس سے راضی ہوتا ہے۔ ﴿ وَاَوْفُوْا بِعَہْدِیْٓ﴾یعنی وہ اس عہد کو پورا کریں جو اللہ تعالیٰ نے ان سے لیا ہے کہ وہ اس پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لائیں گے اور اس کی شریعت کو قائم کریں گے۔ ﴿ اُوْفِ بِعَہْدِکُمْ ﴾” میں تم سے کیا ہوا عہد پورا کروں گا“ یہ ان کے عہد کے پورا کرنے کا بدلہ ہے۔ اس عہدسےمراد وہ عہد ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ذکر کیا ہے : ﴿وَلَقَدْ أَخَذَ اللَّـهُ مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَبَعَثْنَا مِنْهُمُ اثْنَيْ عَشَرَ نَقِيبًا ۖ وَقَالَ اللَّـهُ إِنِّي مَعَكُمْ ۖ لَئِنْ أَقَمْتُمُ الصَّلَاةَ وَآتَيْتُمُ الزَّكَاةَ وَآمَنتُم بِرُسُلِي وَعَزَّرْتُمُوهُمْ وَأَقْرَضْتُمُ اللَّـهَ قَرْضًا حَسَنًا لَّأُكَفِّرَنَّ عَنكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَلَأُدْخِلَنَّكُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ۚ فَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذَٰلِكَ مِنكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِيلِ﴾ (المائدة : 5؍12) ” اور اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے عہد لیا اور ان میں سے ہم نے بارہ سردار مقرر کردیے اور اللہ نے فرمایا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں اگر تم نماز قائم کرتے اور زکوٰۃ دیتے رہو گے، میرے رسولوں پر ایمان لاتے اور ان کی عزت و توقیر کرتے رہو گے اور اللہ کو قرض حسنہ دیتے رہو گے تو میں تم سے تمہارے گناہ دور کر دوں گا اور تمہیں ایسی جنتوں میں داخل کروں گا جس کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی، پھر تم میں سے جس نے اس کے بعد کفر کا ارتکاب کیا وہ سیدھے راستے سے بھٹک گیا۔ “ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو وہ اسباب اختیار کرنے کا حکم دیا جو وفائے عہد کے حامل ہیں یعنی اس اکیلے سے خوف کھانا اور ڈرنا، کیونکہ جو کوئی اس سے ڈرتا ہے تو یہ ڈر اس کے احکام کی اطاعت اور اس کے نواہی سے اجتناب کا موجب بنتا ہے۔ البقرة
41 پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو ایک خاص امر کا حکم دیا ہے جس کے بغیر ان کا ایمان مکمل ہوتا ہے نہ اس کے بغیر ایمان صحیح۔ فرمایا ﴿ وَاٰمِنُوْا بِمَآ اَنْزَلْتُ﴾” اور ایمان لاؤ اس پر جو میں نے نازل کیا۔“ اس سے مراد قرآن مجید ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے اور رسول محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لائیں اور ان کی اتباع کریں اور آپ پر ایمان لانے اور اتباع کرنے کا حکم اس کتاب پر بھی ایمان لانے کو مستلزم ہے جو آپ پر نازل کی گئی۔ پھر اس داعی کا ذکر کیا جو انہیں ایمان کی طرف بلاتا ہے۔ فرمایا : ﴿مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَکُمْ﴾” تصدیق کرنے والا ہے ان چیزوں کی جو تمہارے پاس ہیں‘‘ یعنی یہ (قرآن) ان کتابوں کی موافقت کرتا ہے جو تمہارے پاس ہیں یہ ان کے مخالف ہے نہ مناقض۔ پس جب یہ قرآن ان کتابوں کی موافقت کرتا ہے جو تمہارے پاس ہیں اور ان کی مخالفت نہیں کرتا تو پھر تمہارے اس پر ایمان لانے سے کوئی چیز مانع نہیں ہے۔ کیونکہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہی چیز لے کر آئے ہیں جو پہلے رسول لائے تھے، لہٰذا تم سب سے زیادہ مستحق ہو کہ تم اس پر ایمان لاؤ اور اس کی تصدیق کرو کیونکہ تم اہل کتاب اور اہل علم ہو۔ نیز اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَکُمْ ﴾میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ اگر تم اس پر ایمان نہیں لاؤ گے تو یہ تکذیب خود تمہاری طرف لوٹے گی یعنی تم خود بھی ان کتابوں کے جھٹلانے والے ٹھہرو گے جو تمہارے پاس ہیں۔ اس لئے کہ یہ پیغمبر بھی وہی چیز لے کر آیا ہے جو حضرت موسیٰ، عیسیٰ اور دیگر انبیا علیہ السلام لے کر آئے، لہٰذا تمہارا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تکذیب کرنا درحقیقت ان کتابوں کی تکذیب ہے جو تمہارے پاس ہیں۔ نیز اس لئے بھی کہ ان کتابوں میں، جو تمہارے پاس ہیں اس نبی کے اوصاف اور نشانیاں بیان ہوئی ہیں اور اس کی بشارت دی گئی جو یہ قرآن لے کر آیا ہے۔ اس لئے اگر تم اس پر ایمان نہیں لاتے تو تم نے گویا ان کتابوں کے بعض احکام کو جھٹلایا جو تمہارے پاس ہیں۔ پس جو کوئی اس کتاب کے کچھ حصے کو جھٹلاتا ہے جو اس کی طرف نازل کی گئی ہے تو وہ تمام کتابوں کو جھٹلاتا ہے۔ جیسے کوئی شخص کسی ایک رسول کا انکار کرتا ہے تو دراصل وہ تمام رسولوں کا انکار کرتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے ان کو اس رسول پر ایمان لانے کا حکم دیا، تو ان کو ایمان کی ضد یعنی اس کے ساتھ کفر سے روکا اور اس سے ڈرایا۔ فرمایا : ﴿وَلَا تَکُوْنُوْٓا اَوَّلَ کَافِرٍۢ بِہٖ ﴾یعنی رسول اللہ اور قرآن کی تکذیب کرنے والے پہلے لوگ نہ بنو۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿ اَوَّلَ کَافِرٍۢ بِہٖ ﴾” اس کے اولین انکار کرنے والے“ (وَلَاتَكْفُرُوا بِهٖ) ” اس کا انکار نہ کرو“ سے زیادہ بلیغ ہے کیونکہ جب وہ اولین کفر کرنے والے ہوں گے تو گویا وہ کفر کی طرف بہت تیزی سے لپکے ہیں اس رویہ کے برعکس جو ان کے لئے زیادہ مناسب تھا۔ ان کے اپنے کفر اور انکار کا گناہ تو ان کے ذمہ ہے ہی، بعد میں آنے والے ان لوگوں کا گناہ بھی ان کے کندھوں پر ہے جنہوں نے ان کی پیروی کی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس مانع کا ذکر کیا جو ان کو ایمان لانے سے روکتا ہے اور وہ ہے دنیا کے ادنیٰ فوائد کو ابدی سعادت پر ترجیح دینا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿ وَلَا تَشْتَرُوْا بِاٰیٰتِیْ ثَـمَنًا قَلِیْلًا﴾ ” میری آیات (میں تحریف کر کے ان) کے عوض حقیر معاوضہ مت لو“ اس سے مراد وہ دنیاوی مناصب اور کھانے پینے کی اشیاء ہیں جن کے بارے میں وہ اس وہم میں پڑے ہوئے ہیں کہ اگر وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان لے آئے تو وہ ان چیزوں سے محروم ہوجائیں گے۔ پس انہوں نے ان ادنیٰ چیزوں کو آیات الٰہی کے بدلے خرید لیا اور ادنیٰ چیزوں کو آیات الٰہی پر ترجیح دی۔ ﴿ وَاِیَّایَ فَاتَّقُوْنِ﴾” اور مجھ ہی سے ڈرو“ اور میرے سوا کسی سے نہ ڈرو۔ کیونکہ جب تم صرف اللہ تعالیٰ سے ڈرو گے تو یہ چیز تم میں تقویٰ اور تھوڑی سی قیمت کے مقابلے میں آیات الٰہی پر ایمان کو مقدم رکھنے کی موجب ہوگی۔ جیسے جب تم آیات الٰہی کے بدلے تھوڑی سی قیمت کو پسند کرلیتے ہو تو یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ تمہارے دلوں سے تقویٰ کوچ کر گیا ہے۔ البقرة
42 پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿ وَلَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَکْتُمُوا الْحَــقَّ﴾’’’اور خلط ملط نہ کرو حق کو باطل کے ساتھ اور نہ چھپاؤ تم حق کو“ پس اللہ تعالیٰ نے ان کو دو چیزوں سے منع کیا ہے۔ (1) حق کو باطل میں خلط ملط کرنے سے۔ (2) کتمان حق سے۔ اس لئے کہ اہل کتاب اور اہل علم سے مطلوب یہ ہے کہ وہ حق کو ممیز کر کے اس کو ظاہر کریں تاکہ ہدایت کے متلاشی حق کے ذریعے سے راہ پائیں اور گم گشتہ راہ لوگ سیدھے راستے کی طرف لوٹ آئیں اور اہل عناد پر حجت قائم ہو جائے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی آیات کو کھول کھول کر بیان کردیا ہے اور اپنے دلائل واضح کردیئے تاکہ حق باطل سے بالکل الگ اور ممیز ہوجائے اور مجرموں کا راستہ واضح ہوجائے۔ پس اہل علم میں سے جو کوئی حق پر عمل پیرا ہوتا ہے وہ انبیاء و مرسلین کا جانشین اور قوموں کا راہنما بن جاتا ہے اور جو حق کو باطل میں گڈ مڈ کردیتا ہے، حق کا علم رکھنے کے باوجود حق کو باطل سے ممیز نہیں کرتا اور اس حق کو وہ چھپاتا ہے جسے وہ جانتا ہے اور جس کے اظہار کا اسے حکم دیا گیا ہے تو ایسا شخص جہنم کے داعیوں میں شمار ہوتا ہے، کیونکہ لوگ دین کے معاملے میں اپنے علماء کے سوا کسی کی پیروی نہیں کرتے۔ پس تم ان دو چیزوں میں سے اپنے لیے جو چاہو چن لو۔ البقرة
43 پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ﴾ یعنی (ظاہری اور باطنی طور پر) نماز قائم کرو۔ ﴿ وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَ﴾ یعنی (مستحقین کو) زکوٰۃ دو۔ ﴿وَارْکَعُوْا مَعَ الرّٰکِعِیْنَ﴾’’اور رکوع کرو رکوع کرنے والوں کے ساتھ“ یعنی نماز پڑھنے والوں کے ساتھ مل کر نماز پڑھو۔ جب تم نے اللہ تعالیٰ کے رسولوں اور آیات الٰہی پر ایمان رکھتے ہوئے ان افعال کو سرانجام دیا تو یقیناً تم نے اعمال ظاہرہ اور اعمال باطنہ کو، معبود کے لئے اخلاص اور اس کے بندوں کے ساتھ حسن سلوک کو اور عبادات قلبیہ، عبادات بدنیہ اور مالیہ کو جمع کرلیا۔ اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿وَارْکَعُوْا مَعَ الرّٰکِعِیْنَ﴾’’رکوع کرنے والوں کے ساتھ مل کر رکوع کرو‘‘ کے معنی یہ ہیں کہ نماز پڑھنے والوں کے ساتھ مل کر نماز پڑھو۔ پس اس آیت کریمہ میں با جماعت نماز کا حکم اور جماعت کے وجوب کا حکم ہے اور یہ کہ رکوع نماز کا رکن ہے کیونکہ یہاں نماز کو رکوع سے تعبیر کیا گیا ہے اور عبادت کو اس کے کسی جزو سے تعبیر کرنا عبادت میں اس جزو کی فرضیت کی دلیل ہے۔ البقرة
44 ﴿ اَتَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبر ﴾” کیا تم لوگوں کو نیکی (یعنی ایمان اور بھلائی) کا حکم دیتے ہو؟“ ﴿’ِ وَتَنْسَوْنَ اَنْفُسَکُمْ﴾ اور بھول جاتے ہو اپنے آپ کو“ یعنی تم اپنے آپ کو ایمان اور بھلائی کا حکم دینا چھوڑ دیتے ہو۔ ﴿وَاَنْتُمْ تَتْلُوْنَ الْکِتٰبَ۝٠ۭ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ﴾اور تمہارا حال یہ ہے کہ تم کتاب اللہ کی تلاوت کرتے ہو، کیا تم سمجھتے نہیں؟ عقل کو اس لئے عقل کہا جاتا ہے کیونکہ اس کے ذریعے سے فائدہ مند چیز اور بھلائی کا شعور حاصل کیا جاتا ہے اور اس کے ذریعے سے اس چیز سے بچا جاتا ہے جو ضر ررساں ہے، اس لیے کہ عقل انسان کو اس بات پر آمادہ کرتی ہے کہ وہ جس چیز کا حکم دیتا ہے اس پر سب سے پہلے خود عمل کرے اور جس چیز سے روکتا ہے اس کو سب سے پہلے خود ترک کرے۔ پس جو کوئی کسی کو بھلائی کا حکم دیتا ہے اور خود اس پر عمل پیرا نہیں ہوتا یا وہ کسی کو برائی سے روکتا ہے اور خود اسے ترک نہیں کرتا تو یہ چیز اس کی جہالت اور اس کے بے عقل ہونے کی دلیل ہے خاص طور پر جبکہ ایسا شخص اس حقیقت کا علم بھی رکھتا ہو۔ پس اس پر حجت قائم ہوگئی۔ ہرچند کہ یہ آیت کریمہ بنی اسرائیل کے معاملہ میں نازل ہوئی ہے تاہم اس کا حکم ہر ایک کے لئے عام ہے۔ اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : ﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ-  كَبُرَ مَقْتًا عِندَ اللَّـهِ أَن تَقُولُوا مَا لَا تَفْعَلُونَ﴾( الصف: 61؍ 2۔3) ”اے ایمان والو ! تم ایسی بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں۔ یہ بات اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت بڑی ناراضی کی بات ہے کہ تم ایسی بات کہو جس پر عمل نہ کرو۔ “ آیت کریمہ میں اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ انسان جس کام کے کرنے کا حکم دیتا ہے اگر خود اس پر عمل نہیں کرتا تو وہ نیکی کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے سے رک جائے کیونکہ یہ آیت دونوں واجبات کی نسبت تو بیخ پر دلالت کرتی ہے۔ ورنہ ہمیں معلوم ہے کہ انسان پر دو امور واجب ہیں۔ (1) کسی دوسرے کو نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا۔ (2) خود اپنے آپ کو نیکی پر آمادہ کرنا اور برائی سے رک جانا۔ ان میں سے ایک چیز کو ترک کرنے سے دوسری چیز کو ترک کرنے کی رخصت لازم نہیں آتی۔ کیونکہ کمال یہ ہے کہ انسان دونوں واجبات پر عمل کرے اور نقص یہ ہے کہ وہ دونوں واجبات کو ترک کر دے۔ رہا ان دونوں واجبات میں سے کسی ایک پر عمل کرنا تو یہ رتبہ کمال سے نیچے اور نقص سے اوپر ہے۔ نیز اس کی وجہ یہ ہے کہ نفوس انسانی کی جبلت میں یہ چیز داخل ہے کہ لوگ اس شخص کی اطاعت نہیں کرتے جس کا قول اس کے فعل کے خلاف ہوتا ہے پس وہ عمل سے عاری اقوال کی نسبت افعال کی زیادہ پیروی کرتے ہیں۔ البقرة
45 ﴿وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ ﴾” اور مدد حاصل کرو صبر سے اور نماز سے۔“ اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم دیا ہے کہ وہ تمام امور میں صبر کی تمام اقسام سے مدد لیں۔ صبر کی اقسام یہ ہیں۔ (1) اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر اپنے نفس کو پابند کرنا۔ (2) اس کی نافرمانی سے اپنے آپ کو روکنا یہاں تک کہ اسے ترک کر دے۔ (3) اس کی تقدیر پر صبر کرنا اور اس پر ناراضی کا اظہار نہ کرنا۔ ہر معاملے میں صبر کے ذریعے سے بڑی مدد ملتی ہے۔ جو کوئی صبر کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے صبر کرنے کی توفیق سے نواز دیتا ہے۔ اسی طرح نماز ہے جو کہ ایمان کی میزان ہے اور فواحش و منکرات سے روکتی ہے۔ ہر معاملہ میں نماز سے مدد لی جاتی ہے۔ ﴿وَإِنَّهَا﴾ یعنی نماز ﴿لَكَبِيرَةٌ﴾بہت شاق گزرتی ہے ﴿إِلَّا عَلَى الْخَاشِعِينَ﴾ سوائے ڈرنے والوں کے۔ اس لئے کہ یہ نماز ان پر بہت آسان اور ہلکی ہے کیونکہ خشوع، خشیت الٰہی اور اللہ تعالیٰ کے ثواب کی امیدان کے لئے شرح صدر کے ساتھ نماز کے قیام کی موجب ہوتی ہے کیونکہ وہ ثواب کی امید کرتے اور عذاب سے ڈرتے ہیں۔ اس کے برعکس جو ثواب کی امید نہیں رکھتا اور عذاب سے نہیں ڈرتا اس کے اندر کوئی ایسا داعیہ موجود نہیں ہوتا جو اسے نماز کی طرف بلائے۔ جب ایسا شخص نماز پڑھتا ہے تو نماز اس کے لئے سب سے بوجھل چیز ہوتی ہے۔ خشوع سے مراد ہے قلب کا اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزی کے ساتھ سرافگندہ ہونا، اس کا اللہ تعالیٰ کے پاس پر سکون اور مطمئن ہونا اور اس کے سامنے ذلت و فقر کے ساتھ اس کی ملاقات کی امید پر انکسار کا اظہار کرنا۔ البقرة
46 بنابریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿ۙالَّذِیْنَ یَظُنُّوْنَ﴾ یعنی جو یقین کرتے ہیں﴿ اَنَّھُمْ مُّلٰقُوْا رَبِّہِمْ﴾ کہ وہ اپنے رب سے ملاقات کریں گے اور وہ ان کو ان کے اعمال کی جزا دے گا۔﴿ وَاَنَّھُمْ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ﴾ اور یہ کہ وہ اسی کی طرف لوٹیں گے“ اس یقین نے ان کے لئے عبادات کو آسان کردیا ہے۔ یہی یقین مصائب میں ان کے لئے تسلی کا موجب ہوتا ہے، تکالیف کو ان سے دور کرتا ہے اور برے کاموں سے انہیں روکتا ہے۔ پس یہی وہ لوگ ہیں جن کے لئے بلند بالا خانوں میں ہمیشہ رہنے والی نعمتیں ہیں اور جو کوئی اللہ تعالیٰ سے ملاقات پر ایمان نہیں رکھتا اس کے لئے نماز اور دیگر عبادات سب سے زیادہ شاق گزرنے والی چیزیں ہیں۔ البقرة
47 البقرة
48 پھر اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کی نصیحت کی خاطر اور ان کو برائیوں سے بچانے، نیکیوں پر آمادہ کرنے کے لئے ان پر اپنی نعمتوں کی مکرر یاد دہانی کرائی ہے اور انہیں قیامت کے دن سے ڈرایا ہے کہ ﴿لَّا تَجْزِیْ نَفْسٌ﴾جس روز کوئی نفس کسی کے کوئی کام نہ آئے گا اگرچہ یہ انبیائے کرام اور صالحین کے نفوس کریمہ ہی کیوں نہ ہوں۔ ﴿ عَن نَّفْسٍ﴾اگرچہ یہ نفس قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو۔ ﴿ شَيْئًا﴾” کچھ بھی“ یعنی وہ کم یا زیادہ کوئی کام بھی نہ آسکے گا۔ انسان کو صرف اس کا وہی عمل کام دے گا جو اس نے اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کیا ہے۔ ﴿وَلَا يُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَةٌ﴾ اس نفس کے بارے میں کسی کی سفارش قبول نہ کی جائے گی۔ ہاں شفاعت اس شخص کی قبول ہوگی جس کو اللہ شفاعت کرنے کی اجازت دے گا اور سچ کی بابت شفاعت کی اجازت دی جائے گی اس کو بھی وہ پسند کرتا ہوگا۔ اور اللہ تعالیٰ اس شخص کے اسی عمل کو پسند کرے گا جو صرف اس کی رضا کے لئے اور سنت رسول کے مطابق کیا گیا ہوگا (گویا ہر شخص شفاعت کرنے کا مجاز ہوگا نہ ہر کسی کے لئے شفاعت ہی کی جا سکے گی) ﴿ وَّلَا یُؤْخَذُ مِنْہَا عَدْلٌ﴾ یعنی اس سے کوئی فدیہ قبول نہیں کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :﴿ وَلَوْ أَنَّ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا وَمِثْلَهُ مَعَهُ لَافْتَدَوْا بِهِ مِن سُوءِ الْعَذَابِ﴾ (الزمر : 39؍47) ” اگر ان لوگوں کے پاس جنہوں نے ظلم کیا وہ سب کچھ ہو جو زمین میں ہے اور اس کے ساتھ اتنا ہی اور ہو تو وہ برے عذاب سے بچنے کے لئے اسے فدیہ میں دیں گے۔“ (مگر ان سے یہ فدیہ قبول نہیں کیا جائے گا۔) ﴿وَّلَا ھُمْ یُنْصَرُوْنَ﴾ اور نہ وہ مدد کئے جائیں گے‘ یعنی ان سے وہ عذاب ہٹایا نہیں جائے گا۔ پس اللہ تعالیٰ نے اس بات کی نفی کردی کہ وہ کسی بھی پہلو سے قیامت کے روز مخلوق سے فائدہ اٹھا سکیں گے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ﴿لَّا تَجْزِیْ نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ شَـیْــــًٔـا﴾حصول منافع کے بارے میں ہے اور ﴿ وَّلَا ھُمْ یُنْصَرُوْنَ﴾ دفع مضرت کے بارے میں ہے اور یہ نفی مستقبل میں کسی امرنافع کے بارے میں ہے۔ ﴿ وَّلَا یُقْبَلُ مِنْہَا شَفَاعَۃٌ وَّلَا یُؤْخَذُ مِنْہَا عَدْلٌ﴾یہ اس نفع کی نفی ہے جو معاوضہ دے کر اس شخص سے طلب کیا جاتا ہے جو اس نفع کا مالک ہو۔ یہ معاوضہ کبھی تو فدیہ ہوتا ہے کبھی اس کے علاوہ سفارش وغیرہ کی صورت میں ہوتا ہے۔ پس یہ چیز بندے پر واجب کرتی ہے کہ وہ مخلوق سے تعلق اور امید کو منقطع کر دے کیونکہ اسے علم ہے کہ مخلوق اسے ذرہ بھر نفع پہنچانے پر قادر نہیں اور اللہ تعالیٰ سے اپنے تعلق کو جوڑے جو نفع پہنچانے والا اور تکالیف کو دور کرنے والا ہے، پس صرف اسی کی عبادت کرے جس کا کوئی شریک نہیں اور اس کی عبادت پر اسی سے مدد طلب کرے۔ البقرة
49 یہاں سے بنی اسرائیل پر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا تفصیلاً شمار شروع ہوتا ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿ وَاِذْ نَجَّیْنٰکُمْ مِّنْ اٰلِ فِرْعَوْنَ ﴾یعنی فرعون، اس کے سرداروں اور اس کی فوجوں سے نجات دی جو انہیں اس سے قبل ذلت آمیز عذاب میں مبتلا رکھتے تھے ﴿ یَسُوْمُوْنَکُمْ سُوْۗءَ الْعَذَابِ﴾” وہ دیتے تھے تمہیں سخت عذاب۔“ یعنی تمہیں ایذاء پہنچاتے اور تم سے کام لیتے تھے ﴿یُذَبِّحُوْنَ اَبْنَاۗءَکُمْ﴾۔ اور وہ یہ کہ تمہارے بیٹوں کو اس خوف سے ذبح کرتے تھے کہ کہیں تمہاری تعداد بڑھ نہ جائے ﴿ وَیَسْتَحْیُوْنَ نِسَاۗءَکُمْ﴾” اور تمہاری عورتوں کو زندہ رکھتے تھے“ یعنی وہ تمہاری عورتوں کو قتل نہیں کرتے تھے پس تمہاری حالت یہ تھی کہ یا تو تمہیں قتل کردیا جاتا تھا یا تم سے مشقت کے کام لے کر تمہیں ذلیل کیا جاتا تھا اور تمہیں احسان کے طور پر اور اظہار غلبہ کے لئے زندہ رکھا جاتا تھا۔ یہ توہین اور اہانت کی انتہا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے انہیں مکمل نجات عطا کر کے اور ان کے آنکھوں دیکھتے ان کے دشمن کو غرق کر کے ان پر احسان فرمایا تاکہ ان کی آنکھوں کو ٹھنڈک نصیب ہو۔ ﴿وَفِیْ ذٰلِکُمْ﴾” اور اس میں“ یعنی اللہ تعالیٰ کے اس نجات عطا کرنے میں ﴿ بَلَاۗءٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ عَظِیْمٌ﴾” تمہارے رب کی طرف سے بہت بڑی آزمائش ہے“ پس یہ چیز تم پر اللہ تعالیٰ کا شکر اور اس کے احکامات کی اطاعت کو واجب کرتی ہے۔ البقرة
50 البقرة
51 پھر اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنے اس احسان کا ذکر فرمایا کہ اس نے موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ چالیس راتوں کا وعدہ فرمایا تھا کہ وہ ان پر تورات نازل کرے گا جو عظیم نعمتوں اور مصالح عامہ کو متضمن ہوگی۔ پھر وہ اس میعاد کے مکمل ہونے تک صبر نہ کرسکے چنانچہ انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے چلے جانے کے بعد بچھڑے کی پوجا شروع کردی۔ ﴿ وَاَنْتُمْ ظٰلِمُوْنَ﴾” اور تم ظالم تھ‘‘ یعنی اپنے ظلم کو جاننے والے۔ تم پر حجت قائم ہوگئی۔ پس یہ سب سے بڑا جرم اور سب سے بڑا گناہ ہے، پھر اس نے اپنے نبی موسیٰ علیہ السلام کی زبان پر تمہیں توبہ کرنے کا حکم دیا اور اس توبہ کی صورت یہ تھی کہ تم ایک دوسرے کو قتل کرو گے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اس سبب سے تمہیں معاف کردیا۔ البقرة
52 ﴿ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ ﴾’ شاید کہ تم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو۔ “ البقرة
53 البقرة
54 البقرة
55 ﴿ وَاِذْ قُلْتُمْ یٰمُوْسٰی لَنْ نُّؤْمِنَ لَکَ حَتّٰی نَرَی اللّٰہَ جَہْرَۃً﴾ ” اور جب تم نے کہا، اے موسیٰ! ہم ہرگز تیری بات کا یقین نہیں کریں گے، یہاں تک کہ ہم اللہ کو سامنے دیکھ لیں“ یہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے مقابلے میں تمہاری جرأت کی انتہا تھی۔ ﴿فَاَخَذَتْکُمُ الصّٰعِقَۃُ ﴾پس تمہیں بے ہوشی نے آلیا۔ (اس بے ہوشی سے مراد) یا تو موت ہے یا عظیم بے ہوشی۔ ﴿وَاَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ ﴾تم اس تمام واقعہ کو دیکھ رہے تھے۔ ہر شخص اپنے ساتھی کو دیکھ رہا تھا۔ البقرة
56 ﴿ثُمَّ بَعَثْنَاكُم مِّن بَعْدِ مَوْتِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ﴾  ” پھر تمہارے مرنے کے بعد ہم نے تمہیں دوبارہ زندہ کیا شاید کہ تم شکر گزار بنو۔‘‘ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنی ان نعمتوں کا ذکر فرمایا جن سے اس نے بنی اسرائیل کو اس بیابان و صحرا میں نوازا جو سائے اور کھانے پینے کی چیزوں کی فراوانی سے خالی تھا۔ البقرة
57 فرمایا : ﴿ وَظَلَّلْنَا عَلَیْکُمُ الْغَمَامَ وَاَنْزَلْنَا عَلَیْکُمُ الْمَنَّ﴾” پھر ہم نے تم پر بادلوں کا سایہ کیا اور تم پر ” مَنّ “ نازل کیا۔“ (الْمَنَّ) ہر قسم کے اس رزق کے لئے ایک جامع نام ہے جو بغیر کسی جدوجہد کے حاصل ہوتا ہو مثلاً سو نٹھ، کھمبی اور خبز (روٹی) (ایک) قسم کی نباتات) وغیرہ۔﴿وَالسَّلْوَىٰ﴾ایک چھوٹا سا پرندہ تھا جسے ” سُمانی“ (ایک قسم کی بٹیر) کہا جاتا ہے اس کا گوشت بہت لذیذ ہوتا ہے۔ پس یہ من اور سلویٰ اس مقدار میں ان پر اترتے کہ ان کی خوراک کے لئے کافی ہوتے ﴿کُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰکُمْ ﴾” ان پاکیزہ چیزوں سے کھاؤ جو ہم نے تمہیں دیں۔“ یعنی ہم نے تمہیں ایسا رزق عطا کیا ہے کہ جیسا رزق آسودہ حال شہروں کے باشندوں کو بھی حاصل نہیں۔ مگر انہوں نے اس نعمت کا شکرادانہ کیا اور ان کے دلوں کی سختی اور گناہوں کی کثرت بدستور قائم رہی۔ ﴿ وَمَا ظَلَمُوْنا﴾ یعنی انہوں نے ہمارے احکام کے برعکس مخالف افعال کا ارتکاب کر کے ہم پر ظلم نہیں کیا۔ کیونکہ اہل معاصی کی معصیت اللہ تعالیٰ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ جیسے اطاعت گزاروں کی اطاعت اسے فائدہ نہیں پہنچاتی۔ ﴿ وَلٰکِنْ کَانُوْٓا اَنْفُسَھُمْ یَظْلِمُوْنَ﴾” لیکن وہ اپنے ہی نفسوں پر ظلم کرتے تھے“ یعنی اس کا نقصان انہی کی طرف لوٹے گا۔ البقرة
58 یہ بھی ان پر اللہ تعالیٰ کی نعمت ہی تھی کہ ان کی نافرمانی کے بعد بھی اس نے ان کو حکم دیا کہ وہ ایک بستی میں داخل ہوجائیں یہ بستی ان کے لئے باعث عزت، ان کا وطن اور ان کا مسکن ہوگی اور اس بستی میں ان کو وافر اور بے روک ٹوک رزق ملے گا۔ بستی میں ان کا داخلہ بالفعل خضوع کی حالت میں ہو یعنی وہ بستی کے دروازے میں ﴿سُجَّدًا﴾ ” سجدے کی حالت میں“ گزریں یعنی وہ اس حالت میں دروازے میں داخل ہوں کہ ان پر خشوع و خضوع طاری ہو اور بالقول ﴿حِطَّةٌ﴾” بخش دے“ کہتے ہوئے دروازے میں داخل ہوں یعنی ان کے مغفرت کے سوال پر ان کی خطائیں معاف کردی جائیں۔ ﴿نَّغْفِرْ لَکُمْ خَطٰیٰکُمْ ﴾تمہارے مغفرت کے سوال کرنے پر ہم تمہاری خطائیں معاف کردیں گے ﴿ وَسَنَزِيْدُ الْمُحْسِنِيْنَ﴾ یعنی بھلائی کا کام کرنے والوں کو ہم دنیا و آخرت میں ان کے اعمال کی جزا زیادہ دیں گے۔ البقرة
59 ﴿فَبَدَّلَ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا﴾۔ یعنی ان لوگوں نے اس قول کو بدل دیا تھا جنہوں نے ان میں سے ظلم کیا۔ اللہ تعالیٰ نے (فَبَدَّلُوْا) ” ان سب نے بدل دیا“ نہیں فرمایا کیونکہ سب لوگ قول کو بدلنے والے نہ تھے ﴿ قَوْلًا غَیْرَ الَّذِیْ قِیْلَ لَھُمْ﴾ ” بات سوائے اس بات کے جو ان سے کہی گئی تھی“ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم کی توہین اور اس سے استہزا کرتے ہوئے (حِطَّۃٌ) کی بجائے (حَبَّۃٌ فِیْ حِنْطَۃٍ) کا لفظ کہا۔ جب ” قول“ کو باوجود اس کے کہ وہ آسان تھا، انہوں نے اسے بدل دیا تو ” فعل“ کو بدلنے کی ان سے بدرجہ اولیٰ توقع کی جاسکتی ہے۔ اس لئے وہ (اللہ تعالیٰ کے حکم کے برعکس) اپنے سرینوں پر گھسٹتے ہوئے دروازے میں داخل ہوئے۔ چونکہ یہ سرکشی اللہ تعالیٰ کے عذاب کے واقع ہونے کا سب سے بڑا سبب تھی۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿ فَاَنْزَلْنَا عَلَی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا رِجْزًا﴾ یعنی ان میں سے ظالموں پر عذاب نازل کیا۔ ﴿ مِّنَ السَّمَاءِ﴾ یعنی ان کی نافرمانی اور ان کے بغاوت کے رویہ کے سبب سے (آسمان سے یہ عذاب نازل ہوا) البقرة
60 یعنی جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کے لئے پانی مانگا تاکہ وہ اس پانی کو پینے کے لئے استعمال کرسکیں ﴿  فَقُلْنَا اضْرِب بِّعَصَاكَ الْحَجَر﴾َ ” تو ہم نے کہا : اپنی لاٹھی پتھر پر مار۔“ یہاں (الْحَجَرَ)کے معرفہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ یا تو یہ کوئی مخصوص پتھر تھا جسے حضرت موسیٰ علیہ السلام جانتے تھے یا اسم جنس کی بنا پر معرفہ ہے۔ ﴿ فَانْفَجَرَتْ مِنْہُ اثْنَتَا عَشْرَۃَ عَیْنًا﴾ ” پس اس سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے“ اور بنی اسرائیل کے بھی بارہ قبیلے تھے۔ ﴿قَدْ عَلِمَ کُلُّ اُنَاسٍ مَّشْرَبَھُمْ﴾ یعنی ہر ایک قبیلے نے اپنی وہ جگہ معلوم کرلی جہاں انہوں نے ان چشموں سے پانی پینا ہے، تاکہ وہ پانی پیتے وقت ایک دوسرے کے مزاحم نہ ہوں، بلکہ وہ بغیر کسی تکدر کے خوش گواری کے ساتھ پانی پئیں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿کُلُوْا وَاشْرَبُوْا مِنْ رِّزْقِ اللّٰہِ ﴾یعنی وہ رزق جو اللہ تعالیٰ نے تمہیں بغیر کوشش اور جدوجہد کے عطا کیا ہے اس میں سے کھاؤ پیؤ۔ ﴿وَلَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ﴾ یعنی فساد پھیلانے کی خاطر زمین کو مت اجاڑو۔ البقرة
61 تم اس وقت کو بھی یاد کرو جب تم نے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے اکتا کر اور ان کو حقیر جانتے ہوئے کہا تھا : ﴿ لَنْ نَّصْبِرَ عَلٰی طَعَامٍ وَّاحِدٍ﴾ یعنی ہم ایک ہی جنس کے کھانے پر صبر نہیں کرسکتے۔ ان کا کھانا جیسا کہ (گزشتہ سطور میں) گزر چکا ہے اگرچہ متعدد انواع کا تھا مگر ان میں تبدیلی نہ ہوئی تھی۔ ﴿ فَادْعُ لَنَا رَبَّکَ یُخْرِجْ لَنَا مِمَّا تُنْۢبِتُ الْاَرْضُ مِنْۢ بَقْلِہَا﴾ ” پس تو ہمارے لئے اپنے رب سے دعا کر، وہ نکالے ہمارے لئے وہ جو اگتا ہے زمین سے، سبزی‘‘ یعنی زمین کی نباتات، جن کا شمار تن آور درختوں میں نہیں ہوتا۔﴿ وَقِثَّاۗیِٕہَا ﴾یعنی ککڑی ﴿وَفُوْمِہَا ﴾یعنی لہسن ﴿ وَعَدَسِہَا وَبَصَلِہَا﴾ یعنی مسور اور پیاز جو کہ معروف ہیں۔ تب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان سے فرمایا : ﴿اَتَسْتَبْدِلُوْنَ الَّذِیْ ھُوَ اَدْنٰی﴾” کیا لینا چاہتے ہو تم وہ چیز جو ادنیٰ ہے“ یعنی یہ تمام کھانے کی چیزیں جن کا ذکر ہوچکا ہے﴿ بِالَّذِیْ ھُوَ خَیْرٌ ﴾” اس کے بدلے میں جو بہتر ہے“ اس سے مراد ” من و سلویٰ“ ہے یعنی ایسا کہنا تمہارے لائق نہ تھا۔ اس لئے کہ کھانے کی یہ تمام انواع جن کا تم نے مطالبہ کیا ہے، تم جس کسی شہر میں بھی جاؤ گے وہاں تم کو مل جائیں گی۔ رہا وہ کھانا جس سے تمہیں اللہ تعالیٰ نے نوازا تھا وہ تمام کھانوں سے افضل اور ان سے بہتر ہے۔ پھر تم کیسے ان کھانوں کے بدلے دوسرے (ادنیٰ) کھانوں کا مطالبہ کرتے ہو؟ چونکہ جو کچھ ان کی طرف سے واقع ہوا وہ اس بات کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ صبر ان میں بہت ہی قلیل تھا اور وہ اللہ تعالیٰ کے احکام اور اس کی نعمتوں کو حقیر خیال کرتے تھے لہٰذا اللہ تعالیٰ نے ان کو ایسا بدلہ دیا جو ان کے اعمال ہی کی جنس میں سے تھا۔ فرمایا : ﴿وَضُرِبَتْ عَلَیْہِمُ الذِّلَّۃُ﴾” اور ان پر ذلت مسلط کردی گئی“ یعنی وہ ذلت جس کا ظاہری طور پر ان کے جسموں پر مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ ﴿ وَالْمَسْکَنَۃُ﴾ یعنی مسکینی جو ان کے دلوں میں جا گزیں ہوگئی۔ پس ان کی عزت نفس باقی رہی نہ بلند ہمتی بلکہ ان کے نفس ذلیل و خوار اور ان کی ہمتیں پست ترین ہوگئیں۔﴿وَبَاءُوا بِغَضَبٍ مِّنَ اللَّـهِ﴾” اور وہ اللہ کے غضب کے ساتھ لوٹے“ یعنی وہ غنیمت جسے لے کر کامیابی کے ساتھ واپس لوٹے تھے اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ناراضی کے ساتھ لوٹے تھے۔ ان کی غنیمت کتنی بری غنیمت تھی اور ان کی حالت کتنی بری حالت تھی۔ ﴿ ذٰلِکَ﴾ وہ رویہ، جس کی وجہ سے وہ اللہ تعالیٰ کے غضب کے مستحق ٹھہرے۔ ﴿ بِاَنَّھُمْ کَانُوْا یَکْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ﴾” یہ تھا کہ وہ اللہ کی آیتوں کے ساتھ کفر کرتے تھے“ جو حق پر دلالت اور اس کو واضح کرتی تھیں چونکہ انہوں نے ان آیات کا انکار کردیا تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے سزا کے طور پر ان پر اپنا غضب مسلط کردیا اور اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ ﴿ وَیَقْتُلُوْنَ النَّـبِیّٖنَ بِغَیْرِ الْحَقِّ﴾ انبیاء کو ناحق قتل کیا کرتے تھے۔ “ اللہ تعالیٰ کا ارشاد﴿ بِغَیْرِ الْحَقِّ﴾فعل کی برائی میں اضافہ کے اظہار کے لئے ہے ورنہ یہ تو اچھی طرح معلوم ہے کہ قتل انبیاء کسی بھی صورت میں حق نہیں ہوتا (بنابریں یہ لفظ استعمال کیا گیا ہے) کہ کہیں وہ اپنی جہالت اور عدم علم کی وجہ سے ایسا نہ سمجھ لیں۔ ﴿ذٰلِکَ بِمَا عَصَوْا ﴾یعنی یہ مذکورہ سزا کی وجہ ان کا گناہوں کا ارتکاب تھا ﴿ وَّکَانُوْا یَعْتَدُوْنَ﴾ اور وہ اللہ تعالیٰ کے بندوں پر زیادتی کے مرتکب ہوا کرتے تھے۔ کیونکہ گناہ اور معاصی ایک دوسرے کا سبب بنتے ہیں۔ پس غفلت سے گناہ صغیر جنم لیتے ہیں پھر ان گناہوں سے گناہ کبیرہ جنم لیتے ہیں پھر کبیرہ گناہوں سے مختلف قسم کی بدعات اور کفر کے رویئے پیدا ہوتے ہیں۔ ہم ہر آزمائش سے اللہ تعالیٰ سے عافیت کا سوال کرتے ہیں۔ معلوم ہونا چاہئے کہ ان آیات کریمہ میں خطاب بنی اسرائیل کے ان لوگوں سے ہے جو نزول قرآن کے وقت موجود تھے اور وہ افعال جن کا ذکر اس خطاب میں کیا گیا ہے ان کا ارتکاب ان کے اسلاف نے کیا تھا۔ ان افعال کی نسبت نزول قرآن کے وقت موجود بنی اسرائیل کی طرف متعدد وجوہ کی بنا پر کی گئی ہے۔ مثلاً: (1) یہودی اپنے آپ کو پاک سمجھتے تھے اور اپنی تعریف کیا کرتے تھے اور اس زعم میں مبتلا تھے کہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اہل ایمان سے افضل ہیں۔ ان کے اسلاف کے ان احوال کے ذریعے سے جو ان کے ہاں بھی مسلمہ تھے اللہ تعالیٰ نے ان سب پر واضح کردیا کہ وہ صبر، مکارم اخلاق اور بلند پایہ اعمال کے مالک نہیں تھے۔ جب ان کے اسلاف کی حالت یہ تھی۔ اس گمان کے باوجود کہ ان کی حالت بعد میں آنے والوں سے بہتر ہوگی، تو ان یہودیوں کے بارے میں کیا کہا جاسکتا ہے جو قرآن کے براہ راست مخاطب تھے؟ (2) اللہ تعالیٰ کی جو نعمت متقدمین کو عطا ہوتی ہے وہ متاخرین کو بھی پہنچتی ہے، جو نعمت آباء و اجداد کو عطا ہوتی ہے وہ نعمت درحقیقت اولاد کو عطا ہوتی ہے۔ چونکہ نزول قرآن کے وقت موجود یہودی بھی ان نعمتوں میں شامل تھے اس لئے ان کو خطاب کیا گیا۔ (3) دوسروں کے افعال کی وجہ سے ان کو مخاطب کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ بنی اسرائیل کی امت ایک ایسے دین پر متفق تھی جس میں وہ ایک دوسرے کے ضامن اور ایک دوسرے کے معاون تھے۔ گویا کہ ان کے متقدمین متاخرین ایک ہی زمانے کے لوگ ہوں۔ ان میں سے کسی ایک سے کام کا ظاہر ہونا سب کی طرف سے ہے کیونکہ ان میں سے جو کوئی بھلائی کا کام کرتا ہے تو اس بھلائی کا فائدہ سب کو پہنچتا ہے اور ان میں سے جو کوئی برائی کا ارتکاب کرتا ہے تو اس کا نقصان بھی سب کو اٹھانا پڑتا ہے۔ (٤) متقدمین کے اکثر افعال کا متاخرین میں سے کسی نے انکار نہیں کیا تھا اور معصیت پر رضا مندی کا اظہار کرنے والا معصیت کے مرتکب کے گناہ میں شریک ہے۔ ان کے علاوہ دیگر حکمتیں بھی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ البقرة
62 پھر اہل کتاب کے مختلف گروہوں کے درمیان محاکمہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : یہ حکم خاص طور پر اہل کتاب کے لئے ہے، کیونکہ صابئین کے بارے میں صحیح ترین رائے یہ ہے کہ یہ نصاریٰ ہی کا ایک فرقہ ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ اس امت کے اہل ایمان، یہود و نصاریٰ اور صابئین میں سے جو کوئی اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان لایا اور اپنے رسولوں کی تصدیق کی ان کے لئے اجر عظیم اور امن ہے۔ ان پر کسی قسم کا خوف ہوگا نہ وہ غمزدہ ہوں گے۔ ان میں سے جس کسی نے اللہ تعالیٰ، اس کے انبیاء و رسل اور یوم آخرت کا انکار کیا تو ان کا حال مذکورہ بالا لوگوں کے حال کے برعکس ہوگا، پس وہ خوف اور غم سے دوچار ہوں گے۔ (مذکورہ بالا آیت کی تفسیر میں) صحیح مسلک یہ ہے کہ ان فرقوں کے مابین یہ محاکمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانے کی نسبت سے نہیں بلکہ ان کی اپنی اپنی حیثیت کے مطابق ہے۔ کیونکہ یہ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت سے قبل ان کے احوال کی خبر ہے۔ یہ قرآن کا طریقہ ہے۔ جب سیاق آیات کے بارے میں بعض نفوس و ہم کا شکار ہوجائیں تو لازمی طور پر وہ کوئی ایسی چیز ضرور پائیں گے جو ان کے وہم کو زائل کر دے۔ کیونکہ یہ کلام ایسی ہستی کی طرف سے نازل کیا گیا ہے جو اشیاء کے وجود میں آنے سے قبل ہی ان کو جانتی ہے۔ اس کی رحمت ہر چیز پر حاوی ہے۔ اس آیت کریمہ کا مفہوم یہ ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ چونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بنی اسرائیل کا ذکر مذمت کے طور پر کیا ہے اور ان کے گناہوں اور برائیوں کا تذکرہ کیا ہے تو بسا اوقات دل میں خیال پیدا ہوتا ہے کہ اس مذمت میں تمام بنی اسرائیل شامل ہیں۔ اس لئے اللہ نے ایسے لوگوں کے بارے میں واضح کردیا جو اس مذمت میں شامل نہیں۔ نیز چونکہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کا خاص طور پر ذکر کیا ہے جس سے یہ وہم پیدا ہوتا ہے کہ مذکورہ باتیں صرف بنی اسرائیل ہی سے متعلق ہیں، لہٰذا اللہ تعالیٰ نے ایک عام حکم بیان کردیا جو تمام طوائف کو شامل ہے تاکہ حق واضح اور وہم و اشکال دور ہوجائے۔ پاک ہے وہ ذات جس نے اپنی کتاب میں ایسی چیزیں بیان کی ہیں جو عقلوں کو متحیر کردیتی ہیں۔ البقرة
63 اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے اسلاف کے افعال کی وجہ سے ان پر زجر و توبیخ کا پھر اعادہ کیا ہے۔ فرمایا ﴿ وَاِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَکُم﴾ یعنی وہ وقت یاد کرو جب ہم نے تم سے عہد لیا تھا۔ (مِيْثَاق) مراد ایسا پکا عہد ہے جو طور کو ان کے اوپر معلق کر کے ڈر اور دباؤ کے ذریعے سے مؤکد کیا گیا تھا اور ان سے کہا گیا تھا : ﴿ خُذُوْا مَآ اٰتَیْنٰکُمْ﴾ یعنی تو رات کو پکڑے رہو ﴿ بِقُوَّۃٍ﴾ یعنی تورات کو محنت، کوشش اور اللہ تعالیٰ کے اوامر پر صبر و استقامت کے ساتھ پکڑے رہو۔ ﴿وَّاذْکُرُوْا مَا فِیْہِ﴾ یعنی جو کچھ تمہاری کتاب میں ہے اسے سیکھو اور اس کی تلاوت کرو۔ ﴿لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ﴾” تاکہ تم اللہ تعالیٰ کے عذاب اور اس کی ناراضی سے بچو“ یا ” تاکہ تم اہل تقویٰ میں شمار ہو۔“ البقرة
64 پھر اس نہایت بلیغ تاکید کے بعد فرمایا: ﴿ثُمَّ تَوَلَّیْتُمْ﴾ یعنی پھر تم نے اس سے اعراض کیا اور یہ روگردانی تمہارے لئے اللہ تعالیٰ کے سخت ترین عذاب کا باعث بنی۔ ﴿فَلَوْلَا فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتُہٗ لَکُنْتُمْ مِّنَ الْخٰسِرِیْنَ﴾” لیکن اگر تم پر اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تم یقیناً خسارے میں پڑجاتے۔ “ البقرة
65 یعنی تمہارے نزدیک ان لوگوں کی حالت ثابت ہوگئی ہے۔ ﴿ الَّذِیْنَ اعْتَدَوْا مِنْکُمْ فِی السَّبْتِ﴾ ” جنہوں نے تم میں سے ہفتے کے روز زیادتی سے کام لیا تھا۔“ یہ وہ لوگ تھے جن کا مبسوط اور مفصل قصہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ اعراف میں بیان کیا ہے : ﴿وَاسْأَلْهُمْ عَنِ الْقَرْيَةِ الَّتِي كَانَتْ حَاضِرَةَ الْبَحْرِ إِذْ يَعْدُونَ فِي السَّبْتِ إِذْ تَأْتِيهِمْ حِيتَانُهُمْ يَوْمَ سَبْتِهِمْ شُرَّعًا وَيَوْمَ لَا يَسْبِتُونَ ۙ لَا تَأْتِيهِمْ ۚ كَذَٰلِكَ نَبْلُوهُم بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ وَإِذْ قَالَتْ أُمَّةٌ مِّنْهُمْ لِمَ تَعِظُونَ قَوْمًا ۙ اللَّـهُ مُهْلِكُهُمْ أَوْ مُعَذِّبُهُمْ عَذَابًا شَدِيدًا ۖ قَالُوا مَعْذِرَةً إِلَىٰ رَبِّكُمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُكِّرُوا بِهِ أَنجَيْنَا الَّذِينَ يَنْهَوْنَ عَنِ السُّوءِ وَأَخَذْنَا الَّذِينَ ظَلَمُوا بِعَذَابٍ بَئِيسٍ بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ﴾ (الاعراف : 7؍ 163۔165) ” اور آپ ان لوگوں سے اس بستی والوں کا جو کہ دریائے (شور) کے قریب آباد تھے اس وقت کا حال پوچھئے ! جب کہ وہ ہفتہ کے بارے میں حد سے نکل رہے تھے جب کہ ان کے ہفتہ کے روز تو ان کی مچھلیاں ظاہر ہو کر ان کے سامنے آتی تھیں اور جب ہفتہ کا دن نہ ہوتا تو ان کے سامنے نہ آتی تھیں۔ ہم ان کی اس طرح پر آزمائش کرتے تھے اس سبب سے کہ وہ بے حکمی کیا کرتے تھے اور جب کہ ان میں سے ایک جماعت نے یوں کہا کہ تم ایسے لوگوں کو کیوں نصیحت کرتے ہو جن کو اللہ بالکل ہلاک کرنے والا ہے یا ان کو سخت سزا دینے والا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ تمہارے رب کے روبرو عذر کرنے کے لئے اور اس لئے کہ شاید یہ ڈر جائیں۔ سو جب وہ اس کو بھول گئے جو ان کو سمجھایا جاتا تھا تو ہم نے ان لوگوں کو تو بچا لیا جو اس بری عادت سے منع کیا کرتے تھے اور ان لوگوں کو جو کہ زیادتی کرتے تھے ایک سخت عذاب سے پکڑ لیا اس وجہ سے کہ وہ بے حکمی کیا کرتے تھے۔ “ اس گناہ عظیم نے ان پر اللہ تعالیٰ کا غضب واجب کردیا۔ ﴿ قِرَدَۃً خٰسِـــِٕیْنَ﴾ اور ان کو حقیر اور ذلیل بندر بنا دیا اور اللہ تعالیٰ نے اس سزا کو ان قوموں کے لئے البقرة
66 ﴿نَکَالًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہَا﴾ عبرت بنا دیا جو اس وقت وہاں موجود تھیں اور اس زمانے کی وہ قومیں جن تک یہ خبر پہنچی ﴿وَمَا خَلْفَہَا﴾ اور ان قوموں کے لئے جو ان کے بعد آئیں، تاکہ بندوں پر اللہ تعالیٰ کی حجت قائم ہو اور وہ گناہوں سے باز آجائیں مگر یہ نصیحت صرف اہل تقویٰ کے کام آتی ہے۔ ان کے علاوہ دیگر لوگ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں سے فائدہ نہیں اٹھاتے۔ البقرة
67 ان واقعات کو یاد کرو جو تمہارے اور موسیٰ علیہ السلام کے درمیان وقوع پذیر ہوئے۔ جب تم نے ایک شخص کو قتل کردیا تھا اور اس کے قاتل کے بارے میں آپس میں اختلاف کرنا اور قتل کو ایک دوسرے پر ڈالنا شروع کردیا حتیٰ کہ تم نے معاملے کو بہت بڑھا دیا اور اگر اللہ تعالیٰ کی توضیح نہ ہوتی تو قریب تھا کہ تم ایک بڑے شر اور فساد میں مبتلا ہوجاتے۔ حضرت موسیٰ نے قاتل کو تلاش کرنے کے لئے تمہیں گائے ذبح کرنے کا حکم دیا۔ تم پر فرض تھا کہ تم فوراً اس کے حکم کی تعمیل کرتے اور اس پر کسی قسم کا اعتراض نہ کرتے مگر ہوا یہ کہ تم نے حضرت موسیٰ کا حکم ماننے سے انکار کردیا اور اعتراض کرنے لگے اور کہنے لگے : ﴿اَتَتَّخِذُنَا ھُزُوًا ﴾” کیا تو ہمارے ساتھ مذاق کرتا ہے۔“ اللہ کے نبی نے فرمایا : ﴿ اَعُوْذُ بِاللّٰہِ اَنْ اَکُوْنَ مِنَ الْجٰہِلِیْنَ﴾” میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ میں جاہل بنوں۔“ کیونکہ جاہل ہی ایسی بات کیا کرتا ہے جس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا اور وہی لوگوں کا تمسخر اڑایا کرتا ہے۔ عقلمند شخص یہ سمجھتا ہے کہ اپنے جیسے کسی آدمی کا مذاق اڑانا عقل و دین کا سب سے بڑا عیب ہے۔ اگرچہ اسے اس آدمی پر فضیلت ہی کیوں نہ حاصل ہو۔ یہ فضیلت تو تقاضا کرتی ہے کہ وہ اپنے رب کا شکر کرے اور اس کے بندوں کے ساتھ شفقت سے پیش آئے۔ البقرة
68 جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان سے یہ کہا تو انہیں معلوم ہوگیا کہ یہ سچ ہے۔ کہنے لگے ﴿ادْعُ لَنَا رَبَّکَ یُبَیِّنْ لَّنَا مَا ہِیَ ﴾” اپنے رب سے دعا کر کہ وہ بیان کرے کہ وہ کیا ہے؟“ یعنی اس گائے کی عمر وغیرہ کیا ہے۔ ﴿قَالَ اِنَّہٗ یَقُوْلُ اِنَّہَا بَقَرَۃٌ لَّا فَارِضٌ ﴾موسیٰ نے کہا : اللہ کہتا ہے وہ ایسی گائے ہے جو بوڑھی نہیں ہے“ ِ﴿فَارِضٌ﴾ یعنی بڑی ﴿ وَّلَا بِکْرٌ ﴾اور نہ ہی زیاہ چھوٹی۔ ﴿ عَوَانٌۢ بَیْنَ ذٰلِکَ ۭ فَافْعَلُوْا مَا تُـؤْمَرُوْنَ﴾ ان مذکورہ دو عمروں کے درمیان متوسط عمر کی ہو۔ پس وہ کام کرو جس کا حکم دیا جاتا ہے، تشدد اور تکلف کو چھوڑ دو۔ البقرة
69 ﴿ قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّکَ یُبَیِّنْ لَّنَا مَا لَوْنُہَا ۭ قَالَ اِنَّہٗ یَقُوْلُ اِنَّہَا بَقَرَۃٌ صَفْرَاۗءُ فَاقِعٌ لَّوْنُہَا﴾ ” انہوں نے کہا : اپنے رب سے ہمارے لئے دعا کر کہ وہ اس کا رنگ بیان کرے۔ موسیٰ نے کہا : اللہ کہتا ہے، وہ گائے ہے زرد رنگ کی، خوب گہرا ہے رنگ اس کا“ یعنی خالص زرد رنگ۔ ﴿ تَسُرُّ النّٰظِرِیْنَ﴾ یعنی اپنی خوبصورتی کی وجہ سے دیکھنے والوں کو بھلی لگے۔ البقرة
70 ﴿ قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّکَ یُبَیِّنْ لَّنَا مَا ہِیَ ۙ اِنَّ الْبَقَرَ تَشٰبَہَ عَلَیْنَا ﴾” انہوں نے کہا : اپنے رب سے ہمارے لئے دعا کر ! وہ بیان کرے کہ وہ کیا ہے کیونکہ گائے ہم پر مشتبہ ہوگئی ہے۔“ یعنی ہمیں معلوم نہیں کہ آپ کونسی گائے چاہتے ہیں ﴿وَاِنَّآ اِنْ شَاۗءَ اللّٰہُ لَمُہْتَدُوْنَ﴾” اور اگر اللہ نے چاہا تو ہم ہدایت والے ہوجائیں گے۔“ البقرة
71 ﴿ قَالَ اِنَّہٗ یَقُوْلُ اِنَّہَا بَقَرَۃٌ لَّا ذَلُوْلٌ ﴾یعنی وہ (کھیتی باڑی کے کاموں میں جت کر) کمزور اور مطیع نہ ہو ﴿ تُثِیْرُ الْاَرْضَ﴾” جوتنی ہو وہ زمین کو“ یعنی اس سے زمین میں ہل نہ چلایا جاتا ہو ﴿ وَلَا تَسْقِی الْحَرْثَ ﴾ نہ پانی دیتی ہو کھیتی کو‘ یعنی نہ وہ رہٹ میں جتنے والی ہو۔ ﴿مُسَلَّمَةٌ﴾ہر قسم کے عیب سے پاک ہو اور اس سے کسی قسم کا کام نہ لیا جاتا ہو﴿ لَّا شِیَۃَ فِیْہَا ﴾” اس میں کوئی داغ نہ ہو“ یعنی جس رنگ کا گزشتہ سطور میں ذکر ہوچکا ہے اس کے علاوہ اس میں کسی د وسرے رنگ کا کوئی نشان نہ ہو۔ ﴿ قَالُوا الْـــــٰٔنَ جِئْتَ بِالْحَقِّ﴾” انہوں نے کہا : اب لایا تو ٹھیک بات“ یعنی اب تو نے گائے کے بارے میں واضح طور پر بیان کیا ہے۔ یہ ان کی جہالت تھی ورنہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان کے سامنے پہلی ہی مرتبہ حق بیان کردیا تھا۔ اگر وہ کوئی بھی گائے پیش کردیتے تو مقصد حاصل ہوجاتا مگر انہوں نے کثرت سوال کے ذریعے سے تشدد اور تکلف کی راہ اپنائی تو اللہ تعالیٰ نے بھی ان پر سختی کی۔ نیز اگر انہوں نے ”ان شاء اللہ“ نہ کہا ہوتا تب بھی وہ مطلوبہ گائے تک نہ پہنچ سکتے۔ ﴿ فَذَبَحُوْھَا ﴾یعنی انہوں نے اس گائے کو ذبح کر ہی ڈالا جس کے یہ اوصاف بیان کئے گئے ہیں۔ ﴿ وَمَا کَادُوْا یَفْعَلُوْنَ﴾۔ ان کے تشدد اور تکلف کی وجہ سے جس کا وہ اظہار کر رہے تھے، نظر نہیں آتا تھا کہ وہ گائے ذبح کریں گے۔ البقرة
72 البقرة
73 جب انہوں نے گائے ذبح کر ڈالی تو ہم نے ان سے کہا کہ گائے کا ایک عضو اس مقتول کو لگاؤ۔ اس سے مراد کوئی معین عضو ہے یا کوئی سا بھی عضو؟ اس کے تعین کا کوئی فائدہ نہیں۔ بس انہوں نے گائے کے کسی حصے کو مقتول کے ساتھ لگایا تو اللہ تعالیٰ نے اسے زندہ کردیا اور اللہ تعالیٰ نے اس چیز کو ظاہر کردیا جسے وہ چھپانے کی کوشش کر رہے تھے۔ پس اللہ تعالیٰ نے انہیں باخبر کردیا کہ قاتل کون ہے۔ ان کے سامنے اللہ تعالیٰ کا اس مقتول کو دوبارہ زندہ کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے مردوں کو زندہ کرے گا۔ ﴿ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ﴾شاید کہ تم عقل سے کام لو اور ان کاموں سے رک جاؤ جو تمہارے لئے نقصان دہ ہیں۔ البقرة
74 ﴿ ثُمَّ قَسَتْ قُلُوْبُکُمْ﴾ یعنی پھر تمہارے دل بہت سخت ہوگئے، ان پر کسی قسم کی نصیحت کارگر نہیں ہوتی تھی۔ ﴿ مِّنْۢ بَعْدِ ذٰلِکَ ﴾یعنی اس کے بعد کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں عظیم نعمتوں سے نوازا اور تمہیں بڑی بڑی نشانیوں کا مشاہدہ کرایا۔ حالانکہ اس کے بعد تمہارے دلوں کا سخت ہوجانا مناسب نہ تھا کیونکہ تم نے جن امور کا مشاہدہ کیا تھا وہ رقت قلب اور اس کے مطیع ہونے کے موجب ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ولوں کی سختی کا وصف بیان کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ فَہِیَ کَالْحِجَارَۃِ﴾۔ یعنی وہ سختی میں ” پتھر کی مانند ہیں‘ جو لوہے سے بھی زیادہ سخت ہوتا ہے، کیونکہ فولاد ہو یا سیسہ جب اسے آگ میں پگھلایا جائے تو پگھل جاتا ہے بخلاف پتھر کے جو آگ میں بھی نہیں پگھلتا ﴿اَوْ اَشَدُّ قَسْوَۃً ﴾” یا اس سے بھی زیادہ سخت“ یعنی ان کے دلوں کی سختی پتھروں سے کم نہیں۔ یہاں ” او“ (بل) کے معنی میں نہیں ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان پتھروں کو ان کے دلوں پر فضیلت دیتے ہوئے فرمایا : ﴿وَاِنَّ مِنَ الْحِجَارَۃِ لَمَا یَتَفَجَّرُ مِنْہُ الْاَنْہٰرُ ۭ وَاِنَّ مِنْہَا لَمَا یَشَّقَّقُ فَیَخْرُجُ مِنْہُ الْمَاۗءُ ۭوَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَشَّقَّقُ فَيَخْرُجُ مِنْهُ الْمَاءُ ۚ وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَهْبِطُ مِنْ خَشْيَةِ اللَّـهِ﴾ کیونکہ ” بعض پتھروں سے تو نہریں بہہ نکلتی ہیں اور بعض پھٹ جاتے ہیں اور ان سے پانی نکل آتا ہے اور بعض اللہ کے ڈر سے گر پڑتے ہیں‘‘ یعنی ان تمام مذکورہ امور کی وجہ سے پتھر تمہارے دلوں سے بہتر ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو سخت وعید سناتے ہوئے کہا : ﴿ وَمَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ﴾ یعنی وہ تمہارے اعمال سے غافل نہیں بلکہ وہ تمہارے اعمال کو پوری طرح جانتا ہے، وہ تمہارے ہر چھوٹے بڑے عمل کو یاد رکھنے والا ہے اور وہ عنقریب تمہیں تمہارے ان اعمال کا پورا پورا بدلہ دے گا۔ معلوم ہونا چاہئے کہ بہت سے مفسرین رحمتہ اللہ علیہم نے اپنی تفاسیر کو بنی اسرائیل کے قصوں سے لبریز کر رکھا ہے۔ وہ آیات قرآنی کو اسرائیلیات پر پیش کرتے ہیں اور ان کے مطابق کتاب اللہ کی تفسیر کرتے ہیں اور وہ اپنے اس موقف پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان سے استدلال کرتے ہیں (حَدِّثوا عن بَني إسرائيلَ ولا حَرَجَ) ” بنی اسرائیل سے روایت کرو اس میں کوئی حرج نہیں۔“ [سنن ابی داؤد، العلم ، باب الحدیث عن بنی اسرائیل‘ حدیث:3662] اس بارے میں میری رائے یہ ہے کہ اگرچہ ایک پہلو سے بنی اسرائیل کی روایت نقل کرنے میں کوئی حرج نہیں مگر اس سے مراد یہ ہے کہ ان روایات کو الگ اور غیر مقرون (قرآن کی تفسیر کے ساتھ ملائے بغیر) بیان کیا جاسکتا ہے۔ ان کو کتاب اللہ پر پیش کر کے کتاب اللہ کی تفسیر بنانا قطعاً جائز نہیں جب کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے صحیح سند سے ثابت نہ ہو۔ یہ اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق ان روایات کا مرتبہ صرف یہ ہے: ((لَاتُصَدِّقُواَهل الْكِتَابِ وَلَاتُكَذِّبُوْهُم))[صحیح البخاری، التفسیر، باب قولوا آمنا باللّٰه وماانزل الینا‘ حدیث:4485] ” تم اہل کتاب کی تصدیق کرو نہ تکذیب۔“ جب ان روایات کا مرتبہ یہ ہے کہ ان کی صحت مشکوک ہے اور ضروریات دین کے طور پر یہ چیز بھی ہمیں معلوم ہے کہ قرآن مجید پر ایمان لانا اور اس کے الفاظ و معانی پر قطعی یقین رکھنا فرض ہے، لہٰذا ان مجہول روایات کے ذریعے سے منقول قصے کہانیوں کو جن کے بارے میں غالب گمان یہ ہے کہ یہ جھوٹی ہیں یا ان میں سے اکثر جھوٹی ہیں یقین کے ساتھ قرآن کے معانی قرار دینا ہرگز جائز نہیں۔ اس بارے میں کسی کو شک میں نہیں رہنا چاہئے۔ اس اصول سے غفلت کے سبب سے بہت سا خمیازہ بھگتنا پڑا ہے۔ واللہ الموفق۔ البقرة
75 یہاں اہل کتاب کے ایمان لانے کے بارے میں اہل ایمان کی امیدوں کو ختم کردیا ہے کہ تم ان کے ایمان کی امید نہ رکھو۔ ان کے اخلاق ایسے ہیں جو ان کے ایمان کی امید کے متقاضی نہیں، کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے کلام کو سمجھ کر اور جان بوجھ کر اس کے معانی میں تحریف کرتے ہیں۔ پس وہ اس کے لئے ایسے معانی اور مفاہیم وضع کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی مراد نہیں ہیں تاکہ لوگ اس وہم میں مبتلا ہوں کہ یہ مفاہیم اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں۔ حالانکہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہرگز نہیں۔ پس جب ان کی اس کتاب کے بارے میں یہ حالت ہے جسے وہ اپنے لئے باعث شرف اور اپنا دین قرار دیتے ہیں اور اس کتاب کے ذریعے سے وہ لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکتے ہیں۔ تب ان سے کیونکر یہ امید رکھی جاسکتی ہے کہ وہ تم پر ایمان لائیں گے۔ یہ بعید ترین چیز ہے۔ البقرة
76 پھر اہل کتاب کے منافقین کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ وَاِذَا لَقُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَالُوْٓا اٰمَنَّا ﴾” جب وہ ایمان والوں کو ملتے ہیں تو کہتے ہیں، ہم ایمان لائے“ یعنی انہوں نے اپنی زبان سے ان کے سامنے اپنے ایمان کا اظہار کیا جو ان کے دلوں میں نہیں ہے۔﴿ وَاِذَا خَلَا بَعْضُھُمْ اِلٰی بَعْضٍ﴾ ”یعنی جب وہ خلوت میں ہوتے ہیں اور ان کے ہم مذہبوں کے سوا ان کے پاس کوئی اور نہیں ہوتا تووہ ایک دوسرے کو کہتے ہیں : ﴿أَتُحَدِّثُونَهُم بِمَا فَتَحَ اللَّـهُ عَلَيْكُمْ ﴾’’کیاتم ان کو وہ باتیں بیان کرتے ہو جو اللہ نے تم پر کھولی ہیں؟“ یعنی کیا تم ان کے سامنے اپنے ایمان کا اظہار کرتے ہو اور انہیں بتاتے ہو کہ تم ان کی مانند ہو؟ پس یہ چیز ان کے لئے تمہارے خلاف حجت بن جائے گی۔ وہ (یعنی اہل ایمان) کہیں گے کہ انہوں نے اقرار کیا کہ اہل ایمان حق پر ہیں اور جس پر وہ ہیں، وہ باطل ہے۔ پس اہل ایمان اپنے رب کے پاس تمہارے خلاف دلیل دیں گے۔﴿ اَفَلَاتَعْقِلُوْنَ﴾ ” کیا پس تم سمجھتے نہیں؟“ وہ ایک دوسرے سے کہتے ہیں کہ کیا تم عقل سے عاری ہو کہ تم ان کے پاس وہ چیز چھوڑ رہے ہو جو تمہارے خلاف حجت ہوگی؟ البقرة
77 ﴿اَوَلَا یَعْلَمُوْنَ اَنَّ اللّٰہَ یَعْلَمُ مَا یُسِرُّوْنَ وَمَا یُعْلِنُوْنَ﴾ ” کیا وہ نہیں جانتے کہ اللہ جانتا ہے جو وہ چھپاتے اور ظاہر کرتے ہیں؟“ ہرچند کہ وہ اپنے ان عقائد کو چھپاتے ہیں جو ان کے مابین معروف ہیں اور وہ اس زعم میں مبتلا ہیں کہ انہوں نے ان عقائد کو چھپایا ہوا ہے تاکہ یہ چیز اہل ایمان کے لئے ان کے خلاف دلیل نہ بنے۔ تاہم وہ اس بارے میں غلطی پر ہیں اور بہت بڑی جہالت میں مبتلا ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ ان کے ظاہر و باطن کو خوب جانتا ہے۔ اس کے بندے جو کچھ کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اس کو ظاہر کر دے گا۔ البقرة
78 ﴿ وَمِنْهُمْ﴾” اور کچھ ان میں سے“ یعنی اہل کتاب میں سے ﴿أُمِّيُّونَ﴾’’ان پڑھ عوام بھی ہیں“ جو اہل علم میں شمار نہیں۔﴿ لَا یَعْلَمُوْنَ الْکِتٰبَ اِلَّآ اَمَانِیَّ﴾ سوائے تلاوت کے اللہ کی کتاب میں ان کا کوئی حصہ نہیں۔ ان کے پاس اس چیز کی خبر بھی نہیں جو پہلوں کے پاس تھی جن کے حالات یہ اچھی طرح جانتے ہیں۔ ان کے پاس محض ظن، گمان اور اہل علم کی تقلید کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان آیات کریمہ میں اہل کتاب کے علماء، عوام، منافقین اور وہ جنہوں نے نفاق اختیار نہیں کیا، سب کا ذکر کیا ہے۔ پس ان کے علماء اپنی گمراہی کے موقف پر مضبوطی سے جمے ہوئے ہیں اور عوام بصیرت سے محروم ہیں اور ان علماء کی تقلید کرتے ہیں۔ پس ان دونوں گروہوں کے بارے میں تمہیں کوئی امید نہیں رکھنی چاہیے۔ البقرة
79 اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو سخت وعید سنائی ہے جو کتاب اللہ میں تحریف کرتے ہیں، اپنی تحریف اور جو کچھ وہ لکھتے ہیں اس کے بارے میں کہتے ہیں ﴿هَـٰذَا مِنْ عِندِ اللَّـهِ﴾ کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ یہ اظہارِ باطل اور کتمان حق ہے۔ اور انہوں نے علم رکھنے کے باوجود یہ کیا۔ ﴿لِیَشْتَرُوْا بِہٖ ثَــمَنًا قَلِیْلًا﴾ ” تاکہ اس کے ذریعے سے تھوڑی قیمت حاصل کریں“ اور تمام دنیا اول سے لے کر آخر تک کتاب اللہ کے مقابلے میں بہت کم قیمت ہے۔ پس انہوں نے اپنے باطل کو ایک جال بنا رکھا ہے جس میں لوگوں کو پھانس کر ان کا مال ہتھیاتے ہیں۔ پس وہ لوگوں پر دو پہلوؤں سے ظلم کرتے ہیں۔ (1) ایک پہلویہ ہے کہ وہ لوگوں پر ان کے دین کو چھپاتے ہیں۔ (2) اس کا دوسرا پہلویہ ہے کہ وہ لوگوں کا مال ناحق بلکہ باطل ترین طریقے سے ہڑپ کرتے ہیں اور اس کی برائی چوری اور غصب کرنے سے بھی بڑھ کر ہے۔ پس ان دو امور کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کو وعید سنائی ہے۔ ﴿فَوَیْلٌ لَّھُمْ مِّمَّا کَتَبَتْ اَیْدِیْہِمْ﴾” پس ہلاکت ہے ان کے لئے اس سے، جو ان کے ہاتھوں نے لکھا۔‘‘یعنی جو تحریف کی اور باطل تحریریں لکھیں۔ ﴿ وَوَیْلٌ لَّھُمْ مِّمَّا یَکْسِبُوْنَ﴾ یعنی وہ مال جو وہ باطل طریقے سے کماتے ہیں۔ (ویل) عذاب کی شدت اور حسرت کو کہا جاتا ہے اسی کے ضمن میں سخت وعید بھی آجاتی ہے۔ شیخ الاسلام تقی الدین ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ﴿أَفَتَطْمَعُونَ﴾ سے لے کر ﴿يَكْسِبُونَ﴾ تک آیات کریمہ کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا :” اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی مذمت فرمائی ہے جو اللہ تعالیٰ کی آیات میں تحریف کرکے ان کو اصل مفہوم سے ہٹا دیتے ہیں۔ اس وعید میں وہ لوگ بھی آتے ہیں جو کتاب و سنت کو اپنی بدعات باطلہ پر محمول کرتے ہیں۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی بھی مذمت فرمائی ہے جو کتاب کا علم نہیں رکھتے سوائے اپنی خواہشات اور آرزوؤں کے۔ اس وعید میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو تدبر قرآن کے سرنہاں کو ترک کردیتے ہیں اور اس کے حروف کی مجردتلاوت کے سوا کچھ بھی نہیں جانتے۔ یہ وعید اس شخص کے لئے بھی ہے جو محض دنیا کمانے کے لئے کوئی ایسی کتاب لکھتا ہے جو قرآن و سنت کے خلاف ہے اور کہتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ مثلاً وہ کہتا ہے کہ یہ شریعت اور دین ہے، یہ کتاب و سنت کا معنی ہے، یہ سلف امت اور ائمہ کرام کی تعبیرات ہیں اور یہ دین کے وہ بنیادی اصول ہیں جن پر اعتقاد رکھنا فرض عین یا فرض کفایہ ہے۔ اس وعید میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو کتاب و سنت کے علم کو محض اس وجہ سے چھپاتے ہیں کہ کہیں ان کے مخالفین اس کو اپنے حق میں ان کے خلاف دلیل نہ بنا لیں۔ اہل اہواء و بدعات میں بالجملہ یہ امور بہت کثرت سے پائے جاتے ہیں، مثلاً روافض وغیرہ اور تفصیلاً یہ امور بہت سے ان لوگوں میں بھی پائے جاتے ہیں جو اپنے آپ کو ائمہ فقہ کی طرف منسوب کرتے ہیں۔‘‘ البقرة
80 اللہ تعالیٰ نے ان کے افعال بد کا ذکر کیا پھر اس کے ساتھ یہ بھی فرمایا کہ اس کے باوجود وہ اپنے آپ کو پاک (یعنی تزکیہ شدہ) قرار دیتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نجات یافتہ اور اس کے ثواب کے مستحق ہوں گے اور یہ کہ وہ جہنم میں اگر گئے بھی تو جہنم کی آگ انہیں چند دن کے سوا ہرگز نہیں چھوئے گی، یعنی بہت ہی کم دنوں کے لئے جن کو انگلیوں پر گنا جاسکتا ہے۔ پس وہ بدی کا ارتکاب بھی کرتے ہیں اور اپنے آپ کو عذاب سے محفوظ بھی سمجھتے ہیں۔ چونکہ یہ ان کا محض دعویٰ ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کی تردید کرتے ہوئے فرمایا : ﴿قُلْ﴾ یعنی اے رسول ان سے کہہ دو ! ﴿ اَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللّٰہِ عَہْدًا﴾ : یعنی کیا تم نے اللہ تعالیٰ اور اس کے انبیاء و رسل پر ایمان لا کر اور اس کی اطاعت کرکے اللہ تعالیٰ سے عہد لے رکھا ہے۔ پس یہ وعدہ تو یقیناً صاحب وعدہ کی نجات کا موجب ہے جس میں تغیر و تبدل نہیں ہوسکتا۔ ﴿ اَمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَی اللّٰہِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ ﴾ ” یا تم اللہ کے ذمے ایسی بات لگاتے ہو جس کا تمہیں علم ہی نہیں۔“ پس اللہ تعالیٰ نے خبر دی کہ ان کے دعوے کی صداقت ان دو امور میں سے ایک پر موقوف ہے۔ تیسری کوئی چیز نہیں۔ 1۔ یا تو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے نجات کا کوئی عہد لیا ہوگا تب ان کا دعویٰ صحیح ہے۔ 2۔ یا یہ لوگ اللہ تعالیٰ پر بہتان باندھ رہے ہیں۔ تب ان کا یہ دعویٰ جھوٹا ہے۔ بس یہ بہتان ان کی رسوئی اور عذاب کے لئے کافی ہے۔ ان کے حالات ہمیں اچھی طرح معلوم ہیں کہ انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی عہد عطا نہیں ہوا تھا۔ کیونکہ انہوں نے بے شمار انبیاء کی تکذیب کی تھی، حتیٰ کہ ان کی حالت تویہاں تک پہنچ گئی تھی کہ انبیاء کا ایک گروہ ان کے ہاتھوں قتل ہوا نیز انہوں نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے منہ موڑا اور اللہ تعالیٰ سے کئے ہوئے عہدوں کو توڑا۔ پس اس سے اس بات کا تعین ہوگیا کہ وہ اللہ تعالیٰ پر بہتان باندھ رہے اور اس کی بابت ایسی بات کہہ رہے ہیں جس کو وہ خود نہیں جانتے اور علم کے بغیر اللہ تعالیٰ کے ذمے کوئی بات لگانا، سب سے بڑا حرام اور سب سے بڑی برائی ہے۔ البقرة
81 پھر اللہ تعالیٰ نے سب کے لئے ایک عام حکم بیان کیا ہے جس میں بنی اسرائیل اور دیگر تم لوگ داخل ہیں وہ ایک ایسا حکم ہے کہ اس کے علاوہ کوئی اور حکم ہو ہی نہیں سکتا نہ کہ ان کی آرزوئیں اور دعوے، جو وہ ہلاک ہونے والوں اور نجات پانے والوں کی بابت کرتے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿بَلَىٰ  ﴾یعنی معاملہ یوں نہیں جس طرح تم نے بیان کیا ہے کیونکہ یہ تو ایک ایسی بات ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ﴿ مَنْ کَسَبَ سَیِّئَۃً ﴾” جس نے کوئی برائی کمائی“ یہاں ﴿سَیِّئَۃً ﴾ برائی شرط کے سیاق میں نکرہ استعمال ہوئی ہے لہٰذا اس کے عموم میں شرک اور اس سے کمتر تمام برائیاں داخل ہیں، لیکن یہاں اس سے مراد شرک ہے اور اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ قول ہے ﴿وَّاَحَاطَتْ بِہٖ خَطِیْۗــــَٔــتُہٗ﴾ یعنی برائی کا ارتکاب کرنے والے کو اس کی برائی نے گھیر لیا اور اس کے لیے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں چھوڑا اور یہ شرک کے علاوہ کوئی اور برائی نہیں ہوسکتی۔ کیونکہ جو ایمان سے بہرہ ور ہے برائی اسے گھیر نہیں سکتی۔ ﴿ فَاُولٰۗیِٕکَ اَصْحٰبُ النَّارِ ۚ ھُمْ فِیْہَا خٰلِدُوْنَ﴾” پس وہ آگ کے مستحق ہیں اور اس میں ہمیشہ رہیں گے“ اس آیت کریمہ سے خوارج نے استدلال کیا ہے کہ گناہ کا ارتکاب کرنے والا کافر ہے حالانکہ یہ تو ان کے خلاف دلیل ہے کیونکہ یہ تو ظاہری طور پر شرک کے بارے میں ہے۔ اس طرح ہر باطل پسند جو قرآن مجید کی کسی آیت یا کسی صحیح حدیث سے اپنے باطل نظرئیے پر استدلال کرتا ہے تو استدلال خود اس کے خلاف ایک قوی دلیل ہوتا ہے۔ البقرة
82 ﴿وَالَّذِينَ آمَنُوا﴾ یعنی وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں اور یوم آخرت پر ایمان لائے۔ ﴿وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ﴾اور اعمال صالحہ کیے اور اعمال مندرجہ ذیل دو شرائط کے بغیر اعمال صالحہ کے زمرے میں نہیں آتے۔( 1) خالص اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے ہوں۔ ( 2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کے مطابق ہوں۔ ان دو آیتوں کا حاصل یہ ہے کہ نجات اور فوز وفلاح کے مستحق صرف نیک کام کرنے والے اہل ایمان ہیں اور ہلاک ہونیوالے جہنمی، وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک شرک اور اس کے ساتھ کفر کرتے ہیں۔ البقرة
83 پس یہ احکام ان اصول دین میں سے ہیں، جن پر عمل کرنے کا حکم اللہ تعالیٰ نے ہر شریعت میں دیا، کیونکہ یہ احکام ہر زمان ومکان میں مصالح عامہ پر مشتمل ہیں۔ دین میں ان کی حیثیت بنیاد کی سی ہے جو منسوخ نہیں ہوسکتی۔ بنابریں اللہ تعالیٰ نے ہمیں ان اصولوں پر عمل کرنے کا حکم اپنے اس فرمان میں دیا ہے۔ ﴿وَاعْبُدُوا اللَّـهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا﴾ ۔( النساء: 4؍ 36)’ اللہ ہی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کرو۔‘‘ ﴿وَاِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَ بَنِیْٓ اِسْرَاۗءِیْلَ﴾‎ ’’اس وقت کو یاد کرو، جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا۔‘‘ یہ ان کی سنگدلی ہی تھی کہ جب بھی انہیں کسی بات کا حکم دیا جاتا تو وہ نافرمانی کرتے۔ اس لیے وہ پختہ قسموں اور مضبوط عہدوں کے بغیر کسی حکم کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے تھے۔ ﴿لَا تَعْبُدُونَ اِلَّا اللّٰه﴾یہ اکیلے اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حکم ہے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک کرنے کی ممانعت ہے۔ یہ دین کی بنیاد ہے اگر یہ بنیاد نہ ہو تو کوئی عمل اللہ تعالیٰ کے ہاں قابل قبول نہیں۔ پس یہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر حق ہے۔ پھر فرمایا : ﴿وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا ﴾یعنی اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کے ساتھ پیش آؤ۔ اس میں ہر قسم کا حسن سلوک شامل ہے۔ اس زمرے میں قولی، فعلی اور ہر وہ رویہ شامل ہے جس پر حسن سلوک کا اطلاق ہوتا ہے۔ اس میں والدین کے ساتھ برے سلوک یا عدم حسن سلوک کی ممانعت ہے۔ کیونکہ والدین کے ساتھ حسن سلوک فرض ہے اور کسی چیز کی فرضیت کے حکم سے لازم آتا ہے کہ اس کی ضد ممنوع ہو۔ دو چیزیں حسن سلوک کے مخالف ہیں : (1) برا سلوک کرنا، یہ سب سے بڑا جرم ہے۔ (2) بغیر برائی کیے، حسن سلوک نہ کرنا۔ اگرچہ والدین کے ساتھ اس قسم کا رویہ بھی حرام ہے مگر اس رویئے کو اول الذکر رویئے سے ملحق کرنا ضروری نہیں۔ رشتہ داورں، یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ سلوک میں بھی اسی اصول کا اطلاق ہوتا ہے حسن سلوک (احسان) کی تفصیلات دائرہ شمار سے باہر ہیں البتہ جیسا کہ گزشتہ سطور میں گزر چکا ہے اس کی کچھ حدود میں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ تمام لوگوں کے ساتھ بھی حسن سلوک سے پیش آیا جائے چنانچہ فرمایا :﴿ وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا﴾ ” یعنی لوگوں سے اچھی بات کہنا“ مندرجہ ذیل چیزیں ” قول حسن“ (یعنی اچھی بات) کے زمرے میں آتی ہیں۔ (1) لوگوں کو نیکی کا حکم دینا۔ (2) ان کو بری باتوں سے روکنا۔ (3) ان کو علم سکھانا۔ (4) ان میں سلام پھیلانا۔ (5) خندہ پیشانی اور بشاشت کا اظہار کرنا۔ (6) ان کے علاوہ دیگر اچھی باتیں۔ چونکہ ہر انسان اپنے مال کے ذریعے سے لوگوں کو فائدہ پہنچانے کی استطاعت نہیں رکھتا اس لیے اسے ایک ایسی چیز کا حکم دیا گیا ہے جس کے ذریعے سے وہ تمام مخلوق کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنے کی قدرت رکھتا ہے اور وہ ہے ” قول حسن“ اسی کے ضمن میں لوگوں کے ساتھ بری گفتگو کرنے کی ممانعت آجاتی ہے، حتی کہ کفار کے ساتھ بھی کلام قبیح کرنا ممنوع ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :﴿ وَلَا تُجَادِلُوا أَهْلَ الْكِتَابِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ ﴾(العنکبوت : 29؍ 63) ” اہل کتاب کے ساتھ بحث نہ کرو مگر ایسے طریقے سے جو سب سے اچھا ہو۔“ انسانی آداب میں سے، جن کی تعلیم اللہ نے اپنے بندوں کو دی ہے، یہ بھی ہے کہ انسان اپنے اقوال اور افعال میں پاکیزہ رہے، فحش گوئی اور بے ہودہ باتوں سے اجتنا کرے، گالی گلوچ اور سب و شتم کرنے اور لڑائی جھگڑے سے باز رہے۔ بلکہ اس کے برعکس حسن خلق، بے پایاں حلم، ہر ایک کے ساتھ اچھے سلوک اور مخلوق کی ایذا رسانی پر صبر کا مظاہرہ کرے۔ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے حکم کی اطاعت اور ثواب کی امید پر کرے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے کا حکم دیا ہے اور جیسا کہ گزشتہ صفحات میں بیان کیا جا چکا ہے کہ نماز معبود کے لیے اخلاص کو اور زکوٰۃ اللہ تعالیٰ کے بندوں کے ساتھ حسن سلوک کو متضمن ہے۔ ﴿ثُمَّ﴾ ” پھر“ اللہ تعالیٰ کا تمہیں ان اچھے کاموں کا حکم دینے کے بعد، جن کو ایک دانش مند دیکھتا ہے تو جان لیتا ہے کہ یہ اللہ کا بندوں پر ایک احسان ہے کہ اس نے ان باتوں کا انہیں حکم دیا اور اس طرح انہیں اپنے فضل و کرم سے نوازا، اور ان سے عہد و میثاق لیا۔ ﴿تَوَلَّيْتُمْ ﴾یعنی تم نے ان احکام سے روگردانی کرتے ہوئے پیٹھ پھیر لی۔ اس لیے کہ پیٹھ پھیر کر جانے والا کبھی کبھی واپس لوٹنے کی نیت سے بھی پیٹھ پھیر کرجاتا ہے، مگر یہ لوگ تو احکام الٰہی میں سرے سے کوئی رغبت ہی نہیں رکھتے اور نہ ان کی طرف لوٹنے کا کوئی ارادہ ہی رکھتے ہیں فَنَعُوْذُ ِبالّلِہ ِمنَ الْخَذْلَانِ اللہ تعالیٰ کا ارشاد﴿إِلَّا قَلِيلًا مِّنكُمْ ﴾ ” مگر تھوڑے لوگ تم میں سے“ ایک استثناء ہے تاکہ اس وہم کا ازالہ ہوجائے کہ تمام لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے احکام سے روگردانی کی تھی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے واضح فرما دیا کہ چند لوگ ایسے بھی تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے محفوظ رکھا اور ان کو استقامت اور ثابت قدمی عطا کی۔ البقرة
84 آیت کریمہ میں مذکور فعل ان لوگوں کا تھا جو نزول وحی کے زمانے میں مدینہ میں موجود تھے اور یہ اس طرح کہ اوس اور خزرج، جو انصار کے نام سے مشہور ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت سے قبل مشرک تھے اور جاہلیت کی عادت کے مطابق باہم دست و گریباں رہتے تھے، اسی اثناء میں یہود کے تین قبیلوں، بنو قریظہ، بنو نضیر اور بنو قینقاع نے مدینہ میں آ کر وہاں رہنا شروع کردیا۔ ان میں سے ہر قبیلے نے مدینہ کے کسی قبیلے کے ساتھ (دفاعی) معاہدہ کرلیا۔ جب کبھی اوس اور خزرج کی آپس میں لڑائی ہوتی تو یہودی قبیلہ اس کے مخالفین کے خلاف مدد کرتا جن کی مدد دوسرا یہودی قبیلہ کر رہا ہوتا۔ یوں یہودی ایک دوسرے کو قتل کرتے تھے۔ بسا اوقات یہ بھی ہوتا تھا کہ وہ ایک دوسرے کو جلا وطن کردیتے اور ایک دوسرے کا مال لوٹ لیتے پھر جب جنگ ختم ہوجاتی تو جنگ کے فریقین نے ایک دوسرے کے جو افراد جنگی قیدی بنائے ہوتے، وہ ان کو فدیہ دے کر آزاد کرواتے۔ یہ تینوں امور، جن کی یہ خلاف ورزی کر رہے تھے، ان پر فرض کیے گئے تھے : (1) ایک دوسرے کا خون نہ بہائیں (2) ایک دوسرے کو گھروں سے نہ نکالیں۔ (3) جب وہ اپنے میں سے کسی کو قیدی پائیں تو اس کا فدیہ دے کر اسے چھڑانا ان کے لیے ضروری ہے۔ البقرة
85 پس ان لوگوں نے آخری بات پر تو عمل کیا اور پہلی دو باتوں کو نظر انداز کردیا۔ چنانچہ ان کے رویئے پر اللہ تعالیٰ نے نکیر کرتے ہوئے فرمایا : ﴿أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ﴾ ” کیا تم کتاب کے ایک حصے پر ایمان لاتے ہو“ اس سے مراد ہے قیدیوں کی رہائی کے لیے فدیہ دینا ﴿وَتَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ﴾” اور دوسرے حصے کے ساتھ کفر کرتے ہو“ اس سے مراد ہے ایک دوسرے کو قتل کرنا اور ایک دوسرے کو گھروں سے نکالنا۔ آیت کریمہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ ایمان اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اوامر پر عمل کیا جائے اور اس کی نواہی سے اجتناب کیا جائے۔ نیز یہ کہ تمام مامورات ایمان میں شمار ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿ فَمَا جَزَاءُ مَن يَفْعَلُ ذٰلِكَ مِنكُمْ إِلَّا خِزْيٌ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا﴾ ” تم میں سے جو بھی ایسا کرے گا، اس کو اس کی سزا دنیا میں رسوائی کے سوا کوئی اور نہیں ملے گی۔“ اور اس رسوائی کا انہیں سامنا کرنا پڑا۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں رسوا کیا اور ان پر اپنے رسول کو غلبہ عطا کیا۔ ان میں سے کسی کو قتل کردیا گیا اور کسی کو غلام بنا لیا گیا اور کسی کو جلا وطن کردیا گیا۔ ﴿َيَوْمَ الْقِيَامَةِ يُرَدُّونَ إِلَىٰ أَشَدِّ الْعَذَابِ﴾ ”اور قیامت کے روز سخت عذاب کی طرف لوٹائے جائیں گے۔“ یعنی قیامت کے روز کا عذاب دنیا کے عذاب سے بھی بڑھ کر ہوگا۔﴿ وَمَا اللَّـهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ﴾ ” اور اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے بے خبر نہیں۔ “ البقرة
86 پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ کیا سبب تھا جو اس بات کا موجب بنا کر وہ کتاب اللہ کے کچھ حصے پر ایمان لائیں اور کچھ حصے کا انکار کردیں؟ چنانچہ فرمایا : ﴿أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوُا الْحَيَاةَ الدُّنْيَا﴾ ” یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے دنیا کی زندگی کو آخرت کے بدلے خرید لیا، یعنی انہیں وہم لاحق تھا کہ اگر انہوں نے اپنے حلیفوں کی مدد نہ کی تو یہ عار کی بات ہے پس انہوں نے عار کے بدلے میں آگ کو چن لیا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿فَلَا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ ﴾ ” پس ان سے عذاب ہلکا نہیں کیا جائے گا“ یعنی عذاب کی شدت ہمیشہ رہے گی اور کسی وقت بھی انہیں راحت نصیب نہ ہوگی ﴿وَلَا هُمْ يُنصَرُونَ﴾ ” اور ان کی مدد کی جائے گی“ یعنی ان سے عذاب کو نہیں ہٹایا جائے گا۔ البقرة
87 ﴿ وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ﴾” اور تحقیق ہم نے موسیٰ کو کتاب دی“ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر اپنے احسانات کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اس نے اپنے کلیم حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ان میں مبعوث فرمایا، ان کو تورات عطا کی۔ پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد ان میں پے در پے انبیاء اور رسول مبعوث فرمائے جو تورات کے مطابق فیصلے کرتے تھے۔ یہاں تک کہ بنی اسرائیل کے آخری نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مبعوث فرمایا اور انہیں واضح نشانیاں عطا کیں جن پر انسان ایمان لے آتا ہے۔ ﴿وَأَيَّدْنَاهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ﴾ یعنی ” حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو روح القدس کے ذریعے تقویت دی۔“ اکثر مفسرین کہتے ہیں کہ روح القدس سے مراد حضرت جبرائیل علیہ السلام ہیں۔ بعض کی رائے یہ ہے کہ اس سے مراد وہ ایمان ہے جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو قوت اور استقامت عطا کرتا ہے۔ پھر ان نعمتوں کے باوجود، جن کی قدر و عظمت کے اندازہ نہیں کیا جاسکتا، جب وہ تمہارے پاس وہ کچھ لائے﴿بِمَا لَا تَهْوَىٰ أَنفُسُكُمُ اسْتَكْبَرْتُمْ﴾ ” جن کو تمہارا دل نہیں چاہتا تھا تو تم نے (ایمان لانے کی بجائے) تکبر کیا۔“ ﴿فَفَرِيقًا﴾ یعنی انبیاء میں سے ایک فریق کو ﴿كَذَّبْتُمْ وَفَرِيقًا تَقْتُلُونَ﴾” تم نے جھٹلایا اور ایک فریق کو تم نے قتل کردیا۔“ پس تم نے خواہشات نفس کو ہدایت پر مقدم رکھا اور دنیا کو آخرت پر ترجیح دی۔ اس آیت کریمہ میں جو زجر و توبیخ اور تشدید ہے، وہ ڈھکی چھپی نہیں۔ البقرة
88 اے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب آپ ان کو ایمان کی دعوت دیتے ہیں تو یہ لوگ معذرت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ (ہمارے دل غلاف میں لپٹے ہوئے ہیں۔) یعنی ہمارے دلوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں اس لیے ہم تمہاری بات کو سمجھ نہیں سکتے۔ گویا یہ ان کے گمان کے مطابق عدم علم کا عذر ہے اور یہ ان کا جھوٹ ہے بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿بَل لَّعَنَهُمُ اللَّـهُ﴾یعنی وہ اپنے کفر کے سبب سے ملعون اور دھتکارے ہوئے ہیں۔ اس لیے ان میں سے بہت ہی قلیل لوگ ایمان لائیں گے، یا اس کا مفہوم یہ ہے کہ ان کا ایمان بہت ہی قلیل ہے اور ان کا کفر بہت زیادہ ہے۔ البقرة
89 مطلب یہ ہے کہ جب افضل المخلوقات اور خاتم النبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے سے ان کے پاس اللہ تعالیٰ کی کتاب آگئی جو ان تعلیمات کی تصدیق کرتی تھی جنہیں تورات نے پیش کیا، جس کا ان کو علم اور یقین تھا۔ علاوہ ازیں جاہلیت کے زمانے میں جب کبھی ان کے اور مشرکین کے درمیان جنگ ہوتی تو یہ دعا کیا کرتے تھے (اے اللہ) اس نبی کے ذریعے سے ہماری مدد فرما اور وہ مشرکین کو ڈرایا کرتے تھے کہ اس نبی کا ظہور ہونے والا ہے۔ وہ اس نبی کے ساتھ مل کر مشرکین کے خلاف جنگ کریں گے۔ جب ان کے پاس اللہ تعالیٰ کی کتاب اور وہ نبی آگیا جس کو انہوں نے پہچان لیا تو حسد اور سرکشی کی وجہ سے اس کو ماننے سے انکار کردیا (اور انہیں حسد اس بات پر تھا) کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اپنا فضل نازل فرماتا ہے۔ (اللہ نے یہ شرف نبوت ان کی بجائے کسی اور کو کیوں دے دیا؟) پس اللہ تعالیٰ نے ان پر لعنت کی اور ان پر سخت غضب ناک ہوا، کیونکہ کفر میں وہ بہت بڑھ گئے تھے اور متواتر شک اور شرک میں مبتلا چلے آرہے تھے۔ البقرة
90 اور ان کافروں کے لیے آخرت میں ﴿عَذَابٌ مُّهِينٌ﴾ ” رسوا کرنے والا عذاب“ ہوگا اور وہ یہ کہ ان کو جہنم میں جھونک دیا جائے گا اور دائمی نعمتوں سے وہ محروم ہوں گے۔ پس بہت برا ہے ان کا حال، بہت ہی برا ہے وہ معاوضہ جو انہوں نے اللہ تعالیٰ، اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں پر ایمان لانے کے مقابلے میں حاصل کیا اور وہ یہ کہ انہوں نے اللہ کے ساتھ، اس کی کتابوں اور رسولوں کے ساتھ کفر کیا۔ حالانکہ وہ سب کچھ جانتے تھے اور انہیں رسولوں کی صداقت کا بھی یقین تھا اسی وجہ سے ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہوگا۔ البقرة
91 جب یہود کو حکم دیا گیا کہ وہ اس کتاب پر ایمان لائیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول پر نازل کی ہے یعنی قرآن کریم پر تو انہوں نے تکبر اور سرکشی سے کہا : ﴿ قَالُوا نُؤْمِنُ بِمَا أُنزِلَ عَلَيْنَا وَيَكْفُرُونَ بِمَا وَرَاءَهُ ﴾ یعنی وہ (تورات کے سوا) تمام کتابوں کا انکار کرتے ہیں۔ حالانکہ ان پر فرض تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ تمام کتابوں پر علی الاطلاق ایمان لائیں خواہ یہ کتابیں بنی اسرائیل کے نبیوں پر نازل کی گئی ہوں یا ان کے علاوہ کسی اور نبی پر، اور یہی وہ ایمان ہے جو فائدہ مند ہے۔ یعنی ان تمام کتابوں پر ایمان جو تمام انبیائے کرام علیہ السلام پر نازل کی گئی ہیں۔ رہا اللہ تعالیٰ کے رسولوں اور اس کی نازل کردہ کتابوں کے درمیان تفریق کرنا اور اپنے زعم کے مطابق کسی پر ایمان لانا اور کسی کا انکار کردینا، تو یہ ایمان نہیں بلکہ عین کفر ہے۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿إِنَّ الَّذِينَ يَكْفُرُونَ بِاللَّـهِ وَرُسُلِهِ وَيُرِيدُونَ أَن يُفَرِّقُوا بَيْنَ اللَّـهِ وَرُسُلِهِ وَيَقُولُونَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَنَكْفُرُ بِبَعْضٍ وَيُرِيدُونَ أَن يَتَّخِذُوا بَيْنَ ذٰلِكَ سَبِيلًا  أُولَـٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ حَقًّا﴾ (النساء:4؍150۔151) ” وہ لوگ جو اللہ اور اس کے رسولوں سے کفر کرتے ہیں اور وہ اللہ اور اس کے رسولوں کے درمیان فرق کرنا چاہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم بعض کو مانتے ہیں اور بعض کا انکار کرتے ہیں اور وہ اس کے مابین (یعنی ایمان اور کفر کے مابین) ایک راہ نکالنا چاہتے ہیں، بلا شبہ وہی کافر ہیں۔“ اس لیے اللہ تعالیٰ نے یہاں ان کو شافی جواب دیا ہے اور ان کو ایک ایسی الزامی دلیل دی ہے جس سے ان کو کوئی مفر نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے انکار قرآن کا دو پہلوؤں سے رد کیا ہے۔ (الف) فرمایا : ﴿وَهُوَ الْحَقُّ﴾’’اور وہ (قرآن) حق ہے“ پس جب یہ قرآن اوامرونواہی اور اخبار میں سراسر حق پر مشتمل ہے اور یہ حق ان کے رب کی طرف سے نازل شدہ ہے، لہٰذا یہ معلوم ہوجانے کے بعد اس کا انکار کرنا درحقیقت اللہ تعالیٰ کا انکار کرنا اور اس حق کا انکار کرنا ہے جو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا۔ (ب) پھر فرمایا ﴿ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَهُمْ﴾ ” ان کی موجودہ کتاب کی تصدیق کرتا ہے“ یعنی یہ ہر اس چیز کے موافق اور اس کا محافظ ہے جس پر حق دلالت کرتا ہے۔ پس تم اس کتاب پر کیوں ایمان لاتے ہو جو تم پر نازل کی گئی جب کہ اس جیسی دوسری کتاب کا انکار کرتے ہو؟ اور کیا یہ تعصب نہیں؟ کیا یہ ہدایت کی پیروی کی بجائے خواہشات نفس کی پیروی نہیں؟ نیز قرآن کا ان کتابوں کی تصدیق کرنا جو ان پر نازل کی گئیں ہیں، اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ یہ قرآن ان کے لیے اس بات کی دلیل ہو کہ ان کے پاس جو کتابیں ہیں، وہ سچی ہیں۔ اس اعتبار سے وہ اپنی کتابوں کا اثبات بھی قرآن کے بغیر نہیں کرسکتے۔ جب وہ قرآن کا انکار کردیتے ہیں تو ان کی حالت اس مدعی کی سی ہوجاتی ہے جس کے پاس اپنے دعویٰ کو ثابت کرنے کے لیے ایسی دلیل و حجت بھی ہے جو اثبات دعویٰ کی واحد دلیل ہے، اس دلیل کے بغیر اس کا دعویٰ ثابت ہی نہیں ہوسکتا، لیکن پھر وہ خود ہی اپنی دلیل میں جرح و قدح کرتا ہے اور اس کو جھٹلا دیتا ہے۔ کیا یہ پاگل پن اور حماقت نہیں؟ پس واضح ہوا کہ ان کا قرآن کا انکار کرنا درحقیقت ان کتابوں کا انکار ہے جو ان کی طرف نازل کی گئی ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کے اس دعوے کی تردید کی کہ وہ ان کتابوں پر ایمان رکھتے ہیں جو ان کی طرف نازل کی گئی ہیں۔ چنانچہ فرمایا : ﴿قُلْ﴾ یعنی ان سے (کہہ دو) ﴿فَلِمَ تَقْتُلُونَ أَنبِيَاءَ اللَّـهِ مِن قَبْلُ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ﴾ ” اگر تم ایماندار ہو تو پھر تم اس سے قبل اللہ کے انبیاء کو کیوں قتل کردیتے رہے؟“ البقرة
92 ﴿وَلَقَدْ جَاءَكُم مُّوسَىٰ بِالْبَيِّنَاتِ﴾ یعنی تمہارے پاس موسیٰ حق کو بیان کرنے والے واضح دلائل لے کر آئے۔ ﴿ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِن بَعْدِهِ ﴾ ” پھر تم نے موسیٰ کے آنے کے بعد بھی بچھڑے کو اپنا معبود بنا لیا۔“﴿وَأَنتُمْ ظَالِمُونَ﴾ ” اور تم اس بارے میں سخت ظالم تھے“ اور تمہارے پاس کوئی عذر نہیں۔ البقرة
93 ﴿وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَكُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَكُمُ الطُّورَ خُذُوا مَا آتَيْنَاكُم بِقُوَّةٍ وَاسْمَعُوا﴾” اور جب ہم نے تم سے وعدہ لیا اور تم پر طور کو بلند کیا (کھڑا کیا) کہ ہماری دی ہوئی چیز کو مضبوطی سے تھامو اور سنو“ یعنی اس کو قبول کرنے، اس کی اطاعت کرنے اور اس کی آواز پر لبیک کہنے کے لیے سنو۔ ﴿قَالُوا سَمِعْنَا وَعَصَيْنَا﴾ یعنی ان کی حالت یہ ہوگئی ہے کہ ” وہ کہتے ہیں کہ ہم نے سنا اور نافرمانی کی۔“ ﴿وَأُشْرِبُوا فِي قُلُوبِهِمُ الْعِجْلَ ﴾ یعنی ان کے دل بچھڑے اور اس کی عبادت کی محبت کے رنگ میں رنگے گئے اور ان کے کفر کے سبب سے ان کے دلوں میں گویا بچھڑے کی محبت رچ بس گئی۔ ﴿قُلْ بِئْسَمَا يَأْمُرُكُم بِهِ إِيمَانُكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ﴾” انہیں کہہ دیجئے کہ تمہارا ایمان تمہیں برا حکم دے رہا ہے اگر تم مومن ہو“ یعنی تم ایمان لانے کا دعویٰ کرتے ہو اور دین حق کے نام نہاد پیرو ہونے پر اپنی تعریف چاہتے ہو اور تمہاری حالت یہ ہے کہ تم نے اللہ کے نبیوں کو قتل کیا، جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کوہ طور پر گئے تو تم نے اللہ کو چھوڑ کر بچھڑے کو معبود بنا لیا۔ تم نے اللہ تعالیٰ کی شریعت (اوامرو نواہی) کو اس وقت تک قبول نہ کیا جب تک کہ تمہیں دھمکی نہ دی گئی اور کہ طور کو اٹھا کر تم پر معلق نہ کردیا گیا۔ پھر بھی تم نے زبانی طور پر تو اسے قبول کرلیا مگر بالفعل اس کی مخالفت کی۔ یہ کیسا ایمان ہے جس کا تم دعویٰ کرتے ہو اور یہ کیسا دین ہے؟ تمہارے زعم کے مطابق اگر یہی ایمان ہے تو بہت برا ایمان ہے جو تمہیں سرکشی، رسولوں کے انکار اور کثرت عصیان کی دعوت دیتا ہے۔ حالانکہ یہ بات معروف ہے کہ صحیح اور حقیقی ایمان صاحب ایمان کو ہر بھلائی کا حکم دیتا ہے اور برائی سے روکتا ہے، لہٰذا اس سے ان کا جھوٹ واضح اور ان کا تقاضا عیاں ہوجاتا ہے۔ البقرة
94 ﴿قُلْ﴾ یعنی ان کے دعویٰ کی تصحیح کی خاطر کہہ دیجئے ! ﴿اِن كَانَتْ لَكُمُ الدَّارُ الْآخِرَةُ﴾” کہ اگر آخرت کا گھر (جنت) صرف تمہارے ہی لیے ہے“ ﴿خَالِصَةً مِّن دُونِ النَّاسِ﴾ دوسرے لوگ اس میں نہیں جائیں گے۔ جیسا کہ تمہارا گمان ہے کہ جنت میں صرف وہی لوگ جائیں گے جو یہودی اور نصرانی ہیں، نیز تمہیں ہرگز آگ نہیں چھوئے گی سوائے چند روز کے اس لیے اگر تم اپنے اس دعوے میں سچے ہو ﴿فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ﴾ ” تو موت کی تمنا کر دیکھو“۔ یہ ان کے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درمیان مبابلہ کی ایک قسم ہے۔ ان کے دلائل کا توڑ، انہیں لاجواب کردینے اور ان کے عناد کے بعد ان کے لیے دو باتوں میں سے کسی ایک کو مانے بغیر چارہ نہیں۔ (1) یا تو وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لے آئیں۔ (2) یا وہ اپنے موقف کی صداقت ثابت کرنے کے لیے ایک چھوٹی سی بات پر مباہلہ کرلیں اور وہ ہے موت کی تمنا، جو انہیں اس جنت میں پہنچا دے گی جو خالص انہی کے لیے تخلیق کی گئی ہے۔ مگر انہوں نے اس مباہلے کو قبول نہ کیا۔ البقرة
95 پس ہر شخص کو معلوم ہوگیا کہ وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مخالفت اور عناد میں انتہاء کو پہنچ گئے ہیں اور وہ یہ سب کچھ جانتے بوجھتے کر رہے ہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَلَنْ یَّتَمَنَّوْہُ اَبَدًۢا بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْہِمْ ۭ﴾ یعنی کفر اور معاصی کے اعمال کے باعث وہ موت کی تمنا نہیں کریں گے کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ یہ ان کے گندے اعمال کی جزا کا راستہ ہے۔ پس موت ان کے نزدیک سب سے زیادہ ناپسندیدہ چیز ہے اور وہ دنیا کے تمام لوگوں سے بڑھ کر زندگی کے حریص ہیں حتیٰ کہ ان مشرکین سے بھی زیادہ جو رسولوں، کتابوں اور کسی چیز پر بھی ایمان نہیں رکھتے۔ البقرة
96 پھر اللہ تعالیٰ نے دنیا کے ساتھ ان کی شدید محبت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا :﴿یَوَدُّ اَحَدُھُمْ لَوْ یُعَمَّرُ اَلْفَ سَـنَۃٍ ۚ﴾ ” ان میں سے تو ہر شخص ایک ایک ہزار سال کی عمر چاہتا ہے“ زندگی کی حرص کے لیے یہ بلیغ ترین پیرا یہ ہے۔ انہوں نے ایک ایسی حالت کی آرزو کی ہے جو قطعاً محال ہے اور حال یہ ہے کہ اگر ان کو یہ مذکورہ عمر عطا کر بھی دی جائے تب بھی یہ عمر ان کے کسی کام نہیں آسکتی اور نہ ان سے عذاب کو دور کرسکتی ہے۔ ﴿وَاللّٰہُ بَصِیْرٌۢ بِمَا یَعْمَلُوْنَ﴾ ” اور اللہ تعالیٰ ان کے اعمال کو بخوبی دیکھ رہا ہے“ یہ ان کے لیے تہدید ہے کہ ان کو ان کے اعمال کا بدلہ ملے گا۔ البقرة
97 یعنی ان یہود سے کہہ دیجئے جن کا گمان ہے کہ ان کو آپ پر ایمان لانے سے صرف اس چیز نے روکا ہے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام آپ کے دوست اور مددگار ہیں۔ اگر جبرئیل علیہ السلام تمہارا تناقض، تمہاری ضد اور اللہ تعالیٰ کے سامنے تمہارا تکبر ہے۔ کیونکہ جبرئیل علیہ السلام ہی وہ فرشتہ ہے جس نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کے قلب پر قرآن اتارا اور جبرئیل علیہ السلام ہی آپ سے پہلے دیگر انبیائے کرام پر نازل ہوتا رہا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے جس نے جبرئیل علیہ السلام کو حکم دیا اور اسے وحی کے ساتھ بھیجا۔ وہ تو محض ایک پیامبر ہے۔ البقرة
98 بایں ہمہ جبرئیل علیہ السلام اس کتاب کو لے کر نازل ہوئے جو کتب سابقہ کی تصدیق کرتی ہے۔ یہ کتاب کتب سابقہ کی مخالف ہے نہ ان کی مناقض۔ اس میں مختلف قسم کی گمراہیوں سے مکمل ہدایت کا روشن راستہ ہے اور اس پر ایمان لانے والوں کے لیے دنیاوی اور آخروی بھلائی کی بشارت ہے۔ پس ان صفات سے موصوف جبرئیل علیہ السلام سے عداوت رکھنا اور حقیقت اللہ تعالیٰ اور اس کی آیات کا انکار کرنا ہے اور اللہ تعالیٰ، اس کے رسولوں اور اس کے فرشتوں کے ساتھ عداوت کا اظہار ہے کیونکہ جبرئیل علیہ السلام کے ساتھ ان کی عداوت جبرئیل علیہ السلام کی ذات کے ساتھ نہیں بلکہ اس کے ساتھ ان کی عداوت محض اس وجہ سے ہے کہ وہ اللہ کے رسولوں پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے حق لے کر نازل ہوتا رہا ہے۔ پس ان کا کفر اور عداوت درحقیقت اس ہستی کے ساتھ ہے جس نے اسے بھیجا اور نازل کیا اور اس وحی کے ساتھ ہے جو اس کے ساتھ اتاری گئی ہے اور اس رسول کے ساتھ ہے جس کی طرف یہ وحی بھیجی گئی ہے۔ ان کی بس یہی وجہ ہے۔ البقرة
99 اللہ تعالیٰ اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مخاطب ہو کر فرماتا ہے : ﴿ وَلَقَدْ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ اٰیٰتٍۢ بَیِّنٰتٍ ۚ﴾ ” اور ہم نے آپ کی طرف روشن آیات نازل کیں“ ان سے اس کو ہدایت حاصل ہوتی ہے جو ہدایت کا طلبگار ہو اور اس پر حجت قائم ہوتی ہے جو عناد کا مظاہرہ کرے۔ یہ آیات حق پر اپنی دلالت اور وضاحت کے اعتبار سے ایک ایسے بلند مقام اور ایسی حالت پر پہنچی ہوئی ہیں کہ کوئی ان کو قبول کرنے سے انکار نہیں کرسکتے سوائے اس شخص کے جس نے اللہ کے حکم کی نافرمانی کی، اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے نکل گیا اور اس نے انتہائی درجے کے تکبر سے کام لیا۔ البقرة
100 یہ ان کے کثرت معاہدات اور پھر ان معاہدات کے ایفاء پر ان کے عدم صبر پر اظہار تعجب ہے۔ فرمایا : ﴿كُلَّمَا ﴾ ” جب بھی“ (کُلَّما) تکرار کا فائدہ دیتا ہے۔ یعنی جب کبھی وہ عہد کرتے ہیں تو وفا نہیں کرتے۔ اس کا کیا سبب ہے؟ اس کا سبب یہ ہے کہ ان میں سے اکثر ایمان نہیں رکھتے۔ ان کا ایمان نہ لانا ہی وہ سبب ہے جو ان کے نقض عہد کا موجب ہے۔ اگر ان کے ایمان میں کوئی صداقت ہوتی تو ان کی مثال ان لوگوں کی سی ہوتی جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّـهَ عَلَيْهِ ﴾(الاحزاب : 33؍ 23) ” اور اہل ایمان میں سے کتنے ہی ایسے لوگ ہیں کہ جو عہد انہوں نے اللہ سے کیا تھا اسے سچ کر دکھایا۔‘‘ البقرة
101 یعنی جب ان کے پاس رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس حق کے ساتھ یہ عظیم کتاب لے کر آئے جو ان کے پاس موجود کتاب کے موافق تھا اور وہ یہ دعویٰ بھی کرتے تھے کہ وہ اپنی کتاب پر عمل کرتے ہیں۔ تو انہوں نے اس رسول اور اس کتاب کو ماننے سے انکار کردیا جس کو یہ رسول لے کر آئے ﴿ نَبَذَ فَرِیْقٌ مِّنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ ڎ کِتٰبَ اللّٰہِ﴾ ” اہل کتاب کے ایک گروہ نے اللہ کی کتاب کو پھینک دیا“ یعنی وہ کتاب جو ان کی طرف نازل کی گئی تھی اس کو بے رغبتی کے ساتھ دور پھینک دیا ﴿وَرَاءَ ظُهُورِهِمْ﴾ ” اپنی پیٹھوں کے پیچھے“ روگردانی اور اعراض کے لیے یہ بلیغ ترین محاورہ ہے گویا وہ اپنے اس فعل کے ارتکاب میں سخت جہالت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ حالانکہ وہ اس رسول کی صداقت اور جو کچھ وہ لایا ہے اس کی حقیقت کو خوب جانتے ہیں۔ اس سے واضح ہوگیا کہ اہل کتاب کے اس گروہ کے ہاتھ میں کچھ بھی باقی نہیں جبکہ یہ اس رسول پر ایمان نہیں لائے۔ ان کا اس رسول کو نہ ماننا اپنی کتاب کا انکار کرنا ہے مگر وہ اس بات کو سمجھتے نہیں۔ حکمت الٰہی اور عادت قدسی یہ ہے کہ جو کوئی اس چیز کو ترک کرتا ہے جو اسے فائدہ دیتی ہے اور جس سے فائدہ اٹھانا اس کے لیے ممکن ہو لیکن وہ فائدہ نہ اٹھائے تو اسے ایسے کام میں مشغول کردیا جاتا ہے جو اس کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے۔ پس جو کوئی اللہ تعالیٰ کی عبادت سے منہ موڑتا ہے، اسے بتوں کی عبادت میں مبتلا کردیا جاتا ہے۔ جو کوئی اللہ تعالیٰ کی محبت، اس سے خوف اور اس پر امید کو ترک کرتا ہے وہ غیر اللہ کی محبت، اس سے خوف اور اس سے امید میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں مال خرچ نہیں کرتا، اسے شیطان کی فرمانبرداری میں مال خرچ کرنا پڑتا ہے۔ جو کوئی اپنے رب کے سامنے ذلت اور فروتنی کا اظہار نہیں کرتا اسے بندوں کے سامنے ذلیل ہونا پڑتا ہے اور جو کوئی حق کو چھوڑ دیتا ہے اسے باطل میں مبتلا کردیا جاتا ہے۔ البقرة
102 اسی طرح ان یہودیوں نے جب اللہ کی کتاب کو پیٹھ پیچھے پھینک دیا تو اس جادو کے پیچھے لگ گئے جو شیاطین نے حضرت سلیمان علیہ السلام کی حکومت کے زمانے میں ایجاد کیا۔ جہاں شیاطین نے لوگوں کو سکھانے کے لیے جادو نکالا اور لوگوں کو باور کرایا کہ سلیمان علیہ السلام اسی جادو کے عامل تھے اور جادو ہی کے زور پر انہیں اتنی بڑی سلطنت حاصل ہوئی تھی۔ حالانکہ وہ جھوٹ بول رہے تھے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے کبھی جادو نہیں کیا۔ بلکہ اللہ سچے نے اپنے اس فرمان میں حضرت سلیمان علیہ السلام کو اس کام سے منزہ قرار دیا، فرمایا : ﴿وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَانُ﴾ یعنی (حضرت سلیمان) نے (جادو سیکھ کر) کفر کا ارتکاب نہیں کیا، انہوں نے ہرگز جادو نہیں سیکھا۔ ﴿وَلَـٰكِنَّ الشَّيَاطِينَ كَفَرُوا﴾یعنی (جادو سیکھ کر) شیاطین نے کفر کا ارتکاب کیا۔ ﴿يُعَلِّمُونَ النَّاسَ السِّحْرَ﴾یعنی بنی آدم کو گمراہ کرنے اور ان کو سرکش بنانے کی حرص کی وجہ سے لوگوں کو جادو سکھاتے تھے۔ اسی طرح یہودیوں نے اس جادو کی بھی پیروی کی جو سر زمین عراق کے شہر بابل میں دو فرشتوں پر نازل کیا گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندوں کے امتحان اور آزمائش کے لیے ان فرشتوں پر جادو نازل کیا گیا تھا اور یہ فرشتے آزمائش ہی کے لیے لوگوں کو جادو سکھاتے تھے۔ ﴿ وَمَا یُعَلِّمٰنِ مِنْ اَحَدٍ حَتّٰی﴾ ” اور وہ کسی کو نہیں سکھاتے تھے یہاں تک کہ“ وہ ان کی خیر خواہی کرتے اور ﴿ یَقُوْلَآ اِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَۃٌ فَلَا تَکْفُرْ ۭ۔ ﴾” کہتے کہ ہم تو آزمائش کے لیے ہیں، سو تم کفر مت کرو“ یعنی جادو نہ سیکھو کیونکہ جادو کفر ہے۔ پس دونوں فرشتے لوگوں کو جادو سیکھنے سے روکتے تھے اور انہیں جادو کی حیثیت سے آگاہ کردیتے تھے۔ پس شیاطین کا جادو سکھانا تو محض تدلیس اور لوگوں کو گمراہ کرنے کی خاطر تھا، نیز اس جادو کو ترویج دینے اور اسے اس معصوم ہستی یعنی حضرت سلیمان علیہ السلام کی طرف منسوب کرنے کے لیے تھا جس کو اللہ تعالیٰ نے اس سے بری قرار دیا ہے اور فرشتوں کا جادو سکھانا لوگوں کی آزمائش اور امتحان کے لیے تھا۔ وہ خیر خواہی سے لوگوں کو آگاہ کردیتے تھے تاکہ ان کے لیے حجت نہ بنے۔ پس یہ یہودی اس جادو کے پیچھے لگے، جسے شیاطین نے سیکھا تھا اور جو وہ دو فرشتے سکھایا کرتے تھے۔ تو انہوں نے انبیاء و رسل کے علوم کو چھوڑ دیا اور شیاطین کے علم کی طرف متوجہ ہوگئے۔ ہر شخص اسی چیز کی طرف مائل ہوتا ہے جو اس کے مناسب حال ہوتی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے جادو کے مفاسد بیان کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ فَیَتَعَلَّمُوْنَ مِنْہُمَا مَا یُفَرِّقُوْنَ بِہٖ بَیْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِہٖ ۭ﴾ ” پھر لوگ ان سے وہ سیکھتے جس سے خاوند اور بیوی میں جدائی ڈال دیں“ اس کے باوجود کہ میاں بیوی کے درمیان محبت کو کسی اور کی محبت پر قیاس نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اللہ تعالیٰ میاں بیوی کے بارے میں فرماتا ہے :﴿وَجَعَلَ بَيْنَكُم مَّوَدَّةً وَرَحْمَةً ۚ ﴾(الروم : 30؍ 21) ” اور تمہارے درمیان مودت اور رحمدلی پیدا کردی۔“ یہ آیت کریمہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جادو کی کوئی حقیقت ہے نیز یہ کہ جادو اللہ تعالیٰ کے ” اذن“ یعنی اللہ تعالیٰ کے ارادے سے نقصان دیتا ہے۔ اذن کی دو اقسام ہیں۔ (الف) اذن قدری۔ جو اللہ تعالیٰ کی مشیت سے متعلق ہے جیسا کہ اس آیت کریمہ میں ذکر کیا گیا ہے۔ (ب) اذن شرعی۔ جیسا کہ سابقہ آیت کریمہ ﴿ فَإِنَّهُ نَزَّلَهُ عَلَىٰ قَلْبِكَ بِإِذْنِ اللَّـهِ ﴾(البقرة : 2؍ 97) ” اس نے تو یہ کتاب، اللہ کے حکم سے آپ کے دل پر اتاری“ میں مذکور ہے اس آیت اور اس جیسی دیگر آیات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسباب کی قوتِ تاثیر خواہ کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو، وہ ہر حال میں قضاء و قدر کے تابع ہوتے ہیں۔ ان کی مستقل تاثیر نہیں ہوتی۔ افعال العباد کے بارے میں امت کے فرقوں میں کوئی بھی اس اصول کی مخالفت نہیں کرتا سوائے قدریہ کے۔ قدریہ سمجھتے ہیں کہ اسباب کی تاثیر مستقل ہوتی ہے اور وہ مشیت الٰہی کے تابع نہیں ہوتے۔ چنانچہ انہوں نے بندوں کے افعال کو اللہ تعالیٰ کی قدرت سے خارج کردیا اور اس طرح وہ کتاب اللہ، سنت رسول اور صحابہ و تابعین کے اجماع کی مخالفت کے مرتکب ہوئے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے جادو کے علم کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ جادو میں نقصان ہی نقصان ہے، اس میں کوئی دینی یا دنیاوی منفعت نہیں ہوتی جس طرح بعض گناہوں میں دنیاوی منفعت ہوتی ہے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ نے شراب اور جوئے کے بارے میں فرمایا: ﴿قُلْ فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُهُمَا أَكْبَرُ مِن نَّفْعِهِمَا ﴾ (البقرة: 2؍ 219) ’’کہہ دو شراب اور جوئے میں بڑا گناہ ہے اور لوگوں کے لیے کچھ فائدے بھی ہیں البتہ ان کا گناہ ان کے فائدے کی نسبت زیادہ بڑا ہے۔‘‘ پس یہ جادو تو ضررِ محض ہے اور اصل میں اس کا کوئی داعیہ نہیں۔ تمام منہیات یا تو ضررِ محض کی حامل ہیں یا ان میں شر کا پہلو خیر کے پہلو سے زیادہ ہے۔ جیسے تمام مامورات صرف مصلحت پر مبنی ہیں یا ان میں خیر کا پہلو شر کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ ﴿وَ لَقَدْ عَلِمُوْا﴾’’یعنی یہود نے جان لیا ہے۔‘‘﴿لَمَنِ اشْتَرَاهُ﴾ ’’جس نے اسے خریدا‘‘ یعنی انھوں نے جادو کے علم میں اس طرح رغبت کی جیسے تاجر مال تجارت کے خریدنے میں رغبت رکھتا ہے﴿مَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ﴾ یعنی ’’آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہیں‘‘ بلکہ یہ جادو آخرت میں عذاب کا موجب ہو گا۔پس ان کا جادو پر عمل کرنا جہالت اور لاعلمی کی وجہ سے نہیں بلکہ اس وجہ سے ہے کہ انھوں نے آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی کو پسند کیا ہے۔﴿وَلَبِئْسَ مَا شَرَوْا بِهِ أَنفُسَهُمْ ۚ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ﴾ ’’ اور وہ بدترین چیز ہے جس کے بدلے وہ اپنے آپ کو فروخت کر رہے ہیں، کاش کہ یہ جانتے ہوتے‘‘ یعنی اپنے فعل کے بارے میں ایسا علم رکھنا جو عمل کا باعث ہو۔ البقرة
103 البقرة
104 مسلمان جب دینی امور سیکھنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مخاطب ہوتے تو عرض کرتے ﴿رَاعِنَا﴾ یعنی ہمارے حال کی رعایت کیجئے۔ ان کے نزدیک اس لفظ کا صحیح معنی مقصود تھا۔ مگر یہودی اس سے فاسد معنی مراد لیتے تھے، لہٰذا وہ مسلمانوں کے اس لفظ کے استعمال کو غنیمت جانتے ہوئے فاسد معنی کے ارادے سے اس لفظ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خطاب کرتے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو بھی اس لفظ کے ذریعے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خطاب کرنے سے روک دیا۔ تاکہ (گستاخی کا) یہ دروازہ بند ہوجائے۔ اس آیت کریمہ میں کسی جائز کام سے روکنے کی دلیل ہے جبکہ یہ جائز کام کسی حرام کام کے لیے وسیلہ ہو، نیز اس میں ادب کا اور ایسے الفاظ کے استعمال کا بیان ہے جو اچھے ہوں، جن میں بے ہودگی نہ ہو۔ نیز قبیح الفاظ کے ترک کرنے کی تاکید ہے، یا جن میں کسی قسم کی تشویش اور کسی نامناسب امر کا احتمال ہو۔ پس اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو ایسا لفظ استعمال کرنے کا حکم دیا جس میں صرف اچھے معنی کا احتمال ہو۔ فرمایا : ﴿وَقُوْلُوا انْظُرْنَا ” اور اُنْظُرْنَا کہو“ یہ لفظ کافی ہے اور بغیر کسی خدشے کے اس سے اصل مقصد حاصل ہوجاتا ہے ﴿ وَاسْمَعُوْا ۭ ﴾’’اور سنو“ یہاں مسموع کا ذکر نہیں کیا گیا تاکہ اس کی عمومیت میں ہر وہ چیز شامل ہو جس کے سننے کا حکم دیا گیا ہے۔ چنانچہ اس کے مفہوم میں سماع قرآن اور سماع سنت شامل ہیں جو لفظی، معنوی اور قبولیت کے اعتبار سے سراسر حکمت ہے۔ اس میں ادب اور اطاعت کی تعلیم ہے۔ البقرة
105 پھر اللہ تعالیٰ نے کفار کو درد ناک عذاب کی وعید سنائی ہے اور یہود اور مشرکین کی مسلمانوں کے ساتھ عداوت سے آگاہ کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ نہیں چاہتے کہ ﴿اَنْ یُّنَزَّلَ عَلَیْکُمْ مِّنْ خَیْرٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ ۭ﴾ ” تم پر کوئی بھلائی نازل ہو۔“ یعنی کم یا زیادہ ﴿ مِّنْ رَّبِّکُمْ ﴾ ” تمہارے رب کی طرف سے“ ان کی یہ خواہش تمہارے ساتھ بغض اور اس بات پر حسد کی وجہ سے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں اپنے فضل کے ساتھ مختص کیوں کیا ﴿ۭوَاللّٰہُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ ﴾” اور (بے شک) اللہ بڑے فضل والا ہے“۔ یہ اس کا فضل ہی ہے کہ اس نے تمہارے رسول پر کتاب نازل کی تاکہ وہ تمہیں پاک کرے، تمہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے اور تمہیں وہ کچھ سکھائے جو تم نہیں جانتے۔ فَلَہُ الْحَمْدُ وَالْمِنَّۃُ البقرة
106 (نسخ) کے لغوی معنی نقل کرنا ہیں۔ نسخ کی شرعی حقیقت یہ ہے کہ مکلفین کو کسی ایک شرعی حکم سے کسی دوسرے شرعی حکم کی طرف منتقل کرنا یا اس شرعی حکم کو یکسر ساقط قرار دے دینا۔ یہودی نسخ کا انکار کرتے تھے اور سمجھتے تھے کہ نسخ جائز نہیں، حالانکہ نسخ ان کے ہاں تورات میں بھی موجود ہے، ان کا نسخ کو نہ ماننا کفر اور محض خواہش نفس کی پیروی ہے، پس اللہ تعالیٰ نے نسخ میں پنہاں اپنی حکمت سے آگاہ فرماتے ہوئے فرمایا : ﴿ مَا نَنْسَخْ مِنْ اٰیَۃٍ اَوْ نُنْسِہَا﴾ ” جو منسوخ کرتے ہیں ہم کوئی آیت یا اس کو بھلاتے ہیں“ یعنی اپنے بندوں سے فراموش کرا دیتے ہیں اور اس آیت کو ان کے دلوں سے زائل کردیتے ہیں ﴿نَاْتِ بِخَیْرٍ مِّنْہَآ ﴾” تولاتے ہیں اس سے بہتر“ یعنی ایسی آیت اس کی جگہ لے آتے ہیں جو تمہارے لیے زیادہ نفع مند ہوتی ہے ﴿ اَوْ مِثْلِہَا ۭ﴾ ” یا اس جیسی کوئی اور آیت۔ “ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ تمہارے لیے نسخ (یعنی آیت ناسخہ) کی مصلحت پہلی آیت (یعنی آیت منسوخہ) کی مصلحت سے کسی طرح بھی کم نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فضل، خاص طور پر اس امت پر بہت زیادہ ہے جس پر اس کے دین کو اللہ نے بے حد آسان بنا دیا ہے۔ البقرة
107 اللہ تعالیٰ نے اس بات سے بھی آگاہ فرمایا کہ جو کوئی نسخ میں جرح و قدح کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اور قدرت میں عیب نکالتا ہے۔ فرمایا : ﴿أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّـهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ - أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّـهَ لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِۭ﴾ ” کیا تجھے معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے؟ کیا تجھے معلوم نہیں کہ زمین و آسمان کی بادشاہی اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہے؟“ جب اللہ تعالیٰ تمہارا مالک ہے وہ تمہارے اندر اسی طرح تصرف کرتا ہے جیسے نیکو کار، مہربان آقا اپنی اقدار میں، اپنے احکام میں اور اپنے نواہی میں تصرف کرتا ہے۔ پس جیسے اس پر اپنے بندوں کی بابت تقدیری فیصلے کرنے پر پابندی نہیں ہے اسی طرح اللہ پر ان احکام کے بارے میں بھی اعتراض صحیح نہیں جو اس نے اپنے بندوں کے لیے مشروع کیے ہیں۔ پس بندہ اپنے رب کے امر دینی اور امرتکوینی کا پابند ہے، اسے اعتراض کا کیا حق ہے؟ نیز اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کا ولی (کار ساز) اور ان کا مددگار ہے۔ پس وہ ان کے لیے منفعت کے حصول میں ان کا والی اور سرپرست ہے اور ضرر کو ان سے دور کرنے میں ان کی مدد کرتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی ولایت (کار سازی) کا حصہ ہے کہ اس نے ان کے لیے ایسے احکام مشروع کیے، جن کا تقاضا اس کی حکمت اور لوگوں کے ساتھ اس کی رحمت کرتی ہے۔ جو کوئی اس نسخ میں غور کرتا ہے جو قرآن و سنت میں واقع ہوا ہے تو اس کو معلوم ہوجاتا ہے کہ اس میں اللہ کی حکمت ہے، اس کے بندوں پر رحمت ہے اور اپنے لطف و کرم سے انہیں ان کے مصالح تک ایسے طریقے سے پہنچانا ہے کہ وہ اسے سمجھ ہی نہیں پاتے۔ البقرة
108 اللہ تعالیٰ اہل ایمان یا یہود کو منع کرتا ہے کہ وہ اپنے رسول سے اس طرح سوال کریں ﴿کَمَا سُئِلَ مُوْسٰی مِنْ قَبْلُ ۭ ﴾” جس طرح اس سے پہلے (حضرت) موسیٰ علیہ السلام سے سوال کیا گیا۔“ اس سے مراد وہ سوالات ہیں جو بال کی کھال اتارنے اور اعتراض کی خاطر کیے جاتے ہیں۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿ يَسْأَلُكَ أَهْلُ الْكِتَابِ أَن تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتَابًا مِّنَ السَّمَاءِ ۚ فَقَدْ سَأَلُوا مُوسَىٰ أَكْبَرَ مِن ذَٰلِكَ فَقَالُوا أَرِنَا اللَّـهَ جَهْرَةً﴾ (النساء : 4؍ 153) ” اہل کتاب تجھ سے سوال کرتے ہیں کہ تو ان پر آسمان سے کوئی لکھی ہوئی کتاب اتارلا۔ یہ موسیٰ علیہ السلام سے اس سے بھی بڑی بات کا مطالبہ کرچکے ہیں، کہتے تھے کہ ہمیں اللہ ان ظاہری آنکھوں سے دکھا“۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِن تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ﴾ (المائدہ : 5؍ 101) ” اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو ایسی چیزوں کے بارے میں سوال نہ کیا کرو کہ اگر تم پر ظاہر کردی جائیں تو تمہیں بری لگیں گی۔“ لہٰذا اس قسم کے (مذموم) سوالات سے منع کیا گیا ہے۔ رہا رشد و ہدایت اور تحصیل علم کے لیے سوال کرنا تو یہ محمود ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس طرح کے سوالات کرنے کا حکم دیا ہے۔ چنانچہ ﴿فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ﴾ (النحل : 16؍ 43) ” اگر تم نہیں جانتے تو ان لوگوں سے پوچھ لو جو اہل کتاب ہیں“ اور اللہ تعالیٰ نے اس قسم کے سوالات کو برقرار رکھا ہے۔ فرمایا :﴿ يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ﴾ (البقرہ: 2؍ 219) ” وہ تجھ سے شراب اور جوئے کے بارے میں پوچھتے ہیں۔“ نیز فرمایا : ﴿وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْيَتَامَىٰ﴾ (البقرہ : 2؍ 220) ” اور تجھ سے یتیموں کے بارے میں پوچھتے ہیں“ اور اس قسم کی دیگر آیات۔ چونکہ ممنوعہ سوالات مذموم ہوتے ہیں اس لیے بعض دفعہ سوال پوچھنے والے کو کفر کی حدود میں داخل کردیتے ہیں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿’ وَمَنْ یَّتَـبَدَّلِ الْکُفْرَ بِالْاِیْمَانِ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاۗءَ السَّبِیْلِ﴾’’جس نے ایمان کے بدلے کفر لے لیا پس اس نے سیدھا راستہ گم کردیا۔ “ البقرة
109 پھر اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب میں سے بہت سے لوگوں کے حسد کے بارے میں آگاہ فرمایا کہ ان کی یہ حالت ہوگئی ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ ﴿ لَوْ یَرُدُّوْنَکُمْ مِّنْۢ بَعْدِ اِیْمَانِکُمْ کُفَّارًا ښ﴾ ” کاش تمہیں تمہارے ایمان کے بعد کفر کی طرف لوٹا دیں۔“ اس کے لیے انہوں نے پوری کوشش اور فریب کاری کے جال بچھائے، مگر ان کے مکر و فریب پلٹ کر انہی پر پڑگئے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿وَقَالَت طَّائِفَةٌ مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ آمِنُوا بِالَّذِي أُنزِلَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَجْهَ النَّهَارِ وَاكْفُرُوا آخِرَهُ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ ﴾(آل عمران : 3؍ 72) ” اہل کتاب کا ایک گروہ کہتا ہے وہ کتاب جو اہل ایمان پر نازل کی گئی ہے اس پر دن کے پہلے حصے میں ایمان لاؤ اور اس کے آخر میں انکار کر دو، تاکہ وہ اسلام سے باز آجائیں۔“ یہ ان کا حسد تھا جو ان کے اندر سے پھوٹ رہا تھا۔ پس اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو یہود کی برائی اور بدخلقی کے مقابلے میں عفو اور درگزر سے کام لینے کا حکم دیا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا حکم آجائے۔ پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ جہاد کا حکم دے دیا اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو شفا بخشی، چنانچہ اہل ایمان نے ان یہودیوں میں سے جو قتل کے مستحق تھے ان کو قتل کیا، جو قیدی بنائے جا سکے ان کو قیدی بنا لیا اور کچھ کو ملک بدر کردیا۔ ﴿’ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْ ءٍ قَدِیْرٌ﴾ ’’یقیناً اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ “ البقرة
110 پھر اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو فی الحال اقامت نماز، ادائے زکوٰۃ اور تقرب الٰہی کے کاموں میں مشغول رہنے کا حکم دیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ وعدہ کیا کہ وہ نیکی کا جو بھی کام کریں گے اللہ تعالیٰ کے ہاں کبھی ضائع نہیں ہوگا بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اسے بہت زیادہ پائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو محفوظ کر رکھا ہے۔ ﴿ اِنَّ اللّٰہَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ﴾” تم جو کچھ کرتے ہو اللہ تعالیٰ اسے دیکھتا ہے۔ “ البقرة
111 یعنی یہودیوں نے کہا کہ یہودیوں کے سوا کوئی شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا اور عیسائیوں نے کہا کہ صرف وہی لوگ جنت میں جائیں گے جو عیسائی ہوں گے۔ پس انہوں نے حکم لگا دیا کہ صرف وہی اکیلے جنت کے مستحق ہوں گے۔ یہ محض ان کی آرزوئیں ہیں جو دلیل و برہان کے بغیر قابل قبول نہیں۔ پس اگر تم (اپنے اس دعوے میں) سچے ہو تو دلیل مہیا کرو۔ اسی طرح ہر وہ شخص جو کسی قسم کا دعویٰ کرتا ہے اس کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے دعوے کی صحت پر دلیل مہیا کرے وگرنہ اس کا دعویٰ اگر اس کی طرف پلٹا دیا جائے اور کوئی دعویٰ کرنے والا اس کے برعکس بغیر دلیل کے دعویٰ کر دے، تو وہ بھی ایسا ہی ہوگا۔ ان دونوں دعوؤں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہوگا۔ پس دلیل ہی ایک ایسی چیز ہے جو دعوے کی تصدیق یا اس کی تکذیب کرتی ہے اور جب ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے، تو معلوم ہوا کہ وہ اپنے اس دعوے میں جھوٹے ہیں۔ البقرة
112 پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے ایسی روشن دلیل بیان فرمائی ہے جو ہر ایک کے لیے عام ہے۔ فرمایا : ﴿بَلَىٰ﴾ یعنی تمہاری آرزوئیں اور تمہارے دعوے صحیح نہیں بلکہ ﴿ مَنْ اَسْلَمَ وَجْہَہٗ لِلّٰہِ جس نے اپنے قلب کو اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ کرتے ہوئے اپنے اعمال کو اس کے لیے خلاص کرلیا۔ ﴿ وَھُوَ مُحْسِنٌ﴾ اور وہ اپنے اخلاص کے ساتھ اپنے رب کی عبادت احسن طریقے سے کرتا ہے۔ یعنی وہ اس کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق عبادت کرتا ہے صرف یہی لوگ جنت میں جائیں گے۔﴿فَلَہٗٓ اَجْرُہٗ عِنْدَ رَبِّہٖ ۠﴾ ” بے شک اس کا اجر اس کے رب کے پاس ہے“ یہ اجر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر مشتمل جنت ہے۔ ﴿وَلَا خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ﴾ ” اور ان پر کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔“ پس انہیں ان کی مرغوب چیز حاصل ہوگی اور خوف سے نجات مل جائے گی۔ ان آیات کریمہ میں یہ مفہوم بھی پایا جاتا ہے کہ جو ان مذکورہ لوگوں کی مانند نہیں ہیں وہ ہلاک ہونے والے جہنمیوں میں شمار ہوں گے۔ پس نجات صرف انہی لوگوں کا نصیب ہے جو محض اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے نیکی کرتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی کرتے ہیں۔ البقرة
113 اس کی وجہ یہ ہے کہ اہل کتاب خواہش نفس اور حسد میں اس حد کو پہنچ گئے کہ انہوں نے ایک دوسرے کو گمراہ اور کافر قرار دیا، جیسے مشرکین عرب میں امیوں کا وتیرہ تھا۔ پس ہر فرقہ دوسرے فرقے کو گمراہ قرار دیتا تھا۔ ان اختلاف کرنے والوں کے مابین قیامت کے روز اللہ تعالیٰ عدل کے ساتھ فیصلہ کرے گا۔ یہ وہ فیصلہ ہے جس کے بارے میں اس نے بندوں کو باخبر کردیا ہے کہ فوز و فلاح اور نجات صرف انہی لوگوں کے لیے ہے جنہوں نے تمام انبیا و مرسلین کی تصدیق کی اور اپنے رب کے احکام کی پیروی کی اور اس کی منہیات سے اجتناب کیا۔ ان کے علاوہ دیگر تمام لوگ ہلاکت کے گڑھے میں گریں گے۔ البقرة
114 یعنی اس شخص سے بڑھ کر ظالم اور مجرم کوئی اور نہیں جس نے اللہ کی مساجد میں لوگوں کو اللہ کا ذکر کرنے، نماز پڑھنے اور نیکی اور اطاعت کے دیگرکاموں سے روکا۔ ﴿سَعٰی﴾ یعنی جس نے پوری جدوجہد اور بھرپور کوشش کی ﴿ فِیْ خَرَابِہَا﴾ ” ان کے ویران کرنے میں“ اس سے مراد، حسی اور معنوی دونوں اعتبار سے ویران کرنا ہے۔ حسی ویرانی کا مطلب ہے منہدم کرنا، اجاڑنا اور ان میں گندگی وغیرہ پھینکنا۔ معنوی ویرانی کا مطلب ان مساجد میں اللہ تعالیٰ کے ذکر سے روکنا ہے اور یہ عام ہے، اس زمرے میں وہ تمام لوگ آتے ہیں جو ان صفات سے متصف ہیں۔ اس میں اصحاب فیل بھی شامل ہیں، قریش بھی شامل ہیں، جب انہوں نے حدیبیہ کے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مسجد حرام میں داخل ہونے سے روک دیا تھا اور اس گروہ میں وہ نصرانی اور اہل ظلم بھی شامل ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی مخالفت کرتے ہوئے پوری کوشش سے بیت المقدس کو ویران کیا۔ پس اللہ تعالیٰ نے انہیں ان کے کرتوتوں کی یہ سزا دی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو شرعی اور تقدیری طور پر مسجد اقصیٰ میں داخل ہونے سے منع کردیا سوائے اس کے کہ وہ ڈرتے ہوئے ذلت و انکسار کے ساتھ داخل ہوں۔ پس جب انہوں نے اللہ تعالیٰ کے بندوں کو خوف زدہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے بھی ان پر خوف مسلط کردیا۔ مشرکین مکہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مسجد حرام میں داخل ہونے سے روک دیا مگر تھوڑا ہی عرصہ گزرا کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مکہ مکرمہ فتح کرنے کی اجازت مرحمت فرما دی اور مشرکین کو اللہ تعالیٰ نے اپنے گھر کے قریب جانے سے منع کردیا۔ چنانچہ فرمایا : ﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ فَلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَـٰذَا ﴾(التوبہ : 9؍ 28) ”اے ایمان والو ! مشرکین تو ناپاک ہیں اس سال کے بعد وہ مسجد حرام کے قریب بھی نہ جائیں۔ “ اصحاب فیل کا جو حشر ہوا اللہ تعالیٰ نے (قرآن مجید میں) اس کا ذکر فرمایا ہے۔ نصرانیوں پر اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو مسلط فرمایا اور انہوں نے ان کو جلا وطن کردیا۔ اسی طرح ہر وہ شخص جو ان جیسی صفات رکھتا ہے وہ اس سزا سے اپنا حصہ ضرور وصول کرے گا۔ یہ بہت بڑی نشانیاں ہیں جن کے واقع ہونے سے پہلے ہی باری تعالیٰ نے آگاہ فرما دیا اور یہ اسی طرح واقع ہوئیں جس طرح اس نے خبر دی تھی۔ اس آیت کریمہ سے اہل علم نے یہ استدلال کیا ہے کہ کفار کو مساجد میں داخل نہ ہونے دیا جائے۔ فرمایا : ﴿ لَھُمْ فِی الدُّنْیَا خِزْیٌ ﴾یعنی ” ان کے لیے دنیا میں فضیحت ہے“ ﴿وَّلَھُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ﴾” اور آخرت میں بڑا عذاب ہے“ جب اللہ کی مساجد میں اللہ کے ذکر سے روکنا سب سے بڑا ظلم ہے تو اسی طرح مساجد کو حسی اور معنوی اعتبار سے آباد کرنے والے سے بڑا ایمان والا کوئی نہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللَّـهِ مَنْ آمَنَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ﴾ (التوبہ : 9؍ 18) ” اللہ کی مساجد کو تو وہی لوگ آباد کرتے ہیں جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں۔“ بلکہ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ اس کے گھروں کو بلند کیا جائے اور ان کی تعظیم و تکریم کی جائے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ فِي بُيُوتٍ أَذِنَ اللَّـهُ أَن تُرْفَعَ وَيُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ ﴾(النور 24؍ 36) ”ان گھروں میں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ ان کو بلند کیا جائے اور وہاں اس کے نام کا ذکر کیا جائے۔ “ مساجد سے متعلق بہت سے احکام ہیں جن کا خلاصہ ان آیات کریمہ کے اندر مضمر ہے۔ البقرة
115 ﴿ وَلِلّٰہِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ﴾” اللہ ہی کے لیے ہے مشرق اور مغرب“ اللہ تعالیٰ نے یہاں مشرق و مغرب کا خاص طور پر ذکر کیا کیونکہ یہ روشنی کے طلوع ہونے اور غروب ہونے کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ کی آیات عظیمہ کا محل و مقام ہیں اور جب وہ مشارق و مغارب کا مالک ہے، تو تمام جہات اسی کی ملکیت ہیں۔ ﴿ فَاَیْنَـمَا تُوَلُّوْا﴾ پس ان جہات میں سے جس کسی جہت کی طرف بھی تم اپنا منہ پھیر لو گے، بشرطیکہ تمہارا اس کی طرف منہ پھیرنا اللہ کے حکم سے ہو یا تو وہ تمہیں حکم دے کہ خانہ کعبہ کی طرف تم منہ پھیر لو، جب کہ پہلے تم بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے کے پابند تھے یا سفر میں تمہیں سواری کے اوپر نماز پڑھنے کا حکم دیا جائے، اس صورت میں اس کا قبلہ وہی ہوگا جس کی طرف وہ منہ کرے گا، یا (انجان جگہ میں) قبلے کا رخ معلوم نہ ہو، پس اپنے انداز سے نما زپڑھ لی، بعد میں معلوم ہوا کہ اندازہ غلط تھا یا کسی بیماری وغیرہ کی وجہ سے قبلہ رخ ہونا مشکل ہو۔ ان تمام صورتوں میں وہ یا تو مامور ہے (یعنی اللہ کے حکم پر قبلے کی طرف رخ کرنے والا ہے) یا معذور ہے۔ ہر حال میں بندہ جس جہت کی طرف بھی منہ کرتا ہے وہ جہت اللہ تعالیٰ کی ملکیت سے باہر نہیں۔ ﴿ فَثَمَّ وَجْہُ اللّٰہِ ۭ اِنَّ اللّٰہَ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ﴾ ”جدھر بھی تم رخ کرو ادھر ہی اللہ کا چہرہ ہے بے شک اللہ وسعت علم والا ہے“ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ کے چہرے کا اثبات ہوتا ہے مگر جیسے اس کی ذات اقدس کے لائق ہے۔ اللہ تعالیٰ کا چہرہ ہے مگر مخلوق کے چہروں کے مشابہ نہیں۔ (اللہ تعالیٰ اس مشابہت سے بلند و برتر ہے) وہ وسیع فضل اور عظیم صفات کا مالک ہے اور تمہارے سینوں کے بھید اور نیتوں کو جاننے والا ہے۔ اس نے وسعت علم و فضل کی بنا پر تمہارے لیے احکام میں وسعت بخشی ہے اور تم سے مامورات کو قبول فرمایا۔ ہر قسم کی حمد و ثنا اور شکر صرف اسی کی ذات کے لیے ہے۔ البقرة
116  ﴿وَقَالُوا﴾یعنی یہود و نصاریٰ، مشرکین اور ان تمام لوگوں نے کہا جو کہتے ہیں : ﴿ اتَّخَذَ اللّٰہُ وَلَدًا ۙ﴾ ” اللہ نے بیٹا بنا لیا۔“ انہوں نے ایسی بات اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کی جو اس کی جلالت شان کے لائق نہ تھی۔ انہوں نے بہت برا کیا اور اپنی جانوں پر ظلم کیا۔ اللہ تعالیٰ ان کی اس گستاخی پر صبر کرتا ہے، حلم سے کام لیتا ہے، انہیں معاف کر کے انہیں رزق عطا کرتا ہے۔ اس کے باوجود کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ذات میں نقص ثابت کرتے ہیں۔ ﴿ سُبْحَانَهُ﴾۔ یعنی وہ ان تمام صفات سے پاک اور منزہ ہے جن سے یہ اہل شرک اور اہل ظلم اسے متصف کرتے ہیں اور جو اس کے جلال کے لائق نہیں۔۔۔ پس پاک اور ہر عیب سے منزہ ہے وہ ذات جو ہر پہلو سے کمال مطلق کی مالک ہے جسے کسی بھی پہلو سے نقص لاحق نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے قول کی تردید کرتے ہوئے اپنے منزہ ہونے پر دلیل قائم کی ہے۔ چنانچہ فرمایا : ﴿بَلْ لَّہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ﴾ یعنی زمین و آسمان کی تمام مخلوق اس کی ملکیت اور اس کی غلام ہے۔ وہ ان میں اسی طرح تصرف کرتا ہے جس طرح مالک اپنے مملوک میں تصرف کرتا ہے۔ وہ اس کے اطاعت گزار اور اس کے دست تدبیر کے تحت مسخر ہیں۔ جب تمام مخلوق اس کی غلام اور اس کی محتاج ہے اور وہ خود ان سے بے نیاز ہے تو ان میں کوئی کیسے اس کا بیٹا ہوسکتا ہے۔ بیٹا لازمی طور پر اپنے باپ کی جنس سے ہوتا ہے کیونکہ وہ اس کے جسم کا حصہ ہے اور اللہ تبارک و تعالیٰ مالک اور غالب ہے تم سب لوگ مملوک اور مغلوب ہو، اس کی ہستی بے نیاز اور تم محتاج محض، ایسا ہونے کے باوجود اس کا کوئی بیٹا کیسے ہوسکتا ہے؟ یہ سب سے بڑا باطل اور سب سے زیادہ قبیح بات ہے۔ ” قنوت“ (اطاعت کرنا) کی دو اقسام ہیں۔ (1) قنوت عام : یعنی تمام مخلوق خالق کے دست تدبیر کے تحت اس کی اطاعت گزار ہے۔ (2)قنوت خاص : اس سے مراد اطاعت عبودیت ہے۔ پس قنوت کی پہلی قسم وہ ہے جس کا ذکر اس آیت کریمہ میں کیا گیا ہے اور قنوت کی دوسری قسم وہ ہے جس کا ذکر ﴿ وَقُومُوا لِلَّـهِ قَانِتِينَ﴾۔ البقرہ : 2؍ 238) ” اور اللہ کے سامنے ادب اور اطاعت گزاری کے ساتھ کھڑے رہیں۔“ میں مذکور ہے۔ البقرة
117 پھر فرمایا : ﴿بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو بغیر کسی سابقہ مثال کے نہایت مضبوط اور بہترین طریقے سے تخلیق کیا ہے۔ ﴿ وَاِذَا قَضٰٓی اَمْرًا فَاِنَّمَا یَقُوْلُ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ ﴾” وہ جس کام کو کرنا چاہے کہہ دیتا ہے کہ ہوجا پس وہ ہوجاتا ہے“ یعنی کوئی چیز اس کی نافرمانی نہیں کرسکتی اور کسی چیز کو اس کے سامنے انکار کرنے کی مجال نہیں۔ البقرة
118 یعنی اہل کتاب وغیرہ میں سے جہلاء نے کہا : ہمارے ساتھ اللہ تعالیٰ اس طرح کلام کیوں نہیں کرتا جس طرح وہ اپنے رسولوں سے کلام کرتا ہے۔ ﴿ اَوْ تَاْتِیْنَآ اٰیَۃٌ ۭ﴾” یا کیوں نہیں آتی ہمارے پاس کوئی نشانی“ اس سے مراد وہ نشانیاں ہیں جو وہ اپنی فاسد عقلوں اور باطل آراء کے ذریعے سے طلب کرتے تھے۔ ان فاسد آراء کے بل بوتے پر انہوں نے خالق کے مقابلے میں جسارت کی اور اس کے رسولوں کے سامنے تکبر سے کام لیا۔ جیسے انہوں نے کہا : ﴿لَن نُّؤْمِنَ لَكَ حَتَّىٰ نَرَى اللَّـهَ جَهْرَةً﴾ (البقرہ : 2؍ 55) ” ہم تجھ پر ہرگز ایمان نہ لائیں گے جب تک ہم اللہ کو ان ظاہری آنکھوں سے نہ دیکھ لیں۔“ ﴿ يَسْأَلُكَ أَهْلُ الْكِتَابِ أَن تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتَابًا مِّنَ السَّمَاءِ ۚ فَقَدْ سَأَلُوا مُوسَىٰ أَكْبَرَ مِن ذَٰلِكَ ﴾لنساء 4؍ 153) ” اہل کتاب تجھ سے کہتے ہیں کہ تو ان پر آسمان سے ایک لکھی ہوئی کتاب اتارلا۔ پس یہ موسیٰ سے اس سے بھی بڑے بڑے سوال کیا کرتے تھے۔“﴿ لَوْلَا أُنزِلَ إِلَيْهِ مَلَكٌ فَيَكُونَ مَعَهُ نَذِيرًا أَوْ يُلْقَىٰ إِلَيْهِ كَنزٌ أَوْ تَكُونُ لَهُ جَنَّةٌ يَأْكُلُ مِنْهَا﴾ (الفرقان: 25؍ 7، 8) ” اس کی طرف کوئی فرشتہ کیوں نہ نازل کیا گیا جو ڈرانے کے لیے اس کے ساتھ ساتھ رہتا یا اس کی طرف کوئی خزانہ اتارا جاتا۔ یا اس کے لیے کوئی باغ ہوتا جس سے وہ کھاتا“ یا جیسے فرمایا :﴿ وَقَالُوا لَن نُّؤْمِنَ لَكَ حَتَّىٰ تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الْأَرْضِ يَنبُوعًا﴾  (بنی اسرائیل: 17؍ 90) ” اور انہوں نے کہا ہم تجھ پر اس وقت تک ایمان نہیں لائیں گے جب تک کہ تو ہمارے لیے زمین سے چشمہ جاری نہ کردے۔ “ پس اپنے رسولوں کے ساتھ یہ ان کی عادت رہی ہے کہ یہ طلب رشد و ہدایت کے لیے آیات کا مطالبہ نہیں کیا کرتے تھے اور نہ تبیین حق ان کا مقصد تھا بلکہ وہ تو محض بال کی کھال اتارنے کے لیے مطالبات کرتے تھے۔ کیونکہ رسول تو آیات (اور معجزات) کے ساتھ آتے رہے ہیں اور ان جیسی آیات و معجزات پر انسان ایمان لاتا رہا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿ قَدْ بَیَّنَّا الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ﴾” بے شک ہم نے بیان کردیں نشانیاں ان لوگوں کے لیے جو یقین کرتے ہیں“ پس ہر صاحب ایقان اللہ تعالیٰ کی روشن نشانیوں اور واضح دلائل و براہین کو پہچان لیتا ہے۔ ان سے اسے یقین حاصل ہوتا ہے اور شک و ریب اس سے دور ہوجاتے ہیں۔ البقرة
119 پھر اللہ تعالیٰ نے نہایت اختصار و ایجاز سے بعض جامع آیات کا ذکر فرمایا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت اور جو کچھ آپ پر نازل ہوا اس کی صحت پر دلالت کرتی ہیں۔ فرمایا : ﴿ اِنَّآ اَرْسَلْنٰکَ بِالْحَقِّ بَشِیْرًا وَّنَذِیْرًا ۙ﴾ ”ہم نے آپ کو حق کے ساتھ خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے“ یہ ان آیات پر مشتمل ہے جنہیں رسول اللہ لے کر مبعوث ہوئے اور یہ تین امور کی طرف راجع ہیں۔ (1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت۔ (2) آپ کی سیرت طیبہ، آپ کا طریقہ اور آپ کی راہ نمائی۔ (3) قرآن و سنت کی معرفت۔ پہلا اور دوسرا نکتہ، اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿ اِنَّآ اَرْسَلْنٰکَ ﴾میں داخل ہے اور تیسرا نکتہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد﴿ بِالْحَقِّ﴾ میں داخل ہے۔ نکتہ اول۔۔۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت اور رسالت کی توضیح یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت سے قبل اہل زمین کی جو حالت تھی وہ معلوم ہے۔ اس زمین کے رہنے والے بتوں، آگ اور صلیب کی عبادت میں مبتلا تھے۔ ان کے لیے جو دین آیا انہوں نے اسے تبدیل کر کے رکھ دیا تھا۔ یہاں تک کہ وہ کفر کی تاریکیوں میں ڈوب گئے اور کفر کی تاریکی ان پر چھا گئی تھی۔ البتہ اہل کتاب کی کچھ باقیات تھیں (جو دین اسلام پر قائم رہیں) اور وہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت سے تھوڑا سا پہلے ناپید ہوگئیں۔ یہ بھی معلوم ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو عبث اور بے فائدہ پیدا نہیں کیا اور نہ اس کو بے حساب و کتاب آزاد چھوڑا ہے کیونکہ وہ حکیم و دانا، باخبر، صاحب قدرت اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔ پس اس کی حکمت اور اپنے بندوں پر اس کی بے پایاں رحمت کا تقاضا ہوا کہ وہ ان کی طرف ایک نہایت عظمت والا رسول مبعوث کرے جو انہیں ایک اللہ کی عبادت کا حکم دے جس کا کوئی شریک نہیں۔ ایک عقلمند شخص محض آپ کی رسالت ہی کی بنا پر آپ کی صداقت کو پہچان لیتا ہے اور یہ اس بات کی بہت بڑی علامت ہے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔ رہا دوسرا نکتہ۔۔۔ تو جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اچھی طرح پہچان لیا اور اسے آپ کی بعثت سے قبل آپ کی سیرت، آپ کے طریق زندگی اور آپ کی کامل ترین خصلتوں پر آپ کی نشو و نما کی معرفت حاصل ہوگئی۔ پھر بعثت کے بعد آپ کے مکارم، عظیم اور روشن اخلاق بڑھتے چلے گئے۔ پس جنہیں ان اخلاق کی معرفت حاصل ہوگئی اور انہوں نے آپ کے احوال کو اچھی طرح جانچ لیا تو اسے معلوم ہوگیا کہ ایسے اخلاق صرف انبیائے کاملین ہی کے ہوسکتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اوصاف کو اصحاب اوصاف اور ان کے صدق و کذب کی معرفت کے لیے سب سے بڑی دلیل قرار دیا ہے۔ رہا تیسرا نکتہ۔۔۔ تو یہ اس عظیم شریعت اور قرآن کریم کی معرفت ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل کیا گیا جو سچی خبروں، اچھے احکام، ہر برائی سے ممانعت اور روشن معجزات پر مشتمل ہے۔ پس تمام نشانیاں ان تین باتوں میں آجاتی ہیں۔ ﴿بَشِيرًا﴾ یعنی آپ اس شخص کو دنیاوی اور اخروی سعادت کی خوشخبری سنانے والے ہیں جس نے آپ کی اطاعت کی ﴿وَنَذِيرًا ﴾ اور اس شخص کو دنیاوی اور اخروی بدبختی اور ہلاکت سے ڈرانے والے ہیں جس نے آپ کی نافرمانی کی﴿ۙ وَّلَا تُسْـــَٔـلُ عَنْ اَصْحٰبِ الْجَحِیْمِ﴾ یعنی آپ سے اہل دوزخ کے بارے میں نہیں پوچھا جائے گا۔ آپ کا کام پہنچا دینا ہے اور حساب لینا ہمارا کام ہے۔ البقرة
120 اللہ تعالیٰ اپنے رسول کو آگاہ کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ یہود و نصاریٰ آپ سے اس وقت تک خوش نہیں ہوسکتے جب تک آپ ان کے دین کی اتباع نہ کریں کیونکہ وہ اپنے اس دین کے داعی ہیں جس پر وہ عمل پیرا ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہی ہدایت ہے، لہٰذا آپ ان سے کہہ دیجیے ! ﴿ اِنَّ ھُدَی اللّٰہِ ﴾” بے شک اللہ کی ہدایت“ یعنی وہ ہدایت جس کے ساتھ آپ کو مبعوث کیا گیا ہے ﴿ ھُوَ الْہُدٰی ۭ﴾” وہی درحقیقت ہدایت ہے۔“ اور وہ مذہب جس پر تم گامزن ہو محض خواہشات نفس کی پیروی ہے اور اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے۔ ﴿ وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ اَھْوَاۗءَھُمْ بَعْدَ الَّذِیْ جَاۗءَکَ مِنَ الْعِلْمِ ۙ مَا لَکَ مِنَ اللّٰہِ مِنْ وَّلِیٍّ وَّلَا نَصِیْرٍ﴾ ” اگر آپ نے ان کی خواہشات کی پیروی کی، اس علم کے بعد جو آپ کو پہنچا، تو آپ کو اللہ سے بچانے والا کوئی حمایتی اور مددگار نہیں ہوگا۔“ اس آیت کریمہ میں یہود و نصاریٰ کی اتباع کرنے اور ان امور میں ان کی مشابہت اختیار کرنے سے روکا گیا ہے جو ان کے دین سے مختص ہیں۔ یہاں خطاب اگرچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہے مگر بالواسطہ آپ کی امت بھی اس میں داخل ہے، کیونکہ اصول یہ ہے کہ جس سے خاص طور پر خطاب ہو، اس کی بجائے عمومِ معنی کا اعتبار کیا جائے۔ جیسے کسی حکم کے نازل ہونے کا کوئی خاص سبب ہوتا ہے، لیکن وہاں اس سبب کی بجائے عموم لفظ کا اعتبار کیا جاتا ہے۔ البقرة
121 اللہ تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ وہ لوگ جن کو ہم نے کتاب عطا کی اور کتاب عطا کر کے ان پر احسان کیا ہے ﴿ یَتْلُوْنَہٗ حَقَّ تِلَاوَتِہٖ ۭ”﴾ وہ اس کی تلاوت کرتے ہیں جیسا کہ تلاوت کرنے کا حق ہے۔“ یعنی اس کی اتباع کرتے ہیں جیسا کہ اتباع کرنے کا حق ہے۔ یہاں (تلاوت) سے مراد اتباع ہے۔ پس وہ اللہ تعالیٰ کے حلال ٹھہرائے ہوئے امور کو حلال اور اس کے حرام ٹھہرائے ہوئے امور کو حرام سمجھتے ہیں۔ اس کی محکمات پر عمل پیرا ہوتے ہیں اور اس کی متشابہات پر ایمان لاتے ہیں۔ اہل کتاب میں سے یہی وہ لوگ ہیں جو خوش بخت ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی نعمت کو پہچانا اور اس کے شکر گزار ہوئے جو تمام رسولوں پر ایمان لائے اور انہوں نے ان رسولوں کے مابین تفریق نہ کی۔ یہی لوگ حقیقی مومن ہیں نہ کہ وہ لوگ جو کہتے ہیں﴿ نُؤْمِنُ بِمَا أُنزِلَ عَلَيْنَا وَيَكْفُرُونَ بِمَا وَرَاءَهُ﴾ (البقرہ : 2؍ 91) ” جو کتاب ہم پر نازل کی گئی ہم تو اس پر ایمان لاتے ہیں اور اس کے سوا دوسری کتابوں کا انکار کرتے ہیں۔“ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو وعید سناتے ہوئے فرمایا : ﴿ وَمَنْ یَّکْفُرْ بِہٖ فَاُولٰۗیِٕکَ ھُمُ الْخٰسِرُوْنَ ﴾” جو کوئی اس کا انکار کرے گا پس یہی لوگ گھاٹے میں پڑنے والے ہیں۔“ اس کے بعد آنے والی آیت کریمہ کی تفسیر گزشتہ صفحات میں گزر چکی ہے۔ البقرة
122 البقرة
123 البقرة
124 اللہ تعالیٰ اپنے بندے اور اپنے خلیل ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں خبر دیتا ہے۔ جن کی امامت و جلالت تمام گروہوں کے درمیان متفق علیہ ہے۔ اہل کتاب کے تمام گروہ ان کی پیشوائی کو ماننے کا دعویٰ کرتے ہیں اور اسی طرح مشرکین مکہ بھی ان کو پیشوا مانتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے چند باتوں میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا امتحان لیا یعنی چند اوامرونواہی میں جیسا کہ عادت الٰہی ہے کہ وہ اپنے بندوں کو امتحان اور آزمائش میں مبتلا کرتا ہے، تاکہ جھوٹا شخص جو ابتلاء و امتحان میں ثابت قدم نہیں رہ سکتا، ایسے شخص سے علیحدہ ہوجائے جو سچا ہے تاکہ سچے شخص کے درجات بلند ہوں، اس کی قدر و قیمت زیادہ ہو، اس کے اعمال صاف ستھرے ہوں اور وہ اس آزمائش کی بھٹی سے کندن بن کر نکلے۔ اللہ تعالیٰ کے ان بندوں میں سے حضرت ابراہیم علیہ السلام جلیل ترین مقام پر فائزہیں۔ جن امور میں اللہ تعالیٰ نے ان کو آزمایا تھا وہ بدرجہ اتم اس آزمائش میں پورے اترے اللہ تعالیٰ نے ان کی اس سعی کی قدر کی اور اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے (اپنے نیک بندوں کی مساعی کا) قدر دان ہے۔ فرمایا :﴿ اِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا ۭ﴾” میں تجھ کو لوگوں کا امام بناؤں گا“ یعنی وہ زندگی کے لائحہ عمل میں تیری پیروی کریں گے اور ابدی سعادت کی منزل تک پہنچنے کے لیے تیرے پیچھے چلیں گے۔ تجھے ہمیشہ مدح و ثنا حاصل رہے گی اور بے پایاں اجر عطا ہوگا اور ہر شخص تیری عظمت کا قائل ہوگا۔ اللہ کی قسم ! یہ افضل ترین درجہ ہے جس میں لوگ ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر رغبت کرتے ہیں اور ایک ایسا بلند مقام ہے کہ اصحاب اعمال اس تک پہنچنے کے لیے بڑی جدوجہد کرتے ہیں اور وہ کامل ترین حالت ہے جو صرف اولوالعزم انبیاء و مرسلین، ان کے پیروکار صدیقین اور اللہ تعالیٰ اور اس کے راستے کی طرف دعوت دینے والوں کو حاصل ہوتی ہے۔ جب ابراہیم علیہ السلام اس مقام بلند کو پا کر خوش ہوئے تو انہوں نے اپنی اولاد کے لیے بھی اس مقام کی درخواست کی تاکہ ان کے اور ان کے اولاد کے درجات بلند ہوں اور یہ دعا بھی ان کی امامت، اللہ کے بندوں کے ساتھ خیر خواہی اور چاہت کا نتیجہ ہے کہ ان کی اولاد میں اللہ کی طرف رہنمائی کرنے والوں کی کثرت ہو۔ پس کیا خوب عظمت ہے ان اعلیٰ مقاصد اور مقامات بلند کی۔ اللہ رحیم اور لطف وکرم کے مالک نے ان کی دعا قبول فرما لی اور اس رکاوٹ سے ان کو باخبر کردیا جو اس مقام کے حصول کے راستے میں حائل ہے۔ چنانچہ فرمایا : ﴿ لَا یَنَالُ عَہْدِی الظّٰلِمِیْنَ﴾” میرا عہد ظالموں کو نہیں پہنچے گا“ یعنی اہل ظلم دین میں امامت کے رتبے کو نہیں پہنچ سکتے۔ جس نے اپنے نفس پر ظلم کیا، اس کو نقصان پہنچایا اور اس کی بے قدری کی، کیونکہ ظلم اس مقام کے منافی ہے۔ یہ ایسا مقام ہے جہاں تک پہنچنے کا ذریعہ صبر و یقین ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اس رتبے کا مالک ایمان اعمال صالحہ، اخلاق جمیلہ، خصائل حمیدہ، محبت نامہ اور خشیت و انابت میں عظمت کا حامل ہو۔ پس ظلم کا اس مقام سے کیا تعلق؟ آیت کریمہ کا مفہوم دلالت کرتا ہے کہ جو ظالم نہیں وہ اس امامت کے بلند مقام تک پہنچ سکتا ہے مگر وہاں تک پہنچانے والے اسباب استعمال کر کے۔ البقرة
125 پھر اللہ تعالیٰ نے ایک ایسے باقی رہنے والے نمونے کا ذکر فرمایا جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی امامت پر دلالت کرتا ہے اور وہ ہے اللہ تعالیٰ کا محترم گھر جس کی زیارت کو اللہ تعالیٰ نے دین کا ایک رکن اور گناہوں، کوتاہیوں کو ختم کردینے والا قرار دیا اور اس محترم گھر میں اللہ کے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کی اولاد کے آثار ہیں جن کے ذریعے سے ان کی امامت کی معرفت حاصل ہوتی ہے اور حضرت خلیل علیہ السلام کی حالت یاد آتی ہے۔ پس فرمایا: ﴿ وَاِذْ جَعَلْنَا الْبَیْتَ مَثَابَۃً لِّلنَّاسِ وَاَمْنًا ۭ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے اس محترم گھر کو لوگوں کا مرجع قرار دیا، لوگ اپنے دینی اور دنیاوی منافع کے حصول کی خاطر وہاں اکٹھے ہوتے ہیں۔ وہاں بار بار جانے کے باوجود ان کا دل نہیں بھرتا ﴿وَاَمْنًا ﴾ اور اللہ تعالیٰ نے اس محترم مقام کو جائے امن قرار دیا جہاں پہنچ کر ہر شخص محفوظ و مامون ہوجاتا ہے یہاں تک کہ جنگلی جانور اور نباتات و جمادات بھی مامون ہوتے ہیں۔ بنابریں جاہلیت کے زمانے میں، اہل عرب اپنے شرک کے باوجود بیت اللہ کا حد درجہ احترام کرتے تھے۔ حتیٰ کہ ان میں سے کوئی اگر بیت اللہ میں اپنے باپ کے قاتل کو بھی دیکھ لیتا تو تب بھی اس میں انتقامی جذبہ جوش نہ مارتا جب اسلام آیا تو اللہ تعالیٰ نے بیت اللہ کی حرمت، عظمت اور اس کے شرف و تکریم میں اور اضافہ کردیا۔ ﴿ وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰہٖمَ مُصَلًّی ۭ﴾” اور بناؤ ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ کو نماز کی جگہ“ اس میں ایک احتمال یہ ہے کہ اسے مراد وہ معروف مقام ہو جو اب بیت اللہ کے دروازے کے بالمقابل ہے اور جائے نماز بنانے سے مراد طواف کی دو رکعت ہیں جو مقام ابراہیم کے پیچھے کھڑے ہو کر پڑھنا مستحب ہے۔ جمہور مفسرین کا یہی مذہب ہے۔ دوسرا احتمال یہ ہے کہ یہاں مقام مفرد اور مضاف ہو، اس صورت میں یہ حج کے ان تمام مقامات کو شامل ہوگا، جہاں جہاں ابراہیم علیہ السلام کے قدم پہنچے اور یہ حج کے سارے مشاعر ہوں گے، جیسے طواف، سعی صفا و مروہ، وقوف عرفات و مزدلفہ، رمی جمار (کنکریاں مارنا) قربانی اور دیگر افعال حج۔ پس یہاں ﴿ مُصَلًّی ﴾ کا معنی ” عبادت کی جگہ“ قرار پائے گا۔ یعنی تمام شعائر حج میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پیروی کرو۔ شاید یہی معنی زیادہ مناسب ہے کیونکہ اس کے اندر پہلا معنی بھی آجاتا ہے اور لفظ بھی اس معنی کا متحمل ہے۔ ﴿ وَعَہِدْنَآ اِلٰٓی اِبْرٰہٖمَ وَاِسْمٰعِیْلَ اَنْ طَہِّرَا بَیْتِیَ﴾ یعنی ہم نے حضرت ابراہیم اور اسماعیل علیہ السلام کی طرف وحی کر کے انہیں حکم دیا کہ وہ بیت اللہ کو شرک، کفر و معاصی، رجس و نجاست اور گندگی سے پاک کریں تاکہ اللہ کا یہ گھر ﴿لِلطَّاۗیِٕفِیْنَ﴾ طواف کرنے والوں ﴿وَالْعٰکِفِیْنَ وَالرُّکَّعِ السُّجُوْدِ﴾ ” اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں“ یعنی نمازیوں کے لیے پاک ہوجائے۔ آیت کریمہ میں طواف کے ذکر کو مقدم رکھا گیا ہے کیونکہ یہ مسجد حرام سے مختص ہے اس کے بعد اعتکاف کا ذکر آیا ہے کیونکہ صحت اعتکاف کے لیے مطلقاً مسجد کی شرط ہے یہی وجہ ہے کہ نماز کا ذکر طواف و اعتکاف کے بعد ہے باوجود اس بات کے کہ وہ افضل ہے۔ باری تعالیٰ نے کعبہ کو چند وجوہات کی بنا پر اپنی طرف منسوب کیا ہے۔ (1) اللہ کا گھر ہونے کے حوالے سے یہ نہایت شدت سے اس بات کا متقاضی تھا کہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہ السلام اس کی تطہیر کا خوب اہتمام کریں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے جدوجہد کریں اور اپنی پوری طاقت صرف کردیں۔ (2) اللہ تعالیٰ کی طرف یہ نسبت عزت و شرف اور تکریم کی متقاضی ہے۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو اس کی تعظیم و تکریم کا حکم دیا ہے۔ (3) یہ اضافت اور نسبت ہی ہے جو دلوں کو بیت اللہ کی طرف کھینچنے کا باعث ہے۔ البقرة
126 یعنی جب ابراہیم علیہ السلام نے یہ دعا کی کہ اللہ تعالیٰ اپنے اس گھر کو امن کی جگہ بنائے اور یہاں کے رہنے والوں کو مختلف قسم کے پھلوں سے رزق عطا کرے۔ پھر جناب ابراہیم علیہ السلام نے ادب الٰہی کی خاطر اس دعا کو ایمان کی قید لگا کر اہل ایمان کے لیے خاص کردیا۔ چونکہ ان کی پہلی دعا مطلق تھی اس لیے اس کے جواب کو ” غیر ظالم“ کی قید سے مقید کیا گیا ہے۔ پس جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان کے لیے رزق کی دعا کی اور اس کے لیے ایمان کی شرط عائد کی اور اللہ تعالیٰ کا رزق مومن اور کافر، نافرمان اور فرمانبردار سب کو ملتا ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَمَنْ کَفَرَ﴾ ” اور جس نے کفر کیا“ یعنی میں کافر اور مسلمان تمام لوگوں کو رزق عطا کروں گا۔ رہا مسلمان تو وہ اس رزق سے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے میں مدد لے گا پھر وہ یہاں سے جنت کی نعمتوں میں منتقل ہوجائے گا اور کافر تو وہ اس دنیا میں تھوڑا سا فائدہ اٹھائے گا۔ ﴿ ثُمَّ اَضْطَرُّہٗٓ﴾ ” پھر میں اسے لاچار کر دوں گا“ اور اس کی ناپسندیدگی کے باوجود اسے دنیا سے نکال کر ﴿اِلٰی عَذَابِ النَّارِ ۭ وَبِئْسَ الْمَصِیْرُ﴾” جہنم کے عذاب میں جھونک دوں گا جو بہت برا ٹھکانہ ہے۔ “ البقرة
127 یعنی حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اس حالت کو یاد کرو جب وہ بیت اللہ کی بنیادیں بلند کر رہے تھے اور اس عظیم کام پر تسلسل اور پابندی سے لگے ہوئے تھے اور یہ کہ اس وقت ان پر خوف اور امید کی کیسی کیفیت طاری تھی، حتیٰ کہ اس عظیم عمل کے باوجود انہوں نے دعا کی کہ ان کا عمل قبول کیا جائے، تاکہ اس کا فائدہ عام ہو اور انہوں نے اپنی ذات اور اپنی اولاد کے لیے اسلام کی دعا کی۔ جس کی حقیقت قلب کا خشوع و خضوع ہے اور دل کا اپنے رب کا مطیع ہوجانے اور اعضاء و جوارح کے فرماں بردار ہونے کو متضمن ہے۔ البقرة
128 ﴿وَاَرِنَا مَنَاسِکَنَا﴾یعنی ارادہ اور مشاہدہ کے ذریعے ہمیں ہمارا طریق عبادت سکھا۔ تاکہ یہ زیادہ مؤثر ہو۔ اس میں ایک احتمال یہ ہے کہ مناسک سے مراد تمام اعمال حج ہوں۔ جیسا کہ اس معنی پر آیت کریمہ کا سیاق و سباق دلالت کرتا ہے۔ دوسرا احتمال یہ ہے کہ اس سے بڑھ کر کوئی چیز مراد ہو اور وہ سارا دین اور تمام عبادات ہیں۔۔۔ جیسا کہ عموم لفظ اس پر دلالت کرتا ہے کیونکہ (النسک) کا معنی عبادت کرنا ہے پھر عرف کے لحاظ سے حج کی عبادات کے لیے اس لفظ کا استعمال غالب آگیا۔ پس ان کی دعا کا حاصل علم نافع اور عمل صالح کی توفیق مانگنا ہے۔ بندہ جیسا بھی ہو اس سے تقصیر ہو ہی جاتی ہے اس لیے وہ توبہ کا محتاج ہوتا ہے، چنانچہ دونوں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی: ﴿وَتُبْ عَلَیْنَا ۚ اِنَّکَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ﴾ ” اے اللہ ہم پر رجوع فرما، تو بہت رجوع کرنے والا بہت مہربان ہے۔ “ البقرة
129 ﴿رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْہِمْ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ﴾ یعنی ہماری اولاد میں رسول مبعوث فرما تاکہ وہ ان دونوں کے درجات کی بلندی کا سبب بنے۔ لوگ اس کی اطاعت کریں اور اسے اچھی طرح پہچان لیں۔ فرمایا : ﴿یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ اٰیٰتِکَ﴾ یعنی وہ لفظاً لفظاً حفظ کرنے اور حفظ کروانے کے لیے تیری آیات کی تلاوت کرے۔ ﴿وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ﴾ یعنی معافی سمجھاتے ہوئے انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے ﴿وَیُزَکِّیْہِمْ﴾ یعنی اعمال صالحہ کے ذریعے سے ان کی تربیت کرے اور اعمال قبیحہ سے ان کو بچائے، کیونکہ قبیح اور ردی اعمال کے ہوتے ہوئے نفس پاک نہیں ہوسکتا۔ ﴿اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ﴾ یعنی تو ہر چیز پر غالب ہے۔ عزیز اس ہستی کو کہتے ہیں جس کی قوت کے سامنے کوئی چیز نہ ٹھہر سکے۔ ﴿الْحَکِیْمُ﴾ حکیم اس ہستی کو کہتے ہیں جو ہر چیز کو اس کے مناسب مقام پر رکھے۔ پس تو اپنے غلبہ و حکمت کے تحت ان کے اندر اس رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کو مبعوث فرما۔ اللہ تعالیٰ نے دونوں برگزیدہ نبیوں کی دعا قبول فرما لی اور تمام مخلوق پر عام طور پر اور اولاد ابراہیم و اسماعیل علیہ السلام پر خاص طور پر رحم کرتے ہوئے اس رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مبعوث فرمایا۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا کرتے تھے : (اَناَ دَعْوَۃُ أَبِی اِبْرَاہِیْمَ) [البدایة والنھایة،275؍2 والصحیحه، رقم:1546،1545] ” میں اپنے باپ ابراہیم کی دعا ہوں۔ “ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اس قدر عظمت و بلندی سے نوازا اور ان کی صفات کاملہ بیان فرمائیں تو فرمایا : البقرة
130 یعنی وہ کون ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی فضیلت کو پہچان لینے کے بعد ان کی ملت سے روگردانی کرے۔﴿اِلَّا مَنْ سَفِہَ نَفْسَہٗ﴾ یعنی ایسا شخص وہی ہوسکتا ہے جس نے اپنے نفس کو جاہل رکھ کر حقیر بنا دیا ہو۔ اپنے نفس کے لیے کمتر چیز پر راضی ہو اور گھاٹے کے سودے میں اسے فروخت کردیا ہو۔ اسی طرح اس شخص سے بڑھ کر کامل اور راست رو کوئی نہیں جو ملت ابراہیم میں رغبت رکھتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے دنیا و آخرت میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی حالت کے بارے میں آگاہ فرمایا : ﴿وَلَقَدِ اصْطَفَیْنٰہُ فِی الدُّنْیَا﴾ یعنی ہم نے حضرت ابراہیم کو چن لیا، انہیں ایسے اعمال کی توفیق سے نوازا جن کی بنا پر وہ چیدہ چیدہ نیک لوگوں میں شمار ہوئے۔ ﴿وَاِنَّہٗ فِی الْاٰخِرَۃِ لَمِنَ الصّٰلِحِیْنَ﴾” اور وہ آخرت میں صالحین میں سے ہوں گے“ یعنی وہ نیک لوگ جو بلند ترین درجات پر فائز ہوں گے۔ البقرة
131 ﴿اِذْ قَالَ لَہٗ رَبُّہٗٓ اَسْلِمْ ۙ قَالَ﴾” اور جب انہیں ان کے رب نے کہا مطیع ہوجاؤ“ یعنی (اللہ تعالیٰ کے فرمان کے جواب میں) حضرت ابراہیم علیہ السلام نے نہایت فرمانبرداری سے عرض کی : ﴿ اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ﴾ یعنی میں اخلاص، توحید، محبت اور انابت کے طور پر جہانوں کے پروردگار کے سامنے سر تسلیم خم کرتا ہوں۔ پس اللہ تعالیٰ کی توحید ان کی خاص صفت قرار پائی۔ پھر اس توحید کو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے وراثت کے طور پر اپنی اولاد میں منتقل کیا۔ اس کی ان کو وصیت فرمائی اور اسے ایک ایسا کلمہ بنا دیا جو ان کے بعد بھی باقی رہا اور نسل در نسل وراثت میں منتقل ہوتا رہا حتیٰ کہ حضرت یعقوب علیہ السلام تک پہنچا اور انہوں نے اپنے بیٹوں کو اسی کلمہ توحید کی وصیت کی۔ البقرة
132 پس اے اولاد یعقوب ! تمہیں تمہارے باپ نے خاص طور پر وصیت کی ہے اس لیے نہایت کامل طریقے سے اس کی اطاعت کرنا اور خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع کرنا تم پر واجب ہے۔ فرمایا : ﴿یٰبَنِیَّ اِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰی لَکُمُ الدِّیْنَ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ نے تم پر رحم اور احسان کرتے ہوئے تمہارے لیے دین کو چن لیا ہے لہٰذا اس دین کو قائم کرو اس کی شرائع سے متصف اور اس کے اخلاق میں رنگے جاؤ پھر ان کو دائمی طور پر اختیار کرلو۔ جب تمہیں موت آئے تو یہ اوصاف و اخلاق تمہارا اوڑھنا بچھونا ہوں، کیونکہ انسان جن اوصاف کے ساتھ زندگی بسر کرتا ہے انہی اوصاف کے ساتھ موت سے ہم آغوش ہوتا ہے اور جن اوصاف پر وہ مرتا ہے انہی اوصاف کے ساتھ اسے قیامت کے روز اٹھایا جائے گا۔ البقرة
133 چونکہ یہودیوں کو زعم تھا کہ وہ ملت ابراہیم اور ان کے بعد ملت، یعقوب پر ہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کا انکار کرتے ہوئے فرمایا : ﴿اَمْ کُنْتُمْ شُہَدَاۗءَ﴾یعنی ” کیا تم سب اس وقت موجود تھے“ ﴿اِذْ حَضَرَ یَعْقُوْبَ الْمَوْتُ﴾ ” جب یعقوب علیہ السلام کو موت آئی“ یعنی جب موت کے مقدمات اور اسباب ظاہر ہوئے تو انہوں نے آزمائش اور امتحان کے طور پر اپنے بیٹوں سے پوچھا تاکہ ان کی وصیت پر ان کے بیٹوں کے عمل کرنے کی وجہ سے ان (حضرت یعقوب) علیہ السلام کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں۔ ﴿مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْۢ بَعْدِیْ﴾ ” میرے بعد کس کی عبادت کرو گے؟“ پس یعقوب علیہ السلام کے بیٹوں نے انہیں ایسا جواب دیا جس سے ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوئیں، چنانچہ انہوں نے جواب دیا : ﴿ نَعْبُدُ اِلٰہَکَ وَاِلٰہَ اٰبَاۗیِٕکَ اِبْرٰھٖمَ وَاِسْمٰعِیْلَ وَاِسْحٰقَ اِلٰــہًا وَّاحِدًا﴾پس ہم اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی چیز کو شریک ٹھہرائیں گے نہ کسی کو اس کے برابر قرار دیں گے۔ ﴿وَّنَحْنُ لَہٗ مُسْلِمُوْنَ﴾” اور ہم اسی کے مطیع اور فرماں بردار ہیں“ پس انہوں نے توحید اور عمل کو جمع کردیا۔ البقرة
134 یہ بدیہی طور پر معلوم ہے کہ یہودی حضرت یعقوب علیہ السلام کی وفات کے وقت موجود نہ تھے کیونکہ وہ تو ان کی وفات کے بعد وجود میں آئے۔ جب وہ اس وقت موجود نہ تھے تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ خبردی ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹوں کو یہودیت کی نہیں بلکہ حنیفیت کی وصیت فرمائی تھی۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :﴿تِلْکَ اُمَّۃٌ قَدْ خَلَتْ﴾ یعنی وہ امت گزر گئی﴿لَہَا مَا کَسَبَتْ وَلَکُمْ مَّا کَسَبْتُمْ﴾” اس کے لیے وہ ہے جو اس نے کمایا اور تمہارے لیے وہ جو تم کماؤ گے“ یعنی ہر شخص کا اپنا عمل ہے اللہ تعالیٰ اسے اسی کے فعل کی جزا دے گا۔ وہ کسی شخص کا کسی دوسرے شخص کے گناہوں کی وجہ سے مواخذہ نہیں کرے گا اور کسی شخص کو صرف اس کا اپنا ایمان اور تقویٰ ہی کام دے گا۔ پس تمہارا اس زعم میں مبتلا ہونا اور تمہارا یہ دعویٰ کہ تم ان انبیاء علیہ السلام کی ملت پر ہو مجرد و دعویٰ اور ایک ایسا معاملہ ہے جو حقیقت سے خالی ہے، بلکہ تم پر فرض ہے کہ تم اپنی موجودہ حالت پر غور کرو۔ کیا یہ نجات دلانے کی صلاحیت رکھتی ہے یا نہیں؟ البقرة
135 یعنی یہود و نصاریٰ نے مسلمانوں کو اپنے اپنے دین میں داخل ہونے کی دعوت دی، ان میں سے ہر ایک اس زعم باطل میں مبتلا تھا کہ وہ ہدایت یافتہ ہے اور دوسرے گمراہ ہیں لہٰذا اللہ تعالیٰ نے شافی جواب دیتے ہوئے فرمایا : ﴿ قُلْ بَلْ مِلَّۃَ اِبْرٰھٖمَ حَنِیْفًا﴾ بلکہ ہم تو ملت ابراہیم کی اتباع کرتے ہیں، یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام ہر طرف سے منہ موڑ کر توحید کو قائم کرتے ہوئے اور شرک کو ترک کر کے صرف اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ تھے۔ یہی وہ ہستی ہے جس کی پیروی میں ہدایت اور جس کی ملت سے روگردانی کرنا کفر اور گمراہی ہے۔ البقرة
136 یہ آیت کریمہ ان تمام امور پر مشتمل ہے جن پر ایمان لانا واجب ہے۔ جان لیجیے کہ ایمان، جو ان اصولوں کے ساتھ دل کی پوری تصدیق کا نام ہے اور اس کا اقرار، قلوب اور اعضاء کے اعمال کو متضمن ہے اور اس اعتبار سے اس میں اسلام داخل ہے اور اس میں تمام اعمال صالحہ بھی داخل ہیں۔ پس تمام اعمال صالحہ ایمان کا حصہ اور اس کے آثار میں سے ہیں۔ جب ایمان کا علی الاطلاق ذکر ہوگا تو مذکورہ امور اس میں داخل ہوں گے۔ اسی طرح جب اسلام کا علی الاطلاق ذکر کیا جائے گا تو ایمان بھی اس کے اندر داخل ہوگا۔ جب ایمان اور اسلام کو مقرون اور ایک ساتھ ذکر کیا جائے گا تب ایمان، قلب کے اقرار و تصدیق کا نام اور اسلام، اعمال ظاہرہ کا نام ہوگا اور اسی طرح جب ایمان اور اعمال صالحہ کو جمع کیا جائے گا (تو یہی اصول ہوگا) ارشاد فرمایا :﴿ قُولُوا﴾ یعنی اپنی زبان سے کہو اور تمہارے دل تمہارے اس قول کی موافقت کرتے ہوں۔ یہی وہ کامل قول ہے جس پر ثواب اور جزا مرتب ہوتے ہیں، پس جیسے قلبی اعتقاد کے بغیر محض زبان سے ایمان کا اظہار نفاق اور کفر ہے۔ اسی طرح وہ قول، جو عمل سے عاری ہو، عمل قلب ہے جو تاثیر سے محروم اور بہت کم مفید ہے تاہم اگر یہ قول کوئی بھلائی کی بات ہو اور اس کے ساتھ ساتھ دل میں ایمان بھی موجود ہو تو بندہ مومن کو اس پر اجر ملتا ہے۔ لیکن مجردقول اور اس قول کے درمیان فرق ہے جو عمل قلب کے ساتھ مقرون ہو۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿قُوْلُوْٓا﴾ میں عقیدے کے اعلان و اظہار اور اس کی طرف دعوت دینے کا اشارہ ہے کیونکہ عقیدہ دین کی اصل اور اس کی اساس ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿ اٰمَنَّا﴾ وغیرہ میں جس میں فعل کا صادر ہونا مذکور ہو اور تمام امت کی طرف منسوب ہو اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ تمام امت پر فرض ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رسی کو اکٹھے ہو کر مضبوطی سے پکڑے رکھے ایک دوسرے کے ساتھ محبت و الفت سے رہے، یہاں تک کہ ان کا داعی ایک اور ان کا عمل متحد ہو۔ اسی سے افتراق اور تشتت کی ممانعت بھی نکلتی ہے۔ نیز اس آیت کریمہ سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ تمام اہل ایمان جسد واحد کی مانند ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿قُوْلُوْٓا اٰمَنَّا بِاللّٰہِ﴾ میں اس بات کی دلیل ہے کہ ا نسان کے لیے اپنے نفس کی طرف ایمان کی اضافت کرناجائز ہے مگر مقید طور پر بلکہ اس اضافت کے وجوب کی دلیل ہے اس کے برعکس (اَناَ مُؤمِنٌ) ” میں مومن ہوں“ کہنے کا معاملہ ہے، تو اس طرح کہنا صرف ان شاء اللہ کے ساتھ جائز ہے۔ کیونکہ یہ اپنے آپ کو پاک کہنے اور اپنے آپ پر ایمان کی شہادت کے زمرے میں آتا ہے۔ ﴿ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ﴾ یعنی ہم اس حقیقت پر ایمان لائے کہ اللہ تعالیٰ واجب الوجود ہے۔ وہ ایک ہے وہ ہر صفت کمال سے متصف اور ہر نقص اور عیب سے منزہ ہے۔ تمام عبادات کا اکیلا وہی مستحق ہے۔ ان عبادات میں کسی بھی پہلو سے کوئی بھی ہستی اس کی شریک نہیں۔ ﴿وَمَا أُنزِلَ إِلَيْنَا﴾ اس میں قرآن اور سنت دونوں شامل ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ﴿وَأَنزَلَ اللَّـهُ عَلَيْكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ﴾(سورۃ نساء : 4؍ 113) ” اور اللہ نے تجھ پر کتاب اور حکمت نازل فرمائی۔“ اس میں ان تمام چیزوں پر ایمان لانا داخل ہے جو کتاب و سنت میں ذکر کی گئی ہیں مثلاً باری تعالیٰ کی صفات، انبیاء و مرسلین کی صفات، روز قیامت، گزرے ہوئے اور آنے والے غیبی امور نیز تمام شرعی احکام اور ثواب و عقاب کے احکام پر ایمان لانا۔ ﴿وَمَآ اُنْزِلَ اِلٰٓی اِبْرٰھٖمَ وَاِسْمٰعِیْلَ وَاِسْحٰقَ وَیَعْقُوْبَ ........وَنَحْنُ لَہٗ مُسْلِمُوْنَ ﴾ اس آیت کریمہ میں عمومی طور ان تمام کتابوں پر ایمان لانے کا ذکر کیا گیا ہے جو سابقہ انبیاء و مرسلین پر نازل کی گئی ہیں اور خصوصی طور پر ان انبیاء و مرسلین پر ایمان لانا، جو کہ اس آیت کریمہ میں منصوص ہیں ان کے شرف و تکریم کے باعث اور اس سبب سے کہ وہ بڑی بڑی شریعتیں لے کر دنیا میں تشریف لائے۔ پس انبیائے کرام اور کتب سابقہ پر ایمان لانے میں جو چیز واجب ہے وہ یہ ہے کہ ان پر عمومی طور پر ایمان لایا جائے۔ پھر جس چیز کی تفصیل کی معرفت حاصل ہوجائے اس پر مفصل ایمان لایا جائے۔ ﴿وَمَآ اُوْتِیَ النَّبِیُّوْنَ مِنْ رَّبِّہِمْ﴾ اس آیت کریمہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ دین کا عطیہ ہی دراصل حقیقی عطیہ ہے جو انسان کو دنیاوی اور آخروی سعادت کی منزل تک پہنچاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ حکم نہیں دیا کہ ہم انبیائے کرام کی حکومتوں اور ان کو عطا کیے گئے مال و متاع وغیرہ پر ایمان لائیں۔ بلکہ ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم ان کو عطا کی گئی کتابوں اور شریعتوں پر ایمان لائیں۔ اس آیت کریمہ میں یہ بات بھی واضح ہے کہ انبیائے کرام علیہ السلام اللہ تعالیٰ کی طرف سے (دین) پہنچانے والے ہیں اور وہ اللہ تعالیٰ اور اس کی مخلوق کے مابین دین پہنچانے کا ذریعہ ہیں۔ حقیقت میں وہ کسی اختیار کے مالک نہیں۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿مِنْ رَّبِّہِمْ﴾میں اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے کمال ربوبیت کی بنا پر ان پر کتابیں نازل کیں اور ان کی طرف رسول مبعوث کیے ہیں۔ پس اس کی ربوبیت یہ تقاضا نہیں کرتی کہ انسانوں کو بیکار اور بے مہار چھوڑ دیا جائے۔ جب صورت یہ ہے کہ جو کچھ انبیائے کرام علیہ السلام کو عطا کیا گیا وہ ان کے رب کی طرف سے ہے۔ تو اس سے انبیائے کرام علیہ السلام اور نبوت کا دعویٰ کرنے والوں کے درمیان فرق کیا گیا ہے۔ نیز انبیائے کرام علیہ السلام اور مدعیان نبوت کے درمیان فرق ان کی دعوت کی معرفت حاصل کرنے سے بھی کیا جاسکتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے رسول صرف بھلائی کی دعوت دیتے ہیں اور صرف برائی سے روکتے ہیں۔ ان میں ہر رسول دوسرے رسول کی تصدیق کرتا اور اس کے لیے حق کی گواہی دیتا ہے۔ ان کی دعوت میں تناقض اور ایک دوسرے کی مخالفت نہیں ہوتی کیونکہ ان کی دعوت ان کے رب کی طرف سے ہوتی ہے۔ ﴿وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللَّـهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا﴾(النساء : 4؍ 82) ” اور اگر یہ (قرآن) غیر اللہ کی طرف سے ہوتا تو وہ اس میں بہت زیادہ اختلافات پاتے۔ “ اس کے برعکس جو کوئی نبوت کا دعویٰ کرتا ہے تو اس قسم کے جھوٹے نبیوں کی دی ہوئی خبروں اور ان کے اوامرو نواہی میں ضرور تناقص ہوتا ہے جیسا کہ اس قسم کے تمام جھوٹے مدعیان نبوت کی سیرت، ان کے احوال اور ان کی دعوت کی معرفت حاصل کرنے سے معلوم ہوتا ہے۔ ﴿لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْھُمْ﴾ یعنی ہم تمام انبیاء پر (بلا تفریق) ایمان لاتے ہیں۔ یہ اہل اسلام کی ایک ایسی خاصیت ہے جس کی بنا پر وہ ان تمام لوگوں میں منفرد ہیں جو کسی (آسمانی) دین کا دعویٰ کرتے ہیں۔ پس یہود و نصاریٰ اور صابی وغیرہ اگرچہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ انبیاء و رسل اور کتب منزلہ پر ایمان رکھتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنے علاوہ دیگر کتب کا انکار کرتے ہیں۔ پس وہ انبیاء و مرسلین اور کتب منزلہ کے مابین تفریق کرتے ہیں، ان میں سے کچھ لوگ اس پر ایمان رکھتے ہیں اور کچھ لوگ اس کا انکار کرتے ہیں اور ان کی تکذیب خود ان کی تصدیق کو توڑ دیتی ہے۔ کیونکہ وہ رسول جس کے بارے میں وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اس پر ایمان لائے ہیں اس نے تمام رسولوں کی تصدیق کی ہوتی ہے۔ خاص طو پر محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پس جب وہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تکذیب کرتے ہیں تو درحقیقت وہ اپنے رسول کی دی ہوئی خبر کی تکذیب کرتے ہیں اور یہ ان کا اپنے رسول کے ساتھ کفر ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے ان تمام چیزوں کو بیان کردیا جن پر عمومی اور خصوصی طور پر ایمان لانا ہے اور یہ بھی واضح ہے کہ قول، عمل سے کفایت نہیں کرتا، تو فرمایا : ﴿وَنَحْنُ لَہٗ مُسْلِمُوْنَ﴾یعنی ہم اس کی عظمت کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہیں۔ ہم اپنے ظاہر و باطن سے اس کی عبودیت کے لیے اس کی طاعت کرتے ہیں اور ہم اس کی عبادت کو صرف اسی کے لیے خالص کرتے ہیں اور اس مفہوم کے لیے دلیل یہ ہے کہ معمول کو عامل پر مقدم رکھا ہے۔ ﴿لَہٗ مُسْلِمُوْنَ﴾ میں ( لَہٗ) معمول ہے اور(مُسْلِمُوْنَ)عامل ہے۔ (اس انداز بیان سے اختصاص کا فائدہ حاصل ہوتا ہے۔) یہ آیت کریمہ اپنے ایجاز و اختصا رکے باوجود توحید کی تینوں اقسام پر مشتمل ہے۔ وہ ہیں توحید ربوبیت، توحید الوہیت اور توحید اسماء و صفات۔ یہ آیت کریمہ تمام انبیاء و رسل علیہ السلام اور تمام کتابوں پر ایمان لانے پر مشتمل ہے۔ یہ آیت کریمہ عموم کے بعد اس تخصیص پر مشتمل ہے جو فضیلت پر دلالت کرتی ہے۔ یہ آیت کریمہ دل، زبان اور جوارح کی تصدیق اور اخلاص اللہ پر مشتمل ہے۔ یہ آیت کریمہ سچے انبیاء و رسل اور جھوٹے مدعیان نبوت کے مابین فرق و امتياز کو شامل ہے۔ یہ آیت باری تعالیٰ کی اپنے بندوں کے لیے اس تعلیم پر مشتمل ہے کہ وہ (اپنے ایمان کا) کیسے اظہار کیا کریں، نیز اس کی رحمت اور بندوں پر اس کے احسان کو شامل ہے جو اس نے ان کو دینی نعمتوں سے نواز کر کیا، یہ نعمتیں انہیں دنیاوی اور آخروی سعادت کی منزل پر پہنچاتی ہیں۔ پس پاک ہے وہ ذات جس نے اپنی کتاب کو ایسا جامع بنایا کہ اس میں ہر چیز کی تفصیل ہے اور اہل ایمان کے لیے ہدایت اور رحمت ہے۔ البقرة
137 یعنی اے اہل ایمان ! اگر اہل کتاب اسی طرح ایمان لے آئیں جس طرح تم تمام انبیاء و مرسلین علیہ السلام اور تمام کتابوں پر ایمان لائے ہو، جن میں سب سے پہلے اور سب سے اولیٰ ہستی جس پر ایمان لایا جائے، حضرت محمد مصطفی خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں جو تمام انبیاء سے افضل ہیں۔ نیز اللہ تعالیٰ کی کتاب قرآن ہے اور انہوں نے اللہ وحدہ کے سامنے سر تسلیم خم کردیا اور اللہ تعالیٰ کے رسولوں میں سے کسی کے درمیان تفریق نہیں کی۔ ﴿فَقَدِ اھْتَدَوْا﴾تو ان کو سیدھے راستے کی طرف رہنمائی مل گئی جو نعمتوں والی جنت تک پہنچانے والا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ان کے لیے اس ایمان کے بغیر ہدایت تک پہنچنے کا کوئی راستہ نہیں۔ اس ہدایت کا راستہ وہ نہیں جو وہ دعویٰ کرتے ہیں۔﴿کُوْنُوْا ھُوْدًا اَوْ نَصٰرٰی تَہْتَدُوْا﴾ یعنی یہودی یا نصرانی ہوجاؤ تو تم راہ راست پالو گے پس وہ اس زعم میں مبتلا ہیں کہ ہدایت تو صرف وہی ہے جس پر وہ عمل پیرا ہیں۔ اور (الھُدیٰ) ” ہدایت“ نام ہے حق کو جاننے اور اس پر عمل کرنے کا اور اس کی ضد علم سے محرومی اور علم کے بعد عملی گمراہی ہے اور یہی وہ شقاق (دشمنی اور مخالفت) ہے جس پر وہ قائم تھے، کیونکہ وہ پیٹھ پھیر کر روگردانی کر رہے تھے۔ پس مبتلائے شقاق وہ شخص ہے جو ایک طرف ہوتا ہے اور اللہ اور اس کا رسول دوسری طرف۔ اس شقاق (مخالفت) سے دشمنی اور انتہا درجے کی عداوت لازم آتی ہے جس کے لوازمات میں یہ چیز بھی شامل ہے کہ عداوت میں مبتلا لوگ رسول کو اذیت دینے میں اپنی پوری کوشش صرف کرتے ہیں۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وعدہ کیا کہ وہ دشمنوں کے مقابلے میں ان کے لیے کافی ہے کیونکہ وہ لوگوں کے اختلاف زبان اور ان کی متنوع حاجات وضروریات کے باوجود سب کی آوازیں سنتا ہے۔ جو کچھ ان کے سامنے ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہو وہ سب جانتا ہے۔ غائب اور شاہد، ظاہر اور باطن سب اس کے دائرہ علم میں ہیں۔ پس جب بات اس طرح ہے تو ان کے شر کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ تیرے لیے کافی ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کیا ہوا اپنا وعدہ پورا کر دکھایا، آپ کو ان پر غلبہ اور تسلط عطا کیا یہاں تک کہ ان میں سے بعض لوگوں کو قتل کیا، بعض کو قیدی اور غلام بنا لیا گیا اور بعض کو جلا وطن کر کے انہیں پوری طرح تتر بتر کردیا گیا۔ اس آیت کریمہ میں قرآن کے معجزات میں سے ایک معجزے کی طرف اشارہ ہے او وہ ہے کسی چیز کے واقع ہونے سے قبل اس کے وقوع کے بارے میں خبر دینا پھر اس کا عین دی ہوئی خبر کے مطابق واقع ہونا۔ البقرة
138 یعنی اللہ کا رنگ اختیار کرلو، اللہ کے رنگ سے مراد اللہ کا دین ہے، اس کے تمام ظاہری، باطنی اعمال اور تمام اوقات میں اس کے تمام عقائد پر عمل کرو یہاں تک کہ یہ دین تمہارا رنگ اور تمہاری صفات میں سے ایک صفت بن جائے۔ پس جب یہ دین تمہاری صفت بن جائے گا تو یہ تمہارے لیے اس بات کو ضروری کر دے گا کہ تم خوشی، اختیار اور محبت سے اللہ کے حکموں کے آگے سرتسلیم خم کر دو اور دین تمہاری فطرت اور طبیعت بن جائے گا۔ جیسے کپڑے کو مکمل طور پر رنگ دیا جائے تو یہ رنگ اس کپڑے کی صفت بن جاتا ہے، تب تمہیں دنیاوی اور آخروی سعادت حاصل ہوجائے گی، کیونکہ دین مکارم اخلاق، محاسن اعمال اور بلند متربہ امور کو اختیار کرنے پر آمادہ کرتا ہے۔ بنابریں اللہ تعالیٰ نے برسبیل تعجب، پاک اور طاہر عقلوں سے مخاطب ہو کر فرمایا : ﴿صِبْغَۃَ اللّٰہِ ۚ وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰہِ صِبْغَۃً﴾ یعنی کوئی اور رنگ اللہ کے رنگ سے اچھا نہیں۔ جب تم کوئی ایسی مثال دیکھنا چاہو جو تمہارے سامنے اللہ کے رنگ اور کسی اور رنگ کے مابین فرق کو واضح کرے تو تم کسی چیز کا اس کی ضد کے ساتھ مقابلہ کر کے دیکھو۔ آپ اس بندہ مومن کو کیسا دیکھتے ہیں جو اپنے رب پر صحیح ایمان رکھتا ہے اور اس ایمان کے ساتھ ساتھ اس کا قلب اپنے رب کے سامنے جھک جاتا ہے اور جوارح اس کی اطاعت کرتے ہیں، پس بندہ مومن ہر اچھے وصف، خوبصورت فعل، کامل اخلاق اور بلند صفات کے زیور سے اپنے آپ کو آراستہ کرنے اور گندی صفات، رذیل عادات اور دیگر تمام عیوب سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ پس قول و فعل میں سچائی، صبر، بردباری، پاکبازی، شجاعت، قولی و فعلی احسان، محبت الٰہی، خشیت الٰہی، اللہ کا خوف اور اس سے امیدرکھنا، اس کا وصف بن جاتا ہے۔ پس اس کا حال معبود کے لیے اخلاص اور اس کے بندوں کے لیے حسن سلوک ہوجاتا ہے۔ اس کا مقابلہ اس بندے کے ساتھ کیجیے جس نے اپنے رب کا انکار کیا، اس سے منہ موڑ کر مخلوق کی طرف متوجہ ہوا اور کفر، شرک، جھوٹ، خیانت، مکرو فریب، دھوکہ، بد کرداری اور اپنے اقوال و افعال کے ذریعے سے مخلوق کے ساتھ برے سلوک جیسی صفات قبیحہ سے اپنے آپ کو متصف کیا۔ اس بندے میں اپنے معبود کے لیے اخلاص ہے نہ اس کے بندوں کے لیے حسن سلوک کا اہتمام۔ اس سے آپ کے سامنے وہ عظیم فرق ظاہر ہوجاتا ہے جو ان دو بندوں کے درمیان ہے اور آپ پر یہ حقیقت بھی واضح ہوجاتی ہے کہ کوئی دوسرا رنگ اللہ کے رنگ سے اچھا نہیں نیز ضمنی طور پر اس میں اس بات کی بھی دلیل ہے کہ جس نے اللہ کے دین کے سوا کوئی اور رنگ اختیار کیا اس سے بدتر کوئی اور رنگ نہیں۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿وَّنَحْنُ لَہٗ عٰبِدُوْنَ﴾میں اس رنگ کی توضیح ہے۔ اللہ کا رنگ درحقیقت دو بنیادوں کو قائم کرنا ہے، یعنی اخلاص اور متابعت کیونکہ ” عبادت“ ان تمام اعمال اور ظاہری و باطنی اقوال کا جامع نام ہے جنہیں اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے اور وہ ان پر راضی ہے۔ یہ اعمال و اقوال اس وقت تک درست قرار نہیں پاتے جب تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے رسول کی زبان پر مشروع قرار نہ دیا ہو۔ اخلاص یہ ہے کہ بندہ مومن ان اعمال میں صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کو اپنا مقصد بنائے۔ پس معمول کو مقدم رکھنا یعنی ” عَابِدُوْنَ لَہ “ کی بجائے ” لَہ عَابِدُوْنَ “ کہنا) حصر کا فائدہ دیتا ہے۔ ﴿وَّنَحْنُ لَہٗ عٰبِدُوْنَ﴾اللہ تعالیٰ نے ان کو اسم فاعل (عَابِدُوْنَ) سے موصوف کیا ہے جو ثبات و استقرار پر دلالت کرتا ہے تاکہ یہ لفظ ان کے اس صفت سے متصف ہونے پر دلالت کرے۔ البقرة
139 (مَحَاجَۃٌ) دو یا دوسے زائد افراد کے درمیان اس مباحثہ اور مجادلہ کو کہا جاتا ہے جس کا تعلق اختلافی مسائل سے ہوتا ہے، ہر فریق اپنے مدمقابل کے خلاف اپنی بات میں کامیابی حاصل کرنا اور مدمقابل کے قول کا ابطال کرنا چاہتا ہے۔ اس لیے دونوں ہی دلیل قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس میں مطلوب یہ ہے کہ یہ مباحثہ نہایت احسن طریقے سے ہو۔ قریب ترین راستے کے ذریعے سے گمراہ کو حق کی طرف لوٹایا جائے۔ فریق مخالف کے سامنے دلیل بیان کر کے حق اور باطل کو واضح کردیا جائے۔ اگر آپ ان مذکورہ امور سے باہر نکل جائیں تو مباحثہ نہیں بلکہ جھگڑا کہلائے گا، یہ ایک مخاصمت ہوگی جس میں کوئی بھلائی نہیں ہوتی اور اس جھگڑے اور مخاصمت سے برائی جنم لیتی ہے۔ پس اہل کتاب اس زعم باطل میں مبتلا تھے کہ مسلمانوں کی نسبت، وہ اللہ تعالیٰ کے زیادہ قریب ہیں۔ یہ ان کا محض دعویٰ تھا جو دلیل اور برہان کا محتاج تھا۔۔۔ جب تمام لوگوں کا رب ایک ہے تمہارا کوئی اور رب نہیں۔ ہم اور تم میں سے ہر شخص کا اپنا اپنا عمل ہے، تو اعمال بجا لانے میں ہم اور آپ برابر ہیں۔ پس یہ چیز اس بات کی ہرگز موجب نہیں کہ ہم میں سے کوئی، دوسرے سے زیادہ، اللہ تعالیٰ کے قریب ہے۔ کیونکہ کسی مشترک چیز میں بغیر کسی مؤثر فرق کے تفریق کرنا محض باطل دعویٰ ایک جیسی دو چیزوں کے مابین تفریق پیدا کرنا اور کھلا انکار حق ہے۔ فضیلت تو صرف اللہ تعالیٰ کے لیے خالص اعمال کے ذریعے سے حاصل ہوتی ہے اور یہ حالت صرف اہل ایمان کا وصف ہے اور اس سے یہ بات متعین ہوجاتی ہے کہ اہل ایمان ہی دوسرے لوگوں کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ کے زیادہ قریب ہیں، اس لیے کہ اخلاص ہی نجات کا راستہ ہے۔ یہی وہ حقیقی اوصاف ہیں جن سے اولیاء الرحمٰن اور اولیاء الشیطان کے مابین فرق ہوتا ہے جنہیں تمام عقلمند لوگ تسلیم کرتے ہیں اور جاہل منکر حق کے سوا کوئی اس میں نزاع پیدا نہیں کرتا۔ اس آیت کریمہ میں نہایت لطیف طور پر طریق مباحثہ کی طرف راہنمائی کی گئی ہے۔ نیز یہ کہ تمام امور اس اصول پر مبنی ہیں کہ دو متماثل اشیاء ایک جیسی ہوتی ہیں اور دو مختلف اشیاء میں فرق ہوتا ہے۔ البقرة
140 یہ ان کی طرف سے ایک اور دعویٰ اور اللہ تعالیٰ کے رسولوں کے بارے میں ایک اور مباحثہ ہے۔ انہوں نے گمان کیا کہ وہ مسلمانوں کی نسبت مذکورہ رسولوں کے زیادہ قریب ہیں تو اللہ تعالیٰ نے ان کی تردید کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ءَاَنْتُمْ اَعْلَمُ اَمِ اللّٰہُ ﴾ ” کیا تم زیادہ جانتے ہو یا اللہ؟“ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿َا کَانَ اِبْرٰہِیْمُ یَہُوْدِیًّا وَّلَا نَصْرَانِیًّا وَّلٰکِنْ کَانَ حَنِیْفًا مُّسْلِمًا۝٠ۭ وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ۝٦٧﴾ ” ابراہیم یہودی تھے نہ نصرانی بلکہ وہ یکسو مسلمان تھے اور مشرکین میں سے بھی نہ تھے۔“ اور وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ابراہیم علیہ السلام یہودی یا نصرانی تھے۔ اس بارے میں یا تو وہ سچے اور علم سے بہرہ ور ہیں یا اللہ تعالیٰ زیادہ جاننے والا اور سچا ہے ان دو باتوں میں سے لامحالہ صرف ایک ہی بات صحیح ہے۔ جواب کی صورت مبہم ہے مگر جواب درحقیقت بہت واضح ہے حتیٰ کہ جواب میں یہ بھی کہنے کی ضرورت پیش نہ آئی ” بلکہ اللہ تعالیٰ زیادہ علم رکھنے والا اور زیادہ سچا ہے“ کیونکہ یہ جواب ہر شخص پر واضح ہے۔ مثلاً جب یہ کہا جائے کہ رات زیادہ روشن ہے یا دن؟ آگ زیادہ گرم ہے یا پانی؟ اور شرک زیادہ اچھی چیز ہے یا توحید؟ اور اس قسم کا کوئی اور سوال (اس کا جواب اتنا واضح ہے کہ جواب دینے کی ضرورت نہیں رہتی۔) ایک ادنیٰ سی عقل رکھنے والا شخص بھی جانتا ہے حتیٰ کہ یہ خود بھی جانتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور دیگر انبیاء یہودی تھے نہ نصرانی، انہوں نے اس علم اور اس گواہی کو چھپانے کے گناہ کا ارتکاب کیا، لہٰذا ان کا ظلم سب سے بڑا ظلم ہے۔ بنابریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ کَتَمَ شَہَادَۃً عِنْدَہٗ مِنَ اللّٰہِ﴾” اس سے بڑا ظالم کون ہے جو اس شہادت کو چھپائے جو اللہ کی طرف سے اس کے پاس ہے“ پس یہ شہادت جو ان کے پاس تھی، اللہ کی طرف سے ان کے سپرد کی گئی تھی نہ کہ مخلوق کی طرف سے۔ اس لیے اس کی ادائیگی کا اہتمام کرنا ضروری تھا، لیکن انہوں نے اسے چھپایا اور اس کے برعکس باتوں کو ظاہر کیا۔ چنانچہ انہوں نے حق کے چھپانے، اسے بیان نہ کرنے اور اظہار باطل اور اس کی طرف دعوت دینے کو ایک جگہ جمع کردیا۔ کیا یہ سب سے بڑا ظلم نہیں؟ کیوں نہیں اللہ کی قسم ! یہ سب سے بڑا ظلم ہے اس پر انہیں سخت سزا کا سامنا کرناپڑے گا۔ اس لیے اللہ تبارک تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَمَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ﴾”وہ تمہارے اعمال سے غافل نہیں“ بلکہ اس نے تمہارے اعمال کو شمار کر کے محفوظ کرلیا ہے اور ان کی جزا بھی محفوظ کی ہوئی ہے۔ پس ان کی جزا بہت بری جزا ہے اور بری ہے جہنم کی آگ، جو ظالموں کا ٹھکانا ہے۔ قرآن کریم کا طریقہ یہ ہے کہ وہ ان آیات کریمہ کے بعد اللہ تعالیٰ کے علم اور قدرت کا ذکر کرتا ہے جن میں ان اعمال کا ذکر کیا گیا ہوتا ہے جن پر جزا و سزا مرتب ہوتی ہے پس ان آیات کریمہ کے عقب میں اللہ تعالیٰ کے علم اور قدرت کا ذکر کرنا وعدہ و وعید اور ترغیب و ترہیب کا فائدہ دیتا ہے۔ نیز احکام کے عقب میں اسمائے حسنیٰ کا ذکر کرنا اس امر کا فائدہ دیتا ہے کہ امر دینی و جزائی اسمائے حسنیٰ کے آثار اور اس کے موجبات میں سے ہے اوراسمائے حسنیٰ اس امر دینی و جزائی کا تقاضا کرتے ہیں۔ البقرة
141 اس کی تفسیر گزشتہ صفحات میں گزر چکی ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس کا مکرر ذکر اس لیے فرمایا کہ وہ مخلوق سے اپنا تعلق منقطع کرلیں۔ بھروسہ صرف اسی عمل اور اسی صفت پر کرنا چاہئے جس سے انسان خود متصف ہو، نہ کہ اپنے اسلاف اور اپنے آباؤ و اجداد کے اعمال پر کیونکہ اپنے اعمال ہی حقیقی فائدہ دیتے ہیں نہ کہ بڑے انسانوں کی طرف انتساب محض۔ البقرة
142 پہلی آیت ایک معجزے، تسلی اور اہل ایمان کے دلوں کو مطمئن کرنے، ایک اعتراض اور تین وجوہ سے اس کے جواب، اعتراض کرنے والے کی صفت اور اللہ تعالیٰ کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کرنے والے کی صفت پر مشتمل ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے خبر دی کہ عنقریب بیوقوف لوگ اعتراض کریں گے اور یہ وہ لوگ ہوں گے جو اپنے نفس کے مصالح کو نہیں پہچانتے بلکہ انہیں ضائع کردیتے ہیں اور انہیں نہایت کم قیمت پر فروخت کردیتے ہیں یہ یہود و نصاریٰ اور وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے احکام اور اس کی شریعت پر اعتراض کرنے میں ان سے مشابہت رکھتے ہیں۔ ان کے اعتراض کی بنیاد یہ بنی کہ مسلمان جب تک مکہ مکرمہ میں مقیم رہے ان کو بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کا حکم تھا۔ پھر مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرنے کے بعد بھی تقریباً ڈیڑھ سال تک بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے رہے۔ اس میں بھی اللہ تعالیٰ کی حکمتیں تھیں جن میں سے بعض کی طرف اللہ تعالیٰ کے اشارے کا تذکرہ عن قریب ہوگا اور کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کا حکم بھی اس کی حکمت کا تقاضا تھا۔ پس اللہ تعالیٰ نے خبر دی کہ بیوقوف لوگ ضرور یہ کہیں گے ﴿مَا وَلّٰیہُمْ عَنْ قِبْلَتِہِمُ الَّتِیْ کَانُوْاعَلَیْہَا ﴾” ان کو کس چیز نے اس قبلے سے پھیر دیا جس پر وہ تھے“ مراد بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنا تھا، یعنی کس چیز نے ان کو بیت المقدس کی طرف منہ کرنے سے پھیر دیا۔ اس میں اللہ تعالیٰ کے حکم، اس کی شریعت اور اس کے فضل و احسان پر اعتراض ہے اللہ تعالیٰ نے اس اعتراض کے وقوع کے بارے میں خبر دے کر اہل ایمان کو تسلی دی ہے کہ یہ اعتراض صرف وہی لوگ کریں گے جو بیوقوف، یعنی قلیل العقل اور برد باری و دیانت سے محروم ہوں۔ اس لیے ان کی باتوں کی پروا نہ کرو، کیونکہ ان کا سرچشمہ کلام معلوم ہے۔ عقل مند شخص بیوقوف کے اعتراض کی پروا نہیں کرتا اور نہ اس کی طرف دھیان دیتا ہے۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام پر صرف وہی شخص اعتراض کرتا ہے جو بیوقوف، جاہل اور عناد رکھتا ہو اور رہا عقل مند اور ہدایت یافتہ مومن تو وہ اپنے رب کے احکام اطاعت اور تسلیم و رضا کے جذبے سے قبول کرتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّـهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِم﴾(الاحزاب : 33؍ 36) ” کسی مومن مرد اور مومن عورت کو یہ حق حاصل نہیں کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی معاملے میں کوئی فیصلہ کردیں تو اس معاملے میں وہ اپنا بھی کوئی اختیار سمجھیں۔“﴿فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ﴾(سورۃ نساء : 4؍ 65) ” ہرگز نہیں، تیرے رب کی قسم ! لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ اپنے تنازعات میں تجھے حکم (فیصلہ کرنے والا) نہ بنائیں۔“ نیز فرمایا : ﴿إِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِينَ إِذَا دُعُوا إِلَى اللَّـهِ وَرَسُولِهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ أَن يَقُولُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا﴾(النور: 24؍ 51) ” اہل ایمان کی تو یہ بات ہے کہ جب انہیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جاتا ہے، تاکہ اللہ کا رسول ان کے درمیان فیصلہ کرے تو وہ کہیں کہ ہم نے سنا اور ہم نے اطاعت کی۔ “ اللہ تعالیٰ کا ان کے لیے ﴿السُّفَہَاۗءُ﴾ ” بے وقوف“ کا لفظ استعمال کرنا اس بات کے سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ ان کا اعتراض غیر معقول ہے جس کے جواب کی ضرورت ہے نہ اس کی پروا کرنے کی، لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کے باوجود اس شب ہے کو یوں ہی نہیں چھوڑا، بلکہ اس کا ازالہ فرمایا اور بعض دلوں میں جو اعتراض پیدا ہوسکتا تھا اسے یہ کہہ کر دور فرما دیا۔ ﴿ قُلْ﴾ ان کو جواب دیتے ہوئے کہہ دیجئے !﴿لِّلّٰہِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ ۭ یَہْدِیْ مَنْ یَّشَاۗءُ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ﴾” مشرق و مغرب اللہ ہی کے ہیں، وہ جسے چاہتا ہے، سیدھے راستے کی رہنمائی فرما دیتا ہے۔ “ یعنی جب مشرق و مغرب کا مالک اللہ تعالیٰ ہے اور تمام جہات میں سے کوئی جہت بھی اللہ تعالیٰ کی ملکیت سے باہر نہیں اور اس کے باوجود وہ جسے چاہتا ہے سیدھی راہ دکھاتا ہے اور اس قبلہ کی طرف راہنمائی بھی اسی کی طرف سے ہے، جو ملت ابراہیم کا حصہ ہے۔ پس معترض، تمہارے اس قبلہ کی طرف منہ کرلینے کی وجہ سے جو اللہ تعالیٰ کی ملکیت میں داخل ہے، کسی وجہ سے یہ اعتراض کرتا ہے کہ تم نے ایسی جہت کی طرف رخ کیوں کیا جو اس کی ملکیت نہیں؟ یہ ایک وجہ ہی اس کے حکم کے تسلیم کرنے کو واجب کردینے والی ہے، تو اس وقت اسے کیوں کر تسلیم نہیں کیا جائے گا، جب کہ تم پر یہ اللہ کا فضل و احسان ہے کہ اس نے تمہیں اس کی ہدایت نصیب فرمائی۔ پس تم پر اعتراض کرنے والا دراصل اللہ کے فضل پر اعتراض کر رہا ہے، محض تم پر حسد اور ظلم کا ارتکاب کرتے ہوئے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد﴿یَہْدِیْ مَنْ یَّشَاۗءُ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ﴾ مطلق ہے اور مطلق کو مقید پر محمول کیا جاتا ہے۔ اس لیے کہ ہدایت اور گمراہی کے کچھ اسباب ہیں جن کا موجب اللہ تعالیٰ کی حکمت اور اس کا عدل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں ایک سے زیادہ مقامات پر ہدایت کے اسباب بیان کیے ہیں، بندہ جب ان اسباب کو اختیار کرتا ہے، تو اسے ہدایت حاصل ہوجاتی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ﴿يَهْدِي بِهِ اللَّـهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهُ سُبُلَ السَّلَامِ﴾(سورۃ مائدہ 16) ” اس کے ذریعے سے اللہ اپنی رضا کی پیروی کرنے والوں کو سلامتی کی راہیں دکھاتا ہے۔“ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اس سبب کا ذکر فرمایا ہے جو اس امت کے لیے ہدایت کی تمام انواع کی طرف راہنمائی کا موجب ہے۔ البقرة
143 اس امت پر یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے اسے امت وسط بنایا۔ فرمایا :﴿وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا﴾ ” اور اس طرح ہم نے تم کو امت معتدل بنایا۔“ یعنی معتدل اور بہترین امت“ ” وسط“ کے علاوہ اور اطراف خطرے کی زد میں ہیں اللہ تعالیٰ نے دین کے ہر معاملے میں اس امت کو معتدل امت بنایا ہے۔ انبیائے کرام کے ساتھ عقیدت کے حوالے سے بھی امت مسلمہ کو ان امتوں کے مابین معتدل امت بنایا ہے جو انبیاء علیہم السلام کے بارے میں غلو سے کام لیتے ہیں جیسے عیسائی ہیں اور انبیاء علیہم السلام کے ساتھ ظلم و جفا کرنے والوں کے مابین بھی اسے معتدل امت بنایا کہ وہ سب پر اس طرح ایمان لائے جو ان کی شان کے لائق ہے۔ جب کہ یہودیوں نے انبیاء علیہم السلام کی توہین و تنقیص کی۔ امت مسلمہ شریعت کے اعتبار سے بھی امت وسط ہے اس میں نہ تو یہودیوں کی شریعت کی سی سختی اور بوجھ ہے اور نہ عیسائیوں کی سی نرمی اور لا پرواہی۔ طہارت اور مطعومات کے باب میں بھی۔ نہ یہودیوں کی طرح (سختی ہے) جن کے ہاں ان کی عبادت گاہ اور کنیسہ کے سوا کہیں نماز نہیں ہوتی۔ پانی ان کو نجاستوں سے پاک نہیں کرسکتا۔ سزا کے طور پر ان پر طیبات حرام ٹھہرا دی گئیں اور نہ نصاریٰ کی مانند (نرمی ہے) کہ وہ کسی چیز کو نجس ہی نہیں مانتے اور نہ ان کے ہاں کوئی چیز حرام ہے بلکہ انہوں نے ہر چیز کو حلال ٹھہرا لیا ہے، بلکہ اہل ایمان کی طہارت کامل ترین طہارت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کے لیے ہر قسم کی طیب و طاہر مطعومات، شمروبات، ملبوسات اور پاک عورتیں مباح ٹھہرا دی ہیں اور تمام خبائث ان کے لیے حرام قرار دے دیئے۔ بنا بریں اس امت کا دین سب سے کامل، اس کے اخلاق سب سے اچھے اور اس کے اعمال سب سے افضل ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس امت کو علم و حلم اور عدل و احسان سے جس طرح نوازا ہے، اس طرح ان کے علاوہ کسی اور امت کو یہ چیزیں عطا نہیں کیں۔ اس لیے وہ﴿اُمَّۃً وَّسَطًا﴾” امت وسط“ یعنی کامل اور معتدل امت کہلانے کی مستحق ہے۔﴿شُہَدَاۗءَ عَلَی النَّاسِ﴾ تاکہ وہ اپنی عدالت اور عدل و انصاف کے ساتھ فیصلے کرنے کے سبب سے لوگوں پر گواہ ہوں اور وہ تمام اہل ادیان کے لوگوں سے متعلق فیصلے کریں اور ان کی بابت دوسرے فیصلے نہ کریں۔ پس جس چیز کی بابت یہ امت قبولیت کی شہادت دے، وہی مقبول اور جسے رد کرنے کی گواہی دے، وہ مردود ہے۔ اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ دوسروں کے بارے میں ان کا فیصلہ کیسے قابل قبول ہے حالانکہ تنازع میں دونوں ایک دوسرے کے مخالف فریق ہیں اور فریقین کا قول ایک دوسرے کے خلاف قابل قبول نہیں ہوتا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ کسی تنازع میں فریقین کا قول ایک دوسرے کے خلاف وجود تہمت کی وجہ سے قابل قبول نہیں ہوتا مگر جب تہمت کا شائبہ ختم ہوجائے اور عدالت کامل حاصل ہوجائے، جیسا کہ یہ امت عدالت کامل کی حامل ہے۔ مقصد تو حق اور انصاف کے ساتھ فیصلہ کرنا ہے اور اس کی شرط علم و عدل ہے اور یہ دونوں چیزیں اس امت میں موجود ہیں۔ اس لیے اس امت کا قول قابل قبول ہے۔ اگر کوئی شک کرنے والا اس امت کی فضیلت میں شک کرے اور اس کے لیے تزکیہ کرنے والے کا مطالبہ کرے، تو اس کا تزکیہ کرنے والے اس امت کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام مخلوقات میں ایک کامل ترین ہستی ہیں اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَیَکُـوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَہِیْدًا ۭ﴾ ” اور رسول تم پر گواہ ہوگا‘‘ اس امت کی دوسری قوموں پر گواہی اس طرح ہوگی کہ قیامت کے روز جب اللہ تعالیٰ انبیاء مرسلین سے ان کی تبلیغ کے بارے میں سوال کرے گا اور ان کی امتیں اس تبلیغ کی تکذیب کریں گی اور کہیں گی کہ انبیاء و مرسلین سے ان کی تبلیغ کے بارے میں سوال کرے گا اور ان کی امتیں اس تبلیغ کی تکذیب کریں گی اور کہیں گی کہ انبیاء و مرسلین نے اللہ تعالیٰ کا پیغام ہم تک نہیں پہنچایا، تو انبیائے کرام علیہم السلام اس امت سے گواہی لیں گے اور ان کا نبی ان کا تزکیہ کرے گا۔ اس آیت کریمہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ امت مسلمہ کا اجماع قطعی حجت اور دلیل ہے، کیونکہ یہ امت (مجموعی طور پر) ﴿وَّسَطًا﴾” امت وسط“ کے اطلاق کی بنا پر خطا سے معصوم ہے۔ اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ امت مسلمہ خطا پر متفق ہوسکتی ہے تو یہ ” امت وسط“ نہ رہے گی۔ سوائے چند امور کے ﴿لِّتَکُوْنُوْا شُہَدَاۗءَ عَلَی النَّاسِ ﴾ ” تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو۔“ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان تقاضا کرتا ہے کہ جب وہ کسی فیصلہ کے متعلق گواہی دے دیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو حلال قرار دیا ہے یا اس کو حرام قرار دیا ہے یا اسے واجب کیا ہے، تو یہ درست ہے اس لیے کہ یہ امت اس بارے میں معصوم ہے۔ اس آیت کریمہ میں اس بات کی بھی دلیل ہے کہ فیصلہ کرنے، گواہی دینے اور فتوی وغیرہ دینے کے لیے عدالت شرط ہے۔ یعنی اسلام کے ابتدائی دنوں میں بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کے حکم سے مقصود یہ تھا۔ ﴿ اِلَّا لِنَعْلَمَ﴾” تاکہ ہم جان لیں“ یعنی ایسا جاننا جس سے ثواب و عقاب متعلق ہے۔ [ مصنف رحمہ اللہ تعالیٰ کا قول ” ایسا علم جس سے ثواب و عقاب متعلق ہے“ ایک مبہم عبارت ہے جو وضاحت کی محتاج ہے ہم ائمہ تفسیر امام نسفی، امام ابوالسعود، امام ابن کثیر اور امام ابوحیان رحمہم اللہ نے جو کچھ اپنی تفاسیر میں بیان کیا ہے یہاں ذکر کرتے ہیں پس ہم کہتے ہیں کہ (لنعلم) کا مطلب ہے، تاکہ ہم اتباع کرنے والے اور منہ موڑنے والے کے درمیان امتیاز کرسکیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اہل ایمان کے سامنے ان کا حال منکشف ہوجائے، جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے :﴿حَتَّىٰ يَمِيزَ الْخَبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِ﴾( آل عمران:3؍ 179) ” حتیٰ کہ پاک میں سے ناپاک ممیز ہوجائے“ پس اللہ تعالیٰ نے ” علم“ کو ”تمیز‘‘ کی جگہ میں استعمال کیا ہے، کیونکہ علم ہی سے تمیز ہوتی ہے اور وہی تمیز کا سبب ہے۔ لہٰذا سبب یعنی علم کا اطلاق کر کے مسبب یعنی تمیز مراد لی گئی ہے۔ ہمارے اس موقف کی تائید ایک قراءت سے بھی ہوتی ہے ﴿لِیُعْلَمَ﴾ یعنی ” نون“ کی بجائے ” یا“ اور صیغہ مجہول کے ساتھ۔ (تاکہ جان لیا جائے) اللہ تعالیٰ نے بندوں کے علم کو اپنی طرف اسناد کیا ہے، کیونکہ وہ اس کے خاص بندے ہیں، یا یہ ملاطفت خطاب ہے، مثلاً آپ اس شخص سے جو سونے کے پگھلنے کا منکر ہے، کہتے ہیں ’’ہم سونے کو آگ میں ڈالتے ہیں، تاکہ ہمیں معلوم ہوسکے کہ آیا سونا پگھلتا ہے یا نہیں۔ “ الجرالمحیط میں علامہ ابوحیان رحمہ اللہ رقم طراز ہیں ” اللہ تعالیٰ کے ارشاد ( لِنَعْلَمَ ) میں اس علم سے مراد ابتدائے علم ہے (یعنی پہلے سے ہی ہمیں معلوم تھا) اس کا ظاہر معنی مراد نہیں ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے علم کا حادث ہونا محال ہے۔ ( یعنی یہ ناممکن ہے کہ پہلے اللہ کے علم میں نہ ہو اور بعد میں اسے معلوم ہو) چنانچہ تاویل کرتے ہوئے مضاف کو محذوف مانا جائے گا۔ تب آیت کا مفہوم یہ ہوگا ” تاکہ ہمارا رسول اور اہل ایمان جان لیں“ ان کے علم کو اپنی ذات کی طرف منسوب کیا ہے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اہل ایمان اس کے مقرب بندے ہیں تب اس کا شمار مجاز حذف میں ہوگا یا علم کا اطلاق تمیز پر کیا گیا ہے کیونکہ علم ہی کی بنا پر تمیز ہوتی ہے۔ یعنی ” تاکہ ہم اتباع کرنے والے اور منہ موڑنے والے کے درمیان امتیاز کرلیں“ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿ حَتَّىٰ يَمِيزَ الْخَبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِ ﴾( آل عمران: 3؍ 179) ”حتیٰ کہ پاک میں سے ناپاک ممیز ہوجائے‘‘ اور اس طرح اس کا شمار اطلاق سبب کے مجاز میں سے ہوگا اور مراد اس سے مسبب ہوگا۔ یہ تاویل حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مردی ہے۔۔۔ یا اس سے ان کی اطاعت یا معصیت کے وقت اللہ تعالیٰ کے علم کا ذکر مراد ہے، کیونکہ اس وقت کے ساتھ ہی اس علم کا تعلق ثواب و عقاب سے ہوگا یا یہاں مستقبل سے ماضی مراد لیا ہے۔ تب مفہوم یہ ہوگا ”جب ہم نے جان لیا کہ رسول کی اتباع کون کرتا ہے اور اس کی مخالفت کون کرتا ہے۔“ (ملحضاً) حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تفسیر میں یہ معنی بیان کرنے پر اکتفا کیا ہے اور یہ معنی بنایا ہے ” تاکہ اہل ایمان جان لیں اور کمزور ایمان والے لوگوں کا حال منکشف ہوجائے“ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ” اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! ہم نے تیرے لیے پہلے بیت المقدس کو قبلہ مقرر کیا تھا پھر ہم نے تجھے کعبہ کی طرف پھیر دیا، تاکہ ان لوگوں کا حال ظاہر ہوجائے جو تیری اتباع کرتے ہیں، تیری اطاعت کرتے ہیں اور تیرے ساتھ مل کر قبلہ کی طرف منہ کرتے ہیں اور ان لوگوں کا حال ظاہر ہوجائے جو الٹے پاؤں پھرجاتے ہیں۔ (حاشیہ : از محمد زہری النجار، من علمائے ازہر) ] ورنہ اللہ تعالیٰ تمام امور کو ان کے وجود میں آنے سے قبل جانتا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ کے کامل عدل اور اپنے بندوں پر حجت قائم کرنے کی بنا پر اس علم کے ساتھ ثواب اور عقاب کا تعلق نہیں، بلکہ جب ان کے اعمال وجود میں آتے ہیں تب ان پر ثواب و عقاب مرتب ہوتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ہم نے یہ قبلہ صرف اس لیے مشروع کیا ہے، تاکہ ہم جان لیں اور آزما لیں ﴿مَنْ یَّتَّبِـــعُ الرَّسُوْلَ﴾ ” کون رسول کی اتباع کرتا ہے۔“ یعنی کون اس رسول پر ایمان لا کر ہر حال میں اس کی پیروی کرتا ہے، کیونکہ وہ بندہ مامور اور اللہ تعالیٰ کے دست تدبیر کے تحت ہے۔ نیز کتب سابقہ نے خبر دی ہے کہ نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کعبہ کو قبلہ بنائیں گے پس صاف انصاف جس کا مقصود و مطلوب محض حق ہے، اس سے اس کے ایمان اور اطاعت رسول میں اضافہ ہوتا ہے۔ رہا وہ شخص جو الٹے پاؤں پھر گیا اور اس نے حق سے روگردانی کی اور اپنی خواہش نفس کی پیروی کی تو اس کا کفر بڑھتا جاتا ہے اور اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے اور وہ شبہات پر مبنی باطل دلیل پیش کرتا ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی۔ ﴿وَاِنْ کَانَتْ﴾ ” اور بلاشبہ یہ بات۔“ یعنی (عام لوگوں کے لیے) آپ کا بیت المقدس سے منہ پھیرنا ﴿لَکَبِیْرَۃً﴾” بہت شاق ہے“ ﴿اِلَّا عَلَی الَّذِیْنَ ھَدَی اللّٰہُ ۭ﴾ ” سوائے ان لوگوں کے جنہیں اللہ نے ہدایت دی“ اور انہوں نے اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو پہچان لیا، وہ اللہ تعالیٰ کے شکر گزار ہوئے اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کے اس احسان کا اقرار کیا کہ اس نے ان کا رخ اس عظیم گھر کی طرف پھیر دیا جسے اس نے روئے زمین کے تمام خطوں پر فضیلت عطا کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس گھر کا قصد کرنے کو ارکان اسلام میں سے ایک رکن اور گناہوں کو مٹانے والا بنایا ہے، اسی لیے اہل ایمان پر اس کا ماننا آسان ہوگیا اور ان کے سوا دیگر لوگوں پر رخ کی تبدیلی بہت شاق گزری۔ ﴿ وَمَا کَانَ اللّٰہُ لِـیُضِیْعَ اِیْمَانَکُمْ ۭ ﴾ ” اور اللہ ایسا نہیں کہ تمہارے ایمان کو یونہی ضائع کر دے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ کے لیے مناسب ہے نہ یہ اس کے ذات اقدس کے لائق ہے (کہ وہ تمہارے ایمان کو ضائع کرے) بلکہ ایسا کرنا تو اس پر ممتنع (ناممکن) ہے، پس اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ تمہارے ایمان کو ضائع کرنا اس کی ذات اقدس پر ممتنع اور محال ہے۔ یہ ان لوگوں کے لیے بہت بڑی بشارت ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے اسلام اور ایمان سے نواز کر ان پر احسان کیا کہ اللہ تعالیٰ ان کے ایمان کی حفاظت کرے گا اسے کبھی ضائع نہیں کرے گا۔ اللہ کا ایمان کی حفاظت کرنا دو طرح سے ہے: (١) ان کو ہر فساد، ایمان میں نقص پیدا کرنے والی تکلیف وہ آزمائشوں اور ایمان سے روکنے والی خواہش نفس سے بچا کر ان کے ایمان کو ضائع اور باطل ہونے سے محفوظ رکھنا۔ (2) ایمان کی نشو و نما کے لیے ان کو ایسے اعمال کی توفیق عطا کرنا جن سے ان کے ایمان میں اضافہ اور یقین کامل حاصل ہوتا ہے۔ پس ابتدائی طور پر جس طرح اس نے ایمان کی طرف تمہاری راہنمائی کی، اسی طرح وہ تمہارے ایمان کی حفاظت کرے گا۔ اس کو اور اس کے اجر و ثواب کو نشو و نما دے کر اپنی نعمت کا اتمام کرے گا اور ایمان کو مکدر کرنے والے ہر عمل سے اس کی حفاظت کرے گا، بلکہ جب ایسی آزمائشیں آئیں جن سے مقصود سچے مومن کو جھوٹے دعوے دار سے الگ کرنا ہو، تو یہ آزمائشیں مومنوں کو کھرا ثابت اور ان کی سچائی کو ظاہر کر دیتی ہیں۔ گویا اس آیت میں اس بات سے احتراز (بچاؤ) ہے جو کہی جاسکتی تھی کہ اللہ کا قول ﴿ۭ وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَۃَ الَّتِیْ کُنْتَ عَلَیْہَآ اِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ یَّتَّبِـــعُ الرَّسُوْلَ مِمَّنْ یَّنْقَلِبُ عَلٰی عَقِبَیْہِ ۭ﴾۔ کبھی کبھی بعض مومنوں کے لیے ترک ایمان کا سبب بنتا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس وہم کا ازالہ کرتے ہوئے : ﴿وَمَا کَانَ اللّٰہُ لِـیُضِیْعَ اِیْمَانَکُمْ ۭ﴾ اس کا مفہوم یہ ہوگا کہ اس امتحان یا دیگر کسی آزمائش کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ تمہارے ایمان کو ضائع نہیں کرے گا۔ اس آیت کریمہ میں وہ تمام اہل ایمان بھی شامل ہیں جو تحویل قبلہ سے پہلے وفات پا چکے تھے، اللہ تعالیٰ ان کے ایمان کو ضائع نہیں کرے گا، کیونکہ انہوں نے اپنے وقت میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کی اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت یہی ہے کہ ہر وقت اس کے حکم کی پیروی کی جائے۔ اس آیت کریمہ میں اہل سنت و الجماعت کے اس مذہب کی دلیل ہے کہ ایمان میں اعمال جو ارح داخل ہیں۔ ﴿ اِنَّ اللّٰہَ بِالنَّاسِ لَرَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ﴾ ” اللہ تو لوگوں پر بڑا مہربان اور صاحب رحمت ہے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ ان پر بہت زیادہ رحمت ورأفت کرنے والا ہے۔ یہ اس کی عظیم رحمت ورأفت ہے کہ اس نے اہل ایمان کو نعمت ایمان عطا کر کے اس نعمت کو مکمل کیا اور ان کو ان لوگوں سے علیحدہ کردیا جو ایمان کا صرف زبانی دعویٰ کرتے تھے۔ ان کے دل ایمان سے خالی تھے۔ نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ان کا امتحان لیا جس کے ذریعے سے ان کے ایمان میں اضافہ اور ان کے درجات بلند کیے اور سب سے زیادہ عزت و شرف کے حامل گھر کی طرف ان کا رخ موڑ دیا۔ البقرة
144 اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرماتا ہے :﴿ قَدْ نَرٰی تَـقَلُّبَ وَجْہِکَ فِی السَّمَاۗءِ ۚ﴾ ” ہم تمہارا آسمان کی طرف منہ پھیر پھیر کر دیکھنا دیکھ رہے ہیں۔“ یعنی ہم آپ کو دیکھتے ہیں کہ آپ استقبال کعبہ کے بارے میں نزول وحی کے شوق اور انتظار میں اپنا منہ تمام جہات میں کثرت سے پھیرتے ہیں یہاں اللہ تعالیٰ نے ﴿وَجْهِكَ﴾ ارشاد فرمایا ہے ﴿بَصَرِكَ﴾ نہیں، کیونکہ اس سے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فکر و غم کی زیادتی کو بیان کرنا مقصود ہے، نیز چہرہ پھیرنا نظر پھیرنے کو بھی شامل ہے۔ ﴿فَلَنُوَلِّيَنَّكَ﴾” سو ہم آپ کو پھیر دیں گے۔“ یعنی چونکہ ہم آپ کے سرپرست اور مددگار ہیں اس لیے ہم ضرور آپ کا منہ پھیر دیں گے ﴿قِبْلَۃً تَرْضٰیھَا ۠﴾” اس قبلہ کی طرف جس کو آپ پسند کرتے ہیں۔“ یعنی ہم آپ کا منہ اس قبلہ کی طرف پھیر دیں گے جسے آپ پسند کرتے ہیں اور وہ ہے کعبہ شریف۔ اس آیت کریمہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شرف و فضیلت کا بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے پسندیدہ امر کے مطابق حکم نازل کرنے میں جلدی فرمائی۔ اس کے بعد اللہ نے آپ کو استقبال کعبہ کا صراحتاً حکم فرمایا۔ چنانچہ فرمایا : ﴿ فَوَلِّ وَجْہَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۭ﴾” پس اپنا چہرہ مسجد حرام کی طرف موڑ لیں“ (وَجْہٌ) سے مراد انسان کے بدن کے سامنے کا حصہ ہے۔ فرمایا : ﴿ وَحَیْثُ مَا کُنْتُمْ﴾” اور تم جہاں کہیں بھی ہو“ یعنی بحر و بر، مشرق و مغرب اور شمال و جنوب جہاں کہیں بھی ہو ﴿فَوَلُّوْا وُجُوْھَکُمْ شَطْرَہٗ ﴾” پس اپنے چہروں کو اس جہت کی طرف پھیر لو۔“ اس آیت کریمہ سے واضح ہے کہ تمام نمازوں میں، خواہ فرض ہوں یا نفل اگر عین کعبہ کی طرف منہ کرناممکن ہو تو اس کی طرف منہ کرنا فرض ہے ورنہ اس کی طرف اور جہت میں منہ کرلیناکافی ہے اور یہ کہ نماز کے اندر بدن کے ساتھ ادھر ادھر التفات کرنا نماز کو باطل کرنے والا عمل ہے، کیونکہ کسی چیز کی بات حکم دینا اس بات کی دلیل ہے کہ اس کی ضد ممنوع ہے۔ گزشتہ صفحات میں گزر چکا ہے کہ جہاں اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب وغیرہ میں سے اعتراض کرنے والوں کا ذکر کیا ہے وہاں ان کے اعتراض کا جواب بھی دیا ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے کہ اہل کتاب اور ان کے اہل علم جانتے ہیں کہ آپ اس معاملے میں واضح حق پر ہیں، کیونکہ انہیں اپنی کتابوں میں اس نبی کی نشانیاں ملتی ہیں۔ اس لیے وہ عناد اور سرکشی کی وجہ سے اعتراض کرتے ہیں۔ پس جب وہ اپنے کرتوتوں کی وجہ سے مبتلائے غم ہیں تو تم ان کے اعتراضات کی پروا نہ کرو۔ اس لیے کہ انسان کو صرف اس اعتراض کرنے والے کا اعتراض غم میں ڈالتا ہے، جب معاملہ مشتبہ ہو اور اس کا امکان ہو کہ صواب (صحیح بات) اس کے ساتھ ہو۔ لیکن جب یہ یقین ہوجائے کہ حق صواب اس شخص کے ساتھ ہے جس پر اعتراض کیا جا رہا ہے اور اعتراض کرنے والا محض عناد سے کام لے رہا ہے اور اسے یہ بھی علم ہے کہ معترض کا اعتراض باطل ہے تو اسے پروا نہیں کرنی چاہئے، بلکہ اسے انتظار کرنا چاہئے کہ معترض کو دنیاوی اور اخروی عقوبت کا ضرور سامنا کرنا پڑے گا۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿ وَمَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا یَعْمَلُوْنَ﴾ اللہ ان کے اعمال سے بے خبر نہیں“ بلکہ وہ ان کے اعمال کو محفوظ کرتا ہے اور ان کو ان کے اعمال کی جزا دے گا۔ اس آیت کریمہ میں اعتراض کرنے والوں کے لیے وعید اور اہل ایمان کے لیے تسلی ہے۔ البقرة
145 نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مخلوقات کی ہدایت کی بہت تمنا اور آرزو کیا کرتے تھے اور ان کی نہایت درجہ خیر خواہی کرتے تھے۔ نرمی اور پیار سے انہیں ہدایت کی راہ پر لانے کی کوششیں کیا کرتے تھے اور جب وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی اطاعت نہیں کرتے، تو یہ امر آپ کو نہایت غمگین کردیتا تھا۔ پس کافروں میں ایسے لوگ بھی تھے جنہوں نے اللہ کے حکم کے مقابلے میں سرتابی اختیار کی۔ اللہ تعالیٰ کے انبیاء و مرسلین علیہم السلام کے ساتھ تکبر سے پیش آئے اور جان بوجھ کر ظلم و عدوان کی بنا پر ہدایت کو چھوڑ دیا۔ انہی میں سے پہلے اہل کتاب، یعنی یہود و نصاریٰ ہیں جنہوں نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جہالت کی بنا پر نہیں، بلکہ یہ یقین رکھتے ہوئے انکار کیا کہ آپ نبی ہیں اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو آگاہ فرمایا : ﴿وَلَیِٕنْ اَتَیْتَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ بِکُلِّ اٰیَۃٍ ﴾” اگر آپ ان اہل کتاب کے پاس تمام نشانیاں بھی لے کر آئیں۔“ یعنی اگر آپ ان کے سامنے ہر قسم کی دلیل اور برہان پیش کردیں جو آپ کی بات اور دعوت کو واضح کردیں ﴿ مَّا تَبِعُوْا قِبْلَتَکَ ۚ﴾ ”تو بھی یہ آپ کے قبلے کی پیروی نہ کریں گے۔“ یعنی تب بھی وہ آپ کی اتباع نہیں کریں گے، کیونکہ قبلہ کی طرف منہ کرنا درحقیقت آپ کی اتباع کی دلیل ہے اور اس لیے کہ اصل سبب قبلے کا معاملہ ہے اور معاملہ واقعی ایسا ہے، کیونکہ وہ حق کے ساتھ عناد رکھتے ہیں انہوں نے حق کو پہچانا اور اسے چھوڑ دیا۔ پس اللہ تعالیٰ کی نشانیوں سے صرف وہی شخص فائدہ اٹھا سکتا ہے جو حق کا متلاشی ہو اور حق اس پر مشتبہ ہوگیا ہو، تب یہ آیات بینات اس پر حق کو واضح کردیتی ہیں اور جو کوئی اس بات پر اڑ جاتا ہے کہ وہ حق کی اتباع نہیں کرے گا تو اسے حق کی طرف لانے کی کوئی صورت نہیں۔ نیز ان میں آپس میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے اور وہ ایک دوسرے کے قبلہ کی پیروی نہیں کرتے۔ یہ سب کچھ ہوتے ہوئے اے محمد ! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ کوئی تعجب خیز بات نہیں کہ وہ آپ کے قبلہ کی پیروی نہیں کرتے، کیونکہ وہ دشمن اور حاسد ہیں اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿وَمَآ اَنْتَ بِتَابِــعٍ قِبْلَتَہُمْ ۚ﴾ (وَ لَا تَتَّبِع) سے زیادہ بلیغ ہے، کیونکہ یہ لفظ اس بات کو متضمن ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی مخالفت سے متصف ہیں، پس آپ سے اس کا وقوع ممکن نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا (وَلَوْ اَتَوْابِکُلِّ اٰیَۃ) کیونکہ ان کے پاس اپنے موقف کو ثابت کرنے کے لیے کوئی دلیل ہی نہیں۔ اسی طرح جب یقینی دلائل و براہین سے حق واضح ہوجاتا ہے، تو اس پر وارد شبہات کا جواب دینا لازم نہیں، کیونکہ ان شبہات کی تو کوئی حد نہیں اور ان کا بطلان واضح ہے، کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ جو چیز واضح حق کے منافی ہو وہ باطل ہوتی ہے۔ تب شبہ کو حل کرنا تبرع کے زمرے میں آئے گا۔ (یعنی بغیر ضرورت کے محض خوشی سے شبہات کا ازالہ کرنا) ﴿ۭ وَلَیِٕنِ اتَّبَعْتَ اَھْوَاۗءَھُمْ ﴾” اگر آپ نے ان کی خواہشات کی پیروی کی“ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے (اھوائھم) ” ان کی خواہشات“ کا لفظ استعمال کیا ہے اور اس کی بجائے (دینھم) ” ان کا دین“ کا لفظ استعمال نہیں کیا، کیونکہ وہ محض اپنی خواہشات نفس کی پیروی کر رہے تھے۔ حتیٰ کہ وہ خود بھی یہ جانتے تھے کہ یہ دین نہیں ہے اور جو کوئی دین کو چھوڑ دیتا ہے وہ لامحالہ خواہشات نفس کی پیروی کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :﴿اَفَرَءَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰهَهُ هَوٰهُ﴾ (الجاثية : 45؍ 23) ” بھلا آپ نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا معبود بنا رکھا ہے؟“ ﴿مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ﴾ ” اس کے بعد کہ آپ کے پاس علم آچکا ہے۔“ یعنی یہ جان لینے کے بعد کہ آپ حق پر اور وہ باطل پر ہیں ﴿ إِنَّكَ إِذًا﴾” تب آپ“ یعنی اگر آپ نے ان کی اتباع کی، یہ احتراز ہے، تاکہ یہ جملہ اپنے ماقبل جملے سے علیحدہ نہ رہے، خواہ وہ افہام ہی میں کیوں نہ ہو۔ ﴿ لَّمِنَ الظَّالِمِينَ﴾” ظالموں میں سے ہوجائیں گے۔“ یعنی آپ کا شمار ظالموں میں ہوگا اور اس شخص کے ظلم سے بڑھ کر کون سا ظلم ہے جس نے حق اور باطل کو پہچان کر باطل کو حق پر ترجیح دی۔ یہ خطاب اگرچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہے تاہم آپ کی امت اس میں داخل ہے نیز اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی یہ کام کیا ہوتا، حاشا وکلا، آپ سے یہ ممکن نہیں تھا، تو آپ بھی اپنے بلند مرتبہ اور نیکیوں کی کثرت کے باوجود ظالموں میں شمار ہوتے تب آپ کے علاوہ کوئی دوسرا تو بطریق اولیٰ بڑا ظالم ہوگا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا : البقرة
146 اللہ تعالیٰ آگاہ کرتا ہے کہ اہل کتاب کو معلوم ہے اور ان کے ہاں یہ بات متحقق ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں۔ جو کتاب آپ لے کر مبعوث ہوئے ہیں وہ حق اور سچ ہے اور انہیں اس بات کا پورا پورا یقین ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح انہیں اپنے بیٹوں کے بارے میں یہ یقین ہوتا ہے کہ وہ ان کے بیٹے ہیں اور اس کی بابت انہیں کوئی شبہ نہیں ہوتا۔ پس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پہچان ان کے ہاں اس حد تک پہنچی ہوئی تھی کہ اس میں شک و شبہ کی گنجائش نہ تھی، مگر اس کے باوجود ان میں سے ایک فریق جو تعداد میں زیادہ تھا۔ اس نے آپ کا نکار کیا اور آپ کے بارے میں یقینی شہادت کو چھپا لیا۔ درآں حالیکہ وہ جانتے تھے۔ فرمایا : ﴿ وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن كَتَمَ شَهَادَةً عِندَهُ مِنَ اللَّـهِ ۗ﴾ (البقرہ : 140) ” اس سے بڑا ظالم کون ہے جو اس گواہی کو چھپائے جو اللہ کی طرف سے اس کے پاس ہے“ اس آیت کریمہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اہل ایمان کے لیے تسلی اور ان کو اہل کتاب کے شر اور شبہات سے بچنے کی تلقین ہے۔ البتہ ان میں سے کچھ ایسے لوگ تھے جنہوں نے جانتے بوجھتے حق کو نہیں چھپایا۔ پس ان میں سے بعض آپ پر ایمان لے آئے اور بعض نے محض جہالت کی بنا پر آپ کا انکار کردیا۔ پس صاحب علم اپنے علم کے مطابق جس قدر دلیل دینے اور تعبیر کرنے پر قادر ہے اس پر اسی قدر حق کا اظہار کرنا اس کو بیان کرنا اور اس کو مزین کرنا فرض ہے اور اسی قدر باطل کا ابطال کرنا، حق سے اس کو علیحدہ کرنا اور ہر ممکن طریقے سے نفوس کے سامنے اس کی برائی نمایاں کرنا اس پر لازم ہے۔ لیکن اس حق کو چھپانے والوں نے اس کے برعکس رویہ اختیار کیا، لہٰذا ان کے احوال بھی اس کے برعکس ہوگئے۔ البقرة
147 ﴿ اَلْحَقُّ مِنْ رَّبِّکَ﴾ ” یہ حق آپ کے رب کی طرف سے ہے۔“ یعنی یہ حق، جو ہر چیز سے زیادہ حق کہلانے کا مستحق ہے، کیونکہ یہ مطالب عالیہ، اچھے احکام اور تزکیہ نفوس پر مشتمل ہے، نیز نفوس کے لیے ان کے مصالح کے حصول اور ان سے مفاسد کو دور کرنے کا باعث ہے۔ اس لیے کہ یہ آپ کے رب کی طرف سے صادر ہوا ہے اور یہ منجملہ آپ کے رب کی طرف سے آپ کی تربیت ہے کہ اس نے آپ پر یہ قرآن نازل فرمایا جس میں نفوس و عقول کی تربیت اور تمام مصالح ہیں ﴿فَلَا تَکُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِیْنَ﴾” پس آپ ہرگز شک کرنے والوں میں نہ ہونا۔“ یعنی اس حق کے بارے میں آپ کو معمولی سے شک و شبہ میں بھی مبتلا نہیں ہونا چاہئے، بلکہ اس حق میں غور و فکر کیجیے یہاں تک کہ آپ یقین کی منزل کو پہنچ جائیں، کیونکہ حق میں غور و فکر لامحالہ شک کو دور کر کے یقین کی منزل پر پہنچاتا ہے۔ البقرة
148 یعنی ہر ملت اور ہر دین والوں کے لیے ایک جہت مقرر ہے وہ اپنی عبادت میں اس کی طرف منہ کرتے ہیں۔ استقبال قبلہ کوئی بڑا معاملہ نہیں، اس لیے کہ یہ ان شریعتوں میں سے ہے جو احوال و زمان کے بدلنے کے ساتھ بدلتی رہی ہیں، اس میں نسخ اور ایک جہت سے دوسری جہت میں منتقل ہونا بھی داخل ہے، لیکن اصل اور اہم معاملہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت، اس کا تقرب اور اس کے قرب میں حصول درجات ہے یہی سعادت کا عنوان اور ولایت کا منشور ہے۔ یہی وہ وصف ہے کہ اگر نفوس اس سے متصف نہ ہوں تو دنیا و آخرت کے خسارے میں پڑجاتے ہیں جیسے اگر نفوس اپنے آپ کو اس وصف سے متصف کرلیں تو یہی حقیقی منافع ہے۔ تمام شریعتوں میں یہ متفق علیہ امر ہے۔ اسی کی خاطر اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوق کو تخلیق کیا اور اسی کا اللہ تعالیٰ نے سب کو حکم دیا۔ نیکیوں کی طرف سبقت کرنے کا حکم، نیکی کرنے کے حکم پر ایک قدر زائد ہے، کیونکہ نیکیوں کی طرف سبقت، نیکیوں کے کرنے، ان کی تکمیل، کامل ترین احوال میں ان کو واقع کرنے اور نہایت سرعت سے ان کی طرف بڑھنے کو متضمن ہے۔ جو کوئی اس دنیا میں نیکیوں کی طرف سبقت کرتا ہے وہ آخرت میں جنت کی طرف سبقت لے جائے گا پس سابقون (سبقت کرنے والے) تمام مخلوق میں بلند ترین درجے پر فائز ہوں گے۔ اور نیکیوں کا لفظ تمام فرائض، نماز، نوافل، روزے، زکوٰۃ، حج و عمرہ، جہاد اور لوگوں کو نفع پہنچانے وغیرہ کو شامل ہے۔ جب بات یہ ہے کہ سب سے طاقتور داعیہ جو نفوس کو نیکیوں میں مسابقت و مسارعت پر آمادہ کرتا ہے اور انہیں نشاط عطا کرتا ہے، وہ ثواب ہے جو اللہ تعالیٰ ان نیکیوں پر عطا کرتا ہے، تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿اَیْنَ مَا تَکُوْنُوْا یَاْتِ بِکُمُ اللّٰہُ جَمِیْعًا ۭ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ﴾” تم جہاں کہیں بھی ہو گے، اللہ تم سب کو لے آئے گا بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے“ وہ قیامت کے روز اپنی قدرت سے تمہیں اکٹھا کرے گا۔ پھر ہر شخص کو اس کے عمل کا بدلہ دے گا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:﴿ لِيَجْزِيَ الَّذِينَ أَسَاءُوا بِمَا عَمِلُوا وَيَجْزِيَ الَّذِينَ أَحْسَنُوا بِالْحُسْنَى﴾ (النجم: 53؍31) ” تاکہ جن لوگوں نے برے کام کیے ہیں ان کو ان کے اعمال کا بدلہ دے اور جنہوں نے نیک کام کیے ہیں ان کو نیک بدلہ دے۔ “ اس آیت کریمہ سے یہ استدلال کیا جاتا ہے کہ ہر اس فضیلت کو اختیار کرنا چاہئے جس سے کوئی عمل متصف ہوسکتا ہے، مثلاً اول وقت پر نماز ادا کرنا، روزے، حج، عمرہ اور زکوٰۃ کی ادائیگی سے فوری طور پر بری الذمہ ہونا۔ تمام عبادات کی سنن و آداب کو پوری طرح ادا کرنا۔ پس کتنی جامع اور کتنی نفع مند آیت ہے۔ البقرة
149 ﴿ وَمِنْ حَیْثُ خَرَجْتَ﴾” جہاں سے بھی آپ نکلیں“ یعنی اپنے سفر وغیرہ میں۔ یہ عموم کے لیے ہے ﴿ فَوَلِّ وَجْہَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۭ﴾ ” پس اپنا منہ مسجد حرام کی طرف پھیر لیں۔“ پھر اللہ تعالیٰ نے تمام امت کو عمومی طور پر خطاب کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ وَحَیْثُ مَا کُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْھَکُمْ شَطْرَہٗ ۙ﴾” اور تم جہاں بھی ہو، تو اپنا منہ مسجد حرام کی طرف کرلو۔“ فرمایا : ﴿وَاِنَّہٗ لَلْحَقُّ مِنْ رَّبِّکَ ۭ﴾” اور یہ یقیناً آپ کے رب کی طرف سے حق ہے“ اللہ تعالیٰ نے (ِانَّ) اور (لام) استعمال کر کے اس کو موکد کردیا ہے، تاکہ اس میں کسی کیلیے ادنیٰ سے شک و شبہ کی گنجائش نہ رہے اور کوئی شخص یہ نہ سمجھے کہ یہ محض خواہش ہے اس میں اطاعت مطلوب نہیں۔ ﴿وَمَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ﴾ ” اور اللہ تمہارے اعمال سے بے خبر نہیں ہے“ بلکہ وہ تمہیں تمہارے تمام احوال میں دیکھ رہا ہے۔ اس لیے اس کا ادب کرو اور اس سے ڈرتے ہوئے اس کے اوامر پر عمل کرو اور اس کی نواہی سے اجتناب کرو، کیونکہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے بے خبر نہیں بلکہ تمہارے اعمال کی کامل جزا دی جائے گی۔ اگر اچھے اعمال ہیں تو اچھی جزا ہوگی اور اگر برے اعمال ہیں تو ان کی جزا بری ہوگی۔ البقرة
150 ﴿ لِئَلَّا یَکُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَیْکُمْ حُجَّــۃٌ ڎ ﴾” اس لیے کہ لوگ تم کو کسی طرح کا الزام نہ دے سکیں۔“ یعنی ہم نے تمہارے لیے کعبہ شریف کو اس لیے قبلہ قرار دیا ہے، تاکہ اہل کتاب اور مشرکین عرب کے لیے تم پر کوئی حجت نہ رہے، کیونکہ اگر بیت المقدس کو قبلہ کے طور پر باقی رکھا ہوتا تو یہ استقبال کعبہ کے خلاف حجت ہوتی، کیونکہ اہل کتاب اپنی کتاب میں پڑھتے ہیں کہ نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مستقل قبلہ، کعبہ یعنی بیت الحرام ہوگا اور مشرکین مکہ سمجھتے تھے کہ یہ عظیم گھر ان کے مفاخر میں شمار ہوتا ہے اور یہ ملت ابراہیم کا مرکز ہے اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کعبہ شریف کو قبلہ نہیں بنائیں گے تو مشرکین کے پاس آپ کے خلاف حجت ہوگی۔ وہ کہیں گے کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ملت ابراہیم پر ہونے کا کیسے دعویٰ کرتا ہے جبکہ اس نے ابراہیم علیہ السلام کی اولاد ہوتے ہوئے بھی بیت اللہ کو قبلہ نہیں بنایا۔ پس بیت اللہ کو قبلہ بنانے سے اہل کتاب اور مشرکین دونوں پر حجت قائم ہوگئی اور آپ پر وہ جو حجت قا ئم کر سکتے تھے، وہ منقطع ہوگئی۔ ﴿ اِلَّا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْہُمْ﴾ ” مگر ان میں جو ظالم ہیں۔“ یعنی ان میں جو کوئی دلیل دیتا ہے وہ اس بارے میں ظلم کا ارتکاب کرتا ہے اس کے پاس کوئی سند اور کوئی دلیل نہیں سوائے ظلم اور خواہشات نفس کی پیروی کے، لہٰذا آپ کے خلاف حجت قائم کرنے کی کوئی راہ نہیں۔ اسی طرح اس شبہ کی پروا کرنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں جسے یہ لوگ حجت کے طور پر وارد کرتے ہیں۔ اس کی طرف دھیان ہی نہ دیا جائے۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ فَلَا تَخْشَوْھُمْ﴾” تم ان سے مت ڈرو“ کیونکہ ان کی حجت باطل ہے اور باطل اپنے نام کی مانند بے کار اور فاسد ہے۔ باطل اور باطل پرست مدد اور تائید سے محروم ہیں۔ صاحب حق کا معاملہ اس کے برعکس ہے۔ حق کا رعب اور عزت ہے۔ حق جس کے ساتھ ہے وہ اس کی خشیت کا موجب ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنی خشیت کا حکم دیا ہے جو ہر بھلائی کی بنیاد ہے۔ پس جو اللہ تعالیٰ سے نہیں ڈرتا وہ اس کی نافرمانی سے نہیں بچ سکتا اور نہ اس کی اطاعت کرسکتا ہے۔ مسلمانوں نے بیت اللہ کو قبلہ بنایا تو اس سے انہیں بہت بڑے فتنے کا سامنا کرنا پڑا۔ جس کی اہل کتاب، منافقین اور مشرکین نے خوب خوب اشاعت کی اور اس بارے میں انہوں نے اعتراضات اور شبہات کی بھرمار کردی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے نہایت بسط و شرح اور کامل طریقے سے اس مسئلہ کو بیان کیا ہے اور مختلف قسم کی تاکیدات سے اس کو موکد کیا جو ان آیات کریمہ میں بیان ہوئی ہیں، مثلاً (1) استقبال کعبہ کا تین مرتبہ حکم دیا گیا ہے جبکہ صرف ایک ہی مرتبہ کافی تھا۔ (2) اس میں خصوصی بات یہ ہے کہ حکم یا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے ہے اور امت اس میں داخل ہے یا یہ حکم امت کے لیے عام ہے۔ اس آیت کریمہ میں خصوصی طور پر صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو استقبال کعبہ کا حکم دیا گیا ﴿ فَوَلِّ وَجْہَکَ﴾ اور امت کو اس آیت میں استقبال کعبہ کا حکم دیا گیا ﴿ فَوَلُّوْا وُجُوْھَکُمْ ﴾ (3) اللہ تعالیٰ نے ان آیات کریمہ میں ان تمام باطل دلائل کا رد کیا ہے جو کہ معاندین نے پیش کیے تھے اور ایک ایک شبہ کا ابطال کیا۔ جیسا کہ اس کی توضیح گزشتہ سطور میں گزر چکی ہے۔ (4) اللہ تعالیٰ نے اس کی بابت امیدوں کو ختم کردیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اہل کتاب کے قبلے کی پیروی کریں گے۔ (5) اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ﴿ۭ وَاِنَّہٗ لَلْحَقُّ مِنْ رَّبِّکَ﴾ ایک عظیم سچے شخص کا خبر دینا ہی کافی ہوتا ہے مگر بایں ہمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿’ۭ وَاِنَّہٗ لَلْحَقُّ مِنْ رَّبِّکَ ﴾’’یہ یقیناً آپ کے رب کی طرف سے حق ہے۔ “ (6) اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا اور وہ عالم الغیب ہے، کہ اہل کتاب کے ہاں استقبال کعبہ کے معاملہ کی صحت متحقق ہے مگر یہ لوگ علم رکھنے کے باوجود اس گواہی کو چھپاتے ہیں۔ جب بیت اللہ شریف کی طرف تحویل قبلہ ایک عظیم نعمت ہے اور اس امت پر اللہ تعالیٰ کا بے پایاں لطف و کرم ہے جو بڑھتا ہی رہتا ہے۔ علاوہ ازیں جب بھی اللہ تعالیٰ اہل ایمان کے لیے کوئی کام مشروع کرتا ہے تو یہ ایک عظیم نعمت ہوتی ہے۔ اس لیے فرمایا : ﴿ وَلِاُتِمَّ نِعْمَتِیْ عَلَیْکُمْ ﴾یہ تحویل کا حکم اس لیے دیا گیا ہے ” تاکہ میں اپنی نعمت تم پر پوری کر دوں۔“ اصل نعمت تو دین کی ہدایت ہے جو وہ اپنا رسول بھیج کر اور اپنی کتاب نازل کر کے عطا کرتا ہے اس کے بعد دیگر تمام نعمتیں اس نعمت کی تکمیل کرتی ہیں۔ یہ نعمتیں اس قدر زیادہ ہیں کہ ان کا حصر و شمار ممکن نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت سے لے کر اس دنیائے فانی سے آپ کی رحلت تک اللہ تعالیٰ ان نعمتوں سے نوازتا رہا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کو احوال اور نعمتیں عطا کیں اور اس نے آپ کی امت کو وہ کچھ دیا جس سے آپ پر اور آپ کی امت پر اتمام نعمت ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ آپ پر نازل فرمائی ﴿الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ﴾(المائدة: 3؍5) ” آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لیے اسلام کو دین کے طور پر پسند کرلیا۔ “ پس اللہ تعالیٰ ہی اپنے اس فضل و کرم پر حمد و ثنا کا مستحق ہے۔ اس فضل و کرم پر اس کا شکرادا کرنا تو کجا ہم تو اس کو شمار تک نہیں کرسکتے۔ ﴿وَلَعَلَّکُمْ تَہْتَدُوْنَ﴾” اور تاکہ تم راہ راست پر چلو۔“ یعنی شاید کہ تم حق کو جانو اور پھر اس پر عمل کرو۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے بندوں پر رحم کرتے ہوئے ہدایت کے اسباب بے حد آسان فرما دیئے اور ہدایت کے راستوں پر چلنے کے بارے میں آگاہ فرما دیا اور ان کے لیے اس ہدایت کو پوری طرح واضح کردیا۔ ان میں سے ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ اہل عناد کو حق کی مخالفت پر مقرر کردیتا ہے، چنانچہ وہ حق کے بارے میں جھگڑتے ہیں، جس سے حق واضح، حق کی نشانیاں اور علامتیں ظاہر ہوجاتی ہیں اور باطل کا بطلان ثابت ہوجاتا ہے اور یہ چیز واضح ہوجاتی ہے کہ باطل کی کوئی حقیقت نہیں۔ اگر باطل حق کے مقابلے میں کھڑا نہ ہو تو بسا اوقات اکثر مخلوق پر باطل کا حال واضح نہ ہو۔ اشیاء اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہیں۔ اگر رات نہ ہوتی تو دن کی فضیلت کا اعتراف نہ ہوتا۔ اگر قبیح اور بدصورت نہ ہو تو خوبصورت کی فضیلت معلوم نہیں ہوسکتی، اگر اندھیرا نہ ہو تو روشنی کے فوائد کو نہیں پہچانا جاسکتا، اگر باطل نہ ہو تو حق واضح طور پر ظاہر نہیں ہوسکتا۔ اس پر اللہ تعالیٰ ہی ہر قسم کی تعریف کا مستحق ہے۔ البقرة
151 اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، کعبہ شریف کی طرف تحویل قبلہ کے ذریعے سے ہم نے تمہیں جو نعمت عطا کی اور اس کے اتمام کے لیے شرعی احکام اور دیگر نعمتیں عطا کیں، یہ ہماری طرف سے کوئی انوکھا اور پہلا احسان نہیں، بلکہ ہم نے تمہیں بڑی بڑی نعمتیں عطا کیں اور پھر دیگر نعمتوں کے ذریعے سے ان کی تکمیل کی۔ ان میں سب سے بڑی نعمت یہ ہے کہ ہم نے تمہاری طرف اس رسول کریم کو مبعوث کیا جو تم ہی میں سے ہے، جس کے حسب و نسب، اس کی صداقت و امانت اور اس کی خیر خواہی کو تم خوب جانتے ہو۔ ﴿ یَتْلُوْا عَلَیْکُمْ اٰیٰتِنَا ﴾” وہ تم پر ہماری آیتیں پڑھتا ہے“ اس کے عموم میں آیات قرآنی اور دیگر تمام آیات داخل ہیں۔ (ہمارا) رسول تم پر آیات کی تلاوت کرتا ہے جو باطل میں سے حق کو اور گمراہی میں سے ہدایت کو واضح کرتی ہیں۔ یہ آیات الٰہی سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کے کمال کی طرف راہنمائی کرتی ہیں پھر اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت، اس پر ایمان کے وجوب اور ان تمام غیبی اور مابعد الموت امور پر ایمان لانے کے وجوب پر دلالت کرتی ہیں جن کے بارے میں اس نے خبر دی ہے، تاکہ تمہیں ہدایت کامل اور علم یقینی حاصل ہوجائے۔ ﴿ وَيُزَكِّيكُمْ﴾ ”اور تمہارا تزکیہ کرتا ہے۔“ یعنی تربیت کے ذریعے سے اخلاق جمیلہ کو اجاگر اور اخلاق رذیلہ کو زائل کر کے تمہارے نفوس اور تمہارے اخلاق کو پاک کرتا ہے، مثلاً شرک سے توحید کی طرف، ریا سے اخلاص کی طرف، جھوٹ سے صدق کی طرف، خیانت سے امانت کی طرف، تکبر سے تواضع کی طرف، بدخلقی سے حسن اخلاق کی طرف، باہم بغض، قطع تعلق اور قطع رحمی سے ایک دوسرے سے محبت، مودت اور صلہ رحمی کی طرف تمہارا تزکیہ کرتا ہے، اس کے علاوہ تزکیہ کی دیگر انواع کے ذریعے سے تمہیں پاک کرتا ہے۔ ﴿ وَیُعَلِّمُکُمُ الْکِتٰبَ﴾” اور تمہیں کتاب (قرآن) سکھاتا ہے۔“ یعنی قرآن کے الفاظ و معانی کی تعلیم دیتا ہے۔ ﴿ وَالْحِكْمَةَ﴾” اور حکمت‘‘ ایک قول کے مطابق حکمت سے مراد سنت ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ حکمت سے مراد اسرار شریعت کی معرفت اور اس کی سمجھ ہے، نیز تمام امور کو ان کے مقام پر رکھنا ہے۔ اس لحاظ سے سنت کی تعلیم کتاب اللہ کی تعلیم میں داخل ہے، کیونکہ سنت قرآن کی تفسیر و توضیح اور اس کی تعبیر کرتی ہے۔﴿ وَیُعَلِّمُکُمْ مَّا لَمْ تَکُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ ﴾” اور تمہیں وہ باتیں سکھاتا ہے جو تم نہیں جانتے تھے“ کیونکہ بعثت محمدی سے قبل اہل عرب کھلی گمراہی میں مبتلا تھے۔ ان کے پاس علم تھا نہ عمل۔ پس ہر علم اور عمل جو اس امت کو حاصل ہوا ہے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے توسط اور آپ ہی کے سبب سے حاصل ہوا ہے۔ یہ نعمتیں علی الاطلاق حقیقی ہیں۔ یہ نعمتیں سب سے بڑی نعمتیں ہیں جن سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو نوازتا ہے۔ لہٰذا ان کا وظیفہ ان نعمتوں پر اللہ تعالیٰ کا شکر اور اس کے تقاضوں کی ادائیگی ہونا چاہئے۔ البقرة
152 بنابریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿ړفَاذْکُرُوْنِیْٓ اَذْکُرْکُمْ﴾” پس تم مجھے یاد کرو، میں تمہیں یاد کروں گا‘‘ اللہ تعالیٰ نے اپنے ذکر کا حکم دیا ہے اور اس پر بہترین اجر کا وعدہ کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس شخص کا ذکر کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان مبارک سے فرمایا ” جو مجھے اپنے دل میں یاد کرتا ہے میں اسے اپنے دل میں یاد کرتا ہوں، جو کسی مجلس میں مجھے یاد کرتا ہے میں اسے اس سے بہتر مجلس میں یاد کرتا ہوں۔“ سب سے بہتر ذکر وہ ہے جس میں دل اور زبان کی موافقفت ہو اور اسی ذکر سے اللہ تعالیٰ کی معرفت، اس کی محبت اور بہت زیادہ ثواب حاصل ہوتا ہے اور ذکر الٰہی ہی شکر کی بنیاد ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر اس کا حکم دیا ہے۔ پھر اس کے بعد شکر کا عمومی حکم دیا ہے۔ چنانچہ فرمایا : ﴿وَاشْکُرُوْا لِیْ﴾ ’’اور میرا شکر کرو۔“ یعنی میں نے جو یہ نعمتیں تمہیں عطا کیں اور مختلف قسم کی تکالیف اور مصائب کو تم سے دور کیا اس پر میرا شکر کرو۔ شکر، دل سے ہوتا ہے، اس کی نعمتوں کا اقرار و اعتراف کر کے۔ زبان سے ہوتا ہے، اس کا ذکر اور حمد و ثنا کر کے، اعضاء سے ہوتا ہے اس کے حکموں کی اطاعت و فرمان برداری اور اس کی منہیات سے اجتناب کر کے۔ پس شکر، موجود نعمت کے باقی رہنے اور مفقود نعمت (مزید نئی نعمتوں) کے حصول کے جذبے کا مظہر ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ﴿ لَئِن شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ﴾۔ (ابراھیم:14؍7) ” اگر تم شکر کرو گے تو تمہیں اور زیادہ دوں گا“ علم، تزکیہ اخلاق اور توفیق عمل جیسی دینی نعمتوں پر شکر کا حکم دینے میں اس حقیقت کا بیان ہے کہ یہ سب سے بڑی نعمتیں ہیں بلکہ یہی حقیقی نعمتیں ہیں جن کو دوام حاصل ہے، جب کہ دیگر نعمتیں زائل ہوجائیں گی۔ ان تمام حضرات کے لیے، جن کو علم و عمل کی توفیق سے نوازا گیا ہے، یہی مناسب ہے کہ وہ اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے رہیں، تاکہ ان پر اللہ تعالیٰ کے فضل کا اضافہ ہو اور ان سے عجب اور خود پسندی دور رہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے شکر میں مشغول رہیں۔ چونکہ شکر کی ضد کفران نعمت ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کی ضد سے منع کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ وَلَا تَکْفُرُوْنِ﴾” اور کفر نہ کرو‘‘ یہاں ”کفر“ سے مراد وہ رویہ ہے جو شکر کے بالمقابل ہوتا ہے اور وہ ہے اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کی ناشکری، ان کا انکار اور ان نعمتوں کا حق ادا کرنے سے گریز و فرار۔ یہ بھی احتمال ہے کہ اس کا معنی عام ہو تب اس لحاظ سے کفر کی بہت سی اقسا م ہیں اور ان میں سب سے بڑی قسم اللہ تعالیٰ سے کفر ہے پھر اختلاف اجناس و انواع کے اعتبار سے مختلف معاصی، مثلاً شرک اور اس سے کم تر گناہ۔ البقرة
153 اللہ تبارک نے اہل ایمان کو حکم دیا ہے کہ وہ دنیاوی امور میں صبر اور نماز سے مدد لیں۔ پس صبر، نفس کو روکنے اور ان امور سے باز رکھنے کا نام ہے جن کو وہ ناپسند کرتا ہے۔ صبر کی تین قسمیں ہیں۔ (١) اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر صبر کرنا حتیٰ کہ اسے بجا لائے۔ (2) اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے رکنے پر صبر کرنا یہاں تک کہ وہ اس نافرمانی کو ترک کر دے۔ (٣) تکلیف پہنچانے والی اللہ تعالیٰ کی قضاء و قدر پر صبر کرنا اور اس پر ناراضی کا اظہار نہ کرنا۔ صبر سے ہر کام میں زبردست معونت حاصل ہوتی ہے لہٰذا بے صبر آدمی کے لیے ہرگز ممکن نہیں کہ وہ اپنا مقصد حاصل کرسکے، خاص طور پر دائمی مشقت سے بھر پور نیکیاں، کیونکہ اس قسم کی نیکیاں انتہائی صبر و تحمل اور مشقت کی تلخی برداشت کرنے کی محتاج ہوتی ہیں۔ ان نیکیوں کا مشتاق جب صبر کو لازم پکڑ لیتا ہے تو کامیابی سے ہمکنار ہوتا ہے اور اگر ناپسندیدہ کام اور مشقت اسے صبر پر قائم نہ رکھ سکے تو اسے کچھ حاصل نہیں ہوتا، صرف محرومی اس کا نصیب ہوتا ہے۔ اسی طرح وہ گناہ جس کی طرف نفس انسانی کا داعیہ کشش رکھتا ہے اور اس گناہ کا ارتکاب اس کی قدرت میں بھی ہوتا ہے تو اس گناہ کا ترک کرنا صرف صبر عظیم، اللہ تعالیٰ کی خاطر قلب کے دواعی کے ترک کرنے اور اس سے بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرنے ہی سے ممکن ہوتا ہے، کیونکہ وہ گناہ بھی ایک بہت بڑا فتنہ ہوتا ہے۔ اسی طرح سخت مصائب اور آزمائشوں میں، خاص طور پر جبکہ یہ مصائب دائمی ہوں تب ان پے در پے مصائب سے جسمانی اور نفسانی قوی کمزور پڑجاتے ہیں، اگر یہ شخص اللہ تعالیٰ کی خاطر صبر، توکل، اللہ تعالیٰ کی پناہ کے ذریعے سے اور اپنے آپ کو اللہ کا دائمی محتاج سمجھتے ہوئے ان کا مقابلہ نہیں کرے گا تو ناراضی اور غصہ اس پر غلبہ پا لیں گے۔ پس معلوم ہوا کہ صبر کا حکم دیا ہے اور آگاہ کیا ہے کہ وہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے، یعنی ان لوگوں کے ساتھ جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی مدد اور توفیق سے صبر کو اپنی عادت، وصف اور ملکہ بنا لیا ہے۔ تب ان لوگوں پر بڑی بڑی مشقتیں اور مصائب آسان ہوجاتے ہیں، ان پر ہر بڑا کام آسان اور ان سے ہر مشکل دور ہوجاتی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی خاص معیت ہے جو اس کی محبت، اس کی مدد، اس کی نصرت اور اس کے قرب کا تقاضا کرتی ہے۔ یہ صبر کرنے والوں کی بہت بڑی مدح و منقبت ہے۔ اگر اہل صبر کی صرف یہی فضیلت ہوتی کہ وہ اللہ تعالیٰ کی معیت میں کامیابی کی منزل پر پہنچ گئے، تو شرف و فضیلت کے لیے یہی کافی ہے۔ رہی معیت عامہ تو یہ اللہ تعالیٰ کے علم و قدرت کی معیت ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿ وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ﴾ (الحدید: 4؍57) ” اور تم جہاں کہیں بھی ہو وہ تمہارے ساتھ ہے‘‘ میں مذکور ہے اور یہ معیت تمام مخلوق کے لیے عام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نماز سے مدد لینے کا حکم دیا ہے، کیونکہ نماز دین کا ستون اور اہل ایمان کا نورہے۔ نماز بندے اور اس کے رب کے درمیان رابطے کا ایک ذریعہ ہے۔ جب بندہ مومن کی نماز کامل ہو، اس میں تمام لازمی امور اور سنن جمع ہوں، اس میں حضور قلب، جو نماز کا لب لباب ہے، حاصل ہو تو بندہ مومن جب نماز میں داخل ہوتا ہے تو وہ سمجھتا ہے کہ وہ اپنے رب کے سامنے حاضر ہوا ہے اور اپنے رب کے سامنے اس طرح کھڑا ہے جس طرح ایک مؤدب خادم غلام اپنے آقا کے سامنے کھڑا ہوتا ہے۔ وہ جو کچھ کہے اور جو کچھ کرے اس کا معنی اور مفہوم اس کے شعور میں حاضر ہو، وہ اپنے رب کے ساتھ مناجات اور اس سے دعا مانگنے میں مستغرق ہو، تو یقیناً یہ نماز تمام امور میں سب سے بڑی مددگار ہے، کیونکہ نماز فواحش اور برے کاموں سے روکتی ہے۔ یہ حضور قلب جو نماز کے اندر حاصل ہوتا ہے، بندے کے قلب میں ایسے وصف اور داعیے کا موجب بنتا ہے جو بندہ مومن کو اللہ تعالیٰ کے احکام کی اطاعت اور اس کے نواہی سے اجتناب کی طرف دعوت دیتا ہے۔ یہی وہ نماز ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم ہر چیز کے مقابلے میں اس سے مدد لیں۔ البقرة
154 چونکہ اللہ تعالیٰ نے تمام احوال میں صبر سے مدد لینے کا حکم دیا ہے اس لیے اس نے ایک نمونہ ذکر فرمایا ہے جس میں صبر سے مدد لی جاتی ہے اور وہ اللہ کے راستے میں جہاد کرنا ہے جو سب سے افضل بدنی عبادت ہے۔ اپنی مشقت کی وجہ سے یہ نفوس انسانی پر سب سے زیادہ گراں گزرتی ہے نیز یہ عبادت نفوس انسانی پر اس لیے بھی گراں ہے کہ اس کا نتیجہ موت اور عدم حیات ہے اور زندگی ایک ایسی چیز ہے کہ لوگ اس دنیا میں زندگی اور اس کے لوازم کے حصول میں رغبت رکھتے ہیں۔ پس ہر وہ چیز جس میں لوگ تصرف کرتے ہیں اس کے حصول کے لیے کوشش کی جاتی ہے اور اس کی ضد کو دور کیا جاتا ہے۔ اور یہ معلوم ہے کہ عقل مند شخص اپنی محبوب چیز کو اس وقت ہی چھوڑتا ہے جب اسے اس سے بڑی اور اس سے بہتر کوئی اور محبوب چیز حاصل ہونے کی امید ہو، تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ جو کوئی اللہ تعالیٰ کے راستے میں اس وجہ سے قتل ہوجاتا ہے کہ اس نے اللہ کے راستے میں جہاد کیا، تاکہ اللہ کا کلمہ بلند اور اس کا دین غالب ہو اور اس کے سوا اس کی کوئی اور غرض نہ ہو۔ تو وہ اپنی محبوب زندگی کو کھو نہیں دیتا، بلکہ اسے اس زندگی سے زیادہ عظیم اور کامل زندگی حاصل ہوجاتی ہے جس کا تم گمان اور تصور کرسکتے ہو۔ پس شہداء وہ ہیں جن کا ذکر یوں آیا ہے﴿أَحْيَاءٌ عِندَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ فَرِحِينَ بِمَا آتَاهُمُ اللَّـهُ مِن فَضْلِهِ وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِم مِّنْ خَلْفِهِمْ أَلَّا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ   يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِّنَ اللَّـهِ وَفَضْلٍ وَأَنَّ اللَّـهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُؤْمِنِينَ﴾(آل عمران : 3؍ 169۔171) ” وہ اپنے رب کے ہاں زندہ ہیں اور ان کو رزق دیا جاتا ہے اور جو کچھ اللہ نے اپنے فضل سے ان کو عطا کیا اس پر وہ خوش ہیں اور جو پیچھے رہ گئے اور (شہید ہو کر) ان کے ساتھ نہ مل سکے ان کے بارے میں خوش ہو رہے ہیں کہ ان پر کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمزہ ہوں گے۔ وہ اللہ کی نعمتوں، اس کے فضل اور اس بات پر خوش ہو رہے ہوں گے کہ اللہ مومنوں کے اجر کو ضائع نہیں کرتا۔ “ کیا اس سے بھی بڑی کوئی اور زندگی ہے جو قرب الٰہی، اس کے بدنی رزق، مثلاً لذیذ ما کو لات و مشروبات سے تمتع اور روحانی رزق، مثلاً فرحت، خوشی اور عدم حزن و غم کو متضمن ہے؟ یہ برزخی زندگی ہے جو دنیاوی زندگی سے زیادہ کامل ہے، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس زندگی کے بارے میں ان الفاظ میں آگاہ فرمایا۔” شہداء کی روحیں سبز رنگ کے پرندوں کے جوف (پیٹ) میں جنت کی نہروں سے پانی پینے کے لیے وارد ہوتی ہیں جنت کے پھل کھاتی ہیں اور ان قندیلوں میں بسیرا کرتی ہیں جو عرش کے ساتھ لٹکی ہوئی ہیں۔‘‘ [صحيح مسلم، الإمارة، باب بيان أن أرواح الشهداء في الجنة...... الخ، حديث: 1887 و مسند احمد: 1؍ 116] اس آیت میں اللہ کی راہ میں جہاد کرنے اور اس میں صبر کا دامن پکڑے رکھنے کی بڑی ترغیب ہے۔ پس اگر بندوں کو یہ معلوم ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں قتل ہونے کا کتنا ثواب ہے تو کوئی شخص جہاد سے پیچھے نہ رہے مگر کامل علم یقینی کا فقدان، عزائم کو کمزور، نیند میں مدہوش شخص کی نیند میں مزید اضافہ، نیز غنیمتیں اور بہت بڑا ثواب حاصل کرنے سے محروم کردیتا ہے۔ ایسا کیوں نہ ہو جب کہ اللہ تعالیٰ نے مومنوں سے ان کا جان و مال خرید لیا ہے فرمایا﴿ إِنَّ اللَّـهَ اشْتَرَىٰ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُم بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ ۚ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ فَيَقْتُلُونَ وَيُقْتَلُونَ ﴾لتوبہ ١١١) ” اللہ نے مومنوں سے ان کی جانیں اور ان کے مال خرید لیے ہیں اور اس کے بدلے میں ان کے لیے جنت ہے، وہ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں (کافروں کو) قتل کرتے ہیں اور قتل ہوجاتے ہیں۔ “ اللہ کی قسم ! اگر انسان کو ہزار جانیں عطا کی گئی ہوں اور وہ ایک ایک کر کے سب جانیں اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربان کر دے تب بھی اس اجر عظیم کے مقابلے میں یہ کچھ بھی نہیں۔ اسی لیے شہداء جب اللہ تعالیٰ کے عنایت کردہ اس بہترین جزا اور ثواب کا مشاہدہ کرلیں گے تو دنیا کی طرف لوٹائے جانے کی تمنا کریں گے، تاکہ وہ اللہ کے راستے میں بار بار قتل ہوں۔ اس آیت کریمہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ برزخ میں انسان کو آرام اور عذاب ملتا ہے جیسا کہ بکثرت نصوف اس پر دلالت کرتی ہیں۔ البقرة
155 اللہ تبارک و تعالیٰ نے خبر دی کہ وہ اپنے بندوں کو مصائب و محن کے ذریعے سے آزماتا ہے، تاکہ سچے اور جھوٹے، صابر اور بے صبر کے درمیان فرق واضح ہوجائے۔ اپنے بندوں کے معاملے میں یہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے، کیونکہ اگر اہل ایمان ہمیشہ خوشحالی سے لطف اندوز ہوں انہیں کبھی مصائب و محن کا سامنا نہ ہو تو فساد واقع ہوجاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ اہل خیر اہل شر میں سے علیحدہ ہوں۔ یہ آزمائش کا فائدہ ہے۔ اس سے اہل ایمان کا وہ ایمان زائل نہیں ہوتا جو انہیں عطا کیا گیا ہے اور نہ آزمائش انہیں دین سے ہٹاتی ہے، اللہ تعالیٰ اہل ایمان کے ایمان کو ضائع نہیں کرتا۔ پس اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا ہے کہ وہ اپنے بندوں کو آزمائے گا ﴿ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ ﴾” کسی قدر خوف سے‘‘ یعنی دشمنوں کے خوف سے﴿وَالْجُوعِ﴾ ” اور بھوک سے“ یعنی بھوک اور دشمنوں کے خوف کے ذریعے سے کچھ نہ کچھ انہیں ضرور آزمائے گا، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں مکمل بھوک اور خوف میں مبتلا کردیا تو وہ ہلاک ہوجائیں گے اور آزمائش اور امتحان ہلاک کرنے کی غرض سے نہیں آتا، بلکہ اس کا مقصد پاک صاف کرنا ہوتا ہے۔ ﴿ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ﴾” اور کچھ مالوں کی کمی سے“ اس میں وہ تمام کمی اور گھاٹا شامل ہے جو اہل ایمان کو آفات سماوی، سیلاب یا سمندر میں غرق ہونے، ظالم حکومت کے مال چھین لینے اور راہزن ڈاکوؤں کے ڈاکہ ڈالنے کی وجہ سے پیش آتاہے۔ ﴿وَالْأَنفُسِ﴾’’ اورجانوں کی کمی سے“ اولاد، عزیز و اقارب اور دوستوں کو فوت کر کے، خود بندہ مومن یا اس کے کسی عزیز کو بیماری لاحق کر کے ان کو آزماتا ہے۔﴿وَالثَّمَرَاتِ ﴾” اور پھلوں کی کمی سے“ ژالہ باری، سردی، آگ لگنے، آفات سماوی اور ٹڈی دل کے ذریعے سے غلہ جات، کھجوروں، سبزیوں اور تمام پھلدار درختوں کو نقصان پہنچا کر ہم ضرور آزمائیں گے۔ ان تمام آزمائشوں کا آنا ضروری ہے، کیونکہ اللہ علیم و خبیر نے ان کے بارے میں خبر دی ہے اور یہ آزمائشیں اسی طرح واقع ہوئیں۔ جب یہ مصائب و محن واقع ہوئے، تو لوگ دو اقسام میں منقسم ہوگئے۔ (١) بے صبری کا مظاہرہ کرنے والے۔ (2) صبر کرنے والے۔ بے صبر شخص کو دو مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا، محبوب چیز سے محروم ہونا اور وہ اس مصیبت کا وجود ہے۔ دوسرا اس سے بھی زیادہ بڑی چیز سے محروم ہونا، یعنی اللہ تعالیٰ نے صبر کا حکم دیا ہے اس پر عمل کرتے ہوئے ثواب کا حاصل نہ کرنا چنانچہ خسارہ، حرماں نصیبی اور ایمان میں کمی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ وہ صبر، رضا اور شکر سے محروم ہوجاتا ہے اور اس کے بدلے میں اسے ناراضی حاصل ہوتی ہے جو شدت نقصان پر دلالت کرتی ہے۔ لیکن وہ شخص جسے اللہ تعالیٰ نے ان مصائب و محن کے وقت صبر سے نوازا اور اس نے اپنے آپ کو قولاً اور فعلاً اللہ پر اظہار برہمی سے روکے رکھا۔ پھر اس پر اللہ تعالیٰ کے ہاں اجر و ثواب کی امید رکھی اور اسے یہ بھی علم ہے کہ صبر کرنے سے اسے جو ثواب حاصل ہوگا، وہ اس مصیبت کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے جس کا اسے سامنا ہے، بلکہ یہ مصیبت اس کے حق میں نعمت ہے، کیونکہ یہ مصیبت اس کے لیے اس بھلائی اور فائدے کے حصول کا باعث بنی ہے جو اس مصیبت سے زیادہ بہتر ہے۔ پس اس نے اللہ تعالیٰ کے حکم کی اطاعت کی اور ثواب کا مستحق قرار پایا۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَبَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَ ﴾” اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنا دو۔“ یعنی انہیں خوشخبری سنا دو کہ اللہ تعالیٰ بغیر کسی حساب کے ان کو پورا پورا اجر دے گا۔ پس اہل صبر وہ لوگ ہیں جن کو عظیم بشارت اور بہت بڑے انعام سے نوازا گیا ہے۔ البقرة
156 پھر اللہ تعالیٰ نے ان صابرین کا وصف بیان کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ۙالَّذِیْنَ اِذَآ اَصَابَتْہُمْ مُّصِیْبَۃٌ﴾ ” وہ لوگ جب ان کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے“ مصیبت ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو قلب، بدن یا دونوں کو تکلیف پہنچائے۔ جس کا ذکر پہلے گزرا۔ ﴿قَالُوْٓا اِنَّا لِلّٰہِ ﴾” تو وہ کہتے ہیں ہم اللہ ہی کی ملکیت ہیں۔“ یعنی وہ پکار اٹھتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہیں، اسی کے دست تدبیر اور اسی کے تصرف کے تحت ہیں۔ پس ہماری جانوں اور ہمارے مال میں ہمارا کوئی اختیار نہیں۔ جب اللہ تعالیٰ ہمیں کسی آزمائش میں مبتلا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ، جس کی ذات سب سے زیادہ رحم کرنے والی ہے، درحقیقت اپنے غلاموں اور ان کے مال میں تصرف کرتا ہے اس لیے مالک پر اعتراض کی مجال نہیں، بلکہ بندہ مومن کا کمال عبودیت اس کا یہ جان لینا ہے کہ اس پر جو مصیبت آن پڑی ہے وہ اس کے حکمت والے مالک کی طرف سے ہے جو اپنے بندے پر خود اس بندے سے زیادہ رحم کرنے والا ہے، تب یہ چیز بندے کو اللہ تعالیٰ پر راضی اور اس کی اس تدبیر پر شکر گزار رکھتی ہے کہ اس نے اپنے بندے کے لیے وہی چیز اختیار کی جو اس کے لیے بہتر تھی، اگرچہ بندے کو اس کا شعور بھی نہ تھا۔نیز اس کے ساتھ ساتھ ہم اللہ تعالیٰ کے مملوک ہیں۔ پس قیامت کے روز ہم نے لوٹ کر اللہ تعالیٰ کے پاس ہی حاضرہونا ہے اور ہر شخص کو اپنے اعمال کا بدلہ ملے گا اگر ہم صبر کریں اور اجر کی امید رکھیں تو ہم اس کے ہاں اپنے اجر و ثواب کو وافر پائیں گے اور اگر ہم بے صبری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر پر ناراض ہوں گے تو ہمیں ناراضی اور اجر کی محرومی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ پس بندے کا اللہ کی ملکیت ہونا اور اس کا اللہ تعالیٰ ہی کی طرف لوٹنا صبر کا سب سے طاقتور سبب ہے۔ البقرة
157 ﴿ۭاُولٰۗیِٕکَ﴾” یہی لوگ ہیں۔“ یعنی یہی لوگ جو صبر مذکور کی صفت سے موصوف ہیں ﴿ عَلَیْہِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّہِمْ﴾” ان پر برکتیں ہیں ان کے رب کی طرف سے“ یعنی یہ ان کے احوال کی مدح و ثنا اور تعریف و تعظیم ہے ﴿وَرَحْمَۃٌ ۣ﴾” اور رحمت“ اور ان پر عظیم رحمت ہے۔ یہ بھی ان پر اللہ تعالیٰ کی رحمت کا حصہ ہے کہ اس نے ان کو صبر کی توفیق سے نوازا جس کے ذریعے سے وہ کامل اجر حاصل کرتے ہیں۔ ﴿وَأُولَئِك ھُمُ الْمُہْتَدُوْنَ﴾” اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں“ یعنی وہ لوگ ہیں جنہوں نے حق کو پہچان لیا اور وہ حق اس مقام پر یہ ہے کہ انہیں یہ معلوم ہوگیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے مملوک ہیں اور انہیں لوٹ کر اسی کے پاس حاضر ہونا ہے اور اس پر وہ عمل پیرا ہوئے اور یہاں عمل، اللہ تعالیٰ کے لیے ان کا صبر کرنا ہے۔ اس آیت کریمہ سے یہ بھی واضح ہے کہ جس نے صبر نہ کیا انہیں وہ کچھ حاصل ہوگا جو صبر کرنے والوں کی ضد ہے، یعنی مذمت، عقوبت، گمراہی اور خسارہ (اعاذنا اللہ منھا) پس دونوں قسموں کے درمیان کتنا بڑا فرق ہے،اہل صبر کے لیے کتنی کم مشقت اور بے صبروں کے لیے کتنی بڑی تکلیف ہے۔ یہ دونوں آیتیں نفوس کو مصائب کے نازل ہونے سے پہلے ان مصائب کو خوش دلی سے قبول کرنے پر آمادہ کرتی ہیں، تاکہ جب مصائب نازل ہوں، تو وہ آسانی سے برداشت ہوسکیں۔ ان آیات میں اس امر کا بھی بیان ہے کہ جب مصیبت نازل ہو تو کس چیز سے اس کا مقابلہ کیا جائے اور وہ ہے صبر۔ اس چیز کا بھی بیان ہے جو صبر پر مددگار ہوتی ہے، نیز یہ کہ صبر کرنے والوں کے لیے کیا اجر و ثواب ہے۔ ان سے بے صبر لوگوں کا حال بھی واضح ہوتا ہے جو صبر کرنے والوں کے حال کے بالکل برعکس ہے۔ ان آیات کریمہ سے یہ حقیقت بھی واضح ہوتی ہے کہ ابتلاء و امتحان اللہ تعالیٰ کی سنت ہے جو پہلے سے چلی آتی ہے اور تو اللہ کی سنت میں کوئی تبدیلی نہیں پائے گا۔ نیز ان آیات کریمہ میں مصائب کی مختلف انواع کا بیان ہے۔ البقرة
158 اللہ تعالیٰ خبر دیتا ہے ﴿ اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ﴾” بے شک صفا اور مروہ‘‘ یعنی صفا اور مروہ وہ معروف پہاڑیاں ﴿ مِنْ شَعَائِرِاللّٰہِ ۚ ﴾” اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں۔“ یہ دونوں اللہ تعالیٰ کے دین کی ظاہری علامتیں ہیں جن کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی عبدیت کو جانچتا ہے اور جب صفا اور مروہ دونوں اللہ تعالیٰ کے شعائر میں شمار ہوتی ہیں، تو اللہ تعالیٰ نے اپنے شعائر کی تعظیم کرنے کا حکم دیا ہے۔ چنانچہ فرمایا : ﴿وَمَن يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّـهِ فَإِنَّهَا مِن تَقْوَى الْقُلُوبِ ﴾(الحج : 22؍ 32) ” اور جو کوئی اللہ کے شعائر کی تعظیم کرتا ہے تو یہ فعل دلوں کا تقویٰ ہے۔ “ دونوں نصوص مجموعی طور پر اس امر پر دلالت کرتی ہیں کہ صفا اور مروہ اللہ تعالیٰ کے شعائر ہیں اور اللہ تعالیٰ کے شعائر کی تعظیم کرنا دلوں کا تقویٰ ہے اور تقویٰ ہر مکلف پر فرض ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ صفا و مروہ کی سعی (دونوں پہاڑیوں کے درمیان دوڑنا) فرض اور حج وعمرہ کا لازمی رکن ہے۔ جیسا کہ جمہور فقہاء کا مسلک ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث بھی اس پر دلالت کرتی ہیں۔ آپ نے خود بھی یہ کام کیا اور فرمایا :"خُذُوْا عَنِّی مَنَاسِکَکُم"’’اپنے مناسک حج مجھ سے اخذ کرو۔“ [صحيح مسلم، الحج، باب استحباب رمي جمرة العقبة.... الخ، حديث: 1297، سنن البيهقي الكبري: 5؍ 125] ﴿ فَمَنْ حَجَّ الْبَیْتَ اَوِ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْہِ اَنْ یَّطَّوَّفَ بِہِمَا ۭ﴾” پس جو شخص بیت اللہ کا حج یا عمرہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں کہ وہ ان کا طواف کرے“ چونکہ جاہلیت کے زمانے میں صفا اور مروہ پر بت نصب تھے جن کی پوجا کی جاتی تھی اس لیے وہم دور کرنے اور مسلمانوں کے رفع حرج کے لیے فرمایا کہ ان کے طواف میں کوئی گناہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس وہم کو رفع کرنے کے لیے گناہ کی نفی کی ہے۔ اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ ان کے مابین سعی لازم نہیں۔ نیز حج اور عمرہ میں ان کی سعی میں بطور خاص گناہ کی نفی، اس امر پر بھی دلالت کرتی ہے کہ حج یا عمرہ کے بغیر صرف ان کی سعی کرنا جائز نہیں۔ بخلاف طواف بیت اللہ کے، کیونکہ وہ حج اور عمرہ کے ساتھ بھی مشروع ہے اور طواف ایک مستقل عبادت بھی ہے (یعنی حج اور عمرے کے بغیر بھی طواف جائز ہے) لیکن صفا اور مروہ کے مابین سعی، عرفہ اور مزدلفہ میں وقوف اور رمی جماریہ تمام افعال دیگر مناسب حج کے ساتھ کیے جاتے ہیں۔ اگر یہ افعال دیگر مناسک حج کے ساتھ نہ کیے جائیں بلکہ اکیلے کیے جائیں، تو یہ بدعت ہوں گے۔ اس لیے کہ بدعت کی دو اقسام ہیں۔ (1) اللہ تعالیٰ کی کسی ایسے طریقے سے عبادت کرنا جو اصل میں اس نے مشروع نہیں کی۔ (2) بدعت کی دوسری قسم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک عبادت ایک خاص طریقے پر مشروع کی ہے اور اس کو کسی مختلف طریقے سے کیا جائے۔ مذکورہ بدعات اسی دوسری قسم سے ہوں گی۔ ﴿ وَمَنْ تَـطَوَّعَ خَیْرًا﴾ ” اور جو کوئی نیک کام کرے۔“ یعنی جو کوئی اللہ تعالیٰ کے لیے خلوص کے ساتھ نیکی کا کام کرتا ہے جیسے حج، عمرہ، طواف، نماز اور روزہ وغیرہ نیکی کے کام تو یہ اس کے لیے بہتر ہے۔ اس میں اس امر کی بھلائیوں اور اس کے درجات میں، اس کے ایمان میں اضافے کی وجہ سے اضافہ ہوتا ہے اور نیکیوں میں بھلائی کی قید اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جو کوئی نیکی کے طور پر بدعات پر عمل کرتا ہے جن کو اللہ اور اس کے رسول نے مشروع نہیں کیا، اسے محض مشقت کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ یہ اس کے لیے خیر نہیں، بلکہ اگر بدعات کا مرتکب ان کی عدم مشروعیت کا علم رکھتے ہوئے جان بوجھ کر اس پر عمل کرتا ہے، تو بسا اوقات یہ اس کے لیے شربن جاتی ہیں۔ ﴿ۙفَاِنَّ اللّٰہَ شَاکِـرٌ عَلِــیْمٌ﴾۔ (الَشَّاکِرُ) اور (الَشکُوْرُ) اللہ تعالیٰ کے نام ہیں۔ الَشَّاکِرُ اور الَشکُوْر اس ہستی کو کہتے ہیں جو بندوں کے تھوڑے عمل کو بھی قبول کرلیتی ہے اور اس پر بہت بڑا اجر عطا کرتی ہے۔ جب بندہ اللہ تعالیٰ کے احکام بجا لاتا ہے اور اس کی اطاعت کرتا ہے تو وہ اپنے بندے کی مدد کرتا ہے اس کی مدح و ثنا کرتا ہے اور اسے یہ بدلہ دیتا ہے کہ وہ اس کے قلب کو نور اور ایمان سے لبریز کردیتا ہے اور اس کے بدن میں قوت و نشاط، اس کے احوال میں برکت اور نشو و نما اور اس کے اعمال میں مزید توفیق عطا کرتا ہے۔ پھر یہ بندہ مومن آخرت میں جب رب کے پاس حاضر ہوگا تو وہاں اسے وافر اور کامل ثواب ملے گا، مذکورہ دنیاوی جزائیں اس کے اخروی ثواب میں کمی نہیں کریں گی۔ اور اللہ تعالیٰ کی اپنے بندے کے لیے قدر دانی یہ ہے کہ جب وہ اللہ تعالیٰ کے لیے کوئی چیز ترک کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے عوض اسے اس سے بہتر چیز عطا کرتا ہے اور جو اللہ تعالیٰ کے ایک بالشت قریب ہوتا ہے اللہ تعالیٰ ایک ہاتھ اس کے قریب ہوتا ہے، جو ایک ہاتھ اس کے قریب ہوتا ہے اللہ تعالیٰ دونوں ہاتھوں کے پھیلاؤ کے برابر اس کے قریب ہوتا ہے، جو چل کر اللہ تعالیٰ کی طرف آتا ہے اللہ تعالیٰ بھاگ کر اس کی طرف بڑھتا ہے، جو کوئی اللہ تعالیٰ کے ساتھ معاملہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کئی گنا منافع سے اسے نوازتا ہے۔ اور باوجود اس بات کے کہ وہ بندوں کے اعمال کا قدر دان ہے، وہ یہ بات بھی خوب جانتا ہے کہ کون اپنی نیت، ایمان اور تقویٰ کے مطابق کامل ثواب کا مستحق ہے اور کون اس ثواب کا حق دار نہیں۔ وہ بندوں کے اعمال کا علم رکھتا ہے، پس وہ ان کے اعمال ضائع نہیں کرے گا، بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اپنی نیتوں کے مطابق، جن کو اللہ علیم و حکیم جانتا ہے، ان عملوں کا ثواب پائیں گے۔ البقرة
159 یہ آیت کریمہ اگرچہ اہل کتاب کے بارے میں اور اس کی بابت نازل ہوئی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صفات کو چھپایا مگر اس کا حکم ہر اس شخص کے لیے عام ہے جو ان حقائق کو چھپاتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائے ہیں ﴿ مِنَ الْبَیِّنٰتِ﴾” دلائل“ یعنی حق پر دلالت کرنے والی اور اس کو ظاہر کرنے والی باتیں ﴿وَالْہُدٰی﴾ ھُدَی وہ علم ہے جس کے ذریعے سے صراط مستقیم کی طرف راہنمائی حاصل کی جاتی ہے اور جس سے اہل جنت اور اہل جہنم کے راستوں میں فرق واضح ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اہل علم سے وعدہ لیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو کتاب اللہ کا جو علم عطا کیا ہے اسے لوگوں کے سامنے بیان کریں گے اور اسے ہرگز نہیں چھپائیں گے۔ پس جس نے اللہ تعالیٰ کے اس حکم کو دورپھینک دیا اس نے دو مفاسد کو جمع کردیا۔ (اول) اس حق کو چھپانا جو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا۔ (ثانی) اللہ تعالیٰ کے بندوں کے ساتھ دھوکہ کرنا ﴿ۙاُولٰۗیِٕکَ یَلْعَنُہُمُ اللّٰہُ﴾” ایسے ہی لوگوں پر اللہ لعنت کرتا ہے۔“ یعنی یہی وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ دھتکار دے گا اور انہیں اپنی قربت اور رحمت سے دور کر دے گا ﴿وَیَلْعَنُہُمُ اللّٰعِنُوْنَ﴾” اور تمام لعنت کرنے والے لعنت کرتے ہیں۔“ یعنی ان پر تمام مخلوق کی بھی لعنت پڑے گی، کیونکہ انہوں نے مخلوق الٰہی کے ساتھ دھوکہ کیا، ان کے دین کو برباد کیا، انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دور کیا اس لیے انہیں ان کے اعمال کی جنس سے بدلہ دیا جائے گا۔ جیسے لوگوں کو بھلائی کی تعلیم دینے والے پر اللہ تعالیٰ رحمت بھیجتا ہے، فرشتے رحمت کی دعا کرتے ہیں، یہاں تک کہ پانی کے اندر مچھلیاں بھی اس کے لیے رحمت کی دعا کرتی ہیں، کیونکہ اس کی تمام بھاگ دوڑ اور کوشش مخلوق کی بھلائی اور ان کے دین کی اصلاح اور ان کو اللہ تعالیٰ کے قریب کرنے کے لیے ہوتی ہے۔ لہٰذا اسے اس کے عمل کی جنس سے بدلہ دیا گیا۔ پس اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ حق کو چھپانے والا درحقیقت اللہ کے حکم کا مخالف اور اللہ سے دشمنی کرنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ تو لوگوں کے سامنے اپنی آیات کو واضح کر کے بیان کرتا ہے اور یہ شخص اللہ تعالیٰ کی آیات کو چھپانے اور مٹانے کی کوشش کرتا ہے۔ پس مذکورہ سخت وعید کامور دیہی شخص ہے۔ البقرة
160 ﴿ اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا ﴾” مگر جنہوں نے توبہ کی‘ یعنی جو ندامت کے ساتھ گناہ چھوڑ کر اور آئندہ گناہ نہ کرنے کا عزم لے کر اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹے ﴿وَاَصْلَحُوْا﴾ ” اور اپنی حالت درست کرلی۔“ یعنی اپنے فاسد عملوں کی اصلاح کرلی۔ پس صرف برے کام کا چھوڑ دینا ہی کافی نہیں، اس کی جگہ اچھے کام کا اختیار کرنا بھی ضروری ہے۔ کتمان حق کے مرتکب کے لیے بھی صرف یہی کافی نہیں کہ اس نے یہ گناہ چھوڑ دیا ہے، بلکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس حق کو بھی ظاہر کرے جس کو اس نے چھپایا تھا۔ پس یہی وہ شخص ہے جس کی توبہ اللہ تعالیٰ قبول کرتا ہے۔ کیونکہ اس پر توبہ کا دروازہ بند نہیں۔ جو کوئی اللہ تعالیٰ کے سامنے توبہ کا سبب لے کر توبہ کے لیے حاضر ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرتا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ ﴿ التَّوَّابُ ﴾” بڑا معاف کرنے والا۔“ ہے۔ یعنی وہ اپنے بندوں کے ساتھ، گناہ کے بعد عفو و درگزر سے پیش آتا ہے جب وہ توبہ کرلیتے ہیں اور جب بندے اس کی طرف رجوع کرتے ہیں، تو روک لینے کے بعد، ان پر پھر احسان و نعمتوں کی بارش کردیتا ہے۔ ﴿ الرَّحِيْمُ﴾ اس ہستی کو کہتے ہیں جو عظیم اور بے پایاں رحمت سے متصف ہو جو ہر چیز کو محیط ہے۔ یہ اس کی رحمت ہے کہ اس نے انہیں توبہ اور انابت کی توفیق بخشی پس انہوں نے توبہ کی اور وہ اس کی طرف پلٹے۔ پھر اس نے ان پر رحم کیا یعنی اپنے لطف و کرم سے ان کی توبہ قبول فرما لی۔ یہ اس شخص کا حکم ہے جو گناہوں سے توبہ کرتا ہے۔ البقرة
161 رہا وہ شخص جو اپنے کفر پر مصر ہے، اس نے اپنے رب کی طرف رجوع نہیں کیا، نہ اس کی طرف پلٹا اور نہ اس نے توبہ کی اور حالت کفر ہی میں مر گیا ﴿ اُولٰۗیِٕکَ عَلَیْہِمْ لَعْنَۃُ اللّٰہِ وَالْمَلٰۗیِٕکَۃِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ﴾” تو یہی لوگ ہیں جن پر اللہ، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے۔“ اس لیے کہ جب کفر، ان کا وصف ثابت بن گیا تو ان پر لعنت بھی ان کا وصف ثابت بن گئی جو کبھی زائل نہیں ہوگی، کیونکہ حکم وجود اور عدم وجود کے اعتبار سے اپنی علت کے ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ (یعنی علت ہوگی تو حکم ہوگا، علت نہیں ہوگی تو حکم بھی نہیں ہوگا) البقرة
162 ﴿’ خٰلِدِیْنَ فِیْہَا ۚ﴾’’وہ ہمیشہ اس (لعنت) میں رہیں گے۔“ یعنی وہ لعنت یا عذاب میں ہمیشہ رہیں گے۔ لعنت اور عذاب دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ فرمایا : ﴿ لَا یُخَفَّفُ عَنْہُمُ الْعَذَابُ﴾” اور ان پر عذاب میں تخفیف نہیں کی جائے گی۔“ بلکہ ان کو سخت اور دائمی عذاب دیا جائے گا۔” اور نہ ان کو مہلت دی جائے گی۔“ کیونکہ مہلت کا وقت تو دنیا کی زندگی تھی جو گزر گئی اور ان کے پاس کوئی عذر بھی نہیں ہوگا جو وہ پیش کرسکیں۔ البقرة
163 اللہ تبارک و تعالیٰ خبر دیتا ہے اور وہ سب سے زیادہ سچا ہے، فرماتا ہے، وہ ﴿ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ ۚ﴾” ایک ہی الٰہ ہے۔“ یعنی وہ اپنی ذات، اپنے اسماء و صفات اور اپنے افعال میں اکیلا اور متفرد ہے۔ پس اس کی ذات میں اس کا کوئی شریک ہے نہ اس کا کوئی ہم نام اور نہ ہمسر، نہ اس کی کوئی مثال اور نہ اس کی کوئی نظیر ہے۔ اس کے سوا کوئی کائنات کو پیدا کرنے والا ہے اور نہ اس کی تدبیر کرنے والا۔ جب حقیقت حال یہ ہے تو اس بات کا صرف وہی مستحق ہے کہ ہر قسم کی عبادت صرف اسی کے لیے ہو اور اس کی مخلوق میں سے کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرایا جائے۔ ﴿الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ﴾ کیونکہ وہ رحمان و رحیم ہے، یعنی وہ بے پایاں رحمت سے متصف ہے کسی اور کی رحمت اس سے مماثلت نہیں رکھتی۔ اس کی بے پایاں رحمت ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے اور اس کی رحمت ہر زندہ چیز کے لیے عام ہے۔ اس کی رحمت ہی کے باعث تمام کائنات وجود میں آئی۔ اس کی رحمت ہی کی وجہ سے تمام مخلوقات کو تمام کمالات حاصل ہوئے۔ اس کی رحمت ہی کی بنا پر ان سے ہر قسم کی ناراضی دور ہوئی۔ یہ اس کی رحمت ہی ہے کہ اس کے بندوں نے اس کی صفات اور اس کی نعمتوں کے ساتھ اسے پہچان لیا اور اس نے اپنے رسول بھیج کر اور اپنی کتابیں نازل کر کے دنی و دنیا کے تمام مصالح جن کے وہ محتاج تھے، ان پر واضح کردیئے۔ جب یہ معلوم ہوگیا کہ بندوں کو جو بھی نعمت عطا ہوئی ہے وہ صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، نیز یہ کہ مخلوق میں سے کوئی شخص دوسرے کو کوئی نفع نہیں پہنچا سکتا۔ تو یہ بھی معلوم ہوگیا کہ ہر قسم کی عبادت کا صرف وہی مستحق ہے اور صرف وہی ہے جو محبت، خوف ورجا، تعظیم و توکل اور دیگر ہر قسم کی اطاعت کا مستحق ہے۔ سب سے بڑا ظلم اور سب سے بڑھ کر برائی یہ ہے کہ اس کی عبادت سے منہ موڑ کر اس کے بندوں کی عبادت کی جائے۔ مٹی سے پیدا کی گئی مخلوق کو رب ارباب کا شریک ٹھہرایا جائے، یا تدبیر میں محتاج اور ہر لحاظ سے عاجز مخلوق کی اس خالق کائنات کے ساتھ عبادت کی جائے جو تدبیر کنندہ، قادر اور طاقتور ہے، جو ہر چیز پر غالب ہے اور ہر چیز اس کی مطیع ہے۔ اس آیت کریمہ میں باری تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کی الوہیت کا اثبات ہے اور اس بات کا بھی کہ مخلوقات میں سے کوئی بھی الوہیت کا مستحق نہیں اور اس توحید الوہیت پر اصل دلیل کا بیان ہے اور وہ اس کی رحمت کا اثبات ہے جس کے آثار میں سے تمام نعمتوں کا وجود اور تمام مصائب کا دور ہونا ہے۔ پس یہ اس کی وحدانیت کی ایک اجمالی دلیل ہے۔ اب اللہ تعالیٰ اس کے تفصیلی دلائل ذکر فرماتا ہے۔ فرمایا : البقرة
164 اللہ تبارک و تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ ان عظیم مخلوقات میں باری تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کی الوہیت، اس کی عظیم قدرت، رحمت اور اس کی تمام صفات کے دلائل ہیں، لیکن یہ تمام دلائل صرف ان لوگوں کے لیے ہیں جو ان امور میں اپنی عقل استعمال کرتے ہیں جن کے لیے عقل پیدا کی گئی ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے کو جتنی عقل سے نوازا ہے وہ اتنا ہی آیات الٰہی سے فائدہ اٹھاتا ہے اور اپنی عقل اور تفکر و تدبر سے ان آیات کی معرفت حاصل کرتا ہے۔ پس ﴿ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ﴾ ” آسمانوں کے پیدا کرنے میں۔“ یعنی آسمانوں کی بلندی، ان کی وسعت، ان کے محکم اور مضبوط ہونے میں، نیز ان آسمانوں میں سورج، چاند اور ستاروں کی تخلیق اور بندوں کے مصالح کے لیے ان کی منظم گردش میں۔ ﴿ وَالْاَرْضِ ﴾” اور زمین میں“ یعنی مخلوق کے لیے فرش کے طور پر زمین کو پیدا کیا تاکہ وہ اس پر ٹھہر سکیں اور زمین اور جو کچھ اس کے اوپر ہے اس سے استفادہ کریں۔ نیز اس سے عبرت حاصل کریں کہ تخلیق اور تدبیر کائنات میں اللہ تعالیٰ ایک متفرد ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ کی عظیم قدرت کا بیان ہے جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے اس زمین کو تخلیق کیا اور اس کی حکمت کا، جس کی بنا پر اس نے زمین کو محکم، حسین اور موزوں بنایا اور اس کی رحمت اور علم کا، جن کی بنا پر اس نے زمین کے اندر مخلوقات کے فائدے کی اشیاء اور ان کی حاجات و ضروریات ودیعت کیں اور اس میں اس کے کمال اور اس کے واحد لائق عبادت ہونے پر سب سے زیادہ مؤثر دلیل ہے، کیونکہ کائنات کی پیدائش اور اس کی تدبیر اور تمام بندوں کے معاملات کا انتظام کرنے میں وہ متفرد ہے (اس لیے عبادت کا تمام تر مستحق بھی صرف وہی ہے نہ کہ کوئی اور، جن کا کوئی حصہ پیدائش میں ہے نہ تدبیر میں اور نہ بندوں کے معاملات کے انتظام میں) ﴿ وَاخْتِلَافِ الَّیْلِ وَالنَّہَارِ﴾ ” اور رات اور دن کے ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے میں۔“ یعنی رات اور دن کادائمی طور پر ایک دوسرے کے تعاقب میں رہنا۔ جب ان میں سے ایک گزر جاتا ہے تو دوسرا اس کے پیچھے پیچھے آتا ہے۔ گرمی، سردی اور معتدل موسم میں، دنوں کا لمبا، چھوٹا اور متوسط ہونا اور ان کی وجہ سے موسموں میں تغیر و تبدل کا ہونا۔ جن کے ذریعے سے تمام بنی آدم، حیوانات اور روئے زمین کی تمام نباتات کا انتظام ہوتا ہے۔ یہ سب کچھ ایک ایسے انتظام، تدبیر اور تسخیر کے تحت ہو رہا ہے جسے دیکھ کر عقلیں حیرت زدہ رہ جاتی ہیں اور بڑے بڑے عقل مند لوگ اس کے ادراک سے عاجز ہیں۔ یہ چیز اس کائنات کی تدبیر کرنے والے کی قدرت، علم و حکمت، رحمت واسعہ، لطف و کرم، اس کی اس تدبیر و تصرف، جس میں وہ اکیلا ہے، اس کی عظمت، اقتدار اور غلبہ پر دلالت کرتی ہے اور یہ اس بات کی موجب ہے کہ اس کو الٰہ مانا جائے اور اس کی عبادت کی جائے، صرف اسی سے محبت کی جائے، اسی کی تعظیم کی جائے، اسی سے ڈرا جائے، اسی سے امید رکھی جائے اور اس کے محبوب اور پسندیدہ اعمال میں جدوجہد کی جائے۔ ﴿ وَالْفُلْکِ الَّتِیْ تَجْرِیْ فِی الْبَحْرِ﴾” اور ان کشتیوں میں جو سمندر میں چلتی ہیں“ اس آیت کریمہ میں (فُلْکِ) سے مراد جہاز اور کشتیاں وغیرہ ہیں جن کی صنعت اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے دلوں میں الہام کی اور اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے داخلی اور خارجی آلات تخلیق کیے اور ان کے استعمال پر انہیں قدرت عطا کی۔ پھر اس نے اس بحربے کراں اور ہواؤں کو ان کے لیے مسخر کردیا جو سمندروں میں اموال تجارت سمیت کشتیوں کو لیے پھرتی ہیں جن میں لوگوں کے لیے منفعت اور ان کی معاش کے انتظامات اور مصلحتیں ہیں۔ وہ کون ہے جس نے ان کشتیوں کی صنعت انہیں الہام کی اور ان کے استعمال پر انہیں قدرت عطا کی اور ان کے لیے وہ آلات پیدا کیے جن سے وہ کام لیتے ہیں؟ وہ کون ہے جس نے کشتیوں کے لیے بے پایاں سمندر کو مسخر کیا جس کے اندر یہ کشتیاں اللہ کے حکم اور اس کی تسخیر سے چلتی ہیں؟ اور وہ کون ہے جس نے ہواؤں کو مسخر کیا؟ وہ کون ہستی ہے جس نے بری اور بحری سفر کی سواریوں کے لیے آگ اور وہ معدنیات پیدا کیں جن کی مدد سے وہ سواریاں (فضاؤں اور سمندروں میں) چلتی اور ان کے مال و اسباب بھی اٹھائے پھرتی ہیں؟ کیا یہ تمام امور اتفاقاً حاصل ہوگئے یا یہ کمزور، عاجز مخلوق انہیں وجود میں لائی ہے۔ جو اپنی ماں کے پیٹ سے جب باہر آئی تو اسے علم تھا نہ قدرت؟ پھر اللہ تعالیٰ نے اسے قدرت عطا کی پھر اسے ہر اس چیز کی تعلیم دی جس کی تعلیم دینا وہ چاہتا تھا، یا ان تمام چیزوں کو مسخر کرنے والا ایک اللہ ہی ہے جو حکمت اور علم والا ہے جسے کوئی چیز عاجز نہیں کرسکتی اور کوئی چیز اس کے اختیار سے باہر نہیں۔ بلکہ تمام اشیاء اس کی ربوبیت کے سامنے سرنگوں، اس کی عظمت کے سامنے عاجز اور اس کے جبروت کے سامنے سرافگندہ ہیں اور نحیف و نزاربندے کی انتہا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے ان اسباب میں سے ایک سبب بنایا ہے جن کے ذریعے سے یہ بڑے بڑے کام سر انجام پاتے ہیں، پس یہ چیز اللہ تعالیٰ کی اپنی مخلوق پر رحمت اور اس کی عنایت پر دلالت کرتی ہے اور یہ چیز اس بات کی موجب ہے کہ تمام تر محبت، خوف، امید، ہر قسم کی اطاعت، تذلل و انکسار اور تعظیم صرف اسی کی ذات کے لیے ہو۔ ﴿ وَمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ مِنَ السَّمَاۗءِ مِنْ مَّاۗءٍ﴾” اور اس میں جو اللہ نے آسمان سے پانی اتارا‘‘ اس سے مراد وہ بارش ہے جو بادل سے برستی ہے ﴿فَاَحْیَا بِہِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا ﴾” پس اس کے ذریعے سے اس نے زمین کو مردہ ہوجانے کے بعد زندہ کردیا“ پس زمین نے مختلف قسم کی خوراک اور نباتات ظاہر کیں جو مخلوق کی ضروریات زندگی میں شمار ہوتی ہیں، جن کے بغیر وہ زندہ نہیں رہ سکتی۔ کیا یہ اس ذات کی قدرت و اختیار کی دلیل نہیں جس نے یہ پانی برسایا اور اس کے ذریعے سے زمین سے مختلف چیزیں پیدا کیں؟ کیا یہ اپنے بندوں پر اس کی رحمت اور اس کا لطف و کرم اور اپنے بندوں کے مصالح کا انتظام نہیں؟ کیا یہ اس بات کی دلیل نہیں کہ بندے ہر لحاظ سے اس کے سخت محتاج ہیں؟ کیا یہ چیز واجب نہیں کرتی کہ ان کا معبود اور ان کا الٰہ صرف اللہ تعالیٰ ہی ہو؟ کیا یہ اس بات کی دلیل نہیں کہ اللہ تعالیٰ مردوں کو زندہ کرے گا اور ان کو ان کے اعمال کی جزا دے گا؟ ﴿ وَبَثَّ فِیْہَا﴾ ” اور پھیلائے اس میں“ یعنی زمین کے اندر ﴿ مِنْ کُلِّ دَاۗبَّۃٍ ۠﴾” ہر قسم کے جانور“ یعنی زمین کے چاروں طرف مختلف اقسام کے جانور پھیلائے، جو اس کی قدرت، عظمت، وحدانیت اور اس کے غلبے کی دلیل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان جانوروں کو انسانوں کے لیے مسخر کردیا جن سے وہ ہر پہلو سے فائدہ ا ٹھاتے ہیں۔ پس وہ ان میں سے بعض جانوروں کا گوشت کھاتے ہیں اور بعض جانوروں کا دودھ پیتے ہیں۔ بعض جانوروں پر سواری کرتے ہیں، بعض جانوران کے دیگر مصالح اور چوکیداری کے کام آتے ہیں۔ بعض جانوروں سے عبرت پکڑی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے زمین میں ہرقسم کے جانور پھیلائے ہیں۔ وہی ان کے رزق کا انتظام کرتا ہے اور وہی ان کی خوراک کا کفیل ہے۔ ﴿وَمَا مِن دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّـهِ رِزْقُهَا وَيَعْلَمُ مُسْتَقَرَّهَا وَمُسْتَوْدَعَهَا ۚ﴾ (ھود: 6؍11) ” زمین کے اندر پھرنے والا کوئی جانور نہیں مگر یہ کہ اللہ کے ذمے اس کا رزق ہے وہ اس کے ٹھکانے کو جانتا ہے اور جہاں اسے سونپا جاتا ہے۔ “ ﴿ وَّتَـصْرِیْفِ الرِّیٰحِ ﴾” اور ہواؤں کے پھیرنے میں“ یعنی ٹھنڈی، گرم، شمالاً جنوباً اور شرقاً غرباً اور ان کے درمیان ہواؤں کا چلنا، کبھی تو یہ ہوائیں بادل اٹھاتی ہیں کبھی یہ بادلوں کو اکٹھا کرتی ہیں، کبھی یہ بادلوں کو بار دار کرتی ہیں، کبھی یہ بادل برساتی ہیں، کبھی یہ بادلوں کو پھاڑ کر انہیں تتر بتر کرتی ہیں، کبھی اس کے ضرر کو زائل کرتی ہیں، کبھی یہ ہوائیں اللہ تعالیٰ کی رحمت ہوتی ہیں اور کبھی ان ہواؤں کو عذاب کے ساتھ بھیجا جاتا ہے۔ کون ہے وہ جو ان ہواؤں کو اس طرح پھیرتا ہے؟ کون ہے جس نے ان ہواؤں میں بندوں کے لیے مختلف منافع ودیعت کیے ہیں جن سے وہ بے نیاز نہیں ہوسکتے؟ اور ان ہواؤں کو مسخر کردیا جن میں تمام جاندار اشیاء زندہ رہ سکیں اور بدنوں، درختوں، غلہ جات اور نباتات کی اصلاح ہو؟ یہ سب کچھ کرنے والا صرف وہ اللہ ہے جو غالب، حکیم اور نہایت مہربان ہے، اپنے بندوں پر لطف و کرم کرنے والا ہے، جو اس بات کا مستحق ہے کہ اس کے سامنے تذلل اور عاجزی کا اظہار کیا جائے، اسی سے محبت، اسی کی عبادت اور اسی کی طرف رجوع کیا جائے۔ آسمان اور زمین کے درمیان بادل اپنے ہلکے اور لطیف ہونے کے باوجود بہت زیادہ پانی کو اٹھائے پھرتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ جہاں چاہتا ہے اس بادل کو لے جاتا ہے پھر وہ اس پانی کے ذریعے سے زمین اور بندوں کو زندگی عطا کرتا اور ٹیلوں اور ہموار زمین کو سیراب کرتا ہے اور مخلوق پر اسی وقت بارش برساتا ہے جس وقت اس کو ضرورت ہوتی ہے۔ جب بارش کی کثرت انہیں نقصان پہنچانے لگتی ہے تو وہ اسے روک لیتا ہے۔ وہ بندوں پر لطف و کرم کے طور پر بارش برساتا ہے اور پانی رحمت اور شفقت سے بارش کو ان سے روک لیتا ہے۔ اس کا غلبہ کتنا بڑا، اس کی بھلائی کتنی عظیم اور اس کا احسان کتنا لطیف ہے! کیا یہ بندوں کے حق میں برائی نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے رزق سے فائدہ ا ٹھاتے ہیں، اس کے احسان کے ماتحت زندگی بسر کرتے ہیں۔ پھر وہ ان تمام چیزوں سے اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور اس کی معصیت پر مدد لیتے ہیں؟ کیا یہ اللہ تعالیٰ کے حلم و صبر، عفو و درگزر اور اس کے عظیم لطف و کرم کی دلیل نہیں؟ پس اول و آخر اور ظاہر و باطن اللہ تعالیٰ ہی ہر قسم کی تعریف کا مستحق ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ عقل مند شخص جب بھی ان مخلوقات میں غور و فکر اور انوکھی چیزوں میں سوچ بچار کرے گا اور اللہ کی کاریگری میں اور اس میں جو اس نے احسان اور حکمت کے لطائف رکھے ہیں، ان میں کتنا زیادہ غور و فکر کرے گا۔ تو اسے معلوم ہوگا کہ یہ کائنات اس نے حق کے لیے اور حق کے ساتھ تخلیق کی ہے، نیز یہ کائنات اللہ تعالیٰ کی ذات، وحدانیت اور یوم آخرت کے نشانات اور دلائل ہیں، جس کے بارے میں اس نے اور اس کے رسولوں نے خبر دی ہے اور یہ کائنات اللہ تعالیٰ کے سامنے مسخر ہے، وہ اپنے تدبیر اور تصرف کرنے والے کے سامنے کوئی تدبیر اور نافرمانی نہیں کرسکتی۔ پس تجھے بھی معلوم ہوجائے گا کہ تمام عالم علوی اور عالم سفلی اسی کے محتاج اور اسی پر بھروسہ کرتے ہیں اور وہ بالذات تمام کائنات سے بے نیاز اور مستغنی ہے پس اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور اس کے سوا کوئی رب نہیں۔ البقرة
165 یہ آیت کریمہ (مضمون کے اعتبار سے) کتنے خوبصورت طریقے سے پچھلی آیت سے تعلق رکھتی ہے۔ اس لیے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنی وحدانیت کو بیان فرمایا اور اس کے قطعی دلائل و براہین بیان کیے جو علم یقینی عطا کرتے اور ہر قسم کے شک و شبہ کو زائل کردیتے ہیں تو یہاں اس نے ذکر فرمایا کہ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں ﴿مَنْ یَّتَّخِذُ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اَنْدَادًا﴾ ” جو اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کو شریک ٹھہرا لیتے ہیں“ یعنی اللہ تعالیٰ کے ہمسر اور مثیل، جنہیں وہ عبادت، محبت، تعظیم اور اطاعت میں اللہ تعالیٰ کے برابر قرار دیتے ہیں اور حجت قائم کرنے اور توحید بیان کرنے کے بعد بھی جو شخص اس حالت پر رہنے پر مصر ہو تو معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے عناد رکھنے والا، اس کا مخالف ہے یا اس کی آیات و مخلوقات میں تدبر و تفکر سے روگردانی کرنے والا ہے اور اس بارے میں اس کے پاس ادنیٰ سا عذر بھی نہیں، بلکہ عذاب کا کلمہ اس پر ثابت ہوگیا ہے اور یہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کے ہمسر بناتے ہیں وہ تخلیق، رزق اور تدبیر میں ان کو اللہ تعالیٰ کے مساوی قرار نہیں دیتے، بلکہ وہ صرف عبادت میں ان کو اللہ تعالیٰ کے برابر ٹھہراتے ہیں۔ پس وہ ان کی عبادت اس لیے کرتے ہیں، تاکہ وہ انہیں اللہ تعالیٰ کے قریب کردیں۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿ یَّتَّخِذُ﴾ میں اس امر کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی ہمسر نہیں۔ اہل شرک نے بعض مخلوقات کو اللہ تعالیٰ کا جو ہمسر قرار دے رکھا ہے۔ وہ صرف نام ہی نام ہے، لفظ کے اعتبار سے ان کا کوئی معنی نہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿ وَجَعَلُوا لِلَّـهِ شُرَكَاءَ قُلْ سَمُّوهُمْ ۚ أَمْ تُنَبِّئُونَهُ بِمَا لَا يَعْلَمُ فِي الْأَرْضِ أَم بِظَاهِرٍ مِّنَ الْقَوْلِ﴾ (الرعد:23؍13) ” اور ان لوگوں نے اللہ کے شریک مقرر کر رکھے ہیں ان سے کہو ذرا ان معبودوں کے نام تو لو کیا تم اسے ان چیزوں کے بارے میں آگاہ کرتے ہو جنہیں وہ زمین کے اندر نہیں جانتا (یعنی زمین میں ان کا وجود ہی نہیں) یا محض ظاہری بات کی تقلید کرتے ہو۔“ فرمایا :  ﴿إِنْ هِيَ إِلَّا أَسْمَاءٌ سَمَّيْتُمُوهَا أَنتُمْ وَآبَاؤُكُم مَّا أَنزَلَ اللَّـهُ بِهَا مِن سُلْطَانٍ ۚ إِن يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ﴾ (النجم: 23؍53) ” یہ تو محض نام ہی ہیں جن کو تم نے اور تمہارے آباؤ اجداد نے گھڑ رکھا ہے جن کی اللہ نے کوئی دلیل نازل نہیں کی۔ وہ تو صرف ظن اور گمان کی پیروی کر رہے ہیں۔ “ پس مخلوق اللہ تعالیٰ کی ہمسر نہیں ہوسکتی، کیونکہ اللہ تعالیٰ خالق اور اس کے علاوہ سب اس کی مخلوق ہے، رب تعالیٰ رازق ہے اور اس کے علاوہ تمام مخلوق مرزوق ہے، اللہ تعالیٰ غنی اور بے نیاز ہے اور تم سب اس کے محتاج ہو۔ اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے کامل ہے اور بندے ہر لحاظ اور ہر پہلو سے ناقص ہیں، اللہ تعالیٰ ہی ہے جس کے قبضہ قدرت میں نفع و نقصان ہے اور مخلوق کو نفع و نقصان اور کسی چیز کا بھی اختیار نہیں، لہٰذا اس شخص کے قول کا بطلان یقینی طور پر معلوم ہوجاتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کو اللہ کا ہمسر اور معبود ٹھہراتا ہے، یہ غیر اللہ خواہ فرشتہ ہو یا نبی، خواہ کوئی صالح بزرگ ہو یا کوئی بت، یا ان کے علاوہ کوئی اور، صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہی محبت کامل اور تذلل تام کی مستحق ہے۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کی مدح کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ ۭ﴾” اور جو اہل ایمان ہیں وہ تو اللہ ہی سے سب سے زیادہ محبت کرنے والے ہیں۔“ یعنی اہل شرک اپنے معبودوں سے جتنی محبت کرتے ہیں اس سے بڑھ کر اہل ایمان اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہیں، کیونکہ ان کی محبت خالص اللہ تعالیٰ کے لیے ہے اور اہل شرک اپنے معبودوں کی محبت میں بھی دوسروں کو شریک کرتے ہیں۔ اہل ایمان صرف اسی سے محبت کرتے ہیں جو محبت کا حقیقی مستحق ہے، جس کی محبت میں بندے کی عین صلاح، سعادت اور فوز و فلاح ہے۔ جب کہ اہل شرک ان ہستیوں سے محبت کرتے ہیں جو محبت کا کچھ استحقاق نہیں رکھتے، ان کی محبت میں بندے کی عین بدبختی ہے، اس کا فساد اور اس کے معاملات کا بکھرنا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو وعید سناتے ہوئے فرمایا ﴿وَلَوْ یَرَی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْٓا ﴾” اگر دیکھ لیں وہ لوگ جنہوں نے ظلم کیا“ یعنی جنہوں نے غیر اللہ کو ہمسر بنا کر اور بندوں کے رب کے سوا دوسروں کی اطاعت کر کے ظلم کیا اور مخلوق پر ان کو اللہ تعالیٰ کے راستے سے روک کر اور انہیں نقصان پہنچانے کی کوشش کر کے ظلم کیا۔ ﴿ اِذْ یَرَوْنَ الْعَذَابَ ۙ﴾” جب وہ عذاب دیکھیں گے۔“ یعنی قیامت کے روز اپنی آنکھوں سے عیاں طور پر اللہ تعالیٰ کے عذاب کو دیکھیں گے﴿ اَنَّ الْقُوَّۃَ لِلّٰہِ جَمِیْعًا ۙ وَّاَنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعَذَابِ﴾” ہر طرح کی قوت اللہ ہی کے لیے ہے اور یہ کہ اللہ سخت عذاب کرنے والا ہے۔“ یعنی اس وقت انہیں یقینی طور پر معلوم ہوجائے گا کہ تمام قوت و قدرت کا مالک صرف اللہ تعالیٰ ہے اور انہوں نے جو اللہ تعالیٰ کے ہمسر ٹھہرا رکھے تھے ان کے پاس کسی قسم کی کوئی طاقت نہیں، تب اس روز ان کے سامنے ان کے بنائے ہوئے معبودوں کی کمزوری اور بے بسی ظاہر ہوجائے گی۔ ایسا نہیں ہوگا جیسے اس دنیا میں ان کا معاملہ مشتبہ ہے اور اہل شرک یہ سمجھتے ہیں کہ ان معبودوں کے پاس بھی اختیار ہے اور یہ معبود انہیں اللہ تعالیٰ کے قریب کرتے ہیں اور اس کے پاس پہنچنے کا وسیلہ ہیں۔ پس وہ اپنے ظن اور گمان میں خائب و خاسر ہوئے اور ان کی تمام بھاگ دوڑ باطل گئی اور ان کے لیے سخت عذاب واجب ہوگیا۔ ان کے ٹھہرائے ہوئے یہ ہمسر ان سے عذاب کو روک نہیں سکیں گے اور نہ ذرہ بھر ان کے کوئی کام آسکیں گے، بلکہ ان معبودوں سے ان کو کسی فائدے کی بجائے نقصان پہنچے گا۔ البقرة
166 اور راہنما اپنے پیروکاروں سے برأت کا اظہار کریں گے اور وہ تمام تعلقات منقطع ہوجائیں گے جو دنیا میں ان کے مابین تھے، کیونکہ یہ تعلقات غیر اللہ کے ساتھ اور اللہ تعالیٰ کے حکم کے خلاف تھے، ان کا تعلق باطل کے ساتھ تھا جس کی کوئی حقیقت نہیں تھی اس لیے ان کے تمام اعمال مضمحل اور ان کے تمام احوال نابود ہوجائیں گے اور ان پر واضح ہوجائے گا کہ وہ جھوٹے تھے اور ان کے وہ اعمال جن کے نفع مند اور نتیجہ خیز ہونے کی انہیں امید تھی، ان کے لیے حسرت اور ندامت میں بدل جائیں گے۔ وہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں داخل ہوں گے اور وہاں سے کبھی نہیں نکلیں گے۔ پس اس خسارے کے بعد بھی کوئی اور خسارہ ہے؟ یہ اس لیے کہ انہوں نے باطل کی پیروی کی، انہوں نے ان سے امیدیں رکھیں جن پر امید نہیں رکھی جانی چاہئے تھی اور ان سے تعلق قائم کیا جن سے تعلق قائم نہیں کیا جانا چاہئے تھا۔ پس جب وہی باطل ثابت ہوا، جن سے انہوں نے تعلق جوڑا، تو ان کے اعمال بھی باطل ہوگئے اور جب ان کے اعمال باطل ہوگئے تو اپنی امیدوں کے ٹوٹ جانے کی بنا پر حسرت میں پڑگئے، پس ان کے اعمال نے انہیں سخت نقصان پہنچایا۔ اور یہ اس شخص کے حال کے برعکس ہے جس نے اللہ تعالیٰ سے، جو بادشاہ حقیقی اور واضح کرنے والا ہے، ناطہ جوڑا۔ اسی کے لیے اپنے عمل کو خالص کیا اور اس عمل پر نفع کی امید رکھی۔ پس یہی وہ شخص ہے جس نے حق کو اس کے مقام پر رکھا، اس کے اعمال بھی حق ثابت ہوئے، کیونکہ اس نے حق کے ساتھ تعلق جوڑا تھا اور اپنے اعمال کے نتیجے میں کامیاب ہوا اور وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ان اعمال کا بدلہ پائے گا، جو کبھی منقطع نہیں ہوگا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿الَّذِينَ كَفَرُوا وَصَدُّوا عَن سَبِيلِ اللَّـهِ أَضَلَّ أَعْمَالَهُمْ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَآمَنُوا بِمَا نُزِّلَ عَلَىٰ مُحَمَّدٍ وَهُوَ الْحَقُّ مِن رَّبِّهِمْ ۙ كَفَّرَ عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ وَأَصْلَحَ بَالَهُمْ ذَٰلِكَ بِأَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا اتَّبَعُوا الْبَاطِلَ وَأَنَّ الَّذِينَ آمَنُوا اتَّبَعُوا الْحَقَّ مِن رَّبِّهِمْ ۚ كَذَٰلِكَ يَضْرِبُ اللَّـهُ لِلنَّاسِ أَمْثَالَهُمْ  ﴾(محمد : 47؍ 1۔3) ” وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا اور لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکا، اللہ نے ان کے اعمال برباد کردئیے اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک عمل کیے اور اس کتاب پر ایمان لائے جو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل کی گئی اور وہ (کتاب) ان کے رب کی طرف سے برحق ہے، اللہ ان کے گناہ مٹا دے گا اور ان کا حال درست کر دے گا، یہ اس وجہ سے ہے کہ جن لوگوں نے کفر کیا انہوں نے باطل کی پیروی کی اور جو ایمان لائے، انہوں نے اپنے رب کی طرف سے آئے ہوئے حق کی پیروی کی، اللہ اسی طرح لوگوں کے سامنے ان کی مثالیں بیان کرتا ہے۔ “ اور اس وقت (غلط کاروں کی) پیروی کرنے والے تمنا کریں گے کہ کاش انہیں دنیا میں لوٹایا جائے تو وہ بھی اپنے لیڈروں اور راہنماؤں سے بایں طور پر برأت کا اظہار کردیں کہ شرک چھوڑ دیں گے اور صرف اللہ کے لیے عمل کریں گے، یہ بہت دور اور ناممکن ہے۔ معاملہ ہاتھ سے نکل گیا، اب یہ مہلت دینے کا وقت نہیں۔ اس کے ساتھ یہ بھی حقیت ہے کہ وہ جھوٹے ہیں اگر انہیں دنیا میں بھیج بھی دیا گیا تو وہ وہی کریں گے جس سے انہیں روکا گیا ہے۔ یہ تو محض ان کے منہ کی بات ہے اور یہ تو محض ان کی تمنائیں ہیں چونکہ ان کے راہنماؤں نے ان سے برأت کا اظہار کیا ہے اس لیے وہ ان پر شدید غصے کی بنا پر اس تمنا کا اظہار کر رہے ہیں ورنہ گناہ تو خود انہی کا ہے۔ پس بدی کے میدان میں تمام راہنماؤں کا راہنما تو شیطان ہے، اس کے باوجود وہ اپنے پیروکاروں سے کہے گا : ﴿  لَمَّا قُضِيَ الْأَمْرُ إِنَّ اللَّـهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَوَعَدتُّكُمْ فَأَخْلَفْتُكُمْ ۖ وَمَا كَانَ لِيَ عَلَيْكُم مِّن سُلْطَانٍ إِلَّا أَن دَعَوْتُكُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِي ۖ فَلَا تَلُومُونِي وَلُومُوا أَنفُسَكُم ۖ﴾ (ابراہیم:22؍24)” جب یہ معاملہ پورا ہوچکے گا (تو شیطان کہے گا) اللہ تعالیٰ نے تم سے جو وعدہ کیا تھا وہ وعدہ سچا تھا اور جو وعدہ میں نے تمہارے ساتھ کیا تھا وہ جھوٹا تھا اور مجھے تم پر کسی قسم کا اختیار نہ تھا سوائے اس کے کہ میں نے تمہیں (بدی کی طرف) دعوت دی اور تم نے قبول کرلی۔ پس اب تم مجھے ملامت نہ کرو، بلکہ اپنے آپ ہی کو ملامت کرو۔ “ البقرة
167 البقرة
168 یہ خطاب مومن اور کافر تمام لوگوں سے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں پر احسان فرمایا کہ انہیں اس بات کا حکم دیا کہ وہ زمین سے پیدا ہونے والے ہر قسم کے اناج، پھل، میوہ جات اور حیوانات اس حال میں کھائیں ﴿حَلَالًا﴾ کہ ان کا کھانا تمہارے لیے حلال ہو، وہ غصب شدہ مال ہو نہ چوری کیا ہوا، نہ حرام معاملے کے ذریعے سے اور نہ حرام طریقے سے حاصل کیا گیا ہو اور نہ کسی حرام امر پر اس سے مدد لی گئی ہو۔ ﴿طَيِّبًا﴾” پاکیزہ“ یعنی وہ خبیث اور ناپاک نہ ہو، مثلاً مردار، خون، خنزیر کا گوشت اور دیگر تمام ناپاک چیزیں۔ اس آیت کریمہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ تمام اشیاء میں اصل اباحت ہے، کھانے اور فائدہ اٹھانے کے اعتبار سے۔ (یعنی ہر چیز اس وقت تک حلال ہے جب تک اس کی حرمت پر دلیل قائم نہ ہو۔) اور محرمات کی دو قسمیں ہیں۔ (١) مُحْرَّم لِذَاتِہ ، یعنی جو بذات خود حرام ہیں اور وہ ناپاک چیزیں ہیں جو پاکیزہ چیزوں کی ضد ہیں۔ (2) حرام کرنے والے کسی سبب کے پیش آنے کی وجہ سے حرام ہونے والی چیزیں، یہ حقوق اللہ یا حقوق العباد کے تعلق کے حوالے سے حرام ہوتی ہیں۔ یہ حلال کی ضد ہیں۔ اس آیت کریمہ میں اس امر کی دلیل ہے کہ نسان پر کم از کم اتنی خوراک کھانا فرض ہے جس سے اس کا ڈھانچہ کھڑا رہ سکے۔ اس آیت کے ظاہری حکم کے مطابق کھانا ترک کرنا گناہ ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے ان امور کی اتباع کا حکم دیا جن کو بجا لانے کا اس نے حکم دیا ہے، کیونکہ ان میں ان کی بھلائی ہے، تو پھر ان کو شیطان کے نقش قدم کی پیروی کرنے سے روکا ہے ﴿ خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ ۭ﴾ ” شیطان کے قدم“ یعنی شیطان کے راستے جن پر چلنے کا وہ حکم دیتا ہے۔ اس سے مراد کفر، فسق، ظلم اور دیگر تمام گناہ ہیں اور اس میں سائبہ اور حام وغیرہ کی تحریم بھی شامل ہے نیز اس کے اندر تمام حرام ماکولات بھی شامل ہیں۔ ﴿اِنَّهُ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ﴾” وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔“ اس سے مراد کفر، فسق، ظلم اور ديگر تمام گناہ ہیں اور اس میں سائبہ اور حام وغیرہ کی تحریم بھی شامل ہے نیز اس کے اندر تمام حرام ماکولات بھی شامل ہیں۔ ﴿ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ﴾” وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔“ یعنی شیطان کی عداوت ظاہر ہے۔ وہ تمہیں محض دھوکے سے حکم دیتا ہے، تاکہ تم جہنمی بن جاؤ۔ البقرة
169 ہمارے پروردگار نے ہمیں صرف شیطان کے نقش قدم پر چلنے ہی سے منع نہیں کیا، بلکہ اس نے یہ خبر بھی دی ہے۔۔۔ اور وہ سب سے زیادہ سچا ہے۔۔۔ کہ شیطان ہم سے عداوت رکھتا ہے اور اس سے بچنا چاہئے۔ پھر اسی پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ تفصیل کے ساتھ آگاہ بھی فرمایا کہ شیطان کن امور کا حکم دیتا ہے اور یہ کہ شیطان جن امور کا حکم دیتا ہے وہ سب سے زیادہ قباحت کے حامل اور مفاسد میں سب سے بڑھ کر ہیں، چنانچہ فرمایا : ﴿یَاْمُرُکُمْ بِالسُّوْۗءِ﴾” وہ شر کا حکم دیتا ہے“ یعنی ایسے شرکا جو اپنے مرتکب کے ساتھ برا سلوک کرتا ہے۔ پس تمام معاصی اس میں آجاتے ہیں۔ تب اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿ وَالْفَحْشَاۗءِ﴾ خاص کا عطف عام پر، کے باب میں سے ہوگا، کیونکہ فواحش بھی معاصی میں شمار ہوتے ہیں جن کی قباحت انتہا کو پہنچی ہوئی ہوتی ہے، مثلاً زنا، شراب نوشی، قتل نا حق، تہمت اور بخل، وغیرہ یہ سب ان کاموں میں سے ہیں جن کو ہر عقل مند برا سمجھتا ہے۔ ﴿ وَاَنْ تَقُوْلُوْا عَلَی اللّٰہِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ﴾ ” اور یہ کہ تم اللہ پر ایسی باتیں کہو جن کا تمہیں علم نہیں“ اس میں اللہ تعالیٰ کی شریعت اور اس کی تقدیر کے بارے میں کسی علم کے بغیر بات کہنا بھی شامل ہے۔ جو کوئی اللہ تعالیٰ کو کسی ایسی صفت سے موصوف کرتا ہے جسے خود اس نے یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیان نہیں کیا یا اللہ تعالیٰ کی کسی ایسی صفت کی نفی کرتا ہے جس کو خود اس نے اپنے لیے ثابت کیا ہے یا کسی ایسی صفت کو اللہ تعالیٰ کے لیے ثابت کرتا ہے جس کی خود اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات سے نفی کی ہے، تو وہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں بغیر کسی علم کے بات کرتا ہے اور جو کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی ہمسر ہے، یا بت ہیں جن کی عبادت کر کے اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کیا جاسکتا ہے، وہ بھی اللہ تعالیٰ کے بارے میں بلا علم بات کرتا ہے اور جو کوئی دلیل کے بغیر یہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فلاں چیز حلال کی ہے یا فلاں چیز حرام کی ہے یا فلاں کام کا حکم دیا ہے یا فلاں کام سے روکا ہے، تو وہ بھی بغیر کسی علم کے اللہ تعالیٰ کی طرف بات منسوب کرتا ہے اور جو کوئی بغیر کسی دلیل اور برہان کے یہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کی فلاں صنف فلاں علت کی وجہ سے تخلیق فرمائی ہے، وہ بھی اللہ تعالیٰ کے بارے میں بلاعلم بات کرتا ہے اور بغیر کسی علم کے اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کی ہوئی باتوں میں سب سے بڑی بات یہ ہے کہ تاویل کرنے والا اللہ تعالیٰ یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کلام کی ان معانی کے مطابق تاویل کرے جو کسی باطل فرقے کی اصطلاحات میں سے ہو اور پھر یہ کہے کہ یہی اللہ تعالیٰ کی مراد ہے۔ پس بغیر کسی علم کے اللہ تعالیٰ کی طرف کوئی بات منسوب کرنا سب سے بڑا حرام ہے جس میں تمام گناہ شامل ہیں اور یہ شیاطن کا سب سے بڑا راستہ ہے جس کی طرف وہ لوگوں کو دعوت دیتا ہے۔ یہی شیطان اور اس کے لشکروں کے راستے ہیں، جہاں وہ اپنے مکر و فریب کے جال پھیلائے رکھتے ہیں اور جتنا بس چلتا ہے مخلوق کو پھانستے رہتے ہیں۔ جب کہ اللہ تعالیٰ تو عدل و احسان اور رشتہ داروں کو عطا کرنے کا حکم دیتا ہے اور فواحش، منکرات اور ظلم و زیادتی سے روکتا ہے۔ پس بندہ اپنے بارے میں غور کرے کہ وہ ان دو داعیوں میں سے کس داعی اور دو گروہوں میں کس گروہ کے ساتھ ہے؟ کیا تو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینے والے کی پیروی کر رہا ہے جو تیرے لیے بھلائی، دنیاوی اور اخروی سعادت چاہتا ہے، وہ جس کی اطاعت تمام تر فلاح، جس کی خدمت ہر لحاظ سے کامیابی ہے اور ہر قسم کا نفع اس منعم حقیقی کے ساتھ ظاہری اور باطنی نعمتوں پر معاملہ کرنے میں ہے جو صرف بھلائی کا حکم دیتا ہے اور صرف اسی چیز سے روکتا ہے جو شر ہے، یا تو شیطان کے داعی کی پیروی کر رہا ہے جو انسان کا دشمن ہے جو تیرے لیے برائی چاہتا ہے اور جو تجھے دنیا و آخرت میں ہلاک کرنے کے لیے بھرپور کوشش اور جدوجہد میں مصروف ہے، وہ جو تمام تر شر، اس کی اطاعت میں اور ہر قسم کا خسارہ اس کی سرپرستی میں ہے، وہ صرف شر کا حکم دیتا ہے اور صرف اس چیز سے روکتا ہے جو خیر ہے۔ البقرة
170 پھر اللہ تعالیٰ مشرکین کا حال بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ جب ان کو اس کتاب کی اتباع کرنے کا حکم دیا جاتا ہے جو اس نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل فرمائی ہے جس کی صفت گزشتہ اوراق میں گزر چکی ہے تو وہ اس سے روگردانی کرتے ہوئے کہتے ہیں : ﴿ بَلْ نَتَّبِــعُ مَآ اَلْفَیْنَا عَلَیْہِ اٰبَاۗءَنَا ۭ﴾” بلکہ ہم تو اسی کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے آباؤ اجداد کو پایا ہے۔“ پس انہوں نے اپنے آباؤ اجداد کی تقلید پر اکتفا کیا اور انبیاء علیہم السلام پر ایمان لانے سے بے رغبتی اختیار کی۔ باوجود اس بات کے کہ ان کے آباؤ و اجداد لوگوں میں سب سے زیاد جاہل اور سب سے زیادہ گمراہ تھے۔ حق کو رد کرنے کا یہ ایک نہایت ہی کمزور شبہ ہے، یہ ان کی حق سے روگردانی اور اس سے اعراض اور ان کے عدم انصاف کی دلیل ہے، اگر رشد و ہدایت اور اچھے مقصد کی طرف ان کی راہنمائی کی گئی ہوتی، تو حق ان کا مقصد ہوتا اور جو کوئی حق کو اپنا مقصد بنا لیتا ہے اور وہ حق اور غیر حق کے درمیان موازنہ کرتا ہے تو قطعی طور پر حق اس کے سامنے واضح ہوجاتا ہے اور اگر وہ انصاف پسند ہے تو وہ حق کی اتباع کرتا ہے۔ البقرة
171 جب اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ جو کچھ انبیائے کرام لے کر آئے، کفار نے ان کی اطاعت نہیں کی اور آباؤ اجداد کی تقلید کے باعث ان رسولوں کو رد کردیا۔ اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ وہ حق کو قبول کر کے اس کی دعوت پر لبیک نہیں کہیں گے، بلکہ اللہ تعالیٰ کو ان میں سے ہر ایک کے بارے میں یہ بھی معلوم تھا کہ وہ اپنے عناد سے ہرگز باز نہیں آئیں گے، تو اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرما دیا کہ ان کی مثال ایمان کے داعی کی پکار کے وقت ان مویشیوں کی سی ہے جنہیں ان کا چرواہا پکارتا ہے، لیکن ان جانوروں کو یہ علم نہیں کہ ان کا چرواہا اور منادی کیا کہہ رہا ہے؟ وہ صرف آواز سنتے ہیں جس کے ذریعے سے ان پر حجت قائم ہوگی مگر وہ اسے اس طرح سمجھتے نہیں کہ انہیں کوئی فائدہ پہنچے۔ پس وہ بہرے ہیں، حق کو سمجھنے اور قبول کرنے کے لیے سننے سے قاصر ہیں۔ وہ اندھے ہیں عبرت کی نظر سے دیکھ نہیں سکتے اور گونگے ہیں اس لیے حق کے اندر ان کے لیے جو خیر ہے اس کے بارے میں بولتے نہیں۔ اور وہ سبب جو اس تمام فساد کا موجب ہے یہ ہے کہ وہ عقل سلیم سے محروم ہیں، بلکہ وہ سب سے بڑے احمق اور سب سے بڑے جاہل ہیں۔ کیا عقل مند شخص اس بارے میں کوئی شک کرسکتا ہے کہ جس شخص کو رشد و ہدایت کی طرف بلایا جائے، فساد سے روکا جائے، عذاب میں گھسنے سے منع کیا جائے اور اسے اس چیز کا حکم دیا جائے جس میں اس کی بھلائی، فوز و فلاح اور نعمت ہے اور وہ اپنے خیر خواہ کا حکم ماننے سے انکار کر دے، اپنے رب کے حکم سے پیٹھ پھیر لے، دیکھتے بوجھتے آگ میں جا گھسے اور حق کو چھوڑ کر باطل کی پیروی کرے۔ یقیناً یہ شخص ایسا ہے کہ اس میں ذرہ بھر عقل نہیں۔ اگر وہ عیاری، دھوکہ اور فریب کو اپنی صفت بنا لے تو یہ شخص سب سے بڑا احمق ہے۔ البقرة
172 عام حکم دینے کے بعد یہ اہل ایمان کے لیے خاص حکم ہے اور یہ اس لیے کہ وہی درحقیقت اپنے ایمان کے سبب سے اوامرو نواہی سے مستفید ہونے والے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کو پاک رزق کھانے کا اور اللہ کے اس انعام پر اس کا شکر کرنے کا حکم دیا کہ وہ اس رزق کو اس کی اطاعت میں ان امور میں مدد لینے کے لیے استعمال کرتے ہیں جو انہیں اللہ تک پہنچاتے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے انہیں اسی چیز کا حکم دیا ہے جس چیز کا حکم اس نے اپنے رسولوں کو دیا ہے فرمایا : ﴿يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا ﴾ (المومنون :51؍23) ” اے رسولو ! پاک چیزیں کھاؤ اور نیک کام کرو۔“ پس اس آیت کریمہ میں شکر سے مراد عمل صالح ہے۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے لفظ (حلال) استعمال نہیں فرمایا، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ضرر رساں چیزوں کو چھوڑ کر خالص پاکیزہ رزق کو اہل ایمان کے لیے مباح کیا ہے، نیز ایمان مومن کو وہ چیز تناول کرنے سے روک دیتا ہے جو اس کے لیے نہیں ہے۔ فرمایا : ﴿ اِنْ کُنْتُمْ اِیَّاہُ تَعْبُدُوْنَ﴾” اگر تم اسی کی عبادت کرنے والے ہو“ تو اس کا شکر کرو۔ اس آیت کریمہ میں اس امر کی دلیل ہے کہ جس نے اللہ تعالیٰ کا شکر نہ کیا اس نے اللہ تعالیٰ کی عبادت نہیں کی۔ جیسے جس نے اللہ تعالیٰ کا شکر کیا اس نے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی اور وہ اس کا حکم بجا لایا۔ نیز یہ آیت کریمہ اس امر پر بھی دلالت کرتی ہے کہ پاکیزہ رزق کھانا اعمال صالحہ اور ان کی قبولیت کا سبب ہے۔ نعمتوں کے ذکر کے بعد شکر بجا لانے کا حکم دیا ہے، کیونکہ شکر موجود نعمتوں کی حفاظت کرتا ہے اور غیر موجود نعمتوں کے حصول کا باعث بنتا ہے جیسے کفر غیر موجود نعمتوں کو مزید دور کرتا ہے اور موجود نعمتوں کو زائل کرتا ہے۔ البقرة
173 جب اللہ تعالیٰ نے طیبات کی اباحت کا ذکر فرمایا تو خبائث کی تحریم کا ذکر بھی فرما دیا، چنانچہ فرمایا : ﴿اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃَ﴾” اللہ نے تم پر صرف مردار حرام کیا‘‘ مردار سے مراد وہ جانور ہے جو شرعی طریقے سے ذبح کیے بغیر مر جائے اور اس کی حرمت کی وجہ یہ ہے کہ مردار ناپاک اور خراب ہونے کی بنا پر ضرر رساں ہوتا ہے اور اکثر و بیشتر مردار کسی بیماری سے مرتا ہے۔ پس وہ مرض میں اضافے ہی کا باعث ہوتا ہے۔ مردار کی حرمت کی عمومیت سے ٹڈی اور مچھلی مستثنیٰ ہیں۔ یہ دونوں مردہ ہونے کی صورت میں بھی حلال اور طیب ہیں﴿ وَ الدَّمَ﴾ ”اور خون“ یعنی بہتا ہوا خون اور یہ قید ایک اور آیت سے ثابت ہے (ملاحظہ کیجئے ! سورۃ الانعام : ٦؍١٤٥): (مترجم) ﴿ وَمَآ اُہِلَّ بِہٖ لِغَیْرِ اللّٰہِ﴾ ” اور جو غیر اللہ کے لیے ذبح کیا گیا ہو۔“ مثلاً وہ جانور جو بتوں، استھانوں، پتھروں اور قبروں وغیرہ پر ذبح کیے گئے ہوں اور یہ مذکورہ انواع محرمات کے لیے خاص نہیں، بلکہ ان کو ان خبائث کی اجناس کے بیان کے لیے ذکر کیا گیا ہے جن کی حرمت پر ” طیبات“ کا مفہوم مخالف دلالت کرتا ہے۔ پس محرمات کی عمومیت گزشتہ آیت میں لفظ (حَلَالًا طَيِّبًا) سے مستفید ہوتی ہے، جیسا کہ پہلے گزرا۔ اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے لطف و کرم سے اور ان کے ضرر سے بچانے کے لیے یہ چیزیں ہم پر حرام ٹھہرائی ہیں۔ اس کے باوجود یہ بھی فرما دیا : ﴿ۚ فَمَنِ اضْطُرَّ﴾” جو کوئی ناچار ہوجائے۔“ یعنی جو کوئی بھوک، موت کے خوف یا جبرواکراہ کے باعث ان مذکورہ محرمات کو کھانے پر مجبور ہوجائے۔ ﴿ غَیْرَ بَاغٍ﴾ ” نہ سرکشی کرنے والا ہو“ یعنی سخت بھوکا نہ ہونے اور حلال کھانے پر قدرت رکھنے کے باوجود وہ حرام کھانے کا طلبگار نہ ہو۔ ﴿ وَّلَا عَادٍ ﴾” اور نہ حد سے تجاوز کرنے والا ہو“ یعنی اضطراری حالت میں جتنی مقدار میں اس کے لیے یہ حرام کھانا جائز ہے اس مقدار سے تجاوز نہ کرے۔ ﴿ فَلَآ اِثْمَ عَلَیْہِ ۭ﴾” تو اس پر کوئی گناہ نہیں“ یعنی اضطراری حالت میں یہ محرمات تناول کرنے میں اس پر کوئی گناہ نہیں اور جب گناہ اٹھ گیا تو معاملہ اسی (اباحت اصلی کی) حالت پر چلا گیا جو کہ تحریم سے پہلے تھی۔ انسان اس اضطراری حالت میں حرام کھانے پر مامور ہے۔ بلکہ اسے اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے اور اپنے آپ کو قتل کرنے سے روکا گیا ہے، تب اس پر حرام کھانا فرض ہے۔ اگر وہ اضطراری حالت میں حرام نہیں کھاتا اور مر جاتا ہے تو گناہ گار اور خودکشی کا مرتکب ہوگا۔ یہ اباحت اور وسعت اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں پر رحمت ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ کا اختتام اپنے ان دو اسمائے گرامی کے ساتھ کیا ہے جو غایت درجہ تک اس مضمون کے ساتھ مناسب رکھتے ہیں، چنانچہ فرمایا ﴿اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ﴾” بے شک اللہ بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔“ چونکہ ان کی حلت ان دو شرائط کے ساتھ مشروط ہے اور اس حالت میں انسان بسا اوقات اچھی طرح تحقیق کرنے سے قاصر رہتا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ وہ بخشنے والا ہے۔ پس اگر اس حالت میں اس سے خطا سر زد ہوجائے تو وہ بخش دے گا، خاص طور پر اس حالت میں جب کہ اس پر ضرورت غالب آجائے اور مشقت اس کے حواس کو مضمحل کر دے۔ اس آیت کریمہ میں مشہور فقہی قاعدہ( اَلضَّرُوْرَاتُ تُبِیْحُ اْلمَحْظُوْرَات)” ضرورت حرام کو مباح کردیتی ہے“ کی دلیل ہے۔ پس ہر حرام چیز، جس کے استعمال کرنے پر انسان مجبور ہوجائے تو اس رحم کرنے والے مالک نے اس کے لیے اسے جائز ٹھہرا دیا ہے۔ پس اول و آخر اور ظاہری و باطنی طور پر ہر قسم کی حمد و ثنا اور شکر کی مستحق صرف اسی کی ذات اقدس ہے۔ البقرة
174 اللہ تعالیٰ نے جو علم اپنے رسولوں پر نازل فرمایا اور لوگوں پر اس علم کو واضح کرنے اور اس کو نہ چھپانے کا اہل علم سے وعدہ لیا۔ اس علم کو جو لوگ چھپاتے ہیں اللہ تعالیٰ نے اس میں ان کو سخت وعید سنائی ہے۔ پس جو لوگ اس علم کے عوض دنیاوی مال و متاع سمیٹتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے حکم کو دور پھینک دیتے ہیں۔ انہی لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ مَا یَاْکُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِہِمْ اِلَّا النَّارَ﴾ ” یہ اپنے پیٹوں میں جہنم کی آگ بھر رہے ہیں“ کیونکہ یہ قیمت جو انہوں نے (آیات الٰہی کے عوض) کمائی ہے یہ انہیں بدترین اور انتہائی حرام طریقے سے حاصل ہوئی ہے، لہٰذا ان کی جزا بھی ان کے عمل کی جنس سے ہوگی۔ ﴿ وَلَا یُکَلِّمُہُمُ اللّٰہُ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ ﴾” اور قیامت کے دن اللہ ان سے کلام نہیں فرمائے گا۔“ بلکہ اللہ تعالیٰ ان سے ناراض ہوگا اور ان سے منہ پھیر لے گا۔ پس یہ چیز ان کے لیے جہنم کے عذاب سے بھی بڑھ کر ہوگی۔ ﴿ وَلَا یُزَکِّیْہِمْ ښ﴾ ” اور نہ ان کو پاک کرے گا۔“ یعنی اللہ تعالیٰ ان کو اخلاق رذیلہ سے پاک نہیں کرے گا اس لیے کہ ان کے اعمال ایسے نہیں ہوں گے جو مدح، رضائے الٰہی اور جزا کے قابل ہوں۔ اللہ تعالیٰ انہیں اس لیے پاک نہیں کرے گا، کیونکہ انہوں نے عدم تزکیہ کے اسباب اختیار کیے۔ تزکیہ کا سبب سے بڑا سبب کتاب اللہ پر عمل کرنا، اس کو راہنما بنانا اور اس کی طرف دعوت دینا ہے۔ پس انہوں نے کتاب اللہ کو دور پھینک دیا، اس سے روگردانی کی، ہدایت کو چھوڑ کر گمرایہ اور مغفرت کو چھوڑ کر عذاب کو اختیار کیا۔ پس یہ لوگ جہنم ہی کے قابل ہیں۔ یہ جہنم کی آگ پر کیسے صبر کریں گے اور اس کی آگ کو کیسے برداشت کرسکیں گے؟ البقرة
175 البقرة
176 ﴿ ذٰلِكَ﴾ یعنی یہ اللہ کا عدل و انصاف پر مبنی بدلہ اور اس کا اسباب ہدایت سے انہیں محروم رکھنا، جنہوں نے انہیں اختیار کرنے سے انکار کیا اور ان کے سوا دوسرے اسباب اختیار کیے۔ ﴿ بِاَنَّ اللّٰہَ نَزَّلَ الْکِتٰبَ بِالْحَـقِّ ۭ ﴾” اس لیے ہے کہ اللہ نے کتاب کو حق کے ساتھ اتارا‘‘ اور حق میں سے ہی یہ بات بھی ہے کہ نیک کام کرنے والے کو اس کی نیکیوں کا اور برا کام کرنے والے کو اس کی برائیوں کا بدلہ دیا جائے۔ نیز اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿ نَزَّلَ الْکِتٰبَ بِالْحَـقِّ ۭ﴾ میں اس امر کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید مخلوق کی ہدایت، باطل میں سے حق کو اور گمراہی میں سے ہدایت کو واضح کرنے کے لیے نازل فرمایا ہے، اس لیے جس نے اس کو اس کے اصل مقصد سے ہٹا دیا، وہ اس بات کا مستحق ہے کہ اسے اس کی پاداش میں بڑی سے بڑی سزا دی جائے۔ فرمایا : ﴿ وَاِنَّ الَّذِیْنَ اخْتَلَفُوْا فِی الْکِتٰبِ لَفِیْ شِقَاقٍۢ بَعِیْدٍ﴾ ” جن لوگوں نے اس کتاب میں اختلاف کیا وہ دور کی دشمنی میں ہیں۔“ یعنی وہ لوگ جنہوں نے کتاب اللہ کے بارے میں اختلاف کیا اور اس کے کسی حصے پر ایمان لائے اور کسی حصے کا انکار کیا اور وہ لوگ جنہوں نے اپنی مراد اور اپنی خواہشات کے مطابق اس میں تحریف کی اور اس کے اصل معانی سے ہٹا دیا ﴿ لَفِیْ شِقَاقٍۢ﴾یعنی وہ اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ دشمنی کر رہے ہیں ﴿ بَعِیْدٍ ﴾جو حق سے بہت دور ہے۔ اس لیے کہ انہوں نے کتاب اللہ کی مخالفت کی، جو حق لے کر آیا ہے جو اتفاق اور عدم تناقض کا موجب ہے۔ پس ان کا معاملہ خراب ہوگیا، ان کی مخالفت اور دشمنی بڑھ گئی اور اس کے نتیجے میں ان میں افتراق پیدا ہوگیا۔ اس کے برعکس وہ اہل کتاب جو کتاب اللہ پر ایمان لائے اور تمام معاملات میں اسے حکم تسلیم کیا، پس ان میں اتفاق ہوگیا اور یہ لوگ محبت اور کتاب اللہ پر اجتماع کی وجہ سے بلندیوں پر پہنچ گئے۔ یہ آیت کریمہ ان لوگوں کے لیے جو اس چیز کو چھپاتے ہیں، جسے اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا اور کتاب اللہ پر دنیا کو ترجیح دیتے ہیں، سخت ناراضی اور عذاب کی وعید کو متضمن ہے، نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ ان کو توفیق اور مغفرت کے ذریعے سے پاک نہیں کرتا اور اللہ تعالیٰ نے اس سبب کا ذکر فرمایا ہے جو ان کے ہدایت پر گمراہی کو ترجیح دینے کا باعث بنا اور اس پر یہ امر مترتب ہوا کہ انہوں نے مغفرت کو چھوڑ کر عذاب کو اختیار کرلیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس امر پر دکھ کا اظہار کیا کہ وہ جہنم کی آگ برداشت کرنے پر کس قدر صابر ہیں؟ جس میں وہ ان اسباب کی بنا پر داخل ہوئے جن کے بارے میں انہیں خوب علم تھا کہ یہ جہنم میں لے جاتے ہیں۔ یہ آیت اس امر پر بھی دلالت کرتی ہے کہ کتاب اللہ تمام تر حق پر مشتمل ہے جو اتفاق اور عدم افتراق کا موجب ہے، نیز ہر وہ شخص جو کتاب اللہ کی مخالفت کرتا ہے وہ حق سے بہت دور ہے اور وہ نزاع اور مخاصمت میں مبتلا ہے۔ واللہ اعلم۔ البقرة
177 ﴿ لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْھَکُمْ قِـبَلَ الْمَشْرِقِ﴾” نیکی یہ نہیں کہ تم مشرق یا مغرب کی طرف منہ کرلو‘‘ یعنی یہ وہ نیکی نہیں ہے جو بندوں سے مطلوب ہے جس کے بارے میں اس کثرت سے بحث و مباحثہ کی مشقت برداشت کی جائے جس سے سوائے دشمنی اور مخالفت کے کچھ اور جنم نہیں لیتا۔ یہ آیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس حدیث کی نظیر ہے جس میں آپ نے فرمایا : (ليسَ الشَّدِيدُ بالصُّرَعَةِ، إنَّما الشَّدِيدُ الذي يَمْلِكُ نَفْسَهُ عِنْدَ الغَضَبِ) [صحيح البخاري، كتاب الادب، باب الحذر من الغضب، حديث: 6114] ” طاقتور وہ نہیں جو کشتی میں طاقتور ہے، بلکہ حقیقی طاقتور وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے آپ پر قابو رکھتا ہے۔“ ﴿ وَلٰکِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ﴾ ”لیکن نیکی تو یہ ہے جو ایمان لایا اللہ پر“ یعنی وہ اس بات پر ایمان لایا کہ اللہ تعالیٰ ہی معبود واحد ہے، وہ صفت کمال سے متصف اور ہر نقص سے پاک اور منزہ ہے۔ ﴿ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ ﴾” اور آخرت کے دن پر“ یعنی وہ ان تمام باتوں پر ایمان رکھتا ہے جو انسان کو موت کے بعد پیش آئیں گی جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خبر دی ہے۔ ﴿ وَالْمَلٰۗیِٕکَۃِ﴾” اور فرشتوں پر“۔ فرشتے وہ ہستیاں ہیں جن کی بابت اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیان کیا ہے، نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیان فرمایا ہے۔ ﴿ وَالْکِتٰبِ﴾ ” اور کتاب پر“ اس سے مراد جنس ہے، یعنی ان تمام کتابوں پر ایمان لاتا ہے جو اللہ نے اپنے رسولوں پر نازل فرمائی ہیں۔ ان میں سب سے عظیم کتاب قرآن مجید ہے۔ پس وہ ان تمام اخبار و احکام پر ایمان لاتا ہے جن پر یہ کتابیں مشتمل ہیں۔ ﴿وَالنَّبِیّٖنَ ۚ﴾” اور پیغمبروں پر“ یعنی وہ تمام انبیاء علیہم السلام پر عام طور پر اور ان میں سب سے افضل اور خاتم الانبیاء محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر خاص طور پر ایمان لاتا ہے۔ ﴿ وَاٰتَی الْمَالَ ﴾” اور دیتا ہے وہ مال“ مال کے زمرے میں ہر وہ چیز آتی ہے جو مال کے طور پر انسان اپنے لیے جمع کرتا ہے۔ خواہ یہ کم ہو یا زیادہ۔ ﴿ عَلٰی حُبِّہٖ﴾ اس کی محبت کے باوجود“ (حُبّہ) میں ضمیر کا مرجمع مال ہے۔ یعنی وہ مال کی محبت رکھنے کے باوجود مال کو اللہ کے راستے میں خرچ کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں یہ بھی واضح فرمایا کہ مال نفوس انسانی کو بہت محبوب ہوتا ہے۔ بندہ اسے مشکل ہی سے اللہ کے راستے میں خرچ کرتا ہے اس لیے جو کوئی اس مال سے محبت کے باوجود اس کو اللہ تعالیٰ کے تقرب کی خاطرخرچ کرتا ہے تو یہ اس کے ایمان کی بہت بڑی دلیل ہے۔ مال سے محبت کے باوجود اللہ تعالیٰ کے راستے میں مال خرچ کرنے کی ایک صورت یہ ہے کہ بندہ اس حال میں مال خرچ کرے کہ وہ صحت مند ہو، مال کا حریص ہو، فراخی کی امید رکھتا ہو اور محتاجی سے ڈرتا ہو۔ اسی طرح اگر قلیل مال میں سے صدقہ نکالا جائے تو یہ افضل ہے کیونکہ بندے کی یہی وہ حالت ہے جب وہ مال کو اس وہم سے روکے رکھنا پسند کرتا ہے کہ کہیں وہ محتاج نہ ہوجائے۔ اسی طرح جب مال نفیس ہو اور وہ اس مال سے محبت کرتا ہو اور پھر بھی وہ اس مال کو اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :﴿ لَن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّىٰ تُنفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ ۚ ﴾(آل عمران: 92؍3 )” تم اس وقت تک نیکی حاصل نہیں کرسکتے جب تک کہ تم ان چیزوں میں سے خرچ نہ کرو جن سے تم محبت کرتے ہو۔“ پس یہ سب وہ لوگ ہیں جو مال سے محبت رکھنے کے باوجود اللہ کے راستے میں خرچ کرنے والے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کا ذکر کیا ہے جن پر مال خرچ کیا جانا چاہئے۔ یہی لوگ تیری نیکی اور تیرے احسان کے سب سے زیادہ مستحق ہیں۔ ﴿ ذَوِی الْقُرْبٰی﴾” رشتے داروں کو“ ان قریبی رشتہ داروں پر جن کے مصائب پر تو تکلیف اور ان کی خوشی پر خوشی محسوس کرے جو ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں اور دیت ادا کرنے میں شریک ہوتے ہیں۔ پس بہترین نیکی یہ ہے کہ رشتہ داروں کے ساتھ ان کے قرب اور ان کی حاجت کے مطابق مالی اور قولی احسان سے پیش آیا جائے۔ ﴿ وَالْیَـتٰمٰی﴾” اور یتیموں کو“ ان یتیموں پر جن کا کوئی کمانے والا نہ ہو اور نہ خود ان میں اتنی قوت ہو کہ وہ کما کر مستغنی ہوجائیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں پر عظیم رحمت ہے جو اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ وہ اپنے بندوں پر اس سے بھی زیادہ رحیم ہے جتناباپ اپنی اولاد پر ہوتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو وصیت کی ہے اور ان پر ان کے اموال میں فرض قرار دیا ہے کہ وہ ان لوگوں کے ساتھ احسان اور بھلائی سے پیش آئیں حتی کہ وہ یوں محسوس کریں کہ گویا ان کے والدین فوت ہی نہیں ہوئے، کیونکہ عمل کا بدلہ عمل کی جنس ہی سے ہوتا ہے جو کسی دوسرے کے یتیم پر رحم کرتا ہے تو اس کے یتیم کے سر پر بھی دست شفقت رکھا جاتا ہے۔ ﴿ وَالْمَسٰکِیْنَ﴾” اور مسکینوں کو“ مساکین وہ لوگ ہیں جن کو حاجت نے بے دست و پا اور فقر نے ذلیل کردیا ہو۔ پس مال دار لوگوں پر ان کا اتنا حق ہے جس سے ان کی مسکینی دور ہوجائے یا کم از کم اس میں کمی ہوجائے۔ مال دار لوگ اپنی استطاعت کے مطابق اور جو کچھ ان کو میسر ہے (اس سے ان کی مدد کریں) ﴿ وَابْنَ السَّبِیْلِ ۙ﴾” اور مسافر کو“ یہ اس اجنبی کو کہا جاتا ہے جو کسی دوسرے شہر میں ہو اور وہ اپنے شہر سے کٹ کر رہ گیا ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو ترغیب دی ہے کہ وہ اجنبی مسافر کو اتنا مال عطا کریں جو سفر میں اس کا مددگار ہو۔ اس گمان پر کہ وہ حاجت مند ہے اور اس کے سفر کے مصارف بہت زیادہ ہیں۔ پس اس شخص پر جسے اللہ تعالیٰ نے وطن سے اور اس کی راحت سے نوازا ہے اور اسے نعمتیں عطا کی ہیں، فرض ہے کہ وہ اپنے اس قسم کے غریب الوطن بھائی پر اپنی استطاعت کے مطابق ترس کھائے خواہ اسے زاد راہ عطا کر دے، یا سفر کا کوئی آلہ (سواری وغیرہ) دے دے، یا اس کو پہنچنے والے مظالم وغیرہ کا ازالہ کر دے۔ ﴿ وَالسَّاۗیِٕلِیْنَ﴾” اور مانگنے والوں کو“ سائلین وہ لوگ ہیں جن پر کوئی ایسی ضرورت آن پڑے جو ان کو سوال کرنے پر مجبور کر دے، مثلاً ایسا شخص جو کسی دیت کی ادائیگی میں مبتلا ہوگیا ہو یا حکومت کی طرف سے اس پر کوئی جرمانہ عائد کردیا گیا ہو یا وہ مصالح عامہ کے لیے کوئی عمارت، مثلاً مسجد، مدرسہ اور پل وغیرہ تعمیر کروا رہا ہو۔ اس حوالے سے سوال کرنا اس کا حق ہے خواہ وہ مال دار ہی کیوں نہ ہو۔﴿ وَفِي الرِّقَابِ﴾” اور گردونوں کے آزاد کرنے میں“ غلاموں کو آزاد کرنا اور آزادی پر اعانت کرنا، مکاتب کو آزادی کے لیے مالی مدد دینا، تاکہ وہ اپنے مالک کو ادائیگی کرسکے۔ جنگی قیدی جو کفار یا ظالموں کی قید میں ہوں۔ سب اس مد میں شامل ہیں۔ ﴿ وَاَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَاٰتَی الزَّکٰوۃَ ۚ ﴾” اور قائم کرے وہ نماز اور ادا کرے زکوٰۃ“ گزشتہ صفحات میں متعدد بار گزر چکا ہے کہ نماز اور زکوٰۃ کے سب سے افضل عبادت ہونے، تقرب الٰہی کا کامل ترین ذریعہ ہونے، اور قلبی، بدنی اور مالی عبادت ہونے کی بنا پر ان دونوں کو ایک ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔ نماز اور زکوٰۃ ہی کے ذریعے سے ایمان کا وزن ہوتا ہے اور انہیں سے معلوم کیا جاتا ہے کہ صاحب ایمان کتنے یقین کا مالک ہے۔ ﴿ وَالْمُوْفُوْنَ بِعَہْدِہِمْ اِذَا عٰھَدُوْا ۚ ﴾ ”اور وہ اپنے عہدوں کو پورا کرنے والے ہیں جب وہ عہد کرلیں“ اللہ تعالیٰ یا خود بندے کی طرف سے لازم کیے ہوئے امر کا التزام کرنا عہد کہلاتا ہے۔ پس تمام حقوق اللہ اس میں داخل ہوجاتے ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر ان کو لازم قرار دیا ہے اور وہ اس التزام کو قبول کر کے اس عہد میں داخل ہوگئے اور ان کا ادا کرنا ان پر فرض قرار پایا۔ نیز اس عہد میں وہ حقوق العباد بھی داخل ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر واجب قرار دیا ہے اور اس میں وہ حقوق بھی شامل ہیں جن کو بندے اپنے آپ پر لازم قرار دے لیتے ہیں، مثلاً قسم اور نذر وغیرہ۔ ﴿ وَالصّٰبِرِیْنَ فِی الْبَاْسَاۗءِ ﴾” اور صبر کرنے والے ہیں وہ سختی میں“ یعنی فقر اور محتاجی میں صبر کرتے ہیں، کیونکہ محتاج شخص بہت سے پہلوؤں سے صبر کا محتاج ہوتا ہے۔ وہ دائمی طور پر ایسی قلبی اور بدنی تکالیف میں مبتلا ہوتا ہے جس میں کوئی اور شخص مبتلا نہیں ہوتا۔ اگر مال دار دنیاوی نعمتوں سے استفادہ کرتے ہیں، تو فقیر آدمی ان نعمتوں سے استفادے پر قادر نہ ہونے کی وجہ سے رنج و الم میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ جب وہ اور اس کے اہل و عیال بھوک کا شکار ہوتے ہیں تو اسے دکھ ہوتا ہے جب وہ کوئی ایسا کھانا کھاتا ہے جو اس کی چاہت کے مطابق نہ ہو، تب بھی اسے تکلیف پہنچتی ہے۔ اگر وہ عریاں ہوتا ہے یا عریانی کی حالت کے قریب پہنچ جاتا ہے تو دکھ محسوس کرتا ہے۔ جب وہ اپنے سامنے کی یا مستقبل میں متوقع کسی چیز کو دیکھتا ہے، تو غم زدہ ہوجاتا ہے۔ اگر وہ سردی محسوس کرتا ہے جس سے بچنے پر وہ قادر نہیں ہوتا، تو اسے تکلیف پہنچتی ہے۔ پس یہ تمام چیزیں مصائب کے زمرے میں آتی ہیں جن پر صبر کرنے کا اور اللہ تعالیٰ سے ثواب کی امید رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ﴿ وَالضَّرَّاۗءِ ﴾” اور تکلیف میں“ یعنی مختلف قسم کے امراض مثلاً بخار، زخم، ریح کا درد، کسی عضو میں درد کا ہونا حتی کہ دانت اور انگلی کا درد وغیرہ، ان تمام تکالیف میں بندہ صبر کا محتاج ہے، کیونکہ نفس کمزور ہوتا ہے اور بدن درد محسوس کرتا ہے اور یہ مرحلہ نفس انسانی کے لیے نہایت مشقت آزما ہوتا ہے۔ خاص طور پر جب بیماری طول پکڑ جائے۔ پس اسے حکم ہے کہ وہ صبر کرے اور اللہ تعالیٰ سے ثواب کی امید رکھے۔ ﴿ وَحِیْنَ الْبَاْسِ ۭ﴾” اور لڑائی کے وقت“ یعنی ان دشمنوں سے لڑائی کے وقت جن سے لڑنے کا حکم دیا گیا ہے، کیونکہ صبر و استقلال سے جواں مردی کا مظاہرہ نفس انسانی کے لیے نہایت گراں بار ہے اور انسان قتل ہونے، زخمی ہنے یا قید ہونے سے بہت گھبراتا ہے۔ پس وہ اس صورت میں اللہ تعالیٰ پر ثواب کی امید رکھتے ہوئے صبر کرنے کا سخت محتاج ہے جس کی طرف سے فتح و نصرت ہوتی ہے جس کا وعدہ اس نے صبر کرنے والوں کے ساتھ کر رکھا ہے﴿ اُولٰۗئِکَ﴾” یہی“ یعنی جو ان عقائد حسنہ اور اعمال صالحہ سے متصف ہیں جو ایمان کے آثار، اس کی برہان اور اس کا نور ہیں اور ان اخلاق کے مالک ہیں جو انسان کا حسن و جمال اور انسانیت کی حقیقت ہے۔ ﴿ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا ۭ ﴾” جو سچے ہیں۔“ یعنی یہی لوگ اپنے ایمان میں سچے ہیں، کیونکہ ان کے اعمال ان کے ایمان کی تصدیق کرتے ہیں۔ ﴿ وَ اُولٰۗئِکَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَ ﴾” اور یہی لوگ متقی ہیں“ کیونکہ انہوں نے محظورات کو ترک کردیا اور مامورات پر عمل کیا، اس لیے کہ یہ امور تمام اچھی خصلتوں کو اپنے دامن میں سمیٹ لیتے ہیں، چاہے ضمناً یا لزوماً، کیونکہ ایفائے عہد میں پورا دین ہی آجاتا ہے۔ علاوہ ازیں اس آیت میں جن عبادات کی صراحت ہے، وہ سب عبادات سے اہم اور بڑی ہیں اور جو ان عبادات کا التزام کرتا ہے وہ دیگر امور کو زیادہ آسانی سے سر انجام دے سکتا ہے۔ پس یہی لوگ نیک، سچے اور متقی ہیں۔ ان تین امور پر اللہ تعالیٰ نے جو دنیاوی اور اخروی ثواب مرتب کیا ہے وہ سب کو معلوم ہے جس کی تفصیل اس مقام پر ممکن نہیں۔ البقرة
178 اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر اس احسان کا ذکر کرتا ہے کہ اس نے مقتولین کے بارے میں قصاص، یعنی اس میں مساوات کو فرض کیا، جس کا مطلب یہ ہے کہ قاتل کو مقتول کے بدلے میں اس طریقے سے قتل کیا جائے جس طریقے سے اس نے مقتول کو قتل کیا تھا، یہ بندوں کے درمیان عدل و انصاف کا تقاضا ہے۔ اس خطاب کا رخ عام مومنوں کی طرف ہے، اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ تمام اہل ایمان پر یہ فرض ہے حتیٰ کہ قاتل کے اولیاء اور خود قاتل پر بھی کہ جب مقتول کا ولی قصاص کا مطالبہ کرے اور قاتل سے قصاص لینا ممکن ہو تو مقتول کے ولی کی مدد کی جائے اور یہ کہ ان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اس حد کے درمیان حائل ہوں اور مقتول کے وارث کو بدلہ لینے سے روکیں، جیسا کہ جاہلیت کے زمانے میں لوگوں کی عادت تھی یا ان جیسے دیگر لوگ جو مجرموں کو پناہ دیتے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس قصاص کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ اَلْحُــرُّ بِالْحُــرِّ﴾ ” آزاد، بدلے آزاد کے“ الفاظ کے اعتبار سے اس میں مرد، بدلے مرد کے‘ کا مفہوم بھی شامل ہے۔ ﴿ وَالْاُنْـثٰی بِالْاُنْـثٰی ۭ﴾” عورت، بدلے عورت کے“ اس کا مطلب ہے مرد کے بدلے عورت اور عورت کے بدلے مرد۔ پس منطوق کلام، الانثی بالانثی کے مفہوم پر مقدم ہوگا، اس لیے کہ حدیث اس پر دلالت کرتی ہے کہ مرد کو عورت کے بدلے قتل کیا جائے گا (اگر مرد عورت کا قاتل ہوگا) اس عموم سے والدین (اوپر تک) مستثنیٰ ہیں۔ لہٰذا بیٹے کے قتل کے قصاص میں والدین کو قتل نہیں کیا جائے گا، کیونکہ یہ استثناء سنت میں وارد ہوا ہے۔ نیز قصاص کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد دلالت کرتا ہے کہ بیٹے کے قتل کی پاداش میں باپ کو قتل کرنا انصاف نہیں نیز اس لیے کہ باپ کا دل اپنے بیٹے کے لیے رحم اور شفقت سے لبریز ہوتا ہے جو اسے بیٹے کو قتل کرنے سے روکتا ہے۔ سوائے اس صورت کے کہ باپ کے دماغ میں کوئی خلل ہو یا بیٹے کی طرف سے اسے نہایت سخت اذیت پہنچی ہو۔ سنت نبوی ہی کی رو سے اس عموم سے کافر بھی خارج ہے۔ نیز اس کی دلیل یہ بھی ہے کہ یہ خطاب خاص طور پر اہل ایمان کے لیے ہے۔ نیز یہ قرین انصاف بھی نہیں کہ اللہ کے دشمن کے بدلے اللہ تعالیٰ کے دوست کو قتل کیا جائے اور غلام کے بدلے غلام کو قتل کیا جائے گا خواہ وہ مرد ہو یا عورت اور خواہ ان کی قیمت مختلف ہو یا برابر، مفہوم کلام یہ بھی دلالت کرتا ہے کہ آزاد کو غلام کے بدلے میں قتل نہیں کیا جائے گا، کیونکہ غلام آزاد کے مساوی نہیں ہوتا۔ بعض اہل علم نے ( وَالْاُنْـثٰی بِالْاُنْـثٰی) کے مفہوم سے یہ استدلال کیا ہے کہ عورت کے قصاص میں مرد کو قتل کرنا جائز نہیں اور اس کی وجہ گزشتہ سطور میں گزر چکی ہے (کہ یہ صحیح نہیں، کیونکہ یہ مفہوم حدیث کے خلاف ہے) اس آیت کریمہ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اصل، قتل میں قصاص کا واجب ہونا ہے (یعنی قتل کے بدلے میں قتل ضروری ہے) اور دیت تو قصاص کا بدل ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿فَمَنْ عُفِیَ لَہٗ مِنْ اَخِیْہِ شَیْءٌ﴾” اگر اس (قاتل) کو اس کے (مقتول) بھائی سے کچھ معاف کردیا جائے۔“ یعنی اگر مقتول کا ولی قاتل کو معاف کر کے دیت قبول کرلے یا مقتول کے اولیاء میں سے کوئی شخص قاتل کو معاف کر دے تو اس صورت میں قصاص ساقط ہوجائے گا اور دیت واجب ہوجائے گی۔ قصاص میں اختیار ہوگا اور مقتول کا ولی قصاص کی بجائے دیت لے سکتا ہے۔ جب مقتول کا ولی قاتل کو معاف کر دے تب اس پر واجب ہے کہ وہ قاتل سے معروف طریقے سے خون بہا کا مطالبہ کرے ﴿ بِالْمَعْرُوْفِ﴾” معروف طریقے سے‘‘ یعنی ایسے طریقے سے کہا اس پر شاق نہ گزرے اور اتنا زیادہ مطالبہ نہ کرے جس کو ادا کرنے کی قاتل میں طاقت نہ ہو، بلکہ نہایت احسن طریقے سے قاتل سے دیت کا تقاضا کرے اور اسے تنگی میں مبتلا نہ کرے۔ ﴿ وَاَدَاۗءٌ اِلَیْہِ بِاِحْسَانٍ ۭ﴾” اور احسان کے ساتھ اسے ادا کرنا چاہئے۔“ یعنی قاتل پر واجب ہے کہ وہ ٹال مٹول، خون بہا میں کمی اور قولی یا فعلی تکلیف پہنچائے بغیر، بھلے طریقے سے دیت ادا کرے۔ معاف کردینے کے احسان کا بدلہ یہ ہے کہ خون بہا کو احسن طریقے سے ادا کیا جائے۔ انسان پر لوگوں کی جو ذمہ داریاں واجب ہیں ان میں یہی اصول مامور بہ ہے کہ جس نے کسی سے اپنا حق لینا ہے، وہ اس امر پر مامور ہے کہ وہ معروف طریقے سے حق کا مطالبہ کرے اور جس کے ذمے حق ہے وہ اسے بھلے طریقے سے ادا کرے۔ ﴿ فَمَنْ عُفِیَ لَہٗ مِنْ اَخِیْہِ شَیْءٌ﴾ میں نرمی اختیار کرنے اور قصاص معاف کر کے دیت قبول کرنے کی ترغیب ہے۔ اس سے بھی زیادہ احسن بات یہ ہے کہ کچھ لیے بغیر ہی قاتل کو معاف کردیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد (أخِیْہِ) اس بات کی دلیل ہے کہ قاتل کی تکفیر نہ کی جائے، کیونکہ یہاں ” اخوت“ سے مراد اخوت ایمانی ہے۔ پس قتل کے ارتکاب سے قاتل دائرہ ایمان سے خارج نہیں ہوگا۔ جب بات یہ ہے تو دیگر معاصی کا مرتکب، جو کفر سے کم تر ہیں، بطریق اولیٰ دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوگا البتہ اس سے اس کے ایمان میں کمی ضرور واقع ہوگی۔ اور جب مقتول کے اولیا یا ان میں سے کوئی ایک قاتل کو معاف کردیں تو قاتل کا خون محفوظ ہوجاتا ہے اور وہ مقتول کے اولیاء یا دیگر لوگوں کے قصاص لینے سے بچ جاتا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿ فَمَنِ اعْتَدٰی بَعْدَ ذٰلِکَ﴾ ” اگر کوئی اس کے بعد زیادتی کرتا ہے“ یعنی معاف کردینے کے بعد اگر کوئی شخص زیادتی کرتا ہے ﴿ فَلَہٗ عَذَابٌ اَلِیْمٌ﴾ تو (آخرت میں) اس کے لیے درد ناک عذاب ہے۔ “ رہا اس کو قتل کرنا یا نہ قتل کرنا تو یہ حکم گزشتہ آیت سے اخذ کیا جائے گا اور چونکہ (معاف کرنے کے بعد) اس نے قاتل کو محض بدلہ لینے کے لیے قتل کیا ہے، لہٰذا اس کے قصاص میں اسے قتل کیا جائے گا۔ رہے وہ لوگ جنہوں نے ﴿ عَذَابٌ اَلِیْمٌ﴾ کی تفسیر ” قتل“ کی ہے۔ نیز ان کا موقف ہے کہ یہ آیت اس قاتل کا قتل متعین کرتی ہے اور اس کو معاف کرنا جائز نہیں۔ تو بعض اہل علم اس کے قائل ہیں۔ لیکن صحیح بات پہلی ہی ہے، کیونکہ اس کا جرم دوسرے شخص کے جرم سے زیادہ نہیں ہے۔ البقرة
179 پھر اللہ تعالیٰ قصاص کی مشروعیت میں پنہاں عظیم حکمت کو بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے : ﴿ وَلَکُمْ فِی الْقِصَاصِ حَیٰوۃٌ﴾ ” اور تمہارے لیے قصاص میں زندگانی ہے۔“ یعنی قصاص کے قانون سے خون محفوظ ہوجاتے ہیں اور شقی القلب لوگوں کا قلع قمع ہوجاتا ہے، کیونکہ جب قاتل کو معلوم ہوگا کہ قتل کے بدلے اس کو قتل کردیا جائے گا تو اس سے قتل کا ارتکاب ہونا مشکل ہے اور جب دوسرے لوگ مقتول کے قصاص میں قاتل کو قتل ہوتا دیکھیں گے تو دوسرے لوگ خوفزدہ ہو کر عبرت پکڑیں گے اور قتل کرنے سے باز رہیں گے۔ اگر قاتل کی سزا قصاص (قتل) کے سوا کچھ اور ہوتی تو اس سے شر (برائی) کا انسداد اس طرح نہ ہوتا جس طرح قتل کی سزا سے ہوتا ہے اور اسی طرح تمام شرعی حدود ہیں کہ ان سب میں عبرت پذیری اور انسداد شر کے ایسے پہلو ہیں جو اس اللہ تعالیٰ کی حکمت پر دلالت کرتے ہیں، جو نہایت دانا اور بڑابخشنے والا ہے۔ ﴿ حَیٰوۃٌ﴾ کونکرہ استعمال کرنا تکثیر اور تعظیم کے لیے ہے اور چونکہ اس حکم کی حقیقت کو صرف لوگ جان سکتے ہیں جو عقل کامل کے مالک ہیں اس لیے دیگر لوگوں کی بجائے انہی لوگوں کو خاص طور پر مخاطب کیا گیا ہے۔ یہ آیت کریمہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس کے بندے اس کے احکام میں پوشیدہ حکمتوں، اس کے کمال پر دلالت کرنے والی مصلحتوں، اس کی کامل حمد و حکمت اور عدل و رحمت واسعہ میں تدبر کے لیے اپنی عقل و فکر کو استعمال میں لائیں اور جو کوئی یہ عمل کرتا ہے وہ اس مدح کا مستحق ہے کہ وہ ان عقل مند لوگوں میں سے ہے جن کو اس خطاب میں مخاطب کیا گیا ہے اور جن کو رب ارباب نے پکارا ہے۔ سوچنے سمجھنے والے لوگوں کے لیے یہی فضیلت اور شرف کافی ہے۔ فرمایا :﴿لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ﴾ تاکہ تم متقی بن جاؤ“ اور یہ تقویٰ اس طرح حاصل ہوتا ہے کہ جو شخص اپنے رب کو اور اس کے دین و شریعت کے بڑے بڑے اسرار، انوکھی حکمتوں اور بلند مرتبہ نشانیوں کو پہچان لیتا ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کر دے، اس کی نافرمانیوں کو بہت بڑی چیز سمجھتے ہوئے انہیں ترک کر دے۔ تب وہ اس بات کا مستحق ہوجاتا ہے کہ اسے اہل تقویٰ میں شمار کیا جائے۔ البقرة
180 یعنی اے مومنوں کے گروہ جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت قریب آجائے، یعنی جب موت کے اسباب، مثلاً مہلک مرض اور دیگر ہلاکت خیز اسباب قریب آجائیں تو اللہ تعالیٰ نے تم پر (وصیت) فرض کی ہے۔ ﴿ اِنْ تَرَکَ خَیْرَۨا ښ﴾ ” اگر اس نے مال چھوڑا ہو“ (خیر) عرف میں مال کثیر کو کہا جاتا ہے، پس اس پر واجب ہے کہ وہ اپنے والدین اور ان لوگوں کے لیے جو سب سے زیادہ اس کی نیکی کے مستحق ہیں اپنے حال اور طاقت کے مطابق بغیر کسی اسراف کے، وصیت کرے۔ علاوہ ازیں قریبی رشتہ داروں کو چھوڑ کر صرف دور کے رشتہ داروں کے لیے ہی وصیت نہ کرے، بلکہ وصیت کو ضرورت اور قرابت مندی کے تقاضوں کے مطابق ترتیب دے، اسی لیے اسم تفضیل کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے۔ (یعنی اقربین جس کا مطلب یہ ہے کہ جو جتنا زیادہ قریب ہے، وہ اتنا ہی زیادہ تمہارے مال میں استحقاق رکھتا ہے) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿’ حَقًّا عَلَی الْمُتَّقِیْنَ﴾ ’ ’یہ حکم لازم ہے پرہیزگاروں پر“ وصیت کے واجب ہونے پر دلالت کرتا ہے، کیونکہ وہ حق ثابت ہے اور اس کو اللہ تعالیٰ نے موجبات تقویٰ میں شمار کیا ہے۔ جان لیجیے کہ جمہور مفسرین کی رائے یہ ہے کہ اس آیت کو میراث کی آیت نے منسوخ کردیا ہے اور بعض کی رائے یہ ہے کہ اس آیت میں وصیت کا حکم والدین اور غیر وارث رشتہ داروں کے لیے ہے حالانکہ ایسی کوئی دلیل نہیں جو اس تخصیص پر دلالت کرتی ہو۔ اس ضمن میں بہترین رائے یہ ہے کہ یہ وصیت مجمل طور پر والدین اور قریبی رشتے داروں کے لیے ہے، پھر اس کو اللہ تعالیٰ نے عرف جاری کی طرف لوٹا دیا۔ پھر اس اجمالی حکم کے بعد اللہ تعالیٰ نے وارث والدین اور وارث رشتہ داروں کے لیے اس معروف کو آیات میراث میں مقدر فرما دیا (یعنی ان کے حصوں کا تعین فرما دیا) اور وصیت کا حکم ان والدین اور رشتہ داروں کے لیے باقی رہ گیا جو وراثت سے محروم ہو رہے ہوں تو وصیت کرنے والا ان کے حق میں وصیت کرنے پر مامور ہے اور یہ لوگ اس کی نیکی کے سب سے زیادہ محتاج ہیں۔ اس قول پر تمام امت متفق ہوسکتی ہے اور اس سے سابقہ دونوں اقوال میں تطبیق بھی ہوجاتی ہے، کیونکہ دونوں فریقوں نے اس آیت کو اپنے اپنے نقطہ نظر سے دیکھا اور اختلاف کا باعث بنے۔ اس تطبیق سے اتفاق اور دونوں آیات میں مطابقت حاصل ہوجاتی ہے۔ کیونکہ دونوں آیتوں میں جمع و تطبیق ممکن ہے اور دو آیتوں کے درمیان تطبیق نسخ کے اس دعوے سے بہتر ہے جس کی تائید میں کوئی صحیح دلیل نہ ہو۔ البقرة
181 بسا اوقات وصیت کرنے والا اس وہم کی بنا پر وصیت کرنے سے گریز کرتا ہے کہ کہیں پسماندگان وصیت کو تبدیل نہ کردیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ فَمَنْۢ بَدَّلَہٗ ﴾” پس جو شخص اس (وصیت) کو بدل ڈالے۔“ یعنی جو کوئی اس وصیت کو بدلتا ہے جو ان مذکور لوگوں یا دیگر لوگوں کے حق میں کی گئی ہے۔ ﴿بَعْدَ مَا سَمِعَہٗ﴾” اس کو سننے کے بعد“ یعنی اس وصیت کو سمجھ لینے اور اس کے طریقوں اور اس کے نفاذ کو اچھی طرح جان لینے کے بعد جو کوئی اس کو تبدیل کرتا ہے ﴿ فَاِنَّمَآ اِثْمُہٗ عَلَی الَّذِیْنَ یُبَدِّلُوْنَہٗ ۭ﴾” تو اس کا گناہ صرف انہی لوگوں پر ہے جو انہیں تبدیل کرتے ہیں۔“ ورنہ وصیت کرنے والا تو اللہ تعالیٰ کے اجر کا مستحق ہوگیا۔ ﴿اِنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌ﴾” بے شک اللہ سنتا ہے۔“ یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ تمام آوازوں کو سنتا ہے۔ اسی طرح وہ وصیت کرنے والے کی بات اور وصیت کو بھی سنتا ہے۔ پس وہ اس ہستی کا خوف کھاتے ہوئے جو اسے دیکھ اور سن رہی ہے اپنی وصیت میں ظلم اور زیادتی کا ارتکاب نہ کرے۔ ﴿ عَلِیْمٌ﴾ٌ وہ وصیت کرنے والے کی نیت کو جانتا ہے اور اس شخص کے عمل کو بھی جس کو یہ وصیت کی گئی ہے۔ البقرة
182 جب وصیت کرنے والا پوری کوشش سے کام لیتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کی نیت کو جانتا ہے تو اسے اپنی نیت کا ثواب ملتا ہے۔ خواہ اس سے خطاہی کیوں نہ واقع ہو۔ اس آیت کریمہ میں اس شخص کے لیے تنبیہ ہے جس کو وصیت کی گئی ہو کہ وہ اس میں تبدیلی سے باز رہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ اسے خوب جانتا ہے، اس کے فعل سے وہ باخبر ہے۔ پس اسے اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہئے۔ یہ تو تھا وصیت عادلہ کا حکم، رہی وہ وصیت جو ظلم اور گناہ کی بنیاد پر کی گئی ہو، تو وصیت کے وقت جو کوئی وصیت کرنے والے کے پاس موجود ہو اسے چاہئے کہ وہ اسے اس امر کی نصیحت کرے جو بہتر اور زیادہ قرین عدل ہو اور اسے ظلم کرنے سے روکے۔ (الَجنَف) سے مراد بغیر کسی ارادے کے غلطی سے وصیت میں ظلم کا ارتکاب کرنا اور (الاِثْمُ) سے مراد عمداً ظلم کرنا ہے۔ اگر اس نے وصیت کے وقت وصیت کرنے والے کو (غلط وصیت کرنے سے) نہیں روکا، تو اس کے لیے مناسب یہی ہے کہ وہ ان لوگوں کے مابین صلح کروا دے جن کو وصیت کی گئی ہے۔ ان کی باہمی رضامندی اور مصالحت کے ذریعے سے ان کے درمیان عدل و انصاف کا اہتمام کرے اور ان کو وعظ و نصیحت کرے کہ وہ اپنے مرنے والے کی ذمہ داری کو پورا کریں۔ باہمی صلح کروانے والے کا یہ فعل بہت بڑی نیکی ہے اور ان پر کوئی گناہ نہیں جیسے اس شخص کو گناہ ہوتا ہے جو جائز وصیت کو تبدیل کرتا ہے۔ بنا بریں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ تمام لغزشوں کو معاف کردیتا ہے۔ اس شخص کی غلطیوں سے درگزر کرتا ہے جو توبہ کر کے اس کی طرف لوٹتا ہے، وہ اس شخص کو بھی اپنی مغفرت سے نوازے گا جو اپنی ذات سے صرف نظر کر کے اپنا کچھ حق اپنے بھائی کے لیے چھوڑ دیتا ہے، اس لیے کہ جو نرمی اختیار کرتا ہے، اللہ تعالیٰ بھی اس کے ساتھ نرمی اختیار کرتا ہے۔ اسی طرح وہ اس مرنے والے کو بھی بخش دینے والا ہے جو اپنی وصیت میں ظلم کا ارتکاب کر گیا ہے، بشرطیکہ اس کے ورثا اس کو بری الذمہ کرنے کی خاطر، اللہ کی رضا کے لیے آپس میں نرمی اور درگزر کا معاملہ اختیار کریں۔ ﴿ رَّحِیْمٌ ﴾یعنی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر نہایت رحم کرنے والا ہے، کیونکہ اس نے اپنے بندوں پر ہر معاملہ اس طرح مشروع کیا ہے کہ وہ اس کے ذریعے سے ایک دوسرے کے ساتھ مہربانی اور نرمی سے معاملہ کریں۔ یہ آیات کریمہ وصیت کی ترغیب پر دلالت کرتی ہیں، نیز اس امر پر بھی دلالت کرتی ہیں کہ جس شخص کے لیے وصیت کی گئی ہے اس کو بیان کیا جائے اور ان میں اس شخص کے لیے سخت وعید ہے جو جائز وصیت میں تغیر و تبدل کا مرتکب ہوتا ہے اور ظلم پر مبنی وصیت میں اصلاح کرنے کی ترغیب ہے۔ البقرة
183 اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ اس نے اپنے بندوں پر احسان فرماتے ہوئے ان پر روزے فرض کیے جس طرح اس نے پہلی امتوں پر روزے فرض کیے تھے، کیونکہ روزے کا تعلق ایسی شرائع اور اوامر سے ہے جو ہر زمانے میں مخلوق کی بھلائی پر مبنی ہیں۔ نیز روزے اس امت کو اس جرأت پر آمادہ کرتے ہیں کہ وہ اعمال کی تکمیل اور خصائل حسنہ کی طرف سبقت کرنے میں دوسرے لوگوں سے مقابلہ کریں، نیز روزے بوجھل اعمال میں سے نہیں ہیں جن کا صرف تمہیں ہی بطور خاص حکم دیا گیا ہو۔ پھر اللہ تعالیٰ نے روزے کی مشروعیت کی حکمت بیات کرتے ہوئے فرمایا : ﴿لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْن﴾ ” تاکہ تم متقی بن جاؤ۔“ کیونکہ روزہ تقویٰ کا سب سے بڑا سبب ہے۔ اس لیے کہ روزے میں اللہ تعالیٰ کے حکم کی کامل اطاعت اور اس کی نہی سے مکمل اجتناب ہے۔ پس یہ آیت کریمہ تقویٰ کے جن امور پر مشتمل ہے وہ یہ ہیں کہ روزہ دار کھانا پینا اور جماع وغیرہ اور ان تمام چیزوں کو چھوڑ دیتا ہے جنہیں وقتی طور پر اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے حرام قرار دیا ہے اور جن کی طرف نفس کا میلان ہوتا ہے، لیکن وہ صرف تقریب الٰہی اور ثواب کی امید پر ان چیزوں کو ترک کردیتا ہے اور یہی تقویٰ ہے۔ روزے دار اپنے نفس کو یہ تربیت دیتا ہے کہ وہ ہر وقت اللہ کی نگرانی میں ہے، چنانچہ وہ اپنی خواہشات نفس کو پورا کرنے کی قدرت رکھنے کے باوجود انہیں ترک کردیتا ہے، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اللہ ان پر مطلع ہے۔ روزہ شیطان کی راہوں کو تنگ کردیتا ہے۔ شیطان ابن آدم کے اندر یوں گردش کرتا ہے جیسے اس کی رگوں میں خون گردش کرتا ہے۔ روزے کے ذریعے سے شیطان کا اثر و نفوذ کمزور پڑجاتا ہے اور گناہ کم ہوجاتے ہیں۔ غالب حالات میں روزہ دار کی نیکیوں میں اضافہ ہوجاتا ہے اور نیکیاں تقویٰ کے خصائل میں شمار ہوتی ہیں۔ جب خوشحال روزہ دار بھوک کی تکلیف کا مزا چکھ لیتا ہے تو یہ چیز محتاجوں اور ناداروں کی غمگساری اور دستگیری کی موجب بنتی ہے اور یہ بھی تقویٰ کی ایک خصلت ہے۔ البقرة
184 چونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس نے اہل ایمان پر روزے فرض کردیئے، اس لیے یہ بھی واضح کردیا جکہ یہ گنتی کے چند روزے ہیں۔ سہولت کی خاطر ان کی تعداد بہت تھوڑی ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ایک اور سہولت عطا کردی، چنانچہ فرمایا : ﴿ فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَ یَّامٍ اُخَرَ ۭ ﴾” پس جو شخص تم میں سے بیمار ہو یا سفر میں ہو تو دوسرے دنوں میں روزوں کی تعداد پوری کرلے۔“ چونکہ غالب طور پر مریض کو اور مسافر کو دوران سفر مشقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو روزہ چھوڑنے کی رخصت عطا کردی ہے۔ چونکہ روزے کی منفعت و مصلحت کا حصول ہر ممکن کا مطلوب و مقصود ہے۔ اس لیے مریض اور مسافر کو حکم دیا کہ جب مرض جاتا رہے اور سفر ختم ہوجائے اور انسان کو راحت حاصل ہوجائے تو چھوڑے ہوئے روزوں کی قضا دیں۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَ یَّامٍ اُخَرَ ۭ ﴾میں اس بات کی دلیل ہے کہ رمضان کے دنوں کی گنتی کی قضا دی جائے خواہ رمضان پورا ہو یا ناقص۔ نیز اس میں اس بات کی بھی دلیل ہے کہ گرمیوں کے طویل دنوں کی قضا سردیوں کے چھوٹے دنوں میں دی جاسکتی ہے اور اس کے برعکس چھوٹے دنوں کی قضا بڑے دنوں میں دی جاسکتی ہے۔ ﴿ وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہٗ ﴾” اور ان لوگوں پر جو اس کی طاقت رکھتے ہوں۔“ یعنی جو روزے رکھنے کی طاقت رکھتے ہیں، لیکن اس کے باوجود وہ روزہ نہ رکھیں، تو وہ ﴿فِدْيَةٌ﴾ فدیہ دیں ﴿ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ ۭ﴾” ایک مسکین کا کھانا۔“ یعنی ایک روزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلائیں۔ یہ حکم روزوں کے فرض ہونے کی ابتدا میں تھا چونکہ انہیں روزے رکھنے کی عادت نہیں تھی اور روزے ان پر فرض تھے، تاہم اس میں ان کے لیے مشقت تھی، اس لیے رب حکیم نے نہایت آسان طریقے کے ساتھ انہیں اس راستے پر لگایا اور روزے کی طاقت رکھنے والے کو اللہ نے اختیار دے دیا کہ چاہے تو روزہ رکھ لے اور چاہے تو ایک روزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا دے۔ مگر روزہ رکھنا افضل ہے۔ اسی لیے فرمایا : ﴿ وَاَنْ تَصُوْمُوْا خَیْرٌ لَّکُمْ﴾” اگر تم روزہ رکھو تو تمہارے لیے بہتر ہے۔‘‘ اس کے بعد اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہر اس مسلمان پر روزہ رکھنا فرض کردیا جو روزہ رکھنے کی طاقت رکھتا ہو اور طاقت نہ رکھنے والے شخص کو روز چھوڑنے اور دوسرے دنوں میں اس کی قضا دینے کی رخصت دے دی اور بعض کہتے ہیں کہ ﴿ وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہٗ ﴾کا معنی یہ ہے کہ وہ لوگ جو بہت تکلیف سے روزہ رکھتے ہیں۔ یعنی وہ روزے کی مشقت کے متحمل نہیں، جیسے بہت بوڑھا وغیرہ تو وہ روزہ کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا کھلائے اور یہی مسلک صحیح ہے۔ البقرة
185 ﴿ شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ﴾” رمضان کا مہینہ جس میں قرآن نازل ہوا۔‘‘ یعنی جو روزے تم پر فرض کیے ہیں وہ رمضان کے روزے ہیں، یہ ایک ایسا عظمت والا مہینہ ہے جس میں تمہیں اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا فضل حاصل ہوا، یعنی قرآن کریم جو تمہارے دینی اور دنیاوی مصالح کی طرف رہنمائی پر مشتمل ہے۔ جو حق کو نہایت وضاحت سے بیان کرتا ہے اور جو حق اور باطل، ہدایت اور گمراہی اور خوش بخت اور بدبخت لوگوں کے درمیان پرکھنے کی کسوٹی ہے۔ وہ مہینہ جس کی یہ فضیلت ہو جس میں تمام پر اللہ تعالیٰ کا اس قدر احسان اور فضل ہو، اس بات کا مستحق ہے کہ وہ بندوں کے لیے نیکیوں کا مہینہ بنے اور اس کے اندر روزے فرض کیے جائیں۔ جب اللہ تعالیٰ نے اس مہینہ کو روزوں کے لیے مقرر کردیا اور اس نے اس کی فضیلت اور روزوں کے لیے اس کو مختص کرنے کی حکمت کو واضح کردیا، تو فرمایا : ﴿ فَمَنْ شَہِدَ مِنْکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ ۭ﴾” پس جو تم میں سے اس مہینے کو پا لے، تو وہ اس کے روزے رکھے“ اس آیت کریمہ میں یہ بات متعین کردی گئی کہ ہر صحت مند شخص جو سفر میں نہ ہو اور روزے رکھنے کی طاقت رکھتا ہو وہ رمضان کے روزے رکھے۔ چونکہ نسخ کا تعلق اس اختیار سے ہے جو خاص طور پر روزہ رکھنے اور فدیہ دینے کے درمیان دیا گیا تھا، اس لیے مریض اور مسافر کے لیے رخصت کو دوبارہ بیان کردیا گیا، تاکہ اس وہم کا ازالہ ہوجائے کہ مریض اور مسافر کے لیے بھی رخصت منسوخ ہوگئی ہے۔ پس فرمایا : ﴿یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلَا یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ ﴾ تمہارے ساتھ آسانی کا ارادہ کرتا ہے، تم پر سختی کرنا نہیں چاہتا“ یعنی اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ وہ تم پر اپنی رضا کے راستے حد درجہ آسان کر دے۔ اس لیے ان تمام امور کو جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر فرض قرار دیا ہے، اصل میں حد درجہ آسان بنایا ہے اور جب کوئی ایسا عارضہ پیش آجائے جو ان کی ادائیگی کو مشکل اور بوجھل بنا دے تو اللہ تعالیٰ نے ان کو ایک اور طرح سے آسان کردیا۔ یا تو سرے سے اس فرض ہی کو ساقط کردیا یا ان میں مختلف قسم کی تحقیقات سے نواز دیا۔ یہ اس (آسانی) کا اجمالاً ذکر ہے۔ یہاں تفاصیل بیان کرنا ممکن نہیں، کیونکہ اس کی تفاصیل تمام شرعیات کا احاطہ کیے ہوئے ہیں اور ان شرعیات میں تمام رخصتیں اور تحقیقات شامل ہیں۔ ﴿ وَلِتُکْمِلُوا الْعِدَّۃَ ﴾’’اور تاکہ تم اس کی گنتی کو پورا کرو۔“ اس آیت کریمہ کا مقصد یہ ہے۔ واللہ اعلم کہ کوئی شخص اس وہم میں مبتلا نہ ہو کہ رمضان کے چند روزے رکھنے سے مقصود و مطلوب حاصل ہوسکتا ہے۔ اس آیت کریمہ میں روزوں کی تکمیل کے حکم کے ذریعے سے اس وہم کا ازالہ کردیا گیا، نیز حکم دیا گیا کہ روزوں کے مکمل ہونے پر بندوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی توفیق، سہولت اور تبیین کا شکر ادا کیا جائے۔ رمضان کے اختتام اور روزوں کے پورے ہونے پر تکبیریں کہی جائیں۔ اس حکم میں وہ تمام تکبیریں شامل ہیں جو شوال کا چاند دیکھ کر خطبہ عید سے فراغت تک کہی جاتی ہیں۔ البقرة
186 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا ’’کیا ہمارا رب قریب ہے کہ ہم اس سے سرگوشی کے انداز میں مناجات کریں یا وہ دور ہے کہ ہم اسے پکاریں؟“ اس سوال کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی ﴿ وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ ۭ ﴾” اور جب تجھ سے میرے بندے میری بابت پوچھیں تو (ان کو بتلا دیں کہ) میں قریب ہوں“ کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کی نگہبانی کرنے والا اور اسے دیکھنے والا ہے وہ ہر بھید اور ہر چھپی ہوئی چیز کی اطلاع رکھتا ہے۔ وہ آنکھوں کی خیانت اور سینوں میں مدفون رازوں کو جانتا ہے۔ وہ دعا قبول کرنے کے اعتبار سے بھی پکارنے والے کے قریب ہے۔ اسی لیے فرمایا ﴿ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ ۙ﴾” جب کوئی پکارنے والا مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں۔“ دعا کی دو اقسام ہیں۔ (1) دعائے عبادت۔ (2) دعائے سوال۔ اسی طرح قرب کی بھی دو قسمیں ہیں۔ (1) اپنے علم کے اعتبار سے اپنی تمام مخلوق کے قریب ہونا۔ (2) دعا کی قبولیت، مدد اور توفیق کے ساتھ اپنے عبادت گزار بندوں اور پکارنے والے کے قریب ہونا۔ جو کوئی حضور قلب کے ساتھ اپنے رب سے کوئی ایسی دعا کرتا ہے جو مشروع ہو اور قبولیت دعا میں کوئی مانع بھی نہ ہو، مثلاً حرام کھانا وغیرہ، تو اللہ تعالیٰ نے ایسی دعا قبول کرنے کا وعدہ فرمایا ہے۔ خاص طور پر جب بندہ ایسے اسباب اختیار کرتا ہے جو اجابت دعا کے موجب ہیں، مثلاً اللہ تعالیٰ کے قولی اور فعلی اوامرونواہی کے سامنے سرافگندہ ہونا اور اس پر ایمان لانا، جو قبولیت دعا کا موجب ہے۔ بنا بریں فرمایا : ﴿ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَلْیُؤْمِنُوْابِی﴾ْ” پس ان کو چاہئے کہ وہ میری بات مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں، تاکہ وہ راہ راست پا لیں“ یعنی ان کو وہ رشد عطا ہوگی جو ایمان اور اعمال صالحہ اختیار کرنے کا نام ہے اور ان سے وہ گمراہی زائل ہوجائے گی جو ایمان اور اعمال صالحہ کے منافی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا اور اس کے احکام کی اطاعت کرنا حصول علم کا سبب ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿  يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن تَتَّقُوا اللَّـهَ يَجْعَل لَّكُمْ فُرْقَانًا ﴾(الانفال: 8؍ 29) ” اے ایمان دارو ! اگر تم اللہ سے ڈرو تو وہ تمہارے لیے حق و باطل کے درمیان امتیاز کرنے والی کسوٹی بہم پہنچا دے گا۔ “ البقرة
187 روزوں کے فرض کیے جانے کے بعد شروع شروع میں مسلمانوں پر رات کے وقت سو جانے کے بعد کھانا پینا اور جماع وغیرہ حرام تھا، بنا بریں بعض اصحاب کے لیے یہ چیز مشقت کا باعث ہوئی، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے اس حکم میں تخفیف فرما دی اور رمضان کی راتوں میں ان کے لیے کھانا پینا اور جماع مباح قرار دے دیا۔ خواہ وہ سویا ہو یا نہ سویا ہو اور اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ کچھ ایسے امور کو ترک کر کے جن کا انہیں حکم دیا گیا تھا، اپنے نفسوں کے ساتھ خیانت کرتے تھے۔ ﴿فَتَابَ عَلَیْکُمْ ﴾” پس اس (اللہ تعالیٰ) نے تم پر رجوع کیا“ بایں طور کہ اس نے تمہارے لیے اس معاملے میں وسعت پیدا کردی، اگر اس میں یہ وسعت پیدا نہ کی جاتی تو یہ معاملہ گناہ کا موجب بنتا۔ ﴿ وَعَفَا عَنْکُمْ ۚ ﴾” اور تم سے درگزر فرمایا“ یعنی جو کچھ خیانت ہوچکی اللہ تعالیٰ نے اس پر تمہیں معاف کردیا۔ ﴿ فَالْئٰنَ﴾” پس اب“ یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس رخصت اور وسعت کے بعد ﴿بَاشِرُوْھُنَّ﴾” ان سے مباشرت کرو۔“ یعنی اپنی بیویوں کے ساتھ مباشرت یعنی جماع، بوس و کنار اور لمس وغیرہ کرو۔ ﴿ وَابْتَغُوْا مَا کَتَبَ اللّٰہُ لَکُمْ﴾’’اور اس چیز کو تلاش کرو، جو اللہ نے تمہارے لیے لکھی ہے“ یعنی اپنی بیویوں کے ساتھ مباشرت میں تقریب الٰہی اور جماع کے سب سے بڑے قصد کو مدنظر رکھو اور وہ ہے حصول اولاد، خود اپنی اور اپنی بیوی کی عفت کی حفاظت اور نکاح کے مقاصد کا حصول۔ نیز رمضان کی راتوں میں اللہ تعالیٰ نے شب قدر کی موافقت کو جو تمہارے لیے مقرر کر رکھا ہے (اس کے حصول کی کوشش کرو) اور تمہارے شایاں نہیں کہ تم شب قدر کے حصول کی کوشش کو چھوڑ کر اس لذت میں مصروف ہوجاؤ اور شب قدر کو ضائع کردو یہ لذت تو پھر بھی حاصل ہوسکتی ہے لیکن اگر شب قدر کے حصول کی فضیلت سے محروم ہوگئے تو یہ فضیلت کبھی حاصل نہیں ہوسکے گی۔ ﴿ وَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ۠ ﴾” اور کھاؤ اور پیؤ، یہاں تک کہ سفید دھاگہ سیاہ دھاگے سے واضح (یعنی) فجر ہوجائے“ یہ کھانے پینے اور جماع کے وقت کی آخری حد ہے۔ اس آیت کریمہ میں اس امر کی دلیل ہے کہ طلوع فجر کے وقت میں کچھ شک ہو، تو اس وقت میں کچھ کھا پی لیا جائے تو کوئی حرج نہیں۔ یہ آیت سحری کھانے کے استحباب پر بھی دلیل ہے، کیونکہ اس میں کھانے پینے کے لیے امر کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے۔ نیز اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ سحری کے وقت کھانے پینے میں تاخیر کی جائے۔ یعنی آخری وقت میں سحری کھائی جائے، کیونکہ سحری کا حکم اللہ نے لوگوں کی آسانی ہی کے لیے دیا ہے، اس لیے اس میں جتنی تاخیر کی جائے گی، اتنی ہی سہولت بھی زیادہ ہوگی۔ اس میں اس امر کے جواز کی بھی دلیل ہے کہ اگر جماع کی وجہ سے حالت جنابت میں انتہائے سحر ہوجائے اور وہ غسل نہ کرسکا ہو تو اس کا روزہ صحیح ہے، اس لیے کہ طلوع فجر تک جماع کی اباحت کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ جب فجر ہوگی تو وہ اس وقت جنبی ہوگا اور حق کو لازم ہونے والا امر بھی حق ہوتا ہے۔ ﴿ثُمَّ﴾” پھر“ یعنی جب فجر طلوع ہوجائے ﴿ اَتِمُّوا الصِّیَامَ﴾” تو روزے کو پورا کرو“ یعنی روزہ توڑنے والے افعال کے ارتکاب سے رکے رہو ﴿ اِلَی الَّیْلِ ۚ﴾” رات تک“ یعنی غروب آفتاب تک۔ رمضان کی راتوں میں جماع کی جو اجازت دی گئی ہے چونکہ یہ ہر شخص کے لیے عام نہیں، کیونکہ اعتکاف میں بیٹھنے والے کے لیے جماع جائز نہیں، چنانچہ اس استثناء کو اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے : ﴿ وَلَا تُـبَاشِرُوْھُنَّ وَاَنْتُمْ عٰکِفُوْنَ ۙ فِی الْمَسٰجِدِ ۭ﴾” اور جب مسجدوں میں اعتکاف بیٹھے ہو تو ان سے مباشرت نہ کرو۔“ یعنی جب تم اعتکاف کی صفت سے متصف ہو تو تم اپنی بیویوں سے مباشرت (ہم بستری، بوس و کنار وغیرہ) نہ کرو۔ یہ آیت کریمہ اعتکاف کی مشروعیت پر دلالت کرتی ہے اور وہ ہے دنیاوی امور سے منقطع ہو کر اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی خاطر مسجد میں گوشہ گیر ہوجانا۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ مسجد کے سوا کسی اور جگہ اعتکاف صحیح نہیں اور مساجد کی تعریف سے یہ بھی مستفاد ہوتا ہے کہ یہاں مساجد سے مراد وہ مساجد ہیں جو مسلمانوں کے ہاں معروف ہیں اور یہ وہ مساجد ہیں جہاں پانچ وقت جماعت ہوتی ہو۔ نیز اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ جماع ان امور میں سے ہے جن سے اعتکاف فاسد ہوجاتا ہے۔ یہ تمام مذکورہ امور، مثلاً روزے کی حالت میں کھانے پینے اور جماع کی ممانعت جن سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے، غیر معذور کے لیے روزہ چھوڑ دینے کی ممانعت اور اعتکاف میں بیٹھنے والے کے لیے جماع کی حرمت وغیرہ﴿حُدُوْدُ اللّٰہِ﴾” اللہ کی حدیں ہیں“ جنہیں اس نے بندوں کے لیے مقرر کیا ہے اور ان کو توڑنے سے انہیں منع کیا ہے۔ ﴿ فَلَا تَقْرَبُوْھَا ۭ﴾ ” پس تم ان کے قریب مت جاؤ“ اللہ تبارک و تعالیٰ کا یہ ارشاد ﴿ فَلَاتَفْعَلُوھَا ﴾” پس تم ان کا ارتکاب مت کرو“ سے زیادہ بلیغ ہے۔ کیونکہ ” قریب جانے“ کے لفظ میں نفس فعل کی حرمت اور اس فعل حرام تک پہنچانے والے وسائل و ذرائع کی حرمت سب شامل ہیں اور بندہ مومن تمام محرمات کو ترک کرنے، حتی الامکان ان سے دور رہنے اور ان تمام اسباب کو ترک کرنے پر مامور ہے جو ان محرمات کی طرف دعوت دیتے ہیں۔ رہے اوامر تو اللہ تعالیٰ ان کے بارے میں فرماتا ہے : ﴿تِلْكَ حُدُودُ اللَّـهِ فَلَا تَعْتَدُوهَا ﴾(البقرة: 229؍2) ” یہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حدیں ہیں ان سے تجاوز نہ کرو۔“ پس اللہ تعالیٰ نے ان حدود سے باہر نکلنے سے روک دیا۔ ﴿کَذٰلِکَ﴾” اسی طرح“ یعنی جیسے اللہ تعالیٰ نے گزشتہ احکام کو اپنے بندوں کے سامنے اچھی طرح بیان اور مکمل طور پر واضح کردیا ہے﴿  يُبَيِّنُ اللَّـهُ آيَاتِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ﴾” اللہ بیان کرتا ہے اپنی نشانیاں لوگوں کے لیے تاکہ وہ بچیں“ اس لیے کہ جب حق ان کے لیے واضح ہوجائے گا تو وہ اس کی پیروی کریں گے اسی طرح جب باطل ان کے سامنے عیاں ہوجائے گا تو وہ اس سے اجتناب کریں گے، کیونکہ کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ انسان فعل حرام کا ارتکاب محض اس وجہ سے کر بیٹھتا ہے کہ ا سے اس کے حرام ہونے کا علم نہیں ہوتا، اگر اسے اس کی حرمت کا علم ہوتا، تو وہ کبھی اس کا ارتکاب نہ کرتا اور جب اللہ تعالیٰ نے ان کے سامنے اپنی آیات کو کھول کھول کر بیان کردیا، تو ان کے پاس کوئی عذر اور کوئی حجت باقی نہ رہی اور یہ چیز تقویٰ کا سبب ہے۔ البقرة
188 ﴿ وَلَا تَاْکُلُوْٓا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ﴾” اور اپنے مال آپس میں باطل طریقے سے مت کھاؤ“ کھانے سے مراد لینا ہے اور اپنے مال سے مراد دوسرے لوگوں کا مال ہے۔ دوسروں کے مال کو اپنا مال اس لیے کہا کہ مسلمان کے شایاں یہی ہے کہ وہ اپنے بھائی کے لیے وہی کچھ پسند کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے اور اپنے بھائی کے مال کا اسی طرح احترام کرے جس طرح وہ اپنے مال کا احترام کرتا ہے۔ دوسرے کے مال کو اپنا مال کہنے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ دوسرے کا مال کھائے گا تو دوسرا شخص بھی جب اس کو قدرت حاصل ہوگی، تو اس کا مال کھانے کی جسارت کرے گا۔ (اس لیے کسی دوسرے کا مال کھانا ایسا ہی ہے جیسے وہ اپنا مال کھا رہا ہے) چونکہ مال کھانے کی دو قسمیں ہیں : (١) حق کے ساتھ مال کھانا۔ (2) اور باطل طریقے سے مال کھانا اور حرام صرف باطل طریقے سے مال کھانا ہے اس لیے یہاں اس کو ” باطل“ سے مقید کیا ہے اور اس میں غصب کر کے، چور ی کر کے، امانت میں خیانت کر کے کے اور ادھار لی ہوئی چیز کا انکار کر کے مال کھانا، سب شامل ہے۔ نیز اس میں وہ معاوضہ بھی شامل ہے جو حرام ہے، جیسے سودی لین دین اور ہر قسم کے جوئے سے حاصل شدہ مال، کیونکہ یہ مال کسی جائز معاوضے کے طور پر حاصل نہیں ہوا۔ باطل طریقے سے مال کھانے میں خرید و فروخت اور اجارہ میں دھوکہ اور ملاوٹ کے ذریعے سے حاصل کیا ہوا مال بھی شامل ہے۔ مزدوروں سے کام لینا اور پھر ان کی اجرت کھا جانا بھی باطل طریقے سے مال کھانا ہے۔ اسی طرح ان مزدوروں کا کسی کام کی اجرت لینا اور اس کے عوض پورا کام نہ کرنا بھی حرام کھانا اور باطل ہے۔ ان عبادات اور تقرب الٰہی کے کاموں پر اجرت لینا جو اس وقت تک صحیح نہیں ہوتیں جب تک ان میں صرف رضائے الٰہی مقصود نہ ہو، باطل طریقے ہی سے مال کھانے میں داخل ہے۔ اس حرام کھانے میں ان لوگوں کا زکوٰۃ، صدقات، اوقات اور وصیتوں کا مال کھانا بھی داخل ہے جو اس مال کے مستحق نہیں، یا وہ مستحق تو تھے مگر اپنے حق سے زیادہ مال وصول کیا۔ (مال کھانے کی) مذکورہ بالا اور ان جیسی دیگر تمام اقسام باطل طریقے سے مال کھانے کے زمرے میں داخل ہیں۔ جس کا کھانا کسی بھی پہلو سے جائز نہیں۔ حتی ٰکہ اگر اس میں نزاع واقع ہوجائے اور جھگڑا شرعی عدالت میں چلا جائے اور وہ فریق جو باطل طریقے سے مال کھانا چاہتا ہے کوئی ایسی دلیل پیش کرتا ہے جو اصلی حق دار کی دلیل پر غالب آجاتی ہے اور حاکم اس دلیل کی بنیاد پر اس کے حق میں فیصلہ کردیتا ہے۔ (تو عدالتی فیصلے کے باوجود یہ مال حرام اور باطل ہی رہے گا) اس لیے کہ کسی حاکم کا فیصلہ کسی حرام کو حلال اور حلال کو حرام نہیں کرسکتا، کیونکہ حاکم تو صرف پیش کردہ دلائل سن کر فیصلہ کرتا ہے ورنہ معاملات کے اصل حقائق تو اپنی جگہ موجود رہتے ہیں، اس لیے باطل طریقے سے مال ہڑپ کرنے والے کے لیے حاکم کے فیصلے میں کوئی خوشی اور اس مال کے باطل ہونے میں کوئی شبہ اور اس کے لیے کوئی راحت نہیں۔ بنابریں جو کوئی جھوٹے ثبوت کے ساتھ کوئی جھوٹا مقدمہ حاکم کی عدالت میں دائر کرتا ہے اور حاکم اس ثبوت کی بنیاد پر اس کے حق میں فیصلہ کردیتا ہے، تو یہ مال اس شخص کے لیے جائز نہیں اور وہ غیر کے مال کو جانتے بوجھتے باطل اور گناہ کے طریقے سے کھانے کا مرتکب ہوگا، اس لیے وہ سخت ترین سزا اور عقوبت کا مستحق ہے۔ اسی بنا پر جب وکیل کو یہ معلوم ہوجائے کہ اس کا موکل اپنے دعوے میں جھوٹا ہے، تو اس کے لیے اس خائن کی وکالت کرنا جائز نہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿ وَلَا تَكُن لِّلْخَائِنِينَ خَصِيمًا﴾  (النساء: 105؍4) ” اور خیانت کرنے والوں کی حمایت میں کبھی جھگڑا نہ کرنا۔ “ البقرة
189 ﴿ الْاَہِلَّۃِ ۭ﴾(ہلال) جمع ہے، یعنی وہ سوال کرتے ہیں کہ چاند کا کیا فائدہ اور اس میں کیا حکمت ہے یا چاند کیا چیز ہے؟ ﴿ قُلْ ھِیَ مَوَاقِیْتُ لِلنَّاسِ﴾” کہہ دیجیے ! یہ اوقات مقررہ ہیں لوگوں کے لیے“ یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے لطف و کرم سے اسے درج ذیل نظم و تدبیر پر تخلیق کیا ہے۔ مہینے کے آغاز میں چاند بہت باریک اور کمزور سا ظاہر ہوتا ہے۔ پھر مہینے کے نصف تک بڑھتا چلا جاتا ہے۔ پھر گھٹنا شروع ہوجاتا ہے اور مہینے کے پورا ہونے تک گھٹتا رہتا ہے۔ (اس طرح یہ سلسلہ مستقل جاری رہتا ہے) اس میں حکمت یہ ہے کہ لوگ اس ذریعے سے اپنی عبادات کے اوقات، مثلاً روزوں، زکوٰۃ کے اوقات، کفارے اور حج کے اوقات پہچان لیں اور چونکہ حج متعین مہینوں میں ہوتا ہے اور بہت زیادہ وقت اس میں صرف ہوتا ہے، اس لیے ﴿ وَالْحَجِّ ۭ ﴾فرما کر اس کا خصوصی طور پر ذکر کیا، یعنی چاند کے ذریعے سے حج کے مہینوں کا بھی علم ہوتا ہے۔ اسی طرح چاند کے ذریعے سے مدت معینہ پر ادا کیے جانے والے قرض، اجارات، عدت طلاق و وفات اور حمل وغیرہ کی مدت اور اوقات معلوم کیے جاتے ہیں جو کہ مخلوق کی ضرورت ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے چاند کو ایسا حساب بنایا کہ جس سے ہر چھوٹا بڑا اور عالم و جاہل سب معلوم کرلیتے ہیں۔ اگر یہ حساب تقویم شمسی کے ذریعے سے ہوتا، تو چند لوگ ہی اس حساب کی معرفت حاصل کرسکتے۔ ﴿ وَلَیْسَ الْبِرُّ بِاَنْ تَاْتُوا الْبُیُوْتَ مِنْ ظُہُوْرِھَا ﴾” نیکی یہ نہیں کہ تم گھروں کو پچھواڑے سے آؤ“ یہ انصار وغیرہ اور بعض دیگر عربوں کے اس طریقے کی طرف اشارہ ہے کہ جب وہ حج کے لیے احرام باندھ لیتے تھے تو اپنے گھروں میں دروازوں میں سے داخل نہیں ہوتے تھے (بلکہ پچھواڑے سے داخل ہوتے تھے) اور اسے وہ نیکی اور عبادت تصور کرتے تھے۔ پس اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ ایسا کرنا نیکی نہیں ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسے مشروع نہیں کیا اور ایسا شخص جو کسی ایسی عبادت کا التزام کرتا ہے جسے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے مشروع قرار نہیں دیا، تو بدعت کا ارتکاب کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا کہ دروازوں سے اپنے گھروں میں داخل ہوا کریں، کیونکہ اسی میں ان کے لیے سہولت ہے جو شریعت کے قواعد میں سے ایک قاعدہ ہے۔ اس آیت کریمہ کے اشارہ سے یہ بھی مستفاد ہوتا ہے کہ تمام معاملات میں مناسب یہی ہے کہ انسان آسان اور قریب ترین راستہ استعمال کرے جسے اس منزل تک پہنچنے کے لیے مقرر کیا گیا ہو۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ سر انجام دینے والے کو چاہئے کہ وہ مامور کے احوال کو مدنظر رکھے۔ نرمی اور ایسی حکمت عملی سے کام لے جس سے پورا مقصد یا اس سے کچھ حصہ حاصل ہوسکتا ہو۔ متعلم اور معلم دونوں کو چاہئے کہ وہ اپنے مقصد کے حصول کے لیے قریب ترین اور سہل ترین راستہ استعمال کریں۔ اسی طرح ہر وہ شخص جو کسی کام کا ارادہ کرتا ہے اور وہ اس کے لیے صحیح راستے سے داخل ہوتا ہے اور ہمیشہ اسی اصول پر عمل کرتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی مدد سے ضرور اپنے مقصد کو پا لے گا۔ ﴿ وَاتَّقُوا اللّٰہَ﴾” اور اللہ سے ڈرتے رہو“ اور یہی حقیقی نیکی ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اور وہ ہے دائمی طور پر تقویٰ کا التزام، یعنی اس کے اوامر کے سامنے سرافگندہ ہونا اور اس کی منہیات سے اجتناب کرنا۔ تقوی ٰ فلاح کا سبب ہے جس کے ذریعے سے مطلوب (جنت) کے حصول میں کامرانی اور ڈرائے گئے امر (عذاب) سے نجات حاصل ہوتی ہے۔ پس جو اللہ تعالیٰ سے نہیں ڈرتا اس کے لیے فوز و فلاح کا کوئی راستہ نہیں اور جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے وہی فوز و فلاح اور کامیابی و کامرانی سے شاد کام ہوگا۔ البقرة
190 یہ آیات کریمہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد اور قتال کو متضمن ہیں اور مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کے بعد جب مسلمان طاقتور ہوگئے، تو اللہ تعالیٰ نے ان کو اس قتال کا حکم دیا جب کہ اس سے قبل ان کو حکم تھا کہ وہ اپنے آپ کو لڑائی سے روکے رکھیں۔ قتال کو ﴿ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ﴾ کے ساتھ مختص کرنے میں، اخلاص کی ترغیب اور فتنوں کے زمانے میں مسلمانوں کے آپس میں لڑنے کی ممانعت ہے۔ ﴿ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَکُمْ﴾” جو تم سے لڑتے ہیں۔“ یعنی ان لوگوں کے ساتھ قتال کرو جو تمہارے ساتھ لڑنے کی تیاری کرتے ہیں۔ یہ ذمے دار لڑنے کی اہلیت رکھنے والے کافر مرد ہیں، نہ کہ وہ بوڑھے جو لڑ سکتے ہیں اور نہ لڑائی میں کوئی مشورہ دے سکتے ہیں۔ حد سے تجاوز کرنے کی ممانعت میں ظلم و تعدی کی تمام انواع شامل ہیں جیسے عورتوں، بچوں، بے عقل لوگوں اور راہبوں وغیرہ کو قتل کرنا جو لڑائی میں شریک نہ ہوں۔ جنگ کے دوران مقتولین کا مثلہ کرنا (یعنی مقتول کے کان، ناک اور پوشیدہ اعضاء کاٹنا، آنکھیں نکال دینا اور پیٹ چاک کرنا) اور مسلمانوں کی کسی مصلحت کے بغیر جانوروں کو قتل کرنا اور درخت وغیرہ کاٹنا، سب ظلم وتعدی میں شمار ہوگا۔ جب کفار جزیہ قبول کر کے اس کو ادا کرچکے ہوں تو ان کے خلاف لڑنا بھی ظلم و تعدی ہے جو کہ ہرگز جائز نہیں۔ البقرة
191 ﴿ وَاقْتُلُوْھُمْ حَیْثُ ثَقِفْتُمُوْھُمْ﴾ ” اور مار ڈالو ان کو جہاں کہیں بھی پاؤ تم ان کو“ یہ ان کے ساتھ قتال کا حکم ہے ہر وقت اور ہر زمانے میں جہاں کہیں بھی وہ پائے جائیں ان کے خلاف مدافعانہ اور جارحانہ جنگ جاری رہے۔ پھر اس عموم سے مسجد حرام کے قریب قتال کرنے کو مستثنیٰ کردیا، کیونکہ مسجد حرام کے قریب لڑنا جائز نہیں، البتہ اگر وہ مسجد حرام کے قریب لڑائی کی ابتدا کریں تو پھر ان کے خلاف لڑائی کی جائے یہ ان کے ظلم و زیادتی کا بدلہ ہے۔ یہ کفار کے خلاف، ہر وقت اور دائمی قتال و جہاد ہے یہاں تک کہ وہ کفر کو چھوڑ کر اسلام قبول کرلیں۔ (اگر وہ ایسا کرلیں) تو یقیناً اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول کرنے والا ہے۔ اگرچہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کیا، مسجد حرام میں شرک کا ارتکاب کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اہل ایمان کو مسجد حرام میں داخل ہونے سے روکا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں پر رحمت اور اس کا کرم ہے، چونکہ مسجد حرام کے قریب لڑنے کی ممانعت سے یہ وہم لاحق ہوتا ہے کہ یہ لڑائی اس محترم شہر کے اندر گویا فساد برپا کرنا ہے، تو اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ اس حرمت والے شہر کے اندر فتنہ شرک اور اللہ تعالیٰ کے دین سے لوگوں کو روکنے کے مفاسد، قتل کے مفاسد سے بڑھ کر ہیں، لہٰذا اے مسلمانو ! تمہارے لیے ان کے خلاف لڑنے میں کوئی حرج نہیں۔ اس آیت کریمہ سے فقہ کے ایک مشہور قاعدہ پر استدلال کیا جاتا ہے کہ دو برائیوں میں سے (جب ایک برائی کو اختیار کرنا لابدی ہو تو) کم تر برائی کو اختیار کیا جائے، تاکہ بڑی برائی کا سدباب کیا جا سکے۔ البقرة
192 البقرة
193 پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے راستے میں اس قتال اور جہاد کا مقصد بیان فرمایا ہے۔ قتال فی سبیل اللہ کا مقصد یہ نہیں کہ کفار کا خون بہایا جائے اور انکے اموال لوٹ لیے جائیں، بلکہ جہاد کا مقصد صرف یہ ہے ﴿ وَّیَکُوْنَ الدِّیْنُ لِلّٰہِ ۭ ﴾” کہ دین اللہ کا ہوجائے“ یعنی اللہ تعالیٰ کا دین تمام ادیان پر غالب آجائے اور شرک وغیرہ اور ان تمام نظریات کا قلع قمع کردیا جائے جو اللہ کے دین کے منافی ہیں اور فتنہ سے بھی یہی مراد ہے۔ جب یہ مقصد حاصل ہوجائے تو قتل کرنا اور لڑائی کرنا جائز نہیں۔ ﴿فَاِنِ انْتَہَوْا ﴾” پس اگر وہ باز آجائیں۔“ یعنی اگر وہ مسجد حرام کے قریب تمہارے ساتھ لڑائی کرنے سے باز آجائیں۔ ﴿ فَلَا عُدْوَانَ اِلَّا عَلَی الظّٰلِمِیْنَ﴾ تو ظالموں کے سوا کسی پر زیادتی نہیں۔“ یعنی تمہاری طرف سے ان پر کوئی ظلم اور زیادتی نہیں ہونی چاہئے، سوائے اس کے جس نے ظلم کا ارتکاب کیا ہو تو ایسا شخص اپنے ظلم کے برابر سزا کا مستحق ہے۔ البقرة
194 ﴿ اَلشَّہْرُ الْحَرَامُ بِالشَّہْرِ الْحَرَامِ ﴾” حرمت والا مہینہ، حرمت والے مہینے کے بدلے میں ہے“ اس آیت میں اس مفہوم کا احتمال ہے کہ اس سے مراد یہ واقعہ ہو کہ جب صلح حدیبیہ والے سال کفار نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مکہ مکرمہ میں داخل ہونے سے روک دیا تھا اور ان سے یہ معاہدہ کیا تھا کہ وہ اگلے سال مکہ مکرمہ آئیں گے، تو مسجد حرام میں داخل ہونے سے روکنے کا واقعہ اور عمرہ قضا دونوں حرمت والے مہینے (ذوالقعدہ) میں پیش آئے۔ اس لیے حرام مہینے کے مقابلے میں حرام مہینے کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اس مفہوم کی رو سے اس آیت کریمہ میں صحابہ کرام کے مناسب کی تکمیل کی خبر دے کر ان کی دل جوئی کی ہے، دوسرا احتمال یہ ہے کہ تم نے اگر ان کے ساتھ حرمت والے مہینے میں لڑائی کی ہے تو (کیا ہوا) انہوں نے بھی تو تم سے حرمت والے مہینے ہی میں لڑائی کی ہے اس لئے حد سے تجاوز کرنے والے تو وہی کفار مکہ ہیں (تمہیں تو مجبوراً لڑنا پڑا ہے) پس تمہارے لئے اس میں کوئی حرج نہیں۔ اس اعتبار سے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿ وَالْحُرُمٰتُ قِصَاصٌ ۭ﴾”اور حرمتوں میں بدلہ ہے“ عام کا عطف خاص پر،کے باب سے ہوگا، یعنی ہر وہ چیز جو قابل احترام ہے، وہ حرمت والا مہینہ ہو یا حرمت والا شہر ہو یا احرام ہو یا اس سے بھی زیادہ عام ہو، یعنی ہر وہ چیز جس کی حرمت کا حکم شریعت نے دیا ہے، جو کوئی ان کی بے حرمتی کی جرأت کرے گا، اس سے قصاص لیا جائے گا۔ پس جو کوئی حرام مہینے میں لڑائی کرے گا اس کے ساتھ لڑائی کی جائے گی جو کوئی اس محترم شہر کی بے حرمتی کرے گا اس پر حد جاری کی جائے گی اور اس کا کوئی احترام نہیں۔ جو کوئی بدلہ لینے کے لئے (حرم شریف کے اندر) کسی کو قتل کرے گا اسے قتل کیا جائے گا جو کسی کو زخمی کرے گا یا اس کا کوئی عضو کاٹے گا، اس کا اس سے قصاص لیا جائے گا۔ جو کوئی بلا جواز کسی کا مال لے گا، اس سے اس کا بدلہ لیا جائے گا۔ البتہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا صاحب حق کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ مال میں سے اپنے مال کے بقدر مال لے لے؟ اس بارے میں اہل علم میں اختلاف ہے اس میں راجح مسلک یہ ہے کہ اگر حق کا سبب واضح ہوجیسے مہمان جب کہ دوسرے شخص نے اس کی مہمان نوازی نہ کی ہو، بیوی اور وہ قریبی رشتہ دار جن کا نفقہ جس کے ذمہ فرض ہو، وہ نفقہ اور کفالت سے انکار کر دے، تو اس کے مال میں سے بقدر حق مال لے لینا جائز ہے۔ اور اگر حق کا سبب خفی اور غیر واضح ہو، مثلاً کوئی شخص کسی کے قرض کا انکار کردیتا ہے کہ اس نے قرض لیا ہی نہیں یا کسی امانت میں خیانت کرتا ہے، یا اس میں سے چوری کرلیتا ہے وغیرہ، تو اس صورت میں مال لینا جائز نہیں ہے۔ اس طرح دلائل میں تطبیق ہوجاتی ہے اور تعارض نہیں رہتا۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے گزشتہ حکم کی تاکید اور تقویت کے لئے فرمایا ﴿فَمَنِ اعْتَدٰی عَلَیْکُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَیْہِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰی عَلَیْکُمْ ۠﴾” جو تم پر زیادتی کرے، تو تم بھی اس پر اس کی مثال زیادتی کرو جو اس نے تم پر کی“ یہ بدلہ لینے کی صفت کی تفسیر ہے۔ نیز یہ کہ یہ تعدی کا ارتکاب کرنے والے کی تعدی اور ظلم کی مماثلت ہے۔ چونکہ غالب حالات میں، اگر نفوس انسانی کو (اپنے ساتھ زیادتی کے بدلے میں) سزا دینے کی رخصت دے دی جائے، تو وہ اپنی تشفی اور تسکین کے لئے جائز حد پر نہیں رکتے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کو التزام تقویٰ کا حکم دیا جو کہ نام ہے اللہ تعالیٰ کی حدود پر ٹھہر جانے اور ان سے تجاوز نہ کرنے کا اور ان کو بتلایا کہ ﴿ اَنَّ اللّٰہَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ﴾ ” اللہ تعالیٰ اہل تقویٰ کے ساتھ ہے“ یعنی اللہ کی مدد و نصرت اور اس کی تائید و توفیق ان کے ساتھ ہے اور جسے اللہ تعالیٰ کی معیت حاصل ہوگئی، وہ ابدی سعادت سے سرفراز ہوگیا اور جس نے تقویٰ کا التزام نہ کیا تو اس کا سرپرست اس سے علیحدہ ہوگیا، اسے بے یارو مددگار چھوڑ دیا اور اسے اس کے نفس کے حوالے کردیا، تب اس کی ہلاکت اس کی رگ جان سے بھی زیادہ قریب ہوجاتی ہے۔ البقرة
195 اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اپنے راستے میں مال خرچ کرنے کا حکم دیتا ہے اور اس سے مراد ہے کہ مال کو ان راستوں میں خرچ کیا جائے جو اللہ تعالیٰ تک پہنچاتے ہیں اور یہ بھلائی کے تمام راستے ہیں جیسے مساکین، قریبی رشتہ داروں پر صدقہ کرنا اور ان لوگوں پر خرچ کرنا جن پر خرچ کرنا واجب ہے۔ ان راستوں میں سب سے بڑا اور ان میں سب سے پہلے نمبر پر آنے والا، فی سبیل اللہ یعنی جہاد کی راہ میں خرچ کرنا ہے، کیونکہ اس راہ میں خرچ کرنا جہاد بالمال کے زمرے میں آتا ہے اور مالی جہاد بھی اسی طرح فرض ہے جس طرح بدنی جہاد فرض ہے۔ مالی جہاد میں عظیم مصالح پنہاں ہیں۔ مالی جہاد سے اہل ایمان کو تقویت پہنچتی ہے، شرک اور اہل شرک کمزور ہوتے ہیں اور اقامت دین اور اس کی سربلندی میں مدد ملتی ہے۔ پس جہاد فی سبیل اللہ کا درخت مالی اعانت کے تنے کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا، جہاد کے لئے مالی اخراجات وہی حیثیت رکھتے ہیں جو بدن کے لیے روح، پس اس کے بغیر جہاد کا جاری رہنا ممکن نہیں اور اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنے سے گریز درحقیقت جہاد کا ابطال، دشمنوں کا تسلط اور ان کی اسلام دشمنی میں اضافہ ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿وَلَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّہْلُکَۃِ﴾ ” اپنے ہاتھوں (جان) کو ہلاکت میں نہ ڈالو“ اس حکم کی علت کی حیثیت رکھتا ہے اور اپنے ہاتھوں سے اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا دو امور کی طرف راجع ہے۔ (١) اس امر کو ترک کردینا جس کا حکم بندے کو دیا گیا جبکہ اس امر کو ترک کرنا بدن یا روح کی ہلاکت کا یا ہلاکت کے قریب کرنے کا موجب ہو۔ (٢) ایسے فعل کا ارتکاب کرنا جو بدن یا روح کی ہلاکت کا سبب ہو۔ اس کے تحت بہت سے امور آتےہیں: (١) اللہ تعالیٰ کے راستے میں بدنی یا مالی جہاد ترک کرد ینا، جو دشمن کے تسلط کا باعث بنتا ہے۔ (٢) انسان کا خود اپنے آپ کو موت کے منہ میں لے جانا، مثلاً کسی لڑائی میں گھس جانا، کسی خوفناک سفر پر روانہ ہوجانا، جانتے بوجھتے درندوں یا سانپوں کے مسکن میں داخل ہونا، کسی خطرناک درخت یا گرنے والی عمارت وغیرہ پر چڑھنا یا کسی خطرناک چیز کے نیچے چلے جانا یہ تمام امور اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے کے تحت آتے ہیں۔ (٣) توبہ سے مایوس ہو کر گناہوں پر قائم رہنا۔ (٤) ان فرائض کو ترک کرنا جن کو اللہ تعالیٰ نے بجا لانے کا حکم دیا ہے اور جن کے ترک کرنے میں روح اور دین کی ہلاکت ہے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنا احسان کی ایک قسم ہے، لہٰذا اللہ تعالیٰ نے عمومی طور پر احسان کا حکم دیتے ہوئے فرمایا : ﴿ وَاَحْسِنُوْا اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ ﴾” اور احسان کرو، یقیناً اللہ احسان کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے“ اس آیت کے معنی میں ہر قسم کا احسان شامل ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسے کسی صفت اور شرط وغیرہ سے مقید نہیں کیا۔ پس اس میں مالی احسان بھی شامل ہے۔ اپنے جاہ و منصب کی بنیاد پر (کسی حق دار کی) سفارش کرنے کا احسان بھی اسی زمرے میں آتا ہے۔ امر بالمعروف، نہی عن المنکر اور علم نافع کی تعلیم بھی احسان میں داخل ہے۔ لوگوں کی ضروریات پوری کرنا، ان کی تکالیف کو دور کرنا، ان کی مصیبتوں کا ازالہ کرنا، ان کے مریضوں کی عیادت کرنا، ان کے جنازوں کے ساتھ جانا، ان کے بھٹکے ہوؤں کو راستہ بتانا، کسی کے کام میں ہاتھ بٹانا اور کسی ایسے شخص کے لئے کام کردینا جسے کام نہ آتا ہو۔ یہ تمام امور اس احسان کے زمرے میں شمار ہوتے ہیں جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اور اس احسان میں اللہ تعالیٰ کی عبادت احسن طریقے سے کرنا بھی داخل ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ﴿أنْ تَعْبُدَ اللَّهَ كَأنَّكَ تَراهُ، فإنْ لَمْ تَكُنْ تَراهُ فإنَّه يَراكَ﴾” احسان یہ ہے کہ تو اس طرح اللہ کی عبادت کرے گویا کہ تو اسے دیکھ رہا ہے اور اگر یہ کیفیت پیدا نہ ہو کہ تو اسے دیکھ رہا ہے تب وہ تو تجھے دیکھ رہا ہے۔‘،[صحيح بخاري، الإيمان، باب سؤال جبريل......الخ، حديث: 50] جو کوئی ان صفات سے متصف ہوجاتا ہے وہ ان لوگوں میں شامل ہوجاتا ہے جن کے بارے میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿  لِّلَّذِينَ أَحْسَنُوا الْحُسْنَىٰ وَزِيَادَةٌ  ﴾(یونس: 26؍10) ” جنہوں نے نیکی کی ان کے لئے بھلائی ہے (اور مزید برآں) اور بھی۔“ اللہ تعالیٰ کی معیت اسے حاصل رہتی ہے، اللہ تعالیٰ اسے دوست رکھتا ہے، اس کی راہنمائی کرتا ہے اور ہر معاملے میں اس کی مدد کرتا ہے۔ اور جب اللہ روزے اور جہاد کے احکام کا ذکر فرما چکا، تو اب حج کے احکام کا ذکر فرماتا ہے۔ البقرة
196 ﴿’ وَاَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَۃَ ﴾ ’’اور پورا کرو حج اور عمرے کو“ سے متعدد امور پر استدلال کیا جاتا ہے۔ (١) حج اور عمرے کا وجوب اور ان کی فرضیت (٢) حج اور عمرے کو ان ارکان و واجبات کے ساتھ پورا کرنا جن کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل اور آپ کا یہ قول اشارہ کرتا ہے( خُذُوا عَنِّي مَنَاسِكَكُم)” اپنے مناسك حج مجھ سے اخذ کرو“ [سنن البيهقي: 5؍ 125] (٣) اس آیت کریمہ سے ان علماء کی تائید ہوتی ہے جو عمرے کو واجب قرار دیتے ہیں۔ (٤) حج اور عمرہ کو، خواہ وہ نفلی ہی کیوں نہ ہوں جب شروع کردیا جائے تو ان کا اتمام واجب ہے۔ (٥) حج اور عمرے کو احسن طریقے سے ادا کیا جائے اور یہ چیز حج اور عمرے کے لازمی افعال سے قدر زائد ہے۔ (٦) اس میں حج اور عمرے کو خالص اللہ تعالیٰ کے لئے ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ (٧) حج اور عمرے کا احرام باندھنے والا ان کی تکمیل کئے بغیر احرام نہ کھولے سوائے اس صورتحال کے جس کو اللہ تعالیٰ نے مستثنیٰ قرار دیا ہے اور وہ ہے (کسی وجہ سے) محصور ہوجانا۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿ۭ فَاِنْ اُحْصِرْتُمْ﴾” پس اگر تم روک دیئے جاؤ“ یعنی اگر تم کسی مرض یا راستہ بھول جانے یا دشمن کے روک لینے کی وجہ سے یا کسی اور وجہ سے حج اور عمرہ کی تکمیل کے لئے بیت اللہ نہ پہنچ سکو تو فرمایا : ﴿فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنَ الْہَدْیِ ۚ ﴾” تو جیسی قربانی میسر ہو۔“ یعنی (جو قربانی میسر ہو) ذبح کرو۔ یہ قربانی اونٹ یا گائے کا ساتواں حصہ یا ایک بکری ہے جسے محصور ذبح کرے گا۔ اس کے بعد وہ اپنا سرمنڈوائے اور احرام کھول دے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حدیبیہ والے سال کیا تھا جب مشرکین مکہ نے آپ کو بیت اللہ جانے سے روک دیا تھا۔ اگر محصور کو قربانی نہ ملے تو اس کے بدلے دس روزے رکھے جیسا کہ تمتع کرنے والے کے لئے ضروری ہے اور اس کے بعد احرام کھول کر حلال ہوجائے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَلَا تَحْلِقُوْا رُءُوْسَکُمْ حَتّٰی یَبْلُغَ الْہَدْیُ مَحِلَّہٗ ﴾” اور اپنے سروں کو نہ منڈواؤ، یہاں تک کہ قربانی اپنے ٹھکانے کو پہنچ جائے“ بالوں کو منڈوا کر یا کسی اور طریقے سے زائل کرنا احرام کے ممنوعات میں شمار ہوتا ہے۔ بال خواہ سر کے ہوں یا بدن کے کسی اور حصے کے، ان کو زائل کرنا منع ہے، کیونکہ احرام میں اصل مقصود بالوں کی پراگندگی اور ان کو زائل کر کے ان کی اصلاح کرنے کی ممانعت ہے اور وہ باقی بالوں میں بھی موجود ہے۔ بہت سے علماء نے زیب و زینت کے لئے ناخن ترشوانے کو بال منڈوانے پر قیاس کیا ہے اور مذکورہ تمام چیزیں اس وقت تک ممنوع ہیں جب تک کہ قربانی اپنے مقاصد پر نہ پہنچ جائے اور اس سے مراد قربانی کا دن ہے اور افضل یہ ہے کہ قربانی کرنے کے بعد بال اتروائے جائیں جیسا کہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے۔ اس آیت کریمہ سے یہ بھی استدلال کیا جاتا ہے کہ تمتع کرنے والا جب اپنے ساتھ قربانی لے کر آیا ہو تو وہ قربانی کے دن سے قبل اپنے عمرے کا احرام نہ کھولے۔ پس تمتع کرنے والا جب عمرے کے طواف اور سعی سے فارغ ہوجائے تو حج کا احرام باندھ لے اور اپنے ساتھ قربانی لانے کی وجہ سے اس کے لئے احرام کھولنا جائز نہیں۔ اور اللہ تعالیٰ نے (حَلْقَ) ” بال مونڈنے“ سے اس لئے منع فرمایا ہے کہ اس میں عاجزی، اللہ کے لئے خضوع اور انکسار ہے جو کہ بندے کے لئے عین مصلحت ہے اور اس میں اس کے لئے کوئی نقصان بھی نہیں۔ اگر سر میں کسی مرض، یا زخم یا جوؤں کی وجہ سے تکلیف ہو تو اس کے لئے سر کو منڈوانا جائز ہے البتہ فدیہ کے طور پر تین روزے رکھنا، یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلانا یا جانور ذبح کرنا جو قربانی کے لئے جائز ہو واجب ہے۔ ان میں سے جو کام چاہے اسے کرنے کا اختیار ہے۔ قربانی سب سے افضل ہے، اس کے بعد صدقہ اور پھر روزے۔ اسی طرح کے حالات میں اگر ناخن تراشنے، سر ڈھانپنے، سلا ہوا کپڑا پہننے یا خوشبو لگانے کی ضرورت لاحق ہو تو ضرورت کے وقت ایسا کرنا جائز ہے البتہ مذکورہ بالا فدیہ کی مانند فدیہ دینا واجب ہے۔ اس تمام صورت میں اصل مقصد آسودگی کے مظاہر سے دور رہنا ہے۔ پھر فرمایا : ﴿ فَاِذَآ اَمِنْتُمْ﴾” پس جب تم امن میں ہوجاؤ“ یعنی جب تم دشمن وغیرہ کی رکاوٹ کے بغیر بیت اللہ تک پہنچنے کی قدرت رکھتے ہو ﴿ فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَۃِ اِلَی الْحَجِّ ﴾” پس جو حج کے وقت تک عمرے سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔“ یعنی جو عمرہ کو حج کے ساتھ ملا دے اور عمرہ سے فارغ ہو کر اپنے تمتع سے فائدہ اٹھائے ﴿ فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنَ الْہَدْیِ ۚ﴾” تو وہ جیسی قربانی میسر ہو کرے۔“ یعنی اس پر واجب ہے کہ وہ قربانی دے جو میسر ہو اور وہ ایسا جانور ذبح کرے جو قربانی کے لئے جائز ہو۔ یہ قربانی حج کی قربانی ہے جو ان دو عبادات کے مقابل میں ہے جو اسے ایک ہی سفر میں حاصل ہوئیں، علاوہ ازیں یہ اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کا شکرانہ ہے جو اسے عمرہ سے فراغت کے بعد اور مناسک حج شروع کرنے سے پہلے تمتع سے استفادہ کرنے کی صورت میں حاصل ہوئی اور اسی کی مثل حج قران ہے، کیونکہ اس میں بھی (حج تمتع کی طرح) دو عبادات کا ثواب حاصل ہوتا ہے۔ آیت کریمہ کا مفہوم دلالت کرتا ہے کہ مفرد حج کرنے والے شخص پر قربانی واجب نہیں۔ آیت کریمہ تمتع کے جواز بلکہ تمتع کی فضیلت پر دلالت کرتی ہے نیز اس پر بھی کہ حج کے مہینوں میں تمتع جائز ہے۔ ﴿ فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ ﴾” پس جو شخص نہ پائے“ یعنی جس کے پاس قربانی یا اس کی قیمت موجود نہ ہو ﴿ فَصِیَامُ ثَلٰثَۃِ اَیَّامٍ فِی الْحَجِّ ﴾” تو تین روزے رکھنے ہیں حج کے دنوں میں“ ان روزوں کا پہلا جواز تو یہ ہے کہ انہیں عمرہ کے احرام کے ساتھ ہی رکھا جائے اور ان کا آخری وقت یوم النحر کے بعد کے تین دن ہیں، رمی جمار اور منی میں شب باشی کے ایام، البتہ افضل یہ ہے کہ یہ روزے ساتویں، آٹھویں اور نویں ذوالحج کو رکھے جائیں۔ ﴿ وَسَبْعَۃٍ اِذَا رَجَعْتُمْ ۭ﴾” اور سات (روزے) اس وقت جب تم گھر لوٹو“ یعنی جب تم اعمال حج سے فارغ ہوجاؤ تو ان روزوں کو مکہ مکرمہ میں رکھنا بھی جائز ہے، واپسی سفر کے دوران راستے میں اور گھر پہنچ کر بھی رکھے جاسکتے ہیں۔ ﴿ ذٰلِکَ﴾” یہ“ یعنی تمتع کرنیوالے پر قربانی کا واجب ہونا ﴿ لِمَنْ لَّمْ یَکُنْ اَھْلُہٗ حَاضِرِی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۭ﴾” اس کے لئے ہے جس کے گھر والے مسجد حرام کے پاس نہ رہتے ہوں“ یعنی یہ صرف اس شخص کے لئے ہے جو نماز قصر کرنے یا اس سے زیادہ فاصلے پر رہتا ہو یا اتنا دور رہتا ہو جسے عرف میں دور سمجھا جاتا ہو۔ اس شخص پر ایک ہی سفر میں دو عبادات کے ثواب کے حصول کی بنا پر قربانی واجب ہے۔ جو کوئی مکہ مکرمہ میں مسجد حرام کے پاس رہتا ہے، تو اس پر عدم موجب کی بنا پر قربانی واجب نہیں۔ ﴿ وَاتَّقُوا اللّٰہَ﴾” اور اللہ سے ڈرو“ یعنی اپنے تمام امور میں،اس کے اوامر کی اطاعت اور اس کی نواہی سے اجتناب کرتے ہوئے۔ اسی زمرے میں حج کے ان اوامر کی اطاعت اور ان ممنوعات سے اجتناب ہے جو کہ اس آیت کریمہ میں مذکور ہیں۔ ﴿وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ﴾ ” اور جان لو کہ اللہ سخت عذاب دینے والا ہے“ یعنی اللہ تعالیٰ اس شخص کو سخت سزا دیتا ہے جو اس کی نافرمانی کرتا ہے۔ یہی (خوف عذا) تقویٰ کا موجب ہے، کیونکہ جو کوئی اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرتا ہے وہ ان تمام امور سے اجتناب کرتا ہے جو عذاب کے موجب ہیں۔ جیسے جو کوئی اللہ تعالیٰ سے ثواب کی امید رکھتا ہے وہ ایسے کام کرتا ہے جو ثواب کے کے موجب ہیں اور جو کوئی عذاب سے نہیں ڈرتا اور ثواب کی امید نہیں رکھتا وہ حرام میں گھس جاتا ہے اور فرائض کو چھوڑ دینے کی جرأت کا مرتکب ہوتا ہے۔ البقرة
197 اللہ تبارک وتعالیٰ خبر دیتاہے ﴿ اَلْحَجُّ﴾ یعنی حج واقع ہوتا ہے ﴿ اَشْہُرٌ مَّعْلُوْمٰتٌ ۚ ﴾” معلوم مہینوں (میں) “ جو مخاطبین کے ہاں معلوم اور معروف ہیں جن کی تخصیص کی ضرورت نہیں۔ جیسا کہ روزوں کے لئے اس کے مہینے کے تعین کی ضرورت پیش آئی اور جس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے نماز کے اوقات بیان فرمائے ہیں۔ رہا حج تو یہ ملت ابراہیم کا رکن ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں ہمیشہ سے معروف رہا ہے اور وہ لوگ حج کرتے چلے آئے ہیں۔ جمہور اہل علم کے نزدیک ﴿ اَشْہُرٌ مَّعْلُوْمٰتٌ ۚ ﴾” معلوم مہینے“ سے مراد شوال، ذیقعد اور ذوالحج کے پہلے دس دن ہیں۔ یہی وہ مہینے ہیں جن میں غالب طور پر حج کے لئے احرام باندھا جاتا ہے۔ ﴿ فَمَنْ فَرَضَ فِیْہِنَّ الْحَجَّ﴾” تو جو شخص ان مہینوں میں حج کی نیت کرلے۔“ یعنی جو کوئی ان مہینوں میں حج کا احرام باندھتا ہے، کیونکہ جو کوئی حج شروع کردیتا ہے تو اس کا اتمام اس پر فرض ہوجاتا ہے خواہ حج نفلی ہی کیوں نہ ہو۔ اس آیت کریمہ سے امام شافعی رحمہ اللہ اور ان کے اصحاب استدلال کرتے ہیں کہ حج کے مہینوں سے قبل حج کے لئے احرام باندھنا جائز نہیں ہے۔ میں (عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی) کہتا ہوں کہ اگر یہ کہا جائے کہ یہ آیت کریمہ جمہور اہل علم کے اس مسلک پر دلالت کرتی ہے کہ حج کے مہینوں سے پہلے حج کے لئے احرام باندھنا صحیح ہے تو ایسا کہنا زیادہ قرین صحت ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿ فَرَضَ فِیْہِنَّ الْحَجَّ﴾ دلالت کرتا ہے کہ حج کی فرضیت کبھی تو مذکورہ مہینوں میں واقع ہوتی ہے اور کبھی نہیں۔ ورنہ اللہ تعالیٰ اسے مقید نہ کرتا۔ ﴿ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوْقَ ۙوَلَا جِدَالَ فِی الْحَجِّ ۭ﴾’’ تو دل لگی کی باتیں نہیں کرنا، نہ گناہ کرنا اور نہ جھگڑا کرنا ہے حج میں“ یعنی تم پر حج کے احرام کی تعظیم کرنا فرض ہے خاص طور پر جبکہ وہ حج کے مہینوں میں واقع ہو، لہٰذا تم پر فرض ہے کہ تم احرام حج کی ہر اس چیز سے حفاظت کرو جو احرام کو فاسد کرتی ہے یا اس کے ثواب میں کمی کردیتی ہے، مثلاً (رَفَثَ) اور (رفث) سے مراد ہے جماع اور اس کے قولی اور فعلی مقدمات۔ خاص طور پر بیویوں کے پاس، ان کی موجودگی میں۔ (فُسُوْقَ) سے تمام معاصی مراد ہیں اور ممنوعات احرام بھی اس میں شامل ہیں اور (جِدال) سے مراد لڑائی، جھگڑا اور مخاصمت، کیونکہ لڑائی جھگڑا شر کو جنم دیتا اور دشمنی پیدا کرتا ہے۔ حج کا مقصد اللہ تعالیٰ کے لئے تذلل اور انکسار، عبادات کے ذریعے سے ممکن حد تک اس کے تقرب کا حصول اور برائیوں کے ارتکاب سے بچنا ہے، اس لئے کہ یہی وہ امور ہیں جن کی وجہ سے حج اللہ کے ہاں مقبول و مبرور ہوتا ہے اور حج مبرور کا بدلہ، جنت کے سوا کوئی نہیں۔ مذکورہ برائیاں اگرچہ ہر جگہ اور ہر وقت ممنوع ہیں تاہم حج کے ایام میں ان کی ممانعت میں شدت اور زیادہ ہوجاتی ہے اور جان لیجیے کہ صرف ترک معاصی سے تقریب الٰہی کی تکمیل اس وقت تک نہیں ہوتی جب تک کہ اللہ تعالیٰ کے احکام بھی نہ بجا لائے جائیں۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿ وَمَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ یَّعْلَمْہُ اللّٰہُ﴾ ” اور جو بھی تم بھلائی کرتے ہو، اللہ اسے جانتا ہے“ اللہ تعالیٰ نے بھلائی کے عموم کی تصریح کے لئے (مِنْ) استعمال کیا ہے۔ اس لیے ہر بھلائی، تقریب الٰہی کا ہر ذریعہ اور ہر عبادت اس میں شامل ہے، یعنی اللہ تعالیٰ ہر بھلائی کو جانتا ہے۔ یہ آیت کریمہ بھلائی کے کاموں میں ترغیب کو متضمن ہے۔ خاص طور پر زمین کے ان قطعات میں جن کو شرف اور احترام میں بہت بلند مقام حاصل ہے۔ اس لئے یہی مناسب ہے کہ نماز، روزہ، صدقہ، طواف اور قولی و فعلی احسان کے ذریعے سے جتنی بھلائی ممکن ہو، اسے حاصل کیا جائے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس مبارک سفر میں زادراہ ساتھ لینے کا حکم دیا ہے، کیونکہ زاد راہ مسافر کو لوگوں سے بے نیاز کردیتا ہے اور اسے لوگوں کے مال کی طرف دیکھنے اور سوال کرنے سے روک دیتا ہے۔ ضرورت سے زائد زادراہ ساتھ لینے میں فائدہ اور ساتھی مسافروں کی اعانت ہے اور اس سے اللہ رب العالمین کے تقرب میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہی وہ زاد راہ ہے جو یہاں مراد ہے جو زندگی کو قائم رکھنے، گزر بسر کرنے اور راستے کے اخراجات کے لئے نہایت ضروری ہے۔ رہا زاد حقیقی جس کا انسان کو دنیا و آخرت میں فائدہ ہوتا ہے تو وہ تقویٰ کا زاد راہ ہے جو جنت کی طرف سفر کا زاد راہ ہے اور وہی زاد راہ ایسا ہے جو انسان کو ہمیشہ رہنے والی کامل ترین لذت اور جلیل ترین نعمت کی منزل مراد پر پہنچتا ہے۔ جو کوئی زاد تقویٰ کو چھوڑ دیتا ہے وہ اس بنا پر اپنی راہ کھوٹی کر بیٹھتا ہے۔ تقویٰ سے محروم ہونا ہر برائی کا نشانہ بن جانا ہے اور وہ اہل تقویٰ کی منزل پر پہنچنے سے محروم ہوجاتا ہے۔ پس یہ تقویٰ کی مدح ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے عقل مند لوگوں کو ان الفاظ میں تقویٰ اختیار کرنے کا حکم دیا ہے :﴿ وَاتَّقُوْنِ یٰٓاُولِی الْاَلْبَابِ﴾ ” اے اہل دانش ! مجھ سے ڈرتے رہو۔“ یعنی اے سنجیدہ اور عقلمند لوگو ! اپنے اس رب سے ڈرو جس سے ڈرنا وہ سب سے بڑی چیز ہے جس کا عقل انسانی حکم دیتی ہے اور اس کو ترک کرنا جہالت اور فساد رائے کی دلیل ہے۔ البقرة
198 چونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے تقویٰ کا حکم دیا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے یہاں آگاہ فرما دیا کہ مواسم حج وغیرہ میں محنت و اکتساب کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کا فضل تلاش کرنے میں کوئی حرج نہیں، جبکہ وہ فرائض سے غافل ہو کر اسی میں مشغول نہ ہوجائے۔ جبکہ اس کا اصل مقصد حج ہی ہو اور یہ کمائی حلال اور اللہ تعالیٰ کے فضل کی طرف منسوب ہو اور بندے کی اپنی مہارت کی طرف منسوب نہ ہو، کیونکہ سبب کو ہی سب کچھ سمجھنا اور سبب کو فراموش کردینا، یہی عین حرج ہے اور اللہ تبارک و تعالیٰ کا فرمان ﴿فَاِذَآ اَفَضْتُمْ مِّنْ عَرَفٰتٍ فَاذْکُرُوا اللّٰہَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ ۠﴾ ” پس جب تم عرفات سے لوٹو تو مشعر حرام کے پاس اللہ کا ذکر کرو“ متعدد امور پر دلالت کرتا ہے : (1) عرفہ میں وقوف، مناسك حج میں سے ہے اور یہ ارکان حج میں سے ایک معروف رکن ہے، کیونکہ عرفات سے واپسی صرف وقوف کے بعد ہی ہوتی ہے۔ (2) مشعر حرام کے پاس اللہ تعالیٰ کے ذکر کا حکم دیا گیا ہے اور مشعر حرام سے مراد مزدلفہ ہے، مزدلفہ بھی معروف جگہ ہے جہاں قربانی کی رات بسر کرنی ہوتی ہے، نماز فجر کے بعد خوب روشنی پھیلنے تک دعائیں کرتے ہوئے مزدلفہ میں وقوف کرے، مزدلفہ کے پاس دعاؤں اور اذکار میں فرائض اور نوافل بھی داخل ہیں۔ (3) مزدلفہ کا وقوف، عرفات کے وقوف سے متاخر ہے جیسا کہ آیت کریمہ میں دی گئی ترتیب دلالت کرتی ہے۔ (4) عرفات اور مزدلفہ دونوں ان مشاعر حج میں شمار ہوتے ہیں جن کا فعل اور اظہار مقصود ہے۔ (5) مزدلفہ بھی حرم میں داخل ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اسے ” حرام“ کی صفت سے مقید کیا ہے۔ (6) مزدلفہ کو ’’حرام“ کی صفت سے مقید کرنا یہ مفہوم دیتا ہے کہ عرفہ حرم میں شامل نہیں۔ ﴿ وَاذْکُرُوْہُ کَمَا ھَدٰیکُمْ ۚ وَاِنْ کُنْتُمْ مِّنْ قَبْلِہٖ لَمِنَ الضَّاۗلِّیْنَ﴾ ” اور اس (اللہ) کا اس طرح ذکر کرو جس طرح اس نے تم کو بتلایا ہے اور اس سے پہلے تم ناواقف تھے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ کا ذکر کرو جیسا کہ اس نے گمراہی کے بعد تمہیں ہدایت سے نوازا اور تمہیں وہ کچھ سکھایا جو تم نہ جانتے تھے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت ہے جس کا شکر واجب اور اس کے مقابلے میں قلب اور زبان سے منعم کا ذکر کرنا فرض ہے۔ البقرة
199 ﴿ ثُمَّ اَفِیْضُوْا مِنْ حَیْثُ اَفَاضَ النَّاسُ﴾” پھر تم وہاں سے لوٹو جہاں سے لوگ لوٹتے ہیں“ یعنی مزدلفہ سے اور یہ وہ عمل ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام سے لے کر اب تک چلا آرہا ہے اور اس افاضہ یعنی واپسی کا مقصد ان کے ہاں معروف تھا اور وہ ہے رمی جمار، قربانیوں کو ذبح کرنا، طواف، سعی، تشریق کی راتوں میں منیٰ میں شب بسری اور باقی مناسک کی تکمیل چونکہ اس افاضہ کا مقصد وہ ہے جس کا ذکر کیا گیا ہے اور یہ مذکورہ امور حج کے آخری مناسک ہیں، اس لئے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ ان سے فارغ ہو کر استغفار اور کثرت سے اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا جائے، اس لئے کہ استغفار کا مقصد یہ ہے کہ عبادات کی ادائیگی میں بندے کی طرف سے جو خلل اور کوتاہی واقع ہوئی ہے استغفار سے اس کی تلافی ہوجائے اور اللہ کا ذکر یہ اللہ کا اس انعام پر شکر ہے جو اس نے عظیم عبادت اور بھاری احسان کی توفیق سے نواز کر کیا۔ بندہ مومن کے لئے مناسب بھی یہی ہے کہ جب وہ اپنی عبادت سے فارغ ہو تو اپنی تقصیر اور کوتاہی پر اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرے اور عبادت کی توفیق پر اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لائے، نہ کہ اس شخص کی مانند ہو جو یہ سمجھتا ہے کہ اس نے عبادت کی تکمیل کر کے رب پر احسان کیا ہے اور اس عبادت نے اس کے مقام پر و مرتبہ کو بہت بلند کردیا ہے۔ یہ رویہ یقیناً اللہ کی ناراضی کا باعث اور اس بات کا مستحق ہے کہ اس کے فعل (عبادت) کو ٹھکرا دیا جائے جیسے عبادت کی پہلی صورت اس بات کی مستحق ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں قبولیت کا درجہ حاصل کرے اور بندے کو دوسرے اعمال خیر کی توفیق عطا ہو۔ پھر اللہ تعالیٰ نے مخلوق کے احوال کی خبر دی اور آگاہ فرمایا کہ تمام مخلوق اپنے اپنے مطالبات کا سوال کرتی ہے اور جو چیز ان کے لئے ضرر رساں ہے اس سے بچنے کی دعا مانگتی ہے، البتہ ان کے مقاصد مختلف ہوتے ہیں۔ البقرة
200 کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو یہ کہتے ہیں ﴿ رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا ﴾” اے ہمارے رب ! دے تو ہمیں دنیا میں“ یعنی وہ دنیا کے ساز و سامان اور اس کی شہوات کا سوال کرتے ہیں۔ ان کے لئے آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوگا، کیونکہ آخرت میں ان کو کوئی رغبت نہیں اور انہوں نے اپنی ہمت اور ارادے دنیا ہی پر مرکوز کردیئے ہیں۔ البقرة
201 ان میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو دنیا اور آخرت دونوں کے لئے دعا کرتے ہیں اور اپنے آپ کو دنیا اور آخرت کے تمام امور میں اللہ تعالیٰ کا محتاج سمجھتے ہیں۔ ان دونوں گروہوں کے لئے اپنے اپنے اعمال اور اپنے اپنے اکتساب کا حصہ ہے۔ اللہ تعالیٰ عنقریب انہیں ان کے اعمال، ان کے ارادوں اور ان کی نیتوں کی ایسی جزا دے گا جو عدل اور فضل کے دائرے میں ہوگی، اس پر اس کی کامل ترین حمد و ثنا بیان کی جائے گی۔ اس آیت کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر ایک کی دعا سنتا ہے، خواہ وہ کافر ہو، مسلمان ہو یا فاسق و فاجر، البتہ کسی کی دعا قبول ہونے کے معنی یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے محبت کرتا ہے اور اس نے (اس کی دعا قبول کر کے) اسے اپنے قرب سے نواز دیا ہے۔ البتہ آخرت کی بھلائی اور دینی امور میں دعا کی قبولیت اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کے قرب کی علامت ہے۔ وہ بھلائی جو دنیا میں طلب کی جاتی ہے، اس میں ہر وہ بھلائی شامل ہے جس کا ہونا بندے کو پسند ہو۔ جیسے رزق کی کشائش، نیک بیوی، نیک اولاد جسے دیکھ کر آنکھیں ٹھنڈی ہوتی ہیں، آرام اور راحت، علم نافع، اعمال صالحہ اور دیگر پسندیدہ اور مباح چیزیں اور آخرت کی بھلائی، قبر، حساب کتاب اور آگ کے عذاب سے سلامتی، اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول، ہمیشہ رہنے والی نعمتوں سے کامیاب ہونے اور رب رحیم کے قرب کا نام ہے۔ اس اعتبار سے یہ دعا سب سے جامع اور سب سے کامل دعا ہے اور اس قابل ہے کہ اسے تمام دعاؤں پر ترجیح دی جائے۔ اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر یہی دعا مانگا کرتے تھے اور اس دعا کی ترغیب دیا کرتے تھے۔ البقرة
202 البقرة
203 اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے کہ گنتی کے چند دنوں میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا جائے، ان دنوں سے مراد عید کے بعد کے ایام تشریق (کے تین دن) ہیں، کیونکہ انہیں شرف و فضیلت حاصل ہے نیز اس لئے بھی کہ بقیہ تمام مناسک حج انہی ایام میں پورے کئے جاتے ہیں۔ علاوہ ازیں ان دنوں میں لوگ اللہ تعالیٰ کے مہمان ہوتے ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان دنوں میں روزہ رکھنا حرام قرار دیا ہے۔ ان کے اندر اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا ایک ایسی خوبی ہے جو اور دنوں میں نہیں پائی جاتی، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا﴿ اَيّامُ التَّشْرِيقِ اَيَّامُ أَكْلٍ وَشُرْبٍ وَ ذِكْرِ اللّٰهِ عَزَّ وَجَلَّ﴾” ایام تشریق کھانے پینے اور اللہ کا ذکر کرنے کے دن ہیں۔“ اور ان ایام میں جو اللہ کا ذکر کرنے کا حکم ہے، تو اس میں رمی جمار کے وقت، قربانی کا جانور ذبح کرتے وقت اور فرض نمازوں کے بعد مخصوص اللہ تعالیٰ کا ذکر بھی آجاتا ہے۔ بعض اہل علم کہتے ہیں اس حکم میں مطلق تکبیرات داخل ہیں۔ جیسے ذوالحج کے پہلے دس دنوں میں تکبیرات کہی جاتی ہیں اور یہ بعید بھی نہیں۔ ﴿ فَمَنْ تَعَـجَّلَ فِیْ یَوْمَیْنِ فَلَآ اِثْمَ عَلَیْہِ ۚ ﴾” پس جس نے جلدی کی دو دنوں میں، تو اس پر کوئی گناہ نہیں“ یعنی جو کوئی دوسرے روز غروب آفتاب سے قبل منیٰ سے نکل کر کوچ کرتا ہے ﴿ وَمَنْ تَاَخَّرَ فَلَآ اِثْمَ عَلَیْہِ ۙ﴾” اور جس نے دیر کی تو اس پر کوئی گناہ نہیں“ یعنی جو کوئی تیسری رات منیٰ میں بسر کر کے اگلی صبح کنکر مارتا ہے (تو اس پر بھی کوئی گناہ نہیں) دونوں امور مباح قرار دے کر اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو تخفیف عطا کی ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی معلوم ہے کہ اگرچہ دونوں امور جائز ہیں تاہم تیسری رات کے بعد منیٰ سے کوچ کرنا افضل ہے، کیونکہ اس طرح کثرت عبادت کی فضیلت حاصل ہوتی ہے۔ چونکہ آیت کریمہ میں نفی حرج کا ذکر کیا گیا ہے جس سے کبھی تو صرف اسی معاملے میں نفی حرج کا مفہوم ذہن میں آتا ہے اور کبھی اس کے علاوہ دیگر معاملات میں بھی۔ جب کہ صورتحال یہ ہے کہ صرف تقدیم و تاخیر میں حرج کی نفی کی گئی ہے۔ جسے اللہ تعالیٰ نے ﴿ لِمَنِ اتَّقٰی ۭ﴾کے ساتھ مقید کیا ہے، یعنی جس نے تمام معاملات میں اور حج کے احوال میں تقویٰ اختیار کیا۔ پس جس نے ہر معاملے میں تقویٰ اختیار کیا اس کے لئے ہر معاملے میں حرج کی نفی حاصل ہوگئی اور جس نے بعض معاملات میں تقویٰ اختیار کیا اور بعض معاملات میں اسے نظر انداز کردیا تو اس کو جزا بھی اس کے عمل کی جنس سے ملے گی۔ ﴿ وَاتَّقُوا اللّٰہَ ﴾” اور اللہ سے ڈرتے رہو۔“ یعنی اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل اور اس کی نافرمانی سے اجتناب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے ڈرو ﴿ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّکُمْ اِلَیْہِ تُحْشَرُوْنَ﴾” جان لو کہ تمہیں اسی (اللہ تعالیٰ) کے پاس اکٹھا کیا جائے گا“ اور وہ تمہیں تمہارے اعمال کا بدلہ دے گا۔ پس جس کسی نے تقویٰ اختیار کیا وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کی جزا پائے گا اور جو کوئی اللہ تعالیٰ سے ڈر کر گناہوں سے باز نہ آیا، اللہ تعالیٰ اسے سخت سزا دے گا۔ جزا و سزا کا علم، تقویٰ کا سب سے بڑا داعیہ ہے، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے جزائے آخرت کے علم کی بڑی ترغیب دی ہے۔ البقرة
204 جب اللہ تعالیٰ نے کثرت سے ذکر کرنے کا حکم دیا، خاص طور پر فضیلت والے اوقات میں، وہ ذکر الٰہی جو سب سے بڑی بھلائی اور نیکی ہے تو اللہ تعالیٰ نے ایسے شخص کے حال کے بارے میں خبر دی جو اپنی زبان سے جو بات کرتا ہے اس کا فعل اس کی مخالفت کرتا ہے۔ پس کلام ایک ایسی چیز ہے جو انسان کو بلند مراتب پر فائز کرتی ہے یا اس کو پستی میں گرا دیتی ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یُّعْجِبُکَ قَوْلُہٗ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا﴾ ” بعض لوگ وہ ہیں جن کی بات تجھ کو اچھی لگتی ہے دنیا کی زندگی میں“ یعنی جب وہ بات کرتا ہے تو اس کی باتیں سننے والے کو بہت اچھی لگتی ہیں۔ جب وہ بات کرتا ہے تو آپ سمجھتے ہیں کہ وہ بہت ہی فائدہ مند بات کر رہا ہے۔ اور بات کو مزید موکد بناتا ہے۔ ﴿ وَیُشْہِدُ اللّٰہَ عَلٰی مَا فِیْ قَلْبِہٖ ۙ﴾۔ اور جو اس کے دل میں ہے، اس پر وہ اللہ کو گواہ بناتا ہے“ یعنی وہ خبر دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس بات سے آگاہ ہے کہ اس کے دل میں وہی کچھ ہے جس کا اظہار وہ زبان سے کر رہا ہے، درآنحالیکہ وہ اس بارے میں جھوٹا ہے، کیونکہ اس کا فعل اس کے قول کی مخالفت کرتا ہے۔ اگر وہ سچا ہوتا تو اس کا فعل اس کے قول کی موافقت کرتا جیسا کہ سچے مومن کا حال ہوتا ہے۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿َھُوَ اَلَدُّ الْخِصَامِ﴾” اور وہ سخت جھگڑالو ہے“ یعنی جب کبھی آپ اس سے بحث کرتے ہیں تو آپ دیکھتے ہیں کہ اس میں سخت جھگڑالو پن، سرکشی اور تعصب جیسی مذموم صفات موجود ہیں اور ان کے نتیجے میں، اس کے اندر وہ اوصاف پائے جاتے ہیں جو قبیح ترین اوصاف ہیں۔ یہ اوصاف اہل ایمان کے اوصاف کی مانند نہیں ہیں۔ وہ اہل ایمان جنہوں نے سہولت کو اپنی سواری، اطاعت حق کو اپنا وظیفہ اور عفو و درگزر کو اپنی طبیعت بنا لیا۔ البقرة
205 ﴿ وَاِذَا تَوَلّٰی﴾” اور جب وہ پیٹھ پھیر کر چلا جاتا ہے“ یعنی یہ شخص جب آپ کے پاس موجود ہوتا ہے تو اس کی باتیں آپ کو بہت خوش کن لگتی ہیں، جب وہ آپ کے ہاں سے واپس لوٹتا ہے۔ ﴿ سَعٰی فِی الْاَرْضِ لِیُفْسِدَ فِیْہَا ﴾” تو زمین میں دوڑتا پھرتا ہے، تاکہ اس میں فتنہ انگیزی کرے۔“ یعنی وہ گناہ اور نافرمانی کے کاموں میں دوڑ دھوپ کرتا ہے جو زمین میں فساد برپا کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ ﴿ وَیُہْلِکَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ ۭ﴾” اور کھیتی اور نسل کو نابود کر دے۔“ اور اس سبب سے کھیتیاں، باغات اور مویشی تباہ ہوتے ہیں یا ان میں کمی واقع ہوتی ہے اور گناہوں کے سبب سے برکت اٹھ جاتی ہے۔ ﴿ وَاللّٰہُ لَا یُحِبُّ الْفَسَادَ﴾ ” اور اللہ فساد کو پسند نہیں کرتا“ اور جب وہ فساد کو پسند نہیں کرتا تو وہ زمین میں فساد پھیلانے والے بندے کو سخت ناپسند کرتا ہے خواہ یہ بندہ اپنی زبان سے بہت اچھی اچھی باتیں ہی کیوں نہ کرتا ہو۔ اس آیت کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ باتیں جو لوگوں کے منہ سے صادر ہوتی ہیں ان کے صدق یا کذب اور نیکی یا بدی پر اس وقت تک دلالت نہیں کرتیں جب تک اس کا عمل ان باتوں کی تصدیق نہ کر دے۔ یہ آیت اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ گواہوں، حق پرستوں اور باطل پرستوں کے احوال کی تحقیق اور ان کے اعمال اور قرائن احوال میں غور و فکر کے ذریعے سے ان کی پہچان کی جائے، نیز ان کی ملمع سازی اور ان کی پاکی داماں کے دعوؤں سے دھوکہ نہیں کھانا چاہئے۔ البقرة
206 پھر اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا کہ گناہوں اور نافرمانیوں کے ذریعے سے زمین میں فساد پھیلانے والے اس شخص کو جب اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کی تلقین کی جاتی ہے تو تکبر کرنے لگتا ہے۔ ﴿ اَخَذَتْہُ الْعِزَّۃُ بِالْاِثْمِ ﴾” کھینچ لاتا ہے غرور اس کو گناہ پر“ چنانچہ اس کے اندر گناہ اور معاصی کے اعمال اور نصیحت کرنے والوں کے خلاف متکبرانہ رویہ اکٹھے ہوجاتے ہیں۔ ﴿ فَحَسْبُہٗ جَہَنَّمُ ۭ﴾” پس اس کے لئے جہنم کافی ہے“ جو نافرمان متکبرین کا ٹھکانا ہے۔ ﴿ وَلَبِئْسَ الْمِہَادُ﴾ ” اور بہت برا ٹھکانا ہے۔“ یعنی بہت ہی برا ٹھکانا اور مسکن ہے جہاں وہ کبھی نہ ختم ہونے والی مایوسی اور دائمی عذاب میں مبتلا رہیں گے، ان کے عذاب میں کبھی تخفیف نہیں کی جائے گی۔ وہ ثواب کی کوئی امید نہیں رکھیں گے یہ ان کے اعمال بد اور ان کے جرم کی سزا ہے۔ ہم ان کے احوال سے اللہ تعالیٰ کی پناہ کے طلبگار ہیں۔ البقرة
207 ﴿وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِیْ نَفْسَہُ ابْـتِغَاۗءَ مَرْضَاتِ اللّٰہِ ۭ وَاللّٰہُ رَءُوْفٌۢ بِالْعِبَادِ﴾” اور لوگوں میں سے بعض وہ ہے جو بیچ دیتا ہے اپنے آپ کو اللہ کی رضا جوئی میں اور اللہ بڑا مہربان ہے بندوں پر“۔ یہی لوگ توفیق یافتہ ہیں جنہوں نے اپنی جانوں کو ارزاں داموں میں بیچ دیا اور اللہ کی رضا کے حصول اور ثواب کی امید پر اپنی جانوں کو قربان کردیا۔ پس انہوں نے ” بندوں کے ساتھ انتہائی مہربان، پورا بدلہ دینے والے مال دار کو قیمت ادا کی ہے، وہ مہربان کہ جس کی شفقت و رحمت ہی سے ہے کہ اس نے ان کو اس قربانی کی توفیق بخشی اور اس نے اس قربانی کے پورے بدلے کا وعدہ فرمایا ﴿ إِنَّ اللَّـهَ اشْتَرَىٰ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُم بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ ۚ ﴾( التوبہ: 9؍ 111) ” بے شک اللہ نے خرید لیا ہے مسلمانوں سے ان کی جانوں کو اور مالوں کو اس کے بدلے کہ ان کے لیے جنت ہے۔“ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ مومنوں نے اپنی جانوں کو فروخت اور قربان کردیا ہے اور اللہ نے ان کے مطلوب و مقصود کے حصول کے لئے اپنی واجب شفقت و رحمت کی خبر دی ہے۔ پس اس کے بعد، ان پر اللہ کریم جو نوازشات فرمائے گا اور جو کامیابی و کامرانی ان کو حاصل ہوگی، اس کی بابت مت پوچھ۔ البقرة
208 یہ اہل ایمان کے لئے اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ وہ مکمل طور پر اسلام میں داخل ہوجائیں۔ یعنی دین کے تمام احکام پر عمل کریں اور ان احکام میں سے کسی حکم کو ترک نہ کریں اور ان لوگوں میں شامل نہ ہوں جنہوں نے اپنی خواہشات کو اپنا معبود بنا لیا۔ اگر شرعی حکم ان کی خواہش نفس کے مطابق ہوتا ہے تو اس پر عمل کرلیتے ہیں اگر یہ حکم خواہش نفس کے خلاف ہو تو اسے چھوڑ دیتے ہیں، بلکہ یہ فرض ہے کہ بندے کی خواہش دین کے تابع ہو، بھلائی کا ہر وہ کام کرے جس پر اسے قدرت حاصل ہو اور جس کام کے کرنے سے وہ عاجز ہو، اس کی کوشش کرے اور اس کو بجا لانے کی نیت رکھے، پس اپنی نیت سے وہ اسے پا لے گا۔ چونکہ دین میں مکمل طور پر داخل ہونا شیطان کے راستوں کی مخالفت کئے بغیر ممکن نہیں اور نہ اس کا تصور کیا جاسکتا ہے اس لئے فرمایا : ﴿ وَلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ ۭ﴾” اور شیطان کے نقش قدم کی اتباع نہ کرو۔“ یعنی اپنے اعمال میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتے ہوئے شیطان کے نقش قدم کی پیروی نہ کرو ﴿ اِنَّہٗ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ﴾” وہ تمہارا ظاہر دشمن ہے۔“ یعنی اس کی دشمنی ظاہر ہے۔ ایسا دشمن جس کی عداوت ظاہر ہو ہمیشہ تمہیں برائی، فواحش اور ایسے کاموں کا حکم دیتا ہے جو تمہارے لئے نقصان دہ ہوں۔ البقرة
209 چونکہ بندے سے ہمیشہ کوتاہی اور لغزش واقع ہوتی رہتی ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ فَاِنْ زَلَلْتُمْ﴾” اگر تم پھسل جاؤ۔“ یعنی اگر تم سے کوئی لغزش ہوجائے اور تم گناہ میں پڑجاؤ ﴿ مِّنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَتْکُمُ الْبَیِّنٰتُ﴾” احکام روشن پہنچ جانے کے بعد“ یعنی علم اور یقین ہوجانے کے بعد﴿’ فَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ﴾ ’’ تو جان لو کہ اللہ غالب حکمت والا ہے۔ “ اس آیت میں نہایت سخت و عید اور تخویف ہے جو لغزشوں کو ترک کرنے کی موجب ہے، کیونکہ جب نافرمان لوگ اس غالب اور حکمت والی ہستی کی نافرمانی کرتے ہیں تو وہ نہایت قوت کے ساتھ ان کو پکڑتی ہے اور اپنی حکمت کے تقاضے کے مطابق ان کو سزا دیتی ہے، کیونکہ نافرمانوں اور مجرموں کو سزا دینا اس کی حکمت کا تقاضا ہے۔ البقرة
210 یہ بہت سخت وعید اور تہدید ہے جس سے دل کانپ جاتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ کیا شیطان کے نقش قدم کی پیروی کرنے والے، زمین میں فساد پھیلانے والے اور اللہ تعالیٰ کے حکم کو رد کرنے والے روز جزا کے منتظر ہیں جو ہولناکیوں، سختیوں اور خوفناک مناظر سے بھرپور ہوگا اور بڑے بڑے ظالموں کے دل دہلا دے گا اور جس میں فساد برپا کرنے والوں کو ان کے اعمال کی بری جزا گھیر لے گی۔ یہ سب کچھ یوں ہوگا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ زمین و آسمان کو لپیٹ دے گا، ستارے بکھر جائیں گے، سورج اور چاند بے نور ہوجائیں گے۔ مکرم فرشتے نازل ہوں گے اور تمام خلائق کو گھیرے میں لے لیں گے اور اللہ تعالیٰ بادلوں کے سائے میں نزول فرمائے گا، تاکہ وہ اپنے بندوں کے درمیان عدل و انصاف کے ساتھ فیصلے کرے۔ ترازو نصب کردی جائیں گی، اعمال نامے کھول کر پھیلا دیئے جائیں گے سعادت مند لوگوں کے چہرے سفید اور روشن ہوں گے اور بدبخت گناہگاروں کے چہرے سیاہ اور تاریک ہوں گے۔ نیک لوگ بدکاروں سے علیحدہ ہوجائیں گے اور ہر ایک کو اس کے عمل کا بدلہ دیا جائے گا۔ پس ظالم وہاں (افسوس کے طور پر) اپنے ہاتھوں کو کاٹے گا، جب اپنی آنکھوں سے روز جزا کی حقیقت کا مشاہدہ کرے گا۔ یہ آیت کریمہ اور اس قسم کی دیگر آیات اہل سنت و الجماعت کے مذہب کی حقانیت پر دلالت کرتی ہیں جو اللہ تعالیٰ کی صفات اختیاری، مثلاً استواء علی العرش ” نزول“ اور ” آمد“ جیسی صفات کا اثبات کرتی ہیں جن کے بارے میں خود اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے۔ اہل سنت بغیر کسی تشبیہ، تعطیل اور تاویل و تحریف کے ان صفات کا ان کے ایسے معانی کے ساتھ اثبات کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے جلال اور عظمت کے لائق ہیں۔ اس کے برعکس اہل تعطیل کے مختلف گروہ، مثلاً جہمیہ، معتزلہ، اور اشاعرہ وغیرہ ان صفات کی نفی کرتے ہیں اور پھر اپنے مذہب کی تائید کے لئے ان آیات کریمہ کی ایسی ایسی تاویلیں کرتے ہیں جن کی اللہ تعالیٰ نے کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ تاویلات اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تبیین کو ناقص قرار دیتی ہیں۔ وہ اس زعم باطل میں مبتلا ہیں کہ اس بارے میں صرف ان کی تاویلات ہی کے ذریعے سے ہدایت حاصل ہوسکتی ہے۔ پس ان لوگوں کے پاس کوئی نقلی دلیل، بلکہ کوئی عقلی دلیل بھی نہیں ہے۔ جہاں تک نقلی دلیل کی بات ہے تو ان لوگوں کو خود اعتراف ہے کہ قرآن اور سنت کے ظاہری الفاظ بلکہ واضح الفاظ اہل سنت کے مذہب پر دلالت کرتے ہیں۔ جب کہ یہ حضرات اپنے باطل مذہب کی تائید اور اس کو ثابت کرنے کے لئے ان نصوص کے ظاہری معنی سے باہر نکلنے اور ان میں کمی بیشی کرنے پر مجبور ہیں اور جیسا کہ آپ جانتے ہیں اس چیز کو کوئی ایسا شخص پسند نہیں کرسکتا جس کے دل میں رتی بھر بھی ایمان ہے۔ رہی عقلی دلیل تو کوئی عقلی دلیل ایسی نہیں جو مذکورہ صفات الٰہی کی نفی پر دلالت کرے، بلکہ عقل تو اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ فاعل، فعل پر قدرت نہ رکھنے والے سے زیادہ کامل ہوتا ہے اور یہ کہ اللہ تعالیٰ کا فعل، جو اس کی اپنی ذات سے متعلق ہو یا اس کی مخلوق سے متعلق، وہ ایک کمال ہی ہے۔ اگر وہ یہ اعتراض کریں کہ ان صفات کا اثبات، مخلوق کے ساتھ تشبیہ پر دلالت کرتا ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ صفات پر بحث، ذات پر بحث کے تابع ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کی ذات مخلوق کی ذات سے مشابہت نہیں رکھتی اسی طرح اللہ تعالیٰ کی صفات پر بحث، ذات پر بحث کے تابع ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کی ذات مخلوق کی ذات سے مشابہت نہیں رکھتی اسی طرح اللہ تعالیٰ کی صفات مخلوق کی صفات سے مشابہت نہیں رکھتیں۔ اللہ تعالیٰ کی صفات اس کی ذات کے تابع ہیں اور مخلوق کی صفات ان کی ذات کے تابع ہیں۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ کی صفات کے اثبات سے، کسی بھی پہلو سے مخلوق کی صفات کے ساتھ مشابہت لازم نہیں آتی۔ نیز اس شخص سے یہ بھی کہا جائے گا، جو اللہ تعالیٰ کی بعض صفات کا اقرار کرتا ہے اور اس کی بعض صفات کا منکر ہے یا وہ اللہ تعالیٰ کے اسماء کا اقرار کرتا ہے اور اس کی صفات کی نفی کرتا ہے کہ یا تو آپ اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کا اثبات کریں جیسے اللہ تعالیٰ نے خود اپنی ذات کے لئے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان صفات کا اثبات کیا ہے یا ان تمام صفات کی نفی کر کے اللہ رب العالمین کے منکر بن جائیں لیکن آپ کا بعض صفات کا اثبات کرنا اور بعض صفات کی نفی کرنا تو محض تناقض ہے اس لئے آپ ان صفات میں جن کا آپ اثبات کرتے ہیں اور ان صفات میں جن کی آپ نفی کرتے ہیں، فرق ثابت کریں اور اس تفریق پر آپ کے پاس کوئی دلیل نہیں۔ اگر آپ کہیں کہ جن صفات کا میں نے اثبات کیا ہے ان سے تشبیہ لازم نہیں آتی تو صفات الٰہی کا اثبات کرنے والے اہل سنت آپ سے یہ کہتے ہیں کہ جن صفات کی آپ نے نفی کی ہے ان سے بھی تشبیہ لازم نہیں آتی۔ اگر آپ کہتے ہیں کہ جن صفات کی میں نفی کی ہے میرے نزدیک تو ان میں تشبیہ ہی لازم آتی ہے۔ تو صفات کی نفی کرنے والے تجھے کہیں گے کہ جن صفات کا آپ اثبات کرتے ہیں، ہمیں تو ان میں بھی تشبیہ لازم نہیں آتی۔ اگر آپ کہتے ہیں کہ جن صفات کی میں نے نفی کی ہے میرے نزدیک تو ان میں تشبیہ ہی لازم آتی ہے تو صفات کی نفی کرنے والے تجھے کہیں گے کہ جن صفات کا آپ اثبات کرتے ہیں، ہمیں تو ان میں بھی تشبیہ ہی نظر آتی ہے۔ پس جو جواب آپ نفی کرنے والوں کو دیں گے وہی جواب اہل سنت آپ کو ان صفات کی بابت دیں گے جن کی آپ نفی کرتے ہیں۔ حاصل بحث یہ ہے کہ جو کوئی کسی ایسے امر کی نفی کرتا ہے جس کے اثبات پر قرآن اور سنت دلالت کرتے ہیں، تو وہ تناقض کا شکار ہے۔ اس کے پاس کوئی شرعی دلیل ہے نہ عقلی، بلکہ وہ معقول اور منقول دونوں کی مخالفت کا مرتکب ہے۔ البقرة
211 ﴿ سَلْ بَنِیْٓ اِسْرَاۗءِ یْلَ کَمْ اٰتَیْنٰھُمْ مِّنْ اٰیَۃٍۢ بَیِّنَۃٍ ۭ﴾ ” بنی اسرائیل سے پوچھیں، کتنی ہی واضح نشانیاں ہم نے ان کو دیں؟“ ایسی آیتیں جو حق اور رسولوں کی صداقت پر دلالت کرتی ہیں، انہوں نے ان آیات کو پہچان لیا اور ان کی حقانیت کا انہیں یقین بھی ہوگیا مگر وہ اللہ تعالیٰ کی اس نعمت پر اس کا شکر نہ بجا لائے جو اس نعمت کا تقاضا ہے، بلکہ انہوں نے اس نعمت کی ناشکری کی اور اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کو کفران نعمت سے بدل ڈالا۔ پس وہ اس بات کے مستحق بن گئے کہ اللہ تعالیٰ ان پر اپنا عذاب نازل کرے اور ان کو اپنے ثواب سے محروم رکھے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے کفران نعمت کو ” نعمت کی تبدیلی“ اس لئے کہا کہ اللہ تعالیٰ جس شخص کو کوئی دینی یا دنیاوی نعمت عطا کرتا ہے اور وہ اس نعمت پر اللہ تعالیٰ کا شکر نہیں کرتا اور اس کے واجبات کو ادا نہیں کرتا تو یہ نعمت اضمحلال کا شکار ہوجاتی ہے اور اس کے پاس سے چلی جاتی ہے اور کفر اور معاصی اس کی جگہ لے لیتے ہیں۔ اس طرح گویا کفر، نعمت کا بدل ہوگیا اور جو کوئی اس نعمت پر اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لاتا ہے اور اس کے حقوق کو ادا کرتا ہے تو وہ نعمت نہ صرف ہمیشہ برقرار رہتی ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ اس کے لئے اس نعمت میں اضافہ کردیتا ہے۔ البقرة
212 اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ، اس کی آیات اور اس کے رسولوں کا انکار کرتے ہیں اور اس کی شریعت کے مطابق زندگی بسر نہیں کرتے اللہ تعالیٰ ان کے سامنے دنیاوی زندگی کو مزین اور آراستہ کردیتا ہے۔ دنیا کی یہ زندگی ان کے دلوں میں اور ان کی آنکھوں کے سامنے خوشنما بنا دی جاتی ہے، پس وہ اس دنیا میں مگن اور اس پر مطمئن ہوجاتے ہیں تو ان کی خواہشات، ان کے ارادے اور ان کا عمل سب دنیا کے لئے ہوجاتے ہیں۔ وہ دنیا کی طرف بھاگتے ہیں، اسی کے حصول میں ہمہ تن مغشول رہتے ہیں، وہ اس دنیا اور اپنے جیسے دنیا داروں کی تعظیم کرتے ہیں اور اہل ایمان سے نہایت حقارت سے پیش آتے ہیں اور ان کا تمسخر اڑاتے ہیں اور کہتے ہیں ” کیا یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے احسان فرمایا؟“ یہ ان کی کم عقلی اور کم نظری ہے، کیونکہ یہ دنیا آزمائش اور امتحان کا گھر ہے اس دنیا میں اہل ایمان اور اہل کفر، ان سب کو آزمائش کی یہ سختیاں برداشت کرنی پڑتی ہیں، بلکہ اس دنیا کے اندر مومن کو اگر کوئی تکلیف پہنچتی ہے اور وہ اس پر صبر کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ایمان اور صبر کی بنا پر اس کی تکلیف میں تخفیف کردیتا ہے کسی اور کے لئے یہ تخفیف نہیں ہوتی۔ اس لئے تمام معاملہ اور تمام تر فضیلت وہ ہے جو آخرت میں عطا ہو۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿ وَالَّذِیْنَ اتَّقَوْا فَوْقَہُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ ۭ﴾” پرہیز گار ان سے بلند ہوں گے قیامت کے دن“ پس اہل تقویٰ قیامت کے روز بلند ترین درجات پر فائز ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کی انواع و اقسام کی نعمتوں، مسرتوں، تروتازگی اور خوبصورتی سے لطف اندوز ہوں گے اور کفار ان کے نیچے جہنم کی اتھاہ گہرائیوں میں مختلف قسم کے عذاب، ابدی اہانت اور بدبختی میں مبتلا رہیں گے جس کی کوئی انتہا نہ ہوگی۔ پس اس آیت کریمہ میں اہل ایمان کے لئے تسلی اور کفار کے لئے ان کے برے انجام کی اطلاع ہے۔ چونکہ دنیاوی اور اخروی رزق صرف اللہ تعالیٰ کی تقدیر اور اس کی مشیت ہی سے حاصل ہوتے ہیں اس لئے فرمایا : ﴿ وَاللّٰہُ یَرْزُقُ مَنْ یَّشَاۗءُ بِغَیْرِ حِسَابٍ﴾ ” اور اللہ رزق دیتا ہے جسے چاہتا ہے، بغیر حساب کے“ پس دنیاوی رزق تو مومن اور کافر سب کو عطا ہوتا ہے۔ رہا علم و ایمان، محبت الٰہی، اللہ کا ڈر اور اس پر امید تو یہ دلوں کا رزق ہے جو اللہ تعالیٰ صرف اسے عطا کرتا ہے جس سے وہ محبت کرتا ہے۔ البقرة
213 یعنی وہ سب ہدایت پر جمع تھے اور یہ سلسلہ آدم علیہ السلام کے بعد دس صدیوں تک جاری رہا۔ پھر جب انہوں نے دین میں اختلاف کیا تو ایک گروہ کافر ہوگیا اور دوسرا گروہ دین پر قائم رہا اور ان کے درمیان اختلاف ہوگیا تو اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے درمیان فیصلے اور ان پر حجت قائم کرنے کے لئے رسول بھیجے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ تمام لوگ کفر، ضلالت اور شقاوت پر مجتمع تھے۔ ان کے سامنے کوئی روشنی اور ایمان کی کوئی کرن نہ تھی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف انبیاء و رسل علیہ السلام بھیج کر ان پر رحم فرمایا ﴿ مُبَشِّرِیْنَ﴾” بشارت دینے والے“ یعنی یہ رسول لوگوں کو خوشخبری سناتے کہ اللہ کی اطاعت کے ثمرات، رزق، قلب و بدن کی قوت اور پاکیزہ زندگی کی صورت میں ہوں گے۔۔۔ اور ان سب سے بڑھ کر وہ کامیابی ہے جو اللہ کی رضا مندی اور جنت کی صورت میں حاصل ہوگی۔ ﴿ وَمُنْذِرِیْنَ ۠﴾ اور اللہ کے نافرمانوں کو معصیت کے نتائج سے ڈراتے ہیں جو دنیا میں رزق سے محرومی، کمزوری، اہانت اور تنگ زندگی کی صورت میں نکلتے ہیں اور آخرت میں ایسے لوگوں کے لئے بدترین عذاب، اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور جہنم ہے۔ ﴿ وَاَنْزَلَ مَعَہُمُ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ﴾” اور ان کے ساتھ کتاب اتاری ساتھ حق کے۔“ اس سے مراد وہ سچی خبریں اور عدل پر مبنی احکام ہیں جنہیں اللہ کے رسول لے کر مبعوث ہوتے رہے ہیں۔ پس وہ تمام اخبار و احکام جن پر کتب الٰہیہ مشتمل ہیں، حق ہیں اور اصول و فروع میں اختلاف کرنے والوں کے مابین فیصلہ کرتے ہیں اور اختلاف اور تنازع واقع ہونے کی صورت میں فرض ہے کہ اختلاف اور تنازع کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹایا جائے۔ اگر کتاب اللہ اور سنت رسول میں ان اختلاف کرنے والوں کے نزاع کا فیصلہ موجود نہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے جھگڑوں کو ان کی طرف لوٹا نے کا حکم نہ دیتا۔ چونکہ اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب پر کتابیں نازل فرما کر اپنی عظیم نعمت کا ذکر کیا ہے۔ اس نعمت کا تقاضا تھا کہ وہ ان کتابوں پر اتفاق کرتے ہوئے اکٹھے ہوتے، لیکن اللہ تعالیٰ نے بتلایا کہ انہوں نے ایک دوسرے پر زیادتی کا ارتکاب کیا جس کے نتیجے میں نزاعات، جھگڑے اور بے شمار اختلافات ظاہر ہوئے، چنانچہ انہوں نے اس کتاب میں اختلاف کیا جس کے بارے میں ان کے لئے مناسب یہ تھا کہ وہ اس کتاب پر لوگوں میں سے سب سے زیادہ اتفاق کرنے والے ہوتے اور ان کا یہ رویہ آیات بینات اور دلائل قاطعہ کو جان لینے اور ان کی صداقت پر یقین ہوجانے کے بعد تھا۔ پس وہ اپنے اس رویے کی وجہ سے دور کی گمراہی میں جا پڑے۔ ﴿ۚفَہَدَی اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ﴾” پس اللہ نے مومنوں کو راہ دکھا دی۔“ یعنی اللہ تعالیٰ نے اس امت کے اہل ایمان کی راہنمائی فرمائی ﴿ لِمَا اخْتَلَفُوْا فِیْہِ مِنَ الْحَقِّ﴾” ان چیزوں میں جن میں انہوں نے اختلاف کیا، حق سے“ یعنی اللہ تعالیٰ نے ہر اس معاملے میں اہل ایمان کی راہنمائی فرمائی جس میں اہل کتاب اختلافات کا شکار ہو کر حق و صواب سے دور ہٹ گئے۔ اللہ تعالیٰ نے اس امت کی حق و صواب کی طرف راہنمائی فرمائی ﴿ بِاِذْنِہٖ ۭ﴾” اپنے حکم سے“ یعنی اپنے اذان اور اپنی رحمت سے حق و صواب کو ان کے لئے آسان کردیا۔ ﴿ وَاللّٰہُ یَہْدِیْ مَنْ یَّشَاۗءُ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَـقِیْمٍ﴾” اور اللہ جس کو چاہتا ہے سیدھے راستے کی ہدایت دیتا ہے“ پس اللہ تعالیٰ نے عدل اور مخلوق پر حجت قائم کرنے کے لئے تمام انسانوں کو صراط مستقیم کی طرف عام دعوت دی ہے۔ تاکہ وہ یہ نہ کہہ سکیں ﴿ مَا جَاءَنَا مِن بَشِيرٍ وَلَا نَذِيرٍ ﴾ (المائدة: 5؍ 19) ” ہمارے پاس تو کوئی خوشخبری دینے والا اور کوئی ڈرانے والا ہی نہیں آیا“ اور اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و رحمت اور لطف و اعانت سے اپنے بندوں میں سے جس کو چاہا ہدایت سے نوازا۔ پس ہدایت سے نوازنا، یہ اس کا فعل و احسان ہے اور ساری مخلوق کو صراط مستقیم کی طرف دعوت دینا، یہ اس کا عدل اور اس کی حکمت ہے۔ البقرة
214 اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ خوشحالی، بدحالی اور مشقت کے ذریعے سے ضرور اپنے بندوں کا امتحان لیتا ہے جیسے اس نے ان سے پہلے لوگوں کو آزمایا۔ یہ اس کی سنت جاریہ ہے اس میں کوئی تغیر و تبدل نہیں ہوتا جو کوئی اس کے دین اور شریعت پر چلنے کا دعویٰ کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے ضرور آزماتا ہے۔ اگر وہ اللہ تعالیٰ کے حکم پر صبر کرتا ہے اور اس کی راہ میں پیش آنے والے مصائب اور تکالیف کی پرواہ نہیں کرتا تو وہ اپنے دعوے میں سچا ہے اور کامل ترین سعادت اور سیادت کی منزل کو پالے گا اور جو کوئی لوگوں کے فتنے کو اللہ تعالیٰ کے عذاب کی مانند سمجھ لیتا ہے بایں طور کہ لوگوں کی اذائیں اور تکالیف اس کو اپنے راستے سے ہٹا دیتی ہیں اور امتحان اور آزمائش اس کی منزل کھوٹی کردیتے ہیں، تو وہ اپنے دعویٰ ایمان میں جھوٹا ہے۔ کیونکہ ایمان محض تمناؤں اور مجرد دعووں کا نام نہیں، بلکہ اعمال اس کی تصدیق یا تکذیب کرتے ہیں۔ سابقہ امتوں کو بھی اسی راستے سے گزرنا پڑا ہے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿ مَسَّتْہُمُ الْبَاْسَاۗءُ وَالضَّرَّاۗءُ ﴾” ان کو سختیاں اور تکلیفیں پہنچیں۔“ یعنی وہ فقر و فاقہ کا شکار ہوئے اور ان پر مختلف بیماریوں نے حملہ کیا ﴿وَزُلْزِلُوْا ﴾” اور وہ ہلا دیے گئے۔“ یعنی قتل، جلا وطنی، مال لوٹ لینے اور عزیز و اقارب کو قتل کی دھمکی کے خوف اور دیگر نقصانات کے ذریعے سے ان کو ہلا ڈالا گیا، اس حالت نے ان کو اس مقام پر پہنچا دیا کہ اللہ تعالیٰ کی نصرت اور مدد پر یقین رکھنے کے باوجود اس کے بارے میں بے یقینی کا شکار ہوگئے یہاں تک کہ معاملے کی شدت اور تنگی کی بنا پر ﴿’ حَتّٰی یَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ مَتٰی نَصْرُ اللّٰہِ ۭ﴾’’ رسول اور اس کے مومن ساتھی بھی پکار اٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی۔ “ چونکہ ہر شدت کے بعد آسانی اور تنگی کے بعد فراخی ہوتی ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿ اَلَآ اِنَّ نَصْرَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ﴾” آگاہ رہو کہ اللہ کی مدد قریب ہے“ پس ہر وہ شخص جو حق پر قائم رہتا ہے اس کا اسی طرح امتحان لیا جاتا ہے۔ جب بندہ مومن پر سختیاں اور صعوبتیں یلغار کرتی ہیں اور وہ ثابت قدمی سے ان پر صبر کرتا ہے، تب یہ امتحان اس کے حق میں انعام اور مشقتیں راحتوں میں بدل جاتی ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ اس کو دشمنوں کے خلاف فتح و نصرت سے نوازا جاتا ہے اور وہ قلب کی تمام بیماریوں سے شفایاب ہوجاتا ہے۔ یہ آیت کریمہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی نظیر ہے ﴿ أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّـهُ الَّذِينَ جَاهَدُوا مِنكُمْ وَيَعْلَمَ الصَّابِرِينَ  ﴾ل عمران : 3؍ 142) ” کیا تم نے یہ سمجھ لیا ہے کہ تم جنت میں داخل ہوجاؤ گے حالانکہ اس نے تم میں جہاد کرنے والوں کو آزما کر معلوم ہی نہیں کیا اور نیز یہ کہ وہ صبر کرنے والوں کو معلوم کرے۔“ اور اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی نظیر ہے ﴿ الم أَحَسِبَ النَّاسُ أَن يُتْرَكُوا أَن يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ۖ فَلَيَعْلَمَنَّ اللَّـهُ الَّذِينَ صَدَقُوا وَلَيَعْلَمَنَّ الْكَاذِبِينَ ﴾ (العنکبوت: 29؍ 1۔3) ” کیا لوگوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ ان کے صرف یہ کہنے سے کہ ہم ایمان لائے ان کو چھوڑ دیا جائے گا اور ان کو آزمایا نہیں جائے گا، یقیناً ہم نے ان لوگوں کو بھی آزمایا ہے جو ان سے پہلے تھے اللہ ان کو ضرور آزما کر معلوم کرے گا جو اپنے دعویٰ ایمان میں سچے ہیں اور ان کو بھی جو جھوٹے ہیں۔“ پس امتحان کے وقت ہی انسان کی عزت یا تحقیر ہوتی ہے۔ البقرة
215 لوگ آپ سے خرچ کرنے کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ یہ سوال خرچ کرنے والے اور جس پر خرچ کیا جائے، ان کے بارے میں عام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے بارے میں ان کو جواب عطا فرمایا : ﴿ قُلْ مَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ خَیْرٍ ﴾” کہہ دیجیے، جو مال تم خرچ کرنا چاہو۔“ یعنی تھوڑا یا زیادہ جو مال بھی تم خرچ کرتے ہو، اس مال کے سب سے زیادہ اور سب سے پہلے مستحق والدین ہیں جن کے ساتھ نیکی کرنا فرض اور ان کی نافرمانی حرام ہے اور والدین کے ساتھ سب سے بڑی نیکی ان پر خرچ کرنا اور ان کی سب سے بڑی نافرمانی ان پر خرچ کرنے سے گریز کرنا ہے۔ اس لئے صاحب کشائش بیٹے کے والدین پر خرچ کرنا فرض ہے۔ والدین کے بعد رشتہ داروں پر ان کے رشتوں کے مطابق خرچ کیا جائے اور ( الأقْرَبُ فَالْأقْرَبُ)” جو زیادہ قریبی ہے وہ زیادہ مستحق ہے“ کے اصول کو مدنظر رکھا جائے اور جو زیادہ قریبی اور ضرورت مند ہے اسے دیا جائے۔ پس ان پر خرچ کرنا صدقہ اور صلہ رحمی ہے۔ ﴿وَالْیَتٰمٰی﴾” یتیموں سے مراد وہ چھوٹے چھوٹے بچے ہیں جن کا کوئی کمانے والا نہیں۔ ان کے بارے میں گمان یہی ہوتا ہے کہ وہ ضرورت مند ہیں، کیونکہ ان کے لئے کوئی کمانے والا موجود نہیں ہے اور وہ خود اپنے مصالح کی دیکھ بھال نہیں کرسکتے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان پر رحم اور لطف و کرم کرتے ہوئے اپنے بندوں کو ان کے بارے میں وصیت کی ہے۔ ﴿ وَالْمَسٰکِیْنِ﴾” مساکین سے مراد حاجت مند اور ضرورت مند لوگ ہیں جنہیں ضرورتوں اور حاجتوں نے غریب و مسکین بنا دیا ہو۔ ان کی ضروریات زندگی پوری کرنے اور انہیں ضروریات سے بے نیاز کرنے کے لئے ان پر خرچ کیا جائے۔ ﴿ وَابْنِ السَّبِیْلِ ۭ﴾” اس سے مراد وہ مسافر اور اجنبی شخص ہے جو زاد سفر ختم ہوجانے کی وجہ سے دیار غیر میں پھنس کر رہ گیا ہو۔ اس پر خرچ کر کے اس کے سفر میں اس کے ساتھ تعاون کیا جائے، تاکہ وہ اپنی منزل مقصود پر پہنچ جائے۔ اللہ تعالیٰ نے ضرورت مندوں کی ان تمام اصناف کو خاص طور پر ذکر کرنے کے بعد اس حکم کو عام کردیا اور فرمایا : ﴿وَمَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ﴾” اور جو بھلائی تم کرو گے۔“ یعنی مذکورہ بالا اور دیگر لوگوں پر تم جو کچھ خرچ کرتے ہو، بلکہ نیکی اور تقرب الٰہی کا جو کام بھی کرتے ہو، اس میں سب شامل ہیں، کیونکہ یہ تمام کام ” خیر“ یعنی بھلائی کے تحت آتے ہیں ﴿ فَاِنَّ اللّٰہَ بِہٖ عَلِیْمٌ﴾” اللہ (بھلائی کے) ان تمام کاموں کو جانتا ہے“ پس وہ تمہیں ان کا بدلہ عطا کرے گا اور اس کو وہ تمہارے لئے محفوظ رکھتا ہے، ہر شخص کو اس کی نیت، اخلاص، اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی قلت یا کثرت، ضرورت مندوں کی ضرورت کی شدت، اس خرچ کی وقعت اور فائدے کے مطابق جزا ملے گی۔ البقرة
216 اس آیت کریمہ میں اہل ایمان پر اللہ تعالیٰ کے راستے میں (کافروں کے ساتھ) قتال فرض کیا گیا ہے اس سے قبل وہ ترک قتال پر مامور تھے، کیونکہ وہ کمزور تھے اور قتال کے متحمل نہیں تھے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت فرما کر مدینہ منورہ آگئے، مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہوگئی اور وہ طاقتور ہوگئے، تو اللہ تعالیٰ نے ان کو قتال کا حکم دے دیا۔ ان کو یہ بھی بتا دیا کہ مشقت، تکان، مختلف قسم کے خوف اور ہلاکت کے خطرے کی وجہ سے نفس کو جہاد اور قتال ناپسند ہے۔ اس کے باوجود قتال خالص نیکی ہے جس میں بہت بڑا ثواب، جہنم کے عذاب سے حفاظت، دشمن پر فتح و نصرت اور مال غنیمت وغیرہ کا حصول ہے۔ یہ تمام چیزیں قتال کے ناپسند ہونے کے باوجود مرغوب ہوتی ہیں۔ ﴿ وَعَسٰٓی اَنْ تُحِبُّوْا شَـیْـــــًٔـا وَّھُوَ شَرٌّ لَّکُمْ ۭ﴾” اور شاید تم کسی چیز کو پسند کرو اور وہ تمہارے لئے بری ہو“ مثلاً محض راحت اور آرام کی خاطر جہاد چھوڑ کر گھر بیٹھ رہنا۔ یہ بہت بڑی برائی ہے اس کا نتیجہ پسپائی، اسلام اور مسلمانوں پر کفار کے تسلط، ذلت اور رسوائی، بہت بڑے ثواب سے محرومی اور جہنم کے عذاب کے سوا کچھ نہیں۔ یہ آیات کریمہ اس بات کی بابت عام ہیں کہ نیکی کے وہ کام جن کو نفوس ناپسند کرتے ہیں۔ کیونکہ ان کے کرنے میں مشقت ہے۔ بلاشک و شبہ بھلائی ہیں اور برے کام جن کو نفوس پسند کرتے ہیں۔ کیونکہ ان میں لذت و راحت کا واہمہ ہے۔ بلاشک و شبہ شر ہیں۔ رہے دنیا کے حالات تو یہ اصول عام نہیں، لیکن غالب طور پر بندہ مومن جب کسی معاملے کو پسند کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے سامنے ایسے اسباب پیدا کردیتا ہے جو اس کے اس خیال کو دور کردیتے ہیں کہ یہ معاملہ اس کے لئے اچھا ہے۔ پس اس کے لئے زیادہ بہتر یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے اور فی الواقع خیر ہی کا اعتقاد رکھے، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے پر اس سے کہیں زیادہ رحم کرتا ہے جتنا بندہ اپنے آپ پر رحم کرسکتا ہے اور اپنے بندے کے مصالح کی اس سے کہیں زیادہ دیکھ بھال کرتا ہے جتنی دیکھ بھال بندہ خود کرسکتا ہے اللہ تعالیٰ بندے سے زیادہ اس کے مصالح کو جانتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَاللّٰہُ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ﴾” اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے“ لہٰذا تمہارے لئے مناسب یہی ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی قضاء و قدر کے ساتھ ساتھ چلو، خواہ تمہیں اچھے لگیں یا برے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ نے قتال کا (مطلق) حکم دیا ہے اور اگر اس حکم کو مقید نہ کیا جائے تو اس میں حرام مہینوں میں قتال بھی شامل ہوجائے گا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان حرام مہینوں کو مستثنیٰ قرار دے دیا۔ البقرة
217 جمہور مفسرین کہتے ہیں کہ حرام مہینوں میں قتال کی حرمت اس آیت کے ذریعے سے منسوخ ہوگئی ہے جس میں حکم ہے کہ مشرکوں سے لڑو جہاں کہیں بھی ان کو پاؤ۔ (اشارہ ہے البقرہ ؍191، النساء ؍89، 91 کی طرف۔ مترجم) اور بعض مفسرین کی رائے ہے کہ یہ آیت منسوخ نہیں، کیونکہ مطلق کو مقید پر محمول کیا جاتا ہے یہ آیت کریمہ قتال کے عام اور مطلق حکم کو مقید کرتی ہے۔ نیز اس لئے بھی کہ حرام مہینوں کی جملہ خوبیوں میں سے ایک خوبی، بلکہ سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ان مہینوں میں لڑائی حرام ہے۔ یہ حکم لڑائی کی ابتدا کرنے کے بارے میں ہے۔ رہی دفاعی جنگ تو یہ حرام مہینوں میں بھی جائز ہے جیسے حرم کے اندر دفاعی جنگ لڑنا جائز ہے۔ اس آیت کریمہ کے نازل ہونے کا سبب یہ ہے کہ عبداللہ حجش رضی اللہ عنہ کے سر یہ میں مسلمانوں نے عمرو بن الحضرمی کو قتل کردیا اور مشرکوں کا مال لوٹ لیا۔۔۔ روایات کے مطابق۔۔۔ یہ سریہ رجب کے مہینے میں واقع ہوا تھا، اس لئے مشرکین نے عار دلائی کہ مسلمانوں نے حرام مہینوں میں لڑائی کی ہے، حالانکہ اس عار دلانے میں وہ زیادتی کا ارتکاب کر رہے تھے، کیونکہ خود ان میں بہت سی برائیاں تھیں ان میں سے بعض برائیاں تو ایسی تھیں جو اس برائی سے بڑی تھیں جس پر مشرکین مسلمانوں کو عار دلا رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان برائیوں کو بیان کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ وَصَدٌّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ﴾” اور اللہ کی راہ سے روکنا۔“ یعنی مشرکین کا لوگوں کو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے سے روکنا، اہل ایمان کو آزمائش میں ڈالنا، ان کو ان کے دین سے ہٹا دینے کی کوشش کرنا اور حرمت والے مہینے اور حرمت والے شہر میں کفر کا ارتکاب کرنا وغیرہ اور قباحت کے لئے تو مجرد کفر ہی کافی ہے۔۔۔ تب اس برائی کی شدت اور قباحت کا کیا حال ہوگا اگر اس کا ارتکاب حرمت والے مہینے اور حرمت والے شہر میں کیا جائے۔ ﴿ وَ اِخْرَاجُ اَھْلِہٖ مِنْہُ﴾” اور اہل مسجد کو اس میں سے نکال دینا“ یعنی مسجد حرام میں عبادت کرنے والوں کو مسجد سے نکالنا، اس سے مراد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہ ہیں کیونکہ وہ مسجد حرام میں عبادت کرنے کے مشرکوں سے زیادہ حق دار ہیں۔ وہی درحقیقت مسجد حرام کو آباد کرنے والے ہیں۔ پس مشرکین نے ان کو مسجد حرام سے نکال دیا اور ان کے لئے مسجد حرام تک پہنچنا ممکن نہ رہا۔ حالانکہ یہ گھر مکہ کے رہنے والوں اور باہر کے لوگوں کے لئے برابر حیثیت رکھتا ہے۔ ﴿ اَکْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ ۭ ﴾” خون ریزی سے بھی بڑھ کر ہے“ یعنی ان تمام برائیوں میں سے ہر ایک برائی کی قباحت حرام مہینوں میں قتل کی قباحت سے بڑھ کر ہے، تب ان کا کیا حال ہے جبکہ ان کے اندر مذکورہ تمام برائیاں ہی جمع ہیں؟ تو معلوم ہوا کہ یہ فاسق وفا جر لوگ ہیں اور اہل ایمان کو عار دلانے میں زیادتی سے کام لے رہے ہیں۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ مشرکین اہل ایمان سے لڑتے رہیں گے اور اس لڑائی سے ان کی غرض اہل ایمان کو قتل کرنا یا ان کے اموال لوٹنا نہیں، بلکہ ان کی غرض و غایت صرف یہ ہے کہ اہل ایمان اپنا دین چھوڑ کر پھر کفر کی طرف لوٹ جائیں اور اس طرح وہ پھر سے جہنمیوں کے گروہ میں شامل ہوجائیں۔ پس وہ مسلمانوں کو اپنے دین سے پھیرنے کے لئے پوری قوت استعمال کر رہے ہیں اور امکان بھر اسی کوشش میں مصروف ہیں مگر اللہ تعالیٰ اپنی ہدایت کی روشنی کو مکمل کر کے رہے گا خواہ کفار کو کتنا ہی ناگوار کیوں نہ گزرے۔ تمام کفار کا عام طور پر یہی رویہ ہے وہ دوسرے لوگوں سے ہمیشہ برسر پیکار رہیں گے جب تک کہ ان کو اپنے دین سے پھیر نہ دیں۔ خاص طور پر یہود ونصاریٰ نے اس مقصد کے لئے جماعتیں تشکیل دیں، اپنے داعی بھیجے، طبیب پھیلائے اور مدارس قائم کئے، تاکہ دوسری قوموں کو اپنے مذہب میں جذب کرلیں۔ ان کے اذہان میں ہر وہ شبہ ڈال دیں جو ان کے دین میں شک پیدا کرے مگر امید ہے کہ اللہ تعالیٰ جس نے اہل ایمان کو اسلام جیسی نعمت عطا کر کے احسان فرمایا اور اپنے اس دین قیم کو ان کے لئے چن لیا اور اپنے دین کو ان کے لئے مکمل کیا، ان پر اپنی نعمت کو قائم کرے گا، پوری طرح اس کا اتمام کرے گا اور ہر اس طاقت کو پسپا کر دے گا جو اس کے دین کی روشنی کو بجھانے کی کوشش کرے گی، وہ ان کی چالوں کو ان کے سینوں ہی میں کچل کر رکھ دے گا اور وہ اپنے دین کی مدد اور اپنے کلمہ کو ضرور بلند کرے گا اور سورۃ الانفال کی یہ آیت کریمہ جس طرح پہلے کفار پر صادق آتی تھی، اسی طرح یہ موجودہ کفار پر بھی پوری طرح صادق آتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے۔ ﴿إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ لِيَصُدُّوا عَن سَبِيلِ اللَّـهِ ۚ فَسَيُنفِقُونَهَا ثُمَّ تَكُونُ عَلَيْهِمْ حَسْرَةً ثُمَّ يُغْلَبُونَ ۗ وَالَّذِينَ كَفَرُوا إِلَىٰ جَهَنَّمَ يُحْشَرُونَ  ﴾ (الانفال: 36؍8) ” بے شک وہ لوگ جو کافر ہیں وہ لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکنے کے لئے اپنے مال خرچ کرتے ہیں۔ وہ عنقریب ابھی اور مال خرچ کریں گے آخر کا ریہ مال خرچ کرنا ان کے لئے حسرت کا باعث بنے گا اور وہ مغلوب ہوں گے اور وہ لوگ جو کافر ہیں ان کو جہنم کی طرف ہانکا جائے گا۔ “ پھر اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا ہے کہ جو کوئی مرتد ہو کر اسلام کو چھوڑ دے اور کفر کو اختیار کرے، ہمیشہ کفر پر قائم رہے حتیٰ کہ کفر کی حالت میں مر جائے ﴿فَاُولٰۗیِٕکَ حَبِطَتْ اَعْمَالُہُمْ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ ۚ﴾” تو دنیا و آخرت میں ان کے تمام اعمال اکارت جائیں گے“ کیونکہ ان اعمال کی قبولیت کی شرط یعنی اسلام موجود نہیں ہے ﴿ وَاُولٰۗیِٕکَ اَصْحٰبُ النَّارِ ۚ ھُمْ فِیْہَا خٰلِدُوْنَ﴾” اور یہی لوگ دوزخ والے ہیں جس میں ہمیشہ رہیں گے۔“ اس آیت کریمہ کا مفہوم دلالت کرتا ہے کہ جو کوئی مرتد ہونے کے بعد پھر دین اسلام کی طرف لوٹ آئے، تو اس کا عمل اس کی طرف لوٹ آتا ہے۔ جو اس نے مرتد ہونے سے پہلے کیا تھا۔ اسی طرح جو کوئی گناہوں سے تائب ہوجاتا ہے تو اس کے سابقہ اعمال اس کی طرف لوٹ آتے ہیں۔ البقرة
218 آیت کریمہ میں مذکور تینوں اعمال سعادت کا عنوان اور عبودیت کا مرکز و محور ہیں، انہی اعمال سے پہچان ہوتی ہے کہ انسان کے پاس کیا گھاٹے یا منافع کا سودا ہے۔ رہا ایمان تو اس کی فضیلت کے بارے میں مت پوچھئے اور آپ اس چیز کے بارے میں کیسے پوچھ سکتے ہیں جو اہل سعادت اور اہل شقاوت اور جنتیوں اور جہنمیوں کے درمیان حد فاصل ہو؟ یہ ایمان ہی ہے کہ جب بندہ اس سے بہرہ ور ہوتا ہے، تو بھلائی کے تمام اعمال اس سے قبول کئے جاتے ہیں اور اگر وہ اس سے محروم ہو، تو پھر اس کا کوئی فرض اور کوئی نفل قابل قبول نہیں۔ رہی ہجرت ! تو یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی رضا کی خاطر اپنے محبوب اور مالوف وطن سے جدائی کو قبول کرنا ہے۔ پس مہاجر محض تقرب الٰہی اور نصرت دین کی خاطر اپنا وطن، اپنا مال و متاع اپنے اہل و عیال اور اپنے دوست و احباب کو چھوڑ دیتا ہے۔ رہا جہاد تو یہ دشمنان اسلام کے خلاف پوری طاقت سے جدوجہد کرنے، پوری کوشش سے اللہ تعالیٰ کے دین کی نصرت اور شیطانی نظریات کے قلع قمع کرنے کا نام ہے۔ جہاد اعمال صالحہ میں سب سے بڑا عمل ہے اور اس کی جزا بھی ہر عمل کی جزا سے افضل ہے۔ جہاد دائرہ اسلام کی توسیع، بتوں کے پجاریوں کی پسپائی اور مسلمانوں، ان کی جان و مال اور ان کی اولاد کے لئے امن کا سب سے بڑا وسیلہ اور سبب ہے۔ جو کوئی ان تینوں اعمال کو، ان کی سختیوں اور مشقتوں کے باوجود بجالاتا ہے وہ دیگر اعمال کو بدرجہ اولیٰ بجا لانے اور ان کی تکمیل پر قادر ہے۔ یہی لوگ اس بات کے زیادہ مستحق ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے امیدوار بنیں، کیونکہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی جناب میں ایسا سبب پیش کیا ہے جو اس کی رحمت کا موجب ہے۔ یہ آیت کریمہ اس بات کی دلیل ہے کہ سعادت کے اسباب کو عمل میں لا کر ہی سعادت کی امید کی جاسکتی ہے۔ رہی وہ امید جو سستی اور کاہلی پر مبنی ہو اور جس سے پہلے اسباب کو عمل میں نہ لایا گیا ہو۔ تو وہ محض عجز، آرزو اور فریب ہے اور اس قسم کی امید، کم ہمتی اور کم عقلی پر دلالت کرتی ہے۔ اس کی مثال اس شخص کی سی ہے جو نکاح کے وجود کے بغیر ہی اولاد کی اور بیج بوئے اور پانی دیئے بغیر ہی غلے کی فصل کی امید رکھتا ہو اور اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿ اُولٰۗیِٕکَ یَرْجُوْنَ رَحْمَتَ اللّٰہِ ۭ﴾” یہی لوگ اللہ کی رحمت کی امید رکھتے ہیں“ میں اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ بندہ مومن خواہ کتنے ہی بڑے بڑے اعمال لے کر اللہ تعالیٰ کی خدمت میں حاضر ہو، تب بھی اس کے لئے مناسب نہیں کہ وہ ان اعمال پر بھروسہ کرے، بلکہ وہ اپنے رب کی رحمت کی امید رکھے وہ یہ امید رکھے کہ اللہ تعالیٰ کی جناب میں اس کے اعمال قبول ہوجائیں گے، اس کے گناہ بخش دیئے جائیں گے اور اس کے عیوب کی پردہ پوشی کردی جائے گی۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ﴾” اور اللہ بخشنے والا“ یعنی جو خالص توبہ کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے گناہ بخش دیتا ہے ﴿ رَّحِیْمٌ﴾” رحمت کرنے والا ہے۔“ یعنی اس کی رحمت ہر چیز پر محیط اور اس کی سخا وت اور احسان ہر ذی حیات کے لئے عام ہے۔ یہ آیت کریمہ اس بات کی بھی دلیل ہے کہ جو کوئی ان مذکورہ اعمال کو بجا لائے گا، وہ مغفرت الٰہی سے بہرہ ور ہوگا، کیونکہ نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں اور بندہ مومن کو اللہ تعالیٰ کی رحمت حاصل ہوجائے گی اور بندہ مومن جب اللہ تعالیٰ کی مغفرت حاصل کرلے گا، تو دنیا و آخرت کی تمام عقوبتیں اس سے دور ہوجائیں گی۔ یہ عقوبتیں درحقیقت گناہوں کے اثرات ہیں ان گناہوں کو بخش دیا جائے گا تو یہ اثرات بھی ختم ہوجائیں گے۔ جب بندہ مومن اللہ تعالیٰ کی رحمت سے بہرہ مند ہوجاتا ہے تو دنیا و آخرت کی ہر بھلائی اسے حاصل ہوجاتی ہے، بلکہ مذکورہ اعمال بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت کا حصہ ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ ان کو ان اعمال کی توفیق عطا نہ فرماتا تو کبھی ان اعمال کا ارادہ بھی نہ کرسکتے، اگر اللہ تعالیٰ ان اعمال کو بجا لانے کی قدرت عطا نہ کرتا، تو وہ ان اعمال کو بجا لانے پر کبھی قادر نہ ہوتے اور اگر اللہ تعالیٰ کا فضل و احسان شامل حال نہ ہوتا تو اللہ ان اعمال کو تکمیل تک پہنچاتا نہ ان اعمال کو قبول کرتا۔ پس اول و آخر وہی فضل و کرم کا مالک ہے اور وہی ہے جو سبب اور مسبب سے نوازتا ہے۔ البقرة
219 ﴿۔یَسْــَٔـلُوْنَکَ عَنِ الْخَــمْرِ وَالْمَیْسِرِ ۭ﴾ یعنی اے رسول ! اہل ایمان آپ سے شراب اور جوئے کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ صحابہ کرام زمانہ جاہلیت اور اسلام کے ابتدائی ایام میں شراب وغیرہ استعمال کیا کرتے تھے۔ یوں لگتا ہے کہ شراب اور جوئے کے بارے میں کوئی اشکال واقع ہوا تھا اس لئے انہوں نے ان کے احکام کے بارے میں سوال کیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو حکم دیا کہ وہ اہل ایمان پر شراب اور جوئے کے فوائد اور نقصانات واضح کردیں، تاکہ یہ وضاحت شراب اور جوئے کی تحریم اور ان کو حتمی طور پر تک کردینے کا مقدمہ بن جائے۔ پس اللہ تعالیٰ نے شراب اور جوئے کے گناہ اور ان کے نقصانات اور ان کے اثرات سے آگاہ فرمایا، ان اثرات اور نقصانات میں عقل اور مال کا زائل ہونا، ان کا اللہ تعالیٰ کے ذکر اور نماز سے روکنا اور عداوت اور بغض پیدا کرنا شامل ہیں۔ یہ تمام نقصانات ایسے ہیں جو ان کے مزعومہ فوائد، مثلاً شراب کی تجارت اور جوئے کے ذریعے سے اکتساب مال، شراب نوشی اور جو اکھیلتے وقت حاصل ہونے والے طرب اور فرحت وغیرہ سے، بہت بڑے ہیں۔ نیز یہ بیان نفوس کے لئے زجر و توبیخ کی حیثیت رکھتا تھا کیونکہ عقل مند شخص ہمیشہ اس چیز کو ترجیح دیتا ہے جس کے فوائد راجح ہوں اور ایسی چیز سے اجتناب کرتا ہے جس کے نقصانات زیادہ ہوں۔ لیکن چونکہ یہ حضرات شراب اور جوئے کے عادی اور ان سے مالوف تھے لہٰذا فوری اور حتمی طور پر ان کو چھوڑنا ان کے لئے سخت مشکل تھا اس لئے (تدریج کے طور پر) اس آیت کریمہ کو پہلے نازل فرمایا۔ چنانچہ یہ آیت اس آیت کے مقدمہ کی حیثیت رکھتی ہے ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ  ﴾(المائدہ: 5؍ 90) ” اے ایمان والے لوگو ! شراب، جوا، بت اور پانسے تو نا پاک اور شیطان کے کام ہیں“ اور آخر میں فرمایا ﴿فَهَلْ أَنتُم مُّنتَهُونَ﴾ (المائدہ:5؍ 91) ” کیا تم باز آؤ گے؟“ اور یہ اللہ تعالیٰ کا لطف و کرم، اس کی رحمت اور اس کی حکمت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ پکار اٹھے( اِنْتَهَيْنَا اِنْتَهَيْنَا)” اے ہمارے رب ہم باز آئے، ہم باز آئے۔“ رہی شراب، تو اس سے مراد ہر نشہ دینے والی چیز ہے جو عقل کو ڈھانپ لے خواہ وہ کسی نوع سے تعلق رکھتی ہو۔ اور جوئے سے مراد ہر وہ کام ہے جس میں مدمقابل کو ہرانے اور خود جیتنے کے لئے مقابلہ ہو اور فریقین کی طرف سے جیتنے پر کوئی مالی عوض مقرر کیا گیا ہو مثلاً شطرنج کا کھیل اور تمام قولی اور فعلی مقابلے جن کی ہار جیت پر کوئی مالی عوض مقرر کیا گیا ہو۔ البتہ گھوڑ دوڑ، اونٹ دوڑ میں مسابقت اور تیر اندازی کا مقابلہ جائز ہے۔ کیونکہ یہ کام جہاد میں مدد دیتے ہیں اس لئے شارع نے ان مقابلوں کی رخصت دی ہے۔ یہ سوال اس بارے میں ہے کہ اہل ایمان اپنے اموال میں سے کتنی مقدار اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کریں۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے تمام معاملے کو نہایت آسان بنا دیا اور حکم دیا کہ وہ صرف وہی چیز خرچ کریں جو فاضل ہو۔ اس سے مراد ان کے اموال میں وہ زائد حصہ ہے جس کا تعلق ان کی ضرورتوں اور حاجتوں سے نہ ہو۔ یہ حکم ہر شخص کی طرف اس کی استطاعت کے مطابق لوٹتا ہے، خواہ وہ مال دار ہو، فقیر ہو یا متوط طبقے سے تعلق رکھتا ہو۔ ہر شخص اس مال کو خرچ کرنے پر قادر ہے جو اس کی ضروریات سے فاضل ہو خواہ یہ کھجور کا ایک ٹکڑا ہی کیوں نہ ہو۔ بنا بریں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ لوگوں کے مال اور صدقات میں سے فاضل مال وصول کیا جائے اور انہیں کسی ایسے امر کا مکلف نہ کیا جائے جو ان پر شاق گزرتا ہو، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں کسی ایسی چیز کے خرچ کرنے کا حکم نہیں دیا جس کی ہمیں خود ضرورت ہو اور نہ ہمیں کسی ایسے امر کا مکلف بنایا ہے جو ہم پر شاق گزرے، بلکہ اس نے ہمیں صرف اسی چیز کا حکم دیا ہے جو ہمارے لئے آسان اور جس میں ہماری سعادت ہو اور جس میں ہمارا یا ہمارے بھائیوں کا کوئی فائدہ ہو۔ پس وہ اس عنایت اور نوازش پر کامل ترین حمد و ثنا کا مستحق ہے۔ جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس حکم کو اچھی طرح واضح کردیا اور اپنے بندوں کو اسرار شریعت سے آگاہ کردیا، تو فرمایا : ﴿کَذٰلِکَ یُـبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمُ الْاٰیٰتِ ﴾” اسی طرح اللہ تمہارے لئے اپنے احکام کھول کھول کر بیان کرتا ہے۔“ یعنی یہ آیات حق پر دلالت کرتی ہیں اور علم نافع اور حق و باطل کے درمیان فرق کے لئے کسوٹی عطا کرتی ہیں۔ ﴿ لَعَلَّکُمْ تَتَفَکَّرُوْنَ ۙفِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ ۭ﴾ ” تاکہ تم دنیا و آخرت (کی باتوں) میں غور و فکر کرو۔“ یعنی، تاکہ تم اسرار شریعت معلوم کرنے کے لئے اپنے فکر و تدبر کو استعمال میں لاؤ اور تمہیں اس حقیقت کی معرفت حاصل ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام میں دنیا و آخرت کے مصالح اور فوائد پوشیدہ ہیں اور تاکہ تم دنیا اور اس کے نہایت تیزی کے ساتھ اپنے اختتام کی طرف بڑھنے پر اور آخرت اور اس کے ہمیشہ باقی رہنے پر غور و فکر کرو۔ نیز یہ کہ آخرت جزا و سزا کا گھر ہے۔ تاکہ تم اسے آباد کرو۔ البقرة
220 جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ﴿إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَىٰ ظُلْمًا إِنَّمَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ نَارًا ۖ وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيرًا﴾ (النساء: 4؍ 10) ’’بے شک وہ لوگ جو ظلم سے یتیموں کا مال کھاتے ہیں وہ اپنے پٹ میں آگ بھرتے ہیں وہ عنقریب بھڑکتی ہوئی آگ میں جھونکے جائیں گے“ تو یہ آیت کریمہ مسلمانوں پر بہت شاق گزری اور انہوں نے یتیموں کے کھانے سے اپنے کھانے کو اس خوف سے علیحدہ کرلیا کہ کہیں وہ ان کا کھانا تناول نہ کر بیٹھیں۔ اگرچہ ان حالات میں اموال میں شراکت کی عادت جاری و ساری رہی۔ پس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا۔ تو اللہ تعالیٰ نے ان کو آگاہ فرمایا کہ اصل مقصد تو یتیموں کے مال کی اصلاح، اس کی حفاظت اور (اضافے کی خاطر) اس کی تجارت ہے اگر ان کا مال دوسرے مال میں اس طرح ملا لیا جائے کہ یتیم کے مال کو نقصان نہ پہنچے تو یہ جائز ہے، کیونکہ یہ تمہارے بھائی ہیں اور بھائی کی شان یہ ہے کہ وہ دوسرے بھائی سے مل جل کر رہتا ہے۔ اس بارے میں اصل معاملہ نیت اور عمل کا ہے۔ جس کی نیت کے بارے میں یہ معلوم ہوجائے کہ وہ یتیم کے لئے مصلح کی حیثیت رکھتا ہے اور اسے یتیم کے مال کا کوئی لالچ نہیں، تو اگر بغیر کسی قصد کے اس کے پاس کوئی چیز آبھی جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ جس کی نیت، اللہ کے علم میں، یتیم کے مال کو اپنے مال میں ملانے سے اس کو ہڑپ کرنا ہو تو اس میں یقیناً حرج اور گناہ ہے اور قاعدہ ہے (اَلْوَسَائِلُ لَهَا اَحْكَامُ المَقَاصِدِ) ” وسائل کے وہی احکام ہیں جو مقاصد کے ہیں۔ “ اس آیت کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ ماکولات و مشروبات اور عقود وغیرہ میں مخالطت (مل جل کر کرنا) جائز ہے اور یہ رخصت اہل ایمان پر اللہ تعالیٰ کا لطف و احسان اور ان کے لئے وسعت ہے۔ ورنہ ﴿ وَلَوْ شَاۗءَ اللّٰہُ لَاَعْنَتَکُمْ ۭ﴾” اگر اللہ چاہتا تو تمہیں دشواری میں مبتلا کردیتا۔“ یعنی اس بارے میں عدم رخصت تم پر بہت شاق گزرتی اور تم حرج، مشقت اور گناہ میں مبتلا ہوجاتے۔ ﴿ اِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ﴾ ”بے شک اللہ غالب حکمت والا ہے۔“ یعنی وہ قوت کاملہ کا مالک ہے اور وہ ہر چیز پر غالب ہے۔ لیکن بایں ہمہ وہ حکمت والا ہے، وہ صرف وہی فعل سر انجام دیتا ہے جس کا تقاضا اس کی حکمت کاملہ اور عنایت تامہ کرتی ہے۔ پس اس کی عزت و غلبہ اس کی حکمت کے منافی نہیں ہے لہٰذا تبارک و تعالیٰ کے بارے میں یہ نہیں کہاجا سکتا کہ وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے خواہ اس کی حکمت کے مطابق ہو یا مخالف ہو بلکہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں یوں کہا جائے کہ اس کے افعال اور احکام اس کی حکمت کے تابع ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کسی چیز کو عبث پیدا نہیں کرتا بلکہ اس کی تخلیق کے پیچھے کوئی حکمت ضرور ہوتی ہے خواہ اس حکمت تک ہماری رسائی ہو یا نہ ہو۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے کوئی ایسا شرعی حکم مشروع نہیں کیا جو حکمت سے خالی ہو، اس لئے وہ صرف اس بات کا حکم دیتا ہے جس میں ضرور کوئی فائدہ ہو یا فائدہ غالب ہو اور اسی طرح منع بھی صرف اسی بات سے کرتا ہے جس میں یقینی نقصان کا غالب امکان ہو اور ایسا اس لئے ہے کہ اس کا ہر کام حکمت اور رحمت پر مبنی ہوتا ہے۔ البقرة
221 یعنی ان مشرک عورتوں سے نکاح نہ کرو جو اپنے شرک پر قائم ہوں ﴿ حَتّٰی یُؤْمِنَّ ۭ﴾” حتی کہ وہ ایمان لے آئیں“ کیونکہ ایک مومن عورت خواہ وه کتنی ہی بدصورت کیوں نہ ہوں، مشرک عورت سے بہر حال بہتر ہے خواہ وہ کتنی ہی زیادہ حسین کیوں نہ ہو۔ یہ حکم تمام مشرک عورتوں کے بارے میں عام ہے اور اس حکم کے عموم کو سورۃ مائدہ کی اس آیت نے خاص کردیا ہے جس میں اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح کی اباحت کا ان الفاظ میں ذکر کیا گیا ہے۔﴿ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ﴾ (المائدۃ:5؍5) ” اور اہل کتاب میں سے پاک دامن عورتیں بھی تمہارے لئے حلال ہیں۔“ فرمایا ﴿ وَ لَا تُنْكِحُوا المُشْرِكِيْنَ حَتّٰي يُؤْمِنُوْا﴾’’اور اپنی عورتوں کو مشرک مردوں کے نکاح میں مت دو یہاں تک کہ وہ ایمان لے آئیں“ یہ حکم عام ہے اور اس میں کوئی تخصیص نہیں۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس حکمت کا ذکر فرمایا ہے جو ایک مسلمان مرد اور مسلمان عورت کے غیر مسلموں کے ساتھ نکاح کی حرمت میں پنہاں ہے۔ چنانچہ فرمایا: ﴿اُولٰۗیِٕکَ یَدْعُوْنَ اِلَی النَّارِ﴾ ” یہ (مشرک) آگ کی طرف بلاتے ہیں۔“ یعنی وہ اپنے اقوال، افعال اور احوال میں جہنم کی طرف بلاتے ہیں۔ لہٰذا ان کے ساتھ اختلاط میں سخت خطرہ ہے اور یہ خطرہ کوئی دنیاوی خطرہ نہیں، بلکہ یہ تو ابدی بدبختی ہے۔ اس آیت کریمہ کی علت سے مشرک اور بدعتی سے اختلاط کی ممانعت مستفاد ہوتی ہے جب مشرکین سے نکاح جائز نہیں، حالانکہ اس میں بہت سے مصالح ہیں۔۔۔ تو مجرد اختلاط تو بدرجہ اولی جائز نہ ہوگا۔ خاص طور پر جبکہ مشرک مسلمان پر معاشرتی طور پر فوقیت رکھتا ہو مثلاً مسلمان مشرک کا خادم ہو۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿ۚ وَلَا تُنْکِحُوا الْمُشْرِکِیْنَ﴾” مشرک مردوں سے اپنی عورتوں کا نکاح مت کرو“ اس بات کی دلیل ہے کہ نکاح میں ولی کا اعتبار ہے (یعنی اس کی اجازت کے بغیر نکاح صحیح نہیں ہوگا) ﴿ وَاللّٰہُ یَدْعُوْٓا اِلَی الْجَنَّۃِ وَالْمَغْفِرَۃِ﴾” اور اللہ جنت اور مغفرت کی طرف بلاتا ہے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو جنت کے حصول اور اپنی مغفرت کی طرف بلاتا ہے جس کے اثرات یہ ہیں کہ اس سے تمام عذاب دور ہوجاتے ہیں۔ یہ دعوت درحقیقت اعمال صالحہ، خلاص توبہ اور علم نافع کی طرف دعوت ہے جو حصول جنت اور مغفرت کے اسباب ہیں۔ ﴿ۚ وَیُبَیِّنُ اٰیٰتِہٖ﴾” وہ اپنی آیات بیان کرتا ہے“ یعنی اللہ تعالیٰ اس آیت کے حکم اور اپنے دیگر احکام کو واضح کرتا ہے ﴿ لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمْ یَــتَذَکَّرُوْنَ﴾” لوگوں کے لئے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔“ تب یہ آیات لوگوں کے لئے نصیحت اور عبرت کا موجب بنتی ہیں جسے انہوں نے فراموش کر ڈالا تھا۔ انہیں وہ علم عطا کرتی ہیں جس سے وہ جاہل تھے اور انہیں وہ اطاعت اور فرمانبرداری عطا کرتی ہیں جسے انہوں نے ضائع کر ڈالا تھا۔ البقرة
222 اللہ تعالیٰ حیض کے بارے میں اہل ایمان کے اس سوال سے آگاہ فرماتا ہے کہ آیا ایام حیض کے شروع ہونے کے بعد عورت سے اسی طرح اختلاط رکھا جائے جس طرح ایام حیض سے قبل تھا۔ یا اس سے مطلقاً اجتناب کیا جائے جیسے یہودی کیا کرتے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ حیض سے قبل تھا۔ یا اس سے مطلقاً اجتناب کیا جائے جیسے یہودی کیا کرتے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ حیض ایک نجاست ہے۔ جب حیض ایک نجاست ہے تو حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اس نجاست سے روک کر اس کی حدود مقرر کر دے۔ اس لئے فرمایا : ﴿ فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ﴾” پس ایام حیض میں عورتوں سے کنارہ کش رہو۔“ یعنی مقام حیض سے دور رہو اور اس سے مراد شرم گاہ میں مجامعت ہے اور اس مجامعت کے حرام ہنے پر اجماع ہے اور حیض کے دوران مجامعت سے دور رہنے کی تخصیص اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ شرم گاہ میں مجامعت کے سوا عورت کے ساتھ اختلاط اور اس کو ہاتھ سے چھونا جائز ہے البتہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد﴿َلَا تَقْرَبُوْھُنَّ حَتّٰی یَـطْہُرْنَ ۚ﴾” جب تک پاک نہ ہوجائیں ان سے مقاربت نہ کرنا۔“ عورت کے ساتھ ایسے اختلاط کی ممانعت پر دلالت کرتا ہے جو فرج کے قریب یعنی ناف اور گھٹنے کے درمیان ہو۔ اس قسم کے اختلاط کو ترک کردینا چاہئے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب کبھی اپنی کسی بیوی کے ساتھ اختلاط کرنا چاہتے تو اسے ازار پہننے کا حکم دیتے ت ب اس کے ساتھ اختلاط کرتے۔ [صحيح بخاري، الحيض، باب مباشرة الحائض، حديث: 302] اور بیوی سے دور رہنے اور حیض کی وجہ سے قریب نہ جانے کی حد ﴿حَتّٰی یَـطْہُرْنَ ۚ﴾” یہاں تک کہ وہ پاک ہوجائیں“ مقرر فرمائی ہے۔ یعنی جب حیض کا خون منقطع ہوجائے تو وہ مانع زائل ہوجاتا ہے جو جریان حیض کے وقت موجود تھا۔ اس کے جائز ہونے کی دو شرطیں ہیں۔ (١)خون کا منقطع ہونا۔ (٢) خون کے منقطع ہونے کے بعد غسل کرنا۔ جب خون منقطع ہوجاتا ہے تو پہلی شرط زائل ہوجاتی ہے اور دوسری شرط باقی رہ جاتی ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا﴿فَاِذَا تَطَہَّرْنَ﴾” پس جب وہ (حیض سے) پاک ہوجائیں“ یعنی غسل کرلیں ﴿ فَاْتُوْھُنَّ مِنْ حَیْثُ اَمَرَکُمُ اللّٰہُ ۭ﴾” پس تم آؤ ان عورتوں کو، جہاں سے تمہیں اللہ نے حکم دیا ہے“ قبل یعنی سامنے سے جماع کرو اور دبر سے اجتناب کرو۔ کیونکہ قبل (شرم گاہ) ہی کھیتی کا محل و مقام ہے۔ اس آیت کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ حائضہ عورت پر غسل فرض ہے اور غسل کی صحت کے لئے خون کا منقطع ہونا شرط ہے اور چونکہ یہ حکم اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر لطف و کرم اور نجاستوں سے ان کی حفاظت ہے اس لئے فرمایا ﴿ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ التَّـوَّابِیْنَ﴾” اللہ توبہ کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو ہمیشہ توبہ کرتے رہتے ہیں ﴿’ وَیُحِبُّ الْمُتَطَہِّرِیْنَ﴾اور ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو گناہوں سے پاک رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ آیت کریمہ حدث اور نجاست سے حسی طہارت کو شامل ہے۔ پس اس آیت سے طہارت کی مطلق مشروعیت ثابت ہوتی ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اس شخص کو پسند کرتا ہے جو طہارت کی صفت سے متصف ہو۔ اس لئے مطلق طہارت صحت نماز، صحت طواف اور مصحف شریف کو چھونے کے لئے شرط ہے۔ یہ آیت کریمہ معنوی طہارت یعنی اخلاق رذیلہ، صفات قبیحہ اور افعال خسیسہ جیسی معنوی نجاستوں سے طہارت کو بھی شامل ہے۔ البقرة
223 ﴿ نِسَاۗؤُکُمْ حَرْثٌ لَّکُمْ ۠ فَاْتُوْا حَرْثَکُمْ اَنّٰی شِئْتُمْ ۡ﴾” تمہاری بیویاں، تمہاری کھیتیاں ہیں، پس تم اپنی کھیتوں کو جہاں سے چاہو، آؤ“ یعنی تم اپنی بیویوں سے سامنے سے جماع کرو یا پیچھے سے۔ البتہ یہ جماع صرف قبل (یعنی شرمگاہ) میں ہونا چاہئے، کیونکہ یہی کھیتی کے اگنے کی جگہ ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں سے اولاد جنم لیتی ہے۔ اس آیت کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ دبر (یعنی پیٹھ) میں جماع کرنا حرام ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے بیوی کے ساتھ صرف اسی مقام میں مجامعت کو جائز قرار دیا ہے جو کھیتی (یعنی اولاد) پیدا کرنے کا مقام ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہایت کثرت سے احادیث مروی ہیں جو دبر میں جماع کی تحریم پر دلالت کرتی ہیں اور جن میں آپ نے اس فعل کے مرتکب پر لعنت فرمائی ہے۔ [سنن ابي داؤد، النكاح، باب جامع النكاح، حديث: 2162] ﴿ وَقَدِّمُوْا لِاَنْفُسِکُمْ ۭ﴾ ” اور اپنے لئے (نیک عمل) آگے بھیجو۔“ یعنی نیکیوں کے کام سر انجام دے کر اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرو اور ان نیکیوں میں ایک نیکی یہ بھی ہے کہ مرد اپنی بیوی سے مباشرت کرے، یہ مباشرت اللہ تعالیٰ کے تقرب کی خاطر اور اولاد کے حصول کی امید کے ساتھ ہو، وہ اولاد جن کے ذریعے سے اللہ فائدہ پہنچاتا ہے۔ ﴿ وَاتَّقُوا اللّٰہَ ﴾” اور اللہ سے ڈرتے رہو۔“ یعنی اپنے تمام احوال میں تقویٰ اختیار کرو اور اس بارے میں اپنے علم سے مدد لیتے ہوئے تقویٰ کا التزام کرو ﴿ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّکُمْ مُّلٰقُوْہُ ۭ﴾” اور جان لو کہ تم اس (اللہ تعالیٰ) سے ملاقات کرو گے“ اور وہ تمہیں تمہارے اعمال صالحہ وغیرہ کی جزا دے گا ﴿ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ﴾” اور ایمان والوں کو بشارت سنا دو۔“ یہاں اس امر کا ذکر نہیں کیا گیا جس کی بشارت دی گئی ہے، تاکہ یہ بشارت کے عموم پر اور اس بات پر دلالت کرے کہ ان کے لئے دنیا کی زندگی میں بھی بشارت میں داخل ہے۔ اس آیت میں اس امر کی بھی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر اہل ایمان سے محبت کرتا ہے اور اس چیز کو پسند کرتا ہے جس سے اہل ایمان خوش ہوتے ہیں نیز اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اہل ایمان میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے تیار کی ہوئی دنیاوی اور اخروی جزا کے حصول کے لئے شوق اور نشاط پیدا کرنا مستحب ہے۔ البقرة
224 حلف اور قسم کا مقصد اس ہستی کی تعظیم ہے جس کی قسم کھائی جائے اور اس چیز کی تاکید مراد ہے جس پر قسم کھائی جائے۔ اللہ تعالیٰ نے قسموں کی حفاظت کا حکم دیا ہے اور اس کا تقاضا یہ ہے کہ ہر معاملے میں قسم کی حفاظت کی جائے مگر اس سے اس قسم کو اللہ نے مستثنیٰ کردیا ہے جس میں کسی کے ساتھ احسان (نہ کرنے) کی قسم کھائی گئی ہو۔ یہ اس بات کو متضمن ہے کہ وہ قسم توڑ کر اس چیز کو اختیار کرے جو اسے زیادہ پسند ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو اس بات سے منع کیا ہے کہ وہ اپنی قسموں کو نشانہ، یعنی انہیں نیکی کرنے سے رکاوٹ بنا لیں۔ مطلب یہ ہے کہ وہ بھلائی کے کام سر انجام دیں، برائی سے بچیں اور لوگوں کے درمیان صلح کروائیں۔ (اور اس طرح قسم نہ کھائیں کہ میں فلاں کے ساتھ احسان نہیں کروں گا، فلاں کے ساتھ نہیں بولوں گا، وغیرہ)۔ پس جو کوئی کسی واجب کو ترک کرنے کی قسم کھاتا ہے اس پر قسم توڑنا واجب ہے اور اس قسم پر قائم رہنا حرام ہے اور جو کوئی کسی مستحب کو چھوڑنے کی قسم کھاتا ہے اس پر اس قسم کو توڑنامستحب ہے اور جو کسی حرام امر کے ارتکاب کا حلف اٹھاتا ہے اس پر حلف توڑنا واجب ہے اور اگر وہ کسی مکروہ فعل کے ارتکاب پر قسم اٹھاتا ہے تو اس پر اس قسم کو توڑنا مستحب ہے۔ رہے مباح امور تو ان کے بارے میں اٹھائی ہوئی قسم کی حفاظت کرنا زیادہ مناسب ہے۔ اس آیت کریمہ سے اس مشہور فقہی اور قانونی قاعدے پر استدلال کیا جاتا ہے (اِذَاتَزَاحَمَتِ الْمَصَالِحَ قُدِّمَ اَھَمُّھَا)” جب مصالح میں باہم ٹکراؤ ہو تو اس کو مقدم رکھا جائے گا جو ان میں سب سے زیادہ اہم ہوگا“ پس یہاں قسم کا پورا کرنا ایک مصلحت ہے اور ان اشیاء میں اللہ تعالیٰ کے احکام کی اطاعت کرنا اس سے زیادہ بڑی مصلحت ہے اس لئے اس کو مقدم رکھا جائے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے ان دو اسمائے کریمہ کے ذکر کے ساتھ آیت کا اختتام کیا ہے ﴿ وَاللّٰہُ سَمِیْعٌ ﴾” اللہ سننے والا“ یعنی اللہ تمام آوازوں کو سننے والا ہے ﴿عَلِیْمٌ ﴾یعنی وہ مقاصد اور نیتوں کو خوب جانتا ہے۔ گویا وہ قسم اٹھانے والوں کی بات کو سنتا ہے اور ان کے مقاصد کو بھی جانتا ہے کہ آیا یہ قسم کسی نیک مقصد کے لئے اٹھائی گئی ہے یا برے مقصد کے لئے۔ یہ آیت کریمہ اس بات کو بھی متضمن ہے کہ اللہ تعالیٰ کی سزا سے بچا جائے نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال اور تمہاری نیتوں کو جانتا ہے۔ البقرة
225 یعنی اللہ تعالیٰ ان لغو قسموں پر تمہارا مواخذہ نہیں کرتا جو تمہاری زبان سے نکلتی رہتی ہیں اور بندہ بغیر کسی قصد اور ارادے کے قسمیں کھاتا رہتا ہے اور یوں ہی اس کی زبان سے بلاقصد قسمیں نکل جاتی ہیں مثلاً وہ بات چیت میں بار بار کہتا ہے ” اللہ کی قسم ! نہیں‘،اور ” ہاں ! اللہ کی قسم“ وغیرہ۔ یا جیسے وہ کسی گزرے ہوئے معاملے میں حلف اٹھاتا ہے جس کے بارے میں وہ اپنے آپ کو سچا سمجھتا ہے۔ البتہ اس قسم پر مواخذہ ہوگا جو دل سے کھائے گا۔ یہ آیت کریمہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جس طرح مقاصد افعال میں معتبر ہوتے ہیں اسی طرح اقوال میں بھی مقاصد کا اعتبار ہوگا۔ ﴿ واللّٰہَ غَفُوْرٌ﴾” اللہ تعالیٰ اس شخص کو بخش دیتا ہے جو توبہ کے ذریعے سے اس کی طرف لوٹتا ہے ﴿حَلِیْمٌ﴾” جو شخص اس کی نافرمانی کرتا ہے وہ اس کے بارے میں بہت حلم سے کام لیتا ہے اور اس کو سزا دینے میں عجلت سے کام نہیں لیتا، بلکہ اپنے حلم کی بنا پر اس کی پردہ پوشی کرتا ہے اور اس پر قدرت رکھنے اور اپنے سامنے ہونے کے باوجود اس سے درگزر کرتا ہے۔ البقرة
226 یہ قسم کسی خاص معاملے میں صرف بیوی کے ساتھ مخصوص ہے اور یہ بیوی کے ساتھ مطلق طور پر یا چار مہینے یا اس سے بھی زیادہ کی قید کے ساتھ جماع نہ کرنے کی قسم ہے۔ پس جو کوئی اپنی بیوی کے پاس نہ جانے کی قسم کھاتا ہے۔ اگر یہ قسم چار ماہ سے کم مدت کے لئے ہے تو یہ عام قسموں میں شمار ہوگی۔ اگر وہ قسم توڑے گا، تو اس کا کفارہ ادا کرے گا اور اگر وہ اپنی قسم پوری کرتا ہے، تو اس پر کوئی چیز نہیں اور اس کی بیوی کو اس کے خلاف چارہ جوئی کرنے کا کوئی اختیار نہیں، کیونکہ اس کی بیوی چار ماہ تک اس کی ملک ہے اور اگر اس نے ہمیشہ کے لئے اپنی بیوی کے پاس نہ جانے کی قسم کھائی یا قسم کا عرصہ چار ماہ سے زیادہ ہے، ایسی صورت میں جب اس کی بیوی اس سے حق زوجیت کا مطالبہ کرے گی تو اس قسم کے لئے چار ماہ کی مدت مقرر کردی جائے گی، کیونکہ یہ بیوی کا حق ہے۔ جب چار ماہ کی مدت پوری ہوجائے تو خاوند کو رجوع یعنی مجامعت کا حکم دیا جائے، اگر وہ رجوع کر کے تعلق زوجیت قائم کر لے تو اس پر قسم کے کفارے کے سوا کچھ لازم نہیں اور اگر وہ رجوع کرنے سے انکار کر دے تو اسے طلاق دینے پر مجبور کیا جائے گا اور اگر پھر بھی طلاق نہ دے تو حاکم طلاق نافذ کر دے گا۔۔۔۔۔۔ البتہ بیوی کی طرف رجوع کرنا اللہ تعالیٰ کو زیادہ پسند ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿ فَاِنْ فَاۗءُوْ ﴾” پس اگر وہ رجوع کریں۔“ یعنی جس چیز (تعلق زوجیت) کو چھوڑ دینے کی انہوں نے قسم اٹھائی تھی اگر اس کی طرف دوبارہ لوٹ آئیں۔ ﴿ فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ﴾ تو قسم اٹھانے کی وجہ سے انہوں نے جس گناہ کا ارتکاب کیا تھا ان کے رجوع کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ان کو بخش دے گا ﴿ رَّحِیْمٌ﴾ وہ بہت رحم کرنے والا ہے کہ اس نے بندوں کی قسموں کو اٹوٹ اور ان پر لازم قرار نہیں دیا، بلکہ ان سے باہر نکلنے کے لئے کفارہ مقرر کیا۔ نیز وہ ان پر اس لحاظ سے بھی مہربان ہے کہ انہوں نے اپنی بیویوں سے رجوع کیا ان سے مہربانی اور شفقت سے پیش آئے۔ (یعنی ان کا رجوع بھی اللہ کی مہربانی ہی کا نتیجہ ہے) البقرة
227 ﴿ وَاِنْ عَزَمُوا الطَّلَاقَ﴾” اور اگر وہ طلاق کا ارادہ کرلیں۔“ یعنی اگر وہ رجوع کرنے سے انکار کردیں، تو یہ اس امر کی دلیل ہے کہ انہیں ان میں رغبت نہیں اور وہ ان کو بیوی کے طور پر باقی رکھنا نہیں چاہتے۔۔۔۔۔۔ اور یہ چیز طلاق کے ارادے کے سوا کچھ نہیں۔۔۔۔۔۔ اگر یہ طلاق جو اس پر واجب ہے، کہنے سننے پر بیوی کو حاصل ہوجائے تو ٹھیک ورنہ حاکم اس کو طلاق پر مجبور کرے یا خود نافذ کردے۔ ﴿ فَاِنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ﴾” بے شک اللہ سننے والا، جاننے والا ہے“ اس آیت کریمہ میں اس شخص کے لئے سخت وعید اور تہدید ہے جو کوئی اللہ کی قسم اٹھاتا ہے اور اس کا مقصد محض ضر رسانی اور تکلیف پہنچانا ہوتا ہے۔ اس آیت کریمہ سے اس امر پر استدلال کیا جاتا ہے کہ اِیلاء بیوی سے مخصوص ہے کیونکہ اس میں مِنْ نِّسَاءِ ھِمْ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ نیز چار ماہ میں ایک مرتبہ بیوی کے ساتھ مجامعت فرض ہے، کیونکہ چار ماہ کے بعد یا تو اسے مجامعت پر مجبور کیا جائے گا یا اسے طلاق دینی پڑے گی۔ یہ جبر صرف اسی وقت ہوسکتا ہے جب وہ کسی واجب کو ترک کرے۔ البقرة
228 یعنی وہ عورتیں جن کو ان کے شوہروں نے طلاق دے دی ہے ﴿ یَتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِہِنَّ﴾” اپنے تئیں رو کے رکھیں“ یعنی وہ انتظار کریں اور عدت پوری کریں ﴿ ثَلٰثَۃَ قُرُوْۗءٍ ۭ﴾ ” تین حیض“ (قرء) کے معنی میں اختلاف ہے بعض کے نزدیک اس کے معنی حیض اور بعض کے نزدیک طہر کے ہیں۔ تاہم صحیح مسلک یہ ہے کہ اس سے مراد تین حیض ہیں اور اس عدت کی متعدد حکمتیں ہیں، مثلاً جب مطلقہ عورت کو بتکرار تین حیض آجاتے ہیں تو برأت رحم ہوجاتی ہے اور معلوم ہو جاتا ہے کہ اس کے پیٹ میں حمل نہیں اور اس طرح نسب میں اختلاط کا کوئی خدشہ نہیں رہتا۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے مطلقہ عورتوں پر واجب کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے رحم میں جو کچھ تخلیق کیا ہے اس کے بارے میں آگاہ کریں اور حمل یا حیض کا چھپانا ان پر حرام ٹھہرایا ہے، کیونکہ ان کا حیض یا حمل چھپانا بہت سے مفاسد کا باعث بنتا ہے۔ حمل کو چھپانا اس بات کا موجب بنتا ہے کہ عورت اپنے حمل کے نسب کو کسی ایسے شخص کے ساتھ ملحق کر دے جس میں اسے رغبت ہے یا محض عدت کے پورا ہوجانے میں جلد بازی کے لئے حیض آنے کا اعلان کر دے۔ پس جب یہ عورت اپنے حمل کو اس کے باپ کے سوا کسی اور کے ساتھ ملحق کردیتی ہے، تو یہ چیز قطع رحمی اور میراث سے محروم کرنے کا باعث بنتی ہے، اس کے لئے اس کے محرموں اور اقارب سے پردے کا موجب بنتی ہے اور بسا اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ اس الحاق سے محارم کے درمیان نکاح کا رشتہ قائم ہوجاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں باپ کے سوا کسی اور شخص سے اس حمل کا الحاق ہوتا ہے اور اس کے نتیجہ میں اس کے تمام توابع، مثلاً میراث وغیرہ کا اثبات ہوتا ہے اور جس شخص کے ساتھ اس حمل کا الحاق کیا گیا ہوتا ہے، اس کے تمام اقارب کو اس بچے کے اقارب بنا دیتا ہے اور اس میں بہت بڑا شر اور فساد ہے جسے بندوں کے رب کے سوا کوئی نہیں جانتا اور اگر اس میں مذکورہ باتیں نہ بھی ہوں، تب بھی مطلقہ کا ایسے شخص سے نکاح کرلینا، جس سے اس کا نکاح جائز ہی نہیں تھا، تو اس کا یہ ایک نتیجہ ہی اس فعل کی برائی کے لئے کافی ہے، کیونکہ یہ نکاح، نکاح نہیں، زنا ہوگا، جو کبیرہ گناہ اور اس پر اصرار ہے۔ رہا حیض کو چھپانا تو اس نے عجلت سے کام لے کر جھوٹ بولتے ہوئے حیض آنیکی خبر دی ہے تو اس میں پہلے خاوند کی حق تلفی اور اپنے آپ کو دوسرے کے لئے مباح قرار دینا ہے نیز اس سے دیگر برائیاں متفرع ہوتی ہیں جیسا کہ گزشتہ سطور میں ہم ذکر کرچکے ہیں۔ اگر وہ حیض کے عدم وجود کی جھوٹی اطلاع دیتی ہے، تاکہ عدت لمبی ہوجائے اور اس طرح وہ نان و نفقہ حاصل کرسکے جو شوہر پر واجب نہ تھا تو یہ دو پہلوؤں سے اس پر حرام ہے۔ (١) اب وہ اس کی مستحق نہیں رہی۔ (٢) اس کو شریعت کی طرف منسوب کرنا حالانکہ وہ جھوٹی ہے۔ اس صورت میں بسا اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ عدت کے ختم ہوجانے کے بعد خاوند رجوع کرلیتا ہے (یعنی خاوند مطلقہ کی اطلاع کے مطابق سمجھتا ہے کہ ابھی عدت ختم نہیں ہوئی) یہ رجوع درحقیقت زنا ہے۔ کیونکہ یہ عورت اب اس کے لئے اجنبی ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَلَا یَحِلُّ لَہُنَّ اَنْ یَّکْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللّٰہُ فِیْٓ اَرْحَامِہِنَّ اِنْ کُنَّ یُؤْمِنَّ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ ۭ﴾” ان کے لئے جائز نہیں کہ وہ اس چیز کو چھپائیں جو اللہ نے ان کے رحموں میں پیدا کی ہے، اگر وہ اللہ اور آخرت کے دن پر یقین رکھتی ہیں“ حیض یا حمل کو چھپانا اس امر کی دلیل ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان نہیں رکھتیں۔ اگر ان کا اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان ہوتا اور انہیں علم ہوتا کہ انہیں ان کے اعمال کی جزا ملے گی، تو ان سے کبھی یہ فعل صادر نہ ہوتا۔ اس آیت کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر عورت اپنے معاملات کے بارے میں جن کی اطلاع اس کے سوا کسی اور کو نہیں ہوتی، مثلاً حیض اور حمل وغیرہ۔۔۔ کوئی خبر دیتی ہے، تو وہ قابل قبول ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَبُعُوْلَتُہُنَّ اَحَقُّ بِرَدِّھِنَّ فِیْ ذٰلِکَ﴾” اور ان کے خاوند ان کو اپنی زوجیت میں لے لینے کے زیادہ حق دار ہیں۔“ یعنی جب تک بیویاں عدت کے اندر عدت پوری ہونے کی منتظر ہیں اس وقت تک ان کے شوہر ان سے رجوع کا زیادہ حق رکھتے ہیں ﴿ اِنْ اَرَادُوْٓا اِصْلَاحًا ۭ﴾ ” اگر ان کا ارادہ اصلاح کا ہے“ یعنی اگر شوہر رغبت، الفت اور مودت کا جذبہ رکھتے ہیں۔ اس آیت کریمہ کا مفہوم یہ ہے کہ اگر رجوع کرنے سے ان کا مقصد اصلاح نہیں تو وہ جائز نہیں۔ کیا خاوند اس قسم کا مقصد و ارادہ رکھتے ہوئے رجوع کرنے کا اختیار رکھتا ہے؟ فقہاء اس بارے میں دو آراء رکھتے ہیں۔ جمہور فقہاء کہتے ہیں کہ تحریم کے باوجود خاوند یہ اختیار رکھتا ہے مگر صحیح یہ ہے کہ اگر شوہر اصلاح کا ارادہ نہیں رکھتا تو رجوع کرنے کا حق نہیں رکھتا۔ جیسا کہ آیت کریمہ کے ظاہری الفاظ دلالت کرتے ہیں۔ اور اس انتظار میں یہ دوسری حکمت ہے۔ وہ اس طرح کہ بسا اوقات شوہر بیوی کو طلاق دے کرنادم ہوتا ہے تو اس کے لئے یہ مدت رکھ دی گئی ہے، تاکہ وہ دوبارہ اپنے فیصلہ طلاق پر غور کرلے اور یہ اس امر کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ میاں بیوی کے درمیان الفت چاہتا ہے ان کے درمیان جدائی اسے پسند نہیں۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : أَبْغَضُ الْحَلَالِ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى الطَّلَاقُ” حلال چیزوں میں سے جو سب سے زیادہ اللہ کو ناپسند ہے، وہ طلاق ہے“ [سنن ابي داؤد، الطلاق، باب في كراهية الطلاق، حديث: 2187] رجوع کا یہ حق طلاق رجعی کے ساتھ مخصوص ہے۔ رہی طلاق بائن تو اس میں خاوند کو رجوع کا حق نہیں۔ البتہ اگر میاں بیوی دونوں رجوع پر راضی ہوں، تو نکاح کی پوری شرائط کے ساتھ نیا نکاح ضروری ہے۔ ﴿وَلَہُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْہِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ ﴾۠ ” اور عورتوں کا حق ویسا ہی ہے جیسے دستور کے مطابق (مردوں کا حق) عورتوں پر ہے۔“ یعنی عورتوں کے اپنے شوہروں پر وہی حقوق ہیں جو شوہروں کے اپنی بیویوں پر ہیں۔ میاں بیوی کے ایک دوسرے پر حقوق کے بارے میں اصل مرجع ”معروف“ ہے، یہاں معروف سے مراد اس زمانے اور اس شہر میں عورتوں مردوں کے بارے میں جاری عادت ہے۔ زمان و مکان، احوال و اشخاص اور عادات میں تغیر و تبدل کے ساتھ معروف میں تبدیلی ہوجائے گی۔ اس آیت کریمہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ نان و نفقہ، لباس، معاشرتی تعلق، گھر، اسی طرح میاں بیوی کے درمیان خاص تعلق، ان سب کا مرجع ” معروف“ ہے۔ یہ عقد مطلق کی صورت میں ہے، یعنی نکاح کے وقت کوئی شرط طے نہ کی گئی ہو، لیکن جو نکاح مطلق نہیں، مقید یعنی شرطوں کے ساتھ ہوگا، تو وہاں ان شرطوں کا ایفاء ضروری ہوگا۔ البتہ کوئی ایسی شرط نہ ہو جو حرام کو حلال اور کسی حلال کو حرام ٹھہرا دے۔ ﴿وَلِلرِّجَالِ عَلَیْہِنَّ دَرَجَۃٌ ۭ﴾” اور مردوں کو عورتوں پر ایک درجہ فوقیت حاصل ہے۔“ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّـهُ بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ وَبِمَا أَنفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ ۚ ﴾ (النساء : 4؍ 34) ” مرد عورتوں پر حاکم و قوام ہیں کیونکہ اللہ نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے نیز اس لئے بھی کہ مرد اپنا مال خرچ کرتے ہیں۔ “ منصب نبوت، منصب قضا، امامت صغریٰ، امامت کبری اور دیگر تمام شعبوں کی سربراہی مردوں سے مخصوص ہے۔ میراث وغیرہ جیسے بہت سے معاملات میں بھی مرد کو عورت کے مقابلے میں دوگنا حیثیت حاصل ہے۔ : ﴿وَاللّٰہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ﴾” اور اللہ غالب صاحب حکمت ہے“ یعنی اللہ تعالیٰ عزت، غلبہ، بہت بڑے تسلط اور اختیارات کا مالک ہے۔ تمام کائنات اس کے سامنے سرافگندہ ہے مگر وہ اپنے غلبہ اور اختیارات کے باوجود اپنے تصرفات میں نہایت حکمت سے کام لیتا ہے۔ اس آیت کریمہ کے عموم سے مندرجہ ذیل صورتیں مستثنیٰ ہیں۔ (١) اگر مطلقہ حاملہ ہو تو اس کی عدت وضع حمل ہے۔ (٢) اگر مطلقہ غیر مدخولہ ہو، یعنی اس کے ساتھ خلوت صحیحہ نہ ہوئی ہو، تو اس پر کوئی عدت نہیں۔ (٣) لونڈیوں کی عدت دو حیض ہیں۔ جیسا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا قول ہے۔ آیات کریمہ کا سیاق دلالت کرتا ہے کہ آیت میں مذکورہ عورت سے مراد آزاد عورت ہے۔ البقرة
229 جاہلیت اور اسلام کے ابتدائی دور میں مرد اپنی بیوی سے طلاق و رجوع کا لامتناہی سلسلہ جاری رکھتا تھا۔۔۔۔۔۔ لہٰذا مرد جب اپنی بیوی کو نقصان پہنچانا چاہتا تو اسے طلاق دے دیتا اور عدت پوری ہونے سے پہلے رجوع کرلیتا۔ پھر اسے طلاق دے دیتا اور پھر اختتام عدت سے پہلے رجوع کرلیتا اور ہمیشہ اسی طرح کرتا رہتا۔ اس طرح عورت کو جس ضرر اور نقصان کا سامنا کرنا پڑتا وہ اللہ ہی جانتا ہے۔ بنابریں اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا :﴿اَلطَّلَاقُ﴾” یعنی وہ طلاق جس میں خاوند کو رجعت کا حق حاصل ہے۔ ﴿ مَرَّتٰنِ ۠ ﴾” صرف دو مرتبہ ہے“ تاکہ اگر خاوند اپنی بیوی کو ضرر پہنچانے کا ارادہ نہیں رکھتا، تو اس مدت کے دوران میں طلاق دینے کے فیصلے سے رجوع کرسکتا ہے۔ رہا اس سے زیادہ مرتبہ طلاق دینا تو یہ طلاق کا محل نہیں، کیونکہ جو کوئی دو مرتبہ سے زیادہ طلاق دیتا ہے وہ یا تو حرام فعل کے ارتکاب کی جرأت کرتا ہے یا اسے اپنی بیوی کو رکھنے میں رغبت نہیں ہوتی، بلکہ وہ اسے نقصان پہنچانا چاہتا ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے خاوند کو حکم دیا ہے کہ یا تو وہ بھلے طریقے سے اپنی بیوی کو رکھ لے ﴿بِمَعْرُوْفٍ﴾” بطریق شائستہ‘،یعنی اچھے رہن سہن اور اچھے سلوک کے ساتھ اور اس کے ساتھ وہی سلوک کرے جو اس جیسے دوسرے لوگ اپنی بیویوں کے ساتھ کرتے ہیں اور یہی زیادہ راجح بات ہے، یا اس کو آزاد کر دے اور اس سے جدا ہوجائے ﴿ ۢ بِاِحْسَانٍ﴾ ’ ’یعنی بھلے طریقے سے۔‘، احسان یعنی بھلائی یہ ہے کہ اس نے بیوی کو جو مال وغیرہ دیا ہے اس میں سے کچھ بھی واپس نہ لے، اس لئے کہ یہ ظلم ہے اور یہ کچھ دیئے بغیر مال لینے کے زمرے میں آئے گا، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ۭ وَلَا یَحِلُّ لَکُمْ اَنْ تَاْخُذُوْا مِمَّآ اٰتَیْتُمُوْھُنَّ شَـیْـــًٔـا ﴾” تمہارے لئے یہ جائز نہیں کہ تم نے ان عورتوں کو جو کچھ دیا ہے، اس میں سے کچھ بھی واپس لو‘، ﴿ اِلَّآ اَنْ یَّخَافَآ اَلَّایُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰہِ ۭ﴾” مگر یہ کہ وہ دونوں اس بات سے ڈریں کہ وہ اللہ کی حدود کو قائم نہیں رکھ سکیں گے“ اس میں معروف کے ساتھ خلع کرنے کا بیان ہے (جس میں خاوند کو معاوضہ لے کر طلاق دینے کی اجازت ہے) اس کی صورت یہ ہے کہ اگر عورت اپنے شوہر کو اس کی عادات یا جسمانی بدصورتی کی وجہ سے ناپسند کرتی ہو اور ڈرتی ہو کہ وہ خاوند (کے حقوق) کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت نہ کرسکے گی۔ (تو وہ خلع کے ذریعے سے طلاق حاصل کرسکتی ہے۔﴿فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰہِ ۙ فَلَاجُنَاحَ عَلَیْھِمَا فِـیْمَا افْتَدَتْ بِہٖ ۭ﴾” پس اگر تم ڈرو کہ وہ دونوں اللہ کی حدوں کو قائم نہیں رکھ سکیں گے تو عورت جو معاوضہ دے گی تو ان پر کوئی گناہ نہیں“ اس لئے یہ اس جدائی اور علیحدگی کا عوض ہے جو وہ حاصل کرنا چاہتی ہے۔ اس آیت کریمہ سے ثابت ہوتا ہے جب یہ حکمت پائی جائے، تب خلع مشروع ہے۔ ﴿تِلْكَ﴾” یعنی وہ تمام احکام جن کا ذکر گزشتہ سطور میں گزر چکا ہے : ﴿ حُدُوْدُ اللّٰہِ﴾” اللہ کی حدود ہیں۔“ یعنی وہ احکام ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے مشروع فرمایا اور حکم دیا کہ ان پر عمل کیا جائے : ﴿ۚ وَمَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰہِ فَاُولٰۗیِٕکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ﴾” اور جو اللہ کی حدوں سے تجاوز کرے، پس وہی لوگ ظالم ہیں“ اس سے بڑا اور کون سا ظلم ہے کہ حلال سے تجاوز کر کے حرام کی حدود میں داخل ہوا جائے؟ کیا جو چیز اللہ تعالیٰ نے حلال ٹھہرائی ہے، وہ اس کے لئے کافی نہیں؟ ظلم کی تین اقسام ہیں۔ (١) بندے کا ان معاملات میں ظلم کا ارتکاب کرنا جو اس کے اور اللہ تعالیٰ کے مابین ہیں۔ (٢) بندے کا ظلم اکبر یعنی شرک کا ارتکاب۔ (٣) بندے کا ان معاملات میں ظلم کا ارتکاب، جو اس کے اور لوگوں کے درمیان ہیں۔ اللہ تعالیٰ شرک کو توبہ کے بغیر نہیں بخشتا اور حقوق العباد کو اللہ تعالیٰ بالکل نہیں چھوڑے گا (بلکہ ایک دوسرے کو بدلہ دلوایا جائے گا) اور وہ ظلم جو بندے اور اس کے مابین ہے اور شرک سے کم تر ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی مشیت اور حکمت پر منحصر ہے۔ البقرة
230 ﴿ فَاِنْ طَلَّقَھَا ﴾” پھر اگر (تیسری) طلاق دے دے۔“ : ﴿ فَلَا تَحِلُّ لَہٗ مِنْۢ بَعْدُ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہٗ ۭ ﴾” تو اب اس کے لئے حلال نہیں وہ عورت اس کے بعد، یہاں تک کہ وہ نکاح کرے کسی خاوند سے اس کے سوا۔“ یعنی وہ عورت دوسرے خاوند سے صحیح نکاح کرے اور وہ خاوند اس سے ہم بستری بھی کرے، اس لئے کہ اہل علم کے اجماع کے مطابق نکاح شرع اس وقت تک صحیح نہیں ہوتا جب تک کہ اس میں عقد اور مجامعت نہ ہو۔ اس سے یہ بات متعین ہوجاتی ہے کہ نکاح ثانی رغبت سے کیا گیا ہو۔ اگر یہ نکاح پہلے شوہر کے لئے حلال ہونے کی نیت سے کیا گیا ہو تو یہ نکاح نہیں ہوگا اور نہ اس نکاح سے عورت پہلے خاوند کے لئے حلال ہی ہوگی نہ اس سے اس کی ہم بستری ہی مفید ہے، کیونکہ وہ اس کا خاوند ہی نہیں ہے۔ اگر اس مطلقہ سے کوئی دوسرا شخص نکاح کرلیتا ہے اور اس سے جماع بھی کرتا ہے پھر اسے طلاق دے دیتا ہے اور اس مطلقہ کی عدت پوری ہوجاتی ہے : ﴿ فَلَاجُنَاحَ عَلَیْھِمَآ﴾ ” تو نہیں ہے گناہ ان دونوں پر“ یعنی پہلے خاوند اور اس بیوی پر : ﴿ اَنْ یَّتَرَاجَعَآ ﴾” یہ کہ وہ دونوں رجوع کرلیں“ یعنی وہ ایک دوسرے سے رجوع کر کے اپنے نکاح کی تجدید کرلیں یہ آیت باہمی رضا مندی پر دلالت کرتی ہے، کیونکہ تراجع کی اضافت دونوں کی طرف کی گئی ہے۔ مگر ان کے آپس کے رجوع میں یہ یقین شرط ہے ﴿ اَنْ یُّقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰہِ ﴾” کہ وہ اللہ کی حدوں کو قائم رکھیں گے“ اور اللہ تعالیٰ کی حدوں کو قائم رکھنے کی صورت یہ ہے کہ میاں بیوی ایک دوسرے کے حقوق ادا کریں اور وہ اس طرح کہ دونوں اپنے سابقہ رویوں پر نادم ہوں جن کی وجہ سے ان میں جدائی پیدا ہوئی اور یہ عزم کریں کہ وہ اپنے ان رویوں کو بدل کر اچھی معاشرت اختیار کریں گے۔ تب ان کے ایک دوسرے سے رجوع کرنے میں کوئی گناہ نہیں۔ آیت کریمہ کا مفہوم یہ ہے کہ اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اللہ کی حدوں کو قائم نہیں رکھ سکیں گے، کیونکہ ان کو گمان غالب ہے کہ ان کے گزشتہ رویئے باقی رہیں گے اور ان کی بری معاشرت زائل نہیں ہوگی، تو پھر ان پر گناہ ہوگا، اس لئے کہ تمام معاملات میں اگر وہ اللہ کے حکم کو قائم نہیں کریں گے اور اس کی اطاعت کے راستے پر نہیں چلیں گے، تو ان کے لئے (دوبارہ باہم نکاح کرنے کا) یہ اقدام جائز ہی نہیں ہے۔ اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ انسان کے لئے مناسب یہی ہے کہ جب وہ کسی معاملے میں داخل ہونے کا ارادہ کرے، خاص طور پر چھوٹے یا بڑے عہدے کو قبول کرتے وقت، تو اسے اپنے آپ میں غور کرنا چاہئے۔ اگر اسے ذمہ داری کو پورا کرنے کی طاقت رکھنے کا پورا یقین ہے تو اسے آگے بڑھ کر اس ذمہ داری کو قبول کرلینا چاہئے ورنہ پیچھے ہٹ جائے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ نے ان بڑے بڑے احکام کو بیان فرمایا ہے، اس لئے فرمایا : ﴿ۭ وَتِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ﴾” یہ اللہ کی حدیں ہیں“ یعنی یہ اللہ تعالیٰ کے شرائع ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمایا ہے اور ان کو واضح کیا﴿ یُبَیِّنُھَا لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ﴾ ” وہ اسے جاننے والے لوگوں کے لئے بیان کرتا ہے“ کیونکہ یہی لوگ اللہ تعالیٰ کے ان احکام سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور پھر دوسروں کو فائدہ دے سکتے ہیں۔ اس میں اہل علم کی جس فضیلت کا بیان ہے، وہ مخفی نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی حدود کی توضیح و تبیین کو ان کے ساتھ مختص کیا ہے اور اس آیت میں وہی لوگ مقصود اور مراد ہیں۔ یہ آیت کریمہ اس امر پر بھی دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے چاہتا ہے کہ وہ ان حدود کی معرفت اور ان میں تفقہ حاصل کریں جو اس نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی ہیں۔ البقرة
231 پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَاِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاۗءَ﴾ ” جب تم عورتوں کو طلاق دے چکو۔“ یعنی جب تم اپنی بیویوں کو ایک طلاق رجعی یا دو طلاق دے دو ﴿ فَبَلَغْنَ اَجَلَھُنَّ﴾” پھر وہ اپنی عدت کو پہنچ جائیں۔“ یعنی وہ اپنی عدت پوری ہونے کے قریب پہنچ جائیں : ﴿ فَاَمْسِکُوْھُنَّ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ سَرِّحُوْھُنَّ بِمَعْرُوْفٍ﴾ ” تو انہیں یا تو حسن سلوک سے نکاح میں رہنے دو یا بطریق شائستہ رخصت کر دو۔“ یعنی یا تو تم ان سے رجوع کرو اور تمہاری نیت یہ ہونی چاہئے کہ تم ان کے حقوق پورے کرو گے یا تم ان کو بغیر رجوع کئے اور بغیر نقصان پہنچائے چھوڑ دو۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَلَا تُمْسِکُوْھُنَّ ضِرَارًا﴾ ” اور ان کو نقصان پہنچانے کے لئے نہ روکو“ ﴿ لِّتَعْتَدُوْا ۚ ﴾” تاکہ تم زیادتی کرو‘،یعنی تم اپنے اس فعل میں حلال سے تجاوز کر کے حرام میں نہ پڑجاؤ یہاں ” حلال“ سے مراد معروف طریقے سے بیوی کو روک لینا اور ” حرام“ سے مراد اس کو نقصان پہنچانا ہے۔ ﴿ وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ ﴾” اور جو شخص ایسا کرے گا، پس یقیناً اس نے اپنے نفس پر ظلم کیا‘،اگر حق مخلوق کی طرف لوٹتا ہو تو ضرر اس شخص کی طرف لوٹے گا جو ضرر پہنچانے کا ارادہ کرے۔ ﴿ۭ وَلَا تَتَّخِذُوْٓا اٰیٰتِ اللّٰہِ ھُزُوًا ۡ ﴾” اور نہ ٹھہراؤ اللہ کے حکموں کو ہنسی مذاق“ چونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی مقرر کردہ حدود کو نہایت وضاحت سے بیان کردیا ہے۔ مقصد یہ کہ ان حدود کا علم حاصل کیا جائے، ان پر عمل کیا جائے اور انہی پر اکتفا کی جائے اور ان حدود سے تجاوز نہ کیا جائے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان حدود کو عبث اور بے فائدہ نازل نہیں فرمایا، بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان حدود کو حق، صدق اور اہتمام کے ساتھ نازل فرمایا ہے۔ اس لئے ان کا تمسخر اڑانے سے منع کیا ہے، یعنی ان کو کھیل تماشا بنانے سے روکا ہے، جس کا مطلب ان کے خلاف جسارت کرنا اور ان کی ادائیگی میں عدم اطاعت کا راستہ اختیار کرنا ہے، مثلاً بیوی کو نقصان پہنچانے کی خاطر روکنا، یا جدا رکھنا، یا کثرت سے طلاق دینا یا تین طلاق ایک ہی بار دے دینا۔ جب کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی رحمت، مہربانی اور بندے کی بھلائی کی بنا پر یکے بعد دیگرے (ایک، ایک کر کے) طلاق دینے کا طریقہ مقرر فرمایا ہے۔ ﴿وَاذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ﴾ ” اور یاد کرو اللہ کی نعمت کو، جو تم پر ہوئی“ زبان سے عام طور پر، حمد و ثنا کے ذریعے سے۔ دل سے اقرار و اعتراف کر کے اور جوارح (اعضاء) کے ذریعے سے، ان کو اللہ کی اطاعت میں مصروف کر کے۔ ﴿وَمَآ اَنْزَلَ عَلَیْکُمْ مِّنَ الْکِتٰبِ وَالْحِکْمَۃِ﴾ ” اور جو اس نے تم پر کتاب و حکمت سے اتارا‘،حکمت سے مراد سنت ہے، یعنی قرآن اور سنت کے ذریعے سے تمہارے لئے بھلائی کی راہیں واضح کردیں اور ان پر گامزن ہونے کی تمہیں ترغیب دی اور تمہارے سامنے برائی کے راستے بھی واضح کردیئے اور ان پر چلنے سے ڈرایا اور اس نے تمہیں اپنی معرفت سے نوازا اور تمہیں اپنے اولیاء اور اعداء کے بارے میں اپنی عادت اور اپنے طریقے سے آگاہ کیا اور تمہیں وہ کچھ سکھایا جو تم نہیں جانتے تھے۔ بعض اہل علم کہتے ہیں کہ یہاں حکمت سے مراد اسرار شریعت ہیں اس معنی کے لحاظ سے، کتاب سے مراد احکام الٰہی اور حکمت سے مراد وہ اسرار و حکم ہیں جو اس کے اوامر اور نواہی کے اندر ہیں اور حکمت کے دونوں ہی معنی صحیح ہیں۔ ﴿ یَعِظُکُمْ بِہٖ ۭ﴾” وہ اس کے ذریعے سے تمہیں نصیحت کرتا ہے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ نے تم پر جو کتاب نازل فرمائی ہے اس کے ذریعے سے وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے، آیت کریمہ کا یہ ٹکڑا اس رائے کو تقویت دیتا ہے کہ حکمت سے مراد اسرار شریعت ہیں، کیونکہ حکم اور حکمت اور ترغیب یا ترہیب کے بیان کے ذریعے سے ہی نصیحت کی جاتی ہے۔ پس حکم (یعنی شریعت) سے جہالت زائل ہوجاتی ہے۔ حکمت، ترغیب کے ساتھ رغبت کی موجب ہوتی ہے اور ترہیب کے ساتھ حکمت، اللہ تعالیٰ کے ڈر کی موجب ہوتی ہے۔ فرمایا :﴿ وَاتَّقُوا اللّٰہَ﴾” اور اللہ سے ڈرتے رہو۔“ یعنی اپنے تمام امور میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو ﴿ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ﴾” اور جان رکھو کہ اللہ ہر چیز سے واقف ہے۔“ اسی لئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے تمہارے لئے یہ احکام کھول کھول کر بیان کردیئے ہیں جو اپنے تمام تر مصالح کے ساتھ ہر زمان و مکان میں جاری و ساری ہیں۔ پس ہر قسم کی حمد و ثنا کا وہی مستحق ہے اور اسی کا احسان ہے۔ البقرة
232 یہ خطاب اس مطلقہ عورت کے سرپرستوں سے ہے جسے تین سے کم طلاق دی گئی ہو، عدت پوری ہونے کے بعد اس کا خاوند اس سے دوبارہ نکاح کا خواہاں ہو اور وہ عورت بھی اس نکاح پر راضی ہو تو اس عورت کے ولی کے لئے خواہ وہ باپ ہو یا کوئی اور، جائز نہیں کہ اسے نکاح کرنے سے روکے، یعنی پہلی طلاق پر اپنے غصہ، بغض اور نفرت کی بنا پر، میاں بیوی کو نکاح کرنے سے روکنے سے منع کرتا ہے، کیونکہ عورت کا اپنے خاوند کے ساتھ تجدید نکاح تمہارے لئے اس سے زیادہ پاک اور بہتر ہے جو عورت کا ولی سمجھتا ہے کہ عدم نکاح درست رائے ہے اور نکاح سے روکنا (انتقاماً) پہلی طلاق کا جواب ہے۔ جیسا کہ متکبر اور نام نہاد اونچے گھرانوں کے لوگوں کی عادت ہے۔ پس اگر ولی یہ سمجھتا ہے کہ عدم نکاح ہی میں میاں بیوی کی مصلحت ہے تو ﴿ وَاللّٰہُ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ﴾” اسے اللہ جانتا ہے تم نہیں جانتے“ پس اس ہستی کی اطاعت کرو جو تمہارے مصالح کا تم سے زیادہ علم رکھتی ہے، وہ تمہارے لئے یہ مصالح چاہتی ہے، وہ ان پر قادر ہے اور ان کو تمہارے لئے اس طرح آسان بناتی ہے جن کو تم خوب جانتے ہو۔ اس آیت کریمہ میں اس امر کی دلیل ہے کہ نکاح میں ولی کا ہونا ضروری ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اولیاء (یعنی سرپرستوں) کو عورتوں کے نکاح سے روکنے سے منع کیا ہے اور اللہ تعالیٰ بندوں کو اسی چیز سے روکتا ہے جو ان کی تدبیر کے تحت آتی ہو اور اس میں ان کا حق ہو۔ البقرة
233 یہ خبر، امر کے معنی میں ہے گویا یہ امر متحقق ہے جو کسی حکم کا محتاج نہیں، وہ یہ کہ مائیں ﴿یُرْضِعْنَ اَوْلَادَھُنَّ حَوْلَیْنِ﴾” اپنی اولاد کو پورے دو سال دودھ پلائیں۔“ چونکہ (حول) کا لفظ سال یا سال کے بڑے حصے کے لئے بولا جاتا ہے اس لئے فرمایا :﴿کَامِلَیْنِ لِمَنْ اَرَادَ اَنْ یُّـتِمَّ الرَّضَاعَۃَ ۭ﴾” پورے دو سال، اس شخص کے لئے جو دودھ پلانے کی مدت پوری کرنی چاہے“ پس جب دودھ پیتے بچے کے دو سال مکمل ہوجائیں تو اس کی رضاعت مکمل ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد ماں کا دودھ دیگر غذاؤں کی مانند ہوجاتا ہے۔ اسی لئے دو سال کے بعد کی رضاعت معتبر نہیں اور اس سے حرمت ثابت نہیں ہوتی۔ اس نص اور اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿وَحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ ثَلَاثُونَ شَهْرًا ۚ ﴾(الاحقاف: 15؍46) ” اس کو پیٹ میں اٹھائے رکھنا اور اس کا دودھ چھڑانا تیس مہینوں میں ہوتا ہے۔“ کو ملا کر یہ فقہی مسئلہ اخذ کیا گیا ہے کہ حمل کی کم سے کم مدت چھ ماہ ہے۔ اس مدت میں بچے کا پیدا ہونا ممکن ہے۔ ﴿وَعَلَی الْمَوْلُوْدِ لَہٗ﴾” اور بچے کے باپ پر“ ﴿ رِزْقُہُنَّ وَکِسْوَتُہُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ ۭ﴾” ان کا رزق اور ان کا لباس ہے، معروف کے ساتھ“ اور یہ حکم دودھ پلانے والی خواہ اس کے نکاح میں ہو یا مطلقہ، دونوں کو شامل ہے۔ مولود (بچے) کے باپ پر اس عورت کا نان و نفقہ اور لباس واجب ہے اور یہ دودھ پلانے کی اجرت ہے۔ یہ آیت کریمہ اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ جب تک عورت مرد کے نکاح میں ہے اس وقت تک عورت کو رضاعت کی اجرت دینا واجب نہیں، سوائے نان و نفقہ اور لباس کے نان و نفقہ اور لباس بھی مرد کے حسب حال اور حیثیت کے مطابق ہے۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿لَا تُکَلَّفُ نَفْسٌ اِلَّا وُسْعَہَا ۚ﴾” کسی جان کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہ دی جائے۔“ یعنی کسی فقیر شخص کو مال دار شخص جیسے نان و نفقہ دینے کا مکلف نہیں ٹھہرایا جائے گا اور نہ اس شخص کو مجبور کیا جائے گا کہ وہ نان و نفقہ ادا کرے جس کے پاس نان و نفقہ ادا کرنے کے لئے کچھ بھی نہ ہو۔ یہاں تک کہ اس کے پاس طاقت ہوجائے۔ فرمایا : ﴿لَا تُضَاۗرَّ وَالِدَۃٌۢ بِوَلَدِھَا﴾ ” ماں کو اس کے بچے کی وجہ سے نقصان نہ پہنچایا جائے۔“ یعنی یہ جائز نہیں کہ ماں کو اپنے بیٹے کے سبب سے نقصان پہنچایا جائے۔ (یعنی ان دو صورتوں میں سے کسی ایک صورت کے ذریعے سے) یا تو اس کو دودھ پلانے سے روک دیا جائے یا نان و نفقہ لباس اور اجرت وغیرہ جیسے واجبات اس کو ادا نہ کئے جائیں : ﴿ وَلَا مَوْلُوْدٌ لَّہٗ بِوَلَدِہٖ﴾” اور نہ باپ کو بچے کی وجہ سے تکلیف پہنچائی جائے“ یعنی ماں نقصان پہنچانے کے لئے بچے کو دودھ پلانے سے انکار کر دے، یا اس اجرت سے زیادہ کا مطالبہ کرے جو دودھ پلانے پر اس کا حق بنتا ہے اور اس قسم کے دیگر نقصانات۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿ مَوْلُوْدٌ لَّہٗ﴾دلالت کرتا ہے کہ بیٹا اپنے باپ کی ملکیت ہوتا ہے کیونکہ وہ اسی کو عطا کیا گیا ہے اور اس لئے کہ بیٹا درحقیقت باپ کا کسب ہے، پس اسی لئے باپ کے لئے جائز ہے کہ وہ اپنے بیٹے کا مال لے لے خواہ وہ راضی ہو یا نہ ہو، اس کے برعکس ماں مال نہیں لے سکتی ہے۔ فرمایا :﴿ وَعَلَی الْوَارِثِ مِثْلُ ذٰلِکَ ۚ﴾” اور اسی طرح وارث کے ذمے ہے۔“ یعنی جب بچے کا باپ نہ ہو اور بچے کا کوئی مال بھی نہ ہو تو بچے کے وارث پر دودھ پلانے والی کا وہی نان و نفقہ وغیرہ واجب ہے جو باپ پر واجب ہوتا ہے۔ اس آیت کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ خوش حال قریبی رشتہ داروں پر واجب ہے کہ وہ اپنے تنگدست اقرباء کے نان نفقہ کا انتظام کریں۔ ﴿ فَاِنْ اَرَادَا﴾ ” پس اگر دونوں چاہیں۔“ یعنی والدین (ماں باپ) ﴿ فِصَالًا﴾ ” دودھ چھڑانا“ یعنی دودھ چھڑانے پر راضی ہوں ﴿ وَتَشَاوُرٍ﴾ ” اور مشورے سے‘،یعنی دونوں کے باہمی مشورے کے ساتھ کہ آیا بچے کا دودھ چھڑانا اس کے لئے درست ہے یا نہیں۔ اگر بچے کے لئے اس میں کوئی مصلحت ہو اور دونوں اس پر راضی ہوں ﴿ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْہِمَا ۭ﴾” تو ان دونوں پر کوئی گناہ نہیں۔“ یعنی تب دوسال سے قبل اس کے دودھ چھڑانے میں کوئی حرج نہیں۔ اس آیت کریمہ کا مفہوم دلالت کرتا ہے کہ اگر دونوں میں سے صرف ایک دودھ چھڑانے پر راضی ہو یا دودھ چھڑانے میں بچے کے لئے کوئی مصلحت نہ ہو تو اس صورت میں بچے کا دودھ چھڑانا جائز نہیں۔ ﴿ وَاِنْ اَرَدْتُّمْ اَنْ تَسْتَرْضِعُوْٓا اَوْلَادَکُمْ﴾” اور اگر تم اپنی اولاد کو دودھ پلوانا چاہو۔‘،یعنی اگر تم ضرر پہنچائے بغیر بچوں کی ماؤں کی بجائے دوسری عورتوں سے دودھ پلوانا چاہو ﴿ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْکُمْ اِذَا سَلَّمْتُمْ مَّآ اٰتَیْتُمْ بِالْمَعْرُوْفِ ۭ ﴾” تو تم پر کچھ گناہ نہیں بشرطیکہ تم دونوں پلانے والیوں کو دستور کے مطابق ان کا حق جو تم نے دینا کیا تھا دے دو۔“ یعنی اگر دودھ پلانے والی دیگر عورتوں کو معروف طریقے سے ان کی اجرت عطا کر دو تو تم پر کوئی گناہ نہیں ﴿ اَنَّ اللّٰہَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ﴾” بے شک اللہ تمہارے عملوں کو دیکھنے والا ہے“ پس اللہ تعالیٰ تمہیں اس پر اچھی یا بری جزا دے گا۔ البقرة
234 یعنی جب خاوند فوت ہوجائے تو عورت پر فرض ہے کہ وہ گھر میں چار مہینے دس دن ٹھہرے اور انتظار کرے۔ اس میں حکمت یہ ہے کہ چار ماہ کی مدت میں حمل واضح ہوجاتا ہے اور پانچویں مہینے کی ابتدا میں بچہ پیٹ میں حرکت کرنے لگ جاتا ہے۔ یہ حکم ان تمام عورتوں کے لئے عام ہے جن کے شوہر فوت ہوجائیں۔ مگر اس عموم میں سے حاملہ عورتیں مخصوص ہیں، کیونکہ ان کی عدت وضع حمل ہے۔ اسی طرح لونڈی کی عدت نصف یعنی دو ماہ اور پانچ دن ہے۔ ﴿ فَاِذَا بَلَغْنَ اَجَلَہُنَّ ﴾” پس جب ان کی عدت پوری ہوجائے“﴿ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْکُمْ فِیْمَا فَعَلْنَ فِیْٓ اَنْفُسِہِنَّ﴾” تو جو وہ اپنے لئے کریں اس میں تم پر کوئی گناہ نہیں“ یعنی اگر وہ دوبارہ بناؤ سنگار کرتی ہیں اور خوشبو وغیرہ لگاتی ہیں ﴿بِالْمَعْرُوْفِ ۭ﴾” بھلائی کے ساتھ“ یعنی اگر وہ بناؤ سنگار اس طرح کریں جو حرام اور مکروہ نہ ہو (بلکہ معروف طریقے سے ہو) یہ آیت دلالت کرتی ہے کہ جس عورت کا خاوند فوت ہوجائے اس پر عدت کی مدت کے لئے سوگ منانا (یعنی بناؤ سنگار سے پرہیز کرنا) فرض ہے۔ جب کہ یہ پرہیز مطلقہ رجعیہ اور بائنہ پر واجب نہیں، اس پر اہل علم کا اجماع ہے۔ ﴿ وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ﴾” اور اللہ تمہارے سب کاموں سے واقف ہے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ تمہارے ظاہری اور باطنی، چھوٹے اور بڑے تمام اعمال کو جانتا ہے۔ پس وہ تمہیں ان کا بدلہ دے گا اور عورت کے اولیا سے اللہ تعالیٰ کے خطاب ﴿ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْکُمْ فِیْمَا فَعَلْنَ فِیْٓ اَنْفُسِہِنَّ﴾ میں اس امر کی دلیل ہے کہ عورت کا ولی اس پر نظر رکھے اور جو فعل جائز نہ ہو اس کے ارتکاب سے اسے منع کرے اور اس فعل کو بجا لانے پر اسے مجبور کرے جو اس پر واجب ہو۔ عورت کا ولی اس آیت کا مخاطب ہے اور ایسا کرنا اس پر واجب ہے۔ البقرة
235 یہ حکم اس عورت کے بارے میں ہے جو خاوند کی وفات پر عدت گزار رہی ہو یا اسے طلاق دی گئی ہو۔ طلاق دینے والے شوہر کے علاوہ کسی اور کے لئے حرام ہے کہ وہ صریح الفاظ میں اسے نکاح کا پیغام دے اور اللہ تعالیٰ کے ارشاد﴿ وَلٰکِنْ لَّا تُوَاعِدُوْھُنَّ سِرًّا﴾ ”’ لیکن تم ان سے وعدہ مت کرو، چھپ کر“ سے یہی مراد ہے۔ رہی تعریض (اشارے کنایے سے نکاح کی بات کرنا) تو اللہ تعالیٰ نے اس میں گناہ کو ساقط کردیا ہے۔ اور ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ تصریح صرف نکاح کے معنی کی متحمل ہوتی ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے تصریح کو حرام قرار دیا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ کہیں عورت جلدی نکاح کرنے کے لئے عدت پوری ہونے کے سلسلے میں جھوٹ نہ بولے۔ اس آیت کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ حرام کی طرف لے جانے والے وسائل بھی ممنوع ہیں، نیز عدت کی مدت کے دوران خاوند کے علاوہ کسی اور مرد سے نکاح کے وعدے کا سدباب کر کے، پہلے خاوند کے حق کو برقرار رکھا ہے۔ رہی تعریض تو اس میں نکاح کے علاوہ دیگر معانی کا احتمال بھی ہوسکتا ہے اور یہ تعریض بائنہ عورت کے لئے بھی جائز ہے، جیسے کوئی کہے ” میں نکاح کا ارادہ رکھتا ہوں۔ جب تمہاری عدت پوری ہوجائے تو مجھ سے مشورہ کرلینا“ تو یہ جائز ہے۔ اس لئے کہ تعریض تصریح کی مانند نہیں ہے اور نفوس انسانی کے اندر اس کا قوی داعیہ موجود ہے۔ اسی طرح انسان کا اپنے دل میں یہ ارادہ چھپا کر رکھنا بھی جائز ہے کہ وہ فلاں عورت، جو عدت گزار رہی ہے اس کی عدت ختم ہونے کے بعد وہ اس کے ساتھ نکاح کرے گا۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿ اَوْ اَکْنَنْتُمْ فِیْٓ اَنْفُسِکُمْ ۭ عَلِمَ اللّٰہُ اَنَّکُمْ سَتَذْکُرُوْنَہُنَّ﴾” یا چھپا کر رکھو تم اپنے نفسوں میں۔ اللہ جانتا ہے کہ تم ضرور ان کو یاد کرو گے“ یہ تمام تفصیلات عقد کے مقدمات میں شمار ہوتی ہیں۔ (لہٰذا جائز ہیں) رہا عقد نکاح تو یہ جائز نہیں ﴿ حَتّٰی یَبْلُغَ الْکِتٰبُ اَجَلَہٗ ۭ﴾” جب تک کہ عدت پوری نہ ہوجائے“ ﴿ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ یَعْلَمُ مَا فِیْٓ اَنْفُسِکُمْ﴾” اور جان لو، اللہ ان باتوں کو جانتا ہے جو تمہارے دلوں میں ہیں“ اس لئے اللہ تعالیٰ کے عذاب کے خوف اور اس کے ثواب کی امید میں ہمیشہ بھلائی کی نیت رکھو اور کبھی بھی برائی کی نیت نہ رکھو ﴿ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ﴾” اور جان لو کہ اللہ بخشنے والا۔“ یعنی اللہ تعالیٰ اس شخص کے گناہوں کو بخش دیتا ہے جو توبہ کر کے اپنے رب کی طرف رجوع کرتا ہے ﴿ حَلِیْمٌ﴾” وہ برد بار ہے“ کیونکہ گناہگاروں کو ان کے گناہوں کی وجہ سے ان کو پکڑنے کی قدرت رکھنے کے باوجود ان کو پکڑنے میں جلدی نہیں کرتا۔ البقرة
236 یعنی اے مردو ! اگر تم اپنی بیویوں کو چھونے اور مہر مقرر کرنے سے قبل ہی طلاق دے دو، تو تم پر کوئی گناہ نہیں، اگرچہ اس میں عورتوں کے لئے نقصان ہے تاہم متعہ طلاق سے اس کی تلافی ہوجاتی ہے۔ پس تم پر لازم ہے کہ تم ان کی دل جوئی کی خاطر ان کو کچھ مال ضرور عطا کرو۔ ﴿عَلَی الْمُوْسِعِ قَدَرُہٗ وَعَلَی الْمُقْتِرِ قَدَرُہٗ ۚ ﴾” فراخ دست پر اس کی طاقت کے مطابق اور تنگ دست پر اس کی وسعت کے مطابق“ مطلقہ کو خرچ دینا لازم ہے اور اس کا مرجع عرف ہے جو کہ زمان و مکان کے اختلاف کے مطابق مختلف ہے۔ اس لئے فرمایا ﴿مَتَاعًۢا بِالْمَعْرُوْفِ ۚ﴾ ”فائدہ پہنچانا ہے معروف کے ساتھ‘،پس یہ حق واجب ہے ﴿ عَلَی الْمُحْسِـنِیْنَ﴾” نیکو کاروں پر“ اس لئے ان کو اس حق میں کمی نہیں کرنی چاہئے۔ پس جیسے وہ عورتوں کی امیدوں، ان کے اشتیاق اور ان کے دلی تعلق کا سبب بنے، لیکن پھر انہوں نے ان کو وہ چیز نہیں دی جو ان عورتوں کو مرغوب تھی، اس لئے اس کے مقابلے میں ان کو فائدہ پہنچانا ضروری ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ کتنا اچھا ہے ! اور شارع کی حکمت اور رحمت پر کس قدر دلالت کرتا ہے ! اور ایمان و ایقان سے بہرہ ور لوگوں کے لئے اللہ سے بڑھ کر کون اچھا فیصلہ کرنے والا ہے۔ یہ حکم تو ان عورتوں سے متعلق تھا جن کو چھونے سے پہلے اور حق مہر مقرر کرنے سے پہلے ہی طلاق دے دی گئی ہو۔ البقرة
237 پھر اللہ تعالیٰ نے ان عورتوں کا ذکر فرمایا ہے جن کا مہر مقرر کیا گیا ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم مہر مقرر کرنے کے بعد ان کو چھوئے بغیر طلاق دے دو، تو مطلقہ عورتوں کے لئے نصف مہر ہے اور باقی نصف تمہارا ہے۔ مہر کی یہ رقم اگر عورت کی طرف سے معاف نہ کردیا جائے، تو خاوند پر اس کی ادائیگی واجب ہے۔ جب کہ عورت کا اس کو معاف کرنا صحیح ہو۔ ﴿ اَوْ یَعْفُوَا الَّذِیْ بِیَدِہٖ عُقْدَۃُ النِّکَاحِ ۭ﴾” یا وہ شخص معاف کر دے جس کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہے۔“ صحیح مسلک کے مطابق اس سے مراد شوہر ہے (نہ کہ ولی) کیونکہ شوہر ہی وہ شخص ہے جو نکاح کی گرہ کو کھول سکتا ہے۔ عورت کے ولی کے لئے تو درست ہی نہیں کہ وہ عورت کے کسی حق واجب کو معاف کر دے کیونکہ وہ مالک ہے نہ وکیل۔ [(١) اس کی وضاحت شیخ رحمہ اللہ نے حاشیہ نمبر 1 میں فرمائی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں :” ان سطور کو لکھتے وقت میرا یہی موقف تھا لیکن بعد میں میرے لئے یہ واضح ہوا کہ جس شخص کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہے، وہ قریب ترین ولی ہے اور وہ باپ ہے۔ لفظی اور معنوی اعتبار سے یہی زیادہ صحیح قول ہے جیسا کہ غور و فکر کرنے والے کے لئے ظاہر ہے۔“ اور حاشیہ نمبر 2 میں مؤلف رحمہ اللہ کے قلم سے لکھا ہوا ہے۔ ” ایک قول یہ بھی ہے کہ وہ باپ ہے (یعنی جس کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہے) اور یہی وہ معنی ہے جس پر آیت کریمہ کے الفاظ دلالت کرتے ہیں۔“ (از محقق) (٢) خاوند کے معاف کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ ادا شدہ (یا مقرر) حق مہر میں سے اپنے حصے کا آدھا حق مہر عورت سے واپس نہ لے اور پورا کا پورا مہر ہی عورت کے پاس رہنے دے (یا اس کو دے دے)۔ (ص۔ ی)] پھر اللہ تعالیٰ نے معاف کرنے کی ترغیب دی ہے اور فرمایا کہ جو کوئی معاف کردیتا ہے وہ تقویٰ کے زیادہ قریب ہے، کیونکہ یہ ایک ایسا احسان ہے جو شرح صدر کا موجب ہے، نیز انسان کے لئے مناسب یہی ہے کہ وہ اپنے آپ کو احسان اور نیکی سے تہی دست نہ رکھے اور اس فضیلت کو فراموش نہ کر دے جو معاملات کا بلند ترین درجہ ہے۔ اس لئے کہ لوگوں کے آپس کے معاملات کے دو درجے ہیں۔ (1) عدل و انصاف جو کہ واجب ہے۔ یعنی حق واجب لینا اور کسی کا جو حق واجب ہے اسے ادا کرنا۔ (2) فضل و احسان اور اس سے مراد یہ ہے کہ کسی کو کچھ عطا کرنا جس کا عطا کرنا واجب نہ تھا اور اپنے حقوق کے بارے میں چشم پوشی اور مسامحت سے کام لینا۔ پس انسان کے لئے مناسب نہیں کہ وہ اس درجہ کو فراموش کر دے خواہ کبھی کبھار ہی سہی۔ خاص طور پر آپ اس شخص کے ساتھ تسامح کو ہرگز فراموش نہ کریں جس کے ساتھ آپ کے تعلقات اور میل جول ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کو احسان کے بدلے میں اپنے فضل و کرم سے نوازتا ہے۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿’ۭ اِنَّ اللّٰہَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ ﴾’ تم جو کچھ کرتے ہو اللہ اسے دیکھتا ہے۔ “ البقرة
238 اللہ تعالیٰ تمام نمازوں کی حفاظت کا عام حکم دے رہا ہے اور ” درمیان والی نماز“ کی حفاظت کا خاص طور پر۔ اس سے مراد عصر کی نماز ہے۔ نماز کی حفاظت کا مطلب ہے کہ اسے وقت پر، مشروط ارکان کا خیال رکھتے ہوئے، خشوع خضوع کے ساتھ اور اس کے تمام واجبات و مستحبات کے ساتھ ادا کیا جائے۔ نماز کی حفاظت کے ساتھ دوسری عبادتوں کی بھی حفاظت ہوجاتی ہے۔ اس کی وجہ سے (خود کو) برائی اور بے حیائی سے روک دینے کا فائدہ بھی حاصل ہوجاتا ہے، خصوصاً جب نماز اس طرح مکمل کی جائے جس طرح اللہ نے اس آیت میں فرمایا ﴿وَقُوْمُوْا لِلّٰہِ قٰنِتِیْنَ﴾” اللہ کے لئے با ادب کھڑے رہا کرو۔“ یعنی اخلاص، عاجزی اور ذلت کا اظہار کرتے ہوئے۔ اس میں قیام اور عاجزی کا حکم ہے اور نماز کے دوران بات کرنے کی ممانعت ہے۔ اس کے ساتھ آرام و سکون کا حکم ہے۔ البقرة
239 پھر فرمایا ﴿ فَاِنْ خِفْتُمْ﴾” اگر تمہیں خوف ہو۔“ خوف والی چیز کا ذکر نہیں فرمایا، تاکہ اس میں کافر سے، ظالم سے اور درندے سے خوف اور دوسرے تمام اقسام کے خوف شامل ہوجائیں۔ یعنی ان حالات میں نماز پڑھتے ہوئے اگر تم خوف محسوس کرو تو ﴿ فَرِجَالًا ﴾” پیدل ہی“ یعنی چلتے چلتے نماز پڑھ لو، یا گھوڑوں او نٹوں وغیرہ پر ﴿ اَوْ رُکْبَانًا ۚ﴾ ” سوار ہو کر ہی سہی“ اس طرح نماز پڑھنے سے یہ لازم آتا ہے کہ کبھی ان کا رخ قبلہ کی طرف ہو اور کبھی نہ ہو۔ اس سے بروقت نماز پڑھنے کی مزید تاکید ظاہر ہوتی ہے کہ بہت سے ارکان اور بہت سی شروط میں خلل پڑ جانے کے باوجود نماز وقت پر پڑھو۔ اس نازک وقت میں بھی نماز میں تاخیر کرنا جائز نہیں۔ ان حالات میں اس طریقے سے نماز پڑھنا افضل ہے، بلکہ تاخیر کر کے اطمینان کے ساتھ نماز پڑھنے سے اس طریقے سے وقت پر نماز پڑھ لینا زیادہ ضروری ہے۔ ﴿ فَاِذَآ اَمِنْتُمْ﴾ ”پھر جب تم امن میں آجاؤ۔‘،یعنی خوف ختم ہوجائے ﴿ فَاذْکُرُوا اللّٰہَ﴾ ” تو اللہ کا ذکر کرو۔“ اس میں ذکر کی ہر قسم شامل ہے اور کامل نماز پڑھنا بھی اس ذکر کی ایک صورت ہے۔ ﴿کَمَا عَلَّمَکُمْ مَّا لَمْ تَکُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ﴾” جس طرح اس نے تمہیں اس بات کی تعلیم دی جسے تم نہیں جانتے تھے۔“ اس لئے کہ یہ ایک عظیم نعمت ہے، جس کے عوض ذکر اور شکر کرنا چاہئے، تاکہ تم پر اس کی نعمت باقی رہے اور اس میں اضافہ ہو۔ البقرة
240 مطلب یہ ہے کہ جو مرد فوت ہوجاتے ہیں اور اپنے پیچھے بیویاں چھوڑ جاتے ہیں، تو مرنے سے پہلے ان کے لئے ضروری ہے ﴿ وَّصِیَّۃً لِّاَزْوَاجِہِمْ مَّتَاعًا اِلَی الْحَوْلِ غَیْرَ اِخْرَاجٍ ۚ ﴾” اپنی بیویوں کے حق میں وصیت کر جائیں سال بھر فائدہ اٹھانے کی، اور یہ کہ انہیں کوئی نہ نکالے۔“ یعنی انہیں چاہئے کہ بیویوں کو سال بھر ان (شوہروں) کے گھروں میں رہنے کی وصیت کر جائیں۔ اس مدت میں عورتیں وہاں سے نکلیں۔ ﴿ فَاِنْ خَرَجْنَ ﴾” پس اگر وہ خود نکل جائیں۔“ ﴿ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْکُمْ﴾” تو (اے وارثو !) تم پر اس میں کوئی گناہ نہیں۔“ ﴿ مَا فَعَلْنَ فِیْٓ اَنْفُسِہِنَّ مِنْ مَّعْرُوْفٍ ۭ ﴾” جو وہ اپنے لئے اچھائی سے کریں اور اللہ تعالیٰ غالب اور حکیم ہے۔“ اچھائی سے مراد زیب و زینت اور خوشبو وغیرہ کا استعمال ہے۔ اکثر مفسرین کا خیال ہے کہ یہ آیت اپنے سے پہلی آیت کی وجہ سے منسوخ ہوگئی ہے۔ جس کے الفاظ یہ ہیں ﴿وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا ﴾(البقرہ: 234؍2) ” تم میں سے جو لوگ فوت ہوجائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں، وہ عورتیں اپنے آپ کو چار مہینے دس دن عدت میں رکھیں۔“ تم میں سے جو لوگ فوت ہوجائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں، وہ عورتیں اپنے آپ کو چار مہینے دس دن عدت میں رکھیں۔“ بعض کہتے ہیں کہ یہ آیت منسوخ نہیں، بلکہ پہلی آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ چار ماہ دس دن کی مدت پوری کرنا واجب ہے۔ اس سے زیادہ مستحب ہے۔ خاوند کے حق کی تکمیل کے لئے اور بیوی کی دلجوئی کے لئے اسے پورا کرنا چاہئے۔ مستحب ہونے کی دلیل یہ ہے کہ سال پورا ہونے سے پہلے عورتوں کے اس گھر سے چلے جانے کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے خاوند کے وارثوں پر گناہ نہ ہونے کا ذکر کیا ہے۔ اگر اس گھر میں رہائش رکھنا واجب ہوتا، تو انہیں یہ نہ کہا جاتا کہ کوئی حرج نہیں۔ البقرة
241 یعنی ہر طلاق یافتہ عورت کو مناسب فائدہ دینا اس کا حق ہے جو ہر متقی پر واجب ہے، تاکہ عورت کی دلجوئی ہوسکے اور اس کے بعض حقوق ادا ہوسکیں۔ جس عورت کو خلوت سے پہلے طلاق دی جائے اسے یہ متعہ ( مثلاً کپڑوں کا جوڑایا کچھ رقم وغیرہ) دینا واجب ہے۔ دوسری صورت میں پورا حق مہر ادا کرنا واجب ہے جیسے پہلے بیان ہوا۔ اس مسئلہ میں یہ قول زیادہ بہتر ہے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ ہر عورت کو طلاق کے بعد متعہ دینا واجب ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ آیت کا مفہوم عام ہے۔ (اس میں کوئی تخصیص نہیں کی گئیض لیکن قانون یہ ہے کہ مطلق کو مقید پر محمول کیا جاتا ہے اور پہلے بیان ہوچکا ہے کہ متعہ اس عورت کے لئے واجب ہے جسے خلوت سے پہلے اور حق مہر کے تعین سے پہلے طلاق ہوجائے۔ البقرة
242 جب اللہ تعالیٰ نے یہ عظیم مسائل بیان فرمائے جو اس کی حکمت اور رحمت پر مشتمل ہیں، تو بندوں پر اپنے احسان کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ﴿کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمْ اٰیٰتِہٖ﴾” اللہ تعالیٰ اسی طرح تم پر اپنی آیتیں بیان فرما رہا ہے۔“ یعنی حدود، حلال و حرام اور وہ احکام جن میں تمہارا فائدہ ہے﴿ لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ﴾” تاکہ تم انہیں سمجھو اور ان کا اصل مقصد تمہیں معلوم ہوجائے، کیونکہ جو ان کو سمجھ لے گا، وہ ان پر عمل کرنا ضروری سمجھے گا۔ البقرة
243 اللہ تعالیٰ ان لوگوں کا واقعہ بیان فرما رہا ہے جو ایک متفقہ مقصد کے تحت کثیر تعداد میں اپنے گھروں سے نکل کھڑے ہوئے تھے۔ ان کے نکلنے کی وجہ یہ تھی کہ وہ وبایا کسی اور وجہ سے مرجانے کا خوف رکھتے تھے۔ گھروں سے نکلنے سے ان کا مقصود موت سے بچنا تھا، لیکن تقدیر کے آگے تدبیر نہیں چلتی چنانچہ ﴿ فَقَالَ لَہُمُ اللّٰہُ مُوْتُوْا ۣ﴾” اللہ تعالیٰ نے انہیں فرمایا : مر جاؤ۔“ تو وہ مر گئے۔ ﴿ ثُمَّ﴾ ” پھر اللہ تعالیٰ نے : ﴿اَحْیَاھُمْ ۭ﴾” انہیں زندہ کردیا۔“ یا نبی کی دعا کی وجہ سے یا کسی اور وجہ سے یہ ان پر رحمت، مہربانی اور حلم کا اظہار تھا اور مردوں کو زندہ کرنے کی ایک نشانی دکھانا مقصود تھا اس لئے فرمایا: ﴿ اِنَّ اللّٰہَ لَذُوْ فَضْلٍ عَلَی النَّاسِ وَ لَكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَشْكُرُونَ﴾ ” بے شک اللہ تعالیٰ لوگوں پر بڑا فضل کرنے والا ہے، لیکن اکثر لوگ ناشکرے ہیں۔‘،پس وہ نعمت ملنے پر شکر میں اضافہ نہیں کرتے، بلکہ بعض اوقات ان نعمتوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مزید گناہ کرنے لگتے ہیں۔ ان میں ایسے شکر گزار بندے کم ہی ہوتے ہیں جو نعمت کو پہچان کر، اس کا اعتراف کر کے اسے منعم حقیقی کی اطاعت میں استعمال کرتے ہیں۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنی راہ میں جنگ کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس سے مراد اللہ کے دین کو بلند کرنے کے لئے اپنے دشمنوں یعنی کافروں کے خلاف جنگ کرنا ہے۔ البقرة
244 چنانچہ فرمایا : ﴿ وَقَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ﴾” اللہ کی راہ میں جہاد کرو اور جان لو کہ اللہ تعالیٰ سنتا جانتا ہے۔“ لہٰذا نیت درست رکھو، اور جہاد سے صرف اللہ کی رضا تمہارا مقصود ہونا چاہئے اور تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ جنگ سے پہلوتہی کرنے سے کچھ فائدہ نہیں ہوگا۔ اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ جنگ نہ کرنے کے نتیجے میں تم زیادہ عرصہ زندہ رہو گے تو حقیقت یوں نہیں ہے۔ اسی لئے اس حکم کی تمہید کے طور پر گزشتہ قصہ بیان فرمایا ہے کہ جس طرح ان کو موت کے ڈر سے گھروں سے نکلنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوا، بلکہ ان کا خطرہ ان کے سامنے آگیا جب کہ ان کو یہ گمان بھی نہ تھا کہ موت اس طرح بھی آسکتی ہے، تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ تمہارا معاملہ بھی ایسا ہی ہے اور چونکہ اللہ کی راہ میں جنگ کرنے کے لئے مال خرچ کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس لئے اللہ نے اس راہ میں مال خرچ کرنے کا حکم دیا اور ترغیب دی اور اسے قرض فرمایا۔ البقرة
245 چنانچہ فرمایا ﴿ مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا ﴾” ایسا بھی کوئی ہے جو اللہ کو اچھا قرض دے؟“ اور جتنا مال ہوسکے نیکی کے کاموں میں، بالخصوص جہاد میں خرچ کرے۔ ” اچھا“ وہ ہے جو حلال کی کمائی سے ہو اور اس سے مقصود محض رضائے الٰہی ہو۔ ﴿ فَیُضٰعِفَہٗ لَہٗٓ اَضْعَافًا کَثِیْرَۃً ۭ﴾” پس اللہ تعالیٰ اسے بہت بڑھا چڑھا کر عطا فرمائے۔“ یعنی نیکی کا ثواب دس گنا سے سات سو گنا تک یا اس سے بھی بہت زیادہ عطا فرمائے گا۔ ثواب میں یہ اضافہ خرچ کرنے والے کی حالت، نیت، اس خرچ کے فائدے اور ضرورت کی نسبت سے ہوتا ہے۔ انسان کو بعض اوقات یہ خیال آتا ہے کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے وہ مفلس ہوجائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے اس وہم کو دور کرنے کے لئے فرمایا : ﴿ وَاللّٰہُ یَـقْبِضُ وَیَبْصُۜطُ ۠﴾” اللہ ہی تنگی اور کشادگی کرتا ہے۔“ یعنی جس کا رزق چاہتا ہے وسیع کردیتا ہے اور جس کا چاہتا ہے تنگ کردیتا ہے۔ یہ معاملات صرف اسی کے ہاتھ میں ہیں اور تمام امور کا دار و مدار اسی کی ذات پر ہے۔ بچا بچا کر رکھنے سے رزق بڑھتا نہیں اور خرچ کرنے سے گھٹتا نہیں۔ علاوہ ازیں جو خرچ کیا ہے وہ ضائع نہیں ہوتا، بلکہ ایک دن آنے والا ہے جب وہ اپنی پیش کی ہوئی اشیا پوری پوری، بلکہ بہت زیادہ اضافے کے ساتھ کئی گنا وصول کرلیں گے، اس لئے فرمایا ﴿ وَاِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ﴾ ” اور تم سب اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔“ پھر وہ تمہیں تمہارے اعمال کی جزا دے گا۔ ان آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ تقدیر کے مقابلے میں اسباب فائدہ نہیں دیتے۔ خصوصاً وہ اسباب جن سے اللہ کے احکامات پر عمل ترک ہوتا ہو۔ نیز ان میں اللہ کی عظیم نشانی کا ذکر ہے کہ اسی جہان میں مردوں کو زندہ کر کے دکھا دیا۔ ان میں اللہ کی راہ میں جہاد و قتال اور خرچ کرنے کا حکم ہے یہاں ایسی چیزیں بیان کی گئی ہیں جن سے انفاق فی سبیل اللہ کی ترغیب ہوتی ہے، مثلاً اسے قرض قرار دینا، اس کا بہت زیادہ بڑھ جانا، اور رزق کی کمی بیشی اللہ کے ساتھ میں ہونا، اور بندوں کا اسی کی طرف لوٹ کے جانا۔ البقرة
246 ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بنی اسرائیل کے سرداروں کا واقعہ سنایا ہے۔ سرداروں کا ذکر اس لئے کیا گیا ہے کہ عام طور پر سردار ہی اپنے فائدے کے معاملات پر غور و فکر کرتے ہیں تاکہ وہ متفقہ فیصلہ کریں اور دوسرے لوگ ان کی پیروی کرتے ہیں۔ واقعہ یوں ہے کہ وہ موسیٰ علیہ السلام کے بعد مبعوث ہونیوالے اپنے نبی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے عرض کیا ﴿ ابْعَثْ لَنَا مَلِکًا نُّقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ۭ﴾” کسی کو ہمارا بادشاہ بنا دیجیے تاہم اللہ کی راہ میں جہاد کریں۔“ تاکہ قوم کی شیرازہ بندی ہو اور ہم دشمن کا مقابلہ کرسکیں۔ شاید اس وقت ان کا کوئی متفقہ سردار نہیں تھا۔ جیسے قبائلی معاشرے میں ہوتا ہے کہ کوئی گھر انا یہ پسند نہیں کرتا کہ دوسرے گھرانے کا کوئی آدمی اس پر حاکم مقرر ہوجائے۔ اس لئے انہوں نے اپنے نبی سے درخواست کی کہ ایک بادشاہ مقرر کردیا جائے جس پر سب فریق متفق ہوجائیں۔ بنی اسرائیل میں سیاسی رہنمائی انبیائے کرام کا فریضہ تھی۔ جب کوئی نبی فوت ہوجاتا تو اللہ تعالیٰ اس کی جگہ دوسرا نبی مقرر فرما دیتا۔ جب انہوں نے اپنے نبی سے یہ بات کہی تو پیغمبر نے کہا ﴿ ھَلْ عَسَیْتُمْ اِنْ کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِتَالُ اَلَّا تُقَاتِلُوْا ۭ﴾” ممکن ہے جہاد فرض ہوجانے کے بعد تم جہاد نہ کرو۔“ یعنی شاید تم ایسی چیز کا مطالبہ کر رہے ہو کہ اگر تم پر فرض ہوجائے تو تم اس کو انجام نہ دے سکو۔ نبی کے اس مشورہ کو تسلیم کرلینے میں ان کے لئے عافیت تھی، لیکن انہوں نے اسے قبول کرنے کے بجائے اپنے عزم و نیت پر اعتماد کیا اور بولے ﴿ وَمَا لَنَآ اَلَّا نُقَاتِلَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَقَدْ اُخْرِجْنَا مِنْ دِیَارِنَا وَاَبْنَاۗیِٕنَا ۭ﴾” بھلا ہم اللہ کی راہ میں جہاد کیوں نہ کریں گے؟ ہم تو اپنے گھروں سے اجاڑے گئے ہیں اور بچوں سے دور کردیئے گئے ہیں۔“ یعنی ہمیں جہاد کرنے میں کیا عذر ہوسکتا ہے جب کہ ہمیں اس پر مجبور کردیا گیا ہے کیونکہ ہمیں وطن سے بے وطن کردیا گیا اور بیوی بچوں کو قید کرلیا گیا ہے؟ ان حالات میں بھی اگر ہم پر اللہ کی طرف سے جہاد کا حکم نہ بھی آئے تب بھی ہمیں لڑنا چاہئے۔ اب جب کہ سب کچھ ہوچکا ہے اور جہاد فرض کردیا جائے تو ہم کیوں نہیں لڑیں گے۔ لیکن ان کی نیتیں درست نہ تھیں اور اللہ پر توکل مضبوط نہیں تھا۔ اس لیے ﴿ فَلَمَّا کُتِبَ عَلَیْہِمُ الْقِتَالُ تَوَلَّوْا ﴾” جب ان پر جہاد فرض ہوا تو سب پھر گئے۔“ انہیں بزدلی کی وجہ سے جہاد کی ہمت نہ ہوئی، وہ دشمن سے ٹکر لینے کی جرأت نہ کرسکے۔ ان کا عزم جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔ اکثریت پر بزدلی کے جذبات غالب آگئے۔ ﴿ اِلَّا قَلِیْلًا مِّنْہُمْ ﴾” سوائے تھوڑے سے لوگوں کے“ جنہیں اللہ نے ثابت قدمی بخشی، ان کے دل مضبوط ہوگئے۔ پس انہوں نے اللہ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے دشمن سے ٹکرانے کا حوصلہ کیا تو انہیں دنیا اور آخرت کی عزت نصیب ہوئی۔ لیکن اکثریت نے اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہوئے اللہ کے حکم کو چھوڑ دیا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے﴿ وَاللّٰہُ عَلِیْمٌۢ بِالظّٰلِمِیْنَ﴾” اور اللہ تعالیٰ ظالموں کو خوب جانتا ہے۔“ البقرة
247 ﴿وَقَالَ لَہُمْ نَبِیُّہُمْ﴾” اور ان کے نبی نے (ان کا مطالبہ تسلیم کرتے ہوئے) کہا ﴿اِنَّ اللّٰہَ قَدْ بَعَثَ لَکُمْ طَالُوْتَ مَلِکًا ۭ﴾” اللہ تعالیٰ نے طالوت کو تمہارا بادشاہ بنا دیا ہے۔‘،یہ نام زدگی اللہ کی طرف سے تھی، لہٰذا ان کا فرض تھا کہ اسے قبول کرتے ہوئے اعتراضات بند کردیتے۔ لیکن انہوں نے اعتراض کردیا اور کہنے لگے ﴿ اَنّٰی یَکُوْنُ لَہُ الْمُلْکُ عَلَیْنَا وَنَحْنُ اَحَقُّ بِالْمُلْکِ مِنْہُ وَلَمْ یُؤْتَ سَعَۃً مِّنَ الْمَالِ ۭ ﴾” بھلا اس کی ہم پر حکومت کیسے ہوسکتی ہے؟ اس سے تو بہت حق دار بادشاہت کے ہم ہیں۔ اسے مالی کشادگی بھی نہیں دی گئی۔“ یعنی وہ ہمارا بادشاہ کیسے بن سکتا ہے۔ جب کہ وہ خاندانی طور پر ہم سے کم تر ہے۔ پھر وہ غریب اور نادار بھی ہے، اس کے پاس حکومت قائم رکھنے کے لئے مال بھی نہیں۔ ان کی اس بات کی بنیاد ایک غلط خیال پر تھی کہ بادشاہ اور سردار ہونے کے لئے اونچا خاندان اور بہت مالدار ہونا ضروری ہے۔ انہیں معلوم نہیں تھا کہ ترجیح کے قابل اصل صفات زیادہ اہم ہیں۔ اس لئے ان کے نبی نے فرمایا : ﴿ اِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰیہُ عَلَیْکُمْ﴾” سنو ! اللہ تعالیٰ نے اس کو تم پر برگزیدہ کیا ہے۔“ لہٰذا اس کی اطاعت قبول کرنا تمہارا فرض ہے۔ ﴿ وَزَادَہٗ بَسْطَۃً فِی الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ ۭ﴾ ” اور اسے اللہ نے علمی اور جسمانی برتری بھی عطا فرمائی ہے۔“ یعنی اسے عقل اور جسم کی قوت عطا فرمائی ہے، اور ملک کے معاملات انہی دو چیزوں کی بنیاد پر صحیح طور پر انجام پاتے ہیں۔ کیونکہ جب وہ عقل و رائے میں کامل ہو، اور اس صحیح رائے کے مطابق احکام نافذ کرنے کی طاقت بھی رکھتا ہو، تو درجہ کمال حاصل ہوجاتا ہے۔ اگر ان دونوں میں سے کوئی ایک مفقود ہو تو نظام میں خلل آجائے گا۔ اگر وہ جسمانی طور پر طاقت ور ہوا لیکن پورا عقل مند نہ ہوا تو ملک میں غیر شرعی سختی ہوگی اور طاقت کا استعمال حکمت کے مطابق نہیں ہوگا اور اگر وہ معاملات کی پوری سمجھ رکھنے والا ہوا، لیکن اپنے احکام نافذ کرنے کی طاقت سے محروم ہوا، تو اس عقل و فہم کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا، جسے وہ نافذ نہ کرسکے۔ ﴿ وَاللّٰہُ وَاسِعٌ﴾” اللہ تعالیٰ کشادگی والا۔“ یعنی بہت فضل و کرم والا ہے اس کی عمومی رحمت کسی کو محروم نہیں رکھتی، بلکہ ہر ادنیٰ و اعلیٰ اس سے بہرہ ور ہوتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ ﴿ عَلِیْمٌ﴾ ” علم والا ہے۔“ البقرة
248 وہ جانتا ہے کہ فضل کا حق دار کون ہے اس پر فضل کردیتا ہے۔ اس کلام سے ان کے دلوں کے تمام شکوک و شبہات دور ہوگئے۔ کیونکہ طالوت میں حکمرانوں والی خوبیاں موجود تھیں، اور اللہ اپنا فضل جسے چاہے دیتا ہے، اسے کوئی روک نہیں سکتا۔ اس کے بعد ان کے نبی نے ایک حسی نشانی بھی بیان کی، جسے وہ دیکھ لیں گے۔ وہ ہے اس تابوت کا واپس مل جانا جو ایک طویل عرصہ سے ان کے ہاتھ سے نکل چکا تھا۔ اس تابوت میں ان کے لئے اطمینان قلب اور سکون کا سامان موجود تھا۔ یعنی آل موسیٰ اور آل ہارون کی چھوڑی ہوئی اشیا موجود تھیں۔ اسے فرشتے اٹھا کر لائے تو لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔ البقرة
249 جب بنی اسرائیل پر طالوت کی حکومت قائم ہوگئی اور مستحکم ہوگئی تو قوم نے دشمن سے مقابلے کی تیاری کی۔ طالوت بنی اسرائیل کے لشکروں کو لے کر روانہ ہوا۔ ان کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ تو اس نے اللہ کے حکم سے ان کا امتحان لیا تاکہ معلوم ہوجائے کہ ثابت قدم رہنے والا کون کون ہے اور دوسری طرح کا (بھگوڑا) کو ن کون ہے؟ چنانچہ فرمایا ﴿ اِنَّ اللّٰہَ مُبْتَلِیْکُمْ بِنَہَرٍ ۚ فَمَنْ شَرِبَ مِنْہُ فَلَیْسَ مِنِّیْ ۚ﴾ ” سنو ! اللہ تعالیٰ تمہیں ایک نہر سے آزمانے والا ہے جس نے اس میں سے پانی پی لیا، وہ میرا نہیں۔“ پس وہ نافرمان ہے۔ اس کی بے صبر اور گناہ کی سزا یہ ہے کہ وہ ہمارے ساتھ نہ آئے ﴿ وَمَنْ لَّمْ یَطْعَمْہُ﴾ ” اور جو اسے نہ چکھے“ یعنی اس کا پانی نہ پیئے۔ وہ میرا ہے ﴿ اِلَّا مَنِ اغْتَرَفَ غُرْفَۃًۢ بِیَدِہٖ ۚ﴾ ”ہاں یہ اور بات ہے کہ اپنے ہاتھ سے ایک چلو بھر لے۔“ اسے کوئی گناہ نہیں اور شاید اللہ تعالیٰ اس کے لئے اس میں برکت ڈال دے کہ وہ اس کے لئے کافی ہوجائے۔ اس امتحان سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے پاس پانی تھوڑا رہ گیا تھا، تاکہ آزمائش ہوسکے۔ اکثر نے نافرمانی کرتے ہوئے اتنا پانی پی لیا، جتنا پینے کی انہیں اجازت نہیں دی گئی تھی۔ چنانچہ یہ لوگ دشمن کے مقابلے میں جہاد کرنے سے بھی پہلو تہی کر گئے۔ ان کا گھڑی بھر پانی سے صبر نہ کرسکنا بہت بڑی دلیل تھی کہ وہ جنگ میں بھی صبر نہ کرسکیں گے، جو طویل بھی ہوسکتی ہے اور پرمشقت بھی۔ ان کے اس طرح پلٹ جانے سے باقی لشکر میں اللہ پر اعتماد، اللہ کے سامنے عجز و نیاز اور پانی کی طاقت پر گھمنڈ سے اجتناب جیسی کیفیات اور زیادہ ہوگئیں وہ اپنی قلت اور دشمن کی کثرت کو دیکھ کر مزید ثابت قدم ہوگئے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿ فَلَمَّا جَاوَزَہٗ﴾” جب وہ نہر سے گزر گیا‘،﴿هُوَ﴾” وہ طالوت“ ﴿ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ ۙ ﴾” مومنین سمیت“ جنہوں نے اللہ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے جائز حد سے زیادہ پانی نہیں پیا تھا، تو فوج کے اکثر لوگ اپنی قلت اور دشمنوں کی کثرت دیکھ کر کہنے لگے ﴿ لَا طَاقَۃَ لَنَا الْیَوْمَ بِجَالُوْتَ وَجُنُوْدِہٖ ۭ﴾” آج تو ہم میں طاقت نہیں کہ جالوت اور اس کے لشکروں سے لڑیں۔“ کیونکہ ان کی تعداد بھی زیادہ ہے اور اسلحہ بھی ﴿ۭ قَالَ الَّذِیْنَ یَظُنُّوْنَ اَنَّہُمْ مُّلٰقُوا اللّٰہِ ۙ ﴾” لیکن اللہ کی ملاقات پر یقین رکھنے والوں نے کہا،جو پختہ ایمان کے حامل تھے، انہوں نے دوسروں کا حوصلہ بڑھانے کے لئے، انہیں صبر کی تلقین کرتے ہوئے کہا ﴿کَمْ مِّنْ فِئَۃٍ قَلِیْلَۃٍ غَلَبَتْ فِئَۃً کَثِیْرَۃًۢ بِاِذْنِ اللّٰہِ ۭ﴾” بسا اوقات چھوٹی اور تھوڑی سی جماعتیں بڑی اور بہت سی جماعتوں پر اللہ کے حکم سے“ یعنی اس کے ارادہ اور مشیت سے۔ غلبہ پالیتی ہیں۔کیونکہ معاملات اللہ کے ہاتھ میں ہیں۔ عزت اور ذلت اس کے دینے سے ملتی ہے۔ اللہ کی مدد کے بغیر کثرت کا کوئی فائدہ نہیں اور اس کی مدد حاصل ہو تو قلت سے کوئی نقصان نہیں۔ ﴿ وَاللّٰہُ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ﴾” اور اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔“ اس کی مدد اور توفیق انہیں حاصل ہوتی ہے۔ اللہ کی مدد حاصل کرنے کا سب سے اہم ذریعہ بندے کا اللہ کی رضا کے لئے صبر کرنا ہے۔ ان کی نصیحت کا کم ہمتوں پر بہت اچھا اثر ہوا، اس لئے جب وہ جالوت کے مقابلے میں آئے تو ان سب نے دعا مانگی البقرة
250 ﴿ رَبَّنَآ اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا﴾ ” اے پروردگار ! ہمیں صبر دے“ یعنی دل مضبوط کر دے۔ ہمیں صبر کی توفیق دے۔ ﴿ وَّثَبِّتْ اَقْدَامَنَا ﴾” اور ثابت قدمی دے۔‘،کہ ہمارے قدموں میں لغزش نہ آئے، ہم بھاگنے کی غلطی سے محفوظ رہیں۔ ﴿ وَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ﴾” اور قوم کفار پر ہماری مدد فرما۔“ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جالوت اور اس کی قوم کافر تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرما لی، کیونکہ انہوں نے قبولیت کے اسباب مہیا کرلیے تھے۔ اللہ نے ان کی مدد فرمائی البقرة
251 ﴿ۭفَہَزَمُوْھُمْ بِاِذْنِ اللّٰہِ ڐ وَقَتَلَ دَاوٗدُ﴾ ” چنانچہ اللہ کے حکم سے انہوں نے جالوتیوں کو شکست دے دی اور حضرت داؤد علیہ السلام کے ہاتھوں“ جو طالوت کے لشکر میں شامل تھا ﴿ جَالُوْتَ﴾ ” جالوت قتل ہوا“ آپ نے بہادری، قوت اور ثابت قدمی کی بدولت کافروں کے بادشاہ کو اپنے ہاتھ سے قتل کیا۔ ﴿ وَاٰتٰیہُ اللّٰہُ الْمُلْکَ وَالْحِکْمَۃَ﴾” اور اللہ تعالیٰ نے داؤد علیہ السلام کو مملکت و حکمت عطا فرمائی۔‘،یعنی اللہ نے آپ پر یہ احسان فرمایا کہ بنی اسرائیل کی حکومت عطا فرمانے کے علاوہ حکمت بھی عطا فرمائی۔ یعنی نبوت سے سرفرازفرمایا جس سے عظیم شریعت اور سیدھی راہ ملی۔ اس لئے فرمایا : ﴿ وَعَلَّمَہٗ مِمَّا یَشَاۗءُ ۭ﴾” اور جتنا کچھ چاہا، علم بھی عطا فرمایا۔“ شریعت کا علم بھی اور سیاست کا علم بھی۔ اس طرح انہیں نبوت اور حکومت دونوں عطا فرما دیں۔ اس سے پہلے انبیاء اور ہوتے تھے اور بادشاہ اور پس جب اللہ نے ان کی مدد فرمائی تو وہ لوگ اطمینان سے اپنے گھروں میں رہنے لگے اور بے خوف ہو کر اللہ کی عبادت کرنے لگے۔ اللہ نے ان کے دشمنوں کو مغلوب کردیا اور انہیں اقتدار عطا فرما دیا، یہ سب جہاد فی سبیل اللہ کی برکات تھیں۔ اس لئے اللہ نے فرمایا ﴿ وَلَوْلَا دَفْعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعْضَہُمْ بِبَعْضٍ ۙ لَّفَسَدَتِ الْاَرْضُ﴾” اگر اللہ تعالیٰ بعض لوگوں کو بعض کے ذریعے سے دفع نہ کرتا، تو زمین میں فساد پھیل جاتا۔“ اگر مجاہدین کے ذریعے سے بدکاروں اور کفار کا قلع قمع نہ کرتا تو کافروں کے غلبے کی وجہ سے، کفر کی رسمیں قائم ہونے سے اور اللہ کی عبادت سے روک دیے جانے کی وجہ سے زمین فساد سے بھر جاتی۔ ” لیکن اللہ تعالیٰ دنیا والوں پر بڑا فضل و کرم کرنے والا ہے۔“ یہ اس کا فضل ہے کہ اس نے جہاد مقرر کردیا، جس میں ان کی سعادت اور ان کا دفاع ہے اور انہیں معلوم و نامعلوم اسباب کے ذریعے سے زمین میں اقتدار عطا فرما دیا۔ البقرة
252 پھر فرمایا : ﴿ تِلْکَ اٰیٰتُ اللّٰہِ﴾” یہ اللہ تعالیٰ کی آیتیں ہیں، جنہیں ہم حقانیت کے ساتھ آپ پر پڑھتے ہیں۔،یعنی ایسی سچائی کے ساتھ جس میں کوئی شک نہیں، جو اعتبار اور بصیرت کو بھی متضمن ہے اور بیان حقائق امور کو بھی ﴿ وَاِنَّکَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ﴾” اور بالیقین آپ رسولوں میں سے ہیں۔“ اس میں اللہ کی طرف سے اپنے رسول کے لئے رسالت کی گواہی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے دلائل میں انبیائے سابقین، ان کے متبعین اور مخالفین کے ان واقعات کا بیان بھی ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ بتاتا تو آپ کو ان کا علم نہیں ہوسکتا تھا، بلکہ آپ کی پوری قوم میں کوئی بھی ایسا شخص نہ ہوتا جس کو ان واقعات کے بارے میں کچھ معلوم ہو۔ اس سے ثابت ہوا کہ آپ اللہ کے سچے رسول اور نبی ہیں۔ جو حق لے کر آئے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دین بھی سچا ہے جسے اللہ تعالیٰ تمام ادیان پر غالب کرنے والا ہے۔ اس قصہ میں بہت سی نصیحت آموز نشانیاں ہیں جن سے اہل علم کو نصیحت حاصل ہوتی ہے، مثلاً (1) پہلی بات یہ ہے کہ اہل حل وعقد کا جمع ہو کر یہ غور و فکر کرنا کہ ان کے معاملات کس طریقے سے سدھر سکتے ہیں اور پھر ان تجاویز پر عمل کرنا ترقی اور حصول مقصود کا سب سے بڑا سبب ہے۔ جیسے ان سرداروں نے اپنے نبی سے بادشاہ مقرر کردینے کی درخواست کی تاکہ وہ متحد اور متفق رہیں اور ایک بادشاہ کا حکم مانیں۔ (2) جب حق کی مخالفت کی جائے اور اس پر شبہات وارد کئے جائیں، تو اس سے حق زیادہ واضح ہوجاتا ہے اور اس کے نتیجے میں یقین تام حاصل ہوجاتا ہے، جیسے ان لوگوں نے طالوت کے بادشاہت کا مستحق ہونے پر اعتراض کیا، تو انہیں ایسے جواب دیئے گئے کہ وہ مطمئن ہوگئے اور شک و شبہ ختم ہوگیا۔ (3) حکومت کو کمال تب حاصل ہوتا ہے جب حاکم علم و عقل بھی رکھتا ہو اور نافذ کرنے کی قوت بھی رکھتا ہو۔ ان میں سے کسی ایک شرط کا، یا دونوں شرطوں کا فقدان سلطنت کے نقصان کا باعث ہے۔ (4) اپنے آپ پر اعتماد کرنے سے ناکامی حاصل ہوتی ہے اور صبر پر قائم رہتے ہوئے اللہ سے مدد مانگنا اور اس کی پناہ حاصل کرنا فتح و کامیابی کا ذریعہ ہے۔ اس کی پناہ حاصل کرنا فتح و کامیابی کا ذریعہ ہے۔ پہلی صورت کی مثال ان کا اپنے نبی سے یہ کہنا ہے ﴿وَمَا لَنَآ اَلَّا نُقَاتِلَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَقَدْ اُخْرِجْنَا مِنْ دِیَارِنَا وَاَبْنَاۗیِٕنَا ۭ﴾” بھلا ہم اللہ کی راہ میں جہاد کیوں نہ کریں گے؟ ہم تو اپنے گھروں سے اجاڑے گئے ہیں اور بچوں سے دور کردیئے گئے ہیں“ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب جہاد کا حکم ہوا تو وہ منہ موڑ گئے۔ دوسری صورت کی مثال اللہ کا یہ فرمان ہے ﴿ وَلَمَّا بَرَزُوْا لِجَالُوْتَ وَجُنُوْدِہٖ قَالُوْا رَبَّنَآ اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ﴾ ” جب وہ جالوت کے مقابلے میں آئے تو ان سب نے دعا مانگی ! اے پروردگار ! ہمیں صبر دے، ثابت قدمی دے اور قوم کفار پر ہماری مدد فرما۔“ نتیجہ یہ ہوا کہ دشمن کو شکست ہوگئی۔ (5) اللہ کی حکمت کا تقاضا ہے کہ ناپاک کو پاک سے، سچے کو جھوٹے سے، ثابت قدمی والے کو بزدل سے ممتاز اور الگ کر دے۔ اللہ تعالیٰ انہیں ملے جلے اور غیر نمایاں نہیں رہنے دیتا۔ (6) اللہ کی رحمت اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ وہ کافروں اور منافقوں کے شر کو مجاہد مومنوں کے ذریعے سے دور کردیتا ہے۔ اگر یہ بات نہ ہوتی تو زمین میں کافروں کا غلبہ ہوتا اور کافرانہ طور طریقے ہر جگہ پھیل جاتے جس سے زمین فساد سے بھر جاتی۔ البقرة
253 ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بعض رسولوں کو دوسروں پر فضیلت عطا فرمائی ہے۔ پہلے تو انہیں تمام لوگوں پر فضیلت عطا فرمائی کہ ان کی طرف وحی نازل کر کے انہیں دوسروں کی طرف مبعوث فرمایا اور انہوں نے مخلوق کو اللہ کی طرف بلایا۔ پھر انہیں ایک دوسرے پر فضیلت دی کہ ان میں درست افعال اور لوگوں کو نفع پہنچانے جیسی خاص خوبیاں دیں۔ چنانچہ موسیٰ کو ہم کلام ہونے کا خاص شرف عطا فرمایا اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دوسرے انبیاء سے افضل بنایا اور آپ میں وہ تمام فضائل جمع فرما دیئے جو دوسرے رسولوں کو الگ الگ ملے تھے اور آپ کو ایسے مناقب بخشے جن کی وجہ سے آپ اولین اور آخرین سے اشرف قرار پائے۔ ﴿وَآتَيْنَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنَاتِ﴾” اور ہم نے عیسیٰ ابن مریم کو معجزات عطا فرمائے۔“ جن سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ اللہ کے بندے، اس کے رسول اور مریم کی طرف نازل ہونے والا اللہ کا کلمہ اور اس کی طرف سے آنے والی ایک روح ہیں۔﴿ وَأَيَّدْنَاهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ﴾” اور روح القدس سے ہم نے ان کی تائید کی۔“ اس سے مراد ایمان اور یقین ہے جس کے ذریعے سے ان کو وہ فریضہ انجام دینے کی طاقت حاصل ہوئی، جو آپ پر عائد کیا گیا تھا۔ ایک قول کے مطابق روح القدس سے مراد جبرئیل ہیں، جو ہر وقت آپ کے ساتھ رہتے تھے۔﴿ وَلَوْ شَاءَ اللَّـهُ مَا اقْتَتَلَ الَّذِينَ مِن بَعْدِهِم مِّن بَعْدِ مَا جَاءَتْهُمُ الْبَيِّنَاتُ﴾ ” اور اگر اللہ چاہتا تو ان کے بعد والے اپنے پاس دلیلیں آجانے کے بعد ہرگز آپس میں لڑائی بھڑائی نہ کرتے۔“ بلکہ ان دلائل کی وجہ سے سب مومن اور متحد ہوجاتے۔﴿ وَلَـٰكِنِ اخْتَلَفُوا فَمِنْهُم مَّنْ آمَنَ وَمِنْهُم مَّن كَفَرَ ۚ﴾” لیکن ان لوگوں نے اختلاف کیا۔ ان میں سے بعض تو مومن ہوئے اور بعض کافر۔“ پس اختلاف کے نتیجے میں افتراق، دشمنی اور لڑائی ہوئی۔ اس کے باوجود اگر اللہ چاہتا تو اختلاف کے باوجود لڑائی تک نوبت نہ پہنچتی۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کی مرضی اسباب پر غالب ہے۔ اسباب کا فائدہ تبھی ہوتا ہے جب مشیت اس کے برعکس نہ ہو۔ جب مشیت آجائے تو ہر سبب کالعدم ہوجاتا ہے۔ اس لئے فرمایا﴿ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ يَفْعَلُ مَا يُرِيدُ﴾” لیکن اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔“ اس کا ارادہ غالب ہے، اس کی مرضی پوری ہو کر رہتی ہے۔ اس آیت اور اس جیسی دیگر آیات میں اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ ازل سے اپنی مشیت اور حکمت کے تقاضوں کے مطابق جو چاہتا ہے کرتا ہے اور وہ جو کچھ کرتا ہے اس میں سے بعض کا ذکر قرآن و حدیث میں موجود ہے مثلاً استوا، نزول، کلام اور وہ افعال جنہیں ” افعال اختیاریہ“ کہا جاتا ہے۔ فائدہ : جس طرح اللہ کی پہچان حاصل کرنا فرض ہے۔ اسی طرح رسولوں کے بارے میں علم حاصل کرلینا بھی ضروری ہے، ان کی لازمی صفات کیا ہیں، کیا کچھ ان کے لئے محال ہے اور کیا کچھ ممکن ہے۔ ان امور کا علم قرآن مجید کی متعدد آیات سے ہوتا ہے۔ مثلاً رسول مرد ہیں عورتیں نہیں، وہ بستیوں میں رہنے والوں میں سے مبعوث ہوئے ہیں، خانہ بدوشوں میں سے نہیں۔ وہ اللہ کے منتخب اور پسندیدہ بندے ہوتے ہیں، ان میں ایسی خوبیاں موجود ہوتی ہیں جو انہیں اس انتخاب کا اہل بنا دیتی ہیں۔ ان میں کوئی ایسی خرابی نہیں ہوتی جو منصب رسالت کے منافی ہو۔ مثلاً جھوٹ، خیانت، حق کو چھپانا اور قابل نفرت جسمانی عیوب، ان سے اگر کوئی ایسی فروگزاشت ہوجائے جو منصب رسالت سے متعلق ہو، تو فوراً اصلاح کردی جاتی ہے۔ اللہ نے انہیں وحی کے لئے مخصوص فرمایا ہے اس لئے ان پر ایمان لانا اور ان کی اطاعت کرنا فرض ہے۔ جو شخص کسی نبی پر تنقید کرے یا اس کی شان میں گستاخی کرے، وہ کافر ہوجاتا ہے اور اسے قتل کرنا واجب ہوجاتا ہے۔ ان تمام مسائل کے دلائل بہت زیادہ ہیں جو شخص قرآن مجید میں غور و فکر کرے گا اس پر حق واضح ہوجائے گا۔ البقرة
254 اللہ کا اپنے بندوں پر یہ بھی احسان ہے کہ اس نے حکم دیا ہے کہ اسی کے دیے ہوئے رزق میں سے تھوڑا سا واجب اور مستحب صدقہ پیش کریں تاکہ ان کے لئے ثواب کا ذریعہ ہوجائے اور انہیں اس دن زیادہ ہو کر ملے جس دن ایک ذرہ برابر نیکی کی ضرورت ہوگی تو مل نہیں سکے گی۔ اگر انسان زمین بھر سونا فدیہ کر دے تاکہ اس دن کے عذاب سے بچ جائے، تو اس کی یہ پیش کش قبول نہیں کی جائے گی۔ نہ کوئی دوست اس کے کام آسکے گا وجاہت کے ذریعے سے، نہ شفاعت کے ذریعے سے۔ اس دن اہل باطل خسارے میں ہوں گے اور ظالم رسوا ہوں گے۔ ظالم وہ ہیں جو ایک چیز کو اس کے محل سے ہٹا کر دوسری جگہ رکھ دیتے ہیں۔ پس انہوں نے حقوق اللہ اور حقوق العباد کے واجب کو ترک کردیا اور حلال کے بجائے حرام اختیار کیا۔ سب سے بڑا ظلم اللہ کے ساتھ کفر کرنا ہے، یعنی عبادت جو صرف اللہ کا حق ہے۔ کافر اسے اپنے جیسی مخلوق کے لئے کرتا ہے۔ اس لئے اللہ نے فرمایا﴿ وَالْكَافِرُونَ هُمُ الظَّالِمُونَ﴾” اور کافر ہی ظالم ہیں۔“ اور یہ حصر کے باب سے ہے، یعنی انہوں نے مکمل ظلم کا ارتکاب کیا ہے۔ جیسے ارشاد ہے ﴿ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ﴾  (لقمن :13؍31) ” بے شک شرک بہت بڑا ظلم ہے۔“ البقرة
255 یہ آیت قرآن مجید کی عظیم ترین آیت ہے اور یہ سب سے افضل آیت ہے جس میں عظیم مسائل اور اللہ کی صفات کریمہ بیان ہوئی ہیں اس لئے بہت سی احادیث میں اس کی تلاوت کی ترغیب وارد ہے کہ اسے صبح شام، سوتے وقت اور فرض نمازوں کے بعد پڑھا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے بارے میں فرمایا﴿ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ﴾” اللہ ہی معبود برحق ہے۔“ لہٰذا ہر قسم کی عبادت اور اطاعت اسی کے لئے ہونی چاہئے کیونکہ وہ تمام صفات سے متصف اور عظیم نعمتیں دینے والا ہے۔ بندے کا یہ حق ہے کہ اپنے رب کا بندہ بن کر رہے، اس کے احکامات کی تعمیل کرتا رہے، اس کے منع کئے ہوئے کاموں سے بچتا رہے۔ اللہ کے سوا ہر شے باطل ہے، پس اس کے سوا ہر ایک کی عبادت باطل ہے، کیونکہ اللہ کے سوا ہر چیز مخلوق اور ناقص اور ہر لحاظ سے محتاج ہے۔ لہٰذا کسی قسم کی کسی عبادت کا حق نہیں رکھتی۔﴿ الْحَيُّ الْقَيُّومُ﴾ وہ زندہ اور سب کا تھامنے والا ہے۔“ ان دواسمائے حسنیٰ (الحی القیوم) میں دیگر تمام صفات کی طرف اشارہ موجود ہے۔ خواہ وہ دلالت مطابقت سے ہو، یا دلالت تضمن سے یا دلالت لزوم سے۔ (الحی) سے مراد وہ ہستی ہے جسے کامل حیات حاصل ہو، اور یہ مستلزم ہے تمام صفات ذاتیہ کو مثلاً سننا، دیکھنا، جاننا اور قدرت رکھنا وغیرہ (القیوم) سے مراد وہ ذات ہے جو خود قائم ہو اور دوسروں کا قیام اس سے ہو، اس میں اللہ تعالیٰ کے وہ تمام افعال شامل ہوجاتے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ متصف ہے یعنی وہ جو چاہے کرسکتا ہے، استواء، نزول، کلام، قول، پیدا کرنا، رزق دینا، موت دینا، زندہ کرنا اور دیگر انواع کی تدبیر سب اس کے قیوم ہونے میں شامل ہیں۔ اس لئے بعض محققین کا کہنا ہے کہ یہی وہ اسم اعظم ہے جس کے ذریعے کی ہوئی دعا رد نہیں ہوتی۔ اس کی حیات اور قیومیت کے تمام ہونے کا ایک مظہر یہ بھی ہے کہ﴿ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ﴾” اسے اونگھ آتی ہے نہ نیند۔“ ﴿لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ﴾ ” اس کی ملکیت میں آسمان و زمین کی تمام چیزیں ہیں۔“ وہ مالک ہے، باقی سب مملوک ہیں۔ وہ خالق، رازق اور مدبر ہے باقی سب مخلوق، مرزوق اور مدبر۔ کسی کے ہاتھ میں آسمان و زمین کے معاملات میں سے، نہ اپنے لیے ذرہ بھر اختیار ہے نہ دوسروں کے لئے۔ اسی لئے فرمایا ﴿مَن ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِندَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ﴾” کون ہے جو اس کی اجازت کے بغیر اس کے سامنے شفاعت کرسکے؟“ یعنی کوئی شفاعت نہیں کرسکتا۔ تو شفاعت کا مالک اللہ تعالیٰ ہے۔ لیکن وہ جب کسی بندے پر رحم کرنا چاہے گا، تو اپنے جس بندے کی عزت افزائی کرنا چاہے گا، اسے اس کے حق میں شفاعت کی اجازت دے گا۔ اجازت ملنے سے پہلے کوئی شفاعت نہیں کرسکتا۔ پھر فرمایا ﴿يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ﴾ ” وہ جانتا ہے جو ان کے سامنے ہے اور جو ان کے پیچھے ہے۔“ یعنی ان کے گزشتہ اور آئندہ معاملات سے باخبر ہے۔ یعنی وہ تمام معاملات کی تمام تفصیلات جانتا ہے یعنی اگلے پچھلے، ظاہر، پوشیدہ، غیب اور حاضر سب جانتا ہے۔ بندوں کو ان میں کوئی اختیار حاصل نہیں، نہ وہ ذرہ برابر معلومات رکھتے ہیں، سوائے اس کے جو اللہ تعالیٰ خود بتا دے۔ اس لئے فرمایا: ﴿وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهِ إِلَّا بِمَا شَاءَ﴾” اور وہ اس کے علم میں سے کسی چیز کا احاطہ نہیں کرسکتے، مگر جتنا وہ چاہے۔ اس کی کرسی کی وسعت نے آسمان و زمین کو گھیر رکھا ہے۔“ اس سے اس کی عظمت کا کمال اور سلطنت کی وسعت کا پتہ چلتا ہے۔ جب کرسی کی یہ شان ہے کہ آسمان و زمین کے اتنے بڑے ہونے کے باوجود وہ ان سے بہت بڑی ہے۔ حالانکہ وہ اللہ کی سب سے بڑی مخلوق نہیں بلکہ اللہ کی اس سے بڑی مخلوق بھی موجود ہے۔ یعنی عرش اور ایسی مخلوقات جن کا علم صرف اللہ کو ہے۔ ان مخلوقات کی عظمت کا تصور کرنے سے بھی عقلیں عاجز ہیں تو ان کے خالق کی عظمت کا اندازہ کیسے لگایا جاسکتا ہے۔ جس نے انہیں وجود بخشا اور ان میں بے شمار حکمتیں اور اسرار رکھ دیے۔ جس نے زمین و آسمان کو اپنی جگہ چھوڑنے سے روک رکھا ہے اور وہ اس سے تھکتا نہیں۔ اس لئے فرمایا ﴿وَلَا يَئُودُهُ حِفْظُهُمَا﴾ ” اور نہ وہ ان دونوں کی حفاظت سے تھکتا ہے۔“ یعنی اس کے لئے ان کی حفاظت دشوار نہیں ﴿وَهُوَ﴾ ” اور وہ“ اپنی ذات کے لحاظ سے ﴿ا الْعَلِيُّ﴾ ” بہت بلند ہے۔“ اور عرش عظیم پر مستوی ہے۔ وہ اس لئے بھی بلند ہے کہ تمام مخلوقات اس کے زیرنگیں ہیں۔ اس لئے بھی بلند شان والا ہے کہ اس کی صفات کامل ہیں اور﴿ الْعَظِيمُ﴾” بہت بڑا ہے۔“ جس کی عظمت کے سامنے بڑے سے بڑے جبار، متکبر اور زبردست بادشاہوں کی کوئی حیثیت نہیں۔ اس آیت میں توحید الوہیت بھی ہے، توحید ربوبیت بھی اور توحید اسماء و صفات بھی۔ اس میں اس کی بادشاہت کا محیط ہونا بھی مذکور ہے اور علم کا بھی، اس کی سلطنت کی وسعت بھی ہے اس کا جلال، مجد اور اس کی عظمت و کبریائی کا بھی بیان ہے۔ لہٰذا یہ آیت اکیلی ہی اللہ کے تمام اسماء و صفات اور تمام اسمائے حسنیٰ کے معانی کی جامع ہے۔ البقرة
256 اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دین کے بارے میں کوئی زبردستی نہیں۔ اس کی ضرورت بھی نہیں۔ کیونکہ زبردستی تو اس کام کے لئے کی جاتی ہے جس کے حقائق واضح نہ ہوں یا جو کام انتہائی ناپسندیدہ ہو۔ اس صراط مستقیم کا تو ہر گوشہ واضح ہے۔ اس کا چپہ چپہ روشن ہے۔ کوئی بھی سمجھ دار آدمی معمولی سا غور و فکر کرے تو اسے قبول کرنے پر آمادہ ہوجائے گا۔ لیکن جس کی نیت درست نہ ہو، غلط ارادے رکھتا ہو، ایسا بدظن آدمی حق کو دیکھ کر بھی باطل کو اختیار کرلیتا ہے۔ اچھی چیز کو دیکھ کر پھر گندی چیز کی طرف مائل ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو کوئی ضرورت نہیں کہ اسے دین کو قبول کرنے پر مجبور کرے کیونکہ اس کا کوئی فائدہ نہیں اور زبردستی قبول کرایا گیا ایمان معتبر بھی نہیں۔ اس آیت کا یہ مطلب نہیں کہ جو کافر مسلمانوں سے لڑتے ہیں ان کے خلاف جہاد نہ کیا جائے۔ یہ آیت تو صرف یہ بات واضح کرتی ہے کہ دین بنیادی طور پر ایسی چیز ہے کہ ہر انصاف پسند اسے قبول کرنے پر خود کو مجبور پاتا ہے۔ جنگ کرنے یا نہ کرنے کا اس آیت سے کوئی تعلق نہیں۔ وہ مسئلہ دوسری نصوص سے ثابت ہے۔ البتہ اس سے یہ استدلال کیا جاسکتا ہے کہ یہود و نصاریٰ کے علاوہ دوسرے غیر مسلموں سے بھی جز یہ لینا درست ہے۔ جیسا کہ بہت سے علماء کا قول ہے۔ لہٰذا جو شخص غیر اللہ کی عبادت اور شیطان کی اطاعت ترک کر کے اللہ پر صحیح ایمان لے آئے جس کے نتیجے میں وہ اللہ کی عبادت و اطاعت پر قائم ہوجائے﴿ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَ﴾ ” تو اس نے مضبوط کڑے کو تھام لیا۔“ یعنی ایسا پختہ دین اختیار کرلیا، جس کی بنیادیں بھی مضبوط ہیں اور عمارت بھی۔ وہ پورے اعتماد سے اس پر قائم رہتا ہے کیونکہ اس نے ایسا مضبوط کڑا تھام لیا ہے﴿  لَا انفِصَامَ لَهَا﴾” جو کبھی نہ ٹوٹے گا۔“ اس کے برعکس جو شخص اللہ کا انکار کر کے شیطانوں پر یقین رکھتا ہے اس نے اس مضبوط کڑے کو چھوڑ دیا، جس کے ذریعے سے نجات حاصل ہوسکتی ہے اور ایسے باطل کو پکڑ لیا جو اسے جہنم میں لے جائے گا۔﴿ وَاللَّـهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ﴾” اور اللہ سننے والا جاننے والا ہے۔“ وہ ہر ایک کے نیک و بداعمال سے واقف ہے لہٰذا اس کے مطابق جزا و سزا دے گا۔ اس کڑے کو پکڑنے والے اور نہ پکڑنے والے کا یہی انجام ہے۔ اس کے بعد اللہ نے وہ سبب بیان فرمایا ہے جس کی وجہ سے یہ نتیجہ حاصل ہوا وہ یہ ہے کہ البقرة
257 ﴿اللَّـهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا﴾” ایمان لانے والوں کا کار ساز اللہ خود ہے۔“ یہ آیت ان کی اپنے رب سے دوستی پر مشتمل ہے، بایں طور کہ وہ اپنے رب سے محبت رکھتے ہیں، پس اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتے۔ اس کے پیاروں سے محبت کرتے اور اس کے دشمنوں سے دشمنی رکھتے ہیں، اللہ نے بھی ان پر لطف و کرم اور احسان فرماتے ہوئے انہیں کفر، معاصی اور جہل کے اندھیروں سے نکالا اور ایمان، نیکی اور علم کی روشنی میں پہنچا دیا۔ اس کے نتیجے میں وہ قبر، حشر اور قیامت کے اندھیروں سے محفوظ رہ کر دائمی نعمت، راحت اور سرور والی جنت میں پہنچ گئے۔ ﴿وَالَّذِينَ كَفَرُوا أَوْلِيَاؤُهُمُ الطَّاغُوتُ﴾ ” اور کافروں کے اولیاء شیطان ہیں۔“ پس انہوں نے شیطان سے اور اس کی پارٹی سے دوستی کی۔ اپنے مالک اور آقا کی دوستی چھوڑ دی۔ اس کی سزا کے طور پر اللہ نے ان پر شیطانوں کو مسلط کردیا، جو انہیں گناہوں کی طرف ہانکتے اور برائی پر آمادہ کرتے ہیں۔ اس طرح انہیں ایمان، علم اور نیکی کے نور سے ہٹا کر کفر، معاصی اور جہالت کے اندھیروں میں لے جاتے ہیں۔ ان کے نتیجے میں وہ نیکیوں سے محروم ہوجاتے ہیں اور نعمت اور خوشی حاصل نہیں کرسکتے۔ یہ حسرت کے جہان (جہنم) میں بھی شیطان کی جماعت اور اس کے دوست ہی شمار ہوں گے۔ اس لئے اللہ نے فرمایا ﴿أُولَـٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ﴾” یہ لوگ جہنمی ہیں۔ وہ ہمیشہ اس میں پڑے رہیں گے۔ “ البقرة
258 اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِي حَاجَّ إِبْرَاهِيمَ فِي رَبِّهِ﴾” کیا تو نے اسے نہیں دیکھا جو ابراہیم علیہ السلام سے اس کے رب کے بارے میں جھگڑ رہا تھا۔“ یعنی کیا آپ نے اس کی جرأت، تجاہل، عناد اور ناقابل شک حقیقت کے بارے میں جھگڑے کا مشاہدہ نہیں فرمایا؟ اس کی وجہ صرف یہ تھی ﴿أَنْ آتَاهُ اللَّـهُ الْمُلْكَ﴾” کہ اسے اللہ نے حکومت دی تھی۔“ تو وہ سرکشی اور بغاوت پر اتر آیا۔ اس نے دیکھا کہ وہ رعیت کا حکمران بن گیا ہے تو اتنی جرأت کی کہ ابراہیم سے اللہ کی ربوبیت کے بارے میں بحث کرنے لگا اور یہ دعویٰ کیا کہ وہ بھی اللہ تعالیٰ جیسے کام کرسکتا ہے۔ ابراہیم نے فرمایا ﴿رَبِّيَ الَّذِي يُحْيِي وَيُمِيتُ﴾ ” میرا رب تو وہ ہے جو جلاتا اور مارتا ہے۔“ یعنی ہر کام کا اختیار اسی کو حاصل ہے آپ نے زندہ کرنے اور مارنے کا خاص طور پر ذکر فرمایا کیونکہ یہ سب سے عظیم تدبیر ہے اور اس لئے بھی کہ زندگی بخشنا دنیا کی زندگی کی ابتدا ہے اور موت دینا آخرت کے معاملات کی ابتدا ہے۔ اس کے جواب میں اس نے کہا ﴿َ أ نَا أُحْيِي وَأُمِيتُ﴾” میں بھی جلاتا اور مارتا ہوں“ اس نے یہ نہیں کہا :” میں ہی زندہ کرتا اور مارتا ہوں۔“ کیونکہ اس کا دعویٰ مستقل تصرف کا نہیں تھا۔ بلکہ وہ کہتا تھا کہ وہ بھی اللہ تعالیٰ جیسے کام کرسکتا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ ایک آدمی کو قتل کردیتا ہے تو گویا اسے موت دے دی اور ایک آدمی کو زندہ رہنے دیتا ہے تو گویا اسے زندگی بخش دی۔ جب ابراہیم نے دیکھا کہ یہ شخص بحث میں مغالطہ سے کام لیتا ہے اور ایسی باتیں کہتا ہے جو دلیل تو درکنار شبہ بننے کی بھی صلاحیت نہیں رکھتیں تو ایک دوسری دلیل پیش کرتے ہوئے فرمایا: ﴿َفَإِنَّ اللَّـهَ يَأْتِي بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ﴾” اللہ سورج کو مشرق کی طرف سے لے آتا ہے۔“ یہ حقیقت ہر شخص تسلیم کرتا ہے، حتیٰ کہ وہ کافر بھی اس کا انکار نہیں کرسکتا تھا۔ ﴿فَأْتِ بِهَا مِنَ الْمَغْرِبِ﴾ ”پس تو اسے مغرب کی جانب سے لے آ۔“ یہ الزامی دلیل ہے۔ اگر وہ اپنے دعویٰ میں سچا ہوتا تو یہ اس کے موافق ہوجاتی۔ جب آپ نے ایسی بات فرما دی جس میں شبہ پیدا کرنے کی کوئی گنجائش نہ تھی۔ نہ اس کے پاس اس دلیل کا کوئی توڑ موجود تھا۔﴿فَبُهِتَ الَّذِي كَفَرَ﴾” اس لئے وہ کافر حیران رہ گیا۔“ یعنی حیرت زدہ ہوگیا، اس سے کوئی جواب نہ بن پڑا۔ اس کی دلیل غلط ثابت ہوگئی اور اس کا پیش کردہ شبہ کالعدم ہوگیا۔ جو بھی جھوٹا ضد اور عناد کے ذریعے سے حق کا مقابلہ کرنا چاہے، وہ اسی طرح مغلوب اور شکست خوردہ ہوجایا کرتا ہے۔ اس لئے اللہ نے فرمایا: ﴿وَاللَّـهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ﴾” اور اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔“ بلکہ انہیں کفر وضلالت میں مبتلا رہنے دیتا ہے۔ کیونکہ انہوں نے اپنے لئے خود یہ چیز پسند کرلی ہوتی ہے۔ اگر ان کا مقصد ہدایت کا حصول ہوتا تو اللہ انہیں ہدایت دے دیتا، اور ہدایت تک پہنچنے کے اسباب مہیا کردیتا۔ یہ آیت ایک قطعی دلیل ہے کہ اللہ ہی خالق ہے اور وہی مختار کل ہے۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ عبادت اور ہر حال میں توکل اسی کا حق ہے۔ ابن القیم رحمہ اللہ نے فرمایا :” اس مناظرہ میں ایک باریک نکتہ ہے کہ دنیا میں شرک کا دار و مدار ستاروں اور قبروں کی عبادت پر ہے۔ بعد میں انہی کے نام سے بت تراشے گئے۔ ابراہیم نے جو دلائل پیش کئے ہیں ان میں ان سب کی الوہیت کی اجمالاً تردید موجود ہے کیونکہ اللہ وحدہ لاشریک ہی زندہ کرتا اور موت دیتا ہے۔ وہ زندہ، جو مر جانے والا ہے وہ زندگی میں معبود بننے کی اہلیت رکھتا ہے نہ مرنے کے بعد۔ کیونکہ اس کا ایک رب ہے، جو قادر ہے، زبردست ہے، وہ اس کی زندگی اور موت کا فیصلہ کرتا ہے۔ جو ایسا مجبور ہو وہ معبود کیسے ہوسکتا ہے کہ اس کی صورت کا بت بنایا جائے اور اس کی پوجا کی جائے۔ اسی طرح ستاروں کا حال ہے۔ ان میں سے بڑا نظر آنے والا سورج ہے۔ یہ بھی حکم کا پابند ہے، اپنے بارے میں آزادی سے کوئی فیصلہ نہیں کرسکتا۔ بلکہ اس کا خالق و مالک ہی اسے مشرق سے لاتا ہے تو وہ اس کے حکم اور مرضی کے مطابق اطاعت کرتا ہے۔ یعنی یہ بھی مربوب اور مسخر یعنی حکم کا پابند غلام ہے۔ معبود نہیں کہ اس کی عبادت کی جائے۔“ (مفتاح دارالسعادۃ:3؍ 210۔211) البقرة
259 یہ ایک اور دلیل ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اکیلا اللہ ہی خالق ہے۔ وہی سب فیصلے کرتا ہے۔ اسی کے ہاتھ میں زندگی اور موت ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے﴿ أَوْ كَالَّذِي مَرَّ عَلَىٰ قَرْيَةٍ وَهِيَ خَاوِيَةٌ عَلَىٰ عُرُوشِهَا ﴾” یا اس شخص کے مانند جس کا گزر ایک بستی پر ہوا، جو چھتوں کے بل اوندھی پڑی ہوئی تھی۔“ یعنی اس کے باشندے مرکھپ گئے تھے اور چھتیں گر کر ان کے اوپر دیواریں گر چکی تھیں، وہاں کوئی نہیں رہتا تھا بلکہ بالکل ویران ہوچکی تھی۔ وہ شخص وہاں کھڑا ہو کر تعجب سے بولا ﴿َ أ نَّىٰ يُحْيِي هَـٰذِهِ اللَّـهُ بَعْدَ مَوْتِهَا﴾” اس کی موت کے بعد اللہ اسے کس طرح زندہ کرے گا؟“ اسے یہ چیز ناممکن محسوس ہوئی، اس نے اللہ کی قدرت کا صحیح اندازہ نہ کیا۔ اللہ نے اس کے ساتھ خیر کا ارادہ فرمایا تو خود اس کی ذات میں اور اس کے گدھے میں اپنی قدرت کا مشاہدہ کرا دیا۔ اس کے پاس کھانے پینے کا سامان بھی تھا۔﴿ فَأَمَاتَهُ اللَّـهُ مِائَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ ۖ قَالَ كَمْ لَبِثْتَ ۖ قَالَ لَبِثْتُ يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ﴾” پس اللہ نے اسے سو سال کے لئے مار دیا۔ پھر اسے اٹھایا، پوچھا : کتنی مدت تجھ پر گزری؟ کہنے لگا : ایک دن یا دن کا کچھ حصہ۔“ اسے یہ موت انتہائی مختصر محسوس ہوئی، کیونکہ اس کے احساسات ختم ہوچکے تھے۔ اسے اپنی صرف وہ حالت یاد تھی جو اسے موت سے پہلے معلوم تھی۔ اسے بتایا گیا﴿ بَل لَّبِثْتَ مِائَةَ عَامٍ فَانظُرْ إِلَىٰ طَعَامِكَ وَشَرَابِكَ لَمْ يَتَسَنَّهْ ﴾” بلکہ تو سو سال تک رہا۔ پس اپنے کھانے پینے کو دیکھ کہ بالکل خراب نہیں ہوا۔“ سالوں کی مدت گزرنے کے باوجود اور مختلف اوقات گزرنے کے باوجود اس میں تبدیلی نہیں آئی۔ اس میں اللہ کی قدرت کی بہت بڑی دلیل ہے کیونکہ اس نے کھانے پینے کی چیزوں کو تبدیل یا خراب ہونے سے بچائے رکھا حالانکہ یہ چیزیں سب سے جلدی خراب ہوتی ہیں۔ ﴿وَانظُرْ إِلَىٰ حِمَارِكَ ﴾” اور اپنے گدھے کو بھی دیکھ۔“وہ مر چکا تھا۔ اس کا گوشت اور چمڑا ریزہ ریزہ ہو چکا تھا۔ اس کی ہڈیاں بکھری پڑی تھیں۔ ﴿وَلِنَجْعَلَكَ آيَةً لِلنَّاسِ﴾ ’’اور تاکہ ہم تجھے لوگوں کے لئے ایک نشانی بنائیں۔“ جس سے اللہ کی قدرت ظاہر ہو کہ وہ مردوں کو زندہ کر کے قبروں سے اٹھا سکتا ہے۔ تاکہ یہ ایسی مثال بن جائے جس کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرلیں اور انہیں معلوم ہوجائے کہ پیغمبر نے جو خبریں دی ہیں وہ واقعی سچی ہیں۔﴿ وَانظُرْ إِلَى الْعِظَامِ كَيْفَ نُنشِزُهَا ﴾” اور تو دیکھ کر ہم ہڈیوں کو کس طرح اٹھاتے ہیں۔“ اور انہیں ایک دوسری سے جوڑتے ہیں۔﴿ ثُمَّ نَكْسُوهَا لَحْمًا ﴾پھر ہم ان پر گوشت چڑھاتے ہیں۔“ پس اس نے اپنی آنکھوں سے یہ سب کچھ ہوتے دیکھ لیا۔﴿ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ ﴾” جب یہ سب ظاہر ہوچکا۔“ اور اسے اللہ کی قدرت کا علم ہوگیا تو کہنے لگا ﴿ قَالَ أَعْلَمُ أَنَّ اللَّـهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ﴾” میں جانتا ہوں کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔“ آیت کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ شخص موت کے بعد کی زندگی کا منکر تھا۔ اللہ تعالیٰ کی مرضی ہوئی کہ اسے ہدایت دے کر لوگوں کے لئے نشانی اور قیامت کی دلیل بنا دے۔ اس موقف کے تین دلائل ہیں : (١) اس نے کہا ﴿أَنَّىٰ يُحْيِي هَـٰذِهِ اللَّـهُ بَعْدَ مَوْتِهَا﴾ ” اس کی موت کے بعد اللہ اسے کس طرح زندہ کرے گا؟“ اگر وہ نبی یا نیک بندہ ہوتا تو یوں نہ کہتا۔ (٢) اللہ تعالیٰ نے اسے اس کی خوراک، اس کے مشروب، اس کے گدھے اور اس کی ذات میں اپنی نشانی دکھا دی، تاکہ وہ جس چیز کا انکار کرتا ہے اسے آنکھوں سے دیکھ کر اقرار کرلے۔ آیت میں یہ ذکر نہیں کہ وہ بستی بعد میں پہلے کی طرح آباد ہوگئی تھی۔ نہ سیاق کلام ہی سے اس کا اشارہ ملتا ہے۔ نہ اس کا کوئی خاص فائدہ ہی ہے۔ ایک بستی جو بے آباد ہوگئی۔ بعد میں اس کے باشندوں نے واپس آ کر یا دوسرے لوگوں نے رہائش اختیار کر کے اسے آباد کردیا تو اس سے یہ کیسے ثابت ہوا کہ اللہ مردوں کو زندہ کرے گا؟ اصل دلیل تو خود اسے اور اسکے گدھے کو زندہ کرنے میں اور اس کے سامان خورد و نوش کو اصلی حالت میں باقی رکھنے میں ہے۔ (3) اللہ نے فرمایا: ﴿ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ﴾” جب اس کے لئے ظاہر ہوگیا۔“ یعنی جو چیز اسے معلوم نہیں تھی، اس سے مخفی تھی، وہ ظاہر اور واضح ہوگئی۔ اس سے معلوم ہوا کہ ہمارا قول صحیح ہے۔ واللہ اعلم۔ البقرة
260 یہ بھی ایک عظیم اور محسوس دلیل ہے، جس سے اللہ کی قدرت ظاہر ہوتی ہے اور ثابت ہوتا ہے کہ وہ فوت شدہ لوگوں کو جزا و سزا دینے کے لئے زندہ فرمائے گا۔ اللہ نے اپنے خلیل ابراہیم کے بارے میں خبر دی ہے کہ انہوں نے اللہ سے درخواست کی کہ انہیں مردوں کو زندہ ہوتا آنکھوں سے دکھا دیا جائے۔ آپ کو اللہ کے بتانے سے اس کا یقین تو حاصل ہوچکا تھا، لیکن آپ کی خواہش تھی کہ اس کا بچشم سر مشاہدہ فرما لیں تاکہ انہیں حق الیقین کا مقام حاصل ہوجائے۔ اس لئے اللہ نے انہیں فرمایا﴿ قَالَ أَوَلَمْ تُؤْمِن ۖ قَالَ بَلَىٰ وَلَـٰكِن لِّيَطْمَئِنَّ قَلْبِي﴾” کیا تمہیں ایمان نہیں؟ جواب دیا : ایمان تو ہے، لیکن میرے دل کی تسکین ہوجائے گی۔“ اس کی وجہ یہ ہے کہ یقینی دلائل یکے بعد دیگرے آنے سے ایمان تو ہے، لیکن میرے دل کی تسکین ہوجائے گی۔“ اس کی وجہ یہ ہے کہ یقینی دلائل یکے بعد دیگرے آنے سے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے اور یقین کامل ہوجاتا ہے۔ اہل عرفان اسی کے حصول کے لئے کوشاں رہتے ہیں۔ اس کے رب نے اسے فرمایا ﴿  فَخُذْ أَرْبَعَةً مِّنَ الطَّيْرِ فَصُرْهُنَّ إِلَيْكَ﴾ یعنی چار پرندے لے کر اکٹھے کرلے۔ تاکہ سب کچھ آپ کی آنکھوں کے سامنے واقع ہو اور آپ کے ہاتھوں سے اس کا مشاہدہ کرایا جائے۔ ﴿ ثُمَّ اجْعَلْ عَلَىٰ كُلِّ جَبَلٍ مِّنْهُنَّ جُزْءًا﴾” پھر ہر پہاڑ پر ان کا ایک ایک ٹکڑا رکھ دو۔“ یعنی ان کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے ان کے اجزا کو باہم ملا دو اور قریب پہاڑوں میں سے ہر پہاڑ پر ان کا ایک حصہ رکھ دو۔ ﴿ ثُمَّ ادْعُهُنَّ يَأْتِينَكَ سَعْيًا ۚ﴾” پھر انہیں پکارو، تمہارے پاس دوڑتے ہوئے آجائیں گے۔“ یعنی انہیں مکمل زندگی حاصل ہوجائے گی۔ تو وہ پوری قوت سے دوڑتے ہوئے اور تیزی سے اڑتے ہوئے آپ کے پاس آجائیں گے۔ ابراہیم نے ایسے ہی کیا، تو انہیں مردوں کے زندہ ہونے کا مطلوبہ مشاہدہ حاصل ہوگیا اور یہ معاملہ بھی (مَلَكُوتَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ) ” آسمانوں اور زمین کی سلطنت“ میں شامل ہے جس کا ذکر اس آیت مبارکہ میں ہے: ﴿وَكَذَٰلِكَ نُرِي إِبْرَاهِيمَ مَلَكُوتَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلِيَكُونَ مِنَ الْمُوقِنِينَ﴾(الا نعام : 6؍ 75) ” اور ہم نے ایسے ہی طور پر ابراہیم کو آسمانوں اور زمین کی مخلوقات دکھائیں اور تاکہ وہ کامل یقین کرنے والوں میں سے ہوجائیں۔“ اس کے بعد فرمایا ﴿ وَاعْلَمْ أَنَّ اللَّـهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ﴾ ” اور جان رکھو کہ اللہ غالب ہے حکمتوں والا۔“ یعنی عظیم قوتوں والا ہے، جس سے اس نے مخلوقات کو مسخر کر رکھا ہے۔ کوئی مخلوق اس کے حکم سے سرتابی نہیں کرسکتی۔ بلکہ سب کی سب اس کی عظمت کے آگے سرنگوں اور اس کے جلال کے سامنے جھکی ہوئی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ا س کے افعال اس کی حکمت کے تابع ہیں۔ وہ کوئی کام بے مقصد نہیں کرتا۔ البقرة
261 اس آیت میں اللہ کے اس ارشاد کی تشریح ہوتی ہے ﴿مَّن ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّـهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضَاعِفَهُ لَهُ أَضْعَافًا كَثِيرَةً ﴾ (البقرہ:2؍ 245) ” کون شخص ہے جو اللہ کو اچھا قرض دے تو اللہ اس کے قرض کو اس کے لئے کئی گنا بڑھا دے گا یہاں فرمایا ﴿مَّثَلُ الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ﴾” مثال ان لوگوں کی جو اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔“ یعنی اس کی اطاعت میں اور اس کی خوشنودی کے کاموں میں۔ ان میں سب سے اہم جہاد فی سبیل اللہ میں خرچ کرنا ہے۔ ﴿كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِي كُلِّ سُنبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍ﴾” مثال اس دانے جیسی ہے جس میں سے سات بالیاں نکلیں، اور ہر بالی میں سودانے ہوں۔“ اس مثال کے ذریعے عمل کے ثواب میں اضافے کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ یہ اضافہ بندہ دنیا میں اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے اور ثواب میں اضافے کو اپنی بصیرت سے دیکھتا ہے۔ اس طرح آنکھوں دیکھی چیز کی وجہ سے ایمان کے ذریعے دیکھی ہوئی چیز پر یقین بڑھتا ہے۔ لہٰذا دل حکم کی تعمیل کرتے ہوئے پوری آمادگی کے ساتھ خرچ کرتا ہے۔ کیونکہ اسے اس قدر اضافے اور اس اللہ کے عظیم احسان کی امید ہوتی ہے۔ ﴿وَاللَّـهُ يُضَاعِفُ لِمَن يَشَاءُ﴾” اور اللہ جسے چاہے بڑھا چڑھا کر دے۔“ یعنی خرچ کرنے والے کے حال اور اس کے خلوص کے مطابق، یا خرچ کی کیفیت، منافع اور برمحل ہونے کی مناسبت سے ثواب میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ ﴿وَاللَّـهُ يُضَاعِفُ﴾” اور اللہ بڑھا چڑھا کر دے۔“ اس سے بھی زیادہ﴿ لِمَن يَشَاءُ﴾” جسے چاہے“ یعنی بے حساب اجر و ثواب عنایت فرمائے۔﴿وَاللَّـهُ وَاسِعٌ﴾” اور اللہ کشادگی والا ہے۔“ اس کا فضل وسیع ہے، اس کی عطا بے حساب ہے جس میں کسی قسم کی کمی نہیں آتی۔ لہٰذا خرچ کرنے والے کو یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ شاید کئی گنا بڑھا کردینے کا ذکر مبالغے کے طور پر کیا گیا ہے۔ اللہ کے لئے تو کوئی انعام بھی مشکل نہیں۔ بے شمار عطا کے باوجود اسے کمی نہیں آئی۔ اس کے ساتھ ساتھ ﴿عَلِيمٌ ﴾ وہ علیم بھی ہے اسے خوب معلوم ہے کہ کون اس دگنے چوگنے ثواب کا مستحق ہے اور کون نہیں۔ لہٰذا وہ اضافہ وہیں کرتا ہے جہاں اس کا صحیح مقام ہو، کیونکہ اس کا علم بھی کامل ہے اور حکمت بھی۔ البقرة
262 جو لوگ اپنے مال اللہ کی فرماں برداری کے کاموں میں اور اس کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔ اس کے بعد ایسے کام نہیں کرتے جن سے عمل میں نقص واقع ہوجائے یا عمل ضائع ہوجائے۔ یعنی جس کو دیا ہے اس پر زبان سے یا دل سے احسان نہیں دھرتے مثلاً اپنے احسانات گن گن کر بتانا اور اس کے بدلے ان سے کسی چیز کا مطالبہ کرنا، نہ زبانی نہ عملی طور پر ایذا دیتے ہیں، تو ان کو وہ ثواب ملے گا جو ان کے شایان شان ہوگا۔ انہیں کوئی خوف یا غم بھی لاحق نہیں ہوگا۔ لہٰذا انہیں ہر خیر حاصل ہوجائے گی اور ہر برائی ان سے دور ہوجائے گی۔ کیونکہ انہوں نے اللہ کے لئے ایسی نیکی کی تھی، جو ضائع کرنے والے اسباب سے پاک تھی۔ البقرة
263 ﴿ قَوْلٌ مَّعْرُوفٌ﴾” اچھی بات“۔ جس کو دل پہچانتے ہیں اور اسے ناپسند نہیں کرتے۔ اس میں ہر اچھی بات شامل ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ مسلمان کے دل کی خوشی کا باعث بننا کار ثواب ہے۔ اس میں یہ اشارہ بھی ہے کہ سائل کو جواب دینا ہو تو اچھے الفاظ سے جواب دیا جائے اور اسے دعا دی جائے۔﴿ وَمَغْفِرَةٌ﴾” اور برائی کرنے والے کو معاف کردینا۔“ یعنی اسے مواخذہ نہ کرنا۔ اس میں یہ بھی شامل ہے کہ اگر سائل کوئی نامناسب حرکت کرے تو اسے معاف کردیا جائے۔ یہ دونوں احسان ایسے ہیں، جن کے ساتھ ان کو تباہ کرنے والی کوئی غلطی موجود نہیں۔ لہٰذا یہ اس صدقے کے احسان سے بہتر ہیں، جن کے ساتھ احسان جتلانے کی یا کسی اور انداز سے تکلیف پہچانے کی خرابی موجود ہے۔ اس آیت سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ جس صدقہ کے ساتھ تکلیف پہنچانے کی خرابی موجود نہ ہو، وہ صدقہ نرم بات کہنے اور معاف کرنے سے افضل ہے۔ صدقہ کر کے احسان جتلانا حرام ہے جس سے عمل ضائع ہوجاتا ہے۔ کیونکہ اصل احسان اللہ ہی کا ہے۔ لہٰذا بندے کے لئے مناسب نہیں کہ کسی کو ایسا احسان جتلائے جو اس کی طرف سے نہیں ہوا (بلکہ اصل میں اللہ کی طرف سے ہوا ہے) علاوہ ازیں احسان جتلانا غلام بنانے کے مترادف ہے اور عبودیت اور جھکنا صرف اللہ کے لئے روا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ غنی ہے۔ جو تمام مخلوقات سے مستغنی ہے اور تمام مخلوقات تمام حالات اور تمام اقوات میں اس کی محتاج ہیں، لہٰذا تمہارا صدقہ، تمہارا خرچ کرنا اور تمہاری نیکیاں ان سب کا فائدہ خود تم ہی کو حاصل ہوتا ہے۔﴿ وَاللَّـهُ غَنِيٌّ﴾” اور اللہ بے نیاز ہے،اسے ان کی ضرورت نہیں، اسے ان کی ضرورت نہیں، اس کے ساتھ ساتھ وہ ﴿حَلِيمٌ ﴾ ” بردبار ہے“ جو اس کی نافرمانی کرے اسے فوراً سزا نہیں دیتا، حالانکہ وہ اس کی قدرت رکھتا ہے۔ لیکن اس کی رحمت، احسان اور برد باری اسے گناہگاروں کو فوری سزا دینے سے مانع ہوجاتی ہے۔ بلکہ وہ انہیں مہلت دیتا ہے، انہیں مختلف انداز سے اپنی آیات سناتا اور دکھاتا ہے، تاکہ وہ اس کی طرف رجوع کریں، البتہ جب یہ ظاہر ہوجاتا ہے کہ ان لوگوں میں خیر کی کوئی رمق نہیں رہی اور انہیں آیات سے کوئی فائدہ نہیں ہو رہا۔ پھر ان پر عذاب نازل فرما دیتا ہے اور اپنے عظیم ثواب سے محروم فرما دیتا ہے۔ البقرة
264 اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر رحمت و شفقت فرماتے ہوئے انہیں اس بات سے منع کرتا ہے کہ وہ احسان جتلا کر اور تکلیف دے کر اپنے صدقے ضائع کر بیٹھیں۔ اس میں اشارہ ہے کہ احسان جلانے اور تنگ کرنے سے صدقہ کالعدم ہوجاتا ہے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ گناہوں کے ارتکاب کے نتیجے میں نیک اعمال ضائع ہوجاتے ہیں۔ جیسے ارشاد ربانی ہے ﴿وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَن تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنتُمْ لَا تَشْعُرُونَ﴾ (الحجرات :49؍ 2) ” نبی سے اونچی آواز سے بات نہ کرو، جیسے آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارے اعمال اکارت جائیں اور تمہیں خبر بھی نہ ہو۔“ چنانچہ جس طرح نیکیوں کی وجہ سے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح گناہ بھی اپنے مقابلے میں آنے والی نیکیوں کو ضائع کرسکتے ہیں۔ ایک اور مقام پر ارشاد ہے: ﴿وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ ﴾ (محمد :47؍ 33) ” اور اپنے اعمال کو غارت نہ کرو۔“ ان دونوں آیات میں عمل کو مکمل کرنے اور اسے خراب کرنے والی اشیاء سے محفوظ رکھنے کی ترغیب ہے تاکہ عمل بے کار نہ ہوجائے۔ پھر فرمایا ﴿كَالَّذِي يُنفِقُ مَالَهُ رِئَاءَ النَّاسِ وَلَا يُؤْمِنُ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ﴾ ”جس طرح وہ شخص جو اپنامال لوگوں کے دکھاوے کے لیے خرچ کرے۔ نہ اللہ پر ایمان رکھے نہ قیامت پر۔‘،یعنی اگر تم نے شروع میں اللہ کی رضا کی نیت رکھ کر بھی عمل کیا ہو تو احسان جتلانے سے وہ تباہ ہوجاتا ہے۔ چنانچہ تمہارا یہ عمل اس شخص کے عمل کی طرح ہوجائے گا جو صرف دکھاوے کے لئے نیکی کرتا ہے۔ اس کا مقصد اللہ کی رضا اور جنت کا حصول نہیں ہوتا۔ ظاہر ہے کہ اس کا عمل سرے سے ناقابل قبول ہے۔ کیونکہ عمل مقبول کی شرط یہ ہے کہ وہ صرف اللہ کے لئے ہو۔ اس شخص نے اصل میں عمل کیا ہی لوگوں کے لئے ہے، اللہ کے لئے کیا ہی نہیں۔ لہٰذا اس کا عمل کالعدم ہوگا اور اس کی محنت بے کار جائے گی۔ اس کے حال کے مطابق تو اس کی مثال ﴿كَمَثَلِ صَفْوَانٍ﴾” ملائم اور سخت پتھر کی سی ہے۔‘‘﴿عَلَيْهِ تُرَابٌ فَأَصَابَهُ وَابِلٌ﴾” جس پر کچھ مٹی پڑی ہے۔ پھر اس پر زور دار مینہ برسا“ ﴿فَتَرَكَهُ صَلْدًا ﴾ ” یعنی اسے اس طرح کا کر کے چھوڑا کہ اس پر وہ مٹی بالکل باقی نہیں رہی۔ دکھاوا کرنے والے کی بھی یہی مثال ہے۔ اس کا سخت دل صاف اور سخت پتھر کے مشابہ ہے۔ اس کا صدقہ وغیرہ اس پتھر پر پڑی ہوئی مٹی کی حیثیت رکھتا ہے۔ جو شخص اس پتھر کی حقیقت سے واقف نہیں، وہ خیال کرے گا کہ یہ قابل کاشت اور زرخیز زمین ہے۔ جب حقیقت ظاہر ہوگئی تو گویا وہ مٹی ہٹ گئی اور معلوم ہوگیا کہ اس کا عمل ایک سراب کی حیثیت رکھتا تھا۔ اس کا دل تو اس قابل تھا ہی نہیں کہ اس میں (نیکی کی) کھیتی اگ سکے اور بڑھ پھول سکے۔ اس کی ریاکاری اور بدنیتی اسے کسی نیکی سے مستفید ہونے کے قابل نہیں چھوڑتی۔ اس لئے فرمایا ﴿ لَّا يَقْدِرُونَ عَلَىٰ شَيْءٍ﴾” یعنی وہ اپنے کمائے ہوئے اعمال میں سے کچھ بھی حاصل نہیں کرسکتے، کیونکہ انہوں نے ان اعمال کو غلط جگہ پر رکھا اور اپنے جیسی مخلوق کے لئے انجام دیا جس کے ہاتھ میں نہ نفع ہے نہ نقصان۔ جس رب کی عبادت سے فائدہ ہوسکتا ہے اس کی عبادت سے منہ موڑ لیا، تو اللہ نے بھی ان کے دلوں کو ہدایت سے پھیر دیا۔ اس لئے فرمایا: ﴿وَاللَّـهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ﴾” اللہ کافروں کی قوم کو راہ نہیں دکھاتا۔ “ البقرة
265 یہ ان لوگوں کی مثال ہے جو اپنے مال اس انداز سے خرچ کرتے ہیں کہ ان کے صدقات قبول ہوتے اور بڑھتے ہیں۔ اللہ نے فرمایا﴿ وَمَثَلُ الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّـهِ﴾” ان لوگوں کی مثال جو اپنا مال اللہ کی رضامندی کی طلب میں خرچ کرتے ہیں۔“ یعنی ان کا مقصد اللہ کی رضا اور اس کا قرب حاصل کرنا ہوتا ہے۔ ﴿وَتَثْبِيتًا مِّنْ أَنفُسِهِمْ ﴾” دل کی خوشی اور یقین کے ساتھ“ یعنی جب وہ خرچ کرتے ہیں تو ان کے دلوں میں سخاوت اور خوشی کی کیفیت ہوتی ہے۔ تردد کے ساتھ بادل نخواستہ خرچ نہیں کرتے۔ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے نیک عمل پر دو طرح کی آفتیں آتی ہیں یا تو انسان کا یہ ارادہ ہوتا ہے کہ لوگ تعریف کریں۔ یہ ریا کی بیماری ہے یا کمزور نیت کے ساتھ ہچکچاتا ہوا خرچ کرتا ہے۔ سچے مومن ان دونوں آفتوں سے بچ کر صرف اللہ کی رضا کے حصول کے لئے خرچ کرتے ہیں۔ ان کے سامنے کوئی اور مقصد نہیں ہوتا۔ ان کے خرچ کی مثال ایسے ہے ﴿كَمَثَلِ جَنَّةٍ﴾ ” جیسے ایک باغ“ جس میں درخت بے شمار ہیں اور سایہ گھنا ہے۔ (جَنَّۃ) کا لفظ ( اِجْتِنَانِ) سے ماخوذ ہے یعنی چھپالینا۔ لہٰذا جنت سے مراد ایسا باغ ہے جس کے درخت زمین کو چھپالیتے ہیں اس تک دھوپ نہیں پہنچنے دیتے۔ اور یہ باغ ﴿بِرَبْوَۃٍ﴾ ” او نچی زمین پر“ ہے۔ جس کو صبح، دوپہر اور شام سورج کی پوری روشنی حاصل ہوتی ہے۔ ایسے باغ کے پھل زیادہ اور بہتر ہوتے ہیں۔ یہ ایسی جگہ نہیں جہاں نہ ہوا لگے نہ دھوپ۔ اونچی زمین پر موجود اس باغ پر ﴿ أَصَابَهَا وَابِلٌ فَآتَتْ أُكُلَهَا ضِعْفَيْنِ ﴾” زور دار بارش برسے تو وہ اپنا پھل دگنا لائے۔“ زمین نم دار ہونے کی وجہ سے اور دوسرے معاون اسباب کی وجہ سے اور بکثرت پانی کی موجودگی کی وجہ سے اس باغ سے دگنا پھل حاصل ہوا۔﴿ فَإِن لَّمْ يُصِبْهَا وَابِلٌ فَطَلٌّ﴾ اور اگر اس پر بارش نہ برسے تو پھوار ہی کافی ہے۔“ یعنی عمدہ زمین کی وجہ سے معمولی بارش بھی کافی ہے۔ یہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والوں کا حال ہے۔ کوئی زیادہ خرچ کرے یا کم، ہر ایک کو اپنے حالات کے مطابق فائدہ حاصل ہوتا ہے اور ہر ایک کے ثواب میں پوری طرح اضافہ ہوتا ہے۔ اس کو بڑھانے والا وہ ہے جو تجھ پر تجھ سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔ جہاں تجھے اپنے فائدے کا خیال نہیں رہتا، اسے وہاں بھی تیرا فائدہ مقصو دہوتا ہے۔ اگر اس دنیا میں اس طرح کا کوئی باغ ہوتا، تو لوگ اس کے حصول کے لئے پوری کوشش کرتے، بلکہ ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے اور جنگ وجدل تک نوبت پہنچ جاتی۔ حالانکہ یہ دنیا فنا ہونے والی ہے اور یہاں بے شمار آفات و مصائب ہیں اور یہ ثواب جس کا اللہ نے ذکر فرمایا ہے، مومن اسے بصیرت ایمانی کے نور سے گویا سامنے دیکھتا ہے، وہ جہاں دائمی ہے اس کی تمام خوشیاں اور نعمتیں دائمی ہیں۔ اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں لوگ اس کی طرف توجہ نہیں کرتے۔ ان کی ہمت بیدار نہیں ہوتی، اس کے لئے جدوجہد کا کوئی داعیہ پیدا نہیں ہوتا۔ کیا اس کی وجہ آخرت سے بے رغبتی ہے یا اللہ کے وعدے پر یقین کمزور ہے؟ ورنہ اگر بندے کو واقعی کما حقہ یقین ہوتا اور دل میں ایمان سرایت کرچکا ہوتا، تو دل اس کے لئے جذبے اور ولولے سے معمور ہوجاتے، اور ثواب کے حصول کے لئے زیادہ سے زیادہ خرچ کرنا آسان ہوجاتا۔ اس لئے اللہ نے فرمایا : ﴿وَاللَّـهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ﴾ ” اور اللہ تمہارے کام دیکھ رہا ہے۔“ وہ ہر شخص کے عمل سے بھی باخبر ہے اور یہ بھی جانتا ہے کہ اس عمل کا باعث کیا ہے۔ لہٰذا وہ اس کے مطابق مکمل جزا دے گا۔ البقرة
266 یہ مثال اس شخص کی ہے جو صدقہ وغیرہ نیکی کا کام اللہ کی رضا کے لئے کرتا ہے، پھر کوئی ایسا کام کردیتا ہے جس سے وہ نیکی تباہ ہوجائے۔ اس کی مثال ایک باغ کے مالک کی سی ہے جس کے باغ میں ہر قسم کے پھل ہیں۔ ان میں سے کھجور اور انگور کا ذکر خاص طور پر کیا گیا ہے کیونکہ یہ دوسروں سے افضل ہیں اور ان کے فوائد بھی زیادہ ہیں۔ ان کا استعمال خوراک کے طور پر بھی ہوتا ہے اور میوہ کے طور پر (لطف اندوزی کے لئے) بھی ہے۔ اس باغ میں نہریں بھی چل رہی ہیں، جن کی وجہ سے آب پاشی میں کوئی مشقت نہیں ہوتی۔ اس کا مالک اس پر خوش ہے، لوگ رشک کرتے ہیں۔ یہ آدمی بوڑھا ہوگیا، کام کاج کے قابل نہیں رہا۔ اس لئے اب اسے باغ ہی سے امید ہے۔ اس کی اولاد کمزور ہے، جو کام کاج میں اس کی مدد نہیں کرسکتی۔ بلکہ اس کے لئے بوجھ ہے۔ اس کا اپنا خرچ بھی باغ سے چلتا ہے اور بچوں کا بھی۔ ان حالات میں باغ پر آندھی آگئی۔ (اِعْصَار) اس تیز ہوا کو کہتے ہیں جو گول گھومتی ہے اور اوپر کو بلند ہوتی ہے۔ اس بگولے میں آگ تھی جس سے باغ جل گیا۔ اس حادثے سے جو رنج و غم حاصل ہوگا اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ اگر غم سے مرا جاسکتا تو یہ آدمی ضرور مر جاتا۔ اس طرح جو شخص اللہ کی رضا کے لئے عمل کرتا ہے تو اس کے عمل کھیتی اور پھلوں کے بیج کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس کے اعمال کے نتیجے میں اسے وہ باغ مل جاتا ہے جو بے انتہا دلکش ہے۔ نیکیوں کو ضائع کرنے والے اعمال اس بگولے کی طرح ہیں، جس میں آگ ہے۔ بندہ اپنے اعمال کا انتہائی ضرورت مند اس وقت ہوتا ہے جب وہ فوت ہوتا ہے۔ اس وقت اس کی یہ حالت ہوتی ہے کہ وہ مزید کوئی عمل نہیں کرسکتا اور جس عمل سے فائدے کی امید کی جاسکتی ہے وہ گرد و غبار کی طرح بے حقیقت ہوچکا ہوتا ہے۔ اگر انسان اس صورتحال کو سمجھ لے اور اس کا تصور کرے تو اگر اسے تھوڑی سی عقل حاصل ہے تو ایسا کام ہرگز نہ کرے گا، جس میں اس کا اس قدر نقصان ہے اور جس کا انجام حسرت و افسوس ہے، لیکن ایمان و عقل کی کمزوری کی وجہ سے اور بصیرت کی کمی کی وجہ سے انسان اس حال کو پہنچ جاتا ہے کہ اگر ایسی حرکت کسی مجنوں سے بھی سر زد ہو تو وہ عظیم اور انتہائی خطرناک ہو۔ اس لئے اللہ نے غور و فکر کرنے کا حکم دیا ہے اور فرمایا ﴿كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّـهُ لَكُمُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُونَ﴾ ” اسی طرح اللہ تمہارے لئے آیتیں بیان کرتا ہے تاکہ تم غور و فکر کرو۔ “ البقرة
267 اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو حکم دیتا ہے کہ اس نے انہیں جس کمائی کی توفیق دی ہے اور ان کے لئے زمین سے جو کچھ نکالا ہے، اس میں سے کچھ پاکیزہ اموال خرچ کریں۔ جس طرح اس نے تم پر احسان کیا ہے کہ اس کا حصول تمہارے لئے آسان فرما دیا، اسی طرح اس کا شکر ادا کرنے کے لئے، اپنے بھائیوں کے کچھ حقوق ادا کرنے کے لئے اور اپنے مالوں کو پاک کرنے کے لئے اس میں سے کچھ حصہ اللہ کی راہ میں خرچ کرو۔ خرچ کرنے کے لئے وہ عمدہ چیز منتخب کرو، جو تمہیں اپنے لئے پسند ہے۔ ایسی نکمی چیز دینے کا قصد نہ کرو، جو خود تمہیں پسند نہیں اور جسے تم خود دوسروں سے وصول کرنا پسند نہیں کرتے۔ ﴿وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّـهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ﴾ ” اور جان لو کہ اللہ بے نیاز اور خوبیوں والا ہے۔“ وہ تم سے بے نیاز ہے۔ تمہارے صدقات اور دوسرے اعمال کا فائدہ خود تمہی کو حاصل ہوگا۔ وہ اس بات پر تعریف کے قابل ہے کہ اس نے تمہیں اچھے اعمال کے کرنے کا اور اچھی خوبیاں اپنانے کا حکم دیا ہے۔ لہٰذا تمہارا فرض ہے کہ اس کے احکام کی تعمیل کرو، کیونکہ ان سے دلوں کو روحانی غذا ملتی ہے۔ دل زندہ ہوتے ہیں اور روح کو نعمت حاصل ہوتی ہے اپنے دشمن یعنی شیطان کی پیروی ہرگز نہ کرنا، جو تمہیں بخل کا حکم دیتا ہے اور تم کو ڈراتا ہے کہ خرچ کرنے سے مفلس ہوجاؤ گے۔ وہ تمہاری خیر خواہی کے طور پر یہ مشورہ نہیں دیتا، بلکہ یہ اس کا بہت بڑا دھوکا ہے ﴿إِنَّمَا يَدْعُو حِزْبَهُ لِيَكُونُوا مِنْ أَصْحَابِ السَّعِيرِ ﴾ (فاطر :35؍ 6) ” وہ اپنی جماعت کو (گناہ کی طرف) بلاتا ہے، تاکہ وہ بھی جہنمی بن جائیں۔“ بلکہ اپنے رب کا حکم مانو، جو تمہیں ایسے انداز سے خرچ کرنے کا حکم دیتا ہے، جو تمہارے لئے آسان ہو، اور جس میں تمہارا کوئی نقصان نہ ہو۔ البقرة
268 اس کے ساتھ ساتھ ﴿يَعِدُكُم مَّغْفِرَةً مِّنْهُ﴾ ” وہ تم سے وعدہ کرتا ہے اپنی بخشش کا“ یعنی تمہیں گناہوں سے پاک کرنے کا﴿وَفَضْلًا﴾” اور فضل کا“ جس سے دنیا اور آخرت میں تمہارا بھلا ہوگا۔ یعنی جو خرچ کرتے ہو، ویسا ہی جلد ہی (دنیا میں) تمہیں دے گا، دلوں کو خوشی اور سکون اور قبر میں راحت حاصل ہوگی۔ قیامت کے دن اس کا پورا پورا ثواب بھی ملے گا۔ اور اللہ تعالیٰ کے لئے اتنا زیادہ اجر و ثواب اور انعام دینا مشکل نہیں۔ کیونکہ وہ ﴿وَاسِعٌ﴾” وسعت والا“ یعنی وسیع فضل اور عظیم احسان کرنے والا ہے اور تمہارے کئے ہوئے خرچ کو ﴿عَلِيمٌ﴾” جاننے والا ہے“ خواہ وہ کم ہو یا زیادہ، خفیہ ہو یا ظاہر، لہٰذا اپنے فضل و احسان سے اس کا بدلہ دے گا۔ اب بندے کو خود سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا چاہئے کہ اسے اللہ کی بات ماننی ہے یا شیطان کی؟ ان دو آیات میں بہت سے اہم مسائل مذکور ہیں : (١) اللہ کی راہ میں خرچ کی ترغیب (٢) وضاحت کہ خرچ کرنا کیوں ضروری ہے (٣) سونے چاندی اور سامان تجارت میں زکوٰۃ کا حکم کیونکہ یہ ﴿مِن طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ﴾ میں شامل ہیں۔ (٤) غلہ، پھل اور معدنیات میں زکوٰۃ واجب ہے۔ (٥) زکوٰۃ اس پر واجب ہے جو غلہ اور پھل کا مالک ہے۔ زمین کے مالک پر واجب نہیں کیونکہ ارشاد ہے ﴿ أَخْرَجْنَا لَكُم ﴾لہٰذا زمین جس کے لئے یہ اشیا اگاتی ہے، زکوٰۃ بھی اس پر واجب ہے۔ (٦) ان مالوں پر زکوٰۃ نہیں جو اپنی ذاتی ضروریات کے لئے رکھے گئے ہوں مثلاً قطعہ زمین اور برتن وغیرہ۔ اسی طرح اگر معلوم نہ ہو کہ فلاں نے میرا قرض ادا کرنا ہے، یا کسی نے مال پر ناجائز قبضہ کر رکھا ہے، یا مال اور قرض ایسے شخص کے پاس ہے جس سے واپس لینے کی طاقت نہیں، تو ایسے اموال پر زکوٰۃ نہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان مالوں سے خرچ کرنے کا حکم دیا ہے جو بڑھتے ہیں یعنی زمین سے حاصل ہونے والی اشیا اور اموال تجارت اور جو مال اس مقصد کے لئے تیار نہیں رکھے گئے یا جن مالوں کو حاصل کرنا ممکن نہیں، ان میں یہ صوف نہیں پایا جاتا ہے۔ (٧) نکمی چیز دینا منع ہے، ایسی چیز دینے سے زکوٰۃ کا فرض ادا نہیں ہوگا۔ البقرة
269 چونکہ اللہ تعالیٰ نے بہت عظیم احکامات نازل فرمائے ہیں جن میں بہت سے اسرار اور بہت سی حکمتیں ہیں اور ان پر عمل کی توفیق ہر کسی کو نہیں ملتی بلکہ صرف اسی کو ملتی ہے جس پر اللہ کا خاص احسان ہو اور اسے اللہ حکمت عطا فرما دے۔ حکمت سے مراد علم نافع، عمل صالح اور شریعت کے اسرار اور حکمتوں سے واقفیت ہے۔ جسے اللہ ایسی حکمت دے دے اسے اللہ نے بہت بھلائی عطا فرما دی۔ اس بھلائی سے عظیم تر بھلائی کون سی ہوسکتی ہے جس میں دنیا اور آخرت کی خوش نصیبی پنہاں ہو، اور جس کے ذریعے سے دنیا اور آخرت کی بدنصیبی سے نجات مل جائے؟ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ نعمت خاص خاص لوگوں کو ملتی ہے اور یہ انبیاء کا ترکہ ہے۔ پس بندے کو کمال صرف حکمت سے حاصل ہوسکتا ہے۔ کیونکہ کمال نام ہے علمی اور عملی قوت کے کامل ہونے کا۔ علمی قوت تو حق کی معرفت سے اور اس کے مقصود کی معرفت سے کامل ہوتی ہے اور عملی قوت نیکی کرنے اور برائی سے اجتناب کرنے سے مکمل ہوتی ہے۔ اس کے نتیجے میں بندہ صحیح قول اور صحیح عمل کا حامل ہوسکتا ہے اور اپنی ذات کے بارے میں نیز دوسروں کے بارے میں ہر حکم کو اس کے صحیح مقام پر رکھ سکتا ہے اور اپنی ذات کے بارے میں، نیز دوسروں کے بارے میں ہر حکم کو اس کے صحیح مقام پر رکھ سکتا ہے۔ اس کے بغیر یہ ممکن نہیں۔ چونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی فطرت میں یہ رکھ دیا ہے کہ وہ اس کی عبادت کریں، بھلائی سے محبت رکھیں، حق کے طالب ہوں، اس لئے اللہ تعالیٰ نے رسول مبعوث فرمائے کہ لوگوں کو ان کی عقل و فطرت میں جڑیں رکھنے والی ان اشیاء کی یاد دہانی کرائیں اور جو تفصیلات لوگوں کو معلوم نہیں، وہ بیان فرمائیں۔ پھر لوگ دو قسموں میں تقسیم ہوگئے۔ ایک قسم میں وہ لوگ شامل ہیں جنہوں نے انبیاء کی دعوت کو قبول کیا، تو انہیں اپنے فائدے کی باتیں یاد ہوگئیں، انہوں نے اس پر عمل کیا اور انہیں اپنے نقصان کی باتیں معلوم ہوگئیں، لہٰذا وہ ان سے بچ گئے۔ یہ لوگ کامل عقل و فہم کے حامل ہیں۔ دوسری قسم کے لوگ وہ ہیں جنہوں نے انبیاء کی دعوت قبول نہیں کی، بلکہ ان کی فطرت میں جو خرابی پیدا ہوگئی تھی اسی کے مطابق عمل کیا، رب کا حکم نہیں مانا۔ یہ لوگ عقل والے نہیں۔ اسی لئے اللہ نے فرمایا ﴿وَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ﴾ ” نصیحت صرف عقل مند ہی حاصل کرتے ہیں۔ “ البقرة
270 اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جس خرچ کا اللہ نے حکم دیا ہے وہ واجب ہو یا مستحب، کم ہو یا زیادہ، ہر خرچ کا ثواب ملتا ہے۔ نذر اسے کہتے ہیں جسے کوئی مکلف انسان خود اپنے ذمے لے لے اور اللہ تعالیٰ اسے جانتا ہے کیونکہ اس سے کچھ بھی پوشیدہ نہیں اور وہ یہ بھی جانتا ہے کہ یہ عمل خلوص سے کیا گیا ہے یا کسی اور نیت سے۔ اگر صرف اللہ کی رضا کے لئے اخلاص کے ساتھ کیا گیا ہے تو اللہ اس کی جزا کے طور پر عظیم فضل اور کثیر ثواب عطا فرماتا ہے۔ اگر بندہ واجب اخراجات نہ کرے، یا مانی ہوئی نذر پوری نہ کرے۔ یا یہ عمل مخلوق کی خوشنودی کے لئے کرے تو وہ ظالم بن جاتا ہے کیونکہ اس نے ایک چیز کو غلط مقام پر رکھ دیا ہے۔ لہٰذا وہ سخت سزا کا مستحق ہے۔ جس سے اسے کوئی نہیں بچا سکتا اس لئے فرمایا﴿ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنصَارٍ﴾” اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں۔ “ البقرة
271 ﴿إِن تُبْدُوا الصَّدَقَاتِ﴾” اگر تم صدقے خیرات کو ظاہر کرو۔“ یعنی علانیہ خیرات کرو، جبکہ اس کا مقصد اللہ کی رضا کا حصول ہو﴿ فَنِعِمَّا هِيَ﴾” تو وہ بھی اچھا ہے۔“ کیونکہ اس سے مقصود حاصل ہوجاتا ہے۔ ﴿وَإِن تُخْفُوهَا وَتُؤْتُوهَا الْفُقَرَاءَ فَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ﴾” اور اگر تم اسے پوشیدہ مسکینوں کو دے دو، تو یہ تمہارے حق میں بہتر ہے۔“ اس میں یہ نکتہ ہے کہ غریب آدمی کو پوشیدہ طور پر صدقہ دینا، ظاہر کر کے دینے سے افضل ہے لیکن جب غریبوں کو صدقات نہ دیے جا رہے ہوں تو اس آیت میں اشارہ ہے کہ اس صورت میں پوشیدہ طور پر صدقہ کرنا ظاہر کرنے سے افضل نہیں۔ یعنی اس کا دار و مدار مصلحت اور فائدے پر ہے۔ اگر اس کے ظاہر کرنے سے ایک دینی حکم کی اشاعت ہوتی ہو اور امید ہو کہ دوسرے لوگ بھی یہ نیک کام کرنے لگیں گے، تو چھپانے کی نسبت ظاہر کر کے دینا افضل ہوگا۔﴿ وَتُؤْتُوهَا الْفُقَرَاءَ﴾” اور اسے مسکینوں کو دے دو۔“ سے معلوم ہوتا ہے کہ صدقہ دینے والے کو چاہئے کہ ضرورت مندوں کو تلاش کر کے صدقہ دے۔ زیادہ ضرورت مند کی موجودگی میں کم ضرورت مند کو نہ دے اور اللہ کے اس فرمان میں کہ صدقہ دینا صدقہ دینے والے کے لئے بہتر ہے، یہ اشارہ ہے کہ اسے ثواب حاصل ہوگا اور ﴿وَيُكَفِّرُ عَنكُم مِّن سَيِّئَاتِكُمْ﴾ میں بتایا ہے کہ سزا ختم ہوجائے گی اور عذاب سے نجات مل جائے گی۔ ﴿وَاللَّـهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ ﴾” اور اللہ تمہارے تمام اعمال کی خبر رکھنے والا ہے“ یعنی وہ اچھے ہوں یا برے، کم ہوں یا زیادہ، یہ بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ان کی جزا و سزا ملے گی۔ البقرة
272 اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے کہ مخلوق کو ہدایت پر چلا دینا آپ کی ذمہ داری نہیں۔ آپ کا فرض صرف یہ ہے کہ حق کو واضح طور پر ان تک پہنچا دیں۔ ہدایت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ آیت میں اس پر امر پر بھی دلالت ہے کہ مال کا یہ خرچ کرنا عام ہے جیسے مسلم پر خرچ کرنا واجب ہے اسی طرح کافر ( اہل ذمہ وغیرہ) پر بھی خرچ کیا جائے گا اگرچہ اس نے ہدایت قبول نہ کی ہو۔ اس لئے فرمایا ﴿ وَمَا تُنفِقُوا مِنْ خَيْرٍ﴾ تم جو کچھ خرچ کرو گے۔“ کم ہو یا زیادہ اور چاہے یہ مال تم مسلمان پر خرچ کرو یا کافر پر﴿ فَلِأَنفُسِكُمْ﴾” اس کا فائدہ خود پاؤ گے‘،﴿ وَمَا تُنفِقُونَ إِلَّا ابْتِغَاءَ وَجْهِ اللَّـهِ ۚ ﴾” اور تم صرف اللہ کی رضا مندی کی طلب کے لئے خرچ کرتے ہو۔“ یہاں یہ بتایا گیا ہے کہ مومنوں کے خرچ کی بنیاد ایمان ہوتی ہے اور وہ صرف اللہ کی رضا کے لئے خرچ کرتے ہیں۔ کیونکہ ان کا ایمان انہیں فضول مقاصد کے لئے کام کرنے سے منع کرتا ہے اور اخلاص پیدا کرتا ہے۔ ﴿وَمَا تُنفِقُوا مِنْ خَيْرٍ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ﴾ ” تم جو کچھ مال خرچ کرو گے اس کا پورا پورا بدلہ تمہیں دیا جائے گا۔“ یعنی قیامت کے دن تم پورا اجر و ثواب حاصل کرو گے۔﴿وَأَنتُمْ لَا تُظْلَمُونَ﴾ اور تم پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔“ البقرة
273 تمہارے نیک عملوں میں ذرہ برابر کمی نہیں کی جائے گی، اور تمہارے گناہوں میں بلاوجہ اضافہ نہیں کیا جائے گا اس کے بعد اللہ تعالیٰ یہ بیان کرتا ہے کہ کون لوگ زیادہ مستحق ہیں کہ ان پر خرچ کیا جائے۔ چنانچہ ان کی چھ صفات بیان فرمائی ہیں۔ (١) فقر اور تنگ دستی (٢) ﴿أُحْصِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ﴾یعنی جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے کاموں، جہاد وغیرہ کے لئے وقف ہوچکے ہیں، وہ اس کے لئے ہر وقت تیار رہتے ہیں (٣) رزق کی تلاش کے لئے سفر کے قابل نہ ہوں۔ جیسے فرمایا ﴿ لَا يَسْتَطِيعُونَ ضَرْبًا فِي الْأَرْضِ﴾یعنی روزی کمانے کے لئے زمین میں سفر نہیں کرسکتے۔ (٤)﴿ يَحْسَبُهُمُ الْجَاهِلُ أَغْنِيَاءَ مِنَ التَّعَفُّفِ﴾” نادان لوگ ان کی بے سوالی کی وجہ سے انہیں مال دار خیال کرتے ہیں۔“ اس سے ان کا مخلصانہ صبر اور سوال سے بچنے کی صفت کا بیان ہے۔ (٥) اللہ نے فرمایا: ﴿تَعْرِفُهُم بِسِيمَاهُمْ﴾ ” آپ ان کے چہرے دیکھ کر قیافہ سے پہچان لیں گے۔“ یعنی اس علامت کے ذریعے سے پہچان لیں گے جو اللہ نے ان کے وصف کے طور پر ذکر کی ہے اور یہ ارشاد ﴿يَحْسَبُهُمُ الْجَاهِلُ أَغْنِيَاءَ﴾ نادانوں کے انہیں مال دار خیال کرنے کے منافی نہیں۔ کیونکہ جو ان کے حالات سے واقف نہیں۔ اس میں اتنی سمجھ نہیں کہ دیکھ کر ان کے حالات سمجھ لے۔ سمجھ دار آدمی تو انہیں دیکھتے ہی ان کی علامت کی وجہ سے پہچان لیتا ہے۔ (٦)﴿ لَا يَسْأَلُونَ النَّاسَ إِلْحَافًا﴾یعنی لوگوں سے اصرار کے ساتھ نہیں مانگتے۔ بلکہ اگر حالات انہیں سوال کرنے پر مجبور کردیں تب بھی ان کے سوال میں اصرار اور چمٹ جانے کی کیفیت نہیں ہوتی۔ یہ لوگ اپنی ان صفات کی وجہ سے صدقات دیے جانے کے زیادہ مستحق ہیں۔ دوسروں پر خرچ کرنا فی نفسہ ایک نیکی اور احسان ہے۔ خواہ کسی شخص پر خرچ کیا جائے۔ آدمی کو اس کا اجر و ثواب ملے گا۔ اس لئے فرمایا ﴿وَمَا تُنفِقُوا مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللَّـهَ بِهِ عَلِيمٌ ﴾” تم جو کچھ مال خرچ کرو، اللہ اس کا جاننے والا ہے۔“ اس کے بعد ان لوگوں کا ذکر فرمایا جو ہر حال میں ہر وقت صدقہ کرتے ہیں۔ البقرة
274 چنانچہ فرمایا ﴿الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ ﴾” جو لوگ اپنے مال خرچ کرتے ہیں اللہ کی راہ میں“ یعنی اس کی اطاعت میں، اور اس کی خوشنودی کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، حرام اور مکروہ کاموں میں یا اپنے دل کی خواہش پوری کرنے کے لئے خرچ نہیں کرتے ﴿بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ سِرًّا وَعَلَانِيَةً فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ ﴾” رات دن، چھپے کھلے (خرچ کرتے ہیں) ان کے لئے ان کے رب کے پاس اجر ہے۔“ یعنی رحمتوں والے مالک کے پاس عظیم اجر ہے۔ ﴿ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ﴾” انہیں نہ خوف ہوگا“ جب کوتاہی کرنے والے خوف میں مبتلا ہوں گے ﴿وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ﴾ ” اور نہ غم“ جب جائز حد سے آگے بڑھنے والے غم میں مبتلا ہوں گے تو یہ اپنا اصل مقصود اور مطلوب حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے اور ہر قسم کے شر سے محفوظ رہیں گے۔ جب اللہ تعالیٰ نے اس کے بندوں پر مختلف انداز سے خرچ کر کے احسان کرنے والوں کا ذکر مکمل کرلیا تو اس کے بعد ان ظالموں کا ذکر فرمایا جو اللہ کے بندوں پر انتہائی برا ظلم کرتے ہیں۔ البقرة
275 ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے سود خوروں کا انجام بدبیان فرمایا ہے۔ وہ قیامت کے دن قبروں سے اٹھیں گے ﴿إِلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ﴾ تو ان کی حالت یہ ہوگی گویا انہیں شیطان نے پاگل بنا دیا ہے۔ یہ لوگ قبروں سے اٹھیں گے تو حیران پریشان ہوں گے۔ انہیں سخت سزا ملنے کا یقین ہوگا۔﴿ قَالُوا إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبَا ۗ﴾” انہوں نے کہا تھا : تجارت بھی تو سود ہی کی طرح ہے۔“ یہ بات کوئی ایسا جاہل ہی کہہ سکتا ہے جو جہالت کے انتہائی درجے تک پہنچا ہوا ہو، یا دین کا انتہائی دشمن کہہ سکتا ہے۔ جس طرح ان کی عقلیں اوندھی ہوگئی تھیں تو اس کا بدلہ بھی یہ ملے گا کہ ان کی حالت پاگلوں کے مشابہ ہوگی۔ آیت مبارکہ کے اس حصے کی تشریح اس طرح بھی کی جاسکتی ہے کہ چونکہ سود کی کمائی کے حصول میں ان کی عقلیں سلب ہوگئیں، اس لئے وہ احمق بن گئے اور ان کی حرکات پاگلوں کے مشابہ ہوگئیں۔ جو بے سروپا ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی تردید کرتے ہوئے اور عظیم حکمت کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا ﴿وَأَحَلَّ اللَّـهُ الْبَيْعَ ﴾” اور اللہ نے تجارت کو حلال کیا“ کیونکہ اس میں سب کا فائدہ ہے، سب کو اس کی ضرورت ہے اور اسے حرام قرار دینے میں نقصان ہے اور حصول رزق سے تعلق رکھنے والوں کاموں میں یہ ایک عظیم اصل ہے۔ اس سے صرف وہی تصرفات مستثنیٰ ہوں گے جن سے صاف طور پر منع کردیا گیا ہے۔ ﴿وَحَرَّمَ الرِّبَا﴾” اور سود کو حرام کیا۔“ کیونکہ یہ ظلم پر مبنی ہے اور اس کا انجام برا ہے۔ سود کی دو قسمیں ہیں : (١) ربانسیئہ مثلاً سودی چیز کا اس کی علت میں شریک چیز کے عوض ادھار تبادلہ۔ اور اس کی صورت یہ بھی ہے کہ واجب الادا رقم کو راس المال کا نام دے کر بیع سلم کرلی جائے (٢) ربا الفضل : کسی ایسی چیز کو جس میں سود ہوسکتا ہے، اس کی ہم جنس چیز کے عوض اضافے کے ساتھ بیچنا، دونوں کی حرمت پر قرآن و حدیث کے دلائل موجود ہیں اور ربانسیئہ کی حرمت پر اجماع بھی ہے۔ جس نے ربا الفضل کو جائز قرار دیا ہے اس کا قول شاذ ہے جو بکثرت نصوص کے خلاف ہے بلکہ سود تباہ کن کبیرہ گناہوں میں شامل ہے۔ ﴿فَمَن جَاءَهُ مَوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّهِ﴾ ” جس شخص کے پاس اللہ کی نصیحت آئی۔“ یعنی اللہ نے کسی کو توفیق دی کہ اسے نصیحت کرے، جو اس کے لئے رحمت کا باعث ہے اور اس کی وجہ سے اس پر حجت قائم ہوگئی۔﴿ فَانتَهَىٰ ﴾پس اس کے ڈرانے سے وہ سود لینے سے باز آگیا۔ اس گناہ سے رک گیا تو﴿ فَلَهُ مَا سَلَفَ﴾” اس کے لئے ہے جو گزرا۔“ یعنی یہ نصیحت کی بات پہنچنے سے پہلے اس نے جو غلط لین دین کیا وہ معاف ہوجائے گا۔ یہ نصیحت قبول کرنے کی جزا ہے۔ اس میں یہ اشارہ ہے کہ جو باز نہیں آئے گا، اسے پہلے اور پچھلے دونوں گناہوں کی سزا ملے گی۔ ﴿وَأَمْرُهُ إِلَى اللَّـهِ﴾” اور اس کا معاملہ اللہ کی طرف ہے۔“ یعنی اسے سزا دینا اور مستقبل میں اس کے عمل دیکھنا اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ ﴿وَ مَنْ عَادَ﴾ ” اور جس نے پھر بھی کیا“ دوبارہ سود لیا، نصیحت سے فائدہ نہیں اٹھایا بلکہ سود خوری پر اصرار کیا ﴿ فَأُولَـٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ﴾ ” تو وہ جہنمی ہیں۔ ایسے لوگ ہمیشہ اس میں رہیں گے۔ “ البقرة
276 شرک کے علاوہ جن گناہوں کے بارے میں قرآن و حدیث میں دوزخ میں ہمیشہ رہنے کی سزا مذکور ہے۔ ان کے بارے میں علماء کے مختلف اقوال ہیں۔ زیادہ بہتر قول یہ ہے کہ جن اعمال کا نتیجہ اللہ نے دائمی جہنم مقرر کیا ہے یہ اس کا سبب ہیں۔ لیکن سبب کے ساتھ اگر کوئی مانع نہ ہو تو نتیجہ ضرور ظاہر ہوا کرتا ہے۔ قرآن و حدیث اور اجماع سے ثابت ہے کہ توحید اور ایمان جہنم میں ہمیشہ رہنے سے مانع ہیں۔ یعنی یہ عمل ایسا ہے کہ اگر بندہ توحید کا حامل نہ ہوتا تو یہی عمل اسے جہنم میں ہمیشہ رکھنے کا باعث بن سکتا تھا۔ اس کے بعد فرمایا﴿ يَمْحَقُ اللَّـهُ الرِّبَا ﴾” اللہ سود کو مٹاتا ہے۔“ یعنی اسے بھی اور اس کی برکت کو بھی ذاتی اور صفاتی طور پر ختم کرتا ہے۔ یہ آفات کا باعث بنتا ہے اور برکت چھن جانے کا سبب ہوتا ہے۔ اگر اس (حرام کمائی) سے وہ اللہ کی راہ میں خرچ کرے تو اسے اس کا کوئی ثواب نہیں ملے گا، بلکہ یہ اسے جہنم میں لے جائے گا۔﴿ وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ﴾ اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔“ یعنی جس مال سے صدقہ دیا جائے اس میں برکت نازل فرماتا ہے اور ثواب میں اضافہ کرتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جزا و سزا عمل کی جنس سے ہوتی ہے۔ سود خور لوگوں پر ظلم کرتا ہے اور ان کے مال غیر شرعی طریقے سے لیتا ہے اس لئے اس کی سزا یہ ہے کہ اس کا مال تباہ ہوجائے اور جو شخص لوگوں پر کسی بھی انداز سے احسان کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس سے زیادہ سخی ہے۔ جس طرح اس شخص نے اس کے بندوں پر احسان کیا ہے، اللہ بھی اس پر احسان کرتا ہے۔ ﴿وَاللَّـهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ﴾ ” اور اللہ نہیں دوست رکھتا کسی ناشکرے کو۔“ جو اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کرتا ہے اور اللہ کے واجب کئے ہوئے صدقے اور زکوٰۃ ادا نہیں کرتا، اور اللہ کے بندے اس کے شر سے محفوظ نہیں۔﴿ أَثِيمٍ﴾ ” اور گناہ گار کو“ یعنی اس نے گناہ کا ارتکاب کیا ہے جو اسے سزا ملنے کا باعث ہے۔ البقرة
277 اللہ تعالیٰ نے جب سود خوروں کا ذکر فرمایا اور واضح ہے کہ اگر انہیں ایمان نافع حاصل ہوتا تو ان سے یہ جرم سر زد نہ ہوتا۔ تو اس کے بعد مومنوں کا ذکر فرمایا، ان کو ملنے والا ثواب بیان فرمایا اور انہیں ایمان والے کہہ کر مخاطب فرمایا اور انہیں حکم دیا کہ سود لینا چھوڑ دیں اگر وہ مومن ہیں۔ ایسے لوگ ہی اللہ کی نصیحتیں قبول کرتے اور اس کے احکامات تسلیم کرتے ہیں۔ اللہ نے انہیں تقویٰ کا حکم دیا ہے اور تقویٰ میں یہ بات بھی شامل ہے کہ موجودہ لین دین کے سلسلے میں جو سود کسی کے ذمہ ہے اسے چھوڑ دیں، وصول نہ کریں۔ باقی رہا وہ سود جو پہلے لیا جا چکا ہے تو اس کے بارے میں یہ حکم ہے کہ جو شخص نصیحت قبول کر کے آئندہ سود لینے سے اجتناب کرے گا، اس کا سابقہ گناہ معاف ہوجائے گا اور جس نے اللہ کی نصیحت قبول نہ کی اور باز نہ آیا وہ اللہ کا مخالف اور اللہ سے جنگ کرنے والا ہے۔ بھلا ایک عاجز ضعیف بندہ اس رب کا مقابلہ کیسے کرسکتا ہے جو غالب اور حکمت والا ہے۔ وہ ظالم کو مہلت تو دیتا ہے، اسے چھوڑتا نہیں۔ البقرة
278 البقرة
279 ﴿ وَإِن تُبْتُمْ﴾” ہاں اگر تم (سود سے) توبہ کرلو“﴿فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ﴾ ” تو تمہارے لئے تمہارا اصل مال ہے۔“ یعنی وہ وصول کرلو ﴿لَا تَظْلِمُونَ﴾” نہ تم ظلم کرو۔“ کہ اصل قرض سے زیادہ وصول کرو، جو سود ہے۔ ﴿ وَلَا تُظْلَمُونَ﴾ ” اور نہ تم پر ظلم کیا جائے۔“ کہ تمہاری اصل رقم میں کمی کی جائے۔ البقرة
280 ﴿وَإِن كَانَ﴾ ” اور اگر کوئی“ مقروض﴿ ذُو عُسْرَةٍ﴾” تنگی والا ہو“ جسے قرض کی ادائیگی کے لئے مال میسر نہ ہو﴿ فَنَظِرَةٌ إِلَىٰ مَيْسَرَةٍ﴾” تو اسے آسانی تک مہلت دینی چاہئے۔“ یہ واجب ہے کہ ایسے مقروض کو اتنی مہلت دی جائے کہ اسے قرض واپس کرنے کے لئے مال مل جائے۔ ﴿ وَأَن تَصَدَّقُوا خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ﴾” اور صدقہ کرو (کہ سارا یا کچھ قرض معاف کر دو) تو تمہارے لئے بہت ہی بہتر ہے۔ اگر تمہیں علم ہو۔ “ البقرة
281  ﴿وَاتَّقُوا يَوْمًا تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّـهِ ۖ ثُمَّ تُوَفَّىٰ كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ﴾” اور اس دن سے ڈرو جس میں تم سب اللہ کی طرف لوٹائے جاؤ گے اور ہر شخص کو اس کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔“ یہ آیت مبارکہ قرآن مجید کی ان آیات میں شامل ہے جو سب سے آخر میں نازل ہوئیں۔ اس پر ان احکام اور اوامرونواہی کو ختم کیا گیا کیونکہ اس میں نیکی پر جزا کا وعدہ ہے، برائی پر سزا کی وعید ہے اور یہ بیان ہے کہ جس شخص کو یہ یقین ہوتا ہے کہ وہ اللہ کے پاس جانے والا ہے، جو اسے ہر چھوٹے بڑے ظاہر اور پوشیدہ عمل کی جزا دے گا، اور وہ اس پر ذرہ برابر ظلم نہیں کرے گا، اس یقین کے نتیجے میں اس کے دل میں رغبت و رہبت (شوق اور خوف) کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔ جب تک دل میں یہ یقین جاگزیں نہ ہو، یہ چیز کسی طرح پیدا نہیں ہوسکتی۔ البقرة
282 یہ آیت (آیت دَیْن) ” قرض کے مسائل والی آیت“ کے نام سے معروف ہے۔ یہ قرآن مجید کی سب سے طویل آیت ہے۔ اس میں بڑے عظیم مسائل بیان ہوئے ہیں جو بے شمار عظیم فوائد پر مشتمل ہیں۔ (1) اس سے قرض کی تمام صورتوں مثلاً سلم وغیرہ کا جواز ثابت ہوتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرض کا ذکر کیا ہے جو مومنوں میں رائج تھا، اس کے مسائل بیان کئے ہیں، جس سے ان کا جواز ثابت ہوتا ہے۔ ( 2۔3) بیع سلم میں مدت ضروری ہے اور وہ مدت متعین ہونی چاہئے اس لئے نہ تو نقد بیع سلم درست ہے، نہ اس صورت میں جب کہ اس کی مدت مقرر نہ ہو۔ (4) تمام قرض وغیرہ کے معاملات لکھنا شرعاً مطلوب ہے۔ البتہ اس میں اختلاف ہے کہ یہ واجب ہے یا مستحب۔ اس کی مشروعیت میں یہ حکمت ہے کہ لوگوں کو اس کی سخت ضرورت ہے اور نہ لکھنے کی صورت میں غلطی، بھول، اختلاف اور جھگڑا واقع ہونے کا اندیشہ ہے۔ (5) کاتب کو حکم ہے کہ وہ لکھے۔ (6) کاتب کو عادل (قابل اعتماد) ہونا چاہئے۔ تاکہ اس کی تحریر پر اعتبار کیا جا سکے۔ فاسق کے نہ قول کا اعتبار ہے نہ لکھنے کا۔ (7) کاتب پر فرض ہے کہ فریقین کے درمیان انصاف سے کام لے۔ وہ رشتہ داری، دوستی وغیرہ کی وجہ سے کسی ایک فریق کی طرف مائل نہ ہو۔ (8) کاتب کا ایسی تحریریں لکھنے کے طریق کار سے، اور فریقین کے لئے جو کچھ واجب ہے اور جس چیز سے تحریر قابل اعتماد بنتی ہے ان سب امور سے باخبر ہونا ضروری ہے۔ ان مسائل کی دلیل یہ فرمان الٰہی ہے۔ ﴿وَلْيَكْتُب بَّيْنَكُمْ كَاتِبٌ بِالْعَدْلِ﴾” اور لکھنے والے کو چاہئے کہ تمہارا آپس کا معاملہ عدل سے لکھے۔“ (9) جب کوئی ایسی تحریر موجود ہو، جس کی کتابت معروف عادل (قابل اعتماد) آدمی کے ہاتھ کی ہو، تو اس پر عمل کیا جائے گا۔ اگرچہ لکھنے والا اور گواہ فوت ہوچکے ہوں۔ (10) اللہ نے فرمایا: ﴿ وَلَا يَأْبَ كَاتِبٌ أَن يَكْتُبَ﴾ ” کاتب کو چاہئے کہ لکھنے سے انکار نہ کرے“ یعنی جس پر اللہ نے یہ احسان کیا ہے کہ اسے لکھنے کا علم عطا فرمایا ہے، اسے بھی اللہ کے ان بندوں پر احسان کرنا چاہئے جو اس سے لکھوانے کے محتاج ہیں۔ لہٰذا ان کو لکھ کردینے سے انکار نہ کرے۔ (11) کاتب کو حکم ہے کہ صرف وہی چیز لکھے، جس کو وہ شخص لکھوائے جس کے ذمہ حق ہے۔ (12) فریقین میں سے لکھوانے کا ذمہ داری اس کی ہے جس کے ذمہ قرض ہے۔ (13) اسے حکم ہے کہ پورا حق بیان کرے، اس میں کچھ نہ چھپائے۔ (14) انسان کا اپنے بارے میں اقرار شرعاً معتبر ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مقروض کو حکم دیا ہے کہ وہ کاتب کو لکھوائے، جب وہ اس کے اقرار کے مطابق لکھے گا تو اس کا مضمون اور اس کے نتائج بھی معتبر ہوں گے۔ اگرچہ بعد میں غلطی لگ جانے کا یا بھول جانے کا دعویٰ کرے۔ (15) قول اس کا معتبر ہوگا جس کے ذمے کوئی حق ہے کہ بیع شدہ چیز کی مقدار، صفت، قلت، کثرت اور مقررہ مدت کیا ہے۔ جس کا حق ہے (قرض خواہ) اس کا قول معتبر نہیں ہوگا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسے جو حکم دیا ہے کہ جتنا حق ہے، اس سے کم نہ لکھوائے، اس کی وجہ یہی ہے کہ مقدار اور وصف میں اس کا قول معتبر ہے۔ (16) جس کے ذمہ حق ہے اس پر حرام ہے کہ مقدار میں، عمدگی اور ظاہری اچھائی میں، یا مدت وغیرہ میں کمی کرے۔ (17) جو شخص کسی عذر مثلاً کم سنی، کم عقلی، گونگا ہونا وغیرہ کی وجہ سے خود نہ لکھوا سکے تو لکھوانے اور اقرار کا کام اس کا سرپرست اس کا نائب ہونے کی حیثیت سے کرے گا۔ (18) جو عدل اس پر واجب ہے جس کے ذمے حق ہے، وہی عدل اس کے سرپرست پر واجب ہے۔ کیونکہ اللہ نے فرمایا ﴿بِالْعَدْلِ﴾ ” عدل کے ساتھ“ (19) سرپرست کا عادل ہونا شرط ہے۔ کیونکہ عدل کے ساتھ لکھوانا فاسق سے نہیں ہوسکتا۔ (20) مالی معاملات میں سرپرستی کا ثبوت۔ (21) حق بچے، کم عقل، مجنون اور کمزور کے ذمے واجب ہوتا ہے اس کے سرپرست کے ذمے نہیں ہوتا۔ (22) بچے، کم عقل، مجنون وغیرہ کا اقرار اور تصرف صحیح نہیں کیونکہ اللہ نے لکھوانے کی ذمہ داری ولی (سرپرست) پر ڈالی ہے۔ ان معذور افراد کے ذمہ نہیں۔ اس میں ان پر لطف و رحمت ہے اور ان کے مال کا ضائع ہونے سے بچاؤ ہے۔ (23) مذکورہ افراد کے مال میں ولی (سرپرست) کا تصرف (قانوناً) درست ہے۔ (24) انسان کے لئے ایسے معاملات کا جاننا مشروع ہے جس سے قرض کا لین دین کرنے والوں کا ایک دوسرے پر اعتماد رہتا ہے۔ لہٰذا اصل مقصود معاملے کا قابل اعتبار رکھنا اور انصاف ہے اور جس عمل کے بغیر مشروع کام پر عمل نہ کیا جا سکے، وہ عمل بھی مشروع ہوتا ہے۔ (25) کتابت سیکھنا فرض کفایہ ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرض وغیرہ کے معاملات لکھنے کا حکم دیا ہے اور یہ کام کتابت سیکھے بغیر نہیں ہوسکتا۔ (26) لین دین کے معاہدوں پر گواہ بنانا مشرع ہے اور یہ مشروعیت مندوب کے درجے میں ہے۔ کیونکہ اس حکم کا مقصد حقوق کی حفاظت کا طریقہ بتانا ہے اور اس میں آخر کار مکلف افراد ہی کا فائدہ ہے۔ ہاں اگر تصرف کرنے والا یتیم کا سرپرست ہو یا کسی وقف کا نگران ہو یا اسی قسم کا کوئی معاملہ ہو جس کی حفاظت واجب ہو۔ تب حق کو محفوظ رکھنے والی یہ گواہی واجب ہوجائے گی۔ (27) مالی معاملات میں گواہوں کی کم از کم مطلوب تعداد یہ کہ دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتیں ہوں اور حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک گواہ کی موجودگی میں مدعی کی ایک قسم سے بھی فیصلہ ہوسکتا ہے۔ (28) بچوں کی گواہی معتبر نہیں۔ کیونکہ (رجل) ” مرد“ کے لفظ سے یہی ظاہر ہوتا ہے۔ (29) مال وغیرہ کے معاملات میں صرف عورتوں کی گواہی قبول نہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں مرد کے ساتھ ہی گواہ کے طور پر قبول کیا ہے۔ البتہ کوئی کہہ سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دو عورتوں کو ایک مرد کے قائم مقام اس حکمت کی وجہ سے قرار دیا ہے جو آیت میں مذکور ہے اور یہ حکمت مرد کی موجودگی اور غیر موجودگی دونوں صورتوں میں موجود ہے۔ واللہ اعلم (30) بالغ غلام کی گواہی بھی بالغ آزاد لوگوں کی طرح مقبول ہے کیونکہ اللہ کے اس فرمان میں عموم ہے ﴿وَاسْتَشْهِدُوا شَهِيدَيْنِ مِن رِّجَالِكُمْ﴾” اور اپنے مردوں میں سے دو مرد گواہ رکھ لو۔“ اور بالغ غلام ” ہمارے مردوں“ میں شامل ہے۔ (31) غیر مسلم مرد ہوں یا عورتیں، ان کی گواہی قبول نہیں۔ کیونکہ وہ ہم میں شامل نہیں۔ علاوہ ازیں گواہی کا دارو مدار ” عدل“ (نیک قابل اعتماد) ہونے پر ہے۔ اور غیر مسلم ” عدل‘،نہیں۔ (32) اس سے مرد کا عورت سے افضل ہونا ظاہر ہوتا ہے اور ایک مرد کو دو عورتوں کے مقابلے میں رکھا گیا ہے کیونکہ مرد کا حافظہ مضبوط ہوتا ہے، عورت کا کمزور۔ (33) جو شخص گواہی بھول جائے اور اسے یاد دلانے پر یاد آجائے، تو اس کی گواہی قبول ہے کیونکہ ارشاد ہے﴿ فَتُذَكِّرَ إِحْدَاهُمَا الْأُخْرَىٰ ۚ ﴾” ایک کی بھول چوک کو دوسری یاد دلا دے“ (34) اس سے یہ مسئلہ بھی نکلتا ہے کہ جب گواہ کو واجب حقوق سے تعلق رکھنے والی گواہی بھول جانے کا خطرہ ہو تو اس پر واجب ہے کہ اسے لکھ لے۔ کیونکہ جس عمل کے بغیر واجب ادا نہ ہوسکے، وہ بھی واجب ہوتا ہے۔ (35) جب گواہ کو گواہی دینے کے لئے بلایا جائے تو اگر اسے کوئی عذر لاحق نہ ہو تو اسے گواہی دینا واجب ہے۔ اس سے انکار کرنا ناجائز ہے۔ کیونکہ ارشاد ہے: ﴿وَلَا يَأْبَ الشُّهَدَاءُ إِذَا مَا دُعُوا ﴾” اور گواہوں کو چاہئے کہ وہ جب بلائے جائیں تو انکار نہ کریں۔“ (36) جس شخص میں ایسی صفات موجود نہ ہوں جن کی بنیاد پر گواہی قبول کی جاتی ہے، تو اس پر گواہی کے لئے حاضر ہونا واجب نہیں، کیونکہ اس میں کوئی فائدہ نہیں اور وہ گواہوں میں شامل بھی نہیں۔ (37) قرض چھوٹے ہوں یا بڑے سب لکھنے چاہئیں۔ مدت اور شروط و قیود لکھنا بھی ضروری ہیں۔ ارشاد﴿ ذَٰلِكُمْ أَقْسَطُ عِندَ اللَّـهِ وَأَقْوَمُ لِلشَّهَادَةِ وَأَدْنَىٰ أَلَّا تَرْتَابُوا﴾” اللہ کے نزدیک یہ بات زیادہ انصاف والی ہے اور گواہی کو درست رکھنے والی اور شک و شبہ سے زیادہ بچانے والی ہے“ یعنی اس میں انصاف پایا جاتا ہے جس سے بندوں کے اور سب کے معاملات درست رہتے ہیں اور تحریری شہادت زیادہ پختہ، زیادہ کامل، شک و شبہ سے زیادہ دور رکھنے والی اور جھگڑے سے بچانے والی ہے۔ (39) اس سے یہ بھی مسئلہ نکلتا ہے کہ جسے گواہی میں شک ہوجائے، اسے گواہی دینے سے پرہیز کرنا چاہئے۔ اس کے لئے یقین ضروری ہے۔ (40) اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ﴿ إِلَّا أَن تَكُونَ تِجَارَةً حَاضِرَةً تُدِيرُونَهَا بَيْنَكُمْ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَلَّا تَكْتُبُوهَا ﴾ اگر تجارت دست بدست اور نقد ہو تو نہ لکھنے کی اجازت ہے۔ کیونکہ اس میں تحریر کی ضرورت اتنی شدید نہیں۔ (41) نقد لین دین میں تحریر نہ کرنا تو جائز ہے۔ تاہم اس میں گواہ بنانا مشروع ہے کیونکہ فرمایا﴿ وَأَشْهِدُوا إِذَا تَبَايَعْتُمْ﴾” خرید و فروخت کے وقت گواہ مقرر کرلیا کرو۔“ (42) کاتب کو تنگ کرنا منع ہے۔ مثلاً اسے اس وقت طلب کیا جائے جب وہ کسی اور کام میں مشغول ہو، یا جس وقت اسے حاضر ہونے میں مشقت ہو۔ (43) گواہ کو بھی تنگ کرنا منع ہے مثلاً اسے اس وقت گواہ بننے کے لئے یا گواہی دینے کے لئے بلایا جائے جب وہ بیمار ہو، یا ایسے کام میں مشغول ہو، جسے چھوڑ کر آنے میں پریشانی اور مشقت ہو۔ یہ اس صورت میں ہے جب﴿ وَلَا يُضَارَّ كَاتِبٌ وَلَا شَهِيدٌ﴾ ” نہ لکھنے والے کو نقصان پہنچایا جائے نہ گواہ کو“ میں لفظ (یضار) کو مجہول قرار دیا جائے اور اگر اسے فعل معروف سمجھا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ گواہ اور کاتب کے لئے صاحب حق کو تنگ کرنے کے لئے گواہی یا کتابت سے انکار کرنا، یا بہت زیادہ اجرت طلب کرنا منع ہے، اس صورت میں انہیں فائدہ نمبر 44 اور نمبر 45 شمار کیا جاسکتا ہے۔ (46) ان حرام کاموں کا ارتکاب فسق ہے کیونکہ ارشاد ہے﴿ وَإِن تَفْعَلُوا فَإِنَّهُ فُسُوقٌ بِكُمْ﴾” اگر تم یہ کرو تو یہ تماری کھلی نافرمانی ہے۔“ (47) فسق، ایمان، نفاق، عداوت، محبت وغیرہ جیسے اوصاف کسی بھی انسان میں کم یا زیادہ مقدار میں ہوسکتے ہیں۔ ممکن ہے کہ ایک آدمی میں فسق وغیرہ کا مادہ موجود ہو اور اسی طرح ایمان یا کفر کا مادہ موجود ہو۔ کیونکہ اللہ نے فرمایا ﴿فَإِنَّهُ فُسُوقٌ بِكُمْ﴾” یہ تمہارے اندر نافرمانی ہے“ یہ نہیں فرمایا : (فَاَنْتُمْ فَاسِقُوْن) ” تم فاسق ہو“ (48) یہ نکتہ پہلے بیان ہونا چاہئے تھا کیونکہ وہاں اس کی مناسب جگہ تھی۔ وہ یہ ہے کہ گواہ عادل (نیک اور قابل اعتماد) ہونا چاہئے کیونکہ ارشاد ہے ﴿مِمَّن تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَاءِ ﴾” جنہیں تم گواہوں میں سے پسند کرو۔“ (49) عدالت (قابل اعتماد ہونا)، اس میں ہر زمانے اور ہر مقام کا عرف معتبر ہے۔ جو شخص لوگوں کے نزدیک قابل اعتبار ہو اس کی گواہی قبول کی جائے گی۔ (50) اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جس شخص کا عادل یا فاسق ہونا معلوم نہ ہو۔ اس کی گواہی بھی قبول نہیں، حتیٰ کہ اس کے نیک ہونے کی تصدیق ہوجائے۔ موجودہ حالات میں ناقص سمجھ کے مطابق یہ مسائل اخذ کئے گئے ہیں۔ اللہ کے کلام میں اور بہت سی حکمتیں اور اسرار ہیں۔ اللہ جسے چاہتا ہے ان کی سمجھ عطا فرما دیتا ہے۔ البقرة
283 آیت کا مفہوم یہ ہے کہ اگر تم سفر میں ہو ﴿ وَلَمْ تَجِدُوا كَاتِبًا ﴾” اور تمہیں کاتب نہ ملے“ جو تمہارے لئے تحریر لکھ دے، جس سے بات پکی اور قابل اعتماد ہوجائے ﴿فَرِهَانٌ مَّقْبُوضَةٌ﴾” تو رہن قبضہ میں رکھ لیا کرو۔“ صاحب حق (قرض خواہض اسے قبضہ میں رکھے اور یہ اس کے اطمینان کا باعث (اور ضمانت کے طور پر) رہے حتیٰ کہ اس کا حق (قرض) اسے واپس مل جائے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر راہن (رہن والی چیز کا مالک) اور مرتہن (رہن رکھ کر قرض دینے والا) رہن شدہ چیز کی مقدار میں اختلاف کریں تو مرتہن کا قول قبول کیا جائے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرض خواہ کے اعتبار کے لئے رہن کو تحریر کا قائم مقام بنا دیا ہے۔ اگر رہن شدہ چیز کی قیمت کے بارے میں مرتہن کی بات نہ مانی جائے تو رہن کا مقصود (اعتماد اور اطمینان) حاصل نہیں ہوگا۔ کیونکہ رہن کا مقصد اعتماد و اعتبار ہے۔ اس لئے یہ سفر اور حضر (دونوں صورتوں) میں جائز ہے۔ آیت میں سفر کا ذکر اس لئے کیا گیا ہے کہ اس کی ضرورت سفر میں زیادہ پیش آسکتی ہے کیونکہ سفر میں ہوسکتا ہے کاتب میسر نہ ہو۔ یہ حکم تب ہے کہ جب صاحب حق (قرض خواہ) اپنے حق (قرض) کے بارے میں تسلی کرنا چاہتا ہے۔ اگر صاحب حق کو مقروض سے کوئی خطرہ نہ ہو اور وہ بغیر رہن کے معاملہ کرنا چاہئے تو مقروض کو چاہئے کہ قرض پورا پورا ادا کرے۔ نہ ظلم کرے نہ اس کی حق تلفی کرے﴿وَلْيَتَّقِ اللَّـهَ رَبَّهُ﴾” اور اللہ سے ڈرتا ہے جو اس کا رب ہے۔“ حق ادا کرے۔ اور جس نے اس کے بارے میں حسن ظن رکھا اس کی نیکی کا اچھا بدلہ دے۔ ﴿وَلَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ﴾ ” اور گواہی کو مت چھپاؤ۔“ کیونکہ حق کا دار و مدار گواہی پر ہے۔ اس کے بغیر حق ثابت نہیں ہوتا ۔ لہٰذا اسے چھپانا عظیم ترین گناہ ہے۔ کیونکہ اس نے سچی بات بتانے کا فریضہ ترک کر کے جھوٹ بولا۔ جس کے نتیجے میں حق والے کا حق مارا گیا۔ اس لئے فرمایا ﴿وَمَن يَكْتُمْهَا فَإِنَّهُ آثِمٌ قَلْبُهُ ۗ وَاللَّـهُ بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ ﴾” اور جو کوئی اسے چھپالے، وہ گناہ گار دل والا ہے اور جو تم کرتے ہو اللہ اسے خوب جانتا ہے۔“ اللہ نے اپنے بندوں کو یہ جو عمدہ مسائل بتائے ہیں ان میں بہت سی حکمتیں اور عام فوائد موجود ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر بندے اللہ کی ہدایات پر عمل بتائے ہیں ان میں بہت سی حکمتیں اور عام فوائد موجود ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر بندے اللہ کی ہدایات پر عمل کریں تو ان کا دین درست ہونے کے ساتھ ساتھ دنیا بھی سنور جائے۔ کیونکہ ان میں انصاف، فائدہ، حقوق کی حفاظت اور لڑائی جھگڑے کا خاتمہ، اور معاشی معاملات کی درستی پائی جاتی ہے۔ اللہ کا شکر ہے جیسے اس کے چہرہ اقدس کے جلال اور عظیم سلطنت کے لائق ہے۔ ہم اس کی کما حقہ تعریف کرنے سے قاصر ہیں۔ البقرة
284 اللہ تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ آسمان اور زمین میں جو کچھ ہے سب اللہ ہی کا ہے۔ سب کو اسی نے پیدا کیا، رزق دیا، ان کے دینی اور دنیوی فوائد کا بندوبست فرمایا۔ چنانچہ وہ سب اس کی ملکیت اور اس کے غلام ہیں۔ وہ اپنی ذات کے لئے نفع کا اختیار رکھتے ہیں نہ نقصان کا، نہ موت کا نہ حیات کا، نہ مرکر جینے کا۔ وہ ان کا رب ہے، ان کا مالک ہے، جو اپنی حکمت، عدل اور احسان کے مطاب ان میں جیسے چاہتا ہے تصرف کرتا ہے۔ اس نے انہیں کچھ کاموں کا حکم دیا ہے، کچھ کاموں سے منع فرمایا۔ لہٰذا وہ ان سے ان کے ظاہر اور پوشیدہ اعمال کا حساب لے گا۔ ﴿فَيَغْفِرُ لِمَن يَشَاءُ ﴾” پھر جسے چاہے گا بخشے گا۔“ یعنی جس کے پاس مغفرت کے اسباب موجود ہوں گے۔﴿ وَيُعَذِّبُ مَن يَشَاءُ ﴾” اور جسے چاہے گا سزا دے گا۔“ اسے ان گناہوں کی سزا ملے گی، جن کی معافی کے اسباب حاصل نہیں ہوئے۔﴿وَاللَّـهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ﴾ اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔“ کوئی چیز اس کے بس سے باہر نہیں۔ بلکہ تمام مخلوقات اس کے غلبہ، مشیت، تقدیر اور جز اور سزا کے قوانین کے ماتحت ہیں۔ البقرة
285 اللہ تعالیٰ رسولوں اور مومنوں کے ایمان، اطاعت اور طلب مغفرت کا ذکر فرماتا ہے کہ وہ لوگ اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر ایمان رکھتے ہیں۔ اس میں ان تمام صفات کمال و جلال پر ایمان لانا داخل ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بارے میں بتائی ہیں اور رسولوں نے بتائی ہیں۔ ان پر اجمالاً اور تفصیلا ًایمان لانا داخل ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بارے میں بتائی ہیں اور رسولوں نے بتائی ہیں۔ ان پر اجمالاً اور تفصیلاً ایمان رکھنا، اور اللہ کی ذات کو تشبیہ و تمثیل، تعطیل اور تمام صفات نقص سے پاک ماننا بھی شامل ہے۔ شریعتوں میں جن فرشتوں کا ذکر کیا گیا ہے، ان سب پر اجمالاً اور تفصیلاً ایمان رکھنا، رسولوں کی بتائی ہوئی اور ان پر نازل ہونے والی کتابوں میں موجود تمام خبروں اور احکامات پر ایمان رکھنا بھی شامل ہے۔ مومن رسولوں میں تفریق نہیں کرتے، بلکہ تمام انبیاء و رسل پر ایمان رکھتے ہیں کیونکہ وہ اللہ اور بندوں کے درمیان واسطہ ہیں (جن کے ذریعے ہمیں اللہ کے اوامرو نواہی کا علم ہوتا ہے) لہٰذا کسی نبی کا انکار کرنا تمام نبیوں کا انکار کرنے کے مترادف ہے۔ ﴿وَقَالُوا سَمِعْنَا ﴾ ” انہوں نے کہہ دیا کہ ہم نے سنا۔“ یعنی اے اللہ تو نے ہمیں جن کاموں کا حکم دیا ہے اور جن سے منع کیا ہے ہم نے انہیں توجہ سے سن لیا ہے ﴿وَأَطَعْنَا﴾ ” اور ہم نے اطاعت کی“ یہ تمام احکام تسلیم کرلیے۔ ان لوگوں میں شامل نہیں ہوئے جنہوں نے کہا تھا ﴿ سَمِعْنَا وَعَصَيْنَا ﴾ (البقرہ :2؍ 93) ” ہم نے سنا اور ہم نے نافرمانی کی۔“ کیونکہ بندے سے اللہ کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی ہو ہی جاتی ہے، لہٰذا اسے ہمیشہ اس کی مغفرت کی ضرورت رہتی ہے۔ اس لئے وہ کہتے ہیں ﴿غُفْرَانَكَ﴾ ” تیری بخشش“ یعنی ہم سے جو کوتاہی اور گناہ ہوئے ہیں، ہم تجھ سے ان کی بخشش طلب کرتے ہیں اور ہم جن عیوب میں ملوث ہوئے ہیں، ان گناہوں کو مٹا دینے کی درخواست کرتے ہیں۔ ﴿وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ ﴾ ” اور تیری ہی طرف لوٹنا ہے۔“ یعنی تمام مخلوقات واپس تیرے پاس ہی پہنچیں گی۔ پھر تو ان کے اچھے اور برے اعمال کا بدلہ دے گا۔ البقرة
286 جب یہ آیت نازل ہوئی ﴿وَإِن تُبْدُوا مَا فِي أَنفُسِكُمْ أَوْ تُخْفُوهُ يُحَاسِبْكُم بِهِ اللَّـهُ﴾” تمہارے دلوں میں جو کچھ ہے۔ تم اسے ظاہر کرو یا چھپاؤ۔ اللہ اس کا حساب تم سے لے گا“ تو مسلمان بہت پریشان ہوئے کیونکہ انہوں نے یہ سمجھا کہ دل میں جس قسم کے خیالات ہوں خواہ وہ پختہ یقین کی صورت میں ہوں، یا عارضی خیالات، دل میں جاگزیں ہوں یا آ کر گزر جانے والے، سب کا مواخذہ ہوگا۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرما دیا کہ اللہ تعالیٰ کسی کو اس کی طاقت سے زیادہ کام کا مکلف نہیں فرماتا۔ ان کاموں کا حکم دیتا ہے جو وہ کرسکتا ہے۔ ان کا حکم نہیں دیتا جو اس کی طاقت سے بڑھ کر ہوں۔ جیسے ارشاد ہے:﴿ وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ ﴾“ (الحج :22؍ 78) ” اس نے دین میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی“ اوامرو نواہی بنیادی طور پر ایسے نہیں جو انسانوں کے لئے انتہائی دشوار ہوں۔ بلکہ یہ تو روح کی غذا، بدن کی دوا اور نقصان سے بچاؤ کا ذریعہ ہیں۔ اللہ نے بندوں کو جن کاموں کا حکم دیا ہے، وہ رحمت اور احسان کی بنا پر دیا ہے۔ اس کے باوجود جب کوئی عذر پیش آجائے جس سے مشقت کا اندیشہ ہو تو اللہ تعالیٰ تخفیف اور آسانی فرما دیتا ہے۔ کبھی تو اس عمل کو مکلف کے ذمہ سے مکمل طور پر ساقط فرما دیتا ہے۔ کبھی اس کا کچھ حصہ معاف کردیتا ہے۔ جیسے بیمار اور مسافر کے لئے بعض احکام میں تخفیف کردی گئی ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ ہر کسی کو وہی نیکی ملے گی جو اس نے کمائی، اور اس کے ذمے وہی گناہ لکھا جائے گا جس کا اس نے ارتکاب کیا۔ کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا اور کسی کی وجہ سے دوسرے کی نیکیاں ضائع نہیں ہوں گی۔ نیکی میں (کّسَبَتْ) کا لفظ فرمایا گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کو نیکی معمولی سی کوشش سے بھی حاصل ہوجاتی ہے۔ بلکہ بعض اوقات صرف نیت کی وجہ سے ہی ثواب مل جاتا ہے۔ جبکہ گناہ کے لئے (اِکْتَسَبَتْ) کا لفظ فرمایا گیا ہے جس میں یہ ارشاد ہے کہ انسان کے ذمے گناہ اس وقت تک نہیں لکھا جاتا، جب تک وہ اس کا ارتکاب نہ کرلے اور اس کی کوشش نہ کی جائے۔ جب اللہ نے رسول اور مومنوں کے ایمان کا ذکر فرمایا، اور بتایا کہ انسان سے کو تاہی، غلطی اور بھول چوک کا صدور ممکن ہے اور یہ بتایا کہ اس نے ہمیں صرف ایسے اعمال کا حکم دیا ہے جس کو انجام دینے کی طاقت ہم میں موجود ہے، تو اس کے بعد بتایا کہ مومن بھی یہ دعا کرتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ دعا قبول کر کے فرمایا :” میں نے یہ کردیا۔“ ارشاد ہے ﴿رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا﴾” اے ہمارے رب ! ہم بھول گئے ہوں یا خطا کی ہو، تو ہمیں نہ پکڑنا“ بھول اور غلطی میں فرق یہ ہے کہ نسیان (بھول) کا مطلب ہوتا ہے، مامور کام کا دل سے فراموش ہوجانا، اور بھول جانے کی وجہ سے اس عمل کا چھوٹ جانا۔ خطا (غلطی) یہ ہوتی ہے کہ انسان ایک جائز کام کا ارادہ کرے، لیکن اس سے کام اس انداز سے واقع ہوجائے جو جائز نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس امت پر رحمت اور احسان فرماتے ہوئے اس سے واقع ہونے والے یہ دونوں طرح کے کام معاف فرما دیے۔ اس اصول کی روشنی میں کہا جاتا ہے کہ جو شخص چھینے ہوئے یا ناپاک کپڑے پہن کر نماز پڑھے۔ بدن پر سے نجاست دور کرنا بھول گیاہو، یا نماز کے دوران بھول کر کسی سے بات کرلے۔ یا روزے کے دوران بھول کر کچھ کھالے، یا احرام کے دوران بھول کر کوئی ممنوع کام کرلے، بشرطیکہ اس میں کسی جان دار کی ہلاکت شامل نہ ہو۔ تو اس کی یہ غلطیاں معاف ہیں۔ اسی طرح اگر ایک کام نہ کرنے کی قسم کھا رکھی ہو، پھر بھول کر وہ کام کرلے۔ اس طرح اگر غلطی سے کسی کی جان یا مال کا نقصان کر بیٹھے تو اس کو گناہ نہیں ہوگا۔ نقصان پورا کرنے کیلئے ادائیگی کرنے کا تعلق نقصان کرنے سے ہے (ارادہ یا بھول وغیرہ سے نہیں) اس طرح جن موقعوں پر (بسم اللہ) پڑھنا واجب ہے۔ اگر وہاں (بسم اللہ) پڑھنا بھول جائے تو کام درست سمجھا جائے گا۔﴿ رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِنَا﴾ اے ہمارے رب ! ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال جو ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالا تھا‘،اس سے مشکل احکام مراد ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ درخواست قبول فرما لی اور اس امت پر طہارت اور عبادت کے مسائل میں ایسی نرمی فرما دی، جو کسی اور امت پر نہیں فرمائی تھی۔ ﴿رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِه﴾ ” اے ہمارے رب ! ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال جس کی ہمیں طاقت نہ ہو“ اللہ نے یہ درخواست بھی قبول فرما لی۔ ﴿وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا﴾” اور ہم نے سے درگزر فرما، ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم کر“ معافی اور بخشش کے نتیجے میں مصائب اور شر دور ہوتے ہیں اور رحمت کے نتیجے میں معاملات درست ہوتے ہیں۔﴿ أَنتَ مَوْلَانَا﴾” تو ہمارا مولیٰ ہے“ یعنی ہمارا رب، ہمارا بادشاہ اور ہمارا معبود ہے۔ جب سے تو نے ہمیں پیدا فرمایا تیری مدد اور توفیق ہمیں حاصل رہی ہے۔ تیری نعمتیں ہر وقت مسلسل ہمیں مل رہی ہیں۔ پھر تو نے ہم پر ایک عظیم احسان کیا کہ اسلام کی نعمت عطا فرما دی۔ باقی سب نعمتیں اس کے تابع ہیں۔ اس لئے اے ہمارے مالک اور ہمارے مولیٰ ہم تجھ سے اس نعمت کی تکمیل کا سوال کرتے ہیں کہ ان کافروں کے خلاف ہماری مدد فرما جنہوں نے تیرے ساتھ کفر کیا، تیرے نبیوں کا انکار کیا، تیرا دین ماننے والوں سے مقابلہ کیا، تیرے احکامات کو پس پشت ڈالا۔ لہٰذا دلیل و برہان اور شمشیر و سنان کے ساتھ ہماری مدد فرما۔ ہمیں زمین میں شوکت عطا فرما۔ ان کو ذلیل کر دے۔ ہمیں ایسا ایمان اور ایسے اعمال نصیب فرما، جن کی برکت سے فتح حاصل ہوتی ہے۔ آمین والحمد اللہ رب العالمین البقرة
0 آل عمران
1 اس سورت کی شروع کی اسی (80) سے زیادہ آیات عیسائیوں سے مباحثہ، ان کے مذہب کی تردید اور انہیں سچے دین یعنی اسلام کو قبول کرنے کی دعوت پر مشتمل ہیں۔ جس طرح سورۃ بقرہ کی ابتدائی آیات یہود سے مناظرہ پر مشتمل ہیں۔ آل عمران
2 اللہ تعالیٰ نے یہ سورت اپنی الوہیت کے اعلان سے شروع کی ہے۔ اس نے بتایا ہے کہ وہی ایسا معبود ہے جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ عبادت صرف اسی کی اور اسی کے لئے ہونی چاہئے۔ لہٰذا اس کے سوا جس معبود کی بھی پوجا کی جاتی ہے وہ باطل ہے۔ اللہ ہی سچا معبود ہے جو الوہیت کی تمام صفات سے موصوف ہے جن سب کا تعلق حیات اور قیومیت کی صفات سے ہے۔ ﴿الْحَيُّ﴾ سے مراد یہ ہے کہ اسے عظیم ترین اور کامل ترین حیات کی صفات حاصل ہیں، جو ان تمام صفات کو مستلزم ہیں جن کے بغیر صفات حیات کی تکمیل نہیں ہوتی۔ مثلاً سمع، بصر، قدرت، قوت، عظمت، بقا، دوام اور غلبہ﴿ الْقَيُّومُ ﴾کا مطلب یہ ہے کہ وہ خود بخودقائم ہے لہٰذا تمام مخلوقات سے بے پرواہ ہے اور وہ سب کو قائم رکھنے والا ہے اس لئے تمام مخلوقات وجود میں آنے، تیار ہونے اور ترقی کرنے میں اس کی محتاج ہیں۔ وہی تمام مخلوقات کا مدبر اور ان میں تصرف کرنے والا ہے۔ جسموں، روحوں اور دلوں کے تمام معاملات اسی کے ہاتھ میں ہیں۔ اس کی قیومت اور رحمت کی بنا پر اس نے اپنے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر وہ کتاب نازل کی، جو سب سے عظیم کتاب ہے، جس کی خبریں اور احکام سب حق ہیں۔ اس نے جو خبریں دی ہیں وہ سچی ہیں۔ جو اس نے حکم دیئے ہیں وہ انصاف پر مبنی ہیں۔ اس نے حق کے ساتھ یہ کتاب اس لئے نازل کی ہے تاکہ بندے اس کتاب کا علم حاصل کریں اور اپنے رب کی عبادت کریں۔ آل عمران
3 ﴿مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ﴾” جو اپنے سے پہلے کی تصدیق کرنے والی ہے“ یعنی گزشتہ کتابوں کی تائید کرتی ہے جس مسئلہ کے حق میں قرآن فیصلہ دے وہی مقبول ہے اور جس کی یہ تردید کرے وہی ناقابل قبول ہے۔ یہ ان تمام مسائل کے مطابق ہے جن پر تمام رسولوں کا اتفاق ہے۔ ان سے اس کا سچا ہونا ثابت ہوتا ہے۔ اہل کتاب جب تک قرآن پر ایمان نہ رکھیں تب تک اپنی کتابوں کو سچا نہیں مان سکتے۔ کیونکہ قرآن کا انکار ان کتابوں پر ایمان کو کالعدم کردیتا ہے۔ ﴿وَأَنزَلَ التَّوْرَاةَ﴾” اس نے (موسیٰ علیہ السلام پر) تورات“ اور عیسیٰ علیہ السلا م پر ﴿وَ الْاِنْجِيْلَ﴾ ” انجیل کو اتارا تھا“ آل عمران
4 ﴿مِن قَبْلُ﴾” اس قرآن کو نازل کرنے سے پہلے“﴿ هُدًى لِّلنَّاسِ﴾لوگوں کو ہدایت کرنے والی بنا کر“ ہدایت کی صفت ان تمام کے لئے ہے یعنی اللہ نے قرآن، تورات اور انجیل کو لوگوں کو گمراہی سے بچانے کے لئے رہنما بنا کرنازل کیا تھا۔ جس نے اللہ کی یہ ہدایت قبول کرلی، وہ ہدایت یافتہ ہوا اور جس نے قبول نہ کیا وہ گمراہ رہا۔ ﴿ وَأَنزَلَ الْفُرْقَانَ﴾” اور اس نے فرقان کو نازل کیا۔“ یعنی دلائل و براہین قاطعہ، جن سے تمام مقاصد و مطالب پایہ ثبوت کو پہنچ جاتے ہیں۔ علاوہ ازیں اس نے مخلوق کی ضرورت کے مطابق تفصیل و تفسیر بیان کی ہے۔ جس سے احکام و مسائل نہایت واضح ہوگئے ہیں۔ لہٰذا کسی کے لئے کوئی عذر باقی نہیں رہا اور اس پر ایمان نہ لانے والے کسی شخص کے پاس کوئی حجت و دلیل باقی نہیں رہی۔ اس لئے فرمایا : ﴿إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِآيَاتِ اللَّـهِ﴾” جو لوگ اللہ کی آیتوں سے کفر کرتے ہیں“ حالانکہ اللہ نے انہیں خوب واضح فرما دیا اور تمام شبہات کو دور فرما دیا ہے۔﴿ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ﴾ ان کے لئے سخت عذاب ہے۔“ جس کی شدت کا اندازہ کرنا ممکن نہیں اور جس کی حقیقت و کیفیت معلوم نہیں ہوسکتی۔ ﴿وَاللَّـهُ عَزِيزٌ﴾” اللہ غالب ہے“ اس پر کوئی غالب نہیں آسکتا اور﴿ذُو انتِقَامٍ ﴾ جو اس کی نافرمانی کرے اس سے ” بدلہ لینے والا ہے۔‘‘ آل عمران
5 ﴿إِنَّ اللَّـهَ لَا يَخْفَىٰ عَلَيْهِ شَيْءٌ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ ﴾” یقیناً اللہ پر زمین و آسمان کی کوئی چیز پوشیدہ نہیں“ یعنی اس کا علم تمام معلومات کو محیط ہے۔ خواہ وہ ظاہر ہوں یا پوشیدہ۔ مثلاً ماؤں کے پیٹوں میں جو بچے ہیں، انہیں مخلوق کی نظریں نہیں دیکھ سکتیں، نہ لوگ ان کے بارے میں جان سکتے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ بڑی باریک بینی سے انہیں سنبھالتا ہے اور ان سے متعلق ہر چیز کا صحیح اندازہ مقرر کرتا ہے۔ اس لئے فرمایا: آل عمران
6 ﴿ هُوَ الَّذِي يُصَوِّرُكُمْ فِي الْأَرْحَامِ كَيْفَ يَشَاءُ﴾” وہ ماں کے پیٹ میں تمہاری صورتیں جس طرح چاہتا ہے بناتا ہے۔“ یعنی کامل جسم والے یا ناقص الخلقت، خوبصورت یا بدصورت، مذکر یا مونث۔ ﴿ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ﴾” اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ وہ غالب ہے حکمت والا ہے“ اس سے اللہ تعالیٰ کا معبود ہونا، ثابت و متعین ہوتا ہے اور نہ صرف اسی کا معبود ہونا بلکہ اس کے سوا پوجے جانے والوں کی الوہیت کا بطلان بھی ثابت ہوتا ہے اور اس سے نصاریٰ کی تردید بھی ہوجاتی ہے۔ جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو معبود سمجھتے ہیں۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ کی حیات کاملہ اور قیومیت نامہ کا اثبات بھی ہے، جن سے تمام صفات مقدسہ کا اثبات ہوتا ہے۔ اس مسئلہ کی تفصیل پہلے گزر چکی ہے۔ اس سے بڑی بڑی شریعتوں کا ثبوت بھی ملتا ہے اور یہ بیان ہے کہ وہ لوگوں کے لئے ہدایت اور رحمت کا باعث تھیں اور یہ کہ لوگوں کی دو قسمیں ہیں۔ ہدایت یافتہ اور ہدایت سے محروم اور ہدایت قبول نہ کرنے والے کی سزا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے علم کی وسعت اور اس کی مشیت اور حکمت کا واقع ہو کر رہنا ثابت ہوتا ہے۔ آل عمران
7 قرآن مجید سب کا سب محکم (پختہ، مضبوط) ہے جیسے اللہ نے فرمایا:﴿ كِتَابٌ أُحْكِمَتْ آيَاتُهُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِن لَّدُنْ حَكِيمٍ خَبِيرٍ﴾ (ھود :11؍ 1) ” یہ ایک ایسی کتاب ہے جس کی آیتیں محکم ہیں۔ پھر صاف صاف بیان کی گئی ہیں ایک حکیم باخبر کی طرف سے“ لہٰذا یہ انتہائی مضبوطی، عدل اور احسان پر مشتمل ہیں۔ ﴿َمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّـهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ يُوقِنُونَ﴾ (المائدہ :5؍ 50) ” یقین رکھنے والے لوگوں کے لئے اللہ سے بہتر فیصلہ کس کا ہوسکتا ہے“ ایک لحاظ سے قرآن سب کا سب متشابہ ہے۔ یعنی یہ حسن و بلاغت کے لحاظ سے ایک دوسرے کی تصدیق کرنے کی بنا پر اور ایک دوسرے سے لفظی اور معنوی مطابقت رکھنے کی وجہ سے ایک دوسرے سے مشابہ ہیں۔ اس آیت میں جس محکم اور متشابہ ہونے کا ذکر کیا گیا ہے۔ تو اللہ کے فرمان کے مطابق ﴿ مِنْهُ آيَاتٌ مُّحْكَمَاتٌ ﴾ یعنی واضح مفہوم کی حامل آیات ہیں۔ جن میں نہ کوئی شبہ ہے نہ اشکال ﴿هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ﴾ یعنی وہ کتاب کی اصل اور بنیادی تعلیمات ہیں۔ ہر متشابہ کو انہی کی روشنی میں سمجھنا چاہئے۔ قرآن کا اکثر حصہ ایسی ہی محکم آیات پر مشتمل ہے۔﴿ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ﴾ ” اور دوسری کچھ متشابہ آیتیں ہیں“ یعنی بعض افراد کے ذہنوں میں ان کا مفہوم ملتبس ہوجاتا ہے۔ لیکن ان کی دلالت مجمل ہے یا بعض لوگ سرسری نظر میں وہ مفہوم سمجھ بیٹھتے ہیں جو اصل میں مراد نہیں۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ قرآن مجید کی بعض آیات واضح ہیں جو آسانی سے ہر شخص کی سمجھ میں آجاتی ہیں۔ یہ بہت زیادہ ہیں۔ کچھ آیتیں ہیں جو بعض لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتیں۔ اس صورت میں متشابہ کو محکم کی روشنی میں اور خفی کو جلی کی مدد سے سمجھنا ضروری ہے۔ اس طریقے سے آیات ایک دوسری کی تائید کرتی نظر آتی ہیں۔ ان میں کوئی اختلاف اور تعارض معلوم نہیں ہوتا۔ لیکن لوگ دو قسموں میں منقسم ہیں ﴿فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ﴾” پس جن کے دلوں میں کجی ہے“ یعنی وہ سیدھے راستے سے ہٹے ہوئے ہیں۔ ان کے ارادے خراب ہیں۔ گمراہی ان کا مقصود بن گئی ہے۔ ان کے دل ہدایت کی راہ سے برگشتہ ہوچکے ہیں۔﴿ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ﴾” وہ اس کی متشابہ آیتوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں“ یعنی محکم اور واضح ارشادات کو چھوڑ کر متشابہ کی طرف چل پڑتے ہیں اور معاملہ کو الٹ طریقے سے لے کر محکم کو متشابہ پر محمول اور واضح ارشادات کو چھوڑ کر متشابہ کی طرف چل پڑتے ہیں اور معاملہ کو الٹ طریقے سے لے کر محکم کو متشابہ پر محمول کرتے ہیں۔ ﴿ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ ﴾” فتنے کی طلب میں“ یعنی ان لوگوں کو فتنے میں مبتلا کرنا چاہتے ہیں جن کو یہ اپنے قول کی طرف بلاتے ہیں۔ متشابہ میں چونکہ اشتباہ موجود ہوتا ہے، اس لئے اس کے ذریعے سے فتنہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ ورنہ محکم اور صریح میں فتنے کی گنجائش نہیں ہوتی۔ کیونکہ جو شخص حق کی پیروی کرنا چاہے اسے محکم میں واضح حق مل جاتا ہے۔ اس کے بعد فرمایا﴿ وَابْتِغَاءَ تَأْوِيلِهِ ۗ وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلَّا اللَّـهُ﴾” اور ان کی مراد کی جستجو کے لئے۔ حالانکہ اس کی حقیقی مراد کو کوئی نہیں جانتا سوائے اللہ کے“ اس آیت میں علماء کے دو قول ہیں۔ اکثر علمائے کرام لفظ اللہ پر وقف کرتے ہیں۔ (موجودہ ترجمہ اسی قول کے مطابق ہے) اور بعض لوگ ﴿وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ﴾ کا عطف بھی اس پر مانتے ہیں۔ (اس صورت میں یہ ترجمہ ہوگا ” حالانکہ اس کی تفسیر کوئی نہیں جانتا سوائے اللہ کے اور پختہ علم والوں کے۔“ یعنی پختہ علم والے بھی جانتے ہیں۔) یہ دونوں تشریحات درست ہوسکتی ہیں۔ کیونکہ اگر تاویل سے مراد کسی شئے کی حقیقت اور کنہ جاننا ہو تو (الا اللہ) پر وقف کرنا ہی درست ہوگا۔ کیونکہ جن اشیاء کی حقیقت کا علم اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس رکھا ہے۔ مثلاً اللہ کی صفات کی حقیقت و کیفیت، آخرت میں پیش آنے والے اوصاف کی حقیقت وغیرہ۔ ان کو تو اللہ کے سوا واقعی کوئی نہیں جانتا۔ اس کو معلوم کرنے کی کوشش کرنا بھی درست نہیں، کیونکہ یہ ایسی چیز کی کوشش ہے جسے جاننا ممکن ہی نہیں۔ امام مالک سے پوچھا گیا : اس آیت کا کیا مطلب ہے﴿ الرَّحْمَـٰنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَىٰ﴾  (طہ :20؍ 5) ” رحمان عرش پر مستوی ہے“ سائل نے کہا :” کس طرح مستوی ہے؟“ امام مالک نے فرمایا (اَلْاسْتَوَاءُ مَعْلُوْمٌ وَالْکَیْفَ مَجْھُوْلٌ وَ الْاِیْمَانُ بِہِ وَاجِبٌ، وَالسُّؤَالُ عَنْہُ بِدْعَۃٍ) ”استواء (قائم ہونا) معلوم ہے (یعنی واضح لفظ ہے جس کی تشریح کی ضرورت نہیں) اس کی کیفیت نامعلوم ہے۔ اس پر ایمان لانا واجب ہے اور اس کے بارے میں سوال کرنا بدعت ہے۔“ اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کے بارے میں یہی طرز عمل اختیار کرنا چاہئے کہ اگر کوئی شخص ان کی کیفیت دریافت کرے تو امام مالک کی طرح کہہ دیا جائے کہ یہ صفت تو معلوم ہے لیکن اس کی کیفیت نامعلوم ہے۔ تاہم اس پر ایمان لانا واجب ہے اور اس کے بارے میں سوال کرنا (کہ یہ صفت کس طرح ہے) بدعت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ صفات بتائی ہیں۔ ان کی کیفیت بیان نہیں فرمائی۔ لہٰذا ہمیں اپنی حد تک آ کر رک جانا چاہئے۔ حد سے تجاوز نہیں کرنا چاہئے۔ گمراہ لوگ ان متشابہ امور کے بارے میں بے فائدہ بحث کرتے ہیں اور اس چیز کے حصول کی ناکام کوشش کرتے ہیں جنہیں معلوم کرنے کا کوئی طریقہ موجود نہیں، کیونکہ انہیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ پختہ کار اہل علم ان پر ایمان لاتے ہیں اور ان کی حقیقت اللہ کے سپرد کرتے ہیں۔ اس طرح (فرمان الٰہی کو) تسلیم کر کے (تکلفات اور غلطیوں سے) محفوظ ہوجاتے ہیں۔ اگر تاویل کا مطلب تفسیر اور وضاحت لیا جائے تو ﴿وَالرَّاسِخُونَ﴾ کا عطف لفظ(اللہ) پر ہوگا۔ (اس صورت میں لفظ (اللہ) پر وقف نہیں ہوگا بلکہ (العلم) پر وقت ہوگا) اس صورت میں آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ متشابہ کو محکم کی روشنی میں سمجھ کر اس کی تفسیر کرنا اور اس کے شبہات دور کرنا یہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے اور پختہ علم والے بھی جانتے ہیں چنانچہ وہ اس پر ایمان لاتے ہیں اور اسے محکم کی طرف پھیر دیتے ہیں اور کہتے ہیں ﴿كُلٌّ مِّنْ عِندِ رَبِّنَا﴾ ” یہ سب ہمارے رب کی طرف سے ہے“ یعنی محکم اور متشابہ سب اللہ کی طرف سے نازل ہوئے ہیں اور اس کی طرف سے آنے والی چیز میں تعارض اور تناقض نہیں ہوسکتا۔ بلکہ یہ ایک دوسرے کی تائید اور تصدیق کرتے ہیں۔ اس سے ایک بڑے اصول کا پتہ چلتا ہے وہ یہ کہ چونکہ وہ جانتے ہیں کہ سب اللہ کی طرف سے ہے۔ تو جب انہیں کسی مجمل طور پر ذکر کئے متشابہ میں اشکال پیدا ہوتا ہے۔ تو انہیں معلوم ہوتا ہے کہ اس کا مفہوم بہرحال محکم کے مطابق ہی ہوگا، اگرچہ ہم سمجھ نہ سکے ہوں۔ چونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے احکام پر ایمان لانے اور تسلیم کرنے کی ترغیب دی ہے اور متشابہ کے پیچھے پڑنے سے منع فرمایا ہے اس لئے فرمایا ﴿وَمَا يَذَّكَّرُ﴾ یعنی اللہ کی نصیحت سے فیض یاب ہونے والے، اس کی نصیحت اور اس کی طرف سے آنے والے علم کو قبول کرنے والے﴿ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ﴾صرف وہ لوگ ہیں جو کامل عقلوں والے ہیں۔ وہی جو ان کا مغز اور بنی آدم کا خلاصہ (اور بہترین حصہ) ہیں۔ نصیحت ان کی عقلوں تک پہنچتی ہے تو انہیں اپنے فائدے کی باتیں معلوم ہوتی ہیں اور وہ اس پر عمل کرلیتے ہیں اور انہیں (اس نصیحت کے ذریعے سے) اپنے نقصان کی باتیں معلوم ہوجاتی ہیں اور وہ ان سے بچ جاتے ہیں۔ دوسرے لوگوں کی سمجھ مغز کے بجائے چھلکے سے مشابہت رکھتی ہے جس سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔ نہ ان سے کوئی نتیجہ حاصل ہوتا ہے۔ ان لوگوں کو نہ تنبیہ اور زجر و توبیخ سے فائدہ حاصل ہوتا ہے، نہ سمجھانے سے کیونکہ ان کے پاس وہ عقل ہی نہیں، جس سے انہیں کوئی فائدہ حاصل ہوسکے۔ آل عمران
8 اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے (رَاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ) ” پختہ کار علما“ کے بارے میں فرمایا ہے کہ وہ دعا کرتے ہوئے کہتے ہیں ﴿رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا ﴾ ” اے ہمارے رب ! ہمیں ہدایت دینے کے بعد ہمارے دل ٹیڑھے نہ کر دے“ یعنی ایسا نہ ہو کہ جہالت یا عناد کی وجہ سے ہم حق سے روگردانی کریں۔ بلکہ ہمیں سیدھی راہ پر چلنے والے، ہدایت دینے والے اور ہدایت پانے والے بنا۔ ہمیں ہدایت پر قائم رکھ اور ہمیں ان (بداعمالیوں) سے محفوظ رکھ، جن میں گمراہ مبتلا ہوچکے ہیں۔ ﴿وَهَبْ لَنَا مِن لَّدُنكَ رَحْمَةً﴾” اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا فرما“ یعنی ہمیں ایسی عظیم رحمت عطا فرما، جس کے ساتھ تو ہمیں نیکیوں کی توفیق اور گناہوں سے ہماری حفاظت فرمائے۔ ﴿إِنَّكَ أَنتَ الْوَهَّابُ﴾ ” یقیناً تو ہی بہت بڑی عطا دینے والا ہے“ یعنی تیرے انعامات و عطیات بے حد وسیع، اور تیرے احسانات بے شمار ہیں تیری سخاوت سے ہر مخلوق بہرہ ور ہوتی ہے۔ آل عمران
9 ﴿ رَبَّنَا إِنَّكَ جَامِعُ النَّاسِ لِيَوْمٍ لَّا رَيْبَ فِيهِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ لَا يُخْلِفُ الْمِيعَادَ﴾” اے ہمارے رب ! تو یقیناً لوگوں کو ایک دن جمع کرنے والا ہے، جس کے آنے میں کوئی شک نہیں۔ یقیناً اللہ وعدہ خلافی نہیں کرتا۔“ لہٰذا وہ ان کی نیکیوں اور گناہوں کا بدلہ ضرور دے گا۔ اللہ تعالیٰ نے (رَاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ) کی سات صفات بیان کی ہیں۔ یہ بندے کی خوش بختی کی علامت ہیں۔ (١) علم : یہ وہ راستہ ہے جو اللہ تک پہنچاتا ہے۔ اس کے احکامات اور قوانین کو واضح کرتا ہے۔ (٢) (رَسْوخٌ فِی الْعِلْمِ)” علم میں پختہ ہونا“ یہ صفت محض علم سے بڑھ کر ہے، اس لئے کہ راسخ ہونے کا تقاضا یہ ہے کہ وہ آدمی محقق و مدقق عالم ہو۔ جس کو اللہ نے ظاہری علم بھی عطا فرمایا ہو اور باطنی علم بھی۔ شریعت کے اسرار میں اس کا علم بھی پختہ ہوتا ہے، عمل بھی درست ہوتا ہے اور حال بھی کامل ہوتا ہے۔ (٣) وہ پوری کتاب پر ایمان رکھتے ہیں اور متشابہ کو محکم کی روشنی میں سمجھتے ہیں۔ اللہ نے فرمایا  ﴿يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِّنْ عِندِ رَبِّنَا﴾” کہتے ہیں ہم تو اس پر ایمان لا چکے۔ یہ سب ہمارے رب کی طرف سے ہے“ (٤) وہ اللہ تعالیٰ سے معافی کے طلب گار ہوتے ہیں اور جن غلطیوں میں گمراہ مبتلا ہوچکے ہیں۔ یہ لوگ ان سے عافیت کا سوال کرتے ہیں۔ (٥) وہ اللہ کا احسان مانتے ہیں کہ اس نے انہیں ہدایت دی۔ کیونکہ کہتے ہیں۔﴿ رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا﴾” اے ہمارے رب ! ہمیں ہدایت دینے کے بعد ہمارے دل ٹیڑھے نہ کرے“ (٦) اس کے ساتھ ساتھ وہ اللہ کی رحمت کا سوال کرتے ہیں۔ جس میں ہر بھلائی کا حصول اور ہر برائی سے بچاؤ شامل ہے۔ اس مقصد کے لئے اللہ کے اسم مبارک ( الْوَهَّابُ) کا وسیلہ اختیار کرتے ہیں۔ (٧) اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ قیامت کے آنے پر ایمان اور پورا یقین رکھتے ہیں اور اس سے ڈرتے ہیں۔ یہی ایمان عمل کرنے پر آمادہ کرتا اور لغزش سے بچا کر رکھتا ہے۔ آل عمران
10 اللہ تعالیٰ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ اس کے ساتھ اور اس کے رسولوں کے ساتھ کفر کرنے والے، اس کے دین اور اس کی کتاب کا انکار کرنے والے، اپنے کفر اور گناہوں کی وجہ سے سزا اور سخت عذاب کے مستحق ہیں۔ وہاں انہیں اپنے مالوں اور اولادوں سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ اگرچہ دنیا میں وہ آنے والی مصیبتوں کا ان کے ذریعہ سے مقابلہ کرلیا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے ﴿نَحْنُ أَكْثَرُ أَمْوَالًا وَأَوْلَادًا وَمَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِينَ﴾(سبا :34؍35) ” ہمارے مال اور ہماری اولاد میں زیادہ ہیں ہمیں عذاب نہیں ہوگا۔“ قیامت کے دن انہیں ایسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑے گا، جس کی انہیں بالکل توقع نہ ہوگی۔ ﴿وَبَدَا لَهُمْ سَيِّئَاتُ مَا كَسَبُوا وَحَاقَ بِهِم مَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ﴾ (الزمر :39؍48) ” ان کے کمائے ہوئے اعمال کا برا انجام ان کے سامنے آجائے گا اور انہیں وہ عذاب گھیر لے گا جس کا وہ مذاق اڑایا کرتے تھے، اللہ کے ہاں مال اور اولاد کی قدر نہیں، بلکہ بندے کو اللہ پر ایمان لانے کا اور نیک اعمال کا فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ جیسے ارشاد ہے : ﴿وَمَا أَمْوَالُكُمْ وَلَا أَوْلَادُكُم بِالَّتِي تُقَرِّبُكُمْ عِندَنَا زُلْفَىٰ إِلَّا مَنْ آمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَأُولَـٰئِكَ لَهُمْ جَزَاءُ الضِّعْفِ بِمَا عَمِلُوا وَهُمْ فِي الْغُرُفَاتِ آمِنُونَ﴾ (سبا :34؍ 37) ” تمہارے مال اور تمہاری اولاد وہ چیز نہیں جو تمہیں ہمارا قرب بخشتی ہیں بلکہ جو ایمان لایا اور اس نے نیک عمل کئے انہی لوگوں کو اپنے اعمال کا دگنا بدلے ملے گا اور وہ بالا خانوں میں امن سے رہیں گے“ اللہ نے بیان فرمایا ہے کہ کافر جہنم کا ایندھن ہیں، یعنی ہمیشہ اس میں رہیں گے۔ یہ قانون کہ کافروں کو ان کے مالوں یا اولادوں سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوسکے گا، گزشتہ امتوں میں بھی اللہ کا یہی قانون جاری رہا ہے۔ فرعون، اس سے پہلے اور اس کے بعد آنے والے سب جابر، سرکش، مالوں اور لشکروں والے، ان سب کے ساتھ یہی ہوا کہ جب انہوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلایا، رسولوں کی لائی ہوئی تعلیمات تسلیم کرنے سے انکار کیا اور ان سے دشمنی کی، اللہ نے ان کے گناہوں کی وجہ سے انہیں پکڑ لیا، یہ اس کا عدل تھا، ظلم نہیں۔ جو کوئی ایسا کام کرے جو سزا کا مستوجب ہے تو اللہ اسے سخت سزا دے دیتا ہے۔ عذاب کا یہ سبب کفر بھی ہوسکتا ہے اور دوسرے گناہ بھی جن کی مختلف قسمیں اور بہت سے مراتب ہیں۔ آل عمران
11 آل عمران
12 اس کے بعد فرمایا ﴿قُل لِّلَّذِينَ كَفَرُوا سَتُغْلَبُونَ وَتُحْشَرُونَ إِلَىٰ جَهَنَّمَ ۚ وَبِئْسَ الْمِهَادُ﴾ ” اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! کافروں سے کہہ دیجئے کہ تم عنقریب مغلوب کئے جاؤ گے اور جہنم کی طرف جمع کئے جاؤ گے اور وہ برا ٹھکانہ ہے۔“ اس میں مومنوں کی مدد اور فتح کا اشارہ ہے اور کافروں کو تنبیہ ہے۔ جیسے اللہ نے فرمایا تھا ویسے ہی ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے دشمنوں یعنی مشرکین، یہود اور نصاریٰ جیسے کافروں کے خلاف مومنوں کی مدد فرمائی۔ قیامت تک وہ اپنے مومن بندوں اور لشکروں کی مدد فرماتا رہے گا۔ اس میں ایک عبرت اور قرآن کی ایسی نشانی ہے جو آنکھوں سے دیکھی جاسکتی ہے۔ آل عمران
13 اللہ نے بتایا کہ کافر دنیا میں مغلوب ہونے کے ساتھ ساتھ قیامت کے دن جمع کر کے جہنم کی طرف ہانک دیئے جائیں گے جو برا ٹھکانہ ہے اور ان کے بداعمال کا برا بدلہ ﴿قَدْ كَانَ لَكُمْ آيَةٌ﴾” یقیناً تمہارے لئے نشانی تھی“ یعنی عظیم عبرت تھی۔﴿ فِي فِئَتَيْنِ الْتَقَتَا﴾ ”ان دو جماعتوں میں جو گتھ گئی تھیں۔“ یہ غزوہ بدر کے موقع پر ہوا۔ ﴿فِئَةٌ تُقَاتِلُ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ ﴾” ایک جماعت اللہ کی راہ میں لڑ رہی تھی۔“ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام تھے۔﴿ وَأُخْرَىٰ كَافِرَةٌ﴾ اور دوسرا گروہ کافروں کا تھا۔“ یعنی کفار قریش جو فخر و تکبر کے ساتھ لوگوں کو دکھانے کے لئے اور اللہ سے روکنے کے لئے آئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے دونوں جماعتوں کو بدر کے میدان میں اکٹھا کردیا۔ مشرکوں کی تعداد مومنوں سے کئی گنا تھی۔ اس لئے فرمایا ﴿يَرَوْنَهُم مِّثْلَيْهِمْ رَأْيَ الْعَيْنِ﴾” وہ انہیں اپنی آنکھوں سے اپنے سے دگنا دیکھتے تھے۔“ یعنی مومن دیکھ رہے تھے کہ کافر تعداد میں ان سے بہت زیادہ ہیں۔ یہ اضافہ دگنے سے زیادہ تھا۔ (یعنی کفار کی تعداد تین گنا سے زائد تھی) اللہ نے مومنوں کی مدد کی تو انہوں نے کفار کو شکست دی، ان کے سرداروں کو تہ تیغ کیا اور بہت سے افراد کو قید کرلیا۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ جو کوئی اللہ کے دین کی مدد کرتا ہے، اللہ اس کی مدد کرتا ہے اور جو کفر کرتا ہے اللہ اسے چھوڑ دیتا ہے۔ اس میں آنکھوں والوں کے لئے عبرت ہے۔ یعنی جن کی بصیرت اور عقل کامل ہے، جس کی وجہ سے وہ دیکھ رہے ہیں کہ جس جماعت کی مدد کی گئی ہے وہی اہل حق ہیں اور دوسرے باطل پر ہیں۔ ورنہ محض ظاہری اسباب، سامان اور تعداد پر نظر رکھنے والا یہی فیصلہ کرسکتا ہے کہ اس چھوٹی سی جماعت کا اتنی بڑی جماعت پر فتح پانا بالکل محال اور ناممکن ہے۔ لیکن بصارت سے نظر آنے والے ان اسباب کے پیچھے ایک عظیم ترسبب بھی ہے۔ جسے بصیرت، ایمان اور توکل علی اللہ کی نظر ہی دیکھ سکتی ہے اور وہ سبب ہے اللہ کا اپنے مومن بندوں کو تقویت بخشنا اور اپنے کافر دشمنوں کے خلاف ان کی مدد کرنا۔ آل عمران
14 اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس نے لوگوں کے لئے دنیوی مرغوب چیزوں کی محبت مزین کردی ہے۔ ان میں سے مذکورہ بالا اشیاء کو خاص طور پر ذکر کیا ہے کہ دنیا کی مرغوب چیزوں میں سے یہ سب سے بڑھ کر ہیں۔ باقی سب ان کے تابع ہیں۔ جیسے ارشاد ہے ﴿إِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَى الْأَرْضِ زِينَةً لَّهَا لِنَبْلُوَهُمْ أَيُّهُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا  ﴾(الکھف :18؍ 7)” ہم نے زمین پر جو کچھ ہے اسے زمین کی زینت بنایا ہے“ چونکہ یہ چیزیں مزین کردی گئیں ہیں اور ان میں دلوں کو مائل کرنے کا وصف ہے۔ اس لئے لوگوں کے دل ان کی طرف مائل ہوگئے اور عملی طور پر لوگوں کی دو قسمیں ہوگئیں۔ ایک قسم کے لوگ وہ ہیں جنہوں نے انہی مادی اشیاء کو اپنا مقصود بنا لیا، ان کی سوچیں، ان کے خیالات، ان کے ظاہری اور باطنی اعمال اسی کے لئے خاص ہو کر رہ گئے۔ اسی دنیوی مال و متاع میں مشغول ہو کر وہ اپنی تخلیق کے مقصد کو بھول گئے۔ دنیا سے ان کا وہ تعلق رہا جو چرنے والے مویشیوں کا ہوتا ہے۔ وہ اس کی لذتوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ یہ پروا نہیں کرتے کہ انہوں نے یہ کیسے حاصل کی اور کہاں خرچ کی۔ دنیا ان کے لئے مشقت و عذاب کے مقام (جہنم) کی طرف لے جانے والے سفر کا سامان بن جاتی ہے۔ دوسری قسم کے لوگ وہ ہیں جنہوں نے اس کا اصل مقصود سمجھ لیا کہ اسے تو اللہ نے بندوں کے لئے آزمائش کا ذریعہ بنایا ہے تاکہ یہ ظاہر ہوجائے کہ کون اپنی خواہش نفس اور دنیوی لذت پر اللہ کی اطاعت اور رضا کو ترجیح دیتا ہے۔ چنانچہ انہوں نے دنیا کو آخرت کے حصول کا ذریعہ بنا لیا۔ وہ اس سے فائدہ تو اٹھاتے ہیں، لیکن اس طرح کہ وہ اللہ کی رضا کے حصول میں مددگار ثابت ہو۔ ان کے بدن تو اس کے ساتھ ہوتے ہیں، لیکن دل اس سے دور ہوتے ہیں، انہیں معلوم ہے کہ اس کی حقیقت وہی ہے جو اللہ نے ان الفاظ میں بیان فرمائی﴿ ذَٰلِكَ مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا﴾” یہ تو دنیا کی زندگی کا مال و متاع ہے“ انہوں نے اسے آخرت تک پہنچنے کا ذریعہ سمجھا۔ آل عمران
15 اسے ایک بازار جانا جس میں انہیں اخروی نفع عظیم کی امید ہے۔ ان کے لئے دنیا آخرت کے سفر کے لئے زاد راہ بن گئی۔ علاوہ ازیں اس آیت میں ان ناداروں کو تسلی دی گئی ہے، جو اپنی ایسی خواہشات پوری نہیں کرسکتے جو دولت مند پوری کرسکتے ہیں اور اس کے دھوکے میں گرفتار ہوجانے والوں کو تنبیہ ہے اور روشن عقل والوں کو اس کی محبت سے روکا گیا ہے۔ یہ موضوع اس طرح مکمل ہوا ہے کہ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے دارلقرار (ہمیشہ رہنے والا گھر) اور نیک متقیوں کا انجام بیان فرمایا ہے اور بتایا ہے کہ یہ اخروی نعمتیں ان مذکورہ (دنیوی) اشیاء سے بہتر ہیں۔ یعنی بلند و بالا درختوں کے باغات، جن میں نفیس محلات، اور اونچے اونچے بالا خانے ہیں، طرح طرح کے پھلوں سے لدے ہوئے پھل دار درخت ہیں، ان کی مرضی کے مطابق چلنے والی نہریں ہیں، ہر ظاہری و باطنی عیب و نجاست سے پاک بیویاں ہیں، اور ان تمام نعمتوں کے ساتھ ہمیشہ کی زندگی، یہ نعمتوں کی انتہا ہے اور پھر اللہ کی خوشنودی جس سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں۔ ذرا اس شان دار جہان کا اس حقیر جہان سے مقابلہ و موازنہ تو کیجیے۔ پھر اپنے لئے بہتر متبادل کا انتخاب کرلیجیے۔ اپنے دل کو ان دونوں کا فرق سمجھا ئیے۔ ﴿وَاللَّـهُ بَصِيرٌ بِالْعِبَادِ﴾” سب بندے اللہ کی نگاہ میں ہیں۔“ وہ ان کے تمام اچھے اور برے اوصاف سے باخبر ہے۔ اسے معلوم ہے کہ ان کے حالات کے مطابق کون سا نتیجہ ان کے لائق ہے۔ وہ جسے چاہتا ہے توفیق دے دیتا ہے۔ آل عمران
16 وہ جنت جس کا اللہ نے ذکر فرمایا ہے، اور اس کی کامل صفات بیان فرمائی ہیں وہ بھی انہیں ملے گی جو اس کے مستحق ہیں۔ یعنی جنہوں نے اللہ سے ڈرتے ہوئے حکموں کی تعمیل کی، اور ممنوع کاموں سے پرہیز کیا اور اپنی دعاؤں میں کہا ﴿ إِنَّنَا آمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ﴾” اے ہمارے رب ! ہم ایمان لا چکے۔ اس لئے ہمارے گناہ معاف فرما اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔“ انہوں نے اللہ کے اس احسان کا ذکر کیا کہ اس نے انہیں ایمان کی توفیق دی ہے اور اس کے وسیلے سے یہ دعا کی کہ وہ ان کے گناہ معاف کر دے اور گناہوں کے برے اثرات و نتائج یعنی جہنم کے عذاب سے محفوظ فرما دے۔ آل عمران
17 اس کے بعد تقویٰ کے اوصاف تفصیل سے بیان کئے اور فرمایا : ﴿الصَّابِرِينَ﴾ ” صبر کرنے والے“ جو اپنے آپ کو اللہ کے پیارے کاموں اور اس کی اطاعت کے اعمال پر قائم رکھتے ہیں، اس کی نافرمانی کے کاموں سے پرہیز کرتے ہوئے، صبر و استقامت کا مظاہرہ کرتے ہیں، اور اللہ کی تقدیر کے مطابق پیش آنے والے مصائب و مشکلات پر بھی صبر کرتے ہیں۔﴿  وَالصَّادِقِينَ﴾ ” اور سچ بولنے والے“ جو اپنے ایمان میں، اقوال میں اور احوال میں راست باز اور سچے ہیں۔ ﴿ وَالْمُنفِقِينَ﴾” اور خرچ کرنے والے“ جو کچھ اللہ نے انہیں دیا ہے اس میں سے مختلف انداز سے ضرورت مند افراد کو دیتے ہیں خواہ وہ رشتہ دار ہوں یا اجنبی﴿وَالْمُسْتَغْفِرِينَ بِالْأَسْحَارِ ﴾ ” اور پچھلی رات بخشش مانگنے والے“ اللہ تعالیٰ نے ان کی اچھی صفات میں یہ بھی بیان کیا ہے کہ وہ اپنے آپ کو معمولی سمجھتے ہیں۔ اپنے آپ کو اعلیٰ مقام پر فائز نہیں سمجھتے۔ بلکہ خود کو گناہ گار اور کوتاہی کرنے والے سمجھتے ہیں۔ اس لئے رب سے مغفرت کی درخواست کرتے ہیں اور اس مقصد کے لئے ایسا وقت منتخب کرتے ہیں جب قبولیت کی امید زیادہ ہو اور وہ صبح صادق کا وقت ہے۔ حسن (بصری) فرماتے ہیں : اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ نماز اتنی لمبی کرتے ہیں کہ سحر ہوجاتی ہے۔ پھر بیٹھ کر رب سے استغفار اور دعائے مغفرت کرنے لگتے ہیں۔ ان آیات میں یہ مسائل بیان ہوئے ہیں۔ دنیا میں لوگوں کی حالت، دنیا ختم ہونے والا مال و متاع ہے۔ جنت کا بیان، اس کی نعمتیں، آخرت کا دنیا سے افضل ہونا، جس میں یہ ارشاد ہے کہ آخرت کو ترجیح دینا، اور آخرت کے لئے کام کرنا چاہئے۔ اہل جنت یعنی متقیوں کی صفات، تقویٰ پر مشتمل اعمال کا تفصیلی بیان۔ ان کی روشنی میں ہر شخص اپنا فیصلہ خود کرسکتا ہے کہ وہ جنتی ہے یا جہنمی؟ آل عمران
18 ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے توحید کا پختہ ترین ثبوت پیش کیا ہے، وہ ہے اللہ عزو جل کی اپنی گواہی اور اس کی مخلوق میں سے معزز ترین افراد یعنی فرشتوں اور علماء کی گواہی۔ اللہ تعالیٰ کی گواہی یہ ہے کہ اس نے توحید پر دلائل و براہین قاطعہ قائم فرمائے ہیں۔ آفاق وانفس کے دلائل اس عظیم اصول پر قائم ہیں۔ اللہ کا جو بندہ بھی توحید کا علم لے کر کھڑا ہوا۔ اللہ نے ہمیشہ توحید کے منکروں اور مشرکوں کے خلاف اس کی مدد کی ہے۔ بندوں کو جو بھی نعمت حاصل ہے وہ اسی کی طرف سے ہے۔ مشکلات کو اس کے سوا کوئی دور نہیں کرسکتا۔ مخلوق کے تمام افراد عاجز ہیں جو نہ اپنے آپ کو نفع پہنچا سکتے ہیں نہ نقصان سے بچا سکتے ہیں، نہ کسی اور کے نفع نقصان پر اختیار رکھتے ہیں۔ یہ زبردست دلیل ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ صرف ایک اللہ کی عبادت کرنا واجب ہے اور اس کی عبادت میں کسی کو شریک کرنا باطل ہے۔ فرشتوں کی گواہی کا علم ہمیں اللہ کے بتانے سے اور اس کے رسولوں کے بتانے سے ہوا ہے۔ اہل علم کی گواہی اس لئے معتبر ہے کہ تمام دینی امور میں انہی سے رجوع کیا جاتا ہے۔ خصوصاً سب سے عظیم، سب سے زیادہ جلالت و شرف والے مسئلہ یعنی توحید کے مسئلہ میں۔ علماء کا اول سے آخر تک اس پر اتفاق ہے، انہوں نے لوگوں کو اس کی طرف دعوت دی ہے اور توحید تک پہنچنے کے راستے بتائے ہیں۔ لہٰذا مخلوق پر واجب ہے کہ اتنی عظیم گواہیوں والے حکم کو تسلیم کریں اور اس پر عمل کریں۔ اس سے بھی یہ ثابت ہوا کہ سب سے زیادہ شرف والا کام توحید کو جاننا ہے۔ لہٰذا اس کی گواہی اللہ نے خود دی ہے اور اپنی مخلوق میں سے عظیم ترین افراد کو اس کا گواہ بنایا ہے۔ شہادت (گواہی) علم و یقین کی بنیاد ہی پر دی جاسکتی ہے، جو آنکھ سے مشاہدہ کے برابر ہو۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو شخص توحید کے معاملہ میں اس مقام تک نہیں پہنچتا وہ اہل علم میں شامل نہیں۔ اس آیت میں علم کے شرف و منزلت کے بہت سے دلائل ہیں۔ (١) اللہ تعالیٰ نے تمام لوگوں میں سے انبیاء کو منتخب کر کے اس عظیم ترین مسئلہ پر شہادت دینے کے لئے مقرر کیا۔ (٢) اللہ نے ان کی گواہی کو اپنی گواہی اور فرشتوں کی گواہی کے ساتھ ملا کر ذکر فرمایا اور یہ بہت بڑی فضیلت ہے۔ (٣) اللہ نے انہیں ” علم والے“ فرمایا۔ ان کی اضافت علم کی طرف کی۔ کیونکہ وہی اسے لے کر اٹھنے والے اور اس صفت سے متصف ہیں۔ (٤) اللہ تعالیٰ نے انہیں لوگوں پر شاہد اور حجت قرار دیا اور جس چیز کی انہوں نے گواہی دی تھی، لوگوں کو اس پر عمل کرنے کا حکم دیا۔ اس طرح وہ اس کا سبب بنے اور اس کے مطابق ہونے والے ہر عمل کا ثواب انہیں پہنچے گا۔ یہ اللہ کا فضل ہے، جسے چاہتا ہے عنایت فرماتا ہے۔ (٥) اللہ تعالیٰ نے اہل علم کو گواہ بنایا ہے اس سے ان کا سچا اور قابل اعتماد ہونا ثابت ہوتا ہے اور یہ کہ اللہ نے انہیں جس چیز کا محافظ بنایا ہے، وہ اس معاملے میں دیانت دار ہیں۔ اپنی توحید کے اثبات کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنا عدل ثابت فرمایا ہے۔ ارشاد ہے﴿ قَائِمًا بِالْقِسْطِ﴾ ” عدل کے ساتھ قائم“ یعنی اللہ تعالیٰ اپنے افعال میں، اور بندوں کے معاملات کے فیصلے کرنے میں ازل سے انصاف کے ساتھ متصف ہے۔ امرو نہی میں بھی اس کا راستہ ” صراط مستقیم“ ہے خلق و تقدیر میں بھی اس کے بعد پھر توحید کی تاکید فرمائی اور فرمایا﴿  لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ﴾” اس غالب اور حکمت والے کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ “ بنیادی مسئلہ کہ اللہ کی توحید کو تسلیم کیا جائے اور صرف اسی کی عبادت کی جائے، اس کے اتنے زیادہ نقلی اور عقلی دلائل موجود ہیں کہ صاحب بصیرت حضرات کے ہاں یہ سورج سے بھی زیادہ واضح ہوگیا ہے۔ نقلی دلائل میں قرآن و حدیث کی وہ تمام نصوص شامل ہیں جن میں اس کا حکم دیا گیا ہے، اس کی تائید کی گئی ہے، اہل توحید سے محبت، اور منکرین توحید سے نفرت اور ان کی عقوبت مذکور ہے اور شرک و اہل شرک کی مذمت ہے۔ یہ سب توحید کے نقلی دلائل ہیں۔ قرآن تقریباً تمام ہی توحید کے دلائل پر مشتمل ہے۔ عقلی دلائل جنہیں غور و فکر کے ذریعے سمجھا جاسکتا ہے، قرآن نے ان کی طرف بھی رہنمائی فرمائی ہے اور بہت سے دلائل کی طرف توجہ دلائی ہے۔ سب سے بڑی عقلی دلیل اللہ کی ربوبیت کا اعتراف ہے۔ جو شخص یہ جانتا ہے کہ اللہ ہی خالق، رازق، تمام معاملات میں مختار کل ہے۔ وہ لازماً اس نتیجے تک پہنچتا ہے کہ معبود بھی اللہ ہی ہے، اس کے سوا کسی کی عبادت درست نہیں۔ چونکہ یہ واضح ترین اور عظیم ترین دلیل ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں کثرت کے ساتھ اس سے استدلال کیا ہے۔ صرف اللہ کے مستحق عبادت ہونے کی ایک اور عقلی دلیل یہ ہے کہ نعمتیں دینے والا مصیبتیں دور کرنے والا صرف وہی ہے۔ جس شخص کو یہ یقین ہے کہ ظاہری، باطنی، چھوٹی، بڑی، قلیل اور کثیر تمام نعمتیں اللہ کی طرف سے ہیں اور ہر مصیبت، سختی، تکلیف اور پریشانی کو صرف وہی دور کرسکتا ہے اور مخلوق میں سے کوئی فرد کسی کے لئے تو درکنار، اپنے لئے بھی حصول نعمت اور دفع مضرت کا مالک نہیں، اسے ضروریہ یقین ہوگا کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت کرنا سب سے بڑا باطل ہے اور عبودیت اسی کا حق ہے جو اکیلا ہی نعمتیں دینے والا اور مصیبتیں ٹالنے والا ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب پر اس دلیل کو بہت ہی زیادہ ذکر فرمایا ہے۔ ایک عقلی دلیل یہ بھی ہے جو اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمائی ہے کہ اللہ کے سوا جن معبودوں کی عبادت کی جاتی ہے وہ نہ نفع کے مالک ہیں نہ نقصان کے۔ وہ نہ اپنی مدد کرسکتے ہیں نہ کسی اور کی۔ اور فرمایا ہے کہ وہ سماعت و بصارت سے محروم ہیں اور اگر فرض کرلیا جائے کہ سنتے ہیں تو کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچا سکتے۔ ان کی دوسری صفات بھی انہیں انتہائی ناقص ثابت کرتی ہیں۔ ان کی یہ حقیقت بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے اپنی عظیم صفات اور افعال جمیلہ کا ذکر فرمایا ہے اور قدرت وغلبہ وغیرہ صفات ذکر کی ہیں جو سمعی اور عقلی دلائل سے معلوم ہوتی ہیں جو اس چیز کو کما حقہ سمجھ لے گا (کہ غیر اللہ مجبور ہیں اور اللہ تعالیٰ عظیم صفات، قوت غلبہ وغیرہ کا حامل ہے) اسے معلوم ہوجائے گا کہ عبادت کے لائق صرف رب عظیم ہے، جسے ہر لحاظ سے کمال، ہر قسم کی عظمت، تمام تعریف، ہر ایک قدرت، اور تمام تر کبریائی حاصل ہے۔ وہ عبادت کے لائق نہیں جو پیدا کئے گئے ہیں، جن کے فصلے کوئی اور کرتا ہے، جو ناقص ہیں، بہرے اور گونگے ہیں اور عقل و فہم سے محروم ہیں۔ ایک اور عقلی دلیل، جو اللہ کے بندے زمانہ قدیم میں بھی اور زمانہ جدید میں بھی اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں وہ اہل توحید کی عزت افزائی اور اہل شرک کی رسوائی اور عقوبت ہے۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ اللہ نے توحید کو دین و دنیا کی ہر بھلائی کے حصول اور ہر سحر سے بچاؤ کا ذریعہ بنایا ہے اور شرک و کفر کو تمام دینی و دنیاوی سزاؤں کا سبب قرار دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سب رسولوں کے واقعات بیان فرمائے جو انہیں اطاعت کرنے والوں اور نافرمانی کرنے والوں کے ساتھ پیش آئے، نافرمانوں کی سزائیں ذکر کیں، رسولوں اور ان کے پیروکاروں کی نجات کا ذکر فرمایا، تو ہر واقعہ کے بعد فرمایا ﴿  إِنَّ فِي ذٰلِكَ لَآيَةً ﴾(الشعراء :26؍8) ” بے شک اس میں نشانی ہے“ یعنی عبرت ہے جس سے لوگ نصیحت حاصل کرسکتے ہیں اور سمجھ سکتے ہیں کہ توحید ہی نجات کا باعث ہے اور اسے چھوڑنا تباہی کا باعث ہے۔ یہ بڑے بڑے عقلی اور نقلی دلائل ہیں جن سے یہ عظیم اصول ثابت ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اسے بار بار مختلف انداز سے بیان کیا ہے تاکہ حق واضح ہوجائے۔ پھر جو چاہے اسے قبول کر کے نجات پا لے اور جو چاہے انکار کر کے تباہی کا نشانہ بن جائے۔ وللہ الحمد آل عمران
19 جب یہ ثابت ہوگیا کہ معبود برحق صرف اللہ ہی ہے، تب یہ بتایا کہ کس طرح عبادت کرنا اور کس دین کو قبول کرنا ضروری ہے۔ وہ دین اسلام ہے ” اسلام“ کا مطلب ” سرتسلیم خم کرنا“ ہے، یعنی اللہ کی توحید اور اطاعت جس کی دعوت اس کے رسولوں نے دی، جس کی ترغیب اس کی کتابوں نے دی۔ اس کے سوا کوئی دین قبول نہیں، اس میں یہ بھی شامل ہے کہ محبت، خوف، امید، انابت اور دعا خالصتاً اس کے لئے ہو اور اس مقصد کیلئے اس کے رسول کی پیروی کی جائے۔ یہی تمام رسولوں کا دین ہے۔ جو ان کی پیروی کرے گا، وہ انکے راستے پر ہوگا۔ اہل کتاب کو ان کی کتابیں متحد ہو کر اللہ کے دین پر عمل کرنے کا حکم دیتی تھیں۔ انہوں نے ان کی کتابوں کے آنے کے بعد ظلم و زیادتی کرتے ہوئے آپس میں اختلاف کیا۔ ورنہ ان کے پاس اختلاف سے بچ کر حق کی راہ اختیار کرنے کا سب سے بڑا سبب موجود تھا۔ اسے پس پشت ڈال دینا ان کا کفر تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿وَمَا اخْتَلَفَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ إِلَّا مِن بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ ۗ وَمَن يَكْفُرْ بِآيَاتِ اللَّـهِ فَإِنَّ اللَّـهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ﴾  ” اور اہل کتاب نے اپنے پاس علم آجانے کے بعد آپس کی سرکشی اور حسد کی بنا پر ہی اختلاف کیا ہے اور اللہ کی آیتوں کے ساتھ جو بھی کفر کرے۔ اللہ اس کا جلد حساب لینے والا ہے“ پھر وہ ہر عمل کرنے والے کو اس کے عمل کا بدلہ دے گا۔ بالخصوص جس نے حق کو پہچان کر ترک کیا، یہ سخت وعید اور عذاب الیم کا مستحق ہے۔ آل عمران
20 اس کے بعد اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ عیسائی اور دیگر جو لوگ اسلام پر دوسرے مذاہب کو فوقیت دیتے ہیں ان سے بحث کرتے ہوئے انہیں فرما دیں کہ ﴿ أَسْلَمْتُ وَجْهِيَ لِلَّـهِ وَمَنِ اتَّبَعَنِ﴾” میں نے اور میرے تابع داروں نے اللہ کی اطاعت میں اپنا چہرہ مطیع کردیا“ یعنی میں نے اور میرے پیروکاروں نے اقرار کیا ہے، گواہی دی ہے اور اپنے مالک کے سامنے سر جھکا دیے ہیں۔ ہم نے اسلام کے سوا دوسرے تمام مذاہب کو چھوڑ دیا ہے، ہمیں ان کے باطل ہونے پر یقین حاصل ہے۔ یہ کہہ کر آپ ان لوگوں کو مایوس کردیں جن کو تمہارے بارے میں کوئی ہے (کہ شاید اسلام چھوڑ کر ہمارا دین اختیار کرلیں) اور شبہات پیش آنے پر اس طرح تمہارے دین کی تجدید ہوجائے گی اور جو شبہات کا شکار ہے اس کے خلاف حجت قائم ہوجائے گی۔ کیونکہ پہلے بیان ہوچکا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اہل علم بندوں کو توحید کی دلیل اور گواہ کے طور پر پیش کیا ہے۔ تاکہ وہ دوسروں کے خلاف حجت بن جائیں، اہل علم کے سردار، سب سے افضل اور سب سے بڑے عالم ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ اس کے بعد آپ کے متبعین درجہ بدرجہ عالم ہیں۔ انہیں وہ صحیح علم اور کامل عقل حاصل ہے کہ کسی اور کو ان کے برابر تو کیا، قریب تر بھی حاصل نہیں۔ جب اللہ کی توحید اور اس کے دین کی حقانیت واضح دلیلوں سے ثابت ہوچکی ہے، مخلوقات میں سے کامل ترین اور عالم ترین شخصیت نے انہیں مانا اور پیش کیا، تو اس سے یقین حاصل ہوگیا اور ہر شک و شبہ دور ہوگیا اور معلوم ہوگیا کہ اس کے سواہر مذہب باطل ہے۔ اس لئے فرمایا﴿ وَقُل لِّلَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ وَالْأُمِّيِّينَ﴾” اہل کتاب سے (یعنی نصاریٰ اور یہود سے۔) اور ان پڑھ لوگوں سے (یعنی عرب و عجم کے مشرکین سے) کہہ دیجئے“﴿ أَأَسْلَمْتُمْ ۚ فَإِنْ أَسْلَمُوا﴾” کیا تم بھی اطاعت اختیار کرتے ہو پھر اگر یہ بھی تابع دار بن جائیں“۔ اور تمہاری طرح ایمان لے آئیں﴿  فَقَدِ اهْتَدَوا ۖ﴾” تو وہ یقیناً ہدایت پانے والے ہیں۔“ جس طرح تم ہدایت یافتہ ہو۔ اس صورت میں وہ تمہارے بھائی بن جائیں گے۔ ان کو وہی حقوق حاصل ہوں گے جو تمہیں حاصل ہیں اور ان کے وہی فرائض ہوں گے، جو تمہارے ہیں ﴿وَّإِن تَوَلَّوْا﴾” اور اگر یہ روگردانی کریں“ اور اسلام قبول نہ کریں اور اسلام کے مخلاف مذاہب پر قائم رہیں۔﴿ فَإِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلَاغُ ۗ ﴾” تو آپ پر صرف پہنچا دینا ہے“ آپ کو آپ کا رب ضرور اجر و ثواب دے گا۔ مخالف پر حجت قائم ہوچکی۔ اس کے بعد صرف یہی چیز باقی رہ گئی ہے کہ وہ انہیں ان کے جرم کی سزا دے۔ اس لئے فرمایا ﴿ وَاللَّـهُ بَصِيرٌ بِالْعِبَادِ﴾” اور اللہ بندوں کو دیکھ رہا ہے“ آل عمران
21 ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے جن لوگوں کی خبر دی ہے، عظیم ترین جرائم کے مرتکب ہیں۔ اس سے بڑا جرم کیا ہوسکتا ہے کہ اللہ کی ان آیات کا انکار کیا جائے جو اس حق کا قطعی ثبوت پیش کرتی ہیں، جس کا انکار کرنے والا انتہائی درجے کے کفر و عناد میں مبتلا ہے۔ وہ اللہ کے نبیوں کو قتل کرتے ہیں جن کا حق اللہ کے حق کے بعد سب سے بڑا ہے، جن کی اطاعت کرنا، ان پر ایمان لانا، ان کا احترام کرنا اور ان کی مدد کرنا، اللہ نے فرض قرار دیا ہے۔ لیکن انہوں نے اس کے بالکل برعکس عمل کیا۔ وہ انصاف کا حکم دینے والوں کو بھی قتل کرتے ہیں۔ انصاف سے مراد نیکی کا حکم دینا اور برائی سے منع کرنا ہے جو احسان اور خیر خواہی ہے ان لوگوں کی، جنہیں اچھی بات بتائی جاتی ہے یا بری بات سے منع کیا جاتا ہے۔ لیکن انہوں نے اس احسان اور خیر خواہی کا انتہائی برا جواب دیا کہ اپنے محسنوں کو شہید کردیا۔ ان شنیع جرائم کی وجہ سے وہ انتہائی سخت عذاب کے مستحق ہوگئے۔ یعنی ایسا شدید اور درد ناک عذاب جس کو پوری طرح بیان کرنا، اور اس کی شدت کا اندازہ کرنا ناممکن ہے۔ جس کی تکلیف بدنوں، دلوں اور روحوں کے لئے ہے۔ ان کی بداعمالیوں کی وجہ سے ان کی نیکیاں ضائع ہوگئیں۔ انہیں کوئی اللہ کے عذاب سے نہیں بچا سکتا، بلکہ اللہ کی دی ہوئی سزا میں کوئی ذرہ برابر کمی نہیں کرسکتا۔ یہ لوگ ہر خیر سے مایوس ہیں۔ انہیں ہر شر اور مصیبت حاصل ہوگی۔ یہ حالت یہود کی، اور ان جیسے دوسرے لوگوں کی ہے۔ اللہ ان کا برا کرے۔ یہ اللہ پر، نبیوں پر اور نیک لوگوں پر کتنے جری ہیں ! آل عمران
22 آل عمران
23 اللہ تعالیٰ اہل کتاب کی حالت بیان فرما رہا ہے جن پر انعام کرتے ہوئے اللہ نے انہیں اپنی کتاب دی۔ ان کا فرض تھا کہ سب سے زیادہ وہ اس پر قائم رہتے اور سب سے پہلے وہ اس کے احکام کو تسلیم کرتے، لیکن اللہ تعالیٰ ان کے بارے میں بتا رہا ہے کہ انہیں جب کتاب کے فیصلے (کو قبول کرنے) کی طرف بلایا جاتا ہے تو ان میں سے کچھ لوگ منہ پھیر کر چلے جاتے ہیں۔ اپنے بدنوں کے ساتھ بھی منہ پھیرتے ہیں اور دلوں کے ساتھ بھی انکار کرتے ہیں۔ یہ انتہائی قابل مذمت رویہ ہے۔ اس میں ہمارے لئے تنبیہ ہے کہ ان جیسا کام نہ کریں، ورنہ ہم بھی اس مذمت کے مستحق ہوں گے اور ہمیں بھی ان جیسی سزا مل سکتی ہے۔ بلکہ جس کو اللہ کی کتاب کی طرف بلایا جائے اس کا فرض ہے کہ سنے، اطاعت کرے، اور دل سے تسلیم کرے، جیسے اللہ نے فرمایا ﴿ إِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِينَ إِذَا دُعُوا إِلَى اللَّـهِ وَرَسُولِهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ أَن يَقُولُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا ۚ ﴾ (النور : 24؍ 51) ” مومنوں کو جب اللہ کی طرف اور اس کے رسول کی طرف بلایا جاتا ہے تاکہ وہ ان کے درمیان فیصلہ کر دے، تو وہ صرف یہی کہتے ہیں : ہم نے سنا اور ہم نے مان لیا“ اہل کتاب کو جو دھوکا لگا ہے جس کی وجہ سے وہ اللہ کی نافرمانی کی جرأت کرتے ہیں، آل عمران
24 وہ یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں ﴿لَن تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّامًا مَّعْدُودَاتٍ ۖ وَغَرَّهُمْ فِي دِينِهِم مَّا كَانُوا يَفْتَرُونَ﴾” ہمیں تو آگ گنے چنے دن کے لئے ہی جلائے گی اور ان کی گھڑی ہوئی باتوں نے ان کو ان کے دین کے بارے میں دھوکے میں ڈال دیا۔“ انہوں نے اپنے پاس سے ایک بات بنا کر اس کو حقیقت سمجھ لیا اور اس پر عمل کرنے لگے اور گناہوں سے اجتناب نہیں کرتے۔ کیونکہ ان کے دلوں نے ان کو یہ دھوکا دے رکھا ہے کہ وہ جنت میں جائیں گے۔ ان کی یہ بات سرا سر جھوٹ اور کذب بیانی ہے۔ ان کا انجام تو بہت برا اور انتہائی اندوہناک ہونے والا ہے۔ آل عمران
25 اس لئے اللہ نے فرمایا : ﴿فَكَيْفَ إِذَا جَمَعْنَاهُمْ لِيَوْمٍ لَّا رَيْبَ فِيهِ﴾” پس کیا حال ہوگا، جب ہم انہیں اس دن جمع کریں گے۔ جس کے آنے میں کوئی شک نہیں۔“ ان کا حال اتنا برا ہوگا کہ اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ وہ دن کمائی کا پورا پورا بدلہ ملنے کا دن ہے اور یہ بدلہ انصاف کے ساتھ ملے گا، جس میں ظلم بالکل شامل نہیں ہوگا اور یہ بات یقینی ہے کہ یہ نتیجہ اعمال کے مطابق ہوگا اور ان کے اعمال ایسے ہیں جو انہیں شدید ترین عذاب کا مستحق ثابت کرتے ہیں۔ آل عمران
26 اللہ تعالیٰ اپنے نبی سے فرماتا ہے کہ کہہ دیجیے﴿اللَّـهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ﴾” اے اللہ ! بادشاہی کے مالک“ یعنی تو بادشاہ ہے جو تمام ملکوں کا مالک ہے۔ بادشاہ کی صفت علی الاطلاق تیرے لئے ہے اور آسمان کی اور زمین کی تمام سلطنت تیری ہی ہے۔ اس میں تبدیلیاں لانا اور انتظام کرنا سب تیرے ہاتھ میں ہے۔ پھر چند تبدیلیاں ذکر کی ہیں جو اکیلے باری تعالیٰ کے اختیار میں ہیں۔ فرمایا﴿ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَن تَشَاءُ وَتَنزِعُ الْمُلْكَ مِمَّن تَشَاءُ﴾” تو جسے چاہے بادشاہی دے اور جس سے چاہے سلطنت چھین لے“ اس میں اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ایران کے کسریٰ بادشاہوں سے، اور روم کے قیصر بادشاہوں سے اور ان کے پیرو کاروں سے حکومت چھین کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا فرمائے گا۔ چنانچہ ایسے ہی ہوا۔ واللہ الحمد۔ لہٰذا حکومت کا مل جانا یا چھن جانا اللہ کی مشیت سے ہوتا ہے۔ یہ فرمان اللہ کی اس سنت کے خلاف نہیں جو اس نے کچھ تکوینی اور دینی اسباب قائم کر رکھے ہیں جن کی وجہ سے حکومت باقی رہتی، ملتی اور ختم ہوجاتی ہے۔ یہ اسباب بھی اللہ کی مشیت کے تابع ہیں۔ کوئی سبب مستقل بالذات نہیں۔ بلکہ تمام اسباب قضاء، و قدر کے تحت ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے بادشاہی کے حصول کے جو اسباب مقرر کئے ہیں ان میں ایمان اور عمل صالح بھی ہیں۔ اس مقصد کے لئے چند ضروری اعمال صالحہ یہ ہیں : مسلمانوں کا اتفاق و اتحاد، جو آلات تیار کرنے اور حاصل کرنے ممکن ہوں، جمع کرنا، صبر و ثبات، باہمی تنازعات سے پرہیز۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ﴾ (النور :24؍55) ” تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کئے، اللہ نے ان سے وعدہ کیا ہے کہ وہ انہیں زمین میں ضرور خلیفہ بنائے گا، جس طرح ان سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا“ اللہ نے بتایا ہے کہ مذکورہ خلافت کے حصول کی شرط ایمان اور عمل صالح ہے اور فرمایا ﴿وَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ ۚ لَوْ أَنفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مَّا أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ﴾  (الانفال :8؍62-63) ” وہی ہے جس نے آپ کو اپنی مدد کے ساتھ اور مومنوں کے ساتھ قوت بخشی اور ان کے دلوں میں محبت ڈال دی“ اور فرمایا ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا وَاذْكُرُوا اللَّـهَ كَثِيرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ - وَأَطِيعُوا اللَّـهَ وَرَسُولَهُ وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ ۖ وَاصْبِرُوا ۚ إِنَّ اللَّـهَ مَعَ الصَّابِرِينَ﴾ (الانفال :8؍45-46) ” اے مومنو ! جب تم کسی جماعت کا سامنا کرو تو ثابت قدم رہو، اور اللہ کو بہت یاد کرو، تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ اور اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی اور جھگڑا نہ کرو، ورنہ تم بزدل ہوجاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی اور صبر کرو۔ یقیناً اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔“ یعنی اللہ نے بتایا ہے کہ مومنوں کی باہمی محبت، ثابت قدمی اور اتفاق دشمنوں پر فتح کا باعث ہے۔ اگر آپ مسلمان ملکوں کے حالات پر غور کریں تو ان کی سلطنت ختم ہونے کا بڑا سبب دین سے دوری اور باہمی افتراق ہے جس سے دشمنوں کو حوصلہ ہوا اور ان کے درمیان لڑائی ڈال دی۔ پھر اللہ نے فرمایا: ﴿وَتُعِزُّ مَن تَشَاءُ﴾” تو جسے چاہے (اپنی اطاعت کی وجہ سے) عزت دے“ ﴿وَتُذِلُّ مَن تَشَاءُ﴾ ” اور جسے چاہے (معصیت کی وجہ سے) ذلت دے“ ﴿إِنَّكَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ﴾ ” بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔“ کوئی چیز تیرے حکم سے سرتابی نہیں کرسکتی۔ بلکہ سب کچھ تیری قدرت اور مشیت کے تحت ہے آل عمران
27 ﴿ تُولِجُ اللَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَتُولِجُ النَّهَارَ فِي اللَّيْلِ﴾” تو ہی رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے۔“ جس کی وجہ سے موسم پیدا ہوتے ہیں، روشنی، دھوپ، سایہ، سکون اور انتشار پیدا ہوتا ہے۔ جو اللہ کی قدرت، عظمت، حکمت اور رحمت کی سب سے بڑی دلیل ہے۔﴿ وَتُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ﴾” تو نکالتا ہے جان دار کو بے جان سے۔“ جیسے انڈے سے چوزہ، گٹھلی سے درخت، بیج سے کھیتی اور کافر سے مومن ﴿وَتُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ﴾ ” اور نکالتا ہے بے جان کو جان دار سے۔“ جیسے پرندے سے انڈا، درخت سے گٹھلی، پودے سے دانہ اور مومن میں سے کافر۔ یہ اللہ کی قدرت کی سب سے بڑی دلیل ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ تمام اشیا مسخر ہیں، ان کے ہاتھ میں کوئی اختیار نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا متضاد اشیا کو پیدا کرنا اور ایک چیز میں سے اس سے متضاد چیز پیدا کرنا ثابت کرتا ہے کہ یہ سب مجبور و لاچار ہیں۔ ﴿وَتَرْزُقُ مَن تَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ﴾” تو وہی جسے چاہتا ہے، بے حساب روزی دیتا ہے۔“ تو جسے چاہتا ہے وہاں سے وسیع رزق دے دیتا ہے جہاں سے اسے گمان بھی نہیں ہوتا، اور نہ اس نے کمائی کی ہوتی ہے۔ آل عمران
28 اللہ تعالیٰ مومنوں کو کافروں سے دوستی لگانے سے منع فرماتا ہے کہ ان سے محبت نہ رکھیں، ان کی مدد نہ کریں، مسلمانوں کے کسی کام میں ان سے مدد نہ لیں اور جو کوئی ایسی حرکت کرے اسے تنبیہ فرماتا ہے کہ ﴿وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللَّـهِ فِي شَيْءٍ﴾” جو ایسا کرے گا، اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں“ یعنی وہ اللہ سے کٹ گیا ہے، اس کا اللہ کے دین میں کوئی حصہ نہیں۔ کیونکہ کافروں سے دوستی اور ایمان جمع نہیں ہوسکتے۔ ایمان تو اللہ سے محبت اور اس کے دوستوں یعنی مومنوں سے تعاون کر کے اللہ کے دین کو قائم کرنے اور اس کے دشمنوں سے جنگ کرنے کا حکم دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے﴿ وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ﴾(التوبہ :9؍71) ” مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے ولی (مددگار، محبت رکھنے والے) ہیں۔“ جو شخص مومنوں کو چھوڑ کر ان کافروں سے دوستی لگاتا ہے جو اللہ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں اور اس کے اولیاء کو فتنہ میں مبتلا کرنا چاہتے ہیں، ایسا شخص مومنوں کی جماعت سے نکل جاتا ہے اور کافروں کی جماعت میں داخل ہوجاتا ہے۔ اللہ نے فرمایا: ﴿وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ ﴾(المائدہ :51؍5) ” تم میں سے جو کوئی ان سے محبت رکھے گا، وہ انہی میں سے ہوگا“ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ کافروں کے ساتھ میل جول رکھنے سے، ان سے دوستی لگانے سے ان کی طرف میلان رکھنے سے بچنا ضروی ہے اور یہ بھی ثابت ہوا کہ کسی کافر کو مسلمانوں کی حکومت کا کوئی عہدہ نہیں دیا جاسکتا۔ عام مسلمانوں کے فائدے کے کسی کام میں ان سے مدد نہیں لی جاسکتی۔﴿ إِلَّا أَن تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقَاةً﴾” مگر یہ کہ ان کے شر سے کسی طرح کا بچاؤ مقصود ہو۔“ یعنی اگر تمہیں ان سے جان کا خطرہ ہو تو اپنی جان بچانے کے لئے زبان سے تقیہ کرسکتے ہو، اور ظاہری طور پر ایسا کام کرسکتے ہو جس سے تقیہ ہوجاتا ہے۔ (١) ﴿وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّـهُ نَفْسَهُ﴾ ” اللہ تعالیٰ تمہیں خود اپنی ذات سے ڈرا رہا ہے۔“ لہٰذا اس کی نارفمانی کر کے اس کی ناراضی مول نہ لو۔ ورنہ وہ تمہیں اس کی سزا دے گا۔ ﴿وَإِلَى اللَّـهِ الْمَصِيرُ ﴾ ” اور اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔“ یعنی قیامت کے دن سب بندے اس کے سامنے حاضر ہوں گے۔ پھر وہ تمہارے اعمال کو شمار کرے گا، ان پر محاسبہ کرے گا اور سزا و جزا دے گا۔ لہٰذا ایسے برے کام کرنے سے بچو جن کی وجہ سے تم عقوبت کے مستحق ہوجاؤ۔ بلکہ ایسے عمل کرو جن سے تمہیں اجر و ثواب ملے۔ پھر اللہ نے اپنے علم کی وسعت کے بارے میں فرمایا، وہ زمین و آسمان کی تمام چیزوں کا علم رکھتا ہے، بالخصوص جو کچھ دلوں میں ہے اسے بھی جانتا ہے۔ اس کی قدرت بھی کامل ہے۔ اس میں اشارہ ہے کہ دلوں کو پاک رکھنا چاہئے اور ہر وقت اللہ کے علم کو ذہن میں رکھنا چاہئے۔ اس کے نتیجے میں بندے کو اس بات سے شرم آئے گی۔ [ تحقیق شدہ نسخہ کے حاشیہ میں لکھا ہے۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ’’المنھاج“ میں فرمایا ہے : اللہ کا یہ فرمان : ﴿إِلَّا أَن تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقَاةً﴾ اس کے بارے میں حضرت مجاہد نے فرمایا ہے : (لامصانعۃ) ” ان کا ساتھ نہ دو“۔ تقیہ یہ نہیں ہوتا کہ میں جھوٹ بولوں، اور زبان سے وہ بات کہوں جو میرے دل میں نہیں، یہ تو منافقت ہے۔ بلکہ مجھے چاہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق جو کچھ کرسکوں کروں۔ ارشاد نبوی ہے ” تم میں سے جو کوئی برائی دیکھے، تو اسے ہاتھ سے تبدیل (اور ختم) کر دے اور اگر یہ طاقت نہ ہو، تو زبان سے (منع کرے)۔ اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو دل سے (نفرت رکھے )۔“ لہٰذا مومن جب کافروں اور بدکاروں میں گھر جائے تو کمزور ہونے کی وجہ سے اس پر ہاتھ سے جہاد کرنا فرض نہیں۔ اگر زبان سے منع کرسکے تو ضرور کرے ورنہ دل سے نفرت رکھے۔ ان تمام درجات میں وہ جھوٹ نہیں بولے گا۔ زبان سے وہ بات نہیں کہے گا، جو اس کے دل میں نہیں۔ وہ یا تو اپنا دین ظاہر کرے گا، یا چھپائے گا۔ لیکن کسی بھی حال میں ان کے مذہب کی تائید نہیں کرے گا۔ زیادہ سے زیادہ مومن آل فرعون کا، یا زوجہ فرعون کا ساطرز عمل اختیار کرسکتا ہے۔ وہ مومن ان کے دین کی تائید نہیں کرتا تھا، نہ جھوٹ بولتا تھا، نہ زبان سے وہ بات کہتا تھا جو اس کے دل میں نہیں، بلکہ اپنے دین کو چھپائے ہوئے تھا۔ دین کو چھپانا اور چیز ہے اور باطل دین کا اظہار بالکل دوسری چیز ہے۔ اللہ نے اس چیز کی بالکل اجازت نہیں دی۔ صرف اسے اجازت دی ہے جسے کلمہ کفر کہنے پر زبردستی مجبور کردیا جائے۔۔۔“ الخ۔ (از محقق) ] کہ اس کا مالک اس کے دل کو گندے خیالات کی آماجگاہ بنا ہوا دیکھے۔ بلکہ وہ اپنی سوچ کو ایسے امور میں مشغول کرے گا جن سے اللہ کا قرب حاصل ہو۔ مثلاً قرآن مجید کی کسی آیت یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی حدیث پر غور و فکر، یا ایسے علم کو سمجھنے کی کوشش جس سے اسے فائدہ ہو، یا اللہ کی کسی مخلوق اور نعمت کے بارے میں سوچنا، یا اللہ کے بندوں کی بھلائی کے کسی کام کے بارے میں سوچ بچار۔ آل عمران
29 آل عمران
30 جب اللہ تعالیٰ اپنے علم اور قدرت کا ذکر فرماتا ہے، تو اس میں ضمناً اعمال کی جزا و سزا بھی شامل ہوتی ہے۔ جو قیامت کے دن واقع ہوگی۔ اس دن ہر شخص کو اس کے اعمال کی پوری جزا و سزا ملے گی۔ اس لئے فرمایا :﴿ يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُّحْضَرًا﴾” جس دن ہر شخص اپنی کی ہوئی نیکیوں کو موجود پائے گا“ یعنی اس کی نیکیاں مکمل طور پر محفوظ ہوں گی۔ ان میں ذرہ برابر بھی کمی نہ آئے گی۔ جیسے ارشاد ہے :﴿ فَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ﴾ (الزلزال :99؍7) ” پس جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی، وہ اسے دیکھ لے گا“ (خیر) ایک جامع لفظ ہے جس میں اللہ کے قریب کرنے والا ہر نیک عمل شامل ہے۔ خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا۔ جس طرح (سوء) ایک جامع لفظ ہے جس میں اللہ کو ناراض کرنے والا ہر چھوٹا بڑا برا عمل شامل ہے۔ ﴿وَمَا عَمِلَتْ مِن سُوءٍ تَوَدُّ لَوْ أَنَّ بَيْنَهَا وَبَيْنَهُ أَمَدًا بَعِيدً ﴾” اور جو اس نے برائیاں کی ہوں گی، آرزو کرے گا، کاش اس کے اور ان (برائیوں) کے درمیان بہت ہی دوری ہوتی“ وہ بے انتہا افسوس اور شدید ترین غم کی وجہ سے یہ آرزو کرے گا۔ بندے کو ان گناہوں سے بچنا اور ڈرنا چاہئے جن کے نتیجے میں اسے شدید ترین غم برداشت کرنا پڑے گا۔ اب ان گناہوں کو چھوڑنا ممکن ہے، اس لئے فوراً ترک کردینا چاہئے ورنہ اس وقت وہ کہے گا ﴿ يَا حَسْرَتَىٰ عَلَىٰ مَا فَرَّطتُ فِي جَنبِ اللَّـهِ ﴾(الزمر :39؍56)” ہائے افسوس ! میں نے اللہ کی جناب میں کوتاہی کی !“ ﴿ يَوْمَئِذٍ يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَعَصَوُا الرَّسُولَ لَوْ تُسَوَّىٰ بِهِمُ الْأَرْضُ ﴾(النساء:4؍42)” جنہوں نے کفر کیا اور رسول کی نافرمانی کی اس دن تمنا کریں گے کاش ! زمین ان کو نگل کر برابر ہوجائے“﴿ وَيَوْمَ يَعَضُّ الظَّالِمُ عَلَىٰ يَدَيْهِ يَقُولُ يَا لَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِيلًا يَا وَيْلَتَىٰ لَيْتَنِي لَمْ أَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِيلًا﴾ (الفرقان :25؍27-28) ” اس دن ظالم اپنے ہاتھوں کو چبا چبا کر کہے گا، کاش ! میں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ اختیار کی ہوتی ! ہائے افسوس ! کاش میں نے فلاں کو دوست نہ بنایا ہوتا۔“ ﴿حَتَّىٰ إِذَا جَاءَنَا قَالَ يَا لَيْتَ بَيْنِي وَبَيْنَكَ بُعْدَ الْمَشْرِقَيْنِ فَبِئْسَ الْقَرِينُ ﴾(الزخرف :43؍ 38) ” یہاں تک کہ جب وہ ہمارے پاس آئے گا تو کہے گا، کاش میرے اور تیرے درمیان مشرق اور مغرب کی دوری ہوتی، تو تو بڑا برا ساتھی ہے۔“ قسم ہے اللہ کی ! ہر خواہش نفس کو اور لذت کو ترک کردینا۔ اگرچہ اس جہان میں اسے ترک کرنا نفس کو کتنا دشوار محسوس ہوتا ہے۔ ان عذابوں کو جھیلنے سے اور ان رسوائیوں کو برداشت کرنے سے بہت زیادہ آسان ہے۔ لیکن بندہ ظالم اور نادان ہونے کی وجہ سے صرف حاضرو موجود پر نظر رکھتا ہے۔ اگر اس کے پاس کامل عقل ہو تو ان اعمال کے انجام کو دیکھے، پھر وہ عمل کرے جس کا دونوں جہان میں فائدہ ہو۔ اور اس کام سے اجتناب کرے جو دونوں جہان میں نقصان کا باعث ہو۔ اس کے بعد اللہ نے ہم پر شفقت و رحمت کرتے ہوئے دوبارہ اپنی ذات سے ڈرایا ہے تاکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے دل سخت نہ ہوجائیں۔ تاکہ ترغیب بھی ہو، جس کے نتیجے میں امید اور عمل صالح حاصل ہو۔ اور ترہیب بھی ہو جس کے نتیجے میں خوف حاصل ہو اور گناہ چھوٹ جائیں۔ چنانچہ فرمایا :﴿وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّـهُ نَفْسَهُ ۗ وَاللَّـهُ رَءُوفٌ بِالْعِبَادِ ﴾” اللہ تمہیں اپنی ذات سے ڈرا رہا ہے اور اللہ اپنے بندوں پر بڑا ہی مہربان ہے“ ہم اس سے دعا کرتے ہیں کہ ہم پر احسان فرما کر ہمیشہ اپنے خوف سے نوازے رکھے، تاکہ ہم وہ کام نہ کریں جن سے وہ ناراض ہوتا ہے۔ آل عمران
31 اس آیت میں اللہ کی محبت کا وجوب، اس کی علامات، اس کا نتیجہ اور فوائد ذکر کئے گئے ہیں۔ چنانچہ فرمایا : ﴿قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّـهَ﴾ ”کہہ دیجیے ! اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو“ اگر تم اس اونچے مرتبے کا دعویٰ رکھتے ہو، جس سے بلند کوئی مرتبہ نہیں تو اس کے لئے صرف دعویٰ کافی نہیں، بلکہ یہ دعویٰ سچا ہونا چاہئے۔ اس کے سچا ہونے کی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت ہر حال میں ہو، اقوال میں بھی ہو اور افعال میں بھی، عقاید میں بھی ہو اور اعمال میں بھی، ظاہر میں بھی ہو اور باطن میں بھی۔ پس جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتا ہے، اللہ کی محبت اس کے دعویٰ کی تصدیق کرتی ہے، اللہ اس سے محبت رکھتا ہے اور اس کے گناہ معاف فرما دیتا ہے، اس پر رحمت فرماتا ہے، اسے تمام حرکات و سکنات میں راہ راست پر قائم رکھتا ہے۔ جس نے رسول کی اتباع نہ کی وہ اللہ سے محبت رکھنے والا نہیں۔ کیونکہ اللہ کی محبت کا تقاضا رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع ہے۔ جب اتباع موجود نہیں، تو یہ محبت نہ ہونے کی دلیل ہے۔ اس صورت میں اگر وہ رسول سے محبت رکھنے کا دعویٰ کرتا ہے تو اس کا دعویٰ جھوٹا ہے اور اگر محبت موجود بھی ہو تو اس کی شرط (اتباع) کے بغیر ایسی محبت بے کار ہے۔ سب لوگوں کو اسی آیت کی ترازو پر تولنا چاہئے۔ جتنی کسی میں اتباع رسول ہوگی، اسی قدر اس میں ایمان اور اللہ کی محبت کا حصہ ہوگا اور جس طرح اتباع میں کمی ہوگی، اسی قدر ایمان اور اللہ کی محبت میں نقص ہوگا۔ آل عمران
32 اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بندوں کو سب سے جامع حکم صادر فرمایا ہے۔ وہ ہے اس کی اطاعت اور اس کے رسول کی اطاعت۔ اس میں ایمان اور توحید بھی شامل ہے اور اس کی شاخیں یعنی ظاہری اور باطنی اقوال و افعال بھی بلکہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت میں اس کے منع کئے ہوئے کاموں سے پرہیز بھی شامل ہے۔ کیونکہ گناہ سے پرہیز اللہ کے حکم کی تعمیل ہے، یعنی اس کی اطاعت میں شامل ہے۔ لہٰذا اللہ اور اس کے رسول کی فرماں برداری کرنے والے ہی کامیاب ہیں۔ (فَإِن تَوَلَّوْا) ” پس اگر یہ منہ پھیر لیں“ یعنی اللہ کی، اور اس کے رسول کی فرماں برداری سے اعراض کریں، تو دوسرا راستہ صرف کفر کا اور شیطان کی فرماں برداری کا ہے۔﴿كُتِبَ عَلَيْهِ أَنَّهُ مَن تَوَلَّاهُ فَأَنَّهُ يُضِلُّهُ وَيَهْدِيهِ إِلَىٰ عَذَابِ السَّعِيرِ﴾ (الحج :3؍22) ” اس کے بارے میں یہ لکھ دیا گیا ہے کہ جو اسے دوست بنائے گا، وہ اسے گمراہ ہی کرے گا اور جہنم کے عذاب میں لے جائے گا۔“ اس لئے فرمایا :﴿ فَإِنَّ اللَّـهَ لَا يُحِبُّ الْكَافِرِينَ﴾” پس اگر یہ منہ پھیر لیں تو بے شک اللہ کافروں کو دوست نہیں رکھتا“ بلکہ ان سے ناراض ہے، اور سخت ترین سزا دے گا۔ اس آیت مبارکہ میں اتباع رسول کی وضاحت ہے کہ اس کا طریقہ اللہ کے احکامات اور رسول کے احکامات پر عمل کرنا ہے۔ یہی حقیقی اتباع اور پیروی ہے۔ آل عمران
33 اللہ تعالیٰ اپنے پسندیدہ اولیاء، اصفیاء، اور انبیاء کے منتخب افراد ہونے کا ذکر فرماتا ہے کہ اللہ نے آدم کا انتخاب فرمایا۔ انہیں تمام مخلوقات میں بلند مقام عطا فرمایا۔ انہیں اپنے ہاتھ سے پیدا کر کے ان میں روح ڈالی، فرشتوں کو حکم دیا کہ انہیں سجدہ کریں، انہیں جنت میں ٹھہرایا۔ انہیں ایسا علم، حلم اور شرف عطا فرمایا جس کی بنا پر وہ تمام مخلوقات سے افضل قرار پائے۔ اس لئے ان کی اولاد بھی افضل ہوئی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ﴿وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَىٰ كَثِيرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًا﴾ (بنی اسرائیل :17؍70) ” یقیناً ہم نے اولاد آدم کو بڑی عزت دی، اور انہیں خشکی اور تری کی سواریاں دیں اور انہیں پاکیزہ چیزوں کی روزیاں دیں، اور اپنی بہت سی مخلوق پر انہیں فضیلت عطا فرمائی۔ “ اللہ نے نوح علیہ السلام کو منتخب فرمایا اور انہیں اس وقت رسول بنا کر اہل زمین کی طرف بھیجا، جب بتوں کی پوجا شروع ہوگئی۔ آپ کو ہر وقت صبر، برداشت، شکر اور تبلیغ کی وہ توفیق بخشی جس کی وجہ سے وہ منتخب قرار دیے جانے کے لائق ہوگئے۔ اللہ نے آپ کی دعا کے نتیجے میں زمین کے تمام باشندوں کو غرق کردیا۔ آپ کو، آپ کے ساتھیوں کو کشتی کے ذریعے سے نجات بخشی، آپ کی نسل کو قیامت تک باقی رکھا۔ ہر زمانے میں لوگ آپ کی تعریف کرتے رہے اور کرتے رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے آل ابراہیم کو منتخب فرمایا۔ جن میں خود ابراہیم علیہ السلام بھی شامل ہیں جن کو اللہ نے خاص طور پر اپنی خلت سے نواز کر خلیل الرحمٰن کے لقب سے مشرف فرمایا۔ جنہوں نے اپنی ذات کو آپ کے حوالے کردیا، بیٹے کو قربانی کے لئے پیش کردیا اور مال مہمانوں کی خدمت کے لئے وقف کردیا۔ آپ نے رات دن، چھپ چھپ کر اور علانیہ لوگوں کو رب کی طرف بلایا۔ اللہ نے آپ کو اسوہ (نمونہ) قرار دیا کہ بعد کے سب لوگ ان کی اتباع کریں۔ نبوت اور آسمانی کتابیں آپ کی اولاد کے لئے خاص کردیں۔ آل ابراہیم میں وہ تمام انبیاء شامل ہیں جو آپ کے بعد مبعوث ہوئے، کیونکہ وہ سب آپ کی نسل سے تھے۔ اللہ نے ان حضرات کو ایسے ایسے فضائل سے نوازا کہ وہ جہانوں میں افضل ترین افراد بن گئے۔ ابراہیم علیہ السلام ہی کی آل میں سے تمام اولاد آدم کے سردار، ہمارے نبی جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف لائے۔ جن میں اللہ نے وہ تمام خوبیاں جمع فرما دیں جو دوسرے انبیاء کرام میں انفرادی طور پر موجود تھیں۔ چنانچہ آپ گزشتہ اور آئندہ تمام انسانوں سے بلند تر ہوئے۔ آپ رسولوں کے سردار ہوئے، جنہیں آل ابراہیم میں سے منتخب فرد (مصطفی) ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت عمران کی آل کو بھی منتخب قرار دیا۔ ﴿فَتَقَبَّلَهَا رَبُّهَا بِقَبُولٍ حَسَنٍ﴾’’پس اسے اس کے پروردگار نے اچھی طرح قبول فرمایا“ یعنی انہیں نذر کے طور پر قبول فرمایا اور انہیں اور ان کی اولاد کو شیطان سے محفوظ فرمایا۔﴿ وَأَنبَتَهَا نَبَاتًا حَسَنًا﴾یعنی ان کی جسمانی اور اخلاقی تربیت بہت اچھی ہوئی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کام کے لئے زکریا کو متعین فرمایا۔ آل عمران
34 عمران حضرت مریم علیہا السلام کے والد ماجد کا نام ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے والد کا نام بھی عمران تھا۔ یہ گھرانے، جن کا اللہ نے ذکر فرمایا ہے، یہ جہان والوں سے اس کے منتخب افراد کے گھرانے تھے۔ ان کی اولادوں کے ذریعے سے اصلاح اور توفیق کا تسلسل قائم رہا۔ اس لئے اللہ نے فرمایا : ﴿ ذُرِّيَّةً بَعْضُهَا مِن بَعْضٍ﴾” یہ سب آپس میں ایک دوسرے کی نسل سے ہیں“ ان میں باہمی مناسبت اور مشابہت تخلیق کے لحاظ سے بھی ہے اور اخلاق حسنہ کے لحاظ سے بھی۔ جس طرح اللہ نے ان خاندانوں کے دوسرے انبیاء کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ﴿وَمِنْ آبَائِهِمْ وَذُرِّيَّاتِهِمْ وَإِخْوَانِهِمْ ۖ وَاجْتَبَيْنَاهُمْ وَهَدَيْنَاهُمْ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ﴾(الانعام :6؍87) ” اور ان کے کچھ آباؤ و اجداد کو اور کچھ اولاد کو اور کچھ بھائیوں کو اور ہم نے ان کو مقبول بنایا اور ہم نے ان کو راست کی ہدایت کی“ ﴿وَاللَّـهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ﴾ ” اور اللہ سنتا جانتا ہے“ یعنی کون اس قابل ہے کہ اسے چنا جائے اور کون نہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ نے انہیں اس لئے منتخب فرمایا کیونکہ اسے معلوم تھا کہ ان میں ایسی خوبیاں موجود ہیں جو انہیں انتخاب کے قابل بناتی ہیں۔ یہ بھی اللہ کا فضل و کرم تھا۔ ان بلند مرتبت حضرات کے واقعات ہمیں سننے کا فائدہ اور حکمت یہ ہے کہ ہم ان سے محبت رکھیں، ان کی اقتدا کریں، اللہ سے سوال کریں کہ جس طرح ان کو توفیق دی تھی۔ ہمیں بھی ویسے نیک اعمال کی توفیق بخشے۔ ان کے پیچھے رہ جانے اور ویسی صفات سے متصف نہ ہونے کی بنا پر اپنے آپ کو حقیر سمجھتے رہیں (یعنی اپنے اعمال پر فخر نہ کریں) علاوہ ازیں اس بیان میں ان پر مہربانی ہے، اولین و آخرین میں ان کی تعریف کا اظہار ہے اور ان کے شرف و عظمت کا اعلان ہے۔ اللہ کا جو دو کرم کتنا عظیم ہے، اگر کوئی اور شرف نہ بھی ہوتا تو ان کے لئے یہی شرف کافی تھا کہ ان کا ذکر اور ان کی خوبیوں کا بیان دوام پا گیا ہے۔ آل عمران
35 ان معزز گھرانوں کا ذکر کر کے اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ حضرت مریم علیہا السلام کا ذکر فرمایا ہے کہ ان کی تربیت اور نشو و نما میں کس طرح اللہ کا خاص لطف و کرم شامل تھا۔ چنانچہ ارشاد ہے : ﴿ إِذْ قَالَتِ امْرَأَتُ عِمْرَانَ ﴾ ” جب عمران کی بیوی نے کہا“ یعنی مریم کی والدہ نے حمل قرار پا جانے پر فرمایا:﴿ رَبِّ إِنِّي نَذَرْتُ لَكَ مَا فِي بَطْنِي مُحَرَّرًا ﴾” اے میرے رب ! میرے پیٹ میں جو کچھ ہے، اسے میں نے تیرے نام پر آزاد کرنے کی نذر مانی“ یعنی تیری رضا کے حصول کے لئے میں نے تیرے گھر کی خدمت کے لئے آزاد کردیا۔﴿ فَتَقَبَّلْ مِنِّي﴾ ” پس تو میری طرف سے (یہ مبارک عمل) قبول فرما“﴿ إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ ﴾ یقیناً تو خوب سننے والا اور پوری طرح جاننے والا ہے“ تو میری دعا سن رہا ہے اور میری نیت اور ارادے سے باخبر ہے، یہ دعا انہوں نے اس وقت کی تھی جب مریم ان کے پیٹ میں تھیں، ابھی پیدا بھی نہیں ہوئی تھیں۔ آل عمران
36 ﴿فَلَمَّا وَضَعَتْهَا قَالَتْ رَبِّ إِنِّي وَضَعْتُهَا أُنثَىٰ﴾ ” جب بچی کو جنا تو کہنے لگی : پروردگار ! مجھے تو لڑکی ہوئی“ جب کہ انہیں شوق تھا کہ لڑکا پیدا ہو، جو اللہ کے گھر میں خدمت اچھے طریقے سے کرسکے۔ اس کلام سے گویا ایک قسم کی معذرت ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :﴿ وَاللَّـهُ أَعْلَمُ بِمَا وَضَعَتْ﴾ ” اللہ کو خوب معلوم ہے کہ کیا اولاد ہوئی“ اسے بتانے کی ضرورت نہیں۔ اسے تو اس وقت بھی علم تھا جب ان کی والدہ کو بھی علم نہیں تھا۔ ﴿وَلَيْسَ الذَّكَرُ كَالْأُنثَىٰ وَإِنِّي سَمَّيْتُهَا مَرْيَمَ﴾” اور لڑکا لڑکی جیسا نہیں اور میں نے اس کا نام مریم رکھا“ اس سے معلوم ہوا کہ لڑکا لڑکی سے افضل ہے اور پیدائش کے وقت نام رکھنا جائز ہے اور ماں اپنے بچے کا نام رکھ سکتی ہے بشرطیکہ باپ کو یہ بات ناپسند نہ ہو۔ ﴿وَإِنِّي أُعِيذُهَا بِكَ وَذُرِّيَّتَهَا مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ﴾ ” او رمیں اسے اور اس کی اولاد کو شیطان مردود سے تیری پناہ میں دیتی ہوں“ انہوں نے مریم اور مریم کی اولاد کے لئے دعا کی کہ انہیں اللہ تعالیٰ شیطان سے محفوظ رکھے۔ آل عمران
37 ﴿ وَكَفَّلَهَا زَكَرِيَّا ۖ﴾ ” اور ان کی خیر خبر لینے والا زکریا کو بنایا“ یہ اللہ کی مہربانی تھی کہ ان کی تربیت کامل ترین حال میں ہو۔ چنانچہ اللہ کی عبادت کرتے کرتے ان کی عمر بڑھی، اور دوسری عورتوں سے فائق ہوگئیں۔ وہ اپنے رب کی عبادت کے لئے وقف ہوگئیں اور اپنی محراب یعنی نماز کی جگہ زیادہ سے زیادہ وقت گزارنے لگیں۔ ﴿كُلَّمَا دَخَلَ عَلَيْهَا زَكَرِيَّا الْمِحْرَابَ وَجَدَ عِندَهَا رِزْقًا﴾ ” جب کبھی زکریا ان کے حجرے میں جاتے، تو ان کے پاس روزی رکھی ہوئے پاتے“ جس میں ان کی محنت و مشقت شامل نہیں تھی۔ بلکہ یہ رزق انہیں اللہ نے کرامت کے طور پر عطا فرمایا۔ زکریا علیہ السلام نے فرمایا ﴿أَنَّىٰ لَكِ هَـٰذَا﴾ ” یہ روزی تمہارے پاس کہاں سے آئی“﴿قَالَتْ هُوَ مِنْ عِندِ اللَّـهِ  ۖ﴾” وہ جواب دیتیں، یہ اللہ کے پاس سے ہے“ یہ اس کا فضل و احسان ہے۔ ﴿إِنَّ اللَّـهَ يَرْزُقُ مَن يَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ﴾ ” بے شک اللہ جسے چاہے بے شماری روزی دے“ یعنی جہاں سے بندے کو گمان بھی نہ ہو اور بغیر محنت کھانے کا بندوبست فرما دے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَمَن يَتَّقِ اللَّـهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا – وَ يَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبْ ﴾ (الطلاق :65؍ 2۔3) ” اور جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے، اللہ اس کے لئے خلاصی کی صورت بنا دیتا ہے اور اسے ایسی جگہ سے رزق دیتا ہے جس کا اسے گمان بھی نہ ہو۔‘،علاوہ ازیں اس آیت سے اولیائے کرام کی خرق عادت کرامات کا بھی ثبوت ملتا ہے۔ ایسے واقعات تواتر سے ثابت ہیں۔ اس لئے جو لوگ ان کا انکار کرتے ہیں۔ ان کا موقف درست نہیں۔ جب زکریا علیہ السلام نے مریم علیہا ا لسلام پر اللہ کا یہ احسان ملاحظہ فرمایا اور انہیں بغیر کوشش اور محنت کے، بہترین رزق ملنے کی کرامت دیکھی تو آپ کے دل میں بیٹے کی خواہش پیدا ہوگئی۔ آل عمران
38 زکریا علیہ السلام نے وہیں رب سے دعا کی کہ وہ انہیں پاکیزہ اولاد عطا فرمائے۔ یعنی خوش اخلاق اور خوش اطوار اولاد دے، تاکہ دینی اور دنیوی دونوں قسم کی نعمتوں کی تکمیل ہوجائے۔ اللہ نے آپ کی دعا قبول فرما لی۔ آل عمران
39 جب آپ حجرے میں کھڑے اپنے رب کی عبادت اور مناجات میں مشغول تھے، فرشتوں نے آواز دی ﴿ أَنَّ اللَّـهَ يُبَشِّرُكَ بِيَحْيَىٰ مُصَدِّقًا بِكَلِمَةٍ مِّنَ اللَّـهِ ﴾” کہ اللہ تجھ کو یحییٰ کی خوشخبری دیتا ہے جو اللہ کے کلمہ (یعنی عیسیٰ علیہ السلام) کی تصدیق کرنے والے ہوں گے۔“ ﴿وَسَيِّدًا ﴾ ” اور سردار“ یعنی اللہ آپ کو ایسی اچھی صفات عطا فرمائے گا کہ آپ سردار بن جائیں گے اور لوگ اپنے معاملات میں رہنمائی کے لئے آپ کی طرف رجوع کریں گے۔ ﴿وَحَصُورًا﴾” اور ضابط نفس“ یعنی عورتوں سے تعلق نہیں رکھیں گے۔ رب کی خدمت و اطاعت میں مشغول ہونے کی وجہ سے آپ کے دل میں عورتوں کی خواہش پیدا نہیں ہوگی۔  ﴿وَنَبِيًّا مِّنَ الصَّالِحِينَ ﴾” اور نبی نیک لوگوں میں سے“ کتنی عظیم بشارت ہے۔ اس سے بڑی خوش خبری کیا ہوسکتی ہے۔ اس میں بیٹا ملنے کی خوش خبری بھی ہے اور اس کی کامل صفات والا ہونے کی بھی اور اس کے نبی ہونے کی بھی ! زکریا علیہ السلام انتہائی خوشی کی حالت میں پکار اٹھے۔ آل عمران
40 ﴿رَبِّ أَنّٰىٰ يَكُونُ لِي غُلَامٌ وَقَدْ بَلَغَنِيَ الْكِبَرُ وَامْرَأَتِي عَاقِرٌ ۖ﴾ ” اے میرے رب ! میرے ہاں بچہ کیسے ہوگا؟ میں بالکل بوڑھا ہوگیا ہوں اور میری بیوی بانجھ ہے۔“ ان میں سے ایک سبب بھی ہوتا تو اولاد نہ ہوتی۔ اب تو دونوں جمع ہیں۔ اللہ نے بتایا کہ یہ پیدائش معجزانہ شان کی حامل ہے۔ اس لئے فرمایا : ﴿كَذٰلِكَ اللَّـهُ يَفْعَلُ مَا يَشَاءُ﴾ ” اسی طرح اللہ جو چاہے کرتا ہے“ یعنی جس طرح اللہ تعالیٰ نے اولاد کی موجودگی کو اسباب مثلاً تو الدوتناسل کے ساتھ متعلق کردیا ہے اسی طرح اگر وہ بغیر اسباب کے اولاد دینا چاہے تو دے سکتا ہے کیونکہ اس کے لئے کوئی کام مشکل نہیں۔ آل عمران
41 زکریا علیہ السلام نے اس بشارت کے جلدی پورا ہونے کی امید میں اور مکمل اطمینان حاصل ہونے کی غرض سے فرمایا : ﴿رَبِّ اجْعَل لِّي آيَةً﴾ ” پروردگار ! میرے لئے کوئی نشانی مقرر کر دے“ جو اس بچے کے وجود میں آجانے کی علامت ہو۔﴿قَالَ آيَتُكَ أَلَّا تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ إِلَّا رَمْزًا﴾” فرمایا : نشانی یہ ہے کہ تین دن تک تو لوگوں سے بات نہ کرسکے گا، مگر اشارے سے،یعنی آپ کی زبان بغیر کسی مرض یا آفت کے کلام سے رک جائے گی، آپ صرف اشارے سے بات کرسکیں گے۔ کلام نہ کرسکنا ایک عظیم علامت ہے۔ اس میں ایک عجیب مناسبت ہے یعنی جس طرح اسباب موجود ہوتے ہوئے اللہ ان کو کام کرنے سے روک سکتا ہے۔ اسی طرح اسباب کے بغیر پیدا کرسکتا ہے۔ تاکہ معلوم ہوجائے کہ تمام اسباب اللہ کی قضاء و قدر کے تحت ہیں۔ اللہ نے آپ کو اپنا شکر کرنے اور صبح شام کثرت سے ذکر کرنے کا حکم دیا۔ حتیٰ کہ جب آپ حجرے سے باہر تشریف لائے ﴿فَأَوْحَىٰ إِلَيْهِمْ أَن سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا﴾(مریم :19؍ 11) ” تو لوگوں کو اشارے سے فرمایا کہ صبح شام اللہ کی تسبیح کرتے رہنا۔ “ آل عمران
42 اللہ عزوجل حضرت مریم علیہا السلام کا شرف اور بلند مقام ظاہر کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ فرشتوں نے انہیں براہ راست مخاطب کر کے فرمایا: ﴿يَا مَرْيَمُ إِنَّ اللَّـهَ اصْطَفَاكِ﴾ ” اے مریم ! اللہ نے تجھے برگزیدہ کرلیا“ ﴿وَطَهَّرَكِ﴾” اور تجھے (ایسی خرابیوں سے) پاک کردیا“ جو تیری شان میں کمی کا باعث بن سکتی تھیں۔﴿وَاصْطَفَاكِ عَلَىٰ نِسَاءِ الْعَالَمِينَ﴾” اور سارے جہان کی عورتوں میں تیرا انتخاب کرلیا“ پہلے (اصطفاء) ” انتخاب اور برگزیدہ کرنے“ کا تعلق آپ کی اچھی صفات اور نیک اعمال سے ہے اور دوسرے (اصطفاء) سے مراد جہان کی عورتوں سے افضل قرار دینا ہے۔ جہان سے مراد یا تو ان کے زمانے کی ساری دنیا کی عورتوں پر فضیلت ہے یا پروردگار کی تمام عورتوں سے افضل قرار دینا مقصود ہے۔ دوسرے معنی کے لحاظ سے چند خواتین یعنی جناب خدیجہ، جناب عائشہ اور جناب فاطمہ رضی اللہ عنهن کا اس شرف میں شریک ہونا مریم علیہا السلام کے اصطفاء کے منافی نہیں۔ جب فرشتوں نے آپ کو اللہ کی منتخب بندی ہونے اور پاک کرنے کی خوشخبری دی تو یہ ایک عظیم نعمت اور اللہ کا عظیم احسان تھا، جس کا شکر کرنا ضروری تھا۔ آل عمران
43 اس لئے فرشتوں نے کہا : ﴿يَا مَرْيَمُ اقْنُتِي لِرَبِّكِ ﴾” اے مریم ! تو اپنے رب کی اطاعت کر“ قنوت سے مراد خشوع و خضوع کے ساتھ اطاعت پر مسلسل قائم رہنا ہے۔﴿ وَاسْجُدِي وَارْكَعِي مَعَ الرَّاكِعِينَ﴾ اور سجدہ کر، اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کر۔“ عبادت میں رکوع اور سجدہ کا ذکر خاص طور پر کیا گیا ہے۔ کیونکہ ان کا مقام دوسری عبادتوں سے افضل ہے اور ان سے اللہ کے سامنے عاجزی کا اظہار ہوتا ہے۔ مریم علیہا السلام نے اللہ کا شکر کرتے ہوئے اطاعت کے جذبہ سے اس حکم کی تعمیل کی جب اللہ نے اپنے نبی کو مریم علیہا السلام کے بارے میں یہ باتیں بتائیں کہ وہ اللہ کی مرضی کے مطابق کن حالات سے گزریں، تو یہ غیبی معاملات تھے جن کا علم وحی کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ آل عمران
44 اس لئے اللہ نے فرمایا : ﴿ذٰلِكَ مِنْ أَنبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهِ إِلَيْكَ﴾” یہ غیب کی خبروں میں سے ہے جسے ہم تیری طرف وحی سے پہنچاتے ہیں۔“ ﴿وَمَا كُنتَ لَدَيْهِمْ إِذْ يُلْقُونَ أَقْلَامَهُمْ أَيُّهُمْ يَكْفُلُ مَرْيَمَ﴾ ” اور آپ ان کے پاس نہ تھے، جب وہ اپنے قلم ڈال رہے تھے کہ مریم کو ان میں سے کون پا لے گا۔“ جب مریم علیہا السلام کی والدہ انہیں بیت المقدس کے ذمہ دار افراد کے پاس لے گئیں تو ان میں سے ہر ایک کی یہ خواہش ہوئی کہ وہ مریم علیہا السلام کی دیکھ بھال کا شرف حاصل کرے۔ اس مشکل کو حل کرنے کے لئے انہوں نے قرعہ اندازی کی، وہ اس طرح کہ اپنے قلم دریا میں ڈال دیئے کہ جس کا قلم پانی کے ساتھ نہیں بہے گا، وہی مریم علیہا السلام کا سرپرست قرار پائے گا۔ یہ شرف حضرت زکریا علیہ السلام کو حاصل ہوا جو ان کے نبی اور معزز ترین فرد تھے۔ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ ان لوگوں کو یہ واقعات بتاتے ہیں جن کے بارے میں نہ انہیں معلوم تھا، نہ ان کے آباؤ و اجداد کو۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ سچے ہیں اور آپ واقعی اللہ کے رسول ہیں۔ لہٰذا ان کا فرض ہے کہ آپ کی اطاعت قبول کریں اور آپ کے احکام کی تعمیل کریں۔ جیسے ارشاد ہے : وَمَا كُنتَ بِجَانِبِ الْغَرْبِيِّ إِذْ قَضَيْنَا إِلَىٰ مُوسَى الْأَمْرَ وَمَا كُنتَ مِنَ الشَّاهِدِينَ  (القصص :28؍44) ” اور طور کے مغربی جانب، جبکہ ہم نے موسیٰ کو احکام کی وحی پہنچائی تھی، نہ تو آپ موجود تھے، اور نہ آپ دیکھنے والوں میں سے تھے۔ آل عمران
45 ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے بیان کیا ہے کہ فرشتوں نے حضرت مریم کو عظیم ترین بشارت دی، وہ اللہ کا کلمہ، اس کا بندہ، اس کا رسول، مریم کا بیٹا عیسیٰ ہے۔ آپ کو اللہ کا کلمہ اس لئے کہا گیا کہ آپ اللہ کے ایک کلمہ (اور خصوصی فرمان) کے ذریعے پیدا ہوئے تھے اور آپ کے حالات اسباب سے خارج تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنی نشانی اور عجیب مخلوق بنایا۔ وہ اس طرح کہ اللہ نے جبرئیل کو مریم کے پاس بھیجا۔ انہوں نے آپ کی قمیض کے گریبان میں پھونک ماری۔ مقدس فرشتے کی یہ مقدس پھونک مریم کے جسم میں داخل ہوگئی جس سے وہ پاک روح پیدا ہوگئی۔ اس وجہ سے آپ روحانی فطرت رکھتے تھے جو روحانی مادے سے پیدا ہوئے تھے۔ اس لئے آپ کو روح اللہ (اللہ کی روح) کہا گیا۔ ﴿وَجِيهًا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ﴾” جو دنیا اور آخرت میں ذی عزت ہے“ یعنی انہیں دنیا میں ایک معزز مقام حاصل ہے کہ آپ کو اللہ نے ان اولو العزم رسولوں میں شامل کیا، جو بڑی شریعتوں کے حامل تھے، اور انہیں کثیر تعداد میں متبعین نصیب ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو وہ شہرت بخشی جو مشرق اور مغرب میں پھیل گئی۔ وہ آخرت میں بھی اللہ کے ہاں، عزت والے ہوں گے۔ دوسرے انبیاء اور رسولوں کی طرح آپ بھی شفاعت کریں گے، جس سے آپ کا بلند مقام جہان والوں کے سامنے ظاہر ہوجائے گا۔ اس لئے وہ اللہ کے مقرب بندوں میں سے ہیں، اپنے رب سے انتہائی قریب ہیں۔ بلکہ آپ مقربین کے سرداروں میں سے ہیں۔ آل عمران
46 ﴿وَيُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ وَكَهْلًا﴾” اور وہ لوگوں سے اپنے گہوارے میں باتیں کرے گا، اور ادھیڑ عمر میں بھی“ یہ عام بات چیت سے ممتاز کلام ہے۔ مطلب یہ ہے کہ وہ لوگوں سے ایسی باتیں کرے گا جس میں ان کی بھلائی اور کامیابی ہے اور ایسا کلام رسولوں کا ہوتا ہے۔ اس میں اشارہ ہے کہ وہ رسول ہوگا جو لوگوں کو اپنے رب کی طرف بلائے گا۔ گہوارے میں لوگوں سے کلام کرنا اللہ کی ایک عظیم نشانی ہوگی جس سے مومنوں کو فائدہ ہوگا اور وہ دشمنوں کے خلاف حجت ہوگی۔ جس سے ثابت ہوگا کہ وہ رب العالمین کے رسول اور اللہ کے بندے ہیں۔ یہ کلام آپ کی والدہ کے لئے بھی نعمت ہوگا کیونکہ اس کے ذریعے سے ان پر لگنے والے الزام کی تردید ہوجائے گی۔ ﴿وَمِنَ الصَّالِحِينَ﴾” اور وہ نیک لوگوں میں سے ہوگا“ یعنی اللہ اس پر یہ احسان بھی فرمائے گا کہ اسے نیکی عطا فرما کر نیک لوگوں میں شامل فرمائے گا۔ اس میں مریم کے لئے کئی بشارتیں ہیں اور مسیح کے بلند مقام کا اظہار بھی ہے آل عمران
47 ﴿ قَالَتْ رَبِّ أَنَّىٰ يَكُونُ لِي وَلَدٌ وَلَمْ يَمْسَسْنِي بَشَرٌ﴾ ” کہنے لگیں : الٰہی مجھے لڑکا کیسے ہوگا؟ حالانکہ مجھے تو کسی انسان نے ہاتھ تک نہیں لگایا“ اور اللہ کا عام قانون یہی ہے کہ مرد سے تعلق کئے بغیر اولاد نہیں ہوتی۔ یہ بات مریم نے تعجب کے طور پر فرمائی۔ اللہ کی قدرت پر شک کرتے ہوئے نہیں فرمائی۔ ﴿ قَالَ كَذٰلِكِ اللَّـهُ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ ۚ إِذَا قَضَىٰ أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُن فَيَكُونُ ﴾ ”فرشتے نے کہا : اسی طرح اللہ جو چاہے پیدا کرتا ہے۔ جب وہ کسی کام کو کرنا چاہتا ہے تو صرف یہ کہہ دیتا ہے کہ ہوجا، تو وہ ہوجاتا ہے۔“ اس نے مریم کو بتایا کہ یہ خرق عادت معاملہ ہے۔ اسے پیدا کرنے والا وہ اللہ ہے جو کسی بھی کام کو کہتا ہے ہوجا، تو وہ ہوجاتا ہے۔ جو اس چیز پر یقین کرلے اس کا تعجب ختم ہوجائے گا۔ یہ اللہ کی حکمت ہے کہ اس نے عجیب کے بعد زیادہ عجیب واقعہ بیان فرمایا ہے۔ پہلے حضرت یحییٰ علیہ السلام کی ولادت کا ذکر فرمایا جن کے والد انتہائی بوڑھے اور والدہ بانجھ تھیں۔ پھر زیادہ عجیب واقعہ بیان فرمایا یعنی عیسیٰ علیہ السلام کا کسی والد کے بغیر صرف والدہ سے پیدا ہونا۔ تاکہ بندوں کو معلوم ہوجائے کہ وہ اللہ جو چاہتا ہے کرسکتا ہے۔ ہوتا وہی ہے جو وہ چاہے۔ جو کچھ وہ نہ چاہے وہ نہیں ہوسکتا۔ آل عمران
48 اس کے بعد اللہ نے اپنے بندے اور اپنے رسول عیسیٰ علیہ السلام پر اپنے عظیم احسان کا ذکر فرمایا ﴿وَيُعَلِّمُهُ الْكِتَابَ ﴾ ” اللہ اسے کتاب یا کتابت کا علم دے گا“ اس لفظ سے کتاب کی جنس مراد ہوسکتی ہے۔ اس کے بعد تورات اور انجیل کا ذکر خصوص کے طور پر کیا گیا کیونکہ یہ دونوں کتابیں اشرف و افضل ہیں۔ ان میں وہ احکام و شرائع مذکور ہیں جن کے مطابق بنی اسرائیل کے انبیاء فیصلے فرماتے تھے۔ علم دینے میں الفاظ اور معانی دونوں کا علم شامل ہے۔ ممکن ہے کہ الکتاب سے کتابت (لکھنے کا علم) مراد ہو۔ کیونکہ تحریر کا علم اللہ کی عظیم ترین نعمتوں میں سے ہے۔ اسی لئے اللہ نے بندوں پر اپنا یہ احسان خاص طور پر ذکر فرمایا ہے کہ اس نے انہیں قلم کے ذریعے سے علم دیا، چنانچہ سب سے پہلے نازل ہونے والی سورت میں ارشاد ہے :﴿ اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ﴾  (العلق :96؍ 1۔4) ” پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا۔ جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا۔ تو پڑھتا رہ، تیرا رب بڑے کرم والا ہے۔ جس نے قلم کے ذریعے سے علم سکھایا‘،اور حکمت سے مراد اسرار شریعت کا علم اور ہر چیز کو اس کے مناسب مقام پر رکھنے کا علم ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام پر یہ احسانات بیان فرمائے کہ انہیں لکھنا سکھایا، اور علم و حکمت سے نوازا۔ یہ انسان کی ذات سے تعلق رکھنے والا کمال ہے۔ پھر ایک اور کمال ذکر فرمایا جو آپ کو حاصل ہونے والے دوسرے فضائل سے بڑھ کر ہے۔ آل عمران
49 چنانچہ فرمایا : ﴿وَرَسُولًا إِلَىٰ بَنِي إِسْرَائِيلَ ﴾” اور وہ بنی اسرائیل کی طرف رسول ہوگا“ اللہ نے آپ کو اس عظیم قوم کی طرف مبعوث فرمایا جو اپنے زمانے کی افضل ترین قوم تھی۔ آپ نے انہیں اللہ کی طرف بلایا اور اللہ نے آپ کو وہ معجزات عطا فرمائے جن سے ثابت ہوجائے کہ وہ واقعی اللہ کے بھیجے ہوئے رسول اور اس کے سچے نبی ہیں۔ اس لئے فرمایا :﴿أَنِّي قَدْ جِئْتُكُم بِآيَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ ۖ أَنِّي أَخْلُقُ لَكُم مِّنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ ﴾ ” کہ میں تمہارے پاس تمہارے رب کی نشانی لایا ہوں۔ میں تمہارے لئے پرندے کی شکل کی طرح مٹی کا پرندہ بناتا ہوں۔“ ﴿َأَنفُخُ فِيهِ فَيَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِ اللَّـهِ﴾” پھر اس میں پھونک مارتا ہوں تو وہ اللہ کے حکم سے پرندہ بن جاتا ہے۔“ یعنی اس میں اللہ کے حکم سے جان پڑجاتی ہے اور وہ اڑنے لگتا ہے۔ ﴿وَأُبْرِئُ الْأَكْمَهَ وَالْأَبْرَصَ﴾ ” اور میں (اللہ کے حکم سے) مادر زاد اندھے اور ابرص کو اچھا کردیتا ہوں“ ﴿وَأُحْيِي الْمَوْتَىٰ بِإِذْنِ اللَّـهِ ۖ وَأُنَبِّئُكُم بِمَا تَأْكُلُونَ وَمَا تَدَّخِرُونَ فِي بُيُوتِكُمْ﴾ ” اور میں اللہ کے حکم سے مردے کو زندہ کردیتا ہوں اور جو کچھ تم کھاؤ، اور جو اپنے گھروں میں ذخیرہ کرو، میں تمہیں بتا دیتا ہوں“ ﴿إِنَّ فِي ذٰلِكَ لَآيَةً لَّكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ﴾ ” اس میں تمہارے لئے بڑی نشانی ہے، اگر تم ایمان دار ہو“ اس سے بڑی نشانی کیا ہوسکتی ہے کہ بے جان مٹی زندہ جانور بن جائے، ایسے بیمار تندرست ہوجائیں جن کا علاج کرنے سے تمام معالج عاجز تھے اور مردے زندہ ہوجائیں، اور غیبی امور کی خبریں دی جائیں۔ ان میں سے اگر کوئی نشانی اکیلی بھی ظاہر ہوتی تو بہت بڑا معجزہ ہوتی۔ تو پھر جب یہ سب نشانیاں ظاہر ہوں اور ایک دوسری کی تائید کریں تو یقیناً یقین حاصل ہوگا، اور ایمان لانا ضروری ہوگا آل عمران
50 ﴿وَمُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرَاةِ﴾ ” اور میں تورات کی تصدیق کرنے والا ہوں جو میرے سامنے ہے“ یعنی وہ ویسی ہی تعلیمات لے کر آیا ہوں جیسی موسیٰ علیہ السلام لائے تھے اور جو تورات میں موجود تھیں۔ سچے آدمی کی علامت یہ ہے کہ اس کی بتائی ہوئی باتیں دوسرے سچے افراد کے بیانات کے مطابق ہوں۔ وہ سچی خبریں دے اور انصاف کے مطابق فیصلہ کرے۔ اس کی باتوں میں تناقض اور اختلاف نہ ہو۔ جھوٹا دعویٰ کرنے والوں کی کیفیت اس کے برعکس ہوتی ہے۔ بالخصوص جو سب سے بڑا دعویٰ یعنی نبوت کا دعویٰ کرے۔ اگر اس کا دعویٰ جھوٹ ہے تو اس کا جھوٹ ہر کسی کے سامنے ظاہر ہو کر رہتا ہے۔ اس کی باتوں میں تناقض ہوتا ہے۔ اس کی باتیں سچے لوگوں کی باتوں کے خلاف اور جھوٹے لوگوں کی باتوں سے مشابہ ہوتی ہیں۔ گزشتہ اقوام میں یہی طریقہ رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی حکمت اور رحمت کا بھی یہی تقاضا ہے۔ کیونکہ نبوت کے دعویٰ میں سچے اور جھوٹے میں ہرگز اشتباہ نہیں ہوتا۔ البتہ بعض چھوٹے موٹے جزوی معاملات میں سچا اور جھوٹا ایک دوسرے سے مشابہ ہوسکتے ہیں۔ نبوت پر تو مخلوق کی ہدایت و ضلالت اور نجات و ہلاکت کا دار و مدار ہے۔ اس کا سچا دعویٰ کرنے والا کامل ترین انسان ہی ہوسکتا ہے اور اس کا جھوٹا دعویٰ کرنے والا سب سے حقیر، سب سے بڑھ کر جھوٹا اور سب سے زیادہ ظالم ہوتا ہے۔ لہٰذا اللہ کی حکمت اور رحمت کا تقاضا ہے کہ ان دونوں میں ایسے واضح فرق موجود ہوں جنہیں عقل رکھنے والا ہر شخص سمجھ سکے۔ اس کے بعد عیسیٰ علیہ السلام نے بتایا کہ انجیل کی شریعت میں آسانی اور نرمی ہے۔ چنانچہ فرمایا : ﴿وَلِأُحِلَّ لَكُم بَعْضَ الَّذِي حُرِّمَ عَلَيْكُمْ ۚ﴾” اور میں اس لئے آیا ہوں تاکہ تم پر بعض وہ چیزیں حلال کر دوں جو تم پر حرام کردی گئی ہیں“ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انجیل نے تو رات کے اکثر احکام منسوخ نہیں کئے، بلکہ ان کی تکمیل کی ہے اور انہیں برقرار رکھا ہے۔ ﴿وَجِئْتُكُم بِآيَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ﴾” اور میں تمہارے پاس تمہارے رب کی نشانی لایا ہوں“ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ میں سچا ہوں اور میری پیروی واجب ہے۔ اس سے مراد وہی معجزات ہیں، جن کا ذکر پہلے ہوچکا ہے۔ یہ سب کچھ بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ﴿فَاتَّقُوا اللَّـهَ﴾ ” تم اللہ سے ڈرو“ اس کے احکام کی تعمیل کرو، اور اس کے منع کئے ہوئے کاموں سے پرہیز کرو، اور میری اطاعت کرو۔ کیونکہ رسول کی اطاعت اصل میں اللہ کی اطاعت ہوتی ہے۔ آل عمران
51 ﴿إِنَّ اللَّـهَ رَبِّي وَرَبُّكُمْ فَاعْبُدُوهُ﴾ ” یقین مانو، میرا اور تمہارا رب اللہ ہی ہے تم سب اسی کی عبادت کرو۔“ توحید ربوبیت (یعنی اللہ کے خلاق ہونے) کا اقرار سب کو ہے۔ جناب عیسیٰ علیہ السلام نے اس کو توحید الوہیت (یعنی صرف اللہ کے معبود برحق ہونے) کی دلیل بنایا۔ جسے مشرکین نہیں مانتے۔ آپ کے فرمان کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح ہم یہ مانتے ہیں کہ ہمارا خالق، رازق اور ہمیں تمام ظاہری اور باطنی نعمتیں دینے والا صرف اللہ ہے، اسی طرح ہمیں یہ بھی ماننا چاہئے کہ ہمارا معبود صرف اللہ ہے جس سے ہم محبت رکھیں، اس سے ڈریں، اس سے امیدیں رکھیں، اس سے دعائیں کریں، اس سے مدد مانگیں اور عبادت کی دوسری تمام صورتیں بھی اس کے لئے مخصوص کردیں۔ اس سے نصاریٰ کی تردید ہوتی ہے۔ جو عیسیٰ علیہ السلام کو معبود مانتے ہیں۔ یا اللہ تعالیٰ کابیٹا کہتے ہیں۔ کیونکہ آپ نے خود اقرار کیا ہے کہ وہ اللہ کی مخلوق، اللہ کے بندے اور اللہ کی مشیت کے ماتحت ہیں۔ جیسے انہوں نے فرمایا تھا : ﴿إِنِّي عَبْدُ اللَّـهِ آتَانِيَ الْكِتَابَ وَجَعَلَنِي نَبِيًّا ﴾ (مریم :19؍30) ” میں اللہ کا بندہ ہوں، اس نے مجھے کتاب عطا فرمائی اور مجھے نبی بنایا ہے۔“ نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿وَإِذْ قَالَ اللَّـهُ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ أَأَنتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَـٰهَيْنِ مِن دُونِ اللَّـهِ ۖ قَالَ سُبْحَانَكَ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أَقُولَ مَا لَيْسَ لِي بِحَقٍّ ۚ إِن كُنتُ قُلْتُهُ فَقَدْ عَلِمْتَهُ ۚ تَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِي وَلَا أَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِكَ ۚ إِنَّكَ أَنتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ  مَا قُلْتُ لَهُمْ إِلَّا مَا أَمَرْتَنِي بِهِ أَنِ اعْبُدُوا اللَّـهَ رَبِّي وَرَبَّكُمْ ﴾(المائدہ :5؍ 116۔117) ” اور وہ وقت بھی قابل ذکر ہے جب اللہ فرمائے گا، اے عیسیٰ بن مریم ! کیا تو نے ان لوگوں سے کہا تھا کہ مجھ کو اور میری ماں کو بھی اللہ کے علاوہ معبود قرار دے لو۔ عیسیٰ عرض کریں گے کہ میں تجھ کو منزہ سمجھتا ہوں۔ مجھ کو کسی طرح زیبا نہیں تھا کہ میں ایسی بات کہتا جس کے کہنے کا مجھ کو کوئی حق نہیں۔ اگر میں نے کہا ہوگا تو تجھ کو اس کا علم ہوگا۔ تو تو میرے دل کے اندر کی بات بھی جانتا ہے، اور میں تیرے نفس میں جو کچھ ہے اس کو نہیں جانتا۔ تمام غیبوں کا جاننے والا تو ہی ہے میں نے ان سے اور کچھ نہیں کہا، مگر صرف وہی جو تو نے مجھ سے کہنے کو فرمایا تھا کہ تم اللہ کی بندگی اختیار کرو، جو میرا بھی رب ہے اور تمہارا بھی رب ہے۔“ ﴿هَـٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِيمٌ﴾ ” یہی سیدھی راہ ہے“ یعنی اللہ کی عبادت، اس کا تقویٰ اور اس کے رسول کی فرماں برداری ہی سیدھی راہ ہے جو اللہ تک اور اس کی جنت تک پہنچاتی ہے۔ اس کے سوا ہر راستہ جہنم کی طرف پہنچانے والا ہے۔ آل عمران
52 ﴿ فَلَمَّا أَحَسَّ عِيسَىٰ مِنْهُمُ الْكُفْرَ ﴾” جب عیسیٰ نے ان کا کفر محسوس کرلیا“ دیکھا کہ وہ آپ کی اطاعت قبول کرنے پر آمادہ نہیں بلکہ انہیں جادوگر کہتے ہیں۔ آپ کو شہید کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور اس کی کوشش کر رہے ہیں﴿ قَالَ مَنْ أَنصَارِي إِلَى اللَّـهِ﴾” تو کہنے لگے : اللہ کی راہ میں میری مدد کرنے والا کون ہے؟“ یعنی اللہ کے دین کی نفرت کے لئے میرے ساتھ کون تعاون کرے گا؟﴿ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ نَحْنُ أَنصَارُ اللَّـهِ﴾” حواریوں (یعنی آپ کے مددگاروں) نے کہا ہم اللہ کی راہ کے مددگار ہیں“ یعنی انہوں نے آپ کا ساتھ دیا اور یہ فریضہ نبھایا۔ آل عمران
53 انہوں نے کہا : ﴿ آمَنَّا بِاللَّـهِ ﴾ ” ہم اللہ پر ایمان لائے“ ﴿فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّاهِدِينَ﴾” پس تو ہمیں گواہوں میں لکھ لے“ یعنی ایسی گواہی جو مفید ہو، اس گواہی سے مراد اللہ کی توحید کا اقرار اور نبیوں کی تصدیق اور اس کے مطابق عمل۔ جب وہ دین کی نصرت کے لئے اور شریعت کو قائم کرنے کے لئے عیسیٰ کے ساتھ ہوگئے تو بنی اسرائیل کا ایک گروہ ایمان لے آیا اور ایک گروہ نے کفر اختیار کیا۔ ان دونوں میں جنگ ہوئی تو اللہ نے مومنوں کی مدد کی اور مشرکوں کو شکست ہوئی اور اہل توحید کامیاب ہوگئے۔ آل عمران
54 اس لئے اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : ﴿وَمَكَرُوا﴾ ” اور انہوں (کافروں) نے تدبیر کی“ یعنی اللہ کے نور کو بجھانے کے لئے اللہ کے نبی کو شہید کرنے کا منصوبہ بنایا ﴿وَمَكَرَ اللَّـهُ﴾” اور اللہ نے بھی خفیہ تدبیر کی“ اور انہیں ان کے منصوبوں کی سزا دینے کا فیصلہ فرمایا۔ ﴿وَاللَّـهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ﴾ ” اور اللہ سب خفیہ تدبیر کرنے والوں سے بہتر ہے“ اللہ تعالیٰ نے ان کی تدبیر کو ناکام بنا دیا اور ورہ خائب و خاسر ہو کر رہ گئے۔ آل عمران
55 ﴿إِذْ قَالَ اللَّـهُ يَا عِيسَىٰ إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا﴾” جب اللہ نے فرمایا: اے عیسیٰ ! میں تجھے پورا لینے والا ہوں، اور تجھے اپنی طرف اٹھانے والا ہوں اور تجھے کافروں سے پاک کرنے والا ہوں۔“ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے اور اپنے رسول عیسیٰ علیہ السلام کو اپنی طرف آسمانوں پر اٹھا لیا اور کسی اور شخص پر آپ کی مشابہت ڈال دی۔ جس آدمی کو آپ کا ہم شکل بنایا گیا تھا، دشمنوں نے اسے پکڑ کر صلیب پر چڑھایا اور قتل کردیا۔ اس طرح وہ ایک عظیم جرم کے مرتکب ہوئے کیونکہ ان کی نیت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو شہید کرنے کی تھی اور اپنے خیال میں وہ اس کوشش میں کامیاب بھی رہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَـٰكِن شُبِّهَ لَهُمْ ۚ﴾ (النساء :4؍ 157) ” نہ تو انہوں نے اسے قتل کیا، نہ سولی پر چڑھایا، بلکہ ان کے لئے وہی صورت بنا دی گئی تھی“ اس آیت سے اللہ تعالیٰ کا مخلوق سے اوپر ہونا، اور عرش پر حقیقتاً مستوی ہونا ثابت ہوتا ہے، جیسے کہ قرآن و حدیث کی نصوص سے ثابت ہوتا ہے جنہیں اہل سنت نے تسلیم کیا ہے اور اس پر ایمان رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ غالب، قوی اور زبردست ہے۔ جس کا ایک مظہر بنی اسرائیل کا عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کرنے کا پختہ ارادہ کرلینے اور پروگرام بنا لینے اور اس میں کوئی ظاہری رکاوٹ نہ ہونے کے باوجود، اس کو عملی جامہ پہنانے میں ناکام رہنا ہے جیسے اللہ کا ارشاد ہے : ﴿وَإِذْ كَفَفْتُ بَنِي إِسْرَائِيلَ عَنكَ إِذْ جِئْتَهُم بِالْبَيِّنَاتِ فَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ إِنْ هَـٰذَا إِلَّا سِحْرٌ مُّبِينٌ﴾ (المائدہ :5؍ 110) ” اور جب میں نے بنی اسرائیل کو تم سے باز رکھا، جب تم ان کے پاس دلیلیں لے کر آئے تھے۔ پھر ان میں سے جو کافر تھے۔ انہوں نے ہا تھا کہ بجز کھلے جادو کے یہ اور کچھ بھی نہیں۔“ اللہ تعالیٰ حکیم ہے، جو ہر چیز کو اس کے مناسب مقام پر رکھتا ہے۔ بنی اسرائیل کو شبہ میں رکھنے میں بھی اس کی عظیم حکمت پوشیدہ تھی۔ چنانچہ وہ شبہ میں پڑگئے جیسے ارشاد ہے: ﴿وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِيهِ لَفِي شَكٍّ مِّنْهُ ۚ مَا لَهُم بِهِ مِنْ عِلْمٍ إِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ ۚ وَمَا قَتَلُوهُ يَقِينًا﴾ (النساء :4؍107) ” یقین جانو، عیسیٰ کے بارے میں اختلاف کرنے والے ان کے بارے میں شک میں ہیں انہیں اس کا کوئی یقین نہیں بجز تخمینی باتوں پر عمل کرنے کے۔ اتنا یقینی ہے کہ انہوں نے اسے قتل نہیں کیا۔“ اس کے بعد فرمایا : ﴿وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ﴾” اور تیرے تابع داروں کو کفاروں کے اوپر رکھنے والا ہوں، قیامت کے دن تک“ پہلے بیان ہوچکا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے کافروں کے خلاف ان کے مومنوں کی مدد فرمائی۔ پھر عیسیٰ علیہ السلام سے نسبت رکھنے والے نصاریٰ یہودیوں پر ہمیشہ غالب رہے، کیونکہ یہود کی نسبت عیسائی عیسیٰ علیہ السلام کی اتباع سے قریب تر تھے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا تو مسلمان عیسیٰ علیہ السلام کے حقیقی متبع بنے۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہود و نصاریٰ اور دیگر کفار کے خلاف مسلمانوں کی مدد فرمائی۔ البتہ کسی کسی زمانے میں عیسائی وغیرہ کافر مسلمانوں پر غالب آتے ہیں۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی حکمت پوشیدہ ہے اور یہ مسلمانوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع سے پہلو تہی کرنے کی سزا ہے۔ ﴿ثُمَّ إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ﴾ ” پھر تم سب کا (یعنی تمام مخلوقات) کا لوٹنا میری ہی طرف ہے۔“ ﴿فَأَحْكُمُ بَيْنَكُمْ فِيمَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ﴾ ” پس میں ہی تمہارے آپس کے تمام تر اختلافات کا فیصلہ کروں گا۔“ ہر ایک کا دعویٰ ہے کہ وہی حق پر ہے اور دوسرے سب غلطی پر ہیں۔ یہ سب دعوے ہیں جنہیں دلیل کی ضرورت ہے۔ آل عمران
56 چنانچہ اللہ ان کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کرتا ہے اور وہ یہ ہے کہ ﴿ فَأَمَّا الَّذِينَ كَفَرُوا ﴾” پھر جنہوں نے انکار کیا“ اللہ کے ساتھ کفر کیا، اس کی آیات کا اور رسولوں کا انکار کیا ﴿فَأُعَذِّبُهُمْ عَذَابًا شَدِيدًا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ﴾ ” پس میں انہیں دنیا اور آخرت میں سخت تر عذاب دوں گا“ دنیا کے عذاب سے مراد ظاہر نظر آنے والی مصیبتیں، سزائیں، قتل، ذلت وغیرہ ہیں اور آخرت کا عذاب سب سے بڑی آفت اور مصیبت ہے۔ یعنی جہنم کا عذاب، اللہ کی ناراضی، اور نیکی کے ثواب سے محرومی۔ ﴿وَمَا لَهُم مِّن نَّاصِرِينَ ﴾ ” اور ان کا کوئی مددگار نہ ہوگا“ جو انہیں اللہ کے عذاب سے بچا سکے۔ وہ بھی جنہیں وہ اللہ کے ہاں ان کی شفاعت کرنے والے سمجھتے ہیں، وہ بھی نہیں، جنہیں وہ اللہ کو چھوڑ کر دوست بناتے ہیں، نہ ان کے رفیق نہ رشتے دار، نہ وہ خود اپنی کچھ مدد کرسکیں گے۔ آل عمران
57 ﴿وَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا﴾ ” لیکن جو لوگ ایمان لائے‘،اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پر، موت کے بعد کی زندگی پر اور ان سب امور پر ایمان لائے، جن پر ایمان لانے کا انہیں حکم دیا گیا ہے۔ ﴿وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ﴾” اور نیک اعمال کئے“ دل، زبان اور بدن سے ادا ہونے والے وہ اعمال جنہیں رسولوں نے مشروع اور مطلوب قرار دیا اور ان اعمال سے ان کا مقصد رب العالمین کو خش کرنا تھا۔ ﴿فَيُوَفِّيهِمْ أُجُورَهُمْ﴾” پس انہیں وہ (اللہ تعالیٰ) ان کا پورا ثبوت دے گا۔“ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انہیں دنیا میں بھی نیکیوں کا ثواب ملے گا، یعنی عزت، احترام، مدد، پاکیزہ زندگی، البتہ مکمل ثواب قیامت کو ملے گا کہ اللہ ہر عمل کرنے والے کو اس کے عمل کا ثواب بھی دے گا اور اپنے فضل و کرم سے مزید انعامات بھی دے گا۔ ﴿وَاللَّـهُ لَا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ ﴾ ” اور اللہ ظالموں سے محبت نہیں کرتا“ بلکہ ان سے ناراض ہے اور انہیں عذاب دیتا ہے ۔ آل عمران
58 ﴿ذٰلِكَ نَتْلُوهُ عَلَيْكَ مِنَ الْآيَاتِ وَالذِّكْرِ الْحَكِيمِ ﴾ ” یہ جسے ہم تیرے سامنے پڑھ رہے ہیں، آیتیں ہیں اور حکمت والی نصیحت ہے۔“ یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اور آپ کی امت پر اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان ہے کہ ان پر یہ حکمت والا قرآن نازل کیا جو محکم اور پختہ ہے۔ تمام احکام، حلال و حرام، گزشتہ انبیائے کرام کے واقعات اور ان کے ہاتھوں ظاہر ہونے والے واضح معجزات بیان کرتا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ قرآن وہ تمام احکام و قصص بیان کرتا ہے جو ہمارے لئے مفید ہیں۔ ہمیں اس سے علم، عبرت، ثابت قدمی اور اطمینان قلب حاصل ہوتا ہے جو رب کی عظیم ترین نعمت ہے۔ آل عمران
59 عیسائی عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں وہ عقیدہ رکھتے ہیں جو درست نہیں، ان کے پاس اس کی کوئی قوی یا ضعیف دلیل بھی نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ چونکہ آپ کا کوئی والد نہیں، اس لئے وہ حق رکھتے ہیں کہ انہیں اللہ کا بیٹا اور شریک تسلیم کیا جائے۔ یہ بات دلیل تو درکنار، شبہ بننے کے بھی قابل نہیں۔ کیونکہ عیسیٰ علیہ السلام کو اس طرح پیدا کرنے سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ اکیلا اللہ ہی تخلیق و تدبیر کا مالک ہے اور تمام اسباب اس کی مشیت وارادہ کے تابع ہیں۔ چنانچہ اس سے ان کے قول کی تردید ہی ہوتی ہے تائید نہیں۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ مخلوق کا کوئی فرد اللہ کے ساتھ کسی بھی لحاظ سے شریک بننے کا مستحق نہیں۔ علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو بغیر باپ اور بغیر ماں کے پیدا کیا۔ اس سے لازم آتا ہے کہ عیسائی آدم علیہ السلام کے بارے میں بھی وہی عقیدہ رکھیں جو عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں رکھتے ہیں۔ اگر مسیح علیہ السلام کو بغیر باپ کے پیدا کرنے کی وجہ سے اللہ کا بیٹا اور معبود قرار دیا جاسکتا ہے تو آدم علیہ السلام کے ماں اور باپ دونوں کے بغیر پیدا ہونے کی وجہ سے ان کے معبود ہونے کا بالا ولیٰ دعویٰ کرنا چاہیے۔ اس لئے اللہ نے فرمایا : ﴿ إِنََّ مَثَلَ عِيسَىٰ عِندَ اللَّـهِ كَمَثَلِ آدَمَ ۖ خَلَقَهُ مِن تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ كُن فَيَكُونُ الْحَقُّ مِن رَّبِّكَ﴾”یعنی ہم نے عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں جو کچھ بیان فرمایا ہے حق اور اعلیٰ ترین سچائی ہے، کیونکہ یہ (رب) ” پالنے والے“ کی طرف سے ہے، آپ کے لئے اور آپ کی امت کے لئے خصوصی تربیت میں اس کے بیان کردہ یہ انبیاء کرام کے واقعات بھی ہیں۔   آل عمران
60 ﴿فَلَا تَكُن مِّنَ الْمُمْتَرِينَ﴾” پس آپ شک کرنے والوں میں سے نہ ہوں“ یعنی اللہ تعالیٰ نے آپ کو جو کچھ بتایا ہے اس میں شک نہ کیجئے گا۔ اس میں اور اس کے بعد والی آیت سے ایک اہم قاعدہ و قانون ثابت ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ عقیدہ یا عمل سے تعلق رکھنے والا جو مسئلہ دلائل سے ثابت ہوجائے تو اس کے خلاف ہر قول کے بارے میں یہ پختہ یقین ہونا چاہیے کہ وہ باطل ہے۔ اس پر جو بھی شبہ وارد کیا جائے، وہ غلط ہے۔ خواہ بندہ اس کا جواب تلاش کرسکے یا نہ کرسکے۔ شبہ کا جواب نہ دے سکنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ یہ یقینی بات قابل تنقید ہے، کیونکہ حق کے خلاف ہر بات باطل ہی ہوسکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿ فَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلَالُ ﴾(یونس:10؍32)” حق کے بعد سوائے گمراہی کے اور کچھ نہیں“ اس شرعی قاعدہ کی مدد سے انسان کے وہ بہت سے اشکال حل ہوجاتے ہیں جو اہل کلام اور اہل منطق کی طرف سے پیش کئے جاتے ہیں۔ اگر کوئی انسان ان کا جواب دے سکتا ہے تو وہ ایک زائد نیکی ہوگی۔ ورنہ اس کا اصل فرض یہی ہے کہ دلائل کے ساتھ حق کو واضح کرے اور اس کی طرف دعوت دے۔ آل عمران
61 آیات کا مطلب یہ ہے ﴿فَمَنْ حَاجَّكَ﴾ کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو شخص عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں آپ سے بحث کرتا ہے اور انہیں ان کے اصل مقام سے بڑھاتے ہوئے یہ دعویٰ کرتا ہے کہ ان کا مقام عبودیت کے مقام سے بلند تر ہے۔ حالانکہ﴿مِن بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ ﴾ آپ کے پاس یقینی علم آچکا ہے کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور آپ نے ایسے شخص کے لئے دلائل کے ساتھ واضح کردیا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے انعام یافتہ بندے ہیں تو ثابت ہوجاتا ہے کہ آپ کی اتباع کرکے ایسے یقینی علم کو نہ ماننے والا عناد میں مبتلا ہے، لہٰذا اس سے بحث و مباحثہ کرنے میں نہ آپ کو کوئی فائدہ حاصل ہوسکتا ہے، نہ اس کو۔ کیونکہ حق واضح ہوچکا ہے، لہٰذا اس کی بحث محض اللہ اور رسول کی مخالفت اور ضد کی بنا پر ہے۔ اس کا مقصد اپنے نفس کی خواہش کے پیچھے چلنا ہے، حق کی اتباع نہیں۔ ایسے شخص کا کوئی علاج نہیں ہوسکتا۔ اس لئے اللہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ اس سے مباہلہ اور ملاعنہ کریں۔ یعنی دونوں فریق اللہ کے سامنے عجز ونیاز کے ساتھ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ جھوٹے فریق پر اپنی لعنت اور عذاب نازل کرے۔ اس میں فریقین خود بھی اور ان کے سب سے پیارے افراد یعنی بیویاں اور اولاد وغیرہ بھی شریک ہوں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس کی دعوت دی تو انہوں نے یہ چیلنج قبول کرنے سے انکار کردیا۔ کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ اگر مباہلہ کیا تو انہیں فوری سزا ملے گی اور ان کے اہل و عیال ہلاک ہوجائیں گے۔ وہ اپنے دین پر قائم رہے حالانکہ انہیں معلوم تھا کہ یہ باطل ہے۔ یہ انتہائی درجے کا عناد اور فساد ہے۔ اس لئے اللہ نے فرمایا : ﴿فَإِن تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّـهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ﴾’’پھر بھی اگر قبول نہ کریں تو اللہ ہی صحیح طور پر فسادیوں کو جاننے والا ہے“ وہ انہیں سخت ترین سزا دے گا اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا آل عمران
62 :﴿إِنَّ هَـٰذَا لَهُوَ الْقَصَصُ الْحَقُّ ۚ﴾” یقیناً صرف یہی سچا بیان ہے“ یعنی جو کچھ اللہ نے بیان کیا ہے وہی حق ہے۔ اس کے خلاف ہر چیز باطل ہے۔﴿ وَمَا مِنْ إِلَـٰهٍ إِلَّا اللَّـهُ﴾اور کوئی معبود برحق نہیں سوائے اللہ کے“ اس کے سوا کسی کی عبادت درست نہیں، کوئی اور ذرہ برابر عبادت کا بھی حق نہیں رکھتا۔ ﴿ وَإِنَّ اللَّـهَ لَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ﴾” بے شک اللہ ہی غالب اور حکمت والا ہے“ وہ ہر چیز پر غالب ہے اور ہر چیز اس کے سامنے سرنگوں ہے۔ وہ حکمت والا ہے جو ہر چیز کو صحیح مقام پر رکھتا ہے۔ کافروں کے ذریعے سے مومنوں کی آزمائش میں بھی اس کی حکمت کاملہ موجود ہے۔ جن سے مومن قولی اور عملی طور پر جہاد اور قتال کرتے رہتے ہیں۔ آل عمران
63 آل عمران
64 اللہ تعالیٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے کہ آپ اہل کتاب یعنی یہود و نصاریٰ سے کہہ دیجئے کہ ﴿ تَعَالَوْا إِلَىٰ كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ﴾” ایسی انصاف والی بات کی طرف آؤ جو ہم میں تم میں برابر ہے“ یعنی ہم اس کی بنیاد پر متحد ہوجائیں، اس سے مراد وہ بات ہے جس پر تمام انبیاء و رسل کا اتفاق ہے، جس کی مخالفت سوائے گمراہ اور ضدی لوگوں کے کسی نے نہیں کی اور وہ بات فریقین میں سے کسی ایک کے ساتھ مخصوص نہیں، بلکہ دونوں میں مشترک ہے۔ یہ اختلاف کے موقع پر انصاف والی بات ہے۔ پھر اس کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا : ﴿أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّـهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا﴾ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور نہ اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک بنائیں“۔ اکیلے اللہ کی عبادت کریں۔ محبت، خوف اور امید کا تعلق صرف اسی سے رکھیں۔ اس کے ساتھ نہ کسی نبی کو شریک کریں نہ ولی کو، نہ صنم کو نہ وثن کو، نہ حیوان کو نہ جمادات کو﴿ وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّـهِ﴾’’اور نہ اللہ کو چھوڑ کر آپس میں ایک دوسرے کو رب بنائیں“ بلکہ صرف اللہ کی اور اس کے رسولوں کی اطاعت کریں۔ ہم کسی مخلوق کی بات مان کر خالق کی نافرمانی نہ کریں۔ کیونکہ یہ کام مخلوق کو خالق کا مقام دینے کے مترادف ہے۔ جب اہل کتاب یا دوسرے غیر مسلموں کو اس بات کی دعوت دی جائے اور وہ تسلیم کرلیں تو وہ دوسرے مسلمانوں کے برابرہوجائیں گے۔ ان کے حقوق و فرائض دوسرے مسلمانوں کے برابر ہوں گے۔ اگر وہ تسلیم نہ کریں تو ثابت ہوجائے گا کہ وہ اپنی خواہش نفس کے پیروکار اور معاند ہیں تو انہیں گواہ بنا کر کہہ دو کہ ہم تو مسلمان ہیں۔ اس کا فائدہ غالباً یہ ہے کہ جب تم انہیں یہ بات کہو گے اور حقیقی اہل علم تم ہی ہو، تو یہ بات ان پر مزید حجت قائم کر دے گی۔ علاوہ ازیں جب تم ایمان لا کر اسلام میں داخل ہوچکے ہو تو اللہ کو دوسروں کے غیر مسلم رہنے کی پرواہ نہیں، کیونکہ وہ پاک نہیں ہیں، بلکہ ان کی فطرت ناپاک ہے۔ جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿قُلْ آمِنُوا بِهِ أَوْ لَا تُؤْمِنُوا ۚ إِنَّ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ مِن قَبْلِهِ إِذَا يُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ يَخِرُّونَ لِلْأَذْقَانِ سُجَّدًا ﴾(بنی اسرائیل:17؍107) ”کہہ دیجئے ! تم ایمان لاؤ یا نہ لاؤ، جنہیں اس سے پہلے علم دیا گیا ہے ان کے پاس تو جب بھی ان کی تلاوت کی جاتی ہے تو وہ ٹھوڑیوں کے بل سجدے میں گر پڑتے ہیں۔“ علاوہ ازیں ایمان والے عقیدے پر شبہات وارد ہونے سے مومن پر یہ ضروری ہوجاتا ہے کہ وہ اپنے ایمان کی تجدید کرے اور اپنے اسلام کا اعلان کرے اور اس طرح اپنے یقین کی خبر دے اور اپنے رب کی نعمت پر اس کا شکر ادا کرے۔ آل عمران
65 یہودیوں کا دعویٰ تھا کہ ابراہیم علیہ السلام یہودی تھے اور عیسائی کہتے تھے کہ آپ عیسائی تھے۔ اس بارے میں وہ جھگڑتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی بحث و جدال کا تین طریقوں سے جواب دیا ہے۔ اولاً: ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں ان کا جھگڑا، ایسے معاملے میں ہے جس کے بارے میں انہیں علم حاصل نہیں، لہٰذا انہیں اس موضوع پر بحث ہی نہیں کرنی چاہیے جن سے ان کا تعلق ہی نہیں۔ تو رات و انجیل کے مسائل کے بارے میں تو انہوں نے بحث و مجادلہ کیا، خواہ ان کا موقف صحیح تھا یا غلط۔ لیکن ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں بحث کرنے کا انہیں کوئی حق حاصل نہیں۔ ثانیاً: یہود تو رات کے احكام و مسائل کی طرف منسوب ہیں اور نصاریٰ کا تعلق انجیل کے احکام و مسائل سے ہے اور یہ دونوں کتابیں ابراہیم علیہ السلام کے دنیا سے چلے جانے کے بہت بعد نازل ہوئی ہیں۔ پھر وہ لوگ ابراہیم علیہ السلام کو اپنے ساتھ کیوں ملاتے ہیں حالانکہ وہ ان سے بہت پہلے تھے۔ کیا یہ معقول بات ہے؟ اس لئے فرمایا : ﴿ أَفَلَا تَعْقِلُونَ﴾” کیا تم پھر بھی نہیں سمجھتے“ یعنی اگر تم خود اپنی بات کو سمجھ سکتے ہوتے تو یہ بات نہ کہتے۔ ثالثاً: اللہ تعالیٰ نے اپنے خلیل علیہ السلام کا یہود، نصاریٰ اور مشرکین سے کوئی بھی تعلق ہونے سے انکار فرمایا ہے، انہیں خالص مسلمان قرار دیا ہے۔ آپ سے تعلق ان کا ہے جو آپ پر ایمان لا کر آپ کی امت بنے، ان کے بعد ابراہیم علیہ السلام سے تعلق محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا، اور آپ پر ایمان رکھنے والوں کا ہے۔ یہی اصل میں آپ کے متبع ہیں، لہٰذا دوسروں کی نسبت ان ہی کا تعلق ابراہیم علیہ السلام سے ثابت ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ بھی ان کا مددگار اور موید ہے۔ اس کے برعکس جن لوگوں نے ابراہیم علیہ السلام کے دین کو پس پشت ڈال دیا، جیسے یہود، نصاریٰ اور مشرکین، ان کا ابراہیم علیہ السلام سے کوئی تعلق نہیں۔ نہ ابراہیم علیہ السلام کا ان سے کوئی تعلق ہے۔ انہیں اس خالی نسبت کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ ان آیات میں یہ مسئلہ بیان ہوا ہے کہ بغیرعلم کے بحث کرنا منع ہے۔ جو ایسی بات کرتا ہے، اسے اس کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔ ان میں علم تاریخ حاصل کرنے کی ترغیب بھی ہے۔ اس کے ذریعے سے بہت سے غلط اقوال اور غلط عقائد کی تردید کی جاسکتی ہے، جو تاریخ کے معلوم واقعات کے مخالف ہوں۔ آل عمران
66 آل عمران
67 آل عمران
68 آل عمران
69 اللہ تعالیٰ مومنوں کو اہل کتاب کے اس خبیث گروہ کی مکاریوں سے متنبہ فرما رہا ہے کہ ان کی خواہش یہی ہے کہ تمہیں گمراہ کردیں۔ جیسے ارشاد ہے ﴿وَدَّ كَثِيرٌ مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لَوْ يَرُدُّونَكُم مِّن بَعْدِ إِيمَانِكُمْ كُفَّارًا﴾(البقرۃ:2؍ 109)” اہل کتاب کے اکثر لوگ تمہیں ایمان لانے کے بعد دوبارہ کافر بنا دینے کی خواہش رکھتے ہیں“ اور جسے کسی چیز کی خواہش ہوتی ہے وہ اسے حاصل کرنے کے لئے جدوجہد بھی کرتا ہے۔ یہ گروہ بھی پوری کوشش کرتا ہے کہ مومنوں کو مرتد کردے۔ اس مقصد کے لئے وہ لوگ ہر ممکن طریقے سے شبہات پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن یہ اللہ کا فضل ہے کہ بری تدبیریں کرنے والا اپنا ہی نقصان کرتا ہے۔ اس لئے اللہ نے فرمایا: ﴿ وَمَا يُضِلُّونَ إِلَّا أَنفُسَهُمْ ﴾ ” دراصل وہ خود اپنے آپ کو گمراہ کررہے ہیں“ مومنوں کو گمراہ کرنے کی کوشش خود ان کی گمراہی اور عذاب میں اضافے کا باعث بنتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿الَّذِينَ كَفَرُوا وَصَدُّوا عَن سَبِيلِ اللَّـهِ زِدْنَاهُمْ عَذَابًا فَوْقَ الْعَذَابِ بِمَا كَانُوا يُفْسِدُونَ﴾(النحل:16؍ 88)” جنہوں نے کفر کیا اور اللہ کی راہ سے روکا، ہم ان کے عذاب میں عذاب کا اضافہ کردیں گے، کیونکہ وہ فساد کرتے تھے“ ﴿وَمَا يَشْعُرُونَ﴾’’اور سمجھتے نہیں“ انہیں اس بات کا احساس ہی نہیں ہوتا کہ ان کی کوشش خود انہی کو نقصان پہنچا رہی ہے، اور وہ تمہارا کچھ نہیں بگاڑ رہے۔ آل عمران
70 ﴿يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تَكْفُرُونَ بِآيَاتِ اللَّـهِ وَأَنتُمْ تَشْهَدُونَ﴾” اے اہل کتاب ! تم باوجود قائل ہونے کے پھر بھی اللہ کی آیات سے کیوں کفر کررہے ہو؟“ یعنی تمہیں اللہ کی آیات کا انکار کرنے پر کون سی چیز مجبور کرتی ہے حالانکہ تمہیں معلوم ہے کہ جس مذہب پر تم کار بند ہو، وہ باطل ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ لے کر آئے ہیں وہ حق ہے، خود تمہیں بھی اس میں شک نہیں بلکہ تم اس کی گواہی دیتے ہو اور بعض اوقات ایک دوسرے کو خفیہ طور پر یہ بات بتا بھی دیتے ہو۔ اس طرح اللہ نے انہیں اس گمراہی سے روکا ہے۔ پھر دوسروں کو گمراہ کرنے پر انہیں زجرو تو بیخ فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے : آل عمران
71 ﴿يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تَلْبِسُونَ الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَكْتُمُونَ الْحَقَّ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ﴾” اے اہل کتاب ! باوجود جاننے کے حق و باطل کو کیوں خلط ملط کرتے ہو؟ اور کیوں حق کو چھپا رہے ہو؟“ اللہ نے انہیں حق و باطل کو خلط ملط کرنے اور حق کو چھپانے پر تو بیخ کی ہے۔ کیونکہ ان دو طریقوں سے وہ اپنے ساتھ تعلق رکھنے والوں کو گمراہ کرتے ہیں۔ جب علماء حق و باطل میں امتیاز نہ کریں، بلکہ معاملہ مبہم رہنے دیں اور جس کو ظاہر کرنا ان کا فرض ہے، اسے چھپالیں، تو اس کا نتیجہ بہت برا نکلے گا کہ حق چھپ جائے گا اور باطل عام ہوجائے گا اور جو عوام حق کے متلاشی ہوں گے، انہیں ہدایت نہیں ملے گی، حالانکہ اہل علم سے تو یہ مطلوب ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے حق ظاہر کریں۔ اس کا اعلان کریں، حق کو باطل سے اور پاک کو ناپاک سے الگ کرکے واضح کردیں۔ حلال و حرام اور صحیح و غلط عقائد کو الگ الگ کردیں، تاکہ ہدایت یافتہ لوگ ہدایت پر قائم رہیں اور گمراہ حق کی طرف پلٹ آئیں اور عناد کی وجہ سے انکار کرنے والوں پر اتمام حجت ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ﴿وَإِذْ أَخَذَ اللَّـهُ مِيثَاقَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَتُبَيِّنُنَّهُ لِلنَّاسِ وَلَا تَكْتُمُونَهُ فَنَبَذُوهُ وَرَاءَ ظُهُورِهِمْ﴾ (آل عمران:3؍ 187)” جب اللہ نے ان لوگوں سے وعدہ لیا جنہیں کتاب دی گئی تھی کہ اسے لوگوں کے لئے بیان کریں گے اور چھپائیں گے نہیں، تو انہوں نے اس وعدے کو پس پشت ڈال دیا۔‘‘ آل عمران
72 اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس خبیث جماعت کے ارادوں اور مومنوں کے خلاف سازش کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : ﴿وَقَالَت طَّائِفَةٌ مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ آمِنُوا بِالَّذِي أُنزِلَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَجْهَ النَّهَارِ وَاكْفُرُوا آخِرَهُ ﴾ ” اور اہل کتاب کی ایک جماعت نے کہا : جو کچھ ایمان والوں پر اتارا گیا ہے اس پر دن چڑھے تو ایمان لاؤ اور شام کے وقت کافر بن جاؤ“ یعنی صبح کے وقت مکر اور دھوکا کرتے ہوئے ایمان کا اظہار کرو۔ اور جب شام ہو تو اسلام سے نکل جاؤ﴿لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ﴾ ’’تاکہ یہ لوگ بھی (اپنے دین سے) پلٹ جائیں۔“ پس وہ سوچیں گے اگر یہ دین صحیح ہوتا تو اہل کتاب جو اہل علم ہیں وہ اس سے نہ نکلتے۔ انہوں نے یہ چاہا، اپنے آپ کو اچھا سمجھتے اور یہ گمان کرتے ہوئے کہ لوگ ان کے بارے میں حسن ظن رکھتے ہوئے ان کے ہر قول و عمل میں ان کی پیروی کریں گے۔ لیکن اللہ تعالیٰ اپنا نور پورا کرکے رہے گا خواہ کافروں کو کتنا ہی ناگوار ہو آل عمران
73 ﴿وَ﴾” اور“ انہوں نے ایک دوسرے سے کہا۔﴿ لَا تُؤْمِنُوا إِلَّا لِمَن تَبِعَ دِينَكُمْ﴾” سوائے تمہارے دین پر چلنے والوں کے اور کسی کا یقین نہ کرو“۔ یعنی تم صرف اپنے ہم مذہب افراد پر اعتماد کرنا، دوسروں سے اس بات کو چھپا کر رکھنا۔ اگر تم نے دوسرے مذہب والوں کو بتا دیا تو جو علم تمہیں حاصل ہے انہیں بھی حاصل ہوجائے گا تو وہ تمہارے جیسے ہوجائیں گے یا قیامت کے دن تم سے بحث کریں گے اور رب کے پاس تمہارے خلاف گواہی دیں گے کہ تم پر حجت قائم ہوچکی تھی اور تمہیں ہدایت معلوم ہوچکی تھی، لیکن تم نے اس کی اتباع نہیں کی۔ خلاصہ یہ ہے کہ انہوں نے یہ سمجھا کہ اگر ہم مومنوں کو نہیں بتائیں گے تو انہیں اس سازش کا بالکل علم نہیں ہوسکے گا کیونکہ ان کے خیال میں علم صرف انہی کے پاس ہوسکتا ہے جس سے ان پر حجت قائم ہو۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی تردید کرتے ہوئے فرمایا:﴿إِنَّ الْهُدَىٰ هُدَى اللَّـهِ﴾” بے شک ہدایت تو اللہ ہی کی ہدایت ہے“ لہٰذا ہر ہدایت یافتہ کو ہدایت اللہ ہی سے ملتی ہے۔ علم میں یا تو حق کو جاننا شامل ہے یا اسے اختیار کرنا۔ علم صرف وہی ہے جو اللہ کے رسول لائے ہیں اور توفیق صرف اللہ کی طرف سے ملتی ہے۔ اہل کتاب کو علم بہت کم ملا ہے اور توفیق سے وہ بالکل محروم ہیں کیونکہ ان کی نیتیں اور ارادے غلط ہیں۔ اس کے برعکس اس امت کو اللہ کی ہدایت کی وجہ سے علوم و معارف بھی حاصل ہوئے ہیں اور ان پر عمل کی توفیق بھی۔ اس وجہ سے وہ دوسروں سے افضل ہوگئے، لہٰذا وہی رہنما قرار پائے جو اللہ کے حکم کے مطابق ہدایت و رہنمائی کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ یہ امت پر اللہ کا عظیم فضل و احسان ہے۔ اس لئے اللہ نے فرمایا :﴿ قُلْ إِنَّ الْفَضْلَ بِيَدِ اللَّـهِ ﴾کہہ دیجئے، فضل تو اللہ ہی کی ہاتھ میں ہے”وہی اپنے بندوں پر ہر قسم کا احسان فرماتا ہے۔ “﴿ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاءُ﴾”وہ جسے چاہے اسے دے“ جو اس کے اسباب اختیار کرے گا، اللہ اس کو اپنا فضل دے گا،﴿ وَاللَّـهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ﴾” اور اللہ وسعت والاعلم والا ہے“ اس کا فضل و احسان بہت وسیع ہے۔ وہ جانتا ہے کون احسان کے قابل ہے، اسے وہ عطا فرماتا ہے اور کون اس کا مستحق نہیں، چنانچہ اسے محروم رکھتا ہے آل عمران
74 ﴿يَخْتَصُّ بِرَحْمَتِهِ مَن يَشَاءُ﴾” وہ اپنی رحمت کے ساتھ جسے چاہے مخصوص کرلے“ یعنی اس کی وہ مطلق رحمت جو دنیا میں ہوتی ہے اور آخرت سے متصل ہے۔ اس سے مراد دین کی نعمت اور اس کی تکمیل کرنے والی چیزیں ہیں۔ ﴿ وَاللَّـهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ﴾اور اللہ بڑے فضل والا ہے“ اس کے فضل کی وسعت بیان نہیں کی جاسکتی، بلکہ کسی انسان کے دل میں اس کا خیال بھی نہیں آسکتا۔ اس کا فضل و احسان وہاں تک پہنچتا ہے جہاں تک اس کا علم پہنچتا ہے۔ اے ہمارے رب ! تیری رحمت اور تیرا علم ہر شے کو محیط ہے۔ آل عمران
75 اللہ تعالیٰ اہل کتاب کے بارے میں بیان فرما رہا ہے کہ مالوں میں ان کی دیانت اور بددیانتی کا کیا حال ہے۔ جب دین کے بارے میں ان کی خیانت، مکر اور حق کو چھپانے کا ذکر فرمایا تو اس کے بعد بتایا کہ ان میں سے خائن بھی ہیں اور دیانت دار بھی۔ ان میں ایسے لوگ بھی ہیں کہ ﴿مَنْ إِن تَأْمَنْهُ بِقِنطَارٍ﴾ ’’تو اگر انہیں خزانے کا (یعنی بہت زیادہ مال کا) امین بنا دے“ ﴿يُؤَدِّهِ﴾ ” تو بھی وہ واپس کردیں“ اور اس سے کم تر تو بالا ولیٰ واپس کریں گے اور ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں کہ ﴿مَّنْ إِن تَأْمَنْهُ بِدِينَارٍ لَّا يُؤَدِّهِ إِلَيْكَ﴾ ’’اگر تو انہیں ایک دینار بھی امانت دے تو تجھے ادا نہ کریں“ اور بڑی رقم ادا کرنے سے تو بالاولیٰ انکار کریں گے۔ انہیں خیانت اور بے وفائی کی عادت اس لئے ہوئی کہ ان کے خیال کے مطابق﴿لَيْسَ عَلَيْنَا فِي الْأُمِّيِّينَ سَبِيلٌ ﴾ ’’ان پر جاہلوں کے حق میں کوئی گناہ نہیں“۔ یعنی اگر وہ (اُمِّیِین) ان پڑھ عربوں کے مال واپس نہ کریں تو انہیں گناہ نہیں ہوگا۔ وہ اپنی فاسد رائے کی بناء پر انہیں انتہائی حقیر سمجھتے ہیں اور خود کو انتہائی عظمت والے تصور کرتے ہیں، حالانکہ اصل میں حقیر اور ذلیل وہ خود ہیں۔ پس انہوں نے (اُمِّیِین) کے مال کی حرمت کو نہ سمجھا اور اسے انہوں نے اپنے لئے جائز قرار دے لیا۔ اس طرح وہ دو گناہوں کے مرتکب ہوئے۔ حرام کھانا اور حرام خوری کو حلال سمجھنا۔ یہ عقیدہ اللہ پر جھوٹ باندھنے کے مترادف ہے۔ کیونکہ جو عالم حرام اشیاء کو حلال کہتا ہے، وہ گویا لوگوں کو اللہ کا حکم سناتا ہے، اپنی بات نہیں سناتا، جبکہ اللہ کا یہ حکم نہیں اور اسی کو جھوٹ کہتے ہیں۔ اسی لئے اللہ نے فرمایا: ﴿ وَيَقُولُونَ عَلَى اللَّـهِ الْكَذِبَ وَهُمْ يَعْلَمُونَ﴾ ” یہ لوگ باوجود جاننے کے اللہ پر جھوٹ کہتے ہیں“ یہ گناہ بغیرجانے بوجھے اللہ کے بارے میں باتیں بنانے سے بھی بڑا گناہ ہے۔ پھر اللہ نے ان کے غلط خیال کی تردید کرتے ہوئے فرمایا آل عمران
76 ﴿بَلَىٰ﴾ یعنی حقیقت وہ نہیں جو تم کہہ رہے ہو کہ تمہیں جاہلوں کے حق کا مواخذہ نہیں ہوگا۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ تمہیں اس جرم کا سخت گناہ ہوگا۔ ﴿ مَنْ أَوْفَىٰ بِعَهْدِهِ وَاتَّقَىٰ ﴾’’جو شخص اپنا قرار پورا کرے۔ اور پرہیز گاری کرے“۔ اس عہد و قرار میں وہ وعدہ بھی شامل ہے جو بندے اور رب کے درمیان ہے۔ اس میں اللہ کے وہ تمام حق شامل ہیں جو اس نے بندے پر واجب کئے ہیں اور وہ وعدہ بھی شامل ہے جو بندے کا دوسرے بندوں سے ہوتا ہے۔ اس مقام پر عہدو پیمان سے مراد ان گناہوں سے بچنا ہے جو حقوق اللہ سے تعلق رکھتے ہیں اور ان سے بھی جو حقوق العباد سے متعلق ہیں۔ جو شخص ان سب گناہوں سے بچتا ہے وہ متقی ہے جن سے اللہ تعالیٰ محبت رکھتا ہے خواہ وہ (اُمِّیِین) (عرب ان پڑھ لوگوں) میں سے ہو یا دوسروں میں سے ہو اور جو شخص یہ کہتا ہے کہ ہمیں جاہلوں کے حق کا کوئی گناہ نہیں، اس نے اللہ کا وعدہ پورا نہیں کیا اور اللہ سے نہیں ڈرا۔ لہٰذا اسے اللہ کی محبت حاصل نہیں ہوئی، بلکہ اللہ اس سے بغض رکھتا ہے۔ اگر ان پڑھ ایفائے عہد، تقویٰ اور مالی خیانت سے پرہیز سے متصف ہوں گے تو وہی اللہ کے پیارے ہوں گے، وہی متقی کہلائیں گے جن کے لئے جنت تیار کی گئی ہے۔ وہ اللہ کی مخلوق میں افضل مقام پر فائز ہوں گے لیکن جو لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں جاہلوں کی حق تلفی کرنے سے گناہ نہیں ہوتا وہ اللہ کے اس قول میں داخل ہوتے ہیں : آل عمران
77 ﴿ إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّـهِ وَأَيْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِيلًا﴾” بے شک جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کو تھوڑی قیمت پر بیچ ڈالتے ہیں“۔ اس میں ہر وہ شخص شامل ہے جو اللہ کی یا بندوں کی حق تلفی کرکے اس کے عوض دنیا کی کوئی چیزلیتا ہے۔ اسی طرح جو شخص جھوٹی قسم کھا کر کسی کا مال ناجائز طور پر لے لیتا ہے وہ بھی اس آیت میں شامل ہے۔ یہی لوگ ہیں جن کے بارے میں ارشاد ہے: ﴿ لَا خَلَاقَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ﴾ ان کے لئے آخرت میں کوئی حصہ نہیں“ یعنی وہاں انہیں کوئی بھلائی اور خیر حاصل نہیں ہوگی۔ ﴿ وَلَا يُكَلِّمُهُمُ اللَّـهُ﴾” اور اللہ ان سے بات نہیں کرے گا‘،یعنی قیامت کے دن ان سے ناراض ہوگا اس لئے ان سے کلام نہیں کرے گا۔ کیونکہ انہوں نے خواہش نفس کو رب کی رضا سے مقدم سمجھا ہے۔﴿ وَلَا يُزَكِّيهِمْ﴾” اور نہ انہیں پاک کرے گا“ اللہ تعالیٰ انہیں گناہوں سے پاک نہیں کرے گا، ان کے عیب زائل نہیں کرے گا۔ ﴿ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴾” اور ان کے لئے درد ناک عذاب ہے“ جس سے دلوں کو بھی تکلیف ہوگی اور بدنوں کو بھی۔ وہ ہے ناراضی کا عذاب، دیدار الٰہی سے محرومی کا عذاب، اور جہنم کا عذاب۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے محفوظ رکھے۔ آمین۔ آل عمران
78 اللہ تعالیٰ بتا رہا ہے کہ اہل کتاب میں سے ایک گروہ ایسا ہے جو کتاب پڑھتے ہوئے اپنی زبان مروڑتا ہے اور اسے اس کے اصل معانی سے ہٹا دیتا ہے۔ اس میں لفظی تحریف بھی شامل ہے اور معنوی تحریف بھی۔ کتاب سے اصل مطلوب یہ ہے کہ اس کے الفاظ کو یاد کیا جائے، ان میں تبدیلی نہ کی جائے اس کے مفہوم کو سمجھا اور سمجھایا جائے۔ انہوں نے صورت حال برعکس کردی اور وہ بات سمجھائی جو کتاب سے مراد نہیں۔ خواہ اشارتاً ایسا کیا ہو یا صراحتاً۔ اشارتاً کا ذکر ان الفاظ میں ہے﴿ لِتَحْسَبُوهُ مِنَ الْكِتَابِ﴾؟’’تاکہ تم اسے کتاب میں سے خیال کرو‘،یعنی وہ اپنی زبانوں کو مروڑ کر یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ اللہ کی کتاب سے یہی مسئلہ مراد ہے۔ حالانکہ حقیقت میں وہ مراد نہیں ہوتا۔ صراحتاً کا ذکر ان الفاظ میں ہے۔ ﴿وَيَقُولُونَ هُوَ مِنْ عِندِ اللَّـهِ وَمَا هُوَ مِنْ عِندِ اللَّـهِ وَيَقُولُونَ عَلَى اللَّـهِ الْكَذِبَ ﴾” اور یہ کہتے ہیں کہ وہ اللہ کی طرف سے ہے حالانکہ دراصل وہ اللہ کی طرف سے نہیں وہ دانستہ اللہ پر جھوٹ بولتے ہیں“۔ یہ علم کے بغیر اللہ کے ذمے کوئی بات لگانے سے بڑا جرم ہے۔ یہ اللہ پر جھوٹ بولتے ہیں۔ اس طرح دو طرح کا جرم کرتے ہیں۔ صحیح مفہوم کی نفی کرتے ہیں اور غلط مفہوم کا اثبات کرتے ہیں اور جو لفظ حق معنی پر دلالت کرتا ہے اس سے باطل معنی مراد لیتے ہیں، حالانکہ وہ حقیقت سے باخبر ہوتے ہیں۔ آل عمران
79 اس آیت کا شان نزول یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ اہل کتاب کو ایمان لانے اور اطاعت کرنے کی تبلیغ کی تو انہوں نے کہا : ” محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا آپ چاہتے ہیں کہ ہم اللہ کے ساتھ آپ کی بھی عبادت کیا کریں؟“ اس کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی۔ فرمایا : ﴿مَا كَانَ لِبَشَرٍ﴾” کسی انسان کو یہ لائق نہیں“ یعنی جس انسان پر اللہ تعالیٰ یہ احسان کرے کہ اس پر کتاب نازل کرے، اسے علم سکھائے اور مخلوق کی طرف رسول بنا کر بھیجے ایسے انسان کے لئے ناممکن اور محال ہے کہ ﴿يَقُولَ لِلنَّاسِ كُونُوا عِبَادًا لِّي مِن دُونِ اللَّـهِ﴾” وہ لوگوں سے کہے کہ تم اللہ کو چھوڑ کر میرے بندے بن جاؤ“۔ ایسی بات کا کسی نبی کی زبان سے ادا ہونا سب سے بڑی محال چیز ہے، کیونکہ یہ مطالبہ اتنا قبیح ہے کہ اس سے قبیح کوئی اور حکم نہیں ہوسکتا اور انبیائے کرام کو کمال کا وہ مقام حاصل ہوتا ہے کہ اس سے زیادہ کمال کسی کو حاصل نہیں ہوسکتا۔ وہ حکم بھی ایسے کاموں کا دیتے ہیں جو ان کے حالات سے مناسبت رکھتے ہیں۔ وہ اعلیٰ کاموں کا حکم دیتے ہیں اور برے کاموں سے منع کرنے میں بھی کوئی ان سے بڑھ نہیں ہو سکتا۔ اس لئے فرمایا: ﴿وَلَـٰكِن كُونُوا رَبَّانِيِّينَ بِمَا كُنتُمْ تُعَلِّمُونَ الْكِتَابَ وَبِمَا كُنتُمْ تَدْرُسُونَ ﴾یعنی وہ تو یہی حکم دیں گے کہ لوگ ربانی بن جائیں۔ ربانی کا مطلب یہ ہے کہ وہ عالم ہوں، دانا ہوں، حلم اور بردباری سے موصوف ہوں، لوگوں کو تعلیم دیں اور ان کی تربیت کریں، پہلے علم کے چھوٹے (اور آسان) مسئلے بتائیں۔ پھر بڑے (اور پیچیدہ) مسائل سمجھائیں، خود بھی عمل کریں، چنانچہ وہ علم و عمل کا حکم دیتے ہیں، جس پر سعادت کا دارومدار ہے، جس میں کوئی چیز چھوٹ جائے تو نقص و خلل پیدا ہوجاتا ہے۔﴿بِمَا كُنتُمْ تُعَلِّمُونَ﴾ میں ” با“ سبیہ ہے۔ یعنی تم ربانی بن جاؤ اس سبب سے کہ تم دوسروں کو تعلیم دیتے ہو۔ اس میں یہ بات بھی آجاتی ہے کہ تم خود اہل علم ہو۔ تم اللہ کی کتاب اور رسول کی سنت پڑھتے ہو۔ اس کے پڑھنے پڑھانے سے علم پختہ ہوتا ہے اور باقی رہتا ہے۔ آل عمران
80 ﴿وَلَا يَأْمُرَكُمْ أَن تَتَّخِذُوا الْمَلَائِكَةَ وَالنَّبِيِّينَ أَرْبَابًاۗ ﴾’’اور یہ نہیں ہوسکتا کہ وہ تمہیں فرشتوں اور نبیوں کو رب بنا لینے کا حکم دے“ یہ تخصیص کے بعد تعمیم ہے۔ یعنی وہ تمہیں نہ اپنی ذات کی عبادت کا حکم دے گا نہ کسی بھی دوسری مخلوق کی عبادت کا حکم دے گا خواہ وہ فرشتے ہوں یا انبیاء یا کوئی اور ﴿ أَيَأْمُرُكُم بِالْكُفْرِ بَعْدَ إِذْ أَنتُم مُّسْلِمُونَ ﴾” کیا وہ تمہارے مسلمان ہونے کے بعد پھر کفر کا حکم دے گا؟“ یہ نہیں ہوسکتا۔ جس کو نبوت کا شرف حاصل ہو، اس سے کسی ایسی بات کا تصور بھی محال ہے۔ جو شخص کسی نبی کی طرف اس قسم کی کوئی بات منسوب کرتا ہے۔ وہ بہت بڑے گناہ کا بلکہ کفر کا ارتکاب کرتا ہے۔ آل عمران
81 ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے کہ اس نے نبیوں سے پختہ عہد و پیمان لیا، کیونکہ انہیں کتاب دی ہے جو اللہ کی طرف سے نازل ہوئی ہے اور حکمت دی ہے جو حق و باطل کے درمیان اور ہدایت و گمراہی کے درمیان فرق کرنے والی ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کوئی رسول بھیجے جو ان کے پاس آنے والی وحی اور کتاب کو سچامانے۔ تو تمام نبیوں کو چاہیے کہ اس پر ایمان لائیں۔ اس کی تصدیق کریں اور اپنی امتوں کو بھی اس پر ایمان و تصدیق کا حکم دیں۔ چنانچہ اللہ نے تمام انبیاء علیہ السلام پر واجب کیا ہے کہ ایک دوسرے پر ایمان لائیں اور ایک دوسرے کی تصدیق کریں، کیونکہ ان کے پاس جو بھی احکام آئے ہیں اللہ کی طرف سے ہیں۔ اور اللہ کی طرف سے آنے والی ہر چیز پر ایمان لانا اور اس کی تصدیق کرنا ضروری ہے۔ وہ سب ایک اکائی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ چونکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبین ہیں، لہٰذا تمام انبیائے کرام پر واجب ہے کہ جس نبی کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ ملے، وہ آپ پر ایمان لائے۔ آپ کی پیروی کرے اور آپ کی مدد کرے۔ کیونکہ آپ ان کے امام، پیشوا اور متبوع ہیں۔ یہ آیت کریمہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بلند مرتبے اور عظمت شان کی سب سے بڑی دلیل ہے، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیاء علیہم السلام سے افضل اور ان کے سردار ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ نے انبیائے کرام سے اقرار لیا ﴿قَالُوا أَقْرَرْنَا﴾” تو سب نے کہا : ہمیں اقرار ہے“ اور اے اللہ ! ہم تیرا حکم قبول کرتے اور اسے سر آنکھوں پر رکھتے ہیں۔ ﴿قَالَ فَاشْهَدُوا ﴾اللہ نے انہیں فرمایا : اپنی ذات کی طرف سے بھی اور اپنی امتوں کی طرف سے بھی گواہ رہو ﴿ وَأَنَا مَعَكُم مِّنَ الشَّاهِدِينَ﴾ ”اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں سے ہوں“ آل عمران
82 ﴿ فَمَن تَوَلَّىٰ بَعْدَ ذَٰلِكَ﴾” پس اس (پختہ وعدے اور عہد) کے بعد بھی (جس پر اللہ اور اس کے رسولوں کی گواہی ہے) جو پلٹ جائیں“﴿ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ﴾ تو وہ یقیناً پورے نافرمان ہیں“ لہٰذا جو شخص بھی یہ دعویٰ رکھتا ہے کہ وہ انبیائے کرام کا پیروکار ہے۔ یہودی ہو یا عیسائی یا کوئی اور اگر وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہیں لایا تو وہ اس پختہ عہد کی خلاف ورزی کررہا ہے۔ اس عہد شکنی کی سزا کے طور پر جہنم میں ہمیشہ رہنے کا مستحق ہوگیا ہے کیونکہ وہ نافرمان ہے۔ آل عمران
83 یعنی کیا یہ لوگ اللہ کے دین کے علاوہ کسی اور دین کے خواہش مند اور طالب ہیں؟ یہ خواہش نہ درست ہے نہ مناسب، اس لئے کہ اللہ کے دین سے بہتر کوئی دین نہیں﴿ وَلَهُ أَسْلَمَ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ طَوْعًا وَكَرْهًا﴾” حالانکہ تمام آسمانوں والے اور سب زمین والے اللہ ہی کے فرماں بردار ہیں۔ خوشی سے ہوں یا نا خوشی سے“ یعنی تمام مخلوق اس کی محکوم ہے۔ ان میں سے بعض نے اپنی خوشی سے اللہ کی اطاعت قبول کرلی ہے، وہ مومن ہیں جو خوشی سے اللہ کی عبادت کرتے ہیں اور کچھ مجبور اً اللہ کے فرماں بردار ہیں۔ اس میں باقی تمام مخلوقات شامل ہیں۔ حتیٰ کہ کافر بھی اللہ کی قضاء وقدر کو تسلیم کرنے پر مجبور ہیں۔ اس سے نکل نہیں سکتے۔ تمام مخلوق اسی کے پاس واپس جائے گی،وہ ان کے درمیان فیصلے کرے گا اور انہیں جزا و سزا دے گا۔ اور تمام معاملہ،اس کے فضل کا مظہر ہوگا یا اس کے عدل کا۔ آل عمران
84 اس مفہوم کی آیت سورۃ بقرہ میں گزر چکی ہے۔ آل عمران
85 اللہ نے بندوں کے لیے دین اسلام پسند کیا ہے۔ جو شخص اللہ کے اس پسندیدہ دین کے علاوہ کسی اور دین پر چلے گا،اس کا عمل نا قابل قبول ہوگا۔ کیونکہ دین اسلام میں اخلاص کے ساتھ اللہ کی اطاعت قبول کرنا اور رسولوں کی فرماں برداری کرنا شامل ہے۔ جب تک یہ کام نہ کرے، اس وقت تک اس نے اللہ کے عذاب سے نجات دینے والا اور اللہ کے ثواب کا باعث بننے والا عمل نہیں کیا۔ اور اسلام کے سواہر مذہب باطل ہے۔ آل عمران
86 یہ استفہام استبعاد کے معنی میں ہے۔ یعنی یہ بہت بعید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو ہدایت دے،جنہوں نے ایمان لاکر اور رسول کے سچا ہونے کی گواہی دینے کے بعد کفر اور زماہی کو اختیار کرلیا۔ ﴿وَاللَّـهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ﴾ آل عمران
87 آل عمران
88 ” اور اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا“ انہوں نے ظلم کیا اور حق کو پہچان کر اسے ترک کیا۔ اور ظلم اور سر کشی کرتے ہوئے اور خواہش نفس کی پیروی کرتے ہوئے باطل کو اختیار لیا،حالانکہ انہیں معلوم ہے کہ وہ باطل ہے،تو انہیں ہدایت کی توفیق نہیں ملتی۔ ہدایت کی امید اس شخص کے لیے کی جاسکتی ہے جس نے حق کو نہ پہچانا ہو،لیکن اسے حق کی تلاش ہو۔ ایسے شخص کے لیے ممکن ہے کہ اللہ اس کے لیے ہدایت کے اسباب میسر فرما دے،اور گمراہی کے اسباب سے بچا لے۔ پھر ان ظالموں اور ضدی لوگوں کی دنیوی اور اخروی سزا کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : ﴿أُولَـٰئِكَ جَزَاؤُهُمْ أَنَّ عَلَيْهِمْ لَعْنَةَ اللَّـهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ خَالِدِينَ فِيهَا لَا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَلَا هُمْ يُنظَرُونَ﴾ ’’ان کی یہی سزا ہے کہ ان پر اللہ کی، فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہے۔ وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے، ان کے عذاب کو ہلکا کیا جائے گا، نہ انہیں مہلت دی جائے گی۔“ یعنی ان کا عذب نہ تو لحظہ بھر کے لیے ختم کیا جائے گا،نہ لحظہ بھر کے لیے ہلکا کیا جائے گا۔ نہ انہیں مہلت دی جائے گی، کیونکہ مہلت کا زمانہ ختم ہوگیا اور اللہ نے ان کا عذر ختم کردیا۔ یعنی اتنی عمر دے دی جس میں اگر کوئی نصیحت حاصل کرنا چاہے تو کرسکتا ہے۔ اگر ان میں کوئی بھلائی ہوتی تو ظاہر ہوجاتی۔ اب انہیں اگر دوبارہ دنیا میں آنے کا موقع دیا جائے تو دوبارہ وہی کام کریں گے، جس سے انہیں منع کیا گیا تھا۔ آل عمران
89 اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ جو شخص ایمان لانے کے بعد کفر کا ارتکاب کرے۔ پھر گمراہی میں آگے ہی آگے بڑھتا جائے، ہدایت کو چھوڑے رکھے، ایسے شخص کی توبہ قبول نہیں ہوتی۔ یعنی اسے توبہ کی توفیق ہی نہیں ملتی جو قبول ہوسکے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ انہیں ڈھیل دیتا ہے تو وہ گمراہی میں ٹامک ٹوئیاں مارتے رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے﴿وَنُقَلِّبُ أَفْئِدَتَهُمْ وَأَبْصَارَهُمْ كَمَا لَمْ يُؤْمِنُوا بِهِ أَوَّلَ مَرَّةٍ﴾(الانعام:6؍110)” اور ہم ان کے دلوں اور نگاہوں کو پھیر دیں گے۔ جیسے یہ لوگ اس پر پہلی دفعہ ایمان نہیں لائے“ اور فرمایا : ﴿فَلَمَّا زَاغُوا أَزَاغَ اللَّـهُ قُلُوبَهُمْ ۚ وَاللَّـهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ﴾(الصف:61؍5) ” جب وہ ٹیڑھے ہوگئے تو اللہ نے بھی ان کے دل ٹیڑھے کردیے“ گناہوں سے گناہ پیدا ہوتے ہیں۔ خاص طور پر جو شخص سیدھا راستہ چھوڑ دے اور کفر عظیم کا ارتکاب کرے، حالانکہ اس پر حجت قائم ہوچکی ہو،اور اللہ نے اس کے لیے دلائل و براہین کو واضح کردیا ہو۔ کیونکہ اس نے خود رب کی رحمت کے اسباب کو منقطع کرنے کی کوشش کی،اور اپنے لیے توبہ کا دروازہ خود ہی بند کرلیا،لہٰذا گمراہی ایسے ہی لوگوں میں محصور ہوگئی ہے آل عمران
90 ۔ اللہ نے فرمایا : ﴿وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الضَّالُّونَ﴾ ” یہی لوگ گمراہ ہیں“ اس سے بڑی گمراہی کیا ہوسکتی ہے کہ انسان آنکھوں سے دیکھ کر سیدھی راہ کو ترک کر دے۔ آل عمران
91 یہ کافر اگر موت تک اپنے کفر پر قائم رہیں تو ان کے لیے ہلاکت اور ابدی بد نصیبی یقینی ہے،انہیں کسی چیز سے فائدہ نہیں ہوگا۔ ایسا شخص اگر زمین بھر سونا فدیہ دے کر اللہ کے عتاب سے بچنا چاہے تو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ بلکہ وہ ہمیشہ درد ناک عذاب میں پڑا رہے گا۔ نہ کوئی اس کی سفارش کرے گا،نہ مدد۔ نہ کوئی اس کی فریاد سنے گا،نہ کوئی اللہ کے عذاب سے بچا سکے گا۔ یہ لوگ ہر خیر سے مایوس ہیں۔ ان کے لیے عذاب میں ہمیشہ کے لیے رہنے کا فیصلہ ہوچکا ہے۔ اللہ ہمیں ان کے حال سے محفوظ رکھے۔ آل عمران
92 اس میں اللہ کی طرف سے بندوں کو ترغیب ہے کہ وہ نیکی کے کاموں میں خرچ کریں، چنانچہ فرمایا : ﴿لَن تَنَالُوا الْبِرَّ ﴾” تم ہرگز بھلائی نہ پاؤ گے“ یعنی تم کبھی ’’بر“ حاصل نہیں کرسکو گے۔” بر“ میں ہر قسم کے نیکی اور ثواب کے کام شامل ہیں جو کرنے والے کو جنت میں پہنچاتے ہیں۔﴿حَتَّىٰ تُنفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ﴾ ” جب تک تم ان چیزوں میں سے جو تمہیں عزیز ہیں (اللہ کی راہ میں) صرف نہ کرو گے۔“ یعنی جب تم مال کی محبت پر اللہ کی محبت کو ترجیح دیتے ہوئے اللہ کی رضامندی کے کاموں میں مال خرچ کرو گے تو اس سے ثابت ہوگا کہ تمہارا ایمان سچا ہے اور تمہارے دلوں میں نیکی اور تقویٰ موجود ہے۔ اس میں عمدہ اشیاء خرچ کرنا بھی شامل ہے اور خود ضرورت مند ہوتے ہوئے ضرورت کی چیز اللہ کی راہ میں دے دینا بھی اور صحت کی حالت میں خرچ کرنا بھی۔ آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ بندے کی نیکی کا معیار دل پسند اشیاء اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ہے۔ جس قدر یہ خوبی کم ہوگی اتنا ہی اس کے نیک ہونے میں نقص ہوگا۔ چونکہ بندوں کو ہر انداز سے خرچ کرنے کا ثواب ملتا ہے، کم ہو یا زیادہ، دل پسند چیز ہو یا نہ ہو اور ﴿لَن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّىٰ تُنفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ ۚ ﴾ سے یہ وہم پیدا ہوتا ہے کہ جس چیز سے دلی محبت نہ ہو اسے خرچ کرنے پر ثواب نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ نے اس وہم کو دور کرنے کے لئے فرمایا : ﴿َمَا تُنفِقُوا مِن شَيْءٍ فَإِنَّ اللَّـهَ بِهِ عَلِيمٌ﴾ ”اور جو کچھ تم خرچ کرو، اللہ اسے بخوبی جانتا ہے۔“ اللہ تمہیں تنگی میں نہیں ڈالتا، بلکہ تمہاری نیت اور چیز کے فائدے کے مطابق تمہیں اس کا ثواب دے دیتا ہے۔ آل عمران
93 یہ یہودیوں کے اس زعم باطل کی تردید ہے کہ احکام کا منسوخ ہونا جائز نہیں۔ اس لئے انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا انکار کیا، کیونکہ ان دونوں حضرات نے حلال و حرام کے بعض ایسے مسائل بیان فرمائے جو تورات کے احکام کے خلاف تھے۔ بحث میں انصاف کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کے خلاف خود ان کی مسلمہ کتاب تورات سے دلیل پیش کی گئی ہے کہ کھانے کی تمام چیزیں بنی اسرائیل کے لئے حلال تھیں۔ ﴿اِلَّا مَا حَرَّمَ إِسْرَائِيلُ عَلَىٰ نَفْسِهِ ﴾” سوائے اس کے جس چیز کو اسرائیل یعنی یعقوب نے اپنے اوپر حرام کرلیا تھا“ یہ چیزیں اللہ نے حرام نہیں کی تھیں، آپ کو عرق النساء کی بیماری ہوگئی تو آپ نے نذر مان لی کہ اگر اللہ نے شفاء عطا فرمائی تو وہ سب سے پسندیدہ غذا اپنے آپ پر حرام کرلیں گے۔ اللہ نے شفا دے دی تو مشہور قول کے مطابق انہوں نے اونٹ کا گوشت اور اونٹنی کا دودھ اپنے آپ پر حرام کرلیا۔ آپ کی اولاد نے بھی (آپ کے احترام میں) اس سے اجتناب کیا، یہ واقعہ تورات کے نزول سے بہت پہلے کا ہے۔ پھر تورات میں یعقوب کی حرام کردہ اشیاء کے علاوہ بعض دوسری حلال اور پاک اشیاء کی حرمت کا حکم نازل ہوا۔ جیسے اللہ نے فرمایا : ﴿ فَبِظُلْمٍ مِّنَ الَّذِينَ هَادُوا حَرَّمْنَا عَلَيْهِمْ طَيِّبَاتٍ أُحِلَّتْ لَهُمْ﴾ (النساء :4؍160) ” یہودیوں کے ظلم کی وجہ سے ہم نے ان پر کئی پاک چیزیں حرام کردیں جو ان کے لئے حلال تھیں“ اللہ تعالیٰ اپنے رسول کو حکم دیتا ہے کہ اگر یہودی اس حقیقت کا انکار کریں تو تورات پیش کرنے کا حکم دیجیے۔ لیکن وہ اس کے بعد بھی ظلم و عناد کی روش پر قائم رہے۔ آل عمران
94 اس لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :﴿ فَمَنِ افْتَرَىٰ عَلَى اللَّـهِ الْكَذِبَ مِن بَعْدِ ذٰلِكَ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ﴾” اس کے بعد بھی جو لوگ اللہ پر جھوٹ بہتان باندھیں، وہی ظالم ہیں“ اس سے بڑا ظلم کیا ہوسکتا ہے کہ ایک آدمی کو اللہ کی کتاب کی روشنی میں فیصلہ کرنے کی دعوت دی جاتی ہے اور وہ عناد، تکبر اور سرکشی کی بنا پر اس سے انکار کردیتا ہے۔ یہ بہت بڑی دلیل ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت حق ہے۔ آپ کی اور آپ کو خبریں دینے والے کی سچائی پر طرح طرح کی واضح دلیلیں موجود ہیں، جس (اللہ) نے آپ کو وہ خبریں دیں، جن کا علم آپ کو اللہ کے بتائے بغیر نہیں ہوسکتا۔ آل عمران
95 اس لئے فرمایا : ﴿ قُلْ صَدَقَ اللَّـهُ﴾” کہہ دیجیے اللہ سچا ہے“ ان خبروں میں بھی جو اس نے بتائی ہیں اور ان احکام میں بھی جو اس نے نازل کئے ہیں۔ اللہ کی طرف سے رسول کو اور اس کے رسول کے متبعین کو حکم ہے کہ زبان سے بھی کہیں ” اللہ سچا ہے“ اور ان یقینی دلائل کی بنیاد پر دل میں بھی یہ عقیدہ رکھیں، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جس شخص کو سمعی اور عقلی تفصیلی دلائل کا علم زیادہ ہوتا ہے، اس کا اللہ کے سچا ہونے پر زیادہ یقین ہوتا ہے۔ پھر حکم دیا کہ اپنے جد امجد حضرت ابراہیم کے طریقے کیپ یروی کرتے ہوئے توحید اختیار کریں اور شرک سے اجتناب کریں۔ کیونکہ سعادت و خوش نصیبی کا دار و مدار توحید کو اختیار کرنے اور شرک سے پرہیز کرنے پر ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہودی وغیرہ جو ابراہیم کے طریقے پر نہیں، وہ مشرک ہیں موحد نہیں۔ جب ابراہیم کے اس طریقے کی پیروی کا حکم دیا گیا کہ توحید اختیار کریں اور شرک سے بچیں، تو اس کے بعد یہ حکم دیا گیا کہ ابراہیم کے طریقے کی پیروی کرتے ہوئے بیت اللہ کا بھی احترام کریں یعنی حج اور عمرہ وغیرہ ادا کریں۔ آل عمران
96 اللہ تعالیٰ کعبہ شریف کا شرف بیان فرما رہا ہے کہ یہ پہلا گھر ہے جو اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے لئے اس مقصد کے لئے مقرر کیا ہے کہ وہ اس میں اپنے رب کی عبادت کریں اور ان کے گناہ معاف ہوں اور انہیں وہ نیکیاں حاصل ہوں جن کی وجہ سے انہیں رب کی رضا حاصل ہو، اور وہ ثواب حاصل کر کے اللہ کے عذاب سے بچ جائیں۔ اس لئے فرمایا : ﴿مُبَارَكًا ﴾ ” برکت والا ہے“ اس میں بہت سی برکتیں اور دینی و دنیوی فوائد موجود ہیں۔ جیسے دوسرے مقام ﴿ِّيَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّـهِ فِي أَيَّامٍ مَّعْلُومَاتٍ عَلَىٰ مَا رَزَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ ۖ﴾(الحج :28؍22) ” تاکہ وہ اپنے فائدے حاصل کرنے کو آجائیں اور ان مقررہ دنوں میں ان چوپایوں پر اللہ کا نام یاد کریں جو اس نے انہیں دیئے ہیں“ ﴿وَهُدًى لِّلْعَالَمِينَ﴾ ” اور ہدایت ہے جہان والوں کے لئے“ ہدایت کی دو قسمیں ہیں : علمی ہدایت اور عملی ہدایت۔ عملی ہدایت تو ظاہر ہے کہ اللہ نے ایسی عبادتیں مقرر کی ہیں جو اس مقدس گھر کے ساتھ مخصوص ہیں۔ علمی ہدایت یہ ہے کہ اس کی وجہ سے حق کا علم حاصل ہوتا ہے کیونکہ اس میں واضح نشانیاں موجود ہیں۔ آل عمران
97 اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿فِيهِ آيَاتٌ بَيِّنَاتٌ ﴾ ” اس میں کھلی کھلی نشانیاں ہیں“ یعنی مختلف علوم الٰہی اور بلند مطالب پر واضح دلائل اور قطعی براہین موجود ہیں۔ مثلاً اللہ کی توحید کے دلائل، اس کی رحمت، حکمت، عظمت، جلالت، اس کے کامل علم اور بے حد و حساب جو دوسخا کے دلائل، اور انبیاء و اولیاء پر ہونے والے اللہ کے احسانات کی نشانیاں۔ ان نشانیوں میں سے ایک ﴿مَّقَامُ إِبْرَاهِيمَ﴾ ” مقام ابراہیم“ بھی ہے۔ اس سے وہ پتھر بھی مراد ہوسکتا ہے جس پر کھڑے ہو کر ابراہیم کعبہ کی عمارت بناتے رہے تھے۔ پہلے یہ کعبہ کی دیوار سے متصل تھا۔ حضرت عمر رضی الہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں اسے موجودہ مقام پر منتقل کیا۔ اس پتھر میں نشان سے مراد ایک قول کے مطابق حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قدموں کے نشان ہیں کہ سخت چٹان میں نشان پڑگئے جو امت محمدیہ کے ابتدائی زمانے تک باقی رہے۔ یہ ایک خرق عادت معجزہ ہے۔ دوسرے قول کے مطابق نشان سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے دلوں میں اس کی عظمت، شرف اور احترام کے جذبات رکھ دیئے ہیں۔ ’’مقام ابراہیم“ کی دوسری تشریح یہ ہوسکتی ہے کہ یہ لفظ مفرد ہے جسے ابراہیم کی طرف مضاف کیا گیا ہے۔ اس لئے اس سے مراد وہ تمام مقامات ہیں جن سے آپ کا تعلق ہے یعنی وہ تمام مقامات جہاں حج کے مناسک ادا ہوتے ہیں۔ اس لحاظ سے حج کے تمام مناسک بھی ” آیات بینات“ میں شامل ہیں۔ مثلاً طواف، سعی اور ان کے مقامات، عرفہ اور مزدلفہ میں ٹھہرنا، رمی کرنا اور دوسرے شعائر۔ اس میں نشانی یہ ہے کہ اللہ نے لوگوں کے دلوں میں ان کی عظمت و احترام نقش کردیا ہے۔ لوگ یہاں تک پہنچنے کے لئے مال و دولت خرچ کرتے اور ہرقسم کی مشقت برداشت کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں اس میں عجیب و غریب اسرار اور اعلیٰ معنویات پوشیدہ ہیں۔ اس کے افعال میں حکمتیں اور مصلحتیں ہیں کہ مخلوق ان میں سے تھوڑی سی حکمتیں شمار کرنے سے بھی عاجز ہے۔ اس کی کھلی نشانیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس میں داخل ہونے والے کو اللہ تعالیٰ امن عطا فرماتا ہے اور اسے شرعی حکم بھی قرار دے دیا گیا ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اور اس کے پیغمبر ابراہیم علیہ السلام نے، پھر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے احترام کا حکم دیا ہے اور یہ حکم دیا ہے کہ جو اس میں داخل ہوجائے، اسے امن حاصل ہوجاتا ہے۔ اسے وہاں سے نکالا نہیں جاسکتا۔ یہ حرمت حرم کے شکار، درختوں اور نباتات کو بھی حاصل ہے۔ اس آیت سے بعض علماء نے استدلال کیا ہے کہ اگر کوئی شخص حدود حرم سے باہر کوئی جرم کرلے، پھر حرم میں آجائے تو اسے بھی امن حاصل ہوگا۔ جب تک وہ اس سے باہر نہیں آتا اس پر حد قائم نہیں کی جائے گی۔ اللہ کے قضا و قدر کے فیصلے کے مطابق اس مقام کے امن ہونے کی وضاحت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے دلوں میں، حتیٰ کہ مشرکوں اور کافروں کے دلوں میں بھی اس کا احترام ڈال دیا۔ مشرکین عرب انتہائی لڑاکا طبیعت والے، غیرت والے اور کسی کا طعنہ برداشت نہ کرنے والے تھے۔ اس کے باوجود اگر کسی کو اپنے باپ کا قاتل بھی حرم کی حدود میں مل جاتا تھا تو وہ اسے کچھ نہیں کہتا تھا۔ اس کے حرم ہونے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ جو اسے نقصان پہنچانا چاہے اللہ تعالیٰ اسے دنیا ہی میں سزا دے دیتا ہے۔ جیسے ہاتھی والوں کے ساتھ ہوا۔ اس موضوع پر میں نے ابن قیم رحمہ اللہ کا بہت اچھا بیان پڑھا ہے۔ میرا جی چاہتا ہے کہ اسے یہاں ذکر کر دوں، کیونکہ اس کا معلوم ہونا بہت ضروری ہے۔ امام صاحب فرماتے ہیں : فائدہ :﴿وَلِلَّـهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا﴾ اس آیت میں (حج البیت) مبتدا ہے۔ اس کی خبر اس سے پہلے دو جار و مجرور میں سے کوئی ایک ہوسکتا ہے۔ معنیٰ کے لحاظ سے (علی الناس) کو بنانا بہتر ہے کیونکہ یہ وجوب کے لئے ہے اور وجوب کے لئے (علی) ہونا چاہئے۔ ممکن ہے ” وللہ“ خبر ہو۔ کیونکہ اس میں وجوب اور استحقاق کا مفہوم ہے۔ اس قول کو اس امر سے بھی ترجیح حاصل ہوتی ہے کہ فائدہ کا اصل مقام خبر ہے۔ اس مقام میں اس کو لفظاً مقدم کیا گیا ہے لیکن معنیٰ کے لحاظ سے وہ موخر ہے۔ اس وجہ سے (وللہ علی الناس) کہنا بہتر ہوا۔ پہلے قول کی تائید میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ وجوب کے لئے (حج البیت علی الناس) ” بیت اللہ کا حج لوگوں پر واجب ہے“ کا انداز زیادہ استعمال ہوتا ہے بنسبت یوں کہنے کے (حج البیت للہ) ” بیت اللہ کا حج اللہ کا حق ہے۔ “ اس تشریح کے مطابق پہلے مجرور کو مقدم کرنا، حالانکہ وہ خبر نہیں، دو فوائد کا حامل ہے : پہلا فائدہ : یہ حج کو واجب کرنے والے (اللہ) کا نام ہے۔ لہٰذا وجوب کے ذکر سے پہلے اس کا ذکر کرنا زیادہ حق رکھتا ہے۔ یعنی آیت میں تین اشیا کا ذکر ہے جو وقوع کے لحاظ سے بالترتیب ذکر ہوئی ہیں : (١) اس فریضہ کو واجب کرنے والا۔ اس کا ذکر سب سے پہلے کیا گیا ہے۔ (٢) واجب کو ادا کرنے والا، جس پر وہ فرض عائد ہوتا ہے۔ وہ ہیں لوگ (٣) وہ حق جس کے ساتھ اللہ کا تعلق واجب کرنے کا اور بندوں کا تعلق واجب ہونے اور ادا کرنے کا ہے، وہ ہے حج۔ دوسرا فائدہ : مجرور اللہ تعالیٰ کا نام مبارک ہونے کی وجہ سے اہمیت کا مستحق ہے۔ لہٰذا اس کے واجب کئے ہوئے فریضہ کے احترام کی عظمت کا لحاظ رکھتے ہوئے، اس فریضہ کو ضائع کرنے سے منع کرنے کے لئے اسے پہلے ذکر کرنا ضروری ہے۔ کیونکہ اللہ کا واجب کیا ہوا کام کسی اور کے واجب کئے ہوئے کی طرح نہیں، بلکہ زیادہ اہم اور لازم ہے۔ لفظ ” مَن“ بدل ہے۔ بعض لوگوں نے اسے مصدر کا فاعل قرار دینا پسند کیا ہے گویا آیت کا مفہوم یوں ہے: (ان یحج البیت من استطاع الیہ سبیلا) ” کہ جو شخص اس کی طرف راستے کی طاقت رکھتا ہے وہ بیت اللہ کا حج کرے“ یہ قول کئی وجہ سے ضعیف ہے۔ (١) حج فرض عین ہے۔ اگر آیت کا مفہوم یہ ہوتا جو ان لوگوں نے بیان کیا ہے تو اس سے حج کا فریضہ فرض کفایہ ہوتا۔ یعنی جب استطاعت والوں نے حج کرلیا تو دوسروں کے ذمہ سے ساقط ہوگیا۔ اس صورت میں معنی یوں بن جاتا ہے (وللہ علی الناس حج البیت مستطیعھم) ’’لوگوں کے ذمے اللہ کے لئے بیت اللہ کا حج فرض ہے استطاعت رکھنے والے کے لئے“ اس کا نتیجہ ہوگا کہ جب استطاعت رکھنے والوں نے ادا کرلیا تو استطاعت نہ رکھنے والوں پر واجب نہیں رہا۔ حالانکہ صحیح صورتحال یہ نہیں۔ بلکہ حج ہر شخص پر فرض عین ہے۔ طاقت والا حج کرے یا نہ کرے وہ اس کے ذمے ہے۔ لیکن طاقت نہ رکھنے والے کو اللہ نے معذور قرار دیا ہے۔ لہٰذا اس سے مواخذہ نہیں کرے گا، نہ اس سے ادائیگی کا مطالبہ کرتا ہے۔ جب وہ حج کرے گا تو خود اس کا اپنا فرض ادا ہوگا۔ ایسا نہیں ہے کہ طاقت رکھنے والوں کے حج کرنے کی وجہ سے طاقت نہ رکھنے والوں سے فرضیت ساقط ہوجاتی ہو۔ اس کی مزید وضاحت اس مثال سے ہوتی ہے کہ جب کوئی کہے : (واجب علی اھل ھذہ الناحیۃ ان یجاھد منھم الطائفۃ المستطیعون للجھاد) ” اس علاقے والوں کا فرض ہے کہ ان میں سے جہاد کی طاقت رکھنے والی جماعت ضرور جہاد کرے“ تو اس کا یہ مطلب ہوگا کہ جب طاقت رکھنے والے جہاد کریں تو دوسرے لوگوں سے وجوب کا تعلق ختم ہوجائے گا۔ لیکن اگر یوں کہا جائے (واجب علی الناس کلھم ان یجاھد منھم المستطیع) ” سب لوگوں کا فرض ہے کہ ان میں سے طاقت رکھنے والا جہاد کرے“ تو وجوب کا تعلق تو ہر فرد سے ہوگا، لیکن طاقت نہ رکھنے والے معذور سمجھے جائیں گے۔ لہٰذا (للہ حج البیت علی المستطیعین) کے بجائے آیت مبارکہ کے انداز سے ارشاد فرمانے میں یہ نادر نکتہ ہے۔ لہٰذا سے غور کر کے سمجھنا چاہئے۔ دوسری وجہ : جملہ میں فاعل کی موجودگی میں مصدر کی اضافت فاعل کی طرف کرنا مفعول کی طرف اضافت کرنے کی نسبت زیادہ اولیٰ ہے۔ اس اصول سے گریز صرف کسی منقول دلیل ہی کی بنیاد پر کیا جاسکتا ہے۔ آیت مبارکہ میں اگر (مَنْ) کو فاعل تسلیم کیا جائے تو اس کا تقاضا ہے کہ مصدر کو اس کی طرف مضاف کر کے یوں کہا جائے : (وللہ علی الناس حِجُّ مَنِ اسْتَطَاعَ) اسے (یُعْجِبُنِی ضَرْبُ زَیْدٍ عَمْرًا) جیسی مثال پر یا مصدر اور اس کے مضاف الیہ فاعل کے درمیان مفعول یا ظرف کے فاصلے کی صورت پر محمول کرنا گویا مکتوب پر محمول کرنا ہے جو مرجوع ہے۔ جیسے ابن عامر کی یہ قراءت مرجوح ہے (کذلک زین لکثیر من المشرکین قتل اولادھم شرکانھم) لہٰذا یہ قول درست نہیں ہے۔ جب یہ ثابت ہوگیا کہ (من استطاع) میں (من) بدل بعض ہے تو ضروری ہے کہ کلام میں کوئی ضمیر موجود ہو جو (الناس) کی طرف راجع ہو۔ یعنی عبارت گویایوں ہے (من استطاع منھم) اکثر مقامات پر اس ضمیر کا حذف کرنا بہتر نہیں ہوتا۔ البتہ یہاں اس کا حذف کرنا اچھا ہے۔ اس کی کئی وجوہ ہیں : (١) (من) کا لفظ اس کے مبدل منہ کی طرح غیر عاقل پر واقع ہوا ہے اس لئے اس سے ربط قائم ہوگیا۔ (٢) یہ اسم موصول ہے جس کا صلہ اس سے زیادہ خاص ہے۔ اگر صلہ عام ہوتا تو ضمیر حذف کرنا قبیح ہوتا۔ اس کی مثال یہ ہے کہ جب آپ کہیں : (رأیت اخوتک من ذھب الی السوق منھم) ” میں نے تیرے بھائیوں کو، ان میں سے جو بازار گیا، دیکھا“ تو یہ قبیح ہوگا۔ کیونکہ بازار جانیوالا دوسرے بھائیوں کی نسبت عام ہے۔ اسی طرح اگر یوں کہا جائے : (الیس الثیاب ماحسن) ” کپڑے پہن جو اچھے ہیں“ مطلب یہ ہوگا کہ (ماحسن منھا) ” ان میں سے جو اچھے ہیں“ تو ضمیر ذکر نہ کرنا زیادہ غلط ہوگا۔ کیونکہ لفظ (ماحسن) میں ” الثیاب“ کی نسبت عموم پایا جاتا ہے اور بدل بعض کو مبدل منہ سے زیادہ خاص ہونا چاہئے۔ اگر وہ زیادہ عام ہو پھر اسے مبدل منہ کی طرف لوٹنے والی چیز کی طرف مضاف کردیا جائے، یا اس ضمیر کے ساتھ مقید کردیا جائے تو عموم ختم ہوجائے گا اور خصوص کا مفہوم باقی رہ جائے گا۔ (٣) یہاں مضاف کو حذف کرنا اس لئے بھی بہتر ہے کہ صلہ اور موصول کے ساتھ کلام زیادہ طویل ہوجاتا ہے۔ لفظ (للہ) کے مجرور کے بارے میں دو احتمال ہیں اول یہ کہ وہ (من سبیل) کے محل میں ہو۔ گویا گویا وہ نکرہ کی صفت ہے جو نکرہ سے مقدم ہے۔ کیونکہ اگر اسے موخر کیا جاتا تووہ (سبیل) کی صفت کی جگہ ہوتا۔ دوم یہ کہ (سبیل) کا متعلق ہو۔ اگر آپ کہیں کہ یہ اس کا متعلق کیسے ہوسکتا ہے جب کہ اس ” سبیل“ میں فعل کا معنیٰ نہیں۔ جواب یہ ہے کہ یہاں ” سبیل“ کا مفہوم ” الموصل الی لبیت“ کعبہ تک پہنچانے والی چیز یعنی سامان سفر وغیرہ ہے۔ لہٰذا اس میں فعل کا تھوڑا سا مفہوم پایا جاتا ہے۔ یہاں ” سبیل“ سے وہ راستہ مراد نہیں جس پر چلتے ہیں۔ اس لئے جار مجرور اس کے متعلق ہوسکتا ہے اور حسن نظم اور اعجاز لفظی کے لحاظ سے جار مجرور کو مقدم کرنا بہتر تھا، اگرچہ اس کا اصل مقام موخر ہی ہے، کیونکہ یہ ضمیر ’ ’بیت“ کی طرف راجع ہے اور اصل اہمیت ” بیت“ (کعبہ) ہی کو دینا مقصود ہے اور اہل عرب کلام میں اہم چیز کو مقدم کرتے ہیں۔ یہ سُہَیلی کے کلام کی وضاحت ہے۔ لیکن یہ قول بہت بعید ہے۔ بلکہ جار مجرور کے متعلق ان دونوں سے بہتر ایک قول ہے، وہی درست ہے اور اس آیت سے وہی مفہوم مناسبت رکھتا ہے۔ وہ ہے ” وجوب“ جو آیت کے لفظ (علی الناس) سے سمجھ میں آتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ (یحب للہ علی الناس الحج) ” لوگوں پر اللہ کے لئے حج کرنا واجب ہے۔“ یعنی وہ اللہ کا وجوبی حق ہے۔ اسے ” سبیل“ کے متعلق قرار دے کر اس کا حال بنانا بہت ہی بعید ہے۔ آیت سے یہ مفہوم بالکل ذہن میں نہیں آتا۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے آپ کہیں ( للہ علیک الصلاۃ والزکاۃ و الصیام) ” آپ پر اللہ کے لئے نماز، زکوٰۃ اور روزہ ضروری ہے“ آیت میں ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی ایسے کام کا ذکر کرتا ہے، جسے واجب یا حرام قرار دینا مقصود ہو تو وہ اکثر اوقات امرونہی کے الفاظ سے مذکورہ ہوتا ہے۔ بعض اوقات اس مقصد کے لئے ایجاب، کتابت اور تحریم کے الفاظ بھی وارد ہوتے ہیں۔ مثلاً ﴿كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ ﴾ (البقرہ :2؍ 183) ” تم پر روزہ رکھنا لکھ دیا گیا ہے۔“﴿حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ﴾ (المائدۃ:5؍ 3) ” تم پر مردار حرام کیا گیا ہے“ ﴿قُلْ تَعَالَوْا أَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ﴾(الانعام :6؍ 151) ” آؤ میں تمہیں پڑھ کر سناؤں کہ اللہ نے تم پر کیا پابندیاں لگائی ہیں۔“ حج کے بارے میں جو لفظ استعمال ہوا ہے ﴿وَلِلَّـهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ﴾ اس سے دس انداز سے وجوب ثابت ہوتا ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نام کو مقدم فرمایا ہے اور اس پر ”ل“ داخل کیا ہے، جس سے استحقاق اور اختصاص ظاہر ہوتا ہے۔ پھر جن پر واجب ہے ان کے لئے عموم کا صیغہ استعمال کیا ہے، اور اس پر ” علی“ داخل کیا ہے، جس سے اہل استطاعت کو بدل بنایا ہے پھر ” سبیل“ نکرہ ہے جو سیاق شرط میں واقع ہے۔ اس میں اشارہ ہے کہ حج ہر قسم کے ” سبیل“ میسر ہونے سے واجب ہوجاتا ہے مثلاً خوراک اور مال یعنی وجوب کا تعلق ہر اس چیز سے ہے جسے ” سبیل“ کہا جا سکے۔ پھر اس کے بعد سب سے عظیم تہدید ذکر فرمائی اور فرمایا ﴿وَمَن كَفَرَ﴾ یعنی جس نے اس واجب پر عمل نہ کر کے اور اسے ترک کر کے کفر کا ارتکاب کیا۔ پھر اس کی عظمت شان کے لئے وعید کو موکد فرمایا اور بتایا کہ اللہ تعالیٰ مستغنی ہے۔ اسے کسی کے حج کی ضرورت نہیں۔ یہاں استغنا کے ذکر کا مقصد ناراضی، غصے اور بے اعتنائی کا اظہار ہے، جو بہت عظیم اور بلیغ وعید ہے۔ اس کی مزید تائید اس سے ہوتی ہے کہ یہاں (العالمین) کا عام لفظ بولا گیا ہے۔ یہ نہیں فرمایا : (فان اللہ غنی عنہ) ”اللہ اس سے مستغنی ہے“ کیونکہ جب وہ تمام جہانوں سے مستغنی اور بے پروا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اسے ہر لحاظ سے اور ہر اعتبار سے کامل و مکمل استغنا حاصل ہے۔ اس طرح اس کے واجب کردہ حق کو ترک کرنے والے پر اس کی ناراضی زیادہ تاکید سے ظاہر ہوتی ہے۔ پھر اس مفہوم کو لفظ (ان) کے ساتھ ذکر فرمایا گیا ہے جو بذات خود تاکید پر دلالت کرتا ہے۔ یہ دس وجوہ ہیں جن سے اس فرض عظیم کا ضروری اور موکد ہونا ظاہر ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں آیت مبارکہ میں موجود بدل میں پوشیدہ نکتہ پر بھی غور کیجے۔ بدل کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ اسناد دوبارہ ذکر ہوئی ہے۔ ایک دفعہ اسکی اسناد عمومی طور پر سب لوگوں سے ہے اور دوسری بار خاص طور پر استطاعت رکھنے والوں سے اور بدل کا ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ اسناد کی تکرار سے معنی میں قوت پیدا ہوجاتی ہے۔ اسی لئے بدل عامل کی تکرار اور دہرانے کا مفہوم رکھتا ہے۔ پھر غور کیجیے کہ آیت میں کس طرح ابہام کے بعد توضیح اور اجمال کے بعد تفصیل ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اسے اہمیت دیتے ہوئے اور اس کی شان کی تاکید فرماتے ہوئے کلام کو دو صورتوں میں وارد کیا گیا ہے۔ پھر یہ بھی غور کیجیے کہ کس طرح وجوب کا ذکر کرنے سے پہلے کعبہ شریف کی خوبیوں اور عظمت کا ذکر کیا گیا ہے۔ جس سے دلوں میں اس کی زیارت اور حج کا شوق پیدا ہوتا ہے۔ اگرچہ یہ چیز خود مقصود نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبَارَكًا وَهُدًى لِّلْعَالَمِينَ﴾چنانچہ کعبہ شریف کی پانچ صفات بیان کی گئی ہیں۔ (١) وہ دنیا میں عبادت کے لئے مقرر کیا جانے والا سب سے پہلا اللہ کا گھر ہے۔ (٢) برکت والا ہے۔ برکت کا مطلب خیر کا دوام اور کثرت ہے۔ دنیا میں اتنی برکت والا، اس قدر کثیر اور دائمی خیر والا اور مخلوق کے لئے اس قدر فوائد کا حامل کوئی گھر موجود نہیں۔ (٣) وہ ہدایت ہے۔ ہدایت دینے والے کے بجائے ہدایت (مصدر) کا لفظ بولنے میں مبالغہ کا مفہوم پایا جاتا ہے گویا یہ خود سراپا ہدایت ہے۔ (٤) اس میں آیات بینات (واضح نشانیاں) موجود ہیں۔ جن کی تعداد چالیس سے زیادہ ہے۔ (٥) اس میں داخل ہونے والے کے لئے امن ہے۔ اگر یہی صفات ذکر کردی جاتیں اور اس کی زیارت کا حکم نہ دیا جاتا، تب بھی ان صفات کی وجہ سے دلوں میں اس کی زیارت کی تڑپ پیدا ہوتی، خواہ کتنی دور سے آنا پڑتا۔ یہاں تو یہ صفات ذکر کرنے کے بعد صراحت کے ساتھ فرض ہونے کا ذکر کیا گیا ہے اور اس کے ساتھ اس قدر تاکید ات لائی گئی ہیں، جن سے بالکل واضح ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اس گھر کی بے حد اہمیت ہے اور اس کے نزدیک اس کی شان و عظمت کی کوئی حد نہیں۔ اگر اس میں یہی شرف ہوتا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی نسبت اپنی طرف کرتے ہوئے اسے (بیتی) ” میرا گھر“ فرمایا ہے، تو یہ نسبت ہی اتنی بڑی فضیلت اور اتنا بڑا شرف ہے کہ صرف اس کی وجہ سے جہان والوں کے دل اس کی طرف متوجہ ہوجاتے اور اس کی زیارت کے لئے دور دراز سے کھنچے آتے۔ محبت کرنے والوں کی یہی شان ہوتی ہے کہ وہ اس کے پاس اکٹھے ہو کر آتے ہیں، اس کی زیارت سے کبھی سیر نہیں ہوتے۔ جتنی زیادہ زیارت کرتے ہیں، اتنا ہی محبت اور شوق میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ نہ دور جانے سے محبت کی لو مدہم ہوتی ہے نہ وصال سے ان کی پیاس بجھتی ہے۔ جیسے کسی شاعر نے کہا ہے : میں اس کا طواف کرتا ہوں اور دل پھر بھی شوق سے بھرپور ہے کیا طواف کے بعد مزید قرب بھی ہوسکتا ہے؟ میں اس کے حجر اسود کو چومتا ہوں اور اس طرح دل میں موجزن محبت اور پیاس کو ٹھنڈک پہنچاتا ہوں قسم ہے اللہ کی ! میری محبت ہی میں اضافہ ہوتا ہے اور دل اور زیادہ دھڑکنے لگتا ہے اے جنت ماویٰ! اے مقصود تمنا ! اور اے میری آرزو ! ہر امان سے قریب تر ! غلبہ ہائے شوق تیرے قرب پر اصرار کرتے ہیں تجھ سے فراق میرے بس میں نہیں میں اگر تجھ سے دور ہوا تو اس کی وجہ بے اعتنائی نہیں اس کا گواہ میری (اشک بار) آنکھیں اور (نالہ وشیون کرتی) زبان ہے تجھ سے دور ہونے کے بعد میں نے صبر کو بھی آواز دی اور گریہ کو بھی گریہ نے (فوراً) لبیک کہا (اور آگیا) اور صبر نے میری بات نہ مانی (صبر نہ آیا) لوگ گمان کرتے ہیں کہ جب محبّ دور چلا جائے تولمبا عرصہ گزرنے کے بعد اس کی محبت کمزور ہوجاتی ہے اگر یہ خیال درست ہوتا، تو یقینا ً ہر زمانے کے لوگوں کے لئے محبت کا علاج ہوتا ہاں ہاں محب کمزور ہوجائے گا اور محبت اسی حال میں ہوگی، اسے رات دن کے گزرنے نے کمزور نہیں کیا ہوگا۔ (1) یہ محبت کرنے والا ہے، جسے شوق اور عشق لئے جاتا ہے بغیر کسی لگام اور باگ کے جو اسے کھینچے لئے جاتی ہو زیارت گاہ دور ہونے کے باوجود، وہ تیرے در پر آ پہنچا ہے اگر اس کی سواری کمزور ہوجاتی تو اس کے قدم ہی اسے لے آتے یہاں امام ابن قیم کا کلام ختم ہوا۔ [(1) امام ابن قیم کا یہ کلام ان کی ان کی کتاب ”بدائع الفوائد“ سے منقول ہے اس میں یہ شعر اس طرح درج ہے۔ بلی انہ یبلی التصبر والھوی علی حالہ لم یبلہ الملوان ہاں صبر تو کمزور ہوجاتا ہے لیکن محبت اپنے حال پر رہتی ہے، وہ رات دن کے گزرنے سے کمزور نہیں ہوتی (ازمحقق)] آل عمران
98 اللہ تعالیٰ یہود ونصاریٰ کو زجر وتوبیخ فرماتا ہے کیونکہ انہوں نے اللہ کی آیات کے ساتھ کفر کیا، جو اس نے اپنے رسولوں پر نازل کیں، جنہیں اللہ نے اپنے بندوں کے لئے رحمت بنایا کہ ان کی رہنمائی میں اللہ تک پہنچ سکیں اور ان کی مدد سے تمام اہم مقاصد اور مفید علوم حاصل کریں۔ ان کافروں نے ان کا انکار بھی کیا، ان پر ایمان لانے والوں کو روکا، ان میں تحریف کی، انہیں اصل مفہوم سے پھیرنے کی کوشش کی۔ وہ خود ان جرائم کو تسلیم کرتے ہیں۔ انہیں خوب معلوم ہے کہ ان کا یہ کام بہت بڑا کفر ہے، جس کی سزا بہت سخت ہے۔ جیسے ارشاد ہے : ﴿الَّذِينَ كَفَرُوا وَصَدُّوا عَن سَبِيلِ اللَّـهِ زِدْنَاهُمْ عَذَابًا فَوْقَ الْعَذَابِ بِمَا كَانُوا يُفْسِدُونَ﴾(النحل :16؍88) ” جنہوں نے کفر کیا، اور اللہ کی راہ سے روکا، ہم انہیں عذاب پر مزید عذاب دیں گے کیونکہ وہ فساد کرتے تھے“ یہاں انہیں یہ فرما کر تنبیہ کی۔ آل عمران
99 ۔﴿ وَمَا اللَّـهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ ﴾” اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے بے خبر نہیں۔“ بلکہ تمہارے اعمال، تمہاری نیتوں اور تمہاری بری تدبیروں سے پوری طرح باخبر ہے، وہ تمہیں ان کی بہت بری سزا دے گا۔ ان کو تنبیہ کرنے کے بعد اپنی رحمت، عطا اور احسان کا ذکر کیا اور اپنے مومن بندوں کو ان سے متنبہ کیا، تاکہ وہ بے خبری میں ان کے مکر و فریب کا نشانہ بن جائیں۔ آل عمران
100 چنانچہ فرمایا :﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن تُطِيعُوا فَرِيقًا مِّنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ يَرُدُّوكُم بَعْدَ إِيمَانِكُمْ كَافِرِينَ ﴾” اے ایمان والو ! اگر تم اہل کتاب کی کسی جماعت کی باتیں مانو گے تو وہ تمہیں، تمہارے ایمان لانے کے بعد مرتد کافر بنا دیں گے۔“ اس کی وجہ ان کا حسد، ظلم اور تمہیں مرتد کردینے کی شدید خواہش ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَدَّ كَثِيرٌ مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لَوْ يَرُدُّونَكُم مِّن بَعْدِ إِيمَانِكُمْ كُفَّارًا حَسَدًا مِّنْ عِندِ أَنفُسِهِم مِّن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الحَقُّ﴾ (البقرہ :2؍ 109) ” اہل کتاب کے اکثر لوگ باوجود حق واضح ہوجانے کے، محض حسد و بغض کی بنا پر تمہیں بھی ایمان سے ہٹا دینا چاہتے ہیں۔“ پھر اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی اپنے ایمان پر ثابت قدمی کا اور یقین میں ڈانواں ڈول نہ ہونے کا سب سے بڑا سبب بیان کیا ہے اور یہ کہ ان کا ایمان سے پھر جانا انتہائی ناممکن ہے۔ آل عمران
101 چنانچہ فرمایا : ﴿وَكَيْفَ تَكْفُرُونَ وَأَنتُمْ تُتْلَىٰ عَلَيْكُمْ آيَاتُ اللَّـهِ وَفِيكُمْ رَسُولُهُ﴾ ” اور تم کیسے کفر کرسکتے ہو جب کہ تم پر اللہ کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں اور تم میں اس کا رسول موجود ہے۔“ یعنی رسول تمہارے اندر موجود ہیں، وہ ہر وقت تمہیں رب کی آیتیں سناتے ہیں۔ یہ واضح آیات ہیں جو بیان کردہ مسائل پر قطعی یقین کا فائدہ دیتی ہیں اور یہ کہ ان سے جو کچھ ثابت ہوتا ہے اس میں کسی بھی لحاظ سے شک کی گنجائی نہیں۔ خاص طور پر اس لئے بھی کہ اسے بیان کرنے والا وہ انسان (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) ہے، جو تمام مخلوق میں سب سے افضل، زیادہ عالم، زیادہ فصیح، زیادہ مخلص و خیر خواہ اور مومنوں پر زیادہ شفیق، مخلوق کو ہر ممکن طریقے سے ہدایت دینے اور ان کی رہنمائی کرنے کا انتہائی شوق رکھنے والا ہے۔ اللہ کے درود و سلام نازل ہوں آپ کی ذات اقدس پر۔ آپ نے یقیناً خیر خواہی فرمائی اور پوری وضاحت سے اللہ کا دین پہنچا دیا۔ حتیٰ کہ کسی کو بات کرنے کی گنجائش نہ رہی اور نیکی کے کسی طلبگار کو تلاش کی ضرورت نہ رہی، آخر میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ سے تعلق مضبوط کرے، اس پر توکل کرے، ہر برائی سے بچاؤ کے لئے اس کی قوت و رحمت کا سہارا تلاش کرے اور ہر خیر کے لئے اس سے مدد طلب کرے ﴿فَقَدْ هُدِيَ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ﴾ ” تو بلاشبہ اسے راہ راست دکھا دی گئی“ جو مطلوب منزل تک پہنچانے والی ہے۔ کیونکہ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال، افعال اور احوال کی اتباع بھی کی، اور اللہ کا سہارا بھی حاصل کیا۔ آل عمران
102 ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کو حکم دیا ہے کہ اس سے ایسے ڈریں جیسے ڈرنے کا حق ہے، پھر اس تقویٰ پر قائم اور ثابت قدم رہیں اور موت تک استقامت ہو۔ کیونکہ انسان جس طرح کی زندگی گزارتا ہے، اسے ویسی ہی موت نصیب ہوتی ہے۔ جو شخص صحت، نشاط اور طاقت کی حالت میں اللہ کے تقویٰ اور اس کی اطاعت پر قائم رہتا ہے اور ہمیشہ اس کی طرف متوجہ رہتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے موت کے وقت استقامت عطا فرماتا ہے اور اسے حسن خاتمہ سے نوازتا ہے۔ اللہ سے کما حقہ تقویٰ رکھنے کی وضاحت جناب عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ان الفاظ میں کی ہے : (ھو انْ یُّطَاعَ فَلاَ یُعْصٰی، وَیُذْکَر فَلایُنْسْیٰ ویُشکر فلایُکْفر) ” اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی فرماں برداری کی جائے، نافرمانی نہ کی جائے، اسے یاد کیا جائے، فراموش نہ کیا جائے، اس کا شکر کیا جائے، ناشکری نہ کی جائے۔“ اس آیت میں وضاحت ہے تقویٰ کے سلسلے میں اللہ کا کیا حق ہے۔ اس بارے میں بندے کا جو فرض ہے۔ وہ اللہ کے اس فرمان میں بیان ہوا ہے : ﴿فَاتَّقُوا اللَّـهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ﴾ (التغابن :64؍16) ” جہاں تک تمہارا بس چلے، اللہ سے ڈرتے رہو“ دل اور جسم کے متعلق تقویٰ کی تفصیلات بہت زیادہ ہیں، جن کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ جس جس کام کا حکم دے اسے انجام دینا اور جس جس کام سے منع کرے، اس سے باز رہنا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس کام کا حکم دیا ہے جو تقویٰ اختیار کرنے میں مدد دیتا ہے، وہ ہے متحد رہنا، اللہ کے دین پر مضبوطی سے کاربند رہنا، تمام مومنوں کا یک آواز ہونا، مل جل کر رہنا اور اختلاف نہ کرنا۔ دین پر متحد رہنے سے اور باہمی الفت و مودت سے ان کا دین بھی درست رہے گا اور دنیا بھی درست رہے گی۔ اتحاد کی وجہ سے وہ کام کرسکیں گے اور انہیں وہ تمام فوائد حاصل ہوں گے جن کا دار و مدار اتفاق و اتحاد پر ہے۔ یہ فوائد اتنے زیادہ ہیں کہ ان کا شمار ممکن نہیں۔ علاوہ ازیں نیکی اور تقویٰ میں تعاون بھی ممکن ہوجائے گا۔ اس کے برعکس اختلاف اور تفرقہ کی وجہ سے ان کا نظام درہم برہم ہوجائے گا، باہمی رابطے ٹوٹ جائیں گے اور ہر شخص اپنے ذاتی فائدے کے لئے بھاگ دوڑ کرے گا، اگرچہ اس سے اجتماعی طور پر نقصان ہی کیوں نہ ہو۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنی ایک نعمت ذکر فرمائی اور حکم دیا کہ اسے یاد رکھیں۔ آل عمران
103 چنانچہ فرمایا : ﴿وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّـهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاءً ﴾” اور اللہ کی اس وقت کی نعمت یاد کرو، جب تم (یہ نعمت حاصل ہونے سے پہلے) ایک دوسرے کے دشمن تھے“ ایک دوسرے کو قتل کرتے تھے۔ ایک دوسرے کا مال چھینتے تھے، قبیلوں کی قبیلوں سے دشمنی تھی، ایک ہی شہر کے رہنے والے آپس میں عداوت اور جنگ وجدل کا شکار تھے۔ غرض بہت بری حالت تھی۔ یہ وہ حالت ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعث سے پہلے عرب میں عام تھی۔ جب اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا اور وہ لوگ ایمان لے آئے، تو وہ اسلام کی بنیاد پر اکٹھے ہوگئے، ان کے دلوں میں ایمان کی وجہ سے محبت پیدا ہوگئی۔ وہ باہمی محبت اور مدد کے لحاظ سے فرد واحد کی حیثیت اختیار کر گئے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا ﴾ اس نے تمہارے دلوں میں الف ڈال دی، پس تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی ہوگئے۔“ اس کے بعد فرمایا : ﴿وَكُنتُمْ عَلَىٰ شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ﴾ ”اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پر پہنچ چکے تھے“ یعنی تم جہنم کے مستحق ہوچکے تھے۔ صرف اتنی کسر رہ گئی تھی کہ تمہیں موت آجائے تو جہنم میں داخل ہوجاؤ۔ (فَأَنقَذَكُم مِّنْهَا) ” تو اس نے تمہیں اس سے بچا لیا“ وہ اس طرح کہ تم پر یہ احسان کیا کہ تمہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نصیب فرما دیا۔ ﴿كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّـهُ لَكُمْ آيَاتِهِ﴾” اللہ اسی طرح تمارے لئے اپنی نشانیاں بیان کرتا ہے“ یعنی ان کی وضاحت اور تشریح کرتا ہے اور تمہارے لئے حق و باطل اور ہدایت و گمراہی الگ الگ کر کے واضح کردیتا ہے ﴿ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ﴾ ” تاکہ تم (حق کو پہچان کر اور اس پر عمل کر کے) ہدایت پاؤ“ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو یہ بات پسند ہے کہ بندے دلوں اور زبانوں کے ساتھ اس کی نعمت کو یاد کریں، تاکہ ان میں شکر اور اللہ کی محبت کے جذبات پروان چڑھیں اور اللہ تعالیٰ مزید فضل و احسانات سے نوازے۔ اللہ کی جو نعمت سب سے زیادہ ذکر کئے جانے کے قابل ہے وہ ہے اسلام کا شرف حاصل ہوجانے کی نعمت، اتباع رسول کی توفیق مل جانے کی نعمت اور مسلمانوں میں اتحاد و اتفاق کی موجودگی اور اختلاف و افتراق نہ ہونے کی نعمت۔ آل عمران
104 مطلب یہ ہے کہ اے مومنو ! جن پر اللہ نے ایمان لانے اور اپنی رسی کو مضبوطی سے پکڑنے کی توفیق دے کر احسان فرمایا ہے، تم میں سے ﴿أُمَّةٌ﴾ ایک جماعت ایسی ہونی چاہئے ﴿يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ﴾ ” جو بھلائی کی طرف بلائے۔“ (خیر) ” بھلائی“ میں ہر وہ چیز شامل ہے جو اللہ سے قریب کرنے والی اور اس کی ناراضی سے دور کرنے والی ہو۔ ﴿وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ ﴾” اور وہ نیک کاموں کا حکم کرے“ (معروف) اسے کہتے ہیں جس کا اچھا ہونا عقل اور شریعت کی روشنی میں معلوم ہوچکا ہو۔﴿ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ ۚ﴾” اور برے کاموں سے روکے“ (منکر) اسے کہتے ہیں جس کا برا ہونا عقل اور شریعت کے ذریعے سے معلوم ہوچکا ہو۔ اس میں مومنوں کو یہ ہدایت کی گئی ہے کہ ان میں ایک ایسی جماعت موجود ہونی چاہئے جو لوگوں کو اس کی راہ کی طرف بلائے اور اس کے دین کی طرف رہنمائی کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار رہے۔ اس جماعت میں وہ علماء بھی شامل ہیں جو لوگوں کو دین سکھاتے ہیں، وہ مبلغ بھی جو دوسرے مذاہب والوں کو دین اسلام میں داخل ہونے کی اور بدعملی میں مبتلا لوگوں کو دین پر کار بند ہونے کی تبلیغ کرتے ہیں، اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے بھی اور وہ لوگ بھی شامل ہیں، جن کی ڈیوٹی یہ ہے کہ وہ لوگوں کے حالات معلوم کرتے رہیں اور انہیں شرعی احکام مثلاً نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ وغیرہ کی پابندی کروائیں اور غلط کاموں سے روکیں مثلاً ماپ تول کے پیمانوں اور باٹوں کو چیک کریں، بازار میں خرید و فروخت کرنے والوں کو دھوکا بازی سے اور لین دین کے ان معاملات سے روکیں جو شرعاً ناجائز ہیں۔ یہ سب کام فرض کفایہ ہیں۔ جیسے کہ آیت کریمہ کے الفاظ ﴿وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ﴾ ” تم میں سے ایک جماعت ہونی چاہئے“ سے ظاہر ہوتا ہے۔ یعنی تم میں ایک جماعت ایسی موجود ہونی چاہئے جس سے مذکورہ بالا مقاصد حاصل ہوسکیں۔ یہ ایک جانا پہچانا اور مانا ہوا اصول ہے کہ جب کسی خاص کام کا حکم دیا جائے، تو اس میں ان تمام کاموں کا حکم شامل ہوتا ہے، جو اسے پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے ضروری ہوں۔ لہٰذا وہ تمام کام جن پر ان اشیاء کا وجود موقوف ہے، وہ سب ضروری ہیں اور اللہ کی طرف سے ان کا حکم سمجھا جاتا ہے۔ مثلاً جہاد کے لئے طرح طرح کے سامان تیار کرنا، جن سے دشمنوں کا قلع قمع کیا جا سکے اور اسلام کا نام بلند کیا جا سکے، وہ علم سیکھنا جس کی مدد سے نیکی کی طرف بلایا جا سکے۔ علم و رہنمائی کے لئے مدارس کی تعمیر، لوگوں میں شریعت نافذ کرنے کے لئے حکمرانوں کی قولی، عملی اور مالی امداد اور ایسے دوسرے کام جن پر ان امور کا دار و مدار ہے۔ یہ جماعت جو نیکی کی طرف بلانے، بھلائی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کے لئے کمربستہ ہے، یہ خاص مومنین ہیں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ﴾ ” اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں“ یعنی کامیاب ہیں جنہیں مطلوب حاصل ہوگا اور خطرناک نتائج سے محفوظ رہیں گے۔ آل عمران
105 اس کے بعد انہیں اہل کتاب کی طرح اختلاف و انتشار میں گرفتار ہونے سے منع کرتے ہوئے فرمایا : ﴿وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا﴾ ” اور تم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا، جنہوں نے تفرقہ ڈالا اور اختلاف کیا“ اور عجیب بات یہ ہے کہ انہوں نے اختلاف بھی کیا تو ﴿مِن بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْبَيِّنَاتُ ﴾ ”روشن دلیلیں آجانے کے بعد“ حالانکہ ان کا نتیجہ تو یہ ہونا چاہئے تھا کہ افتراق و اختلاف نہ ہوتا۔ انہیں دین پر دوسروں کی نسبت زیادہ پابندی اختیار کرنا چاہئے تھی۔ لیکن انہوں نے بالکل الٹ کام کیا حالانکہ انہیں معلوم تھا کہ وہ اللہ کے احکام کی مخالفت کر رہے ہیں۔ اس لئے وہ سخت عذاب کے مستحق ہوگئے۔ اسی لئے اللہ نے فرمایا ہے :﴿ وَأُولَـٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ ﴾” اور انہی لوگوں کے لئے بڑا عذاب ہے۔ “ آل عمران
106 ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دن کے حالات بیان فرمائے ہیں۔ اس دن عدل اور فضل کی بنیاد پر ملنے والی جزا و سزا کے اثرات بیان فرمائے ہیں۔ اس بیان کا مقصد ترغیب و ترہیب ہے۔ جس کا فائدہ خوف اور امید کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ﴾” جس دن بعض چہرے سفید ہوں گے“ وہ خوش نصیبوں اور نیکی کرنے والوں کے چہرے ہوں گے، جنہوں نے آپس میں الفت و محبت رکھی اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھا۔ ﴿ وَتَسْوَدُّ وُجُوهٌ﴾ ” اور بعض چہرے سیاہ ہوں گے“ وہ بدنصیبوں اور بدکاروں کے چہرے ہوں گے، جو اختلاف و افتراق پیدا کرنے والے تھے۔ ذلت و رسوائی کی وجہ سے ان کے دلوں کی جو کیفیت ہوگی، اس کے نتیجے میں ان کے چہرے سیاہ ہوجائیں گے۔ اور نیک لوگوں کو نعمتیں اور خوشیاں نصیب ہوں گی، ان کے اثرات ان کے چہروں پر ظاہر ہوں گے اور ان کے چہرے سفید اور روشن ہوں گے۔ جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَلَقَّاهُمْ نَضْرَةً وَسُرُورًا ﴾(الدھر :86؍11) ” اور انہیں تازگی اور خوشی پہنچائی“ ترو تازہ ہونے کا تعلق چہروں سے ہے، اور خوشی دلوں میں ہوتی ہے۔ دوسرے مقام پر ارشاد ہے : ﴿وَالَّذِينَ كَسَبُوا السَّيِّئَاتِ جَزَاءُ سَيِّئَةٍ بِمِثْلِهَا وَتَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ ۖ مَّا لَهُم مِّنَ اللَّـهِ مِنْ عَاصِمٍ ۖ كَأَنَّمَا أُغْشِيَتْ وُجُوهُهُمْ قِطَعًا مِّنَ اللَّيْلِ مُظْلِمًا ۚ أُولَـٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ﴾(یونس :10؍27) ” جنہوں نے گناہ کمائے تو ہر برائی کا بدلہ اس کے برابر ہے اور ان پر ذلت چھائی ہوگی۔ انہیں اللہ سے کوئی بچانے والا نہ ہوگا۔ یوں ہوگا گویا ان کے چہروں پر رات کے تاریک ٹکڑے اوڑھا دیئے گئے ہیں۔ یہی لوگ آگ والے ہیں۔ وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔“ ﴿فَأَمَّا الَّذِينَ اسْوَدَّتْ وُجُوهُهُمْ﴾ ” اور جن کے چہرے سیاہ ہوں گے“ انہیں ڈانٹ ڈپٹ اور زجر و توبیخ کے انداز سے کہا جائے گا : ﴿أَكَفَرْتُم بَعْدَ إِيمَانِكُمْ ﴾ ” کیا تم نے ایمان لانے کے بعد کفر کیا“ یعنی تم نے ہدایت اور ایمان کے بجائے کفر وضلالت کو کیوں ترجیح دی؟ تم نے ہدایت والا راستہ چھوڑ کر گمراہی کا راستہ کیوں اختیار کیا؟ ﴿فَذُوقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنتُمْ تَكْفُرُونَ﴾ اب ” اپنے کفر کے بدلے عذاب کا مزہ چکھو“ تمہارے لائق صرف جہنم کا مقام ہے تم صرف ذلت و رسوائی کے مستحق ہو آل عمران
107 ﴿وَأَمَّا الَّذِينَ ابْيَضَّتْ وُجُوهُهُمْ﴾ ” اور جن کے چہرے سفید ہوں گے“ انہیں مبارک باد دی جائے گی اور عظیم ترین بشارت ملے گی۔ یعنی انہیں جنت میں داخلے کی، رب کی خوشنودی کی اور اس کی رحمت کی خوش خبری دی جائے گی۔﴿فَفِي رَحْمَةِ اللَّـهِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ﴾ ” وہ اللہ کی رحمت میں داخل ہوں گے اور اس میں ہمیشہ رہیں گے“ چونکہ وہ ہمیشہ رحمت میں رہیں گے اور جنت بھی اللہ کی رحمت کا ایک مظہر ہے۔ لہٰذا وہ ہمیشہ جنت میں رہیں گے جس میں دائمی نعمتیں اور سلامتی والی زندگی ہوگی۔ وہ ارحم الراحمین کے پڑوس میں ہوں گے۔ آل عمران
108 جب اللہ تعالیٰ نے احکام و اوامر بھی بتا دیئے اور ان کی جزا بھی بیان فرما دی، تو اس کے بعد فرمایا : ﴿ تِلْكَ آيَاتُ اللَّـهِ نَتْلُوهَا عَلَيْكَ بِالْحَقِّ﴾ ”یہ اللہ کی آیتیں ہیں، جو ہم آپ کو ٹھیک ٹھیک بیان کر رہے ہیں“ کیونکہ اس کے اوامر و نواہی حکمت و رحمت پر اور جزا و سزا پر مشتمل ہیں۔ اس طرح وہ حکمت و رحمت پر اور عدل پر مشتمل ہیں جن میں ظلم کا کوئی شائبہ نہیں“ اس لیے فرمایا : ﴿ وَمَا اللَّـهُ يُرِيدُ ظُلْمًا لِّلْعَالَمِينَ﴾ ”اور اللہ کا ارادہ لوگوں پر ظلم کرنے کا نہیں“ ظلم کرنا تو بہت دور کی بات ہے، اللہ تعالیٰ ظلم کا ارادہ بھی نہیں فرماتا۔ لہٰذا کسی کی نیکیوں میں کمی نہیں کرتا، اور ظالموں کے ظلم میں اضافہ نہیں فرماتا، بلکہ صرف ان کے کئے ہوئے اعمال کی سزا دیتا ہے۔ آل عمران
109 یعنی آسمان اور زمین میں جو کچھ ہے، اس سب کا مالک وہی ہے۔ جس نے انہیں پیدا کیا، انہیں رزق دیا، اور اپنی قضاء و قدر کے مطابق اور اپنی شریعت اور احکام کے مطابق ان میں تصرف کرتا ہے۔ قیامت کے دن وہ اسی کے پاس واپس جائیں گے، پھر وہ انہیں اچھے اور برے اعمال کا بدلہ دے گا۔ آل عمران
110 اللہ تعالیٰ اس امت کی تعریف کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ یہ تمام امتوں سے بہتر اور افضل امت ہے جسے اللہ نے لوگوں کے لیے پیدا کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو کامل کرتے ہیں یعنی ایسا ایمان رکھتے ہیں جو اللہ کے ہر حکم پر عمل کرنے کو مستلزم ہے اور دوسروں کو بھی کامل بناتے ہیں۔ یعنی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر عمل پیرا ہوتے ہیں، جس میں مخلوق کو اللہ کی طرف بلانا، اس مقصد کے لیے ان سے جہاد کرنا، ان کو گمراہی اور نافرمانی سے روکنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنا شامل ہے۔ اس وجہ سے وہ بہترین امت ہیں۔ چونکہ اللہ تعالیٰ نے گزشتہ آیت میں یعنی اس فرمان الٰہی میں: ﴿وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ ﴾ ”تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونی چاہئے جو بھلائی کی طرف بلائے، نیک کاموں کا حکم کرے اور برے کاموں سے روکے۔“ اللہ کی طرف سے اس امت کو ایک حکم دیا گیا تھا۔ اور جسے حکم دیا جائے وہ بعض اوقات حکم کی تعمیل کرتا ہے اور بعض اوقات تعمیل نہیں کرتا۔ لہٰذا اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ اس امت نے وہ کام انجام دیا ہے، جس کا اسے حکم دیا گیا تھا، اپنے رب کے حکم کی تعمیل کی ہے اور تمام امتوں سے افضل قرار پانے کی مستحق ہوگئی ہے۔ ﴿وَلَوْ آمَنَ أَهْلُ الْكِتَابِ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُم﴾ ” اگر اہل کتاب بھی ایمان لاتے تو ان کے لیے بہتر ہوتا۔“ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے نرم انداز اختیار کرتے ہوئے اہل کتاب کو ایمان کی دعوت دی ہے۔ لیکن ان میں سے بہت کم افراد ایمان لائے۔ زیادہ فاسق، اللہ کے نافرمان اور اللہ کے دوستوں سے طرح طرح سے دشمنی کا اظہار کرنے والے تھے۔ آل عمران
111 لیکن اللہ کا اپنے مومن بندوں پر یہ لطف و کرم ہے کہ اس نے دشمن کے ناپاک منصوبوں کو ناکام بنا دیا اور مومنوں کو ان سے نہ دینی نقصان پہنچا، نہ جسمانی، وہ زیادہ سے زیادہ جو کچھ کرسکتے ہیں وہ یہ ہے کہ زبان سے تکلیف پہنچا سکتے ہیں اور یہ چیز ایسی ہے کہ اس سے کوئی بھی دشمن بچ نہیں سکتا۔ اگر وہ مومنوں سے جنگ کریں گے تو پیٹھ پھیر کر بھاگیں گے۔ ان کی یہ ہزیمت دائمی ہوگی اور ان کی ذلت ہمیشہ رہے گی۔ ان کی کبھی مدد نہیں کی جائے گی۔ اس لیے اللہ نے ان کا انجام یہ بتایا کہ باطنی طور پر وہ ذلت کا شکار ہوں گے اور ظاہری طور پر فقر و مسکنت کا۔ لہٰذا وہ کہیں اطمینان اور سکون سے نہیں رہ سکیں گے۔ آل عمران
112 ﴿إِلَّا بِحَبْلٍ مِّنَ اللَّـهِ وَحَبْلٍ مِّنَ النَّاسِ﴾” مگر یہ کہ اللہ کی یا لوگوں کی پناہ میں ہوں“ اس لیے یہودی یا تو مسلمانوں سے معاہدہ کر کے ان کے ماتحت (ذمی بن کر) رہیں گے، ان سے جزیہ لیا جائے گا۔ وہ ذلیل ہوں گے۔ یا نصاریٰ کے ماتحت ہوں گے۔ ﴿وَبَاءُوا بِغَضَبٍ مِّنَ اللَّـهِ﴾ ” یہ غضب الٰہی کے مستحق ہوگئے“ اور یہ سب سے بڑی سزا ہے۔ وہ اس حال کو کیوں پہنچے، اس کی وجہ اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں بیان فرمائی ہے : ﴿ ذٰلِكَ بِأَنَّهُمْ كَانُوا يَكْفُرُونَ بِآيَاتِ اللَّـهِ ﴾ ” یہ اس لیے کہ یہ لوگ اللہ کی آیتوں کے ساتھ کفر کرتے تھے“ یہ لوگ ان آیتوں کا انکار کرتے تھے، جنہیں اللہ نے اپنے رسول محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل کیا ہے، جن سے ایمان اور یقین حاصل ہوتا ہے۔ لیکن انہوں نے سرکشی اور عناد کی وجہ سے ان کا انکار کیا۔﴿وَيَقْتُلُونَ الْأَنبِيَاءَ بِغَيْرِ حَقٍّ﴾” اور انبیاء کو بے وجہ قتل کرتے تھے“ وہ انبیاء جو ان پر سب سے عظیم احسان کرتے تھے، وہ اس احسان کے بدلے میں بدترین سلوک کرتے تھے یعنی انہیں شہید کردیتے تھے۔ کیا اس جسارت اور اس جرم سے بڑھ کر بھی کوئی جرم ہوسکتا ہے؟ ان سب بداعمالیوں کی وجہ ان کی نافرمانی اور ظلم تھا، جس کی وجہ سے انہوں نے اللہ کے ساتھ کفر کرنے اور انبیاء کرام کو شہید کرنے کی جسارت کی۔ آل عمران
113 جب اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کے فاسق گروہ کا ذکر کیا، ان کی بداعمالیاں اور ان کی سزائیں بیان کیں، تو ان آیات میں حق پر قائم رہنے والی جماعت کا ذکر فرمایا، ان کے نیک اعمال اور ان کا ثواب ذکر فرمایا اور یہ بتایا کہ اللہ کے نزدیک یہ دونوں گروہ برابر نہیں بلکہ ان کے درمیان اتنا زیادہ فرق ہے کہ بیان نہیں کیا جاسکتا۔ اس فاسق گروہ کا ذکر تو پہلے ہوچکا۔ باقی رہے یہ مومن، تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان میں ﴿ أُمَّةٌ قَائِمَةٌ﴾ ایک جماعت اللہ کی تلاوت بھی کرتے ہیں اور سجدے بھی کرتے ہیں“ یہ رات کے اوقات میں ادا کی جانے والی ان کی نمازوں کا بیان ہے کہ وہ طویل تہجد پڑھتے ہیں اور اپنے رب کے کلام کی تلاوت کرتے ہیں۔ اللہ کے لیے خشوع و خضوع کے ساتھ رکوع اور سجدے کرتے ہیں۔ آل عمران
114 ﴿يُؤْمِنُونَ بِاللّٰـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ﴾ ” اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان بھی رکھتے ہیں“ جس طرح مسلمانوں کا ایمان ان کے لیے ضروری قرار دیتا ہے کہ وہ اللہ کے بھیجے ہوئے ہر نبی پر، اور اللہ کی نازل کی ہوئی ہر کتاب پر ایمان رکھیں۔ وہ بھی اس طرح کا ایمان رکھتے ہیں۔ قیامت پر ایمان کا خاص طور پر ذکر فرمایا، کیونکہ قیامت پر صحیح یقین و ایمان ہی مومن کو ان اعمال پر آمادہ کرتا ہے جو اسے اللہ سے قریب کرتے ہیں اور جن کا قیامت کو ثواب ملے گا اور ہر اس عمل کے ترک پر آمادہ کرتا ہے جس سے اس دن سزا ملے۔ ﴿وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ﴾ ” اور بھلائیوں کا حکم کرتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں“ اس طرح ان سے یہ عمل انجام پاتا ہے۔ ایمان اور ایمان کے لوازم کے ذریعے سے اپنی تکمیل کرتے ہیں اور دوسروں کو ہر نیکی کا حکم دے کر ہر برائی سے منع کر کے دوسروں کی تکمیل کرتے ہیں۔ اس میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ اپنے ہم مذہبوں کو اور دوسروں لوگوں کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کی دعوت دیتے ہیں۔ پھر ان کی عالی ہمتی بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ﴿وَيُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ﴾ ” بھلائی کے کاموں میں جلدی کرتے ہیں“ نیکی کے ہر موقع سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور جب بھی ہوسکے فوراً نیکی کرلیتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ نیکی کی شدید رغبت اور خواہش رکھتے ہیں اور اس کے فوائد و ثمرات سے خوب واقف ہیں۔ یہ لوگ جن کی تعریف اللہ نے ان عمدہ صفات اور عظیم اعمال کے ساتھ کی ہے۔﴿مِنَ الصَّالِحِينَ﴾ ” یہی نیک لوگوں میں سے ہیں“ جنہیں اللہ تعالیٰ اپنی رحمت میں داخل کرے گا، انہیں اپنی بخشش کے سائے میں لے لے گا اور انہیں اپنے فضل و احسان سے نوازے گا۔ آل عمران
115 ﴿وَمَا يَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ﴾ ” اور یہ جو کچھ بھی بھلائیاں کریں“ تھوڑی ہوں یا زیادہ ﴿فَلَن يُكْفَرُوهُ﴾” ان کی ناقدری نہیں کی جائے گی“ انہیں ان کے ثواب سے محروم نہیں رکھا جائے گا، بلکہ اللہ تعالیٰ انہیں ان اعمال کا مکمل ترین ثواب دے گا۔ لیکن اعمال کے ثواب کا دار و مدار عمل کرنے والے کے دل میں موجود ایمان و تقویٰ پر ہوتا ہے۔ اس لیے فرمایا : ﴿وَاللَّـهُ عَلِيمٌ بِالْمُتَّقِينَ﴾ ” اور اللہ پرہیز گاروں کو خوب جانتا ہے“ جیسے دوسرے مقام پر فرمایا : ﴿ إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللَّـهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ﴾ (المائدہ :5؍27) ” اللہ صرف پرہیز گاروں کی قربانی قبول کرتا ہے۔ “ آل عمران
116 اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ کافروں کو ان کے مال اور ان کی اولاد اللہ کے ہاں کچھ کام نہ آئیں گی۔ یعنی اللہ کے عذاب سے بچانے میں یا اللہ سے ثواب کے حصول میں معمولی سا بھی فائدہ نہیں دیں گی۔ جیسے فرمان الٰہی ہے : ﴿وَمَا أَمْوَالُكُمْ وَلَا أَوْلَادُكُم بِالَّتِي تُقَرِّبُكُمْ عِندَنَا زُلْفَىٰ إِلَّا مَنْ آمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا﴾(سبا :34؍37) ” یہ تمہارے مال اور تمہاری اولادیں ایسی نہیں کہ جو تمہیں ہمارا قرب بخش سکیں، لیکن جو ایمان لایا اور اس نے نیک عمل کئے (اسے قرب حاصل ہوگا) “ بلکہ ان کے مال و اولاد جہنم کی طرف سفر میں ان کا زاد راہ ہیں۔ اللہ کی نعمتوں میں اضافے کا تقاضا یہ ہے کہ ان کا شکر ادا کیا جائے، لیکن ان کے لیے یہ چیزیں شکر نہ کرنے کی وجہ سے ان کے خلاف حجت ہوں گی، اس لیے ان پر شکر نہ کرنے اور ناشکری کی پاداش میں انہیں سزا دی جائے گی۔ اس لیے فرمایا :﴿وَأُولَـٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۚ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ﴾ ” یہ تو جہنمی ہیں، جو ہمیشہ اس میں پڑے رہیں گے۔ “ آل عمران
117 پھر اللہ نے کافروں کے مال خرچ کرنے کے بارے میں ایک مثال بیان فرمائی، کہ وہ لوگ مال خرچ کر کے اللہ کے نور کو بجھانے کی کوشش کرتے ہیں اور لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکتے ہیں، تو یہ کوششیں ناکام رہیں گی، جیسے کوئی شخص فصل بوئے اسے اس کا نتیجہ ملنے اور اس سے پیداوار حاصل ہونے کی امید ہو، اچانک کھیتی پر ایک سخت ٹھنڈی ہوا چلے، جس سے کھیتی تباہ ہوجائے۔ اس کے حصے میں صرف محنت، مشقت اور حسرت و افسوس ہی آئے۔ کافروں کا بھی یہی حال ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے دوسرے مقام پر فرمایا:﴿إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ لِيَصُدُّوا عَن سَبِيلِ اللَّـهِ ۚ فَسَيُنفِقُونَهَا ثُمَّ تَكُونُ عَلَيْهِمْ حَسْرَةً ثُمَّ يُغْلَبُونَ﴾ (الانفال :8؍36) ” بے شک کافر اپنے مال اللہ کی راہ سے روکنے کے لیے خرچ کرتے ہیں، یہ خرچ کریں گے، پھر یہ ان کے لیے حسرت کا باعث بن جائیں گے، پھر یہ مغلوب ہوجائیں گے“ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿وَمَا ظَلَمَهُمُ اللَّـهُ ﴾ ” اللہ نے ان پر ظلم نہیں کیا۔“ کہ ان کے عمل ضائع کردیے۔ ﴿وَلَـٰكِنْ أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ﴾” بلکہ وہ خود اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے۔“ وہ اس طرح کہ انہوں نے اللہ کی آیتوں کا انکار کیا، اس کے رسولوں کو جھٹلایا اور اللہ کے نور کو بجھانے کی کوشش کی۔ ان بداعمالیوں کی وجہ سے ان کی نیکیاں ضائع ہوگئیں اور مال تباہ ہوگئے۔ آل عمران
118 اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو اس بات سے منع فرماتا ہے کہ وہ اہل کتاب کے یا دوسرے مذاہب کے منافقوں کو دلی دوست بنائیں، انہیں اپنے راز بتائیں، یا بعض اسلامی ذمہ داریاں ان کے سپرد کردیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ دشمن ہیں جن کے دل بغض و عداوت سے بھرے ہوئے ہیں۔ حتیٰ کہ یہ عداوت ان کی زبان سے بلا ارادہ ظاہر ہوجاتی ہے۔ ﴿وَمَا تُخْفِي صُدُورُهُمْ أَكْبَرُ ۚ﴾ ” اور جو ان کے سینوں میں پوشیدہ ہے، وہ ظاہر ہوجانے والی دشمنی سے بہت زیادہ ہے۔“ اسی لیے ﴿ لَا يَأْلُونَكُمْ خَبَالًا﴾ ” وہ تمہاری تباہی میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے“ یعنی تمہیں نقصان پہنچانے اور مشکلات پیدا کرنے میں کمی نہیں کرتے۔ وہ ایسے اسباب پیدا کرتے ہیں جس کے نتیجے میں تمہیں نقصان پہنچے اور تمہارے خلاف تمہارے دشمنوں کی مدد کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مومنوں سے فرماتا ہے : ﴿قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْآيَاتِ ﴾ ” ہم نے تمہارے لیے آیتیں بیان کردی ہیں“ جن میں تمہاری دینی اور دنیاوی مصلحتیں اور فوائد موجود ہیں۔ ﴿إِن كُنتُمْ تَعْقِلُونَ ﴾ ” اگر تم عقل مند ہو“ تو ان نشانیوں کو پہچان کر دوستوں اور دشمنوں کی پہچان کرو، کیونکہ ہر شخص اس قابل نہیں ہوتا کہ اسے ہم راز بنایا جائے۔ عقل مند وہ ہوتا ہے جسے اگر دشمن سے میل جول رکھنے کی ضرورت پیش آجائے تو اس سے میل جول صرف ظاہری معاملات میں ہو، اور اپنے اندرونی معاملات اسے نہ بتائے۔ اگرچہ دشمن کتنی ہی چاپلوسی کرے اور قسمیں کھائے کہ وہ دوست ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ مومنوں کو یہودی اور عیسائی منافقوں سے احتیاط کرنے کی ترغیب دیتے ہوئے ان کی شدید دشمنی کو واضح کرتا ہے۔ آل عمران
119 ارشاد ہے﴿هَا أَنتُمْ أُولَاءِ تُحِبُّونَهُمْ وَلَا يُحِبُّونَكُمْ وَتُؤْمِنُونَ بِالْكِتَابِ كُلِّهِ ﴾ ” ہاں، تم تو انہیں چاہتے ہو، اور وہ تم سے محبت نہیں رکھتے، اور تم پوری کتاب کو مانتے ہو“ یعنی ان تمام کتابوں پر ایمان رکھتے ہو جو اللہ نے اپنے نبیوں پر نازل کی ہیں۔ حالانکہ وہ تمہاری کتاب، قرآن پر ایمان نہیں رکھتے۔ بلکہ جب وہ تم سے ملتے ہیں تو اوپر اوپر سے ایمان کا اظہار کرتے ہیں۔ ﴿وَإِذَا لَقُوكُمْ قَالُوا آمَنَّا وَإِذَا خَلَوْا عَضُّوا عَلَيْكُمُ الْأَنَامِلَ مِنَ الْغَيْظِ ﴾ ” اور جب تم سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں، ہم ایمان لائے۔ لیکن تنہائی میں تم پر غصے کے مارے اپنی انگلیاں چباتے ہیں“ (انامل) کا مطلب ” انگلیوں کے سرے۔“ ﴿ قُلْ مُوتُوا بِغَيْظِكُمْ ۗ إِنَّ اللَّـهَ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ﴾ ” کہہ دو ! اپنے غصے ہی میں مر جاؤ۔ اللہ تعالیٰ دلوں کے راز بخوبی جانتا ہے۔“ اس میں مومنوں کے لیے خوش خبری ہے کہ یہ دشمن تمہیں نقصان پہنچانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ لیکن اپنا ہی نقصان کر رہے ہیں۔ وہ اپنے غصے کو عملی جامہ پہنانے کے قابل نہیں۔ وہ مرتے دم تک دنیا کا یہ عذاب سہتے رہیں گے اور مرنے کے بعد دنیا کے عذاب سے آخرت کے عذاب کی طرف منتقل ہوجائیں گے۔ آل عمران
120 ﴿إِن تَمْسَسْكُمْ حَسَنَةٌ  ﴾ ” تمہیں اگر بھلائی ملے“ مثلاً دشمنوں پر فتح نصیب ہو، یا غنیمت حاصل ہو ﴿تَسُؤْهُمْ  ﴾” تو یہ ناخوش ہوتے ہیں“ یعنی انہیں اس سے غم ہوتا ہے ﴿وَإِن تُصِبْكُمْ سَيِّئَةٌ يَفْرَحُوا بِهَا ۖ وَإِن تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا لَا يَضُرُّكُمْ كَيْدُهُمْ شَيْئًا ۗ إِنَّ اللَّـهَ بِمَا يَعْمَلُونَ مُحِيطٌ ﴾ ” اور اگر تمہیں برائی پہنچے تو وہ خوش ہوتے ہیں اور تم اگر صبر کرو اور پرہیز گاری کرو تو ان کا مکر تمہیں کچھ نقصان نہ دے گا۔ بلکہ اللہ تعالیٰ ان کے مکر کو انہی پر الٹ دے گا۔ کیونکہ اس کا علم اور اس کی قدرت ان کو گھیرے ہوئے ہے، وہ اس کی قدرت کے دائرے سے باہر نہیں نکل سکتے اور ان کی کوئی بات اللہ سے چھپی نہیں رہ سکتی۔ آل عمران
121 یہ آیات واقعہ احد کے بارے میں نازل ہوئیں۔ اس کا قصہ معروف ہے جو سیرت اور تاریخ کی کتابوں میں تفصیل سے بیان ہوا ہے۔ یہاں اسے بیان کرنے اور اس کے درمیان میں بدرکا واقعہ لے آنے میں غالباً یہ حکمت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مومنوں سے وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ صبر اور تقویٰ اختیار کریں گے، تو اللہ تعالیٰ ان کی مدد کرے گا اور دشمن کی سازشوں سے انہیں محفوظ فرمائے گا۔ یہ ایک عام حکم اور سچا وعدہ تھا، جس کی شرائط پوری کی جاتیں تو اس کا پورا ہونا ناممکن نہیں تھا۔ ان دو قصوں میں اس کا ایک نمونہ پیش فرما دیا کہ اللہ نے بدر میں مسلمانوں کی مدد اس لیے فرمائی تھی کہ انہوں نے صبر کیا اور تقویٰ اختیار کیا اور احد میں انہیں دشمنوں کے ہاتھوں اس لیے نقصان پہنچا کہ ان میں سے بعض افراد سے ایسی غلطی ہوگئی جو تقویٰ کے منافی تھی دونوں واقعات اکٹھے بیان کرنے کا یہ مقصد ہے کہ اللہ کو بندوں کا یہ عمل پسند ہے کہ جب انہیں کوئی ناخوشگوار صورت حال پیش آجائے تو انہیں وہ نعمت یاد کرنی چاہئے جو انہیں پسند ہے، تو ان کی مصیبت ہلکی ہوجائے گی اور وہ اس بڑی نعمت پر رب کا شکر کریں گے۔ جس کے مقابلے میں یہ ظاہری مصیبت، جو حقیقت میں نعمت ہی ہے، بڑی نعمت کے مقابلے میں بہت معمولی محسوس ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت مبارکہ میں اسی حکمت کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ﴿أَوَلَمَّا أَصَابَتْكُم مُّصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُم مِّثْلَيْهَا  ﴾(آل عمران :3؍165) ” کیا بات ہے کہ جب تمہیں ایک ایسی تکلیف پہنچی کہ تم اس جیسی دو چند پہنچا چکے“ واقعہ احد کا خلاصہ یہ ہے کہ جب 2 ھ میں جنگ بدر کے بعد بچے کھچے مشرکین مکہ پہنچے، تو انہوں نے اپنی طاقت کے مطابق مال، افراد اور اسلحہ کے ساتھ بھرپور تیاری کی، حتیٰ کہ اتنا کچھ جمع ہوگیا جس کی وجہ سے انہوں نے اپنا مقصود حاصل کرنے اور اپنا غصہ نکالنے کا پختہ ارادہ کرلیا۔ تب وہ تین ہزار جنگ جو افراد کا لشکر لے کر مکہ سے روانہ ہوئے اور مدینہ کے قریب آٹھہرے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام سے مشورہ کیا، تو طے پایا کہ شہر سے باہر نکل کر مقابلہ کیا جائے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہزار آدمی لے کر روانہ ہوئے۔ تھوڑا سا فاصلہ طے کرنے کے بعد عبداللہ بن ابی (منافق) اپنے جیسے تین سو افراد لے کر واپس پلٹ گیا۔ اس طرح اسلامی لشکر کی تعداد میں ایک تہائی مقدار کی کمی ہوگئی۔ مومنوں کے دو گروہ بھی پلٹ جانے کا سوچنے لگے۔ وہ بنو حارثہ اور بنو سلمہ کے قبائل تھے۔ اللہ نے انہیں ثابت قدمی عطا فرمائی۔ جب احد کے مقام پر پہنچے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لشکر کو ترتیب دے کر ان کے مختلف دستے اپنے اپنے مقام پر متعین فرمائے۔ احد کا پہاڑ ان کی پشت کی طرف تھا۔ انہوں نے اپنی پیٹھیں احد کی طرف رکھیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پچاس صحابہ کرام کو احد کی ایک گھاٹی پر متعین فرمایا اور انہیں حکم دیا کہ وہیں ٹھہرے رہیں اور وہ جگہ نہ چھوڑیں، تاکہ پیچھے سے دشمن کے حملہ کا خطرہ نہ رہے۔ جب مسلمانوں اور مشرکوں کے مابین جنگ ہوئی تو مشرکوں کو بری طرح شکست ہوئی، وہ اپنی لشکر گاہ کو پیچھے چھوڑ گئے۔ مسلمانوں نے ان کا تعاقب کر کے انہیں قتل اور قید کرنا شروع کردیا۔ جن تیر اندازوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پہاڑ پر متعین فرمایا تھا، جب انہوں نے یہ صورتحال دیکھی تو (انہوں نے سوچا کہ اب ہمارا فرض مکمل ہوگیا ہے۔ اس لیے) انہوں نے آپس میں کہا، غنیمت ! غنیمت ! ہم یہاں کیوں بیٹھے ہیں جبکہ مشرکین شکست کھاچکے ہیں۔ ان کے امیر حضرت عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ نے انہیں نصیحت فرمائی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکم عدولی نہ کریں۔ لیکن دوسروں نے اس طرف توجہ نہ دی۔ جب انہوں نے اپنی جگہ چھوڑ دی اور وہاں صرف چند افراد رہ گئے، تو مشرکین کا گھڑ سوار دستہ اس گھاٹی سے آگیا اور مسلمانوں کے پیچھے آ کر لشکر کے پچھلے دستے پر حملہ کردیا۔ تب مسلمان کچھ ادھر ادھر ہوئے، جو اللہ کی طرف سے ایک آزمائش تھی۔ جس سے ان کے گناہ معاف ہوئے، اور تعمیل حکم میں کوتاہی کی سزا مل گئی۔ اس کے نتیجے میں جن کی قسمت میں شہادت تھی، وہ شہید ہوگئے۔ آخر کار مسلمان جبل احد کی چوٹی کی طرف جمع ہوگئے۔ اللہ نے مشرکین کے ہاتھوں کو روک دیا اور وہ لوگ اپنے وطن کی طرف لوٹ گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام مدینہ منورہ تشریف لے آئے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿وَإِذْ غَدَوْتَ مِنْ أَهْلِكَ ﴾ ” اور اس وقت کو یاد کرو جب آپ اپنے گھر سے نکلے‘‘ اس مقام پر (غدوت) کا مطلب ”مطلقاً نکلنا ہے“ صبح کے وقت نکلنا نہیں۔ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام جمعہ کی نماز پڑھ کر روانہ ہوئے تھے۔ ﴿تُبَوِّئُ الْمُؤْمِنِينَ مَقَاعِدَ لِلْقِتَالِ  ﴾ ” مومنوں کو میدان جنگ میں لڑائی کے مورچوں پر باقاعدہ بٹھا رہے تھے“ یعنی آپ انہیں ترتیب دے رہے تھے اور ہر ایک کو اس مقام پر ٹھہرا رہے تھے جو اس کے لیے مناسب تھا۔ اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عظیم تعریف ہے۔ کہ آپ بنفس نفیس ان کو منظم فرما رہے تھے اور جنگ کے لیے مناسب مقامات پر ٹھہرا رہے تھے۔ اس کی وجہ آپ کے علم و فراست کا کمال، دور اندیشی اور بلند ہمتی تھی۔ علاوہ ازیں آپ کامل شجاعت سے بہرہ ور تھے، صلوات اللہ وسلامہ علیہ ﴿وَاللَّـهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ﴾ ” اور اللہ سننے والا جاننے والاہے“ جو ہر بات سنتا ہے۔ مومنوں کی باتیں بھی سنتا ہے اور منافقوں کی بھی۔ ہر ایک کی بات چیت سے اس کے دل کے جذبات، احساسات اور خیالات ظاہر ہوتے ہیں۔ وہ بندوں کی نیتوں کو جانتا ہے، وہ ان کے مطابق انہیں مکمل بدلہ عطا فرماتا ہے۔ علاوہ ازیں یہ مطلب بھی ہے کہ وہ سننے والا جاننے والا ہے۔ تمہاری حفاظت کرتا ہے۔ تمہارے معاملات سنوارتا ہے اور تمہیں اپنی مدد سے نوازتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام سے بھی اسی طرح فرمایا تھا : ﴿إِنَّنِي مَعَكُمَا أَسْمَعُ وَأَرَىٰ  ﴾(طہ :2؍46) ” میں تمہارے ساتھ ہوں اور سنتا دیکھتا ہوں۔ “ آل عمران
122 اللہ تعالیٰ کی مومنوں پر مہربانی اور احسان اس طرح بھی ہوا کہ ﴿إِذْ هَمَّت طَّائِفَتَانِ ﴾ جب مومنوں کی دو جماعتیں پست ہمتی کا ارادہ کرچکی تھیں اور وہ بنو سلمہ اور بنو حارثہ تھے، جیسے پہلے بیان ہوا۔ اللہ نے ان پر اور تمام مومنوں پر احسان کرتے ہوئے انہیں ثابت قدمی کی توفیق بخشی۔ اس لیے فرمایا : ﴿وَاللَّـهُ وَلِيُّهُمَا ﴾ ” اللہ ان کا ولی اور مدگار ہے“ یہاں اللہ تعالیٰ کی خاص ولایت مراد ہے یعنی اس کی اپنے دوستوں پر مہربانی، انہیں ایسے کاموں کی توفیق دینا جن میں ان کا فائدہ ہو اور ایسے کاموں سے محفوظ رکھنا، جن میں ان کا نقصان ہو۔ اس کا ایک مظہر یہ بھی تھا کہ جب انہوں نے اس گناہ کا ارادہ کیا کہ وہ پست ہمتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے میدان جنگ سے چلے جائیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر بھاگ جائیں تو اللہ تعالیٰ نے انہیں اس غلطی سے بچا لیا، کیونکہ ان میں ایمان موجود تھا۔ جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ﴿اَللَّـهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا يُخْرِجُهُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ ﴾ (البقرہ :2؍ 257) ” اللہ مومنوں کا دوست اور مددگار ہے، انہیں اندھیروں سے روشنی کی طرف نکال لاتا ہے۔“ اس کے بعد فرمایا : ﴿وَعَلَى اللَّـهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ ﴾” اور اللہ ہی کی ذات پر مومنوں کو بھروسا کرنا چاہئے“ اس میں توکل کا حکم ہے توکل کا مطلب یہ ہے کہ فائدہ مند اشیاء کے حصول کے لیے اور نقصان سے بچنے کے لیے اللہ پر اعتماد کرتے ہوئے دل کا سہارا اللہ پر ہو۔ بندے کو اللہ پر جتنا ایمان ہوتا ہے، اس کے مطابق اس کا توکل ہوتا ہے۔ اس آیت میں یہ اشارہ بھی ہے کہ دوسروں کی نسبت مومن اللہ پر توکل کرنے کا زیادہ حق رکھتے ہیں۔ بالخصوص سختی اور جہاد کے موقع پر انہیں اللہ پر توکل کرنا، اس سے مدد اور فتح طلب کرنا، اپنی طاقت پر بالکل بھروسا نہ کرنا، بلکہ اللہ کی قوت اور حفاظت پر بھروسا کرنا انتہائی ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی برکت سے ان کی مدد کرتا ہے اور ان کی مصیبتیں اور مشکلات دور فرماتا ہے۔ آل عمران
123 ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کو اپنا احسان یاد دلایا ہے، اور انہیں اپنی وہ مدد یا ددلائی ہے جو بدر کے موقع پر ہوئی۔ جب وہ کمزور تھے، ان کی تعداد بھی کم تھی، اور سامان بھی۔ جبکہ دشمنوں کی تعداد اور سامان جنگ کی مقدار بہت زیادہ تھی۔ غزوہ بدر ہجرت کے دوسرے سال واقع ہوا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ سے تین سو دس سے چند افراد زیادہ کی تعداد میں اپنے صحابہ کے ہمراہ روانہ ہوئے۔ ان کے پاس صرف ستر اونٹ اور دو گھوڑے تھے۔ آپ قریش کے تجارتی قافلہ کے تعاقب میں نکلے تھے۔ جو شام سے آرہا تھا۔ مشرکین کو اطلاع ملی تو وہ اپنے قافلے کو بچانے کے لیے پوری طرح تیار ہو کر مکہ مکرمہ سے نکلے۔ وہ تقریباً ایک ہزار جنگ جو تھے جن کے پاس مکمل سامان رسد، بکثرت ہتھیار اور بہت سے گھوڑے موجود تھے۔ ان کا مسلمانوں سے آمنا سامنا ایک چشمے کے پاس ہوا، جسے ” بدر“ کہتے تھے۔ یہ مکہ اور مدینہ کے درمیان واقع ہے۔ جنگ ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی عظیم مدد فرمائی۔ چنانچہ انہوں نے مشرکین کے ستر بہادر سردار قتل کئے اور ستر کو جنگی قیدی بنایا اور ان کی لشکر گاہ پر قبضہ کرلیا۔ جیسے سورۃ انفال میں انشاء اللہ بیان ہوگا۔ اس کی تفصیل کا اصل مقام وہی ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے اس کا ذکر صرف اس لیے کیا ہے کہ مسلمان اس سے نصیحت حاصل کرتے ہوئے اللہ کا تقویٰ اختیار کریں اور اس کا شکر کریں۔ اس لیے فرمایا : ﴿فَاتَّقُوا اللَّـهَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ ﴾ ” اللہ ہی سے ڈرو، تاکہ تم شکر گزار بن جاؤ“ کیونکہ جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے وہی اس کا شکر ادا کرتا ہے۔ جو تقویٰ ترک کردیتا ہے، وہ شکر گزار نہیں ہوتا۔ آل عمران
124 اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! یاد کیجیے جب بدر کے دن آپ مومنوں کو فتح کی خوش خبری دیتے ہوئے ان سے فرما رہے تھے : ﴿أَلَن يَكْفِيَكُمْ أَن يُمِدَّكُمْ رَبُّكُم بِثَلَاثَةِ آلَافٍ مِّنَ الْمَلَائِكَةِ مُنزَلِينَ ﴾ ” کیا تمہارے لیے یہ کافی نہیں ہوگا کہ تمہارا رب تین ہزار فرشتے اتار کر تمہاری مدد کرے؟“ آل عمران
125 ﴿بَلَىٰ ۚ إِن تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا وَيَأْتُوكُم مِّن فَوْرِهِمْ هَـٰذَا ﴾ ” بلکہ اگر تم صبر اور پرہیز گاری کرو، اور وہ اپنے اس جوش سے تمہارے مقابلے میں آئیں۔“ (من فورھم ھذا) کا مطلب ہے (من مقصدھم ھذا) ” اپنے کسی ارادے اور عزم کے ساتھ“ اس سے غزوہ بدر مراد ہے۔ ﴿يُمْدِدْكُمْ رَبُّكُم بِخَمْسَةِ آلَافٍ مِّنَ الْمَلَائِكَةِ مُسَوِّمِينَ ﴾ ” تمہارا رب تمہاری امداد پانچ ہزار فرشتوں سے کرے گا، جو نشان دار ہوں گے“ یعنی ان پر بہادروں کا خصوصی نشان ہوگا۔ خلاصہ یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں کی مدد کی تین شرطیں بیان فرمائی ہیں : صبر، تقویٰ اور مشرکین کا فوری جوش و جذبہ کے ساتھ آنا۔ یہ وعدہ مذکورہ بالا فرشتوں کے بطور امداد فوج کے نازل ہونے کے بارے میں ہے۔ لیکن فتح اور دشمنوں کے منصوبوں کی ناکامی کے لیے اللہ نے پہلی دو شرطیں مقرر فرمائی ہیں۔ جیسے کہ پہلے فرمان الٰہی گزرا ہے۔ ﴿وَإِن تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا لَا يَضُرُّكُمْ كَيْدُهُمْ شَيْئًا ۗ ﴾ (ال عمران :3؍ 120) ” اگر تم صبر اور تقویٰ اختیار کرو گے تو ان کے منصوبے تمہیں کچھ نقصان نہیں پہنچا سکیں گے“ آل عمران
126 اس کے بعد فرمایا :﴿وَمَا جَعَلَهُ اللَّـهُ إِلَّا بُشْرَىٰ﴾ اللہ نے اس چیز کو (یعنی فرشتے اتار کر تمہیں کمک پہنچانے کو) صرف خوش خبری بنایا ہے“ تاکہ اس سے تمہیں خوشی حاصل ہو۔ ﴿وَلِتَطْمَئِنَّ قُلُوبُكُم بِهِ ﴾” اور اس بشارت سے تمہارے دل مطمئن ہوجائیں۔“ ﴿وَمَا النَّصْرُ إِلَّا مِنْ عِندِ اللَّـهِ ﴾” ورنہ مدد تو اللہ ہی کی طرف سے ہے“ لہٰذا اپنے اسباب پر اعتماد نہ کرو بلکہ اسباب صرف تمہارے دلوں کے اطمینان کے لیے ہیں۔ اصل فتح، جس کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا، وہ تو اللہ کی مشیت ہے، وہ اپنے بندوں میں سے جس کی مدد کرنے کا ارادہ فرما لے وہی فتح یاب ہوتا ہے۔ اگر وہ چاہے تو اس فریق کی مدد کرے جس کے پاس اسباب ہیں، جیسے عام طور پر مخلوق ہیں اس کی سنت جاری ہے اور اگر چاہے تو کمزور اور معمولی فریق کی مدد کرے، تاکہ اس کے بندوں کو معلوم ہوجائے کہ سب کام اس کے ہاتھ میں ہیں اور سب معاملات کا دار و مدار اس کی مرضی پر ہے۔ اس لیے فرمایا : ﴿وَمَا النَّصْرُ إِلَّا مِنْ عِندِ اللَّـهِ﴾ ” مدد تو اللہ ہی کی طرف سے ہے جو غالب ہے“ کوئی مخلوق اس کے آگے سرتابی نہیں کرسکتی۔ بلکہ تمام مخلوقات اس کی تدبیر اور غلبے کے آگے کمزور اور مجبور ہیں۔ ﴿الْحَكِيمِ  ﴾” حکمتوں والا ہے“ جو ہر چیز کو اس کے صحیح مقام پر رکھتا ہے۔ بعض اوقات کافروں کو مسلمانوں پر غلبہ حاصل ہوجاتا ہے تو اس میں بھی اس کی حکمت ہوتی ہے۔ کفار کا یہ غلبہ مستقل نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿وَلَوْ يَشَاءُ اللَّـهُ لَانتَصَرَ مِنْهُمْ وَلَـٰكِن لِّيَبْلُوَ بَعْضَكُم بِبَعْضٍ ﴾ (محمد :48؍ 4) ” اگر اللہ چاہتا تو خود ہی بدلہ لے لیتا، لیکن اس کا منشا یہ ہے کہ تم میں سے ایک کا امتحان دوسرے سے لے۔ “ آل عمران
127 اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ وہ اپنے مومن بندوں کی مدد د و مقاصد کے لیے کرتا ہے۔ (١) تاکہ کافروں کی ایک جماعت کو کاٹ لے۔ یعنی وہ قتل ہوجائیں یا قید ہوجائیں یا ان کے شہر پر مسلمانوں کا قبضہ ہوجائے، یا مال غنیمت حاصل ہو۔ اس طرح مومنوں کو قوت حاصل ہو اور کافر ذلیل ہوجائیں۔ کیونکہ اسلام کا مقابلہ کرنے اور اسلام سے جنگ کرنے کی قوت انہیں یا افراد سے حاصل ہوتی ہے یا ہتھیاروں سے یا مال سے یا زمین سے۔ ان میں سے کسی بھی چیز کا ختم ہونا یا مسلمانوں کے قبضے میں آنا، ان کی قوت میں کمی کا باعث ہے۔ -2 دوسرا مقصد یہ ہے کہ کافر اپنی قوت و کثرت پر اعتماد کر کے مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی خواہش کریں، بلکہ اس کی انتہائی شدید حرص میں مبتلا ہو کر اپنی طاقت اور اپنا مال صرف کریں۔ پھر اللہ تعالیٰ جنگ میں مومنوں کی مدد کرکے انہیں ناکام کر دے، وہ اپنا مقصد حاصل نہ کرسکیں۔ بلکہ خسارہ اٹھا کر غم اور حسرت لے کر واپس چلے جائیں۔ جب آپ حالات پر غور کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ اللہ تعالیٰ جب مومنوں کی مدد کرتا ہے تو وہ ان دو امور سے خارج نہیں ہوتی۔ یا ان پر مسلمانوں کی فتح، یا کفار کی اپنی کوششوں میں ناکامی۔ آل عمران
128 جب جنگ احد کے سنگین واقعات پیش آئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت مصائب پیش آئے، جن کی وجہ سے اللہ نے آپ کا مقام مزید بلند فرما دیا۔ اس موقع پر آپ کا سرمبارک زخمی ہوا، اور دندان مبارک شہید ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا : ((کیف یفلح قوم شجوا نبیھم)) (١) ” وہ قوم کس طرح فلاح پا سکتی ہے جس نے اپنے اپنے نبی کو زخمی کردیا۔“ [صحيح مسلم، الجهاد، باب غزوة احد، ح: 1791] اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین کے سرداروں کے حق میں بد دعا بھی فرمائی۔ مثلاً ابوسفیان بن حرب، صفوان بن امیہ، سہیل بن عمرو اور حارث بن ہشام۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی پر وحی نازل فرما کر آپ کو ان کے خلاف دعا کرنے، انہیں لعنت کرنے، ان کے لیے رحمت سے دوری کی درخواست کرنے سے منع فرما دیا اور فرمایا : ﴿لَيْسَ لَكَ مِنَ الْأَمْرِ شَيْءٌ ﴾” آپ کے اختیار میں کچھ نہیں“ آپ کے فرائض صرف یہ ہیں کہ تبلیغ کریں، مخلوق کی رہنمائی فرمائیں اور ان کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کریں۔ باقی معاملات اللہ کے ہاتھ میں ہیں، وہ جیسے چاہتا ہے تدبیر فرماتا ہے۔ جسے چاہتا ہے ہدایت نصیب فرما دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے۔ آپ انہیں بد دعائیں نہ دیں۔ ان کا معاملہ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اگر اس کی حکمت اور رحمت کا تقاضا ہوگا تو ان کی توبہ قبول فرما کر انہیں اسلام کی نعمت عطا فرما دے گا اور اگر اس کی حکمت کا تقاضا ہوا تو انہیں ہدایت سے محروم فرما کر کفر میں پڑا رہنے دے گا۔ اس صورت میں اپنے نقصان کا باعث اور اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے وہی ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے ان معین افراد کو اور دوسروں کو بھی ہدایت نصیب فرمائی اور وہ مسلمان ہوگئے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ کا اختیار بندوں کے اختیار پر غالب ہے۔ بندے کا درجہ جتنا بھی بلند ہو، اس سے یہ ہوسکتا ہے کہ وہ ایک چیز کو بہت بہترسمجھ کر منتخب کرے حالانکہ بہتری اور مصلحت دوسری چیز میں ہو۔ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم معاملات میں اختیار نہیں رکھتے تھے۔ لہٰذا دوسرے افراد بدرجہ اولیٰ اختیار سے محروم ہوں گے۔ اس میں انبیاء و اولیاء سے حاجتیں مانگنے والوں کی سخت تردید ہے اور یہ وضاحت ہے کہ اس قسم کا عقیدہ رکھنا شرک فی العبادت ہے، جو ان لوگوں کی کم عقلی کو ظاہر کرتا ہے کہ جس ہستی کے ہاتھ میں سب اختیارات میں اسے چھوڑ کر انہیں پکارتے ہیں جو ذرہ برابر اختیار نہیں رکھتے، یہ بہت بڑی گمراہی ہے۔ غور کیجیے جب اللہ نے ان کی توبہ قبول کرنے کا ذکر فرمایا تو فعل کو اپنی طرف منسوب فرمایا۔ (یعنی یہ فرمایا کہ اللہ توبہ قبول فرماتا ہے) اس کا کوئی سبب بیان نہیں فرمایا جس کا یہ نتیجہ برآمد ہوا ہو۔ تاکہ یہ ثابت ہو کہ نعمت تو بندے پر اللہ کا خالص فضل ہوتا ہے۔ اس کے لیے ضروری نہیں کہ بندے کی طرف سے پہلے کوئی عمل ہوا ہو جو اس نعمت کا سبب بنے نہ کسی وسیلے کی ضرورت ہے۔ لیکن جب عذات کا ذکر فرمایا تو ساتھ ہی ان کے ظلم کا ذکر فرمایا اور فائے سببیہ کے ذریعے سے واضح فرمایا کہ عذاب کا سبب ان کا ظلم ہے۔ ارشاد ہے : ﴿ أَوْ يُعَذِّبَهُمْ فَإِنَّهُمْ ظَالِمُونَ ﴾ ” یا ان کو عذاب دے کیونکہ وہ ظالم ہیں“ تاکہ اس سے اللہ کا کامل عدل او اس کی کامل حکمت ظاہر ہو، کہ اس نے سزا کو مناسب مقام پر رکھا اور بندے پر ظلم نہیں کیا، بلکہ بندے نے خود اپنے آپ پر ظلم کیا۔ آل عمران
129 جب یہ واضح فرما دیا کہ رسول کے ہاتھ میں اختیار نہیں، تو اس کے بعد بیان فرمایا کہ اختیار کس کے ہاتھ میں ہے۔ چنانچہ فرمایا : ﴿وَلِلَّـهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۚ﴾” آسمان اور زمین میں جو کچھ ہے، سب اللہ ہی کا ہے۔“ یعنی فرشتے، انسان، جن، حیوانات، جمادات، افلاک وغیرہ اور آسمان اور زمین میں موجود تمام کی تمام اشیاء اللہ کی ملک اور اللہ کی مخلوق ہیں اور اس کی تدبیر کے تابع ہیں۔ وہ ان میں اس طرح تصرف کرتا ہے جس طرح بادشاہ اپنے ملک میں تصرف کرتا ہے۔ اس حکومت میں ان کا ایک ذرہ بھی نہیں۔ جب صورت حال یہ ہے تو وہ سب اس کی مغفرت اور اس کے عذاب کے درمیان ہیں۔ وہ جسے چاہتا ہوں اس کی مغفرت اس طرح فرماتا ہے کہ ہدایت دے کر اسلام میں داخل کردیتا ہے۔ اس طرح اس کا شرک معاف کردیتا ہے اور اس پر یہ احسان فرماتا ہے کہ اسے گناہ ترک کرنے کی توفیق دیتا ہے اور اس طرح اس کے گناہ بھی معاف کردیتا ہے۔ ﴿وَيُعَذِّبُ مَن يَشَاءُ ۚ ﴾” اور جسے چاہتا ہے عذاب دیتا ہے“ وہ اس طرح کہ اسے اس کے نفس کے حوالے کردیتا ہے۔ انسان کا نفس جاہل اور ظالم ہے جو برائیوں کے ارتکاب کا تقاضا کرتا ہے۔ چنانچہ انسان گناہ کا ارتکاب کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ اسے گناہ کی سزا دے دیتا ہے۔ آیت مبارکہ کو دو اسمائے مبارکہ پر ختم کیا گیا ہے جن سے اللہ کی رحمت کی وسعت، اس کی مغفرت کا لامحدود ہونا، اس کے احسان کی وسعت و عموم ظاہر ہوتا ہے۔ چنانچہ فرمایا : ﴿وَاللَّـهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴾” اللہ بخشش کرنے والا مہربان ہے“ اس میں بہت بڑا اشارہ ہے کہ اس کی رحمت اس کے غضب پر غالب ہے اور اس کی مغفرت اس کے مواخذہ پر غالب ہے۔ اس آیت میں مخلوق کی حالت بیان کی گئی ہے کہ ان میں سے کسی کو اللہ تعالیٰ بخش دیتا ہے اور کسی کو عذاب دیتا ہے لیکن آیت کے آخر میں اس طرح کے دو اسمائے مبارکہ ذکر نہیں فرمائے کہ ایک سے اس کی رحمت ظاہر ہو اور دوسرے سے اس کا انتقام۔ پس اللہ تعالیٰ رحمت و احسان والا ہے۔ وہ اپنے بندوں پر ایسے انداز سے رحمت فرمائے گا جو کسی انسان کے خیال میں بھی نہیں آسکتا، نہ اس کی کیفیت معلوم ہوسکتی ہے۔ ہم بھی اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ ہمیں اپنے دامن رحمت میں جگہ دے اور اپنی رحمت سے ہمیں بھی اپنے نیک بندوں میں شامل فرما لے۔ (آمین) آل عمران
130 اس تفسیر کے مقدمہ میں گزر چکا ہے کہ بندہ مومن کو چاہئے کہ وہ خود اپنی ذات میں اور دوسروں میں اوامرو نواہی کا خیال رکھے۔ اللہ تعالیٰ جب کسی چیز کا حکم دیتا ہے تو سب سے پہلے بندہ مومن پر یہ فرض عائد ہوجاتا ہے کہ وہ اس کی حدود کو پہچانے کہ وہ کیا چیز ہے جس پر عمل کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے تاکہ وہ اس کے حکم کی اطاعت کرسکے۔ جب اسے اس حکم کی حدود کی معرفت حاصل ہوجائے تو اپنی طاقت اور امکان بھر اپنی ذات اور دوسروں پر اس حکم کے نفاذ کے لیے جدوجہد کرے اور اس پر اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرے۔ اسی طرح جب اسے کسی امر سے روک دیا جائے تو وہ اس کی حدود کی معرفت حاصل کرے کہ کیا چیز اس کی حدود میں داخل ہے اور کیا چیز اس سے باہر ہے پھر اس کو ترک کرنے کی کوشش کرے اور اپنے رب سے مدد طلب کرے۔ یہ ایسا اصول ہے جسے اللہ تعالیٰ کے تمام اوامر اور نواہی میں ملحوظ رکھنا چاہئے۔ یہ آیات کریمہ بھلائی کے ان احکام اور خصائل پر مشتمل ہیں جن کا اللہ تبارک و تعالیٰ نے حکم اور ان کی ترغیب دی ہے اور ان کے اجر و ثواب سے آگاہ فرمایا ہے اور ایسی منہیات پر مشتمل ہیں جن کو ترک کرنے کی اللہ تعالیٰ نے تاکید کی ہے اور احد کے قصے کے درمیان ان آیات کو بیان کرنے کی حکمت شاید یہ ہے۔ واللہ اعلم۔۔ کہ گزشتہ آیات میں گزر چکا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اہل ایمان سے وعدہ کیا ہے کہ اگر وہ صبر اور تقویٰ اختیار کریں تو اللہ تعالیٰ ان کو ان کے دشمنوں پر فتح دے گا اور ان کے دشمنوں کی مدد چھوڑ دے گا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ﴿وَإِن تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا لَا يَضُرُّكُمْ كَيْدُهُمْ شَيْئًا ﴾ (آل عمران :3؍ 120) ” اگر تم صبر کرو اور تقویٰ اختیار کرو تو ان کی سازش تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گی۔“ فرمایا : ﴿بَلَىٰ ۚ إِن تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا وَيَأْتُوكُم مِّن فَوْرِهِمْ هَـٰذَا يُمْدِدْكُمْ رَبُّكُم ﴾ (آل عمران :3؍ 125) ” کیوں نہیں اگر تم صبر کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو اور کفار تم پر اچانک زور کا حملہ کردیں تو تمہارا رب تمہاری مدد کرے گا۔ “ آل عمران
131 گویا نفوس انسانی تقویٰ کی خصائل کی معرفت کے مشتاق ہوئے، جن کے ذریعے سے فتح و نصرت اور فلاح و سعادت حاصل ہوتی ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں تقویٰ کے اہم ترین خصائل کا ذکر فرمایا جن کو اگر بندہ مومن قائم کرلے تو پھر دوسرے خصائل تقویٰ کو وہ بطریق اولیٰ اختیار کرے گا۔ ہمارے اس قول کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان آیات کریمہ میں ” تقویٰ“ کا لفظ تین بار ذکر فرمایا ہے۔ ایک دفعہ بغیر کسی قید کے علی الاطلاق ذکر فرمایا ﴿أُعِدَّتْ لِلْكَافِرِينَ  ﴾ ” جو متقین کے لیے تیار کی گئی ہے“ دو دفعہ تقویٰ کا ذکر مقید طور پر کیا ﴿وَاتَّقُوا اللَّـهَ  ﴾ ” اللہ سے ڈرو“ ﴿وَاتَّقُوا النَّارَ﴾ ” آگ سے ڈرو۔“ پس اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا  ﴾ قرآن مجید میں جہاں کہیں بھی یوں آتا ہے ” اے ایمان والو ! فلاں کام کرویا فلاں کام چھوڑ دو۔۔۔“ تو اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ایمان ہی وہ سبب ہے جو اس حکم کی اطاعت کا داعی اور موجب ہے اور اس نہی سے اجتناب کا باعث ہے، کیونکہ ایمان ان تمام امور کی تصدیق کا مل کا نام ہے جن کی تصدیق واجب ہے اور اعضاء کے اعمال کو مستلزم ہے، چنانچہ انہیں کئی کئی گنا سود کھانے سے منع کیا۔ جیسا کہ جاہلیت کے زمانے میں لوگوں کی عادت تھی یا وہ لوگ ہیں جو شرعی احکام کی پروا نہیں کرتے۔ زمانہ جاہلیت میں سود لینے کا طریقہ یہ تھا کہ جب تنگ دست مقروض کے قرض کی ادائیگی کا وقت ہوجاتا اور اس سے کچھ حاصل ہونے کی امید نہ ہوتی تو قرض خواہ اس سے کہتا کہ وہ یا تو اپنا قرض ادا کر دے یا قرض خواہ مدت بڑھا دے گا اور مقروض کے ذمہ جو رقم ہے اس میں اضافہ ہوجائے گا۔ پس تنگ دست مقروض مجبور ہوجاتا اور اپنی جان چھڑانے اور وقتی طور پر راحت کی خاطر قرض خواہ کی شرائط کا التزام کرلیتا۔ اس طرح اس کے ذمہ جو قرض ہوتا وہ بغیر کسی فائدے کے، بڑھ کر کئی گنا ہوجاتا۔ پس اللہ تعالیٰ کے قول ﴿أَضْعَافًا مُّضَاعَفَةً ﴾ میں سود کی برائی پر سخت تنبیہ بیان ہوئی ہے اور اس میں سود یک تحریم کی حکمت کی طرف اشارہ ہے اور سود کی حرمت کی حکمت یہ ہے کہ اس میں بے انتہا ظلم ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے سود لینے سے روک دیا اور وہ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے واجب قرار دیا ہے کہ تنگ دست مقروض کو مہلت دی جائے اور بغیر کسی اضافے کے اس کے ذمہ وہی قرض باقی رہنے دیا جائے جو اصل زر ہے اور اس پر اصل زر سے زیادہ رقم عائد کرنا سخت ظلم ہے۔ لہٰذا متقی مومن پر لازم ہے کہ وہ سود کو ترک کر دے اور اس کے قریب نہ جائے کیونکہ سود کو ترک کرنا موجبات تقویٰ میں سے ہے۔ آل عمران
132 فلاح تقویٰ پر موقوف ہے بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَاتَّقُوا اللَّـهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ وَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِي أُعِدَّتْ لِلْكَافِرِينَ ﴾یعنی جہنم سے ڈرو اور ان تمام امور کو چھوڑ دو جو جہنم میں لے جاتے ہیں مثلاً کفر اور مختلف اقسام کے گناہ اور معاصی۔ کیونکہ تمام گناہ، خصوصاً کبیرہ گناہ کفر کی طرف لے جاتے ہیں بلکہ کبیرہ گناہ تو کفر کے خصائل ہیں جس کے حاملین کے لیے اللہ تعالیٰ نے جہنم کی آگ تیار کر رکھی ہے اور گناہ اور معاصی کو ترک کرنا جہنم کی آگ سے نجات دیتا ہے اور (اللہ) جبار کی ناراضی سے بچاتا ہے۔ نیکی اور اطاعت کے افعال رحمٰن کی رضا، جنت میں دخول اور حصول رحمت کے موجب ہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَأَطِيعُوا اللَّـهَ وَالرَّسُولَ ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ کے اوامر پر عمل اور اس کے نواہی سے اجتناب کر کے اللہ اور رسول کی اطاعت کرو ﴿لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ ﴾ کیونکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت حصول رحمت کا سبب ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ ۚ فَسَأَكْتُبُهَا لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ ﴾(الاعراف :7؍156) ” اور میری رحمت ہر چیز پر وسیع ہے اور میں اسے ان لوگوں کے لیے لکھ دوں گا جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور زکواۃ دیتے ہیں۔ “ آل عمران
133 آل عمران
134 پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے مغفرت اور اس جنت کی طرف سبقت کرنے کا حکم دیا ہے جس کی چوڑائی زمین و آسمان کے برابر ہے، تب اس کی لمبائی کا کیا حال ہوگا، اللہ تعالیٰ نے اس کو متقین کے لیے تیار کر رکھا ہے۔ متقین ہی اس جنت کے وارث ہیں اور اعمال تقویٰ ہی جنت تک پہنچاتے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے متقین اور ان کے اعمال کا وصف بیان کرتے ہوئے فرمایا :﴿الَّذِينَ يُنفِقُونَ فِي السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ ﴾یعنی وہ تنگی اور فراخی میں اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرتے ہیں۔ یعنی جب وہ مال دار ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے راستے میں کثرت سے خرچ کرتے ہیں اور جب وہ تنگدست ہوتے ہیں تو وہ نیکی کے کسی کام کو حقیر نہیں سمجھتے خواہ وہ کتنا ہی معمولی کیوں نہ ہو ﴿وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ  ﴾ یعنی جب ان کو دوسروں کی طرف سے کوئی ایسی تکلیف پہنچتی ہے جو ان کے غصے کا موجب ہوتی ہے۔ یہاں (غیظ) سے مراد ان کے دلوں کا ایسے غصے سے لبریز ہونا ہے جو قول و فعل کے ذریعے سے انتقام کا موجب ہوتا ہے۔ یہ اہل تقویٰ طبائع بشری کے ان تقاضوں پر عمل نہیں کرتے بلکہ ان کے دلوں میں جو غصہ ہوتا ہے اسے دبا دیتے ہیں اور برا سلوک کرنے والے کے مقابلے میں صبر سے کام لیتے ہیں۔ ﴿وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ ﴾لوگوں کو معاف کردینے میں ہر اس شخص کو معاف کردینا شامل ہے جو آپ کے ساتھ قول یا فعل کے ذریعے سے برائی سے پیش آتا ہے۔ (عفو) (کظم) سے زیادہ بلیغ ہے کیونکہ ” عفو“ برائی کرنے والے سے درگزر کرنے کے ساتھ، مواخذہ ترک کرنے کا نام ہے۔ یہ سب کچھ وہی شخص کرسکتا ہے جس نے اپنے آپ کو اخلاق جمیلہ سے آراستہ اور عادات رذیلہ سے پاک کرلیا ہو اور وہ ان میں سے ہو جس کی تجارت اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہو۔ جو اللہ کے بندوں پر رحم اور احسان کرتے ہوئے اور اس خوف سے کہ کہیں ان کو برائی نہ پہنچے ان کو معاف کردیتا ہے تاکہ اللہ تعالیٰ اسے معاف کر دے اور اس کا اجر اس کے رب کریم پر واجب ہو، نہ کہ اس بندہ فقیر پر۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّـهِ ۚ﴾ (الشوری :42؍40) ” جو کوئی معاف کر دے اور معاملے کی اصلاح کر دے تو اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے۔“ پھر اللہ تعالیٰ نے (بندہ مومن کے) ایسے حال کا ذکر فرمایا ہے جو دیگر احوال سے زیادہ عام، احسن و اعلیٰ اور زیادہ جلیل القدر ہے اور وہ ہے احسان۔ فرمایا ﴿وَاللَّـهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ ﴾” اللہ احسان کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے‘‘ احسان کی دو قسمیں ہیں۔ (١) اللہ تعالیٰ کی عبودیت میں احسان۔ (٢) اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے ساتھ احسان۔ خالق کی عبودیت میں احسان کی تفسیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں کی ہے (( أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ، فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ)) [صحیح البخاری، الایمان، سؤال جبریل النبی صلی اللہ علیہ وسلم۔۔۔، ح:50 وصحیح مسلم ، الایمان، الایمان، ح:1] ” احسان یہ ہے کہ تو اللہ کی بندگی اس طرح کرے گویا کہ تو اسے دیکھ رہا ہے اور اگر تو اسے دیکھ نہیں رہا تو پھر وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔“ رہا مخلوق کے ساتھ احسان تو یہ ان کو دینی اور دنیاوی نفع پہنچانے اور ان سے دینی اور دنیاوی شر کو ہٹانے اور دور کرنے کا نام ہے۔ چنانچہ امر بالمعروف، نہی عن المنکر، جاہل کو تعلیم دینا، غافل کو وعظ و نصیحت کرنا، مسلمان عوام اور خواص کی خیر خواہی کرنا اور ان کو متحد رکھنے کی کوشش کرنا یہ تمام امور مخلوق کے ساتھ احسان کے زمرے میں آتے ہیں۔ نیز لوگوں کے مختلف احوال اور متباین اوصاف کے مطابق ان تک واجب اور مستحب صدقات وغیرہ پہنچانا بھی احسان ہی میں شامل ہے۔ پس سخاوت کرنا، لوگوں کی تکالیف رفع کرنا خود تکالیف برداشت کرنا احسان ہے۔ جیسا کہ انہی آیات کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اہل تقویٰ کا وصف بیان فرمایا ہے۔ پس جس نے مذکورہ بالا امور کو قائم کیا اس نے اللہ اور اس کے بندوں کے حقوق کو ادا کیا۔ آل عمران
135 پھر اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کی اس معذرت کا ذکر فرمایا جو وہ اپنے جرائم اور گناہوں کے بارے میں اپنے رب کے سامنے پیش کرتے ہیں ﴿وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنفُسَهُمْ ﴾ یعنی جب کبھی ان سے کوئی بڑا یا چھوٹا گناہ صادر ہوجاتا ہے تو وہ فوراً توبہ اور استغفار کرتے ہیں اور اپنے رب اور اس کی وعید کو یاد کرتے ہیں جو اس نے نافرمانوں کو سنا رکھی ہے اور اپنے رب کے اس وعدے کو یاد کرتے ہیں جو اس نے اہل تقویٰ سے کر رکھا ہے۔ پس وہ گناہوں کو ترک کرنے اور ان پر نادم ہونے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ سے اپنے ان گناہوں کی مغفرت طلب کرتے ہیں اور اس سے اپنے عیوب پر پردہ پوشی کا سوال کرتے ہیں۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿وَلَمْ يُصِرُّوا عَلَىٰ مَا فَعَلُوا وَهُمْ يَعْلَمُونَ ﴾ ” اور وہ جانتے ہوئے اپنی بد اعمالیوں پر اڑتے نہیں ہیں“ آل عمران
136 ﴿اُولٰئکَ﴾ یعنی وہ لوگ جو ان صفات سے متصف ہیں ﴿جَزَاؤُهُم مَّغْفِرَةٌ مِّن رَّبِّهِمْ  ﴾ ” ان کی جزا مغفرت ہے ان کے رب کی طرف سے۔“ اور یہ مغفرت ان کے ہر گناہ کو زائل کر دے گی ﴿وَجَنَّاتٌ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ﴾ان جنتوں میں ہمیشہ رہنے والی نعمتیں، شادمانی، خوبصورتی، رونق، بھلائی، مسرت، عالی شان محل، خوبصورت اور بلند منازل، پھولوں سے لدے ہوئے خوش کن درخت، اور ان خوبصورت مساکن و منازل میں نہریں بہہ رہی ہوں گی ﴿خَالِدِينَ فِيهَا ۚ ﴾ وہ ان جنتوں میں ہمیشہ رہیں گے انہیں وہاں سے نکالا جائے گا نہ وہ ان جنتوں کے بدلے میں کچھ اور چاہیں گے اور نہ ان نعمتوں کو، جن میں رہتے ہوں گے، بدلا جائے گا۔ ﴿وَنِعْمَ أَجْرُ الْعَامِلِينَ ﴾ ” اور عمل کرنے والوں کا اجر اچھا ہے۔“ یعنی انہوں نے اللہ تعالیٰ کی خاطر تھوڑا عمل کیا مگر ان کو بہت زیادہ اجر عطا ہوا، مشقت برداشت کرنے کے بعد ہی راحت کی امید ہوتی ہے اور جزا کے وقت ہی عمل کرنے والے کو اپنے عمل کا پورا اور وافر بدلہ عطا ہوتا ہے۔ یہ آیات کریمہ مرجئہ کے برعکس اہل سنت و الجماعت کے اس موقف پر دلالت کرتی ہیں کہ اعمال ایمان میں داخل ہیں اور آیت کریمہ سے استدلال کا پہلو سورۃ الحدید کی اس آیت کو ملا کر مکمل ہوتا ہے جو کہ اس آیت کی نظیر ہے ﴿سَابِقُوا إِلَىٰ مَغْفِرَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا كَعَرْضِ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ أُعِدَّتْ لِلَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّـهِ وَرُسُلِهِ﴾(الحدید :57؍21) ” اپنے رب کی بخشش اور جنت کی طرف لپکو جس کی چوڑائی زمین و آسمان کی چوڑائی کی مانند ہے جسے ان لوگوں کے لیے تیار کیا گیا ہے جو اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے ہیں“ اس آیت کریمہ میں صرف اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں پر ایمان کا ذکر کیا گیا ہے جبکہ یہاں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ﴾ ” جنت متقین کے لیے تیار کی گئی ہے“ پھر متقین کے اعمال مالیہ اور اعمال بدنیہ بیان فرمائے۔ جس سے یہ ثابت ہوا کہ وہ متقین، جو ان صفات سے متصف ہیں، وہی مومن ہیں۔ آل عمران
137 یہ آیات کریمہ اور ان کے بعد آنے والی آیات ” احد“ کے واقعات کے بارے میں نازل ہوئی ہیں جن میں اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو تسلی دیتے ہوئے آگاہ فرماتا ہے کہ ان سے پہلے گزری ہوئی قوموں اور امتوں کو بھی امتحان میں ڈالا گیا اور اہل ایمان کفار کے ساتھ جنگ کی آزمائش میں مبتلا کئے گئے اور وہ بھی کبھی فتح سے نوازے گئے اور کبھی انہیں زک اٹھانا ڑی۔ مگر اس تمام کشمکش کا انجام اللہ تعالیٰ نے اہل تقویٰ کے حق میں رکھا اور اپنے مومن بندوں کو فتح و نصرت سے نوازا۔ آخر کار جھٹلانے والوں پر غلبہ حاصل ہوا اور اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں اور ان کے پیروکاروں کو اپنی نصرت عطا کر کے جھٹلانے والوں کو اپنے حال پر چھوڑ دیا۔ ﴿فَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ ﴾ ” زمین میں چلو پھرو“ یعنی اپنے جسم اور قلوب کے ساتھ (زمین میں چلو پھرو) ﴿فَانظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ ﴾تم تکذیب کرنے والوں کو مختلف قسم کے دنیاوی عذاب اور عقوبتوں میں مبتلا پاؤ گے۔ ان کے شہر تباہ و برباد ہوگئے اور ان کا خسارہ سب پر عیاں ہوگیا۔ ان کی شان و شوکت اور اقتدار قصہ پارینہ بن گئے، ان کا تکبر اور فخر ختم ہوگیا۔ کیا یہ سب اس امر کی سب سے بڑی دلیل اور سب سے بڑا شاہد نہیں کہ جو کچھ انبیاء کرام لے مبعوث ہوئے وہ صداقت پر مبنی ہے؟ آل عمران
138 بندوں کو آزمائش میں مبتلا کرنے میں اللہ تعالیٰ کی حکمت یہ ہے کہ سچوں اور جھوٹوں میں امتیاز ہوجائے۔ بنا بریں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿هَـٰذَا بَيَانٌ لِّلنَّاسِ  ﴾ یعنی یہ واضح دلیل ہے جو لوگوں کے سامنے باطل میں سے حق کو واضح کردیتی ہے۔ اہل شقاوت میں سے اہل سعادت کو ممتاز کردیتی ہے اور یہ اس عذاب کی طرف بھی اشارہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے جھٹلانے والوں کو مبتلا کیا۔ ﴿وَهُدًى وَمَوْعِظَةٌ لِّلْمُتَّقِينَ﴾ اور متقین کے لیے ہدایت اور نصیحت ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی آیات سے صرف یہی لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں۔ یہ آیات انہیں رشد و ہدایت کی راہ دکھاتی اور انہیں گمراہی کے راستے سے روکتی ہیں۔ رہے باقی لوگ تو یہ ان کے سامنے کھول کر بیان کردینا ہے جس سے ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے حجت قائم ہوجاتی ہے تاکہ جو ہلاک ہو وہ دلیل کو جان کر ہلاک ہو۔ نیز اس میں یہ احتمال بھی ہے کہ ﴿هَـٰذَا بَيَانٌ لِّلنَّاسِ ﴾میں قرآن مجید اور ذکر حکیم کی طرف اشارہ ہو اور یہ کہ یہ عمومی طور پر تمام لوگوں کے لیے بیان ہے اور اہل تقویٰ کے لیے خاص طور پر ہدایت اور نصیحت ہے۔ دونوں معنی صحیح ہیں۔ آل عمران
139 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے اہل ایمان بندوں کا حوصلہ بڑھانے، ان کے عزائم مضبوط اور ان کے ارادوں کو بلند کرنے کے لیے فرماتا ہے : ﴿ وَلَا تَهِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا ﴾ یعنی تم اس مصیبت کے وقت جو تم پر نازل ہوئی ہے اور اس ابتلاء پر جس سے تم دوچار ہوئے ہو جسمانی کمزوری اور دلی غم کا مظاہرہ نہ کرو۔ کیونکہ دلوں کا حزن و غم اور جسموں کی کمزوری، تمہارے لیے مصیبت میں اضافے اور دشمن کی مدد کا باعث ہوں گے بلکہ دلوں کو مضبوط رکھو اور ان میں استقامت پیدا کرو۔ حزن و غم کو اپنے دلوں سے نکال دو اور اپنے دشمن کے ساتھ قتال کے لیے سخت جان ہوجاؤ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ ایمان کے بلند مرتبہ پر فائز ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے فتح و نصرت اور اس کے ثواب کے امیدوار ہیں، اس لیے کمزوری اور حزن و غم کا مظاہرہ ان کے شایان شان نہیں۔ اس قسم کے رویے کا اظہار اس مومن کے لائق نہیں جو اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق دنیاوی اور اخروی ثواب کا طلب گار ہے۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَأَنتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ﴾ ” تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو۔ “ آل عمران
140 پھر اللہ تعالیٰ نے اس ہزیمت پر ان کو تسلی دی، جو انہوں نے اٹھائی تھی اور ان عظیم حکمتوں کو بیان کیا جو اس ہزیمت پر مرتب ہوئیں۔ چنانچہ فرمایا : ﴿إِن يَمْسَسْكُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِّثْلُهُ ﴾ یعنی زخم کھانے کے اعتبار سے تم اور وہ برابر ہو۔ مگر تم اللہ تعالیٰ سے وہ امید رکھتے ہو جو وہ نہیں رکھتے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿إِن تَكُونُوا تَأْلَمُونَ فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَمَا تَأْلَمُونَ ۖ وَتَرْجُونَ مِنَ اللَّـهِ مَا لَا يَرْجُونَ﴾النساء :4؍ 104) ” اگر تمہیں تکلیف پہنچتی ہے تو انہیں بھی تکلیف پہنچتی ہے جیسے تمہیں پہنچتی ہے اور تم اللہ سے ایسی امید رکھتے ہو جو وہ نہیں رکھتے۔“ اس میں اللہ تعالیٰ کی حکمت یہ ہے کہ اس دنیا میں اللہ تعالیٰ مومن و کافر اور نیک و بدسب کو حصہ عطا کرتا ہے اور ان ایام کو لوگوں کے مابین ادلتا بدلتا رہتا ہے آج کامیابی ایک گروہ کے لیے ہے تو کل کسی اور گروہ کے لیے۔ کیونکہ یہ دنیا تو آخر کار ختم ہوجانے والی اور فانی ہے مگر اس کے برعکس آخرت ہمیشہ رہنے والی ہے اور وہ صرف اہل ایمان کے لیے ہے۔ ﴿وَلِيَعْلَمَ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا﴾ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی حکمت میں سے ہے کہ وہ اپنے بندوں کو ہزیمت اور آزمائش میں مبتلا کرتا ہے تاکہ مومن اور منافق کے درمیان فرق واضح ہوجائے، کیونکہ اگر مومنوں کو تمام جنگوں میں فتح ہی حاصل ہوتی رہے تو اسلام میں ایسے لوگ بھی داخل ہوجائیں گے جو اسلام نہیں چاہتے۔ اگر بعض مواقع پر مسلمان آزمائش میں مبتلا ہوں تو حقیقی مومن کا پتہ چل جاتا ہے جو مصیبت و مسرت، فراخی اور تنگی ہر حالت میں اسلام میں رغبت رکھتا ہے۔ ﴿وَيَتَّخِذَ مِنكُمْ شُهَدَاءَ ۗ ﴾ ” اور تم میں سے گواہ بنائے۔“ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی حکمت میں سے ہے، کیونکہ شہادت اللہ تعالیٰ کے ہاں بلند ترین مرتبہ ہے اور اس کے اسباب کے حصول کے بغیر وہاں تک پہنچنا ناممکن ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی اپنے مومن بندوں پر رحمت ہے کہ وہ ان کے لیے اسباب مہیا کرتا ہے جو اگرچہ نفوس کو ناپسند ہوتے ہیں مگر ان اسباب کے ذریعے سے وہ اعلی مراتب اور دائمی نعمتیں حاصل کرلیتے ہیں جو انہیں پسند ہیں۔ ﴿وَاللَّـهُ لَا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ  ﴾” اور اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا‘‘ یعنی وہ لوگ جنہوں نے اپنے آپ پر ظلم کیا اور اللہ کے راستے میں جہاد کو چھوڑ کر بیٹھ رہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَلَوْ أَرَادُوا الْخُرُوجَ لَأَعَدُّوا لَهُ عُدَّةً وَلَـٰكِن كَرِهَ اللَّـهُ انبِعَاثَهُمْ فَثَبَّطَهُمْ وَقِيلَ اقْعُدُوا مَعَ الْقَاعِدِينَ ﴾ (التوبہ: 9؍46) ” اگر وہ جہاد کے لیے نکلنے کا ارادہ کرتے تو وہ اس کے لیے سامان تیار کرتے مگر اللہ کو ان کا اٹھنا پسند نہ آیا اور ان کو اس سے باز رکھا اور کہا گیا کہ معذور بیٹھے ہوئے لوگوں کے ساتھ تم بھی بیٹھ رہو۔ “ آل عمران
141 ﴿وَلِيُمَحِّصَ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا ﴾” اور یہ کہ اللہ ایمان والوں کو خالص (مومن) بنا دے۔“ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی حکمت میں سے ہے کہ وہ ان آزمائشوں کے ذریعے سے اہل ایمان کو گناہوں اور عیبوں سے پاک کرتا ہے۔ اور اس امر کی دلیل یہ ہے کہ شہادت اور اللہ تعالیٰ کے راستے میں جنگ کرنا گناہوں کو مٹا دیتے اور عیوب کو زائل کردیتے ہیں نیز اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو منافقین سے پاک کرتا ہے اور وہ منافقین سے الگ ہوجاتے ہیں اور وہ منافق اور مومن کو پہچان لیتے ہیں اور اس میں یہ بھی اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے کہ اس نے یہ سب کچھ کفار کو مٹانے کے لیے مقرر کیا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے (جہاد کو) سزا کے ذریعے سے کفار کے استیصال کا سبب بنایا کیونکہ جب کفار فتح یاب ہوتے ہیں تو بغاوت کا رویہ اختیار کرلیتے ہیں اور اپنی سرکشی میں بڑھتے چلے جاتے ہیں چنانچہ وہ اس دنیا ہی میں سزا کے مستحق بن جاتے ہیں اور یہ بھی مومن بندوں پر اللہ کی مہربانی ہے (کہ وہ منافقوں کو جلد ہی دنیا میں عبرت ناک انجام سے دوچار کردیتا ہے) آل عمران
142 پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّـهُ الَّذِينَ جَاهَدُوا مِنكُمْ وَيَعْلَمَ الصَّابِرِينَ ﴾ ” کیا تمہارا خیال ہے کہ تم جنت میں چلے جاؤ گے، جب کہ ابھی تک اللہ نے ان لوگوں کو بھی معلوم نہیں کیا جو تم میں سے جہاد کرنے والے ہیں اور معلوم نہیں کیا ثابت قدم رہنے والوں کو؟“ یہ استفہام انکاری ہے۔ یعنی یہ نہ سمجھ لینا اور نہ تمہارے دل میں یہ خیال آئے کہ تم کسی مشقت اور اللہ کی راہ میں اس کی رضا کے لیے کوئی تکلیف اٹھائے بغیر جنت میں داخل ہوجاؤ گے۔ اس لیے کہ جنت بلند ترین منزل مقصود اور سب سے افضل مقام ہے جس کے حصول کے لیے مسابقت کی جاتی ہے۔ مطلوب و مقصو دجتنا زیادہ بڑا ہوگا وہاں تک پہنچانے والا وسیلہ اور عمل بھی اتنا ہی بڑا ہوگا۔ پس ایک راحت کو چھوڑ کر ہی دوسری راحت تک پہنچا جاسکتا ہے اور نعمت کو ترک کر کے ہی دوسری نعمت حاصل کی جاسکتی ہے۔ آل عمران
143 دنیا کی تکالیف اور مشکلات، جن کا سامنا بندہ مومن کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں کرنا پڑتا ہے۔ نفس کو ان تکالیف کا عادی بنانے کے لیے ان کی مشق کرواتے وقت اور ان کی معرفت حاصل کرتے وقت اہل بصیرت کی نزدیک اللہ تعالیٰ کی نعمت بن جاتی ہیں جن پر وہ مسرت کا اظہار کرتے ہیں اور ان کی کوئی پروا نہیں کرتے یہ اللہ تعالیٰ کا افضل ہے جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے۔ پھر ایک ایسے معاملے میں جس کی وہ خود تمنا کیا کرتے تھے اور اسے حاصل کرنا چاہتے تھے، اس پر ان کے عدم صبر پر اللہ تعالیٰ نے ان کو زجر و توبیخ کی ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿ وَلَقَدْ كُنتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِن قَبْلِ أَن تَلْقَوْهُ﴾” اور تم تو آرزو کرتے تھے مرنے کی اس کی ملاقات سے پہلے“ اس آیت کریمہ کے نزول کا پس منظر یہ ہے کہ وہ صحابہ کرام جو جنگ بدر میں شریک نہ ہوسکے تھے، وہ آرزو کیا کرتے تھے اگر اللہ تعالیٰ انہیں کسی معرکے میں شرکت کا موقع عطا کرے تو وہ اس میں اپنی جان لڑا دیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا : ﴿فَقَدْ رَأَيْتُمُوهُ﴾ یعنی جس چیز کی تم تمنا کیا کرتے تھے تم نے اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ﴿وَأَنتُمْ تَنظُرُونَ ﴾ اب تمہیں کیا ہوگیا تم نے صبر کیوں چھوڑ دیا؟ یہ حالت خاص طور پر اس شخص کے لائق نہیں جو اس کی آرزو کیا کرتا تھا اور اسے وہ چیز حاصل ہوگئی ہو جس کی اسے آرزو تھی۔ اس پر تو واجب یہ ہے کہ اب وہ اس کے لیے اپنی پوری کوشش، جہد اور طاقت صرف کر دے۔ اس آیت کریمہ میں اس امر کی دلیل ہے کہ شہادت کی تمنا کرنا ناجائز نہیں۔ اس میں استدلال کا پہلو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو ان کی آرزو پر برقرار رکھا اور ان کی آرزو کا انکار نہیں کیا۔ البتہ اللہ تعالیٰ نے اس تمنا کے تقاضے کو پورا کرنے کے لیے ان کے عمل نہ کرنے پر نکیر کی ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ آل عمران
144 ﴿وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ﴾ یعنی وہ رسولوں میں سے کوئی انوکھا رسول نہیں ہیں بلکہ وہ ان رسولوں کی جنس سے ہیں جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں اور ان کی ذمہ داری اپنے رب کا پیغام پہنچانا اور اس کے احکام کا نفاذ تھا۔ وہ ہمیشہ زندہ رہنے والے نہ تھے اور نہ ان کی بقاء اللہ تعالیٰ کے احکام کی اطاعت کے لیے کوئی شرط تھی۔ بلکہ تمام امتوں پر یہ چیز فرض تھی کہ وہ ہر وقت اور ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں۔ بنابریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ أَفَإِن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انقَلَبْتُمْ عَلَىٰ أَعْقَابِكُمْ﴾ ” کیا پس اگر ان کو موت آگئی یا قتل کردیئے گئے، تو تم الٹے پاؤں پھر جاؤ گے؟“ یعنی یہ نبی ایمان اور جہاد وغیرہ کے جو احکام لے کر مبعوث ہوئے ہیں کیا تم ان کو ترک کر کے الٹے پاؤں پھر جاؤ گے؟ فرمایا :﴿وَمَن يَنقَلِبْ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ فَلَن يَضُرَّ اللَّـهَ شَيْئًا ﴾ ” اور جو شخص الٹے پاؤں پھرجائے گا تو ہرگز نہ بگاڑے گا اللہ کا کچھ“ وہ صرف اپنے آپ کو نقصان پہنچاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس سے بے نیاز ہے اور وہ اپنے دین کو ضرو رقائم کرے گا اور اپنے مومن بندوں کو غلبہ عطا کرے گا۔ جب اللہ تعالیٰ نے الٹے پاؤں پلٹ جانے والوں کو زجر و توبیخ کی تو اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی مدح و ثناء بھی کی جو اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ثابت قدمی سے ڈٹے رہے اور انہوں نے اپنے رب کے حکم کی اطاعت کی۔ فرمایا :﴿وَسَيَجْزِي اللَّـهُ الشَّاكِرِينَ  ﴾ ” اور اللہ شکر گزار بندوں کو جزا دے گا“ اور شکر کے تقاضے اس کے بغیر ادا نہیں ہوتے کہ ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی عبودیت اختیار کی جائے۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی راہنمائی فرمائی ہے کہ ان کے سربراہ کا مفقود ہونا خواہ وہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو کسی بھی حالت میں ان کو ان کے ایمان یا کسی لازمہ ایمان سے نہ ہٹا دے مگر یہ تب ہی ممکن ہے کہ امور دین کے ہر شعبہ میں کچھ لوگوں کو تیار کیا جائے جو اس شعبہ میں برابر ہوں۔ ان میں سے ایک کی عدم موجودگی میں دوسرا اس کی جگہ لے لے۔ نیز اہل ایمان کا عمومی مقصد اقامت دین اور اس کے دفاع میں اپنی استطاعت کے مطابق جہاد ہونا چاہئے۔ ان کا مقصد ایک سربراہ کی جگہ دوسرے سربراہ کو لانا نہیں ہونا چاہئے۔ اسی صورت میں ان کا معاملہ درست طریقے سے جاری رہ سکتا ہے اور دیگر تمام امور صحیح نہج پر چل سکتے ہیں۔ آل عمران
145 اس آیت کریمہ میں صدیق اکبر جناب ابوبکر رضی اللہ عنہ اور دیگر اصحاب کرام کی فضیلت پر بھی سب سے بڑی دلیل ہے، جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مرتدین کے خلاف جنگ کی، کیونکہ وہ سادات اہل شکر میں شمار ہوتے ہیں۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے آگاہ فرمایا ہے کہ تمام نفوس اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کی قضا و قدر سے اپنی اپنی اجل کے ساتھ معلق ہیں۔ پس جس کی تقدیر میں موت کا حتمی فیصلہ ہوجاتا ہے۔ اسے بغیر کسی سبب کے بھی موت آ کر رہتی ہے اور اللہ تعالیٰ جس کو باقی رکھنا چاہے، تو پھر اگر موت کے تمام اسباب بھی جمع کیوں نہ ہوجائیں، یہ اسباب وقت مقررہ سے پہلے اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے، اللہ تعالیٰ نے اس کا فیصلہ کر کے اس کو مقدر کردیا ہے اور اس کی موت کا وقت معین اس کی تقدیر میں لکھ دیا۔ ﴿فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ لَا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً ۖ وَلَا يَسْتَقْدِمُونَ ﴾ (الاعراف :7؍34) ”جب ان کا وقت معین آجاتا ہے تو نہ وہ ایک گھڑی تاخیر کرسکتے ہیں اور نہ جلدی۔ “ پھر اللہ تعالیٰ نے خبر دی کہ وہ لوگوں کو دنیا و آخرت کا وہی ثواب عطا کرتا ہے جس سے ان کے ارادے متعلق ہوتے ہیں۔ فرمایا :﴿ وَمَن يُرِدْ ثَوَابَ الدُّنْيَا نُؤْتِهِ مِنْهَا وَمَن يُرِدْ ثَوَابَ الْآخِرَةِ نُؤْتِهِ مِنْهَا ﴾ ” جو کوئی دنیا ہی میں اپنے اعمال کا بدلہ چاہتا ہے ہم اسے وہیں بدلہ دے دیتے ہیں اور جوئی اپنے اعمال کا بدلہ آخرت میں چاہتا ہے ہم اس کو آخرت میں اس کا بدلہ عطا کریں گے۔“ فرمایا : ﴿كُلًّا نُّمِدُّ هَـٰؤُلَاءِ وَهَـٰؤُلَاءِ مِنْ عَطَاءِ رَبِّكَ ۚ وَمَا كَانَ عَطَاءُ رَبِّكَ مَحْظُورًا انظُرْ كَيْفَ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ ۚ وَلَلْآخِرَةُ أَكْبَرُ دَرَجَاتٍ وَأَكْبَرُ تَفْضِيلًا﴾ (بنی اسرائیل :17؍20۔21) ” ہم ان سب کو تیرے رب کی عطا و بخشش سے مدد دیتے ہیں اور تیرے رب کی عطا و بخشش ممنوع اور روکی ہوئی نہیں ہے۔ دیکھ ہم نے کیسے ان کو ایک دوسرے پر فضیلت دی ہے اور آخرت درجات کے اعتبار سے بہت بڑی اور فضیلت میں بہت بڑھ کر ہے۔ “ فرمایا : ﴿وَسَنَجْزِي الشَّاكِرِينَ ﴾” اور ہم جزا دیں گے شکر کرنے والوں کو“ یہاں اللہ تعالیٰ نے جزا کا ذکر نہیں فرمایا تاکہ یہ اس جزا کی کثرت اور عظمت پر دلیل ہو اور یہ بھی بندے کو معلوم ہوجائے کہ یہ جزا قلت و کثرت اور حسن کے اعتبار سے شکر کی مقدار پر منحصر ہے۔ آل عمران
146 یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے اہل ایمان کے لیے تسلی ہے اور ان کے فعل کی اقتداء کی ترغیب ہے اور اس حقیقت سے آگاہ کرنا ہے کہ (حق و باطل کی کشمکش کا) یہ معاملہ شروع ہی سے چلا آرہا ہے اور ازل سے اللہ تعالیٰ کی سنت جاری ہے۔ چنانچہ فرمایا : ﴿وَكَأَيِّن مِّن نَّبِيٍّ ﴾” یعنی کتنے ہی نبی ہیں“﴿ قَاتَلَ مَعَهُ رِبِّيُّونَ كَثِيرٌ ﴾ ’’جن کے ساتھ ہو کر اکثر اللہ والوں نے قتال کیا ہے۔“ یعنی انبیاء کرام کے پیروکاروں کی بہت سی جماعتوں نے، جن کی انبیاء نے ایمان اور اعمال صالحہ کے ذریعے سے تربیت کی، جہاد کیا، پس وہ شہید ہوئے اور انہوں نے زخم کھائے ﴿فَمَا وَهَنُوا لِمَا أَصَابَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ وَمَا ضَعُفُوا وَمَا اسْتَكَانُوا﴾ یعنی ان کے دل کمزور ہوئے نہ ان کے بدن، اور نہ انہوں نے عاجزی اور فردتنی ظاہر کی۔ یعنی وہ دشمن کے سامنے جھکے نہیں۔ بلکہ انہوں نے صبر کیا اور ثابت قدم رہے اور اپنا حوصلہ بڑھاتے رہے۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَاللَّـهُ يُحِبُّ الصَّابِرِينَ﴾ ” اللہ صبر کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ “ آل عمران
147 پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کی اس دعا کا ذکر فرمایا جس میں انہوں نے اپنے رب سے فتح و نصرت طلب کی ہے۔ ﴿وَمَا كَانَ قَوْلَهُمْ﴾ یعنی ان انتہائی مشکل مقامات پر ان کا یہی قول تھا۔ ﴿ إِلَّا أَن قَالُوا رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَإِسْرَافَنَا فِي أَمْرِنَا ﴾” اے ہمارے رب ہمارے گناہ اور وہ زیادتیاں جو ہمارے معاملے میں ہم سے سر زد ہوئی ہیں بخش دے۔“ اسراف سے مراد حد سے تجاوز کر کے حرام امور میں داخل ہونا ہے۔ انہیں معلوم ہے کہ گناہ اور اسراف اللہ تعالیٰ کی نصرت اور توفیق کے اٹھ جانے کا سب سے بڑا سبب ہے اور گناہ اور اسراف کو چھوڑ دینا اللہ تعالیٰ کی نصرت کے حصول کا سبب ہے۔ اس لیے انہوں نے اپنے گناہوں کی بخشش کا سوال کیا۔ پھر انہوں نے محض اپنی جدوجہد اور اپنے صبر ہی پر بھروسہ نہیں کیا بلکہ انہوں نے اللہ تعالیٰ پر اعتماد کیا اور انہوں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ وہ دشمن سے مقابلہ ہونے کے وقت انہیں ثابت قدمی سے نوازے اور دشمن کے مقابلے میں فتح و نصرت عطا کرے۔ پس اہل ایمان نے صبر کرنے، صبر کے متضاد امور کو ترک کرنے، توبہ، استغفار اور اللہ تعالیٰ سے فتح و نصرت کی دعا کو ایک جگہ جمع کردیا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو فتح و نصرت سے نوازا اور دنیا و آخرت میں ان کا اچھا انجام کیا آل عمران
148 اس لیے فرمایا : ﴿فَآتَاهُمُ اللَّـهُ ثَوَابَ الدُّنْيَا﴾” پس دیا ان کو اللہ نے دنیا کا ثواب“ یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کو دنیا میں فتح و ظفر سے نوازا اور مال غنیمت عطا کیا﴿وَحُسْنَ ثَوَابِ الْآخِرَةِ﴾ ” اور خوب آخرت کا ثواب“ یعنی اپنے رب کی رضا کے حصول میں کامیابی، ہمیشہ رہنے والی نعمتوں کا عطا ہونا جو ہر قسم کے تکدر سے محفوظ ہوں گی۔ اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ انہوں نے اللہ تبارک و تعالیٰ کی رضا کے لیے بہترین اعمال سر انجام دیئے پس اللہ تعالیٰ نے بھی ان کو بہترین جزا سے نوازا۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَاللَّـهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ﴾یعنی خلاق کی عبادت اور مخلوق کے ساتھ معاملہ میں احسان کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے۔ دشمن کے ساتھ جہاد کے وقت، ان مومنین کا سا کردار اختیار کرنا بھی احسان ہے۔ آل عمران
149 یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اہل ایمان کو منافقین و مشرکین کی اطاعت سے ممانعت ہے۔ کیونکہ وہ جب بھی کفار کی اطاعت کریں گے تو کفار ان کے مقابلے میں برا ارادہ ہی رکھیں گے اور ان کا قصد و ارادہ یہی ہوگا کہ وہ اہل ایمان کو کفر کی طرف لوٹا دیں جس کا انجام ناکامی اور خسارے کے سوا کچھ بھی نہیں۔ آل عمران
150 پھر اہل ایمان کو بتلایا کہ اللہ تعالیٰ ان کا مولیٰ اور حامی و ناصر ہے اور اس میں اہل ایمان کے لیے خوشخبری ہے کہ وہ اپنے لطف و کرم سے ان کے امور کی سرپرستی کرتا ہے اور انہیں مختلف قسم کے شر سے محفوظ رکھتا ہے۔ اسی ضمن میں یہ بات بھی آتی ہے کہ وہ ہر ایک کو چھوڑ کر صرف اسی کو اپنا ولی اور مددگار بنائیں۔ اللہ کی سرپرستی اور اس کی طرف سے مسلمانوں کی مدد کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ وعدہ کیا کہ وہ ان کے دشمن کفار کے دلوں میں رعب ڈال دے گا۔ یہاں رعب سے مراد وہ خوف عظیم ہے جو کفار کو ان کے بہت سے مقاصد سے روک دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ پورا فرمایا وہ اس طرح کہ ” احد“ کے واقعہ کے بعد جب مشرکین واپس لوٹے تو (راستے میں) انہوں نے باہمی مشورہ کیا اور کہنے لگے ” ہم کیسے لوٹ سکتے ہیں۔ ہم نے ان کے بعض لوگوں کو قتل کیا اور ان کو شکست دی مگر ہم نے ان کا مکمل استیصال نہیں کیا۔“ چنانچہ انہوں نے اس کا ارادہ کیا۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا اور وہ خائب و خاسر ہو کر لوٹ گئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ بہت بڑی فتح ہے۔ گزشتہ صفحات میں گزر چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے مومن بندوں کے لیے فتح و نصرت، دو امور سے خالی نہیں ہوتی۔ (١) اللہ تعالیٰ یا تو کفار کی جڑ کاٹ دیتا ہے۔ (٢) یا انہیں ذلت سے دوچار کرتا ہے اور وہ خائب و خاسر واپس لوٹ جاتے ہیں اور یہ (رعب ڈال کر انہیں ناکام لوٹا دینا) دوسری قسم سے ہے۔ آل عمران
151 پھر اللہ تعالیٰ نے اس سبب کا ذکر فرمایا جو کفار کے دلوں میں رعب ڈالنے کا موجب تھا ﴿بِمَا أَشْرَكُوا بِاللَّـهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَانًا﴾ یعنی اس کا سبب یہ تھا کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کے شریک ٹھہرا لیے اور اپنی خواہشات نفس اور اپنے فاسد ارادوں کے مطابق بتوں کو رب بنا لیا۔ جس پر کوئی حجت اور برہان نہیں تھی اور اس طرح وہ اللہ واحد و رحمٰن کی سرپرستی سے محروم ہوگئے۔ اسی وجہ سے مشرک اہل ایمان سے مرعوب ہوجاتا تھا اور اسے کوئی مضبوط سہارا حاصل نہیں تھا۔ کسی شدت اور تنگی کے وقت کوئی اس کی پناہ گاہ نہیں تھی۔ یہ اس کا دنیا میں حال ہے۔ آخرت کا حال اس سے زیادہ برا اور سخت ہوگا اس لیے فرمایا : ﴿وَمَأْوَاهُمُ النَّارُ﴾ یعنی ان کا ٹھکانا جہاں یہ پناہ لیں گے، جہنم ہے، اور پھر وہاں سے نکل نہیں سکیں گے﴿وَبِئْسَ مَثْوَى الظَّالِمِينَ ﴾ ” اور برا ہے ٹھکانا ظالموں کا“ ان کے ظلم اور تعدی کے سبب جہنم ان کا ٹھکانا ہوگا۔ آل عمران
152 اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا کہ اس نے اپنی نصرت کا وعدہ پورا کردیا، پس تمہیں کفار کے مقابلے میں فتح و نصرت عطا کی حتیٰ کہ تمہیں ان کی گردنوں پر اختیار دے دیا تھا اور تم نے ان کی گردنیں مارنا شروع کردیں یہاں تک کہ تم خو داپنے لیے ہزیمت کا سبب بن گئے اور تم خود اپنے مقابلے میں دشمن کی اعانت کا باعث بن گئے۔ پس جب تم بزدلی، کمزوری اور سستی کا شکار ہوگئے ﴿  وَتَنَازَعْتُمْ فِي الْأَمْرِ﴾ اور تم نے جھگڑے میں پڑ کر اللہ تعالیٰ کے اس حکم کو چھوڑ دیا جو اتحاد اور عدم اختلاف کے بارے میں تھا۔ پس تم اختلافات میں پڑے گئے۔ کوئی کہتا تھا کہ ہم تو اسی مقام پر ڈٹے رہیں گے جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں متعین فرمایا ہے اور کسی نے کہا، اب ہمارے یہاں ٹھہرے رہنے کا کیا کام؟ جب کہ دشمن شکست کھاچکا اور کوئی خطرہ باقی نہیں رہا۔ پس تم نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی اور آپ کے حکم کو چھوڑ دیا ﴿ بَعْدِ مَا أَرَاكُم مَّا تُحِبُّونَ﴾ ” بعد اس کے، جب اللہ نے تمہیں وہ چیز دکھا دی جو تم پسند کرتے تھے“ اور وہ تھی تمہارے دشمن کی ناکامی اور شکست۔ اس لیے کہ جس کو اللہ تعالیٰ اس چیز سے نواز دے، جو اسے پسند ہو، اس پر دوسرے کی نسبت زیادہ ضروری ہے کہ وہ نافرمانی سے بچے۔ پس خاص طور پر اس حال میں اور عام طور پر ہر حال میں اس پر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام پر عمل کرنا واجب ہے۔﴿ مِنكُم مَّن يُرِيدُ الدُّنْيَا ﴾ ” تم میں سے بعض وہ ہیں جو دنیا چاہتے ہیں“ یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے عتاب فرمایا ﴿وَمِنكُم مَّن يُرِيدُ الْآخِرَةَ﴾ ” اور بعض تم میں سے آخرت چاہتے ہیں“ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کا التزام کیا اور جو ان کو حکم دیا گیا تھا اس پر ثابت قدم رہے۔ ﴿ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْهُمْ﴾ ” پھر تم کو پھیر دیا ان سے“ یعنی جب یہ تمام امور تم میں پائے گئے تو اللہ تعالیٰ نے تمہیں ان کے مقابلے میں پھیر کر بھگا دیا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہاری آزمائش اور تمہارے امتحان کے طور پر جیت دشمن کے ہاتھ رہی تاکہ مومن اور کافر، فرمانبردار اور نافرمان کے درمیان امتیاز ہوجائے اور تاکہ تم سے جو غلطی سر زد ہوئی ہے اس مصیبت کے ذریعے سے تمہیں معاف کر دے۔ اس لیے فرمایا: ﴿وَلَقَدْ عَفَا عَنكُمْ ۗ وَاللَّـهُ ذُو فَضْلٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ﴾” اس نے تمہیں معاف کردیا اور اللہ مومنوں پر فضل کرنے والا ہے“ یعنی وہ ان پر بہت زیادہ فضل کرنے والا ہے کیونکہ اس نے انہیں اسلام سے نوازا، اپنے احکام کی طرف راہنمائی کی، ان کے گناہوں کو معاف کردیا اور ان کے مصائب پر ان کو اجر عطا کیا۔ یہ اہل ایمان پر اللہ تعالیٰ کا فضل ہی ہے کہ وہ جو بھلائی یا مصیبت ان کے لیے مقدر کرتا ہے وہ بھی ان کے لیے بھلائی ہی ہوتی ہے۔ اگر انہیں خوشحالی عطا کرتا ہے اور وہ اس پر شکر ادا کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ انہیں شکر گزاروں کی جزا دیتا ہے۔ اگر انہیں کوئی تکلیف پہنچتی ہے اور اس پر وہ صبر کرتے ہیں تو اللہ تبارک و تعالیٰ انہیں صبر کرنے والوں کے ثواب سے نوازتا ہے۔ آل عمران
153 اللہ تبارک و تعالیٰ جنگ سے ان کی پسپائی کے وقت ان کا حال بیان کرتے ہئے ان پر عتاب کرتا ہے۔ چنانچہ فرمایا : ﴿إِذْ تُصْعِدُونَ ﴾ یعنی جب تم تیزی سے بھاگے جا رہے تھے﴿وَلَا تَلْوُونَ عَلَىٰ أَحَدٍ﴾ یعنی تم ایک دوسرے کو پیچھے مڑ کر نہیں دیکھتے تھے بلکہ جنگ سے فرار اور نجات کے سوا تمہارا کوئی ارادہ نہ تھا اور حال یہ تھا کہ تم کسی بڑے خطرے سے بھی دوچار نہ تھے کیونکہ تم سب سے آخر میں تھے اور ان لوگوں میں سے نہ تھے جو دشمن کے قریب اور بلاواسطہ میدان جنگ میں تھے، بلکہ صورت حال یہ تھی﴿وَالرَّسُولُ يَدْعُوكُمْ فِي أُخْرَاكُمْ﴾ ” رسول تمہیں بلا رہے تھے، تمہارے پیچھے سے‘‘ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان لوگوں کو بلا رہے تھے جو پہاڑوں پر چڑھ رہے تھے۔ آپ پکار رہے تھے ’’اے اللہ کے بندو ! میرے پاس آؤ“ مگر تم نے ان کی طرف پلٹ کر دیکھا نہ تم ان کے پاس رکے۔ پس میدان جنگ سے فرار فی نفسہ موجب ملامت ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بلانا، جو اس امر کا موجب تھا کہ اپنی جان پر بھی آپ کی پکار کو مقدم رکھا جائے، سب سے بڑی ملامت کا مقام ہے، کیونکہ تم لوگ بلانے کے باوجود آپ سے پیچھے رہے۔ ﴿فَأَثَابَكُمْ﴾ یعنی اس نے تمہارے اس فعل پر تمہیں جزا دی ﴿غَمًّا بِغَمٍّ﴾ یعنی غم کے بعد غم۔ فتح حاصل نہ ہونے کا غم، مال غنیمت سے محروم ہونے کا غم، ہزیمت اٹھانے کا غم اور ایک ایسا غم جس نے تمام غموں کو بھلا دیا اور وہ تھا تمہارا اس افواہ کو سن لینا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو شہید کردیا گیا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے لطف و کرم اور اپنے بندوں پر حسن نظر کی بنا پر ان تمام امور کے اجتماع کو ان کے لیے بھلائی بنا دیا۔ فرمایا : ﴿لِّكَيْلَا تَحْزَنُوا عَلَىٰ مَا فَاتَكُمْ﴾یعنی جو فتح و ظفر تمہیں حاصل نہ ہوسکی، اس پر غمزدہ نہ ہوں ﴿وَلَا مَا أَصَابَكُمْ﴾” اور نہ اس پر جو تمہیں پہنچا“ یعنی تمہیں ہزیمت قتل اور زخموں کا جو سامنا کرنا پڑا اور جب تم نے اس بات کی تحقیق کرلی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شہید نہیں ہوئے تو تم پر تمام مصیبتیں آسان ہوگئیں تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زندہ ہونے پر خوش ہوگئے آپ کی زندگی کی خبر نے ہر مصیبت اور سختی کو فراموش کردیا۔ پس ابتلاء اور آزمائش میں اللہ تعالیٰ کی حکمتیں اور اسرار پنہاں ہوتے ہیں اور یہ سب کچھ اس کے علم، تمہارے اعمال اور ظاہر و باطن کے مکمل باخبر ہونے کے ساتھ صادر ہوتا ہے۔ اس لیے فرمایا : ﴿ وَاللَّـهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ ﴾” اللہ تمہارے اعمال کی خبر رکھتا ہے۔ “ اللہ تعالیٰ کے ارشاد﴿لِّكَيْلَا تَحْزَنُوا عَلَىٰ مَا فَاتَكُمْ وَلَا مَا أَصَابَكُمْ﴾میں اس معنی کا احتمال بھی ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے تم پر یہ غم اور مصیبت اس لیے مقدر کئے ہیں تاکہ تمہارے نفس ان مصائب کا سامنا کرنے پر آمادہ اور ان پر صبر کرنے کے عادی ہوں اور تمہارے لیے مشقتوں کو برداشت کرنا آسان ہوجائے۔ آل عمران
154 ﴿ثُمَّ أَنزَلَ عَلَيْكُم مِّن بَعْدِ الْغَمِّ﴾ ” پھر اتارا اس نے تم پر اس غم کے بعد“ یعنی وہ غم جو تمہیں پہنچا ﴿أَمَنَةً نُّعَاسًا يَغْشَىٰ طَائِفَةً مِّنكُمْ ۖ﴾ ” امن کو جو کہ اونگھ تھی کہ اڈھانک لیا اس نے تمہارے ایک گروہ کو“ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ان پر اللہ تعالیٰ کی رحمت، احسان، اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے دلوں کو ثابت قدم رکھنے اور طمانیت میں اضافہ کا باعث تھا۔ کیونکہ خوف زدہ شخص کو، دل خوف سے لبریز ہونے کی وجہ سے اونگھ اور نیند نہیں آتی۔ جب دل سے خوف زائل ہوجاتا ہے، تب نیند آنے کا امکان ہوتا ہے۔ یہ گروہ جس کو اللہ تعالیٰ نے نیند اور اونگھ سے نوازا، اہل ایمان ہیں جن کے سامنے اللہ تعالیٰ کے دین کو قائم کرنے، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا کے حصول اور مسلمانوں کے مصالح کے سوا کوئی اور مقصد نہیں تھا۔ رہا دوسرا گروہ جس کے بارے میں فرمایا : ﴿قَدْ أَهَمَّتْهُمْ أَنفُسُهُمْ﴾” انہیں فکر میں ڈال دیا تھا ان کی جانوں نے“ تو ان کے نفاق یا ان کے ایمان کی کمزوری کی بنا پر، ان کا اپنی جان بچانے کے سوا کوئی اور ارادہ نہ تھا۔ اس لیے ان کو وہ اونگھ نہ آئی جو دوسروں کو آئی تھی ﴿يَقُولُونَ هَل لَّنَا مِنَ الْأَمْرِ مِن شَيْءٍ﴾ ” وہ کہتے تھے، کچھ بھی کام ہے ہمارے ہاتھ میں؟“ یہ استفہام انکاری ہے یعنی فتح و نصرت میں ہمارا کوئی اختیار نہیں۔ پس انہوں نے اپنے رب، اپنے دین اور اپن نبی کے بارے میں بدگمانی کی اور انہوں نے سمجھ لیا کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول کی دعوت کو پورا نہیں کرے گا۔ انہوں نے یہ بھی سمجھ لیا کہ یہ شکست اللہ تعالیٰ کے دین کے خلاف ایک فیصلہ کن شکست ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے جواب میں فرمایا : ﴿قُلْ إِنَّ الْأَمْرَ كُلَّهُ لِلَّـهِ﴾” کہہ دو کہ تمام معاملے کا اختیار اللہ کے قبضہ قدرت میں ہے۔“ (امر) دو امور پر مشتمل ہوتا ہے امر قدری، اور امر شرعی۔ پس تمام چیزوں کا ظہور اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر سے ہے اور اللہ تعالیٰ کے اولیاء اور اس کی اطاعت کرنے والوں کے حق میں، ان چیزوں کا انجام فتح و ظفر ہی ہوتا ہے خواہ ان پر کچھ بھی گزر جائے۔ ﴿يُخْفُونَ﴾ یعنی منافقین چھپاتے ہیں ﴿ فِي أَنفُسِهِم مَّا لَا يُبْدُونَ لَكَ﴾” اپنے دلوں میں جو آپ کے سامنے ظاہر نہیں کرتے“ پھر اللہ تعالیٰ نے اس معاملے کو واضح کردیا جو وہ چھپاتے تھے۔ چنانچہ فرمایا : ﴿يَقُولُونَ لَوْ كَانَ لَنَا مِنَ الْأَمْرِ شَيْءٌ ﴾یعنی اگر اس واقعہ میں ہم سے رائے اور مشورہ لیا گیا ہوتا ﴿ مَّا قُتِلْنَا هَاهُنَا﴾” تو ہم یہاں مارے نہ جاتے۔“ یہ ان کی طرف سے اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر کا انکار اور اس کی تکذیب ہے اور یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کرام کی رائے کو بیوقوفی کی طرف منسوب کرنا اور اپنے آپ کو پاک صاف اور صحیح قرار دینا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کی تردید کرتے ہوئے فرمایا :﴿قُل لَّوْ كُنتُمْ فِي بُيُوتِكُمْ ﴾ کہہ دیں، اگر تم اپنے گھروں میں بھی ہوتے“ گھر ایسی جگہ ہے جہاں قتل کا گمان بعید ترین چیز ہے۔ فرمایا :﴿لَبَرَزَ الَّذِينَ كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقَتْلُ إِلَىٰ مَضَاجِعِهِمْ﴾ ” تب بھی وہ لوگ ضرور اپنے پڑاؤ کی طرف نکلتے جن کا مارا جانا لکھ دیا گیا تھا“ پس معلوم ہوا کہ اسباب خواہ کتنے ہی بڑے کیوں نہ ہوں، وہ تب ہی فائدہ دیتے ہیں جب قضا و قدر معارض نہ ہو جب قضا و قدر اسباب کے خلاف ہو تو اسباب کوئی فائدہ نہیں دیتے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے موت و حیات کے جو فیصلے لوح محفوظ میں لکھ دیئے ہیں وہ نافذ ہو کر رہتے ہیں۔﴿وَلِيَبْتَلِيَ اللَّـهُ مَا فِي صُدُورِكُمْ﴾” تاکہ وہ آزمائے جو تمہارے سینوں میں (نفاق، ایمان اور ضعف ایمان) ہے۔“ ﴿وَلِيُمَحِّصَ مَا فِي قُلُوبِكُمْ﴾ ” تاکہ وہ تمہارے دلوں کو (شیطانی وسوسوں اور ان سے پیدا ہنے والی مذموم صفات سے) پاک کردے“ ﴿وَاللَّـهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ ﴾یعنی اللہ تعالیٰ ان تمام (خیالات اور ارادوں) کو جانتا ہے جو دلوں کے اندر ہیں اور ان میں چھپے ہوئے ہیں۔ پس اس کے علم و حکمت کا تقاضا ہوا کہ وہ ایسے اسباب پیدا کرے جن سے سینوں کے بھید اور معاملات کے اسرار نہاں ظاہر ہوں۔ آل عمران
155 اللہ تبار ک و تعالیٰ ان لوگوں کے احوال کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے جنہوں نے احد کے روز ہزیمت اٹھائی اور ان عوامل کی خبر دی جو ان کے فرار کا موجب بنے۔ نیز یہ کہ شیطان نے ان کو گمراہ کیا اور وہ ان کے بعض گناہوں کے سبب سے ان پر مسلط ہوگیا۔ پس یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے شیطان کو در اندازی کی اجازت دی اور اپنی نافرمانیوں پر اسے اختیار دے دیا کیونکہ معصیت شیطان کی سواری اور اس کی در اندازی کا ذریعہ ہے۔ اگر وہ اپنے رب کی اطاعت کے ذریعے سے محفوظ رہنے کی کوشش کرتے تو شیطان کو ان پر کوئی اختیار نہ ہوتا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿إِنَّ عِبَادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطَانٌ ۚ ﴾(بنی اسرائیل :17؍65) ” بے شک میرے جو بندے ہیں ان پر تیرا کوئی اختیار نہیں۔“ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس نے ان لوگوں کو معاف کردیا جن سے یہ قابل مواخذہ فعل سر زد ہوا اور اگر وہ ان کا مواخذہ کرتا تو ان کی جڑ کاٹ کر رکھ دیتا ﴿ إِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ﴾بے شک اللہ خطا کار گناہ گاروں کو توبہ و استغفار کی توفیق عطا کر کے اور ان کو مصائب میں مبتلا کر کے بخش دیتا ہے ﴿حَلِیْمٌ﴾ یعنی جو کوئی اس کی نافرمانی کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے سزا دینے میں جلدی نہیں کرتا۔ وہ اسے توبہ و انابت کے لیے اپنی طرف بلاتا ہے اگر وہ توبہ کر کے اس کی طرف لوٹ آئے تو وہ اس کی توبہ قبول کرلیتا ہے اور اسے ایسے کردیتا ہے جیسے اس سے کوئی گناہ اور عیب صادر ہی نہیں ہوا۔ اللہ تعالیٰ کے اس احسان پر اللہ تعالیٰ ہی کی حمد و ثناء ہے۔ آل عمران
156 اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے اہل ایمان بندوں کو کفار اور منافقین وغیرہ کی مشابہت اختیار کرنے سے روکا ہے جو اپنے رب اور اس کی قضا و قدر پر ایمان نہیں رکھتے۔ اس نے ہر چیز میں ان کی مشابہت اختیار کرنے سے روکا ہے جو اپنے رب اور اس کی قضا و قدر پر ایمان نہیں رکھتے۔ خاص طور پر اس معاملے میں کہ وہ اپنے دینی یا نسبی بھائیوں سے کہتے ہیں : ﴿ إِذَا ضَرَبُوا فِي الْأَرْضِ﴾ یعنی جب تجارت وغیرہ کے لیے سفر کرتے ہیں ﴿ أَوْ كَانُوا غُزًّى﴾ یا وہ غزوات کے لیے نکلتے ہیں۔ پھر اس دوران میں انہیں موت آجاتی ہے یا وہ قتل ہوجاتے ہیں تو وہ اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر پر اعتراض کرتے ہوئے کہتے ہیں ﴿لَّوْ كَانُوا عِندَنَا مَا مَاتُوا وَمَا قُتِلُوا﴾ ” اگر وہ ہمارے پاس ہوتے تو وہ نہ مرتے اور نہ قتل ہوتے“ یہ ان کا جھوٹ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿قُل لَّوْ كُنتُمْ فِي بُيُوتِكُمْ لَبَرَزَ الَّذِينَ كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقَتْلُ إِلَىٰ مَضَاجِعِهِمْ﴾ (آل عمران :3؍ 154) ” کہہ دو اگر تم اپنے گھروں میں بھی ہوتے تو جن کی تقدیر میں قتل ہونا لکھا تھا توہ وہ اپنی اپنی قتل گاہوں کی طرف نکل آتے۔“ مگر اس تکذیب نے ان کو کوئی فائدہ نہ دیا البتہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس قول اور عقیدے کو ان کے دلوں میں حسرت بنا دیا پس ان کی مصیبت میں اور اضافہ ہوگیا۔ رہے اہل ایمان، تو وہ جانتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہے پس وہ اس پر ایمان رکھتے ہیں اور اسے تسلیم کرتے ہیں اور یوں اللہ تعالیٰ ان کے دلوں کو ہدایت دیتا ہے اور ان کو مضبوط کردیتا ہے اور اس طرح ان کی مصیبت میں تخفیف کردیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ منافقین کی تردید کرتے ہوئے فرماتا ہے : ﴿وَاللَّـهُ يُحْيِي وَيُمِيتُ﴾ یعنی زندہ کرنے اور موت دینے کا اختیار وہ اکیلا ہی رکھتا ہے۔ اس لیے صرف احتیاط تقدیر سے نہیں بچا سکتی۔ ﴿ وَاللَّـهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ ﴾ ” اور اللہ جو کچھ تم کرتے ہو اس کو دیکھ رہا ہے۔“ اس لیے وہ تمہارے اعمال اور تمہاری تکذیب کا بدلہ ضرور دے گا۔ آل عمران
157 پھر اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں قتل ہوجانا یا مر جانا، اس میں کوئی نقص یا کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس سے پرہیز کیا جائے بلکہ یہ تو ایک ایسا معاملہ ہے جس میں رغبت کے لیے لوگوں کو مسابقت کرنی چاہئے کیونکہ یہ ایک سبب ہے جو اللہ تعالیٰ کی مغفرت اور رحمت تک پہنچاتا ہے اور یہ اس دنیاوی مال و متاع سے کہیں بہتر ہے جسے دنیا والے جمع کرتے ہیں، نیز مخلوق کو جب بھی موت آئے گی یا کسی بھی حالت میں ان کو قتل کیا جائے انہیں اللہ ہی کی طرف لوٹنا ہے اور وہ ہر ایک کو اس کے عمل کا بدلہ دے گا۔ اس لیے اللہ کے سوا کوئی جائے فرار نہیں اور مخلوق کو کوئی بچانے والا نہیں، سوائے اس کے کہ اس کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیا جائے۔ آل عمران
158 آل عمران
159 یعنی یہ آپ پر اور آپ کے اصحاب پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے اور یہ اللہ کا آپ پر احسان ہے کہ آپ ان کے لیے نہایت نرم دل ہوگئے، آپ ان سے نہایت مہربانی اور شفقت سے پیش آتے ہیں اور ان کے ساتھ آپ کا خلق بہت اچھا ہے اس لیے وہ آپ کے اردگرد جمع ہوگئے اور وہ آپ سے محبت کرتے اور آپ کے حکم کی تعمیل کرتے ہیں۔ ﴿وَلَوْ كُنتَ فَظًّا﴾ یعنی اگر آپ بد اخلاق ہوتے ﴿غَلِيظَ الْقَلْبِ﴾ یعنی سخت دل ہوتے﴿لَانفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ﴾” تو وہ آپ کے پاس سے چھٹ جاتے“ کیونکہ بدخوئی اور سخت دلی لوگوں کو متنفر اور ان کے دلوں میں بغض پیدا کرتی ہے۔ پس دنیاوی سربراہ کے اچھے اخلاق لوگوں کو اللہ کے دین کی طرف کھینچتے ہیں اور دین کے بارے میں لوگوں میں رغبت پیدا کرتے ہیں اس کے علاوہ وہ لوگوں میں قابل تعریف اور اللہ کے ہاں اجر خاص کا مستحق ہوتا ہے اور دینی سربراہ کے برے اخلاق لوگوں کو دین سے متنفر کرتے اور دین کے بارے میں لوگوں میں بغض پیدا کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ بدخو دینی سربراہ قابل مذمت اور خاص سزا کا مستحق ہے۔ یہ رسول معصوم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ یہ فرما رہا ہے تب کسی دوسرے کا کیا حال ہوگا۔ کیا یہ سب سے زیادہ واجب اور سب سے زیادہ اہم بات نہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کی پیروی کریں اور اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل کرتے ہوئے اور لوگوں کو اللہ کے دین کی طرف راغب کرنے کے لیے ہم ان کے ساتھ نرمی، حسن خلق اور الفت کے ساتھ پیش آئیں جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیش آیا کرتے تھے؟ پھر اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا ہے کہ وہ ان کی کوتاہیاں معاف کردیں جو آپ کے حق میں ان سے صادر ہوئی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے حق میں جو کو تاہیاں ان سے سرزد ہوئی ہیں اس بارے میں اللہ تعالیٰ سے ان کے لیے بخشش طلب کریں اور اس طرح عفو اور احسان کو یکجا کردیں۔ ﴿وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ﴾ یعنی ان امور میں ان سے مشورہ کریں جو مشاورت اور فکر و نظر کے محتاج ہیں۔ کیونکہ مشاورت میں بہت سے فوائد اور بے شمار دینی اور دنیاوی مصالح ہیں۔ جیسے : ١۔ مشاورت دینی عبادات میں شمار ہوتی ہے جن سے اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل ہوتا ہے۔ ٢۔ مشاورت میں لوگوں کے دل جوئی اور اس قلق کا ازالہ ہوتا ہے جو حوادث کے وقت دلوں میں پیدا ہوتا ہے۔ اس لیے کہ جس شخص کے ہاتھ میں لوگوں کے معاملات کا اختیار ہوتا ہے، جب وہ کسی حادثہ اور اہم موقع پر اہل رائے اور اہل فضیلت اصحاب کو جمع کر کے ان سے مشورہ لیتا ہے تو لوگوں کے دل اس پر مطمئن ہوجاتے ہیں اور وہ اس سے محبت کرنے لگتے ہیں اور انہیں معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ اپنی ہی رائے کو ترجیح نہیں دیتا بلکہ وہ تمام لوگوں کے لیے کلی مصلحت عامہ میں غور و فکر کرتا ہے۔ تب وہ اس کی اطاعت کی پوری کوشش کرتے ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ وہ مصالح عامہ میں تگ و دو کرتا ہے۔ اس کے برعکس جو یہ طرز عمل اختیار نہیں کرتا لوگ اس سے سچی محبت کرتے ہیں نہ اس کی اطاعت کرتے ہیں اور اگر وہ اس کی اطاعت کرتے بھی ہیں تو یہ اطاعت کا مل نہیں ہوتی۔ ٣۔ مشاورت میں افکار نکھر کر سامنے آجاتے ہیں کیونکہ ان کو ان کے اصل مقام پر استعمال کیا جاتا ہے اور اس طرح لوگوں کی عقل و فہم میں اضافہ ہوتا ہے۔ ٤۔ مشاورت کے نتیجے میں صحیح رائے سامنے آجاتی ہے مشاورت سے کام لینے والا عام طور پر غلطی نہیں کرتا۔ اگر اس سے غلطی سر زد ہو بھی جائے یا مقصد پورا نہ ہو تو وہ ملامت کا مستحق نہیں ٹھہرتا۔ جب اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا ہے ﴿وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ﴾درآں حالیکہ آپ لوگوں میں سب سے زیادہ عقل، سب سے زیادہ علم اور سب سے افضل رائے رکھتے ہیں۔۔۔ تو وہ دوسروں کو یہ حکم کیسے نہ دے گا؟ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿فَإِذَا عَزَمْتَ﴾یعنی اگر کسی ایسے معاملے میں جس میں مشاورت کی حاجت ہو تو مشاورت کے بعد جب آپ کوئی عزم کرلیں ﴿فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّـهِ ۚ﴾ تو اپنی طاقت اور اپنی دور بینی پر بھروسہ چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کی قوت و قدرت پر بھروسہ کریں ﴿ إِنَّ اللَّـهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ﴾اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو اس پر بھروسہ کرتے ہیں اور اس کے پاس پناہ لیتے ہیں۔ آل عمران
160 اگر اللہ تعالیٰ اپنی فتح و نصرت اور اعانت کے ذریعے سے تمہاری مدد کرے ﴿فَلَا غَالِبَ لَكُمْ﴾ تو تم پر کوئی غالب نہیں آسکتا، خواہ دنیا کے تمام شوگوں سے جمع ہو کر لوگ تمہارے خلاف کیوں نہ آجائیں اور خواہ ان کے پاس کتنی ہی زیادہ تعداد اور کتنا ہی سرو سامان کیوں نہ ہو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ پر کوئی غالب نہیں آسکتا۔ تمام بندے اس کے سامنے مغلوب و مقہور ہیں۔ ان کی پیشانی اس کے قبضہ قدرت میں ہے، پس کوئی جاندار اس کی اجازت کے بغیر حرکت کرسکتا ہے نہ اس کی اجازت کے بغیر سکون اختیار کرسکتا ہے۔ ﴿وَإِن يَخْذُلْكُمْ﴾ ” اور اگر وہ تمہیں مدد نہ کرے“ یعنی تمہیں تمہارے نفس کے حوالے کر دے ﴿فَمَن ذَا الَّذِي يَنصُرُكُم مِّن بَعْدِهِ ۗ﴾ ” پس کون ہے جو اس کے بعد تمہاری مدد کرے؟“ اس لیے اگر تمام مخلوق بھی تمہاری اعانت پر مجتمع ہوجائے تو پھر بھی تم مدد سے محروم ہوگئے۔ یہ آیت کریمہ اس حکم کو متضمن ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ سے فتح و نصرت طلب کی جائے، اسی پر بھروسہ کیا جائے اور اپنی طاقت و قدرت سے برأت کا اظہار کیا جائے۔ بنابریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَعَلَى اللَّـهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ﴾ معمول کو عامل سے قبل لانا حصر کا معنی دیتا ہے۔ یعنی تم صرف اللہ تعالیٰ ہی پر بھروسہ کرو، کسی اور پر بھروسہ نہ کرو۔ کیونکہ یہ حقیقت معلوم ہے کہ وہ اکیلا مدد کرنے والا ہے۔ اس لیے اس پر اعتماد اور بھروسہ کرنا توحید ہے اور اس سے مقصود و مطلوب حاصل ہوتا ہے اور کسی دوسرے پر بھروسہ کرنا شرک ہے اور بھروسہ کرنے والے کو کچھ حاصل نہیں ہوتا بلکہ وہ نقصان دہ ہے۔ اس آیت میں صرف اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنے کا حکم ہے اور بندہ مومن کے ایمان کے مطابق ہی اس کا توکل ہوتا ہے۔ آل عمران
161 یہاں (غلول) سے مراد ہے مال غنیمت چھپانا اور اس چیز میں خیانت کرنا جس کا اسے منتظم بنایا گیا ہے۔ خیانت کے حرام ہونے پر اتفاق ہے بلکہ اس کا شمار کبائر میں ہوتا ہے۔ جیسا کہ یہ آیت کریمہ اور دیگر نصوص اس پر دلالت کرتی ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا ہے کہ مال غنیمت میں خیانت کرنا ایک نبی کے شایان شان نہیں۔ کیونکہ مال غنیمت میں خیانت، جیسا کہ آپ کو علم ہے۔ سب سے بڑا گناہ اور بدترین عیب ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے انبیائے کرام کو ہر عیب سے محفوظ رکھا ہے جو ان میں کسی اعتراض کا باعث بن سکتا تھا۔ اخلاق و اطوار کے لحاظ سے انہیں دنیا میں افضل ترین انسان، سب سے زیادہ پاک نفوس کے مالک اور سب سے زیادہ طیب و طاہر ہستیاں بنایا ہے اور انہیں ہر عیب سے پاک کیا ہے۔ انہیں اپنی رسالت کا محل اور اپنی حکمت کا خزانہ بنایا ہے۔ ﴿اللَّـهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهُ﴾ (الانعام:6؍124) ” اللہ ہی خوب جانتا ہے کہ اس کی رسالت کا کون سا محل ہے اور وہ اپنی رسالت کسے عنایت فرمائے۔ “ ان میں سے کسی ایک رسول کے بارے میں بندے کا مجرد علم، تمام رسولوں کے ہر عیب سے محفوظ اور سلامت ہونے کا قطعی فیصلہ کردیتا ہے اور انبیاء و مرسلین کے بارے میں ان کے دشمنوں کی طرف سے جو کچھ کہا گیا ہے اس کے فاسد ہونے پر کسی دلیل کی حاجت نہیں، کیونکہ ان کی نبوت کی معرفت ان تمام اعتراضات کو دفع کرنے کو مستلزم ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ایسے اسلوب کے ساتھ ذکر کیا جو اس فعل کے وجود کو مانع ہے چنانچہ فرمایا : ﴿وَمَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَن يَغُلَّ﴾ یعنی جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے اپنی نبوت کے لیے چنا ہے اس کے بارے میں یہ ممتنع اور محال ہے کہ وہ مال غنیمت میں خیانت کرے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے مال غنیمت میں خیانت کرنے والوں کے لیے وعید سنائی ہے، فرمایا : ﴿وَمَن يَغْلُلْ يَأْتِ بِمَا غَلَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ﴾ یعنی مال غنیمت میں خیانت کرنے والا قیامت کے روز اس مال کو، خواہ وہ کوئی حیوان ہے یا مال و متاع وغیرہ، اپنی پیٹھ پر اٹھائے ہوئے آئے گا اور اس مال کے ذریعے سے اسے عذاب دیا جائے گا۔ ﴿ثُمَّ تُوَفَّىٰ كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ ﴾ یعنی مال غنیمت میں خیانت کرنے والے کو اس کی خیانت کی مقدار کے مطابق اس کے گناہ کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا ﴿وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ﴾” اور ان پر ظلم نہیں ہوگا“ یعنی ان کی برائیوں میں اضافہ اور ان کی نیکیوں میں کمی نہیں کی جائے گی۔ اس آیت کریمہ میں آپ اس حسن احتراز (مفہوم مخالف سے بچاؤ کے احسن پیرائے) پر غور کیجیے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ نے یہاں مال غنیمت میں خیانت کرنے والے کی سزا کا ذکر کیا ہے کہ وہ قیامت کے روز خیانت شدہ مال کے ساتھ آئے گا اور چونکہ وہ اس غنیمت میں خیانت کرنے والے کی پوری جزا کا ذکر کرنا چاہتا ہے اور اس میں صرف غنیمت میں خیانت کی سزا کے ذکر پر اقتصار کیا ہے۔ یوں اس آیت کے مفہوم مخالف سے یہ وہم لازم آتا ہے کہ دیگر عمل کرنے والوں کو ہوسکتا ہے کہ پورا پورا بدلہ نہ دیا جائے۔ اس لیے یہاں ایسا لفظ استعمال کیا گیا ہے جو غنیمت میں خیانت کرنے والوں اور دیگر عمل کرنے والوں، دونوں کے لیے جامع ہے۔ آل عمران
162 اس آیت کی تفسیر اگلی آیت کے ساتھ ملاحظہ کیجئے۔ آل عمران
163 اللہ تبارک و تعالیٰ نے آگاہ فرمایا ہے کہ وہ شخص، جس کا مقصود صرف اللہ تعالیٰ کی رضا ہو اور اللہ تعالیٰ کی رضا ہی کے مطابق اس کے اعمال ہوں، اس شخص کے برابر نہیں ہوسکتا جو گناہوں میں مشغول ہے اور اپنے رب کو ناراض کرنے میں لگا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حکم، اس کی حکمت اور فطرت انسانی میں یہ دونوں قسم کے اشخاص مساوی نہیں ہوسکتے ﴿أَفَمَن كَانَ مُؤْمِنًا كَمَن كَانَ فَاسِقًا ۚ لَّا يَسْتَوُونَ﴾ (السجدہ :32؍18) ” بھلا جو شخص مومن ہے وہ اس شخص کی مانند ہوسکتا ہے جو فاسق ہے؟ دونوں برابر نہیں ہوسکتے۔“ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿هُمْ دَرَجَاتٌ عِندَ اللَّـهِ﴾” لوگوں کے مختلف درجے ہیں اللہ کے ہاں“ یعنی یہ تمام لوگ اپنے اعمال میں تفاوت کی بنا پر اپنے درجات اور منزلت میں بھی متفاوت ہیں چنانچہ اللہ تعالیٰ کی رضا کی پیروی کرنے والے بلند درجات و منازل اور بالاخانوں کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، پس اللہ تعالیٰ ان کے اعمال کے مطابق اپنے فضل و کرم سے انہیں عطا کرتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کی ناراضی کے سبب والے امور کی پیروی کرنے والے پست سے پست اور فرو ترین ٹھکانے کے لیے کوشش کرتے ہیں۔ ہر شخص اپنے اپنے اعمال کے مطابق جزا پائے گا۔ اللہ تعالیٰ ان کے اعمال کو دیکھتا ہے اور ان کا کوئی عمل اس سے چھپا ہوا نہیں۔ بلکہ ان کے تمام اعمال اس کے احاطہ علم میں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو لوح محفوظ میں ثبت کر رکھا ہے اور اس کے امین و کریم فرشتے ان اعمال کو لکھ کر محفوظ رکھتے ہیں۔ آل عمران
164 اللہ تبارک و تعالیٰ کا یہ احسان جو اس نے اپنے بندوں پر کیا ہے اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت ہے، بلکہ اصل نعمت ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے اس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرما کر ان پر بہت بڑا احسان کیا۔ جس کے ذریعے سے اس نے ان کو گمراہی کے گڑھے سے بچایا اور انہیں ہلاکت سے محفوظ کیا۔ پس فرمایا : ﴿ لَقَدْ مَنَّ اللَّـهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْ أَنفُسِهِمْ﴾” یقیناً اللہ نے مومنوں پر احسان فرمایا، جو بھیجا ان میں رسول، انہی میں سے“ یعنی وہ اس کا حسب و نسب، اس کے احوال اور اس کی زبان جانتے ہیں۔ وہ ان کی اپنی قوم اور ان کے اپنے قبیلے سے تعلق رکھتا ہے وہ ان کے لیے خیر خواہی کے جذبات رکھتا اور ان پر بہت شفیق اور مہربان ہے۔ ﴿ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ﴾یعنی وہ ان کو ان آیات کے الفاظ اور معانی سکھاتا ہے﴿وَيُزَكِّيهِمْ﴾ یعنی وہ ان کو شرک، گناہ، رذائل اور دیگر تمام برے اخلاق و اطوار سے پاک کرتا ہے ﴿وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ﴾” اور انہیں کتاب سکھاتا ہے“ یا تو اس سے مراد جنس کتاب ہے جو کہ قرآن مجید ہے تب اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ ﴾ سے مراد آیات کو نیہ ہوں گی۔ یا کتاب سے مراد ” کتابت‘‘ ہے تب اس کے معنی یہ ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو کتاب اور کتابت کی تعلیم دے کر ان پر بڑا احسان کیا ہے، جس کے ذریعے سے علوم حاصل کئے جاتے ہیں اور ان کو محفوظ کیا جاتا ہے۔ ﴿وَالْحِكْمَةَ ﴾ہاں حکمت سے مراد سنت ہے جو کہ قرآن مجید کی مانند ہے نیز اس سے مراد تمام اشیاء کو اپنے اپنے مقام پر رکھنا اور اسرار شریعت کی معرفت بھی ہے۔ پس اللہ تبارک و تعالیٰ نے تعلیم احکام، تنفیذ احکام کے ذرائع اور ان احکام کے فوائد و ثمرات کے حصول کے ذرائع کو جمع کردیا۔ پس وہ ان عظیم امور کی بنا پر تمام لوگوں سے آگے نکل گئے اور ان کا شمار علمائے ربانی میں ہونے لگا۔ ﴿وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ﴾ یعنی اس رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل ﴿لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ ﴾ ” وہ کھلی گمراہی میں تھے“ اور اپنے رب تک پہنچانے والے راستے کی معرفت سے محروم تھے اور نہ انہیں اس طریق کا علم تھا جو ان کا تزکیہ نفس کر کے ان کو پاک کرے بلکہ وہ تو اس راستے پر گامزن تھے جو ان کی جہالت کو مزین کرتا تھا۔ خواہ یہ جہالت تمام جہانوں کی عقل کے متناقض ہی کیوں نہ ہو۔ آل عمران
165 جب اہل ایمان کو غزوہ احد میں بہت بڑی مصیبت کا سامنا کرناپڑا اور ان میں سے تقریباً ستر صحابہ نے جام شہادت نوش کیا۔ یہ آیت کریمہ اللہ تعالیٰ کے ان مومن بندوں کے لیے تسلی ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿قَدْ أَصَبْتُم مِّثْلَيْهَا﴾” پہنچا چکے ہو تم اس سے دو چند“ یعنی تمہارے ہاتھوں سے دشمنوں پر دو چند مصیبت پڑچکی ہے۔ تم نے ان کے ستر آدمیوں کو قتل کیا اور ستر آدمیوں کو قیدی بنایا تھا۔ بنا بریں تمہارے لیے یہ معاملہ آسان اور تم پر یہ مصیبت ہلکی ہونی چاہیے اور اس کے ساتھ ساتھ تم اور وہ برابر نہیں ہو۔ تمہارے مقتول جنت میں ہیں اور ان کے مقتول جہنم میں۔ ﴿قُلْتُمْ أَنَّىٰ هَـٰذَا﴾” تم نے کہا، یہ کہاں سے آئی؟“ یعنی یہ مصیبت جو ہمیں پہنچی ہے اور یہ ہزیمت جو ہمیں اٹھانا پڑی ہے کہاں سے آگئی؟ ﴿ قُلْ هُوَ مِنْ عِندِ أَنفُسِكُمْ﴾یہ مصیبت تمہارے نفس ہی کی طرف سے وارد ہوئی ہے جس وقت اللہ تعالیٰ نے تمہیں وہ چیز دکھائی جسے تم پسند کرتے تھے اس کے بعد تم نے آپس میں جھگڑا کیا اور رسول کے حکم کی نافرمانی کی پس اپنے ہی نفسوں کو ملامت کرو اور ہلاکت کے اسباب سے بچو ﴿ إِنَّ اللَّـهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ﴾پس اللہ تعالیٰ کے بارے میں برے گمان سے بچو۔ وہ تمہاری مدد کرنے پر قادر ہے مگر تمہیں آزمائش اور مصیبت میں مبتلا کرنے میں اس کی کامل حکمت ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : ﴿ذَٰلِكَ وَلَوْ يَشَاءُ اللَّـهُ لَانتَصَرَ مِنْهُمْ وَلَـٰكِن لِّيَبْلُوَ بَعْضَكُم بِبَعْضٍ ۗ﴾ (محمد :47؍ 4) ” یہ (حکم یاد رکھو) ” اگر اللہ چاہتا تو ان سے انتقام لے لیتا مگر وہ ایک دوسرے کے ذریعے سے تمہاری آزمائش کرتا ہے۔“ آل عمران
166 پھر اللہ تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ دونوں لشکروں یعنی مسلمانوں کے لشکر اور کفار کے لشکر میں مڈ بھیڑ ہونے کے روز، احد میں، ان کو ہزیمت اور قتل کی جو مصیبت پہنچی وہ اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کی قضا و قدر سے پہنچی۔ جس کو کوئی روکنے والا نہیں، لہٰذا اس مصیبت کا واقع ہونا ایک لابدی امر تھا اور جب امر قدری نافذ ہوجائے تب اس کے سامنے سر تسلیم خم کئے بغیر کوئی چارہ نہیں اور یہ حقیقت تسلیم کرنی پڑتی ہے کہ اس نے اس امر کو عظیم حکمتوں اور بہت بڑے فوائد کے لیے مقدر کیا ہے۔ تاکہ جب مسلمانوں کو جنگ کا حکم دیا جائے تو اس امر قدری کے ذریعے سے مومن اور منافق کے مابین فرق واضح ہوجائے۔ آل عمران
167 ﴿وَقِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا قَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ﴾ ”اور ان سے کہا گیا کہ آؤ! اللہ کی راہ میں لڑو“ یعنی تم دین کی مدافعت اور حمایت اور اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کی خاطر اللہ کے راستے میں جنگ کرو﴿ أَوِ ادْفَعُوا﴾ ” یا دشمن کو دفع کرو“ یعنی اگر تمہاری نیت صالح نہیں ہے تو پھر تم اپنے حرم اور شہر کے دفاع کی خاطر لڑو۔ مگر انہوں نے انکار کردیا اور عذر یہ پیش کیا ﴿قَالُوا لَوْ نَعْلَمُ قِتَالًا لَّاتَّبَعْنَاكُمْ﴾ یعنی اگر ہم یہ جانتے ہوتے کہ تمہارے درمیان اور ان کے درمیان جنگ ہوگی تو ہم ضرور تمہارے ساتھ چلتے، حالانکہ وہ اس میں جھوٹے تھے۔ وہ جانتے تھے اور انہیں یقین تھا بلکہ ہر شخص جانتا تھا کہ مشرکین کو اہل ایمان نے شکست دی ہے اس لیے مشرکین کے دل اہل ایمان کے بارے میں غیظ و غضب سے لبریز ہیں۔ ان سے انتقام لینے کے لیے مشرکین نے مال خرچ کیا۔ اہل ایمان کے خلاف لوگوں اور سامان حرب کو اکٹھا کرنے کے لیے اپنی پوری قوت صرف کردی ہے اور وہ ایک بہت بڑے لشکر کے ساتھ اہل ایمان پر ان کے شہر میں حملہ آور ہو رہے ہیں۔ مسلمانوں کے ساتھ لڑائی میں ان میں سخت جوش و خروش پایا جاتا ہے۔ جب حملہ آوروں کی یہ حالت اور کیفیت ہو تو کیسے کہا جاسکتا ہے کہ ان کے اور مسلمانوں کے درمیان جنگ نہیں ہوگی۔ خاص طور پر جبکہ مسلمان کفار کا مقابلہ کرنے کے لیے مدینہ سے باہر نکل آئے تھے؟۔۔۔ یہ محال ہے۔ مگر منافقین کا خیال تھا کہ ان کا یہ عذر مسلمانوں کو مطمئن کر دے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿هُمْ لِلْكُفْرِ يَوْمَئِذٍ ﴾ ” وہ اس دن کفر کے“ یعنی اس حال میں جس میں انہوں نے مسلمانوں کے ساتھ مدینہ منورہ سے باہر نکلنے سے انکار کیا ﴿أَقْرَبُ مِنْهُمْ لِلْإِيمَانِ ۚ يَقُولُونَ بِأَفْوَاهِهِم مَّا لَيْسَ فِي قُلُوبِهِمْ ۗ﴾ ” زیادہ قریب ہیں، بہ نسبت ایمان کے، اپنے منہ سے وہ باتیں کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہیں“ یہ منافقین کی خاصیت ہے کہ وہ اپنے کلام اور افعال سے وہ کچھ ظاہر کرتے ہیں جو ان کے دلوں میں چھپے ہوئے خیالات اور ارادوں کی ضد ہوتا ہے۔ ان کا یہ کہنا کہ ﴿لَوْ نَعْلَمُ قِتَالًا لَّاتَّبَعْنَاكُمْ﴾بھی اسی زمرے میں آتا ہے کیونکہ انہیں علم تھا کہ جنگ ضرور ہوگی۔ اس آیت کریمہ میں اس فقہی قاعدہ پر دلیل ملتی ہے ” کہ بوقت ضرورت بڑی برائی کو روکنے کے لیے چھوٹے برائی کو اختیار کرنا جائز ہے۔ اسی طرح دو مصلحتوں میں سے اگر بڑی مصلحت پر عمل کرنے سے عاجز ہو تو اسے چھوڑ کر کم تر مصلحت پر عمل کرنا جائز ہے۔“ اس لیے کہ منافقین کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ دین کے لیے جنگ کریں۔ اگر وہ دین کے لیے جنگ نہیں کرتے تو اپنے اہل و عیال اور وطن کے دفاع کے لیے ہی جنگ کریں ﴿وَاللَّـهُ أَعْلَمُ بِمَا يَكْتُمُونَ﴾” اور اللہ خوب جانتا ہے جو وہ چھپاتے ہیں“ پس وہ اسے اپنے مومن بندوں کے سامنے ظاہر کرے گا۔ اس پر ان منافقین کو سزا دے گا۔ آل عمران
168 پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿الَّذِينَ قَالُوا لِإِخْوَانِهِمْ وَقَعَدُوا لَوْ أَطَاعُونَا مَا قُتِلُوا ۗ﴾”وہ لوگ جنہوں نے کہا اپنے بھائیوں سے اور خود بیٹھے رہے، اگر وہ ہماری بات مانتے تو مارے نہ جاتے“ یعنی انہوں نے دو برائیوں کو اکٹھا کرلیا تھا، جہاد سے جی چرا کر پیچھے رہنا اور اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر پر اعتراض اور اس کی تکذیب کرنا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کا رد کرتے ہوئے فرمایا : ﴿قُلْ فَادْرَءُوا ﴾ یعنی دور ہٹا دو ﴿عَنْ أَنفُسِكُمُ الْمَوْتَ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ﴾ ” اپنے اوپر سے موت کو، اگر تم سچے ہو“ یعنی اگر تم یہ کہنے میں سچے ہو کہ اگر وہ تمہاری بات مانتے تو کبھی قتل نہ ہوتے۔ تم اس پر قدرت نہیں رکھتے اور نہ تم ان کو قتل ہونے سے بچانے کی استطاعت رکھتے ہو۔ ان آیات کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ بندے میں کبھی کبھی کفر کی کوئی خصلت ہوتی ہے اور اس کے ساتھ ایمان کی خصلت بھی اس کے اندر موجود ہوتی ہے اور کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ وہ ایک خصلت کی نسبت دوسری خصلت کے زیادہ قریب ہوتا ہے۔ آل عمران
169 ان آیات کریمہ میں شہداء کی کرامت اور فضیلت بیان کی گئی ہے اور اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کا ذکر ہے جن سے شہدا کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و احسان سے نوازا ہے اور اسی ضمن میں ان زندہ لوگوں کے لیے تسلی اور تعزیت ہے جن کے اقرباء نے جام شہادت نوش کیا تھا۔ نیز ان کو جہاد فی سبیل اللہ کی ترغیب دینا اور ان میں شوق شہادت پیدا کرنا ہے اس لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ﴾ یعنی جو دشمنان دین کے ساتھ اس قصد کے ساتھ جہاد کرتے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ کا کلمہ بلند ہو، قتل ہوگئے ﴿أَمْوَاتًا﴾ ” ان کو مردہ گمان مت کرو“ یعنی ان کے بارے میں تمہارے دل میں اس خیال کا گزر بھی نہ ہو کہ وہ موت سے ہم کنار ہو کر مفقود ہوگئے اور دنیاوی زندگی کی لذات ان سے دور ہوگئیں اور وہ دنیا کی رنگینیوں سے متمتع ہونے سے محروم ہوگئے۔ جن سے محرومی کے خوف اور بزدلی کی وجہ سے جہاد سے گریز کیا جاتا اور شہادت سے بچا جاتا ہے۔﴿بَلْ﴾ بلکہ وہ اس سے بھی بلند مراتب حاصل کرچکے ہیں جن کے حصول کے لیے لوگ بڑھ چڑھ کر کر کوشش کرتے ہیں﴿أَحْيَاءٌ عِندَ رَبِّهِمْ﴾ یعنی وہ اللہ تعالیٰ کے عزت و تکریم کے گھر میں زندہ ہیں۔ ﴿عِندَ رَبِّهِمْ﴾کا لفظ ان کے بلند درجات اور ان کے رب کے قرب پر دلالت کرتا ہے ﴿يُرْزَقُونَ﴾یعنی ان انواع و اقسام کی نعمتوں سے رزق عطا کیا جاتا ہے جن کے اوصاف کو صرف وہی ہستی جانتی ہے جس نے ان کو یہ نعمتیں عطا کی ہیں ۔ آل عمران
170 اور اس کے ساتھ ساتھ ﴿فَرِحِينَ بِمَا آتَاهُمُ اللَّـهُ مِن فَضْلِهِ﴾ یعنی ان نعمتوں کے حصول پر وہ خوش ہوتے ہیں۔ ان کی آنکھیں ٹھنڈی اور نفس خوش ہوتے ہیں۔ یہ فرحت ان نعمتوں کی خوبصورتی، ان کی کثرت و عظمت، ان نعمتوں تک پہنچنے میں کامل لذت اور ان نعمتوں کے کبھی ختم نہ ہونے کی بنا پر ہوگی۔ پس اللہ تبارک و تعالیٰ نے رزق کے ذریعے سے بدنی نعمت اور اپنے فضل و کرم پر فرحت کے ذریعے سے قلبی اور روحانی نعمت کو جمع کردیا ہے۔ آل عمران
171 پس ان کے لیے نعمت اور مسرت کی تکمیل ہوگئی ﴿وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِم مِّنْ خَلْفِهِمْ﴾ یعنی وہ ایک دوسرے کو اپنے ان بھائیوں کے پہنچنے پر جو ابھی تک نہیں پہنچے، خوشخبری دیتے ہیں نیز ان کو بھی وہی نعمتیں حاصل ہوں گی جن سے وہ بہرہ ور ہوچکے ہیں ﴿أَلَّا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ﴾یعنی ڈرانے والے امور کے ان سے اور ان کے بھائیوں سے زائل ہونے کی وجہ سے بہت خوش ہوں گے جن کا زوال کامل مسرت کو مستلزم ہے۔ ﴿يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِّنَ اللَّـهِ وَفَضْلٍ ﴾وہ ایک دوسرے کو ہدیہ تبریک پیش کر رہے ہوں گے اور یہ ان کے رب کی نعمت اور اس کا فضل و کرم ہے۔ ﴿وَأَنَّ اللَّـهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُؤْمِنِينَ ﴾ اور اللہ اہل ایمان کے اجر کو ضائع نہیں کرتا بلکہ وہ اسے بڑھاتا ہے اس کی قدر کرتا ہے اپنے فضل و کرم سے اس میں اتنا اضافہ کرتا ہے کہ ان کی کوشش وہاں تک پہنچ ہی نہیں سکتی۔ ان آیات کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ برزخ میں بھی نعمتیں عطا ہوں گی اور برزخ میں شہداء اپنے رب کے پاس بلند ترین مقامات پر فائز ہوں گے۔ نیز نیک ارواح ایک دوسرے سے ملاقات اور ایک دوسرے کی زیارت کرتی ہیں اور ایک دوسرے کو خوشخبری دیتی ہیں۔ آل عمران
172 جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم احد سے مدینہ کی طرف لوٹ آئے آپ نے سنا کہ ابوسفیان اور اس کے ساتھ جو مشرک ہیں وہ مدینہ پر دوبارہ حملہ کرنا چاہتے ہیں تو آپ نے اپنے اصحاب کرام کو جنگ کے لیے نکلنے کو کہا۔ اس کے باوجود کہ صحابہ کرام سخت زخمی تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے نکل آئے۔ جب وہ ” حمراء الاسد“ پہنچے تو ایک آنے والے نے ان کے پاس آ کر کہا آل عمران
173 ﴿إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ ﴾ اس نے خوف زدہ کرنے کی غرض سے کہا کہ لوگ تمہیں مٹانے کے لیے اکٹھے ہو رہے ہیں۔ اس کے اس قول نے اللہ تعالیٰ پر ایمان اور بھروسے میں اور اضافہ کیا اور انہوں نے کہا۔ ﴿ حَسْبُنَا اللَّـهُ﴾ یعنی ہماری پریشانیوں میں اللہ تعالیٰ ہمیں کافی ہے ﴿وَنِعْمَ الْوَكِيلُ﴾اور وہ بہترین کار ساز ہے اور بندوں کی تدبیر اسی کے سپرد ہے اور وہ ان کے مصالح کا اتنظام کرتا ہے۔ آل عمران
174 ﴿فَانقَلَبُوا ﴾یعنی مسلمان لوٹے﴿بِنِعْمَةٍ مِّنَ اللَّـهِ وَفَضْلٍ لَّمْ يَمْسَسْهُمْ سُوءٌ﴾” اللہ کے احسان اور فضل کے ساتھ، ان کو کوئی برائی نہ پہنچی‘ جب یہ خبر مشرکین کے پاس پہنچی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کرام تمہارے تعاقب میں آرہے ہیں اور جو پیچھے رہ گئے تھے وہ بھی اب نادم ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا اور وہ مکہ واپس چلے گئے اور اہل ایمان اللہ تعالیٰ کی نعمت اور اس کے فضل و کرم سے مستفید ہو کر لوٹے کیونکہ اس حالت میں بھی ان کو جنگ کے لیے نکلنے کی توفیق ہوئی اور انہوں نے اپنے رب پر بھروسہ کیا۔ علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے غازیوں کا پورا اجر لکھ دیا۔ پس اپنے رب کے لیے حسن اطاعت اور اس کی نافرمانی سے بچنے کی وجہ سے ان کے لیے بہت بڑا اجر ہے۔ آل عمران
175 ﴿إِنَّمَا ذٰلِكُمُ الشَّيْطَانُ يُخَوِّفُ أَوْلِيَاءَهُ ﴾ یعنی مشرکین میں سے جس نے ڈرایا اور کہا کہ لوگ تمہارے لیے اکٹھے ہوچکے ہیں۔ وہ شیطان کے داعیوں میں سے ایک داعی ہے جو اپنے دوستوں کو ڈراتا ہے جو ایمان سے محروم ہیں یا جن کا ایمان کمزور ہے۔ فرمایا ﴿ فَلَا تَخَافُوهُمْ وَخَافُونِ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ﴾ یعنی شیطان کے دوست مشرکین سے نہ ڈرو کیونکہ ان کی پیشانیاں اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں، وہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے مطابق ہی تصرف کرسکتے ہیں۔ بلکہ اللہ تعالیٰ سے ڈرو جو اپنے ان دوستوں کی مدد کرتا ہے جو اس سے ڈرتے ہیں اور اس کی دعوت پر لبیک کہتے ہیں۔ اس آیت کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ کا خوف واجب ہے اور اللہ تعالیٰ کا خوف لوازم ایمان میں شمار ہوتا ہے۔ بندہ اپنے ایمان کی مقدار کے مطابق خوف الٰہی رکھتا ہے اور خوف محمود وہ ہے جو بندے کو اللہ تعالیٰ کے حرام کردہ امور کے ارتکاب سے روک دے۔ آل عمران
176 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کی ہدایت کے بہت آرزو مند تھے اور ان کو ہدایت کی راہ پر لانے کے لیے جدوجہد کرتے تھے۔ جب وہ ہدایت قبول نہ کرتے تو آپ بہت آزردہ ہوتے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَلَا يَحْزُنكَ الَّذِينَ يُسَارِعُونَ فِي الْكُفْرِ﴾یعنی ان کی کفر میں شدید رغبت اور چاہت کی وجہ سے آپ آزردہ خاطر نہ ہوں ﴿ إِنَّهُمْ لَن يَضُرُّوا اللَّـهَ شَيْئًا﴾” وہ اللہ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے“ پس اللہ تعالیٰ اپنے دین کا حامی و ناصر، اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کرنے والا اور ان کے بغیر اپنے حکم کو نافذ کرنے والا ہے۔ اس لیے آپ ان کی پروا نہ کریں۔ یہ محض اپنے آپ کو نقصان پہنچا رہے ہیں، ایمان سے محروم ہو کر اس دنیا میں اپنے آپ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں اور قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کے سامنے حقیر ہونے، اس کی نظر سے گرنے اور اللہ تعالیٰ کے اس ارادے کی وجہ سے کہ آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہ ہو۔۔۔ ان کے لیے درد ناک عذاب ہوگا۔ ان کی جزا یہ ہے کہ اس نے ان کو اپنے حال پر چھوڑ دیا اور انہیں اس توفیق سے نہ نوازا جو اس نے نہایت عدل و حکمت کی بنا پر اپنے اولیاء اور ان بندوں کو عطا کی جن کے ساتھ وہ بھلائی چاہتا ہے۔۔۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کو علم ہے کہ وہ راہ ہدایت کے ذریعے سے تزکیہ نفس نہیں چاہتے اور اپنے فاسد اخلاق و اطوار اور برے مقاصد کی بنا پر رشد و ہدایت کو قبول نہیں کرتے۔ آل عمران
177 پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے ایمان کے مقابلے میں کفر کو چن لیا پھر اس کفر میں اس شخص کی مانند رغبت کرنے لگے جو کسی محبوب مال تجارت کو خریدنے کے لیے اپنا محبوب مال خرچ کرتا ہے۔ فرمایا : ﴿ لَن يَضُرُّوا اللَّـهَ شَيْئًا﴾ ” وہ اللہ کو کچھ نقصان نہیں پہنچاتے۔“ بلکہ ان کے فعال کا نقصان خود ان کی ذات کو پہنچتا ہے۔ بنا بریں فرمایا : ﴿وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ﴾” اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہے“ وہ اللہ تعالیٰ کو کیسے نقصان پہنچا سکتے ہیں، وہ ایمان سے دور بھاگتے رہے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر میں پوری طرح راغب رہے۔ اللہ ان سے بے نیاز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کے لیے ان کفار کے سوا اپنے نیک اور پاک بندوں کو مقرر کر رکھا ہے اور اپنے دین کی مدد اور نصرت کے لیے اپنے پسندیدہ بندوں میں سے اصحاب عقل و بصیرت اور بڑے بڑے ذہین لوگوں کو تیار کر رکھا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿قُلْ آمِنُوا بِهِ أَوْ لَا تُؤْمِنُوا ۚ إِنَّ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ مِن قَبْلِهِ إِذَا يُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ يَخِرُّونَ لِلْأَذْقَانِ سُجَّدًا﴾ (بنی اسرائیل : 17؍107) ” کہہ دیجیے کہ تم اس قرآن پر ایمان لاؤ یا نہ لاؤ جن کو اس سے پہلے علم دیا گیا جب یہ ان کے سامنے پڑھا جاتا ہے تو وہ ٹھوڑیوں کے بل سجدے میں گر جاتے ہیں۔ “ آل عمران
178 وہ لوگ جو اپنے رب کے ساتھ کفر کرتے ہیں، اس کے دین کو دور پھینکتے ہیں اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جنگ کرتے ہیں، یہ نہ سمجھیں کہ ہمارا ان کو اس دنیا میں چھوڑ دینا، ان کا استیصال نہ کرنا اور ان کو مہلت دینا، ان کے لیے بہتر ہے اور ہم ان سے محبت کرتے ہیں۔ ہرگز نہیں، معاملہ ایسا نہیں جیسا وہ سمجھتے ہیں۔ یہ مہلت دینا تو ان کے حق میں برا ہے ان کی سزا اور عذاب میں اضافہ ہوگا اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿إِنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدَادُوا إِثْمًا ۚ وَلَهُمْ عَذَابٌ مُّهِينٌ﴾ ” ہم تو انہیں اس لیے مہلت دیتے ہیں تاکہ وہ گناہوں میں اور ترقی کریں اور ان کے لیے رسوا کن عذاب ہے“ پس اللہ تعالیٰ ظالم کو ڈھیل دیتا ہے یہاں تک کہ اس کی سرکشی بڑھ جاتی ہے اس کے رویے میں پے درپے کفر کا اظہار ہوتا ہے۔ پھر وہ اس کو غالب اور مقتدر ہستی کے طور پر پکڑ لیتا ہے۔ پس ظالموں کو اس مہلت سے ڈرنا چاہئے اور وہ یہ نہ سمجھ لیں کہ وہ اس بڑی اور بلند ہستی کی پکڑ سے رہ جائیں گے۔ آل عمران
179 یعنی یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت نہیں کہ وہ اہل ایمان کو پرکھے بغیر خلط ملط حالت میں چھوڑ دے۔ وہ ان کو پرکھے گا اور پاک کو ناپاک میں سے، مومن کو منافق میں سے اور سچے کو جھوٹے میں سے علیحدہ کرے گا۔ نیز یہ بھی اللہ تعالیٰ کی حکمت نہیں کہ اپنے بندوں کو اس غیب پر مطلع کرے جس کا علم اس نے اپنے بعض بندوں (رسولوں) کو عطا کیا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کی حکمت تقاضا کرتی ہے کہ وہ اپنے بندوں کو مختلف قسم کی آزمائش اور امتحان میں مبتلا کرے تاکہ پاک میں سے ناپاک ممیز ہوجائے۔ اس مقصد کے لیے اللہ تعالیٰ نے انبیاء و رسل مبعوث فرمائے اور ان کی اطاعت، ان کی پیروی اور ان پر ایمان لانے کا حکم دیا۔ ایمان اور تقویٰ کےبدلے میں اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ اجر عظیم کا وعدہ فرمایا ہے۔ پس انبیائے کرام کی اتباع کے اعتبار سے لوگ دو قسم میں منقسم ہیں: اطاعت گزار اور نافرمان، مومنین اور منافقین، مسلمان اور کفار۔ تاکہ ان پر اللہ تعالیٰ کا ثواب و عقاب مترتب ہو۔ اور تاکہ اس کا عدل و فضل اور اس کی مخلوق پر اس کی حکمت ظاہر ہو۔ آل عمران
180 یعنی جو لوگ بخل کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ مال، جاہ، علم اور دیگر چیزیں جن سے اللہ تعالیٰ نے ان کو نوازا ہے اور ان کو حکم دیا کہ ان چیزوں میں سے اس کے بندوں پر اتناضرور خرچ کریں جس سے خود ان کو نقصان نہ پہنچے۔ مگر انہوں نے بخل کیا اور ان چیزوں کو بندوں پر خرچ کرنے سے روک رکھا اور سمجھتے رہے کہ جو کچھ وہ کر رہے ہیں وہ ان کے لیے بہتر ہے (یہ ان کے لیے بہتر نہیں) بلکہ یہ تو ان کے دین و دنیا و آخرت کے لیے بدترین چیز ہے۔ ﴿سَيُطَوَّقُونَ مَا بَخِلُوا بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ﴾یعنی جس چیز کے بارے میں انہوں نے بخل کیا، اللہ تعالیٰ اسے طوق بنا کر ان کی گردن میں ڈال دے گا اور اس سبب سے انہیں عذاب میں مبتلا کیا جائے گا۔ جیسا کہ صحیح حدیث میں وارد ہوا ہے چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (( اِنَّ الْبَخِیْلَ يُمَثَّلُ لَهُ مَالُهُ يَوْمَ القِيَامَةِ شُجَاعًا أَقْرَعُ لَهُ زَبِيبَتَانِ يَأْخُذُ بِلِهْزِمَتَيْهِ يَعْنِي بِشِدْقَيْهِ يَقُولُ أَنَا مَالُكَ أَنَا كَنْزُكَ)) ” قیامت کے روز بخیل کے مالک کو ایک بڑا سانپ بنا دیا جائے گا جس کی آنکھوں پر دو سیاہ نقطے ہوں گے وہ بخیل کو اس کے جبڑوں سے پکڑ لے گا اور کہے گا : میں تیرا مال ہوں، میں تیرا خزانہ ہوں“ [صحيح بخاري، التفسير، باب "و لا يحسبن الذين يبخلون ..... من فضله" حديث: 4565 بلفظ: من آتاه الله مالا فلم يؤد زكاته] پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے مصداق کے طور پر یہی آیت تلاوت فرمائی۔ یہ لوگ سمجھتے تھے کہ ان کا بخل ان کے لیے نفع مند اور عزت کا باعث ہے مگر معاملہ الٹ نکلا اور یہی بخل ان کے لیے سب سے زیادہ نقصان دہ اور عذاب کا باعث بن گیا۔ ﴿وَلِلَّـهِ مِيرَاثُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ﴾ یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ اقتدار اور بادشاہی کا مالک ہے تمام املاک اپنے مالک کی طرف لوٹتی ہیں اور بندے اس دنیا سے اس حالت میں جائیں گے کہ ان کے ساتھ درہم و دینار ہوں گے نہ کوئی مال و متاع۔ جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ إِنَّا نَحْنُ نَرِثُ الْأَرْضَ وَمَنْ عَلَيْهَا وَإِلَيْنَا يُرْجَعُونَ  ﴾(مریم :19؍40) ” زمین اور جو لوگ اس کے اوپر ہیں ہم ہی ان کے وارث ہیں اور انہیں ہمارے ہی طرف لوٹ کر آنا ہے۔ “ غور کیجیے کہ اللہ تعالیٰ نے سبب ابتدائی اور سبب انتہائی کو کیسے ذکر فرمایا ہے اور یہ دونوں اس بات کے موجب ہیں کہ بندہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ چیزوں میں بخل نہ کرے۔ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے یہ ذکر فرمایا کہ بندے کے پاس اور بندے کے ہاتھ میں جو کچھ ہے وہ بندے کی ملکیت نہیں، بلکہ وہ سب اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی نعمت ہے۔ اگر بندے پر اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم اور اس کا احسان نہ ہوتا تو ان میں سے کوئی چیز بھی اسے عطا نہ ہوتی۔ لہٰذا جو کوئی یہ چیزیں لوگوں کو عطا کرنے میں بخل کرتا ہے وہ گویا اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کو لوگوں تک پہنچنے سے روکتا ہے۔ کیونکہ بندے پر اللہ تعالیٰ کا احسان اس بات کا موجب ہوتا ہے کہ وہ بندہ اللہ کے بندوں پر احسان کرے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَأَحْسِن كَمَا أَحْسَنَ اللَّـهُ إِلَيْكَ﴾(القصص :28؍77) ” جیسی اللہ نے تیرے ساتھ بھلائی کی ہے تو بھی لوگوں کے ساتھ ویسی ہی بھلائی کر۔ “ پس جسے اس بات کا یقین ہوگیا کہ اس کے پاس جو کچھ ہے وہ سب اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہے وہ اللہ تعالیٰ کے اس فضل و کرم کو دوسروں تک پہنچانے سے کبھی نہیں رکے گا جس سے اسے کوئی نقصان نہیں پہنچتا بلکہ یہ فعل اس کے دل اور مال میں اسے فائدہ ہی پہنچاتا ہے اس کے ایمان میں اضافہ کا باعث بنتا ہے اور اسے آفات سے محفوظ رکھتا ہے۔ ثانیاً: اللہ تعالیٰ نے یہ ذکر فرمایا کہ یہ سب کچھ جو بندے کے ہاتھ میں ہے، اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹ جائے گا اور اللہ تعالیٰ اس کا وارث ہوگا اور وہ سب سے اچھا وارث ہے۔ کسی ایسی چیز میں آپ کا بخل کرنا کیا معنی رکھتا ہے جو چیز آپ کے پاس سے زائل ہو کر کسی دوسرے کے پاس منتقل ہوجائے گی۔ ثالثاً: اللہ تعالیٰ نے سبب جزائی کا ذکر فرمایا چنانچہ فرمایا : ﴿وَاللَّـهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ﴾ جب اللہ تعالیٰ تمہارے تمام اعمال کی خبر رکھتا ہے تو یہ حقیقت اس بات کی مستلزم ہے کہ وہ اچھے اعمال پر اچھی جزا دے اور برے اعمال پر بری سزا دے۔ اب جس کے دل میں ذرہ بھر بھی ایمان ہے وہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنے سے باز نہیں رہ سکتا جس کا بدلہ ثواب ہے اور بخل پر راضی نہیں ہوسکتا، جو عذاب کا باعث ہے۔ آل عمران
181 اللہ تبارک و تعالیٰ ان متکبرین کے قول سے آگاہ فرماتا ہے جنہوں نے اللہ تبارک و تعالیٰ کے بارے میں بدترین اور قبیح ترین بات کہی۔ نیز اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ انہوں نے جو بدزبانی کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے سن لیا ہے۔ وہ اس بدزبانی کو لکھ کر محفوظ کرلے گا اور اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ دیگر افعال قبیحہ بھی محفوظ کرے گا۔ مثلاً ان کا خیر خواہی کرنے والے انبیاء کرام کو ناحق قتل کرنا، اور وہ ان کو ان افعال پر سخت سزا دے گا، ان کی اس ہر زہ گوئی۔۔۔” اللہ تعالیٰ فقیر ہے اور ہم دولت مند ہیں“۔۔۔ کے بدلے میں کہا جائے گا :”﴿  ذُوقُوا عَذَابَ الْحَرِيقِ ﴾ ” یعنی بدن سے دل تک جلا ڈالنے والے عذاب کا مزا چکھو، ان کو دیا گیا یہ عذاب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ظلم نہیں ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ ﴿لَيْسَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِيدِ  ﴾ ” بندوں پر ہرگز ظلم نہیں کرتا۔“ وہ اس سے منزہ ہے آل عمران
182 ۔ فرمایا : ﴿ذٰلِكَ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيكُمْ  ﴾ یہ رسوائیاں اور قباحتیں جو انہیں عذاب کا مستحق بناتی اور ثواب سے محروم کرتی ہیں ان کا اپنا کیا دھرا ہے۔ مفسرین ذکر کرتے ہیں کہ یہ آیت کریمہ ان یہودیوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے جنہوں نے مذکورہ ہر زہ سرائی کی تھی۔ ان میں ” فنحاص بن عازوراء“ کا نام لیا جاتا ہے جو مدینہ میں علمائے یہود کا سرخیل تھا۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ جب فنحاص بن عاز وراء نے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿مَّن ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّـهَ قَرْضًا حَسَنًا ﴾ (البقرہ :2؍ 245) اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿وَأَقْرَضُوا اللَّـهَ قَرْضًا حَسَنًا ﴾ (الحدید :57؍18) سنا تو اس وقت اس نے تکبر کی بنا پر یہ بات کہنے کی جسارت کی۔۔۔ قبحہ اللہ اللہ تعالیٰ نے اس کی بدگوئی کا ذکر کرتے ہوئے آگاہ فرمایا کہ ان کی یہ ہرزہ سرائیاں کوئی نئی چیز نہیں ہیں بلکہ وہ اس سے پہلے بھی اس قسم کے قبیح کام کرتے رہے ہیں ان کی ایک نظیر یہ ہے کہ انہوں نے نبیوں کو ناحق قتل کیا۔۔۔ یہاں ” ناحق“ کی قید لگانے سے مراد یہ ہے کہ وہ نبیوں کو لاعلمی اور ضلالت کی وجہ سے قتل نہیں کرتے تھے بلکہ اس جرم کی قباحت اور شناعت کو جانتے ہوئے بھی سرکشی اور عناد کی بنا پر قتل انبیاء علیہم السلام کے اقدام کی جرأت کرتے تھے۔ آل عمران
183 اللہ تعالیٰ ان افترا پردازوں کے احوال کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے کہ جو یہ کہتے ہیں : ﴿إِنَّ اللَّـهَ عَهِدَ إِلَيْنَا ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ ہم سے عہد لے چکا ہے اور اس نے وصیت کی ہے کہ ﴿أَلَّا نُؤْمِنَ لِرَسُولٍ حَتَّىٰ يَأْتِيَنَا بِقُرْبَانٍ تَأْكُلُهُ النَّارُ ﴾ ” ہم کسی رسول پر اس وقت تک ایمان نہ لائیں جب تک کہ وہ ہمارے سامنے ایسی قربانی نہ لائے جسے آگ (آسمان سے نازل ہو کر) کھالے۔“ پس انہوں نے یہ افترا پردازی کر کے اللہ تعالیٰ پر کذب بیانی اور انبیاء و مرسلین کے معجزات کو صرف اسی ایک معجزے میں محصور کر کے یکجا کردیا نیز یہ کہ وہ کسی ایسے رسول پر ایمان نہیں لائیں گے جس نے ایسی قربانی نہ کی ہو جسے آگ نے کھایا ہو۔ اس لیے وہ رسول اللہ پر ایمان نہ لانے کے سلسلے میں اپنے رب کی اطاعت اور اس کے عہد کا التزام کر رہے ہیں۔ یہ چیز معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جتنے رسول مبعوث فرمائے ان سب کی معجزات و براہین کے ذریعے سے تائید کی، جس پر انسان مطمئن ہوجاتا ہے۔ اور جس معجزے کا انہوں نے مطالبہ کیا انبیاء اس سے قاصر نہیں رہے۔ اس کے باوجود انہوں نے انبیاء کی دعوت کو بہتان وافتراء کہہ کر اس کا التزام نہ کیا اور اسے باطل کہا اور اس پر عمل نہ کیا۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ وہ ان سے کہہ دیں ﴿قُلْ قَدْ جَاءَكُمْ رُسُلٌ مِّن قَبْلِي بِالْبَيِّنَاتِ  ﴾ ” مجھ سے پہلے کئی پیغمبر تمہارے پاس کھلی نشانیاں لے کر آئے۔“ یعنی وہ دلائل لے کر آئے جو ان کی صداقت کی تائید کرتے تھے ﴿وَبِالَّذِي قُلْتُمْ ﴾اور وہ معجزہ لے کر بھی آئے جس کا تم نے مطالبہ کیا ہے یعنی انہوں نے وہ قربانی بھی کی جس کو آگ نے کھایا ﴿فَلِمَ قَتَلْتُمُوهُمْ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ﴾” اگر تم سچے ہو تو تم نے ان کو قتل کیوں کیا؟“ یعنی اگر تم اپنے اس دعوے میں سچے ہو کہ ہم تو رسول پر اس وقت ایمان لاتے ہیں جب وہ قربانی کرے اور آگ آسمان سے نازل ہو کر اسے کھا لے تو پھر تم یہ معجزہ دکھانے والے نبیوں کو قتل کیوں کرتے تھے۔ پس اس سے ان کا جھوٹ اور تناقض واضح ہوگیا۔ آل عمران
184 پھر اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ان الفاظ میں خوشخبری سنائی ہے ﴿فَإِن كَذَّبُوكَ فَقَدْ كُذِّبَ رُسُلٌ مِّن قَبْلِكَ ﴾” پس اگر انہوں نے تمہاری تکذیب کی ہے تو تم سے پہلے رسولوں کو بھی جھٹلایا گیا ہے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کرنا اور اللہ کے رسولوں کی تکذیب کرنا ان ظالموں کی عادت اور وتیرہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کے رسولوں کی تکذیب اس وجہ سے نہ تھی کہ وہ معجزہ دکھانے سے قاصر رہے یا دلیل واضح نہ تھی بلکہ﴿ جَاءُوا بِالْبَيِّنَاتِ ﴾ یعنی وہ تو دلائل عقلیہ اور براہین نقلیہ لے کر مبعوث ہوئے ﴿وَالزُّبُرِ ﴾ ان کے لیے آسمان سے لکھی ہوئی کتابیں نازل ہوئیں ان کتابوں کو رسول کے سوا کوئی اور نہیں لا سکتا۔ ﴿وَالْكِتَابِ الْمُنِيرِ﴾  یعنی احکام شرعی کو روشن اور عیاں کرنے والی اور یہ احکام الٰہی جن محاسن عقلی پر مشتمل ہیں ان کو بیان کرنے والی ہیں نیز سچی خبروں کو روشن کرتی ہے۔ لہٰذا جب ان اوصاف کے حامل رسولوں پر ایمان لانا ان کی عادت نہیں تو ان کا معاملہ آپ کو غمزدہ نہ کر دے۔ آل عمران
185 اس آیت کریمہ میں دنیا میں زہد کی ترغیب دی گئی ہے کہ یہ دنیا فانی ہے اور باقی نہیں رہے گی، یہ محض دھوکے کا سامان ہے یہ اپنی چکا چوند، اپنے غرور اور اپنی ظاہری خوبصورتی سے انسان کو دھوکے میں مبتلا کرتی ہے۔ پھر یہ دنیا ختم ہوجائے گی اور اس میں رہنے والے آخرت کے ٹھکانے میں منتقل ہوجائیں گے جہاں ہر نفس کو اچھے یا برے عمل کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا جو اس نے اس دنیا میں کئے ہیں۔﴿ فَمَن زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ ﴾ ” جسے آگ سے بچا کر جنت میں بھیج دیا گیا پس وہ کامیاب ہوگیا۔“ یعنی درد ناک عذاب سے نجات حاصل کر کے اور نعمتوں سے لبریز جنتوں میں پہنچ کر اس نے عظیم کامیابی حاصل کی۔ ان جنتوں میں ایسی ایسی نعمتیں ہوں گی جو کسی آنکھ نے دیکھی ہیں نہ کسی کان نے سنی ہیں اور نہ کسی بشر کے دل میں ان کے تصور کا گزر ہوا ہے۔ اس آیت کریمہ کا مفہوم مخالف یہ ہے کہ جس کسی کو جہنم کی آگ سے ہٹا کر جنت میں داخل نہ کیا گیا، وہ کامیابی سے محروم ہوگیا۔ بلکہ ابدی شقاوت اور سرمدی عذاب میں مبتلا کردیا گیا۔ نیز اس آیت کریمہ میں برزخ کی نعمتوں کی طرف ایک لطیف اشارہ ہے، لوگوں کو ان کے اعمال کا کچھ بدلہ برزخ میں بھی دیا جائے گا ان کے اعمال کے کچھ نمونے ان کے سامنے پیش کئے جائیں گے۔ یہ لطیف اشارہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے مستنبط ہوتا ہے۔﴿ وَإِنَّمَا تُوَفَّوْنَ أُجُورَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۖ ﴾ یعنی اعمال کی کامل جزا تو قیامت کے روز ہی ملے گی البتہ اس سے کم تر جزا برزخ میں عطا ہوگی بلکہ بسا اوقات اس سے بھی پہلے کبھی کبھی یہ جزا دنیا ہی میں عطا ہوجاتی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ﴿وَلَنُذِيقَنَّهُم مِّنَ الْعَذَابِ الْأَدْنَىٰ دُونَ الْعَذَابِ الْأَكْبَرِ﴾ (السجدہ :32؍21) ” ہم ان کو آخرت کے بڑے عذاب کے علاوہ دنیا کے عذاب کا مزا بھی چکھائیں گے۔ “ آل عمران
186 اللہ تبارک و تعالیٰ اہل ایمان کو مخاطب کرتے ہوئے آگاہ فرماتا ہے کہ انہیں ان کے اموال میں اللہ کی راہ میں واجب اور مستحب نفقات کے ذریعے سے آزمایا جائے گا اور خو دان کو ایسی بوجھل تکالیف میں مبتلا کیا جائے گا جو اکثر لوگوں کے لیے ناقابل برداشت ہوتی ہیں مثلاً جہاد فی سبیل اللہ، جہاد میں مشقت، قتل، اسیری اور زخموں سے واسطہ پڑتا ہے اور مثلاً امراض جو خود اسے یا اس کے کسی محبوب فرد کو لاحق ہوجاتے ہیں۔ ﴿وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ وَمِنَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا أَذًى كَثِيرًا﴾یعنی تمہیں اہل کتاب اور مشرکین کی طرف سے خود تمہاری ذات، تمہارے دین، تمہاری کتاب اور تمہارے رسول کے بارے میں طعنے سننے پڑیں گے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان امور کے بارے میں اپنے مومن بندوں کو آگاہ کرنے میں متعدد فوائد ہیں۔ ١۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کی حکمت اس کا تقاضا کرتی ہے تاکہ مومن صادق اور دیگر لوگوں کے درمیان امتیاز واقع ہوجائے۔ ٢۔ جب اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کے ساتھ بھلائی چاہتا ہے تو وہ ان کے لیے شدائد اور تکالیف کو مقدر کردیتا ہے تاکہ وہ ان کے درجات بلند کرے اور ان کی برائیوں کو مٹا دے اور تاکہ ان کے ایمان میں اضافہ ہو اور ان کے ایقان کی تکمیل ہو۔ جب اللہ تعالیٰ نے اس کے بارے میں آگاہ فرمایا اور وہ اسی طرح واقع بھی ہوا جس طرح اللہ تعالیٰ نے خبر دی تھی۔ ﴿ قَالُوا هَـٰذَا مَا وَعَدَنَا اللَّـهُ وَرَسُولُهُ وَصَدَقَ اللَّـهُ وَرَسُولُهُ ۚ وَمَا زَادَهُمْ إِلَّا إِيمَانًا وَتَسْلِيمًا ﴾ (الاحزاب :33؍ 22) ” تو کہنے لگے یہ وہی ہے جس کا اللہ اور اس کے رسول نے ہمارے ساتھ وعدہ فرمایا تھا۔ اللہ اور اس کے رسول نے سچ کہا اس سے ان کے ایمان میں اضافہ اور تسلیم و رضا زیادہ ہوگئی۔ “ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو اس کی خبر دی تاکہ ان کے نفوس اس قسم کے شدائد برداشت کرنے کے لیے آمادہ ہوں اور جب سختیاں آن پڑیں تو ان پر صبر کریں۔ کیونکہ جب شدائد کا مقابلہ کرنے کے لیے صبر تیار ہوں گے تو ان کا برداشت کرنا ان کے لیے آسان ہوجائے گا اور ان کا بوجھ ہلکا لگے گا، تب وہ صبر اور تقویٰ کی پناہ لیں گے۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿وَإِن تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا  ﴾ یعنی تمہاری جان و مال میں تم جس ابتلاء و امتحان میں پڑے ہوئے ہو اور تمہیں ظالموں کی اذیتوں کا جو سامنا کرنا پڑا ہے اگر تم اس پر صبر کرو اور اس صبر میں تقویٰ کا التزام یعنی اس صبر میں اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے تقرب کی نیت رکھو اور اپنے صبر میں صبر کی شرعی حدود سے تجاوز نہ کرو یعنی ایسے مقام پر صبر نہ کرو جہاں صبر کرنا جائز نہ ہو بلکہ وہاں تمہارا کام اللہ تعالیٰ کے دشمنوں سے انتقام لینا ہو ﴿ فَإِنَّ ذٰلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ  ﴾ تو اس کا شمار ایسے امور میں ہوتا ہے جس پر عزم کیا جاتا ہے اور جس میں رغبت کے لیے سبقت کی جاتی ہے اور اس کی توفیق صرف انہیں عطا ہوتی ہے جو باعزم اور بلند ہمت لوگ ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا الَّذِينَ صَبَرُوا وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا ذُو حَظٍّ عَظِيمٍ ﴾ (فصلت :41؍ 35) ” یہ بات صرف ان لوگوں کو حاصل ہوتی ہے جو صبر کرتے ہیں اور اس بات سے صرف وہ لوگ بہرہ ور ہوتے ہیں جو نصیب والے ہیں۔ “ آل عمران
187 ﴿مِيثَاقَ﴾ اس عہد کو کہتے ہیں جو بہت موکد اور بھاری ذمہ داری کا حامل ہو۔ یہ عہد اللہ تعالیٰ نے ہر اس شخص سے لیا ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے کتاب عطا کی اور اسے علم سے نوازا۔ اس سے یہ عہد لیا کہ لوگ اس کے علم میں سے جس چیز کے محتاج ہوں وہ ان کے سامنے بیان کرے اور ان سے کوئی چیز نہ چھپائے اور نہ علم بیان کرنے میں بخل سے کام لے خاص طور پر جب اس سے کوئی مسئلہ پوچھا جائے یا کوئی ایسا واقعہ پیش آجائے جو علمی راہنمائی کا متقاضی ہو۔ پس اس صورتحال میں ہر صاحب علم پر فرض ہے کہ وہ مسئلہ کو بیان کر کے حق اور باطل کو واضح کر دے۔ اور جن لوگوں کو اللہ نے توفیق سے نوازا ہے، وہ اس ذمہ داری کو پوری طرح نبھاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے جو علم ان کو عطا کیا وہ اسے اللہ کی رضا کی خاطر لوگوں پر شفقت کی وجہ سے اور کتمان علم کے گناہ سے ڈرتے ہوئے لوگوں کو سکھاتے ہیں۔ رہے وہ لوگ جن کو کتاب عطا کی گئی یعنی یہود و نصاریٰ اور ان جیسے دیگر لوگ تو انہوں نے اس عہد اور میثاق کو پیٹھ پیچھے پھینک دیا اور اس میثاق کی انہوں نے پروا نہیں کی۔ پس انہوں نے حق کو چھپا لیا اور باطل کو ظاہر کیا، حقوق اللہ اور حقوق العباد کو حقیر سمجھتے ہوئے محرمات کے ارتکاب کی جرأت کی اور اس کتمان حق کے بدلے بہت معمولی قیمت لی۔ وہ یہ تھی کہ انہیں کتمان حق کی بنا پر سرداری حاصل ہوئی اور ان کے گھٹیا پیروکاروں کی طرف سے، جو ان کی خواہشات کی پیروی کرتے تھے اور حق پر خواہشات کو مقدم رکھتے تھے، ان کو حقیر سے مال کے نذرانے پیش ہوتے تھے۔ ﴿فَبِئْسَ مَا يَشْتَرُونَ  ﴾” پس کتنا برا ہے جو وہ خریدتے (حاصل کرتے) ہیں‘‘ کیونکہ یہ خسیس ترین معاوضہ ہے جو انہوں نے حاصل کیا ہے اور جس حق کے بیان کرنے سے انہوں نے روگردانی کی، اس حق میں ان کی ابدی سعادت، دینی اور دنیاوی مصالح موجود ہیں اور یہ حق سب سے بڑا اور جلیل ترین مطلوب و مقصود ہے۔ پس انہوں نے محض اپنی بدنصیبی اور ذلت کی بنا پر عالی مرتبہ دین کو چھوڑ کر گھٹیا طریق زندگی اختیار کرلیا، نیز اس لیے بھی کہ انہوں نے وہی چیز اختیار کرلی جس کے لیے وہ پیدا ہوئے تھے۔ آل عمران
188 پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَفْرَحُونَ بِمَا أَتَوا  ﴾ ” آپ ان کی نسبت خیال نہ کریں جو اپنے (ناپسندیدہ) کاموں سے خوش ہوتے ہیں۔“ یعنی وہ جن قبیح امور اور قولی اور فعلی باطل کا ارتکاب کرتے ہیں ﴿ وَّيُحِبُّونَ أَن يُحْمَدُوا بِمَا لَمْ يَفْعَلُوا ﴾ یعنی اس بھلائی کی وجہ سے ان کی تعریف کی جائے جو انہوں نے کبھی نہیں کی اور اس حق کی وجہ سے ان کی تعریف کی جائے جو انہوں نے کبھی نہیں بولا۔ پس انہوں نے برائی کے قول و فعل اور اس پر اظہار فرحت کو یکجا کردیا۔ وہ چاہتے تھے کہ بھلائی کے اس کام پر ان پر تعریف کے ڈونگرے برسائے جائیں جو انہوں نے کیا ہی نہیں۔ فرمایا : (فَلَا تَحْسَبَنَّهُم بِمَفَازَةٍ مِّنَ الْعَذَابِ) یعنی وہ یہ نہ سمجھیں کہ انہیں عذاب سے نجات اور سلامتی حاصل ہوگئی ہے بلکہ وہ تو عذاب کے مستحق ہوگئے ہیں عنقریب انہیں عذاب میں ڈالا جائے گا۔ اسی لیے فرمایا ﴿وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ  ﴾” ان کے لیے درد ناک عذاب ہے۔ “ اس آیت کریمہ کی وعید میں وہ اہل کتاب شامل ہیں جو اس بات پر خوش ہیں کہ ان کے پاس علم ہے درآں حالیکہ انہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت نہ کی اور وہ اس زعم باطل میں مبتلا رہے کہ وہ اپنے حال و مقال میں حق پر ہیں۔ اسی طرح ہر وہ شخص بھی اس وعید میں شامل ہے جو کوئی قولی یا فعلی بدعت ایجاد کرتا ہے اور اس پر خوش ہوتا ہے اور پھر اس بدعت کی طرف لوگوں کو دعوت دیتا ہے اور وہ اس بارے میں اپنے موقف کو حق اور دوسروں کے موقف کو باطل سمجھتا ہے جیسا کہ اہل بدعت کا وتیرہ ہے۔ اس آیت کریمہ کا مفہوم مخالف دلالت کرتا ہے کہ اگر کوئی شخص خواہش کرتا ہے کہ نیکی کے کام اور اتباع حق اس کی تعریف کی جائے جبکہ اس سے اس کا مقصد ریاء اور شہرت نہ ہو تو یہ مذموم نہیں۔ بلکہ اس کا شمار تو ان امور میں ہوتا ہے جو مطلوب و مقصود ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا ہے کہ وہ ان نیکیوں کی بنا پر نیکو کاروں کو ان کے قول و فعل کا بدلہ دیتا ہے۔ اس نے اپنے خاص بندوں کو ان نیکیوں پر جزا سے نوازا ہے اور ان خاص بندوں نے اللہ تعالیٰ سے ان نیکیوں کا سوال کیا ہے۔ جیسا کہ حضرت ابراہیم نے اللہ تعالیٰ سے عرض کی ﴿وَاجْعَل لِّي لِسَانَ صِدْقٍ فِي الْآخِرِينَ ﴾ (الشعراء :26؍ 84) ” اور پچھلے لوگوں میں میرا نیک ذکر جاری کر۔“ اور جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ سَلَامٌ عَلَىٰ نُوحٍ فِي الْعَالَمِينَ إِنَّا كَذٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ ﴾ (الصافات :37؍79،80) ” تمام جہان میں نوح پر سلام ہو۔ ہم نیکو کاروں کو اسی طرح بدلہ دیتے ہیں۔“ رحمٰن کے بندوں نے عرض کی ﴿وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا ﴾ (الفرقان :25؍74) ” اور ہمیں متقی لوگوں کا امام بنا۔“ یہ اپنے بندے پر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور اس کے احسان کا فیضان ہے جن پر اللہ تعالیٰ کے شکر کی ضرورت ہے۔ آل عمران
189 یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ تمام آسمانوں اور زمین اور ان میں موجود تمام مخلوق کا مالک ہے اور وہی اپنی قدرت کاملہ اور انوکھی ربوبیت کے ذریعے سے ان پر تصرف کرتا ہے کوئی اس کے دائرہ اختیار سے باہر نہیں اور کوئی اسے عاجز ولا چار نہیں کرسکتا۔ آل عمران
190 اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿ِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَآيَاتٍ لِّأُولِي الْأَلْبَابِ ﴾ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے بندوں کو ترغیب دی ہے کہ وہ اس کی آیات میں غور و فکر اور اس کی مخلوق میں تدبر کیا کریں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے ارشاد : ﴿لَآيَاتٍ ﴾ کو مبہم رکھا ہے اور یہ نہیں فرمایا کہ فلاں معاملے میں اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں غور و فکر کرو اور یہ آیات کے عموم اور ان کی کثرت پر اشارہ ہے کیونکہ اس کائنات میں عجیب و غریب نشانیاں ہیں جو دیکھنے والوں کو متحیر اور غور و فکر کرنے والوں کو عاجز کردیتی ہیں جو اہل صدق کے دلوں کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہیں اور عقل روشن کو تمام مطالب الٰہیہ کی طرف متوجہ کرتی ہیں یہ آیات جن تفصیلات پر مشتمل ہیں ان کو احاطہ شمار میں لانا مخلوق کے بس میں نہیں البتہ مخلوق ان میں سے بعض چیزوں کا احاطہ کرسکتی ہے مجمل طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس کائنات کی عظمت، وسعت، اور اس کی حرکت و رفتار کا ایک نظم کے تحت ہونا، اس کے خالق کی عظمت پر دلالت کرتا ہے نیز اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس کا تسلط وغلبہ اور اس کی قدرت سب کو شامل ہے۔ اس کائنات کا محکم اور مضبوط انداز، اس میں نت نئی تخلیقات اور انوکھے افعال اللہ تعالیٰ کی حکمت اور اس کے علم کی وسعت پر دلالت کرتے ہیں نیز اس بات پر دلیل ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو اس کے صحیح مقام پر رکھا ہے۔ اس کائنات میں مخلوق کے لیے جو فوائد ہیں وہ اس حقیقت پر دلالت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت بہت وسیع، اس کا فضل عام، اس کا احسان سب کو شامل اور اس کا شکر واجب ہے۔ یہ تمام امور اس پر دلالت کرتے ہیں کہ قلب کے اپنے خلاق اور پیدا کرنے والے کے ساتھ تعلق جوڑنے اور اس کی رضا کے حصول کے لیے پوری کوشش ہونی چاہئے اور اس کے ساتھ کسی ایسی ہستی کو شریک نہ ٹھہرایا جائے جو خود اپنی ذات اور زمین و آسمان میں ذرہ بھر کی بھی مالک نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان آیات کے ساتھ صرف عقل مندوں کو مخصوص کیا ہے کیونکہ یہی لوگ ان آیات سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور عقل مند لوگ ہی اپنی آنکھوں کی بجائے اپنی عقل کے ذریعے سے غور و فکر کرتے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان عقل مند لوگوں کا وصف بیان کرتے ہوئے فرمایا :﴿يَذْكُرُونَ اللَّـهَ ﴾وہ اپنے تمام احوال میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے ہیں۔ آل عمران
191 ﴿قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَىٰ جُنُوبِهِمْ  ﴾ یہ قلبی و قولی ذکر اور ذکر کی تمام انواع کو شامل ہے اور اس میں کھڑے ہو کر نماز پڑھنا، اگر کھڑے ہونے کی طاقت نہ ہو تو بیٹھ کر اگر بیٹھنے کی طاقت نہ ہو تو لیٹ کر نماز پڑھنا بھی شامل ہے۔ نیز ﴿وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ﴾وہ زمین و آسمان کی تخلیق پر غور و فکر کرتے یعنی ان سے ان کی تخلیق کے مقصد پر استدلال کرتے ہیں۔ نیز یہ اس بات کی دلیل ہے کہ کائنات میں غور و فکر کرنا عبادت ہے اور عارفین اولیاء اللہ کی صفت ہے۔ جب وہ اس کائنات میں غور و فکر کرتے ہیں تو انہیں اس حقیقت کی معرفت حاصل ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو عبث پیدا نہیں کیا، پس وہ پکار اٹھتے ہیں ﴿ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَـٰذَا بَاطِلًا سُبْحَانَكَ ﴾ تیری ذات ہر اس وصف سے پاک ہے جو تیرے جلال کے لائق نہیں، تو نے اسے حق کے ساتھ حق کے لیے بلکہ حق پر مشتمل پیدا کیا ہے۔﴿فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ﴾ ’’پس تو ہمیں جہنم سے بچا“ بایں طور کہ ہمیں برائیوں سے بچا اور نیک اعمال کی توفیق عطا کر، تاکہ اس کے ذریعے سے ہم جہنم کی آگ سے نجات حاصل کرسکیں۔ یہ دعا جنت کے سوال کو بھی متضمن ہے۔ کیونکہ جب اللہ تعالیٰ انہیں جہنم کے عذاب سے بچا لے گا تو انہیں جنت حاصل ہوجائے گی۔ مگر جب ان کے دلوں پر خوف چھا گیا تو انہوں نے ان امور کی دعا مانگی جو ان کے لیے زیادہ اہم تھے۔ آل عمران
192 ﴿رَبَّنَا إِنَّكَ مَن تُدْخِلِ النَّارَ فَقَدْ أَخْزَيْتَهُ ۖ ﴾ ” اے ہمارے رب ! جس کو تو نے دوزخ میں ڈال دیا، تو اس کو تو نے رسوا کردیا“ یعنی اللہ تعالیٰ اس کے فرشتوں اور اس کے اولیاء کو ناراض کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس کو رسوا کیا اور اسے نصیحت میں مبتلا کردیا۔ جس سے نجات کی کوئی راہ ہے نہ اس سے کوئی بچانے والا ہے۔ اسی لیے فرمایا :﴿وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنصَارٍ  ﴾” ظالموں کا کوئی مددگار نہ ہوگا“ جو انہیں اللہ کے عذاب سے بچا سکے۔ اس آیت کریمہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اپنے ظلم کی وجہ سے جہنم میں داخل ہوئے ہیں۔ آل عمران
193 اللہ تبارک و تعالیٰ نے نقل فرمایا :﴿رَّبَّنَا إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِيًا يُنَادِي لِلْإِيمَانِ ﴾ ” اے ہمارے رب ! ہم نے ایک منادی کو سنا جو ایمان لانے کی دا دیتا ہے“ ایمان کی منادی دینے والے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جو لوگوں کو ایمان کی دعوت دیتے ہیں اور اس کے اصول و فروع میں ان کو ترغیب دیتے ہیں ﴿فَآمَنَّا﴾ پس ہم نے جلدی سے آگے بڑھ کر ان کی دعوت پر لبیک کہا۔ اس آیت کریمہ کریمہ میں ان پر اللہ تعالیٰ کے احسان، اس کی نعمت پر اظہار فخر اور اس ایمان کو اپنے گناہوں کی بخشش اور برائیوں کو مٹانے کے لیے وسیلہ بنانے کی خبر ہے۔ کیونکہ نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں۔ وہ ہستی جس نے انہیں ایمان سے نوازا ہے وہی انہیں کامل ایمان سے نوازے گی۔ ﴿ وَتَوَفَّنَا مَعَ الْأَبْرَارِ  ﴾” اور ہمیں نیک لوگوں کے ساتھ موت دے“ یہ دعا اس بات کو متضمن ہے کہ نیکی کرنا اور برائی کو ترک کرنا اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ہوتا ہے جس کی بنا پر بندہ ” ابرار“ میں شمار ہوتا ہے اور اس توفیق کی بنا پر نیکی کرنے اور برائی چھوڑنے پر اپنی موت تک ہمیشہ ثابت قدم رہتا ہے۔ آل عمران
194 جب انہوں نے ایمان کے لیے اللہ تعالیٰ کی توفیق اور تکمیل نعمت کے لیے اس ایمان کو وسیلہ بنانے کا ذکر کیا تو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے اس پر اجر و ثواب کا سوال کیا اور دعا کی کہ وہ اپنی فتح و نصرت، دنیا میں غلبہ اور آخرت میں جنت اور اپنی رضا کا وہ وعدہ پورا کر دے جو اس نے اپنے نیوں اور رسولوں کی زبانی کیا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا اور تضرع و زاری کو قبول فرما لیا۔ آل عمران
195 اللہ تعالیٰ نے ان کی دعائے عبادت اور دعائے طلب، (دونوں دعائیں) قبول فرما لیں اور فرمایا : ﴿ أَنِّي لَا أُضِيعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنكُم مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ ﴾ ” میں کسی عمل کرنے والے کا عمل ضائع نہیں کرتا، وہ مرد ہو یا عورت“ پس تمام لوگ اپنے اعمال کا پورا پورا اور وافر اجر پائیں گے۔۔۔ تم میں سے تمام لوگ (خواہ مرد ہوں یا عورت) ثواب اور عقاب میں مساوی ہیں۔ ﴿فَالَّذِينَ هَاجَرُوا وَأُخْرِجُوا مِن دِيَارِهِمْ وَأُوذُوا فِي سَبِيلِي وَقَاتَلُوا وَقُتِلُوا  ﴾” وہ لوگ جنہوں نے ہجرت کی اور اپنے گھروں سے نکال دیئے گئے اور جنہیں میری راہ میں ایذا دی گئی اور جنہوں نے جہاد کیا اور شہید کردیئے گئے“ پس انہوں نے ایمان، ہجرت اور اپنے رب کی رضا کی خاطر اپنے وطن اور مال و متاع جیسی محبوب چیزوں سے مفارقت کو جمع کردیا نیز انہوں نے اللہ کے راستے میں جہاد کیا۔﴿لَأُكَفِّرَنَّ عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ وَلَأُدْخِلَنَّهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ثَوَابًا مِّنْ عِندِ اللَّـهِ ﴾” میں بالضرور ان کی برائیاں ان سے دور کروں گا اور بالضرور انہیں ان جنتوں میں لے جاؤں گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، بدلہ اللہ کی طرف سے“ جو اپنے بندے کو اس کے بہت تھوڑے سے عمل پر بہت زیادہ ثواب عطا کرتا ہے ﴿وَاللَّـهُ عِندَهُ حُسْنُ الثَّوَابِ  ﴾ ” اور اللہ کے پاس ہی بہترین اجر و ثواب ہے“ ایسا ثواب جو کسی آنکھ نے دیکھا ہے نہ کسی کان نے سنا ہے اور نہ کسی بشر کے دل میں اس کے تصور کا گزر ہوا ہے۔ پس جو کوئی اس ثواب کے حصول کا ارادہ رکھتا ہے وہ حسب استطاعت اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور اس کے تقرب کے ذریعے اس سے یہ ثواب طلب کرے۔ آل عمران
196 اس آیت کریمہ میں اہل ایمان کو اس بارے میں تسلی دینا مقصود ہے کہ کفار کو جو دنیا کی نعمتیں، دنیا کی متاع، شہروں پر ان کا تصرف، مختلف قسم کی تجارتیں، مکاسب، انواع و اقسام کی لذات، اقتدار کی مختلف صورتیں اور بعض اوقات اہل ایمان پر ان کا غلبہ یہ تمام چیزیں اگر یہ مقدر کرلیا جائے کہ انہیں دنیا میں ہر قسم کی تکلیف، شدت، عناد اور مشقت کا سامنا کرناپڑا تو یہ جنت میں ہمیشہ رہنے والی نعمتیں، کدورتوں سے سلامت زندگی، بے پایاں مسرت، خوشی اور ترو تازگی کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔ یہ تو محنت کی صورت میں نوازش ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَمَا عِندَ اللَّـهِ خَيْرٌ لِّلْأَبْرَارِ ﴾ ” اور جو اللہ کے پاس ہے وہ ابرار کے لیے بہتر ہے“ اور (ابرار) وہ لوگ ہیں جن کے دل پاک اور اطاعت گزار ہوں اور ان کے اقوال و افعال بھی نیک ہوں۔ پس بھلائی کرنے والا اللہ مہربان اپنی عنایت سے انہیں اجر عظیم، بہت بڑی عطا و بخشش اور دائمی فوز و فلاح عطا کرے گا۔ آل عمران
197 ﴿مَتَاعٌ قَلِيلٌ  ﴾ ” بہت ہی تھوڑا فائدہ ہے“ بے ثبات ہیں باقی رہنے والی نہیں ہیں۔ بلکہ حقیقت حال یہ ہے کہ وہ اس متاع قلیل سے بہت تھوڑا فائدہ اٹھائیں گے اور اس کی وجہ سے بہت ہی طویل عذاب بھگتیں گے۔ یہ کافر کی بلند ترین حالت ہے اور آپ نے دیکھ لیا ہے کہ اس کا ٹھکانا کیا ہوگا آل عمران
198 اور جو لوگ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے اور اس پر ایمان رکھتے ہیں انہیں دنیا کی عزت اور دنیا کی نعمتوں کے حصول کے ساتھ ساتھ ﴿لَهُمْ جَنَّاتٌ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ﴾ ” ان کے لیے جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی، ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ “ آل عمران
199 یعنی اہل کتاب میں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جنہیں بھلائی کی توفیق عطا کی گئی ہے، جو اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہیں وہ اس کتاب پر بھی ایمان رکھتے ہیں جو تم پر نازل کی گئی اور اس پر بھی جو ان کی طرف نازل کی گئی اور یہی وہ ایمان ہے جو نفع پہنچاتا ہے اور اس شخص کے ایمان کی مانند نہیں، جو بعض رسولوں اور کتابوں پر ایمان لاتا ہے اور بعض کا انکار کرتا ہے۔ بنا بریں، چونکہ ان کا ایمان عام اور حقیقت پر مبنی ہے اس لیے یہ نفع پہنچانے والا ہے، یہ ایمان ان کے دلوں میں خشیت الٰہی اور اللہ تعالیٰ کے جلال کے سامنے خشوع و خضوع پیدا کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے اوامرو نواہی پر عمل کرنے اور اس کی مقرر کردہ حدود پر رک جانے کا موجب ہے۔ یہی لوگ درحقیقت اہل کتاب اور اہل علم ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : ﴿ إِنَّمَا يَخْشَى اللَّـهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ ۗ﴾ (فاطر :35؍28) ” اللہ تعالیٰ سے تو اس کے بندوں میں سے صرف وہی لوگ ڈرتے ہیں جو علم رکھتے ہیں۔“ اور کامل خشیت الٰہی یہ ہے کہ ﴿لَا يَشْتَرُونَ بِآيَاتِ اللَّـهِ ثَمَنًا قَلِيلًا ﴾ ” وہ اللہ کی آیات کو معمولی قیمت پر نہیں بیچتے“ پس دین پر دنیا کو ترجیح نہیں دیتے، جیسا کہ اہل انحراف کا وتیرہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ ہدایت کو چھپاتے ہیں اور اس کے بدلے بہت معمولی قیمت حاصل کرتے ہیں۔ لیکن یہ اہل کتاب، تو انہوں نے معاملہ کی حقیقت کو پہچان لیا ہے اور انہیں معلوم ہوگیا ہے کہ دین سے کم تر چیز پر راضی ہونا، نفس کے بعض سفلی حظوظ کے ساتھ ٹھہرنا اور حق کو ترک کرنا جو دنیا و آخرت میں سب سے بڑا حظ اور فوز و فلاح کا ضامن ہے۔۔۔ سب سے بڑا خسارہ ہے، اس لیے وہ حق کو مقدم رکھتے ہیں، اس کو بیان کرتے ہیں اور اس کی طرف دعوت دیتے ہیں اور باطل سے ڈراتے اور بچاتے ہیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ بدلہ دیا ہے کہ اس نے ان کے لیے اجر عظیم اور ثواب جمیل کا وعدہ کیا ہے اور اپنے قرب کی خبر دی ہے نیز آگاہ فرمایا ہے کہ وہ بہت جلد حساب لینے والا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان سے جو عدہ کیا ہے اس میں دیر نہ سمجھیں یہ وعدہ پورا ہونے والا ہے اور اس کا حصول متحقق ہوچکا ہے۔ پس یہ وعدہ بہت قریب ہے۔ آل عمران
200 پھر اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو اس چیز کی ترغیب دی ہے جو انہیں فوز و فلاح کی منزل پر پہنچاتی ہے اور وہ ہے سعادت اور کامیابی۔ اس سعادت تک پہنچانے والا راستہ صبر کا التزام ہے اور صبر کیا ہے؟ نفس انسانی کو ایسی چیز پر روکے رکھنا جو اس کو ناپسند ہو، جیسے گناہ کا چھوڑ دینا، مصائب پر صبر کرنا اور نفوس کو ان پر گراں گزرنے والے اوامر پر روکے رکھنا۔ اللہ تعالیٰ نے مذکورہ تمام امور پر صبر کرنے کا حکم دیا ہے۔ (مصابرہ) صبر کے دائمی اور مسلسل التزام ہے اور تمام احوال میں دشمن کا مقابلہ کرنے کا نام ہے۔ (مرابطۃ) سے مراد اس مقام پر جمے رہنا جہاں سے دشمن کے آنے کا خطرہ ہو۔ نیز یہ کہ اہل ایمان دشمنوں سے ہوشیار رہیں اور ان کو اپنا مقصد حاصل نہ کرنے دیں۔۔۔ شاید وہ فلاح پالیں یعنی دینی، دنیاوی اور اخروی محبوب شے کے حاصل کرنے میں وہ کامیاب ہوجائیں اور اسی طرح ناپسندیدہ چیزوں سے نجات پا لیں۔ اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ صرف صبر، صبر پر دوام اور دشمن سے ہمیشہ ہوشیار رہنا ہی فلاح کا راستہ ہے۔ جس کسی نے فلاح پائی تو اسی راستہ پر چل کر فلاں پائی اور جو کوئی اس فلاح سے محروم ہوا تو ان تمام امور کو یا ان میں سے بعض کو ترک کر کے محروم ہوا۔ واللہ الموفق ولاحول ولا قوة الا باالله۔ آل عمران
0 النسآء
1 اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس سورت کا افتتاح تقویٰ کے حکم، اپنی عبادت کی تاکید اور صلہ رحمی کے حکم اور اس کی تاکید سے کیا ہے۔ اور ان اسباب کو بیان کیا ہے جو ان تمام امور کے موجب ہیں اور تقویٰ کا موجب یہ ہے ﴿رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم ﴾” وہ تمہارا رب ہے جس نے تمہیں پیدا کیا“ تمہیں رزق عطا کیا اور بڑی بڑی نعمتوں کے ذریعے سے تمہاری تربیت کی اور ان جملہ نعمتوں میں سے ایک نعمت یہ ہے کہ اس نے تمہیں پیدا کیا ﴿مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا  ﴾ ” ایک ہی جان سے اور اس سے اس کا جوڑا پیدا کیا“ تاکہ وہ اس کے مشابہ اور مناسب ہو اور اسے اس کے پاس سکون حاصل ہو، اس سے اللہ تعالیٰ کی نعمت کی تکمیل ہو اور اس سے فرحت و سرور حاصل ہو۔ اسی طرح تقویٰ کا موجب اور اس کا داعی اس کے نام پر تمہارا ایک دوسرے سے سوال کرنا اور تمہارا تعظیم کرنا ہے۔ حتیٰ کہ جب تم اپنی کوئی ضرورت پوری کرنا چاہتے ہو تو تم اپنے سوال میں اس کا وسیلہ اختیار کرتے ہو۔ پس جو کوئی دوسرے کے لیے یہ چاہتا ہے تو وہ کہتا ہے ” میں اللہ کے نام پر تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ تو فلاں کام کر“ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس کے دل میں اللہ تعالیٰ کی عظمت جا گزیں ہے جو اس بات کی متقاضی ہے کہ وہ کسی ایسے شخص کو رد نہ کرے جو اللہ تعالیٰ کے نام پر سوال کرتا ہے جیسا کہ تم نے اس کی اس ذریعہ سے تعظیم کی ہے پس تمہیں چاہئے کہ تم اس کی عبادت اور تقویٰ کے ذریعے سے اس کی تعظیم کرو۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے یہ بھی آگاہ فرمایا ہے کہ وہ نگہبان ہے وہ بندوں کی حرکات و سکنات، ان کے کھلے چھپے تمام احوال میں ان کی خبر رکھتا ہے اور ان احوال میں ان کا نگہبان ہے اللہ تعالیٰ کا نگہبان ہونا جن امور کا موجب بنتا ہے ان میں تقویٰ کے التزام کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ سے حیا کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی اس خبر میں کہ اس نے انہیں ایک جان سے تخلیق کیا ہے اور اس نے ان کو روئے زمین کے کناروں تک پھیلایا جبکہ وہ ایک ہی اصل کی طرف لوٹتے ہیں۔۔۔ مقصد یہ ہے کہ بندے ایک دوسرے کے ساتھ مہربانی اور نرمی کے ساتھ پیش آیا کریں۔ اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کا حکم، صلہ رحمی کے حکم اور قطع رحمی کی ممانعت کے ساتھ ملا کر بیان فرمایا تاکہ یہ حق موکد ہوجائے۔ یعنی جس طرح حقوق اللہ کو قائم کرنا لازمی ہے اسی طرح حقوق العباد کو قائم کرنا بھی لازم ہے۔ خاص طور پر رشتہ داروں کے حقوق کا خیال رکھنا نہایت ضروری ہے۔ بلکہ رشتہ داروں کے حقوق کو قائم کرنا تو حقوق اللہ میں شمار ہوتا ہے جن کو قائم کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ غور کیجیے کہ اللہ نے کیسے اس سورت کا افتتاح تقویٰ کے اختیار کرنے، صلہ رحمی اور عمومی طور پر بیویوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کے حکم کے ساتھ کیا، پھر اس کے بعد اس سورت میں اس کی ابتدا سے لے کر انتہا تک ان تمام امور کی پوری تفصیلات بیان ہوئی ہیں گویا یہ سورۃ مبارکہ مذکورہ امور کی ان تفصیلات کو بیان کرتی ہے جن کو مجمل رکھا گیا تھا اور ان امور کو اضح کرتی ہے جو مبہم تھے۔ اللہ تبارک کے ارشاد﴿وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا  ﴾ ” اور پیدا کیا اس سے اس کا جوڑا“ میں شوہروں اور بیویوں کے حقوق کی مراعات پر تنبیہ ہے اور ان کو قائم کرنے کی طرف اشارہ ہے۔ کیونکہ بیویاں بھی شوہروں ہی کی صلب سے پیدا کی گئی ہیں۔ پس شوہروں اور بیویوں کے درمیان قریب ترین نسب، مضبوط ترین اتصال اور نہایت قوی رشتہ ہے۔ النسآء
2 اس سورۃ مبارکہ میں جن حقوق العباد کی تاکید کی گئی ہے، یہ ان میں سے پہلا حکم ہے اور وہ یتیم بچے ہیں جن کے باپ فوت ہوگئے ہیں جو ان کی کفالت کیا کرتے تھے۔ وہ بہت چھوٹے اور نہایت کمزور ہیں اپنے مصالح کی خود دیکھ بھال نہیں کرسکتے۔ بنا بریں اللہ رؤف و رحیم نے اپنے بندوں کو حکم دیا ہے کہ وہ ان یتیموں کے ساتھ اچھا سلوک کریں۔ ان کے مال کے قریب نہ جائیں مگر بھلے طریقے سے اور جب یہ بالغ اور سمجھ دار ہوجائیں تو ان کا پورے کا پورا مال ان کے حوالے کردیں۔ ﴿وَلَا تَتَبَدَّلُوا الْخَبِيثَ  ﴾ ” اور بدل نہ لو خبیث مال کو“ خبیث سے مراد ناحق یتیم کا مال کھانا ہے ﴿بِالطَّيِّبِ ﴾ طیب مال سے مراد حلال مال ہے جس میں کوئی حرج ہے نہ تاوان ﴿وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَهُمْ إِلَىٰ أَمْوَالِكُمْ﴾ یعنی ” تم اپنے اموال کے ساتھ ان کے اموال نہ کھاؤ۔ “ اس آیت کریمہ میں یتیموں کا مال کھانے کی قباحت پر دلیل ہے۔ اس حال میں جبکہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے خود اس کے مال میں رزق عطا کیا ہوتا ہے اور وہ اپنے مال کی وجہ سے یتیم کے مال سے مستغنی ہوتا ہے اور جو کوئی اس حال میں یتیم کا مال کھانے کی جرأت کرتا ہے تو وہ بہت بڑے گناہ کا ارتکاب کرتا ہے ﴿حُوبًا كَبِيرًا  ﴾ یعنی گناہ عظیم اور بہت بڑا بوجھ۔ خبیث کو طیب سے بدلنا یہ ہے کہ یتیم کا سرپرست یتیم کا نفیس مال خود رکھ لے اور اس کے بدلے میں اپنا گھٹیا مال یتیم کو دے دے۔ اس آیت کریمہ میں یتیم کی سرپرستی کی دلیل ہے۔ کیونکہ یتیم کو اس کا مال حوالے کرنے والے کی سرپرستی ثابت ہوتی ہے۔ اس میں اس بات کا بھی حکم ہے کہ یتیم کے مال کی اصلاح کی جائے کیونکہ یتیم کو اس کا پورا مال حوالے کرنے کے حکم میں از خود یہ بات آجاتی ہے کہ اس مال کی حفاظت کی جائے اس کی اصلاح اور نشو و نما کا انتظام کیا جائے اور اس کو تلف ہونے کے خطرات سے بچایا جائے۔ النسآء
3 یعنی اگر تمہیں اس بات کا خدشہ ہے کہ تم ان یتیم لڑکیوں کے بارے میں انصاف نہیں کرسکو گے جو تمہاری پرورش اور سرپرستی میں ہیں اور تمہیں ڈر ہے کہ ان کے ساتھ تمہاری محبت نہ ہونے کی وجہ سے تم ان کے حقوق ادا نہ کرسکو گے۔ تو تم ان کے علاوہ دوسری عورتوں کے ساتھ نکاح کرلو﴿مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ ﴾” عورتوں میں سے جو تمہیں اچھی لگیں“ یعنی، دین، مال، حسب و نسب اور حسن و جمال جیسی دیگر صفات جو نکاح کی ترغیب دیتی ہیں، ان صفات کی حامل عورتوں میں سے جس کے ساتھ نکاح کرنے کا اختیار حاصل ہو، اپنی خواہش اور صوابدید کے مطابق نکاح کرلو۔ نکاح کے انتخاب کے لیے بہترین صفت دین ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :” عورت سے چار صفات کی بنا پر نکاح کیا جاتا ہے، اس کے مال، اس کے حسن و جمال، اس کے حسب و نسب اور اس کے دین کی وجہ سے، تیرے ہاتھ خاک آلودہ ہوں، تو دین دار عورت سے نکاح کرنے کی کوشش کر۔“ [صحيح البخاري، النكاح، باب الأكفاء في الدين، ح: 509 و صحيح مسلم، النكاح، باب استحباب.... ح: 1466] اس آیت کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ انسان کے لیے مناسب یہ ہے کہ وہ نکاح سے قبل عورت کو منتخب کرلے۔ بلکہ شارع نے تو یہاں تک مباح کیا ہے کہ انسان جس عورت سے نکاح کرنا چاہتا ہے اسے ایک نظر دیکھ لے تاکہ یہ نکاح بصیرت کی بنیاد پر ہو پھر اللہ تعالیٰ نے عورتوں کی تعداد کا ذکر کیا ہے جن کے ساتھ نکاح کرنا مباح ہے، چنانچہ فرمایا:﴿ مَثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ ﴾ ” دو دو تین تین اور چار چار“ یعنی جو کوئی دو بیویاں رکھنا چاہتا ہے وہ دو دو بیویاں رکھ لے اگر تین بیویوں سے یا چار بیویوں سے نکاح کرنا چاہتا ہے تو تین یا چار سے نکاح کرلے۔ البتہ چار سے زیادہ عورتوں سے نکاح نہ کرے کیونکہ آیت کریمہ کا سیاق اللہ تعالیٰ کے احسان کو بیان کرنے کے لیے ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے جو عدد مقرر کردیا ہے بالاتفاق اس سے زیادہ بیویاں جائز نہیں۔ ایک سے زیادہ بیوی کی اجازت کی وجہ یہ ہے کہ بسا اوقات مرد کی شہوت ایک بیوی سے پوری نہیں ہوتی اس لیے یکے بعد دیگرے چار بیویاں جائز ہیں کیونکہ شاذ و نادر صورت کے سوا، چار بیویاں کافی ہوتی ہیں۔ یہ چار بیویاں بھی مرد کے لیے صرف اس وقت جائز ہیں جب وہ ظلم وجور کرنے سے محفوظ ہوا اور اسے یقین ہو کہ وہ چار بیویوں کے حقوق پورے کرسکے گا اور اسے ظلم و زیادتی اور حقوق کی عدم ادائیگی کا خدشہ ہو تو اسے صرف ایک ہی بیوی پر اکتفا کرنا چاہئے۔ یا اس کے ساتھ لونڈیوں پر اکتفا کرے۔ لونڈیوں میں وظیفہ زن و شو کی مساوی تقسیم واجب نہیں۔ ﴿ذٰلِکَ﴾ ” یہ“ یعنی ایک بیوی یا لونڈیوں پر اکتفا کرنا﴿أَدْنَىٰ أَلَّا تَعُولُوا﴾ ” اس بات کے زیادہ قریب ہے کہ تم ظلم نہ کرو۔“ اس آیت کریمہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ا گر بندے کو کوئی ایسا معاملہ پیش آجائے جہاں اسے ظلم و جور کے ارتکاب کا خدشہ ہو اور اسے اس بات کا خوف ہو کہ وہ اس معاملے کے حقوق پورے نہیں کرسکے گا۔ خواہ یہ معاملہ مباحات کے زمرے میں کیوں نہ آتا ہو تو اس کے لیے مناسب نہیں ہے کہ وہ اس معاملے میں کوئی تعرض کرے۔ بلکہ وہ اس میں بچاؤ اور عافیت کا التزام کرے۔ کیونکہ عافیت بہترین چیز ہے جو بندے کو عطا کی گئی ہے۔ النسآء
4 چونکہ اکثر لوگ اپنی بیویوں پر ظلم کرتے ہیں اور ان کے حقوق غصب کرلیتے ہیں۔ خاص طور پر حق مہر (اکثر) بہت زیادہ ہوتا ہے یہ مہر ایک ہی بار پورے کا پورا ادا کرنا باعث مشقت ہوتا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم دیا اور ان کو تاکید کی کہ وہ اپنی بیویوں کو مہر ادا کریں ﴿ صَدُقَاتِهِنَّ ﴾یعنی ان کے5 مہر﴿نِحْلَةً ۚ ﴾ یعنی ان کا مہر خوش دلی اور اطمینان قلب کے ساتھ ادا کرو۔ مہر ادا کرنے میں ٹال مٹول نہ کرو اور اسے ادا کرتے وقت اس میں کچھ کم نہ کرو۔ اس آیت کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر عورت مکلف (یعنی بالغ اور عاقل) ہو تو مہر اس کو ادا کردیا جائے گا اور عقد کے موقع پر عورت مہر کی مالک بن جاتی ہے۔ کیونکہ حق مہر کی اضافت اس کی طرف جاتی ہے اور اضافت تملیک کا تقاضا کرتی ہے۔ ﴿ فَإِن طِبْنَ لَكُمْ عَن شَيْءٍ مِّنْهُ ﴾ ” اگر وہ خود اپنی خوشی سے اس میں سے کچھ چھوڑ دیں“ یعنی حق مہر سے ﴿نَفْسًا  ﴾ یعنی اگر بیویاں برضاو رغبت مہر کا کچھ حصہ چھوڑ کر یا ادائیگی میں مہلت دے کر یا مہر کا کوئی عوض قبول کر کے شوہروں کے ساتھ نرمی کرتی ہیں ﴿فَكُلُوهُ هَنِيئًا مَّرِيئًا ﴾ ” تو کھاؤ تم اس کو ذوق شوق سے“ یعنی اس صورت میں تمہارے لیے کوئی حرج اور کوئی نقصان نہیں۔ اس آیت کریمہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ عورت بالغ اور عاقل ہے تو اپنے مال میں تصرف کا پورا اختیار رکھتی ہے۔ خواہ وہ صدقہ ہی کیوں نہ کر دے۔ لیکن اگر بالغ اور عاقل نہیں ہے تو اس کے عطیہ کا حکم معتبر نہیں نیز عورت کا سرپرست اس مہر میں سے کچھ حصہ لینے کا حق دار نہیں سوائے اس کے، کہ عورت برضا و رغبت خود اسے کچھ عطا کر دے۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد﴿ فَانكِحُوا مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ﴾میں اس بات کی دلیل ہے کہ خبیث یعنی ناپاک عورت سے نکاح مامور نہیں، بلکہ خبیث عورتوں سے نکاح کرنا منع ہے مثلاً مشرک اور فاسق وفا جر عورت سے۔۔۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :﴿وَلَا تَنكِحُوا الْمُشْرِكَاتِ حَتَّىٰ يُؤْمِنَّ ۚ﴾(البقرۃ : 2؍ 221) ” مشرک عورتوں سے نکاح نہ کرو جب تک کہ وہ ایمان نہ لے آئیں۔ اور فرمایا ﴿وَالزَّانِيَةُ لَا يَنكِحُهَا إِلَّا زَانٍ أَوْ مُشْرِكٌ ﴾ (النور :24؍ 3)’’بدکار عورت کے ساتھ ایک زانی اور مشرک مرد کے سوا کوئی نکاح نہیں کرتا۔ “ النسآء
5 ﴿السُّفَهَاءَ﴾ (سفیہ) کی جمع ہے اور (سفیہ) ایسے شخص کو کہا جاتا ہے جو بے عقل ہونے مثلاً پاگل وغیرہ یا عدم بلوغت جیسے چھوٹا بچہ اور بے سمجھ وغیرہ ہونے کی وجہ سے اپنے مال میں تصرف اور دیکھ بھال کی اہلیت سے محروم ہو۔ پس اللہ تعالیٰ نے ایسے بے عقل لوگوں کے سرپرستوں کو اس ڈر سے ان کا مال ان کے حوالے کرنے سے روک دیا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ وہ اس کو خراب یا تلف کردیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مال کو اپنے بندوں کے دینی اور دنیاوی مفادات و مصالح کی دیکھ بھال کے لیے بنایا ہے اور یہ بے سمجھ لوگ اس مال کی دیکھ بھال اور اس کی حفاظت سے قاصر ہیں۔ بنا بریں اللہ تبارک و تعالیٰ نے سرپرست کو حکم دیا ہے کہ وہ مال ان بے سمجھ لوگوں کے حوالے نہ کرے بلکہ وہ اس مال میں سے ان کے کھانے پینے اور کپڑے لتے کا انتظام کرے اور جو ان کی دینی اور دنیاوی ضروریات ہیں ان میں خرچ کرے اور ان سے اچھی بات ہی کہے۔ یعنی جب وہ اپنے مال کا مطالبہ کریں تو وہ ان سے وعدہ کرے کہ وہ ان کے بالغ اور عاقل ہوجانے کے بعد ان کا مال ان کو لوٹا دے گا اور ان کے دل جوئی کی خاطر ان سے نرم مقالی سے پیش آئے۔ اللہ تعالیٰ کا ان اموال کو سرپرستوں کی طرف مضاف کرنا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان بے سمجھ لوگوں کے مال کا اس طرح انتظام کرنا ان پر فرض ہے جس طرح وہ اپنے مال کا انتظام کرتے ہیں مثلاً مال کی حفاظت، اس میں تصرف اور اس مال کو خطرات سے بچانا وغیرہ۔ اس آیت کریمہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ پاگل، نابالغ اور بے عقل جب مال کے مالک ہوں تو ان پر انہی کے مال میں سے اخراجات کئے جائیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : ﴿وَارْزُقُوهُمْ فِيهَا وَاكْسُوهُمْ ﴾ ” اس مال میں سے ان کو کھلاتے اور پہناتے رہو۔“ نیز اس میں اس بات کی بھی دلیل ہے کہ کھانے پینے اور لباس وغیرہ کے ممکن حد تک اخراجات میں سرپرست کا قول اور اس کا دعویٰ قابل قبول ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو ان بے سمجھ لوگوں کے مال پر امین مقرر کیا ہے اور امین کا قول قابل قبول ہے۔ النسآء
6 یہاں (ابتلاء) سے مراد آزمائش و امتحان ہے اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ اس قریبی یتیم کو جس کے بارے میں توقع ہے کہ وہ اب سمجھ دار ہوگیا ہے، اس کے مال میں سے کچھ مال دے دیا جائے وہ اپنے لائق حال اس میں تصرف کرے اس طرح اس کی سمجھ داری واضح ہوجائے گی۔ اگر وہ اپنے تصرف میں مسلسل نا سمجھی کا ثبوت دے رہا ہو تو مال اس کے حوالے نہ کیا جائے اور اسے ناسمجھ ہی سمجھا جائے، خواہ وہ بہت بڑی عمر کو کیوں نہ پہنچ جائے۔ پھر جب اس کی سمجھ داری اور صلاحیت واضح ہوجائے اور وہ نکاح کی عمر کو پہنچ جائے ﴿فَادْفَعُوا إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ ۖ ﴾ ” تو ان کا مال (پورے کا پورا) ان کے حوالے کر دو“ ﴿وَلَا تَأْكُلُوهَا إِسْرَافًا ﴾ ” اور اس (مال) کو فضول خرچی سے نہ کھاؤ“ یعنی اس حد سے تجاوز کر کے، جس کو اللہ تعالیٰ نے تمہارے مال میں سے حلال ٹھہرایا ہے، ان کے مال میں نہ جاؤ جس کو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے حرام ٹھہرایا ہے ﴿وَبِدَارًا أَن يَكْبَرُوا ﴾” اور ان کے بڑے ہوجانے کے ڈر سے“ یعنی ان کی صغر سنی میں ان کا مال نہ کھاؤ جس عمر میں وہ تم سے اپنا مال واپس لینے پر قادر نہیں ہیں اور نہ تمہیں مال کھا نے سے منع کرسکتے ہیں تم جلدی جلدی مال کھاتے رہو کہ وہ بڑے ہو کر تم سے مال لے لیں گے اور ناحق مال کھانے سے منع کردیں گے۔ یہ امور فی الواقع بہت سے سرپرستوں سے پیش آتے رہتے ہیں جن کے دل اللہ تعالیٰ کے خوف اور زیرسرپرستی بے سمجھ لوگوں کی محبت اور ان پر رحم سے خالی ہوتے ہیں، چنانچہ اس مال کو وہ غنیمت سمجھتے ہیں اور جلدی جلدی وہ مال کھانے کی کوشش کرتے ہیں جس کو اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے حرام ٹھہرایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر اس حال میں مال کھانے سے روکا ہے۔ النسآء
7 زمانہ جاہلیت میں عرب، اپنی جابریت اور قساوت قلبی کی وجہ سے کمزوروں یعنی عورتوں اور بچوں کو وراثت میں حصہ نہیں دیتے تھے۔ وہ صرف طاقتور مردوں کو میراث دیا کرتے تھے ان کے زعم کے مطابق یہ لوگ جنگ وجدل اور لوٹ مار میں حصہ لینے کے قابل تھے۔ پس حکمت والے رب رحیم نے ارادہ فرمایا کہ اپنے بندوں کے لیے وراثت کا ایسا قانون بنا دے جس میں ان کے مرد اور عورتیں، طاقتور اور کمزور سب مساوی ہوں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس قانون کو بیان کرنے سے پہلے ایک مجمل حکم بیان کیا تاکہ نفوس اس قانون میراث کو قبول کرنے کے لیے تیار ہوجائیں۔ جب نفوس اس کو قبول کرنے کے لیے تیار ہوگئے اور وہ وحشت زائل ہوگئی جس کا سبب بری عادات تھیں تو اس اجمال کی تفصیل آگئی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿لِّلرِّجَالِ نَصِيبٌ ﴾ یعنی مردوں کے لیے حصہ ہے ﴿مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ﴾ یعنی ان میں سے جو کچھ ماں اور باپ پیچھے (ترکہ میں) چھوڑ جاتے ہیں ﴿وَالْأَقْرَبُونَ﴾ ”اور رشتہ دار“ یعنی خاص کے بعد عام کا ذکر کیا ہے ﴿وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ ﴾ ” اور عورتوں کے لیے بھی اس ترکے میں حصہ ہے جو والدین اور دیگر اقارب چھوڑ کر فوت ہوتے ہیں“ گویا کہ سوال کیا گیا کہ یہ حصہ عرف عام اور عادت کی طرف راجع ہے اور لوگ جو چاہیں ورثاء کو دے دیں؟ یا میراث کے حصے مقرر شدہ ہیں؟ پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿نَصِيبًا مَّفْرُوضًا ﴾یعنی اللہ تعالیٰ نے، جو علم اور حکمت والا ہے ہر ایک کا حصہ مقرر کردیا ہے۔ ان مقرر کردہ حصوں کا انشاء اللہ عنقریب ذکر آئے گا۔ یہاں ایک اور وہم کا خدشہ ہے، شاید کوئی سمجھے کہ عورتوں اور بچوں کو صرف مال کثیر کی صورت میں حصہ ملے گا اللہ تعالیٰ نے اپنے اس ارشاد کے ذریعے سے اس وہم کا ازالہ کردیا ﴿مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ﴾” خواہ یہ ترکہ تھوڑا ہو یا بہت۔“ نہایت ہی بابرکت ہے اللہ تعالیٰ جو سب سے اچھا فیصلہ کرنے والا ہے۔ النسآء
8 یہ اللہ تعالیٰ کے بہترین اور جلیل ترین احکام میں سے ہے جو ٹوٹے دلوں کو جوڑتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿وَإِذَا حَضَرَ الْقِسْمَةَ﴾یعنی میراث کی تقسیم کے وقت ﴿أُولُو الْقُرْبَىٰ﴾ یعنی وہ رشتہ دار جو میت کے واثر نہیں ہیں اور اس کا قرینہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿الْقِسْمَةَ﴾ ہے کیونکہ ورثاء تو وہ لوگ ہیں جن میں وراثت تقسیم ہوگی ﴿وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينُ ﴾ ” یتیم اور مساکین“ یعنی فقراء میں سے مستحق لوگ ﴿فَارْزُقُوهُم مِّنْهُ﴾یعنی اس مال میں سے جو تمہیں بغیر کسی کدو کاوش اور بغیر کسی محنت کے حاصل ہوا۔ ان کو بھی جتنا ہوسکے عطا کر دو۔ کیونکہ ان کا نفس بھی اس کا اشتیاق رکھتا ہے اور ان کے دل بھی منتظر ہیں۔ پس تم ان کے دل جوئی کی خاطر اتنا مال ان کو دے دو جس سے تمہیں نقصان نہ ہو اور ان کے لیے فائدہ مند ہو۔ اس معنی سے یہ بات اخذ کی جاتی ہے کہ ا گر انسان کے سامنے کوئی چیز رکھی جائے اور وہاں کوئی ایسا فرد موجود ہو جو کسی آس میں اس پر نظر رکھتا ہو تو اس شخص کے لیے مناسب ہے کہ جتنا بھی ہوسکے اس کو عطا کر دے۔ جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :” جب تم میں سے کسی کا خادم اس کے سامنے کھانا پیش کرے تو وہ اسے اپنے ساتھ بٹھا کر کھانا کھلائے اور اگر ایسا نہ کر سکے تو اسے ایک یا دو لقمے عطا کر دے۔“[صحيح البخاري، العتق، باب إذا أتي أحدكم خادمه بطعامه، ح: 2557] صحابہ کرام کا طریقہ یہ تھا کہ جب ان کے سامنے موسم کا پہلا پھل آتا تو وہ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کرتے، آپ اس میں برکت کی دعا فرماتے اور پھر وہاں موجود سب سے چھوٹے بچے کو عطا کردیتے، یہ جانتے ہوئے کہ یہ ننھا بچہ نہایت شدت سے اس کی خواہش رکھتا ہوگا۔ یہ سب کچھ اس وقت ہے جب عطا کرنا ممکن ہو اگر عطا کرنا ممکن نہ ہو۔۔۔ مثلاً یہ بے سمجھ لوگوں کا حق ہے یا اس سے بھی اہم کوئی اور وجہ ہو تو ایسی صورت میں ﴿قَوْلًا مَّعْرُوفًا ﴾ ان کو اچھی اور غیر قبیح بات کہہ کر بھلے طریقے سے لوٹا دو۔ النسآء
9 کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد اس شخص کے لیے ہے جو کسی قریب المرگ شخص کے پاس موجود ہو اور مرنے والا اپنی وصیت میں ظلم اور گناہ کا مرتکب ہو رہا ہو۔ تو وہ اس شخص کو اس کی وصیت میں عدل و انصاف اور مساوات کی تلقین کرے اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے﴿وَلْيَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا  ﴾ یعنی ان سے درست بات کہو جو انصاف اور معروف کے موافق ہو۔ وہ ان لوگوں کو، جو اپنی اولاد کے بارے میں وصیت کرنا چاہتے ہیں، ان کی اولاد کے بارے میں ایسی تلقین کریں جو وہ خود اپنے بعد اپنی اولاد کے بارے میں پسند کرتے ہیں۔ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ اس سے مراد بے سمجھ یعنی پاگل، کم سن اور کمزور لوگوں کے سرپرست ہیں۔ ان کو حکم ہے کہ وہ ان بے سمجھ لوگوں کے دینی اور دنیاوی مفادات کا ایسا انتظام کریں جو وہ اپنے مرنے کے بعد اپنی کمزور اور بے سمجھ اولاد کے بارے میں پسند کرتے ہیں۔ ﴿فَلْيَتَّقُوا اللَّـهَ  ﴾ وہ دوسروں کی سرپرستی کرنے میں اللہ تعالیٰ سے ڈریں یعنی وہ ان کے ساتھ ایسا معاملہ کریں جو تقویٰ پر مبنی ہو جس میں ان لوگوں کی اہانت نہ ہو جو ان کی سرپرستی میں ہیں، ان کی دیکھ بھال کریں اور ان سے تقویٰ کا التزام کروائیں۔ جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے یتیموں کے مال کی دیکھ بھال کا حکم دیا تو اب ان کو یتیموں کا مال کھانے پر زجر و توبیخ کی ہے اور اس پر سخت عذاب کی وعید سنائی ہے۔ النسآء
10 چنانچہ فرمایا :﴿ إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَىٰ ظُلْمًا  ﴾ ” جو لوگ ناحق یتیموں کا مال کھاتے ہیں۔“ اس ” ناحق“ کی قید سے وہ نادار سرپرست نکل گئے جن کو معروف طریقے سے بقدر ضرورت ان کے مال میں سے کھانے کی اجازت ہے، اسی طرح وہ بھی اس سے خارج ہوگئے جو آسانی اور اصلاح کی نیت سے اپنا کھانا یتیموں کے کھانے کے ساتھ ملا لیتے ہیں، کیونکہ یہ بھی جائز ہے۔ پس جو کوئی ظلم سے یتیموں کا مال کھاتا ہے ﴿ يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ نَارًا ﴾ ” وہ اپنے پیٹ میں آگ بھرتے ہیں۔“ یعنی انہوں نے یتیموں کا جو مال کھایا ہے وہ آگ ہے جو ان کے پیٹ میں بھڑکے گی، یہ آگ خود انہوں نے اپنے پیٹ میں داخل کی ہے ﴿وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيرًا ﴾ یعنی وہ عنقریب جلانے والی بھڑکتی ہوئی آگ میں جھونکے جائیں گے۔ یہ سب سے بڑی وعید ہے جو گناہوں کے بارے میں سنائی گئی ہے جو یتیموں کا مال کھانے کی برائی اور قباحت پر دلالت کرتی ہے نیز اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ یتیموں کا مال کھانا جہنم میں جانے کا موجب ہے اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ سب سے بڑا گناہ ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ سے عافیت کا سوال کرتے ہیں۔ النسآء
11 وراثت کے احکام اور اصحاب وراثت :۔ یہ آیات اور اس سورت کی آخری آیت وراثت کی آیات ہیں اور وراثت کے احکام پر مشتمل ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے صحیح بخاری میں مروی ہے ” میراث کے مقرر حصے ان کے حق داروں کو دو جو بچ جائے وہ اس مرد کو دے دو جو میت کا سب سے زیادہ قریبی ہے“ ان آیات کو اس حدیث سے ملایا جائے تو یہ دونوں وراثت کے بڑے بڑے، بلکہ تمام احکام پر مشتمل ہے۔ جیسا کہ ابھی تفصیل سے واضح ہوگا، سوائے نانی کی وراثت کے، کیونکہ اس کا ذکر ان میں نہیں ہے، مگر سنن میں حضرت مغیرہ بن شعبہ اور محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہما سے ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میت کی نانی کو وراثت کا چھٹا حصہ عطا کیا، اس پر علماء کا بھی اجماع ہے۔ وراثت میں میت کی اولاد کا حصہ :۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿يُوصِيكُمُ اللَّـهُ فِي أَوْلَادِكُمْ﴾” اللہ تمہاری اولاد کے بارے میں تمہیں وصیت (حکم) فرماتا ہے۔“ یعنی اے والدین کے گروہ ! تمہاری اولاد تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کی امانت ہے۔ ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے تمہیں وصیت کی ہے تاکہ تم ان کے دینی اور دنیاوی مصالح کی دیکھ بھال کرو۔ تم ان کو تعلیم دو ادب سکھاؤ، انہیں برائیوں سے بچاؤ، انہیں اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور تقویٰ کے دائمی التزام کا حکم دو۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ ﴾ (التحریم :6؍66) پس اولاد کے بارے میں والدین کو وصیت کی گئی ہے۔ اس لیے چاہیں تو وہ اس وصیت پر عمل کریں تب ان کے لیے بہت زیادہ ثواب ہے اور چاہیں تو اس وصیت کو ضائع کردیں تب وہ سخت وعید اور عذاب کے مستحق ہیں۔ یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر ان کے والدین سے بھی زیادہ رحم کرنے والا ہے کیونکہ اس نے والدین کو ان کی اولاد کے بارے میں وصیت کی درآں حالیکہ والدین اپنی اولاد کے لیے کمال شفقت کے حامل ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اولاد کے لیے وراثت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ ﴾یعنی اگر اصحاب الفروض نہ ہوں یا اصحاب الفروض کو دینے کے بعد ترکہ بچ جائے تو صلبی اولاد اور بیٹے کی اولاد کے لیے وراثت کا حکم یہ ہے کہ وہ لڑکیوں کا حصہ ایک لڑکے کے برابر ہے۔ اس پر تمام اہل علم کا اجماع ہے نیز اگر میت کی صلبی اولاد موجود ہو تو وراثت انہی میں تقسیم ہوگی۔ اگر میت کے بیٹے بیٹیاں ہیں تو پوتے پوتیوں کو وراثت نہیں ملے گی۔ یہ اس صورت میں ہے جبکہ میت کے بیٹے اور بیٹیاں دونوں موجود ہیں یہاں دو صورتیں ہیں۔ پہلی صورت کہ صرف بیٹے ہوں، اس کا ذکر آگے آئے گا۔ دوسری صورت کہ صرف بیٹیاں ہوں، اس کا ذکر ذیل میں ہے۔ بیٹیوں کے لیے وراثت کے احکام :۔ اگر صرف بیٹیاں وارث ہوں تو ان کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿فَإِن كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ ﴾ یعنی اگر صلیبی بیٹیوں یا پوتیوں کی تعداد تین یا تین سے زیادہ ہے﴿ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ ۖ ﴾ ” تو ان سب کے لیے دو تہائی ترکہ ہے۔“ ﴿وَإِن كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ ﴾ ”اور اگر ایک بیٹی (یا پوتی) ہے تو اس کے لیے نصف ترکہ ہے“ اور اس پر علماء کا اجماع ہے۔ باقی رہی یہ بات کہ اس پر اجماع کے بعد یہ اصول کہاں سے مستفاد ہوا کہ دو بیٹیوں کے لیے ترکہ میں سے دو تہائی حصہ ہے؟۔۔۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ اصول اللہ تعالیٰ کے ارشاد : ﴿وَإِن كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ ﴾ سے ماخوذ ہے، کیونکہ اس کا مفہوم مخالف یہ ہے اگر بیٹی ایک سے زائد ہو تو وراثت کا حصہ بھی نصف سے منتقل ہو کر آگے بڑھے گا اور نصف کے بعد دو تہائی حصہ ہی ہے۔ نیز اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ ﴾ جب میت نے ایک بیٹا اور ایک بیٹی چھوڑی ہو تو ترکہ میں سے بیٹے کے لیے دو تہائی حصہ ہوگا اور اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا ہے کہ اس کا یہ حصہ دو لڑکیوں کے حصے کے برابر ہے۔ پس یہ اس بات کی دلیل ہے کہ دو بیٹیوں کے لیے دو تہائی حصہ ہے۔ نیز اگر بیٹی اپنے بھائی کی معیت میں وراثت میں سے ایک تہائی حصہ لیتی ہے درآں حالیکہ بھائی بہن کی نسبت وراثت میں اس کے لیے زیادہ نقصان کا باعث ہے تو بہن کی معیت میں بیٹی کا وراثت سے حصہ لینا زیادہ اولیٰ ہے۔ نیز بہنوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿ فَإِن كَانَتَا اثْنَتَيْنِ فَلَهُمَا الثُّلُثَانِ مِمَّا تَرَكَ ۚ﴾(النساء :4؍ 176) ” اگر دو بہنیں ہوں تو ان دونوں کے لیے ترکے میں سے دو تہائی حصہ ہے۔“ دو بہنوں کے لیے دو تہائی ترکہ کے بارے میں یہ واضح نص ہے۔ جب دو بہنیں میت سے رشتہ میں بعد کے باوجود اس کے ترکہ میں سے دو تہائی حصہ لیتی ہیں تو دو بیٹیاں میت سے رشتہ میں قرب کی بنا پر دو تہائی ترکہ لینے کی زیادہ مستحق ہیں۔ نیز صحیح حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد کی دو بیٹیوں کو دو تہائی ترکہ عطا کیا۔ باقی رہا یہ اعتراض کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿فَوْقَ اثْنَتَيْنِ ﴾ ” اگر بیٹیاں دو سے زیادہ ہوں“ کا کیا فائدہ؟ کہا جاتا ہے کہ اس کا فائدہ یہ ہے۔۔۔ واللہ اعلم۔۔۔۔۔۔ کہ یہ معلوم ہوجائے کہ زیادہ سے زیادہ حصہ دو تہائیاں ہی ہیں۔ وارث بیٹیوں کی تعداد میں اضافے کے ساتھ وراثت کا حصہ دو تہائی سے زیادہ نہیں ہوگا۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ جب میت کی صلب میں سے ایک بیٹی ہو اور ایک یا ایک سے زائد پوتیاں ہوں تو بیٹی کے لیے نصف ترکہ ہے اور اس دو تہائی میں سے جو اللہ تعالیٰ نے ایک سے زائد بیٹیوں یا پوتیوں کے لیے مقرر کیا ہے۔ چھٹا حصہ باقی بچ جاتا ہے تو یہ حصہ پوتی یا پوتیوں کو دیا جائے گا۔ اسی وجہ سے اس چھٹے حصے کو ” دو تہائی کا تکملہ“ کہا جاتا ہے اور اس کی مثال پوتی کی معیت میں وہ پوتیاں ہیں جو اس سے زیادہ نیچے ہیں۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ اگر بیٹیاں یا پوتیاں پورے کا پورا دو تہائی حصہ لے لیں تو وہ پوتیاں جو زیادہ نیچے ہیں ان کا حصہ ساقط ہوجائے گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان سب کے لیے صرف دو تہائی کا حصہ مقرر کیا ہے جو کہ پورا ہوچکا ہے۔ اگر ان کا حصہ ساقط نہ ہو تو اس سے لازم آتا ہے کہ ان کے لیے دو تہائی سے زیادہ حصہ مقرر ہو اور یہ بات نص کے خلاف ہے اور ان تمام احکام پر علماء کا اجماع ہے۔ وللہ الحمد اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿ مِمَّا تَرَكَ  ﴾ اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ میت ترکہ میں جو کچھ بھی چھوڑتی ہے خواہ وہ زمین کی صورت میں جائیداد ہو، گھر کا اثاثہ یا سونا چاندی وغیرہ حتیٰ کہ دیت بھی جو اس کے مرنے کے بعد ہی واجب ہوتی ہے اور وہ قرضے جو میت کے ذمہ واجب الادا ہیں۔ ورثاء ان سب چیزوں کے وارث ہوں گے۔ ماں باپ کے لیے وراثت کے احکام :۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ماں باپ کے لیے وراثت کے احکام بیان کرتے ہوئے فرمایا : ﴿وَلِأَبَوَيْهِ ﴾ اس سے مراد ماں اور باپ دونوں ہیں ﴿ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِن كَانَ لَهُ وَلَدٌ ﴾ یعنی اگر میت کا ایک یا ایک سے زائد صلبی بیٹا یا بیٹی، پوتا یا پوتی موجود ہوں۔ تو پس ماں اولاد (بیٹے یا پوتے) معیت میں چھٹے حصے سے زیادہ نہیں لے گی۔ باپ کے لیے وراثت کے احکام :۔ اگر میت کی نرینہ اولاد موجود ہے تو ان کی معیت میں باپ چھٹے حصے سے زیادہ نہیں لے گا۔ اگر اولاد بیٹی یا بیٹیاں ہیں اور مقررہ حصے ادا کرنے کے بعد کچھ نہ بچے، جیسے ماں باپ اور دو بیٹیاں ہوں، تو باپ کا استحقاق عصبہ باقی نہیں رہے گا۔ اور اگر بیٹی یا بیٹیوں کے حصے کے بعد کچھ بچ جائے تو باپ چھٹا حصہ مقررہ حصے کے طور پر اور باقی مال عصبہ ہونے کے اعتبار سے لے گا۔ اس لیے کہ اصحاب الفروض کو ان کے حصے دینے کے بعد جو بچ جائے تو اس کا وہ مرد زیادہ مستحق ہوتا ہے جو میت کے زیادہ قریب ہو، اس لیے اس صورت میں باپ بھائی اور چچا وغیرہ سے زیادہ قریب ہے۔ ﴿فَإِن لَّمْ يَكُن لَّهُ وَلَدٌ وَوَرِثَهُ أَبَوَاهُ فَلِأُمِّهِ الثُّلُثُ﴾ ” اور اگر اولاد نہ ہو اور ماں باپ وارث ہوتے ہوں تو اس کی ماں کے لیے تیسرا حصہ ہے“ یعنی باقی ترکہ باپ کے لیے ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مال کی اضافت بیک وقت ماں اور باپ کی طرف کی ہے پھر ماں کا حصہ مقرر کردیا، تو یہ بات اس امر کی دلیل ہے کہ باقی مال باپ کے لیے ہے۔ اس سے یہ بات بھی معلوم ہوگئی کہ میت کی اولاد کی عدم موجودگی میں میت کا باپ اصحاب فروض میں شمار نہیں ہوتا بلکہ وہ عصبہ کی حیثیت سے تمام مال یا مقرر کردہ حصوں (فروض) سے بچے ہوئے باقی مال کا حق دار ہوگا۔ اگر ماں باپ کی موجودگی میں میت کا خاوند یا بیوی بھی موجود ہو۔ جن کو (عمریتین) سے تعبیر کیا جاتا ہے۔۔۔ تو خاوند بیوی اپنا حصہ لیں گے، ماں باقی میں سے ایک تہائی لے گی اور جو بچ رہے گا اس کا مالک میت کا باپ ہوگا۔ اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے ﴿وَوَرِثَهُ أَبَوَاهُ فَلِأُمِّهِ الثُّلُثُ ﴾ یعنی جس مال کے وارث ماں باپ ہوں اس کا ایک تہائی حصہ ماں کے لیے ہے اور وہ ان دو صورتوں میں یعنی میت کے خاوند، ماں اور باپ کے وارث ہونے کی صورت میں چھٹا حصہ، اور میت کی بیوی، ماں اور باپ کے وارث ہونے کی صورت میں چوتھا حصہ ہے۔ پس یہ آیت اس بات پر دلالت نہیں کرتی کہ میت کی ماں، میت کی اولاد کی عدم موجودگی میں تمام مال کی ایک تہائی کی وارث ہے۔ جب تک یہ نہ کہا جائے کہ یہ مذکورہ دو صورتیں مستثنیٰ ہیں۔ اس کی مزید توضیح اس سے ہوتی ہے کہ خاوند یا بیوی جو حصہ لیتی ہے، وہ اس حصے کی طرح ہے جو قرض خواہ لیتے ہیں، اس لیے وہ سارے مال سے ہوگا اور باقی مال کے وارث ماں باپ ہوں گے۔ کیونکہ اگر ہم کل مال کا تیسرا حصہ ماں کو عطا کردیں تو اس سے میت کے خاوند کی معیت میں ماں کا حصہ باپ کے حصے سے بڑھ جائے گا یا میت کی بیوی کی معیت میں باپ کا حصہ ماں کی نسبت چھٹے حصے کے نصف سے زیادہ ہوجائے گا جس کی کوئی نظری نہیں، کیونکہ اصول یہ ہے کہ ماں، باپ کے مساوی حصہ لے گی یا باپ اس سے دگنا لے گا جو ماں کے حصہ میں آتا ہے۔ ﴿فَإِن كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ فَلِأُمِّهِ السُّدُسُ ﴾ ” اگر مرنے والے کے بھائی ہوں تو اس کی ماں کے لیے چھٹا حصہ ہے“ یعنی حقیقی بھائی ہوں، یا باپ کی طرف سے (علاتی بھائی) ہوں یا ماں کی طرف سے (اخیافی بھائی) ہوں خواہ وہ مرد ہو یا عورتیں۔۔۔ وارث بنتے ہوں یا وہ باپ یا دادا کی موجودگی میں معجوب ہوں۔ مگر کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿فَإِن كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ ﴾کا ظاہر غیر ورثاء کو شامل نہیں اور اس کی دلیل یہ ہے کہ محجوب کو نصف حصہ نہیں پہنچتا۔۔۔ تب اس صورت میں میت کے وارث بننے والے بھائیوں کے سو ا ماں کو ایک تہائی حصہ سے کوئی بھائی محجوب نہیں کرسکتا۔ اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ میت کے بھائیوں کی ماں کو ایک تہائی حصے سے محجوب کردینے میں حکمت یہ ہے کہ کہیں ان کے لیے مال میں کچھ بڑھ نہ جائے حالانکہ وہ معدوم ہے۔ مگر یہاں ایک شرط عائد کی گئی ہے کہ بھائی دو یا دو سے زائد ہوں۔ البتہ اس میں اشکال یہ ہے کہ یہاں ﴿ إِخْوَةٌ﴾ جمع کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں جمع مقصود نہیں بلکہ مجرد تعداد (متعدد ہونا) مقصود ہے اور یہ تعدد دو کے عدد پر بھی صادق آتا ہے۔ کبھی جمع کا صیغہ تو بول لیا جاتا ہے، مگر اس سے مراد دو ہوتے ہیں مثلاً اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد اور سلیمان علیہما السلام کے بارے میں فرمایا : ﴿ وَكُنَّا لِحُكْمِهِمْ شَاهِدِينَ ﴾(الانبیاء :21؍78) ” اور ہم ان کے فیصلے کو دیکھ رہے تھے۔“ اللہ تعالیٰ نے اخیافی بھائیوں کے بارے میں فرمایا ﴿إِن كَانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلَالَةً أَوِ امْرَأَةٌ وَلَهُ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ ۚ فَإِن كَانُوا أَكْثَرَ مِن ذَٰلِكَ فَهُمْ شُرَكَاءُ فِي الثُّلُثِ ۚ ﴾ (النساء :4؍12) ” اگر ایسے مرد یا عورت کی وراثت ہو جو کلالہ ہو یعنی جس کی اولاد ہو نہ باپ، مگر اس کے بھائی یا بہن ہو تو ان میں سے ہر ایک کے لیے چھٹا حصہ ہے اگر ایک سے زیادہ ہوں تو سب ایک تہائی میں شریک ہوں گے۔“ پس یہاں بھی جمع کے لفظ کا اطلاق کیا جاتا ہے مگر بالا جماع اس سے مراد دو اور دو سے زائد افراد ہیں۔ اس صورت میں اگر میت اپنے پیچھے ماں، باپ اور کچھ بھائی وارث چھوڑتا ہے تو ماں کے لیے چھٹا حصہ ہے اور باقی ترکے کا وارث باپ ہے پس انہوں نے ماں کو ایک تہائی حصے سے محجوب کردیا اور اس کے ساتھ ساتھ باپ نے ان کو بھی محجوب کردیا۔ البتہ اس میں ایک دوسرا احتمال موجود ہے، جس کی رو سے ماں کے لیے ایک تہائی اور باقی ترکہ باپ کے لیے۔ النسآء
12 پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِينَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ ﴾ یعنی میت کے ذمے اللہ تعالیٰ اور مخلوق کے قرض کی ادائیگی کے بعد ہوگا، اس کی وجہ وصیت کی اہمیت کو واضح کرنا ہے (تاکہ ورثاء اس کو نظر انداز نہ کریں) علاوہ ازیں وصیت کا نفاذ ورثاء پر شاق گزرتا ہے (اور وہ اس پر عمل کرنے سے بالعموم گریز کرتے ہیں) وگرنہ قرض کی ادائیگی، وصیت پر اصل مال میں سے ہوگی۔ جہاں تک وصیت کا معاملہ ہے تو وہ صرف ایک تہائی مال یا اس سے کم ہیں، نیز صرف غیر وارث اجنبیوں کے لیے جائز ہے اس کے علاوہ اگر وصیت کی گئی ہے تو وہ نافذ نہیں ہوگی البتہ اگر ورثاء اجازت دے دیں تو نافذ ہوسکتی ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے ﴿آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا ﴾ ” تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے، تم نہیں جانتے کہ ان میں سے کون نفع کے اعتبار سے تمہارے زیادہ قریب ہے“ یعنی اگر وراثت کے حصے تمہاری عقل اور تمہارے اختیار کے مطابق بنائے جاتے تو اس قدر نقصان پہنچتا جسے اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے کیونکہ عقل ناقص ہے اور ہر زمان و مکان کے مطابق جو چیز زیادہ اچھی اور زیادہ لائق ہے اس کی معرفت حاصل کرنے سے قاصر ہے۔ پس انسان نہیں جانتا کہ اس کی اولاد یا والدین میں سے دینی اور دنیاوی مقاصد کے حصول میں کون اس کے لیے زیادہ فائدہ مند اور اس کے زیادہ قریب ہے۔ ﴿فَرِيضَةً مِّنَ اللَّـهِ ۗ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا ﴾” اللہ کی طرف سے مقرر کیا ہوا ہے بے شک اللہ پورے علم اور کامل حکمتوں والا ہے“ یعنی وراثت کے ان حصوں کو اللہ تعالیٰ نے مقرر کیا ہے اس کا علم ہر چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے اس نے جو شریعت بنائی ہے اسے محکم کیا ہے اور اس نے جو چیز مقدر کی ہے اسے بہترین اندازے کے ساتھ مقدر کیا ہے۔ عقل ان جیسے احکام وضع کرنے سے قاصر ہے جو ہر حال اور ہر زمان و مکان کے موافق اور نفاذ کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ شوہر اور بیویوں کے لیے وراثت کے احکام :۔ پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿ وَلَكُمْ ﴾ یعنی اے شوہرو !﴿نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُمْ إِن لَّمْ يَكُن لَّهُنَّ وَلَدٌ ۚ فَإِن كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ ۚ مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِينَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ ۚ وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِن لَّمْ يَكُن لَّكُمْ وَلَدٌ ۚ فَإِن كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُم ۚ مِّن بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ ۗ وَإِن كَانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلَالَةً أَوِ امْرَأَةٌ وَلَهُ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ ۚ فَإِن كَانُوا أَكْثَرَ مِن ذَٰلِكَ فَهُمْ شُرَكَاءُ فِي الثُّلُثِ ۚ مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصَىٰ بِهَا أَوْ دَيْنٍ ﴾ ” اور جو کچھ تمہاری بیویاں (ترکے میں) چھوڑ جائیں اس میں سے نصف کے تم حق دار ہو بشرطیکہ ان کی اولاد نہ ہو۔ اگر ان کی اولاد ہے تو تمہیں جو کچھ وہ چھوڑ جائیں اس کا چوتھائی ملے گا (یہ تقسیم) مرنے والی کی وصیت کی تعمیل اور اس کے قرضے کی (ادائیگی) کے بعد (عمل میں لائی جائے) اور ان کے لیے جو کچھ تم چھوڑ جاؤ اس کا چوتھائی حصہ ہے بشرطیکہ تمہاری اولاد نہ ہو اور اگر تمہاری اولاد ہو تو ان کے لیے تمہارے ترکے کا آٹھواں حصہ ہوگا (یہ تقسیم) تمہاری وصیت کی تکمیل یا قرضے ( کی ادائیگی) کے بعد (عمل میں لائی جائے) “ اولاد کے مسمی کے زمرے میں، جس کے وجود اور عدم وجود کو میاں بیوی کی وراثت میں شرط بنایا گیا ہے، صلبی اولاد یا بیٹے کی اولاد لڑکے یا لڑکیاں خواہ ایک ہو یا متعدد جو اس شوہر یا بیوی سے ہوں یا کسی اور سے، شمار ہوتی ہیں اس میں بیٹیوں کی اولاد شامل نہیں اور اس پر اجماع ہے۔ (کلالہ) کا معنی اور اس کے احکام :۔ ﴿وَإِن كَانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلَالَةً أَوِ امْرَأَةٌ وَلَهُ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ  ﴾” اور اگر کوئی مرد ہو (جو ترکہ چھوڑ جائے) اور اس کا نہ باپ ہو نہ بیٹا اور بھائی یا بہن ہو“ اس سے مراد اخیافی (ماں شریک) بہن بھائی ہیں جیسا کہ بعض قراءت میں بھی وارد ہے اور فقہاء کا اجماع ہے کہ یہاں بہن بھائی سے مراد اخیافی بہن بھائی ہیں۔ اگر میت کلالہ ہے یعنی میت کا باپ ہے نہ بیٹا، یعنی باپ ہے نہ دادا، بیٹا ہے نہ پوتا،بیٹی ہے نہ پوتی۔۔۔ خواہ نیچے تک چلے جائیں۔۔۔ ایسی میت کو کلالہ کہا جاتا ہے۔ جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس کی تفسیر بیان کی ہے اور اسی مفہوم پر اجماع واقع ہوگیا۔ وللہ الحمد ﴿فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا  ﴾ یعنی بھائی اور بہن دونوں میں سے ہر ایک کے لیے (السدس) چھٹا حصہ ہے﴿فَإِن كَانُوا أَكْثَرَ مِن ذَٰلِكَ ﴾ یعنی اگر وہ ایک سے زائد ہوں ﴿فَهُمْ شُرَكَاءُ فِي الثُّلُثِ ﴾یعنی ایک تہائی میں سب شریک ہیں اور ایک تہائی سے زیادہ نہیں ملے گا خواہ ان کی تعداد دو سے بڑھ جائے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ﴿فَهُمْ شُرَكَاءُ فِي الثُّلُثِ ﴾ اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ اس میں مرد اور عورتیں سب برابر ہیں کیونکہ لفظ ” شریک“ مساوات کا تقاضا کرتا ہے۔ (یعنی اس صورت میں مرد کو عورت سے دگنا حصہ نہیں، بلکہ برابر کا حصہ ملے گا) لفظ ”کلالہ“ دلالت کرتا ہے کہ فروع نیچے تک اور اصول مرد اوپر تک خواہ کتنی ہی دور کیوں نہ جائیں، وہ ماں کی اولاد کو ساقط کردیں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اخیافی بہن بھائیوں کو صرف کلالہ کی صورت میں وارث بنایا ہے اور اگر وہ کلالہ کی صورت میں وارث نہیں بنتے تو وہ کسی اور صورت میں میت کے وارث نہیں بن سکتے۔ اس پر اہل علم کا اتفاق ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿فَهُمْ شُرَكَاءُ فِي الثُّلُثِ ﴾دلالت کرتا ہے کہ ”مسئلہ حماریہ“ کے مطابق حقیقی بھائی ساقط ہوجاتے ہیں۔۔۔۔۔۔ یعنی اگر میت کا شوہر، ماں اور حقیقی بھائی بھی ہوں تو شوہر کے لیے نصف ترکہ، ماں کے لیے چھٹا حصہ اور اخیافی بھائیوں کے لیے ایک تہائی حصہ ہے اور حقیقی بھائی ساقط ہوجائیں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ایک تہائی ترکہ کو اخیافی بھائیوں کی طرف مضاف کیا ہے اگر اس ترکہ میں حقیقی بھائیوں کو شریک کرلیا جائے تو یہ اس چیز کو جمع کرنا ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے تفریق کی ہے۔ نیز اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ اخیافی بھائی اصحاب فروض ہیں اور حقیقی بھائی عصبہ ہیں۔ چنانچہ رسول اللہ نے فرمایا ”میراث کے مقررہ حصے ان کے حق داروں کو دو جو بچ جائے وہ اس مرد کو دے دو جو میت کا سب سے زیادہ قریبی ہے۔ [صحيح البخاري، الفرائض، باب ميراث الوالد من أبيه و أمه، ح: 6732 و صحيح مسلم، الفرائض، باب الحقوا الفرائض بأهلها.... ح: 1615] اور اصحاب فروض وہ لوگ ہیں جن کا حصہ اللہ تعالیٰ نے مقرر کردیا ہے۔ زیر بحث کلالہ کے مسئلہ میں اصحاب فروض کو دینے کے بعد کچھ باقی نہیں بچتا اس لیے حقیقی بھائی ساقط ہوجائیں گے اور یہی صحیح موقف ہے۔ رہی حقیقی بھائیوں اور بہنوں کی وراثت، یا باپ کی طرف سے بھائیوں اور بہنوں کی وراثت، تو یہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللَّـهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلَالَةِ﴾ (النساء: 4؍176) میں مذکور ہے۔ پس ایک حقیقی یا باپ کی طرف سے بہن کے لیے نصف ترکہ ہے۔ اگر دو ہوں تو ان کے لیے دو تہائی ترکہ ہے۔ اگر کلالہ کی ایک حقیقی بہن، ایک یا زائد باپ کی طرف سے بہنیں ہوں تو ترکہ کا نصف حصہ حقیقی بہن کو ملے گا اور دو تہائی میں سے باقی جو کہ چھٹا حصہ بنتا ہے دو تہائی کی تکمیل کے لیے باپ کی طرف سے بہن یا بہنوں کو ملے گا۔ اگر حقیقی بہنیں دو تہائی حصہ لے لیں تو باپ کی طرف سے بہنیں ساقط ہوجائیں گی جیسا کہ بیٹیوں اور پوتیوں کے بارے میں گزشتہ صفحات میں گزر چکا ہے۔ اگر بھائی اور بہنیں وارث ہوں تو ایک بھائی کو دو بہنوں کے مساوی حصہ ملے گا۔ قاتل اور مختلف دین رکھنے والے کے لیے وراثت :۔ اگر یہ کہا جائے کہ آیا قرآن کریم سے قاتل، غلام، غیر مسلم، جزوی غلام، مخنث، باپ کی طرف سے بھائیوں کی معیت میں دادا، عول، رد، ذوالارحام، بقیہ عصبہ، بیٹیوں کی معیت میں باپ شریک بہنوں یا پوتیوں کی وراثت مستفاد ہوتی ہے یا نہیں؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن مجید میں اس بارے میں بعض دقیق اشارے اور تنبیہات موجود ہیں، گہرے غور و فکر کے بغیر ان اشارات کو سمجھنا مشکل ہے۔ رہا قاتل اور مخالف دین یعنی غیر مسلم، تو یہ بات معروف ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مال کو ورثاء میں ان کے میت سے قرب اور دینی اور دنیاوی فوائد کے اعتبار سے تقسیم کرنے کی جو حکمت بیان کی ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ وارث نہیں بن سکتے۔۔۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی اس حکمت بالغہ کی طرف ان الفاظ میں اشارہ فرمایا ہے :﴿ لَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا ۚ﴾ (النساء :4؍11) ” تم نہیں جانتے کہ ان میں سے کون نفع کے اعتبار سے تمہارے زیادہ قریب ہے۔ “ یہ بات معلوم اور واضح ہے کہ قاتل نے اپنے مورث کو سب سے بڑا نقصان پہنچایا ہے لہٰذا وہ امر جو اس کے لیے وارث کا موجب ہے، قتل کے ضرر کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ قتل اس نفع کی ضد ہے جس پر وراثت مرتب ہوتی ہے۔ اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ قتل سب سے بڑا مانع ہے جو میراث کے حصول سے روکتا ہے اور قطع رحمی کا باعث بنتا ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَأُولُو الْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَىٰ بِبَعْضٍ فِي كِتَابِ اللَّـهِ ۗ ﴾(الانفال :8؍ 75) ” اور رشتہ دار اللہ کے حکم کے مطابق ایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں“ نیز ایک شرعی قاعدہ مشہور ہے کہ ” جو کوئی وقت سے پہلے کوئی چیز حاصل کرنے میں جلدی کرتا ہے اسے اس چیز سے محرومی کی سزا دی جاتی ہے۔ “ مندرجہ بالا توضیح سے واضح ہوتا ہے کہ اگر وارث، مورث کے دین سے مختلف دین رکھتا ہے تو وہ وراثت سے محروم ہے۔ وراثت کا موجب، جو کہ نسب کا اتصال ہے اور وراثت کا مانع جو کہ اختلاف دین ہے اور اختلاف دین ہر لحاظ سے وارث کو مورث سے علیحدہ کردیتا ہے۔ پس موجب اور مانع میں تعارض ہے۔ مانع زیادہ قوی ہے اور موجب وراثت کو روک دیتا ہے۔ بنا بریں مانع کے ہوتے ہوئے موجب پر عمل نہیں کیا جائے گا۔ اس اصول کی وضاحت اس امر سے ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے حقوق کو کفار رشتہ داروں کے حقوق پر اولیت دی ہے۔ اس لیے جب مسلمان وفات پا جاتا ہے تو اس کا مال اس شخص کی طرف منتقل ہوگا جو اس کا سب سے زیادہ حق دار ہے اور اللہ تبارک و تعالیٰ کا یہ ارشاد ﴿وَأُولُو الْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَىٰ بِبَعْضٍ فِي كِتَابِ اللَّـهِ ۗ ﴾ تو اسی صورت میں صادق آئے گا جب وارث اور مورث کا دین ایک ہو۔ وارث اور مورث کے دین میں تباین اور اختلاف کی صورت میں دینی اخوت مجرد نسبی اخوت پر مقدم ہے۔ علامہ ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ جلاء الافھام میں رقمطراز ہیں ” اس لفظ کے معنی پر مواریث کی آیت میں غور کیجیے کہ اللہ تعالیٰ نے میاں بیوی کے درمیان توارث کو ” عورت“ کی بجائے ” زوجہ“ کے لفظ کے ساتھ معلق کیا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد میں آیا ہے ﴿وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُمْ ﴾ اس میں اس بات کی تعلیم ہے کہ یہ توارث اس زوجیت کی بنا پر واقع ہوا ہے جو کامل مشابہت اور تناسب کا تقاضا کرتی ہے۔ مومن اور کافر کے مابین کوئی مشابہت اور کوئی تناسب نہیں ہوتا اس لیے ان کے مابین توارث واقع نہیں ہوسکتا قرآن کریم کے مفردات اور مرکبات کے اسرار نہاں اس سے بہت بلند ہیں کہ عقل مندوں کی عقل اس کا احاطہ کرسکے۔۔۔ “ غلاموں کے لیے وراثت کے احکام :۔ جہاں تک غلام کا معاملہ ہے تو نہ وہ خود کسی وارث بن سکتا ہے اور نہ کوئی اس کا وارث بن سکتا ہے۔۔۔ رہا یہ معاملہ کہ کوئی اس کا وارث نہیں بن سکتا تو یہ بالکل واضح ہے کیونکہ اس کا کوئی مال ہی نہیں جس کا کوئی وارث ٹھہرے، بلکہ اس کے برعکس اس کا تمام مال اس کے آقا کی ملکیت ہے رہی یہ بات کہ وہ وارث بھی نہیں ہوسکتا، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ کسی چیز کا مالک نہیں ہوتا، اگر اس کے ہاتھ میں کوئی چیز آتی بھی ہے تو وہ اس کے مالک کی ملکیت ہوتی ہے۔ پس وہ میت کے لیے اجنبی ہے اس لیے اللہ تعالیٰ کے اس قسم کے ارشادات : ﴿لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ﴾اور ﴿وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُمْ﴾ اور ﴿فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ﴾ وغیرہ اس کے لیے ہے جو ملکیت کا اثبات کرسکتا ہو اور غلام کے لیے چونکہ ملکیت کا اثبات ممکن نہیں، اس لیے معلوم ہوا کہ وہ میراث کا حق دار نہیں۔ رہا وہ شخص جو جزوی طور پر آزاد اور جزوی طور پر غلام ہو تو اس کے احکام میں بھی تبعیض ہوگی۔ پس اس میں جو آزادی کا حصہ ہے، اس کی وجہ سے اللہ نے وراثت کا جو حق مترتب کیا ہے، اس کا وہ مستحق ہوگا، کیونکہ آزادی کی وجہ سے وہ مالک بننے کے قابل ہے اور اس میں جو غلامی کا حصہ ہے، اس کی وجہ سے وہ اس کے قابل نہیں۔ تب اس صورت میں یہ جزوی طور پر آزاد ہے۔ وراثت میں حصہ لے گا اور خود اس کی میراث بھی اس کے ورثاء میں تقسیم ہوگی اور اپنی آزادی کی مقدار کے مطابق دوسروں کو وراثت سے محجوب کرے گا اور جب غلام، قابل تعریف اور قابل مذمت، ثواب کا حق دار اور عذاب کا حق دار، ان موجبات کی مقدار کے مطابق ہوسکتا ہے، جو اسے ان امور کا مستحق بناتی ہیں، تو یہ معاملہ بھی اسی طرح ہے۔ مخنث کے لیے وراثت کے احکام :۔ مخنث کا معاملہ تین امور سے خالی نہیں ہوتا۔ مخنث کی ذکوریت واضح ہوتی ہے (یعنی اس میں مرد کی علامتیں پائی جاتی ہیں) یا اس کی انوثیت واضح ہوتی ہے۔ (اس میں عورت کی علامتیں غالب ہوتی ہیں) یا اس کا مذکر ہونا یا مونث ہونا واضح نہیں ہوتا تب اس کو ” مشکل“ کہتے ہیں۔ اگر مخنث کا معاملہ واضح ہے تو اس کی وراثت کا مسئلہ بھی واضح ہے۔ چنانچہ اگر اس میں مرد کی علامتیں غالب ہیں تو اس پر اس نص کا اطلاق ہوگا جو مردوں کے بارے میں وارد ہوئی ہے اور اگر اس میں عورت کی علامتیں غالب ہیں تو اس پر عورتوں کے احکام کا اطلاق ہوگا۔ اگر وہ مشکل ہے تو اگر وہ مرد اور عورت ہیں جن کا حصہ وراثت مختلف نہیں۔ (بلکہ یکساں ہے) جیسے اخیافی بہن بھائیوں کا معاملہ ہے تو اس میں معاملہ بالکل واضح ہے۔ اور اگر اس کو مرد مقدر کرتے ہوئے یا عورت مقدر کرتے ہوئے اس کا حصہ وراثت مختلف ہو اور ہمارے پاس کے بارے میں تیقن کا کوئی ذریعہ نہ ہو تو ہم اسے وہ حصہ نہ دیں گے جو دونوں صورتوں میں سب سے زیادہ بنتا ہے کیونکہ اس میں ان لوگوں پر ظلم کا احتمال ہے جو اس کی معیت میں وراثت کے حق دار ہیں اور نہ ہم اسے کم ترین حصہ دیں گے کیونکہ اس صورت میں خود اس پر ظلم کا احتمال ہے۔ پس ان کے درمیان اعتدال کی راہ اختیار کرنا واجب ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ﴿اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَىٰ﴾ (المائدہ :5؍ 8) ” عدل کیا کرو یہ تقویٰ کے زیادہ قریب ہے۔ “ اس قسم کی صورتحال میں ہمارے پاس اس سے زیادہ کوئی عدل کا راستہ نہیں جس کا گزشتہ سطور میں ہم ذکر کرچکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿لَا يُكَلِّفُ اللَّـهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ۚ﴾(البقرہ :2؍286) ” اللہ کسی کو تکلیف نہیں دیتا مگر اس کی طاقت کے مطابق“ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿فَاتَّقُوا اللَّـهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ﴾ (التغابن :64؍16) ” پس جہاں تک ہوسکے اللہ سے ڈرو“ دادا کے لیے وراثت کے احکام :۔ رہا حقیقی بھائیوں یا باپ شریک (علاتی) بھائیوں کی موجودگی میں میت کے دادا کے لیے وراثت کا مسئلہ کہ آیا مذکورہ بھائی دادا کی معیت میں وراثت میں سے حصہ لیں گے یا نہیں۔۔۔ تو اللہ تعالیٰ کی کتاب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے اس فتویٰ کی تائید کرتی ہے کہ دادا بھائیوں کو معجوب کر دے گا، چاہے وہ حقیقی بھائی ہوں یا علاتی (باپ شریک) یا اخیافی (ماں شریک) ہوں جیسے باپ ان سب کو معجوب کردیتا ہے۔ اس کی توضیح یہ ہے کہ قرآن مجید میں ایک سے زائد مقامات پر دادا کو باپ کہا گیا ہے مثلاً اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿ إِذْ حَضَرَ يَعْقُوبَ الْمَوْتُ إِذْ قَالَ لِبَنِيهِ مَا تَعْبُدُونَ مِن بَعْدِي قَالُوا نَعْبُدُ إِلَـٰهَكَ وَإِلَـٰهَ آبَائِكَ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ ﴾ (البقرہ :2؍133) ” جب یعقوب وفات پانے لگے تو انہوں نے اپنے بیٹوں سے کہا کہ تم میرے بعد کس کی عبادت کرو گے؟ انہوں نے جواب دیا تیرے معبود اور تیرے آباء ابراہیم، اسماعیل اور اسحاق کے معبود کی“ اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف کا قول نقل فرمایا : ﴿وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبَائِي إِبْرَاهِيمَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ﴾(یوسف :12؍38) ” میں نے اپنے آباء ابراہیم، اسحاق اور یعقوب کی ملت کی پیروی کی ہے۔ “ پس اللہ تعالیٰ نے دادا اور باپ کے دادا کو ” باپ“ کے نام سے موسوم کیا ہے یہ چیز اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ دادا اپ کے مقام پر ہوتا ہے اور وراثت میں اس کا وہی حصہ ہے جو باپ کا حصہ ہے جس کو باپ معجوب کرتا ہے اس کو دادا بھی معجوب کرے گا (یعنی باپ کی عدم موجودگی میں) اہل علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ میت کے باپ کی عدم موجودگی میں میت کی میراث میں میت کی اولاد وغیرہ کی معیت میں اس کے بھائیوں، چچاؤں کے بیٹوں کے ہوتے ہوئے دادا کا وہی حکم ہے جو باپ کا حکم ہے۔۔۔ اس لیے مناسب یہی ہے کہ اخیافی بھائیوں کے علاوہ دوسرے بھائیوں کو معجوب کرنے میں بھی دادا کا وہی حکم ہو جو باپ کا حکم ہے اور جب بیٹے کا بیٹا صلبی بیٹے کی مانند ہے تو دادا باپ کے مقام پر کیوں نہیں ہوس کتا اور جب باپ کا دادا میت کے بھتیجے کی موجودگی میں، اہل علم کے اجماع کے مطابق، بھتیجے کو معجوب کر دے گا۔ تو پھر میت کا دادا میت کے بھائی کو کیوں معجوب نہیں کرسکتا؟ لہٰذا جو داد کی معیت میں بھائیوں کو وارث قرار دیتا ہے اس کے پاس کوئی نص ہے نہ اشارہ نہ تنبیہ اور نہ قیاص صحیح۔ عول اور اس کے احکام :۔ عول کے مسائل کے احکام قرآن مجید سے مستفاد ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اصحاب مواریث کے لیے حصے مقرر کردیئے ہیں اور ان کی دو حالتیں ہوتی ہیں۔ وہ ایک دوسرے کو معجوب کرتے ہیں یا نہیں کرتے۔ اگر وہ ایک دوسرے کو معجوب کرتے ہیں تو وراثت میں معجوب ساقط ہوجاتا ہے اور وہ کسی چیز کا مستحق نہیں رہتا۔ اگر وہ ایک دوسرے کو معجوب نہیں کرتے تو وہ مندرجہ ذیل دو صورتوں سے خالی نہیں۔ یا تو وہ ترکہ کے تمام حصے کے وارث نہیں بنتے۔ (یعنی ورثاء کو ان کے شرعی حصے دینے کے بعد بھی ترکہ بچ جاتا ہے) یا وہ ترکہ کے تمام حصوں کے وارث اس طرح بنتے ہیں کہ یہ مقرر کردہ حصے مجموعی طور پر نہ تو ترکہ سے کم ہوتے ہیں اور نہ زیادہ یا مقرر کردہ حصے ترکہ سے بڑھ جاتے ہیں۔ پہلی دو صورتوں میں ہر وارث اپنا پورا حصہ حاصل کرتا ہے مگر آخری صورت میں جب حصے ترکہ سے بڑھ جائیں تو یہ بھی دو حالتوں سے خالی نہیں۔ یا تو ہم بعض ورثاء کا وہ حصہ کم کردیتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے مقرر کیا ہے اور نہ میں سے باقی ورثاء کا حصہ پورا پورا عطا کرتے ہیں۔ یہ ترجیح بلا دلیل ہے ان میں سے کوئی ایک نقصان اٹھانے کا کسی دوسرے سے زیادہ مستحق نہیں۔ پس دوسری صورت کا یوں تعین ہوتا ہے کہ ہم امکانی حد تک ہر وارث کو اس کا پورا حصہ ادا کرتے ہیں اور موجود ترکہ کو ان کے درمیان ان کے حصوں کے مطابق تقسیم کردیتے ہیں جیسے مقروض کے اس مال کو قرض خواہوں کے مابین تقسیم کیا جاتا ہے جو قرض خواہوں کے مطالبے سے کم ہوتا ہے۔ اب اس مال کو عول کے اصول کو استعمال کئے بغیر تقسیم کرنے کا کوئی راستہ نہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ علم فرائض (وراثت) میں عول کا مسئلہ بھی اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں بیان فرما دیا ہے۔ رو اور اس کے احکام :۔ عول کے اس طریقے کے بالکل برعکس روکا اصول معلوم ہوا، اس لیے کہ جب اصحاب فروض میں ترکہ کو تقسیم کرنے کے بعد ترکہ میں سے کچھ بچ جائے اور اس کا کوئی حق دار نہ ہو اور قریب یا دور میت کا عصہ بھی نہ ہو۔ اگر یہ بچا ہوا ترکہ کسی ایک کو عطا کردیں تو یہ بلا دلیل ترجیح ہے اور یہ بچا ہوا کسی ایسے شخص کو دے دینا جو میت کا قریبی نہیں ہے تو یہ گناہ، کج روی اور اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی مخالفت ہے ﴿ وَأُولُو الْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَىٰ بِبَعْضٍ فِي كِتَابِ اللَّـهِ﴾ (الانفال :8؍75) ” اور رشتہ دار اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں۔“ پس یہ بات متحقق ہوگئی کہ بچا ہوا ترکہ اصحاب فروض کو ان کے حصے کے مطابق واپس لوٹا دینا چاہئے۔ زوجین کی طرف رد کے احکام :۔ ان فقہاء کے نزدیک جو بچے ہوئے ترکے کو زوجین کی طرف لوٹانے کے قائل نہیں، ان کے مسلک کے مطابق زوجین اپنے مقررہ حصے سے زیادہ لینے کے مستحق نہیں، کیونکہ ان کے درمیان نسبی قرابت نہیں ہوتی۔ مگر صحیح مسلک یہ ہے کہ رد کے ضمن میں زوجین کا حکم بھی وہی ہے جو باقی ورثاء کا ہے۔ مذکورہ بالا دلیل سب کو اسی طرح شامل ہے جس طرح اصول عول میں سب شامل ہیں۔ میراث میں ذوی الارحام کا حکم :۔ اس کے ذریعے سے ذوی الارحام کی وراثت بھی معلوم ہوتی ہے۔ اس لیے کہ اگر میت کے پیچھے کوئی ایسا شخص نہ بچے جو اصحاب فروض (جن کے حصے اللہ کی طرف سے مقرر ہیں) یا عصبہ ( میت کا قریب ترین رشتے دار) میں شمار ہوتا ہو تو میراث کا معاملہ دو امور کے مابین گھومتا ہے۔ ترکہ کا مال بیت المال میں جمع ہو جس سے اجنبی لوگ استفادہ کریں یا ترکہ میت کے ان اقارب کی طرف لوٹ جائے جو ورثاء کے متفق علیہ قریبی ہیں۔ ان دونوں میں سے دوسرا مسلک متعین ہے اور اس کی صحت پر اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد دلالت کرتا ہے ﴿ وَأُولُو الْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَىٰ بِبَعْضٍ فِي كِتَابِ اللَّـهِ﴾ (الانفال :8؍75) اس لیے میراث کو اولوالارحام کے علاوہ کسی اور طرف پھیرنا اس شخص کو محروم کرنا ہے جو دوسروں سے زیادہ اس کا مستحق ہے۔ پس ذوی الارحام کو وارث بنانا متعین ہوگیا اور جب ان کو وارث بنانا متعین ہوگیا تو یہ معلوم ہوگیا کہ کتاب اللہ میں اللہ تعالیٰ نے ان کے حصے مقرر نہیں فرمائے۔ نیز یہ کہ ان کے اور میت کے درمیان کچھ واسطے ہیں جن کے سبب سے وہ میت کے رشتہ دار بنے پس ان کو اسی مقام پر رکھا جائے گا جس کے ذریعے سے وہ میت کے قریبی بنتے ہیں۔ واللہ اعلم میت کا عصبہ کون ہے؟ اور میراث میں اس کا حکم :۔ رہی باقی عصبہ کی وراثت جیسے بیٹے، بھائی، بھتیجے، چچا اور چچاؤں کے بیٹے، تو ان کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ﴿ أَلْحِقُوا الْفَرَائِضَ بِأَهْلِهَا فَمَا بَقِيَ فَهُوَ لِأَوْلَى رَجُلٍ ذَكَرٍ﴾ (صحیح البخاری‘الفرائض‘ باب میراث ابن الابن اذالم یکن ابن ‘ ح:6735وصحیح البخاری ‘ الفرائض ‘ باب الحقوا الفرائض ، اھلھا۔۔۔‘ح 1615۔) ” وراثت کے مقررہ حصے ان کے حق داروں کو دے دو جو بچ جائے اس مرد کو دے دو جو میت کا سب سے زیادہ قریبی ہے۔ “ اور فرمایا : ﴿وَلِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِيَ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ﴾(النساء :4؍33) ” جو مال ماں اور قریبی رشتہ دار چھوڑ کر مر جاتے ہیں ہم نے ہر ایک کے حق دار مقرر کردیئے ہیں۔“ جب ہم اصحاب فروض کو ان کے مقررہ حصے عطا کر دیں اور کچھ باقی نہ بچے تو عصبہ کسی چیز کا حق دار نہیں ہوتا اور اگر ترکہ میں سے کچھ باقی بچ جائے تو عصبہ میں سے جو سب سے زیادہ مستحق ہیں وہ اپنی جہات اور درجات کے مطابق حصہ لیں گے۔ عصبہ کی جہات :۔ عصبہ کی پانچ جہات ہیں۔ بیٹے، باپ، بھائی اور بھتیجے، چچا اور چچاؤں کے بیٹے، پھر ولاء، ان میں سے اس کو مقدم رکھا جائے گا جو جہت کے اعتبار سے سب سے قریب ہے۔ اگر تمام ایک ہی جہت میں واقع ہوں تو ان میں وہ زیادہ مستحق ہے جو منزلت کے اعتبار سے سب سے قریب ہے۔ اگر تمام ایک ہی جہت میں واقع ہوں تو ان میں وہ زیادہ مستحق ہے جو منزلت کے اعتبار سے زیادہ قریب ہے۔ اگر منزلت کے اعتبار سے سب برابر ہوں تو جو سب سے زیادہ قوی ہے وہ زیادہ مستحق ہے اور وہ حقیقی بھائی ہے۔ اگر ہر پہلو سے برابر ہوں تو سب عصبہ میں شریک ہوں گے، واللہ اعلم۔ رہا باپ شریک بہنوں کا بیٹیوں کی معیت یا بھتیجوں کی معیت میں عصبہ ہونا اور ان کا ترکہ میں سے اپنے حصوں سے زائد لینا۔۔۔ تو قرآن مجید میں ایسی کوئی چیز نہیں جو یہ دلالت کرتی ہو کہ بہنیں بیٹیوں کی وجہ سے ساقط ہوجائیں گی۔ جب صورتحال یہ ہوا اور بیٹیوں کے اپنا حصہ لینے کے بعد کچھ بچ جائے تو وہ بہنوں کو دیا جائے گا اور ان کو چھوڑ کر اس عصبہ کی طرف توجہ نہیں کی جائے گی جو ان سے بعید تر ہے۔ مثلاً بھتیجا، چچا اور وہ لوگ جو ان سے بھی بعید تر ہیں واللہ اعلم۔ النسآء
13 یہ تفاصیل جن کا ذکر اللہ تعالیٰ نے میراث کے ضمن میں کیا ہے، اللہ تعالیٰ کی حدود ہیں جن پر رکنا، ان سے تجاوز نہ کرنا اور ان میں کوتاہی سے بچنا فرض ہے اور اس میں امر کی دلیل ہے کہ وارث کے لیے وصیت منسوخ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تمام ورثاء کے حصے مقرر کردیئے ہیں اور اس کے بعد فرمایا : ﴿تِلْكَ حُدُودُ اللَّـهِ﴾ ” یہ اللہ کی حدیں ہیں“ بنا بریں وارث کے لیے اس کے حق سے زیادہ وصیت کرنا (منع کردہ) تجاوز میں داخل ہے۔ نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (لاوصیۃ لوارث) [جامع الترمذی، الوصایا، باب ماجاء لا وصیة لوارث،ح:2120، 2121] ” کسی وارث کے حق میں وصیت کرنا جائز نہیں“ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے عمومی طور پر اپنی اور اپنے رسول کی اطاعت کا اور نافرمانی سے بچنے کا حکم دیا ہے۔ تاکہ اس عمومی اطاعت کے حکم میں فرائض (وراثت) کی حدود کا التزام اور اس سے تجاوز نہ کرنا بھی شامل ہوجائے۔ فرمایا : ﴿وَمَن يُطِعِ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ ﴾ ” اور جو اللہ کی اور اس کے رسول کی اطاعت کرتا ہے“ یعنی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے حکم کو بجا لا کر، جس میں سب سے بڑی چیز توحید میں ان کی اطاعت کرنا ہے، پھر اوامر میں ان کے درجات کے مطابق اطاعت کرنا اور ان کی منع کردہ چیزوں سے اجتناب کرنا ہے، جن میں سب سے بڑا ممنوع اللہ کے ساتھ شرک ہے، پھر دوسرے معاصی ہیں، ان کی درجہ بندی کے ساتھ۔ ﴿يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا﴾ ” اے اللہ باغوں میں لے جائے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے“ پس جو کوئی اللہ تعالیٰ کے احکام کی تعمیل کرتا ہے اور منہیات سے بچتا ہے وہ ضرور جنت میں داخل ہوگا اور اسے جہنم سے نجات ملے گی۔ ﴿وَذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ﴾ ” یہی وہ بڑی کامیابی ہے“ جو اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور اس کے عذاب سے نجات کے حصول کی ضمانت ہے اور اسی کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کی رضا، اس کے ثواب اور اس کی دائمی نعمتوں سے بہرہ ور ہوا جاسکتا ہے جن کا وصف کوئی بیان نہیں کرسکتا۔ النسآء
14 ﴿وَمَن يَعْصِ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ ﴾ ” اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا“ اور نافرمانی میں کفر اور اس سے کم تر گناہ سب شامل ہیں۔ یہاں خوارج کے لیے کوئی شبہ کی گنجائش نہیں جو گناہ گاروں کے کفر کے قائل ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی اطاعت اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت پر دخول جنت کو مترتب کیا ہے اور اپنی نافرمانی اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی پر دخول جہنم کو مترتب کیا ہے۔ پس جو کوئی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اطاعت کرتا ہے وہ بلا عذاب جنت میں داخل ہوگا، اسی طرح جو کوئی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مکمل نافرمانی کرتا ہے، جس میں شرک اور دیگر گناہ بھی شامل ہیں وہ جہنم میں داخل ہوگا اور ہمیشہ وہاں رہے گا اور جس میں اطاعت اور نافرمانی دونوں مجتمع ہیں تو گویا اس میں اس کی اطاعت اور نافرمانی کی مقدار کے مطابق ثواب اور عذاب کی موجبات موجود ہیں اور نصوص متواترہ دلالت کرتی ہیں کہ موحدین جن کے ساتھ اطاعت توحید ہے، جہنم میں ہمیشہ نہیں رہیں گے۔ پس جن کے ساتھ توحید ہے، وہ توحید ان کے جہنم میں ہمیشہ رہنے سے مانع ہے (یعنی ایسے لوگ اپنی نافرمانیوں کی سزا بھگت کر بالآخر جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کردیئے جائیں گے۔) النسآء
15 یعنی عورتیں ﴿وَاللَّاتِي يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ  ﴾’’جوزنا کا ارتکاب کرتی ہیں“ اللہ تعالیٰ نے زنا کو اس کی قباحت اور برائی کی وجہ سے فاحشہ کے نام سے موسوم کیا ہے۔ ﴿فَاسْتَشْهِدُوا عَلَيْهِنَّ أَرْبَعَةً مِّنكُمْ ﴾ اپنے میں سے چار اہل ایمان عادل مردوں کو گواہ بنا لو“ ﴿ فَإِن شَهِدُوا فَأَمْسِكُوهُنَّ فِي الْبُيُوتِ﴾ ” اگر وہ گواہی دے دیں تو ان کو گھروں میں محبوس کر دو“ اور باہر جانے سے روک دو جو شک و شبہ کا موجب ہے۔ نیز گھر میں محبوس کردینا ایک قسم کی سزا بھی ہے ﴿حَتَّىٰ يَتَوَفَّاهُنَّ الْمَوْتُ﴾ ” یہاں تک کہ موت ان کا کام تمام کر دے“ یعنی یہ محبوس رکھنے کی انتہا ہے ﴿أَوْ يَجْعَلَ اللَّـهُ لَهُنَّ سَبِيلًا  ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ انہیں گھروں میں محبوس کرنے کے علاوہ کوئی اور طریقہ مقرر فرما دے۔ یہ آیت کریمہ منسوخ نہیں بلکہ یہ تو اس وقت تک کے لیے غایت مقرر ہے (جب تک اللہ تعالیٰ اس کے لیے کوئی اور راستہ نہیں نکال دیتا) اسلام کی ابتدا میں یہی طریقہ رائج رہا جب تک کہ اللہ تعالیٰ نے اس کا متبادل حکم نازل نہیں فرما دیا اور وہ ہے شادی شدہ زانی اور زانیہ کو رجم کرنا اور غیر شادی شدہ زانی اور زانیہ کو کوڑے لگانا۔ النسآء
16 اور اسی طرح ﴿وَاللَّذَانِ يَأْتِيَانِهَا مِنكُمْ ﴾ تمہارے مردوں اور عورتوں میں سے جو کوئی اس فحش کام کا ارتکاب کرتا ہے ﴿فَآذُوهُمَا ﴾ پس انہیں زبانی طور پر زجر و توبیخ اور ملامت کرو اور اس برے کام پر عار دلاؤ اور ان کو عبرت ناک مار پیٹ کی سزا دو، جس سے یہ اس فحش کام سے رک جائیں۔ تب اس صورت میں مردوں کو اس فحش کام کے ارتکاب پر مار پیٹ کی سزا دی جائے اور عورتوں کو گھروں میں محبوب رکھ کر سزا دی جائے۔ پس حبس (گھر میں بند کردینا) کی انتہا، موت ہے اور مار پیٹ کی اذیت کی انتہا، توبہ اور اصلاح ہے بنا بریں فرمایا : ﴿فَإِن تَابَا  ﴾یعنی اگر وہ اپنے اس گناہ سے رجوع کرلیں جس کا انہوں نے ارتکاب کیا اس فعل پر نادم ہوں اور دوبارہ نہ کرنے کا عزم کریں ﴿وَأَصْلَحَا ﴾ یعنی اپنے طرز عمل کی اصلاح کرلیں جو ان کی سچی توبہ پر دلالت کرے ﴿ فَأَعْرِضُوا عَنْهُمَا﴾ تو ان کو اذیت پہنچانے سے گریز کرو ﴿إِنَّ اللَّـهَ كَانَ تَوَّابًا رَّحِيمًا﴾ یعنی وہ خطا کار گناہگاروں کی توبہ کو بہت کثرت سے قبول کرتا ہے، وہ عظیم رحمت و احسان کا مالک ہے۔ یہ اس کا احسان ہے کہ اس نے انہیں توبہ کی توفیق سے نوازا پھر ان کی توبہ کو قبول فرمایا اور ان سے صادر ہونے والے گناہوں کے بارے میں ان سے نرمی اختیا رکی۔ ان دو آیتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ زنا کی شہادت میں چار مومن مردوں کی گواہی ضروری ہے اور ان کی عدالت کی شرط عائد کرنا بطریق اولیٰ ضروری ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس فحش کام کے بارے میں بہت سختی کی ہے تاکہ اس سے بندوں کی پردہ پوشی رہے۔ یہاں تک کہ اس بارے میں عورتوں کی شہادت، خواہ وہ اکیلی ہو یا مردوں کی معیت میں، ناقابل قبول ٹھہرایا ہے اور چار مردوں سے کم کی گواہی بھی قبول نہیں کی نیز اس میں صراحت کے ساتھ شہادت کو لازم قرار دیا ہے۔ جیسا کہ صحیح احادیث اس پر دلالت کرتی ہیں اور یہ آیت بھی اس پر دلالت کرتی ہے ﴿فَاسْتَشْهِدُوا عَلَيْهِنَّ أَرْبَعَةً مِّنكُمْ ۖ ﴾ پھر اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ فرمایا : ﴿فَإِن شَهِدُوا ﴾یعنی ایک ایسے معاملے میں اشارہ کنایہ کے بغیر صریح شہادت لازم ہے جسے آنکھوں سے مشاہدہ کیا گیا ہو۔ ان آیات کریمہ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ قول و فعل سے اذیت پہنچانا اور قید کردینا، اس کو اللہ نے معصیت کاری کے لیے تعزیر بنایا جس سے زجر و توبیخ کا مقصد حاصل ہوتا ہے۔ النسآء
17 اللہ تعالیٰ کا بندوں کی طرف رجوع کرنے کی دو قسمیں ہیں۔ (١) اللہ تعالیٰ کا بندے کو توبہ کی توفیق عطا کرنا۔ (٢) بندے کے توبہ کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کا اس کو قبول کرلینا۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں آگاہ فرمایا ہے کہ توبہ اللہ تعالیٰ پر استحقاق ہے، قبولیت توبہ ایک ایسا حق ہے جسے خود اللہ تعالیٰ نے اپنے جود و کرم کی بنا پر اپنے آپ پر اس بندے کے لیے لازم فرمایا ہے جو برا کام کر بیٹھتا ہے ﴿بِجَهَالَةٍ ﴾ یعنی وہ اس برائی کے انجام، اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور اس کے عذاب سے، جس کی یہ برائی موجب ہوتی ہے۔ لاعلمی کی وجہ سے برائی کا ارتکاب کرتا ہے۔ وہ برائی کرتے وقت اس بات سے بھی جاہل ہوتا ہے کہ اللہ دیکھ رہا ہے نیز وہ اس سے بھی لاعلم ہوتا ہے کہ برائی کا ارتکاب ایمان میں کمی یا اسے معدوم کرنے کا باعث بنتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کا ہر نا فرمان شخص اس اعتبار سے جاہل ہوتا ہے خواہ وہ اس برائی کی تحریم کا علم رکھتا ہو۔ بلکہ برائی کی تحریم کا علم، اس کے معصیت ہونے اور اس کے مرتکب کی سزا کے لیے شرط ہے۔ ﴿ثُمَّ يَتُوبُونَ مِن قَرِيبٍ ﴾ اس میں اس معنی کا بھی احتمال ہے کہ وہ موت کو دیکھ لینے سے قبل توبہ کرلیتے ہیں۔ یہ بات قطعی ہے کہ جب بندہ موت کے معائنہ سے قبل توبہ کرلیتا ہے تو اللہ بندے کی توبہ قبول کرلیتا ہے۔ موت کو دیکھ لینے کے بعد گناہ گاروں کی توبہ قابل قبول نہیں ہوتی اور نہ کفار کے لیے رجوع کی کوئی گنجائش رہتی ہے۔ فرعون کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿حَتَّىٰ إِذَا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ قَالَ آمَنتُ أَنَّهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا الَّذِي آمَنَتْ بِهِ بَنُو إِسْرَائِيلَ﴾ (یونس :10؍90) ” یہاں تک کہ جب وہ ڈوبنے لگا تو کہنے لگا کہ میں ایمان لایا کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں جس پر بنو اسرایئل ایمان لائے ہیں۔“ اور اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :﴿ فَلَمَّا رَأَوْا بَأْسَنَا قَالُوا آمَنَّا بِاللَّـهِ وَحْدَهُ وَكَفَرْنَا بِمَا كُنَّا بِهِ مُشْرِكِينَ فَلَمْ يَكُ يَنفَعُهُمْ إِيمَانُهُمْ لَمَّا رَأَوْا بَأْسَنَا ۖ سُنَّتَ اللَّـهِ الَّتِي قَدْ خَلَتْ فِي عِبَادِهِ﴾ (المومن :40؍84‘85) ” جب انہوں نے ہمارا عذاب دیکھ لیا تو انہوں نے کہا ہم ایک اللہ پر ایمان لائے اور ہم نے ان خداؤں کا انکار کیا جنہیں ہم اللہ کا شریک ٹھہراتے تھے۔ مگر جب انہوں نے ہمارا عذاب دیکھ لیا تو ان کے ایمان نے ان کو کوئی فائدہ نہ دیا۔ یہ اللہ کی سنت ہے جو اس کے بندوں کے بارے میں چلی آرہی ہے۔ “ النسآء
18 یہاں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَلَيْسَتِ التَّوْبَةُ لِلَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئَاتِ ﴾” ان کی توبہ نہیں جو برائیاں کرتے چلے جائیں“ یہاں برائیوں سے مراد کفر سے کم تر گناہ ہیں﴿حَتَّىٰ إِذَا حَضَرَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ إِنِّي تُبْتُ الْآنَ وَلَا الَّذِينَ يَمُوتُونَ وَهُمْ كُفَّارٌ ۚ أُولَـٰئِكَ أَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا ﴾ ” یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کے پاس موت آجائے تو کہہ دے کہ میں نے اب توبہ کی، ان کی توبہ قبول نہیں جو کفر ہی پر مر جائیں، یہی لوگ ہیں جن کے لیے ہم نے الم ناک عذاب تیار کر رکھے ہیں“ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس حالت میں توبہ اضطراری توبہ ہے جو توبہ کرنے والے کو کوئی فائدہ نہیں دیتی۔ صرف اختیاری توبہ فائدہ دیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿مِن قَرِيبٍ ﴾میں اس معنی کا بھی احتمال ہے کہ توبہ کے موجب، گناہ کے ارتکاب کے ساتھ ہی توبہ کی جائے۔۔۔۔۔۔ تب آیت کا معنی یہ ہوگا ” جس کسی نے برائی کا ارتکاب کرتے ہی برائی کو چھوڑنے میں جلدی کی اور نادم ہو کر اس نے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کیا۔ اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرتا ہے۔“ اس کے برعکس وہ شخص جو اپنے گناہ پر قائم اور اپنے عیوب پر مصر رہتا ہے یہاں تک کہ یہ گناہ اس کی عادت راسخہ بن جاتا ہے تب اس کے لیے پوری طرح توبہ کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ غالب طور پر اسے توبہ کرنے کی توفیق نصیب نہیں ہوتی اور اس کے لیے توبہ کے اسباب مہیا نہیں کئے جاتے۔ مثلاً وہ شخص جو جانتے بوجھتے اور اس یقین کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ دیکھ رہا ہے اور استہزاء کے ساتھ برے اعمال کا ارتکاب کرتا ہے وہ اپنے لیے اللہ تعالیٰ کی رحمت کا دروازہ بند کرلیتا ہے۔ ہاں کبھی کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ بندہ اللہ تعالیٰ پر یقین رکھتے ہوئے عمداً گناہوں کا ارتکاب کرتا ہے اور ان گناہوں پر مصر رہتا ہے مگر اللہ اسے توبہ نافعہ کی توفیق عطا کردیتا ہے یہ توبہ اس کے گزشتہ گناہ اور جرائم کو دھو ڈالتی ہے مگر اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کی توفیق پہلے شخص کے زیادہ قریب ہوتی ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے پہلی آیت اس طرح ختم فرمائی : ﴿وَكَانَ اللَّـهُ عَلِيمًا حَكِيمًا  ﴾” اور اللہ علم اور حکمت والا ہے“ اور اللہ تعالیٰ کے جاننے میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ جانتا ہے کہ کون سچی توبہ کرتا ہے اور کون اپنی توبہ میں جھوٹا ہے، ان میں سے ہر ایک کو اپنی حکمت کے مطابق، جس کا وہ مستحق ہوگا، جزا دیتا ہے اور یہ بھی اس کی حکمت کا حصہ ہے کہ وہ اسے توبہ کی توفیق عطا کر دیتا ہے جس کیلیے اس کی حکمت، رحمت اور توفیق تقاضا کرتی ہے اور اسے اپنے حال پر چھوڑ کر علیحدہ ہوجاتا ہے جس کو چھوڑنا اس کا عدل و حکمت اور عدم توفیق تقاضا کرتے ہیں۔ واللہ اعلم النسآء
19 زمانہ جاہلیت میں اگر کوئی شخص مر جاتا اور اپنے پیچھے بیوی چھوڑتا تو مرنے والے کا کوئی قریبی مثلاً بھائی یا چچا زاد بھائی وغیرہ سمجھتا تھا کہ وہ اس عورت کا سب سے زیادہ مستحق ہے۔ چنانچہ عورت خواہ پسند کرتی یا ناپسند کرتی وہ اس عورت پر قبضہ کرلیتا تھا اور اسے کسی اور کے ساتھ نکاح نہ کرنے دیتا۔ اگر وہ چاہتا تو وہ اس کے ساتھ اپنی مرضی کے مطابق حق مہر پر اس سے نکاح کرلیتا اور اگر وہ اسے پسند نہ کرتا تو اسے نکاح کرنے سے روک دیتا اور صرف اسی کے ساتھ اس کا نکاح کرتا جسے وہ خود منتخب کرتا اور بسا اوقات وہ اس کا نکاح اس وقت تک نہ ہونے دیتا جب تک وہ مرنے والے شوہر کی میراث یا مہر میں سے اسے کچھ نہ دے دیتی۔ نیز وہ اپنی ناپسندیدہ بیوی کو بھی روک رکھتا اور دوسری جگہ نکاح نہ کرنے دیتا تاکہ وہ اپنا حق مہر اور وہ سامان ساتھ نہ لے جائے جو اس نے اسے عطا کیا تھا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان تمام امور سے اہل ایمان کو منع کیا ہے۔ سوائے مندرجہ ذیل دو حالتوں کے۔ ١۔ جب عورت برضا و رغبت اپنے سابقہ شوہر کے کسی قریبی رشتہ دار کے ساتھ نکاح کرلے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿كَرْهًا ﴾کا مفہوم مخالف ہے۔ ٢۔ جب واضح بدکاری مثلاً زنا وغیرہ کا ارتکاب کرے اور فحش گوئی کے ذریعے سے اپنے شوہر کو اذیت دے، تو اس صورت میں خاوند کا اس کو اس کے کرتوتوں کی سزا کے طور پر، دوسری جگہ شادی کرنے سے روکنا جائز ہے، تاکہ وہ خاوند سے وصول کردہ مال واپس کرنے پر آمادہ ہوجائے۔ (یہ گویا خلع کی صورت میں جس میں خاوند حق مہر وغیرہ واپس لے سکتا ہے) لیکن شرط یہی ہے کہ یہ روکنا عدل و انصاف کے مطابق ہو۔ ﴿وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ ﴾ ” اور ان سے اچھے طریقے سے گزران کرو“ یہ حکم قولی اور فعلی دونوں قسم کی معاشرت (گزران) کو شامل ہے، پس شوہر پر فرض ہے کہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ اچھے طریقے سے رہے، اسے کوئی اذیت نہ دے اس کے ساتھ بھلائی اور حسن معاملہ سے پیش آئے۔ اس میں نان و نفقہ اور لباس وغیرہ سب شامل ہیں۔ پس زمان و مکان کے احوال کے مطابق شوہر کا بیوی سے معروف طریقے سے پیش آنا فرض ہے اور اسی طرح بیوی پر بھی فرض ہے۔ یہ چیز احوال کے تفاوت کے مطابق متفاوت ہوتی ہے۔ ﴿فَإِن كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَىٰ أَن تَكْرَهُوا شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللَّـهُ فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًا ﴾ ” اگر تم انہیں ناپسند کرو، لیکن بہت ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو برا جانو اور اللہ اس میں بہت ہی بھلائی کر دے“ یعنی اے شوہر و تم اپنی بیویوں کو ناپسند کرنے کے باوجود اپنے پاس رکھو کیونکہ ایسا کرنے میں خیر کثیر ہے۔ مثلاً اس میں اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل اور اس کی وصیت کو قبول کرنا ہے، جس کے اندر دنیا و آخرت کی سعادت ہے۔ ٣۔ شوہر کا اپنی بیوی کے ساتھ عدم محبت کے باوجود اپنے آپ کو اس کے ساتھ رہنے پر مجبور کرنا، اس میں مجاہدہ نفس بھی ہے اور خلق جمیل سے آراستہ ہونا بھی۔ ٤۔ بسا اوقات ناپسندیدگی زائل ہوجاتی ہے اور اس کی جگہ محبت لے لیتی ہے جیسا کہ فی الواقع ہوتا ہے۔ ٥۔ اور کبھی یوں بھی ہوتا ہے اللہ تعالیٰ ان دونوں کو صالح اولاد عطا کردیتا ہے جو دنیا و آخرت میں اپنے والدین کو نفع دیتی ہے۔ بیوی کو اپنے ساتھ رکھنے میں ان تمام امور کے امکانات موجود ہیں۔ النسآء
20 البتہ جب بیوی سے مفارقت ناگزیر ہوجائے اور اس کو ساتھ رکھنے کی کوئی صورت بنتی نظر نہ آئے، تب اسے روک رکھنا لازم نہیں ﴿وَإِنْ أَرَدتُّمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَّكَانَ زَوْجٍ ﴾ یعنی جب تم ایک بیوی کی جگہ دوسری بیوی لانا چاہو یعنی ایک بیوی کو طلاق دے کر دوسری بیوی سے نکاح کرنا چاہو تو اس میں کوئی گناہ اور حرج کی بات نہیں ﴿وَآتَيْتُمْ إِحْدَاهُنَّ  ﴾ البتہ اگر تم نے جدا ہونے والی بیوی کو یا اس کو جس سے نکاح کیا ہے ﴿قِنْطَارًا﴾ مال کثیر عطا کر رکھا ہو ﴿ فَلَا تَأْخُذُوا مِنْهُ شَيْئًا ﴾تو اس سے کوئی چیز واپس نہ لو بلکہ اس میں اور زیادتی کرو اور ان کے ساتھ ٹال مٹول نہ کرو۔ یہ آیت کریمہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ کثرت مہر حرام نہیں۔ مگر بایں ہمہ تخفیف مہر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا افضل اور زیادہ لائق اعتنا ہے اور استدلال کا پہلو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک معاملے کی خبر دی ہے جو ان سے واقع ہوا، مگر اس پر نکیر نہیں فرمائی، جس سے معلوم ہوا کہ یہ فعل حرام نہیں ہے، مگر کبھی زیادہ حق مہر مقرر کرنے سے روکا بھی گیا ہے جبکہ اس میں دینی مفاسد ہوں اور اس کے مقابلے میں کوئی مصلحت نہ ہو۔ پھر فرمایا :﴿ أَتَأْخُذُونَهُ بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُّبِينًا  ﴾ ” کیا تم اسے ناحق اور کھلا گناہ ہوتے ہوئے بھی لے لو گے“ کیونکہ ایسا کرنا جائز نہیں خواہ تم بیوی کو عطا کی ہوئی چیز واپس لینے کے لیے کوئی بھی حیلہ کرلو، بہرحال یہ واضح گناہ ہے۔ النسآء
21 اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے اس ارشاد کے ذریعے سے اس کی حکمت بیان فرمائی ہے ﴿وَكَيْفَ تَأْخُذُونَهُ وَقَدْ أَفْضَىٰ بَعْضُكُمْ إِلَىٰ بَعْضٍ وَأَخَذْنَ مِنكُم مِّيثَاقًا غَلِيظًا﴾” تم اسے کیسے لے لو گے؟ حالانکہ تم ایک دوسرے سے مل چکے ہو اور ان عورتوں نے تم سے مضبوط عہد و پیمان لے رکھا ہے“ اور اس کی توضیح یوں ہے کہ بیوی شوہر کے لیے نکاح سے قبل حرام ہوتی ہے اس نے بیوی کے طور پر حلال ہونے کے لیے صرف حق مہر کے عوض رضا مندی کا اظہار کیا تھا جو وہ بیوی کو ادا کرے گا۔ جب اس نے اپنی بیوی کے ساتھ خلوت صحیحہ میں صحبت اور مباشرت کی جو اس سے قبل حرام تھی اور وہ بیوی اس کے لیے اس عوض کے بغیر راضی نہ تھی، پس شوہر نے مہر کا معوض پوری طرح وصول کرلیا، تو اس پر عوض (مہر) کی ادائیگی واجب ہوگئی۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ شوہر معوض (یعنی صحبت و مباشرت) تو پورا پورا وصول کرے پھر اس کے بعد حق مہر ادا نہ کرے۔ یہ بہت بڑا ظلم اور جور ہے۔ (اس لیے ایسا نہ کرو) اور اسی طرح اللہ تعالیٰ نے عقد میں بیوی کے حقوق کے قیام کے لیے شوہروں سے پکا عہد لیا ہے۔ (اس کا بھی تقاضا عدل و کرم ہے نہ کہ ظلم و جبر) النسآء
22 یعنی ان عورتوں سے نکاح نہ کرو جن سے تمہارے باپ اور دادا نکاح کرچکے ہوں ﴿ إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً ﴾ ” یہ بہت قبیح کام ہے“ اور اس کی قباحت بہت بڑھی ہوئی ہے ﴿وَمَقْتًا ﴾ تمہارے لیے اللہ تعالیٰ اور مخلوق کی ناراضی کا باعث ہے۔ بلکہ اس کے سبب سے بیٹا باپ سے اور باپ بیٹے سے ناراض ہوجاتا ہے، حالانکہ بیٹے کو باپ کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنے کا حکم ہے۔ ﴿وَسَاءَ سَبِيلًا ﴾ (اس راستے پر) چلنے والے کے لیے یہ برا راستہ ہے۔ کیونکہ یہ جاہلیت کی قبیح رسوم و عادات ہیں جن سے (معاشرے کو) پاک کرنے کے لیے اسلام آیا ہے۔ النسآء
23 یہ آیات کریمہ نسبی محرمات، رضاعی محرمات اور سسرالی قرابت کی بنا پر محرمات، جمع کرنے کی بنا پر محرمات اور حلال عورتوں کے احکام پر مشتمل ہیں۔ نسب کے اعتبار سے حرام عورتیں سات ہیں، جن کا اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے۔ (١) ماں : اس میں ہر وہ عورت داخل ہے جس سے آپ پیدا ہوئے ہیں خواہ وہ کتنی ہی دور اوپر چلی جائیں۔ (٢) بیٹی : بیٹی کے رشتے میں ہر وہ عورت داخل ہے جس کو آپ نے جنم دیا ہے۔ (خواہ وہ کس قدر نیچے تک چلی جائیں) (٣) بہن : اس رشتے میں تمام حقیقی، اخیافی (ماں شریک) اور علاتی (باپ شریک) بہنیں شامل ہیں۔ (٤) پھوپھی : ہر وہ عورت جو آپ کے باپ یا دادا کی بہن ہے خواہ وہ کتنی ہی دور اوپر تک چلی جائیں۔ (٥) خالہ : ہر وہ عورت جو آپ کی ماں یا آپ کی نانی کی بہن ہے خواہ کتنی ہی دور اوپر تک چلی جائیں، خواہ وہ وارث ہے یا نہیں ہے۔ (٦، ٧) اسی طرح بھائی کی بیٹیاں (بھتیجیاں) اور بہن کی بیٹیاں (بھانجیاں) خواہ کتنی ہی دور تک نیچے چلی جائیں۔ یہ وہ سات محرمات ہیں جو نسب کے اعتبار سے حرام ہیں اور ان کی حرمت پر علماء کا اجماع ہے جیسا کہ آیت کریمہ کی نص سے ظاہر ہے۔ ان مذکورہ عورتوں کے علاوہ عورتیں اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں داخل ہیں ﴿وَأُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَاءَ ذٰلِكُمْ ﴾ (النساء :4؍24) ” ان محرمات عورتوں کے سوا دیگر تمام عورتیں تمہارے لیے حلال کردی گئیں“ مثلاً پھوپھی کی بیٹی، چچا کی بیٹی، ماموں کی بیٹی اور خالہ کی بیٹی۔ جہاں تک رضاعت کے اعتبار سے محرمات کا تعلق ہے تو اللہ تعالیٰ نے ان آیات کریمہ میں رضاعی ماں اور رضاعی بہن کا ذکر فرمایا ہے۔ مگر اس تحریم میں رضاعی ماں کی ماں بھی شامل ہے حالانکہ حرمت کا باعث دودھ اس کا نہیں بلکہ وہ تو دودھ کے مالک یعنی رضاعی ماں کے شوہر کا ہے۔ یہ تنبیہ اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ رضاعی ماں کا شوہر (یعنی دودھ کا مالک) دودھ پینے والے کا (رضاعی) باپ ہے۔ جب رضاعی باپ ہونا اور ماں ہونا ثابت ہوگیا تو انکی بہنوں وغیرہ اور ان کے اصول و فروع کی حرمت ثابت ہوگئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( يَحْرُمُ مِنَ الرَّضَاعِ مَا يَحْرُمُ مِنَ النَّسَبِ)) [صحیح مسلم، الرضاع، باب یحرم من الرضاعة ۔۔۔ح :1444 وسنن النسائی‘ النکاح، یحرمن الرضاع‘ ح:4؍ 33] ” جو رشتہ نسب کے اعتبار سے حرام ہے وہ رشتہ رضاعت کے اعتبار سے بھی حرام ہے۔“ پس یہ تحریم دودھ پلانے والی کی جہت سے اور اس کے خاوند کی جہت سے پھیلے گی۔ جیسا کہ وہ تحریم نسبی اقارب میں پھیلتی ہے اور یہ تحریم دودھ پینے والے بچے میں صرف اس کی اولاد تک پھیلے گی۔ مگر اس شرط کے ساتھ کہ بچے نے اپنے دو سال کی عمر میں کم از کم پانچ بار دودھ پیا ہو۔ جیسا کہ سنت نے واضح کیا ہے۔ سسرالی قرابت کے اعتبار سے حرام رشتے چار ہیں۔ باپ دادا کی بیویاں : خواہ وہ کتنی ہی دور اوپر تک چلے جائیں۔ بیٹیوں کی بیویاں : خواہ کتنی ہی دور نیچے تک چلے جائیں، خواہ وہ وارث ہوں یا محجوب۔ بیوی کی ماں : خواہ کتنی ہی دور اوپر تک چلی جائیں۔ یہ تین رشتے مجرد نکاح سے حرام ہوجاتے ہیں۔ چوتھا رشتہ سوتیلی بیٹی کا ہے۔ سوتیلی بیٹی بیوی کے پچھلے شوہر سے بیوی کی بیٹی ہے۔ خواہ کتنی ہی دور نیچے چلی جائیں۔ یہ سوتیلی بیٹی اس وقت تک حرام نہیں ہوتی جب تک کہ اس کی ماں سے خلوت صحیحہ نہ ہوئی ہو۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَرَبَائِبُكُمُ اللَّاتِي فِي حُجُورِكُم مِّن نِّسَائِكُمُ اللَّاتِي دَخَلْتُم بِهِنَّ﴾ ” اور تمہاری پرورش کردہ وہ لڑکیاں جو تمہاری گود میں ہیں، تمہاری ان عورتوں سے جن سے تم دخول (خلوت صحیحہ) کرچکے ہو۔ “ جمہور اہل علم کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿اللَّاتِي فِي حُجُورِكُم ﴾” جو تمہاری پرورش میں ہیں“ کی قید ہے جس میں غالب احوال کا اعتبار کیا گیا ہے اس کا مفہوم مخالف معتبر نہیں۔ بنا بریں سوتیلی بیٹی خواہ سوتیلے باپ کے گھر میں نہ وہ تب بھی حرام ہے۔ البتہ اس تنقید کے دو فائدے ہیں۔ (اول) اس میں سوتیلی بیٹی کی تحریم کی حکمت کی طرف اشارہ ہے گویا وہ بھی صلبی بیٹی کی طرح ہے۔ لہٰذا اس کی اباحت بہت ہی قبیح بات ہے۔ (ثانی) اس میں اس امر کی دلیل ہے کہ سوتیلی بیٹی کے ساتھ تنہائی اور خلوت جائز ہے کیونکہ وہ صلبی اور نسبی بیٹیوں کی مانند ہے۔ اللہ اعلم۔ رہا ایک ساتھ نکاح میں جمع کرنے سے ممنوع اور حرام رشتے تو اللہ تعالیٰ نے دو بہنوں کو جمع کرنے کا ذکر فرمایا ہے اور ان کے جمع کرنے کو حرام ٹھہرایا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیوی اور اس کی پھوپھی، بیوی اور اس کی خالہ کو ایک ساتھ نکاح میں رکھنے کو حرام ٹھہرایا ہے۔ پس ہر وہ دو عورتیں جن کے مابین رحم کا رشتہ ہے، اگر ان دونوں عورتوں میں سے ایک کو مرد اور دوسری کو عورت مان لیا جائے تو وہ دونوں ایک دوسرے کے لیے حرام ہوں، تو ان دونوں کو جمع کرنا حرام ہوگا اور یہ اس لیے کہ اس صورت میں باہم قطع رحمی کے اسباب ہیں۔ النسآء
24 نیز ان عورتوں سے بھی نکاح حرام ہے جو اس آیت میں مذکور ہیں۔ ﴿وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاءِ ﴾” اور شوہر والی عورتیں بھی“ (تم پر حرام ہیں) یعنی جو پہلے سے شادی شدہ اور خاوند والی ہیں۔ جب تک یہ عورتیں پہلے شوہر کی زوجیت میں ہیں اور جب تک پہلا خاوند طلاق نہ دے دے اور یہ اپنی عدت پوری نہ کرلیں، اس وقت تک دوسرے خاوند کے لیے حرام ہیں۔ ﴿إِلَّا مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ﴾ البتہ تمہارے لیے تمہاری لونڈیاں حلال ہیں۔ اگر جنگ کے دوران خاوند والی عورت کو قیدی بنا لیا جائے تو وہ استبرائے رحم (ایک حیض) کے بعد مسلمانوں کے لیے حلال ہے۔ اگر منکوحہ لونڈی کو فروخت کردیا جائے یا کسی کو ہبہ میں دے دیا جائے تو اس سے لونڈی کا نکاح فسخ نہیں ہوگا۔ دوسرا مالک پہلے مالک کے مقام پر تصور کیا جائے گا اس کی دلیل وہ حدیث ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بریرہ رضی اللہ عنہا کو اپنے خاوند کے ساتھ رہنے یا نہ رہنے کا اختیار عطا فرمایا تھا۔ [سنن ابي داؤد، الطلاق، باب في المملوكة تعتق و هي تحت حرا أو عبد، حديث: 2231] ﴿كِتَابَ اللَّـهِ عَلَيْكُمْ ﴾ ”(یہ حکم) اللہ نے تم پر فرض کردیا ہے۔“ اس کا التزام کرو اور اس کو راہنما بناؤ۔ کیونکہ اس کے اندر تمہارے لیے شفا اور روشنی ہے اور اس کے اندر حلال و حرام کی تفصیلات ہیں۔ ﴿وَأُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَاءَ ذَٰلِكُمْ  ﴾ ہر وہ عورت جس کا ذکر اس آیت کریمہ میں نہیں ہے، وہ حلال ہے۔ حرام محدود ہے اور حلال لامحدود اور غیر محصور ہے یہ اللہ تعالیٰ کا بندوں پر لطف و کرم، اس کی رحمت اور ان کے لیے اس کی عطا کردہ آسانی ہے۔ ﴿أَن تَبْتَغُوا بِأَمْوَالِكُم ﴾ ” اس طرح سے کہ مال خرچ کر کے ان سے نکاح کرلو۔“ یعنی ان عورتوں میں سے جن کو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے مباح قرار دیا ہے، جن کو تمہاری نظر نے منتخب کیا (ان کو حق مہر کے عوض) اپنے نکاح میں لاؤ۔ ﴿مُّحْصِنِينَ ﴾ ” نکاح کرنے والے ہو“ یعنی خود بھی زنا سے محفوظ رہتے ہوئے اور اپنی عورتوں کو بھی زنا سے بچاتے ہوئے۔ ﴿ غَيْرَ مُسَافِحِينَ ﴾ ” نہ کہ بدکاری کرنے والے“ (اَلسَّفْحُ) سے مراد ہے حرام یا حلال جگہ پانی بہانا۔ (یعنی مباشرت کرنا) کیونکہ زنا کا ارتکاب کرنے والا اپنی بیوی کو محفوظ نہیں رکھ سکتا کیونکہ وہ اپنی شہوت حرام طریقے سے پوری کرتا رہا، پس اس میں حلال طریقے سے شہوت پوری کرنے کا داعیہ کمزور پڑگیا، بنا بریں اپنی بیوی کو پاکباز رکھنے کے لیے اس کے پاس کچھ باقی نہ بچا۔ اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ صرف پاک دامنوں سے نکاح کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿الزَّانِي لَا يَنكِحُ إِلَّا زَانِيَةً أَوْ مُشْرِكَةً وَالزَّانِيَةُ لَا يَنكِحُهَا إِلَّا زَانٍ أَوْ مُشْرِكٌ ﴾ (النور :24؍3) ” بدکار مرد بدکار عورت یا مشرک عورت کے ساتھ نکاح کرتا ہے اور بدکار عورت کے ساتھ بھی بدکار یا مشرک ہی نکاح کرتا ہے۔ “ ﴿فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ ﴾ ” تو جن عورتوں سے تم فائدہ حاصل کرو۔“ یعنی جن کے ساتھ تم نے نکاح کیا ہے ﴿ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ ﴾ ” تو ان کو ان کا مہر ادا کر دو۔“ یعنی تم ان کے جسم سے فائدہ اٹھانے کے بدلے میں ان کو ان کا اجر یعنی حق مہر ادا کرو۔ بنا بریں جب شوہر اپنی بیوی کے ساتھ خلوت کرے سب سے پہلے مہر مقرر کرے ﴿ فَرِيضَةً ﴾” جو مقرر کیا ہو۔“ یعنی تمہاری اپنی بیویوں کو مہر عطا کرنا تم پر فرض ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے فرض کیا ہے۔ یہ کوئی عطیہ اور بخشش نہیں ہے کہ دل چاہا تو دے دیا اور دل چاہا تو واپس لے لیا۔ یا ” فَرِیْضَۃً“ کے ایک معنی یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ مہر ایک مقرر کردہ حق ہے، جسے تم نے خود مقرر کیا ہے، جس کی ادائیگی تم پر واجب ہے، پس تم اس میں سے کچھ کم نہ کرو۔ ﴿ وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا تَرَاضَيْتُم بِهِ مِن بَعْدِ الْفَرِيضَةِ ۚ ﴾ ” اور تم پر گناہ نہیں اس میں جس پر تم مہر مقرر کرنے کے بعد باہم رضا مند ہوجاؤ“ یعنی اگر شوہر مقرر کردہ مہر سے زیادہ ادا کردیتا ہے یا بیوی برضا و رغبت مہر میں سے کچھ حصہ ساقط کردیتی ہے۔ (تو ایسا کرناجائز ہے) اکثر مفسرین کا قول یہی ہے۔ بعض دیگر مفسرین کی رائے یہ ہے کہ آیت کریمہ متعہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو اسلام کے ابتدائی زمانہ میں حلال اور جائز تھا۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دے دیا۔ متعہ کی صورت یہ تھی کہ وقت اور معاوضہ مقرر کردیا جاتا تھا، پھر جب ان دونوں کے درمیان معینہ مدت پوری ہوجاتی اور مہر مقرر کرنے کے بعد باہم رضا مند ہوجاتے تو ان دونوں پر کوئی گناہ نہ ہوتا۔ واللہ اعلم ﴿إِنَّ اللَّـهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا ﴾ ” بے شک اللہ سب کچھ جاننے والا حکمت والا ہے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ وسیع، کامل علم اور کامل حکمت والا ہے۔ یہ اس کا علم اور حکمت ہی ہے کہ اس نے تمہارے لیے یہ قوانین بنائے اور تمہارے لیے یہ حدود مقرر کیں جو حلال و حرام کے درمیان فاصلہ رکھتی ہیں۔ النسآء
25 یعنی تم میں سے جو کوئی آزاد اور مومن عورتوں کو حق مہر ادا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا اور اس کے ساتھ ساتھ اسے اپنے آپ پر بدکاری اور مشقت کا خطرہ ہو، تو اس کے لیے مومن لونڈیوں کے ساتھ نکاح کرنا جائز ہے یہ تو ظاہری احوال کے مطابق ہے ورنہ اللہ تعالیٰ مومن صادق کو خوب جانتا ہے۔ دنیاوی امور ان کے ظاہر پر مبنی ہیں اور آخرت کے احکام کا تعلق انسان کے باطن میں چھپی نیتوں کے ساتھ ہے۔ ﴿ فَانكِحُوهُنَّ بِإِذْنِ أَهْلِهِنَّ  ﴾ ” پس تم لونڈیوں کے ساتھ ان کے مالکوں کی اجازت لے کر نکاح کرلو“ خواہ مالک ایک ہو یا متعدد ہوں۔ ﴿وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ  ﴾” اور دستور کے مطابق ان کا مہر بھی ادا کر دو۔“ یعنی اگرچہ جن کے ساتھ نکاح کیا جا رہا ہے وہ لونڈیاں ہیں تاہم ان کو مہر ادا کرنا اسی طرح فرض ہے جس طرح آزاد کو ادا کرنا فرض ہے۔ مگر لونڈیوں سے نکاح کرنا صرف اسی صورت میں جائز ہے کہ وہ ﴿الْمُحْصَنَاتِ ﴾ ہوں یعنی زنا سے پاک ہوں،﴿غَيْرَ مُسَافِحَاتٍ ﴾ علانیہ بدکاری سے بچی ہوئی ہوں،﴿وَلَا مُتَّخِذَاتِ أَخْدَانٍ ﴾ نہ انہوں نے خفیہ یار دوست بنا رکھے ہوں۔ حاصل کلام یہ کہ آزاد مسلمان کے لیے لونڈی کے ساتھ ان چار شرائط کے بغیر نکاح کرنا جائز نہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے۔ (١) لونڈیاں مومن ہوں۔ (٢) ظاہر اور باطن میں پاکباز ہوں۔ (٣) آزاد عورت کے ساتھ نکاح کی استطاعت نہ ہو۔ (٤) عدم نکاح کی صورت میں بدکاری کا خوف ہو۔ جب یہ شرائط پوری ہوں تو لونڈی کے ساتھ نکاح کرنا جائز ہے۔ بایں ہمہ لونڈیوں کے ساتھ نکاح کرنے سے باز رہنا افضل ہے، کیونکہ لونڈیوں سے نکاح کرنے والے کی اولاد کو غلامی کا طعنہ دیا جاتا ہے نیز یہ گھٹیا بات ہے۔ یہ اس صورت میں ہے کہ انسان صبر کرسکتا ہو اگر وہ حرام میں پڑنے سے باز نہ رہ سکتا ہو تب اس پر لونڈی سے نکاح کرنا واجب ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿وَأَن تَصْبِرُوا خَيْرٌ لَّكُمْ ۗ وَاللَّـهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴾ ” اور تمہارا صبر کرنا تمہارے لیے بہتر ہے۔ اللہ تعالیٰ بخشنے والا نہایت رحم کرنے والا ہے۔ “ ﴿فَإِذَا أُحْصِنَّ ﴾ یعنی جب وہ نکاح کرلیں یا مسلمان ہوجائیں۔ ﴿فَإِنْ أَتَيْنَ بِفَاحِشَةٍ فَعَلَيْهِنَّ نِصْفُ مَا عَلَى الْمُحْصَنَاتِ مِنَ الْعَذَابِ ۚ ﴾ ”پھر اگر ان سے بے حیائی کا کام سر زد ہو تو انہیں آزاد عورتوں سے آدھی سزا دی جائے گی“ یعنی جو آزاد عورتوں کی سزا ہے اس سے نصف لونڈیوں کی سزا ہے۔ وہ سزا جس کا نصف ممکن ہے کوڑوں کی سزا ہے تب ان کے لیے پچاس کوڑوں کی سزا ہے۔ رہی رجم کی بات تو لونڈیوں کے لیے رجم نہیں ہے کیونکہ رجم کا نصف ممکن نہیں۔ لہٰذا اس میں پہلا قول یہ ہے کہ اگر انہوں نے نکاح نہ کیا ہو تو ان پر کوئی حد نہیں۔ البتہ ان کو تعزیری سزا دی جائے تاکہ وہ فواحش کے ارتکاب سے باز رہیں اور دوسرا قول یہ ہے کہ اگر غیر مسلم لونڈیاں فواحش کا ارتکاب کریں تو ان کو بھی تعزیر کی جائے۔ اور اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ کا اختتام اپنے دو اسمائے مبارک (اَلْغَفُوْرٌ) ” بخشنے والا“ (اَلرَّحِیْم) ” نہایت رحم کرنے والا“ پر کیا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے یہ احکام بندوں پر رحمت، اور اس کا کرم و احسان ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کو تنگی میں مبتلا نہیں کیا بلکہ ان کو کشادگی اور وسعت عطا کی۔ شاید حد کا ذکر کرنے کے بعد مغفرت کا ذکر کرنا، اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ حد کفارہ ہے جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے گناہ بخشتا ہے جیسا کہ حدیث میں وارد ہوا ہے۔ مذکورہ بالا حد میں غلام کا بھی وہی حکم ہے جو لونڈی کا حکم ہے کیونکہ دونوں میں امتیاز اور فرق کرنے والا سبب معدوم ہے۔ النسآء
26 اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اپنی عظیم نوازش، بہت بڑے فضل و کرم اور اپنے مومن بندوں کی حسن تربیت اور دین کی سہولت سے آگاہ کرتے ہوئے فرماتا ہے : ﴿ يُرِيدُ اللَّـهُ لِيُبَيِّنَ لَكُمْ﴾” اللہ چاہتا ہے کہ تمہارے واسطے بیان کرے۔“ یعنی حق و باطل اور حلال و حرام میں سے جس جس چیز کی توضیح کے تم محتاج ہو اللہ تعالیٰ اسے کھول کھول کر بیان کرتا ہے ﴿وَيَهْدِيَكُمْ سُنَنَ الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ ﴾ اللہ تعالیٰ تمہیں ان لوگوں کا راستہ دکھاتا ہے جن پر اللہ تعالیٰ نے احسان کیا یعنی انبیائے کرام اور ان کے متبعین کی سیرت حمیدہ، ان کے افعال صالحہ، ان کی عادات کاملہ اور ان کی توفیق تام کا راستہ۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے جو ارادہ فرمایا اسے نافذ کیا، تمہارے سامنے اسے پوری طرح واضح کردیا جیسے تم سے پہلے لوگوں پر اسے پوری طرح واضح کردیا تھا اور تمہیں علم و عمل میں عظیم ہدایت سے نوازا ﴿وَيَتُوبَ عَلَيْكُمْ﴾ ” اور رجوع کرے تم پر“ یعنی اللہ تم پر تمہارے تمام احوال میں اور تمہارے لیے بنائی ہوئی شریعت میں اپنے لطف و کرم کا فیضان کرتا ہے۔ یہاں تک کہ تمہارے لیے ان حدود پر ٹھہرناممکن ہوجاتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمائی ہیں اور تم اسی پر اکتفا کرتے ہو جو اس نے تمہارے لیے حلال ٹھہرایا ہے۔ پس اس آسانی کے باعث جو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے پیدا کی ہے، تمہارے گناہ کم ہوجاتے ہیں، پس یہ اللہ کا اپنے بندے کی طرف توبہ کے ساتھ پلٹنا ہے۔ نیز اللہ تبارک و تعالیٰ کا اپنے بندوں کی طرف توبہ کے ساتھ پلٹنا یہ بھی ہے کہ جب ان سے گناہ کا ارتکاب ہوجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ ان پر رحمت کے دروازے کھول دیتا ہے اور ان کے دلوں میں انابت اور تذلل الہام کردیتا ہے، پھر وہ توبہ کو قبول کرتا ہے جس کی توفیق اس نے خود عطا کی تھی۔ اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر اور اس کی حمد و ثناء ہے۔ ﴿وَاللَّـهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ﴾” اور اللہ جاننے والا حکمت والا ہے۔“ یعنی وہ کامل حکمت والا ہے یہ اس کے علم ہی کا حصہ ہے کہ اس نے تمہیں اس چیز کی تعلیم دی جس کا تمہیں علم نہیں تھا۔ یہ اشیاء اور یہ حدود اسی زمرے میں آتی ہیں اور اس کی حکمت کے حصے سے یہ ہے کہ وہ اس بندے کی توبہ قبول کرتا ہے جس کی توبہ قبول کرنے کا تقاضا اس کی حکمت اور رحمت کرتی ہے اور اس بندے کو چھوڑ کر اس سے علیحدہ و جاتا ہے جس کو اپنے حال پر چھوڑ دینا اس کی حکمت اور عدل تقاضا کرتا ہے اور جو توبہ کی قبولیت کا اہل نہیں ہوتا۔ النسآء
27 ﴿وَاللَّـهُ يُرِيدُ أَن يَتُوبَ عَلَيْكُمْ﴾” اور اللہ تو چاہتا ہے کہ تم پر مہربانی کرے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ ایسی توبہ (رجوع) کے ساتھ تمہاری طرف توجہ کرنا چاہتا ہے جو تمہاری پراگندگی کو درست کرے، تمہارے تفرقہ کو جمعیت قلبی میں اور تمہارے بعد کو قرب میں بدل دے۔ ﴿ وَيُرِيدُ الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الشَّهَوَاتِ﴾ ” اور چاہتے ہیں وہ جو اپنی خواہشوں کے پیچھے چلتے ہیں۔“ یعنی وہ لوگ جو اپنی شہوات کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں وہ اپنے محبوب کی رضا پر ان شہوات کو ترجیح دیتے ہیں یہ لوگ اپنی خواہشات نفس کی عبادت کرتے ہیں۔ یہ لوگ کفار اور نافرمانوں کی اصناف میں سے ہیں جو اپنی خواہشات کو اپنے رب کی اطاعت پر مقدم رکھتے ہیں پس یہ لوگ چاہتے ہیں ﴿أَن تَمِيلُوا مَيْلًا عَظِيمًا ﴾ ” کہ تم (کجی کی طرف) بہت زیادہ جھک جاؤ“ یعنی تم صراط مستقیم سے انحراف کر کے ان لوگوں کی راہ پر چل نکلو جو مغضوب اور گمراہ ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ تمہیں اللہ رحمان کی اطاعت سے ہٹا کر شیطان کی اطاعت کی طرف پھیر دیں اور ہر قسم کی سعادت کی حدود سے نکال کر جو کہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی تعمیل میں پنہاں ہے، شقاوت اور بدبختی کے گڑھے میں دھکیل دیں جو کہ شیطان کی پیروی کا نتیجہ ہے۔ جب تم نے یہ پہچان لیا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں صرف اسی چیز کا حکم دیتا ہے جس میں تمہاری اصلاح، تمہاری فلاح اور تمہاری سعادت ہے اور یہ کفار جو اپنی خواہشات نفس کی پیروی کرتے ہیں تمہیں ان امور کا حکم دیتے ہیں جس میں تمہارے لیے انتہائی خسارہ اور بدبختی ہے۔ پس تم ان دونوں داعیوں میں سے صرف اسے منتخب کرو جو چنے جانے کا زیادہ مستحق ہے اور دونوں راستوں میں سے وہ راستہ اختیار کرو جو زیادہ بہتر ہے۔ النسآء
28 ﴿يُرِيدُ اللَّـهُ أَن يُخَفِّفَ عَنكُمْ﴾” اللہ چاہتا ہے کہ تم پر سے بوجھ ہلکا کرے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ اوامرونواہی کی آسانی کے ذریعے سے تمہارے لیے تخفیف پیدا کرنا چاہتا ہے۔ پھر بعض شرعی احکام میں مشقت کے باوجود اگر حاجت تقاضا کرتی ہے تو اضطراری حالت میں مجبور شخص کے لیے انہیں مباح کردیا ہے مثلاً مردار اور خون وغیرہ کا تناول کرنا مجبور شخص کے لیے مباح ہے۔ اسی طرح مذکورہ شرائط کو ملحوظ رکھتے ہوئے لونڈی سے نکاح کرنا جائز ہے۔ یہ اس کی رحمت کاملہ اور اس احسان کے سبب سے ہے جو سب کو شامل ہے اور یہ اس کی حکمت اور علم پر مبنی ہے۔ وہ جانتا ہے کہ انسان ہر لحاظ سے کمزور ہے، اس کی بنیاد ہی کمزوری پر رکھی گئی ہے، اس کا عزم و ارادہ کمزور ہے اور ایمان و صبر کمزور ہے۔ پس ان احوال میں مناسب یہی تھا کہ اللہ تعالیٰ ان احکام میں تخفیف کر دے جن کی بندہ اپنی کمزوری کی وجہ سے تعمیل سے قاصر ہے۔ اس کا ایمان، صبر اور قوت جن کا بوجھ اٹھان کی طاقت نہیں رکھتے ہیں۔ النسآء
29 اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کو باہم ایک دوسرے کا مال باطل طریقے سے کھانے سے منع کیا ہے اور اس میں غصب کر کے مال کھانا، چوری کے ذریعے سے مال کھانا، جوئے کے ذریعے سے مال ہتھیانا اور دیگر ناجائز اور گھٹیا طریقوں سے مال حاصل کرنا، سب شامل ہے۔ بلکہ شاید اس میں آپ کا اپنا وہ مال کھانا بھی آجاتا ہے جو آپ تکبر اور اسراف سے کھاتے ہیں کیونکہ یہ بھی باطل ہے، طریق حق نہیں ہے۔ پھر چونکہ اس نے باطل طریقے سے مال کھانے سے روک دیا ہے اس لیے اس نے تجارت اور ایسے پیشوں کے ذریعے سے، جس میں کوئی شرعی ممانعت نہ ہو، اور جو باہم رضا مندی اور جائز شرائط پر مشتمل ہوں، مال کمانا مباح قرار دے دیا۔ ﴿وَلَا تَقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ﴾ ’’اور اپنے آپ کو ہلاک نہ کرو۔“ یعنی ایک دوسرے کو قتل نہ کرو اور نہ کوئی شخص اپنے آپ کو قتل کرے۔ اس میں اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا اور ایسے خطرات مول لینا شامل ہیں جن کا نتیجہ ہلاکت اور اتلاف کے سوا کچھ نہیں۔ ﴿إِنَّ اللَّـهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا﴾” کچھ شک نہیں کہ اللہ تم پر مہربان ہے۔“ یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی رحمت ہے کہ اس نے تمہاری جان اور مال کو محفوظ کیا، ان کو ضائع کرنے اور تلف کرنے سے منع کیا ہے اور اس کے لیے اسی طرح کی سزا تجویز کی جیسے دیگر جرائم پر حدود ہیں۔ ذرا اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم﴾ اور ﴿وَلَا تَقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ﴾ کے اختصار و ایجاز اور اس کی جامعیت پر غور فرمایئے کہ یہ ارشاد دوسروں کے مال اور خود اپنے مال، دوسروں کی جان اور خود اپنی جان کو شامل ہے اور ایسی عبارت کے ذریعے بیان کیا ہے جو (لَایَاْکُلُ بَعْضُکُمْ مَالَ بَعْضٍ) اور ﴿لَایَقْتُلُ بَعْضُکُمْ بَعْضاً ﴾سے زیادہ مختصر ہے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ مؤخر الذکر عبارت دوسروں کے مال اور دوسروں کے نفس کو شامل کرنے سے قاصر ہے۔ نیز جان اور مال کی عمومیت کے ساتھ تمام اہل ایمان کی طرف اضافت کرنا اس امر کی دلیل ہے کہ تمام اہل ایمان باہم محبت کرنے، باہم رحم کرنے، باہم شفقت و عاطفت سے پیش آنے میں اور اپنے مشترک مصالح میں جسد واحد کی مانند ہیں۔ کیونکہ ان کے ایمان نے ان کو دینی اور دنیاوی مصالح پر جمع کردیا ہے۔ جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے باطل طریقے سے مال کھانے سے روک دیا، کیونکہ دوسروں کا مال ہتھیانا اور کھانا ان کے لیے نقصان دہ تھا، تب مختلف قسم کے پیشوں کو، جن میں ان کی مصلحت تھی مثلاً تجارت، صنعت و حرفت اور اجارات وغیرہ کو، ان کے لیے مباح کردیا، اس لیے فرمایا : ﴿أَن تَكُونَ تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنكُمْ ﴾ ”اگر آپس کی رضا مندی سے تجارت کا لین دین ہوجائے تو وہ جائز ہے۔“ یعنی تجارت تمہارے لیے مباح ہے۔ تجارت ہونے کے ساتھ ساتھ باہمی رضا مندی کی شرط اس امر کی دلیل ہے کہ یہ تجارتی عقد سود پر مبنی نہ ہو کیونکہ سود تجارت نہیں ہے بلکہ سود تجارت کے مقاصد کے خلاف ہے۔ یہ نہایت ضروری ہے کہ اس تجارتی عقد کے دونوں فریق برضا و رغبت اسے قبول کریں اور کامل رضا و رغبت یہ ہے کہ جس معاملے پر معاہدہ کیا گیا ہے وہ پوری طرح معلوم ہو کیونکہ اگر وہ چیز جس پر معاہدہ کیا گیا ہے پوری طرح معلوم نہ ہوگی۔ تو یہ معاہدہ تسلیم و رضا مندی پر مبنی متصور نہ ہوگا کیونکہ جس چیز کا حصول انسان کی طاقت اور اختیار میں نہ ہو، جوا بازی ہے۔ اسی طرح دھوکے کی بیع اپنی تمام انواع سمیت باہمی رضا مندی سے خالی ہوتی ہے اس لیے ایسا معاہدہ منعقد نہیں ہوتا۔ اس آیت کریمہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ معاہدے قول و فعل کے ذریعے سے اظہار رضا مندی سے منعقد ہوجاتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے عقد کے انعقاد کے لیے رضا مندی کی شرط عائد کی ہے اور رضا مندی کا اظہار جس طریقے سے بھی کیا جائے اس سے معاہدہ منعقد ہوجائے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے ارشاد کا اختتام اس جملے پر کیا ہے ﴿إِنَّ اللَّـهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا ﴾” کچھ شک نہیں کہ اللہ تم پر مہربان ہے۔“ یہ اس کی رحمت ہی ہے کہ اس نے تمہاری جان اور مال کو محفوظ و مامون کیا اور تمہیں جان و مال کو نقصان پہنچانے سے منع فرمایا۔ النسآء
30 ﴿وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ ﴾ ” اور جو ایسا کرے گا“ یعنی باطل طریقے سے لوگوں کے مال کھانا اور انسان کو ناحق قتل کرنا ﴿عُدْوَانًا وَظُلْمًا ﴾ ” تعدی اور ظلم سے۔“ یعنی لاعلمی اور بھول کر نہیں بلکہ ظلم اور تعدی سے ﴿فَسَوْفَ نُصْلِيهِ نَارًا ۚ﴾” تو ہم اسے آگ میں داخل کریں گے“ یہ بہت بڑی آگ ہوگی جیسا کہ یہ (ناراً) کے نکرہ ہنے سے مستفادہ ہو رہا ہے ﴿وَكَانَ ذٰلِكَ عَلَى اللَّـهِ يَسِيرًا ﴾” اور یہ اللہ تعالیٰ کے لیے بہت آسان ہے۔ “ النسآء
31 اللہ تبارک و تعالیٰ نے اہل ایمان سے وعدہ فرمایا ہے کہ اگر وہ بڑے بڑے گناہوں سے اجتناب کریں گے تو وہ ان کے تمام گناہ اور برائیاں بخش دے گا اور انہیں اچھا ٹھکانا عطا کرے گا جہاں خیر کثیر ہوگا اور وہ ہے جنت جو ایسی نعمتوں پر مشتمل ہے جو کسی آنکھ نے کبھی دیکھیں نہ کسی کان نے سنیں اور نہ کسی بشر کے حاشیہ خیال میں ان کا گزر ہوا ہے۔ بڑے بڑے گناہوں سے اجتناب میں ان فرائض کا بجا لانا بھی شامل ہے جن کو ترک کرنے والا گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوتا ہے۔ نماز پنجگانہ، نماز جمعہ اور رمضان کے روزے رکھنا وغیرہ۔ جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”نماز پنجگانہ، اور جمعہ سے جمعہ اور رمضان سے رمضان کے مابین جو گناہ سر زد ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو مٹا دیتا ہے بشرطیکہ کبائر سے بچتے رہیں۔“ [صحيح مسلم، الصلوة، باب الصلوات الخمس.... الخ، حديث: 552] گناہ کبیرہ کی بہترین تعریف یہ ہے : گناہ کبیرہ وہ گناہ ہے جو دنیا میں حد کا موجب ہو یا آخرت میں اس پر سخت وعید آئی ہو یا اس کے مرتکب کے ایمان کی نفی یا اس پر لعنت کی گئی ہو یا اس گناہ پر سخت غصے کا اظہار کیا گیا ہو۔ النسآء
32 اللہ تبارک و تعالیٰ نے اہل ایمان سے فرمایا ہے کہ وہ اس چیز کی تمنا نہ کریں جو اس نے اپنے فضل و کرم سے دوسروں کو عطا کی ہے، خواہ یہ ممکن امور ہوں یا غیر ممکن۔ چنانچہ عورتیں مردوں کے خصائص کی تمنا نہ کریں جن کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے مردوں کو عورتوں پر فضیلت عطا کی ہے۔ نہ صاحب فقر اور صاحب نقص، مالداری اور کاملیت کی مجرد تمنا کریں کیونکہ ایسی مجرد تمنا حسد کے زمرے میں شمار ہوتی ہے یعنی دوسروں پر اللہ تعالیٰ کی نعمت دیکھ کر اس سے اس کے سلب ہونے اور خود کو حاصل ہونے کی تمنا کرنا، نیز یہ تمنا اس امر کی مقتضی ہے کہ تمنا کرنے والا اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر پر ناراض ہے اور یہ اس بات کی علامت ہے کہ وہ کاہلی اور جھوٹی تمناؤں میں گرفتار ہے جو عمل اور محنت سے عاری ہوتی ہیں، البتہ صرف دو امو محمود ہیں۔ (١) بندہ اپنی استطاعت اور مقدرت بھر اپنے دینی اور دنیاوی مصالح کے حصول کے لیے کوشش اور جدوجہد کرے۔ (٢) اللہ تعالیٰ سے اس کے فضل و کرم کا سوال کرے، اپنے نفس پر بھروسہ کرے نہ اپنے رب کے سوا کسی اور پر۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ لِّلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِّمَّا اكْتَسَبُوا ۖ ﴾” مردوں کو ان کاموں کا ثواب ہے جو انہوں نے کئے۔“ یعنی مردوں کے نتیجہ خیز اعمال میں ان کا حصہ ہے ﴿وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِّمَّا اكْتَسَبْنَ﴾ ” اور عورتوں کے لیے اس میں سے حصہ ہے جو وہ کمائیں“ پس ان میں سے تمام لوگ وہی کچھ حاصل کرتے ہیں جو انہوں نے کمایا اور جس میں انہوں نے محنت کی ﴿وَاسْأَلُوا اللَّـهَ مِن فَضْلِهِ ﴾” اور اللہ سے اس کا فضل مانگتے رہو۔“ یعنی اپنے دین و دنیا کے تمام مصالح میں صرف اللہ تعالیٰ سے اس کے فضل کا سوال کرو۔ یہ بندہ مؤمن کا کمال اور اس کی سعادت کا عنوان ہے۔ وہ شخص اس سے محروم ہے جو عمل کو چھوڑ دیتا ہے، اپنے نفس پر بھروسہ کرتا ہے اور اپنے آپ کو اپنے رب کا محتاج نہیں سمجھتا۔ یا اس میں دونوں چیزیں جمع ہیں۔ (عمل کرتا ہے نہ رب کی طرف رجوع اور اس پر اعتماد) یہ شخص خائب و خاسر اور اللہ تعالیٰ کی مدد سے محروم ہے۔ ﴿ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا ﴾” کچھ شک نہیں کہ اللہ ہر چیز سے واقف ہے۔“ پس وہ صرف اسے عطا کرتا ہے جو اس کے علم میں اس کا اہل ہوتا ہے اور اسے محروم کردیتا ہے جو اس کے علم میں غیر مستحق ہوتا ہے۔ النسآء
33 ﴿وَلِكُلٍّ ﴾” اور واسطے ہر ایک کے“ یعنی تمام لوگوں میں سے ﴿جَعَلْنَا مَوَالِيَ  ﴾ ” ہم نے وارث بنائے“ وہ اس کی سرپرستی کرتے ہیں اور وہ بھی نصرت و حمایت اور دیگر معاملات میں معاونت کے ذریعے سے ان کی سرپرستی کرتا ہے۔﴿مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ ۚ ﴾ ” اس مال کے جو چھوڑ گئے ماں باپ اور قرابت دار“ اس میں اصول و فروع اور حواشی کے تعلق سے تمام رشتہ دار شامل ہیں۔ یہ تمام لوگ قرابت کے اعتبار سے وارث (موالی) ہیں۔ پھر سرپرستوں (موالی) کی ایک اور قسم کا ذکر کیا۔ ﴿ وَالَّذِينَ عَقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ ﴾” اور جن سے تمہارا معاہد ہوا“ یعنی وہ لوگ جن کے ساتھ تم باہم نصرت و حمایت کر کے، اور مال میں اشتراک کا معاہدہ کر کے ایک دوسرے کے حلیف بنے ہو۔ یہ تمام امور اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر انعام ہے۔ سرپرست ایک دوسرے کی وہاں مدد کرتے ہیں جہاں ان میں سے تنہا آدمی کسی چیز پر قادر نہیں ہوتا۔ ﴿فَآتُوهُمْ نَصِيبَهُمْ ۚ ﴾” پس ان کو ان کا حصہ دو‘‘ یعنی غیر معصیت کے امور میں اپنے سرپرستوں اور رشتہ داروں کو نصرت و معاونت اور اپنی مدد سے حصہ دو۔ مگر میراث ان لوگوں کا حق ہے جو رشتہ داروں میں سب سے زیادہ قریب ہیں۔ ﴿إِنَّ اللَّـهَ كَانَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدًا ﴾ ” بے شک ہر چیز اللہ کے روبرو ہے“ یعنی وہ ہر چیز کی اطلاع رکھتا ہے۔ اپنے علم کے ذریعے سے تمام امور کی، اپنی بصر کے ذریعے سے اپنے بندوں کی تمام حرکات کی اور اپنی سمع کے ذریعے سے ان کی تمام آوازوں کی خبر رکھتا ہے۔ النسآء
34 اللہ تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے ﴿الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ ﴾” مرد عورتوں کے نگران اور محافظ ہیں“ یعنی مرد عورتوں سے اللہ تعالیٰ کے حقوق کا التزام کروانے والے، ان سے ان کے فرائض کی حفاظت کروانے والے اور ان کو مفاسد سے روکنے والے ہیں، اور اس اعتبار سے وہ عورتوں پر قوام ہیں اور مردوں پر فرض ہے کہ وہ عورتوں سے ان امور کا التزام کروائیں۔ وہ عورتوں پر اس اعتبار سے بھی قوام ہیں کہ وہ ان پر خرچ کرتے ہیں اور انہیں لباس اور مسکن مہیا کرتے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس سبب کا ذکر کیا ہے جو عورتوں پر مردوں کے قوام ہونے کا موجب ہے، فرمایا : ﴿بِمَا فَضَّلَ اللَّـهُ بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ وَبِمَا أَنفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ ۚ ﴾ ” اس لیے کہ اللہ نے بعض کو بعض سے افضل بنایا ہے اور اس لیے بھی کہ مرد اپنا مال خرچ کرتے ہیں۔“ یعنی اس سبب سے کہ مردوں کو عورتوں پر فضیلت حاصل ہے نیز اس سبب سے کہ وہ ان پر خرچ کرتے ہیں۔ پس مردوں کی عورتوں پر فضیلت کی متعدد وجوہات ہیں۔ (١) تمام بڑے بڑے منصب مردوں کے ساتھ مخصوص ہیں، نبوت، رسالت، اور بہت سی عبادات مثلاً جہاد، عیدین اور جمعات وغیرہ میں مردوں کو اختصاص حاصل ہے۔ (٢) اللہ تعالیٰ نے مردوں کو وافر عقل، وقار، صبر اور وہ جفاکشی عطا کی ہے جو عورتوں میں نہیں پائی جاتی۔ (٣) اسی طرح اللہ تعالیٰ نے مردوں کو اپنی بیویوں پر خرچ کرنے کی ذمہ داری عطا کی ہے بلکہ بہت سے اخراجات ایسے ہیں جو صرف مردوں سے مختص ہیں اور اس اعتبار سے عورتوں سے ممتاز ہیں۔ شاید اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿وَبِمَا أَنفَقُوا ﴾ ” اور اس لیے بھی کہ وہ (مرد) خرچ کرتے ہیں۔“ کا یہی سرنہاں ہے یہاں جملے میں مفعول کو حذف کرنا، عمومی نان و نفقہ اور اخراجات کی دلیل ہے۔ ان تمام توضیحات سے معلوم ہوتا ہے کہ مرد عورت کے آقا اور والی کی حیثیت رکھتا ہے اور عورت اپنے شوہر کے پاس ایک اسیر کی مانند ہے۔ پس مرد کی ذمہ داری اور اس کا کام یہ ہے کہ وہ ان امور کا انتظام کرے جن کی رعایت رکھنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اور عورت کی ذمہ داری اور اس کا فرض یہ ہے کہ وہ اپنے رب اور اپنے شوہر کی اطاعت کرے، بنابریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿فَالصَّالِحَاتُ قَانِتَاتٌ ﴾ ” تو جو نیک بیبیاں ہیں وہ مطیع ہوتی ہیں۔“ یعنی وہ اللہ کی اطاعت کرنے والی ہیں،﴿حَافِظَاتٌ لِّلْغَيْبِ ﴾ یعنی وہ اپنے شوہروں کی اطاعت کرنے والی ہیں حتیٰ کہ وہ ان کی عدم موجودگی میں بھی ان کی اطاعت کرتی ہیں۔ اپنی عفت کی حفاظت کے ذریعے سے اپنے شوہر کی اور اس کے مال کی حفاظت کرتی ہیں اور یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی حفاظت اور اس کی توفیق سے ہے ان کی طرف سے کچھ بھی نہیں، کیونکہ نفس تو ہمیشہ برائی کا حکم دیتا ہے مگر جو اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو رنج میں ڈالنے والے دینی اور دنیاوی امور میں اس کے لیے کافی ہوجاتا ہے۔ پھر فرمایا : ﴿وَاللَّاتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ ﴾ ” اور وہ عورتیں، جن کی نافرمانی سے تم ڈرتے ہو“ یعنی ان کا اطاعت سے باہر نکلنا، قول و فعل کے ذریعے سے اپنے شوہر کی نافرمانی کرنا۔ اس صورت میں شوہر آسان سے آسان طریقے سے اس کی تادیب کرے۔ ﴿فَعِظُوهُنَّ ﴾” ان کو نصیحت کرو۔“ یعنی شوہر کی اطاعت اور اس کی نافرمانی کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے احکام بیان کر کے ان کو نصیحت کرو۔ شوہر کی اطاعت کی ترغیب دو اور اس کی نافرمانی سے ڈراؤ۔ اگر وہ نافرمانی سے باز آجائیں تو یہی چیز مطلوب ہے اور اگر وہ اپنا رویہ نہ بدلیں تو شوہر اسے اس کے بستر پر تنہا چھوڑ دے، اس کے بستر پر سوئے نہ اس کے ساتھ مجامعت کرے۔ یہ سزا بس اسی قدر ہو جس سے مقصد حاصل ہوجائے۔ اگر پھر بھی نافرمانی ترک نہ کرے تو شوہر اس کو ایسی مار مارے جو نقصان دہ نہ ہو۔ اگر ان مذکورہ طریقوں میں سے کسی طریقے سے مقصد حاصل ہوجائے اور وہ تمہاری اطاعت کرنے لگ جائیں ﴿فَلَا تَبْغُوا عَلَيْهِنَّ سَبِيلًا ۗ ﴾” تونہ نڈھنڈو ان پر کوئی راہ“ پس جو مقصد تم حاصل کرنا چاہتے تھے تمہیں حاصل ہوگیا، اس لیے اب تم گزشتہ معاملات میں ان پر عتاب کرنا اور ان کو کریدنا چھوڑ دو جن کے ذکر سے نقصان پہنچتا ہے اور اس کی وجہ سے شرپیدا ہوتا ہے۔ ﴿إِنَّ اللَّـهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيرًا  ﴾” بے شک اللہ سب سے اعلیٰ، جلیل القدر ہے۔“ ہر پہلو اور ہر اعتبار سے اللہ تعالیٰ علو مطلق (مطلق بلندی) کا مالک ہے۔ اس کی ذات بلند ہے، وہ قدرت کے اعتبار سے بلند ہے اور وہ قہر اور غلبہ کے اعتبار سے بھی بلند ہے۔ وہ بڑا ہے جس سے کوئی بڑا نہیں اس سے زیادہ جلیل اور اس سے زیادہ عظیم کوئی ہستی نہیں۔ وہ اپنی ذات میں اور صفات میں بڑا ہے۔ النسآء
35 یعنی اگر تمہیں میاں بیوی کے مابین مخالفت، دوری اور ایک دوسرے سے الگ تھلگ رہنے کا خوف ہو، حتیٰ کہ ان میں سے ہر ایک، ایک کنارے پر ہو (یعنی اختلاف و نفرت کی انتہاء پر ہو) ﴿ فَابْعَثُوا حَكَمًا مِّنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِّنْ أَهْلِهَا ﴾ ” تو ایک منصف مرد کے گھر والوں میں سے اور ایک عورت کے گھر والوں میں سے مقرر کرو“ یعنی دو مکلف، مسلمان، عادل اور عاقل مردوں کو ثالث بنا لو جو میاں بیوی کے مابین تمام معاملات کو جانتے ہوں اور وہ جمع اور تفرقہ کو بھی جانتے ہوں۔ مذکورہ تمام صفات لفظ ”حَكَم“ سے مستفاد ہیں کیونکہ کوئی شخص اس وقت تک حَكَم (منصف) بننے کی صلاحیت سے بہرہ ور نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ ان صفات کا حاکم نہ ہو۔ وہ دونوں حَكَم (منصف) ان شکایات پر غور کریں جو وہ ایک دوسرے کے خلاف رکھتے ہوں، پھر دونوں حکم، میاں بیوی کی جو ذمہ داری بنتی ہے دونوں سے اس کا التزام کروائیں۔ اگر دونوں میں سے کوئی ایک اپنی ذمہ داری پوری کرنے سے قاصر رہے تو دونوں حکم دوسرے فریق کو، رزق اور خلق میں جو کچھ میسر ہے، اس پر راضی رہنے پر آمادہ کریں۔ میاں بیوی کے درمیان معاملات کی اصلاح کرنے اور ان کو اکٹھا رکھنے کے لیے جو طریقہ بھی ممکن ہو، ثالث اس کے استعمال سے گریز نہ کریں۔ اگر صورتحال یہاں تک پہنچ جائے کہ ان دونوں کے درمیان اصلاح اور ان کا اکٹھا رہنا ممکن نہ ہو بلکہ اس سے دشمنی، قطع تعلق اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں اضافہ ہوتا ہو اور دونوں حکم یہ رائے رکھتے ہوں کہ ان میں علیحدگی دونوں کے لیے بہتر ہے، تو دونوں میں تفریق کروا دیں۔ دونوں کے درمیان علیحدگی کا فیصلہ شوہر کی رضامندی سے مشروط نہیں ہے جیسا کہ یہ معنی دلالت کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دونوں ثالثوں کو ” حکم“ کے نام سے موسوم کیا ہے اور حکم وہ ہوتا ہے جو فیصلہ کرے خواہ اس کے فیصلے پر محکوم علیہ راضی نہ ہو۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿إِن يُرِيدَا إِصْلَاحًا يُوَفِّقِ اللَّـهُ بَيْنَهُمَا﴾ ” اگر یہ دونوں چاہیں گے کہ صلح کرا دیں تو اللہ ان کے درمیان موافقت کر دے گا“ یعنی اللہ تعالیٰ مبارک رائے اور فریقین کے درمیان محبت اور الفت پیدا کرنے والے دلکش کلام کے ذریعے سے ان میں موافقت پیدا کر دے گا۔ ﴿ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ عَلِيمًا خَبِيرًا﴾ ” کچھ شک نہیں کہ اللہ سب کچھ جانتا اور سب باتوں سے باخبر ہے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ تمام ظاہر و باطن کو جاننے والا اور تمام خفیہ امور اور تمام بھیدوں کی اطلاع رکھنے والا ہے۔ یہ اس کا علم اور اس کی خبر ہی ہے کہ اس نے تمہارے لیے یہ جلیل القدر احکام اور خوبصورت قوانین مشروع فرمائے۔ النسآء
36 اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو حکم دیا ہے کہ وہ اس کی عبادت کریں۔ وہ واحد اور لاشریک ہے۔ یہ درحقیقت اس کی عبودیت کے دائرے میں داخل ہونے، محبت، تذلل اور ظاہری اور باطنی تمام عبادات میں اخلاص کے ساتھ اس کے تمام اوامرونواہی کی تعمیل کا نام ہے۔ اللہ تعالیٰ شرک اصغر اور شرک اکبر ہر قسم کے شرک سے روکتا ہے۔ کسی فرشتہ، کسی نبی، ولی یا دیگر مخلوق کو اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرانے سے منع کرتا ہے جو خود اپنی ذات کے لیے بھی کسی نفع و نقصان، موت و حیات اور دوبارہ اٹھانے پر قدرت نہیں رکھتے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کی عبادت میں اخلاص واجب ہے۔ جو ہر لحاظ سے کمال مطلق کا مالک ہے۔ وہ کائنات کی پوری تدبیر کر رہا ہے جس میں اس کا کوئی شریک ہے نہ معاون اور مددگار ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت اور اپنے حقوق کے قیام کا حکم دینے کے بعد حقوق العباد کو قائم کرنے کا حکم دیا ہے۔ (حقوق العباد کے مراتب میں اصول یہ قائم فرمایا ہے۔) جو سب سے زیادہ قریب ہے اس کے سب سے زیادہ حقوق ہیں۔ فرمایا : ﴿وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا﴾” ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرو“ یعنی ان کے ساتھ احسان کرو ان سے اچھی گفتگو، ان کے ساتھ تخاطب میں نرمی اور فعل جمیل کر کے ان کے حکم کی اطاعت، ان کے ممنوعہ امور سے اجتناب اور ان کی ضروریات پر خرچ کر کے، ان کے دوستوں اور دیگر متعلقین کے ساتھ عزت و تکریم کا معاملہ کر کے اور ان رشتے داریوں کو قائم اور ان کے حقوق ادا کر کے، جن سے صرف والدین کی وجہ سے رشتے داری ہے۔ احسان (یعنی حسن سلوک) کی دو اضداد ہیں، برا سلوک اور عدم احسان (حسن سلوک نہ کرنا) اور ان دونوں سے روکا گیا ہے۔ فرمایا ﴿وَبِذِي الْقُرْبَىٰ﴾ ” اور قرابت والوں کے ساتھ۔“ یعنی دیگر اقرباء کے ساتھ بھی حسن سلوک سے پیش آؤ۔ یہ آیت کریمہ تمام اقارب کو شامل ہے۔ خواہ وہ زیادہ قریبی ہوں یا قدرے دور کے رشتہ دار ہوں۔ ان کے ساتھ قول و فعل کے ذریعے سے حسن سلوک سے پیش آئے اور اپنے قول و فعل سے ان کے ساتھ قطع رحمی نہ کرے۔ ﴿وَالْيَتَامَىٰ﴾ ” اور یتیموں کے ساتھ“ یعنی وہ چھوٹے بچے جو اپنے باپ سے محروم ہوگئے ہوں تمام مسلمانوں پر ان کا حق ہے۔ خواہ وہ ان کے رشتہ دار ہوں یا نہ ہوں کہ وہ ان کی کفالت کریں ان کے ساتھ نیک سلوک کریں، ان کی دلجوئی کریں، ان کو ادب سکھائیں اور ان کے دینی اور دنیاوی مصالح میں ان کی بہترین تربیت کریں۔ ﴿وَالْمَسَاكِينِ﴾یہ وہ لوگ ہیں جن کو فقر و حاجت نے بے حرکت اور عاجز کردیا ہو جنہیں اتنی ضروریات زندگی حاصل نہ ہوں جو ان کو کفایت کرسکیں اور نہ ان کو جن کے یہ کفیل ہوں۔ پس اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ ان کو ضروریات زندگی مہیا کی جائیں، ان کا فقر و فاقہ دور کیا جائے اور لوگوں کو بھی اس کی ترغیب دی جائے اور حتی الامکان ان امور کا انتظام کیا جائے۔ ﴿وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبَىٰ ﴾ ” اور رشتہ دار ہمسایوں کے ساتھ“ یعنی رشتہ دار پڑوسی، اس کے دو حقوق ہیں۔ پڑوس کا حق اور قرابت کا حق۔ پس وہ اپنے پڑوسی پر حق رکھتا ہے اور اس کے حسن سلوک کا مستحق ہے۔ یہ سب عرف کی طرف راجع ہے۔ اسی طرح ﴿وَالْجَارِ الْجُنُبِ﴾” اور اجنبی ہمسایوں کے ساتھ۔“ یعنی وہ پڑوسی جو قریبی نہ ہو۔ پڑوسی کا دروازہ جتنا زیادہ قریب ہوگا اس کا حق اتنا ہی زیادہ مؤکد ہوگا۔ پڑوسی کے لیے مناسب یہی ہے کہ وہ ہدیہ اور صدقہ دیتا رہے، اس کو دعوت پر بلاتا رہے اقوال و افعال میں نرمی اور ملاطفت سے پیش آیا کرے اور قول و فعل سے اس کو اذیت دینے سے بازر رہے۔ ﴿وَالصَّاحِبِ بِالْجَنبِ﴾ ” اور پہلو کے ساتھی سے حسن سلوک کرو“ بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد شریک سفر ہے۔ بعض کی رائے ہے کہ اس سے مراد بیوی ہے اور بعض اہل علم اس کا اطلاق مطلق ساتھی پر کرتے ہیں اور یہی زیادہ قرین صحت ہے۔ کیونکہ یہ لفظ اس کو شامل ہے جو سفر و حضر میں ساتھ رہے اور یہ لفظ بیوی کو بھی شامل ہے۔ ساتھی پر ساتھی کا حق عام مسلمان بھائی سے بڑھ کر ہے یعنی دینی اور دنیاوی امور میں اس کی مدد کرنا، اس کی خیر خواہی کرنا، آسانی اور تنگی، خوشی اور غمی میں اس کے ساتھ وفا کرنا، جو اپنے لیے پسند کرنا اس کے لیے بھی وہی پسند کرنا اور جو اپنے لیے ناپسند کرنا وہ اس کے لیے بھی ناپسند کرنا، صحبت جتنی زیادہ ہوگی، یہ حق اتنا ہی زیادہ اور مؤکد ہوگا۔ ﴿وَابْنِ السَّبِيلِ ﴾ وہ غریب الوطن شخص جو دور اجنبی شہر میں ہو، وہ خواہ محتاج ہو یا نہ ہو، اس کی شدت احتیاج اور وطن سے دور ہونے کی وجہ سے مسلمانوں پر اس کا حق ہے کہ وہ اسے نہایت انس و اکرام کے ساتھ اس کے مقصد تک پہنچائیں۔ ﴿وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ﴾ ” اور جن کے تمہارے دائیں ہاتھ مالک ہوئے“ یعنی آپ کی ملکیت میں آدمی ہوں یا بہائم ان کی ضروریات کا انتظام رکھنا، ان پر ان کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالنا، بوجھ اٹھانے میں ان کی مدد کرنا، ان کی مصلحت اور بھلائی کی خاطر ان کی تادیب کرنا ان کا آپ پر حق ہے۔ پس جو ان احکامات کی تعمیل کرتا ہے وہ اپنے رب کے سامنے جھکنے والا اور اللہ تعالیٰ کے بندوں کے ساتھ انکساری سے پیش آنے والا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کے اوامر اور اس کی شریعت کی پیروی کرتا ہے۔ یہی شخص ثواب جزیل (بہت زیادہ ثواب) اور ثنائے جمیل کا مستحق ہے اور جو ان احکامات پر عمل نہیں کرتا وہ اپنے رب سے روگردانی، اس کے اوامر کا نافرمان اور مخلوق کے لیے غیر متواضع ہے، بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کے بندوں کے ساتھ تکبر سے پیش آنے والا، خود پسند اور بے حد فخر کرنے والا ہے۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿إِنَّ اللَّـهَ لَا يُحِبُّ مَن كَانَ مُخْتَالًا فَخُورًا ﴾ ” یقیناً اللہ تکبر کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا“ یعنی وہ خود پسند ہے اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے ساتھ تکبر سے پیش آتا ہے ﴿فَخُورًا﴾ ” اپنی بڑائی بیان کرنے والا ہے“ وہ لوگوں کے سامنے فخر اور گھمنڈ کے ساتھ اپنی تعریفیں کرتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کا فخر اور تکبر ان حقوق کو ادا کرنے سے مانع رہتا ہے، اس لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا : النسآء
37 ﴿الَّذِينَ يَبْخَلُونَ﴾ ” جو لوگ بخل کرتے ہیں“ یعنی جو حقوق واجب ہیں ان کو ادا نہیں کرتے ﴿وَيَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ﴾ ” اور وہ لوگوں کو بخیلی کا حکم دیتے ہیں۔“ یعنی وہ اپنے قول و فعل سے لوگوں کو بخل کرنے کا حکم دیتے ہیں﴿وَيَكْتُمُونَ مَا آتَاهُمُ اللَّـهُ مِن فَضْلِهِ﴾” اور جو (مال یا علم) اللہ نے ان کو اپنے فضل سے عطا فرمایا ہے اسے چھپا چھپا کر رکھتے ہیں۔“ یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کو علم عطا کیا جس کے ذریعے سے گمراہ راہ پاتے ہیں اور جاہل رشد و ہدایت سے بہرہ ور ہوتے ہیں۔ یہ لوگ اس علم کو ان لوگوں سے چھپاتے ہیں اور ان کے سامنے باطل کا اظہار کرتے ہیں، اس طرح وہ مخلوق اور حق کے درمیان حائل ہوجاتے ہیں۔ پس انہوں نے مالی بخل اور علمی بخل کو یکجا کردیا اور اپنے خسارے کے لیے بھاگ دوڑ اور دوسروں کے خسارے کے لیے بھاگ دوڑ کو جمع کردیا۔ یہ کفار کی صفات ہیں اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿وَأَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ عَذَابًا مُّهِينًا ﴾ ” اور ہم نے کفار کے لیے رسوا کن عذاب تیار کر رکھا ہے“ چونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے بندوں کے ساتھ تکبر کے ساتھ پیش آئے، اللہ تعالیٰ کے حقوق کو ادا کرنے سے انکار کیا اور اپنے بخل اور بے راہ روی کی وجہ سے دوسروں کو محروم کرنے کا باعث بنے اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو درد ناک عذاب اور دائمی ذلت کے ذریعے سے رسوا کیا۔ اے اللہ ! ہر برائی سے ہم تیری پناہ کے طلبگار ہیں۔ النسآء
38 پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس مال کے بارے میں خبر دی ہے جو محض دکھاوے، شہرت کی خاطر اور اللہ تعالیٰ پر عدم ایمان کی بنا پر خرچ کیا جاتا ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿وَالَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ رِئَاءَ النَّاسِ﴾ ” اور جو لوگوں کو دکھانے کے لیے اپنا مال خرچ کرتے ہیں۔“ تاکہ لوگ انہیں دیکھیں، ان کی مدح و ثناء کریں اور ان کی تعظیم کریں ﴿وَلَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْآخِرِ﴾ ” اور وہ اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان نہیں رکھتے“ یعنی ان کا مال اخلاص، اللہ تعالیٰ پر ایمان اور ثواب کی امید پر خرچ نہیں ہوتا۔ یعنی یہ سب کچھ درحقیقت شیطان کا نقش قدم اور اس کے اعمال ہیں جن کی طرف وہ اپنے گروہ کو بلاتا ہے تاکہ وہ جہنمیوں میں شامل ہوجائیں۔ یہ اعمال شیطان کی دوستی اور شیطان کی انگیخت پر ان سے سر زد ہوتے ہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَمَن يَكُنِ الشَّيْطَانُ لَهُ قَرِينًا فَسَاءَ قَرِينًا ﴾ ” اور جس کا ہم نشیں اور ساتھی شیطان ہو وہ بدترین ساتھی ہے“ بدترین ہے وہ مصاحب اور ساتھی جو اپنے ساتھی کی ہلاکت چاہتا ہے اور اسے ہلاک کرنے کی بھرپور کوشش کرتا ہے۔ جس طرح کوئی شخص اس نعمت میں بخل کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس کو عطا کی ہے اور اللہ تعالیٰ کے احسان کو چھپاتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس پر کیا ہے وہ نافرمان، گناہگار اور اللہ تعالیٰ کی مخالفت کا مرتکب ہے، اسی طرح وہ شخص بھی گناہگار، اپنے رب کا نافرمان اور سزا کا مستحق ہے جو غیر اللہ کی عبادت کے لیے خرچ کرتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تو حکم دیا ہے کہ نہایت اخلاص کے ساتھ اس کی اطاعت کی جائے اور اس کے حکم پر عمل کیا جائے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : ﴿وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّـهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ﴾ (البینہ : 98؍ 5) ” اور ان کو یہی حکم دیا گیا تھا کہ وہ دین کو صرف اللہ تعالیٰ کے لیے خالص کر کے اس کی عبادت کریں۔“ یہی وہ عمل ہے جو اللہ کے ہاں قابل قبول ہے اور اس عمل کو اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کرنے والا مدح و ثواب کا مستحق ہے۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے ایسے عمل کی ترغیب دینے کے لیے فرمایا : النسآء
39 یعنی ان کے لیے کون سا حرج اور ان پر کون سی مشقت ہے اگر وہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لے آئیں، جو کہ سراسر اخلاص ہے، پھر اللہ تعالیٰ کے راستے میں وہ مال خرچ کریں جو اللہ تعالیٰ نے ان کو عطا کیا ہے اور جس مال سے ان کو نوازا ہے۔ تب اس صورت میں وہ اخلاص اور انفاق کو جمع کریں گے۔ چونکہ اخلاص ایک ایسی چیز ہے جو اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان ایک سرنہاں ہے جس کی اطلاع صرف اللہ تعالیٰ ہی کو ہوتی ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا ہے کہ وہ بندے کے تمام احوال کو جانتا ہے، چنانچہ : ﴿وَكَانَ اللَّـهُ بِهِمْ عَلِيمًا ﴾” اللہ ان سب کو خوب جانتا ہے“ النسآء
40 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے کامل عدل و فضل کے بارے میں خبر دیتا اور آگاہ فرماتا ہے کہ وہ عدل کے متضاد صفات، یعنی ظلم سے خواہ وہ قلیل ہو یا کثیر پاک ہے۔ چنانچہ فرمایا : ﴿ إِنَّ اللَّـهَ لَا يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ﴾ ” اللہ کسی کی ذرہ بھر بھی حق تلفی نہیں کرتا۔“ یعنی اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی نیکیوں میں ذرہ بھر کمی کرے گا نہ اس کی برائیوں میں ذرہ بھر اضافہ کرے گا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ﴿فَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ وَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ ﴾(الزلزال :99؍7-8) ” جس نے ذرہ بھر نیکی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ بھر برائی کی ہوگی وہ بھی اسے دیکھ لے گا۔‘‘ ﴿وَإِن تَكُ حَسَنَةً يُضَاعِفْهَا﴾ ” اور اگر نیکی ہو تو اسے دوگنا کردیتا ہے“ یعنی وہ اس نیکی کو دس گنا یا اس کے حسب حال، اس کے نفع کے مطابق اور نیکی کرنے والے کے اخلاص، محبت اور کمال کے مطابق اس سے بھی کئی گنا زیادہ کر دے گا ﴿وَيُؤْتِ مِن لَّدُنْهُ أَجْرًا عَظِيمًا﴾ ” اور خاص اپنے پاس سے بہت بڑا ثواب دیتا ہے۔“ یعنی وہ عمل کے ثواب سے زیادہ عطا کرے گا۔ مثلاً وہ اسے دیگر اعمال کی توفیق سے نوازے گا، بہت سی نیکی اور خیر کثیر عطا کرے گا۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : النسآء
41 ﴿فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِن كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَىٰ هَـٰؤُلَاءِ شَهِيدًا ﴾ ” پس کیا حال ہوگا جس وقت کہ ہم ہر امت میں سے ایک گواہ لائیں گے اور آپ کو ان لوگوں پر گواہ بنا کر لائیں گے“ وہ کیسے حالات ہوں گے اور وہ عظیم فیصلہ کیسا ہوگا جو اس حقیقت پر مشتمل ہوگا کہ فیصلہ کرنے والا کامل علم، کامل عدل اور کامل حکمت کا مالک ہے اور وہ مخلوق میں سب سے زیادہ سچی شہادت کی بنیاد پر فیصلہ کرے گا۔ یہ شہادت انبیاء و مرسلین کی شہادت ہے جو وہ اپنی امتوں کے خلاف دیں گے اور جن کے خلاف فیصلہ ہوگا وہ بھی اس کا اقرار کریں گے۔ اللہ کی قسم ! یہ وہ فیصلہ ہے جو تمام فیصلوں میں سب سے زیادہ عام، سب سے زیادہ عادل اور سب سے عظیم ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں جن کے خلاف فیصلہ ہوگا وہ بھی اللہ تعالیٰ کے کمال فضل، عدل و انصاف اور حمد و ثنئا کا اقرار کرتے رہ جائیں گے۔ وہاں کچھ لوگ فوز و فلاح، عزت اور کامیابی کی سعادت سے بہرہ ور ہوں گے اور کچھ فضیحت و رسوائی اور عذاب مہین کی بدبختی میں گرفتار ہوں گے۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : النسآء
42 ﴿يَوْمَئِذٍ يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَعَصَوُا الرَّسُولَ﴾ ” جس روز کافر اور رسول کے نافرمان آرزو کریں گے“ یعنی ان میں اللہ اور اس کے رسول کا انکار اور رسول کی نافرمانی اکٹھے ہوگئے ہیں ﴿لَوْ تُسَوَّىٰ بِهِمُ الْأَرْضُ﴾ ” کہ کاش انہیں زمین کے ساتھ ہموار کردیا جاتا“ یعنی وہ خواہش کریں گے کہ کاش زمین انہیں نگل لے اور وہ مٹی ہو کر معدوم ہوجائیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَيَقُولُ الْكَافِرُ يَا لَيْتَنِي كُنتُ تُرَابًا ﴾ (النبا :78؍40) ” اور کافر کہے گا کاش میں مٹی ہوتا۔ “ ﴿وَلَا يَكْتُمُونَ اللَّـهَ حَدِيثًا ﴾ ” اور وہ نہیں چھپا سکیں گے اللہ سے کوئی بات“ بلکہ وہ اپنی بد اعمالیوں کا اعتراف کریں گے۔ ان کی زبانیں، ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں ان کے کرتوتوں کی گواہی دیں گے۔ اس روز اللہ تعالیٰ انہیں پوری پوری جزا دے گا۔ یعنی ان کی جزائے حق۔ اور انہیں معلوم ہوجائے گا کہ اللہ تعالیٰ ہی حق اور کھلا کھلا بیان کردینے والا ہے اور کفار کے بارے میں یہ جو وارد ہوا ہے کہ وہ اپنے کفر و انکار کو چھپائیں گے تو قیامت کے بعض مواقع پر ایسا کریں گے جبکہ وہ یہ سمجھیں گے کہ ان کا کفر سے انکار اللہ تعالیٰ کے عذاب کے مقابلے میں کسی کام آسکے گا۔ لیکن جب وہ حقائق کو پہچان لیں گے اور خود ان کے اعضاء ان کے خلاف گواہی دیں گے تب تمام معاملہ روشن ہو کر سامنے آجائے گا۔ پھر ان کے لیے چھپانے کی کوئی گنجائش باقی رہے گی نہ چھپانے کا کوئی فائدہ ہی ہوگا۔ النسآء
43 اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کو نشے کی حالت میں نماز پڑھنے سے روک دیا ہے جب تک کہ انہیں معلوم نہ ہوجائے کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ اس ممانعت میں یہ بات بھی شامل ہے کہ وہ نشے کی حالت میں نماز کی جگہوں یعنی مساجد وغیرہ کے بھی قریب نہ جائیں کیونکہ نشے کی حالت میں مسجد میں داخل ہونا ممکن نہیں۔ اس ممانعت میں نفس نماز بھی شامل ہے نشے والے شخص کی عقل کے مختلف ہونے اور یہ معلوم نہ ہونے کی وجہ سے کہ وہ کیا کہہ رہا ہے اس کی نماز اور دیگر عبادات جائز نہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے نماز پڑھنے کے لیے اس چیز کو شرط بنایا کہ نشے والا شخص جو کچھ کہہ رہا ہوا سے اس کا علم ہو۔ یہ آیت کریمہ تحریم خمر والی آیت کے ذریعے سے منسوخ ہوگئی۔ اسلام کے ابتدائی ایام میں شراب حرام نہ تھی پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے اس فرمان میں شراب کی حرمت کی طرف اشارہ فرمایا : ﴿يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ ۖ قُلْ فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُهُمَا أَكْبَرُ مِن نَّفْعِهِمَا ﴾(البقرہ : 2؍219) ” تم سے شراب اور جوئے کے بارے میں پوچھتے ہیں کہہ دو کہ ان میں بہت بڑا گناہ ہے اور ان میں لوگوں کے لیے کچھ فائدے بھی ہیں البتہ ان کا گناہ ان کے فائدے سے بڑھ کر ہے۔“ پھر اللہ تعالیٰ نے نماز کے اوقات میں شراب پینے سے منع کردیا۔ جیسا کہ اس آیت میں مذکور ہے۔ اس کے بعد (تیسرے مرحلے میں) اللہ تبارک و تعالیٰ نے تمام اوقات میں شراب کو علی الاطلاق حرام قرار دیا فرمایا : ﴿ إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ﴾ (المائدہ :5؍90) ” بے شک شراب، جوا، بت اور پانسے سب شیطان کے ناپاک کام ہیں اس لیے ان سے بچو تاکہ تم فلاح پاؤ۔ “ نماز کے اوقات میں تو شراب کی حرمت اور بڑھ جاتی ہے کیونکہ ان اوقات میں نماز کے مقصد کے حصول کے بعد، جو کہ نماز کی روح اور لب لباب ہے اور وہ ہے خشوع اور حضور قلب۔ شراب بڑے مفاسد کو متضمن ہے۔ شراب قلب کو بھی مدہوش کردیتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے ذکر اور نماز سے روکتی ہے۔ آیت کریمہ کے معنی سے یہ بات بھی اخذ کی جاتی ہے کہ سخت اونگھ کی حالت میں جب انسان کو یہ عقل و شعور نہ رہے کہ وہ کیا پڑھ رہا ہے اور کیا کر رہا ہے نماز پڑھنا ممنوع ہے۔ بلکہ اس آیت کریمہ میں اس امر کی طرف بھی اشارہ ہے کہ جب کوئی شخص نماز پڑھنے کا ارادہ کرے تو اسے چاہئے کہ وہ ہر اس شغل کو منقطع کر دے جو نماز کے اندر اس کی توجہ کو مشغول رکھتا ہو مثلاً بول و براز کی سخت حاجت اور کھانے کی سخت خواہش وغیرہ۔ جیسا کہ صحیح حدیث میں وارد ہے۔ ﴿وَلَا جُنُبًا إِلَّا عَابِرِي سَبِيلٍ﴾” اور جنابت کی حالت میں بھی (نماز کے قریب نہ ہوجاؤ) ہاں اگر عبور کرنے والے ہو راستے کو“ یعنی اگر تم جنابت کی حالت میں ہو تو نماز کے قریب نہ جاؤ سوائے اس حالت میں کہ تم مسجد میں سے گزر رہے ہو اور تم بغیر رکے گزر جاؤ ﴿حَتَّىٰ تَغْتَسِلُوا﴾ ” حتی کہ تم غسل کرلو۔“ یہ جنبی کے لیے نماز کے قریب جانے سے ممانعت کی حد اور انتہا ہے۔ پس جنبی کے لیے مسجد میں سے صرف گزرنا جائز ہے۔ ﴿وَإِن كُنتُم مَّرْضَىٰ أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِّنكُم مِّنَ الْغَائِطِ أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا﴾” اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت سے آیا ہو یا تم نے عورتوں سے مباشرت کی ہو اور تمہیں پانی نہ ملے تو تمیم کرلو“ پس اللہ تبارک و تعالیٰ نے مریض کے لیے تمیم کو پانی کی موجودگی اور عدم موجودگی دونوں حالتوں میں علی الاطلاق جائز قرار دیا ہے اور اس اباحت کی علت ایسا مرض ہے جس میں پانی کا استعمال سخت تکلیف دہ ہو۔ اسی طرح سفر میں بھی تیمم کو مباح قرار دیا کیونکہ سفر میں پانی کے عدم وجود کا امکان ہوسکتا ہے، اس لیے جب مسافر کے پاس پینے اور دیگر ضروریات سے زائد پانی نہ ہو تو اس کے لیے تیمم جائز ہے۔ اسی طرح جب کوئی شخص بول و برازیا عورتوں کے لمس کی وجہ سے وضو توڑ بیٹھے خواہ وہ سفر میں ہو یا حضر میں، اگر پانی موجود نہ ہو تو اس کے لیے تمیم جائز ہے۔ جیسا کہ آیت کریمہ کا عموم دلالت کرتا ہے۔ حاصل بحث یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دو حالتوں میں تمیم مباح فرمایا ہے۔ (١) سفر و حضر میں علی الاطلاق پانی کی عدم موجودگی کی صورت میں۔ (٢) کسی مرض میں پانی کے استعمال میں مشقت کی صورت میں۔ مفسرین میں اللہ تعالیٰ کے ارشاد (أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ) کا معنی بیان کرنے میں اختلاف ہے کہ آیا لمس سے مراد جماع ہے۔ تب یہ آیت کریمہ جنبی کے لیے تمیم کے جواز میں نص ہے۔ جیسا کہ اس بارے میں بہت سی احادیث وارد ہوئی ہیں یا اس سے مراد صرف ہاتھوں سے چھوٹا ہے، البتہ یہ چھونا اس قید سے مقید ہے کہ جب چھونے سے مذی کے خارج ہونے کا امکان ہو۔ یہ چھونا شہوت کے ساتھ ہوگا اور تب یہ آیت لمس سے وضو کے ٹوٹنے پر نص ہے۔ فقہاء ﴿فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً﴾ سے استدلال کرتے ہیں کہ نماز کا وقت داخل ہونے پر پانی کی تلاش فرض ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس شخص کے لیے (لَمْ یَجِدْ) ” اس نے نہ پایا“ کا لفظ استعمال نہیں کیا جاتا جس نے تلاش نہ کیا ہو۔ بلکہ یہ لفظ استعمال ہی تلاش کے بعد کیا جاتا ہے۔ اس آیت کریمہ سے فقہاء نے یہ استدلال بھی کیا ہے کہ اگر پانی کسی پاک چیز کے اختلاط سے متغیر ہوجائے تو اس سے وضو وغیرہ جائز ہے بلکہ اس کے ذریعہ سے طہارت حاصل کرنا متعین ہے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً﴾ میں داخل ہے اور متغیر پانی بھی تو پانی ہی ہے اور اس میں یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ یہ غیر مطلق پانی ہے اور یہ محل نظر ہے۔ اس آیت کریمہ میں اس عظیم حکم کی مشروعیت ثابت ہوتی ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے اس امت کو نوازا ہے اور وہ ہے تمیم کی مشروعیت۔ تمیم کی مشروعیت پر تمام اہل علم کا اجماع ہے۔ وللہ الحمد تمیم پاک مٹی سے کیا جاتا ہے ﴿صَعِيدًا ﴾ سطح زمین کی پاک مٹی کو کہتے ہیں خواہ اس میں غبار ہو یا نہ ہو۔ اس میں اس معنی کا احتمال بھی ہے کہ ” صعید“ ہر غبار والی چیز کو کہا جائے کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے سورۃ مائدہ میں وضو والی آیت میں فرمایا ہے ﴿ فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُم مِّنْهُ ﴾(المائدہ :5؍6) ’’پس اس سے اپنے چہروں اور ہاتھوں کا مسح کرلو“ اور جس کا غبار نہ ہو تو اس سے مسح نہیں کیا جاتا۔ فرمایا ﴿ فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُم﴾ ” اور (مٹی) سے اپنے چہرے اور ہاتھوں کا مسح کرلو“ جیسا کہ سورۃ مائدہ میں زیادہ واضح ہے۔ آیت کریمہ میں بیان کیا گیا ہے کہ تیمم کے اندر مسح کا محل یہ ہے، تمام چہرہ اور دونوں ہاتھ کلائی تک جیسا کہ اس پر احادیث صحیحہ دلت کرتی ہیں اور اس میں مستحب یہ ہے کہ صرف ایک ہی ضرب سے تمیم کیا جائے۔ جیسا کہ اس پر احادیث صحیحہ دلالت کرتی ہیں اور اس میں مستحب یہ ہے کہ صرف ایک ہی ضرب سے تیمم کیا جائے۔ جیسا کہ حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کی حدیث سے ظاہر ہوتا ہے۔ جنبی کےتیمم میں بھی صرف چہرے اور ہاتھوں پر مسح کیا جائے گا، جیسے کسی دیگر شخص کے تیمم میں ہے۔ فائدہ :۔ معلوم ہونا چاہئے کہ طب کا دار و مدار تین قواعد پر ہے۔ (١) ضرر رساں اشیاء سے حفظان صحت۔ (٢) موذی امراض سے نجات حاصل کرنا۔ (٣) ان امراض سے بچاؤ۔ رہا مرض سے بچاؤ اور حفظان صحت تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں کھانے پینے اور عدم اسراف کا حکم دیا ہے۔ مسافر اور مریض کی صحت کی حفاظت کی خاطر رمضان میں روزہ چھوڑنا اور اس مقصد کے لیے ایسی چیزیں اعتدال کے ساتھ استعمال کرنا مباح ہے جو بدن کی صحت کے لیے درست اور مریض کو ضرر سے بچانے کیلیے ضروری ہیں۔ رہا بیماری کی تکلیف سے نجات حاصل کرنا تو اللہ تعالیٰ نے سر میں تکلیف محسوس کرنے والے محرم شخص کے لیے سرمنڈوانا مباح قرار دیا ہے تاکہ وہ سر میں جمع شدہ میل کچیل اور گندگی سے نجات حاصل کرسکے۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان چیزوں مثلاً بول و براز، قے، منی اور خون وغیرہ سے فارغ ہونا زیادہ اولیٰ ہے۔ ان مذکورہ امور کی طرف علامہ ابن القیم رحمہ اللہ نے توجہ دلائی ہے۔ آیت کریمہ چہرے اور ہاتھوں کے مسح کے وجوب کے عموم پر دلالت کرتی ہے نیز یہ آیت اس طرف بھی اشارہ کرتی ہے کہ خواہ وقت تنگ نہ ہو تمیم کرناجائز ہے نیز یہ آیت کریمہ اس طرف بھی اشارہ کرتی ہے کہ وجوب کے سبب کے موجود ہونے کے بعد ہی پانی کی تلاش کے لیے کہا جائے گا۔ واللہ اعلم۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے اس ارشاد پر آیت کریمہ کا اختتام کیا ہے۔﴿ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ عَفُوًّا غَفُورًا ﴾” بے شک اللہ تعالیٰ بہت معاف کرنے والا نہایت بخشنے والا ہے“ یعنی اللہ تعالیٰ اپنے احکامات میں انتہائی آسانیاں پیدا فرما کر اپنے مومن بندوں کے ساتھ بہت زیادہ عفو اور مغفرت کا معاملہ کرتا ہے۔ تاکہ بندے پر اس کے احکام کی تعمیل شاق نہ گزرے اور اسے ان کی تعمیل میں کوئی حرج محسوس نہ ہو۔ یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا عفو اور اس کی مغفرت ہے کہ اس نے پانی کے عدم استعمال کے عذر کے موقع پر، مٹی کے ذریعے سے طہارت کو مشروع فرما کر اس امت پر رحم فرمایا اور یہ بھی اس کا عفو اور اس کی مغفرت ہے کہ اس نے گناہگاروں کے لیے توبہ اور انابت کا دروازہ کھولا اور انہیں اس دروازے کی طرف بلایا اور ان کے گناہ بخش دینے کا وعدہ فرمایا، نیز یہ بھی اللہ تعالیٰ کی مغفرت اور اس کا عفو ہے کہ اگر بندہ مومن زمین بھر گناہوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے دربار میں حاضر ہو اور اس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک نہ کیا ہو، تو اللہ تعالیٰ بھی اسے زمین بھر مغفرت سے نوازے گا۔ النسآء
44 اس آیت کریمہ میں ان لوگوں کی مذمت ہے جنہیں کتاب عطا کی گئی اور اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو ڈرایا ہے کہ وہ ان کی وجہ سے دھوکے میں نہ پڑیں اور ان کا ساتھی بننے سے بچیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی بابت آگاہ فرمایا کہ وہ اپنے بارے ﴿ يَشْتَرُونَ الضَّلَالَةَ ﴾ گمراہی خریدتے ہیں یعنی گمراہی سے بہت زیادہ محبت کرتے ہیں اور اسے ترجیح دیتے ہیں جیسے کوئی شخص اپنی محبوب چیز کی طلب میں مال کثیر خرچ کرنے کو ترجیح دیتا ہے۔ پس یہ لوگ ہدایت پر گمراہی کو، ایمان پر کفر کو اور سعادت پر شقاوت کو ترجیح دیتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ﴿ وَيُرِيدُونَ أَن تَضِلُّوا السَّبِيلَ ﴾ ” اور وہ چاہتے ہیں کہ تم بھی راستہ گم کرلو۔“ پس وہ تمہیں گمراہ کرنے کے بعد حد خواہش مند ہیں اور اس مقصد کے حصول کے لیے بھرپور کوشش کر رہے ہیں اور چونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے اہل ایمان بندوں کا ولی اور مددگار ہے اس لیے ان کے سامنے ان کفار کی گمراہی اور ان کی دوسروں کو گمراہ کرنے کی کوشش کو کھول کھول کر بیان کیا ہے۔ اس لیے فرمایا : النسآء
45 ﴿وَكَفَىٰ بِاللَّـهِ وَلِيًّا  ﴾ ” اللہ ہی کافی کار ساز ہے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ تمام امور میں اپنے لطف و کرم کی وجہ سے اپنے بندوں کے تمام احوال میں ان کی سرپرستی فرماتا ہے اور ان کے لیے سعادت اور فلاح کی راہوں کو آسان کرتا ہے۔﴿وَكَفَىٰ بِاللَّـهِ نَصِيرًا ﴾ ” اور اللہ ہی کافی مددگار ہے۔“ اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو ان کے دشمنوں کے خلاف مدد عطا کرتا ہے اور ان کے سامنے واضح کرتا ہے کہ انہیں کن لوگوں سے بچنا چاہئے وہ ان کے خلاف ان کی مدد کرتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کی ولایت اور سرپرستی میں خیر کا حصول اور اس کی نفرت میں شرکا زوال ہے۔ النسآء
46 پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کی گمراہی، عناد اور ان کے حق پر باطل کو ترجیح دینے کی کیفیت بیان فرمائی ہے۔ ﴿مِّنَ الَّذِينَ هَادُوا  ﴾ ” اور جو یہودی ہوئے‘‘ اس جگہ ان سے مراد یہودیوں کے گمراہ علماء ہیں۔﴿يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَن مَّوَاضِعِهِ ﴾ ” ان میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں کہ وہ کلمات کو ان کے مقامات سے بدل دیتے ہیں۔“ یعنی وہ کلمات الٰہی میں تحریف کے مرتکب ہوتے تھے۔ یہ تحریف یا تو لفظ میں ہوتی تھی یا معنی میں یا دونوں میں۔ یہ ان کی تحریف تھی کہ آنے والے نبی کی وہ صفات جو ان کی کتابوں میں بیان کی گئی تھیں وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی پر منطبق اور صادق نہ آتی تھیں۔ (یہودی کہتے تھے) کہ یہ صفات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نہیں کسی اور کی بیان ہوئی ہیں ان صفات سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہیں ہیں وہ ان صفات کو چھپاتے تھے۔ پس علم کے بارے میں یہ ان کا بدترین حال ہے۔ انہوں نے حقائق کو بدل ڈالا حق کو باطل بنا دیا اور پھر انہوں نے اس کی وجہ سے اس حق کا انکار کردیا۔ رہا عمل اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں ان کا حال تو کہا کرتے تھے : ﴿سَمِعْنَا وَعَصَيْنَا ﴾ ” ہم نے سن لیا اور نہیں مانا۔“ یعنی ہم نے تیری بات سنی اور تیرے حکم کی نافرمانی کی۔ یہ کفر و عناد اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے نکل بھاگنے کی انتہا ہے۔ اسی طرح وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو انتہائی سوء ادبی، اور بدترین خطابات کے ساتھ مخاطب کیا کرتے تھے اور ہا کرتے تھے : ﴿وَاسْمَعْ غَيْرَ مُسْمَعٍ ﴾” سنیے نہ سنو ائے جاؤ۔“ اور ان الفاظ سے ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ہماری بات سن، تجھے وہ بات نہ سنوائی جائے جو تجھے پسند ہے بلکہ وہ بات سنوائی جائے جو تجھے ناپسند ہے ﴿وَرَاعِنَا  ﴾ اس رعونت سے ان کی مراد تھی قبیح عیب۔ وہ سمجھتے تھے کہ چونکہ لفظ میں ان معنوں کا احتمال ہے جو ان کے معین مراد کے علاوہ ہیں، اس لیے یہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں رائج ہوجائے گا۔ چنانچہ وہ اس لفظ کو، جس کا وہ اپنی زبانوں کو مروڑ کر تلفظ کرتے تھے، اسی لیے فرمایا : ﴿لَيًّا بِأَلْسِنَتِهِمْ وَطَعْنًا فِي الدِّينِ ﴾” زبانوں کو مروڑ کر اور دین میں عیب لگانے کو‘‘ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس سے بہتر چیز کی طرف ان کی راہنمائی کرتے ہوئے فرمایا : ﴿وَلَوْ أَنَّهُمْ قَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا وَاسْمَعْ وَانظُرْنَا لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ وَأَقْوَمَ  ﴾” اور اگر یہ لوگ کہتے کہ ہم نے سنا اور ہم نے فرماں برداری کی اور آپ سنئے اور ہمیں دیکھئے تو یہ ان کے لیے بہت بہتر اور نہایت ہی مناسب تھا“ چونکہ یہ کلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مخاطب ہونے کے بارے میں حسن خطاب، لائق ادب، اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور اس کے اوامر کی تعمیل کو متضمن ہے نیز یہ کلام ان کے طلب علم، ان کے سوال کو سننے اور ان کے معاملے کو درخور اعتنا سمجھنے کے بارے میں حسن ملاطفت کا حامل ہے۔ اس لیے یہ وہ راستہ ہے جس پر انہیں گامزن ہونا چاہئے، مگر چونکہ ان کی طبائع پاکیزگی سے محروم ہیں اس لیے انہوں نے اس سے اعراض کیا اور اللہ تعالیٰ نے ان کے کفر و عناد کے باعث انہیں دھتکار دیا، اس لیے فرمایا : ﴿وَلَـٰكِن لَّعَنَهُمُ اللَّـهُ بِكُفْرِهِمْ فَلَا يُؤْمِنُونَ إِلَّا قَلِيلًا ﴾ ” مگر اللہ تعالیٰ نے ان کے کفر کے سبب سے ان پر لعنت کی، پس اب وہ ایمان نہیں لائیں گے مگر بہت تھوڑے“ النسآء
47 اللہ تعالیٰ یہود و نصاریٰ کو حکم دیتا ہے کہ وہ رسول اللہ اور اس قرآن عظیم پر ایمان لائیں جو آپ پر نازل کیا گیا ہے جو دوسری کتابوں کا نگہبان ہے۔ جن کی یہ تصدیق کرتا ہے ان کتابوں نے اس رسول کی خبر دی ہے۔ جب وہ امر واقع ہوگیا جس کے بارے میں خبر دی گئی تھی تو یہ چیز اس خبر کی تصدیق ہے، نیز اگر وہ اس قرآن پر ایمان نہیں لاتے تو گویا ان کا اپنی کتابوں پر بھی ایمان نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کی کتابیں ایک دوسری کی تصدیق اور ایک دوسری کی تائید کرتی ہیں، اس لیے بعض کتابوں پر ایمان کا دعویٰ اور بعض پر ایمان نہ رکھنا، محض باطل دعویٰ ہے جس کی صداقت کا ہرگز امکان نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿ آمِنُوا بِمَا نَزَّلْنَا مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَكُم  ﴾” ہماری نازل کی ہوئی کتاب پر جو تمہاری کتاب کی بھی تصدیق کرتی ہے ایمان لے آؤ۔“ میں اہل کتاب کو ایمان لانے کی ترغیب دی گئی ہے، نیز ان کے لیے مناسب یہ تھا، چونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو علم اور کتاب عطا کی اس لیے وہ اس سبب سے دوسرے لوگوں سے آگے بڑھ کر اس کی طرف سبقت کرتے یہ علم اور کتاب دوسروں کی نسبت ان کے لیے زیادہ اس بات کے موجب ہیں کہ وہ آگے بڑھ کر ایمان لاتے اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے عدم ایمان کی وجہ سے ان کو وعید سنائی ہے۔ ﴿ مِّن قَبْلِ أَن نَّطْمِسَ وُجُوهًا فَنَرُدَّهَا عَلَىٰ أَدْبَارِهَا  ﴾” اس پر اس سے پہلے (ایمان لے آؤ) کہ ہم چہرے بگاڑ دیں اور انہیں لوٹا کر پیٹھ کی طرف کردیں“ یہ جزا ان کے عمل ہی کی جنس میں سے ہے۔ چونکہ انہوں نے حق کو چھوڑ دیا، باطل کو ترجیح دی اور حقائق کو بدل ڈالا، باطل کو حق اور حق کو باطل بنا دیا، اس لیے ان کو ان کے اعمال ہی کی جنس سے سزا کی وعید سنائی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے چہروں کو بگاڑ کر ان کی پیٹھ کی طرف پھیر دے۔ جس طرح انہوں نے حق کو بگاڑا، اس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کے چہروں کو ان کی گدی کی طرف کردیا اور یہ بدترین حال ہے۔ ﴿أَوْ نَلْعَنَهُمْ كَمَا لَعَنَّا أَصْحَابَ السَّبْتِ ﴾ ” یا ان پر لعنت بھیجیں جیسے ہم نے ہفتے والوں پر لعنت کی“ بایں طور کہ اللہ تعالیٰ انہیں اپنی رحمت سے دور کر دے گا اور انہیں سزا کے طور پر بندر بنا دے گا جیسے اللہ تعالیٰ نے ان کے ان بھائی بند لوگوں کو سزا دی تھی جنہوں نے ظلم و تعدی کے ساتھ سبت کے اصولوں سے تجاوز کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿ فَقُلْنَا لَهُمْ كُونُوا قِرَدَةً خَاسِئِينَ ﴾ (البقرہ :2؍65) ” پس ہم نے ان سے کہا بندر بن جاؤ دھتکارے ہوئے۔ “ ﴿وَكَانَ أَمْرُ اللَّـهِ مَفْعُولًا ﴾ ” اور ہے اللہ تعالیٰ کا کام کیا ہوا“ یہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی مانند ہے ﴿إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْئًا أَن يَقُولَ لَهُ كُن فَيَكُونُ  ﴾ (یٰسین :36؍82) ” اللہ تعالیٰ کی شان تو یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو کہہ دیتا ہے ہوجا، پس وہ ہوجاتی ہے۔ “ النسآء
48 اللہ تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ وہ اس شخص کو کبھی نہیں بخشے گا جس نے مخلوق میں سے کسی کو اس کا شریک ٹھہرایا۔ اس کے علاوہ اگر اس نے چاہا اور اس کی حکمت مقتضی ہوئی تو وہ تمام چھوٹے بڑے گناہ بخش دے گا۔ شرک سے کمتر گناہوں کی مغفرت کے لیے اللہ تعالیٰ نے بہت سے اسباب مقرر فرمائے ہیں مثلاً برائیوں کو مٹانے والی نیکیاں، دنیا اور برزخ میں نیز قیامت کے روز گناہوں کا کفارہ بننے والے مصائب، اہل ایمان کی ایک دوسرے کے لیے مفغرت کی دعائیں، شفاعت اور اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ کی بے پایاں رحمت جس کے سب سے زیادہ مستحق اہل ایمان و توحید ہیں۔ جب کہ شرک کا معاملہ اس کے برعکس ہے مشرک نے خود اپنے لیے مغفرت کا دروازہ بند کرلیا اس نے خود اپنے آپ پر اللہ تعالیٰ کی رحمت کی راہیں مسدود کرلیں۔ توحید کے بغیر نیکیاں اسے کوئی نفع نہ دیں گی اور توحید کے بغیر مصائب اسے کوئی فائدہ نہیں پہنچائیں گے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿ فَمَا لَنَا مِن شَافِعِينَ وَلَا صَدِيقٍ حَمِيمٍ﴾(الشعراء :26؍100 ،101) ” کافر قیامت کے دن کہیں گے پس آج نہ کوئی ہمارا سفارشی ہے اور نہ کوئی جگری دوست۔ “ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿وَمَن يُشْرِكْ بِاللَّـهِ فَقَدِ افْتَرَىٰ إِثْمًا عَظِيمًا ﴾ ” اور جو اللہ کے ساتھ شریک مقرر کرے اس نے بہت بڑا گناہ اور بہتان باندھا“ یعنی اس نے بہت بڑے جرم کا بہتان باندھا۔ اس سے بڑا کون سا ظلم ہوسکتا ہے کہ کوئی اس مخلوق کو جو مٹی سے تخلیق کی گئی، جو ہر پہلو سے ناقص ہے اور ہر لحاظ سے بذاتہ محتاج ہے۔ جس کا بندے کو کوئی نفع و نقصان پہنچانا، اس کو زندہ کرنا، مارنا اور پھر اسے دوبارہ زندہ کرنا تو کجا وہ تو اپنے آپ کی بھی مالک نہیں، اس ہستی کے برابر ٹھہرائے جو ہر چیز کی خالق ہے، جو ہر لحاظ سے کامل ہے، جو بذاتہ اپنی تمام مخلوقات سے بے نیاز ہے۔ جس کے قبضہ قدرت میں نفع و نقصان، عطا کرنا اور محروم کرنا سب کچھ ہے۔ مخلوق کے پاس جو بھی نعمت ہے وہ اسی کی عطا و بخشش ہے۔ تب کیا اس ظلم سے بڑی کوئی اور چیز ہے؟ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے حتمی طور پر مشرک کو دائمی عذاب اور ثواب سے محرومی کی وعید سنائی۔﴿ إِنَّهُ مَن يُشْرِكْ بِاللَّـهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّـهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَاهُ النَّارُ ۖ ﴾ (المائدہ :5؍72) ”بے شک جو کوئی اللہ کے ساتھ شرک کرے گا اللہ تعالیٰ اس پر جنت حرام کر دے گا اور اس کا ٹھکانا جہنم ہے“ یہ آیت کریمہ غیر تائب کے بارے میں ہے۔ رہا تائب تو اللہ تعالیٰ توبہ کرنے پر شرک اور دیگر تمام گناہ بخش دیتا ہے۔ جیسا کہ فرمایا : ﴿قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّـهِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا ۚ ﴾ (الزمر :39؍53):” کہہ دو اے میرے بندو ! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہونا۔ بے شک اللہ تمام گناہ بخش دیتا ہے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ اس شخص کے گناہ بخش دیتا ہے جو توبہ کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرلیتا ہے۔ النسآء
49 یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندوں پر تعجب کا اظہار اور ان یہود و نصاریٰ وغیرہ کے لیے زجر و توبیخ ہے جو اپنے آپ کو پاک گردانتے ہیں۔ یہ زجر و توبیخ ہر اس شخص کے لیے ہے جو کسی ایسے امر کا دعویٰ کر کے اپنے آپ کو پاک گردانتا ہے جو اس میں نہیں ہے۔ یہود و نصاریٰ یہ دعویٰ کرتے تھے ﴿نَحْنُ أَبْنَاءُ اللَّـهِ وَأَحِبَّاؤُهُ ﴾(المائدۃ:5؍18) ” ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے پیارے ہیں“ وہ کہا کرتے تھے ﴿لَن يَدْخُلَ الْجَنَّةَ إِلَّا مَن كَانَ هُودًا أَوْ نَصَارَىٰ ﴾ (البقرۃ: 2؍111) ” جنت میں صرف وہی داخل ہوگا جو یہودی یا نصرانی ہوگا۔“ یہ ان کا مجرد دعویٰ ہے جس پر کوئی دلیل نہیں۔ دلیل تو وہ ہے جو اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن مجید میں ذکر فرمائی ہے : ﴿ بَلَىٰ مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّـهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَلَهُ أَجْرُهُ عِندَ رَبِّهِ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ  ﴾(البقرہ :2؍112) ” کیوں نہیں جو شخص اللہ تعالیٰ کے سامنے سر تسلیم خم کر دے اور نیکو کار بھی ہو۔ تو اس کا اجر اس کے رب کے پاس ہے۔ ان کو نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ کوئی غم۔ “ یہی لوگ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے پاک کیا ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ بَلِ اللَّـهُ يُزَكِّي مَن يَشَاءُ ﴾ ” بلکہ اللہ تعالیٰ جسے چاہے پاک کرتا ہے‘‘ یعنی ایمان و عمل صالح کے ساتھ، اخلاق رذیلہ ترک کرنے اور اخلاق حسنہ کو اختیار کرنے کی بنا پر اللہ تعالیٰ ان کو پاک کرتا ہے۔ رہے یہ لوگ تو اگرچہ بزعم خود انہوں نے اپنے آپ کو پاک کیا ہوا ہے اور سمجھتے ہیں کہ وہ حق پر ہیں اور صرف وہی ثواب کے مستحق ہیں مگر وہ جھوٹے ہیں اور وہ اپنے ظلم اور کفر کے سبب سے پاک لوگوں کی خصوصیات اور خصائل سے بے بہرہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو ان خصوصیات سے محروم کر کے ظلم نہیں کیا، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَلَا يُظْلَمُونَ فَتِيلًا ﴾ ” ان پر ذرہ بھر ظلم نہیں کیا جائے گا۔“ یہ عموم کے تحقق کے لیے ہے یعنی ان کے ساتھ اس باریک دھاگے جتنا بھی ظلم نہیں ہوگا جو کھجور کی گٹھلی کے ساتھ لگا ہوتا ہے یا ہاتھ رگڑنے سے جو میل کی باریک بتی سی بنتی ہے اس مقدار میں بھی ان پر ظلم نہ ہوگا۔ النسآء
50 اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿انظُرْ كَيْفَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللَّـهِ الْكَذِبَ ﴾ ” دیکھو یہ لوگ کس طرح اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھتے ہیں“ یعنی انہوں نے اپنے نفوس کی پاکیزگی کا دعویٰ کر کے اللہ تعالیٰ پر افترا پردازی کی ہے۔ کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ پر سب سے بڑا بہتان ہے اور ان کے تزکیہ نفوس کا مضمون یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کا موقف حق اور مسلمانوں کا موقف باطل ہے اور یہ سب سے بڑا جھوٹ ہے۔ حق کو باطل اور باطل کو حق بنانا حقائق کو بدلنے کے مترادف ہے۔ بنابریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَكَفَىٰ بِهِ إِثْمًا مُّبِينًا ﴾ ” اور یہ (حرکت) صریح گناہ ہونے کے لیے کافی ہے“ یعنی یہ ظاہر اور کھلا گناہ ہے جو سخت عقوبت اور درد ناک عذاب کا موجب ہے۔ النسآء
51 یہ یہودیوں کی برائیوں اور رسول اللہ اور اہل ایمان کے ساتھ ان کے حسد کا ذکر ہے۔ ان کے رذیل اخلاق اور خبیث طبیعتوں نے انہیں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان ترک کرنے پر آمادہ کیا اور اس کے عوض ان کو بتوں اور طاغوت پر ایمان لانے کی ترغیب دی۔ طاغوت پر ایمان لانے سے مراد ہر غیر اللہ کی عبادت یا شریعت کے بغیر کسی اور قانون کی بنیاد پر فصلہ کرنا ہے۔ اس میں جادو، ٹونہ، کہانت، غیر اللہ کی عبادت اور شیطان کی اطاعت وغیرہ سب شامل ہیں اور یہ سب بت اور طاغوت ہیں۔ اسی طرح ان کے کفر اور حسد نے ان کو اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ کفار اور بت پرستوں کے طریقہ کو اہل ایمان کے طریقہ پر ترجیح دیں۔﴿وَيَقُولُونَ لِلَّذِينَ كَفَرُوا﴾” اور کفار کے بارے میں کہتے ہیں۔“ یعنی کفار کی خوشامد اور مداہنت کی خاطر اور ایمان سے بغض کی وجہ سے کہتے تھے :﴿هَـٰؤُلَاءِ أَهْدَىٰ مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا سَبِيلًا﴾ ”طریقے کے اعتبار سے یہ کفار اہل ایمان سے زیادہ راہ ہدیات پر ہیں۔“ وہ کتنے قبیح ہیں، ان کا عناد کتنا شدید اور ان کی عقل کتنی کم ہے؟ وہ مذمت کی وادی میں، ہلاکت کے راستے پر کیسے گامزن ہیں؟ کیا وہ سمجھتے ہیں کہ یہ بات کسی عقلمند کو قائل کرلے گی یا کسی جاہل کی عقل میں آجائے گی؟ کیا اس دین کو جو بتوں اور پتھروں کی عبادت کی بنیاد پر قائم ہے، جو طیبات کو حرام ٹھہرائے، خبائث کو حلال ٹھہرانے، بہت سی محرمات کو جائز قرار دینے، اللہ تعالیٰ کی مخلوق پر ظلم کے ضابطوں کو قائم کرنے، خالق کو مخلوق کے برابر قرار دینے، اللہ، اس کے رسول اور اس کی کتابوں کے ساتھ کفر کرنے کو درست گردانتا ہے۔۔۔ اس دنیا پر فضیلت دی جاسکتی ہے جو اللہ رحمٰن کی عبادت، کھلے چھپے اللہ تعالیٰ کے لیے اخلاص، بتوں اور جھوٹے خداؤں کے انکار، صلہ رحمی، تمام مخلوق حتیٰ کہ جانوروں کے ساتھ حسن سلوک، لوگوں کے درمیان عدل کے قیام، ہر خبیث چیز اور ظلم کی تحریم اور تمام اقوال و اعمال میں صدق پر مبنی ہے؟۔۔۔۔۔۔ کیا یہ تفصیل محض ہذیان نہیں؟ النسآء
52 ایسا کہنے والا شخص یا تو سب سے زیادہ جاہل یا سب سے کم عقل یا حق کے ساتھ سب سے زیادہ عناد رکھنے والا اور تکبر کا اظہار کرنے والا ہے۔ یہ فی الواقع ایسے ہی ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ لَعَنَهُمُ اللَّـهُ ﴾یہی لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی ہے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے دور کردیا اور انہیں اپنی سزا کا مستحق ٹھہرایا۔ ﴿وَمَن يَلْعَنِ اللَّـهُ فَلَن تَجِدَ لَهُ نَصِيرًا ﴾ ” اور جس پر اللہ لعنت کر دے تو تم اس کا کسی کو مددگار نہیں پاؤ گے۔“ جسے اللہ تعالیٰ دھتکار دے تو اس کے لیے کوئی مددگار نہیں پائے گا جو اس کی سرپرستی کرے، اس کے مصالح کی نگرانی کرے اور ناپسندیدہ امور میں اس کی حفاظت کرے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی کو اپنے حال پر چھوڑ دینے کی انتہا ہے۔ النسآء
53 ﴿أَمْ لَهُمْ نَصِيبٌ مِّنَ الْمُلْكِ ﴾ ” کیا ان کے پاس بادشاہی کا کچھ حصہ ہے؟“ کہ وہ محض اپنی خواہشات نفس کی بنا پر جس کو چاہیں اور جس پر چاہیں فضیلت دیں اور تدبیر مملکت میں اللہ تعالیٰ کے شریک بن جائیں ؟ اگر وہ ایسے ہوتے تو وہ بہت زیادہ بخل سے کام لیتے۔ اسی لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ فَإِذًا ﴾ یعنی اگر اقتدار میں ان کا کوئی حصہ ہوتا ہے، تب ﴿ لَّا يُؤْتُونَ النَّاسَ نَقِيرًا ﴾” وہ لوگوں کو تل برابر بھی نہ دیتے۔“ یعنی وہ لوگوں کو تھوڑی سی چیز بھی نہ دیتے۔ یہ فرض کرتے ہوئے کہ (کائنات کی) بادشاہی اور اقتدار میں ان کا حصہ ہے۔ انتہائی شدید بخل ان کا وصف بیان کیا ہے۔ یہ ہر ایک کے نزدیک تسلیم شدہ اور متحقق استفہام انکاری ہے۔ النسآء
54 ﴿ أَمْ يَحْسُدُونَ النَّاسَ عَلَىٰ مَا آتَاهُمُ اللَّـهُ مِن فَضْلِهِ ﴾” یا یہ لوگوں سے حسد کرتے ہیں اس پر جو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے انہیں دیا ہے“ یعنی یہ کہنے پر ان کو بزعم خود ان کے اللہ تعالیٰ کے شریک ہونے نے آمادہ کیا ہے کہ جس کو چاہیں فضیلت دیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اہل ایمان کے ساتھ حسد اس کا باعث تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اہل ایمان کو اپنے فضل سے نوازا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کے فضل کے لیے یہ کوئی انوکھی اور نئی چیز نہیں ہے۔ بلکہ ﴿ فَقَدْ آتَيْنَا آلَ إِبْرَاهِيمَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَآتَيْنَاهُم مُّلْكًا عَظِيمًا  ﴾ ” پس ہم نے تو آل ابراہیم کو کتاب و حکمت اور بڑی سلطنت عطا فرمائی ہے“ یہ ان نعمتوں کی طرف اشارہ ہے جن سے اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کی اولاد کو نوازا، یعنی نبوت، کتاب اور حکومت جو اس نے اپنے بعض انبیاء کو عطا کی جیسے داؤد اور سلیمان علیہ السلام۔ النسآء
55 اللہ تعالیٰ کے مومن بندوں پر یہ نعمتیں ہمیشہ سے چلی آرہی ہیں۔ پس وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت، آپ کے لیے اللہ تعالیٰ کی فتح و نصرت اور آپ کے اقتدار کا کیسے انکار کرسکتے ہیں۔ حالانکہ آپ مخلوق میں سب سے افضل، سب سے زیادہ جلیل القدر، سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی معرفت رکھنے والے اور سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے ہیں۔ ﴿فَمِنْهُم مَّنْ آمَنَ بِهِ ﴾ ” پھر ان میں سے بعض اس پر ایمان لائے۔“ یعنی ان میں سے بعض لوگ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے، اس لیے وہ دنیاوی خوش بختی اور اخروی فلاح سے بہرہ ور ہوئے ﴿ وَمِنْهُم مَّن صَدَّ عَنْهُ ۚ ﴾ اور ان میں سے بعض نے محض عناد، بغاوت اور اللہ کے راستے سے لوگوں کو روکنے کے لیے اس سے اعراض کیا اس لیے وہ دنیا میں بدبختی اور مصائب کا شکار ہوگئے۔ جو ان کے گناہوں کے اثرات ہیں۔ ﴿وَكَفَىٰ بِجَهَنَّمَ سَعِيرًا  ﴾ ” اور (ان کے لیے) دہکتی ہوئی آگ ہی کافی ہے“ یہ آگ یہود و نصاریٰ اور دیگر اقسام کے کفار پر بھڑکائی جائے گی، جنہوں نے اللہ تعالیٰ کا اور اس کے انبیاء کا انکار کیا۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : النسآء
56 ﴿إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِآيَاتِنَا سَوْفَ نُصْلِيهِمْ نَارًا ﴾ ” جن لوگوں نے ہماری آیتوں سے کفر کیا انہیں ہم یقیناً آگ میں ڈال دیں گے“ یعنی ہم ان کو ایسی آگ میں جھونکیں گے جو ایندھن کے لحاظ سے بہت بڑی اور اور حرارت کے لحاظ سے بہت شدید ہوگی۔ ﴿كُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُودُهُم ﴾” جب ان کی کھالیں گل جائیں گی۔“ ﴿بَدَّلْنَاهُمْ جُلُودًا غَيْرَهَا لِيَذُوقُوا الْعَذَابَ ﴾” ہم ان کے سوا اور کھالیں بدل دیں گے تاکہ وہ عذاب چکھتے رہیں“ تاکہ عذاب ان کے جسم کے ہر مقام تک پہنچ جائے۔ چونکہ وہ کفر اور عناد کا بار بار مظاہرہ کرتے ہیں اور یہ کفر اور عناد ان کا وصف اور عادت بن گیا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ ان کو بار بار عذاب کا مزا چکھائے گا تاکہ ان کو پورا پورا بدلہ مل جائے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿إِنَّ اللَّـهَ كَانَ عَزِيزًا حَكِيمًا  ﴾ ” یقیناً اللہ تعالیٰ غالب حکمت والا ہے“ یعنی اللہ تعالیٰ عظیم غلبے کا مالک ہے، اس کی تخلیق، اس کے امر اور اس کے ثواب و عقاب میں اس کی حکمت جاری و ساری ہے۔ النسآء
57 ﴿ وَالَّذِينَ آمَنُوا  ﴾ ” اور جو لوگ ایمان لائے۔“ یعنی وہ اللہ تعالیٰ پر اور ان امور پر ایمان لائے جن پر ایمان لانا واجب ہے ﴿ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ﴾” اور عمل نیک کرتے رہے۔“ یعنی وہ واجبات اور مستحبات پر عمل کرتے ہیں۔﴿ سَنُدْخِلُهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۖ لَّهُمْ فِيهَا أَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ ۖ ﴾ ” ہم عنقریب انہیں ان جنتوں میں لے جائیں گے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں جن میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے ان کے لیے وہاں صاف ستھری بیویاں ہوں گی“ یعنی یہ بیویاں ان رذیل عادات اور گندے اخلاق اور ہر میل اور عیب سے پاک ہوں گی جن میں دنیا کی عورتیں ملوث ہوتی ہیں﴿وَنُدْخِلُهُمْ ظِلًّا ظَلِيلًا ﴾ ” اور ہم انہیں گھنے سائے میں داخل کریں گے۔“ یعنی ہم انہیں ہمیشہ رہنے والے سائے میں داخل کریں گے۔ النسآء
58 ہر وہ چیز جس پر انسان کو امین بنایا جائے اور اس کے انتظام کی ذمہ داری اس کے سپرد کی جائے، امانت کہلاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو حکم دیا ہے کہ وہ امانتیں بغیر کسی کمی اور بغیر کسی ٹال مٹول کے پوری کی پوری ادا کردیں۔ اس میں عہدوں کی امانت، اموال کی امانت، بھید اور رازوں کی امانت اور ان مامورات کی امانت جنہیں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا، سب شامل ہیں۔ فقہاء کہتے ہیں کہ جس کسی کے پاس کوئی امانت رکھی جائے اس پر اس کی حفاظت کرنا واجب ہے۔ چونکہ امانت کی حفاظت کئے بغیر اس کو واپس ادا کرنا ممکن نہیں، اس لیے حفاظت واجب ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿إِلَىٰ أَهْلِهَا ﴾ ” اس کے مالک کی طرف“ میں اس بات کی دلیل ہے کہ امانت صرف اسی شخص کو لوٹائی جائے اور ادا کی جائے جو اس کا مالک ہے اور وکیل مالک ہی کے قائم مقام ہے۔ اگر وہ امانت مالک کے سوا کسی اور شخص کے حوالے کر دے تو اس نے امانت ادا نہیں کی۔ ﴿وَإِذَا حَكَمْتُم بَيْنَ النَّاسِ أَن تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ ﴾ ” اور جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف کے مطابق کرو“ یہ حکم ان کے درمیا ن قتل کے مقدمات، مالی مقدمات اور عزت و آبرو کے مقدمات، خواہ یہ چھوٹے ہوں یا بڑے، سب کو شامل ہے اور اس کا اطلاق قریب، بعید، صالح، فاجر، دوست اور دشمن سب پر ہوتا ہے۔ وہ عدل جس کا اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں حکم دیا ہے اس سے مراد حدود و احکام میں عدل کے وہ ضابطے ہیں جن کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر مشروع فرمایا ہے۔ یہ حکم معرفت عدل کو مستلزم ہے تاکہ اس کے مطابق فیصلہ کیا جا سکے۔ چونکہ یہ احکام بہت اچھے اور عدل و انصاف پر مبنی ہیں اس لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿إِنَّ اللَّـهَ نِعِمَّا يَعِظُكُم بِهِ ۗ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ سَمِيعًا بَصِيرًا ﴾ ” اللہ تم کو اچھی نصیحت کرتا ہے، بے شک اللہ سننے والا دیکھنے والا ہے“ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے اوامرو نواہی کی مدح و تعریف ہے کیونکہ یہ اوامرو نواہی دنیا و آخرت کے مصالح کے حصول اور دنیا و آخرت کی مضرتوں کو دور کرنے پر مشتمل ہیں کیونکہ ان اوامرو نواہی کو مشروع کرنے والی ہستی سمیع و بصیر ہے۔ جس سے کوئی چیز چھپی ہوئی نہیں ہے وہ اپنے بندوں کے ان مصالح کو جانتا ہے جو وہ خود نہیں جانتے۔ النسآء
59 پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی اور اپنے رسول کی اطاعت کا حکم دیا ہے اور یہ اطاعت اللہ اور اس کے رسول کے مشروع کردہ واجبات و مستحبات پر عمل اور ان کی منہیات سے اجتناب ہی کے ذریعے سے ہوسکتی ہے، نیز اللہ تعالیٰ نے اولوالامر کی اطاعت کا حکم دیا ہے۔ اولوالامر سے مراد لوگوں پر مقرر کردہ حکام، امراء اور اصحاب فتویٰ ہیں کیونکہ لوگوں کے دینی اور دنیاوی معاملات اس وقت تک درست نہیں ہوسکتے جب تک کہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری کرتے ہوئے اولوالامر کی اطاعت نہیں کرتے مگر اس شرط کے ساتھ کہ اولوالامر اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا حکم نہ دیں اور اگر وہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا حکم دیں تو خالق کی نافرمانی میں مخلوق کی فرمانبرداری ہرگز جائز نہیں۔ شاید یہی سرنہاں ہے کہ اولوالامر کی اطاعت کے حکم کے وقت فعل کو حذف کردیا گیا ہے اور اولو الامر کی اطاعت کو رسول کی اطاعت کے ساتھ ذکر فرمایا ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صرف اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا حکم دیتے ہیں لہٰذا جو کوئی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرتا ہے وہ اللہ کی اطاعت کرتا ہے۔ رہے اولوالامر تو ان کی اطاعت کے لیے یہ شرط عائد کی ہے کہ ان کا حکم معصیت نہ ہو۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ لوگ اپنے تمام تنازعات کو، خواہ یہ اصول دین میں ہوں یا فروع دین میں اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹائیں، یعنی کتاب اللہ اور سنت رسول کی طرف کیونکہ تمام اختلافی مسائل کا حل قرآن و سنت میں موجود ہے یا تو ان اختلافات کا حل صراحت کے ساتھ قرآن اور سنت میں موجود ہوتا ہے یا ان کے عموم، ایماء، تنبیہ، مفہوم مخالف اور عموم معنی میں ان اختلافات کا حل موجود ہوتا ہے اور عموم معنی میں اس کے مشابہہ مسائل میں قیام کیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ کتاب اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر دین کی بنیاد قائم ہے ان دونوں کو حجت تسلیم کئے بغیر ایمان درست نہیں۔ اپنے تنازعات کو قرآن و سنت کی طرف لوٹانا شرط ایمان ہے۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ ﴾ ” اگر تم اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو۔“ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ جو کوئی نزاعی مسائل کو قرآن و سنت پر پیش نہیں کرتا وہ حقیقی مومن نہیں بلکہ وہ طاغوت پر ایمان رکھتا ہے، جیسا کہ بعد والی آیت میں ذکر فرمایا ہے۔ ﴿ذَٰلِكَ  ﴾” یہ“ یعنی تنازعات کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹانا ﴿خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا ﴾ ” یہ بہت بہتر ہے اور با اعتبار انجام کے بہت اچھا ہے“ کیونکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ سب سے اچھا فیصلہ ہے۔ النسآء
60 اللہ تعالیٰ منافقین کی حالت کے بارے میں اپنے بندوں پر تعجب کا اظہار کرتا ہے۔ ﴿ الَّذِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ آمَنُوا  ﴾” جو دعویٰ تو یہ کرتے ہیں کہ وہ ایمان رکھتے ہیں۔“ یعنی وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اس چیز پر ایمان لائے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے اور جو کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے تھا۔ بایں ہمہ ﴿ يُرِيدُونَ أَن يَتَحَاكَمُوا إِلَى الطَّاغُوتِ ﴾ ” وہ چاہتے ہیں کہ وہ فیصلے طاغوت کی طرف لے جائیں۔“ ہر وہ شخص جو شریعت الٰہی کے بغیر فیصلے کرتا ہے طاغوت ہے اور ان کا حال یہ ہے کہ ﴿وَقَدْ أُمِرُوا أَن يَكْفُرُوا بِهِ  ﴾” انہیں اس بات کا حکم دیا گیا تھا کہ وہ طاغوت کا انکار کریں۔“ ان کا یہ رویہ اور ایمان کیسے اکٹھے ہوسکتے ہیں کیونکہ ایمان اس امر کا تقاضا کرتا ہے کہ تمام معاملات میں اللہ تعالیٰ کی شریعت کی پیروی کی جائے اور اس کی تحکیم کو قبول کیا جائے۔ پس جو کوئی مومن ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ کے فیصلے کو چھوڑ کر طاغوت کے فیصلے کو قبول کرتا ہے وہ جھوٹا ہے۔ یہ سب کچھ اس وجہ سے ہے کہ شیطان نے ان کو گمراہ کردیا ہے ﴿ وَيُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَن يُضِلَّهُمْ ضَلَالًا بَعِيدًا  ﴾ ” اور شیطان تو چاہتا ہے کہ انہیں بہکا کر راستے سے دور کر دے۔“ یعنی شیطان چاہتا ہے کہ وہ انہیں حق سے دور کر دے۔ النسآء
61 النسآء
62 فرمایا : ﴿فَكَيْفَ  ﴾ یعنی ان گمراہوں کا کیا حال ہوتا ہے ﴿إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ  ﴾ ” جب ان پر ان کے کرتوتوں کے باعث کوئی مصیبت آپڑتی ہے“ یعنی گناہ، معاصی اور طاغوت کی تحکیم بھی اس میں شامل ہے ﴿ثُمَّ جَاءُوكَ ﴾ ” پھر آپ کے پاس آتے ہیں۔“ یعنی جو کچھ ان سے صادر ہوا اس پر معذرت کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے ہیں۔ ﴿يَحْلِفُونَ بِاللَّـهِ إِنْ أَرَدْنَا إِلَّا إِحْسَانًا وَتَوْفِيقًا ﴾ ” اللہ تعالیٰ کی قسمیں کھاتے ہیں کہ ہمارا ارادہ تو صرف بھلائی اور میل ملاپ ہی کا تھا۔“ یعنی ہمارا مقصد تو صرف جھگڑے کے فریقین کے ساتھ بھلائی کرنا اور ان کے درمیان صلح کروانا ہے۔ حالانکہ وہ اس بارے میں سخت جھوٹے ہیں۔ بھلائی تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تحکیم میں ہے۔﴿وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّـهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ يُوقِنُونَ ﴾(المائدہ :5؍ 50) ” جو لوگ یقین رکھتے ہیں ان کے لیے اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر اچھا فیصلہ کس کا ہے؟“ النسآء
63 اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ يَعْلَمُ اللَّـهُ مَا فِي قُلُوبِهِمْ ﴾ ” یہ وہ لوگ ہیں کہ ان کے دلوں کا بھید اللہ تعالیٰ پر بخوبی روشن ہے“ یعنی اللہ تعالیٰ ان کےنفاق اور برے مقاصد کو جانتا ہے۔﴿ فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ﴾ کی پروانہ کیجیے اور جو کچھ انہوں نے کیا ہے اس پر دھیان نہ دیجیے ﴿ وَعِظْهُمْ ﴾ ” اور انہیں نصیحت کریں۔“ یعنی انہیں اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی ترغیب دیتے ہوئے اور ترک اطاعت پر انہیں ڈراتے ہوئے ان کے سامنے اللہ تعالیٰ کا حکم بیان کیجیے۔ ﴿وَقُل لَّهُمْ فِي أَنفُسِهِمْ قَوْلًا بَلِيغًا  ﴾ ” اور ان سے وہ بات کیجیے جو ان کے دلوں میں گھر کرنے والی ہو“ یعنی اپنے درمیان اور ان کے درمیان معاملے کو راز رکھتے ہوئے انہیں نصیحت کیجیے۔ حصول مقصد کے لیے یہ طریقہ زیادہ مفید ہے اور ان کو برائیوں سے روکنے اور زجر و توبیخ میں پوری کوشش سے کام لیجیے۔ اس آیت کریمہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ گناہگار کے ساتھ اگر اعراض کیا جائے تو پوشیدہ طور پر اس کے لیے خیر خواہی کا اہتمام ضرور کیا جائے اور اس کو نصیحت کرنے میں پوری کوشش سے کام لیا جائے جس سے وہ اپنا مقصد حاصل کرسکے۔ النسآء
64 اللہ تبارک و تعالیٰ اوامر کے ضمن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور فرمانبرداری کی ترغیب دیتے ہوئے آگاہ فرماتا ہے کہ انبیاء و رسل کو مبعوث کرنے کی غرض و غایت صرف یہی ہے کہ ان کی اطاعت کی جائے اور جن کی طرف رسول بھیجا گیا ہے وہ اس کے تمام احکام کی تعمیل کریں، اس کے نواہی سے اجتناب کریں اور وہ اس کی ویسے ہی تعظیم کریں جیسے اطاعت کرنے والا مطاع کی تعظیم کرتا ہے۔ اس آیت میں عصمت انبیاء کا اثبات ہے یعنی وہ اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانے، حکم دینے اور منع کرنے میں ہر لغزش سے پاک ہیں کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے لوگوں کو انبیاء کرام کی مطلق اطاعت کا حکم دیا ہے اگر وہ منصب تشریع میں خطا سے پاک نہ ہوتے تو اللہ تعالیٰ ان کی مطلق اطاعت کا حکم نہ دیتا۔ ﴿بِإِذْنِ اللَّـهِ ﴾ ” اللہ کے فرمان کے مطابق۔“ یعنی اطاعت کرنے والے کی اطاعت اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر سے صادر ہوتی ہے۔ پس اس آیت میں قضا و قدر کا اثبات ہے نیز اس میں اس امر کی ترغیب ہے کہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنی چاہئے نیز اس میں یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ انسان اس وقت تک رسول کی اطاعت نہیں کرسکتا جب تک کہ اللہ تعالیٰ کی مدد شامل حال نہ ہو۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے عظیم جود و کرم کا ذکر فرمایا ہے اور ان لوگوں کو دعوت دی ہے جن سے گناہ سرزد ہوئے کہ وہ اپنے گناہوں کا اعتراف کریں، توبہ کر کے اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی بخشش طلب کریں۔ چنانچہ فرمایا : ﴿وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُوا أَنفُسَهُمْ جَاءُوكَ ﴾ ” اور اگر یہ لوگ جب انہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا آپ کے پاس آجاتے“ یعنی اپنے گناہوں کا اعتراف اور اقرار کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے۔ ﴿ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّـهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّـهَ تَوَّابًا رَّحِيمًا﴾ ” اور اللہ سے استغفار کرتے اور رسول ان کے لیے استغفار کرتا تو یقیناً یہ لوگ اللہ کو معاف کرنے والا مہربان پاتے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ ان کا ظلم بخش کر ان کی طرف پلٹ آتا۔ اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول کر کے، توبہ کی توفیق اور اس پر ثواب عطا کر کے ان پر رحم فرماتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اس حاضری کا تعلق آپ کی زندگی کے ساتھ مختص تھا کیونکہ سیاق دلالت کرتا ہے کہ رسول کی طرف سے استغفار آپ کی زندگی ہی میں ہوسکتا ہے۔ آپ کی وفات کے بعد آپ سے کچھ نہ مانگا جائے، بلکہ یہ شرک ہے۔ النسآء
65 پھر اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات اقدس کی قسم کھاتے ہوئے فرمایا کہ یہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ اپنے جھگڑوں میں اس کے رسول کو حکم تسلیم نہ کریں۔ یعنی ہر اس معاملے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم اور فیصل تسلیم کریں جس میں اجماعی مسائل کے برعکس ان کے درمیان کسی قسم کا کوئی اختلاف واقع ہو۔ کیونکہ اجماعی مسائل کتاب و سنت کی دلیل پر مبنی ہوتے ہیں۔ پھر اس تحکیم کو تسلیم کرنا ہی کافی قرار نہیں دیا بلکہ یہ شرط بھی عائد کی کہ آپ کو حکم تسلیم کرنا محض اغماض کے پہلو سے نہ ہو بلکہ ان کے دلوں میں کسی قسم کی تنگی اور حرج نہ ہو اور اس تحکیم کو ہی کافی قرار نہیں دیا جب تک کہ وہ شرح صدر، اطمینان نفس، ظاہری اور باطنی اطاعت کے ساتھ آپ کے فیصلے کو تسلیم نہ کرلیں۔ پس آپ کو حکم تسلیم کرنا اسلام کے مقام میں ہے۔ اس تحکیم میں تنگی محسوس نہ کرنا، ایمان کے مقام میں ہے اور آپ کے فیصلے پر تسلیم و رضا احسان کے مقام میں ہے۔ جس کسی نے ان مراتب کو مکمل کرلیا اس نے دین کے تمام مراتب کی تکمیل کرلی اور جس نے اس کا التزام کئے بغیر اس تحکیم کو ترک کردیا وہ کافر ہے اور جس نے التزام کرنے کے باوجود اس تحکیم کو ترک کردیا وہ دیگر گناہگاروں کی مانند ہے۔ النسآء
66 اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس نے اپنے بندوں پر شاق گزرنے والے احکام فرض کئے ہوتے مثلاً، اپنے آپ کو قتل کرنا اور گھروں سے نکلنا وغیرہ تو اس پر بہت کم لوگ عمل کرسکتے، پس انہیں اپنے رب کی حمد و ثنا اور اس کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر ایسے آسان احکام نافذ کئے ہیں جن پر عمل کرنا ہر ایک کے لیے آسان ہے اور ان میں کسی کے لیے مشقت نہیں۔ اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ بندہ مومن کو چاہئے کہ اسے جو امور گراں گزرتے ہیں، وہ ان کی ضد کو ملاحظہ کرے تاکہ اس پر عبادات آسان ہوجائیں، تاکہ اپنے رب کے لیے اس کی حمد و ثنا اور شکر میں اضافہ ہو۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اگر انہوں نے اس چیز پر عمل کیا ہوتا جس کی انہیں نصیحت کی گئی ہے، یعنی تمام اوقات کے مطابق ان کے لیے جو اعمال مقرر کئے گئے ہیں، ان کے لیے اپنی ہمتیں صرف کرتے ان کے انتظام اور ان کی تکمیل کے لیے ان کے نفوس پوری کوشش کرتے اور جو چیز انہیں حاصل نہ ہوسکتی اس کے لیے کوشش نہ کرتے اور اس کے درپے نہ ہوتے اور بندے کے لیے یہی مناسب ہے کہ وہ اپنے حال پر غور کرے جس کو قائم کرنا لازم ہے اس کی تکمیل میں جدوجہد کرے۔ پھر بتدریج تھوڑا تھوڑا آگے بڑھتا رہے یہاں تک کہ جو دینی اور دنیاوی علم و عمل اس کے لیے مقدر کیا گیا ہے اسے حاصل کرلے۔ یہ اس شخص کے برعکس ہے جو اس معاملے پر ہی نظریں جمائے رکھتا ہے جہاں تک وہ نہ پہنچ سکا اور نہ اس کو اس کا حکم دیا گیا تھا۔ کیونکہ وہ تفریق ہمت، سستی اور عدم نشاط کی بنا پر اس منزل تک نہیں پہنچ سکا۔ پھر ان کو جو نصیحت کی گئی ہے اس پر عمل کرنے سے جو نتائج حاصل ہوتے ہیں ان کے چار مراتب ہیں۔ اول : بھلائی کا حصول۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں ذکر کیا گیا ہے ﴿لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ ﴾” البتہ ان کے لیے بہتر ہوتا“ یعنی ان کا شمار نیک لوگوں میں ہوتا جو ان افعال خیر سے متصف ہیں جن کا ان کو حکم دیا گیا تھا اور ان سے شریر لوگوں کی صفات زائل ہوجاتیں کیونکہ کسی چیز کے ثابت ہونے سے اس کی ضد کی نفی لازم آتی ہے۔ ثانی : ثابت قدمی اور اس میں اضافے کا حصول۔ کیونکہ اہل ایمان کے ایمان کو قائم رکھنے کے سبب، جسے قائم رکھنے کی انہیں نصیحت کی گئی تھی، اللہ تعالیٰ انہیں ثابت قدمی عطا کرتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ دنیا کی زندگی میں، اوامرونواہی میں فتنوں کے وارد ہونے اور مصائب کے نازل ہونے کے وقت انہیں ثابت قدمی عطا کرتا ہے، تب انہیں ثبات حاصل ہوتا ہے اوامر پر عمل کرنے اور ان نواہی سے اجتناب کی توفیق عطا ہوتی ہے نفس جن کے فعل کا تقاضا کرتا ہے اور ان مصائب کے نازل ہونے پر ثابت قدمی اور استقامت عطا ہوتی ہے جن کو بندہ ناپسند کرتا ہے۔ بندے کو صبر و رضا اور شکر کی توفیق کے ذریعے سے ثابت قدمی عطا ہوتی ہے۔ پس بندے پر اس کی ثابت قدمی کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد نازل ہوتی ہے اور اسے نزع کے وقت اور قبر میں ثابت قدمی سے نواز دیا جاتا ہے۔ نیز اللہ تعالیٰ کے اوامر کو قائم رکھنے والا بندہ مومن شرعی احکام کا عادی بن جاتا ہے یہاں تک کہ وہ ان احکام سے مانوس ہوجاتا ہے اور ان احکام کا مشتاق بن جاتا ہے اور یہ الفت اور اشتیاق نیکیوں پر ثبات کے لیے اس کے مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ النسآء
67 ثالث :۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَإِذًا لَّآتَيْنَاهُم مِّن لَّدُنَّا أَجْرًا عَظِيمًا ﴾ ” اور تب تو انہیں ہم اپنے پاس سے بڑا ثواب دیتے۔“ یعنی دنیاو آخرت میں ہم اسے اجر عظیم سے نوازتے جو قلب و روح اور بدن کے لیے ہے اور ایسی ہمیشہ رہنے والی نعمت ہے جسے کسی آنکھ نے دیکھا ہے نہ کسی نے سنا ہے اور نہ کسی کے طائر خیال کا وہاں سے گزرا ہوا ہے۔ النسآء
68 رابع : صراط مستقیم کی طرف راہنمائی۔ یہ خصوص کے بعد عموم کا ذکر ہے کیونکہ صراط مستقیم کی طرف راہنمائی شرف کی حامل ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہدایت حق کے علم کو، حق کے ساتھ محبت اور حق کو ترجیح دینے اور اس پر عمل کرنے کو اور اس پر فلاح و سعادت کے موقوف ہونے کو متضمن ہوتی ہے۔ پس جس کسی کی صراط مستقیم کی طرف راہنمائی کردی گئی اسے گویا ہر بھلائی کی توفیق عطا کردی گئی اور اس سے ہر برائی اور ہر ضرر کو دور کردیا گیا۔ النسآء
69 یعنی ہر وہ شخص جو اپنے حسب حال، قدر واجب کے مطابق، خواہ مرد ہو یا عورت اور بچہ ہو یا بوڑھا، اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتا ہے۔ ﴿فَأُولَـٰئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّـهُ عَلَيْهِم ﴾ ” پس یہی وہ لوگ ہیں جو ان کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے فضل کیا“ یعنی ان کو عظیم نعمت سے نوازا، جو کمال، فلاح اور سعادت کی مقتضی ہے۔ ﴿مِّنَ النَّبِيِّينَ ﴾ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے وحی عطا کر کے فضیلت بخشی اور انہیں خصوصی فضیلت عطا کی کہ ان کو لوگوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا اور انہوں نے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دی ﴿وَالصِّدِّيقِينَ ﴾ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اس وحی کی کامل تصدیق کی جو رسول لے کر آئے تھے۔ انہوں نے حق کو جان لیا اور یقین کامل کے ساتھ اس کی تصدیق کی اور پھر اپنے قول و فعل، حال اور اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دے کر اس حق کو قائم کیا۔ ﴿وَالشُّهَدَاءِ ﴾ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کیا تاکہ اللہ تعالیٰ کا کلمہ بلند ہو اور قتل کردیئے گئے۔ ﴿وَالصَّالِحِينَ ﴾یہ وہ لوگ ہیں جن کا ظاہر و باطن درست ہے اور اس کے نتیجے میں ان کے اعمال درست ہیں۔ پس ہر وہ شخص جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتا ہے وہ ان لوگوں کی صحبت سے بہرہ ور ہوگا۔ ﴿وَحَسُنَ أُولَـٰئِكَ رَفِيقًا ﴾ان مذکورہ اصحاب فضیلت کے ساتھ نعمت والے باغوں میں اکٹھے ہونا اور اللہ رب العالمین کے جوار میں ان اصحاب کی قربت کا انس، ایک اچھی رفاقت ہے۔ النسآء
70 ﴿ذَٰلِكَ الْفَضْلُ ﴾ یہ فضیلت جو انہوں نے حاصل کی ہے ﴿مِنَ اللَّـهِ﴾ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جس نے انہیں اس کی توفیق سے نوازا، اس کے حصول میں ان کی مدد کی اور انہیں اتنا زیادہ ثواب عطا کیا کہ ان کے اعمال وہاں تک نہیں پہنچ سکتے تھے۔ ﴿وَكَفَىٰ بِاللَّـهِ عَلِيمًا ﴾یعنی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے احوال کا علم رکھتا ہے اور وہ جانتا ہے کہ ان میں سے کون ان اعمال صالحہ کے ذریعے سے، جن پر ان کا دل اور اعضاء متفق ہوں، ثواب جزیل (زیادہ اجر) کا مستحق ہے۔ النسآء
71 اللہ تبارک و تعالیٰ اپن مومن بندوں کو حکم دیتا ہے کہ اپنے کفار دشمنوں سے چوکنے رہو۔ یہ حکم ان تمام اسباب کو شامل ہے جو دشمن کے خلاف جنگ میں مدد دیتے ہیں۔ جن کے ذریعے سے دشمن کی چالوں اور سازشوں کو ناکام بنایا جاتا اور اس کی قوت کو توڑا جاتا ہے۔ مثلاً قلعہ بندیوں اور خندقوں کا استعمال، تیر اندازی اور گھوڑ سواری سیکھنا اور ان تمام صنعتوں کا علم حاصل کرنا جو دشمن کے خلاف جنگ میں مدد دیتا ہے، وہ علوم سیکھنا جن کے ذریعے سے دشمن کے داخلی اور خارجی حالات اور ان کی سازشوں سے باخبر رہا جا سکے اور اللہ کے راستے میں جہاد کے لیے نکلنا۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿فَانفِرُوا ثُبَاتٍ﴾ ” جماعت جماعت ہو کر نکلا کرو۔“ یعنی متفرق ہو کر جہاد کے لیے نکلو اور اس کی صورت یہ ہے کہ ایک جماعت یا لشکر جہاد کے لیے نکلے اور دیگر لوگ مقیم رہیں ﴿ أَوِ انفِرُوا جَمِيعًا ﴾ ” یا تمام کے تمام جہاد کے لیے نکلو۔“ یہ سب کچھ مصلحت، دشمن پر غلبہ حاصل کرنے اور دین میں مسلمانوں کی راحت کے تابع ہے۔ اس آیت کریمہ کی نظیر اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے ﴿وَأَعِدُّوا لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ  ﴾ (الانفال :8؍60) ” جہاں تک ہو سکے دشمن کے مقابلہ کے لیے فوجی قوت تیار کرو۔ “ النسآء
72 پھر اللہ تعالیٰ نے ان کمزور ایمان مسلمانوں کے بارے میں آگاہ فرمایا جو کاہلی کی بنا پر جہاد سے جی چراتے ہیں۔ ﴿وَإِنَّ مِنكُمْ لَمَن لَّيُبَطِّئَنَّ  ﴾ ” اور تم میں سے کوئی ایسا بھی ہے کہ عمداً دیر لگاتا ہے۔“ یعنی اے اہل ایمان ! تم میں سے بعض لوگ کمزوری، سستی اور بزدلی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کے لیے نہیں نکلتے۔ یہی تفسیر صحیح ہے۔ بعض مفسرین کے نزدیک اس کے معنی ہیں، کہ وہ دوسروں کو جہاد کے لیے نکلنے سے روکتے ہیں۔ ایسا کرنے والے منافق تھے لیکن پہلے معنی دو لحاظ سے زیادہ صحیح ہیں۔ اول : اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿مِنكُمْ ﴾” تم میں سے“ اس پر دلالت کرتا ہے۔ کیونکہ یہ خطاب اہل ایمان سے ہے۔ النسآء
73 ثانی : آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ﴿ كَأَن لَّمْ تَكُن بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُ مَوَدَّةٌ ﴾ ” گویا کہ تمہارے اور اس کے درمیان کوئی دوستی نہ تھی“ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کفار، مشرکین، منافقین اور اہل ایمان کے مابین محبت اور مودت کو منقطع کردیا، نیز یہ فی الواقع ایسے ہی ہے، اس لیے کہ اہل ایمان کی دو قسمیں ہیں۔ (١) وہ لوگ جو اپنے ایمان میں سچے ہیں، یہ صدق ایمان ان کے لیے کامل تصدیق اور جہاد کا موجب ہوتا ہے۔ (٢) وہ کمزور لوگ جو اسلام میں داخل ہوتے ہیں مگر وہ کمزور ایمان کے مالک ہوتے ہیں جہاد پر نکلنے کے لیے قوت سے محروم ہوتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿قَالَتِ الْأَعْرَابُ آمَنَّا ۖ قُل لَّمْ تُؤْمِنُوا وَلَـٰكِن قُولُوا أَسْلَمْنَا  ۔۔۔﴾ (الحجرات :49؍14) ” عرب دیہاتی کہتے ہیں: ہم ایمان لائے۔ کہہ دیجیے کہ تم ایمان نہیں لائے بلکہ یوں کہو کہ ہم اسلام لائے۔ “ پھر اللہ تعالیٰ نے جہاد میں نہ نکلنے والوں کی غرض و غایت اور ان کے مقاصد کے بارے میں آگاہ فرمایا کہ ان کا سب سے بڑا مقصد دنیا اور اس کے چند ٹکڑے ہیں۔ ﴿ فَإِنْ أَصَابَتْكُم مُّصِيبَةٌ ﴾ ” پھر اگر تمہیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے“ یعنی اگر تمہیں ہزیمت اٹھانا پڑتی ہے، اہل ایمان قتل ہوتے ہیں اور بعض حالات میں دشمن ظفریاب ہوتا ہے کیونکہ اس میں بھی اللہ تعالیٰ کی کچھ حکمت ہوتی ہے ﴿قَالَ ﴾ یعنی جہاد سے جی چرا کر بیٹھ رہنے والا کہتا ہے : ﴿قَدْ أَنْعَمَ اللَّـهُ عَلَيَّ إِذْ لَمْ أَكُن مَّعَهُمْ شَهِيدًا ﴾” اللہ تعالیٰ نے مجھ پر بڑا فضل کیا کہ میں ان کے ساتھ موجود نہیں تھا“ وہ اپنی ضعف عقل اور ضعف ایمان کی وجہ سے سمجھتا ہے کہ جہاد سے جی چرا کر پیچھے بیٹھ رہنا نعمت ہے حالانکہ یہی تو مصیبت ہے۔ وہ نہیں جانتا کہ حقیقی نعمت تو اس بڑی نیکی کی توفیق ہے جس کے ذریعے سے ایمان قوی ہوتا ہے اور اس کی وجہ سے بندہ عذاب اور خسران سے محفوظ ہوتا ہے اور اس جہاد میں ثواب اور رب کریم و وہاب کی رضا حاصل ہوتی ہے۔ رہا جہاد چھوڑ کر بیٹھ رہنا تو اگرچہ پیچھے بیٹھ رہنے والا تھوڑا سا آرام تو کرلیتا ہے مگر اس آرام کے بعد طویل دکھ اور بہت بڑی تکالیف کا سامنا کرناپڑتا ہے اور وہ اس عظیم اجر و ثواب سے بھی محروم ہوجاتا ہے جو مجاہدین کو حاصل ہوتا ہے۔ پھر فرمایا : ﴿وَلَئِنْ أَصَابَكُمْ فَضْلٌ مِّنَ اللَّـهِ ﴾ ” اور اگر تمہیں اللہ کا کوئی فضل مل جائے“ یعنی فتح و نصرت اور مال غنیمت ﴿لَيَقُولَنَّ كَأَن لَّمْ تَكُن بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُ مَوَدَّةٌ يَا لَيْتَنِي كُنتُ مَعَهُمْ فَأَفُوزَ فَوْزًا عَظِيمًا﴾” تو اس طرح ہے کہ گویا تم میں، اس میں دوستی تھی ہی نہیں، (افسوس کرتا اور) کہتا ہے کہ کاش میں بھی ان کے ساتھ ہوتا تو مقصد عظیم حاصل کرلیتا۔“ یعنی وہ تمنا کرتا ہے کہ وہ بھی جہاد میں شریک ہوتا تاکہ وہ بھی مال غنیمت حاصل کرسکتا۔ مال غنیمت کے سوا اس کا کوئی مقصد ہے، نہ اس کے سوا کسی اور چیز میں رغبت ہے۔ اے مسلمانوں کے گروہ ! وہ گویا تم میں سے نہیں ہیں اور نہ ان کے درمیان اور تمہارے درمیان رشتہ ایمان کی مودت و محبت ہے جس کا تقاضا یہ ہے کہ تمام مومنین اپنے مفادات و مصالح اور دفع ضرر میں مشترک ہیں۔ وہ اس کے حصول پر خوش ہوتے ہیں خواہ یہ مفاد و مصلحت مومن بھائیوں میں سے کسی کے ذریعے سے حاصل ہوئے ہوں اس سے محرومی پر دکھ محسوس کرتے ہیں اور جس میں ان کے دین اور دنیا کی اصلاح ہو، اس کے حصول کے لیے سب مل کر کوشش کرتے ہیں اور یہ فقط دنیا کی تمنا کرتا ہے اور مذکورہ روح ایمانی سے تہی دست ہوتا ہے۔ یہ بندوں پر اللہ تبارک و تعالیٰ کا لطف و کرم ہے کہ ان پر اپنی رحمت کا سلسلہ منقطع کرتا ہے، نہ اپنی رحمت کے دروازے ان پر بند کرتا ہے بلکہ اگر کوئی ایسا کام کر بیٹھتا ہے جو اس کے حکم کے مطابق نہیں ہوتا تو وہ اسے اپنے نقصان کی تلافی کرنے اور اپنے نفس کی تکمیل کی دعوت دیتا ہے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو اخلاص اور اللہ کی راہ میں نکلنے کا حکم دیا ہے۔ النسآء
74 فرمایا : ﴿فَلْيُقَاتِلْ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ الَّذِينَ يَشْرُونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا بِالْآخِرَةِ ۚ ﴾ ” پس چاہئے کہ وہ لوگ اللہ کے راستے میں لڑیں جو دنیا کی زندگی کو آخرت کے بدلے بیچتے ہیں“ یہ اس آیت کی تفسیر کے بارے میں چند اقوال میں سے ایک قول ہے اور سب سے زیادہ صحیح ہے۔ ایک اور قول کے مطابق اس کا معنی یہ ہے کہ ان مومنوں کو اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرنا چاہئے جو اپنے ایمان میں کامل اور صدق کے حامل ہیں۔ ﴿الَّذِينَ يَشْرُونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا بِالْآخِرَةِ ﴾ یعنی آخرت میں رغبت رکھتے ہیں دنیا کو آخرت کے بدلے بیچ دیتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جن کی طرف اللہ تعالیٰ کے خطاب کا رخ ہے کیونکہ انہوں نے اپنے آپ کو دشمنوں کے ساتھ جہاد کرنے کے لیے تیار کر کے عادی بنا لیا ہے، اس لیے کہ یہ لوگ ایمان کامل کے حامل ہیں جو جہاد کا تقاضا کرتا ہے۔ رہے وہ لوگ جو جہاد کے لیے نہیں اٹھتے تو یہ لوگ جہاد کے لیے نکلیں یا گھر بیٹھے رہیں اللہ تعالیٰ کو ان کی پروا نہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی نظیر ہے ﴿قُلْ آمِنُوا بِهِ أَوْ لَا تُؤْمِنُوا ۚ إِنَّ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ مِن قَبْلِهِ إِذَا يُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ يَخِرُّونَ لِلْأَذْقَانِ سُجَّدًا ﴾(بنی اسرائیل :17؍107) ” کہہ دیجیے کہ تم اس پر ایمان لاؤ یا نہ لاؤ جن لوگوں کو اس سے پہلے علم دیا گیا ہے جب وہ ان کو پڑھ کر سنایا جاتا ہے تو وہ اپنی ٹھوڑیوں کے بل سجدے میں گر پڑتے ہیں“ آیات کے آخرتک۔ نیز اس کی نظیر اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے۔﴿فَإِن يَكْفُرْ بِهَا هَـٰؤُلَاءِ فَقَدْ وَكَّلْنَا بِهَا قَوْمًا لَّيْسُوا بِهَا بِكَافِرِينَ  ﴾(الانعام :6؍89 ) اگر یہ کفار اس کا انکار کرتے ہیں تو ہم نے اس پر ایمان لانے کے لیے کچھ ایسے لوگوں کو مقرر کردیا ہے جو اس کا انکار کرنے والے نہیں۔ “ بعض کہتے ہیں کہ اس آیت کے معنی یہ ہیں کہ لڑائی کرنے والے مجاہد کو کفار کے خلاف لڑنا چاہئے جنہوں نے آخرت کے بدلے دنیا کی زندگی خرید لی ہے۔ تب اس صورت میں آیت کریمہ میں موجود لفظ (اَلَّذِیْنَ) مفعول ہونے کی بنا پر نصب کے مقام پر ہے۔ فرمایا :﴿وَمَن يُقَاتِلْ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ ﴾ ”اور جو لڑتا ہے اللہ کے راستے میں“ یعنی یہ جہاد ہو جس کا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے اور بندہ اس میں اللہ تعالیٰ کے لیے اخلاص اور اس کی رضا کا قصد رکھتا ہو ﴿ فَيُقْتَلْ أَوْ يَغْلِبْ فَسَوْفَ نُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا  ﴾ ”پس وہ قتل کردیا جائے یا غالب آجائے، ہم اسے اجر عظیم عطا کریں گے“ یعنی یہ اجر ان کے دین و ایمان میں اضافہ، مال غنیمت اور ثنائے حسن کی صورت میں عطا ہوگا۔ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے جنت میں وہ ثواب تیار کر رکھا ہے جسے کسی آنکھ نے دیکھا ہے نہ کسی کان نے سنا ہے اور نہ کسی کے دل میں اس کا کبھی گزر ہوا۔ النسآء
75 یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے مومن بندوں کے لیے اس کی راہ میں جہاد کی ترغیب ہے نیز یہ کہ جہاد ان پر فرض کردیا گیا ہے اور ترک جہاد ان کے لیے بہت بڑی ملامت کا باعث ہوگا۔ ﴿وَمَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ ﴾ ” تمہیں کیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں لڑتے نہیں؟“ اور حال یہ ہے کہ مستضعفین مرد، عورتیں اور بچے جن کے پاس کوئی چارہ ہے نہ ان کے پاس آزادی حاصل کرنے کا کوئی راستہ اور اس کے ساتھ ساتھ انہیں دشمنوں کے ظلم و ستم کا سامنا ہے۔ پس وہ اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگتے ہیں کہ وہ ان کو اس بستی سے نکالے جس کے باشندے کفر و شرک کے ارتکاب کے ذریعے سے اپنے آپ پر ظلم کر رہے ہیں اہل ایمان کو اذیتیں دے کر، ان کو اللہ کے راستے سے روک کر اور انہیں دعوت دین اور ہجرت سے منع کر کے ان پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں۔ وہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ان کا کوئی ولی اور مددگار مقرر فرما دے جو انہیں اس ظالم بستی سے نکال لے جائے۔ تب اس صورت میں جہاد تمہارے بچوں، عورتوں اور تمہاری عزت و ناموس کے دفاع کے زمرے میں شمار ہوگا۔ کیونکہ جہاد تو وہ ہے جس میں کفار کے مقابلے کی خواہش ہو۔ جہاد کی اگرچہ بہت بڑی فضیلت ہے اور جہاد سے پیچھے رہ جانے والوں کے لیے اس سے بڑھ کر ملامت ہے۔ تاہم وہ جہاد جس کے ذریعے سے اہل ایمان مستضعفین کو کفار سے نجات دلائی جاتی ہے اجر و ثواب کے اعتبار سے سب سے عظیم اور فائدے کے لحاظ سے سب سے بڑا جہاد ہے کیونکہ یہ دشمنوں سے دفاع کرنے کے زمرے میں آتا ہے۔ النسآء
76 یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے خبر ہے کہ اہل ایمان اس کی راہ میں جہاد کرتے ہیں۔ ﴿وَالَّذِينَ كَفَرُوا يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ الطَّاغُوتِ﴾ ”اور کافر طاغوت کی راہ میں لڑتے ہیں“ یہاں طاغوت سے مراد شیطان ہے۔ اس آیت سے متعدد فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ (١) بندہ مومن کے ایمان، اس کے اخلاص اور اس کی اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق، اس کا جہاد اللہ کے راستے میں جہاد شمار ہوتا ہے۔ پس جہاد فی سبیل اللہ ایمان کے آثار، اس کے مقتضیات اور اس کے لوازم میں سے ہے۔ جیسے طاغوت کی راہ میں لڑنا کفر اور اس کے مقتضیات میں سے ہے۔ (٢) جو کوئی اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرتا ہے اس کے لیے مناسب اور بہتر یہ ہے کہ وہ ایسے صبر و استقلال سے کام لے جس کا مظاہرہ دیگر لوگ نہیں کرسکتے جب اولیائے شیطان لڑائی کرتے ہیں اور لڑائی میں صبر سے کام لیتے ہیں حالانکہ وہ اہل باطل ہیں۔ تب اہل حق کو تو صبر و استقلال سے زیادہ کام لینا چاہیے جیسا کہ اسی معنی میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ﴿إِن تَكُونُوا تَأْلَمُونَ فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَمَا تَأْلَمُونَ ۖ وَتَرْجُونَ مِنَ اللَّـهِ مَا لَا يَرْجُونَ﴾(النساء :4؍104) ” اگر تمہیں تکلیف پہنچتی ہے تو جس طرح تمہیں تکلیف پہنچتی ہے اسی طرح ان کفار کو بھی تکلیف پہنچتی ہے۔ البتہ تم اللہ تعالیٰ سے ایسی امیدیں رکھتے ہو جو وہ نہیں رکھتے۔ “ (٣) وہ بندہ مومن جو اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرتا ہے اس کے پاس ایک مضبوط سہارا ہوتا ہے اور وہ ہے حق اور اللہ تعالیٰ پر توکل۔ اس مضبوط اور صاحب قوت ہستی سے صبر و ثبات اور نشاط طلب کئے جاتے ہیں۔ جبکہ باطل کے راستے میں لڑنے والے، جس کی کوئی حقیقت نہیں اور نہ اس کا کوئی قابل تعریف انجام ہے یہ صبر و ثبات کہیں سے طلب نہیں کرسکتے۔ بنا بریں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿فَقَاتِلُوا أَوْلِيَاءَ الشَّيْطَانِ ۖ إِنَّ كَيْدَ الشَّيْطَانِ كَانَ ضَعِيفًا ﴾’’تم شیطان کے مددگاروں سے لڑو یقیناً شیطان کا داؤ کمزور ہوتا ہے۔“ (کید) سے مراد وہ خفیہ چال ہے جس کے ذریعے سے دشمن کو نقصان پہنچایا جاتا ہے۔ شیطان کی چال خواہ کتنی ہی خطرناک کیوں نہ ہو، بہرحال وہ انتہائی کمزور ہوتی ہے۔ ادنیٰ سے ادنیٰ حق کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ نہ وہ اس چال کے سامنے کھڑی رہ سکتی ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کے لیے چلتا ہے۔ النسآء
77 جب مسلمان مکہ مکرمہ میں تھے تو انہیں نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیا گیا تھا، یعنی محتاجوں کی غمگساری کرنا اور اس سے مراد وہ معروف زکوٰۃ نہیں جو ایک مخصوص نصاب کے مطابق اور مخصوص شرائط کے ساتھ ادا کی جاتی ہے۔ یہ زکوٰۃ مدینہ منورہ میں فرض ہوئی تھی اسی طرح اس وقت تک متعدد فوائد کی بنا پر جہاد کا حکم نہیں دیا گیا تھا۔ مثلاً (١) اللہ تعالیٰ کی حکمت کا تقاضا تھا کہ وہ اپنے بندوں پر شریعت کے احکام اس طرح فرض کرے کہ وہ ان پر شاق نہ گزریں۔ سب سے پہلے اہم ترین امر کا حکم دے، پھر آسان امور سے ابتدا کر کے بتدریج مشکل امور کا حکم دے۔ (٢) اگر اہل ایمان پر ان کی قلت تعداد و قلت سامان اور کثرت اعداء کے باوجود قتل فرض کردیا جاتا تو یہ چیز اسلام کو مضمحل کردیتی۔ اس لیے چھوٹی مصلحت کو نظر انداز کر کے بڑی مصلحت کی رعایت رکھی گئی اور اس میں اس قسم کی دیگر حکمتیں تھیں۔ بعض اہل ایمان چاہتے تھے کہ اس حال میں بھی ان پر قتال فرض کردیا جاتا مگر ان حالات میں ان پر جہاد فرض کیا جانا مناسب نہ تھا۔ اس وقت ان لوگوں کے لیے مناسب یہی تھا کہ وہ توحید، نماز، زکوٰۃ اور اس نوع کے دیگر احکام پر عمل کرتے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿وَلَوْ أَنَّهُمْ فَعَلُوا مَا يُوعَظُونَ بِهِ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ وَأَشَدَّ تَثْبِيتًا ﴾(النساء :4؍66) ” اگر یہ اس نصیحت پر عمل کرتے جو ان کو کی جاتی ہے تو ان کے لیے بہتر ہوتا اور دین میں زیادہ ثابت قدمی اور استقامت کا باعث ہوتا۔ “ جب مسلمانوں نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی اور اسلام قوی ہوگیا تومناسب وقت پر ان پر قتال فرض کردیا گیا۔ وہ لوگ جو اس سے قبل قتال فرض ہونے کے لیے جلدی مچاتے تھے ان میں سے ایک گروہ نے لوگوں کے خوف، کمزوری اور بزدلی کی وجہ سے کہا۔ ﴿ رَبَّنَا لِمَ كَتَبْتَ عَلَيْنَا الْقِتَالَ﴾ ” اے ہمارے رب تو نے ہم پر جہاد کیوں فرض کردیا ؟“ ان الفاظ سے ان کی تنگ دلی اور اللہ تعالیٰ پر اعتراض کا اظہار ہوتا ہے حالانکہ ان کے لیے مناسب حال یہ تھا کہ وہ اس سے متضاد رویہ کا اظہار کرتے یعنی اللہ تعالیٰ کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کرنا اور اس کے اوامر پر صبر کرنا، مگر جو کچھ ان سے مطلوب تھا انہوں نے اس کے برعکس کیا۔ پس انہوں نے کہا ﴿لَوْلَا أَخَّرْتَنَا إِلَىٰ أَجَلٍ قَرِيبٍ﴾ ” تھوڑی مدت اور ہمیں کیوں مہلت نہ دی۔“ یعنی تو نے قتال کی فرضیت کچھ عرصہ اور مؤخر کیوں نہ کردی۔ غالب طور پر اس قسم کی صورت ان لوگوں کو پیش آتی ہے جو غیر سنجیدہ ہوتے ہیں اور تمام امور میں عجلت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا غالب رویہ یہ ہوتا ہے کہ ان امور کے نازل ہونے پر یہ لوگ صبر نہیں کرسکتے۔ یہ امور ان کے لیے بوجھل تو نہیں مگر یہ لوگ بہت ہی کم صبر سے بہرہ ور ہیں۔ جن حالات میں وہ جہاد سے جی چرا کر بیٹھ رہے ان سے بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو نصیحت کی چنانچہ فرمایا : ﴿قُلْ مَتَاعُ الدُّنْيَا قَلِيلٌ وَالْآخِرَةُ خَيْرٌ لِّمَنِ اتَّقَىٰ﴾ ” آپ کہہ دیجیے دنیا کا فائدہ تو بہت ہی کم ہے اور آخرت اس شخص کے لیے بہتر ہے جو متقی ہے“ یعنی دنیا کی لذت اور راحت سے فائدہ اٹھانا بہت ہی کم عرصہ کے لیے ہے۔ اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں تھوڑی سی مدت کے لیے بھاری بوجھ اٹھانا نفوس انسانی کے لیے آسان اور ہلکا ہوتا ہے کیونکہ جب اسے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مشقت جو وہ برداشت کر رہا ہے طویل عرصے کے لیے نہیں ہے تو اس کے لیے اس کو برداشت کرنا آسان ہوجاتا ہے۔ تب کیا کیفیت ہوگی جب تو دنیا اور آخرت کا موازنہ کرے اور معلوم ہو کہ آخرت اپنی ذات اور لذات میں اور زمان کے اعتبار سے دنیا سے کہیں بہتر ہے۔ جنت کی ذات کے بارے میں ایک صحیح حدیث میں مذکور ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :” جنت میں ایک کوڑے کے برابر جگہ دینا اور اس کی موجودات سے کہیں بہتر ہے۔“ [جامع ترمذي، تفسير، باب و من سورة آل عمران، حديث: 3513] جنت کی لذتیں ہر قسم کی کدورتوں سے پاک ہیں بلکہ لذت کا جو تصور بھی فکر و خیال کی گرفت میں آسکتا ہے۔ جنت کی لذتیں اس پر فوقیت رکھتی ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أُخْفِيَ لَهُم مِّن قُرَّةِ أَعْيُنٍ ﴾(السجدہ :32؍17) ” کوئی انسان نہیں جانتا کہ ان کے لیے (جنت میں) کیا آنکھوں کی ٹھنڈک چھپا رکھی گئی ہے۔“ اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر فرمایا :” میں نے (جنت میں) اپنے نیک بندوں کے لیے ایسی ایسی چیزیں تیار کر رکھی ہیں جو کسی آنکھ نے دیکھی ہیں نہ کسی کان نے سنی ہیں اور نہ کسی کے خیال میں ان کا کبھی گزر ہوا ہے۔“ [مسند احمد: 2؍ 438] رہی دنیا کی لذتیں تو یہ مختلف قسم کی کدورتوں کے شائبے سے پاک نہیں ہوتیں۔ اگر ان لذات کا ان آلام و مصائب اور غم و ہموم سے مقابلہ کیا جائے جو ان لذات کے ساتھ ملے ہوتے ہیں تو جنت کی لذتوں کے ساتھ کسی بھی لحاظ سے ان کی کوئی نسبت ہی نہیں۔ رہا ان لذات کا زمانہ، تو دنیا آخر کار ختم ہوجائے گی اور انسان کی عمر، دنیا کی نسبت سے نہایت ہی معمولی سا عرصہ ہے۔ آخرت کی نعمتیں ہمیشہ رہنے والی ہیں اور وہاں کے رہنے والوں کے لیے ہمیشہ کی زندگی ہے۔ جب عقلمند شخص ان دو گھروں کے بارے میں غور و فکر کرتا ہے اور ان کی حقیقت کا تصور کرتا ہے جیسا کہ تصور کرنے کا حق ہے تو اسے معلوم ہوجاتا ہے کہ ان میں سے کو نسا گھر ترجیح کا مستحق ہے؟ کس کے لیے کوشش کرنی چاہئے اور کس کی طلب میں اسے جدوجہد کرنی چاہئے؟ ﴿ وَالْآخِرَةُ خَيْرٌ لِّمَنِ اتَّقَىٰ﴾” اور پرہیز گار کے لیے آخرت تو بہت اچھی چیز ہے۔“ یعنی جو کوئی شرک اور دیگر تمام محرمات سے بچتا ہے اس کے لیے آخرت بہتر ہے۔ ﴿وَلَا تُظْلَمُونَ فَتِيلًا﴾” اور تم پر ایک دھاگے کے برابر بھی ظلم نہیں کیا جائے گا“ تم آخرت کے گھر کے لیے جو دوڑ دھوپ کرو گے تو اس کا کامل اور وافر اجر پاؤ گے جس میں کچھ بھی کم نہ ہوگی۔ النسآء
78 اللہ تبارک و تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ بچاؤ کی تدبیر تقدیر کے مقابلے میں کوئی کام نہیں آسکتی اور گھر میں بیٹھ رہنے والے کا بیٹھنا، اللہ کی تقدیر کو ہٹا نہیں سکتا۔ ﴿أَيْنَمَا تَكُونُوا يُدْرِككُّمُ الْمَوْتُ﴾ ” تم جہاں کہیں بھی رہو موت تمہیں آ پکڑے گی“ یعنی تم کسی زمانے میں اور کسی بھی جگہ پر ہو ﴿وَلَوْ كُنتُمْ فِي بُرُوجٍ مُّشَيَّدَةٍ﴾ ” خواہ تم مضبوط قلعوں اور اونچے محلوں میں ہی پناہ کیوں نہ لے لو (موت تمہیں پا لے گی۔ “ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کی ترغیب کے لیے ہے اللہ تعالیٰ کبھی تو جہاد کی فضیلت اور اس کا ثواب بیان کر کے اس کی ترغیب دیتا ہے اور کبھی جہاد کو ترک کرنے کی سزا سے ڈرا کر جہاد پر آمادہ کرتا ہے۔ کبھی اس بارے میں آگاہ کر کے جہاد کے لیے ابھارتا ہے کہ جہاد سے جی چرا کر گھروں میں بیٹھ رہنے والوں کا بیٹھنا کسی کام نہیں آتا اور کبھی کبھی اللہ تعالیٰ جہاد کے راستے کو ان کے لیے آسان کردیتا ہے۔ ﴿وَإِن تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ﴾ ” اور اگر انہیں کوئی بھلائی ملتی ہے“ اللہ تبارک و تعالیٰ ان لوگوں کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے جو علم نہیں رکھتے، انبیاء و رسل کی تعلیمات سے روگردانی اور ان کی مخالفت کرتے ہیں۔ جب انہیں کوئی بھلائی مثلاً شادابی، کثرت مال، کثرت اولاد اور صحت وغیرہ حاصل ہوتی ہے تو کہتے ہیں ﴿هٰذِهٖ مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ﴾ ” یہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔“ جب انہیں کسی تکلیف مثلاً قحط، فقر و فاقہ، احباب و اولاد کی موت اور مرض وغیرہ کا سامنا ہوتا ہے تو پکار اٹھتے ہیں ﴿هَـٰذِهِ مِنْ عِندِكَ﴾ ” یہ (تکلیف) آپ کی وجہ سے (ہمیں پہنچی) ہے۔“ یعنی اے محمد ! صلی اللہ علیہ وسلم یہ تمام مصیبت اس کے سبب سے آن پڑی ہے جو آپ لے کر آئے ہیں۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس سے بدشگونی لی، جیسا کہ ان سے پہلے کفار اللہ تعالیٰ کے رسولوں سے براشگون لیتے رہے ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرعون کی قوم کے بارے میں خبر دی ہے : ﴿فَإِذَا جَاءَتْهُمُ الْحَسَنَةُ قَالُوا لَنَا هَـٰذِهِ ۖ وَإِن تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ يَطَّيَّرُوا بِمُوسَىٰ وَمَن مَّعَهُ) (الاعراف :7؍131) ” جب ان کو کوئی بھلائی حاصل ہوتی ہے تو کہتے ہیں کہ یہ ہماری وجہ سے ہے اور اگر انہیں کوئی برائی پہنچتی ہے تو موسیٰ اور ان کے اصحاب کی بدشگونی قرار دیتے ہیں“ اور جیسا کہ حضرت صالح علیہ السلام کی قوم نے کہا : ﴿اطَّيَّرْنَا بِكَ وَبِمَن مَّعَكَ﴾ (النمل:27؍47) ” تم اور تمہارے ساتھی ہمارے لیے بدشگونی کا باعث ہیں“ اور جیسے سورۃ یٰسین میں مذکور قوم نے اپنے رسولوں سے کہا : ﴿إِنَّا تَطَيَّرْنَا بِكُمْ ۖ لَئِن لَّمْ تَنتَهُوا لَنَرْجُمَنَّكُمْ ﴾ (یٰسین :36؍18) ” ہم تمہیں بدشگون سمجھتے ہیں اگر تم باز نہیں آؤ گے تو ہم تمہیں سنگسار کردیں گے۔ “ چونکہ کفر کی وجہ سے ان کے دل باہم مشابہ ہیں اس لیے ان کے اقوال و افعال میں بھی مشابہت پائی جاتی ہے۔ اسی طرح ہر وہ شخص جو برائی کے حصول اور بھلائی کے زوال کو انبیائے کرام کی تعلیمات یا بعض تعلیمات سے منسوب کرتے ہیں وہ اس مذمت میں داخل ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ان کے جواب میں فرماتا ہے : ﴿ ﴿قُلْ كُلٌّ ﴾ ” کہہ دیجیے کہ سب“ یعنی نیکی اور برائی خیر اور شر ﴿مِّنْ عِندِ اللَّـهِ﴾ ” اللہ ہی کی طرف سے ہے۔“ ” یعنی سب اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر سے اور اسی کی تخلیق ہے۔ ﴿فَمَالِ هَـٰؤُلَاءِ الْقَوْمِ﴾” انہیں کیا ہوگیا ہے؟“ یعنی جن لوگوں سے یہ باطل قول صادر ہوا ہے۔ ﴿ لَا يَكَادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثًا﴾ ” کہ بات بھی نہیں سمجھ سکتے۔“ یعنی یہ لوگ بات کو بالکل ہی نہیں سمجھ پاتے اور نہ یہ لوگ سمجھنے کے قریب جاتے ہیں یا یہ لوگ بات کو بہت ہی کم سمجھتے ہیں۔ مذکورہ تمام معنی کے مطابق یہ آیت کریمہ ان کے عدم فہم اور اللہ اور اس کے رسول کے احکام میں عدم تفقہ پر زجر و توبیخ ہے اور اس کا سبب ان کا کفر اور روگردانی ہے۔ اس آیت کریمہ میں ضمناً ان لوگوں کی مدح کا پہلو نکلتا ہے جو اللہ تعالیٰ ٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کا فہم رکھتے ہیں، نیز اس میں فہم اور اس کے اسباب کے حصول کی ترغیب ہے۔ یہ فہم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے کلام میں تدبر و تفکر اور اس منزل تک پہنچانے والے راستوں پر گامزن ہونے ہی سے حاصل ہوتا ہے۔ اگر انہوں نے اللہ تعالیٰ کے احکام کو سمجھا ہوتا تو معلوم ہوجاتا کہ نیکی اور برائی اور خیر و شر سب اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر سے ہے اور اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر سے کوئی چیز باہر نہیں، نیز انبیاء و رسل اور ان کی لائی ہوئی تعلیمات کبھی شر کا باعث نہیں ہوتیں کیونکہ وہ تو دین و دنیا اور آخرت کی بھلائی کے لیے مبعوث کئے جاتے ہیں۔ النسآء
79 پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿مَّا أَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ﴾” تجھ کو جو فائدہ پہنچے۔“ یعنی دنیا و آخرت میں تجھے جو بھلائی حاصل ہوتی ہے ﴿فَمِنَ اللَّـهِ ۖ﴾ ” وہ لوگ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔“ وہی ہے جس نے اس بھلائی سے نوازا اور اس کے اسباب پیدا کر کے اس کے حصول کو آسان بنایا ﴿وَمَا أَصَابَكَ مِن سَيِّئَةٍ﴾” اور تجھے جو نقصان پہنچے۔“ یعنی دنیا و آخرت میں تجھے جو برائی پہنچتی ہے﴿فَمِن نَّفْسِكَ﴾ ” وہ تیری طرف سے ہے۔ “ یعنی تیرے اپنے گناہوں کی وجہ سے اور تیری اپنی کمائی ہے اور جو اللہ تعالیٰ معاف کردیتا ہے وہ اس سے بہت زیادہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر اپنے فضل و احسان کے دروازے کھول دیئے ہیں۔ اس نے ان کو حکم دیا ہے کہ وہ اس کے فضل و کرم سے بہرہ مند ہونے کے لیے ان دروازوں میں داخل ہوں اور انہیں آگاہ فرمایا ہے کہ گناہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کے حصول سے مانع ہیں۔ اس لیے جب بندہ گناہ کرتا ہے تو اسے صرف اپنے نفس کو ملامت کرنی چاہئے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کے حصول سے تو وہ خود مانع ہوا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی عمومیت کے بارے میں خبر دیتے ہوئے فرمایا: ﴿وَأَرْسَلْنَاكَ لِلنَّاسِ رَسُولًا ۚ وَكَفَىٰ بِاللَّـهِ شَهِيدًا ﴾ ” اور اے محمد ! صلی اللہ علیہ وسلم ہم نے آپ کو لوگوں کے لیے رسول بنا کر بھیجا ہے اور (اس بات کا) اللہ ہی گواہ کافی ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ کی شہادت اس بات پر کافی ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کے سچے رسول ہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی فتح و نصرت، بڑے بڑے معجزات اور روشن براہین و دلائل کے ساتھ آپ کی تائید فرمائی اور یہ علی الاطلاق سب سے بڑی شہادت ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿قُلْ أَيُّ شَيْءٍ أَكْبَرُ شَهَادَةً ۖ قُلِ اللَّـهُ ۖ شَهِيدٌ بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ﴾(الانعام :6؍19) ” ان سے پوچھو کہ سب سے بڑی شہادت کس چیز کی ہے۔ کہہ دو کہ اللہ تعالیٰ ہی میرے اور تمہارے درمیان گواہ ہے۔ “ جب اسے یہ معلوم ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ کا علم کامل، اس کی قدرت تام اور اس کی حکمت عظیم ہے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو اپنی تائید سے نوازا اور نصرت عظیم کے ذریعے سے اس کی مدد فرمائی اسے یقین ہوجائے گا کہ آپ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں۔ ورنہ اگر آپ نے جھوٹ گھڑا ہوتا تو اللہ تعالیٰ آپ کو دائیں ہاتھ سے پکڑتا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رگ جاں کاٹ دیتا ۔ النسآء
80 یعنی ہر وہ شخص جس نے اوامرونواہی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی ﴿فَقَدْ أَطَاعَ اللَّـهَ﴾ ” اس نے اللہ کی اطاعت کی۔“ کیونکہ اگر آپ کسی چیز کا حکم دیتے یا کسی چیز سے روکتے ہیں تو وہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہوتا ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کی شریعت، اس کی وحی اور تنزیل ہے۔ یہ آیت کریمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عصمت کی دلیل ہے۔ (کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی مطلق اطاعت کا حکم دیا ہے، لہٰذا اگر آپ اللہ تعالیٰ کی طرف سے پہنچانے کے بارے میں معصوم نہ ہوتے تو اللہ تعالیٰ آپ کی مطلق اطاعت کا حکم نہ دیتا اور اطاعت کرنے والوں کی مدح نہ فرماتا۔ اور اس کا شمار مشترکہ حقوق میں ہوتا ہے۔ یہ حقوق تین اقسام میں منقسم ہوتے ہیں۔ (١) اللہ تعالیٰ کا حق۔ یہ حق مخلوق میں سے کسی کے لیے نہیں ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کی طرف رغبت ہے اور ان کے توابع ہیں۔ (٢) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حق، جو صرف آپ کے ساتھ مختص ہے وہ ہے آپ کی توقیر، آپ کا احترام اور آپ کی مدد کرنا۔ (٣) حقوق کی تیسری قسم اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان مشترکہ ہے اور وہ ہے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان لانا، ان سے محبت کرنا اور ان کی اطاعت کرنا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ان حقوق کو اس آیت کریمہ میں جمع کردیا ہے : ﴿لِّتُؤْمِنُوا بِاللَّـهِ وَرَسُولِهِ وَتُعَزِّرُوهُ وَتُوَقِّرُوهُ وَتُسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَأَصِيلً﴾ (الفتح :48؍ 9) ” تاکہ تم لوگ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ، اس کی مدد اور اس کی توقیر کرو اور صبح و شام اس کی تسبیح بیان کرتے رہو۔ “ پس جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی، اس نے اللہ کی اطاعت کی، اس کے لیے وہی ثواب ہے جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر مترتب ہوتا ہے ﴿وَ مَنْ تَوَلّٰي﴾ ” اور جس نے (اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے) منہ موڑا“ وہ صرف اپناہی نقصان کرتا ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کا کچھ بھی نقصان نہیں کرسکتا۔ ﴿فَمَا أَرْسَلْنَاكَ عَلَيْهِمْ حَفِيظًا ﴾ ” ہم نے آپ کو ان کا نگہبان بنا کر نہیں بھیجا۔“ یعنی ہم نے آپ کو اس لیے مبعوث نہیں کیا کہ آپ ان کے اعمال و احوال کی نگہبانی کریں، بلکہ ہم نے تو آپ کو مبلغ، کھول کھول کر بیان کرنے والا اور ناصح بنا کر بھیجا ہے اور آپ نے اپنا فرض ادا کردیا ہے آپ کے لیے آپ کا اجر واجب ہوگیا۔ خواہ وہ راہ راست اختیار کریں یا نہ کریں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ فَذَكِّرْ إِنَّمَا أَنتَ مُذَكِّرٌ لَّسْتَ عَلَيْهِم بِمُصَيْطِرٍ ﴾ (الغاشیہ :88؍21-22) ” تم ان کو نصیحت کرتے رہو اور تم صرف نصیحت کرنے والے ہی ہو۔ تم ان پر نگہبان نہیں۔ “ النسآء
81 نیز یہ بھی لازم ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت ظاہر و باطن اور جلوت و خلوت میں ہو۔ رہا وہ شخص جو لوگوں کے سامنے اطاعت اور التزام کا اظہار کرتا ہے اور جب تنہا ہوتا ہے یا اپنے ہم مشرب ٹولے کے ساتھ ہوتا ہے تو اطاعت ترک کردیتا ہے اور ایسے کام کرتا ہے جو اطاعت کی ضد ہوتے ہیں تو ایسی اطاعت جس کا اس نے اظہار کیا ہے اس کے لیے نفع مند اور مفید نہیں ہے۔ اسی قسم کے لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَيَقُولُونَ طَاعَةٌ ﴾ ” وہ کہتے ہیں مان لیا۔“ یعنی جب وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہوتے ہیں تو اطاعت کا اظہار کرتے ہیں ﴿فَإِذَا بَرَزُوا مِنْ عِندِكَ﴾ ” جب وہ آپ کے پاس سے چلے جاتے ہیں“ یعنی تنہا ہوتے ہیں اور ایسی حالت میں ہوتے ہیں کہ کوئی ان کی اس حالت سے مطلع نہیں ہوتا۔ ﴿بَيَّتَ طَائِفَةٌ مِّنْهُمْ غَيْرَ الَّذِي تَقُولُ﴾ ” مشورہ کرتے ہیں رات کو کچھ لوگ ان میں سے اس کے خلاف جو آپ کہتے ہیں۔“ تورات کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے خلاف تدبیریں کرتے ہیں اور وہاں ان کے پاس نافرمانی کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کے ارشاد ﴿بَيَّتَ طَائِفَةٌ مِّنْهُمْ غَيْرَ الَّذِي تَقُولُ﴾ میں اس امر کی دلیل ہے کہ وہ معاملہ جس کو انہوں نے دائمی و تیرہ بنایا ہوا تھا وہ عدم اطاعت کا رویہ تھا۔ کیونکہ (تَبْیْت) سے مراد رات کے وقت اس طرح معاملات کی تدبیر کرنا ہے کہ اس پر رائے کا استقرار ہو۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کے اس فعل پر وعید سناتے ہوئے فرمایا : ﴿وَاللَّـهُ يَكْتُبُ مَا يُبَيِّتُونَ ۖ﴾” اور اللہ لکھتا ہے جو وہ رات کو مشورہ کرتے ہیں“ یعنی اللہ تعالیٰ ان کی ان کارستانیوں کو محفوظ کر رہا ہے وہ عنقریب ان کو ان کارستانیوں کی پوری پوری جزا دے گا یہ ان کے لیے وعید ہے۔ ان کی ان کارستانیوں کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اعراض اور سختی کا حکم دیا ہے۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کیا، اس کے دین کی نصرت اور اس کی شریعت کے نفاذ میں اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کی تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ ﴿فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّـهِ ۚ وَكَفَىٰ بِاللَّـهِ وَكِيلًا ﴾ ” پس آپ ان سے منہ پھیر لیں اور اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھیں اللہ تعالیٰ کافی کار ساز ہے۔ “ النسآء
82 اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی کتاب میں تدبر کرنے کا حکم دیا ہے۔ یہاں تدبر سے مراد ہے کتاب اللہ کے معانی میں غور و فکر اس کے مبادی، نتائج و عواقب اور اس کے لوازم میں گہری نظر سے سوچنا، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی کتاب میں تدبر تمام علوم و معارف کی کنجی ہے۔ ہر بھلائی اسی کے ذریعے سے حاصل کی جاتی ہے اور تمام علوم کا استخراج اسی سے کیا جاتا ہے۔ کتاب اللہ ہی سے قلب میں ایمان کا اضافہ ہوتا ہے اور شجرہ ایمان جڑ پکڑتا ہے۔ کتاب اللہ ہی رب معبود کی معرفت عطا کرتی ہے، اس معرفت سے نوازتی ہے کہ رب معبود کی صفات کمال کیا ہیں اور وہ کون سی صفات نفس سے منزہ ہے۔ کتاب اللہ اس راستے کی معرفت عطا کرتی ہے جو رب معبود تک پہنچاتا ہے نیز اس راستے پر چلنے والے لوگوں کی معرفت سے نوازتی ہے اور ان نعمتوں کا ذکر کرتی ہے جو رب رحیم کی خدمت میں حاضر ہونے پر عطا ہوں گی۔ کتاب اللہ بندے کو اس کے دشمن کی معرفت عطا کرتی ہے، ایسا دشمن جو حقیقی دشمن ہے۔ ان راہوں کی نشاندہی کرتی ہے جو انسان کو عذاب کی منزل تک پہنچاتی ہیں۔ ان راہوں پر چلنے والے لوگوں کی معرفت عطا کرتی ہے، نیز آگاہ کرتی ہے کہ اسباب عقاب کے وجود پر ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا۔ بندہ مومن کتاب اللہ میں جتنا زیادہ غور و فکر کرے گا اتنا ہی زیاہ اس کے علم و عمل اور بصیرت میں اضافہ ہوگا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے کتاب اللہ میں تدبر و تفکر کا حکم اور اس کی ترغیب دی ہے اور آگاہ فرمایا کہ قرآن عظیم کو نازل کرنے کا مقصد بھی یہی ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ إِلَيْكَ مُبَارَكٌ لِّيَدَّبَّرُوا آيَاتِهِ وَلِيَتَذَكَّرَ أُولُو الْأَلْبَابِ ﴾ (ص :38؍29) ” یہ کتاب ہم نے آپ کی طرف نازل کی جو بابرکت ہے تاکہ لوگ اس کی آیتوں میں تدبر کریں اور عقلمند اس سے نصیحت پکڑیں۔“ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَىٰ قُلُوبٍ أَقْفَالُهَا﴾ (محمد :47؍24) ” کیا یہ لوگ قرآن میں غور و فکر کرتے یا (ان کے) دلوں پر تالے پڑے ہوئے ہیں؟“ کتاب اللہ میں تدبر کا فائدہ یہ ہے کہ بندہ مومن اس کے ذریعے سے درجہ یقین تک پہنچ جاتا ہے اور اسے معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ اللہ کا کلام ہے کیونکہ اسے صاف نظر آتا ہے کہ یہ کلام ایک دوسرے کی تصدیق اور موافقت کرتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر، احکام اور اخبار کا اعادہ کیا جاتا ہے، مگر ہر مقام پر وہ ایک دوسرے کی تصدیق اور موافقت کرتے ہیں ایک دوسرے کی مخالفت نہیں کرتے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کامل ہے اور ایک ایسی ہستی کی طرف سے نازل کیا گیا ہے جس کے علم نے تمام امور کا احاطہ کر رکھا ہے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللَّـهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا﴾ ” اگر یہ (قرآن) اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو یقیناً وہ اس میں بہت اختلاف پاتے“ چونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اس لیے اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ النسآء
83 یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے بندوں کے لیے ایک غیر مناسب فعل پر تادیب ہے۔ اہل ایمان کے لیے مناسب یہ ہے کہ جب ان کے سامنے کوئی اہم معاملہ آئے جس کا تعلق مصالح عامہ، امن اور اہل ایمان کی خوشی کے ساتھ ہو یا اس کا تعلق کسی خوف سے ہو جس کے اندر کوئی مصیبت پوشیدہ ہو تو اس کو اچھی طرح جانچ پڑتال کرلیں اور اس خبر کی اشاعت میں عجلت سے کام نہ لیں۔ بلکہ وہ اس خبر کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اصحاب امر، اہل رائے، اہل علم، خیر خواہی کرنے والوں، عقلمندوں، سنجیدہ اور باوقار لوگوں کی طرف لوٹائیں جو ان تمام امور کی معرفت رکھتے ہیں، جو مسلمانوں کے مصالح اور ان کے اضداد کی پہچان رکھتے ہیں۔ اگر وہ اس خبر کی اشاعت میں کوئی مصلحت، اہل ایمان کے لیے سرور و نشاط کا کوئی پہلو اور انکے دشمنوں سے بچاؤ کی کوئی بات دیکھیں تو وہ ضرور ایسا کریں۔ اگر وہ یہ دیکھیں کہ اس میں مسلمانوں کی کوئی مصلحت نہیں ہے یا اس میں مصلحت تو ہے مگر اس کی مضرت اس مصلحت پر حاوی ہے تو وہ اس خبر کو نہ پھیلائیں۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنبِطُونَهُ مِنْهُمْ﴾ ” تو تحقیق کرنے والے اس کی تحقیق کرلیتے۔“ یعنی وہ اپنے غور و فکر، درست آراء اور صحیح راہنمائی کرنے والے علوم کے ذریعے سے درست نتائج کا استخراج کرلیں گے۔ اس آیت کریمہ میں ادب و احترام کے ایک قاعدے پر دلیل ہے کہ جب کسی معاملے میں بحث اور تحقیق مطلوب ہو تو مناسب یہ ہے کہ معاملہ اس شخص کے سپرد کردیا جائے جو ذمے دار ہے اور وہ اس معاملے کو تحقیق کے لیے ایسے شخص کے حوالے کر دے جو اس کی اہلیت رکھتا ہے اور ان ذمہ دار اصحاب کی تحقیق سے پہلے کسی رائے کا اظہار نہ کریں۔ یہ طریق کار زیادہ قرین صواب اور خطا سے زیادہ محفوظ ہے۔ اس میں کسی معاملے کو سنتے ہی اس کو پھیلانے میں عجلت اور جلدی کرنے کی ممانعت کی بھی دلیل ہے، نیز حکم ہے کہ بولنے سے پہلے اس معاملے میں خوب غور و فکر کرلیا جائے کہ آیا اس میں کوئی مصلحت ہے کہ انسان آگے بڑھ کر کوئی اقدام کرے یا کوئی مصلحت نہیں ہے کہ انسان پیچھے ہٹ جائے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّـهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ﴾ ” اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی۔“ یعنی تمہیں توفیق عطا کرنے، ادب سکھانے اور ان امور کی تعلیم دینے میں جو تم نہ جانتے تھے۔ اگر اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی ﴿لَاتَّبَعْتُمُ الشَّيْطَانَ إِلَّا قَلِيلًا﴾ ”تو چند لوگوں کے سوا تم سب شیطان کے پیرو کار بن جاتے‘‘ کیونکہ انسان اپنی فطرت کے اعتبار سے ظالم اور جاہل ہے، پس اس کا نفس اسے شر کے سوا کوئی حکم نہیں دیتا۔ بندہ جب اپنے رب کے پاس پناہ لیتا ہے اور اس کی پناہ میں آ کر گناہوں سے بچنے کی کوشش کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر اپنے لطف و کرم کے دروازے کھول دیتا ہے، اسے ہر بھلائی کی توفیق عطا کرتا ہے اور اسے شیطان مردود سے بچاتا ہے۔ النسآء
84 بندہ مومن کے احوال میں سے بہترین حال یہ ہے کہ جہاد وغیرہ کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل میں خود بھی کوشش کرے اور دوسروں کو بھی ترغیب دے۔ کبھی کبھی بندے میں کوئی ایک امر یا دونوں امور معدوم ہوتے ہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا: ﴿ فَقَاتِلْ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ لَا تُكَلَّفُ إِلَّا نَفْسَكَ﴾ ”آپ اللہ کی راہ میں لڑیں۔ آپ اپنے سوا کسی کے ذمہ دار نہیں۔“ یعنی چونکہ آپ کو اپنی ذات کے سوا کسی دوسرے پر قدرت حاصل نہیں اس لیے آپ کو کسی دوسرے کے فعل کا مکلف نہیں ٹھہرایا گیا۔ ﴿وَحَرِّضِ الْمُؤْمِنِينَ﴾ ” اور مومنوں کو بھی ترغیب دیں۔“ یعنی اہل ایمان کو قتال کی ترغیب دیں اور یہ ترغیب ان تمام امور کو بھی شامل ہے جس سے اہل ایمان کو نشاط، ان کے دلوں کو قوت اور ان کو طاقت حاصل ہوتی ہو۔ نیز یہ ترغیب اس بات کو بھی شامل ہے کہ دشمنوں کے ضعف اور کمزوری سے مومنوں کو آگاہ کیا جائے اور یہ ترغیب اس بات کو شامل ہے کہ مومنوں کو اس امر سے آگاہ کیا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے جہاد کرنے والوں کیلیے کیا ثواب تیار کر رکھا ہے اور جہاد چھوڑ کر گھر بیٹھ رہنے والوں کے لیے کیا عذاب ہے۔ مذکورہ بالا اور اس قسم کے تمام امور جہاد اور قتال کی ترغیب کے زمرے میں آتے ہیں۔ ﴿عَسَى اللَّـهُ أَن يَكُفَّ بَأْسَ الَّذِينَ كَفَرُوا﴾” قریب ہے کہ اللہ کافروں کی لڑائی کو بند کر دے۔“ یعنی ہوسکتا ہے کہ اللہ کے راستے میں تمہارے جہاد اور جہاد کے لیے ایک دوسرے کو ترغیب دینے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کفار کو روک دے۔ ﴿وَاللَّـهُ أَشَدُّ بَأْسًا﴾ ” اور اللہ لڑائی کے اعتبار سے بہت سخت ہے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ زیادہ قوت اور غلبہ والا ہے ﴿وَأَشَدُّ تَنكِيلًا﴾” اور سزا کے لحاظ سے بھی بہت سخت ہے۔“ گناہ گار کو فی نفسہٖ سخت سزا دیتا ہے۔ جس سے دوسرے کو بھی عبرت ہوتی ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو اپنی قوت کے ذریعے سے ہی کفار پر غالب آجائے اور ان میں سے کسی کو باقی نہ چھوڑے، مگر اس کی حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اپنے بندوں کو ایک دوسرے کے ذریعے سے آزمائے تاکہ جہاد کا بازار گرم رہے اور نفع مند ایمان حاصل ہو، یعنی اختیاری ایمان نہ کہ جبری اضطراری ایمان، جو کچھ بھی فائدہ نہیں دیتا۔ النسآء
85 یہاں شفاعت سے مراد کسی معاملے میں معاونت ہے۔ جو کوئی کسی دوسرے کی بھلائی کے کسی کام میں سفارش کرتا ہے اور اس کام میں اس کی مدد کرتا ہے، مثلاً مظلوموں کے بارے میں ظالم کے پاس سفارش کرنا اسے اس کی کوشش اور عمل کے مطابق اس نیک سفارش سے حصہ نصیب ہوگا اور اصل کام کرنے والے کے ثواب میں کوئی کمی واقع نہیں ہوگی اور جو کوئی برائی کے کسی کام میں کسی کی مدد کرتا ہے تو اس کے تعاون اور مدد کے مطابق عذاب میں سے اس کو حصہ ملے گا۔ اس آیت کریمہ میں نیکی اور تقویٰ میں تعاون کے لیے بہت بڑی ترغیب ہے۔ اسی طرح گناہ اور زیادتی کے کاموں میں معاونت پر زجر و توبیخ ہے اور اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے اس ارشاد کے ذریعے سے متحقق کیا ہے ﴿وَكَانَ اللَّـهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ مُّقِيتًا ﴾” اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کا گواہ اور حفاظت کرنے والا ہے۔“ یعنی وہ ان اعمال کا حساب لے گا اور ہر شخص کو اس کے استحقاق کے مطابق جزا دے گا۔ النسآء
86 ﴿ بِتَحِيَّةٍ ﴾ کا لفظ دو ملاقاتیوں میں سے کسی ایک سے عزت و احترام نیز دعا اور بشاشت وغیرہ کے طور پر صادر ہوتا ہے۔ سلام و دعا کا بہترین طریقہ وہ ہے جو سلام کرنے اور اس کا جواب دینے کے بارے میں شریعت میں وارد ہوا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اہل ایمان کو حکم دیا ہے کہ جب انہیں کسی بھی طریقے سے سلام کیا جائے تو وہ الفاظ اور بشاشت کے اعتبار سے اس سے بہتر یا اسی طریقے سے سلام کا جواب دیں۔ اس آیت کریمہ کا مفہوم مخالف یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے سلام کا بالکل جواب نہ دینے یا کمتر طریقے سے جواب دینے سے روکا ہے۔ اس آیت کریمہ میں اس بات کی ترغیب ہے کہ سلام کرنے میں پہل کرنی چاہئے۔ اس کے دو پہلو ہیں۔ (١) اللہ تعالیٰ نے سلام کا بہتر طریقے سے یا ویسا ہی جواب دینے کا حکم دیا ہے اور اس سے یہ امر لازم آتا ہے کہ سلام درحقیقت شرعاً مطلوب ہے۔ (٢) لفظ (اَحْسَنَ) سے جو کہ ” اَفْعَلُ التّفْضِیلُ “ ہے، جو چیز مستفاد ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ سالم اور اس کا جواب دونوں ” حسن“ میں شریک ہیں جیسا کہ اس بارے میں یہ چیز اصل ہے۔ آیت کریمہ کے عموم سے وہ شخص مستثنیٰ ہے جو کسی کو ایسے حال میں سلام کرتا ہے جس میں اسے سلام کرنے کا حکم نہ تھا۔ مثلاً کسی ایسے شخص کو سلام کرنا جو قراءت قرآن میں مشغول ہو، خطبہ سن رہا ہو یا نماز پڑھ رہا ہو۔ [لیکن شریعت نے ان حالتوں میں سلام کرنے سے کہاں منع کیا ہے؟ اس لیے فاضل مفسر کا ان مقامات کو مستثنیٰ کرنا بلا دلیل ہے۔ بلکہ یہ مقامات بھی سلام کرنے کے عموم میں داخل ہیں اور نماز کی حالت میں سلام کرنے کی اور اشارے کے ساتھ جواب دینے کی صراحت ترمذی کی حدیث میں موجود ہے۔ (ص۔ی)] کیونکہ وہ اپنے سلام کے جواب کا مطالبہ نہیں کرسکتا۔ اسی طرح وہ شخص بھی آیت کریمہ کے عموم سے مستثنیٰ ہے جس سے قطع کلامی اور سلام نہ کرنے کا حکم شارع نے دیا ہو۔ یہ وہ نافرمان شخص ہے جس نے توبہ نہ کی ہو جو بول چال اور سلام کی بندش کی وجہ سے نافرمانیوں سے باز آجاتا ہے۔ پس ایسے شخص سے بول چال بند کردی جائے اسے سلام کیا جائے نہ سلام کا جواب دیا جائے۔ یہ سب کچھ بڑی مصلحت کے قیام کی خاطر ہے۔ سلام کا جواب دینے میں ہر قسم کے سلام کا جواب دینا شامل ہے جس کے لوگ عام طور پر عادی ہیں۔ ایسا کرنا شرعاً ممنوع نہیں، کیونکہ بندہ سلام کا جواب دینے اور اس سے بہتر جواب دینے پر مامور ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے نیکی کے کاموں پر ثواب کا وعدہ اور برائی کے کاموں پر وعید سنائی ہے۔ فرمایا : ﴿ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ حَسِيبًا  ﴾پس وہ اپنے بندوں کے اچھے برے اور چھوٹے بڑے تمام اعمال کا حساب رکھتا ہے پھر وہ اپنے فضل و عدل اور قابل تعریف فیصلے کے تقاضے کے مطابق ان کو جزا و سزا دے گا۔ النسآء
87 اللہ تعالیٰ وحدانیت میں اپنی انفرادیت کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے نیز یہ کہ اس کے سوا کوئی معبود اور الٰہ نہیں کیونکہ وہ اپنی ذات اور اوصاف میں کامل ہے، نیز اس لیے کہ وہ تخلیق و تدبیر کا ئنات میں اور ظاہری اور باطنی نعمتیں عطا کرنے میں متفرد ہے اور یہ امر اس کی عبادت اور عبودیت کی تمام انواع کے ذریعے سے اس کے تقرب کو مستلزم ہے، اس لیے اس نے محل جزا کے وقوع یعنی روز قیامت پر قسم کھائی ہے۔ فرمایا : ﴿لَيَجْمَعَنَّكُمْ  ﴾ ” وہ تم سب کو ضرور جمع کرے گا۔“ یعنی اللہ تعالیٰ تمہارے اولین و آخرین کو ایک ہی جگہ پر جمع کرے گا ﴿إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ لَا رَيْبَ فِيهِ ﴾ ” قیامت کے دن“ یعنی عقلی اور سمعی دلیل کے اعتبار سے کسی بھی پہلو سے قیامت میں کوئی شک نہیں۔ رہی عقلی دلیل تو ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ زمین کے مرنے کے بعد اللہ تعالیٰ اسے زندگی عطا کرتا ہے۔ امکان کے اعتبار سے پہلی دفعہ پیدا کرنے سے دوسری دفعہ پیدا کرنا زیادہ آسان ہے۔ حکمت الٰہی انسان پر واجب ٹھہراتی ہے کہ وہ قطعی طور پر جان لے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو عبث پیدا نہیں کیا کہ وہ زندگی حاصل کریں گے اور بس مر جائیں گے۔ (اور اس کے بعد کچھ نہیں ہوگا، ایسا نہیں ہوگا، بلکہ روز قیامت حساب ہوگا) رہی سمعی اور نقلی دلیل تو سب سے زیادہ سچی ہستی نے اس کے وقوع کے بارے میں خبر دی ہے بلکہ اس پر قسم کھائی ہے۔ ﴿وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّـهِ حَدِيثًا ﴾ ” اللہ سے زیادہ سچی بات والا اور کون ہوگا“ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں متعدد مقامات پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حقیقت پر قسم کھانے کا حکم دیا ہے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَن لَّن يُبْعَثُوا ۚ قُلْ بَلَىٰ وَرَبِّي لَتُبْعَثُنَّ ثُمَّ لَتُنَبَّؤُنَّ بِمَا عَمِلْتُمْ ۚ وَذَٰلِكَ عَلَى اللَّـهِ يَسِيرٌ  ﴾ (التغابن :64؍7) ” وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا، سمجھتے ہیں کہ انہیں دوبارہ زندہ کر کے اٹھایا نہیں جائے گا کہہ دو ! ہاں میرے رب کی قسم ! تمہیں ضرور اٹھایا جائے گا اور جو اعمال تم نے کئے ہیں ان کے بارے میں تمہیں ضرور بتایا جائے گا اور ایسا کرنا اللہ کے لیے بہت آسان ہے۔ “ اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّـهِ حَدِيثًا ﴾ اور ﴿وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّـه قِيلًا ﴾میں اس بات کی خبر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بات، اس کی خبریں اور اس کے اقوال صداقت کے اعلیٰ مراتب بلکہ اعلیٰ ترین مراتب پر ہیں، لہٰذا ہر وہ بات جو عقائد، علوم اور اعمال کے بارے میں کہی گئی ہو اگر وہ اللہ تعالیٰ کی خبر کے خلاف ہے تو وہ باطل ہے کیونکہ یہ امور یقینی طور پر سچی خبر کے متناقض ہیں ان کا حق ہونا ممکن ہی نہیں۔ النسآء
88 ان آیات کریمہ میں مذکورہ منافقین سے مراد وہ منافقین ہیں جو اپنے اسلام کا اظہار کرتے تھے اور اپنے کفر کے ساتھ ساتھ انہوں نے ہجرت بھی نہیں کی۔ [حاشیہ الف (یعنی ایک دوسرے نسخے کے حاشیے میں) میں یہ عبارت مذکور ہے کہ ’’صحیحین میں حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنگ احد کے لیے نکلے تو آپ کے ساتھ جانے والوں میں سے کچھ لوگ واپس ہوگئے۔ ان کے بارے میں صحابہ کرام کے دو گروہ بن گئے۔ ایک گروہ کہتا تھا کہ ہم ان کو قتل کریں گے جبکہ دوسرا گروہ کہتا تھا کہ نہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ﴿فَمَا لَكُمْ فِي الْمُنَافِقِينَ فِئَتَيْنِ ﴾ ” پس تمہیں کیا ہے کہ منافقین کے بارے میں دو گروہ ہو رہے ہو“ (اس موقع پر) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :” بے شک مدینہ پاک ہے اور بلاشبہ مدینہ بدطنیت افراد کو اس طرح نکال باہر کرتا ہے جس طرح آگ لوہے کی میل کو دور کردیتی ہے۔“ اس اضافے کی جگہ پر دلالت کرنے والی کوئی علامت یہاں موجود نہیں۔ محقق پتہ نہیں اس سے فاضل محقق کا مطلب کیا ہے؟ ورنہ اس حدیث کی مناسبت تو آیت ﴿فَمَا لَكُمْ فِي الْمُنَافِقِينَ ۔۔۔﴾ کے ساتھ بالکل واضح ہے، کیونکہ اس سے شان نزول کی وضاحت ہو رہی ہے۔ (ص۔ ی) ] ان کے بارے میں صحابہ کرام میں اشتباہ واقع ہوگیا، چنانچہ بعض صحابہ رضی اللہ عنہم ان منافقین کے اظہار اسلام کے باعث ان کے ساتھ قتال اور قطع موالات میں حرج سمجھتے تھے اور بعض صحابہ کو چونکہ ان کے افعال کے قرینے سے ان کے احوال کا علم تھا اس لیے انہوں نے ان پر کفر کا حکم لگایا۔ اللہ تعالیٰ نے اس معاملہ کے بارے میں آگاہ فرمایا کہ تمہارے لیے مناسب نہیں کہ تم ان کے بارے میں کسی شک و شبہ میں مبتلا ہو، بلکہ ان کا معاملہ بالکل واضح ہے اور اس میں کوئی اشکال نہیں کہ وہ منافق ہیں۔ وہ اپنے کفر کا بار بار اظہار کرچکے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ تم بھی کافر بن کر انہی کی مانند ہوجاؤ۔ پس جب تمہارے سامنے یہ حقیقت واضح ہوگئی النسآء
89 ﴿فَلَا تَتَّخِذُوا مِنْهُمْ أَوْلِيَاءَ ﴾” تو تم ان کو دوست نہ بناؤ۔“ یہ ممانعت ان کے ساتھ عدم محبت کو لازم ٹھہراتی ہے، کیونکہ موالات اور دوستی محبت ہی کی ایک شاخ ہے، نیز یہ ممانعت ان کے ساتھ بغض اور عداوت کو لازم ٹھہراتی ہے کیونکہ کسی چیز سے ممانعت درحقیقت اس کی ضد کا حکم ہے اور اس حکم کی مدت ان کی ہجرت تک ہے۔ اگر وہ جرات کر کے آجاتے ہیں تو ان پر وہی احکام جاری ہوں گے جو دیگر مسلمانوں پر جاری ہوتے ہیں، جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہر اس شخص پر اسلام کے احکام جاری فرماتے تھے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا اور ہجرت کر کے آپ کی خدمت میں پہنچ گیا تھا۔ خواہ وہ حقیقی مومن تھا یا محض ایمان کا اظہار کرتا تھا۔ اگر وہ ہجرت نہیں کرتے اور اس سے روگردانی کرتے ہیں ﴿ فَخُذُوهُمْ وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ﴾” تو ان کو پکڑ لو اور جہاں پاؤ ان کو قتل کر دو۔“ یعنی جب بھی اور جس جگہ تم ان کو پاؤ ان کو قتل کردو۔ یہ آیت کریمہ ان جملہ دلائل میں شامل ہے جو حرام مہینوں میں قتال کی حرمت کے منسوخ ہونے پر دلالت کرتے ہیں، جیسا کہ یہ جمہور اہل علم کا قول ہے۔ دیگر اہل علم کہتے ہیں کہ یہ تمام نصوص مطلق ہیں، حرام مہینوں میں قتال کی تحریم کی تخصیص پر محمول ہوں گی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان منافقین میں سے تین گروہوں کو قتال سے مستثنیٰ قرار دیا ہے۔ ان میں سے دو گروہوں کو ترک کرنے کا حتمی حکم دیا ہے۔ ان میں پہلا گروہ وہ ہے جو کسی ایسی قوم کے ساتھ مل جاتا ہے جن کے ساتھ مسلمانوں کا جنگ نہ کرنے کا معاہدہ ہے۔ پس ان منافقین کو اس قوم میں شامل قرار دیا جائے گا اور جان و مال کے بارے میں ان کا بھی وہی حکم ہوگا جو اس قوم کا ہوگا۔ النسآء
90 دوسرے گروہ میں وہ لوگ شامل ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿حَصِرَتْ صُدُورُهُمْ أَن يُقَاتِلُوكُمْ أَوْ يُقَاتِلُوا قَوْمَهُمْ ﴾” ان کے دل تمہارے ساتھ یا اپنی قوم کے ساتھ لڑنے سے رک گئے۔“ یعنی وہ تمہارے ساتھ لڑنا چاہتے ہیں نہ اپنی قوم کے ساتھ وہ دونوں فریقوں کے ساتھ قتال ترک کرنا چاہتے ہیں۔ ان لوگوں کے بارے میں بھی اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ ان کے ساتھ قتال نہ کیا جائے اور اس کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرمایا : ﴿وَلَوْ شَاءَ اللَّـهُ لَسَلَّطَهُمْ عَلَيْكُمْ فَلَقَاتَلُوكُمْ ﴾ ” اگر اللہ چاہتا تو وہ ان کو تم پر مسلط کردیتا، پس وہ تم سے لڑتے“ اس معاملے میں تین صورتیں ممکن ہوسکتی ہیں : وہ یا تو تمہارے ساتھ ہوتے اور تمہارے دشمنوں کے ساتھ جنگ کرتے، ان سے ایسا ہونا مشکل ہے۔ اب معاملہ صرف اس بات پر مبنی ہے کہ جنگ تمہارے اور ان کی قوم کے درمیان ہو یا دونوں فریقوں کے درمیان جنگ نہ ہو اور یہ صورت تمہارے لیے زیادہ آسان ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو تم پر مسلط کرنے پر قادر ہے۔ پس تم عافیت کو قبول کرو اور اپنے رب کی حمد و ثناء بیان کرو جس نے ان کو تمہارے خلاف لڑنے سے روکا حالانکہ وہ تمہارے خلاف لڑنے کی طاقت رکھتے تھے۔ ﴿ فَإِنِ اعْتَزَلُوكُمْ فَلَمْ يُقَاتِلُوكُمْ وَأَلْقَوْا إِلَيْكُمُ السَّلَمَ فَمَا جَعَلَ اللَّـهُ لَكُمْ عَلَيْهِمْ سَبِيلًا  ﴾ ” اگر وہ تمہارے ساتھ جنگ کرنے سے کنارہ کشی کرلیں اور تمہاری طرف صلح اور سلامتی کا پیغام بھیجیں تو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے ان پر زیادتی کرنے کی کوئی راہ نہیں رکھی۔ “ النسآء
91 تیسرا گروہ ان لوگوں پر مشتمل ہے جو تمہارے احترام سے قطع نظر صرف اپنی بھلائی چاہتے ہیں اور یہ لوگ ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿سَتَجِدُونَ آخَرِينَ  ﴾” تم کچھ اور لوگوں کو ایسا بھی پاؤ گے“ یعنی ان منافقین میں سے ﴿ يُرِيدُونَ أَن يَأْمَنُوكُمْ﴾ ”وہ یہ چاہتے ہیں کہ تم سے بھی امن میں رہیں۔“ یعنی وہ تم سے ڈرتے ہوئے تمہارے ساتھ پرامن رہنا چاہتے ہیں۔ ﴿ وَيَأْمَنُوا قَوْمَهُمْ كُلَّ مَا رُدُّوا إِلَى الْفِتْنَةِ أُرْكِسُوا فِيهَا ﴾ ” اور اپنی قوم سے بھی امن میں رہیں (لیکن) جب کبھی فتنہ انگیزی کی طرف لوٹائے جاتے ہیں تو اوندھے منہ اس میں ڈال دیئے جاتے ہیں۔“ یعنی وہ اپنے کفر اور نفاق پر قائم ہیں اور جب کبھی وہ کسی فتنہ سے دوچار ہوتے ہیں، یہ فتنہ انہیں اندھا کردیتا ہے اور وہ پہلی حالت پر لوٹ جاتے ہیں اور ان کا کفر و نفاق بڑھ جاتا ہے، یہ لوگ بھی اس صورت میں دوسرے گروہ کی مانند ہیں حالانکہ درحقیقت یہ اس گروہ کے مخالف ہیں، کیونکہ دوسرے گروہ نے مسلمانوں کے خلاف اپنے نفس پر خوف کی وجہ سے قتال ترک نہیں کیا بلکہ مسلمانوں کے احترام کی بنا پر ترک کیا ہے۔ جب کہ اس گروہ نے تمہارے خلاف قتال، احترام کی وجہ سے نہیں بلکہ خوف کی وجہ سے ترک کیا ہے بلکہ اگر وہ اہل ایمان کے خلاف لڑنے کا کوئی موقع پائیں تو اس کو غنیمت سمجھتے ہوئے تمہارے خلاف لڑیں، لہٰذا اگر یہ لوگ واضح طور پر اہل ایمان کے ساتھ لڑنے سے کنارہ کشی نہ کریں تو وہ گویا تمہارے خلاف جنگ کرتے ہیں۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿فَإِن لَّمْ يَعْتَزِلُوكُمْ وَيُلْقُوا إِلَيْكُمُ السَّلَمَ ﴾” اگر وہ تم سے کنارہ کشی کریں نہ تمہاری طرف پیغام صلح بھیجیں۔“ یعنی اگر وہ تمہارے ساتھ امن اور صلح نہیں چاہتے ﴿وَيَكُفُّوا أَيْدِيَهُمْ فَخُذُوهُمْ وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ ۚ وَأُولَـٰئِكُمْ جَعَلْنَا لَكُمْ عَلَيْهِمْ سُلْطَانًا مُّبِينًا﴾ ”اور اپنے ہاتھ نہ روک لیں تو انہیں پکڑو اور قتل کرو جہاں کہیں بھی پاؤ۔ یہی ہیں جن پر ہم نے تمہیں ظاہر حجت عنایت فرمائی ہے“ تب ہم نے تمہیں ان کے خلاف ایک واضح حجت عطا کردی ہے کیونکہ وہ تمہارے خلاف ظلم اور تعدی کا ارتکاب کرتے ہیں، صلح اور امن کے رویے کو ترک کر رہے ہیں۔ پس انہیں چاہئے کہ وہ صرف اپنے آپ کو ملامت کریں۔ النسآء
92 آیت کریمہ کا یہ اسلوب، امتناع یعنی ناممکن ہونے کے اظہار کے اسالیب میں سے ہے یعنی یہ ممتنع اور محال ہے کہ ایک مومن سے دوسرے مومن کا جان بوجھ کر قتل صادر ہو۔ اس آیت کریمہ میں قتل مومن کی تحریم کو نہایت شدت سے بیان کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ مومن کا قتل ایمان کے سخت منافی ہے۔ مومن کا قتل یا تو کافر سے صادر ہوتا ہے یا ایسے فاسق و فاجر سے صادر ہوتا ہے جس کے ایمان میں بہت زیادہ کمی ہو۔ ایسے فاسق و فاجر سے اس سے بھی بڑے اقدام کا ڈر ہے۔ اس لیے کہ ایمان صحیح مومن کو اپنے مومن بھائی کے قتل سے باز رکھتا ہے جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اخوت ایمانی کا رشتہ جوڑا ہے جس کا تقاضا محبت و موالات اور اپنے بھائی سے اذیتوں کو دور کرنا ہے اور قتل سے بڑھ کر کون سی اذیت ہے؟ یہ چیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کے مصداق ہے (لاترجعوا بعدی کفاراً یضرب بعضکم رقاب بعض) ” میرے بعد کفر کی طرف نہ لوٹ جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو“ [صحيح البخاري، الديات، باب ﴿و من أحيا......﴾، حديث: 6868] پس معلوم ہوا کہ قتل مومن عملی کفر ہے اور شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ ہے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ أَن يَقْتُلَ مُؤْمِنًا  ﴾” اور کسی مومن کے شایان نہیں کہ مومن کو مار ڈالے۔“ تمام احوال کے لیے عام ہے اور مون کسی بھی اعتبار سے اپنے مومن بھائی کے قتل کا ارتکاب نہیں کرسکتا، اس لیے اللہ تعالیٰ قتل خطا کو مستثنیٰ کرتے ہوئے فرماتا ہے : ﴿إِلَّا خَطَأً ﴾ ” مگر غلطی سے‘‘ اس لیے کہ قتل خطا کا مرتکب شخص قتل اور گناہ کا قصد نہیں رکھتا، نہ وہ اللہ تعالیٰ کے محارم کا ارتکاب کرتا ہے۔ مگر چونکہ اس نے ایک بہت ہی قبیح فعل کا ارتکاب کیا ہے اور اس کی ظاہری شکل اس کی قباحت کے لیے کافی ہے، اگرچہ اس کا مقصد اس کو قتل کرنا ہرگز نہیں تھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے اسے کفارہ اور دیت ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ فرمایا : ﴿ وَمَن قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَأً ﴾” جو شخص کسی مسلمان کو بلا قصد مار ڈالے“ قاتل خواہ مرد ہو یا عورت، آزاد ہو یا غلام، چھوٹا ہو یا بڑا، عاقل ہو یا پاگل اور مسلمان ہو یا کافر جیسا کہ لفظ (مَنْ) عموم کا فائدہ دے رہا ہے۔ یہاں لفظ (مَن) کو لانے کا یہی سرنہاں ہے کیونکہ سیاق کلام تو تقاضا کرتا ہے کہ یہاں لفظ (فَاِنْ قَتَلَه) استعمال ہوتا مگر یہ لفظ وہ معنی ادا نہیں کرتا جو (مَنْ) ادا کرتا ہے۔ اسی طرح مقتول خواہ مرد ہو یا عورت، چھوٹا ہو یا بڑا (آیت کریمہ تمام صورتوں کو شامل ہے) جیسا کہ سیاق شرط میں نکرہ عموم کا فائدہ دے رہا ہے۔ ﴿فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ﴾ قاتل پر کفارہ کے طور پر مومن غلام کا آزاد کرنا واجب ہے۔ یہ غلام قاتل کے مال سے آزاد کیا جائے گا۔ بعض علماء کے نزدیک یہ آیت کریمہ چھوٹے بڑے، مرد عورت، بے عیب اور عیب دار، ہر قسم کے غلام کو شامل ہے، مگر حکمت اس امر کا تقاضا کرتی ہے کہ عیب زدہ غلام کو کفارہ میں آزادانہ کیا جائے۔ اس لیے کہ آزادی عطا کرنے کا مقصد آزاد کئے جانے والے کو نفع پہنچانا ہے اور اس کو ملکیت میں رکھنا خود اپنے آپ کو نفع پہنچانا ہے۔ پس جب آزادی عطا کرنے سے یہ نفع ضائع ہوجاتا ہے اور غلامی میں اسے باقی رکھنا اس کے لیے زیادہ نفع مند ہے تو اس کو آزاد کرنا کافی نہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کے ارشاد (تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ) کا معنی اس پر دلالت کرتا ہے۔ کیونکہ یہاں آزادی عطا کرنے سے مراد کسی ایسے شخص کے منافع کا استحقاق خود اس کے لیے خالص کرنا ہے جس کے منافع کا استحقاق کسی دوسرے کے پاس ہو۔ پس اگر اس میں (عیب زدہ ہونے کی وجہ سے) کوئی منفعت نہیں تو آزادی کے وجود کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ اس میں غور کیجیے یہ بالکل واضح ہے۔ رہی دیت، تو یہ قاتل کی برادری اور اس کے رشتہ داروں پر واجب ہے۔ دیت قتل خطا اور قتل شبہ عمد میں واجب ہوتی ہے۔ ﴿ مُّسَلَّمَةٌ إِلَىٰ أَهْلِهِ ﴾ ” مقتول کے وارثوں کو ادا کرے۔“ یعنی مقتول کے وارثوں کی دل جوئی کی خاطر ان کے حوالے کرے۔ (یہاں (أَهْلِهِ) سے مراد مقتول کے ورثاء ہیں کیونکہ یہی لوگ میت کے ترکہ کے وارث ہوتے ہیں، نیز دیت بھی ترکہ میں داخل ہے اور دیت میں بہت سی تفاصیل ہیں جو کتب فقہ میں مذکور ہیں۔﴿إِلَّا أَن يَصَّدَّقُوا ﴾ ” ہاں اگر وہ معاف کردیں۔“ یعنی مقتول کے ورثاء قاتل کو معاف کر کے دیت اس کو بخش دیں۔ تب یہ دیت بھی ساقط ہوجائے گی۔ اس بارے میں اللہ تعالیٰ نے معاف کردینے کی ترغیب دی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس معافی کو صدقہ کے نام سے موسوم کیا ہے اور صدقہ ہر وقت مطلوب ہے۔﴿ فَإِن كَانَ﴾ ” پس اگر وہ ہو“ یعنی مقتول ﴿ مِن قَوْمٍ عَدُوٍّ لَّكُمْ ﴾ ” ایسی قوم سے جو تمہاری دشمن ہے“ یعنی اگر مقتول حربی کفار میں سے ہو ﴿وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ ۖ ﴾ ” اور وہ مومن ہو تو صرف ایک مومن غلام کی گردن آزاد کرنی لازمی ہے“ یعنی تب اس صورت میں تم پر مقتول کے (کافر) ورثاء کو دیت ادا کرنا واجب نہیں، کیونکہ ان کی جان اور مال کا احترام واجب نہیں۔ ﴿وَإِن كَانَ مِن قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُم مِّيثَاقٌ فَدِيَةٌ مُّسَلَّمَةٌ إِلَىٰ أَهْلِهِ وَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ ۖ ﴾” اور اگر وہ (مقتول) اس قوم سے ہو کہ تم میں اور ان میں عہد و پیمان ہو تو خون بہا لازمی ہے جو اس کے کنبے والے کو پہنچایا جائے اور ایک مسلمان غلام کا آزاد کرنا بھی ضروری ہے“ یہ ان کے ساتھ عہد و میثاق کی بنا پر مقتول کے ورثاء کے احترام کی وجہ سے ہے۔ ﴿فَمَن لَّمْ يَجِدْ ﴾ ” اور جس کو یہ میسر نہ ہو۔“ یعنی جس کے پاس تنگ دستی کی وجہ سے آزاد کرنے کے لیے غلام یا اس کی قیمت نہیں ہے اور بنیادی ضروریات و حوائج کے اخراجات کے بعد اتنی رقم نہیں بچتی جس سے غلام کو آزاد کیا جا سکے ﴿فَصِيَامُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ ﴾” تب دو مہینے مسلسل روزے رکھے“ اور ان کے دوران بغیر کسی عذر کے روزہ نہ چھوڑے۔ اگر کسی عذر کی بنا پر روزہ چھوٹ جائے مثلاً مرض اور حیض وغیرہ تو اس سے تسلسل نہیں ٹوٹتا اگر اس نے بغیر کسی عذر کے روزہ چھوڑ دیا ہے تو اس سے تسلسل منقطع ہوجائے گا اور اسے نئے سرے سے روزے شروع کرنے پڑیں گے۔ ﴿تَوْبَةً مِّنَ اللَّـهِ ﴾ ”یہ (کفارہ) اللہ کی طرف سے (قبول) توبہ کے لیے ہے۔“ یعنی یہ کفارات جو اللہ تعالیٰ نے قاتل پر واجب کئے ہیں یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے قبولیت توبہ، ان پر رحمت اور ان کے گناہوں کی تکفیر ہے جو ممکن ہے کسی کوتاہی اور عدم احتیاط کی وجہ سے ان سے سر زد ہوئے ہوں، جیسا کہ قتل خطا کے مرتکب سے اکثر واقع ہوتے ہیں۔ ﴿وَكَانَ اللَّـهُ عَلِيمًا حَكِيمًا  ﴾ ” اور اللہ سب کچھ جانتا اور بڑی حکمت والا ہے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ کامل علم اور کامل حکمت والا ہے۔ زمین و آسمان میں کسی جگہ اور کسی وقت چھوٹی یا بڑی ذرہ بھر چیز اس سے پوشیدہ نہیں۔ تمام مخلوقات اور تمام شرائع اس کی حکمت سے خالی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ تخلیق اور جو کچھ مشروع کیا ہے وہ حکمت پر مبنی ہے۔ یہ اس کی علم و حکمت ہے کہ اس نے قاتل پر کفارہ واجب کیا جو اس سے صادر ہونے والے گناہ سے مناسبت رکھتا ہے۔ کیونکہ وہ ایک قابل احترام جان کو معدوم کرنے کا سبب بنا اور اسے وجود سے نکال کر عدم میں لے گیا۔ اس جرم سے یہ چیز مناسبت رکھتی ہے کہ وہ غلام آزاد کرے، اس کو مخلوق کی غلامی سے نکال کر مکمل آزادی عطا کرے۔ اگر وہ غلام آزاد کرنے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو دو مہینوں کے مسلسل روزے رکھے۔ یوں وہ اپنے آپ کو شہوات، اور ان لذات حسیہ کی غلامی سے آزاد کر کے جو بندے کو ابدی سعادت سے محروم کرتی ہیں، اللہ تعالیٰ کے تقرب کے حصول کے لیے اللہ تعالیٰ کی بندگی کی طرف لائے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے روزے رکھنے کے لیے شاق گزرنے والی طویل مدت مقرر کی ہے اور اس میں روزوں کے تسلسل کو واجب قرار دیا ہے اور ان تمام مقامات پر عدم مناسبت کی بنا پر، روزے رکھنے کی بجائے مسکینوں کو کھانا کھلانا مشروع قرار نہیں دیا۔ اس کے برعکس ظہار میں روزوں کی بجائے مسکینوں کو کھانا کھلانا مشروع ہے۔ اس کا ذکر انشاء اللہ آئے گا۔ یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی حکمت ہے کہ قتل خواہ خطاہی سے کیوں نہ ہو، اس نے اس میں دیت واجب ٹھہرائی ہے تاکہ دیت اور دیگر اسباب کے ذریعے سے قتل کے جرائم کا سدباب ہوسکے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے کہ اس نے قتل خطا میں دیت قاتل کے پدری (باپ کی طرف سے) رشتہ داروں (یعنی عاقلہ) پر فرض کی ہے۔ اس پر فقہاء کا اجماع ہے۔ کیونکہ گناہ کی نیت سے قاتل نے قتل کا ارتکاب نہیں کیا تھا کہ اس دیت کا سارا بوجھ اس پر ڈال دیا جائے جو اس کے لیے سخت مشقت کا باعث ہو۔ اس لیے یہ امر مناسبت رکھتا ہے کہ حصول مصالح اور سد مفاسد کی خاطر اس کے اور اس کے رشتہ داروں کے درمیان تعاون اور ایک دوسرے کی مدد کرنے کا جذبہ ہو۔ شاید یہ چیزیں اس شخص کو قتل سے روکنے کا سبب بن جائے جس کی طرف سے وہ دیت ادا کرتے ہیں تاکہ انہیں دیت کا بوجھ نہ اٹھانا پڑے، نیز ان کی طاقت اور ان کے احوال کے مطابق ان پر دیت کو تقسیم کرنے سے دیت کے بوجھ میں تخفیف ہوجائے گی، نیز دیت کی ادائیگی کی مدت تین سال مقرر کر کے اس میں مزید تخفیف پیدا کردی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت اور اس کا علم ہے کہ اس نے اس دیت کے ذریعے سے جو اس نے قاتل کے اولیاء پر واجب کی ہے، مقتول کے ورثاء کی مصیبت میں ان کے نقصان کی تلافی کی ہے۔ النسآء
93 گزشتہ صفحات میں گزر چکا ہے کہ مومن سے مومن کا قتل صادر نہیں ہوسکتا نیز یہ کہ قتل کفریہ عمل ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے جان بوجھ کر قتل کرنے والے کے لیے وعید کا ذکر فرمایا ہے جس سے دل کانپ جاتے ہیں، کلیجے پھٹ جاتے ہیں اور عقلمند لوگ گھبرا جاتے ہیں۔ کبیرہ گناہوں میں سے کسی اور گناہ کے لیے اس سے بڑی بلکہ اس جیسی وعید بھی وارد نہیں ہوئی۔ آگاہ رہو ! کہ یہ اس امر کی خبر دینا ہے کہ مومن کے قتل کے مرتکب کے لیے جہنم ہے۔ یعنی یہ گناہ عظیم اکیلا ہی کافی ہے کہ اپنے مرتکب کو جہنم، عذاب عظیم، رسوائی، اللہ جبار کی ناراضی، فوز و فلاح سے محرومی و ناکامی اور خسارے جیسی سزا کا مستحق بنائے۔ ہم ہر اس سبب سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دور کرے۔ اس وعید کا حکم، کبیرہ گناہوں کے بارے میں وارد اس جیسی دیگر نصوص وعید کی مانند ہے جن میں جہنم میں خلود اور جنت سے محرومی کا ذکر کیا گیا ہے۔ ائمہ کرام خوارج اور معتزلہ کے اس قول کے بطلان پر متفق ہونے کے باوجود کہ موحد گناہ گار ہمیشہ جہنم میں رہیں گے اس آیت کریمہ کی تاویل میں اختلاف رکھتے ہیں۔ اس آیت کریمہ کی تاویل و تفسیر میں حق و صواب وہ ہے جو امام محقق شمس الدین ابن القیم رحمہ اللہ نے اپنی مشہور کتاب ” مدارج السالکین“ میں ذکر فرمایا ہے۔ انہوں نے ائمہ کی تاویلات ذکر کرنے کے بعد نقد کرتے ہوئے فرمایا : ” کچھ دیگر لوگوں کی رائے ہے کہ یہ نصوص اور اس قسم کی دیگر نصوص، جن میں سزا کی اقتضا کا ذکر آتا ہے مقتضائے حکم کے وجود سے اس کا وجود لازم نہیں آتا کیونکہ حکم اپنے مقتضی کے وجود اور انتفائے مانع سے پورا ہوتا ہے اور ان نصوص کی غرض وغایت محض اس امر کی اطلاع دینا ہے کہ اس قسم کے جرائم عقوبت کا سبب ہیں اور اس کا تقاضا کرتے ہیں اور موانع کے ذکر پر دلیل قائم ہوچکی ہے کچھ تو اجماع کی بنا پر اور کچھ نصوص کی بنا پر، چنانچہ توبہ بالا جماع عقوبت اور سزا کو مانع ہے اور نصوص متواترہ دلالت کرتی ہیں کہ توحید بھی مانع عقوبت ہے اسی طرح برائیوں کو مٹانے والی نیکیاں بھی مانع عقاب ہیں۔ بڑے بڑے مصائب جو گناہوں کا کفارہ بن جاتے ہیں مانع عقاب ہیں۔ دنیا میں ان جرائم پر حد قائم ہونا بھی مانع عقوبت ہے ان امور پر نصوص دلالت کرتی ہیں اور ان نصوص کو معطل کرنے کی کوئی وجہ نہیں لہٰذا جانبین کی طرف سے نصوص کے عمل کو تسلیم کئے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ یہ ہے وہ مقام جہاں اقتضائے عقاب اور اس کے مانع کے لیے، نیکیوں اور برائیوں کے درمیان موازنہ کیا جاتا ہے تاکہ دونوں میں سے جو راجح ہو، اس کے مطابق عمل کیا جائے (اقتضائے عذاب راجح ہو تو عذاب کا اور مانع راجح ہو تو عدم عذاب کا فیصلہ ہوگا) و وہ کہتے ہیں کہ اسی اصول پر دنیا و آخرت کے مصالح اور مفاسد کی بنا ہے اور یہی اصول احکام شرعیہ اور احکام قدریہ کی بنیاد ہیں اور یہی اس حکمت کا تقاضا ہے جو وجود کائنات میں جاری و ساری ہے۔ خلق و امر کے لحاظ سے اسی اصول کے ذریعے سے اسباب اور مسببات ایک دوسرے سے مرتب ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہر شے کی ضد پیدا کی ہے تاکہ یہ ضد اس شے کو دفع کرے اور ضدین میں سے اغلب کے مطابق حکم لگایا جائے گا۔ قوت صحت و عافیت کا تقاضا کرتی ہے اور اخلاط فاسدہ کا غلبہ، عمل طبعی اور فعل قوت کو مانع ہے، ان دونوں میں سے اغلب کے مطابق حکم لگایا جائے گا۔ یہی اصول ادویہ اور امراض کے قویٰ میں عمل کرتا ہے انسان کے اندر ایسی چیزیں بھی ہیں جو اس کی صحت کی متقاضی ہیں اور کچھ ایسی چیزیں بھی ہیں جو اس کی ہلاکت کا تقاضا کرتی ہیں۔ (ان کے درمیان کشمکش رہتی ہے) اور ایک چیز دوسری چیز کے کمال تاثیر کو روکتی اور اس کا مقابلہ کرتی ہے پس اگر وہ اس پر غالب آجاتی ہے تو اس کی تاثیر اس میں کار فرما ہوتی ہے۔ یہاں پہنچ کر انسانوں کی تقسیم کا علم ہوتا ہے۔ کوئی سیدھا جنت میں جائے گا کسی کو جہنم میں جھونک دیا جائے گا۔ کچھ لوگوں کو جہنم میں داخل کر کے پھر نکال لیا جائے گا اور وہ لوگ جہنم میں بس اس قدر ٹھہریں گے جس قدر ان کے اعمال ان کے ٹھہرنے کا تقاضا کریں گے۔ جس شخص کی چشم بصیرت روشن ہے اس اصول کے مطابق اس معاد کے متعلق وہ تمام امور جن کی قرآن خبر دیتا ہے یوں نظر آتے ہیں گویا کہ وہ انہیں اپنی ظاہری آنکھوں سے دیکھ رہا ہے۔ اسے معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی الوہیت، ربوبیت اور عزت و حکمت کا تقاضا ہے اور اس کی خلاف ورزی اللہ تعالیٰ سے محال ہے۔ اس کی خلاف ورزی کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرنا ایک ایسے امر کی نسبت ہے جو اللہ تعالیٰ کی شان کے لائق نہیں۔ ان امور کو وہ اپنی چشم بصیرت سے یوں دیکھتا ہے جیسے وہ اپنی آنکھ سے سورج اور ستاروں کو دیکھتا ہے اور یہ ایمان کا یقین ہے اور یہ وہ یقین ہے جو برائیوں کو اس طرح جلا دیتا ہے جیسے خشک ایندھن کو آگ جلا دیتی ہے۔ وہ شخص جو ایمان کے اس مقام پر فائز ہوجاتا ہے اس کے لیے برائیوں پر مصر رہنا محال ہے۔ برائیاں اگرچہ اس سے بکثرت واقع ہوجاتی ہیں مگر اس کا نور ایمان اسے ہر وقت تجدید توبہ کا حکم دیتا رہتا ہے اور ہر سانس کے ساتھ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتا ہے ایسا شخص اللہ تعالیٰ کو اپنی مخلوق میں سب سے زیادہ محبوب ہے۔“ ابن القیم قدس اللہ روحہ کا کلام ختم ہوا، اللہ تعالیٰ انہیں اسلام اور مسلمانوں کی طرف سے جزائے خیر عطا کرے۔ (اس موضوع پر مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ کیجئے مدارج السالکین 1؍ 396۔ مترجم) النسآء
94 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو حکم دیتا ہے کہ جب وہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے جہاد پر نکلیں تو تمام مشتبہ امور میں اچھی طرح تحقیق کرلیا کریں اور جلدی نہ کیا کریں۔ کیونکہ تمام معاملات دو قسم کے ہوتے ہیں۔ واضح اور غیر واضح۔ جو امور واضح ہوتے ہیں ان میں تحقیق اور جانچ پڑتال کی کچھ زیادہ ضرورت نہیں ہوتی۔ کیونکہ یہ چیز تحصیل حاصل کے زمرے میں آتی ہے۔ رہے مشکل اور غیر واضح امور تو انسان ان میں جانچ پڑتال اور تحقیق کا محتاج ہوتا ہے کہ آیا وہ اس میں اقدام کرے یا نہ کرے؟ کیونکہ ان امور میں تحقیق اور جانچ پڑتال سے بے شمار فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ بڑی بڑی برائیوں کا سدباب ہوجاتا ہے۔ اس کے ذریعے سے بندے کے دین، عقل اور وقار کے بارے میں معرفت حاصل ہوتی ہے۔ اس کے برعکس وہ شخص جو معاملات کی ابتدا ہی میں ان کی جانچ پڑتال سے پہلے فیصلہ کرنے میں عجلت سے کام لیتا ہے۔ اسے اس عجلت سے ایسے نتائج کا سامنا ہوسکتا ہے جو نہایت غیر مناسب ہوں، جیسا کہ ان مسلمانوں کے ساتھ ہوا جن کا اس آیت کریمہ میں ذکر کیا گیا ہے۔ جنہوں نے بغیر کسی تحقیق اور جانچ پڑتال کے ایک ایسے شخص کو قتل کردیا جس نے ان کو سلام کیا تھا۔ اس کے پاس کچھ بکریاں یا کوئی اور مال تھا اس کا خیال تھا کہ اس طرح (سلام کرنے سے) قتل ہونے بچ جائے گا اور ان کا یہ فعل (قتل) درحقیقت خطا تھا، بنا بریں اللہ تعالیٰ نے ان پر عتاب فرمایا۔ ﴿وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ أَلْقَىٰ إِلَيْكُمُ السَّلَامَ لَسْتَ مُؤْمِنًا تَبْتَغُونَ عَرَضَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فَعِندَ اللَّـهِ مَغَانِمُ كَثِيرَةٌ ۚ ﴾ ” جو تمہیں سلام کرے تم اسے یہ نہ کہہ دو کہ تو مومن نہیں تم دنیاوی زندگی کے اسباب کی تلاش میں ہو تو اللہ کے پاس بہت سی غنیمتیں ہیں“ یعنی فانی دنیا کا یہ قلیل اور فانی مال و متاع تمہیں کسی ایسے کام کے ارتکاب پر آمادہ نہ کرے جو مناسب نہ ہو اور اس کے نتیجے میں تم اس بے پایاں ثواب سے محروم ہوجاؤ جو ہمیشہ باقی رہنے والا ہے۔ پس جو کچھ اللہ تعالیٰ کے پاس ہے وہ بہتر اور باقی رہنے والا ہے۔ اس آیت کریمہ میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ بندے کو چاہئے کہ جب وہ دیکھے کہ اس کے نفس کے داعیے کسی ایسے حال کی طرف مائل ہیں جس میں خواہشات نفس کا شائبہ ہے اور یہ اس کے لیے ضرر رساں ہیں تو وہ اس ثواب اور نعمتوں کو یاد کرے جو اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان لوگوں کے لیے تیار کر رکھی ہیں جنہوں نے خواہشات نفس کو روکا ہوا تھا اور اللہ تعالیٰ کی رضا کو اپنے نفس کی خواہش پر مقدم رکھا کیونکہ اس میں نفس کے لیے اللہ تعالیٰ کے حکم کی اطاعت کی ترغیب ہے خواہ اس میں اس کے لیے مشقت ہی کیوں نہ ہو۔ پھر اللہ تعالیٰ ان کو اسلام سے قبل ان کی حالت یاد دلاتے ہوئے فرماتا ہے : ﴿كَذٰلِكَ كُنتُم مِّن قَبْلُ فَمَنَّ اللَّـهُ عَلَيْكُمْ ﴾ ” پہلے تم بھی ایسے ہی تھے پھر اللہ نے تم پر احسان کیا“ یعنی اللہ تعالیٰ نے جس طرح تمہیں تمہاری گمراہی کے بعد ہدایت سے نوازا ہے۔ اسی طرح وہ دوسروں کو بھی راہ ہدایت دکھاتا ہے اور جس طرح تمہیں بتدریج آہستہ آہستہ ہدایت حاصل ہوئی ہے اسی طرح تمہارے علاوہ بھی آہستہ آہستہ راہ ہدایت پر گامزن ہوجائیں گے۔ پس کامل شخص کا اپنے پہلے اور ناقص حال پر نظر رکھنا اور اس ناقص شخص کے ساتھ، جس کی مانند کبھی وہ بھی ناقص تھا، اس کے مقتضائے حال کے مطابق معاملہ کرنا اور اس کو حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ بھلائی کی طرف دعوت دینا اس کے لیے فائدہ پہنچانے اور فائدہ حاصل کرنے کا سب سے بڑا سبب ہے۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے تحقیق حال کے حکم کا ان الفاظ میں اعادہ کیا ﴿فَتَبَیَّنُوْا﴾” تحقیق کرلیا کرو۔“ یعنی خوب تحقیق کرلیا کرو۔ جب کوئی اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کے لیے نکلتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے دشمنوں کے خلاف جہاد کرتا ہے اور ان کا مقابلہ کرنے کے لیے مختلف قسم کی تیاری کرتا ہے، تو وہ اس بات پر مامور ہے کہ جو کوئی اس کو سلام کرے، اس کی تحقیق کرلے حالانکہ بہت ہی قوی قرینہ موجود تھا کہ اس نے جان کے خوف سے اور جان بچانے کے لیے سلام کیا ہو۔ یہ اس امر کی دلیل ہے کہ ان تمام احوال کے بارے میں، جن میں کسی قسم کا اشتباہ واقع ہوگیا ہو تحقیق اور جانچ پڑتال کی جائے۔ پس بندہ حقیقت حال معلوم کرنے کی کوشش کرے حتیٰ کہ اس کے سامنے معاملہ واضح ہوجائے اور رشد و صواب متحقق ہو کر سامنے آجائے۔ فرمایا : ﴿ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا ﴾” اور جو عمل تم کرتے ہو، اللہ کو سب کی خبر ہے۔“ اللہ اپنے بندوں کے احوال اور ان کی نیتوں کو جانتا ہے اس لیے وہ ہر ایک کو اس کے عمل اور نیت کے مطابق جزا دے گا۔ النسآء
95 یعنی اہل ایمان میں سے وہ شخص جو اپنی جان اور مال کے ذریعے سے جہاد کرتا ہے اور وہ شخص جو جہاد کے لیے نہیں نکلتا اور اللہ کے دشمنوں کے ساتھ قتال نہیں کرتا، دونوں برابر نہیں ہوسکتے۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کے لیے نکلنے کی ترغیب ہے اور سستی اور کسی عذر کے بغیر جہاد چھوڑ کر گھر بیٹھ رہنے سے ڈرایا گیا ہے۔ رہے وہ لوگ جو کسی تکلیف میں مبتلا ہیں مثلاً مریض، اندھا اور لنگڑا وغیرہ اور وہ شخص جس کے پاس جہاد پر جانے کے لیے سامان وغیرہ نہیں، تو یہ لوگ بغیر عذر گھر بیٹھ رہنے والوں میں شمار نہیں ہوں گے۔ ہاں ! وہ شخص جو کسی تکلیف میں مبتلا ہے اور وہ اپنے گھر بیٹھ رہنے پر خوش اور راضی ہے اور وہ یہ نیت بھی نہیں رکھتا کہ اگر یہ مانع موجود نہ ہوتا تو وہ جہاد میں ضرور شریک ہوتا اور اس کے دل میں کبھی جہاد کی خواہش بھی نہیں ہوئی تو ایسا شخص بغیر عذر گھر بیٹھ رہنے والوں میں شمار ہوگا۔ جو کوئی یہ عزم رکھتا ہے کہ اگر یہ مانع موجود نہ ہوتا تو وہ اللہ کے راستے میں جہاد کے لیے نکلتا، وہ جہاد کی تمنا اور آرزو کرتا ہے اور اس کے دل میں جہاد کی خواہش پیدا ہوئی ہے تو ایسا شخص جہاد کرنے والوں میں شمار ہوگا، کیونکہ نیت جازم کے ساتھ جب وہ عمل مقرون ہوتا ہے جو قولاً یا فعلاً نیت کرنے والے کے اختیار میں ہے تو وہ اس صاحب نیت کو فاعل کے مقام پر فائز کردیتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے نہایت صراحت کے ساتھ مجاہدین کو گھر بیٹھ رہنے والوں پر بلندی درجات کی فضیلت سے نوازا ہے۔ یہ فضیلت اجمالاً بیان فرمائی ہے۔ اس کے بعد صراحت کے ساتھ اس کی تفصیل بیان کی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کے رب کی طرف سے مغفرت اور رحمت کا وعدہ فرمایا جو ہر بھلائی کے حصول اور ہر برائی کے سدباب پر مشتمل ہے۔ صحیحین میں مروی ایک حدیث کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان درجات کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرمایا ’ ’جنت کے اندر سو درجے ہیں اور ان ہر دو درجوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا زمین اور آسمان کے درمیان۔ اس جنت کو اللہ تعالیٰ نے اپنے راستے میں جہاد کرنے والوں کے لیے تیار کر رکھا ہے۔“[ صحیح بخاری، الجھاد والسیر، باب درجات المجاہدین فی سبیل اللہ، حدیث :2890] یہ ثواب جو اللہ تعالیٰ نے جہاد پر مرتب کیا ہے اس کی نظیر سورۃ صف کی یہ آیات ہیں: ﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَىٰ تِجَارَةٍ تُنجِيكُم مِّنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ- تُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَرَسُولِهِ وَتُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنفُسِكُمْ ۚ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ يَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَيُدْخِلْكُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ وَمَسَاكِنَ طَيِّبَةً فِي جَنَّاتِ عَدْنٍ ۚ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ ) (الصف :61؍10۔12) ” اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو کیا میں تمہیں ایسی تجارت نہ بتاؤں جو تمہیں درد ناک عذاب سے نجات دے، تم اللہ کی راہ میں اپنی جان اور اپنے مال سے جہاد کرو۔ اگر تم علم رکھتے ہو تو یہی تمہارے لیے بہتر ہے۔ وہ تمہارے گناہ بخش دے گا اور تمہیں جنت میں داخل کرے گا۔ جن میں نہریں بہہ رہی ہیں اور جنت جاوداں میں پاکیزہ آرام گاہوں میں داخل کرے گا۔ یہ بڑی کامیابی ہے۔ “ ذرا حسن انتقال پر غور فرمائیے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک حالت سے دوسری بلند تر حالت کی طرف منتقل ہونے کا کیسے ذکر فرمایا ہے۔ سب سے پہلے مجاہد اور غیر مجاہد کے درمیان مساوات (برابر ہنے) کی نفی فرمائی، پھر تصریح فرمائی کہ مجاہد کو گھر بیٹھ رہنے والے پر ایک درجہ فضیلت حاصل ہے، پھر مغفرت، رحمت اور بلند درجات کے ذریعے سے مجاہد کو فضیلت عطا کرنے کی طرف انتقال فرمایا۔ فضیلت اور مدح کے موقع پر فروتر سے بلند تر حالت کی طرف اور مذمت اور برائی کے موقع پر بلند تر حالت سے فروتر حالت کی طرف یہ انتقال، لفظوں کے اعتبار سے حسین تر اور نفوس انسانی میں کارگر ہونے کے اعتبار سے مؤثر تر ہے۔ اسی طرح جب اللہ تعالیٰ ایک چیز کو دوسری چیز پر فضیلت دیتا ہے جب کہ دونوں ہی کو فضیلت حاصل ہوتی ہو وہ ایسے لفظ کے ساتھ فضیلت بیان کرنے سے احتراز کرتا ہے جو دونوں کا جامع ہو۔ تاکہ کسی کو یہ وہم لاحق نہ ہو کہ کم تر فضیلت کی حامل چیز کی مذمت بیان کی ہے۔ جیسا کہ یہاں بیان فرمایا : ﴿وَكُلًّا وَعَدَ اللَّـهُ الْحُسْنَىٰ ﴾ ”اللہ نے سب کے ساتھ اچھا وعدہ کیا ہے۔“ اور جیسا کہ محولہ بالا سورۃ صف کی آیات میں فرمایا : ﴿وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ ﴾” مومنوں کو خوش خبری دے دیجیے“ فرمایا : ﴿لَا يَسْتَوِي مِنكُم مَّنْ أَنفَقَ مِن قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ ۚ ﴾(الحدید :57؍10) ” تم میں سے جس شخص نے فتح مکہ سے قبل خرچ کیا اور جہاد کیا (اور جس نے فتح مکہ کے بعد یہ کام کئے) برابر نہیں“ پھر فرمایا : ﴿وَكُلًّا وَعَدَ اللَّـهُ الْحُسْنَىٰ﴾ (الحدید: 57؍10) ” اور اللہ نے سب کے ساتھ اچھا وعدہ کیا ہے۔“ اور جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿فَفَهَّمْنَاهَا سُلَيْمَانَ ۚ وَكُلًّا آتَيْنَا حُكْمًا وَعِلْمًا ۚ ﴾(الانبیاء :21؍ 79)” پس فیصلہ کرنے کا طریقہ ہم نے سلیمان کو سمجھا دیا اور ہم نے دونوں کو علم و حکمت عطا کی تھی۔ “ النسآء
96 پس جو کوئی شخصیات کے درمیان، گروہوں کے درمیان اور اعمال کے درمیان فضیلت کی تحقیق کرتا ہے تو اس کے لیے مناسب ہے کہ وہ اس نکتہ کو خوب سمجھ لے۔ اسی طرح اگر وہ بعض شخصیات اور مقالات کی مذمت بیان کرتا ہے تو ان کو ایک دوسرے پر فضیلت دینے کے لیے ایسا اسلوب استعمال کرے جو دونوں کو جامع ہو، تاکہ جس کو فضیلت دی گئی ہے وہ اس وہم میں مبتلا نہ ہو کہ اسے کمال حاصل ہے۔ مثلاً جب یہ کہا جائے کہ نصاریٰ مجوسیوں سے بہتر ہیں تو اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہنا چاہئے کہ دونوں ہی کافر ہیں۔ جب یہ کہا جائے قتل زنا سے زیادہ بڑا جرم ہے تو ساتھ یہ بھی بتانا چاہئے کہ دونوں گناہ کبیرہ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ہے اور ان گناہوں پر زجر و توبیخ کی ہے۔ چونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے مجاہدین کے ساتھ مغفرت اور رحمت کا وعدہ کیا ہے جو اس کے اسمائے کریمہ (اَلْغَفُوْرٌ) اور (اَلرَّحِیْمُ) سے صادر ہوتی ہیں اس لیے اس آیت کریمہ کے اختتام پر فرمایا : ﴿وَكَانَ اللَّـهُ غَفُورًا رَّحِيمًا ﴾” اللہ بخشنے والا، نہایت رحم کرنے والا ہے۔ “ النسآء
97 اس آیت کریمہ میں اس شخص کے لیے سخت وعید آئی ہے جو ہجرت کی قدرت رکھنے کے باوجود ہجرت نہیں کرتا اور دارالکفر ہی میں مر جاتا ہے۔ کیونکہ جب فرشتے اس کی روح قبض کریں گے تو اس کو سخت زجر و توبیخ کرتے ہوئے کہیں گے ﴿فِيمَ كُنتُمْ﴾ ” تم کس حال میں تھے“ اور کیسے تم نے اپنے تشخص کو مشرکین کے درمیان ممیز رکھا، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ تم ان کی تعداد میں اضافے کا باعث بنے اور بسا اوقات اہل ایمان کے خلاف تم نے کفار کی مدد کی، تم خیر کثیر، اللہ کے رسول کی معیت میں جہاد، مسلمانوں کی رفاقت اور ان کے دشمنوں کے خلاف ان کی معاونت کی سعادت سے محروم رہے۔ ﴿قَالُوا كُنَّا مُسْتَضْعَفِينَ فِي الْأَرْضِ ﴾ وہ کہیں گے کہ ہم کمزور، مجبور اور مظلوم تھے اور ہجرت کی قدرت نہ رکھتے تھے۔ حالانکہ وہ اپنے اس قول میں سچے نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو زجر و توبیخ کی ہے اور ان کو وعید سنائی ہے اور اللہ تعالیٰ کسی جان کو اس کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہیں دیتا۔ اس نے حقیقی مستضعفین کو مستثنیٰ قرار دیا ہے اس لیے فرشتے ان سے کہیں گے : ﴿أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّـهِ وَاسِعَةً فَتُهَاجِرُوا فِيهَا ۚ ﴾” کیا اللہ کی زمین وسیع و فراخ نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کر کے چلے جاتے“ یہ استفہام تقریری ہے یعنی ہر ایک کے ہاں یہ چیز متحقق ہے کہ اللہ کی زمین بہت وسیع ہے۔ بندہ مومن جہاں کہیں بھی ہو اگر وہاں اپنے دین کا اظہار نہیں کرسکتا تو زمین اس کے لیے بہت وسیع ہے جہاں وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرسکتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ أَرْضِي وَاسِعَةٌ فَإِيَّايَ فَاعْبُدُونِ ﴾(العنکبوت :29؍56) ” اے میرے بندو جو ایمان لائے ہو بے شک میری زمین بہت وسیع ہے پس میری ہی عبادت کرو۔ “ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے بارے میں جن کے پاس کوئی عذر نہیں، فرمایا : ﴿ فَأُولَـٰئِكَ مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ ۖ وَسَاءَتْ مَصِيرًا  ﴾ ” یہی وہ لوگ ہیں جن کا ٹھکانا دوزخ ہوگا اور وہ بہت ہی بری جگہ ہے“ جیسا کہ پیچھے گزر چکا ہے کہ اس میں سبب موجب کا بیان ہے جس پر، اس کی شرائط کے جمع ہونے اور موانع کے نہ ہونے کے ساتھ، مقتضا مرتب ہوتا ہے۔ کبھی کبھی کوئی مانع اس مقتضا کو روک دیتا ہے۔ النسآء
98 اس آیت کریمہ میں اس امر کی دلیل ہے کہ ہجرت سب سے بڑا فرض ہے اور اس کو ترک کرنا حرام بلکہ سب سے بڑا گناہ ہے۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ جس شخص نے وفات پائی اس نے اپنا وہ رزق، عمر اور عمل پورا کرلیا جو اس کے لیے مقدر کیا گیا تھا۔ یہ دلیل لفظ ”توفی“ سے ماخوذ ہے۔ کیونکہ اگر اس نے وہ سب کچھ پورا نہیں کیا جو اس کے لیے مقدر کیا گیا تھا تو لفظ ’’ توفی“ کا اطلاق صحیح نہیں۔ اس آیت میں فرشتوں پر ایمان لانے اور ان کی مدح کی دلیل بھی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اثبات، ان کی تحسین اور اپنی موافقت کے انداز میں فرشتوں سے خطاب کیا ہے۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے حقیقی مستضعفین کو مستثنیٰ قرار دیا جو کسی وجہ سے ہجرت کرنے پر قادر نہیں۔ فرمایا: ﴿وَلَا يَهْتَدُونَ سَبِيلًا  ﴾” نہ وہ کوئی راستہ جانتے ہیں۔“ یہی وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : آیت کریمہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ جو کوئی کسی امر واجب کی تعمیل کرنے سے عاجز ہو وہ معذور ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے جہاد سے عاجز رہنے والوں کے بارے میں فرمایا :﴿لَّيْسَ عَلَى الْأَعْمَىٰ حَرَجٌ وَلَا عَلَى الْأَعْرَجِ حَرَجٌ وَلَا عَلَى الْمَرِيضِ حَرَجٌ ۗ ﴾ (افتح :48؍ 17) ” نہ تو اندھے کے لیے کوئی گناہ ہے نہ لنگڑے پر اور نہ بیمار پر“ اور تمام احکام کی عمومی اطاعت کے بارے میں فرمایا : ﴿فَاتَّقُوا اللَّـهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ ﴾ (التغابن :64؍ 16) ” اپنی استطاعت بھر اللہ تعالیٰ سے ڈرو۔“ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (اِذَا اَمَرْتُکُمْ بِشَیءٍ فَاْتُوْا مِنْہُ مَا اسْتَطَعْتُمْ) ” جس چیز کا میں تمہیں حکم دوں مقدور بھر اس پر عمل کرو“[صحیح مسلم، الحج، باب فرض الحج مرۃ فی العمر، حدیث :1337] جب انسان پوری کوشش کرتا ہے مگر اس پر ہر قسم کے حیلے کی راہیں مسدود ہوجاتی ہیں تب اس صورت میں وہ گناہ گار نہیں ہوتا کیونکہ فرمان باری تعالیٰ ہے : ﴿لَا يَسْتَطِيعُونَ حِيلَةً  ﴾ ” وہ کوئی تدبیر کرنے کی طاقت نہیں رکھتے“ یعنی وہ لاچار ہیں۔ آیت میں اس امر پر تنبیہ ہے کہ حج و عمرہ اور اس قسم کی دیگر عبادات میں جن میں سفر کی ضرورت پیش آتی ہے، رہنمائی کرنے والے کا ہونا بھی ” استطاعت“ کی شرطوں میں سے ہے۔ النسآء
99 ﴿فَأُولَـٰئِكَ عَسَى اللَّـهُ أَن يَعْفُوَ عَنْهُمْ ۚ وَكَانَ اللَّـهُ عَفُوًّا غَفُورًا  ﴾ ” امید ہے کہ ان لوگوں کو اللہ بخش دے اور اللہ بہت درگزر کرنے والا اور نہایت بخشنے والا ہے“ (عَسَى) اور اس کا ہم معنی کلمہ، اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور احسان کے تقاضے کے مطابق اس کو لازم کرتا ہے۔ جو کوئی کچھ نیک اعمال بجال لاتا ہے اس کو ثواب کی امید دلانے میں فائدہ ہے اور وہ یہ کہ ایک شخص ہے جو پوری طرح عمل نہیں کرتا اور نہ وہ اس عمل کو اس طریقے سے بجا لاتا ہے جو اس کے لیے مناسب ہے بلکہ وہ کوتاہی کا مرتکب ہوتا ہے لہٰذا وہ اس ثواب کا مستحق قرار نہیں پاتا۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ النسآء
100 اس آیت کریمہ میں ہجرت کی ترغیب دی گئی ہے اور ان مصالح اور فوائد کا بیان ہے جو ہجرت میں پنہاں ہیں۔ اس سچی ہستی نے وعدہ کیا ہے کہ جو کوئی اس کی رضا کی خاطر اس کی راہ میں ہجرت کرتا ہے وہ زمین میں بہت سے راستے اور کشادگی پائے گا۔ پس یہ راستے دینی مصالح، زمین کی وسعت اور دنیاوی مصالح پر مشتمل ہیں۔ بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ ہجرت، وصال کے بعد فراق، غنا کے بعد فقر، عزت کے بعد ذلت اور فراخی کے بعد تنگدستی میں پڑنے کا نام ہے۔ معاملہ دراصل یہ نہیں کیونکہ بندہ مومن جب تک کفار کے درمیان رہ رہا ہے اس کا دین انتہائی ناقص ہے، اس کی وہ عبادات بھی ناقص ہیں جن کا تعلق صرف اسی کی ذات سے ہے جیسے نماز، وغیرہ اور اس کی وہ عبادات بھی ناقص ہیں جن کا تعلق دوسروں سے ہے، مثلاً قولی و فعلی جہاد اور اس کے دیگر توابع، کیونکہ یہ اس کے بس کی بات نہیں اور وہ اپنے دین کے بارے میں ہمیشہ فتنے اور آزمائش میں مبتلا رہے گا۔ خاص طور پر جبکہ وہ مستضعفین (کمزوروں) میں شمار ہوتا ہو۔ پس جب وہ دارالکفر سے ہجرت کرجاتا ہے تو اقامت دین کی کوشش اور اللہ کے دشمنوں کے خلاف جہاد کرسکتا ہے۔ کیونکہ (االْمُرَاغَمَۃُ) ایک جامع نام ہے اور اس سے مراد ہر وہ قول و فعل ہے جس سے اللہ کے دشمنوں کے خلاف غیظ پیدا ہو۔ اسی طرح (مُرَاغَمَ) سے مراد رزق وغیرہ کی فراخی ہے اور یہ چیز اسی طرح واقع ہوئی جس طرح اللہ تعالیٰ نے خبر دی تھی۔ چونکہ صحابہ کرام نے اللہ کے راستے میں ہجرت کی، اللہ کی رضا کے لیے اپنا گھربار، اپنا مال اور اپنی اولاد کو چھوڑ دیا اس لیے ہجرت کے ذریعے سے ان کے ایمان کی تکمیل ہوئی، انہیں ایمان کامل، جہاد عظیم اور اللہ تعالیٰ کے دین کی نصرت حاصل ہوئی۔ بنا بریں وہ بعد میں آنے والوں کے لیے امام بن گئے۔ اس ایمان کی تکمیل پر انہیں فتوحات اور غنائم حاصل ہوئیں اور وہ سب سے زیادہ بے نیاز ہوگئے۔ اسی طرح، قیامت تک ہر وہ شخص جو ان کی سیرت کو اختیار کرے گا اس کو بھی انہی انعامات سے نوازا جائے گا جن انعامات سے ان کو نوازا گیا تھا۔ پھر فرمایا :﴿وَمَن يَخْرُجْ مِن بَيْتِهِ مُهَاجِرًا إِلَى اللَّـهِ وَرَسُولِهِ ﴾ ” اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہجرت کر کے گھر سے نکل جائے۔“ یعنی جو شخص صرف اپنے رب کی رضا، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور اللہ کے دین کی نصرت کی خاطر ہجرت کے لیے اپنے گھر سے نکلتا ہے اور اس کے سوا اس کا کوئی اور مقصد نہیں ﴿ثُمَّ يُدْرِكْهُ الْمَوْتُ ﴾ ” پھر اس کو موت آ پکڑے۔“ یعنی پھر قتل یا کسی اور سبب سے اسے موت آجاتی ہے ﴿فَقَدْ وَقَعَ أَجْرُهُ عَلَى اللَّـهِ﴾” تو اس کا ثواب اللہ کے ذمے ہوچکا۔“ یعنی اسے اس مہاجر کا اجر حاصل ہوگیا جسے اللہ تعالیٰ کی ضمانت سے اپنی منزل مقصود مل گئی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے عزم جازم کے ساتھ ہجرت کی نیت کی تھی اور اس پر عملدرآمد کرنا شروع کردیا تھا۔ اس پر، اور اس جیسے دوسرے لوگوں پر یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے کہ اگرچہ انہوں نے اپنے عمل کو مکمل نہیں کیا، مگر اللہ تعالیٰ نے ان کو کامل عمل عطا کردیا اور ہجرت وغیرہ کے معاملے میں ان سے جو کوتاہی ہوئی اللہ تعالیٰ نے اس کو بخش دیا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ کو ان دوا سمائے حسنیٰ پر ختم کیا ہے ﴿وَكَانَ اللَّـهُ غَفُورًا رَّحِيمًا ﴾ ” اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔“ اللہ تعالیٰ اہل ایمان کے ان تمام گناہوں کو بخش دیتا ہے جس کا وہ ارتکاب کرتے ہیں خاص طور پر، وہ اہل ایمان جو توبہ کر کے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتا ہے۔ ﴿رَّحِيمًا ﴾ یعنی وہ تمام مخلوق پر رحم کرنے والا ہے، اس کی رحمت ہی انہیں وجود میں لائی، اس کی رحمت ہی نے انہیں عافیت عطا کی اور اس کی رحمت ہی نے انہیں مال، بیٹوں اور قوت وغیرہ سے نوازا۔ وہ اہل ایمان پر رحم کرنے والا ہے، کیونکہ اسی نے اہل ایمان کو ایمان کی توفیق عطا کی، انہیں ایسے علم سے نوازا۔ وہ اہل ایمان پر رحم کرنے والا ہے، کیونکہ اسی نے اہل ایمان کو ایمان کی توفیق عطا کی، انہیں ایسے علم سے نوازا جس سے ایقان حاصل ہوتا ہے۔ ان کے لیے سعادت اور فلاح کی راہیں آسان کردیں، جن کے ذریعے سے وہ بے انتہا فائدہ اٹھاتے ہیں وہ عنقریب اس کی رحمت اور فضل و کرم کے وہ نظارے دیکھیں گے جو کسی آنکھ نے دیکھے ہوں گے نہ کسی کان نے سنے ہوں گے اور نہ کسی بشر کے قلب سے ان کا گزر ہوا ہوگا۔ ہم اللہ تعالیٰ سے سوال کرتے ہیں کہ وہ ہمیں ہماری برائیوں کی وجہ سے اپنی بھلائیوں سے محروم نہ کرے۔ النسآء
101 یہ دو آیات کریمہ سفر کے دوران نماز میں قصر کی رخصت اور نماز خوف کے لیے اصل کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿وَإِذَا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ ﴾ ” جب چلو تم زمین میں“ یعنی سفر کے دوران آیت کریمہ کا ظاہر سفر کے دوران نماز میں قصر کی رخصت کا تقاضا کرتا ہے سفر خواہ کیسا ہی ہو، خواہ معصیت کا سفر ہی کیوں نہ ہوجیسا کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا مذہب ہے۔ جمہور فقہاء یعنی ائمہ ثلاثہ اور دیگر اہل علم آیت کے معنی اور مناسبت کے اعتبار سے آیت کے عموم کی تخصیص کرتے ہوئے معصیت کے سفر کے دوران نماز میں قصر کی رخصت کو جائز قرار نہیں دیتے۔ کیونکہ رخصت اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندوں کے لیے سہولت ہے کہ جب وہ سفر کریں تو نماز میں قصر کرلیا کریں اور روزہ چھوڑ دیا کریں۔ یہ تخفیف گناہ کا سفر کرنے والے شخص کے حال سے مناسبت نہیں رکھتی۔ ﴿فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلَاةِ ﴾” تو تم پر نمازوں کے قصر کرنے میں کوئی گناہ نہیں“ یعنی تم پر کوئی حرج اور گناہ نہیں۔ یہ چیز قصر کے افضل ہونے کے منافی نہیں ہے کیونکہ آیت کریمہ میں مذکورہ نفی حرج اس وہم کا ازالہ کرتی ہے جو بہت سے نفوس میں واقع ہوتا ہے۔ بلکہ یہ تو نماز قصر کے واجب ہونے کے بھی منافی نہیں جیسا کہ اس کی نظیر سورۃ بقرہ کی اس آیت میں گزر چکی ہے ﴿إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِن شَعَائِرِ اللَّـهِ ۖ ﴾(البقرہ :2؍ 158) ” صفا اور مروہ اللہ کے شعائر میں سے ہیں۔۔۔ آیت کے آخر تک“ اس مقام پر وہم کا ازالہ ظاہر ہے کیونکہ مسلمانوں کے ہاں نماز کا وجوب اس کی اس کامل صفت کے ساتھ متحقق ہے اور یہ وہم اکثر نفوس سے اس وقت تک زائل نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس امر کا ذکر نہ کیا جائے جو اس کے منافی ہے۔ اتمام پر قصر کی افضلیت کو دو امور ثابت کرتے ہیں۔ اول : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے تمام سفروں کے دوران میں قصر کا التزام کرنا۔ ثانی: قصر، بندوں کے لیے وسعت، رخصت اور رحمت کا دروازہ ہے اور اللہ تعالیٰ کو یہ بات پسند ہے کہ اس کی رخصتوں سے استفادہ کیا جائے۔ جس طرح وہ یہ بات ناپسند کرتا ہے کہ اس کی نافرمانی کا کوئی کام کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿أَن تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلَاةِ ﴾” نماز میں سے کچھ کم کر دو“ اور یہ نہیں فرمایا (أَن تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلَاةِ) ” نماز کو کم کر دو‘‘ اس میں دو فائدے ہیں۔ اول :۔ اگر یہ کہا ہوتا کہ ” نماز کو کم کردو“ تو قصر غیر منضبط اور غیر محدود ہوتی۔ اور بسا اوقات یہ بھی سمجھا جاسکتا تھا کہ اگر نماز کا بڑا حصہ کم کردیا جائے اور صرف ایک رکعت پڑھ لی جائے، تو کافی ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے (مِنَ الصَّلَاةِ) کا لفظ استعمال فرمایا، تاکہ وہ اس امر پر دلالت کرے کہ قصر محدود اور منضبط ہے اور اس بارے میں اصل مرجع وہ نماز قصر ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کرام کے فعل سے ثابت ہے۔ (ثانی): حرف جار (مِنْ) تبعیض کا فائدہ دیتا ہے تاکہ معلوم ہوسکے کہ صرف بعض فرض نمازوں میں قصر ہے تمام نمازوں میں جائز نہیں۔ کیونکہ فجر اور مغرب کی نماز میں قصر نہیں۔ صرف ان نمازوں میں قصر کر کے دو رکعت پڑھی جاتی ہیں جن میں چار رکعتیں فرض کی گئی ہیں۔ جب یہ بات متحقق ہوگئی کہ سفر میں نماز قصر ایک رخصت ہے تو معلوم ہونا چاہئے کہ مفسرین میں اس قید کے تعین کے بارے میں اختلاف ہے جو اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں وارد ہوئی ہے۔ ﴿إِنْ خِفْتُمْ أَن يَفْتِنَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا ﴾ ” اگر تم اس بات سے ڈرو کہ کافر تمہیں فتنے میں ڈال دیں گے“ جس کا ظاہر دلالت کرتا ہے کہ نماز قصر اس وقت تک جائز نہیں جب تک کہ یہ دو امور ایک ساتھ موجود نہ ہوں سفر اور خوف۔ ان کے اختلاف کا حاصل یہ ہے کہ (أَن تَقْصُرُوا )سے مراد صرف عدد رکعات میں کمی ہے؟ یا عدد رکعات اور صفت نماز دونوں میں کمی ہے؟ اشکال صرف پہلی صورت میں ہے اور یہ اشکال امیر المومنین جناب عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو لاحق ہوا تھا۔ حتیٰ کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا ” یا رسول اللہ ! ہم نماز میں قصر کیوں کرتے ہیں حالانکہ ہم مامون ہوتے ہیں، جب کہ اللہ تعالیٰ نے تو فرمایا : ﴿إِنْ خِفْتُمْ أَن يَفْتِنَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا ﴾” اگر تمہیں کافروں کا خوف ہو کہ وہ تمہیں فتنے میں ڈال دیں گے“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا :” یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تم پر صدقہ ہے پس تم اللہ تعالیٰ کے صدقہ کو قبول کرو۔“ (او کما قال علیہ السلام) [صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، باب صلاۃ المسافرین و قصرھا، حدیث:1083 ] اس صورت میں یہ قید ان غالب حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے عائد کی گئی تھی جن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام دوچار تھے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اکثر سفر جہاد کے لیے ہوتے تھے۔ اس میں دوسرا فائدہ یہ ہے کہ قصر کی رخصت کی مشروعیت میں حکمت اور مصلحت بیان کی گئی ہے۔ اس آیت کریمہ میں وہ انتہائی مشقت بیان کی گئی ہے، جس کا قصر کی رخصت کے بارے میں تصور کیا جاسکتا ہے اور وہ ہے سفر اور خوف کا اجتماع اور اس سے یہ بات لازم نہیں کہ اکیلے سفر میں قصر نہ کی جائے جو کہ مشقت کا باعث ہے۔ رہی قصر کی دوسری صورت یعنی عدد رکعات اور نماز کی صفت میں قصر تو یہ قید اپنے اپنے باب کے مطابق ہوگی۔ یعنی انسان کو اگر سفر اور خوف دونوں کا سامنا ہو تو عدد اور صفت دونوں میں قصر کی رخصت ہے۔ اگر وہ بلا خوف کسی سفر پر ہے تو صرف عدد رکعات میں قصر ہے اور اگر صرف دشمن کا خوف لاحق ہے تو صرف وصف نماز میں قصر ہے۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے اس کے بعد آنے والی آیت کریمہ میں نماز خوف کی صفت بیان فرمائی ہے۔ النسآء
102 ﴿وَإِذَا كُنتَ فِيهِمْ فَأَقَمْتَ لَهُمُ الصَّلَاةَ ﴾ ”اور (اے پیغمبر !) جب آپ ان (مجاہدین کے لشکر میں ہوں) اور ان کو نماز پڑھانے لگو۔“ یعنی جب آپ ان کے ساتھ نماز پڑھیں اور اس کے ان واجبات کو پورا کریں جن کا پورا کرنا آپ پر اور آپ کے اصحاب پر لازم ہے۔ پھر اس ارشاد کے ذریعے سے اس کی تفسیر بیان فرمائی : ﴿فَلْتَقُمْ طَائِفَةٌ مِّنْهُم مَّعَكَ ﴾ ” تو ان میں سے ایک گروہ آپ کے ساتھ نماز کے لیے کھڑا ہو“ اور دوسری جماعت دشمن کے مقابلے میں کھڑی ہوجیسا کہ آیت کا ٹکڑا ﴿ فَإِذَا سَجَدُوا ﴾” جب وہ سجدہ کرچکیں۔“ اس پر دلالت کرتا ہے، یعنی وہ لوگ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز میں شریک ہیں اپنی نماز مکمل کرلیں۔ یہاں نماز کو سجدے سے تعبیر کیا ہے تاکہ سجدے کی فضیلت ظاہر ہو، نیز یہ کہ سجدہ نماز کا رکن بلکہ سب سے بڑا رکن ہے۔ ﴿فَلْيَكُونُوا مِن وَرَائِكُمْ وَلْتَأْتِ طَائِفَةٌ أُخْرَىٰ لَمْ يُصَلُّوا ﴾” تو یہ تمہارے پیچھے آجائیں اور وہ دوسری جماعت آجائے جس نے نماز نہیں پڑھی‘‘ اور یہ وہ گروہ ہے جو دشمن کے مقابلے میں کھڑا تھا۔ ﴿فَلْيُصَلُّوا مَعَكَ ﴾ ” اب یہ گروہ آپ کے ساتھ نماز پڑھے۔“ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ پہلے گروہ کے نماز سے چلے جانے کے بعد امام نماز میں باقی رہے اور دوسرے گروہ کا انتظار کرے جب دوسرا گروہ آجائے تو ان کے ساتھ اپنی باقی نماز پڑھے پھر بیٹھ جائے اور ان کا انتظار کرے جب وہ اپنی نماز مکمل کرلیں تو ان کے ساتھ سلام پھیرے۔ یہ نماز خوف ادا کرنے کے متعدد طریقوں میں سے ایک طریقہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز خوف کے متعدد طریقے مروی ہیں۔ ان تمام طریقوں سے نماز پڑھنا جائز ہے۔ یہ آیت کریمہ اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ نماز با جماعت دو وجوہ سے فرض عین ہے۔ اول :۔ اللہ تعالیٰ نے خوف کی اس شدید حالت میں یعنی دشمن کے حملہ کے خوف کی حالت میں بھی جماعت کے ساتھ نماز کا حکم دیا ہے۔ جب اس شدید حالت میں بھی جماعت کو واجب قرار دیا ہے تو امن و اطمینان کی حالت میں اس کا واجب ہونا زیادہ اولیٰ ہے۔ ثانی : نماز خوف ادا کرنے والے نماز کی بہت سی شرئاط اور لوازم کو چھوڑ دیتے ہیں اور اس نماز میں نماز کو باطل کرنے والے بہت سے افعال کو نظر انداز کر کے ان کو معاف کردیا گیا ہے۔ یہ سب کچھ صرف جماعت کے وجوب کی تاکید کی بنا پر ہے، کیونکہ فرض اور مستحب میں کوئی تعارض نہیں۔ اگر جماعت کے ساتھ نماز کا پڑھنا فرض نہ ہوتا، تو اس کی خاطر نماز کی ان واجبات کو ترک کرنے کی کبھی اجازت نہ دی جاتی۔ آیت کریمہ یہ بھی دلالت کرتی ہے کہ افضل یہ ہے کہ ایک ہی امام کے پیچھے نماز پڑھی جائے۔ اگر ایسا کرنا کسی خلل کا باعث ہو تو متعدد دائمہ کے پیچھے نماز پڑھنا بھی جائز ہے۔ یہ سب کچھ مسلمانوں کے اجتماع و اتفاق اور ان کے عدم افتراق کی خاطر ہے، تاکہ یہ اتفاق ان کے دشمنوں کے دلوں میں رعب اور ہیبت ڈال دے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے نماز خوف کے اندر مسلح اور ہوشیار رہنے کا حکم دیا ہے۔ نماز خوف میں اگرچہ کچھ زائد حرکات ہوتی ہیں اور نماز کے بعض احوال چھوٹ جاتے ہیں تاہم اس میں ایک راجح مصلحت ہے اور وہ ہے نماز اور جہاد کا اجتماع اور ان دشمنوں سے ہوشیار رہنا جو مسلمانوں پر حملہ کرنے اور ان کے مال و متاع لوٹنے کے سخت حریص ہیں۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَدَّ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْ تَغْفُلُونَ عَنْ أَسْلِحَتِكُمْ وَأَمْتِعَتِكُمْ فَيَمِيلُونَ عَلَيْكُم مَّيْلَةً وَاحِدَةً ﴾ ” کافر چاہتے ہیں کہ کسی طرح تم اپنے ہتھیاروں اور اپنے سامان سے بے خبر ہوجاؤ تو وہ تم پر اچانک دھاوا بول دیں۔“ پھر اللہ تعالیٰ نے اس شخص کے عذر کو قبول فرمایا جو کسی مرض یا بارش کی وجہ سے اپنا اسلحہ اتار دیتا ہے مگر بایں ہمہ وہ دشمن سے چوکنا ہے۔ ﴿وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِن كَانَ بِكُمْ أَذًى مِّن مَّطَرٍ أَوْ كُنتُم مَّرْضَىٰ أَن تَضَعُوا أَسْلِحَتَكُمْ ۖ وَخُذُوا حِذْرَكُمْ ۗ إِنَّ اللَّـهَ أَعَدَّ لِلْكَافِرِينَ عَذَابًا مُّهِينًا ﴾” ہاں ! اپنے ہتھیار اتار رکھنے میں اس وقت تم پر کوئی گناہ نہیں جب کہ تمہیں تکلیف ہو بوجہ بارش کے یا تم بیمار ہو اور بچاؤ کی چیزیں ساتھ رکھو۔ یقیناً اللہ تعالیٰ نے کافروں کے لیے رسوا کن عذاب تیار کر رکھا ہے۔“ اور اس کا رسوا کن عذاب یہ ہے کہ اس نے اہل ایمان اور اپنے دین کے موحدین انصار کو حکم دیا ہے کہ وہ ان کو جہاں کہیں پائیں ان کو پکڑیں اور ان کو قتل کریں، ان کے ساتھ جنگ کریں، ان کا محاصرہ کریں، ہر جگہ ان کے لیے گھات لگائیں اور ہر حال میں ان سے چوکنا رہیں۔ ان کی طرف سے کبھی غافل نہ ہوں۔ ایسا نہ ہو کہ کفار اپنا مقصد حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں۔ اللہ تعالیٰ کی بہت زیادہ حم و و ثنا ہے کہ اس نے اہل ایمان پر احسان فرمایا اور اس نے اپنی مدد اور تعلیم کے ذریعے ان کی تائید فرمائی اگر وہ اس تعلیم پر صحیح معنوں میں عمل پیرا ہوں تو ان کا پرچم کبھی سرنگوں نہیں ہوسکتا اور کسی زمانے میں بھی دشمن ان پر غالب نہیں آسکتا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد : ﴿فَإِذَا سَجَدُوا فَلْيَكُونُوا مِن وَرَائِكُمْ ﴾” جب وہ سجدہ کرچکیں تو پرے ہوجائیں۔“ دلالت کرتا ہے کہ اس گروہ نے دشمن کے مقابلے میں جانے سے پہلے اپنی نماز مکمل کرلی تھی، اور یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سلام پھیرنے سے پہلے دوسرے گروہ کے منتظر تھے، کیونکہ پہلے ذکر فرمایا کہ وہ گروہ نماز میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھڑا ہو۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی مصاحبت کی خبر دی۔ پھر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر فعل کو ان کی طرف مضاف کیا یہ چیز ہمارے اس موقف پر دلالت کرتی ہے جس کا ہم نے ذکر کیا ہے اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد :﴿ وَلْتَأْتِ طَائِفَةٌ أُخْرَىٰ لَمْ يُصَلُّوا فَلْيُصَلُّوا مَعَكَ ﴾ ” پھر دوسری جماعت جس نے نماز نہیں پڑھی (ان کی جگہ) آئے“ اس امر پر دلیل ہے کہ پہلا گروہ نماز پڑھ چکا تھا۔ اور دوسرے گروہ کی تمام نماز امام کی معیت میں پڑھی گئی۔ ان کی پہلی رکعت حقیقی طور پر امام کے ساتھ تھی اور دوسری حکمی طور پر۔ اس سے یہ بات لازم آتی ہے کہ امام ان کا انتظار کرے یہاں تک کہ وہ اپنی نماز مکمل کرلیں پھر ان کے ساتھ سلام پھیرے۔ یہ چیز غور کرنے والے پر صاف واضح ہے۔ النسآء
103 جب تم اپنی نماز سے فارغ ہوجاؤ، یعنی نماز خوف وغیرہ سے تو اپنے تمام احوال اور تمام ہیئات میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرو۔ یہاں یہ حکم خاص طور پر نماز خوف کے بارے میں دیا گیا ہے، جس کے چند فائدے ہیں۔ (١) قلب کی صلاح و فلاح اور اس کی سعادت، اللہ تعالیٰ کی طرف اس کی انابت اور اس کے ساتھ محبت میں پنہاں ہے نیز اس بات میں ہے کہ قلب اللہ تعالیٰ کے ذکر اور اس کی حمد و ثناء سے لبریز رہے۔ سب سے بڑا ذریعہ جس سے یہ مقصد حاصل ہوتا ہے نماز ہے جو درحقیقت بندے اور اس کے رب کے درمیان رابطے کا ذریعہ ہے۔ (٢) نماز حقائق ایمان اور معارف ایقان پر مشتمل ہے جو اس امر کے موجب ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر دن اور رات کے اوقات میں نماز فرض قرار دے دے اور معلوم ہے کہ نماز خوف کے ذریعے سے یہ مقاصد حمیدہ حاصل نہیں ہوسکتے، کیونکہ قلب و بدن خوف میں مبتلا ہوتے ہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کی تلافی کے لیے نماز خوف کے بعد ذکر کا حکم دیا ہے۔ (٣) خوف قلب میں قلق کا موجب بنتا ہے جو کہ کمزوری کا باعث ہے۔ جب دل کمزور ہوجاتا ہے تو بدن بھی دشمن کے مقابلے میں کمزور پڑجاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کا ذکر اور اس کی کثرت سب سے بڑی مقویات قلب سے ہے۔ (٤) صبر و استقامت کی معیت میں اللہ تعالیٰ کا ذکر فوز و فلاح اور دشمنوں کے خلاف فتح و ظفر کا سبب بنتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا وَاذْكُرُوا اللَّـهَ كَثِيرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ﴾ (الانفال :8؍45) ” اے مومنو ! اگر تمہارا کفار کی کسی جماعت کے ساتھ مقابلہ ہوجائے تو ثابت قدم رہو اور اللہ تعالیٰ کو کثرت سے یاد کرو شاید کہ تم فلاح پاؤ۔“ پس اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس حال میں کثرت سے ذکر کرنے کا حکم دیا ہے۔ ان کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے ذکر میں اللہ تعالیٰ کی دیگر حکمتیں پوشیدہ ہیں۔ ﴿فَإِذَا اطْمَأْنَنتُمْ فَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ ﴾ ” پھر جب خوف جاتا رہا تو نماز قائم کرو۔“ یعنی جب تم خوف سے مامون ہوجاؤ، تمہارے دلوں اور تمہارے ابدان کو اطمینان میسر آجائے تو نماز کو ظاہری اور باطنی طور پر اس کے تمام ارکان و شرائط اور نہایت خشوع و خضوع کے ساتھ کامل طریقے سے ادا کرو۔ ﴿ إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًا ﴾ ” نماز مومنوں پر مقررہ وقتوں پر فرض ہے“ یعنی اپنےوقت میں فرض کی گئی ہے۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ نماز فرض ہے اور اس کو ادا کرنے کا ایک وقت مقرر کیا گیا ہے اور نماز مقررہ وقت پر پڑھے بغیر قبول نہیں ہوتی۔ نماز کے اوقات وہی ہیں جو تمام مسلمانوں کے ہاں معروف اور متحقق ہیں نماز کے اوقات کو چھوٹے بڑے، عالم اور جاہل سب جانتے ہیں انہوں نے یہ اوقات اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اخذ کئے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ﴿ صَلُّوْا کَمَا رَاَیْتُمُوْنِیْ اُصَلِّیْ ﴾ ” یسے ہی نماز پڑھو جیسے تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔“[صحيح البخاري، الأذان، باب الأذان...... الخ، حديث: 631] اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ﴿عَلَى الْمُؤْمِنِينَ﴾ ” مومنوں پر“ دلالت کرتا ہے کہ نماز ایمان کی میزان ہے اور بندہ مومن کے ایمان کی مقدار کے مطابق نماز کی تکمیل ہوتی ہے۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ کفار، جو اگرچہ اہل ذمہ کی طرح مسلمانوں کے احکام و قوانین پر عمل کرنے کے پابند ہیں، تاہم وہ فروع دین میں مخاطب نہیں مثلاً نماز وغیرہ اس لیے ان کو نماز پڑھنے کا حکم نہیں دیا جاسکتا۔ بلکہ جب تک وہ اپنے کفر پر قائم ہیں ان کی نماز صحیح نہیں البتہ ان کو نماز اور دیگر تمام احکام کو ترک کرنے پر آخرت میں سزا دی جائے گی۔ النسآء
104 یعنی اپنے دشمن کفار کو طلب کرنے ان کے خلاف جہاد اور ان کے مقابلے میں تیار رہنے میں کمزوری اور سستی کا مظاہرہ نہ کرو، کیونکہ دل کی کمزوری بدن کی کمزوری کو دعوت دیتی ہے اور یہ کمزوری دشمن کے مقابلے میں کمزوری کا باعث بنتی ہے بلکہ دشمن کے خلاف جنگ میں چست و چالاک اور طاقتور بنو، پھر اللہ تعالیٰ نے ان امور کا ذکر فرمایا ہے جو اہل ایمان کے دل کو قوت بخشتے ہیں اور وہ دو چیزیں ہیں۔ اول : جس درد و الم، مشقت، تھکاوٹ اور زخموں وغیرہ کا تمہیں سامنا کرنا پڑتا ہے انہی چیزوں کا سامنا تمہارے دشمن کو بھی کرنا پڑتا ہے، اس لیے انسانی مروت اور اسلامی شجاعت و شہامت کے شایاں نہیں کہ تم ان کے مقابلے میں زیادہ کمزوری کا مظاہرہ کرو جبکہ تمہیں اور ان کو برابر کی تکالیف کا سامنا ہے۔ عادت جاریہ یہ ہے کہ صرف وہی شخص کمزور ہوتا ہے جو نہایت تسلسل کے ساتھ رنج و آلام کا شکار رہا ہو اور دشمن دائمی طور پر اس پر غالب ہو نہ کہ وہ شخص جو کبھی غالب رہا ہو اور کبھی مغلوب۔ ثانی: اللہ تعالیٰ پر جو امید تم رکھتے ہو وہ امید کفار نہیں رکھتے۔ تم اللہ تعالیٰ کے ثواب کے حصول اور اس کے عذاب سے نجات کی امید رکھتے ہو بلکہ خواص اہل ایمان تو اللہ تعالیٰ کے دین کی نصرت، اس کی شریعت کے نفاذ، گمراہوں کی راہ نمائی اور دین کے دشمنوں کے قلع قمع جیسے بلند مقاصد کو پیش نظر رکھتے ہیں۔ پس یہ تمام امور صاحب تصدیق مومن کی قوت میں اضافے کا سبب بنتے ہیں، ان سے ان کی چستی اور بہادری کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ کیونکہ جو دنیاوی عزت و جاہ کے حصول کی خاطر جنگ کرتا ہے اور اس میں صبر و استقامت کا مظاہرہ کرتا ہے۔ وہ اس شخص کی مانند تو نہیں ہوسکتا جو دنیاوی اور آخروی سعادت، اللہ تعالیٰ کی رضا اور جنت کے حصول کی خاطر لڑتا ہے۔ پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندوں کے درمیان تفاوت رکھا ہے اور اپنے علم اور حکمت کے ذریعے سے ان کے مابین تفریق کی ہے۔ بنابریں فرمایا : ﴿وَكَانَ اللَّـهُ عَلِيمًا حَكِيمًا ﴾” اور اللہ سب کچھ جانتا، بڑی حکمت والا ہے۔“ یعنی وہ علم کامل اور حکمت کامل کا مالک ہے۔ النسآء
105 اللہ تبارک و تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ اس نے اپنے بندے اور رسول پر حق کے ساتھ کتاب نازل کی یعنی بوقت نزول اس کتاب کو شیاطین کے باطل وسوسوں سے محفوظ و مامون رکھا، بلکہ یہ کتاب عظیم حق کے ساتھ نازل ہوئی اور حق پر ہی مشتمل ہے۔ اس کی خبریں سچی اور اس کے اوامرو نواہی عدل پر مبنی ہیں۔﴿ وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَعَدْلًا﴾(الانعام :6؍115) ” اور تیرے رب کی باتیں سچائی اور انصاف میں پوری ہوئیں۔ “ اللہ تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ اس نے اس کتاب کو اس لیے نازل فرمایا تاکہ وہ لوگوں کے درمیان فیصلہ کرے۔ ایک دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ﴾  (النحل :16؍44) ” ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف قرآن نازل کیا تاکہ جو کچھ ان کی طرف نازل کیا گیا ہے آپ لوگوں پر واضح کردیں۔“ اس امر کا بھی احتمال ہے کہ یہ آیت کریمہ لوگوں کے آپس کے اختلافات اور نزاعی مسائل کے فیصلے کے بارے میں نازل ہوئی ہو اور سورۃ النحل کی آیت کریمہ تمام دین، اس کے اصول و فروع کی تبیین کے بارے میں نازل ہوئی ہو۔ نیز یہ احتمال بھی ہے کہ دونوں آیات کے معنی ایک ہی ہوں۔ تب اس صورت میں لوگوں کے درمیان یہ فیصلہ کرنا، ان کے خون، اموال، عزت و آبرو، حقوق، عقائد اور تمام مسائل و احکام کے فیصلوں کو شامل ہے۔ فرمایا : ﴿بِمَا أَرَاكَ اللَّـهُ ﴾ ” اللہ کی ہدایات کے مطابق“ یعنی آپ اپنی خواہش کے مطابق فیصلہ نہ کریں بلکہ اس الہام اور علم کے مطابق فیصلہ کریں جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا کیا ہے۔ اس کی نظیر اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے ﴿ وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ ﴾ (النجم 53؍3۔4) ” ہمارا رسول اپنی خواہش سے نہیں بولتا بلکہ یہ تو وحی ہے جو اس کی طرف بھیجی جاتی ہے۔ “ یہ آیت کریمہ اس امر کی دلیل ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان تمام احکام میں معصوم اور محفوظ ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے لوگوں کو پہنچائے، نیز اس امر کی دلیل ہے کہ فیصلہ کرنے کے لیے علم اور عدل شرط ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : ﴿بِمَا أَرَاكَ اللَّـهُ ﴾” اللہ کی ہدایات کے مطابق“ اور یہ نہیں فرمایا : (بِمَا رَأَیْتَ) ” جو آپ نے دکھا یا جو آپ کی اپنی رائے ہے“ اور لوگوں کے درمیان فیصلہ کرنے کو کتاب اللہ کی معرفت پر مترتب فرمایا ہے۔ چونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے لوگوں کے مابین ایسے فیصلے کا حکم دیا ہے جو عدل و انصاف پر مبنی ہو اس لیے ظلم و جور سے منع کیا ہے جو عدل و انصاف کی عین ضد ہے۔ پس فرمایا : ﴿وَلَا تَكُن لِّلْخَائِنِينَ خَصِيمًا ﴾” اور خیانت کرنے والوں کے حمایتی نہ بنو“ یعنی جس کی خیانت کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو علم ہے کہ اس کا دعویٰ ناحق ہے یا وہ کسی کے حق کا انکار کر رہا ہے، اس کی حمایت میں جھگڑا نہ کریں۔ خواہ وہ علم رکھتے ہوئے اس خیانت کا ارتکاب کر رہا ہو یا محض ظن و گمان کی بنا پر۔ آیت کریمہ کے اس حصے میں کسی باطل معاملے میں جھگڑنے اور دینی خصوصیات اور دنیاوی حقوق میں کسی باطل پسند کی نیابت کی تحریم کی دلیل ہے۔ اس آیت کریمہ کا مفہوم مخالف دلالت کرتا ہے کہ کسی ایسے شخص کے جھگڑے کی نیابت کرنا جائز ہے جو کسی ظلم میں معروف نہ ہو۔ النسآء
106 ﴿وَّاسْتَغْفِرِ اللَّـهَ﴾ ” اور اللہ سے مغفرت طلب کریں۔“ اگر آپ سے کوئی کوتاہی صادر ہوئی ہے تو اس کی بخشش طلب کیجیے۔ ﴿إِنَّ اللَّـهَ كَانَ غَفُورًا رَّحِيمًا ﴾” بے شک اللہ بہت بخشنے والا، نہایت مہربان ہے“ جو کوئی اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرتا ہے اور توبہ کر کے اس کی طرف رجوع کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے بڑے بڑے گناہوں کو بخش دیتا ہے اور اس کے بعد اس کو عمل صالح کی توفیق سے نوازتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے ثواب کے حصول اور اس کے عقاب کے زوال کا موجب بنتا ہے۔ النسآء
107 اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿وَلَا تُجَادِلْ عَنِ الَّذِينَ يَخْتَانُونَ أَنفُسَهُمْ ۚ﴾ ” اور آپ ان لوگوں کی طرف سے مت جھگڑیں جو اپنے نفسوں سے خیانت کرتے ہیں“ (الِاخْتِیَانُ) اور (اَلْخِیَانَۃُ) جرم، ظلم اور گناہ کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں اور اس میں اس شخص کی طرف سے جھگڑنا بھی شامل ہے جو کسی ایسے گناہ کا مرتکب ہے جس میں کوئی حد یا تعزیر لازم آتی ہو۔ اس شخص سے جو خیانت وغیرہ صادر ہوئی ہے اس کی مدافعت میں یا اس کو شرعی عقوبت سے بچانے کے لیے اس کی حمایت میں جھگڑا نہ کیا جائے۔ ﴿ إِنَّ اللَّـهَ لَا يُحِبُّ مَن كَانَ خَوَّانًا أَثِيمًا﴾ ”کیونکہ اللہ خائن اور مرتکب جرائم کو دوست نہیں رکھتا۔“ یعنی اللہ تعالیٰ ایسے شخص سے محبت نہیں کرتا جو نہایت کثرت سے خیانت اور گناہ کا مرتکب ہوتا ہے۔ جب محبت کی نفی ہوجائے تو اس کی ضد کا اثبات ہوتا ہے اور محبت کی ضد بغض ہے۔ آیت کریمہ کی ابتدا میں مذکور ممانعت کے لیے یہ چیز تعلیل کی حیثیت رکھتی ہے۔ النسآء
108 پھر ان خائن لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا : ﴿ يَسْتَخْفُونَ مِنَ النَّاسِ وَلَا يَسْتَخْفُونَ مِنَ اللَّـهِ وَهُوَ مَعَهُمْ إِذْ يُبَيِّتُونَ مَا لَا يَرْضَىٰ مِنَ الْقَوْلِ﴾ ” وہ لوگوں سے تو چھپ جاتے ہیں (لیکن) الله سے نہیں چھپ سکتے اور وہ ان کے ساتھ ہوتا ہے جب کہ راتوں کے وقت وہ ایسی باتیں کرتے ہیں جو اللہ کو پسند نہیں“ یہ ایمان کی کمزوری اور یقین کی کمی ہے کہ ان کے نزدیک مخلوق کا خوف اللہ تعالیٰ کے خوف سے بڑھ کر ہے۔ وہ مباح اور حرام ہر طریقے سے چاہتے ہیں کہ لوگوں کے سامنے ان کی فضیحت نہ ہو۔۔۔ بایں ہمہ۔۔۔ ان کی حالت یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے بڑے بڑے گناہوں کا ارتکاب کرتے ہیں اور اس بات کی ذرہ بھر پرواہ نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ انہیں دیکھ رہا ہے، حالانکہ وہ اپنے علم کے ذریعے سے ان کے تمام احوال میں ان کے ساتھ ہے خاص طور پر جب وہ رات کے وقت مجرم کی برأت اور بے گناہ پر جرم کے الزام کے بارے میں باتیں اور سازشیں کرتے ہیں، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی ان سازشوں پر عمل درآمد کروانے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہوں نے متعدد جرائم کا ارتکاب کیا مگر انہیں اللہ کا خوف نہ آیا جو زمین و آسمان کا رب ہے، جو ان کے بھیدوں اور سینوں میں چھپی ہوئی باتوں کو بھی جانتا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو وعید سناتے ہوئے فرمایا : ﴿ وَكَانَ اللّٰهُ بِمَا يَعْمَلُونَ مُحِيطًا﴾” اور اللہ ان کے تمام کاموں پر احاطہ کئے ہوئے ہے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے علم کے ذریعے سے ان کا احاطہ کر رکھا ہے۔ بایں ہمہ اللہ تعالیٰ نے ان کو سزا دینے میں جلدی نہیں کی بلکہ ان کو مہلت دی ان کو توبہ کا موقع دیا اور ان کو ان گناہوں پر اصرار کرنے پر ڈرایا جو بہت بڑی سزا کے موجب ہیں۔ النسآء
109 ﴿هَا أَنتُمْ هَـٰؤُلَاءِ جَادَلْتُمْ عَنْهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فَمَن يُجَادِلُ اللَّـهَ عَنْهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَم مَّن يَكُونُ عَلَيْهِمْ وَكِيلًا ﴾” ہاں تو یہ ہو تم لوگ کہ دنیا میں تم نے ان کی حمایت کی لیکن اللہ کے سامنے قیامت کے دن ان کی حمایت کون کرے گا اور کون ہے جو ان کا وکیل بن کر کھڑا ہوسکے گا“ یعنی فرض کیا اس دنیا کی زندگی میں تم نے ان کی طرف سے جھگڑ لیا، تمہاری اس حمایت نے مخلوق کے سامنے ان کو عار اور فضیحت سے بچا لیا۔ تب قیامت کے روز کون سی چیز انہیں بچائے گی اور وہ اسے کیا فائدہ دے گی؟ اور قیامت کے روز جب حجت ان کے خلاف ہوگی، ان کی زبانیں، ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں ان کے کرتوتوں پر گواہی دیں گے، کون ان کی حمایت میں بولے گا؟ ﴿يَوْمَئِذٍ يُوَفِّيهِمُ اللّٰهُ دِينَهُمُ الْحَقَّ وَيَعْلَمُونَ أَنَّ اللَّـهَ هُوَ الْحَقُّ الْمُبِينُ ﴾ (النور :24؍25) ” اس روز اللہ ان کو ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دے گا اور انہیں معلوم ہوجائے گا کہ اللہ ہی برحق اور حق کو ظاہر کرنے والا ہے۔“ پس ان کی حمایت میں اس ہستی سے کون جھگڑے گا جو مخفی رازوں کو جانتی ہے جو ان کے خلاف ایسے گواہوں کو کھڑا کرے گی جن کے ہوتے ہوئے کسی کو انکار کی مجال نہ ہوگی؟ اس آیت کریمہ میں اس امر کے مقابلہ کی طرف راہنمائی فرمائی ہے جو ان موہوم دنیاوی مصالح کے مابین، جو اللہ تعالیٰ کے اوامر کو ترک کرنے اور اس کی منہیات کے ارتکاب پر مترتب ہوتے ہیں اور اس اخروی ثواب کے مابین ہوتا ہے جس سے انسان محروم یا وہاں کے عذاب کا مستحق ہوتا ہے۔ پس جس شخص کو اس کے نفس نے اللہ تعالیٰ کے حکم کو ترک کرنے کا حکم دیا ہے وہ اپنے آپ سے پوچھے ” تو نے سستی اور کوتاہی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے حکم کو ترک کردیا تو اس کے عوض تو نے کون سا منافع کمایا؟ اور کتنا اخروی ثواب ہے جو تجھے حاصل ہونے سے رہ گیا؟ اور اللہ کے حکم کو ترک کرنے کے نتیجے میں کتنی بدبختی، محرومی، ناکامی اور خسارے کا سامنا کرناپڑا؟‘‘ اسی طرح جب اس کا نفس شہوات محرمہ کی طرف بلائے تو وہ اس سے مخاطب ہو کر کہے ” فرض کیا جس چیز کی تو نے خواہش کی میں نے پوری کردی، اس کی لذت تو ختم ہوجائے گی مگر یہ لذت اپنے پیچھے اتنے غم و ہموم، حسرتیں، ثواب سے محرومیاں اور عذاب چھوڑ جائے گی کہ ان کا کچھ حصہ بھی عقلمند شخص کو ان لذتوں کی طرف بڑھنے سے روکنے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ “ یہی وہ سب سے بڑی چیز ہے جس میں تدبر بندے کے لیے فائدہ مند ہے۔ یہی حقیقی عقل مندی کی خصوصیت ہے، اس شخص کے برعکس جو عقل مندی کا دعویٰ کرتا ہے مگر وہ عقلمند ہوتا نہیں۔ کیونکہ وہ اپنے ظلم و جہالت کی وجہ سے دنیا کی لذت و راحت کو ترجیح دیتا ہے خواہ اس پر کیسے ہی نتائج مرتب کیوں نہ ہوں۔۔۔ واللہ المسعان النسآء
110 پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿وَمَن يَعْمَلْ سُوءًا أَوْ يَظْلِمْ نَفْسَهُ ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ اللَّـهَ يَجِدِ اللَّـهَ غَفُورًا رَّحِيمًا﴾ ” اور جو شخص کوئی برا کام کر بیٹھے یا اپنے حق میں ظلم کرلے، پھر اللہ سے بخشش مانگے تو اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔“ یعنی جو کوئی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی جرأت کرتے ہوئے گناہ کا ارتکاب کرتا ہے پھر اللہ تعالیٰ سے ایسی مغفرت طلب کرتا ہے جو گناہ کے اقرار، اس پرپشیمانی، اس گناہ سے رک جانے اور اس گناہ کو دوبارہ نہ کرنے کے عزم کو مستلزم ہے تو ایسے ہی شخص کے ساتھ اس ہستی نے مغفرت اور رحمت کا وعدہ کیا ہے جو وعدہ خلافی نہیں کرتی۔ پس اس سے جو گناہ صادر ہوچکا ہوتا ہے وہ اس کو معاف کردیتا ہے نیز اس عیب اور نقص کو اس سے زائل کردیتا ہے جو اس گناہ پر مترتب ہوتا ہے اور اس کے سابقہ اعمال صالحہ اس کو لوٹا دیتا ہے اور مستقبل میں اسے مزید اعمال صالحہ کی توفیق عطا کرتا ہے۔ اس کے اور اپنی توفیق کے درمیان اس کے گزشتہ گناہ کو حائل نہیں ہونے دیتا۔ کیونکہ اس نے اس گناہ کو بخش دیا ہے اور جب وہ گناہ کو بخش دیتا ہے تو وہ ہر اس چیز کو بخش دیتا ہے جو اس گناہ کے نتیجے میں مرتب ہوتی ہے۔ آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ ” براعمل“ علی الاطلاق تمام گناہوں کو، خواہ وہ چھوٹے ہوں یا بڑے ہوں، شامل ہے اور (سوء) ” برائی“ اس لیے کہا گیا ہے کیونکہ برے عمل کے مرتکب کو اس پر مترتب ہونے والا عذاب برا لگتا ہے۔ نیز برا عمل فی نفسہ برا ہے، اچھا نہیں ہے۔ اسی طرح نفس کا ظلم علی الاطلاق شرک اور اس سے کم تر ظلم وغیرہ سب کو شامل ہے، مگر ان میں سے ایک کو دوسرے کے ساتھ مقرون کیا جائے تو ہر ایک کی اس کے مناسب حال تفسیر کی جائے گی۔ یہاں برے عمل کی تفسیر ” ظلم‘‘ کی جائے گی جو لوگوں کو برا لگتا ہے اور وہ ہے خون مال اور عزت و ناموس میں ان کا ایک دوسرے پر ظلم اور نفس کے ظلم کی تفسیر ” ظلم اور گناہ“ بیان کی جائے گی جس کا تعلق اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان ہے۔ نفس کے ظلم کو ظلم اس لیے کہا گیا ہے کیونکہ انسان اپنے نفس کا مالک نہیں کہ وہ جس طرح چاہے اس میں تصرف کرے۔ انسان کے نفس کا مالک تو اللہ تعالیٰ ہے، اس نے یہ نفس اپنے بندے کو امانت کے طور پر عطا کر کے اسے حکم دیا ہے کہ وہ اسے انصاف وعدل کی راہ پر گامزن کرے اور علم و عمل کے اعتبار سے اس سے صراط مستقیم کا التزام کروائے۔ جس چیز کا اسے حکم دیا گیا ہے وہ اسے سکھائے اور جو اس پر واجب ہے اس سے اس پر عمل کروائے۔ اس کے علاوہ کسی اور راستے میں اس کی سعی اور کوشش اپنے نفس پر ظلم، خیانت اس عدل کے راستے سے انحراف ہے جس کی ضد ظلم و جور ہے۔ النسآء
111 پھر فرمایا : ﴿وَمَن يَكْسِبْ إِثْمًا فَإِنَّمَا يَكْسِبُهُ عَلَىٰ نَفْسِهِ﴾” اور جو شخص گناہ کرتا ہے اس کا بوجھ اسی پر ہے“ اس میں ہر قسم کا چھوٹا بڑا گناہ شامل ہے۔ جو کوئی کسی برائی کا ارتکاب کرتا ہے تو اس کی دنیاوی اور اخروی سزا صرف اسی کے لیے ہے یہ سزا کسی اور کی طرف منتقل نہ ہوگی۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ﴾(الانعام : 6؍164) ” کوئی شخص کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔“ مگر جب برائیاں غالب آجائیں اور ان پر نکیر نہ کی جائے تو ان کا عذاب عام ہوجاتا ہے اور ان کے گناہ میں سب شامل ہوجاتے ہیں اور کوئی شخص اس آیت کے حکم سے خارج نہیں کیونکہ جو کوئی برائیوں پر نکیر نہیں کرتا جبکہ ایسا کرنا واجب ہے، تو وہ گناہ کا مرتکب ہوتا ہے۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ کے عدل و حکمت کا بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی کو کسی دوسرے کے گناہ کی سزا نہیں دیتا اور نہ کسی کو اس کے جرم سے بڑھ کر سزا دیتا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَكَانَ اللّٰهُ عَلِيمًا حَكِيمًا﴾” اور اللہ بخوبی جاننے والا، بہت حکمت والا ہے“ یعنی وہ علم کامل اور حکمت تامہ کا مالک ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا علم و حکمت ہے کہ اسے گناہ کا علم ہے اسے یہ بھی علم ہے کہ گناہ کس سے صادر ہوا۔ اس گناہ کا داعیہ کیا تھا اور اس گناہ پر کیا سزا مترتب ہوگی۔ وہ گناہ کے مرتکب کے احوال کو بھی خوب جانتا ہے کہ اگر اس سے یہ گناہ نفس امارہ کے داعیہ کے غلبہ سے صادر ہوا اور وہ اپنے اکثر اوقات میں توبہ وانابت کے ذریعے سے اپنے رب کی طرف رجوع کرتا ہے تو وہ اسے بخش دے گا اور اسے توبہ کی توفیق عطا کرے گا اور اگر اس نے اللہ تعالیٰ کی نظر کا استخفاف اور اس کے عذاب کی تحقیر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے محارم کے ارتکاب کی جرأت کی ہے تو یہ شخص اللہ تعالیٰ کی مغفرت اور توبہ کی توفیق سے بہت دور ہے۔ النسآء
112 پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَمَن يَكْسِبْ خَطِيئَةً﴾ ” جو شخص کبیرہ یا صغیرہ گناہ تو خود کرے“ ﴿ثُمَّ يَرْمِ بِهِ﴾ ’’پھر اس سے کسی (بے گناہ) کو متہم کرے۔“ یعنی اپنے گناہ کو کسی اور کے سر تھوپ دے ﴿بَرِيئًا ﴾ ” جو اس گناہ سے بری ہے۔“ خواہ اس نے کسی اور گناہ کا ارتکاب کیوں نہ کیا ہو ﴿فَقَدِ احْتَمَلَ بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُّبِينًا﴾ ” تو اس نے بہت بڑا بہتان باندھا اور کھلا گناہ کیا“ یعنی اس نے بے گناہ پر لگائے گئے بہتان کے گناہ کا بوجھ بھی اٹھا لیا اور اس ظاہری گناہ کا بوجھ بھی جس کا اس نے ارتکاب کیا۔ یہ آیت کریمہ اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ بہتان ہلاک کرنے والے کبائر میں شمار ہوتا ہے، کیونکہ اس میں متعدد مفاسد جمع ہیں : (١) گناہ کبیرہ کا ارتکاب (٢) پھر اس گناہ کا بہتان اس شخص پر لگا دینا جو بے گناہ ہے۔ (٣) پھر اپنے آپ کو بے گناہ اور بے گناہ کو گناہ گار ثابت کرنے کے لیے جھوٹ بولنا (٤) پھر اس گناہ پر جو دنیاوی عقوبت مترتب ہوتی ہے وہ عقوبت ایک بے گناہ پر نافذ کرا دینا اور خود کو سزا سے بچا لینا حالانکہ وہ حقیقی مجرم ہے۔ (٥) پھر بے گناہ شخص کے بارے میں لوگوں کی باتیں اور دیگر مفاسد۔ ان تمام مفاسد اور ہر ایک شر سے ہم اللہ تعالیٰ کی عافیت کا سوال کرتے ہیں۔ النسآء
113 پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے رسول پر اس احسان کا ذکر فرمایا کہ اس نے آپ کو ان لوگوں کے ارادوں سے محفوظ رکھا جو آپ کو گمراہ کرنا چاہتے تھے۔ ﴿وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّـهِ عَلَيْكَ وَرَحْمَتُهُ لَهَمَّت طَّائِفَةٌ مِّنْهُمْ أَن يُضِلُّوكَ﴾ ” اگر اللہ کا فضل و رحم آپ پر نہ ہوتا تو ان کی ایک جماعت نے آپ کو بہکانے کا قصد کر ہی لیا تھا“ ان آیات کریمہ کے بارے میں اصحاب تفسیر ذکر کرتے ہیں کہ ان کا سبب نزول یہ ہے کہ ایک گھرانے نے مدینہ میں چوری اکا ارتکاب کیا۔ جب چوری کی اطلاع لوگوں کو ہوئی تو انہوں نے فضیحت اور رسوائی سے ڈرتے ہوئے چوری کا سامان کسی بے گناہ شخص کے گھر پھینک دیا۔ پھر چور نے اپنے قبیلہ کے لوگوں سے مدد طلب کی کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر لوگوں کے سامنے اسے بری کروائیں۔ اس کے قبیلہ والوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی کہ ان کے آدمی نے چوری نہیں کی۔ چوری تو اس شخص نے کی ہے جس کے گھر سے مسروقہ سامان برآمد ہوا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے آدمی کو بری قرار دینے کا ارادہ فرمایا تو اللہ تعالیٰ نے حقیقت حال بیان کرنے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خیانت کا روں کی حمایت کرنے سے بچانے کے لیے یہ آیات نازل فرمائیں کیونکہ باطل پسندوں کی حمایت کرنا گمراہی ہے۔ گمراہی کی دو اقسام ہیں۔ (١) علم میں گمراہی، یہ حق سے لاعلمی اور جہالت کا نام ہے۔ (٢) عمل میں گمراہی، عمل واجب کے خلاف عمل کرنا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اس نوع کی گمراہی سے اسی طرح محفوظ رکھا جس طرح اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عمل کی گمراہی سے محفوظ و مصئون رکھا ہے، نیز اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا ہے کہ ان کا مکر و فریب انہی کی طرف لوٹے گا جیسا کہ ہر فریبی کے ساتھ ہوتا ہے۔ چنانچہ فرمایا : ﴿وَمَا يُضِلُّونَ إِلَّا أَنفُسَهُمْ﴾ ” وہ اپنے آپ کو ہی گمراہ کرتے ہیں“ کیونکہ اس فریب اور حیلہ سازی سے انہیں اپنا مقصد حاصل نہ ہوسکا اور انہیں سوائے ناکامی، محرومی، گناہ اور خسارے کے کچھ ہاتھ نہ آیا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر بہت بڑی نعمت ہے جو نعمت عمل کو متضمن ہے اور یہ اس فعل کی توفیق ہے جو اللہ تعالیٰ کو محبوب ہے اور ہر قسم کے محرمات سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی نعمت علم کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : ﴿وَأَنزَلَ اللّٰهُ عَلَيْكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ﴾ ”اور اللہ نے آپ پر کتاب و حکمت نازل فرمائی ہے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن عظیم اور ذکر حکیم نازل فرمایا جس میں ہر چیز کا بیان اور اولین و آخرین کا علم ہے۔ حکمت سے مراد یا تو سنت ہے جس کے بارے میں سلف میں سے کسی کا قول ہے کہ سنت بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کے ذریعے سے نازل ہوتی ہے جیسے قرآن نازل ہوتا ہے یا اس سے مراد اسرار شریعت کی معرفت ہے جو احکام شریعت کی معرفت سے زائد چیز ہے، نیز اس سے مراد تمام اشیاء کو ان کے اپنے اپنے مقام پر رکھنا اور ہر شے کو اس کے مطابق ترتیب دینا ہے۔ فرمایا : ﴿وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُن تَعْلَمُ﴾ ” اور آپ کو وہ (کچھ) سکھایا جو آپ نہیں جانتے تھے“ یہ ان تمام امور کو شامل ہے جن کا علم اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا فرمایا۔ ورنہ نبوت سے قبل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جو احوال تھے ان کا وصف بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿مَا كُنتَ تَدْرِي مَا الْكِتَابُ وَلَا الْإِيمَانُ ﴾ (الشوری :42؍52) ” آپ نہ جانتے تھے کہ کتاب کیا ہے اور ایمان کیا ہے؟“ اور فرمایا : ﴿وَوَجَدَكَ ضَالًّا فَهَدَىٰ﴾ (الضحی :93؍7) ” اور اس نے آپ کو رستے سے ناواقف پایا تو سیدھا راستہ دکھایا۔“ پھر اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف وحی بھیجتا رہا، آپ کو علم سکھاتا رہا اور آپ کے علم کی تکمیل کرتا رہا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم علم کے ایسے مقام پر فائز ہوگئے کہ اولین و آخرین وہاں تک پہنچنے سے قاصر ہیں۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علی الطلاق مخلوق میں سب سے زیادہ علم رکھنے والے، صفات کمال کے سب سے زیادہ جامع اور ان صفات میں سب سے زیادہ کامل تھے بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَكَانَ فَضْلُ اللَّـهِ عَلَيْكَ عَظِيمًا﴾ ”اللہ کا آپ پر بڑا بھاری فضل ہے“ اللہ تعالیٰ کا فضل مخلوق میں سب سے زیادہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم کی ہرجنس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نوازا ہے جن کی تہہ تک پہنچنانا ممکن اور ان کو شمار کرنا آسان نہیں۔ النسآء
114 یعنی بہت سی ایسی سرگوشیاں جو لوگ آپس میں کرتے ہیں اور ایک دوسرے سے مخاطب ہوتے ہیں ان میں کوئی بھلائی نہیں اور جس کلام میں کوئی بھلائی نہ ہو تو وہ یا تو بے فائدہ کلام ہوتا ہے مثلاً فضول مگر مباح بات چیت، یا وہ محض شر ہوتا ہے مثلاً محرم کلام کی تمام اقسام، پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے استثنا بیان کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ إِلَّا مَنْ أَمَرَ بِصَدَقَةٍ﴾ ” ہاں وہ شخص جو صدقہ کا حکم دے۔“ یعنی اس میں سے وہ شخص مستثنیٰ ہے جو مال، علم یا کسی اور منفعت میں صدقہ کا حکم دیتا ہے۔ بلکہ شاید بعض چھوٹی عبادات بھی اس زمرے میں شمار ہوتی ہیں، مثلاً تسبیح و تحمید وغیرہ۔ جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :” ہر تسبیح صدقہ ہے، ہر تکبیر صدقہ ہے، ہر تہلیل صدقہ ہے، نیکی کا حکم دینا صدقہ ہے، برائی سے روکنا صدقہ ہے اور تم میں سے کسی کا اپنی بیوی کے پاس جانا بھی صدقہ ہے۔“ [صحيح مسلم، الزكاة، حديث: 1006] ﴿أَوْ مَعْرُوفٍ﴾ ” یا نیک بات“ معروف سے مراد بھلائی اور نیکی ہے اور ہر وہ کام جسے شریعت نے نیکی قرار دیا اور عقل نے اس کی تحسین کی، معروف کے زمرے میں آتا ہے جب ” امر بالمعروف“ کا لفظ ” نہی عن المنکر“ کے ساتھ ملائے بغیر استعمال كيا جائے تو برائی سے روکنا اس میں شامل ہوتا ہے کیونکہ منہیات کو ترک کرنا بھی نیکی ہے، نیز بھلائی اس وقت تک تکمیل نہیں پاتی جب تک کہ برائی کو ترک نہ کردیا جائے اور جب ” امر بالمعروف“ اور ” نہی عن المنکر“ کا ایک ساتھ ذکر ہو تو، ” معروف“ سے مراد ہر وہ کام ہے جس کا شریعت میں حکم دیا گیا ہو ”منکر“ سے مراد ہر وہ کام ہے جس سے شریعت میں روکا گیا ہو۔ ﴿ أَوْ إِصْلَاحٍ بَيْنَ النَّاسِ﴾” یا لوگوں کے مابین صلح کرانے کا حکم کرے“ اور اصلاح صرف دو جھگڑنے والوں کے درمیان ہی ہوتی ہے۔ نزاع، جھگڑا، مخاصمت اور آپس میں ناراضی اس قدر شر اور تفرقہ کا باعث بنتے ہیں جس کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ پس اسی لئے شارع نے لوگوں کو ان کے قتل، مال اور عزت ناموس کے جھگڑوں میں اصلاح کی ترغیب دی ہے بلکہ تمام ادیان میں اس کی ترغیب دی گئی ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّـهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا ۚ﴾ (آل عمران :3؍103) ” سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ میں نہ پڑو۔“ فرمایا: ﴿وَإِن طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا ۖ فَإِن بَغَتْ إِحْدَاهُمَا عَلَى الْأُخْرَىٰ فَقَاتِلُوا الَّتِي تَبْغِي حَتَّىٰ تَفِيءَ إِلَىٰ أَمْرِ اللَّـهِ ۚ﴾لحجرات :49؍9) ” اگر مومنوں میں دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیان صلح کرا دو اگر ایک گروہ دوسرے گروہ پر زیادتی کرے تو زیادتی کرنے والے سے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے“ اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿وَالصُّلْحُ خَيْرٌ﴾ (النساء :4؍128) ” اور صلح اچھی چیز ہے۔ “ لوگوں کے درمیان صلح کروانے والا اس شخص سے بہتر ہے جو کثرت سے (نفلی) نماز، روزے اور صدقہ کا اہتمام کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اصلاح کرنے والے کے عمل اور کوشش کی اصلاح کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کے درمیان فساد ڈالنے والے کے عمل اور کوشش کی اصلاح نہیں کرتا اور نہ اس کا مقصد پورا کرتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿إِنَّ اللَّـهَ لَا يُصْلِحُ عَمَلَ الْمُفْسِدِينَ ﴾ (یونس :10؍81) ” اللہ فساد کرنے والوں کے کام کی اصلاح نہیں کرتا۔ “ یہ تمام افعال جہاں کہیں بھی بجالائے جائیں گے بھلائی کے زمرے میں آئیں گے، جیسا کہ یہ استثناء دلالت کرتا ہے۔ مگر پورا اور کامل اجر بندے کی نیت پر منحصر ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَمَن يَفْعَلْ ذٰلِكَ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّـهِ فَسَوْفَ نُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا﴾ ” اور جو شخص اللہ کی رضامندی حاصل کرنے کے ارادہ سے یہ کام کرے اسے ہم یقیناً بہت بڑا ثواب دیں گے“ بنا بریں بندے کے لئے مناسب یہی ہے کہ وہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی رضا کو مدنظر رکھے اور ہر وقت چھوٹے سے چھوٹا عمل بھی خالص اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے کرے تاکہ اسے اجر عظیم حاصل ہو، تاکہ اس میں اخلاص کی عادت راسخ ہو اور وہ اہل اخلاص کے زمرے میں شمار ہو اور اس کے اجر کی تکمیل ہو خواہ اس کے مقصد کی تکمیل ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو کیونکہ اس نے اس نیک مقصد کی نیت کی تھی اور امکان بھر اس پر عمل بھی کیا تھا۔ النسآء
115 یعنی جو کوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرتا ہے اور آپ کی لائی ہوئی شریعت میں آپ سے عناد رکھتا ہے ﴿مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَىٰ﴾” سیدھا راستہ معلوم ہونے کے بعد“ یعنی دلائل قرآنی اور براہین نبویہ کے ذریعے سے ہدایت کا راستہ واضح ہوجانے کے بعد ﴿وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ﴾” اور مومنوں کے راستے کے خلاف چلے“ اہل ایمان کے راستے سے مراد ان کے عقائد و اعمال ہیں ﴿ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّىٰ﴾ ” ہم اس کو پھیر دیتے ہیں اسی طرف جس طرف وہ پھرتا ہے“ یعنی ہم اسے اور اس چیز کو جو اس نے اپنے لئے اختیار کی ہے چھوڑ کر اس سے الگ ہوجاتے ہیں اور ہم اسے بھلائی کی توفیق سے محروم کردیتے ہیں۔ کیونکہ اس نے حق کو جان بوجھ کر ترک کردیا۔ پس اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی جزا عدل و انصاف پر مبنی ہے کہ وہ اسے اس کی گمراہی میں حیران و پریشان چھوڑ دیتا ہے اور وہ اپنی گمراہی میں بڑھتا ہی چلا جاتا ہے جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿فَلَمَّا زَاغُوا أَزَاغَ اللّٰهُ قُلُوبَهُمْ﴾ (الصف :61؍5) ” جب انہوں نے کج روی اختیار کی تو اللہ نے ان کے دلوں کو ٹیڑھا کردیا“ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿ وَنُقَلِّبُ أَفْئِدَتَهُمْ وَأَبْصَارَهُمْ كَمَا لَمْ يُؤْمِنُوا بِهِ أَوَّلَ مَرَّةٍ ﴾ (الانعام :6؍110) ” اور ہم ان کے دلوں اور آنکھوں کو پلٹ دیں گے جیسے وہ پہلی مرتبہ اس پر ایمان نہ لائے تھے (اب بھی ایمان نہ لائیں گے۔ “ ) اس آیت کریمہ کا مفہوم مخالف دلالت کرتا ہے کہ جو کوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت نہیں کرتا اور مومنین کے راستے کی اتباع کرتا ہے۔ اس کا مقصود صرف اللہ تعالیٰ کی رضا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع، اور مسلمانوں کی جماعت کی معیت کا التزام کرنا ہے، تب اگر اس سے کوئی گناہ صادر ہوتا ہے یا نفس کے تقاضے اور طبیعت کے غلبے کی بنا پر گناہ کا ارادہ کر بیٹھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اس کے نفس کے حوالے نہیں کرتا بلکہ اپنے لطف و کرم سے اس کا تدارک کرد یتا ہے اور اسے برائی سے بچا کر اس پر احسان کرتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے جناب یوسف علیہ السلام کے بارے میں فرمایا : ﴿ كَذٰلِكَ لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوءَ وَالْفَحْشَاءَ ۚ إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِينَ ﴾ (یوسف: 12؍24) ” تاکہ ہم اس طرح اس سے برائی اور بے حیائی کو روک دیں بلاشبہ وہ ہمارے چنے ہوئے بندوں میں سے تھا۔“ یعنی یوسف علیہ السلام کے اخلاص کے سبب سے ان سے برائی کو دور کردیا اور اللہ تعالیٰ اپنے ہر چنے ہوئے بندے کے ساتھ یونہی کرتا ہے، جیسا کہ علت کی عمومیت اس پر دلالت کرتی ہے۔ ﴿وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ ۖ﴾ ” اور ہم اسے جہنم میں داخل کریں گے۔“ یعنی ہم جہنم میں اسے بہت بڑے عذاب سے دوچار کریں گے ﴿وَسَاءَتْ مَصِيرًا ﴾” اور وہ بری جگہ ہے۔“ یعنی انجام کار یہ بہت برا ٹھکانہ ہے۔ یہ وعید، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مومنین کی مخالفت پر مرتب ہوتی ہے گناہ کے چھوٹا بڑا ہونے کے اعتبار سے اس کے بہت سے مراتب ہیں جن کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی شمار نہیں کرسکتا۔ ان میں سے بعض مراتب ایسے ہیں جو جہنم میں خلود کا باعث ہوں گے۔ باقی تمام اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور دوری کا موجب ہیں۔ بعض گناہوں کا مرتبہ کمتر ہے۔ شاید دوسری آیت اس آیت کریمہ کے اطلاق کی تفصیل کی طرح ہے۔ یعنی شرک کو اللہ تعالیٰ کبھی نہیں بخشے گا کیونکہ شرک اللہ رب العالمین اور اس کی توحید میں نقص اور مخلوق کو جو خود اپنے نفع و نقصان کی مالک نہیں، اس اللہ کے برابر قرار دینا ہے جو نفع و نقصان کا مالک ہے، ہر قسم کی نعمت صرف اسی کی طرف سے ہے، تمام تکلیفوں کو صرف وہی دور کرنے والا ہے ہر اعتبار سے کمال مطلق اور تمام وجوہ سے غنائے تام کا وہی مالک ہے۔ سب سے بڑا ظلم اور سب سے بڑی گمراہی یہ ہے کہ جس ہستی کی یہ عظمت و شان ہو، اس کی عبادت کے لئے اخلاص نہ ہو اور جو صفات کمال اور صفات غنا میں سے کسی چیز کی بھی مالک نہ ہو، بلکہ وہ عدم کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ اس کا وجود نیست ہے، کمال نیست ہے، بے نیازی نیست ہے اور ہر لحاظ سے محتاجی ہی محتاجی ہے۔ النسآء
116 وہ گناہ جو شرک سے کمتر ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی مشیت کے تابع ہیں اگر اللہ تعالیٰ چاہے گا تو اپنی رحمت اور حکمت سے ان گناہوں کو بخش دے گا اور اگر چاہے گا تو اپنے عدل و حکمت سے ان کو عذاب دے گا۔ اس آیت کریمہ سے اس بات پر استدلال کیا گیا ہے کہ اجماع امت حجت ہے نیز یہ کہ وہ خطا سے محفوظ ہے۔ اس استدلال کی بنیاد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مومنین کے راستے کی مخالفت کرنے پر جہنم اور خذ لان کی وعید سنائی ہے اور مومنین کا راستہ مفرد اور مضاف ہے جو ان عقائد و اعمال پر مشتمل ہے جن پر تمام اہل ایمان عمل پیرا ہیں۔ جب تمام اہل ایمان کسی چیز کے وجوب، استحباب، تحریم، کراہت یا جواز پر متفق ہیں تو یہی ان کا راستہ ہے اور جو کوئی اہل ایمان کے کسی چیز پر انعقاد اجماع کے بعد ان کی مخالفت کرتا ہے تو وہ اہل ایمان کے راستے کے علاوہ کسی اور راستے پر گامزن ہے۔ اجماع امت کے حجت ہونے پر یہ آیت کریمہ بھی دلالت کرتی ہے﴿إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا لَن تُغْنِيَ عَنْهُمْ أَمْوَالُهُمْ وَلَا أَوْلَادُهُم مِّنَ اللَّـهِ شَيْئًا ۖ وَأُولَـٰئِكَ هُمْ وَقُودُ النَّارِ﴾(آل عمران :3؍ 110) ” تم بہترین امت ہو جو لوگوں کی ہدایت کے لئے پیدا کی گئی ہو تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو۔“ اس آیت کریمہ میں استدلال کا پہلو یہ ہے کہ اس امت کے اہل ایمان صرف نیکی ہی کا حکم دیتے ہیں، لہٰذا جب وہ کسی چیز کے وجوب یا استحباب پر متفق ہوجاتے ہیں تو یہ گویا وہ چیز ہے جس کا انہیں حکم دیا گیا۔ پس آیت کریمہ کی نص سے متعین ہوگیا کہ وہ معاملہ معروف ہی ہوگا اور معروف کے علاوہ جو کچھ ہے وہ منکر ہے۔ اسی طرح جب وہ کسی چیز سے منع کرنے پر متفق ہوجاتے ہیں تو وہ انہی باتوں میں سے ہے جن سے انہیں روکا گیا ہے، پس وہ یقیناً منکر ہے۔ اسی کی نظیر اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے: ﴿ وَكَذٰلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ ﴾(البقرۃ:2؍143) ” اور اسی طرح ہم نے تمہیں ” امت وسط“ بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو۔“ پس اللہ تبارک و تعالیٰ نے آگاہ فرمایا ہے کہ اس نے اس امت کو معتدل اور بہترین امت بنایا ہے تاکہ وہ ہر چیز کے بارے میں لوگوں پر گواہ بنیں۔ جب وہ کسی حکم کے بارے میں یہ گواہی دیں کہ یہ حکم اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے یا اللہ تعالیٰ نے اس سے منع کیا ہے یا اس نے اس کو مباح قرار دیا ہے، تو ان کی شہادت معتبر اور معصوم ہے کیونکہ وہ جس چیز کی شہادت دے رہے تھے اس کا علم رکھتے ہیں اور اپنی شہادت میں عادل ہیں۔ اگر معاملہ اس کے برعکس ہوتا تو وہ اپنی شہادت میں عادل اور اس کا علم رکھنے والے نہ ہوتے اور اللہ تعالیٰ کا یہ قول بھی اس کی نظیر ہے۔ ﴿ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّـهِ وَالرَّسُولِ﴾ (النساء :4؍59) ’’اگر کسی بات میں تم میں اختلاف واقع ہوجائے تو معاملے کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹا دو۔ “ آیت کریمہ سے یہ مفہوم نکلتا ہے کہ جس معاملہ میں ان کے درمیان کوئی اختلاف نہیں بلکہ اتفاق ہے، اسے وہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹانے پر مامور نہیں ہیں۔ ایسا معاملہ قرآن اور سنت کے موافق ہی ہوگا، مخالف نہیں ہوسکتا۔ ان دلائل سے قطعی طور پر یہ مستفاد ہوتا ہے کہ اس امت کا اجماع حجت ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے مشرکین کی گمراہی کی برائی بیان کرتے ہوئے فرمایا : النسآء
117 یعنی یہ مشرکین اللہ تعالیٰ کے سوا جن ہستیوں کو پکارتے ہیں سب مؤنث ہیں یعنی لوگ جن بتوں کو پوجتے ہیں وہ عورتوں جیسے ناموں سے موسوم ہیں، مثلاً ” عزّٰی“ اور ” مناۃ“ وغیرہ۔ یہ بھی ہمیں معلوم ہے کہ اسم اپنے مسمی پر دلالت کرتا ہے اور جب ان بتوں کے نام مؤنث اور ناقص ہیں تو یہ چیز دلالت کرتی ہے کہ ان اسماء کے مسمیات بھی ناقص اور صفات کمال سے محروم ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں متعدد مقامات پر فرمایا ہے کہ یہ بت کوئی چیز تخلیق کرسکتے ہیں نہ رزق عطا کرسکتے ہیں نہ وہ اپنے عبادت گزاروں کی کسی تکلیف کو دور کرسکتے ہیں بلکہ وہ تو اپنی ذات تک کے نفع و نقصان کے مالک نہیں اور اگر کوئی ان کو نقصان پہنچانا چاہے تو یہ اپنی مدد کرنے پر قادر نہیں ہیں۔ ان میں سماعت ہے نہ بصارت اور نہ سوچنے سمجھنے کی قوت۔ جس کے یہ اوصاف ہوں وہ کیسے عبادت کا مستحق ہوسکتا ہے اور اس ہستی کے لئے اخلاص کو کیسے ترک کیا جاسکتا ہے جو اسمائے حسنیٰ، صفات علیا، حمد و کمال، مجد و جلال، غلبہ و جمال، رحمت و احسان، تخلیق و تدبیر میں منفرد اور امرو تقدیر میں عظیم حکمت کی مالک ہے۔ کیا یہ بدترین قباحت نہیں ہے جو ان ہستیوں کے نقص پر دلالت کرتی ہے اور اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ ان کی پرستش خساست و دناءت کے اس انتہائی نچلے درجے پر پہنچی ہوئی ہے جس کا کوئی تصور کرسکتا ہے نہ کوئی بیان کرنے والا بیان کرسکتا ہے؟ بایں ہمہ یہ لوگ جو ان ناقص بتوں کی عبادت کرتے ہیں محض ان کی شکل و صورت کی عبادت کرتے ہیں ورنہ درحقیقت وہ شیطان کی عبادت کرتے ہیں جو ان کا دشمن ہے اور وہ ان کو ہلاک کرنا چاہتا ہے اور اس مقصد کے لئے وہ بھرپور کوشش کر رہا ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ سے بہت دور ہے اللہ تعالیٰ نے اسے ملعون قرار دے کر اپنی رحمت سے بہت دور کردیا ہے۔ پس جس طرح اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی رحمت سے دور کردیا ہے اسی طرح وہ اللہ تعالیٰ کے بندوں کو اس کی رحمت سے دور کرنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿إِنَّمَا يَدْعُو حِزْبَهُ لِيَكُونُوا مِنْ أَصْحَابِ السَّعِيرِ﴾ (فاطر :35؍6) ” وہ تو اپنے پیرو کاروں کے گروہ کو محض اس لئے بلاتا ہے تاکہ وہ جہنم والے بن جائیں۔ “ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو گمراہ کرنے، شر اور فساد کو ان کے لئے مزین کرنے کی شیطانی کوششوں کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے فرمایا کہ شیطان نے قسم کھا کر اپنے رب سے کہا : النسآء
118 ﴿ لَأَتَّخِذَنَّ مِنْ عِبَادِكَ نَصِيبًا مَّفْرُوضًا﴾ ” میں ضرور لوں گا تیرے بندوں سے حصہ مقررہ“ یعنی مقدر کیا ہوا حصہ۔ شیطان لعین کو علم تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے تمام بندوں کو گمراہ نہیں کرسکتا۔ اللہ تعالیٰ کے مخلص بندوں پر اس کا کوئی زور نہیں چلتا۔ اس کا بس تو صرف اسی پر چلتا ہے جو اسے اپنا سرپرست بناتا ہے اور اس کی اطاعت کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر ترجیح دیتا ہے۔ ایک اور مقام پر وہ قسم کھا کر کہتا ہے کہ وہ ضرور ان کو گمراہ کرے گا۔ ﴿ لَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ- إِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ﴾(ص :38؍82۔83) ” میں ضرور ان سب کو بہکاتا رہوں گا سوائے ان کے جو تیرے چنے ہوئے بندے ہیں۔ “ یہ شیطان خبیث کا خیال تھا جس کو اس نے نہایت جزم کے ساتھ ظاہر کیا تھا اور اللہ تعالیٰ نے اپنے اس ارشاد میں اس کے وقوع کی خبر دی ہے۔ ﴿ وَلَقَدْ صَدَّقَ عَلَيْهِمْ إِبْلِيسُ ظَنَّهُ فَاتَّبَعُوهُ إِلَّا فَرِيقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ ﴾ (سبا :34؍20) ” اور ابلیس نے ان کے بارے میں اپنا قول سچ کر دکھایا کہ اہل ایمان کے ایک گروہ کے سوا سب نے اس کی پیروی کی۔“ یہی وہ مقررہ حصہ ہے جس کے بارے میں شیطان نے قسم کھا رکھی ہے کہ وہ ان سے ضرور حاصل کر کے رہے گا۔ اس نے بتا دیا ہے کہ وہ ان سے کیا چاہتا ہے اور ان کے بارے میں اس کے کیا مقاصد ہیں۔ النسآء
119 ﴿وَلَأُضِلَّنَّهُمْ﴾” اور میں انہیں گمراہ کرتا رہوں گا۔“ یعنی میں انہیں صراط مستقیم سے بھٹکاؤں گا اور علم و عمل میں انہیں گمراہ کر کے رہوں گا۔ ﴿وَلَأُمَنِّيَنَّهُمْ﴾” اور انہیں امیدیں دلاتا رہوں گا۔“ یعنی میں ان کو گمراہ کرنے کے ساتھ ساتھ یہ امیدیں بھی دلاتا رہوں گا کہ انہیں وہ سب کچھ حاصل ہوگا جو ہدایت یافتہ لوگوں کو حاصل ہوتا ہے اور یہ عین فریب ہے۔ پس اس نے ان کو مجرد گمراہ کرنے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ اس نے اس گمراہی کو ان کے سامنے آراستہ کیا جس میں وہ مبتلا ہوئے اور یہ ان کی برائی میں مزید اضافہ ہے کہ انہوں نے اہل جہنم کے اعمال کئے جو عذاب کے موجب ہیں اور سمجھتے رہے کہ یہ اعمال انہیں جنت میں لے جائیں گے۔ ذرا یہود و نصاریٰ وغیرہ کا حال دیکھو، ان کا وہی رویہ ہے جس کی بابت اللہ نے خبر دی، انہوں نے کہا : ﴿ لَن يَدْخُلَ الْجَنَّةَ إِلَّا مَن كَانَ هُودًا أَوْ نَصَارَىٰ ۗ تِلْكَ أَمَانِيُّهُمْ﴾(البقرہ :2؍111) ” یہودیوں اور عیسائیوں کے سوا کوئی شخص جنت میں نہیں جائے گا یہ ان کی محض باطل آرزوئیں ہیں۔“ فرمایا : ﴿كَذٰلِكَ زَيَّنَّا لِكُلِّ أُمَّةٍ عَمَلَهُمْ﴾ (الانعام :6؍108) ” اسی طرح ہم نے ہر گروہ کے عمل کو ان کے سامنے آراستہ کردیا ہے۔“ اور فرمایا :﴿ قُلْ هَلْ نُنَبِّئُكُم بِالْأَخْسَرِينَ أَعْمَالًا الَّذِينَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنْعًا ﴾ (الکھف :18؍103۔104) ” کہہ دو کہ کیا ہم تمہیں بتائیں کہ اعمال کے لحاظ سے خسارے میں کون ہیں؟ وہ لوگ جن کی کوشش دنیا کی زندگی میں برباد ہوگئی اور وہ یہ سمجھے ہوئے ہیں کہ وہ اچھے کام کر رہے ہیں۔“ اللہ تعالیٰ منافقین کے بارے میں فرماتا ہے کہ قیامت کے روزہ وہ اہل ایمان سے کہیں گے : ﴿أَلَمْ نَكُن مَّعَكُمْ ۖ قَالُوا بَلَىٰ وَلَـٰكِنَّكُمْ فَتَنتُمْ أَنفُسَكُمْ وَتَرَبَّصْتُمْ وَارْتَبْتُمْ وَغَرَّتْكُمُ الْأَمَانِيُّ حَتَّىٰ جَاءَ أَمْرُ اللَّـهِ وَغَرَّكُم بِاللَّـهِ الْغَرُورُ﴾ (الحدید :57؍14) ” کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے؟ اہل ایمان جواب دیں گے کیوں نہیں مگر تم نے اپنے تئیں فتنے میں ڈال لیا تھا اور ہمارے بارے میں حوادث زمانہ کے منتظر تھے اور تم شک میں مبتلا ہوئے۔ تمہیں آرزوؤں نے فریب میں مبتلا کئے رکھا یہاں تک کہ اللہ کا حکم آگیا اور دھوکے باز (شیطان) تمہیں اللہ کے بارے میں فریب دیتا رہا۔ “ ﴿وَلَآمُرَنَّهُمْ فَلَيُبَتِّكُنَّ آذَانَ الْأَنْعَامِ ﴾ ” اور یہ حکم دیتا رہوں گا کہ جانوروں کے کان چیرتے رہیں۔“ یعنی میں ان کے مویشیوں کے کان کاٹنے کا حکم دوں گا (تاکہ علامت بن جائے کہ یہ غیر اللہ کے نام پر چھوڑا ہوا جانور ہے) مثلاً ” بحیرہ“ ” سائبہ“” وصیلہ“ اور ” حام“ وغیرہ پس ایک کی طرف اشارہ کر کے تمام مراد لئے ہیں۔ گمراہی کی یہ قسم اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ چیزوں کو حرام ٹھہرانے اور حرام کردہ چیزوں کو حلال ٹھہرانے کی مقتضی ہے اور اسی میں فاسد اعتقادات اور ظلم و جور پر مبنی احکام بھی شامل ہیں جو بڑی گمراہیوں میں سے ہیں۔ ﴿وَلَآمُرَنَّهُمْ فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلْقَ اللّٰـهِ﴾ ” اور میں انہیں حکم دوں گا پس وہ اللہ کی بنائی ہوئی صورتیں بدلیں گے“ اس کا اطلاق ظاہری تخلیق پر ہوتا ہے یعنی گودنا، دانتوں کو باریک کرنا، چہرے سے بال اکھیڑنا اور دانتوں کے درمیان فاصلہ بنانا ان تمام چیزوں کے ذریعے سے شیطان نے لوگوں کو گمراہ کیا اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کی تخلیق کو بدل ڈالا۔ لوگوں کی یہ حرکتیں اس بات کو متضمن ہیں کہ یہ لوگ اللہ کی پیدائش پر ناراض اور اس کی حکمت پر نکتہ چین ہیں، نیز ان کا اعتقاد ہے کہ وہ کام جو وہ اپنے ہاتھوں سے سرانجام دیتے ہیں وہ اللہ کی تخلیق سے بہتر ہے، نیز یہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر اور تدبیر پر بھی راضی نہیں ہیں۔ شیطان کا یہ کام باطنی تخلیق کی تبدیلی کو بھی شامل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بندوں کو حنيف بنا کر اچھی فطرت پر پیدا کیا ہے، ان میں قبول حق اور حق کو ترجیح دینے والوں کی فطرت تخلیق سے ہٹا دیا اور شر، شرک، کفر، فسق اور معصیت کو ان کے سامنے آراستہ کردیا، اس لئے کہ پیدا ہونے والا ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے، مگر اس کے والدین اسے یہودی نصرانی یا مجوسی وغیرہ بنا دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو جس فطرت پر پیدا کیا ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی توحید، اس کی محبت اور اس کی معرفت، وہ اس فطرت کو بدل ڈالتے ہیں۔ اس مقام پر شیاطین بندوں کا اسی طرح شکار کرتے ہیں جس طرح درندے اور بھیڑیئے ریوڑ سے الگ ہونے والی بھیڑ بکریوں کو پھاڑ کھاتے ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ کا اپنے مخلص بندوں پر فضل و کرم نہ ہوتا تو ان کا بھی وہی حشر ہوتا جو ان فتنہ زدہ لوگوں کا ہوا ہے۔ پس وہ بھی دنیاو آخرت کے خسارے میں پڑجاتے اور انہیں ناکامی اور گھاٹے کا منہ دیکھناپڑتا۔ ان فتنہ زدہ لوگوں کا یہ حشر اس وجہ سے ہوا کہ انہوں نے اپنے رب اور اپنے پیدا کرنے والے سے منہ موڑ کر ایسے دشمن کو اپنا سرپرست بنا لیا جو ہر لحاظ سے ان سے برائی کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَمَن يَتَّخِذِ الشَّيْطَانَ وَلِيًّا مِّن دُونِ اللَّـهِ فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَانًا مُّبِينًا﴾” جو شخص اللہ کو چھوڑ کر شیطان کو اپنا رفیق بنائے گا وہ صریح نقصان میں ڈوبے گا۔“ جو دین و دنیا کے خسارے میں پڑجائے اور جسے اس کے گناہ اور نافرمانیاں ہلاک کر ڈالیں اس سے زیادہ واضح اور بڑا خسارہ اور کیا ہوسکتا ہے؟ وہ ہمیشہ رہنے والی نعمت سے محروم ہو کر ابدی بدبختی میں مبتلا ہوگئے۔ اس طرح جو کوئی اپنے آقا اور مولا ہی کو اپنا سرپرست بناتا ہے اور اس کی رضا کو ترجیح دیتا ہے، وہ ہر لحاظ سے فائدے میں رہتا ہے، ہر طرح سے فلاح پاتا ہے دنیا و آخرت کی سعادت حاصل کرتا ہے اور اس کی آنکھیں ٹھنڈی ہوتی ہیں۔ اے اللہ ! جو چیز تو عطا کرے اسے کوئی روک نہیں سکتا اور جس چیز سے تو محروم کر دے اسے کوئی عطا نہیں کرسکتا۔ اے اللہ ! جن لوگوں کی تو نے سرپرستی فرمائی ان لوگوں کی معیت میں ہماری بھی سرپرستی فرما اور جن لوگوں کو تو نے عافیت سے نوازا ان کے ساتھ ہمیں بھی عافیت سے نواز۔ النسآء
120 ﴿يَعِدُهُمْ وَيُمَنِّيهِمْ﴾ ” وہ ان کو وعدے دیتا ہے اور امیدیں دلاتا ہے۔“ یعنی شیطان ان لوگوں سے وعدہ کرتا ہے اور ان کو امیدیں دلاتا ہے جو لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے بھاگ دوڑ کرتے ہیں۔ یہاں وعدہ میں وعید بھی شامل ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿الشَّيْطَانُ يَعِدُكُمُ الْفَقْرَ﴾(البقرہ :2؍268) ” شیطان تمہیں محتاجی سے ڈراتا ہے“ وہ بندوں کو یہ وعید سناتا ہے کہ اگر وہ اللہ کے راستے میں خرچ کریں گے تو محتاج اور تنگ دست ہوجائیں گے۔ وہ انہیں خوف دلاتا ہے کہ انہوں نے اللہ کے راستے میں جہاد میں حصہ لیا تو وہ قتل ہوجائیں گے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿إِنَّمَا ذَٰلِكُمُ الشَّيْطَانُ يُخَوِّفُ أَوْلِيَاءَهُ ﴾(آل عمران :3؍175) ” یہ (خوف دلانے والا) تو شیطان ہے جو اپنے دوستوں سے خوف دلاتا ہے۔ “ النسآء
121 جب بندے اللہ تعالیٰ کی مرضی کو ترجیح دیتے ہیں تو وہ انہیں ہر ممکن طریقے سے جو اس کی عقل میں آسکے، ڈراتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ بھلائی کا کام کرنے میں سست پڑجاتے ہیں۔ اسی طرح شیطان انہیں جھوٹی اور باطل تمناؤں میں مبتلا کرتا ہے اور تحقیق کرنے پر پتہ چلتا ہے کہ یہ تمنائیں تو محض سراب تھیں جن کی کوئی حقیقت نہیں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿أُولَـٰئِكَ مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ ﴾” ایسے لوگوں کا ٹھکانا جہنم ہے۔“ یعنی جس نے شیطان کی اطاعت کی اور اپنے رب سے روگردانی کی وہ شیطان کے پیروکاروں اور اس کے گروہ میں شامل ہوگیا، ان کا ٹھکانا جہنم ہے۔ ﴿وَلَا يَجِدُونَ عَنْهَا مَحِيصًا﴾” اور وہاں سے بھاگنے اور گلوخلاصی کی کوئی راہ نہ پائیں گے۔“ بلکہ وہ جہنم میں ابد الآباد تک رہیں گے۔ بدبخت لوگوں یعنی اولیائے شیطان کا انجام کار بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے خوش بخت لوگوں یعنی اولیائے رحمان کے انجام کا ذکران الفاظ میں فرمایا : النسآء
122 یعنی جو لوگ اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں، روز آخرت اور اچھی بری تقدیر پر علم، تصدیق اور اقرار کے ساتھ اس طرح ایمان لائیں جس طرح ان کو حکم دیا گیا ہے۔﴿وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ﴾ ” اور نیک کام کرتے رہے۔“ یعنی وہ اعمال جو ایمان سے جنم لیتے ہیں اور یہ تمام مامورات کو شامل ہے، چاہے وہ فرض ہوں یا مستحب، ان کا تعلق اعمال قلب سے ہو، اعمال لسان سے ہو اور بقیہ اعمال جو ارح سے۔ ہر شخص کے لئے اس کے حال و مقام، اس کے ایمان اور عمل صالح کی تکمیل کے مطابق ثواب مرتب ہوتا ہے۔ ایمان و عمل میں جو کوتاہی واقع ہوتی ہے اس پر مترتب ہونے والا ثواب اس کی تلافی کردیتا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت اور رحمت کے مطابق ہوتا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کا سچا وعدہ ہے جو کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے تتبع سے معلوم کیا جاتا ہے۔ بنابریں اللہ تعالیٰ نے اس پر مترتب ثواب کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : ﴿سَنُدْخِلُهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ﴾ ” ہم انہیں ان باغوں میں داخل کریں گے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں“ جنت میں ایسی ایسی نعمتیں ہوں گی جن کو اس سے پہلے کسی آنکھ نے دیکھا ہے نہ کسی کان نے سنا ہے اور نہ کسی بشر کے دل میں ان کے تصور کا گزر ہوا ہے۔ جنت میں مختلف انواع کے ماکولات، لذیذ قسم کے مشروبات، دلکش نظارے، حسین و جمیل بیویاں، خوبصورت محل، آراستہ کئے ہوئے بالاخانے، پھل سے لدے ہوئے درخت، عجیب وغریب میوے، مسحور کن آوازیں، وافر نعمتیں، دوستوں کی مجلسیں اور جنت کے باغات میں اپنی یادوں کے تذکرے اور سب کچھ ہوگا۔ ان سب سے اعلیٰ اور جلیل ترین نعمت جو جنت میں عطا ہوگی وہ ہے اللہ تبارک و تعالیٰ کی رضا، روح کا اس کے قرب سے فیض یاب ہونا، آنکھوں سے اس کا دیدار کرنا اور کانوں سے اس کے خطاب کو سننا۔ یہ نعمت بندے کو ہر نعمت و مسرت فراموش کرا دے گی۔ اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ثبات و استقامت عطا نہ کی گئی ہو تو بندے خوشی سے اڑ جائیں اور فرحت و مسرت سے مر جائیں۔ اللہ اللہ، کتنی شیریں ہوگی یہ نعمت اور کتنے بلند مرتبہ ہوں گے وہ انعامات جو رب کریم ان کو عطا کرے گا اور وہ بھلائی اور مسرت جو انہیں حاصل ہوگی۔ کوئی شخص ان کا وصف بیان نہیں کرسکتا اور ان تمام نعمتوں کا اتمام اور ان کی تکمیل یہ ہے کہ وہ ان عالی شان منازل میں ہمیشہ رہیں گے۔ اسی لئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۖ وَعْدَ اللَّـهِ حَقًّا ۚ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّـهِ قِيلًا ﴾ ” اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے، یہ اللہ کا وعدہ سچا ہے اور کون ہے جو اپنی بات میں اللہ سے بڑھ کر سچا ہے۔“ اللہ عظیم نے سچ فرمایا ہے، اس کا قول اور اس کی بات سچائی کے بلند ترین مرتبے پر پہنچی ہوئی ہے اور چونکہ اللہ تعالیٰ کا کلام سچا ہے اور اس کی خبر سچی ہے، اس لئے اس کا کلام جس چیز پر دلالت کرتا ہے وہ بھی اس کے مطابق اور سچائی کو متضمن ہے۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کے کلام سے مراد ہے۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام سچا ہے اور سچائی پر دلالت کرتا ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صرف اللہ تعالیٰ کے حکم سے خبر دیتے ہیں اور آپ صرف اللہ تعالیٰ کی وحی کے ذریعے سے ہی کلام کرتے ہیں۔ النسآء
123 یعنی معاملہ، نجات اور تزکیہ تمہاری اور اہل کتاب کی خواہشات پر مبنی نہیں۔ (اَلْاَمَانِیُّ) سے مراد ایسی خواہشات اور تمنائیں ہیں جو عمل سے عاری اور محض دعویٰ ہوں۔ اگر ان تمناؤں کا مقابلہ ان جیسی دیگر تمناؤں سے کیا جائے تو یہ ان کی جنس میں شمار ہوں گی۔ ہر امر میں تمنا اور آرزو کا یہی معاملہ ہے۔ تب ایمان اور ابدی سعادت محض خواہشات اور آرزؤں سے کیسے حاصل ہوسکتی ہے؟ اہل کتاب کی جھوٹی خواہشات اور تمناؤں کے بارے میں اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ کرچکا ہے، وہ کہا کرتے تھے : ﴿لَنْ یَدُخُلَ الْجَنَّۃَ اِلَّا مَنْ کَاَن ھُوْدًا اَوْنَصٰرٰي تِلْکَ اَمَانِيُّھُمْ﴾ (البقرہ :2؍111) ” یہودیوں اور عیسائیوں کے سوا کوئی شخص جنت میں نہیں جائے گا یہ ان کی محض باطل آرزوئیں ہیں۔“ یہ تو تھے اہل کتاب، اور دیگر لوگ جو کسی کتاب اور کسی رسول کی طرف منسوب نہیں۔ ان کی آرزوئیں تو بدرجہ اولیٰ باطل ہیں۔ اسی طرح اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے کامل عدل و انصاف کی بنا پر ان لوگوں کو بھی اس دائرے میں شامل کیا ہے جو اپنے آپ کو اسلام سے منسوب کرتے ہیں۔ اگر انسان اپنے دعویٰ کی صحت پر دلیل و برہان فراہم نہ کرے تو کسی بھی دین کی طرف مجرد انتساب کسی کام نہیں آتا۔ اعمال دعوے کی تصدیق یا تکذیب کرتے ہیں اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : النسآء
124 ﴿مَن يَعْمَلْ سُوءًا يُجْزَ بِهِ﴾ ” جو برائی کرے گا اس کی سزا پائے گا“ اور اللہ تبارک و تعالیٰ کا یہ اصول تمام عاملین کو شامل ہے کیونکہ (سوء) ” برائی“ کا اطلاق چھوٹے یا بڑے ہر قسم کے گناہ پر ہوتا ہے اسی طرح ” جزا“ میں تھوڑی یا زیادہ، دنیاوی یا اخروی ہر قسم کی جزا شامل ہے۔ اس مقام پر لوگ بے شمار درجات میں منقسم ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ کچھ لوگ ایسے ہوں گے جن کے نیک (یا برے) اعمال بہت کم ہوں گے اور کچھ لوگ ایسے ہوں گے جن کے نیک (یا برے) اعمال بہت زیادہ ہوں گے۔ پس جن کے اعمال سارے کے سارے برائی پر مشتمل ہوں گے اور ایسے لوگ صرف کافر ہی ہوں گے جب ان میں سے کوئی توبہ کئے بغیر مر جائے تو اس کی جزا یہ ہوگی کہ وہ درد ناک عذاب میں ہمیشہ رہے گا۔ اور جس کے اعمال نیک ہوں گے اور وہ اپنے غالب احوال میں درست طرز عمل اپنانے والا ہوگا، البتہ کبھی کبھار اس سے چھوٹے موٹے گناہ صادر ہوجاتے رہے ہوں گے تو اس کو اپنے بدن، قلب، اپنے محبوب شخص یا مال و منال میں جو رنج و غم اور اذیت والم پہنچتے ہیں تو یہ تکالیف بھی اللہ تعالیٰ کے لطف و کرم سے اس کے گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہیں۔ ان دو حالتوں کے درمیان بہت سے مراتب ہیں۔ عام برے عمل کی یہ جزا صرف ان لوگوں سے مخصوص ہے جو توبہ نہیں کرتے، کیونکہ گناہ سے توبہ کرنے والا اس شخص کی مانند ہے جس کا کوئی گناہ نہ ہو۔ جیسا کہ نصوص اس پر دلالت کرتی ہیں۔ ﴿وَلَا يَجِدْ لَهُ مِن دُونِ اللَّـهِ وَلِيًّا وَلَا نَصِيرًا﴾ ” اور نہیں پائے گا وہ اللہ کے سوا کوئی حمایتی اور نہ کوئی مددگار“ یہ اس وہم کے ازالہ کے لئے ہے کہ شاید وہ شخص جو اپنے (برے) عمل پر بدلے کا مستحق ہے، یہ زعم رکھتا ہو کہ کبھی اس کا کوئی حمایتی یاد مددگار یا کوئی سفارشی اس سے عذاب کو دور کرسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان تمام چیزوں کی نفی کی ہے، اس کا کوئی حمایتی نہیں ہوگا جو اس کے لئے اس کا مطلوب حاصل کرسکے اور نہ اس کا کوئی مددگار ہوگا جو اس کا ڈر دور کرسکے سوائے اس کے رب اور مالک کے۔ ﴿وَمَن يَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحَاتِ ﴾ ” اور جو نیک اعمال کرے“ اس میں تمام اعمال قلب اور اعمال بدن شامل ہیں اور عمل کرنے والوں میں جان وانس، چھوٹا بڑا اور مرد و عورت سب داخل ہیں۔ اس لئے فرمایا : ﴿مِن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ﴾ ” مرد ہو یا عورت جب کہ وہ مومن ہو“ ایمان تمام اعمال کی قبولیت کے لئے اولین شرط ہے۔ کوئی عمل اس وقت تک نیک ہوسکتا ہے نہ قبول اور نہ اس پر ثواب مترتب اور نہ وہ کسی عذاب سے بچا سکتا ہے جب تک کہ عمل کرنے والا مومن نہ ہو۔ ایمان کے بغیر اعمال اس درخت کی شاخوں کی مانند ہیں جس کی جڑکاٹ دی گئی ہو اور اس عمارت کی مانند ہیں جسے پانی کی موج پر تعمیر کیا گیا ہو۔ ایمان درحقیقت وہ اصل، اساس اور قاعدہ ہے جس پر ہر چیز کی بنیاد ہے اس قید کو خوب اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے ہر عمل جو مطلقاً بیان کیا گیا ہو وہ ایمان کی قید سے مقید ہے۔ ﴿فَأُولَـٰئِكَ﴾ ” تو ایسے لوگ“ یعنی وہ لوگ جو ایمان اور عمل صالح کے جامع ہیں ﴿يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ﴾ ” جنت میں داخل ہوں گے۔“ ایسی جنت میں داخل ہوں گے جو ان نعمتوں پر مشتمل ہوگی جنہیں نفس چاہتے ہیں اور آنکھیں جن سے لذت حاصل کرتی ہیں ﴿وَلَا يُظْلَمُونَ نَقِيرًا ﴾ ” اور ان کی تل برابر بھی حق تلفی نہیں کی جائے گی۔“ ان کے اعمال خیر میں ذرہ بھر بھی حق تلفی نہ ہوگی۔ بلکہ وہ ان اعمال کا پورا پورا، وافر اور کئی گنا اجر پائیں گے۔ النسآء
125 یعنی اس شخص کے دین سے بہتر کسی کا دین نہیں جس نے اخلاص اور اللہ کی طرف تمام اعضاء کی توجہ کو جمع کرلیا ہے۔ یہاں اخلاص سے مراد ہے چہرے کا اللہ تعالیٰ کے سامنے جھک جانا جو قلب کے خشوع، اس کی توجہ، اس کی انابت اور اس کے اخلاص پر دلالت کرتا ہے۔ اس اخلاص اور فرمانبرداری کے ساتھ ساتھ﴿وَهُوَ مُحْسِنٌ﴾” اور وہ نیکوکار بھی ہے“ وہ اس شریعت کا متبع ہو جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کو مبعوث فرمایا، اپنی کتابیں نازل کیں اور اسے اپنے خاص بندوں اور ان کے متبعین کے لئے لائحہ عمل قرار دیا۔﴿وَاتَّبَعَ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ ﴾ ” اور ابراہیم کے دین کا پیرو ہے۔“ یعنی اس نے حضرت ابراہیم کے دین اور شریعت کی اتباع کی﴿حَنِيفًا﴾ ” یکسو ہو کر“ یعنی شرک کو چھوڑ کر توحید کو اپنایا، مخلوق سے توجہ ہٹا کر خالق کی طرف توجہ کی ﴿وَاتَّخَذَ اللّٰهُ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلًا﴾ ” اور اللہ نے ابراہیم کو خلیل بنایا“ (خُلَّةٌ) محبت کی بلند ترین نوع ہے اور محبت کا یہ اعلیٰ ترین مرتبہ اللہ تعالیٰ کے دو خلیلوں کو حاصل ہوا ہے، یعنی جناب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اور جناب ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کو اور رہی اللہ تعالیٰ کی محبت عامہ تو یہ عام اہل ایمان کے لئے ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خلیل اس لئے بنایا کیونکہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے تمام احکام کو پورا کیا اور ہر آزمائش میں پورے اترے۔ پس اللہ تعالیٰ نے انہیں تمام لوگوں کا امام ٹھہرایا اور اپنا خلیل بنا لیا اور تمام جہانوں میں ان کے ذکر کو بلند کیا۔ النسآء
126 اس آیت کریمہ میں اس حقیقت کا بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام اشیاء کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ اس نے خبر دی ہے کہ ﴿ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ﴾ ” جو کچھ آسمانوں اور جو کچھ زمین میں ہے (سب اسی کا ہے۔) “ یعنی ہر چیز اس کی ملکیت اور تمام لوگ اس کے غلام ہیں۔ پس تمام لوگ غلام اور وہ اکیلا ان کا مالک اور ان کے تمام معاملات کی تدبیر کرنے والا ہے۔ اس کے علم نے تمام معلومات، اس کی بصر نے تمام مبصرات اور اس کی سماعت نے تمام مسموعات کا احاطہ کر رکھا ہے۔ اس کی مشیت اور قدرت تمام موجودات پر نافذ اور اس کی رحمت زمین و آسمان کی تمام مخلوق پر سایہ کناں ہے۔ وہ اپنے قہر اور غلبہ کی بنا پر تمام مخلوق پر غالب ہے اور تمام موجودات اس کے سامنے سر تسلیم خم کئے ہوئے ہیں۔ النسآء
127 (اِسْتِفْتَاء) سے مراد ہے سائل کا مسئول (مفتی یا عالم) سے اپنے مسئلہ کے بارے میں شرعی حکم کا بیان طلب کرنا۔ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمن کے بارے میں خبر دی ہے کہ انہوں نے عورتوں کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے استفتاء کیا تھا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے خود اس استفتاء کا جواب دیا : ﴿قُلِ اللّٰهُ يُفْتِيكُمْ فِيهِنَّ ﴾ ” کہہ دیجیے کہ خود اللہ ان کے بارے میں تمہیں حکم دے رہا ہے۔“ پس عورتوں کے تمام معاملات میں اللہ تعالیٰ نے جو فتویٰ دیا ہے اس پر عمل کرو۔ عام طور پر اور خاص طور پر ان کے حقوق کو ادا کرو اور ان پر ظلم کرنا چھوڑ دو۔ یہ حکم عام ہے اور عورتوں کے حقوق کے بارے میں خواہ وہ بیویاں ہوں یا کوئی اور، چھوٹی ہوں یا بڑی ہوں، امرونہی کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ نے جو کچھ مشروع کیا ہے، سب کو شامل ہے۔ اس عموم کے بیان کرنے کے بعد، اللہ تعالیٰ نے کمزور بچوں اور یتیموں کے معاملے میں اہتمام اور ان کے حقوق میں کوتاہی پر زجر و توبیخ کے طور پر، خصوصی وصیت فرمائی ہے۔ چنانچہ فرمایا : ﴿وَمَا يُتْلَىٰ عَلَيْكُمْ فِي الْكِتَابِ فِي يَتَامَى النِّسَاءِ﴾ ’’یتیم عورتوں کے معاملے میں کتاب اللہ کے اندر جو کچھ تم پر تلاوت کیا جاتا ہے (اللہ تعالیٰ تمہیں اسی کا فتویٰ دیتا ہے۔) “ ﴿اللَّاتِي لَا تُؤْتُونَهُنَّ مَا كُتِبَ لَهُنَّ﴾ ” وہ جن کو تم نہیں دیتے، جو ان کے لئے مقرر کیا گیا ہے۔“ یہ اس وقت کی موجودہ حالت کے بارے میں خبر ہے۔ کیونکہ یتیم لڑکی جب کسی کی سرپرستی میں ہوتی تھی تو وہ اس کی حق تلفی کرتا اور اس پر ظلم کا ارتکاب کرتا تھا یا تو اس کا تمام مال یا اس کا کچھ حصہ کھا جاتا، یا اس کو نکاح کرنے سے روکتا تاکہ اس کے مال سے فائدہ اٹھاتا رہے اور اس خوف سے کہ اگر اس نے اس کا نکاح کردیا تو مال ہاتھ سے نکل جائے گا اور اگر وہ اس عورت میں رغبت نہ رکھتا تو جس شخص سے یہ نکاح کرتی، اس پر شرائط وغیرہ عائد کرتا، یا اگر وہ اس کے حسن و جمال کی وجہ سے، اس کے ساتھ خود نکاح کرنے کی خواہش رکھتا تو اس کے مہر کو ساقط تو نہ کرتا مگر اسے اتنا حق مہر بھی ادا نہ کرتا جتنے مہر کی وہ مستحق ہوتی۔ یہ تمام صورتیں ظلم کی تھیں، جو اس نص کے تحت آتی ہیں۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَتَرْغَبُونَ أَن تَنكِحُوهُنَّ﴾ ” تم ان سے نکاح کرنے کی رغبت رکھتے ہو۔“ یعنی تم ان کے ساتھ نکاح کرنے سے گریز کرتے ہو یا نکاح کرنے میں رغبت رکھتے ہو، جیسا کہ ہم نے اس کی مثال بیان کی ہے۔ ﴿وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الْوِلْدَانِ﴾ ” اور بے کس بچوں کے بارے میں۔“ یعنی اللہ تعالیٰ کمزور اور چھوٹے بچوں کے بارے میں تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم وراثت میں ان کا حق ادا کرو اور ظلم و استبداد سے ان کے مال پر قبضہ نہ جمالو۔ ﴿وَأَن تَقُومُوا لِلْيَتَامَىٰ بِالْقِسْطِ﴾ ” اور یہ (بھی حکم دیتا ہے) کہ یتیموں کے بارے میں پورے عدل و انصاف سے کام لو“ اس حکم میں ان کے معاملات کی دیکھ بھال، ان سے ان احکام کا التزام کروانا جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر واجب قرار دیئے ہیں سب شامل ہیں اس بارے میں یتیموں کے سرپرست مکلف ٹھہرائے گئے کہ وہ ان سے اللہ تعالیٰ کے واجبات کا التزام کروائیں اس حکم میں ان کے دنیاوی مصالح کی دیکھ بھال، ان کے مال میں اضافہ کرنا اور ان کے لئے بہتری طلب کرنا وغیرہ شامل ہیں۔ نیز یہ کہ اس کے سرپرست احسن طریقے سے ان کے مال کے قریب جائیں۔ اسی طرح ان کے نکاح وغیرہ میں ان کی حق تلفی کرتے ہوئے کسی دوست وغیرہ کی محبت کو ترجیح نہ دیں۔ یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی رحمت اور انتہائی درجے کی ترغیب ہے کہ ان لوگوں کے مصالح کی دیکھ بھال کی جائے جو اپنی کمزوری اور اپنے باپ سے محروم ہونے کی بنا پر خود اپنے مفادات کی دیکھ بھال نہیں کرسکتے۔ پھر علی العموم بھلائی کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا : ﴿وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ ﴾ ” اور تم جو بھلائی کرو گے۔‘‘ یعنی تم یتیموں یا دوسروں کے ساتھ جو بھلائی کرو گے خواہ یہ بھلائی متعدی ہو یا صرف تمہیں تک محدود ہو ﴿فَإِنَّ اللَّـهَ كَانَ بِهِ عَلِيمًا﴾” اللہ اس کو جانتا ہے۔“ یعنی نیک عمل کرنے والوں کے اعمال کو اللہ تعالیٰ کے علم نے احاطہ کر رکھا ہے۔ اعمال خواہ کم ہوں یا زیادہ، اچھے ہوں یا برے، اللہ تعالیٰ ہر ایک کو اس کے عمل کے مطابق جزا دے گا۔ النسآء
128 یعنی جب عورت اپنے شوہر کے سخت رویے اور ظلم سے ڈرے یعنی خاوند اپنے آپ کو اس سے برتر سمجھے اور اس میں عدم رغبت کی وجہ سے اعراض کرے تو اس حالت میں بہتر صورت یہ ہے کہ وہ دونوں آپس میں مصالحت کرلیں اور وہ اس طرح کہ بیوی اپنے بعض ان حقوق کو، جو شوہر پر لازم ہیں اس طرح نظر انداز کر دے کہ وہ شوہر کے ساتھ رہ سکے، یا تو وہ نان و نفقہ لباس، مکان وغیرہ میں سے قلیل ترین واجب پر راضی ہوجائے۔ یا اپنی باری میں سے اپنا حق ساقط کر دے، یا اپنی باری کے شب و روز اپنی سوکن کو ہبہ کر دے اگر میاں بیوی اس صورتحال پر راضی ہوجائیں تو اس میں دونوں کے لئے کوئی حرج نہیں، اس میں میاں بیوی دونوں پر کوئی گناہ نہیں۔ تب اس صورت حال میں اپنی بیوی کے ساتھ باقی رہنا جائز ہے اور یہ علیحدگی سے بہتر ہے بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَالصُّلْحُ خَيْرٌ﴾” اور صلح بہتر ہے۔“ اس لفظ اور معنی کے عموم سے یہ بات اخذ کی جاتی ہے کہ فریقین کے درمیان کسی حق یا تمام اشیاء میں نزاع ہو تو صلح اس سے بہتر ہے کہ وہ تمام اشیاء میں پورا پورا حق وصول کرنے کا مطالبہ کریں۔ کیونکہ اس صلح میں اصلاح، دونوں کے مابین الفت کی بقا اور سماحت (در گزر کرنے) کی صفت سے متصف ہونا ہے۔ یہ صلح تمام اشیاء میں جائز ہے سوائے اس صورت کے جس میں کسی حرام کو حلال یا کسی حلال کو حرام ٹھہرایا گیا ہو۔ تب یہ صلح نہیں بلکہ ظلم و جور ہے۔ معلوم ہونا چاہئے کہ کوئی حکم اس کے مقتضی کے وجود اور موانع کی نفی کے بغیر مکمل اور پورا نہیں ہوتا اس کی مثال یہی بڑا حکم ہے یعنی فریقین کے درمیان صلح، اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس کا تقاضا بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ بھلائی ہے اور عمل کرنے والا ہر شخص بھلائی کا طالب اور بھلائی میں رغبت رکھتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اگر اللہ تعالیٰ نے اس بھلائی کا حکم دیا ہو اور اس کی طرف رغبت دلائی ہو تو اس میں مومن کی طلب اور رغبت اور بڑھ جاتی ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے مانع کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : ﴿وَأُحْضِرَتِ الْأَنفُسُ الشُّحَّ﴾ ” طمع ہر نفس میں شامل کردی گئی ہے“ یعنی بخل انسان کی جبلت ہے یہاں (الشح) ” بخل“ سے مراد یہ ہے کہ جو کچھ انسان پر خرچ کرنا واجب ہے اسے خرچ کرنے میں راغب نہ ہو اور اپنا حق حاصل کرنے کا بڑا حریص ہو۔ تمام نفوس طبعی طور پر اسی جبلت پر پیارا کیے گئے ہیں۔ یعنی تمہارے لئے مناسب یہ ہے کہ تم اپنے نفس سے اس گھٹیا خلق کا قلع قمع کرنے اور اس کی جگہ اس کی ضد یعنی سماحت کو اختیار کرنے کی کوشش کرو۔ سماحت سے مراد یہ ہے کہ تم اس حق کو ادا کرو اور اس کی جگہ اس کی ضد یعنی سماحت کو اختیار کرنے کی کوشش کرو۔ سماحت سے مراد یہ ہے کہ تم اس حق کو ادا کرو جو تمہارے ذمہ ہے اور اپنے حق کے بارے میں اس کے کچھ حصے پر قناعت کرو۔ جب کبھی انسان کو اس خلق حسن کو اپنانے کی توفیق مل جاتی ہے تو اس کے لئے اپنے اور اپنے مخالف کے درمیان صلح آسان ہوجاتی ہے اور منزل مقصود تک پہنچنے کا راستہ سہل ہوجاتا ہے۔ اس کے برعکس جو شخص اپنی طبیعت سے بخل کو دور کرنے کی کوشش نہیں کرتا تو اس کے لئے صلح اور موافقت بہت مشکل کام ہے کیونکہ وہ اپنا پورا حق لئے بغیر راضی نہیں ہوتا اور اس پر جو حق واجب ہے اسے ادا کرنے پر تیار نہیں ہوتا۔ اگر دوسرے فریق کا رویہ بھی ایسا ہی ہو تو معاملہ اور زیادہ سخت ہوجاتا ہے۔ پھر فرمایا : ﴿وَإِن تُحْسِنُوا وَتَتَّقُوا ﴾” اور اگر تم اچھا سلوک کرو اور پرہیز گاری اختیار کرو“ یعنی اگر تم خالق کی عبادت میں احسان سے کام لو یعنی بندہ اپنے رب کی عبادت اس طرح کرے گویا کہ وہ اسے دیکھ رہا ہے آ کر ایسی کیفیت پیدا نہیں ہو سکتی تو یہ تصور پیدا کرے کہ وہ تو اسے دیکھ رہا ہے اور تم احسان کے تمام طریقوں سے یعنی مال اور جاہ وغیرہ کے ذریعے سے لوگوں سے بھلائی کرو ﴿ وَتَتَّقُوا ﴾” اور پرہیز گاری اختیار کرو۔“ یعنی تمام مامورات پر عمل کرتے ہوئے اور تمام محظورات سے اجتناب کرتے ہوئے اللہ سے ڈرو، یا اس کا مطلب یہ ہوگا کہ تم مامورات پر عمل کرنے میں احسان سے کام لو اور محظورات کو ترک کر کے اللہ سے ڈرو۔ ﴿ فَإِنَّ اللَّـهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا ﴾ ” اللہ تمہارے سب کاموں سے باخبر ہے۔“ اللہ تعالیٰ بندے کے ظاہر و باطن کا اپنے علم و خبر کے ذریعے سے احاطہ کئے ہوئے ہے پس وہ تمہارے اعمال کو محفوظ کر رہا ہے وہ تمہیں ان اعمال کی پوری پوری جزا دے گا۔ النسآء
129 اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ شوہر اپنی بیویوں کے درمیان انصاف نہیں کرسکتے اور پورا پورا عدل و انصاف کرنا ان کے بس میں بھی نہیں کیونکہ عدل اس بات کو مستلزم ہے کہ تمام بیویوں کے ساتھ یکساں محبت ہو، محبت کا داعیہ سب کے لئے برابر ہو اور دل کا میلان ان کے لئے مساوی ہو۔ پھر اس کے تقاضے کے مطابق عمل ہو۔ چونکہ یہ ناقابل عمل اور ناممکن ہے اس لئے جو چیز انسان کے بس میں نہیں اللہ تعالیٰ نے اسے معاف کردیا ہے اور اس چیز سے منع کردیا جو انسان کے بس میں ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿فَلَا تَمِيلُوا كُلَّ الْمَيْلِ فَتَذَرُوهَا كَالْمُعَلَّقَةِ ﴾ ” ایک ہی کی طرف مائل نہ ہوجانا کہ دوسروں کو ایسی حالت میں چھوڑ دو کہ گویا وہ لٹک رہی ہے۔“ یعنی تم ایک طرف بہت زیادہ نہ جھک جاؤ کہ تم ان کے وہ حقوق بھی ادا نہ کرسکو جو واجب ہیں، بلکہ اپنی استطاعت بھر عدل و انصاف سے کام لو۔ پس نان و نفقہ، لباس اور شب باشی کی تقسیم وغیرہ ایسے امور ہیں جن میں عدل کرنا تم پر فرض ہے، اس کے برعکس محبت اور مجامعت وغیرہ میں عدل و انصاف ممکن نہیں۔ پس جب شوہر بیوی کے وہ حقوق ترک کردیتا ہے جنہیں ادا کرنا واجب ہے تو بیوی اس معلق عورت کی مانند ہوجاتی ہے جس کا خاوند نہیں ہوتا کہ جس سے وہ راحت حاصل کرے اور حقوق زوجیت ادا کرنے کی تیاری کرے اور نہ وہ خاوند والی ہوتی ہے جو اس کے حقوق کی دیکھ بھال کرے۔ ﴿وَإِن تُصْلِحُوا ﴾ ” اور اگر آپس میں موافقت کرلو۔“ یعنی اگر تم اپنے اور اپنی بیویوں کے درمیان معاملات کی اصلاح کرلو، یعنی بیوی کے حقوق ادا کرتے ہوئے احتساب کے ساتھ اپنے نفس کو اس فعل پر مجبور کرو جس کو بجا لانے پر وہ آمادہ نہیں اور ان معاملات کی بھی اصلاح کرلو جو تمہارے اور لوگوں کے درمیان ہیں اور لوگوں کے تنازعات میں ان کے مابین صلح کرواؤ۔ یہ چیز اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ صلح کے لئے علی الاطلاق ہر طریقہ بروئے کار لایا جائے۔ ﴿ وَتَتَّقُوا ﴾” اور پریز گاری کرو۔“ مامورات پر عمل اور محظورات کو ترک کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور مقدور بھر صبر کرو۔ ﴿ فَإِنَّ اللَّـهَ كَانَ غَفُورًا رَّحِيمًا﴾ ” اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔“ تو اللہ تمہارے تمام گناہوں کو معاف کر دے گا جو تم سے صادر ہوتے ہیں اور ان کوتاہیوں کو نظر انداز کر دے گا اور جیسے تم اپنی بیویوں کے ساتھ شفقت و مودت کا رویہ رکھتے ہو اللہ تعالیٰ بھی تم پر رحم کرے گا۔ النسآء
130 میاں بیوی کے درمیان تیسری حالت یہ ہے کہ جب اتفاق کی کوئی صورت ممکن نہ ہو تو دونوں کے درمیان علیحدگی میں کوئی حرج نہیں۔ بنابریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَإِن يَتَفَرَّقَا﴾ ” اور اگر وہ ایک دوسرے سے جدا ہوجائیں۔“ یعنی اگر دونوں طلاق، فسخ یا خلع کے ذریعے سے ایک دوسرے سے علیحدہ ہوجائیں ﴿يُغْنِ اللّٰهُ كُلًّا مِّن سَعَتِهِ﴾ ” اللہ تعالیٰ دونوں میاں بیوی کو اپنے فضل و کرم اور لامحدود احسان کے ذریعے سے ایک دوسرے سے بے نیاز کر دے گا“ شوہر کو کسی دوسری بیوی کے ذریعے سے پہلی بیوی اور بیوی کو اپنے فضل و کرم سے مستغنی کر دے گا۔ اگر بیوی کا اپنے شوہر کے رزق میں سے حصہ ختم ہوگیا ہے تو اس کا رزق اس ہستی کے ذمے ہے جو تمام مخلوق کو رزق عطا کرتی ہے اور ان کے مصالح کی دیکھ بھال کرتی ہے۔ شاید اللہ تعالیٰ اسے اس سے بہتر شوہر عطا کر دے۔ ﴿وَكَانَ اللّٰهُ وَاسِعًا﴾ ” اور اللہ بڑی کشائش والا ہے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ بہت زیادہ فضل و کرم اور بے پایاں رحمت کا مالک ہے۔ جہاں جہاں اس کے علم نے احاطہ کیا ہوا ہے، وہاں تک اس کی رحمت سا یہ کناں ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ﴿حَكِيمًا﴾” وہ حکمت والا ہے“ اگر کسی کو عطا کرتا ہے تو حکمت کی بنیاد پر اور محروم کرتا ہے تو حکمت ہی کی بنیاد پر جب اس کی حکمت تقاضا کرتی ہے کہ کسی بندے کو کسی سبب کی بنا پر اپنے فضل و احسان سے محروم کرے جس کا وہ مستحق نہیں، تو اپنے عدل و حکمت سے اسے محروم کردیتا ہے۔ النسآء
131 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے وسیع اور عظیم اقتدار کے عموم کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے جو اس امر کو مستلزم ہے کہ وہ شرعاً اور قدراً مختلف طریقوں سے کائنات کی تدبیر کرے اور گوناگوں تصرفات کے ذریعے سے اس کا بندوبست کرے۔ اس کا تصرف شرعی یہ ہے کہ اس نے اولین و آخرین، اور کتب سابقہ اور بعد میں نازل ہونے والی کتابوں کے ماننے والوں کو تقویٰ کی وصیت کی ہے جو امرو نہی، تشریح احکام اور اس شخص کے لئے ثواب کو متضمن ہے جو اس وصیت پر عمل کرتا ہے اور اس شخص کے لئے درد ناک عذاب کی وعید کو متضمن ہے جو اس وصیت کو ضائع کرتا ہے۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَإِن تَكْفُرُوا﴾ ” اور اگر کفر کرو گے۔“ یعنی اگر تم تقویٰ ترک کردو اور کفر اختیار کرلو اور ایسی چیزوں کو اللہ کا شریک ٹھہرا لو جس پر اللہ تعالیٰ نے کوئی دلیل نازل نہیں کی تو اس طرح تم صرف اپنے آپ کو ہی نقصان پہنچاؤ گے، اللہ تعالیٰ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے اور اللہ تعالیٰ کے اقتدار میں ذرہ بھر کمی نہیں کرسکتے۔ اس کے اور بھی بندے ہیں جو تم سے بہتر اور تم سے زیادہ اطاعت گزار اور اس کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کرنے والے ہیں۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اس کے بعد فرمایا : ﴿وَ اِنْ تَكْفُرُوْا فَإِنَّ لِلَّـهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۚ وَكَانَ اللّٰهُ غَنِيًّا حَمِيدًا﴾اللہ تبارک و تعالیٰ کامل جودو کرم اور احسان کا مالک ہے جو کچھ اس کی رحمت کے خزانوں سے صادر ہوتا ہے وہ خرچ کرنے سے کم نہیں ہوتا۔ یہ خزانے اگر دن رات خرچ ہوتے رہیں تب بھی ختم نہیں ہوں گے۔ اگر زمین و آسمان کے رہنے والے اول سے لے کر آخر تک تمام لوگ اپنی اپنی آرزؤں کے مطابق اللہ تعالیٰ سے سوال کریں تو اس کی ملکیت میں ذرہ بھر کمی نہ ہوگی، کیونکہ وہ جواد ہے، ہر چیز کو وجود بخشنے والا اور بزرگی کا مالک ہے۔ وہ اپنے کلام سے عطا کرتا ہے اور اپنے کلام سے عذاب دیتا ہے۔ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو کہتا ہے ” ہوجا“ اور وہ ہوجاتی ہے۔ اس کی تمام تر بے نیازی یہ ہے کہ وہ کامل اوصاف کا مالک ہے کیونکہ اگر کسی بھی لحاظ سے اس میں کوئی نقص ہوتا تو وہ اس کمال کے لئے محتاج ہوتا، بلکہ اس کے لئے کمال کی ہر صفت ہے اور انہی میں سے ایک صفت کمال ہے اور یہ اس کی بے نیازی ہی ہے کہ اس کی کوئی بیوی اور کوئی اولاد نہیں، اقتدار میں اس کا کوئی شریک ہے نہ کوئی مددگار اور اس کے اپنے اقتدار کی تدبیر میں اس کا کسی قسم کا کوئی معاون نہیں۔ یہ اس کا کامل غنا اور اس کی بے نیازی ہے کہ عالم علوی اور عالم سفلی اپنے تمام احوال اور تمام معاملات میں اسی کے محتاج ہیں اور اپنی چھوٹی بڑی حاجتوں میں اسی سے سوال کرتے ہیں اور اللہ تبارک و تعالیٰ ان کے مطلوب اور سوال کو پورا کرتا ہے، ان کو غنی اور مال دار کردیتا ہے ان کو اپنے لطف و کرم سے نوازتا ہے اور انہیں راہ ہدایت دکھاتا ہے۔ رہا اسم گرامی (حمید) تو یہ نام اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ میں شمار ہوتا ہے اور اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ وہ ہر قسم کی حمد و ثناء محبت اور اکرام کا مستحق ہے۔ اس لئے وہ صفات حمد سے متصف ہے جو کہ جمال و جلال کی صفات ہیں اور چونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے اس لئے وہ ہر حال میں ” محمود“ ہے۔ ان دو اسمائے گرامی یعنی (اَلْغَنِيٌُ الْحَمِيْدُ) کا یکجا ہونا کتنا خوبصورت ہے۔ یقیناً وہ بے نیاز اور قابل تعریف ہے، اسے کمال بے نیازی بھی حاصل ہے اور کمال حمد بھی اور ان دونوں کے حسن امتزاج کا کمال بھی۔ یعنی وہ (غَنِيٌّ حَمِيْدٌ) ہے اور وہ قدرت کاملہ اور مشیت نافذہ کا مالک ہے۔ النسآء
132 پھر اس نے مکرر فرمایا ہے کہ زمین اور آسمانوں میں اقتدار اسی کا ہے اور ہر چیز کو کفایت کرنے والا وہی ہے، یعنی وہ علم رکھنے والا اور اپنی حکمت کے مطابق تمام اشیاء کی تدبیر کرتا ہے اور یہی کامل کفایت اور وکالت ہے کیونکہ وکالت اس بات کو مستلزم ہے کہ وہ جس چیز کا وکیل ہے اسے اس کا پورا پورا علم ہو۔ پھر اس کو نافذ کرنے اور تدبیر کرنے میں پوری قوت اور قدرت رکھتا ہو اور یہ تدبیر حکمت اور مصلحت پر مبنی ہو۔ اگر ان امور میں کوئی کمی ہوگی تو وہ وکیل میں نقص کی وجہ سے ہوگی اور اللہ تعالیٰ ہر نقص سے منزہ ہے۔ النسآء
133 ﴿إِن يَشَأْ يُذْهِبْكُمْ أَيُّهَا النَّاسُ وَيَأْتِ بِآخَرِينَ﴾ ” اگر وہ چاہے تو تم کو فنا کر دے اور (تمہاری جگہ) اور لوگوں کو پیدا کر دے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ تمہارے علاوہ اور لوگوں کو لے آئے گا وہ تم سے بہتر اور اللہ تعالیٰ کی زیادہ اطاعت کرنے والے ہوں گے۔ یہ آیت کریمہ لوگوں کے لئے ان کے اپنے کفر پر قائم رہنے اور اپنے رب سے روگردانی کرنے پر تہدید ہے۔ اگر وہ اطاعت نہیں کرتے تو اللہ تعالیٰ کو ان کی ذرہ بھر بھی پروا نہیں۔ مگر وہ ان کو مہلت اور ڈھیل دیتا ہے تاہم ان کو مہمل نہیں چھوڑے گا۔ (یعنی حساب ضرور لے گا۔) النسآء
134 پھر اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا ہے کہ جس کسی کی ہمت اور ارادہ گھٹیا ہے اور دنیا کے ثواب سے آگے نہیں بڑھتا۔ اور وہ آخرت کا کوئی ارادہ ہی نہیں رکھتا، پس اس کی نظر اور اس کی کوشش کوتاہ ہے۔ بایں ہمہ اسے دنیا کا ثواب بھی صرف اتنا ہی ملے گا جتنا اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے لکھ دیا ہے۔ اس لئے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہی ہر چیز کا مالک ہے۔ دنیا و آخرت کا ثواب اسی کے پاس ہے، پس دنیا و آخرت اسی سے طلب کی جائے اور ان کے حصول کے لئے اسی سے مدد مانگی جائے۔ کیونکہ جو کچھ اس کے پاس ہے وہ صرف اس کی اطاعت ہی سے حاصل ہوسکتا ہے اور تمام دینی اور دنیاوی امور کا حصول اسی سے مدد طلب کرنے اور ہمیشہ صرف اسی کا محتاج ہونے سے ممکن ہے وہ جس کسی کو اپنی توفیق سے نوازتا ہے یا اسے توفیق سے محروم کر کے اسے اپنے حال پر چھوڑ دیتا ہے اس میں اس کی حکمت پنہاں ہے۔ اس کا کسی کو عطا کرنا اور محروم کرنا اس کی حکمت ہی پر مبنی ہے۔ اسی لئے فرمایا : ﴿وَكَانَ اللّٰهُ سَمِيعًا بَصِيرًا﴾ ” اللہ تعالیٰ سننے والا دیکھنے والا ہے۔ “ النسآء
135 اللہ تبارک و تعالیٰ اہل ایمان کو حکم دیتا ہے کہ وہ انصاف پر قائم رہیں اور اللہ تعالیٰ کے لئے گواہی دینے والے بن جائیں۔ (اَلْقَوَّام) مبالغے کا صیغہ ہے، یعنی اپنے تمام احوال میں عدل پر قائم رہو (قِسْطٌ) سے مراد حقوق اللہ اور حقوق العباد کے بارے میں عدل و انصاف ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کے حقوق میں انصاف یہ ہے کہ اس کی نعمتوں کو اس کی نافرمانی میں استعمال نہ کیا جائے، بلکہ ان کو اس کی اطاعت و فرمانبرداری میں صرف کیا جائے اور حقوق العباد میں عدل و انصاف یہ ہے کہ بندوں کے وہ تمام حقوق ادا کئے جائیں جو تجھ پر اسی طرح واجب ہیں جس طرح تیرے حقوق ان پر واجب ہیں اور تو اپنے حقوق کا مطالبہ کرتا ہے پس تو نفقات واجبہ اور قرض وغیرہ ادا کر اور تو لوگوں سے اسی اخلاق و حسن صلہ کے ساتھ معاملہ کر، جو تو اپنے بارے میں ان سے چاہتا ہے۔ سب سے بڑا انصاف، باتوں اور بات کہنے والوں کے بارے میں ہے۔ دو باتوں میں سے کسی ایک بات کے حق میں یا کسی تنازع کے فریقین میں کسی فریق کے حق میں محض اس وجہ سے فیصلہ نہ کرے کہ اسے اس بات سے یافریق سے کوئی نسبت ہے یا اس کی طرف میلان ہے بلکہ ان دونوں کے درمیان عدم کو مقدم رکھے۔ عدل و انصاف کی ایک قسم یہ ہے کہ تو اس شہادت کو ادا کر جو تیرے ذمہ عائد ہے خواہ وہ کسی ہی کے خلاف کیوں نہ ہو خواہ یہ شہادت تیرے محبوب لوگوں کے خلاف، بلکہ خود تیری اپنی ذات کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿شُهَدَاءَ لِلَّـهِ وَلَوْ عَلَىٰ أَنفُسِكُمْ أَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ ۚ إِن يَكُنْ غَنِيًّا أَوْ فَقِيرًا فَاللّٰهُ أَوْلَىٰ بِهِمَا﴾ ” اللہ کے لئے سچی گواہی دینے والے اگرچہ وہ تمہارے اپنے خلاف ہو یا والدین کے یا رشتہ داروں کے وہ شخص اگر امیر ہو یا فقیر، پس اللہ زیادہ حق دار ہے بہ نسبت ان دونوں کے۔“ یعنی کسی دولت مند کی اس کی دولت کی وجہ سے رعایت کرو نہ کسی محتاج پر بزعم خویش ترس کھاتے ہوئے اس کی رعایت کرو، بلکہ صحیح صحیح شہادت دو، خواہ کسی ہی کے خلاف کیوں نہ ہو۔ عدل و انصاف قائم کرنا عظیم ترین امور میں شمار ہوتا ہے، نیز یہ چیز عدل قائم کرنے والے کے دین، ورع اور اسلام میں اس کے مقام پر دلالت کرتی ہے۔ پس یہ بات متعین ہے کہ جو کوئی اپنے نفس کا خیر خواہ ہے اور وہ اس کی نجات چاہتا ہے، تو وہ عدل کا پورا پورا اہتمام کرے، اس کو مدنظر رکھے اور اپنے ارادے کا مرکز بنائے رکھے اور نفس سے ہر اس داعیے کو دور کر دے جو عدل کے ارادے سے مانع اور اس پر عمل کرنے کی راہ میں رکاوٹ ہو اور انصاف کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ خواہشات نفس کی پیروی ہے۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے اس رکاوٹ کو دور کرنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : ﴿فَلَا تَتَّبِعُوا الْهَوَىٰ أَن تَعْدِلُوا﴾ ” تم خواہش نفس کے پیچھے چل کر عدل کو نہ چھوڑ دینا۔“ یعنی تم حق کی مخالفت میں اپنے نفس کی اتباع نہ کرو۔ اگر تم نے اپنے نفس کی پیروی کی تو راہ صواب سے ہٹ جاؤ گے اور تم عدل و انصاف کی توفیق سے محروم ہوجاؤ گے، کیونکہ خواہش نفس یا تو انسان کی بصیرت کو اندھا کردیتی ہے اور اسے حق باطل اور باطل حق دکھائی دیتا ہے۔ یا وہ حق کو پہچان لیتا ہے مگر اپنی خواہش نفس کی خاطر اسے چھوڑ دیتا ہے۔ پس جو شخص خواہش نفس سے محفوظ رہا اسے حق کی توفیق عطا ہوئی ہے اور وہ صراط مستقیم کی طرف راہنمائی سے نوازا جاتا ہے۔ جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے واضح کردیا کہ عدل و انصاف کو قائم کرنا واجب ہے، تو اس نے ہر اس چیز سے بھی روک دیا جو عدل کی ضد ہے۔ یعنی شہادت وغیرہ میں زبان کو حق سے ہٹا دینا اور ہر لحاظ سے یا کسی ایک پہلو سے نطق زبان کو صواب مقصود سے پھیر دینا اور اسی میں، شہادت میں تحریف کرنا، اس کی عدم تکمیل اور شاہد کا شہادت کی تاویل کرتے ہوئے اس کا رخ کسی اور طرف پھیر دینا، بھی شامل ہے۔ اس لئے کہ یہ بھی (لَيُّ) زبان کی کجی میں سے ہے، کیونکہ یہ حق سے انحراف ہے۔ ﴿أَوْ تُعْرِضُوا﴾” یا تم اعراض کرو۔“ یعنی اگر تم اس عدل و انصاف کو ترک کر دو جس کا دار و مدار تم پر ہے جیسے شاہد کا شہادت کو ترک کردینا یا حاکم کا اپنے فیصلے کو ترک کردینا جو کہ اس پر واجب تھا۔ ﴿فَإِنَّ اللَّـهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا﴾” تو (جان رکھو) اللہ تمہارے سب کاموں سے واقف ہے۔“ یعنی وہ تمہارے افعال کا احاطہ کئے ہوئے ہے اور تمہارے ظاہر و باطن تمام اعمال کا علم رکھتا ہے۔ اس آیت کریمہ میں اس شخص کے لئے سخت تہدید ہے جو زبان سے کجی اختیار کرتا یا حق سے اعراض کرتا ہے اور وہ شخص اس تہدید کا بدرجہ اولیٰ مستحق ہے جو باطل فیصلہ کرتا یا جھوٹی گواہی دیتا ہے۔ اس لئے کہ اس کا جرم سب سے بڑا ہے، کیونکہ پہلے دو اشخاص نے حق کو ترک کیا اور اس نے باطل کو قائم کیا۔ النسآء
136 معلوم ہونا چاہئے کہ امر یعنی حکم کا رخ یا تو اس شخص کی طرف ہوتا ہے جو اس شے میں داخل نہیں اور اس سے کچھ بھی متصف نہیں، تب اس کے لئے یہ حکم اس چیز میں داخل ہونے کا ہے۔ مثلاً اس شخص کے لئے ایمان لانے کا حکم جو مومن نہیں۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ آمِنُوا بِمَا نَزَّلْنَا مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَكُم﴾ (النساء :4؍47) ” اے وہ لوگو جن کو کتاب عطا کی گئی ہے اس کتاب پر ایمان لاؤ جو ہم نے نازل کی ہے اور اس کتاب کی تصدیق کرتی ہے جو تمہارے ساتھ ہے۔“ یا اس حکم کا رخ اس شخص کی طرف ہوتا ہے جو اس چیز میں داخل ہوچکا ہے، تب یہ حکم اس لئے ہوتا ہے تاکہ اس چیز کی تصحیح کرلے جسے وہ پا چکا ہے اور اسے حاصل کرنے کی کوشش کرے جو اس نے ابھی تک نہیں پائی، اور اس کی مثال یہی آیت کریمہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو ایمان لانے کا حکم دیا ہے، کیونکہ یہ ان سے اس چیز کے حکم کا تقاضا کرتی ہے جو ان کے ایمان یعنی صدق و اخلاص کی تصحیح کرتی ہے اور مفسدات سے اجتناب اور نقص میں ڈالنے والی ہر چیز سے توبہ کا تقاضا کرتی ہے، نیز یہ اس چیز کے حکم کا بھی تقاضا کرتی ہے جو ابھی مومن میں موجود نہیں یعنی علوم ایمان و عمل وغیرہ، کیونکہ جب کبھی اس کے پاس کوئی نص پہنچے گی، تو وہ اس کا معنی سمجھے گا اور اسے اپنے اعتقاد کا حصہ بنائے گا اور اسی چیز کا اسے حکم دیا گیا ہے اور تمام ظاہری اور باطنی اعمال کا یہی معاملہ ہے تمام اعمال ایمان ہی کے دائرے میں آتے ہیں جیسا کہ بہت سی نصوص اس پر دلالت کرتی ہیں اور امت کا اس پر اجماع ہے۔ پھر اس پر استمرار اور موت تک اس پر ثابت قدمی ہو۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ﴾ (آل عمران :3؍102) ” اے وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو ! اللہ تعالیٰ سے ڈرو جیسے ڈرنے کا حق ہے اور مرنا تو مسلمان ہی مرنا۔ “ یہاں ہمیں اللہ تعالیٰ پر، اس کے رسولوں پر، قرآن کریم پر اور سابقہ کتب پر ایمان لانے کا حکم دیا گیا ہے۔ یہ تمام تر، ایمان واجب میں سے ہیں جس کے بغیر کوئی بندہ مومن نہیں ہوسکتا۔ جس چیز کے بارے میں تفصیل نہیں پہنچی اس پر اجمالاً ایمان لانا فرض ہے اور جہاں تفصیل معلوم ہے وہاں تفصیلاً ایمان لانا فرض ہے۔ جو کوئی اس مامور طریقے پر ایمان لاتا ہے وہی ہدایت پا کر فوزیاب ہوتا ہے۔۔ ﴿وَمَن يَكْفُرْ بِاللَّـهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا بَعِيدًا﴾ ” جو شخص اللہ تعالیٰ سے اور اس کے فرشتوں سے اور اس کی کتابوں سے اور اس کے رسولوں سے اور قیامت کے دن سے کفر کرے، تو وہ بہت دور کی گمراہی میں جا پڑ‘‘ یعنی ان لوگوں سے بھی کوئی بڑھ کر گمراہ ہوسکتا ہے جو ہدایت کی راہ راست کو چھوڑ دیتے ہیں اور اس راستے پر چل نکلتے ہیں جو درد ناک عذاب میں لے جاتا ہے؟ یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ ان تمام امور میں سے کسی ایک کے ساتھ کفر گویا ان تمام امور کے ساتھ کفر ہے، کیونکہ یہ تمام امور ایک دوسرے کے ساتھ لازم و ملزوم ہیں اور ان میں سے بعض کو چھوڑ کر بعض پر ایمان لانا بھی ایمان کے وجود کے لئے مانع ہے۔ النسآء
137 یعنی جو کوئی ایمان لانے کے بعد بتکرار کفر کرتا رہا، ہدایت کا راستہ اختیار کیا، پھر گمراہ ہو یا پھر ایمان لایا، پھر اندھا ہوگیا، پھر ایمان لے آیا پھر کفر کیا اور اپنے کفر پر قائم رہا بلکہ اپنے کفر میں بڑھتا رہا، تو وہ توفیق اور راہ راست سے بہت دور اور اللہ تعالیٰ کی مغفرت سے بہت بعید ہے کیونکہ وہ ایسی چیز کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں حاضر ہوا جو مغفرت کے لئے سب سے بڑا مانع ہے۔ اس لئے کہ اس کا کفر اس کے لئے سزا اور اس کی طبیعت بن جاتا ہے جو کبھی زائل نہیں ہوتی جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿فَلَمَّا زَاغُوا أَزَاغَ اللّٰهُ قُلُوبَهُمْ﴾ (الصف :61؍5) ” جب وہ کج رو ہوگئے تو اللہ نے ان کے دلوں کو ٹیڑھا کردیا۔“ اور فرمایا : ﴿وَنُقَلِّبُ أَفْئِدَتَهُمْ وَأَبْصَارَهُمْ كَمَا لَمْ يُؤْمِنُوا بِهِ أَوَّلَ مَرَّةٍ﴾(الانعام :6؍110) ” ہم ان کے دلوں اور آنکھوں کو پلٹ دیں گے اور جس طرح وہ اس پر پہلی مرتبہ ایمان نہ لائے تھے (ویسے پھر ایمان نہ لائیں گے۔) “ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ اگر وہ اپنے کفر میں بڑھتے نہ چلے جائیں بلکہ وہ ایمان کی طرف لوٹ آئیں اور کفر کے رویے کو ترک کردیں تو اللہ تبارک و تعالیٰ ان کو معاف کر دے گا خواہ بار بار ان سے ارتداد کا ارتکاب ہوا ہو اور جب کفر کے مقابلے میں یہ حکم ہے تو دیگر گناہ جو کفر سے کم تر ہیں وہ بدرجہ اولیٰ اس بات کے مستحق ہیں کہ اگر بندے سے ان گناہوں کا تکرار ہو اور وہ توبہ کرلے تو اللہ تعالیٰ اس کے یہ گناہ بخش دے۔ النسآء
138 ” بشارت“ کا لفظ خیر کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور شر کے معنوں میں اس وقت استعمال ہوتا ہے جب کسی قید سے مقید ہوجیسا کہ اس آیت کریمہ میں ہے۔ ﴿بَشِّرِ الْمُنَافِقِينَ﴾ ” منافقوں کو بشارت سنا دو۔“ یعنی وہ لوگ جو اسلام ظاہر کرتے ہیں اور اپنے دلوں میں کفر کو چھپائے ہوئے ہیں انہیں بدترین بشارت سنا دیجیے اور وہ درد ناک عذاب کی بشارت۔ اس کا سبب یہ ہے کہ وہ کفار سے محبت کرتے ہیں، ان سے موالات رکھتے ہیں اور ان کی مدد کرتے ہیں اور اہل ایمان سے ترک موالات کرتے ہیں۔ کس چیز نے انہیں اس رویے پر آمادہ کیا؟ کیا یہ ان کے پاس عزت کے متلاشی ہیں؟ یہ منافقین کے احوالے تھے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں بدگمانی کا شکار تھے۔ ان کا یقین اس بارے میں بہت کمزور تھا کہ اللہ تعالیٰ اہل ایمان کی مدد فرمائے گا وہ بعض ان اسباب کو دیکھ رہے تھے جو کفار کو میسر تھے اور اس سے آگے دیکھنے سے ان کی نظر قاصر تھی۔ پس انہوں نے کفار کو اپنا دوست اور ولی و مددگار بنا لیا جن سے یہ مدد طلب کرتے ہیں اور جن کے پاس یہ عزت ڈھونڈتے ہیں۔ حالانکہ تمام تر عزت کا مالک اللہ تبارک و تعالیٰ ہے۔ بندوں کی پیشانیاں اسی کے قبضہ قدرت میں ہیں اور ان میں اسی کی مشیت نافذ ہے۔ وہ اپنے دین اور اپنے مومن بندوں کی مدد کا ضامن ہے۔ اگرچہ وہ کبھی کبھی اہل ایمان کا امتحان لینے کے لئے یہ مدد چھوڑ دیتا ہے اور دشمن کو ان پر غلبہ دے دیتا ہے۔ مگر دشمن کی فتح اور کامیابی دائمی اور مستقل نہیں ہوتی۔ انجام کار، فتح اور کامیابی اہل ایمان ہی کی ہوتی ہے۔ اس آیت کریمہ میں کفار کے ساتھ موالات رکھنے اور اہل ایمان کے ساتھ موالات ترک کرنے پر زبردست ترہیب ہے، نیز بتایا گیا ہے کہ یہ منافقین کی صفات ہیں۔ ایمان تو اہل ایمان کے ساتھ محبت، موالات اور کفار کے ساتھ عداوت رکھنے کا تقاضا کرتا ہے۔ النسآء
139 النسآء
140 اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی نازل کردہ کتاب میں کفر اور معاصی کی مجالس میں موجود رہنے کی صورت میں اپنا شرعی حکم واضح کردیا ہے۔ ﴿أَنْ إِذَا سَمِعْتُمْ آيَاتِ اللَّـهِ يُكْفَرُ بِهَا وَيُسْتَهْزَأُ بِهَا﴾ ” کہ جب تم (کہیں) سنو کہ اللہ کی آیتوں سے انکار ہو رہا ہے اور ان کی ہنسی اڑائی جا رہی ہے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ کی آیات کی اہانت کی جا رہی ہو۔ اللہ تعالیٰ کی آیات کے بارے میں ہر مکلف شخص پر فرض ہے کہ وہ ان پر ایمان لائے اور ان کی تعظیم و تکریم کرے۔ ان کو نازل کرنے کا یہی مقصد ہے اور اسی کی خاطر اللہ تبارک و تعالیٰ نے تمام کائنات تخلیق کی ہے۔ پس ان پر ایمان لانے کی ضد ان کے ساتھ کفر کرنا اور ان کی تعظیم و تکریم کی ضد ان کے ساتھ استہزء اور ان کی تحقیر کرنا ہے، نیز اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ کی آیات کے ابطال کے لئے کفار و منافقین کا مجادلہ اور ان کی اپنے کفر کی تائید کرنا بھی شامل ہے۔ اسی طرح ہر قسم کے بدعتی بھی داخل ہیں کیونکہ ان کا اپنے باطل نظریات کے لئے استدلال کرنا اللہ تعالیٰ کی آیات کی اہانت کو متضمن ہے، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کی آیات حق کے سوا کسی چیز پر دلالت نہیں کرتیں اور صدق کے سوا کسی چیز کو مستلزم نہیں۔ اسی طرح اس حکم میں ان مجالس کی حاضری بھی شامل ہے جن میں فسق و فجور اور معصیت کے کام ہوتے ہیں، جن میں اللہ تعالیٰ کے اوامر و نواہی کی اہانت ہوتی ہے اور اس کی حدود توڑی جاتی ہیں جو اس نے اپنے بندوں کے لئے مقرر کی ہیں۔ ان کے ساتھ بیٹھنے کی ممانعت کا منتہی ذکر کرتے ہوئے فرمایا : ﴿حَتَّىٰ يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ﴾” حتی کہ وہ اور باتیں کرنے لگیں۔“ یعنی اللہ تعالیٰ کی آیات کے ساتھ کفر اور استہزاء کے سوا کوئی اور بات کرنے لگیں۔ ﴿إِنَّكُمْ إِذًا﴾ ” ورنہ تم بھی (ان ہی جیسے) ہوجاؤ گے۔“ یعنی اگر تم آیت کریمہ میں مذکور حالت میں ان کے ساتھ بیٹھو گے ﴿مِّثْلُهُمْ﴾ ” تو ان جیسے شمار ہو گے“ کیونکہ تم ان کے کفر و استہزاء پر راضی تھے۔ کسی معصیت کے فعل پر راضی ہونا اس فعل کے ارتکاب کی مانند ہے۔ اس بحث کا حاصل یہ ہے کہ جو کوئی کسی ایسی مجلس میں موجود ہو جس میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی جا رہی ہو تو قدرت رکھتے ہوئے اس نافرمانی پر نکیر کرنا اور اس سے روکنا واجب ہے۔ اگر روکنے کی قدرت نہ ہو تو اس مجلس سے اٹھ کر چلا جانا ضروری ہے۔ ﴿إِنَّ اللَّـهَ جَامِعُ الْمُنَافِقِينَ وَالْكَافِرِينَ فِي جَهَنَّمَ جَمِيعًا﴾” یقیناً اللہ تمام کافروں اور سب منافقوں کو جہنم میں جمع کرنے والا ہے“ جیسے وہ اس دنیا میں کفر و موالات پر مجتمع ہیں۔ منافقین کو، ان کا ظاہری طور پر اہل ایمان کے ساتھ ہونا، کوئی فائدہ نہیں دے گا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : ﴿يَوْمَ يَقُولُ الْمُنَافِقُونَ وَالْمُنَافِقَاتُ لِلَّذِينَ آمَنُوا انظُرُونَا نَقْتَبِسْ مِن نُّورِكُمْ قِيلَ ارْجِعُوا وَرَاءَكُمْ فَالْتَمِسُوا نُورًا فَضُرِبَ بَيْنَهُم بِسُورٍ لَّهُ بَابٌ بَاطِنُهُ فِيهِ الرَّحْمَةُ وَظَاهِرُهُ مِن قِبَلِهِ الْعَذَابُ يُنَادُونَهُمْ أَلَمْ نَكُن مَّعَكُمْ ۖ قَالُوا بَلَىٰ وَلَـٰكِنَّكُمْ فَتَنتُمْ أَنفُسَكُمْ وَتَرَبَّصْتُمْ وَارْتَبْتُمْ وَغَرَّتْكُمُ الْأَمَانِيُّ حَتَّىٰ جَاءَ أَمْرُ اللَّـهِ وَغَرَّكُم بِاللَّـهِ الْغَرُورُ فَالْيَوْمَ لَا يُؤْخَذُ مِنكُمْ فِدْيَةٌ وَلَا مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا ۚ مَأْوَاكُمُ النَّارُ ۖ هِيَ مَوْلَاكُمْ ۖ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ﴾(الحدید:57؍13۔15) ”اس روز منافق مرد اور منافق عورتیں اہل ایمان سے کہیں گے، ٹھہرو ! ہم بھی تمہارے نور سے روشنی حاصل کرلیں ! ان سے کہا جائے گا کہ پیچھے لوٹ جاؤ اور وہاں روشنی تلاش کرو پھر ان کے درمیان ایک دیوار کھڑی کردی جائے گی جس میں ایک دروازہ ہوگا جس کے اندرونی جانب رحمت ہوگی اور بیرونی جانب عذاب، منافق پکار پکار کر اہل ایمان سے کہیں گے کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے؟ مومن جواب دیں گے ہاں تم ہمارے ساتھ تو تھے مگر تم نے اپنے آپ کو فتنے میں ڈالا اور تم حوادث زمانہ کے منتظر رہے، تم نے اسلام کے بارے میں شک کیا، جھوٹی آرزؤں نے تمہیں دھوکے میں مبتلا کئے رکھا یہاں تک کہ اللہ کا حکم آگیا اور تمہیں شیطان دھوکے باز دھوکہ دیتا رہا۔ آج تم سے کوئی فدیہ قبول نہیں کیا جائے گا اور نہ ان لوگوں سے جنہوں نے کفر کیا۔ تمہارا ٹھکانا جہنم ہے اور وہی تمہارا دوست ہے اور وہ بہت ہی برا ٹھکانہ ہے۔ “ النسآء
141 پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے ذکر فرمایا کہ منافقین کی کفار کے ساتھ موالات اور اہل ایمان کے ساتھ عداوت متحقق ہے۔ ﴿الَّذِينَ يَتَرَبَّصُونَ بِكُمْ﴾ ” جو تم کو دیکھتے رہتے ہیں۔“ یعنی مستقبل میں تمہارے اچھے یا برے حالات کے منتظر ہیں۔ انہوں نے اپنے نفاق کے مطابق ہر حالت کے بارے میں جواب تیار کر رکھا ہے۔ ﴿فَإِن كَانَ لَكُمْ فَتْحٌ مِّنَ اللَّـهِ قَالُوا أَلَمْ نَكُن مَّعَكُمْ﴾ ” پھر اگر اللہ تمہیں فتح دے تو یہ کہتے ہیں کیا ہم تمہارے ساتھ نہیں تھے؟“ وہ ظاہر کریں گے کہ وہ ظاہری اور باطنی طور پر اہل ایمان کے ساتھ تھے تاکہ طعن و تشنیع سے بچ سکیں، نیز فے اور مال غنیمت میں سے حصہ وصول کرسکیں اور ان کے ساتھ مل کر وہ محفوظ رہیں۔ ﴿وَإِن كَانَ لِلْكَافِرِينَ نَصِيبٌ﴾” اور اگر کافروں کو کچھ حصہ مل جائے“ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ اگر کافروں کی فتح ہو کیونکہ ان کو ایسی فتح حاصل نہیں ہوتی جو ان کی دائمی نصرت کی ابتداء ہو۔ اگر ان کے لئے کوئی حصہ ہوتا ہے تو اس کی انتہا یہ ہے کہ وہ عارضی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے، چنانچہ جب یہ صورتحال ہوتی ہے ﴿قَالُوا أَلَمْ نَسْتَحْوِذْ عَلَيْكُمْ﴾ ” تو کہتے ہیں کہ کیا ہم تم پر غالب نہ تھے“ ﴿وَنَمْنَعْكُم مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ﴾ ” تم کو مسلمان کے ہاتھوں سے بچایا نہیں؟“ یعنی وہ کفار کے پاس بناوٹ اور تصنع سے کام لے کر ان سے کہتے تھے کہ قدرت اور طاقت کے باوجود انہوں نے ان سے لڑائی نہیں کی اور ان کو مسلمانوں سے بچائے رکھا اور وہ ہر لحاظ سے جنگ کے لئے گھر سے نکلنے سے رکے رہے، لڑائی سے گریز کرتے رہے اور مسلمانوں کے دشمنوں کی مدد کرتے رہے اور ان کے بارے میں یہ تمام امور معروف ہیں۔ ﴿فَاللّٰهُ يَحْكُمُ بَيْنَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ﴾ ” پس اللہ تعالیٰ قیامت کے روز ان کے درمیان فیصلہ کرے گا“ اور اہل ایمان کو، ظاہری اور باطنی طور پر، بدلے میں جنت عطا کرے گا اور منافق مردوں اور منافق عورتوں، مشرک مردوں اور مشرک عورتوں کو جہنم کے عذاب میں مبتلا کرے گا۔ ﴿وَلَن يَجْعَلَ اللّٰهُ لِلْكَافِرِينَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ سَبِيلًا﴾ ” اور اللہ کافروں کو مومنوں پر ہرگز غلبہ نہیں دے گا۔“ یعنی اللہ کفار کو اہل ایمان پر کبھی تسلط اور غلبہ عطا نہیں کرے گا، بلکہ اہل ایمان کی ایک جماعت ہمیشہ حق پر قائم رہے گی۔ اللہ اس جماعت کی مدد کرے گا، جو ان سے علیحدہ ہوگا اور ان کی مخالفت کرے گا وہ ان کا کوئی نقصان نہیں کرسکے گا۔ اہل ایمان کی فتح و نصرت کے اسباب پیدا ہوتے چلے جائیں گے اور کفار کا تسلط ختم ہوتا چلا جائے گا اور اس کا واضح طور پر مشاہدہ ہوچکا ہے۔ حتیٰ کہ بعض مسلمان، جن پر کفار حکومت کرتے ہیں وہ ان کے ہاں قابل احترام ہیں وہ ان کے دین سے کوئی تعرض نہیں کرتے وہ ان کے ہاں کمزور اور ماتحت بن کر نہیں رہتے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو پوری عزت عطا کی گئی ہے۔ اول و آخر اور ظاہر و باطن میں ہر قسم کی تعریف اللہ کے لئے ہے۔ النسآء
142 اللہ تبارک و تعالیٰ منافقین کی قبیح صفات اور مکروہ علامات کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے نیز یہ کہ ان کا طریق اللہ کو فریب دینا ہے یعنی بظاہر وہ مومن ہیں مگر باطن میں کافر ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کو دھوکہ دے دیں گے اور اللہ تعالیٰ کو ان کے کرتوتوں کا علم نہیں اور وہ ان کا دھوکا اپنے بندوں پر ظاہر نہیں کرے گا حالانکہ اللہ تعالیٰ خود ان کو دھوکے میں مبتلا کر رہا ہے۔ ان کا مجرد یہ حال ہونا اور اس راستے پر گامزن رہنا ان کا اپنے آپ کو دھوکے میں مبتلا کرنا ہے بھلا اس سے بڑا دھوکہ اور کیا ہوسکتا ہے کہ کوئی شخص پوری دوڑ دھوپ کرے مگر اس کا ماحصل رسوائی، ذلت اور محرومی کے سوا کچھ نہ ہو۔ یہ چیز اس شخص کی کم عقلی پر دلالت کرتی ہے کہ وہ معصیت کا ارتکاب کرتا ہے اور اسے نیکی خیال کرتا ہے اور اسے بڑی عقل مندی اور چال بازی سمجھتا ہے۔ اللہ ہی جانتا ہے کہ جہالت اور خذلان اسے کس انجام پر پہنچائیں گے۔ قیامت کے روز ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا دھوکہ یہ ہوگا۔ جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے یوں فرمایا ہے : ﴿یَوْمَ یَقُوْلُ الْمُنٰفِقُوْنَ وَالْمُنٰفِقٰتُ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوا انْظُرُوْنَا نَقْتَبِسْ مِنْ نُّوْرِکُمْ۝٠ۚ قِیْلَ ارْجِعُوْا وَرَاۗءَکُمْ فَالْتَمِسُوْا نُوْرًا۝٠ۭ فَضُرِبَ بَیْنَہُمْ بِسُوْرٍ لَّہٗ بَابٌ۝٠ۭ بَاطِنُہٗ فِیْہِ الرَّحْمَۃُ وَظَاہِرُہٗ مِنْ قِبَلِہِ الْعَذَابُ۝١٣ۭ یُنَادُوْنَہُمْ اَلَمْ نَکُنْ مَّعَکُمْ﴾ (سورہ حدید آیت57؍ 13-14) ” اس روز منافق مرد اور منافق عورتیں اہل ایمان سے کہیں گے ٹھہرو ! ہم بھی تمہارے نور سے روشنی حاصل کرلیں ! ان سے کہا جائے گا پیچھے لوٹ جاؤ اور وہاں روشنی تلاش کرو، پھر ان کے درمیان ایک دیوار کھڑی کردی جائے گی جس میں ایک دروازہ ہوگا جس کے اندروین جانب رحمت ہوگی اور بیروین جانب عذاب، منافق پکارپکار کر اہل ایمان سے کہیں گے کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے؟“ ان منافقین کی صفات یہ ہیں۔ ﴿وَإِذَا قَامُوا إِلَى الصَّلَاةِ﴾” جب وہ نماز کے لئے کھڑے ہوتے ہیں۔“ نماز جو کہ سب سے بڑی عملی نیکی ہے۔ اگر وہ نماز کے لئے کھڑے ہو ہی جاتے ہیں﴿قَامُوا كُسَالَىٰ﴾ ” تو سست ہو کر۔“ یعنی بوجھل پن کے ساتھ تنگ دل اور زچ ہو کر اٹھتے ہیں۔ ” کاہلی“ کا اطلاق ان پر تب ہوتا ہے جب ان کے دلوں میں رغبت کا فقدان ہو، اگر ان کے دل اللہ تعالیٰ اور اس کے ثواب کی طرف رغبت سے خالی نہ ہوتے اور ان میں ایمان معدوم نہ ہوتا تو ان سے سستی اور کسل مندی کبھی صادر نہ ہوتی۔ ﴿يُرَاءُونَ النَّاسَ﴾ ” لوگوں کے دکھانے کو۔“ یعنی یہ ان کی فطرت ہے اور یہی ان کے اعمال کا مصدر ہے۔ ان کے اعمال لوگوں کے دکھاوے کے لئے ہیں ان کا مقصد محض ریا کاری اور لوگوں سے تعظیم اور احترام حاصل کرنا ہے۔ اپنے اعمال کو اللہ کے لئے خالص نہیں کرتے۔ لہٰذا فرمایا : ﴿وَلَا يَذْكُرُونَ اللَّـهَ إِلَّا قَلِيلًا﴾ ” اور اللہ کا ذکر نہیں کرتے مگر بہت کم۔“ کیونکہ ان کے دل ریا سے لبریز ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ذکر اور اس کا التزام صرف مومن ہی کرسکتا ہے، کیونکہ اس کا دل اللہ تعالیٰ کی محبت اور عظمت سے لبریز ہے۔ النسآء
143 ﴿مُّذَبْذَبِينَ بَيْنَ ذٰلِكَ لَا إِلَىٰ هَـٰؤُلَاءِ وَلَا إِلَىٰ هَـٰؤُلَاءِ﴾” بیچ میں پڑے لٹک رہے ہیں۔ نہ ان کی طرف (ہوتے ہیں) نہ ان کی طرف۔“ یعنی وہ اہل ایمان اور کفار کے گروہوں کے درمیان متذبذب اور متردد ہیں۔ ظاہری اور باطنی طور پر اہل ایمان کے ساتھ ہیں نہ کفار کے ساتھ۔ انہوں نے اپنا باطن کفار کو عطا کر رکھا ہے اور ظاہر مسلمانوں کے ساتھ ہے اور یہ سب سے بڑی گمراہی ہے، اس لئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَمَن يُضْلِلِ اللّٰهُ فَلَن تَجِدَ لَهُ سَبِيلًا﴾اور جس کو اللہ بھٹکائے تو آپ اس کے لئے کبھی بھی راستہ نہیں پائیں گے۔“ یعنی آپ اس کی ہدایت کا کوئی راستہ اور اس کو گمراہی سے بچانے کے لئے کوئی وسیلہ نہیں پائیں گے کیونکہ اس پر رحمت کا دروازہ بند ہوچکا ہے اور اس کی رحمت کی بجائے اللہ تعالیٰ کا غضب و انتقام اس کا نصیب بن چکا ہے۔ یہ تمام مذموم اوصاف اشارتاً دلالت کرتے ہیں کہ اہل ایمان ان کی متضاد صفات سے متصف ہیں اور وہ ہیں ظاہر و باطن میں صدق اور اخلاص۔ انہیں اپنی نمازوں، عبادات اور کثرت ذکر الٰہی میں جو نشاط حاصل ہوتا ہے وہ سب معلوم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں ہدایت عطا کی اور صراط مستقیم پر گامزن کیا۔ پس ایک عقل مند شخص کو چاہئے کہ وہ ان ودامور پر غور کرے اور جو اس کے لئے بہتر ہے اسے اختیار کرلے۔ واللہ المستعان۔ النسآء
144 چونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے منافقین کی یہ صفت بیان کی ہے کہ وہ اہل ایمان کو چھوڑ کر کفار کو دوست بناتے ہیں، اس لئے اس نے اپنے مومن بندوں کو اس قبیح حالت سے متصف ہونے سے روکا ہے نیز انہیں منافقین کی مشابہت اختیار کرنے سے منع کیا ہے۔ کیونکہ تمہارا یہ عمل اللہ تعالیٰ کو حجت فراہم کرے گا۔ فرمایا : ﴿أَن تَجْعَلُوا لِلَّـهِ عَلَيْكُمْ سُلْطَانًا مُّبِينًا﴾ ’’یہ کہ تم اپنے اوپر اللہ کا صریح الزام لو۔“ یعنی تمہیں عذاب دینے کے لئے یہ واضح دلیل ہوگی۔ کیونکہ ہم تمہیں اس رویئے سے ڈرا چکے ہیں اور تمہیں اس سے بچنے کی تلقین کرچکے ہیں اور اس میں جو مفاسد پنہاں ہیں ان سے آگاہ کرچکے ہیں۔ اس کے بعد بھی اسی راہ پر چلنا عذاب کا موجب ہوگا۔ یہ آیت کریمہ اللہ تعالیٰ کے کامل عدل پر دلالت کرتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے اس قانون پر دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ حجت قائم کرنے سے پہلے کسی کو سزا نہیں دے گا اور اس میں گناہوں سے بچنے کی تلقین ہے کیونکہ گناہوں کا ارتکاب کرنے والا اپنے خلاف اللہ تعالیٰ کو واضح دلیل فراہم کرتا ہے۔ النسآء
145 اللہ تبارک و تعالیٰ منافقین کے انجام کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے بیان فرماتا ہے کہ وہ جہنم کے سب سے نچلے درجے میں بد ترین عذاب میں مبتلا ہوں گے۔ وہ تمام کفار کے نیچے ہوں گے، کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ سے کفر کرنے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عداوت میں کفار کے ساتھ شریک تھے مزید برآں وہ مکرو فریب اور اہل ایمان کے ساتھ مختلف اقسام کی عداوت رکھتے تھے اور یہ عداوت اس طرح رکھتے تھے کہ وہ محسوس نہیں ہوتی تھی بنا بریں ان پر اسلام کے احکام جاری ہوتے تھے اور اس بنیاد پر وہ اپنا استحقاق ظاہر کرتے تھے حالانکہ وہ اس کے مستحق نہ تھے۔ پس اس قسم کے مکرو فریب اور ہتھکنڈوں کی بنا پر سخت عذاب کے مستحق ہیں۔ کوئی ہستی ان کو اس عذاب سے بچا سکے گی نہ کوئی مددگار اس عاب کو ان سے دور کرسکے گا۔ یہ عذاب ہر منافق کے لئے عام ہے سوائے ان کے جن کو اللہ تعالیٰ گناہوں سے توبہ کی توفیق سے نواز دے النسآء
146 ﴿وَأَصْلَحُوا﴾ ’’اور وہ (اپنے ظاہر و باطن کی) اصلاح کرلیں۔“ ﴿وَاعْتَصَمُوا بِاللَّـهِ﴾ اور اللہ (کی رسی) کو مضبوط پکڑ لیں۔“ اپنے منافع کے حصول اور ضرر کے دفعیہ کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرلیں﴿وَأَخْلَصُوا دِينَهُمْ)﴾’’اور اپنے دین کو خالص کرلیں“ یہاں دین سے مراد اسلام، ایمان اور احسن ہے ﴿لِلَّـهِ﴾ ” اللہ کے لئے“ یعنی ظاہری اور باطنی اعمال میں ان کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا ہو، نیز ریا اور نفاق سے بچے ہوئے ہوں۔ جو لوگ ان صفات سے متصف ہوں گے ﴿فَأُولَـٰئِكَ مَعَ الْمُؤْمِنِينَ﴾وہی دنیا، برزخ اور آخرت میں اہل ایمان کے ساتھ ہوں گے ﴿وَسَوْفَ يُؤْتِ اللّٰهُ الْمُؤْمِنِينَ أَجْرًا عَظِيمًا﴾ ”اور اللہ عنقریب مومنوں کو بڑا ثواب دے گا۔“ اللہ تعالیٰ عنقریب اہل ایمان کو ایسے اجر سے نوازے گا جس کی حقیقت و ماہیت کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں پہنچ سکتا۔ جسے کسی آنکھ نے دیکھا ہے نہ کسی کان نے سنا ہے اور نہ کسی کے دل میں اس کے تصور کا گزر ہوا ہے۔ غور کیجئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے ” اعتصام باللہ“ اور ” اخلاص“ کا خاص طور پر ذکر کیا ہے حالانکہ یہ دونوں اللہ تعالیٰ کے ارشاد (وَأَصْلَحُوا) میں داخل ہیں کیونکہ ” اعتصام باللہ“ اور ” اخلاص“ اصلاح کے زمرے میں آتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اصلاح میں ان دو امور کی سخت ضرورت ہے۔ خاص طور پر یہ مقام حرج جہاں دلوں میں نفاق جڑ پکڑ لیتا ہے۔۔۔ اور نفاق کو صرف اعتصام باللہ اللہ کے پاس پناہ لینے، اور اس کو دور کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنی حاجت پیش کر کے ہی زائل کیا جاسکتا ہے۔ اخلاص ہر لحاظ سے پوری طرح نفاق کے منافی ہے۔ اخلاص اور اعتصام کی فضیلت کی بنا پر ان کا تذکرہ کیا ہے، تمام ظاہری اور باطنی اعمال کا دار و مدار انہی دو امور پر ہے کیونکہ اس مقام پر ان دونوں امور کی سخت حاجت ہوتی ہے۔ اس امر پر بھی غور کیجیے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کے ساتھ ان کا ذکر کیا تو ان کے کرتوتوں کی وجہ سے اس نے یہ نہیں فرمایا: (وَسَوْفَ يُؤْتِيهِمْا أَجْرًا عَظِيمًا) بلکہ فرمایا : ﴿وَسَوْفَ يُؤْتِ اللّٰهُ الْمُؤْمِنِينَ أَجْرًا عَظِيمًا﴾ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ قاعدہ شریف ہے جس کا وہ ہمیشہ اعادہ کرتا رہا ہے کہ جب کلام کا سیاق بعض جزئیات کے بارے میں ہو اور اللہ تعالیٰ ان جزئیات پر ثواب یا عقاب مرتب کرنا چاہتا ہو اور جس جنس میں یہ جزئیات داخل ہیں ثواب یا عقاب ان میں مشترک ہو تو وہ عام حکم کے مقابلہ میں، جس کے تحت یہ قضیہ مندرج ہے ثواب مرتب کرتا ہے تاکہ اس جزوی امر کے ساتھ حکم کا اختصاص متوہم نہ ہو یہ قرآن کریم کے اسرار و بدائع ہیں۔ پس منافقین میں سے اپنے نفاق سے توبہ کرنے والا شخص اہل ایمان کے ساتھ ہوگا اور اسے بھی اہل ایمان والا ثواب ملے گا۔ النسآء
147 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے کمال غنا، وسعت حلم و رحمت اور احسان کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے : ﴿ مَّا يَفْعَلُ اللّٰهُ بِعَذَابِكُمْ إِن شَكَرْتُمْ وَآمَنتُمْ ۚ وَكَانَ اللّٰهُ شَاكِرًا عَلِيمًا ﴾ ” اگر تم (اللہ کے) شکر گزار رہو اور (اس پر) ایمان لے آؤ تو اللہ تم کو عذاب دے کر کیا کرے گا۔“ اور حال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ قدر شناس اور علم رکھنے والا ہے۔ وہ اپنے راستے میں بوجھ اٹھانے والوں اور اعمال میں مشقت برداشت کرنے والوں کو بہت زیادہ ثواب اور بے پایاں احسان سے نوازے گا۔ جو کوئی اللہ تعالیٰ کی خاطر کوئی چیز ترک کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اس سے بہتر چیز عطا کرتا ہے۔ نیز اس کے ساتھ ساتھ وہ ظاہر و باطن اور تمہارے اعمال کو جانتا ہے۔ وہ ان اعمال کا بھی علم رکھتا ہے جو صدق و اخلاص سے صادر ہوتے ہیں اور ان اعمال کا بھی علم رکھتا ہے جو ان کی ضد ہیں۔ وہ چاہتا ہے کہ تم توبہ اور انابت کے ذریعے سے اس کی طرف رجوع کرو۔ اور جب تم اس کی طرف رجوع کرو گے تو وہ تمہیں عذاب دے کر کیا کرے گا؟ وہ تشقی حاصل کرنے کے لئے تمہیں عذاب اور کسی فائدے کے حصول کی خاطر تمہیں عقاب میں مبتلا نہیں کرتا بلکہ معاصی کا ارتکاب کرنے والا اپنے آپ ہی کو نقصان دیتا ہے جیسے اطاعت کرنے والے کا عمل صرف اس کی ذات کے لئے ہے۔ شکر دل کے خضوع، اس کے اللہ تعالیٰ کی نعمت کا اعتراف کرنے اور زبان سے مشکور کی مدح و ثنا بیان کرنے کا نام ہے، نیز شکر یہ ہے کہ جو ارح مشکور کی اطاعت کے اعمال میں مصروف ہوں اور وہ منعم و مشکور کی عطا کردہ نعمتوں کو اس کی نافرمانی میں استعمال نہ کرے۔ النسآء
148 اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ وہ اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ کوئی علانیہ بری بات کہے، یعنی اللہ تعالیٰ اس شخص سے سخت ناراض ہوتا ہے اور اس پر سزا دیتا ہے۔ اس میں وہ تمام برے اقوال شامل ہیں جو تکلیف دہ اور صدمہ پہنچانے والے مثلاً گالی گلوچ، قذف اور سب وشتم کرنا۔ اس لئے کہ ایسے تمام اقوال سے منع کیا گیا ہے جنہیں اللہ تعالیٰ ناپسند کرتا ہے۔ اس آیت کریمہ کا مفہوم مخالف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اچھی بات کو پسند کرتا ہے مثلاً ذکر الٰہی اچھا اور نرم پاکیزہ کلام، وغیرہ ﴿إِلَّا مَن ظُلِمَ ﴾ ” مگر وہ جو مظلوم ہو۔“ یعنی جس شخص پر ظلم کیا گیا ہو وہ ظلم کرنے والے کے لئے بد دعا کرسکتا ہے، شکایت کرسکتا ہی اور اس شخص کو علانیہ بری بات کہہ سکتا ہے جس نے اعلانیہ بری بات کہی ہے، البتہ اس کے لئے جائز نہیں کہ وہ اس پر بہتان لگائے یا اس کے ظلم سے بڑھ کر زیادتی کرے یا ظالم کے علاوہ کسی اور کو گالی وغیرہ دے۔ بایں ہمہ معاف کردینا اور ظلم و زیادتی میں مقابلہ نہ کرنا اولیٰ ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّـهِ ﴾ (الشوری : 42؍40) ” پس جس کسی نے معاف کردیا اور اصلاح کی اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے۔ “ ﴿وَكَانَ اللّٰهُ سَمِيعًا عَلِيمًا ﴾” اور اللہ (سب کچھ) سنتا، جانتا ہے۔“ چونکہ آیت کریمہ برے، اچھے اور مباح کلام کے احکام پر مشتمل ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرما دیا کہ وہ سننے والا ہے، تمہارے اقوال سنتا ہے اس لئے ایسی بات کہنے سے بچو جو تمہارے رب کی ناراضی کا باعث بنے اور وہ تمہیں سزا دے۔ اس آیت کریمہ میں اچھی بات کہنے کی بھی ترغیب ہے۔ ﴿عَلِيمًا﴾وہ تمہاری نیتوں اور تمہارے اقوال کے مصدر کو جانتا ہے۔ النسآء
149 پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿إِن تُبْدُوا خَيْرًا أَوْ تُخْفُوهُ ﴾ ” اگر تم بھلائی کھلم کھلا کرو گے یا چھپا کر۔“ یہ قولی و فعلی، ظاہری و باطنی، واجب و مستحب ہر بھلائی کو شامل ہے۔ ﴿أَوْ تَعْفُوا عَن سُوءٍ ﴾ ” یا برائی سے درگزر کرو گے۔“ یعنی وہ شخص جو تمہارے بدن، تمہارے اموال اور تمہاری عزت و ناموس کے معاملے میں تمہارے ساتھ برا سلوک کرے تم اسے معاف کر دو کیونکہ عمل کی جزا عمل کی جنس ہی سے ہوتی ہے۔ پس جو کوئی اللہ تعالیٰ کی خاطر کسی کو معاف کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے معاف کردیتا ہے جو کسی کے ساتھ بھلائی کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ بھلائی کرتا ہے۔ بنابریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿فَإِنَّ اللَّـهَ كَانَ عَفُوًّا قَدِيرًا ﴾” تو اللہ بھی معاف کرنے والا صاحب قدرت ہے۔“ یعنی وہ اپنے بندوں کی لغزشوں اور ان کے بڑے بڑے گناہوں کو معاف کردیتا ہے اور ان کی پردہ پوشی کرتا ہے اور کامل عفو و درگزر سے کام لیتے ہوئے ان سے معاملہ کرتا ہے۔ جس اس کی قدرت کاملہ سے صادر ہوتے ہیں۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات کے معانی میں تدبر تفکر کی طرف راہنمائی کی گئی ہے، نیز یہ کہ خلق و امران اسماء و صفات سے صادر ہوتے ہیں اور یہ اسماء و صفات خلق و امر کا تقاضا کرتے ہیں۔ بنا بریں اسمائے حسنی کو احکام کی علت بیان کیا گیا ہے، جیسا کہ آیت کریمہ میں بیان ہوا ہے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ نے بھلائی کے عمل اور برا سلوک کرنے والے کو معاف کردینے کا ذکر کیا ہے اس لئے اس نے اس پر یہ امر مرتب فرمایا کہ اس نے اپنے اسماء کی معرفت کو ہمارا مدار بنا دیا اور یہ چیز ہمیں ان اسماء حسنی کے ثواب خاص کے ذکر سے مستغنی کرتی ہے۔ النسآء
150 یہاں تک لوگوں کی دو اقسام ہیں جن کو ہر ایک کے لئے واضح کردیا گیا ہے۔ (١) اللہ تعالیٰ اس کے رسولوں اور اس کی کتابوں پر ایمان لانے والے لوگ (٢) اللہ تعالیٰ اس کے رسولوں اور اس کی کتابوں کا انکار کرنے والے لوگ۔ رہ گئی تیسری قسم، تو یہ وہ لوگ ہیں جو سمجھتے ہیں کہ وہ بعض رسولوں پر تو ایمان لاتے ہیں اور بعض کو نہیں مانتے اور یہی وہ راستہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نجات دے گا مگر یہ ان کی مجرد آرزوئیں ہیں۔ پس یہ لوگ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں کے درمیان تفریق کرنا چاہتے ہیں، کیونکہ جو کوئی حقیقی طور پر اللہ تعالیٰ کو اپنا ولی اور دوست بناتا ہے وہ تمام انبیاء و رسل کو دوست بناتا ہے کیونکہ یہی اللہ تعالیٰ کی دوستی کی تکمیل ہے اور جو کوئی انبیاء و رسل میں سے کسی ایک کے ساتھ عداوت رکھتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ اور تمام رسولوں سے عداوت رکھتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿مَن كَانَ عَدُوًّا لِّلَّـهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَرُسُلِهِ وَجِبْرِيلَ وَمِيكَالَ فَإِنَّ اللَّـهَ عَدُوٌّ لِّلْكَافِرِينَ ﴾ (البقرہ :2؍98) ” جو کوئی اللہ، اس کے فرشتوں، اس کے رسولوں، جبریل اور میکائیل کا دشمن ہو تو تو اللہ ان کافروں کا دشمن ہے۔ “ النسآء
151 اسی طرح جو کوئی کسی رسول کا انکار کرتا ہے وہ تمام رسولوں کا انکار کرتا ہے بلکہ وہ اس رسول کا بھی انکار کرتا ہے جس کے بارے میں اس کا دعویٰ ہے کہ وہ اس پر ایمان لایا ہے۔ بنا بریں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿أُولَـٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ حَقًّا ﴾ ” وہ بلاشبہ کافر ہیں پکے۔“ اور (حقا) کا لفظ اس لئے استعملا کیا ہے تاکہ کوئی اس وہم میں مبتلا نہ ہو کہ ان کا متربہ ایمان اور کفر کے درمیان ہے اور ان کے کافر ہونے کی۔۔۔ یہاں تک کہ اس رسول کے ساتھ بھی کفر کرنے کی، جس پر وہ ایمان لانے کا دعویٰ کرتے ہیں۔۔۔ وجہ یہ ہے کہ ہر وہ دلیل جو اس نبی پر ایمان لانے کے وجوب پر دلالت کرتی ہے، وہی دلیل یا اس جیسی یا اس سے بڑھ کر دلیل موجود ہے جو اس نبی کی نبوت پر دلالت کرتی ہے جس کا وہ انکار کر رہے ہیں۔ اسی طرح ہر وہ شبہ جس کی بنیاد پر وہ اس نبی پر اعتراض کرتے ہیں جس کے ساتھ انہوں نے کفر کیا ہے، وہی شبہ، یا اس جیسا یا اس سے بھ بڑا شبہ اس نبی کی نبوت میں بھی موجود ہے جس پر وہ ایمان لائے ہیں۔۔۔ تب اس کے بعد سوائے، خواہشات نفس اور مجرد دعویٰ کے کچھ باقی نہیں جس کے مقابلہ میں اس جیسا دعویٰ کرنا ہر ایک کے لئے ممکن ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے کہ یہی لوگ حقیقی (پکے) کافر ہیں تو اس عذاب کا ذکر بھی فرما دیا جو ان کو اور دیگر کفار کو دیا جائے گا۔﴿وَأَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ عَذَابًا مُّهِينًا ﴾ اور ہم نے کافروں کے لئے ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے۔“ جس طرح انہوں نے تکبر کی بنا پر ایمان لانے سے انکار کردیا اسی طرح اللہ تعالیٰ رسوا کن اور درد ناک عذاب کے ذریعے سے ان کو رسوا کرے گا۔ النسآء
152 ﴿وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّـهِ وَرُسُلِهِ ﴾ ” اور جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے۔“ یہ آیت کریمہ ہر اس خبر پر ایمان لانے کو متضمن ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے بارے میں دی ہے اور ان تمام اخبار و احکام پر ایمان لانے کو بھی جنہیں لے کر انبیاء ورسل مبعوث ہوئے۔ ﴿وَلَمْ يُفَرِّقُوا بَيْنَ أَحَدٍ مِّنْهُمْ ﴾ ” اور انہوں نے ان میں سے کسی میں فرق نہ کیا۔‘‘ بلکہ وہ تمام انبیاء و رسل پر ایمان لائے اور یہی وہ حقیقی اور یقینی ایمان ہے جو دلیل اور برہان پر مبنی ہے۔ ﴿أُولَـٰئِكَ سَوْفَ يُؤْتِيهِمْ أُجُورَهُمْ ﴾ ” ایسے لوگوں کو وہ عنقریب ان (کی نیکیوں) کے صلے عطا فرمائے گا۔“ یعنی ان کے ایمان اور ایمان پر مبنی عمل صالح، قول حسن اور خلق جمیل کی جزا دی جائے گی اور یہ جزا ہر ایک کو اس کے حساب حال عطا ہو گی۔ شاید ان کے اجر میں اضافے کا یہی سرنہاں ہے۔ ﴿وَكَانَ اللّٰهُ غَفُورًا رَّحِيمًا ﴾ ” اور اللہ بہت بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔‘‘ یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ گناہوں کو بخش دیتا ہے اور نیکیوں کو قبول فرماتا ہے۔ النسآء
153 النسآء
154 اہل کتاب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال مطالبہ اور عناد کی بنا پر کیا تھا اور اسی پر انہوں نے اپنی تصدیق و تکذیب کو موقوف قرار دیا تھا اور ان کا سوال یہ تھا کہ ان پر تمام قرآن ایک ہی بار نازل ہوجائے جیسے تورات اور انجیل ایک ہی بار نازل ہوئی تھیں۔ یہ ان کی طرف سے انتہائی ظالمانہ مطالبہ تھا کیونکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم تو ایک بشر اور بندے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی تدبیر کے تحت ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں تو کوئی اختیار نہیں۔ تمام اختیار اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہے۔ وہی ہے جو اپنے بندوں پر جو چاہتا ہے نازل کرتا ہے۔ جس طرح اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اس وقت فرمایا جب مشرکین نے اسی قسم کے مطالبے کئے تھے۔﴿قُلْ سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كُنتُ إِلَّا بَشَرًا رَّسُولًا ﴾(بنی اسرائیل :17؍93) ” کہہ دیجیے پاک ہے میرا رب میں تو ایک بشر ہوں اللہ کی طرف سے بھیجا ہوا رسول۔ “ اسی طرح مجرد کتاب کے ایک مرتبہ یا متفرق طور پر نازل کرنے کو، ان کی طرف سے حق و باطل کے درمیان فارق (فرق کرنے والا) بنانا بھی، مجرد دعویٰ ہے، جس کی کوئی دلیل اور کوئی مناسبت نہیں اور نہ کوئی شبہ ہے۔ انبیاء میں سے کسی بھی نبی کی نبوت میں کہاں آیا ہے کہ وہ رسول جو تمہارے پاس کتاب لے کر آئے اور اگر یہ کتاب ٹکڑوں میں نازل کی گئی ہو تو تم اس پر ایمان لانا نہ اس کی تصدیق کرنا؟ بلکہ قرآن مجید کا حسب احوال تھوڑا تھوڑا کر کے نازل ہونا اس کی عظمت اور اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس پیغمبر پر، جس پر وہ نازل ہوا، اللہ کی خاص عنایت اور توجہ ہے۔ جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿ وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْلَا نُزِّلَ عَلَيْهِ الْقُرْآنُ جُمْلَةً وَاحِدَةً ۚ كَذٰلِكَ لِنُثَبِّتَ بِهِ فُؤَادَكَ ۖ وَرَتَّلْنَاهُ تَرْتِيلًاوَلَا يَأْتُونَكَ بِمَثَلٍ إِلَّا جِئْنَاكَ بِالْحَقِّ وَأَحْسَنَ تَفْسِيرًا﴾(الفرقان:25؍32۔33)” اور کافر کہتے ہیں کہ اس پر قرآن ایک ایک ہی بارکیوں نازل نہیں کیا گیا، اسی طرح آہستہ آہستہ اس لئے نازل کیا گیا ہے تاکہ تمہارے دل کو قائم رکھیں اور ہم نے اسے ترتیل کے ساتھ پڑھا ہے۔ یہ لوگ تمہارے پاس جو اعتراض بھی لے کر آئیں ہم تمہارے پاس حق اور اس کی بہترین تفسیر لے کر آتے ہیں۔ “ جب اللہ نے ان کے اس فاسد اعتراض کا ذکر کیا تو یہ بھی بتایا کہ ان کے معاملے میں کوئی انوکھی بات نہیں ہے، بلکہ اس سے پہلے ان کی اس سے بھی بری باتیں گزر چکی ہیں جو انہوں نے اس نبی کے ساتھ اختیار کیں، جس کی بابت ان کا گمان ہے کہ وہ اس پر ایمان لائے تھے۔ مثلاً ظاہری آنکھوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کا مطالبہ کرنا۔ بلکہ اس سے پہلے ان کی اس بھی بری باتیں گزر چکی ہیں جو انہوں نے اس نبی کے ساتھ اختیار کیں، جس کی بابت ان کا گمان ہے کہ وہ اس پر ایمان لائے تھے۔ مثلاً ظاہری آنکھوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کا مطالبہ کرنا۔ عبادت کے لئے بچھڑے کو معبود بنانا وغیرہ، حالانکہ وہ اپنی آنکھوں سے وہ کچھ دیکھ چکے تھے جو کسی اور نے نہیں دیکھا۔ اپنی کتاب تورات کے احکام کو قبول کرنے سے انکار کرنا، یہاں تک کہ کوہ طور کو اٹھا کر ان کے سروں پر معلق کردیا گیا اور ان کو دھمکایا گیا کہ اگر وہ ایمان نہیں لائیں گے تو پہاڑ کو ان پر گرا دیا جائے گا تو اغماض برتتے ہوئے اور اس ایمان کے ساتھ اسے قبول کرلیا جو ایمان ضروری کے مشابہ تھا۔ بستی کے دروازوں سے اس طریقے سے داخل ہونے سے انکار کرنا جس طریقے سے انہیں داخل ہونے کا حکم دیا گیا تھا، یعنی سجدہ کرتے ہوئے اور استغفار کرتے ہوئے۔ (اس موقع پر) انہوں نے قول و فعل دونوں طرح سے مخالفت کی۔ ہفتے کے روز ان کا حد سے تجاوز کرنا۔ پس اللہ تعالیٰ نے اس گناہ کی پاداش میں ان کو سخت سزا دی۔ ان سے پکا عہد لیا۔ مگر انہوں نے اس میثاق کو اپنی پیٹھ پیچھے پھینک دیا، اللہ تعالیٰ کی آیات کے ساتھ کفر کیا اور اس کے رسولوں کو ناحق قتل کیا۔ ان کا یہ کہنا کہ ہم نے مسیح (علیہ الصلوۃ و السلام) کو صلیب پر چڑھا کر قتل کردیا۔ حالانکہ انہوں نے انہیں قتل کیا نہ سولی پر چڑھایا، بلکہ ان کو کسی اور کے ساتھ اشتباہ میں ڈال دیا گیا تھا، جسے انہوں نے قتل کیا اور صلیب پر چڑھایا۔ ان کا یہ دعویٰ کرنا کہ ان کے دلوں پر غلاف ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ ان سے کہتے ہیں وہ اس کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ ان کا لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے راستے سے روکنا اور جس ضلالت اور گمراہی میں خود مبتلا ہیں لوگوں کو اس کی طرف دعوت دینا۔ اس کی پاداش میں اللہ تعالیٰ نے ان کو حق سے روک دیا۔ ان کا سود اور حرام کھانا حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو سود خوری سے نہایت سختی سے روکا تھا۔ پس جن لوگوں کے یہ کرتوت ہوں تو ان کے بارے میں یہ کوئی ان ہونی بات نہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مطالبہ کیا ہو کہ وہ آسمان سے ان پر کتاب اتار دیں۔ باطل پرست مخالف فریق کے ساتھ مباحثہ و مجادلہ میں دلیل دینے کا یہ بہترین طریقہ ہے کہ جب فریق مخالف کی طرف سے کوئی باطل اعتراض وارد ہو جس نے حق ٹھہرانے میں اس کو یا کسی اور کو شبہ میں مبتلا کر رکھا ہے۔۔۔ تو وہ اس مخالف کے ان خبیث احوال اور قبیح افعال کو بیان کرے جو اس سے صادر ہوئے اور وہ بدترین اعمال ہیں۔ تاکہ ہر شخص کو یہ معلوم ہوجائے کہ یہ اعتراضات بھی اس خسیس نوع کے ہیں اور اس کے کچھ مقدمات بد ہیں اور یہ اعتراض بھی اس قبیل سے تعلق رکھتا ہے۔ اسی طرح ہر وہ اعتراض جو وہ نبوت محمدی (صلی اللہ علیہ وسلم) پر عائد کرتے ہیں اس کا مقابلہ بھی اس قسم کے یا اس سے بھی قوی اعتراض سے اس نبوت کی بابت کر کے کیا جاسکتا ہے جس پر وہ ایمان لانے کا دعویٰ کرتے ہیں، اس طرح ان کے شرکا مقابلہ کیا جاسکتا ہے اور ان کے باطل کا قلع قمع ہوسکتا ہے اور ہر وہ دلیل جس کو وہ اس نبی کی نبوت کے ثبوت اور تحقق کے لئے پیش کرتے ہیں جس پر یہ ایمان لائے ہوئے ہیں، تو یہی دلیل اور اس جیسے دیگر دلائل اور ان سے بھی زیادہ قوی دلائل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کو ثابت اور متحقق کرتے ہیں۔ چونکہ ان کے اعتراض کے مقابلہ میں ان کی برائیوں اور قباحتوں کو صرف شمار کرنا مقصود ہے اس لئے اس مقام پر تفصیل بیان نہیں کی بلکہ ان کی طرف اشارہ کر کے ان کے مقامات کا حوالہ دے دیا ہے اور اس مقام کے علاوہ دیگر مناسب مقام پر ان کو مبسوط طور پر بیان کیا ہے۔ النسآء
155 النسآء
156 النسآء
157 النسآء
158 ﴿وَإِن مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ ﴾’ اور کوئی اہل کتاب نہیں ہوگا مگر ان کی موت سے پہلے ان پر ایمان لے آئے گا۔“ (قَبْلَ مَوْتِهِ) میں اس بات کا احتمال ہے کہ ضمیر کا مرجع اہل کتاب ہو۔ تب اس احتمال کی صورت میں اس کے معنی یہ ہوں گے کہ اہل کتاب کا ہر شخص اپنی موت کے وقت اس امر کی حقیقت کا معائنہ کرلے لگا۔ پس وہ اس وقت جناب عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لے آئے گا مگر یہ وہ ایمان ہے جو کوئی فائدہ نہیں دیتا کیونکہ یہ اضطراری ایمان ہے۔ پس یہ مضمون ان کے لئے تہدید و وعید کی حیثیت رکھتا ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ وہ اپنے اس حال پر قائم نہ رہیں جس پر انہیں موت سے قبل نادم ہونا پڑتا ہے۔ جب وہ یہاں نادم ہوتے ہیں تو حشر کے روز جب وہ اللہ کے حضور کھڑے ہوں گے ان کا کیا حال ہوگا؟ اور آیت میں اس بات کا احتمال بھی ہے کہ (قَبْلَ مَوْتِهِ) میں ضمیر کا مرجع جناب عیسیٰ علیہ السلام ہوں۔ تب معنی یہ ہوں گے کہ اہل کتاب کا ہر شخص جناب مسیح علیہ السلام کی موت سے قبل ان پر ایمان لے آئے گا۔ جناب مسیح علیہ السلام قیامت کے قریب ظاہر ہوں گے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دوبارہ آمد ظہور قیامت کی بڑی بڑی نشانیوں میں شمار ہوتی ہے۔ بکثرت احادیث میں وارد ہے کہ اس امت کے آخری زمانے میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ہوگا، وہ دجال کو قتل کریں گے، جزیہ ساقط کردیں گے اور اہل ایمان کے ساتھ اہل کتاب بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لے آئیں گے۔ قیامت کے روز حضرت عیسیٰ علیہ السلام ان کے اعمال پر گواہی دیں گے کہ آیا یہ اعمال شریعت کے مطابق تھے یا نہیں؟ اس روز وہ ان کے ہر اس عمل کے بطلان کی گواہی دیں گے جوشریعت قرآن کے مخالف ہوگا۔ چونکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل کتاب کو اس کی طرف دعوت دی ہے اس لئے ہمیں اس بات کا علم ہے اور اس وجہ سے بھی کہ ہمیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے کامل طور پر عادل اور صاحب صدق ہونے کا علم ہے اور ہمیں یہ بھی علم ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام صرف حق کی گواہی دیں گے اور اس بات کی گواہی دیں گے کہ جناب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم جو لے کر آئے، وہ حق ہے، اس کے علاوہ جو کچھ ہے، باطل اور گمراہی ہے۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے آگاہ فرمایا ہے کہ اس نے اہل کتاب پر بہت سی پاک چیزیں حرام ٹھہرا دی تھیں جو ان پر حلال تھیں۔ یہ تحریم ان کے ظلم و تعدی، اللہ تعالیٰ کے راستے سے لوگوں کو روکنا، لوگوں کو ہدایت کی راہ سے باز رکھنے اور منع کرنے کے باوجود ان کے سود کھانے کی وجہ سے سزا کے طور پر نافذ کی گئی تھی۔ وہ محتاج لوگوں کو اپنی خرید و فروخت میں سود کے ذریعے سے انصاف کی راہ سے ہٹاتے تھے۔ پس اللہ تعالیٰ نے خود ان کے فعل کی جنس ہی سے ان کو سزا دی اور بہت سی طیبات کو ان پر حرام کردیا، جن کو حلال کرنے کے وہ خواہش مند تھے، کیونکہ فی نفسہٖ وہ حلال تھیں۔ رہی اس امت پر بعض چیزوں کیت حریم، تو یہ تحریم ان کو ان خبائث سے بچانے کی خاطر ہے جو ان کے دین و دنیا میں نقصان دہ ہیں۔ النسآء
159 النسآء
160 النسآء
161 النسآء
162 جب اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کے معایب بیان کئے، تو ان لوگوں کا ذکر کر رہا ہے جو ان میں سے قابل تعریف ہیں۔ ﴿ لَّـٰكِنِ الرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ مِنْهُمْ وَالْمُؤْمِنُونَ﴾ ” مگر جو لوگ ان میں سے علم میں پکے ہیں اور مومن ہیں“ یعنی وہ لوگ جن کے دلوں میں علم مضبوط اور ایقان راسخ ہے اور اس کے ثمرہ میں انہیں ایمان کامل حاصل ہوتا ہے۔﴿بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ﴾ ” وہ اس کتاب پر ایمان لاتے ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اتاری گئی اور ان کتابوں پر جو آپ سے پہلے اتاری گئیں۔“ یہ ایمان انہیں اعمال صالحہ کا پھل عطا کرتا ہے، مثلاً نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ ادا کرنا، یہ دونوں سب سے افضل اعمال ہیں، کیونکہ یہ دونوں معبود کے لئے اخلاص اور اس کے بندوں کے لئے احسان پر مشتمل ہیں۔ وہ لوگ روز قیامت پر بھی ایمان لاتے ہیں۔ بنا بریں وہ اللہ تعالیٰ کی وعید سے ڈرتے ہیں اور اس کے وعدے پر امید رکھتے ہیں۔ ﴿ أُولَـٰئِكَ سَنُؤْتِيهِمْ أَجْرًا عَظِيمًا ﴾ ” ہم عنقریب انہیں اجر عظیم سے نوازیں گے“ کیونکہ انہوں نے علم، ایمان، عمل صالح، گزشتہ اور آئندہ آنے والے انبیاء و مرسلین اور تمام کتب الٰہیہ پر ایمان کو جمع کردیا۔ النسآء
163 اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ اس نے اپنے بندے اور رسول محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر اسی طرح عظیم شریعت اور سچی خبریں وحی کی ہیں جس طرح اس نے ان انبیاء علیہم الصلوۃ و السلام پر وحی کی تھیں۔ اس میں متعدد فوائد ہیں : (١) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کوئی نئے اور انوکھے رسول نہیں ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے بھی بے شمار رسول بھیجے ہیں اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو انوکھا اور نادر سمجھنا جہالت اور عناد کے سوا کچھ نہیں۔ (٢) اللہ تعالیٰ نے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اصول اور عدل کے ضابطے وحی کئے ہیں جس طرح انبیائے سابقین کی طرف وحی فرمائے تھے جن پر عمل کر کے وہ تقویٰ اختیار کرتے تھے۔ وہ ایک دوسرے کی تصدیق اور ایک دوسرے کی موافقت کرتے تھے۔ (٣) محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم انہی انبیاء و رسل کی جنس سے تعلق رکھتے ہیں، لہٰذا آپ کو دیگر انبیاء و رسل کے زمرے میں رکھ کر آپ کا اعتبار کرنا چاہئے۔ آپ کی دعوت وہی ہے جو ان رسولوں کی دعوت تھی، آپ کے اخلاق ان کے اخلاق سے متفق، آپ کی اور ان کی تعلیمات کا مصدر ایک اور آپ کے اور ان سب کے مقاصد یکساں ہیں۔۔۔ پس اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مجہول اور کذاب لوگوں اور ظالم بادشاہوں کے ساتھ ذکر نہیں کیا۔ (٤) (قرآن مجید میں) ان انبیاء و رسل کے تذکرے اور ان کی تعداد بیان کرنے میں ان کی مدح و ثناء اور تعریف و تعظیم ہے اور ان کے احوال کی اس طرح تشریح ہے جس سے ان کے بارے میں مومن کے ایمان اور محبت میں اضافہ ہوتا ہے، ان کے طریقے اور سنت کو اپنانے کا جذبہ بڑھتا ہے اور ا ن کے حقوق کی معرفت حاصل ہوتی ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کے ان ارشادات کا مصداق ہے۔ ﴿سَلَامٌ عَلَىٰ نُوحٍ فِي الْعَالَمِينَ﴾ (الصافات :37؍79)﴿ سَلَامٌ عَلَى إِبْرَاهِيمَ ﴾(الصافات :37؍109 ﴿ سَلَامٌ عَلَى مُوسَى وَهَارُونَ ﴾ (الصافات :38؍120)﴿ سَلَامٌ عَلَى إِلْ يَاسِينَ ﴾ (الصافات :37؍130) ﴿ إِنَّا كَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ ﴾ (الصافات :37؍131) پس بھلائی اور احسان کرنے والے ہر شخص کو اس کے احسان کے مطابق مخلوق کے اندر ثنائے حسن نصیب ہوتی ہے۔ تمام انبیاء و رسل خصوصاً وہ انبیائے کرام جن کے اسمائے گرامی گزشتہ سطور میں ذکر کئے گئے ہیں احسان کے بلند ترین مرتبہ پر فائز ہیں۔ جہاں اللہ تعالیٰ نے وحی میں ان کے اشتراک کا ذکر فرمایا، وہاں اس نے بعض انبیاء کے اختصاص کا بھی ذکر کیا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا کہ اس نے جناب داؤد کو زبور عطا کی اور یہ وہ معروف اور لکھی ہوئی کتاب ہے جو داؤد علیہ الصلوۃ و السلام کے فضل و شرف کی بنا پر ان کے لئے مخصوص کی گئی۔ اللہ تعالیٰ نے جناب موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ کلام فرمایا۔ یعنی بغیر کسی واسطہ کے بالمشافہ کلام فرمایا۔ حتیٰ کہ یہ بات تمام دنیا میں مشہور ہوگئی اور جناب موسیٰ علیہ السلام کو ” کلیم الرحمٰن“ کہا جانے لگا۔ نیز یہ بھی ذکر فرمایا کہ ان انبیاء و رسل میں سے بعض کا قصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بیان فرمایا اور بعض انبیاء کا قصہ بیان نہیں فرمایا اور یہ امر انبیائے کرام کی کثرت پر دلالت کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو ان لوگوں کے لئے دنیاوی اور آخری سعادت کی خوشخبری سنانے والے بنا کر مبعوث فرمایا جو ان کی اطاعت کرتے ہیں اور ان لوگوں کے لئے دونوں جہانوں کی بدبختی سے ڈرانے والے بنا کر بھیجا جو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور ان رسولوں کی مخالفت کرتے ہیں۔۔۔ تاکہ انبیاء و رسل مبعوث کرنے کے بعد لوگوں کے لئے اللہ تعالیٰ پر کوئی حجت باقی نہ رہے اور وہ یہ نہ کہیں کہ ﴿مَا جَاءنَا مِن بَشِيرٍ وَلاَ نَذِيرٍ فَقَدْ جَاءكُم بَشِيرٌ وَنَذِيرٌ ﴾(المائدہ :5؍19) ” ہمارے پاس کوئی خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا نہیں آیا۔ پس تحقیق تمہارے پاس خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا آگیا ہے۔ “ اللہ تبارک و تعالیٰ کے مسلسل رسول بھیجنے کے بعد لوگوں کے لئے اللہ تعالیٰ پر کوئی حجت باقی نہ رہی۔ یہ رسول لوگوں کے سامنے ان کا دین بیان کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ کی رضا اور ناراضی کے اسباب اور جنت و جہنم کے راستے واضح کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔ تب جو کوئی ان انبیاء و رسل کا انکار کرتا ہے، تو وہ اپنے نفس کے سوا کسی کو ملامت نہ کرے۔ اور یہ اللہ تعالیٰ کے کامل غلبہ اور کامل حکمت کی دلیل ہے کہ اس نے لوگوں کی طرف رسول مبعوث فرمائے اور ان پر کتابیں نازل فرمائیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل و احسان بھی ہے، کیونکہ لوگ انبیاء و رسل کی بعثت کے سخت ضرورت مند تھے تب اللہ تعالیٰ نے ان کے اس اضطرار کا ازالہ فرمایا۔ پس وہی حمد و ثناء اور شکر کا مستحق ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ سے سوال کرتے ہیں کہ اس نے جس طرح اپنے رسول بھیج کر ہم پر اپنی نعمت کی ابتدا کی، اسی طرح وہ ہمیں ان کے راستے پر گامزن ہونے کی توفیق سے نواز کر اس نعمت کا اتمام کرے، بے شک وہ جواد اور کریم ہے۔ النسآء
164 النسآء
165 النسآء
166 اللہ تعالیٰ نے جہاں یہ ذکر فرمایا کہ اس نے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اسی طرح وحی کی ہے جس طرح دیگر انبیاء کی طرف، وہاں یہ خبر بھی دی ہے کہ اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی اور جو تعلیمات لے کر آپ مبعوث ہوئے، ان کی صحت کی گواہی دی ہے۔ فرمایا : ﴿ أَنزَلَهُ بِعِلْمِهِ ﴾ ” اس نے اپنے علم سے اسے نازل کیا ہے۔“ اس میں اس معنی ٰکا احتمال ہے کہ اس نے قرآن کو اس طرح نازل فرمایا کہ وہ اس (اللہ) کے علم پر مشتمل ہے، یعنی اس کے اندر تمام علوم الٰہیہ، احکام شرعیہ اور اخبار غیبیہ موجود ہیں۔ یہ تمام اللہ تعالیٰ کا وہ علم ہے جو اس نے اپنے بندوں کو سکھایا۔ اس میں یہ احتمال بھی ہے کہ اس سے مراد ہو کہ اس نے اس قرآن کو اپنے علم کے ساتھ نازل فرمایا ہے۔ تب اس کے اندر اللہ تعالیٰ کی شہادت کے پہلو کی طرف اشارہ اور تنبیہ ہے اور اس کے معنی یہ ہوں گے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اسے اس طرح نازل فرمایا ہے کہ وہ اوامرونواہی پر مشتمل ہے اور یہ سب کچھ جانتا ہے اور وہ اس کے احوال کو بھی جانتا ہے جس پر یہ نازل کیا گیا اور اللہ تعالیٰ یہ بھی جانتا ہے کہ اس نے لوگوں کو اس کی طرف دعوت دی ہے۔ پس جس کسی نے اس کی دعوت پر لبیک کہی اور اس کی تصدیق کی وہ اللہ تعالیٰ کا دوست ہے اور جس کسی نے اس کو جھٹلایا اور اس کے ساتھ عداوت رکھی وہ اللہ تعالیٰ کا دشمن ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا مال اور خون مباح کردیا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے دوست کو قدرت عطا کرتا ہے اور پے در پے اس کی مدد کرتا ہے، اس کی دعائیں قبول کرتا ہے، اس کے دشمنوں سے الگ ہوجاتا ہے اور اس کے دوستوں کی مدد کرتا ہے۔ کیا کوئی ایسی شہادت ہے جو اس شہادت سے بڑی ہو؟ اللہ تعالیٰ کے علم، اس کی قدرت اور اس کی حکمت میں عیب لگائے بغیر نیز فرشتوں کے ایمان کا مل اور مشہود علیہ کی جلالت شان کی بنا پر اس چیز پر ان کی شہادت کے بارے میں جو اس نے اپنے رسول پر نازل کی ہے عیب چینی کئے بغیر اس شہادت میں جرح و قدح ممکن نہیں۔ اس قسم کے عظیم الشان امور پر خواص ہی سے شہادت طلب کی جاتی ہے جیسا کہ توحید پر شہادت کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ شَهِدَ اللّٰهُ أَنَّهُ لاَ إِلَـهَ إِلاَّ هُوَ وَالْمَلاَئِكَةُ وَأُوْلُواْ الْعِلْمِ قَآئِمَاً بِالْقِسْطِ لاَ إِلَـهَ إِلاَّ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ﴾ (آل عمران :3؍18) ” اس نے شہادت دی ہے کہ اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں، فرشتوں اور اہل علم نے بھی شہادت دی ہے کہ وہ انصاف کے ساتھ حکومت کر رہا ہے، اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں، وہی زبردست ہے اور حکمت والا ہے۔ “ النسآء
167 اللہ تبارک و تعالیٰ نے انبیاء و رسل صلوات اللہ وسلامہ علیہم کی رسالت اور خاتم الانبیاء محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے بارے میں خبر دی ہے۔ اس رسالت پر خود بھی گواہی دی اور اس کے فرشتوں نے بھی گواہی دی اور اس سے مشہور بہ اور امر متحقق کا ثابت ہونا لازم آتا ہے۔ پس اس طرح انبیاء کی تصدیق، ان پر ایمان لانا اور ان کی اتباع کرنا واجب ہے، پھر جن لوگوں نے انبیائے کرام کا انکار کیا اللہ تعالیٰ نے ان کو وعید سناتے ہوئے فرمایا :﴿ إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُواْ وَصَدُّوْا عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ﴾” جن لوگوں نے کفر کیا اور (لوگوں کو) اللہ کے راستے سے روکا۔“ یعنی انہوں نے خود اپنے کفر کرنے کو اور لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکنے کو جمع کردیا۔ یہ لوگ ائمہ کفر اور گمراہی کے داعی ہیں۔ (قَدْ ضَلُّوْا ضَلٰلًا بَعِیْدًا) ” وہ راستے سے بھٹک کر دور جا پڑے۔“ جو شخص خود بھی گمراہ ہو اور اس نے دوسروں کو بھی گمراہ کردیا ہو اس سے بڑی گمراہی اور کیا ہوسکتی ہے۔ اس نے دو گناہ سمیٹے اور وہ دو خسارے لے کر لوٹا اور دو ہدایتوں سے محروم ہوگیا۔ النسآء
168 بنا بریں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُواْ وَظَلَمُواْ ﴾ ” جو لوگ کافر ہوئے اور ظلم کرتے رہے۔“ اور یہ ظلم ان کے کفر پر اضافہ ہے ورنہ جب ظلم کا اطلاق کیا جاتا ہے تو کفر اس کے اندر شامل ہوتا ہے۔ یہاں ظلم سے مراد اعمال کفر اور اس کے اندر استغراق ہے۔ پس یہ لوگ مغفرت اور صراط مستقیم کی طرف راہنمائی سے بہت دور ہیں۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ لَمْ يَكُنِ اللّٰهُ لِيَغْفِرَ لَهُمْ وَلاَ لِيَهْدِيَهُمْ طَرِيقاً إِلاَّ طَرِيقَ جَهَنَّمَ﴾” اللہ ان کو بخشنے والا نہیں اور نہ انہیں راستہ ہی دکھائے گا، ہاں دوزخ کا راستہ۔“ ان کے لئے مغفرت اور ہدایت کی نفی محض اس وجہ سے ہے کہ وہ اپنی سرکشی پر قائم اور اپنے کفر میں بڑھتے جا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی اور ان کے کرتوتوں کی وجہ سے ان پر ہدایت کی راہ مسدود ہوگئی۔ ﴿وَمَا رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِيدِ﴾ (حم السجدہ :41؍46) ” تیرا رب بندوں پر ظلم نہیں کرتا۔ “ النسآء
169 ﴿ وَكَانَ ذَلِكَ عَلَى اللّٰهِ يَسِيرًا ﴾ ” اور یہ بات اللہ کو آسان ہے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ کو ان کی کوئی پروا نہیں کیونکہ وہ بھلائیکی صلاحیت نہیں رکھتے اور وہ اسی حال کے لائق ہیں جس کو انہوں نے اپنے لئے منتخب کیا۔ النسآء
170 اللہ تبارک و تعالیٰ تمام لوگوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ اس کے بندے اور رسول محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائیں۔ اس نے اس سبب کا بھی ذکر فرمایا ہے جو ایمان کا موجب ہے اور ایمان کے اندر جو فوائد اور عدم ایمان کے اندر جو نقصانات ہیں ان سب کا ذکر کیا ہے۔ پس ایمان کا موجب، سبب اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ خبر دینا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حق کے ساتھ مبعوث ہوئے ہیں۔ آپ کی تشریف آوری فی نفسہ حق اور جو شریعت آپ لائے ہیں وہ بھی حق ہے۔ عقلمند شخص اچھی طرح جانتا ہے کہ مخلوق کا اپنی جہالت میں سرگرداں رہنا اور اپنے کفر میں ادھر ادھر مارے مارے پھرنا جبکہ رسالت منقطع ہوچکی ہو۔۔۔ اللہ تعالیٰ کی حکمت اور اس کی رحمت کے لائق نہیں۔ پس یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی حکمت اور بے پایاں رحمت ہے کہ اس نے ان کی طرف رسول کو مبعوث فرمایا تاکہ وہ ان کو گمراہی اور ضلالت میں سے رشد و ہدایت کی پہچان کروائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت میں مجرد غور و فکر ہی آپ کی نبوت کی صداقت کی قطعی دلیل ہے۔ اسی طرح اس عظیم شریعت اور صراط مستقیم میں غور و فکر، جس کے ساتھ آپ تشریف لائے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی دلیل ہے کیونکہ اس میں گزشتہ زمانوں اور آئندہ آنے والے زمانوں کے امور غیبیہ، نیز اللہ تعالیٰ اور روز آخرت کے بارے میں ایسی ایسی خبریں دی گئی ہیں کہ کوئی شخص وحی اور رسالت کے بغیر ان کی معرفت حاصل نہیں کرسکتا اور اس میں ہر قسم کی خیر و صلاح، رشد و ہدایت، عدل و احسان، صدق، نیکی، صلہ رحمی اور حسن اخلاق کا حکم دیا گیا ہے اور ہر قسم کے شر، فساد، بغاوت، ظلم، بدخلقی، جھوٹ اور والدین کی نافرمانی سے روکا گیا ہے جن کے بارے میں قطعی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ بندے کی بصیرت میں جب بھی اضافہ ہوتا ہے اس کے ایمان و ایقان میں اضافہ ہوتا ہے۔ پس یہ ہے وہ سبب جو بندے کو ایمان کی دعوت دیتا ہے۔ رہی ایمان میں فائدے کی بات تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یہ ﴿خَيْرًا لَّكُمْ ۚ ﴾ ” تمہارے لئے بہتر ہے۔“ خیر، شر کی ضد ہے۔ پس ایمان اہل ایمان کے ابدان، ان کے دلوں، ان کی ارواح اور ان کی دنیا و آخرت میں ان کے لئے بہتر ہے۔ کیونکہ ایمان پر مصالح اور فوائد مترتب ہوتے ہیں۔ چنانچہ ہر قسم کا ثواب، خواہ وہ اسی دنیا میں حاصل ہو یا آخرت میں، ایمان ہی کا ثمرہ ہے اور فتح و نصرت، ہدایت، علم، عمل صالح، مسرتیں، فرحتیں، جنت اور جنت کی تمام نعمتیں، ان سب کا سبب ایمان ہے۔ جیسے دنیاوی اور آخروی بدبختی عدم ایمان یا نقص کے باعث ہے۔ رہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر عدم ایمان کا ضرر تو اسے ان فوائد کی ضد سے معلوم کیا جاسکتا ہے جو ایمان کے باعث حاصل ہوتے ہیں اور بندہ صرف اپنے آپ کو نقصان پہنچاتا ہے اللہ تعالیٰ اس سے بے نیاز ہے۔ تمام گناہ گاروں کا گناہ اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ بنابریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿فَإِنَّ لِلَّـهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ﴾ ” اور جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب اللہ ہی کا ہے۔“ یعنی زمین و آسمان میں ہر چیز اس کی مخلوق، اس کی ملکیت اور اس کی تدبیر اور تصرف کے تحت ہے﴿وَكَانَ اللّٰهُ عَلِيمًا ﴾ ” اللہ تعالیٰ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔“ ﴿حَكِيمًا ﴾ ” حکمت والا ہے۔“ وہ اپنے خلق و امر میں حکمت کا مالک ہے۔ پس وہ جانتا ہے کہ کون ہدایت اور کون گمراہی کا مستحق ہے۔ ہدایت اور گمراہی کو ان کے اپنے اپنے مقام پر رکھنے میں وہ حکمت سے کام لیتا ہے۔ النسآء
171 اللہ تبارک و تعالیٰ اہل کتاب کو دین میں غلو کرنے سے منع کرتا ہے اور غلو سے مراد ہے حد سے تجاوز کرنا اور حدود مشروع سے نکل کر غیر مشروع کی طرف جانا۔ جیسے نصاریٰ جناب عیسیٰ علیہ الصلوۃ و السلام کے بارے میں غلو سے کام لیتے ہیں اور انہیں نبوت اور رسالت کے مقام سے اٹھا کر ربوبیت کے مقام پر بٹھا دیتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کے لائق نہیں۔ پس جس طرح تقصیر اور تفریط (کمی) منہیات میں سے ہے، غلو بھی اسی طرح ممنوع ہے۔ اسی لئے فرمایا : ﴿وَلَا تَقُولُوا عَلَى اللَّـهِ إِلَّا الْحَقَّ ﴾” اور اللہ کے بارے میں حق کے سوا کچھ نہ کہو۔“ یہ کلام اقدس تین امور کو متضمن ہے۔ ان میں سے پہلے دو امور ممنوع ہیں۔ اول: اللہ تبارک و تعالیٰ پر جھوٹ باندھنا۔ ثانی: اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات اس کے افعال، اس کی شریعت اور اس کے رسولوں کے بارے میں بلاعلم بات کرنا۔ ثالث : اور تیسری چیز وہ ہے جس کا حکم دیا گیا ہے اور وہ ہے ان تمام امور میں قول حق۔ چونکہ یہ ایک عام قاعدہ کلیہ ہے اور سیاق کلام جناب عیسیٰ علیہ الصلوۃ و السلام کے بارے میں نص اور قول حق ہے اور یہودیت اور نصرانیت کے طریقے کے خلاف ہے اس لئے فرمایا۔ ﴿إِنَّمَا الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ رَسُولُ اللَّـهِ ﴾ ” مسیح یعنی مریم کے بیٹے عیسیٰ اللہ کے رسول ہیں۔“ یعنی جناب مسیح کی غایت اور مراتب کمال کی انتہاء وہ اعلیٰ ترین حالت ہے جو کسی مخلوق کے لئے ہوسکتی ہے اور وہ مرتبہ رسالت ہے، جو بلند ترین درجہ اور جلیل ترین مقام ہے۔ ﴿وَكَلِمَتُهُ أَلْقَاهَا إِلَىٰ مَرْيَمَ ﴾ ” اور اس کا کلمہ (بشارت) تھے جو اس نے مریم کی طرف بھیجا تھا۔“ اور وہ ایک کلمہ ہے جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے کلام فرمایا اور اس کلمہ کے ذریعے سے حضرت عیسیٰ نے تخلیق قائی۔ خود حضرت عیسیٰ وہ کلمہ نہ تھے بلکہ وہ اس کلمہ کے ذریعے سے وجود میں آئے اور یہ شرف و تکریم کی اضافت ہے۔ اسی طرح فرمایا : ﴿وَرُوحٌ مِّنْهُ ﴾ ” اور اس کی طرف سے ایک روح تھے۔“ یعنی ان ارواح میں میں سے ایک روح ہیں جس کو اللہ تعالیٰ نے تخلیق فرمایا اور صفات فاضلہ اور اخلاق کاملہ کے ساتھ اس کی تکمیل کی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے وہ روح جبرئیل علیہ الصلوۃ و السلام کو دے کر جناب مریم علیہا السلام کی طرف بھیجا اور انہوں نے جناب مریم علیہا السلام کی فرج میں روح کو پھونک دیا، پس اللہ کے حکم سے ان کو حمل ٹھہر گیا جس سے حضرت عیسیٰ کی ولادت ہوئی۔ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حقیقت واضح کردی تو اس نے اہل کتاب کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں پر ایمان لانے کا حکم دیا اور ان کو تین خدا بنانے سے منع کیا۔ یعنی اللہ تعالیٰ، حضرت عیسیٰ اور حضرت مریم ان کا برا ہو یہ نصاری کا قول باطل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم دیا ہے کہ وہ اس تثلیث سے باز آجائیں اور انہیں آگاہ فرمایا کہ یہ ان کے لئے بہتر ہے کیونکہ یہ امر متعین ہے کہ یہی نجات کی راہ ہے اور اس کے سوا ہر راستہ ہلاکت کی طرف لے جاتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے آپ کو شریک اور اولاد سے منزہ قرار دیا ہے۔ فرمایا : ﴿اِنَّمَا اللّٰہ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ﴾” اللہ ہی معبود واحد ہے۔“ یعنی وہ الوہیت میں منفرد (یکتا) ہے جس کے سوا عبادت کا کوئی مستحق نہیں ﴿سُبْحٰنَهُ﴾ وہ اس سے منزہ اور پاک ہے ﴿اَنْ يَكُوْنَ لَهُ وَلَدٌ﴾ ” کہ اس کا کوئی بیٹا ہو“ کیونکہ ﴿لَهُ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِي الْاَرْضِ﴾ ” اسی کے لئے ہے جو آسمانوں میں اور جو زمین میں ہے“ پس تمام اس کے مملوک اور اس کے محتاج ہیں۔ اس لئے یہ محال ہے کہ ان میں سے اس کا کوئی شریک یا اس کا کوئی بیٹا ہو۔ جب اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ تمام عالم علوی اور سفلی کا مالک ہے تو وہ یہ بھی بتلاتا ہے کہ وہی تمام دنیوی اور آخروی مصالح کا بھی انتظام فرماتا ہے، ان مصالح کی حفاظت کرتا ہے اور ان کی جزا دیتا ہے۔ النسآء
172 اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ الصلوۃ و السلام کے بارے میں نصاریٰ کے غلوکاذ کر فرمایا اور بیان فرمایا کہ جناب عیسیٰ اللہ کے بندے اور رسول ہیں، تو اب یہاں یہ بھی واضح کردیا کہ حضرت عیسیٰ اپنے رب کی عبادت میں عار نہیں سمجھتے تھے، یعنی اللہ تعالیٰ کی عبادت سے روگردانی نہیں کرتے تھے۔ ﴿وَلَا الْمَلَائِكَةُ الْمُقَرَّبُونَ ﴾” اور نہ اللہ تعالیٰ کے مقرب فرشتے“ اس کی عبادت سے منہ موڑتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو اس چیز سے پاک رکھا ہے کہ وہ اس کی عبادت کو عار سمجھیں اور تکبر و استکبار سے پاک ہونا تو بدرجہ اولیٰ ان کی صفت ہے۔ کسی چیز کی نفی سے اس کی ضد کا اثبات ہوتا ہے۔۔۔ یعنی عیسیٰ علیہ السلام اور اللہ تعالیٰ کے مقرب فرشتے تو اپنے رب کی عبادت میں رغبت رکھتے ہیں، اس کی عبادت کو پسند کرتے ہیں اور اپنے اپنے حسب احوال اس کی عبادت میں سعی کرتے ہیں۔ ان کی یہ عبادت ان کے لئے بہت بڑے شرف اور فوز عظیم کی موجب ہے۔ پس انہوں نے اللہ تعالیٰ کی ربوبیت اور الوہیت میں اپنے آپ کو بندے سمجھنے میں عار محسوس نہیں کی بلکہ وہ ہر طرح سے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی بندگی کا محتاج سمجھتے ہیں۔ یہ نہ سمجھا جائے کہ عیسیٰ علیہ السلام یا کسی اور کو اس مرتبے سے بڑھانا، جو اللہ تعالیٰ نے ان کو عطا کیا ہے، ان کے لئے کوئی کمال ہے بلکہ یہ تو عین نقص اور مذمت و عذاب کا محل و مقام ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَمَن يَسْتَنكِفْ عَنْ عِبَادَتِهِ وَيَسْتَكْبِرْ فَسَيَحْشُرُهُمْ إِلَيْهِ جَمِيعًا﴾ ” اور جو شخص اللہ کا بندہ ہنے کو موجب عار سمجھے اور سرکشی کرے تو اللہ سب کو اپنے پاس جمع کرلے گا۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ اپنی عبادت کو عار سمجھنے والوں، متکبروں اور اپنے مومن بندوں، سب کو عنقریب جمع کرے گا اور ان کے درمیان عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ کرے گا اور اپنی جزا سے نوازے گا۔ النسآء
173 پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے مذکورہ افراد کی بابت اپنے الگ الگ فیصلے کی بابت فرمایا : ﴿فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ﴾” پس وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے عمل صالح کئے‘‘ یعنی انہوں نے ایمان مامور کے ساتھ اعمال صالحہ یعنی حقوق اللہ اور حقوق العباد کے ضمن میں واجبات و مستحبات کو جمع کیا ﴿فَيُوَفِّيهِمْ أُجُورَهُمْ﴾ ” وہ ان کو ان کا پورا بدلہ دے گا۔“ یعنی وہ اجر، جس کو اللہ تعالیٰ نے اعمال پر مترتب فرمایا ہے۔ ہر شخص کو اس کے ایمان اور عمل کے مطابق ملے گا۔ ﴿وَيَزِيدُهُم مِّن فَضْلِهِ﴾ ” اور اپنے فضل سے کچھ زیادہ بھی عنایت کرے گا۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ ان کے ثواب میں اتنا اضافہ کرے گا کہ ان کے اعمال یہ ثواب حاصل نہیں کرسکتے، ان کے افعال اس ثواب تک نہیں پہنچ سکتے اور اس ثواب کا تصور بھی ان کے دل میں نہیں آسکتا۔ اس ثواب میں ہر وہ چیز شامل ہے جو جنت میں موجود ہے، مثلاً ماکولات، مشروبات، بیویاں، خوبصورت مناظر، فرحت و سرور، قلب و روح اور بدن کی نعمتیں، بلکہ اس میں ہر دینی اور دنیاوی بھلائی شامل ہے جو ایمان اور عمل صالح پر مترتب ہوتی ہے۔ ﴿وَأَمَّا الَّذِينَ اسْتَنكَفُوا وَاسْتَكْبَرُوا ﴾ ” لیکن وہ لوگ جنہوں نے عار کی اور تکبر کیا“ یعنی وہ لوگ جو تکبر کی بنا پر اللہ تعالیٰ کی عبادت کو عار سمجھتے ہیں ﴿فَيُعَذِّبُهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا ﴾” ان کو وہ تکلیف دینے والا عذاب دے گا۔“ یہ عذاب الیم، اللہ تعالیٰ کی ناراضی، اس کے غضب اور بھڑکتی ہوئی آگ پر مشتمل ہے جو دلوں کے ساتھ لپٹ جائے گی۔ ﴿وَلَا يَجِدُونَ لَهُم مِّن دُونِ اللَّـهِ وَلِيًّا وَلَا نَصِيرًا ﴾” اور یہ لوگ اللہ کے سوا اپنا حامی اور مددگار نہ پائیں گے۔“ یعنی وہ مخلوق میں کوئی ایسا شخص نہیں پائیں گے جو ان کا ولی و مددگار بن سکے اور وہ اپنا مطلوب و مقصود حاصل کرسکیں اور نہ ان کا کوئی حامی و ناصر ہوگا جو ان سے اس چیز کو دور کرسکے جس سے یہ ڈرتے ہیں، بلکہ صورت حال یہ ہوگی کہ اللہ تعالیٰ جو سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے وہ بھی ان سے الگ ہوجائے گا اور ان کو دائمی عذاب میں چھوڑ دیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ جو فیصلہ کرتا ہے اس کے فیصلے کو کوئی رد نہیں کرسکتا اور نہ اس کی قضا کو کوئی بدل سکتا ہے۔ النسآء
174 اللہ تبارک و تعالیٰ تمام لوگوں پر احسان جتلاتا ہے کہ اس نے ان تک براہین قاطعہ اور واضح روشنی پہنچائی، ان پر حجت قائم کرتا ہے اور ان کے سامنے ہدایت کی راہ واضح کرتا ہے۔ چنانچہ : ﴿يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَكُم بُرْهَانٌ مِّن رَّبِّكُمْ ﴾ ” لوگو ! تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہارے پاس دلیل آچکی ہے۔“ یعنی تمہارے پاس حق کی تائید میں قطعی دلائل آچکے ہیں جو حق کو واضح کرتے ہیں اور اس کی ضد کو بیان کرتے ہیں۔ یہ براہین، دلائل عقلیہ، دلائل نقلیہ، آیات افقی اور آیات نفسی پر مشتمل ہیں، فرمایا : ﴿سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنفُسِهِمْ حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ ﴾ (حم السجدہ :41؍53) ” ہم عنقریب ان کو آفاق میں اور خود ان کی ذات میں نشانیاں دکھائیں گے یہاں تک کہ حق ان پر واضح ہوجائے گا۔ “ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿مِّن رَّبِّكُمْ ﴾ ’ ’تمہارے رب کی طرف سے۔“ اس برہان و دلیل کی عظمت و شرف پر دلالت کرتا ہے کیونکہ یہ تمہارے رب کی طرف سے ہے جس نے تمہاری دینی اور دنیوی تربیت کی ہے۔ یہ اس کی تربیت ہی ہے جس پر اس کی حمد و ثنا بیان کی جائے اور اس کا شکر ادا کیا جائے کہ اس نے تمہیں دلائل عطا کئے تاکہ وہ صراط مستقیم کی طرف تمہاری راہنمائی کرے اور تمہیں نعمتوں سے بھری ہوئی جنتوں تک پہنچائے۔ ﴿وَأَنزَلْنَا إِلَيْكُمْ نُورًا مُّبِينًا ﴾ ” اور اتارا ہم نے تمہاری طرف واضح نور“ وہ یہی قرآن عظیم ہے جو اولین و آخرین کے علوم، سچی خبروں، عدل و احسان اور بھلائی کے احکام اور ہر قسم کے ظلم اور شر سے ممانعت پر مشتمل ہے۔ لوگ اگر قرآن سے روشنی حاصل کر کے اپنی راہوں کو روشن نہیں کریں گے تو اندھیروں میں بھٹکتے رہیں گے۔ اگر انہوں نے قرآن سے بھلائی کو حاصل نہ کیا تو بہت بڑی بدبختی میں پڑے رہیں گے۔ تاہم قرآن عظیم پر ایمان لانے اور اس سے فائدہ اٹھانے کے اعتبار سے لوگ دو اقسام میں منقسم ہیں : النسآء
175 (١) ﴿فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّـهِ ﴾ ” پس جو لوگ اللہ پر ایمان لائے۔“ یعنی جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے وجود کا اعتراف کیا اور یہ تسلیم کیا کہ وہ تمام اوصاف کاملہ سے متصف اور ہر نقص اور ہر عیب سے منزہ ہے۔﴿وَاعْتَصَمُوا بِهِ ﴾ ” اور اس (کے دین کی رسی) کو مضبوط پکڑے رہے۔“ یعنی جنہوں نے اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتے ہوئے اس کے ہاں پناہ لی اور اپنی قوت اور طاقت سے بری ہو کر اپنے رب سے مدد کے طلب گار ہوئے۔ ﴿فَسَيُدْخِلُهُمْ فِي رَحْمَةٍ مِّنْهُ وَفَضْلٍ ﴾ ” ان کو وہ اپنی رحمت اور فضل (کی بہشتوں) میں داخل کرے گا۔“ یعنی اللہ تعالیٰ ان کو اپنی خاص رحمت سے ڈھانپ لے گا، انہیں نیکیوں کی توفیق عنایت کرے گا، انہیں بے پایاں ثواب عطا کرے گا اور ان سے بلائیں دور کرے گا۔ ﴿وَيَهْدِيهِمْ إِلَيْهِ صِرَاطًا مُّسْتَقِيمًا ﴾” اور اپنی طرف (پہنچنے کا) سیدھا راستہ دکھائے گا۔“ یعنی اللہ تعالیٰ انہیں علم و عمل کی توفیق اور انہیں حق اور اس پر عمل کی معرفت عطا کرے گا۔ (٢) یعنی جو لوگ اللہ تعالیٰ پر ایمان نہ لائے، اللہ کے پاس پناہ نہ لی اور اس کی کتاب کو مضبوطی سے نہ پکڑا تو اللہ تعالیٰ ان کو اپنے فضل اور رحمت سے محروم کر دے گا ان کو ان کے نفس کے حوالے کر دے گا۔ انہوں نے ہدایت کی راہ کو اختیار نہ کیا بلکہ وہ واضح طور پر گمراہی میں جاپڑے۔ ایمان ترک کرنے پر یہ ان کی سزا ہے، پس ناکامی اور محرومی ان کا نصیب بن گئی ہے ہم اللہ تبارک و تعالیٰ سے عفو، عافیت اور معافی کا سوال کرتے ہیں۔ النسآء
176 اللہ تبارک و تعالیٰ نے آگاہ فرمایا ہے کہ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کلالہ کے بارے میں فتویٰ طلب کیا تھا اور اس کی دلیل یہ ہے ﴿قُلِ اللّٰهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلَالَةِ ﴾” کہہ دیجیے ! اللہ تعالیٰ تمہیں کلالہ کے بارے میں فتویٰ دیتا ہے“ (كَلَالَہ) سے مراد وہ میت ہے جس کی صلب سے کوئی اولاد ہو، نہ کوئی پوتا پوتی، نہ باپ ہو نہ دادا۔ اس لئے فرمایا :﴿إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ لَيْسَ لَهُ وَلَدٌ ﴾ ” اگر کوئی ایسا مرد مر جائے جس کے اولاد نہ ہو۔“ یعنی اس کا کوئی بیٹا یا بیٹی ہو؟؟؟، نہ صلبی بیٹا ہو اور نہ بیٹے کا بیٹا ہو۔۔۔ اور اسی طرح نہ اس کا باپ ہو اور اس کی دلیل یہ ہے کہ اس کے بھائی اور بہنیں اس کے وارث بنیں گے کیونکہ اس پر علماء کا اجماع ہے کہ بہن بھائی باپ کی معیت میں وارث نہیں بنیں گے۔ پس جب ایسا شخص فوت ہوجائے گا جس کی اولاد ہے نہ باپ ﴿وَلَهُ أُخْتٌ ﴾ البتہ اس کے حقیقی یا باپ شریک بہن ہے، نہ کہ ماں شریک، کیونکہ اس کا حکم پہلے گزر چکا ہے۔ ﴿فَلَهَا نِصْفُ مَا تَرَكَ ﴾ ” اس (بہن) کے لئے ترکے میں سے آدھا حصہ ہے۔“ یعنی بہن کو کلالہ بھائی کے ترکہ یعنی نقدی، جائیداد اور دیگر اثاثوں میں سے نصف ملے گا۔ یہ حصہ میت کی وصیت پوری کرنے اور قرض کی ادائیگی کے بعد دیا جائے گا۔ جیسا کہ اس کے بارے میں احکام گزشتہ اوراق میں گزر چکے ہیں۔ ﴿وَهُوَ ﴾ ” اور وہ‘‘ یعنی میت کا حقیقی بھائی یا باپ کی طرف سے بھائی ﴿يَرِثُهَا إِن لَّمْ يَكُن لَّهَا وَلَدٌ ﴾ ” اس بہن کا وارث ہوگا، اگر اس کی اولاد نہیں ہوگی“ اور اس کے لئے حصہ میراث مقرر نہ ہوکیونکہ وہ تو عصبہ ہے اگر اصحاب فروض یا عصبہ میں شریک کوئی فرد نہ ہو تو وہ تمام ترکہ لے گا یا اصحاب فروض کو ان کے حصے دینے کے بعد جو کچھ باقی بچے گا وہ اس کو ملے گا۔﴿فَإِن كَانَتَا اثْنَتَيْنِ ﴾” اور اگر دو بہنیں ہوں۔“ یعنی دو یا دو سے زیادہ بہنیں ہوں۔﴿فَلَهُمَا الثُّلُثَانِ مِمَّا تَرَكَ ﴾ ” تو ان کو ترکے میں سے دو تہائی ملے گا‘‘ ﴿وَإِن كَانُوا إِخْوَةً رِّجَالًا وَنِسَاءً ﴾ ” اور اگر بھائی اور بہن یعنی مرد اور عورتیں ملے جلے وارث ہوں۔“ یعنی اگر باپ کی طرف سے بھائی اور بہنیں وارث ہوں ﴿فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ ﴾ ” تو مرد کے لئے دو عورتوں کے برابر حصہ ہے‘‘ پس عورتوں کا مقررہ حصہ (دو تہائی) ساقط ہوجائے گا اور ان عورتوں کو ان کے بھائی عصبہ بنا دیں گے۔ (گویا اس میں عصبات کا حکم بیان کیا گیا ہے) عورتوں کا حصہ ساقط ہوجائے گا اور ان کے بھائی ان کے عصبہ بنیں گے۔ ﴿يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَكُمْ أَن تَضِلُّوْا﴾ ” اللہ تم سے اس لئے بیان فرماتا ہے کہ بھٹکتے نہ پھرو۔“ اللہ تعالیٰ تمہارے لئے ان احکام کو واضح کرتا ہے اور ان کی تشریح کرتا ہے جن کے تم محتاج ہو۔ یہ اللہ تعالیٰ کا تم پر فضل و احسان ہے تاکہ تم راہ ہدایت پالو اور تم اس کے احکام پر عمل کرو اور تاکہ تم اپنی جہالت اور عدم علم کی وجہ سے راہ راست سے بھٹک نہ جاؤ۔ ﴿وَاللّٰهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ ﴾ ” اور اللہ ہر چیز سے واقف ہے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ غائب اور موجود، ماضی اور مستقبل کے تمام امور کو جانتا ہے۔ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ تم اس کی وضاحت اور تعلیم کے محتاج ہو، وہ اپنے علم میں سے تمہیں علم سکھاتا ہے جو تمہیں ہر زمان و مکان میں ہمیشہ فائدہ دے گا۔ النسآء
0 المآئدہ
1 یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے اپنے مومن بندوں کو اس بات کا حکم ہے جس کا ایمان تقاضا کرتا ہے اور وہ یہ کہ معاہدوں کو پورا کیا جائے۔ ان میں کمی کی جائے نہ ان کو توڑا جائے۔ یہ آیت کریمہ ان تمام معاہدوں کو شامل ہے جو بندے اور اس کے رب کے درمیان ہیں جیسے اس کی عبودیت کا التزام، اسے پوری طرح قائم رکھنا اور اس کے حقوق میں سے کچھ کمی نہ کرنا اور یہ ان معاہدوں کو بھی شامل ہے جو بندے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مابین آپ کی اتباع اور اطاعت کے بارے میں ہیں اور اسی طرح اس میں وہ معاہدے بھی شامل ہیں جو بندے اور اس کے والدین اور اس کے عزیز و اقارب کے درمیان ان کے ساتھ حسن سلوک، صلہ رحمی اور عدم قطع رحمی کے بارے میں ہیں، نیز اس آیت کریمہ کے حکم میں وہ معاہدے بھی شامل ہیں جو فراخی اور تنگ دستی، آسانی اور تنگی میں صحبت اور دوستی کے حقوق کے بارے میں ہیں۔ اس کے تحت وہ معاہدے بھی آتے ہیں جو معاملات، مثلاً خرید و فروخت اور اجارہ وغیرہ کے ضمن میں بندے اور لوگوں کے درمیان ہیں۔ اس میں صدقات اور ہبہ وغیرہ کے معاہدے کی پابندی، مسلمانوں کے حقوق کی ادائیگی وغیرہ بھی شامل ہے جن کی پابندی کو اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں عائد کیا ہے۔﴿إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ ﴾ (الحجرات :49؍10) ” تمام مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں“ بلکہ حق کے بارے میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون اور ایک دوسرے کی مدد کرنا، مسلمانوں کا ایک دوسرے کے ساتھ پیار اور محبت سے مل جل کر رہنا اور قطع تعلقات سے اجتناب وغیرہ تک شامل ہے۔ پس اس حکم میں دین کے تمام اصول و فروغ شامل ہیں اور دین کے تمام اصول و فروع ان معاہدوں میں داخل ہیں جن کی پابندی کا اللہ تبارک و تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر اپنے احسان کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے : ﴿أُحِلَّتْ لَكُم ﴾” تمہارے لئے حلال کردیئے گئے۔‘‘ یعنی تمہاری خاطر اور تم پر رحمت کی بنا پر حلال کردیئے گئے ہیں۔ ﴿بَهِيمَةُ الْأَنْعَامِ ﴾ ” چوپائے مویشی“ یعنی اونٹ، گائے اور بھیڑ بکری وغیرہ بلکہ بسا اوقات اس میں جنگلی جانور، مثلاً ہرن، گورخر اور اس قسم کے دیگر شکار کئے جانے والے جانور بھی شامل ہیں۔ بعض صحابہ کرام اس آیت کریمہ سے اس بچے کی حلت پر بھی استدلال کرتے ہیں جو ذبح کرتے وقت مذبوحہ کے پیٹ میں ہوتا ہے اور ذبح کرنے کے بعد وہ مذبوحہ کے پیٹ میں مر جاتا ہے۔ [حدیث میں بھی ایسے بچے کو یہ کہہ کر حلال قرار دیا گیا ہے ذَکوٰۃُ الجَنِیْنِ ذَکَاۃُ أمِّہِ (ابوداؤد، ترمذی، بحوالہ صحیح الجامع) ” بچے کا ذبح کرنا یہی ہے کہ اس کی ماں کو ذبح کرلیا جائے۔“ یعنی ماں کا ذبح کرلینا، بچے کی حلت کے لئے کافی ہے۔ (ص۔ ی)] ﴿إِلَّا مَا يُتْلَىٰ عَلَيْكُمْ ﴾ ” سوائے ان چیزوں (کی تحریم) کے جو تمہیں پڑھ کر سنائے جاتے ہیں۔“ جیسے فرمان باری تعالیٰ ہے : ﴿ حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنزِيرِ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّـهِ بِهِ وَالْمُنْخَنِقَةُ وَالْمَوْقُوذَةُ وَالْمُتَرَدِّيَةُ وَالنَّطِيحَةُ وَمَا أَكَلَ السَّبُعُ إِلَّا مَا ذَكَّيْتُمْ ۔۔الاٰیة﴾(المائدۃ:5؍3)” تم پر حرام کردیا گیا مردار، خون، سور کا گوشت، جس چیز پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام پکارا گیا ہو، وہ جانور جو گلا گھٹ کر مر جائے، جو چوٹ لگ کر مر جائے، جو گر کر مر جائے، جو سینگ لگ کر مر جائے اور وہ جانور جسے درندے پھاڑ کھائیں سوائے اس کے جس کو تم ذبح کرلو اور وہ جانور جو آستانوں پر ذبح کئے جائیں۔۔۔ “ مذکورہ بالا تمام جانور اگرچہ ﴿بَهِيمَةُ الْأَنْعَامِ﴾ مویشیوں میں شامل ہیں تاہم یہ مردار ہونے کی وجہ سے حرام ہیں۔ یہ چوپائے مویشی عام طور پر تمام احوال و اوقات میں مباح ہیں البتہ احرام کی حالت میں ان کے شکار کو مستثنی ٰقرار دیا گیا ہے، اس لئے فرمایا : ﴿غَيْرَ مُحِلِّي الصَّيْدِ وَأَنتُمْ حُرُمٌ ﴾” مگر حلال نہ جانو شکار کو احرام کی حالت میں“ یعنی یہ جانور تمہارے لئے تمام احوال میں حلال ہیں سوائے اس حالت میں جبکہ تم احرام کی حالت میں ہو تب اس حالت میں شکار نہ کرو، یعنی احرام میں ان کو مارنے کی جرأت نہ کرو، کیونکہ حالت احرام میں ان کا شکار کرنا مثلاً ہرن وغیرہ کو مارنا تمہارے لئے جائز نہیں۔ شکار سے مراد وہ جنگلی جانور ہے جس کا گوشت کھایا جاتا ہے۔ ﴿إِنَّ اللَّـهَ يَحْكُمُ مَا يُرِيدُ ﴾ ” بے شک اللہ جو چاہے، فیصلہ کرتا ہے“ یعنی اللہ تعالیٰ جو بھی ارادہ کرتا ہے اس امر کے مطابق فیصلہ کرتا ہے جو اس کی حکمت کے عین مطابق ہوتا ہے۔ جس طرح اس نے تمہارے مصالح کے حصول اور مضرت کو دور کرنے کے لئے تمہیں معاہدوں کو پورا کرنے کا حکم دیا اور تم پر رحمت کی بنا پر اس نے تمہارے لئے مویشیوں کو حلال قرار دیا اور بعض موانع کی وجہ سے جو جانوران میں سے مستثنیٰ ہیں ان کو حرام قرار دیا مثلاً مردار وغیرہ اس کا مقصد تمہاری حفاظت اور احترام ہے۔ احرام کی حالت میں شکار کو حرام قرار دیا اور اس کا مقصد احرام کا احترام اور تعظیم ہے۔ المآئدہ
2 ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُحِلُّوا شَعَائِرَ اللَّـهِ ﴾ ” اے ایمان والو ! اللہ کی نشانیوں کو حلال نہ سمجھو“ یعنی اللہ تعالیٰ کی ان محرمات کو حلال نہ ٹھہرا لو جن کی تعظیم کا اور ان کے عدم فعل کا اس نے تمہیں حکم دیا ہے۔ پس یہ ممانعت، ان کے فعل کی ممانعت اور ان کے حلال ہونے کا اعتقاد رکھنے کی ممانعت پر مشتمل ہے۔ یعنی یہ ممانعت فعل قبیح اور اس کے حلال ہونے کا اعتقاد رکھنے کو شامل ہے اس ممانعت میں محرمات احرام اور محرمات حرم بھی داخل ہیں۔ اس میں وہ امور بھی داخل ہیں جن کا ذکر اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں آتا ہے ﴿وَلَا الشَّهْرَ الْحَرَامَ ﴾ ” اور نہ ادب کے مہینے کی۔“ یعنی حرمت کے مہینے میں لڑائی اور دیگر مظالم کا ارتکاب کر کے اس کی ہتک حرمت نہ کرو، جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِندَ اللَّـهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللَّـهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ۚ ذٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ ۚ فَلَا تَظْلِمُوا فِيهِنَّ أَنفُسَكُمْ﴾(التوبة:9؍36) ” بے شک اللہ کے نزدیک اس کی کتاب میں مہینے گنتی میں بارہ ہیں، اس روز سے کہ اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا۔ ان میں سے چار مہینے حرمت کے ہیں۔ یہی مضبوط دین ہے۔ تم ان مہینوں میں (نا حق لڑائی کر کے) اپنے آپ پر ظلم نہ کرو۔ “ جمہور اہل علم کہتے ہیں کہ حرام مہینوں میں لڑائی کی تحریم منسوخ ہے۔ اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے ﴿فَإِذَا انسَلَخَ الْأَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ ﴾(التوبہ :9؍5) ” جب حرمت کے مہینے گزر جائیں تو مشرکوں کو جہاں پاؤ ان کو قتل کرو“ اور اس کے علاوہ دیگر آیات جو عموم پر دلالت کرتی ہیں جن میں کفار کے ساتھ مطلق قتال کا حکم دیا گیا ہے اور اس قتال سے پیچھے رہ جانے پر وعید سنائی ہے، نیز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ذیقعد کے مہینے میں اہل طائف کے خلاف جنگ کی اور ذیقعد حرام مہینوں میں سے ہے۔ دیگر اہل علم کہتے ہیں کہ حرمت کے مہینوں میں لڑائی کی ممانعت منسوخ نہیں ہے اس کی دلیل یہی مذکورہ آیت کریمہ ہے۔ جس میں خاص طور پر لڑائی کی ممانعت کی گئی ہے اور انہوں نے اس بارے میں وارد مطلق نصوص کو مقید پر محمول کیا ہے۔ اور بعض علماء نے اس میں یہ تفصیل بیان کی ہے کہ حرمت والے مہینوں میں جنگ کی ابتدا کرنا جائز نہیں، البتہ اگر جنگ پہلے سے جاری ہو جبکہ اس کی ابتدا حلال مہینوں میں ہوئی ہو تو حرمت کے مہینوں میں اس کی تکمیل جائز ہے اور انہوں نے اہل طائف کے خلاف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جنگ کو اسی پر محمول کیا ہے، کیونکہ ان کے ساتھ جنگ کی ابتدا حنین میں ہوئی جو شوال کے مہینے میں ہوئی تھی۔ یہ سب اس جنگ کے بارے میں ہے جس میں مدافعت مقصود نہ ہو۔ جہاں تک دفاعی جنگ کا معاملہ ہے جبکہ وہ کفار کی طرف سے شروع کی گئی ہو تو مسلمانوں کو اپنے دفاع میں حرمت والے مہینوں میں بھی جنگ لڑنا جائز ہے اور اس پر تمام اہل علم کا اجماع ہے۔ ﴿وَلَا الْهَدْيَ وَلَا الْقَلَائِدَ ﴾ ” اور نہ قربانی کے جانوروں کی“ یعنی تم اس ﴿ الْهَدْيَ ﴾ ” قربانی“ کو جو حج یا عمرہ یا دیگر ایام میں بیت اللہ کو بھیجی جا رہی ہو، حلال نہ ٹھہرا لو۔ اس کو قربان گاہ تک پہنچنے سے مت روکو، نہ اسے چوری وغیرہ کے ذریعے سے حاصل کرنے کی کوشش کرو، نہ اس کے بارے میں کوتاہی کرو اور نہ اس کی طاقت سے زیادہ اس پر بوجھ لادو۔ مباداکہ وہ قربان گاہ تک پہنچنے سے پہلے ہی تلف ہوجائے بلکہ اس ہدی کی اور اس کو لانے والے کی تعظیم کرو۔ ﴿وَلَا الْقَلَائِدَ﴾” اور نہ ان جانوروں کی (جو اللہ کی راہ میں نذر کر دئیے گئے ہوں اور) جن کے گلوں میں پٹے بندھے ہوں۔“ یہ ہدی کی ایک خاص قسم ہے یہ ہدی کا وہ جانور ہے جس کے لئے قلادے غیرہ تیار کر کے صرف اس لئے اس کی گردن میں ڈالے گئے ہوں تاکہ اس سے ظاہر ہو کہ یہ اللہ کے شعائر ہیں نیز اس کا مقصد یہ بھی ہے کہ لوگ اس کی پیروی کریں اور اس سے سنت کی تعلیم بھی مقصود ہے۔ تاکہ لوگ پہچان لیں کہ یہ ہدی کا جانور ہے لہٰذا حرمت کا حامل ہے۔ بنا بریں ہدی کو علامت کے طور پر قلادے وغیرہ پہنانا سنت ہے اور شعائر مسنونہ میں اس کا شمار ہوتا ہے۔ ﴿وَلَا آمِّينَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ ﴾ ” اور نہ ان لوگوں کی جو عزت کے گھر (یعنی بیت اللہ) کو جا رہے ہوں۔“ یعنی جو بیت اللہ کا قصد رکھتے ہیں ﴿يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّن رَّبِّهِمْ وَرِضْوَانًا ﴾ ” اپنے رب کے فضل اور اس کی خوشنودی کے طلبگار ہوں“ یعنی جو بیت اللہ پہنچنے کا قصد رکھتا ہے اور وہ تجارت اور جائز ذرائع اکتساب کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کے فضل کو حاصل کرنے کا ارادہ لئے ہوئے ہے یا وہ حج، عمرہ، طواف، بیت اللہ، نماز اور مختلف انواع کی دیگر عبادات کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کا ارادہ رکھتا ہے، اس کے ساتھ برائی سے پیش آؤ نہ اس کی اہانت کرو، بلکہ اس کی تکریم کرو اور تمہارے رب کے گھر کی زیارت کے لئے جانے والوں کی تعظیم کرو۔ اس حکم میں یہ چیز بھی داخل ہے کہ بیت اللہ کی طرف جانے والے تمام راستوں کو پرامن بنایا جائے تاکہ بیت اللہ کو جانے والے بڑے اطمینان سے اللہ کے گھر کو جا سکیں، انہیں راستے میں قتل و غارت اور اپنے اموال کے بارے میں کسی چوری ڈاکے اور کسی ظلم کا خوف نہ ہو۔ اس آیت کریمہ کے عموم کو اللہ تبارک و تعالیٰ کا یہ ارشاد خاص کرتا ہے : ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ فَلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَـٰذَا ﴾(التوبة:9؍28)” اے ایمان لانے والے لوگو ! مشرک تو ناپاک ہیں وہ اس سال کے بعد مسجد حرام کے قریب بھی نہ جائیں۔“ لہٰذا مشرک حرم میں داخل نہیں ہوسکتا۔ اس آیت کریمہ میں بیت اللہ کی طرف جانے والے اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور اس کی رضا کا قصد رکھنے والے سے تعرض کرنے کی ممانعت کی تخصیص اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جو شخص اس نیت سے بیت اللہ کا قصد کرتا ہے کہ گناہوں کے ذریعے سے اس کی ہتک حرمت کا ارتکاب کرے، اس کو اللہ تعالیٰ کے گھر میں فساد پھیلانے سے روکا جائے کیونکہ اسے اس فعل سے روکنا حرم کے احترام کی تکمیل ہے، جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿وَمَن يُرِدْ فِيهِ بِإِلْحَادٍ بِظُلْمٍ نُّذِقْهُ مِنْ عَذَابٍ أَلِيم﴾ٍ(الحج:22؍25)” اور جو کوئی اس میں ظلم سے کج روی کرنا چاہے ہم اسے درد ناک عذاب کا مزا چکھائیں گے۔ “ چونکہ اللہ تعالیٰ نے حالت احرام میں شکار کرنے سے منع کیا ہے، اس لئے فرمایا :﴿وَإِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوا ﴾ ” اور جب احرام اتار دو تو (پھر اختیار ہے کہ) شکار کرو۔“ یعنی جب تم حج اور عمرہ کے احرام کھول دو تو تمہارے لئے شکار کرنا جائز ہے اور اب اس کی تحریم ختم ہوگئی ہے۔ تحریر کے بعد کا حکم محرمہ اشیاء کو ان کی اس حالت کی طرف لوٹا دیتا ہے جو تحریم کے حکم سے پہلے تھی۔ ﴿وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ أَن صَدُّوكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ أَن تَعْتَدُواۘ ﴾” اور لوگوں کی دشمنی، اس وجہ سے کہ انہوں نے تم کو عزت والی مسجد سے روکا تھا، تمہیں زیادتی کرنے پر آمادہ نہ کرے۔“ یعنی کسی قوم کا بغض، عداوت اور تم پر ان کا ظلم و تعدی کہ انہوں نے تمہیں مسجد حرام تک جانے سے روکا تھا تمہیں ان پر ظلم و تعدی کرنے پر آمادہ نہ کرے کہ تم ان سے بدلہ لے کر اپنے غصے کو ٹھنڈا کرو، کیونکہ بندے پر ہر حالت میں اللہ تعالیٰ کے حکم کا التزام کرنا اور عدل و انصاف کا راستہ اختیار کرنا فرض ہے۔ خواہ اس کے خلاف جرم، ظلم یا زیادتی کا ارتکاب ہی کیوں نہ کیا گیا ہو۔ جس نے اس پر جھوٹا الزام لگایا، اس پر جھوٹا الزام لگانا اور جس نے اس کے ساتھ خیانت کی، اس کے ساتھ خیانت کرنا کسی حالت میں جائز نہیں۔ ﴿وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ ﴾ ” نیکی اور پرہیز گاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو۔“ یعنی تم نیکیوں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرو۔ یہاں ﴿ الْبِرِّ ﴾ ” نیکی“ حقوق اللہ اور حقوق العباد کے ضمن میں ان تمام ظاہری اور باطنی اعمال کو شامل ہے جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہیں اور وہ ان پر راضی ہے۔ اس مقام پر تقویٰ ان تمام ظاہری اور باطنی اعمال کو ترک کرنے کا نام ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ناپسند ہیں بھلائی کی ہر خصلت جس کے فعل کا حکم یا برائی کی ہر خصلت جسے ترک کرنے کا حکم ہے بندہ خود بھی اس کے فعل پر مامور ہے اور اسے اپنے مومن بھائیوں کے ساتھ، اپنے قول و فعل کے ذریعے سے جو ان کو اس بھلائی پر آمادہ کرے یا اس میں نشاط پیدا کرے، تعاون کرنے کا حکم ہے۔ ﴿وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ ﴾ ” اور گناہ پر ایک دوسرے سے تعاون نہ کرو“ اور یہ ان گناہوں پر جسارت ہے جن کے ارتکاب سے انسان گناہگار اور ناقابل اعتبار ہوجاتا ہے ﴿وَالْعُدْوَانِ﴾ ” اور نہ زیادتی پر“ یہ مخلوق کے ساتھ ان کی جان و مال اور ان کی عزت و ناموس کے بارے میں ظلم اور زیادتی ہے۔ پس بندے پر واجب ہے کہ وہ ہر گناہ اور ظلم و تعدی سے اپنے آپ کو بھی روکے اور دوسروں کے ساتھ بھی اس ظلم و تعدی کو ترک کرنے پر تعاون کرے۔ ﴿وَاتَّقُوا اللَّـهَ ۖ إِنَّ اللَّـهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ ﴾ ” اور اللہ سے ڈرتے رہو، کچھ شک نہیں کہ اللہ کا عذاب سخت ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ ہر اس شخص کو سزا دے گا جو اس کی نافرمانی کرے گا اور محارم کے ارتکاب کی جسارت کرے گا۔ پس ہتک محارم سے بچو مبادا (ایسا نہ ہو) کہ تم اس کی دنیاوی یا آخروی سزا کے مستحق بن جاؤ۔ المآئدہ
3 یہ ہے اللہ تبارک و تعالیٰ کا وہ ارشاد : جس کا اس نے اس آیت کریمہ ﴿إِلَّا مَا يُتْلَىٰ عَلَيْكُمْ ﴾ (المائدہ :1؍5) میں حوالہ دیا ہے۔ معلوم ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے جو چیز حرام ٹھہرائی ہے وہ اپنے بندوں کی حفاظت اور ان کو اس ضرر سے بچانے کے لئے حرام قرار دی ہے جو ان محرمات میں ہوتا ہے۔ کبھی تو اللہ تعالیٰ پر یہ ضرر اپنے بندوں کے سامنے بیان کردیتا ہے اور کبھی (اپنی حکمت کے تحت) اس ضرر کو بیان نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ اس نے ” مردار“ کو حرار قرار دیا ہے۔ مردار سے مراد وہ مرا ہوا جانور ہے جو شرعی طریقے سے ذبح ہوئے بغیر زندگی سے محروم ہوگیا ہو، پس اس جانور کا گوشت ضرر رساں ہونے کی وجہ سے حرام ہے اور وہ ضرر ہے اس کے اند رگوشت میں خون کا رک جانا، جس کے کھانے سے نقصان پہنچتا ہے اور اکثر جانور، جو کسی بیماری کی وجہ سے جو ان کی ہلاکت کا باعث ہوتی ہے، مر جاتے ہیں، وہ کھانے والے کے لئے نقصان کا باعث ہیں۔ البتہ مری ہوئی ٹڈی اور مچھلی اس حکم سے مستثنیٰ ہے، کیونکہ ان کا کھانا حلال ہے۔ [یہ استثناء حدیث سے ثابت ہے،(سنن ابن ماجہ حدیث :3218) اسی لئے صحیح ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ حدیث کے بغیر قرآن کو نہیں سمجھا جا سکتا۔ حدیث کے ساتھ ہی قرآن کی تفہیم اور اس کے احکامات کی تعمیل کی تکمیل ہوتی ہے۔ (ص۔ی) ] ﴿وَالدَّمُ ﴾ ” اور خون‘‘ یعنی بہتا ہوا خون، جیسا کہ ایک دوسری آیت میں اس کو اس صفت سے مقید بیان کیا گیا ہے۔ ﴿وَلَحْمُ الْخِنزِيرِ ﴾” اور سور کا گوشت“ اس حرمت میں اس کے تمام اجزا شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے تمام ناپاک درندوں میں سے خنزیر کو خاص طور پر منصوص کیا ہے کیونکہ اہل کتاب میں سے نصاریٰ دعویٰ کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے خنزیر کو حلال قرار دیا ہے۔۔۔ یعنی نصاریٰ سے دھوکہ نہ کھانا، کیونکہ یہ خنزیر بھی حرام اور من جملہ خبائث کے ہے۔ ﴿وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّـهِ بِهِ ﴾ ” اور وہ جس پر غیر اللہ کا نام پکارا جائے“ یعنی اس پر بتوں، اولیاء، کواکب اور دیگر مخلوق کا نام لیا گیا ہو۔ جس طرح ذبیحہ پر ذبح کرتے وقت اللہ تعالیٰ کا نام لینا، اسے پاک کردیتا ہے اسی طرح غیر اللہ کا نام، ذبیحہ کو معنوی طور پر ناپاک کردیتا ہے۔ کیونکہ یہ شرک ہے ﴿وَالْمُنْخَنِقَةُ ﴾ ” اور جو جانور گلا گھٹ کر مر جائے۔‘‘ یہ وہ مرا ہوا جانور ہے جس کو ہاتھ سے، رسی سے یا کسی تنگ چیز میں اس کا سرداخل کر کے جہاں سے نکلنا ممکن نہ ہو اس کا گلا گھونٹ کر ہلاک کردیا گیا ہو ﴿وَالْمَوْقُوذَةُ ﴾ ” اور جو چوٹ لگ کر مر جائے۔“ اس مرے ہوئے جانور کہا جاتا ہے جو لاٹھی، پتھر یا لکڑی وغیرہ کی ضرب سے مرا ہو یا اس پر قصداً یا بغیر قصد کے دیوار وغیرہ گرگئی ہو ﴿ وَالْمُتَرَدِّيَةُ ﴾ ”اور جو گر کر مر جائے۔“ یعنی جو بلند جگہ مثلاً پہاڑ، دیوار یا چھت وغیرہ سے گر کر مر گیا ہو ﴿وَالنَّطِيحَةُ ﴾اس مرے ہوئے جانور کو کہتے ہیں جسے کسی دوسرے جانور نے سینگ مار کر ہلاک کردیا ہو﴿وَمَا أَكَلَ السَّبُعُ ﴾ جسے بھیڑیئے، شیر، چیتے یا کسی شکاری پرندے وغیرہ نے پھاڑ کھایا ہو۔ اگر درندے کے پھاڑ کھانے سے جانور مر جائے تو یہ حلال نہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ﴿ إِلَّا مَا ذَكَّيْتُمْ ﴾ ” مگر جس کو تم (مرنے سے پہلے) ذبح کرلو۔“ گلا گھٹ کر مرنے والے، چوٹ لگ کر مرنے والے، بلندی سے گر کر مرنے والے اور درندے کے پھاڑ کھانے سے مرنے والے جانور کی طرف راجع ہے۔ اگر اس جانور میں پوری طرح زندگی موجود ہو اور اسے ذبح کرلیا جائے تو یہ جانور شرعی طور پر مذبوح ہے۔ بنابریں فقہاء کہتے ہیں ” اگر کسی درندے وغیرہ نے کسی جانور کو چیر پھاڑ کر اس کی آنتیں اور دیگر اندرونی اعضا کو باہر نکال کر علیحدہ علیحدہ کردیا ہو یا اس کا حلقوم کاٹ دیا ہو تو اس میں زندگی کا وجود اور عدم وجود مساوی ہیں، کیونکہ اب اس کو ذبح کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔“ بعض فقہاء اس میں صرف زندگی کے وجود کا اعتبار کرتے ہیں۔ اگر اس جانور میں بھی زندگی کا وجود ہو اور اس حالت میں اس کو ذبح کرلیا جائے تو وہ حلال ہے خواہ اس کا اندرونی حصہ بکھیر ہی کیوں نہ دیا گیا ہو۔ آیت کریمہ کا ظاہر اسی پر دلالت کرتا ہے۔ ﴿وَأَن تَسْتَقْسِمُوا بِالْأَزْلَامِ ﴾” اور یہ کہ پانسوں کے ذریعے سے قسمت معلوم کرو۔“ یعنی تمہیں تیروں کے ذریعے سے قسمت کا حال معلوم کرنے سے منع کردیا گیا۔ (استقسام) کے معنی یہ ہیں کہ جو تمہارے مقسوم اور مقدر میں ہے اسے طلب کرنا۔ جاہلیت کے زمانے میں تین تیر ہوتے تھے جن کو اس کام کے لئے استعمال کیا جاتا تھا جن میں سے ایک پر لکھا ہوتا تھا کہ ” یہ کام کر“ دوسرے پر لکھا ہوتا تھا ” یہ کام نہ کر“ اور تیسرا تیر خالی ہوتا تھا۔ جب کوئی شخص کسی سفر پر روانہ ہونے لگتا یا شادی وغیرہ کرتا تو تینوں تیر کسی ڈوگنی وغیرہ میں رکھ کر گھماتے پھر ان میں سے ایک تیر نکال لیتے اگر اس پر لکھا ہوتا ’’یہ کام کر‘‘ تو وہ یہ کام کرلیتا اور اگر لکھا ہوتا ” یہ کام نہ کر“ تو وہ اس کام میں ہاتھ نہ ڈالتا۔ اگر وہ تیر نکل آتا جس پر کچھ بھی نہ لکھا ہوتا تو وہ اس عمل کا اعادہ کرتا یہاں تک کہ لکھا ہوا تیر نکل آتا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان پر اس عمل کو اس صورت میں یا اس سے مشابہ صورت میں حرام قرار دے دیا اور اس کے عوض ان کو تمام امور میں اپنے رب سے استخارہ کرنے کا حکم دیا (جیسا کہ حدیث نبوی سے استخارے کی تاکید ہے۔ جامع الترمذی، حدیث :480) ﴿ذَٰلِكُمْ فِسْقٌ ﴾ ” یہ سب گناہ (کے کام) ہیں۔“ یہ ان تمام محرمات کی طرف اشارہ ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی حفاظت کے لئے حرام قرار دیا ہے۔ یہ تمام محرمات فسق ہیں، یعنی اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے نکل کر شیطان کی اطاعت میں داخل ہونا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں پر احسان جتلاتے ہوئے فرماتا ہے : ﴿الْيَوْمَ يَئِسَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِن دِينِكُمْ﴾ وہ دن جس کی طرف آیت کریمہ میں اشارہ کیا گیا ہے وہ عرفہ کا دن ہے جب اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کو مکمل فرمایا : اپنے بندے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کی اور اہل شرک پوری طرح بے یار و مددگار ہوگئے حالانکہ وہ اس سے پہلے اہل ایمان کو ان کے دین سے پھیرنے کی بہت خواہش رکھتے تھے۔ جب انہوں نے اسلام کا غلبہ، اس کی فتح اور بالا دستی دیکھی تو اہل ایمان کو دین سے پھیرنے سے پوری طرح مایوس ہوگئے اور اب ان کی حالت یہ ہوگئی تھی کہ وہ اہل ایمان سے خوف کھانے لگے۔ بنا بریں، اس سال یعنی 10 ھ میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری حج کیا تو اس حج میں کسی مشرک نے حج نہیں کیا اور نہ کسی نے عریاں ہو کر بیت اللہ کا طواف کیا۔ اس لئے فرمایا : ﴿فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِ ﴾ ” تو ان سے مت ڈرو اور مجھی سے ڈرتے رہو۔“ یعنی مشرکین سے نہ ڈرو بلکہ صرف اللہ تعالیٰ سے ڈرو جس نے مشرکین کے مقابلے میں تمہاری مدد فرمائی اور ان کو تنہا چھوڑ دیا اور ان کے مکر و فریب اور ان کی سازشیں ان کے سینوں ہی میں لوٹا دیں۔ ﴿الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ ﴾ ” آج میں نے تمہارے لئے تمہارے دین کو مکمل کردیا‘‘ یعنی اپنی نصرت کا اتمام کر کے اور ظاہری و باطنی طور پر اور اصول و فروع میں شریعت کی تکمیل فرما کر۔ اسی لئے احکام دین یعنی اس کے تمام اصول و فروع میں کتاب و سنت کافی ہیں۔ اگر تکلیف کا شکار کوئی شخص یہ دعویٰ کرتا ہے کہ لوگ عقائد اور احکام دین کی معرفت کے لئے کتاب و سنت کے علم کے علاوہ دیگر علوم مثلاً علم کلام وغیرہ کے محتاج ہیں، تو وہ جاہل اور اپنے دعویٰ میں جھوٹا ہے گویا وہ اس زعم میں مبتلا ہے کہ دین کی تکمیل اس کے اقوال اور ان نظریات کے ذریعے سے ہوئی ہے جس کی طرف وہ دعوت دیتا ہے اور یہ سب سے بڑا ظلم اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو جاہل قرار دینا ہے۔ ﴿وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي ﴾ ” اور میں نے تم پر اپنی (ظاہری اور باطنی) نعمت پوری کردی“ ﴿وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ﴾” اور میں نے تمہارے لئے اسلام کو دین کے طور پر پسند کرلیا۔“ یعنی میں نے اسلام کو تمہارے لئے دین کے طور پر اور تمہیں اسلام کے لئے چن لیا ہے۔ اب اپنے رب کی شکر گزاری کے لئے اس دین کو قائم کرو اور اس ہستی کی حمد و ستائش کرو جس نے تمہیں بہترین، عالی شان اور کامل ترین دین سے نواز کر تم پر احسان فرمایا۔ ﴿فَمَنِ اضْطُرَّ ﴾” پس جو شخص ناچار ہوجائے۔“ یعنی جسے ضرورت ان محرمات میں سے کچھ کھانے پر مجبور کر دے جن کا ذکر﴿حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ ﴾کے تحت گزر چکا ہے ﴿فِي مَخْمَصَةٍ﴾ ” بھوک کی وجہ سے“ یعنی اگر وہ سخت بھوکا ہو ﴿غَيْرَ مُتَجَانِفٍ لِّإِثْمٍ ﴾ ” گناہ کی طرف مائل نہ ہو۔“ بایں طور کہ وہ ان محرمات کو اس وقت تک نہ کھائے جب تک کہ وہ اضطراری حالت میں نہ ہو اور ضرورت سے بڑھ کر نہ کھائے ﴿فَإِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴾ بے شک اللہ تعالیٰ بخشنے والا اور بے پایاں رحمت کا مالک ہے کہ اس نے بندے کے لئے اس اضطراری حال میں محرمات کو کھانا جائز قرار دے دیا اور اس کی نیت کے مطابق اور دین میں کوئی نقص لاحق کئے بغیر اللہ تعالیٰ نے اس پر رحم فرمایا۔ المآئدہ
4 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے نبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے :﴿ يَسْأَلُونَكَ مَاذَا أُحِلَّ ﴾ ” آپ سے پوچھتے ہیں کہ کون کون سی چیزیں ان کے لئے حلال ہیں۔“ یعنی ان کے لئے کون کون سے کھانے حلال ہیں۔ ﴿قُلْ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ ﴾” کہہ دیجیے ! تمہارے لئے پاکیزہ چیزیں حلال کردی گئی ہیں“ (طبیات) سے مراد ہر وہ چیز ہے جس میں کوئی فائدہ ہے اور بدن اور عقل میں نقصان پہنچے بغیر ان سے لذت حاصل ہوتی ہے۔ پس طیبات میں وہ تمام غلہ جات اور پھل وغیرہ شامل ہیں جو بستیوں اور صحراؤں میں پیدا ہوتے ہیں۔ اس آیت کریمہ کے مضمون میں وہ تمام حیوانات بھی شامل ہیں جو خشک زمین پر پائے جاتے ہیں سوائے ان حیوانات کے جن کو شارع نے مستثنی قرار دیا ہے۔ مثلاً درندے، ناپاک جانور اور ناپاک اشیاء وغیرہ۔ اسی لئے یہ آیت کریمہ اپنے مفہوم میں ناپاک چیزوں کی تحریم پر دلالت کرتی ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں صراحت کے ساتھ اس تحریم کو بیان کیا گیا ہے۔ ﴿وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ﴾ (الاعراف :7؍157) ” وہ پاک چیزوں کو انکے لئے حلال کرتا ہے اور ناپاک چیزوں کو ان کے لئے حرام ٹھہراتا ہے۔ “ ﴿وَمَا عَلَّمْتُم مِّنَ الْجَوَارِحِ ﴾ ” اور جن شکاری جانوروں کو تم نے سدھایا ہو۔‘‘ یعنی جو تم شکاری جانوروں کو شکار کرنا سکھاتے ہو وہ شکار بھی تمہارے لئے حلال ہے۔ یہ آیت کریمہ شکار کے متعلق متعدد امور پر دلالت کرتی ہے۔ (١) یہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر لطف و کرم اور اس کی رحمت ہے کہ اس نے ان کے لئے رزق حلال کی راہیں کشادہ کردی ہیں اور ان کے لئے شکاری جانوروں کے شکار کئے ہوئے اس شکار کو حلال کردیا جس کو ذبح نہیں کرسکتے۔۔۔ شکاری جانور سے مراد کتے، چیتے اور باز وغیرہ ہیں، جو اپنے دانتوں سے یا پنجے سے شکار کو پکڑتے ہیں۔ (٢) شکاری جانور کے لئے شرط یہ ہے کہ اس کو شکار کے لئے سکھایا گیا ہو۔ ایسا سکھانا جس کو عرف عام میں سکھانا کہتے ہیں، یعنی اگر اسے شکار پر چھوڑا جائے تو وہ شکار پر جھپٹے اور اگر اس کو روک دیا جائے تو فوراً رک جائے اور جب شکار کو پکڑ لے تو اس کو نہ کھائے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿تُعَلِّمُونَهُنَّ مِمَّا عَلَّمَكُمُ اللّٰهُ ۖ فَكُلُوا مِمَّا أَمْسَكْنَ عَلَيْكُمْ ﴾ ”اور جس (طریق) سے اللہ نے تمہیں (شکار کرنا) سکھایا ہے (اس طریق سے) تم نے ان کو سکھایا ہو تو جو شکار وہ تمہارے لئے پکڑ رکھیں اس کو کھالیا کرو۔“ یعنی وہ شکار کو تمہارے لئے روک رکھیں اور جس شکار میں سے شکاری جانور نے کچھ کھالیا ہو تو اس کے بارے میں یہ معلوم نہیں ہوسکتا کہ آیا اس نے شکار کو اپنے مالک کے لئے پکڑا ہے اور شاید یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس نے شکار خود اپنے لئے پکڑا ہو۔ (٣) شکاری جانور کے لئے یہ شرط ہے کہ وہ کتا ہو یا باز وغیرہ، شکار کو زخمی کرتا ہو (اس کا گلا نہ گھونٹتا ہو) جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد﴿مِّنَ الْجَوَارِحِ ﴾سے واضح ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ گلا گھٹ کر مر جانے والے جانور کی حرمت گزشتہ صفحات میں گزر چکی ہے۔ اگر کتے وغیرہ نے شکار کا گلا گھونٹ دیا ہو یا اس اپنے بوجھ تلے دبا کر اسے ہلاک کردیا ہو تو اس کا کھانا جائز نہیں یہ اس اصول پر مبنی ہے کہ شکاری جانور وہ ہیں جو شکار کو اپنے دانتوں یا پنجوں سے زخمی کرتے ہیں۔ (جوارح) ” شکاری جانور‘‘ کے بارے میں مشہور یہ کہ اس سے مراد شکار کو حاصل کرلینے اور اس کو پا لینے والا ہے۔ یہ آیت کریمہ اس معنی پر دلالت نہیں کرتی۔ واللہ اعلم۔ (اس لئے ” جوارح“ کا وہی مفہوم صحیح ہے جس کی وضاحت اس سے پہلے کی جا چکی ہے) (٤) شکار کے لئے کتا پالنا جائز ہے جیسا کہ صحیح احادیث میں وارد ہے۔ [صحيح بخاري، كتاب الحرث والمزارعة، باب اقتناء الكلب للحرث، حديث: 2322] اس کے ساتھ ساتھ عام کتا پالنا حرام ہے۔ کیونکہ کتے کے شکار اور اس کو شکار کے لئے سکھانے کے جواز سے لازم آتا ہے کہ اس کو پالنا بھی جائز ہے۔ (٥) شکار کو اگر کتے کے منہ سے نکلا ہوا لعاب وغیرہ لگ جائے تو وہ پاک ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کتے کے مارے ہوئے شکار کو مباح قرار دیا ہے اور شکار کو دھونے کا حکم نہیں ہے۔ یہ چیز شکار کو لگے ہوئے کتے کے لعاب کی طہارت پر دلالت کرتی ہے۔ (٦) اس میں علم کی فضیلت کی دلیل ہے، کیونکہ سدھائے ہوئے شکار يا جانور کا مارا یا پکڑا ہوا شکار علم ہی کی وجہ سے، مباح ہوتا ہے۔ اگر اسے تعلیم نہ دی گئی ہو تو اس کا مارا ہوا شکار جائز نہیں ہوتا۔ (٧) شکاری کتے اور شکاری پرندے وغیرہ کو سکھانے میں مشغول ہونا مذموم، عبث اور باطل نہیں ہے، بلکہ یہ تو امر مقصود ہے، کیونکہ شکاری جانور کو سکھانا اس کے مارے ہوئے شکار کی حلت اور اس سے فائدہ اٹھانے کا ذریعہ ہے۔ (٨) اس آیت کریمہ میں اس شخص کے لئے دلیل ہے جو کتے کی فروخت کو جائز قرار دیتا ہے وہ کہتا ہے کہ بسا اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ خریدے بغیر کتے کا حصول ممکن نہیں۔ (٩) شکاری جانور کو شکار پر چھوڑتے وقت تکبیر پڑھنا شرط ہے۔ اگر شکاری جانور کو شکار پر چھوڑ تے وقت عمداً تکبیر نہ پڑھی گئی ہو تو اس کا مارا ہوا شکار جائز نہیں۔ (١٠) شکاری جانور کے مارے ہوئے شکار کو کھانا جائز ہے خواہ شکار مر گیا ہو یا زندہ ہو۔ اگر مالک شکار کو اس حالت میں پا لے کہ ابھی وہ زندہ ہو تو ذبح کئے بغیر اس کا کھانا جائز نہیں۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے بندوں کو تقویٰ اختیار کرنے کی ترغیب دی ہے اور قیامت کے روز حساب سے ڈرایا ہے اور یہ ایسا معاملہ ہے کہ بہت قریب آن لگا ہے۔ اس لئے فرمایا : ﴿وَاتَّقُوا اللَّـهَ ۚ إِنَّ اللَّـهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ ﴾ ” اللہ تعالیٰ سے ڈرو بے شک وہ جلد حساب لینے والا ہے۔ “ المآئدہ
5 اللہ تبارک و تعالیٰ نے بندوں پر اپنے احسان کا ذکر کرتے ہوئے طیبات کی حلت کو مکرر بیان فرمایا۔ اس میں بندوں کو اس کا شکر ادا کرنے اور کثرت سے ذکر کرنے کی ترغیب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے ان چیزوں کو مباح فرمایا جن کے وہ سخت محتاج تھے اور وہ ان طیبات سے فائدے حاصل کرتے ہیں۔ ﴿وَطَعَامُ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حِلٌّ لَّكُمْ ﴾” اور اہل کتاب کا کھانا بھی تم کو حلال ہے۔“ یعنی اے مسلمانو ! تمہارے لئے یہودیوں اور عیسائیوں کے ذبیحے حلال ہیں اور باقی کفار کے ذبیحے حلال نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تمام اہل کتاب انبیائے کرام اور کتابوں سے منسوب ہیں اور تمام انبیائے کرام غیر اللہ کے نام پر ذبح کرنے کی تحریم پر مفق ہیں، کیونکہ یہ شرک ہے۔ پس یہود و نصاریٰ بھی غیر اللہ کے نام پر ذبیحہ کی حرمت کے قائل ہیں، اس لئے دیگر کفار کو چھوڑ کر یہود و نصاریٰ کا ذبیحہ حلال قرار دیا گیا ہے اور یہاں ان کے طعام سے مراد ان کا ذبیحہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ وہ طعام جو ذبیحہ کے زمرے میں نہیں آتا مثلاً غلہ اور پھل وغیرہ تو اس میں اہل کتاب کی کوئی خصوصیت نہیں۔ غلہ اور پھل تو حلال ہیں، اگرچہ وہ اہل کتاب کے علاوہ کسی اور کا طعام ہوں۔ نیز طعام کو ان کی طرف مضاف کیا گیا ہے جو اس امر کی دلیل ہے کہ وہ ان کا ذبیحہ ہونے کے سبب سے ” ان کا کھانا“ ہے۔ یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ یہ اضافت تملیک کے لئے ہے اور یہ کہ اس سے مراد وہ کھانا ہے، جس کے وہ مالک ہیں، کیونکہ غصب کے پہلو سے یہ بھی حلال نہیں خواہ مسلمانوں ہی کا ہو۔ ﴿وَطَعَامُكُمْ حِلٌّ لَّهُمْ ﴾ ” اور تمہارا کھانا ان کو حلال ہے۔“ اے مسلمانو ! اگر تم اپنا کھانا اہل کتاب کو کھلاؤ تو یہ ان کے لئے حلال ہے۔ ﴿وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الْمُؤْمِنَاتِ ﴾ ” اور آزاد اور عفت مآب مومن عورتیں (تمہارے لئے حلال ہیں) “ ﴿ِوَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ ﴾” اور آزاد پاک دامن اہل کتاب کی عورتیں۔“ یعنی یہود و نصاریٰ کی آزاد عفت مآب عورتیں بھی تمہارے لئے حلال ہیں اور یہ آیت کریمہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی تخصیص کرتی ہے ﴿وَ لَا تَنْکِحُوا المُشْرِکٰتِ حَتّٰی یُؤْمِنَّ﴾ (البقرہ :2؍221) ” اور مشرک عورتوں سے نکاح نہ کرو جب تک کہ وہ ایمان نہ لے آئیں۔ “ آیت کریمہ کا مفہوم مخالف دلالت کرتا ہے کہ مومن لونڈیوں کا آزاد مردوں کے ساتھ نکاح جائز نہیں۔ لیکن اہل کتاب لونڈیوں کا نکاح، آزاد مومن مردوں کے ساتھ مطلقاً حرام ہے اور اس کی دلیل اللہ تبارک و تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : ﴿مِّن فَتَيَاتِكُمُ الْمُؤْمِنَاتِ ﴾ (النساء :4؍ 25) ” یعنی ان لونڈیوں سے نکاح کرلو جو مومن ہیں۔“ اگر مسلمان عورتیں لونڈیاں ہوں، تو آزاد مردوں کے ساتھ ان کے نکاح کے لئے دو شرائط ہیں۔ (١) مرد آزاد عورت کے ساتھ نکاح کرنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو۔ (٢) عدم نکاح کی صورت میں اسے حرام میں پڑنے کا خدشہ ہو۔ رہی فاجر عورتیں، جو زنا سے نہیں بچتیں، ان کے ساتھ نکاح جائز نہیں خواہ وہ مسلمان ہوں یا اہل کتاب سے تعلق رکھتی ہوں جب تک کہ وہ حرام کاری سے تائب نہ ہوجائیں۔ اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : ﴿ الزَّانِي لَا يَنكِحُ إِلَّا زَانِيَةً أَوْ مُشْرِكَةً ﴾(النور :24؍ 3) ” زانی مرد نکاح نہیں کرتا مگر زانی عورت یا مشرک عورت کے ساتھ ہی۔ “ ﴿إِذَا آتَيْتُمُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ ﴾” جب کہ ان کا مہر دے دو۔“ یعنی جب تم ان کے مہر ادا کر دو تو ہم نے ان کے ساتھ تمہارا نکاح جائز قرار دے دیا ہے اور جس کا یہ ارادہ ہو کہ وہ مہر ادا نہیں کرے گا تو وہ عورت اس کے لئے حلال نہیں ہے۔ اگر عورت سمجھ دار ہے تو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ خود اسے مہر ادا کیا جائے ورنہ شوہر اس کے سرپرست کو مہر ادا کرے۔ حق مہر کی عورتوں کی طرف اضافت دلالت کرتی ہے کہ عورت اپنے تمام حق مہر کی خود مالک ہوتی ہے اس میں کسی کا کوئی حصہ نہیں۔ سوائے اس کے کہ عورت خود اپنے شوہر کو یا اپنے ولی (سرپرست) وغیرہ کو یہ مہر عطا کر دے۔ ﴿مُحْصِنِينَ ﴾ ” اور عفت قائم رکھنی مقصود ہو۔“ یعنی اے شوہرو ! اس حال میں کہ تم اپنی بیویوں کی عفت کی حفاظت کر کے ان کو پاک باز رکھو ﴿غَيْرَ مُسَافِحِينَ﴾ ” نہ کہ اس حال میں کہ تم ہر ایک کے ساتھ زنا کرتے پھرو“ ﴿وَلَا مُتَّخِذِي أَخْدَانٍ﴾اور نہ اس حالت میں کہ تم اپنی معشوقاؤں کے ساتھ بدکاری کرو (اخدان) سے مراد ہے معشوقاؤں کے ساتھ زنا کرنا۔ زمانہ جاہلیت میں زنا کاروں کی دو اقسام تھیں۔ (١) کسی بھی عورت کے ساتھ زنا کرنے والے کو(مُسَافِحِينَ) کہا جاتا ہے۔ (٢) صرف اپنی محبوبہ کے ساتھ زنا کرنے والے (أَخْدَان) ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ یہ دونوں صورتیں پاک دامنی کے منافی ہیں اور یہ کہ نکاح کی شرط ہے کہ مرد زنا کاری سے دامن بچانے والا ہو۔ ﴿وَمَن يَكْفُرْ بِالْإِيمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ﴾ ” اور جو منکر ہوا ایمان سے، تو ضائع ہوگئے عمل اس کے“ جو کوئی اللہ تعالیٰ اور ان چیزوں کے ساتھ کفر کرتا ہے جن پر ایمان لانا فرض ہے، مثلاً اللہ تعالیٰ کی کتابیں اور اس کے انبیاء و رسل اور شریعت کے بعض امور۔۔۔ اور وہ اسی کفر کی حالت میں مر جاتا ہے تو اس کے تمام اعمال اکارت چلے جاتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَمَن يَرْتَدِدْ مِنكُمْ عَن دِينِهِ فَيَمُتْ وَهُوَ كَافِرٌ فَأُولَـٰئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ﴾(البقرۃ:2؍217) ” اور تم میں سے جو کوئی اپنے دین سے پھر کر کافر ہوجائے اور وہ کفر کی حالت میں مر جائے تو دنیا اور آخرت میں اس کے تمام اعمال اکارت جائیں گے۔“ ﴿وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ﴾ ” اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا۔“ یعنی ان کا شمار ان لوگوں میں ہوگا جو قیامت کے روز، اپنی جان، مال اور اپنے اہل و عیال کے بارے میں سخت خسارے میں ہوں گے اور ابدی بدبختی ان کا نصیب بنے گی۔ المآئدہ
6 یہ آیت عظیمہ بہت سے احکام پر مشتمل ہے اللہ تعالیٰ نے اپنی توفیق سے ان کو بیان کرنے کی جتنی آسانی عطا فرمائی ہم ان کو بیان کریں گے۔ (١) جو کچھ اس آیت کریمہ میں ذکر کیا گیا ہے ان پر عمل کرنا لوازم ایمان میں شمار ہوتا ہے۔ اس کے بغیر ایمان کی تکمیل نہیں ہوتی کیونکہ اللہ تعالیٰ کا حکم اس طرح صادر ہوتا ہے ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا۔۔۔﴾یعنی اے ایمان والے لوگو ! اپنے ایمان کے تقاضوں کے مطابق ان امور پر عمل کرو جو ہم نے تمہارے لئے مشروع کئے ہیں۔ (٢) اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ﴾” جب تم نماز پڑھنے کا قصد کرو۔“ سے نماز کو قائم کرنے کا حکم ثابت ہوتا ہے۔ (٣) اس میں نماز کے لئے نیت کے حکم کا اثبات ہے فرمایا : ﴿إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ﴾ یعنی جب تم نماز کی نیت اور ارادے سے اٹھو۔ (٤) نماز کی صحت کے لئے طہارت شرط ہے، کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے نماز کے لئے اٹھتے وقت طہارت کا حکم دیا ہے اور اصولی طور پر حکم (امر) وجوب کے لئے ہوتا ہے۔ (٥) طہارت نماز کا قوت داخل ہونے پر واجب نہیں ہوتی، بلکہ یہ تو صرف اس وقت واجب ہوتی ہے جب نماز پڑھنے کا ارادہ کیا جائے۔ (٦) ہر وہ نماز جس پر (الصلوۃ) کا اطلاق کیا جائے، مثلاً فرض، نفل، فرض کفایہ اور نماز جنازہ غیرہ ہر قسم کی نماز کے لئے طہارت فرض ہے حتیٰ کہ بہت سے اہل علم کے نزدیک مجرد سجدہ، مثلاً سجدہ تلاوت اور سجدہ شکر کے لئے بھی طہارت ضروری ہے۔ (٧) اس میں چہرے کے دھونے کا حکم ہے اور چہرے میں چہرے کا صرف سامنے کا حصہ شامل ہے یعنی سر کے بالوں کی حدود سے لے کر طول میں جبڑوں کے نیچے اور ٹھوڑی تک اور عرض میں ایک کان سے دوسرے کان تک، نیز کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا چہرے کے دھونے میں شامل ہے اور یہ سنت ہے۔ چہرے پہ اگے ہوئے بال بھی چہرے میں داخل ہیں۔ اگر یہ زیادہ گھنے نہیں تو تمام جلد تک پانی پہنچانا ضروری ہے۔ اگر داڑھی گھنی ہو تو اوپر سے دھونا کافی ہے۔ [داڑھی کے بالوں میں خلال کرنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ثابت ہے، (ترمذی، الطھارۃ، باب ماجاء فی تخلیل اللحیۃ، حدیث :31) اس لئے گھنی داڑھی میں بالخصو ص خلال بھی کیا جائے۔ (ص۔ ی) ] (٨) اس میں ہاتھوں کو دھونے کا حکم ہے اور ہاتھوں کی حد کہنیوں تک ہے۔ جمہور مفسرین کے مطابق (اِلٰی) (مع) کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے، جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَهُمْ إِلَىٰ أَمْوَالِكُمْ﴾ (النساء :4؍2) ” ان کے مال اپنے مالوں کے ساتھ (ملا کر) نہ کھاؤ“، نیز ہاتھ دھونے کا وجوب اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک کہ کہنیوں کو پوری طرح نہ دھویا جائے۔ (٩) سر پر مسح کرنے کا حکم ہے۔ (١٠) پورے سر کا مسح کرنا فرض ہے۔ کیونکہ (با) تَبْعِيْض کے لئے نہیں، بلکہ اِلصَاق کے لئے ہے اور یہ تمام تر سر کے مسح کو شامل ہے۔ (١١) سرکا مسح دونوں ہاتھوں سے کیا جائے یا ایک ہاتھ سے، کسی کپڑے سے کیا جائے یا لکڑی وغیرہ سے، جیسے بھی کیا جائے کفایت کرتا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مسح کا علی الاطلاق حکم دیا ہے کسی وصف سے مقید نہیں کیا۔ پس یہ چیز مسح کے اطلاق پر دلالت کرتی ہے۔ (١٢) وضو میں سر پر مسح کرنا فرض ہے۔ اگر ہاتھوں کے ساتھ سر پر مسح کرنے کی بجائے سر کو دھو لیا جائے، تو یہ کفایت نہیں کرے گا کیونکہ اس نے وہ کام نہیں کیا جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ (١٣) (وضو میں) دونوں پاؤں کو ٹخنوں تک دھونے کا حکم دیا گیا ہے، اس کا حکم بھی وہی ہے جو ہاتھوں کے بارے میں ہے۔ (١٤) اس میں نَصْب (زبر) کے ساتھ جمہور کی قراءت کے مطابق، روافض کارد ہے اور جب تک پاؤں ننگے ہیں، ان پر مسح کرناجائز نہیں۔ (١٥) ” وَاَرْجُلِكُم “ میں جر (زیر) کے ساتھ قراءت کے مطابق موزوں پر مسح کی طرف اشارہ ہے۔ دونوں قراءتوں کو اپنے اپنے معنی پر محمول کیا جائے گا۔ اگر پاؤں میں موزے نہ پہنے ہوں تو نَصْب کے ساتھ قراءت کے مطابق پاؤں دھوئے جائیں اور اگر پاؤں میں موزے پہنے ہوئے ہیں تو جر کے ساتھ قراءت کے مطابق پاؤں پر مسح کیا جائے گا۔ (١٦) وضو کے اندر اعضا کو ترتیب کے ساتھ دھونے کا حکم ہے، کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کو ترتیب کے ساتھ ذکر فرمایا ہے نیز جب دو دھوئے جانے والے اعضا کے درمیان مسح والے عضو کا ذکر کیا جائے تو اس کا ترتیب کے سوا کوئی اور فائدہ نہیں۔ (١٧) ترتیب صرف ان چار اعضا کے ساتھ مخصوص ہے جن کا اس آیت کریمہ میں ذکر کیا گیا ہے۔ رہا کلی کرنے، ناک میں پانی ڈالنے، منہ دھونے، دایاں بازو اور بایاں بازو، دایاں پاؤں اور بایاں پاؤں دھونے میں ترتیب کا اعتبار تو یہ واجب نہیں۔ البتہ منہ دھونے سے پہلے کلی کرنا، ناک میں پانی ڈالنا مستحب ہے۔ دایاں ہاتھ پہلے دھونا مستحب ہے۔ اسی طرح دایاں پاؤں پہلے دھونا مستحب ہے۔ کانوں کے مسح سے پہلے سرکا مسح کرنا مستحب ہے۔ (١٨) ہر نماز کے وقت تجدید وضو کا حکم ہے تاکہ مامور بہ پر عمل کیا جا سکے۔ [یہ بہتر صورت ہے، ورنہ ایک وضو سے متعدد نمازیں پڑھنا جائز ہے، بشرطیکہ وضو برقرار ہو۔ فتح کے مکہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہی وضو سے کئی نمازیں پڑھیں اور فرمایا کہ یہ میں نے عمداً کیا ہے (تاکہ لوگوں کو اس کا جواز معلوم ہوجائے) (صحیح مسلم، الطھارۃ، باب جواز الصلوات کلھا بوضو، واحد، حدیث :277) (ص۔ ی) ] (١٩) جنابت کی حالت میں غسل کا حکم دیا گیا ہے۔ (٢٠) غسل جنابت میں تمام بدن کا دھونا واجب ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے طہارت حاصل کرنے کو بدن کے کسی ایک حصے کے ساتھ مخصوص کرنے کی بجائے تمام بدن کی طرف مضاف کیا ہے۔ (٢١) جنابت کی حالت میں بالوں کو اندر اور باہر سے دھونے کا حکم ہے۔ (٢٢) طہارت کے حصول کے وقت حدث اصغر حدث اکبر کے اندر شامل ہوتا ہے۔ حدث اکبر سے طہارت کے حصول کے لئے غسل کرنے سے حدث اصغر سے بھی طہارت حاصل ہوجاتی ہے اس کے لئے اس کی نیت کرلینا کافی ہے۔ پھر وہ تمام بدن پر پانی بہائے، کیونکہ اللہ نے صرف پاکیزگی حاصل کرنے کا ذکر کیا ہے اور وضو لوٹانے کا ذکر نہیں فرمایا۔ [لیکن یہ بات اس وقت صحیح ہوگی جب سنت کے مطابق غسل جنابت کیا جائے اور وہ مسنون طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے ہاتھ دھوئے جائیں، پھر شرم گاہ کو بائیں ہاتھ سے دھوکر اس ہاتھ کو مٹی یا صابن وغیرہ سے دھویا جائے، پھر وضو کیا جائے اور سر پر مسح کرنے کے بجائے تین بار سر پر پانی ڈالا جائے، پھر سارے بدن پر پانی ڈال کر غسل کیا جائے، پھر آخر میں جگہ بدل کر پیر دھوئے۔ اس طرح غسل جنابت کے بعد دوبارہ وضو کرنے کی ضرورت نہیں، بشرطیکہ دوران غسل شرم گاہ کو ہاتھ نہ لگے۔ (ص۔ ی) ] (٢٣) جنبی کا اطلاق اس شخص پر ہوتا ہے جس سے جاگتے یا سوتے منی خارج ہوئی ہو یا اس نے مجامعت کی ہو خواہ منی کا انزال نہ ہوا ہو۔ (٢٤) جسے یاد آجائے کہ اسے احتلام ہوا ہے مگر کپڑوں پر منی کے نشانات موجود نہ ہوں تو اس پر غسل واجب نہیں کیونکہ جنابت متحقق نہیں ہوئی۔ (٢٥) اس میں اللہ تبارک و تعالیٰ کے اس احسان کا ذکر ہے کہ اس نے اپنے بندوں کے لئے تیمم مشروع فرمایا۔ (٢٦) تیمم کے جواز کے اسباب میں سے ایک سبب ایسا مرض ہے جس میں پانی کے استعمال سے ضرر پہنچتا ہو۔ اس صورت میں تیمم جائز ہے، نیز تیمم کے جواز کے جملہ اسباب میں سفر، وضو کا ٹوٹنا اور پانی کا موجود نہ ہونا شامل ہیں۔ پس پانی موجود ہونے کے باوجود مرض بھی تیمم کو جائز کردیتا ہے کیونکہ وضو سے ضرر کا اندیشہ ہے۔۔۔ اور باقی صورتوں میں پانی کا معدوم ہونا تیمم کا جواز فراہم کرتا ہے۔ خواہ انسان اپنے گھر میں ہی ہو۔ (٢٧) پیشاب اور پاخانہ کے راستوں میں سے کوئی چیز باہر نکلے تو اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ (٢٨) وہ اہل علم جو اس بات کے قائل ہیں کہ ان دو امور کے سوا کسی چیز سے وضو نہیں ٹوٹتا، وہ یہیں سے استدلال کرتے ہیں ان کے نزدیک فرج وغیرہ کو چھونے سے وضو نہیں ٹوٹتا۔ (٢٩) جس فعل کے لئے صریح لفظ برا اور نا مناسب لگتا ہو اس کے لئے کنایہ استعمال کرنا مستحب ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : ﴿أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِّنكُم مِّنَ الْغَائِطِ﴾ ” یا تم میں سے کوئی بیت الخلاء سے ہو کر آیا ہو۔ “ (٣٠) لذت اور شہوت سے عور کے بدن کو چھونے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ [فاضل مفسر رحمہ اللہ نے غالباً لمس کو لغوی معنی ہاتھ سے چھونے کے مفہوم میں لے کر یہ بات کہی ہے، جیسا کہ لمس کی ایک تفسیر یہ بھی کی گئی ہے اور دوسری تفسیر لمس کی۔ جماع۔ کی گئی ہے۔ اس تفسیر کی رو سے محض عورت کے چھونے سے وضو نہیں ٹوٹے گا، ہاں اگر چھونے سے مذی یا منی کا اخراج ہوگیا تو مذی کی صورت میں ذکر (آلہ تناسل) کو دھو کو وضو کرنا اور منی کی صورت میں غسل کرنا ضروری ہوگا۔ بصورت دیگر چاہے لذت و شہوت سے چھوئے، حتیٰ کہ بوسہ بھی لے لے تو وضو نہیں ٹوٹے گا۔ (دیکھیے، سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ، لالبانی، رقم 1000) (ص۔ ی) ] (٣١) تیمم کی صحت پانی کے عدم وجود سے مشروط ہے۔ (٣٢) پانی کے وجود کے ساتھ ہی، خواہ انسان نماز کے اندر ہی کیوں نہ ہو، تیمم باطل ہوجاتا ہے، کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے پانی کی عدم موجودگی میں تیمم کو مباح فرمایا ہے۔ [یہ بھی بعض ائمہ کی رائے ہے۔ ایک دوسری رائے یہ کہ نماز شروع کردینے کے بعد نماز کے توڑنے کی ضرورت نہیں ہے، وہ نماز پوری پڑھ لے۔ اس لئے کہ جس وقت اس نے نماز شروع کی تھی تو وہ پانی نہ ملنے کی وجہ سے تیمم کر کے شروع کی تھی اور اس کا ایسا کرنا شریعت کے مطابق تھا، اس لئے اس کی نماز صحیح ہوگی، کیونکہ یہ تیمم نماز کے ختم ہونے تک باطل نہیں ہوگا۔ (ص۔ ی)] (٣٣) جب نماز کا وقت داخل ہوجائے اور انسان کے پاس پانی موجود نہ ہو تو اس پر اپنے پڑاؤ اور اردگرد نزدیک کے علاقہ میں پانی تلاش کرنا لازمی ہے، کیونکہ جس کسی نے پانی کو تلاش ہی نہ کیا ہو تو اس کے لئے (لَمْ يَجَدْ) ” اس نے پانی نہ پایا“ کا لفظ نہیں بولا جاتا۔ (٣٤) اگر تلاش کے بعد اسے اتنا پانی ملے جو پورے وضو کے لئے کافی نہ ہو تو اس پر اس پانی کا استعمال لازم ہے۔ اس کے بعد تیمم کرلے۔ (٣٥) پاک اشیا کی وجہ سے متغیر پانی، تیمم پر مقدم ہے۔ یعنی یہ پانی طاہر پانی شمار ہوگا کیونکہ متغیر پانی بھی پانی ہے اور اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً ﴾کے حکم میں آئے گا۔ (٣٦) تیمم میں نیت بہت ضروری ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿فَتَيَمَّمُوا ﴾یعنی قصد کرو۔ (٣٧) تیمم کے لئے سطح زمین پر پڑی ہوئی گرد وغیرہ کافی ہوتی ہے تب اس صورت میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُم﴾ یا تو تغلیب کے باب سے ہے اور غالب طور پر اس کے لئے غبار کا ہونا ضروری ہے جس سے مسح کیا جائے اور جو چہرے اور ہاتھوں کے ساتھ لگ جائے، یا یہ افضل کی طرف راہنمائی ہے یعنی جب ایسی مٹی کا حصول ممکن ہو جس میں غبار شامل ہو تو وہ افضل ہے۔ (٣٨) نجس مٹی سے تیمم نہیں ہوتا، کیونکہ یہ پاک نہیں، بلکہ ناپاک ہے۔ (٣٩) تیمم میں تمام اعضا کی بجائے صرف چہرے اور ہاتھوں پر مسح کرنا کافی ہے۔ (٤٠) اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ﴿بِوُجُوهِكُمْ ﴾تمام چہرے کو شامل ہے اور تمام چہرے کا مسح واجب ہے۔ البتہ اس سے منہ اور ناک کے اندر مٹی داخل کرنا اور بالوں کی جڑوں تک مسخ کرنا مستثنیٰ ہے۔ (٤١) ہاتھوں کا مسح صرف ہاتھ اور کلائی کے جوڑ تک ہے، کیونکہ ہاتھ کا اطلاق صرف گٹے تک ہے۔ اگر کہنیوں تک ہاتھوں پر مسح تیمم کے لئے شرط ہوتی تو اللہ تعالیٰ اس شرط سے مقید فرما دیتا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے وضو میں مقید فرمایا ہے۔ (٤٢) حدث (ناپاکی) خواہ اکبر ہو یا اصغر، ہر قسم کی ناپاکی میں تیمم جائز ہے بلکہ اگر جسم پر نجاست بھی لگی ہو، تب بھی تیمم جائز ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تیمم کے ذریعے سے طہارت کو پانی کے ذریعے سے طہارت کا بدل بنایا ہے اور آیت کریمہ کے اطلاق کو کسی چیز سے مقید نہیں فرمایا۔ بعض لوگوں نے کہا ہے کہ بدن کی نجاست، تیمم کے حکم میں داخل نہیں۔ کیونکہ آیت کریمہ کا سیاق حدث اکبر اور حدث اصغر کے بارے میں ہے اور یہ جمہور علماء کا مذہب ہے۔ (٤٣) حدث اکبر اور حدث اصغر دونوں میں تیمم کا محل ایک ہی ہے یعنی چہرے اور ہاتھوں کا مسح کرنا۔ (٤٤) وہ شخص جسے حدث اصغر اور حدث اکبر دونوں لاحق ہیں اگر تیمم کرتے وقت دونوں سے طہارت کی نیت کرلے تو تیمم ہوجائے گا۔ آیت کریمہ کا عموم اور اطلاق اس پر دلالت کرتا ہے۔ (٤٥) تیمم میں مسح ہاتھ سے یا کسی اور چیز سے جائز ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ارشاد (فَامْسَحُوا) میں صرف مسح کا حکم دیا ہے اور یہ ذکر نہیں فرمایا کہ کس چیز کے ساتھ مسح کیا جائے۔ اس لئے ہر چیز کے ساتھ مسح جائز ہے۔ (٤٦) تیمم میں بھی ترتیب اسی طرح شرط ہے جس طرح وضو میں شرط ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہاتھوں کے مسح سے قبل چہرے کا مسح کرنے سے ابتدا کی ہے۔ (٤٧) اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہمارے لئے جو احکام مشروع فرمائے ہیں ان میں ہمارے لئے کوئی حرج، کوئی مشقت اور کوئی تنگی نہیں رکھی۔ یہ اس کی اپنے بندوں پر بے پایاں رحمت ہے تاکہ وہ ان کو پاک کرے اور ان پر اپنی نعمت کا اتمام کرے۔ (٤٨) پانی اور مٹی کے ذریعے سے ظاہری بدن کی طہارت، توحید اور خالص توبہ کے ذریعے سے حاصل ہونے والی باطنی طہارت کی تکمیل ہے۔ (٤٩) تیمم کی طہارت میں اگرچہ وہ نظامت اور طہارت نہیں ہوتی جس کا حس اور مشاہدہ کے ذریعے سے ادراک ہوسکتا ہو، تاہم اس میں معنوی طہارت ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے پیدا ہوتی ہے۔ (٥٠) بندے کے لئے مناسب ہے کہ وہ طہارت اور دیگر شرعی احکام میں پوشیدہ اسرار و حکمت میں تدبر کرے تاکہ اس کے علم و معرفت میں اضافہ ہو اور اس کی شکر گزاری اور محبت زیادہ ہو ان احکام پر جو اللہ تعالیٰ نے مشروع کئے ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر بندہ بلند مقامات تک پہنچ سکتا ہے۔ المآئدہ
7 اللہ تبارک و تعالیٰ حکم دیتا ہے کہ اس کی عطا کردہ دینی اور دنیاوی نعمتوں کا قلب اور زبان سے ذکر کیا جائے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے دائمی ذکر میں اس کے لئے شکر اور محبت کا داعیہ پیدا ہوتا ہے اور بندے کا دل اس کے احسان کی معرفت سے لبریز ہوجاتا ہے، دینی نعمتوں اور اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان کے بارے میں نفس کی خود پسندی زائل ہوتی ہے۔ ﴿وَمِيثَاقَهُ ﴾”(اور یاد کرو) اس عہد کو بھی۔“ یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ کے میثاق کو یاد کرو ﴿الَّذِي وَاثَقَكُم ﴾” جس کا تم سے قول لیا تھا۔“ یعنی وہ عہد جو اس نے تم سے لیا۔ اس سے مراد یہ نہیں کہ بندوں نے اپنے نطق زبان سے اس عہد و میثاق کا اقرار کیا تھا بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان لا کر اللہ اور رسول کی اطاعت کا التزام کیا ہے، بنا بریں فرمایا : ﴿إِذْ قُلْتُمْ سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا ﴾ ” جب تم نے کہا تھا کہ ہم نے (اللہ کا حکم) سن لیا اور قبول کرلیا۔“ یعنی تو نے اپنی آیات قرآنیہ اور کونیہ کے ذریعے سے ہمیں جو دعوت دی، ہم نے اسے فہم، اطاعت اور فرمانبرداری کے ساتھ سنا۔ تو نے جن امور پر عمل پیرا ہونے اور جن سے اجتناب کرنے کا حکم دیا ہم نے اس کی اطاعت کی۔ یہ ظاہری اور باطنی تمام شرعی احکام کو شامل ہے۔ اہل ایمان اللہ تعالیٰ کے اس عہد کو یاد رکھتے ہیں اور یہ عہد ہر وقت انہیں ذہن نشین رہتا ہے اور جس چیز کا انہیں حکم دیا گیا ہے اسے کامل طریقے سے ادا کرنے کے حریص ہیں۔ ﴿وَاتَّقُوا اللَّـهَ ﴾ اپنے تمام احوال میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو ﴿إِنَّ اللَّـهَ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ ﴾ ” کچھ شک نہیں کہ اللہ دلوں کی باتوں (تک) سے واقف ہے۔“ یعنی دل میں جو افکار، اسرار اور خیالات چھپے ہوئے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو بھی جانتا ہے، لہٰذا اس بات سے ڈرو کہ تمہارے دلوں میں موجود کسی ایسی بات کی اسے اطلاع ہو جس سے وہ راضی نہیں، یا تم سے کوئی ایسا فعل صادر ہو جسے وہ ناپسند کرتا ہے اور اپنے دلوں کو اللہ تعالیٰ کی معرفت، اس کی محبت اور اللہ کے بندوں کی خیر خواہی سے آباد کرو۔ اگر تم ایسا کرو گے تو وہ تمہارے گناہوں کو بخش دے گا اور تمہاری نیکیوں کو کئی گنا زیادہ کر دے گا، کیونکہ اسے علم ہے کہ تمہارے دل درست ہیں۔ المآئدہ
8 ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ﴾” اے ایمان والو !“ یعنی اے وہ لوگو جو ان امور پر ایمان لائے ہو جن پر ایمان لانے کا حکم دیا گیا ہے۔ اپنے ایمان کے لوازم کو قائم کرو !﴿كُونُوا قَوَّامِينَ لِلَّـهِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ ﴾ ” اللہ کے لئے انصاف کی گواہی دینے کے لئے کھڑے ہوجاؤ۔“ یعنی انصاف کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے لئے گواہی دینے کے لئے کھڑے ہونے والے بن جاؤ۔ تمہاری ظاہری اور باطنی حرکات قیام انصاف میں نشاط محسوس کریں اور یہ قیام عدل دنیاوی اغراض کی خاطر نہ ہو بلکہ صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے ہو اور صرف (قسط) یعنی عدل تمہارا مقصد ہو۔ تمہارے اقوال وا فعال میں کسی قسم کی افراط و تفریط نہ ہو اور تم قریب اور بعید، دوست اور دشمن سب کے ساتھ عدل و انصاف کرو۔ ﴿وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ ﴾” تمہیں ہرگز آمادہ نہ کرے“ ﴿شَنَآنُ قَوْمٍ ﴾ ” لوگوں کی دشمنی۔“ یعنی کسی قوم کے ساتھ کینہ و بغض ﴿ٰ عَلَىٰ أَلَّا تَعْدِلُوا﴾ ” اس بات پر کہ تم عدل نہ کرو“ جیسا کہ وہ لوگ کرتے ہیں جن کے پاس عدل و انصاف کا کوئی تصور نہیں۔ بلکہ ہونا یہ چاہئے کہ جیسے تم اپنے دوست کے حق میں گواہی دیتے ہو، اس کے خلاف بھی گواہی دو اور جیسے تم اپنے دشمن کے خلاف گواہی دیتے ہو، تو اس کے حق میں بھی گواہی دو۔ خواہ تمہارا دشمن کا فریا بدعتی ہی کیوں نہ ہو۔ اس کے بارے میں عدل کرنا اور اگر وہ حق بات کہتا ہے تو اسے قبول کرنا فرض ہے اور محض اس وجہ سے اس کا قول قبول نہ کیا جائے کہ وہ دوست کا قول ہے اور نہ دشمن کے قول کو محض اس وجہ سے رد کیا جائے کہ وہ دشمن کا قول ہے کیونکہ یہ حق پر ظلم ہے۔ ﴿اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَىٰ ﴾” انصاف کرو، یہ تقویٰ کے زیادہ قریب ہے“ یعنی جب بھی تم عدل کرنے کی خواہش کرو گے اور اس خواہش پر عمل کرنے کی کوشش کرو گے تو یہ چیز تمہارے دلوں کے تقویٰ کے بہت قریب ہے۔ اگر عدل کی تکمیل ہوگئی تو تقویٰ بھی مکمل ہوگیا ﴿إِنَّ اللَّـهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ ﴾ ” یقیناً اللہ اس سے باخبر ہے جو تم کرتے ہو“ اس لئے وہ تمہارے اچھے اور برے، چھوٹے اور بڑے تمام اعمال کی دنیا اور آخرت میں جزا دے گا۔ المآئدہ
9 ﴿ وَعَدَ اللّٰهُ ﴾ ” اللہ نے وعدہ کیا ہے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ جو وعدہ خلافی نہیں کرتا ان لوگوں کے ساتھ وعدہ فرماتا ہے جو اس پر، اس کے رسولوں اور یوم آخرت پر ایمان لاتے ہیں ﴿وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ﴾ ” اور نہوں نے نیک عمل کئے“ جو واجبات و مستحبات پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ ان کو بخش دینے، ان کے گناہوں کی سزا کو معاف کردینے اور ان کو اجر عظیم کے عطا کرنے کا وعدہ کرتا ہے جس کی بڑائی کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أُخْفِيَ لَهُم مِّن قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ﴾ (السجدہ :32؍17) ” کوئی متنفس نہیں جانتا کہ ان کے لئے ان کے اعمال کے صلہ کے طور پر آنکھوں کی کیا ٹھنڈک چھپا رکھی گئی۔“ المآئدہ
10 ﴿وَالَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِآيَاتِنَا ﴾” اور جنہوں نے کفر کیا اور ہماری آیتوں کو جھٹلایا۔“ یعنی انہوں نے ان آیات کی تکذیب کی جو حق مبین پر دلالت کرتی ہیں حالانکہ ان آیات نے حقائق کو بیان کردیا تھا﴿أُولَـٰئِكَ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ﴾ ” وہ جہنمی ہیں۔“ وہ جہنم کے ساتھ اس طرح لازم رہیں گے جس طرح دوست دوست کے ساتھ لازم رہتا ہے۔ المآئدہ
11 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے مومن بندوں سے اپنی عظیم نعمتوں کا ذکر کرتا ہے اور انہیں ترغیب دیتا ہے کہ وہ بھی دل و زبان سے ان نعمتوں کا ذکر کیا کریں۔ جس طرح وہ اپنے دشمنوں کے قتل، ان کے مال کو مال غنیمت بنانے، ان کے شہروں کو فتح کرنے اور ان کے غلام بنانے کو اللہ تعالیٰ کی نعمت قرار دیتے ہیں اسی طرح وہ اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کا بھی اعتراف کریں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو تمہارے ساتھ لڑنے سے روکا اور ان کی سازشوں اور چالوں کو جو ان کے سینوں میں تھیں، انہی پر لوٹا دیا۔ اس لئے کہ دشمنوں نے ایک سازش تیار کی اور ان کا گمان تھا کہ وہ اسے بروئے کار لانے میں کامیاب ہوں گے۔ لیکن جب وہ مومنوں کی خلاف اس سازش میں کامیاب نہیں ہوئے، تو یہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے مومن بندوں کی مدد ہے، اس لئے ان کو چاہئے کہ وہ اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں، اس کی عبادت اور اس کا ذکر کریں۔ کافروں، منافقوں اور باغیوں میں سے جن لوگوں نے بھی اہل ایمان کے ساتھ کسی برائی کا ارادہ کیا، یہ آیت کریمہ ان سب کو شامل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ان کے شر سے محفوظ رکھا۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے حکم دیا کہ وہ اپنے دشمنوں پر فتح حاصل کرنے کے لئے اور دیگر تمام امور میں اللہ تعالیٰ سے مدد مانگیں، اس لئے فرمایا : ﴿وَعَلَى اللَّـهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ ﴾ ” اور مومنوں کو اللہ ہی پر بھروسہ رکھنا چاہئے۔“ یعنی وہ اپنے دینی اور دنیاوی مصالح کے حصول میں اللہ تعالیٰ ہی پر توکل اور اعتماد کریں، اپنی قوت اور طاقت پر بھروسہ نہ کریں اور اپنے محبوب امور کے حصول میں صرف اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کریں اور بندے کے ایمان کے مطابق ہی، اس کا اللہ پر توکل ہوتا ہے اور یہ دل کے ان واجبات میں سے ہے جن پر اتفاق ہے۔ المآئدہ
12 اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ اس نے بنی اسرائیل سے بہت موکد اور بھاری عہد لیا پھر اس میثاق اور عہد کا صوف بیان فرمایا اور بتایا کہ اگر وہ اس عہد کو پورا کریں گے تو ان کو کیا اجر ملے گا اور اگر وہ اس عہد کو پورا نہیں کریں گے تو ان کو کیا سزا ملے گی، پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے ذکر فرمایا کہ انہوں نے اس عہد کو پورا نہیں کیا اور یہ بھی بتایا کہ ان کو اس کی پاداش میں کیا سزا ملی۔ ﴿وَلَقَدْ أَخَذَ اللّٰهُ مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ﴾ ”اور اللہ نے بنی اسرائیل سے اقرار لیا۔“ یعنی اللہ نے بنی اسرائیل سے مضبوط اور موکد عہد لیا ﴿وَبَعَثْنَا مِنْهُمُ اثْنَيْ عَشَرَ نَقِيبًا ﴾ ہم نے ان کے بارہ سردار مقرر کردیئے جو ان کے معاملات کی دیکھ بھال کرتے تھے اور جن باتوں کا انہیں حکم دیا جاتا تھا اس کی تعمیل کرنے پر انہیں آمادہ کرتے تھے۔ ﴿وَقَالَ اللّٰهُ ﴾ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان نقیبوں (سرداروں) سے فرمایا جنہوں نے ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھایا تھا ﴿إِنِّي مَعَكُمْ ﴾ ” میں تمہارے ساتھ ہوں“ یعنی میری اعانت و نصرت تمہارے ساتھ ہے، کیونکہ مدد ہمیشہ ذمہ داری کے بوجھ کے مطابق ہوتی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان امور کا ذکر فرمایا جن پر عہد لیا تھا۔ ﴿لَئِنْ أَقَمْتُمُ الصَّلَاةَ ﴾” اگر تم نماز پڑھتے رہو گے۔“ یعنی اگر تم نماز کو اس کے ظاہری اور باطنی لوازم کے ساتھ قائم کرو اور پھر اس پر دوام اختیار کرو گے ﴿وَآتَيْتُمُ الزَّكَاةَ ﴾” اور زکوٰۃ دیتے رہو گے۔“ یعنی مستحق لوگوں کو زکوٰۃ دو گے ﴿وَآمَنتُم بِرُسُلِيْ ﴾ ” اور میرے پیغمبروں پر ایمان لاؤ گے۔“ تمام انبیاء و رسل پر ایمان لاؤ گے، جن میں سب سے افضل اور سب سے اکمل جناب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ﴿وَعَزَّرْتُمُوهُمْ ﴾ ” اور ان کی مدد کرو گے۔“ یعنی اگر تم انبیاء کی تعظیم اور ان کی اطاعت اور ان کا احترام کرو گے جو تم پر واجب ہے ﴿وَأَقْرَضْتُمُ اللَّـهَ قَرْضًا حَسَنًا ﴾” اور تم اللہ کو قرض حسن دو گے“ یعنی صدقہ دو گے اور بھلائی کرو گے جس کا مصدر صدق و اخلاق و اخلاص اور کسب حلال ہو۔ جب تم مذکورہ بالا تمام امور قائم کرلو گے ﴿لَّأُكَفِّرَنَّ عَنكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَلَأُدْخِلَنَّكُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ﴾ ” تو میں تم سے تمہاری برائیاں دور کر دوں گا اور تمہیں ان باغات میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی“ اس میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے جنت میں اپنی نعمتوں اور محبوب امور کے حصول اور گناہوں کی تکفیر اور اس پر مرتب ہونے والی سزا کو دور کر کے ناپسندیدہ امور کے دور ہٹنے کو یکجا بیان فرمایا۔ ﴿فَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ ﴾ ” پھر جس نے اس کے بعد کفر کیا۔“ یعنی جو کوئی اس عہد و میثاق کے بعد جسے ایمان اور ثواب کی ترغیب کے ذریعے سے موکد کیا گیا ہے، کفر کے رویہ اختیار کرتا ہے ﴿فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِيلِ ﴾” تو وہ سیدھے راستے سے بھٹک گیا۔“ یعنی وہ جان بوجھ کر سیدھے راستے سے بھٹکتا ہے تو وہ اسی سزا کا مستحق ہوگا، جس کے مستحق گمراہ لوگ ہوں گے، جیسے ثواب سے محرومی اور عذاب سے دوچار ہونا۔ گویا یوں کہا گیا ہے کہ ” کاش ہمیں بھی معلوم ہوتا کہ انہوں نے کیا کیا؟ کیا انہوں نے اس عہد کو پورا کیا جو انہوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کیا تھا یا اس عہد کو توڑ دیا؟“ پس اللہ نے واضح کردیا کہ انہوں نے اللہ کے ساتھ کئے گئے اس عہد کو توڑ دیا۔ المآئدہ
13 چنانچہ فرمایا : ﴿فَبِمَا نَقْضِهِم مِّيثَاقَهُمْ ﴾ ” تو ان لوگوں کے عہد توڑ دینے کے سبب۔“ یعنی ان کے نقض عہد کے سبب سے ہم نے ان کو متعدد سزائیں دیں۔ (١) ﴿لَعَنَّاهُمْ ﴾ ” ہم نے ان پر لعنت کی۔“ یعنی ہم نے ان کو دھتکار کر اپنی رحمت سے دور کردیا، کیونکہ انہوں نے اپنے آپ پر اللہ تعالیٰ کی رحمت کے دروازے بند کر لئے اور انہوں نے اس عہد کو پورا نہ کیا جو اللہ تعالیٰ نے ان سے لیا تھا جو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دور ہونے کا سب سے بڑا سبب ہے۔ (٢) ﴿وَجَعَلْنَا قُلُوبَهُمْ قَاسِيَةً ﴾ ” اور ان کے دلوں کو سخت کردیا۔“ یعنی ہم نے ان کو پتھر دل بنا دیا۔ پس وعظ و نصیحت ان کے کسی کام آسکتے ہیں نہ آیات اور نہ ہی برے انجام سے ڈرانے والے انہیں کوئی فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔ کوئی شوق انہیں ترغیب دے سکتا ہے نہ کوئی خوف ان کو یہ عہد پورا کرنے کے لئے بے قرار کرسکتا ہے۔ بندے کے لئے یہ سب سے بڑی سزا ہے کہ اس کے دل کی یہ کیفیت ہوجائے کہ ہدایت اور بھلائی بھی اس پر برا اثر کریں۔ (٣) ﴿يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَن مَّوَاضِعِهِ ﴾ ” یہ لوگ کلمات (کتاب) کو اپنے مقامات سے بدل دیتے ہیں۔“ یعنی وہ کلام اللہ میں تغیر و تبدل کے بھی مرتکب ہوئے، چنانچہ انہوں نے کلام الٰہی کے اس معنی کو، جو اللہ تعالیٰ کی مراد تھا، بدل کر وہ معنی بنا دیا جو اللہ اور اس کے رسول کی مراد نہ تھا۔ (٤) ﴿وَنَسُوا حَظًّا مِّمَّا ذُكِّرُوا بِهِ ﴾ ” اور جن باتوں کی ان کو نصیحت کی گئی تھی اس کا ایک بڑا حصہ وہ بھلا بیٹھے۔“ انہیں تو رات اور ان تعلیمات کے ذریعے سے نصیحت کی گئی جو موسیٰ پر نازل کی گئی تھیں، مگر انہوں نے ان کو فراموش کردیا۔ یہ اس بات کو بھی شامل ہے کہ انہوں نے جناب موسیٰ علیہ السلام کے علم کو فراموش کردیا بنا بریں علم ان سے ضائع ہوگیا اور اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ سزا دی کہ بہت سا علم ناپید ہوگیا۔ یہ آیت کریمہ نسیان عمل کو بھی شامل ہے جو ترک عمل کا نتیجہ ہے، پس جس چیز کا انہیں حکم دیا گیا تھا اس پر عمل کرنے کی ان کو توفیق نہ ہوئی۔ اسی آیت سے استدلال کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ انہوں نے بعض ان امور کا جو انکار کیا جن کا ذکر ان کی کتابوں میں ہے، یا ان کے زمانے میں واقع ہوئے، یہ بھی ان باتوں میں سے ہے جن کو انہوں نے فراموش کیا۔ (٥) دائمی خیانت، جس کے بارے میں فرمایا :﴿وَلَا تَزَالُ تَطَّلِعُ عَلَىٰ خَائِنَةٍ مِّنْهُمْ ﴾ ”اور آپ ہمیشہ مطلع ہوتے رہتے ہیں ان کی خیانت پر‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ اور اس کے بندوں کے ساتھ خیانت اور ان کی سب سے بڑی خیانت یہ ہے کہ انہوں نے ان لوگوں سے حق کو چھپایا جو ان کو نصیحت کرتے تھے اور ان کے بارے میں حسن ظن رکھتے تھے اور ان کو ان کے کفر پر باقی رکھنا۔ پس یہ بہت بڑی خیانت ہے اور جو کوئی ان صفات سے متصف ہوتا ہے اس میں یہ مذموم خصائل پائے جاتے ہیں۔ پس جو کوئی اللہ تعالیٰ کے احکام کی تعمیل اور ان کا التزام نہیں کرتا تو اس لعنت، قساوت قلبی اور کلام الٰہی کی تحریف میں وہ بھی حصہ دار ہوتا ہے۔ اس کو بھی حق اور صواب کی توفیق نہیں ملتی، وہ بھی ان امور کو فراموش کرنے کا مرتکب ہوتا ہے جن کی اسے یاد دہانی کروائی گئی تھی اور ایسے شخص کا خیانت میں مبتلا ہونا بھی یقینی ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ سے عافیت کے طلبگار ہیں۔ جس امر کی انہیں یاد دہانی کروائی گئی تھی اللہ تعالیٰ نے اس کو (حَظٌّ) ” حصہ، نصیبہ“ کے نام سے اس لئے موسوم کیا ہے کیونکہ یہ سب سے بڑا حظ ہے اس کے علاوہ دیگر تمام حظوظ دنیاوی حظوظ ہیں۔ جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿فَخَرَجَ عَلَىٰ قَوْمِهِ فِي زِينَتِهِ ۖ قَالَ الَّذِينَ يُرِيدُونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا يَا لَيْتَ لَنَا مِثْلَ مَا أُوتِيَ قَارُونُ إِنَّهُ لَذُو حَظٍّ عَظِيمٍ﴾(القصص:28؍79) ” قارون بڑی سج دھج کے ساتھ اپنی قوم کے سامنے نکلا وہ لوگ جو دنیا کی زندگی کے طالب تھے، کہنے لگے کاش ہمیں بھی وہی کچھ دیا گیا ہوتا جو قارون کو دیا گیا ہے۔ وہ تو بہت بڑے نصیبے والا ہے۔“ اور حظ نافع کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا الَّذِينَ صَبَرُوا وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا ذُو حَظٍّ عَظِيمٍ ﴾(حم السجدہ :41؍35) ” یہ بات صرف ان لوگوں کو نصیب ہوتی ہے جو صبر کرتے ہیں اور اس سے وہی لوگ بہرہ ور ہوتے ہیں جو بہت بڑے نصیبے والے ہیں۔ “ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿إِلَّا قَلِيلًا مِّنْهُمْ ﴾ ” تھوڑے آدمیوں کے سوا۔“ یعنی وہ لوگ بہت کم تھے جنہوں نے اللہ تعالیٰ سے جو عہد کیا تھا اسے پورا کردیا۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کو توفیق سے نوازا اور سیدھے راستے کی طرف ان کی راہنمائی کی ﴿فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاصْفَحْ ﴾ ” پس آپ ان کی خطائیں معاف کردیں اور ان سے در گزر فرمائیں۔“ ان کی طرف سے آپ کو جو بھی کوئی ایسی تکلیف پہنچتی ہے جو معاف کردینے کے قابل ہوا اسے معاف کردیا کریں اور ان سے درگزر کیجیے کیونکہ یہ بھلائی ہے ﴿إِنَّ اللَّـهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ ﴾” بیشک اللہ احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔“ اور احسان یہ ہے کہ تو اس طرح اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے گویا کہ تو اسے دیکھ رہا ہے اور اگر تو اپنے آپ میں یہ کیفیت پیدا نہیں کرسکتا تو اللہ تعالیٰ تو تجھے دیکھ رہا ہے اور مخلوق کے حق میں احسان یہ ہے کہ تو انہیں دینی اور دنیاوی فائدے سے نوازے۔ المآئدہ
14 یعنی جس طرح ہم نے یہود سے عہد لیا اسی طرح ہم نے نصاریٰ سے بھی عہد لیا ﴿وَمِنَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّا نَصَارَىٰ ﴾ ” اور جو لوگ کہتے ہیں کہ ہم نصاریٰ ہیں۔“ یعنی جو کہتے ہیں کہ ہم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مددگار ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ، اس کے انبیاء و رسل اور ان پر نازل شدہ کتابوں پر ایمان لا کر اپنے آپ کو پاک کیا اور پھر عہد کو توڑ دیا۔ ﴿فَنَسُوا حَظًّا مِّمَّا ذُكِّرُوا بِهِ ﴾” پھر بھول گئے وہ نفع اٹھانا اس نصیحت سے جو ان کو کی گئی تھی“ یعنی وہ نسیان علمی اور نسیان عملی کا شکار ہوگئے ﴿فَأَغْرَيْنَا بَيْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ ﴾ ” پس ہم نے لگا دی آپس میں ان کی دشمنی اور کینہ، قیامت کے دن تک“ یعنی ہم نے انہیں ایک دوسرے پر مسلط کردیا، ان کے درمیان شر و فساد اور کینہ نے جنم لیا جو قیامت تک کے لئے ایک دوسرے کے خلاف بغض اور عدات وکا باعث ہے اور یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے، کیونکہ نصاریٰ ہمیشہ سے ایک دوسرے کے ساتھ بغض، مخالفت اور عداوت رکھتے چلے آرہے ہیں ﴿وَسَوْفَ يُنَبِّئُهُمُ اللّٰهُ بِمَا كَانُوا يَصْنَعُونَ﴾ ” اور عنقریب اللہ ان کو خبر دے گا، جو کچھ وہ کرتے تھے“ اور انہیں ان کی کارستانیوں پر عذاب دے گا۔ المآئدہ
15 جب اللہ تعالیٰ نے اس عہد اور میثاق کا ذکر کیا جو اس نے اہل کتاب یعنی یہود و نصاریٰ سے لیا تھا مگر تھوڑے سے لوگوں کے سوا سب نے اس عہد کو توڑ دیا تو اللہ تعالیٰ نے ان سب کو حکم دیا کہ وہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائیں اور آپ کی نبوت پر ایک قطعی دلیل کے ذریعے سے استدلال کیا اور وہ یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے سامنے وہ چیزیں بیان کرتے ہیں جو وہ عام لوگوں سے چھپاتے ہیں حتیٰ کہ خود اپنے عوام سے بھی چھپاتے ہیں، پس جب یہی لوگ علم کے بارے میں عوام کا مرجع تھے اور علم کے خواہشمند کے لئے ان کے بغیر علم حاصل کرنے کا کوئی راستہ نہیں تھا، تو ان حالات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قرآن کریم کے ساتھ مبعوث ہونا اور ان تمام امور کو کھول کھول کر بیان کردینا جو وہ چھپاتے تھے، وراں حالیکہ آپ ان پڑھ تھے اور لکھ پڑھ نہیں سکتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی سب سے بڑی دلیل ہے، مثلاً ان کی کتابوں میں جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات اور بشارتیں موجود تھیں۔ اسی طرح آیت رجم کو، (جسے وہ چھپاتے تھے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا۔ ﴿وَيَعْفُو عَن كَثِيرٍ ﴾ ” اور درگزر کرتا ہے وہ بہت سی چیزوں سے‘‘ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سی ایسی باتوں کو بیان نہیں فرمایا جن کو بیان کرنا حکمت کا تقاضا نہیں تھا ﴿قَدْ جَاءَكُم مِّنَ اللَّـهِ نُورٌ ﴾” تحقیق آگیا تمہارے پاس اللہ کی طرف سے نور“ اس نور سے مراد قرآن کریم ہے جس سے جہالت کی تاریکیوں اور گمراہی کے اندھیروں میں روشنی حاصل کی جاتی ہے﴿ وَكِتَابٌ مُّبِينٌ ﴾ ” اور روشن کتاب۔“ مخلوق اپنے دین و دنیا کے جن امور کی محتاج ہے اس کتاب نے ان کو واضح کردیا ہے مثلاً اللہ تعالیٰ، اس کے اسما و صفات اور افعال کا علم، احکام شرعی اور احکام جزائی کا علم، پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے ذکر فرمایا کہ کون ہے جو اس قرآن سے رہنمائی حاصل کرتا ہے اور وہ کون سا سبب ہے جو بندہ اس راہنمائی کے حصول کے لئے اختیار کرتا ہے۔ المآئدہ
16 ﴿يَهْدِي بِهِ اللّٰهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهُ سُبُلَ السَّلَامِ ﴾ ” اللہ اس کے ذریعے سے ہدایت دیتا ہے، اس کو جو اس کی رضا مندی کی پیروی کرتا ہے، سلامتی کے راستوں کی“ یعنی جو کوئی اللہ تعالیٰ کی رضا کا حریص ہوتا ہے اور پھر اس کے حصول کی کوشش کرتا ہے اور اس کا قصد و ارادہ بھی صحیح ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ سلامتی کے راستوں کی طرف اس کی راہنمائی کرتا ہے۔ جو اسے عذاب سے بچا کر سلامتی کے گھر پہنچا دیتا ہے۔ یہاں سلامتی کے گھر سے مراد حق کا اجمالی اور تفصیلی علم اور اس پر عمل کرنا ہے۔ ﴿ وَيُخْرِجُهُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ ﴾ ” اور ان کو تاریکیوں سے نکالتا ہے“ یعنی کفر، بدعت، معصیت، جہالت اور غفلت کی تاریکیوں سے ﴿إِلَى النُّورِ ﴾ ” روشنی کی طرف“ ایمان، سنت، اطاعت، علم اور ذکر الٰہی کی روشنی۔ یہ تمام امور اللہ تعالیٰ کی مشیت سے راہ ہدایت ہیں۔ اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے وہی ہوتا ہے اور جو وہ نہیں چاہتا نہیں ہوتا۔ ﴿وَيَهْدِيهِمْ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ ﴾ ” اور سیدھے راستے کی طرف ان کی رہنمائی کرتا ہے۔ “ المآئدہ
17 اللہ تعالیٰ نے یہود و نصاری سے عہد لینے اور ان کے نقض عہد کا ذکر کرنے کے بعد ان کے اقوال قبیحہ کا ذکر فرمایا، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے نصاریٰ کے قول کا ذکر فرمایا اور یہ بات نصاریٰ سے پہلے کسی نے نہیں کہی۔ وہ کہتے ہیں کہ مسیح ابن مریم ہی اللہ ہے اور ان کے شبہ کا سبب یہ ہے کہ وہ بغیر باپ کے پیدا ہوئے تھے، بنا بریں یہ اعتقاد باطل ان میں در آیا۔ حالانکہ جناب حوا علیہا السلام کی تخلیق ایک نظیر ہے جن کو بغیر ماں کے پیدا کیا گیا اور اس لحاظ سے جناب آدم علیہ السلام تو الوہیت کے سب سے زیادہ مستحق ہیں جو باپ اور ماں دونوں کے بغیرپیدا ہوئے۔ کیا انہوں آدم علیہ السلام اور جناب حوا علیہا السلام کے بارے میں اسی طرح الوہیت کا دعویٰ کیا ہے جس طرح انہوں نے مسیح علیہ السلام کے بارے میں کیا؟ یہ اس امر کی دلیل ہے کہ ان کا حضرت مسیح علیہ السلام کی الوہیت کا دعویٰ بغیر کسی برہان کے خواہش نفس کی پیروی ہے۔ پس اللہ تبارک و تعالیٰ نے واضح عقلی دلائل سے ان کے اس قول باطل کا رد کیا ہے، چنانچہ فرمایا :﴿قُلْ فَمَن يَمْلِكُ مِنَ اللَّـهِ شَيْئًا إِنْ أَرَادَ أَن يُهْلِكَ الْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَأُمَّهُ وَمَن فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا ﴾ ” فرما دیجیے، پس کس کا بس چل سکتا ہے اللہ کے آگے کچھ بھی اگر وہ چاہے کہ ہلاک کر دے مسیح ابن مریم کو، اس کی ماں کو اور تمام اہل زمین کو“ چونکہ اگر اللہ تعالیٰ ان مذکور لوگوں کو ہلاک کرنا چاہے تو ان کے پاس اپنے آپ کو بچانے کی قدرت اور طاقت نہیں۔ اس لئے یہ اس ہستی کی الوہیت کے بطلان کی دلیل ہے جو اپنے آپ کو ہلاکت سے نہیں بچا سکتی اور نہ چھڑا سکتی ہے اور اللہ تبارک و تعالیٰ کی وحدانیت کی ایک دلیل یہ بھی ہے ﴿وَلِلَّـهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا ﴾ ” اور زمین و آسمان کی بادشاہت اسی کی ہے“ پس وہ ان میں تکوینی، شرعی اور جزائی احکام کے ذریعے سے تصرف کرتا ہے وہ سب مملوک ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کی تدبیر کرتا ہے۔ کیا مملوک اور بندہ محتاج کو لائق ہے کہ وہ الٰہ بن جائے جو ہر لحاظ سے بے نیاز ہو؟۔۔۔ یہ سب سے بڑا محال ہے۔ عیسیٰ علیہ الصلوۃ و السلام کا بغیر باپ کے متولد ہونا کوئی انہونی اور تعجب خیز بات نہیں ﴿ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ  ﴾ ” وہ (اللہ) جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔“ چاہے تو عورت اور مرد کے ذریعے سے پیدا کرے، جیسا کہ تمام بنی آدم کی تخلیق ہوئی ہے۔ چاہے تو بغیر عورت کے، صرف مرد سے پیدا کرے جیسے حضرت حوا علیہا السلام کا معاملہ ہے۔ چاہے تو کسی کو بغیر مرد کے عورت سے پیدا کرے، جیسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تخلیق ہوئی اور چاہے تو مرد اور عورت دونوں کے بغیر پیدا کرے، جیسے حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اپنی مشیت نافذہ سے اپنی مخلوق کو الگ الگ انداز سے پیدا فرمایا جس کے سامنے کسی کو دم مارنے کی مجال نہیں، بنا بریں فرمایا ﴿وَاللّٰهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ﴾ ” اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ “ المآئدہ
18 یہود و نصاریٰ کے دعادی میں سے، جبکہ ان کے تمام دعوے باطل ہیں، ایک دعویٰ یہ ہے کہ وہ یہ کہتے ہوئے اپنے آپ کو پاک گردانتے ہیں ﴿ نَحْنُ أَبْنَاءُ اللَّـهِ وَأَحِبَّاؤُهُ ﴾” ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے چہیتے ہیں“ ان کی لغت میں بیٹے سے مراد محبوب ہے وہ اس سے حقیقی ابنیت (بیٹا ہونا) مراد نہیں لیتے، کیونکہ یہ ان کا مذہب نہیں ہے سوائے حضرت مسیح علیہ السلام کے بارے میں کہ عیسائی علیہ السلام ان کو اللہ کا بیٹا کہتے ہیں۔ چونکہ ان کا دعویٰ دلیل و برہان سے محروم ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کے دعوے کی تردید کرتے ہوئے فرمایا :﴿قُلْ فَلِمَ يُعَذِّبُكُم بِذُنُوبِكُم ﴾ ” کہہ دیجیے، پھر وہ کیوں تمہیں تمہارے گناہوں کی پاداش میں عذاب دے گا؟“ یعنی اگر تم اللہ تعالیٰ کے محبوب ہوتے تو وہ تمہیں کبھی عذاب نہ دیتا کیونکہ اللہ تعالیٰ صرف اسی کو محبوب بناتا ہے جو اس کی مرضی کو پورا کرتا ہے۔ ﴿بَلْ أَنتُم بَشَرٌ مِّمَّنْ خَلَقَ ﴾ ” بلکہ تم بھی ایک آدمی ہو، اس کی مخلوق میں سے“ تم پر بھی اللہ تعالیٰ کے عدل و فضل کے تمام احکام جاری ہوتے ہیں ﴿ يَغْفِرُ لِمَن يَشَاءُ وَيُعَذِّبُ مَن يَشَاءُ﴾” وہ جسے چاہے بخش دے اور جسے چاہے عذاب دے۔“ یعنی جب وہ مغفرت یا عذاب کے اسباب لے کر اللہ تعالیٰ کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں تو اللہ ان اسباب کے مطابق ان کو بخش دیتا ہے یا عذاب میں مبتلا کرتا ہے۔ ﴿وَلِلَّـهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا ۖ وَإِلَيْهِ الْمَصِيرُ ﴾ ” اور اللہ ہی کے لئے ہے بادشاہت آسمانوں اور زمین کی اور جو کچھ ان کے درمیان ہے اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔“ یعنی کس چیز نے تمہارے لئے اس فضیلت کو مختص کیا ہے جب کہ تم بھی اللہ تعالیٰ کے جملہ مملوکات میں شامل ہو اور تم بھی ان لوگوں میں شامل ہو جنہیں قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کے پاس لوٹ کر جانا ہے۔ وہاں وہ تمہیں تمہارے اعمال کا بدلہ دے گا۔ المآئدہ
19 اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کو کتاب عطا کر کے ان پر احسان فرمایا اور اس سبب سے انہیں دعوت دی کہ وہ اس کے رسول محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائیں اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں کہ اس نے ان کی طرف رسول بھیجا ﴿عَلَىٰ فَتْرَةٍ مِّنَ الرُّسُلِ ﴾” رسولوں کے مبعوث ہونے کا سلسلہ منقطع رہنے کے بعد“ اور ان کی شدید احتیاج کی بنا پر یہ چیز اس بات کی داعی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لایا جائے اور ان کے سامنے تمام مطالب الہیہ اور احکام شرعیہ بیان کئے جائیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس طرح ان پر حجت پوری کردی تاکہ وہ یہ نہ کہیں ﴿مَا جَاءَنَا مِن بَشِيرٍ وَلَا نَذِيرٍ ۖ ﴾ ” کہ ہمارے پاس کوئی خوش خبری دینے والا آیا نہ کوئی ڈرانے والا“ ﴿فَقَدْ جَاءَكُم بَشِيرٌ وَنَذِيرٌ ﴾ ” پس تحقیق تمہارے پاس خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا آگیا“ جو دنیوی اور اخروی ثواب کی خوشخبری دیتا ہے اور ان اعمال سے آگاہ کرتا ہے جو اس ثواب کے حصول کے موجب ہیں نیز ان اعمال کو بجا لانے والوں کی صفات بیان کرتا ہے اور دنیوی اور اخروی عذاب اور ان اعمال سے ڈراتا ہے جو اس عذاب کا باعث بنتے ہیں اور ان اعمال کا ارتکاب کرنے والوں کی صفات سے آگاہ کرتا ہے۔ ﴿وَ اللّٰہ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ﴾ ” اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔“ تمام اشیاء نے اس کی قدرت کاملہ کے سامنے اطاعت سے سرتسلیم خم کر رکھا ہے کسی کو اس کی نافرمانی کی مجال نہیں۔ یہ اس کی قدرت کا ملہ ہے کہ اس نے رسول مبعوث فرمائے، کتابیں نازل کیں جو ان رسولوں کی اطاعت کرتا ہے، اسے ثواب عطا کرتا ہے اور جو ان کی نافرمانی کرتا ہے انہیں عذاب میں مبتلا کرتا ہے۔ المآئدہ
20 اللہ تعالیٰ نے جناب موسیٰ علیہ الصلوۃ السلام اور ان کی قوم کو فرعون اور اس کی قوم کی غلامی سے نجات دلا کر ان پر احسان فرمایا چنانچہ موسیٰ اور ان کی قوم نے اپنے وطن بیت المقدس واپس جانے کا قصد کیا اور وہ بیت المقدس کے قریب پہنچ گئے۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر دشمن کے خلاف جہاد فرض کردیا تاکہ وہ ان سے اپنے علاقے خالی کروائیں۔ موسیٰ علیہ الصلوۃ و السلام نے ان کو وعظ و تذکیر کی تاکہ وہ جہاد کے عزم پر قائم رہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا : ﴿اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّـهِ عَلَيْكُمْ ﴾” تم پو اللہ نے جو احسان کئے ہیں انہیں یاد کرو۔“ یعنی اپنے دل اور زبان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی نعمت کو یاد کرو، کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ذکر اس کی محبت کا باعث بنتا ہے اور عبادت کے لئے نشاط پیدا کرتا ہے ﴿إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنبِيَاءَ ﴾ ” جب پیدا کئے اس نے تمہارے اندر نبی“ جو تمہیں ہدایت کی طرف بلاتے ہیں اور تمہیں ہلاکت سے ڈراتے ہیں اور تمہیں ابدی سعادت کے حصول پر آمادہ کرتے ہیں اور تمہیں وہ کچھ سکھاتے ہیں جو تم نہیں جانتے﴿وَجَعَلَكُم مُّلُوكًا ﴾” اور تم کو بادشاہ بنایا“ تم اپنے معاملات کے خود مالک تھے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں دشمن کی غلامی سے نجات دلائی اور تم اپنے معاملات کے خود مالک بن گئے اور تمہارے لئے اپنے دین کو قائم کرنا ممکن ہوگیا۔ ﴿وَآتَاكُم ﴾” اور تم کو عنایت کیا“ یعنی تمہیں دینی اور دنیاوی نعمتیں عطا کیں ﴿مَّا لَمْ يُؤْتِ أَحَدًا مِّنَ الْعَالَمِينَ ﴾ ” جو اس نے جہانوں میں سے کسی کو نہیں دیں“ کیونکہ وہ اس زمانے میں منتخب قوم تھی اور اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے زیادہ باعزت تھی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کو وہ نعمتیں عطا کیں جو کسی اور کو عطا نہیں کیں، اللہ تعالیٰ نے ان کو وہ نعمتیں یاد دلائیں جو ایمان، اس کے ثبات، جہاد پر ان کی ثابت قدمی اور جہاد کے لئے آگے بڑھنے کی موجب ہیں۔ المآئدہ
21 بنا بریں فرمایا : ﴿يَا قَوْمِ ادْخُلُوا الْأَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ ﴾ ” اے میری قوم ! ارض مقدسہ میں داخل ہوجاؤ“ یعنی سر زمین پاک میں ﴿الَّتِي كَتَبَ اللّٰهُ لَكُمْ ﴾ ” جو اللہ نے تمہارے لئے لکھ دی ہے“ اللہ تعالیٰ نے ایسی خبر سے آگاہ فرمایا کہ اگر وہ مومن اور اللہ تعالیٰ کی خبر کی تصدیق کرنے والے ہوتے تو یقیناًان کے دل اس خبر سے مطمئن ہوجاتے کہ اللہ تعالیٰ نے ارض مقدس میں ان کا داخل ہونا اور اپنے دشمن پر فتح حاصل کرنا لکھ دیا ہے۔ ﴿وَلَا تَرْتَدُّوا عَلَىٰ أَدْبَارِكُمْ ﴾ ” اور نہ لوٹو اپنی پیٹھوں کی طرف“ یعنی واپس نہ لوٹو ﴿فَتَنقَلِبُوا خَاسِرِينَ ﴾ ” پھرجا پڑو گے نقصان میں“ یعنی اپنے دشمنوں پر غلبہ حاصل نہ کرسکنے اور اپنے شہروں کو فتح نہ کرسکنے کی وجہ سے تم دنیا میں بھی گھاٹے میں رہو گے اور آخرت میں بھی اپنی نافرمانی کی وجہ سے ثواب سے محروم اور عذاب کے مستحق ہو کر خسارے میں رہو گے۔ المآئدہ
22 انہوں نے (اس کے جواب میں) موسیٰ علیہ السلام کو ایک ایسا جواب دیا جو ان کے ضعف قلب، ضعف جسم اور اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے بارے میں عدم اہتمام پر دلالت کرتا ہے ﴿يَا مُوسَىٰ إِنَّ فِيهَا قَوْمًا جَبَّارِينَ ﴾” اے موسیٰ! اس میں ایک زبردست قوم ہے“ یعنی بہت طاقتور اور بہادر لوگ ہیں یعنی اس لئے وہ اس ملک میں ہمارے داخل ہونے سے موانع میں سے ہیں ﴿ وَإِنَّا لَن نَّدْخُلَهَا حَتَّىٰ يَخْرُجُوا مِنْهَا فَإِن يَخْرُجُوا مِنْهَا فَإِنَّا دَاخِلُونَ﴾” اور ہم اس میں ہرگز داخل نہیں ہوں گے یہاں تک کہ وہ اس میں سے نکل جائیں۔ پس اگر وہ اس میں سے نکل جائیں، تو ہم اس میں داخل ہوجائیں گے“ اور ان کا یہ قول ان کی بزدلی اور قلت یقین پر دلالت کرتا ہے۔ ورنہ اگر وہ عقلمند ہوتے تو انہیں معلوم ہوتا کہ وہ بھی سب کے سب آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں اور طاقتور وہ ہوتا ہے جسے اللہ تعالیٰ اپنی اعانت سے نواز دے، کیونکہ اللہ کی اعانت و توفیق کے بغیر کسی کے پاس کوئی قوت و اختیار نہیں، نیز انہیں یہ بھی معلوم ہوتا کہ ان کو ضرور فتح نصرت سے نوازا جائے گا، کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کے ساتھ فتح ونصرت کا خاص وعدہ کر رکھا ہے۔ المآئدہ
23 ﴿قَالَ رَجُلَانِ مِنَ الَّذِينَ يَخَافُونَ ﴾ ” دو آدمیوں نے کہا، جو ڈرنے والوں میں سے تھے“ یعنی جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتے تھے انہوں نے اپنی قوم کا دل بڑھاتے ہوئے ان کو دشمن کے خلاف جنگ کرنے اور ان کے علاقوں میں اترنے پر آمادہ کرنے کے لئے کہا ﴿أَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِمَا﴾ ” جن پر اللہ نے انعام کیا تھا“ جنہیں اللہ تعالیٰ نے توفیق اور اس قسم کے مواقع پر کلمہ حق کہنے کی جرأت سے نوازا تھا اور انہیں صبر و یقین کی نعمت عطا کی تھی۔ ﴿ادْخُلُوا عَلَيْهِمُ الْبَابَ فَإِذَا دَخَلْتُمُوهُ فَإِنَّكُمْ غَالِبُونَ ﴾ ” تم دروازے میں داخل ہوجاؤ، جب تم اس میں داخل ہوجاؤ گے تو تم غالب ہو گے“ یعنی تمہارے اور تمہاری فتح کے درمیان کوئی چیز حائل نہیں، سوائے اس کے کہ تم ان پر حملے کا پختہ عزم کرلو اور شہر کے دروازے میں گھس جاؤ، پس جب تم اس میں گھس جاؤ گے تو وہ ہزیمت اٹھا کر بھاگ جائیں گے، پھر ان کو اس تیاری کا حکم دیا جو سب سے بڑی تیاری ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿وَعَلَى اللَّـهِ فَتَوَكَّلُوا إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ﴾ ” اور اللہ ہی پر تم بھروسہ کرو، اگر تم مومن ہو“ کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ پر توکل میں، خصوصاً ایسے مواقع پر، معاملے میں آسانی اور دشمنوں پر فتح حاصل ہوتی ہے اور یہ آیت کریمہ توکل کے وجوب پر دلالت کرتی ہے، نیز یہ کہ توکل بندہ مومن کے ایمان کی مقدار کے مطابق ہوتا ہے۔ المآئدہ
24 مگر ان کو کسی کلام نے فائدہ دیا نہ کسی ملامت نے اور انہوں نے ذلیل ترین لوگوں کی سی بات کہی : ﴿ يَا مُوسَىٰ إِنَّا لَن نَّدْخُلَهَا أَبَدًا مَّا دَامُوا فِيهَا ۖ فَاذْهَبْ أَنتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَا إِنَّا هَاهُنَا قَاعِدُونَ﴾” اے موسیٰ! جب تک وہ اس میں ہیں، ہم کبھی اس میں داخل نہ ہوں گے، پس تو جا اور تیرا رب اور تم دونوں لڑو ہم یہاں بیٹھے ہیں“ اس مشکل صورتحال میں اپنے نبی کے سامنے ان کا یہ قول کتنا قبیح ہے جبکہ ضرورت اور حاجت تو اس بات کی متقاضی تھی کہ وہ عزت نفس کا خیال کرتے ہوئے اپنے نبی کی مدد کرتے۔ ان کے اس قول سے اور اس جیسے دیگر اقوال سے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی امت اور دوسری امتوں کے درمیان تفاوت واضح ہوجاتا ہے۔ بدر کے موقع پر جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مشورہ کیا جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابھی ان کو کوئی حتمی حکم نہیں دیا تھا، تو صحابہ نے عرض کی ” یا رسول اللہ ! اگر آپ ہمیں لیکر سمندر میں بھی کود جائیں تو ہم آپ کے ساتھ ہیں اگر آپ ہمیں لے کر زمین کے آخری سرے تک پہنچ جائیں تو بھی کوئی پیچھے نہیں رہے گا اور ہم وہ بات بھی نہیں کہیں گے جو جناب موسیٰ کی قوم نے ان سے کہی تھی : ﴿فَاذْهَبْ أَنتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَا إِنَّا هَاهُنَا قَاعِدُونَ ﴾” جایئے آپ اور آپ کا رب دونوں لڑائی کریں ہم تو یہاں بیٹھے ہوئے ہیں۔ بلکہ ہم تو یہ کہتے ہیں کہ آپ اور آپ کے آگے، آپ کے پیچھے، آپ کے دائیں اور آپ کے بائیں طرف سے آپ کے دفاع میں جنگ لڑیں گے۔“ [سيرت ابن هشام، (2؍ 227)] المآئدہ
25 جب موسیٰ علیہ الصلوۃ و السلام نے ان کی سرکشی دیکھی تو اللہ تعالیٰ سے عرض کیا : ﴿قَالَ رَبِّ إِنِّي لَا أَمْلِكُ إِلَّا نَفْسِي وَأَخِي ﴾ ” اے میرے رب ! میرے اختیار میں تو میری جان اور میرا بھائی ہے“ یعنی لڑائی کے بارے میں ہمیں ان پر کوئی اختیار نہیں اور میں ان پر کوئی جبر نہیں کرسکتا ﴿فَافْرُقْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ الْقَوْمِ الْفَاسِقِينَ ﴾ ” پس جدائی کر دے ہم میں اور اس نافرمان قوم میں“ یعنی ہمارے اور ان کے درمیان فیصلہ فرما دے بایں طور اپنی حکمت کے تقاضے کے مطابق ان پر عذاب نازل فرما۔ یہ بات دلالت کرتی ہے کہ ان کا قول و فعل کبیرہ گناہوں میں سے تھا جو فسق کے موجب ہوتے ہیں المآئدہ
26 ﴿قَالَ ﴾ اللہ تبارک و تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کی دعا قبول کرتے ہوئے فرمایا: ﴿فَإِنَّهَا مُحَرَّمَةٌ عَلَيْهِمْ ۛ أَرْبَعِينَ سَنَةً ۛ يَتِيهُونَ فِي الْأَرْضِ ﴾ ” وہ ملک ان پر چالیس برس تک کے لئے حرام کردیا گیا ہے، اور وہ زمین میں سرگرداں پھرتے رہیں گے۔“ یعنی ان کی سزا یہ ہے کہ اس بستی میں، جو اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے لکھ دی ہے، داخل ہونا چالیس برس تک ان پر حرام کردیا گیا، نیز وہ اس مدت کے دوران زمین میں مارے مارے اور سرگرداں پھرتے رہیں گے۔ وہ کسی طرف جانے کی راہ پائیں گے نہ کسی جگہ اطمینان سے ٹھہر سکیں گے۔ یہ دنیوی سزا تھی۔ شاید اس سزا کو اللہ تعالیٰ نے ان گناہوں کا کفارہ بنا دیا اور ان سے وہ سزا دور کردی جو اس سے بڑی سزا تھی۔ اس آیت کریمہ سے استدلال کیا جاتا ہے کہ گناہ کی سزا کبھی کبھی یہ بھی ہوتی ہے کہ موجودہ نعمت زائل ہوجاتی ہے یا کسی عذاب کو ٹال دیا جاتا ہے جس کے وجود کا سبب مہیا ہو، یا اس کو کسی دوسرے وقت کے لئے مؤخر کردیا جاتا ہے۔ چالیس سال کی مدت مقرر کرنے میں شاید حکمت یہ ہے کہ اس مدت کے دوران میں یہ بات کہنے والے اکثر لوگ مر چکے ہوں گے جو صبر و ثبات سے محروم تھے، بلکہ ان کے دل دشمن کی غلامی سے مالوف ہوگئے تھے بلکہ وہ ان بلند ارادوں ہی سے محروم تھے جو انہیں بلندیوں پر فائز کرتے تاکہ اس دوران نئی نسل کی عقل اور شعور تربیت پا لے پھر وہ دشمنوں پر غلبہ حاصل کرنے، غلامی سے آزاد ہونے اور اس ذلت سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کریں جو سعادت سے مانع ہوتی ہے اور اللہ تبارک و تعالیٰ کو معلوم تھا کہ اس کا بندہ موسیٰ علیہ السلام مخلوق پر بے حد رحیم ہے خاص طور پر اپنی قوم پر بسا اوقات ان کے لئے ان کا دل بہت نرم پڑجاتا تھا، ان کی یہ شفقت اس سزا پر ان کو مغموم کردیتی یا اس مصیبت کے زائل ہونے کی دعا کرنے پر آمادہ کردیتی۔ اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے حتمی طور پر فرمایا : ﴿فَلَا تَأْسَ عَلَى الْقَوْمِ الْفَاسِقِينَ ﴾ ” پس تو ان نافرمان لوگوں کے حال پر افسوس نہ کر۔“ یعنی ان پر افسوس کر نہ ان کے بارے غمزدہ ہو۔ یقیناً انہوں نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا ارتکاب کیا ہے اور ان کی نافرمانی اسی سزا کا تقاضا کرتی تھی جو انہیں ملی ہے۔ یہ سزا ہماری طرف سے ظلم نہیں ہے۔ المآئدہ
27 یعنی لوگوں کے سامنے قصہ بیان کر اور ان کو اس جھگڑے کے بارے میں بتا جو آدم کے دو بیٹوں کے درمیان ہوا تھا یہ اس طرح تلاوت کرے کہ اصحاب اعتبار اسے جھوٹا نہیں بلکہ سچا اور اسے کھیل تماشا نہیں بلکہ ایک انتہائی سنجیدہ واقعہ گردانیں اور ظاہر بات یہ ہے کہ آدم کے ” دو بیٹوں“ سے مراد صلبی بیٹے ہیں، جیسا کہ آیت کریمہ کا ظاہر اور اس کا سیاق اس پر دلالت کرتا ہے اور یہی جمہور مفسرین کا قول ہے۔ یعنی ان دونوں بیٹوں کا قصہ بیان کر جبکہ انہوں نے تقرب کے لئے قربانی کی جس نے انہیں ذکر کردہ حالت تک پہنچایا۔ ﴿إِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا ﴾ ”جب ان دونوں نے قربانی پیش کی۔“ یعنی دونوں میں سے ہر ایک نے اپنے مال میں سے اللہ تعالیٰ کے تقرب کی خاطر کچھ قربانی پیش کی ﴿فَتُقُبِّلَ مِنْ أَحَدِهِمَا وَلَمْ يُتَقَبَّلْ مِنَ الْآخَرِ ﴾ ” پس ان میں سے ایک کی قربانی قبول ہوگئی اور دوسرے کی نامقبول“ ان میں سے جس کی قربانی قبول نہ ہوئی اسے آسمان سے کسی خبر کے ذریعے سے معلوم ہوا یا سابقہ امتوں میں عادت الٰہی کے مطابق قربانی کے قبول ہونے کی علامت یہ تھی کہ آسمان سے آگ نازل ہو کر قربانی کو جلا ڈالتی تھی۔ ﴿قَالَ ﴾ وہ بیٹا جس کی قربانی قبول نہ ہوئی تھی حسد اور تعدی کی بنا پر دوسرے بیٹے سے بولا : ﴿لَأَقْتُلَنَّكَ ﴾” میں تجھے قتل کر کے رہوں گا۔“ دوسرے بیٹے نے نہایت نرمی سے اس سے کہا :﴿إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللّٰهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ ﴾ ” اللہ صرف متقیوں کی قربانی قبول فرماتا ہے“ اس میں میرا کون سا گناہ اور کون سا جرم ہے جو تجھ پر میرے قتل کو واجب کرتا ہے۔ سوائے اس کے کہ میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہوں جس سے ڈرنا مجھ پر، تجھ پر اور ہر ایک پر فرض ہے۔ اس آیت کریمہ میں ” متقین“ کی تفسیر میں صحیح ترین قول یہ ہے کہ یہاں اس سے مراد ہے عمل میں اللہ تعالیٰ کی خاطر تقویٰ اختیار کرنے والے یعنی ان کا عمل خالص اللہ تعالیٰ کے لئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں ہو۔ المآئدہ
28 پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے خبر دیتے ہوئے بیان فرمایا کہ دوسرا بیٹا اسے قتل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا تھا، نہ ابتدا میں اور نہ اپنی مدافعت میں، اس لئے اس نے کہا : ﴿لَئِن بَسَطتَ إِلَيَّ يَدَكَ لِتَقْتُلَنِي مَا أَنَا بِبَاسِطٍ يَدِيَ إِلَيْكَ لِأَقْتُلَكَ﴾ ” اگر تو ہاتھ چلائے گا مجھ پر تاکہ تو مجھے مارے، تو میں اپنا ہاتھ تیری طرف نہیں چلاؤں گا کہ تجھے ماروں“ اور میرا یہ رویہ میری بزدلی یا میرے عجز کی وجہ سے نہیں یہ تو صرف اس وجہ سے ہے کہ ﴿إِنِّي أَخَافُ اللَّـهَ رَبَّ الْعَالَمِينَ ﴾” میں اللہ رب العالمین سے ڈرتا ہوں“ اور اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والا گناہ کا اقدام نہیں کرسکتا، خاص طور پر کبیرہ گناہ کا۔ المآئدہ
29 اس آیت کریمہ میں اس شخص کے لئے سخت تخویف ہے جو قتل کا ارادہ کرتا ہے اور تیرے لئے مناسب یہی ہے کہ تو اللہ کا تقویٰ اختیار کرے اور اس سے ڈرے﴿إِنِّي أُرِيدُ أَن تَبُوءَ ﴾ ” میں چاہتا ہوں کہ تو لوٹے۔“ ﴿بِإِثْمِي وَإِثْمِكَ ﴾ ” میرے اور اپنے گناہ کے ساتھ“ یعنی جب معاملے کا دار و مدار دو امور پر ہے، ایک یہ کہ میں قاتل بنوں (دوسرا یہ کہ) تو مجھے قتل کرے۔ تو میں اس بات کو ترجیح دوں گا کہ تو مجھے قتل کرے تاکہ تو دونوں کے گناہوں کا بوجھ اٹھا کر واپس لوٹے ﴿فَتَكُونَ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ ۚ وَذٰلِكَ جَزَاءُ الظَّالِمِينَ ﴾“ پھر ہوجائے تو دوزخیوں میں سے اور یہی سزا ہے ظالموں کی۔ “ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ قتل کا ارتکاب کبیرہ گناہ ہے اور یہ جہنم میں داخل ہونے کا موجب ہے۔ المآئدہ
30 وہ مجرم اس جرم سے پیچھے ہٹانہ گھبرایا اور قتل کے عزم جازم پر قائم رہا حتیٰ کہ اس کے نفس نے اس کے بھائی کے قتل کی ترغیب دی جس کے احترام کا تقاضا شریعت اور فطرت دونوں کرتے ہیں ﴿فَقَتَلَهُ فَأَصْبَحَ مِنَ الْخَاسِرِينَ ﴾” پس اس نے اسے قتل کردیا اور وہ نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگیا“ یعنی وہ دنیا و آخرت میں خسارہ پانے والوں میں شامل ہوگیا اور اس نے ہر قاتل کے لئے ایک سنت رائج کردی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :” جس کسی نے کوئی بری سنت رائج کی تو اس پر اس برائی کے گناہ کا بوجھ اور ان لوگوں کے گناہوں کا بوجھ بھی پڑے گا جو قیامت تک اس بری سنت پر عمل کریں گے۔“ [صحيح مسلم، الزكاة، باب الحث علي الصدقة..... الخ، حديث: 1017] بنا بریں ایک صحیح حدیث میں وارد ہے ” دنیا میں جو بھی قتل کرتا ہے تو اس خون کے گناہ کا کچھ حصہ آدم کے پہلے بیٹے کے حصہ میں بھی جاتا ہے کیونکہ وہ پہلا شخص ہے جس نے قتل کے جرم کی ابتدا کی۔‘‘ [جامع الترمذي، العلم، باب ما جاء أن الدال علي الخير كفاعله، حديث: 2673] المآئدہ
31 جب اس نے اپنے بھائی کو قتل کردیا تو اس کی سمجھ میں نہ آیا کہ وہ کیا کرے، کیونکہ آدم کے بیٹوں میں وہ پہلا شخص تھا جو مرا تھا ﴿فَبَعَثَ اللّٰهُ غُرَابًا يَبْحَثُ فِي الْأَرْضِ ﴾ ” تو اللہ نے ایک کو ابھیجا جو زمین کریدتا تھا“ یعنی وہ زمین کھودتا تھا، تاکہ دوسرے مردہ کوے کو دفن کرے ﴿لِيُرِيَهُ ﴾ تاکہ اسے دکھائے ” یعنی وہ اس کے ذریعے سے آدم کے قاتل بیٹے کودکھائے ﴿كَيْفَ يُوَارِي سَوْءَةَ أَخِيهِ﴾” کہ وہ اپنے بھائی کے بدن کو کیسے چھپائے۔“ کیونکہ میت کا بدن بھی ستر ہوتا ہے۔ ﴿فَأَصْبَحَ مِنَ النَّادِمِينَ ﴾” پس وہ نادم ہونے والوں میں سے ہوگیا“ اسی طرح تمام گناہوں کا انجام ندامت اور خسارہ ہے۔ المآئدہ
32 اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے :﴿مِنْ أَجْلِ ذٰلِكَ ﴾ ”اسی سبب سے‘‘ یعنی آدم کے بیٹوں کے اس واقعہ کے بعد جس کا ہم نے ذکر کیا ہے جس میں ان میں سے ایک نے اپنے بھائی کو قتل کردیا اور اپنے مابعد قتل کا طریقہ جاری کردیا اور یہ کہ قتل کا انجام دنیا و آخرت میں انتہائی مضر اور خسارے والا ہے﴿كَتَبْنَا عَلَىٰ بَنِي إِسْرَائِيلَ ﴾ ” ہم نے بنی اسرائیل پر لکھ دیا“ یعنی ان لوگوں پر جنہیں کتب سماویہ سے نوازا گیا۔ ﴿أَنَّهُ مَن قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ ﴾ ” جس نے کسی جان کو بغیر جان کے یا بغیر فساد کرنے کے قتل کردیا“ یعنی ناحق ﴿فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا ﴾” گویا کہ اس نے تمام لوگوں کو قتل کردیا۔“ کیونکہ اس کے پاس کوئی داعیہ نہیں جو اسے تبیین پر آمادہ کرتا اور قتل ناحق کے اقدام سے روکتا۔ پس جب اس نے اس جان کو قتل کرنے کی جسارت کی جو قتل ہونے کی مستحق نہ تھی، تب معلوم ہوا کہ اس مقتول ناحق اور دیگر مقتولین کے درمیان کوئی فرق نہیں۔ یہ تو نفس امارہ کے داعیے کے مطابق ہے۔ پس اس کا اس نفس کو قتل کرنے کی جسارت کرنا تمام نفوس انسانی کو قتل کرنے کے مترادف ہے۔ اسی طرح جس نے کسی نفس انسانی کو زندگی بخشی، یعنی نفس امارہ کے داعیے کے باوجود کسی نفس کو باقی رکھا اور اسے قتل نہ کیا۔ اللہ تعالیٰ کے خوف نے اسے قتل ناحق سے روک دیا تو اس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی۔ کیونکہ اس کے ہمراہ جو خوف الٰہی ہے، وہ اسے ایسے نفس کے قتل سے روکتا ہے جو قتل کا مستحق نہیں۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ دو امور کی بنا پر قتل جائز ہے۔ (1) اگر کسی نے جان بوجھ کر ناحق قتل کیا ہو اگر قاتل مکلف اور بدلہ لئے جانے کے قابل ہو، وہ مقتول کا باپ نہ ہو، تو اسے (قصاص میں) قتل کرناجائز ہے۔ (٢) وہ لوگ جو لوگوں کے دین، جان اور اموال کو ہلاک کر کے زمین میں فساد برپا کرنے کے مرتکب ہوتے ہیں، مثلاً مرتدین، اہل کفر، محاربین اور بدعات کی طرف دعوت دینے والے وہ لوگ جن کو قتل کئے بغیر ان کے شر و فساد کا سدباب نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح وہ راہزن وغیرہ ہیں جو لوگوں کا مال لوٹنے یا ان کو قتل کرنے کے لئے شاہراہوں میں لوگوں پر حملہ کردیتے ہیں۔ فرمایا :﴿وَلَقَدْ جَاءَتْهُمْ رُسُلُنَا بِالْبَيِّنَاتِ ﴾ ” ان کے پاس ہمارے رسول دلائل لے کر آئے“ ان دلائل نے کسی کے پاس کوئی حجت باقی نہیں رہنے دی ﴿ ثُمَّ إِنَّ كَثِيرًا مِّنْهُم ﴾ ” پھر بھی ان میں سے بہت سے لوگ۔“ یعنی لوگوں میں سے ﴿بَعْدَ ذٰلِكَ ﴾ ” اس کے بعد“ یعنی حجت کی کاٹ کرنے والے اس بیان کے بعد، جو کہ زمین میں راست روی اور استقامت کا موجب ہوتا ہے ﴿لَمُسْرِفُونَ ﴾ ” حد اعتدال سے نکل جاتے ہیں۔“ گناہوں کے اعمال اور انبیاء و رسل کی مخالفت میں جو کہ واضح دلائل اور براہین کے ساتھ مبعوث ہوئے ہیں، حد سے بڑھنے والے ہیں۔ المآئدہ
33 اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محاربت کے مرتکب وہ لوگ ہیں جو اس کے ساتھ عداوت ظاہر کرتے ہیں اور قتل و غارت، کفر، لوٹ مار اور شاہراہوں کو غیر محفوظ بنانے کا ارتکاب کرتے ہیں۔ مشہور یہ ہے کہ یہ آیت کریمہ ان راہزنوں اور ڈاکوؤں کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو بستیوں اور دیہات میں لوگوں پر حملے کر کے ان کا مال لوٹتے ہیں، ان کو قتل کرتے ہیں اور دہشت پھیلاتے ہیں۔ بنابریں لوگ ان شاہراہوں پر سفر کرنا بند کردیتے ہیں پس اس وجہ سے راستے منقطع ہوجاتے ہیں، تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ حد نافذ کرتے وقت ان لوگوں کی سزا، ان سزاؤں میں سے ایک ہے جو اس آیت کریمہ میں مذکور ہیں۔ اصحاب تفسیر میں اس بارے میں اختلاف ہے کہ آیا ان سزاؤں میں اختیار ہے اور امام یا اس کا نائب ہر راہزن کو اپنی صواب دید اور مصلحت کے مطابق ان مذکورہ سزاؤں میں سے کوئی سزا دے سکتا ہے۔ آیت کریمہ کے الفاظ سے یہی ظاہر ہوتا ہے، یا ان کی سزا ان کے جرم کے مطابق دی جائے گی اور ہر جرم کے مقابلے میں ایک سزا ہے جیسا کہ آیت کریمہ اس پر دلالت کرتی ہے اور اس آیت کریمہ کا حکم اللہ تعالیٰ کی حکمت کے مطابق ہے، یعنی اگر وہ قتل اور لوٹ مار کا ارتکاب کریں تو ان کو قتل کرنے اور سولی دینے کی سزا حتمی ہے۔ یہاں تک کہ ان کا سولی دیا جانا مشہور ہوجائے اور دوسرے لوگ لوٹ مار اور راہزنی سے باز آجائیں۔ اگر وہ لوگوں کو قتل کریں اور مال نہ لوٹیں تو ان کو صرف قتل کیا جائے۔ اگر وہ صرف مال لوٹیں اور لوگوں کو قتل کرنے سے باز رہیں تو مخالف سمت سے ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیئے جائیں یعنی دائیاں ہاتھ اور بائیاں کاٹ دیا جائے۔ اگر صرف لوگوں کو خوفزدہ کرنے اور دہشت پھیلانے کے مرتکب ہوئے ہوں اور انہوں نے کسی کا مال لوٹا ہو نہ کسی کو قتل کیا ہو تو ان کو جلا وطن کیا جائے گا اور ان کو کسی شہر میں پناہ نہیں لینے دی جائے گی یہاں تک کہ وہ توبہ کرلیں۔ یہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے اور بعض تفاصیل میں اختلاف کے باوجود بہت سے ائمہ نے اس قول کو اختیار کیا ہے۔ ﴿ذٰلِكَ ﴾ یہ سزا ﴿لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيَا ﴾ ” ان کے لئے دنیا میں فضیحت اور عار ہے“ ﴿وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ ﴾” اور ان کے لئے آخرت میں بڑا عذاب ہے۔“ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ راہزنی بڑے گناہوں میں شمار ہوتی ہے جو دنیا و آخرت کی رسوائی اور فضیحت کی موجب ہے اور راہزنی کا مرتکب اللہ اور اس کے رسول کے خلاف جنگ کرتا ہے۔ جب یہ جرم اتنا بڑا ہے تو معلوم ہوا کہ مفسدین سے روئے زمین کی تطہیر کرنا، شاہراہوں کو قتل و غارت، لوٹ مار اور خوف و دہشت سے محفوظ کرنا، سب سے بڑی بھلائی اور سب سے بڑی نیکی ہے، نیز یہ زمین کے اندر صالح ہے جیسا کہ اس کی ضد فساد فی الارض ہے۔ المآئدہ
34 ﴿إِلَّا الَّذِينَ تَابُوا مِن قَبْلِ أَن تَقْدِرُوا عَلَيْهِمْ ﴾” ہاں جن لوگوں نے، اس سے پیشتر کہ تمہارے قابو آجائیں، توبہ کرلی۔“ یعنی ان محاربین میں سے جو لوگ توبہ کرلیں پہلے اس کے کہ تم ان پر قابو پاؤ۔ ﴿فَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴾” تو جان لو کہ اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا، نہایت مہربان ہے“ یعنی اس سے جرم اور گناہ ساقط ہوجائے گا جو اللہ تعالیٰ کے حقوق کے ضمن میں تھا، یعنی قتل، سولی، ہاتھ پاؤں کاٹنا اور جلا وطنی وغیرہ سزائیں معاف ہوجائیں گی۔ اگر محارب کافر تھا اور اس نے گرفتار ہونے سے پہلے اسلام قبول کرلیا تو آدمی کا حق بھی ساقط ہوجائے گا۔ اگر محارب مسلمان ہے تو لوٹ مار اور قتل و غارت وغیرہ انسانی حقوق ساقط نہیں ہوں گے۔ آیت کریمہ کا مفہوم دلالت کرتا ہے کہ محارب پر قابو پا لینے کے بعد اس کی توبہ معتبر نہیں، اس سے کوئی سزا ساقط نہیں ہوگی۔ اس میں جو حکمت ہے وہ واضح ہے اور جب قابو پانے سے پہلے کی ہوئی تو بہ محاربت کی حد کے نفاذ سے مانع ہے تو قابو پانے سے پہلے دیگر جرائم سے توبہ کا ان جرائم کی حدود کے نفاذ سے مانع ہونا زیادہ اولیٰ ہے۔ المآئدہ
35 اس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کو حکم دیا ہے کہ وہ ایمان کے تقاضے کے مطابق تقویٰ اختیار کریں اور اللہ تعالیٰ کی نارضی اور اس کے غضب سے بچیں اور وہ اس طرح کہ بندہ مومن مقدور بھر ان امور سے اجتناب کرے جو اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا باعث بنتے ہیں۔ قلب، زبان اور جوارح کے ظاہری اور باطنی گناہوں سے بچے اور ان گناہوں سے بچنے کے لئے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگے، تاکہ اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور اس کے عذاب سے نجات حاصل کرسکے۔ ﴿وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ﴾ ”اور ڈھونڈو اس کی طرف وسیلہ“ یعنی اللہ تعالیٰ کا قرب، اس کے پاس مرتبہ اور اس کی محبت طلب کرو۔ یہ چیز فرائض قلبی مثلاً محبت الٰہی، اس کے خوف، اس پر امید، اس کی طرف انابت اور اس پر توکل، فرائض بدنی مثلاً زکوٰۃ اور حج وغیرہ اور قلب و بدن سے مرکب فرائض مثلاً نماز، ذکر اور تلاوت اور لوگوں سے اپنے اخلاق، مال، علم، جاہ اور بدن کے ذریے سے بھلائی سے پیش آنے اور ان کی خیر خواہی کرنے سے حاصل ہوتی ہے۔ پس یہ تمام اعمال تقرب الٰہی کا ذریعہ ہیں۔ بندہ اعمال کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرتا رہتا ہے حتیٰ کہ وہ اللہ تعالیٰ کا محبوب بن جاتا ہے جب اللہ تعالیٰ اس سے محبت کرنے لگتا ہے تو اللہ اس کے کان بن جاتا ہے جن کے ذریعے سے وہ سنتا ہے، اس کی آنکھ بن جاتا ہے جس کے ذریعے سے وہ دیکھتا ہے، اس کا ہاتھ بن جاتا ہے جس کے ذریعے سے وہ پکڑتا ہے، اس کے پاؤں بن جاتا ہے جس کے ذریعے سے وہ چلتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کی دعائیں قبول کرتا ہے۔ [مطلب یہ ہے کہ اللہ کا محبوب انسان اپنے تمام اعضاء کو اس طرح استعمال کرتا ہے جس طرح اللہ پسند کرتا ہے، یہ مطلب نہیں کہ وہ اللہ کا جزء بن جاتا یا اللہ اس میں حلول کرجاتا ہے جیسا کہ بعض مشرکین میں اس قسم کے عقیدے پائے جاتے ہیں۔ (ص۔ ی) ] پھر اللہ کے قریب کرنے والی عبادات میں سے جہاد فی سبیل اللہ کا خصوصی طور پر بیان کیا اور یہ جہاد نام ہے، کافروں کے ساتھ لڑائی میں اپنی پوری طاقت صرف کرنے کا، مال، جان، رائے، زبان کے ذریعے سے اور اللہ کے دین کی مدد میں اپنی مقدور بھر سعی و کوشش کرنے کا اس لئے کہ عبادت کی یہ قسم تمام طاعات میں سب سے زیادہ جلیل القدر اور قربات میں سب سے افضل ہے، نیز یہ کہ جو اس کی ادائیگی کا اہتمام کرلیتا ہے، وہ دیگر فرائض و عبادات بہ طریق اولیٰ بجا لاتا ہے۔ ﴿لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ﴾ ” تاکہ تم فلاح پاؤ۔“ اگر تم نے گناہوں کو ترک کر کے تقویٰ اختیار کیا، نیکیوں کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کے تقرب کا وسیلہ تلاش کرلیا اور اس کی رضا کی خاطر اس کے راستے میں جہاد کیا، تو امید کی جاسکتی ہے کہ تم فلاح پالو گے۔ فلاح اپنے ہر مطلوب و مرغوب کے حصول میں کامیابی اور مرہوب سے نجات کا نام ہے۔ پس اس کی حقیقت ابدی سعادت اور دائمی نعمت ہے۔ المآئدہ
36 قیامت کے روز کفار کا جو بدترین حال ہوگا اور وہ جس قبیح ترین عذاب میں مبتلا ہوں گے، اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس روز اگر وہ زمین بھر سونا، اور اتنا ہی اور اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچنے کے لئے فدیہ کے طور پر ادا کریں تو ان سے یہ فدیہ قبول نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی یہ فدیہ کوئی فائدہ ہی دے گا۔ کیونکہ فدیہ دینے کا موقع تو وہ گنوا بیٹھے، اب تو درد ناک دائمی عذاب کے سوا کچھ باقی نہیں بچا۔ اس عذاب سے وہ کبھی نہ نکل سکیں گے بلکہ وہ اس عذاب میں ہمیشہ مبتلا رہیں گے۔ المآئدہ
37 چور اس شخص کو کہا جاتا ہے جو کسی دوسرے کا قابل احترام مال، اس کی رضا مندی کے بغیر خفیہ طور پر ہتھیاتا ہے۔ چوری کا شمار کبیرہ گناہوں میں ہوتا ہے جو بدترین سزا کا موجب ہے یعنی دائیاں ہاتھ کاٹنا، جیسا کہ بعض صحابہ کی قراءت میں آتا ہے۔ ہاتھ کا اطلاق کلائی کے جوڑ تک ہتھیلی پر ہوتا ہے۔ اگر کوئی چوری کرتا ہے تو ہاتھ کلائی سے کاٹ دیا جائے اور اس کے بعد اسے تیل میں داغ دیا جائے تاکہ رگیں مسدود ہوجائیں اور خون رک جائے۔ سنت نبوی نے اس آیت کریمہ کے عموم کو متعدد پہلوؤں سے مقید کیا ہے۔ (١) حفاظت : چوری کے اطلاق کے لئے ضروری ہے کہ مال محفوظ جگہ سے اٹھایا گیا ہو، یہاں مال کی حفاظت سے مراد وہ حفاظت ہے جو عادتاً کی جاتی ہے۔ چورنے اگر کسی ایسے مال کی چوری کی ہو جو حفاظت میں نہ ہو تو اس کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ (٢) نصاب : چور کا ہاتھ کاٹنے کے لئے مال مسروقہ کا نصاب ضروری ہے یہ نصاب کم از کم ایک چوتھائی دینا ریا تین درہم یا ان میں سے کسی ایک کے برابر ہو۔ مال مسروقہ اگر اس نصاب سے کم ہو تو چور کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ شاید یہ لفظ سرقہ اور اس کے معنی سے ماخوذ ہے کیونکہ لفظ ” سرقہ“ سے مراد ہے کوئی چیز اس طریقے سے لینا جس سے احتراز ممکن نہ ہو اور یہ اسی وقت ہی ہوگا کہ مال کو حفاظت کے ساتھ رکھا گیا ہو۔ اگر مال کو حفاظت کے ساتھ نہ رکھا گیا تو اس مال کا لینا شرعی سرقہ کے زمرے میں نہیں آئے گا۔ یہ بھی اللہ تبارک و تعالیٰ کی حکمت ہے کہ تھوڑی اور حقیر سی شے کی چوری میں ہاتھ نہ کاٹا جائے۔ چونکہ قطع ید کے لئے کم ترین نصاب مقرر کرنا ضروری ہے، اس لئے نصاب شرعی ہی کتاب اللہ کی تخصیص کرنے والا ہوگا۔ چوری میں ہاتھ کاٹنے میں حکمت یہ ہے کہ اس سے مال محفوظ ہوجاتے ہیں اور اس عضو کو بھی کٹ جانا چاہئے جس سے جرم صادر ہوا ہے۔ دائیاں ہاتھ کاٹ دیئے جانے کے بعد اگر چور دوبارہ چوری کا ارتکاب کرے تو اس کا بایاں پاؤں کاٹ دیا جائے۔ اگر پھر چوری کرے تو بعض کہتے ہیں کہ اس کا بایاں ہاتھ بھی کاٹ دیا اور اگر پھر بھی باز نہ آئے تو دائیاں پاؤں کاٹ دیا جائے اور بعض فقہا کہتے ہیں کہ اس کو قید کردیا جائے یہاں تک کہ وہ قید ہی میں مر جائے۔﴿جَزَاءً بِمَا كَسَبَا﴾ ” یہ بدلہ ہے اس کا جو انہوں نے کمایا‘‘ یعنی یہ قطع ید، چور کو اس بات کی سزا دی گئی ہے کہ اس نے لوگوں کا مال چرایا ہے ﴿نَكَالًا مِّنَ اللَّـهِ ﴾ ” یہ تنبیہ ہے اللہ کی طرف سے“ یعنی یہ سزا چور اور دیگر لوگوں کو ڈرانے کے لئے ہے، کیونکہ چوروں کو جب معلوم ہوگا کہ چوری کے ارتکاب پر ہاتھ کاٹ دیا جائے گا، تو وہ چوری سے باز آجائیں گے ﴿وَاللّٰهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ﴾ ” اور اللہ زبردست، صاحب حکمت ہے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ غالب اور حکمت والا ہے اس لئے اس نے چور کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا ہے۔ المآئدہ
38 المآئدہ
39 ﴿فَمَن تَابَ مِن بَعْدِ ظُلْمِهِ وَأَصْلَحَ فَإِنَّ اللَّـهَ يَتُوبُ عَلَيْهِ ۗ إِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴾ ” پس جس نے توبہ کی اپنے ظلم کے بعد اور اصلاح کی، تو اللہ قبول کرتا ہے توبہ اس کی، بے شک اللہ بہت بخشنے والا، نہایت مہربان ہے“ پس جو کوئی توبہ کرتا ہے، گناہوں کو ترک کر کے اپنے اعمال اور اپنے عیوب کی اصلاح کرلیتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اس کو بخش دیتا ہے اور یہ اس بنا پر ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کے اقتدار کا مالک ہے وہ جیسے چاہتا ہے زمین اور آسمان میں تکوینی اور شرعی تصرف کرتا ہے اور اپنی حکمت، بے پایاں رحمت اور مغفرت کے تقاضے کے مطابق وہ بخشتا ہے یا سزا دیتا ہے۔ المآئدہ
40 المآئدہ
41 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مخلوق پے بے حد شفقت فرماتے تھے اس لئے اگر کوئی شخص ایمان لانے کے بعد پھر کفر کی طرف لوٹ جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت دکھ پہنچتا اور آپ بہت زیادہ مغموم ہوجاتے۔ پس اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کو ہدایت فرمائی کہ وہ اس قسم کے لوگوں کی کارستانیوں پر غمزدہ نہ ہوا کریں، کیونکہ وہ کسی شمار میں نہیں۔ اگر وہ موجود ہوں تو ان کا کوئی فائدہ نہیں اور اگر وہ موجود نہ ہوں تو ان کے بارے میں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ بنا بریں ان کے بارے میں عدم حزن و غم کے موجب سبب کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : ﴿مِنَ الَّذِينَ قَالُوا آمَنَّا بِأَفْوَاهِهِمْ وَلَمْ تُؤْمِن قُلُوبُهُمْ ﴾” ان لوگوں میں سے جو کہتے ہیں ہم مسلمان ہیں اپنے مونہوں سے اور ان کے دل مسلمان نہیں“ کیونکہ صرف ان لوگوں کے بارے میں افسوس کیا جاتا ہے اور صرف ان کے بارے میں غم کھایا جاتا ہے جو ظاہر اور باطن میں مومن شمار ہوتے ہیں۔ حاشا للہ اہل ایمان کبھی اپنے دین سے نہیں پھرتے، کیونکہ جب بشاشت ایمان دل میں جاگزیں ہوجاتی ہے، تو صاحب ایمان کسی چیز کو ایمان کے برابر نہیں سمجھتا اور ایمان کے بدلے کوئی چیز قبول نہیں کرتا۔ ﴿وَمِنَ الَّذِينَ هَادُوا ﴾ ” اور ان میں سے جو یہودی ہیں۔“ المآئدہ
42 ﴿سَمّٰعُونَ لِلْكَذِبِ سَمَّاعُونَ لِقَوْمٍ آخَرِينَ لَمْ يَأْتُوكَ ۖ ﴾ ” جاسوسی کرتے ہیں جھوٹ بولنے کے لئے، وہ جاسوس ہیں دوسرے لوگوں کے جو آپ تک نہیں آئے“ یعنی اپنے سرداروں کی آواز پر لبیک کہنے والے، ان کے مقلد، جن کا تمام تر معاملہ جھوٹ اور گمراہی پر مبنی ہے اور یہ سردار جن کی پیروی کی جاتی ہے﴿ لَمْ يَأْتُوكَ ﴾” آپ کے پاس کبھی نہیں آئے“ بلکہ وہ آپ سے روگردانی کرتے ہیں اور اسی باطل پر خوش ہیں جو ان کے پاس ﴿ يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ مِن بَعْدِ مَوَاضِعِهِ ﴾’ ’وہ بدل ڈالتے ہیں بات کو، اس کا ٹھکانا چھوڑ کر“ یعنی وہ اللہ کی مخلوق کو گمراہ کرنے اور حق کو روکنے کے لئے الفاظ کو ایسے معانی پہناتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی مراد نہیں ہے پس لوگ گمراہی کی طرف دعوت دینے والوں کے پیچھے چلتے ہیں اور محال کی پیروی کرتے ہیں جو تمام تر جھوٹ ہی لے کر آتے ہیں جو عقل سے محروم اور عزم و ہمت سے تہی دست ہیں۔ اگر وہ آپ کی اتباع نہیں کرتے تو پروا نہ کیجیے، کیونکہ وہ اتنہائی ناقص ہیں اور ناقص کی پروا نہیں کی جاتی ﴿يَقُولُونَ إِنْ أُوتِيتُمْ هَـٰذَا فَخُذُوهُ وَإِن لَّمْ تُؤْتَوْهُ فَاحْذَرُوا ﴾ ” کہتے ہیں اگر تم کو یہ حکم ملے تو قبول کرلینا اور اگر یہ حکم نہ ملے تو بچتے رہنا“ یعنی یہ بات وہ اس وقت کہتے ہیں جب وہ فیصلہ کروانے کے لئے آپ کے پاس آتے ہیں۔ خواہشات نفس کی پیروی کے سوا ان کا کوئی مقصد نہیں ہوتا۔ وہ ایک دوسرے سے کہتے ہیں ” اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمہاری خواہش کے مطابق فیصلہ کرے تو اسے قبول کرلو اور اگر وہ تمہاری خواہش کے مطابق فیصلہ نہ کرے تو اس فیصلے میں اس کی پیروی سے بچو۔“ یہ نقطہ نظر فتنہ اور خواہشات نفس کی پیروی ہے۔ ﴿وَمَن يُرِدِ اللّٰهُ فِتْنَتَهُ فَلَن تَمْلِكَ لَهُ مِنَ اللَّـهِ شَيْئًا ۚ ﴾ ” اور جس کو اللہ گمراہ کرنے کا ارادہ کرلے، آپ اس کے لئے اللہ کے ہاں کچھ نہیں کرسکتے“ اللہ تبارک و تعالیٰ کا یہ ارشاد اس قول کی مانند ہے ﴿إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ ﴾ (القصص:56؍68) ” آپ جسے پسند کریں اسے ہدایت نہیں دے سکتے، بلکہ اللہ ہی جس کو چاہے ہدایت دے سکتا ہے۔“ ﴿ أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ لَمْ يُرِدِ اللّٰهُ أَن يُطَهِّرَ قُلُوبَهُمْ ۚ ﴾” یہ وہی لوگ ہیں جن کو اللہ نے نہیں چاہا کہ ان کے دل پاک کرے“ یعنی پس ان سے جو کچھ صادر ہو رہا ہے وہ اسی وجہ سے صادر ہو رہا ہے۔ ان کا یہ رویہ اس حقیقت پر دلالت کرتا ہے کہ جو کوئی خواہش نفس کی اتباع کی خاطر شریعت کے مطابق فیصلہ کرواتا ہے اگر فیصلہ اس کے حق میں ہو تو راضی ہوجاتا ہے اور اگر فیصلہ اس کے خلاف ہو تو ناراض ہوجاتا ہے، تو یہ چیز اس کے قلب کی عدم طہارت میں سے ہے۔ جیسے وہ شخص جو اپنا فیصلہ شریعت کی طرف لے جاتا ہے اور اس پر راضی ہوتا ہے، چاہے وہ فیصلہ اس کی خواہش کے مطابق ہو یا مخالف، تو یہ اس کی طہارت قلب میں سے ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ طہارت قلب ہر بھلائی کا سبب ہے اور طہارت قلب رشد و ہدایت اور عمل سدید کا سب سے بڑا داعی ہے۔ ﴿لَهُمْ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ ﴾ ” ان کے لئے دنیا میں بھی ذلت ہے۔“ یعنی دنیا میں ان کے لئے فضیحت اور عار ہے ﴿وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ ﴾ ” اور آخرت میں عذاب عظیم ہے“ عذاب عظیم سے مراد جہنم اور اللہ جبار کی ناراضی ہے ﴿سَمَّاعُونَ لِلْكَذِبِ ﴾” جاسوسی کرنے والے ہیں جھوٹ بولنے کے لئے“ یہاں سننے سے مراد اطاعت کے لئے سننا ہے یعنی وہ قلت دین اور قلت عقل کی بنا پر ہر اس شخص کی بات پر لبیک کہتے ہیں جو انہیں جھوٹ کی طرف دعوت دیتا ہے ﴿أَكَّالُونَ لِلسُّحْتِ ﴾” کھانے والے ہیں حرام کے“ یعنی اپنے عوام اور گھٹیا لوگوں سے ناحق وظائف لے کر حرام مال کھاتے ہیں۔ پس انہوں نے اپنے اندر جھوٹ کی پیروی اور اکل حرام کو یکجا کرلیا ﴿فَإِن جَاءُوكَ فَاحْكُم بَيْنَهُمْ أَوْ أَعْرِضْ عَنْهُمْ ﴾” اگر یہ آپ کے پاس (کوئی فیصلہ کرانے کو) آئیں تو آپ ان میں فیصلہ کردیں یا اعراض کریں۔“ یعنی آپ کو اس بارے میں اختیار ہے کہ جب وہ آپ کے پاس آئیں تو ان کے درمیان فیصلہ کریں یا ان سے اعراض فرما لیں۔ یہ آیت کریمہ منسوخ نہیں ہے بلکہ اس قسم کے لوگوں کے بارے میں جو فیصلہ کروانے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں آپ کو اختیار دیا گیا ہے کہ آپ ان کے درمیان فیصلہ کریں یا فیصلہ کرنے سے گریز کریں اور اس کا سبب یہ ہے کہ وہ صرف اسی وقت شریعت کے مطابق فیصلہ کروانے کا قصد کرتے ہیں جب فیصلہ ان کی خواہشات نفس کے مطابق ہو۔ بنا بریں فتویٰ طلب کرنے والے اور کسی عالم کے پاس فیصلہ کروانے کے لئے جانے والے کے احوال کی تحقیق کی جائے اگر یہ معلوم ہوجائے کہ وہ اپنے خلاف فیصلے پر راضی نہ ہوگا تو اس کے بارے میں کوئی فیصلہ کرنا واجب ہے نہ فتویٰ دینا۔ تاہم اگر وہ ان کے درمیان فیصلہ کرے تو انصاف کے ساتھ فیصلہ کرنا واجب ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَإِن تُعْرِضْ عَنْهُمْ فَلَن يَضُرُّوكَ شَيْئًا ۖ وَإِنْ حَكَمْتَ فَاحْكُم بَيْنَهُم بِالْقِسْطِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ ﴾ ”اگر آپ ان سے منہ پھیر لیں تو وہ آپ کا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے اور اگر آپ فیصلہ کریں تو ان کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کریں، بے شک اللہ انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے“ حتی کہ۔۔۔۔۔۔ خواہ لوگ ظالم اور دشمن ہی کیو نہ ہوں تب بھی ان کے درمیان عدل کے ساتھ فیصلہ کرنے سے کوئی چیز مانع نہ ہو۔ المآئدہ
43 یہ آیت کریمہ لوگوں کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کرنے کی فضیلت پر دلالت کرتی ہے اور عدل کے ساتھ فیصلہ کرنا اللہ تعالیٰ کو بے حد پسند ہے۔ پھر ان پر تعجب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿وَكَيْفَ يُحَكِّمُونَكَ وَعِندَهُمُ التَّوْرَاةُ ۔۔۔ بِالْمُؤْمِنِينَ ﴾” اور وہ کس طرح آپ کو منصف بنائیں گے، جب کہ ان کے پاس تورات ہے، جس میں اللہ کا حکم ہے، پھر اس کے بعد وہ پھرجاتے ہیں اور وہ ایمان لانے والے نہیں ہیں“ اس لئے کہ اگر وہ مومن ہوتے اور ایمان کے تقاضے اور اس کے موجبات پر عمل کرتے، تو اللہ کے اس حکم سے اعراض نہ کرتے جو تو رات میں موجود ہے اور جو ان کے سامنے ہے۔ (لیکن اس سے اعراض کر کے جو آپ کے اعراض کر کے جو آپ کے پاس آئے ہیں تو اس امید پر کہ) شاید جو کچھ آپ کے پاس ہے ان کی خواہشات کے مطابق ہو اور جب آپ نے اللہ تعالیٰ کے اس حکم کے مطابق فیصلہ کردیا جو ان کے پاس ہے، تو وہ نہ صرف اس بات پر راضی نہیں ہوئے بلکہ انہوں نے اس سے روگردانی کی اور اس کو ناپسند کیا۔ ﴿وَمَا أُولَـٰئِكَ بِالْمُؤْمِنِينَ ﴾ ” اور یہ لوگ ایمان ہی نہیں رکھتے۔“ یعنی وہ لوگ جن کے یہ اعمال ہیں وہ مومن نہیں، یعنی یہ اہل ایمان کا رویہ نہیں اور نہ یہ لوگ مومن کہلانے کے مستحق ہیں، کیونکہ انہوں نے اپنی خواہشات نفس کو اپنا معبود بنا لیا ہے اور احکام ایمان کو اپنی خواہشات کے تابع کر رکھا ہے۔ المآئدہ
44 ﴿إِنَّا أَنزَلْنَا التَّوْرَاةَ ﴾ ”بے شک ہم نے تورات نازل فرمائی۔“ یعنی ہم نے موسیٰ بن عمران پر تورات نازل کی ﴿فِيهَا هُدًى ﴾ ” جس میں ہدایت ہے“ یعنی تورات ایمان اور حق کی طرف راہنمائی کرتی ہے اور گمراہی سے بچاتی ہے﴿وَنُورٌ ﴾ ” اور روشنی ہے۔“ یعنی ظلم و جہالت، شک و حیرت اور شبہات و شہوات کی تاریکیوں میں اس سے روشنی حاصل کی جاتی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿ وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَىٰ وَهَارُونَ الْفُرْقَانَ وَضِيَاءً وَذِكْرًا لِّلْمُتَّقِينَ ﴾ (الانبیاء: 21؍48) ” اور ہم نے موسیٰ اور ہارون کو حق و باطل میں فرق کرنے والی، روشنی عطا کرنے والی اور اہل تقویٰ کو نصیحت کرنے والی کتاب عطا کی۔“ ﴿يَحْكُمُ بِهَا ﴾ ” فیصلہ کرتے تھے اس کے ساتھ“ یعنی یہودیوں کے جھگڑوں اور ان کے فتاویٰ میں ﴿النَّبِيُّونَ الَّذِينَ أَسْلَمُوا ﴾ ” پیغمبر جو فرماں بردار تھے“ یعنی جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے سامنے سر تسلیم خم کیا، اس کے احکامات کی اطاعت کی اور ان کا اسلام دیگر لوگوں کے اسلام سے زیادہ عظیم تھا اور وہ اللہ تعالیٰ کے چنے ہوئے بندے تھے۔ جب یہ انبیائے کرام جو مخلوق کے سردار ہیں، تو رات کو اپنا امام بناتے ہیں، اس کی پیروی کرتے ہیں اور اس کے پیچھے چلتے ہیں تو یہودیوں کے ان رذیل لوگوں کو اس کی پیروی کرنے سے کس چیز نے روکا ہے؟ اور ان پر کس چیز نے واجب کیا ہے کہ وہ تورات کے بہترین حصے کو نظر انداز کردیں جس میں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کا حکم ہے اور عقیدے کو قبول کئے بغیر کوئی ظاہری اور باطنی عمل قابل قبول نہیں۔ کیا اس بارے میں ان کے پاس کوئی راہنمائی ہے؟ ہاں ! ان کی راہنمائی کرنے والے راہنما موجود ہیں جو تحریف کرنے، لوگوں کے درمیان اپنی سرداری اور مناصب قائم رکھنے، کتمان حق کے ذریعے سے حرام مال کھانے اور اظہار باطل کے عادی ہیں۔ یہ لوگ ائمہ ضلالت ہیں جو جہنم کی طرف دعوت دیتے ہیں۔ ﴿وَالرَّبَّانِيُّونَ وَالْأَحْبَارُ ﴾ ” درویش اور عالم“ یعنی اسی طرح یہودیوں کے ائمہ دین میں ربانی تورات کے مطابق فیصلے کیا کرتے تھے۔ (رَّبَّانِيُّونَ) سے مراد باعمل علماء ہیں جو لوگوں کی بہترین تربیت کرتے تھے اور لوگوں کے ساتھ ان کا وہی مشفقانہ رویہ تھا جو انبیائے کرام کا ہوتا ہے (أَحْبَار) سے مراد وہ علمائے کبار ہیں جن کے قول کی اتباع کی جاتی ہے اور جن کے آثار کو مدنظر رکھا جاتا ہے اور وہ اپنی قوم میں اچھی شہرت رکھتے ہیں۔ ان کی طرف سے صادر ہونے والا یہ فیصلہ حق کے مطابق ہے ﴿بِمَا اسْتُحْفِظُوا مِن كِتَابِ اللَّـهِ وَكَانُوا عَلَيْهِ شُهَدَاءَ﴾ ” اس واسطے کہ وہ نگہبان ٹھہرائے گئے تھے اللہ کی کتاب پر اور وہ اس کی خبر گیری پر مقرر تھے“ یعنی اس سبب سے کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنی کتاب کی حفاظت کی ذمہ داری ڈالی تھی، ان کو اپنی کتاب کا امین بنایا تھا اور یہ کتاب ان کے پاس امانت تھی اور اس میں کمی بیشی اور کتمان سے اس کی حفاظت کو اور بے علم لوگوں کو اس کی تعلیم دینے کو ان پر واجب قرار دیا تھا۔۔۔ وہ اس کتاب پر گواہ ہیں کیونکہ وہی اس کتاب میں مندرج احکام کے بارے میں اور اس کی بابت لوگوں کے درمیان مشتبہ امور میں ان کے لئے مرجع ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اہل علم پر وہ ذمہ داری ڈالی ہے جو جہلا پر نہیں ڈالی اس لئے جس ذمہ داری کا بوجھ ان پر ڈالا گیا ہے، احسن طریقے سے اس کو نبھانا ان پر واجب ہے اور یہ کہ بیکاری اور کسل مندی کو عادت بناتے ہوئے جہال کی پیروی نہ کریں، نیز وہ مختلف انواع کے اذکار، نماز، زکوٰۃ، حج، روزہ وغیرہ مجرد عبادات ہی پر اقتصار نہ کریں جن کو قائم کر کے غیر اہل علم نجات پاتے ہیں۔ اہل علم سے تو مطالبہ کیا جاتا ہے کہ وہ لوگوں کو تعلیم دیں اور انہیں ان دینی امور سے آگاہ کریں جن کے وہ محتاج ہیں خاص طور پر اصولی امور اور ایسے معاملات جو کثرت سے واقع ہوتے ہیں نیز یہ کہ وہ لوگوں سے نہ ڈریں بلکہ صرف اپنے رب سے ڈریں۔ بنا بریں فرمایا ﴿ فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَاخْشَوْنِ وَلَا تَشْتَرُوا بِآيَاتِي ثَمَنًا قَلِيلًا﴾ ” پس تم لوگوں سے نہ ڈرو تم مجھی سے ڈرو ! اور میری آیات کے بدلے تھوڑا سا فائدہ حاصل نہ کرو“ یعنی دنیا کی متاع قلیل کی خاطر حق کو چھپا کر باطل کا اظہار نہ کرو۔ اگر صاحب علم ان آفات سے محفوظ ہوجاتا ہے تو یہ اللہ تعالیٰ کی توفیق ہے۔ اس کی سعادت اس امر میں ہے کہ علم و تعلیم میں جدوجہد اس کا مقصد رہے۔ یہ چیز ہمیشہ اس کے علم میں رہے کہ اللہ تعالیٰ نے علم کی امانت اس کے سپرد کر کے اس کی حفاظت اس کے ذمہ عائد کی ہے اور اس کو اس علم پر گواہ بنایا ہے۔ وہ صرف اپنے رب سے ڈرے، لوگوں کا ڈر اور خوف اسے لوازم علم کو قائم کرنے سے مانع نہ ہو۔ دین پر دنیا کو ترجیح نہ دے۔ اسی طرح کسی عالم کی بدبختی یہ ہے کہ وہ بے کاری کو اپنی عادت بنا لے اور جن چیزوں کا اسے حکم دیا گیا ہے ان کو قائم نہ کرے اور جس چیز کی حفاظت کی ذمہ داری اسے سونپی گئی ہے اسے پورا نہ کرے۔ ایسے شخص نے علم کو بے کار اور ضائع کردیا۔ دنیا کے بدلے دنیا کو فروخت کر ڈالا، اس کے فیصلوں میں رشوت لی اس کے فتوؤں میں مال سمیٹا اور اللہ کے بندوں کو اجرت لے کر علم سکھایا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس پر بہت بڑا احسان کیا تھا جس کی اس نے ناشکری کی، اللہ تعالیٰ نے اسے ایک عظیم نعمت عطا کی تھی، اس نے اس نعمت سے دوسروں کو محروم کردیا۔ اے اللہ ! ہم تجھ سے علم نافع اور عمل مقبول کا سوال کرتے ہیں۔ اے اللہ کریم ہمیں ہر مصیبت سے عفو اور عافیت عطا کر۔ ﴿ وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللّٰهُ﴾ ” اور جو اللہ کے نازل فرمائے ہوئے احکام کے مطابق حکم نہ دے۔“ یعنی جو کوئی واضح حق کے مطابق فیصلہ نہیں کرتا، بلکہ اپنی فاسد اغراض کی خاطر جان بوجھ کر باطل کے مطابق فیصلہ کرتا ہے ﴿فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ﴾ ” تو ایسے ہی لوگ کفار ہیں۔“ اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کتاب کو چھوڑ کر کسی اور قانون کے مطابق فیصلے کرنا اہل کفر کا شیوہ ہے اور بسا اوقات یہ ایسا کفر بن جاتا ہے جو اپنے مرتکب کو ملت اسلامیہ سے خارج کردیتا ہے اور یہ اس وقت ہوتا ہے جب وہ کتاب اللہ کو چھوڑ کر کسی اور قانون کے مطابق فیصلے کرنا جائز اور صحیح سمجھتا ہے۔ المآئدہ
45 یہ احکامات، تورات کے اندر موجود ان جملہ احکام میں شمار ہوتے ہیں جن کے مطابق انبیائے کرام، ربانیوں اور علمائے یہود، یہودیوں کے درمیان فیصلے کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر فرض قرار دیا کہ اگر کوئی جان بوجھ کر کسی کو قتل کرے تو اس کو قصاص میں قتل کردیا جائے۔ آنکھ کے بدلے آنکھ پھوڑ دی جائے، کان کے بدلے کان کاٹ دیا جائے اور دانت کے بدلے دانت نکال دیا جائے۔ اسی طرح بغیر کسی ظلم کے جن اعضا کا قصاص لیا جاسکتا ہے ان کا قصاص لیا جائے۔ ﴿ وَالْجُرُوحَ قِصَاصٌ﴾ ” اور زخموں کا بدلہ، ان کے برابر ہے“ اور قصاص سے مراد ہے کہ فاعل کے ساتھ وہی کچھ کیا جائے جو اس نے کیا تھا جو کوئی کسی کو جان بوجھ کر زخمی کرتا ہے، تو جارح سے زخموں کا قصاص لیا جائے گا اور اسے حد، مقام، زخم کی لمبائی چوڑائی اور گہرائی کے مطابق اتنا ہی زخم لگایا جائے گا۔ یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ ہم سے پہلے کی شریعت کی پیروی ہمارے لئے بھی اس وقت تک لازم ہے جب تک کہ ہماری شریعت میں کوئی ایسی چیز وارد نہ ہو جو اس شریعت کے خلاف ہو۔ ﴿فَمَن تَصَدَّقَ بِهِ﴾ ” پھر جس نے معاف کردیا“ یعنی جو کوئی جان، اعضاء اور زخموں کے قصاص میں مجرم کو معاف کردیتا ہے۔ وراں حالیکہ قصاص کا حق ثابت تھا ﴿فَهُوَ كَفَّارَةٌ لَّهُ﴾ ” تو یہ اس کے لئے کفارہ ہے“ یعنی مجرم کے لئے کفارہ ہے، کیونکہ آدمی نے تو اس کو اپنا حق معاف کردیا اور اللہ تعالیٰ تو اپنے حق کو زیادہ معاف کردینے والا ہے۔ نیزیہ معاف کردینے والے کے حق میں بھی کفارہ ہے، کیونکہ جس طرح اس نے اپنے حق میں جرم کا ارتکاب کرنے والے کو یا اس کو معاف کردیا جو اس سے متعلق ہے اسی طرح اللہ تبارک و تعالیٰ اس کی لغزشوں اور ان کے گناہوں کو بخش دیتا ہے۔ ﴿وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللّٰهُ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ﴾ ” اور جو کوئی اس کے مطابق فیصلہ نہ کرے جو اللہ نے نازل کیا، تو یہی لوگ ظالم ہیں“ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ” کفر سے کم تر کفر، ظلم سے کم تر ظلم اور فسق سے کم تر فسق ہوتا ہے۔“۔۔۔ پس اگر اس فعل کو حلال سمجھتے ہوئے اس کو کیا جائے تو یہ سب سے بڑا ظلم ہے اور اگر اس کو حلال نہ سمجھتے ہوئے کیا جائے تو یہ گناہ کبیرہ ہے۔ المآئدہ
46 یعنی ان انبیاء و مرسلین کے پیچھے جو تورات کے مطابق فیصلے کیا کرتے تھے، ہم نے اپنے بندے اور رسول عیسیٰ ابن مریم، روح اللہ اور اللہ کے کلمہ کو جو اس نے حضرت مریم علیہا السلام کی طرف ڈالا، مبعوث کیا۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں ان سے پہلے گزری ہوئی کتاب تورات کی تصدیق کرنے والا نبی بنا کر بھیجا۔ وہ موسیٰ علیہ السلام اور تورات کی حق و صدقات کے ساتھ گواہی دینے والے ان کی دعوت کی تائید کرنے والے اور ان کی شریعت کے مطابق فیصلے کرنے والے تھے اور اکثر امور شرعیہ میں موسیٰ علیہ السلام کی موافقت کرتے تھے۔ بسا اوقات عیسیٰ علیہ السلام بعض احکام میں تخفیف فرما دیتے تھے جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا قول نقل فرمایا کہ انہوں نے بنی اسرائیل سے فرمایا : ﴿وَلِأُحِلَّ لَكُم بَعْضَ الَّذِي حُرِّمَ عَلَيْكُمْ﴾ (آل عمران :3؍50) ” اور تاکہ بعض چیزیں جو تم پر حرام تھیں ان کو حلال ٹھہراؤں۔“ ﴿وَآتَيْنَاهُ الْإِنجِيلَ﴾” اور ہم نے ان کو انجیل عطا کی۔“ یعنی ہم نے انہیں کتاب عظیم عطا کی جو تو رات کی تکمیل کرتی ہے۔ ﴿فِيهِ هُدًى وَنُورٌ﴾ ” اس میں ہدایت اور روشنی ہے“ یہ کتاب صراط مستقیم کی طرف راہنمائی کرتی ہے اور باطل سے حق کو واضح کرتی ہے۔“ یعنی تورات کی صداقت کو ثابت کر کے، اس کی شہادت دے کر اور اس کی موافقت کر کے اس کی تصدیق کرتی ہے ﴿وَمُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ التَّوْرَاةِ﴾ ’’اور تورات کی جو اس سے پہلے (نازل شدہ کتاب) ہے تصدیق کرتی ہے۔“ یعنی تورات کی صداقت کو ثابت کر کے، اس کی شہادت دے کر اور اس کی موافقت کر کے اس کی تصدیق کرتی ہے ﴿وَهُدًى وَمَوْعِظَةً لِّلْمُتَّقِينَ﴾ ” اور متقین کے لئے ہدایت اور نصیحت ہے“ کیونکہ اہل تقویٰ ہی میں جو ہدایت سے فائدہ اٹھاتے ہیں، مواعظ سے نصیحت پکڑتے ہیں اور غیر مناسب امور سے باز رہتے ہیں۔ المآئدہ
47 ﴿وَلْيَحْكُمْ أَهْلُ الْإِنجِيلِ بِمَا أَنزَلَ اللّٰهُ فِيهِ﴾ ” اور چاہئے کہ اہل انجیل اس کے موافق فیصلہ کریں جو اللہ نے اتارا۔“ یعنی ان پر اپنی کتاب کا التزام کرنا لازم ہے، اس کتاب سے روگردانی کرنا ان کے لئے جائز نہیں ﴿وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللّٰهُ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ ﴾” اور جو اللہ کی نازل کردہ ہدایت کے مطابق فیصلے نہیں کرتے پس یہی لوگ فاسق ہیں۔ “ المآئدہ
48 ﴿ وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ﴾ ” اور اتاری ہم نے آپ کی طرف کتاب“ یعنی قرآن عظیم جو سب سے افضل اور جلیل ترین کتاب ہے ﴿بِالْحَقِّ﴾ ” حق کے ساتھ“ یعنی ہم نے اسے حق کے ساتھ نازل کیا ہے یہ کتاب اپنی اخبار اور اوامرونواہی میں حق پر مشتمل ہے ﴿مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ الْكِتَابِ ﴾ ” اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے“ کیونکہ یہ کتب سابقہ کی صداقت کی گواہی دیتی ہے، ان کی موافقت کرتی ہے، اس کی خبریں ان کی خبروں کے مطابق اور اس کے بڑے بڑے قوانین ان کے بڑے بڑے قوانین کے مطابق ہیں۔ ان کتابوں نے اس کتاب کے بارے میں خبر دی ہے۔ پس اس کا وجود ان کتب سابقہ کی خبر کا مصداق ہے ﴿وَمُهَيْمِنًا عَلَيْهِ﴾” اور ان کے مضامین پر نگہبان ہے“ یعنی یہ کتاب ان امور پر مشتمل ہے جن امور پر سابقہ کتب مشتمل تھیں، نیز مطالب الٰہیہ اور اخلاق نفسیہ میں بعض اضافے ہیں۔ یہ کتاب ہر اس حق بات کی پیروی کرتی ہے جو ان کتابوں میں آچکی ہے اور اس کی پیروی کا حکم اور اس کی ترغیب دیتی ہے اور حق تک پہنچانے کے بہت سے راستوں کی نشاندہی کرتی ہے۔ یہ وہ کتاب ہے جس میں حکمت، دانائی اور احکام ہیں، جس پر کتب سابقہ کو پیش کیا جاتا ہے، لہٰذا جس کی صداقت کی یہ گواہی دے وہ مقبول ہے جس کو یہ رد کر دے وہ مردد ہے، کیونکہ وہ تحریف اور تبدیلی کا شکار ہوچکی ہے۔ ورنہ اگر وہ اللہ تعالیٰ کی طر ف سے ہوتی تو یہ اس کی مخالفت نہ کرتی۔﴿ فَاحْكُم بَيْنَهُم بِمَا أَنزَلَ اللّٰهُ﴾” پس ان کے درمیان اس کے موافق فیصلہ کریں جو اللہ نے اتارا“ یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جو حکم شرعی نازل فرمایا ہے اس کے مطابق فصلہ کیجیے﴿وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ عَمَّا جَاءَكَ مِنَ الْحَقِّ﴾” اور آپ کے پاس جو حق آیا، اسے چھوڑ کر ان کی خواہشات کی پیروی نہ کریں“ یعنی ان کی حق کے خلاف خواہشات فاسدہ کی اتباع کو اس حق کا بدل نہ بنائیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آچکا ہے، ورنہ آپ اعلیٰ کے بدلے ادنی ٰ کو لیں گے۔ ﴿لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنكُمْ﴾ ” تم میں سے ہر ایک کو دیا ہم نے“ یعنی اے قومو !﴿شِرْعَةً وَمِنْهَاجًا﴾ ” ایک دستور اور راہ“ یعنی تم میں سے ہر ایک کے لئے ہم نے ایک راستہ اور طریقہ مقرر کردیا ہے۔ یہ شریعتیں جو امتوں کے اختلاف کے ساتھ بدل جاتی رہی ہیں، زمان و مکان اور احوال کے تغیر و تبدل کے مطابق ان شرائع میں تغیر و تبدل واقع ہوتا رہا ہے اور ہر شریعت اپنے نفاذ کے وقت عدل کی طرف راجع رہی ہے۔ مگر بڑے بڑے اصول جو ہر زماں و مکاں میں مصلحت اور حکمت پر مبنی ہوتے ہیں کبھی نہیں بدلتے، وہ تمام شرائع میں مشروع ہوتے ہیں۔ ﴿وَلَوْ شَاءَ اللّٰهُ لَجَعَلَكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً﴾ ” اور اگر اللہ چاہتا تو تم کو ایک ہی امت بنا دیتا“ یعنی ایک شریعت کی پیروی میں ایک امت بنا دیتا کسی متقدم اور متاخرامت میں کوئی اختلاف نہ ہوتا ﴿وَلَـٰكِن لِّيَبْلُوَكُمْ فِي مَا آتَاكُمْ﴾ ” لیکن وہ تمہیں آزمانا چاہتا ہے اپنے دیئے ہوئے حکموں میں“ پس وہ تمہیں آزمائے اور دیکھے کہ تم کیسے کام کرتے ہو۔ اللہ تعالیٰ اپنی حکمت کے تقاضوں کے مطابق ہر قوم کو آزماتا ہے اور ہر قوم کو اس کے احوال اور شان کے لائق عطا کرتا ہے، تاکہ قوموں کے درمیان مقابلہ رہے۔ پس ہر قوم دوسری قوم سے آگے بڑھنے کی خواہشمند ہوتی ہے اس لئے فرمایا : ﴿فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ﴾ ” نیک کاموں میں جلدی کرو۔“ یعنی نیکیوں کے حصول کے لئے جلدی سے آگے بڑھو اور ان کی تکمیل کرو، کیونکہ وہ نیکیاں جو فرائض و مستحبات، حقوق اللہ اور حقوق العباد پر مشتمل ہوتی ہیں، ان کا فاعل اور ان دو امور کو مدنظر کھے بغیر کسی سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔ (١) جب نیکی کرنے کا وقت آجائے اور اس کا سبب ظاہر ہوجائے تو فرصت کو غنیمت جانتے ہوئے جلدی سے اس کی طرف بڑھنا۔ (٢) اور حکم کے مطابق اسے کامل طور پر ادا کرنے کی کوشش کرنا۔ اس آیت کریمہ سے اس امر پر استدلال کیا جاتا ہے کہ نماز کو اول وقت پڑھنے کی کوشش کی جائے، نیز یہ آیت کریمہ اس امر پر بھی دلالت کرتی ہے کہ بندے کو صرف نماز وغیرہ اور دیگر امور واجبہ کی ادائیگی پر ہی اکتفا نہیں کرنا چاہئے بلکہ اس کے لئے مناسب یہ ہے کہ وہ مقدور بھر مستحبات پر بھی عمل کرے، تاکہ واجبات کی تکمیل ہو اور ان کے ذریعے سے سبقت حاصل ہو۔ ﴿إِلَى اللَّـهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا﴾” تم سب کا لوٹنا اللہ کی کی طرف ہے“ تمام امم سابقہ ولاحقہ کو اللہ تعالیٰ ہی کی طرف لوٹنا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو ایک ایسے روز اکٹھا کرے گا جس کے آنے میں کوئی شک و شبہ نہیں ﴿فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ ﴾ ’’پس وہ تمہیں ان امور کی بابت خبر دے گا جن میں تم آپس میں اختلاف کرتے تھے“ یعنی جن شرائع اور اعمال کے بارے میں تمہارے درمیان اختلاف تھا۔ چنانچہ وہ اہل حق اور نیک عمل کرنے والوں کو ثواب سے نوازے گا اور اہل باطل اور بدکاروں کو سزا دے گا۔ المآئدہ
49 ﴿وَأَنِ احْكُم بَيْنَهُم بِمَا أَنزَلَ اللّٰهُ﴾ ” اور ان کے درمیان اس کے موافق فیصلہ فرمائیں جو اللہ نے اتارا“ کہا جاتا ہے کہ یہی وہ آیت کریمہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿ فَاحْكُم بَيْنَهُمْ أَوْ أَعْرِضْ عَنْهُمْ﴾ ” ان کے درمیان فصلہ کریں یا اس سے روگردانی کریں“ کو منسوخ کرتی ہے۔ صحیح رائے یہ ہے کہ یہ آیت کریمہ اس مذکورہ آیت کو منسوخ نہیں کرتی، پہلی آیت دلالت کرتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے درمیان فیصلہ کرنے یا نہ کرنے کا اختیار دیا گیا تھا اور اس کا سبب یہ تھا کہ وہ حق کی خاطر فیصلہ کروانے کا قصد نہیں رکھتے تھے اور یہ (دوسری) آیت کریمہ اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے درمیان فیصلہ کریں، تو اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ ہدایت، یعنی قرآن اور سنت کے مطابق فیصلہ کریں۔ یہی وہ انصاف ہے جس کے بارے میں گزشتہ صفحات میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَإِنْ حَكَمْتَ فَاحْكُم بَيْنَهُم بِالْقِسْطِ﴾” اگر آپ ان کے درمیان فیصلہ کریں تو انصاف کے ساتھ فیصلہ کریں۔ “ یہ آیت کریمہ عدل کی توضیح و تبیین پر دلالت کرتی ہے، نیز یہ کہ عدل کا سرچشمہ اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ شریعت کے احکام ہیں جو انتہائی عدل و انصاف پر مبنی اصولوں پر مشتمل ہیں اور جو کچھ ان احکام کے خلاف ہے، وہ سراسر ظلم و جور ہے۔﴿وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ﴾” اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کریں“ شدت تحذیر کی خاطر اللہ تعالیٰ نے بتکرار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی خواہشات کی پیروی کرنے سے روکا ہے۔ نیز وہ آیت حکم اور فتویٰ کے مقام پر ہے اور اس میں زیادہ وسعت ہے اور یہ صرف حکم کے مقام پر ہے۔ دونوں آیات کا مفاد یہ ہے کہ ضروری ہے کہ ان کی خلاف حق خواہشات کی پیروی نہ کی جائے۔ بنا بریں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَاحْذَرْهُمْ أَن يَفْتِنُوكَ عَن بَعْضِ مَا أَنزَلَ اللّٰهُ إِلَيْكَ﴾” اور بچتے رہیں ان سے، اس بات سے کہ وہ کہیں آپ کو بہکانہ دیں کسی ایسے حکم سے جو اللہ نے آپ کی طرف اتارا“ یعنی ان کی فریب کاریوں سے بچیے نیز ان سے بچیے کہ وہ آپ کو فتنے میں ڈال کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی ایسی چیز سے نہ روک دیں جو اللہ تعالیٰ نے آپ کی طرف نازل فرمائی ہے۔ پس ان کی خواہشات کی پیروی، حق واجب کو ترک کرنے کا باعث بنتی ہے جبکہ اتباع حق فرض ہے۔ ﴿فَإِن تَوَلَّوْا﴾ ” پس اگر وہ نہ مانیں“ یعنی اگر وہ آپ کی اتباع اور حق کی پیروی سے روگردانی کریں ﴿ فَاعْلَمْ﴾ ” تو جان لیجیے“ کہ یہ روگردانی ان کے لئے سزا ہے ﴿أَنَّمَا يُرِيدُ اللّٰهُ أَن يُصِيبَهُم بِبَعْضِ ذُنُوبِهِمْ ۗ﴾” اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ ان کو ان کے گناہوں کے سبب کوئی سزا پہنچائے“ کیونکہ گناہوں کے لئے دنیا و آخرت میں سزائیں مقرر ہیں اور سب سے بڑی سزا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بندے کو آزمائش میں مبتلا کر دے اور اتباع رسول کے ترک کو اس کے لئے مزین کر دے اور اس کا باعث اس کا فسق ہوتا ہے ﴿وَإِنَّ كَثِيرًا مِّنَ النَّاسِ لَفَاسِقُونَ﴾ ”اور اکثر لوگ نافرمان ہیں“ یعنی ان کی فطرت اور طبیعت میں فسق، نیز اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و اتباع سے خروج ہے۔ المآئدہ
50 ﴿ أَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُونَ﴾” اب کیا وہ جاہلیت کا حکم چاہتے ہیں؟“ یعنی کیا وہ کفار کی دوستی طلب کر کے اور آپ سے اعراض کر کے جاہلیت کے فیصلے چاہتے ہیں؟ ہر وہ فیصلہ جو اس چیز کے خلاف ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول پر نازل فرمایا وہ جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں؟ ہر وہ فیصلہ جو اس چیز کے خلاف ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول پر نازل فرمایا وہ جاہلیت کا فیصلہ ہے۔ تب اس طرح صرف دو قسم کے فصلے ہیں۔ (١) اللہ او اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ۔ (٢) جاہلیت کا فیصلہ۔ پس جو کوئی اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلوں سے منہ موڑتا ہے تو وہ دوسری قسم کے فیصلوں میں مبتلا ہوجاتا ہے جو جہالت، ظلم اور گمراہی پر مبنی ہیں۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ان فیصلوں کو جاہلیت کی طرف مضاف کیا ہے۔ رہے اللہ تعالیٰ کے فیصلے تو وہ علم، عدل و انصاف، نور اور ہدایت پر مبنی ہوتے ہیں۔ ﴿ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّـهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ يُوقِنُونَ﴾ ” اور اللہ سے بہتر کون ہے فیصلہ کرنے والا، اس قوم کے لئے جو یقین رکھتی ہے‘‘ صاحب ایقان وہ ہے جو اپنے یقین کی بنیاد پر دونوں قسم کے فیصلوں کے درمیان فرق کو پہچانتا ہو اور وہ اللہ تعالیٰ کے فیصلوں میں موجود حسن اور خوبصورتی میں امتیاز کرسکتا ہو اور عقلاً اور شرعاً ان کی تباع کو لازم قرار دیتا ہو اور یقین سے مراد وہ علم کامل و تام ہے جو عمل کا موجب ہوتا ہے۔ المآئدہ
51 اللہ تبارک و تعالیٰ یہود و نصاری کے احوال اور غیر مستحسن صفات بیان کرتے ہوئے اپنے مومن بندوں کو ہدایت کرتا ہے کہ وہ انہیں اپنا دوست نہ بنائیں ﴿بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ﴾” کیونکہ وہ ایک دوسرے کے دوست ہیں“ وہ ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں اور وہ دوسروں کے مقابلے میں ایک ہیں۔ پس تم ان کو دوست نہ بناؤ کیونکہ وہ درحقیقت تمہارے دشمن ہیں۔ انہیں تمہارے نقصان کی کوئی پروا نہیں، بلکہ وہ تمہیں گمراہ کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔ انہیں وہی شخص دوست بنائے گا جو ان جیسا ہو۔ بنابریں فرمایا : ﴿وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ﴾ ” اور جو کوئی تم میں سے ان سے دوستی کرے گا، وہ انہی میں سے ہے“ کیونکہ کامل دوستی ان کے دین میں منتقل ہونے کی موجب بنتی ہے۔ تھوڑی دوستی زیادہ دوستی کرے گا، وہ اہی میں سے ہے“ کیونکہ کامل دوستی ان کے دین میں منتقل ہونے کی موجب بنتی ہے۔ تھوڑی دوستی زیادہ دوستی کی طرف دعوت دیتی ہے پھر وہ آہستہ آہستہ بڑھتی جاتی ہے حتیٰ کہ بندہ انہی میں سے ہوجاتا ہے۔ ﴿ إِنَّ اللَّـهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ﴾” اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں کرتا“ یعنی وہ لوگ جن کا وصف ظلم ہے۔ ظلم ان کا مرجع اور ظلم ہی پر ان کا اعتماد ہے۔ اس لئے آپ ان کے پاس کوئی بھی آیت اور معجزہ لے کر آئیں، وہ کبھی آپ کی اطاعت نہیں کریں گے۔ المآئدہ
52 جب اللہ تبار کو تعالیٰ نے اہل ایمان کو اہل کتاب سے دوستی رکھنے سے منع کیا تو آگاہ فرمایا کہ ایمان کا دعویٰ کرنے والوں میں سے ایک گروہ ان کے ساتھ دوستی رکھتا ہے۔ ﴿فَتَرَى الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ﴾” پس آپ ان لوگوں کو دیکھیں گے جن کے دلوں میں روگ ہے“ یعنی ان کے دلوں میں شک، نفاق اور ضعف ایمان ہے۔ کہتے ہیں کہ ہم نے ضرورت کے تحت ان کو دوست بنایا ہے اس لئے کہ ﴿ نَخْشَىٰ أَن تُصِيبَنَا دَائِرَةٌ ۚ﴾” ہم ڈرتے ہیں کہ ہم پر زمانے کی گردش نہ آجائے“ یعنی ہمیں ڈر ہے کہ کہیں گردش ایام یہود و نصاریٰ کے حق میں نہ ہوجائے اور اگر زمانے کی گردش ان کے حق میں ہو تو ہمارا ان پر احسان انہیں اس بدلے میں ہمارے ساتھ اچھا سلوک کرنے پر آمادہ کرے گا یہ اسلام کے بارے میں ان کی انتہائی بدظنی ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ان کی بدظنی کا رد کرتے ہوئے فرماتا ہے : ﴿فَعَسَى اللّٰهُ أَن يَأْتِيَ بِالْفَتْحِ ﴾” ہوسکتا ہے اللہ فتح کرے“ جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ اسلام اور مسلمانوں کو یہود و نصاریٰ پر غالب کر دے ﴿أَوْ أَمْرٍ مِّنْ عِندِهِ﴾ ” یا کوئی حکم اپنے پاس سے“ جس سے منافقین، یہود وغیرہ کفار کے کامیاب ہونے سے مایوس ہوجائیں۔ ﴿فَيُصْبِحُوا عَلَىٰ مَا أَسَرُّوا ﴾ ” پس ہوجائیں وہ اس پر جو کچھ وہ چھپاتے ہیں“ ﴿ فِي أَنفُسِهِمْ نَادِمِينَ﴾ ” اپنے نفسوں میں نادم“ یعنی اس رویے پر جس کا اظہار ان کی طرف سے ہوا اور جس نے انہیں نقصان پہنچایا اور کوئی نفع انہیں حاصل نہ ہوا۔ پس مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے اسلام اور مسلمانوں کو نصرت سے نوازا اور کفر اور کفار کو ذلیل کیا۔ پس ان کو ندامت اٹھانی پڑی اور انہیں ایسے غم کا سامنا کرنا پڑا جسے اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ المآئدہ
53 ﴿وَيَقُولُ الَّذِينَ آمَنُوا﴾ ” اور کہتے ہیں وہ لوگ جو ایمان لائے‘‘ یعنی جن لوگوں کے دلوں میں بیماری ہے ان کے حال پر اہل ایمان تعجب کرتے ہوئے کہتے ہیں : ﴿أَهَـٰؤُلَاءِ الَّذِينَ أَقْسَمُوا بِاللَّـهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ ۙ إِنَّهُمْ لَمَعَكُمْ﴾ ” کیا یہ وہی لوگ ہیں جو بڑی تاکید سے اللہ کی قسمیں کھاتے تھے کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں“ یعنی انہوں نے نہایت تاکید کے ساتھ حلف اٹھایا اور مختلف انواع کی تاکیدات کے ذریعے سے پکا کر کے کہا کہ وہ ایمان لانے میں، نیز ایمان کے لوازم یعنی نصرت، محبت اور موالات میں ان کے ساتھ ہیں۔ مگر جو کچھ وہ چھپاتے رہے ہیں وہ ظاہر ہوگیا، ان کے تمام بھید عیاں ہوگئے۔ ان کی سازشوں کے وہ تمام تانے بانے جو وہ بنا کرتے تھے اور ان کے وہ تمام ظن و گمان، جو وہ اسلام کے بارے میں رکھا کرتے تھے، باطل ہوگئے اور ان کی سب چالیں ناکام ہوگئیں ﴿حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ ﴾ ” پس (دنیا میں) ان کے تمام اعمال اکارت گئے“﴿فَأَصْبَحُوا خَاسِرِينَ﴾ ” اور وہ خائب و خاسر ہو کر رہ گئے“ کیونکہ وہ اپنا مقصد حاصل کرنے میں ناکام رہے اور بدبختی اور عذاب نے انہیں گھیر لیا۔ المآئدہ
54 اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ وہ تمام جہانوں سے بے نیاز ہے جو کوئی اس کے دین سے پھر جاتا ہے وہ اللہ کا کوئی نقصان نہیں کرسکتا بلکہ وہ اپنے آپ کو ہی نقصان پہنچاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے کچھ مخلص اور سچے بندے ہیں۔ اللہ رحمان و رحیم ان کی ہدایت کا ضامن ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو لانے کا وعدہ کیا ہے۔ وہ اپنے اوصاف میں سب سے کامل، اپنے جسم میں سب سے طاقتور اور اپنے اخلاق میں سب سے اچھے ہیں۔ ان کی سب سے بڑی صفت یہ ہے ﴿يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ﴾” اللہ ان سے محبت کرتا ہے اور وہ اللہ سے محبت کرتے ہیں۔“ بندے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی محبت جلیل ترین نعمت ہے جس کے ساتھ اس نے اپنے بندے کو نوازا ہے اور سب سے بڑی فضیلت ہے جس سے اللہ نے اپنے بندے کو مشرف فرمایا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ اپنے بندے سے محبت کرتا ہے تو وہ اس کے لئے تمام اسباب مہیا کردیتا ہے، ہر قسم کی مشکل اس پر آسان کردیتا ہے، نیک کام کرنے اور برائیوں کو ترک کرنے کی توفیق عطا کرتا ہے اور بندوں کے دلوں کو محبت اور مودت کے ساتھ اس کی طرف متوجہ کردیتا ہے۔ اپنے رب کے ساتھ بندے کی محبت کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ وہ اپنے اقوال و افعال اور تمام احوال میں ظاہری اور باطنی طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی متابعت کی صفت سے متصف ہو، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿ قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّـهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ﴾ (آل عمران :3؍31) ” کہہ دو کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ تم سے محبت کرے گا۔“ جیسے بندے کے ساتھ رب کی محبت کے لوازم میں سے ہے کہ بندہ کثرت سے فرائض اور نوافل کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کرتا ہے۔ جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحیح حدیث میں اللہ تبارک و تعالیٰ سے نقل فرمایا ہے ” میرا بندہ جس چیز کے ذریعے سے میرا تقرب حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے، ان میں فرائض سے بڑھ کر کوئی چیز مجھے محبوب نہیں۔ میرا بندہ نوافل کے ذریعے سے میرا تقرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں اور جب میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں تو میں اس کے کان بن جاتا ہوں جن کے ذریعے سے وہ سنتا ہے، میں اس کی آنکھیں بن جاتا ہوں جن کے ذریعے سے وہ دیکھتا ہے، میں اس کے ہاتھ بن جاتا ہوں جن کے ذریعے سے پکڑتا ہے اور میں اس کے پاؤں بن جاتا ہوں جن کے ذریعے سے وہ چلتا ہے، اگر وہ مجھ سے سوال کرے تو میں اسے عطا کرتا ہوں اور اگر وہ مجھ سے پناہ مانگے تو میں اسے پناہ دیتا ہوں۔“ [صحیح بخاری، کتاب الرقاق، باب التواضع، حدیث :6502] اور اللہ تعالیٰ کی محبت کے لوازم میں سے، اس کی معرفت اور کثرت کے ساتھ اس کا ذکر کرنا بھی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی معرفت کے بغیر اس کے ساتھ محبت ناقص ہے، بلکہ اس محبت کا وجود ہی نہیں اگرچہ اس کا دعویٰ کیا جائے۔ جو اللہ تعالیٰ سے محبت کرتا ہے وہ کثرت سے اس کا ذکر کرتا ہے اور جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو اس کے تھوڑے سے عمل کو قبول فرما لیتا ہے اور اس کی بہت سی لغزشوں کو معاف کردیتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے محبوب لوگوں کی صفات میں سے یہ ہے ﴿أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَافِرِينَ﴾ ” نرم ہیں مومنوں پر، سخت ہیں کافروں پر“ پس وہ اہل ایمان کے ساتھ محبت، ان کے لئے خیر خواہی، ان کے لئے نرمی اور مہربانی، ان کے لئے رحمت ورافت اور ان کے ساتھ شفقت بھرے رویئے کی بنا پر ان کے لئے نرم خو ہوتے ہیں، نیز کسی ایسی چیز کے قرب کی بنا پر جو اس سے مطلوب ہے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کرنے والوں، اس کی آیات سے عناد رکھنے والوں اور اس کے رسولوں کو جھٹلانے والوں کے لئے بہت سخت ہوتے ہیں۔ ان کی عداوت پر ان کی ہمت اور عزائم مجتمع ہوتے ہیں اور وہ ان پر فتح حاصل کرنے کے لئے ہر سبب میں پوری کوشش کرتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿وَأَعِدُّوا لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ وَمِن رِّبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّـهِ وَعَدُوَّكُمْ﴾ (الانفال:8؍60) ” جہاں تک ہوسکے قوت و طاقت کے ساتھ اور گھوڑوں کو تیار رکھ کر ان کے مقابلے کے لئے مستعد رہو، اس کے ذریعے سے تم اللہ کے دشمنوں اور اپنے دشمنوں کو ڈرائے رکھو۔“ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ﴾(الفتح :48؍29) ” وہ کافروں کے لئے نہایت سخت اور آپس میں بہت مہربان ہیں۔“ اللہ تعالیٰ کے دشمنوں کے بارے میں سخت رویہ رکھنا، ان ذرائع میں سے ایک ذریعہ ہے جس سے بندہ اپنے رب کا قرب حاصل کرتا ہے اور ان کے ساتھ سختی اور ناراضی میں بندہ اپنے رب کی موافقت کرتا ہے اور ان کے بارے میں سخت رویہ ان کو دین اسلام کی طرف ایسے طریقے سے دعوت دینے سے مانع نہیں جو بہتر ہو۔ ان کے بارے میں سخت رویہ اور دعوت دین میں نرمی دونوں یکجا ہوں۔ دونوں امور میں ان کے لئے مصلحت ہے جس کا فائدہ انہی کی طرف لوٹتا ہے۔ ﴿ يُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ﴾ ” وہ (اپنی جان، مال، اقوال اور افعال کے ذریعے سے) اللہ کے راستے میں جہاد کرتے ہیں“ ﴿وَلَا يَخَافُونَ لَوْمَةَ لَائِمٍ ۚ﴾ ” وہ کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈرتے“ بلکہ وہ اپنے رب کی رضا کو مقدم رکھتے ہیں اور مخلوق کی ملامت کی بجائے اپنے رب کی ملامت سے ڈرتے ہیں۔ اور یہ رویہ ان کے ارادوں اور عزائم کی پختگی پر دلالت کرتا ہے کیونکہ کمزور دل والا، ارادے کا بھی کمزور ہوتا ہے۔ ملامت گروں کی ملامت پر اس کی عزیمت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتی ہے اور نکتہ چینیوں پر اس کی قوت کمزور ہوجاتی ہے۔ مخلوق کی رعایت، ان کی رضا اور ناراضی کو اللہ تعالیٰ کے حکم پر ترجیح کے مطابق بندوں کے دلوں میں غیر اللہ کا تعبد جنم لیتا ہے۔ قلب، غیر اللہ کی عبادت سے اس وقت تک محفوظ نہیں ہوتا جب تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں ملامت کرنے والوں کی ملامت سے ڈرنا چھوڑ نہ دے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو ان صفات جمیلہ اور مناقب عالیہ سے نواز کر ان کی مدح کی ہے جو ایسے افعال خیر کو ستلزم ہیں جن کا ذکر نہیں کیا گیا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ یہ ان پر محض اس کا فضل و احسان ہے، تاکہ وہ خودپسندی کا شکار نہ ہوں اور وہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں جس نے ان پر احسان کیا، تاکہ وہ ان کو اپنے فضل سے اور زیادہ نوازے اور دوسرے لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم محجوب نہیں۔ بنا بریں فرمایا۔ ﴿ذٰلِكَ فَضْلُ اللَّـهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاءُ ۚ وَاللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ﴾” یہ اللہ کا فضل ہے، وہ جسے چاہتا ہے اس سے نوازتا ہے اور اللہ کشائش والا جاننے والا ہے“ یعنی وہ وسیع فضل و کرم اور بے پایاں احسان کا مالک ہے۔ اس کی رحمت ہر چیز پر سایہ کناں ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے اولیا کو وسیع فضل و کرم سے نوازتا ہے جس سے وہ اوروں کو نہیں نوازتا۔ مگر وہ علم رکھتا ہے کہ کون اس کے فضل کا مستحق ہے پس وہ اسی کو عطا کرتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ زیادہ جانتا ہے کہ اصولی اور فروعی طور پر رسالت سے کسے نوازنا ہے۔ المآئدہ
55 اللہ تبار ک و تعالیٰ نے جب یہود و نصاریٰ وغیرہ کفار کی دوستی سے روکا اور ذکر فرمایا کہ ان کی دوستی کا انجام واضح خسارہ ہے۔ جس کی دوستی متعین اور واجب ہے، اب اس کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے اس کے فائدے اور مصلحت کا ذکر کیا ہے﴿إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللّٰهُ وَرَسُولُهُ﴾ ”تمہارا دوست تو صرف اللہ اور اس کا رسول ہی ہے“ اللہ تعالیٰ کی ولایت (دوستی) ایمان اور تقویٰ کے ذریعے سے حاصل ہوتی ہے جو کوئی صاحب ایمان اور متقی ہے وہ اللہ کا ولی، یعنی دوست ہے اور جو اللہ کا دوست ہے وہ اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا دوست ہے۔ جو کوئی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دوست بناتا ہے تو اس دوستی کی تکمیل یہ ہے کہ اللہ جن کو دوست بناتا ہے یہ بھی انہی کو دوست بنائے اور وہ ہیں اہل ایمان جو ایمان کے ظاہری اور باطنی تقاضوں کو پورا کرتے ہیں اور معبود کے لئے دین کو خالص کرتے ہیں، یعنی نماز کو اس کی تمام شرائط و فرائض اور اس کو مکمل کرنے والے امور کے ساتھ قائم کرتے ہیں، مخلوق کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آتے ہیں اور اپنے اموال میں سے اپنے میں سے مستحق لوگوں کو زکوٰۃ دیتے ہیں۔﴿وَهُمْ رَاكِعُونَ﴾” اور ( اللہ کے آگے) جھکتے ہیں۔“ یعنی وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے خضوع اور تذلل اختیار کرتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کے ارشاد ﴿إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللّٰهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا﴾ میں حصر کا اسلوب دلالت کرتا ہے کہ ان مذکورلوگوں کی دوستی پر اقتصار کرنا اور ان کے علاوہ دیگر لوگوں سے برأت کا اظہار کرنا ضروری ہے۔ المآئدہ
56 پھر اللہ تعالیٰ نے اس دوستی کا فائدہ بیان کرتے ہوئے فرمایا :﴿وَمَن يَتَوَلَّ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا فَإِنَّ حِزْبَ اللَّـهِ هُمُ الْغَالِبُونَ﴾ ” اور جو اللہ سے، اس سے اور ایمان والوں سے دوستی رکھتا ہے، تو بے شک اللہ کا گروہ ہی غالب آنے والا ہے“ یعنی وہ اس گروہ میں شمار ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے عبودیت اور ولایت کی اضافت رکھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا حزب غالب ان لوگوں پر مشتمل ہے جن کا انجام دنیا و آخرت میں اچھا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿وَإِنَّ جُندَنَا لَهُمُ الْغَالِبُونَ ﴾ (الصافات :37؍173) ” بے شک ہمارا لشکر ہی غالب رہے گا۔“ یہ اس شخص کے لئے بہت بڑی بشارت ہے جو اللہ تعالیٰ کے احکام کی تعمیل کر کے اس کے گروہ اور لشکر میں شامل ہوجاتا ہے کہ غلبہ اسی کے لئے ہے۔ اگرچہ بعض اوقات اللہ تعالیٰ کی حکمت کے تحت وہ مغلوب بھی ہوجاتا ہے مگر انجام کار فتح و غلبہ سے وہی بہرہ ور ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر سچی بات کہنے والا کون ہے۔ المآئدہ
57 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو یہود و نصاریٰ اور دیگر تمام کفار کے ساتھ موالات رکھنے سے منع کرتا ہے۔ وہ ان سے محبت نہ کریں ان کو دوست نہ بنائیں، ان پر اہل ایمان کے بھید نہ کھولیں اور بعض ایسے امور پر ان کی معاونت نہ کریں جن سے اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچتا ہو۔ ان کا ایمان کفار کے ساتھ ترک موالات کا موجب ہے اور ان کو کفار کے ساتھ عداوت رکھنے کی ترغیب دیتا ہے۔ اسی طرح ان کا تقویٰ کا التزام۔۔۔ جو کہ نام ہے اللہ تعالیٰ کے حکم کی اطاعت اور اس کی نواہی سے اجتناب کا۔۔۔ کفار کے ساتھ عداوت کی دعوت دیتا ہے۔ اسی طرح مشرکین، کفار اور مسلمانوں کے دیگر مخالفین کا رویہ بھی اسی بات کا متقاضی ہے کہ مسلمان ان سے دوستی کی بجائے دشمنی رکھیں۔ یہ لوگ دین اسلام میں نکتہ چینیاں کرتے ہیں، اسلام کے ساتھ استہزا کرتے اور تمسخر اڑاتے ہیں اور دین کی تحقیر کرتے ہیں خصوصاً نماز کے بارے میں جو کہ مسلمانوں کا سب سے بڑا شعار اور سب سے بڑی عبادت ہے۔ جب مسلمان نماز کے لئے اذان دیتے ہیں تو اس کا مذاق اڑاتے ہیں اور اس کا سبب ان کی کم عقلی اور جہالت ہے۔ ورنہ اگر ان میں عقل ہوتی تو وہ نماز کی افادیت کے سامنے سر تسلیم خم کردیتے اور انہیں معلوم ہوجاتا کہ نماز ہی ان فضائل میں سب سے بڑی فضیلت ہے جس سے نفوس انسانی متصف ہوتے ہیں۔ پس اے مومنو ! جب تمہیں کفار کا حال معلوم ہے اور تمہیں یہ بھی معلوم ہے کہ وہ تمہارے اور تمہارے دین کے ساتھ کتنی شدید عداوت رکھتے ہیں جو کوئی اس صورتحال کے بعد بھی انہیں اپنا دشمن نہیں سمجھتا، تو یہ اس امر کی دلیل ہے کہ اسلام اس کے نزدیک بہت سستی چیز ہے اور اسے اس بات کی کوئی پروا نہیں کہ کوئی اس میں طعن و تشنیع کرتا ہے یا اسے کفر اور ضلالت قرار دیتا ہے اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس شخص کے اندر مروت اور انسانیت نام کی کوئی چیز نہیں۔ آپ اپنے لئے دین قیم کا کیسے دعویٰ کرسکتے ہیں اور کیسے کہہ سکتے ہیں کہ اسلام دین حق ہے اور اس کے سوا تمام ادیان باطل ہیں جب کہ حال یہ ہے کہ آپ ان جاہل اور احمق لوگوں کی سوالات پر راضی ہیں جو آپ کے دین کے ساتھ استہزاء کرتے ہیں اور اسلام اور مسلمانوں کا تمسخر اڑاتے ہیں؟ اس آیت کریمہ میں کفار کے ساتھ عداوت رکھنے کی ترغیب ہے اور یہ بات ہر اس شخص کو معلوم ہے جو ادنیٰ سا بھی فہم رکھتا ہے۔ المآئدہ
58 المآئدہ
59 ﴿قُلْ ﴾ یعنی اے رسول کہہ دیجیے !﴿يَا أَهْلَ الْكِتَابِ﴾ ” اے اہل کتاب !“ یعنی ان پر حجت لازم کرتے ہوئے۔ بلاشبہ دین اسلام دین حق ہے اور اس میں طعن و تشنیع ایک ایسے معاملے میں طعن و تشنیع ہے جو درحقیقت مدح کے لائق ہے۔ ﴿ هَلْ تَنقِمُونَ مِنَّا إِلَّا أَنْ آمَنَّا بِاللَّـهِ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْنَا وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلُ وَأَنَّ أَكْثَرَكُمْ فَاسِقُونَ﴾” تم ہم میں برائی ہی کیا دیکھتے ہو سوائے اس کے کہ ہم اللہ پر اور جو (کتاب) ہم پر نازل ہوئی اس پر اور جو (کتابیں) پہلے نازل ہوئیں ان پر ایمان لائے ہیں اور تم میں اکثر فاسق ہیں۔“ یعنی اس کے سوا ہم میں اور کیا عیب ہے کہ ہم اللہ پر ایمان لائے ہیں، اس کی گزشتہ کتابوں اور انبیائے متقدمین و متاخرین پر بھی ایمان رکھتے ہیں اور ہم نہایت جزم کے ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ جو کوئی اس ایمان جیسا ایمان نہیں رکھتا وہ کافر اور فاسق ہے۔ کیا تم صرف اس امر کی بنا پر ہمیں طعن و تشنیع کرتے ہو جو تمام مکلفین پر سب سے زیادہ فرض ہے اور بایں ہمہ کو ان میں سے اکثر فاسق ہیں یعنی اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے باہر اور اس کی نافرمانی کی جسارت کرنے والے ہیں تو اے فاسقو ! تمہارے لئے خاموش رہنا ہی بہتر ہے۔ پس اگر تم میں یہی عیب ہوتا جب کہ تم فسق سے پاک ہوتے، حالانکہ یہ بہت بعید ہے۔۔۔ تو یہ برائی تمہارے فسق کی معیت میں تمہارے ہماری بابت طعن و تشنیع سے خفیف تر ہوتی۔ المآئدہ
60 اہل ایمان پر ان کا طعن و تشنیع کرنا اس امر کا تقاضا کرتا ہے کہ وہ یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ اہل ایمان میں برائی ہے اس لئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿قُلْ ﴾ یعنی برائی اور قباحت کے بارے میں ان کو آگاہ کرتے ہوئے کہہ دیجیے ﴿ هَلْ أُنَبِّئُكُم بِشَرٍّ مِّن ذٰلِكَ﴾ ” کیا میں تمہیں خبردوں اس سے بھی بری بات کی؟“ جس کے بارے میں تم ہمیں طعن و تشنیع کرتے ہو اس کو صحیح فرض کرتے ہوئے﴿مَن لَّعَنَهُ اللّٰهُ﴾ ”جس پر اللہ نے لعنت کی۔“ یعنی اس کو اپنی رحمت سے دور کردیا ﴿وَغَضِبَ عَلَيْهِ﴾ ” اس پر غضب نازل کیا“ یعنی اسے دنیا و آخرت کے عذاب میں مبتلا کیا ﴿وَجَعَلَ مِنْهُمُ الْقِرَدَةَ وَالْخَنَازِيرَ وَعَبَدَ الطَّاغُوتَ﴾ ” اور ان میں سے بعضوں کو بندر اور سور بنا دیا اور جنہوں نے طاغوت کی بندگی کی“ یہاں طاغوت سے مراد شیطان ہے اور ہر وہ چیز جس کی اللہ کے سوا عبادت کی جائے، وہ طاغوت ہے۔ ﴿أُولَـٰئِكَ﴾ یعنی وہ لوگ جن کا ان قبیح خصائل کے حوالے سے ذکر کیا گیا ہے ﴿شَرٌّ مَّكَانًا﴾ ”ان کا ٹھکانا (اہل ایمان سے) برا ہے۔“ اہل ایمان اللہ تعالیٰ کی رحمت کے ان کی نسبت زیادہ قریب ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہے اس نے ان کو دنیا و آخرت میں ثواب سے نواز دیا ہے، کیونکہ انہوں نے اپنے دین کو اللہ تعالیٰ کے لئے خالص کرلیا۔ یہ ” اَفْعَلُ التَفْضِيْلُ “ کو ایک دوسرے اسلوب میں استعمال کرنے کی نوع ہے اور اسی طرح یہ قول ہے۔ ﴿وَأَضَلُّ عَن سَوَاءِ السَّبِيلِ﴾” اور بہت بہکے ہوئے ہیں سیدھی راہ سے“ یعنی وہ اعتدال کی راہ سے بہت دور ہیں۔ المآئدہ
61 ﴿وَإِذَا جَاءُوكُمْ قَالُوا آمَنَّا﴾” اور جب وہ تمہارے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں ہم ایمان لائے“ یعنی وہ مکر و فریب اور نفاق کی بنا پر کہتے ہیں ﴿وَقَد دَّخَلُوا بِالْكُفْرِ وَهُمْ قَدْ خَرَجُوا بِهِ﴾” حالانکہ وہ کفر لے کر آتے ہیں اور اسی کو لے کر جاتے ہیں۔“ یعنی وہ اس حال میں داخل ہوئے کہ وہ کفر میں گھرے ہوئے تھے اور اسی کے ساتھ وہ نکلے۔ پس ان کا داخل ہونا اور ان کا نکلنا کفر کے ساتھ ہے۔ بایں ہمہ وہ اپنے آپ کو مومن کہتے ہیں۔ ان سے زیادہ برا اور ان سے زیادہ بد حال کوئی اور ہوسکتا ہے؟ ﴿وَاللّٰهُ أَعْلَمُ بِمَا كَانُوا يَكْتُمُونَ ﴾ ” اور اللہ خوب جانتا ہے جو وہ چھپاتے ہیں“ پس اللہ تعالیٰ ان کو ان کے اچھے، برے اعمال کا بدلہ دے گا۔ المآئدہ
62 پھر اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے مومن بندوں کی مدد اور تائید کی خاطر بتکرار ان یہود و کفار کے معایب بیان کرتا ہے۔ ﴿وَتَرَىٰ كَثِيرًا مِّنْهُمْ﴾ ”اور تو ان میں سے اکثر کو دیکھے گا“ یعنی یہودیوں میں سے ﴿يُسَارِعُونَ فِي الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ﴾” وہ گناہ اور زیادتی میں دوڑ کر حصہ لیتے ہیں“ یعنی وہ ان گناہوں کی طرف سبقت کرتے ہیں جو خالق کے حقوق سے متعلق ہیں اور مخلوق پر ظلم اور تعدی کے زمرے میں آتے ہیں ﴿وَأَكْلِهِمُ السُّحْتَ﴾ ” اور ان کے حرام کھانے پر“ جو کہ حرام ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے صرف یہ خبر دینے پر اکتفا نہیں کیا کہ وہ ان افعال کا ارتکاب کرتے ہیں بلکہ یہ بھی خبر دی کہ وہ ان افعال بد میں سبقت کرتے ہیں اور یہ چیز ان کی خباثت اور برائی پر دلالت کرتی ہے۔ گناہ اور ظلم ان کے نفس کی فطرت کا حصہ بن گئے۔ یہ ہے ان کا حال اور وہ ہیں کہ اپنے لئے مقامات بلند کا دعویٰ کرتے ہیں ﴿لَبِئْسَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴾ ” بہت برے کام ہیں جو وہ کر رہے ہیں“ یہ ان کی مذمت اور ان کی تشنیع کی انتہا ہے۔ المآئدہ
63 ﴿ لَوْلَا يَنْهَاهُمُ الرَّبَّانِيُّونَ وَالْأَحْبَارُ عَن قَوْلِهِمُ الْإِثْمَ وَأَكْلِهِمُ السُّحْتَ﴾ ” کیوں نہیں روکتے ان کو درویش اور علماء گناہ کی بات کہنے سے اور حرام کھانے سے“ یعنی علماء جو عوام الناس کے نفع کے در پے ہوتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے علم و دانش سے نوازا ہے، انہوں نے لوگوں کو ان گناہوں سے کیوں نہ روکا جو ان سے صادر ہوتے ہیں تاکہ ان سے جہالت دور ہوجاتی اور ان پر اللہ تعالیٰ کی حجت قائم ہوجاتی ۔ کیونکہ یہ علماء ہی کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کو نیکیوں کا حکم دیں اور برائیوں سے منع کریں اور ان کے سامنے دین کا راستہ واضح کریں، انہیں بھلائیوں کی ترغیب دیں اور برائیوں کے انجام سے ڈرائیں ﴿ لَبِئْسَ مَا كَانُوا يَصْنَعُونَ﴾ ” بلا شبہ وہ بہت برا کرتے ہیں۔ “ المآئدہ
64 اللہ تبارک و تعالیٰ یہود کے انتہائی خبیث قول اور ان کے قبیح ترین عقیدے کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے فرماتا : ﴿وَقَالَتِ الْيَهُودُ يَدُ اللَّـهِ مَغْلُولَةٌ﴾ ” یہود نے کہا، اللہ کا ہاتھ بند ہوگیا ہے“ یعنی بھلائی، احسان اور نیکی سے ﴿غُلَّتْ أَيْدِيهِمْ وَلُعِنُوا بِمَا قَالُوا﴾” انہی کے ہاتھ بند ہوجائیں اور لعنت ہے ان کے اس کہنے پر“ یہ انہی کی گفتگو کی جنس کے ساتھ ان کے لئے بد دعا ہے چونکہ ان کی یہ بدگوئی اللہ کریم کو بخل، اور عدم احسان کی صفات سے متصف کرنے کو متضمن ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان پر اسی وصف کو منطبق کر کے ان کو اس بدگوئی کا بدلہ دیا ہے۔ پس یہود بخیل ترین، نیکی کے اعتبار سے قلیل ترین، اللہ تعالیٰ کے بارے میں سوء ظنی میں بدترین اور اللہ تعالیٰ کی اس رحمت سے بعید ترین لوگ ہیں جو ہر چیز پر سایہ کناں ہے اور جس سے تمام عالم علوی اور سفلی لبریز ہیں۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿بَلْ يَدَاهُ مَبْسُوطَتَانِ يُنفِقُ كَيْفَ يَشَاءُ﴾ ” بلکہ اس کے تو دونوں ہاتھ کھلے ہوئے ہیں، وہ جیسے چاہتا ہے خرچ کرتا ہے“ اس پر کوئی پابندی عائد نہیں اور کوئی روکنے والا نہیں جو اسے اپنے ارادے سے روک سکے۔ اس کا فضل و کرم اور دینی اور دنیاوی احسان بہت وسیع ہے، اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو حکم دیا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے جو دو کرم کے جھونکوں سے مستفید ہوں۔ وہ اپنی نافرمانیوں کے ذریعے سے اپنے آپ پر اس کے فضل و احسان کے دروازے بند نہ کریں۔ اس کی داد و دہش دن رات جاری ہے، اس کی عطا و بخشش ہر وقت موسلادھار بارش کی مانند ہے۔ وہ دکھوں کو دور کرتا ہے، غموں کا ازالہ کرتا ہے، محتاج کو بے نیاز کرتا ہے، قیدی کو آزاد کرتا ہے، ٹوٹے ہوئے کو جوڑتا ہے، مانگنے والے کی دعا قبول کرتا ہے، محتاج کو عطا کرتا ہے، مجبوروں کو ان کی پکار کا جواب دیتا ہے، سوال کرنے والوں کے سوال کو پورا کرتا ہے۔ جو اس سے سوال نہیں کرتا اسے بھی نعمتیں عطا کرتا ہے، جو اس سے عافیت طلب کرتا ہے اسے عافیت عطا کرتا ہے، وہ کسی نافرمان کو اپنی بھلائی سے محروم نہیں کرتا بلکہ نیک اور بدسب اس کی بھلائی سے بہرہ ور ہوتے ہیں۔ وہ اپنے اولیا کو نیک اعمال کی توفیق سے نوازتا ہے جو اس کا جود و کرم ہے، پھر وہ ان اعمال پر ان کی تعریف کرتا اور ان کی اضافت ان کی طرف کرتا ہے اور یہ بھی اس کے جود و کرم کا نتیجہ ہے اور ان کو دنیا و آخرت میں ایسا ثواب عطا کرتا ہے کہ زبان اس کے بیان سے قاصر ہے اور بندے کے طائر خیال کی اس تک رسائی ممکن نہیں۔ وہ تمام امور میں ان کو لطف و کرم سے نوازتا ہے۔ وہ اپنا احسان ان تک پہنچاتا رہتا ہے۔ وہ اپنے طور پر ہی ان سے بہت سی مصیبتیں دور کردیتا ہے کہ ان کو اس کا شعور تک نہیں ہوتا۔ پاک ہے وہ ذات کہ بندوں کے پاس جو نعمت ہے وہ اسی کی طرف سے ہے اور تکالیف کو دور کرنے کے لئے اسی کے سامنے گڑ گڑاتے ہیں اور برکت والی ہے وہ ذات جس کی مدح و ثناء کو کوئی شمار نہیں کرسکتا، بس وہ ایسے ہے جیسے اس نے خود اپنی مدح و ثناء بیان کی۔بلند و بالا وہ ہستی کہ بندے ایک لمحے کے لئے بھی اس کے فضل و کرم سے علیحدہ نہیں ہوتے بلکہ ان کا وجود اور ان کی بقا اسی کے جود و کرم کی مرہون ہے۔ اللہ تعالیٰ برا کرے ان لوگوں کا جو اپنی جہالت کی بنا پر اپنے آپ کو اپنے رب سے بے نیاز سمجھتے ہیں اور اس کی طرف ایسے امور منسوب کرتے ہیں جو اس کی جلالت کے لائق نہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ ان یہود کے ساتھ جنہوں نے یہ بدگوئی کی ہے اور ان جیسے دیگر لوگوں کے ساتھ ان کے کسی قول پر معاملہ کرتا، تو وہ ہلاک ہوجاتے اور دنیا میں بدبختی کا شکار ہوجاتے۔ مگر وہ اس قسم کی گستا خانہ باتیں کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان سے برد باری سے پیش آتا ہے اور ان سے درگزر فرماتا ہے، ان کو ڈھیل دیتا ہے مگر ان کو مہمل نہیں چھوڑتا۔ ﴿وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيرًا مِّنْهُم مَّا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ طُغْيَانًا وَكُفْرًا﴾” اور یقیناً ان میں سے بہتوں کو، وہ کلام جو آپ پر آپ کے رب کی طرف سے اتارا گیا ہے، سرکشی اور کفر میں ہی بڑھائے گا“ یہ بندے کے لئے سب سے بڑی سزا ہے کہ وہ ذکر، جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا ہے جس میں قلب و روح کی زندگی، دنیا و آخرت کی سعادت اور فلاح ہے جو اللہ کا سب سے بڑا احسان ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس سعادت کے ذریعے سے اپنے بندوں پر احسان فرمایا ہے جو ان پر واجب ٹھہراتی ہے کہ وہ اسے قبول کرنے کے لئے آگے بڑھیں، اس کے سبب سے اللہ کے سامنے سرجھکا دیں، اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں۔۔۔ وہی ذکر اس کی گمراہی، سرکشی اور کفر میں اضافے کا باعث بن جائے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اس نے اس روگردانی کی اور اسے ٹھکرا دیا اس سے عناد کھا اور شبہات با طلہ کی بنا پر اس کی مخالفت کی۔ ﴿وَأَلْقَيْنَا بَيْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ﴾ ” اور ہم نے ڈال دی ہے ان کے درمیان دشمنی اور بغض قیامت کے دن تک“ پس وہ ایک دوسرے سے محبت نہیں کریں گے، ایک دوسرے کی مدد نہیں کریں گے اور وہ کسی ایسی بات پر متفق نہیں ہوں گے جس میں ان کی کوئی مصلحت ہو، بلکہ وہ ہمیشہ اپنے دلوں میں ایک دوسرے کے خلاف کینہ اور بغض رکھیں گے اور قیامت تک ایک دوسرے پر ظلم اور تعدی کا ارتکاب کرتے رہیں گے۔ ﴿كُلَّمَا أَوْقَدُوا نَارًا لِّلْحَرْبِ﴾ ” جب کبھی آگ سلگاتے ہیں لڑائی کے لئے“ تاکہ اس طرح وہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں کریں، ان کے خلاف چالیں چلیں اور ان پر سوار اور پیادے چڑھا لائیں۔ ﴿أَطْفَأَهَا اللّٰهُ﴾ ” اللہ اس کو بجھا دیتا ہے‘ اللہ تعالیٰ ان کو بے یار و مددگار چھوڑ کر، ان کے لشکروں کو منتشر کر کے، ان کے خلاف مسلمانوں کی نصرت فرما کر اس آگ کو بجھا دیتا ہے۔ ﴿وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا﴾ ” اور یہ ملک میں فساد کے لئے دوڑے پھرتے ہیں۔“ یعنی زمین میں فساد پھیلانے کے لئے جدوجہد کرتے ہیں۔ معاصی کا ارتکاب کرتے ہیں، اپنے باطل دین کی طرف دعوت دیتے ہیں اور لوگوں کو اسلام میں داخل ہونے سے روکتے ہیں ارتکاب کرتے ہیں، اپنے باطل دین کی طرف دعوت دیتے ہیں اور لوگوں کو اسلام میں داخل ہونے سے روکتے ہیں ﴿وَاللّٰهُ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ﴾ ” اور اللہ فساد کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا“ بلکہ ان کے ساتھ سخت ناراض ہوتا ہے وہ عنقریب انہیں اس کی سزا دے گا۔ المآئدہ
65 پھر اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْكِتَابِ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَكَفَّرْنَا عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ وَلَأَدْخَلْنَاهُمْ جَنَّاتِ النَّعِيمِ﴾ ” اگر اہل کتاب ایمان لاتے اور ڈرتے، تو ہم ان سے ان کی برائیاں دور کردیتے اور ان کو نعمت والے باغوں میں داخل کرتے“ یہ اللہ تعالیٰ کا جود و کرم ہے کہ جہاں اس نے اہل کتاب کی برائیوں اور ان کے معایب اور ان کے اقوال باطلہ کا ذکر فرمایا ہے، وہاں ان کو توبہ کی طرف بھی بلایا ہے اور یہ کہ اگر وہ اللہ تعالیٰ پر اس کے فرشتوں، اس کی تمام کتابوں اور اس کے تمام رسولوں پر ایمان لے آئیں اور گناہوں سے پرہیز کریں تو اللہ تعالیٰ ان کی تمام برائیاں، خواہ کتنی ہی کیوں نہ ہوں، مٹا دے گا اور ان کو نعمتوں سے بھری ہوئی جنت میں داخل کرے گا جس میں وہ کچھ ہے کہ نفس اس کی چاہت رکھتے ہیں اور آنکھیں اس سے لذت اٹھاتی ہیں۔ المآئدہ
66 ﴿وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقَامُوا التَّوْرَاةَ وَالْإِنجِيلَ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْهِم مِّن رَّبِّهِمْ﴾ ” اور اگر وہ قائم کرتے تو رات، انجیل اور اس کو جو نازل کیا گیا ان پر، ان کے رب کی طرف سے“ یعنی اگر وہ تورات و انجیل کے احکام کو قائم کرتے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو توجہ دلائی اور ان کو ترغیب دی ہے۔ تو رات و انجیل کو قائم کرنے سے مراد ان امور پر ایمان لانا ہے جن کی طرف یہ دونوں کتابیں دعوت دیتی ہیں۔ یعنی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن پر ایمان لانا۔ اگر وہ اس عظیم نعمت کو قائم کرتے جس کو ان کے رب نے ان کی طرف نازل فرمایا ہے یعنی ان کی خاطر اور ان کے ساتھ اعتنا کی بنا پر اس نعمت کو ان کی طرف نازل کیا ہے ﴿لَأَكَلُوا مِن فَوْقِهِمْ وَمِن تَحْتِ أَرْجُلِهِم ۚ ﴾ ” تو وہ کھاتے اپنے اوپر سے اور اپنے پاؤں کے نیچے سے“ یعنی اللہ تعالیٰ ان پر رزق کے دروازے کھول دیتا، آسمان سے ان پر بارش برساتا اور زمین ان کے لئے فصلیں اگاتی۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :﴿وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرَىٰ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْهِم بَرَكَاتٍ مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ﴾(الاعراف :7؍96) ” اگر بستیوں کے لوگ ایمان لے آتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو ہم ان پر زمین اور آسمان کی برکتوں کے دروازے کھول دیتے۔ “ ﴿مِّنْهُمْ ﴾ ” ان میں سے“ یعنی اہل کتاب میں سے ﴿أُمَّةٌ مُّقْتَصِدَةٌ﴾ ” ایک گروہ ہے سیدھی راہ پر“ یعنی ایک گروہ ایسا بھی ہے جو تورات و انجیل پر عامل ہے مگر اس کا عمل قوی اور نشاط انگیز نہیں ہے۔ ﴿وَكَثِيرٌ مِّنْهُمْ سَاءَ مَا يَعْمَلُونَ﴾ ” اور بہت سے ایسے ہیں جن کے اعمال برے ہیں۔“ یعنی ان میں برائیوں کا ارتکاب کرنے والے بہت زیادہ ہیں اور نیکیوں کی طرف سبقت کرنے والے بہت کم ہیں۔ المآئدہ
67 یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے رسول محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ہے اور یہ سب سے بڑا اور جلیل ترین حکم ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ نازل فرمایا ہے اسے اس کے بندوں تک پہنچایا جائے۔۔۔ اس میں وہ تمام امور شامل ہیں جو امت نے آپ سے حاصل کئے، مثلاً عقائد، اعمال، اقوال، احکام شرعیہ اور مطالب الٰہیہ وغیرہ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اللہ تعالیٰ کے احکام کو پوری طرح پہنچا دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو دعوت دی، ان کو برے انجام سے ڈرایا، ان کو ایمان لانے پر اچھے انجام کی خوشخبری سنائی، ان کے لئے آسانیاں پیدا کیں، ان پڑھ جاہلوں کو علم سکھایا حتی کہ وہ علمائے ربانی بن گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قول و فعل، اپنے مراسلات اور ایلچیوں کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کے دین کو پہنچا دیا۔ کوئی ایسی بھلائی نہیں جس کی طرف آپ نے امت کی راہنمائی نہ کی ہو اور کوئی ایسی برائی نہیں جس سے آپ نے امت کو ڈرایا نہ ہو۔ آپ کی اس تبلیغ کی گواہی افاضل امت یعنی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے دی اور ان کے بعد ائمہ دین اور مسلمانوں نے دی۔ ﴿وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ﴾ ” اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا۔“ یعنی جو چیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رب کی طرف سے آپ پر اتاری گئی ہے اگر آپ نے اسے لوگوں تک نہ پہنچایا ﴿فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ﴾ ” تو نہیں پہنچایا آپ نے اس کا پیغام“ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے حکم کی فرمانبرداری نہیں کی ﴿وَاللّٰهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ﴾” اور اللہ آپ کو لوگوں سے بچائے گا“ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حمایت اور لوگوں سے آپ کی حفاظت کا وعدہ ہے۔ آپ کے لئے مناسب یہی ہے کہ آپ تعلیم و تبلیغ پر توجہ مرکوز رکھیں، مخلوق کا خوف آپ کو اس مقصد سے نہ ہٹا دے۔ کیونکہ مخلوق کی پیشانیاں اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں، اس نے آپ کی حفاظت کا ذمہ لے رکھا ہے اور آپ کی ذمہ داری پہنچا دینا ہے جو کوئی ہدایت حاصل کرتا ہے تو وہ اپنے لئے ہے۔ رہے کفار جن کا خواہشات نفس کی پیروی کے سوا کوئی مقصد نہیں تو ان کے کفر کے سبب سے اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت دے گا، نہ انہیں بھلائی کی توفیق عطا کرے گا۔ المآئدہ
68 یعنی اہل کتاب کی گمراہی کی منادی اور ان کے باطل کا اعلان کرتے ہوئے کہہ دیجیے ! ﴿سْتُمْ عَلَىٰ شَيْءٍ﴾ ” تم کسی چیز پر نہیں ہو“ یعنی تم کسی بھی دینی اصول پر قائم نہیں ہو۔ تم قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے ہو نہ تم نے اپنے نبی اور اپنی کتاب کی تصدیق کی ہے، تم نے حق کو تھاما ہے نہ کسی اصول پر تمہارا اعتماد ہے ﴿حَتَّىٰ تُقِيمُوا التَّوْرَاةَ وَالْإِنجِيلَ﴾” جب تک تم تورات اور انجیل کو قائم نہ رکھو گے۔“ یعنی جب تک کہ تم تورات اور انجیل پر ایمان لا کر ان کو قائم نہ کرو، ان کی اتباع نہ کرو اور جن امور کی طرف یہ دعوت دیتی ہیں ان میں سے ہر چیز کو مضبوطی سے تھام نہ لو اور جب تک کہ تم اس چیز کو قائم نہ کرو ﴿وَمَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُمْ ۗ﴾ ” جو تم پر تمہارے رب کی طرف سے اتاری گئی ہے“ جس نے تمہاری تربیت کی اور تمہیں نعمتوں سے نوازا۔ تم پر اس کی سب سے بڑی نعمت یہ ہے کہ تمہاری طرف کتابیں نازل فرمائیں۔ پس تم پر فرض ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے رہو، اس کے احکام کا التزام کرو اور اللہ تعالیٰ کی امانت اور اس کے عہد کی جو ذمہ داری تم پر ڈالی گئی ہے اسے پورا کرو۔ ﴿وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيرًا مِّنْهُم مَّا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ طُغْيَانًا وَكُفْرًا ۖ فَلَا تَأْسَ عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ﴾” اور جو کچھ آپ کے رب کی طرف سے آپ پر نازل ہوا ہے، اس سے ان میں سے اکثر لوگوں کی سرکشی اور کفر میں اضافہ ہوگا اس لئے آپ کافروں کے گروہ پر متاسف نہ ہوں۔ “ المآئدہ
69 اللہ تبارک و تعالیٰ اہل قرآن، اہل تورات اور اہل انجیل کے بارے میں بیان فرماتا ہے کہ ان سب کی سعادت اور نجات ایک ہی طریقے اور ایک ہی اصول میں ہے اور وہ ہے اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان لانا اور نیک عمل کرنا۔۔۔ لہٰذا ان میں سے جو کوئی اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان لائے گا اور نیک عمل کرے گا اسی کے لئے نجات ہے۔ ان کو کوئی خوف نہ ہوگا، انہیں خوف زدہ کرنے والے امور کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا اور وہ امور جو وہ پیچھے چھوڑ چکے ہیں ان کے بارے میں غمگین نہ ہوں گے۔۔۔ یہ حکم مذکور تمام زمانوں کو شامل ہے۔ المآئدہ
70 ﴿لَقَدْ أَخَذْنَا مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ﴾” ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے اور اس کے واجبات کو قائم کرنے کے بارے میں ان سے بھاری عہد لیا جن کے بارے میں گزشتہ صفحات میں ﴿ وَلَقَدْ أَخَذَ اللّٰهُ مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَبَعَثْنَا مِنْهُمُ اثْنَيْ عَشَرَ نَقِيبًا ۖ۔۔۔ الآیۃ﴾ (المائدہ :5؍12) کی تفسیر کے ضمن میں بحث گزر چکی ہے۔ ﴿وَأَرْسَلْنَا إِلَيْهِمْ رُسُلًا﴾ ” اور ان کی طرف رسول بھیجے“ جو پے در پے ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دیتے تھے اور ان کو رشد و ہدایت کی طرف بلاتے رہتے تھے مگر یہ چیز ان کے کسی کام آئی نہ اس نے کوئی فائدہ دیا﴿كُلَّمَا جَاءَهُمْ رَسُولٌ بِمَا لَا تَهْوَىٰ أَنفُسُهُمْ﴾” جب لایا کوئی رسول وہ حکم جس کو ان کے نفس نہیں چاہتے تھے“ یعنی حق کو ان کے نفس پسند نہیں کرتے تھے۔ انہوں نے حق کو جھٹلایا، اس سے عناد رکھا اور اس کے ساتھ بدترین معاملہ کیا ﴿فَرِيقًا كَذَّبُوا وَفَرِيقًا يَقْتُلُونَ﴾” انہوں نے رسولوں کے ایک گروہ کی تکذیب کی اور ایک گروہ کو قتل کیا۔ “ المآئدہ
71 ﴿وَحَسِبُوا أَلَّا تَكُونَ فِتْنَةٌ ﴾” اور یہ خیال کرتے تھے کہ کوئی آفت نہیں آنے کی۔“ یعنی وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی نافرمانی اور ان کی تکذیب کی وجہ سے ان پر عذاب نہیں آئے گا نہ ان کو سزا دی جائے گی اور وہ اپنے باطل پر ہمیشہ قائم رہیں گے ﴿فَعَمُوا وَصَمُّوا﴾ ” پس وہ (حق دیکھنے سے) اندھے اور (حق بولنے سے) گونگے ہوگئے“﴿ثُمَّ تَابَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ ﴾ ” پھر اللہ نے ان پر مہربانی فرمائی“ یعنی پھر اللہ تعالیٰ نے ان لغزشوں کو نظر انداز کردیا جب انہوں نے اللہ تعالیٰ کے پاس توبہ کی اور اس کی طرف رجوع کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول کرلی ﴿ ثُمَّ﴾پھر انہوں نے اس توبہ پر دوام نہ کیا یہاں تک کہ ان کے اکثر لوگ بدترین احوال کی طرف پلٹ گئے ﴿عَمُوا وَصَمُّوا كَثِيرٌ مِّنْهُمْ ۚ﴾ ” ان میں سے بہت سے اندھے اور بہرے ہوگئے۔“ یعنی انہی اوصاف کے ساتھ وہ پھر اندھے اور گونگے ہوگئے۔ ان میں سے بہت کم لوگ اپنی توبہ اور ایمان پر قائم رہے﴿ وَاللّٰهُ بَصِيرٌ بِمَا يَعْمَلُونَ﴾ ” اور اللہ وہ جو کچھ کرتے ہیں، اس کو دیکھتا ہے“ پس اللہ تعالیٰ ہر عمل کرنے والے کو اس کے عمل کی جزا دے گا۔ اگر اچھا عمل ہوا تو اچھی جزا ہوگی اور اگر برا عمل ہوا تو بری جزا ہوگی۔ المآئدہ
72 اللہ تبارک و تعالیٰ نصاریٰ کے کفر کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے ان کے اس قول کو نقل فرماتا ہے ﴿ إِنَّ اللَّـهَ هُوَ الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ﴾ ”بے شک اللہ، وہی مسیح ابن مریم ہے“ اس شبہہ کی وجہ سے کہ ان کو ان کی ماں نے بغیر باپ کے جنم دیا اور وہ تخلیق میں عادت الٰہی کے خلاف متولد ہوئے۔۔۔ دراں حالیکہ عیسیٰ علیہ السلام نے خود ان کے اس دعوے کی تکذیب کرتے ہوئے فرمایا : ﴿يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اعْبُدُوا اللَّـهَ رَبِّي وَرَبَّكُمْ﴾ ” اے نبی اسرائیل ! اللہ کی عبادت کرو جو میرا اور تمہارا رب ہے“ مسیح نے اپنے لئے کامل عبودیت اور اپنے رب کے لئے کامل ربوبیت کا اثبات کیا ہے جو تمام مخلوق کو شامل ہے۔﴿إِنَّهُ مَن يُشْرِكْ بِاللَّـهِ﴾ ” جو کوئی مخلوق میں سے کسی کو بھی (خواہ وہ عیسیٰ علیہ السلام ہوں یا کوئی اور) اللہ کا شریک ٹھہراتا ہے۔“ ﴿فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَاهُ النَّارُ﴾” تحقیق اللہ نے اس پر جنت حرام کردی اور اس کا ٹھکانا جہنم ہے“ کیونکہ اس نے مخلوق کو خالق کے برابر ٹھہرا دیا اور اس چیز کو جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے اسے تخلیق فرمایا۔ یعنی خالص اللہ تعالیٰ کی عبادت۔۔۔ اس کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے پھیر کر غیر اللہ کی طرف کردیا۔۔۔ اس لئے وہ اس بات کا مستحق ہے کہ ہمیشہ جہنم میں رہے ﴿وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنصَارٍ﴾” اور ظالموں کے لئے کوئی مددگار نہیں ہوگا“ جو انہیں اللہ کے عذاب سے بچا سکیں یا ان سے اس مصیبت کو دور کرسکیں جو ان پر نازل ہوئی ہے المآئدہ
73 ﴿لَّقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّـهَ ثَالِثُ ثَلَاثَةٍ﴾ ” یقیناً ان لوگوں نے کفر کیا جنہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ تین میں سے تیسرا ہے“ یہ نصاریٰ کا قول ہے جو ان کے ہاں متفق علیہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ تین میں سے تیسرا ہے یعنی اللہ تعالیٰ، عیسیٰ اور مریم۔۔۔ اللہ ان کے قول باطل سے بالا و بلند تر ہے۔۔۔ یہ نصاریٰ کی کم عقلی کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ انہوں نے اس بدترین قول اور قبیح ترین عقیدے کو کیسے قبول کرلیا؟ ان پر خالق اور مخلوق کیسے مشتبہ ہوگئے؟ جہانوں کا رب ان پر کیسے مخفی رہ گیا؟ اللہ تعالیٰ نے ان کا اور ان جیسے دیگر لوگوں کا رد کرتے ہوئے فرمایا : ﴿وَمَا مِنْ إِلَـٰهٍ إِلَّا إِلَـٰهٌ وَاحِدٌ ۚ﴾ ” اور نہیں ہے کوئی معبود، مگر ایک ہی معبود“ جو ہر صفت کمال سے متصف اور ہر نقص سے پاک ہے، وہ تخلیق و تدبیر کائنات میں متفرد ہے۔ مخلوق کے پاس جو بھی نعمت ہے وہ اسی کی طرف سے ہے۔ پس اس کے ساتھ غیر اللہ کو کیسے معبود بنایا جاسکتا ہے؟ اللہ تعالیٰ اس بات سے بہت بلند ہے جو یہ ظالم کہتے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو وعید سناتے ہوئے فرمایا : ﴿ وَإِن لَّمْ يَنتَهُوا عَمَّا يَقُولُونَ لَيَمَسَّنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ﴾ ” اگر وہ اپنے اس عقیدے سے باز نہ آئے تو ان میں سے جو لوگ کافر ہیں انہیں ضرور درد ناک عذاب پہنچے گا“ پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں اس گناہ سے توبہ کرنے کی دعوت دی جو ان سے صادر ہوا اور بیان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے۔ فرمایا : المآئدہ
74 ﴿ أَفَلَا يَتُوبُونَ إِلَى اللَّـهِ﴾ ” کیا پس وہ اللہ کی طرف توبہ نہیں کرتے؟“ یعنی وہ اپنی بات کو چھوڑ کر اس چیز کی طرف کیوں نہیں لوٹتے جسے اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے اور اس سے راضی ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی توحید کا اقرار اور اس حقیقت کا اعتراف کہ عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ ﴿وَيَسْتَغْفِرُونَهُ﴾ اور ان گناہوں کی بخشش کیوں نہیں مانگتے جو ان سے صادر ہوئے ہیں؟﴿وَاللّٰهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴾ ” اور اللہ تو بہت بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں کے گناہ بخش دیتا ہے خواہ وہ آسمان کی بلند یوں تک کیوں نہ پہنچے ہوئے ہوں۔ اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول کر کے اور ان کی برائیوں کو نیکیوں میں تبدیل کر کے ان پر رحم فرماتا ہے۔ ان کو توبہ کی دعوت اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے صادر ہوتی ہے جو لطف و کرم اور مہربانی کی انتہا ﴿أَفَلَا يَتُوبُونَ إِلَى اللَّـهِ ﴾ ” کیا پس وہ اللہ کی طرف توبہ نہیں کرتے؟“ المآئدہ
75 پھر اللہ تعالیٰ نے جناب مسیح علیہ السلام اور ان کی والدہ ماجدہ کی حقیقت بیان فرمائی جو کہ حق ہے۔ فرمایا : ﴿مَّا الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ ﴾ ” نہیں ہیں مسیح ابن مریم مگر ایک رسول ہی، ان سے پہلے بھی کئی رسول گزرے“ یعنی جناب مسیح کے معاملے کی غایت و انتہا یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بندوں اور رسولوں میں سے ایک ہیں جن کو کسی معاملے میں کوئی اختیار نہیں اور نہ وہ تشریع کا کوئی اختیار رکھتے ہیں سوائے اس چیز کے جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے ان کو مبعوث فرمایا ہے۔ جناب مسیح علیہ السلام بھی ان رسولوں کی جنس سے ہیں جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں ان کو دوسرے رسولوں پر کوئی ایسی فضیلت حاصل نہیں جو انہیں بشریت سے نکال کر ربوبیت کے مرتبے پر فائز کر دے ﴿وَأُمُّهُ ﴾ ” اور ان کی ماں“ یعنی مریم علیہا السلام ﴿صِدِّيقَةٌ﴾ ” صدیقہ ہیں۔“ یعنی جناب مریم علیہا السلام کی بھی غایت و انتہا یہ ہے کہ صد یقین میں ان کا شمار ہوتا ہے جو انبیاء و مرسلین کے بعد مخلوق میں سب سے بلند مرتبے پر فائز ہوتے ہیں۔ صدیقیت وہ علم نافع ہے جس کا ثمرہ یقین اور عمل صالح ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ جناب مریم نبی نہ تھیں۔ ان کا بلند ترین حال صدیقیت ہے اور فضیلت اور شرف کے لئے یہی کافی ہے۔ اسی طرح عورتوں میں سے کوئی عورت نبی مبعوث نہیں ہوئی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے نبوت کامل تر صنف یعنی مردوں ہی میں رکھی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿ وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ إِلَّا رِجَالًا نُّوحِي إِلَيْهِم﴾ (یوسف :12؍109) ” اور ہم نے تم سے پہلے مرد ہی بھیجے تھے جن کی طرف ہم وحی بھیجتے تھے۔ “ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام انبیاء و مرسلین کی جنس میں سے ہیں جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں اور ان کی والدہ ماجدہ صدیقہ تھیں تو نصاریٰ نے کس بنا پر اللہ تعالیٰ کے ساتھ ان دونوں کو بھی الٰہ قرار دے دیا اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿كَانَا يَأْكُلَانِ الطَّعَامَ﴾” وہ دونوں کھانا کھاتے تھے“ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ وہ دونوں اللہ تعالیٰ کے فقیر اور محتاج بندے تھے جیسا کہ انسان کھانے پینے کے محتاج ہوتے ہیں۔ پس اگر جناب عیسیٰ اور مریم الٰہ ہوتے تو وہ کھانے پینے سے بے نیاز ہوتے اور کسی چیز کے بھی محتاج نہ ہوتے۔ کیونکہ معبود بے نیاز اور قابل تعریف ہوتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے یہ دلیل اور برہان واضح کردی تو فرمایا : ﴿اُنظُرْ كَيْفَ نُبَيِّنُ لَهُمُ الْآيَاتِ﴾” کہو ہم کیسے ان کے لئے آیات بیان کرتے ہیں“ جو حق کو واضح کرتی ہیں اور یقین کو منکشف کرتی ہیں۔ بایں ہمہ انہیں کوئی چیز فائدہ نہیں دیتی بلکہ وہ اپنی بہتان طرازیوں، جھوٹ اور افترا بردازی پر بضد ہیں اور یہ ان کا ظلم اور عناد ہے۔ المآئدہ
76 ﴿قُلْ﴾ یعنی اے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان سے کہہ دیجیے !﴿ أَتَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ﴾ کیا تم اللہ کے سوا مخلوق کی عبادت کرتے ہو جو محتاج اور فقیر ہیں؟ ﴿مَا لَا يَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَلَا نَفْعًا﴾” جو تمہارے لئے نفع اور نقصان کا اختیار نہیں رکھتے“ اور تم اس ہستی کو چھوڑ دیتے ہو جس اکیلی کے قبضہ قدرت میں نفع و نقصان ہے اور صرف وہی ہستی ہے جو عطا کرتی اور محروم کرتی ہے۔ ﴿وَاللّٰهُ هُوَ السَّمِيعُ ﴾ ” اور اللہ، وہی سننے والا ہے۔“ اللہ تعالیٰ مخلوق کے اختلافات زبان اور تنوع حاجات کے باوجود سب آوازیں سنتا ہے ﴿الْعَلِيمُ﴾” جاننے والا ہے۔“ وہ ظاہر و باطن، غیب و شہادت اور ماضی اور مستقبل کے امور کو جانتا ہے۔ پس صاحب کمال ہستی جو ان اوصاف کی مالک ہے، وہی عبادت کی تمام انواع اور خالص اطاعت کی مستحق ہے۔ المآئدہ
77 اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا : ﴿قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لَا تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ غَيْرَ الْحَقِّ ﴾ ” اے اہل کتاب ! اپنے دین میں ناحق غلونہ کرو“ یعنی حق سے تجاوز کر کے باطل میں نہ پڑو۔ ان کا یہ قول حضرت مسیح علیہ السلام کے بارے میں ان کے اس قول کی مانند ہے جس کا ذکر گزشتہ صفحات میں گزر چکا ہے۔ یہ غلو بعض مشائخ کے بارے میں ان کے غلو کی مانند ہے۔ ایسا انہوں نے ان لوگوں کی خواہشات کی پیروی کرتے ہوئے کیا، جن کی بابت کہا گیا تھا ﴿وَلَا تَتَّبِعُوا أَهْوَاءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوا مِن قَبْلُ﴾ ” اور ایسے لوگوں کی خواہشوں کے پیچھے نہ چلو جو (خود بھی) گمراہ ہوئے اس سے پہلے۔“ یعنی ان کی گمراہی سامنے آچکی ہے۔ ﴿وَأَضَلُّوا كَثِيرًا ﴾ ” اور (دوسرے) بہت سوں کو گمراہ کیا۔“ یعنی جس دین پر یہ کار بند ہیں اس کی طرف دعوت دے کر بہت سے لوگوں کو گمراہ کرچکے ہیں ﴿وَضَلُّوا عَن سَوَاءِ السَّبِيلِ﴾ ” اور سیدھے راستے سے بھٹک گئے۔“ یعنی راہ اعتدال سے بھٹک گئے پس گمراہ ہونے اور دوسروں کو گمراہ کرنے، دونوں برائیوں کو انہوں نے جمع کرلیا۔ یہی وہ لوگ ہیں جو ائمہ ضلالت ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے ڈرایا ہے اور ان کی مہلک خواہشات اور گمراہ کن آراء سے بچنے کا حکم دیا ہے۔ المآئدہ
78 ﴿لُعِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِن بَنِي إِسْرَائِيلَ﴾ ” بنی اسرائیل کے کافروں پر لعنت کی گئی“ یعنی ان کو دھتکار دیا گیا اور اللہ کی رحمت سے دور کردیا گیا ﴿ عَلَىٰ لِسَانِ دَاوُودَ وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ ۚ ۚ﴾” داود اور عیسیٰ ابن مریم کی زبان پر“ یعنی ان دونوں کی گواہی اور ان کے اقرار پر، بایں طور پر کہ ان پر حجت قائم ہوگئی اور انہوں نے اس حجت و دلیل سے عناد رکھا ﴿ذٰلِكَ﴾ یعنی کفر اور لعنت ﴿بِمَا عَصَوا وَّكَانُوا يَعْتَدُونَ﴾” اس لئے کہ وہ نافرمانی کرتے تھے اور حد سے تجاوز کرتے تھے۔“ یعنی اس وجہ سے کہ وہ نافرمانی کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ کے بندوں پر ظلم کرتے تھے۔ یہ چیز ان کے کفر اور اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دوری کا سبب بن گئی، کیونکہ گناہوں اور ظلم کی سزا ملتی ہے۔ المآئدہ
79 ان کے وہ گناہ جن کی وجہ سے ان پر سزا ضروری ٹھہری اور جن کی بنا پر ان پر عقوبات واقع ہوئیں، یہ تھے کہ وہ ﴿كَانُوا لَا يَتَنَاهَوْنَ عَن مُّنكَرٍ فَعَلُوهُ ۚ﴾ ” برے کاموں سے جو وہ کرتے تھے ایک دوسرے کو روکتے نہیں تھے۔“ یعنی وہ برائیوں کا ارتکاب کرتے تھے اور برائیوں سے ایک دوسرے کو منع نہیں کرتے تھے۔ پس وہ لوگ جو برائی کرتے تھے اور وہ جو برائی نہیں کرتے تھے مگر قدرت رکھنے کے باوجود برائی سے روکتے نہیں تھے۔ دونوں قسم کے لوگ اسی مشترک سزا کے مستحق قرار پائے۔ یہ چیز اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کو حقیر سمجھتے تھے اور گناہ کا ارتکاب ان کے لئے بہت معمولی بات تھی۔ اگر وہ اللہ تعالیٰ کی تعظیم کرتے تو اس کی ہتک پر انہیں غیرت آتی اور اللہ تعالیٰ کے ناراض ہونے پر وہ بھی ناراض ہوتے اور قدرت ہونے کے باوجود برائی پر خاموش رہنا اور اس پر نکیر نہ کرنا، سزا کا موجب ہے کیونکہ اس میں بہت بڑے مفاسد پنہاں ہیں، مثلاً (١) برائی پر سکوت اختیار کرنا بذات خود برائی ہے خواہ سکوت اختیار کرنے والا خود برائی میں ملوث نہ ہو۔ اس لئے کہ جس طرح معصیت سے اجتناب فرض ہے اسی طرح برائی کے مرتکب پر نکیر کرنا ضروری ہے۔ (٢) جیسا کہ گزشتہ سطور میں گزر چکا ہے کہ یہ چیز گناہوں کو معمولی سمجھنے اور ان کو زیادہ اہمیت نہ دینے پر دلالت کرتی ہے۔ (٣) اس طرح فساق و فجار میں کثرت سے گناہ کرنے کی جرأت بڑھ جاتی ہے۔ جب ان کو گناہوں سے روکا نہ جائے تو شر میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ دینی اور دنیاوی مصائب بڑھ جاتے ہیں اور شوکت و غلبہ شر پر لوگوں کے ہاتھ میں آجاتا ہے۔ اہل خیر کمزور پڑجاتے ہیں اور وہ اہل شرکا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ حتی کہ انہیں اتنی سی قدرت بھی حاصل نہیں رہتی جتنی ابتدا میں تھی۔ (٤) منکر پر نکیر ترک کرنے سے علم مٹ جاتا ہے اور جہالت بڑھ جاتی ہے، کیونکہ جب معصیت بہت سے لوگوں سے بتکرار صادر ہوتی ہے اور اس پر اہل علم اور اہل دین لوگوں کی طرف سے نکیر نہیں ہوتی تو اس کے بارے میں گمان گزرتا ہے کہ یہ معصیت نہیں، بسا اوقات جاہل لوگ اسے مستحسن عبادت سمجھ لیتے ہیں۔ اس سے بڑی کونسی برائی ہوسکتی ہے کہ کسی ایسی چیز کو حلال قرار دے دیا جائے جسے اللہ تعالیٰ نے حرام ٹھہرایا ہے۔ نفوس پر حقائق بدل جائیں اور انہیں باطل حق نظر آنے لگے۔ (٥) نافرمان لوگوں کی معصیت پر سکوت سے بسا اوقات معصیت لوگوں کے دلوں میں مزین ہوجاتی ہے اور برائی میں لوگ ایک دوسرے کی پیروی کرنے لگ جاتے ہیں۔ اس لئے کہ انسان اپنے گروہ اور ابنائے جنس کی پیروی کا شیفتہ ہوتا ہے۔ چونکہ یہ برائیوں پر سکوت کی جزا ہے اس لئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے منصوص فرمایا کہ کفار بنی اسرائیل انہی لوگوں میں سے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی نافرمانی اور تعدی کی بنا پر ان پر لعنت کی اور ان برائیوں میں سے اس برائی کو مخصوص ﴿ لَبِئْسَ مَا كَانُوا يَفْعَلُونَ﴾” البتہ برا ہے جو وہ کرتے تھے۔ “ المآئدہ
80 ﴿تَرَىٰ كَثِيرًا مِّنْهُمْ يَتَوَلَّوْنَ الَّذِينَ كَفَرُوا ۚ﴾” آپ دیکھیں گے کہ ان میں سے اکثر کافروں کو دوست رکھتے ہیں“ یعنی ان کے ساتھ محبت اور موالات رکھتے ہیں اور ان کی مدد کرتے ہیں ﴿ لَبِئْسَ مَا قَدَّمَتْ لَهُمْ أَنفُسُهُمْ﴾” برا ہے وہ جو ان کے نفسوں نے ان کے لئے آگے بھیجا“ یعنی انہوں نے گھٹیا مال پیش کیا اور خسارے کا سودا کیا۔۔۔ اور یہ ہے اللہ تبارک و تعالیٰ کی ناراضی جس کے ناراض ہونے سے کائنات کی ہر چیز ناراض ہوجاتی ہے اور جس کی ناراضی کا نتیجہ عذاب عظیم میں خلود اور دوام ہے۔ پس ان کے نفسوں نے ان پر ظلم کیا کہ انہوں نے یہ بری مہمانی آگے بھیجی اور انہوں نے اپنے نفسوں پر ظلم کیا کہ انہوں نے انہیں ہمیشہ رہنے والی نعمت سے محروم کردیا۔ المآئدہ
81 ﴿وَلَوْ كَانُوا يُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَالنَّبِيِّ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْهِ مَا اتَّخَذُوْهُمْ أَوْلِيَاءَ﴾” اگر وہ اللہ پر، پیغمبر پر اور اس کتاب پر جو ان کی طرف نازل کی گئی ہے، ایمان رکھتے تو ان کو دوست نہ بناتے۔‘‘اس لئے کہ اللہ تعالیٰ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور کتاب اللہ پر ایمان بندے پر واجب ٹھہراتا ہے کہ وہ اپنے رب اور اس کے اولیا کے ساتھ موالات رکھے اور ان لوگوں سے عداوت رکھے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر ک اور اس سے عداوت رکھی اور اس کی نافرمانیوں میں پڑگئے۔ پس اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت، موالات اور اس پر ایمان کی شرط یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دشمنوں کو دوست نہ بنایا جائے۔ چونکہ ان میں مطلوبہ شرط موجود نہیں اس لئے یہ چیز مشروط کی نفی پر دلالت کرتی ہے۔ فرمایا﴿وَلَـٰكِنَّ كَثِيرًا مِّنْهُمْ فَاسِقُونَ﴾ ” لیکن ان میں سے اکثر لوگ فاسق ہیں“ یعنی وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے اس پر اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان کے دائرے سے خارج ہیں اور ان کے فسق میں سے ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے دشمنوں سے موالات رکھتے ہیں۔ المآئدہ
82 اللہ تعالیٰ اس گروہ کے بارے میں بیان فرماتا ہے جو محبت اور موالات میں مسلمانوں کے زیادہ قریب ہے اور دوسرا محبت اور موالات میں ان سے زیادہ دور ہے﴿لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِينَ آمَنُوا الْيَهُودَ وَالَّذِينَ أَشْرَكُوا ۖ﴾ ” آپ پائیں گے سب لوگوں سے زیادہ دشمن مسلمانوں کا، یہودیوں کو اور مشرکوں کو“ یہ دو گروہ علی الاطلاق اسلام اور مسلمانوں سے سب سے زیادہ عداوت اور ان کو نقصان پہنچانے کے لئے سب سے زیادہ بھاگ دوڑ کرنے والے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کے خلاف شدید بغض و حسد اور سخت کفر و عناد رکھتے ہیں۔ ﴿وَلَتَجِدَنَّ أَقْرَبَهُم مَّوَدَّةً لِّلَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ قَالُوا إِنَّا نَصَارَىٰ﴾” اور آپ پائیں گے سب سے نزدیک محبت میں مسلمانوں کے، ان لوگوں کو جو کہتے ہیں کہ ہم نصاریٰ ہیں“ اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس مودت و محبت کے متعدد اسباب ذکر فرماتے ہیں : (١) ﴿مِنْهُمْ قِسِّيسِينَ وَرُهْبَانًا﴾ ” یہ اس لئے کہ ان میں عالم بھی ہیں اور مشائخ بھی۔“ یعنی ان کے اندر علماء، زہاد اور گرجاؤں میں عبادت کرنے والے عباد ہیں، کیونکہ زہد کے ساتھ علم اور اسی طرح عبادت کے ساتھ علم یہ ایسی چیز ہے جو قلب کو لطیف اور رقیق بنا دیتی ہے اور اس کے اندر موجود سختی اور جفا کو زائل کردیتی ہے۔ بنا بریں ان کے اندر یہود کی سی سختی اور مشرکین کی سی شدت نہیں پائی جاتی۔ (٢) ﴿وَأَنَّهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُونَ﴾ ” اور وہ تکبر نہیں کرتے۔“ یعنی ان کے اندر اتباع حق کے بارے میں تکبر اور سرکشی نہیں پائی جاتی۔ اور یہ چیز مسلمانوں سے ان کی قربت اور محبت کا باعث ہے کیونکہ متواضع اور منکسر المزاج شخص، متکبر کی نسبت بھلائی کے زیادہ قریب ہے۔ المآئدہ
83 اس کا ایک سبب یہ بھی ہے ﴿وَإِذَا سَمِعُوا مَا أُنزِلَ إِلَى الرَّسُولِ﴾” جب وہ اس (کتاب) کو سنتے ہیں جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی گئی“ تو یہ کتاب ان کے دلوں پر اثر کرتی ہے اور وہ اس کے سامنے جھک جاتے ہیں اور ان کی آنکھوں سے اس حق کے سننے کے مطابق جس پر وہ یقین لائے ہیں، آنسو جاری ہوجاتے ہیں، پس اسی لئے وہ ایمان لے آئے اور اس کا اقرار کیا اور کہا : ﴿رَبَّنَا آمَنَّا فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّاهِدِينَ﴾” اے ہمارے رب ! ہم ایمان لائے، پس تو ہمیں گواہوں کے ساتھ لکھ لے۔“ اور یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لوگ ہیں، وہ اللہ تعالیٰ کی توحید، اس کے رسولوں کی رسالت اور جو کچھ یہ رسول لے کر آئے ہیں، اس کی صحت کی گواہی دیتے ہیں۔ نیز تصدیق و تکذیب کے ذریعے سے گزشتہ امتوں کی گواہی دیتے ہیں۔ وہ عادل ہیں اور انکی گواہی مقبول ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَكَذٰلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا ۗ ﴾(البقرہ :2؍ 143) ” اور اسی طرح ہم نے تمہیں امت وسط بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور رسول تم پر گواہ بنے۔ “ المآئدہ
84 گویا انہیں جب ان کے ایمان لانے اور ایمان میں ان کی سبقت پر ملامت کی گئی تو انہوں نے اس کے جواب میں کہا : ﴿وَمَا لَنَا لَا نُؤْمِنُ بِاللَّـهِ وَمَا جَاءَنَا مِنَ الْحَقِّ وَنَطْمَعُ أَن يُدْخِلَنَا رَبُّنَا مَعَ الْقَوْمِ الصَّالِحِينَ﴾” اور ہمیں کیا ہے کہ اللہ پر اور حق بات پر جو ہمارے پاس آئی ہے ایمان نہ لائیں اور ہم امید رکھتے ہیں کہ پروردگار ہم کو نیک بندوں کے ساتھ (بہشت میں) داخل کرے گا۔“ یعنی اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے سے ہمیں کون سی چیز مانع ہے۔ درآں حالیہ ہمارے پاس ہمارے رب کی طرف سے حق آگیا ہے جس میں کوئی شک و شبہ نہیں۔ جب ہم ایمان لے آئیں گے اور حق کی اتباع کریں گے، تب ہمارا رب ہمیں صالح لوگوں کے زمرے میں شامل کرے گا۔ تب کونسی چیز ہمیں ایمان لانے سے روک سکتی ہے۔ کیا یہ چیز ایمان لانے میں جلدی کرنے اور ایمان لانے سے پیچھے نہ رہنے کی موجب نہیں؟ المآئدہ
85 اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿فَأَثَابَهُمُ اللّٰهُ بِمَا قَالُوا﴾” پس اللہ نے ان کو ان کے کہنے پر بدلہ دیا“ یعنی انہوں نے ایمان لانے کی بات کی، نطق زبان سے ایمان کا اقرار کیا اور حق کی تصدیق کی ﴿جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ وَذٰلِكَ جَزَاءُ الْمُحْسِنِينَ ﴾ ” باغات کا جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں، وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے اور یہ بدلہ ہے نیکو کاروں کا“ یہ آیات کریمہ ان عیسائیوں کے بارے میں نازل ہوئی ہیں جو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آئے تھے، مثلاً نجاشی اور دیگر ایمان لانے والے عیسائی۔ اسی طرح ان کے اندر ایسے لوگ پائے جاتے رہیں گے جو دین اسلام کو اختیار کریں گے اور ان پر اپنے دین کا بطلان واضح ہوتا رہے گا۔ یہ لوگ یہودیوں اور مشرکین سے اسلام کے زیادہ قریب ہیں۔ المآئدہ
86 جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے نیکی کرنے والوں کے لئے ثواب کا ذکر فرمایا تو برائی کرنے والوں کے لئے عذاب کا ذکر کیا۔ ﴿وَالَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِآيَاتِنَا أُولَـٰئِكَ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ ﴾ ” اور وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا اور ہماری آیتوں کو جھٹلایا، یہی لوگ جہنمی ہیں“ کیونکہ انہوں نے کفر کیا اور حق کو واضح کرنے والی آیات کی تکذیب کی۔ المآئدہ
87 ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُحَرِّمُوا طَيِّبَاتِ مَا أَحَلَّ اللّٰهُ لَكُمْ﴾” اے ایمان والو ! جن پاکیزہ چیزوں کو اللہ نے تمہارے لئے حلال کیا ہے، تم انہیں حرام مت کرو“ یعنی اللہ تعالیٰ نے ماکولات و مشروبات میں جو چیزیں حلال ٹھہرا رکھی ہیں، انہیں حرام نہ ٹھہراؤ۔ کیونکہ یہ تو اللہ تعالیٰ کی نعمتیں ہیں جو اس نے تمہیں عطا کی ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کرو کیونکہ اس نے تمہارے لئے ان نعمتوں کو حلال ٹھہرایا اور اس کا شکر ادا کرو۔ کفران نعمت، عدم قبول اور ان کی تحریم کا اعتقاد رکھتے ہوئے ان نعمتوں کو نہ ٹھکراؤ ورنہ تم کفران نعمت اور اللہ تعالیٰ پر افتراپردازی کے ساتھ حلال کو حرام اور ناپاک قرار دینے کے مرتکب بھی ٹھہر و گے۔۔۔ اور یہ حد سے تجاوز ہے اور اللہ تعالیٰ نے حد سے بڑھنے سے منع فرمایا ہے ﴿وَلَا تَعْتَدُوا ۚ إِنَّ اللَّـهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ ﴾ ” اور حد سے نہ بڑھو، اللہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں فرماتا‘‘ بلکہ ان سے ناراض ہوتا ہے اور اس پر ان کو سزا دے گا۔ المآئدہ
88 پھر اللہ تعالیٰ نے اہل شرک کے طریقے کے برعکس جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ چیزوں کو حرام ٹھہرایا، حکم دیا﴿وَكُلُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّٰهُ حَلَالًا﴾ ” اور جو حلال طیب روزی اللہ نے تمہیں دی ہے اسے کھاؤ۔“ یعنی اللہ تعالیٰ کے اس رزق میں سے کھاؤ جو اللہ تعالیٰ نے ان اسباب کے ذریعے سے تمہاری طرف بھیجا ہے جو تمہیں میسر ہیں۔ بشرطیکہ یہ رزق حلال ہو اور چوری یا غصب شدہ وغیرہ مال میں سے نہ ہو جو ناحق حاصل کیا گیا ہوتا ہے، نیزہ وہ پاک بھی ہو یعنی اس میں کوئی ناپاکی نہ ہو۔ اس طرح درندے اور دیگر ناپاک چیزیں اس دائرے سے نکل جاتی ہیں۔ ﴿وَاتَّقُوا اللَّـهَ﴾ ” اور اللہ سے ڈرتے رہو۔“ اللہ تعالیٰ کے احکام کی تعمیل اور اس کی منہیات کے اجتناب میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو ﴿الَّذِي أَنتُم بِهِ مُؤْمِنُونَ﴾ ” وہ اللہ جس پر تم ایمان رکھتے ہو“ کیونکہ اللہ تعالیٰ پر ایمان تم پر تقویٰ اور حقوق اللہ کی رعایت و حفاظت واجب کرتا ہے کیونکہ اس کے بغیر ایمان مکمل نہیں ہوتا۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ اگر کوئی شخص کسی حلال چیز مثلاً ماکولات، مشروبات یا لونڈی وغیرہ کو حرام ٹھہرا لیتا ہے تو یہ چیز اس کے حرام ٹھہرا لینے سے حرام نہیں ہوجاتی۔ البتہ اگر وہ ایسا کرتا ہے تو قسم کا کفارہ واجب ہوجائے گا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللّٰهُ لَكَ﴾ (التحریم :66؍1) ” اے نبی ! آپ اس چیز کو کیوں حرام ٹھہراتے ہیں جو اللہ نے آپ کے لئے حلال قرار دی ہے؟“ مگر بیوی کو اپنے آپ پر حرام ٹھہرانے سے ظہار کا کفارہ لازم آئے گا۔ [اس مسئلے میں کافی اختلاف ہے، ایک رائے یہ بھی ہے جس کا اظہا رفاضل مفسر رحمتہ اللہ علیہ نے کیا ہے، دوسری رائے یہ ہے کہ اس میں کفارہ یمین ہے (اور یہی زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے، واللہ اعلم) اور تیسری رائے ہے کہ اس میں سرے سے کوئی کفارہ ہی نہیں ہے۔ امام ابن قیم اور امام ابن کثیر کا رجحان دوسری رائے کی طرف اور امام شوکانی کا تیسری رائے کی طرف ہے۔ تفصیل کے لئے دیکھیے تفسیر فتح القدیر، آیت زیر بحث زاد المعاد، ج :5؍ 302۔312، فتح الباری، کتاب الطلاق، والروضۃ الندیہ، ج : 2، کتاب الطلاق وغیر ھامن الکتب (ص۔ ی) ] اس آیت کریمہ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ انسان کے لئے مناسب نہیں کہ وہ پاک چیزوں سے اجتناب کرے اور انہیں اپنے آپ پر حرام ٹھہرا لے بلکہ وہ انہیں استعمال کرے اور اس طرح اطاعت الٰہی پر ان سے مدد لے۔ المآئدہ
89 یعنی تمہاری ان قسموں کے بارے میں اللہ تعالیٰ تمہارا مؤاخذہ نہیں کرے گا جو تم سے لغواً صادر ہوتی ہیں۔ اس سے مراد وہ قسمیں ہیں جو انسان بغیر کسی نیت اور ارادے کے کھا لیتا ہے یا یہ سمجھتے ہوئے کھاتا ہے کہ وہ سچا ہے مگر معاملہ اس کے برعکس نکلتا ہے : ﴿وَلَـٰكِن يُؤَاخِذُكُم بِمَا عَقَّدتُّمُ الْأَيْمَانَ﴾ ” لیکن پکڑتا ہے ان قسموں پر جن کو تم نے مضبوط باندھا“ یعنی جس کا تم عزم کرلیتے ہو اور جس پر تمہارے دل جم جاتے ہیں۔ جیسا کہ ایک دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿وَلَـٰكِن يُؤَاخِذُكُم بِمَا كَسَبَتْ قُلُوبُكُمْ﴾ (البقرہ :2؍225) ” مگر وہ قسمیں جو تم دلی ارادے سے کھاتے ہو، ان پر تمہارا مؤاخذہ کرے گا۔ “ ﴿فَكَفَّارَتُهُ﴾” تو اس کا کفارہ“ یعنی ان قسموں کا کفارہ جو تم قصد اور ارادے سے کھاتے ہو﴿إِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاكِينَ﴾” دس مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے“ اور یہ کھانا ﴿مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ ﴾ ” اوسط درجے کا کھانا جو تم کھلاتے ہو اپنے گھر والوں کو“ ﴿أَوْ كِسْوَتُهُمْ﴾” یا ان دس مسکینوں کو لباس پہنانا ہے“ اور یہاں لباس سے مراد کم از کم اتنا لباس ہے جس سے نماز ہوجاتی ہے ﴿أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ﴾ ” یا ایک گردن آزاد کرنی ہے“ یعنی مومن غلام جیسا کہ بعض دیگر مقام پر اسے ایمان کے ساتھ مقید کیا گیا ہے۔ جب ان مذکورہ تینوں صورتوں میں سے کسی ایک پر عمل کرلے تو اس کی قسم کا کفارہ ادا ہوجائے گا ﴿فَمَن لَّمْ يَجِدْ﴾” اور جس کو یہ میسر نہ ہو۔“ یعنی جب کوئی ان تینوں صورتوں میں سے کسی پر بھی عمل کرنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو ﴿فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ﴾ ” تو تین دن کے روزے رکھنے ہیں“ ﴿ذٰلِكَ﴾ یعنی یہ مذکورہ صورت﴿كَفَّارَةُ أَيْمَانِكُمْ إِذَا حَلَفْتُمْ﴾ ” تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جب تم قسم کھالو۔“ یہ ان کو مٹا دیتا ہے اور گناہ کو ختم کردیتا ہے۔ ﴿وَاحْفَظُوا أَيْمَانَكُمْ﴾” اور اپنی قسموں کی حفاظت کرو۔“ اللہ تعالیٰ کے نام پر جھوٹے اور کثرت سے حلف اٹھانے سے اپنی قسموں کی حفاظت کرو اور جب تم حلف اٹھا ہی لو پھر ٹوٹنے سے اس کو بچاؤ۔ سوائے اس کے کہ قسم توڑنے میں کوئی بھلائی ہو۔ پس قسم کی کامل حفاظت یہ ہے کہ انسان بھلائی پر عمل کرے اور اس کی قسم بھلائی کے راستے میں رکاوٹ نہ بنے۔ ﴿كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَكُمْ آيَاتِهِ ﴾ ” اسی طرح بیان کرتا ہے اللہ تمہارے لئے اپنی آیات“ جو حلال و حرام کو بیان کرنے والی اور احکام کو واضح کرنے والی ہیں ﴿لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ﴾ ” شاید تم اللہ تعالیٰ کے شکر گزار بنو“ کہ اس نے تمہیں وہ کچھ سکھایا جو تم نہیں جانتے تھے۔ پس بندہ مومن پر اللہ تعالیٰ کا شکر واجب ہے کہ اس نے احکام شریعت کی معرفت اور ان کی توضیحات سے نوازا۔ المآئدہ
90 اللہ تبارک و تعالیٰ ان مذکورہ قبیح اشیا کی مذمت کرتے ہوئے آگاہ فرماتا ہے کہ یہ شیطانی اور گندے کام ہیں۔﴿فَاجْتَنِبُوهُ﴾” پس بچو ان سے“ یعنی ان گندے کاموں کو چھوڑ دو ﴿لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ﴾ ” تاکہ تم فلاح پاؤ“ کیونکہ فلاح اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتی جب تک کہ ان چیزوں سے اجتناب نہ کیا جائے جن کو اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے۔ خاص طور پر مذکوہ فواحش : (الف) خمر : ہر وہ چیز خمر ہے جو عقل کو ڈھانپ لے یعنی عقل پر نشے کا پردہ ڈال دے۔ (ب) جوا : وہ تمام مقابلے جن میں جانبین کی طرف سے جیتنے والے کے لئے عوض مقرر کیا گیا ہو، مثلاً گھوڑ دوڑ وغیرہ کی شرط۔ (ج) انصاب : اس سے مراد وہ بت وغیرہ ہیں جن کو نصب کردیا جاتا ہے اور اللہ کو چھوڑ کر ان کی عبادت کی جاتی ہے۔ (د) پانسے : جن کے ذریعے سے لوگ اپنی قسمت کا حال معلوم کرتے ہیں۔ یہ وہ چار چیزیں ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے روکا ہے اور ان کے ارتکاب پر زجر و توبیخ کی ہے اور ان کے ان مفاسد سے آگاہ فرمایا جو ان کو ترک کرنے اور ان سے اجتناب کے داعی ہیں۔ (١) یہ تمام امور (رجس) یعنی ناپاک ہیں۔ اگرچہ حسی طور پر یہ ناپاک نہیں مگر معنوی طور پر ناپاک ہیں اور ناپاک امور سے بچنا اور ان کی گندگی میں ملوث ہونے سے اجتناب کرنا ہی مناسب ہے۔ (٢) یہ تمام امور شیطانی اعمال ہیں اور شیطان انسان کا سب سے بڑا دشمن ہے اور ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ دشمن سے ہمیشہ دور رہا جاتا ہے اور اس کی گھاتوں اور سازشوں سے بچا جاتا ہے خاص طور پر ان اعمال سے بچنے کی کوشش کی جاتی ہے جن میں دشمن ملوث کر کے ہلاک کرنے کی کوشش کرتا ہے اور سب سے بڑی احتیاط یہ ہے کہ اپنے کھلے دشمن کے اعمال سے دور رہ کر اس سے بچنا چاہئے اور ان اعمال میں پڑنے سے ڈرنا چاہئے۔ (٣) مذکورہ امور سے اجتناب کئے بغیر بندے کی فلاح ممکن نہیں، فلاح، امر مطلوب کے حصول میں کامیابی اور امر مر ہوب سے نجات کا نام ہے اور یہ تمام امور فلاح سے مانع اور اس کے لئے رکاوٹ ہیں۔ (٤) مذکورہ اعمال لوگوں کے درمیان بغض اور عداوت کے موجب ہیں۔ شیطان ان اعمال کو لوگوں کے درمیان پھیلانے کا بڑا حریص ہے، خاص طور پر شراب اور جوا۔ تاکہ وہ اہل ایمان کے درمیان بغض اور عداوت کا بیج بو سکے۔ کیونکہ شراب پینا، عقل میں فتور آنے کا، ہوش و حواس کے چلے جانے کا اور مومن بھائیوں کے درمیان بغض اور عداوت پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے خاص طور پر جبکہ اس کے ساتھ وہ اسباب بھی موجود ہوں جو شراب پینے والے کے لوازم میں شمار ہوتے ہیں۔ تب یہ شراب نوشی بسا اوقات قتل کے اقدام تک پہنچا دیتی ہے۔ جوئے میں ایک شخص کو دوسرے شخص پر جو جیت حاصل ہوتی ہے اور وہ بغیر کسی مقابلہ کے بہت سامال حاصل کرلیتا ہے تو یہ چیز بغض و عداوت کا سب سے بڑا سبب ہے۔ (٥) مذکورہ اعمال قلب کو ذکر الٰہی سے روکتے ہیں اور بدن کو ذکر اور نماز سے دور کردیتے ہیں۔ حالانکہ یہی وہ دو چیزیں ہیں جن کے لئے بندے کو تخلیق کیا گیا ہے اور انہی دو امور میں بندے کی سعادت ہے۔ المآئدہ
91 شراب اور جوا تو ذکر الٰہی اور نماز کے لئے سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ قلب مشغول ہوجاتا ہے اور ذہن شراب اور جوئے میں مشغول ہو کر غافل ہوجاتا ہے یہاں تک کہ طویل مدت اس پر گزر جاتی ہے اور انسان کو ہوش تک نہیں رہتا کہ وہ کہاں ہے۔ پس کون سا گناہ اس گناہ سے بڑھ کر قبیح ہے جو انسان کو ناپاک کر کے ناپاک لوگوں میں شامل کر دے اور وہ اسے شیطان کے اعمال اور اس کے مکرو فریب کے جال میں پھنسا دے اور وہ شیطان کا اس طرح مطیع ہوجائے جس طرح مویشی چروا ہے کے مطیع ہوتے ہیں۔ شیطان بندے اور اس کی فلاح کے درمیان حائل ہوجاتا ہے۔ اہل ایمان کے درمیان بغض اور عداوت کا بیج بوتا ہے اور انہیں ذکر الٰہی اور نماز سے روکتا ہے۔ (کیا یہ مفاسد جو مذکور ہوئے، کم ہیں؟) اور کیا ان مفاسد سے بڑھ کر بھی کوئی چیز ہے جو ان سے بڑی ہو؟ بنابریں اللہ تعالیٰ نے عقل سلیم کو ان چیزوں سے روکتے ہوئے فرمایا ﴿ فَهَلْ أَنتُم مُّنتَهُونَ﴾” کیا تم باز آتے ہو؟“ کیونکہ ایک عقل مند شخص جب ان مفاسد میں سے کسی ایک پر نظر ڈالتا ہے تو گھبرا اٹھتا ہے اور اپنے آپ کو ان برائیوں کے ارتکاب سے باز رکھتا ہے۔ اسے کسی لمبے چوڑے وعظ اور بہت زیادہ زجر و توبیخ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ المآئدہ
92 اللہ تبارک و تعالیٰ کی اطاعت اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت ایک ہی چیز کا نام ہے جو کوئی اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتا ہے وہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرتا ہے اور جو کوئی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرتا ہے وہ اللہ کی اطاعت کرتا ہے۔ یہ اطاعت اس بات کو متضمن ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی تعمیل کی جائے۔ یعنی ظاہری و باطنی اعمال و اقوال، حقوق اللہ اور حقوق مخلوق سے متعلق واجب اور مستحب اعمال بجالائے جائیں اور اس امر کو متضمن ہے کہ ان امور سے اجتناب کیا جائے جن سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا حکم ایک عام حکم ہے جو تمام احکام کو شامل ہے۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ اس میں تمام اوامرونواہی اور ظاہر و باطن شامل ہیں۔ فرمایا : ﴿وَاحْذَرُوا ﴾” اور ڈرتے رہو۔“ یعنی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی سے بچو، کیونکہ یہ نافرمانی شر اور واضح خسارے کی موجب ہے﴿فَإِن تَوَلَّيْتُمْ﴾ ” پس اگر تم اعراض کرو“ یعنی جس چیز کا تمہیں حکم دیا گیا اور جس چیز سے تمہیں روکا گیا ہے اگر تم اس کی تعمیل کرنے سے گریز کرو ﴿فَاعْلَمُوا أَنَّمَا عَلَىٰ رَسُولِنَا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ ﴾ ” تو جان لو کہ ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمہ تو صرف پیغام کا کھول کر پہنچا دینا ہے“ اور اس نے یہ فریضہ ادا کردیا ہے۔ اگر تم راہ راست اختیار کرتے ہو تو اس کا فائدہ تمہارے لئے ہے اور اگر تم برائیوں کا ارتکاب کرتے ہو تو اللہ تعالیٰ تمہارا محاسبہ کرے گا۔ ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمہ جو کچھ تھا وہ انہوں نے پہنچا دیا۔ المآئدہ
93 جب شراب کی تحریم، ممانعت کی تاکید اور اس کی بابت سخت حکم نازل ہوا، تو بہت سے اہل ایمان کی خواہش تھی کہ انہیں اپنے ان مومن بھائیوں کے بارے میں معلوم ہو جو حالت اسلام میں فوت ہوئے اور شراب کی تحریم سے قبل وہ شراب پیا کرتے تھے، چنانچہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ﴿لَيْسَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جُنَاحٌ﴾ ” جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے ان پر ان چیزوں کا کچھ گناہ نہیں۔“ یعنی ان پر گناہ اور حرج نہیں ہے ﴿فِيمَا طَعِمُوا ﴾ ” اس میں جو کچھ پہلے کھاچکے“ یعنی شراب اور جوئے کی تحریم سے قبل وہ شراب پیا کرتے تھے۔ چونکہ نفی حرج مذکورہ اشیا وغیرہ کو شامل ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس ارشاد کے ذریعے سے اس کو مقید فرمایا ﴿إِذَا مَا اتَّقَوا وَّآمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ﴾ ” جب کہ وہ آئندہ کو ڈر گئے اور ایمان لائے اور نیک عمل کئے“ یعنی اس شرط کے ساتھ کہ وہ گناہوں کو ترک کریں اللہ تعالیٰ پر ایسا صحیح ایمان رکھیں جو عمل صالح کا موجب ہوتا ہے۔ پھر اس پر ہمیشہ قائم رہیں۔۔۔ ورنہ بندہ کبھی اس صفت سے متصف ہوتا ہے اور کبھی نہیں ہوتا۔ یہ ایمان اس وقت تک کافی نہیں جب تک کہ اس پر دوام نہ ہو اور اسی حالت میں اس کو موت نہ آئے۔ نیز نیک اعمال پر اس کا دوام ہو، کیونکہ اللہ تعالیٰ اچھے طریقے سے اپنے خلاق کی عبادت کرنے والے نیکو کاروں کو پسند کرتا ہے اور وہ بندوں کو نفع پہنچانے کو پسند کرتا ہے۔ اس آیت کریمہ میں وہ شخص بھی شامل ہے جو تحریم کے نازل ہونے کے بعد کوئی حرام کردہ چیز کھاتا ہے یا کسی حرام فعل کا ارتکاب کرتا ہے، پھر اپنے گناہ کا اعتراف کرتے ہوئے تو بہ کرلیتا، تقویٰ اختیار کرلیتا ہے اور نیک کام کرتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اس کو بخش دے گا اور اس بارے میں اس کے گناہ کا بوجھ ہٹا دے گا۔ المآئدہ
94 اللہ تعالیٰ کا بندوں پر یہ فضل و احسان ہے کہ اس نے ان کو خبر دی ہے کہ وہ قضا و قدر کے اعتبار سے یہ فعل سر انجام دے گا، تاکہ وہ اس کی اطاعت کریں اور بصیرت کے ساتھ آگے آئیں اور جسے ہلاک ہونا ہے وہ دلیل کے ساتھ ہلاک ہو اور جسے زندہ رہنا ہے وہ دلیل کے ساتھ زندہ رہے۔ فرمایا : ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ﴾” اے ایمان والو !“ ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے ایمان کا امتحان لے ﴿لَيَبْلُوَنَّكُمُ اللّٰهُ بِشَيْءٍ مِّنَ الصَّيْدِ﴾ ” البتہ ضرور آزمائے گا تم کو اللہ ایک بات سے ایک شکار میں“ یعنی کسی زیادہ بڑی چیز کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ تمہیں نہیں آزمائے گا بلکہ اپنے لطف و کرم کی بنا پر تخفیف کرتے ہوئے بہت معمولی سی چیز کے ذریعے سے تمہارا امتحان لے گا۔ یہ شکار ہے جس کے ذریعے سے اللہ تبارک و تعالیٰ تمہیں آزمائے گا﴿تَنَالُهُ أَيْدِيكُمْ وَرِمَاحُكُمْ﴾” جس پر پہنچتے ہیں تمہارے ہاتھ اور تمہارے نیزے“ یعنی تم اس کے شکار پر متمکن ہوتے ہوتا کہ اس طرح آزمائش مکمل ہوجائے۔ اگر ہاتھ یا نیزے کے ذریعے سے شکار قدرت و اختیار میں نہ ہو تو آزمائش کا کوئی فائدہ باقی نہیں رہتا۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس آزمائش کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ لِيَعْلَمَ اللّٰهُ﴾” تاکہ جان لے اللہ“ یعنی ایسا جاننا جو مخلوق پر ظاہر ہو اور اس پر ثواب و عذاب مترتب ہوتا ہو ﴿مَن يَخَافُهُ بِالْغَيْبِ﴾ ” کون اس سے غائبانہ ڈرتا ہے۔“ پس جس چیز کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے روکا ہے، اس پر قدرت و اختیار ہونے کے باوجود وہ اس سے رک جاتا ہے، تو وہ اسے بہت زیادہ اجر عطا فرماتا ہے، اس کے برعکس وہ شخص ہے جو اللہ تعالیٰ سے غائبانہ طور پر ڈرتا ہے نہ اس کی نافرمانی سے باز آتا ہے، اس کے سامنے شکار آجاتا ہے، اگر اس پر قابو پا سکتا ہے تو اس کو شکار کرلیتا ہے۔ ﴿فَمَنِ اعْتَدَىٰ﴾ ” تو جو زیادتی کرے۔“ یعنی تم میں سے جو کوئی حد سے تجاوز کرے گا ﴿بَعْدَ ذٰلِكَ﴾ ” اس کے بعد“ یعنی اس بیان کے بعد جس نے ہر قسم کی حجت کو باطل کر کے راستے کو واضح کردیا ﴿فَلَهُ عَذَابٌ أَلِيمٌ﴾ ” پس اس کے لئے انتہائی درد ناک عذاب ہے“ جس کا وصف اللہ کے سوا کوئی بیان نہیں کرسکتا۔ کیونکہ حد سے تجاوز کرنے والے اس شخص کے لئے کوئی عذر نہیں۔ اعتبار اس شخص کا ہے جو لوگوں کی عدم موجودگی میں غائبانہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے۔ رہا لوگوں کے پاس اللہ تعالیٰ کے خوف کا اظہار کرنا تو یہ کبھی کبھی لوگوں کے خوف کی وجہ سے بھی ہوتا ہے تب اس پر کوئی ثواب نہیں۔ المآئدہ
95 پھر اللہ تعالیٰ نے حالت احرام میں شکار کرنے سے منع کر کے شکار کرنے کو حرام قرار دے دیا۔ چنانچہ فرمایا : ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقْتُلُوا الصَّيْدَ وَأَنتُمْ حُرُمٌ﴾” اے ایمان دارو ! جب تم احرام کی حالت میں ہو تو شکار نہ مارنا۔“ یعنی جب تم نے حج اور عمرہ کا احرام باندھا ہوا ہو۔ شکار مارنے کی ممانعت، شکار مارنے کے مقدمات کی ممانعت کو بھی شامل ہے۔ جیسے شکار مارنے میں اشتراک، شکار کی نشاندہی کرنا اور شکار کرنے میں اعانت کرنا، احرام کی حالت میں سب ممنوع ہے۔ حتی ٰکہ محرم کو وہ شکار کھانا بھی ممنوع ہے جو اس کی خاطر شکار کیا گیا ہو۔ یہ سب کچھ اس عظیم عبادت کی تعظیم کے لئے ہے جس کی خاطر محرم کے لئے اس شکار کو مارنا حرام کیا گیا ہے جو احرام باندھنے سے پہلے تک اس کے لئے حلال تھا۔ ﴿وَمَن قَتَلَهُ مِنكُم مُّتَعَمِّدًا﴾ ” اور جو تم میں سے جان بوجھ کر اسے مارے۔“ یعنی اس نے جان بوجھ کر شکار مارا ﴿فَجَزَاءٌ مِّثْلُ مَا قَتَلَ مِنَ النَّعَمِ﴾” تو اس پر بدلہ ہے اس مارے ہوئے کے برابر مویشی میں سے“ یعنی اس پر لازم ہے کہ اونٹ، گائے اور بکری کا فدیہ دے۔ شکار کے بارے میں دیکھا جائے گا کہ وہ کس شےسے مشابہت رکھتا ہے تو اس جیسا مویشی ذبح کر کے صدقہ کیا جائے گا اور مماثلت کی تعیین میں کس کا فیصلہ معتبر ہوگا؟ ﴿يَحْكُمُ بِهِ ذَوَا عَدْلٍ مِّنكُمْ﴾ ” تم میں سے دو عادل شخص اس کا فیصلہ کریں گے“ یعنی دو عادل اشخاص جو فیصلہ کرنا جانتے ہوں اور وجہ مشابہت کی بھی معرفت رکھتے ہوں جیسا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے کیا۔ انہوں نے کبوتر کا شکار کرنے پر بکری، شتر مرغ کا شکار کرنے پر اونٹنی اور نیل گائے کی تمام اقسام پر گائے ذبح کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اسی طرح تمام جنگلی جانور جو مویشیوں میں کسی کے ساتھ مشابہت رکھتے ہیں، تو فدیہ کے لئے وہی اس کے مماثل ہیں۔ اگر کوئی مشابہت نہ ہو تو اس میں قیمت ہے۔ جیسا کہ تلف شدہ چیزوں میں قاعدہ ہے۔ یہ بھی لازم ہے کہ یہ ہدی بیت اللہ پہنچے ﴿هَدْيًا بَالِغَ الْكَعْبَةِ﴾” وہ جانور بطور قربانی پہنچایا جائے کعبے تک“ یعنی اس کو حرم کے اندر ذبح کیا جائے ﴿أَوْ كَفَّارَةٌ طَعَامُ مَسَاكِينَ﴾” یا اس جزا کا کفارہ چند مساکین کو کھانا کھلانا ہے“ یعنی مویشیوں میں سے مماثل کے مقابلے میں مسکینوں کو کھانا کھلایا جائے۔ بہت سے علماء کہتے ہیں کہ جزا یوں پوری ہوگی کہ مماثل مویشی کی قیمت کے برابر غلہ وغیرہ خریدا جائے اور ہر مسکین کو ایک مدگیہوں، یا گیہوں کے علاوہ کسی دوسری جنس میں سے نصف صاع دیا جائے ﴿أَوْ عَدْلُ ذٰلِكَ﴾” یا اس کھانے کے بدل میں“ ﴿صِيَامًا﴾” روزے رکھے۔“ یعنی ایک مسکین کو کھانا کھلانے کے بدلے میں ایک روزہ رکھے ﴿لِّيَذُوقَ﴾” تاکہ چکھے وہ“ اس مذکورہ جزا کے وجوب کے ذریعے﴿ وَبَالَ أَمْرِهِ﴾ ” سزا اپنے کام کی“ ﴿وَمَنْ عَادَ﴾ ” اور پھر جو کرے گا“ یعنی اس کے بعد ﴿فَيَنتَقِمُ اللّٰهُ مِنْهُ ۗ وَاللّٰهُ عَزِيزٌ ذُو انتِقَامٍ ﴾ ” تو اللہ تعالیٰ اس سے انتقام لے گا اور اللہ تعالیٰ غالب اور انتقام لینے والا ہے۔ “ المآئدہ
96 اللہ تبارک و تعالیٰ نے جان بوجھ کر شکار مارنے پر اس کی سزا کی صراحت کی ہے باوجود اس بات کے کہ بدلہ تو ہر غلطی کا ضروری ہوتا ہے، چاہے اس کا مرتکب جان بوجھ کر کرے یا غلطی سے، جیسا کہ شرعی قاعدہ ہے کہ جان اور مال کو تلف کرنے والے پر ضمان لازم ہے خواہ کسی بھی حال میں اس سے یہ اتلاف صادر ہوا ہو جبکہ یہ اتلاف ناحق ہو اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس پر بدلہ اور اتنقام مرتب کیا ہے اور یہ سب جان بوجھ کر کرنے والے کے لئے ہے، لیکن غلطی سے کرنے والے کے لئے سزا نہیں ہے، صرف بدلہ ہے۔ یہی جمہور علماء کی رائے ہے، مگر صحیح وہی ہے جس کی آیت کریمہ نے تصریح کی ہے کہ جس طرح بغیر جانے بوجھے اور بغیر ارادے کے شکار مارنے والے پر کوئی گناہ نہیں اسی طرح اس پر جزا بھی لازم نہیں ہے۔ چونکہ شکار کا اطلاق بری اور بحری دونوں قسم کے شکار پر ہوتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے سمندری شکار کو مستثنیٰ قرار دیتے ہوئے فرمایا : ﴿أُحِلَّ لَكُمْ صَيْدُ الْبَحْرِ وَطَعَامُهُ﴾ ” احرام کی حالت میں تمہارے لئے سمندر کا شکار کرنا اور اس کا کھانا حلال ہے“ اور ” سمندر کے شکار“ سے مراد سمندر کے زندہ جانور ہیں اور (طعام) ” اس کے کھانے“ سے مراد سمندر میں مرنے والے سمندری جانور ہیں۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ مرے ہوئے بحری جانور بھی حلال ہیں۔ ﴿مَتَاعًا لَّكُمْ وَلِلسَّيَّارَةِ﴾ ” تمہارے فائدے کے لئے اور مسافروں کے لئے“ یعنی اس کی اباحت میں تمہارے لئے فائدہ ہے تاکہ تم اور تمہارے وہ ساتھی اس سے فائدہ اٹھا سکیں جو تمہارے ساتھ سفر کرتے ہیں ﴿وَحُرِّمَ عَلَيْكُمْ صَيْدُ الْبَرِّ مَا دُمْتُمْ حُرُمًا﴾ ” اور جب تک تم احرام کی حالت میں ہو، تم پر خشکی (جنگل) کا شکار حرام ہے۔“ یہاں لفظ ’’شکار“ سے یہ مسئلہ اخذ کیا جاتا ہے کہ یہ ضروری ہے کہ شکار کیا ہوا جانور جنگلی ہو، کیونکہ پالتو اور گھریلو جانور پر شکار کا اطلاق نہیں ہوتا۔ نیز یہ ایسا جانور ہو جس کا گوشت کھایا جاتا ہو کیونکہ جس جانور کا گوشت کھایا نہ جاتا ہو اس کو شکار نہیں کیا جاتا اور نہ اس پر ” شکار“ کا اطلاق ہی کیا جاتا ہے۔ ﴿وَاتَّقُوا اللَّـهَ الَّذِي إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ﴾” اور اس اللہ سے ڈرو جس کی طرف تم اکٹھے کئے جاؤ گے“ یعنی اللہ تعالیٰ نے جس چیز کا حکم دیا ہے اس پر عمل کر کے اور جس چیز سے روکا ہے اس کو ترک کر کے تقویٰ اختیار کرو اور اپنے اس علم سے حصول تقویٰ میں مدد لو کہ تمہیں اللہ تعالیٰ کے پاس اکٹھا کیا جائے گا اور وہ تمہیں اس بات کی جزا دے گا کہ آیا تم نے اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کیا تھا۔ تب وہ تمہیں بہت زیادہ ثواب سے نوازے گا یا اگر تقویٰ کو اختیار نہیں کیا تب اس صورت میں وہ تمہیں سخت سزا دے گا۔ المآئدہ
97 اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ ﴿جَعَلَ اللّٰهُ الْكَعْبَةَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ قِيَامًا لِّلنَّاسِ ﴾ ” اس نے کعبہ یعنی محترم گھر کو لوگوں کے لئے قیام کا باعث بنایا۔“ یعنی اس کی تعظیم کے قیام کے ساتھ ان کا دین اور دنیا قائم ہیں۔ کعبہ کے ساتھ ان کے اسلام کی تکمیل ہوتی ہے۔ ان کے بوجھ ہلکے ہوتے ہیں۔ اس گھر کا قصد کرنے سے بہت زیادہ نوازشیں اور بہت زیادہ احسانات حاصل ہوتے ہیں۔ اسی کعبہ کے سبب سے اموال خرچ کئے جاتے ہیں اور اسی کی خاطر بڑے بڑے اہوال میں گھسا جاتا ہے۔ اس محترم گھر میں دور دور سے مختلف رنگ و نسل کے مسلمان اکٹھے ہوتے ہیں، ایک دوسرے سے متعارف ہوتے ہیں۔ ایک دوسرے سے مدد لیتے ہیں، مصالح عامہ میں ایک دوسرے سے مشورہ کرتے ہیں، ان کے درمیان ان کے دینی اور دنیاوی مفادات کے ضمن میں رابط اسوتار ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿لِّيَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّـهِ فِي أَيَّامٍ مَّعْلُومَاتٍ عَلَىٰ مَا رَزَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ﴾(الحج:22؍28)” تاکہ وہ اپنے فائدے کے کاموں میں حاضر ہوں اور قربانی کے چند معلوم دنوں میں ان مویشیوں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ تعالیٰ نے عطا کئے ہیں۔ “ اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ نے اس محترم گھر کو لوگوں کے لئے اجتماعی زندگی کے قیام کا ذریعہ بنایا۔ بعض علماء کہتے ہیں کہ ہر سال بیت اللہ کا حج کرنا فرض کفایہ ہے۔ اگر تمام لوگ حج چھوڑ دیں تو تمام وہ لوگ گناہ گار ٹھہریں گے جو حج کرنے کی قدرت رکھتے ہیں بلکہ اگر تمام لوگ حج چھوڑ دیں تو ان کی اجتماعی زندگی کا سہارا ختم ہوجائے گا اور قیامت قائم ہوجائے گی۔ ﴿وَالْهَدْيَ وَالْقَلَائِدَ﴾ ” اور قربانی کو اور ان جانوروں کو جن کے گلے میں پٹے بندھے ہوں۔“ یعنی اور اسی طرح اللہ تعالیٰ نے قربانی کے جانوروں اور پٹے والے جانوروں کو جو کے قربانی کی بہترین قسم ہے، لوگوں کے گزارے کا ذریعہ بنایا۔ لوگ ان سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور ثواب حاصل کرتے ہیں۔ ﴿ذٰلِكَ لِتَعْلَمُوا أَنَّ اللَّـهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَأَنَّ اللَّـهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ﴾ ” یہ اس لئے تاکہ تم جان لو کہ اللہ کو معلوم ہے جو کچھ کہ آسمان و زمین میں ہے اور اللہ ہر چیز سے خوب واقف ہے“ پس یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا علم ہی ہے کہ اس نے تمہارے لئے یہ محترم گھر بنایا کیونکہ وہ تمہارے دینی اور دنیاوی مصالح کا علم رکھتا ہے۔ المآئدہ
98 ﴿اعْلَمُوا أَنَّ اللَّـهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ وَأَنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴾ ” جان لو کہ اللہ کا عذاب سخت ہے اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے“ یعنی ان دونوں امور کے بارے میں جزم و یقین کے ساتھ تمہارے دلوں میں علم موجود ہے۔ یہ حقیقت ہمیشہ تمہیں معلوم رہے کہ اللہ تعالیٰ نافرمانی کرنے والوں کو دنیا میں اور آخرت میں سخت عذاب دینے والا ہے اور وہ ان لوگوں کو بخش دینے والا اور ان پر بہت رحم کرنے والا ہے جو توبہ کر کے اس کی اطاعت کرتے ہیں۔ پس اس کے عذاب کا خوف اور اس کی بخشش اور ثواب کی امید اس علم کے ثمرات ہیں اور تم خوف اور امید کے تقاضوں کے مطابق عمل کرتے ہو، المآئدہ
99 پھر اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے :﴿ مَّا عَلَى الرَّسُولِ إِلَّا الْبَلَاغُ﴾ ” رسول کے ذمے صرف پہنچا دینا ہے“ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جیسے حکم دیا گیا، آپ نے پہنچا دیا۔ آپ نے اپنی ذمہ داری پوری کردی اور اس کے سوا دیگر معاملات میں آپ کو کوئی اختیار نہیں ﴿وَاللّٰهُ يَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا تَكْتُمُونَ﴾ ” اور اللہ جانتا ہے جو تم ظاہر کرتے اور جو تم چھپاتے ہو“ اور اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کی اپنے علم کے مطابق جزا دے گا۔ المآئدہ
100 ﴿قُل﴾ ” کہہ دیجیے“ یعنی لوگوں کو شر سے ڈراتے ہوئے اور ان کو بھلائی کی ترغیب دیتے ہوئے کہہ دیجیے ﴿ لَّا يَسْتَوِي الْخَبِيثُ وَالطَّيِّبُ﴾ ” ناپاک چیزیں اور پاک چیزیں برابر نہیں ہوتیں۔“ یعنی ہر چیز میں اچھے اور برے برابر نہیں ہوسکتے۔ ایمان اور کفر، اطاعت اور معصیت، اہل جنت اور اہل جہنم، اعمال خبیثہ اور اعمال صالحہ برابر نہیں ہوسکتے اسی طرح حرام مال اور حلال مال کے درمیان کوئی مساوات نہیں۔ ﴿وَلَوْ أَعْجَبَكَ كَثْرَةُ الْخَبِيثِ﴾” اگرچہ ناپاک کی کثرت آپ کو بھلی لگے“ کیونکہ ناپاک چیز کی کثرت اپنے مالک کو کوئی فائدہ نہیں دیتی بلکہ دین و دنیا میں اسے نقصان دیتی ہے ﴿فَاتَّقُوا اللَّـهَ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ﴾” پس اے عقل مندو ! اللہ سے ڈرو، تاکہ تم فلاح پاؤ“ پس اللہ تعالیٰ نے عقل مندوں، یعنی پوری عقل اور کامل رائے کے حامل لوگوں کو حکم دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے خطاب کا رخ انہی لوگوں کی طرف ہے۔ یہی وہ لوگ ہوتے ہیں جن کی پروا کی جاتی ہے اور انہی میں خیر کی امید ہوتی ہے اور ان کو آگاہ فرمایا ہے کہ فلاح تقویٰ پر موقوف ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کے اوامرو نواہی میں اس کی موافقت کا نام ہے۔ پس جس نے تقویٰ اختیار کیا اس نے پوری فلاح پالی۔ جس نے تقویٰ کو ترک کردیا، اس کے نصیب میں خسارہ آیا اور نفع سے محروم رہ گیا۔ المآئدہ
101 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے اہل ایمان بندوں کو ایسی چیزوں کے بارے میں سوال کرنے سے منع کرتا ہے جن کو اگر ان کے سامنے بیان کردیا جائے تو ان کو بری لگیں گی اور ان کو غمزدہ کردیں گی مثلاً بعض مسلمانوں نے اپنے آباء و اجداد کے بارے میں سوال کیا تھا کہ آیا وہ جنت میں ہیں یا جہنم میں۔ اگر اس قسم کے سوال پر سائل کو واضح جواب دیا جائے تو بسا اوقات اس میں بھلائی نہیں ہوتی مثلاً غیر واقع امور کے بارے میں ان کا سوال کرنا، یا ایسا سوال کرنا جس کی بنا پر کوئی شرعی شدت مترتب ہو اور بسا اوقات اس سوال کی وجہ سے امت حرج میں مبتلا ہوجاتی ہے یا کوئی اور لا یعنی سوال کرنا۔ یہ سوالات اور اس قسم کے دیگر سوالات ممنوع ہیں۔ رہا وہ سوال جس کے ساتھ مذکورہ بالا چیزوں کا تعلق نہ ہو، تو وہ مامور بہ ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ﴾(النحل :16؍43) ” اہل ذکر سے پوچھ لو اگر تم نہیں جانتے۔ “ ﴿وَإِن تَسْأَلُوا عَنْهَا حِينَ يُنَزَّلُ الْقُرْآنُ تُبْدَ لَكُمْ عَفَا اللّٰهُ عَنْهَا ۗ ﴾ ” اور اگر پوچھو گے یہ باتیں، ایسے وقت میں کہ قرآن نازل ہو رہا ہے، تو تم پر ظاہر کردی جائیں گی“ یعنی جب تمہارا سوال اس کے محل نزول سے موافقت کرے اور تم اس وقت سوال کرو جب تم پر قرآن نازل کیا جا رہا ہو اور تم کسی آیت میں اشکال کے بارے میں سوال کرو یا کسی ایسے حکم کے بارے میں سوال کرو جو تم پر مخفی رہ گیا ہو اور یہ سوال کسی ایسے وقت پر ہو جب آسمان سے وحی کے نزول کا امکان ہو تو تم پر ظاہر کردیا جائے گا۔ یعنی اس کو تمہارے سامنے واضح کردیا جائے گا ورنہ جس چیز کے بارے میں اللہ تعالیٰ خاموش ہے تم بھی خاموش رہو۔ ﴿ عَفَا اللّٰهُ عَنْهَا﴾ ” اللہ نے ایسی باتوں (کے پوچھنے) سے درگزر فرمایا ہے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو معاف کرتے ہوئے سکوت سے کام لیا۔ پس وہ معاملہ جس میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے سکوت اختیار کیا ہو وہ معاف ہے اور مباحات کے زمرے میں آتا ہے۔ ﴿وَاللّٰهُ غَفُورٌ حَلِيمٌ﴾” اور اللہ بخشنے والا بردبار ہے۔“ یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیشہ سے مغفرت کی صفت سے موصوف، حلم اور احسان میں معروف ہے۔ پس اس سے اس کی مغفرت اور احسان کا سوال کرو اور اس سے اس کی رحمت اور رضا طلب کرو۔ المآئدہ
102 یہ سوالات جن سے تمہیں منع کیا گیا ہے۔ ﴿قَدْ سَأَلَهَا قَوْمٌ مِّن قَبْلِكُمْ﴾ ” تحقیق پوچھ چکی ہے یہ باتیں ایک جماعت تم سے پہلے“ یعنی اس جنس کے اور اسی قسم کے سوالات تھے۔ ان کا سوال طلب رشد کے لئے نہ تھا بلکہ تلبیس کی خاطر تھا۔ جب ان کے سوال کا جواب واضح ہو کر ان کے سامنے آگیا﴿ ثُمَّ أَصْبَحُوا بِهَا كَافِرِينَ ﴾ ” تو وہ ان کے ساتھ کفر کرنے والے ہوگئے“ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحیح حدیث میں فرمایا ” جب میں تمہیں کسی چیز سے روک دوں تو اس سے اجتناب کرو اور جب کسی کام کے کرنے کا حکم دوں تو اپنی استطاعت کے مطابق اس حکم کی تعمیل کرو کیونکہ تم سے پہلے قومیں کثرت سوال اور اپنے نبیوں سے اختلاف کرنے کی بنا پر ہلاک ہوئیں۔“ [صحيح مسلم، الحج، حديث: 1337] المآئدہ
103 یہ مشرکین کی مذمت ہے جنہوں نے دین میں ایسی چیزیں گھڑ لی تھیں جن کا اللہ تعالیٰ نے حکم نہیں دیا تھا اور وہ چیزیں حرام قرار دے تھیں جن کو اللہ تعالیٰ نے حلال ٹھہرایا تھا۔ چنانچہ انہوں نے اپنی فاسد آراء کی بنا پر اپنی ان اصطلاحات کے مطابق کچھ مویشی حرام قرار دے دیئے جو کتاب اللہ کے مخالف تھیں۔ بنا بریں فرمایا : ﴿مَا جَعَلَ اللّٰهُ مِن بَحِيرَةٍ ﴾ ” نہیں مقرر کیا اللہ نے بحیرہ“( بَحِيرَةٍ) اس اونٹنی کو کہا جاتا تھا جس کے کان پھاڑ دیا کرتے، اس پر سواری کرنے کو حرام کرلیتے اور اس کو مقدس خیال کرتے تھے۔ ﴿وَلَا سَائِبَةٍ ﴾ ” اور نہ سائبہ“ اونٹنی، گائے یا بکری جب سن رسیدہ ہوجاتی تو اسے سائبہ کہا جاتا تھا اور اسے آزاد چھوڑ دیتے تھے، اس پر سواری کی جاتی تھی نہ اس پر بوجھ لادا جاتا تھا اور نہ اس کا گوشت کھایا جاتا تھا۔ بعض لوگ اپنے مال میں سے کچھ نذر مان کر اس کو ” سائبہ“ بنا کر چھوڑ دیتے تھے۔﴿وَلَا حَامٍ ﴾ ” اور نہ حام“ یعنی اونٹ جب ایک خاص حالت کو پہنچ جاتا جو ان کے ہاں معروف تھی تو اس اونٹ پر سواری کی جاتی تھی نہ اس پر سامان لادا جاتا تھا۔ ان تمام چیزوں کو مشرکین نے بغیر کسی دلیل اور برہان کے حرام قرار دے رکھا تھا۔ یہ اللہ تعالیٰ پر افترا اور بہتان تھا جو ان کی جہالت اور بے عقلی سے صادر ہوا تھا۔ اس لئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَلَـٰكِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا يَفْتَرُونَ عَلَى اللَّـهِ الْكَذِبَ ۖ وَأَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ ﴾ ’’لیکن کافر اللہ پر افترا باندھتے تھے اور ان کے اکثر عقل نہیں رکھتے تھے۔‘‘ ان مذکورہ امور میں کوئی نقلی دلیل تھی نہ عقلی، بایں ہمہ انہیں اپنی آراء بہت پسند تھیں جو ظلم اور جہالت پر مبنی تھیں۔ المآئدہ
104 جب انہیں دعوت دی جاتی ﴿ إِلَىٰ مَا أَنزَلَ اللّٰهُ وَإِلَى الرَّسُولِ ﴾ ” اس کی طرف جو اللہ نے نازل کیا اور رسول کی طرف“ تو اس سے روگردانی کرتے اور اسے قبول نہ کرتے ﴿قَالُوا حَسْبُنَا مَا وَجَدْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا ﴾ ” اور کہتے کہ جس دین پر ہم نے اپنے آباؤ اجداد کو پایا ہے وہ ہمارے لئے کافی ہے“ اگرچہ یہ دین نا درست ہی کیوں نہ ہو۔ اور یہ دین اللہ کے عذاب سے نجات نہ دلا سکتا ہو۔ پھر اگر ان کے آباؤ اجداد کافی ہوتے، ان میں معرفت اور درایت ہوتی تو معاملہ آسان ہوتا۔ مگر ان کے آباؤ اجداد میں تو کچھ بھی عقل نہ تھی۔ ان کے پاس کوئی معقول شے تھی، نہ علم و ہدایت کا کوئی حصہ۔ ہلاکت ہے اس کے لئے جو کسی ایسے شخص کی تقلید کرتا ہے جس کے پاس علم صحیح ہے نہ عقل راجح اور وہ اللہ کی نازل کردہ کتاب اور اس کے انبیاء و مرسلین کی اتباع کو چھوڑ دیتا ہے جو قلب کو علم و ایمان اور ہدایت و ایقان سے لبریز کرتی ہے۔ المآئدہ
105 اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمْ أَنفُسَكُمْ ۖ ﴾ ” اے ایمان والو ! تم پر لازم ہے فکر اپنی جان کا“ یعنی اپنے نفوس کی اصلاح، ان کو منزل کمال تک پہنچانے اور ان کو صراط مستقیم پر گامزن کرنے کی کوشش کرو، کیونکہ اگر تم نے اپنی اصلاح کرلی تو وہ شخص تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا جو راہ راست سے بھٹک گیا ہے اور دین قیم کے راستے کو اختیار نہیں کرتا۔ وہ صرف اپنے آپ کو نقصان پہنچاتا ہے۔ یہ آیت کریمہ اس امر پر دلالت نہیں کرتی کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ چھوڑ دینے سے کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔ کیونکہ خود بندے کی ہدایت بھی اس وقت تک تکمیل نہیں پاتی جب تک کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی جو ذمہ داری اس پر عائد ہوتی ہے اسے ادا نہیں کرتا۔ ہاں ! اگر وہ اپنے ہاتھ اور زبان سے برائی کا انکار کرنے پر قادر نہیں تو اپنے دل میں اس برائی کو برا سمجھے۔ تب کسی دوسرے کی گمراہی اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ ﴿إِلَى اللَّـهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا ﴾ ” تم سب کو اللہ کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔“ یعنی قیامت کے دن تم سب اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹو گے اور اس کے سامنے اکٹھے ہو گے ﴿فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ ﴾” وہ تم کو تمہارے سب کاموں سے آگاہ کرے گا۔“ یعنی اچھے اور برے جو عمل بھی کرتے رہے ہو، اللہ تعالیٰ تمہیں ان کے بارے میں آگاہ کرے گا۔ المآئدہ
106 اللہ تبارک و تعالیٰ خبر دیتا ہے جو کہ اس حکم کو متضمن ہے کہ جب انسان کی موت کی علامات اور اس کے مقدمات سامنے آجائیں تو اپنی وصیت پر دو گواہ بنا لے۔ اس کے لئے مناسب یہ ہے کہ وہ اپنی وصیت کو تحریر کروائے اور اس پر دو عادل اور معتبر گواہوں کی گواہی ثبت کروائے۔ ﴿أَوْ آخَرَانِ مِنْ غَيْرِكُمْ ﴾ ” یا دوسرے دو گواہوں تمہارے سوا“ یعنی مسلمانوں کے سوا کوئی اور یعنی یہود و نصاریٰ وغیرہ۔ یہ سخت ضرورت اور حاجت کے وقت ہے جب یہود و نصاریٰ کے سوا مسلمانوں میں سے گواہ موجود نہ ہوں ﴿إِنْ أَنتُمْ ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ ﴾ ” جب تم زمین میں سفر کر رہے ہو“ ﴿فَأَصَابَتْكُم مُّصِيبَةُ الْمَوْتِ ﴾” اور پہنچے تمہیں مصیبت موت کی“ یعنی تم ان دونوں کو گواہ بنا لو۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو گواہ بنانے کا حکم اس لئے دیا ہے کہ اس صورتحال میں ان کی گواہی مقبول ہے اور ان کے بارے میں مزید تاکید فرمائی کہ ان کو روک لیا جائے ﴿مِن بَعْدِ الصَّلَاةِ ﴾ ” نماز کے بعد“ جس نماز کی یہ تعظیم کرتے ہیں ﴿فَيُقْسِمَانِ بِاللَّـهِ ﴾” پس وہ اللہ کی قسم کھائیں“ کہ انہوں نے سچ کہا ہے اور انہوں نے کوئی تغیر و تبدیل نہیں کیا ﴿ إِنِ ارْتَبْتُمْ ﴾” اگر تمہیں (ان کی گواہی میں) شک ہو“ اور اگر تم انہیں سچا سمجھتے ہو تو پھر ان سے قسم لینے کی ضرورت نہیں اور وہ قسم کھاتے وقت یہ الفاظ ادا کریں ﴿لَا نَشْتَرِي بِهِ ﴾ ” نہیں حاصل کرتے ہم اس کے بدلے“ یعنی اپنی قسموں کے بدلے ﴿ثَمَنًا ﴾” کوئی مال“ یعنی دنیاوی فائدے کی خاطر ہم جھوٹی قسمیں نہیں کھائیں گے ۔ ﴿وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَىٰ ﴾ اگرچہ ہم کو کسی سے قرابت بھی ہو‘‘یعنی اس کے ساتھ اپنی قرابت داری کی وجہ سے اس سے کوئی رعایت نہیں کریں گے ﴿وَلَا نَكْتُمُ شَهَادَةَ اللَّـهِ ﴾ ” اور نہ ہم اللہ کی گواہی کو چھپائیں گے“ بلکہ ہم اسی طرح شہادت کو ادا کریں گے جس طرح ہم نے سنی ہے ﴿إِنَّا إِذًا ﴾” بے شک تب ہم“ یعنی اگر ہم گواہی کو چھپائیں ﴿لَّمِنَ الْآثِمِينَ ﴾ ” تو یقیناً گناہ گاروں میں سے ہوں گے۔ “ المآئدہ
107 ﴿فَإِنْ عُثِرَ عَلَىٰ أَنَّهُمَا ﴾” پھر اگر خبر ہوجائے کہ یہ دونوں“ یعنی دونوں گواہ ﴿اسْتَحَقَّا إِثْمًا ﴾” حق بات دبا گئے ہیں“ یعنی اگر ایسے قرائن پائے جائیں جو ان کے جھوٹ پر دلالت کرتے ہوں اور جن سے ظاہر ہوتا ہو کہ انہوں نے خیانت کی ہے تو جن لوگوں کا انہوں نے حق مارنا چاہا تھا ان میں سے ان کی جگہ دو اور گواہ کھڑے ہوں جو میت کے زیادہ قریبی ہوں۔ یعنی میت کے اولیاء میں سے دو آدمی کھڑے ہوں اور وہ دونوں میت کے سب سے زیادہ قریبی رشتہ دار ہوں۔﴿فَيُقْسِمَانِ بِاللَّـهِ لَشَهَادَتُنَا أَحَقُّ مِن شَهَادَتِهِمَا﴾ ” پس وہ دونوں قسم کھائیں اللہ کی، کہ ہماری گواہی زیادہ صحیح ہے پہلوں کی گواہی سے“ یعنی انہوں نے جھوٹ بولا ہے اور وہ وصیت میں تغیر و تبدل کر کے خیانت کے مرتکب ہوئے ہیں﴿وَمَا اعْتَدَيْنَا إِنَّا إِذًا لَّمِنَ الظَّالِمِينَ ﴾ ” اور ہم نے زیادتی نہیں کی، نہیں تو بے شک ہم ظالموں میں سے ہوں گے“ یعنی اگر ہم نے ظلم اور زیادتی کی اور ناحق گواہی دی۔ المآئدہ
108 پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس گواہی، اس کی تاکید اور دونوں گواہوں سے خیانت ظاہر ہونے پر گواہی کو میت کے اولیاء کی طرف لوٹانے کی حکمت بیان کی ہے۔ ﴿ذٰلِكَ أَدْنَىٰ ﴾ ” اس طریق سے بہت قریب ہے۔“ یعنی یہ اس بات کے زیادہ قریب ہے ﴿أَن يَأْتُوا بِالشَّهَادَةِ عَلَىٰ وَجْهِهَا ﴾” کہ وہ ادا کریں گواہی کو ٹھیک طریقے پر“ یعنی جب ان گواہوں کو مذکورہ تاکیدات کے ذریعے سے تاکید کی جائے گی ﴿أَوْ يَخَافُوا أَن تُرَدَّ أَيْمَانٌ بَعْدَ أَيْمَانِهِمْ ﴾ ” اس بات سے خوف کریں کہ ہماری قسمیں ان کی قسموں کے بعد رد کردی جائیں گی۔“ یعنی ان کو خوف ہوگا کہ ان کی قسمیں قبول نہیں کی جائیں گی اور ان قسموں کو میت کے اولیاء کی طرف لوٹا دیا جائے گا﴿ وَاللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ ﴾ ” اور اللہ فاسق لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا“ یعنی وہ لوگ جن کا وصف فسق ہے جو ہدایت چاہتے ہیں نہ راہ راست پر چلنے کا کوئی ارادہ رکھتے ہیں۔ ان آیات کریمہ کا حاصل یہ ہے کہ سفر وغیرہ میں جب میت کی موت کا وقت آجائے اور وہ ایسی جگہ پر ہو جہاں گمان یہ ہو کہ معتبر گواہ بہت کم ہوں گے، تو میت کے لئے مناسب یہ ہے کہ وہ دو مسلمان عادل گواہوں کے سامنے وصیت کرے اور اگر صرف دو کافر گواہ مہیا ہوسکیں تو ان کے پاس بھی وصیت کرنا جائز ہے۔ اگر ان گواہوں کے کفر کی وجہ سے میت کے اولیاء ان کے بارے میں شک کریں تو نماز کے بعد ان سے حلف لیں کہ انہوں نے خیانت کا ارتکاب کیا ہے نہ جھوٹ بوالا ہے اور نہ انہوں نے وصیت میں کوئی تغیر و تبدل کیا ہے۔ اس طرح وہ اس حق کی ذمہ داری سے بری ہوجائیں گے جو ان پر ڈال دی گئی تھی۔ اگر میت کے اولیاء میں سے دو گواہ کھڑے ہو کر قسم کھائیں کہ ان کی گواہی پہلے گواہوں کی گواہی سے صحیح ہے اور یہ کہ پہلے گواہ خیانت کے مرتکب ہوئے ہیں اور انہوں نے جھوٹ بولا ہے تو وہ ان پہلے گواہوں کے مقابلے میں اپنے دعوے پر مستحق قرار پائیں گے۔ یہ آیات کریمہ تیمم داری رضی اللہ عنہ اور عدوی بن بداء کے قصہ میں نازل ہوئی ہیں جو بہت مشہور ہے اور قصہ یوں ہے کہ عدوی نے ان دونوں حضرات کے پاس وصیت کی تھی۔ واللہ اعلم۔ [مفسر موصوف کو سہو ہوا ہے۔ صحیح بخاری، ترمذی، ابن کثیر اور دیگر مفسرین کے نزدیک عدوی کی جگہ سہمی وارد ہوا ہے یعنی بنو سہم کا ایک آدمی۔] [یہ قصہ اصل میں اس طرح ہے کہ حضرت تیمم داری (جو اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے) اور عدی بن بداء، یہ دونوں نصرانی تھے اور تجارت کے لئے شام گئے ہوئے تھے۔ ایک مسلمان بدیل بن ابی مریم بھی وہاں گئے ہوئے تھے، وہاں بدیل سخت بیمار ہوگئے حتیٰ کہ زندگی سے مایوس ہوگئے۔ انہوں نے ان دونوں کو وصیت کی اور اپنا سامان بھی ان کے سپرد کردیا کہ وہ اسے ان کے گھر پہنچا دیں۔ ان دونوں نے اس سامان میں سے چاندی کا ایک پیالہ نکال کر بیچ دیا اور اس کی رقم آپس میں بانٹ لی۔ بعد میں ورثاء کو اس کا علم ہوا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے حلف لیا۔ (صحیح بخاری، الوصایا، حدیث :2780۔ ترمذی، التفسیر، حدیث: 3059) (ص۔ ی) ] ان آیات کریمہ سے متعدد احکام پر استدلال کیا جاتا ہے۔ (١) وصیت کرنا مشروع ہے جس کی موت کا وقت قریب آجائے تو اسے چاہئے کہ وصیت کرے۔ (٢) جب موت کے مقدمات و آثار نمودار ہوجائیں تو مرنے والے کی وصیت اس وقت تک معتبر ہے جب تک اس کے ہوش و حواس قائم ہیں۔ (٣) وصیت میں دو عادل گواہوں کی گواہی ضروری ہے۔ (٤) وصیت اور اس قسم کے دیگر مواقع پر، بوقت ضرورت کفار کی گواہی مقبول ہے۔ یہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا مذہب ہے۔ بہت سے اہل علم دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ حکم منسوخ ہے۔ مگر نسخ کے اس دعویٰ پر کوئی دلیل نہیں۔ (٥) اس حکم کے اشارہ اور اس کے معنی سے مستفاد ہوتا ہے کہ مسلمان گواہوں کی عدم موجودگی میں وصیت کے علاوہ دیگر مسائل میں بھی کفار کی گواہی قابل قبول ہے۔ جیسا کہ یہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا مذہب ہے۔ (٦) اس آیت کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر خوف کی بات نہ ہو تو کفار کی معیت میں سفر جائز ہے۔ (٧) تجارت کے لئے سفر کرنا جائز ہے۔ (٨) اگر دونوں گواہوں کی گواہی کے بارے میں شک ہو مگر ایسا کوئی قرینہ موجود نہ ہو جو ان کی خیانت پر دلالت کرتا ہو اور وصیت کرنے والے کے اولیاء ان گواہوں سے قسم لینا چاہتے ہوں تو وہ انہیں نماز کے بعد روک لیں اور ان سے اس طریقے سے قسم لیں جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے کیا ہے۔ (٩) اگر ان دونوں کی گواہی میں کوئی شک اور تہمت نہ ہو تو ان کو روکنے اور ان سے قسم لینے کی کوئی ضرورت نہیں۔ (١٠) یہ آیت کریمہ شہادت کے معاملے کی تعظیم پر دلالت کرتی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے شہادت کو اپنی طرف مضاف کیا ہے، نیز یہ کہ اس کو درخوراعتنا سمجھنا اور انصاف کے مطابق اس کو قائم کرنا واجب ہے۔ (١١) گواہوں کے بارے میں اگر شک ہو تو گواہوں کا امتحان اور ان کو علیحدہ علیحدہ کر کے گواہی لینا جائز ہے، تاکہ سچ اور جھوٹ کے اعتبار سے گواہی کی قدر و قیمت کا اندازہ لگایا جا سکے۔ (١٢) جب ایسے قرائن پائے جائیں جو اس مسئلے میں دونوں وصیوں (گواہوں) کے جھوٹ پر دلالت کرتے ہوں تو میت کے اولیاء میں سے دو آدمی کھڑے ہوں اور اللہ کی قسم کھائیں کہ ہماری قسم ان کی قسم سے زیادہ سچی ہے۔ انہوں نے خیانت کی ہے اور جھوٹ کہا ہے پھر جس چیز کا وہ دعویٰ کرتے ہیں ان کے حوالے کردی جائے گی۔ ان کی قسموں کے ساتھ، قرینہ، ثبوت کے قائم مقام ہے۔ المآئدہ
109 اللہ تبارک و تعالیٰ قیامت کے دن اور اس کی ہولناکیوں کے بارے میں خبر دیتا ہے نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ تمام رسولوں کو جمع کر کے ان سے پوچھے گا ﴿مَاذَا أُجِبْتُمْ ﴾” تمہیں کیا جواب ملا تھا؟“ یعنی اس بارے میں تمہاری امتوں نے کیا جواب دیا؟ ﴿قَالُوا لَا عِلْمَ لَنَا ﴾” وہ جواب دیں گے کہ ہمیں کوئی علم نہیں۔“ تجھے ہی علم ہے۔ اے ہمارے رب ! تو ہم سے زیادہ جانتا ہے﴿إِنَّكَ أَنتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ ﴾ ” تو ہی غیب کی باتوں سے واقف ہے۔“ یعنی تو حاضر و غائب تمام امور کو جانتا ہے۔ ﴿إِذْ قَالَ اللّٰهُ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ اذْكُرْ نِعْمَتِي عَلَيْكَ وَعَلَىٰ وَالِدَتِكَ ﴾ ” جب کہا اللہ نے، اے عیسیٰ ابن مریم ! یاد کر میری نعمت جو تجھ پر اور تیری ماں پر ہوئی“ یعنی اپنے دل اور زبان سے یاد کیجیے اور اس کے واجبات کو ادا کر کے اپنے رب کا شکر کیجیے۔ کیونکہ اس نے آپ کو اتنی نعمتیں عطا کی ہیں جو کسی دوسرے کو عطا نہیں کیں۔ ﴿إِذْ أَيَّدتُّكَ بِرُوحِ الْقُدُسِ ﴾ ” جب میں نے روح القدس سے تیری مدد کی۔“ یعنی جب ہم نے تجھ کو روح اور وحی کے ذریعے سے تقویت دی، جس نے تجھ کو پاک کیا اور تجھ کو اللہ تعالیٰ کے احکام کی تعمیل اور اس کی طرف دعوت دینے کی قوت حاصل ہوئی اور بعض نے کہا کہ روح القدس سے مراد جبریل ہیں۔ بڑے بڑے سخت مقامات پر اللہ تعالیٰ نے جبریل کی ملازمت (ساتھ رہنے) اور ان کے ذریعے سے ثبات عطا کر کے جناب عیسیٰ علیہ السلام کی مدد فرمائی۔ المآئدہ
110 ﴿تُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ وَكَهْلًا ﴾ ” تو کلام کرتا تھا لوگوں سے گود میں اور بڑی عمر میں“ یہاں کلام کرنے سے مراد مجرد کلام کرنا نہیں ہے بلکہ اس سے مراد وہ کلام ہے جس سے متکلم اور مخاطب دونوں مستفید ہوں اور وہ ہے اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینا۔ جناب عیسیٰ کو اس عمر میں رسالت، بھلائیوں کی طرف دعوت اور برائیوں سے روکنے کی ذمہ داری عطا کردی گئی اور دیگر اولوالعزم انبیاء و مرسلین کو بڑی عمر میں یہ ذمہ داری عطا کی گئی تھی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام تمام انبیائے کرام میں اس بنا پر ممتاز ہیں کہ انہوں نے پنگوڑے میں کلام فرمایا ﴿ إِنِّي عَبْدُ اللَّـهِ آتَانِيَ الْكِتَابَ وَجَعَلَنِي نَبِيًّا وَجَعَلَنِي مُبَارَكًا أَيْنَ مَا كُنتُ وَأَوْصَانِي بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ مَا دُمْتُ حَيًّا ﴾ (مریم :19؍ 30۔31) ” میں اللہ کا بندہ ہوں، اس نے مجھے کتاب عطا کی اور مجھے نبی بنایا اور میں جہاں کہیں بھی ہوں مجھے بابرکت بنایا۔ جب تک میں زندہ رہوں مجھے نماز اور زکوٰۃ کی وصیت فرمائی۔ “ ﴿وَإِذْ عَلَّمْتُكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ ﴾ ” اور جب سکھلائی میں نے تجھ کو کتاب اور حکمت“ یہ کتاب تمام کتب سابقہ خصوصاً تو رات کو شامل ہے۔ کیونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جناب موسیٰ علیہ السلام کے بعد تورات کے سب سے بڑے عالم تھ۔۔۔ اور انجیل کو بھی شامل ہے جو ان پر نازل کی گئی۔۔۔ حکمت سے اسرار شریعت، اس کے فوائد اور اس کی حکمتوں کی معرفت، دعوت و تعلیم کی خوبی اور تمام امور کا ان کی اہمیت اور مناسبت کے مطابق خیال رکھنا مراد ہے۔ ﴿وَإِذْ تَخْلُقُ مِنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ ﴾” اور جب تو بناتا تھا گارے سے جانور کی سی صورت“ یعنی پرندوں کی تصویر جس میں روح نہیں ہوتی ﴿فَتَنفُخُ فِيهَا فَتَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِي ۖ وَتُبْرِئُ الْأَكْمَهَ ﴾ ” پھر تو اس میں پھونک مارتا تو وہ میرے حکم سے اڑنے والا ہوجاتا اور اچھا کرتا تھا تو مادر زاد اندھے کو“ (الْأَكْمَهَ ) اس شخص کو کہتے ہیں جس کی بینائی ہو نہ آنکھ ﴿وَالْأَبْرَصَ بِإِذْنِي ۖ وَإِذْ تُخْرِجُ الْمَوْتَىٰ بِإِذْنِي﴾” اور کوڑھی کو، میرے حکم سے اور جب نکال کھڑا کرتا تھا تو مردوں کو میرے حکم سے“ یہ واضح نشانیاں اور نمایاں معجزات ہیں جن سے بڑے بڑے اطباء وغیرہ بھی عاجز ہیں۔ ان معجزات کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کی مدد فرمائی اور اس کے ذریعے سے ان کی دعوت کو تقویت بخشی۔ ﴿وَإِذْ كَفَفْتُ بَنِي إِسْرَائِيلَ عَنكَ إِذْ جِئْتَهُم بِالْبَيِّنَاتِ فَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ﴾” اور جب روکا میں نے بنی اسرائیل کو تجھ سے جب تو لے کر آیا ان کے پاس نشانیاں تو کہا ان لوگوں نے جو ان میں سے کافر تھے“ یعنی جب ان کے پاس حق آگیا جس کی ایسے دلائل کے ساتھ تائید کی گئی تھی جن پر ایمان لانا واجب ہے تو انہوں نے کہا : ﴿إِنْ هَـٰذَا إِلَّا سِحْرٌ مُّبِينٌ﴾ ” یہ تو کھلا جادو ہے“ اور انہوں نے جناب عیسیٰ کو قتل کرنے کا ارادہ کیا اور اپنے اس ارادے کو عملی جامہ پہنانے کی پوری کوشش کی مگر اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھ روک دیئے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ان سے حفاظت کی اور ان کو ان کے شر سے بچا لیا۔ پس یہ ہیں اللہ تعالیٰ کے احسانات جن سے اس نے اپنے بندے اور رسول عیسیٰ ابن مریم کو نوازا اور ان کو ان احسانات پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے اور ان کو قائم کرنے کا حکم دیا۔۔۔ حضرت عیسیٰ نے ان احسانات کے تقاضوں کو پوری طرح ادا کیا اور اس راہ کی سختیوں پر اس طرح صبر کیا جس طرح دیگر اولوالعزم انبیاء و رسل نے صبر کیا تھا۔ المآئدہ
111 یعنی میری اس نعمت کو یاد رکھیے جس سے میں نے تجھ کو نوازا اور تجھ کو انصار و اعوان اور متبعین مہیا کیے۔ پس میں نے حواریوں کی طرف وحی کی، یعنی ان کو الہام کیا اور میں نے ان کے دلوں میں القا کیا کہ وہ مجھ پر اور میرے رسول پر ایمان لائیں یا تیری زبان پر میں نے ان کی طرف وحی کی یعنی میں نے ان کو اس وحی کے ذریعے سے حکم دیا جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تیرے پاس آئی۔ انہوں نے اس وحی پر لبیک کہا، اس کی اطاعت کی اور کہا ” ہم ایمان لائے، گواہ رہئے کہ ہم مسلمان ہیں“ پس انہوں نے ظاہری اسلام، اعمال صالحہ اور باطنی ایمان کو جو مومن کو نفاق اور ضعف ایمان کے دائرے سے خارج کرتا ہے، جمع کیا۔ حواریوں سے مراد انصار ہیں جیسا کہ جناب مسیح نے حواریوں سے فرمایا تھا : ﴿ مَنْ أَنصَارِي إِلَى اللَّـهِ ۖ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ نَحْنُ أَنصَارُ اللَّـهِ ﴾ (آل عمران :3؍52) ” اللہ کی راہ میں میرا مددگار کون ہے“ حواریوں نے عرض کیا ” ہم اللہ کے مددگار ہیں۔ “ المآئدہ
112 ﴿إِذْ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ هَلْ يَسْتَطِيعُ رَبُّكَ أَن يُنَزِّلَ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِّنَ السَّمَاءِ﴾” جب حواریوں نے کہا، اے عیسیٰ ابن مریم ! کیا تیرا رب طاقت رکھتا ہے کہ وہ ہم پر آسمان سے بھرا ہوا خوان اتارے؟“ یعنی ایسا دستر خوان جس پر کھانا لگا ہوا ہے۔۔۔ یہ مطالبہ اس بنا پر نہیں تھا کہ انہیں اللہ تعالیٰ کی قدرت اور طاقت میں کوئی شک تھا، بلکہ یہ درخواست تھی جو عرض اور ادب کے پیرائے میں تھی۔ چونکہ من مانے معجزات کا مطالبہ اطاعت حق کے منافی ہوتا ہے اور یہ کلام حواریوں سے صادر ہوا تھا اور یہ چیز ان کو وہم میں ڈال سکتی تھی اس لئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ان کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ اتَّقُوا اللَّـهَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ﴾ ” اللہ سے ڈرو، اگر تم مومن ہو‘‘ کیونکہ مومن کا سرمایہ ایمان اسے تقویٰ کے التزام اور اللہ تعالیٰ کے حکم کی اطاعت پر آمادہ کرتا رہتا ہے اور وہ بغیر جانے بوجھے معجزات کا مطالبہ نہیں کرتا کیونکہ اسے معلوم نہیں ہوتا کہ اس کے بعد کیا ہوگا۔ حواریوں نے عرض کیا کہ ان کا مطالبہ اس معنی میں نہیں ہے بلکہ وہ تو نیک مقاصد رکھتے ہیں، ان کا یہ مطالبہ ضرورت کے تحت ہے المآئدہ
113 ﴿قَالُوا نُرِيدُ أَن نَّأْكُلَ مِنْهَا ﴾ ” ہم اس سے کھانا چاتے ہیں“ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اس کھانے کے محتاج تھے ﴿وَتَطْمَئِنَّ قُلُوبُنَا﴾” اور ہمارے دل مطمئن ہوجائیں“ جب ہم عیاں طور پر معجزات کا مشاہدہ کریں گے تو دل ایمان پر مطمئن ہوں گے حتیٰ کہ ایمان عین الیقین کے درجہ پر پہنچ جائے گا، جیسا کہ جناب خلیل نے اپنے رب سے عرض کیا کہ وہ انہیں اس امر کا مشاہدہ کروائے کہ وہ مردوں کو کیسے زندہ کرتا ہے ﴿قَالَ أَوَلَمْ تُؤْمِن ۖ قَالَ بَلَىٰ وَلَـٰكِن لِّيَطْمَئِنَّ قَلْبِي ۖ﴾ (البقرۃ:2؍ 260) ” فرمایا : کیا تو ایمان نہیں رکھتا؟ عرض کیا کیوں نہیں۔ یہ عرض تو محض اس لئے ہے کہ میرا دل مطمئن ہوجائے۔“ پس بندہ ہمیشہ اپنے علم، ایمان اور یقین میں اضافے کا محتاج اور متمنی رہتا ہے ﴿وَنَعْلَمَ أَن قَدْ صَدَقْتَنَا ﴾ ” اور ہم جان لیں کہ آپ نے ہم سے سچ کہا ہے۔“ یعنی جو چیز آپ لے کر مبعوث ہوئے ہیں ہم اس کی صداقت کو جان لیں کہ یہ حق اور سچ ہے ﴿وَنَكُونَ عَلَيْهَا مِنَ الشَّاهِدِينَ﴾ ” اور ہم اس پر گواہوں میں سے ہوجائیں“ اور یہ چیز ہمارے بعد آنے والوں کے لئے مصلحت کی حامل ہوگی۔ ہم آپ کے حق میں گواہی دیں گے، تب حجت قائم ہوجائے گی اور دلیل و برہان کی قوت میں اضافہ ہوگا۔ المآئدہ
114 جب عیسیٰ علیہ السلام نے ان کی یہ بات سنی اور ان کا مقصود انہیں معلوم ہوگیا تو انہوں نے ان کی درخواست قبول فرما کر اللہ تعالیٰ سے دعا کی ﴿اللّٰهُمَّ رَبَّنَا أَنزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِّنَ السَّمَاءِ تَكُونُ لَنَا عِيدًا لِّأَوَّلِنَا وَآخِرِنَا وَآيَةً مِّنكَ﴾ ” اے اللہ ! ہم پر آسمان سے بھرا ہوا خوان اتار، یہ ہمارے پہلے اور پچھلے لوگوں کے لئے خوشی کا باعث اور تیری طرف سے نشانی ہو“ یعنی اس کھانے کے نازل ہونے کا وقت ہمارے لئے عید اور یادگار بن جائے تاکہ اس عظیم معجزے کو یاد رکھا جائے اور مرور ایام کے ساتھ اس کی حفاظت کی جائے اور ہم اس کو بھول نہ جائیں۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی عیدیں اور عبادت کے دن مقرر فرمائے ہیں جو اس کی آیات کی یاد دلاتے ہیں اور انبیاء و مرسلین کی سنن اور ان کی سیدھی راہ اور ان پر اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان کی طرف توجہ مبذول کراتے ہیں۔﴿وَارْزُقْنَا وَأَنتَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ﴾ ” اور ہمیں روزی دے اور تو وہی سب سے بہتر روزی دینے والا ہے“ یعنی اسے ہمارے لئے رزق بنا۔ پس حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ان دو مصلحتوں کی بنا پر اللہ تعالیٰ سے دستر خوان کے اترنے کی دعا کی تھی۔ دینی مصلحت، یعنی یہ نشانی کے طور پر باقی رہے اور دنیاوی مصلحت، یعنی یہ رزق ہو۔ المآئدہ
115 اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿إِنِّي مُنَزِّلُهَا عَلَيْكُمْ ۖ فَمَن يَكْفُرْ بَعْدُ مِنكُمْ فَإِنِّي أُعَذِّبُهُ عَذَابًا لَّا أُعَذِّبُهُ أَحَدًا مِّنَ الْعَالَمِينَ﴾ ” بے شک میں اسے تم پر اتاروں گا، پس اس کے بعد تم میں سے جو کفر کرے گا تو میں اسے ایسا عذاب دوں گا جو جہانوں میں سے کسی کو نہیں دوں گا“ کیونکہ اس نے واضح معجزے کا مشاہدہ کر کے ظلم اور عناد کی بنا پر اس کا انکار کردیا اور یوں وہ درد ناک عذاب اور سخت سزا کا مستحق ٹھہرا۔ آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا کہ وہ دستر خوان نازل کرے گا اور اس کے ساتھ ان کو ان کے کفر کی صورت میں مذکورہ بالا وعید بھی سنائی مگر اللہ تعالیٰ نے اس کے نازل کرنے کا ذکر نہیں فرمایا۔ احتمال یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس وجہ سے اسے نازل نہیں فرمایا ہوگا کہ انہوں نے اس کو اختیار نہیں کیا۔ اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ اس کا ذکر انجیل کے اس نسخے میں نہیں ہے جو اس وقت عیسائیوں کے پاس ہے۔ اس میں اس امر کا بھی احتمال ہے کہ دستر خوان نازل ہوا ہوجیسا کہ اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا اور اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا اور انجیل میں اس کا ذکر نہ ہونے کا سبب یہ ہے کہ وہ اسے بھلا بیٹھے ہوں گے جس کو یاد رکھنے کے لئے ان کو کہا گیا تھا اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ واقعہ سرے سے انجیل میں موجود ہی نہ ہو بلکہ نسل در نسل زبانی منتقل ہوا ہو اور اللہ تعالیٰ نے انجیل میں اس کا ذکر کئے بغیر اس کو بیان کرنے پر اکتفا کیا ہو اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿وَنَكُونَ عَلَيْهَا مِنَ الشَّاهِدِينَ﴾ ” اور ہم اس پر گواہ ہیں۔“ بھی اس معنی پر دلالت کرتا ہے۔ حقیقت حال کو اللہ تعالیٰ زیادہ جانتا ہے۔ المآئدہ
116 ﴿وَإِذْ قَالَ اللّٰهُ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ أَأَنتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَـٰهَيْنِ مِن دُونِ اللَّـهِ﴾ ” اور جب اللہ کہے گا، اے عیسیٰ ابن مریم ! کیا تو نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو دو معبود بنا لینا، اللہ کے سوا“۔ یہ نصاریٰ کے لئے زجر و توبیخ ہے جو کہتے ہیں کہ اللہ تین میں سے ایک ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا یہ خطاب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لئے ہے۔ جناب عیسیٰ اس سے برأت کا اظہار کرتے ہوئے فرمائیں گے ﴿سُبْحَانَكَ ﴾ ” پاک ہے تو‘‘ یعنی میں اس قبیح کلام اور جو اللہ تعالیٰ کی شان کے لائق نہ ہو، اس سے اللہ کی پاکی اور تنزیہہ بیان کرتا ہوں ﴿مَا يَكُونُ لِي أَنْ أَقُولَ مَا لَيْسَ لِي بِحَقٍّ﴾ ” مجھے کب شایاں تھا کہ میں ایسی بات کہتا جس کا مجھے کچھ حق نہیں۔“ یعنی میرے لئے مناسب نہیں ہے اور نہ میری شان کے لائق ہے کہ میں ایسی کوئی بات کہوں جو میرے اوصاف میں شامل ہے نہ میرے حقوق میں، کیونکہ مخلوق میں سے کسی کو بھی یہ حق نہیں۔ اللہ کے مقرب فرشتوں، انبیاء و مرسلین اور دیگر مخلوق میں سے کوئی بھی مقام الوہیت کا حق اور استحقاق نہیں رکھتا۔ یہ تمام ہستیاں اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں اور اس کی تدبیر کے تحت ہیں، اللہ تعالیٰ کی مسخر کی ہوئی عاجز اور محتاج مخلوق ہیں۔ ﴿إِن كُنتُ قُلْتُهُ فَقَدْ عَلِمْتَهُ ۚ تَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِي وَلَا أَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِكَ ۚ﴾ ” اگر میں نے یہ کہا ہوگا تو تجھ کو ضرور معلوم ہوگا، تو جانتا ہے جو میرے جی میں ہے اور میں نہیں جانتا جو تیرے جی میں ہے۔“ یعنی جو کچھ مجھ سے صادر ہوچکا ہے تو اسے زیادہ جانتا ہے ﴿إِنَّكَ أَنتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ﴾ ” بے شک تو علام الغیوب ہے۔“ یہ عیسیٰ کی طرف سے اپنے رب سے مخاطب ہوتے وقت کمال ادب کا مظاہرہ ہے۔ چنانچہ آپ نے یہ نہیں کہا (لم اقل شیاء من ذلک) ” میں نے تو اس میں سے کچھ بھی نہیں کہا“ بلکہ آپ نے ایک ایسی بات کی خبر دی ہے جو آپ کی طرف سے ہر ایسی بات کہی جانے کی نفی کرتی ہے جو آپ کے منصب شریف کے منافی ہو نیز یہ کہ ایسا کہنا امر محال ہے۔ آپ نے اپنے رب کی تنزیہہ بیان فرمائی اور علم کو غائب اور موجود کے جاننے والے اللہ کی طرف لوٹا دیا۔ المآئدہ
117 پھر مسیح علیہ السلام نے تصریح فرمائی کہ انہوں نے بنی اسرائیل کے سامنے صرف وہی چیز بیان کی تھی کہ جس کا اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم دیا تھا ﴿مَا قُلْتُ لَهُمْ إِلَّا مَا أَمَرْتَنِي بِهِ﴾” میں نے ان سے کچھ نہیں کہا بجز اس کے جس کا تو نے مجھے حکم دیا۔“ پس میں تو تیرا تابع بندہ ہوں مجھے تیری عظمت کے سامنے دم مارنے کی جرأت نہیں ﴿أَنِ اعْبُدُوا اللَّـهَ رَبِّي وَرَبَّكُمْ﴾ ” یہ کہ تم اللہ کی عبادت کرو جو میرا اور تمہارا رب ہے۔“ میں نے تو صرف الہ واحد کی عبادت اور اخلاص دین کا حکم دیا تھا جو کہ اس بات کا متضمن ہے کہ مجھے اور میری والدہ کو معبود بنانے سے باز رہیں اور اس بیان کا متضمن ہے کہ میں تو اپنے رب کی ربوبیت کا محتاج ہوں۔ وہ جیسے تمہارا رب ہے ویسے ہی میرا بھی رب ہے۔ ﴿ وَكُنتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَّا دُمْتُ فِيهِمْ﴾ ” اور میں ان پر گواہ رہا جب تک میں ان میں موجود رہا“ یعنی میں گواہی دیتا ہوں کہ کون اس بات پر قائم رہا اور کون اس پر قائم نہ رہ سکا﴿فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنتَ أَنتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ﴾” پس جب تو نے مجھ کو (آسمان پر) اٹھا لیا تو تو ہی ان کی خبر رکھنے والا تھا۔“ یعنی ان کے بھیدوں اور ضمائر کو جاننے والا ﴿وَأَنتَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ﴾” اور تو ہر چیز سے خبردار ہے“ یعنی تو چونکہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے، تو سننے والا، ہر چیز کو دیکھنے والا ہے اس لئے تو ہر چیز پر شاہد ہے۔ تیرا علم تمام معلومات کا احاطہ کئے ہوئے ہے تیری سماعت مسموعات کو سن رہی ہے اور تیری بصر تمام مرئیات کو دیکھ رہی ہے۔ پس تو ہی اپنے بندوں کو اپنے علم کے مطابق خیر و شر کی جزا دے گا۔ المآئدہ
118 ﴿إِن تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ﴾ ” اگر تو ان کو عذاب دے، تو وہ تیرے بندے ہیں“ یعنی تو اس سے بھی زیادہ رحم کرنے والا ہے جس قدر وہ اپنے آپ پر رحم کرسکتے ہیں۔ تو ان کے احوال زیادہ جانتا ہے اگر وہ متکبر اور سرکش بندے نہ ہوتے تو تو انہیں کبھی عذاب نہ دیتا ﴿وَإِن تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ﴾ ” اور اگر تو ان کو بخش دے تو تو غالب حکمت والا ہے۔“ تیری مغفرت تیری کامل قدرت اور غلبہ سے صادر ہوتی ہے۔ تیری مغفرت اور تیرا معاف کردینا اس شخص کی مانند نہیں جو عاجزی اور عدم قدرت کی بنا پر معاف کردیتا ہے، تو حکمت والا ہے جہاں کہیں تیری حکمت تقاضا کرتی ہے تو اس شخص کو بخش دیتا ہے جو تیری مغفرت کے اسباب لے کر تیری خدمت میں آتا ہے۔ المآئدہ
119 ﴿قَالَ اللّٰهُ﴾ قیامت کے روز بندوں کو جو حال ہوگا اللہ تعالیٰ اسے بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ قیامت کے روز کون کامیابی سے بہرہ ور ہوگا اور کون ہلاک ہوگا، کسے سعادت نصیب ہوگی اور کس کے حصے میں بدبختی آئے گی ﴿هَـٰذَا يَوْمُ يَنفَعُ الصَّادِقِينَ صِدْقُهُمْ﴾ ” یہ دن ہے کہ کام آئے گا سچوں کے ان کا سچ‘‘ اصحاب صدق سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے اعمال، اقوال اور نیات درست، صراط مستقیم پر قائم اور صحیح نہج پر ہیں۔ قیامت کے روز وہ اپنے صدق کا پھل پائیں گے جب اللہ تبارک و تعالیٰ انہیں پاک مقام میں ہر طرح کی کامل قدرت رکھنے والے بادشاہ کے پاس ٹھہرائے گا۔ بنا بریں فرمایا : ﴿لَهُمْ جَنَّاتٌ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۚ رَّضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ ۚ ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ ﴾” ان کے لئے باغات ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے، اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی ہوئے، یہ ہے کامیابی بڑی“ جھوٹوں کے ساتھ اس کے برعکس معاملہ ہوگا۔ ان کو ان کے جھوٹ اور بہتان سے ضرر پہنچے گا اور وہ اپنے فاسد اعمال کا پھل چکھیں گے۔ المآئدہ
120 ﴿لِلَّـهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا فِيهِنَّ ۚ﴾” اللہ ہی کے لئے ہے بادشاہی آسمانوں اور زمین کی اور جو کچھ ان کے بیچ میں ہے“ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے زمین اور آسمان کو پیدا کیا ہے اور وہی اپنے حکم کو فی و قدری، حکم شرعی اور حکم جزائی کے ذریعے سے ان کی تدبیر کر رہا ہے اس لئے فرمایا : ﴿وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ﴾” اور وہ ہر چیز پر قادر ہے“ پس کوئی چیز اسے عاجز نہیں کرسکتی بلکہ تمام اشیا اس کی مشیت کی مطیع اور اس کے حکم کے سامنے مسخر ہیں۔ المآئدہ
0 الانعام
1 یہ صفات کمال اور نعوت عظمت و جلال کے ساتھ اللہ تبارک و تعالیٰ کی عمومی حمد و ثنا اور ان صفات کے ذریعے سے اس کی خصوصی حمد و ثناء ہے، چنانچہ اس نے اس امر پر اپنی حمد و ثناء بیان کی ہے کہ اس نے آسمانوں اور زمین کو تخلیق فرمایا۔ جو اس کی قدرت کاملہ، وسیع علم و رحمت، حکمت عامہ اور خلق و تدبیر میں اس کی انفرادیت پر دلالت کرتی ہے نیز اس چیز پر دلالت کرتی ہے کہ اس نے تاریکیوں اور روشنی کو پیدا کیا اور اس میں حسی اندھیرے اور اجالے بھی شامل ہیں جیسے رات، دن، سورج اور چاند وغیرہ اور معنوی اندھیرے اجالے بھی، مثلاً جہالت، شک، شرک، معصیت اور غفلت کے اندھیرے اور علم، ایمان، یقین اور اطاعت کے اجالے۔ یہ تمام امور قطعی طور پر دلالت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی عبادت اور اخلاص کا مستحق ہے مگر اس روشن دلیل اور واضح برہان کے باوجود﴿ثُمَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُونَ﴾ ” پھر وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا، اپنے رب کے ساتھ اوروں کو برابر کئے دیتے ہیں“ غیروں کو اللہ کے برابر قرار دیتے ہیں۔ وہ انہیں عبادت اور تعظیم میں اللہ تعالیٰ کے مساوی قرار دیتے ہیں اگرچہ وہ کمالات میں ان کو اللہ تعالیٰ کا ہمسر نہیں سمجھتے اور وہ تسلیم کرتے ہیں کہ یہ ہستیاں ہر لحاظ سے محتاج، فقیر اور ناقص ہیں۔ الانعام
2 ﴿هُوَ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن طِينٍ ﴾ ” وہی ہے جس نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا“ یعنی تمہارا اور تمہارے باپ کا مادہ مٹی سے تخلیق کیا گیا ہے ﴿ثُمَّ قَضَىٰ أَجَلًا﴾ ” پھر ایک مدت مقرر کردی“ یعنی اس دنیا میں رہنے کے لئے تمہارے لئے ایک مدت مقرر کردی اس مدت میں تم اس دنیا سے فائدہ اٹھاتے ہو اور رسول بھیج کر تمہارا امتحان لیا جاتا ہے اور تمہاری آزمائش کی جاتی ہے۔ جیسا کہ فرمایا : ﴿لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا﴾(الملک :67؍2) ” تاکہ وہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون اچھے عمل کرتا ہے۔“ ﴿وَأَجَلٌ مُّسَمًّى عِندَهُ ۖ﴾ ” اور ایک مدت مقرر ہے اللہ کے نزدیک“ اس مدت مقررہ سے مراد آخرت ہے، بندے اس دنیا سے آخرت میں منتقل ہوں گے پھر اللہ تعالیٰ ان کو ان کے اچھے برے اعمال کی جزا دے گا﴿ثُمَّ﴾ پھر اس کامل بیان اور دلیل قاطع کے باوجود ﴿أَنتُمْ تَمْتَرُونَ﴾ ” تم شک کرتے ہو‘‘ یعنی تم اللہ تعالیٰ کے وعدو وعید اور قیامت کے دن جزا و سزا کے وقوع کا انکار کرتے ہو۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اندھیروں ﴿الظُّلُمَاتِ﴾ کو ان کے کثرت مواد اور ان کے تنوع کی بنا پر جمع کے صیغے میں بیان فرمایا ہے اور اجالے ﴿وَالنُّورَ﴾ کو احد استعمال کیا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ تک پہنچانے والا راستہ ایک ہی ہوتا ہے، اس میں تعدد نہیں ہوتا اور یہ وہ راستہ ہے جو حق، علم اور اس پر عمل کو متضمن ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿وَأَنَّ هَـٰذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ ۖ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَن سَبِيلِهِ﴾ (الانعام :6؍153) ” اور یہ کہ میرا سیدھا راستہ یہی ہے اور تم اسی پر چلو اور دوسرے راستوں پر نہ چلو ورنہ تم اللہ کے راستے سے الگ ہوجاؤ گے۔ “ الانعام
3 یعنی آسمانوں میں اور زمین میں وہی معبود ہے۔ آسمان اور زمین کے رہنے والے اپنے رب کی عبادت کرتے ہیں، تمام مقرب فرشتے، انبیاء و مرسلین، صدیقین، شہداء اور صالحین سب اس کی عظمت کے سامنے جھکے ہوئے اور اس کے غلبہ و جلال کے سامنے سرتسلیم خم کئے ہوتے ہیں اور وہ اللہ تعالیٰ تمہارے ظاہر و باطن کو جانتا ہے اور تمہارے اعمال بھی جانتا ہے اس لئے تم اس کی نافرمانی سے بچو اور ایسے اعمال میں رغبت کرو جو تمہیں اس کے قریب کردیں اور اس کی رحمت کا مستحق بنا دیں اور ہر ایسے عمل سے بچو جو تمہیں اس سے اور اس کی رحمت سے دور کر دے۔ الانعام
4 یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مشرکین کے اعراض، ان کی شدت تکذیب اور ان کی عداوت کے بارے میں خبر ہے، نیز یہ کہ آیات و معجزات انہیں کوئی فائدہ نہیں دیں گے جب تک کہ ان پر عبرتناک عذاب نازل نہ ہوجائے۔ چنانچہ فرمایا : ﴿وَمَا تَأْتِيهِم مِّنْ آيَةٍ مِّنْ آيَاتِ رَبِّهِمْ﴾ ” اور نہیں آتی ان کے پاس کوئی نشانی ان کے رب کی نشانیوں میں سے“ جو حق پر دلیل قطعی ہیں جو حق کے قبول کرنے اور اس کی اتباع کرنے کی دعوت دیتی ہیں۔ ﴿إِلَّا كَانُوا عَنْهَا مُعْرِضِينَ ﴾ ” مگر وہ اس سے اعراض کرتے ہیں۔“ یعنی وہ ان آیات کو غور سے سنتے نہیں اور ان میں تدبر نہیں کرتے۔ ان کے دل دوسرے امور میں مصروف ہیں اور انہوں نے پیٹھ پھیر لی ہے۔ الانعام
5 ﴿فَقَدْ كَذَّبُوا بِالْحَقِّ لَمَّا جَاءَهُمْ﴾” انہوں نے حق کو جھٹلایا جب ان کے پاس آیا“ حالانکہ حق اس بات کا مستحق ہے کہ اس کی پیروی کی جائے اور اس بات پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا جائے کہ اس نے ان کے لئے حق کو آسان کردیا اور وہ ان کے پاس حق لے کر آیا، مگر انہوں نے اس حق کا سامنا اس رویہ کے برعکس رویئے کے ساتھ کیا جس رویئے کے ساتھ انہیں اس کا سامنا کرنا چاہئے تھا۔ اس لئے وہ سخت عذاب کے مستحق ٹھہرے۔ ﴿فَسَوْفَ يَأْتِيهِمْ أَنبَاءُ مَا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ﴾ ” سو اب آیا چاہتی ہے ان کے پاس حقیقت اس بات کی جس پر وہ ہنستے تھے۔“ یعنی وہ چیز جس کا تمسخر اڑایا کرتے تھے اس کے بارے میں عنقریب انہیں معلوم ہوجائے گا کہ وہ حق اور سچ ہے، اللہ تعالیٰ جھٹلانے والوں کے جھوٹ اور بہتان کو کھول دے گا۔ یہ لوگ دوبارہ اٹھائے جانے، جنت اور جہنم کا مذاق اڑایا کرتے تھے۔ قیامت کے روز ان جھٹلانے والوں سے کہا جائے گا۔ ﴿ هَـٰذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنتُم بِهَا تُكَذِّبُونَ﴾(الطور:52؍14) ’’یہ ہے وہ آگ جسےتم جھٹلایاکرتےتھے۔‘‘ ﴿ وَأَقْسَمُوا بِاللَّـهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ ۙ لَا يَبْعَثُ اللّٰهُ مَن يَمُوتُ ۚ بَلَىٰ وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ لِيُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي يَخْتَلِفُونَ فِيهِ وَلِيَعْلَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّهُمْ كَانُوا كَاذِبِينَ﴾(النحل:16؍38۔39) ” اور اللہ کی سخت قسمیں کھا کر کہتے ہیں کہ جو مر جاتا ہے اللہ اسے دوبارہ زندہ کر کے نہیں اٹھائے گا۔ کیوں نہیں یہ اللہ کا سچا وعدہ ہے مگر اکثر لوگ نہیں جانتے۔ تاکہ جن باتوں میں یہ لوگ اختلاف کرتے تھے ان پر ظاہر کر دے اور اس لئے بھی کہ کافروں کو معلوم ہوجائے کہ وہ جھوٹے تھے۔ “ الانعام
6 پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کو حکم دیا کہ وہ امم سابقہ کے انجام سے عبرت پکڑیں، چنانچہ فرمایا : ﴿أَلَمْ يَرَوْا كَمْ أَهْلَكْنَا مِن قَبْلِهِم مِّن قَرْنٍ﴾” کیا انہوں نے دیکھا نہیں کہ ہم نے جھٹلانے والی کتنی ہی قوموں کو پے در پے ہلاک کردیا ؟“ اور اس ہلاکت سے پہلے ہم نے انہیں مہلت دی ﴿مَّكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ مَا لَمْ نُمَكِّن لَّكُمْ﴾ ” ہم نے ان کو زمین میں وہ قوت و طاقت دی جو تمہیں ہم نے نہیں دی“ یعنی ہم نے انہیں مال، اولاد اور خوشحالی سے نوازا ﴿ وَأَرْسَلْنَا السَّمَاءَ عَلَيْهِم مِّدْرَارًا وَجَعَلْنَا الْأَنْهَارَ تَجْرِي مِن تَحْتِهِمْ﴾” اور چھوڑ دیا ہم نے ان پر آسمان کو لگاتار برستا ہوا اور بنا دیں ہم نے نہریں بہتی ہوئی ان کے نیچے“ پھر اللہ تعالیٰ جو چاہتا اس پانی سے کھیتیاں اور پھل اگتے تھے جن سے وہ لوگ فائدہ اٹھاتے تھے اور جو دل چاہتا تھا تناول کرتے تھے۔ مگر انہوں نے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا نہ کیا، شہوات نے ان کو اپنی گرفت میں لے لیا اور لذات نے ان کو غافل کردیا۔ پس ان کے رسول واضح دلائل کے ساتھ ان کے پاس آئے مگر انہوں نے ان کی تصدیق نہ کی بلکہ ان کو ٹھکرا دیا اور ان کو جھٹلا دیا ﴿فَأَهْلَكْنَاهُم بِذُنُوبِهِمْ وَأَنشَأْنَا مِن بَعْدِهِمْ قَرْنًا آخَرِينَ﴾” تو ہم نے ان کو ان کے گناہوں کی پاداش میں ہلاک کردیا اور پیدا کیا ہم نے ان کے بعد دوسری امتوں کو“ یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کو ان کے گناہوں کی پاداش میں ہلاک کر ڈالا پھر ان کے بعد اس نے اور قومیں پیدا کردیں۔ گزری ہوئی اور آنے والی قوموں کے بارے میں یہی اللہ تعالیٰ کی سنت ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے تمہارے سامنے ان کا جو قصہ بیان کیا ہے اس سے عبرت پکڑو۔ الانعام
7 اس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو کفار کی شدت عناد سے آگاہ فرمایا ہے اور یہ کہ ان کا یہ جھٹلانا آپ کی لائی ہوئی کتاب میں کسی نقص کی وجہ سے نہ تھا اور نہ اس کا سبب ان کی جہالت تھا، یہ تو محض ظلم اور زیادتی کی بنا پر تھا جس میں تمہارے لئے کوئی چارہ نہیں۔ اس لئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَلَوْ نَزَّلْنَا عَلَيْكَ كِتَابًا فِي قِرْطَاسٍ فَلَمَسُوهُ بِأَيْدِيهِمْ ﴾” اگر اتاریں ہم آپ پر لکھا ہوا کاغذ میں، پھر چھولیں اس کو اپنے ہاتھوں سے“ یعنی انہیں یقین آجائے ﴿ لَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا ﴾ ” تو جو کافر ہیں وہ کہیں گے۔“ یعنی ظلم اور تعدی کی بنا پر کفار کہیں گے ﴿اإِنْ هَـٰذَا إِلَّا سِحْرٌ مُّبِينٌ﴾ ” یہ تو کھلا جادو ہے۔“ اس سے بڑھ کر اور کون سی دلیل ہوسکتی ہے؟ اور یہ ہے اس بارے میں ان کا انتہائی قبیح قول، انہوں نے ایسی محسوس چیز کا انکار کردیا جس کا انکار کوئی ایسا شخص نہیں کرسکتا جس میں معمولی سی بھی عقل ہے۔ الانعام
8 ﴿ وَقَالُوا ﴾ یعنی وہ تلبیس کے طور پر کہتے ہیں جو معقول سے لاعلمی اور جہالت پر مبنی ہے ﴿ لَوْلَا أُنزِلَ عَلَيْهِ مَلَكٌ ﴾” ان پر فرشتہ کیوں نازل نہ ہوا؟“ یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کوئی فرشتہ کیوں نہ اترا جو اس کی مدد کرتا اور اس کام میں اس کی معاونت کرتا، کیونکہ وہ اس زعم باطل میں مبتلا تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو بشر ہیں اور رسالت تو فرشتوں میں ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ اس کی رحمت اور اپنے بندوں کے ساتھ لطف و کرم کا معاملہ ہے کہ اس نے انہی میں سے ایک بشر کو رسول بنا کر بھیجا تاکہ جو کچھ وہ لے کر مبعوث ہوتا ہے اس پر ایمان، علم و بصیرت کی بنا پر اور بالغیب ہو۔﴿وَلَوْ أَنزَلْنَا مَلَكًا ﴾ ” اگر ہم فرشتہ نازل کرتے۔“ اگر ہم نے اپنی رسالت کے ساتھ کسی فرشتے کو بھیجا ہوتا تو یہ ایمان معرفت حق کی بنا پر نہ ہوتا بلکہ ایک ایسا ایمان ہوتا جو مشاہدہ سے صادر ہوتا ہے اور ایسا ایمان اکیلا کوئی فائدہ نہیں دیتا۔ یہ اس صورت میں ہے کہ اگر وہ ایمان لے آئیں مگر غالب یہ ہے کہ وہ ایمان نہیں لاتے۔ اگر وہ ایمان نہ لائے ﴿ لَّقُضِيَ الْأَمْرُ﴾ ” تو طے ہوجائے قصہ“ تو ان کی فوری ہلاکت اور عدم مہلت کا فیصلہ ہوجائے گا۔ یہ اس شخص کے بارے میں سنت الٰہی ہے جو حسب خواہش معجزات کا مطالبہ کرتا ہے اور ان پر ایمان نہیں لاتا۔ اس لئے ان کی طرف رسول بشری کو آیات بینات کے ساتھ مبعوث کرنا، جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ کو علم ہے کہ یہ بندوں کے لئے بہتر اور نرم ہیں، نیز کفار اور جھٹلانے والوں کو مہلت دینا، ان کے لئے زیادہ فائدہ مند ہے۔ پس ان کا فرشتے اتارنے کا مطالبہ اگر وہ جانیں تو ان کے لئے بہت برا ہے۔ الانعام
9 بایں ہمہ اگر فرشتہ نازل کر کے ان کی طرف رسول بنا کر بھیج دیا جائے تو وہ اس سے کچھ سیکھنے کی طاقت رکھتے نہ اس کے متحمل ہوسکتے ہیں اور نہ ان کے قوائے فانی اس کا بوجھ اٹھانے کی طاقت رکھتے ہیں ﴿وَلَوْ جَعَلْنَاهُ مَلَكًا لَّجَعَلْنَاهُ رَجُلًا ﴾ ” اور اگر ہم رسول بنا کر بھیجتے کسی فرشتے کو تو وہ بھی آدمی ہی کی صورت میں ہوتا“ کیونکہ حکمت الٰہیہ اسی کا تقاضا کرتی ہے ﴿وَلَلَبَسْنَا عَلَيْهِم مَّا يَلْبِسُونَ﴾ ” اور ان کو اسی شبہے میں ڈال دیتے جس میں اب پڑ رہے ہیں“ یعنی ان پر معاملہ مختلط ہوجاتا اور اس کا سبب یہ ہے کہ انہوں نے خود اپنے آپ کو شبہ میں مبتلا کرلیا کیونکہ انہوں نے اپنے معاملے کی بنیاد اسی قاعدے پر رکھی جو مشتبہ تھا اور اس میں حق واضح نہیں تھا۔ پس جب صحیح طریقوں سے حق ان کے پاس آگیا اور اس کے وہ قواعد بھی آگئے جو اس کے حقیقی قواعد ہیں تو یہ حق ان کے لئے ہدایت کا باعث نہ بن سکا جبکہ دوسروں نے اس کے ذریعے سے ہدایت پائی۔ گناہ ان کا اپنا ہے کیونکہ انہوں نے خود اپنے آپ پر ہدایت کے دروازے بند کر کے گمراہی کے دروازے کھول لئے۔ الانعام
10 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تسلی دیتا ہے اور اسے صبر کی تلقین کرتا ہے اور اس کے دشمنوں کو تہدید و وعید سناتے ہوئے کہتا ہے : ﴿وَلَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ مِّن قَبْلِكَ﴾ ” اور تحقیق استہزا کیا گیا رسولوں سے، آپ سے پہلے۔‘‘ جب وہ واضح دلائل کے ساتھ اپنی امتوں کے پاس آئے تو انہوں نے ان کو جھٹلایا انہوں نے ان کے ساتھ اور ان کی تعلیمات کے ساتھ استہزا کیا۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کو اس کفر اور تکذیب کے باعث ہلاک کردیا اور عذاب میں سے ان کو پورا پورا حصہ دیا۔﴿فَحَاقَ بِالَّذِينَ سَخِرُوا مِنْهُم مَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ﴾ ” پس گھیر لیا ان کو جو ان میں سے استہزا کرنے والے تھے، اس چیز نے جس کے ساتھ وہ استہزا کرتے تھے۔“ پس اے جھٹلانے والو ! جھٹلانے کی روش پر قائم رہنے سے باز آجاؤ، ورنہ تمہیں بھی وہی عذاب آ لے گا جو ان قوموں پر آیا تھا۔ الانعام
11 ﴿ قُلْ سِيرُوا فِي الْأَرْضِ ثُمَّ انظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ ﴾” کہو کہ ملک میں چلو پھر و اور دیکھو کہ جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوا۔“ یعنی اگر تمہیں اس بارے میں کوئی شک و شبہ ہے تو زمین میں چل پھر کر دیکھو کہ جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوا۔ تم دیکھو گے کہ ایسی قوم ہلاک کردی گئی اور ایسی امتیں عذاب میں مبتلا کردی گئیں۔ ان کے گھر ویران ہوگئے اور ان عیش کدوں میں رہ کر مسرتوں کے مزے لوٹنے والے نیست و نابود ہوگئے۔ اللہ جبار نے ان کو ہلاک کردیا اور اہل بصیرت کے لئے ان کو نشان عبرت بنا دیا۔ یہ (سَيْر) جس کا حکم دیا گیا ہے بدنی اور قلبی سیر کو شامل ہے جس سے عبرت جنم لیتی ہے۔ رہا عبرت حاصل کئے بغیر چل پھر کر دیکھنا تو اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ الانعام
12 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے ﴿ قُلْ﴾ ” کہہ دیجیے“ یعنی ان مشرکین سے توحید کا اقرار کرواتے اور ان پر اس کی حجت ثابت کرتے ہوئے کہیے! ﴿ لِّمَن مَّا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ ﴾ ” کس کا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے؟“ یعنی جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے کس نے پیدا کیا؟ کو نین کا مالک اور ان میں تصرف کرنے والا ہے؟ ﴿ قُلْ﴾ ان سے کہہ دیجیے !(لِّلَّـهِ) ” اللہ کا ہے“ وہ اس کا اقرار کرتے ہیں انکار نہیں کرتے، کیا جب وہ یہ اقرار کرتے ہیں کہ وہ اکیلا ہی کائنات کا مالک اور اس کی تدبیر کرنے والا ہے، تو اس کے لئے توحید اور اخلاص کا اعتراف کیوں نہیں کرتے؟ ﴿كَتَبَ عَلَىٰ نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ﴾” اس نے لکھا ہے اپنے نفس پر رحم کرنا“ یعنی تمام عالم علوی اور عالم سفلی، اس کے اقتدار اور تدبیر کے تحت ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنی رحمت اور احسان کی چادر پھیلا رکھی ہے اور اس کی بے پایاں رحمت نے ان سب کو ڈھانپ رکھا ہے۔ اس نے اپنے لئے لکھ رکھا ہے کہ ” اس کی رحمت اس کے غصے پر غالب ہے۔“ عطا کرنا اس کے نزدیک محروم کرنے سے زیادہ محبوب ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے تمام بندوں کے لئے رحمت کے دروازے کھول دیئے ہیں اگر بندے اپنے گناہوں کے سبب خود ان کو اپنے آپ پر بند نہ کرلیں۔ پھر اس نے انہیں ان دروازوں میں داخل ہونے کی دعوت دی ہے اگر ان کے گناہ اور عیب ان کو ان دروازوں کی طلب سے روک نہ دیں۔ ﴿لَيَجْمَعَنَّكُمْ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ لَا رَيْبَ فِيهِ﴾ ” البتہ اکٹھا کرے گا تم کو قیامت کے دن جس میں کوئی شک نہیں“ اور یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے قسم ہے اور وہ سب سے زیادہ سچی خبر دینے والا ہے اور اس پر اس نے ایسے براہین و دلائل قائم کئے ہیں جو اسے حق الیقین قرار دیتے ہیں مگر ان ظالموں نے دلائل و براہین کو ٹھکرا دیا اور اللہ تعالیٰ کی اس قدرت کا انکار کردیا کہ وہ مخلوق کو دوبارہ زندہ کرے گا اور گناہ کرنے میں جلدی کی اور اس کے ساتھ کفر کرنے کی جسارت کی، پس وہ دنیا و آخرت میں خسارے میں پڑگئے۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿الَّذِينَ خَسِرُوا أَنفُسَهُمْ فَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ﴾” جن لوگوں نے اپنے آپ کو نقصان میں ڈال لیا، تو وہ ایمان نہیں لاتے۔ “ الانعام
13 معلوم ہونا چاہئے کہ یہ سورۃ مبارکہ توحید کو متحقق کرنے کے لئے ہر عقلی اور نقلی دلیل پر مشتمل ہے، بلکہ تقریباً تمام سورت ہی توحید کی شان، مشرکین اور انبیاء و رسل کی تکذیب کرنے والوں کے ساتھ مجادلات کے مضامین پر مشتمل ہے۔ ان آیات کریمہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان دلائل کا ذکر فرمایا ہے جن سے ہدایت واضح ہوتی ہے اور شرک کا قلع قمع ہوتا ہے چنانچہ فرمایا : ﴿وَلَهُ مَا سَكَنَ فِي اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ ۚ﴾” اور اللہ ہی کا ہے جو کچھ کہ آرام پکڑتا ہے رات میں اور دن میں“ یہ جن و انس، فرشتے، حیوانات اور جمادات سب اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں۔ یہ سب اللہ کی تدبیر کے تحت ہیں۔ یہ سب اللہ کے غلام ہیں جو اپنے رب عظیم اور مالک قاہر کے سامنے مسخر ہیں۔ کیا عقل و نقل کے اعتبار سے یہ بات صحیح ہے کہ ان غلام اور مملوک ہستیوں کی عبادت کی جائے جو کسی نفع و نقصان پر قادر نہیں اور خالق کائنات کے لئے اخلاص کو ترک کردیا جائے جو کائنات کی تدبیر کرتا، اس کا مالک اور نفع و نقصان کا اختیار رکھتا ہے؟ یا عقل سلیم اور فطرت مستقیم اس بات کی داعی ہے کہ اللہ رب العالمین کے لئے ہر قسم کی عبادت کو خالص کیا جائے، محبت، خوف اور امید صرف اسی سے ہو؟ ﴿السَّمِيعُ ﴾ ” وہ سنتا ہے۔“ اختلاف لغات اور تنوع حاجات کے باوجود وہ تمام آوازوں کو سنتا ہے ﴿الْعَلِيمُ﴾ ” وہ جانتا ہے۔“ وہ ان تمام چیزوں کو جانتا ہے جو تمھیں اور جو مستقبل میں ہوں گی اور ان کو بھی جانتا ہے جو نہ تھیں کہ اگر وہ ہوتیں تو کیسی ہوتیں، اللہ تعالیٰ ظاہر و باطن ہر چیز کی اطلاع رکھتا ہے۔ الانعام
14 ﴿ قُلْ﴾ ” کہہ دیجیے !“ یعنی آپ اللہ تعالیٰ سے شرک کرنے والوں سے کہہ دیجیے !﴿أَغَيْرَ اللَّـهِ أَتَّخِذُ وَلِيًّا﴾” کیا اللہ کے سوا کسی اور کو میں مددگار بناؤں ؟“ ان عاجز مخلوقات میں سے کون میرا سرپرست و مددگار بنے گا؟ میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو اپنا والی اور مددگار نہیں بناتا کیونکہ اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کا مالک ہے یعنی ان کا خالق اور ان کی تدبیر کرنے والا ہے ﴿وَهُوَ يُطْعِمُ وَلَا يُطْعَمُ﴾ ” اور وہ سب کو کھلاتا ہے، اور اسے کوئی نہیں کھلاتا“ یعنی وہ تمام مخلوقات کو رزق عطا کرتا ہے بغیر اس کے کہ اس کو ان میں سے کسی کے پاس کوئی حاجت ہو۔ تب یہ کیسے مناسب ہے کہ میں کسی ایسی ہستی کو اپنا والی بنا لوں جو پیدا کرنے والی ہے نہ رزق عطا کرنے والی، جو بے نیاز ہے نہ قابل تعریف۔ ﴿قُلْ إِنِّي أُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ أَوَّلَ مَنْ أَسْلَمَ﴾ ” کہہ دیجیے ! مجھے حکم ہوا ہے کہ سب سے پہلے حکم مانوں“ یعنی میں اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کی اطاعت کے ساتھ اس کے سامنے سرتسلیم خم کر دوں، کیونکہ میں ہی سب سے زیادہ اس بات کا مستحق ہوں کہ اپنے رب کے احکام کی اطاعت کروں ﴿وَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُشْرِكِينَ﴾ ” اور آپ ہرگز شرک کرنے والوں میں سے نہ ہوں“ یعنی مجھے اس بات سے بھی روک دیا گیا ہے کہ میں مشرکوں میں شامل ہوں یعنی ان کے اعتقادات میں نہ ان کے ساتھ مجالست میں اور نہ ان کے ساتھ اجتماع میں اور یہ حکم میرے لئے سب سے بڑا فرض اور سب سے بڑا واجب ہے۔ الانعام
15 ﴿قُلْ إِنِّي أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ ﴾ ” کہہ دیجیے ! میں ڈرتا ہوں، اگر میں نے اپنے رب کی نافرمانی کی، بڑے دن کے عذاب سے“ کیونکہ شرک ہمیشہ جہنم میں رہنے اور اللہ جبار کی ناراضی کا موجب ہے اور یوم عظیم سے مراد وہ دن ہے جس کے عذاب سے خوف کھایا جاتا ہے اور اس کی سزا سے بچا جاتا ہے، کیونکہ جو اس روز عذاب سے بچا لیا گیا وہی درحقیقت اللہ تعالیٰ کی رحمت کے سائے میں ہوگا اور جس نے اس عذاب سے نجات پا لی وہی درحقیقت کامیاب ہے جیسے جس کو اس دن کے عذاب سے نجات نہ ملی تو وہ بدبخت ہلاک ہونے والا ہے۔ الانعام
16 الانعام
17 یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی توحید کے دلائل ہیں کہ صرف وہی ایک ہستی ہے جو تکلیفوں کو دور کرتی ہے اور صرف وہی ہے جو بھلائی اور خوشحالی عطا کرتی ہے۔ ﴿وَإِن يَمْسَسْكَ اللَّـهُ بِضُرٍّ ﴾ ” اور اگر اللہ تم کو کوئی سختی پہنچائے“ یعنی اگر اللہ تعالیٰ تجھے کسی فقر، مرض، عسرت یا غم و ہموم وغیرہ میں مبتلا کر دے ﴿فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ ۖ وَإِن يَمْسَسْكَ بِخَيْرٍ فَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ﴾ ” تو اسے کوئی دور کرنے والا نہیں، سوائے اس کے اور اگر پہنچائے وہ تجھ کو کوئی بھلائی، تو وہ ہر چیز پر قادر ہے“ پس جب وہی اکیلا نفع و نقصان پہنچانے کا اختیار رکھتا ہے تو وہی اکیلا عبودیت والوہیت کا بھی مستحق ہے۔ الانعام
18 ﴿وَهُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهِ ۚ﴾ ” اور وہ غالب ہے اپنے بندوں پر“ پس اللہ تعالیٰ کی مشیت کے بغیر کوئی تصرف کرسکتا ہے نہ کوئی حرکت کرنے والا حرکت کرسکتا ہے اور نہ اس کی مشیت کے بغیر کوئی ساکن ہوسکتا ہے۔ مملوک کو یہ اختیار نہیں کہ وہ اس کی ملکیت اور تسلط سے نکل سکے، وہ اللہ کے سامنے مغلوب و مقہور اور اس کے دائرہ تدبیر میں ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ غالب و قاہر ہے اور دوسرے مغلوب و مقہور، تو ظاہر ہوا کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی عبادت کا مستحق ہے ﴿ وَهُوَ الْحَكِيمُ﴾ ” اور وہ دانا ہے۔“ وہ اپنے اوامرونواہی، ثواب و عقاب اور خلق و قدر میں حکمت سے کام لیتا ہے ﴿الْخَبِيرُ ﴾ ” خبر دار ہے۔“ وہ اسرار و ضمائر اور تمام مخفی امور کی اطلاع رکھتا ہے اور یہ سب توحید الٰہی کے دلائل ہیں۔ الانعام
19 ﴿قُلْ﴾” کہہ دیجیے !“ چونکہ ہم نے ان کے سامنے ہدایت کو بیان کردیا اور سیدھی راہوں کو واضح کردیا ہے اس لئے ان سے کہہ دیجیے ﴿أَيُّ شَيْءٍ أَكْبَرُ شَهَادَةً﴾ ” سب سے بڑھ کر کس کی شہادت ہے۔“ یعنی اس اصول عظیم کے بارے میں کس کی شہادت سب سے بڑی شہادت ہے ﴿قُلِ اللَّـهُ﴾کہہ دیجیے اللہ تعالیٰ کی شہادت سب سے بڑی شہادت ہے ﴿ شَهِيدٌ بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ ۚ﴾ ” وہ گواہ ہے میرے اور تمہارے درمیان“ پس اس سے بڑا کوئی شاہد نہیں، وہ اپنے اقرار و فعل کے ذریعے سے میری گواہی دیتا ہے، میں جو کچھ کہتا ہوں، اللہ تعالیٰ اس کو متحقق کردیتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿  وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيلِ  لَأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ  ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ ﴾(الحاقة:69؍44۔46)” اگر یہ ہمارے بارے میں کوئی جھوٹ گھڑتا تو ہم اس کو داہنے ہاتھ سے پکڑ لیتے اور پھر اس کی شہ رگ کاٹ دیتے۔ “ پس اللہ تبارک و تعالیٰ قادر اور حکمت والا ہے۔ اس کی حکمت اور قدرت کے لائق نہیں کہ ایسے جھوٹے شخص کو برقرار رکھے جو یہ دعویٰ کرے کہ وہ اللہ کا رسول نہ ہوا اور یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اسے ان لوگوں کو دعوت دینے پر مامور کیا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ایسا کوئی حکم نہ دیا ہو اور یہ کہ جو اس کی مخالفت کریں گے، اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے ان کا خون، ان کا مال اور ان کی عورتیں مباح کردی ہیں۔ اس فریب کاری کے باوجود اللہ تعالیٰ اپنے اقرار و فعل کے ذریعے سے اس کی تصدیق کرے، وہ جو کچھ کرے معجزات باہرہ اور آیات ظاہرہ کے ذریعے سے اس کی تائید کرے اور اسے فتح و نصرت سے نوازے جو اس کی مخالفت کرے اور اس سے عداوت رکھے، اسے اپنی نصرت سے محروم کر دے۔ پس اس گواہی سے بڑی کون سی گواہی ہے؟ ﴿وَأُوحِيَ إِلَيَّ هَـٰذَا الْقُرْآنُ لِأُنذِرَكُم بِهِ وَمَن بَلَغَ﴾ ” اور اتارا گیا میری طرف قرآن، تاکہ ڈراؤں میں تم کو اس کے ساتھ اور جس کو یہ پہنچے“ یعنی تمہارے فائدے اور تمہارے مصالح کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ قرآن میری طرف وحی کیا ہے، تاکہ میں تمہیں درد ناک عذاب سے ڈراؤں۔ (اِنْذَار) یہ ہے کہ جس چیز سے ڈرانا مقصود ہو، اسے بیان کیا جائے۔ جیسے ترغیب و ترہیب، اعمال اور اقوال ظاہرہ و باطنہ، جو کوئی ان کو قائم کرتا ہے وہ گویا انداز کو قبول کرتا ہے۔ پس اے مخاطبین ! یہ قرآن تمہیں اور ان تمام لوگوں کو جن کے پاس، قیامت تک یہ پہنچے گا، برے انجام سے ڈراتا ہے۔ کیونکہ قرآن میں ان تمام مطالب الٰہیہ کا بیان موجود ہے جن کا انسان محتاج ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے اپنی توحید پر اپنی گواہی کا ذکر فرمایا جو سب سے بڑی گواہی ہے، تو اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی خبر کی مخالفت کرنے والوں اور اس کے رسولوں کو جھٹلانے والوں سے کہہ دیجیے !﴿أَئِنَّكُمْ لَتَشْهَدُونَ أَنَّ مَعَ اللَّـهِ آلِهَةً أُخْرَىٰ ۚ قُل لَّا أَشْهَدُ﴾” کیا تم گواہی دیتے ہو کہ اللہ کے ساتھ اور بھی معبود ہیں؟ کہہ دیجیے ! میں تو گواہی نہیں دیتا“ یعنی اگر وہ گواہی دیں تو ان کے ساتھ گواہی مت دیجیے۔ پس اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کے لاشریک ہونے پر ایک طرف اللہ کی گواہی ہے جو سب سے زیادہ سچا اور تمام جہانوں کا پروردگار ہے اور اسی طرح مخلوق میں سے پاکیزہ ترین ہستی (آخری رسول) کی گواہی ہے جس کی تائید میں قطعی دلائل اور روشن براہین ہیں اور دوسری طرف مشرکین کی شہادت ہے جن کی عقل اور دین خلط ملط ہوگئے ہیں جن کی آراء اور اخلاق خرابی کا شکار ہوگئے ہیں اور جنہوں نے عقل مندوں کو اپنے آپ پر ہنسنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ ان دونوں شہادتوں کے درمیان موازنہ کیا جائے۔ بلکہ ان مشرکین کی گواہی تو خود ان کی اپنی فطرت کے خلاف ہے اور ان کے اقوال اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسروں خداؤں کے اثبات کے بارے میں متناقض ہیں۔ بایں ہمہ جس چیز کی وہ مخالفت کرتے ہیں اس کے خلاف دلائل تو کجا ادنیٰ ساشبہ بھی وارد نہیں ہوسکتا۔ اگر تو سمجھ بوجھ رکھتا ہے تو اپنے لئے ان دونوں میں سے کوئی سی گواہی چن لے۔ ہم تو اپنے لئے وہی چیز اختیار کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اختیار کی ہے اور اس کی پیروی کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ چنانچہ فرمایا :﴿قُلْ إِنَّمَا هُوَ إِلَـٰهٌ وَاحِدٌ﴾ ” کہہ دیجیے کہ صرف وہی ایک معبود ہے۔“ یعنی وہ اکیلا معبود ہے اور اس کے سوا کوئی عبودیت اور الوہیت کا مستحق نہیں، جیسے وہ تخلیق و تدبیر میں منفرد ہے ﴿ وَإِنَّنِي بَرِيءٌ مِّمَّا تُشْرِكُونَ﴾” اور میں بیزار ہوں تمہارے شرک سے“ یعنی تم جن بتوں اور دیگر خداؤں کو اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہراتے ہو اور وہ تمام چیزیں جن کو اللہ تعالیٰ کا شریک بنایا جاتا ہے میں ان سے برأت کا اظہار کرتا ہوں۔ یہ ہے توحید کی حقیقت، یعنی اللہ تعالیٰ کی الوہیت کا اثبات اور اللہ تعالیٰ کے سوا ہر ایک سے اس کی نفی۔ الانعام
20 جب اللہ تعالیٰ نے اپنی توحید پر اپنی اور اپنے رسول کی شہادت کا ذکر فرمایا اور اس کے برعکس مشرکین کی شہادت کا بھی ذکر کیا جن کے پاس کوئی علم نہیں، تو اہل کتاب میں سے یہود و نصاریٰ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : ﴿يَعْرِفُونَهُ﴾ ” وہ پہچانتے ہیں اسے“ یعنی وہ توحید کی صحت کو جانتے ہیں ﴿كَمَا يَعْرِفُونَ أَبْنَاءَهُمُ﴾ ” جیسے وہ اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں“ یعنی اس کی صحت میں ان کے ہاں کسی بھی پہلو سے کوئی شک نہیں جیسے انہیں اپنی اولاد کے بارے میں کوئی اشتباہ واقع نہیں ہوتا، خاص طور پر وہ بیٹے جو غالب طور پر اپنے باپ کے ساتھ ہوتے ہیں۔ اس آیت کریمہ میں یہ احتمال بھی ہے کہ ضمیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹتی ہو۔ تب اس کے معنی ہوں گے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے حق ہونے میں اہل کتاب کو کوئی اشتباہ تھا نہ کوئی شک، کیونکہ ان کے پاس آپ کی بعثت کے بارے میں بشارتیں موجود تھیں اور وہ تمام صفات (جو ان کی کتابوں میں لکھی ہوئی تھیں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی پر منطبق ہوتی تھیں نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی کے شایان شان تھیں۔ دونوں معنی ایک دوسرے کے ساتھ لازم و ملزوم ہیں۔﴿الَّذِينَ خَسِرُوا أَنفُسَهُمْ﴾ ” وہ لوگ جنہوں نے اپنے نفسوں کو نقصان میں ڈالا“ یعنی جس ایمان اور توحید کے لئے ان کے نفوس کو تخلیق کیا گیا تھا انہوں نے اپنے نفوس کو ان سے بے بہرہ کردیا اور بزرگی کے مالک، بادشاہ حقیقی کے فضل سے ان کو محروم کردیا ﴿فَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ﴾” پس وہ ایمان نہیں لائیں گے“ پس جب ان کے اندر ایمان ہی موجود نہیں تو اس خسارے اور شر کے بارے میں مت پوچھ جو ان کو حاصل ہوگا۔ الانعام
21 یعنی ظلم اور عناد میں اس شخص سے بڑھ کر کوئی نہیں جس میں ان دونوں اوصاف میں سے کوئی ایک وصف ہو، چہ جائیکہ جس میں دونوں ہی جمع ہوں : (١) اللہ تعالیٰ کے بارے میں جھوٹ گھڑنا۔ (٢) اور اس کی آیات کو جھٹلانا جنہیں رسول لے کر آئے ہیں۔ یہ شخص سب سے بڑا ظالم ہے اور ظالم کبھی فلاح نہیں پاتا۔ اس آیت کریمہ کی وعید میں وہ تمام لوگ داخل ہیں جو اللہ تعالیٰ کے بارے میں افترا پردازی کرتے ہوئے اس کے شریک اور معاون ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی بندگی کرناجائز ہے یا اللہ تعالیٰ نے اپنے لئے کوئی بیوی یا بیٹا بنایا ہے اور اس وعید میں وہ تمام لوگ بھی شامل ہیں جنہوں نے حق کو جھٹلایا جسے لے کر انبیاء و مرسلین مبعوث ہوئے اور جس کے علم بردار، ان کے جانشین (داعیان حق) ہوئے۔ الانعام
22 اللہ تبارک و تعالیٰ قیامت کے روز اہل شرک کے انجام کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے، ان سے اس شرک کے بارے میں پوچھا جائے گا اور ان کو زجر و توبیخ کی جائے گی اور ان سے کہا جائے گا ﴿أَيْنَ شُرَكَاؤُكُمُ الَّذِينَ كُنتُمْ تَزْعُمُونَ﴾” تمہارے وہ شریک کہاں ہیں جن کو تم شریک گمان کرتے تھے؟‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کا تو کوئی شریک نہیں، یہ محض زعم باطل اور تمہاری افترا پردازی ہے جو تم نے اللہ تعالیٰ کے شریک ٹھہرا دیئے۔ الانعام
23 ﴿ثُمَّ لَمْ تَكُن فِتْنَتُهُمْ ﴾ ” پھر نہ رہے گا ان کے پاس کوئی فریب“ یعنی جب ان کو آزمایا جائے گا اور مذکورہ سوال کیا جائے گا تو ان کا جواب اس کے سوا کوئی نہیں ہوگا کہ وہ اپنے شرک کا ہی انکار کردیں گے اور قسم اٹھا کر کہیں گے کہ وہ مشرک نہیں ہیں الانعام
24 ﴿انظُرْ ﴾ ”دیکھئے“ یعنی ان پر اور ان کے احوال پر تعجب کرتے ہوئے دیکھئے ﴿كَيْفَ كَذَبُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ﴾ ” کیسے جھوٹ بولا انہوں نے اپنے پر“ یعنی انہوں نے ایسا جھوٹ باندھا کہ۔۔۔ اللہ کی قسم !۔۔۔ اس کا خسارہ اور انتہائی نقصان انہی کو پہنچے گا ﴿وَضَلَّ عَنْهُم مَّا كَانُوا يَفْتَرُونَ ﴾ ”اور کھو گئیں ان سے وہ باتیں جو وہ بنایا کرتے تھے“ یعنی وہ شریک جو وہ گھڑا کرتے تھے اور سمجھتے تھے کہ وہ بھی اللہ تعالیٰ کے ساتھ الوہیت میں شریک ہیں، اللہ تعالیٰ ان کی اس افترا پردازی سے بالا و بلند تر ہے۔ الانعام
25 یعنی ان مشرکین میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن کو ان کے بعض داعیے بسا اوقات سننے پر آمادہ کردیتے ہیں مگر یہ سننا قصد حق اور اس کی اتباع سے عاری ہوتا ہے بنا بریں وہ اس سننے سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے، کیونکہ ان کا ارادہ بھلائی کا نہیں ہوتا ﴿وَجَعَلْنَا عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ أَكِنَّةً﴾ ”اور ہم نے ان کے دلوں پر پردے ڈال دیئے ہیں“ تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کے کلام کو نہ سمجھیں اور اللہ تعالیٰ کا کلام اس قسم کے لوگوں سے محفوظ رہے ﴿وَفِي آذَانِهِمْ وَقْرًا ۚ﴾ ” اور ان کے کانوں میں ثقل پیدا کردیا ہے۔“ یعنی ان کے کانوں میں بہرا پن اور گرانی ہے، وہ اس طرح نہیں سن سکتے جس سے ان کو کوئی فائدہ پہنچے۔﴿ ۚ وَإِن يَرَوْا كُلَّ آيَةٍ لَّا يُؤْمِنُوا بِهَا﴾ ” اور اگر وہ دیکھ لیں تمام نشانیاں، تب بھی ایمان نہیں لائیں گے“ اور یہ ظلم و عناد کی انتہا ہے کہ وہ حق کو ثابت کرنے والے واضح دلائل کو مانتے ہیں نہ ان کی تصدیق کرتے ہیں، بلکہ حق کو نیچا دکھانے کے لئے باطل کی مدد سے جھگڑتے ہیں، اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ حَتَّىٰ إِذَا جَاءُوكَ يُجَادِلُونَكَ يَقُولُ الَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ هَـٰذَا إِلَّا أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ ﴾” یہاں تک کہ جب آپ کے پاس آتے ہیں جھگڑنے کو تو کافر کہتے ہیں، یہ تو صرف پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں“ یعنی یہ سب کچھ پہلے لوگوں کی لکھی ہوئی کتابوں سے ماخوذ ہے جو اللہ کی طرف سے ہیں نہ اس کے رسولوں کی طرف سے۔ یہ ان کا کفر محض ہے ورنہ اس کتاب کو پہلے لوگوں کی کہانیاں کیسے کہا جاسکتا ہے جو گزرے ہوئے اور آنے والے لوگوں، انبیاء و مرسلین کے لائے ہوئے حقائق، حق اور ہر پہلو سے کامل عدل و انصاف پر مشتمل ہے؟ الانعام
26 ﴿وَهُمْ﴾” اور وہ“ یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنے والے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کرنے والے لوگ گمراہ ہونے اور گمراہ کرنے کی صفات کے جامع ہیں۔ وہ لوگوں کو بھی اتباع حق سے روکتے ہیں، انہیں حق سے ڈراتے ہیں اور خود اپنے آپ کو بھی حق سے دور رکھتے ہیں۔ وہ اپنے ان کرتوتوں سے اللہ تعالیٰ اور اس کے مومن بندوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔﴿وَإِن يُهْلِكُونَ إِلَّا أَنفُسَهُمْ وَمَا يَشْعُرُونَ ﴾ ” وہ اپنے آپ ہی کو ہلاک کرتے ہیں اور سمجھتے نہیں ہیں“ یعنی ان کو اس کا شعور نہیں۔ الانعام
27 اللہ تعالیٰ قیامت کے روز مشرکین کے حال اور جہنم کے سامنے ان کو کھڑے کئے جانے کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے فرماتا ہے : ﴿وَلَوْ تَرَىٰ إِذْ وُقِفُوا عَلَى النَّارِ﴾ ” اگر آپ دیکھیں جس وقت کھڑے کئے جائیں گے وہ دوزخ پر“ تاکہ ان کو زجر و توبیخ کی جائے۔۔۔ تو آپ بہت ہولناک معاملہ اور ان کا بہت برا حال دیکھتے نیز آپ یہ دیکھتے کہ یہ لوگ اپنے کفر و فسق کا اقرار کرتے ہیں اور تمنا کرتے ہیں کہ کاش ان کو دنیا میں پھر واپس بھیجا جائے ﴿فَقَالُوا يَا لَيْتَنَا نُرَدُّ وَلَا نُكَذِّبَ بِآيَاتِ رَبِّنَا وَنَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ ﴾ ” پس وہ کہیں گے، اے کاش ! ہم پھر بھیج دیئے جائیں اور ہم نہ جھٹلائیں اپنے رب کی آیتوں کو اور ہوجائیں ہم ایمان والوں میں سے۔ “ الانعام
28 ﴿بَلْ بَدَا لَهُم مَّا كَانُوا يُخْفُونَ مِن قَبْلُ﴾” بلکہ ظاہر ہوگیا ان کے لئے جو وہ چھپاتے تھے پہلے“ اس لئے کہ وہ اپنے دل میں اس حقیقت کو چھپاتے تھے کہ وہ جھوٹے ہیں اور ان کے دلوں کا جھوٹ بسا اوقات ظاہر ہوجاتا تھا۔ مگر ان کی فاسد اغراض ان کو حق سے روک دیتی تھیں اور ان کے دلوں کو بھلائی سے پھیر دیتی تھیں، وہ اپنی ان تمناؤں میں جھوٹے ہیں، ان کا مقصد محض اپنے آپ کو عذاب سے ہٹانا ہے۔ ﴿ وَلَوْ رُدُّوا لَعَادُوا لِمَا نُهُوا عَنْهُ وَإِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ ﴾” اور اگر ان کو واپس لوٹا بھی دیا گیا تو یہ دوبارہ وہی کچھ کریں گے جس سے ان کو روکا گیا ہے اور بے شک یہ سخت جھوٹے ہیں۔“ الانعام
29 ﴿ وَقَالُوا﴾” اور وہ کہتے ہیں۔“ یعنی مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے کا انکار کرنے والے کہتے ہیں ﴿إِنْ هِيَ إِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا﴾” ہماری جو دنیا کی زندگی ہے بس یہی (زندگی) ہے۔“ یعنی حقیقت حال یہ ہے کہ ہمیں وجود میں لانے کا اس دنیا کی زندگی کے سوا اور کوئی مقصد نہیں﴿وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوثِينَ﴾ ” ہمیں مرنے کے بعد دوبارہ نہیں اٹھایا جائے گا۔ “ الانعام
30 ﴿وَلَوْ تَرَىٰ﴾ ” اور اگر آپ دیکھیں“ یعنی اگر آپ کافروں کو دیکھیں ﴿ إِذْ وُقِفُوا عَلَىٰ رَبِّهِمْ ۚ﴾ ” جبکہ انہیں ان کے رب کے سامنے کھڑا کیا جائے گا“ تو آپ بہت بڑا معاملہ اور بہت ہولناک منظر دیکھیں گے۔ ﴿قَالَ﴾اللہ تعالیٰ ان کو زجر و توبیخ کرتے ہوئے فرمائے گا : ﴿أَلَيْسَ هَـٰذَا بِالْحَقِّ﴾ ” کیا یہ برحق نہیں؟“ یعنی وہ عذاب جو تم دیکھ رہے ہو، کیا یہ سچ نہیں؟ ﴿قَالُوا بَلَىٰ وَرَبِّنَا﴾ ” وہ کہیں گے کیوں نہیں، قسم ہے ہمارے رب کی !“ پس وہ اقرار اور اعتراف کریں گے جبکہ یہ اعتراف انہیں کوئی فائدہ نہ دے گا ﴿قَالَ فَذُوقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنتُمْ تَكْفُرُونَ ﴾ ” اللہ فرمائے گا : پس چکھو اس عذاب کا مزا جس کا تم انکار کیا کرتے تھے۔ “ الانعام
31 جس کسی نے بھی اللہ تعالیٰ کے ساتھ ملاقات کو جھٹلایا، وہ خائب و خاسر ہوا اور ہر قسم کی بھلائی سے محروم کردیا گیا۔ پس یہ تکذیب محرمات کے انکار کی جسارت اور ہلاکت میں ڈالنے والے اعمال کے اکتساب کی جرأت کی موجب ہوتی ہے ﴿حَتَّىٰ إِذَا جَاءَتْهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً﴾ ”یہاں تک کہ جب آپہنچے گی ان پر قیامت اچانک“ اور وہ اس وقت بدترین اور قبیح ترین حال میں ہوں گے تب وہ انتہائی ندامت کا اظہار کریں گے ﴿قَالُوا يَا حَسْرَتَنَا عَلَىٰ مَا فَرَّطْنَا فِيهَا﴾” کہیں گے، ہائے افسوس ! کیسی کوتاہی ہم نے کی اس میں“ مگر حسرت اور ندامت کے اظہار کا وقت جا چکا ہوگا ﴿وَهُمْ يَحْمِلُونَ أَوْزَارَهُمْ عَلَىٰ ظُهُورِهِمْ ۚ أَلَا سَاءَ مَا يَزِرُونَ﴾ ” اور وہ اٹھائے ہوئے ہوں گے اپنے بوجھ اپنی پیٹھوں پر، سن لو ! کہ برا ہے وہ بوجھ جس کو وہ اٹھائیں گے۔‘‘ کیونکہ ان کا بوجھ ایسا بوجھ ہوگا جو ان کے لئے سخت بھاری ہوگا اور وہ اس سے گلو خلاصی پر قادر نہ ہوں گے۔ وہ جہنم میں ہمیشہ رہیں گے اور اللہ جبار کی ابدی ناراضی کے مستحق ہوں گے۔ الانعام
32 یہی دنیا اور آخرت کی حقیقت ہے۔ رہی دنیا کی حقیقت تو یہ محض لہو و لعب ہے۔ بدن کا کھیل تماشہ اور قلب کا کھیل تماشہ، پس دل لہو و لعب پر فریفتہ، نفوس اس پر عاشق اور ارادے اس سے پیوست رہتے ہیں اور لہو و لعب میں مشغولیت اس میں ایسے ہوتی ہے جیسے بچے کھیل میں مگن ہوتے ہیں۔ رہی آخرت تو وہ﴿خَيْرٌ لِّلَّذِينَ يَتَّقُونَ﴾ اپنی ذات و صفات اور بقا و دوام کے اعتبار سے اہل تقویٰ کے لئے بہتر ہے۔ اس میں ہر وہ چیز موجود ہوگی جس کی نفس خواہش کریں گے، جس سے آنکھیں لذت حاصل کریں گی، یعنی قلب و روح کی نعمت اور مسرت و فرحت کی کثرت۔ مگر یہ نعمتیں اور مسرتیں ہر ایک کے لئے نہیں ہوں گی بلکہ صرف متقی لوگوں کے لئے ہوں گی جو اللہ تعالیٰ کے احکام کی تعمیل کرتے ہیں اور اس کی منہیات کو ترک کرتے ہیں﴿أَفَلَا تَعْقِلُونَ﴾ ” کیا تم عقل نہیں رکھتے؟“ کیا تمہارے پاس عقل نہیں جس کے ذریعے سے تم یہ ادراک کرسکو کہ دنیا اور آخرت میں سے کون سا گھر ترجیح دیئے جانے کا مستحق ہے؟ الانعام
33 یعنی ہمیں علم ہے کہ آپ کی تکذیب کرنے والے آپ کے بارے میں جو کچھ کہتے ہیں اس سے آپ کو تکلیف پہنچتی ہے اور آپ غم زدہ ہوتے ہیں۔ ہم نے آپ کو صبر کرنے کا حکم محض اس لئے دیا ہے تاکہ آپ کو مقامات بلند اور گراں قیمت احوال حاصل ہوں۔ پس آپ یہ نہ سمجھیں کہ ان کا یہ قول اس سبب سے صادر ہوا ہے کہ ان کو آپ کے بارے میں کوئی اشتباہ یا شک لاحق ہوا ہے ﴿فَإِنَّهُمْ لَا يُكَذِّبُونَكَ﴾ ”بے شک وہ آپ کو نہیں جھٹلاتے“ کیونکہ وہ آپ کی صداقت، آپ کے اندر، باہر اور آپ کے تمام احوال کو خوب جانتے ہیں۔ حتیٰ کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے آپ کو ” امین“ کہا کرتے تھے ﴿وَلَـٰكِنَّ الظَّالِمِينَ بِآيَاتِ اللَّـهِ يَجْحَدُونَ﴾” لیکن ظالم لوگ اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے ہیں۔“ یعنی وہ اللہ تعالیٰ کی ان آیات کو جھٹلاتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے آپ کے ہاتھ پر ظاہر کیا۔ الانعام
34 اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَلَقَدْ كُذِّبَتْ رُسُلٌ مِّن قَبْلِكَ فَصَبَرُوا عَلَىٰ مَا كُذِّبُوا وَأُوذُوا حَتَّىٰ أَتَاهُمْ نَصْرُنَا ۚ﴾ ” آپ سے پہلے رسولوں کو بھی جھٹلایا گیا، پس انہوں نے اپنی تکذیب اور ایذا دیئے جانے پر صبر کیا، یہاں تک کہ ان کے پاس ہماری مدد آگئی“ پس جس طرح انہوں نے صبر کیا اسی طرح آپ بھی صبر کیجیے۔ جس طرح وہ ظفر یاب ہوئے آپ بھی ظفر یاب ہوں گے۔ ﴿وَلَقَدْ جَاءَكَ مِن نَّبَإِ الْمُرْسَلِينَ﴾ ” اور آپ کے پاس گزشتہ انبیا و مرسلین کی خبر پہنچ گئی ہے۔“ جس سے آپ کے دل کو تقویت اور اطمینان حاصل ہوتا ہے۔ الانعام
35 ﴿وَإِن كَانَ كَبُرَ عَلَيْكَ إِعْرَاضُهُمْ﴾ ” اور اگر ان کی روگردانی آپ پر شاق گزرتی ہے۔“ یعنی اگر ان کا اعراض آپ پر شاق گزرتا ہے، کیونکہ آپ ان کے ایمان کی بہت خواہش رکھتے ہیں تو آپ اس بارے میں اپنی پوری کوشش کر دیکھئے۔ پس اس شخص کو ہدایت دینا آپ کے بس میں نہیں جسے اللہ تعالیٰ ہدایت دینا نہ چاہتا ہو۔ ﴿ فَإِنِ اسْتَطَعْتَ أَن تَبْتَغِيَ نَفَقًا فِي الْأَرْضِ أَوْ سُلَّمًا فِي السَّمَاءِ فَتَأْتِيَهُم بِآيَةٍ﴾ ” پس اگر آپ سے ہوسکے کہ ڈھونڈ نکالیں کوئی سرنگ زمین میں، یا کوئی سیڑھی آسمان میں پھر لائیں آپ ان کے پاس کوئی نشانی“ یعنی یہ سب کچھ کر دیکھیے ان میں سے کوئی چیز بھی ان کو فائدہ نہیں دے گی۔ یہ آیت کریمہ اس قسم کے معاندین حق کی ہدایت کی تمنا اور امید کو منقطع کرتی ہے۔ ﴿وَلَوْ شَاءَ اللَّـهُ لَجَمَعَهُمْ عَلَى الْهُدَىٰ﴾” اور اگر اللہ چاہتا تو ان سب کو ہدایت پر جمع کردیتا“ مگر حکمت الٰہی متقاضی ہوئی کہ وہ اپنی گمراہی پر باقی رہیں ﴿فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْجَاهِلِينَ﴾ ” پس آپ جاہلوں میں شامل نہ ہوں“ جو حقائق امور کی معرفت نہیں رکھتے اور ان امور کو ان کے مقام پر نہیں رکھتے۔ الانعام
36 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے ﴿إِنَّمَا يَسْتَجِيبُ﴾ ” بلا شبہ قبول کریں گے۔“ آپ کی دعوت اور آپ کی رسالت پر صرف وہی لوگ لبیک کہیں گے اور آپ کے امرو نہی کے سامنے صرف وہی لوگ سر تسلیم خم کریں گے ﴿الَّذِينَ يَسْمَعُونَ ﴾” جو سنتے ہیں۔“ یعنی جو اپنے دل کے کانوں سے سنتے ہیں جو ان کو فائدہ دیتا ہے اور یہ عقل اور کان رکھنے والے لوگ ہیں۔ یہاں سننے سے مراد دل سے سننا اور اس پر لبیک کہنا ہے ورنہ مجرد کانوں سے سننے میں نیک اور بدسب شامل ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ کی آیات کو سن کر تمام مکلفین پر اللہ تعالیٰ کی حجت قائم ہوگئی اور حق کو قبول نہ کرنے کا ان کے پاس کوئی عذر باقی نہ رہا۔﴿وَالْمَوْتَىٰ يَبْعَثُهُمُ اللَّـهُ ثُمَّ إِلَيْهِ يُرْجَعُونَ ﴾” اور مردوں کو زندہ کرے گا اللہ، پھر اس کی طرف وہ لائے جائیں گے۔“ اس میں اس امر کا احتمال ہے کہ یہ معنی، مذکور بالا معنی کے بالمقابل ہوں۔ یعنی آپ کی دعوت کا جواب صرف وہی لوگ دیں گے جن کے دل زندہ ہیں، رہے وہ لوگ جن کے دل مر چکے ہیں، جنہیں اپنی سعادت کا شعور تک نہیں اور جنہیں یہ بھی احساس نہیں کہ وہ کون سی چیز ہے جو انہیں نجات دلائے گی تو ایسے لوگ آپ کی دعوت پر لبیک نہیں کہیں گے اور نہ وہ آپ کی اطاعت کریں گے۔ ان کے لئے وعدے کا دن تو قیامت کا دن ہے اس روز اللہ تعالیٰ انہیں دوبارہ زندہ کرے گا، پھر وہ اس کی طرف لوٹائے جائیں گے۔ اس آیت کریمہ میں یہ احتمال بھی ہے کہ اس کے ظاہری معنی مراد لئے جائیں۔ نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ معاد کو متحقق کر رہا ہے کہ وہ قیامت کے روز تمام مردوں کو زندہ کرے گا، پھر ان کو ان کے اعمال سے آگاہ کرے گا۔ یہ آیت کریمہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی دعوت پر لبیک کہنے کی ترغیب اور اس کا جواب نہ دینے پر ترہیب کو متضمن ہے۔ الانعام
37 ﴿ وَقَالُوا﴾ ”اور کہتے ہیں۔“ یعنی عناد کی وجہ سے رسول کی تکذیب کرنے والے کہتے ہیں : ﴿لَوْلَا نُزِّلَ عَلَيْهِ آيَةٌ مِّن رَّبِّهِ ۚ﴾ ” کیوں نہیں اتاری گئی اس پر کوئی نشانی اس کے رب کی طرف؟“ یعنی ان کی خواہش کے مطابق نشانیاں نازل کی جائیں جن کا انتخاب وہ اپنی فاسد عقل اور گھٹیا آراء کے ذریعے سے کرتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کا یہ قول نقل فرمایا : ﴿ وَقَالُوا لَن نُّؤْمِنَ لَكَ حَتَّىٰ تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الْأَرْضِ يَنبُوعًا  أَوْ تَكُونَ لَكَ جَنَّةٌ مِّن نَّخِيلٍ وَعِنَبٍ فَتُفَجِّرَ الْأَنْهَارَ خِلَالَهَا تَفْجِيرًا أَوْ تُسْقِطَ السَّمَاءَ كَمَا زَعَمْتَ عَلَيْنَا كِسَفًا أَوْ تَأْتِيَ بِاللَّـهِ وَالْمَلَائِكَةِ قَبِيلًا﴾(بنی اسرائیل :17؍90۔92)” اور وہ کہتے ہیں کہ ہم تم پر ایمان نہیں لائیں گے جب تک کہ تم زمین سے ہمارے لئے چشمہ جاری نہ کر دو، یا تمہارے لئے کھجوروں اور انگوروں کا کوئی باغ ہو اور اس باغ کے بیچوں بیچ نہریں جاری کرو یا جیسا کہ تم دعویٰ کیا کرتے ہو ہم پر آسمان کے ٹکڑے گرا دو یا اللہ اور فرشتوں کو ہمارے سامنے لے آؤ۔ “ ﴿قُلْ﴾ان کا جواب دیتے ہوئے کہہ دیجیے !﴿إِنَّ اللَّـهَ قَادِرٌ عَلَىٰ أَن يُنَزِّلَ آيَةً ﴾ ” یقیناً اللہ اس بات پر قادر ہے کہ کوئی نشانی اتارے دے“ اس کی قدرت ایسا کرنے سے قاصر نہیں اور ایسا کیوں نہ ہو جبکہ ہر چیز اس کے غلبہ کے سامنے سرتسلیم خم کئے ہوئے اور اس کی قدرت و تسلط کی اطاعت کئے ہوئے ہے ﴿وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ﴾ ” لیکن ان کے اکثر لوگ نہیں جانتے“ پس وہ اپنی جہالت اور عدم علم کی بنا پر ایسی نشانیوں کا مطالبہ کر رہے ہیں کہ اگر وہ نشانیاں ان کے پاس آجائیں تو بھی وہ ایمان نہیں لائیں گے اور پھر ان پر جلدی سے عذاب نازل کردیا جائے گا۔ جیسا کہ یہ سنت الٰہی ہے جو کبھی تبدیل نہیں ہوتی۔ بایں ہمہ اگر ان کا مقصود وہ نشانیاں ہیں جو حق کو واضح کر کے راہ حق کو روشن کردیں تو جناب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہر قسم کی قطعی دلیل اور روشن برہان پیش کرتے ہیں جو اس حق پر دلالت کرتی ہیں جس کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے، کیونکہ بندہ دین کے ہر مسئلہ میں متعدد عقلی اور نقلی دلائل پاتا ہے کہ اس کے دل میں ادنیٰ سا شک و شبہ باقی نہیں رہتا۔ پس نہایت بابرکت ہے وہ ذات جس نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ مبعوث فرمایا اور واضح دلائل کے ساتھ اس کی تائید کی، تاکہ جو کوئی ہلاک ہو دلیل کے ساتھ ہلاک ہو اور جو کوئی زندہ رہے، دلیل کے ساتھ زندہ رہے۔ بیشک اللہ تعالیٰ سننے والا اور جاننے والا ہے۔ الانعام
38 زمین میں رہنے والے، ہوا میں اڑنے والے، بہائم، جنگلوں میں رہنے والے وحشی جانور اور پرندے سب تمہاری طرح گروہ ہیں۔ ان کو بھی ہم نے اسی طرح پیدا کیا ہے جس طرح تمہیں پیدا کیا ہے، اسی طرح ہم ان کو بھی رزق عطا کرتے ہیں جس طرح تمہیں عطا کرتے ہیں۔ ہماری قدرت اور مشیت ان پر بھی اسی طرح نافذ ہے جس طرح تم پر نافذ ہے۔ ﴿مَّا فَرَّطْنَا فِي الْكِتَابِ مِن شَيْءٍ﴾ ” ہم نے کتاب میں کسی چیز میں کوتاہی نہیں کی۔“ یعنی ہم نے کسی چیز کو لوح محفوظ میں لکھنے میں کوتاہی اور غفلت نہیں کی بلکہ تمام چھوٹی بڑی چیزیں جیسی بھی وہ ہیں لوح محفوظ میں لکھی ہوئی ہیں۔ پس تمام حوادث اس کے مطابق واقع ہوتے ہیں جو قلم سے لکھے جا چکے ہیں۔ یہ آیت کریمہ اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ سب سے پہلے لوح محفوظ میں تمام کائنات کی تقدیر لکھ دی گئی۔ یہ قضا وقدر کے مراتب میں سے ایک مرتبہ ہے۔ قضا و قدر کے چار مراتب ہیں۔ (١) اللہ تبارک و تعالیٰ کا علم تمام اشیاء کو شامل ہے۔ (٢) اس کی کتاب (یعنی لوح محفوظ) تمام موجودات کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ (٣) اس کی مشیت اور قدرت عامہ ہر چیز پر نافذ ہے۔ (٤) تمام مخلوقات کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے، حتی کہ بندوں کے افعال کا خالق بھی وہی ہے۔ اس آیت مبارکہ میں یہ احتمال ہوسکتا ہے کہ ” کتاب“ سے مراد قرآن ہو۔ تب اس کے معنی قرآن کریم کی اس آیت کی مانند ہوں گے ﴿وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ ﴾ (النحل :16؍89) ” اور ہم نے تم پر کتاب نازل کی جس میں ہر چیز بیان کردی گئی ہے۔ “ ﴿ ثُمَّ إِلَىٰ رَبِّهِمْ يُحْشَرُونَ ﴾ ” پھر سب اپنے رب کی طرف جمع کئے جائیں گے۔“ یعنی تمام امتوں کو قیامت کے میدان میں اللہ تعالیٰ کے حضور جمع کیا جائے گا۔ یہ انتہائی ہولناک مقام ہوگا۔ پس اللہ تعالیٰ اپنے عدل و احسان سے سب کو جزا دے گا اور ان پر اپنا فیصلہ نافذ کرے گا، جس کی تعریف اولین و آخرین، آسمانوں والے اور زمین والے سب کریں گے۔ الانعام
39 اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ کی آیات اور اس کے رسولوں کی تکذیب کرنے والوں کا حال بیان ہوا ہے کہ انہوں نے اپنے آپ پر ہدایت کے دروازے بند کر کے ہلاکت کے دروازے کھول لئے اور وہ ﴿ صُمٌّ﴾ ” بہرے“ یعنی حق سننے سے بہرے ہیں ﴿ وَبُكْمٌ﴾ ” اور گونگے“ یعنی حق بولنے سے گونگے ہیں، پس باطل کے سوا کچھ نہیں بولتے۔ ﴿ فِي الظُّلُمَاتِ﴾ ” اندھیروں میں“ یعنی جہالت، کفر، ظلم، عناد اور نافرمانی کی تاریکیوں میں ڈوبے ہوئے ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کا ان کو گمراہ کردینا ہے، کیونکہ ﴿ مَن يَشَإِ اللَّـهُ يُضْلِلْـهُ وَمَن يَشَأْ يَجْعَلْهُ عَلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ﴾ ” وہ جس کو چاہتا ہے، گمراہ کرتا ہے اور جس کو چاہتا ہے، اسے صراط مستقیم پر ڈال دیتا ہے۔“ کیونکہ وہی اکیلا اپنی حکمت اور فضل و کرم کے تقاضوں کے مطابق ہدایت دیتا یا گمراہ کرتا ہے۔ الانعام
40 ﴿قُلْ﴾ اللہ تعالیٰ کے ہمسر ٹھہرانے والے مشرکین سے کہہ دیجیے ﴿أَرَأَيْتَكُمْ إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّـهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ أَغَيْرَ اللَّـهِ تَدْعُونَ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ﴾ ” بھلا بتلاؤ، اگر تمہارے پاس اللہ کا عذاب آجائے یا قیامت آجائے، تو کیا تم اللہ کے سوا اوروں کو پکارو گے، اگر تم سچے ہو؟“ یعنی جب تم ان تکالیف اور کرب و غم میں مبتلا ہوتے ہو اور تم ان کو ہٹانے پر مجبور ہوتے ہو، تب اس وقت تم اپنے خداؤں اور بتوں کو پکارتے ہو یا تم اپنے رب بادشاہ حقیقی کو پکارتے ہو؟ الانعام
41 ﴿بَلْ إِيَّاهُ تَدْعُونَ فَيَكْشِفُ مَا تَدْعُونَ إِلَيْهِ إِن شَاءَ وَتَنسَوْنَ مَا تُشْرِكُونَ ﴾” بلکہ تم صرف اسی کو پکارتے ہو، پھر وہ دور کردیتا ہے اس مصیبت کو جس کے لئے اس کو پکارتے ہو، اگر وہ چاہے اور ان کو بھول جاتے ہو جن کو تم شریک ٹھہراتے ہو۔“ جب سختیوں کے وقت تمہارا اپنے معبودوں کے بارے میں یہ حال ہے کہ تم ان کو بھول جاتے ہو کیونکہ تمہیں علم ہے کہ وہ نفع و نقصان کے مالک ہیں نہ موت و حیات کے اور نہ وہ قیامت کے روز دوبارہ زندہ کرنے پر قادر ہیں اور تم (اس وقت) نہایت اخلاص کے ساتھ اللہ تعالیٰ کو پکارتے ہو، کیونکہ تم جانتے ہو کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی نفع و نقصان کا مالک ہے، وہی ہے جو مجبور کی دعا قبول کرتا ہے۔ تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ فراخی اور خوشحالی کے وقت تم شرک کرتے ہو اور اللہ تعالیٰ کے شریک ٹھہراتے ہو؟ کیا عقل یا نقل نے تمہیں اس راہ پر لگایا ہے یا تمہارے پاس کوئی دلیل ہے یا تم اللہ تعالیٰ کے بارے میں جھوٹ گھڑ رہے ہو؟ الانعام
42 ﴿وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا إِلَىٰ أُمَمٍ مِّن قَبْلِكَ﴾ ” اور ہم نے آپ سے پہلے بہت سی امتوں کی طرف پیغمبر بھیجے۔“ یعنی ہم نے سابقہ اور گزرے ہوئے زمانوں میں رسول بھیجے۔ انہوں نے ہمارے رسولوں کو جھٹلایا اور ہماری آیات کا انکار کیا﴿فَأَخَذْنَاهُم بِالْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ ﴾” ہم انہیں سختیوں اور تکلیفوں پر پکڑتے رہے۔“ یعنی ان پر رحم کرتے ہوئے فقر و مرض اور آفات و مصائب کے ذریعے سے ان کی گرفت کی ﴿لَعَلَّهُمْ يَتَضَرَّعُونَ﴾ ” تاکہ وہ عاجزی کریں۔“ شاید کہ وہ اللہ کے پاس عاجزی سے گڑ گڑائیں اور سختی کے وقت اس کے پاس پناہ طلب کریں۔ الانعام
43 ۔﴿فَلَوْلَا إِذْ جَاءَهُم بَأْسُنَا تَضَرَّعُوا وَلَـٰكِن قَسَتْ قُلُوبُهُمْ﴾ ” پس کیوں نہ گڑ گڑائے جب آیا ان پر عذاب ہمارا، لیکن سخت ہوگئے دل ان کے“ یعنی ان کے دل پتھر ہوگئے ہیں جو حق کے سامنے نرم نہیں پڑتے ﴿ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴾ ” اور بھلے کر دکھلائے ان کو شیطان نے جو کام وہ کر رہے تھے“ اس لئے وہ سمجھتے رہے کہ جس راستے پر وہ گامزن ہیں یہی دین حق ہے۔ پس وہ اپنے باطل میں غلطاں کچھ عرصہ فائدہ اٹھاتے ہیں اور شیطان ان کی عقلوں کے ساتھ کھیلتا ہے۔ الانعام
44 ﴿فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُكِّرُوا بِهِ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ أَبْوَابَ كُلِّ شَيْءٍ ﴾ ” پھر جب وہ بھول گئے اس نصیحت کو جو ان کو کی گئی تھی تو کھول دیئے ہم نے ان پر دروازے ہر چیز کے“ یعنی ان پر دنیا، اس کی لذتوں اور اس کی غفلتوں کے دروازے کھول دیئے ﴿حَتَّىٰ إِذَا فَرِحُوا بِمَا أُوتُوا أَخَذْنَاهُم بَغْتَةً فَإِذَا هُم مُّبْلِسُونَ﴾ ” یہاں تک کہ جب وہ خوش ہوئے ان چیزوں پر جو ان کو دی گئیں تو ہم نے ان کو اچانک پکڑ لیا، پس اس وقت وہ ناامید ہو کر رہ گئے“ یعنی وہ ہر بھلائی سے مایوس ہوگئے۔ یہ عذاب کی سخت ترین نوعیت ہے کہ انہیں اچانک غفلت اور اطمینان کی حالت میں پکڑ لیا جائے تاکہ ان کی سزا سخت اور مصیبت بہت بڑی ہو۔ الانعام
45 ﴿فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِينَ ظَلَمُوا ۚ﴾ ” پھر کٹ گئی جڑ ظالموں کی“ یعنی عذاب سے وہ برباد ہوگئے اور ان کے تمام اسباب منقطع ہوگئے۔ ﴿وَالْحَمْدُ لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ﴾ ” اور تمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں جو سارے جہانوں کا پالنے والا ہے۔“ اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر نے جھٹلانے والوں کی جو ہلاکت مقدر کی ہے اس پر پروردگار عالم کی تعریف ہے، کیونکہ اسی سے اللہ تعالیٰ کی آیات، اس کے اولیاء کی عزت و تکریم، اس کے دشمنوں کی ذلت و رسوائی اور رسولوں کی تعلیمات کی سچائی ظاہر ہوتی ہے۔ الانعام
46 اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ جس طرح وہ تمام کائنات کی تخلیق و تدبیر میں متفرد ہے اسی طرح وہ وحدانیت اور الوہیت میں بھی متفرد ہے۔ فرمایا: ﴿قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِنْ أَخَذَ اللَّـهُ سَمْعَكُمْ وَأَبْصَارَكُمْ وَخَتَمَ عَلَىٰ قُلُوبِكُم﴾ ” کہہ دیجیے، بتلاؤ! اگر اللہ تعالیٰ چھین لے تمہارے کان اور آنکھیں اور مہر لگا دے تمہارے دلوں پر“ یعنی تم اس حالت میں باقی رہ جاؤ کہ تمہاری سماعت ہو نہ بصارت اور نہ سوچنے سمجھنے کی قوت ﴿مَّنْ إِلَـٰهٌ غَيْرُ اللَّـهِ يَأْتِيكُم بِهِ﴾ ” تو کون ایسا معبود ہے اللہ کے سوا جو تم کو یہ چیزیں لادے؟“ جب اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی ہستی ایسی نہیں جو یہ چیز عطا کرسکے تو پھر تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایسی ہستیوں کی عبادت کیوں کرتے ہو جن کے پاس کچھ بھی قدرت و اختیار نہیں مگر جب اللہ چاہے۔ یہ آیت کریمہ توحید کے اثبات اور شرک کے بطلان کی دلیل ہے اس لئے فرمایا : ﴿انظُرْ كَيْفَ نُصَرِّفُ الْآيَاتِ﴾” دیکھو ! ہم کیوں کر طرح طرح سے بیان کرتے ہیں باتیں“ یعنی ہم اپنی آیات کو کس طرح متنوع بناتے ہیں، ہم ہر اسلوب میں اپنی نشانی لاتے ہیں، تاکہ حق روشن اور مجرموں کی راہ واضح ہوجائے ﴿ ثُمَّ هُمْ يَصْدِفُونَ﴾” پھر بھی وہ اعراض کرتے ہیں۔“ یعنی اس کامل تبیین و توضیح کے باوجود بھی یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی آیتوں سے روگردانی اور اعراض کرتے ہیں۔ الانعام
47 ﴿قُلْ أَرَأَيْتَكُمْ ﴾یعنی مجھے خبر دو﴿ إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّـهِ بَغْتَةً أَوْ جَهْرَةً﴾ ”اگر تم پر اللہ کا عذاب بے خبری میں یا خبر آنے کے بعد آئے“ یعنی اللہ تعالیٰ کا عذاب اچانک آجائے یا اس عذاب کے مقدمات ظاہر ہوجائیں جن سے تمہیں اس عذاب کے وقوع کا علم ہوجائے ﴿هَلْ يُهْلَكُ إِلَّا الْقَوْمُ الظَّالِمُونَ﴾ ” تو کیا ظالموں کے سوا کوئی اور بھی ہلاک ہوگا۔“ یعنی وہ ظالم لوگ ہلاک ہوں گے جو اپنے ظلم و عناد کی وجہ سے اس عذاب کے وقوع کا سبب بنے۔ اس لئے ظلم پر قائم رہنے سے بچو، کیونکہ ظلم ابدی ہلاکت اور دائمی بدبختی ہے۔ الانعام
48 اللہ تبارک و تعالیٰ اس چیز کا خلاصہ بیان فرماتا ہے جس کے ساتھ اس نے رسولوں کو بھیجا اور وہ ہے تبشیر اور انذار، یہ چیز مبشر، مبشربہ اور ان اعمال کے بیان کو مستلزم ہے کہ جب بندہ ان کو بجا لاتا ہے تو اسے بشارت حاصل ہوتی ہے۔ اسی طرحیہ منذر، منذربہ اور ایسے اعمال کے بیان کو لازم قرار دیتی ہے کہ بندہ جب ان اعمال کا ارتکاب کرتا ہے تو انداز کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ لوگ انبیاء و مرسلین کی دعوت پر لبیک کہنے یا ان کی دعوت کا جواب نہ دینے کے اعتبار سے دو اقسام میں منقسم ہیں ﴿فَمَنْ آمَنَ وَأَصْلَحَ﴾ ” پھر جو شخص ایمان لائے اور اصلاح کرے‘‘ یعنی جو اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں اور یوم آخرت پر ایمان لاتے ہیں اور اپنے ایمان، اعمال اور نیت کی اصلاح کرتے ہیں ﴿ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ﴾ ” تو ایسے لوگوں کو کچھ خوف ہوگا“ آنے والے امور سے انہیں کوئی خوف نہ ہوگا ﴿ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ﴾ ” اور نہ وہ غم زدہ ہوں گے۔“ اور گزرے ہوئے امور پر وہ غمزدہ نہ ہوں گے۔ الانعام
49 ﴿ وَالَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا يَمَسُّهُمُ الْعَذَابُ﴾ ” اور جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا، ان کو عذاب پہنچے گا“ اور وہ اس کا مزا چکھیں گے ﴿ بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ﴾ ” اس پاداش میں کہ وہ نافرمانی کیا کرتے تھے۔ “ الانعام
50 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے کہ وہ معجزا کا مطالبہ کرنے والوں سے کہہ دیں جو آپ سے یہ کہتے ہیں کہ ” تو صرف اس لئے ہمیں دعوت دیتا ہے کہ ہم تجھے بھی اللہ کے ساتھ الٰہ مان لیں“ ﴿لَّا أَقُولُ لَكُمْ عِندِي خَزَائِنُ اللَّـهِ ﴾” میں تم سے نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں“ یعنی اللہ تعالیٰ کے رزق اور رحمت کی کنجیاں ﴿ وَلَا أَعْلَمُ الْغَيْبَ﴾” اور نہ میں غیب جانتا ہوں“ غیب کا علم تو تمام تر اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ہے جس کی صفت ہے :﴿مَّا يَفْتَحِ اللَّـهُ لِلنَّاسِ مِن رَّحْمَةٍ فَلَا مُمْسِكَ لَهَا ۖ وَمَا يُمْسِكْ فَلَا مُرْسِلَ لَهُ مِن بَعْدِهِ ۚ ﴾ (فاطر :35؍2) ” اللہ تعالیٰ لوگوں پر رحمت کا جو دروازہ کھول دے اسے کوئی بند کرنے والا نہیں اور جو دروازہ وہ بند کر دے تو اس کے بعد کوئی کھول نہیں سکتا۔“ یعنی وہ اکیلا ہی ہے جو غائب اور موجودہ کا علم رکھتا ہے ﴿فَلَا يُظْهِرُ عَلَىٰ غَيْبِهِ أَحَدًا  إِلَّا مَنِ ارْتَضَىٰ مِن رَّسُولٍ ﴾(الجن : 72؍ 26۔27) ” وہ کسی پر اپنے غیب کو ظاہر نہیں کرتا سوائے اس رسول کے جسے وہ پسند کرے۔ “ ﴿وَلَا أَقُولُ لَكُمْ إِنِّي مَلَكٌ﴾” اور میں تم سے نہیں کہتا کہ میں فرشتہ ہوں“ کہ میں اللہ تعالیٰ کے تصرفات کو نافذ کرنے والا ہوں، میں اپنے اس مرتبہ و مقام سے بڑھ کر کوئی دعویٰ نہیں کرتا جس پر اللہ تبارک و تعالیٰ نے مجھے فائز کیا ہے۔ ﴿ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ ۚ﴾ ” میں تو صرف اس حکم پر چلتا ہوں جو مجھے آتا ہے۔“ یعنی یہ میرے معاملے کی غایت و انتہا ہے، میں وحی کے سوا کسی چیز کی پیروی نہیں کرتا، میں خود بھی اس پر عمل کرتا ہوں اور تمام مخلوق کو بھی اسی پر عمل کرنے کی دعوت دیتا ہوں۔ جب میں نے اپنا مرتبہ اور مقام پہچان لیا ہے تو تلاش کرنے والا میرے پاس کیا چیز تلاش کرتا ہے یا مجھ سے ایسی کس چیز کا مطالبہ کرتا ہے جس کا میں نے کبھی دعویٰ ہی نہیں کیا۔ کیا انسان پر اس کے سوا کوئی چیز لازم ہے جس کے وہ در پے ہے؟ جب میں تمہیں اس چیز کی طرف بلاتا ہوں جو میری طرف وحی کی گئی ہے، تو تم کس بنا پر مجھ پر یہ لازم کرتے ہو کہ میں کسی ایسی چیز کا دعویٰ کروں جو میرے مرتبہ کے شایان نہیں، کیا وہ محض تمہارا ظلم، عناد اور سرکشی نہیں؟ جو آپ کی دعوت قبول کرتے ہیں اور آپ کی طرف بھیجی گئی وحی کی اتباع کرتے ہیں اور جو ایسا نہیں کرتے، ان کے درمیان فرق واضح کرتے ہوئے کہہ دیجیے !﴿قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الْأَعْمَىٰ وَالْبَصِيرُ ۚ أَفَلَا تَتَفَكَّرُونَ﴾ ” کہہ دیجیے ! کیا اندھا اور بینا برابر ہوسکتے ہیں؟ کیا تم غور نہیں کرتے؟“ کیا تم غور و فکر نہیں کرتے کہ تمام اشیا کو ان کے اپنے اپنے مرتبے اور مقام پر رکھو اور اسی چیز کو اختیار کرو جو اختیار کئے جانے اور ترجیح دیے جانے کی مستحق ہے۔ الانعام
51 یہ قرآن تمام مخلوق کے لئے انذار ہے مگر اس سے صرف وہی لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں ﴿الَّذِينَ يَخَافُونَ أَن يُحْشَرُوا إِلَىٰ رَبِّهِمْ﴾ ” جو اس حقیقت کا خوف رکھتے ہیں کہ انہیں ان کے رب کے پاس اکٹھے کئے جانا ہے۔“ پس انہیں پورا پورا یقین ہے کہ وہ اس گھر سے منتقل ہو کر آخرت کے ہمیشہ رہنے والے گھر میں داخل ہوں گے۔ وہ اپنے ساتھ وہی کچھ رکھتے ہیں جو ان کو فائدہ دیتا ہے اور اسے چھوڑ دیتے ہیں جو انہیں نقصان دیتا ہے۔ ﴿ لَيْسَ لَهُم مِّن دُونِهِ﴾ ” نہیں ہوگا ان کے لئے اس کے بغیر“ یعنی اللہ کے بغیر ﴿وَلِيٌّ وَلَا شَفِيعٌ﴾ ” کوئی دوست اور نہ سفارشی“ یعنی کوئی ایسی ہستی نہیں ہوگی جو ان کے معاملے کی سرپرستی کرسکے جس سے ان کا مطلوب حاصل ہوجائے اور ان سے تکلیف دور ہوجائے، نہ ان کا کوئی سفارشی ہوگا، کیونکہ تمام مخلوق کے پاس کوئی اختیار نہیں ﴿لَّعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ﴾ ” تاکہ وہ پرہیز گار بنیں۔“ شاید وہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی اطاعت اور اس کے نواہی سے اجتناب کے ذریعے سے تقویٰ اختیار کریں۔ کیونکہ انذار، تقویٰ کا موجب اور اس کے اسباب میں سے ایک سبب ہے۔ الانعام
52 ﴿وَلَا تَطْرُدِ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُم بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ﴾” اور مت دور کیجیے ان لوگوں کو جوصبح و شام اپنے رب کو پکارتے ہیں، چاہتے ہیں اسی کا چہرہ“ یعنی دوسروں کی مجالست کی امید میں اہل اخلاص اور اہل عبادت کو اپنی مجلس سے دور نہ کیجیے جو ہمیشہ اپنے رب کو پکارتے رہتے ہیں، ذکر اور نماز کے ذریعے سے اس کی عبادت کرتے ہیں، صبح و شام اس سے سوال کرتے ہیں اور اس سے ان کا مقصد صرف اللہ تعالیٰ کا چہرہ ہے۔ اس مقصد جلیل کے سوا ان کا کوئی اور مقصد نہیں۔ بنا بریں یہ لوگ اس چیز کے مستحق نہیں کہ انہیں اپنے سے دور کیا جائے یا ان سے روگردانی کی جائے بلکہ یہ لوگ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موالات، محبت اور قربت کے زیادہ مستحق ہیں، کیونکہ یہ مخلوق میں سے چنے ہوئے لوگ ہیں اگرچہ یہ فقیر اور نادار ہیں اور یہی درحقیقت اللہ کے ہاں باعزت لوگ ہیں اگرچہ یہ لوگوں کے نزدیک گھٹیا اور کم مرتبہ ہیں۔ ﴿ مَا عَلَيْكَ مِنْ حِسَابِهِم مِّن شَيْءٍ وَمَا مِنْ حِسَابِكَ عَلَيْهِم مِّن شَيْءٍ﴾ ” نہیں ہے آپ پر ان کے حساب میں سے کچھ اور نہ آپ کے حساب میں سے ان پر ہے کچھ“ یعنی ہر شخص کے ذمہ اس کا اپنا حساب ہے، اس کا نیک عمل اس کے لئے ہے اور برے عمل کی شامت بھی اسی پر ہے﴿فَتَطْرُدَهُمْ فَتَكُونَ مِنَ الظَّالِمِينَ﴾” پس اگر ان کو دور کرو گے تو ظالموں میں سے ہوجاؤ گے۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی پوری طرح پیروی کی، چنانچہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم فقرائے مومنین کی مجلس میں بیٹھتے تو دلجمعی سے ان کے ساتھ بیٹھتے، ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آتے، ان کے ساتھ حسن خلق اور نرمی کا معاملہ کرتے اور انہیں اپنے قریب کرتے، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں زیادہ تر یہی لوگ ہوتے تھے۔ ان آیات کریمہ کا سبب نزول یہ ہے کہ قریش میں سے یا اعراب میں سے چند اجڈ لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ اگر تم چاہتے ہو کہ ہم تم پر ایمان لائیں اور تمہاری پیروی کریں تو فلاں فلاں شخص جو کہ فقرائے صحابہ میں سے تھے، اپنے پاس سے اٹھا دو، کیونکہ ہمیں شرم آتی ہے کہ عرب ہمیں ان گھٹیا لوگوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے دیکھیں۔ ان معترضین کے اسلام لانے اور ان کے اتباع کرنے کی خواہش کی بنا پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں بھی یہ خیال آیا، مگر اللہ تعالیٰ نے اس آیت اور اس جیسی دیگر آیات کے ذریعے سے آپ کو ایسا کرنے سے منع فرمایا۔ الانعام
53 ﴿وَكَذَٰلِكَ فَتَنَّا بَعْضَهُم بِبَعْضٍ لِّيَقُولُوا أَهَـٰؤُلَاءِ مَنَّ اللَّـهُ عَلَيْهِم مِّن بَيْنِنَا﴾” اور اسی طرح ہم نے آزمایا ہے بعض لوگوں کو بعضوں سے، تاکہ کہیں کیا یہی لوگ ہیں جن پر ہمارے درمیان میں سے، اللہ نے فضل کیا؟‘‘ یعنی یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندوں کی آزمائش ہے کہ اس نے بعض کو خوشحال بنایا اور بعض کو محتاج اور تنگ دست پیدا کیا۔ بعض کو صاحب شرف پیدا کیا، بعض کو گھٹیا اور کم تر، جب اللہ تبارک و تعالیٰ کسی نادار اور کم تر شخص کو ایمان عطا کر کے اس پر احسان کرتا ہے تو یہ چیز خوشحال اور بلند مرتبہ شخص کے لئے امتحان کا باعث ہوتی ہے۔ اگر اس کا مقصد اتباع حق ہے تو وہ ایمان لا کر مسلمان ہوجاتا ہے اور اسے ایمان لانے سے اس شخص کی مشارکت نہیں روک سکتی جس کو وہ مال و دولت اور جاہ و مرتبہ میں اپنے سے کمتر خیال کرتا ہے۔ اگر وہ طلب حق میں سچا نہیں تو یہ وہ گھاٹی ہے جو اسے اتباع حق سے روک دیتی ہے۔ جن کو وہ اپنے آپ سے کم تر خیال کرتے ہیں ان کو حقیر گردانتے ہوئے کہتے ہیں : ﴿ أَهَـٰؤُلَاءِ مَنَّ اللَّـهُ عَلَيْهِم مِّن بَيْنِنَا﴾” کیا یہی لوگ ہیں جن پر ہمارے درمیان میں سے، اللہ نے فضل کیا؟“ اسی چیز نے ان کی عدم طہارت کے باعث ان کو اتباع حق سے روک دیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس کلام کو جو اللہ تعالیٰ پر اعتراض کو متضمن ہے کہ اس نے ان کو ہدایت سے نواز دیا اور ان کو محروم کردیا۔۔۔ جواب دیتے ہوئے فرمایا : ﴿أَلَيْسَ اللَّـهُ بِأَعْلَمَ بِالشَّاكِرِينَ﴾ ” کیا نہیں ہے اللہ خوب جاننے والا شکر کرنے والوں کو؟“ جو اللہ تعالیٰ کی نعمت کو پہچانتے ہیں اور اس کا اعتراف کرتے ہیں اور اس کے تقاضوں کے مطابق عمل صالح کرتے ہیں پس اللہ تعالیٰ ایسے ہی کو اپنے فضل و احسان سے نوازتا ہے نہ کہ ان کو جو اس کے شکر گزار نہیں ہوتے، کیونکہ اللہ تعالیٰ حکمت والا ہے وہ اپنے فضل و کرم سے کسی ایسے شخص کو نہیں نوازتا جو اس کا اہل نہ ہو اور یہ معترضین اسی وصف کے مالک ہیں۔ اس کے برعکس جن فقرا کو اللہ تعالیٰ نے ایمان سے نوازا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے شکر گزار لوگ ہیں۔ الانعام
54 جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے مطیع مومن بندوں کو دور کرنے سے روک دیا تو ان کفار کے مقابلے میں انہیں اکرام، تعظیم، عزت اور احترام سے پیش آنے کا حکم دیا، چنانچہ فرمایا : ﴿وَإِذَا جَاءَكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِآيَاتِنَا فَقُلْ سَلَامٌ عَلَيْكُمْ﴾ ”جب آپ کے پاس ایسے لوگ آیا کریں جو ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں تو انہیں السلام علیکم کہیں۔“ یعنی جب اہل ایمان آپ کی خدمت میں حاضر ہوں تو آپ ان کو سلام کہیں، ان کو خوش آمدید کہیں۔ سلام و تحیات سے ان کا استقبال کریں اور انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کے جود و احسان کی بشارت دیں جو ان کے عزائم اور ارادوں میں نشاط پیدا کرے اور انہیں منزل مقصود تک پہنچنے کے لئے ہر راستہ اور ہر سبب اختیار کرنے کی ترغیب دیں۔ ان کو گناہوں پر قائم رہنے سے ڈرائیں اور انہیں گناہوں سے توبہ کرنے کا حکم دیں تاکہ وہ اپنے رب کی مغفرت اور اس کے جود و کرم کو پا سکیں۔ ﴿كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلَىٰ نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ ۖ أَنَّهُ مَنْ عَمِلَ مِنكُمْ سُوءًا بِجَهَالَةٍ ثُمَّ تَابَ مِن بَعْدِهِ وَأَصْلَحَ ﴾ ” لکھ لیا ہے تمہارے رب نے اپنے اوپر رحمت کو جو کوئی کرے تم میں سے برائی، ناواقفیت سے، پھر اس کے بعد توبہ کرلے اور نیک ہوجائے“ یعنی (قبولیت توبہ کے لئے) گناہوں کو ترک کرنا، ان کا قلع قمع کرنا، ان پر نادم ہونا اور اعمال کی اصلاح کرنا ضروری ہے، نیز ان امور کی ادائیگی جن کو اللہ تعالیٰ نے واجب قرار دیا ہے اور جو ظاہری اور باطنی اعمال فاسد ہوچکے ہیں۔ ان کی اصلاح کرنا ضروری ہے۔ جب یہ تمام امور موجود ہوں ﴿فَأَنَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ﴾ ” تو بات یہ ہے کہ وہ بخشنے والا مہربان ہے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کو جن امور کا حکم دیا ہے اس کی بجا آوری کے مطاق ان پر اپنی مغفرت اور رحمت کا فیضان کرتا ہے۔ الانعام
55 ﴿وَكَذَٰلِكَ نُفَصِّلُ الْآيَاتِ﴾ ” اور اسی طرح ہم اپنی آیات کھول کھول کر بیان کرتے ہیں۔“ یعنی اسی طرح ہم اپنی آیات کو واضح کرتے ہیں، گمراہی میں سے ہدایت کے راستے کو ممیز کرتے ہیں، رشد و ہدایت اور ضلالت میں فرق کرتے ہیں تاکہ راہ ہدایت پر چلنے والے ہدایت پا لیں، تاکہ حق کا راستہ عیاں ہوجائے جس پر گامزن ہونا چاہئے۔ ﴿وَلِتَسْتَبِينَ سَبِيلُ الْمُجْرِمِينَ ﴾ ” اور تاکہ مجرموں کا راستہ واضح ہو جائے“ جو اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور اس کے عذاب تک پہنچاتا ہے، کیونکہ جب مجرموں کا راستہ ظاہر اور صاف واضح ہوجاتا ہے تو اس سے اجتناب کرنا اور اس سے دور رہنا آسان ہوجاتا ہے۔ اور اس کے برعکس اگر راستہ مشتبہ اور غیر واضح ہو تو یہ مقصد جلیل حاصل نہیں ہوسکتا۔ الانعام
56 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے : ﴿قُلْ﴾ان مشرکین سے کہہ دیجیے جو اللہ کے ساتھ دوسرے معبودوں کو بھی پکارتے ہیں ﴿إِنِّي نُهِيتُ أَنْ أَعْبُدَ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ﴾ ” جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو مجھے ان کی عبادت سے منع کیا گیا ہے۔“ یعنی مجھے منع کیا گیا ہے کہ میں اللہ کی بجائے اللہ کے بناوٹی ہمسروں اور بتوں کی عبادت کروں جو کسی نفع ونقصان کے مالک ہیں نہ موت و حیات اور دوبارہ اٹھانے کا کوئی اختیار رکھتے ہیں۔ یہ سب باطل ہے۔ اس میں تمہارے لئے کوئی دلیل ہے نہ اس کے باطل ہونے میں کوئی شبہ ہے۔ سوائے خواہشات نفس کی پیروی کے جو سب سے بڑی گمراہی ہے۔ بنابریں فرمایا : ﴿قُل لَّا أَتَّبِعُ أَهْوَاءَكُمْ ۙ قَدْ ضَلَلْتُ إِذًا ﴾” کہہ دیجیے میں تمہاری خواہشات کی پیروی نہیں کرتا، بیشک تب میں بہک جاؤں گا“ یعنی اگر میں تمہاری خواہشات کی پیروی کروں تو گمراہ ہوجاؤں گا ﴿ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُهْتَدِينَ﴾” اور کسی پہلو سے بھی راہ راست پر نہیں رہوں گا“ رہی و وہ توحید اور اخلاص عمل جن پر میں عمل پیرا ہوں تو یہی حق ہے جس کی تائید واضح براہین اور قطعی دلائل کرتے ہیں۔ الانعام
57 ﴿عَلَىٰ بَيِّنَةٍ مِّن رَّبِّي ﴾ ” میں تو اپنے رب کی دلیل روشن پر ہوں۔“ آپ کہہ دیجیے کہ میں تو اس قرآن کی صحت اور اس کے ماسوا کے بطلان کا واضح یقین رکھتا ہوں۔ یہ رسول کی طرف سے قطعی شہادت ہے جو ہر قسم کے تردد سے پاک ہے۔ رسول علی الاطلاق سب سے عادل گواہ ہوتا ہے۔ اہل ایمان نے رسول کی گواہی کی تصدیق کی اور اللہ تعالیٰ نے ان کو جس ایمان سے نوازا ہے اس ایمان کے مطابق ان کے ہاں اس شہادت کی صحت اور صداقت متحقق ہے۔ ﴿وَ﴾ مگر اے مشرکو !﴿كَذَّبْتُم بِهِ﴾” تم نے اس کی تکذیب کی“ اور یہ تمہاری طرف سے اس سلوک کا مستحق نہ تھا، تصدیق کے سوا کوئی اور سلوک اس کے شایان شان نہ تھا۔ جب تم تکذیب پر مصر ہو تو جان رکھو کہ لا محالہ عذاب تم پر واقع ہونے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں یہ عذاب مقرر ہے وہ جب چاہے گا اور جیسے چاہے گا تم پر نازل کرے گا۔ اگر تم جلدی مچاتے ہو تو معاملہ میرے اختیار میں نہیں ﴿إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّـهِ﴾ ” حکم صرف اللہ کا ہے“ جس طرح اس نے اوامرونواہی میں اپنا حکم شرعی نافذ کیا ہے اسیطرح وہ حکم جزائی نافذ کرے گا اور اپنی حکمت کے تقاضوں کے مطابق ثواب و عقاب دے گا۔ پس اس کے فیصلے پر اعتراض درخورا عتنا نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے راہ حق کو واضح کردیا ہے اور اپنے بندوں کے سامنے حق بیان کر کے ان کا عذر ختم کردیا اور یوں ان کی حجت منقطع ہوگئی، تاکہ وہ ہلاک ہو تو وہ دلیل کے ساتھ ہلاک ہوا او جو زندہ رہے وہ دلیل کے ساتھ زندہ رہے ﴿وَهُوَ خَيْرُ الْفَاصِلِينَ ﴾ ”وہ سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔“ وہ دنیا و آخرت میں اپنے بندوں کے درمیان بہترین فیصلہ کرنے والا ہے، وہ ان کے درمیان ایسافیصلہ کرتا ہے جس پر اس کی تعریف کی جاتی ہے حتیٰ کہ وہ تعریف کئے بغیر نہیں رہتا جس کے خلاف فیصلہ ہوتا ہے اور وہ حق کو واضح اور متعین کردیتا ہے۔ الانعام
58 ﴿ قُل﴾ ان لوگوں سے کہہ دیجیے جو جہالت، عناد اور ظلم کی بنا پر عذاب کے لئے جلدی مچا رہے ہیں ﴿لَّوْ أَنَّ عِندِي مَا تَسْتَعْجِلُونَ بِهِ لَقُضِيَ الْأَمْرُ بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ﴾ ” اگر میرے پاس وہ چیز ہوتی جس کی تم جلدی کر رے ہو، تو طے ہوچکا ہوتا جھگڑا، میرے اور تمہارے درمیان“ پس میں تم پر عذاب واقع کردیتا۔ اس جلدی مچانے میں تمہارے لئے بھلائی نہیں۔ لیکن تمام تر معاملہ اللہ تعالیٰ کے قبضہ، اختیار میں ہے جو نہایت برد بار اور صبر کرنے والا ہے۔ نافرمان اس کی نافرمانی کرتے ہیں اور گناہوں کا ارتکاب کرنے والے اس کے سامنے بڑی جرأت سے گناہ کرتے ہیں مگر وہ ان سے درگزر کرتا ہے، ان کو رزق عطا کرتا ہے اور ان کو ظاہری اور باطنی نعمتوں سے بھی نوازتا ہے ﴿وَاللَّـهُ أَعْلَمُ بِالظَّالِمِينَ﴾” اور اللہ ظالموں کو خوب جانتا ہے“ ان کے احوال میں سے کوئی چیز اس سے چھپی ہوئی نہیں ہے، پس وہ ان کو مہلت دیتا ہے مگر مہمل نہیں چھوڑتا۔ الانعام
59 یہ آیت کریمہ قرآن مجید کی عظیم ترین آیات میں شمار ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ کے علم محیط کی تفصیل بیان کرتی ہے جو تمام غیوب کو شامل ہے۔ وہ جسے چاہتا ہے اسے ان غیبوں میں سے کسی پر مطلع کردیتا ہے۔ اس نے اپنا بہت سا علم، عام جہان والے تو کجا ملائکہ مقربین اور انبیاء و مرسلین سے بھی پوشیدہ رکھا ہے۔ صحراؤں اور بیابانوں میں حیوانات، درخت، ریت کے ذرات، کنکر اور مٹی سب اس کے علم میں ہیں۔ سمندروں کے جانوروں، ان کی معدنیات، ان کے شکار وغیرہ اور ان تمام اشیا کو وہ جانتا ہے جو ان کے کناروں کے اندر اور ان کے پانیوں میں شامل ہیں۔ ﴿وَمَا تَسْقُطُ مِن وَرَقَةٍ ﴾” اور نہیں گرتا کوئی پتا“ بحر و بر، آبادیوں، بیابانوں اور دنیا و آخرت کے درختوں پر سے اگر کوئی پتا گرتا ہے تو اسے بھی وہ جانتا ہے ﴿وَلَا حَبَّةٍ فِي ظُلُمَاتِ الْأَرْضِ﴾ ” اور نہیں کوئی دانہ زمین کے اندھیروں میں“ یعنی پھل اور کھیتیوں کے دانے، وہ بیج جو لوگ زمین میں بوتے ہیں اور جنگلی نباتات کے بیج جن سے مختلف اصناف کی نباتات پیدا ہوتی ہیں ﴿وَلَا رَطْبٍ وَلَا يَابِسٍ ﴾” اور نہ کوئی ہری چیز اور نہ کوئی سوکھی چیز“ یہ خصوص کے بعد عموم کا ذکر ہے ﴿ إِلَّا فِي كِتَابٍ مُّبِينٍ﴾ ” مگر وہ سب کتاب مبین میں ہے“ یعنی لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے اور لوح محفوظ ان تمام امور کو شامل ہے۔ ان میں سے بعض امور تو بڑے بڑے عقل مندوں کو حیران اور مبہوت کردیتے ہیں اور یہ چیز رب عظیم کی عظمت اور اس کے تمام اوصاف میں اس کی وسعت پر دلالت کرتی ہے۔ اگر تمام مخلوق کے اولین و آخرین جمع ہو کر اللہ تعالیٰ کی کسی صفت کا احاطہ کرنا چاہیں تو وہ اس پر قادر نہیں اور نہ ان میں اس کی طاقت ہی ہے۔ نہایت بابرکت ہے رب عظیم کی ذات جو وسعت والی، علم رکھنے والی، قابل تعریف، بزرگی والی، دیکھنے والی اور ہر چیز کا احاطہ کرنے والی ہے۔ وہ الٰہ جلیل ہے، کوئی اس کی حمد و ثنا کا شمار نہیں کرسکتا بلکہ وہ ایسے ہی ہے جیسے اس نے خود اپنی حمد و ثنا بیان کی ہے۔ اس کی جو حمد و ثنا اس کے بندے بیان کرتے ہیں وہ اس سے بہت بڑھ کر ہے۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ اس کا علم تمام اشیاء کا احاطہ کئے ہوئے اور اس کی کتاب تمام حوادث پر محیط ہے۔ الانعام
60 یہ آیت کریمہ تمام تر توحید الوہیت کے تحقق، مشرکین کے خلاف دلائل اور اس بیان پر مشتمل ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی محبت، تعظیم، اجلال اور اکرا م کا مستحق ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا ہے کہ وہ اکیلا ہی ہے جو بندوں کی، ان کے سوتے جاگتے میں تدبیر کرتا ہے، وہ رات کو انہیں وفات یعنی نیند کی وفات دیتا ہے، ان کی حرکات پر سکون طاری ہوجاتا ہے اور ان کے بدن آرام کرتے ہیں، نیند سے بیداری کے بعد وہ ان کو دوبارہ زندہ کرتا ہے تاکہ وہ اپنے دینی اور دنیاوی مصالح میں تصرف کریں اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے جو کچھ وہ کرتے ہیں اور وہ جن اعمال کا اکتساب کرتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ان میں اس طرح تصرف کرتا رہتا ہے حتیٰ کہ وہ اپنی مقررہ مدت پوری کرلیتے ہیں۔ وہ اپنی اس تدبیر کے ذریعے سے ان کی مدت مقررہ کا فیصلہ کرتا ہے، یعنی مدت حیات اور اس کے بعد ایک اور مدت ہے اور وہ ہے مرنے کے بعد دوبارہ اٹھنا۔ بنابریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ثُمَّ إِلَيْهِ مَرْجِعُكُمْ﴾ ” پھر اس کی طرف ہی تمہارا لوٹنا ہے“ اس کے سوا اور کسی کی طرف لوٹنا نہیں ہے۔ ﴿ثُمَّ يُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ ﴾” پھر وہ تم کو تمہارے عمل جو تم کرتے ہو، بتائے گا۔“ نیک اور بد جو کام بھی تم کرتے رہے ہو، اللہ تعالیٰ تمہیں اس سے آگاہ فرمائے گا۔ الانعام
61 ﴿وَهُوَ﴾ ” اور وہ“ یعنی اللہ تعالیٰ ﴿الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهِ ۖ﴾” غالب ہے اپنے بندوں پر“ وہ ان پر اپنا ارادہ اور اپنی مشیت عامہ نافذ کرتا ہے۔ بندے کسی چیز کا کوئی اختیار نہیں رکھتے۔ وہ اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر حرکت و سکون کے بھی مالک نیں۔ بایں ہمہ اس نے اپنے بندوں پر فرشتوں کو محافظ مقرر کر کرھا ہے اور بندے پر جو عمل کرتے ہیں یہ فرشتے اس کو محفوظ کرلیتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿وَإِنَّ عَلَيْكُمْ لَحَافِظِينَ كِرَامًا كَاتِبِينَ يَعْلَمُونَ مَا تَفْعَلُونَ ﴾(الانفطار :82؍ 10۔12) ” اور تم پر نگہبان مقرر ہیں باعزت تمہاری باتوں کو لکھنے والے ہیں جو کچھ تم کرتے ہو وہ اسے جانتے ہیں۔“ ارشاد فرماتا ہے ﴿عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِيدٌ مَّا يَلْفِظُ مِن قَوْلٍ إِلَّا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ﴾(ق :5؍ 17، 18) ” اس کے دائیں اور بائیں جانب بیٹھے ہوتے ہیں۔ وہ جب کوئی بات کہتا ہے تو ایک نگہبان اس کے پاس تیار رہتا ہے۔“ یہ ان کی زندگی کے احوال میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی حفاظت ہے۔ ﴿حَتَّىٰ إِذَا جَاءَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا ﴾” یہاں تک کہ جب آ پہنچے تم میں سے کسی کو موت تو قبضے میں لے لیتے ہیں اس کو ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے‘‘ یعنی وہ فرشتے جو روح قبض کرنے پر مقرر ہیں ﴿وَهُمْ لَا يُفَرِّطُونَ ﴾ ” اور وہ کوتاہی نہیں کرتے“ یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنی قضا و قدر سے جو مدت مقرر کردی ہے اور اس میں ایک گھڑی کا اضافہ کرسکتے ہیں نہ ایک گھڑی کی کمی، وہ صرف مکتوب الٰہی اور تقدیرربانی کو نافذ کرتے ہیں۔ الانعام
62 ﴿ ثُمَّ ﴾ ” پھر“ موت اور حیات برزخ کے بعد اور جو کچھ اس میں خیر و شر ہے ﴿ رُدُّوا إِلَى اللَّـهِ مَوْلَاهُمُ الْحَقِّ﴾ ” پہنچائے جائیں گے وہ اللہ کی طرف جو ان کا سچا مالک ہے“ یعنی وہ مولائے حق اپنے حکم قدری کے مطابق ان کا والی ہے اور ان کے اندر اپنی مختلف انواع کی تدابیر کو نافذ کرتا ہے۔ پھر وہ امرو نہی اور حکم شرعی کے ذریعے ان کا والی ہے، اس نے ان کی طرف رسول بھیجے اور ان پر کتابیں نازل کیں پھر ان کو اسی کی طرف لوٹایا جائے گا، وہ ان میں اپنا حکم جزائی نافذ کرے گا اور ان کو ان کے اچھے اعمال کا ثواب عطا کرے گا اور ان کی بدیوں اور برائیوں کی پاداش میں انہیں عذاب دے گا۔﴿أَلَا لَهُ الْحُكْمُ﴾ ” سن رکھو ! حکم اسی کا ہے“ وہ اکیلا جس کا کوئی شریک نہیں، فیصلے کا مالک ہے ﴿وَهُوَ أَسْرَعُ الْحَاسِبِينَ﴾ ” اور وہ بہت جلد حساب لینے والا ہے“ کیونکہ اس کا علم بھی کامل ہے اور اس نے ان کے اعمال کو بھی محفوظ کیا ہوا ہے۔ پہلے اس نے ان کو لوح محفوظ میں ثبت کیا، پھر فرشتوں نے اپنی اس کتاب میں ثبت کیا جو ان کے ہاتھوں میں ہے۔ جب اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی تخلیق و تدبیر میں متفرد ہے اور وہ اپنے بندوں پر غالب ہے، وہ اپنے بندوں کو ان کے تمام احوال میں درخوراعتنا سمجھتا ہے، وہی حکم قدری، حکم شرعی اور حکم جزائی کا مالک ہے پھر مشرکین کیوں کر اس ہستی سے روگردانی کر کے جو ان صفات کی مالک ہے ایسی ہستیوں کی بندگی اختیار کرتے ہیں جن کے اختیار میں کچھ بھی نہیں، جو ذرہ بھر نفع کی مالک نہیں اور ان میں کوئی قدرت اور ارادہ نہیں؟ ان کی حالت یہ ہے کہ وہ کھلے عام کفر و شرک کا ارتکاب کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی عظمت پر بہتان کی جرأت کرتے ہیں اور وہ ان کو معاف کردیتا ہے اور ان کو رزق عطا کرتا ہے۔ اللہ کی قسم ! اگر انہیں یہ معلوم ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ کتنا حلیم ہے اور اس کا عفو اور اس کی رحمت ان پر سایہ کناں ہے تو ان کے داعیے اس کی معرفت کی طرف خود بخود کھنچے چلے آئیں اور ان کی عقل اس کی محبت میں (دیگر ہر شے سے) غافل ہوجائے اور وہ خود اپنے آپ پر سخت ناراض ہوں کیونکہ انہوں نے شیطان کی داعی کی اطاعت کی جو رسوائی اور خسارے کا موجب ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ ایسے لوگ ہیں جو عقل سے عاری ہیں۔ الانعام
63 ﴿قُلْ ﴾ ” کہہ دیجیے“ یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنے والوں اور اس کے ساتھ دوسرے معبودوں کو پکارنے والوں سے، ان کے توحید ربوبیت کے اثبات کو ان کے توحید الوہیت کے انکار پر الزامی دلیل اور حجت بناتے ہوئے کہیے !﴿ مَن يُنَجِّيكُم مِّن ظُلُمَاتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ﴾ ” کون تمہیں نجات دیتا ہے خشکی اور سمندر کی تاریکیوں سے؟“ یعنی جب بحر و بر کی سختیوں اور مشقتوں سے نجات کا کوئی بھی حیلہ تمہیں مشکل نظر آتا ہے تو تم اپنے رب کو گڑ گڑا کر دل کے خشوع و خضوع کے ساتھ اپنی دعا میں اپنی حاجت کے لئے پکارتے ہو اور اپنی اس مصیبت کی حالت میں کہتے ہو:﴿ لَّئِنْ أَنجَانَا مِنْ هَـٰذِهِ﴾ جس میں ہم گرفتار ہیں ﴿لَنَكُونَنَّ مِنَ الشَّاكِرِينَ ﴾” تو ہم ضرور (اللہ تعالیٰ) کے شکر گزار ہوں گے“ اس کی نعمت کا اعتراف کریں گے اور اس نعمت کو اپنے رب کی اطاعت میں استعمال کریں گے اور اس نعمت کو اس کی نافرمانی میں صرف کرنے سے بچیں گے۔ الانعام
64 ﴿قُلِ اللَّـهُ يُنَجِّيكُم مِّنْهَا وَمِن كُلِّ كَرْبٍ﴾ ” کہہ دیجیے ! اللہ ہی تمہیں اس (خاص مصیبت) اور دیگر تمام مصائب سے نجات دلاتا ہے“﴿ثُمَّ أَنتُمْ تُشْرِكُونَ ﴾ ” پھر بھی تم شرک کرتے ہو“ تم اللہ کے بارے میں جو کہتے ہو اسے پورا نہیں کرتے اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو فراموش کردیتے ہو۔ پس شرک کے بطلان اور توحید کی صحت پر اس سے واضح اور کون سی دلیل ہوسکتی ہے؟ الانعام
65 یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ ہر سمت سے تم پر عذاب بھیجنے پر قدرت رکھتا ہے فرمایا : ﴿مِّن فَوْقِكُمْ أَوْ مِن تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ ﴾ ” تمہارے اوپر سے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے“ ﴿أَوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعًا ﴾ ” یا تمہیں فرقہ فرقہ کر دے“ یعنی تمہیں مختلف فرقوں میں بانٹ دے ﴿ وَيُذِيقَ بَعْضَكُم بَأْسَ بَعْضٍ﴾” اور چکھا دے لڑائی ایک کو ایک کی‘‘ یعنی تمہیں فتنہ میں مبتلا کر دے اور ایک دوسرے کو قتل کرنے لگو۔ پس اللہ تعالیٰ ان تمام چیزوں پر قادر ہے، اس لئے اس کی نافرمانی پر قائم رہنے سے بچو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہیں عذاب آ لے اور وہ تمہیں تلف کر کے تمہارا نام و نشان مٹا ڈالے۔ اس کے باوجود کہ اس نے آگاہ فرمایا ہے کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے مگر یہ اس کی بے پایاں رحمت کا فیضان ہے کہ اس نے اس امت پر سے اوپر سے پتھر برسنے اور نیچے زمین میں دھنس جانے کے عذاب کو اٹھا لیا ہے۔ اس نے اس امت میں سے جس کسی کو بھی عذاب کا مزا چکھایا ہے تو وہ یہ ہے کہ اس نے ایک دوسرے کو ایک دوسرے کی طاقت کا مزا چکھایا ہے اور ان کو ان سزاؤں کے ساتھ ایک دوسرے پر مسلط کردیا۔ یہ ایک ایسی فوری سزا ہے جسے عبرت پکڑنے والے دیکھ سکتے ہیں اور عمل کرنے والے اسے سمجھ سکتے ہیں۔ ﴿انظُرْ كَيْفَ نُصَرِّفُ الْآيَاتِ﴾ ” دیکھو ہم آیتوں کو کس کس طرح بیان کرتے ہیں“ یعنی ہم ان آیات کو مختلف انواع میں لاتے ہیں اور بہت سے پہلوؤں سے ان کو بیان کرتے ہیں۔ یہ تمام آیات حق پر دلالت کرتی ہیں ﴿لَعَلَّهُمْ يَفْقَهُونَ﴾ ” تاکہ یہ لوگ سمجھیں۔“ یعنی شاید وہ اس بات کو سمجھ جائیں کہ انہیں کس چیز کی خاطر پیدا کیا گیا ہے۔ نیز حقائق شرعیہ اور مطالب الٰہیہ ان کی سمجھ میں آجائیں۔ الانعام
66 ﴿وَكَذَّبَ بِهِ﴾” اور اس کو جھٹلایا۔“ یعنی قرآن کو جھٹلایا ﴿قَوْمُكَ وَهُوَ الْحَقُّ﴾ ” آپ کی قوم نے، حالانکہ وہ حق ہے“ اور اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ﴿قُل لَّسْتُ عَلَيْكُم بِوَكِيلٍ ﴾” کہہ دیجیے ! میں تم پر داروغہ نہیں ہوں“ کہ تمہارے اعمال کی نگرانی کروں اور اس پر تمہیں بدلہ دوں میں تو صرف پہنچانے والا اور ڈرانے والا ہوں۔ الانعام
67 ﴿ لِّكُلِّ نَبَإٍ مُّسْتَقَرٌّ﴾” ہر خبر کے لئے ایک وقت مقرر ہے۔“ یعنی ہر خبر کے استقرار کا ایک وقت اور ایک زمانہ ہے جس سے وہ آگے پیچھے نہیں ہوسکتی ﴿وَسَوْفَ تَعْلَمُونَ﴾ ” اور تم کو عنقریب معلوم ہوجائے گا۔“ یعنی جس جس عذاب کی تمہیں وعید سنائی گئی ہے تم اسے عنقریب جان لو گے۔ الانعام
68 اللہ تبارک و تعالیٰ کی آیات میں جھگڑنے اور مشغول ہونے سے مراد ہے ان کے بارے میں ناحق باتیں کرنا، اقوال باطلہ کی تحسین کرنا، ان کی طرف دعوت دینا، اقوال باطلہ کے قائلین کی مدح کرنا، حق سے روگردانی کرنا اور حق اور اہل حق کی عیب چینی کرنا۔ اللہ تعالیٰ نے اصولی طور پر اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اور تبعاً تمام اہل ایمان کو حکم دیا ہے کہ جب وہ کسی کو اللہ تعالیٰ کی آیات کی مذکورہ عیب چینی میں مشغول دیکھیں تو اس سے اعراض کریں۔ باطل میں مشغول لوگوں کی مجالس میں نہ جائیں جب تک کہ وہ کسی اور بحث میں مشغول نہ ہوجائیں۔ اگر وہ آیات الٰہی کی بجائے کسی اور بحث میں مشغول ہوں تو ان میں بیٹھنا اس ممانعت کے زمرے میں نہیں آئے گا۔ اگر ان میں بیٹھنے میں کوئی راجح مصلحت ہو تو وہ ان میں بیٹھنے پر مامور ہے، اگر ایسا نہ ہو تو یہ بیٹھنا مفید ہے نہ وہ اس پر مامور ہے۔ باطل میں مشغولیت کی مذمت درحقیقت حق میں غور و فکر اور بحث و تحقیق کی ترغیب ہے۔ ﴿وَإِمَّا يُنسِيَنَّكَ الشَّيْطَانُ﴾ ” اگر شیطان آپ کو بھلا دے۔“ یعنی اگر آپ کو شیطان بھلا دے اور آپ غفلت و نسیان کی وجہ سے ان کی مجلس میں بیٹھ جائیں ﴿فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرَىٰ مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ ﴾ ” تو یاد آنے کے بعد ظالموں کے ساتھ نہ بیٹھیں“ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ان تمام لوگوں کو شامل ہے جو باطل میں مشغول ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ان تمام لوگوں کو شامل ہے جو باطل میں مشغول ہوتے ہیں۔ جو ایسی باتیں کہتے یا کرتے ہیں جن کو حرام ٹھہرایا گیا ہے تو ان لوگوں میں بیٹھنا حرام ہے۔ منکرات کی موجودگی میں جبکہ وہ ان کے ازالے کی قدرت نہ رکھتا ہو، اس مجلس میں حاضر ہونا بھی ممنوع ہے۔ الانعام
69 یہ نہی اور ممانعت اس شخص کے لئے ہے جو ایسے لوگوں کی مجلس میں شریک ہوتا ہے اور تقویٰ کا دامن چھوڑ کر ان کے قول اور عمل محرم میں خود بھی شریک ہوجاتا ہے یا ان کے غیر شرعی افعال و اقوال پر خاموشی اختیار کرتا ہے اور ان پر نکیر نہیں کرتا، لیکن اگر وہ تقویٰ کا التزام کرتے ہوئے مجلس میں شریک ہو، شرکائے مجلس کو نیکی کا حکم دے، اس برائی اور بری گفتگو سے روکے جو اس مجلس میں صادر ہو، جس سے یہ برائی زائل ہوجائے یا اس میں تخفیف ہوجائے تو ایسی مجلس میں شریک ہونے میں کوئی حرج ہے نہ کوئی گناہ۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَمَا عَلَى الَّذِينَ يَتَّقُونَ مِنْ حِسَابِهِم مِّن شَيْءٍ وَلَـٰكِن ذِكْرَىٰ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ﴾ ” اور پرہیز گاروں پر نہیں ہے جھگڑنے والوں کے حساب میں سے کوئی چیز لیکن ان کے ذمے نصیحت کرنی ہے، تاکہ وہ ڈریں۔“ یعنی صرف اس لئے وہ ان کو وعظ و نصیحت کرے کہ شاید وہ اللہ تعالیٰ سے ڈر جائیں۔ اس آیت کریمہ میں اس امر کی دلیل ہے کہ وعظ و نصیحت کرنے والا ایسا اسلوب کلام استعمال کرے جو مقصود تقویٰ کے حصول میں زیادہ ممد اور کارگر ہو اور اس آیت سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اگر وعظ و نصیحت سے برائی میں اضافہ ہونے کا اندیشہ ہو تو وعظ و نصیحت ترک کرنا واجب ہے، کیونکہ جو وعظ و نصیحت مطلوب و مقصود کے مخالف ہو، تو اس کو ترک کرنا بھی مقصود ہے۔ الانعام
70 بندوں سے جو چیز مطلوب ہے وہ یہ ہے کہ وہ دین کو اللہ کے لئے خالص کریں، یعنی اللہ وحدہ لاشریک کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں، اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے محبوب امور کے حصول میں مقدور بھر کوشش صرف کریں اور یہ چیز اس بات کو متضمن ہے کہ قلب اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر اور اس کی طرف متوجہ رہے، بندے کی کوشش انتہائی سنجیدہ اور نفع مند ہو نہ کہ غیر سنجیدہ اور یہ کوشش اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے ہو، اس میں ریا اور شہرت کی خواہش کا شائبہ نہ ہو۔ یہی وہ حقیقی دین ہے جس کو دین کہا ہے۔ رہا وہ شخص جو اس زعم میں مبتلا ہے کہ وہ حق پر ہے اور وہ صاحب دین اور صاحب تقویٰ ہے اور حالت یہ ہے کہ اس نے دین کو لہو و لعب بنا رکھا ہے اور اس کا قلب اللہ تعالیٰ کی محبت اور معرفت سے خالی ہو کر لہو و لعب میں مستغرق ہوگیا اور ہر اس چیز میں مصروف ہوگیا جو اس کے لئے ضرر رساں ہے وہ اپنے بدن کے ساتھ لہو اور باطل میں مشغول ہے، کیونکہ عمل اور بھاگ دوڑ اگر غیر اللہ کے لئے ہو تو وہ لہو و لعب ہے۔۔۔ تو اس شخص کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ اسے چھوڑ دیا جائے، اس سے بچا جائے، اس سے دھوکہ نہ کھایا جائے اور اس کے احوال پر غور کیا جائے، اس کی کارستانیوں سے ہشیار رہے اور وہ تقرب الٰہی والے اعمال سے روکے تو اس کے دھوکہ میں نہ آئے۔ ﴿وَذَكِّرْ بِهِ﴾” اور اس کے ذریعے سے نصیحت کرتے رہیں۔“ یعنی قرآن کے ذریعے سے ان کو نصیحت کیجیے جو بندوں کے لئے نفع مند ہے۔ قرآن کے احکامات سنا کر، اس کی تفصیلات بیان کر کے، قرآن میں جو اچھے اوصاف مذکور ہیں ان کی تحسین کر کے اور وہ اوصاف جو بندوں کے لئے ضرر رساں ہیں ان سے ان کو منع کر کے، اس کی انواع کی تفصیل بیان کیجیے اور جو قبیح اوصاف بیان ہوئے ہیں، جن کا ترک کرنا ضروری ہے (ان سب کے ساتھ) ان کو نصیحت کیجیے۔ یہ سب کچھ اس وجہ سے ہے کہ کہیں نفس اپنے کسب کی وجہ سے ہلاکت میں نہ ڈال دیا جائے، یعنی بندے کے گناہوں میں گھس جانے، اللہ علام الغیوب کے سامنے جرأت کرنے اور گناہوں پر قائم رہنے سے پہلے اسے نصیحت کیجیے، تاکہ وہ باز آجائے اور اپنے فعل سے رک جائے۔ ﴿لَيْسَ لَهَا مِن دُونِ اللَّـهِ وَلِيٌّ وَلَا شَفِيعٌ﴾ ” نہیں ہوگا واسطے اس کے، اللہ کے سوا، کوئی دوست اور نہ کوئی سفارشی‘‘ یعنی نفس کو اس کے گناہوں کا احاطہ کرلینے سے پہلے نصیحت کرو کیونکہ اس کے بعد مخلوق میں سے کوئی بھی اس کے کام نہ آئے گا۔ نہ کوئی قریبی رشتہ دار اور نہ کوئی دوست، اللہ کے سوا اس کا کوئی ولی اور مددگار نہ ہوگا اور نہ اس کی کوئی سفارش کرنے والا ہوگا ﴿وَإِن تَعْدِلْ كُلَّ عَدْلٍ﴾ ” اگرچہ وہ ہر چیز معاوضے میں دینا چاہے۔“ یعنی اگر یہ نفس ہر قسم کا فدیہ دے خواہ وہ زمین بھر سونا کیوں نہ ہو ﴿ لَّا يُؤْخَذْ مِنْهَا﴾ ” وہ اس سے قبول نہ ہوگا۔“ یعنی اس سے یہ فدیہ قبول نہیں کیا جائے گا اور نہ یہ فدیہ کوئی فائدہ دے گا ﴿أُولَـٰئِكَ﴾ وہ لوگ جو مذکورہ اوصاف سے موصوف ہیں ﴿الَّذِينَ أُبْسِلُوا﴾ یعنی ان کو ہلاک کردیا گیا اور وہ ہر قسم کی بھلائی سے مایوس ہوگئے اور یہ ان کے اعمال کے سبب سے ہے ﴿لَهُمْ شَرَابٌ مِّنْ حَمِيمٍ﴾” ان کا مشروب ابلتا ہوا گرم پانی ہوگا“ جو ان کے چہروں کو بھون دے گا اور ان کی انتڑیوں کو کاٹ ڈالے گا ﴿ وَعَذَابٌ أَلِيمٌ بِمَا كَانُوا يَكْفُرُونَ﴾” اور ان کے کفر کی پاداش میں ان کے لئے درد ناک عذاب ہے۔‘‘ الانعام
71 ﴿قُلْ ﴾ اے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنے والوں اور اس کے ساتھ دوسرے معبودوں کو پکارنے والوں سے کہہ دو جو تمہیں اپنے دین کی دعوت دیتے ہیں وہ دین جو ان کے معبودوں کے وصف کی تشریح کر کے واضح کرتا ہے۔ ایک عقل مند شخص کو ان معبودوں کو چھوڑنے کے لئے ان کے اوصاف کا ذکر ہی کافی ہے، کیونکہ ہر عاقل شخص جب مشرکین کے مذہب میں غور و فکر کرتا ہے تو اس کے بطلان پر دلائل و براہین کے قائم ہونے سے پہلے ہی اس کے بطلان کا اسے قطعی یقین ہوجاتا ہے اور وہ پکار اٹھتا ہے ﴿أَنَدْعُو مِن دُونِ اللَّـهِ مَا لَا يَنفَعُنَا وَلَا يَضُرُّنَا﴾ ” کیا ہم اللہ کے سوا، ان ہستیوں کو پکاریں جو ہمیں نفع دے سکتی ہیں نہ نقصان۔“ اس وصف میں ہر وہ معبود داخل ہے جس کی بھی اللہ کے سوا بندگی کی جاتی ہے کیونکہ وہ نفع دے سکتی ہے نہ نقصان، اسے کسی معاملے کا کوئی اختیار نہیں، تمام معاملہ صرف اللہ تعالیٰ کے قبضہ، قدرت میں ہے۔ ﴿وَنُرَدُّ عَلَىٰ أَعْقَابِنَا بَعْدَ إِذْ هَدَانَا اللَّـهُ﴾” اور کیا پھرجائیں ہم الٹے پاؤں، اس کے بعد کہ اللہ سیدھی راہ دکھا چکا ہم کو“ یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت سے نوازے جانے کے بعد کیا کیا ضلالت کی طرف پلٹ جائیں، رشد کو چھوڑ کر گمراہی کی طرف لوٹ جائیں، نعمتوں بھری جنت کے راستے کو چھوڑ کر ان راستوں پر چل نکلیں جو اپنے سالک کو عذاب الیم کی منزل پر پہنچا دیتے ہیں؟ رشد و ہدایت رکھنے والا شخص اس حال پر کبھی راضی نہیں رہ سکتا۔ ایسی حالت والے شخص کی مثال اس شخص کی سی ہے ﴿ كَالَّذِي اسْتَهْوَتْهُ الشَّيَاطِينُ فِي الْأَرْضِ﴾جسے شیاطین نے بیابان میں اس کے راستطے سے بھٹکا دیا ہو جو اس کی منزل کو جاتا تھا ﴿ حَيْرَانَ لَهُ أَصْحَابٌ يَدْعُونَهُ إِلَى الْهُدَى﴾ ” وہ حیران ہے، اس کے ساتھی اسے راستے کی طرف بلاتے ہیں“ اور شیاطین اسے ہلاکت کی طرف دعوت دیتے ہیں۔ وہ دونوں پکارنے والوں کے درمیان حیران و سرگراں ہے۔ تمام لوگوں کا یہی حال ہے سوائے ان لوگوں کے جن کو اللہ تعالیٰ نے محفوظ رکھا ہے۔ اس لئے کہ لوگ اپنے اندر کشش رکھنے والے امور اور متعارض داعیے رکھتے ہیں۔ رسالت، عقل صحیح اور فطرت سلیم کے دواعی ﴿يَدْعُونَهُ إِلَى الْهُدَى ﴾ ”اس کو صحیح راستے کی طرف بلاتے ہیں۔“ اور اعلیٰ علیین کی بلندیوں کی طرف دعوت دیتے ہیں اور شیطان کے داعیے اور وہ لوگ جو اس کی راہ پر گامزن ہیں اور نفس امارہ اسے گمراہی اور اسفل سافلین کی پستیوں میں گر جانے کی دعوت دیتے ہیں۔ لوگوں میں سے کچھ ایسے ہیں جو اپنے تمام امور میں یا اکثر امور میں ہدایت کے دواعی کے ساتھ چلتے ہیں اور کچھ ایسے لوگ ہیں جن کا رویہ اس کے برعکس ہے۔ کچھ لوگ ایسے ہیں جن میں دونوں قسم کے داعیے مساوی ہوتے ہیں، اس وقت دو جاذب امور باہم متعارض ہوتے ہیں۔ یہ وہ مقام ہے جہاں اہل سعادت اور اہل شقاوت کی پہچان ہوتی ہے۔ ﴿قُلْ إِنَّ هُدَى اللَّـهِ هُوَ الْهُدَىٰ﴾ ” اللہ نے جو راہ بتلائی ہے، وہی سیدھی راہ ہے“ یعنی اس راستے کے سوا کوئی راستہ ہدایت کا راستہ نہیں، جسے اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر مشروع کیا ہے۔ اس کے علاوہ دیگر راستے گمراہی، موت اور ہلاکت کے سوا کچھ نہیں ﴿ وَأُمِرْنَا لِنُسْلِمَ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ ﴾ ” اور ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم پروردگار عالم کے تابع رہیں۔“ یہ کہ ہم اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو مانیں، اس کے اوامرونواہی کے سامنے سرتسلیم خم کردیں اور اس کی عبودیت کے تحت داخل ہوجائیں، کیونکہ یہ بندوں پر سب سے بڑی نعمت اور اس کی سب سے کامل ربوبیت ہے جو اس نے اپنے بندوں تک پہنچائی ہے۔ الانعام
72 ﴿ وَأَنْ أَقِيمُوا الصَّلَاةَ﴾ ”اور یہ کہ نماز پڑھتے رہو۔“ یعنی ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم نماز کو اس کے تمام ارکان، شرائط، سنن اور اس کی تکمیل کرنے والے تمام امور کے ساتھ قائم کریں ﴿وَاتَّقُوهُ﴾” اور اس سے ڈرتے رہو۔“ جس چیز کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا اسے بجالا کر اور جس چیز سے روکا ہے اس سے اجتنا کر کے تقویٰ کا التزام کرو ﴿وَهُوَ الَّذِي إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ ﴾ ’’اور وہی تو ہے جس کے پاس تم جمع کیے جاؤ گے۔‘‘ یعنی قیامت کے روز تم اس کے پاس جمع ہو جاؤ گے اور وہ تمہیں تمہارے اچھے اور برے اعمال کی جزا دے گا۔ الانعام
73 ﴿ وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ﴾ ” وہی ذات ہے جس نے پیدا کیا آسمانوں اور زمین کو حق کے ساتھ“ تاکہ وہ بندوں کو حکم دے اور بعض چیزوں سے روکے پھر اس پر انہیں ثواب و عقاب دے ﴿ وَيَوْمَ يَقُولُ كُن فَيَكُونُ ۚ قَوْلُهُ الْحَقُّ ۚ﴾ ”اور جس دن کہے گا کہ ہوجا تو وہ ہوجائے گا، اس کا ارشاد برحق ہے۔“ جس میں کوئی شک ہے نہ کوئی ایچ پیچ اور نہ اللہ تعالیٰ کوئی عبث بات کہتا ہے ﴿وَلَهُ الْمُلْكُ يَوْمَ يُنفَخُ فِي الصُّورِ﴾ ” اور اسی کی بادشاہی ہے جس دن پھونکا جائے گا صور“ یعنی قیامت کے روز، اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر قیامت کے دن کا ذکر اس لئے کیا ہے، حالانکہ وہ ہر چیز کا مالک ہے، کیونکہ قیامت کے دن تمام ملکیتیں ختم ہوجائیں گی اور اللہ واحد و قہار کی ملکیت باقی رہ جائے گی۔ ﴿عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ ۚ وَهُوَ الْحَكِيمُ الْخَبِيرُ﴾” وہ جاننے والا ہے چھپی اور کھلی باتوں کا اور وہی حکمت والا، خبردار ہے۔“ جو حکمت تام، نعمت کامل اور احسان عظیم کا مالک ہے، اس کا علم اسرار نہاں، باطنی راز اور چھپے ہوئے امور کا احاطہ کئے ہوئے ہے جس کے سوا کوئی معبود اور کوئی رب نہیں۔ الانعام
74 اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قصے کو یاد کیجیے، ان کی دعوت توحید اور شرک سے ممانعت کے احوال میں ان کی تعریف و ثنا اور تعظیم کیجیے ﴿وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ لِأَبِيهِ آزَرَ أَتَتَّخِذُ أَصْنَامًا آلِهَةً ۖ﴾ ” جب ابراہیم علیہ السلام نے اپنے باپ آزر سے کہا، کیا تو بتوں کو معبود مانتا ہے؟“ جو نفع پہنچا سکتے ہیں نہ نقصان، جو کسی اختیار کے مالک نہیں ﴿إِنِّي أَرَاكَ وَقَوْمَكَ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ﴾” میں تجھ کو اور تیری قوم کو کھلی گمراہی میں دیکھتا ہوں“ کیونکہ تم ایسی ہستیوں کی عبادت کرتے ہو جو عبادت کی مستحق نہیں اور اپنے خلاق، رازق اور تدبیر کرنے والے کی عبادت کو چھوڑ دیتے ہو۔ الانعام
75 ﴿وَكَذَٰلِكَ ﴾” اور اسی طرح“ جب ہم نے ابراہیم کو توحید اور اس کی طرف دعوت کی توفیق عطا کی ﴿نُرِي إِبْرَاهِيمَ مَلَكُوتَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ﴾ ” ہم دکھانے لگے ابراہیم کو آسمانوں اور زمین کے عجائبات“ تاکہ وہ چشم بصیرت سے ان قطعی دلائل اور روشن براہین کو ملاحظہ کرلے جن پر زمین اور آسمان کی بادشاہی مشتمل ہے ﴿ وَلِيَكُونَ مِنَ الْمُوقِنِينَ ﴾” اور تاکہ وہ صاحب ایقان ہو“ کیونکہ تمام مطالب میں دلائل کے قیام کے مطابق ایقان اور علم کامل حاصل ہوتا ہے۔ الانعام
76 ﴿ فَلَمَّا جَنَّ عَلَيْهِ اللَّيْلُ﴾ ” جب رات نے ان کو ڈھانپ لیا۔“ یعنی جب رات تاریک ہوگئی ﴿ رَأَىٰ كَوْكَبًا﴾ ” اس نے ایک ستارہ دیکھا“ شاید یہ ستارہ زیادہ روشن ستارہ ہوگا، کیونکہ اس کے تذکرے کی تخصیص دلالت کرتی ہے کہ اس کی روشنی دوسروں سے زیادہ تھی۔ بنا بریں بعض اہل علم کہتے ہیں کہ اس سے مراد زہرہ ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ ﴿قَالَ هَـٰذَا رَبِّي﴾ ” کہنے لگے یہ میرا رب ہے۔“ یعنی انہوں نے دلیل کی خاطر مدمقابل کے مقام پر اترتے ہوئے کہا کہ ” یہ میرا رب ہے“ آؤ ہم دیکھیں کہ کیا یہ ربوبیت کا مستحق ہے؟ کیا ہمارے سامنے کوئی ایسی دلیل قائم ہوتی ہے جو اس کے رب ہونے کو ثابت کرتی ہو؟ کیونکہ کسی عقلمند کے لئے یہ مناسب نہیں کہ وہ بغیر کسی حجت و برہان کے اپنی خواہشات نفس کو اپنا معبود بنا لے۔﴿فَلَمَّا أَفَلَ﴾ یعنی جب یہ ستارہ غائب ہوگیا ﴿قَالَ لَا أُحِبُّ الْآفِلِينَ﴾” تو کہا، میں غائب ہونے والوں کو پسند نہیں کرتا‘‘ یعنی جو ظاہر ہونے کے بعد غائب ہو کر عبادت کرنے والے سے اوجھل ہوجائے۔ کیونکہ معبود کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ اس شخص کے مصالح کا انتظام اور اس کے تمام معاملات کی تدبیر کرے جو اس کی عبادت کرتا ہے۔ رہی وہ ہستی جو اکثر اوقات غیر موجود اور غائب ہوتی ہے تو عبادت کی کیوں کر مستحق ہوسکتی ہیں؟ کیا ایسی ہستی کو معبود بنانا سب سے بڑی بے وقوفی اور سب سے بڑا باطل نہیں؟ الانعام
77 ﴿ فَلَمَّا رَأَى الْقَمَرَ بَازِغًا﴾ ” پھر جب چاند کو دیکھا کہ چمک رہا ہے۔“ یعنی جب انہوں نے چاند کو طلوع ہوتے دیکھا اور یہ مشاہدہ بھی کیا کہ اس کی روشنی ستاروں کی روشنی سے زیادہ ہے اور یہ ان کے مخالف بھی ہے ﴿قَالَ هَـٰذَا رَبِّي﴾ ” کہا، یہ میرا رب ہے“ یعنی دلیل کی خاطر مخالفین کے مقام پر اتر کر کہا ﴿ ۖ فَلَمَّا أَفَلَ قَالَ لَئِن لَّمْ يَهْدِنِي رَبِّي لَأَكُونَنَّ مِنَ الْقَوْمِ الضَّالِّينَ ﴾ ” جب وہ غائب ہوگیا، بولے، اگر نہ ہدایت کرے گا مجھ کو میرا رب، تو بے شک رہوں گا میں گمراہ لوگوں میں“ ابراہیم علیہ السلام اپنے رب کی راہنمائی کے بے حد محتاج تھے اور انہیں علم تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ ان کو راہ راست نہ دکھائے تو کوئی راہ دکھانے والا نہیں ہے۔ اگر اپنی اطاعت پر وہ ان کی اعانت نہ کرے تو کوئی مدد کرنے والا نہیں۔ الانعام
78 ﴿ فَلَمَّا رَأَى الشَّمْسَ بَازِغَةً قَالَ هَـٰذَا رَبِّي هَـٰذَا أَكْبَرُ ۖ﴾ ” پس جب سورج کو چمکتے ہوئے دیکھا تو کہا، یہ ہے میرا رب، یہ سب سے بڑا ہے“ یہ تمام (ستاروں اور چاند) سے بڑا ہے ﴿فَلَمَّا أَفَلَتْ﴾ ” جب وہ غروب ہوگیا“ یعنی جب سورج بھی غروب ہوگیا تو ہدایت متحقق ہوگئی اور ہلاکت مضمحل ہوگئی ﴿قَالَ يَا قَوْمِ إِنِّي بَرِيءٌ مِّمَّا تُشْرِكُونَ ﴾ ”(تو) کہا، اے میری قوم ! بے شک میں بیزار ہوں ان سے جن کو تم شریک کرتے ہو“ کیونکہ اس کے بطلان پر سچی اور واضح دلیل قائم ہوچکی ہے۔ الانعام
79 ﴿ إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا ۖ﴾” میں نے متوجہ کرلیا اپنے چہرے کو اسی کی طرف جس نے بنائے آسمان اور زمین سب سے یکسو ہو کر“ یعنی صرف الہ واحد کی طرف یکسوئی کے ساتھ متوجہ ہو کر اور ہر ماسوا سے منہ موڑ کر ﴿وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ﴾ ” اور میں نہیں ہوں شرک کرنے الا۔“ پس یوں ابراہیم علیہ السلام نے شرک سے برأت کا اظہار کیا اور توحید کے سامنے سرتسلیم خم کیا اور توحید پر دلیل قائم کی۔۔۔ یہ ہے ان آیات کریمہ کی تفسیر جو ہم نے بیان کی ہے اور یہی صواب ہے، نیز یہ کہ یہ مقام جناب ابراہیم علیہ السلام کی طرف سے اپنی قوم کے ساتھ مناظرے کا مقام تھا اور مقصد ان اجرام فلکی وغیرہ کی الوہیت کا بطلان تھا۔ رہا ان لوگوں کا موقف کہ یہ جناب ابراہیم کے ایام طفولیت میں غور و فکر کا مقام تھا تو اس پر کوئی دلیل نہیں۔ الانعام
80 ﴿وَحَاجَّهُ قَوْمُهُ ۚ قَالَ أَتُحَاجُّونِّي فِي اللَّـهِ وَقَدْ هَدَانِ ۚ ﴾ ” اور اس سے جھگڑا کیا اس کی قوم نے، ابراہیم علیہ السلام نے کہا، کیا تم مجھ سے اللہ کے ایک ہونے میں جھگڑتے ہو اور وہ مجھ کو سمجھا چکا، یعنی بھلا اس شخص کے لئے جھگڑنے میں کون سا فائدہ ہے جس کے سامنے ہدایت واضح نہیں ہوئی۔ جبکہ وہ شخص جسے اللہ تعالیٰ نے ہدایت سے نواز دیا ہے اور وہ یقین کے بلند ترین مقام پر فائز ہے تو وہ خود لوگوں کو اس راستے کی طرف بلاتا ہے جس پر وہ خود گامزن ہے۔ ﴿وَلَا أَخَافُ مَا تُشْرِكُونَ بِهِ﴾” اور میں نہیں ڈرتا ان سے جن کو تم شریک کرتے ہو اس کے ساتھ“ کیونکہ یہ جھوٹے خدا مجھے کوئی نقصان نہیں دے سکتے، نہ مجھے کسی نفع سے محروم کرسکتے ہیں ﴿إِلَّا أَن يَشَاءَ رَبِّي شَيْئًا ۗ وَسِعَ رَبِّي كُلَّ شَيْءٍ عِلْمًا ۗ أَفَلَا تَتَذَكَّرُونَ ﴾ ” مگر یہ کہ چاہے اللہ، میرا رب، احاطہ کرلیا ہے میرے رب کے علم نے سب چیزوں کا، کیا تم نہیں نصیحت پکڑتے؟“ پس تم جان لیتے کہ اللہ تعالیٰ ہی اکیلا معبود ہے جو کہ عبودیت کا مستحق ہے۔ الانعام
81 ﴿وَكَيْفَ أَخَافُ مَا أَشْرَكْتُمْ﴾ ” اور میں کیوں کر ڈروں ان سے جن کو تم شریک کرتے ہو“ دراں حالیکہ یہ معبود ان باطل، عاجز محض اور کسی قسم کا فائدہ پہنچانے سے محروم ہیں ﴿وَلَا تَخَافُونَ أَنَّكُمْ أَشْرَكْتُم بِاللَّـهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ عَلَيْكُمْ سُلْطَانًا﴾” اور تم اس بات سے نہیں ڈرتے کہ تم اللہ کا ایسی چیزوں کو شریک ٹھہراتے ہو جس پر اس نے کوئی دلیل نہیں اتاری“ یعنی سوائے خواہش نفس کی پیروی کے اس پر کوئی دلیل نہیں ﴿فَأَيُّ الْفَرِيقَيْنِ أَحَقُّ بِالْأَمْنِ ۖ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ﴾ ” پس کون سا گروہ امن کا زیادہ مستحق ہے اگر تم جانتے ہو؟“ الانعام
82 اللہ تبارک و تعالیٰ فریقین کے درمیان فیصلہ کرتے ہوئے فرماتا ہے :﴿الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُم بِظُلْمٍ ﴾” وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہیں ملایا انہوں نے اپنے ایمان میں ظلم“ یعنی ایمان کو شرک کے ساتھ خلط ملط نہیں کیا۔ ﴿أُولَـٰئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُم مُّهْتَدُونَ ﴾ ” یہی لوگ ہیں جن کے لئے امن ہے اور وہ ہدایت یافتہ ہیں۔“ وہ ہر قسم کے خوف سے مامون ہوں گے، عذاب اور شقاوت وغیرہ میں سے کسی قسم کا خوف نہ ہوگا اور سیدھے راستے کی طرف راہنمائی سے نوازے جائیں گے۔ اگر انہوں نے اپنے ایمان کو کسی قسم کے ظلم سے ملوث نہ کیا ہوگا یعنی انہوں نے شرک کیا ہوگا نہ گناہ، تو انہیں امن کامل اور ہدایت تام نصیب ہوگی اور اگر انہوں نے اپنے ایمن کو شرک سے تو پاک رکھا مگر وہ برے اعمال کا ارتکاب کرتے رہے تو انہیں اگرچہ کامل امن اور کامل ہدایت تو حاصل نہ ہوگی تاہم انہیں اصل ہدایت اور امن حاصل ہوں گے۔ آیت کریمہ کا مخالف مفہوم یہ ہے کہ وہ لوگ جنہیں یہ دو امور حاصل نہیں وہ ہدایت اور امن سے محروم رہیں گے بلکہ ان کے نصیب میں بدبختی اور گمراہی کے سوا کچھ نہ ہوگا۔ الانعام
83 جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے قطعی دلائل و براہین بیان کر کے ابراہیم کے حق میں فیصلہ کردیا تو فرمایا ﴿ وَتِلْكَ حُجَّتُنَا آتَيْنَاهَا إِبْرَاهِيمَ عَلَىٰ قَوْمِهِ ۚ ﴾ ” اور یہ ہے ہماری دلیل، کہ دی تھی ہم نے ابراہیم علیہ السلام کو، اس کی قوم کے مقابلے میں“ یعنی ان دلائل و براہین کی مدد سے ابراہیم علیہ السلام نے ان کو نیچا دکھایا اور ان پر غالب آئے۔ ﴿نَرْفَعُ دَرَجَاتٍ مَّن نَّشَاءُ﴾ ” ہم جس کے چاہتے ہیں، درجے بلند کرتے ہیں“ جس طرح ہم نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دنیا و آخرت میں درجات بلند فرمائے، کیونکہ اللہ تعالیٰ علم کے ذریعے سے صاحب علم کو دوسرے بندوں پر فوقیت عطا کرتا ہے۔۔۔۔۔۔ خاص طور پر وہ عالم جو صاحب علم بھی ہے اور معلم بھی۔ پس اللہ تعالیٰ اس کے حسب حال اسے لوگوں کا امام بنا دیتا ہے۔ اس کے افعال کو دیکھا جاتا ہے، اس کے آثار کی پیروی کی جاتی ہے، اس کے نور سے روشنی حاصل کی جاتی ہے اور اس کے علم کی مدد سے تیرہ و تار تاریکیوں میں رواں دواں رہا جاتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :﴿يَرْفَعِ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ﴾ (المجادلہ :58؍11) ” تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور جن کو علم عطا کیا گیا، اللہ ان کے درجات بلند کرتا ہے۔“ ﴿إِنَّ رَبَّكَ حَكِيمٌ عَلِيمٌ ﴾ ”بے شک تمہارا رب دانا، علم والا ہے۔“ اس لئے وہ علم و حکمت کو ان کے شایان شان مقام پر رکھتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس مقام کو اور جو کچھ اس کے لئے مناسب ہے خوب جانتا ہے۔ الانعام
84 جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے بندے اور خلیل ابراہیم علیہ السلام کا اور اپنے اس احسان کا ذکر کیا کہ اللہ نے ان کو علم، دعوت اور صبر سے نوازا تو اب ذکر فرما رہا ہے کہ صالح اور پاک نسل کے ذریعے سے بھی اللہ نے ان کو بڑی تکریم بخشی، اللہ نے مخلوق میں سے منتخب اور چنے ہوئے لوگ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل میں سے بنائے اور یہ اتنی بڑی منقبت اور اتنی زیادہ عزت افزائی ہے کہ اس کی مثال نہیں ملتی، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَوَهَبْنَا لَهُ إِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ﴾” اور ہم نے عطا کئے اسے اسحاق اور یعقوب“ یعقوب یعنی اسحاق علیہ السلام کے فرزند جن کو اسرائیل کہا جاتا ہے۔ ایک بڑے گروہ کے باپ جس کو اللہ تعالیٰ نے تمام جہانوں پر فضیلت بخشی۔ ﴿كَلًّا﴾ ” سب کو“ یعنی ان دونوں میں سے ہر ایک کو ﴿هَدَيْنَا﴾ ” ہم نے ہدایت دی۔“ یعنی علم و عمل میں راہ راست دکھائی ﴿وَنُوحًا هَدَيْنَا مِن قَبْلُ﴾” اور اس سے قبل ہم نے نواح کو ہدایت سے نوازا“ یہ ہدايت اعلیٰ ترین انواع میں سے تھی جو دنیا کے صرف معدودے چند افراد کو حاصل ہوئی ہے اور وہ اولوالعزم رسول تھے۔ نوح ان میں سے ایک تھے۔ ﴿وَمِن ذُرِّيَّتِهِ ﴾” اور ان کی نسل میں سے“ اس میں احتمال ہے کہ ضمیر نوح کی طرف لوٹتی ہے، کیونکہ یہ قریب ترین مرجع ہے، کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اسی زمرہ میں حضرت لوط علیہ السلام کا ذکر کیا جو کہ نوح علیہ السلام کی ذریت سے ہیں، حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ذریت سے نہیں، کیونکہ حضرت لوط علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھتیجے تھے۔۔۔ نیز اس بات کا احتمال بھی ہے کہ ضمیر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف لوٹتی ہو کیونکہ سیاق کلام ابراہیم علیہ السلام کی مدح و ثنا میں ہے اور لوط علیہ السلام اگرچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ذریت میں سے نہیں ہیں تاہم یہ ان لوگوں میں سے ہیں جو جناب خلیل علیہ السلام کے ہاتھ پر ایمان لائے تھے۔ حضرت لو ط علیہ السلام کا حضرت ابراہیم علیہ السلام پر ایمان لانا مجردان کا بیٹا ہونے سے زیادہ ان کے لئے منقبت اور فضیلت کا حامل ہے۔ ﴿دَاوُودَ وَسُلَيْمَانَ ﴾ ” داؤد اور سلیمان“ یعنی سلیمان بن داؤد علیہ السلام ﴿وَأَيُّوبَ وَيُوسُفَ ﴾” ایوب اور یوسف“ یعنی ایوب اور یوسف بن یعقوب علیہم السلام ﴿وَمُوسَىٰ وَهَارُونَ﴾ ” موسیٰ اور ہارون“ یعنی عمران کے بیٹے ﴿وَكَذَٰلِكَ﴾ ” اور اسی طرح “ یعنی جس طرح ہم نے ابراہیم خلیل اللہ کی ذریت کو صالح بنایا، کیونکہ ابراہیم علیہ السلام نے اپنے رب کی بندگی کو بہترین طریقے سے ادا کیا اور اللہ کی مخلوق کو بہترین طریقے سے فائدہ پہنچایا ﴿نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ﴾ ” ہم بدلہ دیتے ہیں احسان کرنے والوں کو۔“ نیکو کار لوگوں کی جزا یہ ہے کہ ہم انہیں ان کی نیکیوں کے مطابق سچی مدح و ثنا اور صالح اولاد سے نوازتے ہیں۔ الانعام
85 ﴿وَزَكَرِيَّا وَيَحْيَ﴾ ” زکریا اور یحییٰ“ یعنی یحییٰ زکریا علیہما السلام کے فرزند ﴿وَعِيسَىٰ﴾ یعنی عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام ﴿وَإِلْيَاسَ ۖ كُلٌّ﴾ ” اور الیاس کو بھی یہ سب“ یعنی یہ تمام لوگ ﴿مِّنَ الصَّالِحِينَ﴾ ” نیکو کار تھے۔“ یعنی اپنے اخلاق، اعمال اور علوم میں صالح لوگ تھے بلکہ صلحا کے سردار، قائد اور ان کے امام تھے۔ الانعام
86 ﴿وَإِسْمَاعِيلَ ﴾ یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے جو نسل انسانی کے ایک بڑے گروہ کے جد امجد تھے، یعنی گروہ عرب کے باپ اور اولاد آدم علیہ السلام کے سردار حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے جد امجد﴿وَيُونُسَ ﴾یعنی یونس بن متی علیہ السلام ﴿وَلُوطًا﴾یعنی ابراہیم علیہ السلام کے بھائی ہارون علیہ السلام کے بیٹے﴿ وَكُلًّا﴾ یعنی ان تمام انبیاء و مرسلین کو ﴿فَضَّلْنَا عَلَى الْعَالَمِينَ﴾ ” ہم نے جہانوں پر فضیلت دی“ کیونکہ فضیلت کے چار درجے ہیں جن کا ذکر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں کیا ہے﴿وَمَن يُطِعِ اللَّـهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَـٰئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّـهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ﴾(النساء:4؍69)” جو اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرتے ہیں وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام کیا یعنی انبیاء، صدیقین، شہداء اور صلحا“ اور یہ مذکور انبیائے کرام علیہم السلام بہت بلند درجے پر فائز ہیں بلکہ علی الاطلاق تمام رسولوں سے افضل ہیں۔ پس وہ تمام انبیاء و مرسلین جن کا قصہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں بیان فرمایا ہے، بلاشبہ ان نبیوں میں سے افضل ہیں جن کا ذکر نہیں فرمایا۔ الانعام
87 ﴿ وَمِنْ آبَائِهِمْ ﴾یعنی ان انبیائے مذکورین کے آباؤ اجداد میں سے ﴿وَذُرِّيَّاتِهِمْ وَإِخْوَانِهِمْ ۖ﴾ ” اور ان کی اولاد اور بھائیوں میں سے“ یعنی ہم نے ان کے آباؤ اجداد، ان کی ذریت اور ان کے بھائی بند لوگوں کو ہدایت سے نوازا ﴿وَاجْتَبَيْنَاهُمْ﴾” ہم نے ان کو چن لیا“ ﴿وَهَدَيْنَاهُمْ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ﴾ ” اور ان کی صراط مستقیم کی طرف راہنمائی کی۔“ الانعام
88 ﴿ذَٰلِكَ﴾ ” یہ“ یعنی یہ ہدایت مذکورہ ﴿هُدَى اللَّـهِ﴾ ” اللہ کی ہدایت ہے“ جس کی ہدایت کے سوا کوئی ہدایت نہیں ﴿يَهْدِي بِهِ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ﴾” وہ ہدایت دیتا ہے اس کی جس کو چاہتا ہے اپنے بندوں میں سے“ پس اسی سے ہدایت طلب کرو، اگر وہ راہنمائی نہ کرے تو اس کے سوا تمہیں راہ دکھانے والا کوئی نہیں اور جن کی ہدایت اللہ تعالیٰ کی مشیت میں ہے، ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جن کا ذکر گزشتہ سطور میں گزر چکا ہے۔ ﴿وَلَوْ أَشْرَكُوا ﴾” اگر یہ لوگ شرک کرتے“ یعنی بفرض محال ﴿ لَحَبِطَ عَنْهُم مَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ﴾ ” تو ان کے عمل برباد ہوجاتے“ کیونکہ شرک تمام اعمال کو ساقط اور اکارت کردیتا ہے اور جہنم میں خلود اور دوام کا موجب بنتا ہے۔ اگر یہ چنے ہوئے بہترین لوگ بھی شرک کرتے حالانکہ وہ اس سے پاک ہیں، تو ان کے اعمال بھی اکارت ہوجاتے دیگر لوگ تو اس جزا کے زیادہ مستحق ہیں۔ الانعام
89 اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے ﴿أُولَـٰئِكَ﴾یعنی یہ مذکورہ بالا لوگ ﴿الَّذِينَ هَدَى اللَّـهُ ۖ فَبِهُدَاهُمُ اقْتَدِهْ﴾ ” وہ ہیں جن کو اللہ نے ہدایت دی، پس آپ ان کی ہدایت کی پیروی کریں“ یعنی اے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان انبیائے اخیار کی پیروی اور ان کی ملت کی اتباع کیجیے اور واقعی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی تعمیل کرتے ہوئے پہلے انبیاء و مرسلین کی پیروی کی اور ان کے ہر کمال کو اپنے اندر جمع کرلیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اندر ایسے فضائل اور خصائص جمع تھے جن کی بنا پر آپ کو تمام جہانوں پر فوقیت حاصل ہوئی۔ آپ تمام انبیا و مرسلین کے سردار اور متقین کے امام تھے۔ صلوات اللہ وسلامہ علیہ وعلیھم اجمعین۔ یہ ہے (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا) وہ پہلو جس سے بعض صحابہ کرام نے استدلال کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیاء و مرسلین سے افضل ہیں۔ الانعام
90 ﴿قُل﴾یعنی ان لوگوں سے کہہ دیجیے جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت سے اعراض کیا۔ ﴿ لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا﴾” میں تم سے اس کا صلہ نہیں مانگتا۔“ یعنی میں تم سے اپنی تبلیغ اور تمہیں اسلام کی دعوت دینے کے عوض کسی مال اور تاوان کا مطالبہ نہیں کرتا جو تمہارے اسلام نہ لانے کا سبب بنے، میرا اجر صرف اللہ کے ذمے ہے ﴿ إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرَىٰ لِلْعَالَمِينَ﴾ ” یہ تو محض نصیحت ہے جہان کے لوگوں کے لئے“ جو چیز ان کے لئے مفید ہے، اس سے وہ نصیحت پکڑتے ہیں اور اس پر عمل کرتے ہیں اور جو چیز ان کے لئے ضرر رساں ہے، اسے چھوڑ دیتے ہیں۔ وہ اس کے ذریعے سے اپنے رب اور اس کے اسماء وصفات کی معرفت حاصل کرتے ہیں اور اس کے ذریعے سے اخلاق حمیدہ، ان کے حصول کے مناہج اور اخلاق رذیلہ اور ان میں مبتلا کرنے والے امور کا علم حاصل کرتے ہیں۔ چونکہ یہ تمام جہانوں کے لئے نصیحت ہے اس لئے یہ سب سے بڑی نعمت ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو نوازا ہے اور ان پر واجب ہے کہ وہ اس نعمت کو قبول کریں اور اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں۔ الانعام
91 اللہ تعالیٰ نے یہود و مشرکین کے نفی رسالت کے قول کو سخت قبیح قرار دیا ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان پر کوئی چیز نازل نہیں فرمائی۔ جو اس بات کا قائل ہے اس نے اللہ تعالیٰ کی وہ قدر اور تعظیم نہیں کی جو کرنی چاہئے تھی کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت میں عیب جوئی ہے، وہ سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو مہمل چھوڑ دے گا ان کو کوئی حکم دے گا نہ ان کو کسی چیز سے روکے گا اور اس نے درحقیقت اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت کی نفی کی ہے جس سے اس نے اپنے بندوں کو نوازا ہے اور وہ یہ رسالت ہے۔ اس رسالت کے سوا بندوں کے لئے سعادت، کرامت اور فلاح حاصل کرنے کا کوئی راستہ نہیں، تب اس نفی رسالت سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی ذات میں اور کون سی طعن و تشنیع ہے؟ ﴿قُلْ ﴾ ان کے فساد قول کو متحقق کرتے ہوئے اور جس چیز کا وہ خود اقرار کرتے ہیں اس کو منواتے ہوئے ان سے کہہ دیجیے !﴿مَنْ أَنزَلَ الْكِتَابَ الَّذِي جَاءَ بِهِ مُوسَىٰ﴾ ” کون ہے جس نے وہ کتاب اتاری جسے موسیٰ لے کر آئے؟“ اور وہ ہے تو رات عظیم ﴿نُورًا﴾جو جہالت کی تاریکیوں میں روشنی ہے ﴿ وَهُدًى﴾ اور گمراہی میں ہدایت ہے اور علم و عمل میں راہ راست کی طرف راہنمائی کرتی ہے۔ یہ وہ کتاب ہے جو شائع ہو کر پھیل چکی ہے اور جس کے تذکروں نے کانوں اور دلوں کو لبریز کردیا ہے حتی ٰکہ انہوں نے اسے کتابوں میں لکھنا شروع کیا اور پھر جیسے جی چاہا اس میں تصرف کیا۔ جو ان کی خواہشات کے موافق تھا اسے ظاہر کیا اور جو ان کے خلاف تھا اسے چھپا کر کتمان حق کے مرتکب ہوئے اور ایسا حصہ بہت زیادہ ہے۔ ﴿وَعُلِّمْتُم ﴾ ” اور تمہیں وہ علوم سکھائے گئے“ جو اس کتاب جلیل کے سبب سے تھے﴿مَّا لَمْ تَعْلَمُوا أَنتُمْ وَلَا آبَاؤُكُمْ﴾ ” جو نہ تم جانتے تھے اور نہ تمہارے باپ دادا“ جب آپ نے اس ہستی کے بارے میں ان سے پوچھ لیا جس نے یہ کتاب نازل کی، جو ان صفات سے موصوف ہے تو انہیں اس کا جواب دیجیے ﴿قُلِ اللَّـهُ ۖ ﴾ ” کہہ دیجیے ! اللہ“ یعنی انہیں بتلا دیں کہ کتاب نازل کرنے والا اللہ ہے۔ ﴿ ثُمَّ ذَرْهُمْ فِي خَوْضِهِمْ يَلْعَبُونَ﴾” پھر ان کو چھوڑ دو کہ اپنی بے ہودہ باتوں میں کھیلتے رہیں۔“ یعنی پھر ان کو ان کے اپنے حال پر باطل میں مشغول چھوڑ دیجیے، تاکہ یہ ان چیزوں کے ساتھ کھیلتے رہیں جن کا کوئی فائدہ نہیں، یہاں تک کہ وہ اپنے اس دن سے جا ملیں جس کا ان کے ساتھ وعدہ کیا جاتا ہے۔ الانعام
92 ﴿ وَهَـٰذَا﴾ ” اور یہ“ یعنی قرآن مجید ﴿كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ مُبَارَكٌ﴾” کتاب ہے، اس کو اتارا ہم نے آپ کی طرف، برکت والا“ یعنی برکت اس کا وصف ہے اور اس کا سبب یہ ہے کہ یہ بھلائیوں اور نیکیوں پر مشتمل ہے ﴿ مُّصَدِّقُ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ﴾ ” جو اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے۔“ یعنی یہ کتاب، گزشتہ کتابوں کی موافقت کرتی ہے اور ان کی صداقت پر گواہ ہے۔ ﴿ وَلِتُنذِرَ أُمَّ الْقُرَىٰ وَمَنْ حَوْلَهَا ۚ﴾ نیز ہم نے یہ کتاب اس لئے نازل کی ہے تاکہ آپ بستیوں کی ماں، یعنی مکہ مکرمہ کے لوگوں اور اس کے اردگرد دیار عرب بلکہ تمام شہروں کے لوگوں کو ڈرائیں، تاکہ لوگ اللہ تعالیٰ کے عذاب اور اس کی پکڑ سے بچیں اور ان امور سے بچیں جو اس کے عذاب کے موجب ہیں۔ ﴿وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ يُؤْمِنُونَ بِهِ﴾” اور جن کو یقین ہے آخرت کا، وہ اس پر ایمان لاتے ہیں“ کیونکہ جب خوف دل میں جا گزیں ہوتا ہے تو اس کے تمام ارکان آباد ہوجاتے ہیں اور وہ اللہ تعالیٰ کی رضا کی پیروی کرنے لگ جاتا ہے ﴿وَهُمْ عَلَىٰ صَلَاتِهِمْ يُحَافِظُونَ ﴾ ” اور وہ اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں۔“ یعنی وہ نمازوں پر دوام کرتے ہیں، اس کے ارکان وحدود، اس کے لئے آداب و شرائط اور اس کی تکمیل کرنے والے دیگر تمام امور کی حفاظت کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ان میں شامل کرے۔ الانعام
93 اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس شخص سے بڑا ظالم اور مجرم کوئی اور نہیں جو اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھتا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسی بات یا حکم منسوب کرتا ہے جس سے اللہ تعالیٰ بری ہے۔ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنے کو سب سے بڑا ظلم اس لئے کہا گیا ہے، کیونکہ یہ بہتان پر مبنی ہے۔ اس میں ادیان، ان کے اصول و فروع میں تغیر و تبدل کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا جاتا ہے جو سب سے بڑی برائی ہے۔ نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرنا اور یہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی طرف وحی بھیجی ہے، اسی افترا میں شامل ہے۔ اس لئے کہ یہ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنے اور اس کی عظمت و غلبہ کے سامنے جسارت کا ارتکاب کرنے کے ساتھ اس بات کو بھی واجب ٹھہراتا ہے کہ وہ اس (جھوٹے نبی) کی پیروی کریں اور اس بات پر لوگوں سے لڑائی کریں اور اپنے مخالفین کے جان و مال کو وہ حلال قرار دیتا ہے۔ اس آیت کریمہ کی وعید میں ہر وہ شخص داخل ہے جس نے نبوت کا دعویٰ کیا جیسے مسیلمہ کذاب، اسود عنسی، مختار ثقفی اور دیگر مدعیان نبوت جو اس وصف سے متصف ہیں۔ ﴿وَمَنْ قَالَ سَأُنزِلُ مِثْلَ مَا أَنزَلَ اللَّـهُ ۗ﴾ ” اور جو کہے کہ میں بھی اتارتا ہوں مثل اس کے جو اتارا اللہ نے“ یعنی اس سے بڑھ کر ظالم کون ہے جو یہ زعم رکھتا ہے کہ وہ اس چیز پر قادر ہے جس پر اللہ تعالیٰ قادر ہے، وہ احکام میں اللہ تعالیٰ کا مقابلہ کرسکتا ہے، وہ بھی اسی طرح شریعت بنا سکتا ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے بنائی ہے اس وعید میں وہ شخص بھی شامل ہے جو دعویٰ کرتا ہے کہ وہ قرآن کا مقابلہ کرسکتا ہے اور قرآن جیسی کتاب وہ بھی بنا سکتا ہے۔ اس سے بڑا ظلم اور کیا ہوسکتا ہے کہ ایک بالذات محتاج اور عاجز بندہ جو ہر لحاظ سے ناقص ہے، یہ دعویٰ کرے کہ وہ ایک طاقتور اور بے نیاز ہستی کے ساتھ خدائی میں شریک ہے جو ہر پہلو سے اپنی ذات، اسما اور صفات میں کمال مطلق کی مالک ہے۔ جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان ظالموں کی مذمت کی تو ساتھ ہی اس عذاب کا بھی ذکر فرما دیا جو ان کے لئے تیار کیا گیا ہے اور حالت نزع میں ان کو دیا جائے گا۔﴿ وَلَوْ تَرَىٰ إِذِ الظَّالِمُونَ فِي غَمَرَاتِ الْمَوْتِ ﴾ ” اور اگر آپ دیکھیں جس وقت کہ ظالم ہوں موت کی سختیوں میں“ یعنی جب یہ ظالم موت کی شدت، اس کے ہول اور اس کے کرب میں مبتلا ہوں تو آپ ایک نہایت ہولناک حالت اور معاملہ دیکھیں گے کہ کوئی اس کا وصف بیان نہیں کرسکتا ﴿وَالْمَلَائِكَةُ بَاسِطُو أَيْدِيهِمْ﴾ ” اور فرشتے اپنے ہاتھ بڑھا رہے ہیں“ جب نزع کی حالت میں فرشتے ان ظالموں کو ماریں گے اور عذاب کے ساتھ ان کی طرف ہاتھ بڑھائیں گے ان کی روحوں کو قبض کرتے اور حرکت دیتے وقت۔ جبکہ روحیں جسموں سے نکلنے سے انکار کریں گی، کہیں گے :﴿أَخْرِجُوا أَنفُسَكُمُ ۖ الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُونِ﴾” کہ نکالو تم اپنی جانیں، آج تمہیں رسوائی کا عذاب دیا جائے گا“ یعنی ایسا سخت عذاب جو تمہیں ذلیل و رسوا کر دے گا اور جزا ہمیشہ عمل کی جنس سے ہوتی ہے۔ یہ عذاب اس پاداش میں ہے کہ ﴿بِمَا كُنتُمْ تَقُولُونَ عَلَى اللَّـهِ غَيْرَ الْحَقِّ﴾” اس لئے کہ تم اللہ کے ذمے ناحق باتیں لگاتے تھے۔“ تم جھوٹ بولتے تھے اور حق کو ٹھکراتے تھے جو انبیاء لے کر تمہارے پاس آئے تھے ﴿ وَكُنتُمْ عَنْ آيَاتِهِ تَسْتَكْبِرُونَ﴾ ” اور اس کی آیتوں سے سرکشی کرتے تھے۔“ اور تم اللہ تعالیٰ کی آیات کی اطاعت اور ان کے احکام کو ماننے سے اپنے آپ کو بالاتر سمجھتے تھے۔ یہ آیت کریمہ برزخ کے عذاب اور برزخ کی نعمت پر دلالت کرتی ہے کیونکہ اس خطاب اور عذاب کا رخ ان کی طرف عین نزع کے وقت اور موت سے تھوڑا سا پہلے اور پھر موت کے بعد ہے، نیز یہ آیت کریمہ اس امر پر بھی دلالت کرتی ہے کہ روح جسم رکھتی ہے جو داخل ہوتی ہے اور خارج ہوتی ہے جس کو مخاطب کیا جاتا ہے۔ وہ جسد کے ساتھ مل کر رہتی ہے اور اس سے علیحدہ ہوجاتی ہے۔ یہ ان کا برزخی حال ہے۔ قیامت کے روز جب یہ وارد ہوں گے تو نہایت افلاس کی حالت میں اکیلے اکیلے آئیں گے۔ ان کے ساتھ گھر والے ہوں گے نہ مال ہوگا نہ اولاد ہوگی، ان کے ساتھ لشکر ہوں گے نہ اعوان و انصار، وہ قیامت کے روز اسی طرح ہر چیز سے عاری اور عریاں حالت میں آئیں گے جس طرح اللہ تبارک و تعالیٰ نے پہلی مرتبہ پیدا کیا تھا، کیونکہ اشیا تو اس کے بعد ان اسباب کے ذریعے سے حاصل کی جاتی ہیں جو ان کے لئے مقرر ہیں۔ اس روز وہ تمام امور منقطع ہوجائیں گے جو دنیا میں بندے کے ساتھ تھے۔ سوائے نیک اعمال یا بداعمال کے، اور یہ اعمال ہی آخرت کا مادہ ہیں جن سے آخرت ظہور پذیر ہوگی، آخرت کا حسن و قبح، اس کا سرور و غم اور اس کا عذاب و نعمت اعمال کے مطابق حاصل ہوگا۔ یہ اعمال ہی ہیں جو نفع دیں گے یا نقصان دیں گے، جو اچھے لگیں گے یا برے لگیں گے اور ان اعمال کے علاوہ اہل و اولاد، مال و متاع اور اعوان و انصار، تو یہ سب دنیا میں رہ جانے والے اسباب، زائل ہوجانے والے اوصاف اور بدل جانے والے احوال ہیں۔ بنا بریں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : الانعام
94 ﴿وَلَقَدْ جِئْتُمُونَا فُرَادَىٰ كَمَا خَلَقْنَاكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَتَرَكْتُم مَّا خَوَّلْنَاكُمْ﴾ ” البتہ تم ہمارے پاس آگئے ایک ایک ہو کر جیسے ہم نے پیدا کیا تھا تم کو پہلی مرتبہ اور چھوڑ آئے تم جو کچھ اسباب ہم نے دیئے تھے تمہیں“ یعنی جو کچھ ہم نے تمہیں عطا کیا اور جن نعمتوں سے ہم نے تمہیں نوازا تھا ﴿وَرَاءَ ظُهُورِكُمْ﴾ ” اپنے پیچھے“ انہیں پیچھے چھوڑ آئے ہو اور وہ تمہارے کسی کام نہ آئیں گی ﴿ وَمَا نَرَىٰ مَعَكُمْ شُفَعَاءَكُمُ الَّذِينَ زَعَمْتُمْ أَنَّهُمْ فِيكُمْ شُرَكَؤُا﴾”اور ہم نہیں دیکھتے تمہارے ساتھ سفارشیوں کو جن کو تم گمان کرتے تھے کہ ان کا تم میں ساجھا ہے“ مشرکین اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کیا کرتے تھے، وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ملائکہ، انبیاء اور صالحین وغیرہم کی عبادت بھی کیا کرتے تھے، حالانکہ یہ سب اللہ کی ملکیت ہیں مگر وہ لوگ ان مخلوق ہستیوں کے لئے ایک حصہ ٹھہراتے تھے اور اپنی عبادت میں ان کو شریک کرتے تھے اور یہ ان کا زعم باطل اور ظلم ہے کیونکہ یہ سب اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کا مالک اور ان کی عبادت کا مستحق ہے، لہٰذا ان کے شرک فی العبادۃ بعض بندوں کو عبادت کا مستحق ٹھہرانے اور ان کو خالق و مالک کا مقام دینے کی بنا پر قیامت کے روز ان کو زجر و توبیخ کی جائے گی اور ان سے مذکورہ بات کہی جائے گی۔ ﴿لَقَد تَّقَطَّعَ بَيْنَكُمْ ﴾” تمہارے آپس کے سب تعلقات منقطع ہوگئے۔“ یعنی آج تمہارے اور تمہارے شرکاء کے مابین سفارش وغیرہ کے تمام روابط اور تعلقات منقطع ہوگئے اور ان تعلقات نے کوئی فائدہ نہ دیا۔ ﴿وَضَلَّ عَنكُم مَّا كُنتُمْ تَزْعُمُونَ ﴾ ” اور جاتے رہے وہ دعوے جو تم کیا کرتے تھے۔“ وہ نفع، امن، سعادت اور نجات جن کے وہ بڑے بڑے دعوے کیا کرتے تھے، گم ہوگئے جن کو شیطان تمہارے سامنے مزین کیا کرتا تھا، تمہارے دلوں میں انہیں خوبصورت بنایا کرتا تھا اور تمہاری زبانوں پر ان کا ذکر رہا کرتا تھا اور تم اپنے اس زعم باطل کے فریب میں مبتلا رہے جس کی کوئی حقیقت نہیں یہاں تک کہ ان تمام دعووں کا بطلان واضح ہوگیا اور ظاہر ہوگیا کہ تم خود اپنی ذات، اپنے اہل وعیال اور اپنے مال و متاع کے بارے میں خسارے میں پڑے رہے۔ الانعام
95 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے کمال، عظمت سلطان، قوت اقتدار، وسعت رحمت، بے پایاں فضل و کرم اور اپنی مخلوق کے ساتھ انتہائی عنایت کے بارے میں، خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے : ﴿إِنَّ اللَّـهَ فَالِقُ الْحَبِّ وَالنَّوَىٰ﴾ ” بے شک اللہ پھاڑ نکلتا ہے دانہ اور گٹھلی“ یہاں دانہ ہرقسم کے اناج کے دانوں کو شامل ہے جن کو عام طور پر لوگ کاشت کرتے ہیں اور وہ بھی جن کو کاشت نہیں کیا جاتا مثلاً وہ دانے جو اللہ تبارک و تعالیٰ نے صحراؤں اور بیابانوں میں بکھیر دیئے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ کھیتوں اور مختلف انواع و اشکال و منفعت والی نباتات کے بیجوں کو پھاڑتا ہے اور درختوں کی نوع میں کھجور اور دیگر پھلوں کی گٹھلی کو جس سے اللہ تعالیٰ کی مخلوق، انسان، مویشی اور دیگر جانور فائدہ اٹھاتے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ بیج اور گٹھلی سے جو کچھ اگاتا ہے یہ اسے کھاتے ہیں اور اس سے اپنی خوراک اور ہر قسم کی منفعت حاصل کرتے ہیں جس کو اللہ تعالیٰ نے اس میں مقرر فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو اپنے فضل و احسان کی جھلک دکھاتا ہے جس سے عقل ششدر اور بڑے بڑے اصحاب فضیلت حیران رہ جاتے ہیں۔ وہ ان کو اپنی انوکھی صنعت گری اور اپنی حکمت کا کمال دکھاتا ہے جس کے ذریعے سے وہ اسے پہچانتے ہیں اور اسے ایک مانتے ہیں اور جانتے ہیں کہ وہ حق ہے اور اس کے سواہر ہستی کی عبادت باطل ہے۔ ﴿ يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ ﴾ ” وہ زندہ کو مردہ سے نکالتا ہے“ مثلاً وہ منی سے حیوان اور انڈے سے چوزہ پیدا کرتا ہے، دانے اور گٹلھی سے اناج اور درخت پیدا کرتا ہے ﴿وَمُخْرِجُ الْمَيِّتِ ﴾ ” اور مردہ کو نکالتا ہے“ میت سے مراد وہ تمام اشیا ہیں جو نشو و نما کی صلاحیت سے محروم ہوں یا ان کے اندر روح نہ ہو ﴿مِنَ الْحَيِّ﴾ ” زندہ سے“ مثلاً درختوں اور کھیتیوں سے گٹھلیاں اور دانے پیدا کرتا اور پرندے سے انڈہ نکالتا ہے۔ ﴿ذَٰلِكُمُ﴾ ”وہ ہستی‘‘ جو یہ تمام افعال سر انجام دیتی ہے اور ان اشیاء کی تخلیق اور تدبیر میں منفرد ہے وہ ﴿ اللَّـهُ رَبَّكُمُ﴾ ” اللہ ہے، رب تمہارا“ تمام مخلوق پر فرض ہے کہ وہ اس کی الوہیت و عبودیت کو تسلیم کرے جس نے اپنی نعمتوں کے ذریعے سے تمام جہانوں کی ربوبیت فرمائی اور اپنے فضل و کرم سے ان کو غذا مہیا کی ﴿فَأَنَّىٰ تُؤْفَكُونَ﴾” پھر تم کہاں بہکے پھرتے ہو؟“ یعنی تم کہاں پھرے جاتے ہو اور جو اس شان کا مالک ہے اس کی عبادت کو چھوڑ کر ایسی ہستیوں کی عبادت کرتے ہو جو خود اپنے لئے کسی نفع و نقصان، موت و حیات اور دوبارہ اٹھانے پر قادر نہیں۔ جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے غذاؤں کی تخلیق کے مادے کا ذکر فرمایا تو اب اس احسان کا ذکر کیا جو اس نے مساکن مہیا کر کے مخلوق پر کیا ہے اور ہر وہ چیز تخلیق کر کے جس کے بندے محتاج ہوتے ہیں، مثلاً روشنی، تاریکی اور وہ تمام منافع اور مصالح جو اس پر مترتب ہوتے ہیں۔ الانعام
96 چنانچہ فرمایا : ﴿  فَالِقُ الْإِصْبَاحِ ﴾” پھاڑ نکالنے والا ہے صبح کی روشنی کا“ یعنی جس طرح اللہ تعالیٰ دانے اور گٹھلی کو پھاڑتا ہے اسی طرح اندھیری رات کے اندھیروں کو جو تمام روئے زمین کو ڈھانپ لیتے ہیں، صبح کے اجالے کے ذریعے سے پھاڑتا ہے جو دھیرے دھیرے تاریکی کے پردے کو چاک کئے چلا جاتا ہے حتیٰ کہ تمام تاریکی ختم ہوجاتی ہے اور مخلوق اپنے مصالح، معاش اور اپنے دین و دنیا کے فوائد کے حصول میں مصروف ہوجاتی ہے۔ چونکہ مخلوق سکون، آرام اور ٹھہرنے کی محتاج ہوتی ہے اور یہ امور دن اور رات کے وجود کے بغیر مکمل نہیں ہوتے ﴿وَجَعَلَ ﴾ اللہ تعالیٰ نے بنایا ﴿اللَّيْلَ سَكَنًا﴾” رات کو آرام کے لئے“ جس میں آدمی اپنے گھروں اور خواب گاہوں میں، جانور اور مویشی اپنے ٹھکانوں میں اور پرندے اپنے گھونسلوں میں آرام کرتے ہیں اور سب راحت اور آرام میں سے اپنا اپنا حصہ وصول کرتے ہیں اور پھر اللہ تعالیٰ اسے روشنی کے ذریعے سے زائل کردیتا ہے اور یہ سلسلہ ہمیشہ قیامت تک چلتا رہے گا۔ ﴿وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْبَانًا﴾ ” اور سورج اور چاند حساب کے لئے“ اللہ تعالیٰ نے سورج اور چاند بنائے جن کے ذریعے سے زمان و اوقات کی پہچان کی جاتی ہے، ان کے ذریعے سے عبادات کے اوقات منضبط ہوتے ہیں، معاملات کی مدت مقرر ہوتی ہے اور سورج اور چاند کے وجود ہی سے یہ معلوم کیا جاتا ہے کہ کتنا وقت گزر گیا ہے۔ اگر سورج اور چاند کا وجود اور ان کا باری باری ایک دوسرے کے پیچھے آنا نہ ہوتا تو عامتہ الناس ان تمام امور کو معلوم کر کے علم میں اشتراک نہ کرسکتے بلکہ چند افراد کے سوا کوئی بھی ان امور کی معرفت حاصل نہ کر پاتا اور وہ بھی نہایت کوشش اور اجتہاد کے بعد اور اس طرح تمام ضروری مصالح فوت ہوجاتے۔ ﴿ذَٰلِكَ﴾یہ مذکوررہ انداز ﴿تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ ﴾ ” اندازہ ہے غالب جاننے والے کا“ یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا غلبہ ہے کہ یہ بڑی بڑی مخلوق اس کی تدبیر کے سامنے سرتسلیم خم کئے ہوئے ہے اور اس کے حکم سے مطیع اور مسخر ہو کر اپنے راستے پر جاری و ساری ہے اور اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے جو حدود مقرر کردی ہیں او وہ اس سے سرمو انحراف نہیں کرسکتی، آگے ہوسکتی ہے نہ پیچھے۔ ﴿ الْعَلِيمِ﴾ وہی ہستی ہے جس کے علم نے تمام ظاہر و باطن اور اوائل و اواخر کا احاطہ کر رکھا ہے اور اس کے علم محیط کی عقلی دلیل یہ ہے کہ اس نے بڑی بڑی مخلوقات کو ایک اندازے پر ایک انوکھے نظام کے ذریعے سے مسخر کر رکھا ہے کہ جس کے حسن و کمال اور مصالح اور حکمتوں کے ساتھ اس کی مطابقت کو دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ الانعام
97 ﴿ وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ النُّجُومَ لِتَهْتَدُوا بِهَا فِي ظُلُمَاتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ۗ﴾ ” وہی ہے جس نے بنائے تمہارے لئے ستارے، تاکہ ان کے ذریعے سے تم راستے معلوم کرو، خشکی اور سمندر کے اندھیروں میں“ جب راستے تم پر مشتبہ ہوجاتے ہیں اور مسافر کا سفر تحیر کا شکار ہوجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو راستے دکھانے کے لئے ستاروں کو تخلیق فرمایا۔ لوگ اپنے مصالح، سفر تجارت اور دیگر سفروں میں ان راستوں کی پہچان کے محتاج ہوتے ہیں۔ کچھ ستارے ایسے ہیں جو ہمیشہ دکھائی دیتے ہیں اور اپنی جگہ نہیں چھوڑتے۔ کچھ ستارے ہمیشہ رواں دواں رہتے ہیں۔ ستاروں کی معرفت رکھنے والے ستاروں کی رفتار کو پہچانتے ہیں، بنا بریں وہ سمتیں اور اوقات معلوم کرسکتے ہیں۔ یہ آیت کریمہ اور اس قسم کی دیگر آیات دلالت کرتی ہیں کہ ستاروں کی رفتار اور ان کے محل و مقام کا علم حاصل کرنا مشروع ہے جسے ستاروں کی رفتار کے علم سے موسوم کیا جاتا ہے، کیونکہ اس کے بغیر راستوں کے علم سے بہرہ ور ہونا ممکن نہیں۔ ﴿قَدْ فَصَّلْنَا الْآيَاتِ ﴾ ” ہم نے آیات کھول کھول کر بیان کردیں۔“ یعنی ہم نے نشانیوں کو بیان کر کے واضح کردیا ہے اور ہر جنس اور نوع کو ایک دوسری سے ممیز کردیا، حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ کی آیات صاف ظاہر اور عیاں ہوگئیں ﴿لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ ﴾” جاننے والوں کے لئے۔“ یعنی ہم نے ان آیات کو ان لوگوں کے سامنے واضح کردیا جو علم اور معرفت سے بہرہ ور ہیں، کیونکہ یہی وہ لوگ ہیں جن کی طرف خطاب کا رخ ہے اور جن سے جواب مطلوب ہے۔ بخلاف جہلاء اور اہل جفا کے جو اللہ تعالیٰ کی آیات اور اس علم سے منہ موڑتے ہیں جسے لے کر انبیاء و مرسلین مبعوث ہوئے۔ کیونکہ ان کے سامنے بیان کرنا ان کو کوئی فائدہ نہیں دیتا اور ان کے سامنے اس کی تفصیل بیان کرنے سے ان کا التباس رفع نہیں ہوسکتا اور اس کی توضیح سے ان کا اشکار دور نہیں ہوتا۔ الانعام
98 ﴿ وَهُوَ الَّذِي أَنشَأَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ ﴾ ” اور وہی ذات ہے جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا“ اور وہ آدم ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے آدم علیہ السلام سے تمام نسل انسانی کو پیدا کیا جس نے روئے زمین کو بھر دیا ہے اور یہ اضافہ بڑھتا جا رہا ہے۔ نسل انسانی کے افراد کی خلقت، ان کے اخلاق اور اوصاف میں اس قدر تفاوت ہے کہ ان کو ضبط میں لانا اور ان کے تمام اوصاف کا ادراک ممکن ہی نہیں اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کامُسْتَقَریعنی ان کی غایت و انتہا مقرر فرما دی ہے جس کی طرف ان کو لے جایا جا رہا ہے اور وہ ہے آخرت کی جائے قرار، اس سے آگے کوئی غایت و منتہا نہیں۔ دنیا وہ گھر ہے جہاں رہنے کے لئے مخلوق کو پیدا کیا گیا اور ان کو اس لئے وجود میں لایا گیا تاکہ وہ ان اسباب کے لئے بھاگ دوڑ کریں جو زمین میں پیدا ہوتے ہیں اور زمین ان سے آباد ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو ان کے آباء کی پشتوں میں اور ماؤں کے رحموں میں امانت رکھ دیا، وہاں سے یہ امانت اس دنیا میں آجاتی ہے، پھر برزخ میں منتقل ہوجاتی ہے۔ ہر جگہ اس کی حیثیت امانت کی ہوتی ہے جس کو ٹھہراؤ اور ثبات نہیں بلکہ منتقل ہوتی رہتی ہے، یہاں تک کہ دار آخرت میں اسے پہنچا دیا جائے جو اس کا مستقر و مقام ہے۔ رہا دنیا کا یہ گھر تو یہ صرف گزر گاہ ﴿قَدْ فَصَّلْنَا الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَفْقَهُونَ﴾ ” تحقیق ہم نے کھول کر بیان کردیں نشانیاں، ان لوگوں کے لئے جو سمجھتے ہیں“ تاکہ وہ اللہ تعالیٰ سے اس کی آیات کو سمجھیں اور اس کے دلائل و براہین کا فہم حاصل کریں۔ الانعام
99 اس آیت کریمہ میں مذکور نعمت اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت ہے، انسان اور دیگر مخلوق جس کے سخت محتاج ہیں اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی ضرورت اور حاجت کے وقت پے در پے پانی برسایا، اس پانی کے ذریعے سے ہر قسم کی نباتات اگائی جسے انسان اور حیوانات کھاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے مخلوق اس نباتات کو کھاتی ہے، اس کے عطا کردہ رزق سے انبساط محسوس کرتی ہے، لوگ اس کے احسان پر خوش ہوتے ہیں اور ان سے قحط اور خشک سالی دور ہوجاتی ہے۔ پس دل خوش ہوجاتے ہیں اور چہرے نکھر جاتے ہیں، بندوں کو اللہ رحمان و رحیم کی بے پایاں رحمت نصیب ہوتی ہے جس سے وہ متمتع ہوتے ہیں، اس سے اپنی غذا حاصل کرتے ہیں۔ یہ چیز ان پر واجب ٹھہراتی ہے کہ وہ اس ہستی کا شکر ادا کریں جس نے انہیں یہ نعمتیں عطا کی ہیں اور اس کی عبادت، اس کی طرف انابت اور اس کی محبت میں اپنی کوشش صرف کریں۔ جب اللہ تعالیٰ نے اس پانی سے اگنے والے درختوں اور نباتات کا عمومی ذکر کیا تو اب (خصوصی طور پر) کھیتیوں اور کھجوروں کا ذکر فرمایا ہے، کیونکہ ان کی منفعت بہت زیادہ ہے اور اکثر لوگوں کی خوراک بھی انہی سے حاصل ہوتی ہے۔ ﴿فَأَخْرَجْنَا مِنْهُ خَضِرًا نُّخْرِجُ مِنْهُ﴾ ” پھر نکالی ہم نے اس سے سبز کھیتی، ہم نکالتے ہیں اس سے“ یعنی اس سرسبز نباتات میں سے ﴿حَبًّا مُّتَرَاكِبًا﴾ ” دانے، ایک پر ایک چڑھا ہوا“ یعنی گندم، جو، مکئی اور چاول جیسی زرعی اجناس میں دانے اپنی بالیوں میں ایک دوسرے پر چڑھے ہوئے ہوتے ہیں۔ اس کے وصف میں ” ایک دوسرے پر چڑھے ہوئے“ کا لفظ اشارہ کرتا ہے کہ ایک بالی میں متعدد دانے ہوتے ہیں، سب ایک ہی مادے سے خوراک حاصل کرتے ہیں، وہ ایک دوسرے سے خلط ملط نہیں ہوتے، تمام دانے متفرق ہوتے ہیں، ان کی جڑ ایک ہی ہوتی ہے۔“ یہ دانوں کی کثرت، ان کے بڑے ؟؟؟اور غلے کے عام ہونے کی طرف بھی اشارہ ہے تاکہ کچھ تو بیج کے لئے باقی رہے اور دوسرا غلہ کھایا اور ذخیرہ کیا جا سکے۔ ﴿ وَمِنَ النَّخْلِ ﴾” اور کھجور سے“ اللہ تعالیٰ نے نکالا ﴿ مِن طَلْعِهَا ﴾” اس کے گابھے سے“ اور وہ کھجور کا خوشہ نکلنے سے قبل اس پر چڑھا ہوا غلاف ہے۔ پس اس غلاف میں سے کھجور کا خوشہ نکلتا ہے ﴿قِنْوَانٌ دَانِيَةٌ﴾ ” پھل کے گچھے، جھکے ہوئے“ یعنی قریب قریب لگے ہوئے خوشے، جن کا حصول بہت آسان ہوتا ہے جو کوئی خوشوں کو توڑنا چاہے وہ ان کے بہت قریب ہوتا ہے۔ انہیں کھجور سے حاصل کرنا مشکل نہیں ہوتا، خواہ کھجور کا درخت کتنا ہی اونچا کیوں نہ ہو، کیونکہ کھجور کے تنے سے کٹی ہوئی شاخوں کی جگہ سیڑھیاں سی بن جاتی ہیں ان کی مدد سے کھجور پر چڑھنا آسان ہوجاتا ہے ﴿وَجَنَّاتٍ مِّنْ أَعْنَابٍ وَالزَّيْتُونَ وَالرُّمَّانَ﴾ ” اور (اس پانی سے) انگور، زیتون اور انار کے باغات اگائے۔“ چونکہ یہ درخت کثیر الفوائد اور عظیم وقعت کے حامل ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے درختوں اور نباتات کا عمومی ذکر کرنے کے بعد ان کا خاص طور پر ذکر کیا ہے۔ ﴿مُشْتَبِهًا وَغَيْرَ مُتَشَابِهٍ﴾ ” آپس میں ملتے جلتے بھی اور جدا جدا بھی“ اس میں اس امر کا احتمال ہے کہ اس سے مراد انار اور زیتون ہو، کیونکہ ان کے درخت اور پتے ایک دوسرے سے مشابہت رکھتے ہیں اور ان کے پھل غیر مشابہ (جدا جدا) ہوتے ہیں اور اس میں یہ احتمال بھی ہے کہ اس سے مراد تمام درخت اور میوے وغیرہ ہوں جن میں سے بعض ایک دوسرے سے مشابہت رکھتے ہیں اور بعض ایک دوسرے کے قریب ہوتے ہیں اور بعض اوصاف میں ایک دوسرے سے کوئی مشابہت نہیں رکھتے (بلکہ ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔) ان تمام درختوں سے بندے فائدہ اٹھاتے ہیں، ان سے پھل اور غذا حاصل کرتے ہیں اور عبرت پکڑتے ہیں۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے ان سے عبرت حاصل کرنے کا حکم دیا ہے ﴿انظُرُوا ﴾” دیکھو“ یعنی غور و فکر اور عبرت کی نظر سے دیکھو﴿إِلَىٰ ثَمَرِهِ ﴾ تمام درختوں کے پھل کی طرف عام طور پر اور کھجور کے پھل کی طرف خاص طور پر ﴿ إِذَا أَثْمَرَ﴾ ” جب وہ پھل لائے“ ﴿ وَيَنْعِهِ﴾ ” اور اس کے پکنے پر“ یعنی اس کے شگوفے نکلنے، پھل پکنے اور اس کے پک کر سر ہونے کی طرف دیکھو، کیونکہ اس میں عبرت اور نشانیاں ہیں جن کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کی رحمت، اس کے جود واحسان کی وسعت، اس کے کامل اقتدار اور بندوں پر اس کی بے پایاں عنایات پر استدلال کیا جاتا ہے۔ مگر ہر ایک تفکر و تدبر کے ذریعے سے عبرت حاصل نہیں کرتا اور یہ بھی ضروری نہیں کہ جو کوئی غور و فکر کرے وہ معنی مقصود کو پالے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے آیات الٰہی سے فائدہ اٹھانے کو مومنین کے ساتھ خاص کیا ہے، چنانچہ فرمایا :﴿إِنَّ فِي ذَٰلِكُمْ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ ﴾ ”اس میں ایمان رکھنے والے لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں“ کیونکہ مومنین کا ایمان ان کو اپنے ایمان کے تقاضوں اور لوازم پر عمل کرنے پر آمادہ کرتا ہے اور ان لوازم میں آیات الٰہی میں غور و فکر، ان سے نتائج کا استخراج، ان کا معنی مراد اور یہ آیات عقلاً شرعاً اور فطرتاً جس چیز پر دلالت کرتی ہیں، سب شامل ہیں۔ الانعام
100 اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ اپنے بندوں پر اس کے احسان اور واضح نشانیوں کے ذریعے سے ان کو اپنی معرفت عطا کرنے کے باوجود مشرکین قریش وغیرہم جنوں اور فرشتوں کو اس کے شریک ٹھہراتے ہیں، ان کو پکارتے ہیں اور ان کی عبادت کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں اور ان میں ربوبیت اور الوہیت کی کوئی بھی صفت نہیں۔ وہ ان کو اس ہستی کا شریک ٹھہراتے ہیں جو خلق و امر کی مالک ہے اور وہ ہر قسم کی نعمت عطا کرنے والی اور تمام دکھوں اور تکالیف کو دور کرنے والی ہے اور اسی طرح مشرکین نے اپنی طرف سے اللہ تعالیٰ پر بہتان گھڑتے اور جھوٹ باندھتے ہوئے بغیر کسی علم کے اللہ تعالیٰ کے بیٹے بیٹیاں بنا ڈالے۔ اس سے بڑا ظالم کون ہے جو علم کے بغیر کوئی بات اللہ تعالیٰ کے ذمے لگاتا ہے اور اس پر ایسے بدترین نقص کا بہتان باندھتا ہے جس سے اس کی تنزیہہ واجب ہے، بنا بریں اللہ تعالیٰ نے اپنے آپ کو مشرکین کی افترا پردازیوں سے منزہ قرار دیتے ہوئے فرمایا : ﴿سُبْحَانَهُ وَتَعَالَىٰ عَمَّا يَصِفُونَ ﴾” وہ ان باتوں سے جو اس کی نسبت بیان کرتے ہیں پاک ہے۔“ پس اللہ تعالیٰ ہر صفت کمال سے متصف اور ہر نقص، آفت اور عیب سے منزہ ہے۔ الانعام
101 ﴿بَدِيعُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ﴾ ” نئی طرح پر بنانے والا آسمانوں اور زمین کا“ اللہ تعالیٰ ان کو تخلیق کرنے والا بغیر کسی سابقہ نمونے کے، ان کو مہارت کے ساتھ بہترین شکل میں، بہترین نظام اور خوبصورتی کے ساتھ بنانے والا بغیر کسی سابقہ نمونے کے، ان کو مہارت کے ساتھ بہترین شکل میں، بہترین نظام اور خوبصورتی کے ساتھ بنانے والا ہے۔ بڑے بڑے عقل مندوں کی عقل اس جیسی کوئی چیز وجود میں لانے سے قاصر ہے۔ اسی طرح زمین اور آسمان کی تخلیق میں کوئی اس کا شریک بھی نہیں۔﴿أَنَّىٰ يَكُونُ لَهُ وَلَدٌ وَلَمْ تَكُن لَّهُ صَاحِبَةٌ﴾ ” کیوں کر ہوسکتی ہے اس کی اولاد جب کہ اس کی بیوی ہی نہیں؟“ یعنی اللہ تعالیٰ کی اولاد کیسے ہوسکتی ہے حالانکہ وہ بے نیاز، سردار اور الٰہ حق ہے جس کی کوئی ساتھی، یعنی بیوی نہیں ہے وہ اپنی تمام مخلوق سے بے نیاز ہے۔ تمام مخلوق اس کی محتاج اور اپنے تمام احوال میں اللہ تعالیٰ کے سامنے مجبور ہے اور اولاد لازمی طور پر اپنے باپ کی جنس سے ہوتی ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہر چیز کا خالق ہے۔ اس کی مخلوقات میں کوئی چیز ایسی نہیں جو کسی بھی پہلو سے اس کی مشابہ ہو۔ چونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس امر کا عمومی ذکر فرمایا ہے کہ اس نے تمام اشیا کو پیدا کیا ہے، اس لئے اس نے یہ بھی ذکر فرمایا کہ اس کا علم ان تمام اشیاء کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ ﴿ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ ﴾” اور وہ ہر چیز کو جانتا ہے۔“ تخلیق کے بعد علم کا ذکر کرنا اس دلیل عقلی کی طرف اشارہ ہے کہ اسے اپنی مخلوق کا علم بھی ہے اور مخلوق میں اس کی پیدا کردہ تمام چیزیں اور وہ پورا نظام ہے جس پر کائنات قائم ہے۔ اس لئے کہ اس میں خالق کے علم کی وسعت اور اس کی کامل حکمت پر دلیل ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿أَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ﴾ (الملک :67؍14) ’’بھلا جس نے پیدا کیا وہ نہیں جانتا؟ وہ تو پوشیدہ اور باریک امور سے آگاہ اور ان کی خبر رکھنے والا ہے۔“ اور فرمایا : ﴿وَهُوَ الْخَلَّاقُ الْعَلِيمُ﴾(یسین :36؍(81 ” وہ بڑا پیدا کرنے والا اور علم رکھنے والا ہے۔“ الانعام
102 ﴿ذَٰلِكُمُ اللَّـهُ رَبُّكُمْ﴾ ” یہی اللہ تمہارا رب ہے۔“ یعنی یہ معبود، جو انتہائی تذلل اور انتہائی محبت کا مستحق ہے وہی تمہارا رب ہے جس نے اپنی نعمتوں کے ذریعے سے تمام مخلوق کی ربوبیت کا انتظام فرمایا اور ان سے مختلف اصناف کی تکالیف کو دور ہٹایا۔ ﴿لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ فَاعْبُدُوهُ﴾ ” اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ ہر چیز کا خالق ہے، پس تم اسی کی عبادت کرو۔“ یعنی جب یہ بات ثابت ہے کہ وہ اللہ ہی ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، تو اپنی ہر قسم کی عبادت کا رخ اسی کی طرف پھیر دو، اپنی تمام عبادات کو اسی کے لئے خالص کرو اور ان عبادات میں صرف اسی کی رضا کو مقصد بناؤ۔ تخلیق کائنات کا مقصد بھی یہی ہے اور اسی کی خاطر ان کو پیدا کیا گیا ہے۔﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ﴾ (الذاریات :51؍56) ” میں نے جن وانس کو صرف اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔“ ﴿وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ وَكِيلٌ﴾” اور وہ ہر چیز پر کار ساز ہے۔“ یعنی تمام اشیا تخلیق و تدبیر اور تصرف کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کی وکالت اور بندوبست کے تحت ہیں اور یہ بات معلوم ہے کہ وہ امر جو کسی کے تصرف میں دیا گیا ہے، اس کی استقامت، اس کا اتمام اور اس کا کمال انتظام وکیل کے حسب حال ہوتا ہے۔ تمام اشیاء پر اللہ تبارک و تعالیٰ کی وکالت، مخلوق کی وکالت کی مانند نہیں ہے کیونکہ مخلوق کی وکالت تو درحقیقت نیابت ہے اور اس میں وکیل اپنے موکل کے تابع ہوتا ہے۔ جہاں تک باری تعالیٰ کی ذات ہے، تو اس کی وکالت اپنی طرف سے اپنے لئے ہوتی ہے جو کمال علم، حسن تدبیر اور عدل و احسان کو متضمن ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سے کسی کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ پر استدراک (کسی کوتاہی کا ازالہ) کرے، نہ اسے اللہ تعالیٰ کی تخلیق میں کوئی خلل نظر آئے گا اور نہ اس کی تدبیر میں کوئی نقص اور عیب۔ اللہ تعالیٰ کی وکالت کا ایک حصہ یہ ہے کہ اس نے اپنے دین کو توضیح و تبیین کا کام اپنے ذمہ لیا اور دین کو خراب کرنے اور بدلنے والے تمام امور سے اس کی حفاظت کی اور وہ اہل ایمان کی حفاظت اور ایسے امور سے ان کو بچانے کا ضامن بنا جو ان کے دین و ایمان کو خراب کرتے ہیں۔ الانعام
103 ﴿لَّا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ﴾ ” اسے آنکھیں نہیں پا سکتیں“ اس کی عظمت اور اس کے جلال و کمال کی بنا پر نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں۔ یعنی نگاہیں اس کا احاطہ نہیں کرسکتیں۔ اگرچہ آخرت میں اس کو دیکھ سکیں گی اور اس کے چہرہ مکرم کے نظارے سے خوش ہوں گی۔ پس ادراک کی نفی سے روئیت کی نفی لازم نہیں آتی بلکہ مفہوم مخالف کی بنا پر رؤیت کا اثبات ہوتا ہے کیونکہ ادراک، جو کہ رؤیت کا ایک خاص وصف ہے، کی نفی رؤیت کے اثبات پر دلالت کرتی ہے۔ اس لئے کہ اگر اس آیت کریمہ سے رؤیت باری تعالیٰ کی نفی مراد ہوتی تو اللہ تعالیٰ کا ارشاد یہ ہوتا (لا تراہ الابصار) یا اس قسم کا کوئی اور فقرہ۔ پس معلوم ہوا کہ آیت کریمہ میں معطلہ کے مذہب پر کوئی دلیل نہیں جو آخرت میں رب تعالیٰ کے دیدار کا انکار کرتے ہیں، بلکہ اس سے ان کے مذہب کے نقیض (برعکس) کا اثبات ہوتا ہے۔ ﴿وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ﴾ ” اور وہ آنکھوں کو پاسکتا ہے“ یعنی وہی ہے جس کے علم نے ظاہر و باطن کا احاطہ کر رکھا ہے، اس کی سماعت تمام جہری اور خفیہ آوازوں کو سنتی ہے اور بصارت تمام چھوٹی بڑی مرئیات کو دیکھتی ہے۔ بنابریں فرمایا : ﴿ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ﴾ ” اور وہ نہایت باریک بین، خبر دار ہے۔“ یعنی جس کا علم اور خبر بہت باریک اور دقیق ہے حتیٰ کہ اسرار نہاں، چھپی ہوئی چیزوں اور باطن کا بھی ادراک کرلیتا ہے۔ یہ اس کا لطف و کرم ہے کہ وہ اپنے بندے کی اس کے دینی مصالح کی طرف راہنمائی کرتا ہے اور ان مصالح کو اس کے پاس اس طریقے سے پہنچاتا ہے کہ بندے کو اس کا شعور تک نہیں ہوتا اور اسے ان مصالح کے حصول کے لئے تگ و دو نہیں کرنی پڑتی۔ وہ اپنے بندے کو ابدی سعادت اور دائمی فلاح کی منزل پر اس طرح پہنچاتا ہے جس کا وہ اندازہ ہی نہیں کرسکتا۔ یہاں تک کہ وہ بندے کے لئے ایسے امور مقدر کردیتا ہے جنہیں بندہ ناپسند کرتا ہے اور ان کی وجہ سے دکھ اٹھاتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے ان کو دور کرنے کی دعا کرتا ہے، مگر اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ اس کا دین اس کے لئے زیادہ درست ہے اور اس کا کمال انہی امور پر موقوف ہے۔ پاک ہے وہ لطف و کرم والی باریک بین ذات جو مومنوں کے ساتھ بہت رحیم ہے۔ الانعام
104 جب اللہ تعالیٰ نے اپنی آیات اور واضح دلائل کو بیان کردیا جو تمام مطالب و مقاصد میں حق پر دلالت کرتی ہیں تو ان کو آگاہ کر کے خبردار کردیا کہ ان کی ہدایت اور گمراہی خود ان کی ذات کے لئے ہے۔ پس فرمایا : ﴿قَدْ جَاءَكُم بَصَائِرُ مِن رَّبِّكُمْ ۖ﴾ ” تحقیق آچکیں تمہارے پاس نشانیاں تمہارے رب کی طرف سے“ یعنی تمہارے پاس ایسی آیات آگئی ہیں جو حق کو واضح کرتی ہیں۔ وہ قلب کے لئے حق کو ایسے واضح اور نمایاں کردیتی ہیں جیسے آنکھوں کے سامنے سورج، کیونکہ یہ آیات فصاحت لفظ، بیان و وضوح، معانی جلیلہ کے ساتھ مطابقت اور حقائق جمیلہ پر مشتمل ہیں۔ اس لئے کہ یہ اس رب کی طرف سے صادر ہوئی ہیں جو اپنی مختلف ظاہری اور باطنی نعمتوں کے ذریعے سے اپنی مخلوق کی تربیت کرتا ہے اور ان میں جلیل ترین نعمت تبیین آیات اور توضیح مشکلات ہے۔ ﴿فَمَنْ أَبْصَرَ﴾’’پس جس نے دیکھ لیا“ جو کوئی ان آیات کے ذریعے سے عبرت کے مواقع دیکھ لیتا ہے اور اس کے تقاضوں کے مطابق عمل کرتا ہے ﴿فَلِنَفْسِهِ﴾ ” تو یہ خود اس کی ذات کے لئے ہے“ کیونکہ اللہ تعالیٰ تو بے نیاز اور قابل تعریف ہے﴿ وَمَنْ عَمِيَ ﴾ ” اور جو اندھا رہا“ یعنی وہ دیکھتا تو ہے مگر بصیرت کے ساتھ غور و فکر نہیں کرتا، اسے زجر و توبیخ کی جاتی ہے مگر وہ اسے قبول نہیں کرتا، اس کے سامنے حق واضح کیا جاتا ہے مگر وہ اس کی اطاعت کرتا ہے نہ اس کے سامنے جھکتا ہے، پس اس کے اندھے پن کا نقصان اسی کے لئے ہے۔ ﴿وَمَا أَنَا ﴾یعنی اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کہہ دیجیے ” اور نہیں ہوں میں“﴿ عَلَيْكُم بِحَفِيظٍ﴾ ” تم پر نگہبان“ کہ میں تمہارے اعمال پر نظر رکھوں اور دائمی طور پر ان کی نگرانی کروں، میری ذمہ داری تو صرف پہنچا دینا ہے اور میں نے یہ ذمہ داری ادا کردی۔ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ مجھ پر نازل کیا تھا میں نے پہنچا دیا اور یہی میرا فرض ہے۔ اس کے علاوہ جو کچھ ہے وہ میرے فرائض میں شامل نہیں۔ [مؤلف رحمۃ اللہ علیہ نے آیت نمبر 104 کے بعد آیت نمبر 105 تا 107 کی تفسیر نہیں کی۔ از محقق] الانعام
105 اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو ایک ایسے کام سے روکا ہے جو بنیادی طور پر جائز بلکہ مشروع ہے اور وہ ہے مشرکین کے معبودوں کو سب و شتم کرنا۔ جن کے بت بنائے گئے اور جن کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ معبود بنا لیا گیا ہے، ان کی اہانت اور سب و شتم سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے، لیکن چونکہ یہ سب و شتم مشرکین کے لئے اللہ رب العالمین کو سب و شتم کرنے کا ذریعہ بن جاتا ہے جس عظیم ذات کی، ہر عیب و آفت اور سب و شتم سے تنزیہہ واجب ہے، اس لئے مشرکین کے معبودوں کو برا بھلا کہنے سے روک دیا گیا ہے، کیونکہ وہ اپنے دین میں متعصب ہیں اور اپنے دین کے لئے جوش میں آجاتے ہیں، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر قوم کے اعمال کو ان کے لئے مزین کردیا ہے۔ وہ اعمال انہیں اچھے دکھائی دیتے ہیں لہٰذا وہ ہر طریقے سے ان کی مدافعت کرتے ہیں، حتیٰ کہ اگر مسلمان ان کے معبودوں کو گالی دیں تو وہ اللہ تعالیٰ کو بھی گالی دیئے بغیر نہیں رہتے جس کی عظمت ابرار و فجار کے دلوں میں راسخ ہے۔ مگر تمام مخلوق کو انجام کار قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹتا ہے، پھر انہیں اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضر ہونا ہے اور ان کے اعمال پیش کئے جائیں گے اور جو وہ اچھا برا کام کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کو آگاہ کرے گا۔ اس آیت کریمہ میں اس شرعی قاعدہ پر دلیل ہے کہ وسائل کا اعتبار ان امور کے ذریعے سے کیا جاتا ہے جن تک یہ پہنچاتے ہیں چنانچہ امور محرمہ کی طرف لے جانے والے وسائل و ذرائع حرام ہیں، خواہ وہ فی نفسہ حلال ہی کیوں نہ ہوں۔ الانعام
106 الانعام
107 الانعام
108 الانعام
109 یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کرنے والے مشرکین قسمیں اٹھاتے ہیں ﴿ بِاللَّـهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ﴾ یعنی زور دار اور موکد قسمیں﴿ لَئِن جَاءَتْهُمْ آيَةٌ﴾ ” اگر ان کے پاس کوئی نشانی آگئی“ جو محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت پر دلالت کرتی ہو ﴿لَّيُؤْمِنُنَّ بِهَا﴾” تو وہ ضرور اس پر ایمان لے آئیں گے۔“ یہ کلام جو ان سے صادر ہوا اس سے ان کا مقصد طلب ہدایت نہ تھا بلکہ ان کا مقصد تو محض دفع اعتراض اور اس چیز کو قطعی طور پر ٹھکرانا تھا جو انبیاء و رسل لے کر آئے ہیں۔ بلاشبہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی آیات بینات اور واضح دلائل کے ساتھ تائید فرمائی۔ ان دلائل کی طرف التفات کرنے سے اس بات میں ادنیٰ سا شبہ اور اشکال باقی نہیں رہتا کہ جو کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لے کر مبعوث ہوئے ہیں وہ صحیح ہے۔ اس کے بعد ان آیات و معجزات کا مطالبہ کرنا محض تعنت ہے جس کا جواب دینا لازم نہیں، بلکہ کبھی کبھی ان کو جواب نہ دینا ان کے لئے بہتر ہوتا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے بندوں میں اس کی سنت یہ ہے کہ اس کے انبیاء و رسل سے معجزات کا مطالبہ کرنے والوں کے پاس جب معجزات آجاتے ہیں اور وہ ان پر ایمان نہیں لاتے تو ان پر عذاب بھیج دیا جاتا ہے۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿قُلْ إِنَّمَا الْآيَاتُ عِندَ اللَّـهِ﴾ ” کہہ دیجیے ! کہ نشانیاں تو اللہ کے پاس ہیں۔“ یعنی اللہ تعالیٰ ہی ہے جو جب چاہتا ہے معجزات نازل کرتا ہے اور وہ جب چاہتا ہے روک دیتا ہے۔ میرے اختیار میں کچھ بھی نہیں۔ لہٰذا مجھ سے تمہارا مطالبہ کرنا ظلم اور ایسی چیز کا مطالبہ ہے جس پر مجھے کوئی اختیار نہیں، تاہم تمہارا مقصود اس سے صرف اس چیز کی توضیح و تصدیق ہے۔ جو میں لایا ہوں جب کہ وہ ثابت شدہ امر ہے۔ بایں ہمہ یہ بھی معلوم نہیں کہ جب ان کے پاس یہ نشانیاں آجائیں گی تو یہ ان پر ایمان لے آئیں گے اور ان کی تصدیق کریں گے۔ بلکہ ان کے احوال یہ ہیں کہ وہ غالب طور پر صراط مستقیم پر گامزن ہونے کی توفیق سے محروم ہونے کی وجہ سے ایمان نہیں لاتے۔ بنا بریں فرمایا : ﴿وَمَا يُشْعِرُكُمْ أَنَّهَا إِذَا جَاءَتْ لَا يُؤْمِنُونَ﴾ ” اور تمہیں کیا معلوم کہ جب ان کے پاس نشانیاں آ بھی جائیں، تب بھی یہ ایمان نہیں لائیں گے۔ “ الانعام
110 ﴿وَنُقَلِّبُ أَفْئِدَتَهُمْ وَأَبْصَارَهُمْ كَمَا لَمْ يُؤْمِنُوا بِهِ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَنَذَرُهُمْ فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ ﴾ ” اور ہم الٹ دیں گے ان کے دل اور ان کی آنکھیں جیسے کہ ایمان نہیں لائے نشانیوں پر پہلی بار اور ہم چھوڑے رکھیں گے ان کو ان کی سرکشی میں بہکتے ہوئے۔“ یعنی جب ان کے پاس حق کی دعوت دینے والا آیا اور ان پر حجت قائم ہوگئی مگر وہ ایمان نہیں لائے۔ اس پہلی مرتبہ کے انکار کے نتیجے میں ہم ان کو عذاب دیں گے ان کے دلوں کو حق سے پھیر کر، ان کے اور ایمان کے درمیان حائل ہو کر اور صراط مستقیم پر گامزن ہونے کی توفیق سے محروم کر کے۔ یہ بندوں کے ساتھ اس کا عدل اور اس کی حکمت ہے۔ انہوں نے اپنے آپ پر جرم کا ارتکاب کیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے دروازہ کھولا مگر وہ اس میں داخل نہیں ہوئے، اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے ہدایت کا راستہ واضح کردیا، لیکن وہ اس پر گامزن نہ ہوئے۔ اگر اس کے بعد ان کو توفیق سے محروم کردیا گیا تو یہ ان کے احوال کے عین مطابق ہے۔ الانعام
111 اسی طرح ان کا اپنے ایمان کو اپنے ارادے اور خود اپنی مشیت سے معلق کرنا اور اللہ تعالیٰ پر بھروسہ نہ کرنا، سب سے بڑی غلطی ہے۔ کیونکہ اگر ان کے پاس بڑی بڑی نشانیاں اور معجزات بھی آجائیں، فرشتے نازل ہو کر رسول کی رسالت کی شہادت دے دیں، ان کے ساتھ مردے باتیں کرنے لگیں اور خود ان کو مارنے کے بعد دوبارہ زندہ کردیا جائے ﴿ وَحَشَرْنَا عَلَيْهِمْ كُلَّ شَيْءٍ ﴾ ” اور زندہ کردیں ہر چیز کو ان کے سامنے“ حتیٰ کہ وہ ان کے ساتھ باتیں کریں﴿قُبُلًا﴾ ”سامنے“ یعنی ان کے سامنے نظر آتے ہوئے اس چیز کی تصدیق کریں جسے لے کر رسول آیا ہے، تب بھی ان کے حصے میں ایمان نہیں آسکتا، اگر اللہ کی مشیت ان کے ایمان لانے کی نہ ہو۔ مگر ان میں سے اکثر جاہل ہیں اسی لئے انہوں نے اپنے ایمان کو مجرد آیات و معجزات کے ساتھ مشروط کیا ہے۔ عقل اور علم کا تقاضا تو یہ ہے کہ بندے کا مطلوب و مقصود اتباع حق ہو اور وہ اسے ان طریقوں سے تلاش کرے جنہیں اللہ تعالیٰ نے واضح کردیا ہے، حق پر عمل کرے اور اس کی اتباع میں اپنے رب کی مدد طلب کرے۔ اپنے نفس اور اپنی قوت و اختیار پر بھروسہ نہ کرے اور ان آیات و معجزات کا مطالبہ نہ کرے جن کا کوئی فائدہ نہیں۔ الانعام
112 اللہ تبارک و تعالیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دیتے ہوئے فرماتا ہے جس طرح ہم نے آپ کے دشمن بنا دیئے جو آپ کی دعوت کو ٹھکراتے ہیں اور آپ سے حسد کرتے ہیں، تو یہ ہماری سنت ہے، ہم ہر نبی کے، جس کو ہم مخلوق کی طرف مبعوث کرتے ہیں، جنوں اور انسانوں میں سے دشمن مقرر کردیتے ہیں وہ ان تمام امور کی مخالفت کرتے ہیں جنہیں رسول لے کر آئے ہیں۔ ﴿ يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلَىٰ بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُورًا ۚ﴾ ” سکھلاتے ہیں وہ ایک دوسرے کو ملمع کی ہوئی باتیں، فریب دینے کے لئے“ یعنی وہ ایک دوسرے کو ان باطل امور کو سجا کر اور مزین کر کے پیش کرتے ہیں جن کی طرف وہ دعوت دیتے ہیں اور وہ اس کی تعبیرات کو آراستہ کر کے بہترین اسلوب میں پیش کرتے ہیں تاکہ بیوقوف اس سے دھوکہ کھا جائیں اور سیدھے سادے لوگ ان کے سامنے سر اطاعت خم کردیں جو حقائق کا فہم رکھتے ہیں نہ معافی کو سمجھتے ہیں، بلکہ خوبصورت الفاظ اور ملع سازی ان کو اچھی لگتی ہے، پس وہ حق کو باطل اور باطل کو حق سمجھنے لگتے ہیں۔ الانعام
113 بنا بریں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَلِتَصْغَىٰ إِلَيْهِ﴾ ” تاکہ اس کی طرف مائل ہوں۔“ یعنی اس مزین کلام کو سننے کی طرف مائل ہوں ﴿وَلِتَصْغَىٰ إِلَيْهِ أَفْئِدَةُ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ﴾ ” ان لوگوں کے دل جو آخرت پر یقین نہیں رکھتے“ کیونکہ یوم آخرت پر ان کا ایمان نہ رکھنا اور عقل نافع سے ان کا محروم ہونا، ان کو اس بات پر آمادہ کرتا ہے﴿وَلِيَرْضَوْهُ ﴾” اور تاکہ وہ اس کو پسند بھی کرلیں“ یعنی اس کی طرف مائل ہونے کے بعد پس ان کے دل پہلے اس کی طرف مائل ہوتے ہیں پھر ان خوبصورت اور مزید عبارت کو جب دیکھتے ہیں تو ان کو پسند کرنے لگتے ہیں یہ عبارات ان کے دل میں سج جاتی ہیں اور ایک راسخ عقیدہ اور لازم وصف بن جاتی ہیں۔ پھر اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان سے اس قسم کے اعمال سر زد ہوتے ہیں یعنی وہ اپنے قول و فعل میں جھوٹ کا ارتکاب کرتے ہیں جو ان عقائد قبیحہ کا لازمہ ہیں پس یہ حال ان شیاطین جن و انس کا ہے جو ان کی دعوت پر لبیک کہتے ہیں۔ رہے آخرت پر ایمان رکھنے والے عقل مند اور سنجیدہ لوگ تو وہ ان عبارات سے دھوکہ کھاتے ہیں نہ ان ملمع سازیوں کا شکار ہوتے ہیں، بلکہ ان کی ہمت اور ان کے ارادے حقائق کی معرفت حاصل کرنے میں مصروف رہتے ہیں وہ ان معانی پر نظر رکھتے ہیں جن کی طرف دعوت دینے والے دعوت دیتے ہیں۔ اگر یہ معانی حق ہیں تو انہیں قبول کرلیتے ہیں اور اس پر عمل کرتے ہیں خواہ ان کو کم تر عبارات اور غیر وافی الفاظ میں کیوں نہ بیان کیا گیا ہو اور اگر یہ معانی باطل ہیں تو انہیں ان کے قائل کی طرف لوٹا دیتے ہیں خواہ ان کا قائل کوئی بھی ہو اور خواہ ان الفاظ کو ریشم سے بھی زیادہ خوشنما لبادہ اوڑھا دیا گیا ہو۔ یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی حکمت بالغہ ہے کہ اس نے انبیائے کرام کے دشمن بنا دیئے اور باطل کے انصار و اعوان مقرر کردیئے جو باطل کی طرف دعوت دیتے ہیں تاکہ اس کے بندوں کی آزمائش اور امتحان ہوسکے اور سچے، جھوٹے، عقل مند اور جاہل، صاحب بصیرت اور اندھے کے درمیان امتیاز ہوسکے اور یہ بھی اس کی حکمت کا حصہ ہے کہ حق و باطل کی اس کشمکش کے اندر حق کی تبیین اور توضیح ہے کیونکہ جب باطل حق کا مقابلہ کرتا ہے تو حق روشن ہو کر اور نکھر کر سامنے آجاتا ہے۔ تب اس وقت حق کے وہ دلائل اور شواہد واضح ہوجاتے ہیں جو حق کی صداقت اور حقیقت اور باطل کے فساد اور اس کے بطلان پر دلالت کرتے ہیں جو سب سے بڑا مقصد ہے جس کی طرف ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ الانعام
114 یعنی اے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان سے کہہ دیجیے ﴿أَفَغَيْرَ اللَّـهِ أَبْتَغِي حَكَمًا﴾ ” کیا میں اللہ کے سوا کوئی منصف تلاش کروں“ اور اس کے پاس اپنے فیصلے لے کر جاؤں اور اس کے اوامرو نواہی کی پابندی کروں؟ کیونکہ غیر اللہ حاکم نہیں محکوم ہوتا ہے اور مخلوق کے لئے ہر تدبیر اور ہر فیصلہ، نقص، عیب اور ظلم و جور پر مشتمل ہوتا ہے اور جسے حاکم بنانا واجب ہے، وہ صرف اللہ وحدہ لاشریک لہ کی ذات ہے جو خلق و امر کی مالک ہے۔﴿ وَهُوَ الَّذِي أَنزَلَ إِلَيْكُمُ الْكِتَابَ مُفَصَّلًا﴾ حالانکہ اسی نے اتاری ہے تم پر کتاب واضح“ یعنی جس میں حلال و حرام، احکام شریعت اور دین کے اصول و فروغ واضح کئے گئے ہیں، اس کی توضیح سے بڑھ کر کوئی توضیح نہیں، اس کی دلیل سے روشن کوئی دلیل نہیں، اس کے فیصیل سے اچھا کوئی فیصلہ نہیں اور اس کی بات سے زیادہ درست کسی کی بات نہیں کیونکہ اس کے احکام حکمت و رحمت پر مشتمل ہیں۔ کتب سابقہ کے حاملین یہود و نصاریٰ اس حقیقت کو پہچانتے ہیں ﴿ يَعْلَمُونَ أَنَّهُ مُنَزَّلٌ مِّن رَّبِّكَ بِالْحَقِّ ۖ﴾” (اور) جانتے ہیں کہ وہ آپ کے رب کی طرف سے ٹھیک نازل ہوئی ہے“ اسی لئے اخبار سابقہ اس کی موافقت کرتی ہیں (فلاتکونن من الممترین) پس آپ اس بارے میں شک و شبہ میں مبتلا نہ ہوں۔ الانعام
115 پھر اللہ تعالیٰ نے اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرمایا ﴿وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَعَدْلًا﴾ ” اور آپ کے رب کی بات پوری سچی ہے اور انصاف کی“ یعنی خبر میں صداقت اور اوامرونواہی میں عدل ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کتاب عزیز میں جو خبریں بیان کی ہیں اس سے سچی کوئی خبر نہیں اور اللہ تعالیٰ کے اوامرونواہی سے بڑھ کر کسی حکم میں عدل و انصاف نہیں۔ ﴿لَّا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِهِ﴾” اس کی بات کو کوئی بدلنے والا نہیں“ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کی حفاظت فرمائی ہے اور صدق کی مختلف انواع اور حق کے ذریعے سے ان کو محکم کیا ہے۔ اس لئے ان میں تغیر و تبدل کرنا ممکن نہیں اور نہ اس سے زیادہ خوبصورت کلام وجود میں لایا جاسکتا ہے ﴿وَهُوَ السَّمِيعُ ﴾” اور وہ سنتا ہے“ وہ مختلف زبانوں اور متفرق حاجتوں پر مبنی تمام آوازوں کو سن سکتا ہے ﴿الْعَلِيمُ﴾” جانتا ہے۔“ جس کا علم ظاہر و باطن اور ماضی و مستقبل ہر چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ الانعام
116 اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے نبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو لوگوں کی اکثریت کی اطاعت سے بچنے کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا ہے ﴿وَإِن تُطِعْ أَكْثَرَ مَن فِي الْأَرْضِ يُضِلُّوكَ عَن سَبِيلِ اللَّـهِ ۚ﴾ ” اگر آپ کہنا مانیں گے اکثر ان لوگوں کا جو دنیا میں ہیں تو آپ کو اللہ کے راستے سے بہکا دیں گے“ کیونکہ ان میں سے اکثر لوگ اپنے دین، اعمال اور علوم سے منحرف ہوچکے ہیں۔ پس ان کے دین فاسد اور ان کے اعمال ان کی خواہشات نفس کے تابع ہیں اور ان کے علوم میں تحقیق ہے نہ سیدھے راستے کی طرف راہنمائی۔ ان کا تمام تر مقصد ظن و گمان کی پیروی ہے اور ظن و گمان حق کے مقابلے میں کچھ کام نہیں آتا۔ وہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں محض اندازوں سے ایسی بات کہتے ہیں جس کا انہیں علم نہیں۔ جس کے یہ احوال ہوں تو اس سے اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں کو ڈرانا اور ان کے احوال کو بیان کرنا مناسب ہے، کیونکہ اس آیت کریمہ کا خطاب اگرچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہے تاہم آپ کی امت ان تمام احکام میں آپ کی تابع ہے جو خصوصی طور پر صرف آپ کے لئے نازل نہیں فرمائے گئے اور اللہ تعالیٰ سب سے زیادہ سچی بات کہنے والا ہے ﴿هُوَ أَعْلَمُ مَن يَضِلُّ عَن سَبِيلِهِ ﴾” وہ خوب جانتا ہے اس کو جو اس کے راستے سے بہکے“ اور وہ اسے بھی جانتا ہے جو راہ راست پر چلے اور جو راہ راست کی طرف راہنمائی کرے۔ پس اے مومنو ! تم پر فرض ہے کہ تم اس کی نصیحتوں پر عمل کرو اور اس کے اوامر و نواہی کی پیروی کرو۔ کیونکہ وہ تم سے زیادہ تمہارے مصالح کا علم رکھتا ہے اور تم سے زیادہ تم پر رحم کرنے والا ہے۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ کسی گروہ کی کثرت سے اس کے حق ہونے پر استدلال نہیں کیا جاسکتا اور اسی طرح اگر کسی معاملے میں، اس کو اختیار کرنے والے تھوڑے ہوں تو یہ قلت ان کے ناحق ہونے کی دلیل نہیں بن سکتی، بلکہ اس کے برعکس فی الواقع حقیقت یہ ہے کہ اہل حق تعداد میں بہت کم اور اللہ تعالیٰ کے ہاں قدر اور اجر میں بہت عظیم ہوتے ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ حق و باطل کی پہچان کے لئے ان ذرائع کو اختیار کیا جائے جو اس کے لئے معروف ہیں۔ الانعام
117 الانعام
118 اللہ تبارک و تعالیٰ اپن مومن بندوں کو ایمان کے تقاضے پورے کرنے کا حکم دیتا ہے نیز وہ یہ بھی حکم دیتا ہے کہ اگر وہ مومن ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں تو وہ ان حلال مویشیوں کا گوشت کھائیں جن پر ذبح کرتے وقت اللہ تعالیٰ کا نام لیا گیا ہو اور ان جانوروں کی حلت کا اعتقاد بھی رکھیں اور اس طرح نہ کریں جس طرح اہل جاہلیت کیا کرتے تھے۔ انہوں نے شیاطین کے گمراہ کرنے کے باعث اپنی طرف سے گھڑ کے بہت سی حلال چیزوں کو حرام قرار دے رکھا تھا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ذکر فرمایا کہ مومن کی علامت یہ ہے کہ وہ اس مذموم عادت میں، جو اللہ تعالیٰ کی شریعت میں تغیر و تبدل کو متضمن ہے، اہل جاہلیت کی مخالفت کریں نیز یہ کہ کون سی چیز ہے جو انہیں اس جانور کو کھانے سے روکتی ہے جس پر اللہ تعالیٰ کا نام لیا گیا ہو؟ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر مفصل طور پر بیان کر کے واضح کردیا ہے کہ کون سی چیز ان پر حرام ٹھہرائی گئی ہے؟ تب کوئی اشکال اور کوئی شبہ باقی نہیں رہتا کہ حرام میں پڑنے کے خوف کی وجہ سے بعض حلال چیزیں بھی کھانی چھوڑی دی جائیں اور آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ تمام اشیا میں اصل اباحت ہے۔ اگر شریعت کسی چیز کو حرام قرار نہیں دیتی تو وہ اپنی اباحت پر باقی ہے۔ پس جس چیز کے بارے میں اللہ تعالیٰ خاموش ہے وہ حلال ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جس چیز کو حرام ٹھہرایا ہے اس کی تفصیل بیان کردی ہے اور جس کے بارے میں کوئی تفصیل بیان نہیں کی وہ حرام نہیں ہے۔ بایں ہمہ وہ حرام چیزیں جن کو اللہ تعالیٰ نے وضاحت کے ساتھ کھول کھول کر بیان کردیا ہے، ان کو بھی اللہ تعالیٰ نے سخت بھوک اور اضطراری حالت میں مباح کردیا ہے ﴿حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنزِيرِ ﴾ ” تم پر مرا ہوا جانور، بہتا خون اور خنزیر کا گوشت حرام کردیا گیا ہے۔“ اس کے بعد فرمایا ﴿فَمَنِ اضْطُرَّ فِي مَخْمَصَةٍ غَيْرَ مُتَجَانِفٍ لِّإِثْمٍ ۙ فَإِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴾ (المائدہ :5؍3) ” اگر کوئی بھوک کی شدت میں مجبور ہوجائے اور وہ گناہ کی طرف مائل نہ ہو تو اللہ بخشنے والا، نہایت رحم کرنے والا ہے۔ “ الانعام
119 پھر اللہ تعالیٰ نے بہت سے لوگوں سے ڈراتے ہوئے فرمایا :﴿وَإِنَّ كَثِيرًا لَّيُضِلُّونَ بِأَهْوَائِهِم ﴾” اور بہت سے لوگ بہکاتے ہیں اپنی خواہشات سے“ یعنی مجرو خواہشات نفس کے ذریعے سے ﴿بِغَيْرِ عِلْمٍ﴾ بغیر کسی علم اور بغیر کسی دلیل کے۔۔۔ پس بندے کو اس قسم کے لوگوں سے بچنا چاہئے اور جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے سامنے ان کے اوصاف بیان کئے ہیں۔ ان کی علامت یہ ہے کہ ان کی دعوت کسی دلیل اور برہان پر مبنی نہیں ہے اور نہ ان کے پاس کوئی شرعی حجت ہے۔ پس ان کی فاسد خواہشات اور گھٹیا آراء کے مطابق ان کو شبہ لاحق ہوتا ہے۔ پس یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی شریعت اور اس کے بندوں پر ظلم و تعدی کا ارتکاب کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ اس کے برعکس راہ راست کی طرف راہنمائی کرنے والے ہدایت یافتہ لوگ حق اور ہدایت کی طرف دعوت دیتے ہیں اور اپنی دعوت کو دلائل عقلیہ و نقلیہ کی تائید فراہم کرتے ہیں اور وہ اپنی دعوت میں اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے تقرب کے سوا اور کوئی مقصد پیش نظر نہیں رکھتے۔ الانعام
120 یہاں (اثم) سے مراد تمام معاصی ہیں جو بندے کو گناہگار کرتے ہیں یعنی اسے ان امور کے بارے میں گناہ اور حرج میں مبتلا کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ اور بندوں کے حقوق سے متعلق ہوتے ہیں۔ پس اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے بندوں کو ظاہری اور باطنی گناہوں کے ارتکاب سے منع کیا ہے یعنی چھپ کر یا علانیہ ان تمام گناہوں سے روکا ہے جو بدن، جوارح اور قلب سے متعلق ہیں۔ بندہ ظاہری اور باطنی گناہوں کو اس وقت تک کامل طور پر ترک نہیں کرسکتا جب تک کہ وہ بحث و تحقیق کے بعد ان کی معرفت حاصل نہیں کرلیتا۔ بنابریں گناہوں کے بارے میں بحث و تحقیق کرنا، قلب و جوارح کے گناہوں کی معرفت اور ان کے بارے میں علم حاصل کرنا مکلف پر حتمی طور پر فرض ہے اور بہت سے لوگوں پر ان کے گناہ مخفی رہتے ہیں خاص طور پر قلب کے گناہ چھپے رہتے ہیں مثلاً تکبر، خودپسندی اور ریا وغیرہ۔ یہاں تک کہ بندہ ان میں سے بہت سے گناہوں کا مرتکب ہوتا ہے مگر اسے اس کا احساس اور شعور تک نہیں ہوتا اور یہ علم سے اعراض اور عدم بصیرت کی وجہ سے ہوتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ جو لوگ ظاہری اور باطنی گناہوں کا ارتکاب کرتے ہیں ان کے اکتساب کے مطابق اور ان کے گناہوں کی قلت و کثرت کے اعتبار سے ان کو سزا دی جائے گی اور یہ سزا آخرت میں ملے گی۔ کبھی کبھی بندے کو دنیا میں سزا دے جاتی ہے اس طرح اس کی برائیوں اور گناہوں میں تخفیف ہوجاتی ہے۔ الانعام
121 اس ممانعت میں وہ اشیا بھی داخل ہیں جن پر غیر اللہ کا نام لیا گیا ہو مثلاً بتوں اور مشرکین کے معبودوں کے لئے ذبح کرنا۔ اور یہ ممانعت ﴿ أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّـهِ بِهِ ﴾ (المائدہ :5؍3) ” جس چیز پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام پکارا جائے۔“ کی نص کے ذریعے سے خصوصی طور پر حرام ہے۔ اس تحریم میں وہ جانور بھی شامل ہیں جو اللہ کے لئے ذبح کئے گئے ہوں مگر ذبح کرتے وقت اللہ تعالیٰ کا نام نہ لیا گیا ہو مثلاً قربانی اور ہدی کے جانور کا ذبیحہ یا گوشت کھانے کیلئے جانور ذبح کرنا۔ بہت سے علماء کے نزدیک یہ جانور اس وقت حرام ہوگا جب جان بوجھ کر اللہ تعالیٰ کا نام نہ لیا گیا ہو اور اس عموم سے دوسری نصوص کی بنا پر دفع حرج کی خاطر بھول کر ذبح کرتے وقت اللہ تعالیٰ کا نام چھوڑنے والا مستثنیٰ ہے۔ اس تحریم میں وہ جانور بھی شامل ہے جو بغیر ذبح کئے مر جاتا ہے، کیونکہ اس پر بھی اللہ تعالیٰ کا نام نہیں لیا گیا ہوتا اور اس بارے میں اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر یہ نص بیان فرمائی ہے ﴿حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ  ﴾ (المائدہ :5؍3) ” تم پر مردہ جانور حرام کردیا گیا ہے“ اور شاید اس فرمان کے نازل ہونے کی وجہ بھی یہی ہے ﴿وَإِنَّ الشَّيَاطِينَ لَيُوحُونَ إِلَىٰ أَوْلِيَائِهِمْ لِيُجَادِلُوكُمْ ﴾ ” اور شیطان دل میں ڈالتے ہیں اپنے رفیقوں کے، تاکہ وہ تم سے جھگڑا کریں“ یعنی وہ تمہارے ساتھ بغیر کسی علم کے جھگڑا کریں گے، کیونکہ مشرکین نے جب یہ سنا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مردار کو حرام قرار دے دیا ہے اور جس کو ذبح کیا گیا ہو اس کو حلال قرار دیا ہے اور ان کا مسلک یہ تھا کہ وہ مردار کے کھانے کو حلال سمجھتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے عناد کی بنا پر بغیر کسی دلیل اور برہان کے کہا ” تم اس جانور کو تو کھا لیتے ہو جسے تم نے خود قتل کیا اور وہ جانور نہیں کھاتے جسے اللہ تعالیٰ نے قتل کیا ہے“ اور اس سے مراد وہ مردار لیتے۔ یہ انتہائی فاسد رائے ہے جو کسی دلیل اور حجت کی بنیاد پر نہیں بلکہ ان کی کج بحثی کی بنیاد پر قائم کی گئی ہے۔ اگر حق ان کی آراء کا تابع ہوتا تو زمین و آسمان اور ان کے رہنے والے سب فساد کا شکار ہوجاتے۔ اس لئے ہلاکت ہے اس شخص کے لئے جو اللہ تعالیٰ کی شریعت اور اس کے احکام پر، جو کہ مصالح عامہ اور منافع خاصہ کے موافق ہیں، اس عقل کو مقدم رکھتا ہے اور یہ ان سے کچھ بعید بھی نہیں کیونکہ یہ آراء ان سے اس بنا پر صادر ہوئی ہیں کہ ان کے سرپرست شیاطین ان کو باطل آراء الہام کرتے ہیں جو یہ چاہتے ہیں کہ مخلوق بھٹک کر اپنے دین سے دور ہوجائے اور وہ ان کو دعوت دیتے رہتے ہیں تاکہ وہ جنمی بن جائیں ﴿وَإِنْ أَطَعْتُمُوهُمْ ﴾ ” اور اگر تم نے ان کی اطاعت کی۔“ یعنی اگر تم نے ان کے شرک، ان کے حرام کو حلال ٹھہرانے اور حلال کو حرام قرار دینے میں ان کی بات مانی ﴿إِنَّكُمْ لَمُشْرِكُونَ  ﴾ ” تو تم بھی مشرک ہوجاؤ گے“ کیونکہ تم نے اللہ کو چھوڑ کر ان کو اپنا سرپرست اور والی بنا لیا ہے اور وہ جس بنیاد پر مسلمانوں سے علیحدہ ہوئے تم نے بھی اس کی موافقت کی اس لئے تمہارا راستہ اور ان کا راستہ ایک ہے۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ وہ کشف والہا مات جو دل میں القاء ہوتے ہیں اور یہ کشف و الہام خاص طور پر صوفیہ کے ہاں بہت کثرت سے واقع ہوتے ہیں۔۔۔ اپنے مجرد الہام ہونے کی بنا پر اس بات کی دلیل نہیں کہ وہ حق ہیں اور ان کی اس قوت تک تصدیق نہیں کی جاسکتی جب تک کہ ان کو قرآن و سنت پر پیش نہ کیا جائے۔ اگر قرآن و سنت ان کو قبول کرنے کی شہادت دیں تو ان کو قبول کرلیا جائے۔ اگر یہ کشف و الہام قرآن و سنت کے منافی ہوں تو ان کو رد کردیا جائے۔ اگر ان کا حق یا باطل ہونا واضح نہ ہو تو اس میں توقف کیا جائے، اس کی تصدیق کی جائے نہ تکذیب۔ کیونکہ وحی اور الہام شیطان کی طرف سے بھی ہوتا ہے اس لئے الہام رحمانی اور الہام شیطانی کے مابین فرق اور امتیاز کرنا نہایت ضروری ہے کیونکہ دونوں قسم کے الہامات کے درمیان عدم تفریق سے بندہ جن غلطیوں اور گمراہیوں کا شکار ہوتا ہے ان کو اللہ کے سوا کوئی شمار نہیں کرسکتا۔ الانعام
122 ﴿أَوَمَن كَانَ ﴾” بھلا ایک شخص جو کہ تھا“ یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ کے ہدایت عطا کرنے سے پہلے ﴿مَيْتًا﴾ ”مردہ“ یعنی کفر، جہالت اور گناہوں کی تاریکیوں میں ڈوبا ہوا﴿فَأَحْيَيْنَاهُ ﴾” پھر ہم نے اس کو زندہ کیا۔“ پھر ہم نے اسے علم، ایمان اور اطاعت کی روشنی کے ذریعے سے زندہ کردیا اور وہ اس روشنی میں لوگوں کے درمیان چلتا پھرتا ہو، اپنے امور میں بصیرت سے بہرہ ور ہو، اپنے راستے کو جانتا ہو، بھلائی کی معرفت رکھتا ہو، اسے ترجیح دیتا ہو، اپنے آپ پر اور دوسروں پر اس کے نفاذ کی کوشش کرتا ہو، جو برائی معرفت رکھتا ہو، اسے ناپسند کرتا ہو اور اسے ترک کرنے کی کوشش کرتا ہو اور خود اپنی ذات سے اور دوسروں سے اس برائی کو دور کرنے کی کوشش کرتا ہو۔۔۔ کیا یہ اس شخص کے برابر ہوسکتا ہے جو جہالت، گمراہی، کفر اور گناہوں کی تاریکیوں میں ڈوبا ہوا ہو؟ ﴿لَيْسَ بِخَارِجٍ مِّنْهَا ۚ ﴾ ” وہاں سے نکلنے والا نہ ہو“ اس پر تمام راستے مشتبہ ہوگئے ہوں، وہ تاریکی کے راستوں میں بھٹک رہا ہو، پس اسے غم و ہموم، حزن اور بدبختی نے گھیر لیا ہو اور ان میں سے نکل نہ سکتا ہو۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے عقل کو ان امور کے ذریعے سے متنبہ کیا ہے جن کا وہ ادراک کرسکتی ہے اور ان کی معرفت رکھتی ہے کہ یہ دونوں قسم کے شخص مساوی نہیں ہوسکتے ہیں، جیسے رات اور دن، اندھیرا اور اجالا، زندہ اور مردہ برابر نہیں ہوتے۔ گویا یوں کہا گیا ہے کہ وہ شخص جو رتی بھر بھی عقل رکھتا ہے، اس حالت میں رہنے کو کیسے ترجیح دے سکتا ہے اور وہ گمراہی کے اندھیروں میں حیران و سرگرداں کیسے رہ سکتا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے جواب دیتے ہوئے فرمایا : ﴿زُيِّنَ لِلْكَافِرِينَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴾ ” مزین کردیئے گئے کافروں کی نگاہ میں ان کے کام“ پس شیطان ان کے سامنے ان کے اعمال کو خوشنما بناتا رہتا ہے اور ان کو ان کے دل میں سجاتا رہتا ہے، یہاں تک کہ یہ اعمال ان کو اچھے لگنے لگ جاتے ہیں اور حق دکھائی دیتے ہیں۔ یہ چیزیں عقیدہ بن کر ان کے دل میں بیٹھ جاتی ہیں اور ان کا وصف راسخ بن کر ان کے کردار میں شامل ہوجاتی ہیں۔ بنا بریں وہ اپنی برائیوں اور قباحتوں پر راضی رہتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اندھیروں میں سرگرداں اور اپنے باطل میں لڑکھڑاتے رہتے ہیں۔ تاہم ان کی حیثیت ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہے۔ کچھ ان میں سے قائدین اور متبوعین ہیں اور کچھ تابع اور پیروکار۔ الانعام
123 پہلی قسم میں وہ لوگ شامل ہیں جو انتہائی بدبختی کے احوال سے بہرہ یاب ہوئے، بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَا فِي كُلِّ قَرْيَةٍ أَكَابِرَ مُجْرِمِيهَا ﴾ ” اور اسی طرح کئے ہیں ہم نے ہر بستی میں گناہ گاروں کے سردار“ یعنی وہ قائدین اور رؤسا جن کا جرم بہت بڑا اور سرکشی بہت سخت ہوتی ہے ﴿لِيَمْكُرُوا فِيهَا ﴾ ” کہ حیلے کیا کریں وہاں“ یعنی فریب کاری، شیطان کے راستے کی طرف دعوت دینے، انبیاء و مرسلین اور ان کے پیروکاروں کے ساتھ قولی و فعلی جنگ و جدل کے ذریعے سے سازشیں کریں، مگر ان کی سازش اور فریب کاری انجام کار انہی کے خلاف جاتی ہے۔ وہ بھی چالیں چلتے ہیں اور اللہ تعالیٰ بھی چال چلتا ہے اور اللہ تعالیٰ بہترین چال چلنے والا ہے۔ اسی طرح اللہ تبارک و تعالیٰ کبار ائمہ ہدی اور بڑے بڑے فاضل لوگوں کو کھڑا کرتا ہے جو ان مجرموں کا مقابلہ کرتے ہیں، ان کے نظریات واقاویل کا جواب دیتے ہیں، اللہ کے راستے میں جہاد کرتے ہیں اور اس طرح وہ ان راستوں پر گامزن ہوتے ہیں جو انہیں ان کے مقصد تک پہنچاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو اپنی مدد سے نوازتا ہے، ان کی رائے کو درست کرتا ہے، ان کو ثابت قدمی عطا کرتا ہے اور کامیابی ان کے اور ان کے دشمنوں کے مابین ادلتی بدلتی رہتی ہے۔ یہاں تک کہ انجام کا رفتح، نصرت اور غلبہ اہل ایمان کے حصہ میں آتا ہے۔ بڑے بڑے مجرم صرف حسد اور بغاوت کی بنا پر باطل پر قائم اور حق کو ٹھکرا رہے تھے اور کہتے تھے :﴿لَن نُّؤْمِنَ حَتَّىٰ نُؤْتَىٰ مِثْلَ مَا أُوتِيَ رُسُلُ اللَّـهِ ۘ﴾” ہم ہرگز نہ مانیں گے جب تک کہ نہ دیا جائے ہم کو جیسا کچھ دیا گیا ہے اللہ کے رسولوں کو“ یعنی نبوت اور رسالت یہ ان کی طرف سے محض اللہ تبارک و تعالیٰ پر اعتراض، ان کی خودپسندی اور اس حق کے مقابلے میں تکبر کا اظہار تھا جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء و رسل پر نازل فرمایا تھا، نیز اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان پر قدغن لگانی تھی تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کے فاسد اعتراض کو رد کرتے ہوئے آگاہ فرمایا کہ یہ لوگ بھلائی کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ نیز یہ کہ ان لوگوں کا انبیاء و مرسلین بننا تو کجا ان میں تو کوئی ایسی چیزبھی نہیں جو ان کو اللہ کے نیک بندوں میں شمار کرنے کی موجب ہو۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : الانعام
124 ﴿اللَّـهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهُ ﴾” اللہ خوب جانتا ہے اس موقع کو جہاں رکھے وہ اپنی پیغمبری“ یعنی اللہ کے علم میں جو رسول بننے کا اہل ہے، جو رسالت کے بوجھ کو اٹھا سکتا ہے، جو ہر قسم کے خلق جمیل سے متصف اور ہر قسم کے گندے اخلاق سے مبرا ہو، اللہ تعالیٰ اپنی حکمت کے تقاضے کے مطابق اسے رسالت کا منصب عطا کرتا ہے اور جو اس معیار پر پورا نہ اترتا ہو اور اس کی اہلیت نہ رکھتا ہو تو اللہ تعالیٰ اس کو اپنے بہترین مواہب سے ہرگز نہیں نوازتا اور نہ وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں پاک گردانا جاتا ہے۔ یہ آیت کریمہ اللہ تعالیٰ کے کمال حکمت پر دلالت کرتی ہے۔ ہرچند کہ اللہ تعالیٰ نہایت رحیم، وسیع جو دو کرم اور بہت فضل و احسان کا مالک ہے تاہم وہ حکیم بھی ہے اس لئے وہ اپنی بخشش سے صرف اس کو نوازتا ہے جو اس کا اہل ہوتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے مجرموں کو وعید سناتے ہوئے فرمایا : ﴿سَيُصِيبُ الَّذِينَ أَجْرَمُوا صَغَارٌ عِندَ اللَّـهِ ﴾ ” عنقریب پہنچے گی گناہگاروں کو ذلت، اللہ کے ہاں‘‘ یعنی اہانت اور ذلت جیسے وہ حق کے ساتھ تکبر سے پیش آئے، اللہ تعالیٰ نے ان کو ذلیل و رسوا کردیا۔ ﴿وَعَذَابٌ شَدِيدٌ بِمَا كَانُوا يَمْكُرُونَ ﴾ ” اور سخت عذاب، اس وجہ سے کہ وہ مکر کرتے تھے“ یعنی یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر ظلم نہیں، بلکہ ان کی چالبازیوں کے سبب سے اللہ تعالیٰ انہیں سخت عذاب میں مبتلا کرے گا۔ الانعام
125 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں کے سامنے بندے کی سعادت و ہدایت اور اس کی شقاوت و ضلالت کی علامات بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ جس کو اسلام کے لئے انشراح صدر ہوجاتا ہے یعنی اس کا سینہ وسیع ہوجاتا ہے۔ تو دل نور ایمان سے منور اور یقین کے پر تو سے زندہ ہوجاتا ہے اور نفس ایمان پر مطمئن ہوجاتا ہے، نفس نیکی سے محبت کرنے لگتا ہے اور نیکی میں لذت محسوس کرتے ہوئے نیکی کرتا ہے نیکی کو بوجھ نہیں سمجھتا۔ پس یہ اس بات کی علامت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو ہدایت عطا کر دی ہے اور اسے توفیق سے نواز کر سب سے درست راستے پر گامزن کر دیا ہے اور جسے اللہ تعالیٰ گمراہ کرنے کا ارادہ کرلیتا ہے اس کی علامت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کا سینہ تنگ اور گھٹا ہوا کردیتا ہے یعنی اس کا سینہ ایمان، علم اور یقین کے لئے بہت تنگ ہوجاتا ہے، اس کا دل شبہات و شہوات کے سمندر میں غرق ہوجاتا ہے، بھلائی اس تک راہ نہیں پا سکتی، نہ بھلائی اور نیکی کے لئے اس کو انشراح صدر حاصل ہوتا ہے۔ گویا وہ سخت تنگی اور شدت میں ہے، گویا وہ آسمان پر چڑھ رہا ہے۔ یعنی اسے آسمان پر چڑھنے کا مکلف کیا جا رہا ہے جہاں چڑھنے کا اس کے اندر کوئی حیلہ نہیں۔ یہ ہے ان کے عدم ایمان کا سبب اور یہی وہ چیز ہے جو اس بات کی موجب ہے کہ اللہ تعالیٰ ان پر عذاب بھیجے، کیونکہ انہوں نے خود اپنے آپ پر اللہ تعالیٰ کی رحمت اور احسان کے دروازے بند کر لئے۔ یہ ایسی میزان ہے جو کبھی خیانت نہیں کرتی اور ایسا راستہ ہے جو کبھی نہیں بدلتا۔ بیشک جو کوئی اللہ کے راستے میں مال عطا کرتا ہے، اللہ سے ڈرتا ہے، نیکی کی تصدیق کرتا ہے تو ہم اس کو آسان راستے (بھلائی) کی توفیق عطا کردیتے ہیں اور جو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے میں بخل کرتا ہے اور بے پروا بنا رہتا ہے اور نیکی کو جھٹلاتا ہے تو ہم اس کو مشکل راستے (گناہ) پر گامزن کردیتے ہیں۔ الانعام
126 یعنی آپ کے رب تک اور عزت و تکریم کے گھر تک پہنچانے والا راستہ معتدل راستہ ہے، جس کے احکام واضح کردیئے گئے ہیں، جس کے قوانین کی تفصیل یہاں بیان کردی گئی ہے اور خیر کو شر سے ممیز کردیا گیا۔ یہ تفصیل و توضیح ہر شخص کے لئے نہیں ہے بلکہ صرف ان لوگوں کے لئے ہے جو نصیحت پکڑتے ہیں۔ کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جو علم رکھتے ہیں، پھر اپنے علم سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ان کے لئے بہت بڑی جز اور خوبصورت اجر تیار کیا گیا ہے۔ الانعام
127 اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿لَهُمْ دَارُ السَّلَامِ عِندَ رَبِّهِمْ ۖ ﴾ ” ان کے لئے سلامتی کا گھر ہے انکے رب کے ہاں“ چونکہ جنت ہر عیب، آفت و تکدر اور غم و ہموم جیسی ناخوشگواریوں سے سلامت اور پاک ہے، اس لئے اس کو ” دارالسلام“ کے نام سے موسوم کیا گیا ہے اور اس سے یہ بھی لازم آتا ہے کہ جنت کی نعمتیں انتہائی کمال کو پہنچی ہوئی ہوں گی کہ کوئی ان کا وصف بیان کرنے کی قدرت نہیں رکھتا ہے۔ جنت کے اندر قلب و روح اور بدن کے لئے نعمتوں کے جو سامان ہیں تمنا کرنے والے اس سے بڑھ کر کسی نعمت کی تمنا نہیں کرسکتے۔ اس جنت میں ان کے لئے وہ سب کچھ ہوگا جو ان کے دل چاہیں گے اور جس سے ان کی آنکھوں کو لذت حاصل ہوگی اور وہ اس جنت میں ابد الآباد تک رہیں گے۔ ﴿وَهُوَ وَلِيُّهُم  ﴾ ” وہی ان کا ولی و مددگار ہے“ جو ان کی تدبیر اور تربیت کا مالک ہے، وہ ان کے تمام معاملات میں ان کے ساتھ لطف و کرم سے پیش آتا ہے جو اپنی اطاعت پر ان کی مدد کرتا ہے اور ان کے لئے ہر وہ راستہ آسان کرتا ہے جو انہیں اس کی محبت کی منزل تک پہنچاتا ہے اور وہ ان کی سرپرستی اپنے ذمے صرف اس لئے لیتا ہے کہ وہ نیک اعمال بجا لاتے اور ایسے کام آگے بھیجتے ہیں جن سے ان کا مقصد اپنے آقا کی رضا مندی حاصل کرنا ہوتا ہے۔ اس کے برعکس وہ شخص ہے جس نے اپنے آقا سے روگردانی کی اور اپنی خواہشات نفس کے پیچھے لگا رہا تو اللہ تعالیٰ اس پر شیطان مسلط کردیتا ہے جو اس کا سرپرست بن کر اس کے دین و دنیا کو تباہ کردیتا ہے۔ الانعام
128 ﴿وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ جَمِيعًا ﴾” اور جس دن جمع کرے گا ان سب کو“ یعنی تمام جن و انس کو، ان میں سے جو گمراہ ہوئے اور جنہوں نے دوسروں کو گمراہ کیا۔ اللہ تعالیٰ جنوں کو، جنہوں نے انسانوں کو گمراہ کیا، برائی کو ان کے سامنے مزین کیا اور ارتکاب معاصی میں ان کی مدد کی، زجز و توبیح کرتے ہوئے فرمائے گا : ﴿ يَا مَعْشَرَ الْجِنِّ قَدِ اسْتَكْثَرْتُم مِّنَ الْإِنسِ ﴾ ” اے گروہ جنات تم نے انسانوں سے بہت (فائدے) حاصل کئے۔“ یعنی اے جنوں کی جماعت ! تم نے انسانوں کو خوب گمراہ کیا اور ان کو اللہ تعالیٰ کے راستے سے روکا۔ تم نے کیسے میرے محارم کی خلاف ورزی کی اور میرے رسولوں کے ساتھ عناد رکھنے کی جرأت کی اور تم اللہ تعالیٰ کے خلاف جنگ کرنے کے لئے کھڑے ہوئے، اللہ تعالیٰ کے بندوں کو اس کے راستے سے روکنے اور جہنم کے راستے پر دھکیلنے کی کوشش کی؟ آج تم میری لعنت کے حق دار ہو اور تم پر میری ناراضی واجب ہوگئی۔ آج ہم تمہیں، تمہارے کفر اور دوسروں کو گمراہ کرنے کے مطابق زیادہ عذاب دیں گے۔ آج تمہارے پاس کوئی عذر نہیں جو پیش کرسکو، کوئی ٹھکانا نہیں جہاں تم پناہ لے سکو، کوئی سفارشی نہیں جو تمہاری سفارش کرسکے اور نہ تمہاری پکار ہی سنی جائے گی۔ اس وقت مت پوچھئے کہ ان پر سزا کے کون سے پہاڑ ٹوٹیں گے اور انہیں کون سی رسوائی اور وبال کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ان کے کسی عذر کا ذکر نہیں فرمایا۔ رہے ان کے دوست انسان تو وہ عذر پیش کریں گے جسے قبول نہیں کیا جائے گا﴿ رَبَّنَا اسْتَمْتَعَ بَعْضُنَا بِبَعْضٍ ﴾” اے رب ہمارے ! فائدہ اٹھایا ہم میں سے ایک نے دوسرے سے“ یعنی تمام جنوں اور انسانوں نے ایک دوسرے سے خوب فائدہ اٹھایا جنوں نے انسانوں سے اپنی اطاعت، اپنی عبادت اور اپنی تعظیم کروا کے اور ان کی پناہ کی طلب سے فائدہ اٹھایا۔ اور انسان جنوں کی خدمت کے مطابق اپنی اغراض اور شہوات کے حصول میں ان سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ انسان جنوں کی عبادت کرتے ہیں، جن ان کی خدمت کرتے ہیں اور ان کی دنیاوی حاجتیں پوری کرتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ہم سے بہت ہی گناہ سر زد ہوئے اور اب ان کا لوٹانا ممکن نہیں ﴿وَبَلَغْنَا أَجَلَنَا الَّذِي أَجَّلْتَ لَنَا ﴾ ” اور ہم پہنچے اپنے اس وعدے کو جو تو نے ہمارے لئے مقرر کیا تھا“ یعنی اب ہم اس مقام پر پہنچ چکے ہیں جہاں ہمیں ہمارے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا۔ اب تو جو چاہے ہمارے ساتھ سلوک کر اور جو تیرا ارادہ ہے ہمارے بارے میں، وہی فیصلہ کر۔ ہماری حجت تو منقطع ہوگئی، ہمارے پاس کوئی عذر باقی نہیں رہا۔ معاملہ وہ ہو گا جو تیرا حکم ہے۔ فیصلہ وہی ہے جو تیرا فیصلہ ہے۔ ان کے اس کلام میں ایک قسم کی گریہ زاری اور رقت ہے مگر یہ سب کچھ بے وقت اور بے موقف ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں عدل پر مبنی فیصلہ جو ظلم و جور سے پاک ہے، کرتے ہوئے فرمایا ﴿ النَّارُ مَثْوَاكُمْ خَالِدِينَ فِيهَا  ﴾ ہے۔ اس لئے فرمایا : ﴿ إِنَّ رَبَّكَ حَكِيمٌ عَلِيمٌ ﴾ ”بے شک تمہارا رب دانا، خبردار ہے۔“ جیسے اس کا علم تمام اشیاء کا احاطہ کئے ہوئے ہے، ویسے ہی اس کی بے انتہا حکمت تمام اشیاء پر عام اور تمام اشیاء کو شامل ہے۔ الانعام
129 ﴿وَكَذَٰلِكَ نُوَلِّي بَعْضَ الظَّالِمِينَ بَعْضًا بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ  ﴾” اور اسی طرح ہم سرپرست بنا دیتے ہیں گناہ گاروں کو ایک دوسرے کا، ان کے اعمال کے سبب“ یعنی جیسے ہم سرکش جنوں کو مسلط کردیتے ہیں کہ وہ انسانوں میں سے اپنے دوستوں کو گمراہ کریں اور ہم ان کے کسب و کوشش کے سبب سے ان کے درمیان موالات اور موافقت پیدا کردیتے ہیں۔ اسی طرح یہ ہماری سنت ہے کہ ہم کسی ظالم کو اسی جیسے کسی ظالم پر مسلط کردیتے ہیں جو اسے شر پر آمادہ کرتا ہے اور اس کو شر کی ترغیب دیتا ہے، خیر میں بے رغبتی پیدا کر کے اسے اس سے متنفر کرتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بہت بڑی سزا ہے جو بہت خطرناک ہے اور اس کا اثر بہت برا ہے۔ گناہ کرنے والا ظالم ہی ہے پس یہ وہ شخص ہے جو اپنے آپ کو نقصان پہنچاتا ہے اور جن بھی اس کو نقصان پہنچاتا ہے ﴿وَمَا رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِيدِ ﴾ (حم السجدۃ41؍46) ” اور تیرا رب بندوں پر ظلم نہیں کرتا۔ “ ظالموں کو مسلط کرنے کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ جب بندوں کا فساد اور ظلم بہت بڑھ جاتا ہے اور وہ حقوق واجبہ ادا نہیں کرتے تو ان پر ظالم مسلط کردیئے جاتے ہیں جو انہیں بدترین عذاب میں مبتلا کردیتے ہیں اور وہ ان سے ظلم و جور کے ذریعے سے اس سے کئی گنا زیادہ چھین لیتے ہیں جو وہ اللہ اور اس کے بندوں کے حق کے طور پر ادا کرنے سے انکار کرتے ہیں اور وہ ان سے اس طرح وصول کرتے ہیں کہ ان کو اس کا اجر و ثواب بھی نہیں ملتا۔ جیسے جب بندے درست اور راست رو ہوجاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کے حکمرانوں کو درست کردیتا ہے اور انہیں ظالم اور گمراہ حاکم نہیں بلکہ انہیں عدل و انصاف کے امام بنا دیتا ہے۔ الانعام
130 پھر اللہ تعالیٰ ان تمام جن و انس کو زجر و توبیخ کرتا ہے جو حق سے روگردانی کرتے ہوئے اسے ٹھکرا دیتے ہیں، وہ ان کی خطا واضح کرتا ہے اور وہ اس کا اعتراف کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿يَا مَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ أَلَمْ يَأْتِكُمْ رُسُلٌ مِّنكُمْ يَقُصُّونَ عَلَيْكُمْ آيَاتِي ﴾ ” اے جنوں اور انسانوں کی جماعت ! کیا نہیں پہنچے تھے تمہارے پاس رسول تمہی میں سے کہ سناتے تھے تمہیں میرے حکم“ یعنی واضح آیات جن کے اندر امرو نہی، خیر و شر اور وعدو وعید کی تفصیلات ہیں﴿وَيُنذِرُونَكُمْ لِقَاءَ يَوْمِكُمْ هَـٰذَا ۚ ﴾ ” اور اس دن کی ملاقات سے تمہیں ڈراتے تھے“ یعنی تمہیں آگاہ کرتے تھے کہ تمہاری نجات اسی میں ہے۔ فوز و فلاح صرف اللہ تعالیٰ کے احکام کی تعمیل اور نواہی سے اجتناب میں ہے اور ان کو ضائع کرنے میں انسان کی بدبختی اور خسارہ ہے وہ اس کا اقرار اور اعتراف کرتے ہوئے کہیں گے ﴿شَهِدْنَا عَلَىٰ أَنفُسِنَا ۖ وَغَرَّتْهُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا ﴾ ” ہم نے اقرار کیا اپنے گناہ کا اور ان کو دھوکہ دیا دنیا کی زندگی نے“ یعنی دنیا کی زندگی نے اپنی زینت، آرائش اور نعمتوں کے ذریعے سے ان کو دھوکے میں مبتلا کردیا، وہ دنیا پر مطمئن اور راضی ہو کر بیٹھ گئے اور دنیا نے انہیں آخرت کے بارے میں غافل کردیا۔ ﴿وَشَهِدُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ أَنَّهُمْ كَانُوا كَافِرِينَ ﴾” اور گواہی دی انہوں نے اپنے آپ پر کہ وہ کافر تھے“ ان کے خلاف اللہ تعالیٰ کی حجت قائم ہوگئی۔ تب اس وقت ہر ایک نے اور خود انہوں نے بھی جان لیا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ عدل کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے بارے میں درد ناک عذاب کا فیصلہ کرتے ہوئے فرمائے گا﴿ ادْخُلُوا فِي أُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِكُم مِّنَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ ﴾ (الاعراف:7؍38) ” یعنی جنوں اور انسانوں کے تم سے پہلے جو گر وہ گزر چکے ہیں ان میں داخل ہوجاؤ۔“ ان کے کرتوت بھی تمہارے کرتوتوں کی مانند تھے۔ انہوں نے بھی اپنے حصے سے خوب فائدہ اٹھایا جیسے تم نے فائدہ اٹھایا۔ وہ بھی باطل میں گھس گئے جیسے تم گھس گئے ہو۔ یہ سب خسارے میں رہنے والے لوگ تھے۔ یعنی پہلے لوگ بھی اور یہ لوگ بھی اور کون سا خسارہ جنت سے محرومی کے خسارے سے بڑا خسارہ ہوسکتا ہے؟ کون سا خسارہ سب سے مکرم ہستی کی ہمسائیگی سے محرومی کے خسارے سے بڑا خسارہ ہوسکتا ہے؟ البتہ یہ لوگ اگرچہ خسارے میں مشترک ہوں گے۔ مگر خسارے کی مقدار میں وہ ایک دوسرے سے بہت متفاوت ہوں گے۔ الانعام
131 الانعام
132 ﴿وَلِكُلٍّ ﴾” اور ہر ایک کے لیے۔“ یعنی ان میں سے ہر ایک کے لئے ﴿ دَرَجَاتٌ مِّمَّا عَمِلُوا ﴾ ” بلحاظ اعمال درجے (مقرر) ہیں۔“ یعنی ان کے اعمال کے مطابق ان کے درجات ہیں جس نے تھوڑی سی برائی کا ارتکاب کیا ہے وہ اس شخص کی مانند نہیں ہوسکتا جس نے بہت برائیاں کمائی ہیں۔ تابع متبوع کے برابر ہوسکتا ہے نہ رعایا حکمران کے برابر ہوسکتی ہے۔ جیسے اہل ثواب اور اہل جنت منافع، فوز و فلاح اور جنت میں داخل ہونے میں مشترک ہیں، مگر ان کے درجات میں اس قدر تفاوت ہوگا کہ اللہ کے سوا اسے کوئی نہیں جانتا۔ اس کے باوجود وہ سب اس پر راضی ہوں گے جو ان کا آقا ان کو عطا کرے گا اور اس پر قناعت کریں گے۔ پس ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں بھی جنت الفردوس کے بلند درجات عطا کرے جو اس نے اپنے مقرب، چنے ہوئے اور محبوب بندوں کے لئے تیار کر رکھی ہے۔ ﴿وَمَا رَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا يَعْمَلُونَ  ﴾ ” اور آپ کا رب ان کے اعمال سے غافل نہیں ہے“ وہ ہر ایک کو اس کے قصد اور عمل کے مطابق جزا دے گا۔ الانعام
133 اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو نیک کام کرنے کا حکم دیا ہے اور ان پر رحم کرتے ہوئے اور ان کی بھلائی کی خاطر ان کو برے اعمال سے منع کیا ہے۔ ورنہ وہ بذاتہ تمام مخلوقات سے بے نیاز ہے۔ اطاعت کرنے والوں کی اطاعت اسے کوئی فائدہ دیتی ہے نہ نافرمانی کرنے والوں کی نافرمانی اس کا کچھ بگاڑ سکتی ہے۔ ﴿ إِن يَشَأْ يُذْهِبْكُمْ ﴾ ” اگر وہ چاہے تو تمہیں لے جائے“ یعنی تمہیں ہلاک کر کے ختم کر دے ﴿وَيَسْتَخْلِفْ مِن بَعْدِكُم مَّا يَشَاءُ كَمَا أَنشَأَكُم مِّن ذُرِّيَّةِ قَوْمٍ آخَرِينَ ﴾ ” اور تمہارے بعد جس کو چاہے تمہارا جانشین بنا دے جیسے تمہیں پیدا کیا اوروں کی اولاد سے“ جب تمہیں اچھی طرح معلوم ہوگیا کہ دوسرے لوگوں کی طرح تمہارا اس دنیا سے منتقل ہونا لابدی ہے تم بھی اپنے بعد آنے والوں کے لئے اس دنیا کو خالی کر کے یہاں سے کوچ کر جاؤ گے جیسے تم سے پہلے لوگ یہاں سے کوچ کر گئے اور انہوں نے اس دنیا کو تمہارے لئے خالی کردیا۔ پھر تم نے اس دنیا کو کیوں ٹھکانہ اور وطن بنا لیا اور تم نے کیوں فراموش کردیا کہ یہ دنیا ٹھکانا اور جائے قرار نہیں، بلکہ گزر گاہ ہے اور اصل منزل تمہارے سامنے ہے۔ یہی وہ گھر ہے جہاں ہر نعمت جمع کردی گئی ہے اور جو ہر آفت اور نقص سے محفوظ ہے۔ یہی وہ منزل ہے جس کی طرف اولین و آخرین لپکتے ہیں اور جس کی طرف سابقین ولاحقین کوچ کرتے ہیں۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں دائمی اور لازمی قیام ہے۔ یہ وہ منزل ہے جس کے آگے کوئی منزل نہیں، یہ وہ مطلوب و مقصود ہے جس کے سامنے ہر مطلوب ہیچ ہے اور یہ وہ مرغوب نعمت ہے جس کے مقابلے میں ہر مرغوب مضمحل ہے۔ الانعام
134 اللہ کی قسم ! وہاں وہ نعمتیں عنایت ہوں گی جن کو نفس چاہیں گے اور آنکھیں لذت حاصل کریں گی اور رغبت کرنے والے رغبت کریں گے۔ جیسے روحوں کی لذت، بے پایاں فرحت، قلب و بدن کی نعمت اور اللہ علام الغیوب کا قرب۔ پس کتنی اعلیٰ فکر ہے جو ان مقامات پر مرتکز ہے اور کتنا بلند ارادہ ہے جو ان اعلیٰ درجات کی طرف مائل پرواز ہے اور وہ کتنا بدنصیب ہے جو اس سے کم تر پر راضی ہے اور وہ کتنا کم ہمت ہے جو گھاٹے کا سودا پسند کرتا ہے۔ غفلت کا شکار روگرداں شخص اس منزل پر جلدی سے پہنچنے کو بعید نہ سمجھے۔ ﴿ إِنَّ مَا تُوعَدُونَ لَآتٍ ۖ وَمَا أَنتُم بِمُعْجِزِينَ ﴾” تم سے جس چیز کا وعدہ کیا جاتا ہے، وہ آنے والی ہے اور تم عاجز نہیں کرسکتے“ یعنی تم اللہ تعالیٰ کو عاجز نہیں کرسکتے اور اس کے عذاب سے کہیں بھاگ کر نہیں جاسکتے کیونکہ تمہاری پیشانیاں اس کے قبضہ قدرت میں ہیں اور تم اس کی تدبیر اور تصرف کے شکنجے میں جکڑے ہوئے ہو۔ الانعام
135 ﴿قُلْ ﴾ ” کہہ دیجیے“ اے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جبکہ آپ نے ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دے دی اور ان کے انجام اور اللہ تعالیٰ کے حقوق کے بارے میں ان کو آگاہ کردیا اور وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کو ماننے سے باز رہے، بلکہ اپنی خواہشات کے پیچھے لگے رہے اور اپنے شرک پر قائم رہے، تو آپ ان سے کہہ دیجیے !﴿يَا قَوْمِ اعْمَلُوا عَلَىٰ مَكَانَتِكُمْ ﴾ ” اے میری قوم ! تم کام کرتے رہو، اپنی جگہ پر“ یعنی جس حال میں تم ہو اور جس حال کو تم نے اپنے لیے پسند کرلیا ہے اسی پر قائم رہو ﴿إِنِّي عَامِلٌ ۖ ﴾ ” میں (اپنی جگہ) عمل کئے جاتا ہوں۔“ میں اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل اور اس کی مرضی کی اتباع کرتا ہوں ﴿فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ مَن تَكُونُ لَهُ عَاقِبَةُ الدَّارِ ﴾” عنقریب تم جان لو گے کہ کس کو ملتا ہے عاقبت کا گھر“ یعنی آخرت کا گھر تمہارے لئے ہے یا میرے لئے اور یہ انصاف کا عظیم مقام ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اعمال اور ان پر عمل کرنے والوں کے بارے میں بیان فرما دیا اور نہایت بصیرت کے ساتھ ان اعمال کی جزا بھی ساتھ بیان فرما دی جہاں تصریح سے گریز کرتے ہوئے تلویح سے کام لیا ہے اور یہ حقیقت معلوم ہے کہ دنیا و آخرت میں اچھا انجام صرف اہل تقویٰ کے لئے ہے۔ آخرت کا گھر اہل ایمان کے لئے ہے اور انبیا و رسل کی لائی ہوئی شریعت سے روگردانی کرنے والوں کا انجام انتہائی برا ہے۔ اس لئے فرمایا : ﴿إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الظَّالِمُونَ ﴾” یقیناً ظالم فلاح یاب نہیں ہوں گے“ ظالم خواہ اس دنیا سے کتنا ہی فائدہ اٹھا لے، اس کی انتہا اضمحلال اور اتلاف ہے۔ حدیث میں ہے۔ (( إِنَّ اللَّهَ لَيُمْلِي لِلظَّالِمِ حَتَّى إِذَا أَخَذَهُ لَمْ يُفْلِتْهُ  )) ” اللہ تعالیٰ ظالم کو ڈھیل دیتا ہے یہاں تک کہ جب اس کو پکڑ ليتا ہے تو اسے چھوڑتا نہیں۔ “ [صحیح بخاری، کتاب التفسیر، باب قولہ (وکذلک أخذ ربک۔۔۔ الخ) حدیث :4686] الانعام
136 اللہ تعالیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کرنے والے مشرکین کی بیوقوفی، کم عقلی اور انتہا کو پہنچی ہوئی جہالت کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے۔ چنانچہ ان کی متعدد خرافات کا ذکر کیا ہے تاکہ وہ ان کی گمراہی پر متنبہ کر کے اہل ایمان کو ان سے بچائے اور ان بیوقوفوں کا اس حق کی مخالفت کرنا، جسے انبیا و رسل لے کر مبعوث ہوئے ہیں، حق میں نقص کا باعث نہیں۔ کیونکہ وہ حق کا مقابلہ کرنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی جہالت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ﴿وَجَعَلُوا لِلَّـهِ مِمَّا ذَرَأَ مِنَ الْحَرْثِ وَالْأَنْعَامِ نَصِيبًا﴾ ” اور (یہ لوگ) اللہ ہی کی پیدا کی ہوئی چیزوں یعنی کھیتی اور چوپایوں میں اللہ کا بھی ایک حصہ مقرر کرتے ہیں۔“ یعنی اللہ تعالیٰ نے جو مویشی اور کھیتی پیدا کی ہے وہ اس میں سے اللہ تعالیٰ کا حصہ بھی مقرر کرتے ہیں اور ایک حصہ اپنے ٹھہرائے ہوئے شریکوں کے لئے مقرر کرتے ہیں۔ درآں حالیکہ اللہ تعالیٰ نے ان چیزوں کو پیدا کر کے بندوں کے لئے رزق فراہم کیا ہے۔ انہوں نے دو محظور امور بلکہ تین کو یکجا کردیا جن سے بچنے کے لئے ان کو کہا گیا تھا۔ (ا) اللہ تعالیٰ پر ان کا احسان دھرنا کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کا حصہ مقرر کیا اور یہ اعتقاد رکھنا کہ یہ ان کی طرف سے اللہ تعالیٰ پر نوازش ہے۔ (ب) اپنے ٹھہرائے ہوئے شریکوں کو مویشیوں اور کھیتیوں کی پیداوار میں شریک کرنا حالانکہ وہ ان میں سے کسی چیز کو وجود میں نہیں لائے۔ (ج) اور ظلم وجور پر مبنی ان کا فیصلہ کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حصے کی کوئی پروا نہیں کرتے، اگرچہ یہ حصہ اپنے شریکوں کے حصے کے ساتھ ملا دیں اور اپنے ٹھہرائے ہوئے شریکوں کے حصے کو درخوا اعتناء سمجھتے ہوئے اس کی حفاظت کرتے ہیں اور اس کو اللہ تعالیٰ کے حصے کے ساتھ نہیں ملاتے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ جب مشرکین کو کھیتوں اور پھلوں کی پیداوار اور مویشی حاصل ہوتے، جن کو اللہ تعالیٰ ان کے لئے وجود میں لایا، تو اس کو دو حصوں میں تقسیم کردیتے۔ (١) ایک حصے کے بارے میں بزعم خود کہتے ” یہ اللہ تعالیٰ کا حصہ ہے۔“ حالانکہ اللہ تعالیٰ اسی چیز کو قبول فرماتا ہے جو خالص اسی کی رضا کے لئے ہو۔ اللہ تعالیٰ شرک کرنے والے کے عمل کو قبول نہیں فرماتا۔ (٢) دوسرا حصہ اپنے ٹھہرائے ہوئے معبودوں اور بتوں کی نذر کرتے تھے، اگر کوئی چیز اللہ تعالیٰ کے حصے میں سے نکل کر اس حصے میں خلط ملط ہوجاتی جو غیر اللہ کے لئے مقرر کیا تھا تو اس کی پروا نہیں کرتے تھے اور اس کو اللہ تعالیٰ کے حصہ کی طرف نہیں لوٹاتے تھے اور کہتے تھے ” اللہ اس سے بے نیاز ہے“ اور اگر کوئی چیز، جو انہوں نے اپنے معبودوں اور بتوں کے لئے مقرر کی تھی اس حصے کے ساتھ خلط ملط ہو جاتی جو اللہ تعالیٰ کے لیے مقرر کیا تھا، تو اسے بتوں کے لیے مقرر حصے کی طرف لوٹا دیتے اور کہتے ” یہ بت تو محتاج ہیں اس لئے ان کے حصے کو ان کی طرف لوٹانا ضروری ہے۔“۔۔۔ کیا اس سے بڑھ کر ظلم پر مبنی، بدترین فیصلہ کوئی اور ہوسکتا ہے؟ کیونکہ انہوں نے جو حصہ مخلوق کے لئے مقرر کیا ہے اس کی اللہ تعالیٰ کے حق سے زیادہ خیر خواہی اور حفاظت کرتے ہیں۔ اس آیت کریمہ کی تفسیر میں اس معنی کا احتمال بھی ہوسکتا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک صحیح حدیث سے ثابت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :” اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ” میں تمام شریکوں سے بڑھ کر شرک سے بے نیاز ہوں۔ جو کوئی میرے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراتا ہے میں اسے اور اس کے شرک کو چھوڑ دیتا ہوں۔۔۔۔ الحدیث“ [صحیح مسلم، کتاب الزھد، باب تحریم الرباء، حدیث :2985 ] آیت کریمہ کے معنی یہ ہیں کہ مشرکین نے اپنے معبودوں اور بتوں کے تقرب کے حصول کے لئے جو حصے مقرر کر رکھے ہیں وہ خالص غیر اللہ کے لئے ہیں۔ ان میں سے کچھ بھی اللہ تعالیٰ کے لئے نہیں اور ان کے زعم باطل کے مطابق انہوں نے جو حصہ اللہ تعالیٰ کے لئے مقرر کیا ہے وہ ان کے شرک کی بنا پر اللہ تعالیٰ کے حضور نہیں پہنچتا، بلکہ یہ بھی ان کے معبودوں اور بتوں کا حصہ ہے کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ اس سے بے نیاز ہے۔ وہ مخلوق میں سے اس شخص کا عمل کبھی قبول نہیں کرتا جو اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراتا ہے۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کے خسران اور ان کی کم عقلی کو بیان کرتے ہوئے فرمایا : ﴿قَدْ خَسِرَ الَّذِينَ قَتَلُوا أَوْلَادَهُمْ سَفَهًا بِغَيْرِ عِلْمٍ﴾ ” بے شک خسارے میں رہے وہ لوگ جنہوں نے بغیر علم کے اپنی اولاد کو قتل کیا“ یعنی وہ اپنے دین، اولاد اور عقل کے بارے میں خسارے میں رہے۔ پختہ رائے اور عقل کے بعد ہلاکت انگیز حماقت اور ضلالت ان کا وصف ٹھہری ﴿وَحَرَّمُوا مَا رَزَقَهُمُ اللَّـهُ ﴾” اور حرام ٹھہرایا اس رزق کو جو اللہ نے ان کو دیا“ یعنی اللہ تعالیٰ نے جس چیز کو ان کے لئے رحمت بنایا اور اسے ان کے لئے رزق قرار دیا تھا۔ پس انہوں نے اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کو ٹھکرا دیا، پھر انہوں نے اسی پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ انہوں نے اس نعمت کو حرام سے موصوف کیا۔ حالانکہ یہ نعمت ان کے لئے سب سے زیادہ حلال تھی اور یہ سب کچھ ﴿ افْتِرَاءً عَلَى اللَّـهِ ﴾ ” جھوٹ باندھ کر اللہ پر“ یعنی یہ سب کچھ جھوٹ ہے اور ہر عناد پسند کافر جھوٹ گھڑتا ہے ﴿قَدْ ضَلُّوا وَمَا كَانُوا مُهْتَدِينَ ﴾ ” وہ بے شبہ گمراہ ہیں اور ہدایت یافتہ نہیں ہیں۔“ یعنی وہ بہت دور کی گمراہی میں جا پڑے اور وہ اپنے تمام امور میں سے کسی چیز میں بھی راہ راست پر نہیں ہیں۔ الانعام
137 مشرکین کی حماقت اور گمراہی یہ ہے کہ اکثر مشرکین کے سامنے ان کے خداؤں یعنی ان کے سرداروں اور شیاطین نے ان کے اعمال، یعنی قتل اولاد کو مزین کردیا ہے۔ یہاں قتل اولاد سے مراد ان لوگوں کا اپنے بچوں کو قتل کرنا ہے جو بھوک اور فقر کے ڈر سے اپنے بچوں کو اور دعا کے ڈر سے اپنی بچیوں کو زندہ درگور کردیا کرتے تھے۔ یہ سب شیاطین کی فریب کاری ہے جو انہیں ہلاکت کی وادیوں میں دھکیلنا چاہتے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ ان کا دین ان پر مشتبہ ہوجائے اس لئے وہ انتہائی برے کاموں کا ارتکاب کرتے ہیں۔ ان کے یہ شرکاء ان کے ان اعمال کو آراستہ کرتے رہتے ہیں حتیٰ کہ یہ ان کے ہاں نیکی کے اعمال اور اچھے خصائل بن جاتے ہیں۔ الانعام
138 ان کی حماقت و سفاہت کی ایک قسم یہ بھی ہے کہ انہوں نے ان مویشیوں اور چوپایوں کے سلسلے میں، جن کو اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے عام طور پر حلال ٹھہرایا اور ان کے لئے ان کو رزق اور رحمت کا ذریعہ بنایا، جن کو فائدہ اٹھاتے ہیں، اپنی طرف سے بدعات اور بدعی اقول گھڑ لئے ہیں۔ بعض مویشیوں اور کھیتوں کے بارے میں انہوں نے اصطلاح وضع کر رکھی ہے۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں : ﴿ هَـٰذِهِ أَنْعَامٌ وَحَرْثٌ حِجْرٌ ﴾” یہ مویشی اور کھیتی ممنوع ہے“ یعنی یہ حرام ہیں ﴿لَّا يَطْعَمُهَا إِلَّا مَن نَّشَاءُ  ﴾” اسے اس شخص کے سوا جسے ہم چاہیں کوئی نہ کھائے۔“ یعنی اس کا کھاناکسی کے لئے جائز نہیں اور اس کو صرف وہی کھا سکتا ہے جسے ہم چاہیں یا ہم بیان کریں کہ فلاں قسم کا شخص کھا سکتا ہے۔ یہ سب کچھ ان کا زعم باطل ہے جس کی کوئی دلیل نہیں۔ سوائے اس کے کہ یہ ان کی خواہشات نفس اور باطل آراء ہیں۔ مویشی ان پر کسی لحاظ سے حرام نہیں تھے، بلکہ انہوں نے ان کی پیٹھ کو حرام ٹھہرایا یعنی ان پر سواری کرنے اور بوجھ لادنے کو اور ایسے جانور کو انہوں نے (حام) سے موسوم کر رکھا تھا۔ "حام" حَمیٰ یحمی سے ہے بمعنی ” حفاظت کرنا“ پیٹھ کی، سواری اور بوجھ سے حفاظت کرنے کی وجہ سے یہ نام پڑا۔ کچھ جانور وہ تھے جن پر وہ اللہ تعالیٰ کا نام نہیں لیتے تھے بلکہ ان بتوں کا نام لیتے تھے جن کی وہ اللہ تعالیٰ کے سوا عبادت کیا کرتے تھے اور وہ تمام افعال کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا کرتے تھے۔ حالانکہ وہ جھوٹے اور فاسق و فاجر تھے ﴿ سَيَجْزِيهِم بِمَا كَانُوا يَفْتَرُونَ ﴾ ” عنقریب وہ سزا دے گا ان کو اس جھوٹ کی“ یعنی شرک کو حلال ٹھہرانے اور کھانے پینے اور دیگر منفعت کی اشیا کو حرام ٹھہرانے میں وہ اللہ تعالیٰ پر جو جھوٹ گھڑتے تھے۔ الانعام
139 ان کی کم عقلی پر مبنی آراء میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ بعض مویشیوں کو معین کردیتے اور کہتے کہ ان کے پیٹ میں جو بچہ ہے وہ مردوں کے لئے حلال اور عورتوں کے لئے حرام ہے۔ چنانچہ وہ کہتے تھے : ﴿مَا فِي بُطُونِ هَـٰذِهِ الْأَنْعَامِ خَالِصَةٌ لِّذُكُورِنَا  ﴾” جو کچھ ان مویشیوں کے پیٹوں میں ہے، اس کو صرف ہمارے مرد ہی کھائیں گے“ یعنی ان کے لئے حلال ہے اس کے کھانے میں عورتیں شریک نہیں ہوں گی۔ ﴿وَمُحَرَّمٌ عَلَىٰ أَزْوَاجِنَا ﴾ ” اور ہماری عورتوں کو (اس کا کھانا) حرام ہے۔“ یعنی یہ ہماری عورتوں پر حرام ہے۔ مگر یہ اس صورت میں ہے کہ وہ زندہ پیدا ہو۔ اگر مویشی کے پیٹ میں جو بچہ ہے وہ مردہ پیدا ہوا تو اس میں سب شریک ہوں گے یعنی وہ مردوں اور عورتوں سب کے لئے حلال ہے۔﴿سَيَجْزِيهِمْ وَصْفَهُمْ ﴾ ” وہ عنقریب سزا دے گا ان کو ان کی غلط بیانیوں کی“ اس لئے کہ انہوں نے اس چیز کو حرام ٹھہرایا جسے اللہ تعالیٰ نے حلال قرار دیا تھا اور حرام کو حلال سے موصوف کیا پس اس طرح انہوں نے اللہ تعالیٰ کی شریعت کی مخالفت کی اور پھر اسے اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کر ڈالا ﴿إِنَّهُ حَكِيمٌ ﴾ ” بے شک وہ حکمت والا ہے۔“ کیونکہ اس نے ان کو مہلت دی اور اس گمراہی کا ان کو اختیار دیا جس میں یہ سرگرداں ہیں ﴿عَلِيمٌ ﴾ ” جاننے والا ہے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ ان کو جانتا ہے اس سے کوئی چیز چھپی ہوئی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں جانتا ہے وہ ان کی باتوں اور افترا پردازیوں کا بھی خوب علم رکھتا ہے۔ بایں ہمہ وہ ان کو معاف کرتا اور ان کو رزق سے نوازتا ہے۔ الانعام
140 اگر اللہ تبارک و تعالیٰ ان کو ان اعمال سے روکنا اور ان کے اور ان افعال قبیحہ کے درمیان حائل ہونا چاہتا اور اگر وہ چاہتا کہ ماں باپ اپنی اولاد کو قتل نہ کریں تو وہ کبھی قتل نہ کرتے۔ مگر یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت کا تقاضا ہے کہ وہ ان کو مہلت دینے کے لئے ان کے اور ان کے اعمال کے درمیان سے ہٹ جائے اور ان کے اعمال کی پروا نہ کرے۔ اس لئے فرمایا : ﴿فَذَرْهُمْ وَمَا يَفْتَرُونَ ﴾ ” تو ان کو چھوڑ دو کہ وہ جانیں اور ان کا جھوٹ۔“ یعنی ان کو ان کے جھوٹ اور افترا کے ساتھ چھوڑ دیں او ان کے بارے میں غم زدہ نہ ہوں کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ الانعام
141 جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کھیتیوں اور مویشیوں میں مشرکین کے تصرف کا ذکر فرمایا جن کو اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے حلال ٹھہرایا تھا، تو اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنی نعمت کا تذکرہ فرمایا اور کھیتیوں اور مویشیوں کے بارے میں ان کے لازمی وظیفہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا :﴿ وَهُوَ الَّذِي أَنشَأَ جَنَّاتٍ ﴾ ” وہی ہے جس نے باغ پیدا کئے‘‘ جس میں مختلف انواع کے درخت اور نباتات ہیں۔ ﴿مَّعْرُوشَاتٍ وَغَيْرَ مَعْرُوشَاتٍ ﴾” جوٹٹیوں (چھتریوں) پر چڑھائے جاتے ہیں اور جو ٹٹیوں پر نہیں چڑھائے جاتے“ یعنی ان میں سے بعض باغات کے لئے چھتریاں بنائی جاتی ہیں اور ان کو ان چھتریوں پر چڑھایا جاتا ہے اور یہ چھتریاں انہیں اوپر اٹھنے میں مدد دیتی ہیں اور بعض درختوں کے لئے چھتریاں نہیں بنائی جاتیں، بلکہ وہ اپنے تنے پر کھڑے ہوتے ہیں یا زمین پر بچھ جاتے ہیں۔ اس آیت کریمہ میں ان کے کثرت منفعت اور ان کے فوائد کی طرف اشارہ ہے، نیز اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بندوں کو سکھایا کہ پودوں کو کیسے چھتریوں پر چڑھانا اور کیسے ان کی پرورش کرنا ہے۔ ﴿وَالنَّخْلَ وَالزَّرْعَ مُخْتَلِفًا ﴾ ”(اور پیدا کئے) کھجور کے درخت اور کھیتی کہ مختلف ہیں ان کے پھل“ یعنی اللہ تعالیٰ نے ایک ہی جگہ پر کھجور اور کھیتیاں پیدا کیں جو ایک ہی پانی سے سیراب ہوتی ہیں مگر کھانے اور ذائقے کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ نے ان کو ایک دوسرے پر فضیلت دی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر کھجور اور کھیتیوں کا ذکر کیا ہے، کیونکہ یہ مختلف انواع و اقسام کی بنا پر بہت سے فوائد کی حامل ہیں نیز یہ اکثر مخلوق کے لئے خوراک کا کام دیتی ہیں۔ ﴿ وَالزَّيْتُونَ وَالرُّمَّانَ مُتَشَابِهًا ﴾ ” اور زیتون اور انار جو ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں۔“ یعنی اللہ تعالیٰ نے زیتون اور انار کو پیدا کیا جس کے درخت ایک دوسرے سے مشابہ ہیں ﴿وَغَيْرَ مُتَشَابِهٍ ﴾” اور جدا جدا بھی“ جو اپنے پھل اور ذائقے میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ گویا کہا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے ان باغات کو کس مقصد کے لئے پیدا کیا اور کس پر یہ نوازش کی؟ اس کے جواب میں بتایا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی منفعت کے لئے یہ باغات پیدا کئے۔ اس لئے فرمایا : ﴿كُلُوا مِن ثَمَرِهِ ﴾ ” ان کے پھل کھاؤ۔“ یعنی کھجور اور کھیتیوں کا پھل کھاؤ ﴿إِذَا أَثْمَرَ  ﴾” جب وہ پھل لائیں“ ﴿وَآتُوا حَقَّهُ يَوْمَ حَصَادِهِ ﴾ ” اور جس دن (پھل توڑو) اور کھیتی کاٹو تو اللہ کا حق اس میں سے ادا کرو۔“ یعنی فصل کی برداشت کے روز کھیتی کا حق ادا کرو۔ اس سے کھیتی کی زکوٰۃ(یعنی عشر) مراد ہے جس کا نصاب شریعت میں مقرر ہے۔ ان کو حکم دیا کہ زکوٰۃ فصل کی برداشت کے وقت ادا کریں کیونکہ برداشت کا دن، ایک سال گزرنے کے قائم مقام ہے۔ نیز یہ وہ وقت ہے جب فقراء کے دلوں میں زکوٰۃ کے حصول کی امید بندھ جاتی ہے اور اس وقت کاشت کاروں کے لئے اپنی زرعی جنس میں سے زکوٰۃ نکالنا آسان ہوتا ہے اور جو زکوٰۃ نکالتا ہے اس کے لئے یہ معاملہ ظاہر ہوجاتا ہے اور زکوٰۃ نکالنے والے اور زکوٰۃ نہ نکالنے والے کے درمیان امتیاز واقع ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿وَلَا تُسْرِفُوا ۚ ﴾ ” اور بے جا خرچ نہ کرو“ یہ ممانعت کھانے میں اسراف کے لئے عام ہے یعنی عادت اور حدود سے تجاوز کر کے کھانا۔ یہ اسراف اس بات کو بھی شامل ہے کہ کھیتی کا مالک اس طرح کھائے جس سے زکوٰۃ کو نقصان پہنچے اور کھیتی کا حق نکالنے میں اسراف یہ ہے کہ واجب سے بڑھ کر زکوٰۃ نکالے یا اپنے آپ کو یا اپنے خاندان یا اپنے قرض خواہوں کو نقصان پہنچائے۔ یہ تمام چیزیں اسراف کے زمرے میں آتی ہیں جس سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے جو اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں بلکہ سخت ناپسند ہے اور وہ اسراف پر سخت ناراض ہوتا ہے۔ یہ آیت کریمہ اس بات کی دلیل ہے کہ پھلوں میں بھی زکوٰۃ فرض ہے اور ان میں زکوٰۃ کی ادائیگی ایک سال گزرنے کی شرط سے مشروط نہیں ہے۔ غلے کی زکوٰۃ فصل کٹنے اور کھجوروں کی زکوٰۃ پھل چنے جانے پر واجب ہوجاتی ہے۔ پھر زرعی اجناس زکوٰۃ کی ادائیگی کے بعد کئی سال تک بھی بندے کے پاس پڑی رہیں تو ان میں زکوٰۃ فرض نہیں بشرطیکہ وہ تجارت کی غرض سے نہ رکھی گئی ہوں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے صرف فصل کی برداشت کے وقت زکوٰۃ ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ نیز اگر فصل برداشت کرنے سے قبل، صاحب زراعت کی کوتاہی کے بغیر، باغ یا کھیتی پر کوئی آفت آجائے تو وہ اس کا ضامن نہیں ہوگا اور زکوٰۃ نکالنے سے پہلے اگر کھیتی یا کھجور کے پھل میں سے کچھ کھالیا جائے تو اسے زکوٰۃ کے حساب میں شامل نہیں کیا جائے گا، بلکہ جو باقی بچے گا اسی کے حساب سے زکوٰۃ نکالی جائے گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پھل کا اندازہ لگانے کا ماہر روانہ فرمایا کرتے تھے جو زکوٰۃ ادا کرنے والے لوگوں کی کھیتیوں اور کھجوروں کے پھل کا اندازہ لگاتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں حکم دیتے کہ اندازہ لگانے کے بعد وہ ان کے اور دیگر لوگوں کے کھانے کے لئے ایک تہائی ایک چوتائی چھوڑ دیا کریں۔ الانعام
142 ﴿وَمِنَ الْأَنْعَامِ حَمُولَةً وَفَرْشًا ﴾ ” اور پیدا کئے مویشیوں میں سے بوجھ اٹھانے والے اور زمین سے لگے ہوئے“ یعنی اللہ تعالیٰ نے چوپائے پیدا کئے جن میں سے بعض پر تم سواری کرتے ہو اور ان سے بار برداری کا کام لیتے ہو۔ اور ان میں سے بعض اپنی کم عمری کی وجہ سے سواری اور بار برداری کے قابل نہیں ہوتے مثلاً ان چوپایوں کے بچے جو ابھی بہت چھوٹے ہوتے ہیں۔ پس یہ مویشی سواری اور بار برداری کے پہلو سے ان دو اقسام میں منقسم ہوتے ہیں۔ رہا ان کو کھانے کا پہلو اور ان سے دیگر مختلف انواع کے فوائد حاصل کرنا، تو یہ تمام مویشی کھائے بھی جاتے ہیں اور ان سے دیگر فوائد بھی حاصل کئے جاتے ہیں۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿كُلُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّـهُ وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ ۚ ﴾” کھاؤ اللہ کے رزق میں سے اور مت چلو شیطان کے قدموں پر“ یعنی شیطان کے طریقوں اور اس کے اعمال کی پیروی نہ کرو۔ ان میں سے منجملہ یہ ہیں کہ تم ان چیزوں کو حرام ٹھہرا لیتے ہو جو اللہ تعالیٰ نے تمہیں رزق کے طور پر عطا کی ہیں ﴿إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ ﴾ ” وہ تمہارا کھلا دشمن ہے“ پس وہ تمہیں صرف اسی بات کا حکم دے گا جس میں تمہارا نقصان اور تمہاری ابدی بدبختی اور بدنصیبی ہے۔ الانعام
143 یہ چوپائے جن سے اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے بندوں کو نوازا ہے اور ان سب کو حلال اور طیب قرار دیا ان کی تفصیل یوں بیان کی ہے ﴿ثَمَانِيَةَ أَزْوَاجٍ ۖ مِّنَ الضَّأْنِ اثْنَيْنِ  ﴾ ” پیدا کئے آٹھ نر اور مادہ، بھیڑ میں سے دو“ یعنی نر اور مادہ ﴿ وَمِنَ الْمَعْزِ اثْنَيْنِ ﴾ ” اور دو (2) بکریوں میں سے۔“ یعنی اسی طرح بکریوں میں سے دو، نر اور مادہ یہ چار اصناف ان مویشیوں میں شامل ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے حلال قرار دیا۔ ان میں کسی قسم کا کوئی فرق نہیں۔ ان تکلف کرنے والوں سے کہہ دیجیے ! جو ان میں سے کسی چیز کو حرام ٹھہراتے ہیں یا ان میں سے کچھ اصناف کو عورتوں پر حرام ٹھہراتے ہیں۔ جس کو انہوں نے مباح اور جس کو انہوں نے حرام ٹھہرایا، ان دونوں کے درمیان فرق کے عدم وجود کو ان پر لازم کرتے ہوئے ان سے کہئے﴿   آلذَّكَرَيْنِ ﴾’’کیا دونوں (کے) نروں کو‘‘ یعنی بھیڑ اور بکری میں سے ان کے نر کو ﴿حَرَّمَ﴾’’(اللہ تعالیٰ نے) حرام ٹھہرایا؟“ پس تم اس بات کے قائل نہیں ہو﴿أَمِ الْأُنثَيَيْنِ ﴾ ” یا دونوں (کے) مادہ کو۔“ یعنی مادہ بھیڑ اور بکری کو اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے؟ تم اس بات کے بھی قائل نہیں ہو۔ تم دونوں اصناف میں سے خالص نرکی تحریم کے قائل ہو نہ خالص مادہ کی۔ باقی رہی یہ بات کہ اگر مادہ کا رحم نر اور مادہ بچے پر مشتمل ہو یا نر اور مادہ کے بارے میں علم نہ ہو۔ پس فرمایا ﴿أَمَّا اشْتَمَلَتْ عَلَيْهِ أَرْحَامُ الْأُنثَيَيْنِ ﴾ ” یا جو بچہ دونوں ماداؤں کے پیٹوں میں ہو۔“ یعنی کیا تم نر اور مادہ کے فرق کے بغیر اسے حرام ٹھہراتے ہو جو بھیڑ، یا بکری کے رحم میں ہے؟ تم اس قول کے بھی قائل نہیں ہو۔ جب تم ان تین اقوال میں کسی ایک قول کے بھی قائل نہیں جو ممکنہ تمام صورتوں پر محیط ہیں۔ تو پھر تم کون سے مذہب پر عامل ہو ﴿نَبِّئُونِي بِعِلْمٍ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ﴾ ” اگر سچے ہو تو مجھے سند سے بتاؤ۔“ یعنی اگر تم اپنے قول اور دعوے میں سچے ہو تو مجھے علمی دلیل سے آگاہ کرو اور یہ بدیہی طور پر معلوم ہے کہ وہ کوئی ایسا قول نہیں لا سکتے جسے عقل تسلیم کرلے، سوائے اس کے کہ مذکورہ تینوں باتوں میں سے کوئی ایک بات کہیں اور وہ ان میں سے کوئی بات نہیں کہتے۔ صرف یہ کہتے ہیں کہ بعض مویشی جن کے بارے میں انہوں نے اپنی طرف سے کچھ اصطلاحات گھڑ رکھی ہیں مردوں کی بجائے عورتوں پر حرام ہیں، یا وہ بعض اوقات و احوال میں حرام ہیں یا اس قسم کے دیگر اقوال، جن کے بارے میں بلاشک و شبہ ہمیں معلوم ہے کہ ان کا مصدر جہل مرکب، راہ راست سے منحرف عقل اور فاسد آراء و نظریات ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے قول پر کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی اور نہ ان کے پاس کوئی اور حجت و برہان ہے۔ الانعام
144 پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اسی طرح اونٹ اور گائے کا ذکر فرمایا۔ جب ان کے قول کا بطلان اور فساد واضح ہوگیا تو اللہ تعالیٰ نے ان سے ایک ایسی بات کہی جس سے نکلنا ان کے بس میں نہ تھا۔ سوائے شریعت کی اتباع کے ﴿أَمْ كُنتُمْ شُهَدَاءَ إِذْ وَصَّاكُمُ اللَّـهُ بِهَـٰذَا ﴾ ” کیا تم حاضر تھے جس وقت تم کو اللہ نے یہ حکم دیا تھا“ یعنی تمہارے پاس اپنے دعویٰ کے سوا باقی کچھ بھی نہیں، جس کی صداقت کو پرکھنے کے لئے تمہارے پاس کوئی ذریعہ نہیں اور وہ ہے تمہارا یہ کہنا کہ ” اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس کی وصیت کی ہے اور اس نے ہماری طرف وحی کی ہے جس طرح سے اس نے اپنے انبیاء و مرسلین کی طرف وحی کی، بلکہ اس نے ہماری طرف ایسی وحی بھیجی جو اس چیز کے مخالف ہے جس کی طرف انبیاء و رسل نے دعوت دی اور جس کے ساتھ کتابیں نازل ہوئیں“ اور یہ ایک ایسا بہتان ہے جس سے کوئی شخص ناواقف نہیں ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَىٰ عَلَى اللَّـهِ كَذِبًا لِّيُضِلَّ النَّاسَ بِغَيْرِ عِلْمٍ ۗ ﴾” پس اس سے زیادہ ظالم کون ہے جو بہتان باندھے اللہ پر جھوٹا، تاکہ بغیر تحقیق کے لوگوں کو گمراہ کرے“ یعنی اس کے جھوٹ اور اللہ تعالیٰ پر اس کے بہتان و افتراء، باندھنے کے ساتھ وہ اس سے اللہ کے بندوں کو بغیر کسی دلیل و برہان اور بغیر کسی عقل و نقل کے، اللہ کے راستے سے گمراہ کرتا ہے۔ ﴿إِنَّ اللَّـهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ ﴾ ” اللہ تعالیٰ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا“ جن کا ظلم و جور اور اللہ تعالیٰ پر جھوٹ گھڑنے کے سوا اور کوئی ارادہ نہیں۔ الانعام
145 جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس امر پر مشرکین کی مذمت کی کہ انہوں نے حلال کو حرام ٹھہرایا اور اسے اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کردیا اور ان کے اس قول کا ابطال کیا تو اس نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کے سامنے واضح کردیں کہ اللہ تعالیٰ نے کیا چیز ان پر حرام ٹھہرائی ہے تاکہ انہیں معلوم ہوجائے کہ اس کے علاوہ جو کچھ ہے وہ حلال ہے اور جو کوئی اس کی تحریم کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرتا ہے وہ جھوٹا اور باطل پرست ہے، کیونکہ تحریم صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے رسول کے توسط سے ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا : ﴿قُل لَّا أَجِدُ فِي مَا أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلَىٰ طَاعِمٍ يَطْعَمُهُ ﴾” آپ کہہ دیجیے کہ میں نہیں پاتا اس وحی میں کہ مجھ کو پہنچی ہے کسی چیز کو حرام، کھانے والے پر جو اس کو کھائے“ یعنی اس کو کھانے کے علاوہ اس سے دیگر فوائد حاصل کرنے یا نہ کرنے سے قطع نظر، میں کوئی چیز نہیں پاتا جس کا کھانا حرام ہو۔ ﴿ إِلَّا أَن يَكُونَ مَيْتَةً  ﴾ ” مگر یہ کہ وہ چیز مردار ہو“ مردار وہ جانور ہے جو شرعی طریقے سے ذبح کئے بغیر مر گیا ہو۔ یہ مرا ہوا جانور حلال نہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ﴿حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنزِيرِ ﴾ (المائدہ :5؍3) ” حرام کردیا گیا تم پر مردار، خون او خنزیر کا گوشت۔ “ ﴿أَوْ دَمًا مَّسْفُوحًا ﴾” یا بہتا ہوا خون“ یہ وہ خون ہے جو ذبیحہ کو ذبح کرتے وقت اس میں خارج ہوتا ہے کیونکہ اس خون کا ذبیحہ کے بدن میں رہنا ضرر رساں ہے۔ جب یہ خون بدن سے نکل جاتا ہے تو گوشت کا ضرر زائل ہوجاتا ہے۔ لفظ کے مفہوم مخالف سے مستفاد ہوتا ہے کہ جانور کو ذبح کرنے کے بعد جو خون گوشت اور رگوں میں بچ جاتا ہے وہ حلال اور پاک ہے۔ ﴿أَوْ لَحْمَ خِنزِيرٍ فَإِنَّهُ رِجْسٌ  ﴾ ” یا سور کا گوشت کہ وہ ناپاک ہے“ یعنی مذکورہ تینوں اشیا گندی ہیں یعنی ناپاک اور مضر ہیں اور اللہ تعالیٰ نے تم پر لطف و کرم کرتے ہوئے اور تمہیں خبائث کے قریب جانے سے بچانے کے لئے ان گندی اشیا کو حرام قرار دے دیا ہے۔ ﴿أَوْ فِسْقًا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّـهِ بِهِ ﴾ یا ذبیحہ کو اللہ کے سوا بتوں اور ان معبودوں کے لئے ذبح کیا گیا ہو جن کی مشرکین عبادت کرتے ہیں۔ یہ فسق ہے اور فسق سے مراد ہے اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے نکل کر اس کی معصیت میں داخل ہوجانا۔ ﴿فَمَنِ اضْطُرَّ ﴾” پس اگر کوئی مجبور ہوجائے۔“ یعنی بایں ہمہ اگر کوئی ان حرام اشیا کو استعمال کرنے پر مجبور ہے حاجت اور ضرورت نے اسے ان اشیاء کو کھانے پر مجبور کردیا ہے۔ وہ اس طرح کہ اس کے پاس کھانے کے لئے کچھ نہیں اور بھوک کے باعث اس کو اپنی جان کا خوف ہے ﴿غَيْرَ بَاغٍ  ﴾ ” نافرمانی کرنے والا نہ ہو۔“ یعنی بغیر کسی اضطراری حالت کے اس کو کھانے کا ارادہ نہ رکھتا ہو۔ ﴿وَلَا عَادٍ﴾’ ’اور نہ زیادتی کرنے والا ہو“ (عَادٍ) سے مراد ہے ” ضرورت سے زائد کھا کر حد سے تجاوز کرنے والا“ ﴿فَإِنَّ رَبَّكَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴾” تو بلاشبہ تمہارا رب بخشنے والا مہربان ہے۔“ یعنی جو شخص اس حالت کو پہنچ جائے اللہ تعالیٰ نے اس کے ساتھ نرمی کی ہے۔ الانعام
146 اہل علم نے اس آیت کریمہ میں مذکورہ محرمات پر حصر کے بارے میں مختلف رائے کا اظہار کیا ہے۔ کیونکہ اس کے علاوہ بھی محرمات موجود ہیں جن کا یہاں ذکر نہیں کیا گیا مثلاً (کچلیوں والے) درندے اور پنجے سے شکار کرنے والے تمام پرندے، وغیرہ چنانچہ بعض اہل علم کہتے ہیں کہ یہ آیت کریمہ ان زائد چیزوں کی تحریم سے قبل نازل ہوئی ہے۔ اس لئے یہ حصر مذکور ان اشیاء میں تحریم متاخر کے منافی نہیں ہے۔ کیونکہ یہ چیزیں اس وقت اس زمرے میں نہیں آتی تھیں جس وقت مذکورہ حرمت کی وحی آپ کی طرف بھیجی گئی تھی۔ بعض علماء کہتے ہیں کہ یہ آیت مبارکہ تمام محرمات کی تحریم پر مشتمل ہے۔ البتہ بعض کی تحریم کی تصریح کردی گئی ہے اور بعض کی تحریم اس کے معنی اور حرمت کی عمومی علت سے اخذ کی گئی ہے۔ کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے آیت کریمہ کے اواخر میں مردار، خون اور خنزیر کے گوشت کی تحریم کی علت بیان کرتے ہوئے فرمایا : ﴿فَإِنَّهُ رِجْسٌ ﴾ ” وہ ناپاک ہے“ اور یہ ایسا وصف ہے جو تمام محرمات کو شامل ہے۔ کیونکہ تمام محرمات (رجس) یعنی گندگی اور ناپاک ہیں اور یہ محرمات سب سے زیادہ ناپاک ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو گندگی اور ناپاکی سے بچانے کے لئے ان کو حرام قرار دیا ہے۔ ناپاک اور محرمات کی تفاصیل سنت نبوی سے اخذ کی جاتی ہیں کیونکہ سنت قرآن کی تفسیر کر کے اس کے مقاصد کو بیان کرتی ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے کھانے والے کے لئے صرف اسی چیز کو حرام قرار دیا جس کا اس نے ذکر فرمایا اور تحریم کا مصدر صرف اللہ تعالیٰ کی شریعت ہے، تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ مشرکین اپنے آپ پر اللہ تعالیٰ کے رزق کو حرام قرار دے کر اللہ تعالیٰ پر بہتان طرازی اور اس کی طرف ایسی بات منسوب کرتے ہیں جو اس نے نہیں کہی۔ اگر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں خنزیر کی حرمت کا ذکر نہ کیا ہوتا تو اس کا قوی احتمال تھا کہ آیت کریمہ کا سیاق مشرکین کے مذکورہ بالا ان اقوال کی تردید میں ہے جس میں انہوں نے ان چیزوں کو حرام ٹھہرایا ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے حلال قرار دیا اور اپنے نفس کی فریب دہی کے مطابق اس میں مشغول ہوگئے اور یہ خاص طور پر چوپایوں کے بارے میں ہے اور ان چوپایوں میں کچھ بھی حرام نہیں سوائے ان اشیا کے جن کا ذکر آیت کریمہ میں کردیا گیا ہے مردار اور غیر اللہ کے نام پر پکاری گئی چیز اور ان کے سوا دیگر تمام اشیاء حلال ہیں۔ اس احتمال کی بنا پر، خنزیر کا یہاں ذکر شاید اس مناسبت سے کیا گیا ہو کہ بعض جہال خنزیر کو (بَهِيمَةُ الْأَنْعَامِ) میں داخل کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خنزیر بھیڑ بکری کی نوع میں سے ہے۔ اس قسم کا تو ہم نصاریٰ میں سے جہلاء اور ان جیسے بعض دیگر لوگوں کو لاحق ہوا ہے۔ وہ خنزیر کو اسی طرح پالتے ہیں جیسے مویشیوں کو پالا جاتا ہے اور اس کو حلال سمجھتے ہیں اور وہ اس کے اور دیگر مویشیوں کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتے۔ پس یہ تمام محرمات جو اس امت پر حرام قرار دی گئی ہیں یہ حفاظت اور تنزیہہ کی خاطر ہے۔ اور وہ چیزیں جو اہل کتاب پر حرام قرار دی گئیں ان میں سے بعض پاک اور طیب تھیں مگر سزا کے طور پر ان چیزوں کو ان پر حرام کردیا گیا۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَعَلَى الَّذِينَ هَادُوا حَرَّمْنَا كُلَّ ذِي ظُفُرٍ ۖ ﴾” اور یہودیوں پر ہم نے ہر ناخن والے جانور کو حرام کردیا تھا“ مثلاً اونٹ اور اس قسم کے دیگر جانور ﴿وَمِنَ الْبَقَرِ وَالْغَنَمِ حَرَّمْنَا عَلَيْهِمْ  ﴾” اور گائے اور بکری میں سے حرام کئے تھے“ ان کے بعض اجزاء﴿شُحُومَهُمَا  ﴾ اور وہ تھی ان کی چربی اور ہر قسم کی چربی ان پر حرام نہ تھی بلکہ صرف دنبے کی چکتی اور اوجھڑی اور آنتوں کی باریک چربی حرام تھی۔ اس لئے اس میں سے حلال چربی کو مستثنیٰ قرار دیتے ہوئے فرمایا : ﴿ إِلَّا مَا حَمَلَتْ ظُهُورُهُمَا أَوِ الْحَوَايَا ﴾” مگر وہ چربی جو پشت پر اور انتڑیوں کے ساتھ لگی ہوتی ہے“ ﴿أَوْ مَا اخْتَلَطَ بِعَظْمٍ ﴾ ” یا وہ چربی جو ہڈی کے ساتھ پیوست ہوتی ہے۔ “ ﴿ذَٰلِكَ ﴾” یہ“ یہودیوں پر نافذ کی گئی یہ تحریم ﴿جَزَيْنَاهُم بِبَغْيِهِمْ ﴾” ایک سزا تھی جو ہم نے ان کو دی تھی ان کی شرارت پر“ یعنی اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کے حقوق کے بارے میں ان کے ظلم و تعددی کی جزا تھی، پس اللہ تعالیٰ نے سزا کے طور پر ان کے لئے یہ چیزیں حرام کردی تھیں ﴿وَإِنَّا لَصَادِقُونَ ﴾ ” اور ہم سچ کہتے ہیں“ یعنی ہم جو کچھ کہتے ہیں جو کرتے ہیں اور جو فیصلہ کرتے ہیں، سب صدق پر مبنی ہوتا ہے اور اہل ایقان کے نزدیک اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر سچی بات کہنے والا اور سب سے اچھے فیصلے کرنے والا کون ہے؟ الانعام
147 یعنی اگر یہ مشرکین آپ کی تکذیب کرتے ہیں تو آپ ترغیب و ترہیب کے ذریعے سے ان کو دعوت دیتے رہیے اور ان کو آگاہ کیجیے کہ اللہ تعالیٰ﴿ ذُو رَحْمَةٍ وَاسِعَةٍ ﴾ ” بے پایاں رحمت کا مالک ہے“ جو تمام مخلوقات کو شامل ہے۔ لہٰذا اس کی رحمت کی طرف اس کے اسباب کے ذریعے سے سبقت کرو۔ جس کی اساس اور بنیاد محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان پر نازل ہونے والی وحی کی تصدیق ہے۔ ﴿وَلَا يُرَدُّ بَأْسُهُ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ  ﴾” اور اس کا عذاب گناہ گاروں سے نہیں ٹالا جاتا“ یعنی جن کے جرائم اور گناہ بہت بڑھ گئے ہوں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے عذاب کو دعوت دینے والے جرائم سے بچو، ان میں سب سے بڑا جرم محمد مصطفی صلوات اللہ علیہ و سلامہ کی تکذیب ہے۔ الانعام
148 یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے خبر ہے کہ مشرکین اپنے شرک اور اللہ تعالیٰ کی حلال ٹھہرائی ہوئی چیزوں کو حرام ٹھہرانے پر اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر سے دلیل پکڑتے ہیں اور اپنے آپ سے مذمت کو دور کرنے کے لئے، اللہ تعالیٰ کی مشیت کو جو خیر و شر ہر چیز کو شامل ہے، دلیل بناتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے وہی کچھ کہا جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے خبر دی تھی جیسا کہ ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَقَالَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا لَوْ شَاءَ اللَّـهُ مَا عَبَدْنَا مِن دُونِهِ مِن شَيْءٍ ﴾ (النحل :16؍35) ” وہ لوگ جنہوں نے شرک کیا کہتے ہیں کہ اگر اللہ کی مشیت ہوتی تو ہم اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرتے۔“ پس یہ وہ دلیل ہے جو انبیاء و رسل کو جھٹلانے والی قومیں انبیاء کی دعوت کو رد کرنے کے لئے پیش کرتی رہی ہیں مگر یہ ان کے کسی کام آئی نہ اس نے انہیں کوئی فائدہ ہی دیا اور یہی ان کی عادت رہی حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ہلاک کر کے عذاب کا مزا چکھایا۔ اگر ان کی یہ دلیل صحیح ہوتی تو ان سے عذاب کو ہٹا لیا جاتا اور اللہ تعالیٰ ان کو عذاب میں مبتلا نہ کرتا، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا عذاب صرف اسی پر نازل ہوتا ہے جو اس کا مستحق ہوتا ہے۔ پس معلوم ہوا کہ یہ ان کی فاسد دلیل اور انتہائی گھٹیا شبہ ہے اور اس کی متعدد وجوہات ہیں۔ (١) اللہ تبارک و تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے کہ اگر ان کی دلیل صحیح ہوتی تو ان پر عذاب نازل نہ ہوتا۔ (٢) دلیل کے لئے ضروری ہے کہ اس کی بنیاد علم اور برہان ہو۔ اگر دلیل محض گمان اور اندازے پر مبنی ہو، جو حق کے مقابلے میں کوئی کام نہیں آسکتی، تو یہ باطل ہے۔ اسی لئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿قُلْ هَلْ عِندَكُم مِّنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوهُ لَنَا ﴾ ” کہہ دیجیے ! اگر تمہارے پاس کوئی علم ہے تو ہمارے سامنے پیش کرو“ پس اگر ان کے پاس علم ہوتا، حالانکہ وہ سخت جھگڑا لو لوگ ہیں، تو وہ اسے ضرور پیش کرتے اگر انہوں نے کوئی علمی دلیل پیش نہیں کی تو معلوم ہوا کہ وہ علم سے بے بہرہ ہیں۔ ﴿إِن تَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِنْ أَنتُمْ إِلَّا تَخْرُصُونَ ﴾ ” تم تو نرے گمان پر چلتے ہو اور صرف تخمینے ہی کرتے ہو“ اور جو کوئی اپنے دلائل کی بنیاد گمان اور اندازوں پر رکھتا ہے وہ باطل پرست اور خسارے میں پڑنے والا ہے اور جب اس کی بنیاد سرکشی، دشمنی اور شر و فساد پر ہو، تو اس کی کیفیت کیا ہوگی؟ الانعام
149 (٣) حجت بالغہ اللہ تعالیٰ کے پاس ہے، جو کسی کے لئے کوئی عذر نہیں رہنے دیتی، جس پر تمام انبیاء و مرسلین، تمام کتب الٰہیہ، تمام آثار نبویہ، عقل صحیح، فطرت سلیم اور اخلاق مستقیم متفق ہیں۔ پس معلوم ہوا کہ جو کوئی اس آیت قاطعہ کی مخالفت کرتا ہے وہ باطل ہے، کیونکہ حق کی مخالفت کرنے والا باطل کے سوا کچھ بھی نہیں۔ (٤) اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہر انسان کو قدرت اور ارادہ عطا کیا ہے جس کے ذریعے سے وہ ان تمام افعال کے ارتکاب پر قادر ہے جن کا اسے مکلف کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کسی انسان پر کوئی ایسی چیز واجب نہیں کی جس کے فعل پر وہ قدرت نہیں رکھتا اور نہ کسی ایسی چیز کو اس پر حرام ٹھہرایا ہے جس کو ترک کرنے کی وہ طاقت نہیں رکھتا۔ پس اس کے بعد قضاء و قدر کو دلیل بنانا محض ظلم اور مجرد عناد ہے۔ (٥) اللہ تعالیٰ نے بندوں کے افعال میں جبر نہیں کیا، بلکہ ان کے افعال کو ان کے اختیار کے تابع بنایا ہے۔ پس اگر وہ چاہیں تو کسی فعل کا ارتکاب کریں اور اگر چاہیں تو اس فعل کے ارتکاب سے باز رہ سکتے ہیں۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ اس کا انکار صرف وہی کرسکتا ہے جو حق کے ساتھ عناد رکھتا ہے اور محسوسات کا انکار کرتا ہے، کیونکہ ہر شخص حرکت اختیاری اور حرکت جبری میں امتیاز کرسکتا ہے اگرچہ تمام حرکات اللہ تعالیٰ کی مشیت اور اس کے ارادے کے تحت آتی ہیں۔ (٦) اپنے گناہوں پر قضا و قدر کو دلیل بنانے والے تناقص (تضاد) کا شکار ہیں، کیونکہ ان کے لئے اس کو درست ثابت کرنا ممکن نہیں۔ بلکہ اگر کوئی مار پیٹ یا مال وغیرہ چھین کر ان کے ساتھ برا سلوک کر کے تقدیر کا بہانہ پیش کرتا ہے تو وہ اس شخص کی دلیل کو کبھی قبول نہیں کریں گے اور اس شخص پر سخت ناراض ہوں گے۔ نہایت عجیب بات ہے۔ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور اس کی ناراضی کے کاموں پر تو قضا و قدر کا عذر پیش کرتے ہیں اور اگر کوئی ان کے ساتھ برا سلوک کر کے ان کو یہی دلیل پیش کرتا ہے تو اسے قبول نہیں کرتے۔ (٧) قضا و قدر سے استدلال کرنا ان کا مقصد نہیں ہے۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ قضا و قدر کا عذر دلیل نہیں۔ ان کا مقصد تو صرف حق کو ٹھکرانا اور اس کو روکنا ہے کیونکہ وہ حق کو یوں سمجھتے ہیں جیسے کوئی حملہ آور ہو۔ چنانچہ وہ ہر صحیح یا غلط خیال کے ذریعے سے، جو ان کے دل میں آتا ہے، حق کو روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔ الانعام
150 یعنی آپ ان لوگوں سے کہہ دیجیے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی حلال ٹھہرائی ہوئی چیزوں کو حرام ٹھہرایا اور اس تحریم کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کردیا، کہ وہ اپنے ان گواہوں کو لے آئیں جو یہ گواہی دیں کہ اس چیز کو اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے۔ جب ان سے یہ بات کہی جائے گی تو مندرجہ ذیل دو باتوں میں سے ایک بات ضرور ہوگی۔ (١) یا تو وہ اس پر کسی کو گواہ کے طور پر پیش ہی نہیں کرسکیں گے، تب اس صورت میں ان کا دعویٰ باطل اور دلیل اور گواہوں سے محروم ہوگا۔ (٢) یا وہ کسی ایسے گواہ کو پیش کردیں گے جو ان کے لئے گواہی دے، مگر کسی جھوٹے اور بہتان طراز کے سوا کوئی شخص اس پر گواہی نہیں دے سکتا، اور ایسے جھوٹے اور بہتان طراز شخص کی گواہی قابل قبول نہیں ہے۔ یہ معاملہ ایسے امور میں شمار نہیں ہوتا جس پر کسی عادل گواہ کا گواہی دینا جائز ہو، بنا بریں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے متبعین کو اس گواہی سے روکتے ہوئے فرمایا : ﴿ فَإِن شَهِدُوا فَلَا تَشْهَدْ مَعَهُمْ ۚ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا وَالَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ وَهُم بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُونَ﴾” اگر وہ گواہی دیں، تو آپ ان کے ساتھ گواہی نہ دیں اور ان لوگوں کی خواہشات کی پیروی نہ کریں جو ہماری آیتوں کو جھٹلاتے ہیں اور وہ جو آخرت پر یقین نہیں رکھتے اور وہ اپنے رب کے ساتھ دوسروں کو برابر ٹھہراتے ہیں“ یعنی وہ بتوں اور اپنے گھڑے ہوئے معبودوں کو اللہ تعالیٰ کے برابر قرار دیتے ہیں۔ چونکہ وہ یوم آخرت کا انکار کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی توحید کے قائل نہیں اس لئے ان کی خواہشات ان کے اس عقیدے کے مطابق ہیں جو شرک اور تکذیب پر مبنی ہے۔ جن کا یہ معاملہ ہو تو مناسب یہی ہے کہ اللہ تعالٰ اپنی مخلوق میں سے بہترین ہستی کو ان کی اتباع کرنے اور ان کے ساتھ گواہی دینے سے روک دے۔ تب معلوم ہوا کہ ان کا اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ چیزوں کو حرام ٹھہرانا ان کی گمراہ کن خواہشات نفس کی پیداوار ہے۔ الانعام
151 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے ﴿قُلْ ﴾” کہہ دیجیے“ ان لوگوں سے کہہ دیجیے جنہوں نے ان چیزوں کو حرام قرار دے ڈالا جن کو اللہ تعالیٰ نے حلال ٹھہرایا ﴿تَعَالَوْا أَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ ﴾ ” آؤ، میں سنا دوں جو حرام کیا ہے تم پر تمہارے رب نے“ یعنی اللہ تعالیٰ نے عام طور پر کیا چیز حرام کی ہے۔ یہ تحریم سب کے لئے ہے اور ماکولات و مشروبات اور اقوال و افعال وغیرہ تمام محرمات پر مشتمل ہے۔ ﴿أَلَّا تُشْرِكُوا بِهِ ﴾” یہ کہ اللہ کے ساتھ شرک نہ کرنا۔“ یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ تھوڑا یا زیادہ ہرگز شرک نہ کرو۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کی حقیت یہ ہے کہ مخلوق کی اسی طرح عبادت کی جائے جس طرح اللہ تعالیٰ کی عبادت کی جاتی ہے، یا مخلوق کی تعظیم اسی طرح کی جائے جس طرح اللہ تعالیٰ کی تعظیم کی جاتی ہے، یاربوبیت اور الوہیت کی صفات مخلوق میں ثابت کی جائیں۔ جب بندہ ہر قسم کا شرک چھوڑ دیتا ہے تو وہ اپنے تمام احوال میں موحد اور اللہ تعالیٰ کے لئے مخلص بندہ بن جاتا ہے۔ پس بندوں پر اللہ کا یہ حق ہے کہ وہ صرف اسی کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے حق کا تذکرہ کرنے کے بعد سب سے زیادہ موکد حق سے ابتدا کی اور فرمایا ﴿ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا ﴾” اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا“ یعنی اقوال حسنہ اور افعال جمیلہ کے ذریعے سے اپنے والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو۔ ہر وہ قول و فعل جس سے والدین کو کوئی منفعت حاصل ہو یا اس سے مسرت حاصل ہو تو یہ ان کے ساتھ حسن سلوک ہے اور حسن سلوک کا وجود نافرمانی کی نفی کرتا ہے۔ ﴿وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُم﴾” اور نہ قتل کرو تم اپنی اولاد کو“ یعنی اپنے بچوں اور بچیوں کو﴿مِّنْ إِمْلَاقٍ ﴾ ” ناداری کے اندیشے سے۔“ یعنی فقر اور رزق کی تنگی کے سبب سے۔ جیسا کہ جاہلیت کے ظالمانہ دور میں ہوتا تھا۔ جب اس حال میں ان کو قتل کرنے سے روکا گیا ہے جب کہ وہ ان کی اپنی اولاد ہو، تو پھر ان کو بغیر کسی موجب کے قتل کرنا یا دوسروں کی اولاد کو قتل کرنا تو بطریق اولیٰ ممنوع ہوگا۔ ﴿نَّحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَإِيَّاهُمْ ﴾ ” ہم رزق دیتے ہیں تم کو اور ان کو“ یعنی ہم نے تمام مخلوق کے رزق کی ذمہ داری لی ہوئی ہے۔ یہ تم نہیں ہو جو اپنی اولاد کو رزق عطا کرتے ہو، بلکہ تم خود اپنے آپ کو بھی رزق عطا نہیں کرسکتے۔ پھر تم ان کے بارے میں تنگی کیوں محسوس کرو۔ ﴿ وَلَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ ﴾” اور بے حیائی کے کاموں کے قریب نہ جاؤ“ یہاں فواحش سے مراد بڑے بڑے اور فحش گناہ ہیں ﴿مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ ﴾ ” جو ظاہر ہوں یا پوشیدہ۔“ یعنی کھلے گناہوں کے قریب جاؤ نہ چھپے ہوئے گناہوں کے۔ نہ کھلے گناہوں کےمتعلقات کے قریب پھٹکو اور نہ قلب و باطن کے گناہوں کے متعلقات کے قریب جاؤ۔ فواحش کے قریب جانے کی ممانعت فواحش کے مجرد ارتکاب کی ممانعت سے زیادہ بلیغ ہے۔ کیونکہ یہ فواحش کے مقدمات اور ان کے ذرائع اور وسائل سب کو شامل ہے۔ ﴿وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّـهُ  ﴾ ” اور نہ قتل کرو اس جان کو جس کو اللہ نے حرام کیا ہے“ اس سے مراد مسلمان جان ہے خواہ مرد ہو خواہ عورت، چھوٹا ہو یا بڑا، نیک ہو یا بد۔ اسی طرح اس کا فرجان کو قتل کرنا بھی قتل ناحق ہے جو عہد و میثاق کی وجہ سے معصوم ہو﴿إِلَّا بِالْحَقِّ ﴾” مگر حق کے ساتھ“ مثلاً شادی شدہ زانی، قاتل، مرتد ہو کر مسلمانوں کی جماعت سے علیحدگی اختیار کرنے والا۔ ﴿ذَٰلِكُمْ ﴾ ” یہ“ مذکورہ بالا تمام امور ﴿وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ ﴾ ” اس کے ساتھ تم کو حکم کیا ہے تاکہ تم سمجھو“ یعنی شاید تم اللہ تعالیٰ کی وصیت کو سمجھو، پھر تم اس کی حفاظت کرو، اس کی رعایت کرو اور اس کو قائم کرو۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ بندہ اپنی عقل کے مطابق ان امور کو قائم کرتا ہے جن کا اللہ تعالیٰ نے اس کو حکم دیا ہے۔ الانعام
152 ﴿وَلَا تَقْرَبُوا مَالَ الْيَتِيمِ ﴾” اور نہ قریب جاؤ تم یتیم کے مال کے“ یعنی مال کھانے کے لئے، یا اپنے لئے معاوضہ بنانے یا بغیر کسی سبب کے مال لینے کے لئے۔ ﴿ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ ﴾” مگر ایسے طریق سے کہ بہت ہی پسندیدہ ہو۔“ یعنی البتہ ایسے طریقے سے ان کے مال کے قریب جاؤ جس سے ان کے مال کی اصلاح ہو اور وہ اس مال سے فائدہ اٹھائیں۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ اس طریقے سے ان کے مال کی اصلاح ہو اوہ اس مال سے فائدہ اٹھائیں۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ اس طریقے سے یتیموں کے مال کے قریب جانا اور اس میں تصرف کرنا جائز نہیں جس سے یتیموں کو نقصان پہنچتا ہو اور اس طریقے سے بھی ان کے مال کے قریب جانا جائز نہیں جس میں کوئی نقصان تو نہ ہو البتہ اس میں کوئی مصلحت بھی نہ ہو۔ ﴿حَتَّىٰ يَبْلُغَ أَشُدَّهُ ﴾ ” حتی کہ وہ جوانی کو پہنچ جائے۔“ یعنی یہاں تک کہ یتیم بالغ اور سمجھ دار ہوجائے اور اسے مال میں تصرف کرنے کی معرفت حاصل ہوجائے اور جب وہ سمجھ دار اور بالغ ہوجائے تو اس وقت مال اس کے حوالے کیا جائے اور وہ خود اپنی صوابدید کے مطابق اس مال میں تصرف کرے۔ یہ اس امر کی دلیل ہے کہ یتیم بالغ ہونے سے قبل اپنے مال میں تصرف نہیں کرسکتا۔ اس کے سرپرست کو مال میں احسن طریقے سے تصرف کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ مال کے تصرف پر یہ پابندی یتیم کے بالغ ہونے پر ختم ہوجائے گی۔ ﴿وَأَوْفُوا الْكَيْلَ وَالْمِيزَانَ بِالْقِسْطِ ﴾ ” نہایت عدل و انصاف سے ناپ تول کر پورا کرو“ یعنی جب تم انصاف کے ساتھ ناپ تول کو پورا کرنے کی ذمہ داری کو ادا کرنے میں جدوجہد کرو گے تو ﴿ لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ۖ ﴾ ” ہم کسی کو تکلیف نہیں دیتے مگر اس کی طاقت کے مطابق۔“ یعنی ہم اس کی مقدرت کے مطابق اسے مکلف بناتے ہیں اور ایسی چیز کا مکلف نہیں بناتے جو اس کے بس سے باہر ہو، پس جو کوئی ناپ تول کو پورا کرنے کی پوری کوشش کرتا ہے اور اس میں ہرگز کوتاہی نہیں برتتا اور لاعلمی میں کوئی تقصیر باقی رہ جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ بخشنے والا اور نہایت رحم والا ہے۔ اس آیت کریمہ سے علمائے اصول یہ اصول اخذ کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی شخص کو اس کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہیں دیتا۔ پس اسے جو حکم دیا گیا ہے اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے ممکن حد تک اس کی تعمیل کرتا ہے، تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔ ﴿وَإِذَا قُلْتُمْ ﴾ ” جب کوئی بات کہو۔“ یعنی جب تم کوئی بات کہو جو لوگوں کے درمیان کسی فیصلے، کسی خطاب کی تفصیل پر مبنی ہو یا تم احوال و مقالات پر کلام کر رہے ہو ﴿فَاعْدِلُوا ﴾” تو انصاف سے کہو۔‘‘ یعنی صدق، انصاف اور عدم کتمان کو مدنظر رکھتے ہوئے ان لوگوں کے درمیان جن کو تم پسند کرتے ہو یا ناپسند کرتے ہو، عدل سے بات کرو کیونکہ جسے آپ ناپسند کرتے ہیں اس کے بارے میں یا اس کے مقالات کے بارے میں اس کے خلاف حد سے بڑھ کر بات کرنا ظلم ہے جو کہ حرام ہے، بلکہ اگر صاحب علم اہل بدعت کے مقالات و نظریات پر کلام کرتا ہے تو اس پر فرض ہے کہ وہ ہر حق دار کو اس کا حق عطا کرے اور ان مقالات میں جو کچھ حق اور باطل موجود ہے اس کو پوری طرح بیان کرے کہ ان مقالات میں کون سی چیز حق کے قریب اور کون سی چیز حق سے دور ہے۔ فقہاء نے یہاں تک ذکر کیا ہے کہ قاضی پر فرض ہے کہ وہ فریقین کے درمیان اپنے لہجے اور اپنی نظر میں بھی انصاف کرے۔ ﴿وَبِعَهْدِ اللَّـهِ أَوْفُو ۚ ﴾ ” اور اللہ کا عہد پورا کرو“ یہ آیت کریمہ اس عہد کو بھی شامل ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں سے اپنے حقوق پورے کروانے کے بارے میں لیا ہے اور اس عہد کو بھی شامل ہے جو مخلوق کے درمیان واقع ہوتا ہے۔ پس ان تمام معاہدوں کو پورا کرنا فرض اور ان کو توڑنا یا ان میں خلل اندازی کرنا حرام ہے ﴿ذَٰلِكُمْ﴾ مذکورہ تمام احکام میں ﴿وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ ﴾” تم کو حکم کردیا ہے تاکہ تم نصیحت پکڑو“ یعنی وہ تمام احکام جو اس نے تمہارے لئے بیان کئے ہیں اور تم اللہ تعالیٰ کی اس وصیت کو پوری طرح قائم کرو جو اس نے تمہیں کی ہے اور تم ان تمام حکمتوں اور احکام کی معرفت حاصل کرلو جو ان کے اندر ہیں۔ الانعام
153 جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے بڑے بڑے احکام اور اہم شرائع کو واضح کردیا، تو اب ان کی طرف اور ان سے زیادہ عمومیت کی حامل بات کی طرف اشارہ فرمایا : ﴿وَأَنَّ هَـٰذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا﴾ ” اور یہ کہ میرا سیدھا راستہ یہی ہے۔“ یعنی یہ اور اس قسم کے دیگر احکام، جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے اپنی کتاب میں بیان کردیا ہے، اللہ تعالیٰ کا سیدھا راستہ ہے جو معتدل، آسان اور نہایت مختصر ہے اور اللہ تعالیٰ اور اس کے اکرام و تکریم کی منزل تک پہنچاتا ہے ﴿فَاتَّبِعُوهُ﴾” پس اس کی پیروی کرو“ تاکہ تم فوز و فلاح، تمناؤں اور فرحتوں کو حاصل کرسکو۔﴿وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ ﴾ ” اور راستوں پر نہ چلنا۔“ یعنی ان راستوں پر نہ چلو جو اللہ تعالیٰ کے راستے کی مخالفت کرتے ہیں ﴿فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَن سَبِيلِهِ ۚ﴾ ” پس وہ تمہیں اس (اللہ) کے راستے سے جدا کردیں گے۔“ یعنی یہ راستے تمہیں اللہ کے راستے سے بھٹکا دیں گے اور تمہیں دائیں بائیں دوسرے راستوں پر ڈال دیں گے اور جب تم صراط مستقیم سے بھٹک جاؤ گے تو تمہارے سامنے صرف وہ راستے رہ جائیں گے جو جہنم تک پہنچانے والے ہیں۔ ﴿ذَٰلِكُمْ وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ﴾” یہ حکم کردیا ہے تم کو تاکہ تم متقی بن جاؤ“ کیونکہ جب تم علم و عمل کے اعتبار سے ان احکام کی تعمیل کرو گے جن کو اللہ تعالیٰ نے تمہارے سامنے بیان کیا ہے تو تم اللہ تعالیٰ کے متقی اور فلاح یاب بندے بن جاؤ گے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے صراط مستقیم کو واحد ذکر کر کے اپنی طرف مضاف کیا ہے کیونکہ صرف یہی ایک راستہ ہے جو اللہ تعالیٰ تک پہنچتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس راستے پر گامزن لوگوں کی مدد کرتا ہے۔ الانعام
154 ﴿ ثُمَّ ﴾ ” پھر“ اس مقام پر ( ثُمَّ ) سے مراد ترتیب زمانی نہیں ہے کیونکہ موسیٰ علیہ السلام کا زمانہ اس زمانے سے بہت متقدم ہے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تلاوت فرمائی تھی۔ یہاں دراصل ترتیب اخباری مراد ہے۔ ﴿آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ﴾ ” موسیٰ کو کتاب عنایت کی“ پس اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ اس نے حضرت موسیٰ کو کتاب عطا کی۔ اس سے مراد تو رات ہے ﴿تَمَامًا﴾اپنی نعمت اور احسان کو پورا اور مکمل کرنے کے لئے ﴿عَلَى الَّذِي أَحْسَنَ﴾ ” ان پر جو نیکو کار ہیں۔“ یعنی جناب موسیٰ کی امت میں سے ان لوگوں پر اپنی نعمت کو پورا کرنے کے لئے جنہوں نے نیک کام کئے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان میں سے نیکو کاروں کو اتنی نعمتوں سے نوازا ہے جن کو شمار نہیں کیا جاسکتا۔ من جملہ ان کامل نعمتوں کے ان پر تورات کا نازل کرنا ہے پس ان پر اللہ تعالیٰ کی نعمت مکمل ہوگئی اور ان پر ان نعمتوں کا شکر ادا کرنا واجب ٹھہرا۔ ﴿وَتَفْصِيلًا لِّكُلِّ شَيْءٍ﴾ ” اور ہر چیز کی تفصیل کے لئے“ یعنی ہر اس چیز کی تفصیل بیان کرتی ہے۔ جس کے وہ محتاج ہیں، اس کا تعلق حلال و حرام سے ہو، اوامرونواہی سے ہو یا عقائد وغیرہ سے۔ ﴿وَهُدًى ﴾ ” اور ہدایت“ یعنی وہ بھلائی کی طرف ان کی راہنمائی کرتی ہے اور اصول و فروع میں ان کو برائی کی پہچان کرواتی ہے ﴿وَرَحْمَةً﴾ ” اور رحمت“ یعنی اس رحمت کے ذریعے سے انہیں سعادت اور خیر کثیر سے نوازا جاتا ہے ﴿لَّعَلَّهُم﴾” تاکہ وہ لوگ“ یعنی ہمارے ان پر کتاب اور واضح دلائل نازل کرنے کے سبب سے ﴿ بِلِقَاءِ رَبِّهِمْ يُؤْمِنُونَ﴾ ” اپنے رب کی ملاقات پر ایمان لائیں“ کیونکہ یہ کتاب قیامت اور جزائے اعمال کے قطعی دلائل اور ایسے امور پر مشتمل ہے جو ان کے لئے اللہ تعالیٰ کی ملاقات پر ایمان اور اس کے لئے تیار کے موجب ہیں۔ الانعام
155 ﴿ وَهَـٰذَا﴾ ” اور یہ“ یعنی یہ قرآن عظیم اور ذکر حکیم ﴿كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ مُبَارَكٌ ﴾” کتاب ہم نے اتاری ہے برکت والی۔“ یعنی اس کتاب کے اندر خیر کثیر اور بے انتہا علم ہے جس سے تمام علوم مدد لیتے ہیں اور اس سے برکات حاصل کی جاتی ہیں۔ کوئی ایسی بھلائی نہیں جس کی طرف اس کتاب عظیم نے دعوت اور ترغیب نہ دی ہو اور اس بھلائی کی حکمتیں اور مصلحتیں بیان نہ کی ہوں جو اس پر آمادہ کرتی ہیں اور کوئی ایسی برائی نہیں جس سے اس کتاب نے روکا اور ڈرایا نہ ہو اور ان اسباب اور عواقب کا ذکر نہ کیا ہو جو اس برائی کے ارتکاب سے باز رکھتے ہوں۔ ﴿ فَاتَّبِعُوهُ ﴾ ” پس اس کی پیروی کرو“ یعنی اس کے امرونہی میں اس کی اتباع کرو اور اس پر اپنے اصول و فروع بنیاد رکھو ﴿وَاتَّقُوا ﴾ ” اور ڈرو“ یعنی کسی بھی امر میں اللہ کی مخالت کرنے سے ڈرو ﴿لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ﴾ ” تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔“ یعنی اگر تم اس کی اتباع کرو گے تو شاید تم پر رحم کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے حصول کا سب سے بڑا سبب علم و عمل کے اعتبار سے اس کتاب کی پیروی ہے۔ الانعام
156 ﴿أَن تَقُولُوا إِنَّمَا أُنزِلَ الْكِتَابُ عَلَىٰ طَائِفَتَيْنِ مِن قَبْلِنَا﴾” اس واسطے کہ کہیں تم کہنے لگو، کہ کتاب جو اتری تھی، سو ان ہی دو فرقوں پر جو ہم سے پہلے تھے“ یعنی قطع حجت کے لئے ہم نے تم پر یہ مبارک کتاب نازل کی ہے اور تاکہ تم یہ نہ کہو کہ ہم سے پہلے تو دو گروہوں پر کتاب نازل کردی گئی۔ یعنی یہود و نصاریٰ پر﴿وَإِن كُنَّا عَن دِرَاسَتِهِمْ لَغَافِلِينَ﴾ ” اور ہم کو تو ان کے پڑھنے پڑھانے کی خبر ہی نہ تھی۔“ یعنی تم کہو کہ ہم پر کوئی کتاب نہیں اتاری گئی اور یہود و نصاریٰ پر جو کتابیں نازل کی گئیں ان کے بارے میں ہمیں کوئی علم ہے نہ معرفت۔ اس لئے ہم نے تمہاری طرف ایک ایسی کتاب نازل کی جس سے بڑھ کر جامع، واضح اور روشن کوئی اور کتاب آسمان سے نازل نہیں کی گئی۔ الانعام
157 ﴿  أَوْ تَقُولُوا لَوْ أَنَّا أُنزِلَ عَلَيْنَا الْكِتَابُ لَكُنَّا أَهْدَىٰ مِنْهُمْ ۚ﴾ ” یا تم کہو کہ اگر اترتی ہم پر کتاب تو ہم ان سے بہتر راہ پر چلنے والے ہوتے“ یعنی یا تو تم یہ عذر پیش کرو گے کہ تمہارے پاس اصل ہدایت ہی نہیں پہنچی یا تمہارا عذر یہ ہوگا کہ یہ ہدایت کامل نہ تھی۔ پس تمہیں اپنی کتاب کے ساتھ اصل اور کامل ہدایت حاصل ہوگئی۔ بنابریں فرمایا :﴿ فَقَدْ جَاءَكُم بَيِّنَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ﴾” پس تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے دلیل آگئی۔“ یہ اسم جنس ہے اور اس میں ہر وہ چیز داخل ہے جو حق کو بیان کرے ﴿وَهُدًى﴾” اور ہدایت“ گمراہی کے اندھیروں میں راہ ہدایت ہے﴿وَرَحْمَةٌ ۚ﴾ ” اور رحمت“ یعنی دین و دنیا میں تمہارے لئے سعادت ہے۔ پس یہ چیز تم پر واجب کرتی ہے کہ تم اس کے احکام کی تعمیل کرو اور اس کی خبروں پر ایمان لاؤ اور جس کسی نے اس کی پروا نہ کی اور اس کو جھٹلایا، وہ سب سے بڑا ظالم ہے۔ بنابریں فرمایا : ﴿فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن كَذَّبَ بِآيَاتِ اللَّـهِ وَصَدَفَ عَنْهَا﴾” اب اس سے زیادہ ظالم کون ہے جو اللہ کی آیتوں کو جھٹلائے اور ان سے کترائے؟“ یعنی اس نے روگردانی کی اور پہلو بچا کر نکل گیا ﴿سَنَجْزِي الَّذِينَ يَصْدِفُونَ عَنْ آيَاتِنَا سُوءَ الْعَذَابِ﴾ ” ہم سزا دیں گے ان کو جو ہماری آیتوں سے کتراتے ہیں، برے عذاب کی“ یعنی وہ ایسا عذاب ہوگا کہ وہ اس میں مبتلا شخص کو سخت تکلیف دے گا، اس پر بہت شاق گزرے گا ﴿ بِمَا كَانُوا يَصْدِفُونَ ﴾” اس کترانے کے بدلے میں“ وہ خود اپنے آپ کو اور دوسروں کو ہماری آیتوں سے پھیرتے تھے، یہ ان کے اعمال بدکا بدلہ ہے ﴿وَمَا رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِيدِ ﴾ (حم السجدہ :41؍46) ” اور آپ کا رب بندوں پر ظلم نہیں کرتا۔ “ یہ آیات کریمہ دلالت کرتی ہیں کہ قرآن کا علم، جلیل ترین، انتہائی بابرکت اور تمام علوم سے زیادہ وسیع علم ہے۔ اسی کے ذریعے سے صراط مستقیم کی طرف کامل راہنمائی حاصل ہوتی ہے۔ اس کے ہوتے ہوئے انسان اولین و آخرین میں سے متکلمین کے قیاسات اور اندازوں اور فلسفیوں کے افکار و نظریات کا محتاج نہیں رہتا۔ عام طور پر معروف ہے کہ کتاب یہود و نصاریٰ کے سوا کسی پر نہیں اتری اور علی الاطلاق وہی اہل کتاب ہیں۔ دیگر تمام گروہ، مجوس وغیرہ اہل کتاب کے زمرے میں نہیں آتے۔ ان آیات مبارکہ سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ نزول قرآن سے قبل جاہلی عرب، ان اہل کتاب کے علم سے بے بہرہ تھے جن کے پاس علم تھا اور ان کی کتب کے پڑھنے پڑھانے سے غافل تھے۔ الانعام
158 اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ کیا یہ لوگ جو اپنے ظلم و عناد پر جمے ہوئے ہیں، اس بات کا انتظار کر رہے ہیں ﴿ إِلَّا أَن تَأْتِيَهُمُ الْمَلَائِكَةُ ﴾ ”کہ ان کے پاس فرشتے آئیں۔“ یعنی آخرت اور عذاب کے مقدمات کی صورت میں ان کے سامنے فرشتے ان کی روح قبض کرنے کے لئے آحا ضر ہوں۔ کیونکہ جب وہ اس حالت کو پہنچ جائیں گے تو اس وقت ایمان اور اعمال صالحہ ان کو کوئی فائدہ نہ دیں گے۔﴿أَوْ يَأْتِيَ رَبُّكَ﴾ ” یا خود تمہارا رب آئے۔“ یعنی تمہارا رب بندوں کے درمیان فیصلہ کرنے، نیکو کاروں اور بدکاروں کو ان کے اعمال کی جزا و سزا دینے کے لئے آجائے ﴿أَوْ يَأْتِيَ بَعْضُ آيَاتِ رَبِّكَ﴾ ” یا تمہارے رب کی کچھ نشانیاں آجائیں“ جو قرب قیامت پر دلالت کرتی ہوں ﴿ يَوْمَ يَأْتِي بَعْضُ آيَاتِ رَبِّكَ ﴾ ” جس دن تمہارے رب کی کچھ نشانیاں آجائیں گی“ یعنی خارق عادت معجزات جن سے یہ معلوم ہو کہ قیامت کی گھڑی قریب آن لگی ہے اور بہت قریب پہنچ گئی ہے ﴿ لَا يَنفَعُ نَفْسًا إِيمَانُهَا لَمْ تَكُنْ آمَنَتْ مِن قَبْلُ أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمَانِهَا خَيْرًا﴾ ” تو جو شخص پہلے ایمان نہیں لایا ہوگا اس وقت اسے ایمان لانا کچھ فائدہ نہیں دے گا یا اپنے ایمان (کی حالت) میں نیک عمل نہیں کئے ہوں گے۔“ یعنی جب اللہ تعالیٰ کی بعض نشانیاں آموجود ہوں گی، تو اس کے بعد کافر کا ایمان اسے کوئی فائدہ دے گا نہ کوتاہی کے شکار مومن کے اعمال میں اضافہ اس کے کسی کام آئے گا بلکہ صرف وہی ایمان کی پونجی اس کے کام آئے گی جو تھوڑی بہت اس کے دامن میں ہوگی اور صرف وہی نیک اعمال اس کو فائدہ دیں گے جو اللہ تعالیٰ کی نشانیاں آجانے سے قبل اس نے کئے ہوں گے۔ اس میں ظاہری حکمت یہ ہے کہ ایمان صرف وہی فائدہ دیتا ہے جو بالغیب ہو اور بندہ اپنے اختیار اور ارادے سے ایمان لایا ہو۔ لیکن جب اللہ کی نشانیاں آجائیں اور معاملہ غیب سے شہادت میں منتقل ہوجائے، تو ایمان لانے میں کوئی فائدہ نہیں رہتا۔ کیونکہ یہ جبری ایمان کے مشابہ ہے مثلاً ڈوبتے ہوئے یا جلتے شخص وغیرہ کا ایمان لانا، یعنی وہ شخص جب موت کا چہرہ دیکھ لیتا ہے، تو اپنی بد اعمالیوں کو ختم کردیتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿فَلَمَّا رَأَوْا بَأْسَنَا قَالُوا آمَنَّا بِاللَّـهِ وَحْدَهُ وَكَفَرْنَا بِمَا كُنَّا بِهِ مُشْرِكِينَ فَلَمْ يَكُ يَنفَعُهُمْ إِيمَانُهُمْ لَمَّا رَأَوْا بَأْسَنَا ۖ سُنَّتَ اللَّـهِ الَّتِي قَدْ خَلَتْ فِي عِبَادِهِ﴾ (المؤمن:40؍84، 85) ” پس جب انہوں نے ہمارا عذاب دیکھ لیا تو پکار اٹھے کہ ہم اللہ واحد پر ایمان لائے اور ہم نے ان کا انکار کیا جن کو ہم اللہ کا شریک بنایا کرتے تھے۔ مگر جب انہوں نے ہمارا عذاب دیکھ لیا تو ان کے ایمان نے انہیں کوئی فائدہ نہ دیا۔ یہ سنت الٰہی ہے جو اس کے بندوں کے بارے میں چلی آرہی ہے۔ “ بہت سی صحیح احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ یہاں ” اللہ تعالیٰ کی بعض نشانیوں“ سے مراد ہے سورج کا مغرب سے طلوع ہونا، لوگ جب سورج کو مغرب سے طلوع ہوتا دیکھیں گے تو جھٹ ایمان لے آئیں گے مگر ان کا ایمان ان کو کوئی فائدہ نہ دے گا اور اس وقت توبہ کا دروازہ بند کردیا جائے گا۔ [صحيح بخاري، كتاب الرقاق، باب، حديث: 6506] چونکہ یہ آیت کریمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھٹلانے والوں کے لئے وعید ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان نشانیوں کے ظہور کے منتظر ہیں اور کفار بھی منتظر ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿قُلِ انتَظِرُوا إِنَّا مُنتَظِرُونَ ﴾ ” کہہ دیجیے، تم انتظار کرو، ہم بھی انتظار کر رہے ہیں“ پس عنقریب تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ ہم میں سے کون امن کا مستحق ہے۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ کے افعال اختیاری کا اثبات ہے مثلاً استواء علی العرش، آسمان دنیا پر نازل ہونا اور اس کا آنا، مخلوق کی صفات کے ساتھ کسی تشبیہ کے بغیر اور اس اعتبار سے یہ اہل سنت و الجماعت کے مذہب کی دلیل ہے اور اس موضوع پر کتاب و سنت میں بہت سا مواد موجود ہے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ قیامت کی جملہ نشانیوں میں سے ایک نشانی سورج کا مغرب سے طلوع ہونا ہے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ حکمت والا ہے کائنات میں اس کی یہ سنت و عادت جاری و ساری ہے کہ ایمان صرف اسی وقت فائدہ دیتا ہے جبکہ وہ اختیاری ہو اضطراری نہ ہو۔ جیسا کہ گزشتہ سطور میں گزر چکا ہے۔ نیز یہ کہ انسان کا اکتساب خیر ایمان ہی کے ساتھ فائدہ مند ہے نیکی، تقویٰ وغیرہ اسی وقت فائدہ دیتے ہیں اور نشو و نما پاتے ہیں جب بندے کے دامن میں سرمایہ ایمان بھی ہو۔ جب قلب ایمان سے خالی ہو تو بندے کو کوئی چیز فائدہ نہیں دیتی۔ الانعام
159 اللہ تبارک و تعالیٰ ان لوگوں کو وعید سناتا ہے جنہوں نے اپنے دین میں تفرقہ پیدا کیا اور دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے فرقوں میں بٹ گئے اور ہر ایک نے اپنا ایک نام رکھ لیا جو انسان کے لئے اس کے دین میں کوئی کام نہیں آتا جیسے یہودیت، نصرانیت اور مجوسیت وغیرہ یا اس سے انسان کے ایمان کی تکمیل نہیں ہوتی، جیسے وہ شریعت میں سے کسی ایک چیز کو اخذ کر کے اس کو دین بنا لے اور اس جیسے یا اس سے کسی افضل چیز کو چھوڑ دے جیسا کہ اہل بدعت اور ان گمراہ فرقوں کا حال ہے جنہوں نے امت سے الگ راستہ اختیار کرلیا ہے۔ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ دین اجتماعیت اور اکٹھے رہنے کا حکم دیتا ہے اور تفرقہ بازی اور اہل دین میں اور تمام اصولی و فروعی مسائل میں اختلاف پیدا کرنے سے روکتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا آپ ان لوگوں سے برأت کا اظہار کریں جنہوں نے اپنے دین میں تفرقہ پیدا کیا۔ ﴿ لَّسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ﴾” ان سے آپ کو کچھ کام نہیں۔“ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان میں سے ہیں نہ وہ آپ میں سے۔ کیونکہ انہوں نے آپ کی مخالفت کی اور آپ سے عناد رکھا۔ ﴿ إِنَّمَا أَمْرُهُمْ إِلَى اللَّـهِ ﴾ ” ان کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے۔“ یعنی ان کو اللہ کی طرف لوٹایا جائے گا، وہ ان کو ان کے اعمال کی جزا دے گا ﴿ثُمَّ يُنَبِّئُهُم بِمَا كَانُوا يَفْعَلُونَ﴾ ” پھر وہ (اللہ) ان کو ان کے افعال سے آگاہ کرے گا۔“ پھر اللہ تعالیٰ نے جزا کا وصف بیان کرتے ہوئے فرمایا : الانعام
160 ﴿مَن جَاءَ بِالْحَسَنَةِ ﴾ ” جو کوئی نیکی لے کر آئے گا۔“ یعنی جو کوئی حقوق اللہ اور حقوق العباد سے متعلق قولی، فعلی، ظاہری اور باطنی نیکی لے کر اللہ تعالیٰ کے پاس حاضر ہوتا ہے ﴿ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا ۖ﴾ ” تو اس کے لئے اس کا دس گنا ہے‘‘ نیکیوں کو کئی گنا کرنے کے ضمن میں یہ کم ترین جزا ہے ﴿وَمَن جَاءَ بِالسَّيِّئَةِ فَلَا يُجْزَىٰ إِلَّا مِثْلَهَا﴾ ” اور جو کوئی لاتا ہے ایک برائی، سو سزا پائے گا اسی کے برابر“ یہ اللہ تعالیٰ کا کا مل عدل و احسان ہے اور وہ ذرہ بھر ظلم نہیں کرتا۔ بنا بریں فرمایا ﴿ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ﴾ ” ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔ “ الانعام
161 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے کہ وہ جس راہ ہدایت اور صراط مستقیم پر گامزن ہیں اس کے بارے میں اعلان کردیں یعنی معتدل دین کا جو عقائد نافعہ، اعمال صالحہ، ہر اچھی بات کے حکم اور ہر بری بات سے ممانعت کو متضمن ہے۔ یہ وہ دین ہے جس پر تمام انبیاء و مرسلین عمل پیرا رہے، جو خاص طور پر امام الحنفاء، بعد میں بمعوث ہونے والے تمام انبیاء و مرسلین کے باپ اور اللہ رحمٰن کے خلیل ابراہیم کا دین تھا۔ یہی وہ دین حنیف ہے جو تمام اہل انحراف مثلاً یہود و نصاریٰ اور مشرکین کے ادیان باطلہ سے روگردانی کو متضمن ہے۔ یہ عمومی ذکر ہے پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے افضل ترین عبادت کا خاص طور پر ذکر کرتے ہوئے فرمایا : الانعام
162 ﴿ قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي﴾ ” کہہ دیجیے کہ میری نماز اور میری قربانی“ ان دو عبادات کا ذکر ان کے فضل و شرف اور اس بنا پر کیا ہے کہ یہ دونوں عبادات اللہ تعالیٰ سے محبت، دین کو اس کے لئے خالص کرنے، قلب و لسان، جوارح اور قربانی کے ذریعے سے اس کے تقرب کے حصول پر دلالت کرتی ہیں اور قربانی سے مراد ہے کہ مال وغیرہ کو جو نفس کو محبوب ہے، اس ہستی کے لئے خرچ کرنا جو اس کو سب سے زیادہ محبوب ہے۔ یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ جس نے اپنی نماز اور قربانی کو اللہ تعالیٰ کے لئے خالص کرلیا تو یہ اس بات کو مستلزم ہے کہ اس نے اپنے تمام اعمال و اقوال کو اللہ تعالیٰ کے لئے خالص کرلیا۔ ﴿ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي ﴾ ” اور میرا جینا اور میرا مرنا۔“ یعنی میں جو کچھ اپنی زندگی میں کرتا ہوں‘‘ اللہ تعالیٰ جو کچھ میرے ساتھ کرتا ہے اور زمانہ موت میں اللہ تعالیٰ میرے لئے جو کچھ مقدر کرے گا ﴿ لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ  لَا شَرِيكَ لَهُ﴾ ” سب اللہ رب العالمین کے لئے ہے۔ عبادت میں اس کا کوئی شریک ہے نہ اقتدار اور تدبیر میں۔“ اللہ تبارک و تعالیٰ کے لئے یہ اخلاص کوئی نئی اور انوکھی چیز نہیں جو میں نے خود گھڑ لی ہو، الانعام
163 بلکہ﴿وَبِذَٰلِكَ أُمِرْتُ ﴾” اور مجھے اسی (اخلاص) کا حکم دیا گیا ہے۔“ یعنی حتمی حکم اور اس حکم کی تعمیل کئے بغیر میں اس کی ذمہ داری سے عہدہ برآ نہیں ہوسکتا﴿وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ﴾” اور میں سب سے اول فرماں بردار ہوں۔“ یعنی اس امت میں، پہلا مسلمان ہوں۔ الانعام
164 ﴿قُلْ أَغَيْرَ اللَّـهِ ﴾ ” کہہ دیجیے“ کیا اب میں اللہ کے سوا“ یعنی مخلوق میں سے ﴿ أَبْغِي رَبًّا﴾ ” تلاش کروں کوئی رب؟“ کیا یہ میرے لئے اچھا اور میرے لائق ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو اپنا رب اور مدبر بنا لوں؟ حالانکہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا رب ہے اور تمام مخلوق اس کی ربوبیت کے تحت داخل اور اس کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کئے ہوئے ہے۔ پس مجھ پر اور دیگر لوگوں پر یہ بات واجب ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو اپنا رب تسلیم کریں اور اس پر راضی رہیں۔ محتاج، عاجز اور مربوب مخلوق میں سے کسی رب نہ بنائیں۔ پھر اللہ تعالیٰ جزا اور سزا کی ترغیب و ترہیب کے لئے فرماتا ہے﴿ وَلَا تَكْسِبُ كُلُّ نَفْسٍ﴾ ” اور جو کوئی کماتا ہے“ یعنی ہر شخص خیر و شر کا جو ارتکاب کرتا ہے ﴿إِلَّا عَلَيْهَا ۚ﴾ ” اس کی جزا و سزا صرف اسی کے لئے ہے۔“ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :﴿مَّنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهِ ۖ وَمَنْ أَسَاءَ فَعَلَيْهَا ۗ وَمَا رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِيدِ﴾ (حم السجدہ :41؍46) ” جو کوئی نیک کام کرتا ہے اس کی جزا اسی کے لئے ہے اور جو برا کام کرتا ہے اس کا وبال اسی پر ہے۔ “ ﴿ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ ۚ﴾” کوئی کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا“ بلکہ ہر شخص اپنا بوجھ خود اٹھائے گا۔ اگر کوئی شخص کسی دوسرے شخص کی گمراہی اور اس کے گناہ کا سبب بنا تو اسے سبب بننے کے گناہ کا بوجھ اٹھانا ہوگا اور گناہ کا ارتکاب کرنے والے کے گناہ میں کوئی کمی نہ ہوگی۔ ﴿ثُمَّ إِلَىٰ رَبِّكُم مَّرْجِعُكُمْ﴾” پھر تمہارے رب کے پاس ہی سب کو لوٹ کر جانا ہے“ یعنی قیامت کے روز ﴿فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ ﴾ ” تو جن جن باتوں میں تم اختلاف کیا کرتے تھے وہ تم کو بتائے گا۔‘‘ یعنی خیر و شر میں جو تم اختلاف کرتے ہو، اس کے بارے میں تمہیں آگاہ کرے گا اور تمہیں اس کی پوری پوری جزا دے گا۔ الانعام
165 ﴿ وَهُوَ الَّذِي جَعَلَكُمْ خَلَائِفَ الْأَرْضِ﴾ ” اور وہی تو ہے جس نے زمین میں تم کو اپنا نائب بنایا۔“ یعنی تم ایک دوسرے کے جانشین بنتے ہو۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے تمہیں زمین میں جانشین بنایا اور زمین کی تمام موجودات کو تمہارے لئے مسخر کر کے تمہیں آزمایا تاکہ وہ دیکھے کہ تم کیسے عمل کرتے ہو۔ ﴿وَرَفَعَ بَعْضَكُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ﴾ ” اور بلند کیا اس نے تمہیں درجوں میں ایک کو ایک پر“ یعنی قوت، عافیت، رزق خلقت اور خلق میں ایک دوسرے پر فوقیت عطا کی ﴿لِّيَبْلُوَكُمْ فِي مَا آتَاكُمْ ۗ﴾” تاکہ تمہیں آزمائے وہ ان چیزوں میں جو اس نے تمہیں دیں۔“ پس تمہارے اعمال ایک دوسرے سے متفاوت ہیں ﴿إِنَّ رَبَّكَ سَرِيعُ الْعِقَابِ﴾ ” تمہارا رب ان لوگوں کو بہت جلد سزا دینے والا ہے۔“ ان کو جو اس کی نافرمانی اور اس کی آیات کی تکذیب کرتے ہیں ﴿وَإِنَّهُ لَغَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴾ ” اور بیشک وہ بخشنے والا مہربان ہے۔“ ان لوگوں کے لئے جو اس پر ایمان لاتے ہیں، نیک عمل کرتے ہیں اور مہلک گناہوں سے توبہ کرتے ہیں۔ الانعام
0 الاعراف
1 الاعراف
2 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے رسول محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن کی عظمت بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے : ﴿كِتَابٌ أُنزِلَ إِلَيْكَ ﴾ ” یہ کتاب اتاری گئی ہے آپ پر، یعنی یہ نہایت جلیل القدر کتاب جو ان امور پر مشتمل ہے جن کے بندے محتاج ہیں اور اس میں تمام مطالب الٰہیہ اور مقاصد شرعیہ محکم اور مفصل طور پر موجود ہیں ﴿ فَلَا يَكُن فِي صَدْرِكَ حَرَجٌ مِّنْهُ﴾ ” پس آپ کا سینہ اس (کے پہنچانے) سے تنگ نہ ہو“ یعنی آپ کے دل میں کوئی تنگی اور شک و شبہ نہ ہو۔ تاکہ آپ جان لیں کہ یہ حکمت والی اور قابل تعریف ہستی کی طرف سے نازل کردہ کتاب ہے اور سب سے سچا کلام ہے۔ ﴿ لَّا يَأْتِيهِ الْبَاطِلُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهِ﴾ (حم السجدہ :41؍42) ” باطل اس کے آگے سے آسکتا ہے نہ پیچھے سے“۔ اس لئے آپ کے سینے کو کشادہ اور آپ کے دل کو مطمئن ہونا چاہئے۔ پس آپ اللہ تعالیٰ کے اوامرونواہی کو کھول کر بیان کیجیے اور کسی کی ملامت اور مخالفت سے نہ ڈریئے۔ ﴿لِتُنذِرَ ﴾ ” تاکہ آپ اس کے ذریعے سے (لوگوں کو) ڈرائیں۔“ اس کتاب کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو ڈرائیے اور ان کو وعظ و نصیحت کیجیے۔ پس اس طرح معاندین حق پر حجت قائم ہوجائے گی۔ ﴿وَذِكْرَىٰ لِلْمُؤْمِنِينَ ﴾ ” اور اہل ایمان کے لئے یاد دہانی ہوگی۔“ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿وَذَكِّرْ فَإِنَّ الذِّكْرَىٰ تَنفَعُ الْمُؤْمِنِينَ﴾ (الذاریات :51؍55) ” نصیحت کیجیے کیونکہ نصیحت مومنوں کو فائدہ دیتی ہے۔“ اہل ایمان کو اس کے ذریعے سے صراط مستقیم، ظاہری اور باطنی اعمال کی یاد دہانی ہوگی اور ان امور کے بارے میں بھی یاد دہانی ہوگی جو بندے اور اس کے سلوک کے درمیان حائل ہوجاتے ہیں۔ الاعراف
3 پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے بندوں کو اپنی کتاب کی طرف متوجہ کرتے ہوئے فرمایا : ﴿تَّبِعُوا مَا أُنزِلَ إِلَيْكُم ﴾ ” پیروی کرو اس چیز کی جو اتاری گئی تمہاری طرف“ یعنی اس کتاب کی جو میں تمہاری خاطر نازل کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں ﴿ مِّن رَّبِّكُمْ﴾ ” تمہارے رب کی طرف سے“ جو تمہاری تربیت کی تکمیل چاہتا ہے اس مقصد کے لئے اس نے تم پر یہ کتاب نازل کی، اگر تم اس کتاب کی پیروی کرو گے تو تمہاری تربیت مکمل ہوجائے گی، تم پر اللہ تعالیٰ کی نعمت پوری ہوجائے گی اور تمہیں بہترین اور بلند ترین اعمال کی طرف راہنمائی نصیب ہوگی۔ ﴿وَلَا تَتَّبِعُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ﴾ ” اور اس کے سوا اور رفیقوں کی پیروی نہ کرو۔“ یعنی تم اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کو دوست نہ بناؤ، جن کی خواہشات کی تم پیروی کرو اور ان کی خاطر تم حق کو چھوڑ دو ﴿ قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُونَ ﴾ ” تم بہت کم نصیحت حاصل کرتے ہو“ اگر تم نصیحت حاصل کرلیتے اور مصلحت کو پہچان لیتے تو تم ضرر رساں چیز کو نفع بخش چیز پر اور دشمن کو دوست پر کبھی ترجیح نہ دیتے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو ان سزاؤں سے ڈرایا ہے جو اس نے ان قوموں کو دیں جنہوں نے اپنے رسولوں اور ان کی دعوت کو جھٹلایا۔ پس وہ ان کی مشابہت اختیار نہ کریں۔ الاعراف
4 ﴿ وَكَم مِّن قَرْيَةٍ أَهْلَكْنَاهَا فَجَاءَهَا بَأْسُنَا﴾ ” اور کتنی ہی بستیاں ہم نے ہلاک کردیں، پس آیا ان کے پاس ہمارا عذاب“ یعنی ہمارا سخت عذاب ان پر نازل ہوا ﴿بَيَاتًا أَوْ هُمْ قَائِلُونَ﴾” راتوں رات یا دوپہر کو سوتے ہوئے“ یعنی ہمارا عذاب ان کی غفلت کی حالت میں نازل ہوا۔ جبکہ وہ خواب غفلت کے مزے لے رہے تھے اور ہلاکت کا ان کے دل میں کبھی خیال بھی نہ آیا ہوگا۔ جب ان پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہوا تو وہ اپنے آپ کو عذاب سے نہ بچا سکے اور ان کے وہ معبود بھی ان کے کوئی کام نہ آسکے جن سے انہیں بڑی امیدیں تھیں اور وہ جن گناہوں اور ظلم کا ارتکاب کیا کرتے تھے، انہوں نے ان پر نکیر بھی نہیں کی۔ الاعراف
5 ﴿ فَمَا كَانَ دَعْوَاهُمْ إِذْ جَاءَهُم بَأْسُنَا إِلَّا أَن قَالُوا إِنَّا كُنَّا ظَالِمِينَ ﴾ ” جب ان کو ہمارے عذاب نے آلیا تو ان کی پکار اس کے سوا کچھ نہ تھی کہ بے شک ہم ظالم تھے۔“ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ﴿ وَكَمْ قَصَمْنَا مِن قَرْيَةٍ كَانَتْ ظَالِمَةً وَأَنشَأْنَا بَعْدَهَا قَوْمًا آخَرِينَ ﴿١١﴾ فَلَمَّا أَحَسُّوا بَأْسَنَا إِذَا هُم مِّنْهَا يَرْكُضُونَ ﴿١٢﴾ لَا تَرْكُضُوا وَارْجِعُوا إِلَىٰ مَا أُتْرِفْتُمْ فِيهِ وَمَسَاكِنِكُمْ لَعَلَّكُمْ تُسْأَلُونَ ﴿١٣﴾ قَالُوا يَا وَيْلَنَا إِنَّا كُنَّا ظَالِمِينَ  فَمَا زَالَت تِّلْكَ دَعْوَاهُمْ حَتَّىٰ جَعَلْنَاهُمْ حَصِيدًا خَامِدِينَ﴾ ” کتنی ہی بستیاں ہیں جن کو ہم نے ہلاک کر ڈالا جو ظالم تھیں اور ان کے بعد دوسرے لوگوں کو پیدا کیا۔ پس انہوں نے ہمارے عذاب کو دیکھا تو لگے اس سے بھاگنے۔ اب نہ بھاگو۔ ان نعمتوں کی طرف لوٹو جن کے تم مزے لوٹا کرتے تھے اور اپنے گھروں کی طرف لوٹ جاؤ۔ شاید تم سے پوچھا جائے، کہنے لگے ہائے ہماری ہلاکت ! بے شک ہم ہی ظالم تھے۔ وہ اس طرح پکارتے رہے اور ہم نے انہیں کھیتی کی طرح کاٹ کر ڈھیر کردیا۔ “ الاعراف
6 ﴿فَلَنَسْأَلَنَّ الَّذِينَ أُرْسِلَ إِلَيْهِمْ ﴾ ” ہم ان قوموں سے ضرور پوچھیں گے جن کی طرف ہم نے انبیا و مرسلین کو مبعوث کیا تھا“ کہ انہوں نے اپنے رسولوں کو کیا جواب دیا تھا۔﴿وَيَوْمَ يُنَادِيهِمْ فَيَقُولُ مَاذَا أَجَبْتُمُ الْمُرْسَلِينَ﴾ (القصص :28؍65) ” اور جس روز وہ (اللہ) انہیں پکار کر کہے گا کہ تم نے رسولوں کو کیا جواب دیا تھا؟“ ﴿وَلَنَسْأَلَنَّ الْمُرْسَلِينَ﴾” اور ہم رسولوں سے بھی پوچھیں گے۔“ یعنی ہم رسولوں سے ان کے رب کے پیغام کو پہنچانے کے بارے میں ضرور پوچھیں گے اور یہ بھی ضروری پوچھیں گے کہ ان کی امتوں نے کیا جواب دیا۔ الاعراف
7 ﴿فَلَنَقُصَّنَّ عَلَيْهِم﴾ ” پھر ہم ان کے حالات بیان کریں گے۔“ یعنی ہم تمام مخلوق کو بتائیں گے کہ وہ کیا عمل کرتے رہے تھے ﴿بِعِلْمٍ﴾” اپنے علم سے“ یعنی اللہ تعالیٰ اپنے علم سے ان کو ان کے اعمال کے بارے میں بتائے گا﴿ وَمَا كُنَّا غَائِبِينَ﴾” ہم کسی بھی وقت غیر موجود نہ تھے۔“ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ أَحْصَاهُ اللَّـهُ وَنَسُوهُ﴾ (المجادلہ: 58؍6) ” اللہ نے ان کے تمام اعمال کو محفوظ رکھا ہے اور وہ بھول گئے ہیں۔“ اور فرمایا ﴿وَلَقَدْ خَلَقْنَا فَوْقَكُمْ سَبْعَ طَرَائِقَ وَمَا كُنَّا عَنِ الْخَلْقِ غَافِلِينَ﴾ (المومنون :23؍17) ” ہم نے تمہارے اوپر سات آسمان پیدا کئے اور ہم خلقت سے غافل نہیں ہیں۔ “ الاعراف
8 پھر اعمال کی جزا بیان فرمائی۔ یعنی قیامت کے روز اعمال کا زن عدل و انصاف کیساتھ کیا جائے گا۔ کسی بھی لحاظ سے کسی پر کوئی ظلم نہ ہوگا ﴿فَمَن ثَقُلَتْ مَوَازِينُهُ ﴾ ” تو جن لوگوں کے وزن بھاری ہوں گے۔“ یعنی جن کی نیکیوں کا پلڑا برائیوں کے پلڑے سے بھاری ہوگا﴿فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ﴾ ” تو وہی نجات پانے والے ہوں گے۔“ یہی لوگ ہیں جو ناپسندیدہ امور سے نجات حاصل کریں گے اور اپنے محبوب امور کو پالیں گے جن کو بہت بڑا نفع اور دائمی سعادت حاصل ہوگی۔ الاعراف
9 ﴿وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِينُهُ﴾ ” اور جن کے وزن ہلکے ہوں گے“ یعنی جن کی برائیوں کا پلڑا بھاری ہوا، ان کا معاملہ اس کے مطابق ہوگا ﴿فَأُولَـٰئِكَ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنفُسَهُم ﴾” پس یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنا نقصان کیا“ کیونکہ وہ ہمیشہ رہنے والی نعمتوں سے محروم ہو کر درد ناک عذاب میں مبتلا ہوں گے ﴿بِمَا كَانُوا بِآيَاتِنَا يَظْلِمُونَ﴾ ” اس واسطے کہ ہماری آیتوں کے بارے میں بے انصافی کرتے تھے“ یعنی ان آیات کریمہ کی اطاعت جس طرح کرنا ان پر واجب تھی انہوں نے نہیں کی۔ الاعراف
10 اللہ تبارک و تعالیٰ معاش و مسکن کا ذکر کرتے ہوئے اپنے بندوں پر احسان جتلاتا ہے﴿وَلَقَدْ مَكَّنَّاكُمْ فِي الْأَرْضِ﴾ ” اور ہم نے تمہیں زمین میں ٹھکانا مہیا کیا“ جس سے تم زمین میں گھر بناتے ہو، کھیتی باڑی کرتے ہو اور بعض دیگر وجوہ سے اس سے استفادہ کرتے ہو ﴿وَجَعَلْنَا لَكُمْ فِيهَا مَعَايِشَ﴾ ” اور مقرر کردیں ہم نے اس میں تمہارے لئے روزیاں“ تمام معاش کا دار و مدار ان چیزوں پر ہے جو درختوں، نباتات، معدنیات، مختلف قسم کی صنعتوں اور تجارت سے ہوتی ہیں۔ وہی ہے جس نے تمہیں یہ تمام چیزیں مہیا کیں اور مختلف اسباب کو تمہارے لئے مسخر کیا ﴿قَلِيلًا مَّا تَشْكُرُونَ ﴾ ”(مگر) تم کم ہی شکر کرتے ہو۔“ یعنی تم اللہ تعالیٰ کا بہت ہی کم شکر ادا کرتے ہو، جس نے انواع و اقسام کی نعمتوں سے تمہیں نوازا اور مختلف مصائب کو تم سے دور کیا۔ الاعراف
11 اللہ تبارک و تعالیٰ بنی آدم سے مخاطب ہو کر فرماتا ہے : ﴿ وَلَقَدْ خَلَقْنَاكُمْ﴾ ” اور ہم نے تمہیں پیدا کیا“ یعنی تمہارے جد امجد آدم کی اصل اور اس کے مادے کی تخلیق کی، جس سے تم سب پیدا کئے گئے ﴿ثُمَّ صَوَّرْنَاكُمْ﴾” پھر تمہاری صورت شکل بنائی۔“ پھر ہم نے تمہیں بہترین صورت اور بہترین قامت عطا کی۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے آدم کو تمام چیزوں کے نام سکھائے جس سے اس کی باطنی صورت کی تکمیل ہوئی، پھر باعزت فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ آدم کے اکرام و احترام اور اس کی فضیلت کے اعتراف کے طور پر اسے سجدہ کریں۔ چنانچہ انہوں نے اپنے رب کے حکم کی تعمیل کی ﴿فَسَجَدُوا﴾” پس انہوں نے سجدہ کیا۔“ یعنی تمام فرشتوں نے سجدہ کیا ﴿إِلَّا إِبْلِيسَ ﴾ مگر ابلیس نے تکبر اور خودپسندی کی بنا پر سجدہ کرنے سے انکار کردیا۔ الاعراف
12 اللہ تعالیٰ نے ابلیس کو زجر و توبیخ کرتے ہوئے فرمایا : ﴿مَا مَنَعَكَ أَلَّا تَسْجُدَ﴾ ” تجھ کو کیا مانع تھا کہ تو نے سجدہ نہ کیا“ جس کو میں نے اپنے ہاتھ سے تخلیق کیا، میں نے اسے وہ شرف اور فضیلت عطا کی جو کسی اور کو عطا نہیں کی، تو نے میرے حکم کی نافرمانی کر کے میری اہانت اور تحقیر کا ارتکاب کیا ﴿قَالَ﴾ ابلیس نے اپنے رب کی مخالفت کرتے ہوئے کہا : ﴿ أَنَا خَيْرٌ مِّنْهُ ﴾ ” میں اس سے بہتر ہوں“ پھر اس نے اپنے اس باطل دعوے کی دلیل دیتے ہوئے کہا : ﴿خَلَقْتَنِي مِن نَّارٍ وَخَلَقْتَهُ مِن طِينٍ ﴾ ” تو نے مجھے آگ سے اور اس کو مٹی سے پیدا کیا ہے“ اور یہ چیز اس بات کی موجب ہے کہ وہ مخلوق جو آگ سے پیدا کی گئی ہے اس مخلوق سے افضل ہے، جس کی تخلیق مٹی سے ہے۔ کیونکہ آگ مٹی پر غالب ہے اور اوپر اٹھ سکتی ہے۔ شیطان کا یہ قیاس فاسد ترین قیاس ہے کیونکہ یہ متعدد وجوہ سے باطل ہے۔ (١) یہ قیاس اللہ تعالیٰ کے اس حکم کے مقابلے میں ہے کہ آدم کو سجدہ کیا جائے اور جب قیاس نص سے معارض ہو تو وہ باطل ہے۔ کیونکہ قیاس کا تو مقصد ہی یہ ہے کہ جس معاملے میں نص موجود نہ ہو اس کا حکم منصوص علیہ امور کے احکام کے بالکل قریب اور ان کے تابع ہو۔ رہا وہ قیاس جو منصوص علیہ احکام کے معارض ہو اور اس کو معتبر قرار دینے سے نصوص کا لغو ہونا لازم آتا ہو تو یہ قیاس بدترین قیاس ہے۔ (١) یہ قیاس اللہ تعالیٰ کے اس حکم کے مقابلے میں ہے کہ آدم کو سجدہ کیا جائے اور جب قیاس نص سے معارض ہو تو وہ باطل ہے۔ کیونکہ قیاس کا تو مقصد ہی یہ ہے کہ جس معاملے میں نص موجود نہ ہو اس کا حکم منصوص علیہ امور کے احکام کے بالکل قریب اور ان کے تابع ہو۔ رہا وہ قیاس جو منصوص علیہ احکام کے معارض ہو اور اس کو معتبر قرار دینے سے نصوص کا لغو ہونا لازم آتا ہو تو یہ قیاس بدترین قیاس ہے۔ (٢) ابلیس کا مجردیہ کہنا ( أَنَا خَيْرٌ مِّنْهُ) ” میں اس (آدم) سے بہتر ہوں“ ابلیس خبیث کے نقص کے لئے کافی ہے۔ اس نے اپنے نقص پر اپنی خودپسندی، تکبر اور بلاعلم اللہ تعالیٰ کی طرف قول منسوب کرنے کو دلیل بنایا اس سے بڑا اور کون سا نقص ہوسکتا ہے؟ (٣) ابلیس نے آگ کو مٹی اور گارے کے مادہ پر فوقیت دے کر جھوٹ کا ارتکاب کیا ہے، کیونکہ مٹی کے مادے میں خشوع، سکون اور سنجیدگی ہے۔ اس مٹی ہی سے زمین کی برکتیں ظاہر ہوتی ہے۔ مثلاً مختلف انواع و اجناس کے درخت اور نباتات وغیرہ۔ اس کے برعکس آگ میں خفت، طیش اور جلانے کی خاصیت ہے۔ اسی لئے شیطان نے اس قسم کے افعال کا ارتکاب کیا اور اسی لئے وہ بلند ترین درجات سے گر کر اسفل السافلین کی سطح پر جا پہنچا۔ الاعراف
13 پس اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا ﴿ فَاهْبِطْ مِنْهَا ﴾ ” تو اس سے اترجا۔“ یعنی جنت سے اتر جا ﴿فَمَا يَكُونُ لَكَ أَن تَتَكَبَّرَ فِيهَا﴾ ” تیرے یہ شایاں نہیں کہ تو یہاں (جنت میں) رہ کر تکبر کرے“ کیونکہ یہ طیب اور طاہر لوگوں کا گھر ہے، پس یہ جنت اللہ تعالیٰ کی بدترین اور خبیث ترین مخلوق کے لائق نہیں۔ ﴿ فَاخْرُجْ إِنَّكَ مِنَ الصَّاغِرِينَ ﴾ ” پس نکل جا تو ذلیل ہے۔“ یعنی تو حقیر ترین اور ذلیل ترین مخلوق ہے اللہ تعالیٰ نے اس کے تکبر اور خود پسندی پر اہانت اور ذلت کی سزا دی۔ جب اللہ کے دشمن نے اللہ تعالیٰ کے سامنے، آدم اور اولاد آدم کے ساتھ عداوت کا اعلان کیا، تو اس نے اللہ تعالیٰ سے قیامت تک کے لئے مہلت مانگی تاکہ وہ مقدور بھر اولاد آدم کو گمراہ کرسکے اور چونکہ اللہ تعالیٰ کی حکمت کا تقاضا تھا کہ وہ اپنے بندوں کو آزمائش اور امتحان میں مبتلا کرے تاکہ سچے اور جھوٹے کے درمیان امتیاز ہوجائے۔ نیز یہ بھی معلوم ہوجائے کہ کون اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتا ہے اور کون اس کے دشمن کی۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کو مہلت دے دی اور فرمایا : ﴿ إِنَّكَ مِنَ الْمُنظَرِينَ﴾ ” تجھ کو مہلت دی گئی“ الاعراف
14 الاعراف
15 الاعراف
16 جب ابلیس اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہوگیا تو کہنے لگا : ﴿قَالَ فَبِمَا أَغْوَيْتَنِي لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ ﴾ ” جیسا تو نے مجھے گمراہ کیا ہے، میں بھی ضرور بیٹھوں گا ان کے لئے“ یعنی مخلوق کے لئے ﴿ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِيمَ ﴾” تیرے سیدھے راستے پر“ اور لوگوں کو اس راستے سے روکنے اور اس پر چلنے سے منع کرنے کی بھرپور کوشش کروں گا۔ الاعراف
17 ﴿ثُمَّ لَآتِيَنَّهُم مِّن بَيْنِ أَيْدِيهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ وَعَنْ أَيْمَانِهِمْ وَعَن شَمَائِلِهِمْ﴾’ د پھر میں ان پر آؤں گا ان کے آگے سے اور پیچھے سے اور دائیں سے اور بائیں سے“ یعنی میں تمام جہات اور تمام اطرفا سے ان پر حملہ آور ہوں گا اور ہر طریقے سے جہاں کہیں سے بھی مجھے ان سے اپنا مقصد حاصل کرنے میں کامیابی حاصل ہوگی۔ جب شیطان خبیث کو معلوم ہوگیا کہ اولاد آدم بہت کمزور ہے، ان میں سے بہت سے لوگوں پر بسا اوقات غفلت غالب آجاتی ہے، تو اس نے ان کو گمراہ کرنے کا حتمی فیصلہ کرلیا اور اس کا گمان سچ نکلا، اس لئے کہنے لگا ﴿وَلَا تَجِدُ أَكْثَرَهُمْ شَاكِرِينَ ﴾ ” اور تو ان میں اکثر کو شکر گزار نہ پائے گا“ کیونکہ شکر گزاری بھی صراط مستقیم پر چلنے ہی کا حصہ ہے اور شیطان ان کو اس راستے پر گامزن ہونے سے روکتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿ إِنَّمَا يَدْعُو حِزْبَهُ لِيَكُونُوا مِنْ أَصْحَابِ السَّعِيرِ ﴾(فاطر :35؍6) ” وہ تو اپنے گروہ کو اس لئے بلاتا ہے تاکہ وہ جہنم والے بن جائیں۔“ شیطان نے جو کچھ کہا اور اپنے فعل کے عزم کا اظہار کیا، اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس پر محض اس لئے متنبہ فرمایا ہے، تاکہ ہم اپنے دشمن سے بچتے رہیں اور اس کے مقابلے کے لئے پوری طرح تیار رہیں اور ان راستوں اور داخل ہونے کے ان مقامات کی معرفت حاصل کر کے، جہاں سے وہ حملہ آور ہوتا ہے، اپنی حفاظت کرسکیں۔ پس یہ خبر دے کر اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنی نعمت کامل سے نوازا ہے۔ الاعراف
18 یعنی ابلیس نے جو کچھ کہا اس کے جواب میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا :﴿اخْرُجْ مِنْهَا﴾ ” نکل یہاں سے“ یعنی ذلت و خواری کے ساتھ نکلنا۔ اس سے عزت و اکرام کے ساتھ نکلنا مراد نہیں ﴿مَذْءُومًا ﴾ بلکہ مذمت کے ساتھ نکلنا مراد ہے﴿مَّدْحُورًاً﴾ ” مردود ہو کر“ یعنی اللہ تعالیٰ، اس کی رحمت اور ہر بھلائی سے دور ﴿ لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنكُمْ ﴾ ” میں تم سے جہنم کو بھر دوں گا۔“ یعنی میں جہنم کو تجھ سے اور تیرے پیروکاروں سے بھر دوں گا ﴿أَجْمَعِينَ﴾” تم سب سے“ یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے قسم ہے کہ جہنم نافرمانوں کا ٹھکانا ہے، وہ لازمی طور پر جہنم کو ابلیس اور اس کے جن اور انسان پیروکاروں سے بھر دے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے آدم کو ابلیس کے شر اور فتنے سے ڈراتے ہوئے فرمایا: الاعراف
19 یعنی اللہ تعالیٰ نے جناب آدم علیہ السلام اور ان کی بیوی کو جو اللہ تعالیٰ نے ان کو سکون کے لئے عطا فرمائی تھی، حکم دیا کہ وہ جنت میں جہاں سے جو جی میں آئے کھائیں اور جنت سے متمتع ہوں البتہ اللہ تعالیٰ نے ایک معین درخت کا پھل کھانے سے روک دیا۔ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ کس چیز کا درخت تھا؟ اس درخت کے تعین میں ہمارے لئے کوئی فائدہ نہیں۔ اس درخت کا پھل کھانے کی تحریم پر اللہ تعالیٰ کا یہ قول دلیل ہے ﴿فَتَكُونَا مِنَ الظَّالِمِينَ ﴾” تم دونوں گناہ گاروں میں سے ہوجاؤ گے“ آدم علیہ السلام اور ان کی بیوی نے اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی پابندی کی، یہاں تک کہ ان کا دشمن ابلیس اپنے مکر و فریب سے ان کے پاس گھس آیا اور اس نے ان کے دل میں وسوسہ ڈالا، ان کو فریب میں مبتلا کردیا اور ان کے سامنے بناوٹ سے کام لیتے ہوئے کہنے لگا : الاعراف
20 ﴿مَا نَهَاكُمَا رَبُّكُمَا عَنْ هَـٰذِهِ الشَّجَرَةِ إِلَّا أَن تَكُونَا مَلَكَيْنِ ﴾ ”تم کو نہیں روکا تمہارے رب نے اس درخت سے، مگر اس لئے کہ کہیں تم ہوجاؤ فرشتے“ یعنی فرشتوں کی جنس میں سے﴿ أَوْ تَكُونَا مِنَ الْخَالِدِينَ ﴾” یا ہوجاؤ ہمیشہ رہنے والوں میں سے“ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک دوسری آیت میں اس کا قول ذکر فرمایا : ﴿ هَلْ أَدُلُّكَ عَلَىٰ شَجَرَةِ الْخُلْدِ وَمُلْكٍ لَّا يَبْلَىٰ﴾(طہ : 20؍120) ” کیا میں تجھے ایسا درخت بتاؤں جس کا پھل ہمیشہ کی زندگی عطا کرے اور ایسا اقتدار جو کبھی زائل نہ ہو۔ “ الاعراف
21 یہ سب کچھ کہنے کے ساتھ ساتھ اس نے اللہ کی قسم کھاتے ہوئے کہا :﴿إِنِّي لَكُمَا لَمِنَ النَّاصِحِينَ﴾ ” میں تو تمہارا خیر خواہ ہوں۔“ یعنی میں نے جو کچھ کہا ہے اس میں تمہاری خیر خواہی کرنے والا ہوں۔ پس آدم علیہ السلام شیطان کے دھوکے میں آگئے اور اس حال میں عقل پر شہوت نفس غالب آگئی۔ الاعراف
22 ﴿فَدَلَّاهُمَا ﴾” پس نیچے لے آیا ان دونوں کو“ یعنی شیطان نے آدم و حوا علیہما السلام کو ان کے بلند مرتبے سے، جو کہ گناہوں سے دوری پر مبنی تھا، اتار کر نافرمانی کی گندگی میں لتھیڑ دیا اور انہوں نے آگے بڑھ کر اس شجر ممنوعہ کے پھل کو کھالیا ﴿فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَةَ بَدَتْ لَهُمَا سَوْآتُهُمَا﴾ ” پس جب چکھا ان دونوں نے درخت کو، تو ان پر ان کی شرم گاہیں کھل گئیں“ یعنی دونوں کا ستر ظاہر ہوگیا اس سے پہلے ان کا ستر چھپا ہوا تھا۔ پس اس حالت میں تقویٰ سے باطنی عریانی نے ظاہری لباس میں اپنا اثر دکھایا۔ حتیٰ کہ وہ لباس اتر گیا اور ان کا ستر ظاہر ہوگیا اور جب ان پر ان کا ستر ظاہر ہوا تو وہ بہت شرمسار ہوئے اور جنت کے درختوں کے پتوں سے اپنے ستر کو چھپانے لگے۔ ﴿ وَنَادَاهُمَا رَبُّهُمَا  ﴾ اس حالت میں اللہ تعالیٰ نے ان کو زجر و توبیخ کرتے ہوئے آواز دی ﴿أَلَمْ أَنْهَكُمَا عَن تِلْكُمَا الشَّجَرَةِ وَأَقُل لَّكُمَا إِنَّ الشَّيْطَانَ لَكُمَا عَدُوٌّ مُّبِينٌ ﴾ ” کیا میں نے تمہیں اس درخت سے منع نہیں کیا تھا اور تمہیں کہا نہیں تھا کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے“ پھر تم نے اپنے دشمن کی اطاعت کر کے ممنوعہ کام کا ارتکاب کیوں کیا؟ پس اس وقت اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول کر کے ان پر احسان کیا اور انہوں نے اپنے گناہ کا اعتراف کر کے اللہ تعالیٰ سے اس کی مغفرت طلب کرتے ہوئے عرض کیا۔ الاعراف
23 ﴿ رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ ﴾ ” اے ہمارے رب ! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر تو ہمیں نہیں بخشے گا اور ہم پر رحم نہیں کرے گا تو ہم تباہ ہوجائیں گے۔“ یعنی ہم سے وہ گناہ سر زد ہوگیا جس سے تو نے ہمیں روکا تھا۔ ہم نے گناہ کا ارتکاب کر کے اپنے آپ کو سخت نقصان پہنچایا اور اگر تو نے گناہ اور اس کی عقوبت کے آثار کو نہ مٹایا اور اس قسم کی خطاؤں سے توبہ قبول کر کے معافی کے ذریعے سے ہم پر رحم نہ کیا، تو ہم نے سخت خسارے کا کام کیا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول کرلی﴿وَعَصَىٰ آدَمُ رَبَّهُ فَغَوَىٰ  ثُمَّ اجْتَبَاهُ رَبُّهُ فَتَابَ عَلَيْهِ وَهَدَىٰ  ﴾(طہ :20؍121، 122) ” اور آدم نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور راہ سے بھٹک گیا۔ پھر اس کے رب نے اس پر نوازش کی اور اس پر توجہ فرمائی اور راہنمائی کی۔ “ یہ رویہ آدم علیہ السلام کا تھا۔ مگر اس کے برعکس ابلیس اپنی سرکشی پر جما رہا اور نافرمانی سے باز نہ آیا۔ پس جو کوئی آدم علیہ السلام کی طرح اپنے گناہوں کا اعتراف کر کے ندامت کے ساتھ مغفرت کا سوال کرتا ہے اور گناہ سے باز آجاتا ہے تو اس کا رب اسے چن لیتا ہے اور سیدھی راہ پر ڈال دیتا ہے اور جو کوئی ابلیس کی طرح اپنے گناہ اور نافرمانی پر جم جاتا ہے اور اس کی نافرمانیاں بڑھتی ہی چلی جاتی ہیں تو اللہ تعالیٰ سے دوری کے سوا اسے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ الاعراف
24 یعنی اللہ تعالیٰ نے آدم اور حوا کو جمع کے صیغے کے ساتھ مخاطب کر کے نیچے اترنے کا حکم دیا، کیونکہ ابلیس تو اس سے قبل اتارا جا چکا تھا، پھر سب زمین کی طرف اتارے گئے۔ آدم و حوا علیہما السلام کے ساتھ ابلیس کو بھی بتکرار حکم دیا گیا تاکہ معلوم ہو کہ وہ ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ ہوں گے، کیونکہ ابلیس انسان سے کبھی جدا نہیں ہوتا بلکہ ہر وقت ساتھ رہتا ہے اور اولاد آدم کو گمراہ کرنے کی پوری کوشش کرتا ہے۔ ﴿ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ﴾ کا جملہ (اِهْبِطُوا) کی ضمیر سے حال ہونے کی بنا پر نصب کے مقام پر ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم و حو علیہما السلام اور شیطان سے کہا کہ سب جنت سے نکل کر زمین پر اتر جاؤ درآں حالیکہ تم ایک دوسرے کے دشمن ہو زمین پر تمہارا ٹھکانا ہے، اس وقت تک، جب تک تمہارا زمین میں رہنا مقدر ہے۔ الاعراف
25 جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے آدم علیہ السلام، ان کی بیوی اور ان کی اولاد کو زمین پر اتار دیا تو ان کو زمین کے اندر ان کے قیام کے احوال کے بارے میں آگاہ فرمایا کہ زمین کے اندر ان کے لئے ایک ایسی زندگی مقرر کردی ہے جس کے تعاقب میں موت ہے جو ابتلاء و امتحان سے لبریز ہے۔ وہ اسی دنیا میں رہیں گے اللہ تعالیٰ ان کی طرف اپنے رسول بھیجے گا، ان پر کتاب نازل کرے گا۔ حتیٰ کہ ان پر موت آئے گی اور وہ اسی زمین میں دفن کردیئے جائیں گے۔ پھر جب وہ اپنی مدت پوری کرلیں گے تو اللہ تعالیٰ ان کو دوبارہ زندہ کرے گا اور اس دنیا سے نکال کر حقیقی گھر میں، جو دائمی قیام کا گھر ہے، داخل کرے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنے اس احسان کا ذکر فرمایا کہ اس نے ان کو ضروری لباس مہیا فرمایا۔ وہ لباس جس سے خوبصورتی مقصود ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے انہیں تمام اشیا مثلاً کھانا پینا، سواری اور بیویاں وغیرہ عطا کیں۔ اس کی تکمیل کی خاطر اللہ تعالیٰ نے دیگر ضروریات مہیا کیں اور ان پر واضح کردیا کہ یہ سب کچھ بالذات مقصود نہیں ہے، بلکہ یہ لباس اللہ تعالیٰ نے صرف اس لئے نازل کیا ہے تاکہ اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اطاعت میں ان کا مددگار ثابت ہو۔ الاعراف
26 بنا بریں فرمایا : ﴿وَلِبَاسُ التَّقْوَىٰ ذَٰلِكَ خَيْرٌ ۚ ﴾”اور جو تقویٰ کا لباس ہے وہ سب سے اچھا ہے۔“ یعنی تقویٰ کا لباس، حسی لباس سے بہتر ہے۔ کیونکہ لباس تقویٰ بندے کے ساتھ ہمیشہ رہتا ہے کبھی پرانا اور بوسیدہ نہیں ہوتا اور لباس تقویٰ قلب و روح کا جمال ہے۔ رہا حسی اور ظاہری لباس تو اس کی انتہا ہے کہ یہ ایک محدود وقت کے لئے ظاہری ستر کو ڈھانپتا ہے یا انسان کے لئے خوبصورتی کا باعث بنتا ہے۔ اس سے بڑھ کر اس کا اور کوئی فائدہ نہیں۔ نیز فرض کیا یہ لباس موجود نہیں تب زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ اس کا ظاہری ستر منکشف ہوجائے گا جس کا اضطراری حالت میں منکشف ہونا نقصان دہ نہیں اور اگر لباس تقویٰ معدوم ہوجائے تو باطنی ستر کھل جائے گا اور اسے رسوائی اور فضیحت کا سامنا کرناپڑے گا۔ ﴿ ذَٰلِكَ مِنْ آيَاتِ اللَّـهِ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُونَ  ﴾ ” یہ نشانیاں ہیں اللہ کی قدرت کی، تاکہ وہ غور کریں“ یعنی یہ مذکورہ لباس جس سے تم ایسی چیزوں کو یاد کرتے ہو جو تمہیں نفع و نقصان دیتی ہیں اور اس ظاہری لباس سے تم اپنے باطن کی ستر پوشی میں مدد لیتے ہو۔ الاعراف
27 اللہ تبارک و تعالیٰ اولاد آدم کو ڈراتا ہے کہ شیطان کہیں تمہارے ساتھ بھی وہی کچھ نہ کرے جو اس نے تمہارے جد امجد آدم کے ساتھ کیا تھا، چنانچہ فرماتا ہے : ﴿يَا بَنِي آدَمَ لَا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطَانُ ﴾” اے آدم کی اولاد ! نہ بہکائے تم کو شیطان“ یعنی ایسا نہ ہو کہ وہ تمہارے سامنے گناہ اور معاصی کو آراستہ کر کے تمہیں ان کی طرف بلائے اور ترغیب دے اور تم اس کی اطاعت کرلو ﴿كَمَا أَخْرَجَ أَبَوَيْكُم مِّنَ الْجَنَّةِ ﴾ ”جیسے اس نے تمہارے ماں باپ کو جنت سے نکلوایا“ اور انہیں بلند ترین مقام سے اتار کر فرو ترین مقام پر پہنچا دیا۔ پس اس سے بچو وہ تمہارے ساتھ بھی وہ کچھ کرنا چاہتا ہے، وہ تمہیں گمراہ کرنے کی کوشش میں ذرہ بھر کوتاہی نہیں کرتا جب تک کہ تمہیں فتنے میں مبتلا نہ کر دے۔ اس لئے تم اس سے اپنا بچاؤ کرتے رہو اور اس کے مقابلے میں زرہ بکتر پہنے رکھو اور جن راستوں سے داخل ہو کر وہ تم پر شب خون مارتا ہے، ان راستوں سے غافل نہ رہو۔ ﴿ إِنَّهُ ﴾ ” بے شک وہ“ دائمی طور پر تمہاری نگرانی کرتا ہے ﴿يَرَاكُمْ هُوَ وَقَبِيلُهُ ﴾ ” وہ اور اس کے قبیلے کے شیاطین جن تمہیں اس مقام سے دیکھتے ہیں“ ﴿مِنْ حَيْثُ لَا تَرَوْنَهُمْ ۗ إِنَّا جَعَلْنَا الشَّيَاطِينَ أَوْلِيَاءَ لِلَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ ﴾” جہاں سے تم ان کو نہیں دیکھ سکتے۔ ہم نے شیاطین کو ان لوگوں کا دوست بنا دیا جو ایمان نہیں لاتے۔“ پس عدم ایمان ہی انسان اور شیطان کے درمیان دوستی اور موالات کے عقد کا موجب ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿إِنَّهُ لَيْسَ لَهُ سُلْطَانٌ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَلَىٰ رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ إِنَّمَا سُلْطَانُهُ عَلَى الَّذِينَ يَتَوَلَّوْنَهُ وَالَّذِينَ هُم بِهِ مُشْرِكُونَ﴾(النحل :16؍99۔100)” جو مومن ہیں اور اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں ان پر اس کا کوئی اختیار نہیں۔ اس کا اختیار تو ان لوگوں پر ہے جو اس کو اپنا دوست بناتے ہیں اور اس کے سبب سے اللہ کے ساتھ شرک کرتے ہیں۔ “ الاعراف
28 اللہ تبارک و تعالیٰ مشرکین کا حال بیان کرتا ہے جو گناہوں کا ارتکاب کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انہیں اللہ تعالیٰ نے ایسا کرنے کا حکم دیا ہے۔ ﴿ وَإِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً ﴾ ” جب وہ کوئی فحش کام کرتے ہیں۔“ فحش سے مراد ہر وہ کام ہے جو برا اور انتہائی قبیح ہو۔ عریاں ہو کر بیت اللہ کا طواف کرنا بھی اسی زمرے میں آتا ہے۔﴿قَالُوا وَجَدْنَا عَلَيْهَا آبَاءَنَا  ﴾ ” کہتے ہیں ہم نے اس پر اپنے باپ دادا کو پایا ہے“ اور وہ اس بارے میں سچے ہیں ﴿ وَاللَّـهُ أَمَرَنَا بِهَا﴾ ” اور اللہ نے ہمیں اس کا حکم دیا ہے“ وہ اس فحش کام کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرنے میں جھوٹ بولتے ہیں۔ بنابریں اللہ تعالیٰ نے ان کے اس قول کی تردید کرتے ہوئے فرمایا : ﴿قُلْ إِنَّ اللَّـهَ لَا يَأْمُرُ بِالْفَحْشَاءِ ﴾ ” کہہ دیجیے اللہ بے حیائی کے کام کرنے کا ہرگز حکم نہیں دیتا۔“ یعنی یہ بات اللہ تعالیٰ کی حکمت اور کمال کے لائق نہیں کہ وہ اپنے بندوں کو فحش کاموں کا حکم دے، اللہ نے اس فحش کام کا حکم دیا ہے جس کا ارتکاب یہ مشرک کرتے ہیں نہ کسی اور فحش کام کا۔ ﴿أَتَقُولُونَ عَلَى اللَّـهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ ﴾” کیا تم اللہ کے ذمے وہ باتیں لگاتے ہو جو تم کو معلوم نہیں؟“ اور اس سے بڑا اور کون سا بہتان ہوسکتا ہے۔ الاعراف
29 پھر اللہ تعالیٰ نے اس چیز کا ذکر فرمایا جس کا وہ حکم دیتا ہے۔ ﴿قُلْ أَمَرَ رَبِّي بِالْقِسْطِ ﴾” کہہ دیجیے کہ میرے رب نے تو انصاف کرنے کا حکم دیا ہے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ نے عبادات و معاملات میں ظلم و جور کا حکم نہیں دیا بلکہ عدل و انصاف کا حکم دیا ہے ﴿وَأَقِيمُوا وُجُوهَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ ﴾ ” اور سیدھے کرو اپنے منہ ہر نماز کے وقت“ یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ رکھو، عبادات کی تکمیل کی کوشش کرو۔ خاص طور پر نماز کو ظاہر اور باطن میں کامل طور پر قائم کرو اور اسے تمام نقائص اور مفاسد سے پاک رکھو۔ ﴿وَادْعُوهُ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ ۚ ﴾” اور پکارو اس کو خالص اس کے فرماں بردار ہو کر“ یعنی صرف اسی کی رضا جوئی کا مقصد رکھو، وہ ایک ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں۔ یہ دعا، دعائے مسئلہ اور دعائے عبادت دونوں کو شامل ہے۔ یعنی تمہاری دعا کی تمام اغراض میں اللہ تعالیٰ کی عبودیت اور اس کی رضا کے سوا کوئی اور مقصد و ارادہ نہیں ہونا چاہئے۔ ﴿ كَمَا بَدَأَكُمْ ﴾’’جیسے پہلی مرتبہ تمہاری ابتدا کی“ ﴿ تَعُودُونَ  ﴾ ” تم پھر پیدا ہو گے۔“ یعنی اس طرح مرنے کے بعد تمہیں دوبارہ زندہ کیا جائے گا۔ وہ ہستی جو تمہاری تخلیق کی ابتدا پر قادر ہے وہ اس تخلیق کا اعادہ کرنے کی بھی قدرت رکھتی ہے، بلکہ اس کا اعادہ زیادہ آسان ہے۔ الاعراف
30 ﴿فَرِيقًا ﴾” ایک فریق کو“ یعنی تم میں سے ایک فریق کو ﴿هَدَىٰ ﴾” اس نے ہدایت دی۔“ یعنی اللہ تعالیٰ نے اسے ہدایت کی توفیق سے نوازا، اس کے اسباب مہیا کئے اور اس کے موانع کو اس سے دور کیا﴿وَفَرِيقًا حَقَّ عَلَيْهِمُ الضَّلَالَةُ ﴾ ” اور ایک فریق، ثابت ہوگئی اس پر گمراہی“ چونکہ انہوں نے گمراہی کے اسباب اختیار کئے اور ہلاکت کے اسباب پر عمل پیرا ہوئے اس لئے اس لئے اللہ تعالیٰ نے گمراہی کو ان پر واجب کردیا۔ ﴿ إِنَّهُمُ اتَّخَذُوا الشَّيَاطِينَ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِ اللَّـهِ ﴾” انہوں نے شیطانوں کو رفیق بنایا، اللہ کو چھوڑ کر“ اور جو کوئی اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر شیطان کو اپنا دوست بناتا ہے وہ واضح خسارے میں مبتلا ہوجاتا ہے اور چونکہ وہ اللہ رحمٰن کی ولایت اور دوستی سے نکل گئے اور انہوں نے شیطان کی دوستی کو پسند کرلیا، اس لئے انہیں اللہ تعالیٰ کی مدد و توفیق سے محرومی میں سے وافر حصہ نصیب ہوا اور چونکہ انہوں نے اپنے آپ پر بھروسہ کیا اس لئے وہ بہت بڑے خسارے میں پڑے گئے۔﴿وَيَحْسَبُونَ أَنَّهُم مُّهْتَدُونَ  ﴾ ” اور وہ گمان کرتے ہیں کہ وہ ہدایت پر ہیں“ یعنی ان کے ہاں حقائق بدل گئے اور انہوں نے باطل کو حق اور حق کو باطل سمجھ لیا۔ ان آیات کریمہ میں اس امر کی دلیل ہے کہ اوامرونواہی اللہ تعالیٰ کی حکمت و مصلحت کے تابع ہیں، کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے کہ یہ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ اللہ تعالیٰ کسی ایسے امر کا حکم دے جسے عقل فحش سمجھتی ہو اور اسے ناپسند کرتی ہو اور اللہ تعالیٰ عدل و انصاف کے سوا کسی چیز کا حکم نہیں دیتا۔ اس میں اس امر کی بھی دلیل ہے کہ ہدایت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور اس کا دار و مدار اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم پر ہے اور گمراہی یہ ہے کہ جب بندہ اپنے ظلم و جہالت سے شیطان کو اپنا دوست اور اس کو اپنی گمراہی کا سبب بنا لے تو اللہ اس سے علیحدہ ہوجاتا ہے اور اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیتا ہے اور جو کوئی یہ سمجھتا ہے کہ وہ راہ ہدایت پر ہے درآں حالیہ وہ بھٹک چکا ہو تو اس کے لئے کوئی عذر نہیں کیونکہ وہ ہدایت حاصل کرسکتا تھا، لیکن اس نے اپنے گمان ہی کو سب کچھ سمجھا اور ہدایت کی منزل کو پہنچانے والے راستے کو ترک کر کے اپنے آپ پر ظلم کیا۔ الاعراف
31 اللہ تعالیٰ نے اولاد آدم پر لباس نازل کرنے کے بعد جس سے وہ اپنا ستر ڈھانپتے ہیں اور زینت اختیار کرتے ہیں، فرمایا : ﴿يَا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ ﴾” اے بنی آدم ! ہر نماز کے وقت اپنے تئیں مزین کیا کرو۔“ یعنی ہر نماز کے وقت، خواہ نماز فرض ہو یا نفل، اپنے ستر کو ڈھانپو، کیونکہ ستر ڈھانپنا ہی بدن کی زینت ہے جیسے ستر کو کھولنا بدن کو قبیح اور بدنما بنا دیتا ہے۔ اس آیت میں یہ احتمال بھی ہے کہ اس زینت سے مراد لباس کی نظافت ہو۔ پس اس صورت میں آیت کریمہ میں نماز کے اندر ستر ڈھانپنے، زینت اختیار کرنے اور لباس کو میل کچیل اور نجاست سے پاک رکھنے کا حکم ہے۔ پھر فرمایا : ﴿وَكُلُوا وَاشْرَبُوا﴾ ” اور کھاؤ اور پیو۔“ یعنی ان پاک چیزوں میں سے کھاؤ پیو جو اللہ تعالیٰ نے تمہیں عطا کی ہیں ﴿وَلَا تُسْرِفُوا  ﴾ اور (ان میں) اسراف نہ کرو۔“ اسراف سے یا تو یہ مراد ہے کہ ماکولات کو اس مقدار سے زیادہ استعمال کرنا جو انسان کو کفایت کرتی ہیں کیونکہ ماکولات کو زیادہ کھانے کی حرص جسم کو نقصان دیتی ہے۔ یا اس سے مراد ہے ماکولات، مشروبات اور ملبوسات میں حد سے زیادہ خرچ کرنا۔ یا مراد ہے حلال سے تجاوز کر کے حرام میں پڑنا۔ ﴿إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ ﴾” بے شک وہ (اللہ) اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا“ کیونکہ حد سے تجاوز کرنے پر اللہ تعالیٰ ناراض ہوتا ہے۔ اسراف انسان کے جسم اور اس کی معیشت کو نقصان پہنچاتا ہے۔ اسراف بسا اوقات انسان کو ایسی حالت تک پہنچا دیتا ہے کہ وہ ان نفقات سے بھی عاجز رہ جاتا ہے جو اس پر واجب ہیں۔ اس آیت کریمہ میں کھانے پینے کا حکم ہے اور کھانا پینا چھوڑنے اور اس میں اسراف کرنے کی ممانعت ہے۔ الاعراف
32 اللہ تبارک و تعالیٰ اس شخص پر نکیر کرتا ہے جو تکلیف میں پڑتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی حلال ٹھہرائی ہوئی پاک چیزوں کو حرام قرار دیتا ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے: ﴿قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِينَةَ اللَّـهِ الَّتِي أَخْرَجَ لِعِبَادِهِ ﴾” کہہ دیجیے کہ زینت و آرائش کی چیزیں جو اللہ نے اپنے بندوں کے لئے پیدا کی ہیں، ان کو کس نے حرام کیا ہے؟“ انواع و اصناف کے لباس، طیبات رزق یعنی ماکولات و مشروبات کی تمام اقسام کو کس نے حرام قرار دیا ہے؟ یعنی وہ کون ہے جو اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کو حرام کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو عطا کی ہیں؟ کون ان کو اس بارے میں تنگی میں مبتلا کرتا ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے وسعت رکھی ہے؟ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے طیبات کو اس لئے وسیع کیا تاکہ وہ ان سے اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مدد لیں۔ اس نے ان چیزوں کو صرف اپنے مومن بندوں کے لئے مباح کیا ہے۔ بنابریں فرمایا ﴿قُلْ هِيَ لِلَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا خَالِصَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ ﴾ ’’کہہ دیجیے ! یہ نعمتیں اصل میں ایمان والوں کے واسطے ہیں دنیا کی زندگی میں، خلاص انہی کے واسطے ہوں گی قیامت کے دن“ یعنی ان نعمتوں کے بارے میں ان پر کوئی تاوان نہیں ہوگا۔ آیت کریمہ کا مفہوم مخالف یہ ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ پر ایمان نہیں لاتے بلکہ وہ ان نعمتوں کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتے ہیں تو یہ نعمتیں ان کے لئے خالص ہیں نہ ان کے لئے مباح، بلکہ ان نعمتوں کو استعمال کرنے پر ان کو سزا دی جائے گی اور قیامت کے روز ان سے ان نعمتوں کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ ﴿كَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْآيَاتِ ﴾ ” ہم اسی طرح آیات کھول کھول کر بیان کرتے ہیں۔“ یعنی ہم ان آیات کی توضیح کرتے ہیں اور ہم ان کو کھول کھول کر بیان کرتے ہیں۔ ﴿ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ ﴾” ان کے لئے جو جانتے ہیں“ کیونکہ یہی لوگ ہیں جو ان آیات سے فائدہ اٹھاتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے کھول کھول کر بیان کیا ہے، وہ جانتے ہیں کہ یہ آیات اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں چنانچہ وہ اس میں غور و فکر کرتے ہیں اور ان کو سمجھتے ہیں۔ الاعراف
33 پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان محرمات کا ذکر فرمایا جن کو اس نے تمام شریعتوں میں حرام قرار دیا ہے۔ فرمایا : ﴿قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ﴾ ” کہہ دیجیے ! بے شک میرے رب نے حرام کیا ہے بے حیائی کی باتوں کو“ یعنی بڑے بڑے گناہ جن کی برائی اور قباحت کی وجہ سے ان کو فحش اور سخت قبیح سمجھا جاتا ہے مثلاً زنا، سدومیت (عمل قوم لوط) وغیرہ۔ ﴿مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ  ﴾” جوان میں کھلی ہوئی ہیں اور جو چھپی ہوئی ہیں“ یعنی وہ فواحش جن کا تعلق بدن کی حرکات سے ہے اور وہ فواحش جن کا تعلق قلب کی حرکات سے ہے مثلاً تکبر، خودپسندی، ریاء اور نفاق وغیرہ ﴿وَالْإِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ ﴾ ”اور گناہ کو اور ناحق کی زیادتی کو“ یعنی گناہ کے اعمال جو گناہ میں مبتلا کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے حقوق کے بارے میں سزا کے موجب ہیں اور (ْبَغْي) سے مراد ہے لوگوں کے جان و مال اور عزت و ناموس میں ان پر زیادتی وغیرہ۔ پس اس میں وہ تمام گناہ داخل ہیں جو حقوق اللہ اور حقوق العباد سے متعلق ہیں۔ ﴿ وَأَن تُشْرِكُوا بِاللَّـهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَانًا ﴾” اور اس بات کو کہ شریک کرو اللہ کا ایسی چیز کو کہ جس کی اس نے سند نہیں اتاری“ یعنی اللہ تعالیٰ نے اس شرک پر کوئی دلیل و برہان نازل نہیں فرمائی بلکہ اللہ تعالیٰ نے توحید کی تائید کے لئے دلائل و براہین نازل فرمائے ہیں اور شرک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت میں اس کے ساتھ مخلوق میں سے کسی کو شریک ٹھہرایا جائے۔ بسا اوقات شرک اصغر بھی اسی زمرے میں آجاتا ہے۔ مثلاً ریاء اور غیر اللہ کی قسم وغیرہ۔ ﴿ وَأَن تَقُولُوا عَلَى اللَّـهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ﴾ ” اور اس بات کو کہ اللہ کے ذمے وہ باتیں لگاؤ جو تم نہیں جانتے“ یعنی اس کے اسماء و صفات، افعال اور اس کی شریعت کے بارے میں لاعلمی پر مبنی بات کہنا۔ ان تمام امور کو اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے اور بندوں کو ان میں مشغول ہونے سے روکا ہے کیونکہ یہ امور مفاسد عامہ اور مفاسد خاصہ پر مشتمل ہیں اور یہ امور ظلم و تعدی اور اللہ تبارک و تعالیٰ کی جناب میں جسارت و جرأت کے موجب، اللہ تعالیٰ کے بندوں پر دست درازی اور اللہ تعالیٰ کے دین اور شریعت میں تغیر و تحریف کا باعث ہیں۔ الاعراف
34 یعنی اللہ تعالیٰ نے اولاد آدم کو جنت سے نکال کر زمین پر آباد کردیا اور ان کے لئے ایک مدت مقرر کردی۔ قوموں میں سے کوئی قوم اپنی مدت مقررہ سے آگے بڑھ سکتی ہے نہ پیچھے ہٹ سکتی ہے، تمام قومیں اکٹھی ہو کر اس مدت مقررہ سے آگے ہوسکتی ہیں نہ ان کے افراد۔ الاعراف
35 جب اللہ تعالیٰ نے اولاد آدم کو جنت سے نکال دیا تو ان کو رسول بھیج کر اور کتابیں نازل کر کے آزمایا۔ یہ رسول ان کو اللہ تعالیٰ کی آیتیں پڑھ کر سناتے تھے اور اس کے احکام ان پر واضح کرتے تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس شخص کی فضیلت بیان فرمائی جس نے رسولوں کی دعوت پر لبیک کہا اور اس شخص کا خسارہ بیان کیا جس نے رسولوں کی دعوت کا جواب نہ دیا۔ چنانچہ فرمایا :﴿فَمَنِ اتَّقَىٰ﴾ ” پس جس شخص نے تقویٰ اختیار کیا۔“ یعنی جو ان امور سے بچ گیا جن کو اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے مثلاً شرک اور دیگر کبیرہ اور صغیرہ گناہ ﴿ وَأَصْلَحَ﴾ ” اور اس نے (ظاہری اور باطنی اعمال کی) اصلاح کرلی۔“ ﴿ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ ﴾ ” تو ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا۔“ یعنی وہ اس شر کے خوف سے مامون ہوں گے جس سے دیگر لوگ خوفزدہ ہوں گے۔﴿وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ﴾ ” اور نہ وہ (گزرے ہوئے واقعات پر) غمگین ہوں گے۔“ جب ان سے حزن و خوف کی نفی ہوگئی تو انہیں کامل امن اور ابدی فلاح و سعادت حاصل ہوگئی۔ الاعراف
36 ﴿وَالَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا وَاسْتَكْبَرُوا عَنْهَا﴾ ” اور وہ لوگ جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا اور ان سے تکبر کیا“ یعنی ان آیات پر ان کے دل ایمان لائے نہ ان کے جوارح نے ان آیات کے احکام کی اطاعت کی۔ ﴿ أُولَـٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ﴾” وہی دوزخی ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔“ یعنی جس طرح انہوں نے ہماری آیات کی اہانت کی اور ان کی تکذیب پر جمے رہے، اسی طرح ان کو ہمیشہ رہنے والے عذاب کے ذریعے سے رسوا کیا جائے گا۔ الاعراف
37 یعنی اس شخص سے بڑھ کر ظالم کوئی نہیں جس نے بہتان طرازی کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی طرف شریک اور اس کی ذات و صفات کی طرف نقص کی نسبت کی اور اس کی طرف کسی ایسی بات کو منسوب کیا جو اس نے نہیں کہی۔ ﴿أَوْ كَذَّبَ بِآيَاتِهِ﴾ ” یا اس کی آیات کو جھٹلایا۔“ یعنی جس نے حق مبین کو بیان کرنے والی واضح آیات کو جھٹلایا، جو راہ راست کی طرف راہنمائی کرتی ہیں پس یہ لوگ اگرچہ اس دنیا سے فائدہ اٹھا رہے ہیں تاہم انہیں وہ عذاب ضرور مل کر رہے گا جو لوح محفوظ میں ان کے لئے لکھ دیا گیا ہے۔ کوئی چیز ان کے کسی کام نہیں آئے گی۔ وہ اس دنیا سے تھوڑی سی مدت کے لئے فائدہ اٹھائیں گے اور ابد الآباد تک عذاب بھگتیں گے۔ ﴿حَتَّىٰ إِذَا جَاءَتْهُمْ رُسُلُنَا يَتَوَفَّوْنَهُمْ﴾ ”یہاں تک کہ جب ان کے پاس ہمارے بھیجے ہوئے (فرشتے) جان نکالنے آئیں گے۔“ یعنی جب ان کے پاس وہ فرشتے آجائیں گے جو ان کی مدت مقررہ پوری کرنے اور روح قبض کرنے پر مامور ہیں ﴿ قَالُوا﴾ یعنی اس حالت میں فرشتے ان کو زجر و توبیخ کرتے ہوئے کہیں گے : ﴿أَيْنَ مَا كُنتُمْ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ﴾ ” وہ (بت اور تمہارے خود ساختہ معبود) کہاں ہیں جن کو تم پکارا کرتے تھے؟“ اب ضرورت کا وقت آگیا اگر وہ تمہیں کوئی فائدہ دے سکتے ہیں یا کسی تکلیف کو دور کرسکتے ہیں؟ (تو ان کو بلاؤ) ﴿قَالُوا ضَلُّوا عَنَّا ﴾ ” وہ کہیں گے، وہ ہم سے گم ہوگئے“ یعنی وہ مضمحل اور باطل ہوگئے اور وہ اللہ تعالیٰ کے عذاب کے مقابلے میں ہمارے کسی کام کے نہیں۔ ﴿وَشَهِدُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ أَنَّهُمْ كَانُوا كَافِرِينَ﴾ ” اور وہ اپنے آپ پر گواہی دیں گے کہ وہ کافر تھے“ یعنی وہ دائمی طور پر رسوا کن عذاب کے مستحق ہیں۔ الاعراف
38 فرشتے ان سے کہیں گے :﴿قَالَ ادْخُلُوا فِي أُمَمٍ ﴾ ” ان قوموں میں داخل ہوجاؤ۔“ یعنی ان جملہ امتوں میں داخل ہوجاؤ۔ ﴿قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِكُم مِّنَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ﴾” جو تم سے پہلے جنوں اور انسانوں میں سے گزر چکیں“ یعنی وہ بھی اسی راستے پر گامزن رہے تھے جس پر تم چلتے رہے ہو۔ یعنی کفر و استکبار کا راستہ۔۔۔ اس لئے سب رسوائی اور ہلاکت کے مستحق ٹھہرے﴿فِي النَّارِ﴾اور ہمیشہ کے لئے جہنم میں رہو۔ سرکش اور نافرمان قوموں میں سے جب کوئی قوم جہنم میں داخل ہوگی﴿ لَّعَنَتْ أُخْتَهَا﴾ ” اپنی جیسی جماعت پر لعنت کرے گی۔“ یعنی اپنے جیسے مشرکانہ عقائد رکھنے والی قوم پر لعنت کرے گی، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكْفُرُ بَعْضُكُم بِبَعْضٍ وَيَلْعَنُ بَعْضُكُم بَعْضًا ﴾(العنکبوت:29؍25)” قیامت کے روز تم ایک دوسرے کا انکار کرو گے اور ایک دوسرے پر لعنت بھیجو گے۔“ ﴿حَتَّىٰ إِذَا ادَّارَكُوا فِيهَا جَمِيعًا﴾ ” یہاں تک کہ جب سب اس میں داخل ہوجائیں گے۔“ یعنی جب جہنم میں، اولین و آخرین، قائدین، رؤسا، ان کے پیروکار اور مقلدین سب جمع ہوجائیں گے۔﴿قَالَتْ أُخْرَاهُمْ﴾” تو کہیں گے ان کے پچھلے“ یعنی رؤساء وقائدین کے پیروکار ﴿ لِأُولَاهُمْ﴾” پہلوں کو“ یعنی وہ اپنے سرداروں اور رؤسا کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے شکوہ کرتے ہوئے کہ انہوں نے گمراہ کیا تھا۔ کہیں گے : ﴿ رَبَّنَا هَـٰؤُلَاءِ أَضَلُّونَا فَآتِهِمْ عَذَابًا ضِعْفًا مِّنَ النَّارِ﴾” اے ہمارے رب ! ان ہی لوگوں نے ہمیں گمراہ کیا تھا تو ان کو آتش جہنم کا دگنا عذاب دے۔“ یعنی اے ہمارے رب انہیں کئی گنا عذاب دے، کیونکہ انہوں نے ہمیں گمراہ کیا اور ناپاک اعمال کو ہمارے سامنے مزین کر کے پیش کیا۔ الاعراف
39 ﴿ وَقَالَتْ أُولَاهُمْ لِأُخْرَاهُمْ﴾” اور کہیں گے ان کے پہلے پچھلوں کو ” یعنی وہ اپنے پیروں کاروں سے کہیں گے : ﴿فَمَا كَانَ لَكُمْ عَلَيْنَا مِن فَضْلٍ﴾” پس کچھ نہ ہوئی تم کو ہم پر بڑائی“ یعنی ہم گمراہی، ضلالت اور عذاب کے اسباب اختیار کرنے میں مشترک ہیں۔ تمہیں ہم پر کون سی فضیلت ہے؟ ﴿قَالَ ﴾یعنی اللہ تعالیٰ فرمائے گا : ﴿لِكُلٍّ ضِعْفٌ﴾ ” تم میں سے ہر ایک کے لئے دوگنا عذاب ہے“ ﴿فَذُوقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنتُمْ تَكْسِبُونَ ﴾ ” اب چکھو عذاب بسبب اپنی کمائی کے“ لیکن یہ معلوم ہے کہ سرداروں اور ائمہ ضلالت کو ان کے پیروکاروں کی نسبت زیادہ سخت اور برا عذاب دیا جائے گا۔ جیسے ائمہ ہدی کو ان کے متبعین کے ثواب کے مقابلے میں زیادہ بڑی نعتموں سے نوازا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿الَّذِينَ كَفَرُوا وَصَدُّوا عَن سَبِيلِ اللَّـهِ زِدْنَاهُمْ عَذَابًا فَوْقَ الْعَذَابِ بِمَا كَانُوا يُفْسِدُونَ﴾(النحل:16؍88)” وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا اور اللہ کے راستے سے روکا ہم انہیں عذاب پر عذاب دیں گے اس پاداش میں کہ وہ فساد برپا کرتے تھے۔ “ یہ آیت کریمہ اور اس قسم کی دیگر آیات دلالت کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی آیات کی تکذیب کرنے والوں کی تمام اقسام جہنم میں ہمیشہ رہیں گی، اس کی اتھاہ گہرائی میں سب اکٹھے ہوں گے اگرچہ عذاب کی مقدار میں ان کے اعمال، عناد، ظلم اور افترا پردازی کے مطابق تفاوت ہوگا اور ان کی وہ محبت و مودت جو دنیا میں ان کے مابین تھی، قیامت کے روز دشمنی اور ایک دوسرے پر لعنت میں بدل جائے گی۔ الاعراف
40 اللہ تبارک و تعالیٰ اس شخص کے عذاب کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے جس نے اس کی آیتوں کو جھٹلایا اور وہ ان پر ایمان نہ لایا۔۔۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ کی آیات بالکل واضح تھیں۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی آیات سے تکبر کیا اور ان کے احکام کے سامنے سر تسلیم خم نہ کیا بلکہ انہوں نے ان کو جھٹلایا اور پیٹھ پھیر کر چل دیئے۔۔۔ یہ ہر بھلائی سے مایوس ہوں گے۔ ان کی روحیں اللہ تعالیٰ کی خدمت میں حاضر ہونے کے لئے آسمان کی طرف بلند ہوں گی اور اجازت طلب کریں گی مگر ان کو اجازت نہیں ملے گی۔ وہ موت کے بعد آسمان کی طرف اسی طرح بلند نہ ہوسکیں گی جس طرح انہوں نے ایمان باللہ، اللہ تعالیٰ کی معرفت اور اس کی محبت کی طرف التفات نہ کیا، کیونکہ جزا عمل کی جنس سے ہوتی ہے۔ اس آیت کریمہ کا مفہوم مخالف یہ ہے کہ اہل ایمان کی توحید جو اللہ تعالیٰ کے حکم کی مطیع ہیں، اس کی آیات کی تصدیق کرنے والی ہیں، ان کے لئے آسمان کے دروازے کھول دیئے جائیں گے یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف بلند ہوں گی اور عالم علوی میں وہاں پہنچ جائیں گی جہاں اللہ تعالیٰ چاہے گا اور اپنے رب کے قرب اور اس کی رضا کا لطف اٹھائیں گی۔ اہل جہنم کے بارے میں فرمایا : ﴿ وَلَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّىٰ يَلِجَ الْجَمَلُ ﴾ ” وہ جنت میں داخل نہ ہوں گے، یہاں تک کہ داخل ہو اونٹ“ یعنی معروف اونٹ۔﴿فِي سَمِّ الْخِيَاطِ﴾ ” سوئی کے ناکے میں“ یعنی جب تک اونٹ جو کہ سب سے بڑا حیوان ہے، سوئی کے ناکے میں سے جو کہ سب سے تنگ گزرنے کی جگہ ہے، نہ گزر جائے۔ یہ کسی چیز کو محال کے ساتھ معلق کرنے کے باب میں سے ہے، یعنی جس طرح اونٹ کا سوئی کے ناکے میں گزرنا محال ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ کی آیات کی تکذیب کرنے والوں کا جنت میں داخل ہونا محال ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ إِنَّهُ مَن يُشْرِكْ بِاللَّـهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّـهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَاهُ النَّارُ ﴾(المائدۃ:5؍72)”جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرے گا اللہ تعالیٰ جنت کو اس پر حرام کر دے گا اور اس کاٹھکانا جہنم ہوگا“ اور یہاں فرمایا :﴿ وَكَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُجْرِمِينَ﴾” اور ہم اسی طرح بدلہ دیتے ہیں گناہ گاروں کو“ یعنی وہ لوگ جن کے جرائم بہت زیادہ اور جن کی سرکشی بے انتہا ہے۔ الاعراف
41 ﴿لَهُم مِّن جَهَنَّمَ مِهَادٌ ﴾ ” ان کے لئے جہنم کا بچھونا ہے“ یعنی ان کے نیچے آگ کے بچھونے ہوں گے ﴿ وَمِن فَوْقِهِمْ غَوَاشٍ﴾” ان کے اوپر سے اوڑھنا“ یعنی عذاب کے بادل ہوں گے جو ان پر چھائے ہوئے ہوں گے ﴿وَكَذَٰلِكَ نَجْزِي الظَّالِمِينَ ﴾” اور اسی طرح ہم بدلہ دیتے ہیں ظالموں کو“ اپنے آپ پر ظلم کرنے والوں کو ہم ان کے جرم کے مطابق جزا دیتے ہیں اور تیرا رب اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا۔ الاعراف
42 جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے نافرمان ظالموں کو دیئے جانے والے عذاب کا ذکر فرمایا، تب اس نے اہل اطاعت بندوں کے ثواب کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : ﴿وَالَّذِينَ آمَنُوا﴾ ” اور جو لوگ ایمان لائے۔“ یعنی جو دل سے ایمان لائے ﴿وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ﴾” اور عمل نیک کرتے رہے۔“ یعنی اپنے جوارح سے نیک عمل کرتے رہے۔ پس اس طرح وہ ایمان و عمل، اعمال ظاہرہ اور اعمال باطنہ کو جمع کرتے ہیں اور بیک وقت فعل واجب اور ترک محرمات پر عمل کرتے ہیں۔ چونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ﴿وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ﴾ایک عام لفظ ہے جو واجب اور مستحب تمام نیکیوں کو شامل ہے، اور بسا اوقات بعض نیکیاں بندے کی مقدرت سے باہر ہوتی ہیں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا﴾ ” ہم ہر نفس کو اس کی طاقت کے مطابق مکلف کرتے ہیں“ اور اس کی مقدرت سے بڑھ کر اس پر بوجھ نہیں ڈالتے۔ لہٰذا اس حال میں اس پر فرض ہے کہ وہ استطاعت بھر اللہ تعالیٰ سے ڈرے اگر بعض فرائض و واجبات کی تعمیل سے عاجز ہو اور ان کو بجا لانے پر قادر نہ ہو تو یہ فرائض اس پر سے ساقط ہوجاتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿ لَا يُكَلِّفُ اللَّـهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا﴾(البقرۃ:2؍286)” اللہ کسی شخص کو اس کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہیں دیتا“ یعنی اللہ تعالیٰ کسی شخص پر صرف وہی چیز فرض کرتا ہے جسے سر انجام دینے کی وہ طاقت رکھتا ہے۔ فرمایا : ﴿ لَا يُكَلِّفُ اللَّـهُ نَفْسًا إِلَّا مَا آتَاهَ ﴾(الطلاق :65؍7) ” اللہ کسی شخص کو تکلیف نہیں دیتا مگر صرف اسی کے مطابق جو اس کو عطا کیا ہے“ فرمایا : ﴿ وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ﴾ (الحج :22؍78) ” اور (اللہ تعالیٰ نے) تم پر دین میں کوئی تنگی نہیں رکھی۔“ فرمایا : ﴿فَاتَّقُوا اللَّـهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ﴾ (التغابن :64؍16) ” پس جہاں تک طاقت ہو اللہ سے ڈرتے رہو۔“ پس معلوم ہوا کہ عاجز ہونے کی صورت میں واجب کی ادائیگی لازم نہیں اور نہ اضطراری صورتحال میں محرمات سے اجتناب واجب رہتا ہے۔ ﴿أُولَـٰئِكَ﴾” ایسے ہی لوگ“ یعنی ایمان اور عمل صالح سے متصف لوگ ﴿ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ﴾ ” اہل بہشت ہیں اس میں ہمیشہ رہیں گے۔“ یعنی انہیں جنت سے نکالا نہیں جائے گا اور نہ وہ خود جنت کے بدلے کوئی اور چیز چاہیں گے، کیونکہ انہیں جنت میں انواع و اقسام کی لذتیں حاصل ہوں گی، تمام خواہشات پوری ہوں گی، انہیں کوئی روک ٹوک نہ ہوگی اور اس سے بلند تر کسی مقام کی طلب نہ ہوگی۔ الاعراف
43 ﴿ وَنَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِم مِّنْ غِلٍّ﴾” اور نکال لیں گے ہم جو کچھ ان کے دلوں میں خفگی ہوگی“ یہ اہل جنت پر اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم اور احسان ہوگا کہ دنیا میں ان کے دلوں میں ایک دوسرے کے خلاف جو کینہ اور بغض اور ایک دوسرے سے مقابلے کی جو رغبت موجود تھی، اللہ تعالیٰ اس کو زائل اور ختم کر دے گا یہاں تک کہ وہ ایک دوسرے سے محبت کرنے والے بھائی اور باصفا دوست ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿ وَنَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِم مِّنْ غِلٍّ إِخْوَانًا عَلَىٰ سُرُرٍ مُّتَقَابِلِينَ﴾(الحجر:15؍47)’’اور ان کے دلوں میں جو کینہ اور کدورت ہوگی ہم اسے نکال دیں گے اور وہ بھائی بھائی بن کر تختوں پر ایک دوسرے کے سامنے بیٹھیں گے۔“ اللہ تعالیٰ ان کو اکرام و تکریم عطا کرے گا جس پر ہر ایک کو خوشی اور مسرت ہوگی اور ہر ایک یہی سمجھے گا کہ جو نعمتیں اسے عطا ہوئی ہیں ان سے بڑھ کر کوئی اور نعمت نہیں اس لئے وہ حسد اور بغض سے محفوظ ومامون رہیں گے، کیونکہ حسد اور بغض کے تمام اسباب منقطع ہوجائیں گے۔﴿تَجْرِي مِن تَحْتِهِمُ الْأَنْهَارُ ﴾ ”بہتی ہوں گی ان کے نیچے نہریں“ یعنی وہ جب چاہیں گے اور جہاں چاہیں گے نہریں نکال لیں گے۔ اگر وہ نہریں اپنے محلات میں لے جانا چاہیں یا اپنے بلند و بالا خانوں میں یا پھولوں سے سجے ہوئے باغات کی روشوں میں لے جانا چاہیں تو لے جائیں گے۔ یہ ایسی نہریں ہوں گی جن میں گڑھے نہیں ہوں گے اور بھلائیاں ہوں گ جن کی کوئی حد نہ ہوگی۔ ﴿وَ﴾ ” اور“ اس لئے جب وہ اللہ تعالیٰ کے انعام و اکرام کو دیکھیں گے ﴿ قَالُوا الْحَمْدُ لِلَّـهِ الَّذِي هَدَانَا﴾ ’’کہیں گے کہ اللہ کا شکر ہے جس نے ہمیں یہاں کا راستہ دکھایا۔“ یعنی وہ پکار اٹھیں گے ہر قسم کی تعریف اللہ تعالیٰ کے لئے ہے جس نے ہم پر احسان فرمایا، ہمارے دلوں میں الہام فرمایا اور اس پر ایمان لے آئے اور ایسے اعمال کئے جو نعمتوں کے اس گھر تک پہنچاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے ایمان و اعمال کی حفاظت کی حتیٰ کہ اس نے ہمیں اس جنت میں داخل کردیا۔ بہت ہی اچھا ہے وہ رب کریم جس نے ہمیں نعمتیں عطا کیں، ظاہری اور باطنی اتنی نعمتوں سے نوازا کہ کوئی ان کو شمار نہیں کرسکتا۔ ﴿ وَمَا كُنَّا لِنَهْتَدِيَ لَوْلَا أَنْ هَدَانَا اللَّـهُ ﴾’’اور اگر اللہ ہم کو راستہ نہ دکھاتا تو ہم راستہ نہ پاسکتے۔“ اگر اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہمیں اپنی ہدایت اور اتباع رسل سے نہ نوازا ہوتا تو ہمارے نفوس میں ہدایت کو قبول کرنے کی قابلیت نہ تھی۔ ﴿ لَقَدْ جَاءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ ۖ﴾” یقیناً لائے تھے ہمارے رب کے رسول سچی بات“ یعنی جب وہ ان نعمتوں سے متمتع ہو رہے ہوں گے جن کے بارے میں انبیاء و مرسلین نے خبر دی تھی اور یہ خبر ان کے لئے علم الیقین کے بعد حق الیقین بن گئی۔ وہ کہیں گے کہ ہمارے سامنے یہ بات متحقق ہوگئی اور ہم نے ہر وہ چیز دیکھ لی ہے جس کا انبیا و رسل نے ہمارے ساتھ وعدہ کیا تھا اور یہ حقیقت بھی واضح ہوگئی کہ وہ سب کچھ حق الیقین ہے جو انبیاء و مرسلین لے کر مبعوث ہوئے۔ جس میں کوئی شک و شبہ اور کوئی اشکال نہیں۔ ﴿وَنُودُوا﴾ ” اور منا دی کردی جائے گی۔“ تہنیت و اکرام اور سلام و احترام کے طور پر انہیں پکارا جائے گا ﴿ أَن تِلْكُمُ الْجَنَّةُ أُورِثْتُمُوهَا ﴾ ” یہ جنت ہے، وارث ہوئے تم اس کے“ یعنی تم اس کے وارث ہو اور یہ تمہاری جاگیر ہے، جب کہ جہنم کافروں کی جاگیر ہوگی۔ ﴿بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ ﴾ ” اپنے اعمال کے بدلے میں“ سلف میں سے کسی نے فرمایا ہے کہ اہل جنت اللہ تعالیٰ کے عفو کی وجہ سے جہنم سے نجات پائیں گے، اس کی رحمت کی بنا پر جنت میں داخل ہوں گے اور اپنے اعمال کے بدلے اس کے وارث بنیں گے اور اس کی منازل کو باہم تقسیم کریں گے اور یہ بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت ہی ہے، بلکہ اس کی رحمت کی بلند ترین نوع ہے۔ الاعراف
44 اللہ تعالیٰ، یہ ذکر کرنے کے بعد کہ اہل ایمان اور کفار جنت اور جہنم میں اپنے اپنے ٹھکانوں میں داخل ہوجائیں گے اور وہاں سب کچھ ویسا ہی پائیں گے جیسا انبیاء و رسل نے ان کو خبر دی تھی اور جیسا کہ ثواب و عقاب کے بارے میں انبیا کی لائی ہوئی کتابوں میں تحریر تھا، فرماتا ہے کہ اہل جنت جہنمیوں کو پکار کر کہیں گے : ﴿أَن قَدْ وَجَدْنَا مَا وَعَدَنَا رَبُّنَا حَقًّا ﴾” کہ جو وعدہ ہمارے رب نے ہم سے کیا تھا ہم نے تو اسے سچا پا لیا۔“ جب اللہ تعالیٰ نے ایمان لانے اور نیک عمل کرنے پر جنت کا وعدہ کیا تو ہم نے اس کے وعدہ کو سچاپایا، اس نے ہمیں جنت میں داخل کردیا ہم نے وہاں وہ سب کچھ دیکھا جو اس نے ہمارے لیے بیان کیا تھا ﴿فَهَلْ وَجَدتُّم مَّا وَعَدَ رَبُّكُمْ حَقًّا﴾” بھلا جو وعدہ تمہارے رب نے تم سے کیا تھا، کیا تم نے بھی اسے سچا پایا؟“ یعنی تمہارے کفر اور معاصی پر تمہارے رب نے جو وعدہ کیا تھا کیا تم نے اسے سچاپایا؟ ﴿قَالُوا نَعَمْ ﴾ ” وہ کہیں گے، ہاں !“ ہم نے اسے سچ پایا۔ پس تمام مخلوق کے سامنے یہ بات واضح ہوجائے گی کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا ہے اور اللہ تعالیٰ کی بات سے زیادہ کس کی بات سچی ہوسکتی ہے؟ تمام شکوک و شبہات دور ہوجائیں گے اور معاملہ حق الیقین بن جائے گا۔ اہل ایمان اللہ تعالیٰ کے وعدے پر خوش ہوں گے، کفار بھلائی سے مایوس ہوجائیں گے۔ وہ اپنے بارے میں خود اقرار کریں گے کہ وہ عذاب کے مستحق ہیں۔ ﴿فَأَذَّنَ مُؤَذِّنٌ بَيْنَهُمْ﴾” تو (اس وقت) ان میں ایک پکارنے والا پکارے گا۔“ پکارنے والا اہل جہنم اور اہل جنت کے درمیان پکار کر کہے گا : ﴿أَن لَّعْنَةُ اللَّـهِ ﴾ ” کہ لعنت ہے اللہ کی‘‘ یعنی ہر بھلائی سے بعد اور محرومی﴿عَلَى الظَّالِمِينَ ﴾” ظالموں پر“ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کے سامنے اپنی رحمت کے دروازے کھولے مگر انہوں نے اپنے ظلم کی وجہ سے ان سے منہ موڑا، خود اپنے آپ کو بھی اللہ تعالیٰ کے راستے سے روکے رکھا اور دوسروں کو بھی اس راستے پر نہ چلنے دیا۔ پس وہ خود بھی گمراہ ہوئے اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس کا راستہ سیدھا رہے اور اس پر چلنے والے اعتدال کے ساتھ اس پر گامزن رہیں۔ الاعراف
45 ﴿وَ﴾ ” اور“ یہ کفار ﴿يَبْغُونَهَا عِوَجًا﴾” ڈھونڈتے ہیں اس میں کجی“ یعنی سیدھے راستے سے ہٹا ہوا ﴿وَهُم بِالْآخِرَةِ كَافِرُونَ﴾” اور وہ آخرت کے منکر تھے“ یہی کفر ہے جو راہ راست سے ان کے انحراف کا باعث بنا اور یہی کفر ہے جو نفس کی شہوات محرمہ کو محور بنانے، آخرت پر عدم ایمان، عذاب سے عدم خوف اور ثواب سے نا امیدی کا موجب بنا۔ اس کا مفہوم مخالف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اہل ایمان پر سایہ کناں، اس کا فضل ان کے شامل حال اور اس کا احسان ان پر متواتر ہے۔ الاعراف
46 یعنی اہل جنت اور اہل جہنم کے درمیان ایک حجاب ہوگا جسے ” مقام اعراف“ کہا جائے گا۔ یہ مقام جنت میں شامل ہوگا نہ جہنم میں۔ اس مقام سے جنت اور جہنم دونوں میں جھانکا جا سکے گا اور جنتیوں اور جہنمیوں کے احوال کو دیکھا جا سکے گا۔ اس مقام اعراف میں کچھ لوگ ہوں گے جو اہل جنت اور اہل جہنم کو ان کی ان علامات کے ذریعے سے پہچانتے ہوں گے جو ان کی امتیازی علامات ہیں۔ جب وہ اہل جنت کی طرف دیکھیں گے تو پکار کر کہیں گے ﴿أَن سَلَامٌ عَلَيْكُمْ﴾ ” سلامتی ہے تم پر“ یعنی وہ ان پر سلام کہیں گے۔ وہ ابھی تک جنت میں داخل نہیں ہوئے ہوں گے البتہ وہ جنت میں داخلے کے امیدوار ہوں گے اور اللہ تعالیٰ ان کے دلوں میں امید تب ہی جاگزیں کرتا ہے جب وہ ان کو اپنی تکریم سے نوازنے کا ارادہ کرتا ہے۔ الاعراف
47 ﴿وَإِذَا صُرِفَتْ أَبْصَارُهُمْ تِلْقَاءَ أَصْحَابِ النَّارِ ﴾” اور جب ان کی نظر اہل جہنم کی طرف جائے گی“ تو ان کو بہت ہی ہولناک اور قبیح منظر دیکھنے کو ملے گا۔ تو وہ پکار اٹھیں گے۔ ﴿ رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ ﴾ ” اے ہمارے رب ہم کو ظالموں کے ساتھ نہ کرنا“ اہل اعراف جب اہل جنت کو دیکھیں گے تو وہ بھی جنت میں ان کی معیت کی خواہش کریں گے اور وہ ان کو تحیہ و سلام پیش کریں گے اور جب غیر اختیاری طور پر ان کی نظریں اہل جہنم کی طرف اٹھیں گی تو وہ عمومی طور پر ان کی حالت سے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کریں گے۔ الاعراف
48 عمومی ذکر کے بعد اللہ تعالیٰ نے خصوصی ذکر کرتے ہوئے فرمایا : ﴿وَنَادَىٰ أَصْحَابُ الْأَعْرَافِ رِجَالًا يَعْرِفُونَهُم بِسِيمَاهُمْ﴾’’اور اعراف والے پکاریں گے ان لوگوں کو کہ ان کو پہچانتے ہوں گے ان کی نشانی سے۔“ اور وہ اہل جہنم ہوں گے، وہ دنیا میں شرف و آبرو اور مال و اولاد والے تھے۔۔۔ ان کو اکیلے عذاب میں مبتلا دیکھ کر کہ اب ان کا کوئی حامی و ناصر نہیں۔۔۔ کہیں گے : ﴿ مَا أَغْنَىٰ عَنكُمْ جَمْعُكُمْ﴾ ” آج تمہاری جماعت تمہارے کچھ کام نہ آئی۔“ یہاں تمہارے وہ جتھے کام نہ آئے جن کی مدد سے دنیا میں اپنی تکالیف دور کیا کرتے تھے۔ دنیاوی مطالب کے حصول کے لئے ان کو وسیلہ بنایا کرتے تھے۔ آج ہر چیز مضمحل ہوگئی اور کچھ بھی تمہارے کام نہ آیا اور اسی طرح حق، حق لانے والے اور حق کی اتباع کرنے والوں کے مقابلے میں تمہارے تکبر نے تمہیں کیا فائدہ دیا؟ پھر وہ اہل جنت کی طرف، جو دنیا میں کمزور و ناتواں اور محتاج ہوا کرتے تھے۔۔۔ اشارہ کر کے اہل جہنم سے کہیں گے الاعراف
49 ﴿أَهَـٰؤُلَاءِ﴾” اب یہ وہی ہیں“ یعنی جن کو اللہ تعالیٰ نے جنت میں داخل کیا ﴿الَّذِينَ أَقْسَمْتُمْ لَا يَنَالُهُمُ اللَّـهُ بِرَحْمَةٍ﴾ ” جن کے بارے میں تم قسمیں کھایا کرتے تھے کہ اللہ اپنی رحمت سے ان کی دستگیری نہیں کرے گا۔“ یعنی تم لوگ اہل ایمان کے ساتھ نفرت اور حقارت کا اظہار کرتے ہوئے نہایت خودپسندی کے ساتھ قسمیں اٹھا کر کہا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ ان کو اپنی رحمت سے نہیں نوازے گا۔ اب تم اپنی قسموں میں جھوٹے ہوگئے ہو۔ اس چیز کی حقیقت تمہارے سامنے اللہ تعالیٰ نے ظاہر کردی ہے جسے تم کسی شمار میں نہیں لایا کرتے تھے۔ ﴿ ادْخُلُوا الْجَنَّةَ﴾” تم جنت میں داخل ہوجاؤ۔“ یعنی اپنے اعمال کے صلہ میں جنت میں داخل ہوجاؤ یعنی کمزور اور ناتواں لوگوں کو اکرام و احترام کے ساتھ کہا جائے گا کہ اپنے نیک اعمال کی جزا کے طور پر جنت میں داخل ہوجاؤ﴿لَا خَوْفٌ عَلَيْكُمْ ﴾مستقبل میں تمہیں کسی تکلیف کا خوف نہ ہوگا ﴿وَلَا أَنتُمْ تَحْزَنُونَ﴾اور جو کچھ گزر گیا ہے تم اس پر غمزدہ نہیں ہو گے۔ بلکہ تم محفوظ و مامون، مطمئن اور ہر بھلائی پر فرحاں و شاداں ہو گے۔۔۔ اس کی نظیر اللہ تبارک و تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے !﴿إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا كَانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ وَإِذَا مَرُّوا بِهِمْ يَتَغَامَزُونَ وَإِذَا انقَلَبُوا إِلَىٰ أَهْلِهِمُ انقَلَبُوا فَكِهِينَ وَإِذَا رَأَوْهُمْ قَالُوا إِنَّ هَـٰؤُلَاءِ لَضَالُّونَ وَمَا أُرْسِلُوا عَلَيْهِمْ حَافِظِينَ فَالْيَوْمَ الَّذِينَ آمَنُوا مِنَ الْكُفَّارِ يَضْحَكُونَ عَلَى الْأَرَائِكِ يَنظُرُونَ﴾(المطففين: 83؍ 29۔35)” وہ مجرم جو دنیا میں اہل ایمان پر ہنسا کرتے تھے جب ان کے پاس سے گزرتے تو حقارت سے اشارے کیا کرتے تھے اپنے گھر واپس لوٹتے تو اکڑفوں کے ساتھ اتراتے ہوئے لوٹتے اور جب اہل ایمان کو دیکھتے تو کہتے یہ تو گمراہ ہیں۔ حالانکہ وہ ان پر نگران بنا کر نہیں بھیجے گئے تھے۔ آج اہل ایمان کافروں پر ہنسیں گے اور اپنے تختوں پر بیٹھے کافروں کا حال دیکھ رہے ہوں گے۔ “ اہل علم اور مفسرین میں اس بارے میں اختلاف ہے کہ اصحاب اعراف سے کیا مراد ہے اور ان کے اعمال کیا ہیں۔ اس بارے میں صحیح مسلک یہ ہے کہ اصحاب اعراف وہ لوگ ہیں جن کی نیکیاں اور برائیاں برابر ہوں گی۔ نہ تو ان کی برائیاں زیادہ ہوں گی جس کی بنا پر وہ جہنم میں داخل ہوجائیں اور نہ ان کی نیکیاں زیادہ ہوں گی کہ جنت میں داخل ہوجائیں۔ پس جب تک اللہ چاہے گا یہ لوگ مقام اعراف میں قیام کریں گے پھر اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے انہیں جنت میں داخل کرے گا کیونکہ اس کی رحمت اس کے غضب پر سبقت کرتی اور غالب آتی ہے اور اس کی رحمت ہر چیز پر سایہ کناں ہے۔ الاعراف
50 جب اہل جہنم کو عذاب پوری طرح گھیر لے گا، جب وہ بے انتہا بھوک اور انتہائی تکلیف دہ پیاس میں مبتلا ہوں گے تو وہ اہل جنت کو پکار کر مدد کے لئے بلائیں گے اور کہیں گے : ﴿أَفِيضُوا عَلَيْنَا مِنَ الْمَاءِ أَوْ مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّـهُ﴾ ”بہاؤ ہم پر تھوڑا سا پانی یا کچھ اس میں سے جو روزی دی تم کو اللہ نے“ یعنی اللہ تعالیٰ نے جو کھانا تمہیں عطا کیا ہے، اہل جنت ان کو جواب میں کہیں گے : ﴿ إِنَّ اللَّـهَ حَرَّمَهُمَا﴾ ” اللہ نے ان دونوں کو حرام کردیا ہے“ یعنی جنت کا پانی اور کھانا ﴿عَلَى الْكَافِرِينَ﴾” کافروں پر“ یہ سب کچھ اس پاداش میں ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی آیات کا انکار کیا اور انہوں نے اس دین کو۔۔۔ جس پر قائم رہنے کا انہیں حکم دیا گیا تھا اور اس پر انہیں بڑے اجر کا وعدہ کیا گیا تھا، الاعراف
51 کھیل تماشا بنا لیا ﴿ لَهْوًا وَلَعِبًا﴾ ” تماشا اور کھیل“ یعنی ان کے دل غافل اور دین سے گریزاں تھے اور انہوں نے دین کا تمسخر اڑایا۔ یا اس کے معنی یہ ہیں کہ انہوں نے دین کے بدلے لہو و لعب کو اختیار کرلیا اور دین قیم کے عوض لہو و لعب کو چن لیا۔ ﴿وَغَرَّتْهُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا ﴾ ” اور دنیا کی زندگی نے انہیں دھوکے میں ڈال دیا۔‘ یعنی دنیا نے اپنی زیب و زینت سے اور دنیا کی طرف بلانے والوں کی کثرت نے انہیں دھوکے میں ڈال دیا۔ پس وہ دنیا سے مطمئن ہو کر اس سے خوش اور راضی ہوگئے اور آخرت سے منہ موڑ کر اسے بھول گئے ﴿فَالْيَوْمَ نَنسَاهُمْ﴾ ” پس آج ہم ان کو بھلا دیں گے“ یعنی انہیں عذاب میں چھوڑ دے رہے ہیں ﴿كَمَا نَسُوا لِقَاءَ يَوْمِهِمْ هَـٰذَا﴾ ” جیسا انہوں نے بھلا دیا اس دن کے ملنے کو“ گویا کہ وہ صرف دنیا ہی کے لئے پیدا کئے گئے ہیں ان کے سامنے کوئی مقصد اور کوئی جزا نہیں ﴿وَمَا كَانُوا بِآيَاتِنَا يَجْحَدُونَ ﴾ ” اور جیسا کہ وہ ہماری آیتوں کے منکر تھے۔ “ الاعراف
52 حال یہ ہے کہ ان کا یہ کفر و حجود اس بنا پر نہ تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی آیات اور اس کی روشن دلیلوں کو سمجھنے سے قاصر تھے ﴿ جِئْنَاهُم بِكِتَابٍ فَصَّلْنَاهُ﴾’’ ہم نے ان کے پاس کتاب پہنچا دی ہے جس کو کھول کھول کر بیان کردیا ہے۔“ بلکہ ہم تو ان کے پاس ایک ایسی کتاب لے کر آئے جس میں ہم نے وہ تمام مطالب کھول کھول کر بیان کردیئے ہیں مخلوق جن کی محتاج ہوتی ہے۔ ﴿عَلَىٰ عِلْمٍ﴾ ” خبر داری سے“ یعنی ہر زمان و مکان میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے احوال کا علم رکھتا ہے کہ ان کے لئے کیا درست ہے اور کیا درست نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کا کھول کھول کر بیان کرنا اس ہستی کا سا نہیں جو معاملات کا علم نہیں رکھتی اور بعض احوال اس سے اوجھل رہ جاتے ہیں اور اس سے کوئی نامناسب فیصلہ ہوجاتا ہے۔ بلکہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا بیان کرنا اس ہستی کا سا ہے جس کا علم ہر چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے اور جس کی رحمت ہر چیز پر سایہ کناں ہے۔ ﴿ هُدًى وَرَحْمَةً لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ ﴾ ” اور وہ مومنوں کے لئے ہدایت اور رحمت ہے۔“ یعنی اس کتاب کے ذریعے سے اہل ایمان کے لئے گمراہی میں سے ہدایت واضح ہوجاتی ہے۔ حق و باطل اور رشد وضلالت کے درمیان فرق واضح اور نمایاں ہوجاتا ہے، نیز وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے مستحق بن جاتے ہیں اور یہ دنیا و آخرت میں بھلائی اور سعادت کا نام ہے اور ان سے اس رحمت کے ذریعے سے گمراہی اور شقاوت دور ہوجاتی ہے۔ الاعراف
53 وہ لوگ جو عذاب کے مستحق ٹھہرے، وہ اس عظیم کتاب پر ایمان نہ لائے تھے اور انہوں نے اس کے اوامرو منہیات کے احکام کی تعمیل نہیں کی تھی اب ان کے لئے کوئی چارہ سوائے اس کے نہیں رہا کہ وہ اس عذاب کے مستحق ہوں اور وہ عذاب ان پر ٹوٹ پڑے جس کے بارے میں قرآن نے آگاہ فرمایا تھا۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿ هَلْ يَنظُرُونَ إِلَّا تَأْوِيلَهُ﴾ ” کیا اب وہ اسی کے منتظر ہیں کہ اس کا مضمون ظاہر ہوجائے“ یعنی کیا وہ اس امر کے واقع ہونے کا انتظار کر رہے ہیں جس کی خبر دی گئی ہے، جیسا کہ یوسف نے اس وقت فرمایا تھا جب ان کا خواب سچا ہوگیا ﴿ هَـٰذَا تَأْوِيلُ رُؤْيَايَ مِن قَبْلُ﴾(یوسف:12؍100) ’’یہ حقیقت ہے میرے خواب کی جو اس سے قبل میں نے دیکھا“ فرمایا : ﴿يَوْمَ يَأْتِي تَأْوِيلُهُ يَقُولُ الَّذِينَ نَسُوهُ مِن قَبْلُ﴾ ” جس دن ظاہر ہوجائے گا اس کا مضمون، کہنے لگیں گے وہ لوگ جو اس کو بھول رہے تھے پہلے سے“ یعنی جو کچھ بیت گیا ہے اس پر ندامت اور تاسف کا اظہار کرتے ہوئے، اپنے گناہوں کی بخشش کے لئے سفارش تلاش کرتے ہوئے اس چیز کا اقرار کر کے جسے لے کر انبیاء و مرسلین مبعوث ہوئے۔ کہیں گے :﴿قَدْ جَاءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ فَهَل لَّنَا مِن شُفَعَاءَ فَيَشْفَعُوا لَنَا أَوْ نُرَدُّ﴾” بے شک لائے تھے ہمارے رب کے رسول سچی بات، سو اب کوئی ہماری سفارش کرنے والے ہیں تو ہماری سفارش کریں یا ہم لوٹا دیئے جائیں“ ﴿فَنَعْمَلَ غَيْرَ الَّذِي كُنَّا نَعْمَلُ﴾ ” تو ہم عمل کریں خلاف اس کے جو ہم کر رہے تھے“ حالانکہ دنیا کی طرف واپس لوٹنے کا وقت گزر چکا ہے﴿فَمَا تَنفَعُهُمْ شَفَاعَةُ الشَّافِعِينَ﴾(المدثر :74؍ 48) ” پس سفارش کرنے والوں کی سفارش ان کے کسی کام نہیں آئے گی۔“ ان کی دنیا میں واپس لوٹنے کی التجا، تاکہ وہ نیک عمل کرسکیں، محض جھوٹ ہے ان کا مقصد تو محض اس عذاب کو دور کرنا ہے جو ان پر وارد ہوچکا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿ وَلَوْ رُدُّوا لَعَادُوا لِمَا نُهُوا عَنْهُ وَإِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ﴾ (الانعام :6؍ 28) ” اگر انہیں دنیا میں دوبارہ بھیج بھی دیا جائے تو یہ وہی کام کریں گے جن سے ان کو روکا گیا ہے۔ بے شک یہ جھوٹ ہیں۔ “ ﴿قَدْ خَسِرُوا أَنفُسَهُمْ﴾” بے شک نقصان میں ڈالا انہوں نے اپنے آپ کو“ جب کہ وہ منافع سے محروم ہوگئے اور ہلاکت کی راہوں پر جا نکلے۔ یہ خسارہ مال اور اثاثوں یا اولاد کا خسارہ نہیں بلکہ یہ تو ایسا خسارہ ہے کہ متاثرین کے لئے اس کی کوئی تلافی ہی نہیں۔ ﴿ وَضَلَّ عَنْهُم مَّا كَانُوا يَفْتَرُونَ ﴾ ” اور گم ہوجائے گا ان سے جو وہ افتراء کیا کرتے تھے“ یعنی دنیا میں اپنی خواہشات نفس اور شیطان کے وعدوں کے مطابق بہتان طرازی کیا کرتے تھے اور اب ان کے سامنے وہ کچھ آگیا جو ان کے کسی حساب ہی میں نہ تھا۔ ان کے سامنے ان کا باطل اور گمراہی اور انبیاء و مرسلین کی صداقت روز روشن کی طرح واضح ہوگئی۔ الاعراف
54 اللہ تبارک و تعالیٰ واضح کرتا ہے کہ وہ اکیلا رب معبود ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔ چنانچہ فرماتا ہے : ﴿إِنَّ رَبَّكُمُ اللَّـهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ ﴾” بے شک تمہارا رب وہ اللہ ہے جس نے پیدا کیا آسمانوں اور زمین کو“ اور جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے، زمین و آسمان کی وسعت، ان کی عظمت، ان کے محکم ہونے، ان کے مہارت کے ساتھ بنے ہوئے اور ان کی انوکھی تخلیق کے باوصف ﴿ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ﴾ ” چھ دن میں“ سب کچھ اللہ تعالیٰ نے چھ دن میں پیدا کیا ہے۔ پہلا دن اتوار تھا اور آخری دن جمعہ تھا۔ جب اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کی تخلیق پوری کردی اور ان کے اندر اپنے تمام امور ودیعت کردیئے۔ ﴿اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ ﴾ ” وہ عرش پر جا ٹھہرا۔“ یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ عرش عظیم پر مستوی ہوا اور عرش عظیم تمام آسمانوں، زمین اور جو کچھ ان کے اندر ہے، سب پر محیط ہے۔ اللہ تعالیٰ عرش عظیم پر اس طرح مستوی ہوا جس طرح اس کے جلال، اس کی عظمت اور اس کی سلطنت کے لائق ہے۔ پس وہ عرش پر مستوی ہوا، اس کا اقتدار تمام ممالک کو شامل ہے، اس نے اپنے تمام احکام تکوینی اور احکام دینی جاری فرمائے۔ بنابریں فرمایا : ﴿يُغْشِي اللَّيْلَ ﴾ ” اڑھاتا ہے وہ رات کو“ ﴿ النَّهَارَ﴾ ” دن پر“ یعنی اندھیری رات روشن دن کو ڈھانپ لیتی ہے اور زمین پر اندھیرا چھا جاتا ہے، انسان آرام کرتے ہیں اور مخلوقات اپنے اپنے مسکنوں میں دن بھر کے آنے جانے اور تھکاوٹ سے آرام پاتے ہیں۔ ﴿ يَطْلُبُهُ حَثِيثًا﴾” کہ وہ اس کے پیچھے لگا آتا ہے دوڑتا ہوا“ جب رات آتی ہے تو دن چلا جاتا ہے اور جب دن آتا ہے تو رات چلی جاتی ہے اور یہ گردش لیل و نہار ہمیشہ جاری رہے گی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کائنات کی بساط لپیٹ دے گا اور بندے اس جہان فانی سے دوسرے جہان میں منتقل ہوجائیں گے۔﴿وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُومَ مُسَخَّرَاتٍ بِأَمْرِهِ﴾ ” اور پیدا کئے سورج، چاند اور تارے، تابع دار اپنے (اللہ) کے حکم کے“ یعنی سورج، چاند اور ستارے اس کی تسخیر و تدبیر سے مسخر ہیں، جو اس کے اوصاف کمال کی دلیل ہے۔ پس ان کی تخلیق اور ان کا اتنا بڑا ہونا اللہ تعالیٰ کی قدرت کا ملہ پر اور اس کائنات کا محکم، مضبوط اور منظم ہونا اللہ تعالیٰ کی حکمت بالغہ پر دلالت کرتا ہے اور سورج، چاند اور ستاروں میں جو ضروری اور بعض دیگر فوائد اور مصالح رکھے گئے ہیں، وہ اس کے بے کراں علم اور بے پایاں رحمت پر دلیل ہیں۔ نیز اس حقیقت پر دلالت کرتے ہیں کہ وہی معبود برحق ہے اور اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ ﴿ أَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ﴾”اسی کے لئے ہے پیدا کرنا بھی اور حکم بھی۔“ یعنی وہی تخلیق کا مالک ہے جس سے تمام مخلوقات مخلوق علوی، مخلوق سفلی، ان کے اعیان، اوصاف اور افعال صادر ہوتے ہیں اور امر کا بھی مالک ہے جو شریعت و نبوت کو متضمن ہے۔ پس ” تخلیق“ اس کے احکام کونی و قدری کو اور ” امر“ احکام دینی و شرعی کو متضمن ہے اور احکام جزا کا اجراء دار بقا میں ہوگا ﴿ تَبَارَكَ اللَّـهُ ﴾ یعنی وہ بلند اور عظمت والا ہے اس کی بھلائی اور احسان بہت زیادہ ہے، وہ اپنی ذات کے اعتبار سے بھی اپنی عظمت اوصاف اور کمال صفات کی بنا پر بہت بابرکت ہے اور مخلوق کو بے پایاں بھلائی اور بے شمار نیکی سے نواز کر دوسروں کو بھی برکت عطا کرتا ہے۔ پس اس کائنات میں جو برکات نظر آتی ہیں وہ اس کی رحمت کے آثار ہیں۔ بنابریں فرمایا : ﴿تَبَارَكَ اللَّـهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ﴾ ” بڑا بابرکت ہے اللہ جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔“ جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی صفت عظمت و جلال کا ذکر فرمایا جو عقل مندوں کی اس حقیقت کی طرف راہ نمائی کرتی ہے کہ تمام حوائج میں وہی اکیلا معبود مقصود ہے۔ تو اب اس چیز کا حکم دیا جو اس حقیقت پر مترتب ہوتی ہے۔ الاعراف
55 ” دعا“ میں دعائے مسئلہ اور دعائے عبادت دونوں شامل ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ وہ اسے پکاریں ﴿ تَضَرُّعًا﴾ ” عاجزی سے۔“ یعنی گڑ گڑا کر اللہ تعالیٰ سے مانگیں اور جم کر اس کی عبادت کریں۔ ﴿وَخُفْيَةً ۚ﴾ ” اور چپکے سے“ یعنی با آواز بلند اور علانیہ نہ گڑا گڑائیں جس سے ریا کا خدشتہ ہو بلکہ چھپ چھپ کر خالص اللہ تعالیٰ کے لئے آہ وزاری کریں ﴿إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ﴾” وہ حد سے بڑھنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔“ یعنی تمام معاملات میں اللہ تعالیٰ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ یہ بھی حد سے تجاوز ہے کہ بندہ اللہ تعالیٰ سے ایسی چیزوں کا سوال کرے جو بندے کے لئے درست نہیں، یا دوسرے سے سوال کرنا ہی چھوڑ دے، یا وہ بہت زیادہ بلند آواز میں دعا مانگے۔ یہ تمام امور تجاوز حدود میں شامل ہیں جو ممنوع ہیں۔ الاعراف
56 ﴿وَلَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ﴾ ” اور زمین میں فساد نہ پھیلاؤ۔“ یعنی اپنی نافرمانیوں کے ذریعے سے زمین میں فساد نہ پھیلاؤ﴿بَعْدَ إِصْلَاحِهَا﴾ ” اس کی اصلاح کے بعد“ یعنی اطاعت اور نیکی کے ذریعے سے اس کی اصلاح کرلینے کے بعد، کیونکہ معاصی اخلاق، اعمال اور رزق کو فاسد کردیتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿ ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ﴾(الروم:30؍41) ’’لوگوں کی بد اعمالیوں کے سبب سے بحر و بر میں فساد پھیل گیا۔“ جیسے نیکیوں سے اخلاق، اعمال، رزق اور دنیا و آخرت کے احوال کی اصلاح ہوتی ہے۔ ﴿وَادْعُوهُ خَوْفًا وَطَمَعًا ۚ﴾ ” اور اس (اللہ) سے خوف کرتے ہوئے اور امید رکھ کر دعائیں مانگتے رہو۔“ اس کے عذاب سے ڈرتے ہوئے اور اس کے ثواب کی امید رکھتے ہوئے اسے پکارو، نیز یہ امید بھی رکھو کہ اللہ تعالیٰ اس دعا کو قبول فرمائے گا اور اس بات سے بھی ڈرو کہ کہیں اللہ تعالیٰ دعا کو رد نہ کر دے۔ اس بندے کی طرح دعا نہ مانگو جو ناز و ادا کے ذریعے سے اپنے رب کے سامنے جرأت اور گستاخی کا مرتکب ہوتا ہے۔ جو خودپسندی کا شکار ہے اور جس نے اپنے نفس کو اس کی اصل حیثیت سے بڑھ کر حیثیت دی ہے اور نہ اس شخص کی طرح دعا مانگو جو غافل دل کے ساتھ دعا مانگتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے آداب دعا کے بارے میں جو کچھ ذکر فرمایا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ دعا میں صرف اللہ تعالیٰ کے لئے اخلاص ہو اور دعائے خفی اللہ تعالیٰ کے لئے اخلاص کو متضمن ہے۔ دعا کا چھپانا اور اس کا اخفاء یہ ہے کہ دل اللہ تعالیٰ سے خائف ہو اور اس کے ساتھ ساتھ دعا کی قبولیت کی امید رکھتا ہو، غافل دل کے ساتھ دعا نہ کرے، اپنے آپ کو مامون نہ سمجھے اور نہ قبولیت دعا کے بارے میں بے پروائی کا اظہار کرے اور یہ چیز دعا میں احسان کا درجہ رکھتی ہے۔ کیونکہ ہر عبادت میں احسان یہ ہے کہ بندہ اس عبادت میں اپنی پوری جدوجہد صرف کر دے، اسے نہایت کا مل طریقے سے ادا کرے اور کسی طور بھی اس میں نقص واقع نہ ہونے دے۔ اسی لئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿إِنَّ رَحْمَتَ اللَّـهِ قَرِيبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِينَ ﴾” اللہ کی رحمت احسان کرنے والوں کے قریب ہے“ یعنی اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مقام احسان پر پہنچنے والے اور اللہ تعالیٰ کے بندوں کے ساتھ بھلائی سے پیش آنے والے لوگ۔ پس بندہ جتنا زیادہ احسان کے مقام پر فائز ہوگا اتنی ہی زیادہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اس کے قریب ہوگی۔ اس آیت کریمہ میں احسان کی ترغیب ہے، جو مخفی نہیں۔ الاعراف
57 اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی قدرت اور رحمت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:﴿ وَهُوَ الَّذِي يُرْسِلُ الرِّيَاحَ بُشْرًا بَيْنَ يَدَيْ رَحْمَتِهِ﴾” اور وہی ہے جو چلاتا ہے ہوائیں خوشخبری لانے والی اس کی رحمت (بارش) سے پہلے“ یعنی وہ ہوائیں جو بارش کی خوشخبری دیتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے بادلوں کو زمین سے اٹھاتی ہیں اور مخلوق اللہ تعالیٰ کی اس رحمت کو دیکھ کر خوش ہوتی ہے اور اس کے برسنے سے قبل ان کے دلوں میں خوشی کے کنول کھل اٹھتے ہیں۔﴿حَتَّىٰ إِذَا أَقَلَّتْ﴾ ” یہاں تک کہ جب وہ اٹھا لاتی ہیں“ یعنی ہوائیں ﴿ سَحَابًا ثِقَالًا﴾” بھاری بادلوں کو“ بعض ہوائیں ان بادلوں کو اٹھاتی ہیں، بعض دوسری ہوائیں ان کو اکٹھا کرتی ہیں اور کچھ ہوائیں ان کو بار دار کرتی ہیں﴿سُقْنَاهُ لِبَلَدٍ مَّيِّتٍ﴾ ” تو ہانک دیتے ہیں ہم اس (بادل) کو ایک مردہ شہر کی طرف“ اس علاقے کے حیوانات ہلاکت کے قریب اور وہاں کے باسی اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہو چکے تھے ﴿فَأَنزَلْنَا بِهِ الْمَاءَ﴾ ” پھر اس (بادل) سے مینہ برساتے ہیں۔“ یعنی اس بادل کے ذریعے سے ہم نے اس مردہ زمین پر خوب پانی برسایا، اللہ تعالیٰ نے ایک ہوا کو مسخر کیا جو بادلوں کو پانی سے لبریز کرتی ہے اور دوسری ہوا اللہ کے حکم سے ان بادلوں کو لخت لخت کر کے بکھیرتی ہے ﴿فَأَخْرَجْنَا بِهِ مِن كُلِّ الثَّمَرَاتِ﴾” پھر نکالتے ہیں ہم اس سے ہر طرح کے پھل“ پس وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت پر خوش ہوجاتے ہیں اور اس کی بھلائی سے خوب فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ﴿ كَذَٰلِكَ نُخْرِجُ الْمَوْتَىٰ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ﴾’’اسی طرح ہم نکالیں گے مردوں کو تاکہ تم نصیحت پکڑو“ یعنی جس طرح ہم نے زمین کے مردہ ہونے کے بعد اس کو نباتات کے ذریعے سے زندہ کیا اسی طرح ہم مردوں کو، جب وہ اپنی قبروں میں ریزہ ریزہ ہو کر مٹی بن چکے ہوں گے، زندہ کریں گے۔ یہ استدلال بہت واضح ہے دونوں امور میں کوئی فرق نہیں۔ زندگی بعد موت کو بعید سمجھتے ہوئے اس کا انکار کرنا۔۔۔ حالانکہ اس کا انکار کرنے والا اس کے نظائر کا مشاہدہ کرتا ہے۔۔۔ عناد اور محسوسات کے انکار کے زمرے میں آتا ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو چشم غفلت سے دیکھنے کی بجائے چشم عبرت سے ان میں غور کرنے اور تدبر و تفکر کی ترغیب دی گئی ہے۔ الاعراف
58 پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان مختلف قطعات زمین میں تیں قطعات کا ذکر فرمایا ہے جس پر بارش برستی ہے۔ ﴿وَالْبَلَدُ الطَّيِّبُ﴾” اور جو شہر پاکیزہ ہے“ یعنی جس کی مٹی اور اصل پاکیزہ ہے، جب اس پر بارش اترتی ہے ﴿ يَخْرُجُ نَبَاتُهُ﴾ ” اس کا سبزہ نکلتا ہے“ جو اس کے لئے تیار ہوتی ہے ﴿ بِإِذْنِ رَبِّهِ﴾” اس کے رب کے حکم سے“ یہ نباتات اللہ تعالیٰ کی مشیت اور ارادے سے ظاہر ہوتی ہیں اور جب تک اللہ تعالیٰ کا حکم نہ ہو تو اشیا کے وجود میں اسباب کوئی مستقل حیثیت نہیں رکھتے۔ ﴿وَالَّذِي خَبُثَ لَا يَخْرُجُ إِلَّا نَكِدًا﴾” اور جو خراب زمین ہے اس میں سے خراب اور حسیس نباتات ہی نکلتی ہیں“ جس میں کوئی فائدہ اور کوئی برکت نہیں ہوتی۔﴿كَذَٰلِكَ نُصَرِّفُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَشْكُرُونَ﴾ ”اسی طرح ہم آیتوں کو شکر گزار لوگوں کے لئے پھیر پھیر کر بیان کرتے ہیں۔“ یعنی ہم آیات کی مختلف انواع اور مثالیں ان لوگوں کے سامنے بیان کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا اعتراف اور اقرار کر کے اس کے شکر گزار ہوتے ہیں اور ان نعمتوں میں اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق تصرف کرتے ہیں۔ پس یہی لوگ ہیں جو ان احکام اور مطالب الٰہیہ سے مستفید ہوتے ہیں جن کی اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں تفصیل بیان کی ہے کیونکہ وہ ان احکام الٰہیہ کو اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت خیال کرتے ہیں جو ان کے رب کی طرف سے ان کے پاس پہنچی ہے اور وہ اپنے آپ کو اس نعمت کا محتاج سمجھتے ہوئے اسے خوشی خوشی قبول کرتے ہیں اور ان احکام میں غور و فکر کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کی استعداد کے مطابق ان کے سامنے ان احکام کے معانی بیان کردیتا ہے۔ یہ دلوں کے لئے ایک مثال ہے جب ان پر وحی الٰہی کا نزول ہوتا ہے یہ مادہ حیات ہے اور بادل بارش کا مادہ ہے۔ قلوب طاہرہ کے پاس جب وحی آتی ہے تو اسے قبول کرتے ہیں اور اسے سیکھتے ہیں اور اپنی فطرت کی پاکیزگی اور اپنے عنصر کی اچھائی کے مطابق نشو و نما پاتے ہیں۔ قلوب خبیثہ جن میں کوئی بھلائی نہیں ہوتی جب ان کے پاس وحی آتی ہے تو وہ قابل قبول مقام و محل نہیں پاتی بلکہ وہ انہیں غافل اور روگرداں یا مخالفت کرنے والے پاتی ہے۔ پس اس کی مثال اس بارش کی مانند ہے جو شور زدہ زمین، ریت کے ٹیلوں اور چٹانوں پر برستی ہے تو ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ أَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَسَالَتْ أَوْدِيَةٌ بِقَدَرِهَا فَاحْتَمَلَ السَّيْلُ زَبَدًا رَّابِيًا﴾(الرعد:13؍17) الخ ” اللہ نے آسمان سے پانی برسایا پھر اپنے اپنے اندازے کے مطابق ندی نالے بہہ نکلے اور پانی نے پھولا ہوا جھاگ اٹھایا۔ “ الاعراف
59 جب اللہ تعالیٰ نے اپنی توحید کے دلائل میں سے ایک اچھا حصہ ذکر فرمایا، تو اب اس کی تائید میں انبیائے کرام کا، جو اس کی توحید کے داعی تھے اور اس رویے کا جو ان کی امتوں کے منکرین توحید کی طرف سے پیش آیا، اسے بیان فرما رہا ہے۔ نیز یہ کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے کیسے اہل توحید کی تائید فرمائی اور انبیاء و مرسلین سے عناد رکھنے والوں اور ان کی اطاعت نہ کرنے والوں کو ہلاک کردیا۔۔۔ اور کیسے انبیاء و مرسلین کی دعوت ایک ہی دین اور ایک ہی عقیدہ پر متفق تھی۔ چنانچہ نوح جو اولین رسول ہیں، کے بارے میں فرمایا :﴿لَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَىٰ قَوْمِهِ﴾” ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا۔“ حضرت نوح علیہ السلام کفار کو اکیلے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف دعوت دیتے تھے جبکہ وہ بتوں کی پوجا کرتے تھے۔ ﴿فَقَالَ﴾ نوح علیہ السلام نے ان سے فرمایا : ﴿ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّـهَ ﴾ ” اے میری قوم ! اللہ کی عبادت کرو۔“ یعنی صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو۔ ﴿مَا لَكُم مِّنْ إِلَـٰهٍ غَيْرُهُ﴾ ” اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں“ کیونکہ وہی خالق و رازق اور تمام امور کی تدبیر کرنے والا ہے اور اس کے سوا ہر چیز مخلوق اور اللہ تعالیٰ کی تدبیر و تصرف کے تحت ہے اور کسی معاملے میں اسے کوئی اختیار نہیں۔ پھر انہیں عدم اطاعت کی صورت میں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈراتے ہوئے فرمایا : ﴿إِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ ﴾ ” میں ڈرتا ہوں تم پر ایک بڑے دن کے عذاب سے“ یہ ان کے لئے نوح کی خیر خواہی اور شفقت ہے کہ وہ ان کے بارے میں ابدی عذاب اور دائمی بدبختی سے خائف ہیں جیسے ان کے بھائی دیگر انبیا و مرسلین مخلوق پر ان کے ماں باپ سے زیادہ شفقت رکھتے تھے۔ الاعراف
60 جب نوح علیہ السلام نے ان سے یہ بات کہی تو انہوں نے حضرت نوح علیہ السلام کو بدترین جواب دیا : ﴿قَالَ الْمَلَأُ مِن قَوْمِهِ﴾” ان کی قوم کے سرداروں نے کہا۔“ یعنی سرداروں اور دولت مند راہنماؤں نے کہا، حق کے سامنے تکبر کرنا اور انبیاء و مرسلین کی اطاعت نہ کرنا، ہمیشہ سے ان کی عادت رہی ہے۔ ﴿إِنَّا لَنَرَاكَ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ﴾ ” ہم دیکھتے ہیں تجھ کو صریح بہکا ہوا“ انہوں نے اسی پر بس نہیں کی۔ اللہ تعالیٰ ان کا برا کرے کہ انہوں نے انبیا و رسل کی اطاعت نہیں کی بلکہ وہ جناب نوح سے تکبر کے ساتھ پیش آئے اور ان کی عیب چینی کی اور ان کو گمراہی سے منسوب کیا پھر انہوں نے آں جناب کو مجرد گمراہ کہنے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ ایسی گمراہی سے منسوب کیا جو ہر ایک پر واضح ہوتی ہے۔ یہ انکار حق اور عناد کی بدترین قسم ہے جو کمزور لوگوں میں عقل و فہم نہیں چھوڑتی یہ وصف تو قوم نوح پر منطبق ہوتا ہے جو بتوں کو خدا مانتے ہیں جن کو انہوں نے خود اپنے ہاتھوں سے پتھروں کو تراش کر بنایا ہے۔ جو سن سکتے ہیں نہ دیکھ سکتے ہیں اور نہ ان کے کسی کام آسکتے ہیں۔ انہوں نے ان خداؤں کو وہی مقام دے دیا جو اس کائنات کو پیدا کرنے والے کا مقام ہے اور ان کے تقرب کے حصول کی خاطر مختلف عبادات ان کے لئے مقرر کردیں۔ اگر ان کا ذہن نہ ہوتا جس کی وجہ سے ان پر اللہ تعالیٰ کی حجت قائم ہوتی ہے تو ان کے بارے میں یہی فیصلہ ہوتا کہ فاتر العقل لوگ ان سے زیادہ ہدایت یافتہ ہیں بلکہ ان سے زیادہ عقل مند ہیں۔ الاعراف
61 نوح علیہ السلام نے نہایت لطیف پیرائے میں جواب دیا جو ان میں رقت پیدا کرے شاید کہ وہ اطاعت کرنے لگیں۔ ﴿يَا قَوْمِ لَيْسَ بِي ضَلَالَةٌ﴾ ” اے میری قوم ! مجھے میں کسی طرح کی گمراہی نہیں ہے۔“ یعنی میں کسی بھی مسئلہ میں کسی طرح بھی گمراہ نہیں ہوں بلکہ میں تو ہدایت یافتہ اور راہ ہدایت دکھانے والا ہوں، بلکہ آنجناب کی راہنمائی، دیگر اولوالعزم رسولوں کی راہ نمائی کی جنس سے ہے اور راہنمائی کی نہایت اعلیٰ اور کامل ترین نوع ہے اور یہ ہے رسالت کاملہ و تامہ کی راہنمائی۔ بنابریں فرمایا ﴿وَلَـٰكِنِّي رَسُولٌ مِّن رَّبِّ الْعَالَمِينَ ﴾ ” لیکن میں تو رسول ہوں رب العالمین کی طرف سے“ یعنی جو میرا، تمہارا اور تمام مخلوق کا رب ہے، جو مختلف انواع کی ربوبیت کے ذریعے سے مخلوق کو نوازتا ہے، اس کی سب سے بڑی ربوبیت یہ ہے کہ اس نے اپنے بندوں کی طرف اپنے رسول بھیجے جو انہیں اعمال صالحہ، اخلاق حسنہ اور عقائد صحیحہ کا حکم دیتے ہیں اور ان کے منافی اور متضاد امور سے روکتے ہیں۔ الاعراف
62 ﴿أُبَلِّغُكُمْ رِسَالَاتِ رَبِّي وَأَنصَحُ لَكُمْ﴾ ” پہنچاتا ہوں تم کو پیغام اپنے رب کے اور خیر خواہی کرتا ہوں تمہاری“ یعنی میری ذمہ داری نہایت خیر خواہی اور شفقت کے ساتھ تمہیں اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کے اوامرونواہی وضاحت کے ساتھ پہنچا دینا ہے۔ ﴿وَأَعْلَمُ مِنَ اللَّـهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ ﴾ ” اور میں جانتا ہوں اللہ کی طرف سے وہ باتیں جو تم نہیں جانتے“ اس لئے جو چیز متعین ہے وہ یہ ہے کہ تم میری اطاعت کرو اور اگر تم علم رکھتے ہو تو میرے حکم کی تعمیل کرو۔ الاعراف
63 ﴿أَوَعَجِبْتُمْ أَن جَاءَكُمْ ذِكْرٌ مِّن رَّبِّكُمْ عَلَىٰ رَجُلٍ مِّنكُمْ﴾” کیا تم کو اس بات سے تعجب ہوا ہے کہ تم میں سے ایک شخص کے ہاتھ تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس نصیحت آئی۔“ یعنی تم اس حالت پر کیوں کر تعجب کرتے ہو جس پر تعجب نہیں ہونا چاہئے وہ یہ کہ تمہارے پاس تم ہی میں سے ایک شخص کے ذریعے سے، جس کی حقیقت، صداقت اور حال سے تم واقف ہو، اللہ تعالیٰ کی طرف سے یاد دہانی، نصیحت اور خیر خواہی آئی؟ یہ صورت حال تم پر اللہ تعالیٰ کی عنایت اور اس کا احسان ہے جس کو شکر گزاری کے ساتھ قبول کیا جانا چاہئے۔ ﴿لِيُنذِرَكُمْ وَلِتَتَّقُوا وَلَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ ﴾ ” تاکہ وہ تمہیں ڈرائے اور تاکہ تم پرہیز گار بنوا اور تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔“ یعنی تاکہ وہ تمہیں درد ناک عذاب سے ڈرائے اور تاکہ تم ظاہری اور باطنی طور پر تقویٰ پر عمل کر کے اپنے لئے نجات کے اسباب مہیا کرو اسی طرح اللہ تعالیٰ کی بے پایاں رحمت حاصل ہوتی ہے۔ الاعراف
64 مگر ان کی بابت نوح کی کوششیں کامیاب نہ ہوئیں﴿فَكَذَّبُوهُ فَأَنجَيْنَاهُ وَالَّذِينَ مَعَهُ فِي الْفُلْكِ﴾” پس انہوں نے اس کو جھٹلایا، پھر ہم نے بچا لیا اس کو اور ان کو جو اس کے ساتھ تھے کشتی میں“ یعنی اس کشتی میں ان کو نجات دی جس کو بنانے کا اللہ تعالیٰ نے نوح کو حکم دیا تھا اور ان کی طرف وحی فرمائی کہ وہ تمام حیوانات میں سے ایک ایک جوڑا، اپنے گھر والوں اور اپنے ساتھی اہل ایمان کو اس کشتی میں سوار کرلیں۔ انہوں نے ان سب کو سوار کرلیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کشتی کے ذریعے سے ان کو نجات دی۔﴿وَأَغْرَقْنَا الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا ۚ إِنَّهُمْ كَانُوا قَوْمًا عَمِينَ﴾ ” اور غرق کردیا ان کو جو جھٹلاتے تھے ہماری آیتوں کو، بے شک وہ لوگ اندھے تھے“ یعنی وہ ہدایت سے اندھے تھے، انہوں نے حق کو دیکھ لیا تھا، اللہ تعالیٰ نے نوح کے ہاتھ پر ان کو ایسی ایسی کھلی نشانیاں دکھائی تھیں کہ عقلمند لوگ ان پر ایمان لے آتے ہیں مگر انہوں نے حضرت نوح علیہ السلام کا تمسخر اڑایا، آنجناب کے ساتھ گستاخی سے پیش آئے اور ان کا انکار کیا۔ الاعراف
65 ﴿وَإِلَىٰ عَادٍ أَخَاهُمْ هُودًا﴾ ” اور قوم عاد کی طرف ان کے بھائی ہود کو بھیجا۔“ یعنی ہم نے عاد اولیٰ کی طرف، جو سر زمین یمن میں آباد تھے ان کے نسبی بھائی ہود علیہ السلام کو رسول بنا کر بھیجا جو ان کو توحید کی دعوت دیتے تھے اور ان کو شرک اور زمین میں سرکشی سے روکتے تھے ﴿ قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّـهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَـٰهٍ غَيْرُهُ ۚ أَفَلَا تَتَّقُونَ ﴾” انہوں نے کہا، اے میری قوم ! اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، پس کیا تم ڈرتے نہیں۔“ اپنے اس رویئے پر قائم رہتے ہوئے تمہیں اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور اس کے عذاب سے ڈر نہیں لگتا؟ مگر انہوں نے حضرت ہود علیہ السلام کی بات مانی نہ ان کی اطاعت کی۔ الاعراف
66 ﴿ قَالَ الْمَلَأُ الَّذِينَ كَفَرُوا مِن قَوْمِهِ ﴾ ” ان کی قوم کے سردار جو کافر تھے، کہنے لگے۔“ یعنی ان کی قوم کے سرداروں نے ان کی دعوت کو ٹھکراتے ہوئے اور ان کی رائے میں عیب چینی کرتے ہوئے کہا : ﴿إِنَّا لَنَرَاكَ فِي سَفَاهَةٍ وَإِنَّا لَنَظُنُّكَ مِنَ الْكَاذِبِينَ ﴾” ہم تجھے بیوقوف اور بے راہ رو سمجھتے ہیں اور ہمارا ظن یہ ہے کہ تو جھوٹا ہے۔ “ ان کے سامنے حقیقت بدل گئی اور ان کا اندھا پن مستحکم ہوگیا کیونکہ انہوں نے اپنے نبی علیہ السلام کی مذمت کی اور ایسے وصف کو ان کی طرف منسوب کیا جس سے خود متصف تھے، حالانکہ ہود لوگوں میں سب سے زیادہ اس وصف سے دور تھے۔ درحقیقت وہ خود بیوقوف اور جھوٹے تھے۔ الاعراف
67 اس شخص سے بڑھ کر کون بیوقوف ہوسکتا ہے جو سب سے بڑے حق کو ٹھکراتا اور اس کا انکار کرتا ہے۔ جو تکبر سے راہ ہدایت دکھانے والوں اور خیر خواہوں کی اطاعت نہیں کرتا۔ جو اپنے دل و جان سے ہر سرکش شیطان کی اطاعت کرتا ہے اور غیر مستحق ہستیوں کی عبادت کرتا ہے چنانچہ وہ پتھروں اور درختوں کی عبادت کرتا ہے جو اس کے کسی کام نہیں آسکتے اور اس شخص سے بڑھ کر کون جھوٹا ہوسکتا ہے جو ان مذکورہ امور کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرتا ہے؟﴿قَالَ يَا قَوْمِ لَيْسَ بِي سَفَاهَةٌ ﴾ ” انہوں نے کہا، اے میری قوم، میں بے عقل نہیں“ یعنی وہ کسی طرح بھی بیوقوف نہیں ہیں بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کے رسول، راہ ہدایت دکھانے والے اور ہدایت یافتہ ہیں﴿وَلَـٰكِنِّي رَسُولٌ مِّن رَّبِّ الْعَالَمِينَ﴾” میں جہانوں کے رب کی طرف سے رسول ہوں۔“ الاعراف
68 ﴿أُبَلِّغُكُمْ رِسَالَاتِ رَبِّي وَأَنَا لَكُمْ نَاصِحٌ أَمِينٌ﴾” میں پہنچاتا ہوں تم کو اپنے رب کے پیغام اور میں تمہارا خیر خواہ ہوں، اعتماد کے لائق“ پس تم پر فرض ہے کہ تم میری رسالت کو مانتے ہوئے اور بندوں کے رب کی اطاعت کرتے ہوئے اسے قبول کرو۔ الاعراف
69 ﴿ أَوَعَجِبْتُمْ أَن جَاءَكُمْ ذِكْرٌ مِّن رَّبِّكُمْ عَلَىٰ رَجُلٍ مِّنكُمْ لِيُنذِرَكُمْ﴾ ” کیا تم کو اس بات سے تعجب ہوا ہے کہ تم میں سے ایک شخص کے ہاتھ تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس نصیحت آئی تاکہ وہ تمہیں ڈرائے۔“ یعنی تم ایسے معاملے میں کیوں کر تعجب کرتے ہو جس پر تعجب نہیں ہونا چاہئے اور وہ معاملہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تم ہی میں سے ایک شخص کو جس کو تم خوب جانتے ہو، تمہاری طرف رسول بنا کر بھیجا ہے، وہ تمہیں ان باتوں کی یاد دہانی کراتا ہے جن میں تمہارے مصالح پنہاں ہیں اور تمہیں ان امور کی ترغیب دیتا ہے جن میں تمہارے لئے فائدہ ہے اور تم اس پر اس طرح تعجب کرتے ہوجیسے منکرین تعجب کرتے ہیں۔ ﴿ وَاذْكُرُوا إِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَاءَ مِن بَعْدِ قَوْمِ نُوحٍ ﴾ ’’اور یاد کرو جب کہ تم کو جانشین بنایا قوم نوح کے بعد“ یعنی تم اپنے رب کی حمد و ثنا بیان کرو اور اس کا شکریہ ادا کرو کیونکہ اس نے تمہیں زمین میں اقتدار عطا کیا اور اس نے تمہیں ہلاک ہونے والی قوموں کا جانشین بنایا جنہوں نے رسولوں کو جھٹلایا تھا اللہ تعالیٰ نے ان کو اس پاداش میں ہلاک کردیا اور تمہیں باقی رکھا تاکہ وہ دیکھے کہ تم کیسے عمل کرتے ہو۔ تم رسولوں کی تکذیب پر جمے رہنے سے بچو، جیسے وہ جمے رہے ورنہ تمہارے ساتھ بھی وہی سلوک ہوگا جو ان کے ساتھ ہوا تھا۔ اللہ تعالیٰ کی نعمت کو یاد رکھو جو اس نے تمہارے لئے مختص کی اور وہ نعمت یہ ہے ﴿وَزَادَكُمْ فِي الْخَلْقِ بَسْطَةً ﴾” اس نے زیادہ کردیا تمہارے بدن کا پھیلاو“ یعنی اس نے تمہیں بہت زیادہ قوت، بڑے بڑے مضبوط جسم اور نہایت سخت پکڑ عطا کی۔﴿فَاذْكُرُوا آلَاءَ اللَّـهِ ﴾ ” پس اللہ کی نعمتوں کو یاد کرو۔“ یعنی تم اللہ تعالیٰ کی بے پایاں نعمتوں اور اس کے مکرر احسانات کو یاد رکھو ﴿ لَعَلَّكُمْ﴾ ” تاکہ تم“ یعنی اگر تم ان نعمتوں کو شکر گزاری کے ساتھ اور ان کا حق ادا کرتے ہو یاد رکھو گے ﴿تُفْلِحُونَ ﴾ ” کامیاب ہوجاؤ“ یعنی اپنے مطلوب و مقصود کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاؤ گے اور اس چیز سے نجات پالو گے جس سے ڈرتے ہو۔ ہود علیہ السلام نے ان کو نصیحت کی، ان کو توحید کا حکم دیا اور ان کے سامنے خود اپنے اوصاف بیان کئے اور فرمایا کہ وہ ان کے لئے نہایت امانت دار خیر خواہ ہیں۔ انہیں اس بات سے ڈرایا کہ کہیں اللہ تعالیٰ ان کا اسی طرح مواخذہ نہ کرے جس طرح اس نے ان سے پہلی قوموں کا مواخذہ کیا ہے۔ ان کو اللہ تعالیٰ کی نعمتیں یاد دلائیں اللہ تعالیٰ کا احسان یاد دلایا جو وافر رزق کی صورت میں ان پر کیا گیا۔ مگر انہوں نے جناب ہود علیہ السلام کی اطاعت کی نہ ان کی دعوت کو قبول کیا۔ الاعراف
70 ﴿ قَالُوا﴾ انہوں نے ہود علیہ السلام کی دعوت پر تعجب کرتے اور ان کو خبردار کرتے ہوئے کہ یہ بہت محال ہے کہ وہ ان کی اطاعت کریں، کہا ﴿أَجِئْتَنَا لِنَعْبُدَ اللَّـهَ وَحْدَهُ وَنَذَرَ مَا كَانَ يَعْبُدُ آبَاؤُنَا ﴾ ” کیا تو ہمارے پاس اس وواسطے آیا کہ ہم صرف ایک اللہ کی بندگی کریں اور ان کو چھوڑ دیں جن کو ہمارے باپ دادا پوجتے رہے“ اللہ تعالیٰ ان کا برا کرے کہ انہوں نے اس امر کے مقابلے میں، جو سب سے زیادہ واجب اور سب سے زیادہ کامل ہے، اس مذہب کو پیش کیا جس پر انہوں نے اپنے آباء و اجداد کو گامزن پایا۔ اپنے گمراہ آباء و اجداد کے شرک اور عبادت اصنام کو انبیاء و مرسلین کی دعوت یعنی اللہ وحدہ لاشریک کی توحید پر ترجیح دی اور اپنے نبی کو جھٹلایا اور کہنے لگے : ﴿فَأْتِنَا بِمَا تَعِدُنَا إِن كُنتَ مِنَ الصَّادِقِينَ﴾” پس لے آ تو ہمارے پاس جس چیز سے تو ہم کو ڈراتا ہے، اگر تو سچا ہے“ یہ مطالبہ خود ان کی طرف سے تھا۔ الاعراف
71 ﴿قَالَ﴾ہود علیہ السلام نے ان سے کہا : ﴿ قَدْ وَقَعَ عَلَيْكُم مِّن رَّبِّكُمْ رِجْسٌ وَغَضَبٌ ﴾” تم پر واقع ہوچکا ہے تمہارے رب کی طرف سے عذاب اور غصہ“ یعنی اللہ تعالیٰ کے عذاب کا واقع ہونا اٹل ہے کیونکہ اس کے اسباب وجود میں آگئے اور ان کی ہلاکت کا وقت قریب آگیا ﴿ أَتُجَادِلُونَنِي فِي أَسْمَاءٍ سَمَّيْتُمُوهَا أَنتُمْ وَآبَاؤُكُم﴾ ” کیا تم مجھ سے ایسے ناموں کے بارے میں جھگڑتے ہو جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے خود رکھ لئے ہیں۔“ یعنی تم ایسے امور میں میرے ساتھ کیوں کر جھگڑتے ہو جن کی کوئی حقیقت نہیں اور ان بتوں کے بارے میں میرے ساتھ کیسے بحث کرتے ہو جن کو تم نے معبودوں کے نام سے موسوم کر رکھا ہے حالانکہ ان کے اندر الوہیت کی ذرہ بھر بھی صفت نہیں ﴿مَّا نَزَّلَ اللَّـهُ بِهَا مِن سُلْطَانٍ ﴾ ” اللہ نے ان پر کوئی دلیل نہیں اتاری“ کیونکہ اگر یہ واقعی معبود ہوتے تو اللہ تعالیٰ ان کی تائید میں ضرور کوئی دلیل نازل فرماتا۔ پس اللہ تعالیٰ کی طرف سے دلیل کا عدم نزول، ان کے باطل ہونے کی دلیل ہے، کیونکہ کوئی ایسا مطلوب و مقصود نہیں۔۔۔ خاص طور پر بڑے بڑے امور۔۔۔ جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے دلائل و براہین کو بیان نہ فرما دیا ہو اور ایسی حجت نازل نہ فرما دی ہو جس کے ہوتے مطلوب و مقصود نہیں رہ سکتا۔ ﴿فَانتَظِرُوا ﴾ ” پس تم انتظار کرو۔“ یعنی پس اس عذاب کا انتظار کرو جو تم پر ٹوٹ پڑنے والا ہے جس کا میں نے تمہارے ساتھ وعدہ کیا ہے ﴿ إِنِّي مَعَكُم مِّنَ الْمُنتَظِرِينَ﴾” میں بھی تمہارے ساتھ منتظر ہوں“ اور انتظار کی دونوں اقسام میں فرق ہے۔ ایک انتظار اس شخص کا انتظار ہے جو عذاب کے واقع ہونے سے ڈرتا ہے دوسرا انتظار اس شخص کا انتظار ہے جو اللہ تعالیٰ کی مدد اور ثواب کا امیدوار ہے۔ بنابریں اللہ تبارک و تعالیٰ نے دونوں فریقوں کے درمیان فیصلہ فرما دیا۔ الاعراف
72 ﴿فَأَنجَيْنَاهُ﴾ پس ہم نے ہود علیہ السلام کو نجات دے دی﴿وَالَّذِينَ﴾ ” اور ان کو جو ایمان لائے تھے“ ﴿ مَعَهُ بِرَحْمَةٍ مِّنَّا﴾” اس کے ساتھ، اپنی رحمت سے“ کیونکہ وہی ہے جس نے ان کی ایمان کی طرف راہنمائی کی اور ان کے ایمان کو ایسا سبب بنایا جس کے ذریعے سے وہ اس کی رحمت حاصل کرتے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے ان کو نجات عطا کردی۔ ﴿وَقَطَعْنَا دَابِرَ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا﴾” اور جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا تھا ان کی جڑ کاٹ دی۔“ یعنی ہم نے سخت عذاب کے ذریعے سے ان کی جڑ کاٹ دی اور اس عذاب نے ان میں سے کسی کو باقی نہ چھوڑا اور اللہ تعالیٰ نے ان پر نامبارک سخت ہوا مسلط کردی۔ وہ جس چیز پر بھی چلتی اسے ریزہ ریزہ کرتی چلی جاتی۔ پس وہ ہلاک کردیئے گئے اور وہ ایسے ہوگئے کہ ان کے گھروں کے سوا کہیں کچھ نظر نہیں آتا تھا۔ پس ان لوگوں کا انجام دیکھو جن کو اس انجام سے ڈرایا گیا تھا، ان پر حجت قائم کی گئی تھی مگر انہوں نے تسلیم نہ کیا، ان کو ایمان لانے کا حکم دیا گیا تھا مگر وہ ایمان نہ لائے۔ تب ان کا انجام ہلاکت، رسوائی اور فضیحت کی صورت میں ظاہر ہوا۔ ﴿وَأُتْبِعُوا فِي هَـٰذِهِ الدُّنْيَا لَعْنَةً وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ ۗ أَلَا إِنَّ عَادًا كَفَرُوا رَبَّهُمْ ۗ أَلَا بُعْدًا لِّعَادٍ قَوْمِ هُودٍ ﴾(ھود:11؍ 60)’’اور اس دنیا میں بھی لعنت ان کا پیچھا کرتی رہی اور قیامت کے روز بھی یہ لعنت ان کے پیچھے لگی رہے گی۔ دیکھو عاد نے اپنے رب کا انکار کیا اور دیکھو ہود کی قوم عاد پر پھٹکار ہے۔ “ یہاں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا ﴿وَقَطَعْنَا دَابِرَ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا ۖ وَمَا كَانُوا مُؤْمِنِينَ ﴾” اور جڑ کاٹ دی ہم نے ان کی جو جھٹلاتے تھے ہماری آیتوں کو اور نہیں مانتے تھے“ یعنی وہ کسی طرح بھی ایمان نہ لائے تھے، بلکہ تکذیب اور عنادان کا وصف، تکبر اور فسادان کی پہچان تھی۔ //﴿وَاذْكُرُوا إِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَاءَ﴾ ” اور یاد کرو جب اس نے تمہیں جانشین بنایا۔“ یعنی یاد کرو اس وقت کو، جب زمین میں تمہیں جانشین بنایا، تم اس زمین سے فائدہ اٹھاتے ہو اور اپنے مقاصد حاصل کرتے ہو : ﴿مِن بَعْدِ عَادٍ﴾ ” عاد کے بعد“ جن کو اللہ تعالیٰ نے ہلاک کر ڈالا اور ان کے بعد تمہیں ان کا جانشین مقرر کیا۔ ﴿ وَبَوَّأَكُمْ فِي الْأَرْضِ﴾ ’’اور تمہیں زمین پر آباد کیا۔“ یعنی اس نے زمین میں تمہیں ٹھکانا عطا کیا اور اس نے تمہیں وہ اسباب مہیا کئے جان کے ذریعے سے تم اپنے ارادوں اور مقاصد کو پورا کرتے ہو۔ ﴿تَتَّخِذُونَ مِن سُهُولِهَا قُصُورًا ﴾ ” اور بناتے ہو تم نرم زمین میں محل“ یعنی نرم اور ہموار زمین پر جہاں پہاڑ نہیں ہوتے۔۔۔ تم قصر تعمیر کرتے ہو ﴿ وَتَنْحِتُونَ الْجِبَالَ بُيُوتًا﴾” اور پہاڑوں کو تراش تراش کر بناتے ہو گھر“ جیسا کہ پہاڑوں میں ان کے آثار اور مساکن وغیرہ دیکھ کر اب تک مشاہدہ ہوا ہے اور جب تک یہ پہاڑ باقی ہیں یہ آثار بھی باقی رہیں گے۔ الاعراف
73 ﴿ وَإِلَىٰ ثَمُودَ﴾ ” اور ثمود کی طرف“ ثمود قدیم عربوں کا معروف قبیلہ تھا جو جزیرۃ العرب اور ارض حجاز میں حجر اور اس کے اردگرد کے علاقوں میں آباد تھا ﴿أَخَاهُمْ صَالِحًا﴾ اللہ تعالیٰ نے صالح علیہ السلام کو نبی بنا کر ان کی طرف مبعوث کیا جو انہیں توحید اور ایمان کی دعوت دیتے تھے اور انہیں شرک اور اللہ تعالیٰ کے ہمسر گھڑنے سے روکتے تھے۔﴿قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّـهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَـٰهٍ غَيْرُهُ﴾” انہوں نے کہا : اے میری قوم ! اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔“ صالح کی دعوت بھی وہی تھی جو ان کے بھائی دیگر انبیا و مرسلین کی دعوت تھی یعنی اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حکم دینا اور یہ واضح کردینا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا بندوں کا کوئی الٰہ نہیں﴿قَدْ جَاءَتْكُم بَيِّنَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ﴾ ” تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک معجزہ آچکا ہے۔“ یعنی ایک خارق عادت دلیل تمہارے پاس آگئی ہے جو آسمانی معجزہ ہے اور انسان اس قسم کی نشانی پیش کرنے پر قادر نہیں۔ پھر اس کی تفسیر بیان کرتے فرمایا : ﴿هَـٰذِهِ نَاقَةُ اللَّـهِ لَكُمْ آيَةً﴾ ” یہی اللہ کی اونٹنی تمہارے لئے معجزہ ہے۔“ یہ شرف و فضل کی حامل اونٹنی ہے کیونکہ اللہ کی طرف اس کی اضافت اس کے شرف کی باعث ہے اور اس میں تمہارے لئے ایک عظیم نشانی ہے۔ صالح علیہ السلام نے اس اونٹنی کے معجزہ ہونے کی وجہ بیان فرمائی : ﴿لَّهَا شِرْبٌ وَلَكُمْ شِرْبُ يَوْمٍ مَّعْلُومٍ﴾ (الشعراء :26؍ 155) ” ایک دن اس کے پانی پینے کی باری ہے اور ایک مقررہ دن تمہارے پانی پینے کی باری ہے“ ان کے ہاں ایک بہت بڑا کنواں تھا جو ” اونٹنی والا کنواں“ کے نام سے معروف تھا۔ اسی کنوئیں سے وہ اور اونٹنی اپنی اپنی باری کے مطابق پانی پیتے تھے۔ ایک دن اونٹنی کے پانی پینے کے لئے مقرر تھا۔ وہ اس اونٹنی کے تھنوں سے دودھ پیتے تھے۔ ایک دن لوگوں کے لئے مقرر تھا، اس دن وہ کنوئیں پر پانی لینے کی غرض سے آتے، تو اونٹنی وہاں سے چلی جاتی۔ ان کے نبی صالح علیہ السلام نے ان سے کہا : ﴿فَذَرُوهَا تَأْكُلْ فِي أَرْضِ اللَّـهِ ﴾ ” پس اس کو چھوڑ دو کہ کھائے اللہ کی زمین میں“ تم پر اس اونٹنی کا کچھ بھی بوجھ اور ذمہ داری نہیں ﴿وَلَا تَمَسُّوهَا بِسُوءٍ ﴾ اور نہ ہاتھ لگاؤ اس کو بری طرح“ یعنی اس کی کونچیں وغیرہ کاٹنے کی نیت سے اسے مت چھونا ﴿ فَيَأْخُذَكُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴾ ” ورنہ تمہیں ایک درد ناک عذاب آ لے گا۔ “ الاعراف
74 ﴿ فَاذْكُرُوا آلَاءَ اللَّـهِ﴾” پس اللہ کی نعمتوں کو یاد کرو۔“ یعنی تم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو یاد کرو کہ اس نے تمہیں اپنے فضل و کرم، رزق اور قوت سے نوازا﴿وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ﴾ ” اور زمین میں فساد نہ کرتے پھرو۔“ یعنی فساد اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں کے ذریعے سے زمین کو مت اجاڑو، کیونکہ گناہ آباد شہریوں کو بیابان بنا دیتے ہیں۔ چنانچہ ان کے شہر ان سے خالی ہوگئے اور ان کے مساکن بے آباد اجڑے ہوئے باقی رہ گئے۔ الاعراف
75 ﴿قَالَ الْمَلَأُ الَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا مِن قَوْمِهِ﴾اس کی قوم کے وہ رؤسا اور اشراف، جنہوں نے تکبر سے حق کو ٹھکرایا۔ انہوں نے کہا ﴿لِلَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا ﴾” ان لوگوں سے جو کمزور تھے“ چونکہ تمام مستضعفین مومن نہ تھے ﴿ لِمَنْ آمَنَ مِنْهُمْ أَتَعْلَمُونَ أَنَّ صَالِحًا مُّرْسَلٌ مِّن رَّبِّهِ﴾” کہ جو ان میں سے ایمان لا چکے تھے، کیا تم جانتے ہو کہ صالح کو اس کے رب نے بھیجا ہے؟“ یعنی انہوں نے ان مستضعفین سے کہا جو صالح علیہ السلام پر ایمان لے آئے تھے کہ آیا صالح سچا ہے یا جھوٹا؟ مستضعفین نے جواب دیا ﴿ قَالُوا إِنَّا بِمَا أُرْسِلَ بِهِ مُؤْمِنُونَ ﴾ ” ہم کو تو جو وہ لے کر آیا، اس پر یقین ہے“ یعنی توحید الٰہی، اس کے بارے میں خبر اور اللہ کے اوامرونواہی ان سب پر ہم ایمان رکھتے ہیں۔ الاعراف
76 ﴿ قَالَ الَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا إِنَّا بِالَّذِي آمَنتُم بِهِ كَافِرُونَ﴾” ان لوگوں نے کہا جنہوں نے تکبر کیا، جس پر تم کو یقین ہے، ہم اس کو نہیں مانتے“ تکبر نے ان کو اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ حق کی اطاعت نہ کریں جس کی اطاعت قوم صالح کے کمزور و ناتواں لوگ کر رہے ہیں۔ الاعراف
77 ﴿فَعَقَرُوا النَّاقَةَ﴾ ” پس انہوں نے اس اونٹنی کو ہلاک کردیا“ جس کے بارے میں جناب صالح نے ان کو دھمکی دی تھی کہ اگر انہوں نے اس اونٹنی کو بری نیت سے ہاتھ لگایا تو ان پر درد ناک عذاب نازل ہوگا﴿وَعَتَوْا عَنْ أَمْرِ رَبِّهِمْ﴾ ” اور سرکشی کی انہوں نے اپنے رب کے حکم سے“ یعنی انہوں نے سخت دلی کا مظاہرہ کیا اور اس کے حکم کو تکبر سے ٹھکرا دیا کہ جس کے خلاف اگر کوئی سرکشی کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے سخت عذاب کا مزا چکھاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر وہ عذاب نازل کیا جو دوسروں پر نازل نہیں کیا۔ ﴿وَقَالُوا﴾ ان افعال کے ارتکاب کے ساتھ ساتھ انہوں نے جناب الٰہی میں جسارت کرتے ہوئے، اسے عاجز سمجھتے ہوئے اور اپنے کرتوتوں کی پروانہ کرتے ہوئے، بلکہ ان پر فخر کرتے ہوئے کہا : ﴿ يَا صَالِحُ ائْتِنَا بِمَا تَعِدُنَا﴾ ” اے صالح ! لے آہم پر جس سے تو ہم کو ڈراتا ہے“ یعنی جس عذاب کی تو ہمیں دھمکی دیتا ہے ﴿إِن كُنتَ مِنَ الْمُرْسَلِينَ ﴾اگر تو رسول ہے۔ ﴿فَقَالَ تَمَتَّعُوا فِي دَارِكُمْ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ ۖ ذَٰلِكَ وَعْدٌ غَيْرُ مَكْذُوبٍ ﴾ (هود: 11؍ 65) ’’صالح نے کہا اپنے گھروں میں تین دن فائدہ اٹھا لو یہ ایسا وعدہ ہے جو جھوٹا نہ ہو گا۔‘‘ الاعراف
78 ﴿فَأَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ فَأَصْبَحُوا فِي دَارِهِمْ جَاثِمِينَ﴾” پس آپکڑا ان کو زلزلے نے پھر صبح کو رہ گئے اپنے گھروں میں اوندھے پڑے“ وہ اپنے گھٹنوں کے بل اوندھے منہ پڑے رہ گئے۔ اللہ نے ان کو ہلاک کردیا اور ان کی جڑ کاٹ دی۔ الاعراف
79 ﴿فَتَوَلَّىٰ عَنْهُمْ﴾ ” پس صالح ان سے منہ پھیر کر چل دیئے“ جب اللہ تعالیٰ نے ان پر عذاب نازل فرمایا تو صالح علیہ السلام ان کو چھوڑ کر چل دیئے ﴿وَقَالَ﴾ اور اللہ تبارک و تعالیٰ کے ان کو ہلاک کردینے کے بعد ان سے مخاطب ہو کر ان کو زجر و توبیخ کرتے ہوئے فرمایا : ﴿يَا قَوْمِ لَقَدْ أَبْلَغْتُكُمْ رِسَالَةَ رَبِّي وَنَصَحْتُ لَكُمْ ﴾ ” اے میری قوم ! میں نے تم کو اللہ کا پیغام پہنچا دیا اور تمہاری خیر خواہی کی۔“ یعنی میں ان تمام احکامات کو تم تک پہنچا چکا ہوں جن کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے مجھے تمہاری طرف مبعوث کیا تھا۔ میں تمہاری ہدایت کا بہت متمنی تھا اور میں نے تمہیں صراط مستقیم اور دین قیم پر گامزن کرنے کی بہت کوشش کی۔﴿وَلَـٰكِن لَّا تُحِبُّونَ النَّاصِحِينَ﴾ ” لیکن تم خیر خواہوں کو پسند نہیں کرتے“ بلکہ تم نے خیر خواہوں کی بات کو ٹھکرا دیا اور ہر دھتکارے ہوئے شیطان کی اطاعت کی۔ معلوم ہونا چاہئے کہ اس قصہ کے ضمن میں بہت سے مفسرین ذکر کرتے ہیں کہ صالح علیہ السلام کی اونٹنی ایک نہایت سخت اور چکنی چٹان سے اس وقت برآمد ہوئی تھی جب کفار نے صالح علیہ السلام سے معجزے کا مطالبہ کیا تھا۔ اس پتھر نے اونٹنی کو اسی طرح جنم دیا تھا جس طرح کوئی حاملہ اپنے بچے کو جنم دیتی ہے۔ ان کے دیکھتے دیکھتے یہ اونٹنی پتھر میں سے برآمد ہوئی۔ جب انہوں نے اونٹنی کو ہلاک کیا تو اس کے ساتھ اس کا بچہ بھی تھا۔ یہ بچہ تین بار بلبلایا، اس کے سامنے پہاڑ پھٹ گیا اور اونٹنی کا یہ بچہ پہاڑ کے اس شگاف میں داخل ہوگیا۔ نیز ان مفسرین کے مطابق صالح علیہ السلام نے کفار سے فرمایا تھا کہ تم پر عذاب کے نازل ہونے کی نشانی یہ ہے کہ ان مذکورہ تین دنوں میں پہلے دن تمہارے چہرے زرد، دوسرے دن سرخ اور تیسرے دن سیاہ پڑجائیں گے اور جیسے حضرت صالح علیہ السلام نے کہا تھا ویسا ہی ہوا۔ ان مفسرین کا بیان کردہ یہ قصہ اسرائیلیات میں شمار ہوتا ہے جن کو اللہ کی کتاب کی تفسیر میں نقل کرنا مناسب نہیں۔ قرآن مجید میں کوئی ایسی چیز وارد نہیں ہوئی جو کسی بھی پہلو سے اس کی صداقت پر دلالت کرتی ہو، بلکہ اس کے برعکس اگر یہ قصہ صحیح ہوتا تو اللہ تعالیٰ اس کا ضرور ذکر فرماتا، کیونکہ یہ واقعہ بہت تعجب انگیز، عبرت انگیز اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانی ہوتا اللہ تعالیٰ کبھی اس کو مہمل نہ چھوڑتا اور اپنی کتاب میں اس کا ذکر کئے بغیر نہ رہتا اور یوں یہ قصہ ناقابل اعتماد ذرائع سے نقل نہ ہوتا۔ بلکہ قرآن کریم اس قصہ کے بعض مشمولات کی تکذیب کرتا ہے۔ صالح علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا تھا : ﴿ تَمَتَّعُوا فِي دَارِكُمْ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ﴾ (ھود :11؍65) ” اپنے گھروں میں تین دن اور فائدہ حاصل کرلو۔“ یعنی اس بہت ہی تھوڑے سے وقت میں نعمتوں اور لذتوں سے استفادہ کرلو، کیونکہ اس کے بعد تمہارے حصے میں کوئی لذت نہ ہوگی اور ان لوگوں کے لئے کون سی لذت اور نعمتوں سے فائدہ اٹھانا ہوسکتا ہے، جن کو ان کے نبی نے عذاب کے وقوع کی وعید سنائی ہو اور اس عذاب کے مقدمات کا بھی ذکر کردیا ہو اور یہ عذاب روز بروز بتدریج اسی طریقے سے واضح ہو رہا ہو، جو سب کو شامل ہو کیونکہ ان کے چہروں کا سرخ، زرد اور پھر سیاہ ہوجانا اللہ تعالیٰ کا عذاب ہے؟ کیا یہ قصہ قرآن کے بیان کردہ واقعات کے خلاف اور متضاد نہیں ؟ جو کچھ قرآن بیان کرتا ہے وہی کافی ہے اور وہی راہ ہدایت ہے۔ ہاں ! جو چیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہوجائے اور وہ کتاب اللہ کے خلاف نہ ہو تو سر آنکھوں پر اور یہی وہ چیز ہے جس کی اتباع کا قرآن نے حکم دیا ہے۔ ﴿ وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا ﴾(الحشر:59؍7) ” جو کچھ رسول تمہیں دے وہ لے لو اور جس چیز سے روک دے اس سے رک جاؤ۔ “ گزشتہ صفحات میں گزر چکا ہے کہ اسرائیلی روایات سے کتاب اللہ کی تفسیر کرنا جائز نہیں، اگر یہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ ایسے امور کو، جن کا جھوٹ ہونا قطعی نہ ہو، بنی اسرائیل سے روایت کرناجائز ہے۔ تب بھی ان کے ذریعے سے کتاب اللہ کی تفسیر کرناجائز نہیں۔ کیونکہ کتاب اللہ کے معانی یقینی ہیں اور ان اسرائیلیات کی تصدیق کی جاسکتی ہے نہ تکذیب۔ پس دونوں میں اتفاق ناممکن ہے۔ الاعراف
80 ﴿وَلُوطًا ﴾ یعنی ہمارے بندے لوط (علیہ السلام) کا ذکر کیجیے جب ہم نے ان کو ان کی قوم کی طرف مبعوث کیا کہ وہ انہیں صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حکم دیں اور انہیں اس برائی سے روکیں جو پورے جہاں میں ان سے پہلے کسی نے نہیں کی۔ لوط علیہ السلام نے کہا ﴿ أَتَأْتُونَ الْفَاحِشَةَ ﴾ ” کیا تم کرتے ہو ایسی بے حیائی“ یعنی تم ایک ایسے گناہ کا ارتکاب کرتے ہوئے جس کی قباحت اتنی زیادہ ہے کہ فواحش کی تمام اقسام کو اس نے اپنے اندر سمیٹ لیا ہے۔﴿ مَا سَبَقَكُم بِهَا مِنْ أَحَدٍ مِّنَ الْعَالَمِينَ﴾ ” کہ تم سے پہلے نہیں کیا اس کو کسی نے جہان میں“ اس کا فحش ہونا قبیح ترین چیز ہے اور یہ کہ اس قبیح فعل کو ان لوگوں نے شروع کر کے بعد میں آنے والوں کے لئے رواج دیا تھا، اس سے بھی قبیح تر ہے۔ الاعراف
81 پھر لوط علیہ السلام نے واضح کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ إِنَّكُمْ لَتَأْتُونَ الرِّجَالَ شَهْوَةً مِّن دُونِ النِّسَاءِ﴾” خواہش نفسانی پورا کرنے کیلئے عورتوں کو چھوڑ کر لونڈوں پر گرتے ہو۔“ یعنی تم کیسے عورتوں کو چھوڑ کر، جن کو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے پیدا کیا ہے، جن سے تمتع کرنا فطرت اور جبلی شہوت کے مطابق ہے، مردوں کے ساتھ بدفعلی کرتے ہو، جو کہ قباحت اور خباثت کی انتہا ہے۔ یہ جسم کا وہ حصہ ہے جہاں سے گندگی اور بدبو دار مادے خارج ہوتے ہیں اس حصے کو چھونا اور اس کے قریب جانا تو کجا اس کا نام لینے سے بھی شرم آتی ہے۔ ﴿بَلْ أَنتُمْ قَوْمٌ مُّسْرِفُونَ﴾ ” بلکہ تم لوگ ہو حد سے گزرنے والے“ یعنی تم اللہ تعالیٰ کی مقرر کی ہوئی حدود کو پھلانگتے ہو اور اس کے محرمات کے ارتکاب کی جسارت کرتے ہو۔ الاعراف
82 ﴿وَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهِ إِلَّا أَن قَالُوا أَخْرِجُوهُم مِّن قَرْيَتِكُمْ ۖ إِنَّهُمْ أُنَاسٌ يَتَطَهَّرُونَ ﴾ ’’اور نہیں تھا جواب اس قوم کا مگر یہ کہ انکو اپنی بستی سے نکال دو، یہ لوگ بہت ہی پاک رہنا چاہتے ہیں“ یعنی اپنے آپ کو اس فحش کام سے دور رکھنا چاہتے ہیں ﴿ وَمَا نَقَمُوا مِنْهُمْ إِلَّا أَن يُؤْمِنُوا بِاللَّـهِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ﴾(البروج: 85؍ 8)” وہ ان پر صرف اسی بات پر ناراض ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے جو غالب اور قابل ستائش ہے۔ “ الاعراف
83 ﴿ فَأَنجَيْنَاهُ وَأَهْلَهُ إِلَّا امْرَأَتَهُ كَانَتْ مِنَ الْغَابِرِينَ ﴾’’پس ہم نے اس کو اور اس کے گھر والوں کو نجات دی، مگر اس کی بیوی کہ رہ گئی وہ وہاں کے رہنے والوں میں“ یعنی وہ پیچھے رہ جانے اور عذاب میں گرفتار ہونے والی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے لوط علیہ السلام کو حکم دیا کہ وہ اپنے گھر والوں کو لے کر راتوں رات وہاں سے نکل جائیں کیونکہ صبح سویرے ان کی قوم پر عذاب ٹوٹنے والا ہے۔ حضرت لوط علیہ السلام اپنی بیوی کے سوا تمام گھر والوں کو لے کر وہاں سے نکل گئے۔ اس عورت کو بھی اس عذاب نے آلیا جو ان بدکار لوگوں پر آیا تھا۔ الاعراف
84 ﴿ وَأَمْطَرْنَا عَلَيْهِم مَّطَرًا ﴾” اور ہم نے ان پر (پتھروں کا) مینہ برسایا۔“ یعنی ہم نے سخت گرم کھنگر کے پتھر ان پر برسائے اور اللہ تعالیٰ نے اس بستی کو الٹ کر اوپر نیچے کردیا۔ ﴿فَانظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُجْرِمِينَ﴾’’پس دیکھو، کیا ہوا انجام گناہ گاروں کا“ ہلاکت اور دائمی رسوائی۔ الاعراف
85 ﴿ وَإِلَىٰ مَدْيَنَ﴾ ” مدین کی طرف“ یعنی ایک معروف قبیلہ کی طرف﴿أَخَاهُمْ شُعَيْبًا﴾ ” ان کے بھائی شعیب کو“ مبعوث کیا جو نسب میں ان کے بھائی تھے۔ جو انہیں اللہ وحدہ کی عبادت کی طرف دعوت دیتے تھے اور ناپ تول کو پورا کرنے کا حکم دیتے تھے۔ وہ ان کو تلقین کرتے تھے کہ وہ لوگوں کو کم چیزیں نہ دیں اور کثرت معاصی کے ارتکاب سے زمین میں فساد نہ پھیلائیں۔ ﴿وَلَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلَاحِهَا ۚ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ﴾” اور زمین میں خرابی مت ڈالو اس کی اصلاح کے بعد، یہ بہتر ہے تمہارے لئے اگر تم مومن ہو“ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی اطاعت کرتے ہوئے اور اس کے تقرب کی خاطر گناہوں کو ترک کرنا، بندے کے لئے ان گناہوں کے ارتکاب سے۔۔۔ جو اللہ جبار کی ناراضی اور جہنم کے عذاب کا باعث ہے۔۔۔ بہتر اور فائدہ مند ہے۔ الاعراف
86 ﴿وَلَا تَقْعُدُوا بِكُلِّ صِرَاطٍ﴾ ” اور ہر راستے پر نہ بیٹھا کرو۔“ یعنی لوگوں کے لئے راستوں پر گھات لگا کر نہ بیٹھو جہاں کثرت سے لوگوں کا گزر ہوتا ہے اور تم ان راستوں سے لوگوں کو ڈراتے ہو۔ ﴿تُوعِدُونَ﴾ ” ڈراتے ہو۔“ اور ان پر چلنے سے ان کو دھمکاتے ہو۔ ﴿وَتَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّـهِ﴾ ” اور اللہ کے راستے سے روکتے ہو۔“ یعنی جو کوئی راہ راست پر چلنا چاہتا ہے اسے اللہ تعالیٰ کے راستے سے روکتے ہو۔ ﴿وَتَبْغُونَهَا عِوَجًا﴾” اور اس میں کجی ڈھونڈتے ہو۔“ یعنی تم اللہ کے راستے میں کجی چاہتے ہو اور اپنی خواہشات نفس کی پیروی میں اسے ٹیڑھا کرنا چاہتے ہو۔ تم پر اور دوسرے لوگوں پر واجب ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کے راستے کی تعظیم اور احترام کرو جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے مقرر کردیا ہے تاکہ وہ اس کی رضا کی منزل، اور عزت والے گھر تک پہنچنے کے لئے اس پر گامزن ہوں اور اللہ تعالیٰ اس کے سبب سے اپنے بندوں کو اپنی عظیم رحمت سے نوازے۔ تمہیں تو چاہئے کہ تم اس کی مدد کرو، اس کی طرف لوگوں کو دعوت دو اور اس کا دفاع کرو۔ نہ اس کے برعکس کہ تم اس راستے کے راہزن بن کر اس کو مسدود کر دو اور لوگوں کو اس راستے سے روکو کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناسپاسی، اللہ تعالیٰ کے ساتھ عداوت اور سب سے درست اور معتدل راستے کو ٹیڑھا کرنا ہے اور تم ان لوگوں کو برا بھلا کہتے ہو جو اس راستے پر گامزن ہیں۔ ﴿ وَاذْكُرُوا﴾ اور اللہ تعالیٰ کی نعمت کو یاد کرو ﴿إِذْ كُنتُمْ قَلِيلًا فَكَثَّرَكُمْ ﴾ ” جب کہ تم تھوڑے تھے، پس اس نے تم کو زیادہ کردیا“ یعنی تمہیں بیویاں، نسل اور صحت عطا کر کے تمہاری تعداد کو بڑھایا۔ اللہ تعالیٰ نے تمہیں کسی وبا اور کسی ایسی بیماری میں مبتلا نہیں کیا جو تعداد کو کم کردیتی ہے نہ تم پر کوئی ایسا دشمن مسلط کیا جو تمہیں ہلاک کردیتا اور نہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں ٹکڑے ٹکڑے کر کے زمین میں تتر بتر کیا بلکہ یہ اللہ کا تم پر انعام ہے کہ اس نے تمہیں مجتمع رکھا، تمہیں بے حساب رزق اور کثرت نسل سے نوازا۔﴿وَانظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِينَ﴾” اور دیکھو کیا ہوا انجام فساد کرنے والوں کا“ کیونکہ تم ان کی جمعیت میں تشتت اور افتراق اور ان کے گھروں میں وحشت اور ہلاکت کے مناظر کے سوا کچھ نہیں پاؤ گے۔ انہوں نے اپنے بارے میں اپنے پیچھے کوئی اچھے تذکرے نہیں چھوڑے، بلکہ اس کے برعکس اس دنیا میں بھی لعنت ان کا پیچھا کر رہی ہے اور قیامت کے روز بھی ان کو رسوائی اور نصیحت کا سامنا کرنا ہوگا۔ الاعراف
87 ﴿وَإِن كَانَ طَائِفَةٌ مِّنكُمْ آمَنُوا بِالَّذِي أُرْسِلْتُ بِهِ وَطَائِفَةٌ لَّمْ يُؤْمِنُوا﴾ ” اور اگر تم میں سے ایک فرقہ ایمان لایا اس پر جو میرے ہاتھ بھیجا گیا اور ایک فرقہ ایمان نہیں لایا“ اور ایمان نہ لانے والا گروہ ان میں سے اکثریت کا گروہ ہے﴿فَاصْبِرُوا حَتَّىٰ يَحْكُمَ اللَّـهُ بَيْنَنَا ۚ وَهُوَ خَيْرُ الْحَاكِمِينَ﴾ ” تو صبر کرو، یہاں تک کہ اللہ فیصلہ کرے ہمارے درمیان اور وہ سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔“ پس وہ حق کو ماننے والے کی مدد کرے گا اور حق کا ابطال کرنے والے پر عذاب واقع کرے گا۔ الاعراف
88 ﴿قَالَ الْمَلَأُ الَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا مِن قَوْمِهِ﴾ ” کہا ان سرداروں نے جو متکبر تھے اس کی قوم میں سے“ اس سے مرادان کے اشراف اور بڑے آدمی ہیں جنہوں نے اپنی لذات میں مستغرق ہو کر اپنی خواہشات نفس کی پیروی کی، جب ان کے پاس حق آیا اور انہوں نے دیکھ لیا کہ حق ان کی خواہشات نفس کے خلاف ہے تو انہوں نے نہایت تکبر سے حق کو ٹھکرا دیا اور اپنے نبی شعیب اور ان مستضعفین سے کہنے لگے جو حضرت شعیب علیہ السلام کے ساتھ تھے۔ ﴿لَنُخْرِجَنَّكَ يَا شُعَيْبُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَكَ مِن قَرْيَتِنَا أَوْ لَتَعُودُنَّ فِي مِلَّتِنَا ﴾ ” ہم ضرور نکال دیں گے اے شعیب تجھ کو اور ان کو جو تیرے ساتھ ایمان لائے اپنے شہر سے، یا یہ کہ تم لوٹ آؤ اپنے دین میں“ انہوں نے حق کے خلاف بہیمانہ قوت استعمال کی اور انہوں نے کسی اصول، کسی حق کی پاسداری نہ کی۔ انہوں نے تو صرف اپنی خواہشات نفس کی رعایت اور ان کی پیروی کی اور اپنی ناقص عقل کے پیچھے لگے جو ان کے قول فاسد پر دلالت کرتی ہے۔ پس شعیب علیہ السلام سے کہنے لگے ” یا تو تجھے اور تیرے ساتھیوں کو ہمارے دین میں واپس لوٹنا ہوگا یا ہم تجھے اپنی بستی سے نکال باہر کریں گے۔“ شعیب علیہ السلام ان کے ایمان لانے کی امید میں ان کو ایمان کی دعوت دیتے رہے مگر وہ اب تک ایمان نہ لائے اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ انہوں نے آنجناب کو دھمکی دی کہ اگر وہ ان کی پیروی نہیں کریں گے تو وہ ان کو ان کے اس وطن سے جلا وطن کردیں گے جس میں رہنے کے شعیب علیہ السلام اور ان کے اصحاب زیادہ مستحق ہیں۔ ﴿قَالَ﴾شعیب علیہ السلام نے ان کی اس بات پر تعجب کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ أَوَلَوْ كُنَّا كَارِهِينَ ﴾ ” خواہ ہم (تمہارے دین سے) بیزار ہی ہوں۔“ یعنی کیا ہم ناپسند کرتے ہوئے بھی تمہارے باطل دین اور ملت کی اتباع کریں؟ کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ تمہارا دین باطل ہے۔ اس دین کی طرف تو صرف اسی کو دعوت دی جاتی ہے جو اس میں کوئی رغبت رکھتا ہو اور وہ شخص جو علی الاعلان لوگوں کو اس دین کی پیروی سے روکتا ہے اور جو کوئی اس دین کی اتباع کرتا ہے اس کو برا کہتا ہے تو وہ کیوں کر اس دین کی دعوت دے سکتا ہے؟ الاعراف
89 ﴿ قَدِ افْتَرَيْنَا عَلَى اللَّـهِ كَذِبًا إِنْ عُدْنَا فِي مِلَّتِكُم بَعْدَ إِذْ نَجَّانَا اللَّـهُ مِنْهَا ﴾ ” اگر ہم اس کے بعد کہ اللہ ہمیں اس سے نجات بخش چکا ہے، تمہارے مذہب میں لوٹ جائیں تو بے شک ہم نے اللہ پر جھوٹ باندھ دیا۔“ یعنی تم گواہ رہو کہ اگر ہم تمہاری ملت اور دین میں واپس لوٹ آئے اس کے بعد کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس سے نجات دے دی ہے اور اس کے شر سے ہمیں بچا لیا ہے۔ تو ہم جھوٹے اور اللہ تعالیٰ پر بہتان طرازی کرنے والے ہیں۔ کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ اس شخص سے بڑھ کر کوئی افتراء پرداز نہیں جو اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہراتا ہے حالانکہ وہ ایک، یکتا اور بے نیاز ہے جس کی کوئی بیوی ہے نہ بیٹا اور نہ اقتدار میں کوئی شریک۔﴿ وَمَا يَكُونُ لَنَا أَن نَّعُودَ فِيهَا ﴾ ” اور ہمیں شایاں نہیں کہ ہم اس میں لوٹ جائیں۔“ یعنی ہم جیسے لوگوں کے لئے ممکن نہیں کہ ہم اس دین میں پھر لوٹ آئیں کیونکہ یہ بالکل محال ہے۔ جناب شعیب نے متعدد وجوہ سے کفار کو اس بات سے مایوس کردیا کہ وہ ان کی موافقت کریں گے۔ (١) حضرت شعیب علیہ السلام اور ان کے اصحاب ان کے دین کو ناپسند کرتے تھے اور اس سے سخت بغض رکھتے تھے کیونکہ ان کا دین شرک پر مبنی تھا۔ (٢) شعیب نے ان کے دین کو جھوٹ قرار دیا تھا اور ان کو اس بات پر گواہ بنایا تھا کہ اگر انہوں نے اور ان کے اصحاب نے کفار کے دین کی اتباع کی، تو وہ جھوٹے ہیں۔ (٣) انہوں نے علی الاعلان اعتراف کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو کفار کے دین سے بچا کر ان پر احسان کیا ہے۔ (٤) ان کی استقامت پر مبنی حالت پر غور کریں، ان کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی جو تعظیم، اس کی عبودیت کا جو اعتراف، نیز اس بات کا اعتراف کہ وہی الٰہ واحد ہے صرف وہی اکیلا عبادت کے لائق ہے، اس کا کوئی شریک نہیں اور اس بات کا اعلان کہ مشرکین کے گھڑے ہوئے معبود سب سے بڑا باطل اور سب سے بڑا فریب ہیں۔۔۔ ان امور کو دیکھتے ہوئے یہ بات محال ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ان کو ہدایت سے نوازنے کے بعد وہ ان کے دین میں واپس لوٹیں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو ایسی عقل سے نوازا ہے جس کے ذریعے سے وہ حق اور باطل، ہدایت اور گمراہی کو پہچانتے ہیں۔ اور اگر اللہ تعالیٰ کی مشیت اور تمام مخلوقات میں نافذ اس کے ارادے میں غور کیا جائے، جس سے باہر نکلنا کسی کے لئے ممکن نہیں خواہ پے در پے اسباب مہیا ہوں اور قوتیں باہم موافق ہوں۔۔۔ تو وہ اپنے بارے میں یہ فیصلہ نہیں کرسکتے کہ وہ عنقریب فلاں فعل سر انجام دیں گے یا اس کو چھوڑ دیں گے۔ بنا بریں شعیب علیہ السلام نے استثناء کا اسلوب استعمال کرتے ہوئے فرمایا : ﴿وَمَا يَكُونُ لَنَا أَن نَّعُودَ فِيهَا إِلَّا أَن يَشَاءَ اللَّـهُ رَبُّنَا﴾ ’’اور ہمیں شایاں نہیں کہ ہم اس میں لوٹ جائیں، ہاں اللہ جو ہمارا رب ہے وہ چاہے تو۔“ یعنی ہمارے لئے یا کسی اور کے لئے اللہ تعالیٰ کی مشیت سے، جو اللہ تعالیٰ کے علم اور اس کی حکمت کے تابع ہے، باہر نکلنا ممکن نہیں ﴿ وَسِعَ رَبُّنَا كُلَّ شَيْءٍ عِلْمًا ۚ﴾” گھیرے ہوئے ہے ہمارا پروردگار سب چیزوں کو اپنے علم میں“ پس وہ جانتا ہے کہ بندوں کے لئے کیا درست ہے اور کس چیز کے ذریعے سے وہ بندوں کی تدبیر کرے ﴿عَلَى اللَّـهِ تَوَكَّلْنَا ﴾” ہمارا اللہ ہی پر بھروسا ہے۔“ یعنی ہمیں اللہ تعالیٰ پر اعتماد ہے کہ وہ ہمیں صراط مستقیم پر ثابت قدم رکھے گا اور جہنم کے تمام راستوں سے ہمیں بچائے گا، کیونکہ جو کوئی اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتا ہے وہ اس کے لئے کافی ہوجاتا ہے اور وہ اس کے دین اور دنیا کے معاملے کو آسان کردیتا ہے۔ ﴿رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ﴾ ” اے ہمارے رب فیصلہ کر ہم میں اور ہماری قوم میں انصاف کے ساتھ“ یعنی ظالم اور حق کے خلاف عناد رکھنے والے کے مقابلے میں مظلوم اور صاحب حق کی مدد فرما۔ ﴿وَأَنتَ خَيْرُ الْفَاتِحِينَ﴾ ” اور تو سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے“ اپنے بندوں کے لئے اللہ تعالیٰ کے فیصلے کی دو اقسام ہیں : (١) اللہ تعالیٰ باطل میں سے حق کو، گمراہی میں سے ہدایت کو بیان کر کے نیز یہ واضح کر کے کہ کون صراط مستقیم پر گامزن ہے اور کون اس سے منحرف ہے۔۔۔ فیصلہ کرتا ہے یہ اس کا علمی فیصلہ ہے۔ (٢) ظالموں کو سزا دینے اور صالحین کو نجات اور اکرام عطا کرنے کے لئے جو فیصلہ کرتا ہے وہ اس کا جزائی فیصلہ ہے۔ پس اہل ایمان نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ وہ حق اور انصاف کے ساتھ ان کے اور ان کی قوم کے درمیان فیصلہ فرما دے اور وہ انہیں ایسی آیات و علامات دکھا دے جو فریقین کے مابین فیصلہ کن حیثیت رکھتی ہیں۔ الاعراف
90 ﴿وَقَالَ الْمَلَأُ الَّذِينَ كَفَرُوا مِن قَوْمِهِ﴾ ”اور ان کی قوم میں سے سردار لوگ جو کافر تھے کہنے لگے“ یعنی ان کی قوم کے سرداروں نے حضرت شعیب علیہ السلام کی اتباع سے ڈراتے ہوئے کہا :﴿لَئِنِ اتَّبَعْتُمْ شُعَيْبًا إِنَّكُمْ إِذًا لَّخَاسِرُونَ﴾ اگر تم نے شعیب کی پیری کی تو تم نقصان اٹھاؤ گے۔“ ان کے نفس نے ان کے لئے مزین کر دیا تھا کہ رشد و ہدایت کی اتباع سراسر خسارہ اور شقاوت ہے انہیں یہ معلوم نہیں کہ خسارہ تو تمام تر خود گمراہی میں پڑے رہنے اور دوسروں کو گمراہ کرنے میں ہے اور جب ان پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہوا تو اس وقت انہیں یہ حقیقت معلوم ہوئی۔ الاعراف
91 ﴿ فَأَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ ﴾ ” پس ایک شدید زلزلے نے ان کو آلیا۔“ ﴿فَأَصْبَحُوا فِي دَارِهِمْ جَاثِمِينَ﴾ ” اور وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے۔“ یعنی وہ خشک کٹے ہوئے درخت کی مانند پچھاڑے ہوئے مردہ پڑے تھے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کی حالت کی اطلاع دیتے ہوئے فرمایا : الاعراف
92 ﴿الَّذِينَ كَذَّبُوا شُعَيْبًا كَأَن لَّمْ يَغْنَوْا فِيهَا﴾ ” جنہوں نے شعیب کو جھٹلایا، گویا کبھی وہ وہاں بسے ہی نہ تھے“ یعنی گویا کہ وہ گھروں میں رہتے ہی نہ تھے اور گویا کہ انہوں نے گھروں کے صحنوں سے کبھی استفادہ کیا تھا نہ ان کی چھاؤں میں کبھی وقت گزارا تھا اور وہ اس دیار کے دریاؤں کے کنارے چراگاہوں میں رہے تھے نہ انہوں نے اس کے درختوں کے پھل کھائے تھے۔ پس اللہ تعالیٰ کے عذاب نے ان کو آپکڑا اور ان کو لہو و لعب اور لذات کی دنیا سے نکال کر حزن و غم، عقوبت اور ہلاکت کے گڑھوں میں منتقل کردیا۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ الَّذِينَ كَذَّبُوا شُعَيْبًا كَانُوا هُمُ الْخَاسِرِينَ ﴾” جنہوں نے شعیب کو جھٹلایا، وہی ہوئے خسارہ اٹھانے والے“ یعنی وہ پوری طرح خسارے میں گھرے ہوئے ہیں کیونکہ قیامت کے روز وہ خود اور ان کے گھر والے سخت خسارے میں ہوں گے اور یہی واضح خسارہ ہے نہ کہ وہ جن کو انہوں نے کہا تھا۔ ﴿لَئِنِ اتَّبَعْتُمْ شُعَيْبًا إِنَّكُمْ إِذًا لَّخَاسِرُونَ﴾” اگر تم نے شعیب کی پیروی کی تو بے شک تم خسارے میں پڑگئے۔“ پس جب وہ ہلاک ہوگئے تو ان کا نبی ان سے منہ پھیر کر چل دیا۔ الاعراف
93 ﴿وَقَالَ﴾ اور ان کی موت کے بعد ان کو زجر و توبیخ کرتے ہوئے ان سے مخاطب ہوا : ﴿يَا قَوْمِ لَقَدْ أَبْلَغْتُكُمْ رِسَالَاتِ رَبِّي ﴾ ” اے میری قوم ! میں نے تم کو اپنے رب کے پیغام پہنچا دیئے۔“ یعنی میں نے اپنے رب کا پیغام تم تک پہنچا دیا اور اسے کھول کھول کر بیان کردیا حتیٰ کہ یہ پیغام تمہیں پوری طرح پہنچ گیا اور تمہارے دلوں نے اچھی طرح اسے سمجھ لیا۔ ﴿وَنَصَحْتُ لَكُمْ﴾ ” اور میں نے تمہاری خیر خواہی کی“ مگر تم نے میری خیر خواہی کو قبول کیا نہ تم نے میری بات مانی بلکہ اس کے برعکس تم نے نافرمانی کی اور سرکشی اختیار کی۔ ﴿ فَكَيْفَ آسَىٰ عَلَىٰ قَوْمٍ كَافِرِينَ﴾ ” تو میں کافروں پر رنج و غم کیوں کروں۔“ یعنی میں ایسے لوگوں کے انجام پر کیوں کر غمزدہ ہوسکتا ہوں جن میں کوئی بھلائی نہ تھی، بھلائی ان کے پاس آئی مگر انہوں نے اسے ٹھکرا دیا، اسے قبول نہ کیا، یہ لوگ شر کے سوا کسی چیز کے لائق نہ تھے۔ پس یہ اس چیز کے مستحق نہیں ہیں کہ ان کی ہلاکت پر افسوس کیا جائے بلکہ ان کی ہلاکت اور استیصال پر تو خوش ہونا چاہئے۔ اے اللہ ! فضیحت اور رسوائی سے تیری پناہ ! اس سے بڑھ کر کون سی بدبختی اور سزا ہوسکتی ہے کہ وہ اس حالت کو پہنچ جائیں کہ مخلوق میں سب سے زیادہ خیر خواہ ہستی بھی ان سے برأت کا اظہار کرے۔ الاعراف
94 ﴿وَمَا أَرْسَلْنَا فِي قَرْيَةٍ مِّن نَّبِيٍّ﴾ ” اور نہیں بھیجا ہم نے کسی بستی میں کوئی نبی“ جو انہیں اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف بلاتا اور جن برائیوں میں وہ مبتلا ہیں، ان برائیوں سے وہ ان کو روکتا۔ مگر وہ اس کی اطاعت نہ کرتے ﴿إِلَّا أَخَذْنَا أَهْلَهَا ﴾ ” مگر ہم مواخذہ کرتے وہاں کے لوگوں کا“ یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کو آزمایا۔ ﴿بِالْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ﴾ ” سختی اور تکلیف میں“ یعنی محتاجی، مریض اور دیگر مصائب کے ذریعے سے۔ ﴿لَعَلَّهُمْ ﴾”شایدکہ وہ “ یعنی جب ان پر مصیبت نازل ہوتوشاید ان کے نفس جھک جائیں۔ ﴿يَضَّرَّعُونَ ﴾”’ عاجزی اور زاری کریں۔“ اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزی سے گڑ گڑائیں اور حق کے سامنے فروتنی کا اظہار کریں۔ ﴿ثُمَّ﴾ پھر جب ان کو ابتلا نے کوئی فائدہ نہ دیا اور وہ اپنے تکبر پر جمے رہے اور اپنی سرکشی میں پڑھتے ہی چلے گئے الاعراف
95 ﴿بَدَّلْنَا مَكَانَ السَّيِّئَةِ الْحَسَنَةَ﴾ ” بدل دی ہم نے برائی کی جگہ بھلائی“ پس اللہ تعالیٰ نے ان کے رزق میں اضافہ کردیا، ان کو جسمانی عافیت دی اور ان سے آزمائش اور تکالیف کو دور کردیا۔ ﴿حَتَّىٰ عَفَوا ﴾” حتیٰ کہ ان کی تعداد زیادہ ہوگئی“ ان کے رزق میں اضافہ ہوگیا اور اللہ تعالیٰ کی نعمت اور اس کے فضل و کرم میں مزے اڑانے لگے اور وہ اس بات کو بھول گئے کہ ان پر کیا مصیبتیں نازل ہوئی تھیں۔ ﴿وَّقَالُوا قَدْ مَسَّ آبَاءَنَا الضَّرَّاءُ وَالسَّرَّاءُ ﴾ ” اور انہوں نے کہا، کہ پہنچتی رہی ہے ہمارے باپ دادا کو بھی مصیبت اور خوشی“ یعنی رنج و راحت کا آنا تو ایک عادت جا ریہ ہے، اولین و آخریں تمام لوگوں پر نج و راحت کے حالات آتے رہتے ہیں۔ کبھی وہ راحت میں ہوتے ہیں اور کبھی رنج و غم سے دوچار ہوتے ہیں، انقلابات زمانہ اور گردش ایام کے ساتھ ساتھ کبھی وہ خوش ہوتے ہیں اور کبھی غم زدہ۔ وہ ان مصائب اور راحتوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نصیحت اور تنبیہ سمجھتے ہیں نہ استدراج اور نکیر۔ یہاں تک کہ جو کچھ ان کو عطا کیا گیا تھا اسی میں شاداں و فرحاں رہے اور دنیا کے لئے سب سے زیادہ خوش کن چیز تھی۔ ﴿ فَأَخَذْنَاهُم﴾ ” کہ ہم نے (عذاب کے ذریعے سے) ان کو پکڑ لیا۔“ ﴿ بَغْتَةً وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ ﴾ “ اچانک اور ان کو خبر نہ تھی“ یعنی ہلاکت ان کے خواب و خیال میں بھی نہ تھی۔ وہ سمجھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو جو کچھ عطا کیا ہے وہ اسے حاصل کرنے پر قادر تھے اور یہ سب کچھ ان سے زائل ہوگا نہ ان سے واپس لیا جائے گا۔ الاعراف
96 اللہ تبارک و تعالیٰ نے جہاں انبیاء و مرسلین کو جھٹلانے والے گروہ کے بارے میں ذکر فرمایا کہ ان کو نصیحت اور تنبیہ کیلئے مصائب میں مبتلا کیا جاتا ہے اور مکرو استدراج کے طور پر انہیں آسانی اور فراخی عطا کی جاتی ہے۔ وہاں یہ بھی فرمایا کہ اگر بستیوں والے صدق دل سے ایمان لے آتے، ان کے اعمال اس ایمان کی تصدیق کرتے اور ظاہر و باطن میں تقویٰ سے کام لے کر اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ تمام چیزوں کو چھوڑ دیتے تو ان پر زمین و آسمان کی برکات کے دروازے کھول دیئے جاتے۔ پس اللہ تعالیٰ آسمان سے ان پر لگاتار بارش برساتا اور زمین سے ان کے لئے وہ کچھ اگاتا جس پر ان کی اور ان کے جانوروں کی معیشت کا دار و مدار ہے اور انہیں بغیر کسی تنگی اور بغیر کسی محنت اور مشقت کے وافر رزق عطا کرتا، مگر وہ ایمان لائے نہ انہوں نے تقویٰ اختیار کیا ﴿ فَأَخَذْنَاهُم بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ﴾ ” پس ہم نے ان کی بد اعمالیوں کے سبب سے ان کو عذاب اور مصائب میں مبتلا کردیا۔“ ان سے برکات چھین لیں اور کثرت کے ساتھ ان پر آفتیں نازل کیں۔ یہ ان کے اعمال کی سزا کا کچھ حصہ ہے۔ ورنہ اگر اللہ تعالیٰ ان کے برے اعمال کی پوری سزا دنیا ہی میں دے دے تو روئے زمین پر کوئی جاندار نہ بچے گا۔ ﴿ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيقَهُم بَعْضَ الَّذِي عَمِلُوا لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ ﴾(الروم :30؍41) ” بحر و بر میں لوگوں کی بداعمالیوں کے سبب سے فساد پھیل گیا تاکہ اللہ تعالیٰ ان کے بعض اعمال کا مزا چکھائے شاید کہ وہ لوٹ آئیں۔ “ الاعراف
97 ﴿أَفَأَمِنَ أَهْلُ الْقُرَىٰ﴾ ” کیا بستیوں والے (جنہوں نے انبیاء کی تکذیب کی) اپنے آپ کو مامون سمجھتے ہیں؟“ ﴿أَن يَأْتِيَهُم بَأْسُنَا ﴾” اس بات سے کہ آئے ان کے پاس ہمارا عذاب“ یعنی ہمارا سخت عذاب ﴿بَيَاتًا وَهُمْ نَائِمُونَ ﴾ ” راتوں رات، جب کہ وہ سوئے ہوئے ہوں“ یعنی ان کے آرام کی گھڑیوں میں اور ان کی غفلت کے اوقات میں الاعراف
98 ﴿أَوَأَمِنَ أَهْلُ الْقُرَىٰ أَن يَأْتِيَهُم بَأْسُنَا ضُحًى وَهُمْ يَلْعَبُونَ﴾” کیا بے خوف ہیں بستیوں والے اس بات سے کہ آ پہنچے ان پر ہمارا عذاب دن چڑھے، جب کہ وہ کھیلتے ہوں“ یعنی کون سی چیز انہیں محفوظ و مامون رکھ سکتی ہے حالانکہ انہوں نے عذاب الٰہی کے تمام اسباب کو اکٹھا کرلیا ہے اور بڑے بڑے جرائم کا ارتکاب کیا جن میں سے بعض جرائم ہلاکت کا موجب ہیں؟ الاعراف
99 ﴿أَفَأَمِنُوا مَكْرَ اللَّـهِ﴾” کیا وہ بے خوف ہوگئے ہیں اللہ کے داؤ سے“ کیونکہ اللہ تعالیٰ ڈھیل دے کر فریب میں مبتلا کر رہا ہے جسے وہ نہیں جانتے۔ اللہ تعالیٰ انہیں مہلت دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی چال بہت سخت ہے۔ ﴿ فَلَا يَأْمَنُ مَكْرَ اللَّـهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْخَاسِرُونَ﴾ ” پس اللہ کے داؤ سے وہی لوگ بے خوف ہوتے ہیں جو نقصان اٹھانے والے ہیں“ کیونکہ جو کوئی اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے محفوظ سمجھتا ہے وہ اعمال کی جز اور سزا کی تصدیق کرتا ہے، نہ وہ انبیاء و مرسلین پر حقیقی ایمان رکھتا ہے۔ اس آیت کریمہ میں اس بات پر بہت زور دیا گیا ہے کہ بندے کے لئے مناسب نہیں ہے کہ وہ جتنا کچھ ایمان رکھتا ہے اس کے ضیاع سے بے خوف ہوجائے، وہ ہمیشہ اس بات سے ڈرتا ہے کہ کہیں اللہ تعالیٰ اسے ایسی آزمائش سے دوچار نہ کر دے کہ جس سے اس کا سرمایہ ایمان سلب ہوجائے اور وہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرتا رہے (( يَا مُقَلِّبَ القُلُوبِ ثَبِّت قَلْبِي عَلَى دِينِكَ)) ” اے دلوں کے پھیرنے والے میرے دل کو اپنے دین پر قائم رکھ“[جامع الترمذی، کتاب الدعوات، باب دعاء: یامقلب القلوب۔۔۔، حدیث :3522] اور فتنوں کے وقوع کے وقت وہ ہر اس سبب کے حصول کے لئے کوشاں رہے جو اس کو شر سے نجات دے، کیونکہ بندہ۔۔۔ خواہ اس کا حال کیسا ہی کیوں نہ ہو۔۔۔ اس کی سلامتی یقینی نہیں۔ الاعراف
100 اللہ تبارک و تعالیٰ گزشتہ قوموں کی ہلاکت کے بعد باقی رہ جانے والی قوموں کو متنبہ کرتے ہوئے فرماتا ہے : ﴿أَوَلَمْ يَهْدِ لِلَّذِينَ يَرِثُونَ الْأَرْضَ مِن بَعْدِ أَهْلِهَا أَن لَّوْ نَشَاءُ أَصَبْنَاهُم بِذُنُوبِهِمْ﴾ ” کیا ان لوگوں کو جو اہل زمین کے (مر جانے کے) بعد زمین کے مالک ہوتے ہیں یہ امر موجب ہدایت نہیں ہوا کہ اگر ہم چاہیں تو ان کے گناہوں کے سبب ان پر مصیبت ڈال دیں۔‘‘ کیا ان امتوں پر واضح نہیں ہوا جو ان قوموں کے اپنے گناہوں کے سبب سے ہلاکت کے بعد، جو ان سے پہلے گزر چکی ہیں، زمین میں وارث بنی ہیں؟ پھر انہوں نے بھی ان ہلاک ہونے والے لوگوں جیسے اعمال کا ارتکاب شروع کردیا۔ کیا انہیں اس حقیقت کا علم نہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو انہیں بھی ان کے گناہوں کے سبب سے پکڑ لے؟ کیونکہ اولین و آخرین کے بارے میں یہی سنت الٰہی ہے۔ ﴿وَنَطْبَعُ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ فَهُمْ لَا يَسْمَعُونَ﴾ ” اور ہم ان کے دلوں پر مہر لگا دیں، پس وہ نہ سنیں۔“ یعنی جب اللہ تعالیٰ انہیں تنبیہ کرے تو وہ متنبہ نہ ہوں، انہیں نصیحت کرے، مگر وہ نصیحت نہ پکڑیں اور اللہ تعالیٰ آیات اور عبرتوں کے ذریعے سے ان کی راہ نمائی کرے، مگر وہ راہنمائی حاصل نہ کریں۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ ان کو عذاب دیتا ہے اور ان کے دلوں پر مہر لگا دیتا ہے پس ان کے دلوں پر میل کچیل جم جاتا ہے اور وہ زنگ آلود ہوجاتے ہیں۔۔۔ ان کے دلوں پر مہر لگ جاتی ہے حق ان میں داخل نہیں ہوسکتا، بھلائی ان تک پہنچ نہیں سکتی۔ وہ کوئی ایسی بات نہیں سن سکتے جو انہیں فائدہ دے۔ وہ تو صرف وہی بات سن سکتے ہیں جو ان کے خلاف حجت بنے گی۔ الاعراف
101 ﴿تِلْكَ الْقُرَىٰ﴾ ” وہ بستیاں“ یعنی وہ بستیاں جن کا ذکر گزشتہ سطور میں گزر چکا ہے ﴿نَقُصُّ عَلَيْكَ مِنْ أَنبَائِهَا﴾ ” ہم بیان کرتے ہیں آپ پر ان کی کچھ خبریں“ جس سے عبرت حاصل کرنے والوں کو عبرت حاصل ہوتی ہے، ظالموں کے لئے اجر و توبیخ ہے اور اہل تقویٰ کے لئے نصیحت ﴿وَلَقَدْ جَاءَتْهُمْ رُسُلُهُم بِالْبَيِّنَاتِ ﴾ ” اور ان کے پاس ان کے پیغمبر نشانیاں لے کر آئے۔“ یعنی ان جھٹلانے والوں کے پاس ان کے رسول آئے جو ان کو ان امور کی طرف دعوت دیتے تھے جن میں ان کی سعادت تھی، اللہ تعالیٰ نے ظاہر معجزات کے ذریعے سے ان رسولوں کی تائید کی اور حق کو کامل طور پر واضح کردینے والے دلائل کے ذریعے سے ان کو تقویت بخشی۔ مگر اس چیز نے انہیں کوئی فائدہ دیا نہ ان کے کسی کام آئی۔ ﴿ فَمَا كَانُوا لِيُؤْمِنُوا بِمَا كَذَّبُوا مِن قَبْلُ ۚ﴾ ” پھر ہرگز نہ ہوا کہ ایمان لائیں اس بات پر جس کو پہلے جھٹلا چکے تھے“ یعنی ان کی تکذیب اور حق کو پہلی مرتبہ رد کردینے کے سبب سے اللہ تعالیٰ ایمان کی طرف ان کی راہ نمائی نہیں کرے گا، یہ حق کو ٹھکرا دینے کی سزا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :﴿وَنُقَلِّبُ أَفْئِدَتَهُمْ وَأَبْصَارَهُمْ كَمَا لَمْ يُؤْمِنُوا بِهِ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَنَذَرُهُمْ فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ﴾ (الانعام:6؍110) ” ہم ان کے دلوں اور آنکھوں کو پلٹ دیں گے جیسے وہ اس پر پہلی مرتبہ ایمان نہیں لائے (ویسے ہی پھر ایمان نہیں لائیں گے) ہم ان کے دلوں اور آنکھوں کو پلٹ دیں گے جیسے وہ اس پر پہلی مرتبہ ایمان نہیں لائے (ویسے ہی پھر ایمان نہیں لائیں گے) ہم ان کو ان کی سرکشی میں سرگرداں چھوڑ دیں گے۔“ ﴿كَذَٰلِكَ يَطْبَعُ اللَّـهُ عَلَىٰ قُلُوبِ الْكَافِرِينَ ﴾ ” اسی طرح اللہ کافروں کے دلوں پر مہر لگا دیتا ہے۔“ یعنی سزا کے طور پر اور اللہ تعالیٰ نے ان پر ظلم نہیں کیا انہوں نے خود ہی اپنے آپ پر ظلم کیا۔ الاعراف
102 ﴿ وَمَا وَجَدْنَا لِأَكْثَرِهِم مِّنْ عَهْدٍ ﴾” ہم نے ان ہی سے اکثر میں عہد کا نباہ نہیں دیکھا۔“ یعنی ہم نے اکثر قوموں میں جن کی طرف رسول بھیجے گئے، عہد کی پاسداری نہیں دیکھی، یعنی اللہ تعالیٰ کی وصیت کا التزام اور اس پر ثابت قدمی، جو اس نے تمام جہانوں کو کر رکھی ہے اور نہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے ان احکام کی تعمیل کی ہے جو اس نے اپنے انبیاء و مرسلین کے ذریعے سے ان تک پہنچائے ہیں ﴿ وَإِن وَجَدْنَا أَكْثَرَهُمْ لَفَاسِقِينَ﴾ ” اور اکثر ان میں پائے نافرمان“ یعنی ہم نے ان کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے نکل بھاگنے اور بے راہ رو ہو کر خواہشات نفس کی پیروی کرنے والے ہی پایا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے رسول مبعوث فرما کر، کتابیں نازل کر کے اپنے بندوں کو آزمایا ہے اور ان کو حکم دیا ہے کہ وہ اس کے عہد اور اس کی ہدایت کی اتباع کریں۔ مگر بہت کم لوگوں نے اس کے حکم کی تعمیل کی، یعنی صرف ان لوگوں نے جن کے لئے پہلے ہی سعادت لکھ دی گئی تھی اور رہے اکثر لوگ تو انہوں نے ہدایت سے روگردانی کی اور ان تعلیمات کو تکبر سے ٹھکرا دیا جو رسول لے کر آئے تھے۔ پس اس پاداش میں اللہ تعالیٰ نے ان پر مختلف قسم کے عذاب نازل فرمائے۔ الاعراف
103 پھر ان رسولوں کے بعد ہم نے امام عظیم اور رسول کریم موسیٰ کلیم اللہ علیہ السلام کو انتہائی سرکش اور جابر قوم یعنی فرعون اور اس کے سرداروں اور اشراف کی طرف مبعوث کیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو بڑی بڑی آیات و معجزات کا مشاہدہ کروایا کہ ان جیسے معجزات کا مشاہدہ کبھی نہیں ہوا۔ ﴿فَظَلَمُوا بِهَا﴾ ” پس ظلم کیا نہوں نے ان کے مقابلے میں“ بایں صورت کہ انہوں نے اس حق کی پیروی نہ کی کہ جس کی پیروی نہ کرنا ظلم ہے اس کے برعکس انہوں نے تکبر کے ساتھ حق کو ٹھکرا دیا﴿فَانظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِينَ ﴾” پس دیکھو، کیا انجام ہوا مفسدوں کا“ یعنی دیکھو کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو کیسے ہلاک کردیا، دنیا میں کیسے ان کو ملعون اور مذموم ٹھہرایا اور قیامت کے روز بھی لعنت ان کے پیچھے لگی رہے گی۔ بہت برا ہے وہ انعام جو ان کو ملا ہے۔ یہ مجمل بیان تھا، اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے الاعراف
104 ﴿وَقَالَ مُوسَىٰ﴾ ” موسیٰ نے فرمایا“ یعنی موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کے پاس آکر اسے ایمان کی دعوت دی اور فرمایا : ﴿ يَا فِرْعَوْنُ إِنِّي رَسُولٌ مِّن رَّبِّ الْعَالَمِينَ﴾ ” اے فرعون میں رب العالمین کا بھیجا ہوا (رسول) ہوں“ یعنی وہ ایک عظیم ہستی کی طرف سے بھیجا گیا رسول ہوں جو عالم علوی اور عالم سفلی تمام جہانوں کا رب ہے جو مختلف تدابیر الٰہیہ کے ذریعے سے تمام مخلوق کی تربیت کرتا ہے۔ ان جملہ تدابیر میں ایک یہ بھی ہے کہ وہ لوگوں کو مہمل نہیں چھوڑتا بلکہ وہ انبیاء و مرسلین کو خوشخبری سنانے والے اور ڈرانے والے بنا کر ان کی طرف مبعوث کرتا ہے۔ وہ ایسی ہستی ہے کہ کوئی شخص یہ دعویٰ کرنے کی جرأت نہیں کرسکتا کہ اسے رسول بنا کر بھیجا گیا ہے درآں حالیکہ اسے رسول نہ بنایا گیا ہو۔ جب اس عظیم ہستی کی یہ شان ہے اور اس نے مجھے اپنی رسالت کے لئے چن لیا ہے۔ تو مجھ پر فرض ہے کہ میں اللہ تعالیٰ پر جھوٹ نہ باندھوں او اس کی طرف وہی بات منسوب کروں جو حق ہے اور اگر میں اللہ تعالیٰ کے بارے میں اس کے علاوہ کچھ اور کہوں تو وہ مجھے بہت جلد عذاب میں مبتلا کر دے گا اور وہ مجھے ایسے پکڑے گا جیسے ایک غالب اور قادر ہستی پکڑتی ہے۔ پس یہ امر اس بات کا موجب ہے کہ وہ موسیٰ کی اتباع کریں اور ان کے حکم کی تعمیل کریں، خاص طور پر جبکہ ان کے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے واضح دلیل آگئی ہے جو اس حق پر دلالت کرتی ہے جو موسیٰ علیہ السلام لے کر آئے۔ اس لئے ان پر واجب ہے کہ وہ آنجناب کی رسالت کے مقاصد پر عمل درآمد کریں اس رسالت کے دو عظیم مقاصد ہیں۔ (١) وہ موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لائیں اور ان کی اتباع کریں۔ (٢) بنی اسرائیل کو آزاد کردیں جو ایسی قوم ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے تمام جہانوں پر فضیلت بخشی ہے۔ جو انبیاء کی اولاد اور یعقوب علیہ السلام کا سلسلہ ہے اور موسیٰ علیہ السلام علیہ السلام اس سلسلے کی ایک کڑی ہیں۔ الاعراف
105 الاعراف
106 فرعون نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا ﴿قَالَ إِن كُنتَ جِئْتَ بِآيَةٍ فَأْتِ بِهَا إِن كُنتَ مِنَ الصَّادِقِينَ﴾ ” اگر تم کوئی نشانی لے کر آئے ہو تو لاؤ دکھاؤ اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو۔“ الاعراف
107 ﴿فَأَلْقَىٰ عَصَاهُ فَإِذَا هِيَ ثُعْبَانٌ مُّبِينٌ ﴾ ” پس موسیٰ نے اپنا عصا زمین پر ڈال دیا تو وہ واضح طور پر سانپ بن گیا“ جو بھاگ رہا تھا اور وہ سب کھلی آنکھوں سے اس کا مشاہدہ کر رہے تھے۔ الاعراف
108 ﴿وَنَزَعَ يَدَهُ﴾ ” حضرت موسیٰ نے اپنا ہاتھ اپنے گریبان سے نکالا“﴿فَإِذَا هِيَ بَيْضَاءُ لِلنَّاظِرِينَ﴾’’پس وہ دیکھنے والوں کو (بغیر ی عیب اور مرض کے) سفید نظر آتا تھا۔“ یہ دو بڑے معجزے جو موسیٰ علیہ السلام کی تعلیم اور ان کی صداقت پر دلالت کرتے تھے کہ وہ تمام جہانوں کے رب کی طرف سے رسول ہیں۔ مگر وہ لوگ جو ایمان نہیں لاتے اگر ان کے پاس تمام معجزات آجائیں وہ تب بھی ایمان نہیں لائیں گے جب تک کہ وہ درد ناک عذاب نہ دیکھ لیں۔ الاعراف
109 بنا بریں ﴿قَالَ الْمَلَأُ مِن قَوْمِ فِرْعَوْنَ﴾ ”قوم فرعون کے جو سرادار تھے وہ کہنے لگے۔“ یعنی جب انہوں نے معجزات کو دیکھا اور ان معجزات نے ان کو مبہوت کردیا تو وہ ایمان نہ لائے وہ معجزات کے لئے فاسد تاویلات تلاش کرنے لگے اور بولے ﴿إِنَّ هَـٰذَا لَسَاحِرٌ عَلِيمٌ﴾” یہ بڑا ماہر جادوگر ہے۔“ یعنی یہ اپنے جادو میں بہت ماہر ہے۔ پھر وہ کمزور عقل اور کم فہم لوگوں کو ڈراتے ہوئے کہنے لگے الاعراف
110 ﴿يُرِيدُ﴾“ یعنی اس فعل سے موسیٰ علیہ السلام کا ارادہ ہے ﴿أَن يُخْرِجَكُم مِّنْ أَرْضِكُمْ﴾” کہ وہ تمہیں تمہارے وطن سے نکال باہر کرے۔“ ﴿فَمَاذَا تَأْمُرُونَ﴾ ” اب تمہاری کیا صلاح ہے“ یعنی انہوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ کیسے نبٹا جائے اور ان کے زعم کے مطابق موسیٰ علیہ السلام کے ضرر سے کیسے بچا جائے۔ کیونکہ موسیٰ علیہ السلام جو کچھ لے کر آئے ہیں اگر اس کا مقابلہ کسی ایسی چیز سے نہ کیا جائے جو اسے باطل اور بے اثر کر دے، تو موسیٰ کے معجزات عوام میں سے اکثر لوگوں کے ذہنوں کو متاثر کریں گے۔ الاعراف
111 تب وہ ایک رائے پر متفق ہوئے اور انہوں نے فرعون سے کہا ﴿أَرْجِهْ وَأَخَاهُ﴾”(فی الحال) موسیٰ (علیہ السلام) اور اس کے بھائی کے معاملے کو معاف رکھیے۔“ یعنی دونوں بھائیوں کو روک کر ان کو مہلت دو اور تمام شہروں میں ہر کارے دوڑ ادو جو مملکت کے لوگوں کو اکٹھا کریں اور تمام ماہر جادوگروں کو لے آئیں تاکہ وہ موسیٰ علیہ السلام کے معجزات کا مقابلہ کرسکیں۔ چنانچہ انہوں نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا ” ہمارے اور اپنے درمیان ایک وقت مقرر کرلو، نہ ہم اس کی خلاف ورزی کریں گے نہ تم اس کے خلاف کرو گے اور یہ مقابلہ ایک ہموار میدان میں ہوگا۔“ موسیٰ علیہ السلام نے جواب میں فرمایا : ﴿ مَوْعِدُكُمْ يَوْمُ الزِّينَةِ وَأَن يُحْشَرَ النَّاسُ ضُحًى فَتَوَلَّىٰ فِرْعَوْنُ فَجَمَعَ كَيْدَهُ ثُمَّ أَتَىٰ﴾(طٰه:20؍59۔60) ” تمہارے لئے مقابلے کا دن عید کا روز مقرر ہے اور یہ کہ تمام لوگ چاشت کے وقت اکٹھے ہوجائیں۔ فرعون لوٹ گیا۔ اس نے اپنی تمام چالیں جمع کیں پھر مقابلے کے لئے آگیا۔ الاعراف
112 الاعراف
113 ﴿وَجَاءَ السَّحَرَةُ فِرْعَوْنَ ﴾ ” اور جادو گر فرعون کے پاس آپہنچے۔“ جادوگر غالب آنے کی صورت میں انعام کا مطالبہ کرتے ہوئے فرعن کے پاس آئے اور کہنے لگے : ﴿ إِنَّ لَنَا لَأَجْرًا إِن كُنَّا نَحْنُ الْغَالِبِينَ﴾ ” اگر ہم مقابلے میں کامیاب ہوگئے تو ہمیں انعام دیا جائے گا؟“ الاعراف
114 ﴿قَالَ ﴾ فرعون نے کہا ﴿نَعَمْ﴾ ہاں تمہیں انعام سے نوازا جائے گا ﴿وَإِنَّكُمْ لَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ﴾” اور اس پر مستزادیہ کہ تم میرے مقربین میں سے ہوجاؤ گے۔“ فرعون نے جادوگروں کو انعام و اکرام دینے، ان کو اپنے مقربین میں شامل کرنے اور ان کی قدر و منزلت بڑھانے کا وعدہ کرلیا تاکہ وہ موسیٰ علیہ السلام کے مقابلے میں اپنی پوری طاقت صرف کردیں۔ جب لوگوں کے ایک بہت بڑے مجمع کے سامنے جادوگر موسیٰ علیہ السلام کے مقابلے میں آئے۔ الاعراف
115 ﴿قَالُوا﴾ تو انہوں نے موسیٰ علیہ السلام کے معجزات کے بارے میں بے پروائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا : ﴿يَا مُوسَىٰ إِمَّا أَن تُلْقِيَ﴾” اے موسیٰ ! یا تم ڈالو۔“ یعنی تمہارے پاس جو کچھ ہے تم سامنے لاتے ہو۔ ﴿ وَإِمَّا أَن نَّكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ﴾ ” یا ہم ڈالتے ہیں۔“ یعنی ہم اپنا جادو کھاتے ہیں۔ الاعراف
116 ﴿قَالَ﴾ موسیٰ علیہ السلام نے کہا ﴿أَلْقُوا﴾ ” ڈالو تم“ تاکہ لوگ دیکھ لیں کہ ان جادوگروں کے پاس کیا ہے اور موسیٰ علیہ السلام کے پاس کیا ہے ﴿فَلَمَّا أَلْقَوْا﴾’’پس جب انہوں نے ڈالیں۔“ یعنی جب انہوں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں زمین پر ڈالیں تو ان کے جادو کے سبب سے یوں لگا جیسے لاٹھیاں اور رسیاں سانپ بن گئیں ہیں جو بھاگتے پھر رہے ہیں۔ ﴿سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ وَجَاءُوا بِسِحْرٍ عَظِيمٍ﴾” اس طرح انہوں نے جادوگر کے ان کی نظر بندی کردی اور اپنے جادو سے ان کو ڈرا دیا اور بہت بڑا جادو دکھایا۔“ جادو کی دنیا میں جس کی نظیر نہیں ملتی۔ الاعراف
117 ﴿وَأَوْحَيْنَا إِلَىٰ مُوسَىٰ أَنْ أَلْقِ عَصَاكَ ﴾ ” اور ہم نے موسیٰ علیہ السلام کی طرف وحی کی کہ اپنی لاٹھی ڈال دے۔“ پس موسیٰ علیہ السلام نے اپنا عصا زمین پر ڈال دیا ﴿ فَإِذَا هِيَ ﴾ ” وہ فوراً‘‘ یعنی عصا دوڑتا ہوا سانپ بن گیا ﴿تَلْقَفُ مَا يَأْفِكُونَ ﴾اور انہوں نے جھوٹ اور شعبدہ بازی سے جو سانپ بنائے تھے، ان کو نگلتا گیا۔ الاعراف
118 ﴿فَوَقَعَ الْحَقُّ﴾” تو حق ثابت ہوگیا۔‘‘ یعنی اس بھرے مجمع میں حق واضح طور پر نمایاں اور ظاہر ہوگیا ﴿وَبَطَلَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴾” اور جو کچھ وہ کرتے تھے سب باطل ہوگیا۔“ الاعراف
119 ﴿فَغُلِبُوا هُنَالِكَ﴾ ” اس مقام پر وہ مغلوب ہوگئے۔“ ﴿وَانقَلَبُوا صَاغِرِينَ﴾ ” اور روہ حقیر بن کر رہ گئے“ ان کا باطل مضمحل اور ان کا جادو نابود ہوگیا اور انہیں وہ مقصد حاصل نہ ہوسکا جس کے حصول کا وہ گمان رکھتے تھے، جادوگروں پر حق عظیم واضح ہوگیا جو جادو کی مختلف اقسام اور جزئیات کو پہنچانتے تھے جو کہ دوسرے لوگ نہ پہچانتے تھے۔۔۔ وہ جناب موسیٰ کے معجزات کی عظمت کے قائل ہوگئے پس انہوں نے پہچان لیا کہ یہ اللہ تعالیٰ کے معجزات میں سے ایک عظیم معجزہ ہے جو کسی انسان کے بس کی بات نہیں ہے۔ الاعراف
120 ﴿وَأُلْقِيَ السَّحَرَةُ سَاجِدِين قَالُوا آمَنَّا بِرَبِّ الْعَالَمِينَ﴾ جادو گر سجدے میں گر پڑے اور کہنے لگے کہ ہم جہانوں کے پروردگار پر ایمان لائے (یعنی) موسیٰ علیہ السلام اور ہاورن کے پروردگار پر۔“ یعنی موسیٰ علیہ السلام جن معجزات اور دلائل کے ساتھ مبعوث ہوئے ہیں ہم ان کی تصدیق کرتے ہیں۔ الاعراف
121 الاعراف
122 الاعراف
123 ﴿قَالَ فِرْعَوْنُ﴾فرعون نے ان کے ایمان لانے پر ان کو دھمکی دیتے ہوئے کہا ﴿آمَنتُم بِهِ قَبْلَ أَنْ آذَنَ لَكُمْ﴾” کیا تم اس پر میری اجازت سے پہلے ہی ایمان لے آئے“ وہ خبیث شخص، جابر حکمران تھا وہ ادیان و مذاہب کے مقابلے میں اپنی رائے کو ترجیح دیتا تھا۔ ان لوگوں کے ہاں اور خود اس کے نزدیک بھی یہ بات تسلیم شدہ تھی کہ وہ اطاعت کا حق دار ہے اور ان کے اندر اس کا حکم نافذ ہے اور اس کے حکم سے سرتابی کرنا کسی کے لئے جائز نہیں۔ ان حالات کا شکار ہو کر قومیں انحطاط پذیر ہوتی ہیں ان کی عقل کمزور اور اس کی قوت نفوذ کم ہوجاتی ہے۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿فَاسْتَخَفَّ قَوْمَهُ فَأَطَاعُوهُ﴾ (الزخرف :43؍54) ” پس اس نے اپنی قوم کو ہلکا سمجھا اور انہوں نے اس کی بات مان لی۔“ یہاں فرعون نے کہا ﴿آمَنتُم بِهِ قَبْلَ أَنْ آذَنَ لَكُمْ﴾ ” اس سے پہلے کہ میں تمہیں اجازت دوں تم اس پر ایمان لے آئے۔“ یعنی یہ تمہاری طرف سے سوء ادبی اور میرے حضور بہت بڑی جسارت ہے۔ پھر اس نے اپنی قوم کے سامنے فریب کاری سے کام لیتے ہوئے کہا ﴿إِنَّ هَـٰذَا لَمَكْرٌ مَّكَرْتُمُوهُ فِي الْمَدِينَةِ لِتُخْرِجُوا مِنْهَا أَهْلَهَا﴾ ” بے شک یہ فریب ہے جو تم نے مل کر شہر میں کیا ہے تاکہ اہل شہر کو یہاں سے نکال دو۔“ یعنی موسیٰ تمہارا سردار ہے تم نے اس کے ساتھ مل کر سازش کی تاکہ تم اس کو غلبہ حاصل کرنے میں مدد کرو۔ پھر تم اس کی اطاعت کرو، پھر تمام لوگ یا اکثر لوگ تمہاری اطاعت کریں اور تم سب مل کر یہاں کے لوگوں کو نکال باہر کرو۔ یہ سب جھوٹ تھا، فرعون خود بھی جانتا تھا اصل صورت احوال یہ تھی کہ موسیٰ علیہ السلام کی ان میں سے کسی جادوگر سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی تھی، فرعون اور اس کے ہر کاروں کے حکم پر ان جادوگروں کو جمع کیا گیا تھا اور موسیٰ علیہ السلام نے وہاں جو کچھ کر دکھایا تھا وہ معجزہ تھا۔ تمام جادوگر ان کو نیچا دکھانے سے عاجز رہے اور حق ان کے سامنے واضح ہوگیا اور وہ موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لے آئے۔ فرعون نے جادوگروں کو دھمکی دیتے ہوئے کہا ﴿فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ﴾” تمہیں عنقریب معلوم ہوجائے گا“ کہ تم کس سزا سے دو چار ہونے والے ہو۔ الاعراف
124 ﴿لَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُم مِّنْ خِلَافٍ﴾ ” میں تمہارے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسری طرف کے پاؤں کٹوا دوں گا۔“ وہ خبیث شخص سمجھتا تھا کہ یہ جادوگر زمین میں فساد برپا کرنے والے ہیں لہٰذا وہ ان کے ساتھ وہی سلوک کرے گا جو فسادیوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ میں تمہارے ہاتھ پاؤں مخالف سمت سے کٹوا دوں گا۔۔۔ یعنی دایاں ہاتھ اور بائیاں پاؤں ﴿ثُمَّ لَأُصَلِّبَنَّكُمْ﴾ ” پھر تم کو سولی دوں گا۔“ یعنی کھجور کے تنوں پر تم سب کو سولی دے دوں گا۔ ﴿أَجْمَعِينَ﴾” سب کو“ یعنی یہ سزا تم میں سے کسی ایک کو نہیں دوں گا بلکہ تم سب اس سزا کا مزہ چکھو گے۔ الاعراف
125 ایمان لانے والے جادوگروں کو جب فرعون نے دھمکی دی تو انہوں نے کہا : ﴿إِنَّا إِلَىٰ رَبِّنَا مُنقَلِبُونَ﴾” ہم تو اپنے رب کی طرف پھرنے والے ہیں“ یعنی ہمیں تمہاری سزا کی کوئی پروا نہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے لئے بہتر ہے اور وہ ہمیشہ رہنے والا ہے۔ اس لئے تو جو فیصلہ کرنا چاہتا ہے کرلے۔ الاعراف
126 ﴿وَمَا تَنقِمُ مِنَّا﴾ ” تجھ کو ہماری کون سی بات بری لگی ہے۔“ یعنی وہ کون سی بری بات ہے جس پر تو ہماری نکیر کرتا ہے اور ہمیں دھمکی دیتا ہے۔ ہمارا کوئی گناہ نہیں ﴿ إِلَّا أَنْ آمَنَّا بِآيَاتِ رَبِّنَا لَمَّا جَاءَتْنَا﴾ ” سوائے اس کے کہ ہم ایمان لائے اپنے رب کی آیتوں پر جب وہ ہمارے پاس آئیں“ پس اگر یہ گناہ ہے جس کو معیوب کہا جائے اور اس کے مرتکب کو سزا کا مستحق سمجھا جائے تو ہم نے اس گناہ کا ارتکاب کیا ہے۔ پھر جادوگروں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ وہ انہیں ثابت قدمی عطا کرے اور انہیں صبر سے نوازے۔ ﴿رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا﴾ ” ہم پر صبر عظیم کا فیضان کر“۔۔۔ جیسا کہ (صَبْرًا) میں نکرہ کا سیاق اس پر دلالت کرتا ہے۔۔۔ کیونکہ یہ بہت بڑا امتحان ہے جس میں جا ن کے جانے کا بھی خطرہ ہے۔ پس اس امتحان میں صبر کی سخت ضرورت ہوتی ہے تاکہ دل مضبوط ہو اور مومن اپنے ایمان پر مطمئن ہو اور قلب سے بے یقینی کی کیفیت دور ہوجائے۔ ﴿وَّ تَوَفَّنَا مُسْلِمِينَ ﴾ ” اور ہمیں مسلمان مارنا۔“ یعنی ہمیں اس حالت میں وفات دے کہ ہم تیرے تابع فرمان بندے اور تیرے رسول کی اطاعت کرنے والے ہوں۔ الاعراف
127 ظاہر ہے کہ فرعون نے جو دھمکی دی تھی اس پر عمل کیا ہوگا اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کو ایمان پر ثابت قدم رکھا ہوگا۔ یہ تو تھا ان جادوگروں کا حال، فرعون، اس کے سرداروں اور ان کے پیرو کار عوام نے اللہ تعالیٰ کی آیات کے ساتھ تکبر کیا اور ظلم کے ساتھ ان کا انکار کردیا۔ انہوں نے فرعون کو موسیٰ علیہ السلام پر ہاتھ ڈالنے پر اکساتے ہوئے اور یہ سمجھتے ہوئے کہ موسیٰ علیہ السلام جو کچھ لائے ہیں سب باطل اور فاسد ہے۔۔۔ کہا ﴿ أَتَذَرُ مُوسَىٰ وَقَوْمَهُ لِيُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ ﴾” کیا تم موسیٰ علیہ السلام اور اس کی قوم کو چھوڑ دو گے کہ ملک میں خرابی کریں۔“ یعنی کیا تم موسیٰ علیہ السلام اور اس کی قوم کو چھوڑ رہے ہو، تاکہ وہ دعوت توحید، مکارم اخلاق اور محاسن اعمال کی تلقین کے ذریعے سے زمین میں فساد پھیلائے۔ حالانکہ ان اخلاق و اعمال میں زمین کی اصلاح ہے اور جس راستے پر فرعون اور اس کے سردار گامزن تھے، وہ درحقیقت فساد کا راستہ ہے مگر ان ظالموں کو کوئی پروا نہ تھی کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ ﴿ وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ﴾ ” وہ تجھے اور تیرے معبودوں کو چھوڑ دے“ اور لوگوں کو تیری اطاعت کرنے سے روک دے۔ ﴿قَالَ﴾ فرعون نے ان کو جواب دیا کہ وہ بنی اسرائیل کو موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ اس حالت میں رکھے گا جس سے ان کی آبادی اور تعداد میں اضافہ نہیں ہوگا۔ اس طرح فرعون اور اس کی قوم۔۔۔ بزعم خود۔۔۔ ان کے ضرر سے محفوظ ہوجائیں گے۔ چنانچہ کہنے لگا : ﴿سَنُقَتِّلُ أَبْنَاءَهُمْ وَنَسْتَحْيِي نِسَاءَهُمْ﴾ ” ہم ان کے بیٹوں کو قتل اور عورتوں کو زندہ رکھیں گے“ یعنی ان کی عورتوں کو باقی رکھیں گے اور انہیں قتل نہیں کریں گے۔ جب تک یہ حکمت عملی اختیار کریں گے تو ہم ان کی کثرت تعداد سے محفوظ رہیں گے اور ہم باقی ماندہ لوگوں سے خدمت بھی لیتے رہیں گے اور ان سے جو کام چاہیں گے لیں گے۔ ﴿وَإِنَّا فَوْقَهُمْ قَاهِرُونَ﴾ ” اور ہم ان پر غالب ہیں“ یعنی وہ ہماری حکمرانی اور تغلب سے باہر نکلنے پر قادر نہ ہوں گے۔ یہ فرعون کا انتہا کو پہنچا ہوا ظلم و جبر، اس کی سرکشی اور بے رحمی تھی۔ الاعراف
128 ﴿قَالَ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ﴾(موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا۔“ ان حالات میں، جن میں وہ کچھ کرنے کی طاقت نہ رکھتے تھے، اللہ تعالیٰ کی مدد کے بغیر وہ ان حالات کا مقابلہ کرنے سے عاجز تھے۔ موسیٰ علیہ السلام نے ان کو وصیت کرتے ہوئے کہا : ﴿اسْتَعِينُوا بِاللَّـهِ﴾” اللہ سے مدد طلب کرو“ یعنی اس چیز کے حصول میں جو تمہارے لئے فائدہ مند ہے اور اس چیز کو دور ہٹانے میں جو تمہارے لئے ضرر رساں ہے، اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرو۔ اس پر اعتماد کرو، وہ تمہارے معاملے کو پورا کرے گا۔ ﴿وَاصْبِرُوا﴾ ” اور صبر کرو۔“ یعنی مصائب و ابتلاء کے دور ہونے کی امید کرتے ہوئے صبر کا التزام کرو۔ ﴿إِنَّ الْأَرْضَ لِلَّـهِ﴾ ” زمین اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہے“ فرعون اور اس کی قوم کی ملکیت نہیں کہ وہ اس زمین میں حکم چلائیں ﴿ يُورِثُهَا مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ﴾ ” وہ اس کا وارث اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے، بناتا ہے“ یعنی اللہ تعالیٰ اپنی مشیت اور حکمت کے مطابق زمین کی حکمرانی باری باری لوگوں کو عطا کرتا ہے۔ مگر اچھا انجام متقین کا ہوتا ہے کیونکہ اس حکمرانی کی مدت میں اگر ان کو امتحان میں ڈالا جائے، اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش اور اس کی حکمت کے تحت، تب بھی بالاخر کامیابی انہی کے لئے ہے۔ ﴿وَالْعَاقِبَةُ﴾ ” اور اچھا انجام“﴿لِلْمُتَّقِينَ﴾ ” متقین کیلئے ہے“ یعنی جو اپنی قوم کے بارے میں تقویٰ اختیار کرتے ہیں۔ یہ بندہ مومن کا وظیفہ ہے کہ مقدور بھر ایسے اسباب مہیا کرتا رہے جن کے ذریعے سے وہ دوسروں کی طرف سے دی ہوئی اذیت سے اپنی ذات کو بچا سکے اور جب وہ ایسا کرنے سے عاجز آجائے تو صبر کرے اور اللہ تعالیٰ سے مدد مانگے اور اچھے وقت کا انتظار کرے۔ الاعراف
129 ﴿قَالُوا﴾ بنی اسرائیل نے، جو کہ طویل عرصے سے فرعون کی تعذیب اور عقوبت برداشت کرتے کرتے تنگ آچکے تھے۔۔۔ موسیٰ علیہ السلام سے کہا : ﴿أُوذِينَا مِن قَبْلِ أَن تَأْتِيَنَا﴾ ” ہمیں تکلیفیں دی گئیں آپ کے آنے سے پہلے“ کیونکہ انہوں نے ہمیں بدترین عذاب میں مبتلا کر رکھا تھا وہ ہمارے بیٹوں کو قتل کردیا کرتے تھے اور ہماری عورتوں کو زندہ رکھتے تھے ﴿وَمِن بَعْدِ مَا جِئْتَنَا﴾ ” اور آپ کے آنے کے بعد بھی“ ایسا ہی سلوک ہے﴿ قَالَ﴾ جناب موسیٰ علیہ السلام نے ان کو آل فرعون کے شر سے نجات اور اچھے وقت کی امید دلاتے ہوئے فرمایا : ﴿عَسَىٰ رَبُّكُمْ أَن يُهْلِكَ عَدُوَّكُمْ وَيَسْتَخْلِفَكُمْ فِي الْأَرْضِ ﴾ ” امید ہے کہ تمہارے رب تمہارے دشمن کو ہلاک کر دے اور تم کو زمین میں خلیفہ بنا دے“ یعنی زمین میں تمہیں حکومت عطا کر دے اور زمین کا اقتدار اور تدبیر تمہارے سپرد کر دے۔ ﴿فَيَنظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُونَ﴾ ” پھر دیکھے تم کیسے کام کرتے ہو“ اللہ تعالیٰ کا شکر کرتے ہو یا ناشکری کرتے ہو۔ یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا وعدہ تھا اور جب وہ وقت آگیا جس کا اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا تھا تو اس نے یہ وعدہ پورا کردیا۔ الاعراف
130 اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس آخری مدت میں آل فرعون کے ساتھ جو معاملہ کیا اللہ تعالیٰ اس کا حال بیان فرماتا ہے کہ قوموں کے بارے میں اس کی سنت اور عادت یہ ہے کہ وہ سختیوں اور تکلیفوں کے ذریعے سے ان کو آزماتا ہے شاید کہ وہ اس کے سامنے فروتنی کا اظہار کریں﴿ وَلَقَدْ أَخَذْنَا آلَ فِرْعَوْنَ بِالسِّنِينَ ﴾” ہم نے ان پر خشک سالی اور قحط کو مسلط کردیا۔“ ﴿ وَنَقْصٍ مِّنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُونَ﴾” اور رمیووں کے نقصان میں پکڑا تا کہ نصیحت حاصل کریں۔“ یعنی ان پر جو قحط سالی مسلط کی گئی اور جو مصیبت نازل کی گئی شاید وہ اس سے نصیحت پکڑیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عتاب ہے، شاید وہ اپنے کفر سے رجوع کریں۔ مگر اس کا کوئی فائدہ نہ ہو اور وہ اپنے ظلم اور فساد پر بدسوتر جمے رہے۔ الاعراف
131 ﴿فَإِذَا جَاءَتْهُمُ الْحَسَنَةُ ﴾” پس جب پہنچتی ان کو بھلائی“ یعنی جب انہیں شادابی اور رزق میں کشادگی حاصل ہوتی۔ ﴿قَالُوا لَنَا هَـٰذِهِ ۖ﴾ تو کہتے ” ہم اس کے مستحق تھے“ اور اللہ تعالیٰ کے شکر گزار نہ ہوتے۔ ﴿وَإِن تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ ﴾ ” اور اگر پہنچتی ان کو کوئی برائی“ یعنی جب ان پر قحط اور خشک سالی وارد ہوتی ﴿يَطَّيَّرُوا بِمُوسَىٰ وَمَن مَّعَهُ ﴾ ” تو نحوست بتلاتے موسیٰ علیہ السلام کی اور اس کے ساتھیوں کی“ یعنی وہ کہتے کہ اس تمام مصیبت کا سبب موسیٰ علیہ السلام کی آمد اور بنی اسرائیل کا ان کی اتباع کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ أَلَا إِنَّمَا طَائِرُهُمْ عِندَ اللَّـهِ ﴾ ” ان کی بدشگونی تو (اللہ کی قضا و قدر سے اس کے ہاں مقدر ہے“ اور یہ معاملہ ایسے نہیں جیسے وہ کہتے ہیں بلکہ ان کا کفر اور ان کے گناہ ہی بدشگونی کا اصل سبب ہیں ﴿ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ﴾ ” لیکن ان کے اکثر لوگ نہیں جانتے“ بنا بریں وہ یہ سب کچھ کہتے ہیں۔ الاعراف
132 ﴿وَقَالُوا﴾ ” اور انہوں نے کہا۔“ یعنی انہوں نے موسیٰ علیہ السلام پر واضح کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے باطل پر قائم رہیں گے۔ ﴿مَهْمَا تَأْتِنَا بِهِ مِنْ آيَةٍ لِّتَسْحَرَنَا بِهَا فَمَا نَحْنُ لَكَ بِمُؤْمِنِينَ ﴾ یعنی ہمارے ہاں یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ تو جادو گر ہے تو جو بھی کوئی معجزہ لے کر آئے ہمیں قطعی یقین ہے کہ وہ جادو ہے اس لئے ہم تجھ پر ایمان لاتے ہیں نہ تیری تصدیق کرتے ہیں۔ یہ عناد کی انتہا ہے جس نے کفار کو اس مقام پر پہنچا دیا کہ ان پر کوئی معجزہ نازل ہو یا نہ ہو ان کے لئے حالات برابر ہیں۔ الاعراف
133 ﴿فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمُ الطُّوفَانَ﴾ ” ہم نے ان پر طوفان بھیجا۔“ یعنی ہم نے بہت بڑا سیلاب بھیجا جس میں ان کی کھیتیاں اور باغات ڈوب گئے اور انہیں بہت بڑا نقصان اٹھاناپڑا۔ ﴿وَالْجَرَادَ﴾ ” اور ٹڈیاں“ ہم نے ان پر ٹڈی دل بھیجا جو ان کے باغات، کھیتوں اور ہر قسم کی نباتات کو چٹ کر گیا۔ ﴿وَالْقُمَّلَ ﴾ ” اور جوئیں۔“ بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد چھوٹی ٹڈی ہے۔ مگر ظاہر ہے کہ اس سے مراد معروف جوں ہے۔ ﴿وَالضَّفَادِعَ﴾ ” اور مینڈک“ پس مینڈکوں نے ان کے برتنوں وغیرہ کو بھر دیا، ان کے لئے سخت تکلیف اور قلق کا باعث بنے ﴿ وَالدَّمَ ﴾” اور خون“ یا تو اس سے مراد نکسیر ہے یا اس سے مراد یہ ہے جیسا کہ بہت سے مفسرین کی رائے ہے کہ ان کا پینے والا پانی خون میں بدل جاتا تھا، وہ خون کے سوا کچھ نہیں پی سکتے تھے اور کچھ نہیں پکا سکتے تھے۔ ﴿ آيَاتٍ مُّفَصَّلَاتٍ﴾ ” نشانیاں جدا جدا“ یہ اس بات کے واضح دلائل تھے کہ وہ جھوٹے اور ظالم ہیں اور موسیٰ علیہ السلام حق اور صداقت پر ہیں۔ ﴿ فَاسْتَكْبَرُوا﴾ ” پس انہوں نے تکبر کیا۔“ جب انہوں نے ان معجزات الٰہی کو دیکھا تو تکبر کرنے لگے﴿ وَكَانُوا قَوْمًا مُّجْرِمِينَ ﴾ ”اور وہ لوگ تھے ہی گناہ گار۔“ یعنی پہلے ہی سے ان کا معاملہ یہ تھا کہ وہ مجرموں کی قوم تھی۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے ان کو سزا دی اور ان کو گمراہی پر برقرار رکھا۔ الاعراف
134 ﴿وَلَمَّا وَقَعَ عَلَيْهِمُ الرِّجْزُ ﴾” اور جب ان پر عذاب واقع ہوا“ اور اس میں یہ احتمال بھی ہے کہ اس سے مراد طاعون ہو، جیسا کہ بہت سے مفسرین کی رائے ہے اور اس سے مراد وہ عذاب بھی ہوسکتا ہے جس کا ذکر گزشتہ سطور میں آچکا ہے یعنی طوفان، ٹڈی دل، جوئیں، مینڈک اور خون، یہ تمام چیزیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب تھیں۔۔۔ یعنی جب ان پر ان میں سے کوئی عذاب نازل ہوتا ﴿قَالُوا يَا مُوسَى ادْعُ لَنَا رَبَّكَ بِمَا عَهِدَ عِندَكَ﴾ ” تو کہتے اے موسیٰ! ہمارے لئے اپنے رب سے دعا کر، اس عہد کی وجہ سے جو اللہ نے تجھ سے کیا ہوا ہے“ یعنی وہ موسیٰ علیہ السلام کو سفارشی بناتے کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے وحی اور شریعت کا عہد کر رکھا ہے اور کہتے : ﴿لَئِن كَشَفْتَ عَنَّا الرِّجْزَ لَنُؤْمِنَنَّ لَكَ وَلَنُرْسِلَنَّ مَعَكَ بَنِي إِسْرَائِيلَ﴾ ” اگر دور کردیا تو نے ہم سے یہ عذاب، تو بے شک ہم ایمان لے آئیں گے تجھ پر اور جانے دیں گے تیرے ساتھ بنی اسرائیل کو“ وہ اس بارے میں سخت جھوٹے تھے اور اس بات سے ان کا اس کے سوا اور کوئی مقصد نہ تھا کہ ان سے وہ عذاب دور ہوجائے جو ان پر نازل ہوچکا تھا اور وہ سمجھتے تھے کہ جب عذاب ایک بار دور ہوگیا، دوبارہ کوئی عذاب واقع نہیں ہوگا۔ الاعراف
135 ﴿فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْهُمُ الرِّجْزَ إِلَىٰ أَجَلٍ هُم بَالِغُوهُ﴾ ” پھر جب ہم ایک مدت کے لئے جس تک ان کو پہنچنا تھا ان سے عذاب دور کردیتے۔“ یعنی جب ایک مدت تک ان سے عذاب دور کردیا جاتا جس مدت تک اللہ تعالیٰ نے ان کی بقا مقدر کی تھی۔ یہ عذاب ہمیشہ کے لئے ان سے دور نہیں کیا جاتا تھا بلکہ ایک مقرر وقت تک کے لئے اس عذاب کو ہٹایا جاتا تھا۔ ﴿ إِذَا هُمْ يَنكُثُونَ﴾ ” تو اسی وقت عہد توڑ ڈالتے“ وہ موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لانے اور بنی اسرائیل کو آزاد کردینے کے عہد کو، جو انہوں نے موسیٰ علیہ السلام سے کیا تھا، توڑ دیتے۔ وہ موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لائے نہ انہوں نے بنی اسرائیل کو آزاد کیا، بلکہ وہ اپنے کفر پر جمے رہے اور اسی میں سرگرداں رہے اور بنی اسرائیل کو تعذیب دینا انہوں نے اپنی عادت بنا لیا تھا۔ الاعراف
136 ﴿فَانتَقَمْنَا مِنْهُمْ﴾ ” پھر بدلہ لیا ہم نے ان سے“ یعنی جب ان کی ہلاکت کے لئے مقرر کیا ہوا وقت آگیا تو اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو حکم دیا کہ وہ راتوں رات بنی اسرائیل کو لے کر وہاں سے نکل جائیں اور ان کو آگاہ فرما دیا کہ فرعون اپنی فوجوں کے ساتھ ضرور اس کا پیچھا کرے گا۔ ﴿فَأَرْسَلَ فِرْعَوْنُ فِي الْمَدَائِنِ حَاشِرِينَ﴾(الشعراء:26؍53) ” پس فرعون نے تمام شہروں میں اپنے نقیب روانہ کردیئے۔“ تاکہ وہ لوگوں کو جمع کر کے بنی اسرائیل کا تعاقب کریں اور کہلا بھیجا۔ ﴿ إِنَّ هَـٰؤُلَاءِ لَشِرْذِمَةٌ قَلِيلُونَ وَإِنَّهُمْ لَنَا لَغَائِظُونَ وَإِنَّا لَجَمِيعٌ حَاذِرُونَ فَأَخْرَجْنَاهُم مِّن جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ وَكُنُوزٍ وَمَقَامٍ كَرِيمٍ كَذَٰلِكَ وَأَوْرَثْنَاهَا بَنِي إِسْرَائِيلَ فَأَتْبَعُوهُم مُّشْرِقِينَ فَلَمَّا تَرَاءَى الْجَمْعَانِ قَالَ أَصْحَابُ مُوسَىٰ إِنَّا لَمُدْرَكُونَ قَالَ كَلَّا ۖ إِنَّ مَعِيَ رَبِّي سَيَهْدِينِ فَأَوْحَيْنَا إِلَىٰ مُوسَىٰ أَنِ اضْرِب بِّعَصَاكَ الْبَحْرَ ۖ فَانفَلَقَ فَكَانَ كُلُّ فِرْقٍ كَالطَّوْدِ الْعَظِيمِ وَأَزْلَفْنَا ثَمَّ الْآخَرِينَ وَأَنجَيْنَا مُوسَىٰ وَمَن مَّعَهُ أَجْمَعِينَ ثُمَّ أَغْرَقْنَا الْآخَرِينَ﴾(الشعراء : 26؍54۔66)” یہ لوگ ایک نہایت قلیل سی جماعت ہیں اور یہ ہمیں غصہ دلا رہے ہیں اور ہم سب تیار اور چوکنے ہیں۔ پس ہم نے ان کو باغات اور چشموں سے نکال باہر کیا اور اس طرح ان کو خزانوں اور اچھے مکانوں سے بے دخل کیا اور ان چیزوں کا بنی اسرائیل کو وارث بنا دیا۔ پس سورج نکلتے ہی انہوں نے ان کا تعاقب کیا اور جب دونوں جماعتیں آمنے سامنے ہوئیں تو موسیٰ علیہ السلام کے اصحاب نے کہا ہم تو پکڑ لئے گئے۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا ہرگز نہیں، میرے ساتھ میرا رب ہے وہ ضرور مجھے راہ دکھائے گا۔ پس ہم نے موسیٰ کی طرف وحی کی کہ اپنا عصا سمندر پر مارو تو سمندر پھٹ گیا اور ہر ٹکڑا یوں لگا جیسے بہت بڑا پہاڑ ہو اور ہم وہاں دوسروں کو بھی قریب لے آئے اور موسیٰ اور ان کے تمام ساتھیوں کو ہم نے نجات دی پھر دوسروں کو غرق دیا۔ “ یہاں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿فَأَغْرَقْنَاهُمْ فِي الْيَمِّ بِأَنَّهُمْ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا وَكَانُوا عَنْهَا غَافِلِينَ﴾ ” پس ہم نے ان کو دریا میں ڈبو دیا اس لئے کہ وہ ہماری آیتوں کو جھٹلاتے اور ان سے بے پروائی کرتے تھے۔“ یعنی ان کے آیات الٰہی کو جھٹلانے اور حق سے روگردانی کرنے کے سبب سے، جس پر یہ آیات دلالت کرتی ہیں، ہم نے ان کو غرق کردیا۔ الاعراف
137 ﴿ وَأَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِينَ كَانُوا يُسْتَضْعَفُونَ﴾ ” اور وارث کردیا ہم نے ان لوگوں کو جو کمزور سمجھے جاتے تھے“ یعنی بنی اسرائیل جو زمین میں کمزور لوگ تھے جو آل فرعون کی خدمت پر مامور تھے اور آل فرعون ان کو بدترین عذاب دیا کرتے تھے۔ ﴿مَشَارِقَ الْأَرْضِ وَمَغَارِبَهَا ﴾ ” اس زمین کے مشرق و مغرب کا“ اللہ تعالیٰ نے ان کو زمین کے مشرق و مغرب کا وارث بنا دیا۔ یہاں (ارض) سے مراد سر زمین مصر ہے۔ [بنو اسرائیل کا مصر سے نکلنے کے بعد تاریخی طور پر دوبارہ مصر جاناثابت نہیں۔ اس لئے یہاں زمین سے مراد، جس کا وارث اور حکمران بنو اسرائیل کو بنایا گیا، شام و فلسطین کا علاقہ ہے۔ اس علاقے پر عمالقہ کی حکمرانی تھی۔ حضرت موسیٰ اور ہاورن علیہما السلام کی وفات کے بعد حضرت یوشع بن نون علیہ السلام نے عمالقہ کو شکست دی اور بنو اسرائیل کے لئے یہاں آنے کا راستہ ہموار کیا۔ قرآن کے الفاظ ” ہم نے اس زمین میں برکت رکھی۔“ سے بھی اسی کی تائید ہوتی ہے۔ کیونکہ قرآن نے دوسرے مقام (بنی اسرائیل :17؍ 1) پر ارض فلسطین ہی کو بابرکت کہا ہے۔ (صی۔ ی)] جہاں بنی اسرائیل کو مطیع اور غلام بنا کر رکھا گیا تھا اور اللہ تعالیٰ نے ان کو اس سر زمین کا مالک بنا دیا اور ان کو اس کی حکمرانی عطا کردی۔ ﴿الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا ۖ وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ الْحُسْنَىٰ عَلَىٰ بَنِي إِسْرَائِيلَ بِمَا صَبَرُوا﴾ ” جس میں برکت رکھی ہے ہم نے اور پورا ہوگیا نیکی کا وعدہ تیرے رب کا بنی اسرائیل پر بسبب ان کے صبر کرنے کے“ اور یہ اس وقت ہوا جب موسیٰ علیہ السلام نے ان سے کہا﴿ اسْتَعِينُوا بِاللَّـهِ وَاصْبِرُوا ۖ إِنَّ الْأَرْضَ لِلَّـهِ يُورِثُهَا مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ ۖ وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ﴾(الأعراف:7؍128) ”اللہ سے مدد مانگو اور صبر کرو۔ اللہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے زمین کا وارث بنا دیتا ہے۔ اچھا انجام تو پرہیز گاروں کے لئے ہے۔ “ ﴿ وَدَمَّرْنَا مَا كَانَ يَصْنَعُ فِرْعَوْنُ وَقَوْمُهُ﴾” اور تباہ کردیا ہم نے جو کچھ بنایا تھا فرعون اور اس کی قوم نے“ یعنی ہم نے ان کی حیران کن عالی شان عمارتیں اور سجے سجائے گھر تباہ کردیئے ﴿وَمَا كَانُوا يَعْرِشُونَ﴾ ” اور (وہ انگور کے باغات تباہ کردیئے) جو وہ چھتریوں پر چڑھاتے تھے۔“ یہ ان کے گھر ہیں جو ان کے ظلم کے باعث خالی پڑے ہیں۔ بے شک اس میں علم رکھنے والے لوگوں کے لئے نشانی ہے۔ الاعراف
138 ﴿ وَجَاوَزْنَا بِبَنِي إِسْرَائِيلَ الْبَحْرَ﴾” اور پار اتار دیا ہم نے بنی اسرائیل کو سمندر سے“ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن فرعون اور اس کی قوم سے نجات دے کر سمندر سے پار کیا اور فرعون اور اس کی قوم کو بنی اسرائیل کے سامنے ہلاک کر ڈالا۔﴿ فَأَتَوْا ﴾ ” پس وہ پہنچے“ یعنی ان کا گزر ہوا ﴿عَلَىٰ قَوْمٍ يَعْكُفُونَ عَلَىٰ أَصْنَامٍ لَّهُمْ ۚ ﴾ ” ایک قوم پر جو اپنے بتوں کے پوجنے میں لگی ہوئی تھی۔“ یعنی وہ ان بتوں کے پاس ٹھہرتے تھے، ان سے برکت حاصل کرتے تھے اور ان کی عبادت کرتے تھے۔ ﴿ قَالُوا﴾ بنی اسرائیل نے اپنی جہالت اور بے وقوفی کی بنا پر، اس کے بعد کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو معجزات دکھائے تھے، اپنے نبی موسیٰ علیہ السلام سے کہا ﴿ يَا مُوسَى اجْعَل لَّنَا إِلَـٰهًا كَمَا لَهُمْ آلِهَةٌ ۚ﴾ ” اے موسیٰ! جیسے ان لوگوں کے معبود ہیں، ہمارے لئے بھی ایک معبود بنا دو۔“ یعنی تو ہمارے لئے بھی جائز کر دے کہ ہم بھی بتوں کو معبود بنائیں جیسے ان لوگوں نے بتوں کو معبود بنایا ہوا ہے۔ ﴿قَالَ﴾ موسیٰ علیہ السلام نے ان سے کہا ﴿إِنَّكُمْ قَوْمٌ تَجْهَلُونَ﴾” تم لوگ تو جہالت کا ارتکاب کرتے ہو“ اس شخص کی جہالت سے بڑھ کر کون سی جہالت ہوسکتی ہے جو اپنے رب اور خالق سے جاہل ہے اور چاہتا ہے کہ وہ غیر اللہ کو اس کا ہمسر بنائے، جو کسی نفع نقصان کا مالک نہیں اور نہ زندگی اور موت اور دوبارہ اٹھایا جانا اس کے اختیار میں ہے؟ بنا بریں موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا : الاعراف
139 ﴿إِنَّ هَـٰؤُلَاءِ مُتَبَّرٌ مَّا هُمْ فِيهِ وَبَاطِلٌ مَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ﴾ ” یہ لوگ، تباہ ہونے والی ہے وہ چیز جس میں وہ لگے ہوئے ہیں اور غلط ہے جو وہ کر رہے ہیں“ کیونکہ ان کا ان معبودوں کو پکارنا باطل، یہ معبود خود باطل، وہ عمل جو وہ کرتے ہیں باطل اور اس کی غرض و غایت باطل ہے۔ الاعراف
140 فرمایا ﴿ أَغَيْرَ اللَّـهِ أَبْغِيكُمْ إِلَـٰهًا﴾ ” کیا میں اللہ کے سوا تمہارے لئے کوئی اور معبود تلاش کروں۔“ یعنی کیا اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر جو اپنی ذات، صفات اور افعال میں کامل معبود ہے، تمہارے لئے کوئی اور معبود تلاش کروں ﴿وَهُوَ فَضَّلَكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ﴾ ” حالانکہ اس نے تمہیں تمام دنیا پر فضیلت بخشی ہے“ اور اس فضیلت کا تقاضا یہ ہے کہ تم اس پر اللہ تعالیٰ کے شکر گزار بندے بنو۔۔۔ اور شکر گزاری یہ ہے کہ تم صرف اللہ تعالیٰ ہی کو عبادت کا مستحق جانو اور ہر اس ہستی کا انکار کرو جسے اللہ تعالیٰ کے سوا پکارا جاتا ہے۔ الاعراف
141 پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان پر اپنے احسانات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا :﴿وَإِذْ أَنجَيْنَاكُم مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ ﴾ ” جب ہم نے تم کو آل فرعون سے نجات دی۔“ یعنی جب ہم نے تمہیں فرعون اور آل فرعون سے نجات دی ﴿ يَسُومُونَكُمْ سُوءَ الْعَذَابِ﴾ ” دیتے تھے وہ تم کو برا عذاب“ انہوں نے تم پر بدترین عذاب مسلط کر رکھا تھا۔ ﴿يُقَتِّلُونَ أَبْنَاءَكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِسَاءَكُمْ ۚ وَفِي ذَٰلِكُم ﴾” کہ مار ڈالتے تھے تمہارے بیٹوں کو اور زندہ رکھتے تھے تمہاری عورتوں کو اور اس میں“ یعنی ان کے عذاب سے نجات میں ﴿بَلَاءٌ مِّن رَّبِّكُمْ عَظِيمٌ ﴾ ”تمہارے رب کی طرف سے جلیل ترین نعمت اور بے پایاں احسان تھا۔“ یا اس کا معنی یہ ہے کہ آل فرعون کی طرف سے تم پر جو عذاب مسلط تھا اس میں ” تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہارے لئے ایک بہت بڑی آزمائش تھی۔“ پس جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان کو وعظ و نصیحت کی تو وہ اس سے باز آگئے۔ الاعراف
142 جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن سے نجات دلا کر اور زمین میں اقتدار عطا کر کے ان پر اپنی نعمت کی تکمیل کردی تو اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا کہ وہ شرعی احکام اور صحیح عقائد پر مشتمل کتاب نازل کر کے ان پر معنوی نعمت کی بھی تکمیل کر دے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام سے تیس راتوں کا وعدہ کیا اور دس راتیں اور شامل کر کے چالیس راتوں کی میعاد پوری کردی تاکہ موسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے وعدے کے لئے اپنے آپ کو تیار کرلیں، تاکہ اس کے نزول کا موقع ان کے ہاں ایک عظیم موقع ہو اور اس کے نزول کا انہیں اشتیاق ہو۔ جب موسیٰ علیہ السلام اپنے رب کے مقرر کردہ وعدے پر جانے لگے تو انہوں نے ہاورن علیہ السلام سے بنی اسرائیل کے بارے میں، جن پر وہ بہت شفقت فرماتے تھے، وصیت کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ اخْلُفْنِي فِي قَوْمِي﴾ ” میرے بعد تم میری قوم میں میرے جانشین ہو۔“ یعنی تم ان کے اندر میرے خلیفہ ہو، ان کے ساتھ وہی سلوک کرنا جو میں کیا کرتا تھا ﴿وَأَصْلِحْ ﴾” اصلاح کرتے رہنا۔“ یعنی اصلاح کے راستے پر گامزن رہنا۔ ﴿وَلَا تَتَّبِعْ سَبِيلَ الْمُفْسِدِينَ﴾ ” اور مفسدوں کی راہ مت چلنا“ یہاں مفسدین سے مراد وہ لوگ ہیں جو معاصی کا ارتکاب کرتے ہیں۔ الاعراف
143 ﴿وَلَمَّا جَاءَ مُوسَىٰ لِمِيقَاتِنَا ﴾ ” اور جب پہنچے موسیٰ علیہ السلام اپنے وعدے پر“ یعنی وہ وعدہ جو ہم نے کتاب نازل کرنے کے لئے کر رکھا تھا ﴿وَكَلَّمَهُ رَبُّهُ ﴾ ” اور ان کے رب نے ان سے کلام کیا۔” یعنی اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنے کلام کے ذریعے سے وحی نازل کی اور ان کو اوامرونواہی سے نوازا، تو اپنے رب کی محبت اور اس کے اشتیاق میں ان کے دل میں اللہ تعالیٰ کے دیدار کی چاہت پیدا ہوئی۔ ﴿ قَالَ رَبِّ أَرِنِي أَنظُرْ إِلَيْكَ﴾ ” عرض کیا، اے میرے رب ! مجھے اپنا جلوہ دکھا تاکہ میں تیرا دیدار کروں“ ﴿ قَالَ لَن تَرَانِي﴾ ” فرمایا، تو مجھے ہرگز نہ دیکھ سکے گا۔“ یعنی اس وقت تو میرے دیدار کی طاقت نہیں رکھتا۔ اس لئے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے مخلوق کو اس کائنات میں اس طرح پیدا کیا ہے کہ وہ اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کا دیدار نہیں کرسکتے اور نہ وہ اس کے دیدار کی طاقت رکھتے ہیں اور یہ چیز اس بات کی دلیل نہیں کہ وہ جنت میں بھی اس کا دیدار نہیں کرسکیں گے۔ کیونکہ قرآن اور احادیث نبوی کی نصوص دلالت کرتی ہیں کہ اہل جنت اپنے رب کا دیدار کریں گے اور اس کے چہرہ انور کے جلوے سے متمتع ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو جنت میں ایسی کامل تخلیق سے نوازے گا جس کی بنا پر وہ اس کا دیدار کرسکیں گے۔ اسی لئے اس آیت کریمہ میں اللہ نے اپنے دیدار کے بارے میں موسیٰ علیہ السلام کی دعا کی عدم قبولیت پر تسلی کے لئے اپنی تجلی کے سامنے پہاڑ کے قائم رہ سکنے کی شرط عائد کی۔ چنانچہ فرمایا :﴿وَلَـٰكِنِ انظُرْ إِلَى الْجَبَلِ فَإِنِ اسْتَقَرَّ مَكَانَهُ﴾ ” لیکن پہاڑ کی طرف دیکھو، اگر وہ اپنی جگہ ٹھہرا رہا“ یعنی جب پہاڑ پر اللہ تعالیٰ اپنی تجلی فرمائے اور پہاڑ اپنی جگہ پر قائم رہ جائے۔ ﴿فَسَوْفَ تَرَانِي ۚ ﴾” تو تو مجھے دیکھ سکے گا۔ “ ﴿ فَلَمَّا تَجَلَّىٰ رَبُّهُ لِلْجَبَلِ﴾ ” جب موسیٰ علیہ السلام کے رب نے پہاڑ پر تجلی فرمائی“ جو کہ نہایت سخت اور ٹھوس تھا۔ ﴿جَعَلَهُ دَكًّ﴾ ” تو اسے ریزہ ریزہ کردیا۔“ یعنی اللہ تعالیٰ کی تجلی کے سامنے خوف اور گھبراہٹ کی وجہ سے پہاڑ ریت کے ذروں کی مانند ہوگیا ﴿ وَخَرَّ مُوسَىٰ صَعِقًا﴾ ”اور موسیٰ بے ہوش ہو کر گر پڑے۔“ یعنی پہاڑ کو ریزہ ریزہ ہوتے دیکھ کر بے ہوش ہوگئے اور گر پڑے۔﴿ فَلَمَّا أَفَاقَ﴾ ” جب وہ ہوش میں آئے۔“ یعنی جب موسیٰ علیہ السلام کو ہوش آیا تو ان پر یہ حقیقت واضح ہوگئی کہ جب پہاڑ اللہ تعالیٰ کی تجلی کے سامنے کھڑا نہ رہ سکا تو موسیٰ علیہ السلام کا اس کو برداشت کرنا بدرجہ اولیٰ ناممکن تھا۔ موسیٰ علیہ السلام نے اس سوال پر اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کی جو بے موقع اور بے محل ان سے صادر ہوا تھا۔ اس لئے انہوں نے عرض کیا ﴿سُبْحَانَكَ﴾ ” تیری ذات پاک ہے۔“ یعنی تو بہت بڑا اور ہر اس چیز سے پاک اور منزہ ہے جو تیری شان کے لائق نہیں۔ ﴿تُبْتُ إِلَيْكَ﴾ ” اور میں تیرے حضور توبہ کرتا ہوں۔“ یعنی میں تمام گناہوں اور اس سوء ادبی سے جو میں تیری جناب میں کر بیٹھا ہوں تیرے پاس توبہ کرتا ہوں۔ ﴿وَأَنَا أَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ﴾ ” اور میں سب سے پہلے یقین لایا“ یعنی موسیٰ علیہ السلام نے اس چیز کے ساتھ اپنے ایمان کی تجدید کی جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے ان کے ایمان کی تکمیل فرمائی اور اس چیز کو ترک کردیا جس کے بارے میں وہ اس سے قبل لاعلم تھے۔ جب اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے دیدار سے محروم کردیا حالانکہ موسیٰ علیہ السلام دیدار الٰہی کے بہت مشتاق تھے۔۔۔ تو اللہ تعالیٰ نے ان کو خیر کثیر سے نواز دیا۔ الاعراف
144 ﴿قَالَ يَا مُوسَىٰ إِنِّي اصْطَفَيْتُكَ عَلَى النَّاسِ﴾’’اے موسیٰ! میں نے لوگوں میں سے ممتاز کیا ہے۔“ یعنی میں نے تجھے چن لیا، تجھے فضیلت عطا کی اور تجھے خاص طور پر عظیم فضائل اور جلیل القدر مناقب سے نوازا﴿ بِرِسَالَاتِي ﴾ ’’اپنی رسالت کے لئے“ جو ایسا منصب ہے جو بطور خاص صرف مخلوق میں سے بہترین شخص کو عطا کرتا ہوں۔﴿ وَبِكَلَامِي﴾ ” اور اپنے کلام کے لئے“ میں نے بلا واسطہ تجھ سے کلام کیا۔ یہ فضیلت بطور خاص موسیٰ علیہ السلام کو عطا ہوئی اور وہ تمام انبیاء و مرسلین اسی صفت سے معروف ہیں۔ ﴿ فَخُذْ مَا آتَيْتُكَ ﴾ ” تو جو میں نے تم کو عطا کیا ہے اسے پکڑ رکھو۔“ یعنی میں نے تمہیں جو نعمتیں عطا کی ہیں ان سے استفادہ کرو اور میں نے جو احکام امرونہی نازل کئے ہیں انہیں شرح صدر اور اطاعت مندی کے ساتھ قبول کرو ﴿وَكُن مِّنَ الشَّاكِرِينَ ﴾” اور (میرا) شکر بجا لاؤ۔“ اللہ تعالیٰ نے تجھے فضیلت عطا کی ہے اور تجھے اپنا خاص بندہ بنایا، اس پر اس کا شکر ادا کرو۔ الاعراف
145 ﴿ وَكَتَبْنَا لَهُ فِي الْأَلْوَاحِ مِن كُلِّ شَيْءٍ ﴾ ” اور ہم نے (تورات کی) تختیوں میں ان کے لئے ہر چیز لکھ دی۔“ یعنی ہر وہ چیز جس کے بندے محتاج ہوتے ہیں۔ ﴿مَّوْعِظَةً﴾” اور نصیحت“ یعنی لوگوں کو بھلائی کے کاموں کی ترغیب دیتی اور برائی کے کاموں سے ڈراتی ہے۔ ﴿ وَتَفْصِيلًا لِّكُلِّ شَيْءٍ﴾ ” اور ہر چیز کی تفصیل“ یعنی احکام شریعت، عقائد، اخلاق اور آداب وغیرہ کی پوری تفصیل موجود ہے۔ ﴿فَخُذْهَا بِقُوَّةٍ ﴾ ” پس پکڑ لو ان کو زور سے“ یعنی ان احکام کو قائم کرنے کی بھرپور جدوجہد کیجیے۔ ﴿وَأْمُرْ قَوْمَكَ يَأْخُذُوا بِأَحْسَنِهَا﴾ ” اور حکم کرو اپنی قوم کو کہ پکڑے رہیں اس کی بہتر باتیں“ اس سے مراد واجب اور مستحب احکامات ہیں کیونکہ یہی بہترین احکام ہیں۔ اس آیت کریمہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ ہر شریعت میں اللہ تعالیٰ کے احکام نہایت کامل، عادل اور اچھائی پر مبنی ہوتے ہیں۔﴿سَأُرِيكُمْ دَارَ الْفَاسِقِينَ﴾” عنقریب میں دکھلاؤں گا تم کو نافرمانوں کا گھر“ یعنی اللہ تعالیٰ نافرمانوں کو ہلاک کرنے کے بعد ان کے گھروں کو باقی رکھتا ہے، ان سے توفیق یافتہ اور متواضع مومن نصیحت پکڑتے ہیں۔ رہے اہل ایمان کے علاوہ دیگر لوگ تو ان کے بارے میں فرمایا : الاعراف
146 ﴿سَأَصْرِفُ عَنْ آيَاتِيَ﴾ ” میں اپنی آیتوں سے پھیر دوں گا“ یعنی آفاق اور انفس میں موجود نشانیوں سے عبرت پکڑنے اور کتاب اللہ کی آیات کے فہم سے، میں ان کو روک دوں گا۔ ﴿الَّذِينَ يَتَكَبَّرُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ﴾ ” ان کو جو تکبر کرتے ہیں زمین میں ناحق“ یعنی جو بندوں کے ساتھ تکبر سے پیش آتے ہیں، حق کے ساتھ تکبر کا رویہ رکھتے ہیں اور ہر اس شخص کو تکبر سے ملتے ہیں جو ان کے پاس آتا ہے اور جس کا یہ رویہ ہو تو اللہ تعالیٰ اس کو بہت سی بھلائی سے محروم کردیتا ہے اور اسے اپنے حال پر چھوڑ دیتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی آیات کو سمجھ سکتا ہے نہ فائدہ اٹھا سکتا ہے۔۔۔ بلکہ بسا اوقات اس کے سامنے حقائق بدل جاتے ہیں اور وہ بدی کو نیکی سمجھنے لگ جاتا ہے۔ ﴿وَإِن يَرَوْا كُلَّ آيَةٍ لَّا يُؤْمِنُوا بِهَا﴾ ” اگر وہ دیکھ لیں ساری نشانیاں، ایمان نہ لائیں ان پر“ کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی آیات سے روگردانی کرتے ہیں اور ان پر اعتراضات کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرتے ہیں ﴿وَإِن يَرَوْا سَبِيلَ الرُّشْدِ﴾ ” اور اگر دیکھیں وہ ہدایت کا راستہ“ یعنی ہدایت اور استقامت کی راہ۔۔۔ اور یہ وہ راستہ ہے جو اللہ تعالیٰ تک اور عزت و اکرام کے گھر تک پہنچاتا ہے۔﴿ لَا يَتَّخِذُوهُ سَبِيلًا﴾” تو نہ ٹھہرائیں اس کو راہ“ یعنی وہ اس راستے پر گامزن ہوتے ہیں اور نہ اس پر گامزن ہونے کی رغبت رکھتے ہیں۔ ﴿وَإِن يَرَوْا سَبِيلَ الْغَيِّ﴾ ” اور اگر دیکھیں وہ گمراہی کا راستہ“ یعنی جو اپنے چلنے والے کو بدبختی کی منزل تک پہنچاتا ہے۔﴿يَتَّخِذُوهُ سَبِيلًا ﴾ تو اس کو ٹھہرا لیں راہ“ یعنی اسی راستے پر رواں دواں رہتے ہیں۔ ان کے اس انحراف کا سبب یہ ہے﴿ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا وَكَانُوا عَنْهَا غَافِلِينَ ﴾ ” یہ اس لئے کہ انہوں نے جھٹلایا ہماری آیتوں کو اور ان سے بے خبر رہے“ پس ان کا آیات الٰہی کو ٹھکرا دینا اور ان کے بارے میں غفلت اور حقارت کا رویہ اختیار کرنا یہی ان کو گمراہی کے راستوں پر لے جانے اور رشد و ہدایت کی راہ سے ہٹانے کے موجب بنے ہیں۔ الاعراف
147 ﴿وَالَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا﴾ ”اور وہ لوگ جنہوں نے ہماری (ان عظیم) آیات کو جھٹلایا“ جو اس چیز کی صحت پر دلالت کرتی ہیں جس کے ساتھ ہم نے اپنے رسولوں کو مبعوث کیا ہے۔ ﴿وَلِقَاءِ الْآخِرَةِ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ ۚ﴾ ” اور آخرت کی ملاقات کو، برباد ہوگئے اعمال ان کے“ کیونکہ ان کی کوئی اساس نہ تھی اور ان کے صحیح ہونے کی شرط مفقود تھی۔ اعمال کے صحیح ہونے کی شرط یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی آیات پر ایمان رکھا جائے اور اس کی جزا و سزا کی تصدیق کی جائے ﴿هَلْ يُجْزَوْنَ ﴾ ” وہی بدلہ پائیں گے“ ان کے اعمال کے اکارت جانے اور ان کے مقصود کے حصول کی بجائے اس کے متضاد امور کے حاصل ہونے میں ﴿ إِلَّا مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ﴾ ” جو کچھ وہ عمل کرتے تھے“ کیونکہ اس شخص کے اعمال، جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتا، وہ ان اعمال پر کسی ثواب کی امید نہیں رکھتا اور نہ ان اعمال کی غرض و غایت ہی ہوتی ہے، پس بنا بریں یہ اعمال باطل ہوگئے۔ الاعراف
148 ﴿وَاتَّخَذَ قَوْمُ مُوسَىٰ مِن بَعْدِهِ مِنْ حُلِيِّهِمْ عِجْلًا جَسَدًا ﴾ ” اور بنا لیا موسیٰ کی قوم نے اس کے پیچھے اپنے زیور سے بچھڑا، ایک بدن“۔ بچھڑے کے اس بات کو سامری نے بنایا تھا۔ اس نے فرشتے کے نشان قدم سے مٹھی بھر مٹی لے کر بچھڑے کے بت پر ڈال دی۔﴿لَّهُ خُوَارٌ﴾ اس کی آواز تھی۔“ اس میں سے بچھڑے کی آواز آنے لگے۔ بنی اسرائیل نے اس کو معبود بنا لیا اور اس کی عبادت کرنے لگے۔ سامری نے کہا ” یہ تمہارا اور موسیٰ کا معبود ہے، موسیٰ اسے بھول گیا ہے اور اسے تلاش کرتا پھر رہا ہے۔“۔۔۔ یہ ان کی سفاہت اور قلت بصیرت کی علامت تھی ان پر زمین اور آسمانوں کے پروردگار اور ایک بچھڑے کے درمیان کیسے اشتباہ واقع ہوگیا۔ بچھڑا تو کمزور ترین مخلوق ہے؟ اسی لئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے واضح فرمایا کہ اس بچھڑے کے اندر ایسی صفات ذاتی یا صفات فعلی موجود نہیں ہیں جو اس کے معبود ہونے کے استحقاق کو ثابت کرتی ہوں۔ چنانچہ فرمایا : ﴿أَلَمْ يَرَوْا أَنَّهُ لَا يُكَلِّمُهُمْ ﴾ ” کیا انہوں نے یہ نہیں دیکھا کہ وہ ان سے بات بھی نہیں کرتا“ یعنی کلام کرنے سے محرومی ایک بہت بڑا نقص ہے، وہ خود اس حیوان سے زیادہ کامل حالت کے مالک ہیں جو بولنے کی قدرت نہیں رکھتا۔ ﴿وَلَا يَهْدِيهِمْ سَبِيلًا﴾” اور نہیں بتلاتا ان کو راستہ“ یعنی وہ کسی دینی طریقے کی طرف ان کی راہنمائی نہیں کرسکتا اور نہ انہیں کوئی دنیاوی فائدہ عطا کرسکتا ہے۔ انسانی عقل و فطرت میں یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کسی ایسی ہستی کو خدا بنانا جو کلام نہیں کرسکتی جو کسی کو نفع و نقصان نہیں دے سکتی، سب سے بڑا باطل اور سب سے بڑی بے وقوفی ہے۔ بنا بریں فرمایا : ﴿اتَّخَذُوهُ وَكَانُوا ظَالِمِينَ﴾” انہوں نے اس کو معبود بنا لیا اور وہ ظالم تھے“ کیونکہ انہوں نے ایسی ہستی کی عبادت کی جو عبادت کی مستحق نہ تھی، انہوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کیا جس پر اللہ تعالیٰ نے کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی۔ یہ آیت کریمہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جو کوئی اللہ تعالیٰ کے کلام کا انکار کرتا ہے، تو وہ تمام خصائص الٰہیہ کا منکر ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے کہ کلام نہ کرنا اس ہستی کے الہ ہونے کی عدم صلاحیت پر دلیل ہے جو کلام نہیں کرسکتی۔ الاعراف
149 ﴿ وَلَمَّا﴾” اور جب“ یعنی جب موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم میں واپس آئے، ان کو اس حالت میں پایا اور ان کو ان کی گمراہی کے بارے میں آگاہ فرمایا تو انہیں بڑی ندامت ہوئی۔ ﴿سُقِطَ فِي أَيْدِيهِمْ﴾ ” پچھتائے“ یعنی وہ اپنے فعل پر بہت غم زدہ اور بہت نادم ہوئے ﴿وَرَأَوْا أَنَّهُمْ قَدْ ضَلُّوا﴾ ” اور دیکھا کہ وہ گمراہ ہوگئے ہیں“ تو انہوں نے نہایت عاجزی کے ساتھ اس گناہ سے برأت کا اظہار کیا۔ ﴿قَالُوا لَئِن لَّمْ يَرْحَمْنَا رَبُّنَا﴾ ” اور انہوں نے کہا، اگر ہمارا رب ہم پر رحم نہیں کرے گا۔“ یعنی اگر وہ ہماری راہنمائی نہ کرے اور ہمیں اپنی عبادت اور نیک اعمال کی توفیق سے نہ نوازے ﴿وَيَغْفِرْ لَنَا ﴾ ” اور ہم کو معاف نہیں کرے گا۔“ یعنی بچھڑے کی عبادت کا گناہ جو ہم سے صادر ہوا ہے اسے بخش نہ دے۔ ﴿لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ ﴾ تو ہم یقیناً ان لوگوں میں شامل ہوجائیں گے جنہیں (دنیا و آخرت) میں خسارہ ملا۔ الاعراف
150 ﴿وَلَمَّا رَجَعَ مُوسَىٰ إِلَىٰ قَوْمِهِ غَضْبَانَ أَسِفًا ﴾ ” اور جب موسیٰ (علیہ السلام)پنی قوم میں نہایت غصے اور افسوس کی حالت میں واپس آئے۔“ یعنی موسیٰ علیہ السلام ان کے بارے میں غیظ و غضب سے لبریز واپس لوٹے۔ کیونکہ ان کی غیرت اور (اپنی قوم کے بارے میں) ان کی خیر خواہی اور شفقت کامل تھی۔ ﴿قَالَ بِئْسَمَا خَلَفْتُمُونِي مِن بَعْدِي ﴾ ” کہنے لگے تم نے میرے بعد بہت ہی بد اطواری کی۔“ یعنی بہت ہی برے اطوار تھے جن کے ساتھ تم نے میرے جانے کے بعد میری جانشینی کی۔ یہ ایسے احوال و اطوار تھے جو ابدی ہلاکت اور دائمی شقاوت کے موجب بنتے ہیں۔ ﴿أَعَجِلْتُمْ أَمْرَ رَبِّكُمْ﴾” کیا تم نے اپنے رب کے حکم کے بارے میں جلدی کی“ کیونکہ اس نے تمہارے ساتھ کتاب نازل کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ پس تم اپنی فاسد رائے کے ذریعے سے جلدی سے اس قبیح خصلت کی طرف آگے بڑھے۔ ﴿وَأَلْقَى الْأَلْوَاحَ ﴾ ” اور (تورات کی) تخیاں ڈال دیں۔“ یعنی نہایت غصے سے ان کو پھینک دیا۔﴿وَأَخَذَ بِرَأْسِ أَخِيهِ﴾ ” اور اپنے بھائی کے سر (اور داڑھی) کو پکڑ۔“ ﴿يَجُرُّهُ إِلَيْهِ﴾” اپنی طرف کھینچا“ اور ان سے کہا : ﴿ مَا مَنَعَكَ إِذْ رَأَيْتَهُمْ ضَلُّوا أَلَّا تَتَّبِعَنِ ۖ أَفَعَصَيْتَ أَمْرِي﴾ (طہ :20 ؍92۔93) ” جب تم نے ان کو دیکھا کہ وہ بھٹک گئے ہیں تو تمہیں کس چیز نے میری پیروی کرنے سے روکا۔ کیا تم نے میری حکم عدولی کی؟“ یعنی میرے حکم ﴿ اخْلُفْنِي فِي قَوْمِي وَأَصْلِحْ وَلَا تَتَّبِعْ سَبِيلَ الْمُفْسِدِينَ ﴾ (الاعراف :7؍142) کی نافرمانی کی۔ ہاورن علیہ السلام نے عرض کیا ﴿ يَا ابْنَ أُمَّ لَا تَأْخُذْ بِلِحْيَتِي وَلَا بِرَأْسِي ۖ إِنِّي خَشِيتُ أَن تَقُولَ فَرَّقْتَ بَيْنَ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَلَمْ تَرْقُبْ قَوْلِي ﴾(طٰه:20؍94) ”اے میرے ماں جائے بھائی ! مجھے میری داڑھی اور سر کے بالوں سے نہ پکڑیئے میں تو اس بات سے ڈرتا تھا کہ کہیں آپ یہ نہ کہیں کہ تو نے بنی اسرائیل میں تفرقہ ڈال دیا اور میرے حکم کو ملحوظ نہ رکھا۔ “ ﴿ قَالَ ابْنَ أُمَّ ﴾ ” کہا اے ماں جائے“ یہاں صرف ماں کا ذکر، بھائی کو نرم کرنے کے لئے کیا ہے ورنہ ہاورن ماں اور باپ دونوں کی طرف سے موسیٰ علیہ السلام کے بھائی تھے۔ ﴿إِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُونِي ﴾” لوگوں نے مجھ کو کمزور سمجھا“ یعنی جب میں نے ان سے کہا : ﴿ يَا قَوْمِ إِنَّمَا فُتِنتُم بِهِ ۖ وَإِنَّ رَبَّكُمُ الرَّحْمـٰنُ فَاتَّبِعُونِي وَأَطِيعُوا أَمْرِي﴾(طٰه:20؍90) ” اے میری قوم ! اس سے تمہاری آزمائش کی گئی ہے، تمہارا پروردگار تو اللہ رحمٰن ہے۔ پس میری اتباع کرو اور میرے حکم کی تعمیل کرو۔ “ ﴿وَكَادُوا يَقْتُلُونَنِي ﴾ ” اور قریب تھے کہ مجھ کو مار ڈالیں“ یعنی مجھے قصور وار نہ سمجھیں ﴿ فَلَا تُشْمِتْ بِيَ الْأَعْدَاءَ﴾ ” پس نہ ہنساؤ مجھ پر دشمنوں کو“ یعنی مجھے ڈانٹ ڈپٹ اور میرے ساتھ برا سلوک کر کے دشمنوں کو خوش ہونے کا موقع فراہم نہ کریں۔ کیونکہ دشمن تو چاہتے ہیں کہ وہ میری کوئی غلطی پکڑیں یا انہیں میری کوئی لغزش ہاتھ آئے۔ ﴿وَلَا تَجْعَلْنِي مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ﴾ ” اور مجھے ظالم لوگوں میں مت ملائیے۔“ یعنی مجھے ظالم لوگوں کے ساتھ شامل کر کے میرے ساتھ ان جیسا معاملہ نہ کریں۔ موسیٰ علیہ السلام نے عجلت میں، اپنے بھائی کی برأت معلوم کرنے سے پہلے ہی اس کے ساتھ جو معاملہ کیا اس پر انہیں سخت ندامت ہوئی۔ الاعراف
151 ﴿قَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِي وَلِأَخِي ﴾ ” موسیٰ علیہ السلام نے عرض کی کہ اے میرے رب ! مجھے اور میرے بھائی کو بخش دے۔“ ﴿ وَأَدْخِلْنَا فِي رَحْمَتِكَ﴾” اور تو ہمیں اپنی رحمت میں داخل کر۔“ تیری بے پایاں رحمت ہمیں ہر جانب سے گھیر لے، کیونکہ تیری رحمت تمام برائیوں کے مقابلے میں ایک مضبوط اور محفوظ قلعہ ہے اور ہر بھلائی اور مسرت کا سرچشمہ ہے۔﴿ وَأَنتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ﴾ اور تو سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے“ یعنی تو ہمارے ماں باپ، اولاد، ہر رحم کرنے والے بلکہ خود ہم سے زیادہ ہم پر رحم کرنے والا ہے۔ الاعراف
152 اللہ تبارک و تعالیٰ نے بچھڑے کی پوجا کرنے والوں کا حال بیان کرتے ہوئے فرمایا : ﴿إِنَّ الَّذِينَ اتَّخَذُوا الْعِجْلَ﴾ ” وہ لوگ جنہوں نے بچھڑے کو (معبود) بنا لیا“ ﴿ سَيَنَالُهُمْ غَضَبٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَذِلَّةٌ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا﴾” ان کو پہنچے گا غضب ان کے رب کی طرف سے اور ذلت دنیا کی زندگی میں“ جیسا کہ انہوں نے اپنے رب کو ناراض کیا اور اس کے حکم کی تحقیر کی۔ ﴿وَكَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُفْتَرِينَ ﴾ ” اور اسی طرح بدلہ دیتے ہیں ہم بہتان باندھنے والوں کو‘‘ پس ہر وہ شخص جو اللہ تعالیٰ پر بہتان طرازی کرتا ہے، اس کی شریعت پر جھوٹ گھڑتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف وہ باتیں منسوب کرتا ہے جو اس نے نہیں کہیں تو اسے اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا سامنا کرنا ہوگا اور دنیا کی زندگی میں اسے ذلت اٹھانا پڑے گی، چنانچہ انہیں اللہ تعالیٰ کے غضب کا سامنا کرنا پڑا، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم دیا کہ وہ اپنے آپ کو قتل کریں اور اللہ تعالیٰ ان سے اس وقت تک خوش نہیں ہوگا جب تک کہ وہ یہ فعل سر انجام نہ دیں۔ پس انہوں نے ایک دوسرے کو قتل کیا اور مقتولین کی کثرت سے میدان بھر گیا۔ پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرما لی۔ الاعراف
153 بنابریں اللہ تبارک و تعالیٰ نے ایک عام حکم ذکر فرمایا جس میں یہ لوگ اور دیگر لوگ شامل ہیں، فرمایا : ﴿وَالَّذِينَ عَمِلُوا السَّيِّئَاتِ﴾” اور جنہوں نے برے اعمال کئے۔“ یعنی جنہوں نے شرک، کبیرہ اور صغیرہ گناہوں کا ارتکاب کیا ﴿ ثُمَّ تَابُوا مِن بَعْدِهَا﴾” پھر اس کے بعد توبہ کرلی۔“ یعنی گزشتہ گناہوں پر ندامت کے ساتھ ساتھ ان کے ارتکاب سے رک گئے اور عزم کرلیا کہ وہ ان گناہوں کا اعادہ نہیں کریں گے۔ ﴿وَآمَنُوا ﴾ اور وہ اللہ تعالیٰ اور ان تمام امور پر ایمان لے آئے جن پر ایمان لانا اللہ تعالیٰ نے واجب قرار دیا ہے اور ایمان، اعمال قلوب اور اعمال جوارح، جو ایمان کا نتیجہ ہیں، کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ ﴿ إِنَّ رَبَّكَ مِن بَعْدِهَا ﴾ ” بے شک تمہارا رب اس کے بعد“ یعنی اس حالت کے بعد، یعنی گناہوں سے توبہ اور نیکیوں کی طرف رجوع کے بعد﴿َ لَغَفُورٌ﴾ ” بخشنے والا۔“ وہ گناہوں کو بخش کر انہیں مٹا دیتا ہے خواہ یہ زمین بھر کیوں نہ ہوں ﴿رَّحِيمٌ﴾ ” رحم کرنے والا ہے۔“ وہ توبہ قبول کر کے اور بھلائی کے کاموں کی توفیق عطا کر کے اپنی بے پایاں رحمت سے نوازتا ہے۔ الاعراف
154 ﴿ وَلَمَّا سَكَتَ عَن مُّوسَى الْغَضَبُ ﴾” اور جب موسیٰ علیہ السلام کا غصہ فرو ہوا۔“ یعنی جب ان کا غصہ ٹھنڈا ہوا اور وہ آپے میں آ کر پوری صورت حال کو سمجھ گئے تو وہ اہم ترامور میں مشغول ہوگئے۔ ﴿ أَخَذَ الْأَلْوَاحَ﴾ ” انہوں نے ان تختیوں کو اٹھایا، جن کو انہوں نے غصے میں آ کر پھینک دیا تھا۔ یہ جلیل القدر تختیاں تھیں۔ ﴿ وَفِي نُسْخَتِهَا﴾” اور ان میں جو لکھا ہوا تھا، یعنی یہ تختیاں جس چیز پر مشتمل تھیں ﴿ هُدًى وَرَحْمَةٌ﴾ ” اس میں ہدایت اور رحمت تھی۔“ ان میں گمراہی اور ہدایت کو واضح کیا گیا تھا۔ حق اور باطل، اعمال خیر، اعمال شر، بہترین اعمال کی طرف راہنمائی، اخلاق و آداب کو ان تختیوں میں کھول کھول کر بیان کیا گیا تھا اور ان تختیوں میں ان لوگوں کے لئے رحمت اور سعادت ہے جو ان پر عمل کرتے ہیں اور ان کے احکام اور معانی کی تعلیم دیتے ہیں۔ مگر ہر شخص اللہ تعالیٰ کی ہدایت اور رحمت کو قبول نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ کی ہدایت کو صرف وہی لوگ قبول کرتے ہیں اور اس پر عمل کرتے ہیں۔﴿ لِّلَّذِينَ هُمْ لِرَبِّهِمْ يَرْهَبُونَ ﴾” جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں۔“ جو اللہ تعالیٰ اور قیامت کے روز اس کے حضور کھڑے ہونے سے نہیں ڈرتا تو اس سے اس کی سرکشی اور روگردانی میں اضافہ ہی ہوگا اور اس بارے میں اس پر اللہ تعالیٰ کی حجت قائم ہوجائے گی۔ الاعراف
155 جب بنی اسرائیل نے توبہ کرلی اور وہ رشد و ہدایت کی راہ پر لوٹ آئے۔ ﴿وَاخْتَارَ مُوسَىٰ قَوْمَهُ﴾” اور چن لئے موسیٰ نے اپنی قوم میں سے“ ﴿ سَبْعِينَ رَجُلً﴾ ”(بہترین) ستر آدمی“ تاکہ وہ اپنی قوم کی طرف سے رب کے حضور معذرت پیش کریں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے ایک وقت مقرر کردیا تھا، تاکہ اس وقت وہ اللہ کے حضور حاضر ہوں اور جب وہ حاضر ہوئے تو انہوں نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا: ﴿ أَرِنَا اللَّـهَ جَهْرَةً ﴾ (النساء :4؍153) ” ان ظاہری آنکھوں سے ہمیں اللہ کا دیدار کروا“ پس انہوں نے اللہ تعالیٰ کی جناب میں جسارت اور اس کے حضور بے ادبی کا مظاہرہ کیا۔﴿أَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ﴾ ” تو ان کو زلزلے نے پکڑ لیا‘‘ پس وہ بے ہوش ہو کر ہلاک ہوگئے۔ پس موسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے حضور فروتنی اور تذلل سے گڑ گڑاتے رہے۔ انہوں نے عرض کیا :﴿رَبِّ لَوْ شِئْتَ أَهْلَكْتَهُم مِّن قَبْلُ وَإِيَّايَ﴾ ” اے میرے رب ! اگر تو ان کو ہلاک ہی کرنا چاہتا تو مجھے اور ان کو میقات کی طرف نکلنے سے پہلے ہی ہلاک کردیتا“ ﴿أَتُهْلِكُنَا بِمَا فَعَلَ السُّفَهَاءُ مِنَّا﴾ ” کیا تو ہم کو ہلاک کرتا ہے اس کام پر جو ہماری قوم کے بے وقوفوں نے کیا“ یعنی جو کچھ کم عقل اور بے وقوف لوگوں نے کیا ہے۔ پس موسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے حضور گڑا گڑائے اور معذرت کی کہ جن لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے حضور یہ جسارت کی ہے وہ کامل عقل کے مالک نہیں ہیں، ان کی بے وقوفی کے قول و فعل سے صرف نظر کر۔ وہ ایک ایسے فتنے میں مبتلا ہوگئے جس میں انسان خطا کا شکار ہوجاتا ہے اور دین کے چلے جانے کا خوف لاحق ہوجاتا ہے۔ موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا : ﴿إِنْ هِيَ إِلَّا فِتْنَتُكَ تُضِلُّ بِهَا مَن تَشَاءُ وَتَهْدِي مَن تَشَاءُ ۖ أَنتَ وَلِيُّنَا فَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا ۖ وَأَنتَ خَيْرُ الْغَافِرِينَ ﴾ ” یہ سب تیری آزمائش ہے، گمراہ کرتا ہے اس کے ذریعے سے جس کو چاہتا ہے اور سیدھا رکھتا ہے جس کو چاہتا ہے، تو وہی ہمارا کار ساز ہے، پس ہم کو بخش دے اور ہم پر رحم فرما اور تو سب سے بہتر بخشنے والا ہے“ یعنی تو بخش دینے والوں میں سے بہترین ہستی ہے۔ سب سے زیادہ رحم کرنے والا اور عطا کرنے والوں میں سب سے زیادہ فضل و کرم کا مالک ہے۔ گویا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حضور یوں عرض کیا ” اے ہمارے رب ہم سب کا اولین مقصد تیری اطاعت کا التزام اور تجھ پر ایمان لانا ہے اور جس میں عقل اور سمجھ موجود ہے اور تیری توفیق جس کے ہم رکاب رہے گی وہ ہمیشہ راہ راست پر رواں دواں رہے گا۔ رہا وہ شخص جو ضعیف العقل ہے، جو کمزور رائے رکھتا ہے اور جس کو فتنے نے گمراہی کیطرف پھیر دیا، تو وہی شخص ہے جس نے ان دو اسباب کی بنا پر اس جسارت کا ارتکاب کیا۔ بایں ہمہ تو سب سے بڑھ کر رحم کرن والا اور سب سے زیادہ بخش دینے والا ہے پس تو ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم فرما۔“ پس اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا قبول کرلی اور ان (ستر آدمیوں) کو موت دینے کے بعد دوبارہ زندہ کردیا اور ان کے گناہ بخش دیئے۔ ‘‘ الاعراف
156 موسیٰ علیہ السلام نے اپنی دعا کو مکمل کرتے ہوئے عرض کیا﴿وَاكْتُبْ لَنَا فِي هَـٰذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةً ﴾ ” اور لکھ دے ہمارے لئے اس دنیا میں بھلائی“ یعنی اس دنیا میں علم نافع، رزق واسع اور عمل صالح عطا کر۔ ﴿وَفِي الْآخِرَةِ ﴾ ” اور آخرت میں“ یہ وہ ثواب ہے جو اس نے اپنے اولیائے صالحین کے لئے تیار کر رکھا ہے۔ ﴿ إِنَّا هُدْنَا إِلَيْكَ﴾ ” ہم تیری طرف رجوع کرچکے۔“ ہم اپنی کوتاہی کا اقرار کرتے اور اپنے تمام امور تیرے سپرد کرتے ہوئے تیری طرف رجوع کرتے ہیں۔ ﴿قَالَ﴾ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿عَذَابِي أُصِيبُ بِهِ مَنْ أَشَاءُ﴾ ” میرا عذاب، پہنچتا ہوں میں اس کو جس کو چاہوں“ یعنی اس کو جو بدبخت ہے اور بدبختی کے اسباب اختیار کرتا ہے ﴿وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ﴾ ”اور میری رحمت، اس نے گھیر لیا ہے ہر چیز کو“ میری بے پایاں رحمت نے عالم علوی اور عالم سفلی، نیک اور بد، مومن اور کافر سب کو ڈھانپ رکھا ہے۔ کوئی مخلوق ایسی نہیں جس پر اللہ تعالیٰ کی رحمت سایہ کناں نہ ہو اور اس کے فضل و کرم نے اس کو ڈھانپ نہ رکھا ہو، مگر اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت جو دنیا و آخرت کی سعادت کی باعث ہوتی ہے وہ ہر ایک کو نصیب نہیں ہوتی۔ بنا بریں اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس رحمت کے بارے میں فرمایا : ﴿فَسَأَكْتُبُهَا لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ﴾ ” سو اس کو لکھ دوں گا ان کے لئے جو ڈر رکھتے ہیں“ جو صغیرہ اور کبیرہ گناہوں سے بچتے ہیں﴿وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ ﴾” اور جو (مستحق لوگوں کو) زکوٰۃ دیتے ہیں“ ﴿ وَالَّذِينَ هُم بِآيَاتِنَا يُؤْمِنُونَ﴾ ” اور جو ہماری آیات پر یقین رکھتے ہیں“ اللہ تعالیٰ کی آیات پر کامل ایمان یہ ہے کہ ان کے معانی کی معرفت حاصل کی جائے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع ہے۔ الاعراف
157 ﴿ الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ﴾” وہ لوگ جو پیروی کرتے ہیں اس رسول کی جو نبی امی ہے“ یہاں تمام انبیائے کرام کے ذکر سے احتراز کیا ہے، کیونکہ یہاں صرف حضرت محمد مصطفی بن عبدللہ بن عبدالمطلب صلی اللہ علیہ وسلم مقصود ہیں۔ یہ آیت بنی اسرائیل کے حالات کے سیاق میں ہے، ان کے لئے ایمان میں داخل ہونے کی لازمی شرط یہ ہے کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائیں۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت مطلق جو اس نے اپنے بندوں کے لئے لکھ رکھی ہے صرف ان لوگوں کے لئے ہے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لا کر اس کی اتباع کرتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کو ﴿ الْأُمِّيِّ ﴾ کے وصف سے موصوف فرمایا ہے کیونکہ آپ عربوں میں سے ہیں اور عرب ایک ان پڑھ امت تھے جو لکھ سکتے تھے نہ پڑھ سکتے تھے اور قرآن مجید سے پہلے ان پر کوئی کتاب نازل نہیں ہوئی۔ ﴿الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِندَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنجِيلِ﴾” وہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم کا نام اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات) کو تورات و انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں“ اور ان میں سب سے بڑی اور جلیل ترین صفت وہ ہے جس کی طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم دعوت دیتے ہیں اور جس چیز سے آپ منع کرتے ہیں۔ ﴿يَأْمُرُهُم بِالْمَعْرُوفِ﴾ ” وہ معروف کا حکم دیتے ہیں۔“ اور (مَعروف) سے مراد ” ہر وہ کام ہے جس کی اچھائی، بھلائی اور اس کا فائدہ مند ہونا معروف ہو۔“ ﴿وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنكَرِ ﴾ ” اور برے کاموں سے روکتے ہیں۔“ (منکر) سے مراد ” ہر وہ برا کام ہے جس کی برائی اور قباحت کو عقل اور فطرت سلیم تسلیم کرتی ہو“ پس وہ نماز، زکوٰۃ، روزے حج، صلہ رحمی، والدین کے ساتھ نیک سلوک، ہمسایوں اور غلاموں کے ساتھ نیکی، تمام مخلوق کو فائدہ پہنچانے، سچائی، پاکبازی، نیکی، خیر خواہی اور دیگر اچھے کاموں کا حکم دیتا ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک، قتل ناحق، زنا، شراب اور نشہ دار مشروبات پینے، تمام مخلوق پر ظلم کرنے، جھوٹ، فسق و فجور اور دیگر برائیوں سے روکتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول ہونے کی سب سے بڑی دلیل وہ کام ہیں جن کا آپ حکم دیتے ہیں، جن سے آپ روکتے ہیں، جن کو آپ حلال قرار دیتے ہیں اور جن کو آپ حرام قرار دیتے ہیں۔ اس لئے ﴿وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ ﴾ ” وہ حلال کرتا ہے ان کے لئے سب پاک چیزیں“ یعنی آپ ماکولات، مشروبات اور منکوحات میں سے طیبات اور پاک چیزوں کو حلال قرار دیتے ہیں۔ ﴿ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ ﴾” اور ناپاک چیزوں کو ان پر حرام ٹھہراتے ہیں۔“ یعنی ماکولات اور مشروبات میں سے ناپاک چیزوں، ناپاک اقوال و افعال اور ناپاک عورتوں کو حرام قرار دیتے ہیں۔ ﴿ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَالَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ﴾” اور ان پر سے بوجھ اور طوق جو ان کے سر پر اور گلے میں تھے اتارتے ہیں۔“ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک وصف یہ ہے کہ آپ کا لایا ہوا دین نہایت آسان، نرم اور کشادہ ہے۔ اس دنیا میں کوئی بوجھ، کوئی ناروا بندش، کوئی مشقت اور کوئی تکلیف نہیں ہے۔ ﴿ فَالَّذِينَ آمَنُوا بِهِ وَعَزَّرُوهُ ﴾ ” پس وہ لوگ جو آپ پر ایمان لائے اور جنہوں نے آپ کی توقیر و تعظیم کی“ ﴿وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِي أُنزِلَ مَعَهُ ﴾” اور آپ کی مدد کی اور تابع ہوئے اس نور کے جو آپ کے ساتھ اترا ہے“ نور سے مراد قرآن ہے جس سے شک و شبہات اور جہالت کے تیرہ و تار اندھیروں میں روشنی حاصل کی جاتی ہے اور مقالات و نظریات کے اختلاف میں اس کو راہ نما بنایا جاتا ہے ﴿ أُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ﴾ ” وہی مراد پانے والے ہیں۔“ یہی لوگ ہیں جو دنیا و آخرت کی بھلائی سے ظفر یاب ہوں گے اور یہی لوگ دنیا و آخرت کے شر سے نجات پائیں گے، کیونکہ وہ یہ وہ لوگ ہیں جو فلاح کا سب سے بڑا سبب لے کر اللہ تعالیٰ کے ہاں حاضر ہوئے ہیں۔ رہے وہ لوگ جو اس نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہ لائے، انہوں نے آپ کی تعظیم و توقیر کی نہ آپ کی مدد کی اور نہ اس نور کی اتباع کی جو آپ کے ساتھ نازل کیا گیا ہے۔ پس یہی وہ لوگ ہیں جو خسارہ اٹھانے والے ہیں۔ الاعراف
158 چونکہ آیت مذکورہ میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل میں سے اہل تورات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی دعوت دی ہے اور بسا اوقات کوئی شخص اس وہم میں مبتلا ہوسکتا ہے کہ یہ حکم صرف بنی اسرائیل تک محدود ہے۔۔۔ اس لئے وہ اسلوب اختیار کیا جو عمومیت پر دلالت کرتا ہے۔ چنانچہ فرمایا :﴿ قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّـهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا ﴾” کہہ دیجیے اے لوگو ! میں تم سب کی طرف اللہ کا بھیجا ہوا ہوں۔“ یعنی اہل عرب، اہل عجم، اہل کتاب اور دیگر تمام قوموں کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ ﴿الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ﴾ ” جس کی حکومت ہے آسمانوں اور زمین میں“ وہ اپنے احکام تکوینی، تدابیر سلطانی اور احکام دینی کے ذریعے سے کائنات میں تصرف کرتا ہے۔ اس کے احکام دینی و شرعی میں سے ایک حکم یہ ہے کہ اس نے تمہاری طرف ایک عظیم رسول مبعوث کیا۔ جو تمہیں اللہ تعالیٰ اور اس کے عزت و اکرام کے گھر کی طرف دعوت دیتا ہے اور تمہیں ہر اس چیز سے بچنے کی تلقین کرتا ہے جو تمہیں اس گھر سے دور کرتی ہے۔ ﴿ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ ﴾ ” اس (اللہ تعالیٰ) کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں“ وہ ایک ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں۔ اس کی عبادت کی معرفت صرف اس کے انبیاء و مرسلین کے توسط ہی سے حاصل ہوسکتی ہے۔ ﴿ يُحْيِي وَيُمِيتُ﴾ ” وہی زندہ کرتا ہے اور وہی مارتا ہے۔“ اس کی جملہ تدابیر و تصرفات میں سے زندہ کرنا اور مارنا ہے، جس میں کوئی ہستی شریک نہیں ہوسکتی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے موت کو ایک ایسا پل بنایا ہے جسے عبور کر کے انسان دار فانی سے دار البقا میں داخل ہوتا ہے۔ جو کوئی اس دار البقا پر ایمان لاتا ہے تو وہ اللہ کے رسول محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی یقیناً تصدیق کرتا ہے۔ ﴿ فَآمِنُوا بِاللَّـهِ وَرَسُولِهِ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ﴾” پس اللہ پر اور اس کے رسول پیغمبر امی پر ایمان لاؤ۔“ یعنی اس نبی امی پر ایسا کامل ایمان لاؤ جو اعمال قلوب اور اعمال جوارح کو متضمن ہو۔ ﴿الَّذِي يُؤْمِنُ بِاللَّـهِ وَكَلِمَاتِهِ﴾” جو یقین رکھتا ہے اللہ پر اور اس کی باتوں پر“ یعنی اس رسول پر ایمان لاؤ جو اپنے عقائد و اعمال میں راست رو ہے ﴿وَاتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ﴾” اور اس کی پیروی کرو تاکہ تم راہ پاؤ“ یعنی اگر تم اس کی اتباع کرو گے تو اپنے دینی اور دنیاوی مصالح میں ہدایت پاؤ گے، کیونکہ جب تم اس نبی کی اتباع نہیں کرو گے تو بہت دور کی گمراہی میں جا پڑو گے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : الاعراف
159 ﴿وَمِن قَوْمِ مُوسَىٰ أُمَّةٌ﴾ ” موسیٰ علیہ السلام کی قوم میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں“ ﴿ يَهْدُونَ بِالْحَقِّ وَبِهِ يَعْدِلُونَ ﴾ ”جو راہ بتلاتے ہیں حق کی اور اسی کے موافق انصاف کرتے ہیں“ یعنی لوگوں کو تعلیم دے کر ان کی راہ نمائی کرتے ہیں، ان کو فتویٰ دیتے ہیں اور ان کے آپس کے جھگڑوں کے فیصلوں میں حق کے ساتھ انصاف کرتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :﴿وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوا  وَكَانُوا بِآيَاتِنَا يُوقِنُونَ﴾(السجدة:32؍24)” اور ان میں سے ہم نے راہ نما بنائے جو ہمارے حکم کے مطابق راہنمائی کیا کرتے تھے جب تک وہ صبر کرتے رہے اور ہماری آیتوں پر یقین رکھتے رہے۔ “ اس آیت کریمہ میں امت موسیٰ علیہ السلام کی فضیلت بیان ہوئی ہے، نیز یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اندر پیشوا مقرر کئے جو اس کے حکم سے پیشوائی کرتے تھے۔ اس آیت کریمہ کو یہاں بیان کرنا درحقیقت گزشتہ آیات کے مضامین سے احتراز کی ایک قسم ہے، کیونکہ گزشتہ آیات کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے ایسے معایب بیان فرمائے ہیں جو کمال کے منافی اور ہدایت کی ضد ہیں۔ بسا اوقات کسی کو یہ وہم لاحق ہوسکتا ہے کہ مذکورہ معایب میں بنی اسرائیل کے تمام لوگ شامل ہیں، بنابریں اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا کہ بنی اسرائیل میں کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو راست رو، ہدایت یافتہ تھے جو دوسرے لوگوں کو راہ ہدایت دکھاتے تھے۔ الاعراف
160 ﴿وَقَطَّعْنَاهُمُ﴾ ” اور ہم نے ان کو تقسیم کردیا۔“ ﴿اثْنَتَيْ عَشْرَةَ أَسْبَاطًا أُمَمًا﴾” بارہ قبیلوں (کی شکل) میں، بڑی بڑی جماعتیں“ یعنی بارہ قبیلے بنا دیئے جو ایک دوسرے کو پہچانتے تھے اور باہم الفت رکھتے تھے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کے ہر بیٹے کی اولاد ایک قبیلہ بنی۔ ﴿ وَأَوْحَيْنَا إِلَىٰ مُوسَىٰ إِذِ اسْتَسْقَاهُ قَوْمُهُ ﴾ ” اور وحی کی ہم نے موسیٰ کی طرف، جب مانگا اس کی قوم نے اس سے پانی“ یعنی جب انہوں نے موسیٰ علیہ السلام سے مطالبہ کیا کہ وہ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ انہیں پانی عطا کرے جسے وہ خود پئیں اور اپنے مویشیوں کو پلائیں اور اس مطالبے کی وجہ یہ تھی۔۔۔ واللہ اعلم۔۔۔ کہ وہ ایک ایسے علاقے میں تھے جہاں پانی بہت کم دستیاب تھا تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کی درخواست قبول کرتے ہوئے موسیٰ علیہ السلام کی طرف وحی فرمائی ﴿أَنِ اضْرِب بِّعَصَاكَ الْحَجَرَ﴾ ” اپنی لاٹھی اس پتھر پر مار“ اس میں یہ احتمال ہے کہ مذکورہ پتھر کوئی معین پتھر ہو اور اس میں یہ احتمال بھی موجود ہے کہ (الْحَجَر) اسم جنس کے لئے استعمال ہوا ہو جو ہر پتھر کو شامل ہے۔۔۔ پس حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پتھر پر عصا مارا ﴿ فَانبَجَسَتْ﴾ ”(اس پتھر سے) پھوٹ پڑے“ ﴿اثْنَتَا عَشْرَةَ عَيْنًا﴾ ”بارہ چشمے“ آہستہ آہستہ بہتے ہوئے۔ ﴿ قَدْ عَلِمَ كُلُّ أُنَاسٍ مَّشْرَبَهُمْ﴾” سب لوگوں نے اپنا اپنا گھاٹ معلوم کرلیا۔‘‘ ان بارہ قبائل کے درمیان اس پانی کو تقسیم کردیا گیا اور ہر قبیلے کے لئے ایک چشمہ مقرر کردیا گیا اور انہوں نے اپنے اپنے چشمے کو پہچان لیا۔ پس انہوں نے اطمینان کا سانس لیا اور تھکاوٹ اور مشقت سے راحت پائی۔ یہ ان پر اللہ تعالیٰ کی نعمت کا اتمام تھا۔ ﴿وَظَلَّلْنَا عَلَيْهِمُ الْغَمَامَ﴾” اور ہم نے ان پر بادلوں کا سایہ کیا“ پس یہ بادل انہیں سورج کی گرمی سے بچاتا تھا۔ ﴿وَأَنزَلْنَا عَلَيْهِمُ الْمَنَّ﴾” اور اتارا ہم نے اوپر ان کے من“ اس سے مراد میٹھا میوہ ہے ﴿ وَالسَّلْوَىٰ﴾ اس سے مراد پرندوں کا گوشت ہے، یہ بہترین اور لذیذ ترین قسم کے پرندوں کا گوشت تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی راحت اور اطمینان کے لئے ان پر بیک وقت سایہ، پینے کے لئے پانی اور کھانے کے لئے میٹھے میوے اور گوشت عطا کیا۔ ان سے کہا گیا : ﴿كُلُوا مِن طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ ۚ وَمَا ظَلَمُونَا﴾ ” وہ ستھری چیزیں کھاؤ جو ہم نے تمہیں دیں اور انہوں نے ہمارا کچھ نہ بگاڑا“ یعنی اللہ تعالیٰ نے ان پر جو چیز واجب قرار دی تھی اسے پورا نہ کر کے اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا نہ کر کے ہم پر ظلم نہیں کیا ﴿وَلَـٰكِن كَانُوا أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ﴾ ” بلکہ انہوں نے اپنے آپ پر ہی ظلم کیا“ کیونکہ انہوں نے اپنے آپ کو ہر بھلائی سے محروم کرلیا اور اپنے نفس کو شر اور اللہ تعالیٰ کی ناراضی میں مبتلا کرلیا۔ یہ سب کچھ اس مدت کے دوران ہوا جب وہ بیابان میں سرگرداں تھے۔ الاعراف
161 اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَإِذْ قِيلَ لَهُمُ اسْكُنُوا هَـٰذِهِ الْقَرْيَةَ﴾” جب ان سے کہا گیا کہ اس شہر میں سکونت اختیار کرو۔“ یعنی اس بستی میں داخل ہوجاؤ، تاکہ یہ بستی تمہارا وطن اور مسکن بن جائے۔ یہ بستی ” ایلیاء“ یعنی ” قدس“ کی بستی تھی۔ ﴿وَكُلُوا مِنْهَا حَيْثُ شِئْتُمْ﴾ ” اور اس میں سے جو چاہو کھاؤ۔“ یعنی اس بستی میں بہت زیادہ درخت، بے حساب پھل اور وافر سامان زندگی ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم دیا تھا کہ جو جی چاہے کھاؤ۔ ﴿وَقُولُوا ﴾ یعنی جب تم بستی کے دروازے میں داخل ہو تو کہو۔﴿حِطَّةٌ ﴾یعنی ہم سے ہمارے گناہوں کو دور کر دے اور ہمیں معاف کر دے۔﴿ وَادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا﴾ ” اور دروازے میں سجدہ کرتے ہوئے داخل ہو“ یعنی اپنے رب کے سامنے خشوع و خضوع، اس کے غلبہ کے سامنے انکساری اور اس کی نعمت کا شکر ادا کرتے ہوئے دروازے میں داخل ہو۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کو خشوع و خضوع اور بخشش طلب کرنے کا حکم دیا اور اس پر اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ ان کے گناہ بخش دینے اور دنیاوی اور اخروی ثواب کا وعدہ فرمایا ﴿نَّغْفِرْ لَكُمْ خَطِيئَاتِكُمْ ۚ سَنَزِيدُ الْمُحْسِنِينَ ﴾” ہم تمہاری خطائیں بخش دیں گے۔ البتہ زیادہ دیں گے ہم نیکی کرنے والوں کو“ یعنی ہم دنیا اور آخرت کی بھلائی میں اضافہ کریں گے مگر انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل نہ کی بلکہ اس کی خلاف ورزی کی۔ الاعراف
162 ﴿فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْهُمْ﴾ ” پس بدل ڈالا ظالموں نے ان میں سے“ یعنی انہوں نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور اس کے حکم کی تحقیر کی﴿قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ﴾ ” دوسرا لفظ، اس کے سوا جو ان سے کہا گیا تھا“ پس انہوں نے طلب مغفرت اور (حِطَّۃٌ) کو (حَبَّۃٌ فِی شَعِیرَۃٍ) سے بدل ڈالا۔ جب قول کے آسان اور سہل ہونے کے باوجود انہوں نے اس کو بدل ڈالا تو فعل کو بدلنے کی ان سے بدرجہ اولیٰ توقع کی جاسکتی ہے۔ اس لئے وہ اپنی سرینوں پر گھسیٹتے ہوئے شہر کے دروازے میں داخل ہوئے۔ ﴿فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ﴾ ” تو ہم نے ان پر بھیجا۔“ یعنی جب انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی اور اس کی نافرمانی کا ارتکاب کیا۔ ﴿رِجْزًا مِّنَ السَّمَاءِ﴾” آسمان سے سخت عذاب۔“ یہ عذاب یا تو طاعون کی شکل میں تھا یا کوئی اور آسمانی سزا تھی۔ یہ سزا دے کر اللہ تعالیٰ نے ان پر ظلم نہیں کیا بلکہ یہ سزا تو ان کے اس ظلم کی پاداش میں تھی جو وہ کیا کرتے تھے۔ الاعراف
163 ﴿وَاسْأَلْهُمْ ﴾” ان (بنی اسرائیل) سے پوچھئے“ ﴿عَنِ الْقَرْيَةِ الَّتِي كَانَتْ حَاضِرَةَ الْبَحْرِ﴾ ” اس بستی کا حال جو دریا کے کنارے تھی“ یعنی جب انہوں نے ظلم و تعدی سے کام لیا اور اللہ تعالیٰ نے ان کو سزا دی اس حال میں کہ بستی سمندر کے کنارے پر تھی۔ ﴿ إِذْ يَعْدُونَ فِي السَّبْتِ﴾ ” جب وہ حد سے بڑھنے لگے ہفتے کے حکم میں“ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم دیا تھا کہ وہ ہفتے کی تعظیم اور احرام کریں، ہفتے کے روز شکار نہ کریں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو آزمایا اور ان کا امتحان لیا۔ ﴿إِذْ تَأْتِيهِمْ حِيتَانُهُمْ يَوْمَ سَبْتِهِمْ شُرَّعًا ﴾ ” جب آتیں ان کے پاس مچھلیاں ہفتے کے دن، پانی کے اوپر“ یعنی مچھلیاں سطح سمندر پر بہت کثیر تعداد میں تیرتی ہوئی آتیں۔ ﴿وَيَوْمَ لَا يَسْبِتُونَ﴾ ” اور جب سبت کا دن نہ ہوتا“ یعنی سبت کا دن گزر جاتا ﴿لَا تَأْتِيهِمْ﴾ ” ان کے پاس نہ آتیں۔“ یعنی مچھلیاں سمندر میں واپس چلی جاتیں اور ان میں سے کوئی مچھلی دکھائی نہ دیتی۔ ﴿كَذَٰلِكَ نَبْلُوهُم بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ ﴾” اسی طرح ہم نے ان کو آزمایا، اس لئے کہ وہ نافرمان تھے“ یعنی یہ ان کا فسق تھا جو اس بات کا موجب بنا کہ اللہ تعالیٰ ان کو آزمائے اور ان کا امتحان ہو۔ ورنہ اگر انہوں نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہ کی ہوتی تو اللہ تعالیٰ ان کو معاف کردیتا اور ان کو مصیبت اور شر میں مبتلا نہ کرتا۔ پس انہوں نے شکار کے لئے حیلہ کیا، وہ سمندر کے کنارے گڑھے کھود لیتے اور ان گڑھوں میں جال لگا دیتے۔ جب سبت کا دن آتا تو مچھلیاں ان گڑھوں میں آ کر جال میں پھنس جاتیں اور وہ اس روز ان مچھلیوں کو نہ پکڑتے۔ جب اتوار کا دن آتا تو وہ ان مچھلیوں کو پکڑ لیتے۔ یہ حیلہ ان میں بہت زیادہ ہوگیا اور اس بارے میں بنی اسرائیل تین گروہوں میں منقسم ہوگئے۔ (١) ان میں زیادہ تر وہ لوگ تھے جنہوں نے علی الاعلان سبت کے قانون کو توڑنے کی جسارت کی۔ (٢) دوسرے وہ لوگ تھے جنہوں نے علانیہ ان کو ایسا کرنے سے روکا اور ان پر نکیر کی۔ الاعراف
164 (٣) تیسرے وہ لوگ تھے جنہوں نے انکار کرنے والوں کے انکار ہی کو کافی سمجھا (اور خود خاموش رہے) اور انہوں نے منع کرنے والوں سے کہا :﴿ لِمَ تَعِظُونَ قَوْمًا ۙ اللَّـهُ مُهْلِكُهُمْ أَوْ مُعَذِّبُهُمْ عَذَابًا شَدِيدًا ﴾ ” تم ایسے لوگوں کو نصیحت کیوں کرتے ہو جن کو اللہ نے ہلاک کرنا یا سخت عذاب دینا ہے“ گویا وہ کہتے تھے کہ ان لوگوں کو نصیحت کرنے کا کوئی فائدہ نہیں جو اللہ تعالیٰ کے محارم کا ارتکاب کرتے ہیں اور خیر خواہوں کی بات پر کان نہیں دھرتے، بلکہ اس کے برعکس ظلم اور تعددی پر جمے ہوئے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ضرور ان کو سزا دے گا یا تو ان کو ہلاک کرے گا یا ان کو سخت عذاب میں مبتلا کرے گا۔ نصیحت کرنے والے کہتے تھے کہ ہم تو ان کو نصیحت کرتے رہیں گے اور ان کو برائیوں سے روکتے رہیں گے۔ ﴿مَعْذِرَةً إِلَىٰ رَبِّكُمْ ﴾ ” تاکہ تمہارے رب کے ہاں عذرپیش کرسکیں“﴿وَلَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ ﴾ ” اور شاید کہ وہ پرہیز گار بن جائیں۔“ یعنی شاید وہ اس نافرمانی کو ترک کردیں جس میں وہ پڑے ہوئے ہیں، ہم ان کی ہدایت سے مایوس نہیں ہیں، بسا اوقات ان میں نصیحت کارگر ہوجاتی ہے اور ملامت اثر کر جاتی ہے اور برائی پر نکیر کرنے کا سب سے بڑا مقصد یہی ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں معذرت ہو، تاکہ اس شخص پر حجت قائم ہوسکے جسے روکا گیا یا اسے کسی کام کا حکم دیا گیا ہو۔۔۔ اور شاید اللہ تعالیٰ اسے ہدایت عطا کر دے اور وہ امرونہی کے تقاضوں پر عمل کرسکے۔ الاعراف
165 ﴿فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُكِّرُوا بِهِ﴾ ” جب انہوں نے اس چیز کو بھلا دیا جس کی ان کو یاد دہانی کرائی گئی تھی“ اور وہ اپنی گمراہی اور نافرمانی پر جمے رہے۔ ﴿ أَنجَيْنَا الَّذِينَ يَنْهَوْنَ عَنِ السُّوءِ﴾” ہم نے ان کو بچا لیا جو برائی سے روکتے تھے“ اپنے بندوں کے بارے میں یہی سنت الٰہی ہے کہ جب عذاب نازل ہوتا ہے تو وہ لوگ اس عذاب سے نجات پاتے ہیں جو نیکی کا حکم دیتے اور برائی سے روکتے رہے ہیں۔ ﴿وَأَخَذْنَا الَّذِينَ ظَلَمُوا﴾ ” اور پکڑ لیا ہم نے ظالموں کو“ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے سبت کا قانون توڑا تھا ﴿بِعَذَابٍ بَئِيسٍ﴾” برے عذاب میں“ یعنی سخت عذاب میں ﴿بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ ﴾ ” اس پاداش میں کہ وہ نافرمانی کرتے تھے۔ “ رہا وہ گروہ جو برائی سے روکنے والوں سے کہا کرتا تھا : ﴿ لِمَ تَعِظُونَ قَوْمًا ۙ اللَّـهُ مُهْلِكُهُمْ ﴾ ” تم ان لوگوں کو نصیحت کیوں کرتے ہو جن کو اللہ ہلاک کرنے والا ہے۔“۔۔۔ اہل تفسیر میں ان کی نجات اور ان کی ہلاکت کے بارے میں اختلاف ہے۔ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ لوگ نجات پانے والوں میں شامل تھے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہلاکت کو صرف ظالموں کیساتھ مخصوص کیا اور اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو ظالموں میں ذکر نہیں کیا۔ پس یہ اس بات کی دلیل ہے کہ سزا خاص طور پر صرف ان لوگوں کو ملی تھی جنہوں نے سبت کی پابندی کو توڑا تھا، نیز نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا فرض کفایہ ہے جب کچھ لوگ اس فرض کو ادا کر رہے ہوں تو دوسرے لوگوں سے یہ فرض ساقط ہوجاتا ہے اور ان کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ اس برائی کو برائی سمجھتے ہوئے اسے ناپسند کریں۔ علاوہ ازیں انہوں نے (ان بدکردار لوگوں پر) ان الفاظ میں نکیر کی ﴿لِمَ تَعِظُونَ قَوْمًا ۙ اللَّـهُ مُهْلِكُهُمْ أَوْ مُعَذِّبُهُمْ عَذَابًا شَدِيدًا﴾ ” تم ان لوگوں کو نصیحت کیوں کرتے ہو جن کو اللہ ہلاک کرنے والا یا انہیں سخت عذاب دینے والا ہے۔“ پس انہوں نے ان پر اپنی ناراضی کا اظہار کردیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں ان کا یہ فعل سخت ناپسند تھا اور یہ کہ اللہ تعالیٰ ان کو سخت سزا دے گا۔ الاعراف
166 ﴿فَلَمَّا عَتَوْا عَن مَّا نُهُوا عَنْهُ﴾ ” پھر جب وہ بڑھ گئے اس کام میں جس سے وہ روکے گئے تھے“ یعنی وہ نہایت سنگ دل ہوگئے۔ ان میں نرمی آئی نہ انہوں نے نصیحت حاصل کی۔ ﴿قُلْنَا لَهُمْ﴾” تو ہم نے ان سے کہا“ یعنی قضا و قدر کی زبان میں ﴿كُونُوا قِرَدَةً خَاسِئِينَ﴾ ” ہوجاؤ تم بندر ذلیل“ پس وہ اللہ کے حکم سے بندر بن گئے اور اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنی رحمت سے دور کردیا، پھر اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا کہ ان میں سے جو لوگ باقی بچ گئے تھے ان پر ذلت اور محکومی مسلط کردی گئی۔ چنانچہ فرمایا : الاعراف
167 ﴿وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكَ﴾ ” جب تیرے رب نے آگاہ کردیا تھا“ یعنی واضح طور پر بتا دیا۔ ﴿لَيَبْعَثَنَّ عَلَيْهِمْ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ مَن يَسُومُهُمْ سُوءَ الْعَذَابِ﴾ ” کہ ضرور بھیجتا رہے گا یہود پر قیامت کے دن تک ایسے شخص کو جو ان کو برا عذاب دیا کرے گا“ جو ان کو ذلیل و رسوا کرتا رہے گا ﴿إِنَّ رَبَّكَ لَسَرِيعُ الْعِقَابِ﴾ ” بے شک تیرا رب جلد عذاب کرنے والا ہے۔“ یعنی اس شخص کو بہت جلد سزا دیتا ہے جو اس کی نافرمانی کرتا ہے یہاں تک کہ اس دنیا میں بھی اس پر جلدی سے عذاب بھیج دیتا ہے۔ ﴿وَإِنَّهُ لَغَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴾ ” اور وہ بخشنے والا مہربان ہے۔“ اور اللہ تعالیٰ اس شخص کے لئے بہت غفور و رحیم ہے جو کوئی توبہ کر کے اس کی طرف رجوع کرتا ہے۔ وہ اس کے گناہ بخش دیتا ہے، اس کے عیوب کی پردہ پوشی کرتا ہے، اس پر رحم کرتے ہوئے اس کی نیکیوں کو قبول فرماتا ہے وہ اسے ان نیکیوں پر انواع و اقسام کے ثواب عطا کرتا ہے اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کے ساتھ وہی سلوک کیا جو اس نے ان کے ساتھ وعدہ کیا تھا، وہ ہمیشہ سے ذلیل و خوار اور دوسروں کے محکوم چلے آرہے ہیں ان کی اپنی کوئی رائے نہیں اور نہ (دنیا کی انصاف پسند قوموں میں) ان کی کوئی مدد کرنے والا ہے۔ الاعراف
168 ﴿ وَقَطَّعْنَاهُمْ فِي الْأَرْضِ أُمَمًا﴾ ” اور ہم نے انہیں ٹکڑے ٹکڑے کر کے زمین میں منتشر کردیا۔“ جب کہ پہلے وہ مجتمع تھے۔ ﴿مِّنْهُمُ الصَّالِحُونَ﴾ ” کچھ ان میں نیک ہیں“ ان میں ایسے لوگ بھی ہیں جو اللہ کے حقوق اور بندوں کے حقوق کو پورا کرتے ہیں۔ ﴿وَمِنْهُمْ دُونَ ذَٰلِكَ﴾ ” اور بعض اور طرح کے ہیں“ اور ان میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو نیکی کے کم تر درجے پر فائز ہیں یا تو وہ نیکی میں متوسط قسم کے لوگ ہیں یا وہ اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں۔ ﴿وَبَلَوْنَاهُم﴾ اور ہم نے اپنی عادت اور سنت کے مطابق ان کو آزمایا ﴿بِالْحَسَنَاتِ وَالسَّيِّئَاتِ﴾” خوبیوں میں اور برائیوں میں“ یعنی آسانی اور تنگی کے ذریعے سے ﴿لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ﴾ ” شاید کہ وہ لوٹ آئیں۔“ شاید کہ وہ ہلاکت کی وادی سے واپس لوٹ آئیں جس میں وہ مقیم ہیں اور اس ہدایت کی طرف رجوع کریں جس کے لئے ان کو پیدا کیا گیا ہے۔ پس ان میں ہمیشہ سے نیک، بد اور متوسط لوگ موجود رہے ہیں۔ الاعراف
169 ﴿فَخَلَفَ مِن بَعْدِهِمْ خَلْفٌ﴾” پھر پیچھے آئے ان کے ناخلف“ ان کاشر بڑھ گیا ﴿وَرِثُوا الْكِتَابَ﴾” وہ (ان کے بعد) کتاب کے وارث بن گئے“ اور کتاب کے بارے میں لوگوں کا مرجع بن گئے اور انہوں نے اپنی خواہشات کے مطابق کتاب میں تصرف شروع کردیا۔ ان پر مال خرچ کیا جاتا تھا، تاکہ وہ ناحق فتوے دیں اور حق کے خلاف فیصلے کریں اور ان کے اندر رشوت پھیل گئی۔ ﴿يَأْخُذُونَ عَرَضَ هَـٰذَا الْأَدْنَىٰ وَيَقُولُونَ﴾ ” لیتے سامان ادنیٰ زندگی کا اور کہتے“ یعنی یہ اقرار کرتے ہوئے کہ یہ ظلم اور گناہ ہے، کہتے ﴿سَيُغْفَرُ لَنَا﴾ ” ہم کو معاف ہوجائے گا“ ان کا یہ قول حقیقت سے خالی ہے، کیونکہ درحقیقت یہ استغفار ہے نہ مغفرت کی طلب ہے۔ اگر انہوں نے حقیقت میں اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کی ہوتی، تو اپنے کئے پر ان کو ندامت ہوتی اور اس کا اعادہ نہ کرنے کا عزم کرتے۔۔۔ مگر اس کے برعکس جب ان کو مال اور رشوت پیش کی جاتی تو اسے لے لیتے تھے۔ پس انہوں نے آیات الٰہی کو بہت تھوڑی قیمت پر فروخت کردیا اور اچھی چیز کے بدلے گھٹیا چیز لے لی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان پر نکیر کرتے ہوئے اور ان کی جسارت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : ﴿أَلَمْ يُؤْخَذْ عَلَيْهِم مِّيثَاقُ الْكِتَابِ أَن لَّا يَقُولُوا عَلَى اللَّـهِ إِلَّا الْحَقَّ﴾ ” کیا ان سے کتاب میں عہد نہیں لیا گیا کہ نہ بولیں اللہ پر سوائے سچ کے“ پس انہیں کیا ہوگیا ہے کہ اپنی خواہشات نفس کے تحت اور طمع و حرص کی طرف میلان کے باعث اللہ تعالیٰ کی طرف باطل قول منسوب کرتے ہیں۔﴿وَ﴾ درآں حالیکہ ﴿دَرَسُوا مَا فِيهِ ﴾ ” انہوں نے اس کتاب کے مشولات کو پڑھ بھی لیا ہے۔“ پس انہیں اس بارے میں کوئی اشکال نہیں، بلکہ انہوں نے جو کچھ کیا ہے جان بوجھ کر کیا ہے اور ان کو اس معاملے میں پوری بصیرت حاصل تھی اور ان کا یہ رویہ بہت بڑا گناہ، سخت ملامت کا موجب اور بدترین سزا کا باعث ہے اور یہ ان میں عقل کی کمی اور ان کی بے وقوفی پر مبنی رائے ہے کہ انہوں نے آخرت پر دنیا کی زندگی کو ترجیح دی۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿ وَالدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِّلَّذِينَ يَتَّقُونَ﴾ اور آخرت کا گھر بہتر ہے ان لوگوں کے لئے جو ڈرتے ہیں“ یعنی جو ان امور سے بچتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے ان پر حرام ٹھہرا دیا ہے اور اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کتاب کے خلاف فیصلے کے عوض رشوت کھانے سے دیگر محرمات سے پرہیز کرتے ہیں۔ ﴿أَفَلَا تَعْقِلُونَ﴾ ” کیا تم سمجھتے نہیں۔“ کیا تم میں وہ عقل نہیں جو یہ موازنہ کرسکے کہ کس چیز کو کس چیز پر ترجیح دی جانی چاہئے اور کو نسی چیز اس بات کی مستحق ہے کہ اس کے لئے بھاگ دوڑ اور کوشش کی جائے اور اسے دیگر تمام چیزوں پر مقدم رکھا جائے۔۔۔ عقل کی خاصیت یہ ہے کہ وہ انجام پر نظر رکھتی ہے۔ رہا وہ شخص جو جلدی حاصل ہونے والی اور ختم ہوجانے والی نہایت حقیر اور خسیس چیز پر نظر رکھتا ہے وہ ہمیشہ باقی رہنے والی بہت بڑی نعمت سے محروم ہوجاتا ہے اس کے پاس عقل اور رائے کہاں ہے؟ الاعراف
170 حقیقی عقل مند وہ لوگ ہیں جن کا اللہ تعالیٰ نے اپنے اس ارشاد میں وصف بیان کیا ہے ﴿وَالَّذِينَ يُمَسِّكُونَ بِالْكِتَابِ﴾” اور جو لوگ کتاب کو مضبوط پکڑے ہوئے ہیں۔“ یعنی علم و عمل کے لحاظ سے کتاب اللہ سے تمسک کرتے ہیں۔ کتاب اللہ کے احکام و اخیار کا علم رکھتے ہیں۔ کتاب اللہ کے احکام و اخیار کا علم، جلیل ترین علم ہے۔ وہ کتاب اللہ کے اوامر کا علم رکھتے ہیں جن میں ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک، دلوں کا سرور، روح کی فرحت اور ان کے دین و دنیا کی بھلائی ہے۔ ان مامورات میں سب سے بڑی چیز، جس کی پابندی واجب ہے، ظاہری اور باطنی طور پر نماز قائم کرنا ہے۔ بنا بریں اس کی فضیلت و شرف، اس کے ایمان کا میزان و معیار ہونے اور اس کے قیام کا دوسری عبادات کے قیام کا سبب ہونے کے باعث اللہ تبارک و تعالیٰ نے خاص طور پر اس کا ذکر کیا ہے۔ چونکہ ان کا عمل تمام تر بھلائی پر مبنی ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا﴿ إِنَّا لَا نُضِيعُ أَجْرَ الْمُصْلِحِينَ﴾ ” ہم اصلاح کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتے۔“ ہم ان لوگوں کا اجر ضائع نہیں کرتے جو اپنے قول و اعمال اور نیتوں میں خود اپنی اور دوسروں کی اصلاح کرتے ہیں۔ یہ آیت کریمہ اور اس نوع کی دیگر آیات دلالت کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء و رسل کو فساد اور ضرر رساں امور کے ساتھ مبعوث نہیں کیا، بلکہ اصلاح اور نفع رساں احکام کے ساتھ مبعوث کیا ہے اور دنیا و آخرت کی اصلاح کی خاطر ان کو بھیجا گیا ہے۔ پس جو کوئی جتنا زیادہ صالح ہے اتنا ہی زیادہ ان کی اتباع کے قریب ہے۔ الاعراف
171 پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَإِذْ نَتَقْنَا الْجَبَلَ فَوْقَهُمْ﴾” اور جس وقت اٹھایا ہم نے پہاڑ ان کے اوپر‘‘ یعنی جب انہوں نے تورات کے احکام کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان پر عمل کو لازم کردیا اور ان کے سروں پر پہاڑ کو معلق کردیا۔ پہاڑ ان پر یوں تھا ﴿كَأَنَّهُ ظُلَّةٌ وَظَنُّوا أَنَّهُ وَاقِعٌ بِهِمْ ﴾ ” گویا کہ وہ سائبان ہو اور وہ سمجھے کہ پہاڑ ان پر گرنے کو ہے۔“ ان سے کہا گیا۔ ﴿خُذُوا مَا آتَيْنَاكُم بِقُوَّةٍ﴾ ” پکڑو جو ہم نے دیا ہے تم کو زور سے“ یعنی پوری کوشش اور جہد سے پکڑے رہو۔ ﴿وَاذْكُرُوا مَا فِيهِ﴾” اور یاد رکھو جو اس میں ہے“ درس، مباحثے اور عمل کے ذریعے سے اس کے مضامین کو یاد رکھو ﴿لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ﴾” شاید کہ تم بچ جاؤ۔“ جب تم یہ سب کچھ کرلو گے تو امید ہے کہ تم پرہیز گار بن جاؤ گے۔ الاعراف
172 یعنی انسانوں کی صلبوں میں سے ان کی اولاد کو نکالا اور ان کے درمیان قرن بعد قرن سلسلہ تناسل وتوالد جاری ہوا۔ ﴿وَ﴾” اور“ جب ان کو ان کی ماؤں کے بطنوں اور ان کے آباؤ کی صلبوں سے نکالا ﴿أَشْهَدَهُمْ عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ﴾ ” اقرار کرایا ان سے ان کی جانوں پر، کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟‘‘ یعنی ان کی فطرت میں اپنے رب ہونے، ان کا خالق و مالک ہونے کا اقرار ودیعت کر کے اپنی ربوبیت کے اثبات کا اقرار کروایا۔ ﴿قَالُوا بَلَىٰ ﴾ ” انہوں نے کہا ہاں ! ہم نے اقرار کیا“۔۔۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو دین حنیف پر پیدا کیا ہے۔ پس ہر شخص کو دین حنیف پر تخلیق کیا گیا ہے۔ مگر عقل پر عقائد فاسدہ کے غلبہ کی وجہ سے کبھی کبھی فطرت میں تغیر و تبدیل واقع ہوجاتا ہے۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿قَالُوا بَلَىٰ  شَهِدْنَا ۛ أَن تَقُولُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّا كُنَّا عَنْ هَـٰذَا غَافِلِينَ﴾ ” وہ کہنے لگے کیوں نہیں ہم گواہ ہیں کہ قیامت کے دن کہیں یوں نہ کہنے لگو کہ ہم کو تو اس کی خبر ہی نہ تھی۔“ یعنی ہم نے تمہارا امتحان لیا حتیٰ کہ تم نے اس بات کا اقرار کیا، جو تمہارے نزدیک ثابت ہے کہ اللہ تمہارا رب ہے اور ہم نے یہ امتحان اس لئے کہ کہیں تم قیامت کے روز انکار نہ کر دو اور کسی بھی چیز کا اقرار نہ کرو اور یہ دعویٰ کرنے لگو کہ تم پر اللہ تعالیٰ کی حجت قائم نہیں ہوئی اور اس بارے میں تمہارے پاس کوئی علم نہ تھا بلکہ اس بارے میں تم بالکل لاعلم اور غافل تھے۔ پس آج تمہاری حجت منقطع ہوگئی اور اللہ تعالیٰ کی حجت تم پر قائم ہوگئی۔ یا تم ایک اور حجت سے استدلال کرتے ہوئے یہ کہو۔ الاعراف
173 ﴿إِنَّمَا أَشْرَكَ آبَاؤُنَا مِن قَبْلُ وَكُنَّا ذُرِّيَّةً مِّن بَعْدِهِمْ﴾’’یہ شرک تو ہم سے پہلے ہمارے باپ دادا نے کیا تھا اور ہم ان کے بعد ان کی اولاد ہوئے۔“ پس ہم ان کے نقش قدم پر چلے اور ان کے باطل میں ہم نے ان کی پیروی کی۔ ﴿ أَفَتُهْلِكُنَا بِمَا فَعَلَ الْمُبْطِلُونَ﴾’’کیا تو ہم کو ایسے فعل پر ہلاک کرتا ہے جو گمراہوں نے کیا“ پس اللہ تبارک و تعالیٰ نے تمہاری فطرت میں ایسی چیز ودیعت کردی ہے جو اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جو کچھ تمہارے آباء واجداد کے پاس تھا وہ باطل تھا اور حق وہ ہے جو انبیاء و مرسلین لے کر آئے ہیں اور یہ حق اس چیز کے خلاف اور اس پر غالب ہے جس پر تم نے اپنے آباء و اجداد کو پایا۔ ہاں ! کبھی کبھی اپنے گمراہ آباء و اجداد کے بعض ایسے اقوال اور فاسد نظریات بندے کے سامنے آتے ہیں۔ آفاق و انفس میں اس کی آیات سے گریز کرتا ہے۔ اس کا یہ گریز اور اہل باطل کے نظریات کی طرف اس کا متوجہ ہونا اس کو اس مقام پر پہنچا دیتا ہے جہاں وہ باطل کو حق پر ترجیح دینے لگتا ہے۔ ان آیات کریمہ کی تفسیر میں یہی قرین صواب ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ وہ دن ہے جب اللہ تعالیٰ نے جناب آدم کی ذریت کو ان کی پیٹھ سے نکال کر ان سے عہد لیا اور ان کو خود ان کی ذات پر گواہ بنایا اور انہوں نے یہ گواہی دی۔ اللہ تعالیٰ نے اس وقت ان کو جو حکم دیا تھا اس کو دنیا و آخرت میں ان کے کفر و عناد میں ان کے ظلم کے خلاف ان پر حجت بنایا۔۔۔ مگر آیت کریمہ میں کوئی ایسی چیز نہیں جو اس قول کی تائید کرتی ہو یا اس سے مناسبت رکھتی ہو۔۔۔ نہ حکمت الٰہی اس کا تقاضا کرتی ہے اور واقعہ اس کا شاہد ہے، اس لئے کہ وہ عہد اور میثاق جس کا یہ لوگ ذکر کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے آدم کی ذریت کو ان کی پیٹھ سے نکالا اس وقت وہ چیونٹی کی مانند تھی، یہ عہد کسی کو یاد نہیں اور نہ کسی آدمی کے خیال میں اس میثاق کا گزر ہوا ہے۔۔۔ پس اللہ تعالیٰ کسی ایسی چیز کو بندوں کے خلاف کیسے دلیل بنا سکتا ہے جس کی انہیں کوئی خبر نہیں جس کی کوئی حقیقت ہے نہ اثر؟ [آیت ﴿وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ۔۔۔﴾ کی تفسیر میں مفسرین کی زیادہ تر دورائے ہیں۔ ایک وہ جو ہمارے فاضل مفسر رحمہ اللہ نے اختیار کی ہے کہ ربوبیت الٰہی کا اقرار و اعتراف اور اس کی گواہی سے مراد، توحید الٰہی پر انسان کی تخلیق ہے یعنی ہر انسان کی فطرت میں اللہ کی عظمت و محبت اور اس کی وحدانیت ودیعت کردی گئی ہے، حافظ ابن کثیر کا رجحان بھی اسی طرف ہے۔ اس تفسیر کی رو سے عالم واقعات میں ایسا نہیں ہوا ہے، بلکہ یہ ایک تمثیل ہے۔ دوسری رائے یہ ہے کہ یہ تمثیل نہیں ہے۔ بلکہ ایک واقعہ ہے، اللہ تعالیٰ نے صلب آدم سے (براہ راست) پیدا ہونے والے انسانوں کو اور پھر بنی آدم کی صلبوں سے نسلاً بعد نسل پیدا ہونے والے انسانوں کو چیونٹی کی شکل میں نکالا اور ان سے اپنی ربوبیت کا عہد و اقرار لیا۔ اس کی تائید میں بعض صحیح احادیث بھی ہیں اور صحابہ کرام کے آثار وا قوال بھی۔ اس کی مختصر تفصیل تفسیر ”احسن البیان“ میں دیکھی جاسکتی ہے۔ اسی لئے امام شوکانی نے اسی تفسیر کو راجح اور صحیح قرار دیا ہے۔ بنا بریں فاضل مفسر کا اس دوسری رائے کو یکسر غیر صحیح قرار دینا صحیح نہیں ہے۔ باقی رہا یہ اعتراض کہ یہ عہد واقرار کسی کو یاد ہی نہیں ہے تو اس پر گرفت کیوں کر صحیح ہوسکتی ہے؟ تو یہی اعتراض پہلی تفسیر پر بھی ہوسکتا ہے کہ کسی چیز کا انسان کی فطرت میں ودیعت کردینا کیا اس بات کے لئے کافی ہے کہ وہ اس کی پابندی کرے، جب کہ اسے اس بات کا شعور و ادراک ہی نہیں ہے؟ اس کی جو توجیہ ہوسکتی ہے، دوسری تفسیر میں بھی وہی توجیہ ہے۔ (ص۔ ی)] الاعراف
174 چونکہ یہ معاملہ نہایت واضح اور نمایاں ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَكَذَٰلِكَ نُفَصِّلُ الْآيَاتِ﴾ ” ہم اس طرح آیات کو کھول کھول کر بیان کرتے ہیں“ ﴿وَلَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ ﴾”شاید وہ (اس چیز کی طرف) رجوع کریں‘‘ جو اللہ تعالیٰ نے ان کی فطرت میں ودیعت کی ہے اور شاید وہ اس عہد کی طرف لوٹیں جو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے کیا ہے اور اس طرح وہ برائیوں سے باز آجائیں۔ الاعراف
175 ﴿وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ الَّذِي آتَيْنَاهُ آيَاتِنَا﴾ ” اور سنا دوان کو حال اس شخص کا جس کو ہم نے اپنی آیتیں دیں“ یعنی ہم نے اسے کتاب اللہ کی تعلیم دی اور وہ ایک علامہ اور ماہر عالم بن گیا ﴿فَانسَلَخَ مِنْهَا فَأَتْبَعَهُ الشَّيْطَانُ ﴾” پھر وہ ان کو چھوڑ نکلا اور شیطان اس کے پیچھے گیا“ یعنی وہ اللہ تعالیٰ کی آیات کے علم سے حقیقی طور پر متصف نہ ہوا کیونکہ آیات الٰہی کا علم، صاحب علم کو مکارم اخلاق اور محاسن اخلاق سے متصف کردیتا ہے اور اسے اعلیٰ ترین درجات اور بلند ترین مقامات پر فائز کردیتا ہے۔ پس اس نے کتاب کو چھوڑ دیا اور ان اخلاق کو دور پھینک دیا جن کا حکم کتاب اللہ دیتی تھی اور ان اخلاق کو اس طرح (اپنی ذات سے) اتار دیا جس طرح لباس اتارا جاتا ہے۔ جب وہ آیات الٰہی سے نکل گیا تو شیطان اس کے پیچھے لگ گیا اور جب وہ مضبوط پناہ گاہ سے نکل بھاگا تو شیطان اس پر مسلط ہوگیا اور یوں وہ ادنیٰ ترین لوگوں میں شامل ہوگیا شیطان نے اسے گناہوں پر آمادہ کیا (اور وہ گناہوں میں گھر گیا) ﴿فَكَانَ مِنَ الْغَاوِينَ﴾ ” پس وہ گمراہوں میں سے ہوگیا۔“ جب کہ وہ ہدایت یافتہ لوگوں میں سے تھا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے حال پر چھوڑ کر اس کے نفس کے حوالے کردیا تھا۔ الاعراف
176 اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَلَوْ شِئْنَا لَرَفَعْنَاهُ بِهَا﴾ ” اور اگر ہم چاہتے تو اس کا رتبہ ان آیتوں کی بدولت بلند کردیتے‘‘ یعنی ہم اسے آیات الٰہی پر عمل کرنے کی توفیق عطا کرتے اور یوں وہ دنیا و آخرت میں بلند درجات پاتا اور اپنے دشمنوں سے محفوظ ہوجاتا ﴿وَلَـٰكِنَّهُ﴾مگر اس نے ایسے افعال سر انجام دیئے جو اس بات کا تقاضا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ اسے اپنی توفیق سے محروم کر دے۔ ﴿أَخْلَدَ إِلَى الْأَرْضِ﴾ ”وہ ہورہا زمین کا“ یعنی وہ سفلی جذبات و خواہشات اور دنیاوی مقاصد کی طرف مائل ہو گیا﴿ وَاتَّبَعَ هَوَاهُ﴾ اور خواہشات نفس کے پیچھے لگ گیا اور اپنے آقا و مولیٰ کی اطاعت چھوڑ دی۔﴿ فَمَثَلُهُ ﴾ ” تو اس کی مثال“ پس دنیا کی حرص کی شدت اور اس کی طرف میلان میں اس کی حالت یہ ہوگئی ﴿ كَمَثَلِ الْكَلْبِ إِن تَحْمِلْ عَلَيْهِ يَلْهَثْ﴾ ” جیسے کتا ہوتا ہے، اس پر تو بوجھ لادے تو ہانپے اور چھوڑ دے تو ہانپے“ یعنی وہ ہر حال میں (حرص کی وجہ سے) زبان باہر نکالے رکھتا ہے، سخت لالچی بنا رہتا ہے، اس میں ایسی حرص ہے جس نے اس کے دل کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے رکھ دیا ہے دنیا کی کوئی چیز اس کی محتاجی کو دور نہیں کرسکتی۔﴿ ذَّٰلِكَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا﴾ ’’یہ مثال ہے ان لوگوں کی جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا“ اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف اپنی آیات بھیجیں مگر انہوں نے ان کی اطاعت نہ کی بلکہ انہوں نے خواہشات نفس کی پیروی میں ان آیات کو جھٹلا کر ٹھکرادیا ﴿ فَاقْصُصِ الْقَصَصَ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ ﴾ ” پس بیان کرو یہ احوال، تاکہ وہ غور و فکر کریں“ یعنی شاید وہ ان ضرب الامثال، آیات الٰہی اور عبرتوں میں غور و فکر کریں، کیونکہ جب وہ غور و فکر کریں گے تو انہیں علم حاصل ہوگا، جب علم حاصل ہوگا تو اس پر عمل بھی کریں گے۔ الاعراف
177 ﴿ سَاءَ مَثَلًا الْقَوْمُ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا وَأَنفُسَهُمْ كَانُوا يَظْلِمُونَ ﴾” جن لوگوں نے ہماری آیتوں کی تکذیب کی ان کی مثال بری ہے اور انہوں نے اپنا نقصان کیا۔“ یعنی اس شخص کی بہت بری مثال ہے جس نے اللہ تعالیٰ کی آیات کی تکذیب کی اور مختلف قسم کے گناہ اور معاصی کے ذریعے سے اپنے نفس پر ظلم کیا۔ پس ان کی مثال بدترین مثال ہے۔ یہ شخص، جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی آیات کا علم عطا کیا تھا، احتمال ہے کہ اس سے کوئی معین شخص مراد ہو جس سے یہ سب کچھ واقع ہوا جس کا اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے اور بندوں کو تنبیہ کے لئے یہ قصہ بیان کیا اور اس میں احتمال بھی ہے کہ اس سے مراد اسم جنس ہو اور اس کے عموم میں ہر وہ شخص شامل ہو جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی آیات کا علم عطا کیا اور ان سے نکل بھاگا ہو۔ ان آیات کریمہ میں علم و عمل کرنے کی ترغیب ہے، نیز یہ کہ علم پر عمل کرنے سے اللہ تعالیٰ صاحب علم کو رفعت عطا کرتا اور شیطان سے بچاتا ہے۔ نیز ان آیات کریمہ میں علم پر عدم عمل سے ڈرایا گیا ہے اس لئے کہ اگر علم پر عمل نہ کیا جائے تو اللہ تعالیٰ عمل نہ کرنے والے کو اسفل سافلین کے درجے پر اتار دیتا ہے اور اس پر شیطان کو مسلط کردیتا ہے۔ ان آیات کریمہ میں اس بات کی بھی دلیل ہے کہ جو کوئی خواہشات نفس کی پیروی کرتا ہے اور شہوات میں دھنس جاتا ہے تو یہ چیز اس بات کا سبب بنتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو اس کے حال پر چھوڑ دے۔ الاعراف
178 پھر اللہ تعالیٰ نے واضح فرما دیا کہ را ہ راست دکھانا اور گمراہ کرنا صرف اسی اکیلے کے قبضہ قدرت میں ہے۔ چنانچہ فرمایا : ﴿مَن يَهْدِ اللَّـهُ﴾ ”جس کو اللہ ہدایت دے۔“ یعنی نیکیوں کی توفیق عطا کر کے اللہ تعالیٰ جسے راہ راست دکھا دے اور ناپسندیدہ امور سے بچا لے اور ان چیزوں کے علم سے نواز دے جنہیں وہ نہیں جانتا تھا ﴿فَهُوَ الْمُهْتَدِي﴾” تو وہی حقیقی ہدایت یافتہ ہے“ کیونکہ اس نے اللہ تعالیٰ کی ہدایت کو ترجیح دی۔ ﴿وَمَن يُضْلِلْ ﴾” اور جس کو گمراہ کر دے۔“ یعنی جسے اس کے حال پر چھوڑ کر اور بھلائی کی توفیق سے محروم کر کے وہ گمراہ کر دے۔ ﴿فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ﴾ ” تو ایسے ہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں۔“ یہی لوگ قیامت کے روز اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو خسارے میں ڈالنے والے ہیں۔ خبر دار ! یہی کھلا خسارہ ہے۔ الاعراف
179 اللہ تبارک و تعالیٰ راہ راست سے بھٹکے ہوئے گمراہ لوگوں اور شیطان لعین کے پیروکاروں کا حال بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے : ﴿وَلَقَدْ ذَرَأْنَا﴾ ” اور ہم نے پیدا کیا۔“ یعنی ہم نے پیدا کیا اور پھیلایا﴿لِجَهَنَّمَ كَثِيرًا مِّنَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ﴾ ” جہنم کے لئے بہت سے جن اور آدمی“ پس چوپائے بھی ان سے بہتر حالت میں ہیں ﴿ لَهُمْ قُلُوبٌ لَّا يَفْقَهُونَ ﴾ ” ان کے دل ہیں، جن سے وہ سمجھتے نہیں“ یعنی علم اور سمجھ ان تک راہ نہیں پاتے، سوائے ان کے خلاف قیام حجت کے ﴿وَلَهُمْ أَعْيُنٌ لَّا يُبْصِرُونَ﴾” ان کی آنکھیں ہیں، جن سے وہ دیکھتے نہیں“ یعنی وہ ان آنکھوں سے اس طرح نہیں دیکھتے کہ دیکھنا ان کے لئے فائدہ مند ہو بلکہ انہوں نے اپنی بینائی کی منفعت اور فائدے کو کھو دیا۔﴿ وَلَهُمْ آذَانٌ لَّا يَسْمَعُونَ بِهَا﴾ ” ان کے کان ہیں، جن سے وہ سنتے نہیں“ وہ ان کانوں سے اس طرح نہیں سنتے کہ ان کے دلوں تک معانی و مفاہیم پہنچ جائیں۔ ﴿أُولَـٰئِكَ﴾ ” یہ“ یعنی وہ لوگ جو ان اوصاف قبیحہ کے حامل ہیں ﴿كَالْأَنْعَامِ﴾ ” چوپاؤں کی مانند ہیں“ جو عقل سے محروم ہیں۔ انہوں نے فانی چیزوں کو ان چیزوں پر ترجیح دی جو ہمیشہ باقی رہنے والی ہیں پس ان سے عقل کی خاصیت سلب کرلی گئی ﴿بَلْ هُمْ أَضَلُّ ۚ﴾ ” بلکہ وہ زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں۔“ یعنی وہ چوپاؤں سے بھی زیادہ گمراہ اور بے سمجھ ہیں کیونکہ بہائم سے تو وہ کام لئے جاتے ہیں جن کاموں کے لئے ان کو تخلیق کیا گیا ہے، ان کے ذہن ہیں جن کے ذریعے سے وہ مضرت و منفعت کا ادراک کرتے ہیں۔ بنا بریں چوپاؤں کا حال ان کے حال سے اچھا ہے۔﴿ أُولَـٰئِكَ هُمُ الْغَافِلُونَ﴾ ” وہی لوگ ہیں غافل‘‘ جو سب سے زیادہ نفع مند چیز سے غافل ہیں وہ اللہ تعالیٰ پر ایمان، اس کی اطاعت اور اس کے ذکر سے غافل ہیں حالانکہ ان کو دل، کان اور آنکھیں عطا کی گئیں، تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی تعمیل اور اس کے حقوق کی ادائیگی میں ان سے مدد لیں، لیکن انہوں نے اس مقصد کے برعکس امور کے لئے ان کو استعمال کیا۔ پس یہ لوگ اس بات کے مستحق ہیں کہ ان کو ان لوگوں میں شمار کیا جائے جن کو اللہ تعالیٰ نے جہنم کے لئے تخلیق کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو آگ میں جھونکنے کے لئے پیدا کیا ہے اور یہ لوگ اہل جہنم کے اعمال سر انجام دے رہے ہیں۔ الاعراف
180 رہا وہ شخص جو ان جوارح کو اللہ تعالیٰ کی عبادت میں استعمال کرتا ہے، جس کا قلب اللہ تعالیٰ پر ایمان اور اس کی محبت کے رنگ میں رنگا جاتا ہے اور وہ اللہ سے کبھی غافل نہیں ہوتا۔ پس ایسے ہی لوگ اہل جنت ہیں اور وہ اہل جنت کے اعمال سر انجام دیتے ہیں۔ یہ آیت کریمہ اللہ تعالیٰ کے جلال کی عظمت اور اس کے اوصاف کی وسعت کو بیان کرتی ہے، نیز یہ بیان کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے تمام نام اسمائے حسنٰی ہیں، یعنی اس کا ہر نام اچھا ہے۔ اس کا قاعدہ کلیہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر نام ایک عظیم صفت کمال پر دلالت کرتا ہے۔ اسی لئے ان اسماء کو اسمائے حسنیٰ کہا گیا ہے۔ اگر یہ اسماء صفات پر دلالت نہ کرتے بلکہ محض علم ہوتے تو یہ اسماء ” حسنیٰ“ نہ ہوتے اس طرح اگر یہ اسماء کسی ایسی صفت پر دلالت کرتے جو صفت کمال نہ ہوتی بلکہ اس کے برعکس صفت نقص یا صفت منقسم ہوتی یعنی بیک وقت مدح و قدح پر دلالت کرتے تب بھی یہ اسماء ” حسنیٰ“ نہ کہلا سکتے۔ پس اللہ تعالیٰ کے اسماء میں سے ہر اسم پوری صفت پر دلالت کرتا ہے جس سے یہ اسم مشتق ہے اور وہ اس صفت کے تمام معانی کو شامل ہے۔ مثلا اللہ تعالیٰ کا اسم مبارک (اَلعلیِم) اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ وہ ایسے علم کا مالک ہے جو عام ہے اور تمام اشیاء کا احاطہ کئے ہوئے ہے، پس زمین و آسمان میں ایک ذرہ بھی اس کے دائرہ علم سے باہر نہیں۔ اس کا اسم مبارک (اَلرَّحِیم) دلالت کرتا ہے کہ وہ عظیم اور بے پایاں رحمت کا مالک ہے جو ہر چیز پر سایہ کناں ہے۔ (اَلقَدِیر) دلالت کرتا ہے کہ وہ قدرت عامہ کا مالک ہے کوئی چیز بھی اس کی قدرت کو عاجز اور لاچار نہیں کرسکتی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کے اسماء کا کامل طور پر (حُسنیٰ) ہونا یہ ہے کہ اس کو ان اسماء حسنیٰ کے سوا کسی اور اسم سے نہ پکارا جائے بنا بریں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے﴿فَادْعُوهُ بِهَا﴾ ” پس اس کو انہی ناموں سے پکاور“ اور اس دعا میں دعائے عبادت اور دعائے مسئلہ دونوں شامل ہیں۔ پس ہر مطلوب میں اللہ تعالیٰ کو اس کے اس اسم مبارک سے پکارا جائے جو اس مطلوب سے مناسبت رکھتا ہے۔ پس دعا مانگنے والا یوں دعا مانگے ” اے اللہ مجھے بخش دے مجھ پر رحم کر بے شک تو بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔ “” اے توبہ قبول کرنے والے میری توبہ قبول کر“ ” اے رزق دینے والے مجھے رزق عطا کر“ اور ” اے لطف و کرم کے مالک مجھے اپنے لطف سے نواز۔۔۔“ وغیرہ۔ ﴿ وَذَرُوا الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِي أَسْمَائِهِ ۚ سَيُجْزَوْنَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴾ ” اور ان لوگوں کو چھوڑ دو جو اس کے ناموں میں کج روی اختیار کرتے ہیں، عنقریب ان کو ان کے عمل کا بدلہ دیا جائے گا“ یعنی اللہ تعالیٰ کی اسماء میں الحاد کی پاداش میں انہیں سخت سزا اور عذاب دیا جائے گا اور الحاد کی حقیقت یہ ہے کہ ان اسماء کو ان معانی سے ہٹا کر جن کے لئے ان کو وضع کیا یا ہے، دوسری طرف موڑنا،(اور اس کی مختلف صورتیں ہیں۔) (١) ان ناموں سے ایسی ہستیوں کو موسوم کرنا جو ان ناموں کی مستحق نہیں، مثلاً مشرکین کا اپنے معبودوں کو ان ناموں سے موسوم کرنا۔ (٢) ان اسماء کے اصل معانی و مراد کی نفی اور ان میں تحریف کر کے، ان کے کوئی اور معانی گھڑ لینا، جو اللہ اور اس کے رسول کی مراد نہیں۔ (٣) ان اسماء سے دوسروں کو تشبہ دینا۔ پس واجب ہے کہ اسمائے حسنیٰ میں الحاد سے بچا جائے اور اسماء میں الحاد کرنے والوں سے دور رہا جائے۔ صحیح حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، آپ نے فرمایا :” اللہ تبارک و تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں جو ان کو یاد کرلیتا ہے وہ جنت میں داخل ہوگا۔“ [صحیح البخاری، کتاب الشروط، باب مایجوزمن الاشتراط والثنیا فی الاقرار۔۔۔ الخ، ح 2736] الاعراف
181 ﴿وَمِمَّنْ خَلَقْنَا أُمَّةٌ يَهْدُونَ بِالْحَقِّ ﴾” اور ہماری مخلوقات میں سے کچھ ایسے لوگ ہیں جو حق کا راستہ بتاتے ہیں۔“ یعنی ان تمام لوگوں میں جن کو ہم نے پیدا کیا ہے ایک ایسا گروہ بھی ہے جو فضیلت کا مالک ہے، جو خود کامل ہے اور دوسروں کی حق کی طرف راہنمائی کرتا ہے، یہ لوگ حق کا علم رکھتے ہیں، اس پر عمل کرتے ہیں، حق کی تعلیم دیتے، اس کی طرف بلاتے اور اس پر عمل کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔ ﴿ وَبِهِ يَعْدِلُونَ﴾” اور اسی کے موافق انصاف کرتے ہیں“ جب وہ لوگوں کے مال، خون، حقوق اور ان کے مقالات وغیرہ کے بارے میں فیصلہ کرتے ہیں تو حق کی بنیاد پر انصاف کرتے ہیں۔ یہ لوگ ائمہ ہدی اور تاریکیوں میں روشن قنادیل ہیں۔ یہی لوگ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے ایمان، عمل صالح، حق کی وصیت اور صبر کی وصیت جیسی نعمتوں سے نوازا ہے۔ وہ صدیق ہیں جن کا مرتبہ رسالت کے بعد ہے اور خود ان کے مراتب میں ان کے احوال اور قدر و منزلت کے مطابق تفاوت ہے۔ الاعراف
182 پس پاک ہے وہ ذات جو اپنی رحمت کے لئے جس کو چاہتی ہے، مختص کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ بہت بڑے فضل کا مالک ہے۔ وہ لوگ جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی ان آیات کی تکذیب کی، جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی کتاب اور ہدایت کی صحت پر دلالت کرتی ہیں، پس انہوں نے ان کو ٹھکرا دیا اور ان کو قبول نہ کیا ﴿سَنَسْتَدْرِجُهُم مِّنْ حَيْثُ لَا يَعْلَمُونَ﴾ ” ہم ان کو آہستہ آہستہ ایسی جگہ سے پکڑیں گے جہاں سے ان کو خبر بھی نہ ہوگی“ یعنی اس طرح کہ اللہ تعالیٰ ان کو وافر رزق بہم پہنچاتا ہے۔ الاعراف
183 ﴿وَأُمْلِي لَهُمْ﴾” اور میں ان کو مہلت دیتا ہوں“ یہاں تک کہ وہ یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ ان کا مواخذ ہ نہیں کیا جائے اور ان کو سزا نہیں دی جائے گی، پس وہ کفر اور سرکشی میں بڑھتے چلے جاتے ہیں اور ان کے شر میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ بنا بریں ان کی سزا میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے اور ان کا عذاب کئی گنا بڑھ جاتا ہے اور انہیں علم تک نہیں ہوتا۔ اس لئے فرمایا : ﴿إِنَّ كَيْدِي مَتِينٌ ﴾ ” میری تدبیر (بڑی) مضبوط ہے۔“ یعنی میری چال بہت مضبوط اور کارگر ہے۔ الاعراف
184 ﴿أَوَلَمْ يَتَفَكَّرُوا ۗ مَا بِصَاحِبِهِم﴾” کیا انہوں نے غور نہیں کیا کہ ان کے ساتھی کو“ یعنی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو﴿مِّن جِنَّةٍ﴾” کوئی جنون نہیں“ یعنی کیا انہوں نے غور و فکر نہیں کیا کہ ان کے ساتھی کا حال، جس کو یہ اچھی طرح جانتے ہیں، چھپا ہوا نہیں ہے۔ کیا وہ پاگل ہے؟ پس اس کے اخلاق و اطوار، اس کی سیرت، طریقے اور اس کے اوصاف کو دیکھیں اور اس کی دعوت میں غور وفکر کریں۔ وہ اس میں کامل ترین صفات، بہترین اخلاق اور ایسی عقل و رائے کے سوا کچھ نہیں پائیں گے جو تمام جہانوں پر فوقیت رکھتی ہے۔ وہ بھلائی کے سوا کسی چیز کی دعوت نہیں دیتا اور برائی کے سوا کسی چیز سے نہیں روکتا۔ پس اے صاحبان عقل و دانش ! کیا اس شخص کو جنون لاحق ہے یا یہ شخص بہت بڑا ارادہ نما، کھلا خیر خواہ، مجدد کرم کا مالک اور رؤف و رحیم ہے؟ بنا بریں فرمایا : ﴿ إِنْ هُوَ إِلَّا نَذِيرٌ مُّبِينٌ ﴾ ” وہ تو صرف ڈرانے والا ہے“ یعنی وہ تمام مخلوق کو اس چیز کی طرف بلاتا ہے جو انہیں عذاب سے نجات دے اور جس سے نہیں ثواب حاصل ہو۔ الاعراف
185 ﴿أَوَلَمْ يَنظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ﴾ ” کیا انہوں نے آسمانوں اور زمین کی سلطنت میں نظر نہیں کی“ کیونکہ جب یہ لوگ زمین و آسمان کی بادشاہی میں غور و فکر کریں گے تو وہ اسے اس کے رب کی وحدانیت اور اس کی صفات کمال پر دلیل پائیں گے۔ ﴿وَمَا خَلَقَ اللَّـهُ مِن شَيْءٍ﴾ ” اور جو کچھ پیدا کیا اللہ نے ہر چیز سے“ اسی طرح وہ ان تمام چیزوں میں غور و فکر کریں، کیونکہ کائنات کے تمام اجزا اللہ تعالیٰ کی ذات، اس کی قدرت، اس کی حکمت او اس کی بے کراں رحمت، اس کے احسان، اس کی مشیت نافذہ اور اس کی ان عظیم صفات پر سب سے بڑی دلیل ہیں، جو اس حقیقت پر دلالت کرتی ہیں کہ وہ اکیلاخلق و تدبیر کا مالک ہے وہ اکیلا معبود محمود، وہ اکیلا پاکیزگی کا مستحق اور واحد محبوب ہے۔ فرمایا : ﴿وَأَنْ عَسَىٰ أَن يَكُونَ قَدِ اقْتَرَبَ أَجَلُهُمْ﴾” اور شاید کہ قریب آگیا ہو ان کا وعدہ“ یعنی وہ اپنے خصوصی احوال میں غور کریں اس سے قبل کہ ان کا وقت آن پہنچے اور اچانک ان کی غفلت اور اعراض کی حالت میں موت کا پنجہ ان کو اپنی گرفت میں لے لے اور اس وقت وہ اپنی کوتاہی کا استدراک نہ کرسکیں۔ ﴿ فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ﴾ ” تو اس کے بعد وہ اور کس بات پر ایمان لائیں گے؟‘ یعنی اگر یہ اس جلیل القدر کتاب پر ایمان نہیں لائے تو پھر کون سی بات پر ایمان لائیں گے؟ کیا یہ جھوٹ اور گمراہی کی کتابوں پر ایمان لائیں گے؟ کیا وہ ہر بہتان طراز اور دجال کی بات پر ایمان لائیں گے؟ مگر گمراہ شخص کی ہدایت کی کوئی سبیل نہیں۔ الاعراف
186 ﴿مَن يُضْلِلِ اللَّـهُ فَلَا هَادِيَ لَهُ ۚ وَيَذَرُهُمْ فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ﴾ ’’جس کو اللہ گمراہ کر دے، اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں اور اللہ چھوڑے رکھتا ہے ان کو گمراہ میں سرگرداں“ یعنی وہ اپنی سرکشی میں حیران و سرگرداں پھرتے ہیں، وہ اپنی سرکشی سے نکل کر حق کی طرف نہیں آتے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ جناب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے: ﴿يَسْأَلُونَكَ ﴾ ” آپ سے پوچھتے ہیں۔“ یعنی یہ جھٹلانے والے اور تلبیس کی غرض سے سوال کرنے والے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھتے ہیں۔ ﴿ عَنِ السَّاعَةِ أَيَّانَ مُرْسَاهَا﴾ ” قیامت کے بارے میں کہ اس کے واقع ہونے کا وقت کب ہے۔“ یعنی وہ وقت کب ہوگا جب قیامت کی گھڑی آئے گی اور مخلوق میں قیامت قائم ہوگی۔ ﴿قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِندَ رَبِّي﴾ ” کہہ دیجیے ! اس کا علم صرف میرے رب کے پاس ہے“ یعنی قیامت کا علم صرف اللہ تعالیٰ ہی کے ساتھ خاص ہے۔﴿لَا يُجَلِّيهَا لِوَقْتِهَا إِلَّا هُوَ﴾ ” وہی اسے اس کے وقت پر ظاہر کرے گا۔“ یعنی وہ وقت جو اس کے قائم ہونے کے لئے مقرر کیا ہوا ہے، صرف اللہ تعالیٰ ہی ظاہر کرے گا ﴿ ثَقُلَتْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ﴾” وہ بھاری بات ہے آسمانوں اور زمین میں“ یعنی زمین و آسمان کے رہنے والوں پر قیامت کی گھڑی مخفی ہے، اس گھڑی کا معاملہ ان کے لئے نہایت شدید اور وہ اس گھڑی سے بہت خوف زدہ ہیں۔ ﴿لَا تَأْتِيكُمْ إِلَّا بَغْتَةً﴾ ” اور وہ ناگہاں تم پر آجائے گی۔“ یہ گھڑی اچانک انہیں اس طرح آئے گی کہ وہ ان کے خواب و خیال میں بھی نہ ہوگی اور اس کے لئے وہ تیار بھی نہ ہوں گے۔ الاعراف
187 ﴿يَسْأَلُونَكَ كَأَنَّكَ حَفِيٌّ عَنْهَا ﴾ ” یہ آپ سے اس طرح دریافت کرتے ہیں کہ گویا آپ اس سے بخوبی واقف ہیں۔“ وہ اس گھڑی کے بارے میں آپ سے سوال کرنے کے بہت خواہش مند ہیں گویا کہ آپ اس سوال کے متعلق پورا علم رکھتے ہیں اور انہوں نے اس بات کو نہیں جانا کہ باوجود اس بات کے کہ آپ کو اپنے رب کی بابت کمال علم حاصل ہے اور یہ کہ رب سے کون سی بات پوچھنی فائدہ مند ہے، آپ ایسے سوال کی پروا نہیں کرتے تھے جو مصلحت سے خالی ہوتا اور جس کا جاننا ناممکن ہوتا، قیامت کی گھڑی کو کوئی رسول جانتا ہے نہ کوئی مقرب فرشتہ اور اس کا تعلق ایسے امور سے ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنی کامل حکمت اور وسیع علم کی بنا پر مخلوق سے مخفی رکھا ہے۔ ﴿قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِندَ اللَّـهِ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ﴾” کہہ دیجیے ! اس قیامت کا علم اللہ کے پاس ہے، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے“ اسی لئے وہ اس چیز کے خواہش مند ہوتے ہیں جس کی خواہش کرنا ان کے لئے مناسب نہیں۔ خاص طور پر وہ لوگ جو ان اہم امور کے بارے میں تو سوال کرتے، جن کے بارے میں علم حاصل کرنا ان پر فرض ہے اور ان امور کے بارے میں سوال کرتے ہیں جن کے بارے میں حصول علم کی کوئی سبیل نہیں ہوتی، نہ ان سے یہ مطالبہ ہی کیا جائے گا کہ انہوں نے اس کا علم حاصل کیوں نہیں کیا۔ الاعراف
188 ﴿قُل لَّا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلَا ضَرًّا﴾ ” کہہ دیجیے ! میں تو اپنے نفس کے لئے بھی نفع و نقصان کا اختیار نہیں رکھتا“ اس لئے کہ میں تو محتاج بندہ ہوں اور کسی دوسری ہستی کے دست تدبیر کے تحت ہوں۔ مجھے اگر کوئی بھلائی عطا ہوتی ہے تو صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے اور مجھ سے شر بھی کوئی دور کرتا ہے تو صرف وہی اور میرے پاس کوئی علم بھی نہیں، سوائے اس کے جو اللہ تعالیٰ مجھے عطا کیا ہے﴿وَلَوْ كُنتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ﴾” اگر میں غیب جان لیا کرتا تو بہت بھلائیاں حاصل کرلیتا اور مجھے برائی کبھی نہ پہنچتی“ یعنی میں وہ اسباب مہیا کرلیتا جن کے بارے میں مجھے علم ہوتا کہ وہ مصالح اور منافع پر منتج ہوں گے اور میں ہر تکلیف دہ اور ناپسندیدہ چیز سے بچ جاتا کیونکہ مجھے ان کے وقوع کا بھی پہلے ہی سے علم ہوتا اور مجھے یہ بھی معلوم ہوتا کہ اس کا نتیجہ کیا ہوگا۔ مگر مجھے غیب کا علم نہ ہونے کی وجہ سے کبھی کبھی تکلیف بھی پہنچتی ہے اور اسی وجہ سے کبھی کبھی مجھ سے دنیاوی فوائد اور مصالح بھی فوت ہوجاتے ہیں اور یہ اس بات کی اولین دلیل ہے کہ میں غیب کا علم نہیں جانتا ﴿ إِنْ أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ﴾” میں تو صرف ڈر سنانے والا ہوں۔“ یعنی میں تو صرف دنیاوی، دینی اور آخروی سزاؤں سے ڈراتا ہوں اور ان اعمال سے آگاہ کرتا ہوں جو ان سزاؤں کا باعث بنتے ہیں اور سزاؤں سے بچنے کی تلقین کرتا ہوں۔ ﴿وَبَشِيرٌ﴾ ” اور خوشخبری سنا نے والا ہوں۔“ اور ثواب عاجل و آجل کی منزل تک پہنچانے والے اعمال کو واضح کر کے اور ان کی ترغیب دے کر اس ثواب کی خوشخبری سناتا ہوں مگر ہر شخص اس تبشیر و انذار کو قبول نہیں کرتا بلکہ صرف اہل ایمان ہی اس بشارت و انذار کو قبول کر کے اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ یہ آیات کریمہ اس شخص کی جہالت کو بیان کرتی ہیں جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو مقصود بناتا ہے اور حصول منفعت اور دفع مضرت کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پکارتا ہے۔۔۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اختیار میں کچھ بھی نہیں، جسے اللہ تعالیٰ نفع پہنچانا چاہے آپ اسے کوئی نفع نہیں پہنچا سکتے اور اللہ تعالیٰ جس سے ضرور دور نہ کرے آپ اس سے ضرر کو دور نہیں کرسکتے۔ اسی طرح آپ کے پاس علم بھی صرف وہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا کیا ہے۔ صرف تبشیر و انذار اور ان پر عمل ہی فائدہ دیتا ہے جن کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث کیا گیا۔ یہ تبشیر اور انذار ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے فائدہ ہے جو ماں باپ، دوست احباب اور بھائیوں کی طرف سے فائدہ پر فوقیت رکھتا ہے، یہی وہ نفع ہے جس کے ذریعے سے بندوں کو ہر بھلائی پر آمادہ کیا جاتا ہے اور ہر برائی سے ان کے لئے حفاظت ہے اور اس میں ان کے لئے حددرجہ بیان اور توضیح ہے۔ الاعراف
189 ﴿هُوَ الَّذِي خَلَقَكُم﴾’’وہی ہے جس نے تمہیں پیدا کیا۔“ اے مرد و اور عورتو ! جو روئے زمین پر پھیلے ہوئے ہو، تمہاری کثرت تعداد اور تمہارے متفرق ہونے کے باوصف ﴿ مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ﴾ ” ایک جان سے۔“ اور وہ ہیں ابوالبشر آدم﴿ وَجَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا﴾” اور اسی سے بنایا اس کا جوڑا“ یعنی آدم علیہ السلام سے ان کی بیوی حوا علیہاالسلام کو تخلیق کیا۔ ﴿لِيَسْكُنَ إِلَيْهَا﴾’’تاکہ اس کے پاس آرام پکڑے“ چونکہ حوا علیہ السلام کوآدم علیہ السلام سےپیداکیاگیاہے اس لئے ان دونوں کے مابین ایسی مناسبت اور موافقت موجود ہے جو تقاضا کرتی ہے کہ وہ ایک دوسرے سے سکون حاصل کریں اور شہوت کے تعلق سے ایک دوسرے کی اطاعت کریں۔ ﴿فَلَمَّا تَغَشَّاهَا﴾” سو جب وہ اس کے پاس جاتا ہے۔“ یعنی جب آدمی نے اپنی بیوی سے مجامعت کی تو باری تعالیٰ نے یہ بات مقدر کردی کہ اس شہوت اور جماع سے ان کی نسل وجود میں آئے اور اس وقت ﴿حَمَلَتْ حَمْلًا خَفِيفًا﴾ ” حمل رہا ہلکا سا حمل“ یہ کیفیت حمل کے ابتدائی ایام میں ہوتی ہے عورت اس کو محسوس نہیں کر پاتی اور نہ اس وقت یہ حمل بوجھل ہوتا ہے۔ ﴿فَلَمَّا﴾” پس جب“ یہ حمل اسی طرح موجود رہا ﴿أَثْقَلَت﴾ ” بوجھل ہوگئی“ یعنی اس حمل کی وجہ سے، جب کہ وہ حمل بڑا ہوجاتا ہے تو اس وقت والدین کے دل میں بچے کے لئے شفقت، اس کے زندہ صحیح و سالم اور ہر آفت سے محفوظ پیدا ہونے کی آرزو پیدا ہوتی ہے۔ بنا بریں ﴿دَّعَوَا اللَّـهَ رَبَّهُمَا لَئِنْ آتَيْتَنَا﴾ ” دونوں نے دعا کی اللہ اپنے رب سے، اگر بخشا تو نے ہم کو“ یعنی بچہ ﴿صَالِحًا﴾ ” صحیح و سالم“ یعنی صحیح الخلقت“ پورا اور ہر نقص سے محفوظ ﴿لَّنَكُونَنَّ مِنَ الشَّاكِرِينَ ﴾ ” تو ہم شکر گزار بندوں میں سے ہوں گے۔ “ الاعراف
190 ﴿ فَلَمَّا آتَاهُمَا صَالِحًا﴾” پس جب وہ ان کو صحیح وسالم (بچہ) دیتا ہے۔“ یعنی ان کی دعا قبول کرتے ہوئے جب ان کو صحیح سالم بچہ عطا کیا اور اس بارے میں ان پر اپنی نعمت کی تکمیل کردی ﴿جَعَلَا لَهُ شُرَكَاءَ فِيمَا آتَاهُمَا﴾” تو اس میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں۔“ یعنی اس بچے کے عطا ہونے پر انہوں نے اللہ تعالیٰ کے شریک ٹھہرا دیئے۔ جس کو اکیلا اللہ تعالیٰ وجود میں لایا ہے اس نے یہ نعمت عطا کی ہے اور اسی نے یہ بچہ عطا کر کے والدین کی آنکھیں ٹھنڈی کیں۔ پس انہوں نے اپنے بیٹے کو غیر اللہ کا بندہ بنا دیا۔ یا تو اسے غیر اللہ کے بندے کے طور پر موسوم کردیا مثلاً” عبدالحارث“ ” عبدالعزی‘‘ اور ” عبدالکعبہ“ وغیرہ۔ یا انہوں نے یہ کیا کہ جب اللہ تعالیٰ نے ان کو ان نعمتوں سے نوازا جن کا شمار کسی بندے کے بس سے باہر ہے، تو انہوں نے اللہ تعالیٰ کی عبادت میں شرک کیا۔ کلام میں یہ انتقال نوع سے جنس کی طرف انتقال کی قسم شمار ہوتا ہے کیونکہ کلام کی ابتدا آدم اور حوا علیہما السلام کے بارے میں ہے پھر کلام آدم و حوا علیہما السلام سے جنس کی طرف منتقل ہوگیا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ شرک، آدم و حوا علیہما السلام کی ذریت میں بہت کثرت سے موجود ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ان سے شرک کے بطلان کا اقرار کروایا ہے نیز یہ کہ وہ اس بارے میں سخت ظالم ہیں، خواہ یہ شرک اقوال میں ہو یا افعال میں کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جس نے ان سب کو ایک جان سے پیدا کیا پھر اس جا ن سے اس کا جوڑا پیدا کیا اور ان میں سے ان کے جوڑے پیدا کئے پھر ان کے درمیان مودت و محبت پید کی جس کی بنا پر وہ ایک دوسرے کے پاس سکون پاتے ہیں، ایک دوسرے کے لئے الفت رکھتے ہیں اور ایک دوسرے سے لذت حاصل کرتے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس امر کی طرف ان کی راہنمائی فرمائی جس سے شہوت، لذت، اولاد اور نسل حاصل ہوتی ہے، پھر اللہ تعالیٰ نے وقت مقررہ تک ماؤں کے بطن میں اولاد کو وجود عطا کیا۔ وہ بڑی امیدوں کے ساتھ اولاد کی پیدائش کا انتظار کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ بچے کو صحیح سالم ماں کے پیٹ سے باہر لائے۔ پس (اس دعا کو قبول کرتے ہوئے) اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنی نعمت پوری کردی اور ان کو ان کا مطلوب عطا کردیا۔ تب کیا اللہ تعالیٰ اس بات کا مستحق نہیں کہ وہ صرف اسی کی عبادت کریں، اس کی عبادت میں کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں اور اسی کے لئے اطاعت کو خالص کریں؟ مگر معاملہ اس کے برعکس ہے، انہوں نے ان ہستیوں کو اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرا دیا الاعراف
191 ﴿ مَا لَا يَخْلُقُ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُونَ وَلَا يَسْتَطِيعُونَ لَهُمْ﴾” جو پیدا نہ کریں کوئی چیز بھی اور وہ پیدا ہوئے ہیں اور نہیں کرسکتے وہ ان کے لئے“ یعنی اپنے عبادت گزاروں کے لئے الاعراف
192 ﴿نَصْرًا وَلَا أَنفُسَهُمْ يَنصُرُونَ﴾ ” مدد اور نہ اپنی ہی مدد کریں“ کسی کی مدد کرنے کی طاقت رکھتے ہیں نہ خود اپنی مدد کرسکتے ہیں۔ جب (شریک ٹھہرائی ہوئی اس ہستی کی) یہ حالت ہو کہ وہ پیدا نہ کرسکتی ہو، ایک ذرہ بھی پیدا کرنے پر قادر نہ ہو بلکہ وہ خود مخلوق ہو اور وہ اپنے عبادت گزار سے کسی تکلیف دہ چیز کو دور کرنے کی طاقت نہ رکھتی ہو بلکہ خود اپنی ذات سے بھی کسی تکلیف دہ چیز کو دور کرنے پر قادر نہ ہو، تو بھلا اس کو اللہ کے ساتھ کیسے معبود بنایا جاسکتا ہے؟ بلاشبہ یہ سب سے بڑا ظلم اور سب سے بڑی حماقت ہے۔ الاعراف
193 ﴿وَإِن تَدْعُوهُمْ﴾” اور اگر تم ان کو پکاور۔“ یعنی اے مشرکو ! اگر تم ان بتوں کو، جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو، پکارو ﴿ إِلَى الْهُدَىٰ لَا يَتَّبِعُوكُمْ ۚ سَوَاءٌ عَلَيْكُمْ أَدَعَوْتُمُوهُمْ أَمْ أَنتُمْ صَامِتُونَ ﴾’’راستے کی طرف، تو نہ چلیں تمہاری پکار پر، برابر ہے تم پر کہ تم ان کو پکارو یا چپکے ہو رہو“ ان معبودوں سے تو انسان ہی اچھا ہے کیونکہ یہ معبود سنتے ہیں نہ دیکھتے ہیں۔ یہ کسی کی راہنمائی کرسکتے ہیں نہ ان کی راہ نمائی کی جاسکتی ہے۔ ایک عقل مند شخص جب ان تمام امور کو مجرد طور پر اپنے تصور میں لاتا ہے تو اسے یقین ہوجاتا ہے کہ ان کی الوہیت باطل ہے اور جو کوئی ان کی عبادت کرتا ہے وہ بے وقوف ہے۔ الاعراف
194 یہ بتوں کے پوجنے والے مشرکین کو مقابلے کی دعوت ہے، اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿ إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ عِبَادٌ أَمْثَالُكُمْ﴾جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو، تم جیسے ہی بندے ہیں“ انکے اور تمہارے درمیان کوئی فرق نہیں، تم سب اللہ تعالیٰ کے بندے اور اس کے غلام ہو۔ اگر تم اپنے آپ کو سچا سمجھتے ہو کہ یہ ہستیاں جن کو تم نے معبود بنا رکھا ہے عبادت کی مستحق ہیں ﴿ فَادْعُوهُمْ فَلْيَسْتَجِيبُوا لَكُمْ﴾” تو تم انہیں پکارو، پس چاہئے کہ وہ تمہاری پکار کا جواب دیں“ پس اگر وہ تمہاری پکار کا جواب دے دیں اور تمہارا مطلوب حاصل ہوجائے۔۔۔ ورنہ ثابت ہوگیا کہ تم اپنے دعوے میں جھوٹے ہو اور اللہ تعالیٰ پر بہت بڑا بہتان لگا رہے ہو۔ یہ چیز کوئی وضاحت کی محتاج نہیں، کیونکہ اگر تم ان کی طرف دیکھو تو ان کی شکل ہی دلالت کرتی ہے کہ ان کے پاس کوئی نفع مند چیز نہیں۔۔۔ ان کے پاس چلنے کے لئے پاؤں، پکڑنے کے لئے ہاتھ، دیکھنے کے لئے آنکھیں اور سننے کیلئے کان نہیں۔ یہ تمام اعضاء و قویٰ سے محروم ہیں جو انسان میں موجود ہوتے ہیں۔ جب تم انہیں پکارتے ہو تو یہ جواب نہیں دے سکتے۔ تو یہ تمہاری ہی مانند بندے ہیں بلکہ تم ان سے زیادہ کامل اور ان سے زیادہ طاقت ور ہو۔ تب کس بنا پر تم ان کی عبادت کرتے ہو؟ الاعراف
195 ﴿ قُلِ ادْعُوا شُرَكَاءَكُمْ ثُمَّ كِيدُونِ فَلَا تُنظِرُونِ﴾’’کہہ دیجیے ! پکارو اپنے شریکوں کو، پھر برائی کرو میرے حق میں اور مجھ کو ڈھیل نہ دو“ یعنی اگر تمہارے معبود اور تم خود مجھے برائی اور تکلیف پہنچانے کے لئے اکٹھے ہوجاؤ اور مجھے کوئی ڈھیل اور مہلت بھی نہ دو، تب بھی تم مجھے کوئی تکلیف نہ پہنچا سکو گے۔ الاعراف
196 ﴿إِنَّ وَلِيِّيَ اللَّـهُ﴾ ” میرا حمایتی تو اللہ ہے“ جو میری سرپرستی کرتا ہے‘ پس مجھے ہر قسم کی منفعت عطا کرتا ہے اور ہر قسم کے ضرر سے بچاتا ہے۔ ﴿الَّذِي نَزَّلَ الْكِتَابَ﴾ ” جس نے کتاب نازل فرمائی۔“ جس میں ہدایت، شفا اور روشنی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی اپنے خاص بندوں کی دینی تربیت کے لئے سرپرستی ہے۔ ﴿وَهُوَ يَتَوَلَّى الصَّالِحِينَ﴾ ” اور وہ حمایت کرتا ہے نیک بندوں کی“ وہ لوگ جن کی نیتیں، اعمال اور اقوال پاک ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ﴿اللَّـهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا يُخْرِجُهُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ﴾(البقرہ :2؍257) ” اللہ تعالیٰ ان لوگوں کا دوست اور سرپرست ہے جو ایمان لائے، وہ انہیں اندھیروں سے نکال کر روشنی میں لاتا ہے۔ “ پس صالح مومن، جب ایمان اور تقویٰ کے ذریعے سے اپنے رب کو اپنا دوست اور سرپرست بنا لیتے ہیں اور کسی ایسی ہستی کو اپنا دوست نہیں بناتے جو کسی کو نفع پہنچا سکتی ہے نہ نقصان، تو اللہ تعالیٰ ان کا دوست اور مددگار بن جاتا ہے، ان کو اپنے لطف و کرم سے نوازتا ہے، ان کے دین و دنیا کی بھلائی اور مصالح میں ان کی مدد کرتا ہے اور ان کے ایمان کے ذریعے سے ان سے ہر ناپسندیدہ چیز کو دور کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿إِنَّ اللَّـهَ يُدَافِعُ عَنِ الَّذِينَ آمَنُوا ۗ﴾ (الحج :22؍38) ” اللہ تعالیٰ اہل ایمان سے ان کے دشمنوں کو ہٹاتا ہے۔ “ الاعراف
197 یہ آیت بھی ان بتوں کی عبادت کے عدم استحقاق کو بیان کرتی ہے جن کی یہ لوگ اللہ کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہیں، کیونکہ یہ خود اپنی مدد کرنے کی استطاعت اور قدرت رکھتے ہیں نہ اپنے عبادت گزاروں کی مدد کرسکتے ہیں۔ ان میں قوت عقل ہے نہ جواب دینے کی طاقت۔ اگر تو ان کو ہدایت کی طرف بلائے تو ان کی طرف نہیں آئیں گے کیونکہ یہ تو زندگی کے بغیر محض تصویریں ہیں تو ان کو دیکھے گا کہ گویا وہ تیری طرف دیکھ رہے ہیں مگر حقیقت میں وہ دیکھ نہیں سکتے، کیونکہ مصوروں نے ان کو انسانوں وغیرہ جانداروں کی صورت دی ہے، ان کی آنکھیں اور دیگر اعضاء بنائے ہیں۔ جب تو ان کی طرف دیکھے گا تو کہہ اٹھے گا کہ یہ زندہ ہیں مگر جب تو ان کو غور سے دیکھے گا تو پہچان لے گا کہ یہ تو جامد پتھر ہیں جن میں کوئی حرکت ہے نہ زندگی۔ تب کس بنا پر مشرکین نے ان کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ الٰہ ٹھہرا لیا؟ کو نسی مصلحت اور کون سے فائدے کی خاطر یہ لوگ ان کے پاس اعتکاف کرتے ہیں اور مختلف عبادات کے ذریعے سے ان کا تقرب حاصل کرتے ہیں؟ جب اس چیز کی معرفت حاصل ہوگئی تو یہ بات واضح ہوگئی کہ ا گر مشرکین اور ان کے معبود، جن کی یہ عبادت کرتے ہیں، اکٹھے ہو کر ان لوگوں کے خلاف چالیں چل لیں جن کو زمین اور آسمانوں کی تخلیق کرنے والے نے اپنی سرپرستی میں لے رکھا ہے اور اپنے نیک بندوں کے احوال کا والی ہے، وہ اپنی چال سے ذرہ بھر نقصان پہنچانے پر قادر نہیں کیونکہ وہ کامل طور پر عاجز اور ان کے معبود بھی عاجز ہیں اور اللہ تبارک و تعالیٰ پوری قوت اور کامل اقتدار کا مالک ہے اور وہ شخص بھی قوی ہے جو اس کے جلال کی پناہ لیتا اور اس پر بھروسہ کرتا ہے۔ الاعراف
198 کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿وَتَرَاهُمْ يَنظُرُونَ إِلَيْكَ وَهُمْ لَا يُبْصِرُونَ﴾میں ضمیر مشرکین کی طرف لوٹتی ہے جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کی (تب اس کے معنی یہ ہوں گے) اے اللہ کے رسول ! آپ سمجھتے ہیں کہ مشرکین آپ کو اعتبار کی نظر سے دیکھتے ہیں تاکہ جھوٹے میں سے سچے کا امتیاز ہوسکے۔ مگر وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقت کو نہیں دیکھ سکتے اور وہ جمال و کمال اور صدق کی ان علامتوں کو نہیں دیکھ سکتے جن کے ذریعے سے پہچاننے والے حقیقت کو پہچانتے ہیں۔ الاعراف
199 یہ آیت کریمہ لوگوں کے ساتھ حسن اخلاق اور ان کے ساتھ رویئے کے بارے میں جامع آیت ہے۔ لوگوں کے ساتھ معاملے میں مناسب رویہ یہ ہے کہ ان کے ساتھ عفو و درگزر، آسان اعمال و اخلاق اور نرمی سے پیش آیا جائے، ان کو کسی ایسی بات کا مکلف نہ کیا جائے جس کو ان کی طبائع قبول نہ کریں بلکہ ہر شخص کی بات اور اچھے یا برے فعل کو قبول کیا جائے، ان کی کوتاہی سے درگزر کیا جائے اور ان کے نقائص سے چشم پوشی کی جائے۔ کسی چھوٹے کے ساتھ اس کے چھوٹا ہونے، کسی ناقص العقل کے ساتھ اس کے نقص اور کسی محتاج کے ساتھ اس کی محتاجی کی بنا پر تکبر سے پیش نہ آیا جائے، بلکہ تمام لوگوں کے ساتھ لطف و کرم کا اور احوال کے تقاضے کے مطابق معاملہ کیا جائے کہ جس سے ان کے سینے کھل جائیں۔ ﴿وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ﴾ ” اور حکم کیجیے نیک کام کرنے کا“ یعنی ہر قریب اور بعید شخص کو اچھی بات، اچھے فعل اور کامل اخلاق کا حکم دیجیے۔ آپ جو کچھ لوگوں کو عطا کریں وہ تعلیم علم ہو یا کسی بھلائی کی ترغیب دینا، جیسے صلہ رحمی یا والدین کے ساتھ حسن سلوک یا لوگوں کے درمیان صلح کروانا یا نفع بخش خیر خواہی یا صائب رائے یا نیکی اور تقویٰ پر معاونت یا برائی پر زجر و توبیخ یا کسی دینی یا دنیاوی بھلائی کی طرف راہنمائی۔ چونکہ جاہل کی طرف سے تکلیف اور اذیت کا پہنچنا ایک لابدی امر ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ جاہل سے اعراض اور درگزر سے کام لیا جائے اور اس کی جہالت کا مقابلہ نہ کیا جائے۔ پس جو کوئی آپ کو اپنے قول و فعل سے اذیت دیتا ہے آپ اس کو اذیت نہ دیں، جو آپ کو محروم کرتا ہے آپ اس کو محروم نہ کریں، جو آپ سے قطع تعلق کرتا ہے آپ اس سے تعلق جوڑے رکھیں اور جو آپ پر ظلم کرتا ہے آپ اس کے ساتھ انصاف کریں۔ رہی یہ بات کہ بندہ مومن کو شیاطین جنوں اور انسانوں کے ساتھ کیسا معاملہ کرنا چاہئے؟ تو ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : الاعراف
200 ﴿يَنزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطَانِ نَزْغٌ﴾” ابھارے آپ کو شیطان کی چھیڑ“ یعنی کسی وقت اور کسی حال میں بھی اگر آپ شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ، بھلائی کے راستے میں رکاوٹ، برائی کی ترغیب اور اکتاہٹ محسوس کریں ﴿فَاسْتَعِذْ بِاللَّـهِ﴾ ” تو اللہ تعالیٰ کی پناہ لیجیے“ اور اس کی حفاظت میں آ کر محفوظ ہوجایئے ﴿إِنَّهُ سَمِيعٌ﴾ ” بے شک وہ سننے والا ہے۔“ آپ جو کچھ کہتے ہیں اللہ اسے سنتا ہے۔ ﴿عَلِيمٌ ﴾ ” جاننے والا ہے۔“ آپ کی نیت، آپ کی کمزوری اور آپ کی پناہ لینے کی قوت کو خوب جانتا ہے، وہ آپ کو اس کے فتنے سے محفوظ رکھے گا اور آپ کو اس کے وسوسوں سے بچائے گا۔ جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا ہے : ﴿ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ مَلِكِ النَّاسِ إِلَـٰهِ النَّاسِ مِن شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ الَّذِي يُوَسْوِسُ فِي صُدُورِ النَّاسِ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ﴾(الناس:114؍1۔6)’’کہو میں پناہ مانگتا ہوں لوگوں کے رب کی، لوگوں کے بادشاہ حقیقی کی، لوگوں کے معبود کی، شیطان وسوسہ انداز کی برائی سے، شیطان پیچھے ہٹ جانے والے سے جو لوگوں کے سینوں میں وسوسہ اندازی کرتا ہے خواہ وہ شیطان جنوں میں سے ہو یا انسانوں میں سے۔ “ جب بندے کا غافل ہوجانا اور اس شیطان کا اس کو کچھ نہ کچھ شکار کرلینا لازمی امر ہے، جو ہمیشہ گھات لگائے رہتا اور بندے کی غفلت کا منتظر رہتا ہے، تو اب اللہ تعالیٰ نے گمراہ کرنے والوں سے بچ جانے والوں کی علامت ذکر کی ہے۔۔۔ اور صاحب تقویٰ جب شیطانی وسوسے کو محسوس کرلیتا ہے اور وہ کسی فعل واجب کو ترک کر کے یا کسی فعل حرام کا ارتکاب کر کے گناہ کر بیٹھتا ہے تو فوراً اسے تنبیہ ہوتی ہے، وہ غور کرتا ہے کہ شیطان کہاں سے حملہ آور ہوا ہے اور کون سے دروازے سے داخل ہوا ہے۔ وہ ان تمام لوازم ایمان کو یاد کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس پر واجب قرار دیئے ہیں تو اسے بصیرت حاصل ہوجاتی ہے، وہ اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتا ہے اور جو اس سے کوتاہی واقع ہوئی ہے، توبہ اور نیکیوں کی کثرت کے ذریعے سے اس کی تلافی کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ پس وہ شیطان کو ذلیل و رسوا کر کے دھتکار دیتا ہے اور شیطان نے اس سے جو کچھ حاصل کیا ہوتا ہے، اس پر پانی پھیر دیتا ہے۔ رہے شیاطین کے بھائی اور ان کے دوست، تو یہ جب کسی گناہ میں پڑجاتے ہیں تو یہ اپنی گمراہی میں بڑھتے ہی چلے جاتے ہیں، گناہ پر گناہ کرتے ہیں اور گناہ کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں کرتے، پس شیاطین بھی ان کو بدر اہ کرنے میں کوتاہی نہیں کرتے کیونکہ جب وہ دیکھتے ہیں کہ وہ نہایت آسانی سے ان کے تابع ہوجاتے ہیں اور برائی کے ارتکاب میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں کرتے، تو وہ ان کی بدراہی کے بہت، خواہش مند ہوجاتے ہیں۔ الاعراف
201 الاعراف
202 الاعراف
203 یہ جھٹلانے والے آپ کے ساتھ عناد رکھتے ہی رہیں گے خواہ ان کے پاس رشد و ہدایت پر کتنے ہی دلائل کیوں نہ آجائیں۔ پس جب آپ ان کو کوئی ایسی دلیل دیتے ہیں جو آپ کی صداقت پر دلالت کرتی ہے، تو یہ اسے تسلیم نہیں کرتے۔﴿وَإِذَا لَمْ تَأْتِهِم بِآيَةٍ﴾ ” اور جب تم ان کے پاس کوئی آیت نہیں لاتے۔“ یعنی جب ان کے حسب خواہش آیات و معجزات نہیں لاتے ﴿قَالُوا لَوْلَا اجْتَبَيْتَهَا﴾ ” تو کہتے ہیں کہ تم نے (اپنی طرف سے) کیوں نہیں بنا لی۔“ یعنی کہتے ہیں کہ تم فلاں آیت اور فلاں معجزہ کیوں نہیں لاتے گویا کہ آیات اور معجزات آپ نازل کرتے ہیں اور تمام مخلوقات کی تدبیر آپ کرتے ہیں۔ حالانکہ انہیں اس بات کا علم نہیں کہ آپ تو کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتے۔۔۔ (یا وہ یوں کہتے ہیں کہ) تم نے ان آیات کو اپنے پاس سے کیوں نہیں گھڑ لیا۔ ﴿قُلْ إِنَّمَا أَتَّبِعُ مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ مِن رَّبِّي﴾” کہہ دیجیے کہ میں تو اس حکم کی اتباع کرتا ہوں جو میرے رب کی طرف سے میرے پاس آتا ہے۔“ پس میں تو اللہ تعالیٰ کا تابع فرمان بندہ اور اس کے دست تدبیر کے تحت ہوں۔ وہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جو معجزات نازل کرتا ہے وہ اپنی حمد و ثنا اور حکمت بالغہ کے تقاضوں کے مطابق آیات اور معجزات بھیجتا ہے۔ اگر تم ایسی نشانی اور معجزہ چاہتے ہو جو مرور اوقات کے ساتھ کمزور نہ ہو اور ایسی حجت چاہتے ہو جو کسی بھی لمحہ باطل نہ ہو، تو ﴿هَـٰذَا﴾ ” یہ“ قرآن عظیم اور ذکر حکیم ﴿بَصَائِرُ مِن رَّبِّكُمْ ﴾ ” تمہارے رب کی طرف سے دانائی ہے“ جن کے ذریعے سے الٰہی مطالب اور انسانی مقاصد کو پرکھا جاتا ہے۔ یہ قرآن عظیم دلیل اور مدلول ہے۔ جو کوئی اس میں تدبر کرتا ہے تو اسے معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ اللہ، حکمت والے اور قابل تعریف کی طرف سے نازل کردہ ہے، باطل جس کے سامنے سے آسکتا ہے نہ پیچھے سے اور یہ قرآن ہر اس شخص کے خلاف حجت ہے جس کے پاس یہ پہنچتا ہے۔ مگر اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے۔ ورنہ جو کوئی اس پر ایمان لاتا ہے ﴿ وَهُدًى﴾” اور ہدایت ہے“ تو یہ قرآن گمراہی کے اندھیرے میں اس کے لئے ہدایت کا نور ہے﴿ وَرَحْمَةٌ ﴾” اور رحمت ہے“ اور بدبختیوں میں اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے۔ پس مومن قرآن سے راہنمائی حاصل کرتا ہے اور اس کی اتباع کرتا ہے، اپنی دنیا و آخرت میں سعادت مند ہے اور جو کوئی اس پر ایمان نہیں لاتا وہ دنیا و آخرت میں گمراہ اور بدبخت ہے۔ الاعراف
204 یہ ہر اس شخص کے لئے ایک عام حکم ہے جو کتاب اللہ کی تلاوت سنتا ہے، وہ اسے غور سے سننے اور خاموش رہنے پر امور ہے۔ استماع اور انصات کے درمیان فرق یہ ہے کہ﴿ انْصَات﴾” چپ رہنا‘ ظاہر میں بات چیت اور ایسے امور میں مشغولیت کو ترک کرنے کا نام ہے جن کی وجہ سے وہ غور سے سن نہیں سکتا اور ﴿ اسْتِماع﴾” سننا“ یہ ہے کہ سننے کے لئے پوری توجہ مبذول کی جائے، قلب حاضر ہو اور جو چیز سنے اس میں تدبر کرے۔ کتاب اللہ کی تلاوت کے وقت جو کوئی ان دونوں امور کا التزام کرتا ہے وہ خیر کثیر، بے انتہا علم، دائمی تجدید شدہ ایمان، بہت زیادہ ہدایت اور دین میں بصیرت سے بہرہ ور ہوتا ہے۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے حصول رحمت کو ان دونوں امور پر مترتب قرار دیا ہے اور یہ امر اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ جس کے سامنے کتاب اللہ کی تلاوت کی جائے اور وہ اسے غور سے نہ سنے اور خاموش نہ رہے تو رحمت کے بہت بڑے حصے سے محروم ہوجاتا ہے، وہ خیر کثیر حاصل نہیں کر پاتا اور قرآن سننے والے کو سخت تاکید ہے کہ جہری نمازوں میں، جب کہ امام قراءت کرے، وہ توجہ سے سنے اور خاموش رہے، کیونکہ اسے چپ رہنے کا حکم ہے۔ یہاں تک کہ اکثر اہل علم کی رائے ہے کہ نماز کے اندر امام کی قراءت کے وقت خاموش رہنا سورۃ فاتحہ وغیرہ پڑھنے سے اولیٰ ہے۔ [یہ مؤلف کتاب کی اپنی رائے ہے، اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے، مرحوم کی یہ رائے صحیح نہیں، کیونکہ یہ نصوص صریحہ کے خلاف ہے۔ احادیث میں وضاحت موجود ہے کہ امام ہر آیت پر وقف کر کے سورۃ فاتحہ پڑھے اور اس وقفے میں مقتدی بھی سورۃ فاتحہ پڑھتے جائیں۔ کیونکہ سورۃ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔ اس طرح وقفوں اور سکتات میں سورۃ فاتحہ پڑھنے سے استماع اور انصات کی بھی خلاف ورزی نہیں ہوتی اور حدیث پر بھی عمل ہوجاتا ہے، ہاں ! البتہ سورۃ فاتحہ کے علاوہ کچھ اور پڑھنا جائز نہیں۔ (ص۔ ی)] الاعراف
205 اللہ تبارک و تعالیٰ کا ذکر قلب کے ذریعے سے، زبان کے ذریعے سے اور قلب اور زبان دونوں کے ذریعے سے ہوتا ہے اور یہ ذکر اپنی نوع اور احوال کے اعتبار سے کامل ترین ذکر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے اور رسول جناب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو اصلاً اور دیگر اہل ایمان کو تبعاً حکم دیا ہے کہ وہ نہایت اخلاص کے ساتھ اپنے دل میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کریں۔ ﴿ تَضَرُّعًا﴾ ” عاجزی اور تذلل سے“ ذکر کی مختلف انواع کے تکرار کے ساتھ اپنی زبان سے ذکر کریں ﴿ وَخِيفَةً ﴾ ” اور ڈرتے ہوئے“ اور آپ کی حالت یہ ہونی چاہئے کہ آپ اپنے دل میں، اللہ تعالیٰ سے خائف اور ڈرتے ہوں مبادا کہ آپ کا عمل قبول نہ ہو اور اللہ تعالیٰ کے خوف کی علامت یہ ہے کہ بندہ خیر خواہی کے ساتھ اپنے عمل کی اصلاح اور تکمیل میں پیہم کوشاں رہتا ہے۔ ﴿وَدُونَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ ﴾ ” اور ایسی آواز سے جو کہ پکار کر بولنے سے کم ہو“ یعنی متوسط رویہ اختیار کیجیے ﴿وَلَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِكَ وَلَا تُخَافِتْ بِهَا وَابْتَغِ بَيْنَ ذَٰلِكَ سَبِيلًا﴾(بنی اسرائیل:17؍110)” اپنی نماز بلند آواز سے پڑھئے نہ بہت آہستہ آواز سے بلکہ درمیان کا راستہ اختیار کیجیے۔“﴿ بِالْغُدُوِّ﴾ ” دن کے ابتدائی حصے میں“ ﴿وَالْآصَالِ ﴾ ” اور دن کے آخری حصے میں۔“ ان دونوں اوقات کو دیگر اوقات پر فضیلت حاصل ہے۔ ﴿وَلَا تَكُن مِّنَ الْغَافِلِينَ﴾” اور غفلت کرنے والوں میں سے نہ ہوں“ یعنی وہ لوگ جنہوں نے اللہ تعالیٰ کو فراموش کردیا اور اللہ تعالیٰ نے ان کا یہ حال کردیا کہ وہ اپنے آپ کو بھول گئے۔ پس وہ دنیا اور آخرت کی بھلائی سے محروم ہوگئے۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے ذکر اور اس کی عبودیت میں ہر فلاح و سعادت سے روگردانی کی اور اللہ تعالیٰ کے ذکر میں ہر بدبختی اور ناکامی کی طرف متوجہ رہے۔ یہ وہ آداب ذکر ہیں جن کے بندے کو رعایت رکھنی چاہئے جیسا کہ رعایت رکھنے کا حق ہے یعنی دن اور رات کے اوقات میں، خاص طور پر دن کے دونوں کناروں میں، نہایت اخلاص، خشوع و خضوع، عاجزی، تذلل کے ساتھ، پرسکون حالت میں، قلب و لسان کو ایک دوسرے سے ہم آہنگ کرتے ہوئے، نہایت ادب ووقار سے اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا جائے اور بہت توجہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا ذکر اور اس سے دعا کی جائے۔ غفلت کو دور کر کے حضور قلب کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے دعا کی جائے، کیونکہ اللہ تعالیٰ غافل اور مشغول دل کے ساتھ کی ہوئی دعا کو قبول نہیں فرماتا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا کہ اس کے کچھ ایسے بندے بھی ہیں جو ہمیشہ اس کی عبادت اور خدمت میں مصروف رہتے ہیں۔۔۔ اور وہ ہیں اللہ تعالیٰ کے فرشتے۔۔۔ تاکہ تمہیں معلوم ہو کہ اللہ تعالیٰ تمہاری کثرت عبادت سے کوئی کمی پوری کرنی چاہتا ہے نہ تمہاری عبادت کے ذریعے سے ذلت سے نکل کر معزز ہونا چاہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ تمہاری عبادت کے ذریعے سے تمہیں ہی فائدہ دینا چاہتا ہے تاکہ تم اس کے ہاں اپنے اعمال سے کئی گنا زیادہ نفع حاصل کرسکو۔ الاعراف
206 بنا بریں فرمایا : ﴿إِنَّ الَّذِينَ عِندَ رَبِّكَ﴾ ” وہ لوگ جو آپ کے رب کے پاس ہیں“ یعنی اللہ تعالیٰ کے مقرب فرشتے، عرش الٰہی کو اٹھانے والے فرشتے اور اس کے اشراف فرشتے ﴿لَا يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِهِ ﴾ اس کی عبادت سے تکبر نہیں کرتے“ بلکہ اس کی عبادت کے لئے سرافگندہ اور اپنے رب کے احکام کے سامنے مطیع ہیں ﴿وَيُسَبِّحُونَهُ﴾ ” اور اس کی تسبیح بیان کرتے ہیں۔“ رات دن اس کی تسبیح میں مگن رہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ پر افترا پردازی نہیں کرتے۔ ﴿ وَلَهُ﴾ ” اور اس کے لئے“ یعنی اللہ وحدہ لاشریک کے لئے ﴿ يَسْجُدُونَ ﴾ ” سجدے کرتے ہیں۔“ پس بندوں کو ان ملائکہ کرام کی پیروی کرنی چاہئے اور ہمیشہ اللہ علم والے بادشاہ حقیقی کی عبادت میں مصروف رہنا چاہئے۔ الاعراف
0 الانفال
1 ﴿الْأَنفَالِ﴾ سے مراد غنائم ہیں جو اللہ تعالیٰ نے کفار کے مال میں سے امت کو عطا کی ہیں۔ اس سورۃ مبارکہ کی یہ آیات کریمات غزوہ بدر کے بارے میں نازل ہوئیں۔ غزوہ بدر میں مسلمانوں کو کفار سے اولین مال غنیمت حاصل ہوا، تو اس کے بارے میں بعض مسلمانوں میں نزاع واقع ہوگیا چنانچہ انہوں نے اس بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے استفسار کیا۔ پس اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں۔ ﴿يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَنفَالِ﴾ ” وہ آپ سے غنیمتوں کے بارے میں پوچھتے ہیں“ ان کو کیسے تقسیم کیا جائے اور انہیں کن لوگوں میں تقسیم کیا جائے۔ ﴿قُلِ ﴾ آپ ان سے کہہ دیجیے !﴿الْأَنفَالُ لِلَّـهِ وَالرَّسُولِ﴾ ” غنیمتیں اللہ اور رسول کے لئے ہیں“ وہ جہاں چاہیں گے ان غنائم کو خرچ کریں گے۔ پس تمہیں اللہ اور اس کے رسول کے فیصلے پر اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں، بلکہ تم پر فرض ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسول فیصلہ کردیں تو تم ان کے فیصلے پر راضی رہو اور ان کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کر دو اور یہ چیز اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں داخل ہے۔﴿فَاتَّقُوا اللَّـهَ﴾ ” پس اللہ سے ڈور“ اس کے احکام کی تعمیل اور اس کے نواہی سے اجتناب کر کے۔ ﴿وَأَصْلِحُوا ذَاتَ بَيْنِكُمْ﴾” اور صلح کرو آپس میں“ یعنی تم آپس کے بغض، قطعی تعلقی اور ایک دوسرے سے پیٹھ پھیرنے کی، آپس کی مودت، محبت اور میل جول کے ذریعے سے اصلاح کرو۔ اس طرح تم میں اتفاق پیدا ہوگا اور قطع تعلق، مخاصمت اور آپس کے لڑائی جھگڑے کی وجہ سے جو نقصان پہنچا ہے اس کا ازالہ ہوجائے گا۔ آپس کے معاملات کی اصلاح میں حسن اخلاق اور برا سلوک کرنے والوں سے درگزر کا بہت بڑا دخل ہے اس سے دلوں کا بغض اور نفرت دور ہوجاتی ہے اور ان تمام باتوں کی جامع بات یہ ہے﴿وَأَطِيعُوا اللَّـهَ وَرَسُولَهُ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ﴾اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو، اگر تم مومن ہو“ کیونکہ ایمان اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت کا تقاضا کرتا ہے جیسے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت نہیں کرتا وہ مومن نہیں، جس کی اطاعت الٰہی اور اطاعت رسول ناقص ہے اس کا ایمان بھی اتنا ہی ناقص ہے۔ چونکہ ایمان کی دو قسمیں ہیں : (١) ایمان کامل، جس پر مدح و ثنا اور کامل فوز و فلاح مترتب ہوتی ہے۔ (٢) نقاص ایمان الانفال
2 تو اس کامل ایمان کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : ﴿إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ﴾ ” مومن تو صرف وہ ہیں“ الف لام استغراق کے لئے ہے جو تمام شرائع ایمان کو شامل ہے ﴿ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللَّـهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ﴾ ” کہ جب ذکر کیا جائے اللہ کا، تو ڈر جائیں دل ان کے“ یعنی ان کے دل ڈر جاتے ہیں اور یہ ڈر خشیت الٰہی اور محارم سے اجتناب کا موجب بنتا ہے، کیونکہ خوف الٰہی گناہوں سے باز آنے کی سب سے بڑی علامت ہے۔ ﴿وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ آيَاتُهُ زَادَتْهُمْ إِيمَانًا﴾ ” اور جب ان پر اس کی آیات پڑھی جائیں تو زیادہ کردیتی ہیں ان کو ایمان میں“ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ آیات الٰہی کو حضور قلب کے ساتھ غور سے سنتے ہیں تاکہ وہ ان میں غور و فکر کریں جس سے ان کے ایمان میں اضافہ ہو کیونکہ تدبر، اعمال قلوب میں شمار ہوتا ہے، نیز ان کے لئے معانی کی بھی توضیح ہوتی ہے جن سے وہ لاعلم ہیں اور ان کو ان امور کی یاد دہانی ہوتی ہے جن کو وہ فراموش کرچکے ہیں یا ان کے دلوں میں نیکیوں کی رغبت پیدا ہوتی ہے اور اپنے رب کے اکرام و تکریم کے حصول کا شوق پیدا ہوتا ہے یا ان کے دل میں عذاب سے خوف اور معاصی سے ڈرپیدا ہوتا ہے اور ان تمام امور سے ایمان پڑھتا ہے۔ ﴿وَعَلَىٰ رَبِّهِمْ ﴾ ” اور اپنے رب پر‘‘ یعنی اپنے رب وحدہ لاشریک پر ﴿يَتَوَكَّلُونَ﴾ ” وہ بھروسہ کرتے ہیں“ یعنی اپنے مصالح کے حصول اور دینی اور دنیاوی مضرتوں کو دور کرنے میں اپنے دلوں میں اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں اور انہیں پورا وثوق ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ کام ضرور کرے گا۔ توکل ہی انسانوں کو تمام اعمال پر آمادہ کرتا ہے تو کل کے بغیر اعمال وجود میں آتے ہیں نہ تکمیل پا سکتے ہیں۔ الانفال
3 ﴿الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ﴾” جو نماز پڑھتے ہیں۔“ فرض اور نفل نماز کو، اس کے ظاہری اور باطنی اعمال، مثلاً حضور قلب جو کہ نماز کی روح اور اس کا مغز ہے، کے ساتھ قائم کرتے ہیں ﴿وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ ﴾” اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے، اس میں سے وہ خرچ کرتے ہیں“ یعنی وہ نفقات واجبہ مثلاً زکوۃ، کفارہ، بیویوں، اقارب اور غلاموں پر خرچ کرتے ہیں اور نفقات مستحبہ مثلاً بھلائی کے تمام راستوں میں صدقہ کرتے ہیں۔ الانفال
4 ﴿أُولَـٰئِكَ﴾ یعنی وہ لوگ جو ان صفات سے متصف ہیں ﴿ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا﴾ ” وہی حقیقی مومن ہیں“ کیونکہ انہوں نے اسلام اور ایمان، اعمال باطنہ اور اعمال ظاہرہ، علم اور عمل اور حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کو جمع کیا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اعمال قلوب کو مقدم کرکھا ہے، کیونکہ اعمال قلوب، اعمال جوارح کی بنیاد اور ان سے افضل ہیں۔ اس آیت کریمہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ ایمان گھٹتا اور بڑھتا ہے۔ نیکی کے افعال سے ایمان پڑھتا ہے اور اس کے متضاد افعال سے ایمان گھٹتا ہے، نیز بندے کو چاہئے کہ وہ اپنے ایمان کی حفاظت کرے اور اس کو نشو و نما دے اور یہ مقصد کتاب اللہ میں تدبر اور اس کے معانی میں غور و فکر کرنے سے بدرجہ اولیٰ حاصل ہوتا ہے۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اہل ایمان کے لئے حقیقی ثواب کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ لَّهُمْ دَرَجَاتٌ عِندَ رَبِّهِمْ﴾” اور ان کے لئے ان کے رب کے ہاں درجات ہیں۔“ یعنی ان کے اعمال کے مطابق ان کے درجات بلند ہوں گے۔ ﴿ وَمَغْفِرَةٌ ﴾ اور ان کے گناہوں کی بخشش ﴿وَرِزْقٌ كَرِيمٌ﴾ ” اور عزت کی روزی“ یہ وہ روزی ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے اکرام و عزت والے گھر میں اہل ایمان کے لئے تیار کر رکھی ہے جو کسی آنکھ نے دیکھی ہے نہ کسی کان نے سنی ہے اور نہ کسی بشر کا طائر خیال وہاں تک پہنچا ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ جو کوئی ایمان میں ان کے درجے تک نہیں پہنچ پاتا، وہ اگرچہ جنت میں داخل ہوجائے گا مگر اللہ تعالیٰ کی کرامت تامہ جو انہیں حاصل ہوئی ہے، اسے حاصل نہیں ہوگی۔ الانفال
5 اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس عظیم اور مبارک غزوہ کے ذکر سے قبل، اہل ایمان کی صفات بیان فرمائی ہیں جن کو انہیں اختیار کرنا چاہئے، کیونکہ جو کوئی ان صفات کو اختیار کرتا ہے، اس کے احوال میں استقامت آجاتی ہے اور اس کے اعمال درست ہوجاتے ہیں۔ جن میں سب سے بڑا عمل جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ پس جیسے ان کا ایمان، سچا اور حقیقی ایمان ہے ان کے لئے جزا بھی حقیقی ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ کر رکھا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بدر کے مقام پر مشرکین کے ساتھ معرکہ آرائی کرنے کے لئے اس حق کے ساتھ باہر نکالا، جس حق کو اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے اور اس معرکے کو اللہ تعالیٰ نے مقدر کر رکھا تھا اگرچہ گھر سے نکلنا اور اپنے دشمن کے خلاف لڑنا کبھی ان کے حاشیہ خیال میں بھی نہ آیا تھا۔ جب ان پر یہ بات واضح ہوگئی کہ یہ معرکہ ہو کر رہے گا تو مومنوں میں سے ایک گروہ نے اس بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جھگڑنا شروع کردیا، وہ دشمن کا مقابلہ کرنے کو ناپسند کرتے تھے، گویا کہ ان کو، ان کے دیکھتے ہوئے، موت کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ حالانکہ یہ رویہ ان کو زیب نہیں دیتا تھا خاص طور پر جب ان پر واضح ہوگیا تھا کہ ان کا گھر سے نکلنا حق پر مبنی ہے، یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے اور وہ اس پر راضی ہے۔ اس صورتحال میں یہ بحث کرنے کا مقام نہیں تھا بحث کرنے کا محل و مقام وہ ہوتا ہے جہاں حق میں اشتباہ اور معاملے میں التباس ہو، وہاں بحث کرنا مفید ہوتا ہے، لیکن جب حق واضح اور ظاہر ہوجائے تو اس کی اطاعت اور اس کے سامنے سرافگندہ ہونے کے سوا کوئی اور صورت نہیں رہتی۔ یہ تو تھی ان لوگوں کی بات، مگر اکثر اہل ایمان نے اس بارے میں کسی قسم کی بحث نہیں کی اور نہ انہوں نے دشمن کا مقابلہ کرنے کو ناپسند کیا۔ اس طرح وہ لوگ جن پر اللہ تعالیٰ نے عتاب فرمایا تھا انہوں نے جہاد کے لئے سرتسلیم خم کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو ثابت قدمی عطا فرمائی اور ان کو وہ اسباب مہیا فرمائے جن سے ان کے دل مطمئن ہوگئے جیسا کہ ان میں سے بعض اسباب کا ذکر آئندہ سطور میں آئے گا۔ ان کا مدینہ منورہ سے باہر نکلنے کا اصل مقصد تو اس تجارتی قافلے کا راستہ روکنا تھا جو ابوسفیان کی قیادت میں قریش کا سامان تجارت لے کر شام گیا تھا، یہ ایک بہت بڑاقافلہ تھا۔ جب مسلمانوں کو قریش کے قافلے کی واپسی کی اطلاع ملی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قافلے کو روکنے کے لئے مسلمانوں کو اکٹھا کیا چنانچہ آپ کے ساتھ تین سو سے کچھ زائد مسلمان مدینہ منورہ سے نکلے۔ ستر اونٹوں کے ساتھ، جن پر وہ باری باری سوار ہوتے تھے اور ان پر انہوں نے اپنا سامان لادا ہوا تھا۔ قریش کو بھی مسلمانوں کے باہر نکلنے کی خبر پہنچ گئی، وہ اپنے تجارتی قافلے کو بچانے کے لئے کثیر تعداد میں جنگی ساز و سامان کی پوری تیاری، گھوڑ سواروں اور پیادوں کے ساتھ مکہ سے نکلے۔ ان کی تعداد تقریباً ایک ہزار تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کے ساتھ وعدہ فرمایا تھا کہ وہ ان دونوں گروہوں، یعنی قافلہ یا فوج میں سے ایک کے مقابلے میں ان کو فتح سے نوازے گا۔ مسلمانوں نے اپنی تنگ دستی کی وجہ سے قافلے کے ملنے کو پسند کیا، نیز قافلہ والوں کے پاس طاقت بھی زیادہ نہیں تھی مگر اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کے لئے اس امر کو پسند کیا جو اس سے اعلیٰ و افضل تھا جسے مسلمان پسند کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ وہ کفار کی فوج کے مقابلے میں ظفر یاب ہوں جس کے اندر کفار کے بڑے سردار اور بہادرشہسوار لڑنے کے لئے آئے تھے۔ الانفال
6 الانفال
7 ﴿وَيُرِيدُ اللَّـهُ أَن يُحِقَّ الْحَقَّ بِكَلِمَاتِهِ﴾ ” اور اللہ چاہتا تھا کہ سچا کر دے حق کو اپنے کلمات سے“ پس اس طرح وہ اہل حق کی مدد فرماتا ہے ﴿ وَيَقْطَعَ دَابِرَ الْكَافِرِينَ﴾ ” اور کاٹ ڈالے جڑ کافروں کی“ یعنی وہ اہل باطل کا استیصال کرتا ہے اور اپنے بندوں کو نصرت حق کا ایسا معاملہ دکھاتا ہے کہ جس کے بارے میں کبھی ان کے دل میں خیال بھی نہیں گزرا ہوتا الانفال
8 ﴿لِيُحِقَّ الْحَقَّ ﴾” تاکہ حق کو ثابت کر دے۔“ حق کی صحت اور صدقات کے شواہد اور براہین کو ظاہر کر کے ﴿وَيُبْطِلَ الْبَاطِلَ ﴾ ” اور باطل کو باطل کر دے۔“ اس کے بطلان پر دلائل اور شواہد قائم کر کے ﴿وَلَوْ كَرِهَ الْمُجْرِمُونَ﴾ ” خواہ مجرموں کو یہ بات ناپسند ہی کیوں نہ ہو“ پس اللہ تعالیٰ کو ان کی کوئی پروا نہیں۔ الانفال
9 یعنی اللہ تعالیٰ کی نعمت کو یاد کرو کہ جب اس نے دشمنوں کے ساتھ تمہاری مڈ بھیڑ کو یقینی اور قریب کردیا، تو تم نے اپنے رب کو مدد کے لئے پکارا اور اس سے اعانت اور نصرت کے طلب گار ہوئے۔﴿ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ﴾ ” پس اس نے تمہاری پکار کا جواب دیا“ اور متعدد امور کے ساتھ تمہاری مدد فرمائی، مثلاً اللہ تعالیٰ نے تمہاری مدد کے لئے فرشتوں کو بھیجا ﴿بِأَلْفٍ مِّنَ الْمَلَائِكَةِ مُرْدِفِينَ ﴾” ہزار فرشتے لگاتار آنے والے“ یعنی وہ پے در پے ایک دوسرے کے پیچھے آرہے تھے۔ الانفال
10 ﴿وَمَا جَعَلَهُ اللَّـهُ ﴾” اور نہیں بنایا اس کو اللہ نے“ یعنی فرشتوں کے نازل کرنے کو ﴿إِلَّا بُشْرَىٰ﴾ ” مگر خوش خبری“ تاکہ اس سے تمہارے دل خوشی حاصل کریں۔ ﴿وَلِتَطْمَئِنَّ بِهِ قُلُوبُكُمْ﴾ ” اور تمہارے دل مطمئن ہوں“ ورنہ فتح و نصرت تو اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے، فتح کثرت تعداد اور ساز و سامان سے حاصل نہیں ہوتی۔ ﴿إِنَّ اللَّـهَ عَزِيزٌ﴾” بے شک اللہ غالب ہے۔“ کوئی اس پر غالب نہیں آسکتا بلکہ وہی غالب ہے وہ جن لوگوں سے علیحدہ ہو کر ان کی مدد چھوڑ دیتا ہے خواہ ان کی تعداد کتنی ہی زیادہ اور آلات حرب خواہ کتنے ہی کیوں نہ ہوں (غلبہ حاصل نہیں کرسکتے) ﴿حَكِيمٌ﴾ ” حکمت والا ہے۔“ کیونکہ اس نے تمام امور کو ان کے اسباب کے ساتھ مقدر کیا ہے اور اس نے ہر چیز کو اس مقام پر رکھا ہے جو اس کے لئے مناسب ہے۔ الانفال
11 اس کی فتح و نصرت اور تمہاری دعا کی قبولیت یہ ہے کہ اس نے تم پر اونگھ نازل کردی﴿إِذْ يُغَشِّيكُمُ﴾ ” جو تمہیں ڈھانپ رہی تھی۔“ یعنی تمہارے دل میں جو ڈر اور خوف تھا اسے دور کر رہی تھی۔ ﴿ أَمَنَةً ﴾تمہارے لئے سکون کا باعث، فتح و نصرت اور اطمینان کی علامت تھی اور اس کی نصرت ہی کی ایک صورت یہ تھی کہ اس نے تم پر آسمان سے بارش نازل کی، تاکہ تم سے ناپاکی اور گندگی دور کر کے تمہیں پاک کرے اور شیطانی وسوسوں اور اس کی نجاست سے تمہاری تطہیر کرے۔﴿ وَلِيَرْبِطَ عَلَىٰ قُلُوبِكُمْ﴾ ” اور تمہارے دلوں کو مضبوط کر دے۔“ یعنی دلوں کو مضبوطی اور ثبات بخشے کیونکہ دل کی مضبوطی بدن کی مضبوطی ہے۔ ﴿ وَيُثَبِّتَ بِهِ الْأَقْدَامَ﴾” اور جما دے اس کے ذریعے سے تمہارے قدم“ کیونکہ زمین ہموار اور نرم تھی جب اس پر بارش نازل ہوئی تو سخت اور ٹھوس ہوگئی اور قدم مضبوطی سے جمنے لگے۔ الانفال
12 یہ بھی اللہ تعالیٰ کی نصرت تھی کہ اس نے فرشتوں کی طرف وحی بھیجی۔ ﴿أَنِّي مَعَكُمْ﴾ ” کہ میں تمہارے ساتھ ہوں۔“ یعنی میری مدد، نصرت اور تائید تمہارے ساتھ ہے۔ ﴿فَثَبِّتُوا الَّذِينَ آمَنُوا﴾ ” پس ثابت رکھو تم دل ایمان والوں کے“ یعنی دشمن کے مقابلے میں ان کے دلوں کو مضبوط کرو اور ان کے دلوں کو جرأت سے لبریز کر دو اور انہیں جہاد کی ترغیب دو ﴿سَأُلْقِي فِي قُلُوبِ الَّذِينَ كَفَرُوا الرُّعْبَ ﴾ ” میں ڈال دوں گا کافروں کے دلوں میں دہشت“ جو کافروں کے مقابلے میں تمہارا سب سے بڑا لشکر ہے، کیونکہ جب اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو ثابت قدمی عطا کرتا ہے اور کفار کے دلوں میں رعب ڈال دیتا ہے تو کفار ثابت قدم نہیں رہ سکتے اور اللہ تعالیٰ ان کی گردنیں اہل ایمان کے قبضے میں دے دیتا ہے۔ ﴿فَاضْرِبُوا فَوْقَ الْأَعْنَاقِ﴾’’پس تم ان کی گردنیں مارو“ ﴿وَاضْرِبُوا مِنْهُمْ كُلَّ بَنَانٍ ﴾ ” اور کاٹو ان کی پور پور“ یعنی ان کے جوڑ جوڑ پر ضرب لگاؤ۔۔۔۔۔۔ یہ خطاب یا تو ان فرشتوں سے ہے جن کی طرف وحی کی گئی تھی کہ وہ اہل ایمان کے دل مضبوط کریں، تب یہ اس بات کی دلیل ہے کہ غزوہ بدر میں فرشتے قتال میں شریک ہوئے۔۔۔ یا یہ خطاب اہل ایمان سے ہے۔ اللہ تعالیٰ اہل ایمان کا حوصلہ بڑھاتا ہے اور انہیں تعلیم دیتا ہے کہ وہ مشرکین کو کیسے قتل کریں اور یہ کہ وہ ان پر رحم نہ کریں۔ الانفال
13 ﴿ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ شَاقُّوا اللَّـهَ وَرَسُولَهُ﴾ ” یہ اس لئے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کی۔“ یعنی یہ اس لئے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ جنگ کی اور انکے ساتھ عداوت کا اظہار کیا۔ ﴿وَمَن يُشَاقِقِ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ فَإِنَّ اللَّـهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ﴾ ” اور جو مخالف ہوا اللہ اور اس کے رسول کا، تو بے شک اللہ کا عذاب سخت ہے“ اور یہ بھی اس کا عذاب ہی ہے کہ اس نے اپنے اولیاء کو اپنے اعداء پر مسلط کیا اور ان کے ہاتھوں قتل کروایا۔ الانفال
14 ﴿ذَٰلِكُمْ﴾یہ عذاب مذکور ﴿فَذُوقُوهُ﴾” پس چکھو تم اس کو“ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرنے والو !(اس دنیا کے) فوری عذاب کا مزا چکھ لو ﴿وَأَنَّ لِلْكَافِرِينَ عَذَابَ النَّارِ﴾ ” اور کافروں کے لئے جہنم کا عذاب ہے۔ “ اس قصہ میں اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نشانیاں ہیں جو اس امر پر دلالت کرتی ہیں کہ جو کچھ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لے کر تشریف لائے ہیں، وہ حق ہے۔ (١) اللہ تبارک و تعالیٰ نے اہل ایمان کے ساتھ ایک وعدہ کیا اور یہ وعدہ پورا کردیا۔ (٢) اس میں سے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے: ﴿ قَدْ كَانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ الْتَقَتَا ۖ فِئَةٌ تُقَاتِلُ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ وَأُخْرَىٰ كَافِرَةٌ يَرَوْنَهُم مِّثْلَيْهِمْ رَأْيَ الْعَيْنِ ۚ﴾(آل عمران:3؍13)” تمہارے لئے ان دو گروہوں میں (جنگ بدر میں) جن کی مڈبھیڑ ہوئی ایک نشانی تھی ایک گروہ وہ تھا جو اللہ تعالیٰ کے راستے میں لڑ رہا تھا اور دوسرا گروہ کافروں کا تھا، وہ اپنی آنکھوں سے انہیں اپنے سے دوگنا مشاہدہ کر رہے تھے۔ “ (٣) جب اہل ایمان نے اللہ تعالیٰ کو مدد کے لئے پکارا تو اللہ تعالیٰ نے ان اسباب کے ذریعے سے ان کی دعا قبول فرمائی جن کا اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے مومن بندوں کے حال اور ان اسباب کے مقدر کرنے کے ساتھ بڑا اعتناء پایا جاتا ہے جن کے ذریعے سے اہل ایمان کے ایمان مضبوط اور ان میں ثابت قدمی پیدا ہو اور ان سے تمام ناپسندیدہ امور اور شیطانی وسوسے دور ہوں۔ (٤) یہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندے پر لطف و کرم ہے کہ وہ داخلی اور خارجی اسباب کے ذریعے سے اس کے لئے اطاعت کے راستوں کو آسان اور سہل کردیتا ہے۔ الانفال
15 اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے اہل ایمان بندوں کو شجاعت ایمانی، اللہ کے معاملے میں قوت اور دلوں اور جسموں کو مضبوط کرنے والے اسباب فراہم کرنے کا حکم دیا ہے اور جب دونوں فوجوں کے درمیان معرکہ ہو تو میدان جنگ سے فرار ہونے سے منع کیا ہے۔ ﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا زَحْفًا﴾” اے ایمان والو ! جب بھڑوتم کافروں سے میدان جنگ میں“ یعنی جب لڑائی کے لئے صف بندی ہوچکی ہو، فوجیں ایک دوسرے کی طرف بڑھ رہی ہوں اور جنگجو ایک دوسرے کے قریب آچکے ہوں،﴿فَلَا تُوَلُّوهُمُ الْأَدْبَارَ﴾ ” تو پھر کفار کے سامنے پیٹھ پھیر کر نہ بھاگو“ بلکہ ان سے لڑنے کے لئے ثابت قدمی سے ڈٹ جاؤ اور ان کی قوت اور حملے کا صبر سے مقابلہ کرو، کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کے دین کی نصرت، اہل ایمان کے دلوں کی مضبوطی اور دشمنوں کو خوف زدہ کرنے کا باعث ہوگی۔ الانفال
16 ﴿ وَمَن يُوَلِّهِمْ يَوْمَئِذٍ دُبُرَهُ إِلَّا مُتَحَرِّفًا لِّقِتَالٍ أَوْ مُتَحَيِّزًا إِلَىٰ فِئَةٍ فَقَدْ بَاءَ ﴾اور جو کوئی پیٹھ پھیرے ان سے اس دن، مگر یہ کہ ہنر کرتا ہو لڑائی کا یا جا ملتا ہو فوج میں، تو پھر اوہ“ یعنی وہ لوٹا ﴿ بِغَضَبٍ مِّنَ اللَّـهِ وَمَأْوَاهُ﴾” اللہ کا غضب لے کر اور اس کا ٹھکانا“ ﴿جَهَنَّمُ ۖ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ﴾” جہنم ہے اور وہ کیا برا ٹھکانا ہے“ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ کسی عذر کے بغیر، میدان جنگ سے فرار ہونا سب سے بڑا گناہ ہے۔ جیسا کہ صحیح احادیث میں وار دہوا ہے اور جیسا کہ یہاں اللہ تعالیٰ نے فرار ہونے والے کے لئے سخت وعید سنائی ہے۔ اس آیت کریمہ کا مفہوم یہ ہے کہ جنگی چال کے طور پر میدان جنگ سے ہٹنے میں، یعنی میدان جنگ میں ایک جگہ چھوڑ کر دوسری جگہ جا کر لڑنا تاکہ اس جنگی چال میں دشمن کو زک پہنچا سکے، کوئی حرج نہیں، کیونکہ وہ میدان جنگ سے منہ موڑ کر نہیں بھاگا بلکہ اس نے دشمن پر غالب آنے کے لئے ایسا کیا ہے، یا اس نے کسی پہلو سے دشمن پر حملہ کرنے کے لئے، یا دشمن کو ھوکہ دینے کے لئے یہ چال چلی ہے، یا دیگر جنگی مقاصد کے لئے ایسا کیا ہے۔ اسی طرح کفار کے خلاف کمک کے طور پر ایک جماعت سے علیحدہ ہو کر دوسری جماعت میں جا کر ملنا بھی جائز ہے۔ اگر لشکر کا وہ گروہ جس کے ساتھ یہ گروہ جا کر ملا ہے، میدان جنگ میں موجود ہے تو ایسا کرنے کا جواز بالکل واضح ہے اور اگر وہ گروہ مقام معرکہ کی بجائے کسی اور مقام پر ہے، مثلاً مسلمانوں کا کفار کے مقابلے سے کسی ایک شہر سے پسپا ہو کر مسلمانوں کے کسی دوسرے شہر میں پناہ لینا یا ایک میدان جنگ کو چھوڑ کر کسی دوسری جگہ دشمن پر حملہ آور ہونا، تو اس بارے میں صحابہ کرام سے جو آراء منقول ہوئی ہیں وہ اس کے جواز پر دلالت کرتی ہیں۔ شاید پسپائی اس شرط سے مشروط ہے کہ مسلمان سمجھتے ہوں کہ پسپائی انجام کار ان کے لئے بہتر اور دشمن کے مقابلے میں زیادہ مفید ہو اور اگر وہ یہ سمجھتے ہوں کہ میدان جنگ میں جمع رہنے سے کفار پر ان کو غلبہ حاصل ہوجائے گا تو اس صورت حال میں یہ بعید ہے کہ پسپائی کا جواز ہو، کیونکہ تب میدان جنگ سے فرار ہونے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ہے جس سے روکا گیا ہے۔ یہ آیت کریمہ مطلق ہے۔ (یعنی فرار کی ہر صورت ممنوع ہے) البتہ سورت کے آخر میں اس کو تعداد کے ساتھ مشروط کرنے کا بیان ہے۔ (دیکھئے آیت نمبر 66 کی تفسیر) الانفال
17 جب غزوہ بدر میں مشرکین کو شکست ہوئی اور مسلمانوں نے ان کو قتل کیا، تو اس ضمن میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿فَلَمْ تَقْتُلُوهُمْ﴾ ” تم نے ان کو قتل نہیں کیا۔“ یعنی تم نے اپنی قوت سے ان کو قتل نہیں کیا﴿وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ قَتَلَهُمْ ۚ﴾ ” لیکن اللہ نے ان کو قتل کیا“ کیونکہ ان کے قتل پر اللہ تعالیٰ نے تمہاری مدد فرمائی تھی، جیسا کہ گزشتہ سطور میں گزرا۔ ﴿ وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ رَمَىٰ ۚ﴾ ” اور آپ نے نہیں پھینکی مٹھی خاک کی جس وقت کہ پھینکی تھی، لیکن اللہ نے پھینکی۔“ اس کی تفصیل یہ ہے کہ جب معرکہ شروع ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک خیمہ میں چلے گئے اور اللہ تعالیٰ سے قسمیں دے دے کر فتح و نصرت کے لئے دعائیں کرنے لگے، پھر خیمے سے باہر تشریف لائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاک کی ایک مٹھی اٹھا کر کفار کے چہروں کی طرف پھینکی اور اللہ تعالیٰ نے یہ خاک ان کے چہروں تک پہنچا دی، ان میں سے کوئی ایسا نہ تھا جس کے چہرے، منہ اور آنکھوں میں یہ خاک نہ پڑی ہو۔ پس اس وقت ان کی طاقت ٹوٹ گئی، ان کے ہاتھ شل ہوگئے، ان کے اندر کمزوری اور بزدلی ظاہر ہوئی پس وہ شکست کھا گئے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا ’’جب آپ نے کفار کی طرف خاک کی مٹھی پھینکی تو آپ نے اپنی قوت سے یہ خاک ان کے چہروں تک نہیں پہنچائی تھی، بلکہ ہم نے اپنی قوت اور قدرت سے یہ خاک ان کے چہروں تک پہنچائی۔ “ ﴿ وَلِيُبْلِيَ الْمُؤْمِنِينَ مِنْهُ بَلَاءً حَسَنًا ﴾ ” اور تاکہ اللہ آزمائے مومنوں کو اپنی طرف سے خوب آزمانا‘‘ یعنی براہ راست لڑائی کے بغیر اللہ تعالیٰ کفار کے مقابلے میں اہل ایمان کی مدد کرنے پر قادر ہے مگر اللہ تعالیٰ مومنوں کا امتحان لینا اور جہاد کے ذریعے سے انہیں بلند ترین درجات اور اعلیٰ ترین مقامات پر فائز کرنا، نیز انہیں اجر حسن اور ثواب جزیل عطا کرنا چاہتا ہے۔ ﴿إِنَّ اللَّـهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ﴾ ” بے شک اللہ سنتا جانتا ہے۔“ بندہ جو بات چھپا کر کرتا ہے یا اعلانیہ کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے خوب سنتا ہے۔ بندے کے دل میں جو اچھی یا بری نیت ہوتی ہے اللہ تعالیٰ اسے جانتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے علم و حکمت اور بندوں کے مصالح کے مطابق ان کی تقدیر پر مقرر کرتا ہے اور ہر شخص کو اس کی نیت کے مطابق جزا دیتا ہے۔ الانفال
18 ﴿ذَٰلِكُمْ﴾یہ فتح و نصرت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ ﴿وَأَنَّ اللَّـهَ مُوهِنُ كَيْدِ الْكَافِرِينَ﴾ ” اور بلاشبہ اللہ کافروں کی تدبیر کو کمزور کردینے والا ہے۔“ یعنی کفار اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جو مکر و فریب اور سازشیں کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کی چالوں کو کمزور کرتا ہے اور انہی کو ان کی چالوں میں پھنسا دیتا ہے۔ الانفال
19 ﴿إِن تَسْتَفْتِحُوا﴾ ” اور اگر تم چاہتے ہو فیصلہ“ اے مشرکو ! اگر تم اللہ تعالیٰ سے مطالبہ کرتے ہو کہ وہ ظلم و تعدی کا ارتکاب کرنے والوں پر اپنا عذاب نازل کر دے۔﴿فَقَدْ جَاءَكُمُ الْفَتْحُ﴾” تو تحقیق آچکا تمہارے پاس فیصلہ“ یعنی جب اللہ تعالیٰ نے تم پر اپنا عذاب نازل کیا جو تمہارے لئے سزا اور متقین کے لئے عبرت ہے ﴿وَإِن تَنتَهُوا﴾” اور اگر تم باز آجاؤ۔“ یعنی اگر تم فیصلہ چاہنے سے باز آجاؤ۔ ﴿ فَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ﴾” تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے“ کیونکہ بسا اوقات اللہ تعالیٰ تمہیں مہلت دیتا ہے اور تمہیں فوراً سزا نہیں دیتا۔ ﴿ وَلَن تُغْنِيَ عَنكُمْ فِئَتُكُمْ شَيْئًا وَلَوْ كَثُرَتْ﴾” اور تمہاری جماعت خواہ کتنی ہی کثیر ہو تمہارے کچھ بھی کام نہ آئے گی۔“ یعنی وہ انصار و اعوان تمہارے کچھ کام نہ آئیں گے جن کے بھرو سے پر تم جنگ کر رہے ہو، چاہے وہ کتنے ہی زیادہ ہوں۔﴿وَأَنَّ اللَّـهَ مَعَ الْمُؤْمِنِينَ ﴾ ” اور اللہ ایمان والوں کے ساتھ ہے“ اور اللہ تعالیٰ جن کے ساتھ ہوتا ہے وہی فتح و نصرت سے نوازے جاتے ہیں خواہ وہ کمزور اور تعداد میں کم ہی کیوں نہ ہوں۔ یہ معیت، جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ وہ اس کے ذریعے سے اہل ایمان کی تائید فرماتا ہے، ان کے اعمال ایمان کے مطابق ہوتی ہے۔ اگر بعض اوقات دشمنوں کو اہل ایمان پر فتح حاصل ہوتی ہے تو یہ اہل ایمان کی کو تاہی، واجبات ایمان اور اس کے تقاضوں کو پورا نہ کرنے کی وجہ سے ہوتی ہے۔ ورنہ اگر وہ ہر اعتبار سے اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کریں تو ان کا پرچم کبھی سرنگوں نہ ہو اور دشمن کو کبھی ان پر غالب آنے کا موقع نہ ملے۔ الانفال
20 چونکہ اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا ہے کہ وہ اہل ایمان کے ساتھ ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم دیا کہ وہ ایمان کے تقاضوں کو پورا کریں جن سے اللہ تعالیٰ کی معیت حاصل ہوتی ہے۔ چنانچہ فرمایا: ﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّـهَ وَرَسُولَهُ﴾” اے ایمان والو ! اطاعت کرو اللہ کی اور اس کے رسول کی“ یعنی ان کے اوامرکی پیروی اور ان کے نواہی سے اجتناب کر کے ﴿وَلَا تَوَلَّوْا عَنْهُ﴾” اور اس سے روگردانی نہ کرو۔“ یعنی اس معاملے سے منہ نہ موڑو جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت ہے۔ ﴿ وَأَنتُمْ تَسْمَعُونَ﴾ ” اور تم سنتے ہو۔“ حالانکہ تم پر اللہ تعالیٰ کی کتاب، اس کے اوامر، اس کی وصیتوں اور اس کی نصیحتوں کی جو تلاوت کی جاتی ہے، تم اسے سنتے ہو۔ اس حال میں تمہارا اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے منہ موڑنا بدترین حال ہے۔ الانفال
21 ﴿وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ قَالُوا سَمِعْنَا وَهُمْ لَا يَسْمَعُونَ ﴾ ” اور تم ان لوگوں کی طرح مت ہو جنہوں نے کہا ہم نے سن لیا اور وہ سنتے نہیں“ یعنی مجرد خالی خولی دعوؤں پر اکتفا نہ کرو جن کی کوئی حقیقت نہیں، کیونکہ یہ ایسی حالت ہے جس سے اللہ اور اس کا رسول راضی نہیں۔ ایمان محض تمناؤں اور دعوؤں سے مزین ہونے کا نام نہیں ہے، بلکہ ایمان وہ ہے جو دل میں جاگزیں ہو اور اعمال اس کی تصدیق کریں۔ الانفال
22 اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿إِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِندَ اللَّـهِ ﴾ ” سب جان داروں سے بدتر اللہ کے ہاں“ جن کو معجزات اور ڈرانے والے کوئی فائدہ نہیں دیتے، وہ ہیں جو ﴿ الصُّمُّ ﴾ حق سننے سے بہرے ہیں۔ ﴿الْبُكْمُ﴾حق بولنے سے گونگے ہیں ﴿الَّذِينَ لَا يَعْقِلُونَ﴾ وہ کسی ایسی چیز کو سمجھ نہیں سکتے جو ان کو فائدہ دیتی ہے اور نہ اسے اس چیز پر ترجیح دے سکتے ہیں جو انہیں نقصان دیتی ہے۔ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے ہاں بدترین چوپاؤں سے بھی بدتر ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں کان، آنکھ اور عقل سے نوازا تاکہ وہ انہیں اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے راستے میں استعمال کریں، مگر انہوں نے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ان نعمتوں کو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی راہ میں استعمال کیا اور اس وجہ سے وہ خیر کثیر سے محروم ہوگئے۔ ان کو چاہئے تھا کہ وہ بہترین مخلوق بننے کی کوشش کرتے مگر انہوں نے اس راستے پر چلنے سے انکار کردیا اور انہوں نے بدترین مخلوق بننا پسند کیا۔ الانفال
23 وہ سماعت، جس کی اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں نفی کی ہے، وہ ہے دل میں اثر کرنے والے معافی کی سماعت۔۔۔ رہی سماعت حجت تو انہوں نے اللہ تعالیٰ کی جو آیات سنی ہیں اس کی وجہ سے ان کے خلاف اللہ تعالیٰ کی حجت قائم ہوگئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو سماع نافع سے محروم کردیا، کیونکہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ ان کے اندر کوئی بھلائی نہیں جس کی وجہ سے ان میں اللہ تعالیٰ کی آیات کو سننے کی صلاحیت ہوتی۔ ﴿وَلَوْ أَسْمَعَهُمْ﴾ ” اور اگر اب وہ ان کو سنا دے“ یعنی اگر یہ فرض کرلیا جائے ﴿لَتَوَلَّوا﴾” تو وہ ضرور پھر جائیں“ یعنی اللہ کی اطاعت سے ﴿وَّهُم مُّعْرِضُونَ﴾ ” اور وہ اعراض کرنے والے ہیں۔“ یعنی وہ کسی طور بھی حق کی طرف التفات نہیں کریں گے۔ یہ آیت کریمہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ صرف اس شخص کو ایمان اور بھلائی سے محروم کرتا ہے جس میں کوئی صلاحیت نہیں ہوتی اور نہ بھلائی اس کے پاس پھلتی پھولتی ہے۔ اس بارے میں وہ نہایت قابل تعریف اور دانائی کا مالک ہے۔ الانفال
24 اللہ تبارک و تعالیٰ اہل ایمان کو ان امور کا حکم دیتا ہے جو ان کے ایمان کا تقاضا ہے یعنی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی آواز پر لبیک کہنا، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے جو حکم دیا ہے اسکی تعمیل کرنا، اس کی تعمیل کے لئے سبقت کرنا اور اس کی طرف لوگوں کو دعوت دینا اور انہوں نے جس چیز سے روکا ہے اس سے باز رہنا اور اس سے اجتناب کرنا۔ ﴿ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ﴾” جس وقت بلائے تم کو اس کام کی طرف جس میں تمہاری زندگی ہے“ یہ ہر اس امر کا وصف لازم ہے جس کی طرف اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم دعوت دیتے ہیں اور نیز یہ اس کے حکم کے فائدے اور حکمت کو بیان کرتا ہے، کیونکہ قلب و روح کی زندگی کا دار و مدار اللہ تعالیٰ کی عبودیت، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے دائمی التزام پر ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اللہ اور رسول کی پکار پر لبیک نہ کہنے پر ڈراتے ہوئے فرمایا : ﴿وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّـهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ﴾” اور جان لو کہ اللہ آڑ بن جاتا ہے آدمی اور اس کے دل کے درمیان“ اس لئے جب اللہ تعالیٰ کا حکم پہلی بار تمہارے پاس آئے، تو اس کو ٹھکرانے سے بچو کیونکہ پھر اگر اس کے بعد اس کا ارادہ کرو گے تو اللہ تعالیٰ اس کے درمیان اور تمہارے درمیان حائل ہو جائے گا اور تمہارے دلوں میں اختلاف پیدا ہوجائے گا، کیونکہ اللہ تعالیٰ بندے اور اس کے قلب کے درمیان حائل ہوجاتا ہے۔ جیسے چاہتا ہے اسے ادل بدل کرتا ہے اور جیسے چاہتا ہے اس میں تصرف کرتا ہے۔ پس بندے کو بہت کثرت سے یہ دعا کرتے رہنا چاہئے۔ ( يَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِي عَلَى دِينِكَ (1)اللَّهُمَّ مُصَرِّفَ القُلُوبِ صَرِّفْ قَلْبِي عَلَى طَاعَتِكَ) (2) (1) [المسند: 3؍ 112] (2)[صحيح مسلم، القدر، ح: 2645] فرمایا : ﴿وَأَنَّهُ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ﴾ ” اور یہ کہ تم سب اس کے روبرو جمع کئے جاؤ گے۔“ یعنی تم سب اس دن اکٹھے کئے جاؤ گے جس کے آنے میں کوئی شک و شبہ نہیں وہ نیکو کاروں کو ان کی نیکی کی جزا اور بدکاروں کو ان کی بدی کی سزا دے گا۔ الانفال
25 ﴿وَاتَّقُوا فِتْنَةً لَّا تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنكُمْ خَاصَّةً﴾ ” اور اس فتنے سے بچو، جو تم میں سے خاص ظالموں پر ہی نہیں آئے گا“ بلکہ یہ فتنہ ظلم کرنے والوں اور دیگر لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا اور اس کا سبب یہ ہے کہ جب ظلم غالب آجائے اور اس کو بدلا نہ جائے تو اس کی سزا ظلم کرنے والوں اور دوسرے لوگوں، سب کے لئے عام ہوتی ہے۔ اس لئے برائیوں سے منع کر کے، اہل شرکا قلع قمع کر کے وہ ظلم اور معاصی کا ارتکاب نہ کرسکیں، اس فتنہ سے بچا جائے ﴿وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّـهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ ﴾ ” اور جان لو کہ اللہ سخت عذاب دینے والا ہے۔“ جو کوئی اللہ تعالیٰ کی ناراضی مول لیتا ہے اور اس کی رضا کو ترک کردیتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اس کو سخت عذاب دیتا ہے۔ الانفال
26 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں پر اپنے احسان کا تذکرہ کرتا ہے کہ وہ کمزور اور مغلوب تھے، اس نے ان کو اپنی نصرت سے نوازا، وہ قلیل تھے اس نے ان کو کثرت عطا کی اور وہ تنگ دست تھے، اس نے ان کو فراخی عطا کی۔ چنانچہ فرمایا : ﴿وَاذْكُرُوا إِذْ أَنتُمْ قَلِيلٌ مُّسْتَضْعَفُونَ فِي الْأَرْضِ﴾” اور یاد کرو جب تم تھوڑے تھے، کمزور تھے زمین میں“ یعنی تم غیروں کی حکومت میں محکوم و مجبور تھے ﴿تَخَافُونَ أَن يَتَخَطَّفَكُمُ النَّاسُ﴾” تم ڈرتے تھے کہ کہیں لوگ تمہیں اچک نہ لیں“﴿فَآوَاكُمْ وَأَيَّدَكُم بِنَصْرِهِ وَرَزَقَكُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ﴾ ” تو اس نے تمہیں جگہ دی اور اپنی مدد سے تم کو تقویت دی اور پاکیزہ چیزیں کھانے کو دیں۔“ اللہ تعالیٰ نے تمہیں ایک شہر عطا کیا جہاں تم نے پناہ لی۔ اللہ تعالیٰ نے تمہارے ہاتھوں تمہارے دشمنوں کو شکست دی، تم نے ان سے مال غنیمت حاصل کیا جس کے ذریعے سے تم مال دار ہوگئے۔ ﴿لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ﴾ ” تاکہ تم شکر کرو۔“ یعنی شاید کہ تم اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت اور کامل احسان پر اللہ تعالیٰ کی عبادت کر کے اور اس کے ساتھ شرک سے اجتناب کر کے اس کا شکر ادا کرو۔ الانفال
27 اللہ تعالیٰ اپنے اہل ایمان بندوں کو حکم دیتا ہے کہ اس نے اوامرونواہی کی جو امانت ان کے سپرد کی ہے، وہ اسے ادا کریں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ امانت آسمانوں، زمین اور پہاڑوں پر پیش کی تو وہ ڈر گئے اور انہوں نے اس امانت کا بوجھ اٹھانے سے انکار کردیا اور انسان نے اس بوجھ کو اٹھا لیا، کیونکہ وہ نہایت ظالم اور نادان ہے۔ پس جو کوئی امانت ادا کرتا ہے وہ بے پایاں ثواب کا مستحق بن جاتا ہے اور جو کوئی یہ امانت ادا نہیں کرتا تو سخت عذاب اس کے حصے میں آتا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اپنی امانت میں خیانت کا مرتکب قرار پاتا ہے، وہ اپنے آپ کو خیانت جیسی خسیس ترین صفات اور بدترین علامات سے متصف کر کے اپنے نفس کو نقصان میں ڈالتا ہے اور امانت جیسی بہترین اور کامل ترین صفات سے محروم ہوجاتا ہے۔ الانفال
28 چونکہ بندے کو اس کے مال اور اولاد کے ذریعے سے امتحان میں مبتلا کیا گیا ہے اس لئے بسا اوقات مال اور اولاد کی محبت میں بندہ خواہشات نفس کو امانت کی ادائیگی پر ترجیح دیتا ہے۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ مال اور اولاد کی محبت میں بندہ خواہشات نفس کو امانت کی ادائیگی پر ترجیح دیتا ہے۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ مال اور اولاد ایک آزمائش ہے جن کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو آزماتا ہے۔ یہ دونوں چیزیں بندے کو عاریتاً عطا کی گئی ہیں جو عنقریب اس ہستی کو واپس لوٹانا ہوں گی جس نے یہ چیزیں عاریتاً عطا کی تھیں۔ ﴿ وَأَنَّ اللَّـهَ عِندَهُ أَجْرٌ عَظِيمٌ﴾ ” اور اللہ کے پاس بہت بڑا اجر ہے۔“ پس اگر تم میں کوئی عقل اور رائے ہے تو اللہ تبارک و تعالیٰ کے فضل عظیم کو چھوٹی سی فانی اور ختم ہوجانے والی لذت پر ترجیح نہ دو۔ عقل مند شخص تمام اشیاء کے درمیان موازنہ کرتا ہے اور بہترین چیز کو ترجیح دیتا ہے اور تقدیم کی مستحق چیز کو مقدم رکھتا ہے۔ الانفال
29 بندے کا اپنے رب سے تقویٰ اختیار کرنا سعادت کا عنوان اور فلاح کی علامت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا و آخرت کی بہت سی بھلائیوں کا دار ومدار تقویٰ پر رکھا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے یہاں بیان فرمایا ہے کہ جو کوئی اس سے ڈرتا ہے اسے چار چیزیں عطا ہوتی ہیں اور ان میں سے ہر چیز دنیا و مافیہا سے کہیں بہتر ہے۔ (١) اللہ تعالیٰ صاحب تقویٰ مومن کو ’’فرقان‘‘ عطا کرتا ہے۔ فرقان سے مراد علم و ہدایت ہے جس کے ذریعے سے وہ ہدایت اور گمراہی، حق اور باطل، حلال اور حرام، خوش بخت اور بدبخت لوگوں کے درمیان امتیاز کرتا ہے۔ (٢، ٣) برائیوں کو مٹانا اور گناہوں کو بخش دینا۔ اطلاق اور اجتماع کے وقت یہ دونوں امور ایک دوسرے میں داخل ہیں۔ (اَلسِّیئَات) برائیوں کے مٹانے کی تفسیر گناہ صغیرہ ہے اور ﴿ اَلذُّنُوب ﴾ گناہوں و بخش دینے کی تفسیر کبیرہ گناہوں کو مٹا دینے سے کی جاتی ہے۔ (٤) وہ شخص جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے اور اپنی خواہش نفس پر اللہ تعالیٰ کی رضا کو ترجیح دیتا ہے، اس کے لئے بہت بڑا اجر اور بے پایاں ثواب ہے۔ ﴿وَاللَّـهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ ﴾ ” اور اللہ تعالیٰ بڑے فضل کا مالک ہے۔ “ الانفال
30 یعنی اے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ تبارک و تعالیٰ کی اس نعمت کو یاد کیجیے جس سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو نوازا ہے، ﴿ وَإِذْ يَمْكُرُ بِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا ﴾” جب سازش کرتے تھے کافر آپ کے بارے میں“ جب مشرکین مکہ نے ” دارلندوہ“ میں مشورہ کیا کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے؟ (١) آپ کو بیڑیاں پہنا کر محبوس کردیا جائے۔ (٢) آپ کو قتل کردیا جائے تاکہ۔۔۔ بزعم خود۔۔۔ ہمیشہ کے لئے آپ سے نجات حاصل کرلیں۔ (٣) آپ کو مکہ سے نکال باہر کر کے ملک بدر کردیا جائے۔ ہر شخص نے اپنی اپنی رائے کا اظہار کیا۔ آخر کار تمام لوگوں نے اس مجلس میں شریک شریر ترین آدمی، ابوجہل (لعنہ اللہ) کی رائے سے اتفاق کیا کہ قریش کے تمام قبائل سے ایک ایک آدمی لے کر اسے تیز تلوار دی جائے اور تمام لوگ بیک وقت حملہ کر کے آپ کو قتل کردیں تاکہ تمام قبائل آپ کے قتل کے ذمہ دار ٹھہریں۔ اس صورت میں بنو ہاشم آپ کی دیت قبول کرنے پر راضی ہوجائیں گے اور قصاص لینے کے لئے قریش کے تمام قبائل کا مقابلہ نہیں کرسکیں گے۔ چنانچہ وہ رات کے وقت گھات لگا کر بیٹھے گئے تاکہ جب آپ اپنے بستر سے بیددار ہوں تو آپ پر حملہ کردیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آسمان سے وحی نازل ہوئی۔ آپ باہر تشریف لائے، آپ نے ان سب کے سروں میں خاک ڈالی اور وہاں سے نکل گئے۔ اللہ تعالیٰ نے ان سب کو اندھا کردیا۔ جب بہت دیر ہوگئی تو کسی آنے والے نے کہا ”وائے تمہاری ناکامی ! محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) تو نکل گیا اور تمہارے سروں میں خاک بھی ڈال گیا ہے۔“ انہوں نے اپنے سروں سے مٹی جھاڑی اور اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بچا لیا اور آپ کو مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت دے دی۔ پس آپ نے مدینہ کی طرف ہجرت کی۔ اللہ تعالیٰ نے مہاجرین و انصار کے ذریعے سے آپ کی مدد فرمائی اور یوں آپ کو غلبہ حاصل ہوتا گیا۔ یہاں تک کہ آپ فاتح بن کر مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے۔ تمام قریش مکہ نے آپ کی اطاعت قبول کرلی اور آپ کے ماتحت آگئے حالانکہ اس سے پہلے آپ ان سے چھپ کر جان کے خوف سے وہاں سے نکلے تھے۔ پس پاک ہے وہ ہستی جو اپنے بندوں کو لطف و کرم سے نوازتی ہے اور جس پر کوئی غالب نہیں آسکتا۔ الانفال
31 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کرنے والے آپ کے ساتھ جو عناد رکھتے تھے اسے بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿ وَإِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا ﴾” اور جب ان پر ہماری آیتیں پڑھی جاتی ہیں“ جو اس چیز کی صداقت پر دلالت کرتی ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے ہیں ﴿قَالُوا قَدْ سَمِعْنَا لَوْ نَشَاءُ لَقُلْنَا مِثْلَ هَـٰذَا ۙ إِنْ هَـٰذَا إِلَّا أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ ﴾” تو کہتے ہیں اگر ہم چاہیں تو ہم بھی اس جیسی بات کہہ سکتے ہیں، یہ تو صرف پہلوں کی کہانیاں ہیں“ یہ انہوں نے ظلم اور عناد کی بنا پر کہا تھا ورنہ اللہ تعالیٰ نے تو ان کو مقابلے کی دعوت دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اس جیسی ایک سورت ہی بنا لائیں اور اللہ کے سوا جس کسی کو اپنی مدد کے لئے بلا سکتے ہیں بلا لیں۔ مگر وہ ایسا نہ کرسکے جس سے ان کی بے بسی ظاہر ہوگئی۔ قائل سے صادر ہونے والا یہ قول مجرد دعویٰ ہے، جس کا جھوٹ ہونا ثابت ہے۔ ہمیں یہ حقیقت معلوم ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پڑھے ہوئے نہ تھے‘ آپ لکھ پڑھ نہیں سکتے تھے، گزشتہ قوموں کی تاریخ کا علم حاصل کرنے کے لئے آپ نے کہیں سفر نہیں کیا تھا، بایں ہمہ آپ نے یہ جلیل القدر کتاب پیش کی جس کے سامنے سے یا پیچھے سے باطل دخل اندازی نہیں کرسکتا، یہ کتاب حکمت والے اور قابل تعریف اللہ کی طرف سے نازل کی گئی ہے۔ الانفال
32 ﴿وَإِذْ قَالُوا اللَّـهُمَّ إِن كَانَ هَـٰذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِندِكَ ﴾” اور جب انہوں نے کہا، اے اللہ ! اگر یہ تیری طرف سے حق ہے“ جس کی طرف محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم دعوت دیتے ہیں۔﴿فَأَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَاءِ أَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ أَلِيمٍ ﴾ ” تو پھر برسا دے پتھر آسمان سے یا ہم پر کوئی درد ناک عذاب لا۔“ انہوں نے اپنے باطل پر ڈٹتے ہوئے اور آداب تخاطب سے جہالت کے ساتھ، پورے جزم سے یہ بات کہی تھی۔ اگر انہوں نے۔۔۔ جبکہ وہ اپنے باطل پر ملع سازی کر رہے تھے جو ان کے لئے یقین اور بصیرت کی موجب تھی۔۔۔ اپنے ساتھ مناظرہ کرنے والے اس شخص سے یہ کہا ہوتا جو اس بات کا مدعی ہے کہ حق اس کے ساتھ ہے ” اگر وہ چیز جس کا تم دعویٰ کرتے ہو کہ وہ حق ہے تو ہماری بھی راہنمائی کیجیے“ تو یہ چیز ان کے لئے زیادہ بہتر ہوتی اور ان کے ظلم و تعددی کی زیادہ اچھے طریقے سے پردہ پوشی کرسکتی تھی۔ پس جب سے انہوں نے کہا ﴿اللَّـهُمَّ إِن كَانَ هَـٰذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِندِكَ ﴾ ان کی مجرد اسی بات سے معلوم ہوگیا کہ وہ انتہائی بے وقوف، بے عقل، جاہل اور ظالم ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ ان پر عذاب بھیجنے میں جلدی کرتا تو ان میں سے کوئی بھی باقی نہ رہتا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے ان سے عذاب کو ہٹا دیا، کیونکہ ان کے اندر رسول صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہیں اس لئے فرمایا الانفال
33 ﴿وَمَا كَانَ اللَّـهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنتَ فِيهِمْ ۚ ﴾ ”اللہ آپ کی موجودگی میں ان کو عذاب نہیں دے گا“ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود مبارک ان کے لئے عذاب سے امن کی ضمانت تھی۔ اپنے اس قول کے باوجود، جس کا وہ برسر عام اظہار کرتے تھے، وہ اس قول کی قباحت کو اچھی طرح جانتے تھے، اس لئے وہ اس کے وقوع سے ڈرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے استغفار بھی کیا کرتے تھے۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَمَا كَانَ اللَّـهُ مُعَذِّبَهُمْ وَ هُمْ يَسْتَغْفِرُوْنَ﴾” اور اللہ ان کو عذاب نہیں دے گا جب کہ وہ معافی مانگنے والے ہوں گے۔“ یہی وہ مانع تھا جو عذاب کو واقع ہونے سے روک رہا تھا حالانکہ اس کے اسباب منعقد ہوچکے تھے۔ پھر فرمایا : الانفال
34 ﴿وَمَا لَهُمْ أَلَّا يُعَذِّبَهُمُ اللَّـهُ ﴾” اور ان میں کیا بات ہے کہ اللہ ان کو عذاب نہ دے“ یعنی کو نسی چیز ان سے اللہ تعالیٰ کے عذاب کو دور کرسکتی ہے حالانکہ ان کے کرتوت ایسے ہیں جو اس عذاب کو واجب ٹھہراتے ہیں اور وہ ہے ان کا لوگوں کو مسجد حرام میں عبادت سے روکنا، خاص طور پر انہوں نے نبی مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کرام کو مسجد حرام سے روکا حالانکہ مسجد حرام میں عبادت کرنے کے وہی سب سے زیادہ مستحق تھے۔ بنا بریں فرمایا : ﴿وَمَا كَانُوا﴾” اور نہیں تھے وہ“ یعنی مشرکین ﴿اَوْلِیَآءَہُ﴾ ” اس کا اختیار رکھنے والے“ اس میں یہ احتمال بھی ہے کہ ضمیر اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹتی ہو، یعنی(اولياءاللّٰه)نیز یہ احتمال بھی ہوسکتا ہے کہ ضمیر کا مرجع مسجد حرام ہو یعنی وہ مسجد حرام کے دوسرے لوگوں سے زیادہ مستحق نہ تھے۔ ﴿إِنْ أَوْلِيَاؤُهُ إِلَّا الْمُتَّقُونَ﴾ ” اس کا اختیار رکھنے والے تو وہی ہیں جو اللہ سے ڈرتے ہیں“ اور یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے ہیں جنہوں نے صرف اللہ تعالیٰ کو عبادت کا مستحق قرار دیا اور اپنے دین کو اللہ تعالیٰ کے لئے خالص کیا،﴿وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ﴾ ” لیکن ان میں سے اکثر نہیں جانتے۔“ اسی لئے وہ اپنے لئے ایسے امور کے مدعی ہیں جن کے دوسرے لوگ زیادہ مستحق ہیں۔ الانفال
35 اللہ تبارک و تعالیٰ نے مسجد حرام صرف اس لئے بنائی ہے کہ اس میں اس کے دین کو قائم کیا جائے اور اس میں خالص اسی کی عبادت کی جائے۔ پس اہل ایمان ہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی تعمیل کی اور رہے یہ مشرکین جنہوں نے لوگوں کو مسجد حرام سے روکا تو ان کی نماز، جو کہ سب سے بڑی عبادت ہے، ﴿ إِلَّا مُكَاءً وَتَصْدِيَةً﴾ ” سیٹیوں اور تالیوں کے سوا کچھ بھی نہیں“ جو کہ جہلا اور کم عقل لوگوں کا فعل ہے جن کے دل اپنے رب کی تعظیم سے خالی ہوتے ہیں، جو اپنے رب کے حقوق کی معرفت سے تہی دست ہوتے ہیں اور ان کے دل میں افضل ترین خطہ زمین کا کوئی احترام نہیں ہوتا۔ جب ان کی نماز کا یہ حال ہے تو ان کی بقیہ عبادات کا کیا حال ہوگا؟ پس ان میں کوئی سی چیز ایسی ہے جس کی بنا پر وہ اپنے آپ کو ان مومنوں سے زیادہ بیت اللہ کا مستحق سمجھتے ہیں، جو اپنی نمازوں میں خشوع و خضوع اختیار کرتے ہیں، جو لغو باتوں سے اعراض کرتے ہیں اور ان میں وہ تمام اوصاف حمیدہ اور افعال سدیدہ موجود ہیں جو ان کے رب نے بیان فرمائے ہیں۔ یقیناً اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو اپنے محترم گھر کا وارث بنایا اور اس پر ان کو قدرت عطا کی۔۔۔ اور پھر ان کو اس پر قدرت عطا کرنے کے بعد فرمایا : ﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ فَلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَـٰذَا﴾(التوبة:9؍28)” اے مومنو ! مشرکین تو ناپاک ہیں، اس لئے وہ اس سال کے بعد مسجد حرام کے قریب بھی نہ جائیں۔“ اور یہاں فرمایا : ﴿فَذُوقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنتُمْ تَكْفُرُونَ﴾ ” اپنے کفر کی پاداش میں عذاب کا مزا چکھو۔ “ الانفال
36 اللہ تبارک و تعالیٰ مشرکین کی عداوت، ان کے مکرو فریب، اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ ان کی مخالفت، اللہ کے چراغ کو بجھانے کے لئے ان کی کوششوں اور اللہ تعالیٰ کے کلمہ کو نیچا دکھانے کے لئے ان کی تگ و دو کا ذکر کرتے ہوئے واضح کرتا ہے کہ ان کے مکر و فریب اور ان کی سازشوں کا وبال انہی پر پڑے گا۔ مکر و فریب کی برائی صرف فریب کاروں کو اپنی لپیٹ میں لیتی ہے۔ ﴿إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ لِيَصُدُّوا عَن سَبِيلِ اللَّـهِ﴾ ” کافر اپنے مال خرچ کرتے ہیں تاکہ وہ اللہ کے راست سے روکیں“ یعنی تاکہ وہ حق کا ابطال کر کے باطل کی مدد کریں اور اللہ رحمٰن کی وحدانیت کی نفی کر کے بتوں کی عبادت کے دین کو قائم کریں۔ ﴿فَسَيُنفِقُونَهَا ﴾ ” سوابھی اور خرچ کریں گے“ یعنی یہ نفقات ان سے ابھی اور صادر ہوں گے اور یہ نفقات انہیں بہت خفیف محسوس ہوں گے، کیونکہ وہ باطل سے چمٹے ہوئے ہیں اور حق کے خلاف سخت بغض رکھتے ہیں،﴿ثُمَّ تَكُونُ عَلَيْهِمْ حَسْرَةً﴾ ” پھر آخر ہوگا وہ ان پر افسوس“ یعنی ان کو ندامت، رسوائی اور ذلت کا سامنا کرنا ہوگا،﴿ثُمَّ يُغْلَبُونَ﴾ ” پھر وہ مغلوب ہوں گے“ پس ان کے مال و متاع اور آرزوئیں خاک میں مل جائیں گی اور آخرت میں انہیں سخت عذاب دیا جائے گا۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَالَّذِينَ كَفَرُوا إِلَىٰ جَهَنَّمَ يُحْشَرُونَ﴾ ” تمام کفار کو جہنم میں اکٹھا کیا جائے گا‘‘ تاکہ وہ جہنم کا عذاب چکھیں کیونکہ جہنم ہی خبیث لوگوں اور ان کی خباثت کا ٹھکانا ہے۔ الانفال
37 اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ وہ پاک اور ناپاک کو علیحدہ علیحدہ کر کے دونوں کو اپنے اپنے مخصوص ٹھکانوں میں داخل کر دے، پس خبیث اعمال، خبیث اموال اور خبیث اشخاص، سب کو جمع کر دے﴿فَيَرْكُمَهُ جَمِيعًا فَيَجْعَلَهُ فِي جَهَنَّمَ ۚ أُولَـٰئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ﴾” پھر ان کو ڈھیر کر دے اکٹھا، پھر ڈال دے اس کو جہنم میں، یہی لوگ ہیں نقصان اٹھانے والے“ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے قیامت کے روز اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو خسارے میں ڈالا آگاہ رہنا ! یہی کھلا خسارہ ہے۔ الانفال
38 یہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر لطف و کرم ہے کہ ان کفر اور ان کا دائمی عناد اسے اس بات سے نہیں روکتا کہ وہ انہیں رشد و ہدایت کے راستے کی طرف بلائے اور انہیں گمراہی اور ہلاکت کی راہوں پر چلنے سے منع کرے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿قُل لِّلَّذِينَ كَفَرُوا إِن يَنتَهُوا ﴾ ”کفار سے کہہ دیجیے اگر وہ باز آجائیں۔“ یعنی اگر وہ کفر سے باز آجائیں اور یہ اسی طرح ممکن ہے کہ وہ اللہ وحدہ لاشریک لہ، کے سامنے سرتسلیم خم کردیں۔ ﴿ يُغْفَرْ لَهُم مَّا قَدْ سَلَفَ﴾ ” تو بخش دیا جائے گا جو کچھ ہوچکا ہے“ یعنی ان سے جن جرائم کا ارتکاب ہوچکا ہے ﴿ وَإِن يَعُودُوا ﴾ ” اگر وہ اعادہ کریں۔“ یعنی اگر وہ اپنے کفر اور عناد کا اعادہ کریں ﴿ فَقَدْ مَضَتْ سُنَّتُ الْأَوَّلِينَ ﴾ ” تو تحقیق گزر چکا ہے طریقہ پہلو کا“ یعنی رسولوں کو جھٹلانے والی قوموں کو ہلاک کرنے کا۔ پس وہ بھی اسی عذاب کا انتظار کریں جو ان معاندین حق پر نازل ہوا تھا۔۔۔ عنقریب ان کے پاس وہی خبریں آئیں گی جن کا یہ تمسخر اڑایا کرتے تھے۔ یہ خطاب تو جھٹلانے والوں سے تھا۔ رہا وہ خطاب جو اہل ایمان کو کفار کے ساتھ معاملہ کرنے کا حکم دیتے وقت اہل ایمان کے ساتھ تھا، تو اس میں اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا الانفال
39 ﴿وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّىٰ لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ﴾ ” اور ان سے لڑتے رہو، یہاں تک کہ نہ رہے فساد“ یعنی جب تک کہ شرک اور اللہ تعالیٰ کے راستے کی تمام رکاوٹیں دور نہ ہوجائیں اور کفار اسلام کے احکام کے سامنے سرنگوں نہ ہوجائیں۔ ﴿وَيَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُ لِلَّـهِ ۚ﴾ ” اور ہوجائے حکم سب اللہ کا“ پس دشمنان دین کے خلاف جہاد اور قتال کا یہی مقصد ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دین کو کفار کے شر سے بچایا جائے اور اللہ تعالیٰ کے دین کی، جس کے لئے تمام کائنات تخلیق کی گئی ہے، حفاظت کی جائے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا دین تمام ادیان پر غالب آجائے۔ ﴿ فَإِنِ انتَهَوْا﴾ ” پس اگر وہ باز آجائیں۔“ اپنے ظلم کے روئیے سے ﴿فَإِنَّ اللَّـهَ بِمَا يَعْمَلُونَ بَصِيرٌ﴾ ” تو بے شک اللہ ان کے کاموں کو دیکھتا ہے“ اور اللہ تعالیٰ سے ان کی کوئی چیز چھپی نہیں رہ سکتی۔ الانفال
40 ﴿ وَإِن تَوَلَّوْا ﴾ ” اور اگر وہ روگردانی کریں۔“ یعنی اگر اطاعت سے منہ موڑ کر کفر و سرکشی میں سرگرم ہوجائیں۔ ﴿ فَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّـهَ مَوْلَاكُمْ ۚ نِعْمَ الْمَوْلَىٰ ﴾ ” تو جان لو کہ اللہ تمہارا حمایتی ہے، کیا اچھا حمایتی ہے“ جو اپنے مومن بندوں کی سرپرستی کرتا ہے، انہیں ان کے مصالح بہم پہنچاتا ہے اور ان کے لئے دینی اور دنیاوی فوائد کے حصول میں آسانیاں پیدا کرتا ہے۔ ﴿وَنِعْمَ النَّصِيرُ﴾ ” اور کیا اچھا مددگار ہے“ جو ان کی مدد کرتا ہے، ان کے خلاف فساق و فجار کی سازشوں کو ناکام بناتا ہے اور اشرار کی عداوت سے حفاظت کرتا ہے اور جس کا سرپرست اور حامی و ناصر اللہ تعالیٰ ہو تو اسے کسی قسم کا خوف نہیں ہوتا اور جس کا اللہ تعالیٰ مخالف ہو اسے کوئی مدد اور سہارا نہیں دے سکتا۔ الانفال
41 ﴿ وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُم مِّن شَيْءٍ ﴾ ” اور جان رکھو کہ تم مال غنیمت سے جو کچھ حاصل کرو۔‘‘ یعنی کفار کا جو مال تم فتح یاب ہو کر حق کے ساتھ حاصل کرو، خواہ وہ تھوڑا ہو یا زیادہ ﴿فَأَنَّ لِلَّـهِ خُمُسَهُ ﴾ “ تو اس میں سے پانچواں حصہ اللہ کے لئے ہے“ اور باقی تمہارے لئے ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے غنیمت کی اضافت ان کی طرف کی ہے اور اس میں سے پانچواں حصہ نکال دیا ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ پانچواں حصہ نکال کر باقی ان میں اسی طرح تقسیم کیا جائے گا جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تقسیم فرمایا تھا۔۔۔ یعنی پیادے کے لئے ایک حصہ اور سوار کے لئے دو حصے، ایک حصہ خود اس کے لئے اور ایک حصہ اس کے گھوڑے کے لئے۔ [لیکن حدیث سے سوار کے لئے تین حصے ثابت ہوتے ہیں، دو حصے اس کے گھوڑے کے لئے اور ایک حصہ خود اس کے لئے۔ ((أنَّ رَسولَ اللَّهِ ﷺ جَعَلَ لِلْفَرَسِ سَهْمَيْنِ ولِصاحِبِهِ سَهْمًا)) (صحیح بخاری، الجہاد والسیر، باب سھام الفرس، حدیث :2863،4228)(ص۔ی)] رہا خمس، تو اس کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا جائے، ان میں سے ایک حصہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے مختص ہے جو کسی تعین کے بغیر عام مسلمانوں کے مصالح پر خرچ کیا جائے گا، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کو اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حصہ قرار دیا ہے اور اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس سے بے نیاز ہیں۔ پس معلوم ہوا کہ یہ حصہ در حقیقت بندگان الٰہی کے لئے ہے اور چونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کے مصارف متعین نہیں فرمائے اس لئے واضح ہوا کہ اس کو مصالح عامہ میں صرف کیا جائے گا۔ خمس کا دوسرا حصہ، ذوالقربیٰ کے لئے ہے اور یہاں ذووالقربیٰ سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قرابت دار یعنی بنو ہاشم اور بنو عبدالمطلب ہیں۔ ذووالقربیٰ کی طرف اس کی اضافت اس امر کی دلیل ہے کہ اس حکم کی علت مجرد قرابت ہے جس میں ان کے مال دار اور محتاج، مرد اور عورتیں سب شامل ہیں۔ خمس کا تیسرا حصہ، یتیموں کے لئے ہے جن کے باپ فوت ہوچکے ہیں اور خود وہ بہت کمسن ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر رحمت کی بناء پر ان کے لئے خمس کا پانچواں حصہ مقرر فرمایا ہے، کیونکہ وہ خود اپنے مصالح کی دیکھ بھال کرنے سے عاجز ہیں اور وہ کسی ایسی ہستی سے بھی محروم ہیں جو ان کے مصالح کا انتظام کرے۔ خمس کا چوتھا حصہ مساکین، یعنی چھوٹوں، بڑوں، مردوں اور عورتوں میں سے محتاج اور تنگ دستوں کے لئے ہے۔ خمس کا آخری حصہ مسافروں کی بہبود کے لئے ہے۔ (اِبْنُ السَبِيل ) سے مراد وہ غریب الوطن شخص ہے جو اپنے وطن سے کٹ کر رہ گیا ہو۔ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ مال غنیمت کا پانچواں حصہ ان مذکورہ مصارف سے باہر خرچ نہ کیا جائے۔ البتہ یہ لازم نہیں کہ ان اصناف مذکورہ میں برابر برابر تقسیم کیا جائے بلکہ مصالح کے مطابق ان کے درمیان اس مال کو تقسیم کیا جائے گا۔۔۔ یہی رائے زیادہ قرین صوب ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے خمس کو اس طریقے سے خرچ کرنا ایمان کی شرط قرار دیا ہے۔ چنانچہ فرمایا : ﴿إِن كُنتُمْ آمَنتُم بِاللَّـهِ وَمَا أَنزَلْنَا عَلَىٰ عَبْدِنَا يَوْمَ الْفُرْقَانِ ﴾ ” اگر تم ایمان رکھتے ہو اللہ پر اور اس چیز پر جو ہم نے نازل کی اپنے بندے پر فیصلے کے دن“ (یوم الفرقان) سے مراد یوم بدر ہے جس کے ذریعے سے اللہ تبارک و تعالیٰ نے حق اور باطل میں فیصلہ کیا۔ حق کو غالب کیا اور باطل کا بطلان ظاہر کیا۔ ﴿يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ ۗ ﴾ ” جس دن بھڑ گئیں دونوں فوجیں“ یعنی مسلمانوں کے گروہ اور کفار کے گروہ کی مڈ بھیڑ ہوئی۔۔۔ یعنی اگر تم اللہ تعالیٰ پر اور اس حق پر ایمان رکھتے ہو جو اس نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بدر کے روز نازل فرمایا، جس سے ایسے دلائل اور براہین حاصل ہوئے جو اس امر پر دلالت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو کچھ لائے ہیں، وہ حق ہے ﴿ وَاللَّـهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ  ﴾ ” اور اللہ ہر چیز پر قار ہے۔‘‘ یعنی جو کوئی اللہ کا مقابلہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ ہی غالب آتا ہے۔ الانفال
42 ﴿ إِذْ أَنتُم بِالْعُدْوَةِ الدُّنْيَا ﴾ ” جس وقت تم قریب کے ناکے پر تھے“ یعنی جب تم مدینہ سے قریب ترین وادی میں تھے۔ ﴿ وَهُم بِالْعُدْوَةِ الْقُصْوَىٰ ﴾ ” اور وہ (کفار) مدینہ سے بعید ترین وادی میں تھے“ اللہ تعالیٰ نے تم دونوں گروہوں کو ایک ہی وادی میں جمع کردیا ﴿وَالرَّكْبُ ﴾ ” اور قافلہ“ یعنی وہ تجارتی قافلہ جس کے تعاقب میں تم نکلے تھے، مگر اللہ تعالیٰ کا ارادہ کچھ اور ہی تھا ﴿أَسْفَلَ مِنكُمْ ﴾ ” تم سے نیچے کی طرف تھا“ یعنی وہ ساحل کے ساتھ ساتھ تھا۔ ﴿وَلَوْ تَوَاعَدتُّمْ ﴾ ” اور اگر تم آپس میں قرارداد کرلیتے“ اگر تم نے اور کفار نے اس حال میں اور اس وصف کے ساتھ ایک دوسرے سے وعدہ کیا ہوتا ﴿لَاخْتَلَفْتُمْ فِي الْمِيعَادِ ﴾ ” تو نہ پہنچتے وعدے پر ایک ساتھ“ یعنی مقررہ میعاد میں تقدیم و تاخیر یا جگہ کے انتخاب وغیرہ میں کسی عارضہ کی بناء پر تم میں اختلاف واقع ہوجاتا جو تمہیں میعاد مقررہ پر پہنچنے سے روک دیتا۔ ﴿وَلَـٰكِن ﴾ ”اور لیکن“ اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس حال میں اکٹھا کردیا۔ ﴿ لِّيَقْضِيَ اللَّـهُ أَمْرًا كَانَ مَفْعُولًا ﴾ ” تاکہ اللہ اس امر کو پورا کرے (جو روز ازل سے مقرر ہے) جس کا واقع ہونا لابدی ہے۔‘‘ ﴿ لِّيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَن بَيِّنَةٍ  ﴾ ” تاکہ مرے جس کو مرنا ہے دلیل کے وا ہونے کے بعد“ تاکہ معاند حق کے خلاف حجت اور دلیل قائم ہوجائے کہ اگر وہ کفر اختیار کرے تو پوری بصیرت کے ساتھ اختیار کرے اور اس کے بطلان کا اسے پورا یقین ہو اور یوں اللہ کے حضور پیش کرنے کے لئے اس کے پاس کوئی عذر نہ ہو۔ ﴿وَيَحْيَىٰ مَنْ حَيَّ عَن بَيِّنَةٍ ﴾ ” اور زندہ رہے جس کو جینا ہے دلیل کے واضح ہونے کے بعد“ تاکہ اللہ تعالیٰ نے دونوں گروہوں پر جو حق کے دلائل واضح کئے ہیں اس کی بناء پر اہل ایمان کے یقین اور بصیرت میں اضافہ ہو۔ یہ دلائل و براہین عقل مندوں کے لئے یاد دہانی ہے۔ ﴿وَإِنَّ اللَّـهَ لَسَمِيعٌ  ﴾ ” بے شک اللہ سننے والا ہے“ تمام آوازوں کو، زبانوں کے اختلاف اور مخلوق کی مختلف حاجات کے باوجود ﴿عَلِيمٌ ﴾ ” جاننے والا ہے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ ظاہری اعمال، ضمیر میں چھپی ہوئی نیتوں اور بھیدوں، غائب اور حاضر ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔ الانفال
43 اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آپ کے خواب میں مشرکین کی بہت کم تعداد دکھائی۔ اس بناء پر آپ نے اپنے اصحاب کرام رضی اللہ عنہم کو خوشخبری دے دی، اس سے وہ مطمئن اور ان کے دل مضبوط ہوگئے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَلَوْ أَرَاكَهُمْ كَثِيرًا ﴾ ” اور اگر اللہ ان کو بہت کرکے تمہیں دکھاتا“ یعنی اگر اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کفار کثیر تعداد میں دکھائے ہوتے اور پھر آپ نے اس کی خبر اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم کو دی ہوتی ﴿لَّفَشِلْتُمْ وَلَتَنَازَعْتُمْ فِي الْأَمْرِ  ﴾ تو تم لوگ جی چھوڑ دیتے اور جو معاملہ تمہیں در پیش تھا اس میں جھگڑنا شروع کردیتے، کوئی کہتا کہ آگے بڑھ کر کفار سے لڑائی کرو اور کوئی اس رائے کے خلاف ہوتا اور جھگڑا کمزوری کا باعث بنتا ہے۔ ﴿وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ سَلَّمَ ﴾ ” اور لیکن اللہ نے بچا لیا“ یعنی اللہ نے تم پر لطف و کرم کیا ﴿ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ ﴾ ” بے شک وہ سینوں کی باتوں تک سے واقف ہے۔‘‘ یعنی تمہارے سینوں میں ثابت قدمی یا بے صبری، سچائی یا جھوٹ جو کچھ بھی ہے اللہ تعالیٰ اسے خوب جانتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے تمہارے دلوں کی اس کیفیت کو جان لیا جو تم پر اس کے لطف و احسان اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خواب کی صداقت کا باعث بنی اور اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کی نگاہوں میں ان کے دشمن کو تھوڑا کرکے دکھایا اور اے مومنو ! تمہیں ان کی نظروں میں تھوڑا کرکے دکھایا۔ چنانچہ دونوں گروہوں میں سے ہر گروہ کو اپنا مدمقابل تھوڑا نظر آتا تھا، تاکہ دونوں میں سے ہر ایک، دوسرے پر پیش قدمی کرنے میں تامل نہ کرے۔ الانفال
44 ﴿ لِيَقْضِيَ اللَّـهُ أَمْرًا كَانَ مَفْعُولً ﴾ ” تاکہ اللہ تعالیٰ اس مر کو پورا کر دے جس کا پورا ہونا مقدر تھا“ یعنی اہل ایمان کو فتح و نصرت عطا کرے، کفار کو ان کے حال پر چھوڑ کر ان سے علیحدہ ہوجائے، چنانچہ ان کے رہنما اور گمراہ سردار قتل ہوئے اور ان میں سے کوئی قابل ذکر شخص باقی نہ بچا۔ پھر اس کے بعد جب کفار کو اسلام کی دعوت دی گئی تو ان کا مطیع ہونا آسان ہوگیا اور یہ چیز باقی بچ جانے والے لوگوں پر اللہ تعالیٰ کے لطف و کرم کا باعث بنی جس کو اللہ تعالیٰ نے اسلام قبول کرنے کی توفیق عطا کرکے ان پر احسان فرمایا۔ ﴿ وَإِلَى اللَّـهِ تُرْجَعُ الْأُمُورُ ﴾ ” اور سب کاموں کا رجوع اللہ ہی کی طرف ہے۔“ یعنی مخلوق کے تمام معاملات اللہ تعالیٰ کی طرف ہی لوٹتے ہیں، اللہ تعالیٰ پاک اور ناپاک کو علیحدہ علیحدہ کرتا ہے، تمام مخلوقات پر عدل و انصاف پر مبنی فیصلے کو نافذ کرتا ہے جس میں کوئی ظلم وجور نہیں ہوتا۔ الانفال
45 ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا لَقِيتُمْ فِئَةً ﴾ ” اے ایمان والو ! جب ملو تم کسی گروہ کو“ یعنی کفار کا گروہ جو تمہارے ساتھ جنگ کرتا ہے ﴿ فَاثْبُتُوا ﴾ ” تو ثابت قدم رہو۔‘‘ یعنی کفار کے خلاف جنگ میں ثابت قدم رہو، صبرے سے کام لو اور اس عظیم نیکی میں جس کا انجام عزت و نصرت ہے، اپنے آپ کو قابو میں رکھو اور اس بارے میں کثرت ذکر سے مدد لو۔ ﴿ لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ﴾ ” تاکہ تم فلاح پاؤ“ یعنی شاید تم وہ کچھ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاؤ جو تمہارا مطلوب و منشاء ہے، یعنی دشمنوں کے مقابلے میں فتح و نصرت۔ پس صبر، ثابت قدمی اور اللہ تعالیٰ کے ذکر کی کثرت، فتح و نصرت کے سب سے بڑے اسباب ہیں۔ الانفال
46 ﴿وَأَطِيعُوا اللَّـهَ وَرَسُولَهُ ﴾ ” اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔‘‘ ان دونوں کے احکام کی اپنے تمام احوال میں پیروی کرکے اور اس کے پیچھے چل کر ﴿وَلَا تَنَازَعُوا ﴾ ” اور آپس میں نہ جھگڑنا۔‘‘ یعنی اس طرح نہ جھگڑو جس سے تمہارے دل تشتت اور افتراق کا شکار ہوجائیں۔ ﴿ فَتَفْشَلُوا  ﴾ ” پس تم بزدل ہوجاؤ گے“ ﴿وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ  ﴾ ” اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے“ یعنی عزائم کمزورہو جائیں گے’ تمہاری طاقت بکھر جائے گی اور تم سے فتح و نصرت کا وہ وعدہ اٹھا لیا جائے گا جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت سے مشروط ہے۔ ﴿وَاصْبِرُوا ﴾ ” اور صبر سے کام لو۔‘‘ یعنی اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر ثابت قدم رکھو ﴿إِنَّ اللَّـهَ مَعَ الصَّابِرِينَ ﴾ ” بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ اپنی مدد، فتح و نصرت اور تائید کے ذریعے سے صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ اس لئے اس سے ڈرو اور اس کے سامنے عاجزی اختیار کرو۔ الانفال
47 ﴿ وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ خَرَجُوا مِن دِيَارِهِم بَطَرًا وَرِئَاءَ النَّاسِ وَيَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّـهِ ۚ ﴾ ” اور تم ان لوگوں کی طرح نہ ہونا جو اتراتے ہوئے اور لوگوں کو دکھلاتے ہوئے نکلے اور وہ لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکتے تھے“ یعنی یہ ان کا مقصد تھا جس کے لئے وہ نکل کر آئے تھے، یہی ان کا منشا تھا جس نے ان کو ان کے گھر سے نکالا تھا، ان کا مقصد صرف غرور اور زمین میں تکبر کا اظہار تھا، تاکہ لوگ ان کو دیکھیں اور وہ ان کے سامنے فخر کا اظہار کریں۔ گھروں سے نکلنے میں ان کا سب سے بڑا مقصد یہ تھا کہ وہ ان لوگوں کو روکیں جو اللہ کے راستے پر گامزن ہونا چاہتے ہیں ﴿وَاللَّـهُ بِمَا يَعْمَلُونَ مُحِيطٌ  ﴾ ” اور اللہ کے احاطہ میں ہے جو کچھ وہ کرتے ہیں“ اسی لئے اس نے تمہیں ان کے مقاصد کے بارے میں آگاہ کیا اور تمہیں ان کی مشابہت اختیار کرنے سے ڈرایا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ عنقریب انہیں سخت سزا دے گا۔ پس گھروں سے نکلنے میں تمہارا مقصد صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کی طلب، دین کی سربلندی، اللہ تعالیٰ کی ناراضی کی منزل کو جانے والے راستے سے روکنا اور اللہ تعالیٰ کے سیدھے راستے کی طرف لوگوں کو کھینچنا ہو جو نعمتوں سے بھری جنت کو جاتا ہے۔ الانفال
48 ﴿وَإِذْ زَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ أَعْمَالَهُمْ ﴾ ” اور جب شیطان نے ان کے اعمال ان کو آراستہ کر دکھائے“ یعنی شیطان نے ان کے دلوں میں ان کے اعمال خوبصورت بنا دیئے اور انہیں دھوکے میں ڈال دیا۔ ﴿وَقَالَ لَا غَالِبَ لَكُمُ الْيَوْمَ مِنَ النَّاسِ ﴾ ” اور اس نے کہا آج تم پر کوئی غالب نہیں ہوگا لوگوں میں سے“ کیونکہ تم تعداد، سازوسامان اور ہیئت کے اعتبار سے اتنے طاقتور ہو کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اس کے ساتھی تمہارا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ ﴿وَإِنِّي جَارٌ لَّكُمْ ﴾ ” اور میں تمہارا حمایتی ہوں“ میں اس کے مقابلے میں تمہارا ساتھی ہوں جس کے شب خون سے تم ڈرتے ہو، کیونکہ ابلیس سراقہ بن مالک بن جعشم مدلجی کی شکل میں قریشی کے پاس آیا، قریش اور بنو مدلج کے درمیان عداوت تھی اس لئے قریش ان کے شب خون سے بہت خائف تھے۔ شیطان نے ان سے کہا ” میں تمہارے ساتھ ہوں۔‘‘ چنانچہ ان کے دل مطمئن ہوگئے اور وہ غضبناک ہو کر آئے۔ ﴿فَلَمَّا تَرَاءَتِ الْفِئَتَانِ  ﴾ ” پس جب دونوں فوجیں ایک دوسرے کے مقابل ہوئیں“ مسلمانوں اور کافروں کا آمنا سامنا ہوا اور شیطان نے جبریل علیہ السلام کو دیکھا کہ وہ ترتیب کے ساتھ فرشتوں کی صف بندی کررہے ہیں تو سخت خوفزدہ ہوا ﴿ نَكَصَ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ ﴾ ” تو وہ ایڑیوں کے بل پیچھے ہٹ گیا۔‘‘ یعنی پسپا ہو کر الٹے پاؤں واپس بھاگا ﴿وَقَالَ ﴾ اور جن کو اس نے دھوکہ اور فریب دیا تھان سے کہنے لگا ﴿ إِنِّي بَرِيءٌ مِّنكُمْ إِنِّي أَرَىٰ مَا لَا تَرَوْنَ ﴾ ” میں تمہارے ساتھ نہیں ہوں’’میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے“ یعنی میں ان فرشتوں کو دیکھ رہا ہوں جن کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا ﴿ إِنِّي أَخَافُ اللَّـهَ ﴾ ” مجھے تو اللہ سے ڈر لگتا ہے۔‘‘ یعنی میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہوں کہ کہیں وہ مجھے اس دنیا ہی میں عذاب نہ دے دے ﴿وَاللَّـهُ شَدِيدُ الْعِقَابِ ﴾ ” اور اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔‘‘ اس میں یہ احتمال بھی ہے کہ شیطان نے ان کے دل میں وسوسہ ڈال کر ان کے سامنے یہ بات مزین کردی ہو کہ آج کوئی تم پر غالب نہیں آسکتا، آج میں تمہارا رفیق ہوں اور جب وہ ان کو میدان جنگ میں لے آیا تو برات کا اظہار کرتے ہوئے پسپا ہو کر ان کو چھوڑ کر بھاگ گیا،جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿كَمَثَلِ الشَّيْطَانِ إِذْ قَالَ لِلْإِنسَانِ اكْفُرْ فَلَمَّا كَفَرَ قَالَ إِنِّي بَرِيءٌ مِّنكَ إِنِّي أَخَافُ اللَّـهَ رَبَّ الْعَالَمِينَ ۔ فَكَانَ عَاقِبَتَهُمَا أَنَّهُمَا فِي النَّارِ خَالِدَيْنِ فِيهَا ۚ وَذَٰلِكَ جَزَاءُ الظَّالِمِينَ ﴾ (الحشر : 59؍ 16، 17) ” ان کی مثال شیطان کی سی ہے اس نے انسان سے کہا کفر کر، جب اس نے کفر کیا تو کہنے لگا، میں تجھ سے بری ہوں۔ میں تو اللہ، جہانوں کے رب سے ڈرتا ہوں۔ پس دونوں کا انجام یہ ہوگا کہ دونوں جہنم میں جائیں گے اور ہمیشہ اس میں رہیں گے اور ظالموں کی یہی سزا ہے۔‘‘ الانفال
49 ﴿إِذْ يَقُولُ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ ﴾ ” اس وقت منافع اور جن کے دلوں میں مرض تھا کہتے تھے“ یعنی جب اہل ایمان اپنی قلت اور مشرکین کی کثرت کے باوجود لڑائی کے لئے نکلے تو ضعیف الایمان لوگ جن کے دلوں میں شک و شبہ تھا، اہل ایمان سے کہنے لگے ﴿غَرَّ هَـٰؤُلَاءِ دِينُهُمْ ﴾ ”ان لوگوں کو ان کے دین نے دھوکے میں ڈال دیا ہے۔‘‘ یعنی جس دین پر یہ کاربند ہیں اس دین نے انہیں اس ہلاکت انگیز مقام پر پہنچا دیا ہے جس کا مقابلہ کرنے کی ان میں طاقت نہیں ہے۔ یہ بات وہ اہل ایمان کو حقیر اور کم عقل سمجھتے ہوئے کہتے تھے، حالانکہ وہ خود۔۔۔ اللہ کی قسم۔۔۔ کم عقل اور بے سمجھ تھے، کیونکہ جذبہ ایمان مومن کو ایسے ہولناک مقامات میں کود جانے پر آمادہ کرتا ہے جہاں بڑے بڑے لشکر آگے بڑھنے سے گریز کرتے ہیں۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنے والا مومن جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کے پاس کوئی قوت و اختیار نہیں۔ اگر تم لوگ کسی شخص کو ذرہ بھر فائدہ پہنچانے کے لئے اکٹھے ہوجائیں تو اسے کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتے اور اگر اس کو نقصان پہنچانے پر اکٹھے ہوجائیں تو اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے مگر صرف وہی جو اللہ تعالیٰ نے اس کی تقدیر میں لکھ دیا ہے۔ مومن جانتا ہے کہ وہ حق پر ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے قضا و قدر میں حکمت والا اور نہایت رحمت کرنے والا ہے اس لئے جب وہ کوئی اقدام کرتا ہے تو وہ (مخالفین کی) کثرت اور قوت کو خاطر میں نہیں لاتا۔ وہ اطمینان قلب کے ساتھ اپنے رب پر بھروسہ کرتا ہے۔ وہ گھبراتا ہے نہ بزدلی دکھاتا ہے۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَمَن يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّـهِ فَإِنَّ اللَّـهَ عَزِيزٌ ﴾ ” اور جو اللہ پر بھروسہ کرتا ہے تو اللہ غالب ہے“ کوئی طاقت اس کی طاقت پر غالب نہیں آسکتی۔ ﴿ حَكِيمٌ ﴾ ” وہ حکمت والا ہے“ یعنی وہ اپنی قضا و قدر میں نہایت حکمت والا ہے الانفال
50 اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر آپ کفر کا ارتکاب کرنے والوں کو اس وقت دیکھیں جب موت کے فرشتے ان کی روح قبض کررہے ہوں گے، ان کو سخت قلق ہوگا اور وہ سخت تکلیف اور کرب میں ہوں گے۔ ﴿يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبَارَهُمْ ﴾ ” مارتے ہیں وہ ان کے مونہوں پر اور ان کے پیچھے“ اور ان سے کہتے ہیں ” اپنی جان نکالو۔‘‘ ان کی جانیں نکلنے سے انکار کریں گی، کیونکہ انہیں علم ہے کہ انہیں کس درد ناک عذاب کا سامنا کرنا ہوگا۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَذُوقُوا عَذَابَ الْحَرِيقِ  ﴾ ” اور عذاب آتش چکھو۔‘‘ یعنی نہایت سخت اور جلانے والے عذاب کا مزا چکھو۔ یہ عذاب تمہیں تمہارے رب کی طرف سے کسی ظلم و جور کی وجہ سے نہیں دیا جائے گا بلکہ یہ صرف تمہارے گناہوں کی پاداش ہے جن کی یہ تاثیر ہے’ جس نے یہ اثر دکھایا ہے اور اولین و آخرین کے بارے میں یہی سنت الٰہی ہے، کیونکہ ان جھٹلانے والوں کی عادت اور ان کے گناہوں کی پاداش میں ان کی ہلاکت ایسے ہی ہے الانفال
51 الانفال
52 ﴿ كَدَأْبِ آلِ فِرْعَوْنَ ۙ وَالَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ﴾ ” جیسے عادت آل فرعون کی تھی اور ان کی جو ان سے پہلے تھے“ یعنی انبیاء و مرسلین کی تکذیب کرنے والی گزشتہ قوموں میں سے ﴿كَفَرُوا بِآيَاتِ اللَّـهِ فَأَخَذَهُمُ اللَّـهُ ﴾ ” انہوں نے اللہ کی آیتوں کا انکار کیا، تو اللہ نے ان کو پکڑ لیا“ اللہ تعالیٰ نے عذاب کے ذریعے سے ان کو پکڑ لیا ﴿بِذُنُوبِهِمْ ۗ إِنَّ اللَّـهَ قَوِيٌّ شَدِيدُ الْعِقَابِ  ﴾ ” ان کے گناہوں پر، یقیناً اللہ طاقت ور ہے، سخت عذاب کرنے والا۔‘‘ اللہ تعالیٰ اپنے عذاب کے ساتھ جس کی گرفت کرنا چاہے تو اسے کوئی بے بس نہیں کرسکتا۔ ﴿مَّا مِن دَابَّةٍ إِلَّا هُوَ آخِذٌ بِنَاصِيَتِهَا ۚ  ﴾ (ھود : 11؍ 56) ” زمین پر چلنے والا جو بھی جانور ہے اللہ نے اس کو پیشانی کے بالوں سے پکڑ رکھا ہے۔ “ الانفال
53 ﴿ذَٰلِكَ ﴾ وہ عذاب جو اللہ تعالیٰ نے جھٹلانے والی قوموں پر نازل فرمایا تھا اور وہ نعمتیں جو انہیں حاصل تھیں، ان سے سلب کرلی گئی تھیں۔ اس کا سبب ان کے گناہ اور ان کا اطاعت کے رویے کو بدل کر نافرمانی کا رویہ اختیار کرنا تھا۔ ﴿بِأَنَّ اللَّـهَ لَمْ يَكُ مُغَيِّرًا نِّعْمَةً أَنْعَمَهَا عَلَىٰ قَوْمٍ  ﴾ ” اللہ بدلنے والا نہیں ہے اس نعمت کو جودی اس نے کسی قوم کو“ اللہ تعالیٰ کسی قوم کو دین و دنیا کی نعمتیں عطا کرتا ہے تو ان کو سلب نہیں کرتا، بلکہ ان کو باقی رکھتا ہے اور اگر وہ شکر کرتے رہیں تو ان میں اضافہ کرتا ہے۔ ﴿حَتَّىٰ يُغَيِّرُوا مَا بِأَنفُسِهِمْ﴾ ” جب تک وہی نہ بدل ڈالیں اپنے دلوں کی بات“ یعنی جب تک کہ وہ اطاعت کے رویے کو بدل کر نافرمانی کا رویہ اختیار نہیں کرتے، پس جب وہ نعمتوں کی ناشکری کرتے اور ان کے بدلے کفر کرتے ہیں۔۔۔ تب اللہ تعالیٰ ان سے ان نعمتوں کو چھین لیتا ہے اور ان نعمتوں کو اس طرح بدل ڈالتا ہے جس طرح انہوں نے اپنے رویے کو بدل ڈالا۔ اس بارے میں اپنے بندوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا معاملہ حکمت اور عدل و احسان پر مبنی ہے، کیونکہ وہ ان کو عذاب نہیں دیتا، مگر ان کے ظلم کے سبب سے اور بندے اس کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہیں تو ان کو عبرت ناک سزا دیتا ہے، جس سے وہ اپنے اولیا کے دل اپنے طرف کھینچ لیتا ہے۔ ﴿وَأَنَّ اللَّـهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ﴾ ” بے شک اللہ سنتا جانتا ہے۔‘‘ بولنے والے جو کچھ بولتے ہیں خواہ وہ آہستہ آواز سے بات کریں یا اونچی آواز میں، اللہ تعالیٰ سب کی باتیں سنتا ہے اور وہ سب کچھ جانتا ہے جو بندوں کے ضمیر میں مخفی اور ان کی نیتوں میں چھپا ہوا ہے، وہ اپنے بندوں کی تقدیر میں وہی کچھ جاری کرتا ہے جس کا اس کا علم اور اس کی مشیت تقاضا کرتے ہیں۔ الانفال
54 ﴿کَدَاْبِ اٰلِ فِرْعَوْنَ﴾ ” جیسی عادت آل فرعون کی“ یعنی فرعون اور اس کی قوم کی عادت ﴿وَالَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ۚ كَذَّبُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ ﴾ ”اور ان کی جو ان سے پہلے لوگ تھے، انہوں نے رب کی آیتوں کو جھٹلایا ” یعنی جب ان کے پاس ان کے رب کی نشانیاں آئیں تو انہوں نے ان کی تکذیب کی۔ ﴿فَأَهْلَكْنَاهُم بِذُنُوبِهِمْ  ﴾ ” پس ہم نے ان کو ان کے گناہوں کے باعث ہلاک کردیا ۔‘‘ ہر ایک کو اس کے جرم کے مطابق۔ ﴿وَكُلٌّ ﴾ ” اور وہ سب“ یعنی تمام ہلاک ہونے والے اور جن پر عذاب نازل کیا گیا۔ ﴿ كَانُوا ظَالِمِينَ ﴾ ” ظالم تھے۔‘‘ یعنی وہ اپنے آپ پر ظلم کرنے والے اور اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے والے تھے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان پر ظلم نہیں کیا اور نہ ان کو کسی ایسے جرم میں پکڑا ہے جس کا انہوں نے ارتکاب نہ کیا ہو۔ پس ان لوگوں کو، جو ان آیات کریمات کے مخاطب ہیں،ظلم میں ان قوموں کی مشابہت سے بچنا چاہئے، ورنہ ان پر بھی اللہ تعالیٰ وہی عذاب نازل کرے گا جو ان فساق و فجار لوگوں پر نازل کیا تھا۔ الانفال
55 فرمایا ﴿إِنَّ ﴾ بے شک وہ لوگ جن میں یہ تین خصلتیں جمع ہیں۔۔۔ یعنی کفر، عدم ایمان اور خیانت۔۔۔ خیانت سے مراد یہ ہے کہ وہ جو عہد کرتے ہیں، اس پر ثابت قدمی نہیں دکھاتے اور جو بات کرتے ہیں اس پر پکے نہیں رہتے ﴿شَرَّ الدَّوَابِّ عِندَ اللَّـهِ  ﴾ ” سب جان داروں میں بدترین ہیں اللہ کے ہاں“ پس وہ گدھوں اور کتوں اور دیگر چوپایوں سے بھی بدتر ہیں، کیونکہ ان کے اندر بھلائی معدوم ہے اور برائی متوقع ہے، لہٰذا ان کو ختم کرنا اور ہلاک کرنا ضروری ہے، تاکہ ان کی بیماری دوسروں میں نہ پھیلے، الانفال
56 الانفال
57 اسی لئے فرمایا : ﴿فَإِمَّا تَثْقَفَنَّهُمْ فِي الْحَرْبِ ﴾ ”پس جب تم ان کو حالت جنگ میں پاؤ‘‘ جب کہ تمہارے اور ان کے درمیان عہد و میثاق نہ ہو۔ ﴿ فَشَرِّدْ بِهِم مَّنْ خَلْفَهُمْ  ﴾ ” تو ان کو ایسی سزا دو کہ دیکھ کر بھاگ جائیں ان کے پچھلے“ یعنی ان کے ذریعے سے دوسروں کو سبق سکھا دیں اور ان کو ایسی سزا دیں کہ وہ بعد میں آنے والوں کے لئے نشان بن جائیں۔ ﴿لَعَلَّهُمْ ﴾ ” شاید کہ وہ“ یعنی بعد میں آنے والے ﴿يَذَّكَّرُونَ ﴾ ” نصیحت پکڑیں۔“ ان کے کرتوتوں سے نصیحت پکڑیں تاکہ ان پر بھی وہی عذاب نازل نہ ہوجائے جو ان پر نازل ہوا تھا۔ یہ سزاؤں اور حدود کے فوائد ہیں جو گناہوں پر مترتب ہوتی ہیں۔ یہ ان لوگوں کے لئے زجر و تو بیخ کا سبب ہیں، جنہوں نے گناہ نہیں کئے بلکہ ان کے لئے بھی جنہوں نے گناہ کا ارتکاب کیا تاکہ وہ گناہ کا اعادہ نہ کریں۔ اس عقوبت کے لئے حالت جنگ کی قید لگانا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ کافر۔۔۔ اگرچہ بہت زیادہ خیانت کا ارتکاب کرنے والا بد عہد ہو۔۔۔ جب اس سے معاہدۂ امن کرلیا جائے، تو اس عہد میں خیانت کرنا اور اسے عقوبت دینا جائز نہیں۔ الانفال
58 یعنی جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اور کسی قوم کے درمیان جنگ نہ کرنے کا عہد اور میثاق ہو اور آپ کو اس قوم کی طرف سے خیانت اور بدعہدی کا خدشہ ہو، یعنی ان کی طرف سے معاہدے کی صریحاً خلاف ورزی کے بغیر، ایسے قرائن و احوال ہوں جو عہد میں ان کی خیانت پر دلالت کرتے ہوں ﴿ فَانبِذْ إِلَيْهِمْ ﴾ ” تو انہی کی طرف پھینک دیں“ ان کا عہد، یعنی ان کی طرف پھینک دیں اور ان کو اطلاع دے دیں کہ آپ کے درمیان اور ان کے درمیان کوئی معاہدہ نہیں ﴿عَلَىٰ سَوَاءٍ ﴾ ” تاکہ تم اور وہ برابر ہوجاؤ“ یعنی معاہدہ ٹوٹنے کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا علم اور ان کا علم مساوی ہو، آپ کے لئے جائز نہیں کہ آپ ان کے ساتھ بدعہدی کریں یا کوئی ایسی کوشش کریں کہ موجبات عہد اس سے مانع ہوں جب تک کہ آپ ان کو اس کے بارے میں آگاہ نہ کردیں ﴿إِنَّ اللَّـهَ لَا يُحِبُّ الْخَائِنِينَ ﴾ ” بے شک اللہ خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا“ بلکہ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ خیانت کرنے والوں سے سخت ناراض ہوتا ہے۔ اس لئے معاملے کا واضح ہونا نہایت ضروری ہے جو تمہیں خیانت سے بری کر دے۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ جب ان کی خیانت متحقق ہوجائے تو ان کی طرف معاہدہ پھینکنے کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ ان کی طرف سے کوئی اخفا نہیں رہا، بلکہ ان کی بدعہدی معلوم ہوچکی ہے، علاوہ ازیں اس کا کوئی فائدہ بھی نہیں نیز اس بناء پر کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿عَلَىٰ سَوَاءٍ ۚ ﴾ ” برابر“ اور یہاں ان کی بدعہدی سب کو معلوم ہے۔ آیت کریمہ کا مفہوم اس پر بھی دلالت کرتا ہے کہ اگر ان کی طرف سے کسی خیانت کا خدشہ نہ ہو’ یعنی ان کے اندر کوئی ایسی چیز نہ پائی جاتی ہو جو ان کی خیانت پر دلالت کرتی ہو، تو عہد کو ان کی طرف پھینکنا جائز نہیں، بلکہ اس معاہدے کو مدت مقررہ تک پورا کرنا واجب ہے۔ الانفال
59 یعنی اپنے رب کے ساتھ کفر کرنے والے اور اس کی آیات کو جھٹلانے والے یہ نہ سمجھ لیں کہ وہ اللہ تعالیٰ پر بازی لے گئے۔ وہ اللہ تعالیٰ کو بے بس نہیں کرسکتے۔ اللہ تعالیٰ ان کی گھات میں ہے اور کفار کو مہلت دینے اور ان کو سزا دینے میں عجلت نہ کرنے میں اللہ تعالیٰ کی حکمت بالغہ پنہاں ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے مومن بندوں کی آزمائش، ان کا اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور اس کی رضا کو زادراہ بنانا جس کے ذریعے سے وہ مقامات بلند پر پہنچتے ہیں اور ان کا اپنے آپ کو ان اخلاق واوصاف سے متصف کرنا جن کے بغیر وہ اس منزل پر نہیں پہنچ سکتے تھے۔۔۔ سب اللہ تعالیٰ کی حکمت بالغہ ہی کا حصہ ہے۔ الانفال
60 اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں سے فرمایا: ﴿وَأَعِدُّوا  ﴾ ” اور تیار کرو تم“ یعنی اپنے کفار دشمنوں کے لئے تیار کرو جو تمہیں ہلاک کرنے اور تمہارے دین کے ابطال کے درپے رہتے ہیں۔ ﴿مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ ﴾ ”اپنی طاقت بھر قوت‘‘ یعنی قوت عقلیہ، قوت بدنیہ اور مختلف انواع کا اسلحہ، جو دشمن کے خلاف جنگ میں تمہاری مدد کرے۔کفار کے خلاف اس تیاری میں وہ تمام صنعتیں آجاتی ہیں جن سے اسلحہ اور آلات حرب بنائے جاتے ہیں، مثلاً توپیں، مشین گنیں،بندوقیں، جنگی طیارے، بری اور بحری سواریاں، دفاعی قلعہ بندیاں،مورچے اور دیگر دفاعی آلات حرب وغیرہ۔ نیز حکمت عملی اور سیاست کاری میں مہارت پیدا کرنا،جس کے ذریعے سے وہ آگے بڑھ سکیں اور دشمن کے شر سے اپنا دفاع کرسکیں۔ نشانہ بازی، شجاعت اور جنگی منصوبہ سازی کی تعلیم حاصل کرنا۔ اسی لئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (( اَلاَ اِنّ َالْقُوّة َالرّمَيُ )) ” سن لو ! قوت سے مراد تیر اندازی ہے۔‘‘ [صحیح مسلم، کتاب الإمارۃ، باب فضل الرمی۔۔۔الخ ‘حدیث:1917]کیونکہ عہد رسالت میں تیراندازی، جنگ کرنے کا ایک بہت بڑا ذریعہ تھا۔ نیز ان گاڑیوں کی تیاری، جو جنگ میں نقل و حمل کے کام آتی ہیں، جنگی استعداد میں شمار ہوتی ہیں۔ بنا بریں فرمایا : ﴿وَمِن رِّبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّـهِ وَعَدُوَّكُمْ ﴾ ” اور گھوڑوں کو تیار رکھ کر، کہ اس سے دھاک بٹھاؤ تم اللہ کے دشمنوں پر اور اپنے دشمنوں پر“ اس حکم کی علت، اس زمانے میں بھی موجود ہے اور وہ ہے دشمنوں کو مرعوب رکھنا۔ حکم کا دارومدار علت پر ہوتا ہے۔ اگر دنیا میں ایسے آلات اور سامان حرب موجود ہوں جن کے ذریعے سے دشمن کو مذکورہ چیزوں سے زیادہ خوف زدہ رکھا جاسکتا ہو۔۔۔ یعنی گاڑیاں اور ہوائی طیارے جو جنگ میں کام آتے ہیں اور جن کی ضرب بھی کاری ہے۔۔۔ تو ان کو حاصل کرکے ان کے ذریعے سے جنگی استعداد بڑھانا فرض ہے۔ حتیٰ کہ اگر اس سامان حرب کو صنعت کی تعلیم حاصل کئے بغیر حاصل کرنا ممکن نہ ہو تو یہ تعلیم حاصل کرنا بھی فرض ہوگا، کیونکہ فقہی قاعدہ ہے ( مَالَا یَتِمُّ الْوَاجِبُ اِلاَّ بِہ فَھُوَ وَاجِبٌ )’’جس کے بغیر واجب کی تکمیل ممکن نہ ہو تو وہ بھی واجب ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان : ﴿ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّـهِ وَعَدُوَّكُمْ ﴾ میں ” تمہارے دشمن“ سے مراد وہ ہیں جن کے بارے میں تم جانتے ہو کہ وہ تمہارے دشمن ہیں۔ ﴿وَآخَرِينَ مِن دُونِهِمْ لَا تَعْلَمُونَهُمُ ﴾ ” اور دوسروں کو ان کے سوا، جن کو تم نہیں جانتے“ یعنی جن کے بارے میں تمہیں معلوم نہیں جو اس وقت کے بعد جب اللہ تم سے مخاطب ہے، تمہارے ساتھ لڑائی کریں گے۔ ﴿اللَّـهُ يَعْلَمُهُمْ﴾ ” اللہ ان کو جانتا ہے۔‘‘ پس اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ان کے خلاف تیار رہنے کا حکم دیا ہے۔ دشمن کے خلاف جنگ میں جو چیز سب سے زیادہ مدد دیتی ہے وہ ہے کفار کے خلاف جہاد میں مال خرچ کرنا’ اس لئے اللہ تعالیٰ نے جہاد میں مال خرچ کرنے کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا : ﴿وَمَا تُنفِقُوا مِن شَيْءٍ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ ﴾ ” اور جو کچھ تم خرچ کرو گے اللہ کی راہ میں“ خواہ یہ قلیل ہو یا کثیر ﴿يُوَفَّ إِلَيْكُمْ  ﴾ ” وہ پورا پورا تمہیں دیا جائے گا“ یعنی قیامت کے روز اس کا اجر کئی گنا کرکے ادا کیا جائے گا، حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کئے گئے مال کا ثواب سات سو گنا تک، بلکہ اس سے بھی زیادہ بڑھا کردیا جائے گا۔ ﴿وَأَنتُمْ لَا تُظْلَمُونَ ﴾ ” اور تمہاری حق تلفی نہ ہوگی۔‘‘ یعنی تمہارے لئے اس کے اجرو ثواب میں کچھ بھی کمی نہ کی جائے گی۔ الانفال
61 اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿ وَإِن جَنَحُوا  ﴾ ” اگر وہ مائل ہوں“ یعنی جنگ کرنے والے کفار ﴿لِلسَّلْمِ ﴾ ” صلح کی طرف“ یعنی صلح اور ترک قتال کی طرف ﴿ فَاجْنَحْ لَهَا وَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّـهِ ﴾ ” تو آپ بھی اس (صلح) کی طرف مائل ہوجائیں اور اللہ پر بھروسہ کریں“ یعنی جو چیز وہ طلب کرتے ہیں اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتے ہوئے ان کو دے دو، کیونکہ اس میں بہت سے فوائد ہیں’ مثلا ً: 1۔ ہر وقت طلب عافیت مطلوب ہے اور اگر وہ طلب عافیت میں ابتداء کرتے ہیں تو اس کا مثبت جواب دینا اولیٰ ہے۔ 2۔ اس سے تمہاری قوتیں جمع ہوں گی اور کسی دوسرے وقت اگر ان کے خلاف جنگ ناگزیر ہوجائے تو تمہاری یہ جنگی استعداد تمہارے کام آئے گی۔ 3۔ اگر تم نے صلح کرلی اور ایک دوسرے سے مامون ہوگئے اور ایک دوسرے کے اطوار کی معرفت حاصل کرلی تو اسلام کی خاصیت یہ ہے کہ وہ ہمیشہ غالب آتا ہے کبھی مغلوب نہیں ہوتا۔ پس ہر وہ شخص جو عقل و بصیرت سے بہرہ ور ہے اگر وہ انصاف سے کام لیتا ہے تو وہ اسلام کو، اس کے اوامرو نواہی کی خوبی، مخلوق کے ساتھ اس کے حسن معاملہ اور ان کے ساتھ عدل و انصاف کی بناء پر دوسرے ادیان پر ترجیح دے گا۔ وہ یہ بھی دیکھے گا کہ کسی بھی پہلو سے اس میں کوئی ظلم و جور نہیں اور کثرت سے لوگ اس یک طرف راغب ہوتے ہیں۔ تب یہ صلح کفار کے خلاف مسلمانوں کے لئے مددگار ثابت ہوتی ہے۔ اس صلح میں صرف ایک بات کا خوف ہوتا ہے کہ کہیں کفار کا مقصد مسلمانوں کو دھوکہ دینا اور اس کے ذریعے سے صرف وقت اور مہلت حاصل کرنا نہ ہو۔۔۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو آگاہ فرمایا ہے کہ وہ کفار کے مکروفریب کے مقابلے میں ان کے لئے کافی ہے اور اس مکروفریب کا ضرر انہی کی طرف لوٹے گا۔ الانفال
62 چنانچہ فرمایا : ﴿وَإِن يُرِيدُوا أَن يَخْدَعُوكَ فَإِنَّ حَسْبَكَ اللَّـهُ ﴾ ” اور اگر وہ آپ کو دھوکہ دینا چاہیں، تو آپ کو اللہ کافی ہے۔‘‘ یعنی آپ کو جوایذا پہنچتی ہے اللہ تعالیٰ اس کے لئے کافی ہے۔ وہی ہے جو آپ کے مصالح اور امور ضروریہ کی دیکھ بھال کرتا ہے۔ آپ کے لئے اللہ تعالیٰ کی نصرت اور کفایت اس سے پہلے بھی تھی جس پر آپ کا قلب مطمئن تھا۔ ﴿هُوَ الَّذِي أَيَّدَكَ بِنَصْرِهِ وَبِالْمُؤْمِنِينَ  ﴾ ” وہی ہے جس نے آپ کو اپنی مدد سے اور مومنوں ( کی جمعیت) سے تقویت بخشی۔‘‘ یعنی وہی ہے جس نے آسمانی مدد کے ذریعے سے آپ کی اعانت فرمائی اور یہ اس کی طرف سے ایسی مدد ہے جس کا کوئی چیز مقابلہ نہیں کرسکتی، نیز اللہ تعالیٰ کا اہل ایمان کے ذریعے سے آپ کی مدد فرمانا یہ ہے کہ ان کو آپ کی مدد پر مقرر فرما دیا۔ الانفال
63 اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ ۚ  ﴾ ” اللہ نے ان کے دلوں کو جوڑ دیا“ پس وہ اکٹھے ہوگئے اور اس سبب سے ان کی قوت میں اضافہ ہوگیا۔ یہ سب کچھ اللہ کی طاقت کے سوا کسی اور کی کوشش اور طاقت کے سبب سے نہ تھا۔﴿ لَوْ أَنفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا ﴾ ” اگر آپ خرچ کردیتے جو کچھ زمین میں ہے سارا“ اس شدید نفرت اور افتراق کے ہوتے ہوئے جو ان میں پایا جاتا تھا اگر آپ زمین کا تمام سونا، چاندی وغیرہ ان کے دلوں کو جوڑنے کے لئے خرچ کردیتے ﴿مَّا أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ ﴾ ” پھر بھی آپ ان کے دلوں کو کبھی جوڑ نہ سکتے“ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی ہستی دلوں کو بدلنے پر قادر نہیں۔ ﴿وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ ۚ إِنَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ﴾ ” لیکن اللہ نے الفت ڈال دی ان میں، بے شک وہ غالب ہے حکمت والا۔‘‘ یہ اس کا غلبہ ہی ہے کہ اس نے ان کے دلوں میں الفت ڈال دی اور ان کے افتراق اور تفرقہ کے بعد ان کو اکٹھا اور متحد کردیا۔ الانفال
64 جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّـهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنتُمْ عَلَىٰ شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَكُم مِّنْهَا ﴾ (آل عمران:3؍ 103) ” اور اللہ کی نعمت کو جو تم پر ہوئی، یاد کرو، جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی اور تم اس کی نعمت سے بھائی بھائی ہوگئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پر تھے، پس اللہ نے تمہیں اس سے بچا لیا۔‘‘ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ حَسْبُكَ اللَّـهُ ﴾ ” اے نبی اللہ آپ کو کافی ہے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ آپ کو کافی ہے ﴿وَمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ ﴾ ” اور آپ کے متبعین اہل ایمان کے لئے (بھی) کافی ہے۔‘‘ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے مومن بندوں کے لئے، جو اس کے رسول کے اطاعت گزار ہیں، کافی ہونے کا اور ان کے دشمنوں کے خلاف فتح و نصرت کا وعدہ ہے۔ جب انہوں نے ایمان اور اتباع رسول کے سبب کو اختیار کیا تو ضروری تھا کہ اللہ تعالیٰ ان کی دین و دنیا کی پریشانیوں سے ان کے لئے کافی ہوجاتا۔ اللہ تعالیٰ کی کفایت تو صرف اپنی شرط کے معدوم ہونے پر معدوم ہوتی ہے۔ الانفال
65 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرماتا ہے : ﴿يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى الْقِتَالِ ﴾ ” اے نبی ! مومنوں کو جہاد کی ترغیب دو۔‘‘ یعنی آپ انہیں ہر اس طریقے کے ذریعے سے قتال پر آمادہ کریں جس سے ان کے عزائم مضبوط ہوں اور ان کے ارادوں میں نشاط پیدا ہو۔ یعنی جہاد اور دشمن سے مقابلے کی ترغیب دی جائے اور جہاد سے باز رہنے کے انجام سے ڈرایا جائے۔ شجاعت اور صبر کے فضائل اور ان پر مرتب ہونے والی دین و دنیا کی بھلائی کا ذکر کیا جائے۔ بزدلی کے نقصانات بیان کئے جائیں اور یہ واضح کیا جائے کہ بزدلی ایک انتہائی رذیل اور ناقص خصلت ہے اور شجاعت کا اہل ایمان کی صفت ہونا دوسروں کی نسبت زیادہ اولیٰ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿إِن تَكُونُوا تَأْلَمُونَ فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَمَا تَأْلَمُونَ ۖ وَتَرْجُونَ مِنَ اللَّـهِ مَا لَا يَرْجُونَ ﴾ (النساء:4؍ 104) ” اگر تمہیں تکلیف پہنچتی ہے تو انہیں بھی تکلیف پہنچتی ہے جیسے تمہیں پہنچتی ہے جبکہ تم اللہ سے ایسی امیدیں رکھتے ہو جو وہ نہیں رکھتے۔‘‘ ﴿إِن يَكُن مِّنكُم  ﴾ ” اے مومنو! اگر ہوں تم میں سے“ ﴿عِشْرُونَ صَابِرُونَ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ ۚ وَإِن يَكُن مِّنكُم مِّائَةٌ يَغْلِبُوا أَلْفًا مِّنَ الَّذِينَ كَفَرُوا ﴾ ” بیس شخص ثابت قدم رہنے والے، تو غالب ہوں گے وہ دو سو پر اور اگر ہوں تم میں سے سو شخص، غالب ہوں گے ہزار کافروں پر۔‘‘ یعنی ایک مومن دس کافروں کا مقابلہ کرے گا اور اس کا سبب یہ ہے ﴿بِأَنَّهُمْ ﴾ ” کہ وہ“ یعنی کفار ﴿قَوْمٌ لَّا يَفْقَهُونَ ﴾ ” ایسے لوگ ہیں جو سمجھ نہیں رکھتے۔‘‘ یعنی انہیں کوئی علم نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے راستے میں جہاد کرنے والے مجاہدین کے لئے کیا ثواب تیار کر رکھا ہے۔ پس یہ کفار زمین میں اقتدار، تغلب اور اس میں فساد پھیلانے کے لئے لڑتے ہیں اور تم (اے مسلمانو !) اس جنگ کا مقصد سمجھتے ہو کہ یہ جنگ اعلائے کلمتہ اللہ، دین کے غلبہ، کتاب اللہ کی حفاظت اور اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے بڑی کامیابی کے حصول کے لئے ہے اور یہ تمام امور شجاعت، صبر و ثبات اور اقدام علی القتال کے اسباب ہیں۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے اس حکم میں تخفیف کردی۔ الانفال
66 چنانچہ فرمایا : ﴿الْآنَ خَفَّفَ اللَّـهُ عَنكُمْ وَعَلِمَ أَنَّ فِيكُمْ ضَعْفًا ﴾ ” اب بوجھ ہلکا کردیا اللہ نے تم پر سے اور جان لیا کہ تم میں کمزوری ہے۔‘‘ اسی لئے اللہ کی رحمت اور اس کی حکمت اس بات کی متقاضی ہوئی کہ اس حکم میں تخفیف کردی جائے، چنانچہ اب اگر تم میں سے سو آدمی ثابت قدم رہنے والے ہوں، تو وہ دو سو پر اور اگر ہزار ہوں تو وہ دو ہزار پر غالب ہوں گے۔ ﴿وَاللَّـهُ مَعَ الصَّابِرِينَ ﴾ ” اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ اپنی مدد اور تائید کے ذریعے سے صبر کرنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ ان آیات کریمہ کا اسلوب اگرچہ اہل ایمان کے بارے میں خبر کا ہے کہ جب وہ اس معینہ تعداد تک پہنچتے ہیں تو وہ مقابلے میں کفار کی مذکورہ تعداد پر غالب آجاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان پر اپنے اس احسان کا ذکر فرمایا کہ اس نے ان کو شجاعت ایمانی سے نوازا ہے، مگر اس کا معنی اور حقیقی منشا امر ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو پہلے حکم دیا کہ ایک مومن کو (میدان جنگ میں) دس کافروں کے مقابلے سے فرار نہیں ہونا چاہیے، اسی طرح دس مومنوں کو سو کافروں اور سومومنوں کو ہزار کافروں کے مقابلے سے منہ نہیں موڑنا چاہیے۔ پھر اس بارے میں اللہ تعالیٰ نے تخفیف فرما دی اور حکم دیا کہ وہ اپنے سے دوگنا کفار کے مقابلے سے فرار نہ ہوں۔ اگر کفار کی تعداد دوگنا سے زیادہ ہو تو اس صورت میں کفار کے مقابلے سے بھاگنا جائز ہے، مگر دو امور اس کی تردید کرتے ہیں۔ 1۔ یہ حکم خبر کے اسلوب میں ہے اور خبر کا اصول یہ ہے کہ یہ اپنے باب کے مطابق استعمال ہوتی ہے اور اس سے مقصود اللہ تعالیٰ کے احسان کا ذکر اور امر واقع کی خبر دینا ہے۔ 2۔ اس عدد مذکور کو صبر کی قید کے ساتھ مقید کیا گیا ہے۔ یعنی انہوں نے صبر کو مشق کے ذریعے سے اپنی عادت بنا لیا ہو۔ اس کا مفہوم مخالف یہ ہے کہ اگر وہ صابر نہ ہوں تو ان کے لئے فرار جائز ہے خواہ کافران سے کم ہی کیوں نہ ہوں۔ یہ اس صورت میں ہے جب نقصان پہنچنے کا اندیشہ غالب ہو، جیسا کہ حکمت الٰہیہ کا تقاضا ہے۔ پہلے نکتے کا جواب یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ﴿الْآنَ خَفَّفَ اللَّـهُ عَنكُمْ ﴾۔۔۔ سے لے کر ﴿مَعَ الصَّابِرِينَ ﴾ تک۔۔۔ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ امر لازم اور حتمی ہے، پھر اللہ تعالیٰ نے اس تعداد میں تخفیف فرما دی۔ پس اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آیت کریمہ کا پیرا یہ اگرچہ خبر کا ہے،مگر اس سے مراد امر ہے۔ اس بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حکم کو خبر کے پیرائے میں بیان کرنے میں ایک انوکھا نکتہ پنہاں ہے، جو امر کے اسلوب میں ہرگز نہ پایا جاتا۔۔۔ اور وہ یہ کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اہل ایمان کے دلوں کے لئے تقویت اور بشارت ہےکہ وہ عنقریب کافروں پر غالب آئیں گے۔ دوسرے نکتے کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ اہل ایمان کو صبر کی صفت سے مقید کرنا درحقیقت ان کو صبر کی ترغیب دینا ہے۔ یعنی تمہارے لئے مناسب یہ ہے کہ تم وہ تمام اسباب اختیار کرو جو صبر کے موجب ہیں۔ جب وہ صبر کا التزام کرتے ہیں تو تمام اسباب ایمانی اور اسباب مادی اس امر کے حصول کی خوشخبری دیتے ہیں، جس کی اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے۔۔۔ یعنی اہل ایمان کی قلیل تعداد کو فتح و نصرت سے نوازنا۔ الانفال
67 یہ غزوۂ بدر کے موقع پر اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اہل ایمان پر عتاب ہے جب انہوں نے مشرکین کو جنگی قیدی بنایا اور ان سے معاوضہ لینے کے لئے اپنے پاس رکھا۔ امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی رائے یہ تھی کہ ان سے مالی معاوضہ لینے کی بجائے، ان کو قتل کرکے ان کی جڑ کاٹ دی جائے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَن يَكُونَ لَهُ أَسْرَىٰ حَتَّىٰ يُثْخِنَ فِي الْأَرْضِ ﴾ ” نبی کے شایاں نہیں کہ اس کے قبضے میں قیدی رہیں یہاں تک کہ (کافروں کو قتل کرکے) زمین میں کثرت سے خون نہ بہادے۔‘‘ یعنی نبی کے لئے یہ بات ہرگز مناسب نہیں کہ جب وہ کفار کے ساتھ جنگ کرے جو اللہ تعالیٰ کی روشنی کو بجھانا اور اس کے دین کو مٹانا چاہتے ہیں اور وہ یہ بھی خواہش رکھتے ہیں کہ روئے زمین پر کوئی ایسا شخص باقی نہ رہے جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا ہو۔۔۔ تو محض فدیہ کی خاطر (کفار کو قتل کرنے کی بجائے) قیدی بنانا شروع کر دے۔ یہ فدیہ اس مصلحت کی نسبت سے بہت حقیر ہے جو ان کے قلع قمع اور ان کے شر کے ابطال کا تقاضا کرتی ہے۔ جب تک ان میں شر اور حملہ کرنے کی قوت موجود ہے اس وقت تک بہتر یہی ہے کہ ان کو (قتل کرنے کی بجائے) جنگی قیدی نہ بنایا جائے۔ جب خونریزی کے بعد کفار کا قلع قمع اور مشرکین کے شر کا سدباب ہوجائے اور ان کا معاملہ کمزور پڑجائے تب ان کو (میدان جنگ میں) قیدی بنانے اور ان کی جان بخشی کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿ تُرِيدُونَ﴾ ” تم چاہتے ہو“ یعنی تم ان کی جان بخشی کرکے اور اس کے عوض فدیہ لے کر ﴿عَرَضَ الدُّنْيَا ﴾ ” دنیاوی مال و متاع لینا“ یعنی تم کسی ایسی مصلحت کی خاطر ان کی جان بخشی نہیں کررہے جو دین کی طرف راجع ہو۔ ﴿ وَاللَّـهُ يُرِيدُ الْآخِرَةَ ۗ﴾ ”اور اللہ آخرت ( کی بھلائی) چاہتا ہے۔‘‘ مگر اللہ تعالیٰ دین کو عزت سے نواز کر، اپنے اولیاء کی مدد کرکے اور دیگر قوموں پر انہیں غلبہ بخش کر اہل ایمان کے لئے آخرت کی بھلائی چاہتا ہے۔ پس وہ انہیں انہی امور کا حکم دیتا ہے جو اس منزل مراد پر پہنچاتے ہیں۔ ﴿وَاللَّـهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ﴾ ” اور اللہ غالب، حکمت والا ہے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کا مل غلبے کا مالک ہے۔ اگر وہ کسی لڑائی کے بغیر کفار پر فتح دینا چاہے تو وہ ایسا کرسکتا ہے، مگر وہ حکمت والا ہے، وہ تمہیں ایک دوسرے کے ذریعے سے آزماتا ہے۔ الانفال
68 ﴿لَّوْلَا كِتَابٌ مِّنَ اللَّـهِ سَبَقَ﴾ ” اگر اللہ کا حکم پہلے نہ ہوچکا ہوتا“ یعنی اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر مقرر نہ ہوچکی ہوتی اور تمہارے لئے غنائم کو حلال نہ کردیا گیا ہوتا اور اے امت مسلمہ !۔۔۔ تم سے عذاب کو نہ اٹھا لیا گیا ہوتا ﴿لَمَسَّكُمْ فِيمَا أَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ﴾ ” تو تم نے جو فدیہ حاصل کیا ہے اس کی پاداش میں تمہیں عذاب عظیم آلیتا۔‘‘ اور حدیث میں آتا ہے ” اگر بدر کے روز (قیدیوں کے فدیہ کے معاملے میں( عذاب نازل ہوتا تو عمر (رضی اللہ عنہ) کے سوا کوئی نہ بچتا۔ [تفسیرالدرالمنثور،(3؍ 366)] الانفال
69 ﴿فَكُلُوا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلَالًا طَيِّبًا﴾ ” پس کھاؤ تم جو تم کو غنیمت میں ملا، حلال پاکیزہ“ یہ اس امت پر اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہے کہ اس نے اس کے لئے غنائم کو حلال کر دیا حالانکہ اس سے قبل کسی امت پر غنائم کو حلال نہیں کیا گیا تھا۔ ﴿وَاتَّقُوا اللَّـهَ ۚ﴾ ” اور اللہ سے ڈرتے رہو۔‘‘ یعنی اپنے تمام معاملات میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرتے رہو۔ ﴿ إِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ ﴾ ” بے شک اللہ بخشنے والا ہے۔‘‘ جو کوئی توبہ کرکے اس کی طرف لوٹتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے تمام گناہ بخش دیتا ہے اور جس نے شرک نہیں کیا، اللہ تعالیٰ اس کے تمام گناہ بخش دے گا۔ (اگر چاہے گا) ﴿ رَّحِيمٌ﴾ اللہ تعالیٰ تم پر بہت مہربان ہے کہ اس نے تم پر مال غنیمت کو مباح کیا اور اس کو تمہارے لئے حلال اور پاک قرار دیا۔ الانفال
70 یہ آیت کریمہ اسیران بدر کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور ان قیدیوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا حضرت عباس بھی شامل تھے۔ جب رہائی کے عوض ان سے فدیہ کا مطالبہ کیا گیا تو انہوں نے عرض کیا کہ انہوں نے اس سے قبل اسلام قبول کیا ہوا تھا، مگر مسلمانوں نے ان سے فدیہ کو ساقط نہ کیا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کی اور ان لوگوں کی دل جوئی کی خاطر یہ آیت کریمہ نازل فرمائی جو اس قسم کی صورت حال سے دوچار ہوں۔ فرمایا : ﴿يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّمَن فِي أَيْدِيكُم مِّنَ الْأَسْرَىٰ إِن يَعْلَمِ اللَّـهُ فِي قُلُوبِكُمْ خَيْرًا يُؤْتِكُمْ خَيْرًا مِّمَّا أُخِذَ مِنكُمْ﴾ ” اے نبی ! ان سے کہہ دو ! جو تمہارے ہاتھوں میں قیدی ہیں، اگر اللہ تمہارے دلوں میں کچھ نیکی جانے گا، تو تمہیں اس سے بہتر دے گا جو تم سے لیا گیا ہے“ یعنی جو مال تم سے لیا گیا ہے اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اس کے بدلے خیر کثیر عطا کرے گا۔ ﴿وَيَغْفِرْ لَكُمْ﴾ ” اور (اللہ تعالیٰ) تمہارے گناہ بخش دے گا“ اور تمہیں جنت میں داخل کرے گا۔ ﴿وَاللَّـهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ﴾ ” اور اللہ بہت بخشنے والا، نہایت رحم کرنے والا ہے۔‘‘ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے اپنا وعدہ پورا کردیا، اس کے بعد انہیں بہت زیادہ مال حاصل ہوا، حتیٰ کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بہت زیادہ مال آیا، حضرت عباس رضی اللہ عنہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے، تو آپ نے ان کو حکم دیا کہ وہ اپنے کپڑے میں جتنا مال اٹھا سکتے ہیں لے لیں۔ انہوں نے اتنا مال لیا کہ ان سے اٹھایا نہیں جا رہا تھا۔ الانفال
71 ﴿وَإِن يُرِيدُوا خِيَانَتَكَ﴾ ” اور اگر یہ لوگ آپ سے دغا کرنا چاہتی ہیں“ یعنی اگر وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ جنگ کرنے کی کوشش کرکے خیانت کا ارتکاب کرتے ہیں ﴿فَقَدْ خَانُوا اللَّـهَ مِن قَبْلُ فَأَمْكَنَ مِنْهُمْ﴾ ” تو وہ خیانت کرچکے ہیں اللہ کی اس سے پہلے، پس اس نے ان کو پکڑوا دیا۔‘‘ پس وہ آپ کے ساتھ خیانت کرنے سے بچیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ ان پر اختیار رکھتا ہے اور وہ اس کے قبضہء قدرت میں ہیں۔ ﴿وَاللَّـهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ علیم ہے، وہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ حکمت والا ہے، وہ ہر چیز کو اس کے مقام پر رکھتا ہے۔ یہ اس کا علم و حکمت ہی ہے کہ اس نے تمہارے لئے نہایت خوبصورت اور جلیل القدر احکام وضع فرمائے اور کفار کے شر اور ان کی خیانت کے ارادے کے مقابلے میں تمہاری کفایت کا ذمہ لیا۔ الانفال
72 یہ موالات اور محبت کا رشتہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے مہاجرین کے درمیان۔۔۔ جو ایمان لائے، جنہوں نے اللہ کے راستے میں ہجرت کی اور اللہ کے راستے میں جہاد کی خاطر اپنے وطن کو چھوڑا۔۔۔ اور انصار کے درمیان قائم کیا، جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے اصحاب کرام رضی اللہ عنہم کو پناہ دی، اپنے گھر، مال اور خود ان کی ذات کے بارے میں ان کی مدد کی۔ یہ سب لوگ اپنے کامل ایمان اور ایک دوسرے کے ساتھ مکمل اتصال کی بناء پر ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ ﴿ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يُهَاجِرُوا مَا لَكُم مِّن وَلَايَتِهِم مِّن شَيْءٍ حَتَّىٰ يُهَاجِرُوا﴾ ” اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور ہجرت نہیں کی، تم کو ان کی رفاقت سے کچھ کام نہیں، جب تک کہ وہ ہجرت نہ کریں“ کیونکہ انہوں نے تم سے علیحدہ ہو کر تمہاری ولایت و دوستی کا رشتہ ایسے وقت میں منقطع کرلیا جب کہ تمہیں مردوں کی مدد کی سخت ضرورت تھی اور چونکہ انہوں نے ہجرت نہیں کی اس لئے مومنین کی طرف سے ان کی کوئی دوستی نہیں۔ البتہ ﴿وَإِنِ اسْتَنصَرُوكُمْ فِي الدِّينِ﴾ ” اگر وہ تم سے دین (کے معاملات) میں مدد طلب کریں“ یعنی اگر کوئی قوم ان کے خلاف لڑائی کرے اور یہ اس لڑائی میں تم سے مدد مانگیں ﴿فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ﴾ ” تو تم کو مدد کرنی لازم ہے۔‘‘ یعنی تم پر ان کی مدد کرنا اور ان کے ساتھ مل کر ان کے دشمن کے خلاف لڑنا واجب ہے اور اگر وہ اس کے علاوہ دیگر مقاصد کے لئے لڑتے ہیں تو تم پر ان کی مدد کرنا واجب نہیں۔ ﴿ إِلَّا عَلَىٰ قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُم مِّيثَاقٌ﴾ ” مگر ان لوگوں کے مقابلہ میں کہ تم میں اور ان میں (صلح کا) عہد ہوچکا ہے ( مدد نہیں کرنی چاہیے) ۔‘‘ یعنی جن کے ساتھ تمہارا جنگ نہ کرنے کا معاہدہ ہے اور وہ مومن جنہوں نے ہجرت نہیں کی، اگر ان کے ساتھ لڑنے کا ارادہ رکھتے ہوں تو ان کے خلاف ان مومنوں کی مدد نہ کرو، کیونکہ تمہارے اور ان کے درمیان جنگ نہ کرنے کا معاہدہ ہے۔ ﴿وَاللَّـهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ﴾ ” اور اللہ تمہارے سب کاموں کو دیکھ رہا ہے“یعنی وہ تمہارے احوال اور رویوں کو جانتا ہے، اس لئے اس نے تمہارے لئے ایسے احکام شروع کئے ہیں جو تمہارے احوال کے لائق ہیں۔ الانفال
73 جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے اہل ایمان کے درمیان موالات کا رشتہ قائم کردیا تو اس نے آگاہ فرمایا کہ چونکہ کفار کو ان کے کفر نے اکٹھا کردیا ہے اس لئے وہ ایک دوسرے کے دوست اور مددگار ہیں اور ان جیسے کفار کے سوا ان کا کوئی ولی اور دوست نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿إِلَّا تَفْعَلُوهُ﴾ ” تو (مومنو) اگر تم (بھی) یہ (کام) نہ کرو گے“ یعنی اگر تم مومنوں کے ساتھ موالات اور کفار کے ساتھ عداوت کے اصول پر عمل نہیں کرو گے، یعنی تم اہل ایمان کی حمایت اور کفار سے دشمنی نہیں کرو گے، یا تم کفار کی حمایت کرو گے اور اہل ایمان سے دشمنی رکھو گے ﴿ تَكُن فِتْنَةٌ فِي الْأَرْضِ وَفَسَادٌ كَبِيرٌ﴾ ” تو ملکوں میں فتنہ برپا ہوجائے گا اور بڑا فساد مچے گا۔“ یعنی حق و باطل اور مومن و کافر کے اختلاط سے ایک ایسی برائی جنم لے گی جس کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا اور بہت سی بڑی بڑ ی عبادات مثلاً جہاد اور ہجرت وغیرہ معدوم ہوجائیں گی۔ جب اہل ایمان صرف اہل ایمان ہی کو اپنا دوست اور حمایتی نہیں بنائیں گے تو شریعت اور دین کے اس قسم کے مقاصد فوت ہوجائیں گے۔ الانفال
74 گزشتہ آیات میں مہاجرین و انصار کے رشتہ موالات کا تذکرہ تھا اور ان آیات میں ان کی مدح اور ثواب کا ذکر ہے۔ چنانچہ فرمایا : ﴿وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ وَالَّذِينَ آوَوا وَّنَصَرُوا﴾ ” اور جو لوگ ایمان لائے اور وطن سے ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں لڑائیاں کرتے رہے اور جنہوں نے (ہجرت کرنے والوں کو) پناہ دی اور ان کی مدد کی“ یعنی مہاجرین و انصار ﴿ أُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا ۚ﴾ یعنی وہی سچے مومن ہیں کیونکہ انہوں نے ہجرت، نصرت دین، ایک دوسرے کے ساتھ موالات اور اپنے دشمنوں کفار و منافقین کے ساتھ جہاد کر کے اپنے ایمان کی تصدیق ہے۔ ﴿لَّهُم مَّغْفِرَةٌ﴾ ” ان کے لئے مغفرت۔“ یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے۔ جس سے ان کی برائیاں محو کردی جائیں اور ان کی لغزشیں ختم کردی جائیں گی ﴿وَرِزْقٌ كَرِيمٌ﴾ ” اور عزت کی روزی“ یعنی کے لئے ان کی طرف سے نعمتوں بھری جنتوں میں خیر کثیر ہے۔ بسا اوقات اس دنیا ہی میں انہیں بہت جلد ثواب عطا کردیا جاتا ہے جس سے ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوتی ہیں اور دل مطمئن ہوتے ہیں۔ الانفال
75 اسی طرح جو لوگ ان مہاجرین و انصار کے بعد آئیں، نیکیوں میں ان کی اتباع، ایمان لائیں، ہجرت کریں اور اللہ کے راستے میں جہاد کریں ﴿فَأُولَـٰئِكَ مِنكُمْ﴾ ” پس وہ لوگ تم ہی میں سے ہیں“ ان کے وہی حقوق ہیں جو تمہارے حقوق ہیں اور ان کے ذمے وہی فرائض ہیں جو تمہارے ذمے ہیں۔ ایمان پر مبنی یہ موالات اسلام کے ابتدائی زمانے میں تھی۔ اس کی بہت بڑی وقعت اور عظیم شان ہے۔ حتیٰ کہ نبی مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مہاجرین و انصار کے درمیان جو اخوت قائم کی تھی، وہ خاص اخوت تھی جو اخوت عامہ و ایمانیہ کے علاوہ ہے،حتیٰ کہ ہے وہ ایک دوسرے کے وارث بھی بنے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرما دی ﴿وَأُولُو الْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَىٰ بِبَعْضٍ فِي كِتَابِ اللَّـهِ ﴾ ” اور رشتے دار آپس میں زیادہ حق دار ہیں ایک دوسرے کے،اللہ کے حکم میں“ اس لئے میت کی وراثت صرف انہی لوگوں کو ملے گی جو اصحاب الفروض ہیں یا میت کا عصبہ ہیں۔ اگر میت کا عصبہ اور اصحاب الفروض موجود نہ ہوں تو ذو الارحام میں سے وہ لوگ وارث بنیں گے جو رشتہ میں میت کے سب سے زیادہ قریب ہیں جیسا کہ آیت کریمہ کا عموم دلالت کرتا ہے۔ ﴿فِي كِتَابِ اللَّـهِ﴾ ” اللہ کی کتاب میں“ یعنی اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کی کتاب میں۔ ﴿إِنَّ اللَّـهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ ﴾ ” کچھ شک نہیں کہ اللہ ہر چیز سے واقف ہے۔“ اس کے احاطۂ علم میں تمہارے احوال بھی شامل ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کی مناسبت سے تم پر دینی اور شرعی احکام جاری کرتا ہے۔ الانفال
1 یہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے تمام مشرکین و معاندین سے اظہار برأت ہے۔ انہیں چار ماہ کی مہلت دی گئی ہے کہ وہ مسلمانوں کی طرف سے مامون ہیں، اس میں وہ اپنے اختیار سے زمین میں چل پھر لیں۔ چار ماہ کے بعد ان کے ساتھ کوئی معاہدہ و میثاق نہیں۔ یہ معاملہ ان کفار کے ساتھ ہے جن کے ساتھ لامحدود مدت کے لئے معاہدہ یا معاہدہ کی مدت چار ماہ یا اس سے کم ہے۔ رہا وہ معاہدہ جو چار ماہ سے زیادہ مدت کے لئے کیا گیا ہو، اگر معاہدے سے خیانت کا خدشہ نہ ہو اور اس سے نقض عہد کی بھی ابتدا نہ ہوئی ہو تو مدت معینہ تک اس کے ساتھ کئے گئے معاہدے کو پورا کیا جائے گا۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے معاہدین کو ان کی مدت عہد کے بارے میں ڈرایا ہے کہ اگرچہ وہ اس دوران میں مامون و محفوظ ہیں مگر وہ اللہ تعالیٰ کو عاجز کرسکیں گے نہ اس سے بچ سکیں گے اور ان میں سے جو کوئی اپنے شرک پر قائم رہے گا اللہ تعالیٰ ضرور اسے رسوا کرے گا اور یہ چیز ان کے اسلام میں داخل ہونے کا باعث بن گئی۔ سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے معاندانہ رویہ اختیار کیا اور اپنے کفر پر اصرار اور اللہ تعالیٰ کی وعید کی کوئی پروا نہیں کی۔ التوبہ
2 التوبہ
3 یہ اللہ تعالیٰ کا اہل ایمان کے ساتھ وعدہ ہے کہ وہ اپنے دین کو فتح مند اور اپنے کلمہ کو بلند کرے گا اور ان کے مشرک دشمنوں سے علیحدہ ہوجائے گا، جنہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مکہ مکرمہ اور اللہ تعالیٰ کے محترم گھر سے نکال کر حجاز کے اس خطۂ ارضی سے جلاوطن کیا جس پر ان کا تسلط تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مومنین کو فتح و نصرت سے نوازا حتیٰ کہ مکہ فتح ہوگیا۔ مشرکین مغلوب ہوئے اور ان علاقوں کا اقتدار اور غلبہ مسلمانوں کے ہاتھ آگیا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اعلان کرنے والے کو حکم دیا ہے کہ وہ حج اکبر کے دن جو کہ قربانی اور جزیرۃ العرب کے مسلمانوں اور کفار کے اکٹھے ہونے کا دن ہے۔۔۔۔ اعلان کر دے کہ اللہ اور اس کا رسول مشرکین سے برئ الذمہ ہے۔ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاں اب ان کے لئے کوئی عہد اور میثاق نہیں۔ وہ جہاں کہیں بھی ملیں گے ان کو قتل کیا جائے گا اور ان سے یہ بھی کہہ دیا گیا کہ وہ اس سال کے بعد مسجد حرام کے قریب بھی نہ جائیں اور یہ سن ۹ ہجری تھا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کے ساتھ حج کیا اور قربانی کے روز رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا زاد بھائی حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے برأت کا اعلان کیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے مشرکین کو توبہ کی ترغیب دی اور ان کو شرک پر جمے رہنے سے ڈرایا۔ ﴿فَإِن تُبْتُمْ فَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ وَإِن تَوَلَّيْتُمْ فَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللَّـهِ﴾ ” پس اگر تم توبہ کرلو، تو تمہارے لئے بہتر ہے اور اگر نہ مانو، تو جان لو کہ تم اللہ کو ہرگز نہ تھکا سکو گے۔‘‘ یعنی تم اللہ تعالیٰ سے بھاگ نہیں سکتے، بلکہ تم اس کے قبضۂ قدرت میں ہو اور وہ اس بات پر قادر رہے کہ تم پر اپنے مومن بندوں کو مسلط کر دے۔ ﴿وَبَشِّرِ الَّذِينَ كَفَرُوا بِعَذَابٍ أَلِيمٍ﴾ ” اور کافروں کو دکھ دینے والے عذاب کی خوشخبری سنا دو۔“ جو دنیا میں قتل، اسیری اور جلاوطنی کی صورت میں انہیں دیا جائے گا اور آخرت میں جہنم کی آگ کا، جو بہت برا ٹھکانا ہے۔ التوبہ
4 یعنی یہ تمام مشرکین سے کامل اور مطلق برأت کا اظہار ہے۔ ﴿ إِلَّا الَّذِينَ عَاهَدتُّم مِّنَ الْمُشْرِكِينَ﴾ ” سوائے ان مشرکین کے جن سے تم نے معاہدہ کر رکھا ہے“ اور وہ اپنے عہد پر قائم ہیں اور ان سے کسی ایسے فعل کا ارتکاب نہیں ہوا جو نقض عہد کا موجب ہو۔ انہوں نے معاہدے میں کوئی کوتاہی ہی کی ہے نہ تمہارے خلاف کسی کی مدد کی ہے۔ پس ان لوگوں کے ساتھ کئے ہوئے معاہدے کو، اس کی مدت مقررہ تک پورا کرو خواہ یہ مدت تھوڑی ہو یا زیادہ۔۔۔ کیونکہ اسلام خیانت کا حکم نہیں دیتا، وہ تو معاہدوں کو پورا کرنے کا حکم دیتا ہے۔ ﴿إِنَّ اللَّـهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِينَ﴾ ” بے شک اللہ پسند کرتا ہے تقویٰ اختیار کرنے والوں کو۔‘‘ وہ لوگ جنہوں نے ان ذمہ داریوں کو ادا کیا جن کا انہیں حکم دیا گیا اور شرک، خیانت اور دیگر گناہوں سے بچے۔ التوبہ
5 اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿فَإِذَا انسَلَخَ الْأَشْهُرُ الْحُرُمُ﴾ ” پس جب گزر جائیں مہینے پناہ کے“ یعنی وہ مہینے جن میں معاہد مشرکین کے خلاف جنگ کو حرام ٹھہرایا گیا ہے اور یہ آسانی کے چار ماہ ہیں اور جن کے ساتھ چار ماہ سے زیادہ مدت کا معاہدہ کیا گیا ہے، اس مدت کو پورا کیا جائے۔ اس کے بعد ان کے ساتھ معاہدہ کی ذمہ داری ختم ہوجائے گی۔ ﴿فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ﴾ ” پس مشرکوں کو جہاں پاؤ قتل کر دو۔“ یعنی وہ جس وقت اور جہاں کہیں بھی ہوں ﴿وَخُذُوهُمْ ﴾ ” ان کو قیدی بناؤ“ ﴿وَاحْصُرُوهُمْ﴾ ” اور ان کو گھیر لو۔“ یعنی ان پر زمین تنگ کر دو۔ اللہ کی اس زمین میں انہیں اس طرح نہ چھوڑ دو کہ وہ کھلے دندناتے پھرتے رہیں، جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے عبادت گاہ بنایا ہے۔ یہ لوگ اس زمین پر رہنے کے قابل نہیں، بلکہ وہ اس زمین سے بالشت بھر جگہ کے بھی مستحق نہیں کیونکہ زمین اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہے اور کفار اللہ تعالیٰ کے دشمن ہیں جو اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہیں، ان کے خلاف جنگ کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ زمین اللہ تعالیٰ کے دین سے خالی ہوجائے۔ مگر اللہ تعالیٰ اپنے نور کو پورا کر کے رہے گا خواہ کفار کو ناگوار ہی کیوں نہ گزرے۔ ﴿وَاقْعُدُوا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ﴾ ” اور ہر گھات کی جگہ پر ان کی تاک میں بیٹھو۔“ یعنی ہر گھاٹی اور ہرراستے میں گھات لگا کر بیٹھو جہاں سے وہ گزرتے ہیں۔ ان کے خلاف جہاد کے لئے پوری طرح تیار رہو اور جہاد میں اپنی پوری کوشش صرف کر دو اور ان کے خلاف اس وقت تک جہاد کرتے رہو جب تک کہ وہ اپنے شرک سے توبہ نہ کرلیں۔ بنا بریں فرمایا : ﴿فَإِن تَابُوا﴾ ” پس اگر وہ توبہ کرلیں“ یعنی اپنے شرک سے ﴿وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ﴾ ” اور نماز پڑھنے لگیں“ یعنی اسے اس کے حقوق کے ساتھ ادا کریں ﴿وَآتَوُا الزَّكَاةَ﴾ ” اور زکوٰۃ دینے لگیں“ مستحقین کو زکوٰۃ دیں۔ ﴿فَخَلُّوا سَبِيلَهُمْ﴾ ” تو ان کی راہ چھوڑ دو۔“ یعنی ان کو چھوڑ دو، اب وہ تمہارے برابر ہیں ان کے وہی حقوق ہیں جو تمہارے ہیں اور ان کے ذمے وہی فرائض ہیں جو تمہارے ذمے ہیں ﴿إِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴾ ” بے شک اللہ بہت بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں کا شرک اور ان کے دیگر کم تر گناہ بخش دیتا ہے۔ انہیں توبہ کی توفیق بخش کر اور پھر اس توبہ کو قبول کر کے انہیں اپنی رحمت کے سائے میں لے لیتا ہے۔ یہ آیت کریمہ اس بات کی دلیل ہے کہ جو کوئی نماز قائم کرنے یا زکوٰۃ ادا کرنے سے رکے گا، اس کے خلاف اس وقت تک جنگ کی جائے گی جب تک کہ وہ نماز قائم نہیں کرتا اور زکوٰۃ ادا نہیں کرتا۔ جیسا کہ جناب ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس آیت کریمہ سے استدلال کیا تھا۔ التوبہ
6 اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد: ﴿فَإِذَا انسَلَخَ الْأَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ وَخُذُوهُمْ وَاحْصُرُوهُمْ وَاقْعُدُوا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ﴾ ” تمام اشخاص کے لئے اور تمام احوال میں ایک عام حکم ہے۔ ہاں اگر مصلحت ان میں سے کسی کو قریب کرنے کا تقاضا کرتی ہو تو یہ جائز‘‘ بلکہ واجب ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَإِنْ أَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِكِينَ اسْتَجَارَكَ﴾ ”اگر مشرکین میں سے کوئی آپ سے پناہ طلب کرے‘‘ یعنی وہ یہ چاہے کہ آپ اس کو ضرر سے بچا لیں تو اس مقصد کے لئے اس کو پناہ دے دیں تاکہ وہ اللہ کا کلام سن لے اور اسلام میں اچھی طرح غور فکر کرلے۔ ﴿ فَأَجِرْهُ حَتَّىٰ يَسْمَعَ كَلَامَ اللَّـهِ ﴾ ” تو اس کو پناہ دے دو یہاں تک کہ وہ اللہ کا کلام سنے۔“ یعنی پھر اگر وہ اسلام قبول کرلے تو بہتر ورنہ اسے امن کی جگہ پہنچا دیں یعنی وہ جگہ جہاں وہ مامون ہو اور اس کا سبب یہ ہے کہ کفار بے علم لوگ ہیں۔ بسا اوقات ان کا کفر پر قائم رہنا جہالت کی وجہ سے ہوتا ہے، جب یہ سبب زائل ہوجاتا ہے تو وہ اسلام قبول کرلیتے ہیں۔ اس لئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کی امت کو احکام میں اس کے نمونے کو اختیار کرنے کا حکم دیا ہے اور وہ یہ کہ کفار میں سے جو کوئی اللہ تعالیٰ کے کلام کو سننے کی خواہش کرے تو اس کو امان دے دیں۔ اس آیت کریمہ میں اہل سنت و الجماعت کے مذہب پر صریح دلیل ہے جو اس بات کے قائل ہیں کہ قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام اور غیر مخلوق ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کلام کیا ہے اور اس نے اس کی اضافت پنی طرف کی ہے جیسے صفت کی اضافت موصوف کی طرف ہوتی ہے نیز اس سے معتزلہ اور ان کے ہم نواؤں کے مذہب کا بطلان ثابت ہوتا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ قرآن مخلوق ہے۔ کتنے ہی دلائل ہیں جو ان کے اس قول کے بطلان پر دلالت کرتے ہیں، لیکن یہ ان کی تفصیل کا مقام نہیں۔ التوبہ
7 یہ اس حکمت الٰہی کا بیان ہے جو اس بات کی موجب ہے کہ اللہ اور اس کا رسول مشرکین سے بری ہوں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ عِندَ اللَّـهِ وَعِندَ رَسُولِهِ﴾ ” کیوں کر ہو مشرکین کے لئے کوئی عہد اللہ کے نزدیک اور اس کے رسول کے نزدیک؟“ کیا انہوں نے واجبات ایمان کو قائم کیا ہے؟ یا انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اہل ایمان کو اذیت دینا چھوڑ دی ہے؟۔۔۔ (بلکہ) انہوں نے حق کے خلاف جنگ کی اور باطل کی مدد کی۔ کیا انہوں نے زمین میں فساد پھیلانے کی بھرپور کوشش کر کے اپنے آپ کو اس بات کا مستحق نہیں ٹھہرا لیا کہ اللہ تعالیٰ ان سے بری الذمہ ہو، اللہ اور اس کے رسول کے ہاں ان کے لئے کوئی عہد اور ذمہ نہ ہو؟ ﴿إِلَّا الَّذِينَ عَاهَدتُّمْ﴾ ” سوائے ان کے جن سے تم نے عہد کیا“ یعنی مشرکین میں سے جن کے ساتھ تم نے معاہدہ کیا ﴿عِندَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ﴾ ” مسجد حرام کے پاس“ پس اس عہد میں۔۔۔ خاص طور پر فضیلت والی اس جگہ پر۔۔۔ ان کے لئے حرمت ہے جو اس بات کی موجب ہے کہ ان کی رعایت رکھی جائے۔ ﴿فَمَا اسْتَقَامُوا لَكُمْ فَاسْتَقِيمُوا لَهُمْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِينَ﴾ ” پس جب تک وہ اپنے عہد پر قائم رہیں تو تم بھی اپنے عہد پر قائم رہو۔ بے شک اللہ اہل تقویٰ کو پسند کرتا ہے۔“ بنا بریں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : التوبہ
8 ﴿كَيْفَ﴾ ” کیسے“ یعنی اللہ تعالیٰ کے ہاں مشرکین کے لئے کیسے عہد و میثاق ہوسکتا ہے۔ ﴿وَإِن يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ﴾ ” کہ اگر وہ تم پر غلبہ پا لیں‘‘ ان کا حال تو یہ ہے کہ اگر ان کو تم پر قدرت اور غلبہ حاصل ہو تو تم پر کوئی رحم نہیں کریں گے۔﴿لَا يَرْقُبُوا فِيكُمْ إِلًّا وَلَا ذِمَّةً﴾ ” تو نہ قرابت کا لحاظ کریں نہ عہد کا۔“ یعنی وہ کسی عہد اور قرابت کا لحاظ نہیں رکھیں گے، وہ تمہارے بارے میں اللہ تعالیٰ سے نہیں ڈریں گے، بلکہ وہ تمہیں بدترین عذاب دیں گے۔ اگر وہ غالب آجائیں تو ان کا تمہارے ساتھ یہ حال ہوگا لیکن اگر وہ تم سے ڈر کر تمہارے ساتھ کوئی معاملہ کرتے ہیں تو تمہیں ان کے بارے میں دھوکے میں نہیں آنا چاہئے، کیونکہ ﴿يُرْضُونَكُم بِأَفْوَاهِهِمْ وَتَأْبَىٰ قُلُوبُهُمْ﴾ ” وہ اپنے منہ سے تمہیں خوش کردیتے ہیں اور ان کے دل تمہاری طرف میلان اور محبت سے انکار کرتے ہیں“ بلکہ وہ تمہارے حقیقی دشمن ہیں اور تمہارے ساتھ دلی بغض رکھتے ہیں۔ ﴿وَأَكْثَرُهُمْ فَاسِقُونَ﴾ ” اور ان کے اکثر بد عہد ہیں۔“ ان میں کوئی دیانت اور مروت نہیں۔ التوبہ
9 ﴿اشْتَرَوْا بِآيَاتِ اللَّـهِ ثَمَنًا قَلِيلًا﴾ ” یہ اللہ کی آیات کے عوض تھوڑا سا فائدہ حاصل کرتے ہیں۔“ یعنی انہوں نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان لانے اور اللہ تعالیٰ کی آیات پر عمل کرنے کی بجائے اس دنیا میں جلدی حاصل ہونے والے حسیس عوض کو اختیار کرلیا۔ ﴿فَصَدُّوا عَن سَبِيلِهِ﴾ انہوں نے خود اپنے آپ کو اور دوسروں کو اللہ کے راستے سے روکا۔ ﴿إِنَّهُمْ سَاءَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ﴾ ” بلاشبہ بہت ہی برے کام ہیں جو یہ کرتے ہیں۔ “ التوبہ
10 ﴿لَا يَرْقُبُونَ فِي مُؤْمِنٍ إِلًّا وَلَا ذِمَّةً﴾ ” وہ کسی حرمت کے حق میں نہ تو رشتہ داری کا پاس کرتے ہیں نہ عہد کا۔“ یعنی ایمان اور اہل ایمان سے عداوت کی بنا پر وہ کسی عہد اور قرابت کا لحاظ نہیں کرتے۔ وہ وصف جس کی بنا پر وہ تم سے عداوت اور بغض رکھتے ہیں۔ وہ ایمان ہے، اس لئے اپنے دین کا دفاع کرو اور اس کی مدد کرو اور جو کوئی تمہارے دین سے عداوت رکھتا ہے اسے اپنا دشمن سمجھو اور جو تمہارے دین کی مدد کرتا ہے اسے اپنا دوست سمجھو۔ دوستی کے وجود اور عدم وجود کے اعتبار سے دین کو حکم کا مدار بناؤ۔ طبیعت کو دوستی اور دشمنی کا معیار نہ بناؤ کہ جدھر خواہش کا میلان ہو تم بھی ادھر جھک جاؤ اور اس بارے میں اس نفس کی پیروی کرو جو برائی کا حکم دیتا ہے۔ التوبہ
11 اس لئے فرمایا : ﴿فَإِن تَابُوا﴾ ” اگر وہ توبہ کرلیں“ یعنی اگر وہ اپنے شرک سے توبہ کر کے ایمان کی طرف لوٹ آئیں ﴿ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ﴾ ” اور نماز قائم کریں، زکوٰۃ دیں تو وہ تمہارے دینی بھائی ہیں“ اور اس عداوت کو فراموش کر دو جب وہ مشرک تھے،تاکہ تم سب اللہ کے مخلص بندے بن جاؤ اور اس طرح بندہ اللہ تعالیٰ کا حقیقی بندہ بن جاتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے عظیم احکام کو بیان فرمایا ان میں سے کچھ احکام کی توضیح فرمائی، کچھ حکمتوں اور فیصلوں کو بیان کیا، تو فرمایا : ﴿وَنُفَصِّلُ الْآيَاتِ﴾ ” ہم آیات کو واضح اور ممیز کرتے ہیں۔‘‘ ﴿لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ﴾ ” جاننے والے لوگوں کے واسطے“ پس سیاق کلام انہی کی طرف ہے، انہی کے ذریعے سے آیات و احکام کا علم حاصل ہوتا ہے انہی کے ذریعے سے دین اسلام اور شریعت کی معرفت حاصل ہوتی ہے۔ اے اللہ ! اے رب العالمین ! اپنی رحمت، اپنے جود و کرم اور اپنے احسان سے، ہمیں ایسے لوگوں میں شامل کر جو علم رکھتے ہیں اور ان باتوں پر عمل کرتے ہیں جن کا ان کو علم ہے۔ التوبہ
12 اس بات کا ذکر کرنے کے بعد اگر مشرک معاہدین اپنے عہد پر قائم رہتے ہیں تو تم بھی اپنے عہد پر قائم رہتے ہوئے ان سے اپنے عہد کو پورا کرو۔۔۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَإِن نَّكَثُوا أَيْمَانَهُم مِّن بَعْدِ عَهْدِهِمْ﴾ ” اور اگر عہد کرنے کے بعد اپنی قسموں کو توڑ ڈالیں“ یعنی انہوں نے اپنے حلف کو توڑ دیا اور جنگ میں تمہارے خلاف دشمن کی مدد کی یا تمہیں نقصان پہنچایا ﴿وَطَعَنُوا فِي دِينِكُمْ﴾ ” اور تمہارے دین میں طعن کرنے لگیں“ یعنی تمہارے دین میں عیب چینی کی یا اس کا تمسخر اڑایا۔ یہ دین اور قرآن میں ہر قسم کے طعن و تشنیع کو شامل ہے۔ ﴿فَقَاتِلُوا أَئِمَّةَ الْكُفْرِ﴾ ’’تو ان کفر کے پیشواؤں سے جنگ کرو۔“ یعنی قائدین کفر اور ان سرداروں سے لڑو جو اللہ رحمٰن کے دین میں طعن و تشنیع کرتے ہیں اور شیطان کے دین کی مدد کرتے ہیں۔ ان قائدین کفر کا خاص طور پر ذکر اس لئے کیا ہے کیونکہ ان کا جرم بہت بڑا تھا اور دیگر لوگ تو محض ان کے پیرو کار تھے اور تاکہ یہ اس بات کی دلیل ہو کہ جو کوئی دین میں طعن و تشنیع کا مرتکب ہوتا ہے اور اس کو ٹھکرانے کے در پے ہوتا ہے تو اس کا شمار ائمہ کفر میں ہوتا ہے۔ ﴿إِنَّهُمْ لَا أَيْمَانَ لَهُمْ﴾ یعنی ان کا کوئی عہد و میثاق نہیں کہ وہ اس کے ایفا کا التزام کریں بلکہ وہ تو ہمیشہ خیانت کرتے رہتے ہیں اور عہد کو توڑتے رہتے ہیں۔ ان پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔ ﴿ لَعَلَّهُمْ﴾” شاید کہ وہ“ یعنی ان کے ساتھ تمہارے لڑائی کرنے میں ﴿يَنتَهُونَ﴾ ” باز آجائیں۔“ یعنی تمہارے دین میں طعن کرنے سے باز آجائیں اور بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ دین میں داخل ہوجائیں۔ التوبہ
13 پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے کفار و مشرکین کے خلاف جہاد کی ترغیب دی ہے اور دشمنوں سے جو اوصاف صادر ہوتے ہیں ان کو بیان کر کے اہل ایمان کو ان کے خلاف جہاد پر ابھارا ہے، کیونکہ جن اوصاف سے یہ کفار متصف ہیں وہ ان کے خلاف جہاد کا تقاضا کرتے ہیں۔ چنانچہ فرمایا : ﴿ أَلَا تُقَاتِلُونَ قَوْمًا نَّكَثُوا أَيْمَانَهُمْ وَهَمُّوا بِإِخْرَاجِ الرَّسُولِ﴾ ” تم ان لوگوں سے کیوں نہیں لڑتے جنہوں نے اپنے عہدوں کو توڑ دیا اور رسول کو نکالنے کا ارادہ کیا“ جس کا احترام اور تعظیم و توقیر فرض ہے، نیز انہوں نے ارادہ کیا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جلا وطن کردیں اور اس مقصد کے لئے انہوں نے امکان بھر کوشش کی۔ ﴿وَهُم بَدَءُوكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ ۚ﴾ ” اور انہوں نے پہلے چھیڑ کی تم سے“ جبکہ انہوں نے نقض عہد کا ارتکاب کیا اور تمہارے خلاف دشمن کی اعانت کی اور یہ اس واقعہ کی طرف اشارہ ہے جب قریش نے۔۔۔ درآں حالیکہ انہوں نے مسلمانوں کے ساتھ معاہدہ کر رکھا تھا۔۔۔ بنو خزاعہ کے خلاف اپنے حلیفوں یعنی بنوبکر کی مدد کی۔ بنو خز اعہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حلیف تھے اور قریش نے بنو خزاعہ کے خلاف لڑائی کی، جیسا کہ اس تفصیل سیرت کی کتابوں میں مذکور ہے۔ ﴿أَتَخْشَوْنَهُمْ﴾ ” کیا تم ان سے ڈرتے ہو؟“ یعنی کیا تم ان سے قتال کرنے سے ڈرتے ہو؟ ﴿فَاللَّـهُ أَحَقُّ أَن تَخْشَوْهُ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ﴾ ”حالانکہ اللہ اس بات کا زیادہ حق دار ہے کہ تم اس سے ڈرو، اگر تم مومن ہو“ اللہ تعالیٰ نے تمہیں ان کے ساتھ جہاد کرنے کا حکم دیا ہے اور اس کی تمہیں سخت تاکید کی ہے اگر تم مومن ہو تو اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کرو اور کفار سے ڈر کر اللہ تعالیٰ کے حکم کو ترک نہ کرو۔ التوبہ
14 پھر اللہ تعالیٰ نے کفار کے ساتھ جنگ کرنے کا حکم دیا اور ان فوائد کا ذکر کیا جو کفار کے خلاف جہاد پر مترتب ہوتے ہیں، یہ سب اہل ایمان کے لئے کفار کے خلاف جہاد کی ترغیب ہے۔ چنانچہ فرمایا : ﴿قَاتِلُوهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللَّـهُ بِأَيْدِيكُمْ﴾ ” ان سے لڑائی کرو، اللہ ان کو سزا دے گا تمہارے ہاتھوں سے“ یعنی قتل کے ذریعے سے ﴿ وَيُخْزِهِمْ ﴾ ” اور رسوا کرے گا ان کو“ یعنی جب اللہ تعالیٰ کفار کے خلاف تمہاری مدد کرے گا۔ یہ وہ دشمن ہیں جن کی رسوائی مطلوب ہے اور اس کی خواہش کی جاتی ہے ﴿ وَيَنصُرْكُمْ عَلَيْهِمْ﴾ ” اور تم کو ان پر غالب کر دے گا“ یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے وعدہ اور بشارت تھی اور اللہ تعالیٰ نے اپنا وعدہ پورا کردیا۔ ﴿وَيَشْفِ صُدُورَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِينَ  وَيُذْهِبْ غَيْظَ قُلُوبِهِمْ﴾ ” اور ٹھنڈے کرے گا دل مسلمان لوگوں کے اور نکالے گا ان کے دلوں کی جلن“ کیونکہ کفار کے خلاف ان کے دل غیظ و غضب سے لبریز ہیں۔ ان کے خلاف قتال کرنے اور ان کو قتل کرنے سے اہل ایمان کو ان کے دلوں میں موجود غیظ و غضب اور غم و ہموم سے شفا ملتی ہے۔ کیونکہ وہ ان دشمنوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے خلاف برسر پیکار ہیں اور اللہ کے نور کو بجھانے میں کوشاں ہیں چنانچہ انہیں قتل و رسوا کر کے مومنوں کے دلوں میں موجود غیظ و غضب زائل ہوتا ہے۔ یہ آیت کریمہ اس امر کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ اہل ایمان سے محبت کرتا ہے اور ان کے احوال کو درخور اعتناء سمجھتا ہے۔ حتیٰ کہ اس نے اہل ایمان کے دلوں کو شفا دینا اور ان کے غیظ و غضب کو زائل کرنا، مقاصد شرعیہ میں شمار کیا ہے۔ التوبہ
15 پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَيَتُوبُ اللَّـهُ عَلَىٰ مَن يَشَاءُ﴾ ” اور جس پر چاہے گا اللہ رحمت کرے گا۔“ یعنی ان برسر پیکار کفار میں سے جسے چاہے اسلام میں داخل ہونے کی توفیق عطا کر کے اس کی توبہ قبول کرلے، اسلام کو ان کے دلوں میں آراستہ کر دے اور کفر، فسق اور نافرمانی کو ان کے لئے ناپسندیدہ کر دے۔ ﴿وَاللَّـهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ﴾ ” اور اللہ جاننے والا حکمت والا ہے۔“ یعنی وہ تمام اشیا کو ان کے مقام پر رکھتا ہے۔ وہ خوب جانتا ہے کہ کون ایمان لانے کی صلاحیت رکھتا ہے؟ چنانچہ وہ اس کی راہ نمائی کرتا ہے اور کون اس صلاحیت سے محروم ہے؟ وہ اس کو اس کی گمراہی اور سرکشی میں غلطاں چھوڑ دیتا ہے۔ التوبہ
16 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو جہاد کا حکم دینے کے بعد ان سے فرماتا ہے ﴿أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تُتْرَكُوا﴾ ” کیا تم یہ گمان کرتے ہو کہ تم چھوٹ جاؤ گے“ یعنی تمہیں کسی آزمائش اور امتحان میں مبتلا کئے بغیر اور تمہیں کوئی ایسا حکم دیئے بغیر چھوڑ دیا جائے گا جس سے سچے اور جھوٹے کے درمیان فرق واضح ہوتا ہے۔ ﴿وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّـهُ الَّذِينَ جَاهَدُوا مِنكُمْ﴾”حا لانکہ ابھی معلوم نہیں کیا اللہ نے تم میں سے ان لوگوں کو جنہوں نے جہاد کیا ہے“ یعنی ایسا علم جو اس چیز کو خارج میں ظاہر کردے جو قوت میں موجود ہے، تاکہ اس پر ثواب وعقاب مرتب ہو۔ پس ان لوگوں کو جان لے جو اس کے کلمہ کو بلند کرنے کے لیے اس کے راستے میں جہاد کرتے ہیں۔﴿وَلَمْ يَتَّخِذُوا مِن دُونِ اللَّـهِ وَلَا رَسُولِهِ وَلَا الْمُؤْمِنِينَ وَلِيجَةً ۚ﴾” اور نہیں بنایا انہوں نے اللہ، اس کے رسول اور مومنوں کے سوا، کوئی دوست“ یعنی انہوں نے کفار کو اپنا دوست نہیں بنایا، بلکہ وہ اللہ اس کے رسول اور اہل ایمان کو اپنا دوست بناتے ہیں۔ ﴿وَاللَّـهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ﴾” اور اللہ تمہارے سب کاموں سے باخبر ہے۔“ یعنی تم سے جو کچھ صادر ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اس سے پوری طرح آگاہ ہے پس وہ تمہاری آزمائش اس طریقہ سے کرتا ہے جس سے تمہاری پوری حقیقت ظاہر ہوجائے۔ نیز وہ تمہیں اور تمہارے اچھے برے اعمال کی جزا دے گا۔ التوبہ
17 اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے:﴿ مَا كَانَ لِلْمُشْرِكِينَ﴾” مشرکوں کو زیبا نہیں“ یعنی مشرکین کے لائق اور ان کے لیے مناسب نہیں﴿ أَن يَعْمُرُوا مَسَاجِدَ اللَّـهِ﴾” کہ آباد کریں وہ اللہ کی مسجدوں کو“ یعنی عبادات، نماز اور مختلف انواع کی نیکیوں کے ذریعے سے اللہ کی مساجد کو آباد کریں اور حال ان کا یہ ہے کہ وہ اپنی فطرت اور شہادت حال کے ذریعے سے اپنے کفر کا اقرار کرتے ہیں اور ان میں سے اکثر لوگوں کی بابت علم ہے کہ وہ کفر اور باطل پر ہیں۔﴿شَاهِدِينَ عَلَىٰ أَنفُسِهِم بِالْكُفْرِ﴾” جب کہ وہ اپنے آپ پر کفر اور (عدم ایمان) کی گواہی دیتے ہیں۔“ ایمان اعمال کی قبولیت کی شرط ہے، تب وہ کیوں کر یہ دعویٰ کرسکتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کہ مساجد کو آباد کرتے ہیں۔ حالانکہ ان کے اعمال کی بنیاد ہی مفقود ہے اور ان کے اعمال باطل ہیں۔ اسی لئے اللہ نے فرمایا :﴿أُولَـٰئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ وَفِي النَّارِ هُمْ خَالِدُونَ﴾ ”یہی لوگ ہیں، ان کے اعمال برباد ہوگئے اور وہ آگ میں ہمیشہ رہیں گے۔ “ التوبہ
18 پھر اللہ تعالیٰ نے ذکر کیا کہ وہ کون لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی مساجد کو آباد کرتے ہیں۔ چنانچہ فرمایا :﴿إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللَّـهِ مَنْ آمَنَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ ﴾” اللہ کی مسجدوں کو تو وہی آباد کرتا ہے جو ایمان لایا اللہ پر اور آخرت کے دن پر اور قائم کیا نماز کو“ یعنی وہ فرض اور مستحب نمازوں کو ظاہری اور باطنی طور پر قائم کرتا ہے ﴿وَآتَى الزَّكَاةَ ﴾اور مستحق لوگوں کو زکوٰۃ ادا کرتا ہے۔﴿  وَلَمْ يَخْشَ إِلَّا اللَّـهَ ﴾” اور نہیں ڈرا سوائے اللہ کے“ یعنی اس نے اپنی خشیت کو صرف اللہ تعالیٰ پر مرکوز کر رکھا ہے۔ ان امور کو اپنے آپ سے دور رکھتا ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے حرام ٹھہرایا ہے اور اللہ تعالیٰ کے حقوق واجبہ کی ادائیگی میں کبھی کوتاہی نہیں کرتا۔ اللّٰہ تبارک وتعالیٰ نے مومنوں کو ایمان نافع اور اعمال صالحہ کے بجا لانے سے متصف کیا ہے۔ ان اعمال صالحہ کی اساس نماز اور زکوٰۃ ہے، نیز ان کو خشیت الٰہی سے موصوف کیا ہے جو ہر بھلائی کی بنیاد ہے درحقیقت یہی وہ لوگ ہیں جو مساجد کو آباد کرتے ہیں اور یہی ان کے اہل ہیں۔﴿فَعَسَىٰ أُولَـٰئِكَ أَن يَكُونُوا مِنَ الْمُهْتَدِينَ﴾” پس امید ہے کہ یہ لوگ ہوں ہدایت والوں میں۔“ لفظ ﴿عَسىٰ﴾ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وجوب کے معنی میں آتا ہے۔ رہے وہ لوگ جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں، نہ اللہ سے ڈرتے ہیں تو یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی مساجد کو آباد کرنے والے نہیں اور نہ ان کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جو ان کے اہل ہیں۔ اگرچہ وہ اس کا دعویٰ کرتے ہیں۔ التوبہ
19 جب بعض مسلمانوں کے درمیان یا بعض مسلمانوں اور مشرکوں کے درمیان اس امر میں اختلاف واقع ہوگیا کہ مسجد حرام کی تعمیر، اس کے اندر نماز پڑھنا، اس میں عبادت کرنا اور حاجیوں کو پانی پلانا افضل ہے یا اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا اور اس کے راستے میں جہاد کرنا؟ تو اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ ان دونوں کے درمیان بہت تفاوت ہے۔ چنانچہ فرمایا ﴿أَجَعَلْتُمْ سِقَايَةَ الْحَاجِّ﴾” کیا کردیا تم نے حاجیوں کے پانی پلانے کو“ یعنی ان کو آپ زم زم پلانا، جیسا کہ معروف جب پلانے کا ذکر مطلق کیا جائے تو اس سے مراد آب زم زم پلانا ہی ہوتا ہے﴿ وَعِمَارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ كَمَنْ آمَنَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَجَاهَدَ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ ۚ لَا يَسْتَوُونَ عِندَ اللَّـهِ ﴾” اور مسجد حرام کے بسانے کو اس شخص کے برابر جو ایمان لایا اللہ اور یوم آخرت پر اور لڑا اللہ کی راہ میں یہ برابر نہیں ہیں اللہ کے نزدیک ۔‘‘ پس جہاد اور ایمان باللہ حاجیوں کو آب زم زم پلانے اور مسجد حرام کی تعمیر سے کئی درجے افضل ہیں کیونکہ ایمان دین کی اساس ہے اور اسی کے ساتھ اعمال قابل قبول ہوتے ہیں اور خصائل کا تزکیہ ہوتا ہے۔ رہا جہاد فی سبیل اللہ تو وہ دین کو کوہان ہے جہاد ہی کے ذریعے سے دین اسلام کی حفاظت ہوتی ہے اور اس میں وسعت پیدا ہوتی ہے۔ جہاد ہی کے ذریعے سے حق کی مدد کی جاتی ہے اور باطل بےیار و مددگار ہوتا ہے۔ رہا مسجد کو آباد کرنا اور حاجیوں کو آب زم زم پلانا، یہ اگرچہ نیک اعمال ہیں مگر ان کی قبولیت ایمان باللہ پر موقوف ہے اور ان اعمال میں وہ مصالح نہیں ہیں جو ایمان باللہ اور جہاد میں ہیں۔ اسی لئے فرمایا : یہ اللہ کے ہاں برابر نہیں۔﴿وَاللَّـهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ﴾ اور اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا“ یعنی وہ لوگ جن کا وصف ہی ظلم ہے جو بھلائی کی کسی چیز کو بھی قبول کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے بلکہ برائی کے سوا کوئی چیز ان کے لائق نہیں۔ پھر نہایت صراحت کے ساتھ اہل ایمان کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا : التوبہ
20 ﴿ الَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ بِأَمْوَالِهِمْ﴾” وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے ہجرت کی اور اللہ کے راستے میں جہاد کیا اپنے مالوں کے ساتھ“ یعنی اپنا مال جہاد میں اور اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرنے والوں کو جہاد کا سامان مہیا کرنے میں خرچ کرتے ہیں۔ ﴿وَأَنفُسِهِمْ﴾” اور اپنی جانوں کے ساتھ“ اور خود جہاد کے لیے نکلتے ہیں ﴿أَعْظَمُ دَرَجَةً عِندَ اللَّـهِ ۚ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْفَائِزُونَ﴾” ان کے لئے بڑا درجہ ہے اللہ کے ہاں اور یہی لوگ ہیں مراد کو پہنچنے والے“ یعنی کوئی شخص اپنا مطلوب حاصل کرسکتا ہے نہ کسی ڈر سے نجات پاسکتا ہے سوائے اس کے جو ان کی صفات سے متصف ہوتا ہے اور ان کے اخلاق کو اپناتا ہے۔ التوبہ
21 ﴿يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُم﴾” ان کو ان کا رب بشارت دیتا ہے“ اپنی طرف سے رحم وکرم، ان پر لطف واحسان اور ان سے اعتناء اور محبت کا مظاہرہ کرتے ہوئے﴿ بِرَحْمَةٍ مِّنْهُ﴾” اپنی طرف سے رحمت کی“ جس کے ذریعے سے وہ ان سے برائیوں کو دور کرتا اور ہر طرح کی بھلائی ان تک پہنچاتا ہے۔﴿ وَرِضْوَانٍ﴾” اور اپنی رضا مندی کی“ جو جنت میں سب سے بڑی اور نہایت جلیل القدر نعمت ہوگی۔ پس وہاں اللہ تعالیٰ اہل جنت کے سامنے اپنی رضا مندی کا اعلان فرمائے گا اور پھر کبھی ان پر ناراض نہیں ہوگا۔﴿وَجَنَّاتٍ لَّهُمْ فِيهَا نَعِيمٌ مُّقِيمٌ﴾ اور باغوں کی جنت میں ان کو آرام ہے ہمیشہ کا“ ان جنتوں میں ہمیشہ رہنے والی ہر قسم کی نعمتیں موجود ہوں گی جن کی دل خواہش کریں گے اور جن سے آنکھیں لذت حاصل کریں گی جن کے اوصاف اور مقدار کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا جو یہ نعمتیں عطا کرے گا۔ ان میں سے ایک نعمت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے راستے میں جہاد کرنے والے مجاہدین کے لیے جنت میں سو درجے تیار رکھے ہیں ہر دو درجوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا آسمان اور زمین کے درمیان۔ اگر تمام مخلوق ایک درجہ میں جمع ہوجائے تو اس ایک درجہ میں سما جائے۔ التوبہ
22 ﴿خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ﴾ ” اس میں وہ ہمیشہ رہیں گے“ وہ وہاں سے منتقل ہوں گے نہ وہاں سے نکلنا چاہیں گے۔﴿إِنَّ اللَّـهَ عِندَهُ أَجْرٌ عَظِيمٌ﴾” بے شک اللہ کے پاس ہے بڑا اجر“ اجر کی کثرت اللہ تعالیٰ کے فضل سے کوئی بعید نہیں اور نہ اس اجر کا بڑا اور اچھا ہونا اس ہستی کے بارے میں کوئی تعجب خیز ہے جو کسی چیز سے جب کہتی ہے ” ہوجا“ تو وہ ہوجاتی ہے۔ التوبہ
23 اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے:﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا﴾ ”اے مومنوں !“ ایمان کے تقاضوں کے مطابق عمل کرو۔ جو ایمان کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے اس کے ساتھ موالات رکھو، جو ان تقاضوں کو پورا نہیں کرتا ان سے عداوت رکھو اور﴿لَا تَتَّخِذُوا آبَاءَكُمْ وَإِخْوَانَكُمْ أَوْلِيَاءَ﴾ ”نہ بناؤ تم اپنے باپوں اور بھائیوں کو دوست“ جو لوگوں میں سے سب سے زیادہ تمہارے قریب ہیں اور دوسرے لوگوں کے بارے میں تو زیادہ اولیٰ ہے کہ تم ان کو دوست نہ بناؤ۔﴿ إِنِ اسْتَحَبُّوا الْكُفْرَ عَلَى الْإِيمَانِ﴾” اگر وہ کفر کو پسند کریں ایمان کے مقابلے میں“ یعنی اگر وہ برضاو رغبت اور محبت سے ایمان پر کفر کو ترجیح دیں۔﴿ وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ﴾ اور جو بھی دوستی کرے گا ان سے تم میں سے’’پس وہی لوگ ہیں ظالم“ کیونکہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی جسارت کی اور اللہ تعالیٰ کے دشمنوں کو اپنا دوست بنایا چونکہ ولایت اور دوستی کی اساس محبت اور نصرت ہے اور ان کا کفارکو دوست بنانا، کفار کی اطاعت اور ان کی محبت کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت و محبت پر مقدم رکھنے کا موجب ہے۔ بنابریں اللہ تعالیٰ نے اس سبب کا ذکر فرمایا ہے جو اس کا موجب ہے اور وہ ہے اللہ اور اس کے رسول کی محبت۔ اس سے یہ بات متعین ہوگئی کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت ہر چیز پر مقدم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تمام اشیاء کی محبت کواس محبت کے تابع کیا ہے۔ التوبہ
24 فرمایا : ﴿قُلْ إِن كَانَ آبَاؤُكُمْ ﴾” کہہ دیجئے ! اگر ہیں تمہارے باپ“ اسی طرح یہ حکم ماؤں کے بارے میں بھی ہے ﴿وَأَبْنَاؤُكُمْ وَإِخْوَانُكُمْ﴾”اور تمہارے بیٹے اور بھائی“ یعنی نسبی اور خاندانی اعتبار سے۔﴿وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ﴾” اور تمہاری بیویاں اور دیگر عمومی رشتہ دار“﴿ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوهَا﴾اور وہ مال جو تم کماتے ہو“ جس کے حصول میں مشقت برداشت کرتے ہو۔ کمائے ہوئے مال کا خاص طور پر اس لئے ذکر کیا ہے کیونکہ یہ اصحاب اموال کے نزدیک مرغوب ترین مال ہوتا ہے اور انہیں اس مال کی نسبت جو انہیں بغیر کسی محنت اور مشقت کے حاصل ہوتا ہے زیادہ محبوب و مرغوب ہوتا ہے۔ ﴿وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا﴾” اور وہ سودا گری جس کے مندا ہونے سے تم ڈرتے ہو“ یعنی سامان کے ارزاں ہونے اور اس میں نقصان واقع ہونے سے ڈرتے ہو۔ اس میں تجارت اور کاروبار کی تمام اقسام شامل ہیں، مثلاً ہر قسم کا سامان تجارت مال کی قیمتیں،برتن، اسلحہ، اشیائے استعمال، غلہ جات، کھتیاں اور مویشی وغیرہ سب اسی زمرے میں آتے ہیں۔﴿وَمَسَاكِنُ تَرْضَوْنَهَا ﴾” اور وہ گھر جن کو تم پسند کرتے ہو“ ان کی خوبصوتی، سجاوٹ اور ان کا تمہارے خواہشات اور پسند کے مطابق ہونے کی وجہ سے﴿ أَحَبَّ إِلَيْكُم مِّنَ اللَّـهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيلِهِ ﴾” اگر یہ تمام چیزیں تمہیں اللہ اور اس کے رسول اور جہاد سے زیادہ محبوب ہیں“ تو تم فاسق وفاجر اور ظالم ہو۔﴿فَتَرَبَّصُوا﴾” تو انتظار کرو۔“ یعنی اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہونے کا انتظار کرو ﴿حَتَّىٰ يَأْتِيَ اللَّـهُ بِأَمْرِهِ﴾” یہاں تک کہ اللہ کا حکم آجائے“ جسے کوئی ٹال نہیں سکتا۔ ﴿وَاللَّـهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِين﴾” اور اللہ نافرمان لوگوں کا ہدایت نہیں دیا کرتا۔“ یعنی اللہ تعالیٰ کے دائرہ اطاعت سے باہر نکلنے والے اور اللہ تعالیٰ کی محبت پر مذکورہ بالا اشیا کی محبت کو ترجیح دینے والے کو اللہ تعالیٰ ہدایت سے نہیں نوازتا۔ یہ آیت کریمہ اس بات کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت فرض ہے اور دیگر تمام اشیا کی محبت پر مقدم ہے۔ نیز آیت کریمہ میں اس شخص کے لیے نہایت سخت وعید اور شدید ناراضی کا اظہار کیا گیا ہے جسے یہ مذکورہ اشیاء اللہ، اس کے رسول اور جہاد سے زیادہ محبوب ہیں۔ اس کی علامت یہ ہے کہ اگر اس کے سامنے دوامور پیش ہوں ان میں ایک اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو محبوب ہو مگر اس میں اس کے نفس کی چاہت کا کوئی پہلونہ ہو اور دوسرے معاملے کو نفس پسند کرتا ہومگر اس کی اختیار کرنے سے اس چیز سے محروم ہوجاتا ہو جسے اللہ اور اس کا رسول پسند کرتے ہیں یا اس چیز میں کمی واقع ہوجاتی ہو اس صورت میں اگر وہ اس چیز کو اس امر پر ترجیح دیتا ہے جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ ظالم اور اس امر کا تارک ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اس پر واجب کیا ہے۔ التوبہ
25 اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے مومن بندوں پر اپنے احسان کا ذکر فرماتا ہے کہ اس نے بہت سی لڑائیوں اور جنگی معرکوں میں انہیں اپنی نصرت سے نوازا حتیٰ کہ ” حنین‘‘ کی جنگ میں جب کہ وہ انتہائی شدید صورت حال سے دوچار تھے، وہ دیکھ رہے تھے کہ لوگ ان کو چھوڑ کر فرار ہورہے ہیں اور زمین اپنی کشادگی اور وسعت کے باوجود ان پر تنگ ہورہی ہے۔ اس کی تفصیل یوں ہے کہ فتح مکہ کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خبر پہنچی کہ بنو ہوازن آپ پر حملہ کرنے کے لیے اکٹھے ہو رہے ہیں۔ چنانچہ آپ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور فتح مکہ کے بعد مسلمان ہونے والے قریش کو ساتھ لے کر مقابلے کے لیے نکلے اس وقت ان کی تعداد بارہ ہزار اور مشرکین کی تعداد چارہزار تھی۔ کچھ مسلمانوں نے اس کثرت تعداد پر اتراتے ہوئے کہا ” آج ہم پر کوئی غالب نہیں آسکے گا۔‘‘ جب بنو ہوازن اور مسلمانوں کی مڈبھیڑ ہوئی ہو انہوں نے مسلمانوں پر یک بارگی حملہ کیا جس سے مسلمانوں کے پاؤں اکھڑگئے اور شکست کھا کر بھا گ اٹھے اور انہوں نے پلٹ کر ایک دوسرے کی طرف نہ دیکھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سو کے لگ بھگ آدمی رہ گئے تھے جو نہایت ثابت قدمی کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ڈٹے مشرکین سے لڑ رہے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے خچر کو ایڑ لگا کر مشرکین کی طرف پیش قدمی کررہے تھے اور فرما رہے تھے ((اَنَاالنَّبِيُّ لَاكَذِبَ اَنَاابْنُ عَبْدِالْمُطَّلِبِ)) ”میں نبی ہوں اس میں کوئی جھوٹ نہیں، میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں۔‘‘ جب آپ نے مسلمانوں کی یہ ہزیمت دیکھی تو آپ نے حضرت عباس بن عبدالمطلب کو، جو کہ بلند آواز شخص تھے حکم دیا کہ وہ انصار اور باقی مسلمانوں کو آواز دیں۔ چنانچہ انہوں نے پکار کر کہا :” اے اصحاب بیعت رضوان ! اے اصحاب سورۃ بقرہ“ جب بھاگنے والوں نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی آواز سنی تو وہ یک بارگی واپس پلٹے اور مشرکین پر ٹوٹ پڑے۔ اللہ تعالیٰ نے مشرکین کو زبردست شکست سے دوچار کیا۔ میدان جنگ مسلمانوں کے ہاتھ رہا۔ ان کے اموال اور عورتیں مسلمانوں کے قبضے میں آگئیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا“ ﴿ لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللَّـهُ فِي مَوَاطِنَ كَثِيرَةٍ ۙ وَيَوْمَ  حُنَيْنٍ﴾” یقیناً اللہ نے تمہاری مدد فرمائی بہت سی جگہوں میں اور حنین کے دن“ حنین، مکہ مکرمہ اور طائف کے درمیان وہ مقام ہے جہاں حنین کا معرکہ ہوا تھا ﴿إِذْ أَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنكُمْ شَيْئًا﴾” جب تمہیں تمہاری کثرت نے گھمنڈ میں مبتلا کردیا پس اس نے تمہیں کچھ فائدہ نہیں دیا“ تمہاری کثرت نے تمہیں تھوڑا یا زیادہ کچھ بھی فائدہ نہ دیا۔ ﴿وَضَاقَتْ عَلَيْكُمُ الْأَرْضُ﴾ ” اور زمین تم پر تنگ ہوگئی۔“ یعنی جب تمہیں شکست ہوئی اور تم پر غم و ہموم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا اور تم پر زمین تنگ ہوگئی۔ ﴿بِمَا رَحُبَتْ﴾ ” اپنی کشادگی اور وسعت کے باوجود“ ﴿ثُمَّ وَلَّيْتُم مُّدْبِرِينَ﴾ ” پھر تم پیٹھ پھیر کر بھاگ نکلے۔ “ التوبہ
26 ﴿ثُمَّ أَنزَلَ اللَّـهُ سَكِينَتَهُ عَلَىٰ رَسُولِهِ وَعَلَى الْمُؤْمِنِينَ﴾ ” پھر اللہ نے اپنے رسول اور مومنوں پر سکینت نازل فرمائی“ سکینت اس کیفیت کا نام ہے جو دل کو ہلا دینے والے تباہ کن واقعات اور زلزلوں کے وقت اللہ تعالیٰ دل میں پیدا کرتا ہے جو دل کو سکون عطا کر کے مطمئن کرتی ہے۔ یہ سکون قلب بندوں کے لئے اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے ﴿وَأَنزَلَ جُنُودًا لَّمْ تَرَوْهَا﴾ ” اور ایسے لشکر اتارے جو تمہیں نظر نہیں آتے تھے“ وہ فرشتے تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے حنین کی جنگ میں مسلمانوں کی مدد کے لئے نازل فرمایا جو مسلمانوں کو ثابت قدم رکھتے تھے اور انہیں فتح و نصرت کی خوشخبری دیتے تھے۔ ﴿وَعَذَّبَ الَّذِينَ كَفَرُوا  ﴾ ” اور کافروں کو عذاب دیا“ اللہ تعالیٰ نے کفار کو شکست، قتل، ان کے اموال و اولاد اور ان کی عورتوں پر مسلمانوں کے قبضہ کے ذریعے سے عذاب کا مزا چکھا دیا۔ ﴿وَذَٰلِكَ جَزَاءُ الْكَافِرِينَ﴾ ” اور یہ ہے سزا کافروں کی“ اللہ تعالیٰ انہیں دنیا میں بھی عذاب دے گا اور آخرت میں سخت عذاب میں مبتلا کرے گا۔ التوبہ
27 ﴿ثُمَّ يَتُوبُ اللَّـهُ مِن بَعْدِ ذَٰلِكَ عَلَىٰ مَن يَشَاءُ﴾ ” پھر اللہ اس کے بعد جس پر چاہتا ہے، رجوع فرماتا ہے“ اللہ تبارک و تعالیٰ نے، ہوازن کے کفار میں سے جن کے ساتھ جنگ ہوئی، اکثر کی توبہ قبول فرما لی اور وہ اسلام قبول کر کے تائب ہو کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے آپ نے ان کی عورتیں اور بچے واپس کردیئے۔ ﴿وَاللَّـهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ﴾ ” اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ بے انتہا مغفرت اور بے پایاں رحمت کا مالک ہے، وہ توبہ کرنے والے کے بڑے بڑے گناہ بخش دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو توبہ اور اطاعت کی توفیق عطا کر کے، ان کے جرائم سے درگزر کر کے اور ان کی توبہ قبول کر کے ان پر رحم کرتا ہے۔ پس کسی نے کتنے ہی بڑے بڑے گناہوں اور جرائم کا ارتکاب کیوں نہ کیا ہو، اسے اللہ تعالیٰ کی رحمت اور بخشش سے ہرگز مایوس نہیں ہونا چاہئے۔ التوبہ
28 ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ﴾ ” اے ایمان والو ! بے شک مشرکین“ یعنی جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کیا اور اس کے ساتھ غیروں کی عبادت کی ﴿نَجَسٌ﴾ ” ناپاک ہیں۔‘‘ یعنی اپنے عقائدو اعمال میں ناپاک ہیں اور اس شخص سے بڑھ کر ناپاک اور کون ہوسکتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ خود ساختہ معبودوں کی عبادت کرتا ہے جو نفع دے سکتے ہیں نہ نقصان اور نہ وہ کوئی کام آسکتے ہیں اور ان لوگوں کے اعمال اللہ تعالیٰ کے ساتھ جنگ کرنے، اللہ تعالیٰ کے راستے سے روکنے، باطل کی مدد کرنے، حق کو ٹھکرانے اور زمین میں اصلاح کی بجائے فساد کے لئے کام کرنے جیسے افعال پر مشتمل ہوتے ہیں۔ اس لئے تم پر فرض ہے کہ تم سب سے زیادہ شرف کے حامل اور سب سے زیادہ پاک گھر سے مشرکین کو پاک رکھو۔ ﴿فَلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَـٰذَا﴾ ” پس یہ اس سال کے بعد مسجد حرام کے قریب نہ جائیں“ اور یہ ٩ ھ کا سال تھا جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے لوگوں کے ساتھ حج کیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے چچازاد بھائی علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو روانہ فرمایا کہ حج کے روز ” براء ت“ کا اعلان کردیں، چنانچہ انہوں نے اعلان کیا کہ سال رواں کے بعد کوئی مشرک حج کے لئے نہیں آٗے گا اور نہ کوئی شخص عریاں ہو کر بیت اللہ کا طواف کرے گا۔ یہاں نجاست سے مراد بدن کی نجاست نہیں، کیونکہ کافر کا بدن بھی دوسرے لوگوں کے بدن کی طرح پاک ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے کتابیہ عورت کے ساتھ مباشرت جائز قراردی ہے مگر اس کا پسینہ وغیرہ لگ جانے کی صورت میں اسے دھونے کا حکم نہیں دیا۔ مسلمان ہمیشہ سے کفار کے ساتھ بدنی اختلاط رکھتے چلے آئے ہیں مگر ان سے یہ بات منقول نہیں کہ انہوں نے کفار کو اس طرح ناپاک سمجھا ہو جس طرح وہ گندگی کو ناپاک سمجھتے ہیں۔ درحقیقت اس سے مراد جیسا کہ گزشتہ صفحات میں گزرچکا ہے۔۔۔۔۔۔ معنوی نجاست، یعنی شرک ہے۔ تو جس طرح توحید اور ایمان معنوی طہارت ہے اسی طرح شرک معنوی نجاست ہے۔ ﴿وَإِنْ خِفْتُمْ عَيْلَةً﴾ ”(اے مسلمانو !) اگر تمہیں محتاجی کا خوف ہو۔“ یعنی مشرکین کو مسجد حرام کے قریب جانے سےروک دینے کی وجہ سے تمہارے اور ان کے درمیان دنیاوی امور میں قطع تعلق کی بنا پر فقر و احتیاج کے لاحق ہونے کا ڈر ہو ﴿فَسَوْفَ يُغْنِيكُمُ اللَّـهُ مِن فَضْلِهِ ﴾ ” تو اللہ اپنے فضل سے تمہیں غنی کردے گا“ رزق کا ایک ہی دروازہ اور ایک ہی جگہ تو نہیں ہے بلکہ اس کے برعکس اگر رزق کا ایک دروازہ بند ہوجاتا ہے تو بے شمار دوسرے دروازے کھل جاتے ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انتہا فضل و کرم سے مسلمانوں کو غنی کردیا۔ انہیں اس قدر کشادہ رزق عطا کیا کہ وہ بڑے بڑے مال داروں اور بادشاہوں میں شمار ہونے لگے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ ﴿إِن شَاءَ﴾ ” اگر اس نے چاہا“ اللہ تعالیٰ کا غنی کرنا اس کی مشیت کے ساتھ معلق ہے، کیونکہ وہ دنیا کے اندر غنا کا حاصل ہونا لوازم ایمان میں شمار ہوتا ہے، نہ اللہ تعالیٰ کی محبت پر دلالت کرتا ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنی مشیت کے ساتھ معلق کیا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ دنیا، ہر ایک کو دیتا ہے، اپنے محبوب بندے کو بھی اور اس کو بھی جس سے وہ محبت نہیں کرتا، مگر وہ ایمان اور دین صرف اسے عطا کرتا ہے جس کے ساتھ وہ محبت کرتا ہے۔ ﴿إِنَّ اللَّـهَ عَلِيمٌ حَكِيمٌ ﴾ ” بے شک اللہ جاننے والا حکمت والا ہے۔“ اس کا علم بڑا وسیع ہے، وہ خوب جانتا ہے کہ کون غنا عطا کئے جانے کے لائق ہے اور کون ہے جو اس کے لائق نہیں اور اللہ تعالیٰ تمام اشیاء کو ان کے لائق مقام پر رکھتا ہے۔ آیت کریمہ ﴿فَلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَـٰذَا﴾ دلالت کرتی ہے کہ مشرکین مکہ بیت اللہ کی وجہ سے ریاست اور بادشاہی کے مالک تھے پھر فتح مکہ کے بعد حکومت اور اقتدار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مومنین کے پاس آگیا اور مشرکین مکہ بیت اللہ اور مکہ مکرمہ میں مقیم رہے، پھر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی جب نبی اکریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وفات پائی تو (وفات کے وقت) آپ نے حکم دیا کہ مشرکین کو سرزمین حجاز سے نکال دیا جائے۔ حجاز میں بیک وقت دو دین نہیں رہ سکتے۔۔۔ اور یہ اس وجہ سے، تاکہ ہر کافر کو مسجد حرام سے دور رکھا جائے۔ پس ہر کافر اللہ تعالیٰ کے حکم ﴿فَلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَـٰذَا﴾ میں داخل ہے۔ التوبہ
29 اس آیت کریمہ میں یہود و نصاریٰ کے ساتھ قتال کا حکم ہے۔ ﴿الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْآخِرِ﴾ ” جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان نہیں لاتے“ ایسا ایمان جس کی تصدیق ان کے افعال و اعمال کرتے ہوں۔ ﴿لَا يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللَّـهُ وَرَسُولُ﴾ ” اور نہ حرام سمجھتے ہیں ان چیزوں کو جن کو اللہ اور اس کے رسول نے حرام کیا ہے“ یعنی محرمات کی تحریم میں اللہ تعالیٰ کی شریعت کی اتباع نہیں کرتے۔ ﴿وَلَا يَدِينُونَ دِينَ الْحَقِّ﴾ ” اور نہ وہ دین حق کو اختیار کرتے ہیں۔‘‘ اگرچہ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ ایک دین رکھتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک باطل دین پر عمل پیرا ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے دین میں تغیر و تبدل اور تحریف واقع ہوگئی ہے اور یہ (تحریف شدہ) وہ دین ہے جسے اللہ تعالیٰ نے مشروع نہیں کیا یا وہ اس دین پر عمل پیرا ہیں جو منسوخ ہے یعنی جسے اللہ تعالیٰ نے مشروع فرمایا تھا، پھر محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شریعت کے ذریعے سے منسوخ کردیا۔ پس اس کے منسوخ ہونے کے بعد اس کے ساتھ تمسک کرناجائز نہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ جہاد کرنے کا حکم اور اس کی ترغیب دی ہے، کیونکہ وہ لوگوں کو اپنے باطل نظریات کی طرف دعوت دیتے ہیں۔ اس سے لوگوں کو اس سبب سے بہت نقصان پہنچتا ہے کہ وہ اہل کتاب ہیں اور اس قتال و جہاد کی غایت و انتہا یہ مقرر کی ہے۔ ﴿حَتَّىٰ يُعْطُوا الْجِزْيَةَ ﴾ ” یہاں تک کہ وہ جزیہ دیں“ یعنی وہ مال ادا کریں جو ان کے خلاف مسلمانوں کے قتال ترک کرنے اور مسلمانوں کے درمیان اپنے مال و متاع سمیت پرامن رہنے کا عوض ہے جو ہر سال ہر شخص سے اس کے حسب حال خواہ وہ امیر ہے یا غریب، وصول کیا جائے گا۔ جیسا کہ امیر المومنین حضرت عمر اور دیگر سربراہان نے کیا تھا۔ ﴿عَن يَدٍ﴾ ” اپنے ہاتھوں سے“ یعنی مطیع ہو کر اور اقتدار چھوڑ کر یہ مالی عوض ادا کریں اور اپنے ہاتھ سے ادا کریں اور اس کی ادائیگی کے لئے خادم وغیرہ نہ بھیجیں’ بلکہ یہ جزیہ صرف انہی کے ہاتھ سے وصول کیا جائے۔ ﴿وَهُمْ صَاغِرُونَ﴾ اور وہ زیردست اور مطیع بن کر رہیں۔ جب ان کا یہ حال ہو اور وہ مسلمانوں کو جزیہ ادا کرنا، مسلمانوں کے غلبہ اور ان کے احکامات کے تحت آنا قبول کرلیں، حالات ان کے شر اور فتنہ سے مامون ہوں۔ وہ مسلمانوں کی ان شرائط کو تسلیم کرلیں جو ان پر عائد کی گئی ہوں جن سے ان کے اقتدار اور تکبر کی نفی ہوتی ہو اور جو ان کی زیردستی کی موجب ہوں۔۔۔ تو مسلمانوں کے امام یا اس کے نائب پر واجب ہے کہ وہ ان کے ساتھ معاہدہ کرلے۔ اگر وہ معاہدے کو پورا نہ کریں اور زیر دست رہ کر جزیہ ادا نہ کریں، تو ان کو امان دینا جائز نہیں، بلکہ ان کے ساتھ قتال کیا جائے یہاں تک کہ اطاعت کرلیں۔ اس آیت کریمہ سے جمہور اہل علم استدلال کرتے ہیں کہ جزیہ صرف اہل کتاب سے لیا جائے، کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے صرف اہل کتاب سے جزیہ وصول کرنے کا حکم دیا ہے۔ رہے اہل کتاب کے علاوہ دیگر کافر تو ان کے خلاف اس وقت تک لڑنے کا ذکر ہے جب تک کہ وہ اسلام قبول نہ کرلیں۔ جزیہ ادا کرنے اور اس کے عوض مسلمانوں کے شہروں میں رہنے کے احکام میں مجوس بھی شامل ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علاقہ ہجر کے مجوسیوں سے جزیہ وصول کیا۔ پھر امیر المومنین حضرت عمر فاورق رضی اللہ عنہ نے ایران کے مجوسیوں سے جزیہ وصول کیا۔ بعض اہل علم کہتے ہیں کہ اہل کتاب اور غیر اہل کتاب تمام کفار سے جزیہ قبول کیا جائے گا کیونکہ یہ آیت کریمہ مشرکین عرب کے ساتھ قتال سے فراغت کے بعد اور اہل کتاب وغیرہ کے ساتھ قتال شروع ہونے پر نازل ہوئی ہے۔ تب یہ قید واقعہ کی خبر ہے اس کا مفہوم نہیں۔ اور اس کی دلیل یہ ہے کہ مجوسیوں سے جزیہ لیا گیا ہے حالانکہ وہ اہل کتاب میں شمار نہیں ہوتے۔ نیز صحابہ کرام اور بعد میں آنے والے مسلمانوں سے تواتر کے ساتھ ثابت ہے کہ وہ جس قوم کے خلاف جنگ کرتے انہیں سب سے پہلے تین میں سے ایک چیز قبول کرنے کی دعوت دیتے تھے۔ (١)اسلام قبول کرنا۔ (٢) جزیہ ادا کرنا۔ (٣) یا تلوار کا فیصلہ قبول کرنا۔۔۔ اور اس میں انہوں نے اہل کتاب اور غیر اہل کتاب کے درمیان کبھی کوئی فرق نہیں رکھا۔ التوبہ
30 جب اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کے ساتھ قتال کا حکم دیا تو ان کے ان خبیث اقوال کا ذکر کیا، جو اہل ایمان کو، جن کے اندر اپنے دین اور اپنے رب کے بارے میں غیرت ہوتی ہے، ان کے ساتھ جنگ کرنے، ان کے خلاف جدوجہد کرنے اور اس میں پوری کوشش صرف کرنے پر آمادہ کرتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا ﴿وَقَالَتِ الْيَهُودُ عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّـهِ﴾ ” یہود نے کہا، عزیز اللہ کے بیٹے ہیں“ ان کا یہ قول ان کے تمام عوام کا قول نہ تھا بلکہ ان میں سے ایک فرقے کا قول تھا۔ البتہ یہ آیت کریمہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ یہودیوں کی سرشت میں خباثت اور شر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا جس نے ان کو یہاں تک پہنچا دیا کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے بارے میں یہ بات کہنے اور اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلال میں نقص ثابت کرنے کی جسارت کی۔ بعض اہل علم کہتے ہیں کہ حضرت عزیر علیہ السلام کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا بیٹا ہونے کا دعویٰ کرنے کا سبب یہ تھا کہ جب (غیر اسرائیلی مشرک)بادشاہوں نے ان پر تسلط حاصل کر کے ان کو تتر بتر کردیا اور حاملین تو رات کو قتل کردیا، اس کے بعد انہوں نے عزیر علیہ السلام کو پایا کہ تمام تورات یا اس کا بیشتر حصہ ان کو حفظ ہے، حضرت عزیر علیہ السلام نے ان کو تورات اپنے حافظہ سے املا کروا دی اور انہوں نے تورات کو لکھ لیا۔ بنا بریں انہوں نے حضرت عزیر علیہ السلام کے بارے میں یہ بدترین دعویٰ کیا۔ ﴿  وَقَالَتِ النَّصَارَى الْمَسِيحُ﴾ ” اور عیسائیوں نے کہا کہ مسیح“ عیسیٰ بن مریم ﴿ ابْنُ اللَّـهِ ﴾ ” اللہ کا بیٹا ہے“ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ذَٰلِكَ ﴾ ” یہ“ یعنی وہ قول جو یہ کہتے ہیں۔ ﴿ قَوْلُهُم بِأَفْوَاهِهِمْ﴾ ” باتیں ہیں ان کے مونہوں کی“ جس کی صداقت پر یہ لوگ کوئی حجت اور دلیل قائم نہیں کر سکے۔ جس شخص کو اس بات کی پروا نہ ہو کہ وہ کیا بولتا ہے اگر وہ کیسی بھی بات کرے تو اس کے بارے میں یہ چیز تعجب خیز نہیں، کیونکہ اس کے پاس کوئی عقل اور کوئی دین نہیں جو اس کو ایسی بات کرنے سے روکے۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿يُضَاهِئُونَ﴾ ” وہ مشابہت رکھتے ہیں۔“ یعنی وہ اپنے اس قول میں مشابہت رکھتے ہیں۔ ﴿قَوْلَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِن قَبْلُ﴾ ” ان لوگوں کے قول سے جنہوں نے اس سے پہلے کفر کیا“ یعنی ان کا قول مشرکین کے قول سے مشابہت رکھتا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں۔ باطل ہونے میں ان کے اقوال باہم مشابہت رکھتے ہیں۔ ﴿قَاتَلَهُمُ اللَّـهُ ۚ أَنَّىٰ يُؤْفَكُونَ﴾ ” اللہ ان کو ہلاک کرے، کہاں پھرے جاتے ہیں“ یعنی وہ کیسے واضح اور خالص حق کو واضح طور پر باطل کی طرف موڑ دیتے ہیں۔ التوبہ
31 یہ رویہ اگرچہ ایک بڑی امت سے بہت نادر اور عجیب سا لگتا ہے کہ وہ کسی ایسی بات پر متفق ہو جس کے بطلان پر ادنیٰ سا غور و فکر اور عقل اور سمجھ دلالت کرتے ہیں، کیونکہ اس کا سبب یہ ہے کہ ﴿اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ﴾ ” انہوں نے ٹھہرا لیا اپنے احبار کو“ ( اَحْبَارَ) سے مراد ان کے ” علماء“ ہیں۔ ﴿ وَرُهْبَانَهُمْ﴾ ” اور اپنے رہبان کو“ اور ﴿رُهْبَان﴾ سے مراد ” وہ عبادت گزار لوگ ہیں جنہوں نے عبادت کے لئے گوشہ نشینی اختیار کی ہے۔“ ﴿أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّـهِ﴾ ” رب، اللہ کے سوا“ وہ ان کے لئے ان امور کو حلال کرتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے حرام ٹھہرایا ہے اور یہ ان کو حلال سمجھ لیتے ہیں اور ان امور کو حرام کرتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے حلال ٹھہرایا ہے اور یہ (ان کی تقلید میں) ان امور کو حرام قرار دے لیتے ہیں۔ یہ احبار اور رہبان ان کے لئے ایسی شریعت اور اقوال مشروع کرتے ہیں جو انبیاء و رسل کے دین کے منافی ہیں اور یہ ان کی تقلید کرتے ہیں۔ نیز یہ اپنے مشائخ و عباد کے بارے میں غلو سے کام لیتے ہیں، ان کی تعظیم کرتے ہیں، ان کی قبروں کو بت بنا دیتے ہیں جن کی اللہ کے سوا عبادت کی جاتی ہے، جہاں جانور ذبح کرنے کی منتیں مانی جاتی ہیں، دعائیں مانگی جاتی ہیں اور ان کو مدد کے لئے پکارا جاتا ہے۔ ﴿وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ﴾ ” اور مسیح ابن مریم کو۔“ یعنی انہوں نے اللہ کے سوا مسیح ابن مریم کو بھی معبود بنا لیا۔ اس حال میں انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی کی جو اس نے اپنے انبیاء و مرسلین کے توسط سے ان کو دیا تھا۔ ﴿وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا إِلَـٰهًا وَاحِدًا﴾ ” حالانکہ انہیں یہ حکم دیا گیا تھا کہ اللہ واحد کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں۔“ پس عبادت اور اطاعت کو صرف اسی کے لئے خالص کریں۔ محبت اور دعا کے لئے صرف اسی کو مخصوص کریں۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم کو دور پھینک دیا اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کیا جس پر اللہ تعالیٰ نے کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی۔ ﴿سُبْحَانَهُ﴾ ” پاک ہے وہ اس سے“ اور بلند ہے۔ ﴿عَمَّا يُشْرِكُونَ﴾ ” ان چیزوں سے جن کو وہ شریک ٹھہراتے ہیں“ وہ پاک اور مقدس ہے، اس کی عظمت اور شان ان کے شرک اور بہتان طرازی سے بہت بلند ہے، کیونکہ وہ اس بارے میں نقص کے مرتکب ہیں اور اسے ایسی صفات سے متصف کرتے ہیں جو اس کی جلالت شان کے لائق نہیں اور اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے اوصاف وا افعال میں ہر اس چیز سے منزہ اور بلند ہے جو اس کے کمال مقدس کے منافی ہے۔ التوبہ
32 جب یہ حقیقت واضح ہوگئی کہ ان کے قول کی کوئی دلیل اور ان کے اصول کی کوئی برہان تائید نہیں کرتی۔ ان کا قول محض ان کے منہ کی بات ہے اور ایک ایسا بہتان ہے جو انہوں نے خود گھڑ لیا ہے۔۔۔ تو اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا ﴿يُرِيدُونَ﴾ ” وہ چاہتے ہیں۔“ اس کے ذریعے سے ﴿ن يُطْفِئُوا نُورَ اللَّـهِ بِأَفْوَاهِهِمْ﴾ ” کہ وہ اللہ کے نور کو اپنے مونہوں سے بجھا دیں“ یہاں اللہ کے نور سے مراد اس کا دین ہے جس کو اس نے اپنے رسولوں کے ذریعے سے بھیجا اور کتابوں کے ذریعے سے نازل فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے دین کو نور کہا ہے، کیونکہ جہالت اور ادیان باطلہ کے اندھیروں میں اس کے ذریعے سے روشنی حاصل کی جاتی ہے،کیونکہ دین، حق کے علم اور حق پر عمل کا نام ہے اور حق کے علاوہ ہر چیز اس کی ضد ہے۔ یہ یہود و نصاریٰ اور ان کی مانند دیگر مشرکین چاہتے ہیں کہ وہ محض اپنی ایسی خالی خولی باتوں سے اللہ تعالیٰ کی روشنی کو بجھا دیں، جن کی اساس کسی دلیل پر قائم نہیں۔ ﴿ وَيَأْبَى اللَّـهُ إِلَّا أَن يُتِمَّ نُورَهُ﴾ ” اور اللہ نہ رہے گا بغیر پورا کئے اپنے نور کے“ اور اللہ تعالیٰ اپنا نور پورا کر کے رہے گا،کیونکہ یہ نور ایسا غالب نور ہے کہ تمام مخلوق اگر اس کو بجھانے کے لئے اکٹھی ہوجائے تو اسے بجھا نہیں سکتی اور جس نے یہ نور نازل فرمایا ہے، تمام بندوں کی پیشانی اسی کے ہاتھ میں ہے۔ اس نے ہر اس شخص سے، جو اس کے بارے میں برا ارادہ رکھتا ہے، اس نور کی حفاظت کا ذمہ اٹھایا ہوا ہے۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَيَأْبَى اللَّـهُ إِلَّا أَن يُتِمَّ نُورَهُ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ ﴾ ” اور اللہ اپنے نور کو پورا کئے بغیر رہنے کا نہیں‘ اگرچہ کافروں کو برا ہی لگے۔“ یعنی وہ اس نور کے ابطال اور اس کو رد کرنے میں پوری طرح کوشاں رہتے ہیں مگر ان کی یہ بھاگ دوڑ حق کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس نور کو، جس کی تکمیل اور حفاظت کا اس نے ذمہ اٹھایا ہے، واضح کرتے ہوئے فرمایا ﴿هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَىٰ﴾ ” وہی ذات ہے جس نے بھیجا اپنے رسول کو ہدیات کے ساتھ“ جو کہ علم نافع کا نام ہے۔ ﴿وَدِينِ الْحَقِّ﴾ ” اور دین حق کے ساتھ“ جو کہ عمل صالح کا نام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جناب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جو دین دے کر مبعوث فرمایا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات، اس کے افعال اور اس کے احکام و اخبار کے بارے میں باطل میں سے حق کو واضح کرنے اور ہر ایسے حکم پر مشتمل ہے جو بدن، روح اور قلب کے لئے نافع اور ان کی اصلاح کرتا ہے، یعنی دین میں اخلاص، اللہ تعالیٰ سے محبت اور اسی کی عبادت کا حکم دیتا ہے، وہ مکارم اخلاق، محاسن عادات’ اعمال صالحہ اور آداب نافعہ کے احکام پر مشتمل ہے اور ان تمام برے اخلاق اور برے اعمال سے روکتا ہے جو ان کی ضد ہیں۔ جو دنیا و آخرت میں قلب و بدن کے لئے ضرر رساں ہیں۔ التوبہ
33 پھر اللہ تعالیٰ نے اس نور کو، جس کی تکمیل اور حفاظت کا اس نے ذمہ اٹھایا، واضح کرتے ہوئے فرمایا ﴿هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَىٰ﴾ ”وہی ذات ہے جس نے بھیجا اپنے رسول کو ہدایت کے ساتھ“ جو کہ علم نافع کا نام ہے۔ ﴿وَدِينِ الْحَقِّ﴾ ” اور دین حق کے ساتھ“ جو کہ عمل صالح کا نام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جناب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جو دین دے کر مبعوث فرمایا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات، اس کے افعال اور اس کے احکام و اخبار کے بارے میں باطل میں سے حق کو واضح کرنے اور ہر ایسے حکم پر مشتمل ہے جو بدن، روح اور قلب کے لئے نافع اور ان کی اصلاح کرتا ہے، یعنی دین میں اخلاص، اللہ تعالیٰ سے محبت اور اسی کی عبادت کا حکم دیتا ہے، وہ مکارم اخلاق، محاسن عادات، اعمال صالحہ اور آداب نافعہ کے احکام پر مشتمل ہے اور ان تمام برے اخلاق اور برے اعمال سے روکتا ہے جو ان کی ضد ہیں جو دنیا و آخرت میں قلب و بدن کے لئے ضرررساں ہیں۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ مبعوث فرمایا۔ ﴿لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ﴾ ” تاکہ اس (دین) کو تمام دینوں پر غالب کرے، اگرچہ کافرناخوش ہی ہوں۔“ یعنی تاکہ حجت و برہان اور شمشیر وسناں کے ذریعے سے تمام ادیان پر اسے غالب کرے۔ اگرچہ مشرکین کو یہ بات بہت ناگوار گزرتی ہے، وہ اس کے خلاف فساد برپا کرتے ہیں اور اس کے خلاف سازشیں کرتے ہیں مگر سازش کا نقصان سازش کرنے والے ہی کو پہنچتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا وعدہ فرمایا اور وہ اپنا وعدہ ضرور پورا کرے گا۔ اس نے خود ذمہ اٹھایا ہے وہ اسے ضرور نبھائے گا۔ التوبہ
34 یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے اپنے اہل ایمان بندوں کو تحذیر ہے کہ وہ بہت سے احبار اور رہبان، یعنی اہل کتاب کے علماء اور عبادت گزاروں سے بچیں جو باطل یعنی ناحق طریقے سے لوگوں کا مال کھاتے ہیں اور انہیں اللہ کے راستے سے روکتے ہیں، کیونکہ ان کے علم، ان کی عبادت اور ان کی پیشوائی کی وجہ سے لوگوں کے مال اور ان کے چندوں میں سے ان کے وظائف مقرر ہیں۔ یہ احبار و رہبان وظائف لیتے ہیں اور لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکتے ہیں۔ ان کا اس طریقے سے وظائف لینا حرام اور ظلم ہے، کیونکہ لوگ ان پر اپنا مال اس لئے خرچ کرتے ہیں، تاکہ وہ راہ راست کی طرف ان کی راہنمائی کریں اور ناحق طریقے سے لوگوں کا مال ہتھیانے کی ایک صورت یہ بھی تھی کہ لوگ ان کو مال دے کر ایسا فتویٰ حاصل کرتے تھے یا ان سے ایسا فیصلہ کرواتے تھے جو اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکام کے مطابق نہیں ہوتا تھا۔ ان احبار و رہبان کی ان دو حالتوں سے بچنا چاہئے : (١) ناحق لوگوں کا مال لینا۔ (٢) لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے راستے سے روکنا۔ ﴿وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ ﴾ ” اور جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں۔“ یعنی ان کو روک رکھتے ہیں۔ ﴿وَلَا يُنفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ﴾ ” اور ان کو اللہ کے راستے میں خرچ نہیں کرتے۔“ یعنی بھلائی کے راستوں میں خرچ نہیں کرتے جو اللہ تعالیٰ تک پہنچاتے ہیں۔ یہ وہ جمع کرنا ہے جو حرام ہے، یعنی مال کو روک رکھا اور اسے وہاں خرچ نہ کرنا جہاں خرچ کرنا فرض ہے، مثلاً زکوۃ ادا نہ کرنا، بیویوں اور دیگر اقارب کو نقصانات واجبہ نہ دینا۔ ﴿فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِيمٍ﴾ ” تو انہیں درد ناک عذاب کی خوشخبری دیجیے۔ “ التوبہ
35 پھر اس عذاب کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا : ﴿يَوْمَ يُحْمَىٰ عَلَيْهَا﴾ ” جس دن اس (مال) کو گرم کیا جائے گا۔“ یعنی ان کے مال پر آگ دہکائی جائے گی۔ ﴿فِيْ نَارِ جَهَنَّمَ ﴾ ” جہنم کی آگ میں۔“ یعنی ہر دینار اور ہر درہم پر علیحدہ علیحدہ آگ دہکائی جائے گی۔ ﴿فَتُكْوَىٰ بِهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ وَظُهُورُهُمْ﴾ ”(پھر اس سے قیامت کے روز) ان لوگوں کی پیشانیوں، ان کے پہلوؤں اور ان کی پیٹھوں کو داغا جائے گا۔“ جب بھی یہ دینار و درہم ٹھنڈے پڑجائیں گے تو ان کو دوبارہ دن بھر تپایا جائے گا اور وہ دن پچاس ہزار سال کے برابر ہوگا اور انہیں زجر و توبیخ اور ملامت کرتے ہوئے کہا جائے گا۔ ﴿هَـٰذَا مَا كَنَزْتُمْ لِأَنفُسِكُمْ فَذُوقُوا مَا كُنتُمْ تَكْنِزُونَ﴾ ” یہی وہ مال ہے جو تم سینت سینت کر رکھتے تھے اپنی جانوں کے لئے اب مزہ چکھو اپنے جمع کرنے کا“ پس اللہ تعالیٰ نے تم پر ظلم نہیں کیا بلکہ تم نے خود ہی اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اس خزانے کے ذریعے سے تم نے اپنی جانوں کو عذاب میں مبتلا کیا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان دو آیات کریمہ میں انسان کے اپنے مال کے بارے میں انحراف کا ذکر فرمایا ہے۔ یہ انحراف دو امور کے ذریعے سے ہوتا ہے۔ (١) انسان اس کو باطل کے راستے میں خرچ کرتا ہے جس کا اس کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا، بلکہ اس سے اس کو صرف نقصان ہی پہنچتا ہے، مثلاً معاصی اور شہوات میں مال خرچ کرنا جس سے اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر اعانت حاصل نہیں ہوتی اور لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے راستے سے روکنے کے لئے مال خرچ کرنا۔ (٢) جہاں مال خرچ کرنا واجب ہو وہاں مال خرچ نہ کرنا اور کسی چیز سے روکنا درحقیقت اس کی ضد کا حکم دینا ہے۔ التوبہ
36 ﴿إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِندَ اللَّـهِ ﴾ ” اللہ کے ہاں مہینوں کی گنتی“ یعنی اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر میں۔ ﴿اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا﴾ ” بارہ مہینے ہے“ یہ وہی معروف مہینے ہیں۔ ﴿فِي كِتَابِ اللَّـهِ﴾ ” اللہ کی کتاب میں“ یعنی اللہ تعالیٰ کے حکم قدری میں ﴿يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ﴾ ” جس دن اس نے پیدا کئے تھے آسمان اور زمین“ اللہ تعالیٰ نے اس کے لیل و نہار جاری کئے، اس کے اوقات کی مقدار مقرر کی اور اس کو ان بارہ مہینوں میں تقسیم کیا۔ ﴿مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ﴾ ” ان میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں“ اور یہ ہیں رجب، ذیقعد، ذوالحج اور محرم۔۔۔ اور ان کے احترام کی وجہ سے ان کو حرام مہینوں سے موسوم کیا گیا ہے۔ نیز ان کو اس وجہ سے بھی حرام مہینے کہا گیا ہے کہ ان میں قتال کرنا حرام ٹھہرایا گیا ہے۔ ﴿فَلَا تَظْلِمُوا فِيهِنَّ أَنفُسَكُمْ﴾ ” پس ان میں تم اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو“ اس میں یہ احتمال بھی ہے کہ ضمیر بارہ مہینوں کی طرف لوٹتی ہے اور یہ کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے واضح فرمایا کہ اس نے ان مہینوں کو بندوں کے لئے وقت کی مقدار کے تعین کے لئے مقرر فرمایا ہے۔ پس ان مہینوں کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے معمور رکھا جائے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان پر اس کا شکر ادا کیا جائے، نیز یہ کہ اس نے ان مہینوں کو اپنے بندوں (کے مصالح) کے لئے مقرر فرمایا۔ پس اپنے آپ پر ظلم کرنے سے بچو۔ اس میں یہ احتمال بھی ہوسکتا ہے کہ ضمیر صرف چار حرام مہینوں کی طرف لوٹتی ہو یعنی ان کے لئے ممانعت ہے کہ وہ خاص طور پر ان چار مہینوں میں ظلم کریں۔ حالانکہ تمام اوقات میں ظلم کرنے کی ممانعت ہے، لیکن چونکہ ان چار مہینوں کی حرمت زیادہ ہے اور ان مہینوں میں دوسرے مہینوں کی نسبت ظلم کے گناہ کی شدت بھی زیادہ ہے، اس لئے ان مہینوں میں ظلم کرنے سے بطور خاص منع کیا گیا۔ ان چار مہینوں میں ان علماء کے نزدیک، جو یہ کہتے ہیں کہ حرام مہینوں میں لڑائی کی تحریم منسوخ نہیں، لڑائی کرنا ممنوع ہے۔ وہ ان مہینوں میں قتال کی تحریم کے بارے میں عام نصوص پر عمل کرتے ہیں۔ بعض اہل علم کہتے کہ ان مہینوں میں قتال کی تحریم منسوخ ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی عمومیت پر عمل کرتے ہیں۔ ﴿وَقَاتِلُوا الْمُشْرِكِينَ كَافَّةً كَمَا يُقَاتِلُونَكُمْ كَافَّةً ﴾ ” اور تم سب کے سب مشرکوں سے لڑو جیسے وہ سب کے سب تم سے لڑتے ہیں۔“ یعنی تمام قسم کے مشرکین اور رب العالمین کا انکار کرنے والوں سے لڑو اور لڑائی کے لئے کسی کو مخصوص نہ کرو، بلکہ تمام مشرکین اور کفار کو اپنا دشمن سمجھو جیسا کہ تمہارے ساتھ ان کا رویہ ہے۔ وہ اہل ایمان کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں اور شرارت سے کبھی نہیں چوکتے۔ اس میں یہ بھی احتمال ہے کہ ﴿كَافَّةً﴾قاتلوا“ کی واؤ سے حال ہو، تب معنی یہ ہوگا کہ تم سب اکٹھے ہو کر مشرکین سے جنگ کرو، اس صورت میں تمام اہل ایمان پر جہاد کے لئے نکلنا فرض ہے۔ اس احتمال کے مطابق یہ آیت کریمہ، اللہ تبارک و تعالیٰ کے ارشاد ﴿وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنفِرُوا كَافَّةً ﴾(التوبة:9؍122) ” اہل ایمان کے لئے ضروری نہ تھا کہ وہ سارے کے سارے نکل کھڑے ہوتے۔“ کے لئے ناسخ قرار پائے گی۔ ﴿وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّـهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ ﴾” اور جان رکھو کہ اللہ پرہیز گاروں کے ساتھ ہے۔“ یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی مدد، نصرت اور تائید کے ذریعے سے تقویٰ شعار لوگوں کے ساتھ ہے۔ پس تم اپنے ظاہر و باطن اور اطاعت الٰہی پر قائم رہنے میں اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرنے کے حریص بنو۔ خاص طور پر کفار کے خلاف قتال کے وقت، کیونکہ ایسی صورت حال میں جنگ میں شریک کفار دشمنوں کے معاملہ میں مومن سے تقویٰ کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جاتا ہے۔ التوبہ
37 ﴿النَّسِيءُ﴾ ” تاخیر“ وہ ہے جو اہل جاہلیت حرام مہینوں میں استعمال کیا کرتے تھے۔ یہ ان کی جملہ بدعات میں سے ایک بدعت تھی کہ جب انہیں حرام مہینوں میں سے کسی مہینے میں لڑائی کی ضرورت پڑتی، تو وہ۔۔۔ اپنے فاسد آراء کے مطابق سمجھتے تھے کہ حرام مہینوں کی گنتی کو پورا رکھا جائے جن کے اندر لڑائی حرام ہے اور یہ کہ وہ بعض حرام مہینوں کو موخر یا مقدم کردیتے تھے اور اس کی جگہ حلال مہینوں میں سے کسی مہینے کو حرام بنا لیتے تھے۔ جب ان حرام کی جگہ حلال مہینوں کو مقرر کردیتے تو حرام مہینوں میں لڑائی کو حلال کرلیتے اور حلال مہینوں کو حرار قرار دے دیتے ان کا یہ رویہ۔۔۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں آگاہ فرمایا ہے۔۔۔ ان کی طرف سے مزید کفر اور گمراہی کا رویہ ہے کیونکہ اس میں ایسے امور ہیں جن سے پرہیز کیا جانا چاہئے۔ (١) انہوں نے ﴿نَّسِيءُ﴾ کو اپنی طرف سے گھڑ کر اللہ تعالیٰ کی شریعت اور دین قرار دے دیا حالانکہ اللہ اور اس کا رسول اس سے بری ہیں۔ (٢) انہوں نے دین کو بدل ڈالا، حلال کو حرام اور حرام کو حلال قرار دے ڈالا۔ (٣) انہوں نے بزعم خود، اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کے ساتھ فریب کیا۔ اللہ تعالیٰ کے بندوں پر ان کے دین کو گڈ مڈ کردیا۔ اللہ تعالیٰ کے دین میں حیلہ سازی اور فریب کاری کو استعمال کیا۔ (٤) شریعت کی مخالفت میں بار بار کئے جانے والے اعمال پر دوام سے لوگوں کے دلوں سے ان کی قباحت زائل ہوجاتی ہے، بلکہ بسا اوقات ایسے کام اچھے محسوس ہونے لگتے ہیں، اس کے جو خطرناک نتائج نکلتے ہیں، محتاج وضاحت نہیں۔ بنابریں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: ﴿يُضَلُّ بِهِ الَّذِينَ كَفَرُوا يُحِلُّونَهُ عَامًا وَيُحَرِّمُونَهُ عَامًا لِّيُوَاطِئُوا عِدَّةَ مَا حَرَّمَ اللَّـهُ ﴾ ” گمراہی میں پڑتے ہیں اس سے کافر، حلال کرلیتے ہیں اس مہینے کو ایک برس اور حرام رکھتے ہیں اس کو دوسرے برس، تاکہ پوری کرلیں گنتی ان مہینوں کی جن کو اللہ نے حرمت والا قرار دیا ہے“ یعنی حرام مہینوں کے عدد میں موافقت کریں اور جن کو اللہ تعالیٰ نے حرام ٹھہرایا ہے انہیں حلال قرار دے لیں ﴿زُيِّنَ لَهُمْ سُوءُ أَعْمَالِهِمْ﴾ ” ان کے برے اعمال ان کے لئے مزین کردیئے گئے ہیں۔“ یعنی شیاطین نے ان کے سامنے ان کے بارے اعمال کو مزید کردیا اور ان کے دلوں میں جو عقائد مزین ہوگئے ہیں ان کی وجہ سے وہ ان اعمال کو اچھا سمجھتے ہیں۔۔ ﴿وَاللَّـهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ﴾ ” اور اللہ کافروں کو ہدایت نہیں دیتا۔“ یعنی وہ لوگ جو کفر کے رنگ میں رنگے گئے ہیں اور تکذیب نے ان کے دلوں میں جڑ پکڑ لی ہے لہٰذا ان کے پاس اگر تمام نشانیاں بھی آجائیں تو یہ ایمان نہیں لائیں گے۔ التوبہ
38 واضح رہے کہ اس سورۃ کریمہ کا اکثر حصہ غزوہ تبوک میں نازل ہوا ہے،جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رومیوں کے مقابلے میں جنگ کے لئے لوگوں کو بلایا۔ اس وقت سخت گرمی کا موسم تھا، لوگوں کے پاس زاد راہ بہت کم تھا اور ان کے معاشی حالات عسرت کا شکار تھے۔ اس کی وجہ سے بعض مسلمانوں میں سستی آگئی تھی جو اللہ تعالیٰ کے عتاب کی موجب بنی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کو جہاد کے لئے اٹھنے کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا : ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا﴾ ” اے ایمان والو“! کیا تم ایمان کے تقاضوں اور یقین کے داعیوں کو نہیں جانتے؟ ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل میں سبقت کی جائے، اس کی رضا کے حصول، اللہ تعالیٰ کے دشمنوں اور تمہارے دین کے دشمنوں کے خلاف جہاد کی طرف سرعت سے بڑھا جائے۔ پس ﴿ مَا لَكُمْ إِذَا قِيلَ لَكُمُ انفِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ﴾ ”تمہیں کیا ہے کہ جب تمہیں کہا جاتا ہے کہ اللہ کے راستے میں کوچ کرو، تو گرے جاتے ہو زمین پر“ یعنی تم سستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بیٹھ رہے ہو اور راحت و آرام کی طرف مائل ہو رہے ہو۔ ﴿أَرَضِيتُم بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا مِنَ الْآخِرَةِ ۚ﴾ ”کیا تم آخرت کو چھوڑ کر دنیا کی زندگی پر خوش ہو بیٹھے ہو۔“ یعنی تمہارا حال تو بس اس شخص جیسا ہے جو دنیا کی زندگی پر راضی ہے اور اسی کے لئے بھاگ دوڑ کرتا ہے اور آخرت کی کوئی پروا نہیں کرتا۔ گویا آخرت پر وہ ایمان ہی نہیں رکھتا۔ ﴿ فَمَا مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا﴾ ” پس نہیں ہے نفع اٹھانا دنیا کی زندگی کا“ جس کی طرف تم مائل ہو جس کو تم نے آخرت پر ترجیح دے رکھی ہے۔ ﴿ إِلَّا قَلِيلٌ ﴾ ” مگر بہت تھوڑا“ کیا اللہ تعالیٰ نے تمہیں عقل سے نہیں نوازا جس کے ذریعے سے تم تمام معاملات کو تولو کہ کون سا معاملہ ہے جو ترجیح دیئے جانے کا مستحق ہے؟ کیا ایسا نہیں کہ یہ دنیا۔۔۔ اول سے لے کر آخر تک۔۔۔ آخرت کے ساتھ اس کی کوئی نسبت ہی نہیں؟ اس دنیا میں انسان کی عمر بہت تھوڑی ہے، یہ عمر اتنی نہیں کہ اس کو مقصد بنا لیا جائے اور اس کے ماوراء کوئی مقصد ہی نہ ہو اور انسان کی کوشش، اس کی جہد اور اس کے ارادے اس انتہائی مختصر زندگی سے آگے نہ بڑھتے ہوں جو تکدر سے لبریز اور خطرات سے بھرپور ہے۔ تب کس بنا پر تم نے دنیا کی زندگی کو آخرت پر ترجیح دے دی جو تمام نعمتوں کی جامع ہے جس میں وہ سب کچھ ہوگا نفس جس کی خواہش کریں گے اور آنکھیں جس سے لذت حاصل کریں گی اور تم اس آخرت میں ہمیشہ رہو گے۔۔۔ اللہ کی قسم ! وہ شخص جس کے دل میں ایمان جاگزیں ہوگیا ہے، جو صائب رائے رکھتا ہے اور جو عقل مندوں میں شمار ہوتا ہے، کبھی دنیا کو آخرت پر ترجیح نہیں دے گا۔ التوبہ
39 پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے جہاد کے لئے نہ نکلنے پر ان کو سخت وعید سناتے ہوئے فرمایا : ﴿إِلَّا تَنفِرُوا يُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا أَلِيمًا ﴾ ”اگر تم نہ نکلو گے تو وہ تم کو عذاب دے گا، درد ناک عذاب“ دنیا اور آخرت میں، کیونکہ جہاد کے لئے بلانے پر جہاد کے لئے گھر سے نہ نکلنا کبیرہ گناہ ہے جو سخت ترین عذاب کا موجب ہے، کیونکہ اس میں شدید نقصان ہے بوقت ضرورت جہاد سے جی چرا کر پیچھے بیٹھ رہنا اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور اس کی منہیات کا ارتکاب ہے۔ جہاد سے گریز کرنے والے نے اللہ تعالیٰ کے دین کی مدد کی، نہ اس کی کتاب اور شریعت کی مدافعت کی اور اس نے اپنے مسلمان بھائیوں کی ان کے ان دشمنوں کے خلاف مدد کی جو ان کو ختم کرنا اور ان کے دین کو مٹانا چاہتے ہیں۔ نیز بسا اوقات ضعیف الایمان لوگ جہاد سے جی چراتے میں ان کی پیروی کرنے لگتے ہیں، بلکہ اس طرح دشمن کے خلاف جہاد کرنے والوں کی قوت ٹوٹ جاتی ہے۔ اس لئے جس کا یہ حال ہو تو وہ اسی قابل ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے سخت وعید سنائے۔ اس لئے فرمایا : ﴿إِلَّا تَنفِرُوا يُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا أَلِيمًا وَيَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ وَلَا تَضُرُّوهُ شَيْئًا﴾ ” اگر تم نہ نکلو گے، تو تم کو درد ناک عذاب دے گا اور تمہاری جگہ کسی دوسری قوم کو بدلے میں لے آئے گا اور تم اس کا کچھ نہ بگاڑ سکو گے۔“ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کی نصرت اور اپنے کلمہ کو بلند کرنے کا ذمہ اٹھا رکھا ہے۔ اس لئے اگر تم اللہ تعالیٰ کے احکام کی تعمیل کرتے ہو یا ان کو اپنی پیٹھ پیچھے پھینک دیتے ہو، اللہ کے لئے برابر ہے۔ ﴿ وَاللَّـهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ﴾ ” اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔“ اللہ تعالیٰ جس چیز کا ارادہ کرے تو وہ اسے بے بس نہیں کرسکتی اور کوئی اس پر غالب نہیں آسکتا۔ التوبہ
40 اگر تم اللہ تعالیٰ کے رسول محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدد نہیں کرتے، تو اللہ تعالیٰ تم سے بے نیاز ہے تم اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ اس نے قلت زاد اور بے کسی کے حالات میں بھی آپ کی مدد فرمائی۔ ﴿إِذْ أَخْرَجَهُ الَّذِينَ كَفَرُوا﴾ ” جب اس کو کافروں نے نکال دیا۔“ جب کفار نے آپ کو مکہ مکرمہ سے نکال دیا تھا، جب انہوں نے آپ کو قتل کرنے کا ارادہ کیا اور اس مقصد کے حصول کے لئے بھرپور کوشش کی اور وہ اس کی شدید خواہش رکھتے ہیں۔ آخر انہوں نے آپ کو مکہ مکرمہ سے نکلنے پر مجبور کردیا۔ ﴿ثَانِيَ اثْنَيْنِ﴾ ” وہ دو میں سے دوسرا تھا“ یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ابوبکر صدیق ﴿ إِذْ هُمَا فِي الْغَارِ﴾ ” جب وہ دونوں غار میں تھے“ یعنی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ مکہ مکرمہ سے نکل کر مکہ سے نیچے کی طرف واقع غار ثور میں پناہ گزین ہوئے۔ دونوں اس وقت تک غار میں ٹھہرے رہے جب تک کہ ان کی تلاش کا معاملہ ٹھنڈ انہیں پڑگیا۔ دونوں اصحاب شدید حرج اور مشقت کی حالت میں مبتلا رہے۔ جب ان کے دشمن ان کی تلاش میں ہر طرف پھیل گئے تاکہ ان کو پکڑ کر قتل کردیں اس وقت اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنی نصرت نازل فرمائی جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ ﴿إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ﴾ ” جب وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھے۔“ یعنی جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ساتھی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے جب کہ وہ سخت غم زدہ اور قلق کا شکار تھے۔۔۔ فرمایا : ﴿ لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّـهَ مَعَنَا﴾ ” غم نہ کھا، اللہ ہمارے ساتھ ہے“ یعنی اللہ تعالیٰ کی مدد، نصرت اور تائید ہمارے ساتھ ہے۔ ﴿فَأَنزَلَ اللَّـهُ سَكِينَتَهُ﴾ ” پس اتاری اللہ نے اپنی طرف سے اس پر سکینت“ یعنی اللہ تعالیٰ نے ثابت قدمی، طمانیت اور ایسا سکون نازل فرمایا جو دل کی مضبوطی کا باعث ہوتا ہے۔ اس لئے جب آپ کا ساتھی گھبرایا تو آپ نے اس کو پرسکون کرتے ہوئے فرمایا ” غم نہ کھا، اللہ ہمارے ساتھ ہے۔“ ﴿وَأَيَّدَهُ بِجُنُودٍ لَّمْ تَرَوْهَا﴾ ” اور اس کی مدد کو وہ فوجیں بھیجیں کہ تم نے نہیں دیکھیں“ اور وہ معزز فرشتے تھے جن کو اللہ نے آپ کا محافظ بنا دیا۔ ﴿وَجَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِينَ كَفَرُوا السُّفْلَىٰ﴾ ” اور کافروں کی بات کو پست کردیا۔“ یعنی اللہ تعالیٰ نے کفار کو ساقط اور بے یار و مددگار چھوڑ دیا، کیونکہ کفار سخت غضب ناک تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سخت غصہ تھا وہ سمجھتے تھے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گرفتار کر کے قتل کرسکتے ہیں۔ انہوں نے اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کی پوری کوشش کی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیا اور وہ مقصد حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے، بلکہ وہ کچھ بھی حاصل نہ کرسکے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدافعت فرما کر آپ کو اپنی نصرت سے نوازا۔ یہی وہ مدد ہے جس کا اس مقام پر ذکر کیا گیا ہے۔ اس لئے کہ مدد کی دو قسمیں ہیں۔ (١) جب مسلمان دشمن کو زک پہنچانے کے خواہشمند ہوں۔ اللہ تعالیٰ ان کی خواہش اور مقصد کو پورا کرتا ہے اور وہ اپنے دشمن پر غالب آجاتے ہیں۔ (٢) مدد کی دوسری قسم مستضعفین کی مدد ہے جن کو ان کا طاقتور دشمن نقصان پہنچانا چاہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے دشمن کو آپ سے دور کر کے اور دشمن سے آپ کا دفاع کر کے آپ کی مدد فرمائی اور شاید مدد و نصرت کی یہ قسم سب سے زیادہ فائدہ مند ہے۔ اللہ تعالیٰ کا اپنے رسول کی مدد کرنا، جب کفار نے دونوں کو مکہ مکرمہ سے نکال دیا تھا۔۔۔ نصرت کی اسی نوع میں شمار ہوتا ہے۔ ﴿ وَكَلِمَةُ اللَّـهِ هِيَ الْعُلْيَا﴾ ” اور بات تو اللہ ہی کی بلند ہے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ کے کلمات قدر یہ اور کلمات دینیہ دیگر تمام کلمات پر غالب ہیں۔ اس مفہوم کی چند دیگر آیات یہ ہیں۔ ﴿وَكَانَ حَقًّا عَلَيْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِينَ﴾ (الروم :30؍47) ” اور اہل ایمان کی مدد کرنا ہم پر لازم ہے۔“ فرمایا : ﴿إِنَّا لَنَنصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُومُ الْأَشْهَادُ﴾ (غافر :40؍51) ” ہم اپنے رسولوں کی اور ان کی جو ایمان لائے، دنیا کی زندگی میں اور جس روز گواہ (گواہی دینے کے لئے) کھڑے ہوں گے،ضرور مدد کریں گے۔“ ﴿وَإِنَّ جُندَنَا لَهُمُ الْغَالِبُونَ﴾ (الصافات :3؍173) ” اور بے شک ہمارا لشکر ہی غالب رہے گا۔“ پس اللہ تعالیٰ کا دین واضح دلائل، حیرت انگیز آیات اور تائید کرنے والے براہین کے ذریعے سے تمام ادیان پر غالب ہے۔ ﴿وَاللَّـهُ عَزِيزٌ ﴾ ” اور اللہ غالب ہے۔“ کوئی اس پر غالب آسکتا ہے، نہ کوئی بھاگ کر اس سے بچ سکتا ہے۔ ﴿حَكِيمٌ ﴾ ” وہ حکمت والا ہے۔“ تمام اشیاء کو ان کے مناسب مقام پر رکھتا ہے وہ کبھی کبھی اپنے گروہ کی مدد کو کسی دوسرے وقت تک موخر کردیتا ہے جس کا تقاضا حکمت الہیہ کرتی ہے۔ اس آیت کریمہ میں جناب ابوبکر صدیق کی فضیلت میں ایک ایسی خصوصیت بیان کی گئی ہے جو اس امت کے کسی اور فرد میں نہیں اور وہ ہے یہ منقبت جلیلہ اور صحبت جمیلہ۔۔۔ اور تمام مسلمان اس بات پر متفق ہیں کہ اس آیت کریمہ سے یہی مراد ہے۔ بنا بریں جن لوگوں نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صحبت کا انکار کیا انہوں نے ظلم و تعدی اور کفر کا ارتکاب کیا، کیونکہ اس نے قرآن کا انکار کیا جو اس صحبت کی تصریح کرتا ہے۔ اس آیت کریمہ سے سکینت کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ مصیبت اور خوف کے اوقات میں جب دل پریشان ہوجاتے ہیں، تو سکینت اللہ تعالیٰ کی نعمت کاملہ ہے۔ یہ نعمت کاملہ بندہ مومن کو اس کی اپنے رب کی معرفت، اپنے رب کے سچے وعدے پر اعتماد، اپنے ایمان اور اپنی شجاعت کے مطابق عطا ہوتی ہے۔ اس آیت کریمہ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ حزن کبھی کبھار اللہ تعالیٰ کے خاص بندوں اور صدیقین کو بھی لاحق ہوجاتا ہے۔ بایں ہمہ جب بندہ مومن پر یہ کیفیت نازل ہو تو بہتر یہ ہے کہ وہ اس کیفیت کو دور کرنے کی کوشش کرے، کیونکہ حزن بندے کے دل کو کمزور اور اس کی عزیمت کو پراگندہ کردیتا ہے۔ التوبہ
41 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو اپنے راستے میں جہاد کے لئے نکلنے کی ترغیب دیتے ہوئے فرماتا ہے۔ ﴿انفِرُوا خِفَافًا وَثِقَالًا﴾ ” نکلو ہلکے اور بوجھل“ یعنی تنگی اور فراخی، نشاط اور ناگواری، گرمی اور سردی تمام احوال میں جہاد کے لئے نکلو۔ ﴿وَجَاهِدُوا بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ﴾ ” اور اللہ کے راستے میں مال اور جان سے جہاد کرو“ یعنی اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کے لئے اپنی پوری کوشش صرف کر دو اور اپنی جان و مال کو کھپا دو۔ اس آیت کریمہ میں اس امر کی دلیل ہے کہ جس طرح جان کے ساتھ جہاد فرض ہے، اسی طرح بوقت ضرورت مال کے ساتھ بھی جہاد فرض ہے۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ ﴾ ” یہ تمہارے حق میں اچھا ہے بشرطیکہ تمہیں علم ہو۔“ یعنی گھر بیٹھ رہنے کی نسبت، جان و مال سے جہاد کرنا تمہارے لئے بہتر ہے، کیونکہ جہاد میں اللہ تعالیٰ کی رضا، اللہ تعالیٰ کے ہاں بلند درجات کا حصول، اللہ تعالیٰ کے دین کی نصرت، اس کی فوج اور اس کے گروہ میں داخل ہونا ہے۔ التوبہ
42 ﴿ لَوْ كَانَ﴾ ” اگر ہوتا“ ان کا گھروں سے نکلنا ﴿عَرَضًا قَرِيبًا﴾” جلد حاصل ہوجانے والا سامان۔“ یعنی دنیوی نفع (مال غنیمت) سہل الحصول ہوتا ہے۔ ﴿وَ﴾ ” اور“ ہوتا ﴿سَفَرًا قَاصِدًا ﴾ ” سفر ہلکا“ قریب اور آسان ﴿لَّاتَّبَعُوكَ ﴾ تو (زیادہ مشقت نہ ہونے کی وجہ سے) ضرور آپ کی پیروی کرتے۔ ﴿وَلَـٰكِن بَعُدَتْ عَلَيْهِمُ الشُّقَّةُ﴾ ” لیکن لمبی نظر آئی ان کو مشقت“ یعنی مسافت بہت طویل تھی اور سفر پر صعوبت تھا، لہٰذا وہ آپ کے ساتھ جہاد میں شرکت چھوڑ کر بیٹھ رہے اور یہ عبودیت کی علامات نہیں ہیں۔ بندہ درحقیقت ہر حال میں اپنے رب کا عبادت گزار ہے، عبادت خواہ مشکل ہو یا آسان وہ اپنے رب کی عبودیت کو قائم کرتا ہے۔ یہی بندہ ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا بندہ ہے۔ ﴿وَسَيَحْلِفُونَ بِاللَّـهِ لَوِ اسْتَطَعْنَا لَخَرَجْنَا مَعَكُمْ ﴾ ”اور اللہ کی قسمیں کھائیں گے کہ اگر ہم طاقت رکھتے، تو ضرور آپ کے ساتھ نکلتے۔“ یعنی وہ جہاد کے لئے نہ نکلنے اور پیچھے رہ جانے پر قسمیں اٹھا کر کہیں گے کہ وہ معذور تھے اور وہ جہاد کے لئے نکلنے کی استطاعت نہ رکھتے تھے۔ ﴿ يُهْلِكُونَ أَنفُسَهُمْ﴾ ” اپنے تئیں ہلاک کر رہے ہیں۔“ یعنی جہاد سے جی چرا کر پیچھے بیٹھ رہنے، جھوٹ بولنے اور خلاف واقع خبر دینے پر اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال رہے ہیں۔ ﴿وَاللَّـهُ يَعْلَمُ إِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ﴾ ” اور اللہ جانتا ہے کہ وہ یقیناً جھوٹے ہیں۔“ یہ عتاب منافقین کے لئے ہے جو غزوہ تبوک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد میں شریک نہ ہو کر پیچھے بیٹھ رہے اور مختلف قسم کے جھوٹے عذرپیش کئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان منافقین کو آزمائے بغیر کہ کون سچا اور کون جھوٹا ہے، ان کے محض معذرت پیش کرنے پر معاف فرما دیا، بنا بریں اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان منافقین کا عذر قبول کرنے کی جلدی پر آپ کو متنبہ کرتے ہوئے فرمایا۔ التوبہ
43 ﴿عَفَا اللَّـهُ عَنكَ﴾ ” اللہ نے آپ سے درگزر فرمایا“ اور آپ سے جو کچھ صادر ہوا اسے بخش دیا۔ ﴿لِمَ أَذِنتَ لَهُمْ﴾ ” آپ نے (انہیں پیچھے رہ جانے کی) اجازت کیوں دی۔“ ﴿حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَتَعْلَمَ الْكَاذِبِينَ﴾ ” حتی ٰکہ آپ پر وہ لوگ ظاہر ہوجاتے جو سچے ہیں اور وہ بھی آپ کو معلوم ہوجاتے جو جھوٹے ہیں۔“ یعنی ان کو آزمانے کے بعد معلوم ہوتا کہ سچا کون اور جھوٹا کون ہے، تب آپ اس شخص کا عذر قبول فرماتے جو اس کا مستحق ہے اور اس شخص کا عذر قبول نہ فرماتے جو اس کا مستحق نہیں۔ التوبہ
44 پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ اللہ اور آخرت پر ایمان رکھنے والے اپنے جان و مال کے ذریعے سے جہاد ترک کرنے کی اجازت طلب نہیں کرتے، بلکہ بغیر کسی عذر کے جہاد ترک کرنے کی اجازت مانگنا تو کجا، بغیر کسی ترغیب کے، ایمان اور بھلائی میں ان کی رغبت انہیں جہاد پر آمادہ رکھتی ہے۔ ﴿وَاللَّـهُ عَلِيمٌ بِالْمُتَّقِينَ﴾ ” اور اللہ متقین کو خوب جانتا ہے“ پس وہ انہیں اس بات کی جزا دے گا کہ انہوں نے تقویٰ کو قائم رکھا۔ متقین کے بارے میں یہ اللہ تعالیٰ کا علم ہی ہے کہ اس نے آگاہ فرمایا کہ ان کی علامت یہ ہے کہ وہ جہاد چھوڑنے کی اجازت نہیں مانگتے۔ التوبہ
45 ﴿إِنَّمَا يَسْتَأْذِنُكَ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَارْتَابَتْ قُلُوبُهُمْ ﴾ ” آپ سے رخصت تو صرف وہی مانگتے ہیں جو اللہ اور آخرت کے دن پر یقین نہیں رکھتے اور ان کے دل شک میں پڑے ہوئے ہیں“ یعنی ان کے اندر ایمان کامل اور یقین صادق نہیں ہے اسی لئے بھلائی میں ان کی رغبت بہت کم ہے۔ قتال کے بارے میں وہ بزدلی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور حاجت محسوس کرتے ہیں کہ وہ قتال ترک کرنے کی اجازت طلب کریں۔ ﴿فَهُمْ فِي رَيْبِهِمْ يَتَرَدَّدُونَ﴾ ” اور وہ اپنے شک میں متردد رہتے ہیں۔ “ التوبہ
46 اللہ تبارک و تعالیٰ بیان فرماتا ہے‘جہاد سے جی چرا کر پیچھے رہ جانے والے منافقین کی علامات اور قرآئن سے ظاہر ہوگیا ہے کہ جہاد کے لئے نکلنے کا ان کا ارادہ ہی نہ تھا اور ان کی وہ معذرتیں جو وہ پیش کر رہے ہیں سب باطل ہیں، کیونکہ عذر جہاد کے لئے نکلنے سے تب مانع ہوتا ہے جب بندہ مومن پوری کوشش کر کے جہاد کے لئے نکلنے کے تمام اسباب استعمال کرنے کی سعی کرتا ہے، پھر کسی شرعی مانع کی وجہ سے جہاد کے لئے نکل نہیں سکتا تو یہی وہ شخص ہے جس کا عذر قبول ہے۔ ﴿وَ﴾ ” اور“ یہ منافقین ﴿لَوْ أَرَادُوا الْخُرُوجَ لَأَعَدُّوا لَهُ عُدَّةً﴾ ” اگر نکلنے کا ارادہ کرتے، تو اس کے لئے ضرور کچھ سامان تیار کرتے“ یعنی وہ تیاری کرتے اور ایسے تمام اسباب عمل میں لاتے جو ان کے بس میں تھے۔ چونکہ انہوں نے اس کے لئے تیاری نہیں کی اس لئے معلوم ہوا کہ ان کا جہاد کے لئے نکلنے کا ارادہ ہی نہ تھا ﴿وَلَـٰكِن كَرِهَ اللَّـهُ انبِعَاثَهُمْ﴾ ”لیکن اللہ نے پسند کیا ان کا اٹھنا“ یعنی ان کا جہاد کیلئے تمہارے ساتھ نکلنا اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہوا ﴿فَثَبَّطَهُمْ ﴾ ” سوروک دیا ان کو“ اللہ تعالیٰ نے قضا و قدر کے ذریعے سے ان کو جہاد کے لئے نکلنے سے باز رکھا۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ نے ان کو جہاد کے لئے نکلنے کا حکم دیا تھا اور اس کی ان کو ترغیب بھی دی اور وہ ایسا کرنے کی قدرت بھی رکھتے تھے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت کی بنا پر ان کی اعانت نہ فرمائی، اس نے ان کو اپنے حال پر چھوڑ دیا اور ان کو جہاد کے لئے نکلنے سے باز رکھا۔ ﴿ وَقِيلَ اقْعُدُوا مَعَ الْقَاعِدِينَ﴾ ” اور کہا گیا،بیٹھے رہو، بیٹھنے والوں کے ساتھ“ یعنی عورتوں اور معذوروں کے ساتھ بیٹھ رہو۔ التوبہ
47 پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرمایا : ﴿لَوْ خَرَجُوا فِيكُم مَّا زَادُوكُمْ إِلَّا خَبَالًا ﴾ ” اگر وہ تمہارے ساتھ نکلتے تو تمہارے نقصان ہی میں اضافہ کرتے“ ( خَبَالًا  ) یعنی ” نقصان“﴿ وَلَأَوْضَعُوا خِلَالَكُمْ ﴾ ” اور گھوڑے دوڑاتے تمہارے درمیان“ یعنی تمہارے درمیان فتنہ و فساد برپا کرنے کی کوشش کرتے اور تمہاری متحدہ جماعت میں تفرقہ پیدا کرتے۔ ﴿يَبْغُونَكُمُ الْفِتْنَةَ  ﴾ ” بگاڑ کرانے کی تلاش میں“ یعنی وہ تمہارے درمیان فتنہ و فساد برپا کرنے کی کوشش کرتے اور عداوت پیدا کرنے کے بہت حریص ہیں۔ ﴿وَفِيكُمْ﴾ ” اور تمہارے اندر“ ضعیف العقل لوگ موجود ہیں۔ جو ﴿سَمَّاعُونَ لَهُمْ ﴾ ” جاسوسی کرتے ہیں ان کے لئے“ یعنی ان کے دھوکے میں آ کر ان کی دعوت پر لبیک کہتے ہیں۔ پس جب وہ تمہیں تنہا چھوڑ دینے، تمہارے درمیان فتنہ ڈالنے اور تمہیں تمہارے دشمنوں کے خلاف لڑنے سے باز رکھنے کے بہت حریص ہیں اور تم میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو ان کی بات کو قبول کرتے ہیں اور ان کو اپنا خیر خواہ سمجھتے ہیں، تو کیا آپ اندازہ نہیں کرسکتے کہ اگر وہ جہاد کے لئے اہل ایمان کے ساتھ نکلتے تو انہیں کتنا زیادہ نقصان پہنچتا؟ پس اللہ تعالیٰ کی حکمت کتنی کامل ہے کہ اس نے ان کو اس سے باز رکھا اور اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں پر رحم اور لطف و کرم کرتے ہوئے ان کے ساتھ جہاد کے لئے نکلنے سے ان کو روک دیا، تاکہ وہ ان کے معاملات میں دخل اندازی نہ کریں جس سے ان کو کوئی فائدہ پہنچنے کی بجائے نقصان پہنچتا۔ ﴿وَاللَّـهُ عَلِيمٌ بِالظَّالِمِينَ﴾ ” اور اللہ ظالموں کو خوب جانتا ہے۔“ پس وہ اپنے بندوں کو تعلیم دیتا ہے کہ وہ کیسے ان کی فتنہ پردازی سے بچیں، نیز وہ ان مفاسد کو واضح کرتا ہے جو ان کے ساتھ میل جول سے پیدا ہوتے ہیں، نیز اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا کہ پہلے بھی ان کی شر انگیزی ظاہر ہوچکی ہے۔ التوبہ
48 ﴿لَقَدِ ابْتَغَوُا الْفِتْنَةَ مِن قَبْلُ﴾ ” وہ اس سے پہلے بھی بگاڑ تلاش کرتے رہے‘‘ یعنی جب تم لوگوں نے مدینہ کی طرف ہجرت کی تو اس وقت بھی انہوں نے فتنہ اٹھانے کی بھرپور کوشش کی تھی۔ ﴿وَقَلَّبُوا لَكَ الْأُمُورَ ﴾ ” اور الٹتے رہے ہیں آپ کے کام“ یعنی انہوں نے افکار کو الٹ پلٹ کر ڈالا، تمہاری دعوت کو ناکام کرنے اور تمہیں تنہا کرنے کے لئے حیلہ سازیاں کیں اور اس میں انہوں نے کسی قسم کی کوتاہی نہیں کی۔ ﴿حَتَّىٰ جَاءَ الْحَقُّ وَظَهَرَ أَمْرُ اللَّـهِ وَهُمْ كَارِهُونَ ﴾ ” یہاں تک کہ حق آگیا اور اللہ کا حکم غالب ہوگیا اور وہ ناخوش تھے“ پس ان کی تمام سازشیں ناکام ہوگئیں اور ان کا بطل مضمحل ہوگیا۔ سو اس قسم کے لوگ اسی قابل ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو ان سے بچنے کی تلقین کرے اور اہل ایمان کے پیچھے رہ جانے کی پرواہ نہ کریں۔ التوبہ
49 اور ان منافقین میں کچھ وہ بھی تھے جو جہاد میں نہ جانے کی اجازت مانگتے تھے اور عجیب و غریب قسم کے عذر پیش کرتے تھے۔ کوئی یہ کہتا تھا ﴿ائْذَن لِّي﴾ ” مجھے (پیچھے رہنے کی) اجازت دیجیے۔“ ﴿ وَلَا تَفْتِنِّي﴾ ” اور مجھے (گھر سے نکلنے کے باعث) فتنے میں نہ ڈالئے۔“ کیونکہ جب میں بنی اصفر (رومیوں) کی عورتوں کو دیکھوں گا تو صبر نہیں کرسکوں گا۔ جیسا کہ جدبن قیس نے کہا تھا۔۔۔ اللہ تعالیٰ اس کا برا کرے اس کا مقصد محض ریا اور نفاق تھا اور وہ اپنی زبان سے ظاہر کرتا تھا کہ اس کا مقصد اچھا ہے اور جہاد میں نکلنے سے وہ فتنہ اور شر میں مبتلا ہوجائے گا اور اگر وہ جہاد کے لئے نہ جائے تو عافیت میں ہوگا اور فتنہ سے محفوظ رہے گا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس کے جھوٹ کا پول کھولتے ہوئے فرمایا ﴿ أَلَا فِي الْفِتْنَةِ سَقَطُوا﴾ ” خبر دار، وہ تو گمراہی میں پڑ چکے“ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ یہ قائل اپنے قصد میں سچا ہے، تب بھی پیچھے رہ جانے میں بہت بڑی مفسدت اور عظیم فتنہ متحقق ہے اور وہ ہے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی نافرمانی نیز کبیرہ گناہ کے ارتکاب اور اس کے بہت بڑے بوجھ کو اٹھانے کی جسارت، رہا جہاد کے لئے نکلنا تو جہاد میں نہ نکلنے کی نسبت بہت تھوڑے مفاسد ہیں اور وہ بھی محض متوہم ہیں۔ بایں ہمہ اس قائل کا مقصد پیچھے رہنے کے سوا کچھ بھی نہیں اس لئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کو وعید سناتے ہوئے فرمایا : ﴿وَإِنَّ جَهَنَّمَ لَمُحِيطَةٌ بِالْكَافِرِينَ ﴾ ” بے شک جہنم گھیر رہی ہے کافروں کو“ جہنم سے بھاگ کر ان کے لئے کوئی جائے پناہ اور کوئی مفر نہیں، جہنم سے ان کے لئے گلو خلاصی ہے نہ نجات۔ التوبہ
50 اللہ تبارک و تعالیٰ منافقین کے بارے میں یہ واضح کرتے ہوئے کہ وہی حقیقی دشمن اور اسلام کے خلاف بغض رکھنے والے ہیں۔۔۔ فرماتا ہے ﴿إِن تُصِبْكَ حَسَنَةٌ﴾ ” اگر پہنچے آپ کو کوئی بھلائی“ مثلاً فتح و نصرت اور دشمن کے خلاف آپ کی کامیابی ﴿تَسُؤْهُمْ﴾ ” تو ان کو بری لگتی ہے۔“ یعنی ان کو غمزدہ کردیتی ہے ﴿وَإِن تُصِبْكَ مُصِيبَةٌ ﴾ ” اور اگر آپ کو پہنچے کوئی مصیبت“ مثلاً آپ کے خلاف دشمن کی کامیابی ﴿يَقُولُوا﴾ ” تو کہتے ہیں۔“ آپ کے ساتھ نہ جانے کی وجہ سے سلامت رہنے کی بنا پر نہایت فخر سے کہتے ہیں : ﴿قَدْ أَخَذْنَا أَمْرَنَا مِن قَبْلُ ﴾ ہم نے اس سے پہلے اپنا بچاؤ کرلیا تھا اور ہم نے ایسا رویہ رکھا جس کی وجہ سے ہم اس مصیبت میں گرفتار ہونے سے بچ گئے ﴿وَيَتَوَلَّوا وَّهُمْ فَرِحُونَ﴾ ” اور پھر کر جائیں وہ خوشیاں کرتے ہوئے“ یعنی وہ آپ کی مصیبت اور آپ کے ساتھ اس میں عدم مشارکت پر خوش ہوتے ہیں۔ التوبہ
51 اللہ تبارک و تعالیٰ ان کے اس قول کا جواب دیتے ہوئے فرماتا ہے : ﴿قُل لَّن يُصِيبَنَا إِلَّا مَا كَتَبَ اللَّـهُ لَنَا﴾ ” کہہ دیجیے ! ہمیں وہی پہنچے گا جو اللہ نے ہمارے لئے لکھ دیا ہے“ یعنی جو کچھ اس نے مقدر کر کے لوح محفوظ میں لکھ رکھا ہے۔ ﴿هُوَ مَوْلَانَا﴾ ” وہی ہمارا کار ساز ہے۔“ یعنی وه ہمارے تمام دینی اور دنیاوی امور کا سرپرست ہے پس ہم پر اس کی قضا و قدر پر راضی رہنا فرض ہے۔ ہمارے ہاتھ میں کوئی اختیار نہیں ﴿وَعَلَى اللَّـهِ﴾ ” اور اللہ پر“ یعنی اکیلے اللہ تعالیٰ ہی پر ﴿ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ ﴾ ” مومنوں کو توکل کرنا چاہے۔“ یعنی اہل ایمان کو اپنے مصالح کے حصول اور ضرر کو دور کرنے کے لئے اعتماد اور اپنے مطلوب و مقصود کی تحصیل کی خاطر اسی پر بھروسہ کرنا چاہئے اور جو کوئی اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتا ہے وہ کبھی خائب و خاسر نہیں ہوتا اور جو غیروں پر تکیہ کرتا ہے تو وہ ایک تو بے یار و مددگار رہے گا‘ دوسرے اپنی امیدوں کے حصول میں ناکام رہے گا۔ التوبہ
52 آپ ان منافقین سے کہہ دیجیے جو تم لوگوں پر مصیبت کا پہاڑ ٹوٹنے کا انتظار کر رہے ہیں ” تم ہمارے بارے میں کسی چیز کا انتظار کر رہے ہو؟ تم ہمارے بارے میں ایسی چیز کا انتظار کر رہے ہو جو مآل کار ہمارے لئے فائدہ مند ہے اور وہ ہے دو میں سے ایک بھلائی۔ “ (١) دشمنوں پر فتح و نصرت اور آخروی اور دنیاوی ثواب کا حصول۔ (٢) شہادت، جو مخلوق کے لئے سب سے اعلیٰ درجہ اور اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے ارفع مقام ہے۔ اور اے گروہ منافقین ! ہم جو تمہارے بارے میں انتظار کر رہے ہیں وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے توسط کے بغیر تمہیں عذاب دے گا یا ہمیں تم پر مسلط کر کے ہمارے ذریعے سے تمہیں عذاب میں مبتلا کرے گا، پس ہم تمہیں قتل کریں گے۔ ﴿فَتَرَبَّصُوا﴾ ” پس تم منتظر رہو۔“ پس تم ہمارے بارے میں (س بھلائی کے) منتظر رہو ﴿إِنَّا مَعَكُم مُّتَرَبِّصُونَ﴾ ” ہم تمہارے بارے میں (اس برائی کے) منتظر ہیں۔ التوبہ
53 اللہ تبارک و تعالیٰ منافقین کے صدقات کے بطلان اور اس کے سبب کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے : ﴿ قُلْ﴾ ان سے کہہ دیجیے ﴿أَنفِقُوا طَوْعًا﴾ ” خوشی سے خرچ کرو۔“ یعنی بطیب خاطر خرچ کرو ﴿أَوْ كَرْهًا﴾ ” یا ناخوشی سے“ یا اپنے اختیار کے بغیر ناگواری کے ساتھ خرچ کرو۔ ﴿لَّن يُتَقَبَّلَ مِنكُمْ﴾ ” تم سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا۔“ اللہ تعالیٰ تمہارے کسی عمل کو قبول نہیں کرے گا۔ ﴿إِنَّكُمْ كُنتُمْ قَوْمًا فَاسِقِينَ﴾ ” اس لئے کہ تم نافرمان لوگ ہو۔“ یعنی تم اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے دائرے سے باہر نکلے ہوئے لوگ ہو۔ التوبہ
54 پھر اللہ تبارک و تعالیٰ ان کے فسق اور ان کے اعمال کا وصف بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے : ﴿وَمَا مَنَعَهُمْ أَن تُقْبَلَ مِنْهُمْ نَفَقَاتُهُمْ إِلَّا أَنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّـهِ وَبِرَسُولِهِ﴾ ” اور نہیں موقوف ہوا ان کے خرچ کا قبول ہونا، مگر اس وجہ سے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کا انکار کیا۔“ ایمان، تمام اعمال کے قبول ہونے کی شرط ہے اور یہ لوگ ایمان اور عمل صالح سے محروم لوگ ہیں حتیٰ کہ ان کی حالت تو یہ ہے کہ جب یہ لوگ نماز۔۔۔ جو کہ افضل ترین بدنی عبادت ہے۔۔۔ پڑھنے کے لئے کھڑے ہوتے ہیں تو کسمساتے ہوئے اٹھتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ان کی یہ حالت بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے : ﴿وَلَا يَأْتُونَ الصَّلَاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسَالَىٰ﴾ ” اور نماز کو آتے ہیں تو سست وکاہل ہو کر۔“ یعنی نماز کے لئے بوجھل پن کے ساتھ اٹھتے ہیں چونکہ نماز ان پر گراں گزرتی ہے، اس لئے نماز پڑھنا ان کے لئے بہت ہی مشکل ہے۔ ﴿وَلَا يُنفِقُونَ إِلَّا وَهُمْ كَارِهُونَ﴾ ” اور خرچ کرتے ہیں تو ناخوشی سے“ یعنی وہ انشراح صدر اور ثبات نفس کے بغیر خرچ کرتے ہیں۔ یہ ان لوگوں کی مذمت کی انتہا ہے جو ان جیسے افعال کا ارتکاب کرتے ہیں۔ بندے کے لئے مناسب یہ ہے کہ جب وہ نماز کے لئے آئے تو نشاط بدن اور نشاط قلب کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہو اور جب وہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرے، تو انشراح صدر اور ثبات قلب کے ساتھ خرچ کرے اور امید رکھے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے آخرت کے لئے ذخیرہ کرلیا ہے اور صرف اسی سے ثواب کی امید رکھے اور منافقین کی مشابہت اختیار نہ کرے۔ التوبہ
55 اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان منافقین کا مال اور اولاد آپ کو تعجب میں نہ ڈالے، کیونکہ یہ کوئی قابل رشک بات نہیں۔ مال اور اولاد کی ایک ” برکت“ ان پر یہ ہوئی کہ انہوں نے اس مال اور اولاد کو اپنے رب کی رضا پر ترجیح دی اور اس کی خاطر انہوں نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا ارتکاب کیا، فرمایا : ﴿إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّـهُ لِيُعَذِّبَهُم بِهَا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا﴾ ” اللہ چاہتا ہے کہ ان چیزوں سے دنیا کی زندگی میں ان کو عذاب دے۔“ یہاں عذاب سے مراد وہ مشقت اور کوشش ہے جو اسے حاصل کرنے میں انہیں برداشت کرنی پڑتی ہے اور اس میں دل کی تنگی اور بدن کی مشقت ہے۔ اگر آپ اس مال کے اندر موجود ان کی لذات کا مقابلہ اس کی مشقتوں سے کریں تو ان لذتوں کی ان مشقتوں کے ساتھ کوئی نسبت ہی نہیں اور ان لذات نے چونکہ ان کو اللہ تعالیٰ کے ذکر سے غافل کردیا ہے اس لئے یہ ان کے لئے اس دنیا میں بھی وبال ہیں۔ ان کا سب سے بڑا وبال یہ ہے کہ ان کا دل انہی لذات میں مگن رہتا ہے اور ان کے ارادے ان لذات سے آگے نہیں بڑھتے، یہ لذات ان کی منتہائے مطلوب اور ان کی مرغوبات ہیں’ ان کے قلب میں آخرت کے لئے کوئی جگہ نہیں اور یہ چیز اس بات کی موجب ہے کہ یہ لوگ دنیا سے اس حالت میں جائیں ﴿وَتَزْهَقَ أَنفُسُهُمْ وَهُمْ كَافِرُونَ﴾ ” اور جب ان کی جان نکلے تو وہ کافر ہی ہوں۔ “ یعنی اس حالت میں ان کی جان نکلے کہ ان کا رویہ انکار حق ہو۔ تب اس عذاب سے بڑھ کر کون سا عذاب ہے جو دائمی بدبختی اور کبھی دور نہ ہونے والی حسرت کا موجب ہے؟ التوبہ
56 اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَيَحْلِفُونَ بِاللَّـهِ إِنَّهُمْ لَمِنكُمْ وَمَا هُم مِّنكُمْ﴾ ” اور وہ قسمیں کھاتے ہیں اللہ کی کہ وہ بے شک تم میں سے ہیں، حالانکہ وہ تم میں سے نہیں ہیں“ ان کی قسمیں اٹھانے میں ان کا مقصد یہ ہے ﴿ قَوْمٌ يَفْرَقُونَ ﴾ ” وہ ایسے لوگ ہیں جو (تم سے) خوفزدہ ہیں۔‘‘ یعنی وہ گردش ایام سے خائف ہیں اور ان کے دل ایسی شجاعت سے محروم ہیں جو ان کو اپنے احوال بیان کرنے پر آمادہ کرے۔ وہ اس بات سے خائف ہیں کہ اگر انہوں نے اپنا حال ظاہر کردیا اور کفار سے برأت کا اظہار کردیا تو ہر طرف سے لوگ ان کو اچک لیں گے۔ رہا وہ شخص جو دل کا مضبوط اور مستقل مزاج ہے تو یہ صفات اسے اپنا حال۔۔۔ خواہ وہ اچھا ہو یا برا۔۔۔ بیان کرنے پر آمادہ رکھتی ہیں۔ مگر اس کے برعکس منافقین کو بزدلی کا لباس اور جھوٹ کا زیور پہنا دیا گیا ہے۔ التوبہ
57 پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کی بزدلی کی شدت بیان کرتے ہوئے فرمایا : ﴿لَوْ يَجِدُونَ مَلْجَأً﴾ ” اگر وہ کوئی پناہ گاہ پا لیں“ تو جس وقت ان پر مصائب نازل ہوں تو یہ اس میں پناہ لے لیں ﴿ أَوْ مَغَارَاتٍ﴾ ” یا کوئی غاریں“ جن میں یہ داخل ہو کر اسے اپنا ٹھکانا بنا لیں ﴿أَوْ مُدَّخَلًا﴾ ” یاسر گھسانے کی جگہ“ یعنی انہیں ایسی جگہ مل جائے جہاں یہ گھس بیٹھیں اور اس طرح اپنے آپ کو محفوظ کرلیں ﴿لَّوَلَّوْا إِلَيْهِ وَهُمْ يَجْمَحُونَ﴾ ” تو الٹے بھاگیں گے اسی طرف رسیاں تڑاتے“ یعنی اس کی طرف تیزی سے بھاگیں گے۔ پس یہ ایسے ملکہ سے محروم ہیں جس کے ذریعے سے وہ ثابت قدمی پر قادر ہوں۔ التوبہ
58 یعنی ان منافقین میں ایسے لوگ بھی ہیں جو صدقات کی تقسیم میں آپ کی عیب جوئی اور اس بارے میں آپ پر تنقید کرتے ہیں اور ان کی تنقید اور نکتہ چینی کسی صحیح مقصد کی خاطر اور کسی راجح رائے کی بنا پر نہیں ہے بلکہ ان کا مقصد تو صرف یہ ہے کہ انہیں بھی کچھ عطا کیا جائے۔ ﴿ فَإِنْ أُعْطُوا مِنْهَا رَضُوا وَإِن لَّمْ يُعْطَوْا مِنْهَا إِذَا هُمْ يَسْخَطُونَ﴾ ” پس اگر اس میں سے ان کو دیا جائے تو راضی ہوجاتے ہیں اور اگر نہ دیا جائے ان کو تو جب ہی وہ ناخوش ہوجاتے ہیں۔“ حالانکہ بندے کے لئے مناسب نہیں کہ اس کی رضا اور ناراضی، دنیاوی خواہش نفس اور کسی فاسد غرض کے تابع ہو، بلکہ مناسب یہ ہے کہ اس کی خواہشات اپنے رب کی رضا کے تابع ہوں جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ((لا يؤمنُ أحدُكم حتّى يَكونَ هواهُ تبعًا لمّا جئتُ بِهِ)) ” تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کی خواہشات اس چیز کے تابع نہ ہوں جو میں لے کر آیا ہوں۔“ [شرح السنة، حديث: 104] التوبہ
59 یہاں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَلَوْ أَنَّهُمْ رَضُوا مَا آتَاهُمُ اللَّـهُ وَرَسُولُهُ ﴾ ” اگر وہ راضی ہوتے اس پر جو دیا ان کو اللہ نے اور اس کے رسول نے“ یعنی انہیں کم یا زیادہ جو کچھ بھی دیا ہے ﴿ وَقَالُوا حَسْبُنَا اللَّـهُ  ﴾ ” اور کہتے کہ اللہ ہمیں کافی ہے“ اور اس نے جو کچھ ہماری قسمت میں رکھا ہے ہم اس پر راضی ہیں۔ انہیں چاہئے کہ وہ یہ کہہ کر اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان کی امید رکھیں ﴿ سَيُؤْتِينَا اللَّـهُ مِن فَضْلِهِ وَرَسُولُهُ إِنَّا إِلَى اللَّـهِ رَاغِبُونَ ﴾ ” وہ اللہ دے گا ہم کو اپنے فضل سے اور اس کا رسول، بے شک ہم تو اللہ ہی کی طرف رغبت رکھتے ہیں۔“ یعنی اپنی منفعتوں کے حصول اور نقصانات سے بچنے کے لئے نہایت عاجزی سے اس سے دعا کرتے ہیں۔ التوبہ
60 پھر اللہ تعالیٰ نے صدقات واجبہ کی تقسیم کی کیفیت بیان کرتے ہوئے فرمایا : ﴿إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ ﴾’’صدقات و خیرات“ یعنی زکوٰۃِ واجب۔۔۔ اور اس کی دلیل یہ ہے کہ مستحب صدقات ہر ایک شخص کو دیئے جاسکتے ہیں، ان صدقات کو خرچ کرنے کے لئے کسی کو مختص نہیں کیا گیا۔ جب کہ صدقات واجبہ صرف ان لوگوں پر خرچ کئے جائیں جن کا قرآن مجید میں ذکر کیا گیا ہے۔ کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے صدقات کے مصرف کو صرف انہی لوگوں میں محدود رکھا ہے۔ ان کی آٹھ اصناف ہیں۔ (١، ٢) فقراء و مساکین، اس مقام پر یہ دو الگ اقسام ہیں جن میں تفاوت ہے، فقیر مسکین سے زیادہ ضرورت مند ہوتا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان اصناف کے ذکر کی ابتداء ”فقیر“ سے کی ہے اور ابتداء کا طریقہ یہی ہے کہ پہلے سب سے اہم چیز کا، پھر اس سے کم تر مگر دوسروں سے اہم تر کا بیان ہوتا ہے۔ فقیر کی یہ تفسیر بیان کی گئی ہے کہ اس سے مراد وہ شخص ہے جس کے پاس کچھ نہ ہو یا جس سے کفایت ہوسکتی ہو اس کے پاس اس کے نصف سے بھی کم ہو۔ مسکین اس شخص کو کہا جاتا ہے جس کے پاس کفایت سے نصف یا اس سے کچھ زیادہ موجود ہو مگر اس کے پاس پوری کفایت موجود نہ ہو، کیونکہ اگر اس کے پاس پوری کفایت موجود ہو تو وہ غنی ہوتا۔ پس فقراء اور مساکین کو اتنی زکوٰۃ دی جائے جس سے ان کا فقر و فاقہ اور مسکنت زائل ہوجائے۔ (٣) وہ لوگ جو صدقات کی وصولی وغیرہ کے کام پر مامور ہوں اور یہ وہ لوگ ہیں جو صدقات کے ضمن میں کسی ذمہ داری میں مشغول ہوں، ان کی وصولی کرنے والے، صدقات کے مویشیوں کے چرانے والے، ان کے نقل و حمل کا انتظام کرنے والے اور صدقات کا حساب کتاب لکھنے والے سب ” عاملین“ کے زمرے میں آتے ہیں۔۔۔ لہٰذا ان کو ان کا کام کا معاوضہ صدقات میں سے دیا جائے اور یہ ان کے کام کی اجرت ہے۔ (٤) وہ لوگ جن کی تالیف قلب مطلوب ہو۔ ﴿مُؤَلَّفَة ُ قُلُوبِ ﴾ سے مراد وہ لوگ ہیں جن کی اپنی قوم میں اطاعت کی جاتی ہے، جس کے اسلام قبول کرنے کی امید ہو یا جس کے شرکا خوف ہو، یا جس کو عطا کرنے سے اس کی قوت ایمان میں اضافہ ہوتا ہو یا اس جیسے کسی اور شخص کے اسلام قبول کرنے کی توقع ہو یا کسی ایسے شخص سے صدقات وصول ہونے کی توقع ہو جو صدقات ادا نہ کرتا ہو۔ اس صورت میں ﴿وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ﴾ کو صدقات میں سے دیا جاسکتا ہے جس میں کوئی مصلحت اور ان کی تالیف قلب مطلوب ہو۔ (٥) گردنیں چھڑانے میں، اس سے مراد وہ غلام ہیں جنہوں نے اپنے آقاؤں سے مکاتبت کے ذریعے سے آزادی خرید رکھی ہو اور وہ غلامی سے اپنی گردن چھڑانے کے لئے جدوجہد کر رہے ہوں۔ پس زکوٰۃ کی مد سے ان کی مدد کی جاسکتی ہے اور وہ مسلمان جو کفار کی قید میں ہیں ان کو آزاد کرانے کے لئے بھی زکوٰۃ کا مال خرچ کیا جاسکتا ہے، بلکہ یہ مسلمان قیدی بدرجہ اولیٰ اس مد کے مستحق ہیں اور مستقلاً کسی غلام کو آزاد کرنے پر خرچ کرنا بھی جائز ہے، کیونکہ یہ بھی (وفی الرقاب) کے زمرے میں آتے ہیں۔ (٦) قرض داروں کی مدد کرنے میں۔۔۔ قرض داروں کی دو قسمیں ہیں۔ (اول) وہ قرض دار جنہوں نے لوگوں کے درمیان صلح کرانے کے لئے قرض اٹھایا ہو۔ اس کی صورت یہ ہے کہ دو گروہوں کے درمیان کوئی فتنہ یا فساد پھیل جائے تو وہ آدمی ان دونوں کے درمیان پڑ کر ان کے مابین صلح کروا کر ان میں سے کسی ایک کی طرف سے یا سب کی طرف سے مالی تاوان ادا کر دے۔ اس قسم کے قرض دار پر زکوٰۃ کی مد میں سے خرچ کیا جاسکتا ہے، تاکہ اس کے لئے زیادہ نشاط انگیز اور اس کے عزم کے لئے زیادہ قوت کا باعث ہو۔ وہ اگرچہ مال دار بھی ہو، تب بھی اسے زکوٰۃ کی مد میں سے عطا کیا جاسکتا ہے۔ (ثانی) دوسری قسم کا قرض دار وہ ہے جس نے کسی ذاتی ضرورت کی بنا پر قرض لیا مگر وہ عسرت کی وجہ سے قرض واپس نہ کرسکا۔ تو اسے صدقات میں سے اتنا مال عطا کیا جائے جس سے اس کے ذمہ سے قرض ادا ہوجائے۔ (٧)اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرنے والے۔ یہ وہ مجاہدین ہیں جو رضا کارانہ جہاد میں شریک ہوتے ہیں جن کا نام باقاعدہ فوج میں درج نہیں۔ ان کو زکوٰۃ کی مد سے اتنا مال عطا کیا جاسکتا ہے جو جہاد میں اس کی سواری، اسلحہ اور اس کے اہل و عیال کی کفالت کے لئے کافی ہوتا کہ وہ اطمینان قلب کے ساتھ پوری طرح سے جہاد میں شریک ہو سکے۔ بہت سے فقہاء یہ کہتے ہیں کہ اگر روزی کمانے پر قدرت رکھنے والا شخص اپنے آپ کو طلب علم کے لئے وقف کر دے تو اسے بھی زکوٰۃ میں سے مال دیا جائے۔ کیونکہ حصول علم بھی جہاد سبیل اللہ کے زمرے میں آتا ہے، نیز بعض فقہا کہتے ہیں کہ کسی فقیر کو فریضہ حج کی ادائیگی کے لئے زکوٰۃ میں سے مال عطا کیا جاسکتا ہے۔ مگر یہ قول محل نظر ہے۔ [لیکن ان کی بنیاد سنن ابی داؤد وغیرہ کی ایک روایت ہے جس کی رو سے حج و عمرہ پر زکوٰۃ کی رقم صرف کرنے کا جواز معلوم ہوتا ہے۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے لیکن اس میں عمرہ کے ذکر کو شاذ قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو، اور اء الغلیل 3؍ 372) علاوہ ازیں صحابہ میں سے حضرت ابن عباس اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہم اور ائمہ میں سے امام احمد و امام اسحاق رحمتہ اللہ علیہم وغیرہ بھی اس کے قائل ہیں۔ مزید تفصیل کے لئے دیکھیے، راقم کی کتاب ” زکوٰۃ، عشر اور صدقتہ الفطر۔“ ص 103۔104مطبوعہ دار السلام (ص۔ ی)] (٨) مسافر،اور یہاں مسافر سے مراد وہ غریب الوطن ہے جو اپنے وطن سے دور پردیس میں منقطع ہو کر رہ گیا ہو۔ اسے زکوٰۃ کی مد میں سے اتنا مال عطا کیا جاسکتا ہے جو اسے اپنے وطن پہنچانے کے لئے کافی ہو۔ یہ آٹھ قسم کے لوگ ہیں صرف انہی کو زکوٰۃ دی جاسکتی ہے ﴿ فَرِيضَةً مِّنَ اللَّـهِ﴾ ” اللہ کی طرف سے مقرر کردیئے گئے ہیں۔“ یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس کو فرض اور مقرر کیا ہے اور فریضہ زکوٰۃ اس کے علم اور اس کی حکمت کے تابع ہے۔ واضح رہے کہ صدقات کے یہ آٹھ مصارف دو امور کی طرف راجع ہیں۔ (1) وہ شخص جسے اس کی حاجت اور فائدے کے لئے زکوۃ دی جاتی ہے’ مثلاً فقیر اور مسکین وغیرہ۔ (2) وہ شخص جسے اس لئے زکوٰۃ دی جاتی ہے کہ مسلمانوں کو اس کی ضرورت و حاجت ہوتی ہے اور اسلام کو اس سے فائدہ پہنچتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے مال داروں کے مال میں سے یہ حصہ عوام و خواص، اسلام اور مسلمانوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے مقرر کیا ہے۔ مگر مال دار لوگ اپنے مالوں کی زکوٰۃ صحیح معنوں میں شرعی طریقے سے ادا کریں، تو مسلمانوں میں کوئی فقیر نہ رہے اور اسی طرح زکوٰۃ سے اتنا مال جمع ہوسکتا ہے جس سے سرحدوں کی حفاظت، کفار کے ساتھ جہاد اور دیگر تمام دینی مصالح کا انتظام ہوسکتا ہے۔ التوبہ
61 یعنی یہ منافقین ﴿الَّذِينَ يُؤْذُونَ النَّبِيَّ ﴾ ” جو نبی کو ایذا دیتے ہیں۔“ یعنی جو ردی اقوال اور عیب جوئی کے ذریعے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایذا پہنچاتے ہیں۔ ﴿ وَيَقُولُونَ هُوَ أُذُنٌ﴾ ” اور کہتے ہیں کہ وہ کان (کا کچا) ہے۔“ اور انہیں اس بات کی پروا نہیں ہوتی کہ ان کی بدگوئی کی وجہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دکھ پہنچتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب ان میں سے کچھ باتیں آپ تک پہنچتی ہیں تو ہم آپ کے پاس معذرت پیش کرنے کے لئے آجاتے ہیں اور آپ ہماری معذرت قبول کرلیتے ہیں، کیونکہ آپ کان کے کچے ہیں۔ یعنی آپ سے جو کچھ کہا جاتا ہے آپ اسے تسلیم کرلیتے ہیں سچے اور جھوٹے میں تمیز نہیں کرتے۔ ان کا مقصد تو محض یہ تھا۔۔۔۔۔۔ اللہ ان کا برا کرے۔۔۔۔۔۔ کہ وہ اس بات کی کوئی پروا کریں نہ اس کو اہمیت دیں، کیونکہ ان کی کوئی بات آپ تک نہ پہنچے تو یہی ان کا مطلوب ہے اور اگر آپ تک وہ بات پہنچ جائے تو صرف باطل معذرتوں پر اکتفا کریں۔ پس انہوں نے بہت سے پہلوؤں سے برائی کا رویہ اختیار کیا : (١) ان میں سب سے بری بات یہ ہے کہ وہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا پہنچاتے ہیں جو ان کی رہنمائی اور ان کو ہلاکت اور شقاوت کے گڑھے سے نکال کر ہدایت اور سعادت کی راہ پر گامزن کرنے کے لئے تشریف لائے۔ (٢) وہ اس ایذا رسانی کو کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے، یہ مجرد ایذا رسانی پر ایک قدر زائد ہے۔ (٣) وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عقل و دانش میں عیب نکالتے تھے، آپ کو عدم ادراک اور سچے اور جھوٹے کے درمیان امتیاز نہ کرسکنے کی صفات سے متصف کرتے تھے۔ حالانکہ آپ مخلوق میں سب سے زیادہ عقل کامل سے بہرہ مند، بدرجہ اتم ادراک کے حامل، عمدہ رائے اور روشن بصیرت رکھنے والے تھے۔ بنابریں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ قُلْ أُذُنُ خَيْرٍ لَّكُمْ ﴾ ” آپ کہہ دیجیے، کان ہیں تمہاری بہتری کے لئے“ یعنی جو کوئی بھلی اور سچی بات کہتا ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے قبول فرما لیتے ہیں۔ رہا آپ کا صرف نظر کرنا اور جھوٹے عذرات پیش کرنے والے منافقین کے ساتھ سختی سے پیش نہ آنا، تو یہ آپ کی کشادہ ظرفی، ان کے معاملے میں عدم اہتمام اور اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی اطاعت کی بنا پر تھا۔ ﴿سَيَحْلِفُونَ بِاللَّـهِ لَكُمْ إِذَا انقَلَبْتُمْ إِلَيْهِمْ لِتُعْرِضُوا عَنْهُمْ ۖ فَأَعْرِضُوا عَنْهُمْ ۖ إِنَّهُمْ رِجْسٌ﴾(التوبة:9؍ 95) ” جب تم واپس لوٹو گے تو یہ منافقین قسمیں کھائیں گے، تاکہ تم ان سے صرف نظر کرو، پس تم ان کے معاملے کو نظر انداز کر دو کیونکہ وہ ناپاک ہیں۔“ رہی یہ حقیقت کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دل میں کیا ہے اور آپ کی رائے کیا ہے تو اس کے بارے میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ يُؤْمِنُ بِاللَّـهِ وَيُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِينَ﴾ ” وہ یقین کرتا ہے اللہ پر اور یقین کرتا ہے مومنوں کی بات پر“ جو سچے اور تصدیق کرنے والے ہیں اور وہ سچے اور جھوٹے کو خوب پہچانتا ہے اگرچہ وہ بہت سے ایسے لوگوں سے صرف نظر کرتا ہے جن کے بارے میں اسے معلوم ہے کہ وہ جھوٹے ہیں اور ان میں سچائی معدوم ہے ﴿وَرَحْمَةٌ لِّلَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ ﴾ ” اور رحمت ہے ان لوگوں کے لئے جو تم میں سے ایمان لائے“ کیونکہ وہی آپ کی وجہ سے راہ راست پر گامزن ہوتے اور آپ کے اخلاق کی پیروی کرتے ہیں۔ رہے اہل ایمان کے علاوہ دیگر لوگ تو انہوں نے اس رحمت کو قبول نہ کیا، بلکہ ٹھکرا دیا اور یوں وہ دنیا و آخرت کے گھاٹے میں پڑگئے۔ ﴿وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ رَسُولَ اللَّـهِ﴾ ” اور وہ لوگ جو (قول و فعل کے ذریعے سے) رسول اللہ کو دکھ دیتے ہیں۔“ ﴿ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ﴾ ” ان کے لئے درد ناک عذاب ہے۔“ دنیا و آخرت میں اور دنیا میں ان کے لئے درد ناک عذاب یہ ہے کہ آپ کو دکھ پہنچانے والے اور آپ کی شان میں گستاخی کرنے اور ایذا پہنچانے والے کی حتمی سزا قتل ہے۔ التوبہ
62 ﴿يَحْلِفُونَ بِاللَّـهِ لَكُمْ لِيُرْضُوكُمْ﴾ ” وہ قسمیں کھاتے ہیں اللہ کی تاکہ تمہیں راضی کریں“ اور ان کی طرف سے جو ایذا رسانی ہوئی وہ اس سے بری ٹھہریں۔ پس ان کی غرض و غایت محض یہ ہے کہ تم ان سے راضی رہو۔ ﴿وَاللَّـهُ وَرَسُولُهُ أَحَقُّ أَن يُرْضُوهُ إِن كَانُوا مُؤْمِنِينَ ﴾ ”حالانکہ اللہ اور اس کا رسول اس بات کے زیادہ حق دار ہیں کہ وہ ان کو راضی کریں اگر مومن ہوں“ کیونکہ بندہ مومن اپنے رب کی رضا پر کسی چیز کو ترجیح نہیں دیتا۔ یہ آیت ان کے ایمان کی نفی پر دلالت کرتی ہے، کیونکہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی رضا پر دوسروں کی رضا کو مقدم رکھا اور یہ اللہ تعالیٰ کی مخالفت اور کھلی دشمنی ہے اور جو کوئی اللہ تعالیٰ سے دشمنی رکھتا ہے اس کے لئے سخت وعید ہے۔ التوبہ
63 چنانچہ فرمایا : ﴿أَلَمْ يَعْلَمُوا أَنَّهُ مَن يُحَادِدِ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ﴾ ” کیا انہوں نے نہیں جانا کہ جو کوئی مقابلہ کرے اللہ سے اور اس کے رسول سے“ یعنی اللہ تعالیٰ کے اوامر کی اہانت و تحقیر اور اس کے محارم کے ارتکاب کی جسارت کر کے وہ اللہ اور اس کے رسول سے بہت دور اور ان کے مخالف ہوجائے ﴿فَأَنَّ لَهُ نَارَ جَهَنَّمَ خَالِدًا فِيهَا ۚ ذَٰلِكَ الْخِزْيُ الْعَظِيمُ ﴾ ” تو اس کے لئے جہنم کی آگ ہے اور اس میں وہ ہمیشہ رہے گا، یہ بڑی رسوائی کی بات ہے۔“ جس سے بڑھ کر کوئی رسوائی نہیں، کیونکہ وہ دائمی نعمتوں سے محروم ہوگئے اور بھڑکتی ہوئی آگ کا عذاب حاصل کرلیا۔ ان کے حال سے اللہ کی پناہ ! التوبہ
64 اس سورۃ کریمہ کو ( اَلْفاَضِحَۃ ) ” رسوا کرنے والی سورت“ کے نام سے بھی موسوم کیا گیا ہے، کیونکہ اس نے منافقین کے بھید کھولے ہیں اور ان کے رازوں پر سے پردہ اٹھایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ” ان میں سے بعض“ ” ان میں سے بعض“ کہہ کر ان کے اوصاف بیان کئے ہیں۔ لیکن متعین طور پر اشخاص کے نام نہیں لئے، اس کے دو فائدے ہیں۔ (١) اللہ تعالیٰ ” ستار“ ہے وہ اپنے بندوں کے گناہوں کی پردہ پوشی کو پسند کرتا ہے۔ (٢) مذمت کا رخ ان تمام منافقین کی طرف ہے جو ان صفات سے متصف ہیں جس میں وہ بھی آگئے جو (بلاواسطہ) مخاطب تھے اور ان کے علاوہ قیامت تک آنے والے منافقین بھی اس میں شامل ہیں۔ اس اعتبار سے اوصاف کا تذکرہ زیادہ عمومیت کا حامل اور زیادہ مناسب ہے تاکہ لوگ خوب خائف رہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ لَّئِن لَّمْ يَنتَهِ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ وَالْمُرْجِفُونَ فِي الْمَدِينَةِ لَنُغْرِيَنَّكَ بِهِمْ ثُمَّ لَا يُجَاوِرُونَكَ فِيهَا إِلَّا قَلِيلًا  مَّلْعُونِينَ ۖ أَيْنَمَا ثُقِفُوا أُخِذُوا وَقُتِّلُوا تَقْتِيلًا ﴾(الأحزاب:33؍60۔61) ﴾ ” اگر منافقین اور وہ لوگ جن کے دلوں میں بیماری ہے اور جو مدینہ میں بری بری افواہیں پھیلاتے ہیں، اپنے کرتوتوں سے باز نہ آئے تو ہم آپ کو ان کے پیچھے لگا دیں گے پھر وہ بہت تھوڑے دن ہی آپ کے پڑوس میں رہ سکیں گے۔ وہ دھتکارے ہوئے جہاں بھی پائے جائیں، پکڑے جائیں اور قتل کردیئے جائیں۔“ اور یہاں اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتاہے:﴿يَحْذَرُ الْمُنَافِقُونَ أَن تُنَزَّلَ عَلَيْهِمْ سُورَةٌ تُنَبِّئُهُم بِمَا فِي قُلُوبِهِمْ ﴾” اگرمنافقین اس بات سے ڈرتے ہیں کہ ان پر کوئی سورت نازل ہو جو ان کو جتا دے جو ان کے دلوں میں ہے“ یعنی وہ سورت ان کو ان کے کرتوتوں کے بارے میں آگاہ کر کے ان کی فضیحت کا سامان کرتی ہے اور ان کا بھید کھولتی ہے یہاں تک کہ ان کی کارستانیاں لوگوں کے سامنے عیاں ہوجاتی ہیں اور وہ دوسروں کے لئے سامان عبرت بن جاتے ہیں۔ ﴿قُلِ اسْتَهْزِئُوا﴾ ” کہہ دو کہ ہنسی مذاق کئے جاؤ۔“ یعنی استہزاء اور تمسخر کا تمہارا جو رویہ ہے اس پر قائم رہو ﴿إِنَّ اللَّـهَ مُخْرِجٌ مَّا تَحْذَرُونَ﴾ ” اللہ کھول کر رہے گا اس چیز کو جس سے تم ڈرتے ہو“ اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنا وعدہ پورا کردیا اور یہ سورت نازل فرمائی جو ان کے کرتوت بیان کر کے ان کو رسوا کرتی ہے اور ان کے رازوں پر سے پردہ اٹھاتی ہے۔ التوبہ
65 اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿وَلَئِن سَأَلْتَهُمْ﴾ ” اور اگر آپ ان سے دریافت کریں۔“ اس بارے میں جو وہ مسلمانوں اور ان کے دین کی بابت طعن و تشنیع کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک گروہ غزوہ تبوک کے موقع پر کہتا تھا ” ہم نے ان جیسے لوگ نہیں دیکھے“ ان کی مراد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے اصحاب کرام تھے۔۔۔” جو کھانے میں پیٹو، زبان کے جھوٹے اور میدان جنگ میں بزدلی دکھانے والے ہیں۔“ [تفسیر طبری، 6؍ 220] جب انہیں یہ بات پہنچی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان کی ہر زہ سرائی کا علم ہوگیا ہے تو معذرت کرتے اور یہ کہتے ہوئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے ﴿ إِنَّمَا كُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ ﴾ ” ہم تو بات چیت کرتے تھے اور دل لگی“ یعنی ہم تو ایک ایسی بات کہہ رہے تھے جس سے کسی کو نشانہ بنانا یا طعن اور رعیب جوئی ہمارا مقصود نہ تھا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کا عدم عذر اور ان کا جھوٹ واضح کرتے ہوئے فرمایا : ﴿قُلْ﴾ ان سے کہہ دیجیے : ﴿ أَبِاللَّـهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ  لَا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُم بَعْدَ إِيمَانِكُمْ ۚ﴾ ” کیا تم اللہ سے، اس کے حکموں سے اور اس کے رسول سے ٹھٹھے کرتے تھے؟ تم بہانے مت بناؤ تم ایمان لانے کے بعد کافر ہوچکے ہو۔“ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ استہزاء اور تمسخر کفر ہے جو دائرہ اسلام سے خارج کردیتا ہے، کیونکہ دین کی اساس اللہ تعالیٰ، اس کے دین اور اس کے رسول کی تعظیم پر مبنی ہے۔ ان میں سے کسی کے ساتھ استہزاء کرنا اس اساس کے منافی اور سخت متناقض ہے۔ بنا بریں جب وہ معذرت میں یہ بات کہتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے اس سے زیادہ کچھ نہ فرمایا ﴿  أَبِاللَّـهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ  لَا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُم بَعْدَ إِيمَانِكُمْ﴾ ” کیا تم اللہ، اس کی آیات اور اس کے رسول کے ساتھ دل لگی کرتے تھے؟ اب معذرتیں نہ کرو تم نے ایمان لانے کے بعد کفر کا ارتکاب کیا۔“ فرمایا : التوبہ
66 ﴿ إِن نَّعْفُ عَن طَائِفَةٍ مِّنكُمْ﴾ ” اگر ہم تم میں سے ایک جماعت کو معاف بھی کردیں۔“ ان کی توبہ و استغفار اور ان کی ندامت کی وجہ سے ﴿نُعَذِّبْ طَائِفَةً ﴾ ” تاہم بعض کو ضرور ہی عذاب دیں گے“ ﴿بِأَنَّهُمْ﴾ ” کیونکہ وہ“ یعنی اس سبب سے کہ ”﴿كَانُوا مُجْرِمِينَ ﴾ ” وہ گناہگار تھے“ یعنی اپنے کفر و نفاق پر قائم ہیں۔ یہ آیات کریمہ اس امر پر دلالت کرتی ہیں کہ جو کوئی اپنا بھید چھپاتا ہے خاص طور پر وہ بھید جس میں اللہ تعالیٰ کے دین کے خلاف سازش’ اللہ تعالیٰ’ اس کی آیات اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ استہزاء ہو تو اللہ تعالیٰ اس بھید کو کھول دیتا ہے’ اس شخص کو رسوا کرتا ہے اور اسے سخت سزا دیتا ہے اور جو کوئی کتاب اللہ اور اس کے رسول کی سنت ثابتہ کے ساتھ کسی قسم کا استہزا کرتا ہے، یا ان کا تمسخر اڑاتا ہے، یا ان کو ناقص گردانتا ہے، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے استہزاء کرتا ہے یا آپ کو ناقص کہتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کا ارتکاب کرتا ہے۔ نیز اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ہر قسم کے گناہ کی توبہ قبول ہوجاتی ہے خواہ وہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو۔ التوبہ
67 ﴿الْمُنَافِقُونَ وَالْمُنَافِقَاتُ بَعْضُهُم مِّن بَعْضٍ﴾ ” منافق مرد اور منافق عورتیں آپس میں ایک ہی ہیں۔“ کیونکہ نفاق ان میں قدر مشترک ہے اس لئے وہ ایک دوسرے کے باہم دوست ہیں۔ اس آیت کریمہ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اہل ایمان اور منافقین کے درمیان موالات کا رشتہ منقطع ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے منافقین کا عمومی وصف بیان فرمایا جس سے ان کا چھوٹا اور بڑا کوئی بھی باہر نہیں۔ ﴿يَأْمُرُونَ بِالْمُنكَرِ ﴾ ” وہ بری بات کا حکم دیتے ہیں“ اور وہ ہے کفر، فسق اور معصیت ﴿وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمَعْرُوفِ﴾ ” اور معروف سے روکتے ہیں“ معروف سے مراد ایمان، اخلاق فاضلہ، اعمال صالحہ اور آداب حسنہ ہیں۔ ﴿وَ یَقْبِضُوْنَ اَیْدِیَھُمْ﴾ ” اور بند رکھتے ہیں اپنے ہاتھوں کو“ صدقہ اور بھلائی کے راستوں سے پس اللہ تعالیٰ نے ان کو بخل کی صفت سے موصوف کیا ہے۔ ﴿نَسُوا اللَّـهَ﴾ ” وہ بھول گئے اللہ کو“ پس وہ بہت کم اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے ہیں۔ ﴿ فَنَسِيَهُمْ﴾ ” تو وہ بھی بھول گیا ان کو“ یعنی ان پر رحمت کرنے سے۔ پس اللہ تعالیٰ ان کو بھلائی کی توفیق عطا نہیں کرتا اور نہ ان کو جنت میں داخل کرے گا، بلکہ وہ ان کو جہنم کے سب سے نچلے درجہ میں چھوڑ دے گا جہاں ان کو ہمیشہ رکھا جائے گا۔ ﴿إِنَّ الْمُنَافِقِينَ هُمُ الْفَاسِقُونَ﴾ ” بے شک منافق ہی نافرمان ہیں“ اللہ تعالیٰ نے فسق کو منافقین میں محصور کردیا، کیونکہ ان کا فسق دیگر فساق کے فسق سے زیادہ بڑا ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ ان کو دیا جانے والا عذاب دوسروں کو دیئے جانے والے عذاب کی نسبت زیادہ بڑا ہے۔ نیز اہل ایمان جب ان کے درمیان رہ رہے تھے تو ان منافقین کے باعث ان کو آزمائش میں ڈالا گیا اور ان سے بچنے کی نہایت سختی سے تاکید کی گئی۔ التوبہ
68 ﴿وَعَدَ اللَّـهُ الْمُنَافِقِينَ وَالْمُنَافِقَاتِ وَالْكُفَّارَ نَارَ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ هِيَ حَسْبُهُمْ ۚ وَلَعَنَهُمُ اللَّـهُ ۖ وَلَهُمْ عَذَابٌ مُّقِيمٌ﴾ ” وعدہ دیا ہے اللہ نے منافق مرد اور منافق عورتوں کو اور کافروں کو جہنم کی آگ کا، ہمیشہ رہیں گے اس میں، وہی بس ہے ان کو، اور لعنت کی ان پر اللہ نے اور ان کے لئے برقرار رہنے والا عذاب ہے“ اللہ تبارک و تعالیٰ منافقین اور کفار کو جہنم اور لعنت میں اکٹھا کر دے گا جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے، کیونکہ دنیا میں بھی وہ کفر، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے ساتھ عداوت اور اللہ تعالیٰ کی آیات کے انکار پر متفق تھے۔ التوبہ
69 اللہ تبارک و تعالیٰ منافقین کا حال بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے، اے منافقو ! تمہارا حال تم جیسے ان منافقین کی مانندہے جنہوں نے تم سے پہلے نفاق اور کفر کا ارتکاب کیا۔ وہ تم سے زیادہ طاقتور، تم سے زیادہ دولت مند اور تم سے زیادہ اولاد والے تھے۔ ان کے لئے جو حظوظ دنیا (دنیوی منافع اور حصے) مقدر کئے گئے تھے انہوں نے ان سے خوب فائدہ اٹھایا۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے ذکر اور اس کے تقویٰ سے روگردانی کی۔ انبیائے کرام کے ساتھ نہایت حقارت اور استخفاف کے ساتھ پیش آئے اور اپنے اور انبیائے کرام کے معاملہ میں ان کا خوب تمسخر اڑایا۔ تم نے بھی دنیا کی لذتوں سے، جو تمہارے لئے مقدر کی گئی تھیں، خوب فائدہ اٹھایا جیسے پہلے لوگوں نے فائدہ اٹھایا تھا۔ تم بھی باطل اور ان منکرات میں ڈوبے ہوئے ہو جن میں تمہارے پیشرو ڈوبے ہوئے تھے۔ ان کے اعمال اکارت گئے اور ان اعمال نے ان کو دنیا و آخرت میں کوئی فائدہ نہ دیا اور وہ سراسر خسارے میں رہے۔ تم بھی سوء حال و مآل اور برے انجام میں انہی کی مانند ہو۔ ﴿فَاسْتَمْتَعُوا بِخَلَاقِهِمْ﴾ ” تم نے اپنے حصے سے فائدہ اٹھایا۔“ یعنی اپنے دنیاوی نصیب سے۔ اللہ تعالیٰ کی مراد کو نظر انداز کرتے ہوئے تم نے لذت و شہوت کے پہلو سے دنیا کو استعمال کیا۔ اس نصیبِ دنیا سے تم نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی پر مدد لی، تمہارا عزم اور ارادہ ان دنیاوی نعمتوں سے آگے نہ بڑھ سکا، جیسے تم سے پہلے لوگوں نے کیا تھا ﴿وَخُضْتُمْ كَالَّذِي خَاضُوا﴾ ” اور جس طرح وہ باطل میں ڈوبے رہے اسی طرح تم باطل میں ڈوبے رہے۔“ یعنی تم بھی (پہلوں کی طرح) باطل اور جھوٹ میں مستغرق ہو اور حق کو ناکام کرنے کے لئے تم باطل کے ذریعے سے جھگڑتے ہو۔ پس یہ ہیں ان کے اعمال و علوم، نصیب دنیا سے استفادہ کرنا اور باطل میں مستغرق رہنا۔ اس لئے یہ بھی عذاب اور ہلاکت کے مستحق ہیں جیسے پہلے لوگ اس ہلاکت کے مستحق ٹھہرے جن کے وہی کرتوت تھے جو ان کے ہیں۔ رہے اہل ایمان۔۔۔ اگر انہوں نے دنیاوی نعمتوں میں اپنے حصے سے فائدہ اٹھایا۔۔۔ تو صرف اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر مدد لینے کے لئے، رہے ان کے علوم تو یہ درحقیقت انبیاء و رسل کے علوم ہیں جو تمام مطالب عالیہ میں یقین کی منزل تک پہنچاتے ہیں اور باطل کو سرنگوں کرنے کے لئے حق کے ذریعے سے مجادلہ کی راہ پر گامزن کرتے ہیں۔ التوبہ
70 اللہ تعالیٰ منافقین کو اس عذاب سے ڈراتا ہے جو ان سے پہلے جھٹلانے والی قوموں پر نازل ہوا تھا۔ جیسے قوم نوح، عاد، ثمود، قوم ابراہیم، اصحاب مدین اور المؤتفکات یعنی قوم لوط کی بستیاں ﴿أَتَتْهُمْ رُسُلُهُم بِالْبَيِّنَاتِ﴾ ” ان کے پاس ان کے پیغمبر نشانیاں لے کر آئے۔“ یعنی ان سب کے پاس ان کے رسول واضح اور روشن حق لے کر آئے جو تمام اشیاء کے حقائق کو بیان کرتا ہے، مگر انہوں نے اس حق کو جھٹلایا، تب ان پر وہی عذاب نازل ہوا جس کا اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا۔ پس تمہارے اعمال بھی ان کے اعمال سے مشابہت رکھتے ہیں۔ ﴿فَمَا كَانَ اللَّـهُ لِيَظْلِمَهُمْ﴾ ” اور اللہ تو ایسا نہ تھا کہ ان پر ظلم کرتا۔“ جب اللہ تعالیٰ نے ان کو سزا دی تو یہ ان پر اللہ تعالیٰ کا ظلم نہیں تھا۔ ﴿وَلَـٰكِن كَانُوا أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ﴾ ” بلکہ انہوں نے خود ہی اپنے آپ پر ظلم کیا“ کیونکہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں کی جسارت کی، اس کے رسولوں کی اطاعت نہ کی اور ہر سرکش اور جبار کی بات کے پیچھے لگ گئے۔ التوبہ
71 جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ ذکر فرمایا کہ منافقین آپس میں ایک ہی ہیں، تو یہ بھی واضح فرما دیا کہ اہل ایمان بھی ایک دوسرے کے والی اور مددگار ہیں اور ان کو ایسے اوصاف سے متصف کیا ہے جو منافقین کے اوصاف کی ضد ہیں، چنانچہ فرمایا : ﴿ وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ﴾ ” اہل ایمان مرد اور عورتیں“ ﴿بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ﴾ ” ایک دوسرے کے دوست ہیں۔“ یعنی محبت، موالات، منوب ہونے اور مدد کرنے میں باہم والی و مددگار ہیں۔ ﴿ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ ﴾ ” وہ بھلائی کا حکم دیتے ہیں“ (المعروف) ہر ایسے کام کے لئے ایک جامع نام ہے جس کی بھلائی مسلم ہو، مثلاً عقائد حسنہ، اعمال صالحہ اور اخلاق فاضلہ وغیرہ اور نیکی کے اس حکم میں سب سے پہلے خود داخل ہوتے ہیں۔ ﴿وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ ﴾ ” اور برائی سے روکتے ہیں“ اور ہر وہ کام جو (المعروف) کے خلاف اور اس کے منافی ہو (المنکر) کے زمرے میں آتا ہے، مثلاً عقائد باطلہ، اعمال خبیثہ، اور اخلاق رذیلہ وغیرہ۔ ﴿وَيُطِيعُونَ اللَّـهَ وَرَسُولَ﴾ ” اور وہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں۔“ یعنی وہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت کا التزام کرتے ہیں۔ ﴿أُولَـٰئِكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللَّـهُ ۗ﴾ ” یہی لوگ ہیں جن پر اللہ رحم کرے گا۔“ یعنی اللہ تعالیٰ انہیں اپنی بے پایاں رحمت کے سائے میں داخل کرے گا اور انہیں اپنے احسان سے نوازے گا۔ ﴿إِنَّ اللَّـهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ﴾ ” بے شک اللہ غالب حکمت والا ہے۔“ یعنی وہ طاقتور اور غالب ہے طاقتور ہونے کے ساتھ ساتھ وہ حکمت والا بھی ہے وہ ہر چیز کو اس کے لائق مقام پر رکھتا ہے۔ وہ جو کچھ تخلیق کرتا ہے اور جو کچھ حکم دیتا ہے، اس پر اس کی حمد بیان کی جاتی ہے۔ التوبہ
72 پھر اللہ تبارک و تعالیٰ اس ثواب کا ذکر فرماتا ہے جو اس نے اہل ایمان کے لئے تیار کر رکھا ہے۔ فرمایا ﴿ وَعَدَ اللَّـهُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ﴾’’وعدہ دیا ہے اللہ نے ایمان والے مردوں اور ایمان والی عورتوں کو باغوں کا کہ بہتی ہیں ان کے نیچے نہریں“ ان جنتوں میں ہر نعمت اور ہر فرحت جمع ہے اور وہ تمام تکلیف دہ چیزوں سے بالکل خالی ہیں ان کے محلات، گھروں اور درختوں کے نیچے سے نہریں بہہ رہی ہیں جو خوبصورت باغات کو سیراب کرتی ہیں۔ ان جنتوں میں جو بھلائیاں ہیں انہیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ ﴿خَالِدِينَ فِيهَا﴾ ” اس میں ہمیشہ رہیں گے“ اور وہ کسی اور جگہ منتقل ہونا نہ چاہیں گے۔ ﴿وَمَسَاكِنَ طَيِّبَةً فِي جَنَّاتِ عَدْنٍ﴾ ” اور ستھرے مکانوں کا، ہمیشہ کے باغوں میں“ ان مسکنوں کو آراستہ اور خوبصورت بنا کر اللہ تعالیٰ کے متقی بندوں کے لئے تیار کیا گیا ہے۔ جنت کے نظارے، اس کی منازل اور آرام گاہیں بہت خوبصورت ہیں۔ بلند مرتبہ مساکن کے تمام آلات اور ساز و سامان ان کے اندر مہیا کئے گئے ہیں۔ تمنا کرنے والے اس سے بڑھ کر کسی چیز کی تمنا نہیں کرسکتے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے ایسے بالا خانے تیار کر رکھے ہیں جو انتہائی خوبصورت اور پاک صاف ہیں۔ جن کے اندر سے باہر کا نظارہ کیا جا سکے گا اور باہر سے اندر دیکھا جا سکے گا۔ پس یہ خوبصورت مساکن اس لائق ہیں کہ نفس ان میں سکون حاصل کریں’ دل ان کی طرف کھینچتے چلے آئیں اور ارواح ان کی مشتاق ہوں، اس لئے کہ وہ جنت عدن میں مقیم ہوں گے اور یہ ایسی جگہ ہے جہاں سے وہ کوچ کرنا اور کسی دوسری جگہ منتقل ہونا نہیں چاہیں گے۔ ﴿ وَرِضْوَانٌ مِّنَ اللَّـهِ ﴾ ” اور اللہ کی رضا مندی“ جو وہ اہل جنت پر نازل فرمائے گا۔ ﴿أَكْبَرُ﴾ ” سب سے بڑی ہوگی“ یعنی ان تمام نعمتوں سے جو ان کو حاصل ہوں گی۔ کیونکہ ان کو حاصل ہونے والی تمام نعمتیں ان کے رب کے دیدار اور اس کی رضا کے بغیر اچھی نہ لگیں گی اور یہ وہ غایت مقصود ہے، عبادت گزار جس کا مقصد رکھتے ہیں اور یہ وہ منتہائے مطلوب ہے، اہل محبت جس کے حصول کے لئے کوشاں رہتے ہیں۔ پس زمین و آسمان کے رب کی رضا جنت کی تمام نعمتوں سے بڑھ کر ہے۔ ﴿ذَٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ ﴾ ” یہی بڑی کامیابی ہے۔“ کیونکہ ان کا ہر مطلوب و مقصود حاصل ہوگا۔ ان سے ہر خوف دور ہوگا۔ ان کے تمام معاملات خوبصورت اور خوشگوار ہوں گے۔۔۔ ہم اللہ تعالیٰ سے سوال کرتے ہیں کہ وہ اپنے جود و کرم سے ہمیں بھی ان کی معیت نصیب فرمائے۔ التوبہ
73 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرماتا ہے : ﴿يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنَافِقِينَ﴾ ” اے پیغمبر ! کافروں اور منافقوں سے جہاد کریں“ بھرپور جہاد ﴿وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ﴾ ” اور ان پر سختی کریں۔“ جہاں حالات سختی کا تقاضا کریں وہاں سختی کیجیے۔ اس جہاد میں تلوار کا جہاد اور حجت و دلیل کا جہاد سب شامل ہیں۔ پس جو جنگ کرتا ہے اس کے خلاف ہاتھ، زبان اور شمشیر و سناں کے ذریعے سے جہاد کیا جائے اور جو کوئی ذمی بن کر یا معاہدہ کے ذریعے سے اسلام کی بالا دستی قبول کرتا ہے، تو اس کے خلاف دلیل و برہان کے ذریعے سے جہاد کیا جائے۔ اس کے سامنے اسلام کے محسن اور کفر و شرک کی برائیاں واضح کی جائیں۔ پس یہ تو وہ رویہ ہے جو دنیا میں ان کے ساتھ ہونا چاہئے۔ ﴿وَ﴾ اور آخرت میں، تو ﴿وَمَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ ۖ﴾ ” اور ان کا ٹھکانا جہنم ہے“ یعنی ان کی جائے قرار جہاں سے وہ کبھی نہیں نکلیں گے۔ ﴿وَبِئْسَ الْمَصِيرُ﴾ ” اور وہ بہت ہی برا ٹھکانا ہے۔ “ التوبہ
74 ﴿يَحْلِفُونَ بِاللَّـهِ مَا قَالُوا وَلَقَدْ قَالُوا كَلِمَةَ الْكُفْرِ ﴾” قسمیں کھاتے ہیں اللہ کی کہ انہوں نے نہیں کہا اور بے شک کہا ہے انہوں نے لفظ کفر کا“ یعنی جب انہوں نے اس شخص کی مانند بات کہی تھی جس نے یہ کہا تھا ﴿لَيُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْهَا الْأَذَلَّ﴾( المنافقون :63؍8 ”عزت دار، ذلیل لوگوں کو مدینہ سے باہر نکال دیں گے“ اور وہ باتیں اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ استہزاء کرتے ہوئے ایک کے بعد دوسرا کرتا تھا۔ جب ان کو یہ بات پہنچی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان کی باتیں معلوم ہوگئی ہیں تو وہ قسمیں کھاتے ہوئے آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگے کہ انہوں نے یہ بات ہرگز نہیں کہی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ان کی تکذیب کرتے ہوئے فرماتا ہے : ﴿ وَلَقَدْ قَالُوا كَلِمَةَ الْكُفْرِ وَكَفَرُوا بَعْدَ إِسْلَامِهِمْ ﴾ ” بے شک کہا ہے انہوں نے لفظ کفر کا اور منکر ہوگئے وہ اسلام لانے کے بعد“ گزشتہ وقت میں ان کے اسلام قبول کرنے نے اگرچہ ان کوظاہری طور پر دائرہ کفر سے نکال دیاتھا، مگران کا یہ آخری کلام اسلام کے متناقض ہے جو انہیں کفر میں داخل کردیتا ہے۔ ﴿وَهَمُّوا بِمَا لَمْ يَنَالُوا﴾ ’’اور انھوں نے ایسی چیز کا ارداہ کیا جو انھیں نہیں ملی۔‘‘ یہ اس واقعہ کی طرف اشارہ ہے جب انھوں نے غزوہ تبوک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دھوکے کے ساتھ قتل کرنے کا اردہ کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے منصوبے کے بارے میں آگاہ فرما دیا، چنانچہ آپ نے کسی کو حکم دیا اور اس نے ان کو اپنے منصوبے پر عمل کرنے سے روک دیا۔﴿وَ﴾ ” ان کا حال یہ ہے“ ﴿مَا نَقَمُوا﴾ یعنی ” وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر صرف اس وجہ سے ناراض ہیں“ اور آپ کی عیب جوئی کرتے ہیں ﴿ إِلَّا أَنْ أَغْنَاهُمُ اللَّـهُ وَرَسُولُهُ مِن فَضْلِهِ ۚ﴾ ” کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ کے فضل سے ان کی محتاجی کے بعد ان کو غنی کردیا۔“ یہ نہایت ہی عجیب بات ہے کہ وہ اس ہستی کی اہانت کریں جو ان کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لانے اور محتاجی کے بعد غنا کا سبب بنی۔ کیا ان پر اس ہستی کا حق نہیں کہ وہ اس کی تعظیم اور توقیر کریں اور اس پر ایمان لائیں؟ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کے سامنے توبہ پیش کرتے ہوئے فرمایا : ﴿فَإِن يَتُوبُوا يَكُ خَيْرًا لَّهُمْ ﴾ ” پس اگر وہ توبہ کرلیں تو ان کے لئے بہتر ہے“ کیونکہ توبہ دنیا و آخرت کی سعادت کی اساس ہے۔ ﴿وَإِن يَتَوَلَّوْا ﴾ ” اور اگر وہ منہ پھیر لیں۔“ یعنی اگر وہ توبہ اور انابت سے منہ موڑ لیں۔ ﴿يُعَذِّبْهُمُ اللَّـهُ عَذَابًا أَلِيمًا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۚ﴾ ” تو عذاب دے گا اللہ ان کو درد ناک عذاب دنیا اور آخرت میں“ دنیا میں ان کے لئے عذاب یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ اپنے دین کو فتح و نصرت سے نوازتا ہے اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عزت عطا کرتا ہے اور یہ لوگ اپنا مقصد حاصل نہیں کرپاتے تو حزن و غم کا شکار ہوجاتے ہیں اور آخرت میں ان کو جہنم کا عذاب ملے گا۔ ﴿وَمَا لَهُمْ فِي الْأَرْضِ مِن وَلِيٍّ ﴾ ” اور زمین میں ان کا کوئی دوست نہیں“ جو ان کے معاملات کی سرپرستی کرے اور ان کو ان کے مقصد تک پہنچائے ﴿وَلَا نَصِيرٍ ﴾ ” اور نہ کوئی مددگار“ جو تکلیف وہ امور کو ان سے دور کرے۔ جب وہ اللہ تعالیٰ کی سرپرستی سے محروم ہوگئے تو پھر شر، خسران، بدبختی اور حرماں نصیبی ہی ان کا مقدر بن جاتی ہے۔ التوبہ
75 ان منافقین میں سے کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ سے عہد کیا تھا ﴿لَئِنْ آتَانَا مِن فَضْلِهِ﴾ ” اگر وہ اپنے فضل سے ہمیں عطا کرے گا۔‘‘ یعنی اگر اللہ تعالیٰ ہمیں دنیا عطا کر کے اس میں کشادگی پیدا کرے ﴿لَنَصَّدَّقَنَّ وَلَنَكُونَنَّ مِنَ الصَّالِحِينَ﴾ ” تو ہم ضرور صدقہ کریں گے اور ہم نیکو کاروں میں سے ہوجائیں گے۔“ پس ہم صلہ رحمی کریں گے، مہمان کی مہمان نوازی کریں گے، راہ حق میں لوگوں کی مدد کریں گے اور اچھے اور نیک عمل کریں گے۔ التوبہ
76 ﴿فَلَمَّا آتَاهُم مِّن فَضْلِهِ﴾ ” پس جب دیا ان کو اپنے فضل سے‘‘ تو انہوں نے اس وعدے کو پورا نہ کیا جو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے کیا تھا بلکہ ﴿بَخِلُوا بِهِ ﴾ ” بخل کیا ساتھ اس کے“ ﴿وَتَوَلَّوا﴾ اور اطاعت سے منہ موڑ گئے ﴿وَّهُم مُّعْرِضُونَ ﴾ ” اور وہ روگردانی کرنے والے تھے“ یعنی بھلائی کی طرف التفات نہ کرنیوالے۔ جب انہوں نے اس عہد کو پورا نہ کیا جو انہوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کیا تھا تو اللہ تعالیٰ نے ان کو سزا دی۔ التوبہ
77 ﴿فَأَعْقَبَهُمْ نِفَاقًا فِي قُلُوبِهِمْ﴾ ” پس بطور سزا کردیا نفاق ان کے دلوں میں“ یعنی ہمیشہ رہنے والا نفاق۔ ﴿إِلَىٰ يَوْمِ يَلْقَوْنَهُ بِمَا أَخْلَفُوا اللَّـهَ مَا وَعَدُوهُ وَبِمَا كَانُوا يَكْذِبُونَ﴾ ” جس دن تک کہ وہ اس سے ملیں گے، اس وجہ سے کہ انہوں نے خلاف کیا اللہ سے جو وعدہ اس سے کیا تھا اور اس وجہ سے کہ وہ جھوٹ بولتے تھے۔“ پس بندہ مومن کو اس برے وصف سے بچنا چاہئے کہ اگر اس کو اس کا مقصد حاصل ہوگیا تو وہ فلاں کام کرے گا اس کے بعد وہ اللہ تعالیٰ سے کئے ہوئے عہد کو پورا نہ کرے۔ اس لئے بسا اوقات اللہ تعالیٰ نفاق کے ذریعے سے اس کو سزا دیتا ہے جیسا کہ ان لوگوں کو سزا دی۔ ایک صحیح حدیث میں، جو کہ صحین میں ثابت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ” منافق کی تین نشانیاں ہیں، جب بات کرے تو جھوٹ بولے جب عہد کرے تو بد عہدی سے کام لے اور وعدہ کرے تو اسے پورا نہ کرے۔“ [صحيح بخاري، كتاب الإيمان، باب علامات المنافق، حديث: 33] پس یہ منافق جس نے اللہ تعالیٰ سے وعدہ کیا تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنے فضل سے نوازا تو وہ ضرور صدقہ کرے گا اور نیک بن جائے گا۔ پس اس نے اپنی بات میں جھوٹ بولا، عہد کی بدعہدی کی اور وعدہ کر کے پورا نہ کیا۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ان تمام لوگوں کو یہ وعید سنائی جن سے یہ کام صادر ہوا چنانچہ فرمایا التوبہ
78 ﴿أَلَمْ يَعْلَمُوا أَنَّ اللَّـهَ يَعْلَمُ سِرَّهُمْ وَنَجْوَاهُمْ وَأَنَّ اللَّـهَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ﴾ ” کیا انہیں معلوم نہیں کہ اللہ جانتا ہے ان کا بھید اور ان کا مشورہ اور یہ کہ اللہ خوب جانتا ہے سب چھپی باتوں کو“ پس اللہ تعالیٰ ان کو ان کے ان اعمال کی جزا دے گا جنہیں وہ جانتا ہے۔ یہ آیات کریمہ منافقین میں سے ایک شخص کے بارے میں نازل ہوئیں جسے ” ثعلبہ“ کہا جاتا تھا۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ آپ میرے لئے دعا کیجیے کہ اللہ تعالیٰ اسے اپنے فضل سے نواز دے، اگر اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے فضل و کرم سے نواز دیا تو وہ اللہ کے راستے میں صدقہ کرے گا، صلہ رحمی کرے گا اور راہ حق میں خرچ کرے گا۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے لئے دعا فرمائی۔ اس شخص کے پاس بکریوں کا ریوڑ تھا، وہ ریوڑ بڑھتا چلا گیا یہاں تک کہ اسے اس ریوڑ کو لے کر مدینہ منورہ سے باہر جانا پڑا۔ وہ نماز پنجگانہ میں سے کسی اکا دکا نماز میں حاضر ہوتا تھا پھر اور دور چلا گیا یہاں تک کہ وہ صرف جمعہ کی نماز میں حاضر ہوتا تھا۔ جب بکریاں بہت زیادہ ہوگئیں تو وہ اور دور چلا گیا اور اس نے جماعت اور جمعہ دونوں میں حاضر ہونا بند کردیا۔ پس جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نظر نہ آیا اور آپ نے اس کے بارے میں پوچھا تو آپ کو اس کے حال کے بارے میں آگاہ کیا گیا۔ آپ نے کسی کو اس کے گھر صدقات کی وصولی کے لئے بھیجا۔ وہ ثعلبہ کے پاس آیا۔ ثعلبہ نے کہا ” یہ تو جزیہ ہے، یہ تو جزیہ کی بہن ہے۔‘‘۔۔۔۔۔ پس اس نے زکوٰۃ ادا نہ کی، زکوٰۃ کے تحصیل دار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کو تمام امور سے آگاہ کیا آپ نے تین بار فرمایا (یَاوَیْحَ ثعْلبۃ) ” افسوس ثعلبہ کے لئے ہلاکت ہے۔“ جب اس کے بارے میں اور اس جیسے دیگر لوگوں کے بارے میں یہ آیت کریمہ نازل ہوئی تو اس کے گھر والوں میں سے کوئی شخص اس کے پاس گیا اور اس آیت کریمہ کے نازل ہونے کے بارے میں آگاہ کیا۔ چنانچہ وہ زکوٰۃ لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ مگر آپ نے وہ زکوٰۃ قبول نہ فرمائی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد وہ زکوٰۃ لے کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا مگر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی زکوٰۃ قبول نہ فرمائی۔ جناب ابوبکر کی وفات کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا مگر انہوں نے بھی زکوٰۃ قبول نہ فرمائی۔ کہا جاتا ہے کہ وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد میں مر گیا۔ [ثعلبہ کا یہ واقعہ بہت سے مفسرین نے ذکر کیا ہے۔ لیکن اس کو ماہر نقاد محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔ جیسے امام ابن حزم، بیہقی‘قرطبی، ہیثمی، عراقی، ابن حجر، سیوطی اور امام مناوی رحمہم اللہ نے اس کو ضعیف کہا ہے۔ اس قصے کی سند میں، علی بن یزید، معان بن رفاعۃ اور قاسم بن عبدالرحمان ضعیف راوی ہیں اور ابن حزم رحمہ اللہ نے اس کو متن کے اعتبار سے بھی ضعیف قرار دیا ہے۔ دیکھیے : المحلی (11؍208) الاصابۃ : ترجمۃ ثعلبۃ، مجمع الزوائد، (7؍ 32 الجامع لأحکام القرآن (8؍ 210)، فیض القدیر (4؍ 257) فتح الباری (3؍ 8)، لباب النقول للسیوطی (121) و تخریج الاحیاء للعراقی (3؍ 338) (از محقق) اس لئے اس سے حضرت ثعلبہ بن حاطب انصاری رضی اللہ عنہ کو مراد لینا، درست نہیں ہے۔ اس آیت میں بھی دراصل منافقین ہی کے کردار کے ایک نمونے کا بیان ہے۔ (ص۔ ی)] التوبہ
79 یہ بھی منافقین کی رسوائی کا باعث بننے والی باتوں میں سے ہے۔۔۔ اللہ تعالیٰ ان کا برا کرے۔۔۔۔۔۔ وہ اسلام اور مسلمانوں کے امور میں کوئی ایسی چیز دیکھتے جس پر زبان طعن دراز کرسکتے ہوں تو وہ ظلم و تعدی سے کام لیتے ہوئے طعن و تشنیع کرنے سے باز نہ آتے۔ جب اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اہل ایمان کو صدقات کی ترغیب دی، تو مسلمانوں نے نہایت تیزی سے اللہ تعالیٰ کے حکم کی تکمیل کی اور ان میں سے ہر امیر و غریب نے اپنے حسب حال اللہ کے راستے میں اپنا مال خرچ کیا۔ پس منافقین دولت مند مسلمانوں پر نکتہ چینی کرتے تھے کہ وہ صرف ریاء اور شہرت کی خاطر اپنا مال خرچ کرتے ہیں اور کم حیثیت مسلمانوں سے کہتے ” اللہ تعالیٰ اس صدقہ سے بے نیاز ہے۔۔۔“ تو اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ نازل فرمائی ﴿الَّذِينَ يَلْمِزُونَ ﴾ ” جو عیب جوئی اور طعن کرتے ہیں“ ﴿الْمُطَّوِّعِينَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ فِي الصَّدَقَاتِ ﴾ ” ان مومنوں پر جو دل کھول کر خیرات کرتے ہیں (ان کے) صدقات میں“ پس کہتے ہیں کہ یہ ریا کار ہیں۔ صدقہ کرنے سے ان کا مقصد صرف ریا کاری اور فخر کا اظہار ہے۔ ﴿وَ ﴾ ” اور“ وہ ان لوگوں پر نکتہ چینی کرتے ہیں ﴿الَّذِينَ لَا يَجِدُونَ إِلَّا جُهْدَهُمْ  ﴾ ” جو اپنی محنت کے سوا کچھ نہیں پاتے“ پس وہ اپنی استطاعت کے مطابق اللہ کے راستے میں (تھوڑا سا) مال نکالتے ہیں۔ ان کے بارے میں یہ منافقین کہتے ” اللہ تعالیٰ ان کے صدقات سے بے نیاز ہے‘ ﴿فَيَسْخَرُونَ مِنْهُمْ ﴾ ” اس طرح وہ ان کا تمسخر اڑاتے ہیں۔“ ان کے تمسخر کے مقابلے میں ان کے ساتھ تمسخر کیا گیا ﴿سَخِرَ اللَّـهُ مِنْهُمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ﴾ ” اللہ نے ان سے تمسخر کیا ہے اور ان کے لئے درد ناک عذاب ہے“ کیونکہ انہوں نے اپنے اس کلام میں متعدد ایسے امور اکٹھے کردیئے جن سے بچنا ضروری تھا۔ (١) وہ مسلمانوں کے احوال کی تلاش میں رہتے تھے انہیں یہ خواہش رہتی تھی کہ وہ مسلمانوں کی کوئی ایسی بات پائیں جس پر یہ اعتراض اور نکتہ چینی کرسکیں، حالانکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ﴿ إِنَّ الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَن تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِينَ آمَنُوا لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ﴾ (النور:24؍19) ” جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ اہل ایمان میں بے حیائی پھیلے ان کے لئے درد ناک عذاب ہے۔ “ (٢) وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر اور اسلام کے ساتھ بغض کی وجہ سے اہل ایمان پر ان کے ایمان کی وجہ سے زبان طعن دراز کرتے رہتے تھے۔ (٣) طعنہ زنی اور چغل خوری کرنا حرام ہے، بلکہ دنیاوی امور میں یہ کبیرہ گناہوں میں شمار ہوتا ہے اور نیکی کے کام میں طعنہ زنی تو سب سے بڑا گناہ ہے۔ (٤) جو کوئی اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتے ہوئے کوئی نیکی کا کام کرتا ہے تو اس کے بارے میں مناسب یہ ہے کہ نیکی کے اس کام میں اس کی اعانت اور اس کی حوصلہ افزائی کی جائے، مگر ان منافقین کا مقصد تو صرف اسے نیکی کے کاموں سے باز رکھنا اور اس کی عیب جوئی کرنا تھا۔ (٥) اللہ کے راستے میں مال کثیر خرچ کرنے والے کے بارے میں ان کا یہ فیصلہ کہ وہ ریاکار ہے سخت غلطی، غیب دانی کا دعویٰ اور اٹکل پچو ہے اور اس سے بڑی اور کون سی برائی ہوسکتی ہے؟ (٦) قلیل مقدار میں صدقہ کرنے والے کی بابت ان کا یہ کہنا ” اللہ تعالیٰ اس صدقہ سے بے نیاز ہے۔“ ایک ایسا کلام ہے جس کا مقصود باطل ہے، کیونکہ صدقہ خواہ قلیل ہو یا کثیر’ اللہ تعالیٰ صدقہ کرنے والے کے صدقہ سے مستغنی ہے، بلکہ وہ زمین اور آسمان کے تمام رہنے والوں سے بے نیاز ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے بندوں کو ایسے امور کا حکم دیا ہے جن کے وہ خود محتاج ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ۔۔۔ اگرچہ ان سے بے نیاز ہے، لیکن لوگ تو اس کے محتاج ہیں۔۔۔۔۔۔ فرماتا ہے : ﴿فَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ  ﴾ (الزلزال :99؍7) ” پس جو ذرہ بھر نیکی کرے گا اسے دیکھ لے گا۔“ چنانچہ ان کے اس قول میں نیکی سے باز رہنے کی جو ترغیب ہے، وہ بالکل ظاہر اور بین ہے، لہٰذا ان کی جزایہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ تمسخر کرے گا اور ان کے لئے درد ناک عذاب ہوگا۔ التوبہ
80 ﴿اسْتَغْفِرْ لَهُمْ أَوْ لَا تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ إِن تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً ﴾ ” آپ ان کے لئے بخشش مانگیں یا نہ مانگیں، اگر آپ ان کے لئے ستر مرتبہ بھی بخشش مانگیں گے“ ستر مرتبہ کا لفظ مبالغہ کے طور پر استعمال کیا گیا ہے ورنہ اس کا مفہوم مخالف نہیں ہے ﴿فَلَن يَغْفِرَ اللَّـهُ لَهُمْ ﴾ ” تب بھی اللہ ان کو ہرگز نہیں بخشے گا“ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک دوسری آیت کریمہ میں فرمایا : ﴿سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَسْتَغْفَرْتَ لَهُمْ أَمْ لَمْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ لَن يَغْفِرَ اللَّـهُ لَهُمْ ﴾(المنافقون:63؍6) ” ان کے لئے برابر ہے آپ ان کے لئے مغفرت مانگیں یا نہ مانگیں اللہ تعالیٰ ان کو ہرگز نہیں بخشے گا۔“ پھر اللہ تعالیٰ نے اس سبب کا ذکر کیا ہے جو ان کی مغفرت سے مانع ہے چنانچہ فرمایا : ﴿ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّـهِ وَرَسُولِهِ ﴾ ” یہ اس واسطے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول سے کفر کیا“ اور کافر جب تک اپنے کفر پر قائم ہے اسے کوئی استغفار کام دے سکتا ہے نہ کوئی نیک عمل ﴿وَاللَّـهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ ﴾ ” اور اللہ فاسق لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا“ یعنی فسق جن کا وصف بن چکا ہے جو فسق و فجور کے سوا کوئی اور چیز نہیں چن سکتے، جو اس کا بدل نہیں چاہتے۔ ان کے پاس واضح حق آتا ہے مگر یہ اسے ٹھکرا دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو یہ سزا دیتا ہے کہ وہ اس کے بعد ان کو توفیق سے محروم کردیتا ہے۔ التوبہ
81 اللہ تبارک و تعالیٰ منافقین کا ان کے پیچھے رہ جانے پر تکبر اور فرحت کا اظہار کرنے اور اس پر ان کی لاپروائی کو بیان کرتا ہے، جو ان کے عدم ایمان اور اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ وہ ایمان پر کفر کو ترجیح دیتے ہیں۔ چنانچہ فرمایا : ﴿فَرِحَ الْمُخَلَّفُونَ بِمَقْعَدِهِمْ خِلَافَ رَسُولِ اللَّـهِ  ﴾ ” خوش ہوگئے پیچھے رہنے والے اپنے بیٹھ رہنے سے، رسول اللہ سے جدا ہو کر“ یہ خوش ہونا، پیچھے رہ جانے پر ایک قدر زائد ہے،کیونکہ جہاد سے جی چرا کر پیچھے بیٹھ رہنا حرام ہے اور اس پر مستزادیہ ہے کہ وہ معصیت کے اس فعل پر خوشی اور فخر محسوس کرتے ہیں۔ ﴿وَكَرِهُوا أَن يُجَاهِدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ ﴾ ” اور وہ گھبرائے اس بات سے کہ لڑیں اپنے مالوں اور جانوں سے، اللہ کی راہ میں“ اور اہل ایمان کا معاملہ اس کے برعکس ہے، وہ اگر پیچھے رہ جائیں۔۔۔ خواہ اس کا سبب کوئی عذر ہی کیوں نہ ہو۔۔۔ تو اپنے پیچھے رہ جانے پر سخت غمگین ہوتے ہیں، وہ اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ وہ اپنی جان اور مال کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کریں، کیونکہ ان کے دلوں میں ایمان موجزن ہے، وہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور اس کے احسان کی امید رکھتے ہیں۔ ﴿وَقَالُوا ﴾ یعنی منافقین کہتے ہیں : ﴿لَا تَنفِرُوا فِي الْحَرِّ ﴾ ” نہ کوچ کرو گرمی میں“ یعنی وہ کہتے ہیں گرمی کے موسم میں جہاد کے لئے باہر نکلنا ہمارے لئے مشقت کا باعث ہے۔ پس انہوں نے مختصر سی عارضی راحت کو ہمیشہ رہنے والی کامل راحت پر ترجیح دی۔ وہ اس گرمی سے گھبرا گئے جس سے سایہ میں بیٹھ کر بچا سکتا ہے جس کی شدت صبح و شام کے اوقات میں کم ہوجاتی ہے اور اس شدید ترین گرمی کو اختیار کرلیا جس کی شدت کو کوئی شخص برداشت کرنے کی قدرت نہیں رکھتا اور وہ ہے جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ قُلْ نَارُ جَهَنَّمَ أَشَدُّ حَرًّا ۚ لَّوْ كَانُوا يَفْقَهُونَ ﴾ ” کہہ دیجیے ! جہنم کی آگ، کہیں زیادہ سخت گرم ہے، اگر وہ سمجھتے“ کیونکہ انہوں نے فانی چیز کو ہمیشہ باقی رہنے والی چیز پر ترجیح دی اور انہوں نے نہایت ہی خفیف اور ختم ہوجانے والی مشقت سے فرار ہو کر دائمی مشقت کو اختیار کرلیا۔ التوبہ
82 ﴿ فَلْيَضْحَكُوا قَلِيلًا وَلْيَبْكُوا كَثِيرًا  ﴾ ” پس ہنسیں وہ تھوڑا اور روئیں زیادہ“ یعنی اس ختم ہوجانے والی دنیا سے خوب فائدہ اٹھائیں۔ اس کی لذات سے فرحت حاصل کریں اور اس کے کھیل کود میں مگن ہو کر غافل ہوجائیں وہ عنقریب درد ناک عذاب میں خوب روئیں گے۔ ﴿ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ ﴾ ” بدلہ اس کا جو کماتے تھے۔“ انہوں نے کفر، نفاق اور اپنے رب کے احکام کی عدم اطاعت پر مبنی افعال سر انجام دیئے تھے، یہ ان کی جزا ہے۔ التوبہ
83 ﴿فَإِن رَّجَعَكَ اللَّـهُ إِلَىٰ طَائِفَةٍ مِّنْهُمْ ﴾ ” پھر اگر لے جائے اللہ آپ کو ان میں سے کسی فرقے کی طرف“ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو کسی عذر کے بغیر پیچھے بیٹھ رہے تھے اور پھر اپنے پیچھے رہ جانے پر انہیں کوئی حزن و ملال نہ تھا ﴿فَاسْتَأْذَنُوكَ لِلْخُرُوجِ  ﴾ ” پس وہ اجازت چاہیں آپ سے نکلنے کی“ یعنی جب وہ کسی اور غزوہ میں سہولت دیکھیں تو جہاد کے لئے آپ سے اجازت طلب کریں۔ ﴿فَقُل ﴾ ” تو ان سے کہئے“ یعنی سزا کے طور پر ﴿لَّن تَخْرُجُوا مَعِيَ أَبَدًا وَلَن تُقَاتِلُوا مَعِيَ عَدُوًّا ﴾ ” تم ہرگز نہ نکلو گے میرے ساتھ کبھی اور نہ لڑو گے میرے ساتھ ہو کر کسی دشمن سے“ کیونکہ اللہ تعالیٰ مجھے تم سے بے نیاز کر دے گا۔ ﴿إِنَّكُمْ رَضِيتُم بِالْقُعُودِ أَوَّلَ مَرَّةٍ فَاقْعُدُوا مَعَ الْخَالِفِينَ  ﴾ ” تم نے پسند کیا تھا بیٹھ رہنا پہلی مرتبہ، پس بیٹھے رہو تم پیچھے رہنے والوں کے ساتھ“ یہ ایسے ہی ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿وَنُقَلِّبُ أَفْئِدَتَهُمْ وَأَبْصَارَهُمْ كَمَا لَمْ يُؤْمِنُوا بِهِ أَوَّلَ مَرَّةٍ  ﴾ ” ہم ان کے دلوں اور نگاہوں کو الٹ دیں گے (اور) جیسے یہ قرآن پر پہلی دفعہ ایمان نہیں لائے تھے (اب بھی نہیں لائیں گے۔) کیونکہ وہ شخص جو فرصت کے اوقات میں احکام کی بجا آوری میں سستی سے پیچھے رہ جاتا ہے’ تو اس کے بعد اس کو ان احکام کی تعمیل کی توفیق عطا نہیں ہوتی، چنانچہ اس کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کردی جاتی ہیں۔ اس آیت کریمہ میں ان کے لئے تعزیر بھی ہے، کیونکہ جب مسلمانوں کے نزدیک یہ چیز متحقق ہوگئی کہ یہ لوگ اپنی نافرمانی کی بنا پر جہاد کی توفیق سے محروم کردیئے گئے ہیں، تو یہ چیز ان لوگوں کے لئے بھی زجر و توبیخ، عار اور عبرت کا باعث ہوگی جو ان کی طرح اس حرکت کا ارتکاب کریں گے۔ التوبہ
84 ﴿وَلَا تُصَلِّ عَلَىٰ أَحَدٍ مِّنْهُم مَّاتَ ﴾ ” اور آپ نہ نماز پڑھیں ان میں سے کسی پر جو مر جائے“ منافقین میں سے اگر کوئی مر جائے ﴿وَلَا تَقُمْ عَلَىٰ قَبْرِهِ ﴾ ” اور نہ کھڑے ہوں اس کی قبر پر“ دفن کرنے کے بعد، تاکہ آپ اس کے حق میں دعا کریں، کیونکہ ان کی قبروں پر کھڑے ہو کر ان کے لئے دعا کرنا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے ان کی شفاعت ہے اور شفاعت ان کو کوئی فائدہ نہیں دے گی۔ ﴿إِنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّـهِ وَرَسُولِهِ وَمَاتُوا وَهُمْ فَاسِقُونَ  ﴾ ”بے شک انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا اور وہ مرے نافرمان“ اور جو کافر ہے اور کفر ہی کی حالت میں مر گیا تو کسی شفاعت کرنے والے کی شفاعت اس کے کام نہ آئے گی۔ اس آیت کریمہ میں دوسروں کے لئے عبرت اور زجر و توبیخ ہے۔ اسی طرح ہر اس شخص کی نماز جنازہ نہ پڑھی جائے جس کا کفر اور نفاق معلوم ہو۔ نیز آیت کریمہ میں اہل ایمان کی نماز جنازہ پڑھنے اور ان کی قبروں پر کھڑے ہو کر ان کے لئے دعا مانگنے کی مشروعیت کی دلیل ہے، جیسا کہ اہل ایمان کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا طریقہ تھا، کیونکہ منافقین کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی یہ تقیید دلالت کرتی ہے کہ اہل ایمان کے بارے میں یہ چیز متحقق اور جائز ہے۔ التوبہ
85 اللہ تعالیٰ نے ان کو جو مال اور اولاد سے نواز رکھا ہے اس سے دھوکہ نہ کھایئے، کیونکہ یہ مال اور اولاد ان کی تکریم کے لئے نہیں، یہ ان کی تحقیر اور اہانت کے لئے ہے۔ فرمایا : ﴿إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّـهُ أَن يُعَذِّبَهُم بِهَا فِي الدُّنْيَا ﴾ ” اللہ تو یہی چاہتا ہے کہ ان کو ان چیزوں کی وجہ سے دنیا میں عذاب میں رکھے“ پس وہ اس کے حصول کے پیچھے لگے رہتے ہیں اس کے زوال سے خائف رہتے ہیں اور وہ اس مال سے لطف نہیں اٹھا سکتے، بلکہ وہ مال کے حصول میں تکالیف اور مشقتیں برداشت کرتے رہتے ہیں، مال اور اولاد ان کو اللہ تعالیٰ اور آخرت سے غافل کردیتے ہیں یہاں تک کہ وہ اس دنیا کو چھوڑ کر چل دیتے ہیں۔ ﴿وَتَزْهَقَ أَنفُسُهُمْ وَهُمْ كَافِرُونَ ﴾ ” اور نکلے ان کی جان اور وہ اس وقت تک کافر ہی رہیں“ مال اور اولاد کی محبت نے ان سے ہر چیز سلب کرلی، ان کو موت نے آلیا تو ان کے دل ابھی تک دنیا سے چمٹے ہوئے تھے اور ان کے ذہن ابھی تک اس کے لئے سرگرم تھے۔ التوبہ
86 اللہ تبارک و تعالیٰ منافقین کی دائمی کاہلی اور نیکیوں سے ان کے دائمی گریز کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے نیز آگاہ فرماتا ہے کہ سورتیں اور آیات ان کے رویئے پر کوئی اثر نہیں کرتیں، چنانچہ فرماتا ہے: ﴿وَإِذَا أُنزِلَتْ سُورَةٌ ﴾ ” اور جب اترتی ہے کوئی سورت“ جس میں ان کو اللہ تعالیٰ پر ایمان اور جہاد فی سبیل اللہ کا حکم دیا گیا ہو ﴿اسْتَأْذَنَكَ أُولُو الطَّوْلِ مِنْهُمْ ﴾ ” تو رخصت مانگتے ہیں ان کے صاحب حیثیت لوگ“ یعنی دولت مند اور مال دار لوگ جنہیں کسی قسم کا عذر نہیں اور جنہیں اللہ تعالیٰ نے مال اور بیٹوں سے نواز رکھا ہے۔ کیا وہ اللہ تعالیٰ کا شکر اور اس کی تعریف نہیں کرتے اور واجبات کو قائم نہیں کرتے جن کو اللہ تعالیٰ نے ان پر واجب کردیا ہے اور ان پر اپنا معاملہ سہل کردیا ہے؟ مگر وہ سستی اور کاہلی کا شکار رہے اور پیچھے بیٹھ رہنے کی اجازت مانگتے رہے۔ ﴿وَقَالُوا ذَرْنَا نَكُن مَّعَ الْقَاعِدِينَ ﴾ ” اور وہ کہتے ہیں ہمیں چھوڑ دو ! ہوجائیں ہم (پیچھے) بیٹھ رہنے والوں کے ساتھ۔ “ التوبہ
87 ﴿رَضُوا بِأَن يَكُونُوا مَعَ الْخَوَالِفِ ﴾ ” وہ راضی ہوگئے اس بات پر کہ رہیں وہ پیچھے رہنے والی عورتوں کے ساتھ“ وہ کیوں کر اس بات پر راضی ہوگئے کہ وہ ان خواتین کیساتھ پیچھے گھروں میں بیٹھ رہیں جو جہاد کے لئے نہیں نکلیں۔ کیا ان کے پاس کوئی عقل اور سمجھ ہے جو اس پر ان کی راہنمائی کرے؟ ﴿وَطُبِعَ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ ﴾ یا ” ان کے دلوں پر مہر لگا دی گئی ہے۔“ پس وہ کسی بھلائی کو یاد نہیں رکھ سکتے اور ان کے دل ان افعال کے ارادے سے خالی ہیں جو خیر و فلاح پر مشتمل ہیں۔ پس وہ کسی بھلائی کو یاد نہیں رکھ سکتے اور ان کے دل ان افعال کے ارادے سے خالی ہیں جو خیر و فلاح پر مشتمل ہیں۔ پس وہ اپنے مصالح و مفاد کو نہیں سمجھتے۔ اگر وہ حقیقی سمجھ رکھتے ہوتے تو وہ اپنے لئے اس صورتحال پر کبھی راضی نہ ہوتے۔ جس نے ان کو جواں مردوں کے مقام سے نیچے گرا رکھا ہے۔ التوبہ
88 اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے : جب یہ منافقین جہاد سے جی چرا کر پیچھے بیٹھ رہے ہیں، تو اللہ تعالیٰ ان سے بے نیاز ہے۔ اس کی مخلوق میں اس کے ایسے خاص بندے ہیں جن کو اس نے اپنے فضل سے خاص طور پر نوازا ہے وہ اس کے حکم کی تعمیل کرتے ہیں اور وہ ہیں ﴿الرَّسُولُ ﴾ رسول مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ﴿وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ جَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ ﴾ ” اور وہ لوگ جو آپ پر ایمان لائے اور جہاد کیا انہوں نے آپ کے ساتھ اپنے مالوں اور جانوں سے۔“ وہ کاہل ہیں نہ سست بلکہ وہ فرحاں اور بشارت حاصل کرنے والے۔ ﴿ وَأُولَـٰئِكَ لَهُمُ الْخَيْرَاتُ ﴾ ” یہی وہ لوگ ہیں جن کے لئے (دنیا و آخرت) کی بے شمار بھلائیاں ہیں۔“ ﴿وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ﴾ ” اور یہی فلاح پانے والے ہیں۔“ جو بلند ترین مطالب اور کامل ترین مرغوبات کے حصول میں کامیاب ہیں۔ التوبہ
89 ﴿أَعَدَّ اللَّـهُ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ ﴾ ” تیار کئے ہیں اللہ نے ان کے لئے ایسے باغ کہ ان کے نیچے نہریں بہتی ہیں، اس میں وہ ہمیشہ رہیں گے، یہی ہے بڑی کامیابی“ ہلاکت ہے ایسے شخص کے لئے جو ان اور میں رغبت نہیں رکھتا جن میں اہل جنت رغبت رکھتے ہیں اور وہ اپنے دین اور دنیا و آخرت میں خسارے میں پڑنے والا شخص ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے اس قول کی نظیر ہے۔ ﴿قُلْ آمِنُوا بِهِ أَوْ لَا تُؤْمِنُوا ۚ إِنَّ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ مِن قَبْلِهِ إِذَا يُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ يَخِرُّونَ لِلْأَذْقَانِ سُجَّدًا ﴾(بنی اسرائیل:17؍107) ” کہہ دیجیے کہ تم اس پر ایمان لاؤ یا نہ لاؤ جن لوگوں کو اس سے پہلے کتاب کا علم دیا گیا ہے جب ان کو پڑھ کر سنایا جاتا ہے تو وہ ٹھوڑیوں کے بل سجدے میں گر جاتے ہیں۔“ اور اللہ تعالیٰ کے اس قول کی نظیر ہے ﴿ فَإِن يَكْفُرْ بِهَا هَـٰؤُلَاءِ فَقَدْ وَكَّلْنَا بِهَا قَوْمًا لَّيْسُوا بِهَا بِكَافِرِينَ  ﴾ (الانعام:6؍89)” اگر یہ کفار ان باتوں کا انکار کرتے ہیں تو ہم نے ان باتوں پر ایمان لانے کے لئے ایسے لوگوں کو مقرر کردیا ہے جو اس کا انکار کرنے والے نہیں۔ “ التوبہ
90 ﴿وَجَاءَ الْمُعَذِّرُونَ مِنَ الْأَعْرَابِ لِيُؤْذَنَ لَهُمْ ﴾ ” اور آئے بہانے کرنے والے گنوار، تاکہ ان کو رخصت مل جائے“ یعنی وہ لوگ جنہوں نے سستی کی اور جہاد کے لئے نکلنے سے قاصر رہے، اس لئے آئے کہ انہیں ترک جہاد کی اجازت مل جائے۔ انہیں اپنی جفا، عدم حیا اور اپنے کمزور ایمان کی بنا پر معذرت کرنے کی بھی پروا نہیں۔۔۔ اور وہ لوگ جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول کو جھٹلایا، انہوں نے اعتذار کو بالکل ہی ترک کردیا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کے ارشاد ﴿الْمُعَذِّرُونَ ﴾ ” عذر کرنے والے“ میں یہ احتمال بھی ہے کہ اس سے مراد وہ لوگ ہوں جو کوئی حقیقی عذر رکھتے تھے اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، تاکہ آپ ان کی معذرت قبول فرمائیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عادت شریفہ یہ تھی کہ آپ عذر پیش کرنے والے کا عذر قبول فرما لیا کرتے تھے۔ ﴿وَقَعَدَ الَّذِينَ كَذَبُوا اللَّـهَ وَرَسُولَهُ ﴾ ” اور بیٹھ رہے وہ لوگ جنہوں نے جھوٹ بولا اللہ اور اس کے رسول سے“ یعنی جنہوں نے اپنے دعوائے ایمان میں، جو جہاد کے لئے نکلنے کا تقاضا کرتا ہے اور اس کے ساتھ ان کے عمل نہ کرنے میں، اللہ اور رسول سے جھوٹ بولا۔ پھر ان کو وعید سناتے ہوئے فرمایا : ﴿سَيُصِيبُ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ  ﴾ ” اب پہنچے گا ان کو جو کافر ہیں ان میں درد ناک عذاب“ دنیا و آخرت میں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے معذرت پیش کرنے والوں کا ذکر فرمایا۔ ان کی دو قسمیں ہیں : (١)جو شرعی طور پر معذور ہیں۔ (٢) جو شرعی طور پر غیر معذور ہیں۔ التوبہ
91 اللہ تعالیٰ نے معذور لوگوں کا ان الفاظ میں ذکر فرمایا ہے ﴿ لَّيْسَ عَلَى الضُّعَفَاءِ  ﴾ ” نہیں ہے (حرج) کمزوروں پر“ جو کمزور جسم اور کمزور نظر والے ہیں جو جہاد کے لئے باہر نکلنے اور دشمن سے لڑنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ ﴿وَلَا عَلَى الْمَرْضَىٰ ﴾ ” اور نہ بیماروں پر“ یہ آیت ان تمام امراض کو شامل ہے جن کی بنا پر مریض جہاد اور قتال کے لئے باہر نہیں نکل سکتا، مثلاً لنگڑا پن، اندھا پن، بخار، نمونیہ اور فالج وغیرہ ﴿وَلَا عَلَى الَّذِينَ لَا يَجِدُونَ مَا يُنفِقُونَ ﴾ ” اور نہ ان لوگوں پر جن کے پاس خرچ کرنے کو نہیں ہے“ یعنی ان کے پاس زاد راہ ہے نہ سواری جس کے ذریعے سے منزل مطلوب پر پہنچ سکیں۔ پس ان مذکورہ لوگوں کے لئے کوئی حرج نہیں، بشرطیکہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ خیر خواہی رکھتے ہوں، صادق الایمان ہوں، ان کی نیت اور ان کا عزم یہ ہو کہ اگر وہ جہاد پر قادر ہوئے تو وہ ضرور جہاد کریں گے اور ایسے کام کرتے ہوں جن پر وہ قدرت رکھتے ہیں مثلاً لوگوں کو جہاد کی ترغیب دینا اور جہاد کے لئے ان کا حوصلہ بڑھانا ﴿مَا عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِن سَبِيلٍ  ﴾ ” نیکی کرنے والوں پر کوئی راستہ نہیں“ یعنی ایسا راستہ جس سے نیکی کرنے والوں کو کوئی ضرر پہنچے، کیونکہ انہوں نے حقوق اللہ اور حقوق العباد میں بھلائی سے کام لے کر ملامت کو ساقط کردیا۔ بندہ مومن جس چیز پر قادر ہے جب اس میں اچھی کارکردگی دکھاتا ہے تو اس سے وہ امور ساقط ہوجاتے ہیں جن پر وہ قادر نہیں۔ اس آیت کریمہ سے اس شرعی قاعدہ پر استدلال کیا جاتا ہے کہ جو کوئی کسی دوسرے شخص پر اس کی جان اور مال وغیرہ میں احسان کرتا ہے، پھر اس احسان کے نتیجے میں کوئی نقصان یا اتلاف واقع ہوجاتا ہے، تو اس احسان کرنے والے پر کوئی ضمان نہیں۔ کیونکہ وہ محسن ہے اور محسن پر کوئی گرفت نہیں۔ جیسے کہا جاتا ہے کہ غیر محسن۔۔۔ جو کام کو عمدہ طریقے سے انجام نہ دے اس کی حیثیت کوتاہی کرنے والے کی ہوگی، اس لئے اس پر ضمان عائد کیا جائے گا۔ ﴿وَاللَّـهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ  ﴾ ” اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔“ یہ اللہ تعالیٰ کی وسیع مغفرت اور بے پایاں رحمت ہی ہے کہ اس نے قدرت نہ رکھنے والے بے بس لوگوں کو معاف کردیا ہے اور ان کی نیت کے مطابق ان کو وہ ثواب عطا کرتا ہے جو وہ قدرت رکھنے والوں کو عطا کرتا ہے۔ التوبہ
92 ﴿وَلَا عَلَى الَّذِينَ إِذَا مَا أَتَوْكَ لِتَحْمِلَهُمْ ﴾ ” اور نہ ان پر کوئی حرج ہے کہ جب وہ آپ کے پاس آئیں، تاکہ آپ ان کو سواری دیں“ مگر انہوں نے آپ کے پاس کوئی چیز نہ پائی ﴿قُلْتَ ﴾ اور آپ نے ان سے معذرت کرتے ہوئے کہا : ﴿لَا أَجِدُ مَا أَحْمِلُكُمْ عَلَيْهِ تَوَلَّوا وَّأَعْيُنُهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ حَزَنًا أَلَّا يَجِدُوا مَا يُنفِقُونَ ﴾ ” میں کوئی ایسی چیز نہیں پاتا کہ میں تم کو اس پر سوار کراؤں، تو وہ الٹے پھرے اور ان کی آنکھوں سے آنسو بہتے تھے، اس غم میں کہ وہ خرچ کرنے کو کچھ نہیں پاتے“ کیونکہ وہ عاجز،بے بس اور اپنی جان کو خرچ کرنے والے ہیں۔ وہ انتہائی حزن و غم اور مشقت میں مبتلا ہیں جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے کردیا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے کوئی حرج اور گناہ نہیں، جب ان سے گناہ ساقط ہوگیا تو معاملہ اپنی اصل کی طرف لوٹ گیا یعنی جو کوئی بھلائی کی نیت کرتا ہے اور اس کی اس نیت جازمہ کے ساتھ مقدور بھر اس کی کوشش بھی مقرون ہوتی ہے، اس کے باوجود وہ اس فعل کو بجا لانے پر قادر نہیں ہوتا، تو اس کو فاعل کامل ہی شمار کیا جائے گا۔ التوبہ
93 ﴿إِنَّمَا السَّبِيلُ ﴾ ” الزام تو“ یعنی گناہ اور ملامت تو ﴿عَلَى الَّذِينَ يَسْتَأْذِنُونَكَ وَهُمْ أَغْنِيَاءُ ﴾ ” ان لوگوں پر ہے جو دولت مند ہیں اور پھر بھی آپ سے اجازت طلب کرتے ہیں۔“ یعنی جو جہاد کے لئے نکلنے پر قادر ہیں اور ان کے پاس کوئی عذر نہیں۔ ﴿رَضُوا ﴾ ” وہ خوش ہیں۔“ یعنی اپنے دین اور اپنی ذات کے بارے میں ﴿ بِأَن يَكُونُوا مَعَ الْخَوَالِفِ ﴾ ” یہ کہ وہ عورتوں اور بچوں کے ساتھ گھروں میں رہیں۔“ ﴿وَ ﴾ ”اور“ ان کا اس حال پر راضی رہنا اس وجہ سے تھا کہ ﴿طَبَعَ اللَّـهُ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ  ﴾ ” اللہ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے۔“ اس لئے ان کے اندر کوئی بھلائی داخل نہیں ہوسکتی اور وہ اپنے دینی اور دنیاوی مصالح کو محسوس نہیں کرتے۔ ﴿فَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ ﴾ ” پس وہ نہیں جانتے۔“ کہ یہ اس گناہ کی سزا ہے جس کا انہوں نے ارتکاب کیا ہے۔ التوبہ
94 اللہ تبارک و تعالیٰ نے دولت مند منافقین کے پیچھے رہنے کا ذخر کرتے ہوئے فرمایا کہ ان کے پیچھے رہنے کے لئے ان کے پاس کوئی عذر نہ تھا اور یہ بھی آگاہ فرمایا : ﴿يَعْتَذِرُونَ إِلَيْكُمْ إِذَا رَجَعْتُمْ إِلَيْهِمْ﴾ ” جب تم ان کے پاس واپس جاؤ گے تو تم سے عذر کریں گے۔“ یعنی جب تم ان کے پاس اپنے غزوہ سے واپس لوٹو گے تو یہ منافقین تمہارے پاس معذرت کریں گے۔ ﴿قُل﴾ آپ ان سے کہہ دیجئے ! ﴿ لَّا تَعْتَذِرُوا لَن نُّؤْمِنَ لَكُمْ﴾ ” تم بہانے مت بناؤ، ہم ہرگز تمہاری بات نہیں مانیں گے“ یعنی ہم تمہاری جھوٹی معذرتوں کی تصدیق نہیں کریں گے۔ ﴿قَدْ نَبَّأَنَا اللَّـهُ مِنْ أَخْبَارِكُمْ﴾ ” اللہ نے ہمیں تمہارے حالات سے خبردار کردیا ہے“ اور اللہ تعالیٰ اپنے قول میں سچا ہے اب معذرت پیش کرنے کا کوئی فائدہ نہیں، کیونکہ وہ ایسی ایسی معذرتیں پیش کر رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جو آگاہ فرمایا ہے وہ اس کے عین برعکس ہے اور یہ قطعاً محال ہے کہ اللہ تعالیٰ جس کے جھوٹ ہونے کی خبر دے رہا ہے وہ سچ ہو، اللہ تعالیٰ کی خبر تو صداقت کے بلند ترین مرتبے پر ہے۔ ﴿ ۚ وَسَيَرَى اللَّـهُ عَمَلَكُمْ وَرَسُولُهُ﴾ ” اللہ اور اس کا رسول تمہارے اعمال دیکھیں گے۔“ یعنی دنیا میں، کیونکہ عمل صداقت کی میزان سے اور عمل کے ذریعے سے سچ اور جھوٹ میں امتیاز ہوتا ہے۔ رہے مجرو اقوال تو ان کی صداقت کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ ﴿ثُمَّ تُرَدُّونَ إِلَىٰ عَالِمِ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ﴾ ” پھر تم غائب و حاضر کے جاننے والے کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔‘‘ جس سے کوئی چیز اوجھل نہیں۔ ﴿ فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ﴾ ” اور جو عمل تم کرتے رہے ہو وہ سب تمہیں بتائے گا۔“ یعنی تم برا یا بھلا جو کچھ کرتے ہو اللہ تعالیٰ تمہیں اس کے بارے میں آگاہ فرمائے گا اور تم پر ذرہ بھر ظلم کئے بغیر اپنے عدل اور فضل سے تمہارے اعمال کی جزا دے گا۔ واضح رہے کہ برائی کا ارتکاب کرنے والے کے تین احوال ہیں : (١) ظاہر اور باطن میں اس کی بات اور عذر کو قبول کیا جائے اور اس بناء پر اس کو معاف کردیا جائے اور اس کی یہ حالت ہوجائے گویا کہ اس نے گناہ کیا ہی نہیں۔ (٢) اس کو سزا دی جائے اور اس کے گناہ پر فعلی تعزیر دی جائے۔ (٣) گناہ کا ارتکاب کرنے والے سے اعراض کیا جائے اور اس نے جس گناہ کا ارتکاب کیا ہے اس کے بدلے میں عقوبت فعلی سے گریز کیا جائے۔ یہ تیسرا رویہ ہے جس کی بابت میں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ منافقین کے ساتھ یہی رویہ اختیار کیا جائے۔ بنا بریں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : التوبہ
95 ﴿ سَيَحْلِفُونَ بِاللَّـهِ لَكُمْ إِذَا انقَلَبْتُمْ إِلَيْهِمْ لِتُعْرِضُوا عَنْهُمْ ۖ فَأَعْرِضُوا عَنْهُمْ﴾ ” وہ تمہارے سامنے اللہ کی قسمیں کھائیں گے جب تم ان کی طرف واپس آؤ گے، تاکہ تم ان سے درگزر کرو، پس تم ان سے درگزر کرو۔“ یعنی ان کو زجرو تو بیخ کرو نہ ان کو مارو پیٹو اور نہ ان کو قتل کرو﴿ إِنَّهُمْ رِجْسٌ﴾ ” وہ ناپاک ہیں۔“ یعنی وہ ناپاک اور خبیث ہیں اور وہ اس قابل نہیں کہ ان کی پروا کی جائے، زخرو تو بیخ اور سزا بھی ان کے لئے مفید نہیں ﴿وَ﴾ ” اور“ ان کے لئے یہی کافی ہے کہ ﴿مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ﴾ ” ان کے کرتوتوں کی پاداش میں ان کا ٹھکانا جہنم ہے۔ “ التوبہ
96 اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿يَحْلِفُونَ لَكُمْ لِتَرْضَوْا عَنْهُمْ﴾ ” وہ قسمیں کھائیں گے تمہارے لئے، تاکہ تم ان سے راضی ہوجائے“ یعنی وہ تم سے یہ آخری مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ مجرد اعراض نہیں چاہتے، بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ تم ان سے راضی ہوجاؤ گویا کہ انہوں نے کوئی کوتاہی کی ہی نہیں ﴿فَإِن تَرْضَوْا عَنْهُمْ فَإِنَّ اللَّـهَ لَا يَرْضَىٰ عَنِ الْقَوْمِ الْفَاسِقِينَ ﴾ ” لیکن اگر تم ان سے خوش ہوجاؤ گے تو اللہ تو نافرمان لوگوں سے خوش نہیں ہوتا۔“ یعنی، اے مومنو ! تمہارے لیے مناسب نہیں کہ تم ان لوگوں پر رضا مندی کا اظہار کرو جن پر اللہ تعالیٰ راضی نہیں بلکہ تم پر واجب ہے کہ تم اپنے رب کی رضا اور ناراضی میں اس کی موافقت کرو۔ غور کیجئے اللہ تعالیٰ نے کیسے فرمایا ہے : ﴿ فَإِنَّ اللَّـهَ لَا يَرْضَىٰ عَنِ الْقَوْمِ الْفَاسِقِينَ  ﴾ ” بے شک اللہ فاسق لوگوں سے راضی نہیں ہوتا“ اور یہ نہیں فرمایا : ﴿فَإِنَّ اللَّـهَ لَا يَرْضَىٰ عَنْهُمْ﴾ ” ان سے راضی نہیں ہوتا“ تاکہ یہ اس بات کی دلیل ہو کہ توبہ کا دروازہ کھلا ہوا ہے اگر یہ یا کوئی اور جب بھی توبہ کرلیں تو اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول کرلیتا ہے اور ان پر راضی ہوجاتا ہے، لیکن جب تک وہ اپنے فسق پر جمے رہیں اس وقت تک اللہ تعالیٰ ان سے راضی نہیں ہوتا’ کیونکہ اس کی رضا کا مانع موجود ہے...... اور وہ ہے ان کا ان امور سے باہر نکلنا جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہیں مثلاً ایمان اور اطاعت اور ایسے امور میں داخل ہونا جو اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسند ہیں مثلاً شرک، نفاق اور نافرمانی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے جو کچھ ذکر فرمایا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ کسی عذر کے بغیر جہاد سے جی چرا کر پیچھے بیٹھ رہنے والے منافقین جب اہل ایمان کے سامنے عذر پیش کرتے ہیں اور وہ وو سمجھتے ہیں کہ پیچھے رہ جانے میں ان کے پاس عذر تھا تو وہ چاہتے ہیں کہ تم ان کے معاملے کو نظر انداز کر کے ان سے راضی رہو اور ان کا عذر قبول کرلو۔ رہا ان کا عذر قبول کرنا اور ان سے راضی ہونا تو اس میں ان سے کوئی محبت نہیں اور نہ ان کی کوئی تکریم ہے۔ رہا ان سے اعراض کرنا تو اہل ایمان ان سے اس طرح اعراض کیا کرتے تھے جس طرح ناپاک اور ردی امور سے اعراض کیا جاتا ہے۔ ان آیات کریمہ میں، اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿قَدْ نَبَّأَنَا اللَّـهُ مِنْ أَخْبَارِكُمْ﴾ سے اللہ تعالیٰ کے کلام کا اثبات ہوتا ہے اور اسی آیت کریمہ میں اور اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿وَسَيَرَى اللَّـهُ عَمَلَكُمْ وَرَسُولُهُ﴾ میں اللہ تعالیٰ کے افعال اختیاری کا اثبات بھی ہوتا ہے جو اس کی مشیت اور قدرت سے واقع ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ وہ ان کے عمل کو اس کے واقع ہونے کے بعد دیکھے گا۔ ان آیات کریمہ میں نیکوکاروں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی رضا اور فاسقین کے ساتھ ناراضی اور غصے کا اثبات ہوتا ہے۔ التوبہ
97 اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿ الْأَعْرَابُ﴾ ” بدوی“ اس سے مراد صحرا اور دیہات میں رہنے والے لوگ ہیں ﴿ أَشَدُّ كُفْرًا وَنِفَاقًا﴾ ” زیادہ سخت ہیں کفر اور نفاق میں۔“ یعنی صحرا میں رہنے والوں میں شہر کے ان لوگوں کی نسبت زیادہ کفر اور نفاق ہے جن میں نفاق کا مرض پایا جاتا ہے۔ اس کے بہت سے اسباب ہیں۔ (١) بدوی لوگ شریعت، اعمال اور احکام سے بہت دور ہوتے ہیں۔ پس وہ اسی قابل ہوتے ہیں ﴿وَأَجْدَرُ أَلَّا يَعْلَمُوا حُدُودَ مَا أَنزَلَ اللَّـهُ عَلَىٰ رَسُولِهِ ﴾ ” اور اس قابل ہیں کہ جو احکام اللہ نے اپنے رسول پر نازل فرمائے ہیں، مثلاً اصول ایمان اور او امرو نواہی وغیرہ۔۔۔۔ ان سے واقف نہ ہوں۔ اس کے برعکس شہر میں رہنے والے لوگ اس کے زیادہ قریب ہوتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ان حدود سے واقع ہوں جو اس نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمائی ہیں اور اس عمل کے سبب سے ان میں خوبصورت تصورات اور نیکی کے ارادے جنم لیتے ہیں جن کے بارے میں یہ شہری لوگ جانتے ہیں، بدوی ان کا علم نہیں رکھتے۔ (٢) شہریوں میں لطافت طبع پائی جاتی ہے اور ان میں داعی حق کی اطاعت کا جذبہ موجود ہوتا ہے جو بدویوں میں نہیں ہوتا۔ (٣) شہری بدویوں کی نسبت اہل ایمان کے ساتھ زیادہ اٹھتے بیٹھتے اور ان کے ساتھ زیادہ اختلاط رکھتے ہیں۔ بنا بریں اور بدویوں کی نسبت بھلائی کے زیادہ اہل ہوتے ہیں۔ ہرچند کہ کفار اور منافقین شہر اور دیہات دونوں جگہ پائے جاتے ہیں مگر دیہات میں شہر کی نسبت کفر و نفاق زیادہ شدید ہوتا ہے۔ (٤) بدوی مال و متاع کے زیادہ حریص ہوتے ہیں اور مال کے بارے میں ان میں زیادہ بخل پایا جاتا ہے۔ التوبہ
98 بدویوں ہی میں ایسے لوگ پائے جاتے ہیں ﴿مَن يَتَّخِذُ مَا يُنفِقُ﴾ ” وہ سمجھتے ہیں اس کو جسے وہ خرچ کرتے ہیں۔“ یعنی زکوٰۃ اور اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنے کو ﴿مَغْرَمًا﴾ ” تاوان“ یعنی خسارہ اور نقصان اور وہ اس سے اللہ تعالیٰ کی رضا اور اخروی ثواب نہیں چاہتے اور بہت ناگواری سے زکوٰۃ و صدقات ادا کرتے ہیں۔ ﴿ وَيَتَرَبَّصُ بِكُمُ الدَّوَائِرَ ﴾ ” اور انتظار کرتے ہیں وہ تم پر زمانے کی گردشوں کا“ یعنی اہل ایمان کے ساتھ اپنے بغض اور عداوت کی بنا پر وہ تمہارے بارے میں گردش ایام اور مصائب زمانہ کے منتظر ہیں مگر یہ گردش ایام الٹا انہی کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی ﴿عَلَيْهِمْ دَائِرَةُ السَّوْءِ ﴾ ” یہ بری مصیبت انہیں پر واقع ہوگی۔“ رہے اہل ایمان تو ان کے لئے ان کے دشمنوں کے مقابلے میں کامیابی اور ان کا انجام اچھا ہے ﴿وَاللَّـهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ﴾ ” اور اللہ علم رکھنے والا، حکمت والا ہے۔“ وہ بندوں کی نیتوں کو خوب جانتا ہے اور بندوں سے جو اعمال اخلاص کے ساتھ اور اخلاص کے بغیر صادر ہوتے ہیں وہ ان سے بھی آگاہ ہے۔ التوبہ
99 تمام اعراب قابل مذمت نہیں ہیں، بلکہ ان میں سے کچھ ایسے لوگ بھی ہیں ﴿مَن يُؤْمِنُ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ﴾ ” جو اللہ اور آخرت کے دن پر یقین رکھتے ہیں“ بنا بریں وہ کفر و نفاق سے بچے ہوئے ہیں اور ایمان کے تقاضوں کے مطابق عمل کرتے ہیں۔ ﴿وَيَتَّخِذُ مَا يُنفِقُ قُرُبَاتٍ عِندَ اللَّـهِ ﴾ ” اور جو وہ خرچ کرتے ہیں اسے اللہ کے نزدیک ہونے میں شمار کرتے ہیں“ یعنی وہ اپنے صدقے پر ثواب کی امید رکھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول اور اس کے قرب کے قصد سے صدقہ دیتے ہیں۔ ﴿وَصَلَوَاتِ الرَّسُولِ﴾ ” اور رسول کی دعائیں لینے میں“ اور وہ اس صدقہ کو اپنے لئے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعاؤں اور برکت کا وسیلہ بناتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعاؤں کے فائدہ مند ہونے کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے : ﴿أَلَا إِنَّهَا قُرْبَةٌ لَّهُمْ ﴾ ”سنو وہ بے شک ان کے لیے موجب قربت ہے۔“ یعنی یہ صدقات اللہ تعالیٰ کی تقرب کا ذریعہ ہیں۔ صدقات سے ان کا مال بڑھتا ہے اور اس میں برکت نازل ہوتی ہے ﴿سَيُدْخِلُهُمُ اللَّـهُ فِي رَحْمَتِهِ﴾ ” اللہ ان کو عنقریب اپنی رحمت میں داخل کرے گا۔“ وہ ان کو اپنے جملہ نیک بندوں میں شامل کرے گا۔ ﴿إِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ﴾ ” بے شک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔“ جو کوئی توبہ کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے بڑے بڑے گناہوں کو بخش دیتا ہے۔ وہ اپنی رحمت کو اپنے تمام بندوں پر عام کرتا ہے، اس کی بے پایاں رحمت ہر چیز پر سایہ کناں ہے۔ وہ اپنے مومن بندوں کو ایسی رحمت کے لئے مخصوص کرتا ہے جس کے تحت وہ ان کو نیکیوں کی توفیق عطا کرتا ہے اور انہیں اپنے احکام کی خلاف ورزی سے محفوظ رکھتا ہے اور انہیں مختلف انواع کے ثواب عطا کرتا ہے۔ 1۔ اس آیت کریمہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ بدوی لوگ بھی شہروں میں رہنے والے لوگوں کی مانند ہیں ان میں قابل ستائش لوگ بھی ہیں اور قابل مذمت بھی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے بدویوں کی محض اس بنا پر مذمت نہیں فرمائی کہ وہ صحراؤں میں رہنے والے ہیں، بلکہ ان کی مذمت اس سبب کی بنا پر کی ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے اوا مرکو ترک کردیا اور اوامرو منہیات کی عدم تعمیل کی ان سے زیادہ توقع ہوتی ہے۔ 2۔ کفر اور نفاق کم یا زیادہ اور حسب احوال سخت یا نرم ہوتا رہتا ہے۔ 3۔ یہ آیات کریمہ دلالت کرتی ہیں کہ علم کو فضیلت حاصل ہے۔ علم سے محروم شخص، اس شخص کی نسبت شر کے زیادہ قریب ہے جو علم رکھتا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اعراب کی مذمت کرتے ہوئے آگاہ فرمایا کہ وہ کفر اور نفاق میں بہت سخت ہیں اور اللہ تعالیٰ نے اس سبب کا ذکر بھی کیا ہے جو اس درشتی کا موجب ہے۔ ان سے زیادہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ ان حدود سے ناواقف ہوں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل کی ہیں۔ 4۔ علم نافع، جو سب سے زیادہ نفع مند علم ہے، دین کے اصول و فروع کی حدود کی معرفت ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل فرمائی ہیں، مثلاً حدود ایمان، حدود اسلام، حدود احسان، تقویٰ، فلاح، اطاعت، نیکی، صلہ رحمی، بھلائی، کفر، نفاق، فسق و فجور، نافرمانی، زنا، شراب نوشی اور سود خوری وغیرہ کی حدود۔ ان حدود کی معرفت کے بعد ہی عارف ان حدود پر عمل پیرا ہوسکتا ہے جن پر عمل کرنے کا حکم دیا گیا ہے یا حرام ہونے کی صورت میں ترک کرنے پر قادر ہوسکتا ہے۔ 5۔ بندہ مومن کے لئے یہی مناسب ہے کہ وہ شرح صدر اور اطمینان قلب کے ساتھ ان حقوق کو ادا کرے جو اس کے ذمے عائد کیے گئے ہیں اور ہمیشہ فائدہ حاصل کرنے میں کوشاں رہے اور نقصان سے بچتا رہے۔ التوبہ
100 ﴿وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ﴾ ” جو لوگ قدیم ہیں سب سے پہلے“ اس سے مراد اس امت کے وہ لوگ ہیں جنہوں نے ایمان، ہجرت، جہاد اور اقامت دین میں سبقت کی۔ ﴿ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ﴾ ” ہجرت کرنے والوں میں سے۔“ یعنی وہ لوگ جن کو ان کے گھروں اور مال و متاع سے بے دخل کر کے نکال دیا گیا، وہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور اس کی رضا کی تلاش میں رہتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی مدد کرتے ہیں۔ یہی درحقیقت سچے لوگ ہیں۔ ﴿وَالْأَنصَارِ﴾ ” اور انصار میں سے۔“ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے مہاجرین سے پہلے، ہجرت کے گھر (یعنی مدینہ منورہ) اور ایمان میں جگہ پکڑی، جو کوئی ہجرت کر کے ان کے پاس جاتا ہے یہ اس سے محبت کرتے ہیں اور جو کچھ ان کو عطا کیا گیا ہے وہ اس کے متعلق دل میں کوئی خلش نہیں پاتے اور مہاجرین کو اپنے آپ پر ترجیح دیتے ہیں خواہ ان کو خود احتیاج ہی کیوں نہ ہو۔ ﴿وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ﴾ ” اور جنہوں نے ان کی پیروی کی نیکی کے ساتھ“ جنہوں نے عقائد، اقوال اور اعمال میں ان مہاجرین و انصار کی پیروی کی، یہی وہ لوگ ہیں جو مذمت سے بچے ہوئے ہیں، جنہیں مدح کا بلند ترین درجہ اور اللہ کی طرف سے کرامت کا افضل ترین مقام حاصل ہے۔ ﴿ رَّضِيَ اللَّـهُ عَنْهُمْ﴾ ” اللہ ان سے راضی ہوگیا“ اور اللہ تعالیٰ کی رضا جنت کی نعمتوں سے بھی بڑی ہے۔ ﴿ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ﴾ ” اور وہ اللہ سے راضی ہوگئے اور اس نے ان کے لئے ایسے باغ تیار کئے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں۔‘‘ بہنے والی وہ نہریں جو جنت، جنت کے خوبصورت پھلواریوں اور جنت کے عمدہ باغات کو سیراب کرتی ہیں۔ ﴿خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا﴾ ” ہمیشہ اس میں رہیں گے ابد تک۔“ یعنی وہ اس جنت سے کسی اور جگہ منتقل ہونا چاہیں گے نہ اس کو بدلنا، کیونکہ وہ جب بھی کسی چیز کی تمنا کریں گے اس کو حاصل کرلیں گے اور جب بھی کسی چیز کا ارادہ کریں گے اس کو موجود پائیں گے۔ ﴿ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ﴾ ” یہی ہے بڑی کامیابی۔“ جہاں انہیں ان کے نفس کی ہر محبوب چیز، روح کی لذت،دلوں کی نعمت اور بدن کی شہوت حاصل ہوگی اور بچنے کے قابل ہر چیز کو ان سے دور رکھا جائے گا۔ التوبہ
101 ﴿وَمِمَّنْ حَوْلَكُم مِّنَ الْأَعْرَابِ مُنَافِقُونَ ۖ وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ﴾ ” اور تمہارے گرد رہنے والے گنواروں میں سے بعض منافق ہیں اور بعض مدینے والوں میں سے“ یعنی مدینہ میں بھی منافقین موجود ہیں ﴿مَرَدُوا عَلَى النِّفَاقِ﴾ ” اڑے ہوئے ہیں وہ نفاق پر“ یعنی نفاق کے عادی ہیں اور نفاق میں ان کی سرکشی بڑھتی جا رہی ہے ﴿ لَا تَعْلَمُهُمْ ﴾ ” آپ ان کو نہیں جانتے۔“ یعنی آپ ان کے اعیان کو نہیں جانتے کہ آپ ان کو سزا دے سکیں یا ان کے نفاق کے مطابق ان کے ساتھ معاملہ کرسکیں۔ اس میں بھی اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی حکمت پنہاں ہے۔ ﴿نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ ۚ سَنُعَذِّبُهُم مَّرَّتَيْنِ﴾ ” ہم ان کو جانتے ہیں، ہم ان کو دو مرتبہ عذاب دیں گے۔“ اس میں اس بات کا احتمال ہے کہ ”تثنیہ“ کا لفظ اپنے حقیقی باب (معنی) میں استعمال ہوا ہو، تب اس سے مراد دنیا کا عذاب اور آخرت کا عذاب ہے۔ پس دنیا میں اہل ایمان کی فتح و نصرت سے ان کو جو غم و ہموم اور سخت ناگواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وہ دنیا کا عذاب ہے اور آخرت میں ان کے لئے جہنم کا عذاب ہے جو بہت ہی برا ٹھکانا ہے اور یہ احتمال بھی موجود ہے کہ اس سے مراد یہ ہو کہ ہم ان کو نہایت سخت عذاب دیں گے، ان کو دگنا عذاب دیں گے اور بار بار عذاب دیں گے۔ التوبہ
102 ﴿وَآخَرُونَ ﴾ ” اور دوسرے لوگ ہیں“ مدینہ اور اس کے اردگرد رہنے والے دیگر لوگ، بلکہ تمام بلا داسلامیہ کے لوگ ﴿ اعْتَرَفُوا بِذُنُوبِهِمْ﴾ ” انہوں نے اپنے گناہوں کا اقرار کیا۔“ ان پر نادم ہوئے، پھر وہ گناہوں سے توبہ کرنے اور ان کی گندگی سے پاک و صاف ہونے کی کوشش کرنے لگے۔ ﴿خَلَطُوا عَمَلًا صَالِحًا وَآخَرَ سَيِّئًا﴾ ” ملایا انہوں نے ایک نیک کام اور دوسرا برا کام۔“ عمل اس وقت تک صالح نہیں ہوسکتا جب تک کہ بندے کے پاس توحید کی اساس اور ایمان موجود نہ ہو جو اسے کفر اور شرک کے دائرے سے باہر نکالتا ہے اور جو ہر عمل صالح کے لئے شرط ہے۔ پس ان لوگوں نے بعض محرمات کے ارتکاب کی جسارت اور بعض واجبات کی ادائیگی میں کوتاہی کرتے ہوئے نیک اعمال کو بداعمال کے ساتھ غلط ملط کرلیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ پر امید رکھتے ہیں کہ وہ ان کے گناہوں کو بخش دے گا۔ تو پس یہی وہ لوگ ہیں ﴿ عَسَى اللَّـهُ أَن يَتُوبَ عَلَيْهِمْ﴾ ” ممکن ہے اللہ ان کی توبہ قبول کرلے۔‘‘ اللہ تعالیٰ دو طرح سے اپنے بندے کی توبہ قبول کرتا ہے۔ (١) اپنے بندے کو توبہ کی توفیق عطا کرتا ہے۔ (٢) پھر بندے کے توبہ کرنے کے بعد اس توبہ کو قبول کرتا ہے۔ ﴿إِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴾ ” بے شک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔“ یعنی مغفرت اور رحمت اس کا وصف ہے، کوئی مخلوق اس کی مغفرت اور رحمت سے باہر نہیں، بلکہ اس کی مغفرت اور رحمت کے بغیر تمام عالم علوی اور عالم سفلی باقی نہیں رہ سکتے۔ اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کو ان کے ظلم کی پاداش میں پکڑ لے تو روئے زمین پر کوئی جاندار نہیں بچے گا۔ ﴿إِنَّ اللَّـهَ يُمْسِكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ أَن تَزُولَا ۚ وَلَئِن زَالَتَا إِنْ أَمْسَكَهُمَا مِنْ أَحَدٍ مِّن بَعْدِهِ ۚ إِنَّهُ كَانَ حَلِيمًا غَفُورًا﴾ (فاطر : 35؍41)” اللہ ہی آسمانوں اور زمین کو تھامے ہوئے ہے کہ وہ ٹل نہ جائیں، اگر وہ ٹل جائیں، تو اللہ کے سوا کوئی ایسی ہستی نہیں جو اس کو تھام سکے بے شک وہ بہت حلم والا، بخشنے والا ہے۔“ یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی مغفرت ہی ہے کہ اپنی جانوں پر زیادتی کرنے والے، جن کی عمریں برے اعمال میں صرف ہوتی ہیں، جب وہ اپنی موت سے تھوڑا سا پہلے بھی اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کر کے اس کے حضور توبہ کرلیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کو معاف کر کے ان کی برائیوں سے درگزر کردیتا ہے۔ پس یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ جس بندے کی نیکیاں اور گناہ ملے جلے ہوں، وہ اپنے گناہوں کا معترف اور ان پر نادم ہو اور اس نے خالص توبہ کی ہو، وہ خوف ورجاء کے مابین ہوتا ہے وہ سلامتی کے زیادہ قریب ہوتا ہے۔ اور وہ بندہ جس کی نیکیاں اور گناہ خلط ملط ہوں مگر وہ اپنے گناہوں کا معترف ہو نہ ان پر نادم ہو بلکہ وہ ان گناہوں کے ارتکاب پر مصر ہو، تو اس کے بارے میں سخت خوف ہے۔ التوبہ
103 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے قائم مقائم کو ان امور کا حکم دیتا ہے جو اہل ایمان کی تطہیر اور ان کے ایمان کی تکمیل کرتے ہیں، چنانچہ فرماتا ہے : ﴿ خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً﴾ ” لیں ان کے مالوں سے صدقہ“ اس سے مراد فرض زکوٰۃ ہے ﴿تُطَهِّرُهُمْ﴾ ” آپ ان کو پاک کریں“ یعنی ان کو گناہوں اور اخلاق رذیلہ سے پاک کریں ﴿وَتُزَكِّيهِم ﴾ ” اور ان کا تزکیہ کریں“ یعنی آپ ان کی نشونما کریں، ان کے اخلاق حسنہ، اعمال صالح اور ان کے دنیاوی اور دینی ثواب میں اضافہ کریں اور ان کے مالوں کو بڑھائیں۔ ﴿وَصَلِّ عَلَيْهِمْ﴾ ” اور ان کے حق میں دعا کیجئے“ تمام مومنین کے لئے عام طور پر اور خاص طور پر اس وقت جب وہ اپنے مال کی زکوٰۃ آپ کی خدمت میں پیش کریں۔ ﴿ إِنَّ صَلَاتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ ﴾ ” آپ کی دعا ان کے لئے موجب تسکین ہے۔“ یعنی آپ کی دعا ان کے لئے اطمینان قلب اور خوشی کا باعث ہے ﴿وَاللَّـهُ سَمِيعٌ﴾ ” اور اللہ سننے والا“ یعنی اللہ آپ کی دعا کو قبال کرنے کے لئے سنتا ہے ﴿عَلِيمٌ ﴾ ”جاننے والا ہے۔“ وہ اپنے بندوں کے تمام احوال اور ان کی نیتوں کو خوب جانتا ہے، وہ ہر شخص کو اس کے عمل اور اس کی نیت کے مطابق جزا دے گا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی تعمیل فرمایا کرتے تھے۔ آپ ان کو صدقات کا حکم دیتے تھے اور صدقات کی وصولی کے لئے اپنے عمال بھیجا کرتے تھے، جب کوئی صدقہ لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا تو آپ اسے قبول فرما لیتے اور اس کے لئے برکت کی دعا فرماتے۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ تمام اموال میں زکوٰۃ واجب ہے، جب یہ اموال تجارت کی غرض سے ہوں تو اس کا وجوب صاف ظاہر ہے، کیونکہ مال تجارت نمو کا حامل ہوتا ہے اور اس کے ذریعے سے مزید مال کمایا جاتا ہے، لہٰذا عدل کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو زکوٰۃ فرض کی ہے اسے ادا کر کے فقرا سے ہمدردی کی جائے۔ مال تجارت کے علاوہ دیگر مال، اگر نمو اور اضافے کا حامل ہو، جیسے غلہ جات،پھل، مویشی، مویشیوں کا دودھ اور ان کی نسل وغیرہ تو اس میں زکوٰۃ واجب ہے۔ اگر مال نمو کے قابل نہ ہو تو اس میں زکوٰۃ واجب نہیں، کیونکہ جب یہ مال خالص خوراک اور گزارے کے لئے ہے تو یہ ایسا مال نہیں ہے جسے انسان عادۃً متمول ہونے کے لئے رکھتا ہے جس سے مالی مقاصد حاصل کئے جاتے ہیں، بلکہ اس سے مالی فوائد کی بجائے صرف گزارہ کیا جاتا ہے۔ اس آیت کریمہ میں اس بات کی بھی دلیل ہے کہ انسان اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کئے بغیر ظاہری اور باطنی طور پر پاک نہیں ہوسکتا۔ زکوٰۃ کی ادائیگی کے سوا کوئی چیز اس کا کفارہ نہیں بن سکتی، کیونکہ زکوٰۃ تطہیر اور پاکیزگی ہے جو زکوٰۃ کی ادائیگی پر موقوف ہے۔ اس آیت کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ امام یا اس کے نائب کا زکوٰۃ ادا کرنے والے کے لئے برکت کی دعا کرنا مستحب ہے اور مناسب یہ ہے کہ امام باآواز بلند دعا کرے،تاکہ اس سے زکوٰۃ دا کرنے والے کو سکول قلب حاصل ہو۔ اس آیت کریمہ سے یہ معنی بھی نکلتا ہے کہ مومن کے ساتھ نرم گفتگو اور اس کے لئے دعا وغیرہ اور ایسی باتوں کے ذریعے سے اس کو خوش رکھا جائے جن میں اس کے لئے طمانیت اور سکون قلب ہو۔ التوبہ
104 کیا وہ اللہ تعالیٰ کی بے پایاں رحمت اور اس کے فضل و کرم کے فیضان عام کو نہیں جانتے؟ ﴿ يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ ﴾ ” اللہ ہی اپنے بندوں سے توبہ قبول کرتا ہے۔“ توبہ کرنے والے بندوں کی، خواہ یہ توبہ کسی بھی گناہ سے کیوں نہ ہو بلکہ جب توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ پر بہت زیادہ خوش ہوتا ہے۔ ﴿وَيَأْخُذُ الصَّدَقَاتِ﴾ ” اور صدقات لیتا ہے۔“ یعنی وہ اپنے بندوں کے صدقات قبول کرتا ہے اور ان کو دائیں ہاتھ سے لیتا اور ان کے صدقات کو اس طرح بڑھاتا رہتا ہے جس طرح کوئی شخص اپنے بچھڑے کی پرورش کرتا ہے حتیٰ ٰ کہ صدقہ میں دیا گیا کھجور کا ایک دانہ بڑے پہاڑ کی مانند ہوجاتا ہے اور اس صدقہ کا کیا حال ہوگا جو کھجور کے دانے سے بہت بڑا اور تعداد میں بہت زیادہ ہو۔ ﴿وَأَنَّ اللَّـهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ ﴾ ” اور بے شک اللہ ہی توبہ قبول کرنے والا ہے۔“ یعنی وہ توبہ کرنے والوں کی بہت کثرت سے توبہ قبول کرتا ہے۔ جو کوئی بھی توبہ کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی توبہ کو قبول کرلیتا ہے خواہ وہ بار بار گناہ کا ارتکاب کیوں نہ کرتا ہو۔ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں کی توبہ قبول کرنے سے اس وقت تک تنگ نہیں آتا جب تک کہ بندے توبہ کرنے سے تنگ نہ آجائیں اور اس کے دروازے سے بھاگ کر اس کے دشمن کو دوست نہ بنا لیں۔ ﴿الرَّحِيمُ﴾ ” بہت رحم کرنے والا ہے۔“ جس کی بے پایاں رحمت ہر چیز پر سایہ کناں ہے، جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے متقی بندوں کے لئے لکھ دیا ہے جو زکوٰۃ دیتے ہیں، اللہ کی آیت پر ایمان رکھتے ہیں اور اس کے رسول کی اتباع کرتے ہیں۔ التوبہ
105 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرماتا ہے : ﴿وَقُلِ﴾ ” اور کہہ دیجئے !“ یعنی ان منافقین سے کہہ دیجئے ! ﴿اعْمَلُوا﴾ ”عمل کیے جاؤ۔“ یعنی تم جو اعمال بجا لانا چاہتے ہو بجا لاؤ، اپنے باطل پر جمے رہو اور یہ نہ سمجھو کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ سے چھپا رہے گا۔ ﴿فَسَيَرَى اللَّـهُ عَمَلَكُمْ وَرَسُولُهُ وَالْمُؤْمِنُونَ﴾ ” پھر دیکھ لے گا اللہ تمہارے کام کو اور اس کا رسول اور مومن“ یعنی تمہارا عمل ضرور ظاہر ہو کر رہے گا۔ ﴿وَسَتُرَدُّونَ إِلَىٰ عَالِمِ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ ﴾ ”اور جلد تم لوٹائے جاؤ گے اس کے پاس جو تمام چھپی اور کھلی چیزوں کو جانتا ہے، پس وہ تم کو ان عملوں کی خبر دے گا جو تم کرتے تھے۔“ وہ اچھے ہوں گے یا برے۔ اس آیت کریمہ میں اس شخص کے لئے سخت وعید اور تہدید ہے جو اپنے باطل، سرکشی، گمراہی اور نافرمانی پر مصر ہے۔ اس میں اس معنی کا بھی احتمال ہے کہ تم جب بھی کوئی اچھا یا برا عمل کرتے ہو اللہ تعالیٰ اسے جانتا ہے، وہ اس عمل کے بارے میں اپنے رسول اور اپنے مومن بندوں کو مطلع کر دے گا، خواہ وہ چھپے ہوئے ہی کیوں نہ ہوں۔ التوبہ
106 ﴿وَآخَرُونَ ﴾ ” اور کچھ دوسرے لوگ“ یعنی جہاد سے پیچھے رہ جانے والے کچھ دوسرے لوگ ﴿مُرْجَوْنَ لِأَمْرِ اللَّـهِ﴾ ” جن کا کام اللہ کے حکم پر موقوف ہے۔“ یعنی جن کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے حکم پر موخر ہے ﴿إِمَّا يُعَذِّبُهُمْ وَإِمَّا يَتُوبُ عَلَيْهِمْ ﴾ ” چاہے ان کو عذاب دے، چاہے ان کی توبہ قبول کرلے۔“ اس آیت کریمہ میں جہاد سے پیچھے رہ جانے والوں کے لئے سخت تخویف ہے اور ان کو توبہ کرنے اور اپنے اس عمل پر نادم ہونے کی ترغیب دی گئی ہے۔ ﴿وَاللَّـهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ ﴾ ” اور اللہ جاننے والا حکمت والا ہے۔“ یعنی وہ تمام اشیاء کو ان کے لائق مقام پر رکھتا ہے، اگر اللہ تعالیٰ کی حکمت تقاضا کرتی ہے کہ وہ ان کو اپنے حال پر چھوڑ دے اور ان کو توبہ کی توفیق نہ دے تو اللہ تعالیٰ ان کو اپنے حال پر چھوڑ دیتا ہے۔ التوبہ
107 اہل قبا میں سے کچھ منافقین نے مسجد قبا کے پہلو میں ایک مسجد بنائی اس مسجد کی تعمیر سے ان کا مقصد مسلمانوں کو نقصان پہنچانا اور ان کے درمیان اختلاف اور افتراق پیدا کرنا تھا، نیز اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے خلاف تخریب کاری کرنے والوں کے لئے بوقت ضرورت محفوظ پناہ گاہ تیار کرنا تھا، اللہ تعالیٰ نے ان کی رسوائی کو بیان کرتے ہوئے ان کا بھید ظاہر کردیا، چنانچہ فرمایا : ﴿وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مَسْجِدًا ضِرَارًا﴾ ” اور وہ لوگ جنہوں نے ایک مسجد بنائی نقصان پہنچانے کے لئے“ یعنی اہل ایمان اور ان کی اس مسجد کو نقصان پہنچانے کی خاطر جس میں اہل ایمان جمع ہو کر نماز پڑھتے تھے ﴿ وَكُفْرًا﴾ ” اور کفر کے لئے“ اس مسجد کی تعمیر میں ان کا مقصد کفر تھا جبکہ ان کے علاوہ دیگر لوگوں کا مقصد ایمان تھا۔ ﴿وَتَفْرِيقًا بَيْنَ الْمُؤْمِنِينَ﴾ ” اور مومنوں کے درمیان پھوٹ ڈالنے کے لئے“ تاکہ اہل ایمان مختلف گروہوں میں تقسیم ہو کر افتراق کا شکار ہوجائیں اور آپس میں اختلاف کرنے لگیں ﴿وَإِرْصَادًا﴾ ” اور گھات لگانے کے لئے“ یعنی تیار کرنے کے لئے ﴿ لِّمَنْ حَارَبَ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ مِن قَبْلُ﴾ ” اس شخص کو جو لڑ رہا ہے اللہ اور اس کے رسول سے“ پہلے اللہ اور اس کے رسول کے خلاف جنگ کرنے والوں کی اعانت کے لئے، جن کی جنگ اور تخریب کاری پہلے ہی سے جاری اور جن کی عداوت بہت شدید تھی، مثلاً ابو عامر راہب کی عداوت اور اس کی سازشیں۔ ابو عامر اہل مدینہ میں سے تھا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو اس نے آپ کا انکار کردیا حالانکہ وہ زمانہ جاہلیت میں ایک عبادت گزار شخص تھا۔ وہ مشرکین کے پاس چلا گیا، تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف جنگ میں مشرکین سے مدد حاصل کرے مگر اسے اپنا مقصد حاصل نہ ہوا، چنانچہ وہ اس خیال سے قیصر روم کے پاس چلا گیا کہ وہ اس کی مدد کرے گا۔۔۔۔ مگر وہ لعین راستے ہی میں مر گیا۔ اس نے اور منافقین نے ایک دوسرے کی مدد کا وعدہ کر رکھا تھا، منافقین نے اس کی سازشوں کے لئے پناہ گاہ کے طور پر مسجد ضرار تعمیر کروائی تھی، چنانچہ اس بارے میں وحی نازل ہوئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس مسجد کو منہدم کرنے اور اس کو جلانے کے لئے کسی کو بھیجا۔ چنانچہ اس مسجد کو منہدم کر کے جلا دیا گیا اور اس کے بعد مسجد ضرار کی جگہ کوڑا ڈالنے کی جگہ بن گئی۔ اس مسجد کی تعمیر میں پنہاں ان کے برے مقاصد کو بیان کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ وَلَيَحْلِفُنَّ إِنْ أَرَدْنَا﴾ ” اور وہ قسمیں کھائیں گے کہ ہم نے نہیں ارادہ کیا“ یعنی اس مسجد کی تعمیر سے ﴿إِلَّا الْحُسْنَىٰ﴾ ” مگر بھلائی ہی کا“ یعنی کمزور، معذور اور نابینا اہل ایمان کے ساتھ بھلائی کرنا مقصود ہے۔ ﴿وَاللَّـهُ يَشْهَدُ إِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ ﴾ ” اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ یہ جھوٹے ہیں۔‘‘ پس ان کے خلاف اللہ تعالیٰ کی گواہی ان کے حلف سے زیادہ معتبر ہے۔ التوبہ
108 ﴿لَا تَقُمْ فِيهِ أَبَدًا﴾ ” آپ اس میں کبھی کھڑے بھی نہ ہونا۔“ یعنی اس مسجد میں، جو مسلمانوں کو ضرر پہنچانے کے لئے تعمیر کی گئی ہے،کبھی نماز نہ پڑھیے۔ اللہ آپ کو اس سے بے نیاز کرتا ہے اور آپ اس مسجد کے ضرورت مند بھی نہیں۔ ﴿لَّمَسْجِدٌ أُسِّسَ عَلَى التَّقْوَىٰ مِنْ أَوَّلِ يَوْمٍ﴾ ” البتہ وہ مسجد جس کی بنیاد پہلے ہی دن سے تقویٰ پر رکھی گئی“ قبا میں اسی مسجد سے اسلام ظاہر ہوا، اس سے مراد ” مسجد قبا“ ہے۔ جس کی اساس دین میں اللہ تعالیٰ کے لئے اخلاص، اس کے ذکر کی اقامت اور اس کے شعائر پر رکھی گئی ہے۔ یہ قدیم اور معروف مسجد تھی۔ یہ فضیلت والی مسجد ﴿أَحَقُّ أَن تَقُومَ فِيهِ﴾ ” زیادہ قابل ہے کہ آپ اس میں کھڑے ہوا کریں“ یعنی اس بات کی زیادہ مستحق ہے کہ آپ اس میں عبادت اور اللہ تعالیٰ کا ذکر کریں، کیونکہ یہ فضیلت والی مسجد ہے، اس میں نماز پڑھنے والے فضیلت کے مالک ہیں‘ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ان کی مدح کرتے ہوئے فرمایا : ﴿فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَن يَتَطَهَّرُوا﴾ ” اس میں ایسے لوگ ہیں جو اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ وہ پاک رہیں“ یعنی گناہوں سے اور میل کچیل، نجاستوں اور ناپاکی سے پاک صاف رہنا پسند کرتے ہیں اور یہ بات معلوم ہے کہ جو کوئی کسی چیز کو پسند کرتا ہے وہ اس کے حصول کی سعی اور جہدوجہد کرتا ہے، اس لئے یہ لا بدی ہے کہ اہل قبا گناہ، میل کچیل اور حدیث سے پاک رہنے کے بہت حریص تھے۔ اس لئے وہ ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے اسلام قبول کرنے میں سبقت کی، جو نماز قائم کرنے والے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معیت میں جہاد کی حفاظت کرنے والے‘ اقامت دین کی کوشش کرنے والے اور اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت سے بچنے والے تھے۔ جب اہل قبا کی مدح میں یہ آیت کریمہ نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی طہارت کے بارے میں ان سے پوچھا تو انہوں نے عرض کی کہ وہ استنجا کرتے وقت پتھر کے بعد پانی استعمال کرتے ہیں’ تو اللہ تعالیٰ نے ان کے اس فعل پر ان کی تعریف فرمائی۔ ﴿وَاللَّـهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ﴾ ” اللہ پاک رہنے والوں کو پسند کرتا ہے“ اللہ تعالیٰ معنوی طہارت یعنی شرک اور اخلاق رذیلہ سے تنزہ اور حسی طہارت یعنی نجاستوں اور حدیث سے پاکیزگی کو پسند کرتا ہے۔ التوبہ
109 پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس مسجد میں نماز پڑھنے والوں کے مقاصد اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے ساتھ ان کی موافقت کے مطابق اس مسجد کی دیگر مساجد پر فضیلت بیان کی، چنانچہ فرمایا : ﴿أَفَمَنْ أَسَّسَ بُنْيَانَهُ عَلَىٰ تَقْوَىٰ مِنَ اللَّـهِ ﴾ ” بھلا جس شخص نے بنیاد رکھی اللہ کے تقویٰ پر“ یعنی جو صالح نیت اور اخلاص پر بنیاد رکھتا ہے ﴿ وَرِضْوَانٍ﴾ ” اور اس کی رضا مندی پر“ یعنی اللہ تعالیٰ کے حکم کی موافقت کرتے ہوئے اپنے عمل میں اخلاص اور اتباع کو جمع کرتا ہے ﴿خَيْرٌ أَم مَّنْ أَسَّسَ بُنْيَانَهُ عَلَىٰ شَفَا جُرُفٍ هَارٍ﴾ ” زیادہ بہتر ہے یا وہ شخص جس نے اپنی عمارت کی بنیاد رکھی ایک کھائی کے کنارے پر جو گرنے کو ہے“ یعنی کھوکھلے اور بوسیدہ کنارے پر، جو منہدم ہونے کے قریب ہو۔ ﴿فَانْهَارَ بِهِ فِي نَارِ جَهَنَّمَ ۗ وَاللَّـهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ ﴾ ” پھر وہ اس کو لے کر گر پڑا جہنم کی آگ میں اور اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا“ کیونکہ اس (مسجد ضرار) کے گرانے میں (اہل حق) کے دین اور دنیا کے مصالح ہیں۔ التوبہ
110 ﴿لَا يَزَالُ بُنْيَانُهُمُ الَّذِي بَنَوْا رِيبَةً فِي قُلُوبِهِمْ ﴾ ” ہمیشہ رہے گا اس عمارت سے جو انہوں نے بنائی، ان کے دلوں میں شبہ“ یعنی شک اور ریب، جو ان کے دل میں جڑ پکڑ گیا ﴿إِلَّا أَن تَقَطَّعَ قُلُوبُهُمْ﴾ ” مگر یہ کہ ٹکڑے ہوجائیں ان کے دل کے“ سوائے اس کے کہ انتہائی ندامت کی بنا پر ان کے دل ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں، وہ اپنے رب کی طرف توبہ کے ساتھ رجوع کریں اور اللہ تعالیٰ سے بہت زیادہ ڈریں، تب اس بنا پر اللہ تعالیٰ ان کو معاف کر دے گا۔ ورنہ یہ مسجد جو انہوں نے بنائی ہے ان کے شک و ریب اور نفاق میں اضافہ کرتی چلی جائے گی۔ ﴿وَاللَّـهُ عَلِيمٌ﴾ اور اللہ تعالیٰ تمام اشیاء کے ظاہر و باطن اور ان کے خفی اور جلی تمام پہلوؤں کو جانتا ہے، نیز وہ ان باتوں کو بھی خوب جانتا ہے جو بندے چھپاتے ہیں یا ظاہر کرتے ہیں۔ ﴿حَكِيمٌ﴾ وہ صرف وہی کام کرتا ہے یا تخلیق کرتا ہے یا وہ حکم دیتا ہے یا منع کرتا ہے، جس کا تقاضا اس کی حکمت کرتی ہے فللّٰہ الحمد۔ ان آیات کریمہ سے متعدد فوائد مستفاد ہوتے ہیں : (١) کوئی ایسی مسجد تعمیر کرنا جس سے کسی دوسری مسجد کو نقصان پہنچانا مقصود ہو جو اس کے قرب موجود ہے، حرام ہے، نیز یہ کہ ایسی مسجد ضرار کو، جس کی تعمیر کرنے والوں کا مقصد ظاہر ہو، منہدم کرنا واجب ہو۔ (٢) کام خواہ کتنا ہی فضیلت والا کیوں نہ ہو، فاسد نیت اس کی نوعیت کو بدل ڈالتی ہے، تب وہی کام ممنوع ہوجاتا ہے، جیسے مسجد ضرار کی تعمیر کرنے والوں کی بری نیت نے ان کے اس نیک کام کو برائی میں بدل ڈالا۔ (٣) ہر وہ حالت جس کے ذریعے سے اہل ایمان میں تفرقہ پیدا کیا جائے، گناہ شمار ہوتی ہے اس کو ترک کرنا اور اس کا ازالہ ضروری ہے۔ اسی طرح ہر وہ حالت جس سے اہل ایمان میں اتفاق اور الفت پیدا ہوتی ہے، اس کی پیروی کرنا، اس کا حکم اور اس کی ترغیب دینا ضروری ہے، کیونکہ اس کے مسجد ضرار تعمیر کرنے کی یہ علت بیان کی ہے کہ یہ ان کا فاسد مقصد تھا جو اس مسجد کے ممنوع ہونے کا موجب بنا، جیسے یہ مسجد کفر اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے خلاف جنگ کی موجب ہے۔ (٤) اس سے یہ بھی مستفاد ہوتا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے معصیت کے مقامات میں نماز پڑھنے اور ان کے قریب جانے سے روکا ہے۔ (٥) گناہ زمین کے ٹکڑوں کو متاثر کرتے ہیں جیسے ان منافقین کے گناہ مسجد ضرار پر اثر انداز ہوئے اور اس مسجد میں نماز پڑھنے سے روک دیا گیا۔ اسی طرح نیکی زمین کے ٹکڑوں پر اثر انداز ہوتی ہے جیسے مسجد قبا پر اثر انداز ہوئی۔ حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے اس مسجد کے بارے میں فرمایا : ﴿لَّمَسْجِدٌ أُسِّسَ عَلَى التَّقْوَىٰ مِنْ أَوَّلِ يَوْمٍ أَحَقُّ أَن تَقُومَ فِيهِ﴾ بنا بریں مسجد قبا کو یہ فضیلت حاصل ہے جو کسی دوسری مسجد جو حاصل نہیں ہے۔ حتیٰ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر ہفتے مسجد قبا کی زیارت کے لئے جایا کرتے تھے اور اس میں نماز پڑھنے کی ترغیب دیا کرتے تھے۔ (٦) آیت کریمہ میں مندرجہ بالا تعلیل سے چار اہم شرعی قاعدے بھی مستفاد ہوتے ہیں۔ (الف) ہر وہ کام جس سے کسی مسلمان کو نقصان پہنچتا ہو یا اس میں اللہ کی نافرمانی ہو۔۔۔۔ اور نافرمانی کفر کی ایک شاخ ہے۔۔۔۔ یا جس سے اہل ایمان میں تفرقہ پیدا ہوتا ہو یا اس سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے عداوت رکھنے والے کی اعانت ہوتی ہو، تو یہ کام ممنوع اور حرام ہے۔ اس کے برعکس اور متضاد تمام کام مستحب ہیں۔ (ب) چونکہ مسجد قبا وہ مسجد ہے جس کی اساس تقویٰ پر کھی گئی ہے (اس کی یہ فضیلت ہے) جبکہ مسجد نبوی جس کی بنیاد خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے رکھی، آپ نے اس میں کام بھی کیا، اللہ تعالیٰ نے بھی اس مسجد کو آپ کے لئے چن لیا، تو اس مسجد کی بنیاد بھی تقویٰ پر ہے اور یہ فضیلت میں زیادہ اولیٰ ہے۔ (ج) وہ عمل جو اخلاص اور اتباع رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر مبنی ہے۔ یہی وہ عمل ہے جس کی بنیاد تقویٰ پر رکھی گئی ہے جو اپنے عامل کو نعمتوں بھری جنت میں پہنچائے گا۔ (د) وہ عمل جو برے مقصد اور بدعت و ضلالت پر مبنی ہے یہی وہ عمل ہے جس کی بنیاد کھوکھلے اور بوسیدہ کنارے پر رکھی گئی ہے جو اپنے عامل کو جہنم میں لے گرتا ہے اور اللہ تعالیٰ ظالموں کی راہ نمائی نہیں کرتا۔ التوبہ
111 اللہ تبارک و تعالیٰ سچی خبر دیتا ہے، ایک عظیم بیع اور ایک بہت بڑے معاوضے کا سچا وعدہ کرتا ہے اور وہ بیع یہ ہے کہ ﴿اشْتَرَىٰ﴾ ” اس نے خرید لیا۔“ یعنی اللہ نے بنفس نفیس خرید لیا ﴿مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُم ﴾ ” مومنوں سے ان کی جانوں اور ان کے مالوں کو“ یعنی ان کی جان اور ان کے مال کی قیمت لگا دی گئی ہے اور یہ فروخت شدہ مال تجارت ہے۔ ﴿بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ﴾ ” اس کے بدلے میں ان کے لئے (وہ) جنت ہے“ جس میں ہر وہ چیز ہوگی جس کی نفس خواہش کریں گے اور جس سے آنکھیں لذت حاصل کریں گی، یعنی انواع و اقسام کی لذتیں، فرحتیں، مسرتیں، خوبصورت حوریں اور دلکش مکانات ہوں گے۔ اس عقد و بیع کا وصف یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی خاطر، اس کے دشمنوں کے خلاف جہاد میں، اس کے کلمہ کو سر بلند کرنے اور اس کے دین کو غالب کرنے کے لئے اپنی جان اور مال خرچ کرتے ہیں۔ ﴿يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ فَيَقْتُلُونَ وَيُقْتَلُونَ﴾ ” وہ لڑتے ہیں اللہ کے راستے میں، پس مارتے ہیں اور مارے جاتے ہیں“ یہ عقد و بیع بہت سی تاکیدات کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے صادر ہوئی ہے ﴿وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنجِيلِ وَالْقُرْآنِ ۚ﴾ ”وعدہ ہوچکا ہے اس کے ذمے سچا، تورات میں، انجیل میں اور قرآن میں۔“ جو ان تمام کتابوں میں سب سے افضل و اعلیٰ کتاب ہے اور یہ کتابیں سب سے کامل کتابیں ہیں جو اس دنیا میں بھیجی گئیں اور ان کتابوں کو لانے والے سب سے کامل اور اولوالعزم رسول ہیں، یہ تمام کتابیں اس سچے وعدے پر متفق ہیں۔ ﴿وَمَنْ أَوْفَىٰ بِعَهْدِهِ مِنَ اللَّـهِ ۚ فَاسْتَبْشِرُوا﴾ ” اور کون ہے اللہ سے زیادہ قول کا پورا، پس خوشی کرو۔‘‘ اللہ تعالیٰ کے وعدے پر قائم رہنے والے مومنو ! ﴿بِبَيْعِكُمُ الَّذِي بَايَعْتُم بِهِ﴾ ” اس سودے پر جو تم نے اس سے کیا ہے“ تاکہ تم راضی اور خوش ہوجاؤ، ایک دوسرے کو خوشخبری دو اور ایک دوسرے کو جہاد کی ترغیب دو ﴿ وَذَٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ﴾ ” اور یہی بڑی کامیابی ہے۔“ جس سے بڑی اور جلیل القدر اور کوئی کامیابی نہیں، کیونکہ یہ کامیابی ابدی سعادت، دائمی نعمت اور اللہ تعالیٰ کی رضا، جو کہ جنت کی سب سے بڑی نعمت ہے، کو متضمن ہے۔ اگر آپ اس معاہدہ بیع کی قدر و منزلت کو جاننا چاہیں تو خریدار کی طرف دیکھیں کہ وہ کون ہے؟ وہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات گرامی ہے اور اس عوض کی طرف نظر کریں جو سب سے بڑا معاوضہ ہے اور اس معاوضے میں سب سے جلیل القدر چیز جنت ہے اور اس قیمت پر غور کریں جو اس معاوضے کے بدلے میں خرچ کی گئی ہے اور وہ ہے جان اور مال جو انسان کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب چیز ہے اور اس ہستی کی طرف دیکھیں جس کے ہاتھ پر یہ معاہدہ بیع منعقد ہوا ہے، وہ تمام رسولوں میں سب سے زیادہ شرف کی حامل ہستی ہے۔ یہ معاہدہ کون سی کتابوں میں رقم کیا گیا ہے؟ اللہ تعالیٰ کی عظیم کتابوں میں یہ معاہدہ تحریر کیا گیا ہے جو مخلوق میں سب سے افضل ہستیوں پر نازل کی گئی ہیں۔ التوبہ
112 گویا کہ سوال کیا گیا ہے کہ وہ مومن کون ہیں جن کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جنت میں داخلے اور اس کی طرف سے عزت و اکرام کی خوشخبری ہے؟ تو اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿التَّائِبُونَ﴾ ” توبہ کرنے والے“ یعنی یہ وہ لوگ ہیں جو ہر وقت تمام گناہوں سے توبہ کا التزام کرنے والے ہیں ﴿الْعَابِدُونَ﴾ ” عبادت کرنے والے“ جو اللہ تعالیٰ کے لئے عبودیت کی صفت سے متصف ہیں، ہر وقت واجبات و مستحبات کی ادائیگی کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کی دائمی اطاعت کا التزام کرتے ہیں۔ جس کی بنا پر بندہ عبادت گزاروں میں شمار ہوتا ہے۔ ﴿الْحَامِدُونَ ﴾ ” حمد کرنے والے“ جو رنج و راحت، تنگ دستی اور خوشحالی میں اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کرتے ہیں، وہ اللہ تعالیٰ کی ظاہری اور باطنی نعمتوں کا اعتراف کرتے رہتے ہیں۔ دن رات ان نعمتوں کو یاد کر کے اللہ تعالیٰ کے ذکر کے ذریعے سے اس کی مدح و ثنا میں مصروف رہتے ہیں۔ ﴿السَّائِحُونَ﴾ ” سیاحت کرنے والے“ سیاحت کی تفسیر روزوں سے کی گئی ہے، یا طالب علم کے لئے سفر کرنے سے کی گئی ہے اور سیاحت کی تفسیر اللہ تعالیٰ کی معرفت و محبت اور اس کی طرف دائمی انابت میں قلب کی سیاحت سے کی گئی ہے۔ مگر اس کی صحیح تفسیر یہ ہے کہ سیاحت سے مراد اللہ تعالیٰ کے تقرب کے لئے حج، عمرہ، جہاد، طلب علم اور اقارب سے ملنے کے لئے سفر کرنا ہے۔ ﴿الرَّاكِعُونَ السَّاجِدُونَ﴾ ” رکوع کرنے والے سجدہ کرنے والے“ یعنی کثرت سے نماز پڑھتے ہیں جو رکوع و سجود پر مشتمل ہے۔ ﴿الْآمِرُونَ بِالْمَعْرُوفِ﴾ ” نیک بات کا حکم دینے والے ہیں“ اس میں تمام واجبات و مستحبات داخل ہیں ﴿ وَالنَّاهُونَ عَنِ الْمُنكَرِ ﴾ ” بری بات سے روکنے والے ہیں۔“ اس میں وہ تمام امور شامل ہیں جن سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے روکا ہے۔ ﴿وَالْحَافِظُونَ لِحُدُودِ اللَّـهِ﴾ ” اللہ کی حدوں کی حفاظت کرنے والے ہیں“ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جو حدود نازل فرمائی ہیں’۔ یعنی اوامر و نواہی اور احکام میں کیا چیز داخل ہے اور کیا چیز داخل نہیں ہے’ ان کا علم حاصل کر کے ان حدود کی حفاظت کرتے ہیں اور ترکا اور فعلا ان کا التزام کرتے ہیں۔ ﴿ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ ﴾ ” اور مومنوں کی خوش خبری سنا دیجئے“ یہاں اللہ تعالیٰ نے ذکر نہیں فرمایا کہ اہل ایمان کے لئے کسی چیز کی خوشخبری ہے تاکہ یہ خوشخبری دین و دنیا اور آخرت کے ثواب کو شامل ہو جو ایمان پر مترتب ہوتا ہے۔ یہ خوشخبری ہر مومن کے لئے ہے۔ رہی اس خوشخبری کی مقدار اور اس کا وصف تو اہل ایمان کے احوال’ ان کے ایمان کی قوت’ ضعف اور اس کے تقاضے پر عمل کے مطابق ہوتی ہے۔ التوبہ
113 یعنی نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اہل ایمان کے لائق ہے نہ ان کے لئے زیبا ہے۔ ﴿أَن يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ﴾ ” کہ وہ ان لوگوں کے لئے استغفار کریں جنہوں نے (کفر یا اور اللہ تعالیٰ کی عبادت میں غیر اللہ کو) شریک کیا۔“ ﴿وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَىٰ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ﴾ ” اگرچہ وہ رشتے دار ہوں، اس بات کے واضح ہوجانے کے بعد کہ وہ جہنمی ہیں“ کیونکہ اس حال میں ان کے لئے بخشش کی دعا کرنا غلط اور ان کے لئے غیر مفید ہے، اس لئے یہ استغفار نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اہل ایمان کی شان کے لائق ہیں،کیونکہ جب وہ شرک کی حالت میں مر گئے یا یقینی طور پر معلوم ہوگیا کہ وہ شرک کی حالت میں مریں گے تو ان پر عذاب اور جہنم میں ہمیشہ رہنا واجب ہوگیا کسی شفاعت کرنے والے کی شفاعت اور ان کی بخشش کی دعا کرنے والے کی دعا ان کو کوئی فائدہ نہ دے گی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اہل ایمان پر واجب ہے کہ اپنے رب کی رضا اور ناراضی کے بارے میں اس کی موافقت کریں جس کو اللہ تعالیٰ نے دوست بنایا ہے اس سے موالات رکھیں اور جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنا دشمن قرار دیا ہے اس سے عداوت رکھیں اور جس شخص کے بارے میں یہ واضح ہوچکا ہو کہ وہ جہنمی ہے اس کے لئے استغفار کرنا اس کے منافی اور متناقض ہے۔ اگر اللہ رحمٰن کے خلیل ابراہیم علیہ السلام نے اپنے باپ کے لئے استغفار کیا تھا ﴿عَن مَّوْعِدَةٍ وَعَدَهَا إِيَّاهُ﴾ تو ایک وعدے کی بنا پر تھا جو انہوں نے اپنے باپ کے ساتھ ان الفاظ میں کیا تھا ﴿سَأَسْتَغْفِرُ لَكَ رَبِّي ۖ إِنَّهُ كَانَ بِي حَفِيًّا ﴾ (مریم : 19؍47) ”میں اپنے پروردگار سے آپ کے لئے ضرور دعا کروں گا کہ وہ آپ کو بخش دے کیونکہ وہ مجھ پر بہت مہربان ہے۔“ دا کا یہ وعدہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس وقت کیا تھا جب آنجناب علیہ السلام کو اپنے باپ کے انجام کا علم ہوا تھا۔ التوبہ
114 جب ابراہیم علیہ السلام پر واضح ہوگیا کہ ان کا باپ اللہ تعالیٰ کا دشمن ہے اور اسے موت بھی کفر ہی پر آئے گی اور وعظ و نصیحت نے اسے کوئی فائدہ نہ دیا ﴿تَبَرَّأَ مِنْهُ﴾ ” تو اس سے بیزار ہوگئے۔“ یعنی اپنے رب کی موافقت اور اس کی اتباع میں اس سے بیزاری کا اعلان کردیا۔ ﴿إِنَّ إِبْرَاهِيمَ لَأَوَّاهٌ ﴾ ” کچھ شک نہیں کہ ابراہیم علیہ السلام بڑے نرم دل تھے۔“ حضرت ابراہیم علیہ السلام تمام امور میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے بہت زیادہ رجوع کرنے والے اور بہت کثرت سے ذکر، دعا، استغفار کرنے والے اور اپنے رب کی طرف پلٹنے والے تھے۔ ﴿حَلِيمٌ﴾ ”نہایت بردبار تھے۔“ یعنی وہ مخلوق الٰہی پر بہت مہربان اور اپنے حق میں ان سے صادر ہونے والی کوتاہیوں اور لغزشوں سے درگزر کرنے والے تھے۔ جہلاء کی جہالت انہیں آپے سے باہر نہیں کرسکتی تھی۔ وہ کسی مجرم کا مقابلہ جرم کے ذریعے سے نہیں کرتے تھے۔ ان کے باپ نے ان سے کہا : ﴿ لَأَرْجُمَنَّكَ﴾ (مریم : 19؍46) ” میں تجھے سنگسار کر دوں گا۔“ جواب میں آپ نے فرمایا : ﴿سَلَامٌ عَلَيْكَ ۖ سَأَسْتَغْفِرُ لَكَ رَبِّ﴾ (مریم : 19؍47) ” آپ پر سلامتی ہو میں اپنے رب سے آپ کے لئے بخشش طلب کرتا رہوں گا۔“ پس تم پر واجب ہے کہ تم حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پیروی اور ہر معاملے میں ملت ابراہیم علیہ السلام کی اتباع کرو، سوائے آپ کے اس قول کے ﴿إِلَّا قَوْلَ إِبْرَاهِيمَ لِأَبِيهِ لَأَسْتَغْفِرَنَّ لَكَ﴾ (الممتحنۃ: 60؍4) ” ابراہیم علیہ السلام کے اس قول کے سوا جو انہوں نے باپ سے کہا تھا کہ میں آپ کے لئے مغفرت طلب کرتا رہوں گا۔“ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے بارے میں آگاہ کیا ہے۔ بنا بریں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : التوبہ
115 یعنی جب اللہ تعالیٰ کسی قوم کو ہدایت سے نوازتا ہے اور اسے صراط مستقیم پر گامزن رہنے کا حکم دیتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اس قوم پر اپنے احسان کی تکمیل کرتا ہے اور ان تمام ا مور کو ان پر واضح کردیتا ہے جن کے وہ محتاج ہیں اور ضرورت جن کا تقاجا کرتی ہے، پس وہ ان کے دین کے امور کے بارے میں گمراہ اور جاہل نہیں چھوڑتا۔ یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی بے پایاں رحمت کی دلیل ہے، نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ کی شریعت بندوں کی ان تمام ضروریات کو پورا کرتی ہے جن کے وہ اپنے دین کے اصول و فروع میں محتاج ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد : ﴿وَمَا كَانَ اللَّـهُ لِيُضِلَّ قَوْمًا بَعْدَ إِذْ هَدَاهُمْ حَتَّىٰ يُبَيِّنَ لَهُم مَّا يَتَّقُونَ﴾ ” اللہ ایسا نہیں کہ وہ کسی قوم کو راہ راست دکھانے کے بعد گمراہ کر دے جب تک کہ ان پر وہ امور واضح نہ کر دے جن سے وہ بچیں۔‘‘ میں اس معنی کا احتمال بھی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ ان پر وہ تمام امور واضح فرما دیتا ہے جن سے ان کو پرہیز کرنا چاہئے اور وہ ان پر عمل پیرا نہیں ہوتے، تو اللہ تعالیٰ ان کو واضح حق کو ٹھکرا دینے کی پاداش میں گمراہ کردیتا ہے، لیکن پہلا معنی زیادہ صحیح ہے۔ ﴿إِنَّ اللَّـهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ﴾ ” بے شک اللہ ہر چیز سے واقف ہے۔“ یعنی اس کا کامل اور ہر چیز کو شامل علم ہی ہے کہ اس نے تمہیں ان امور کی تعلیم دی جنہیں تم نہ جانتے تھے اور ہر وہ چیز تم پر واضح کردی ہے جس سے تم فائدہ اٹھاتے ہو۔ التوبہ
116 ﴿إِنَّ اللَّـهَ لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ يُحْيِي وَيُمِيتُ﴾ ” بے شک اللہ ہی ہے جس کے لئے آسمانوں اور زمین کی بادشاہت ہے وہی زندگی بخشتا ہے اور وہی موت دیتا ہے۔“ یعنی وہ زمین و آسمان کا مالک ہے وہ زندگی اور موت اور مختلف انواع کی تدابیر کے ذریعے سے اپنے بندوں کی تدبیر کرتا ہے جب اس کی تدبیر کونی و قدری میں کوئی خلل واقع نہیں ہوتا تو تدبیر دینی میں، جو اس کی الوہیت سے متعلق ہے، کیوں کر خلل واقع ہوسکتا ہے، وہ اپنے بندوں کو کیوں کر بیکار اور مہمل یا جاہل اور گمراہ چھوڑ سکتا ہے، حالانکہ وہ اپنے بندوں کا سب سے بڑا سرپرست ہے؟ بنا بریں فرمایا : ﴿وَمَا لَكُم مِّن دُونِ اللَّـهِ مِن وَلِيٍّ﴾ ” اور اللہ کے سوا تمہارا کوئی حمایتی نہیں“ جو تمہاری سرپرستی کرے اور تمہیں مختلف قسم کی منفعتیں عطا کرے۔ ﴿وَلَا نَصِيرٍ﴾ ” اور نہ کوئی مددگار“ جو تم سے مضرتیں دور کر کے تمہاری مدد کرے۔ التوبہ
117 اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا لطف و احسان ہے کہ ﴿تَّابَ اللَّـهُ عَلَى النَّبِيِّ﴾ ” مہربان ہوا وہ اپنے پیغمبر پر“ ﴿وَالْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنصَارِ﴾ ” اور مہاجرین اور انصار پر“ پس ان کی تمام لغزشیں معاف کردیں’ انہیں بے شمار نیکیاں عطا کیں اور انہیں بلند ترین مراتب پر فائز فرمایا اور اس کا سبب یہ ہے کہ انہوں نے نہایت مشکل اور مشقت سے لبریز عمل کئے، اسی لئے فرمایا: ﴿لَّذِينَ اتَّبَعُوهُ فِي سَاعَةِ الْعُسْرَةِ﴾ ” جو ساتھ رہے اس پیغمبر کے مشکل کی گھڑی میں“ یعنی وہ غزوہ تبوک میں دشمن کے ساتھ جنگ کے لئے آپ کے ساتھ نکلے، سخت گرمی کا موسم تھا، سامان سفر اور سواریوں وغیرہ کی قلت اور دشمن کی افرادی تعداد زیادہ تھی۔ یہ ایسے حالات تھے جو لوگوں کے پیچھے رہنے کا باعث بنے ہیں۔ پس اس صورت میں وہ اللہ تعالیٰ سے مدد کے طالب گار ہوئے اور اس پر قائم رہے ﴿مِن بَعْدِ مَا كَادَ يَزِيغُ قُلُوبُ فَرِيقٍ مِّنْهُمْ ﴾ ” بعد اس کے کہ قریب تھا کہ دل پھرجائیں ان میں سے کچھ لوگوں کے“ یعنی ان کے دل آرام و راحت اور سکون کی طرف مائل تھے مگر اللہ تعالیٰ نے ان کو ثابت قدمی عطا کی، ان کی تائید کی اور ان کو قوت سے نوازا اور زیغ قلب (دل کے پھر جانے) سے مراد ہے قلب کا صراط مستقیم سے انحراف کرنا۔ اگر یہ انحراف اصول دین میں ہو تو یہ کفر ہے اور اگر انحراف شرائع کے احکام میں ہو تو یہ انحراف اس حکم شریعت کے مطابق ہوگا جس سے انحراف کیا گیا ہے۔ یہ انحراف یا تو اس حکم شریعت پر عمل کی کوتاہی کے سبب سے ہوتا ہے یا اس شرعی حکم پر غیر شرعی طریقے سے عمل کرنے کے باعث ہوتا ہے فرمایا : ﴿ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ﴾ ” پھر وہ مہربان ہوا ان پر“ یعنی اللہ نے ان کی توبہ قبول فرما لی۔ ﴿إِنَّهُ بِهِمْ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ ﴾ ” بے شک وہ ان پر نہایت شفقت کرنے والا مہربان ہے۔“ یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت و رافت ہے کہ اس نے ان کو توبہ کی توفیق سے نوازا پھر ان کی توبہ کو قبول فرمایا اور ان کو اس توبہ پر ثابت قدم رکھا۔ التوبہ
118 ﴿وَعَلَى الثَّلَاثَةِ الَّذِينَ خُلِّفُوا﴾ ” اور ان تینوں پر پھر (اللہ مہربان ہوا) جن کا معاملہ ملتوی کیا گیا تھا۔“ اور اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ان تین حضرات کی توبہ قبول کرلی جو اس غزوہ میں جہاد کے لئے مسلمانوں کے ساتھ نہ نکل سکے تھے۔ وہ تھے کعب بن مالک اور ان کے ساتھی (ہلال بن امیہ اور مرارہ بن ربیع رضی اللہ عنہم ) ان کا قصہ صحاح اور سنن میں مشہور و معروف ہے۔ [صحيح بخاري، كتاب التفسير، باب ﴿و علي الثلاثة .... الخ﴾ حديث: 4677] ﴿حَتَّىٰ إِذَا﴾ یہاں تک کہ جب وہ بہت زیادہ غم زدہ ہوگئے ﴿وَ ضَاقَتْ عَلَيْهِمُ الْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ﴾ ” اور زمین باوجود فراخی کے ان پر تنگ ہوگئی“ یعنی اپنی وسعت اور کشادگی کے باوجود ﴿وَضَاقَتْ عَلَيْهِمْ أَنفُسُهُمْ ﴾ ” اور تنگ ہوگئیں ان پر ان کی جانیں“ جو کہ انہیں ہر چیز سے زیادہ محبوب تھیں۔ پس کشادہ فضا ان کے لئے تنگ ہوگئی اور ہر محبوب چیز ان کے لئے تنگ ہوگئی جو عادۃً کبھی ان کے لئے تنگ نہ تھی۔ یہ صورت حال صرف اسی وقت ہوتی ہے جب کوئی انتہائی گھبراہٹ والا معاملہ ہو جو شدت اور مشقت میں اس حد تک پہنچ گیا ہو جس کی تعبیر ممکن نہ ہو اور اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضا کو ہر چیز پر مقدم رکھتے تھے۔ ﴿وَظَنُّوا أَن لَّا مَلْجَأَ مِنَ اللَّـهِ إِلَّا إِلَيْهِ ﴾ ” اور وہ سمجھ گئے کہ کہیں پناہ نہیں اللہ سے مگر اسی کی طرف“ یعنی انہیں یقین ہوگیا اور اپنے حال کے ذریعے سے ان کو معلوم ہوگیا کہ ان سختیوں سے نجات دینے والا اور جس کے پاس پناہ لی جائے اللہ وحدہ لا شریک لہ کے سوا کوئی نہیں، تب مخلوق کے ساتھ ان کا تعلق منقطع ہوگیا اور انہوں نے اپنے رب کے ساتھ اپنا تعلق جوڑ لیا۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ سے بھاگ کر اللہ ہی کے پاس پناہ لی۔ وہ پچاس راتوں تک اس شدت اور کیفیت میں مبتلا رہے۔ ﴿ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ﴾ ” پھر مہربان ہوا ان پر“ یعنی اللہ نے ان کو توبہ کی اجازت دے دی اور ان کو توبہ کی توفیق سے نواز دیا ﴿ لِيَتُوبُوا﴾ ” تاکہ وہ توبہ کریں۔“ تاکہ ان کی طرف سے توبہ واقع ہو اور اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول فرما لے ﴿إِنَّ اللَّـهَ هُوَ التَّوَّابُ﴾ ” بے شک اللہ توبہ قبول کرنے والا ہے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ بہت کثرت سے توبہ قبول کرتا ہے، بہت کثرت سے معاف کرتا ہے اور بہت کثرت سے لغزشوں اور نقائص کو بخش دیتا ہے۔ ﴿ الرَّحِيمُ﴾ عظیم رحمت اس کا وصف ہے جو ہر آن، ہر وقت اور ہر لحظہ اس کے بندوں پر نازل ہوتی رہتی ہے جس سے ان کی دنیاوی اور دینی امور سر انجام پاتے ہیں۔ (١) ان آیات کریمہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندے کی توبہ قبول کرنا، جلیل ترین مقصد اور بلند ترین منزل ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے توبہ کو اپنے خاص بندوں کا مقام و منزل قرار دیا ہے۔ جب بندے ایسے اعمال کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہیں اور جن سے وہ راضی ہے، تو اللہ تعالیٰ ان کو توبہ کی منزل سے نوازتا ہے۔ (٢) اللہ تبارک و تعالیٰ کا لطف و کرم ان پر سایہ کناں رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو ہلا دینے والے مصائب کے وقت ان کے ایمان میں ثابت قدم اور استقامت عطا کرتا ہے۔ (٣) ان آیات کریمہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ نفس پر شاق گزرنے والی عبادت ایسی فضیلت کی حامل ہوتی ہے جو کسی اور عبادت میں نہیں ہوتی۔ عبادت میں مشقت جتنی زیادہ ہوگی اجر اتنا ہی بڑا ہوگا۔ (٤) بندے کی اپنے گناہ پر ندامت اور تاسف کے مطابق اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرتا ہے۔ جو کوئی گناہ کی پرواہ نہیں کرتا اور گناہ کے ارتکاب پر کوئی حرج محسوس نہیں کرتا، تو اس کی توبہ عیب دار اور کھوکھلی ہے اگرچہ وہ اس زعم میں مبتلاہوتا ہے کہ اس کی توبہ مقبول ہے۔ (٥)جب قلب مخلوق سے کٹ کر کامل طور پر اللہ تعالیٰ کے ساتھ متعلق ہوجائے، تو یہ بھلائی اور شدت (تنگی) کے زوال کی علامت ہے۔ (٦)ان تینوں اصحاب پر یہ اللہ تعالیٰ کا لطف و کرم تھا کہ اس نے ان کوکسی ایسے وصف سے موصوف نہیں کیا جو ان کے لئے عار کا باعث ہو، چنانچہ فرمایا : ﴿ خُلِّفُوا﴾ ” جو پیچھے چھوڑ دیئے گئے“ اور یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اہل ایمان ان کو پیچھے چھوڑ گئے تھے یا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان کو ان لوگوں سے پیچھے چھوڑ دیا گیا، جن کو ان کی معذرت کے قبول یارد کے سلسلے میں علیحدہ کردیا گیا تھا اور یہ ان کا پیچھے رہ جانا بھلائی سے روگردانی کی بناء پر نہ تھا، اسی لئے ﴿تَخَلَّفُوا﴾ کا لفظ استعمال نہیں فرمایا۔ (٧) اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کو صدق سے نوازا اور اسی لئے ان کی اقتدار کا حکم دیا، چنانچہ فرمایا : التوبہ
119 ﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ﴾ ” اے اہل ایمان ! اللہ سے ڈرتے رہو۔“ یعنی اللہ تعالیٰ اور ان امور پر ایمان رکھنے والو ! جن پر ایمان رکھنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ ایمان کے تقاضوں کو پورا کرو اور وہ ہے اللہ تعالیٰ کی منہیات سے اجتناب اور ان سے دور رہ کر تقویٰ کا التزام۔ ﴿وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ﴾ ” اور سچوں کے ساتھ رہو۔‘‘ یعنی ان لوگوں کے ساتھ رہو جو اپنے اقوال، افعال اور احوال میں سچے ہیں۔ جن کے اقوال سچے ہیں، جن کے اعمال و احوال صدق پر مبنی ہیں، جو کسل مندی اور فتور سے خالی اور برے مقاصد سے محفوظ ہیں، جو اخلاص اور نیک نیتی پر مشتمل ہیں۔ صدق نیکی کی طرف راہ نمائی کرتا ہے اور نیکی جنت میں لے جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿هَـٰذَا يَوْمُ يَنفَعُ الصَّادِقِينَ صِدْقُهُمْ ۚ﴾ (المائدۃ: 5؍119) ” آج وہ دن ہے کہ راست بازوں کو ان کی راست بازی فائدہ دے گی۔ “ التوبہ
120 اللہ تبارک و تعالیٰ مدینہ منورہ میں رہنے والے مہاجرین و انصار اور مدینہ منورہ کے ارد گرد رہنے والے اعراب کو، جو اسلام لائے اور انہوں نے اپنے اسلام کو صحیح کرلیا، ترغیب دیتے ہوئے فرماتا ہے : ﴿مَا كَانَ لِأَهْلِ الْمَدِينَةِ وَمَنْ حَوْلَهُم مِّنَ الْأَعْرَابِ أَن يَتَخَلَّفُوا عَن رَّسُولِ اللَّـهِ﴾ ” اور نہیں چاہئے مدینے والوں کو اور ان کے ارد گرد رہنے والے گنواروں کو کہ وہ پیچھے رہ جائیں رسول اللہ کے ساتھ سے“ یعنی یہ بات ان کو زیبا نہیں اور نہ ان کے احوال کے لائق ہے ﴿وَلَا يَرْغَبُوا بِأَنفُسِهِمْ﴾ ” اور نہ یہ کہ وہ اپنی جانوں کو چاہیں“ اپنے نفس کی بقاء اور اپنی راحت و سکون کی خاطر ﴿عَن نَّفْسِهِ ۚ﴾ ” رسول کی جان سے زیادہ“ یعنی اپنے نفس کی تو حفاظت کریں، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نفس زکیہ و کریمہ کی حفاظت سے روگردانی کریں، بلکہ اس کے برعکس انکا رویہ یہ ہونا چاہئے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ا ہل ایمان کو اپنی جانوں سے زیادہ عزیز ہوں۔ ہر مسلمان پر فرض ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی ذات پر مقدم رکھے اور آپ پر اپنی جان قربان کر دے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم، آپ سے محبت اور آپ پر کامل ایمان کی علامت یہ ہے کہ اہل ایمان آپ کو چھوڑ کر پیچھے نہ رہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس ثواب کا ذکر فرمایا جو جہاد کے لئے نکلنے پر آمادہ کرتا ہے۔ فرمایا : ﴿ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ﴾ ” یہ اس واسطے کہ وہ“ یعنی اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے والے ﴿لَا يُصِيبُهُمْ ظَمَأٌ وَلَا نَصَبٌ﴾ ”نہیں پہنچتی ان کو کوئی پیاس اور نہ محنت“ یعنی تھکان اور مشقت ﴿وَلَا مَخْمَصَةٌ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ﴾ ” اور نہ بھوک اللہ کی راہ میں۔“ ﴿وَلَا يَطَئُونَ مَوْطِئًا يَغِيظُ الْكُفَّارَ﴾ ” اور نہیں قدم رکھتے کہیں جس سے کہ خفا ہوں کافر“ یعنی ان کے دیار میں گھس جانے اور ان کے وطن پر قبضہ کر لینے کی وجہ سے ﴿وَلَا يَنَالُونَ مِنْ عَدُوٍّ نَّيْلًا ﴾ ” اور نہیں چھینتے وہ دشمن سے کوئی چیز“ مثلاً لشکر یا سریہ کے ذریعہ سے فتح و ظفر یا مال غنیمت کا حصول ﴿إِلَّا كُتِبَ لَهُم بِهِ عَمَلٌ صَالِحٌ ۚ﴾ ” مگر اس کے بدلے ان کے لئے نیک عمل لکھ دیا جاتا ہے“ کیونکہ یہ وہ آثار ہیں جو ان کے اعمال سے جنم لیتے ہیں۔ ﴿إِنَّ اللَّـهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ﴾ ” کچھ شک نہیں کہ اللہ نیکوکاروں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔“ جو اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کے لئے احسن طریقے سے آگے بڑھتے ہیں، حقوق اللہ اور حقوق العباد کو پورا کرتے ہیں۔ پس یہ اعمال ان کے عمل کے آثار ہیں۔ پھر فرمایا : التوبہ
121 ﴿وَلَا يُنفِقُونَ نَفَقَةً صَغِيرَةً وَلَا كَبِيرَةً وَلَا يَقْطَعُونَ وَادِيًا ﴾ ” اور نہیں خرچ کرتے ہیں کوئی خرچ چھوٹا اور نہ بڑا اور نہیں طے کرتے کوئی میدان“ یعنی دشمن کی طرف جانے کے لئے ﴿إِلَّا كُتِبَ لَهُمْ لِيَجْزِيَهُمُ اللَّـهُ أَحْسَنَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ﴾ ” مگر لکھ لیا جاتا ہے ان کے لئے، تا کہ بدلہ دے انکو اللہ بہتر اس کام کا جو وہ کرتے تھے“ اور اسی میں یہ اعمال بھی شامل ہیں جب ان میں خیر خواہی اور اللہ تعالیٰ کے لئے اخلاص ہو۔ ان آیات کریمہ میں نفوس کے لئے جہاد فی سبیل اللہ کی ترغیب اور ان کو شوق دلایا گیا ہے اور جہاد میں تکالیف پہنچنے پر ثواب کی امید دلائی گئی ہے نیز یہ کہ جہاد ان کے لئے ترقی درجات کا باعث ہے۔ نیز ان آیات کریمہ سے یہ بھی مستفاد ہوتا ہے کہ بندہ مومن کے عمل پر مترتب ہونے والے آثار میں بہت بڑا اجر ہے۔ التوبہ
122 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو ان چیزوں سے آگاہ کرتے ہوئے، جو ان کے لائق ہیں، فرماتا ہے : ﴿وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنفِرُوا كَافَّةً﴾ ” اور ایسے تو نہیں مومن کہ کوچ کریں سارے“ یعنی یہ تو ہو نہیں سکتا کہ تمام کے تمام مومن دشمن کے خلاف جنگ کے لئے نکل پڑیں، کیونکہ اس طرح وہ مشقت میں پڑجائیں گے اور بہت سے دیگر مصالح فوت ہوجائیں گے۔ ﴿فَلَوْلَا نَفَرَ مِن كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ ﴾ ” پس کیوں نہ نکلا ہر گروہ میں سے“ یعنی شہروں، قبیلوں اور خاندانوں میں سے ﴿ طَائِفَةٌ﴾ ” ان کا ایک حصہ“ جس سے ان کا مقصد اور کفایت حاصل ہوجاتی تو یہ بہتر تھا۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کو آگاہ فرمایا کہ جو لوگ جہاد کے لئے نہیں نکلے اور پیچھے ٹھہر گئے ان کے نہ نکلنے میں کچھ مصالح تھے جو گھر سے نکلنے کی صورت میں ضائع ہوجاتے۔ پس فرمایا : ﴿لِّيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ﴾ ” تاکہ وہ سمجھ حاصل کریں دین میں“ یعنی پیچھے بیٹھ رہنے والے ﴿وَلِيُنذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ﴾ ” اور تاکہ ڈرائیں وہ اپنی قوم کو جب وہ لوٹیں ان کی طرف“ تاکہ وہ علم شریعت حاصل کرتے، اس کے معافی کی معرفت حاصل کرتے اور پھر دوسروں کو تعلیم دیتے اور جب واپس لوٹتے تو اپنی قوم کو ڈراتے۔۔۔ اس سے علم کی فضیلت مستفاد ہوتی ہے خاص طور پر دین میں سمجھ کی فضیلت، نیز یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ تفقہ فی الدین بہت اہم معاملہ ہے۔ اس آیت کریمہ میں اس بات کی بھی دلیل ہے کہ جو کوئی کسی قسم کا علم حاصل کرتا ہے تو اس پر فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ اس علم کو اللہ کے بندوں میں پھیلائے۔ اس بارے میں ان کے ساتھ خیر خواہی کرے، کیونکہ عالم سے علم کا پھیلنا اس کی برکت اور اس کا اجر ہے جو بڑھتا رہتا ہے۔ رہا عالم کا اپنے آپ پر اقتصار کرنا، حکمت و دانائی اور بہترین نصیحت کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کے راستے کی طرف دعوت نہ دینا، جہال کو ان امورکی تعلیم دینا ترک کردینا جو وہ نہیں جانتے۔۔۔۔۔ تو اس کے علم سے مسلمانوں کو کون سا فائدہ حاصل ہوا اور اس کے علم کا کیا نتیجہ نکلا؟ بس اس کی انتہا یہ ہے کہ اس عالم کے مر جانے کے ساتھ اس کا علم بھی موت کی آغوش میں چلا جائے گا۔ یہ اس شخص کی حرماں نصیبی کی انتہا ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے علم و فہم سے نوازا۔ نیز اس آیت کریمہ میں ایک اہم فائدہ کی طرف راہنمائی اور نہایت لطیف اشارہ ہے کہ مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اپنے مصالح عامہ میں سے ہر مصلحت کے لئے کچھ لوگوں کو تیار کریں جو ان مصالح کا انتظام کریں اور ان مصالح کے حصول کے لئے ہمہ وقت جدوجہد کریں اور وہ دیگر امور کی طرف التفات نہ کریں، تاکہ ان مصالح کا اچھی طرح انتظام ہو، تاکہ مسلمانوں کے مفادات کی تکمیل ہو اور تمام مسلمانوں کا مقصد ایک ہو اور وہ ہے ان کے دین و دنیا کے مصالح کا قیام۔ اگرچہ راستے مختلف ہوں، مشرب متعدد ہوں، کام ایک دوسرے سے جدا ہوں، مگر مقصد ایک ہو۔ تمام امور میں یہ عام حکمت نافعہ ہے۔ التوبہ
123 جنگی معاملات کی تدبیر میں اہل ایمان کی راہ نمائی کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس امر کی طرف راہنمائی فرمائی ہے کہ ان کفار سے ابتدا کی جائے جو سب سے قریب ہیں ان کے ساتھ رویہ سخت رکھا جائے اور جنگ میں ان کا نہایت سختی، بہادری اور ثابت قدمی کے ساتھ مقابلہ کیا جائے ﴿وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّـهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ﴾ ” اور جان رکھو کہ اللہ پرہیز گاروں کے ساتھ ہے۔“ یعنی تمہیں یہ علم ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد تقویٰ کے مطابق نازل ہوتی ہے، اس لئے تقویٰ کا التزام کرو، اللہ تعالیٰ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے دشمن کے خلاف تمہیں نصرت سے نوازے گا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد : ﴿قَاتِلُوا الَّذِينَ يَلُونَكُم مِّنَ الْكُفَّارِ ﴾ ” قریب کے کافروں سے قتال کرو۔“ عام ہے، تاہم جب مصلحت اس بات کا تقاضا کرے کہ ان کافروں کے ساتھ لڑائی کی جائے جو قریب نہیں ہیں، تو اس وقت ایسا کرنا ضروری ہوگا اور یہ خاص حکم اس عموم سے مستثنیٰ ہوگا، کیونکہ مصالح کی اقسام تو بے شمار ہیں۔ التوبہ
124 نزول قرآن کے وقت منافقین اور اہل ایمان کا جو حال ہوتا ہے، اور اس وقت ان کے درمیان جو تفاوت ہوتا ہے اسے بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿وَإِذَا مَا أُنزِلَتْ سُورَةٌ ﴾ ” اور جب کوئی سورت نازل ہوتی ہے“ جس کے اندر او امر و نواہی نازل کئے گئے ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اپنے بارے میں خبر دی گئی ہو، امور غائبہ سے آگاہ کیا گیا ہو اور جہاد کی ترغیب دی گئی ہو۔ ﴿فَمِنْهُم مَّن يَقُولُ أَيُّكُمْ زَادَتْهُ هَـٰذِهِ إِيمَانًا ۚ﴾ ” تو ان میں سے بعض کہتے ہیں، تم میں سے کس کا ایمان اس سورت نے زیادہ کیا؟“ یعنی دونوں گروہوں میں سے اسے استفہام حاصل ہے جسے اس سورت پر ایمان حاصل ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ان دونوں گروہوں کا حال واقع بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے : ﴿ فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا فَزَادَتْهُمْ إِيمَانًا﴾ ” پس جو لوگ ایمان رکھتے ہیں، ان کا ایمان اس سورت نے زیادہ کردیا“ اس سورت کے علم، اس کے فہم، اس پر اعتقاد، اس پر عمل، بھلائی کا کام میں رغبت اور برائی کے کام سے رکنے کے ذریعے سے ان لوگوں کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے جو اہل ایمان ہیں۔ ﴿وَهُمْ يَسْتَبْشِرُونَ﴾ ” اور وہ خوشخبری حاصل کرتے ہیں“ یعنی اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو جو اپنی آیت سے نوازا ہے اور ان کا فہم حاصل کرنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق بخشی ہے اس پر وہ ایک دوسرے کو خوشخبری دیتے ہیں۔ یہ چیز دلالت کرتی ہے کہ اہل ایمان کو آیت الٰہی پر انشراح صدر، اطمینان قلب اور سرعت اطاعت حاصل ہے، کیونکہ یہ آیت ان کو اس امر کی ترغیب دیتی ہیں۔ التوبہ
125 ﴿وَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ﴾ ” اور لیکن جن کے دلوں میں روگ ہے“ یعنی شک اور نفاق ہے ﴿فَزَادَتْهُمْ رِجْسًا إِلَىٰ رِجْسِهِمْ﴾ ”پس ان کو اس سورت نے بڑھا دیا گندگی پر گندگی میں“ یعنی ان کے مرض کے ساتھ مرض اور ان کے شک کے ساتھ مزید شک کا اضافہ ہوتا گیا، کیونکہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی آیت کے ساتھ کفر کیا۔ ان کے خلاف عناد رکھا اور ان سے روگردانی کی تھی۔ بنا بریں ان کا مرض بڑھ گیا تو اس مرض نے ان کو ہلاکت کے گڑھے میں پھینک دیا۔ ﴿وَ﴾ ” اور“ ان کے دلوں پر مہر لگا دی گئی ہے یہاں تک کہ ﴿مَاتُوا وَهُمْ كَافِرُونَ﴾ ” وہ مریں گے بھی تو کافر کے کافر۔‘‘ یہ ان کے لئے سزا ہے، کیونکہ انہوں نے اللہ تعالی کی آیت کا انکار کیا، اس کے رسول کی نافرمانی کی اس لئے اس کی پاداش میں اس دن تک کے لئے ان کے دلوں میں نفاق ڈال دیا، جس روز وہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کریں گے۔ التوبہ
126 اللہ تعالی اس بات پر کہ وہ کفر و نفاق پر جمے ہوئے ہیں ان کو زجرو توبیخ کرتے ہوئے فرماتا ہے : ﴿ أَوَلَا يَرَوْنَ أَنَّهُمْ يُفْتَنُونَ فِي كُلِّ عَامٍ مَّرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ﴾ ” کیا وہ نہیں دیکھتے کہ وہ آزمائے جاتے ہیں ہر برس ایک یا دو مرتبہ“ یعنی جو ان کو مصیبت پہنچتی ہے یا امراض لاحق ہوتے ہیں یا او امر الٰہیہ کے ذریعے سے ان کی آزمائش کی جاتی ہے ﴿ثُمَّ لَا يَتُوبُونَ﴾ “ پھر بھی وہ توبہ نہیں کرتے۔“ یعنی ان برائیوں سے توبہ نہیں کرتے جن کا وہ ارتکاب کرتے ہیں ﴿وَلَا هُمْ يَذَّكَّرُونَ﴾ ” اور نہ وہ نصیحت پکڑتے ہیں“ یعنی کیا چیز انہیں فائدہ دیتی ہے کہ وہ اسے اختیار کریں اور کیا چیز نقصان دیتی ہے کہ وہ اس کو ترک کردیں۔ پس اللہ تبارک و تعالیٰ۔۔۔۔ جیسا کہ تمام قوموں میں اس کی عادت ہے۔۔۔۔ ان کو تنگ دستی، فراخی اور او امر و نواہی کے ذریعے سے ان کو آزماتا ہے، تاکہ وہ اس کی طرف رجوع کریں مگر وہ توبہ کرتے ہیں نہ نصیحت پکڑتے ہیں۔ ان آیات کریمہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ ایمان گھٹتا بڑھتا ہے۔ مومن کو چاہئے کہ وہ اپنے ایمان کو ٹٹولتا اور اس کی حفاظت کرتا رہے، اس کی تجدید اور نشونما کرتا رہے، تاکہ اس کا ایمان ترقی کی منازل کی طرف گامزن رہے۔ التوبہ
127 یعنی وہ منافقین جو اس بات سے ڈرتے ہیں کہ کہیں ان کے بارے میں کوئی سورت نازل نہ ہوجائے جو ان کے دلوں کا بھید کھول دے ﴿ وَإِذَا مَا أُنزِلَتْ سُورَةٌ ﴾ ” جب ان پر کوئی سورت نازل کی جاتی ہے“ تاکہ وہ اس پر ایمان لائیں اور اس کے مضامین پر عمل کریں ﴿نَّظَرَ بَعْضُهُمْ إِلَىٰ بَعْضٍ﴾ ” تو وہ ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگتے ہیں۔“ تاکہ اہل ایمان کی نظروں سے چھپے رہیں اور کہتے ہیں ﴿هَلْ يَرَاكُم مِّنْ أَحَدٍ ثُمَّ انصَرَفُوا﴾ ” کیا دکھتا ہے تم کو کوئی مسلمان، پھر کھسک جاتے ہیں“ یعنی کھسک کر نکل جاتے ہیں اورمنہ موڑ کر لوٹ جاتے ہیں۔ تب اللہ ان کے عمل کی جنس ہی سے انہیں جزا دیتا ہے۔ پس جیسے انہوں نے عمل سے منہ پھیر لیا ﴿صَرَفَ اللَّـهُ قُلُوبَهُم ﴾ ” اللہ نے ان کے دلوں کو (حق سے) پھیر دیا“ یعنی روک دیا اور ان کو اپنے حال پر چھوڑ دیا ﴿بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَفْقَهُونَ﴾ ” کیونکہ یہ ایسے لوگ ہیں کہ سمجھ سے کام نہیں لیتے۔“ یعنی وہ ایسی سمجھ نہیں رکھتے جو ان کو فائدہ دے،کیونکہ اگر وہ سمجھ رکھتے ہوتے، تو جب بھی کوئی سورت نازل ہوتی، وہ اس پر ایمان لا کر اس کے احکام کی تعمیل کرتے۔ اس کا مقصد جہاد و غیرہ شرائع ایمان سے ان کی شدت نفور کو بیان کرنا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ ان کے بارے میں فرماتا ہے : ﴿فَإِذَا أُنزِلَتْ سُورَةٌ مُّحْكَمَةٌ وَذُكِرَ فِيهَا الْقِتَالُ ۙ رَأَيْتَ الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ يَنظُرُونَ إِلَيْكَ نَظَرَ الْمَغْشِيِّ عَلَيْهِ مِنَ الْمَوْتِ ۖ﴾ (محمد : 47؍20) ” جب کوئی محکم سورت نازل ہوتی ہے اور اس میں جہاد کا ذکر ہوتا ہے، تو جن لوگوں کے دلوں میں نفاق کا مرض ہے، آپ ان کو دیکھیں گے کہ وہ آپ کی طرف اس شخص کی طرح دیکھنے لگتے ہیں جس پر موت کی غشی طاری ہو۔‘‘ التوبہ
128 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے اہل ایمان بندوں پر اپنے احسان کا ذکر کرتا ہے کہ اس نے ان کے اندر نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا جو خود ان میں سے ہیں وہ آپ کا حال جانتے ہیں، وہ آپ سے اخذ کرنے کی قدرت رکھتے ہیں اور آپ کی اطاعت کرنے کو ناپسند نہیں کرتے اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے بے انتہا خیر خواہ اور ان کے مصالح کے لئے کوشش کرنے والے ہیں۔ ﴿عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ﴾ ”تمہاری تکلیف ان پر گراں گزرتی ہے۔“ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ہر وہ معاملہ بہت شاق گزرتا ہے جو تم پر شاق گزرتا ہے اور تمہیں تکلیف میں مبتلا کرتا ہے۔ ﴿حَرِيصٌ عَلَيْكُم﴾ ” حریص ہیں تمہاری بھلائی پر“ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمہارے لئے بھلائی پسند کرتے ہیں اور تمہیں بھلائی تک پہنچانے کے لئے بھرپور کوشش کرتے ہیں، ایمان تک تمہاری راہ نمائی کے خواہش مند ہیں۔ آپ شر کو سخت ناپسند کرتے ہیں اور شر سے تمہیں نفرت دلانے کے لئے پوری کوشش صرف کرتے ہیں۔ ﴿بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ﴾ ” اور مومنوں پر نہایت شفقت کرنے والے مہربان ہیں۔“ یعنی اہل ایمان کے لئے انتہائی رافت و رحمت کے حامل ہیں بلکہ وہ مومنوں کے لئے ان کے ماں باپ سے بھی بڑھ کر رحیم ہیں۔ بنا بریں آپ کا حق تمام مخلوق پر فائق اور مقدم ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانا، آپ کی تعظم کرنا، آپ کی عزت و توقیر کرنا تمام امت پر فرض ہے۔ التوبہ
129 ﴿فَإِن﴾ ” پس اگر“ وہ ایمان لے آئیں تو یہ ان کی خوش نصیبی اور توفیق الٰہی ہے۔ اور اگر وہ ﴿تَوَلَّوْا ﴾ ” پھر جائیں۔“ یعنی ایمان و عمل سے روگردانی کریں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے راستے پر گامزن رہیں اور ان کو دعوت دیتے رہیں۔ ﴿فَقُلْ حَسْبِيَ اللَّـهُ﴾ ” اور کہہ دیں ! کہ (تمام امور میں) میرے لئے اللہ کافی ہے۔“ ﴿ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ﴾ ” اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔“ ﴿عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ﴾ ” میں نے اسی پر توکل کیا۔“ یعنی امور نافعہ کے حصول اور ضرر رساں امور کو دور ہٹانے کے لئے، میں اسی پر اعتماد اور بھروسہ کرتا ہوں ﴿وَهُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ ﴾ ” اور وہی عرش عظیم کا رب ہے۔“ یعنی جب اللہ تعالیٰ اس عظیم عرش کا رب ہے جو تمام مخلوقات پر سایہ کناں ہے تو عرش سے کم تر مخلوق کا رب ہونا اولیٰ اور احریٰ ہے۔ التوبہ
0 یونس
1 ﴿الر ۚ تِلْكَ آيَاتُ الْكِتَابِ الْحَكِيمِ﴾ ” یہ آیتیں ہیں حکمت والی کتاب کی“ اور وہ کتاب یہ قرآن ہے جو تمام تر حکمت و احکام پر مشتمل ہے جس کی آیت کریمہ حقائق ایمانی اور شریعت کے او امر و نواہی پر دلالت کرتی ہیں جن کو برضا و رغبت قبول کرنا اور جن پر عمل کرنا تمام امت پر فرض ہے۔ بایں ہمہ اکثر لوگوں نے اس سے روگردانی کی۔ وہ اس کا علم نہیں رکھتے اس لئے انہیں سخت تعجب ہے۔ یونس
2 ﴿أَنْ أَوْحَيْنَا إِلَىٰ رَجُلٍ مِّنْهُمْ أَنْ أَنذِرِ النَّاسَ﴾ ” کہ ہم نے ان میں سے ایک مرد پروحی بھیجی کہ لوگوں کو ڈر سنائے“ یعنی لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرائے اور انہیں اس کی ناراضی کا خوف دلائے اور اللہ تعالیٰ کی آیات کے ذریعے سے ان کو نصیحت کرے۔ ﴿وَبَشِّرِ الَّذِينَ آمَنُوا﴾ ”اور خوش خبری دیں ایمان والوں کو“ جو صدق دل سے ایمان لائے ہیں ﴿ أَنَّ لَهُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِندَ رَبِّهِمْ ۗ﴾ ” کہ ان کے لئے مقام صدق ہے ان کے رب کے پاس“ یعنی ان کے لئے اپنے رب کے پاس وافر جزا اور جمع کیا ہوا ثواب ہے اور اس کا سبب یہ ہے کہ انہوں نے صدق پر مبنی اعمال صالحہ پیش کئے تھے۔ کفار کو اس عظیم شخص پر سخت تعجب ہے اور اس تعجب نے ان کو اس کے انکار پر آمادہ کیا۔ ﴿ قَالَ الْكَافِرُونَ ﴾ ” اور کفار (اس کے بارے میں) کہتے ہیں“ ﴿إِنَّ هَـٰذَا لَسَاحِرٌ مُّبِينٌ﴾ ” یہ تو واضح طور پر جادو گر ہے۔“ ان کے زعم کے مطابق اس کا جادو گر ہونا کسی پر مخفی نہیں اور یہ ان کی سفاہت اور عناد کی دلیل ہے۔ وہ ایسی بات پر تعجب کرتے ہیں جو ایسی انوکھی چیز نہیں جس پر تعجب کیا جائے۔ تعجب تو ان کی جہالت اور اس چیز پر ہونا چاہئے کہ انہیں اپنے مصالح کی معرفت حاصل نہیں۔ وہ اس رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کیسے ایمان نہیں لائے۔ جس کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے انہی میں سے چن کر رسول مبعوث کیا ہے وہ اسے اس طرح پہچانتے ہیں جس طرح پہچاننے کا حق ہے۔ پس انہوں نے اس کی دعوت کو ٹھکرا دیا اور اس کے دین کے ابطال کے سخت حریص ٹھہرے۔ مگر اللہ تعالیٰ اپنے نور کو مکمل کر کے رہتا ہے خواہ کفار کو ناگوار ہی کیوں نہ گزرے۔ یونس
3 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی ربوبیت، الوہیت اور عظمت بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے : ﴿إِنَّ رَبَّكُمُ اللَّـهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ﴾ “ بے شک تمہارا رب اللہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا“ اس کے باوجود کہ وہ زمین اور آسمان کو ایک لحظہ میں پیدا کرنے پر قادر ہے۔ مگر حکمت الٰہی انہیں اسی طرح تخلیق کرنے میں تھی وہ اپنے افعال میں بہت نرم اور مہربان ہے۔ یہ اس کی حکمت ہے کہ اس نے کائنات کو حق کے ساتھ اور حق کے لئے پیدا کیا، تاکہ اس کے اسماء و صفات کے ذریعے سے اس کی معرفت حاصل ہو نیز یہ کہ وہ اکیلا عبادت کا مستحق ہے۔ ﴿ثُمَّ﴾ ” پھر“ آسمانوں اور زمین کی تخلیق کے بعد ﴿اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ ﴾ ” وہ مستوی ہوا عرش پر۔“ وہ استواء ایسا ہے جو اس کی عظمت کے لائق ہے ﴿يُدَبِّرُ الْأَمْرَ﴾ ” وہ معاملے کا انتظام کرتا ہے۔“ یعنی وہ عالم علوی اور عالم سفلی کے تمام معاملات کی تدبیر کرتا ہے۔ موت دینا، زندہ کرنا، رزق نازل کرنا، لوگوں کے درمیان گردش ایام، ضرر رسیدہ لوگوں سے تکلیف دور کرنا اور سوال کرنے والوں کی ضرورت پوری کرنا۔ پس مختلف انواع کی تمام تدابیر اسی کی طرف سے نازل ہوتی ہیں اور اسی کی طرف بلند ہوتی ہیں۔ تمام کائنات اس کے غلبہ کے سامنے مطیع اور اس کی عظمت اور طاقت کے سامنے سرافگندہ ہے۔ ﴿مَا مِن شَفِيعٍ إِلَّا مِن بَعْدِ إِذْنِهِ ﴾ ” کوئی سفارش نہیں کرسکتا، مگر اس کی اجازت کے بعد“ جب تک اللہ تعالیٰ اجازت نہ دے کوئی شخص۔۔۔۔ خواہ وہ مخلوق میں سے افضل ہستی ہی کیوں نہ ہو۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ کے حضور کسی کی سفارش کے لئے آگے نہیں بڑگے گا اور وہ صرف اسی کے لئے سفارش کرے گا جس کے لئے اللہ تعالیٰ خود پسند کرے گا اور وہ صرف انہی کو پسند کرے گا جو اہل اخلاص اور اہل توحید ہوں گے۔ ﴿ذَٰلِكُمُ ﴾ “ یہی“ وہ ہستی جس کی یہ شان ہے ﴿ اللَّـهُ رَبُّكُمْ﴾ ” اللہ ہے، تمہارا رب“ یعنی وہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے جو اوصاف الوہیت اور صفات کمال کی جامع، اوصاف ربوبیت اور صفات افعال کی جامع ہے۔ ﴿ فَاعْبُدُوهُ﴾ ” پس تم اسی کی بندگی کرو“ یعنی عبودیت کی وہ تمام اقسام جن کو بجا لانے پر تم قادر ہو، صرف اس اکیلے کے لئے مخصوص کرو۔ ﴿ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ﴾ ” کیا تم نصیحت نہیں پکڑتے“ کیا تم ان دلائل سے نصیحت حاصل نہیں کرتے جو اس حقیقت پر دلالت کرتے ہیں کہ وہ واحد معبود حمد و ثناء کا مستحق اور جلال و اکرام کا مالک ہے۔ یونس
4 جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے حکم کونی و قدری، یعنی تدبیر عام اور اپنے حکم دینی یعنی اپنی شریعت، جس کا مضمون اور مقصود صرف اسی کی عبادت ہے جس کا کوئی شریک نہیں، کا ذکر فرمایا تو اپنے حکم جزائی کا ذکر بھی فرمایا۔ یعنی انسان کے مرنے کے بعد اس کے تمام اعمال کی جزا دینا، چنانچہ فرمایا : ﴿إِلَيْهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا﴾ ” اسی کی طرف تم سب کو لوٹ کر جانا ہے“ یعنی وہ تمہارے مرنے کے بعد ایک مقرر وقت پر تم سب کو جمع کرے گا ﴿وَعْدَ اللّٰہِ حَقًّا﴾ ” اللہ کا وعدہ سچا ہے۔“ یعنی اس کا وعدہ سچا ہے اور اس کا پورا ہونا لازمی ہے۔ ﴿ إِنَّهُ يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ﴾ ” وہی پیدا کرتا ہے پہلی بار، پھر دوبارہ پیدا کرے گا اس کو“ پس جو تخلیق کی ابتدا کرنے کی قدرت رکھتا ہے وہ اس کے اعادے پر بھی قادر ہے۔ لہٰذا وہ شخص جو ابتدائے تخلیق کو تسلیم کرتا ہے پھر وہ اعادہ تخلیق کا انکار کردیتا ہے، عقل سے عاری ہے جو دو مماثل اشیاء میں سے ایک کا انکار کرتا ہے حالانکہ وہ اس تخلیق کا اقرار کرچکا ہے جو زیادہ مشکل ہے۔۔۔۔ یہ زندگی بعد موت کی نہایت واضح عقلی دلیل ہے۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے نقلی دلیل کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : ﴿لِيَجْزِيَ الَّذِينَ آمَنُوا ﴾ ” تاکہ بدلہ دے ان کو جو ایمان لائے“ جو صدق دل سے ان تمام امور پر ایمان لائے جن پر ایمان لانے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے ﴿وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ﴾ ” اور عمل کیے نیک“ وہ اپنے جوارح کے ذریعے سے واجبات و مستحبات پر عمل کرتے ہیں۔ ﴿بِالْقِسْطِ﴾ ” انصاف کے ساتھ“ یعنی اللہ تعالیٰ عدل کے ساتھ ان کے ایمان و اعمال کی جزا دے گا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ جزا اپنے بندوں کے سامنے بیان کردی ہے اور ان کو آگاہ فرما دیا کہ یہ ایسی جزا ہے کہ کوئی نفس یہ نہیں جانتا کہ اس جزا میں اس کے لئے کیا آنکھوں کی ٹھنڈک چھپا کر رکھی گئی ہے۔ ﴿وَالَّذِينَ كَفَرُوا﴾ ” اور وہ لوگ جنہوں نے انکار کیا۔“ یعنی اللہ تعالیٰ کی آیتوں کا انکار کیا اور اس کے رسول کی تکذیب کی۔ ﴿ لَهُمْ شَرَابٌ مِّنْ حَمِيمٍ﴾ ” ان کے لئے پینے کو نہایت گرم پانی ہوگا۔“ جو چہروں کو جھلسا کررکھ دے گا اور انتڑیوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا۔ ﴿وَعَذَابٌ أَلِيمٌ﴾ ” اور دردناک عذاب“ انہیں درد ناک عذاب کی تمام اصناف میں مبتلا کیا جائے گا۔ ﴿بِمَا كَانُوا يَكْفُرُونَ﴾ ” اس لے کہ وہ کفر کرتے تھے“ یعنی یہ عذاب ان کے کفر اور ظلم کے سبب سے ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر ظلم نہیں کیا، بلکہ وہ خود ہی اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں۔ یونس
5 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی ربوبیت اور الوہیت کومتحقق کرنے کے بعد اپنے اسماء و صفات کے کمال پر عقلی اور آفاقی دلائل بیان کرتا ہے جو تمام آفاق، یعنی سورج،چاند، زمین و آسمان اور کائنات میں پھیلی ہوئی تمام مخلوقات پر محیط ہیں اور آگاہ فرماتا ہے کہ یہ نشانیاں ان لوگوں کے لئے ہیں ﴿لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ ﴾ ” جو علم رکھتے ہیں“ اور ان کے لئے ہیں جو تقویٰ کا التزام کرتے ہیں، کیونکہ علم دلالت کی معرفت اور انتہائی مناسب طریقے سے دلائل کے استنباط کی کیفیت کی طرف راہنمائی کرتا ہے۔ تقویٰ قلب میں بھلائی کی طرف رغبت اور برائی سے خوف کو جنم دیتا ہے۔ یہ دونوں دلائل و براہین اور علم و یقین سے پیدا ہوتے ہیں۔ اس تمام بحث کا حاصل یہ ہے کہ ان مخلوقات کی، اس وصف کے ساتھ مجرد تخلیق اس کی کامل قدرت، اس کے علم، اس کی حیات اور اس کی قیومیت پر دلالت کرتی ہے۔ اس کائنات میں جاری احکام، اس کا اتقان اور اس کا حسن و ابداع اللہ تعالیٰ کی حکمت، اس کے حسن تخلیق اور وسعت علم پر دلالت کرتے ہیں۔ اس کائنات میں پھیلے ہوئے منافع و مصالح۔۔۔۔ مثلاً سورج کی روشنی اور چاند کے نور سے جو ضروری فوائد حاصل ہوتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی بے پایاں رحمت، اپنے بندوں پر اس کی عنایت، اس کی لامحدود نوازش اور اس کے احسان پر دلالت کرتے ہیں۔ اس کائنات کی خصوصیات اللہ تعالیٰ کی مشیت اور اس کے ارادہ نافذہ پر دلالت کرتی ہیں۔ یہ سب کچھ اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی اکیلا معبود، محبوب محمود، جلال و اکرام اور عظیم اوصاف کامالک ہے، رغبت و رہبت کے ساتھ اس کی طرف رجوع کرنا چاہئے۔ تمام امور میں مخلوقات و مربوبات، جو بذات خود اللہ کی محتاج ہیں، کی بجائے اپنی دعا میں صرف اللہ تعالیٰ ہی کو پکارا جائے۔ ان آیات کریمہ میں اللہ تعالیٰ کی مخلوقات میں غور و فکر کرنے اور ان کو عبرت کی نگاہ سے دیکھنے کی ترغیب ہے۔ اس لئے کہ اس سے بصیرت بڑھتی ہے، ایمان و عقل میں اضافہ ہوتا ہے اور ملکہ راسخ ہوتا ہے اور ان میں غور و فکر نہ کرنے سے ا للہ کے احکام سے بے پروائی، ایمان میں زیادتی کا راستہ بند اور قلب و ذہن میں جمود طاری ہوتا ہے۔ یونس
6 یونس
7 ﴿إِنَّ الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا﴾ ” جو لوگ ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے۔“ یعنی وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ سے ملاقات کی خواہش نہیں رکھتے ہیں جو سب سے بڑی خواہش اور سب سے بڑی آرزو ہے، بلکہ وہ اس سے اعراض اور روگردانی کرتے ہیں اور بسا اوقات اس کی تکذیب کرتے ہیں ﴿وَرَضُوا بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا﴾ ” اور وہ دنیا کی زندگی سے خوش ہیں۔“ یعنی وہ آخرت کی بجائے دنیا پر راضی ہو گے۔ ﴿ وَاطْمَأَنُّوا بِهَا﴾ ” اور اسی پر مطمئن ہوگئے“ یعنی دنیا کی طرف مائل ہوگئے اور اسی کو اپنی منزل اور اسی کو اپنا مقصد زندگی بنا لیا۔ دنیا کے حصول کے لئے کوشاں رہے اس کی لذات و شہوات پر ٹوٹ پڑے۔ دنیا انہیں جس طریقے سے بھی حاصل ہوئی، انہوں نے اسے حاصل کرلیا۔ دنیا کی چمک انہیں جہاں کہیں بھی دکھائی دی یہ اس کی طرف لپکے۔ انہوں نے اپنے ارادوں اور نیتوں کو دنیا ہی میں مصروف رکھا، ان کے افکار و اعمال دنیا ہی کے محور پر گھومتی رہے۔ گویا کہ وہ دنیا میں ہمیشہ رہنے کے لئے پیدا کئے گئے ہیں اور گویا کہ دنیا ایک گزر گاہ نہیں جہاں سے مسافر ز ادراہ اکٹھا کر کے ہمیشہ رہنے والی منزل کی طرف رواں دواں رہتے ہیں۔ اولین و آخرین اس منزل کی نعمتوں اور لذتوں کی طرف کوچ کرتے ہیں اور لپکنے والے انہی کی طرف لپکتے ہیں۔ ﴿وَالَّذِينَ هُمْ عَنْ آيَاتِنَا غَافِلُونَ﴾ ” اور وہ ہماری آیتوں سے غافل ہیں۔“ پس یہ آیات قرآنی اور آیات نفس و آفاق سے فائدہ نہیں اٹھاتے اور دلیل سے رو گردانی درحقیقت مدلول مقصود سے روگردانی اور غفلت کومستلزم ہے۔ یونس
8 ﴿أُولَـٰئِكَ﴾ جن کایہ وصف ہے ﴿مَأْوَاهُمُ النَّارُ ﴾ ” ان کا ٹھکانا آگ ہے۔“ یعنی ان کا ٹھکانا اور مسکن جہنم ہے جہاں سے کبھی کوچ نہیں کریں گے۔ ﴿بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ﴾ ” بہ سبب اس کے جو کماتے تھے“ جہنم کا یہ عذاب اس پاداش میں ہے کہ انہوں نے کفر، شرک اور مختلف قسم کے دیگر گناہوں کا ارتکاب کیا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نافرمانوں کے عذاب کا ذکر کرنے کے بعد اطاعت کرنے والے اہل ایمان کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے : یونس
9 ﴿ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ﴾ ” اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کیے۔“ یعنی انہوں نے ایمان اور ایمان کے تقاضے کو جمع کیا یعنی ایمان لانے کے بعد اخلاص اور اتباع کے ساتھ اعمال صالحہ بجا لائے جو اعمال قلوب اور اعمال جو ارح پر مشتمل ہیں۔ ﴿يَهْدِيهِمْ رَبُّهُم بِإِيمَانِهِمْ﴾ ”ہدایت کرے گا ان کو ان کا رب ان کے ایمان کی وجہ سے“ یعنی اللہ تعالیٰ ان کے سرمایہ ایمان کے سبب سے انہیں سب سے بڑا ثواب یعنی ہدایت عطا کرتا ہے۔ انہیں وہ علم عطا کرتا ہے جو ان کے لئے نفع مند ہے، وہ انہیں ان اعمال سے نوازتا ہے جو ہدایت سے جنم لیتے ہیں۔ وہ اپنی آیات میں غور و فکر کرنے کے لئے ان کی راہ نمائی کرتا ہے، اس دنیا میں انہیں راست دکھاتا ہے اور آخرت میں ان کو اس راستے پر گامزن کرتا ہے جو جنت کو جاتا ہے۔ بنا بریں فرمایا : ﴿ تَجْرِي مِن تَحْتِهِمُ الْأَنْهَارُ ﴾ ” ان کے نیچے نہریں بہتی ہیں“ یعنی ہمیشہ بہنے والی نہریں ﴿ فِي جَنَّاتِ النَّعِيمِ ﴾ ” نعمت والے باغوں میں“ اللہ تعالیٰ نے جنت کو (نَعِيم ) ” نعمتوں والی“ کی طرف مضاف کیا ہے، کیونکہ جنت ہر طرح سے کامل نعمتوں پر مشتمل ہوگی۔ قلب کو فرحت و سرور، تروتازگی، اللہ رحمٰن کا دیدار، اس کے کلام کا سماع، اس کی رضا اور قرب کے حصول کی خوشی، دوستوں اور بھائیوں سے ملاقاتوں،ان کے ساتھ اکٹھے ہونے، طرب انگیز آوازوں،مسحور کن نغمات اور خوش کن مناظر کی نعمتیں حاصل ہوں گی۔ بدن کو مختلف انواع کے ماکولات و مشروبات اور بیویاں وغیرہ عطا ہوں گی جو انسان کے علم سے باہر ہیں جن کے بارے میں انسان تصور تک نہیں کرسکتا اور نہ کوئی اس کا وصف بیان کرتا ہے۔ یونس
10 ﴿دَعْوَاهُمْ فِيهَا سُبْحَانَكَ اللَّـهُمَّ ﴾ ” اس میں ان کی پکار ہوگی، اے اللہ تو پاک ہے“ یعنی جنت میں اللہ تعالیٰ کی عبادت میں اولین چیز تمام نقائص سے اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تنزیہ ہوگی اور آخر میں اس کے لئے حمد و ثنا۔ دارالجزا میں ان سے تمام تکالیف ساقط ہوجائیں گی۔ ان کے لئے سب سے بڑی لذت، جو لذیز ترین ماکولات سے بھی زیادہ لذیز ہوگی اور وہ ہوگا اللہ تعالیٰ کا ذکر، جس سے دل مطمئن اور روح خوش ہوگی اور ذکر الٰہی کی حیثیت ان کے لئے وہی ہوگی جو کسی متنفس کے لئے سانس کی ہوتی ہے، مگر کسی کلفت اور مشقت کے بغیر۔ ﴿وَتَحِيَّتُهُمْ فِيهَا ﴾ ” اور اس میں ان کی دعائے ملاقات“ یعنی ملاقات اور ایک دوسرے کی زیارت کے وقت ایک دوسرے کو ﴿سَلَامٌ﴾ ”سلام ہوگی“ یعنی وہ سلام کہہ کر ایک دوسرے کو خوش آمدید کہیں گے، یعنی ان کی باہم گفتگو لغویات اور گناہ کی باتوں سے پاک ہوگی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کے ارشاد ﴿دَعْوَاهُمْ فِيهَا سُبْحَانَكَ۔۔۔۔﴾ الایۃ ...کی تفسیر میں ایک قول یہ ہے کہ اہل جنت جب کھانے پینے کی حاجت محسوس کریں گے تو کہیں گے ﴿سُبْحَانَكَ اللَّـهُمَّ﴾ اور ان کے سامنے اسی وقت کھانا حاضر ہوجائے گا۔ ﴿وَآخِرُ دَعْوَاهُمْ﴾ ”اور ان کی آخری بات“ جب وہ کھانے سے فارغ ہوں گے تو کہیں گے ﴿أَنِ الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ﴾ ” تمام تعریفیں صرف اللہ رب العالمین کے لئے ہیں۔ “ یونس
11 یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا اپنے بندوں پر لطف و احسان ہے کہ جب بندے برائی کے اسباب مہیا کرتے ہیں، تو اگر اللہ تعالیٰ ان کو اس برائی میں عجلت سے پکڑنا اور انہیں فوراً عذاب میں مبتلا کرنا چاہے، جس طرح وہ نیکی کرتے ہیں تو ان کے لئے جلدی سے ثواب لکھ لیا جاتا ہے، ﴿لَقُضِيَ إِلَيْهِمْ أَجَلُهُمْ﴾ ” تو ختم کردی جائے ان کی عمر“ یعنی عذاب ان کو ملیا میٹ کر دے۔۔۔۔ مگر اللہ تعالیٰ ان کو مہلت دیتا ہے اور اپنے بہت سے حقوق کے بارے میں ان کی کوتاہیوں کو معاف کردیتا ہے اور اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کے ظلم پر ان کا مواخذہ کرے، تو روئے زمین پر کسی جاندار کو نہ چھوڑے۔ اس آیت کریمہ میں یہ چیز بھی داخل ہے کہ بسا اوقات انسان اپنے اہل و اولاد اور مال پر ناراض ہو کر بددعا کر بیٹھتا ہے اگر اس کی بددعا قبول ہوجائے تو سب ہلاک ہوجائیں اور اس سے اسے سخت نقصان پہنچے۔ مگر اللہ تعالیٰ نہایت حلیم اور حکمت والا ہے۔ (یعنی ایسی بددعاؤں کو قبول نہیں فرماتا) ﴿فَنَذَرُ الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا﴾ ” پس ہم چھوڑے رکھتے ہیں ان لوگوں کو جن کو ہماری ملاقات کی امید نہیں“ یعنی وہ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے۔ اسی لئے اس کے لئے کوئی تیاری نہیں کرتے اور وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ کون سی چیز انہیں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نجات دے گی۔ ﴿ فِي طُغْيَانِهِمْ﴾ ” اپنی سرکشی میں۔“ یعنی اپنے باطل میں، جس کی بنا پر انہوں نے حق اور حدود سے تجاوز کیا۔ ﴿يَعْمَهُونَ﴾ ” وہ حیران اور سرگرداں پھرتے ہیں“ انہیں کوئی راستہ نہیں ملتا اور نہ وہ کسی مضبوط دلیل کی توفیق سے بہرہ ور ہوتے ہیں اور یہاں کے ظلم اور اللہ تعالیٰ کی آیات کے انکار کی پاداش میں ان کے لئے سزا ہے۔ یونس
12 اس میں انسان کی فطرت کے بارے میں خبر دی گئی ہے کہ جب اسے کسی مرض یا مصیبت کی وجہ سے کوئی تکلیف پہنچتی ہے، تو خوب دعائیں کرتا ہے اور وہ اٹھتے بیٹھتے لیٹتے ہر حال میں اللہ تعالیٰ سے سوال کرتا ہے، اپنی دعاؤں میں گڑگڑاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی تکلیف کو دور کر دے۔ ﴿فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْهُ ضُرَّهُ مَرَّ كَأَن لَّمْ يَدْعُنَا إِلَىٰ ضُرٍّ مَّسَّهُ﴾ ” پس جب ہم اس سے اس کی تکلیف کو دور کردیتے ہیں تو وہ (یوں) چلا جاتا ہے گویا کہ اس نے ہمیں کسی تکلیف کے پہنچنے پر پکارا ہی نہیں“ یعنی اپنے رب سے رو گردانی کرتے ہوئے غفلت میں مستغرق رہتا ہے گویا کہ اسے کوئی تکلیف ہی نہیں آئی، جسے اللہ تعالیٰ نے دور کیا ہو۔ اس سے بڑھ کر اور کون سا ظلم ہے کہ انسان اپنی غرض پوری کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرے اور جب اللہ تعالیٰ اس کی یہ غرض پوری کر دے تو پھر وہ اپنے رب کے حقوق کی طرف نہ دیکھے، گویا کہ اس پر اللہ تعالیٰ کا کوئی حق ہی نہیں۔ یہ شیطان کا آراستہ کرنا ہے۔ شیطان ان تمام چیزوں کو مزین کرتا ہے جو انسانی عقل و فطرت کے مطابق انتہائی بری اور قبیح ہیں۔ ﴿كَذَٰلِكَ زُيِّنَ لِلْمُسْرِفِينَ﴾ ” اسی طرح خوش نمابنا دیے گئے ہیں بے باک لوگوں کے لئے“ یعنی ان لوگوں کے لئے جو حدود سے تجاوز کرتے ہیں ﴿مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴾ ” جو عمل وہ کرتے تھے۔ “ یونس
13 اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ اس نے گزشتہ قوموں کو ان کے کفر و ظلم کی بنا پر تباہ کردیا۔ رسولوں کے توسط سے ان کے پاس واضح دلائل آئے اور ان کے سامنے حق واضح ہوگیا مگر انہوں نے حق کو تسلیم نہ کیا اور وہ ایمان نہ لائے۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر عذاب نازل کردیا جو کسی مجرم اور اللہ تعالیٰ کے محارم کے ارتکاب کی جسارت کرنے والے سے ہٹایا نہیں جاسکتا۔ تمام قوموں میں اللہ تعالیٰ کی یہی سنت ہے۔ یونس
14 ﴿ثُمَّ جَعَلْنَاكُمْ﴾ ” پھر بنایا ہم نے تم کو“ یعنی اے مخاطبو ! ﴿خَلَائِفَ فِي الْأَرْضِ مِن بَعْدِهِمْ لِنَنظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُونَ﴾ ” زمین میں جانشین ان کے بعد، تاکہ ہم دیکھیں تم کیسے عمل کرتے ہو“ اگر تم نے گزشتہ قوموں سے عبرت حاصل کی اور نصیحت پکڑی، اللہ تعالیٰ کی آیات کی اتباع کی اور اس کے انبیاء و رسول کی تصدیق کی، تو تم دنیا و آخرت میں نجات پاؤ گے۔ اور اگر تم نے بھی وہی کام کئے جو تم سے پہلے ظالم قوموں نے کئے تھے، تو تم پر بھی وہی عذاب بھیج دیا جائے گا جو ان پر بھیجا گیا تھا۔ اور جس نے تنبیہ کردی اس نے کوئی عذر باقی نہیں چھوڑا۔ یونس
15 اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے رسول محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تکذیب کرنے والے کفار کی ڈھٹائی اور تعصب کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ جب ان کے سامنے آیات قرآنی کی تلاوتی کی جاتی ہے جو حق کو بیان کرتی ہیں تو یہ ان سے منہ پھیر لیتے ہیں اور جب ان سے اس ڈھٹائی اور تعصب کی وجہ پوچھی جاتی ہے تو وہ ظلم اور جسارت کا ارتکاب کرتے ہوئے کہتے ہیں : ﴿ائْتِ بِقُرْآنٍ غَيْرِ هَـٰذَا أَوْ بَدِّلْهُ ۚ ﴾ ” اس قرآن کے علاوہ کوئی اور لا، یا اس کو بدل دے۔“ اللہ تبارک و تعالیٰ ان کا برا کرے ! وہ اللہ تعالیٰ کی شان میں کتنی بڑی گستاخی کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی آیتوں کو ٹھکرا کر کتنا سخت ظلم کرتے ہیں۔ جب اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے عظیم رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم دیتا ہے کہ وہ ان سے کہہ دیں : ﴿قُلْ مَا يَكُونُ لِي ﴾ ” کہہ دیجئے ! کہ مجھے یہ زیبا ہے نہ میرے لائق ہے“ ﴿أَنْ أُبَدِّلَهُ مِن تِلْقَاءِ نَفْسِي﴾ ” کہ میں اس کو اپنی طرف سے بدل دوں“ کیونکہ میں تو صرف رسول ہوں میرے اختیار میں کچھ نہیں۔ ﴿إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ﴾ ” میں تو اسی حکم کا تابع ہوں جو میری طرف وحی کیا جاتا ہے۔“ یعنی اتباع وحی کے علاوہ میرا کوئی اختیار نہیں، کیونکہ میں تو مامور بندہ ہوں۔ ﴿إِنِّي أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ﴾ ” میں ڈرتاہوں، اگر میں نے اپنے رب کی نافرمانی کی، بڑے دن کے عذاب سے“ یہ مخلوق میں بہترین ہستی کا قول ہے اور اللہ تعالیٰ کے اوامر اور وحی کے بارے میں یہ ادب ہے، تب یہ بیوقوف اور گمراہ لوگ، جنہوں نے جہالت اور گمراہی، ظلم اور عناد اور اللہ رب العالمین پر اعتراضات اور عجزکی طرف اس کی نسبت کو جمع کر رکھا ہے، کیوں کر اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے گریز کرسکتے ہیں، کیا وہ ایک بڑے دن کے عذاب سے ڈرتے نہیں؟ اگر ان کا مقصد یہ ہے کہ ان آیات و معجزات کے ذریعے سے ان کے سامنے حق واضح ہوجائے، جن کا وہ مطالبہ کر رہے ہیں، تو وہ اس بارے میں جھوٹے ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ایسی آیات بیان کر دی ہیں جو انسان کے بس سے باہر ہیں، اللہ تعالیٰ جیسے چاہتا ہے اپنی رحمت اور حکمت ربانی کے مطابق ان آیات میں تصرف کرتا ہے۔ یونس
16 ﴿قُل لَّوْ شَاءَ اللَّـهُ مَا تَلَوْتُهُ عَلَيْكُمْ وَلَا أَدْرَاكُم بِهِ ۖ فَقَدْ لَبِثْتُ فِيكُمْ عُمُرًا ﴾ ” کہہ دیجئے ! اگر اللہ چاہتا تو میں پڑھتا اس کو تمہارے سامنے نہ وہ خبر کرتا تم کو اس کی، پس تحقیق میں رہ چکا ہوں تم میں ایک طویل عرصہ اس سے پہلے“ یعنی بہت طویل عرصہ تک میں تمہارے اندر رہا ہوں۔ ﴿مِّن قَبْلِهِ﴾ ” اس سے پہلے“ یعنی اس کی تلاوت اور تمہارے اس کو جان لینے سے قبل۔ اور میں نے کبھی اس کے بارے میں سچا ہی نہ تھا اور یہ چیز کبھی میرے خواب و خیال میں بھی نہ تھی۔ ﴿أَفَلَا تَعْقِلُونَ﴾ ” کیا پھر تم نہیں سوچتے‘‘ یعنی میں نے عمر بھر تمہارے سامنے اس کو تلاوت نہیں کیا اور مجھ سے کبھی کوئی ایسی چیز صادر نہیں ہوئی جو اس پر دلالت کرتی ہو، پھر اس کے بعد میں کیوں کر اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھ سکتا ہوں۔ میں نے تمہارے اندر ایک لمبی عمر گزاری ہے، تم میری حقیقت حال سے خوب واقف ہو، میرے ماں باپ کو جانتے ہو، تم یہ بھی جانتے ہو کہ میں پڑھ سکتا ہوں نہ لکھ سکتا ہوں اور میں کسی سے درس لیتا ہوں نہ کسی سے تعلیم حاصل کرتا ہوں؟ پس میں تمہارے پاس ایک عظیم کتاب لے کر آیا ہوں جس نے بڑے علماء اور فصحاء کو عاجز اور لاچار کردیا، کیا اس کے باوجود یہ ممکن ہے کہ اس کتاب کو میں نے اپنی طرف سے تصنیف کرلیا ہو یا یہ اس بات کی قطعی دلیل ہے کہ یہ حکمت والے اور ستائش کے لائق اللہ کی طرف سے نازل کردہ ہے؟ اگر تم اپنی عقل و فکر کو استعمال کرو، میرے احوال اور اس کتاب کے حال میں تدبر کرو تو تمہیں قطعی یقین آجائے گا جس میں شک کی گنجائش نہیں کہ یہ حق ہے جس کے بعد گمراہی کے سوا کچھ باقی نہیں۔ مگر جب تم نے عناد کی بناء پر اسے جھٹلادیا تو اس میں کوئی شک باقی نہیں رہ جاتا کہ تم سخت ظالم ہو اور اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہے جس نے اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھا یا اس کی آیتوں کو جھٹلایا؟ اگر میں اللہ تعالیٰ پر جھوٹ گھڑوں، تو میں لوگوں میں سب سے ظالم شخص اور فلاح سے محروم ہوں۔ میرے حالات تم سے چھپے ہوئے نہیں ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ میں تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کی آیات لے کر آیا ہوں، تم نے ان کو جھٹلایا، جس سے یہ بات متعین ہوگئی کہ تم ظالم ہو۔ تمہارا معاملہ عنقریب مضمحل ہوجائے گا اور جب تک تم اپنی اس ڈگر پر چلتے رہو گے، ہرگز فلاح نہیں پا سکو گے۔ ٍ اللہ تعالیٰ کا ارشاد : ﴿ قَالَ الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا ﴾ ” جن لوگوں کو ہم سے ملنے کی امید نہیں وہ کہتے ہیں۔“ دلالت کرتا ہے کہ جس چیز نے ان کو اس تعنت (کٹ حجتی) پر آمادہ کیا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہونے پر عدم ایمان اور اس کے ساتھ ملاقات ہونے پر عدم یقین جو کوئی اللہ تعالیٰ سے ملاقات پر ایمان رکھتا ہے وہ لازمی طور پر اس کتاب کی اتباع کرتا ہے اور اس پر ایمان رکھتا ہے، کیونکہ وہ صحیح نیت والا ہے۔ یونس
17 یونس
18 اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿وَيَعْبُدُونَ﴾ ” اور پرستش کرتے ہیں“ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تکذیب کرنے والے مشرکین۔ ﴿مِن دُونِ اللَّـهِ مَا لَا يَضُرُّهُمْ وَلَا يَنفَعُهُمْ﴾ ” اللہ کے سوا، اس چیز کی جو ان کو نقصان پہنچا سکے نہ نفع“ یعنی ان کے معبودان باطل ان کو ذرہ بھر فائدہ نہیں پہنچا سکتے اور نہ ان سے کسی ضرر کو دور کرسکتے ہیں۔ ﴿وَيَقُولُونَ﴾ ” اور وہ کہتے ہیں۔“ ایسی بات جو دلیل سے بالکل خالی ہے۔ ﴿هَـٰؤُلَاءِ شُفَعَاؤُنَا عِندَ اللَّـهِ﴾ ” یہ اللہ کے ہاں ہمارے سفارشی ہیں“ یعنی وہ ان معبودان باطل کی عبادت محض اس لئے کرتے ہیں، تاکہ وہ انہیں اللہ تعالیٰ کے قریب کردیں اور اللہ کے ہاں ان کی سفارش کریں۔ یہ ان کی اپنی طرف سے گھڑی ہوئی بات ہے۔ بنا بریں اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کے اس عقیدے کا ابطال کرتے ہوئے فرمایا : ﴿قُلْ أَتُنَبِّئُونَ اللَّـهَ بِمَا لَا يَعْلَمُ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ﴾ ” کہہ دیجئے ! کیا تم اللہ کو بتلاتے ہو جو اس کو معلوم نہیں، آسمانوں میں اور زمین میں۔“ یعنی اللہ تعالیٰ ہر چیز کو جاننے والا ہے جس نے اپنے علم کے ذریعے سے آسمانوں اور زمین کی ہر چیز کا احاطہ کر رکھا ہے اس نے تمہیں آگاہ کیا ہے کہ اس کا کوئی شریک نہیں اور اس کے ساتھ کوئی معبود نہیں۔ پس اے مشرکو ! کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ زمین و آسمان میں اللہ تعالیٰ کے شریک ہیں؟ کیا تم اللہ تعالیٰ کو ایسے معاملے کی خبر دے رہے ہو جو اللہ تعالیٰ سے مخفی ہے اور تم اسے جانتے ہو؟ کیا تم اللہ تعالیٰ سے زیادہ جانتے ہو؟ کیا اس عقیدے سے زیادہ باطل عقیدہ پایا جاسکتا ہے جو اس امر کا متضمن ہے کہ یہ گمراہ، جہال اور بیوقوف لوگ، اللہ رب العالمین سے زیادہ علم رکھتے ہیں؟ عقل مند شخص کے لئے اس عقیدے کا مجرد تصور ہی یہ جاننے کے لئے کافی ہے کہ یہ قطعی طور پر فاسد اور باطل عقیدہ ہے۔ ﴿سُبْحَانَهُ وَتَعَالَىٰ عَمَّا يُشْرِكُونَ ﴾ ” وہ پاک ہے اور ان کے شرک سے بہت زیادہ ہے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ اس اس بات سے پاک اور منزہ ہے کہ کوئی اس کا شریک یا نظیر ہو، بلکہ اللہ تعالیٰ واحد، فرد اور بے نیاز ہے، آسمانوں اور زمین میں اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اس عالم علوی اور سفلی میں اللہ تعالیٰ کے سوا ہر معبود عقل، شرع اور فطرت کے اعتبار سے باطل ہے۔ ﴿ذَٰلِكَ بِأَنَّ اللَّـهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّ مَا يَدْعُونَ مِن دُونِهِ هُوَ الْبَاطِلُ وَأَنَّ اللَّـهَ هُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ(الحج : 22؍62) ” اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ ہی کی ذات برحق ہے اور جن کو یہ لوگ اللہ کے سوا پکارتے ہیں وہ سب باطل ہیں اور اللہ ہی بلند اور بڑا ہے۔ “ یونس
19 ﴿وَمَا كَانَ النَّاسُ إِلَّا أُمَّةً وَاحِدَةً﴾ ” اور نہیں تھے لوگ مگر ایک ہی امت“ یعنی تمام لوگ صحیح دین پر متفق تھے، پھر ان میں اختلاف واقع ہوگیا، تب اللہ تعالیٰ نے رسول مبعوث فرمائے جو خوشخبری سنانے والے اور برے انجام سے ڈرانے والے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ کتاب نازل فرمائی، تاکہ وہ لوگوں کے درمیان اس بارے میں فیصلہ کرے جس میں وہ اختلاف کرتے ہیں۔ ﴿وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِن رَّبِّكَ﴾ ” اور ار نہ ہوتی ایک بات جو آپ کے رب کی طرف سے پہلے سے طے ہوچکی ہے“ کہ نافرمانوں کو مہلت دینی ہے اور ان کے گناہوں کی پاداش میں ان کا فوری مواخذہ نہیں کرنا۔ ﴿لَقُضِيَ بَيْنَهُمْ﴾ ” تو ان کے درمیان فیصلہ کردیا جاتا“ بایں طور پر کہ ہم اہل ایمان کو بچا لیتے اور جھٹلانے والے کفار کو ہلاک کردیتے اور یہ چیز ان کے درمیان امتیاز اور تفریق کی علامت بن جاتی۔ ﴿فِيمَا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ﴾ ” ان چیزوں میں جن میں وہ اختلاف کرتے تھے“ مگر اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ وہ ان کو ایک دوسرے کے ذریعے سے آزمائے اور آزمائش میں مبتلا کرے، تاکہ سچے اور جھوٹے کے درمیان فرق واضح ہوجائے۔ یونس
20 ﴿ وَيَقُولُونَ﴾ ” اور یہ کہتے ہیں۔“ یعنی لغزشیں تلاش کرنے اور جھٹلانے والے کہتے ہیں : ﴿ لَوْلَا أُنزِلَ عَلَيْهِ آيَةٌ مِّن رَّبِّهِ ﴾ ” کیوں نہیں اتاری گئی اس پر کوئی آیت اس کے رب کی طرف سے“ یعنی وہ آیات جن کا وہ مطالبہ کرتے ہیں، مثلاً وہ کہا کرتے تھے : ﴿لَوْلَا أُنزِلَ إِلَيْهِ مَلَكٌ فَيَكُونَ مَعَهُ نَذِيرًا﴾ (الفرقان : 25؍7) ” اس کے پاس کوئی فرشتہ کیوں نہیں نازل کیا گیا جو ڈرانے کو اس کے ساتھ رہتا“ اور جیسے ان کا یہ قول ہے ﴿وَقَالُوا لَن نُّؤْمِنَ لَكَ حَتَّىٰ تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الْأَرْضِ يَنبُوعًا ﴾ (بنی سسرائیل : 17؍90) ” اور انہوں نے کہا : ہم تم پر ایمان نہیں لائیں گے جب تک کہ تم ہمارے لئے زمین میں سے چشمہ جاری نہ کر دو۔ “ ﴿ فَقُلْ﴾ جب وہ آ پ سے کسی آیت کا مطالبہ کریں تو آپ کہہ دیجئے ! ﴿ إِنَّمَا الْغَيْبُ لِلَّـهِ﴾ ” غیب کی بات تو اللہ ہی جانے“ یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے علم کے ذریعے سے اپنے بندوں کے احوال کا احاطہ کئے ہوئے ہے، وہ اپنے علم اور انوکھی حکمت کے تقاضے کے مطابق ان کی تدبیر کرتا ہے کسی حکم، کسی دلیل، کسی غایت و انتہا اور کسی تعلیل کی تدبیر میں کسی کا کوئی اختیار نہیں۔ ﴿فَانتَظِرُوا إِنِّي مَعَكُم مِّنَ الْمُنتَظِرِينَ﴾ ”پس انتظار کرو، میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتا ہوں“ یعنی ہر ایک دوسرے کے بارے میں منتظر رہے جس کا وہ اہل ہے اور دیکھے کہ کس کا انجام اچھا ہوتا ہے؟ یونس
21 اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿وَإِذَا أَذَقْنَا النَّاسَ رَحْمَةً مِّن بَعْدِ ضَرَّاءَ مَسَّتْهُمْ﴾ ” اور جب چکھائیں ہم لوگوں کو مزا اپنی رحمت کا، ایک تکلیف کے بعد جو ان کو پہنچی تھی“ مثلاً مرض کے بعد صحت، تنگ دستی کے بعد فراخی اور خوف کے بعد امن، تو وہ بھول جاتے ہیں کہ انہیں کیا تکلیف پہنچی تھی اور وہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ فراخی اور اس کی رحمت کا اس کا شکر ادا نہیں کرتے، بلکہ وہ اپنی سازشوں اور سرکشی پر جمے رہتے ہیں۔ بنا بریں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿إِذَا لَهُم مَّكْرٌ فِي آيَاتِنَا ﴾ ’’اسی وقت بنانے لگیں وہ حیلے ہماری آیتوں میں“ یعنی وہ باطل میں کوشاں رہتے ہیں، تاکہ اس کے ذریعے سے حق کو باطل ثابت کریں ﴿قُلِ اللَّـهُ أَسْرَعُ مَكْرًا ﴾ ” کہہ دیجئے ! اللہ حیلے بنانے (تدبیر کرنے) میں زیادہ تیز ہے“ کیونکہ بری چالوں کا وبال چال چلنے والے ہی پر پڑتا ہے۔ ان کے برے مقاصد انہی پر پلٹ جاتے ہیں اور وہ برے انجام سے محفوظ نہیں رہتے، بلکہ فرشتے ان کے اعمال لکھتے جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کے اعمال کو محفوظ کرلیتا ہے پھر وہ ان کو ان اعمال کی پوری پوری جزا دے گا۔ یونس
22 جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسانوں کے بارے میں ایک عام قاعدہ بیان فرمایا کہ تکلیف کے بعد اللہ تعالیٰ کی رحمت کے نزول اور تنگ دستی کے بعد فراخی کے وقت ان کا کیا حال ہوتا ہے، تو اب ان کی اس حالت کا ذکر فرماتا ہے جو اس کی تائید کرتی ہے۔ یہ ان کی وہ حالت ہے جب وہ سمندر کے اندر سفر کرتے ہیں اور سمندر سخت جوش میں ہوتا ہے اور ان کو اس کے انجام کا خوف ہوتا ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ هُوَ الَّذِي يُسَيِّرُكُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ﴾ ” وہی ہے جو تمہیں چلاتا ہے خشکی اور سمند میں“ یعنی ان اسباب کے ذریعے سے جو اس نے تمہیں مہیا کئے ہیں اور ان کی طرف تمہاری رہنمائی فرمائی ہے ﴿حَتَّىٰ إِذَا كُنتُمْ فِي الْفُلْكِ ﴾ ” یہاں تک کہ جب تم کشتیوں میں بیٹھتے ہو“ یعنی بحری جہازوں میں ﴿وَجَرَيْنَ بِهِم بِرِيحٍ طَيِّبَةٍ﴾ ‘‘‘ اور لے کر چلیں وہ ان کو اچھی ہوا سے“ یعنی کے ہوا جو ان کی خواہش کے موافق بغیر کسی مشقت اور گھبراہٹ کے ان جہازوں کو چلاتی ہے ﴿وَفَرِحُوا بِهَا﴾ ” اور وہ خوش ہوں ساتھ ان کے“ اور ان ہواؤں پر نہایت مطمئن ہوتے ہیں اور وہ اسی حال میں ہوتے ہیں کہ ﴿جَاءَتْهَا رِيحٌ عَاصِفٌ﴾ ” اچانک زناٹے کی ہوا چل پڑتی ہے“ یعنی کشتیوں پر سخت ہو آئی ﴿وَجَاءَهُمُ الْمَوْجُ مِن كُلِّ مَكَانٍ وَظَنُّوا أَنَّهُمْ أُحِيطَ بِهِمْ﴾ ” اور آئی ان پر موج ہر جگہ سے اور انہوں نے جا ن لیا کہ وہ گھر گئے“ یعنی انہیں یقین ہوجاتا ہے کہ اب ان کی ہلاکت یقینی ہے، تب اس وقت مخلوق سے ان کے تمام تعلق منقطع ہوجاتے ہیں اور انہیں معلوم ہوجاتا ہے کہ اس مصیبت اور سختی سے اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نجات نہیں دے سکتا، تب اس وقت ﴿دَعَوُا اللَّـهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ﴾ ” وہ دین کو اللہ کیلئے خالص کر کے اسی کو پکارتے ہیں“ اور الزامی طور پر اپنے آپ سے وعدہ کرتے ہیں، چنانچہ کہتے ہیں ﴿ لَئِنْ أَنجَيْتَنَا مِنْ هَـٰذِهِ لَنَكُونَنَّ مِنَ الشَّاكِرِينَ﴾ ”اگر تو ہمیں اس مصیبت سے بچا لے تو ہم تیرے شکر گزار ہوجائیں گے۔ “ یونس
23 ﴿فَلَمَّا أَنجَاهُمْ إِذَا هُمْ يَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ ﴾ ” پس جب اللہ نے ان کو نجات دے دی، تو اسی وقت شرارت کرنے لگے زمین میں ناحق۔“ یعنی وہ اس سختی کو جس میں وہ مبتلا تھے، ان دعاؤں کو جو وہ مانگتے رہے تھے اور ان وعدوں کو جو انہوں نے اپنے اوپر لازم کئے تھے، فراموش کردیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنے لگتے ہیں جس کے بارے میں انہوں نے اعتراف کیا تھا کہ اس کے سوا کوئی ہستی انہیں ان سختیوں سے نجات دے سکتی ہے نہ ان کی تنگی دور کرسکتی ہے۔ پس انہوں نے اپنی فراخی اور کشادگی میں عبادت کو اللہ کے لئے خالص کیوں نہ کیا جس طرح انہوں نے سختی میں اپنی عبادت کو اللہ کے لئے خالص کیا تھا مگر اس بغاوت اور سرکشی کا وبال انہیں پر پڑے گا۔ بنا بریں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّمَا بَغْيُكُمْ عَلَىٰ أَنفُسِكُم ۖ مَّتَاعَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا﴾ ” اے لوگو ! تمہاری شرارت تمہی پر پڑے گی، نفع اٹھا لو دنیا کی زندگی کا“ یعنی اللہ تعالیٰ سے سرکشی و بغاوت اور اس کے لئے اخلاص سے دور بھاگنے میںت ان کی غرض و غایت یہ ہے کہ وہ دنیا کے چند ٹکڑے اور اس کا مال و جاہ اور معمولی سے فوائد حاصل ہوں جو بہت جلد ختم ہوجائیں گے، سب کچھ ہاتھوں سے نکل جائے گا اور تم اسے چھوڑ کر یہاں سے کوچ کر جاؤ گے۔ ﴿ثُمَّ إِلَيْنَا مَرْجِعُكُمْ ﴾ ” پھر ہمارے پاس ہی تمہیں لوٹ کر آنا ہے“ یعنی قیامت کے روز ﴿فَنُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ ﴾ ” پھر ہم تمہیں بتلا دیں گے جو کچھ کہ تم کرتے تھے“ اس آیت کریمہ میں ان لوگون کو ان کے اپنے ان اعمال پر جمے رہنے سے ڈرایا گیا ہے۔ یونس
24 یہ بہترین مثال ہے اور یہ مثال دنیا کی حالت سے مطابقت رکھتی ہے کیونکہ دنیا کی لذات و شہوات اور اس کا مال و جاہ دنیا کے حریص بندے کے لئے بہت پر کشش ہے اگرچہ اس کی چمک دمک بہت تھوڑے وقت کے لئے ہے۔ جب دنیا مکمل ہوجاتی ہے تو مضمحل ہو کر اپنے چاہنے والے سے زائل ہوجاتی ہے یا چاہنے والا دنیا سے رخصت ہوجاتا ہے۔ پس بندہ دنیا سے خالی ہاتھ رہ جاتا ہے اور اس کا دل حزن وغم اور حسرت سے لبریز ہوجاتا ہے۔ اس کی مثال ایسے ہے ﴿كَمَاءٍ أَنزَلْنَاهُ مِنَ السَّمَاءِ فَاخْتَلَطَ بِهِ نَبَاتُ الْأَرْضِ﴾ ” مانند اس پانی کے جیسے ہم نے آسمان سے اتارا، پھر مل جل گیا اس سے سبزہ زمین کا“ یعنی زمین کے اندر ہر قسم کی نباتات اور خوبصورت جوڑے اگ آئے ﴿مِمَّا يَأْكُلُ النَّاسُ ﴾ ” جو کہ کھائیں آدمی“ مثلاً غلہ جات اور پھل وغیرہ ﴿وَالْأَنْعَامُ ﴾ ” اور مویشی“ یعنی اور وہ چیزیں جو مویشی کھاتے ہیں، مثلاً مختلف اقسام کی گھاس پات، وغیرہ ﴿حَتَّىٰ إِذَا أَخَذَتِ الْأَرْضُ زُخْرُفَهَا وَازَّيَّنَتْ﴾ ” یہاں تک کہ جب پکڑی زمین نے اپنی رونق اور خوب مزین ہوگئی“ یعنی جب اس کا منظر خوبصورت ہوجاتا ہے اور زمین خوبصورت لباس پہن لیتی ہے، تو دیکھنے والوں کے لئے خوش منظر، غلم ہلکا کرنے والوں کے لئے ذریعہ تفریح اور بصیرت حاصل کرنے والوں کے لئے ایک نشانی بن جاتی ہے۔ تب تو عجیب نظارہ دیکھے گا جس میں سبز، زرد اور سفید رنگ دکھائی دیں گے۔ ﴿وَظَنَّ أَهْلُهَا أَنَّهُمْ قَادِرُونَ عَلَيْهَا﴾ ” اور زمین والوں نے خیال کیا کہ وہ (فصل) ان کے ہاتھ لگے گی“ یعنی وہ سمجھنے لگتے ہیں یہ دنیا ان کے پاس ہمیشہ رہے گی، کیونکہ ان کا ارادہ اسی پر ٹھہرا ہوا ہے اور ان کی طلب کی انتہا یہی ہے۔ پس وہ اسی حالت میں ہوتے ہیں کہ ﴿أَتَاهَا أَمْرُنَا لَيْلًا أَوْ نَهَارًا فَجَعَلْنَاهَا حَصِيدًا كَأَن لَّمْ تَغْنَ بِالْأَمْسِ ﴾ ” ناگہاں پہنچا اس پر ہمارا حکم، رات کو یا دن کو، پھر کردیا اس کو کاٹ کر ڈھیر،گویا کہ کل یہاں آباد ہی نہ تھی“ یعنی دنیا کی یہ خوبصورتی کبھی تھی ہی نہیں۔ پس یہی حالت دنیا کی ہے، بالکل اس جیسی ہی۔ ﴿كَذَٰلِكَ نُفَصِّلُ الْآيَاتِ﴾ ” ہم اسی طرح کھول کھول کر نشانیاں بیان کرتے ہیں“ یعنی ہم ان آیات کو، ان کے معانی کو قریب لا کر اور مثالیں بیان کر کے واضح کرتے ہیں ﴿لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ ﴾ ” ان لوگوں کے سامنے جو غور و فکر کرتے ہیں“ یعنی اپنی فکر کو ان کاموں میں استعمال کرتے ہیں جو ان کو فائدہ دیتے ہیں۔ رہا غفلت میں ڈوبا ہوا اور روگردانی کرنے والا شخص، تو یہ آیات اسے کوئی فائدہ دیتی ہیں نہ ان کا بیان اس کے شک کو کم کرسکتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کا حال اور اس کی نعمتوں کے حاصل کا ذکر کیا، تو اب ہمیشہ، باقی رہنے والے گھر کا شوق دلایا ہے، چنانچہ فرمایا : یونس
25 اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو سلامتی کے گھر کی طرف عام دعوت اور اس اس کو حاصل کرنے کی ترغیب دی ہے۔ وہ جس کو اپنے لئے خالص کر کے چن لینا چاہتا ہے اس کیلئے ہدایت کو مخصوص کردیتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل و احسان ہے اور اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے اس کے لئے اپنی رحمت کو مختص کردیتا ہے، یہ اس کا عدل و حکمت ہے اور حق و باطل کو بیان کردینے اور رسولوں کو مبعوث کرنے کے بعد کسی کے لئے اللہ تعالیٰ پر کوئی حجت نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جنت کو ” دارالسلام“ کے نام سے اس لئے موسوم کیا ہے کہ یہ تمام آفات اور نقائص سے محفوظ اور سلامت ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی نعمتیں کامل، ہمیشہ رہنے والی اور ہر طرح سے خوبصورت ہیں۔ یونس
26 اور جب اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو سلامتی کے گھر کی طرف بلایا تو گویا ان نفوس کو ان اعمال کا اشتیاق پیدا ہوا جو ان کو اس گھر میں پہنچانے کے موجب ہیں۔ فرمایا : ﴿ لِّلَّذِينَ أَحْسَنُوا الْحُسْنَىٰ وَزِيَادَةٌ ﴾ ” ان لوگوں کے واسطے جنہوں نے بھلائی کی، بھلائی اور مزید ہے“ یعنی ان لوگوں کے لئے جنہوں نے خالق کی عبادت میں احسان سے کام لیا یعنی انہوں نے اللہ تعالیٰ کی عبودیت میں مراقبہ اور خیر خواہی کے ساتھ اس کی عبادت کی اور مقدور بھر اس عبودیت کو قائم رکھا اور اپنی استطاعت کے مطابق اللہ تعالیٰ کے بندوں سے احسان قولی اور احسان فعلی کے ساتھ پیش آئے اور ان کے ساتھ مالی اور بدنی احسانات سے کام لیا، نیکی کا حکم دیا، برائی سے روکا، جہلا کو تعلیم دی، روگردانی کرنے والوں کی خیر خواہی کی، نیکی اور احسان کے دیگر تمام پہلوؤں پر عمل کیا۔ یہی وہ لوگ ہیں جو احسان کے مرتبہ پر فائز ہوئے اور انہی کے لئے (الحسنی) ہے یعنی ایسی جنت جو اپنے حسن و جمال میں کامل ہے۔ مزید برآں ان کے لئے اور بھی انعام ہے۔ یہاں (زِيَادَة) ” مزید“ سے مراد اللہ تعالیٰ کے چہرہ انور کا دیدار، اس کلام مبارک کا سماع، اس کی رضا کا فیضان اور اس کے قرب کا سرور ہے۔ اس ذریعے سے انہیں وہ بلند مقامات حاصل ہوں گے کہ تمنا کرنے والے ان کی تمنا کرتے ہیں اور سوال کرنے والے اللہ تعالیٰ سے انہیں مقامات کا سوال کرتے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان سے محذورات کے دور ہونے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : ﴿وَلَا يَرْهَقُ وُجُوهَهُمْ قَتَرٌ وَلَا ذِلَّةٌ﴾ ” اور نہ چڑھے گی ان کے چہروں پر سیاہی اور نہ رسوائی“ یعنی انہیں کسی لحاظ سے بھی کسی ناگوار صورت حال کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا،کیونکہ جب کوئی ناگوار امر واقع ہوتا ہے تو یہ ناگوار امر اس کے چہرے پر ظاہر ہوجاتا ہے اور چہرہ تغیر اور تکدر کا شکار ہوجاتا ہے۔ رہے یہ لوگ تو ان کی حالت ایسے ہوگی جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : ﴿تَعْرِفُ فِي وُجُوهِهِمْ نَضْرَةَ النَّعِيمِ﴾ (المطففین : 83؍24) ” تو ان کے چہروں میں نعمتوں کی تازی معلوم کرلے گا۔‘‘ ﴿أُولَـٰئِكَ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ﴾ ” یہی ہیں جنت میں رہنے والے“ ﴿هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ﴾ ” وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔“ یعنی وہ جنت سے منتقل ہوں گے نہ اس سے دور ہوں گے اور نہ وہ تبدیل ہوں گے۔ یونس
27 اصحاب جنت کا ذکر کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے جہنمیوں کا ذکر فرمایا کہ ان کی کل کمائی جس کا انہوں نے دنیا میں اکتساب کیا، برے اعمال ہیں جن پر اللہ تعالیٰ سخت ناراض ہے، مثلاً کفر کی مختلف انواع، انبیاء کی تکذیب اور گناہ کی مختلف اقسام۔ ﴿جَزَاءُ سَيِّئَةٍ بِمِثْلِهَا﴾ ” تو برائی کا بدلہ بھی ویسا ہی ہوگا۔“ یعنی ان کو ایسی جزا دی جائے گی جو ان کے مختلف احوال اور ان کے برے اعمال کے مطابق بری ہوگی۔ ﴿وَتَرْهَقُهُمْ ﴾ ”اور ان کو ڈھانک لے گی۔“ ﴿ ذِلَّةٌ﴾ ” رسوائی“ یعنی ان کے دلوں میں ذلت اور اللہ کے عذاب کا خوب ہوگا۔ کوئی ان سے اس خوف کو دور نہیں کرسکے گا اور نہ کوئی بچانے والا ان کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچا سکے گا۔ یہ باطنی ذلت ان کے ظاہر میں بھی سرایت کر جائے گی اور ان کے چہرے کی سیاہی بن جائے گی۔ ﴿كَأَنَّمَا أُغْشِيَتْ وُجُوهُهُمْ قِطَعًا مِّنَ اللَّيْلِ مُظْلِمًا ۚ أُولَـٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ﴾” گویا کہ ڈھانک دئے گئے ان کے چہرے اندھیری رات کے ٹکڑوں سے، یہی لوگ ہیں جہنمی، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے“ ان دو گروہوں کے احوال میں کتنا فرق ہے اور دونوں کے درمیان کتنا بعد اور تفاوت ہے ! ﴿وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَّاضِرَةٌ إِلَىٰ رَبِّهَا نَاظِرَةٌ وَوُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ بَاسِرَةٌ  تَظُنُّ أَن يُفْعَلَ بِهَا فَاقِرَةٌ﴾ (القیامۃ: 75؍22-25) ” اس روز بہت سے چہرے ترو تازہ ہوں گے، اپنے رب کا دیدار کر رہے ہوں گے اور بہت سے چہرے اداس ہوں گے اور سمجھ رہے ہوں گے کہ ان پر مصیبت نازل ہونے والی ہے۔“ ﴿ وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ مُّسْفِرَةٌ  ضَاحِكَةٌ مُّسْتَبْشِرَةٌ وَوُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ عَلَيْهَا غَبَرَةٌ تَرْهَقُهَا قَتَرَةٌ  أُولَـٰئِكَ هُمُ الْكَفَرَةُ الْفَجَرَةُ ﴾ (عبس : 80؍38۔46) ” بہت سے چہرے اس روز روشن اور خنداں و شاداں ہوں گے اور کتنے ہی چہرے ہوں گے جو گرد سے اٹے ہوئے ہوں گے سیاہی نے ان کو ڈھانک رکھا ہوگا۔ یہ فجار اور کفار ہیں۔ “ یونس
28 ﴿وَيَوْمَ نَحْشُرُهُمْ جَمِيعًا ﴾ ”اور جس دن ہم ان سب کو جمع کریں گے۔“ یعنی ایک مقرر دن میں ہم تمام مخلوقات کو جمع کریں گے، ہم مشرکین اور ان کے ان معبودان باطل کو بھی اکٹھا کریں گے جن کی یہ مشرکین عبادت کیا کرتے تھے۔ ﴿ثُمَّ نَقُولُ لِلَّذِينَ أَشْرَكُوا مَكَانَكُمْ أَنتُمْ وَشُرَكَاؤُكُمْ﴾ ”پھر ہم کہیں گے شرک کرنے والوں کو کھڑے ہو اپنی اپنی جگہ، تم اور تمہارے شریک“ یعنی اپنی جگہ پر کھڑے رہو، تاکہ تمہارے اور تمہارے معبودوں کے درمیان فیصلہ ہوجائے۔ ﴿فَزَيَّلْنَا بَيْنَهُمْ﴾ ” پھر ہم ان کے درمیان تفرقہ ڈال دیں گے۔“ یعنی ہم بعد بدنی اور بعد قلبی کے ذریعے سے ان کے درمیان جدائی ڈال دیں گے، دنیا میں وہ ایک دوسرے کے لئے خالص محبت و مودت رکھتے تھے، اب ان کے درمیان سخت عداوت ہوگی۔ یہ محبت اور دوستی سخت عداوت اور بغض میں بدل جائے گی۔ ﴿وَقَالَ شُرَكَاؤُهُم﴾ ” اور ان کے شریک کہیں گے“ یعنی ان کے ٹھہرائے ہوئے شریک ان سے بیزاری کا اظہار کرتے ہوئے کہیں گے۔ ﴿مَّا كُنتُمْ إِيَّانَا تَعْبُدُونَ ﴾ ” تم ہماری عبادت تو نہ کرتے تھے“ کیونکہ ہم تو اللہ تبارک و تعالیٰ کو اس سے پاک اور منزہ گردانتے ہیں کہ اس کا کوئی شریک اور ہمسر ہو۔ یونس
29 ﴿فَكَفَىٰ بِاللَّـهِ شَهِيدًا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ إِن كُنَّا عَنْ عِبَادَتِكُمْ لَغَافِلِينَ﴾ ” پس اللہ کافی ہے گواہ، ہمارے اور تمہارے درمیان، یقیناً ہم تمہاری عبادت سے بے خبر تھے“ ہم نے تمہیں عبادت کا حکم دیا تھا نہ ہم نے تمہیں اس کی طرف بلایا تھا، بلکہ درحقیقت تم نے تو اس کی عبادت کی ہے جس نے تمہیں اس شرک کی طرف دعوت دی اور وہ ہے شیطان مردود، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے متنبہ فرمایا تھا : ﴿ أَلَمْ أَعْهَدْ إِلَيْكُمْ يَا بَنِي آدَمَ أَن لَّا تَعْبُدُوا الشَّيْطَانَ ۖ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ ﴾ (یسین : 36؍60) ” اے اولاد آدم ! کیا میں نے تمہیں کہہ نہ دیا تھا کہ شیطان کی عبادت نہ کرنا، وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔“ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ جَمِيعًا ثُمَّ يَقُولُ لِلْمَلَائِكَةِ أَهَـٰؤُلَاءِ إِيَّاكُمْ كَانُوا يَعْبُدُونَ- قَالُوا سُبْحَانَكَ أَنتَ وَلِيُّنَا مِن دُونِهِم ۖ بَلْ كَانُوا يَعْبُدُونَ الْجِنَّ ۖ أَكْثَرُهُم بِهِم مُّؤْمِنُونَ﴾ (سبا : 34؍40۔41) ”اور جس روز وہ ان سب کو اکٹھا کرے گا، پھر فرشتوں سے کہے گا کیا یہ لوگ تمہاری عبادت کیا کرتے تھے؟ وہ عرض کریں گے، تو پاک ہے، ان کی بجائے تو ہمارا دوست ہے، بلکہ یہ جنوں کی عبادت کیا کرتے تھے اور ان میں سے اکثر لوگ انہی کی بات مانتے تھے۔ “ اللہ تعالیٰ کے مکرم فرشتے، انبیائے کرام علیہم السلام اور اولیائے عظام و غیر ہم قیامت کے روز ان لوگوں سے برات کا اظہار کریں گے جو ان کی عبادت کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ کے ہاں اپنے آپ کو (اس الزام سے) بری کریں گے کہ وہ ان لوگوں کو اپنی عبادت کی دعوت دیتے تھے اور وہ اپنی اس براءت میں سچے ہوں گے۔ تب اس وقت مشرکین کو اتنی زیادہ حسرت ہوگی کہ اس کو بیان نہیں کیا جاسکتا۔ انہیں اپنے اعمال کی مقدار کا علم ہوجائے گا اور انہیں یہ بھی معلوم ہوجائے گا کہ ان سے کیا ردی خصائل صادر ہوتے رہے ہیں۔ اس روز ان پر عیاں ہوجائے گا کہ وہ جھوٹے تھے اور اللہ تعالیٰ پر بہتان طرازی کیا کرتے تھے۔ ان کی عبادتیں گم اور ان کے معبود نا بود ہوجائیں گے اور ان کے تمام اسباب و وسائل منقطع ہوجائیں گے۔ یونس
30 بنا بریں فرمایا : ﴿هُنَالِكَ﴾ ” وہاں“ یعنی اس روز ﴿تَبْلُو كُلُّ نَفْسٍ مَّا أَسْلَفَتْ﴾ ” جانچ لے گا ہر کوئی جو اس نے پہلے کیا“ یعنی ان کے اعمال کی پڑتال کی جائے گی اور ان کی نوعیت کے مطابق ان کو جزا دی جائے گی۔ اگر اعمال اچھے ہوں گے، تو اچھی جزا ہوگی، اگر اعمال برے ہوں گے، تو جزا بھی بری ہوگی۔ ﴿وَرُدُّوا إِلَى اللَّـهِ مَوْلَاهُمُ الْحَقِّ ۖ وَضَلَّ عَنْهُم مَّا كَانُوا يَفْتَرُونَ ﴾ ” اور وہ اللہ کی طرف لوٹا دیئے جائیں گے، جو ان کا سچا مالک ہے اور جاتا رہے گا ان سے جو جھوٹ باندھتے تھے“ یعنی اپنے شرک کے بارے میں انہوں نے بہتان طرازی کی تھی کہ یہ معبد ان باطل جن کی یہ عبادت کرتے تھے، ان کو فائدہ دے سکتے ہیں اور عذاب کو ان سے دور کرسکتے ہیں۔ (اس روز ان بہتانوں کی حقیقت واضح ہوجائے گی)۔ یونس
31 ﴿قُلْ﴾ یعنی ان کے تو حیدر بوبیت کے اقرار کو ان کے توحید الوہیت کے انکار پر حجت بناتے ہوئے ان مشرکین سے کہہ دیجئے جنہوں نے اللہ تعالیٰ سے شرک کیا جس پر اللہ تعالیٰ نے کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی۔ ﴿مَن يَرْزُقُكُم مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ﴾ ” کون ہے جو تمہیں روزی دیتا ہے آسمان اور زمین سے“ یعنی آسمان سے رزق نازل کر کے اور زمین سے رزق کی مختلف اقسام کو نکال کر اور اس میں رزق کے اسباب کو آسان بنا کر؟ ﴿أَمَّن يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ ﴾ ” یا کون مالک ہے کان اور آنکھوں کا“ یعنی کون ہے جس نے ان دونوں قویٰ کو تخلیق کیا اور وہ ان کا مالک ہے؟ اللہ تبارک و تعالیٰ نے خاص طور پر ان دونوں قویٰ کا ذکر فرمایا‘یہ مفضول پر فاضل کی فضیلت پر تنبیہ کے باب سے ہے، نیز ان کے شرف اور فوائد کی بنا پر ان کا ذکر کیا۔ ﴿وَمَن يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ﴾ ”اور کون نکالتا ہے زندہ کو مردہ سے“ مثلاً شجر و نباتات کی تمام اقسام کو دانے اور گٹھلی سے پیدا کیا، مومن کو کافر سے جنم دیا اور پرندے کو انڈوں سے تخلیق کیا۔ ﴿وَيُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ﴾ ” اور نکالتا ہے مردہ کو زندہ سے“ یعنی مذکورہ تمام چیزوں کے برعکس ﴿وَمَن يُدَبِّرُ الْأَمْرَ﴾ ” اور کاموں کا انتظام کون کرتا ہے۔“ یعنی کون ہے جو عالم علوی اور عالم سفلی کی تدبیر کرتا ہے؟ اور اس میں تدابیر الٰہیہ کی تمام اقسام شامل ہیں۔ اگر آپ ان سے اس بارے میں سوال کریں ﴿فَسَيَقُولُونَ اللَّـهُ﴾ ” تو وہ کہیں گے، اللہ“ کیونکہ وہ ان تمام امور کا اقرار کرتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ مذکورہ تمام امور میں اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک نہیں۔ ﴿فَقُلْ﴾ تو الزامی حجت کے طور پر ان سے کہہ دیجئے ! ﴿أَفَلَا تَتَّقُونَ ﴾ ”پھر تم ڈرتے کیوں نہیں۔“ کیا تم اللہ تعالیٰ سے نہیں ڈرتے کہ خالص اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کرتے اور جھوٹے معبودوں اور بتوں کی بندگی کا قلادہ اپنی گردن سے اتار پھینکتے۔ یونس
32 ﴿فَذَٰلِكُمُ﴾ ” پس یہی“ یعنی وہ ہستی، جس نے اپنے مذکورہ اوصاف بیان کیے۔ ﴿اللَّـهُ رَبُّكُمُ ﴾ ”اللہ ہے، تمہارا رب“ وہ معبود محمود ہے جو مختلف نعمتوں کے ذریعے سے تمام مخلوقات کا مربی ہے۔ ﴿الْحَقُّ ۖ فَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلَالُ ۖ﴾ ” اور وہ حق ہے، پس حق کے بعد سوائے گمراہی کے کیا ہے؟“ یعنی وہ تمہارا پروردگار برحق ہے، حق کے بعد، گمراہی کے سوا کیا باقی رہ جاتا ہے؟ اللہ تبارک و تعالیٰ اکیلا ہی تمام کائنات کا خالق اور اس کی تدبیر کرتا ہے، بندوں کے پاس جو بھی نعمت ہے وہ اسی کی طرف سے عطا کی ہوئی ہے۔ تمام بھلائیاں وہی لاتا ہے اور تمام برائیوں کو وہی دور کرتا ہے، وہ اسمائے حسنیٰ سے موسوم، صفات کاملہ سے موصوف اور جلال و اکرام کا مالک ہے۔ ﴿فَأَنَّىٰ تُصْرَفُونَ﴾ ” پس تم کہاں پھیرے جاتے ہو“ یعنی جس ہستی کے یہ اوصاف ہیں اسے چھوڑ کر ان ہستیوں کی عبادت کی طرف کیوں کر پھیرے جا رہے ہو جن کا وجود عدم کے سوا کچھ بھی نہیں۔ جو خود اپنی ذات کے لئے کسی نفع و نقصان، موت و حیات اور زندہ کرنے پر قادر نہیں۔ جن کا اقتدار میں کسی بھی لحاظ سے ذرہ بھر بھی حصہ اور شراکت نہیں۔ وہ اس کے پاس، اس کی اجازت کے بغیر کسی کی سفارش نہیں کرسکتیں۔ پس ہلاکت ہے اس کے لئے جو ایسوں کو شریک ٹھہراتا ہے اور برائی ہے اس کے لئے جو اللہ کے ساتھ کفر کرتا ہے۔ یقیناً اپنے دین سے محروم ہونے کے بعد وہ اپنی عقلوں سے بھی محروم ہوگئے، بلکہ وہ اپنی دنیا اور آخرت بھی کھو بیٹھے۔ یونس
33 بنابریں اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں فرمایا : ﴿كَذَٰلِكَ حَقَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ عَلَى الَّذِينَ فَسَقُوا أَنَّهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ﴾ ” اسی طرح ثابت ہوگئی تیرے رب کی بات ان لوگوں پر جو نافرمان ہوئے کہ وہ ایمان نہیں لائیں گے۔“ اس کے بعد کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو واضح نشانات اور روشن دلائل دکھائے جن میں عقل مندوں کے لئے عبرت’ اہل تقویٰ کے لئے نصیحت اور جہانوں کے لئے ہدایت ہے۔ یونس
34 اللہ تبارک و تعالیٰ مشرکین کے معبودان باطل کی بے بسی اور ان کے ان صفات سے محروم ہونے کا، جو معبود گردانے جانے کی موجب ہیں، ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے : ﴿قُلْ هَلْ مِن شُرَكَائِكُم مَّن يَبْدَأُ الْخَلْقَ﴾ ” کہہ دیجئے ! کیا ہے تمہارے شریکوں میں جو پیدا کرے مخلوق کو“ یعنی پہلی مرتبہ اسے بنائے؟ ﴿ثُمَّ يُعِيدُهُ ۚ﴾ ” پھر اسے دوبارہ زندہ کرے“ یہ استفہام بمعنی نفی اور اثبات کے ہے، یعنی مخلوق میں سے کوئی ایسی ہستی نہیں ہے جو مخلوق کی تخلیق کی ابتدا اور پھر اس کا اعادہ کرسکتی ہو، وہ ایسا کرنے سے یکسر عاجز اور کمزور ہے۔ ﴿قُلِ اللَّـهُ يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ ﴾ ” کہہ دیجئے ! کہ اللہ ہی پہلی بار پیدا کرتا ہے، پھر وہی اس کو دوبارہ پیدا کرے گا۔“ یعنی اللہ تعالیٰ ہی بغیر کسی شریک کی شراکت اور بغیر کسی معاون کی مدد کے تخلیق کی ابتداء کرتا ہے پھر اس کا اعادہ کرتا ہے ﴿فَأَنَّىٰ تُؤْفَكُونَ﴾ ” پس کہاں پھرے جاتے ہوتم؟“ یعنی ہر اس ہستی کی عبادت سے منحرف ہو کر جو مخلوق کی ابتدا کرنے اور پھر اس کا اعادہ کرنے میں متفرد ہے‘ ایسی ہستیوں کی عبادت کر رہے ہو جو کچھ تخلیق کرنے سے قاصر، بلکہ خود مخلوق ہیں۔ یونس
35 ﴿قُلْ هَلْ مِن شُرَكَائِكُم مَّن يَهْدِي إِلَى الْحَقِّ﴾ ” کہہ دیجئے ! کیا ہے تمہارے شریکوں میں سے جو حق کی طرف رہنمائی کرے“ یعنی اپنے بیان اور رہنمائی یا اپنے الہام اور توفیق کے ذریعے سے، حق کی طرف راہ نمائی کرسکتا ہو۔ ﴿قُلِ اللَّـهُ﴾ ” کہہ دیجئے اللہ“ یعنی اللہ تعالیٰ اکیلا ﴿يَهْدِي لِلْحَقِّ﴾ ” رہنمائی کرتا ہے حق کی طرف“ دلائل و براہین اور الہام و توفیق کے ذریعے سے حق کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور راست ترین راستے پر گامزن ہونے میں مدد دیتا ہے۔ ﴿أَفَمَن يَهْدِي إِلَى الْحَقِّ أَحَقُّ أَن يُتَّبَعَ أَمَّن لَّا يَهِدِّي إِلَّا أَن يُهْدَىٰ﴾ ” کیا پس جو شخص راہ بتائے صحیح، اس کی بات ماننی چاہئے، یا اس کی جو آپ راہ نہ پائے، مگر یہ کہ اس کو راہ بتلائی جائے۔“ یعنی اپنے عدم علم اور گمراہی کے سبب سے اور اس سے مراد ان کے گھڑے ہوئے شریک ہیں جو کسی کو ہدایت دے سکتے ہیں نہ خود ہدایت یافتہ ہیں، سوائے اس کے کہ خود ان کی راہ نمائی کی جائے۔﴿فَمَا لَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُونَ﴾ ” تو تم کو کیا ہوا ہے کیسا فیصلہ کرتے ہو۔“ یعنی کس چیز نے تمہیں اس پر آمادہ کیا ہے کہ تم یہ باطل فیصلہ کرتے ہو اور اس حقیقت پر دلیل و برہان کے ظاہر ہونے کے بعد کہ اللہ واحد کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں، تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ غیر اللہ کی عبادت کی صحت کا حکم لگاتے ہو۔ یونس
36 جب یہ حقیقت عیاں ہوگئی کہ ان کے معبود ان باطل میں جن کی یہ عبادت کرتے ہیں‘وہ معنوی اور فعلی اوصاف موجود نہیں جو اس بات کا تقاضا کرتے ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ان کی بھی عبادت کی جائے، بلکہ اس کے برعکس یہ معبودان باطل نقائص سے متصف ہیں جو ان کی الوہیت کے بطلان کا موجب ہیں، تب وہ کون سی چیز ہے جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ انہیں بھی معبود قرار دیتی ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ انسان کے لئے اس کو خوش نما بنا دینا شیطان کا کام ہے، یہ قبیح ترین بہتان اور سب سے بڑی گمراہی ہے، لیکن یہی اس کا دل پسند اعتقاد بن گیا ہے اور وہ اسی کو حق سمجھتا ہے حالانکہ وہ کچھ بھی نہیں ہے۔ اسی لئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَمَا يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ﴾ ” اور نہیں پیروی کرتے ان کے اکثر لوگ“ یعنی جو اللہ تعالیٰ کی بجائے اپنے گھڑے ہوئے شریکوں کو پکارتے ہیں ﴿ إِلَّا ظَنًّا ۚ﴾ ” مگر گمان کی۔“ یعنی وہ در حقیقت اللہ تعالیٰ کے شریکوں کو نہیں پکارتے، کیونکہ اصل میں عقلاً و نقلاً اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک نہیں، یہ لوگ محض اپنے ظن و گمان کی پیروی کرتے ہیں ﴿ إِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا﴾ ” اور بے شک گمان حق کے مقابلے میں کسی کام نہیں آتا‘‘ پس انہوں نے ان کو معبود کے نام سے موسوم کردیا اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ ان کی عبادات بھی کرنے لگے ﴿إِنْ هِيَ إِلَّا أَسْمَاءٌ سَمَّيْتُمُوهَا أَنتُمْ وَآبَاؤُكُم مَّا أَنزَلَ اللَّـهُ بِهَا مِن سُلْطَانٍ ۚ﴾ (النجم : 53؍23) ” وہ تو صرف چند نام ہیں جو تم نے اور تمہارے آباؤ اجداد نے گھڑ لئے ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے کوئی دلیل نازل نہیں کی۔“ ﴿إِنَّ اللَّـهَ عَلِيمٌ بِمَا يَفْعَلُونَ﴾ ” بے شک اللہ جانتا ہے جو وہ کرتے ہیں۔“ اللہ تعالیٰ ان کے افعال کو خوب جانتا ہے اور وہ ان افعال پر انہیں سخت سزا دے گا۔ یونس
37 ﴿وَمَا كَانَ هَـٰذَا الْقُرْآنُ أَن يُفْتَرَىٰ مِن دُونِ اللَّـهِ ﴾ ” اور نہیں ہے یہ قرآن کہ اسے گھڑ لیا جائے اللہ کے ورے ورے ہی“ یعنی یہ غیر ممکن اور غیر متصور ہے کہ اس قرآن کو اللہ تعالیٰ پر گھڑ لیا گیا ہو کیونکہ یہ عظیم کتاب ہے۔ جس کے بارے میں فرمایا : ﴿ لَّا يَأْتِيهِ الْبَاطِلُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهِ ۖ تَنزِيلٌ مِّنْ حَكِيمٍ حَمِيدٍ ﴾ (حم السجدۃ: 41؍42) ” باطل کا دخل اس میں آگے سے ہوسکتا ہے نہ پیچھے سے، یہ دانا اور قابل ستائش ہستی کی طرف سے نازل کی ہوئی ہے۔“ یہ ایسی کتاب ہے ﴿ لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنسُ وَالْجِنُّ عَلَىٰ أَن يَأْتُوا بِمِثْلِ هَـٰذَا الْقُرْآنِ لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا ﴾ (بنی اسرائیل : 17؍88) ” اگر تمام انسان اور جن اس بات پر اکٹھے ہوجائیں کہ وہ اس قرآن جیسی کوئی کتاب بنا کر لائیں تو اس جیسے کوئی کتاب نہ لا سکیں گے خواہ وہ ایک دوسرے کے مددگار ہوں۔ “ یہ وہ کتاب ہے جس کے ذریعے سے جہانوں کے پروردگار نے بندوں کے ساتھ کلام کیا، تب مخلوق میں سے کوئی ہستی اس جیسے کلام یا اس کے قریب قریب کلام پر کیوں کر قادر ہوسکتی ہے۔ حالانکہ کلام متکلم کی عظمت اور اس کے اوصاف کے تابع ہوتا ہے۔ اگر کوئی ہستی اپنی عظمت اور اپنے اوصاف کمال میں اللہ تعالیٰ جیسی ہوسکتی ہے، تو اس کے لئے یہ بھی ممکن ہے کہ اس قرآن جیسی کتاب بنا لائے۔ اگر ہم فرض کرلیں کہ کسی نے اللہ تعالیٰ پر کتاب گھڑ لی ہے، تو اللہ تعالیٰ اسے ضرور فوری سزا دیتا۔ ﴿ وَلَـٰكِن﴾ مگر اللہ تعالیٰ نے کائنات پر بے پایاں رحمت اور تمام بندوں پر حجت کے طور پر اس کتاب کو نازل فرمایا ﴿ تَصْدِيقَ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ﴾ ” تصدیق کرتی ہے پہلے کلام کی“ یعنی آسمانی کتابیں جو اس سے پہلے نازل ہوچکی ہیں ان کی تصدیق ہے، یہ کتاب ان کی موافقت اور ان کی شہادت کی بنا پر ان کی تصدیق کرتی ہے، ان کتابوں نے اس کے نازل ہونے کی خوشخبری سنائی تھی اور پھر اسی طرح ہوا جس طرح ان کتب الٰہیہ نے خبر دی تھی۔ ﴿وَتَفْصِيلَ الْكِتَابِ﴾ ” اور کتاب کی تفصیل ہے۔“ یعنی اس میں حلال و حرام، احکام دینیہ، احکام قدریہ اور اخبار صادقہ کی تفصیل ہے۔ ﴿ لَا رَيْبَ فِيهِ مِن رَّبِّ الْعَالَمِينَ﴾ ”اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ رب العالمین کی طرف سے ہے۔“ یعنی کسی بھی پہلو سے اس میں کوئی شک و شبہ نہیں، بلکہ یہ یقینی حق ہے اور جہانوں کے پروردگار کی طرف سے نازل کردہ ہے۔ جس نے اپنی نعمتوں کے ذریعے سے تمام مخلوق کی پرورش اور اس کی تربیت کی۔ سب سے بڑی تربیت کی قسم یہ ہے کہ اس نے ان پر یہ کتاب نازل فرمائی جو ان کے دینی اور دنیاوی مصالح پر مبنی اور مکارم اخلاق اور محاسن اخلاق پر مشتمل ہے۔ یونس
38 ﴿أَمْ يَقُولُونَ﴾ ” کیا یہ کہتے ہیں؟“ یعنی اس کتاب کی تکذیب کرنے والے عناد اور تعدی کی بنا پر کہتے ہیں : ﴿افْتَرَاهُ﴾ ” اس نے خود اسے بنا لیا ہے“ یعنی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو تصنیف کیا ہے۔ ﴿قُلْ﴾ ” کہہ دیجئے“ یعنی ان پر اس کو لازم کرتے ہوئے کہ وہ جس کا دعویٰ کرتے ہیں اگر اس پر قدرت رکھتے ہیں تو وہ (اس جیسی کتاب) لے آئیں ورنہ ان کی بات باطل ہے۔ ﴿وَادْعُوا مَنِ اسْتَطَعْتُم مِّن دُونِ اللَّـهِ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ﴾ ’’اور بلا لو، جس کو تم بلا سکو اللہ کے سوا، اگر تم سچے ہو“ یعنی جو اس جیسی سورت بنا لانے میں تمہاری مدد کرے اور یہ محال ہے اگر ایسا کرنا ممکن ہوتا تو ضرور اس پر قدرت رکھنے کا دعویٰ کرتے اور اس جیسی کتاب لا دکھاتے۔ مگر چونکہ ان کی بے بسی ظاہر ہوگئی ہے اس لئے ان کا قول باطل ہوگیا جو کہ دلیل سے محروم ہے۔ یونس
39 وہ چیز جس نے ان کو قرآن، جو حق پر مشتمل ہے اور اس سے بڑھ کر کوئی حق نہیں، کی تکذیب پر آمادہ کیا ہے، وہ یہ ہے کہ وہ اس کا علم نہیں رکھتے۔ اگر وہ اس کا علم رکھتے ہوتے اور اگر انہوں نے اس کو سمجھ لیا ہوتا جیسا کہ سمجھنے کا حق ہے، تو وہ ضرور اس کی حقانیت کی تصدیق کرتے۔ اسی طرح اب تک ان کے پاس ان کے ساتھ کئے ہوئے اس وعدے کی حقیقت، کہ اللہ تعالیٰ ان پر عذاب نازل کرے گا اور ان کو سزا دے گا، نہیں آٗئی۔ اور یہ تکذیب جو ان کی طرف سے صادر ہوئی ہے ان سے پہلے لوگوں کی طرف سے صادر ہونے والی تکذیب کی جنس سے ہے۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿كَذَٰلِكَ كَذَّبَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ۖ فَانظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الظَّالِمِينَ﴾ ” اسی طرح جھٹلایا ان لوگوں نے جو ان سے پہلے تھے، پس دیکھو، کیسا انجام ظالموں کا“ اس سے مراد وہ عذاب ہے جس نے ان میں سے کوئی باقی نہ چھوڑا، لہٰذا ان لوگوں کو تکذیب پر جمے رہنے سے بچنا چاہئے ایسا نہ ہو کہ کہیں ان پر بھی وہ عذاب نازل ہوجائے جو انبیاء و رسل کو جھٹلانے والی اور ہلاک ہونے والی قوموں پر نازل ہوا۔ یہ آیت کریمہ تمام امور میں سوچ سمجھ کر قدم اٹھانے کے وجوب پر دلالت کرتی ہے اور اس سے یہ راہ نمائی بھی حاصل ہوتی ہے کہ انسان کے لئے یہ مناسب نہیں کہ وہ کسی چیز کے بارے میں پوری حقیقت حال معلوم کئے بغیر اسے قبول یارد کر دے۔ یونس
40 ﴿ وَمِنْهُم مَّن يُؤْمِنُ بِهِ﴾ ”اور بعض ان میں سے وہ ہیں جو ایمان لاتے ہیں ساتھ اس کے“ یعنی قرآن کریم اور اس کی لائی ہوئی تعلیم پر ایمان رکھتے ہیں ﴿وَمِنْهُم مَّن لَّا يُؤْمِنُ بِهِ ۚ وَرَبُّكَ أَعْلَمُ بِالْمُفْسِدِينَ ﴾ ” اور بعض وہ ہیں جو اس کے ساتھ ایمان نہیں لاتے اور آپ کا رب شرارت کرنے والوں کو خوب جانتا ہے۔“ یہاں مفسدین سے مراد وہ لوگ ہیں جو اپنے ظلم، عناد اور فساد کی بنا پر قرآن پر ایمان نہیں لاتے۔ اللہ تعالیٰ ان کے فساد کی پاداش میں انہیں سخت عذاب میں مبتلا کرے گا۔ یونس
41 ﴿ وَإِن كَذَّبُوكَ ﴾ ” اگر وہ آپ کو جھٹلاتے ہیں“ تو آپ ان کو اپنی دعوت پہنچاتے رہئے، ان کے حساب میں سے کچھ بھی آپ کے ذمے نہیں اور نہ آپ کا حساب ان کے ذمے ہے، ہر شخص کا عمل اسی کے لئے ہے۔ فرمایا : ﴿فَقُل لِّي عَمَلِي وَلَكُمْ عَمَلُكُمْ ۖ أَنتُم بَرِيئُونَ مِمَّا أَعْمَلُ وَأَنَا بَرِيءٌ مِّمَّا تَعْمَلُونَ﴾ ” آپ کہہ دیجئے ! میرے واسطے میرا عمل ہے اور تمہارے واسطے تمہارا عمل، تم میرے عمل سے بری ہو اور میں تمہارے عملوں سے بری ہوں“ یہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی نظیر ہے ﴿مَّنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهِ ۖ وَمَنْ أَسَاءَ فَعَلَيْهَا ۗ﴾ (حم السجدہ : 41؍46)” جو کوئی نیک کام کرتا ہے تو اپنے لیے، جو کوئی برا کام کرتا ہے تو اس کا ضرر اسی پر ہے۔ “ یونس
42 اللہ تبارک و تعالیٰ ان لوگوں کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے جنہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اور آپ کی لائی ہوئی شریعت کی تکذیب کی، چنانچہ فرمایا : ﴿ وَمِنْهُم مَّن يَسْتَمِعُونَ ﴾ ” اور ان میں سے بعض کان لگاتے ہیں آپ کی طرف“ یعنی وحی کی قراءت کے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو غور سے سنتے ہیں، رشد و ہدایت کے حصول کی خاطر نہیں، بلکہ تکذیب اور کمزوریاں تلاش کرنے کے لئے سنتے ہیں اور اس طرح کا سننا کوئی فائدہ نہیں دیتا اور سننے والے کو کوئی بھلائی عطا نہیں کرتا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان پر توفیق کا دروازہ بند ہوگیا اور وہ سننے کے فائدے سے محروم ہوگئے۔ بنا بریں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿أَفَأَنتَ تُسْمِعُ الصُّمَّ وَلَوْ كَانُوا لَا يَعْقِلُونَ ﴾ ” کیا آپ بہروں کو سنائیں گے، اگرچہ وہ سمجھ نہ رکھتے ہوں“ یہ استفہام بمعنی نفی متقرر (استفہام انکاری) ہے، یعنی آپ بہروں کو نہیں سنا سکتے جو بات کو غور سے نہیں سنتے خواہ آپ بآواز بلند کیوں نہ سنوائیں خاص طور پر جب کہ وہ عقل سے محروم ہوں۔ جب بہرے کو سنوانا محال ہے جو کلام کو سمجھنے سے قاصر ہے، تب یہ تکذیب کرنے والے بھی اسی طرح سننے سے قاصر ہیں آپ ان کو بھی نہیں سنوا سکتے جس سے یہ نفع اٹھا سکیں۔ رہا سماع حجت، تو انہوں نے اتنا ضرور سن لیا جس سے ان پر اللہ تعالیٰ کی حجت بالغہ قائم ہو۔ سماعت حصول کے راستے میں سے ایک بہت بڑا راستہ ہے جو ان پر مسدود ہوچکا ہے اور یہ بھلائی سے متعلق مسموعات ہیں۔ یونس
43 پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے دوسرے راستے کو مسدودہونے کا ذکر فرمایا ہے اور وہ ہے نظر کا راستہ، چنانچہ فرمایا ﴿وَمِنْهُم مَّن يَنظُرُ إِلَيْكَ﴾ ”اور ان میں سے بعض ایسے ہیں جو آپ کی طرف دیکھتے ہیں۔“ اور ان کا آپ کی طرف دیکھنا ان کو کوئی فائدہ نہیں دیتا اور نہ آپ کو کوئی راحت دے سکتا ہے۔ پس جس طرح آپ اندھوں کو راہ نہیں دکھا سکتے جو بصارت سے محروم ہیں اسی طرح آپ بہروں کی بھی راہ نمائی نہیں کرسکتے۔ جب ان کی عقل، سماعت اور بصارت، جو حصول علم اور معرفت حقائق کا ذریعہ ہیں، خرابی کا شکار ہوجائیں تب ان کے لئے حق تک پہنچنے کا کون سا راستہ ہے؟ اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد : ﴿وَمِنْهُم مَّن يَنظُرُ إِلَيْكَ﴾ دلالت کرتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے احوال، آپ کے طریقوں، آپ کے اخلاق اور آپ کے اعمال کو دیکھنا آپ اور آپ کی دعوت کی صداقت پر دلیل مہیا کرتا ہے اور یہ نظر، صاحب بصیرت کو دیگر دلائل سے مستغنی کردیتی ہے۔ یونس
44 ﴿إِنَّ اللَّـهَ لَا يَظْلِمُ النَّاسَ شَيْئًا﴾ ” للہ لوگوں پر کچھ بھی ظلم نہیں کرتا“ پس وہ لوگوں کی برائیوں کو بڑھاتا ہے، نہ نیکیوں میں کمی کرتا ہے۔ ﴿ وَلَـٰكِنَّ النَّاسَ أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ ﴾ ” لیکن لوگ ہی اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں۔“ ان کے پاس حق آتا ہے مگر یہ اسے قبول نہیں کرتے ہیں، تب اللہ تعالیٰ سزا کے طور پر ان کے دلوں، ان کے کانوں اور ان کی آنکھوں پر مہر لگا دیتا ہے۔ یونس
45 اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ یہ دنیا نہایت سرعت سے ختم ہوجانے والی ہے اور اللہ تعالیٰ جس روز تمام لوگوں کو اکٹھا کرے گا، جس میں کوئی شک نہیں، تو ان کو یوں لگے گا گویا کہ وہ دن کی ایک گھڑی ٹھہرے ہیں اور ان پر کسی نعمت یا تکلیف کے دن نہیں گزرے۔ وہ ایک دوسرے سے اس طرح متعارف ہوں گے جس طرح وہ دنیا میں متعارف تھے۔ اس روز متقی لوگ فائدے میں رہیں گے اور وہ لوگ نقصان اٹھائیں گے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی ملاقات کو جھٹلایا، وہ راہ راست پر گامزن ہوئے نہ دین قویم پر چلے، کیونکہ وہ نعمتوں سے محروم ہوں گے اور جہنم کے مستحق ہوں گے۔ یونس
46 اے رسول ! ان جھٹلانے والوں کے بارے میں غمزدہ نہ ہوں اور نہ ان کے بارے میں عجلت سے کام لیں، کیونکہ وہ عذاب ان پر ضرور نازل ہوگا جس کا ہم ان کے ساتھ وعدہ کرتے ہیں، تو یہ عذاب دنیا میں نازل ہوگا اور آپ اسے اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے اور آپ کا دل ٹھنڈا ہوگا یا ان کے مرنے کے بعد انہیں آخرت میں اس عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا، انہیں اللہ تعالیٰ ہی کی طرف لوٹنا ہے اور یہ جو کچھ کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو آگاہ فرمائے گا اس نے ان کے اعمال کو محفوظ کر رکھا ہے جبکہ انہوں نے فراموش کردیا اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر گواہ ہے۔ اس آیت کریمہ میں کفار کے لئے سخت وعید ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے تسلی ہے جن کو ان کو قوم نے جھٹلایا اور ان سے عناد رکھا۔ یونس
47 ﴿وَلِكُلِّ أُمَّةٍ﴾ ” ہر امت کے لئے“ یعنی گزشتہ امتوں میں سے ہر امت کے لئے ﴿رَّسُولٌ﴾ ایک رسول مبعوث کیا گیا جو ان کو اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کے دین کی دعوت دیتا تھا۔ ﴿ فَإِذَا جَاءَ رَسُولُهُمْ﴾ ” پس جب ان کا رسول آتا۔“ یعنی ان کے پاس آیات الٰہی لے کر آتا تو ان میں سے کچھ لوگ اس کی تصدیق کرتے اور دوسرے اس کو جھٹلاتے۔ پس اللہ تبارک و تعالیٰ ان کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ فرماتا، اہل ایمان کو نجات دیتا اور جھٹلانے والوں کو ہلاک کردیتا۔ ﴿وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ﴾ ” اور ان پر ظلم نہیں کیا جاتا“ یعنی رسول بھیجنے اور حجت قائم کرنے سے پہلے یا کسی جرم کے بغیر ان کو عذاب نہیں دیا گیا، اس لئے آپ کو جھٹلانے والے گزشتہ زمانوں میں ہلاک کی گئی قوموں کی مشابہت سے بچیں۔ ایسا نہ ہو کہ ان پر بھی وہی عذاب نازل ہوجائے جو ان قوموں پر نازل ہوا تھا۔ اللہ تعالیٰ کے عذاب کے بارے میں یہ نہ سمجھیں کہ وہ دیر سے آئے گا اور پھر وہ یہ کہتے پھریں یونس
48 ﴿مَتَىٰ هَـٰذَا الْوَعْدُ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ﴾ ” کب ہے یہ وعدہ، اگر تم سچے ہو“ یہ ان کی طرف سے سخت ظلم کا رویہ ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا مطالبہ کرتے ہیں حالانکہ آپ کے اختیار میں کچھ بھی نہیں۔ آپ کی ذمہ داری تو صرف پہنچا دینا ہے اور لوگوں کے سامنے بیان کردینا ہے۔ رہا ان کا حساب و کتاب اور ان پر عذاب کا نازل کرنا تو یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ جب اس کی مدت معینہ اور حکمت الٰہیہ کے مطابق ان کا وقت مقررہ آن پہنچے گا، تو ان کے ساتھ ایک گھڑی کی تاخیر نہ کی جائے گی نہ تقدیم۔ اس لئے اس کی تکذیب کرنے والے جلدی مچانے سے بچیں، کیونکہ وہ درحقیقت اللہ تعالیٰ کے عذاب کے لئے جلدی مچاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا عذاب جب نازل ہوتا ہے تو مجرموں کی قوم پر نازل ہونے سے اسے روکا نہیں جاسکتا۔ بنا بریں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : یونس
49 یونس
50 ﴿ قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُهُ بَيَاتًا ﴾ ” کہہ دیجئے ! بتلاؤ، اگر تمہارے پاس اس کا عذاب آجائے راتوں رات۔“ یعنی رات کے وقت سوتے میں۔ ﴿أَوْ نَهَارًا﴾ ” یا دن کو“ یعنی تمہاری غفلت کے وقت ﴿مَّاذَا يَسْتَعْجِلُ مِنْهُ الْمُجْرِمُونَ﴾ ” و وہ کیا چیز ہے جس کے لئے مجرمین جلدی کا مطالبہ کر رہے ہیں؟“ یعنی وہ کون سی بشارت ہے، جس کے لئے یہ جلدی مچا رہے ہیں اور کون سا عذاب ہے، جس کی طرف یہ تیزی سے بڑھ رہے ہیں؟ یونس
51 ﴿ أَثُمَّ إِذَا مَا وَقَعَ آمَنتُم بِهِ﴾ ” کیا پھر جب وہ عذاب واقع ہوچکے گا، تب اس پر تم ایمان لاؤ گے؟“ کیونکہ جب اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہوگا تو اس وقت ایمان لانا کوئی فائدہ نہیں دے گا اور اس حال میں جب کہ وہ سمجھ رہے ہوں گے کہ وہ ایمان لے آئیں ہیں، عتاب اور زجرو توبیخ کے طور پر ان سے کہا جائے گا : ﴿ آلْآنَ﴾ ” اب“ یعنی اب تم اس شدت اور سخت مشقت کی حالت میں ایمان لاتے ہو؟ ﴿وَقَدْ كُنتُم بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ ﴾ ” تم تو اس عذاب کے لئے بہت جلدی مچایا کرتے تھے۔“ اپنے بندوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی سنت یہ ہے کہ وقوع عذاب سے قبل اگر وہ اسے منانے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ ان سے اپنی ناراضی کو دور کردیتا ہے اور جب اللہ تعالیٰ کا عذاب واقع ہوجاتا ہے، تو کسی نفس کو اس کا ایمان لانا کوئی فائدہ نہیں دیتا، جیسا کہ فرعون کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب وہ ڈوبنے لگا، تو اس نے کہا : ﴿ آمَنتُ أَنَّهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا الَّذِي آمَنَتْ بِهِ بَنُو إِسْرَائِيلَ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ﴾ (یونس : 10؍90) ” میں ایمان لایا کہ اس ہستی کے سوا کوئی معبود نہیں جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے اور میں بھی اس کے سامنے سراطاعت خم کردینے والوں میں سے ہوں۔“ تو اس کو جواب دیا گیا : ﴿آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ وَكُنتَ مِنَ الْمُفْسِدِينَ ﴾ (یونس : 10؍ 91)”اب ایمان لاتا ہے حالانکہ اس سے پہلے نافرمانی کرتا رہا ہے اور فساد کرنے ولوں میں سے تھا۔“ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿فَلَمْ يَكُ يَنفَعُهُمْ إِيمَانُهُمْ لَمَّا رَأَوْا بَأْسَنَا  سُنَّتَ اللَّـهِ الَّتِي قَدْ خَلَتْ فِي عِبَادِهِ  وَخَسِرَ هُنَالِكَ الْكَافِرُونَ ﴾ )المومن : 40؍85 (” پس جب وہ ہمارا عذاب دیکھ لیں گے تو اس وقت ان کا ایمان لانا ان کو کوئی فائدہ نہ دے گا۔ یہ سنت الٰہی ہے جو اس کے بندوں کے بارے میں چلی آرہی ہیں۔ “ اور یہاں فرمایا : ﴿أَثُمَّ إِذَا مَا وَقَعَ آمَنتُم بِهِ﴾ ” کیا جب وہ واقع ہوگا تب اس پر ایمان لاؤ گے؟ )تو کہا جائے گا( اب تم“ )ایمان کا دعویٰ کرتے ہو؟( ﴿ وَقَدْ كُنتُم بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ ﴾ ” اسی کے لئے تو تم جلدی مچایا کرتے تھے۔“ یہ ہے تمہارے ہاتھوں کی کمائی اور یہ ہے وہ، جس کی تم جلدی مچایا کرتے تھے۔ یونس
52 ﴿ثُمَّ قِيلَ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا﴾ ” پھر ظالم لوگوں سے کہا جائے گا“ جب قیامت کے روز ان کے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا ﴿ ذُوقُوا عَذَابَ الْخُلْدِ﴾ ” چکھو عذاب ہمیشگی کا“ یعنی وہ عذاب جس میں تم ہمیشہ رہو گے، یہ عذاب تم سے ایک گھڑی کے لئے دور نہ ہوگا ﴿هَلْ تُجْزَوْنَ إِلَّا بِمَا كُنتُمْ تَكْسِبُونَ﴾ ” اسی چیز کا بدلہ تمہیں دیا جا رہا ہے جو تم کماتے تھے“ یعنی کفر، تکذیب رسالت اور معاصی کی تمہیں جزا دی جا رہی ہے۔ یونس
53 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے: ﴿ وَيَسْتَنبِئُونَكَ﴾ ” اور آپ سے دریافت کرتے ہیں۔“ یہ مکذبین تحقیق و تبیین اور طلب ہدایت کے لئے نہیں، بلکہ عناد و نکتہ چینی کے قصد سے آپ سے پوچھتے ہیں ﴿ أَحَقٌّ هُوَ ﴾ ” کیا آیا یہ سچ ہے؟“ یعنی کیا یہ بات صحیح ہے کہ انسانوں کے مرنے کے بعد قیامت کے روز انہیں دوبارہ زندہ کر کے جمع کیا جائے گا۔ پھر ان کے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا۔ اچھے اعمال کا بدلہ اچھا ہوگا اور برے اعمال کا بدلہ برا ہوگا۔ ﴿قُلْ﴾ ” کہہ دیجئے !“ اس کی صحت پر قسم اٹھا کر اور واضح دلیل کے ذریعے سے اس پر استدلال کرتے ہوئے کہہ دیجئے ! ﴿ إِي وَرَبِّي إِنَّهُ لَحَقٌّ ﴾ ” قسم ہے میرے رب کی، یہ یقیناً حق ہے“ یعنی اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ﴿ وَمَا أَنتُم بِمُعْجِزِينَ ﴾ ” اور تم عاجز نہ کرسکو گے۔“ یعنی تم اللہ تعالیٰ کو دوبارہ اٹھانے سے عاجز اور بے بس نہیں کرسکتے۔ پس جس طرح اللہ تعالیٰ نے ابتداء میں تمہیں پیدا کیا ہے جبکہ تم کچھ بھی نہ تھے اسی طرح وہ دوبارہ تمہیں پیدا کرسکتا ہے، تاکہ وہ تمہیں تمہارے اعمال کا بدلہ دے۔ یونس
54 ﴿وَ﴾ ” اور“ جب قیامت برپا ہوگی ﴿ أَنَّ لِكُلِّ نَفْسٍ ظَلَمَتْ﴾ اگر ہو ہر گناہ گار کے پاس جس نے کفر و معاصی کے ذریعے سے ظلم کیا ﴿ مَا فِي الْأَرْضِ﴾ ” جو کچھ زمین میں ہے“ یعنی زمین میں جو سونا چاندی وغیرہ ہے، تو وہ سب کا سب اپنے کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچانے کے لئے فدیہ میں دے دے۔ ﴿ لَافْتَدَتْ بِهِ﴾ ” تو وہ ضرور فدیے میں دے دے۔“ مگر یہ فدیہ دینا اس کے کسی کام نہ آئے گا، کیونکہ نفع و نقصان اور ثواب و عذاب تو نیک اور برے اعمال پر منحصر ہے۔ ﴿وَأَسَرُّوا النَّدَامَةَ لَمَّا رَأَوُا الْعَذَابَ﴾ ” اور چھپے چھپے پچھتائیں گے وہ جب دیکھیں گے“ یعنی وہ لوگ جنہوں نے ظلم کیا دل ہی دل میں اپنے اعمال پر پچھتائیں گے مگر اب رہائی کا کوئی وقت نہیں ہوگا۔ ﴿ وَقُضِيَ بَيْنَهُم بِالْقِسْطِ ﴾ ” اور ان میں انصاف کے ساتھ فیصلہ کردیا جائے گا۔“ یعنی کامل انصاف کے ساتھ ان کے درمیان فیصلہ کیا جائے گا۔ جس میں کسی پہلو سے بھی ظلم و جور نہیں ہوگا۔ یونس
55 ﴿ أَلَا إِنَّ لِلَّـهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ﴾ ” خبردار! اللہ ہی کے لئے ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے۔“ وہ ان کے درمیان حکم دینی اور حکم قدری کے مطابق فیصلہ کرتا ہے اور قیامت کے روز حکم جزائی کے مطابق فیصلہ کرے گا، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ أَلَا إِنَّ وَعْدَ اللَّـهِ حَقٌّ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ ﴾ ” خبردار، بے شک اللہ کا وعدہ سچا ہے، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔“ اسی لئے یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی ملاقات کے لئے تیاری نہیں کرتے، بلکہ بسا اوقات وہ تو اللہ تعالیٰ پر ایمان ہی نہیں رکھتے، حالانکہ نہایت تواتر کے ساتھ قطعی دلائل اور عقلی اور نقلی براہین اس ملاقات پر دلالت کرتے ہیں۔ یونس
56 ﴿هُوَ يُحْيِي وَيُمِيتُ﴾ ” وہی جان بخشتا ہے اور وہی موت دیتا ہے۔“ یعنی وہ زندگی اور موت میں تصرف کرتا ہے اور وہ ہر قسم کی تدبیر کرتا ہے اور تدبیر کائنات میں اس کا کوئی شریک نہیں ﴿وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ ﴾ ” اور تم اسی کی طرف لوٹ کر جاؤ گے۔“ قیامت کے روز، پس وہ تمہیں تمہارے اچھے اور برے اعمال کی جزا دے گا۔ یونس
57 اللہ تبارک و تعالیٰ کتاب کریم کے اوصاف حسنہ، جو بندوں کے لئے ضروری ہیں، بیان کر کے اس کی طرف متوجہ ہونے کی ترغیب دیتے ہوئے فرماتا ہے: ﴿يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَتْكُم مَّوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ﴾ ” اے لوگو ! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نصیحت آگئی“ یعنی وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے اور وہ تمہیں ان اعمال سے ڈراتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی ناراضی کے موجب اور اس کے عذاب کا تقاضا کرتے ہیں۔ وہ ان اعمال کے اثرات اور مفاسد بیان کرکے تمہیں ان سے بچاتا ہے۔ ﴿وَشِفَاءٌ لِّمَا فِي الصُّدُورِ﴾ ” اور شفا دلوں کے روگ کی“ اور وہ یہی قرآن ہے جو امراض قلب، مثلاً امراض شہوات، جو شریعت کی اطاعت سے روکتے ہیں اور امراض شبہات، جو علم یقینی میں قادح ہیں۔۔۔۔ کے لئے شفا ہے۔ اس کتاب کریم کے اندر مواعظ، ترغیب و ترہیب اور وعد و وعید کے جو مضامین ہیں وہ بندے کے لئے رغبت و رہبت کے موجب ہیں۔ جب آپ اس کتاب کریم میں بھلائی کی طرف رغبت، برائی سے ڈر اور قرآن کے معانی میں بتکرار ایسا اسلوب پاتے ہیں‘ تو یہ چیز اللہ تعالیٰ کے مراد کو نفس کی مراد پر مقدم رکھنے کی موجب بنتی ہے اور بندہ مومن کے نزدیک اللہ تعالیٰ کی رضا شہوت نفس سے زیادہ محبوب بن جاتی ہے۔ اسی طرح اس کے اندر جو دلائل وبراہین ہیں ان کو اللہ تعالیٰ نے مختلف طریقوں سے ذکر کیا ہے اور انہیں بہترین اسلوب میں بیان کیا ہے جو ایسے شبہات کو زائل کردیتا ہے جو حق میں قادح ہیں اور اس کے ذریعے سے قلب یقین کے بلند ترین مراتب پر پہنچ جاتا ہے اور جب قلب اپنی بیماری سے صحت یاب ہوجاتا ہے اور وہ لباس عافیت کو زیب تن کرلیتا ہے، تو جوارح اس کی پیروی کرتے ہیں اس لئے کہ جوارح، دل کی درستی سے درست رہتے ہیں اگر دل فاسد ہوجاتا ہے تو جوارح بھی خرابی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ﴿وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِينَ﴾ ” اور مومنوں کے لئے ہدایت اور رحمت۔“ پس ہدایت حق کے علم اور اس پر عمل کرنے کا نام ہے۔ اور ”رحمت“ سے مراد وہ بھلائی، احسان اور دنیاوی و اخروی ثواب ہے جو ہدایت یافتہ انسان کو حاصل ہوتا ہے۔ تب معلوم ہوا کہ ہدایت جلیل ترین وسیلہ اور رحمت کامل ترین مقصود و مطلوب ہے۔ اس کی طرف صرف اہل ایمان ہی کو راہ نمائی عطا ہوتی ہے اور اہل ایمان ہی رحمت سے نوازے جاتے ہیں۔ جب بندہ مومن کو ہدایت حاصل ہوتی ہے اور اسے ہدایت سے جنم لینے والی رحمت سے نواز دیا جاتا ہے تو وہ سعادت، فلاح، نفع، کامیابی، فرحت اور سرور کے حصول میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو خوش ہونے کا حکم دیا ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿ قُلْ بِفَضْلِ اللَّـهِ﴾ ” کہہ دیجئے ! اللہ کے فضل کے ساتھ“ فضل سے مراد قرآن ہے جو سب سے بڑی نعمت، احسان اور اللہ تعالیٰ کا سب سے بڑافضل ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو نوازا ہے۔ ﴿وَبِرَحْمَتِهِ﴾ ” اور اس کی مہربانی کے ساتھ“ یعنی دین، ایمان، اللہ تعالیٰ کی عبادت، اس کی محبت اور اس کی معرفت۔ یونس
58 ﴿فَبِذَٰلِكَ فَلْيَفْرَحُوا هُوَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَ﴾ ” پس اس پر انہیں خوش ہونا چاہئے، یہ بہتر ہے ان چیزوں سے جو وہ جمع کرتے ہیں۔“ یعنی دنیا کی متاع اور اس کی لذات سے بہتر ہے۔ دین کی نعمت، جس سے دنیا، آخرت کی سعادت نصیب ہوتی ہے۔ دنیا کے تمام مال و متاع کا اس سے کوئی مقابلہ ہی نہیں۔ دنیا کا مال و متاع تو عنقریب مضمحل ہو کر زائل ہوجائے گا اور اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و رحمت پر خوش ہونے کا صرف اس لئے حکم دیا ہے کہ یہ نفس کے انبساط، نشاط، اللہ تعالیٰ کے لئے اس کے شکر، اس کی قوت، علم و ایمان میں شدید رغبت کا موجب اور علم و ایمان میں ازدیاد کا داعی ہے۔ یہ فرحت اور خوشی محمود ہے۔ اس کے برعکس دنیا کی شہوات و لذات اور باطل پر خوش ہونا مذموم ہے جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے قارون کے بارے میں اس کی قوم کا قول نقل فرمایا ہے : ﴿ لَا تَفْرَحْ ۖ إِنَّ اللَّـهَ لَا يُحِبُّ الْفَرِحِينَ﴾ )القصص : 28؍76 )” خوشی میں اتراؤ مت ! اللہ تعالیٰ اترانے والوں کو پسند نہیں کرتا۔“ اور جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے بارے میں فرمایا جو اپنے اس باطل پر اتراتے تھے جو انبیاء و رسل کی لائی ہوئی وحی کے متناقض تھا۔ ﴿فَلَمَّا جَاءَتْهُمْ رُسُلُهُم بِالْبَيِّنَاتِ فَرِحُوا بِمَا عِندَهُم مِّنَ الْعِلْمِ ﴾ (المومن : 40؍83) ” جب ان کے رسول ان کے پاس کھلی نشانیاں لے کر آئے، تو (بزعم خود)جو علم ان کے پاس تھا اس کی بنا پر اترانے لگے۔ “ یونس
59 مشرکین نے اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ چیزوں کو حرام ٹھہرانے اور حرام کردہ چیزوں کو حلال قرار دینے کے لئے تحریم و تحلیل کے جو ضابطے ایجاد کئے تھے، ان پر نکیر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿قُلْ أَرَأَيْتُم مَّا أَنزَلَ اللَّـهُ لَكُم مِّن رِّزْقٍ﴾” کہہ دیجئے، بھلا بتلاؤ اللہ نے تمہارے لئے جو روزی اتاری“ یعنی حلال جانوروں کی مختلف اقسام جن کو اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے ذریعہ رزق اور رحمت بنایا ہے۔ ﴿فَجَعَلْتُم مِّنْهُ حَرَامًا وَحَلَالً﴾ ” پس ٹھہرایا تم نے اس میں سے کچھ کو حرام اور کچھ کو حلال“ یعنی اس فاسد قول پر ان کو زجرو توبیخ کرتے ہوئے ان سے کہہ دیجئے : ﴿ آللَّـهُ أَذِنَ لَكُمْ ۖ أَمْ عَلَى اللَّـهِ تَفْتَرُونَ﴾ ” کیا اللہ نے تمکو حکم دیا یا اللہ پر تم جھوٹ باندھتے ہو؟“ اور یہ بات معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اس بات کا ہرگز حکم نہیں دیا پس ثابت ہوا کہ یہ لوگ افتراء پرداز ہیں۔ یونس
60 ﴿وَمَا ظَنُّ الَّذِينَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللَّـهِ الْكَذِبَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ﴾ ” اور کیا خیال ہے اللہ پر جھوٹ باندھنے والوں کا قیامت کے دن“ یہ کہ ان کو سزا دے گا اور ان پر عذاب نازل کرے گا‘ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ تَرَى الَّذِينَ كَذَبُوا عَلَى اللَّـهِ وُجُوهُهُم مُّسْوَدَّةٌ ۚ﴾ (الزمر : 39؍60) ” اور جن لوگوں نے اللہ پر جھوٹ باندھا‘ آپ قیامت کے روز دیکھیں گے کہ ان کے چہرے سیاہ ہو رہے ہوں گے۔“ ﴿إِنَّ اللَّـهَ لَذُو فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ ﴾ ” بے شک اللہ لوگوں پر فضل کرنے والا ہے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ لوگوں پر بہت زیادہ فضل و احسان کرنے والا ہے۔ ﴿  وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَشْكُرُونَ﴾ ” لیکن اکثر لوگ شکر نہیں کرتے۔“ یا تو اس کی صورت یہ ہے کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر شکر ادا نہیں کرتے یا وہ ان نعمتوں کو اللہ تعالیٰ کی میں نافرمانیوں میں استعمال کرتے ہیں یا ان میں سے بعض نعمتوں کو حرام ٹھہرا کر ان کو ٹھکرا دیتے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو نوازا ہے۔ ان میں سے بہت کم لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے شکر گزار ہیں جو اللہ تعالیٰ کی نعمت کا اعتراف کرتے ہوئے اس پر اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کرتے ہیں اور پھر اس نعمت کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں استعمال کرتے ہیں۔ اس آیت کریمہ سے استدلال کیا جاتا ہے کہ کھانے والی تمام اشیاء میں اصل حلت ہے جب تک کہ اس کی حرمت پر شرعی حکم وارد نہ ہو، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں پر نکیر فرمائی ہے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے اس رزق کو حرام قرار دے دیا جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے نازل کیا۔ یونس
61 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے عمومی مشاہدہ کے بارے میں خبر دیتا ہے، نیز وہ فرماتا ہے کہ وہ بندوں کے تمام احوال اور ان کی حرکات و سکنات سے آگاہ اور اس ضمن میں اللہ تعالیٰ انہیں دائمی مراقبہ کی دعوت دیتا ہے۔ فرمایا : ﴿وَمَا تَكُونُ فِي شَأْنٍ﴾ ” اور تم جس حال میں ہوتے ہو“ یعنی آپ اپنے دینی اور دنیاوی احوال میں سے جس حال میں بھی ہوتے ہیں۔ ﴿وَمَا تَتْلُو مِنْهُ مِن قُرْآنٍ﴾ ” یا قرآن میں کچھ پڑھتے ہو“ یعنی آپ قرآن میں سے جو کچھ تلاوت کرتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے آپ کی طرف وحی کیا ﴿وَلَا تَعْمَلُونَ مِنْ عَمَلٍ﴾ ” اور جو بھی عمل آپ کرتے ہیں“ یعنی کوئی چھوٹا یا بڑا عمل۔ ﴿ إِلَّا كُنَّا عَلَيْكُمْ شُهُودًا إِذْ تُفِيضُونَ فِيهِ ۚ﴾ ” مگر ہم تم پر گواہ ہوتے ہیں جب تم مصروف ہوتے ہو اس میں“ یعنی تمہارے کام شروع کرنے اور اس کام میں تمہارے استمرار کے وقت، لہٰذا اپنے تمام اعمال میں اللہ تعالیٰ کی نگہبانی کو مد نظر رکھو اور تمام اعمال کو خیر خواہی اور خوب کوشش سے بجا لاؤ۔ جو امور اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہیں ان اسے بچو، کیونکہ اللہ تعالیٰ تمہارے تمام باطنی اور ظاہری امور سے آگاہ ہے۔ ﴿ وَمَا يَعْزُبُ عَن رَّبِّكَ﴾ ” ور نہیں غائب رہتا آپ کے رب سے“ یعنی اللہ تعالیٰ کے علم، اس کے سمع و بصر اور اس کے مشاہدہ سے باہر نہیں۔ ﴿مِن مِّثْقَالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ وَلَا أَصْغَرَ مِن ذَٰلِكَ وَلَا أَكْبَرَ إِلَّا فِي كِتَابٍ مُّبِينٍ ﴾ ” ایک ذرہ بھر، زمین میں نہ آسمان میں اور نہ چھوٹا اس سے اور نہ بڑا، مگر وہ کھلی ہوئی کتاب میں ہے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے علم کے ذریعے سے اس کا احاطہ کر رکھا ہے اور اس پر اس کا قلم جاری ہوچکا ہے۔ یہ دونوں مراتب اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر کے مراتب ہیں اور اللہ تعالیٰ نے اکثر ان کو مقرون بیان کیا ہے۔ ١۔ تمام اشیا کا احاطہ کرنے والا علم الٰہی۔ ٢۔ تمام حوادث کا احاطہ کرنے والی تقدیر (کتاب) الٰہی۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّـهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ  إِنَّ ذَٰلِكَ فِي كِتَابٍ إِنَّ ذَٰلِكَ عَلَى اللَّـهِ يَسِيرٌ﴾ (الحج : 22؍70) ” یا تجھے معلوم نہیں کہ اللہ جانتا ہے جو کچھ آسمان میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے یہ سب کچھ کتاب یعنی لوح محفوظ پر لکھا ہوا ہے اور بے شک یہ سب کچھ اللہ کے لئے بہت آسان ہے۔ “ یونس
62 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے اولیاء اور محبوب لوگوں کے بارے میں خبر دیتے ہوئے ان کے اعمال و اوصاف اور ان کا ثواب کا ذکر کرتا ہے‘ چنانچہ فرماتا ہے : ﴿أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّـهِ لَا خَوْف ٌعَلَيْهِمْ ﴾ ” خبردار ! اللہ کے جو دوست ہیں‘ ان پر کوئی خوف نہ ہوگا“ یعنی قیامت کے روز میدان محشر میں جو خوفناک اور ہول ناک حالات ہوں گے‘ وہاں انہیں کوئی خوف نہ ہوگا۔ ﴿وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ﴾ ” اور نہ و غمگین ہوں گے“ ان اعمال پر جو انہوں نے پہلے کئے ہوں گے‘ کیونکہ انہوں نے اعمال صالحہ کے سوا کچھ نہیں کیا ہوگا۔ چونکہ انہیں کسی قسم کا خوف ہوگا نہ وہ غمزدہ ہوں گے‘ اس لئے وہاں ان کے لئے امن و سعادت اور خیر کثیر ہوگا جسے اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ یونس
63 پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اولیاء اللہ کا وصف بیان کرتے ہوئے فرمایا: ﴿اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا﴾’’وہ جو ایمان لائے۔‘‘ یعنی جو اللہ تعالیٰ پر، اس کے فرشتوں، اس کی بھیجی ہوئی کتابوں، اس کے مبعوث کئے ہوئے رسولوں، یوم آخرت اور اچھی بری تقدیر پر ایمان لائے اور تقویٰ کے استعمال، اللہ تعالیٰ کے اوامر کی فرمانبرداری اور اس کے نواہی سے اجتناب کر کے اپنے ایمان کی تصدیق کی۔ پس ہر وہ شخص جو مومن اور متقی ہے وہ اللہ تعالیٰ کا ولی ہے۔ یونس
64 اسی لئے فرمایا : ﴿لَهُمُ الْبُشْرَىٰ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ ۚ ﴾ ” ان کے لئے خوش خبری ہے دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں“ دنیا کے اندر بشارت سے مراد، ثنائے حسن، مومنوں کے دلوں میں محبت و مودت، سچے خواب، بندہ مومن کا اللہ تعالیٰ کے لطف و کرم سے بہرہ ور ہونا، اللہ تعالیٰ کا بہترین اعمال و اخلاق کے راستوں کو آسان کردینا اور بندے کو برے اخلاق سے دور کردینا اور آخرت کی بشارتوں میں اولین بشارت یہ ہے کہ روح قبض کئے جانے کے موقع پر ان کو بشارت دی جاتی ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّـهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنتُمْ تُوعَدُونَ ﴾ (حم السجدہ : 41؍30) ” بے شک وہ لوگ جنہوں نے کہا اللہ ہمارا رب ہے پھر وہ اس پر قائم رہے، ان پر فرشتے اترتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خوف نہ کرو اور نہ غم زدہ ہو اور جنت کی خبر سے خوش ہوجاؤ جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے۔“ اور قبر میں اللہ تعالیٰ کی رضا اور ہمیشہ رہنے والی نعمتوں کی خوشخبری دی جائے گی اور قیامت کے روز نعمتوں بھری جنت میں دخول اور دردناک عذاب سے نجات کے ساتھ اس خوشخبری کا اتمام ہوگا۔ ﴿لَا تَبْدِيلَ لِكَلِمَاتِ اللَّـهِ﴾ ” اللہ کے کلمات بدلتے نہیں“ بلکہ اللہ تعالیٰ نے جو وعدہ کیا ہے وہ حق ہے جس میں تغیر و تبدل ممکن نہیں، کیونکہ وہ اپنے قول میں سچا ہے اور اس کی مقرر کی ہوئی قضا و قدر میں کوئی شخص اس کی مخالفت نہیں کرسکتا۔ ﴿ذَٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ ﴾ ”یہی ہے بڑی کامیابی“ کیونکہ یہ تمام محذورات سے نجات اور ہر محبوب چیز کے حصول میں ظفریابی پر مشتمل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ” فوز“ کو حصر کے ساتھ بیان کیا ہے، کیونکہ فوز و فلاح اہل ایمان اور اہل تقویٰ کے سواکسی کے لئے نہیں۔ اس کا ماحصل یہ ہے کہ بشارت ہر خیر و ثواب کو شامل ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے دنیا و آخرت میں ایمان اور تقویٰ پر مرتب فرمایا ہے۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے اس کو تقیید کے ساتھ نہیں، بلکہ مطلق بیان کیا ہے۔ یونس
65 یعنی جھٹلانے والوں کی باتوں میں سے کوئی بات، جن کے ذریعے سے وہ آپ پر اور آپ کے دین پر نکتہ چینی کرتے ہیں، آپ کو غم زدہ نہ کرے، کیونکہ ان کی یہ باتیں ان کو عزت فراہم کرسکتی ہیں نہ آپ کو کوئی نقصان دے سکتی ہے۔ ﴿إِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّـهِ جَمِيعًا﴾ ” بے شک عزت سب کی سب اللہ ہی کے لئے ہے“ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے عزت عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے عزت سے محروم کردیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿ مَن كَانَ يُرِيدُ الْعِزَّةَ فَلِلَّـهِ الْعِزَّةُ جَمِيعًا﴾ (فاطر : 35؍ 10) ” جو کوئی عزت کا طلب گار ہے تو عزت تمام تر اللہ کے لئے ہے۔“ جسے عزت چاہیے وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے ذریعے سے اسے طلب کرے اور اس کی دلیل بعد میں آنے والا اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے جو اس کی تائید کرتا ہے ﴿ إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ ۚ﴾ (فاطر : 35؍ 10) ” پاک باتیں اسی کی طرف بلند ہوتی ہیں اور عمل صالح اس کو بلند کرتا ہے۔“ یہ بات معلوم ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے عزت صرف آپ اور آپ کے متبعین کے لئے ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿وَلِلَّـهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ ﴾ ( المنافقون : 63؍ 8) ” عزت تمام تر اللہ، اس کے رسول اور اہل ایمان کے لئے ہے۔“ ﴿هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ ﴾ ” وہ سننے والا جاننے والا ہے۔“ یعنی اس کی سماعت نے تمام آوازوں کا احاطہ کر رکھا ہے اس سے کوئی چیز چھپی ہوئی نہیں ہے اور اس کا علم تمام ظاہری اور باطنی چیزوں پر محیط ہے۔ آسمانوں اور زمین میں، کوئی چھوٹی یا بڑی ذرہ بھر بھی چیز اس سے اوجھل نہیں۔ وہ آپ کی بات سنتا ہے اور آپ کے بارے میں آپ کے دشمنوں کی باتیں بھی سنتا ہے اور پوری تفصیل کا علم رکھتا ہے۔ پس آپ اللہ تعالیٰ کے علم اور کفایت کو کافی سمجھئے۔ اس لئے کہ جو اللہ تعالیٰ سے ڈرا ہے اللہ اس کے لئے کافی ہے۔ یونس
66 اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے وہ اللہ تعالیٰ کی تخلیق اور اسی کی ملکیت ہے وہ جسے چاہتا ہے اپنے احکام کے ذریعے اس میں تصرف کرتا ہے۔ تمام مخلوق اللہ تعالیٰ کی مملوک‘ اس کے سامنے مسخر اور اس کے دست تدبیر کے تحت ہے۔ تمام مخلوق عبادت کا کچھ بھی استحقاق نہیں رکھتی اور کسی بھی لحاظ سے مخلوق اللہ تعالیٰ کی شریک نہیں بن سکتی۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَمَا يَتَّبِعُ الَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ شُرَكَاءَ ۚ إِن يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ﴾ ” اور یہ جو پیچھے پڑے ہوئے ہیں اللہ کے سوا شریکوں کو پکارنے والے‘ سو یہ کچھ نہیں‘ مگر پیری کرنے والے ہیں اپنے گمان کی“ یعنی وہ ظن اور گمان، جو حق کے مقابلے میں کسی کام نہیں آتا﴿ وَإِنْ هُمْ إِلَّا يَخْرُصُونَ ﴾’’اور وہ محض اٹکل پچو سے کام لیتے ہیں۔‘‘ یعنی وہ اس بارے میں محض اندازوں اور بہتان و افترا سے کام لیتے ہیں۔ اپنے گھڑے ہوئے معبودوں کو اللہ تعالیٰ کا شریک قرار دینے میں اگر وہ سچے ہیں، تو ان کے وہ اوصاف سامنے لائیں جو ان کو ذرہ بھر عبادت کا مستحق قرار دیتے ہیں۔ وہ کبھی ایسا نہیں کرسکیں گے۔ کیا ان میں سے کوئی ایسا ہے جو کوئی چیز پیدا کرسکتا ہو؟ یا وہ رزق عطا کرتا ہو؟ یا وہ مخلوقات میں سے کسی چیز کا مالک ہو؟ یا وہ گردش لیل و نہار کی تدبیر کرتا ہو؟ جس نے اسے لوگوں کی روزی کا سبب بنایا؟ یونس
67 ﴿هُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ اللَّيْلَ لِتَسْكُنُوا فِيهِ ﴾ ” وہی اللہ ہے جس نے بنایا تمہارے واسطے رات کو، تاکہ تم اس میں سکون حاصل کرو“ تاکہ اس تاریکی کے سبب سے جو تمام روئے زمین کو ڈھانک لیتی ہے، نیند اور راحت میں سکون پاؤ، اگر سورج کی روشنی ہمیشہ برقرار رہتی تو انہیں قرار و سکون نہ ملتا۔ ﴿وَالنَّهَارَ مُبْصِرًا ﴾ ” اور دن کو (بنایا) دکھلانے والا“ یعنی اللہ تعالیٰ نے دن کو روشن بنایا، تاکہ دن کی روشنی میں مخلوق دیکھ سکے، لوگ اپنی معاش اور اپنے دینی اور دنیاوی مصالح کے لئے چل پھر سکیں۔ ﴿ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَسْمَعُونَ﴾ ” اس میں سننے والے لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں۔“ جو سمجھنے، قبول کرنے اور شدو ہدایت طلب کرنے کے لئے سنتے ہیں۔ عناد اور نکتہ چینی کے لئے نہیں سنتے۔ اس میں ان لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں جو سنتے ہیں اور ان نشانیوں سے استدلال کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی اکیلا معبود اور معبود برحق ہے اور اس کے سوا ہر ایک ہستی کی الوہیت باطل ہے اور یہ کہ وہی رؤف و رحیم اور علم و حکمت والا ہے۔ یونس
68 اللہ رب العالمین کے بارے میں مشرکین کی بہتان طرازی کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿قَالُوا اتَّخَذَ اللَّـهُ وَلَدًا﴾ ” انہوں نے کہا، ٹھہرالی ہے اللہ نے اولاد“ پس اللہ تعالیٰ نے اپنے آپ کو اس سے منزہ قرار دیتے ہوئے فرمایا : ﴿سُبْحَانَهُ﴾ ” وہ پاک ہے“ یہ ظالم اللہ تعالیٰ کی طرف جو نقائص منسوب کرتے ہیں وہ ان سے بلند و برتر ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس بارے میں متعدد دلائل ذکر کئے ہیں : (1) ﴿هُوَ الْغَنِيُّ﴾ ” وہ بے نیاز ہے۔“ یعنی عناد (بے نیازی) اسی میں منحصر ہے اور عناد کی تمام اقسام کا وہی مالک ہے۔ وہ غنی ہے جو ہر پہلو، ہر اعتبار اور ہر لحاظ سے نائے کامل کا مالک ہے۔ جب وہ ہر لحاظ سے غنی ہے تب وہ کس لئے بیٹا بنائے گا؟ کیس اس وجہ سے کہ وہ بیٹے کا محتاج ہے؟ یہ تو اس کے عناد اور بے نیازی کے منافی ہے۔ کوئی شخص صرف ا پنے عناد میں نقص کی بنا پر بیٹا بناتا ہے۔ (2) دوسری دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : ﴿لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ﴾ ” جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے سب اسی کا ہے۔“ یہ عام اور جامع کلمہ ہے۔ آسمانوں اور زمین کی تمام موجودات اس کی ملکیت سے خارج نہیں‘ تمام موجودات اس کی مخلوق‘ اس کے بندے اور مملوک ہیں اور یہ بات معلوم اور مسلم ہے کہ یہ وصف عام اس بات کے منافی ہے کہ اس کا کوئی بیٹا ہو، کیونکہ بیٹا اپنے باپ کی جنس سے ہوگا جو مخلوق ہوگا نہ مملوک۔ پس آسمانوں اور زمین کا اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہونا ولادت (اولاد ہونے) کے منافی ہے۔ (3) تیسری دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : ﴿ إِنْ عِندَكُم مِّن سُلْطَانٍ بِهَـٰذَا﴾ ” تمہارے پاس اس کی کوئی دلیل نہیں“ یعنی تمہارے پاس تمہارے اس دعویٰ پر کوئی دلیل نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی بیٹا ہے۔ اگر ان کے پاس کوئی دلیل ہوتی تو وہ اسے ضرور پیش کرتے۔ جب انہیں دلیل پیش کرنے کے لئے کہا گیا اور وہ دلیل قائم کرنے سے عاجز آگئے، تو ان کے دعوے کا بطلان ثابت ہوگیا اور یہ بھی معلوم ہوگیا کہ ان کا قول بلا علم ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿أَتَقُولُونَ عَلَى اللَّـهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ﴾ ’’کیا تم اللہ کے ذمے ایسی بات لگات ہو جو تم نہیں جانتے“ پس بلا علم اللہ تعالیٰ کی طرف بات منسوب کرنا سب سے بڑا حرام ہے۔ یونس
69 ﴿قُلْ إِنَّ الَّذِينَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللَّـهِ الْكَذِبَ لَا يُفْلِحُونَ ﴾ ” کہہ دیجئے ! جو لوگ اللہ پر جھوٹ باندتے ہیں، وہ کامیاب نہیں ہوں گے“ یعنی وہ اپنا مطلوب و مقصود حاصل نہ کرسکیں گے، وہ دنیاوی زندگی میں اپنے کفر اور جھوٹ کے ذریعے سے تھوڑا سا فائدہ اٹھا لیں گے پھر لوٹ کر اللہ کے حضور حاضر ہوجائیں گے اور اللہ تعالیٰ انہیں ان کے کفر کی پاداش میں سخت عذاب کا مزہ چکھائے گا۔ ﴿وَمَا ظَلَمَهُمُ اللَّـهُ وَلَـٰكِنْ أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ﴾ (آل عمران : 3؍117) ” اللہ نے ان پر ظلم نہیں کیا بلکہ وہ خود ہی اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے۔ “ یونس
70 یونس
71 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرماتا ہے : ﴿وَاتْلُ عَلَيْهِمْ﴾ ” اور ان کو سنائیے“ یعنی اپنی قوم کے سامنے تلاوت کر دیجئے ﴿ نَبَأَ نُوحٍ﴾ ” نوح کا حال“ یعنی جب نوح علیہ الصلوۃ السلام کی دعوت کا حال، جو انہوں نے اپنی قوم کے سامنے پیش کی تھی وہ ایک طویل مدت تک ان کو دعوت دیتے رہے۔ پس وہ اپنی قوم کے درمیان نو سو پچاس برس تک رہے مگر ان کی دعوت نے ان کی سرکشی میں اضافہ ہی کیا اور وہ آپ کی دعوت سے اکتا گئے اور سخت تنگ آگئے۔ نوح علیہ السلام نے ان کی دعوت دینے میں کسی سستی کا مظاہرہ کیا نہ کوتاہی کا‘ چنانچہ آپ ان سے کہتے رہے : ﴿يَا قَوْمِ إِن كَانَ كَبُرَ عَلَيْكُم مَّقَامِي وَتَذْكِيرِي﴾ ” اے میری قوم ! اگر بھاری ہوا ہے تم پر میرا کھڑا ہونا اور میرا نصیحت کرنا“ یعنی میرے تمہارے پاس ٹھہرنا اور تمہیں وعظ و نصیحت کرنا جو تمہارے لئے فائدہ مند ہے ﴿ بِآيَاتِ اللَّـهِ﴾ ”اللہ کی آیتوں سے“ یعنی واضح دلائل کے ذریعے سے اور یہ چیز تمہارے لئے بہت بڑی اور تم پر شاق گزرتی ہے اور تم مجھے نقصان پہنچانے یا دعوت حق کو ٹھکرانے کا ارادہ رکھتے ہو۔ ﴿فَعَلَى اللَّـهِ تَوَكَّلْتُ﴾ ” تو میں نے اللہ پر بھروسہ کیا ہے“ یعنی اس تمام شر کو دفع کرنے میں جو تم مجھے اور میری قوم کو پہنچانا چاہتے ہو، میں اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتا ہوں۔ یہی توکل، میرا لشکر اور میرا تمام ساز و سامان ہے اور تم اپنے تمام تر سر و سامان اور تعداد کے ساتھ جو کچھ کرسکتے ہو کرلو ﴿فَأَجْمِعُوا أَمْرَكُمْ ﴾ ” اب تم سب مل کر مقرر کرو اپنا کام“ تم تمام لوگ اکٹھے ہو کر، کہ تم میں سے کوئی پیچھے نہ رہے، میرے خلاف جدوجہد میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھو۔ ﴿وَشُرَكَاءَكُمْ﴾ ” اور جمع کرو اپنے شریکوں کو“ یعنی ان تمام شریکوں کو بلالو، جن کی تم اللہ رب العالمین کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہو اور انہیں تم اپنا ولی و مددگار بناتے ہو۔ ﴿ثُمَّ لَا يَكُنْ أَمْرُكُمْ عَلَيْكُمْ غُمَّةً﴾ ” پھر نہ رہے تم کو اپنے کام میں اشتباہ“ یعنی اس بارے میں تمہارا معاملہ مشتبہ اور خفیہ نہ ہو، بلکہ تمہارا معاملہ ظاہر اور اعلانیہ ہو۔ ﴿ثُمَّ اقْضُوا إِلَيَّ﴾ ” پھر وہ کام میرے حق میں کر گزرو“ یعنی میرے خلاف جو کچھ تمہارے بس میں ہے، سزا اور عقوبت کا فیصلہ سنا دو۔ ﴿وَلَا تُنظِرُونِ ﴾ ” اور مجھے مہلت نہ دو۔“ یعنی تم مجھے دن کی ایک گھڑی کے لئے بھی مہلت نہ دو۔ یونس
72 یہ نوح علیہ السلام کی رسالت کی صحت اور آپ کے دین کی صداقت کی قطعی دلیل اور بہت بڑی نشانی ہے، کیونکہ آپ تنہا تھے ان کا کوئی قبیلہ تھا جو آپ کی حمایت کرتا نہ آپ کے پاس کوئی فوج تھی جو آپ کی حفاظت کرتی۔ حضرت نوح علیہ السلام کی قوم نے اپنی حماقت انگیز آراء، فساد دین اور اپنے خود ساختہ معبودان کے عیوب کا پر چار کیا اور آپ کے ساتھ بغض اور عداوت کا مظاہرہ کیا جو پہاڑوں اور چٹانوں سے زیادہ سخت تھی وہ مشرکین قدرت اور سطوت رکھنے والے لوگ تھے۔ نوح علیہ السلام نے ان سے فرمایا ” تم، تمہارے گھڑے ہوے شریک اور جن کو تم بلانے کی استطاعت رکھتے ہو سب اکٹھے ہوجاؤ اور میرے خلاف جو چال تم چل سکتے ہو اگر قدرت رکھتے ہو تو چل کر دیکھ لو۔“ پس وہ کچھ بھی نہ کرسکے۔ تب معلوم ہوا کہ حضرت نوح علیہ السلام سچے، اور وہ اپنی دھمکیوں میں جھوٹھے تھے۔ اس لئے فرمایا : ﴿فَإِن تَوَلَّيْتُمْ﴾ ” پس اگر تم میری دعوت سے منہ موڑتے ہو“ اور اس کی کوئی وجہ نہیں، کیونکہ یہ بات تمہارے سامنے واضح ہوچکی ہے کہ تم باطل کو چھوڑ کر حق کی طرف نہیں آتے، بلکہ اس کے برعکس تم تو حق سے منہ موڑ کر باطل کی طرف جا رہے ہو جس کے فاسد ہونے پر دلائل قائم ہوچکے ہیں۔ بایں ہمہ ﴿ فَمَا سَأَلْتُكُم مِّنْ أَجْرٍ﴾ ” میں نے تم سے کچھ معاوضہ نہیں مانگا“ یعنی میں اپنی دعوت اور تمہاری لبیک پر تم سے کسی معاوضے کا مطالبہ نہیں کرتا تاکہ تم میرے بارے میں یہ نہ کہتے پھرو کہ یہ تو ہمارے مال ہتھیانے کے لیے آیا ہے اور اسی وجہ سے ہم اس کی دعوت قبول نہیں کرتے۔ ﴿إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّـهِ﴾ ” میرا معاوضہ تو اللہ کے ذمے ہے۔“ یعنی میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی سے ثواب اور اجر کا طلب گار نہیں۔ ﴿ وَ﴾ نیز میں تمہیں کسی ایسی بات کا حکم نہیں دیتا جس کی مخالفت کر کے اس کے متضاد بات پر عمل کروں، بلکہ ﴿أُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْمُسْلِمِينَ﴾ ” مجھے حکم ہے کہ میں فرماں بردارہوں“ پس جن امور کا میں تمہیں حکم دیتا ہوں سب سے پہلے میں خود ان میں داخل ہوتا ہوں اور سب سے پہلے میں خود اس پر عمل کرتا ہوں۔ یونس
73 ﴿فَكَذَّبُوهُ ﴾ ” پس انہوں نے نوح کو جھٹلایا“ حضرت نوح علیہ السلام نے ان کو شب و روز اور کھلے چھپے دعوت دی مگر آپ کی دعوت نے ان کے فرار میں اضافہ کے سوا کچھ نہ کیا ﴿فَنَجَّيْنَاهُ وَمَن مَّعَهُ فِي الْفُلْكِ﴾ ” پس ہم نے حکم دیا تھا کہ وہ اسے ہماری آنکھوں کے سامنے بنائیں۔ جب تنور سے پانی ابل پڑا تو ہم نے انھیں حکم دیا: ﴿احْمِلْ فِيهَا مِن كُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ وَأَهْلَكَ إِلَّا مَن سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ وَمَنْ آمَنَ ۚ﴾ (ھود :11؍40) ’’ہر قسم کے جانوروں میں سے جوڑا جوڑا لے لو اور اپنے گھر والوں کو، سوائے اس کے جس کی ہلاکت کا فیصلہ ہو چکا اور اس کو بھی ساتھ لے لینا جو ایمان لا چکا ہو۔‘‘ چنانچہ نوح علیہ السلام نے ایسا ہی کیا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے آسمان کو حکم دیا اس نے زور دار مینہ برسایا اور زمین کے چشمے ابل پڑے اور پانی اس کام کے لیے جمع ہو چکا تھا جس کے بارے میں فیصلہ ہوچکا تھا﴿وَحَمَلْنَاهُ عَلَىٰ ذَاتِ أَلْوَاحٍ وَدُسُرٍ ﴾(القمر:54؍13) ” اور ہم نے نوح کو ایک ایسی کشتی میں سوار کیا جو تختوں اور میخوں سے بنائی گئی تھی۔“ جو ہماری آنکھوں کے سامنے پانی پر تیر رہی تھی۔ ﴿ وَجَعَلْنَاهُمْ خَلَائِفَ﴾ ” اور ہم نے انہیں خلیفہ بنایا“ یعنی جھٹلانے والوں کو ہلاک کرنے کے بعد ہم نے انہیں زمین میں جانشین بنایا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کی نسل میں برکت ڈالی اور ان کی نسل ہی کو باقی رکھا اور ان کو زمین کے کناروں تک پھیلا دیا۔ ﴿وَأَغْرَقْنَا الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنا﴾” اور ہم نے ان کو غرق کردیا جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا“ یعنی جنہوں نے واضح کردینے اور دلیل قائم کردینے کے بعد بھی ہماری آیات کی تکذیب کی ﴿فَانظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُنذَرِينَ﴾ ” پس دیکھو ان لوگوں کا انجام کیسا ہوا جن کو ڈرایا گیا تھا۔“ ان کا انجام رسوا کن ہلاکت تھی اور مسلسل لعنت تھی جو ہر زمانے میں ان کا پیچھا کرتی رہی، آپ ان کے بارے میں صرف حرف ملامت ہی سنیں گے اور ان کے بارے میں برائی اور مذمت کے سوا کچھ نہیں دیکھیں گے۔۔۔۔۔ پس ان جھٹلانے والوں کو اس عذاب سے ڈرنا چاہئے جو انبیاء و رسل کو جھٹلانے والی ان قوموں پر ہلاکت انگیز اور رسوا کن عذاب نازل ہوا تھا۔ یونس
74 ﴿ثُمَّ بَعَثْنَا مِن بَعْدِهِ﴾ ” پھر بھیجے ہم نے اس کے بعد“ یعنی نوح علیہ السلام کے بعد ﴿رُسُلًا إِلَىٰ قَوْمِهِمْ﴾ ” کئی پیغمبران کی قوموں کی طرف“ یعنی جھٹلانے والوں کی طرف، جو ان کو ہدایت کی طرف بلاتے تھے اور انہیں ہلاکت کے اسباب سے ڈراتے تھے۔ ﴿فَجَاءُوهُم بِالْبَيِّنَاتِ﴾ ” پس وہ ان کے پاس واضح دلائل لے کر آئے“ یعنی ہر نبی نے اپنی دعوت کی تائید میں ایسے دلائل پیش کئے، جو ان کی دعوت کی صحت پر دلالت کرتے تھے۔ ﴿فَمَا كَانُوا لِيُؤْمِنُوا بِمَا كَذَّبُوا بِهِ مِن قَبْلُ﴾ ” پس ان سے یہ نہ ہوا کہ وہ اس بات پر ایمان لے آئیں جسے وہ اس سے پہلے جھٹلا چکے تھے“ یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کو اس وقت سزا دی جب ان کے پاس رسول آیا اور انہوں نے اس کی تکذیب میں جلدی کی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی اور وہ ان کے اور ایمان کے درمیان حائل ہوگیا۔ وہ اس سے قبل ایمان لانے پر متمکن تھے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿وَنُقَلِّبُ أَفْئِدَتَهُمْ وَأَبْصَارَهُمْ كَمَا لَمْ يُؤْمِنُوا بِهِ أَوَّلَ مَرَّةٍ ﴾ (الانعام 6؍110) ” ہم ان کے دلوں اور آنکھوں کو پلٹ دیں گے اور جس طرح وہ اس پر پہلی دفعہ ایمان نہیں لائے تھے، نشانیاں آنے کے بعد بھی ایمان نہیں لائیں گے۔“ بنا بریں یہاں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿كَذَٰلِكَ نَطْبَعُ عَلَىٰ قُلُوبِ الْمُعْتَدِينَ﴾ ” اسی طرح ہم زیادتی کرنے والوں کے دلوں پر مہر لگا دیتے ہیں“ پس ان کے دلوں میں کسی قسم کی بھلائی داخل نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر ظلم نہیں کیا بلکہ انہوں نے خود ہی حق کو ٹھکرا کر۔۔۔۔۔ جب حق ان کے پاس آیا اور اس کو اولین مرتبہ جھٹلا کر۔۔۔۔ اپنی جانوں پر ظلم کیا۔ یونس
75 ﴿ثُمَّ بَعَثْنَا مِن بَعْدِهِم﴾ ” پھر ان کے بعد ہم نے بھیجا“ یعنی ان رسولوں کے بعد جن کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان قوموں کی طرف مبعوث فرمایا جنہوں نے رسولوں کی تکذیب کی اور ہلاک ہوگئے۔ ﴿مُّوسَىٰ﴾ اللہ رحمن کے کلیم موسیٰ بن عمران علیہ السلام کو، جو ایک اولو العزم رسول تھے۔ ان کا شمار بڑے بڑے رسولوں میں کیا جاتا ہے جن کی پیروی کی جاتی ہے جن پر شریعت کے بڑے بڑے احکام نازل کئے گئے۔ ﴿ وَهَارُونَ ﴾ اور ان کے ساتھ ان کے بھائی ہارون علیہ السلام کو ان کا وزیر بنایا اور ان دونوں کو مبعوث کیا۔ ﴿إِلَىٰ فِرْعَوْنَ وَمَلَئِهِ﴾ ” فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف“ یعنی فرعون، اس کے اکابرین اور رؤسائے سلطنت کی طرف، کیونکہ عوام رؤسا کے تابع ہوتے ہیں ﴿بِآيَاتِنَا﴾ ” اپنی نشانیوں کے ساتھ“ ان کو ایسی آیات کے ساتھ مبعوث کیا جو اس چیز کی صداقت اور دلالت کرتی تھیں جنہیں یہ دونوں رسول لے کر آئے تھے، یعنی توحید الٰہی اور غیر اللہ کی عبادت سے ممانعت۔ ﴿فَاسْتَكْبَرُوا﴾ ” پس انہوں نے تکبر کیا“ یعنی انہوں نے ان آیات کو دل میں مان لینے کے بعد ظلم کی بنا پر ان سے تکبر کیا ﴿وَكَانُوا قَوْمًا مُّجْرِمِينَ﴾ ” اور وہ گناہ گار لوگ تھے۔“ یعنی جرم اور تکذیب کا ارتکاب ان کا وصف تھا۔ یونس
76 ﴿فَلَمَّا جَاءَهُمُ الْحَقُّ مِنْ عِندِنَا ﴾ ” پس جب ان کے پاس ہماری طرف سے حق آیا“ جو حق کی تمام انواع میں سب سے بڑی نوع ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے جس کی عظمت کے سامنے سب سرا فگندہ ہوجاتے ہیں اور وہ ہے اللہ رب العلمین، جو نعمتوں کے ذریعے سے اپنی تمام مخلوق کا مربی ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے موسیٰ علیہ السلام کے ہاتھ پر حق آیا تو انہوں نے اس کو ٹھکرا دیا اور قبول نہ کیا۔ ﴿قَالُوا إِنَّ هَـٰذَا لَسِحْرٌ مُّبِينٌ ﴾ ” اور کہا، یہ تو کھلا جادو ہے“ اللہ تعالیٰ ان کا برا کرے کہ انہوں نے یہی کافی نہیں سمجھا کہ انہوں نے حق سے اعراض کیا اور اس کو رد کردیا۔۔۔۔ بلکہ انہوں نے اس حق کو سب سے بڑا باطل، یعنی جادو قرار دے دیا جس کی حقیقت صرف ملمع سازی ہے۔۔۔ بلکہ انہوں نے اسے کھلا جادو قرار دے دیا۔۔۔۔ حالانکہ وہ واضح حق ہے۔ یونس
77 اس لئے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے۔۔۔۔۔ ان کے حق ٹھکرانے پر کہ جسے لوگوں میں سب سے بڑا ظالم شخص ہی ٹھکراتا ہے۔۔۔۔۔ ان کو زجرو توبیخ کرتے ہوئے فرمایا : ﴿أَتَقُولُونَ لِلْحَقِّ لَمَّا جَاءَكُمْ ﴾ ” کیا تم یہ کہتے ہو حق کو، جب وہ تمہارے پاس آیا“ یعنی کیا تم حق کے بارے میں کہتے ہو کہ یہ کھلا جادو ہے ﴿أَسِحْرٌ هَـٰذَا﴾ ” کیا یہ جادو ہے؟“ یعنی اس کے اوصاف میں غور کرو کہ وہ کس چیز پر مشتمل ہے مجرد اسی کے ذریعے سے قطعی طور پر یقین ہوجاتا ہے کہ یہ حق ہے ﴿وَلَا يُفْلِحُ السَّاحِرُونَ﴾ ” اور جادو گر فلاح نہیں پاتے“ یعنی جادو گر دنیا میں فلاح پاتے ہیں نہ آخرت میں۔ پس غور کرو کہ انجام کس کا اچھا ہے، کس کے لئے فلاح ہے اور کس کے ہاتھ پر کامیابی ہے۔ اس کے بعد انہیں معلوم ہوگیا اور ہر ایک پر عیاں ہوگیا کہ وہ موسیٰ علیہ السلام تھے جنہوں نے فلاح پائی اور دنیا و آخرت میں ظفر یاب ہوئے۔ یونس
78 ﴿قَالُوا ﴾ انہوں نے موسیٰ علیہ السلام کی بات کو رد کرتے ہوئے کہا : ﴿أَجِئْتَنَا لِتَلْفِتَنَا عَمَّا وَجَدْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا ﴾ ” کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو، تاکہ تم ہمیں اس دین سے روک دو جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے۔“ مثلاً شرک اور غیر اللہ کی عبادت وغیرہ اور تم ہمیں حکم دیتے ہو کہ ہم ایک اللہ کی عبادت کریں چنانچہ انہوں نے اپنے گمراہ باپ دادا کے قول کو حجت بنا لیا جس کی بنیاد پر انہوں نے اس حق کو ٹھکرا دیا جسے موسیٰ علیہ السلام لے کر آئے تھے۔ ﴿وَتَكُونَ لَكُمَا الْكِبْرِيَاءُ فِي الْأَرْضِ﴾ ” اور اس ملک میں تم دونوں ہی کی سرداری ہوجائے“ یعنی تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو تاکہ تم سردار بن جاؤ اور تم ہمیں ہماری زمینوں سے نکال باہر کرو۔ یہ ان کی طرف سے خلاف حقیقت بات اور جہالت کی حوصلہ افزائی ہے۔ نیز ان کا مقصد عوام کو موسیٰ (علیہ السلام) کی عداوت پر ابھارنا اور ان پر ایمان لانے سے گریز کرنا ہے۔ جو شخص حقائق کو سمجھتا اور معاملات کی خامی اور خوبی میں امتیاز کرسکتا ہے وہ ان کی اس بات کو قابل حجت اور قابل اعتنا خیال نہیں کرتا، کیونکہ دلائل کا رد دلائل اور براہین ہی کے ذریعے سے کیا جاتا ہے، لیکن جو شخص حق پیش کرتا ہے اور اس کی بات کو اس قسم کے اقوال سے رد کردیا جائے، تو یہ چیز اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ رد کرنے والا ایسی دلیل لانے سے عاجز ہے جو مد مقابل کے قول کو رد کر دے، کیونکہ اگر اس کے پاس کوئی دلیل ہوتی تو وہ ضرور پیش کرتا اور اپنے مد مقابل کو یہ نہ کہتا ” تیرا مقصد یہ ہے“ اور ” تیری مراد وہ ہے“ خواہ وہ اپنے مد مقابل کے مقصد اور مراد کے بارے میں خبر دینے میں سچا ہے یا جھوٹا۔۔۔۔۔۔ تاہم اس کے باوجود جو کوئی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے احوال اور ان کی دعوت کی معرفت رکھتا ہے اسے معلوم ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کا مقصد زمین میں تغلب نہ تھا۔ ان کا مقصد تو وہی تھا جو دیگر انبیاء و مرسلین کا تھا۔۔۔۔۔۔ یعنی مخلوق کی ہدایت اور ان کی ان امور کی طرف راہ نمائی کرنا جو ان کے لئے فائدہ مند ہیں۔ حقیقت دراصل یہ ہے جیسا کہ خود انہوں نے اپنی زبان سے اقرار کیا ﴿وَمَا نَحْنُ لَكُمَا بِمُؤْمِنِينَ ﴾ ” ہم تم پر ایمان نہیں لائیں گے“ یعنی انہوں نے تکبر اور عناد کی وجہ سے یہ کہا تھا ” ہم تم پر ایمان نہیں لائیں گے۔“ اور اس کی وجہ یہ نہ تھی کہ جناب موسیٰ اور ہارون علیہما السلام نے جو دعوت پیش کی تھی وہ باطل تھی اور اس کی وجہ یہ بھی نہ تھی کہ اس میں یا اس کے معانی وغیرہ میں کوئی اشتباہ تھا۔ ان کے ایمان نہ لانے کی وجہ ظلم و تعدی اور ارادہ تغلب کے سوا کچھ نہ تھا جس کا الزام وہ موسیٰ علیہ السلام پر لگا رہے تھے۔ یونس
79 ﴿وَقَالَ فِرْعَوْنُ﴾ ” اور فرعون نے کہا“ یعنی فرعون نے موسیٰ علیہ السلام کی لائی ہوئی دعوت حق کی مخالفت، اپنے سرداروں اور اپنی قوم کے لئے غلبہ کی کوشش کرتے ہوئے کہا : ﴿ ائْتُونِي بِكُلِّ سَاحِرٍ عَلِيمٍ﴾ ” سب ماہر فن جادو گروں کو ہمارے پاس لے آؤ۔“ یعنی ہر ماہر اور پختہ جادو گر کو میری خدمت میں حاضر کرو۔ اس نے مصر کے شہروں میں ہر کارے دوڑائے، تاکہ وہ مختلف قسم کے جادو گروں کو اس کے پاس لے آئیں۔ یونس
80 ﴿فَلَمَّا جَاءَ السَّحَرَةُ﴾ ” پس جب جادو گر آئے“ یعنی موسیٰ علیہ السلام کا مقابلہ کرنے کے لئے ﴿قَالَ لَهُم مُّوسَىٰ أَلْقُوا مَا أَنتُم مُّلْقُونَ﴾ ” تو ان سے موسیٰ نے کہا، ڈالو جو تم ڈالتے ہو۔“ یعنی تم وہی کرو جو تم ارادہ رکھتے ہو میں تمہارے لئے کچھ مقرر نہیں کروں گا۔۔۔۔ اور ایسا کہنے کی وجہ یہ تھی کہ موسیٰ علیہ السلام کو ان پر غالب آنے کا پوریٰ یقین تھا، اس لئے ان کو اس بات کی پروا نہ تھی کہ وہ جادوگر کون سا کرتب دکھاتے ہیں۔ یونس
81 ﴿ فَلَمَّا أَلْقَوْا ﴾ ” پس جب انہوں نے ڈالا“ یعنی جب انہوں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں پھینکیں، تو یوں لگا جیسے دوڑتے ہوئے سانپ ہوں۔ ﴿قَالَ مُوسَىٰ مَا جِئْتُم بِهِ السِّحْرُ﴾ ” موسیٰ نے کہا جو تم نے پیش کیا ہے، وہ جادو ہے“ یعنی یہ بہت بڑا اور حقیقی جادو ہے۔ مگر اس جادو کے بڑاہونے کے باوجود ﴿إِنَّ اللَّـهَ سَيُبْطِلُهُ ۖ إِنَّ اللَّـهَ لَا يُصْلِحُ عَمَلَ الْمُفْسِدِينَ﴾ ” اللہ اسے باطل کر دے گا، یقیناً اللہ شریروں کے کام کو نہیں سنوارتا۔“ کیونکہ وہ اس کے ذریعے سے حق کے خلاف باطل کی مدد کرنا چاہتے تھے اور اس سے بڑا اور کون سا فساد ہوسکتا ہے؟ اسی طرح ہر مفسد جب کوئی کام کرتا ہے یا کوئی چال چلتا ہے یا حق کے خلاف کوئی سازش کرتا ہے، تو اس کا عمل باطل ہو کر زائل ہوجاتا ہے ہرچند کہ کسی وقت مفسد کا عمل رائج ہوجاتا ہے مگر مآل کار اسے مٹنا اور زائل ہونا ہے۔ رہے اصلاح کار، تو ان کے اعمال میں ان کا مقصد، اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ہے۔ یہ اعمال و وسائل فائدہ مند ہیں اور ان اعمال کا ان کو حکم دیا گیا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ ان کے اعمال کی اصلاح کرتا ہے اور ان میں ترقی عطا کرتا ہے اور ان کو ہمیشہ نشو ونما دیتا رہتا ہے۔ یونس
82 موسیٰ علیہ السلام نے اپنا عصا پھینکا تو وہ ان کے جادو کو نگلتا چلا گیا۔ پس ان کا جادو باطل اور ان کا باطل زائل ہو کر رہ گیا۔ ﴿وَيُحِقُّ اللَّـهُ الْحَقَّ بِكَلِمَاتِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُجْرِمُونَ﴾ ” اور اللہ سچا کرتا ہے حق بات کو اپنے حکم سے، اگرچہ گناہ گاروں کو ناگوار ہو“ جب جادوگروں کے سامنے حق واضح ہوگیا تو انہوں نے موسیٰ علیہ السلام کے سامنے سر اطاعت خم کردیا۔ فرعون نے ان کو سولی پر لٹکانے اور ہاتھ پاؤں کاٹ دینے کی دھمکی دی مگر انہوں نے اس کی کوئی پروا نہ کی اور اپنے تمام ایمان میں ثابت قدم رہے۔ یونس
83 رہا فرعون، اس کے اشراف قوم اور اس کے متبعین، تو ان میں سے کوئی بھی ایمان نہ لایا، بلکہ وہ اپنی سرکشی پر جمے رہے اور اسی میں سرگرداں رہے۔ بنابریں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿فَمَا آمَنَ لِمُوسَىٰ إِلَّا ذُرِّيَّةٌ مِّن قَوْمِهِ ﴾ ” پس نہیں ایمان لایا موسیٰ پر، مگر کچھ لڑکے اس کی قوم کے“ یعنی بنی اسرائیل کے کچھ نوجوان ایمان لے آئے، جنہوں نے دلوں میں ایمان کے جاگزیں ہوجانے کی وجہ سے خوف کے مقابل میں صبر سے کام لیا۔ ﴿عَلَىٰ خَوْفٍ مِّن فِرْعَوْنَ وَمَلَئِهِمْ أَن يَفْتِنَهُمْ﴾ ” فرعون اور اس کے سرداروں سے ڈرتے ہوئے کہ کہیں ان کو آزمائش میں نہ ڈال دیں“ یعنی ان کے دین کے معاملے میں ﴿وَإِنَّ فِرْعَوْنَ لَعَالٍ فِي الْأَرْضِ﴾ ” اور بے شک فرعون ملک میں متکبر و متغلب تھا“ یعنی زمین میں فرعون کو غلبہ اور اقتدار حاصل تھا اس لئے وہ اس کی گرفت سے سخت خائف تھے۔ ﴿وَ﴾ ” اور“ خاص طور پر ﴿وَإِنَّهُ لَمِنَ الْمُسْرِفِينَ﴾ ” وہ حد سے بڑھا ہوا تھا۔“ یعنی ظلم اور تعدی میں حد سے تجاوز کرنے والا تھا۔ موسیٰ علیہ السلام پر ان کی قوم کے نوجوانوں کے ایمان لانے میں حکمت یہ ہے۔ واللہ اعلم۔۔۔۔۔۔ کہ حق کو نوجوان زیادہ قبول کرتے ہیں اور اس کی اطاعت میں زیادہ سرعت سے آگے بڑھتے ہیں۔ اس کے برعکس بوڑھے جنہوں نے کفر میں پرورش پائی ہوتی ہے، ان کے دلوں میں چونکہ عقائد فاسد راسخ ہوتے ہیں، اس وجہ سے وہ، دوسروں کی نسبت حق سے زیادہ دور ہوتے ہیں۔ یونس
84 ﴿ وَقَال َمُوسَىٰ ﴾ موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کو صبر کی تلقین کرتے ہوئے اور ان امور کو اختیار کرنے کی نصیحت کرتے ہوئے جو صبر میں مدد کرتے ہیں، کہا : ﴿يَا قَوْمِ إِن كُنتُمْ آمَنتُم بِاللَّـهِ﴾ ” اے میری قوم : اگر تم ایمان لائے ہو اللہ پر“ تو وظیفہء ایمان کو پورا کرنے کے لیے کھڑے ہوجاؤ۔ ﴿فَعَلَيْهِ تَوَكَّلُوا إِن كُنتُم مُّسْلِمِينَ﴾ ” تو اسی پر توکل کرو اگر تم مسلمان ہو۔“ یعنی اللہ تعالیٰ ہی پر بھروسہ کرو، اسی کی پناہ لو اور اسی سے مدد طلب کرو۔ یونس
85 ﴿ فَقَالُوا﴾ انہوں نے موسیٰ علیہ السلام کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے کہا : ﴿عَلَى اللَّـهِ تَوَكَّلْنَا رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَةً لِّلْقَوْمِ الظَّالِمِينَ﴾ ” ہم نے اللہ پر بھروسہ کیا، اے ہمارے رب، ہمیں ظالم لوگوں کی آزمائش کا نشانہ نہ بنانا‘‘ یعنی ظالموں کو ہم پر مسلط نہ کر کہ وہ ہمیں فتنہ میں مبتلا کریں یا وہ غالب آ کر ہمیں آزمائش میں ڈالی اور کہیں کہ اگر یہ لوگ حق پر ہوتے تو مغلوب نہ ہوتے۔ یونس
86 ﴿وَنَجِّنَا بِرَحْمَتِكَ مِنَ الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ ﴾ ” اور ہمیں اپنی رحمت سے کافر قوم سے نجات عطا فرما۔“ تاکہ ہم ان کے شر سے محفوظ ہوسکیں اور اپنے دین پر عمل کرتے ہوئے شرعی احکام کو قائم اور بغیر کسی مخالفت اور نزاع کے ان کا اظہار کرسکیں۔ یونس
87 ﴿وَأَوْحَيْنَا إِلَىٰ مُوسَىٰ وَأَخِيهِ﴾ ” اور ہم نے موسیٰ اور اس کے بھائی کی طرف وحی کی“ جب فرعون اور اس کی قوم کی طرف سے موسیٰ اور ہارون علیہما السلام کی قوم کے ساتھ معاملہ بہت سخت ہوگیا اور انہوں نے چاہا کہ وہ ان کو ان کے دین کے بارے میں آزمائش میں ڈالیں، ﴿أَن تَبَوَّآ لِقَوْمِكُمَا بِمِصْرَ بُيُوتًا﴾ ” کہ تم دونوں اپنی قوم کے لئے مصر میں گھر بناؤ“ یعنی تم اپنی قوم کو حکم دو کہ وہ مصر میں اپنے لئے کچھ گھر مقرر کرلیں جہاں وہ چھپ سکیں۔ ﴿وَاجْعَلُوا بُيُوتَكُمْ قِبْلَةً ﴾ ” اور اپنے گھروں کو قبلہ (یعنی مسجدیں) ٹھہراؤ“ یعنی جب تم کنیسوں اور عام عبادت گاہوں میں نماز ادا نہ کرسکو تو گھروں کو نماز کی جگہ بنا لو۔ ﴿وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ﴾ ” اور نماز قائم کرو“ کیونکہ نماز تمام معاملات میں مدد کرتی ہے۔ ﴿وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ﴾ ” اور مومنوں کو خوشخبری سنا دو۔“ یعنی اہل ایمان کو نصرت و تائید اور غلبہء دین کی خوشخبری سنا دیجئے‘ کیونکہ تنگی کے ساتھ کئی آسانیاں ہوتی ہیں اور یقیناً تنگی کے ساتھ کئی آسانیاں ہوتی ہیں۔ جب تکلیف بڑھ جاتی ہے اور معاملہ تنگ ہوجاتا ہے‘ تو اللہ تعالیٰ اسے کشادہ کردیتا ہے۔ یونس
88 جب موسیٰ علیہ السلام نے فرعون اور اس کے سرداران سلطنت کی قساوت اور روگردانی کے رویے کا مشاہدہ کیا، تو ان کے لئے بددعا کی اور ہارون علیہ السلام نے اس پر آمین کہی‘ چنانچہ موسیٰ علیہ السلام نے دعا کی : ﴿رَبَّنَا إِنَّكَ آتَيْتَ فِرْعَوْنَ وَمَلَأَهُ زِينَةً﴾ ” اے ہمارے رب ! بے شک دی ہے تو نے فرعون اور اس کے سرداروں کو زینت“ یعنی وہ مختلف انواع کے زیورات، ملبوسات، سجے ہوئے گھر، اعلیٰ قسم کی سواریاں اور خدام وغیرہ، دنیاوی آرائشوں کو اپنے لئے زینت بناتے ہیں۔ ﴿وَأَمْوَالًا ﴾ اور بڑے بڑے مال ﴿فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا رَبَّنَا لِيُضِلُّوا عَن سَبِيلِكَ﴾ ” دنیا کی زندگی میں، اے ہمارے رب، تاکہ تیرے راستے سے لوگوں کو بہکائیں“ یعنی وہ اپنے مال و دولت کو تیرے راستے سے لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں، خود گمراہ ہوتے ہیں اور لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں۔ ﴿رَبَّنَا اطْمِسْ عَلَىٰ أَمْوَالِهِمْ ﴾ ” اے ہمارے رب ! ان کے مال کو برباد کر دے“ یعنی ان کے مال و دولت کو، تباہی کے ذریعے سے تلف کر دے یا اسے پتھر بنا دے جس سے یہ استفادہ نہ کرسکیں۔ ﴿وَاشْدُدْ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ﴾ ” اور ان کے دلوں کو سخت کر دے“ ﴿فَلَا يُؤْمِنُوا حَتَّىٰ يَرَوُا الْعَذَابَ الْأَلِيمَ﴾ ” پس نہ ایمان لائیں، یہاں تک کہ درد ناک عذاب دیکھ لیں۔“ یہ بددعا انہوں نے سخت غصے کی وجہ سے کی تھی،کیونکہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے محارم کے ارتکاب کی جسارت کی تھی، اللہ کے بندوں کو خراب کر کے ان کو اللہ کے راستے سے روک دیا تھا، نیز موسیٰ علیہ السلام کو اپنے رب کی کامل معرفت حاصل تھی کہ اللہ تعالیٰ ان پر ایمان کا دروازہ بند کر کے ان کو ان کی بد اعمالیوں کی سزا دے گا۔ یونس
89 ﴿قَالَ قَدْ أُجِيبَت دَّعْوَتُكُمَا ﴾ ” اللہ نے فرمایا تمہاری دعا قبول ہوئی“۔۔۔۔۔ آیت کریمہ میں تثنیہ کا صیغہ اس بات کی دلیل ہے کہ موسیٰ علیہ السلام دعا کرتے جاتے تھے اور ہارون علیہ السلام آمین کہتے جاتے تھے اور وہ شخص جو دعا کرنے والے کی دعا پر آمین کہتا ہے، وہ دعا کرنے والے کی دعا میں شریک ہوتا ہے۔ ﴿فَاسْتَقِيمَا﴾ ” پس دونوں ثابت قدم رہنا“ یعنی دونوں اپنے دین پر ثابت قدم اور اپنی دعوت پر جمے رہو۔ ﴿وَلَا تَتَّبِعَانِّ سَبِيلَ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ﴾ ” اور بے علم لوگوں کے راستے پر نہ چلنا۔“ یعنی جہلاء کے راستے کی پیروی نہ کرو جنہوں نے صراط مستقیم سے انحراف کر کے جہنم کا راستہ اختیار کیا۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو حکم دیا کہ وہ راتوں رات بنی اسرائیل کو لے کر نکل جائیں اور انہوں نے اس بات سے بھی آگاہ کردیا کہ فرعون کے لشکر ضرور ان کا پیچھا کریں گے۔ فرعون نے تمام شہروں میں ہر کارے دوڑا دیئے جو اعلان کرتے ہوئے ﴿ إِنَّ هَـٰؤُلَاءِ﴾ ”یہ لوگ“ یعنی موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم ﴿لَشِرْذِمَةٌ قَلِيلُونَ وَإِنَّهُمْ لَنَا لَغَائِظُونَ وَإِنَّا لَجَمِيعٌ حَاذِرُونَ﴾ ﴿الشعراء : 26؍54۔56 ” ایک قلیل سی جماعت ہے۔ یہ ہمیں ناراض کر رہے ہیں اور ہم پوری طرح بساز و سامان تیار ہیں۔“ پس فرعون نے دور اور نزدیک سے تمام لشکر جمع کر لئے اور اس نے اپنے لشکر لے کر ظلم و زیادتی کے ساتھ بنی اسرائیل کا تعاقب کیا۔ اس نے موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم پر ظلم اور زمین میں زیادتی کرتے ہوئے انہیں گھروں سے نکالا۔ جب ظلم و زیادتی حد سے بڑھ جائے اور گناہ جڑ پکڑ لیں تو عذاب کا انتظار کرو۔ یونس
90 ﴿وَجَاوَزْنَا بِبَنِي إِسْرَائِيلَ الْبَحْرَ﴾ ”اور پار کردیا ہم نے بنی اسرائیل کو سمندر سے“ اور یہ اس طرح ہوا کہ جب موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کے ساتھ سمندر پر پہنچے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی کی کہ وہ سمند پر اپنا عصا ماریں، انہوں نے سمندر پر عصا مارا تو سمندر کا پانی پھٹ گیا اور اس میں بارہ راستے بن گئے اور بنی اسرائیل ان پر چلتے ہوئے پار نکل گئے۔ فرعون اور اس کے پیچھے پیچھے اس کے لشکر سمند میں داخل ہوگئے۔ جب موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم مکمل طور پر سمند سے باہر آگئے اور اس کی قوم مکمل طور پر سمندر میں داخل ہوگئے، تو اللہ تعالیٰ نے سمندر کو حکم دیا اور سمندر کے تلاطم نے فرعون اور اس کی فوجوں کو اپنی گرفت میں لے کر غرق کردیا اور بنی اسرائیل یہ نظارہ دیکھ رہے تھے۔ جب فرعون ڈوبنے لگا اور اسے اپنی ہلاکت کا یقین ہوگیا تو پکار اٹھا ﴿ آمَنتُ أَنَّهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا الَّذِي آمَنَتْ بِهِ بَنُو إِسْرَائِيلَ﴾ ”میں ایمان لایا اس بات پر کہ نہیں ہے کوئی معبود مگر وہی جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے“ کہ اللہ تعالیٰ ہی معبود برحق ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ ﴿وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ ﴾ ” اور میں فرماں برداروں میں سے ہوں۔“ یعنی اللہ تعالیٰ کے دین اور ان تمام امور کو مانتا ہوں جو موسیٰ علیہ السلام لے کر آئے۔ یونس
91 اللہ تبارک و تعالیٰ نے۔۔۔۔۔۔۔ یہ واضح کرتے ہوئے کہ اس صورت حال میں ایمان لانا فائدہ نہیں دیتا۔۔۔۔۔ فرمایا : ﴿آلْآنَ﴾ ” اب“ یعنی اب تو ایمان لاتا ہے اور اللہ کے رسول کا اقرار کرتا ہے؟ ﴿وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ﴾ ” حالانکہ پہلے نافرمانی کرتا رہا“ یعنی اس سے قبل کھلے عام کفر اور معاصی کا ارتکاب کیا کرتا اور اللہ کے رسول کو جھٹلایا کرتا تھا۔ ﴿وَكُنتَ مِنَ الْمُفْسِدِينَ﴾ ” اور تو شرارتیوں میں سے تھا“ پس اب تجھے تیرا ایمان لانا کوئی فائدہ نہ دے گا۔ جیسا کہ عادت الٰہی ہے کہ جب کفار اس اضطراری حالت کو پہنچ جاتے ہیں، تو ان کا ایمان لانا انہیں کوئی فائدہ نہیں دیتا، کیونکہ ان کا ایمان مشاہدے پر مبنی ہوتا ہے، جیسے اس شخص کا ایمان جو قیامت کا مشاہدہ کرنے کے بعد ایمان لے آئے۔ جو ایمان مفید ہے وہ ایمان بالغیب ہے۔ یونس
92 ﴿فَالْيَوْمَ نُنَجِّيكَ بِبَدَنِكَ لِتَكُونَ لِمَنْ خَلْفَكَ آيَةً ۚ﴾ ” پس آج ہم تیرے بدن کو بچائے دیتے ہیں، تاکہ تو اپنے پچھلوں کے لئے نشانی ہو“ مفسرین کہتے ہیں کہ بنی اسرائیل کے دلوں پر فرعون کا رعب اور دہشت چھائی ہوئی تھی۔ گویا انہیں فرعون کے ڈوبنے کا یقین نہیں آرہا تھا اور اس بارے میں انہیں شک تھا۔ پس اللہ تعالیٰ نے سمندر کو حکم دیا کہ وہ فرعون کی لاش کو کسی بلند جگہ پر ڈال دے، تاکہ وہ لوگوں کے لئے نشان عبرت بن جائے۔ ﴿وَإِنَّ كَثِيرًا مِّنَ النَّاسِ عَنْ آيَاتِنَا لَغَافِلُونَ ﴾ ” اور اکثر لوگ ہماری آیتوں سے بے خبر ہیں۔“ بنا بریں اللہ تعالیٰ کی نشانیاں بتکر ار ان کے سامنے آتی ہیں مگر وہ ان سے فائدہ نہیں اٹھاتے، کیونکہ وہ ان کی طرف توجہ نہیں کرتے اور وہ شخص جو عقل اور دل بیدار رکھتا ہے اسے معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ کی آیت ان امور پر سب سے بڑی دلیل ہیں جنہیں رسول لے کر آئے ہیں۔ یونس
93 ﴿ وَلَقَدْ بَوَّأْنَا بَنِي إِسْرَائِيلَ مُبَوَّأَ صِدْقٍ﴾ ”اور جگہ دی ہم نے بنی اسرائیل کو بہت اچھی جگہ“ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو آل فرعون کے مسکنوں میں آباد کیا اور ان کو آل فرعون کی اراضی اور ان کے گھروں کا مالک بنا دیا۔ ﴿ وَرَزَقْنَاهُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ﴾ ” اور کھانے کو ستھری چیزیں دیں“ مطعومات اور مشروبات وغیرہ ﴿فَمَا اخْتَلَفُوا﴾ ” پس ان میں پھوٹ نہیں پڑی“ یعنی حق کے بارے میں ﴿حَتَّىٰ جَاءَهُمُ الْعِلْمُ﴾ ” حتیٰ کہ ان کے پاس علم آگیا“ جو ان کے اتحاد و اجتماع کا موجب تھا مگر انہوں نے ایک دوسرے کے خلاف ظلم اور تعدی سے کام لیا اور ان میں سے بہت سے لوگ اپنی اپنی خواہشات اور اغراض کے پیچھے لگ گئے جو حق کے خلاف تھیں اور یوں ان میں بہت زیادہ اختلاف واقع ہوگیا۔ ﴿إِنَّ رَبَّكَ يَقْضِي بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ﴾ ” بے شک جن باتوں میں وہ اختلاف کرتے رہے ہیں، تمہارا رب قیامت کے دن ان میں ان باتوں کا فیصلہ کرے گا۔“ یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی حکمت عدل سے جو علم کامل اور قدرت شاملہ سے جنم لیتی ہے، قیامت کے روز ان کے اختلافات کا فیصلہ کرے گا۔ یہی وہ بیماری ہے، جس سے دین صحیح کے پیروکاروں کو سابقہ پڑتا ہے۔ شیطان جب کلی طور پر بندوں کو اپنی اطاعت کروانے اور دین ترک کروانے سے عاجز آجاتا ہے، تب وہ ان کے درمیان اختلافات ابھارتا ہے اور ان کے درمیان عداوت اور بغض ڈال دیتا ہے اس طرح وہ ان میں اختلافات پیدا کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے جو شیطان کا مقصد پورا کرنے کا موجب بنتے ہیں، پھر ایک دوسرے پر گمراہی کے فتوے لگانے سے ایک دوسرے کے خلاف عداوت پیدا ہوتی ہے اور یہ چیز اس لعین کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔ ورنہ جب ان کا رب ایک ہے، ان کا رسول ایک ہے، ان کا دین ایک ہے اور ان کے مصالح عامہ بھی متفق علیہ ہیں، پھر کس لئے وہ ایسے اختلافات میں مبتلا ہوتے ہیں جو ان کی وحدت کو پارہ پارہ کرتے ہیں، ان کے اتحاد کو پراگندہ کرتے ہیں، ان کے نظم و ربط کی رسی کو کھول دیتے ہیں اور یوں ان کے دینی اور دنیاوی مصالح فوت ہوجاتے ہیں اور اختلافات کے سبب سے دین کے بہت سے امور معدوم ہوجاتے ہیں۔ اے اللہ ! ہم تیرے مومن بندوں کے لئے تیرے لطف و کرم کا سوال کرتے ہیں، جو ان کے بکھرے ہوئے امور کو مجتمع کر دے، جو ان کے درمیان حائل خلیج کو پر کر دے، جو ان کے دور اور نزدیک کے لوگوں کو اکٹھا کر دے۔۔۔۔۔ یا ذالجلال و الاکرام یونس
94 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے نبی محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرماتا ہے: ﴿فَإِن كُنتَ فِي شَكٍّ مِّمَّا أَنزَلْنَا إِلَيْكَ﴾ ”اگر آپ اس کی بابت شک میں ہیں جو ہم نے آپ کی طرف اتارا“ کہ آیا یہ صحیح ہے یہ غیر صحیح ہے؟ ﴿فَاسْأَلِ الَّذِينَ يَقْرَءُونَ الْكِتَابَ مِن قَبْلِكَ﴾ ”تو ان سے پوچھ لیں جو آپ سے پہلے کتاب پڑھتے ہیں“ یعنی انصاف پسند اہل کتاب اور راسخ العلم علماء سے پوچھئے وہ اس چیز کی صداقت کا اقرار کریں گے جس کی آپ کو خبر دی گئی ہے اور وہ یہ بھی اعتراف کریں گے کہ وہ اس ہدایت کے موافق ہے جو ان کے پاس ہے۔ اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ اہل کتاب، یعنی یہود و نصاریٰ میں سے بہت سے لوگوں نے، بلکہ ان میں سے اکثر لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کی، آپ سے عناد رکھا اور آپ کی دعوت کو ٹھکرا دیا حالانکہ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ وہ اہل کتاب سے اپنی صداقت پر گواہی لیں اور ان کو گواہی کو اپنی دعوت پر حجت اور اپنی صداقت پر دلیل بنائیں، تو یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ (1)جب شہادت کی اضافت کسی گروہ، کسی مذہب کے ماننے والوں یا کسی شہر کے لوگوں کی طرف کی جاتی ہے تو اس کا اطلاق صرف ان لوگوں پر ہوتا ہے جو ان میں عادل اور سچے ہوتے ہیں اور ان کے علاوہ دیگر لوگ خواہ اکثریت ہی میں کیوں نہ ہوں، ان کی شہادت معتبر نہیں، کیونکہ شہادت، عدالت اور صدق پر مبنی ہوتی ہے اور یہ مقصد بہت سے ربانی احبار کے ایمان سے حاصل ہوگیا تھا، مثلاً عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ اور ان کے اصحاب اور بہت سے دیگر اہل کتاب جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے خلفاء کے عہد میں اور بعد کے زمانوں میں ایمان لاتے رہے۔ (2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت پر اہل کتاب کی شہادت در اصل ان کی کتاب تورات، جس کی طرف یہ اپنے آپ کو منسوب کرتے ہیں، کے بیان پر مبنی ہے جب تورات میں ایسا مواد موجود ہو جو قرآن کی موافقت اور اس کی تصدیق کرتا ہو اور اس کی صحت کی شہادت دیتا ہو، تب اگر اولین و آخرین تمام اہل کتاب اس کے انکار پر متفق ہوجائیں، تو ان کا یہ انکار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لائے ہوئے قرآن میں قادح نہیں۔ (3) اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم دیا کہ اپنے لائے ہوئے قرآن کی صداقت پر اہل کتاب سے استشہاد کریں اور ظاہر ہے کہ یہ حکم علی الاعلان دیا گیا تھا اور ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ اہل کتاب میں بہت سے لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت کے ابطال کے بڑے حریص تھے۔ اگر ان کے پاس کوئی ایسا مواد موجود ہوتا جو اللہ تعالیٰ کے اس حکم کو رد کرسکتا، تو وہ ضرور اسے پیش کرتے، چونکہ ان کے پاس کوئی ایسی چیز موجود نہ تھی اس لئے دشمنوں کا عدم جواب اور مستجیب کا اقرار اس قرآن اور صداقت پر سب سے بڑی دلیل ہے۔ (4) اکثر اہل کتاب ایسے نہ تھے جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت کو رد کردیا ہو، بلکہ ان میں سے اکثر ایسے لوگ تھے جنہوں نے آپ کی دعوت کو قبول کرلیا تھا اور انہوں نے اپنے اختیار سے آپ کی اطاعت کی، کیونکہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مبعوث ہوئے تو روئے زمین میں اکثر لوگ اہل کتاب تھے۔ اسلام پر زیادہ مدت نہیں گزری تھی کہ شام، مصر، عراق اور ان کے آس پاس کے علاقوں کے اکثر لوگ مسلمان ہوگئے، یہ ممالک اہل کتاب کے مذہب کا گڑھ تھے۔ اسلام قبول کرنے سے صرف وہی لوگ باقی رہ گئے تھے جن کے پاس سرداریاں تھیں اور جنہوں نے اپنی سرداریوں کو حق پر ترجیح دی تھی، نیز وہ لوگ باقی رہ گئے جنہوں نے ان سرداروں کی پیروی کی جو حقیقی طور پر نہیں، بلکہ برائے نام اس دین کی طرف منسوب تھے، مثلاً فرنگی، جن کے دین کی حقیقت یہ ہے کہ دہریے ہیں اور تمام انبیاء و مرسلین کے مذاہب کے دائرے سے خارج ہیں اور صرف ملکی رواج کے طور پر اور اپنے باطل کے ملمع کی خاطر دین مسیح کی طرف منسوب ہیں۔ جیسا کہ ان کے حالات کی معرفت رکھنے والے جانتے ہیں۔ ﴿لَقَدْ جَاءَكَ الْحَقُّ﴾ ” تحقیق آگیا آپ کے پاس حق“ جس میں کسی بھی لحاظ سے کوئی شک نہیں ﴿مِن رَّبِّكَ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ﴾ ”آپ کے رب کی طرف سے، پس آپ شک کرنے والوں میں سے نہ ہوں“ جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿كِتَابٌ أُنزِلَ إِلَيْكَ فَلَا يَكُن فِي صَدْرِكَ حَرَجٌ مِّنْهُ﴾ (الاعراف : 7؍2) ” یہ کتاب ہے جو آپ پر نازل کی گئی ہے، پس آپ کے دل میں کوئی تنگی نہیں آنی چاہیے۔“ یونس
95 ﴿ وَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِ اللَّـهِ فَتَكُونَ مِنَ الْخَاسِرِينَ﴾ ” اور آپ ان لوگوں میں سے نہ ہوں جنہوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلایا، پس آپ خسارہ پانے والوں میں سے ہوجائیں گے۔“ ان دونوں آیات کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے (قرآن کریم کے بارے میں) دو چیزوں سے منع کیا ہے۔ 1۔ قرآن مجید میں شک کرنا اور اس کے بارے میں جھگڑنا۔ 2۔ اور اس سے بھی شدید تر چیز اس کی تکذیب کرنا ہے، حالانکہ یہ اللہ تعالیٰ کی واضح آیات ہیں جن کو کسی لحاظ سے بھی جھٹلایا نہیں جاسکتا اور تکذیب کا نتیجہ خسارہ ہے اور وہ ہے منافع کا بالکل معدوم ہونا اور یہ خسارہ دنیا و آخرت کے ثواب کے فوت ہونے اور دنیا و آخرت کے عذاب سے لاحق ہوتا ہے۔ کسی چیز سے روکنا دراصل اس کی ضد کا حکم دینا ہے۔ تب قرآن کی تکذیب سے منع کرنا درحقیقت قرآن کی تصدیق کامل، اس پر طمانیت قلب اور علم و عمل کے اعتبار سے اس کی طرف توجہ دینے کا نام ہے اور یوں بندہ مومن نفع کمانے والوں میں شامل ہوجاتا ہے جو جلیل ترین مقاصد، بہترین خواہشات اور کامل ترین مناقب کے حصول میں کامیاب ہوجاتا ہے اور اس خسارے کی نفی ہوجاتی ہے۔ یونس
96 ﴿ إِنَّ الَّذِينَ حَقَّتْ عَلَيْهِمْ كَلِمَتُ رَبِّكَ﴾ ” جن لوگوں کے بارے میں آپ کے رب کا حکم قرار پا چکا ہے۔“ یعنی وہ لوگ جن پر یہ بات صادق آئی کہ وہ گمراہ، بھٹکے ہوئے اور جہنمی ہیں، تو یہ لابدی ہے کہ وہ وہی کچھ کریں گے جو اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر میں مقدر ہوچکا ہے اگر ان کے پاس ہر قسم کی نشانی اور معجزہ بھی آجائے، تب بھی یہ ایمان نہیں لائیں گے۔ یہ آیت و معجزات ان کی سرکشی اور گمراہی میں اضافہ ہی کرتے ہیں۔ اللہ نے ان پر ظلم نہیں کیا، بلکہ انہوں نے حق کو جھٹلا کر، جب حق ان کے پاس پہلی مرتبہ آیا خود اپنے آپ پر ظلم کیا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ سزا دی کہ ان کے دلوں پر، کانوں پر اور آنکھوں پر مہر لگا دی اور اب وہ اس وقت تک ایمان نہیں لائیں گے جب تک کہ وہ درد ناک عذاب نہ دیکھ لیں جس کا ان کے ساتھ وعدہ کیا گیا ہے۔ اس وقت حق یقین کے ساتھ معلوم ہوجائے گا کہ وہ اب تک جس راستے پر چلتے رہے ہیں وہ گمراہی کا راستہ ہے اور جو چیز رسول لے کر آئے ہیں وہ حق ہے مگر اس روز ان کا ایمان لانا انہیں کوئی فائدہ نہیں دے گا۔ اس روز ظالموں کی معذرت کسی کام نہ آئے گی اور ان کی کوئی معذرت قبول نہ ہوگی۔ آیات و معجزات صرف ان لوگوں کو فائدہ دیتے ہیں جو دل رکھتے ہیں اور توجہ سے سنتے ہیں۔ یونس
97 یونس
98 ﴿فَلَوْلَا كَانَتْ قَرْيَةٌ ﴾ ” پس کیوں نہ ہوئی کوئی بستی“ یعنی جھٹلانے والی بستیوں میں سے، ﴿ آمَنَتْ﴾ ” کہ وہ ایمان لائی“ جب انہوں نے عذاب دیکھا ﴿فَنَفَعَهَا إِيمَانُهَا ﴾ ” پھر کام آیا ہو ان کو ان کا ایمان لانا“ یعنی ان تمام بستیوں میں سے کسی بستی کو عذاب دیکھ کرا یمان لانے کا کوئی فائدہ نہ ہوا جیسا کہ فرعون کے ایمان لانے کے بارے میں گزشتہ صفحات میں قریب ہی اللہ تعالیٰ کا ارشاد گزر چکا ہے اور جیسے فرمایا : ﴿فَلَمْ يَكُ يَنفَعُهُمْ إِيمَانُهُمْ لَمَّا رَأَوْا بَأْسَنَا ۖ سُنَّتَ اللَّـهِ الَّتِي قَدْ خَلَتْ فِي عِبَادِهِ ۖ وَخَسِرَ هُنَالِكَ الْكَافِرُونَ﴾ (المومن: 40؍84۔85) ” پس جب انہوں نے ہمارا عذاب دیکھا، تو کہا ہم ایک اللہ پر ایمان لائے اور ان کا ہم نے انکار کیا جن کو ہم اس کے ساتھ شریک ٹھہراتے تھے، لیکن ہمارا عذاب دیکھ لینے کے بعد ان کو ان کے ایمان لانے نے کوئی فائدہ نہیں دیا۔ یہ سنت الٰہی ہے جو اس کے بندوں کے بارے میں چلی آرہی ہے۔“ اور ارشاد باری تعالیٰ ہے : ﴿حَتَّىٰ إِذَا جَاءَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ لَعَلِّي أَعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ ۚ كَلَّا ۚ ﴾ ﴿المومنون : 23؍ 99۔100) ” حتیٰ کہ جب ان میں سے کسی کے پاس موت آجائے گی، تو وہ کہے گا اے میرے پروردگار ! مجھے دنیا میں پھر واپس بھیج دے شاید کہ میں جسے پیچھے چھوڑ آیا ہوں نیک کام کروں، ہرگز نہیں !“ اور اس میں حکمت ظاہر ہے کہ ایمان اضطراری حقیقی ایمان نہیں اگر اللہ تعالیٰ ان سے عذاب کو دور ہٹا لے جس سے مجبور ہو کر انہوں نے ایمان لانے کا اقرار کیا تھا، تو وہ پھر کفر کی طرف لوٹ جائیں گے۔ فرمایا : ﴿إِلَّا قَوْمَ يُونُسَ لَمَّا آمَنُوا كَشَفْنَا عَنْهُمْ عَذَابَ الْخِزْيِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَمَتَّعْنَاهُمْ إِلَىٰ حِينٍ﴾ ” سوائے یونس کی قوم کے، جب وہ ایمان لائی، (عذاب دیکھ لینے کے بعد) تو ہم نے ان پر سے ذلت کا عذاب اٹھا لیا دنیا کی زندگی میں اور ایک وقت تک ہم نے ان کو فائدہ پہنچایا“ پس حضرت یونس علیہ السلام کی قوم گزشتہ عموم سے مستثنیٰ ہے اس میں ضرور اللہ تعالیٰ ” عالم الغیب والشھادۃ“ کی حکت پوشیدہ ہے۔ جہاں تک پہنچنے اور اس کے ادراک سے ہمارا فہم قاصر ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿وَإِنَّ يُونُسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ۔۔۔۔۔۔۔ وَأَرْسَلْنَاهُ إِلَىٰ مِائَةِ أَلْفٍ أَوْ يَزِيدُونَ فَآمَنُوا فَمَتَّعْنَاهُمْ إِلَىٰ حِينٍ﴾ (الصافات : 37؍139۔148) ” اور یونس اللہ کے رسولوں میں سے تھا جب وہ (گھر سے) بھاگ کر بھری ہوئی کشتی میں سوار ہوا، اس وقت قرعہ ڈالا گیا تو اس نے زک اٹھائی پس اس کو مچھلی نے نگل لیا اور وہ قابل ملامت کام کرنے والوں میں سے تھا۔ پس اگر وہ اللہ کی تسبیح بیان نہ کرتا تو قیام کے روز تک مچھلی کے پیٹ میں رہتا، پھر ہم نے اس کو (مچھلی کے پیٹ سے نکال کر) اس حالت میں کھلے میدان میں ڈال دیا کہ وہ بیمار تھا اور اس پر کدو کی بیل لگا دی اور اس کو ایک لاکھ یا کچھ اوپر لوگوں کی طرف مبعوث کیا۔ پس وہ ایمان لے آئے اور ہم نے ان کو ایک وقت مقرر تک فائدہ اٹھانے دیا۔ “ شاید اس میں حکمت یہ ہے کہ اگر حضرت یونس علیہ السلام کی قوم کے علاوہ کوئی اور قوم ہوتی اور ان پر سے عذاب کو ہٹا لیا جاتا تو وہ پھر اسی کام کا اعادہ کرتے جس سے ان کو منع کیا گیا تھا اور رہا یونس علیہ السلام کی قوم کا معاملہ تو اللہ تعالیٰ ان کے بارے میں زیادہ جانتا تھا کہ وہ اپنے ایمان پر قائم رہیں گے، بلکہ وہ قائم رہے۔ واللہ اعلم۔ یونس
99 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے نبی محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرماتا ہے : ﴿وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ لَآمَنَ مَن فِي الْأَرْضِ كُلُّهُمْ جَمِيعًا ﴾ ” اگر آپ کا رب چاہتا تو زمین میں رہنے والے سب کے سب ایمان لے آتے“ یعنی ان کے دلوں میں ایمان الہام کردیتا اور ان کے دلوں کو تقویٰ کے لئے درست کردیتا۔ اللہ تعالیٰ ایسا کرنے کی پوری قدرت رکھتا ہے مگر اس کی حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ ان میں سے بعض لوگ ایمان لائیں اور بعض لوگ کافر رہیں۔ ﴿أَفَأَنتَ تُكْرِهُ النَّاسَ حَتَّىٰ يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ﴾ ” کیا آپ لوگوں پر زبردستی کریں گے، یہاں تک کہ وہ ایمان لے آئیں“ یعنی آپ اس پر قدرت رکھتے ہیں نہ آپ کے بس میں ہے اور نہ یہ چیز غیر اللہ کے اختیار اور قدرت میں ہے۔ یونس
100 ﴿وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ أَن تُؤْمِنَ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّـهِ﴾ ” اور کسی سے نہیں ہوسکتا کہ وہ ایمان لائے مگر اللہ کے حکم سے“ یعنی اللہ تعالیٰ کے ارادہ و مشیت اور اس کے قدرتی و شرعی حکم سے۔ پس مخلوق میں سے جو اس کے قبول کرنے کے قابل ہوتا ہے، تو ایمان اس کے پاس پھلتا پھولتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو توفیق سے نوازتا اور اس کی راہنمائی کرتا ہے۔ ﴿ وَيَجْعَلُ الرِّجْسَ﴾ ” اور ڈالتا ہے وہ گندگی“ یعنی شر و گمراہی ﴿عَلَى الَّذِينَ لَا يَعْقِلُونَ﴾ ” ان لوگوں پر جو سوچتے نہیں“ یعنی جو اللہ تعالیٰ کے او امر و نواہی اور اس کے نصائح و مواعظ پر کان نہیں دھرتے۔ یونس
101 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں کو دعوت دیتا ہے کہ وہ آسمانوں اور زمین میں غور کریں اور اس سے مراد یہ ہے کہ تفکر اور عبرت کی نظر سے آسمان کو دیکھیں، ان میں جو کچھ موجود ہے اس میں تدبر کریں اور بصیرت حاصل کریں۔ ان میں اہل ایمان کے لئے نشانیاں اور اہل ایقان کے لئے عبرت ہے جو اس پر دلالت کرتی ہیں کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی معبود محمود ہے، وہی صاحب جلال و اکرام و عظیم اسماء و صفات کا مالک ہے۔ ﴿وَمَا تُغْنِي الْآيَاتُ وَالنُّذُرُ عَن قَوْمٍ لَّا يُؤْمِنُونَ﴾” اور کچھ کام نہیں آتیں نشانیاں اور ڈرانے والے ان لوگوں کو جو ایمان لانے والے نہیں“ کیونکہ یہ لوگ اپنے اعراض اور عناد کی وجہ سے آیات الٰہی سے فائدہ نہیں اٹھاتے۔ یونس
102 ﴿ فَهَلْ يَنتَظِرُونَ إِلَّا مِثْلَ أَيَّامِ الَّذِينَ خَلَوْا مِن قَبْلِهِمْ﴾ ” پس وہ لوگ صرف ان لوگوں کے سے واقعات کا انتظار کر رہے ہیں جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں۔“ یعنی یہ لوگ جو آیات الٰہی کے واضح ہوجانے کے بعد بھی ایمان نہیں لاتے کیا اس بات کے منتظر ہیں کہ ان کو بھی اسی طرح عذاب بھیج کر ہلاک کردیا جائے، جیسے ان کے پہلوں کو عذاب کے ذریعے سے ہلاک کیا گیا۔ ان کے اعمال بھی وہی تھے جو ان کے اعمال ہیں اور سنت الٰہی اور الین و آخرین میں جاری و ساری ہے۔ ﴿قُلْ فَانتَظِرُوا إِنِّي مَعَكُم مِّنَ الْمُنتَظِرِينَ﴾ ” کہہ دیجئے ! پس انتظار کرو، میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتا ہوں۔“ عنقریب تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ کس کا انجام اچھا ہے، دنیا اور آخرت میں نجات کس کے لئے ہے اور یہ نجات صرف انبیاء و مرسلین اور ان کے پیروکاروں کے لئے ہے۔ یونس
103 بنابریں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ثُمَّ نُنَجِّي رُسُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوا ﴾ ” پھر ہم اپنے رسولوں اور اہل ایمان کو (دنیا و آخرت کی تکالیف اور شدائد سے) نجات دیتے ہیں“ ﴿كَذَٰلِكَ حَقًّا عَلَيْنَا ﴾ ” اسی طرح ہمارے ذمہ ہے“ یعنی ہم نے اپنے اوپر واجب ٹھہرایا ہے کہ ﴿نُنجِ الْمُؤْمِنِينَ﴾ ” ایمان والوں کو نجات دیں گے۔“ کیونکہ اللہ تعالیٰ، مومن بندوں میں جذبہء ایمان کی مقدار کے مطابق، ان کا دفاع کرتا ہے اس سے انہیں تکلیف دہ امور سے نجات ملتی ہے۔ یونس
104 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے رسول سید المرسلین، امام المتقین، خیر المؤقنین حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرماتا ہے : ﴿قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِن كُنتُمْ فِي شَكٍّ مِّن دِينِي﴾ ” کہہ دیجئے اے لوگو ! اگر تم میرے لائے ہوئے دین کے بارے میں کسی شک و شبہ میں مبتلا ہو“ تو میں اس بارے میں کسی شک و شبہ میں مبتلا نہیں ہوں، بلکہ میں علم الیقین رکھتا ہوں کہ یہ حق ہے اور تم اللہ کے سوا جن ہستیوں کو پکارتے ہو، وہ سب باطل ہیں۔ میں اپنے اس موقف پر واضح دلائل اور روشن براہین رکھتا ہوں۔ بنا بریں فرمایا : ﴿فَلَا أَعْبُدُ الَّذِينَ تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ﴾ ” پس جن لوگوں کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو میں ان کی عبادت نہیں کرتا۔“ یعنی میں اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر تمہارے خود ساختہ ہمسروں اور بتوں کی عبادت نہیں کرتا، کیونکہ یہ پیدا کرسکتے ہیں نہ رزق عطا کرسکتے ہیں اور نہ تدبیر کائنات میں ان کا کوئی اختیار ہے۔ یہ تو خود مخلوق اور اللہ کی قدرت کے سامنے مسخر ہیں، ان میں کوئی ایسی صفات نہیں پائی جاتیں جو ان کی عبادت کا تقاضا کرتی ہوں ﴿وَلَـٰكِنْ أَعْبُدُ اللَّـهَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ ﴾ ” لیکن میں تو اللہ کی عبادت کرتا ہوں جو کھینچ لیتا ہے تمہاری روحیں“ یعنی وہ اللہ ہی ہے جس نے تمہیں پیدا کیا، وہی تمہیں موت دے گا، پھر وہ تمہیں دوبارہ زندہ کرے گا اور تمہیں تمہارے اعمال کا بدلہ دے گا۔۔۔۔ پس وہی اس بات کا مستحق ہے کہ اس کی عبادت کی جائے، اس کے لئے نماز پڑھی جائے اور اس کے سامنے سجدہ ریز ہوا جائے۔ ﴿وَأُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ﴾ ” اور مجھ کو حکم دیا گیا ہے کہ میں ایمان لانے والوں میں شامل ہوں۔“ یونس
105 ﴿وَأَنْ أَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا﴾ ” اور یہ کہ سیدھا کر اپنا منہ دین پر یک طرفہ ہو کر“ یعنی اپنے ظاہری اور باطنی اعمال کو اللہ تعالیٰ کے لئے خالص کیجئے اور یکسو ہو کر تمام شرائع کو قائم کیجئے، یعنی ہر طرف سے منہ موڑ کر صرف اللہ کی طرف اپنی توجہ کو مبذول رکھیے۔ ﴿وَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُشْرِكِينَ﴾ ” اور شرک کرنے والوں میں سے نہ ہوں۔“ ان کا حال اختیار کیجئے نہ ان کا ساتھ دیجئے۔ یونس
106 ﴿وَلَا تَدْعُ مِن دُونِ اللَّـهِ مَا لَا يَنفَعُكَ وَلَا يَضُرُّكَ﴾ ”اور اللہ کو چھوڑ کر ایسوں کو مت پکاریں جو آپ کو فائدہ پہنچا سکیں نہ نقصان“ کیونکہ یہ وصف ہر مخلوق کا ہے، مخلوق کوئی فائدہ دے سکتی ہے نہ نقصان، نفع اور نقصان پہنچانے والی ہستی صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے ﴿فَإِن فَعَلْتَ ﴾ ” اگر ایسا کرو گے“ یعنی اگر آپ نے اللہ کے بغیر کسی ہستی کو پکارا جو کسی کو نفع دے سکتی ہے نہ نقصان ﴿ فَإِنَّكَ إِذًا مِّنَ الظَّالِمِينَ﴾ ” تو ظالموں میں سے ہوجاؤ گے۔“ یعنی آپ کا شمار ان لوگوں میں ہوگا جنہوں نے ہلاکت کے ذریعے سے اپنے آپ کو نقصان پہنچایا۔ یہاں ظلم سے مراد شرک ہے جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا ﴿إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ﴾ (لقمان : 31؍13 )” بے شک شرک بہت بڑا ظلم ہے“ اگر اللہ تعالیٰ کی بہترین مخلوق، اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور کو پکارے تو اس کا شمار مشرکوں میں ہوجاتا ہے، تو دیگر لوگوں کا کیا حال ہوگا؟ یونس
107 یہ آیت کریمہ اس بات کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ اکیلا عبادت کا مستحق ہے، کیونکہ نفع و نقصان اسی کے قبضہء قدرت میں ہے۔ وہی عطا کرتا ہے وہی محروم کرتا ہے۔ جب کوئی تکلیف مثلاً فقر اور مرض وغیرہ لاحق ہوتا ہے ﴿فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ﴾ ” تو اس کے سوا کوئی دور نہیں کرسکتا“ کیونکہ اگر تمام مخلوق اکٹھی ہو کر کوئی فائدہ پہنچانا چاہے تو وہ کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتی سوائے اس کے جو اللہ تعالیٰ نے لکھ دیا ہے اور اگر تمام مخلوق اکٹھی ہو کر کسی کو کوئی نقصان پہنچانا چاہے تو اللہ تعالیٰ کے ارادے کے بغیر کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ اس لئے اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَإِن يُرِدْكَ بِخَيْرٍ فَلَا رَادَّ لِفَضْلِهِ ﴾ ” اور اگر وہ آپ کو کوئی بھلائی پہنچانا چاہے، تو اس کے فضل کو کوئی پھیرنے والا نہیں“ یعنی مخلوق میں کوئی ایسی ہستی نہیں ہے جو اس کے فضل و احسان کو روک سکے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿مَّا يَفْتَحِ اللَّـهُ لِلنَّاسِ مِن رَّحْمَةٍ فَلَا مُمْسِكَ لَهَا ۖ وَمَا يُمْسِكْ فَلَا مُرْسِلَ لَهُ مِن بَعْدِهِ ۚ﴾ (فاطر :35؍2) ”اللہ لوگوں کے لئے اپنی رحمت کا جو دروازہ کھول دے تو اس کو کوئی بند نہیں کرسکتا اور جو دروازہ بند کر دے اس کے بعد اسے کوئی کھول نہیں سکتا۔ “ ﴿يُصِيبُ بِهِ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ﴾ ” وہ اپنا فضل اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے، پہنچاتا ہے“ یعنی وہ مخلوق میں سے جسے چاہتا ہے اپنی رحمت کے لئے مخصوص کرلیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ بڑے فضل کا مالک ہے۔ ﴿وَهُوَ الْغَفُورُ﴾ اللہ تعالیٰ تمام لغزشوں کو بخش دیتا ہے۔ وہ اپنے بندے کو مغفرت کے اسباب کی توفیق سے نوازتا ہے۔ بندہ جب ان اسباب پر عمل کرتا ہے تو اللہ اس کے تمام کبیرہ اور صغیرہ گناہوں کو بخش دیتا ہے۔ ﴿الرَّحِيمُ﴾ جس کی رحمت ہر چیز پر سایہ کناں ہے اس کا جو دواحسان تمام موجودات تک پہنچتا ہے۔ کائنات کی کوئی چیز لمحہ بھر کے لئے بھی اس کے فضل و احسان سے بے نیاز نہیں رہ سکتی۔ جب بندہ قطعی دلیل کے ذریعے سے معلوم کرلے کہ اللہ تعالیٰ اکیلا ہی ہے جو نعمتوں سے نوازتا ہے، وہی تکالیف کو دور کرتا ہے، وہی بھلائیاں عطا کرتا ہے، وہی برائیوں اور تکالیف کو ہٹاتا ہے اور مخلوق میں کوئی ہستی ایسی نہیں جس کے ہاتھ میں یہ چیزیں ہوں، سوائے اس کے جس کے ہاتھ پر اللہ تعالیٰ جاری فرما دے۔۔۔۔ تو اسے یقین ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی حق ہے اور وہ ہستیاں، جنہیں یہ اللہ تعالیٰ کے سوا پکارتے ہیں، سب باطل ہیں۔ یونس
108 بنا بریں، جب اللہ تعالیٰ نے واضح دلیل بیان کردی، تو اس کے بعد فرمایا : ﴿قُلْ ﴾ چونکہ دلیل و برہان واضح ہوگئی اس لئے اے رسول فرما دیجئے ! ﴿يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَكُمُ الْحَقُّ مِن رَّبِّكُمْ﴾ ” اے لوگو ! تمہارے رب کے ہاں سے تمہارے پاس حق آچکا ہے“ یعنی تمہارے پاس سچی خبر آگئی ہے جس کی تائید دلائل و براہین سے ہوتی ہے جس میں کسی لحاظ سے بھی کوئی شک نہیں اور یہ خبر تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے پہنچی ہے، جس کی تمہارے لئے سب سے بڑی ربوبیت یہ ہے کہ اس نے تم پر قرآن نازل کیا، جو ہر چیز کو کھول کھول کر بیان کرتا ہے یہ قرآن مختلف انواع کے احکام، مطالب الٰہیہ اور اخلاق حسنہ پر مشتمل ہے جن میں تمہاری تربیت کا بہترین سامان موجود ہے۔ یہ تم پر اللہ تعالیٰ کا احسان ہے۔ پس گمراہی سے ہدایت کا راستہ واضح ہوگیا اور کسی کے لئے کوئی شبہ باقی نہ رہا۔ ﴿فَمَنِ اهْتَدَىٰ﴾ ” اب جو کوئی راہ پر آئے“ یعنی جس نے اللہ تعالیٰ کی راہ نمائی کے ذریعے سے راہ ہدایت اپنا لی۔ وہ یوں کہ اس نے حق معلوم کرلیا اور پھر اسے اچھی طرح سمجھ لیا اور دیگر ہر چیز پر اسے ترجیح دی ﴿فَإِنَّمَا يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ ﴾ ” پس وہ راہ پاتا ہے اپنے بھلے کو“ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے بے نیاز ہے۔ بندوں کے اعمال کے ثمرات انہی کی طرف لوٹتے ہیں ﴿وَمَن ضَلَّ﴾ ” اور جو گمراہی اختیار کرتا ہے“ یعنی جو حق کے علم یا اس پر عمل سے روگردانی کر کے ہدایت کی راہ سے بھٹک جائے ﴿فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا ﴾ ” تو وہ بہکا پھرے گا اپنے برے کو“ یعنی وہ اپنے لئے گمراہی اختیا ر کرتا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا، وہ صرف اپنے آپ ہی کو نقصان پہنچاتا ہے۔ ﴿وَمَا أَنَا عَلَيْكُم بِوَكِيلٍ﴾ ” اور میں تم پر داروغہ نہیں“ کہ تمہارے اعمال کی نگرانی کروں اور ان کا حساب کتاب رکھوں۔ میں تو تمہیں کھلا ڈرانے والا ہوں اور اللہ تعالیٰ تمہارا نگران اور وکیل ہے۔ جب تک تم اس مہلت کی مدت میں ہو، اپنے آپ پر نظر رکھو۔ یونس
109 ﴿وَاتَّبِعْ ﴾ ” اور پیروی کیے جاؤ“ اے رسول! ﴿مَا يُوحَىٰ إِلَيْكَ﴾ ” اس کی جو حکم آپ کی طرف بھیجا جاتا ہے۔“ یعنی علم، عمل، حال اور دعوت میں اس وحی کی اتباع کیجئے جو آپ کی طرف بھیجی گئی ہے ﴿وَاصْبِرْ ﴾ ” اور )اس پر( صبر کیجئے“ کیونکہ یہ صبر کی بلند ترین نوع ہے اور اس کا انجام بھی قابل ستائش ہے۔ سستی اور کسل مندی کا شکار ہوں نہ تنگ دل ہوں، بلکہ اس پر قائم و دائم اور ثابت قدم رہیں۔ ﴿حَتَّىٰ يَحْكُمَ اللَّـهُ ﴾ ” یہاں تک کہ اللہ فیصلہ کر دے“ یعنی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ آپ کے درمیان اور آپ کی تکذیب کرنے والوں کے درمیان فیصلہ کر دے۔ ﴿وَهُوَ خَيْرُ الْحَاكِمِينَ﴾ ” اور وہ سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔“ کیونکہ اس کا فیصلہ کامل عدل و انصاف پر مبنی ہے جو قابل تعریف ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب کے حکم کی تعمیل کی اور صراط مستقیم پر قائم رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کو تمام ادیان پر غالب کردیا۔ آپ کو آپ کے دشمنوں کے مقابلے میں دلائل و براہین کے ذریعے سے نصرت عطا کرنے کے بعد شمشیر و سناں کے ذریعے سے فتح و نصرت سے نوازا۔ پس اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہے ہر قسم کی حمد و ستائش اور ثنائے حسن جیسا کہ اس کی عظمت و جلال، اس کے کمال اور اس کے بے پایاں احسان کے لائق ہے۔ یونس
0 ھود
1 ﴿كِتَابٌ ﴾ یہ عظیم کتاب اور بہترین فضل و عنایت ہے۔ ﴿ أُحْكِمَتْ آيَاتُهُ﴾ ” جس کی آیتیں مستحکم ہیں۔“ یعنی اس کی آیات کو بہت اچھے اور محکم طریقے سے بیان کیا گیا ہے، اس کی خبریں سچی، اس کے او امر و نواہی عدل پر مبنی، اس کے الفاظ نہایت فصیح اور اس کے معانی بہت خوبصورت ہیں۔ ﴿ثُمَّ فُصِّلَتْ﴾ ” پھر ان کی تفصیل بیان کردی گئی“ یعنی ان کو علیحدہ علیحدہ اور معانی و بیان کی بہترین انواع کے ذریعے سے کھول کھول کر بیان کیا گیا ہے۔ ﴿ مِن لَّدُنْ حَكِيمٍ ﴾ ” حکمت والے کی طرف سے“ وہ تمام اشیاء کو ان کے مناسب مقام پر رکھتا ہے اور ان کے لائق جگہ پر نازل کرتا ہے۔ صرف اسی چیز کا حکم دیتا ہے اور اسی چیز سے روکتا ہے جس کا تقاضا اس کی حکمت کرتی ہے ﴿ خَبِيرٍ ﴾ وہ تمام ظاہر و باطن کی خبر رکھتا ہے۔ جب اس کتاب کا محکم کرنا اور اس کی تفصیل حکمت والی اور خبردار ہستی کی طرف سے ہے تب اس ہستی کی عظمت و جلال، حکمت و کمال اور بے کراں رحمت کے بارے میں مت پوچھ۔ ھود
2 اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس عظیم کتاب کو محض اس مقصد کے لئے نازل فرمایا ﴿أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا اللَّـهَ﴾ ” کہ عبادت صرف اللہ کی کرو“ یعنی دین کو تمام تر اللہ تعالیٰ کے خالص کرنے کے لئے نازل فرمایا نیز یہ کہ اس کے ساتھ اس کی مخلوق میں سے کسی کو اس کا شریک نہ بنایا جائے۔ ﴿ إِنَّنِي  لَكُم﴾ ” بے شک میں تمہارے لئے“ ﴿مِّنْهُ ﴾ ” اس کی طرف سے“ یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ﴿نَذِيرٌ ﴾ ” ڈر سنانے والا“ یعنی اس شخص کو دنیا و آخرت کے عذاب سے ڈرانے والا ہوں جو گناہوں کے ارتکاب کی جسارت کرتا ہے۔ ﴿وَبَشِيرٌ ﴾ ” اور خوشخبری دینے والا۔“ یعنی اطاعت گزار بندوں کو دنیا و آخرت کے ثواب کی خوشخبری سناتا ہوں۔ ھود
3 ﴿ وَأَنِ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ﴾ ” اور یہ کہ اپنے رب سے بخشش مانگو“ یعنی ان گناہوں کی بخشش مانگو جو تم سے صادر ہوئے ہیں۔ ﴿ثُمَّ تُوبُواإِلَيْهِ﴾ ” پھر اس کی طرف توبہ کرو۔“ یعنی اپنی عمر میں جن گناہوں سے سابقہ پڑتا ہے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کے ذریعے سے توبہ کرو اور جن امور کو اللہ تعالیٰ ناپسند کرتا ہے، انہیں چھوڑ کر ان امور کی طرف لوٹو جنہیں اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان امور کا ذکر فرمایا جو توبہ و استغفار پر مترتب ہوتے ہیں۔ فرمایا : ﴿يُمَتِّعْكُم مَّتَاعًا حَسَنًا﴾ ” وہ تمہیں متاع نیک سے بہرہ مند کرے گا“ یعنی وہ تمہیں رزق عطا کرے گا جس سے تم استفادہ کرو گے اور منتفع ہو گے۔ ﴿إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى ﴾ ” ایک وقت مقرر تک“ یعنی تمہاری وفات تک ﴿ وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ﴾ ” اور ہر صاحب بزرگ کو اس کی بزرگی دے گا۔“ یعنی وہ تم میں سے اہل احسان کو اپنے فضل وکرم سے نوازے گا جو چیز انہیں پسند ہے وہ حاصل ہوگی جو ناپسند ہے وہ ان سے ہٹا دی جائے گی۔ یہ ان کی نیکی کی جزا ہے۔ ﴿وَإِن تَوَلَّوْا ﴾ ” اگر تم نے روگردانی کی۔“ یعنی اگر تم نے اس دعوت سے روگردانی کی جو میں نے تمہیں پیش کی ہے، بلکہ تم نے اعراض کیا ہے اور بسا اوقات دعوت کو جھٹلایا ہے۔ ﴿فَإِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ كَبِيرٍ ﴾ ” تو میں ڈرتا ہوں تم پر بڑے دن کے عذاب سے“ اور وہ ہے روز قیامت، جس میں اللہ تعالیٰ اولین و آخرین کو اکٹھا کرے گا۔ ھود
4 ﴿ إِلَى اللَّـهِ مَرْجِعُكُمْ ﴾ ” تمہیں اللہ ہی کی طرف لوٹنا ہے“ تاکہ تمہیں تمہارے اعمال کا بدلہ دے اگر اعمال نیک ہوں گے، تو جزا اچھی ہوگی اور اگر اعمال برے ہوں گے، تو بدلہ بھی برا ہوگا اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد : ﴿وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ﴾ ” وہ ہر چیز پر قادر ہے۔“ اس امر کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ مردوں کو زندہ کرے گا، کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے اور مروں کو زندہ کرنا بھی ” ہر چیز“ کے زمرے میں شامل ہے اور اس کی خبر سب سے سچی ہستی نے دی ہے۔ پس اس خبر کا وقوع عقلاً اور نقلاً واجب ہے۔ ھود
5 اللہ تبارک و تعالیٰ مشرکین کی جہالت اور ان کی گمراہی کی شدت کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے : ﴿ يَثْنُونَ صُدُورَهُمْ ﴾ ” وہ اپنے سینوں کو موڑتے ہیں“ ﴿لِيَسْتَخْفُوا مِنْهُ ﴾ ” تاکہ اس (اللہ ) سے پردہ کریں۔“ یعنی‘ تاکہ اللہ تعالیٰ سے چھپائیں۔ پس ان کے سینے اللہ کے علم کے لئے رکاوٹ بن جائیں‘ تاکہ وہ ان کے احوال کو جان نہ سکے اور اس کی نگاہ کے لئے بھی‘ تاکہ وہ ان کے حالات کو دیکھ نہ سکے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ان کے اس ظن باطل کو بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے ﴿أَلَا حِينَ يَسْتَغْشُونَ ثِيَابَهُمْ ﴾ ” سن لو جس وقت اوڑھتے ہیں وہ اپنے کپڑے‘‘ یعنی جب وہ اپنے آپ کو کپڑوں سے ڈھانک لیتے ہیں اللہ تعالیٰ اس حال میں بھی ان کو خوب جانتا ہے جو کہ مخفی ترین حال ہے، بلکہ ﴿ يَعْلَمُ مَا يُسِرُّونَ﴾ ” وہ جانتا ہے جو وہ چھپاتے ہیں“ یعنی وہ جو اقوال و افعال چھپاتے ہیں ﴿وَمَا يُعْلِنُونَ ۚ﴾ ” اور جو وہ ظاہر کرتے ہیں۔“ بلکہ اس سے بھی بڑھ کر وہ ﴿إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ﴾ ” دلوں کی باتوں کو جانتا ہے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ ان کے ان ارادوں، وسوسوں اور سوچوں کو بھی جانتا ہے جن کو یہ سراًیا جہراً نطق زبان سے بھی ظاہر نہیں کرتے۔۔۔۔ تب تم اپنے حال کو اپنے سینے کو موڑ کر اس سے کیسے چھپا سکتے ہو؟ اس آیت کریمہ میں اس معنی کا احتمال بھی ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جھٹلانے والوں اور آپ کی دعوت سے غافل لوگوں کے اعراض کا ذکر کرتا ہے، یعنی جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھتے ہیں تو شدت اعراض کی وجہ سے اپنے سینوں کو موڑ لیتے ہیں، تاکہ آپ ان کو دیکھ سکیں نہ ان کو اپنی دعوت سنا سکیں اور نہ ان کو ان باتوں کی نصیحت کرسکیں جو ان کے لئے مفید ہیں۔ کیا اس اعراض سے بھی بڑھ کر اعراض کی کوئی صورت ہے؟ پھر اللہ تعالیٰ انہیں وعید سناتا ہے کہ وہ ان کے تمام احوال کو جانتا ہے اور وہ اس سے مخفی نہیں ہیں اور وہ عنقریب ان کو ان کے کرتوتوں کی سزا دے گا۔ ھود
6 روئے زمین پر چلنے والا ہر جاندار، خواہ انسان ہو یا حیوان، خشکی کا جانور ہو یا پانی کا جانور، ان کی خوراک اور رزق اللہ تعالیٰ کے ذمے ہے۔ ﴿وَيَعْلَمُ مُسْتَقَرَّهَا وَمُسْتَوْدَعَهَا﴾ ” اور وہ جہاں رہتا ہے اسے بھی جانتا ہے اور جہاں سونپا جاتا ہے اسے بھی۔“ یعنی وہ تمام جانداروں کے ٹھکانوں کو جانتا ہے (مُسْتَقَر) سے مراد وہ جگہ ہے جہاں جانور رہتے ہیں، جسے ٹھکانا بناتے ہیں اور جہاں پناہ لیتے ہیں اور (َمُسْتَوْدَع) سے مرادوہ جگہ ہے جہاں، اپنی آمد و رفت اور مختلف احوال میں منتقل ہوتے ہیں۔ ﴿ كُلٌّ﴾ ” یہ سب کچھ“ ان کے احوال کی تمام تفاصیل ﴿ فِي كِتَابٍ مُّبِينٍ﴾ ” واضح کتاب میں ہے۔“ یعنی ہر چیز لوح محفوظ میں مرقوم ہے، جو ان تمام حوادث و واقعات پر مشتمل ہے جو اس کائنات میں وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ تمام حوادث کا اللہ تعالیٰ کے علم نے احاطہ کر رکھا ہے۔ اس نے ہر چیز کی تقدیر لکھ دی ہے ہر چیز پر اس کی مشیت نافذ ہے اور ہر ایک کے لئے اس کا رزق وسیع ہے۔ دل، اس ہستی کی کفایت پر مطمئن ہوجانے چاہئیں، جو ان کے رزق کی کفالت کرتی ہے اور جسم کے علم نے مخلوق کی ذات و صفات کا احاطہ کر رکھا ہے۔ ھود
7 اللہ تبارک وتعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ اسی نے ﴿خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ﴾ ” پیدا کیا آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں“ پہلا دن اتوار اور چھٹا دن جمعہ تھا اور جس وقت اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ﴿وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ﴾ ’’اس کا عرش پانی پر تھا“ ساتویں آسمان کے اوپر۔ پس آسمانوں اور زمین کو تخلیق کرنے کے بعد اپنے عرش پر مستوی ہوا، وہ تمام امور کی تدبیر کرتا ہے اور احکام قدریہ اور احکام شرعیہ میں جیسے چاہتا ہے تصرف کرتا ہے۔ اسی لئے فرمایا ﴿ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا﴾ ” تاکہ وہ تم کو آزمائے کہ تم میں عمل کے لحاظ سے کون بہتر ہے“۔ تاکہ وہ اپنے اوامر و نو اہی کے ذریعے سے تمہارا امتحان لے اور دیکھے کہ تم میں سے کون اچھے کام کرتا ہے۔ فضیل بن عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : ” سب سے اچھا عمل وہ ہے جو سب سے خالص اور سب سے زیادہ صحیح ہو۔“ ان سے پوچھا گیا ” سب سے خالص اور سب سے زیادہ صحیح سے کیا مراد ہے؟“ فرمایا : ” اگر عمل خالص ہو مگر صحیح نہ ہو تو قبول نہیں ہوتا اور اگر عمل صحیح ہو مگر خالص نہ ہو تب بھی وہ اللہ تعالیٰ کے حضور قابل قبول نہیں۔ صرف وہی عمل قابل قبول ہوتا ہے جو خالص بھی ہو اور صحیح بھی ہو“۔ خالص عمل وہ ہے جو خالص اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے ہو اور صحیح عمل وہ ہے جس میں شریعت اور سنت کی پیروی کی گئی ہو اور یہ ایسے ہی ہے جیسے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ ﴾ (الذاریات:51؍56)” میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لئے پیدا کیا کہ وہ میری عبادت کریں“۔ اور اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے : ﴿اللَّـهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ يَتَنَزَّلُ الْأَمْرُ بَيْنَهُنَّ لِتَعْلَمُوا أَنَّ اللَّـهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ وَأَنَّ اللَّـهَ قَدْ أَحَاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْمًا ﴾(الطلاق :65؍12)اللہ وہ ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ان کی مانند سات زمینیں اور ان کے درمیان اللہ تعالیٰ کا حکم اترتا رہتا ہے، تاکہ تم لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے علم کے ذریعے سے ہر چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ “ اللہ تبارک وتعالیٰ نے تمام مخلوق کو اپنی عبادت اور اپنے اسماء و صفات کی معرفت کے لئے پیدا کیا ہے اور اسی چیز کا اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم دیا ہے۔ پس جس نے اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کی اور اس ذمہ داری کو ادا کردیا جس کا اسے حکم دیا گیا تھا وہ فلاح پانے والوں میں سے ہے اور جس نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے اعراض کیا، تو یہی گھاٹے میں پڑنے والے لوگ ہیں۔ اللہ تعالیٰ ضرور ان کو ایک جگہ جمع کرے گا اور پھر ان کو اپنے اوامراونواہی کی بنیاد پر جزا دے گا۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے جزا کے بارے میں مشرکین کی تکذیب کا ذکر کیا ہے۔ چنانچہ فرمایا: ﴿وَلَئِن قُلْتَ إِنَّكُم مَّبْعُوثُونَ مِن بَعْدِ الْمَوْتِ لَيَقُولَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ هَـٰذَا إِلَّا سِحْرٌ مُّبِينٌ﴾ ” اور اگر آپ کہیں کہ تم لوگ مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جاؤ گے تو کافر کہہ دیں گے کہ یہ تو کھلا جادو ہے“۔ یعنی اگر آپ ان سے کہیں اور مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے کے بارے میں ان کو آگاہ کریں تو یہ آپ کی تصدیق نہیں کریں گے، بلکہ وہ نہایت شدت سے آپ کی تکذیب کریں گے اور آپ کی دعوت میں عیب چینی کریں گے اور کہیں گے ﴿ إِنْ هَـٰذَا إِلَّا سِحْرٌ مُّبِينٌ ﴾ ” یہ تو کھلے جادو کے علاوہ کچھ نہیں“ مگر آگاہ رہو کہ یہ واضح حق ہے۔ ھود
8 ﴿وَلَئِنْ أَخَّرْنَا عَنْهُمُ الْعَذَابَ إِلَىٰ أُمَّةٍ مَّعْدُودَةٍ﴾” اگر ہم روکے رکھیں ان سے عذاب ایک معلوم مدت تک“ یعنی ایک وقت مقررہ تک، جس کے بارے میں یہ سمجھتے ہیں کہ یہ دن بہت دیر سے آئے گا، تب وہ ظلم و جہالت کی بنا پر کہتے ہیں : ﴿مَا يَحْبِسُهُ ﴾ ” کون سی چیز اس (عذاب) کو روکے ہوئے ہے؟“ اس آیت کا مضمون ان کا رسول کو جھٹلانا ہے۔ وہ ان پر عذاب کے فوری طور پر نہ آنے کو رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جھوٹا ہونے پر دلیل بناتے ہیں جنہوں نے ان کو عذاب واقع ہونے کی وعید سنائی ہے۔ پس یہ کتنا بعید استدلال ہے ! ﴿أَلَا يَوْمَ يَأْتِيهِمْ لَيْسَ مَصْرُوفًا عَنْهُمْ ﴾ ” دیکھو جس روز عذاب ان پر نازل ہوگا تو پھر ٹلے گا نہیں“ کہ وہ اپنے معاملے میں غور کرسکیں ﴿ وَحَاقَ بِهِم  ﴾ ” اور ان کو گھیر لے گا“ یعنی نازل ہوگا ان پر ﴿مَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ  ﴾ ” وہ (عذاب) جس کے ساتھ یہ استہزا کیا کرتے تھے۔“ کیونکہ وہ اسے نہایت حقیر سمجھتے تھے حتیٰ کہ جو ان کو عذاب کی وعید سناتا تھا وہ قطعی طور پر اسے جھو ٹاسمجھتے تھے۔ ھود
9 اللہ تبارک وتعالیٰ انسان کی فطرت کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے کہ وہ جاہل اور ظالم ہے بایں طور کہ جب اللہ تعالیٰ اسے اپنی رحمت کا مزا چکھاتا ہے، مثلاً اسے صحت، رزق اور اولاد وغیرہ سے نوازتا ہے، پھر وہ اس سے چھین لیتا ہے، تو مایوسی اور ناامیدی کے سامنے جھک جاتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کے ثواب کی اسے ذرہ بھر امید نہیں رہتی ہے اور اس کے دل میں یہ خیال تک نہیں گزرتا کہ اللہ تعالیٰ کی یہ تمام چیزیں دوبارہ عطا کرسکتا ہے یا ان جیسی اور چیزوں سے یا ان سے بہتر چیزوں سے اسے نواز سکتا ہے۔ ھود
10 اور جب اللہ تعالیٰ اسے تکلیف کے بعد جو اسے پہنچی ہے، اپنی رحمت کا مزا چکھاتا ہے، تو خوش ہوتا ہے اور اتراتا ہے اور سمجھنے لگتا ہے کہ یہ بھلائی کے پاس ہمیشہ رہے گی اور کہتا ہے ﴿ذَهَبَ السَّيِّئَاتُ عَنِّي ۚ إِنَّهُ لَفَرِحٌ فَخُورٌ ﴾ ” دور ہوگئیں برائیاں مجھ سے، بے شک وہ تو اترانے والا، شیخی خورہ ہے“ یعنی اسے جو کچھ اس کی خواہشات نفس کے موافق عطا کیا گیا ہے اس پر خوش ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں پر اس کے بندوں کے سامنے فخر اور تکبر کا اظہار کرتا ہے اور یہ چیز اسے غرور، خود پسندی، مخلوق الہٰی کے ساتھ تکبر کرنے، ان کے ساتھ حقارت سے پیش آنے اور انہیں کم تر سمجھنے پر آمادہ کرتی ہے اور اس سے بڑھ کر اور کون سا عیب ہوسکتا ہے؟ ھود
11 یہ ہے انسان کی فطرت، سوائے اس کے جسے اللہ تعالیٰ توفیق سے نواز دے اور اسے ان مذموم اخلاق سے نکال کر اخلاق حسنہ کی طرف لے جائے اور یہ وہ لوگ ہیں جو مصائب اور تکالیف کے وقت پر اپنے نفس کو صبر پر مجبور کرتے ہیں اور مایوس نہیں ہوتے اور خوشی کے وقت بھی صبر کرتے ہیں۔ پس خوشی میں اتراتے نہیں ہیں اور نیکیوں میں واجبات و مستحبات پر عمل کرتے ہیں۔ ﴿أُولَـٰئِكَ لَهُم مَّغْفِرَةٌ  ﴾ ان کے لئے ان کے گناہوں کی مغفرت ہے، جس سے ہر خوف زائل ہوجاتا ہے۔ ﴿وَأَجْرٌ كَبِيرٌ ﴾ ” اور بڑا اجر ہے“ اور یہ نعمتوں سے بھر پور جنت کے حصول میں کامیابی ہے، جس میں وہ سب کچھ ہوگا جس کی نفس چاہت کریں گے اور آنکھیں لذت حاصل کریں گی۔ ھود
12 اللہ تبارک وتعالیٰ کفار کی تکذیب پر اپنے نبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تسلی دیتے ہوئے فرماتا ہے : ﴿فَلَعَلَّكَ تَارِكٌ بَعْضَ مَا يُوحَىٰ إِلَيْكَ وَضَائِقٌ بِهِ صَدْرُكَ أَن يَقُولُوا ﴾ ” شاید آپ پر کچھ چیز وحی میں سے جو آپ کے پاس آتی ہے چھوڑ دیں اور اس (خیال) سے آپ کا دل تنگ ہو کہ یہ (کافر) کہنے لگیں“ یعنی آپ جیسی ہستی کے لائق نہیں کہ ان کا قول آپ پر اثر انداز ہو اور آپ کو اپنے راستے سے روک دے اور آپ وحی کے کچھ حصے کو ترک کردیں اور ان کی عیب چینی اور ان کے اس قول پر تنگ دل ہوں کہ ﴿لَوْلَا أُنزِلَ عَلَيْهِ كَنزٌ أَوْ جَاءَ مَعَهُ مَلَكٌ ﴾ ” کیوں نہ اترا اس پر خزانہ یا کیوں نہ آیا اس کے ساتھ فرشتہ“ کیونکہ یہ قول عیب چینی، ظلم، عناد اور دلائل سے جہالت کی بنا پر جنم لیتا ہے۔ پس آپ اپنے راستے پر گامزن رہیے اور ان کے یہ رکیک الفاظ آپ کی راہ کھوٹی نہ کرنے پائیں جو صرف ایک انتہائی بیوقوف آدمی ہی سے صادر ہوسکتے ہیں اور اس کی وجہ سے آپ تنگ دل نہ ہوں۔ کیا انہوں نے آپ کے سامنے کوئی ایسی دلیل پیش کی ہے، جس کا آپ جواب نہیں دے پائے؟ یا انہوں نے اس چیز کی برائی اس انداز میں بیان کی ہے جسے لے کر آپ آئے ہیں کہ وہ اس میں موثر ثابت ہوئی ہے اور جس سے اس کی قدر و منزلت کم ہوئی ہے۔ پس آپ اس سے تنگ دل ہوئے ہیں؟ یا ان کا حساب آپ کے ذمہ ہے اور آپ سے ان کی جبری ہدایت کا مطالبہ کیا گیا ہے ؟ ﴿ إِنَّمَا أَنتَ نَذِيرٌ ۚ وَاللَّـهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ وَكِيلٌ ﴾ ” آپ تو صرف ڈرانے والے ہیں اور اللہ ہر چیز کا ذمے دار ہے۔“ پس وہ ان جھٹلانے والوں پر نگران ہے، وہ ان کے اعمال کو محفوظ کرتا ہے اور پھر وہ ان کو ان اعمال کی پوری پوری جزا دے گا۔ ھود
13 ﴿أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ  ﴾ ” کیا یہ کہتے ہیں کہ اس نے اس (قرآن) کو از خود بنا لیا ہے“ یعنی اس قرآن کو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی طرف سے گھڑ لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب دیتے ہوئے فرمایا : ﴿ قُلْ  ﴾ ان سے ” کہہ دیجیے !“ ﴿ فَأْتُوا بِعَشْرِ سُوَرٍ مِّثْلِهِ مُفْتَرَيَاتٍ وَادْعُوا مَنِ اسْتَطَعْتُم مِّن دُونِ اللَّـهِ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ﴾ ” اگر سچے ہو تو تم بھی ایسی دس صورتیں بنا لاؤ اور اللہ کے سوا جس جس کو بلا سکتے ہو بلا لو۔“ یعنی اگر اس قرآن کو تمہارے قول کے مطابق۔۔۔ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی طرف سے تصنیف کیا ہے، تب تو فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے تمہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درمیان کوئی فرق نہیں اور تم حقیقی دشمن ہو اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت کے ابطال کے لئے انتہائی حریص ہو۔۔۔ اگر تم اپنے موقف میں سچے ہو تو اس جیسی دس سورتیں گھڑ لاؤ۔ ھود
14 ﴿فَإِلَّمْ يَسْتَجِيبُوا لَكُمْ  ﴾ ” پس اگر وہ تمہاری بات قبول نہ کریں“ یعنی وہ اس کا کوئی جواب نہ دیں ﴿ فَاعْلَمُوا أَنَّمَا أُنزِلَ بِعِلْمِ اللَّـهِ  ﴾ ” تو جان لو کہ قرآن تو اترا ہے اللہ کے علم سے“ دلیل و مقتضی کے قیام اور معارض کی نفی کی بنا پر یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ ﴿وَأَن لَّا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ ﴾ ” اور یہ کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں“ یعنی یہ جان لو کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی الٰہ نہیں، وہی الوہیت اور عبادت کا مستحق ہے۔ ﴿فَهَلْ أَنتُم مُّسْلِمُونَ  ﴾ ” تو کیا مسلمان ہوتے ہو؟“ یعنی کیا تم اس کی الوہیت کو مانتے ہو اور اس کی عبادت کے لئے سر تسلیم خم کرتے ہو ؟ ان آیات کریمہ میں اس امر کی طرف راہ نمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینے والے کے لئے مناسب نہیں کہ دعوت پر اعتراض کرنے والے معترضین کے اعتراضات اور دو قدح کی بنا پر دعوت دین سے رک جائے۔ خاص طور پر جبکہ اس رد و قدح پر کوئی دلیل نہ ہو اور دعوت میں کوئی خامی بھی نہ ہو۔ نیز یہ کہ داعی کو تنگ دل نہیں ہونا چاہیے، بلکہ اسے اپنی دعوت پر مطمئن ہونا چاہیے، وہ اپنے راستے پر گامزن رہے اور اپنی منزل کو سامنے رکھے، نیز یہ بھی ضروری ہے کہ داعی نئے نئے مطالبات پیش کرنے والوں کو اہمیت نہ دے، صرف دلائل ہی ان کے سامنے رکھے۔ تمام مسائل پر ایسے دلائل کا قائم کردینا جن کا توڑ نہ کیا جا سکے یہی کافی ہے۔ اور اس آیت کریمہ میں اس امر کی بھی دلیل ہے کہ یہ قرآن بنفسہ معجزہ ہے، کوئی بشر ایسی کتاب نہیں لا سکتا، کتاب تو کیا اس جیسی دس سورتیں بلکہ ایک سورت ہی نہیں بنا سکتا، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے دشمنوں کے بڑے بڑے بلغاء و فصحاء کو مقابلے کی دعوت دی مگر انہوں نے مقابلہ نہ کیا، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ وہ ایسی کتاب بنانے کی قدرت نہیں رکھتے۔ اس میں اس بات کی بھی دلیل ہے کہ وہ امور جن میں محض غلبہ ظن کافی نہیں، بلکہ علم یقینی مطلوب ہے، وہ ہیں علم القرآن اور علم التوحید، اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : ﴿فَاعْلَمُوا أَنَّمَا أُنزِلَ بِعِلْمِ اللَّـهِ وَأَن لَّا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ  ﴾ ” تو جان لو کہ وہ اللہ کے علم سے اترا ہے اور یہ کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ “ ھود
15 ﴿ مَن كَانَ يُرِيدُ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا  ﴾ ” جو چاہتا ہے دنیا کی زندگی اور اس کی رونق“ یعنی جس شخص کا بھی ارادہ، دنیاوی زندگی اور اس کی زیب و زینت ہی کے گرد گھومتا ہے، مثلاً عورتوں اور بیٹوں کے حصول کی خواہش، سونے اور چاندی کے خزانوں کی حرص، نشان زدہ گھوڑوں، مویشیوں اور کھیتیوں کی چاہت، اس نے اپنی رغبت، عمل اور کوشش کو صرف انہی چیزوں پر مرکوز کر رکھا ہے اور وہ آخرت کے گھر کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ ایسا شخص کافر کے سوا اور کوئی نہیں ہوسکتا، کیونکہ اگر وہ مومن ہوتا تو اس کا ایمان اسے اس بات سے روک دیتا کہ اس کا تمام ارادہ صرف دنیا پر مرکوز رہے، بلکہ اس کا ایمان اور اس کے نیک اعمال، اس کے ارادہ آخرت ہی کے آثار ہیں۔ مگر یہ کافر بد بخت تو گویا صرف دنیا ہی کے لئے پیدا کیا گیا ہے ﴿ نُوَفِّ إِلَيْهِمْ أَعْمَالَهُمْ فِيهَا  ﴾ ” بھگتا دیں گے ہم ان کو ان کے عمل دنیا ہی میں“ یعنی ہم ان کو وہ دنیاوی ثواب عطا کردیتے ہیں جو ان کے لئے لوح محفوظ میں لکھا ہوتا ہے۔ ﴿وَهُمْ فِيهَا لَا يُبْخَسُونَ ﴾ ” اور اس میں ان کی حق تلفی نہیں کی جاتی۔“ یعنی جو کچھ ان کے لئے مقرر کیا گیا ہوتا ہے اس میں ذرہ بھر کمی نہیں کی جاتی۔ مگر یہ ان کو عطا کی جانے والی نعمتوں کی منتہا ہے۔ ھود
16 ﴿ أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ  ﴾ ” یہی ہیں جن کے واسطے آخرت میں کچھ نہیں ہے سوائے آگے کے‘‘ وہ اس میں ابد لا باد تک رہیں گے، ان کے عذاب میں کوئی وقفہ نہیں کیا جائے گا اور ثواب جزیل سے انہیں محروم کردیا جائے گا۔ ﴿ وَحَبِطَ مَا صَنَعُوا فِيهَا  ﴾ ”اور برباد ہوگیا جو کچھ انہوں نے کیا دنیا میں“ یعنی وہ سب اعمال باطل اور مضمحل ہوجائیں گے جو وہ حق اور اہل حق کے خلاف سازشوں کے لئے کرتے رہے ہیں اور نیکی کے اعمال بھی باطل ہوجائیں گے جن کی کوئی اساس ہی نہیں اور ان کی قبولیت کی شرط بھی مفقود ہے اور وہ ہے ایمان۔ ھود
17 اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے رسول محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم، آپ کے قائم مقام، آپ کے دین کو قائم کرنے والے آپ کے ورثاء کا حال اور اہل ایقان کے دلائل کا ذکر کرتا ہے اور یہ ایسے اوصاف ہیں جن سے ان کے سوا کوئی اور متصف نہیں ہے اور نہ ہی ان جیسا کوئی اور ہے۔ فرمایا : ﴿أَفَمَن كَانَ عَلَىٰ بَيِّنَةٍ مِّن رَّبِّهِ ﴾ ” بھلا وہ شخص جو ہے واضح دلیل پر اپنے رب کی طرف سے“ یعنی اس وحی کے ذریعے سے جس میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اہم مسائل اور ان کے ظاہری دلائل نازل کئے ہیں پس ان سے یہ ثبوت اور دلیل مزید متیقن ہوجاتی ہے۔ ﴿وَيَتْلُوهُ﴾ ” اور اس کے پیچھے ہے“ یعنی اس دلیل اور برہان کے پیچھے ایک اور دلیل ہے۔ ﴿شَاهِدٌ مِّنْهُ ﴾ ” ایک گواہ اس کی طرف سے“ اور وہ ہے فطرت مستقیم، عقل سلیم۔ فطرت سلیم اس شریعت کی حقانیت کی گواہی دیتی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے سے نازل اور مشروع فرمایا اور بندہ اپنی عقل کے ذریعے سے اس کے حسن کو معلوم کرلیتا ہے پس اس کے ایمان میں اور اضافہ ہوجاتا ہے۔ ﴿وَ﴾ ” اور“ وہاں ایک تیسرا شاہد بھی ہے ﴿مِن قَبْلِهِ  ﴾ ” اس سے پہلے“ اور وہ ہے ﴿كِتَابُ مُوسَىٰ ﴾ ” موسیٰ علیہ السلام کی کتاب“ یعنی تورات ﴿إِمَامًا﴾ ” پیشوا“ جس کو اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے لئے امام ﴿وَرَحْمَةً ﴾ ” اور رحمت بنایا ہے۔“ یہ تورات قرآن کی صداقت پر گواہی دیتی ہے اور اس حق کی موافقت کرتی ہے جو اس کے اندر نازل کیا گیا۔۔۔ یعنی جس کا یہ وصف ہو کہ تمام شواہد ایمان اس کی تائید کرتے ہوں اور اس کے پاس تمام دلائل یقین قائم ہوں، کیا وہ اس شخص جیسا ہوسکتا ہے جو تاریکیوں اور جہالتوں میں ڈوبا ہوا ہے اور ان میں سے نکل نہیں سکتا؟ یہ دونوں اللہ کے ہاں برابر ہیں نہ اللہ کے بندوں کے ہاں۔ ﴿أُولَـٰئِكَ ﴾ ” یہی“ یعنی وہ لوگ جن کو دلائل قائم کرنے کی توفیق عطا کی گئی ہے۔ ﴿ يُؤْمِنُونَ بِهِ ۚ﴾ ” اس پر ایمان لاتے ہیں۔“ یعنی قرآن پر حقیقی ایمان رکھتے ہیں ان کے نتیجے میں انہیں دنیا و آخرت کی ہر بھلائی عطا ہوتی ہے۔ ﴿وَمَن يَكْفُرْ بِهِ مِنَ الْأَحْزَابِ ﴾ ” اور جو منکر ہو اس سے سب فرقوں میں سے“ یعنی روئے زمین کے تمام گروہ، جو حق کو ٹھکرانے پر متفق ہیں۔ ﴿فَالنَّارُ مَوْعِدُهُ ﴾ ” پس دوزخ اس کا ٹھکانا ہے“ وہ ضرور جہنم میں داخل ہوں گے۔ ﴿فَلَا تَكُ فِي مِرْيَةٍ مِّنْهُ ﴾ ” تو آپ اس (قرآن) سے شک میں نہ ہونا۔“ یعنی آپ اس کی طرف سے ادنیٰ سے شک میں بھی مبتلا نہ ہوں۔ ﴿إِنَّهُ الْحَقُّ مِن رَّبِّكَ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يُؤْمِنُونَ ﴾ ” بے شک وہ آپ کے رب کی طرف سے حق ہے، لیکن اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے“ یعنی یا تو جہالت کی بنا پر ایمان نہیں لاتے یا ظلم، عناد اور بغاوت کی بنا پر ایمان نہیں لاتے۔ ورنہ جس کا مقصد اچھا اور فہم درست ہے وہ اس پر ضرور ایمان لائے گا، کیونکہ اسے اس میں وہ صداقت نظر آتی ہے جو اسے ہر لحاظ سے ایمان لانے کی دعوت دیتی ہے۔ ھود
18 ﴿وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَىٰ عَلَى اللَّـهِ كَذِبًا ﴾ ” اور وہ اس سے زیادہ ظالم کون ہے جو اللہ پر جھوٹ باندھے“ یعنی اس شخص سے بڑھ کر کوئی ظالم نہیں ہے اور اس میں ہر وہ شخص داخل ہے جو اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھتا ہے یا اس کی طرف کوئی شریک منسوب کرتا ہے یا اسے کسی ایسی صفت سے متصف کرتا ہے جو اس کے جلال کے لائق نہیں یا اس کی طرف سے کوئی ایسی بات کہتا ہے جو اس نے نہیں کہی یا وہ نبوت کا دعویٰ کرتا ہے یا کسی بھی طرح سے اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھتا ہے۔ پس یہ لوگ سب سے بڑے ظالم ہیں ﴿ أُولَـٰئِكَ يُعْرَضُونَ عَلَىٰ رَبِّهِمْ ﴾ ”یہ لوگ اپنے رب کے حضور پیش کئے جائیں گے“ تاکہ وہ انہیں ان کے ظلم کا بدلہ دے۔ جب وہ ان کے خلاف سخت عذاب کا فیصلہ سنائے گا ﴿وَيَقُولُ الْأَشْهَادُ ﴾ ” کہیں گے گواہی دینے والے“ یعنی وہ لوگ جو ان کے خلاف ان کے کذب وافترا پر گواہی دیں گے ﴿هَـٰؤُلَاءِ الَّذِينَ كَذَبُوا عَلَىٰ رَبِّهِمْ ۚ أَلَا لَعْنَةُ اللَّـهِ عَلَى الظَّالِمِينَ ﴾ ” یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے جھوٹ بولا اپنے رب پر، خبردار ! اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے جھوٹوں پر۔“ یعنی وہ لعنت جس کا سلسلہ کبھی منقطع نہ ہوگا، کیونکہ ظلم ان کا وصف لازم بن چکا ہے، جو تخفیف کے قابل نہیں۔ ھود
19 پھر اللہ تعالیٰ نے ان کے ظلم کا وصف بیان کرتے ہوئے فرمایا : ﴿الَّذِينَ يَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّـهِ ﴾ ” جو کہ روکتے ہیں اللہ کے راستے سے“ پس انہوں نے اپنے آپ کو بھی اللہ تعالیٰ کے راستے سے روکے رکھا اور یہ انبیاء و مرسلین کا راستہ ہے جس کی طرف انبیاء لوگوں کو دعوت دیتے رہے اور وہ دوسرے لوگوں کو بھی اس راستے سے روکتے رہے۔ پس وہ ائمہ ضلالت بن گئے جو لوگوں کو جہنم کی طرف بلا تے ہیں۔ ﴿وَيَبْغُونَهَا  ﴾ ” اور اس میں چاہتے ہیں“ یعنی اللہ کے راستے کے بارے میں چاہتے ہیں ﴿عِوَجًا ﴾ ” کجی“ یعنی اس راستے کو ٹیڑھا کرنے، اسے حقیر اور عیب دار قرار دینے کی بھرپور کوشش کریت ہیں، تاکہ اللہ تعالیٰ کا راستہ لوگوں کے نزدیک غیر مستقیم قرار پائے۔ پس وہ باطل کی تحسین اور حق کی برائیاں بیان کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔ اللہ ان کا برا کرے ﴿وَهُم بِالْآخِرَةِ هُمْ كَافِرُونَ ﴾ ” اور وہ آخرت کا انکار کرتے ہیں۔ ھود
20 ﴿أُولَـٰئِكَ لَمْ يَكُونُوا مُعْجِزِينَ فِي الْأَرْضِ ﴾ ” وہ لوگ نہیں تھکانے والے زمین میں“ یعنی وہ اللہ تعالیٰ سے کہیں بھاگ نہیں سکتے، کیونکہ وہ اس کی گرفت میں اور اس کے دست قدرت کے تحت ہیں ﴿وَمَا كَانَ لَهُم مِّن دُونِ اللَّـهِ مِنْ أَوْلِيَاءَ ﴾ ” اور نہیں ہیں ان کے واسطے اللہ کے سوا کوئی دوست“ جو ان کی تکلیف دور کرسکیں یا ان کے لئے کوئی فائدہ حاصل کرسکیں، بلکہ ان کے درمیان تمام اسباب منقطع ہوجائیں گے۔ ﴿يُضَاعَفُ لَهُمُ الْعَذَابُ ﴾ ” دوگنا ہے ان کے لئے عذاب“ ان کے لئے عذاب بہت سخت ہوگا اور بڑھتا چلا جائے گا“ کیونکہ انہوں نے خود اپنے آپ کو گمراہ کیا اور دوسروں کی گمراہی کا سبب بنے۔ ﴿ مَا كَانُوا يَسْتَطِيعُونَ السَّمْعَ ﴾ ” نہیں طاقت رکھتے تھے وہ سننے کی“ یعنی حق کے خلاف بغض اور نفرت رکھنے کی وجہ سے وہ اللہ تعالیٰ کی آیات کو سن نہیں سکتے جس سے وہ منتفع ہوسکیں ﴿ فَمَا لَهُمْ عَنِ التَّذْكِرَةِ مُعْرِضِينَ كَأَنَّهُمْ حُمُرٌ مُّسْتَنفِرَةٌ فَرَّتْ مِن قَسْوَرَةٍ ﴾(المدثر:74؍49۔51) ” انہیں کیا ہوگیا ہے کہ وہ نصیحت سے روگردانی کرتے ہیں گویا وہ بد کے ہوئے گدھے ہیں جو شیر سے ڈر کر بھاگے ہوں۔“ ﴿وَمَا كَانُوا يُبْصِرُونَ ﴾ ” اور نہ دیکھتے تھے“ یعنی وہ عبرت اور تفکر وتدبر کی نظر سے نہیں دیکھتے جس سے وہ فائدہ اٹھا سکیں۔ وہ تو بہروں اور گونگوں کی مانند ہیں جو سوچنے، سمجھنے سے محروم ہیں۔ ھود
21 ﴿ أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنفُسَهُمْ ﴾ ” وہی لوگ ہیں جنہوں نے خسارے میں ڈالا اپنی جانوں کو“ کیونکہ وہ سب بڑے ثواب سے محروم ہوگئے اور شدید ترین عذاب کے مستحق قرار پائے ﴿وَضَلَّ عَنْهُم مَّا كَانُوا يَفْتَرُونَ ﴾ ” اور گم ہوگیا ان سے وہ جھوٹ باندھتے تھے“ یعنی ان کا وہ دین، جس کی طرف یہ لوگوں کو دعوت دیا کرتے تھے اور جس کی یہ تحسین کیا کرتے تھے، مٹ گیا اور جب آپ کے رب کا حکم آگیا، تو ان کے وہ جھوٹے خدا ان کے کسی کام نہ آئے جن کی عبادت کیا کرتے تھے۔ ھود
22 ﴿ لَا جَرَمَ ﴾ ” بلا شبہ“ یعنی یہ بات حق اور سچ ہے کہ ﴿أَنَّهُمْ فِي الْآخِرَةِ هُمُ الْأَخْسَرُونَ  ﴾ ” وہ آخرت میں سب سے زیادہ نقصان اٹھانے والے ہیں۔“ اللہ تعالیٰ نے خسارے کو ان پر منحصر کردیا ہے، بلکہ ان کے لئے شدید ترین خسارہ مقرر کیا، کیونکہ ان کی حسرت اور محرومی نہایت شدید ہوگی۔ مشقت اور عذاب ان پر مستزاد ہوگا۔ ہم ان کے حال سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔ ھود
23 اللہ تبارک وتعالیٰ نے (بدبختوں کا حال اور اللہ کے ہاں ان کی جزابیان کرنے کے بعد خوش بخت لوگوں کا حال بیان کرتے ہوئے) فرمایا : ﴿ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا ﴾ ” جو لوگ ایمان لائے۔“ یعنی جو لوگ اپنے دل سے ایمان لائے جب اللہ تعالیٰ نے ان کو اصول دین اور اس کے قواعد پر ایمان لانے کا حکم دیا، تو انہوں نے ان امور کا اعتراف کیا اور ان کی تصدیق کی۔ ﴿وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ  ﴾ ” اور عمل نیک کئے۔“ جو اعمال قلوب، اعمال جوارح اور اقوال لسان پر مشتمل ہیں۔ ﴿وَأَخْبَتُوا إِلَىٰ رَبِّهِمْ ﴾ ” اور عاجزی کی انہوں نے اپنے رب کے سامنے“ یعنی وہ اللہ تعالیٰ کی عظمت کے سامنے فرافگندہ ہوگئے، اس کی قوت و اقتدار کے سامنے تذلل اور انکساری اختیار کی، اپنے دل میں اس کی محبت، اس کا خوف اور اس پر امیدیں رکھتے ہوئے اس کی طرف لوٹے اور اس کے حضور اپنی عاجزی اور بے مائیگی کا اظہار کیا ﴿أُولَـٰئِكَ  ﴾ ” یہی“ یعنی وہ لوگ جن میں یہ تمام صفات جمع ہیں ﴿أَصْحَابُ الْجَنَّةِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ﴾ ” جنتی ہیں، جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔“ کیونکہ بھلائی کا کوئی ایسا مقصد نہیں جو انہوں نے حاصل نہیں کیا اور کوئی ایسی منزل نہیں جس کی طرف انہوں نے سبقت نہ کی ہو۔ ھود
24 ﴿ مَثَلُ الْفَرِيقَيْنِ  ﴾ ” مثال دو گروہوں کی“ یعنی بد بختوں کا گروہ اور نیک بختوں کا گروہ ﴿كَالْأَعْمَىٰ وَالْأَصَمِّ ﴾ ” اندھے اور بہرے کی مانند ہیں“ یعنی ان بدبختوں کا گروہ ﴿وَالْبَصِيرِ وَالسَّمِيعِ ﴾ ” اور دیکھنے، سننے والے کے مانند ہیں“ یعنی سعادت مند لوگوں کی مثل۔ ﴿هَلْ يَسْتَوِيَانِ مَثَلً ﴾ ” کیا یہ دونوں مثال میں برابر ہوسکتے ہیں؟“ یعنی مثال میں دونوں مساوی نہیں ہیں، بلکہ دونوں کے درمیان فرق ہے جس کو بیان نہیں کیا جاسکتا۔ ﴿أَفَلَا تَذَكَّرُونَ ﴾ ” پس تم کیوں دھیان نہیں دیتے“ ان اعمال کی طرف جو تمہیں فائدہ دیں اور تم انہیں بجا لاؤ اور ان اعمال کی طرف، جو تمہارے لئے نقصان دہ ہیں، پس تم ان کو چھوڑ دو۔ ھود
25 ﴿ وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا ﴾ ” اور ہم نے نوح علیہ السلام کو بھیجا۔“ یعنی ہم نے نوح علیہ السلام کو اولین رسول بنا کر بھیجا۔ ﴿ إِلَىٰ قَوْمِهِ  ﴾ ” ان کی قوم کی طرف۔“ جو انہیں اللہ کی طرف بلاتے تھے اور شرک سے روکتے تھے۔ انہوں نے اپنی قوم سے کہا : ﴿إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُّبِينٌ ﴾ ” میں تم کو کھول کھول کر ڈر سنانے آیا ہوں۔“ یعنی میں نے جس چیز سے تمہیں ڈرایا ہے اسے کھول کھول کر بیان کردیا ہے جس سے اشکال زائل ہوگیا۔ ھود
26 ﴿أَن لَّا تَعْبُدُوا إِلَّا اللَّـهَ ﴾ ” کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔“ یعنی صرف اللہ تعالیٰ کے لئے اپنی عبادت کو خالص کرو اور تمام باطل معبودوں کو چھوڑ دو جن کی بندگی کی جاتی ہے۔ ﴿إِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ أَلِيمٍ ﴾ ” مجھے تمہاری نسبت درد ناک عذاب کا اندیشہ ہے۔“ یعنی اگر تم اللہ تعالیٰ کی توحید کو قائم نہیں کرتے اور میری اطاعت نہیں کرتے تو مجھے تم پر درد ناک عذاب کا ڈر ہے۔ ھود
27 ﴿فَقَالَ الْمَلَأُ الَّذِينَ كَفَرُوا مِن قَوْمِهِ  ﴾ ” تو ان کی قوم کے سردار جو کافر تھے کہنے لگے۔“ یعنی جناب نوح علیہ السلام کی قوم کے اشراف اور رؤسا نے آپ کی دعوت کو ٹھکراتے ہوئے کہا۔ جیساکہ ان جیسے دیگر لوگوں کی عادت رہی ہے۔ وہ اولین لوگ تھے جنہوں نے رسولوں کی دعوت کو رد کیا اور کہنے لگے : ﴿مَا نَرَاكَ إِلَّا بَشَرًا مِّثْلَنَا ﴾ ” ہم تو تجھے اپنے ہی جیسا انسان دیکھتے ہیں“ ان کے زعم کے مطابق یہ مانع تھا جو انہیں نوح علیہ السلام کی اتباع سے روکتا تھا حالانکہ نفس الامر میں ان کی دعوت حق اور صواب تھی اس کے علاوہ رسول کا کچھ اور ہونا مناسب ہی نہیں، کیونکہ انسان ہی سے انسان علم حاصل کرسکتا ہے اور اپنے ہر معاملے میں وہ صرف انسان کی طرف رجوع کرسکتا ہے اور اس کے برعکس وہ فرشتوں سے سیکھ سکتا ہے نہ ان کی طرف رجوع کرسکتا ہے۔ ﴿ وَمَا نَرَاكَ اتَّبَعَكَ إِلَّا الَّذِينَ هُمْ أَرَاذِلُنَا ﴾ ” اور یہ بھی دیکھتے ہیں کہ تمہارے پیرو وہی لوگ ہوئے ہیں جو ہم میں ادنیٰ درجے کے ہیں۔“ یعنی ہم دیکھتے ہیں کہ ہم میں سے صرف ان لوگوں نے تیری پیروی کی ہے جو ہم میں سے ( بزعم خود)رذیل اور گھٹیا لوگ ہیں۔۔۔۔۔۔ حالانکہ وہ، در حقیقت، اشراف اور عقل مند لوگ تھے یہ وہ لوگ تھے جو حق کے سامنے سرافگندہ ہوگئے تھے، یہ وہ رذیل لوگ نہ تھے جن کو اشرافیہ کہا جاتا تھا جو ہر سرکش شیطان کے پیچھے لگ جاتے تھے جنہوں نے پتھروں اور درختوں کو اپنا معبود بنا رکھا تھا۔ جن کا یہ لوگ تقرب حاصل کرتے تھے اور جن کے سامنے سجدہ ریز ہوتے تھے۔ کیا آپ ان سے زیادہ رذیل اور ان سے بڑھ کر خسیس کہیں اور دیکھ سکتے ہیں ؟ ﴿بَادِيَ الرَّأْيِ  ﴾ ” سرسری نظر والے“ یعنی یہ لوگ بغیر سوچے سمجھے تیری پیروی کرتے ہیں، بلکہ محض تیرےدعوت دینے پر ہی تیری اتباع کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔ یعنی ان کی مراد یہ تھی کہ یہ لوگ اپنے معاملے میں بصیرت سے محروم ہیں۔ حالانکہ انہیں معلوم نہیں کہ واضح حق ہی وہ ہے جس کی طرف عقل بد یہی طور پر دعوت دیتی ہے اور یہ مجرد اس چیز کے ذریعے سے حق معلوم کرتے ہیں جس کے ذریعے سے عقل رکھنے والے لوگ معلوم کرتے اور اس کی تحقیق کرتے ہیں۔ حق کا معاملہ ان خفیہ امور کی مانند نہیں ہے جو کسی گہرے سوچ بچار اور طویل غور و فکر کے محتاج ہوتے ہیں۔ ﴿وَمَا نَرَىٰ لَكُمْ عَلَيْنَا مِن فَضْلٍ ﴾ ” اور ہم تم میں اپنے اوپر کسی طرح کی فضیلت نہیں دیکھتے۔“ یعنی ہمارے خیال میں تم ہم پر کوئی فضیلت نہیں رکھتے کہ ہم تمہاری اطاعت کریں ﴿بَلْ نَظُنُّكُمْ كَاذِبِينَ ﴾ ” بلکہ ہم تو تمہیں جھوٹا گمان کرتے ہیں“ انہوں نے اس بارے میں جھوٹ بولا تھا، کیونکہ وہ ایسی نشانیاں اور معجزات دیکھ چکے تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے نوح علیہ السلام کی تائید کے لئے نازل فرمایا تھا، کیونکہ وہ ایسی نشانیاں اور معجزات دیکھ چکے تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے نوح علیہ السلام کی تائید کے لئے نازل فرمایا تھا، جو آپ کی صداقت پر انہیں قطعی یقین فراہم کرتی تھیں۔ ھود
28 ﴿قَالَ ﴾ بناء بریں نوح علیہ السلام نے ان کو جواب دیتے ہوئے فرمایا : ﴿يَا قَوْمِ أَرَأَيْتُمْ إِن كُنتُ عَلَىٰ بَيِّنَةٍ مِّن رَّبِّي ﴾ ” اے میری قوم ! اگر ہوں میں واضح دلیل پر اپنے رب کی طرف سے“ یعنی جزم و یقین پر۔ معنی یہ ہے کہ نوح علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے کامل رسول اور ایسے مقتدیٰ تھے جن کی پیروی بڑے بڑے عقل مند کرتے تھے جن کی عقل کے سامنے بڑے بڑے عقل مندوں کی عقل مضمحل ہوجاتی تھی۔ در حقیقت وہ سچے تھے، لہٰذا جب وہ کہتے ہیں کہ میں اپنے رب کی طرف سے روشن دلیل رکھتا ہوں تو گواہی اور تصدیق کے لئے، تمہیں یہی قول کافی ہے۔ ﴿وَآتَانِي رَحْمَةً مِّنْ عِندِهِ  ﴾ ” اور وہ دی ہے اس نے مجھے رحمت اپنی طرف سے“ یعنی اس نے میری طرف وحی کی، مجھے رسول بنا کر مبعوث کیا اور مجھ ہدایت سے نوازا ہے۔ ﴿ فَعُمِّيَتْ عَلَيْكُمْ ﴾ ” پھر اسے تمہاری آنکھ سے مخفی رکھا“ یعنی جن کی حقیقت تم پر پوشیدہ ہوگئی اس لئے تم اسے قبول کرنے کے لئے نہ اٹھے۔ ﴿ أَنُلْزِمُكُمُوهَا  ﴾ ” کیا ہم تمہیں اس چیز کو قبول کرنے پر مجبور کرسکتے ہیں“ جوہمارے نزدیک متحقق ہے اور تم اس میں شک کرتے ہو ؟ ﴿وَأَنتُمْ لَهَا كَارِهُونَ ﴾ ” جب کہ تم اسے ناپسند کرتے ہو“ یہاں تک کہ تم اس چیزکو ٹھکرانے کے حریص ہو جو میں لایا ہوں۔ یہ چیز ہمیں کوئی نقصان دے سکتی ہے نہ ہمارے یقین میں قادح ہے اور نہ تمہارا بہتان اور ہم پر تمہاری افتراپرادازی ہمیں ہمارے راستہ سے ہٹا سکتی ہے۔ اس کی غایت و انتہا تو صرف یہ ہے کہ وہ تمہیں اس راستے سے روک دے گی اور حق کے لئے تمہاری عدم اطاعت کی موجودگی جسے تم باطل سمجھتے ہو۔ جب حالت اس انتہا کو پہنچ جائے تو ہم تمہیں اس چیز پر مجبور کرنے کی قدرت نہیں رکھتے جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اور نہ ہم وہ چیز تم پر لازم کرسکتے ہیں جس سے تم نفرت کرتے ہو۔ بنا بریں فرمایا : ﴿ أَنُلْزِمُكُمُوهَا وَأَنتُمْ لَهَا كَارِهُونَ ﴾ ” کیا ہم اس کے لئے تمہیں مجبور کرسکتے ہیں جب کہ تم اسے ناپسند کرتے ہو۔ “ ھود
29 ﴿وَيَا قَوْمِ لَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مَالًا ﴾ ” اے میری قوم میں اس کے بدلے تم سے مال و زر کا خواہاں نہیں ہوں۔“ یعنی میں تمہیں دعوت دینے پر تم سے کوئی مال اجر کے طور پر نہیں مانگتا جسے تم بوجھ سمجھو۔ ﴿إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّـهِ ﴾ ” میرا اجر تو صرف اللہ کے ذمے ہے“ اور گویا کہ ان کا مطالبہ یہ تھا کہ وہ کمزور بے مایہ اہل ایمان کو اپنے پاس سے اٹھا دیں۔ اس لئے آپ نے فرمایا : ﴿وَمَا أَنَا بِطَارِدِ الَّذِينَ آمَنُوا ﴾ ” اور جو لوگ ایمان لائے ہیں میں انہیں نکالنے والا نہیں ہوں۔“ یعنی میرے لئے مناسب ہے نہ مجھے یہ زیب دیتا ہے کہ میں ان کو دھتکاردوں، بلکہ میں نہایت عزت و اکرام اور تعظیم کے ساتھ ان کا استقبال کروں گا۔ ﴿إِنَّهُم مُّلَاقُو رَبِّهِمْ ﴾ ” وہ اپنے رب سے ملنے والے ہیں“ پس وہ انہیں ان کے ایمان اور ان کے تقویٰ کے بدلے نعمتوں بھری جنت عطا کرے گا۔ ﴿وَلَـٰكِنِّي أَرَاكُمْ قَوْمًا تَجْهَلُونَ ﴾ ’’لیکن میں دیکھتا ہوں کہ تم نادان لوگ ہو“ کیونکہ تم مجھے اولیاء کو دھتکار نے اور اپنے سےدور کرنے کا حکم دیتے ہو اور تم نے حق کو اس لئے رد کردیا ہے، کیونکہ وہ حق کی اتباع کرتے ہیں، اور اس لئے بھی کہ تم حق کا ابطال کرنے کے لئے اس قسم کا استدلال کرتے ہو کہ میں تم جیسا ایک بشر ہوں اور یہ کہ ہمیں تم پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے۔ ھود
30 ﴿ وَيَا قَوْمِ مَن يَنصُرُنِي مِنَ اللَّـهِ إِن طَرَدتُّهُمْ ﴾ ” اور اے میری قوم ! اگر میں ان کو دھتکاردوں تو کون مجھے اللہ سے چھڑائے گا ؟“ یعنی مجھے اللہ کے عذاب سے کون بچائے گا۔ کیونکہ ان کو دھتکارنا اللہ کے عذاب کا موجب ہے جس سے اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں بچا سکتا۔ ﴿أَفَلَا تَذَكَّرُونَ ﴾ ” کیا تم نصیحت نہیں حاصل کرتے۔“ یعنی کیا تم اس چیز سے نصیحت نہیں پکڑتے جو تمہارے لئے زیادہ فائدہ مند اور زیادہ درست ہے اور کیا تم ان معاملات پر تدبر نہیں کرتے ؟ ھود
31 ﴿وَلَا أَقُولُ لَكُمْ عِندِي خَزَائِنُ اللَّـهِ ﴾ ” اور میں تم سے نہیں کہتا ہے کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں“ یعنی میری انتہا یہ ہے کہ میں تمہاری طرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول ہوں، میں تمہیں خوشخبری سناتا ہوں اور تمہیں برے انجام سے ڈراتا ہوں، اس کے علاوہ میرے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں۔ میرے پاس اللہ تعالیٰ کے خزانے نہیں ہیں کہ میں ان میں تصرف کروں جس کو چاہوں عطا کروں اور جس کو چاہوں محروم کر دوں۔ ﴿وَلَا أَعْلَمُ الْغَيْبَ  ﴾ ” اور میرے پاس غیب کا علم بھی نہیں“ کہ میں تمہارے سینے کے بھیدوں اور تمہارے ”رازوں“ کے بارے میں تمہیں آگاہ کرسکوں۔ ﴿وَلَا أَقُولُ إِنِّي مَلَكٌ ﴾ ’’اور نہ یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں۔“ یعنی میں اپنے مرتبہ سے بڑھ کر کسی مرتبہ کا دعویٰ نہیں کرتا۔ نہ میں اس کے سوا کسی منزلت کا دعویٰ کرتا ہوں جس پر اللہ تعالیٰ نے مجھے فائز کیا ہے اور نہ میں لوگوں کے بارے میں اپنے ظن اور گمان کی بنیاد پر فیصلہ کرتا ہوں۔ ﴿وَلَا أَقُولُ لِلَّذِينَ تَزْدَرِي أَعْيُنُكُمْ ﴾ ” اور نہ میں کہتا ہوں کہ جو لوگ تمہاری آنکھوں میں حقیر ہیں“ یعنی وہ کمزور اہل ایمان جن کو کافر سرداران قوم حقیر سمجھتے تھے۔ ﴿لَن يُؤْتِيَهُمُ اللَّـهُ خَيْرًا ۖ اللَّـهُ أَعْلَمُ بِمَا فِي أَنفُسِهِمْ ﴾ ” اللہ ان کو ہرگز بھلائی نہ دے گا۔ اللہ خوب جانتا ہے جو ان کے دلوں میں ہے“ اگر وہ اپنے ایمان میں سچے ہیں تو ان کے لئے خیر کثیر ہے اور اگر وہ اپنے دعوائے ایمان میں جھوٹے ہیں تو ان کا حساب اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے۔ ﴿إِنِّي إِذًا ﴾ ” بے شک میں تب“ یعنی اگر میں نے تم سے اس بارے میں کچھ کہا جس کا ذکر پیچھے گزر چکا ہے ﴿لَّمِنَ الظَّالِمِينَ ﴾ ” ظالموں میں سے ہوں گا“نوح علیہ السلام کا اپنی قوم کو اس بات سے مایوس کردینا ہے کہ وہ کمزور اہل ایمان کو اپنے سے دور کریں یا ان کو ناراض کرلیں اور اپنی قوم کو ایسے طریقوں سے سمجھانے کی کوشش ہے جو ایک انصاف پسند شخص کو سمجھنے پر آمادہ کرسکتے ہیں۔ ھود
32 جب انہوں نے دیکھا کہ حضرت نوح علیہ السلام ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینے سے باز نہیں آتے اور وہ نوح علیہ السلام سے اپنا مقصد حاصل نہ کرسکے تو انہوں نے نوح علیہ السلام سے کہا : ﴿ يَا نُوحُ قَدْ جَادَلْتَنَا فَأَكْثَرْتَ جِدَالَنَا فَأْتِنَا بِمَا تَعِدُنَا إِن كُنتَ مِنَ الصَّادِقِينَ ﴾ ” اے نوح ! تو نے ہم سے جھگڑا کیا اور خوب جھگڑا کیا، اب لے آجو تو ہم سے وعدہ کرتا ہے، اگر تو سچا ہے“ وہ کتنے جاہل اور کتنے گمراہ تھے کہ انہوں نے اپنے خیر خواہ نبی سے یہ بات کہی۔ اگر وہ سچے تھے تو انہوں نے یہ کیوں نہ کہا’’اے نوح ! (علیہ السلام) آپ نے ہماری خیر خواہی کی، ہم پر شفقت فرمائی اور ایسے معاملات کی طرف ہمیں دعوت دی ہے جو ہمارے سامنے نہیں، ہم چاہتے ہیں کہ آپ اس معاملے کو ہمارے سامنے اچھی طرح واضح کردیں، تاکہ ہم اس کی پیروی کرسکیں ورنہ آپ تو اپنی خیر خواہی پر شکریہ کے مستحق ہیں“۔۔۔۔۔ تو یہ اس شخص کے لئے انصاف پر مبنی جواب ہوتا ہے جس نے ایک ایسے امر کی طرف دعوت دی ہے جو اس پر مخفی رہ گیا ہے۔ ھود
33 مگر وہ تو اپنے قول میں سخت جھوٹے اور اپنے نبی کے خلاف جسارت کرنے والے تھے۔ ان کا حضرت نوح علیہ السلام کی دعوت کو کسی دلیل اور حجت کی بنا پر رد کرنا تو کجا، کوئی ادنیٰ سا شبہ بھی نہ تھا جس کی بنیاد پر انہوں نے اس دعوت کو رد کیا۔ بنابریں وہ اپنی جہالت اور ظلم کی وجہ سے عذاب کے مطالبے میں جلدی مچانے اور اللہ جل شانہ کو عاجز قرار دینے لگے۔ اس لئے نوح علیہ السلام نے جواب میں فرمایا : ﴿إِنَّمَا يَأْتِيكُم بِهِ اللَّـهُ إِن شَاءَ ﴾ ” اس کو تو اللہ ہی چاہے گا تو نازل کرے گا۔“ یعنی اگر اللہ تعالیٰ کی مشیت اور حکمت نے تم پر عذاب نازل کرنے کا تقاضا کیا، تو وہ ضرور ایسا کرے گا۔ ﴿وَمَا أَنتُم بِمُعْجِزِينَ ﴾ ” اور تم اس (اللہ تعالیٰ) کو عاجز اور بے بس نہیں کرسکتے“ اور جہاں تک میرا تعلق ہے تو میرے ہاتھ میں اس امر کا کوئی اختیار نہیں۔ ھود
34 ﴿ وَلَا يَنفَعُكُمْ نُصْحِي إِنْ أَرَدتُّ أَنْ أَنصَحَ لَكُمْ إِن كَانَ اللَّـهُ يُرِيدُ أَن يُغْوِيَكُمْ ۚ ﴾ ” اور نہیں نفع دے گی تم کو میری نصیحت، اگر میں تم کو نصیحت کرنا چاہوں، اگر اللہ کا ارادہ تمہیں گمراہ کرنے کا ہو‘‘ یعنی اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارادہ غالب ہے، کیونکہ اگر وہ تمہیں تمہارے حق کو ٹھکرادینے کی پاداش میں گمراہ کردے اور خواہ میں پوری کوشش کے ساتھ تمہاری خیر خواہی کروں۔۔۔۔۔۔ اور جناب نوح علیہ السلام نے ایسا کیا بھی۔۔۔۔۔۔ تب بھی میری یہ کوشش تمہیں کوئی فائدہ نہ دے گی۔ ﴿ هُوَ رَبُّكُمْ ﴾ ” وہ تمہارا رب ہے“ تمہارے ساتھ وہی کچھ کرتا ہے جو وہ چاہتا ہے ﴿وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ ﴾ ” اور اسی کی طر ف تم لوٹائے جاؤ گے“ پس وہ تمہیں تمہارے اعمال کی جزا دے گا۔ ھود
35 اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے : ﴿أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ ﴾ ” کیا وہ کہتے ہیں کہ اس نے اسے گھڑ لیا ہے“ اس ضمیر میں اس امر کا احتمال ہے کہ وہ نوح علیہ السلام کی طرف لوٹتی ہوجیسا کہ پورا سیاق ان کی قوم کے ساتھ ان کے معاملے کے بارے میں ہے اور اس صورت میں معنی یہ ہوں گے کہ نوح علیہ السلام کی قوم کے لوگ کہتے تھے کہ نوح علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ پر افتراء پردازی کی ہے اور جھوٹ بولا ہے کہ اس کے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی آئی ہے اور اللہ نے اسے حکم دیا ہے کہ وہ کہہ دے۔ ﴿قُلْ إِنِ افْتَرَيْتُهُ فَعَلَيَّ إِجْرَامِي وَأَنَا بَرِيءٌ مِّمَّا تُجْرِمُونَ ﴾ ”کہہ دیجیے، اگر میں نے اسے گھڑا ہو، تو مجھ پر ہے میرا گناہ اور میں تمہارے گناہوں سے بری ہوں“ یعنی ہر شخص کا بوجھ خود اسی پر ہے ﴿وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ ۚ ﴾ (الانعام:6؍164)” کوئی شخص کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ “ اور اس میں یہ احتمال بھی ہے کہ ضمیر کا مرجع نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہوں اس صورت میں یہ آیت کریمہ، حضرت نوح علیہ السلام اور ان کی قوم کے قصہ کے اثناء میں، جملہ معترضہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کا تعلق ایسے امور سے ہے جنہیں انبیاء کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ جب اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے حضرت نوح علیہ السلام کا قصہ بیان کرنا شروع کیا اور یہ قصہ ان نشانیوں میں سے تھا جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت اور رسالت پردلالت کرتی ہیں۔ تب اللہ تعالیٰ نے آپ کی قوم کی تکذیب کا ذکر فرمایا اور اس کے ساتھ ساتھ پوری طرح کھول کھول کر آیات بیان فرمائیں چنانچہ فرمایا : ﴿أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ  ﴾ ” کیا وہ کہتے ہیں کہ اس نے اسے خود گھڑ لیا ہے۔“ یعنی قرآن کو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی طرف سے گھڑ لیا ہے۔ یہ انتہائی عجیب اور باطل ترین قول ہے، کیونکہ انہیں علم ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لکھ سکتے ہیں نہ پڑھ سکتے ہیں، اہل کتاب کے علوم سیکھنے کے لئے آپ نے کہیں سفر بھی نہیں کیا، بایں ہمہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ کتاب پیش کی اور جس کے بارے میں کفار کو مقابلے کی دعوت دی کہ اس جیسی ایک سورت ہی بنا لائیں۔ اس کے باوجود اگر وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ افتر اور بہتان ہے تو معلوم ہوا کہ وہ درحقیقت، حق سے عناد رکھتے ہیں، لہٰذا ان کے ساتھ بحث کرنے اور دلیل کا کوئی فائدہ باقی نہیں رہا، بلکہ ان حالات میں مناسب یہی ہے کہ آپ ان سے کنارہ کشی کریں۔ اس لئے فرمایا : ﴿قُلْ إِنِ افْتَرَيْتُهُ فَعَلَيَّ إِجْرَامِي ﴾ ” کہہ دیجیے کہ اگر میں نے اسے گھڑا ہو تو مجھ پر ہے اس کا گناہ“ یعنی میرا گناہ اور میرا جھوٹ میرے ذمہ ہے ﴿وَأَنَا بَرِيءٌ مِّمَّا تُجْرِمُونَ ﴾ ” اور جو گناہ تم کرتے ہو اس سے میں بری ہوں۔“ پھر تم مجھے جھٹلانے پر کیوں اصرار کررہے ہو۔ ھود
36 ﴿ وَأُوحِيَ إِلَىٰ نُوحٍ أَنَّهُ لَن يُؤْمِنَ مِن قَوْمِكَ إِلَّا مَن قَدْ آمَنَ ﴾ ” نوح کی طرف وحی کی گئی کہ تیری قوم میں سے ایمان نہیں لائے گا، مگر جو ایمان لا چکا“ یعنی یہ لوگ پتھر دل ہوگئے ہیں۔ ﴿فَلَا تَبْتَئِسْ بِمَا كَانُوا يَفْعَلُونَ ﴾ ” پس آپ غم نہ کریں ان کا موں پر جو وہ کر رہے ہیں“ یعنی آپ غم زدہ نہ ہوں اور نہ ان کے کرتوتوں کی کوئی پروا کریں۔ اللہ تعالیٰ ان پر ناراض ہے اور اس نے ان کو ایسے عذاب کا مستحق ٹھہرا دیا ہے جس کو ٹالا نہیں جاسکتا۔ ھود
37 ﴿وَاصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنَا وَوَحْيِنَا ﴾ ” اور ایک کشتی ہمارے حکم سے ہمارے روبرو بناؤ۔“ یعنی ہماری حفاظت میں ہمارے سامنے اور ہماری مرضی کے مطابق کشتی بنائیں۔ ﴿وَلَا تُخَاطِبْنِي فِي الَّذِينَ ظَلَمُوا ﴾ ” اور ظالموں کے بارے میں مجھ سے گفتگو نہ کرنا“ یعنی ان کی ہلاکت کے بارے میں ہمارے ساتھ گفتگو نہ کریں۔ ﴿ إِنَّهُم مُّغْرَقُونَ  ﴾ ” بے شک یہ غرق ہوں گے“ یعنی وہ عذاب کے مستحق ہوچکے ہیں اور ان پر تقدیر کا فیصلہ نافذ ہوچکا ہے۔ ھود
38 نوح علیہ السلام نے اپنے رب کے حکم کی تعمیل کی اور کشتی بنانا شروع کردی ﴿ وَكُلَّمَا مَرَّ عَلَيْهِ مَلَأٌ مِّن قَوْمِهِ  ﴾ ” جب کبھی سرداران قوم ان کے پاس سے گزرتے“ اور ان کو کشتی بناتے ہوئے دیکھتے ﴿سَخِرُوا مِنْهُ ۚ قَالَ إِن تَسْخَرُوا مِنَّا ﴾ ” تو مذاق کرتے اس سے، نوح نے کہا، اگر مذاق کرتے ہو ہم سے“ یعنی اب اگر تم ہمارا مذاق اڑاتے ہو ﴿ فَإِنَّا نَسْخَرُ مِنكُمْ كَمَا تَسْخَرُونَ  فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ مَن يَأْتِيهِ عَذَابٌ يُخْزِيهِ وَيَحِلُّ عَلَيْهِ عَذَابٌ مُّقِيمٌ ﴾ ” تو ہم بھی مذاق کریں گے تم سے، جیسے تم مذاق کرتے ہو۔ ھود
39 اب جلد جان لو گے کہ کس پر رسوا کرنے والا عذاب آتا ہے اور اترتا ہے اس پر دائمی عذاب“ یعنی ہم پر یہ عذاب نازل ہوگا یا تم پر ؟ اور جب ان پر عذاب نازل ہوا تو انہیں معلوم ہوگیا۔ ھود
40 ﴿حَتَّىٰ إِذَا جَاءَ أَمْرُنَا ﴾ ” یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آپہنچا۔“ یعنی جب وہ وقت آگیا جو ہم نے ان پر نزول عذاب کے لئے مقرر کیا تھا۔ ﴿وَفَارَ التَّنُّورُ ﴾ ” اور جوش مارا تنور نے“ یعنی اللہ تعالیٰ نے زور دار بارش سے آسمان کے دھانے کھول دئیے اور تمام روئے زمین پر جا بجا پانی کے چشمے جاری کر دئیے حتیٰ کہ تنوروں سے بھی پانی ابلنے لگا جو کہ عادۃً آگ کا مقام ہے اور وہاں پانی کا ہونا بعید تر بات ہے۔ تنوروں میں بھی چشمے پھوٹ پڑے اور پانی اس کام کے لئے جمع ہوگیا جو مقدر ہوچکا تھا۔ ﴿وَ  قُلْنَا ﴾ ” اور ہم نے کہا۔“ یعنی ہم نے نوح علیہ السلام سے کہا ﴿احْمِلْ فِيهَا مِن كُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ ﴾ ” ہر قسم میں سے جوڑا جوڑا اس میں سوار کرلیں۔“ یعنی تمام مخلوقات میں سے ہر صنف کا ایک جوڑا، یعنی نر اور مادہ کشتی پر سوار کرلیں، تاکہ تمام مخلوق کی اصل باقی رہے۔ رہا جوڑے سے زائدجانور سوار کرنا تو کشتی ان تمام جانوروں کو لادلینے کی گنجائش نہیں رکھتی۔ ﴿وَأَهْلَكَ إِلَّا مَن سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ ﴾ ” اور اپنے گھر والوں کو، مگر جس پر سبقت کر گیا ہے حکم“ اور ان لوگوں کو چھوڑ کر جو کافر ہیں، مثلاً نوح علیہ السلام کا بیٹا جو غرق ہوا، اپنے گھر والوں کو بھی کشتی میں سوار کرلیں۔ ﴿وَمَنْ آمَنَ ﴾ ” اور سب ایمان والوں کو“ ﴿وَ ﴾ اور حال یہ ہے کہ ﴿مَا آمَنَ مَعَهُ إِلَّا قَلِيلٌ ﴾ ” ان کے ساتھ بہت ہی کم لوگ ایمان لائے تھے۔ ھود
41 ﴿ وَقَالَ ﴾ اور نوح علیہ السلام نے ان لوگوں سے کہا جن کو سوار کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا تھا۔ ﴿ارْكَبُوا فِيهَا بِسْمِ اللَّـهِ مَجْرَاهَا وَمُرْسَاهَا﴾ ” اس میں سوار ہوجاؤ، اللہ کے نام سے ہے اس کا چلنا اور ٹھہرنا“ یعنی وہ اللہ کے نام پر بہتی چلی جا رہی تھی اور اسی کے حکم سے لنگر انداز ہوتی تھی ﴿إِنَّ رَبِّي لَغَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴾ ” بے شک میرا رب بخشنے والا مہربان ہے۔“ کیونکہ اس نے ہمیں بخش دیا، ہمیں اپنی رحمت سے نوازا اور ظالموں کی قوم سے ہمیں نجات دی۔ ھود
42 پھر اللہ تعالیٰ نے کشتی کے تیرنے کا وصف اس طرح بیان فرمایا گویا ہم اس کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ ﴿ وَهِيَ تَجْرِي بِهِمْ ﴾ ’’اور وہ ان کو لے کر چلنے لگی۔“ یعنی کشتی نوح علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کو لے کر تیر رہی تھی۔ ﴿فِي مَوْجٍ كَالْجِبَالِ﴾ ” پہاڑوں جیسی لہروں میں“ اور اللہ تعالیٰ کشتی اور کشتی میں سوار لوگوں کی حفاظت کر رہا تھا۔ ﴿وَنَادَىٰ نُوحٌ ابْنَهُ ﴾ ” اور نوح نے اپنے بیٹے کو پکارا“ یعنی جب نوح علیہ السلام کشتی میں سوار ہوگئے تو اسے بلایا، تاکہ وہ بھی آپ کے ساتھ سوار ہوجائے۔ ﴿وَ کَانَ﴾ ” اور وہ تھا۔“ یعنی نوح علیہ السلام کا بیٹا ﴿فِي مَعْزِلٍ ﴾ ”الگ“ یعنی کشتی والوں سے علیحدہ دور فاصلے پر تھا۔ نوح علیہ السلام چاہتے تھے وہ قریب آکر کشتی میں سوار ہوجائے۔ اس لئے نوح علیہ السلام نے اپنے بیٹے سے کہا : ﴿يَا بُنَيَّ ارْكَب مَّعَنَا وَلَا تَكُن مَّعَ الْكَافِرِينَ﴾ ” بیٹے ! ہمارے ساتھ سوار ہوجا اور کافروں کے ساتھ نہ ہو“ ورنہ ان پر نازل ہونے والا عذاب تجھے بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ ھود
43 ﴿ قَالَ ﴾ ” اس نے کہا۔“ یعنی نوح علیہ السلام کے بیٹے نے اپنے باپ کے قول ” عذاب سے صرف وہی نجات پائے گا جو کشتی میں سوار ہوگا۔۔۔۔۔۔“ کی تکذیب کرتے ہوئے کہا : ﴿سَآوِي إِلَىٰ جَبَلٍ يَعْصِمُنِي مِنَ الْمَاءِ﴾ ” میں پہاڑ سے جالگوں گا کہ وہ مجھے پانی سے بچا لے گا۔“ یعنی میں کسی پہاڑ پر چڑھ کر پانی سے محفوظ ہوجاؤں گا۔ ﴿ قَالَ﴾ نوح علیہ السلام نے کہا : ﴿لَا عَاصِمَ الْيَوْمَ مِنْ أَمْرِ اللَّـهِ إِلَّا مَن رَّحِمَ﴾ ” آج اللہ کے حکم سے کوئی بچانے والا نہیں، مگر جس پر وہی رحم کرے“ کوئی پہاڑ وغیرہ کسی کو بچا نہیں سکے گا۔ اگر کوئی اس پانی سے بچنے کے لئے ممکن حد تک بڑے سے بڑے سبب اختیار کرلے تب بھی اگر اللہ تعالیٰ اسے نہ بچائے تو وہ بچ نہیں سکتا۔ ﴿وَحَالَ بَيْنَهُمَا الْمَوْجُ فَكَانَ﴾ ” اور حائل ہوگئی دونوں کے درمیان موج، پس ہوگیا وہ“ یعنی بیٹا ﴿مِنَ الْمُغْرَقِينَ﴾ ” ڈوبنے والوں میں۔ “ ھود
44 ﴿وَ﴾ ” اور“ جب اللہ تعالیٰ نے ان کو سیلاب میں غرق کردیا اور حضرت نوح علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کو بچا لیا ﴿قِيلَ يَا أَرْضُ ابْلَعِي مَاءَكِ ﴾ ” حکم دیا گیا، اے زمین ! نگل لے اپنا پانی“ یعنی وہ تمام پانی نگل لے جو تجھ سے خارج ہوا تھا اور تیری سطح پر آسمان سے نازل ہوا ﴿يَا سَمَاءُ أَقْلِعِي﴾ ” اور اے آسمان ! تھم جا“ پس زمین اور آسمان دونوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کی۔ زمین نے اپنا پانی نگل لیا اور آسمان تھم گیا۔ ﴿وَغِيضَ الْمَاءُ ﴾ ” اور سکھا دیا گیا پانی“ یعنی پانی زمین میں جذب ہوگیا ﴿وَقُضِيَ الْأَمْرُ ﴾ ” اور ہوچکا کام“ یعنی جھٹلانے والوں کی ہلاکت اور اہل ایمان کی نجات کا فیصلہ چکا دیا گیا۔ ﴿وَاسْتَوَتْ عَلَى الْجُودِيِّ﴾ ” اور وہ ٹھہر گئی کوہ جودی پر۔“ یعنی کشتی ” جودی“ پر لنگر انداز ہوگئی جو سر زمین موصل میں ایک معروف پہاڑ ہے۔ ﴿وَقِيلَ بُعْدًا لِّلْقَوْمِ الظَّالِمِينَ ﴾ ” اور کہا گیا، دوری ہو ظالم لوگوں کے لئے“ ان کی ہلاکت پر لعنت، اللہ کی رحمت سے دوری اور پھٹکار ان کے پیچھے لگا دی گئی جو ہمیشہ ان کے ساتھ رہے گی۔ ھود
45 ﴿ وَنَادَىٰ نُوحٌ رَّبَّهُ فَقَالَ رَبِّ إِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِي وَإِنَّ وَعْدَكَ الْحَقُّ ﴾ ” اور نوح نے اپنے رب کو پکارا اور کہا، بے شک میرا بیٹا میرے گھر والوں میں سے ہے، اور تیرا وعدہ سچا ہے“ اور تو نے مجھ سے فرمایا تھا : ﴿احْمِلْ فِيهَا مِن كُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ وَأَهْلَكَ﴾ ” ہر قسم کے جانداروں میں سے جوڑا جوڑا کشتی میں سوار کرلو اور اپنے گھر والوں کو بھی“ اور تو نے جو وعدہ مجھ سے کیا ہے، تو اس کی خلاف ورزی نہیں کرے گا۔ شاید کہ نوح علیہ السلام کی شفقت پدری نے جوش مارا ہو، نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے گھروں والوں کو بچانے کا وعدہ کیا تھا، تو نوح علیہ السلام نے سمجھاکہ یہ وعدہ تمام لوگوں کوشامل ہے خواہ وہ ایمان لائے ہوں یا نہ لائے ہوں، اس لئے انہوں نے اپنے رب سے یہ دعا مانگی۔ مگر اس کے باوجود انہوں نے دعامانگتے ہوئے تمام معاملہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی حکمت بالغہ کے سپرد کردیا اور عرض کیا : ﴿ وَأَنتَ أَحْكَمُ الْحَاكِمِينَ﴾ ” اور تو سب سے بڑا حاکم ہے۔‘‘ ھود
46 ﴿قَالَ﴾ اللہ تعالیٰ نے نوح علیہ السلام سے فرمایا : ﴿إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ﴾ ” وہ تیرے گھر والوں میں سے نہیں ہے“ یعنی ان اہل خانہ میں سے، جن کی نجات کا میں نے وعدہ کیا تھا۔ ﴿إِنَّهُ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ﴾ ” بے شک اس کے عمل صحیح نہیں ہیں“ یعنی یہ دعا تو نے ایک ایسے کافر کی نجات کے لئے کی ہے جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان نہیں رکھتا۔ ﴿فَلَا تَسْأَلْنِ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ﴾ ” پس جس کی بابت تجھے علم نہ ہو، اس کا مجھ سے سوال نہ کر“ یعنی جس کی عاقبت اور انجام کا تجھ کو علم نہیں کہ آیا اس کا انجام اچھا ہے یا برا۔ ﴿ إِنِّي أَعِظُكَ أَن تَكُونَ مِنَ الْجَاهِلِينَ﴾ ” میں تجھ کو نصیحت کرتا ہوں کہ نادان نہ بن۔“ یعنی میں تجھ کو ایسی نصیحت کرتا ہوں جس پر عمل کرکے تو کاملین میں شمار ہوگا اور جاہلین کی صفات سے نجات حاصل کرے گا۔ ھود
47 اس وقت نوح علیہ السلام اپنی دعا پر سخت نادم ہوئے اور اللہ تعالیٰ سے عرض کیا : ﴿قَالَ رَبِّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ أَنْ أَسْأَلَكَ مَا لَيْسَ لِي بِهِ عِلْمٌ ۖ وَإِلَّا تَغْفِرْ لِي وَتَرْحَمْنِي أَكُن مِّنَ الْخَاسِرِينَ﴾ ” اے میرے رب ! میں اس بات سے تیری پناہ مانگتا ہوں کہ میں تجھ سے ایسی چیز کا سوال کروں جس کا مجھے علم نہ ہو اور اگر تو نے مجھے معاف نہ کیا اور مجھ پر رحم نہ کیا، تو میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوجاؤں گا“ پس مغفرت اور رحمت بندے کو خسارے والے لوگوں میں شامل ہونے سے بچاتی ہے۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ نوح علیہ السلام کو معلوم نہ تھا کہ اللہ تعالیٰ سے اپنے (کافر) بیٹے کی نجات کے لئے دعا کرنا حرام ہے اور ان کا بیٹا اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں داخل ہے۔ ﴿وَلَا تُخَاطِبْنِي فِي الَّذِينَ ظَلَمُوا ۚ إِنَّهُم مُّغْرَقُونَ ﴾ ” ظالموں کے بارے میں مجھ سے گفتگو نہ کرنا کہ وہ سب غرق ہوں گے۔“ بلکہ نوح علیہ السلام کے نزدیک دونوں امور متعارض ہوگئے اور سمجھے کہ ان کا بیٹا ﴿أَهْلَكَ ﴾ کے حکم میں داخل ہے اور بعد میں ان پر واضح ہوا کہ ان کا بیٹا ان لوگوں میں شامل ہے جن کے لئے بخشش کی دعا اور گفتگو کرنے سے روکا گیا ہے۔ ھود
48 اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿ قِيلَ يَا نُوحُ اهْبِطْ بِسَلَامٍ مِّنَّا وَبَرَكَاتٍ عَلَيْكَ وَعَلَىٰ أُمَمٍ مِّمَّن مَّعَكَ﴾ ” حکم ہوا اے نوح ! ہماری طرف سے سلامتی کے ساتھ اتر اور برکتوں کے ساتھ، تجھ پر اور ان گروہوں پر جو تیرے ساتھ ہیں‘‘ یعنی انسانوں کے علاوہ حیوانوں کے وہ جوڑے جو نوح علیہ السلام نے اپنے ساتھ کشتی میں سوار کئے تھے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان سب میں برکت ڈال دی حتیٰ کہ انہوں نے روئے زمین کو اس کے کناروں تک بھردیا۔ ﴿وَأُمَمٌ سَنُمَتِّعُهُمْ﴾ ” اور دوسرے گروہ ہیں جن کو ہم فائدہ دیں گے“ یعنی دنیا میں ہم انہیں متمتع ہونے دیں گے۔ ﴿ثُمَّ يَمَسُّهُم مِّنَّا عَذَابٌ أَلِيمٌ﴾ ” پھر پہنچے گا ان کو ہماری طرف سے درد ناک عذاب“ یعنی یہ نجات دینا، ہمارے لئے اس بات میں مانع نہیں ہوگا کہ اگر اس کے بعد کوئی شخص کفر کا ارتکاب کرے گا، تو ہم اس پر عذاب نازل کریں، بلکہ اگر ان کو تھوڑی مدت کے لئے فائدہ اٹھانے کا موقع دیا جائے گا، تو اس کے بعد ان کا مواخذہ بھی کیا جائے گا۔ ھود
49 یہ مبسوط قصہ بیان کرنے کے بعد۔۔۔۔۔۔ جسے اس شخص کے سوا کوئی نہیں جانتا تھا جسے اللہ نے اپنی رسالت سے نوازا ہے۔۔۔ اپنے نبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا : ﴿ تِلْكَ مِنْ أَنبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهَا إِلَيْكَ ۖ مَا كُنتَ تَعْلَمُهَا أَنتَ وَلَا قَوْمُكَ مِن قَبْلِ هَـٰذَا﴾ ” یہ غیب کی خبریں ہیں کہ ہم یہ آپ کی طرف وحی کرتے ہیں نہ آپ کو ان کی خبر تھی نہ آپ کی قوم کو، اس سے پہلے“ کہ آپ کی قوم یہ کہتی کہ یہ تو (محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پہلے ہی جانتا تھا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کیجیے اور اس کا شکر ادا کیجیے، اپنے موقف، یعنی دین قیم، صراط مستقیم اور دعوت دین پر نہایت ثابت قدمی کے ساتھ قائم رہیے۔ ﴿ إِنَّ الْعَاقِبَةَ لِلْمُتَّقِينَ ﴾ ” بے شک اچھا انجام پرہیز گاروں کا ہے۔“ یعنی وہ لوگ جو شرک اور دیگر تمام گناہوں سے بچتے ہیں۔ آپ کی قوم کے مقابلے میں آپ کا انجام اسی طرح اچھا ہے جس طرح نوح علیہ السلام کی قوم کے مقابلے میں نوح علیہ السلام کا انجام اچھا تھا۔ ھود
50 ﴿ وَإِلَىٰ عَادٍ﴾ ” اور عاد کی طرف‘‘ یعنی ہم نے عاد کی طرف مبعوث کیا ” عاد“ ایک معروف قبیلہ تھا جو سر زمین یمن میں وادی احقاف میں آباد تھا۔ ﴿ أَخَاهُمْ ﴾ ” ان کے بھائی۔“ نسب میں ان کے بھائی ﴿هُودًا ﴾ ” ہود کو“ تاکہ وہ ان سے علم حاصل کرسکیں۔ ﴿ قَالَ﴾ ہود علیہ السلام نے ان سے کہا۔“ ﴿يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّـهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَـٰهٍ غَيْرُهُ ۖ إِنْ أَنتُمْ إِلَّا مُفْتَرُونَ﴾ ” اے میری قوم ! اللہ کی عبادت کرو، تمہارے لئے اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ تم بہتان باندھتے ہو“ یعنی ہود علیہ السلام نے ان کو صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت سے منع کیا اور انھیں آگاہ کیا کہ انھوں نے غیراللہ کی عبادت کو اختیار کرکے اور اس کو جائز قرار دے کر اللہ تعالیٰ پر بہتان طرازی کی ہے اور ان پر اللہ تعالیٰ کی عبادت کے وجوب اور ماسوا کی عبادت کے فساد کو واضح فرمایا۔ ھود
51 پھر اطاعت کے راستے پر گامزن ہونے سے کسی چیز کے مانع نہ ہونے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : ﴿يَا قَوْمِ لَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا﴾ ” اے میری قوم ! میں اس کا تم سے کوئی صلہ نہیں مانگتا۔“ یعنی تمہیں اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینے میں تمہارے اموال میں سے کوئی تاوان وصول نہیں کرتا کہ تمہیں کہنا پڑے ” یہ ہمارے مال ہتھیانا چاہتا ہے“ میں تو تمہیں بغیر کسی معاوضہ کے اللہ کی طرف بلاتا ہوں اور تمہیں تعلیم دیتا ہوں۔ ﴿إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى الَّذِي فَطَرَنِي ۚ أَفَلَا تَعْقِلُونَ﴾ ” میرا اجر تو اس ذات کے ذمے ہے جس نے مجھے پیدا کیا، کیا پس تم نہیں سمجھتے“ یعنی جس کی طرف تمہیں دعوت دیتا ہوں کیا تم اسے سمجھتے نہیں کہ یہ قبولیت کی موجب ہے اس کو قبول کرنے میں کوئی چیز مانع نہیں ہے۔ ھود
52 ﴿ وَيَا قَوْمِ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ﴾ ” اور اے میری قوم ! اپنے رب سے بخشش طلب کرو۔“ یعنی جو گناہ تم سے سرزد ہوچکے ہیں ان پر اپنے رب سے بخشش طلب کرو۔ ﴿ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ﴾ ” پھر اس کے آگے توبہ کرو۔“ یعنی آئندہ کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ کرو اور اس کی طرف رجوع کرو۔ جب تم توبہ کرو گے ﴿يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُم مِّدْرَارًا ﴾ ” وہ تم پر موسلادھار مینہ برسائے گا۔“ یعنی اللہ تعالیٰ کی بکثرت بارش سے نوازے گا جس سے زمین سر سبز و شاداب ہوگی اور رزق میں اضافہ ہوگا۔ ﴿ وَيَزِدْكُمْ قُوَّةً إِلَىٰ قُوَّتِكُمْ﴾ ” اور زیادہ کرے گا تم کو قوت پر قوت میں“ کیونکہ وہ سب سے طاقت ور لوگ تھے۔ اسی لئے انہوں نے کہا تھا : ﴿مَنْ أَشَدُّ مِنَّا قُوَّةً ﴾ (حم السجدۃ:41؍15)” ہم سے زیادہ کون طاقتور ہے“ پس اللہ تعالیٰ نے ان سے وعدہ فرمایا تھا کہ اگر وہ ایمان لے آئیں تو وہ ان کی قوت میں اضافہ کر دے گا۔ ﴿وَلَا تَتَوَلَّوْا﴾ ” اور روگردانی نہ کرو۔“ یعنی اپنے رب سے منہ نہ موڑو ﴿مُجْرِمِينَ﴾ ” گناہ گار ہو کر“ یعنی تکبر کی بنا پر اللہ تعالیٰ کی عبادت سے منہ نہ موڑو اور اس کے محارم کے ارتکاب کی جسارت نہ کرو۔ ھود
53 ﴿قَالُوا﴾ انہوں نے ہود علیہ السلام کی دعوت کو ٹھکراتے ہوئے کہا : ﴿ يَا هُودُ مَا جِئْتَنَا بِبَيِّنَةٍ﴾ ” اے ہود ! تو ہمارے پاس کوئی واضح دلیل لے کر انہیں آیا“ اگر دلیل سے مراد وہ دلیل ہے جس کا وہ مطالبہ کرتے تھے تو ایسی دلیل حق کی صداقت کے لئے لازم نہیں، بلکہ لازم صرف یہ ہے کہ نبی ان کو ایسی دلیل اور ایسا ثبوت پیش کرے جو اس کی دعوت کی صحت پر دلالت کرتا ہو اور اگر ان کا مقصد یہ ہے کہ ہود علیہ السلام ان کے پاس کوئی دلیل ہی نہیں لائے جو ان کی دعوت کی صداقت کی گواہی دیتی ہو تو اس بارے میں وہ جھوٹ کہتے ہیں، کیونکہ جب بھی کسی قوم میں کوئی نبی مبعوث ہوتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اس کے ہاتھ پر ایسے ایسے معجزات ظاہر کرتا ہے جو انسان کے بس میں نہیں ہوتے۔ اگر ان کے ہاتھ پر کوئی معجزہ نہ بھی ظاہر ہوا ہوتا سوائے دعوت کے جس میں دین کو اللہ وحدہ لا شریک کے لئے خالص کرنے کی تاکید ہو، نیک عمل اور اخلاق جمیلہ کا حکم دیا گیا ہو اور اخلاق مذمومہ، یعنی شرک، فواحش، ظلم اور دیگر مختلف قسم کی برائیوں سے روکا گیا ہو نیز اس کی تائید میں ہود علیہ السلام کی وہ صفات بھی ہوں جو مخلوق میں سب سے اچھے اور سب سے سچے شخص کے سوا کسی میں نہیں پائی جاتیں، تو ان کی صداقت پر دلیل کے لئے یہی چیز کافی تھی۔۔۔۔۔۔ بلکہ عقلمند لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ چیز مجرد خرق عادات معجزات سے زیادہ بڑی نشانی ہے۔ حضرت ہود علیہ السلام کی صداقت پر دلالت کرنے والی آیات و بینات میں سے ایک چیز یہ بھی ہے کہ وہ فرد واحد ہے، اس کے کوئی انصار و اعوان نہیں، وہ اپنی قوم میں پکار پکار کر کہتا ہے اور ان کو عاجز کردیتا ہے وہ کہتا ہے ﴿إِنِّي تَوَكَّلْتُ عَلَى اللَّـهِ رَبِّي وَرَبِّكُم﴾ ” میں نے اللہ پر بھروسہ کیا جو میرا اور تمہارا رب ہے“ ﴿إِنِّي أُشْهِدُ اللَّـهَ وَاشْهَدُوا أَنِّي بَرِيءٌ مِّمَّا تُشْرِكُونَ مِن دُونِهِ  فَكِيدُونِي جَمِيعًا ثُمَّ لَا تُنظِرُونِ ﴾ ”ہود نے کہا میں اللہ کو گواہ بناتا ہوں اور تم بھی گواہ رہو کہ میں ان ہستیوں سے بیزار ہوں جن کو تم نے اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرا رکھا ہے پھر تم سب مل کر میرے خلاف چالیں چل لو اور مجھے مہلت نہ دو۔“ وہ دشمن ہیں ان کے پاس سطوت، غلبہ اور اقتدار ہے وہ ہر طریقے سے اس روشنی کو بجھانا چاہتے ہیں جسے ہود علیہ السلام لے کر آئے ہیں وہ ان دشمنوں کی کوئی پرواہ نہیں کرتے اور یہ ہیں کہ ہود علیہ السلام کو کوئی نقصان پہنچانے سے عاجز اور بے بس ہیں۔ اس میں ان لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں جو عقل رکھتے ہیں۔ کفار نے کہا : ﴿ وَمَا نَحْنُ بِتَارِكِي آلِهَتِنَا عَن قَوْلِكَ﴾ ” اور ہم تیرے کہنے سے اپنے معبودوں کو چھوڑنے والے نہیں۔“ یعنی ہم مجرد تیرے قول پر جس پر۔۔۔ ان کے زعم کے مطابق۔۔۔ کوئی دلیل نہیں، اپنے معبودوں کی عبادت نہیں چھوڑ سکتے ﴿وَمَا نَحْنُ لَكَ بِمُؤْمِنِينَ﴾ ” اور ہم تیرا یقین کرنے والے نہیں ہیں“ یہ ان کی طرف سے اپنے ایمان کے بارے میں اپنے نبی ہود علیہ السلام کے ساتھ مایوسی کا اظہار تھا۔ وہ اپنے کفر میں ہمیشہ سرگرداں رہے۔ ھود
54 ﴿إِن نَّقُولُ﴾ ہم تیرے بارے میں یہی کہتے ہیں : ﴿إِلَّا اعْتَرَاكَ بَعْضُ آلِهَتِنَا بِسُوءٍ﴾ ” تجھے آسیب پہنچایا ہے ہمارے بعض معبودوں نے“ یعنی ہمارے کسی معبود نے تیری عقل سلب کرکے تجھے جنون لاحق کردیا ہے اور تو نے ہذیان بولنا شروع کردیا ہے جو سمجھ میں نہیں آتا۔ پس پاک ہے وہ ذات جس نے ظالموں کے دلوں پر مہر ثبت کردی۔ انہوں نے کس طرح سب سے سچے انسان کو جو سب سے بڑا حق لے کر آیا، ایسے گھٹیا مقام پر کھڑا کیا کہ اللہ تعالیٰ نے اسے خود بیان نہ کیا ہوتا، تو ایک عقل مند شخص کو ان سے اس بات کو روایت کرتے ہوئے بھی شرم آتی۔ اسی لئے ہود علیہ السلام نے واضح فرمایا کہ انہیں پورا وثوق ہے کہ ان کی طرف سے یا ان کے معبودوں کی طرف سے انہیں تکلیف نہیں پہنچ سکتی، بنا بریں فرمایا : ﴿قَالَ إِنِّي أُشْهِدُ اللَّـهَ وَاشْهَدُوا أَنِّي بَرِيءٌ مِّمَّا تُشْرِكُونَ  مِن دُونِهِ فَكِيدُونِي جَمِيعًا ﴾ یعنی تم سب ہر ممکن طریقے سے مجھے نقصان پہنچانے کی بھرپور کوشش کرلو ﴿ثُمَّ لَا تُنظِرُونِ﴾ ” پھر مجھے کوئی مہلت بھی نہ دو۔ “ ھود
55 ھود
56 ﴿إِنِّي تَوَكَّلْتُ عَلَى اللَّـهِ ﴾ ” میں نے اللہ پر توکل کیا۔“ یعنی میں نے اپنے تمام معاملے میں اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کیا۔ ﴿ رَبِّي وَرَبِّكُم ﴾ ” جو میرا اور تمہارا رب ہے“ یعنی وہ تمام موجودات کا خالق ہے، وہی ہے جو ہماری اور تمہاری تدبیر کرتا ہے اور وہی ہے جس نے ہماری تربیت کی ﴿مَّا مِن دَابَّةٍ إِلَّا هُوَ آخِذٌ بِنَاصِيَتِهَا﴾ ” جو چلنے پھرنے والا ہے وہ اس کو چوٹی سے پکڑے ہوئے ہے۔“ یعنی کوئی جان دار اس کے حکم کے بغیر حرکت کرتا ہے نہ ساکن ہوتا ہے اگر تم سب مل کر مجھے کسی مصیبت میں مبتلا کرنے کی کوشش کرو اور اللہ تعالیٰ تمہیں مجھ پر مسلط نہ کرے، تو تم اپنی کوشش میں کامیاب نہیں ہوسکتے اور اگر وہ تمہیں مجھ پر مسلط کر دے تو اس میں اس کی کوئی حکمت پنہاں ہے۔ ﴿إِنَّ رَبِّي عَلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ﴾ ” بے شک میرا رب سیدھے راستے پر ہے“ یعنی میرا رب عدل و انصاف اور حکمت پر ہے وہ اپنی قضا و قدر، شرع و امر، جزا اور اپنے ثواب و عقاب میں قابل ستائش ہے اس کے افعال صراط مستقیم سے ہٹے ہوئے نہیں جس کی وجہ سے اس کی حمد و ثنا کی جاتی ہے۔ ھود
57 ﴿فَإِن تَوَلَّوْا﴾ ” پس اگر تم روگردانی کرو۔“ یعنی اگر تم اس چیز سے منہ موڑ لو جس کی طرف میں تمہیں بلاتا ہوں ﴿فَقَدْ أَبْلَغْتُكُم مَّا أُرْسِلْتُ بِهِ إِلَيْكُمْ﴾ ” تو تحقیق میں پہنچا چکا تمہیں وہ پیغام جسے دے کر مجھے تمہاری طرف بھیجا گیا تھا“ پس میرے ذمے تمہارے معاملے میں کوئی چیز باقی نہیں۔ ﴿وَيَسْتَخْلِفُ رَبِّي قَوْمًا غَيْرَكُمْ ﴾ ” اور جانشین بنائے گا میرا رب، تمہارے علاوہ کسی اور قوم کو“ جو اس کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔ ﴿وَلَا تَضُرُّونَهُ شَيْئًا﴾ ” اور تم اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکو گے“ کیونکہ تمہارا ضرر تمہاری ہی طرف لوٹے گا۔ اہل معاصی کی معصیت اسے کوئی نقصان پہنچا سکتی ہے نہ اہل اطاعت کی اطاعت اسے کوئی فائدہ پہنچا سکتی ہے۔ ﴿مَّنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهِ  وَمَنْ أَسَاءَ فَعَلَيْهَا ﴾ (حم السجدۃ:41؍46)” جو کوئی نیک کام کرتا ہے تو اپنے لئے اور جو کوئی برے کام کرتا ہے تو اس کا نقصان اسی کے لئے ہے۔“ ﴿إِنَّ رَبِّي عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ حَفِيظٌ ﴾ ” بے شک میرا رب ہر چیز پر نگہبان ہے۔ “ ھود
58 ﴿وَلَمَّا جَاءَ أَمْرُنَا﴾ ” اور جب ہمارا حکم آپہنچا۔“ یعنی جب نا مبارک ہوا کی صورت میں ہمارا عذاب آیا۔ ﴿مَا تَذَرُ مِن شَيْءٍ أَتَتْ عَلَيْهِ إِلَّا جَعَلَتْهُ كَالرَّمِيمِ﴾ (الذریات:51؍42)” جس چیز پر بھی وہ چلتی تھی اسے بوسیدہ ہڈی کی مانند ریزہ ریزہ کئے دیتی تھی۔“ ﴿ نَجَّيْنَا هُودًا وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ بِرَحْمَةٍ مِّنَّا وَنَجَّيْنَاهُم مِّنْ عَذَابٍ غَلِيظٍ﴾ ” تو ہم نے اپنی رحمت سے ہود اور اس پر ایمان لانے والوں کو نجات دی اور ہم نے ان کو سخت عذاب سے بچا لیا“ یعنی نہایت عظیم عذاب جسے اللہ تعالیٰ نے قوم عاد پر نازل فرمایا۔ اس عذاب نے ان کی یہ حالت کردی کہ ان کے مساکن کے سوا کچھ نظر نہ آتا تھا۔ ھود
59 ﴿وَتِلْكَ عَادٌ ﴾ ” یہ قوم عاد تھی“ جن پر ان کے ظلم کی پاداش میں یہ عذاب نازل فرمایا، کیونکہ ﴿جَحَدُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ﴾ ” انہوں نے اپنے رب کی نشانیوں کو جھٹلایا“ اور کہنے لگے : ﴿ مَا جِئْتَنَا بِبَيِّنَةٍ﴾” تم ہمارے پاس کوئی واضح دلیل لے کر نہیں آئے“ پس اس سے واضح ہوا کہ ہود علیہ السلام کی دعوت کی صداقت کے بارے میں انہیں یقین تھا، انہوں نے محض عناد کی وجہ سے اس کا انکار کیا تھا۔ ﴿وَعَصَوْا رُسُلَهُ ﴾ ”اور انہوں نے اس کے رسولوں کی نافرمانی کی۔“ یعنی انہوں نے اللہ کے رسولوں کی نافرمانی کی تھی اور جو کوئی کسی ایک رسول کی نافرمانی کرتا ہے وہ تمام رسولوں کی نافرمانی کرتا ہے، کیونکہ تمام انبیاء و رسل کی دعوت ایک ہے۔ ھود
60 ﴿وَاتَّبَعُوا أَمْرَ كُلِّ جَبَّارٍ  ﴾ ” اور انہوں نے حکم مانا ہر اس شخص کا جو سرکش تھا“ یعنی وہ شخص جو جبر و استبداد کے ذریعے سے اللہ کے بندوں پر مسلط ہوجاتا ہے۔ ﴿عَنِيدٍ  ﴾ ” سرکش“ جو اللہ تعالیٰ کی آیات کے ساتھ عناد رکھتا ہے۔ انہوں نے ہر خیر خواہ اور مشفق کی نافرمانی کی اور ہر دھوکے باز کی پیروی کی جو ان کو ہلاک کرنا چاہتا ہے۔ ﴿وَأُتْبِعُوا فِي هَـٰذِهِ الدُّنْيَا لَعْنَةً ﴾ ” اور پیچھے لگی رہی ان کے اس دنیا میں پھٹکار“ پس ہر وقت اور ہر زمانے میں ان کے کرتوتوں اور بری خبروں کا لوگ ذکر کرتے رہتے ہیں اور ایسی مذمت کے ساتھ ان کو یاد کرتے ہیں جو ان کا پیچھا نہیں چھوڑے گی۔ ﴿وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ ﴾ ” اور قیامت کے روز بھی“ وہ ملعون ٹھہریں گے۔ ﴿ أَلَا إِنَّ عَادًا كَفَرُوا رَبَّهُمْ ﴾ ” خبردار ! بے شک عاد نے اپنے رب کے ساتھ کفر کیا“ انہوں نے اس ہستی کا انکار کردیا جس نے ان کو پیدا کیا، ان کو رزق دیا اور ان کی تربیت کی ﴿أَلَا بُعْدًا لِّعَادٍ قَوْمِ هُودٍ ﴾ ” سنو ! ہود کی قوم عاد کے لئے دوری ہو“ یعنی اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کو ہر بھلائی سے دور اور برائی سے قریب کردیا۔ ھود
61 ﴿وَإِلَىٰ ثَمُودَ ﴾ ” اور ثمود کی طرف۔“ یعنی نے ہم ثمود کی طرف مبعوث کیا۔ ثمود، عاد ثانیہ کے نام سے معروف ہیں جو وادی القریٰ اور الحجر کے علاقے میں آباد تھے۔ ﴿أَخَاهُمْ  ﴾ ” ان کے بھائی۔“ یعنی نسب میں ان کے بھائی ﴿صَالِحًا ﴾ ” صالح علیہ السلام کو“ جو اللہ کا بندہ اور اس کا رسول تھا جو ان کو اکیلے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی دعوت دیتا تھا۔ ﴿قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّـهَ ﴾ ” انہوں نے کہا، اے میری قوم ! اللہ کی عبادت کرو۔“ یعنی اللہ تعالیٰ کو ایک مانو اور دین کو اس کے لئے خالص کرو۔ ﴿مَا لَكُم مِّنْ إِلَـٰهٍ غَيْرُهُ ﴾ ” اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں“ نہ آسمان والوں میں سے اور نہ اہل زمین میں سے۔ ﴿هُوَ أَنشَأَكُم مِّنَ الْأَرْضِ ﴾ ” اسی اللہ تعالیٰ ہی نے تمہیں زمین سے پیدا کیا“ ﴿وَاسْتَعْمَرَكُمْ فِيهَا ﴾ ” اور اس میں تمہیں بسایا“ یعنی تمہیں زمین میں خلیفہ بنایا، تمہیں ظاہری اور باطنی نعمتوں سے نوازا، تمہیں زمین میں تمکن و اقتدار عطا کیا، تم عمارتیں بناتے ہو، باغات لگاتے ہو اور کھیتیاں اگاتے ہو، جو چاہتے ہو کاشت کرتے ہو، اس سے منفعت حاصل کرتے ہو اور اسے اپنے مصالح اور مفاد میں استعمال کرتے ہو۔ جس طرح ان تمام امور میں اس کا کوئی شریک نہیں اسی طرح اس کی عبادت میں بھی کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ۔ ﴿ فَاسْتَغْفِرُوهُ ﴾ ” پس اسی سے مغفرت طلب کرو۔“ یعنی تم سے کفر، شرک اور دیگر جو گناہ صادر ہوئے ہیں ان کی بخشش طلب کرو اور ان گناہوں کو چھوڑ دو۔ ﴿ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ  ﴾ ” پھر اس کے حضور توبہ کرو۔“ یعنی خالص توبہ اور انابت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرو۔ ﴿إِنَّ رَبِّي قَرِيبٌ مُّجِيبٌ ﴾ ” بے شک میرا رب نزدیک اور (دعا کو)قبول کرنے والا ہے۔“ یعنی وہ اس شخص کے قریب ہے جو اس کو سوال کرنے کے لئے پکارتا ہے یا عبادت کے لئے پکارتا ہے وہ اس کو اس کا سوال عطا کرکے اور اس کی دعا قبول کرکے اور اس پر جلیل ترین ثواب عطا کرتے ہوئے اس کی پکارا کا جواب دیتا ہے۔ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے قرب کی دو قسمیں ہیں۔ قرب عام اور قرب خاص۔ قرب عام سے مراد ہے اللہ تعالیٰ کا اپنے علم کے ذریعے سے اپنی تمام مخلوق کے قریب ہونا، قرب کی یہ نوع اللہ تبارک وتعالیٰ کے ارشاد ﴿وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ  ﴾(ق:50؍16) ” اور ہم اس کی رگ جاں سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں۔“ میں مذکور ہے۔ قرب خاص سے مراد ہے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والوں، اللہ سے سوال کرنے والوں اور اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے والوں کے قریب ہونا۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿وَاسْجُدْ وَاقْتَرِب ﴾(العلق:96؍19) ” سجدہ کر اور اس کا قرب حاصل کر۔” میں قرب کی اسی نوع کا ذکر ہے۔ اس آیت کریمہ میں نیز اللہ تبارک وتعالیٰ کے ارشاد : ﴿ وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ ۖ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ ﴾ (البقرۃ:2؍186) ”جب آپ سے میرے بندے میرے بارے میں پوچھیں )تو ان سے کہہ دیں( کہ میں ان کے قریب ہوں اور پکارنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں۔“ میں اس قرب کا ذکر ہے جو اللہ تعالیٰ کے لطف و کرم، ان کی دعاؤں کو قبول کرنے اور ان کی مرادیں پوری کرنے کا تقاضا کرتا ہے۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے اپنے اسمائے حسنیٰ ( اَلقَرِيب ) اور ( اَلمُجِيب) کو مقرون )ساتھ ساتھ( بیان کیا ہے۔ ھود
62 جب ان کے نبی صالح علیہ السلام نے ان کو اللہ تعالیٰ کے لئے اخلاص کی ترغیب دی، تو انہوں نے آپ کی دعوت کو ٹھکرا دیا اور آپ سے انتہائی برے طریقے سے پیش آئے ﴿قَالُوا يَا صَالِحُ قَدْ كُنتَ فِينَا مَرْجُوًّا قَبْلَ هَـٰذَا ﴾ ” انہوں نے کہا صالح ! اس سے پہلے ہم تجھ سے امیدیں رکھتے تھے۔“ یعنی ہم نے تجھ سے امیدیں وابستہ کر رکھی تھیں اور تجھ سے عقل مندی اور نفع کی توقع کی تھی۔ یہ ان کی طرف سے ان کے نبی حضرت صالح علیہ السلام کے حق میں ایک گواہی ہے کہ وہ مکارم اخلاق اور محاسن عادات میں معروف تھے اور وہ اپنی قوم میں بہترین شخص گردانے جاتے تھے۔ مگر وہ یہ دعوت توحید لے کر آئے جو ان کی فاسد خواہشات کے موافق نہ تھی تب انہوں نے یہ بات کہی جس کے مضمون کا لب لباب یہ ہے۔ ” تو کامل شخصیت کا حامل تھا مگر تو ہمارے ظن و گمان کے بالکل خلاف نکلا اور اب تیری حالت ایسی ہے کہ تجھ سے کسی بھلائی کی امید نہیں کی جاسکتی۔ “ صالح علیہ السلام کا گناہ صرف وہی تھا جو وہ آپ کے بارے میں کہا کرتے تھے : ﴿أَتَنْهَانَا أَن نَّعْبُدَ مَا يَعْبُدُ آبَاؤُنَا  ﴾ ” کیا تو ہمیں اس بات سے روکتا ہے کہ ہم ان کی عبادت کریں جن کی عبادت ہمارے باپ دادا کرتے رہے“ اور وہ سمجھتے تھے کہ صالح علیہ السلام میں سب سے بڑی برائی یہ ہے کہ کیسے وہ ان کی عقل کی خامی بیان کرتے ہیں ؟ اور کیسے وہ ان کے گمراہ آباؤ اجداد کو بے عقل کہتے ہیں؟ اور کیسے وہ ان کو ہستیوں کی عبادت سے روکتے ہیں جو ان کو فائدہ دے سکتی ہیں نہ نقصان پہنچا سکتی ہیں اور پتھر اور لکڑی کے گھڑے ہوئے یہ معبود کسی کام نہیں آسکتے ؟ صالح علیہ السلام نے ان کو حکم دیا کہ وہ دین کو اپنے رب، اللہ تعالیٰ کے لئے خالص کریں جو انہیں اپنی نعمتوں سے پیہم نوازتا رہتا ہے۔ اس کے دائمی احسانات کا ابر رحمت ان پر برستا رہتا ہے۔ ہر نعمت جو انہیں حاصل ہوتی ہے وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور برائیوں کو ان سے وہی دور کرتا ہے۔ ﴿ وَإِنَّنَا لَفِي شَكٍّ مِّمَّا تَدْعُونَا إِلَيْهِ مُرِيبٍ  ﴾ ” تو ہمیں جس چیز کی طرف دعوت دیتا ہے اس بارے میں ہم ہمیشہ شک میں مبتلا رہتے ہیں۔“ یہ شک ہمارے دلوں میں شبہات کو جنم دیتا ہے۔ بزعم خود، اگر وہ صالح علیہ السلام کی دعوت کو صحیح سمجھتے تو وہ ضرور ان کی اتباع کرتے۔ وہ اس بارے میں جھوٹ بولتے تھے۔ ھود
63 بناء بریں صالح علیہ السلام نے جھوٹ کو بیان کرتے ہوئے فرمایا : ﴿قَالَ يَا قَوْمِ أَرَأَيْتُمْ إِن كُنتُ عَلَىٰ بَيِّنَةٍ مِّن رَّبِّي  ﴾ ” اے میری قوم ! بھلا بتاؤ تو اگر میں ہی اپنے رب کی طرف سے کھلی دلیل پر ہوں۔“ یعنی میں اپنے رب کی طرف سے برہان اور اپنے یقین پر ہوں۔ ﴿وَآتَانِي مِنْهُ رَحْمَةً ﴾ ” اور اس نے دی مجھے رحمت، اپنی طرف سے“ اس نے اپنی رسالت اور وحی سے مجھے نوازا۔ تب بھی کیا تم جس چیز کی طرف مجھے بلاتے ہو اور جس پر تم عمل پیرا ہو، میں اس میں تمہاری پیروی کروں؟ ﴿فَمَن يَنصُرُنِي مِنَ اللَّـهِ إِنْ عَصَيْتُهُ  فَمَا تَزِيدُونَنِي غَيْرَ تَخْسِيرٍ ﴾ ”پھر کون بچائے گا مجھ کو اس سے، اگر میں نے اس کی نافرمانی کی۔ پس تم میرے نقصان ہی میں اضافہ کرتے ہو“ یعنی تم خسارے، ہلاکت اور ضرر کے سوا میرے لئے کسی چیز کا اضافہ نہیں کروگے۔ ھود
64 ﴿وَيَا قَوْمِ هَـٰذِهِ نَاقَةُ اللَّـهِ لَكُمْ آيَةً ﴾ ” اور اے میری قوم ! یہ اللہ کی اونٹنی ہے تمہارے لئے نشانی“ کنویں سے ایک دن صرف اونٹنی پانی پیے گی، پھر تمام لوگ اس کے تھنوں سے دود پئیں گے اور ایک دن ان کے پانی پینے کے لئے مقرر ہوگا۔ ﴿فَذَرُوهَا تَأْكُلْ فِي أَرْضِ اللَّـهِ ﴾ ”پس تم اسے چھوڑدو، وہ کھائے پھرے اللہ کی زمین میں“ یعنی تم پر اونٹنی کے چارہ وغیرہ کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے ﴿وَلَا تَمَسُّوهَا بِسُوءٍ ﴾ ”اور تم اس کو کسی طرح کی تکلیف نہ دینا“ یعنی اس کو قتل کرنے کی نیت سے مت چھونا ﴿فَيَأْخُذَكُمْ عَذَابٌ قَرِيبٌ ﴾ ” ورنہ تمہیں بہت جلد عذاب آپکڑے گا۔‘‘ ھود
65 ﴿فَعَقَرُوهَا فَقَالَ ﴾ ” پس انہوں نے اس کے پاؤں کاٹ دئیے تو کہا“ یعنی جناب صالح علیہ السلام ﴿ تَمَتَّعُوا فِي دَارِكُمْ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ ۖ ذَٰلِكَ وَعْدٌ غَيْرُ مَكْذُوبٍ ﴾ ” تم اپنے گھروں میں تین دن فائدہ اٹھاؤ، یہ وعدہ ہے جو جھوٹا نہیں ہوگا“ بلکہ یہ ضرور واقع ہو کر رہے گا۔ ھود
66 ﴿فَلَمَّا جَاءَ أَمْرُنَا ﴾ ” پس جب ہمارا حکم آگیا۔“ یعنی وقوع عذاب کا ﴿نَجَّيْنَا  صَالِحًا وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ بِرَحْمَةٍ مِّنَّا وَمِنْ خِزْيِ يَوْمِئِذٍ  ﴾ ” تو ہم نے صالح اور اس پر ایمان لانے والوں کو نجات دی، اپنی رحمت سے اور اس دن کی رسوائی سے“ یعنی ہم نے ان کو عذاب، رسوائی اور فضیحت سے بچا لیا۔ ﴿إِنَّ رَبَّكَ هُوَ الْقَوِيُّ الْعَزِيزُ  ﴾ ” بیشک آپ کا رب زور آورغالب ہے“ یہ اس کی قوت ہے اور غلبے کی دلیل ہے کہ اس نے سرکش قوموں کو ہلاک کردیا اور انبیاء و مرسلین اور ان کے متبعین کو بچا لیا۔ ھود
67 ﴿وَأَخَذَ الَّذِينَ ظَلَمُوا الصَّيْحَةُ  ﴾ ” اور جن لوگوں نے ظلم کیا تھا ان کو چنگھاڑنے آپکڑا۔“ یعنی ایک چنگھاڑکی صورت میں عذاب نے ان ظالموں کو دھر لیا اور ان کے دل ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے ﴿فَأَصْبَحُوا فِي دِيَارِهِمْ جَاثِمِينَ ﴾ ” وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے۔“ یعنی اپنی بستیوں میں بے حس و حرکت پڑے رہ گئے۔ ھود
68 ﴿كَأَن لَّمْ يَغْنَوْا فِيهَا ﴾ گویا کہ۔۔۔ جب ان پر عذاب آیا۔۔۔ وہ اپنی بستیوں میں کبھی بسے ہی نہ تھے، وہ ان بستیوں میں کبھی آباد ہوئے تھے نہ انہوں نے ان بستیوں میں ایک دن بھی ان نعمتوں سے فائدہ اٹھایا تھا۔ نعمتیں ان سے دور ہوگئیں اور سرمدی عذاب نے ان کو آن لیا، وہ عذاب جو منقطع نہیں ہوگا اور وہ جو ہمیشہ رہے گا۔ ﴿أَلَا إِنَّ ثَمُودَ كَفَرُوا رَبَّهُمْ ﴾ ” سن لو، بے شک ثمود نے اپنے رب کا انکار کیا“ یعنی ان کے پاس نمایاں نشانی آجانے کے بعد بھی انہوں نے اللہ کا انکار کیا۔ ﴿أَلَا بُعْدًا لِّثَمُودَ ﴾ ” سنو ! دوری ہے ثمود کے لئے“ پس کتنے بد بخت اور کس قدر ذلیل تھے ثمود ! ہم دنیا کے عذاب اور اس کی رسوائی سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔ ھود
69 ﴿وَلَقَدْ جَاءَتْ رُسُلُنَا ﴾ ” تحقیق آئے ہمارے مکرم فرشتے“ ہمارے قاصد ﴿إِبْرَاهِيمَ ﴾ ” ابراہیم )علیہ السلام( کے پاس“ ﴿بِالْبُشْرَىٰ ﴾ ” بشارت کے ساتھ“۔ یعنی بیٹے کی بشارت کے ساتھ۔ جب اللہ تعالیٰ نے ان فرشتوں کو قوم لوط کو ہلاک کرنے کے لئے بھیجا اور ان کو حکم دیا کہ وہ ابراہیم علیہ السلام کے پاس سے ہو کر جائیں اور ان کو اسحق کی خوشخبری دیتے جائیں، تو جب فرشتے ابراہیم علیہ السلام کے پاس حاضر ہوئے ﴿قَالُوا سَلَامًا  قَالَ سَلَامٌ ﴾ ” تو انہوں نے سلام کیا‘ انہوں نے بھی (جواب میں) سلام کہا۔“ یعنی فرشتوں نے جناب ابراہیم علیہ السلام کو اور ابراہیم علیہ السلام نے سلام کا جواب دیا۔ اس آیت مقدسہ میں سلام کرنے کی مشروعیت ثابت ہوتی ہے۔ نیز یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ ملت ابراہیمی میں کلام کرنے سے پہلے سلام کا طریقہ ہمیشہ سے رہا ہے اور مناسب یہ ہے کہ سلام کا جواب سلام کرنے سے زیادہ بلیغ ہو، کیونکہ ان کا سلام جملہ فعلیہ کے ذریعے سے تجدد پر دلالت کرتا ہے اور جملہ اسمیہ کے ذریعے سے ان کے سلام کا جواب ثبات اور استمرار پر دلالت کرتا ہے، دونوں کے درمیان بہت بڑا فرق ہے جیسا کہ عربی زبان کے علم میں معروف ہے۔ ﴿فَمَا لَبِثَ ﴾ ” انہوں نے کچھ تاخیر نہ کی۔“ یعنی جب ابراہیم علیہ السلام کے پاس آئے تو انہوں نے تاخیر نہ کی ﴿أَن جَاءَ بِعِجْلٍ حَنِيذٍ ﴾ ” اور ایک بھنا ہوا بچھڑا لے آئے۔“ یعنی وہ جلدی سے اپنے گھر گئے اور اپنے مہمانوں کے لئے ایک موٹا تازہ اور گرم پتھر پر بھنا ہوا بچھڑا لے آئے اور ان کے سامنے پیش کیا اور بولے : ﴿أَلَا تَأْكُلُونَ ﴾(الذاریات:51؍27) ” تم کھاتے کیوں نہیں؟ ھود
70 ﴿فَلَمَّا رَأَىٰ أَيْدِيَهُمْ لَا تَصِلُ إِلَيْهِ ﴾ ” جب انہوں (ابراہیم علیہ السلام) نے دیکھا کہ ان کے ہاتھ اس (ضیافت)کی طرف نہیں بڑھتے“ ﴿نَكِرَهُمْ وَأَوْجَسَ مِنْهُمْ خِيفَةً  ﴾ ” تو انہیں کھٹکا لگا اور دل میں سے ان سے ڈرے“ ابراہیم علیہ السلام نے سمجھا کہ وہ کسی برے ارادے سے آئے ہیں۔ ابراہیم علیہ السلام کا یہ گمان اور اندازہ ان کی اصلیت معلوم ہونے سے پہلے تھا، ﴿قَالُوا لَا تَخَفْ إِنَّا أُرْسِلْنَا إِلَىٰ قَوْمِ لُوطٍ ﴾ ” انہوں نے کہا، ڈریں نہیں، ہم قوم لوط کی طرف بھیجے گئے ہیں“ یعنی اللہ کے قاصد اور فرشتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں لوط علیہ السلام کی قوم کو ہلاک کرنے کے لئے بھیجا ہے۔ ھود
71 ﴿وَامْرَأَتُهُ ﴾ ” اور اس کی بیوی“ یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بیوی ﴿قَائِمَةٌ  ﴾ ” کھڑی تھی۔“ یعنی کھڑی اپنے مہمانوں کی خدمت کر رہی تھی ﴿فَضَحِكَتْ ﴾ ” وہ ہنس پڑی“ جب اس کو مہمانوں کی اصلیت کے بارے میں معلوم ہوا اور یہ بھی معلوم ہوا کہ انہیں کس غرض سے بھیجا گیا ہے تو وہ تعجب سے ہنس پڑی ﴿فَبَشَّرْنَاهَا بِإِسْحَاقَ وَمِن وَرَاءِ إِسْحَاقَ يَعْقُوبَ  ﴾ ” پس ہم نے اسے خوشخبری دی اسحاق کے پیدا ہونے کی اور اسحاق کے پیچھے یعقوب کی“ اسے اس اس پر تعجب بھی ہوا۔ ھود
72 ﴿قَالَتْ يَا وَيْلَتَىٰ أَأَلِدُ وَأَنَا عَجُوزٌ وَهَـٰذَا بَعْلِي شَيْخًا  ﴾ ” وہ بولیں، کیا میں جنوں گی جب کہ میں بڑھیا ہوں اور یہ میرا خاوند (بھی) بوڑھا ہے“ پس یہ دو امور (بظاہر)مانع ہیں ﴿إِنَّ هَـٰذَا لَشَيْءٌ عَجِيبٌ  ﴾ ” یہ تو بڑی ہی عجیب بات ہے۔ “ ھود
73 ﴿قَالُوا أَتَعْجَبِينَ مِنْ أَمْرِ اللَّـهِ ۖ ﴾ ” انہوں نے کہا، کیا تو تعجب کرتی ہے اللہ کے حکم سے“ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے حکم میں کوئی تعجب نہیں، اس لئے کہ اس کی مشیت تامہ ہر شے میں نافذ ہے اس کی قدرت کو سامنے رکھتے ہوئے کسی چیز کو انہونی اور نادر نہ سمجھا جائے خاص طور پر اس مبارک گھر والوں کے اس معاملے میں جس کی تدبیر اللہ تعالیٰ کر رہا ہے۔ ﴿رَحْمَتُ اللَّـهِ وَبَرَكَاتُهُ ﴾ ” اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں“ یعنی اللہ تعالیٰ کی رحمت، اس کا احسان اور اس کی برکات ہیں، یعنی احسان اور بھلائی میں اضافہ اور خیر الہٰی کا نزول ہمیشہ رہے گا ﴿عَلَيْكُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ ﴾ ” تم پر اے گھر والو ! بیشک وہ تعریف کیا گیا، بزرگی والا ہے“ یعنی اللہ تعالیٰ صفات حمیدہ کا مالک ہے، اس کی تمام صفات، صفات کمال ہیں۔ اس کے تمام افعال قابل تعریف ہیں، کیونکہ اس کے تمام افعال احسان، جود، بھلائی، حکمت اور عدل و انصاف پر مبنی ہیں۔ ﴿ مَجِيد ﴾ اور ﴿ مَجَد﴾ سے مراد اس کی صفات کی عظمت اور وسعت ہے وہ صفات کمال کا مالک ہے، اس کی ہر صفت کامل، تام اور عام ہے۔ ھود
74 ﴿فَلَمَّا ذَهَبَ عَنْ إِبْرَاهِيمَ الرَّوْعُ ﴾ ” جب ابراہیم سے خوف دور ہوا“ جو مہمانوں کی آمد پر انہیں لاحق ہوا تھا۔ ﴿وَجَاءَتْهُ الْبُشْرَىٰ ﴾ ” اور (بیٹے کی) خوشخبری ملی“ تب وہ قوم لوط کی ہلاکت کے بارے میں فرشتوں سے جھگڑنےلگےاوران سے کہنےلگے:﴿ إِنَّ فِيهَا لُوطًا ۚ قَالُوا نَحْنُ أَعْلَمُ بِمَن فِيهَا ۖ لَنُنَجِّيَنَّهُ وَأَهْلَهُ إِلَّا امْرَأَتَهُ﴾(العنکبوت:29؍32)” کہ اس بستی میں تو لوط بھی ہیں فرشتوں نے کہا جو لوگ وہاں رہتے ہیں ہم انہیں زیادہ جانتے ہیں، ہم لوط کو اور ان کے گھر والوں کو بچا لیں گے سوائے اس کی بیوی کے۔ “ ھود
75 ﴿إِنَّ إِبْرَاهِيمَ لَحَلِيمٌ  ﴾ ” بے شک ابراہیم بڑے بردبار تھے۔“ یعنی ابراہیم علیہ السلام اخلاق والے اور کشادہ دل شخصیت تھے اور جاہلوں کی جہالت پر غیظ و غضب کا شکار نہیں ہوتے تھے۔ ﴿أَوَّاهٌ ﴾ ” نرم دل تھے“ اور ہر وقت اللہ تعالیٰ کے سامنے گڑ گڑاتے رہتے تھے۔ ﴿ مُّنِيبٌ ﴾ ” رجوع کرنے والے تھے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ کی معرفت، اس کی محبت، اس کی طرف توجہ کے ساتھ اور ہر ماسوا سے منہ موڑ کر اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتے تھے اسی لئے وہ ان لوگوں کی طرف سے جھگڑ رہے تھے جن کی ہلاکت کا اللہ تعالیٰ نے حتمی فیصلہ کردیا تھا۔ ھود
76 ابراہیم علیہ السلام سے کہا گیا : ﴿ يَا إِبْرَاهِيمُ أَعْرِضْ عَنْ هَـٰذَا  ﴾ ” اے ابراہیم اس اعراض کریے“ یعنی اس جھگڑے کو چھوڑ دئیے۔ ﴿إِنَّهُ قَدْ جَاءَ أَمْرُ رَبِّكَ ﴾ ” تمہارے رب کا حکم آچکا ہے۔“ یعنی ان کی ہلاکت کا حکم ہوچکا ہے۔ ﴿وَإِنَّهُمْ آتِيهِمْ عَذَابٌ غَيْرُ مَرْدُودٍ ﴾ ” اور ان پر ایسا عذاب آنے والا ہے، جو لوٹا یا نہیں جائے گا“ اس لئے تمہارے جھگڑنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ ھود
77 ﴿وَلَمَّا جَاءَتْ رُسُلُنَا ﴾ ” اور جب ہمارے فرشتے آئے۔“ یعنی جب وہ فرشتے آئے جو جناب ابراہیم علیہ السلام کے پاس سے روانہ ہوئے تھے۔ ﴿ لُوطًا سِيءَ بِهِمْ  ﴾ ” لوط لوط علیہ السلام کے پاس، تو ان کا آنا ان پر بہت شاق گزرا۔ ﴿وَضَاقَ بِهِمْ ذَرْعًا وَقَالَ هَـٰذَا يَوْمٌ عَصِيبٌ ﴾ ” اور تنگ ہوئے دل میں اور بولے آج کا دن بڑا سخت ہے“ یعنی بہت حرج والا دن ہے، کیونکہ لوط علیہ السلام کو لعم تھا کہ ان کی قوم ان کو نہیں چھوڑے گی چونکہ وہ انتہائی حسین و جمیل، نوجوان، بے ریش لڑکوں کی صورت میں آئے تھے، اس لئے ان کے بارے میں ان کے دل میں خیال گزرا تھا۔ ھود
78 ﴿وَجَاءَهُ قَوْمُهُ يُهْرَعُونَ إِلَيْهِ  ﴾ ” اور ان کی قوم کے لوگ ان کے پاس بے تحاشا دوڑتے ہوئے آئے۔“ یعنی ان کی قوم کے لوگ بھاگے بھاگے آئے وہ لوط علیہ السلام کے مہمانوں کے ساتھ بدکاری کرنا چاہتے تھے جیسے وہ پہلے سے کرتے آئے ہیں، جیسے اللہ کا فرمان ہے : ﴿وَمِن قَبْلُ كَانُوا يَعْمَلُونَ السَّيِّئَاتِ ﴾ ” اور یہ لوگ پہلے ہی سے فعل شنیع (بدکاری) کیا کرتے تھے۔“ یعنی ایسی بدکاری جو اس سے پہلے دنیا میں کسی نے نہ کی تھی۔ ﴿ قَالَ يَا قَوْمِ هَـٰؤُلَاءِ بَنَاتِي هُنَّ أَطْهَرُ لَكُمْ ﴾ ” انہوں نے کہا، اے میری قوم ! یہ جو میری لڑکیاں ہیں تمہارے لئے زیادہ پاکیزہ ہیں۔“ یعنی میری بیٹیاں تمہارے لئے میرے مہمانوں سے زیادہ پاک ہیں۔ جناب لوط علیہ السلام کا یہ قول اسی طرح ہے۔ جس طرح حضرت سلیمان علیہ السلام نے تحقیق حق کی خاطر ان دونوں عورتوں کے سامنے یہ تجویز پیش کی تھی کہ متنازع فیہ بچے کو دو ٹکڑوں میں برابر کاٹ کر دونوں میں تقسیم کردیا جائے، کیونکہ انہیں علم تھا کہ ان کی بیٹیاں ان کا مقصد نہ تھیں اور نہ ان میں ان کا کوئی حق تھا۔ اس سے جناب لوط علیہ السلام کا سب سے بڑا مقصد اس بڑی بد کاری کو روکنا تھا۔ ﴿فَاتَّقُوا اللَّـهَ وَلَا تُخْزُونِ فِي ضَيْفِي ﴾ ” پس اللہ سے ڈر و اور میرے مہمانوں کے بارے میں مجھے رسوا نہ کرو۔“ یعنی یا تو تم اللہ تعالیٰ کے تقویٰ کی رعایت کھو یا تم میرے مہمانوں کے بارے میں میرا لحاظ رکھو اور مجھے ان کے سامنے رسوا نہ کرو۔ ﴿ أَلَيْسَ مِنكُمْ رَجُلٌ رَّشِيدٌ ﴾ ” کیا تم میں کوئی ایک آدمی بھی سمجھ دار نہیں ہے“ جو تمہیں روکے اور تمہیں زجروتوبیخ کرے۔ یہ آیت دلالت کرتی ہے کہ وہ لوگ بھلائی اور مروت سے بالکل خالی تھے۔ ھود
79 ﴿ قَالُوا ﴾ انہوں نے لوط علیہ السلام سے کہا : ﴿لَقَدْ عَلِمْتَ مَا لَنَا فِي بَنَاتِكَ مِنْ حَقٍّ وَإِنَّكَ لَتَعْلَمُ مَا نُرِيدُ  ﴾ ” تو تو جانتا ہے ہمیں ٰ تیری بیٹیوں سے کوئی غرض نہیں، اور تو جانتا ہے جو ہم چاہتے ہیں“ یعنی ہم صرف مردوں کے ساتھ بدکاری کرنا چاہتے ہیں اور عورتوں میں ہمیں کوئی رغبت نہیں۔ ھود
80 پس لوط علیہ السلام کو شدید قلق ہوا۔ ﴿ قَالَ لَوْ أَنَّ لِي بِكُمْ قُوَّةً أَوْ آوِي إِلَىٰ رُكْنٍ شَدِيدٍ  ﴾ ” انہوں نے کہا، کاش میرے پاس تمہارے مقابلے میٰں قوت ہوتی یا میں کسی مستحکم پناہ میں جا بیٹھتا“ مثلاً کوئی قبیلہ ہوتا جو تمہاری دست درازیوں کو روکتا۔ یہ بات انہوں نے اسباب محسوسہ کی بنا پر کہی تھی ورنہ حقیقت یہ ہے کہ لوط علیہ السلام سب سے زیادہ، مضبوط سہارے، یعنی اللہ تعالیٰ کی پناہ میں تھے۔ جس کی قوت کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا۔ ھود
81 اس لئے جب ان کے معاملے کی انتہا ہوگئی اور کرب شدید ہوگیا تو ﴿ قَالُوا ﴾ فرشتوں نے لوط علیہ السلام سے کہا : ﴿ يَا لُوطُ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ ﴾ ” اے لوط ! ہم تیرے رب کے فرشتے ہیں۔“ یعنی فرشتوں نے لوط علیہ السلام کو اپنی اصلیت کے بارے میں آگاہ کیا، تاکہ انہیں اطمینان قلب حاصل ہو۔ ﴿لَن يَصِلُوا إِلَيْكَ ﴾ ” یہ آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ ” پھر حضرت جبریل علیہ السلام نے اپنا پر ہلایا اور ان کو اندھا کردیا اور وہ لوط علیہ السلام کو صبح آنے کی دھمکی دیتے ہوئے چلے گئے۔ فرشتوں نے حضرت لوط علیہ السلام سے کہا کہ وہ اپنے گھر والوں کو لے کر راتوں رات نکل جائیں ﴿بِقِطْعٍ مِّنَ اللَّيْلِ ﴾ ” رات کے کسی حصہ میں“ یعنی طلوع صبح سے بہت پہلے رات کے کسی حصے میں، تاکہ وہ صبح ہوتے بستی سے بہت دور نکل جائیں۔ ﴿وَلَا يَلْتَفِتْ مِنكُمْ أَحَدٌ ﴾ ” اور تم میں سے کوئی شخص پیچھے مڑ کر نہ دیکھے۔“ یعنی بستی سے نکلنے میں جلدی کریں تمہارا مقصد عذاب سے بچنا ہونا چاہیے، لہٰذا پیچھے مڑ کر مت دیکھنا۔ ﴿إِلَّا امْرَأَتَكَ ۖ إِنَّهُ مُصِيبُهَا  ﴾ ” بجز تیری بیوی کے، اسے عذاب اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔“ ﴿مَا أَصَابَهُمْ ﴾ ” وہی )عذاب( جو ان پر آئے گا۔“ کیونکہ یہ عورت بھی اپنی قوم کے گناہ میں برابر کی شریک تھی۔ جب حضرت لوط علیہ السلام کے پاس مہمان آتے تو یہ ان کی آمد کے بارے میں کفار کو اطلاع دیا کرتی تھی۔ ﴿إِنَّ مَوْعِدَهُمُ الصُّبْحُ ﴾ ” ان کے وعدے کا وقت صبح ہے۔“ یعنی ان پر عذاب نازل کرنے کے لئے صبح کا وقت مقرر کیا گیا ہے۔ گویا لوط علیہ السلام کی خواہش تھی کہ ان پر بہت جلد عذاب نازل ہوجائے، چنانچہ ان سے کہا گیا : ﴿أَلَيْسَ الصُّبْحُ بِقَرِيبٍ  ﴾ ” کیا صبح قریب نہیں؟ ھود
82 “ ﴿فَلَمَّا جَاءَ أَمْرُنَا ﴾ ” تو جب ہمارا حکم آیا“ یعنی جب ان پر نزول عذاب کا وقت آ پہنچا ﴿جَعَلْنَا ﴾ ” کردیا ہم نے“ ان کی بستیوں کو ﴿عَالِيَهَا سَافِلَهَا ﴾ ” اوپر نیچے“ یعنی ہم نے تلپٹ کردیا ﴿وَأَمْطَرْنَا عَلَيْهَا حِجَارَةً مِّن سِجِّيلٍ ﴾ ” اور برسائے ان پر پتھر کھنگر کے“ یعنی سخت حرارت والی آگ میں پکے ہوئے پتھر ان پر برسائے گئے۔ ﴿مَّنضُودٍ ﴾ ” تہ بہ تہ“ یعنی ان پر تابڑ توڑ پتھر برسائے گئے جو بستی سے بھاگنے والوں کا پیچھا کرتے تھے۔ ھود
83 ﴿مُّسَوَّمَةً عِندَ رَبِّكَ ﴾ ” نشان کئے ہوئے تیرے رب کے پاس“ یعنی ان پر عذاب اور غضب کی علامت لگی ہوئی تھی ﴿وَمَا هِيَ مِنَ الظَّالِمِينَ بِبَعِيدٍ ﴾ ” اور وہ (بستی ان) ظالموں سے کچھ دور نہیں۔“ یعنی جو لوگ قوم لوط کے فعل کی مشابہت کرتے ہیں یہ بستی ان سے کچھ دور نہیں۔ پس بندوں کو ان جیسے کام کرنے سے بچنا چاہیے، تاکہ ان پر بھی وہ عذاب نازل نہ ہوجائے جو ان پر نازل ہوا تھا۔ ھود
84 ﴿وَإِلَىٰ مَدْيَنَ ﴾ ” اور مدین کی طرف بھیجا“ مدین ایک معروف قبیلہ تھا جو فلسطین کے زیریں علاقے مدین میں آباد تھا۔ ﴿أَخَاهُمْ  ﴾ یعنی نسب میں ان کے بھائی ﴿ شُعَيْبًا ﴾ شعیب علیہ السلام کو۔“ گویا وہ جناب شعیب علیہ السلام کو اچھی طرح جانتے تھے اور ان سے ان کے لئے کچھ حاصل کرنا ممکن تھا۔ ﴿ قَالَ ﴾ شعیب علیہ السلام نے ان سے کہا : ﴿يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّـهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَـٰهٍ غَيْرُهُ ﴾ ” اے میری قوم ! اللہ ہی کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔“ یعنی اس کے لئے عبودیت کو خالص کرو۔۔۔ کیونکہ وہ لوگ شرک میں مبتلا تھے۔ شرک کرنے کے ساتھ ساتھ ناپ تول میں بھی کمی کرتے تھے، اس لئے شعیب علیہ السلام نے ان کو ناپ تول میں کمی کرنے سے منع کیا۔ ﴿وَلَا تَنقُصُوا الْمِكْيَالَ وَالْمِيزَانَ ﴾ ” اور نہ کم کرو ماپ اور تول کو“ بلکہ ناپ تول کو انصاف کے ساتھ پورا کرو۔ ﴿إِنِّي أَرَاكُم بِخَيْرٍ ﴾ ” میں تمہیں آسودہ حال دیکھتا ہوں۔“ یعنی میں دیکھتا ہوں کہ تم بے شمار نعمتوں، صحت اور کثرت مال و اولاد سے بہرہ مند ہو۔ پس اللہ تعالیٰ نے تمہیں جو کچھ عطا کر رکھا ہے، اس پر اس کا شکر کرو اور کفر ان نعمت نہ کرو۔ ایسا نہ ہو کہ وہ تم سے یہ نعمتیں واپس لے لے ﴿وَإِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ مُّحِيطٍ ﴾ ” اور میں ڈرتا ہوں تم پر گھیرنے والے دن کے عذاب سے“ یعنی ایسا عذاب جو تمہیں گھیر لے گا اور تم میں سے کوئی باقی نہیں رہے گا۔ ھود
85 ﴿وَيَا قَوْمِ أَوْفُوا الْمِكْيَالَ وَالْمِيزَانَ بِالْقِسْطِ ﴾ ” اے میری قوم ! پورا کرو ماپ اور تول کو انصاف کے ساتھ“ یعنی عدل و انصاف کے ساتھ، جو تم چاہتے ہو کہ تمہیں بھی اسی طرح دیا جائے۔ ﴿وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْيَاءَهُمْ ﴾ ” اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم نہ دیا کرو۔“ یعنی لوگوں کی چیزوں میں کمی نہ کرو اور ناپ اور تول میں کمی کرکے لوگوں کی چیزیں چوری نہ کرو۔ ﴿وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ  ﴾ ” اور زمین میں فساد مت مچاؤ“ کیونکہ گناہوں پر اصرار، دیان و عقائد اور دین و دنیا کو خراب اور کھیتیوں اور نسلوں کو تباہ کردیتا ہے۔ ھود
86 ﴿ بَقِيَّتُ اللَّـهِ خَيْرٌ لَّكُمْ ﴾ ” جو بچ رہے اللہ کا دیا، وہ تمہارے لئے بہتر ہے“ یعنی اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے جو بھلائی باقی رکھی ہے وہ تمہارے لئے کافی ہے، پس ایسے معاملے کی طمع نہ کرو جس سے تم مستعفی ہو اور وہ تمہارے لئے بہت نقصان دہ ہے۔ ﴿ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ﴾ ” اگر تم مومن ہو“ پس اپنے ایمان کے تقاضوں کے مطابق عمل کرو۔ ﴿وَمَا أَنَا عَلَيْكُم بِحَفِيظٍ  ﴾ ” اور میں تم پر نگران نہیں ہوں۔“ یعنی میں تمہارے اعمال کا محافظ اور ان پر نگران نہیں ہوں۔ تمہارے اعمال کا نگران تو اللہ تعالیٰ ہے میں تو تمہیں وہ پیغام پہنچا دیتا ہوں جو میری طرف بھیجا جاتا ہے۔ ھود
87 ﴿ قَالُوا يَا شُعَيْبُ أَصَلَاتُكَ تَأْمُرُكَ أَن نَّتْرُكَ مَا يَعْبُدُ آبَاؤُنَا ﴾ ” انہوں نے کہا، اے شعیب ! کیا تیری نماز تجھے حکم دیتی ہے کہ ہم ان معبودوں کو چھوڑ دیں جن کی ہمارے باپ دادا عبادت کرتے تھے“ یہ بات انہوں نے اپنے نبی سے تمسخر کرتے ہوئے اور ان کی دعوت کے قبول کرنے کو بعید سمجھتے ہوئے کہی تھی۔ ان کے کلام کے معنی یہ ہیں کہ تو ہمیں ان باتوں سے صرف اس لئے منع کرتا ہے کہ نماز پڑھتا ہے اور اللہ کی عبادت کرتا ہے اگر یہ معاملہ ہے، تو کیا ہم ان معبودوں کی عبادت، جنہیں ہمارے باپ دادا پوجتے تھے، محض تیرے قول پر چھوڑ دیں، جس پر کوئی دلیل نہیں؟ سوائے اس کے کہ وہ تیری خواہش کے موافق ہے۔ پس ہم اپنے عقل مند آباؤ اجداد کو چھوڑ کر تیری اتباع کیسے کرسکتے ہیں؟ اسی طرح تمہارا ہمیں یہ کہنا ﴿أَن نَّفْعَلَ فِي أَمْوَالِنَا مَا نَشَاءُ ﴾ ” یا چھوڑ دیں ہم کرنا اپنے مالوں میں جو چاہیں“ یعنی تو جو کہتا ہے کہ ہم اپنے مالوں میں اپنی مرضی کے موافق تصرف نہ کری، بلکہ اللہ کے حکم کے مطابق ماپ اور تول کو پورا کریں اور مال میں جو حقوق واجبہ ہیں، انہیں ادا کریں۔ ہم ایسا نہیں کریں گے، بلکہ ہم اپنے اموال کے بارے میں جو چاہیں گے کرتے رہیں گے، کیونکہ یہ ہمارے اموال ہیں ان میں تصرف کا تمہیں کوئی حق نہیں۔ بنا بریں انہوں نے از راہ تمسخر کہا ! ﴿إِنَّكَ لَأَنتَ الْحَلِيمُ الرَّشِيدُ  ﴾ ” تو تو بڑا بردباد اور راست باز ہے۔“ یعنی تو تو وہ شخص ہے کہ حکم و وقار تیرا اخلاق ہے، رشد وہدایت تیری عادت ہے، رشد و ہدایت کے سوا تجھ سے کچھ صادر نہیں ہوتا، تو رشد و ہدایت کے سوا کسی چیز کا حکم نہیں دیتا اور تو گمراہی کے سوا کسی چیز سے نہیں روکتا۔۔۔ یعنی معاملہ ایسا نہیں ہے۔ ان کے کہنے کا مقصد در حقیقت یہ تھا کہ شعیب علیہ السلام اس سے برعکس حماقت اور گمراہی کے اوصاف سے متصف ہیں۔۔۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ تم تو حلیم و رشید ہو اور ہمارے آباؤ اجداد احمق اور گمراہ ؟ اور یہ قول جس کی انہوں نے تمسخر اور استہزاء کے طریقے سے تخریج کرکے معاملے کو شعیب علیہ السلام کو قول کے برعکس ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔۔۔ ایسے نہیں جیسے وہ سمجھتے ہیں۔ بلکہ معاملہ وہی ہے جو وہ کہتے ہیں۔ بے شک شعیب علیہ السلام کی نماز انہیں حکم دیتی ہے کہ وہ انہیں ان باطل معبودوں کی عبادت سے روکیں جن کی عبادت ان کے گمراہ آباؤ اجداد، کیا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ ہم اپنے اموال میں ویسے ہی تصرف کریں گے جیسے ہم چاہیں گے۔۔۔ کیونکہ نماز خود فواحش اور برے کاموں سے روکتی ہے اور غیر اللہ کی عبادت سے بڑھ کر کونسا کام برا اور فحش ہوتا ہے اور اس شخص سے بڑھ کر کون فحش کاموں کا ارتکاب کرتا ہے جو اللہ کے بندوں کو ان کے حقوق سے محروم کرتا ہے یا ناپ تول میں کمی کرکے ان کے مال کو چرا لیتا ہے اور شعیب علیہ السلام کا وصف تو حلم و رشد ہے۔ ھود
88 ﴿قَالَ ﴾ جناب شعیب علیہ السلام نے ان سے کہا : ﴿يَا قَوْمِ أَرَأَيْتُمْ إِن كُنتُ عَلَىٰ بَيِّنَةٍ مِّن رَّبِّي ﴾ ” اے میری قوم ! بھلا بتاؤ، اگر ہوں میں اوپر واضح دلیل کے اپنے رب کی طرف سے“ یعنی خواہ مجھے اس وحی کی صحت پر یقین اور اطمینان ہو ﴿وَرَزَقَنِي مِنْهُ رِزْقًا حَسَنًا ﴾ ” اور اس نے روزی دی مجھ کو اچھی روزی“ یعنی اللہ تبارک وتعالیٰ نے مجھے رزق کی مختلف اصناف عطا کر رکھی ہیں ﴿وَمَا أُرِيدُ أَنْ أُخَالِفَكُمْ إِلَىٰ مَا أَنْهَاكُمْ عَنْهُ ﴾ ” اور میں یہ نہیں چاہتا کہ بعد میں خود وہ کام کروں جس سے میں تمہیں روکتا ہوں“ پس میں نہیں چاہتا کہ میں تمہیں ناپ تول میں کمی سے منع کروں اور خود اس برائی کا ارتکاب کرتا رہوں اس کو سب سے پہلے خود ترک کرتا ہوں۔ ﴿إِنْ أُرِيدُ إِلَّا الْإِصْلَاحَ مَا اسْتَطَعْتُ ﴾ ” میں تو اصلاح کرنی چاہتا ہوں جہاں تک ہوسکے“ یعنی اس کے سوا میرا کوئی مقصد نہیں کہ تمہارے احوال کی اصلاح ہو اور تمہارے منافع درست ہوں اور اپنی ذات کے لئے کچھ حاصل کرنا میرا مقصد نہیں۔ حسب استطاعت میں کام کرتا ہوں اور چونکہ اس میں ایک قسم کے تزکیہ نفس کا دعویٰ ہے اس لئے قول کے ذریعے سے اس کو دور کیا ﴿وَمَا تَوْفِيقِي إِلَّا بِاللَّـهِ ﴾ ” اور سب صرف اللہ کی توفیق سے ہے“ یعنی بھلائی کے کام کرنے اور شر سے بچنے کی توفیق مجھے اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے عطا ہوئی ہے۔ اس میں میری قوت و اختیار کا کوئی دخل نہیں۔ ﴿ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ  ﴾ ” میں اسی پر توکل کرتا ہوں۔“ یعنی میں اپنے تمام معاملات میں اسی پر بھروسہ کرتا ہوں اور اسی کے کافی ہونے پر مجھے اعتماد ہے۔ ﴿وَإِلَيْهِ أُنِيبُ ﴾ ” اور میں اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں۔“ اس نے مختلف اقسام کی عبادات کا جو مجھے حکم دیا ہے اس کی تعمیل کے لئے میں اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں۔ اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ تمام نیکیاں اللہ تعالیٰ کے تقرب کا ذریعہ ہیں اور ان دو امور کے ذریعے سے بندہ مومن کے احوال درست ہوتے ہیں : ١۔ اپنے رب سے مدد طلب کرنا ٢۔ اور اس کی طرف رجوع کرنا۔۔۔ جیسا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا : ﴿فَاعْبُدْهُ وَتَوَكَّلْ عَلَيْهِ  ﴾(ہود:11؍123) ” اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اسی پر بھروسا کر۔“ اور فرمایا : ﴿إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ﴾(الفاتحة:1؍4) ” ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔ ھود
89 “ ﴿وَيَا قَوْمِ لَا يَجْرِمَنَّكُمْ شِقَاقِي ﴾ ” اے میری قوم ! میری مخالفت تم سے کوئی ایسا کام نہ کرا دے۔“ یعنی میری دشمنی اور مخالفت تمہیں ایسے کام پر آمادہ نہ کرے۔ ﴿أَن يُصِيبَكُم ﴾ کہ تم پر عذاب نازل ہوجائے۔ ﴿مَا أَصَابَ قَوْمَ نُوحٍ أَوْ قَوْمَ هُودٍ أَوْ قَوْمَ صَالِحٍ  وَمَا قَوْمُ لُوطٍ مِّنكُم بِبَعِيدٍ ﴾ ” جو نازل ہوا قوم نوح، قوم ہود یا قوم صالح پر اور قوم لوط تو تم سے زیادہ دور نہیں ہے“ یعنی زمان و مکان، دونوں اعتبار سے تم سے دور نہیں۔ ھود
90 ﴿وَاسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ ﴾ ” اور اپنے رب سے بخشش مانگو۔“ یعنی تم سے جن گناہوں کا ارتکاب ہوا ہے ان پر بخشش طلب کرو۔ ﴿ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ ﴾ ” پھر اس کے حضور توبہ کرو۔“ تمام عمر میں آئندہ گناہوں پر خالص توبہ کرو اور اس کی اطاعت اور ترک مخالفت کے ذریعے سے اس کی طرف رجوع کرو ﴿إِنَّ رَبِّي رَحِيمٌ وَدُودٌ ﴾ ” بے شک میرا رب رحم والا، محبت والا ہے۔“ یعنی جو کوئی توبہ کرکے اس کی طرف رجوع کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس پر رحم کرتا ہے اور اسے بخش دیتا ہے، اس کی توبہ قبول کرتا ہے اور اس سے محبت کرتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کے اسماء حسنی میں (اَلوَدُود ) کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں سے محبت کرتا ہے اور وہ اس سے محبت کرتے ہیں۔ (ودود) (فعول) کے وزن پر ” فاعل“ اور ” مفعول“ دونوں معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ ھود
91 ﴿قَالُوا يَا شُعَيْبُ مَا نَفْقَهُ كَثِيرًا مِّمَّا تَقُولُ ﴾ ” انہوں نے کہا، اے شعیب ! تیری بہت سی باتیں ہماری سمجھ میں نہیں آتیں۔“ یعنی وہ شعیب علیہ السلام کے وعظ و نصیحت سے بہت زچ ہوئے اور ان سے کہنے لگے ہم نہیں سمجھتے بہت سی وہ باتیں جو تو کہتا ہے“ یہ بات محض اس لئے کہتے تھے، کیونکہ انہیں شعییب علیہ السلام کی دعوت سے بغض اور ان سے نفرت تھی۔ ﴿ وَإِنَّا لَنَرَاكَ فِينَا ضَعِيفًا ﴾ ” اور ہم تجھے اپنے میں کمزور دیکھتے ہیں“ یعنی تو اپنی حیثیت میں بہت کمزور آدمی ہے، تیرا شمار اشراف اور رؤسا میں نہیں ہوتا بلکہ تیرا شمار مستضعفین میں ہوتا ہے۔ ﴿وَلَوْلَا رَهْطُكَ ﴾ یعنی اگر تیری جماعت اور تیرا قبیلہ نہ ہوتا ﴿لَرَجَمْنَاكَ  وَمَا أَنتَ عَلَيْنَا بِعَزِيزٍ ﴾ ” تو ہم تجھے سنگسار کردیتے اور ہماری نگاہ میں تیری کوئی عزت نہیں“ یعنی ہمارے دل میں تیری کوئی قدر اور کوئی احترام نہیں۔ ہم تجھے چھوڑ کر در اصل تیرے قبیلے کا احترام کر رہے ہیں۔ ھود
92 ﴿قَالَ ﴾ حضرت شعیب علیہ السلام نے ان کو نرم کرنے کے لئے کہا : ﴿يَا قَوْمِ أَرَهْطِي أَعَزُّ عَلَيْكُم مِّنَ اللَّـهِ ﴾ ” اے میری قوم ! کیا میرا قبیلہ تمہارے ہاں اللہ سے زیادہ عزیز ہے ؟“ یعنی تم میرے قبیلے کی خاطر کیسے میری رعایت کر رہے ہو مگر اللہ تعالیٰ کی خاطر میری کوئی رعایت نہیں کر رہے۔ گویا میرا قبیلہ تمہارے نزدیک اللہ تعالیٰ سے زیادہ عزیز ہے۔ ﴿ وَاتَّخَذْتُمُوهُ وَرَاءَكُمْ ظِهْرِيًّا ۖ ﴾ ” اور اس کو ڈال دیا ہے تم نے اپنی پیٹھ پیچھے بھلا کر“ یعنی تم نے اللہ تعالیٰ کے حکم کو پیٹھ پیچھے پھینک دیا تم نے کوئی پروا نہ کی اللہ تعالیٰ کا خوف محسوس کیا۔ ﴿ إِنَّ رَبِّي بِمَا تَعْمَلُونَ مُحِيطٌ ﴾ ” بے شک میرا رب تمہارے عملوں کو گھیرنے والا ہے“ یعنی تمہارے اعمال زمین میں نہ آسمان میں ذرہ بھر بھی چھپے ہوئے نہیں، پس وہ تمہارے اعمال کی پوری پوری جزا دے گا۔ ھود
93 ﴿وَ ﴾ ” اور“ جب کفار نے ان کو بہت تنگ کرکے ان کو بے بس کردیا تو شعیب علیہ السلام نے ان سے کہا : ﴿يَا قَوْمِ اعْمَلُوا عَلَىٰ مَكَانَتِكُمْ  ﴾ ” اے میری قوم ! تم اپنی جگہ کام کئے جاؤ“ یعنی تم اپنے احوال اور اپنے دین کے مطابق عمل کرتے رہو۔ ﴿إِنِّي عَامِلٌ ۖ ۖ سَوْفَ تَعْلَمُونَ مَن يَأْتِيهِ عَذَابٌ يُخْزِيهِ ﴾ ” میں بھی کام کرتا ہوں، عنقریب تم جان لوگے کہ کس کے پاس رسوا کرنے والا عذاب آتا ہے“ یعنی تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ کن پر رسوا کن اور ہمیشہ رہنے والا عذاب نازل ہوگا۔ ﴿ وَمَنْ هُوَ كَاذِبٌ ﴾ ” اور جھوٹا کون ہے۔“ یعنی یہ بھی تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ میں جھوٹا ہوں یا تم جھوٹے ہو اور جب ان پر عذاب واقع ہوا تو انہیں معلوم ہوگیا کہ کون جھوٹا تھا؟ ﴿إِنِّي مَعَكُمْ رَقِيبٌ ﴾ ” اور تم بھی انتظار کرو میں بھی تمہارے ساتھ انتظا ر کرتا ہوں۔“ یعنی تم اس بات کا انتظار کرو کہ میرے ساتھ کیا ہوتا ہے اور میں انتظار کرتا ہوں کہ تم پر کیا عذاب نازل ہوتا ہے۔ ھود
94 ﴿وَلَمَّا جَاءَ أَمْرُنَا ﴾ ” اور جب ہمارا حکم آ پہنچا۔“ یعنی جب شعیب کی قوم کی ہلاکت کا وقت آ پہنچا ﴿نَجَّيْنَا شُعَيْبًا وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ بِرَحْمَةٍ مِّنَّا وَأَخَذَتِ الَّذِينَ ظَلَمُوا الصَّيْحَةُ فَأَصْبَحُوا فِي دِيَارِهِمْ جَاثِمِينَ ﴾ ” تو ہم نے نجات دی شعیب کو اور ان کو جو ایمان لائے اس پر، اپنی رحمت سے آ پکڑا اور ظالموں کو کڑک نے، پس صبح کو رہ گئے وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے ہوئے ان کی کوئی آواز سنائی دیتی تھی نہ ان میں کوئی حرکت دکھائی دیتی تھی ﴿ كَأَن لَّمْ يَغْنَوْا فِيهَا ﴾ یعنی گویا وہ اپنی بستیوں میں کبھی آباد ہی نہ تھے اور جب ان پر عذاب نازل ہوا تو ایسے لگتا تھا کہ گویا انہوں نے کبھی نعمتوں سے فائدہ ہی نہیں اٹھایا تھا ھود
95 ﴿أَلَا بُعْدًا لِّمَدْيَنَ  ﴾ ” سنو، پھٹکار ہے مدین کے لئے“ کیونکہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے مدین کو ہلاک اور رسوا کیا ﴿كَمَا بَعِدَتْ ثَمُودُ ﴾ ” جیسے پھٹکار ہوئی ثمود پر“ یعنی پھٹکار، اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دوری اور ہلاکت میں دونوں قبیلے مشترک تھے۔ حضرت شعیب علیہ السلام کو، قوم کے ساتھ ان کے حسن گفتگو کی بنا پر ” خطیب الانبیاء“ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ اس قصہ سے بہت سے فوائد اور بہت سی عبرتیں مستنبط ہوتی ہیں۔ (١) کفار کو جس طرح اصول اسلام کے ذریعے سے مخاطب کیا جاتا ہے اور جس بنا پر ان کو عذاب دیا جاتا ہے، اسی طرح شرائع اسلام اور اس کی فروع میں بھی وہ مخاطب ہیں، کیونکہ جناب شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم کو توحید اور ناپ تول کے پورے کرنے کی دعوت دی تھی اور مجموعی طور پر توحید اور ناپ تول کو پورا کرنے کے حکم کی عدم تعمیل پر وعید کو مترتب کیا۔ (٢) ناپ تول میں کمی کبیرہ گناہ ہے اور اس کے مرتکب کے بارے میں ڈر ہے کہ کہیں وہ عذاب کی لپیٹ میں نہ آجائے۔ ناپ تول میں کمی کرنا لوگوں کا مال چوری کرنے کے مترادف ہے۔ جب ناپ تول کے ذریعے سے چوری کرنا عذاب کی وعید کا موجب ہے، تو جبر اور تغلب کے ذریعے سے لوگوں کے مال چوری کرنا بدرجہ اولیٰ وعید کا موجب ہے۔ (٣) عمل کی جزا اس کی جنس ہی سے ہوتی ہے جو کوئی لوگوں کے مال کو کم کرکے خود اپنے مال میں اضافہ کرنا چاہتا ہے، تو اس کو اس کے مال میں کمی کے ذریعے سے عذاب دیا جائے گا۔ ناپ تول میں کمی اس کے رزق کے زوال کا سبب بنتی ہے جیسے ارشاد ہے : ﴿ إِنِّي أَرَاكُم بِخَيْرٍ ﴾ ” میں تمہیں آسودہ ھال دیکھ رہا ہوں“ اس لئے اپنے کرتوتوں کے ذریعے سے اس رزق کے زوال کا کا باعث نہ بنو۔ (٤) بندے پر واجب ہے کہ وہ اس رزق پر قناعت کرے جو اللہ تعالیٰ نے اس کو عطا کیا ہے، چنانچہ وہ حرام کو چھوڑ کر حلال پر اور حرام ذرائع اکتساب کو چھوڑ کر حلال ذرائع پر قناعت کرے اور یہ اس کے لئے بہتر ہے ﴿بَقِيَّتُ اللَّـهِ خَيْرٌ لَّكُمْ  ﴾ ” اللہ کا عطا کیا ہوا نفع تمہارے لئے بہتر ہے۔“ حلال ذرائع اکتساب میں جو برکت اور اضافہ رزق ہے، وہ دنیا کی حرص کی خاطر حرام اسباب کسب اختیار کرنے میں نہیں۔ اس میں سراسر مال کا زوال اور برکت کی ضد ہے۔ (٥) یہ لوازم ایمان اور اس کے آثار میں سے ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کے ساتھ عمل کو وجود ایمان پر مترتب کیا ہے۔ پس یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اگر عمل کا وجود نہ ہو تو ایمان ناقص یا قطعی طور پر معدوم ہے۔ (٦) اس آیت کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ تمام انبیائے سابقین کی شریعت میں نماز مشروع تھی، نیز یہ کہ نماز تمام اعمال سے افضل ہے۔ حتیٰ کہ کفار کے نزدیک بھی نماز کی افضیلت اور نماز کا تمام اعمال پر مقدم ہونا متحقق ہے۔ نیز ان کے ہاں یہ بات بھی متحقق ہے کہ نماز فواحش اور منکرات سے روکتی ہے اور نماز ایمان اور ان شرائع کی میزان ہے، نماز کو مسنون طریقے سے ادا کرنے سے بندہ مومن کے احوال کی تکمیل ہوتی ہے اور نماز کی عدم ادائیگی سے اس کے دینی احوال میں خلل واقع ہوتا ہے۔ (٧) وہ مال جو اللہ تعالیٰ نے انسان کو عطا کر رکھا ہے۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ نے اس کو اس مال کا مالک بنا رکھا ہے تاہم انسان یہ حق نہیں رکھتا کہ وہ اپنی مرضی سے اس میں تصرف کرے، کیونکہ یہ مال اس کے پاس اللہ تعالیٰ کی امانت ہے، لہٰذا اس پر فرض ہے کہ وہ اس میں سے لوگوں کے حقوق ادا کرکے اللہ تعالیٰ کے حق کو قائم کرے اور ان ذرائع اکتساب کو اختیار کرنے سے باز رہے جن کو اللہ اور اس کے رسول نے حرام ٹھہرایا ہے۔ اس کے برعکس کفار اور ان سے مشابہت رکھنے والے دیگر لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے مال کے خود مالک ہیں اور وہ جیسے چاہیں اس میں تصرف کریں خواہ یہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے موافق ہو یا مخالف۔ (٨) ان آیات کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ داعی کی دعوت کی تکمیل یہ ہے کہ وہ خود اس کام پر عمل کرنے میں سبقت کرے جس کی طرف وہ لوگوں کو دعوت دیتا ہے اور جس کام سے وہ لوگوں کو روکتا ہے سب سے پہلے وہ خود اس کام سے رک جائے، جیسا کہ جناب شعیب علیہ السلام نے فرمایا : ﴿وَمَا أُرِيدُ أَنْ أُخَالِفَكُمْ إِلَىٰ مَا أَنْهَاكُمْ عَنْهُ ﴾ ” میں نہیں چاہتا کہ میں تمہیں جن باتوں سے روکتا ہوں ان کا خود ارتکاب کروں“ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ  ﴾ ” اے مومنو ! تم ایسی باتیں کیوں کہتے ہو جن پر خود عمل نہیں کرتے۔ “ (٩)تمام انبیاء و مرسلین کا وظیفہ اور ان کی سنت و ملت یہ ہے کہ حسب امکان اور مقدور بھر مصالح کے حصول اور ان کی تکمیل کے ذریعے سے لوگوں کی اصلاح کرتے ہیں اور استطاعت کے مطابق مفاسد کو دور یا کم کرتے ہیں اور مصالح خاصہ کی رعایت رکھتے ہیں۔۔۔ اور حقیقی مصلحت وہ ہے جس سے بندوں کے احوال کی اصلاح ہوتی ہے اور جس سے ان کے دینی اور دنیاوی امور درست ہوتے ہیں۔ (٠١) جو کوئی مقدور بھر اصلاح کی کوشش کرتا ہے، تو وہ ایسے کسی فعل کے نہ کرنے پر قابل ملامت اور قابل مذمت نہیں جس کے کرنے کی وہ قدرت اور استطاعت نہیں رکھتا۔ پس بندے پر واجب ہے کہ وہ اپنی استطاعت کے مطابق خود اپنی اور دوسروں کی اصلاح کرے۔ (١١) بندہ مومن کے لئے مناسب یہ ہے کہ وہ لمحہ بھر کے لئے بھی اپنے نفس پر بھروسہ نہ کرے، بلکہ اس کے برعکس وہ ہمیشہ اپنے رب پر بھروسہ کرے، اسی سے مدد طلب کرے اور اسی سے توفیق کا طلب گا رہے۔ جب اسے کوئی نیک توفیق حاصل ہوجائے تو اسے توفیق عطا کرنے والی ہستی کی طرف منسوب کرے اور خود پسندی کا شکار نہ ہوجیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَمَا تَوْفِيقِي إِلَّا بِاللَّـهِ ۚ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ أُنِيبُ ﴾ (٢١) اسم سابقہ پر جو تباہی نازل ہوئی اور عذاب کے ذریعے سے ان کو جو پکڑا گیا اس میں بندوں کے لئے ترہیب ہے اور یہ نہایت مناسب ہے کہ وعظ و نصیحت کے دوران گزشتہ قوموں کے ان واقعات کا ذکر کیا جائے جن میں مجرموں پر عذاب نازل کیا گیا۔۔۔ اور اسی طرح یہ بھی مناسب ہے کہ تقویٰ کی ترغیب کے لئے اہل تقویٰ کے ان واقعات کا ذکر کیا جائے جن میں اللہ تعالیٰ نے ان کو اکرام سے نوازا۔ (٣١)گناہوں سے توبہ کرنے والا ایسے ہی ہے جیسے اس کے تمام گناہوں سے در گزر کرکے اسے معاف کردیا گیا ہو، کیونکہ اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والے سے محبت کرتا ہے اور اس شخص کا قول قابل اعتبار نہیں جو یہ کہتا ہے ” توبہ کرنے والا جب توبہ کرتا ہے تو اس کے لئے یہی کافی ہے کہ اس کو مغفرت اور عفو سے نواز دیا جائے اور رہا اللہ تعالیٰ کی محبت اور مودت کا واپس لوٹنا تو اللہ تعالیٰ کی محبت دوبارہ نہیں آتی“۔۔۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿وَاسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ ۚ إِنَّ رَبِّي رَحِيمٌ وَدُودٌ ﴾ ” اپنے رب سے بخشش طلب کرو اور اس کی طرف لوٹ آؤ بے شک میرا رب بہت ہی رحم کرنے والا اور اپنی مخلوق سے بہت محبت رکھتا ہے۔ “ (٤١) اللہ تبارک وتعالیٰ بہت سے اسباب کے ذریعے سے اہل ایمان کی مدافعت کرتا ہے بعض اسباب کا ان کو علم ہوتا ہے اور بعض اسباب کا ان کو بالکل علم نہیں ہوتا۔ بسا اوقات اللہ تعالیٰ ان کے قبیلے اور اہل وطن کے ذریعے سے ان کی مدافعت کرتا ہے جیسے شعیب علیہ السلام کو ان کے قبیلے کے سبب سے رجم ہونے سے بچایا۔ اس قسم کے روابط کے لئے جن کے ذریعے سے اسلام اور مسلمانوں کا دفاع اور ان کی حفاظت کا حصول مقصود ہو، کوشش کرنے میں کوئی حرج نہیں، بلکہ ایسی کوشش لازم ہے کیونکہ مقدور بھر اور حسب امکان، اصلاح مطلوب ہے۔ لہٰذا اس اصول کو مد نظر رکھ کر کفار کی سلطنت میں رہنے والے مسلمان اگر اسی قسم کی کوشش کریں اور نظام حکومت کو جمہوری اصولوں پر چلانے کے لئے کام کریں جس میں افرادیا جماعتوں کے لئے ممکن ہو کہ وہ اپنے دینی اور دنیاوی حقوق کی حفاظت کرسکیں، تو یہ اس صورتحال سے بہتر ہے جس میں مسلمان کافر ریاست کے مطیع ہوں اور ریاست ان کے دینی اور دنیاوی حقوق کے بارے میں من مانے فیصلے کرے، مسلمانوں کو نیست و نابود کرنے کی کوشش کرے اور کفار کی خدمت کے لئے ان کو معمولی درجے کے کارکن اور خدام بنا ڈالے۔ البتہ اگر ریاست میں مسلمانوں کا اقتدار اور ان کی حکومت ممکن ہو تو اس حکومت کا قیام لازم ہے، لیکن اگر اقتدار کا یہ مرتبہ حاصل نہ ہوسکے، تو اس مرتبے کا حصول جس میں دینی اور دنیاوی مصالح کی حفاظت ہو، مقدم ہے۔ واللہ اعلم۔ ھود
96 ﴿وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مُوسَىٰ ﴾ ” اور اہم نے بھیجا موسیٰ کو“ یعنی موسیٰ بن عمران کو ﴿ بِآيَاتِنَا ﴾ ” اپنی نشانیوں کے ساتھ “۔ جو ان کی دعوت کی صداقت پر دلالت کرتی تھیں، مثلاً عصا اور ید بیضا اور دیگر معجزات، جن کو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ہاتھ پر ظاہر فرمایا۔ ﴿ وَسُلْطَانٍ مُّبِينٍ ﴾ ” اور دلیل واضح ( کے ساتھ ) “ اور ایسی واضح دلیل کے ساتھ، جو سورج کی مانند عیاں تھی۔ ھود
97 ﴿إِلَىٰ فِرْعَوْنَ وَمَلَئِهِ ﴾ ” فرعون اور اس کے اشرافیہ کی طرف“ کیونکہ اشرافیہ متبوع اور دیگر لوگ ان کے تابع ہوتے ہیں۔ ان اشرافیہ نے موسیٰ علیہ السلام کے ان معجزات کو نہ مانا جو جناب موسیٰ علیہ السلام نے ان کو دکھائے تھے جیسا کہ بسط و تفصیل کے ساتھ ان کا ذکر سورۃ اعراف میں گزر چکا ہے۔ ﴿فَاتَّبَعُوا أَمْرَ فِرْعَوْنَ وَ مَا أَمْرُ فِرْعَوْنَ بِرَشِيدٍ ﴾ ” پس وہ پیچھے لگے فرعون کے حکم کے اور فرعون کا حکم اچھا نہیں تھا“ بلکہ وہ بھٹکا ہوا اور گمراہ ہے۔ وہ جس چیز کا حکم دیتا ہے وہ ضرر محض کے سوا کچھ نہیں۔ اس کی قوم نے اس کی اتباع کی اور اس نے ان کو ہلاک کردیا۔ ھود
98 ﴿یَـقْدُمُ قَوْمَہٗ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ فَاَوْرَدَہُمُ النَّارَ ۭ وَبِئْسَ الْوِرْدُ الْمَوْرُوْدُ ﴾: قیامت کے روز اپنی قوم کے آگے آگے ہوگا اور اپنی قیادت میں ان کو جہنم میں جا اتارے گا، اور یہ بہت ہی برا مقام ہے جہاں یہ لوگ وارد ہوں گے۔ ھود
99 ﴿وَاُتْبِعُوْا فِیْ ہٰذِہٖ لَعْنَۃً﴾ اور اس میں بھی لعنت ان کے پیچھے لگا دی گئی۔ یعنی اس دنیا میں﴿ وَّیَوْمَ الْقِیٰمَۃِ﴾ اور قیامت کے دن بھی، یعنی اللہ تعالی، اس کے فرشتے اور تمام لوگ دنیا و آخرت میں ان پر لعنت بھیجیں گے۔ ﴿ بِئْسَ الرِّفْدُ الْمَرْفُودُ﴾ ’’بہت ہی برا ہے جو ان کو عطیہ دیا گیا‘‘ اور اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کا عذاب اور دنیا و آخرت کی لعنت ان کا پیچھا کرے گی۔ ھود
100 اللہ تبارک و تعالیٰ نے انبیاء و مرسلین کے ساتھ ان کی قوموں کے واقعات بیان کرنے کے بعد اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا: ﴿ذَٰلِكَ مِنْ أَنبَاءِ الْقُرَىٰ نَقُصُّهُ عَلَيْكَ﴾’’یہ بستیوں کے تھوڑے سے حالات ہیں جن میں سے بعض ہم آپ کو سناتے ہیں‘‘ تاکہ آپ کے ذریعے اپنی قوم کو ڈرائیں اور یہ چیز آپ کی رسالت پر دلیل اور اہل ایمان کے لیے نصیحت اور یاد دہانی ہو۔ ﴿مِنْہَا قَاۗیِٕمٌ ﴾ ’’ان میں سے بعض تو باقی ہیں۔‘‘ یعنی ان کی بستیوں کی بعض نشانیاں اب بھی باقی کھڑی ہیں یعنی تلف نہیں ہوئیں۔ جو ان قوموں کی تباہی پر دلالت کرتی ہیں۔ ﴿وَّ﴾ اور ان میں سے بعض نشانیاں ﴿حَصِیْدٌ ﴾ ’’ان کی جڑ کٹ گئی‘‘ یعنی ان کے مسکن منہدم ہوگئے، ان کے گھر نیست و نابود ہوگئے اور ان کے نشانات تک باقی نہ رہے۔ ھود
101 ﴿وَمَا ظَلَمْنٰہُمْ﴾ ’’اور ہم نے ان پر ظلم نہیں کیا۔‘‘ یعنی مختلف قسم کے عذاب کے ذریعے سے ان کو پکڑ کر ہم نے ان پر ظلم نہیں کیا۔ ﴿وَلٰکِنْ ظَلَمُوْٓا اَنْفُسَہُمْ ﴾’’بلکہ انہوں نے خود اپنے اوپر ظلم کیا۔‘‘ یعنی انہوں نے شرک، کفر اور عناد کے ذریعے سے خود اپنے آپ پر ظلم کیا۔ ﴿فَمَآ اَغْنَتْ عَنْہُمْ اٰلِہَتُہُمُ الَّتِیْ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مِنْ شَیْءٍ لَّمَّا جَاۗءَ اَمْرُ رَبِّکَ ﴾’’پس نہ کام آئے ان کے وہ معبود جن کو وہ پکارتے تھے اللہ کو چھوڑ کر، کسی چیز میں، جب آپ کے رب کا حکم آیا۔‘‘ اسی طرح ہر وہ شخص جو مصیبت اور سختیوں کے وقت غیر اللہ کی پناہ لیتا ہے، اس سے اس کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔ ﴿ وَمَا زَادُوْہُمْ غَیْرَ تَتْبِیْبٍ ﴾” اور تباہ کرنے کے سوا ان کے حق میں کچھ نہ کرسکے۔‘‘ یعنی ان کی خواہشات کے برعکس خسارے اور تباہی کے سوا کسی چیز کا اضافہ نہ ہوا۔ ھود
102 یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ عذاب کے ذریعے سے ظالموں کی کمر توڑ دیتا ہے اور ان کو تباہ و برباد کردیتا ہے اور وہ ہستیاں ان کے کسی کام نہیں آتیں جن کو یہ اللہ کے سوا پکارتے ہیں۔ ھود
103 ﴿اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ﴾ بے شک ان میں یعنی عذاب کی مختلف انواع کے ذریعے سے ظالموں کو اللہ تعالیٰ کے پکڑنے میں۔ ﴿لَاٰیَۃً لِّمَنْ خَافَ عَذَابَ الْاٰخِرَۃِ ﴾’’اس شخص کے لیے نشانی ہے جو آخرت کے عذاب سے ڈرتا ہے‘‘ یعنی اس میں عبرت اور دلیل ہے کہ جو لوگ ظلم اور جرم کا ارتکاب کرتے ہیں ان کے لیے دنیاوی سزا اور اخروی عذاب ہے پھر اللہ تعالیٰ نے عذاب کے ذکر سے منتقل ہو کر آخرت کے وصف کا ذکر فرمایا ﴿ ذٰلِکَ یَوْمٌ مَّجْمُوْعٌ ۙ لَّہُ النَّاسُ ﴾ یہ وہ دن ہوگا جس میں سب لوگ اکٹھے کیے جائیں گےیعنی اس روز تمام لوگوں کو جزا و سزا کے لیے جمع کیا جائے گا، تاکہ ان پر اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اس کا عدل عظیم ظاہر ہوا اور اس کے ذریعے سے وہ اس کو اچھی طرح پہچان لیں ﴿وَذٰلِکَ یَوْمٌ مَّشْہُوْدٌ ﴾ اور وہ دن ہے سب کے پیش ہونے کا، یعنی اس روز اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتے اور تمام مخلوقات اس کا مشاہدہ کرے گی۔ ھود
104 ﴿وَمَا نُؤَخِّرُہٗٓ ﴾ہم اس میں تاخیر نہیں کر رہے۔ یعنی قیامت کے روز کی آمد کو ہم موخر نہیں کرتے ﴿اِلَّا لِاَجَلٍ مَّعْدُوْدٍ ﴾’’مگر وقت مقرر کے لیے‘‘ یعنی جب دنیا کی مدت اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے اس کے اندر مقرر کیا ہے پورا ہوجائے گا اس وقت وہ ان کو ایک اور جہان میں منتقل کرے گا اور وہاں ان پر اپنے احکام جزائی اسی طرح جاری کرے گا جس طرح اس دنیا میں ان پر احکام شرعیہ نافذ کیے تھے۔ ھود
105 ﴿ یَوْمَ یَاْتِ ﴾ جس روز وہ آجائے گا، یعنی جس روز یہ دن آئے گا اور تمام مخلوق اکٹھی ہوگی۔ ﴿لَا تَكَلَّمُ نَفْسٌ إِلَّا بِإِذْنِهِ ﴾ اس کی اجزت کے بغیر کوئی کلام نہیں کرے گا یہاں تک کہ اس روز انبیائے کرام اور مکرم فرشتے بھی اس کی اجازت کے بغیر سفارش نہیں کرسکیں گے۔ ﴿فَمِنْهُمْ ﴾پس ان میں سے بعض، یعنی تمام مخلوق میں سے،﴿  شَقِيٌّ وَسَعِيدٌ ﴾بدبخت اور بعض نیک بخت ہیں۔ بدبخت وہ لوگ ہوں گے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کیا، اس کے رسولوں کی تکذیب کی اور اللہ تعالیٰ کے حکم کی نافرمانی کی اور خوش بخت وہ لوگ ہیں جو مومن اور متقی ہیں۔ ھود
106 ﴿فَاَمَّا الَّذِیْنَ شَقُوْا ﴾ تو جو بدبخت ہوں گے۔‘‘ یعنی وہ لوگ جو بدبختی، رسوائی اور فضیحت میں مبتلا ہوں گے۔ ﴿ فَفِی النَّارِ﴾ تو وہ جہنم کے عذاب میں غوطے کھائیں گے اور آگ کا نہایت سخت عذاب ان کو جکڑ لے گا ﴿لَہُمْ فِیْہَا ﴾ ’’ان کے لیے اس میں‘‘یعنی اس سختی کی وجہ سے جس میں وہ مبتلا ہوں گے۔ ﴿زَفِیْرٌ وَّشَہِیْقٌ﴾’’چیخنا ہے اور دھاڑنا ہوگا‘‘ اور یہ نہایت بری اور قبیح ترین آواز ہوگی۔ ھود
107 ﴿خٰلِدِیْنَ فِیْہَا﴾ وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔“ یعنی اس جہنم میں جس کا عذاب یہ ہے ﴿مَا دَامَتِ السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ اِلَّا مَا شَاۗءَ رَبُّکَ﴾جب تک رہے گا آسمان اور زمین، مگر جو چاہے آپ کا رب“ یعنی وہ اس میں ہہمیشہ رہیں گے سوائے اس مدت کے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ چاہے کہ وہ اس مدت کے دوران جہنم میں نہ رہیں اور یہ مدت جہنم میں داخل ہونے سے قبل کی ہے۔ یہ جمہور مفسرین کا قول ہے۔ پس اس صورت میں استثناء جہنم میں دخول سے قبل کی مدت کی طرف راجع ہے، یعنی وہ تمام زمانوں تک جہنم میں رہیں گے سوائے اس زمانے کے جو جہنم میں داخل ہونے سے پہلے تھا۔ ﴿ اِنَّ رَبَّکَ فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ ﴾ ’’بے شک آپ کا رب جو چاہتا ہے، کرتا ہے‘‘ ہر وہ فعل جس کا اللہ تعالیٰ ارادہ کرتا ہے اور اس کی حکمت مقتضی ہوتی ہے، کر گزرتا ہے کوئی اسے اس کے ارادے سے روک نہیں سکتا۔ ھود
108 ﴿وَاَمَّا الَّذِیْنَ سُعِدُوْا ﴾’’اور جو نیک بخت ہوں گے۔‘‘ یعنی وہ لوگ جنہیں سعادت اور فوز و فلاح سے نوازا گیا ہے۔ ﴿فَفِی الْجَنَّۃِ خٰلِدِیْنَ فِیْہَا مَا دَامَتِ السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ اِلَّا مَا شَاۗءَ رَبُّکَ﴾ ’’وہ جنت میں داخل ہوں گے اور وہاں ہمیشہ رہیں گے جب تک زمین و آسمان قائم ہیں مگر جو چاہے آپ کا رب‘‘ پھر اللہ تعالیٰ نے مزید تاکید کے طور پر فرمایا : ﴿ عَطَاءً غَیْرَ مَجْذُوْذٍ ﴾ ’’بخشش بے انتہا‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ ان کو ہمیشہ رہنے والی نعمتیں اور لذتیں عطا کرے گا وہ ہمیشہ رہیں گی اور کسی وقت بھی منقطع نہ ہوں گی۔ ہم اللہ کریم سے اس کے فضل کا سوال کرتے ہیں کہ وہ ہمیں بھی ان خوش بخت لوگوں کی معیت عطا کرے۔ ھود
109 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے رسول محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب کر کے فرماتا ہے: ﴿فَلَا تَکُ فِیْ مِرْیَۃٍ مِّمَّا یَعْبُدُ ہٰٓؤُلَاۗءِ﴾ ’’آپ ان معبودان باطل کی طرف سے کسی شک میں نہ رہیں جن کی یہ مشرکین عبادت کرتے ہیں‘‘ یعنی آپ کو ان کے حال کے بارے میں کوئی شک نہ رہے وہ جس راہ پر چل رہے ہیں وہ باطل ہے اور ان کے پاس کوئی شرعی اور عقلی دلیل نہیں ہے۔ ان کی دلیل اور شبہ تو بس یہ ہے کہ وہ ﴿مَا یَعْبُدُوْنَ اِلَّا کَمَا یَعْبُدُ اٰبَاۗؤُہُمْ مِّنْ قَبْلُ﴾ ’’یہ انہی کی عبادت کرتے ہیں جن کی عبادت اس سے قبل ان کے باپ دادا کرتے تھے‘‘ اور یہ واضح طور پر معلوم ہے کہ ان کے آباء و اجداد کا ان باطل معبودوں کی عبادت کرنا، دلیل ہونا تو کجا یہ تو شبہ کے زمرے میں بھی نہیں آتا، کیونکہ انبیاء کے سوا کسی کا قول حجت نہیں۔ خاص طور پر ان جیسے گمراہ لوگ، جو اصول دین میں بکثرت اغلاط اور فساد اقوال کے حامل ہوتے ہیں، کیونکہ ان کے اقوال اگرچہ وہ ان کے ہاں متفق علیہ کیوں نہ ہوں خطا اور ضلالت پر مبنی ہیں۔ ﴿وَاِنَّا لَمُوَفُّوْہُمْ نَصِیْبَہُمْ غَیْرَ مَنْقُوْصٍ﴾ ’’اور ہم دینے والے ہیں ان کو ان کا حصہ بغیر کمی کیے‘‘ یعنی وہ لازمی طور پر دنیا کے حصے سے بہرہ ور ہوں گے جو ان کے لیے لکھ دیا گیا ہے۔ خواہ یہ دنیاوی نصیب آپ کی نظر میں کتنا ہی زیادہ کیوں نہ ہو مگر یہ ان کے احوال کے درست ہونے پر دلالت نہیں کرتا، کیونکہ اللہ تعالیٰ اسے بھی دنیا عطا کرتا ہے جس سے محبت کرتا ہے اور اسے بھی عطا کرتا ہے جس سے محبت نہیں کرتا مگر ایمان اور دین سے صرف اسی شخص کو نوازتا ہے جس سے وہ محبت کرتا ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ گمراہ لوگوں کے اپنے گمراہ آباء و اجداد کے نظریات پر اتفاق کرلینے سے دھوکا نہیں کھانا چاہیے اور نہ اس بات سے دھوکہ چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو دنیاوی مال و متاع سے نواز رکھا ہے۔ ھود
110 اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ اس نے جناب موسیٰ علیہ السلام کو کتاب عطا کی، جس کو تورات کہا جاتا ہے جو اس کے اوامر و نواہی پر ان کے اتفاق و اجتماع کی موجب ہے۔ مگر اس کے باوجود تورات سے نسبت رکھنے والوں نے اس میں اختلاف پیدا کیا جس نے ان کے عقائد اور ان کی دینی جمعیت کو سخت نقصان پہنچایا۔ ﴿وَلَوْلَا کَلِمَۃٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّکَ﴾ ’’اگر تمہارے رب کی طرف سے ایک بات پہلے نہ ہوچکی ہوتی‘‘ ﴿ لَقُضِیَ بَیْنَہُمْ﴾’’تو ان کا فیصلہ کردیا جاتا‘‘ یعنی ظالم پر عذاب نازل ہوچکا ہوتا۔ مگر اللہ تبارک و تعالیٰ کی حکمت تقاضا کرتی ہے کہ وہ اپنے فیصلے کو قیامت تک کے لیے مؤخر کردے اور یہ لوگ شک و شبہ ہی میں مبتلا رہیں۔ جب ان کا اپنی کتاب کے ساتھ یہ حال ہے، تو قرآن جس کو اللہ تعالیٰ نے آپ کی طرح وحی کیا ہے یہود کے ایک گروہ کا یہ رویہ تعجب خیز نہیں ہے کہ وہ اس پر ایمان نہیں لاتے اور اس کے بارے میں شک و ریب میں مبتلا ہیں۔ ھود
111 ﴿وَاِنَّ کُلًّا لَّمَّا لَیُوَفِّیَنَّہُمْ رَبُّکَ اَعْمَالَہُمْ﴾ ’’اور جتنے لوگ ہیں، سب کو پورا دے گا آپ کا رب ان کے اعمال (کا بدلہ)‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ قیامت کے روز ان کے درمیان ضرور عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ کرے گا اور ان کو وہی سزا و جزا دے گا جس کے وہ مستحق ہوں گے۔ ﴿اِنَّہٗ بِمَا یَعْمَلُوْنَ﴾ بے شک وہ اس سے جو عمل یہ کرتے ہیں‘‘ اچھے یا برے۔ ﴿خَبِیْرٌ﴾ ’’باخبر ہے۔‘‘ ان کے اعمال میں سے کوئی چھوٹی یا بڑی چیز اس پر مخفی نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہود کی عدم استقامت کا ذکر کرنے کے بعد، جو ان کے اختلاف و افتراق کا باعث تھی، اپنے نبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اہل ایمان کو حکم دیا کہ وہ صراط مستقیم پر گامزن رہیں جیسا کہ ان کو حکم دیا گیا ہے اور اس شریعت کو لائحہ عمل بنائیں جو ان کے لیے مشروع کی گئی ہے اور ان اعتقادات صحیحہ کو اپنا عقیدہ بنائیں جو اللہ تعالیٰ نے وحی کیے ہیں۔ اس سیدھے راستے کو چھوڑ کر دائیں، بائیں ٹیڑھی راہوں پر نہ چلیں اور دائمی طور پر اسی عقیدے اور اسی شریعت پر عمل پیرا رہیں اور سرکشی اختیار نہ کریں، یعنی استقامت کی ان حدود سے تجاوز نہ کریں جو اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے مقرر فرمائی ہیں۔ ھود
112 ﴿اِنَّہٗ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ﴾ ’’وہ تمہارے سب اعمال کو دیکھ رہا ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ پر تمہارے اعمال میں سے کچھ بھی مخفی نہیں اور وہ تمہیں ان اعمال کی جزا دے گا۔ ان آیات کریمہ میں استقامت کو مسلک بنانے کی ترغیب اور اس کے برعکس راستہ اختیار کرنے پر ترہیب دی گئی ہے۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی طرف میلان رکھنے سے منع فرمایا جنہوں نے استقامت کو چھوڑ دیا۔ ھود
113 ﴿وَلَا تَرْکَنُوْٓا اِلَی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا ﴾’’اور مت جھکو ان لوگوں کی طرف جو ظالم ہیں۔‘‘ کیونکہ اگر تم ان کی طرف مائل ہوئے، ان کے ظلم و تعدی پر ان کی موافقت کی یا ان کے ظلم پر راضی ہوئے۔﴿ فَتَمَسَّکُمُ النَّارُ﴾ تو تمہیں جہنم کی آگ آ لپٹے گی۔﴿ وَمَا لَکُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ مِنْ اَوْلِیَاۗءَ﴾ ’’اور اللہ کے سوا تمہارے کوئی مددگار نہیں۔ جو تمہیں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچا سکیں۔‘‘ اس آیت کریمہ میں ظالم کی طرف میلان رکھنے سے روکا گیا ہے یہاں جب ظالموں کی طرف میلان رکھنے پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اتنی شدید وعید ہے، تو خود ظالموں کا کیا حال ہوگا۔ ہم اللہ تعالیٰ سے ظلم سے عافیت کا سوال کرتے ہیں۔ ھود
114 اللہ تبارک و تعالیٰ کامل طور پر نماز کو قائم کرنے کا حکم دیتا ہے۔﴿ طَرَفَیِ النَّہَارِ﴾ ’’دن کے دونوں طرفوں میں۔‘‘ یعنی دن کے ابتدائی اور آخری حصے میں، اس میں فجر، ظہر اور عصر کی نماز شامل ہے۔ ﴿وَزُلَفًا مِّنَ الَّیْلِ﴾ ’’اور رات کے چھ حصوں میں‘‘ اور اس میں مغرب اور عشاء کی نماز داخل ہے۔ تہجد کی نماز بھی اسی میں شامل ہے، کیونکہ بندہ مومن تہجد کی نماز کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔﴿ اِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْہِبْنَ السَّـیِّاٰتِ﴾’’بے شک نیکیاں دور کرتی ہیں برائیوں کو۔‘‘ یعنی یہ نماز پنجگانہ اور اس سے ملحق نوافل سب سے بڑی نیکی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ کہ نماز سب سے بڑی نیکی اور ثواب کی موجب ہے اور برائیوں کو مٹاتی بھی ہے۔ اس سے مراد صغیرہ گناہ ہیں جیسا کہ صحیح احادیث میں اس اطلاق کو مقید کیا گیا ہے، مثلاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، اگر مومن کبائر سے اجتناب کرتا ہے تو نماز پنج گانہ، جمعہ دوسرے جمعہ تک اور رمضان دوسرے رمضان تک، یہ ان کے مابین ہونے والے گناہوں کو مٹا دینے والے عمل ہیں۔ بلکہ اس آیت کریمہ کے اطلاق کو سورۃ النساء کی اس آیت نے بھی مقید کردیا ہے فرمایا ﴿ إِن تَجْتَنِبُوا كَبَائِرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَنُدْخِلْكُم مُّدْخَلًا كَرِيمًا ﴾(النساء : 4؍31) ’’اگر تم ان بڑے بڑے گناہوں سے اجتناب کرو جن سے تمہیں منع کیا گیا ہے تو ہم تمہارے چھوٹے چھوٹے گناہوں کو مٹا دیں گے اور تمہیں عز و تکریم کی جگہ میں داخل کریں گے۔‘‘﴿ ذٰلِکَ﴾ شاید یہ گزشتہ باتوں کی طرف اشارہ ہے جیسے صراط مستقیم پر استقامت کا التزام، حدود الٰہی سے عدم تجاوز اہل ظلم کی طرف عدم میلان، اقامت صلوٰۃ کا حکم اور یہ بیان کہ نیکیاں تمام برائیوں کو مٹا دیتی ہیں یہ سب﴿ ذِکْرٰی لِلذّٰکِرِیْنَ﴾ نصیحت ہے یاد رکھنے والوں کے لیے، وہ اس چیز کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کے اوامر و نواہی کو سمجھتے ہیں اور ان تمام اوامر کی تعمیل کرتے ہیں جن کا ثمرہ نیکیاں ہیں جو شر اور برائی کو مٹاتی ہیں۔ مگر ان امور میں مجاہدہ نفس اور صبر کی سخت ضرورت ہے۔ بنا بریں فرمایا ھود
115 ﴿وَاصْبِرْ ﴾ ’’اور صبر کیجیے۔‘‘ یعنی اپنے نفس کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر ثابت قدم اور اس کی نافرمانی سے باز رکھیں اور اس کا ہمیشہ التزام کریں اور تنگ دل نہ ہوں۔﴿ فَاِنَّ اللّٰہَ لَا یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَ ﴾ اللہ نیکی کرنے والوں کے اجر کو کبھی ضائع نہیں کرتا۔ بلکہ وہ ان کے اچھے اعمال کو قبول فرماتا ہے اور ان کو ان کے اعمال کی بہترین جزا عطا کرتا ہے۔ جب نفوس ضعیفہ، انقطاع اور اکتاہٹ کا شکار ہو کر کمزور پڑجاتے ہیں تو آیت کریمہ میں ان کو صبر کے التزام کی ترغیب اور اللہ تعالیٰ کے ثواب کا شوق دلایا گیا ہے۔ ھود
116 جب اللہ تعالیٰ نے گزشتہ امتوں کی ہلاکت کا ذکر فرمایا جنہوں نے اپنے رسولوں کو جھٹلایا تھا، نیز یہ کہ ان میں سے اکثر وہ لوگ تھے جنہوں نے کتب سماویہ کے ماننے والوں سے انحراف کیا، حتی کہ ان لوگوں نے بھی جو کتب الٰہیہ کو ماننے والے تھے اور یہ چیز اس بات کا فیصلہ کرتی ہے کہ گزشتہ ادیان انعدام و اضمحلال کا شکار ہوگئے تو اب ذکر فرمایا کہ گزشتہ قوموں میں ایسے اصحاب خیر کیوں نہ ہوئے جو لوگوں کو ہدایت کی طرف بلاتے رہتے، فساد اور ہلاکت سے روکتے رہتے، تو ان سے کچھ فائدہ حاصل ہوتا جب تک ان کے ادیان باقی رہتے۔ مگر ایسے لوگ بہت ہی قلیل تھے۔ اس سارے معاملے کی غرض و غایت یہ ہے کہ گزشتہ امتوں کے جو تھوڑے لوگوں نے نجات پائی تو انہوں نے انبیاء و مرسلین کی اتباع اور اقامت دین کی وجہ سے نجات پائی نیز یہ کہ وہ اللہ تعالیٰ کی حجت بن گئے جس کو اس نے ان کے ہاتھوں پر جاری کیا، تاکہ جو ہلاک ہو تو دلیل کی بنا پر ہلاک ہو اور زندہ رہے تو دلیل ہی سے زندہ رہے۔ ﴿وَاتَّبَعَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مَآ اُتْرِفُوْا فِیْہِ ﴾’’اور پیچھے پڑے رہے ظالم اسی چیز کے جس میں ان کو عیش ملا۔‘‘ یعنی وہ جن نعمتوں اور آسائشوں سے متمتع ہو رہے تھے انہی کے پیچھے پڑے رہے اور ان چیزوں کے بدلے انہوں نے کچھ اور نہیں چاہا۔﴿ وَکَانُوْا مُجْرِمِیْنَ﴾ ’’اور تھے وہ گناہ گار۔‘‘ یعنی ان نعمتوں اور آسائشوں کے پیچھے پڑ کر انہوں نے ظلم کا ارتکاب کیا، لہٰذا وہ عتاب کے مستحق ٹھہرے اور عذاب نے ان کی جڑ کاٹ کر رکھ دی۔ اس آیت کریمہ میں اس امت کو ترغیب دی گئی ہے کہ ان کے اندر ایسے ہوش مند مصلحین ہونے چاہئیں جو ان امور کی اصلاح کریں جن کو لوگوں نے فاسد کردیا ہے، جو اللہ کے دین کو قائم کرنے والے ہوں، بھٹکے ہوؤں کو ہدایت کی طرف بلاتے رہیں۔ اگر اس راہ میں تکلیفیں آئیں تو اس پر صبر کرتے رہیں اور وہ گمراہی کی تاریکیوں میں لوگوں کو بصیرت کی روشنی دکھاتے رہیں۔ یہ بندہ مومن کا بلند ترین حال ہے جس کی طرف رغبت کرنے والے راغب ہوتے ہیں اور اسی حال کو اختیار کرنے والا مرتبہ امامت پر فائز ہوتا ہے، کیونکہ اس کا عمل خالص رب العالمین کے لیے ہے۔ ھود
117 اللہ تبارک و تعالیٰ ظلم کے ساتھ بستیوں کو ہلاک نہیں کرتا در آں حالیکہ وہ اصلاح کرنے والے ہوں، یعنی وہ درست روئیے پر قائم اور اس پر دوام کا التزام کرتے ہوں۔ اللہ تعالیٰ ان کو صرف اسی وقت ہلاک کرتا ہے جب وہ ظلم کا ارتکاب کریں اور ان کے خلاف حجت قائم ہوجائے اور یہ احتمال بھی ہے کہ اس کے معنی یہ ہوں کہ جب لوگ اپنے گناہوں سے توبہ کر کے اپنے رب کی طرف لوٹ آئیں اور اپنے اعمال کی اصلاح کرلی تو تیرا رب ان بستیوں کو ان کے گزشتہ ظلم کی پاداش میں ہلاک نہیں کرے گا اس لیے کہ اللہ تعالیٰ ان کو معاف کردے گا اور ان کے گزشتہ ظلم کو مٹا دے گا۔ ھود
118 اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ اگر وہ چاہتا تو تمام لوگوں کو دین اسلام پر مجتمع کر کے انہیں ایک امت بنا دیتا اس کی مشیت ایسا کرنے سے قاصر نہ تھی اور کوئی چیز اس کی گرفت سے باہر نہیں۔ مگر اس کی حکمت تقاضا کرتی ہے کہ وہ اختلاف کرتے رہیں، صراط مستقیم کی مخالفت کریں اور جہنم کی طرف جانے والے راستوں پر رواں دواں رہیں اور ہر کوئی اپنی رائے کو حق اور دوسرے کے قول کو گمراہی سمجھے۔ ھود
119 ﴿اِلَّا مَنْ رَّحِمَ رَبُّکَ﴾مگر جن پر رحم کیا آپ کے رب نے۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کی علم حق کی طرف رہنمائی کی، انہیں اس پر عمل اور اس پر اتفاق کی توفیق بخشی۔ پس یہی لوگ ہیں کہ ان کے لیے سعادت کو لکھ دیا گیا تھا اور عنایت ربانی اور توفیق الٰہی نے ان کو جالیا تھا۔ رہے ان کے علاوہ دیگر لوگ تو ان کو ان کے نفسوں کے حوالے کردیا گیا۔﴿ وَلِذٰلِکَ خَلَقَہُمْ﴾’’اور اسی لیے ان کو پیدا کیا۔‘‘ یعنی ان کی تخلیق اللہ تعالیٰ کی حکمت کا تقاضا تھا، تاکہ ان میں سے کچھ لوگ خوش بخت اور کچھ لوگ بدبخت ہوں، ان میں کچھ لوگ اتفاق کرنے والے اور کچھ لوگ اختلاف کرنے والے ہوں۔ ان میں سے ایک گروہ وہ ہو جسے اللہ تعالیٰ نے ہدایت سے نواز دیا اور ایک گروہ وہ ہو جو گمراہی کا حق دار قرار پایا، تاکہ بندوں پر اس کا عدل اور اس کی حکمت عیاں ہوجائے، نیز طبائع بشر میں جو کچھ بھی اچھائی اور برائی پنہاں ہے وہ ظاہر ہوجائے اور تاکہ جہاد اور ان عبادات کا بازار گرم ہو جو امتحان اور آزمائش کے بغیر درست اور مکمل نہیں ہوتیں اور اس لیے کہ﴿ وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ ﴾’’آپ کے رب کی وہ بات پوری ہوجائے (جس میں اس نے کہا تھا) کہ میں جہنم کو جنوں، انسانوں سب سے بھر دوں گا۔‘‘ پس لازم ٹھہرا کہ وہ جہنم کو اس میں رہنے والے مہیا کرے جو ایسے اعمال بجا لائیں جو جہنم میں پہنچاتے ہیں۔ ھود
120 جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس سورۃ مبارکہ میں انبیائے کرام کے حالات بیان فرمائے، تو اب اس میں پنہاں حکمت کا ذکر فرمایا: ﴿ وَکُلًّا نَّقُصُّ عَلَیْکَ مِنْ اَنْۢبَاۗءِ الرُّسُلِ مَا نُثَبِّتُ بِہٖ فُؤَادَکَ﴾’’اور یہ سب چیز بیان کرتے ہیں ہم آپ کے پاس رسولوں کے احوال سے جس سے مضبوط کریں ہم آپ کے دل کو‘‘ تاکہ وہ مطمئن رہے، اس کو ثبات حاصل ہو اور وہ صبر کرے، جیسے اولو العزم انبیاء و مرسلین نے صبر کیا تھا، کیونکہ نفوس انسانی اقتدا سے مانوس ہوتے ہیں اور اعمال پر ان کو نشاط حاصل ہوتا ہے اور وہ دوسروں کے ساتھ مقابلہ کرنا چاہتے ہیں، حق کے شواہد اور اس کو قائم کرنے والوں کی کثرت کا ذکر کرنے سے حق کی تائید ہوتی ہے۔ ﴿وَجَاۗءَکَ فِیْ ہٰذِہِ﴾’’اور آیا آپ کے پاس اس میں‘‘ یعنی اس سورۃ مقدسہ میں﴿ الْحَقُّ﴾ ’’حق‘‘ آپ کے پاس یقین آگیا اور اس میں کسی بھی لحاظ سے کوئی شک نہیں۔ اس کا علم، حق کا علم ہے جو نفس کے لیے سب سے بڑی فضیلت ہے۔ ﴿وَمَوْعِظَۃٌ وَّذِکْرٰی لِلْمُؤْمِنِیْنَ﴾ ’’اور نصیحت اور یاد دہانی مومنوں کے لیے۔‘‘ یعنی وہ اس سے نصیحت پکڑتے ہیں پس برے کاموں سے باز رہتے ہیں اور محبوب کاموں کو یاد کرتے ہیں اور ان پر عمل کرتے ہیں۔ اور جو ایمان نہیں رکھتے انہیں نصیحتیں اور مختلف انواع کی یاد دہانیاں کوئی فائدہ نہیں دیتیں۔ بنا بریں فرمایا ھود
121 ﴿وَقُلْ لِّلَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ﴾ ’’اور ان لوگوں سے کہہ دیجیے جو (دلائل قائم ہوجانے کے بعد بھی) ایمان نہیں لاتے۔‘‘ ﴿اعْمَلُوْا عَلٰی مَکَانَتِکُمْ﴾ ’’اپنی جگہ عمل کیے جاؤ‘‘ یعنی اسی حالت میں جس میں کہ تم ہو، عمل کرتے رہو۔﴿ اِنَّا عٰمِلُوْنَ﴾ ہم بھی (اپنے طریقے کے مطابق) عمل کر رہے ہیں۔ ھود
122 ﴿وَانْتَظِرُوْا ﴾’’تم بھی انتظار کرو۔‘‘ یعنی ہم پر جو کچھ نازل ہوگا۔ تم اس کا انتظار کرو۔﴿ اِنَّا مُنْتَظِرُوْنَ﴾ ’’ہم بھی انتظار کرتے ہیں۔‘‘ اور تم پر جو کچھ نازل ہوگا، ہم اس کے منتظر ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے دونوں گروہوں کے درمیان جو فرق ہے اسے بیان کردیا۔ اس نے اپنے بندوں کو دکھا دیا کہ وہ اپنے مومن بندوں کی مدد کرتا ہے اور انبیائے کرام کو جھٹلانے والے دشمنان الٰہی کا قلع قمع کرتا ہے۔ ھود
123 ﴿وَلِلّٰہِ غَیْبُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ﴾ ’’اور اللہ ہی کے پاس ہے چھپی بات آسمانوں اور زمین کی۔‘‘ یعنی تمام مخفی چیزیں اور غیبی امور جو آسمانوں اور زمین میں سر بستہ ہیں ان سب کو اللہ تعالیٰ جانتا ہے۔ ﴿وَاِلَیْہِ یُرْجَعُ الْاَمْرُ کُلُّہٗ﴾ ’’اور اسی کی طرف لوٹائے جائیں گے تمام کام۔‘‘ تمام اعمال اور عمل کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹنا ہے وہ پاک اور ناپاک کو علیحدہ علیحدہ کردے گا۔﴿ فَاعْبُدْہُ وَتَوَکَّلْ عَلَیْہِ﴾ ’’پس اسی کی عبادت کریں اور اسی پر بھروسہ رکھیں‘‘ یعنی اللہ کی عبودیت کو قائم کیجیے اس سے مراد اللہ تعالیٰ کے وہ تمام احکام ہیں جن کی تعمیل پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم قادر ہیں اور اس میں اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کیجیے۔﴿ وَمَا رَبُّکَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ﴾’’آپ کا رب (ان اچھے اور برے) اعمال سے غافل نہیں ہے جن کو تم بجا لاتے ہو‘‘ بلکہ اس کا علم ان اعمال کا احاطہ کیے ہوئے ہے اور ان پر اس کا قلم جاری ہوچکا ہے اور اب اس پر اس کا حکم اور جزا کا فیصلہ جاری ہوگا۔ ھود
0 یوسف
1 اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ قرآن کی آیات کتاب مبین کی آیات ہیں، یعنی جس کے الفاظ اور معانی واضح ہیں۔ اس کے واضح اور بین ہونے کی ایک دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو عربی زبان میں نازل کیا جو سب سے زیادہ فضیلت کی حامل اور سب سے زیادہ واضح زبان ہے (الْمُبِين) سے مراد یہ ہے کہ یہ کتاب مقدس ان تمام حقائق نافعہ کو بیان کرتی ہے جن کے لوگ حاجت مند ہیں اور یہ سب ایضاح وتبیین ہے۔ یوسف
2 ﴿لَّعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ﴾’’تاکہ تم سمجھو۔‘‘ یعنی تاکہ اس کی حدود، اس کے اصول و فروع اور اس کے اوامر و نواہی کو سمجھ سکو جب تم اس کو ایقان کے ساتھ سمجھ لوگے اور تمہارے دل اسی معرفت سے لبریز ہوجائیں گے تو اس کے ثمرات، جوارح کے عمل اور اطاعت کی صورت میں ظاہر ہوں گے اور ﴿لَّعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ﴾ یعنی تمہارے اذہان میں عالی شان معانی کی تکرار سے تمہاری عقل میں اضافہ ہوگا اور تم ادنیٰ حال سے اعلی و اکمل احوال میں منتقل ہوجاؤ گے۔ یوسف
3 ﴿نَحْنُ نَقُصُّ عَلَیْکَ اَحْسَنَ الْقَصَصِ﴾ ’’ہم آپ پر بہت اچھا قصہ بیان کرتے ہیں۔‘‘ یعنی یہ قصہ اپنی صداقت، اپنی عبارت کی سلاست اور اپنے معانی کی خوبصورتی کی وجہ سے سب سے اچھا قصہ ہے۔﴿ بِمَآ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ ھٰذَا الْقُرْاٰنَ﴾ ’’اس واسطے کہ بھیجا ہم نے آپ کی طرف یہ قرآن‘‘ یعنی وہ امور جن پر یہ قرآن مشتمل ہے جس کی ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف وحی کی اور اس کے ذریعے سے ہم نے آپ کو تمام انبیاء و مرسلین پر فضیلت بخشی۔ یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل و احسان ہے۔﴿ وَاِنْ کُنْتَ مِنْ قَبْلِہٖ لَمِنَ الْغٰفِلِیْنَ﴾ ’’اور یقیناً اس سے پہلے آپ بے خبروں میں سے تھے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ پر نزول وحی سے قبل آپ نہیں جانتے تھے کہ کتاب کیا ہوتی ہے اور ایمان کیا چیز ہے؟ مگر ہم نے اسے روشنی بنایا ہے اور اس کے ذریعے سے اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں راہ ہدایت دکھاتے ہیں۔ چونکہ یہ قرآن کریم جن قصوں پر مشتمل ہے اللہ تعالیٰ نے ان کی مدح فرمائی نیز ذکر فرمایا کہ یہ قصہ علی الاطلاق بہترین قصہ ہے اور تمام کتابوں میں کوئی قصہ ایسا نہیں ملتا جیسا اس قرآن میں پایا جاتا ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے یوسف علیہ السلام، ان کے والد یعقوب علیہ السلام اور ان کے بھائیوں کا نہایت خوبصورت اور تعجب انگیز قصہ ذکر فرمایا۔ یوسف
4 معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے کہ اس نے اس کتاب کریم میں اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بہترین قصہ بیان فرمایا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ یہ قصہ نہایت بسط و تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا اور اس قصے کے متعلق تمام واقعات ذکر کیے۔ جس سے معلوم ہوا کہ یہ قصہ نہایت کامل اور بہت خوبصورت ہے۔ جو کوئی اس قصہ کی ان اسرائیلیات کے ذریعے سے تکمیل اور اس کو مزین کرنا چاہتا ہے، جن کا کوئی سر پیر نہیں ہے اور ان کو روایت کرنے والے کا نام تک معلوم نہیں جن میں سے اکثر جھوٹ پر مبنی ہیں، وہ درحقیقت اللہ تعالیٰ پر استدراک کرنا چاہتا ہے۔ وہ بزعم خود ناقص اور نامکمل چیز کی تکمیل کرتا ہے اور آپ کے لیے یہی کافی ہے اس لیے کہ بہت سی کتب تفسیر اس سورۃ مبارکہ سے کئی گنا زیادہ جھوٹے قصے کہانیوں اور انتہائی قبیح امور سے، جو اللہ کے بیان کردہ واقعات کے متناقض ہیں، لبریز ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان میں سے اکثر باتوں کو بیان نہیں فرمایا۔ اس لیے بندے پر فرض ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بیان کردہ واقعات کو خوب اچھی طرح سمجھ لے اور ان تمام قصے کہانیوں کو چھوڑ دے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول نہیں ہیں۔ ﴿اِذْ قَالَ یُوْسُفُ ﴾ ’’جب یوسف علیہ السلام نے کہا۔‘‘ یعنی جب یوسف بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم علیہ السلام نے کہا۔﴿ یٰٓاَبَتِ اِنِّیْ رَاَیْتُ اَحَدَ عَشَرَ کَوْکَبًا وَّالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ رَاَیْتُہُمْ لِیْ سٰجِدِیْنَ﴾’’ابا جان! میں نے دیکھا کہ گیارہ ستارے، سورج اور چاند مجھے سجدہ کر رہے ہیں۔‘‘ یہ خواب یوسف علیہ السلام کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کا مقدمہ ہے جن کی بنا پر وہ دنیا و آخرت میں بلند مقام پر فائز ہوئے۔ اسی طرح جب اللہ بڑے بڑے اصولی امور کا ارادہ فرماتا ہے تو اس سے پہلے تقدیم پیش کرتا ہے جو اس امر کے لیے تمہید اور تسہیل کا کام دیتی ہے اور بندے کو ان مشقوں کے لیے تیار کرتی ہے جو اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور اس کے احسان کے طور پر بندے پر وارد ہوتی ہیں۔ یعقوب علیہ السلام نے اس خواب کی یہ تاویل کی، کہ سورج سے مراد یوسف علیہ السلام کی والدہ، چاند سے مراد والد اور ستاروں سے مراد ان کے بھائی ہیں۔ نیز یہ کہ یہ حالات ایسے حالات میں بدل جائیں گے کہ مذکورہ تمام لوگ یوسف علیہ السلام کے مطیع ہوں گے اور ان کی تعظیم و تکریم کے لیے ان کے سامنے سجدہ ریز ہوں گے۔ یہ سب کچھ صرف ان اسباب کی بنا پر ہوگا جو یوسف علیہ السلام کو پیش آئیں گے، اللہ تعالیٰ یوسف علیہ السلام کو اپنے فضل و کرم کے لیے چن لے گا اور علم و عمل کی نعمت سے ان کو مالا مال فرمائے گا اور زمین میں اقتدار عطا کر کے آپ پر اپنی نعمتوں کی تکمیل کرے گا اور اقتدار کی یہ نعمت تبعاً تمام آل یعقوب کو شامل ہوگی جو یوسف علیہ السلام کے سامنے سرافگندہ ہوں گے۔ یوسف
5 جب یعقوب علیہ السلام نے حضرت یوسف علیہ السلام کے خواب کی تعبیر مکمل کرلی تو حضرت یعقوب علیہ السلام نے حضرت یوسف علیہ السلام سے فرمایا: ﴿یٰبُنَیَّ لَا تَقْصُصْ رُءْیَاکَ عَلٰٓی اِخْوَتِکَ فَیَکِیْدُوْا لَکَ کَیْدًا﴾ ’’اے بیٹے ! اپنا خواب اپنے بھائیوں کے سامنے بیان نہ کرنا پھر وہ بنائیں گے تیرے واسطے کچھ فریب۔‘‘ یعنی تمہارے ساتھ اپنے حسد کی وجہ سے تمہارے خلاف کوئی چال چلیں گے کہ کہیں تم ان کے سردار اور سربراہ نہ بن جاؤ۔﴿ اِنَّ الشَّیْطٰنَ لِلْاِنْسَانِ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ ﴾’’بے شک شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔‘‘ وہ دن رات اور کھلے چھپے اس پر وار کرنے میں کبھی کوتاہی نہیں کرتا۔ اس لیے ان اسباب سے دور رہنا بہتر ہے جن کے ذریعے سے وہ بندے پر تسلط حاصل کرتا ہے۔ یوسف علیہ السلام نے اپنے باپ کے حکم کی تعمیل کی اور انہوں نے اپنے بھائیوں کو اس خوب کے بارے میں کچھ نہ بتایا، بلکہ اس کو چھپائے رکھا۔ یوسف
6 ﴿وَکَذٰلِکَ یَجْتَبِیْکَ رَبُّکَ ﴾’’اور اسی طرح چن لے گا تجھ کو تیرا رب۔‘‘ یعنی اللہ جل شانہ تجھ کو اوصاف جلیلہ اور مناقب جمیلہ کی نعمتوں سے نواز کر چن لے گا۔﴿ وَیُعَلِّمُکَ مِنْ تَاْوِیْلِ الْاَحَادِیْثِ﴾ ’’اور سکھلائے گا تجھ کو ٹھکانے پر لگانا باتوں کا۔‘‘ یعنی خوابوں کی تعبیر اور کتب سماویہ میں وارد ہونے والے سچے واقعات کی تاویل وغیرہ۔﴿ وَیُـــتِمُّ نِعْمَتَہٗ عَلَیْکَ﴾ ’’اور تجھ پر اپنی نعمت پوری کرے گا۔‘‘ اور دنیا و آخرت میں تجھ پر اپنی نعمت کی تکمیل کرے گا۔ یعنی وہ دنیا میں بھی تجھ کو بھلائی عطا کرے گا اور آخرت میں بھی بھلائی عطا کرے گا۔﴿ کَمَآ اَتَمَّــہَا عَلٰٓی اَبَوَیْکَ مِنْ قَبْلُ اِبْرٰہِیْمَ وَاِسْحٰقَ﴾ ’’جیسے اس نے پورا کیا اس نعمت کو اس سے پہلے تیرے باپ دادا ابراہیم اور اسحاق پر‘‘ اللہ تعالیٰ نے جناب ابراہیم اور جناب اسحاق کو عظیم اور بے پایاں دینی اور دنیاوی نعمتوں سے نوازا۔﴿ اِنَّ رَبَّکَ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ ﴾ ’’بے شک تیرا رب جاننے والا، حکمت والا ہے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کا علم تمام اشیاء اور بندوں کے سینوں میں چھپے ہوئے اچھے برے خیالات کو محیط ہے۔ پس وہ سب کو اپنی حمد و حکمت کے مطابق عطا کرتا ہے۔ وہ حکمت والا ہے اور تمام اشیا کو ان کے اپنے اپنے مقام پر رکھتا ہے۔ یوسف
7 اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿لَقَدْ کَانَ فِیْ یُوْسُفَ وَاِخْوَتِہٖٓ اٰیٰتٌ﴾ ’’یقیناً یوسف اور ان کے بھائیوں کے قصہ میں نشانیاں ہیں۔‘‘ یعنی قصہ یوسف میں عبرتیں اور بہت سے مطالب حسنہ پر دلائل ہیں۔﴿ لِّلسَّاۗیِٕلِیْنَ﴾ ’’پوچھنے والوں کے لیے۔‘‘ یعنی ہر اس شخص کے لیے جو زبان حال یا زبان قال کے ذیعے سے اس قصے کے بارے میں سوال کرتا ہے، کیونکہ سوال کرنے والے لوگ ہی آیات الٰہی اور عبرتوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور رہے روگردانی کرنے والے، تو وہ آیات الٰہی سے فائدہ اٹھاتے ہیں، نہ قصوں اور واضح دلائل سے۔ یوسف
8 ﴿اِذْ قَالُوْا ﴾’’جب انہوں نے کہا۔‘‘ یعنی جب انہوں نے آپس میں کہا۔ ﴿لَیُوْسُفُ وَاَخُوْہُ﴾’’یوسف اور اس کا بھائی۔‘‘ یعنی یوسف اور ان کے حقیقی بھائی بنیامین، ورنہ تو وہ سب ان کے بھائی تھے۔ ﴿اَحَبُّ اِلٰٓی اَبِیْنَا مِنَّا وَنَحْنُ عُصْبَۃٌ﴾ ’’ہمارے باپ کو ہم سے زیادہ پیارے ہیں اور ہم ایک جماعت ہیں۔‘‘ یعنی حالانکہ ہم بھائی ایک جماعت ہیں پھر وہ اپنی محبت اور شفقت میں ان دونوں کو کیوں فضیلت دیتے ہیں۔ ﴿اِنَّ اَبَانَا لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنِ﴾’’یقیناً ہمارا باپ واضح غلطی پر ہے۔‘‘ کیونکہ اس نے بغیر کسی موجب کے جس کو ہم دیکھ سکیں اور بغیر کسی ایسے سبب کے جس کا ہم مشاہدہ کرسکیں، ان دونوں کو ہم پر ترجیح دی ہے۔ یوسف
9 ﴿اقْــتُلُوْا یُوْسُفَ اَوِ اطْرَحُوْہُ اَرْضًا ﴾’’یوسف کو مار ڈالو یا اس کو پھینک دو کسی زمین میں‘‘ یعنی کہیں دور علاقے میں لے جا کر اس کو باپ کی نظروں سے دور کردو جہاں وہ اپنے باپ کو نظر نہ آسکے۔ اگر تم نے ان دونوں امور میں سے کسی ایک پر عمل کرلیا۔﴿ یَّخْلُ لَکُمْ وَجْہُ اَبِیْکُمْ﴾’’تو خالص ہوجائے گی تمہارے باپ کی توجہ تمہارے لیے۔‘‘ یعنی وہ تمہارے لیے فارغ ہوگا اور تمہارا باپ تمہارے ساتھ محبت اور شفقت سے پیش آئے گا، کیونکہ وہ اس وقت یوسف کی محبت میں مشغول ہے تمہاری محبت کے لیے اس کے پاس فراغت نہیں۔ ﴿وَتَکُوْنُوْا مِنْۢ بَعْدِہٖ ﴾ ’’اور ہوجانا تم اس کے بعد‘‘ یعنی یہ کام کرنے کے بعد۔﴿ قَوْمًا صٰلِحِیْنَ﴾ ’’نیک لوگ‘‘ یعنی تم اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں توبہ کرلینا اور اپنے اس گناہ کی معافی مانگ لینا۔ انہوں نے گناہ کے صدور سے پہلے ہی توبہ کا عزم کیا، تاکہ گناہ کا ارتکاب آسان ہو، اس کی برائی زائل ہو اور اس گناہ پر آمادہ کرنے کے لیے ایک دوسرے میں حوصلہ پیدا کریں۔ یوسف
10 ﴿قَالَ قَاۗیِٕلٌ مِّنْہُمْ ﴾’’ان میں سے ایک کہنے والے نے کہا۔‘‘ یعنی یوسف علیہ السلام کے بھائیوں میں سے کسی نے کہا جنہوں نے یوسف کو قتل کرنے یا جلا وطن کرنے کا ارادہ کیا ﴿لَا تَـقْتُلُوْا یُوْسُفَ﴾’’یوسف کو قتل نہ کرو‘‘ کیونکہ اس کو قتل کرنا بہت بڑی برائی اور بہت بڑا گناہ ہے اور یہ مقصد کہ یوسف علیہ السلام کو اس کے باپ سے دور کردیا جائے، یوسف کو قتل کیے بغیر حاصل ہوجائے گا، اس لیے تم یہ کرو کہ باپ سے دور کرنے کے لیے اسے اندھے کنویں میں ڈال دو اور یوسف کو دھمکی دو کہ وہ بھائیوں کی اس کارستانی کے بارے میں کسی کو آگاہ نہ کرے اور اپنے بارے میں یہی بتائے کہ وہ بھاگا ہوا ایک غلام ہے۔ اس وجہ سے کہ ﴿یَلْتَقِطْہُ بَعْضُ السَّـیَّارَۃِ﴾ ’’کوئی قافلے والا نکال کر اسے لے جائے گا۔‘‘ جو کہیں دور جا رہے ہوں گے اور وہ یوسف علیہ السلام کو ساتھ لے جائیں گے اور اس کی حفاظت کریں گے۔ اس قول کا قائل جناب یوسف علیہ السلام کے بارے میں سب سے اچھی رائے رکھنے والا اور اس پورے قضیے میں سب سے زیادہ نیک اور تقویٰ پر مبنی رویے کا حامل تھا، کیونکہ کچھ برائیاں دوسری برائیوں سے کم تر ہوتی ہیں اور کم تر نقصان کے ذریعے سے بڑے نقصان کو دور کرلیا جاسکتا ہے۔ پس جب وہ اس رائے پر متفق ہوگئے۔ یوسف
11 یعنی جناب یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے اپنے مقصد کے حصول کے لیے اپنے باپ سے کہا ﴿یٰٓاَبَانَا مَالَکَ لَا تَاْمَنَّا عَلٰی یُوْسُفَ﴾اباجان کیا وجہ ہے کہ آپ یوسف کے بارے میں ہمارا اعتبار نہیں کرتے۔ یعنی کون سی چیز بغیر کسی سبب اور موجب کے یوسف کے بارے میں آپ کو ہم سے خائف کر رہی ہے اور حال یہ ہے کہ﴿ وَاِنَّا لَہٗ لَنٰصِحُوْنَ﴾’’ہم اس کے خیر خواہ ہیں۔‘‘ یعنی ہم اس پر شفقت رکھتے ہیں اور ہم اس کے لیے وہی کچھ چاہتے ہیں جو اپنے لیے چاہتے ہیں۔ برادران یوسف کا یہ قول دلالت کرتا ہے کہ یعقوب علیہ السلام حضرت یوسف علیہ السلام کو ان کے بھائیوں کے ساتھ جنگل وغیرہ کی طرف نہیں جانے دیا کرتے تھے۔ جب انہوں نے اپنے آپ سے اس تہمت کو رفع کردیا جو یوسف علیہ السلام کو ان کے ساتھ بھیجنے سے مانع تھی تو انہوں نے یوسف علیہ السلام کے بارے میں اس مصلحت کا ذکر کیا جسے یعقوب علیہ السلام پسند کرتے تھے جو اس امر کا تقاضا کرتی تھی کہ وہ یوسف علیہ السلام کو ان کے ساتھ بھیج دیں۔ یوسف
12 تو کہنے لگے﴿ اَرْسِلْہُ مَعَنَا غَدًا یَّرْتَعْ وَیَلْعَبْ﴾’’بھیج دو اس کو ہمارے ساتھ کل کو خوب کھائے اور کھیلے‘‘ یعنی وہ جنگل میں تفریح کر کے وحشت دور کرلے۔﴿ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ﴾ ’’اور ہم اس کے نگہبان ہیں۔‘‘ یعنی ہم اس کا دھیان رکھیں گے اور ہر تکلیف دہ چیز سے اس کی حفاظت کریں گے۔ یعقوب علیہ السلام نے جواب میں ان سے فرمایا یوسف
13 ﴿ اِنِّیْ لَیَحْزُنُنِیْٓ اَنْ تَذْہَبُوْا بِہٖ﴾ ’’تمہارا اس یوسف کو محض ساتھ لے جانا ہی مجھے غم زدہ کرتا ہ‘‘اور مجھ پر شاق گزرتا ہے کیونکہ میں اس کی جدائی برداشت نہیں کرسکتا خواہ یہ تھوڑے سے وقت کے لیے ہی کیوں نہ ہو اور یہ چیز یوسف علیہ السلام کو تمہارے ساتھ بھیجنے سے مانع ہے اور دوسرا مانع یہ ہے﴿ وَاَخَافُ اَنْ یَّاْکُلَہُ الذِّئْبُ وَاَنْتُمْ عَنْہُ غٰفِلُوْنَ﴾’’مجھے یہ بھی اندیشہ ہے کہ تم اس سے غافل ہوجاؤ اور اسے بھیڑیا کھا جائے۔‘‘ تمہارے، اس سے غفلت کرنے کی وجہ سے، کیونکہ وہ چھوٹا ہے اور اپنی حفاظت نہیں کرسکتا۔ یوسف
14 ﴿قَالُوْا لَیِٕنْ اَکَلَہُ الذِّئْبُ وَنَحْنُ عُصْبَۃٌ اِنَّآ اِذًا لَّخٰسِرُوْنَ ﴾ ’’انہوں نے کہا، اگر اس کو بھیڑیا کھا گیا اور ہم ایک قوی جماعت ہیں، یعنی ہم ایک جماعت ہیں اور اس کی حفاظت کے حریص ہیں۔‘‘ ﴿ اِنَّآ اِذًا لَّخٰسِرُوْنَ﴾ ’’تب تو ہم یقیناً نقصان اٹھانے والے ہیں‘‘ یعنی اگر بھیڑیا یوسف علیہ السلام کو ہم سے چھین کر کھا جائے تب تو ہم میں کوئی بھلائی اور کوئی نفع نہیں جس کی امید کی جا سکے، جب انہوں نے اپنے باپ کے سامنے ان تمام اسباب کو تمہید کے ساتھ بیان کیا جویوسف علیہ السلام کو ساتھ بھیجنے کے داعی تھے اور عدم موانع کا ذکر کیا تو یعقوب علیہ السلام نے حضرت یوسف علیہ السلام کو تفریح کے لیے ان کے ساتھ بھیج دیا۔ یوسف
15 یعنی جب وہ باپ کی اجازت کے بعد یوسف علیہ السلام کو ساتھ لے گئے اور انہوں نے اپنے میں سے ایک کی رائے کے مطابق، جس کا ذکر پیچھے گزر چکا ہے، یوسف علیہ السلام کو اندھے کنوئیں میں پھینکنے کا عزم کرلیا اور اب وہ اپنے فیصلے پر عمل کرنے کی قدرت رکھتے تھے چنانچہ انہوں نے اپنے فیصلے پر عمل کرتے ہوئے یوسف علیہ السلام کو اندھے کنوئیں میں پھینک دیا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے جناب یوسف علیہ السلام کو جو کہ اس وقت سخت خوف کی حالت میں تھے اپنے لطف و کرم سے نوازتے ہوئے ان کی طرف وحی کی﴿ لَتُنَبِّئَنَّہُمْ بِاَمْرِہِمْ ھٰذَا وَہُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ﴾ ’’کہ تو جتائے گا ان کو ان کا یہ کام اور وہ تجھ کو نہ جانیں گے۔‘‘ یعنی آپ عنقریب اس معاملے میں ان پر عتاب کریں گے اور ان کو اس بارے میں آگاہ کریں گے اور انہیں اس معاملے کا شعور تک نہ ہوگا۔ اس میں جناب یوسف علیہ السلام کے لیے بشارت تھی کہ وہ اس مصیبت سے ضرور نجات پائیں گے۔ اللہ تعالیٰ اس حالت میں ان کو اپنے گھر والوں کے ساتھ اکٹھا کرے گا کہ عزت اور ملک کا اقتدار ان کے پاس ہوگا۔ یوسف
16 ﴿وَجَاۗءُوْٓا اَبَاہُمْ عِشَاۗءً یَّبْکُوْنَ﴾ ’’اور وہ اندھیرا پڑتے اپنے باپ کے پاس روتے ہوئے آئے۔‘‘ تاکہ ان کے معمول کے مطابق آنے کے وقت سے تاخیر کر کے اور ان کا روتے دھوتے آنا ان کے حق میں دلیل اور ان کی صداقت کا قرینہ ہو۔ وہ جھوٹا عذر پیش کرتے ہوئے بولے: یوسف
17 ﴿ یٰٓاَبَانَآ اِنَّا ذَہَبْنَا نَسْتَبِقُ﴾ ’’اباجان ! ہم تو دوڑنے اور ایک دوسرے سے آگے نکلنے میں مصروف ہوگئے۔‘‘ ابا جان ! ہم مقابلہ کرنے لگ گئے تھے یہ مقابلہ یا تو دوڑ کا مقابلہ تھا یا تیر اندازی اور نیزہ بازی کا۔﴿ وَتَرَکْنَا یُوْسُفَ عِنْدَ مَتَاعِنَا﴾ ’’اور یوسف کو اپنے اسباب کے پاس چھوڑ گئے۔‘‘ ہم نے سامان کی حفاظت اور یوسف علیہ السلام کے آرام کی خاطر اسے سامان کے پاس چھوڑ دیا﴿ فَاَکَلَہُ الذِّئْبُ ﴾’’تو اسے بھیڑیا کھا گیا۔‘‘ جب ہم مقابلہ کر رہے تھے تو ہماری عدم موجودگی میں اسے بھیڑیا کھا گیا۔﴿ وَمَآ اَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَّنَا وَلَوْ کُنَّا صٰدِقِیْنَ﴾ ’’اور آپ ہماری بات کو گو ہم سچے بھی ہوں، باور نہیں کریں گے۔‘‘ یعنی ہم یہ عذر پیش کرتے ہیں اور ظاہر ہے کہ آپ ہماری بات نہیں مانیں گے، کیونکہ آپ کا دل یوسف علیہ السلام کے بارے میں سخت غم زدہ ہے۔ مگر آپ کا ہماری بات کو نہ ماننا اس بات سے مانع نہیں کہ ہم آپ کے سامنے حقیقی عذر پیش کریں اور یہ سب کچھ ان کے اپنے عذر پر تاکید کے لیے تھا۔ یوسف
18 ﴿وَ﴾ اور انہوں نے اپنی بات کو اس طرح مؤکد کیا۔﴿ وَجَاءُوا عَلَىٰ قَمِيصِهِ بِدَمٍ كَذِبٍ ﴾ ’’وہ یوسف کی قمیص پر جھوٹا خون لگا کر لائے۔‘‘ اور دعویٰ کیا کہ یہ یوسف کا خون ہے اور یہ خون اس وقت لگا تھا جب بھیڑئیے نے یوسف کو کھایا تھا۔ مگر ان کے باپ نے ان کی بات کو تسلیم نہ کیا۔﴿ قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَکُمْ اَنْفُسُکُمْ اَمْرًا ﴾’’انہوں (یعقوب) نے کہا، بلکہ تم اپنے دل سے یہ بات بنا لائے ہو۔‘‘ یعنی تمہارے نفس نے میرے اور یوسف علیہ السلام کے درمیان جدائی ڈالنے لیے ایک برے کام کو تمہارے سامنے مزین کردیا، کیونکہ قرائن و احوال اور یوسف (علیہ السلام) کا خواب، یعقوب علیہ السلام کے اس قول پر دلالت کرتے تھے۔﴿ فَصَبْرٌ جَمِیْلٌ ۭ وَاللّٰہُ الْمُسْتَعَانُ عَلٰی مَا تَصِفُوْنَ ﴾ ’’اچھا صبر کہ وہی خوب ہے اور جو تم بیان کرتے ہو اس کے بارے میں اللہ ہی سے مدد مطلوب ہے۔‘‘ یعنی رہا میں، تو میرا وظیفہ، جس کو قائم رکھنا چاہتا ہوں۔ یہ ہے کہ میں اس آزمائش پر صبر جمیل سے کام لوں گا۔ مخلوق کے پاس اللہ تعالیٰ کا شکوہ نہیں کروں گا۔ میں اپنے اس وظیفے پر اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرتا ہوں۔ میں اپنی قوت و اختیار پر بھروسہ نہیں کرتا۔ جناب یعقوب علیہ السلام نے اپنے دل میں اس امر کا وعدہ کیا اور اپنے خالق کے پاس اپنے اس صدمے کی شکایت ان الفاظ میں کی﴿ إِنَّمَا أَشْكُو بَثِّي وَحُزْنِي إِلَى اللَّـهِ ﴾﴿یوسف:12؍86 ’’میں تو اپنی پریشانی اور غم کی شکایت صرف اللہ کے پاس کرتا ہوں۔‘‘ کیونکہ خالق کے پاس شکوہ کرنا صبر کے منافی نہیں اور نبی جب وعدہ کرتا ہے تو اسے پورا کرتا ہے۔ یوسف
19 جناب یوسف علیہ السلام کچھ عرصہ اس اندھے کنویں میں پڑے رہے۔﴿ وَجَاۗءَتْ سَیَّارَۃٌ ﴾ ’’ایک قافلہ آ وارد ہوا۔‘‘ یہاں تک کہ ایک قافلہ آیا جو مصر جا رہا تھا۔ ﴿فَاَرْسَلُوْا وَارِدَہُمْ ﴾’’انہوں نے اپنے ہر اول سقے کو بھیجا‘‘ اس سے مراد وہ شخص ہے جو قافلے کے لیے پانی تلاش کرتا ہے اور ان کے لیے حوض وغیرہ تیار کرتا ہے۔﴿ فَاَدْلٰی دَلْوَہٗ ﴾’’پس اس نے اپنا ڈول لٹکایا۔‘‘ یعنی پانی تلاش کرنے والے اس سقے نے کنوئیں میں اپنا ڈول ڈالا تو یوسف علیہ السلام اس ڈول سے چمٹ کر باہر آگئے۔﴿ قَالَ یٰبُشْرٰی ھٰذَا غُلٰمٌ ﴾ یعنی وہ بہت خوش ہوا اور بولا یہ تو قیمتی غلام ہے۔﴿ وَاَسَرُّوْہُ بِضَاعَۃً ﴾’’اور اس کو تجارت کا مال سمجھ کر چھپا لیا‘‘ یوسف علیہ السلام کے بھائی بھی کہیں قریب ہی تھے۔ قافلے والوں نے یوسف کو ان کے بھائیوں سے خرید لیا۔﴿ بِثَمَنٍ بَخْسٍ ﴾’’بہت ہی معمولی قیمت میں۔‘‘ پھر اس کی تفسیر یوں بیان فرمائی﴿دَرَاہِمَ مَعْدُوْدَۃٍ ۚ وَکَانُوْا فِیْہِ مِنَ الزَّاہِدِیْنَ﴾ ’’چند درہموں میں اور وہ اس سے بیزار ہو رہے تھے۔‘‘ کیونکہ ان کا مقصد تو صرف یوسف علیہ السلام کو غائب کر کے اپنے باپ سے جدا کرنا تھا۔ ان کا مقصد یوسف علیہ السلام کی قیمت حاصل کرنا نہ تھا۔ اس آیت کریمہ کا مطلب یہ ہے کہ جب یوسف علیہ السلام اس قافلے کے ہاتھ لگ گئے تو قافلے والوں نے ان کے معاملے کو چھپانے کا عزم کرلیا، تاکہ وہ انہیں بھی اپنے سامان تجارت میں شامل کرلیں، حتیٰ کہ ان کے بھائی آگئے اور انہوں نے یوسف علیہ السلام کے بارے میں ظاہر کیا کہ وہ ان کا بھاگا ہوا غلام ہے۔ پس قافلے والوں نے انہیں اس معمولی قیمت پر خرید لیا اور انہوں نے قافلے والوں سے یقین حاصل کیا کہ وہ بھاگ نہ جائے۔ واللہ اعلم۔ یوسف
20 یوسف
21 یعنی قافلہ یوسف علیہ السلام کو لے کر مصر چلا گیا اور وہاں جا کر ان کو فروخت کردیا اور عزیز مصر نے انہیں خرید لیا۔ جب عزیز مصر نے یوسف علیہ السلام کو خریدا تو وہ ان کو اچھے لگے، چنانچہ اس نے یوسف علیہ السلام کے بارے میں اپنی بیوی کو وصیت کرتے ہوئے کہا﴿اَکْرِمِیْ مَثْوٰیہُ عَسٰٓی اَنْ یَّنْفَعَنَآ اَوْ نَتَّخِذَہٗ وَلَدًا﴾ ’’اس کو عزت سے رکھ، شاید یہ ہمارے کام آئے یا ہم اس کو بیٹا بنا لیں۔‘‘ یعنی یہ ہمیں یا تو اس طرح فائدہ دے گا جس طرح خدمت کے ذریعہ سے غلام فائدہ دیتے ہیں یا ہم اس سے اس انداز سے فائدہ اٹھائیں گے جیسے اولاد سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ یہ بات اس نے اس لیے کہی کہ شاید ان کے ہاں اولاد نہ تھی۔﴿ وَکَذٰلِکَ مَکَّنَّا لِیُوْسُفَ فِی الْاَرْضِ ﴾ ’’اسی طرح ہم نے جگہ دی یوسف کو اس ملک میں۔‘‘ یعنی جس طرح ہم نے نہایت آسان کردیا کہ عزیز مصر یوسف علیہ السلام کو خرید لے اور آپ کو عزت و تکریم دے، تو اسی طریقے سے ہم نے یوسف علیہ السلام کو اقتدار عطا کرنے کے لیے راہ ہموار کی۔﴿ وَلِنُعَلِّمَہٗ مِنْ تَاْوِیْلِ الْاَحَادِیْثِ ﴾ ’’اور اس واسطے کہ اس کو سکھائیں کچھ ٹھکانے پر بٹھانا باتوں کا۔‘‘ یعنی انہیں کوئی شغل اور کوئی ہم و غم لاحق نہ رہا سوائے حصول علم کے اور یہ چیز ان کے لیے علم الاحکام اور علم التعبیر وغیرہ کے حصول کا باعث بن گئی۔﴿ وَاللّٰہُ غَالِبٌ عَلٰٓی اَمْرِہ﴾یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ کا حکم نافذ ہے کوئی ہستی اسے باطل کرسکتی ہے نہ اللہ تعالیٰ پر غالب آسکتی ہے۔﴿ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ ﴾’’لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔‘‘ اسی وجہ سے ان سے اللہ تعالیٰ کے احکام قدریہ کے مقابلے میں افعال سرزد ہوتے ہیں حالانکہ وہ انتہائی عاجز اور انتہائی کمزور ہیں، کوئی مقابلہ کرنے والا اللہ تعالیٰ پر غالب نہیں آسکتا۔ یوسف
22 ﴿ وَلَمَّا بَلَغَ أَشُدَّهُ ﴾ ’’اور جب وہ اپنی جوانی کو پہنچے۔‘‘ یعنی جب جناب یوسف علیہ السلام کے قوائے حسیہ اور قوائے معنویہ اپنے درجہ کمال کو پہنچ گئے اور ان میں یہ صلاحیت پیدا ہوگئی کہ وہ نبوت اور رسالت کا بھاری بوجھ اٹھا سکیں۔ ﴿آتَيْنَاهُ حُكْمًا وَعِلْمًا﴾’’تو ہم نے ان کو دانائی اور علم بخشا۔‘‘ یعنی ہم نے ان کو نبی، رسول اور عالم ربانی بنا دیا۔﴿ وَکَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ ﴾’’اور اسی طرح ہم بدلہ دیتے ہیں نیکو کاروں کو۔‘‘ یعنی جو پوری کوشش اور خیر خواہی سے خالق کی عبادت میں ” احسان“ سے کام لیتے ہیں اور اللہ کے بندوں کو نفع پہنچا کر ان کے ساتھ بھلائی سے پیش آتے ہیں ہم ان کو ان کے اس احسان کے بدلے علم نافع عطا کرتے ہیں۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ یوسف علیہ السلام مقام احسان پر فائز تھے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کو لوگوں کے درمیان فیصلہ کرنے کی قوت، علم کثیر اور نبوت عطا کی۔ یوسف
23 یہ عظیم آزمائش اس سے بہت بڑی تھی جو جناب یوسف علیہ السلام کو اپنے بھائیوں کی طرف سے پیش آئی اور اس پر ان کا صبر کرنا بہت بڑے اجر کا موجب بنا، کیونکہ اس قبیح فعل کے وقوع کے لیے کثیر اسباب کے باوجود انہوں نے صبر کو اختیار کیا اور اللہ تعالیٰ کی محبت کو ان اسباب پر مقدم رکھا۔ اس لیے ان کا یہ صبر اختیاری تھا اور ان کو اپنے بھائیوں کے ہاتھوں جو آزمائش پیش آئی وہاں ان کا صبر اضطراری تھا۔ جیسے مرض اور دیگر تکالیف بندے کے اختیار کے بغیر اسے لاحق ہوتی ہیں جن میں طوعاً یا کرہاً صبر کے سوا کوئی چارہ نہیں اور آزمائش کا یہ واقعہ اس طرح پیش آیا کہ حضرت یوسف علیہ السلام عزیز مصر کے گھر میں نہایت عزت و اکرام کے ساتھ رہ رہے تھے۔ وہ کامل حسن و جمال اور مردانہ وجاہت کے حامل تھے اور یہی چیز ان کی آزمائش کا موجب بنی۔﴿ وَرَاوَدَتْہُ الَّتِیْ ہُوَ فِیْ بَیْتِہَا عَنْ نَّفْسِہٖ﴾’’تو جس عورت کے گھر میں وہ رہتے تھے اس نے ان کو اپنی طرف مائل کرنا چاہا۔‘‘ یعنی یوسف علیہ السلام جس عورت کے غلام اور اس کے زیر دست تھے اس نے ان پر ڈورے ڈالنے شروع کردئیے۔ وہ ایک ہی گھر میں رہتے تھے جہاں کسی شعور اور احساس کے بغیر اس مکروہ فعل کے مواقع میسر تھے اور اس سے بھی بڑھ کر مصیبت یہ نازل ہوئی کہ﴿ وَغَلَّقَتِ الْاَبْوَابَ﴾ ’’اس نے دروازے بند کردئیے۔‘‘ اور مکان خالی ہوگیا اور دروازوں کو بند کردینے کی بنا پر کسی کے وہاں آنے کا ڈڑ نہ رہا۔ اس عورت نے جناب یوسف کو اپنے ساتھ بدکاری کی دعوت دی۔ ﴿وَقَالَتْ هَيْتَ لَكَ ﴾ ’’کہنے لگی، جلدی آؤ۔‘‘ یعنی میرے پاس آؤ اور میرے ساتھ یہ فعل بد سر انجام دو۔ اس کے باوجود کہ یوسف علیہ السلام ایک غریب الوطن شخص تھے اور ایسا شخص اس طرح اپنے غصے اور ناپسندیدگی کا اظہار نہیں کرسکتا جس طرح وہ اپنے وطن میں جان پہچان کے درمیان ناپسندیدگی کا اظہار کرتا ہے اور وہ اس عورت کے اسیر تھے اور وہ عورت ان کی آقا تھی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس عورت میں حسن و جمال تھا۔ یوسف علیہ السلام خود جوان اور غیر شادی شدہ تھے اور اس پر مستزاد یہ کہ وہ عورت دھمکی دے رہی تھی کہ اگر یوسف علیہ السلام نے اس کی خواہش پوری نہ کی تو وہ انہیں قید خانے میں بھجوادے گی یا انہیں دردناک عذاب میں مبتلا کردے گی۔ مگر بایں ہمہ، جناب یوسف علیہ السلام اپنے اندر اس فعل کا قوی داعیہ ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے رکے رہے، کیونکہ جس فعل کا ارادہ انہوں نے کرلیا تھا اسے اللہ تعالیٰ کی خاطر ترک کردیا اور اللہ تعالیٰ کی مراد کو اپنے نفس کی مراد پر مقدم رکھا جو ہمیشہ برائی کا حکم دیتا ہے۔ انہیں اپنے رب کی برہان نظر آئی، یعنی ان کے پاس جو علم و ایمان تھا وہ اس بات کا موجب تھا کہ وہ ہر اس چیز کو ترک کردیں جس کو اللہ تعالیٰ نے حرام ٹھہرایا ہے یہ برہان حق ان کو اس بڑے گناہ سے دور رکھنے کی باعث تھی۔﴿ قَالَ مَعَاذَ اللَّـهِ ﴾ ’’انہوں نے کہا، اللہ کی پناہ۔‘‘ یعنی میں اس انتہائی قبیح فعل کے ارتکاب سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں۔ کیونکہ یہ ایسا فعل ہے جس پر اللہ تعالیٰ سخت ناراض ہوتا ہے۔ ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ اپنے سے دور کردیتا ہے، نیز یہ فعل اپنے آقا کے حق میں خیانت ہے جس نے مجھے عزت و تکریم سے نوازا۔ پس مجھے یہ ہرگز زیب نہیں دیتا کہ میں اس کی بیوی کے ساتھ اس بدترین فعل کے ذریعے سے اس کے احسانات کا بدلہ دوں۔ یہ تو سب سے بڑا ظلم ہے اور ظلم کبھی فلاح نہیں پاتا۔ حاصل کلام یہ ہے کہ یوسف علیہ السلام نے اس قبیح فعل سے جن امور کو موانع قرار دیاوہ تھے تقوائے الٰہی، اپنے آقا کے حق کی رعایت جس نے ان کو عزت و اکرام سے نوازا تھا اور اپنے آپ کو ظلم کرنے سے بچانا، جس کا مرتکب کبھی فلاح نہیں پاتا۔ اور اسی طرح اللہ تعالیٰ نے جناب یوسف علیہ السلام کو ایمان کی برہان حق سے نوازا جو ان کے قلب میں جاگزیں تھا جو ان سے اوامر الٰہی کی اطاعت اور نواہی سے اجتناب کا تقاضا کرتا تھا۔ اس پورے معاملے میں جامع بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یوسف علیہ السلام سے بدی اور بے حیائی کو دور کردیا تھا، کیونکہ وہ ان بندوں میں سے تھے جو اپنی عبادات میں اخلاص سے کام لیتے ہیں، جن کو اللہ تعالیٰ نے چن لیا اور اپنے لیے خاص کرلی اور ان پر اپنی نعمتوں کی بارش کردی اور تمام ناپسندیدہ امور کو ان سے دور کر دیا۔ بنا بریں وہ اللہ تعالیٰ کی بہترین مخلوق میں سے تھے۔ جب حضرت یوسف علیہ السلام اس عورت کی طرف سے بدی کی سخت ترغیب کے باوجود اس کی خواہش پوری کرنے سے ممتنع رہے اور وہ اس عورت سے اپنے آپ کو چھڑا کر دروازے کی طرف تیزی سے بھاگے، تاکہ وہ بھاگ کر اس فتنہ سے بچ کر نکل جائیں تو وہ عورت بھی ان کے پیچھے بھاگی اور پیچھے سے ان کی قمیص کا دامن پکڑ لیا اور ان کی قمیص پھاڑ ڈالی۔ جب وہ دونوں اس حالت میں دروازے پر پہنچے تو انہوں نے دروازے پر عورت کے خاوند کو موجود پایا اس نے یہ معاملہ دیکھا تو اسے سخت شاق گزرا۔ اس عورت نے فوراً جھوٹ گھڑ لیا اور دعویٰ کیا کہ یوسف اس کے ساتھ زیادتی کرنا چاہتا تھا اور کہنے لگی یوسف
24 یوسف
25 ﴿ مَا جَزَاءُ مَنْ أَرَادَ بِأَهْلِكَ سُوءًا ﴾ ’’اس شخص کی کیا سزا ہے جو تیری بیوی کے ساتھ برائی کا ارادہ کرے‘‘ اور یہ نہیں کہا، ﴿مَن فَعَلَ بِأَهْلِكَ سُوءًا ﴾’’جس نے تیری بیوی کے ساتھ برائی کی۔‘‘ کیونکہ وہ اپنے آپ کو اور یوسف علیہ السلام کو اس فعل سے بری ظاہر کرنا چاہتی تھی۔ تمام نزاع تو صرف برائی کے ارادے اور ڈورے ڈالنے کے بارے میں تھا﴿ اِلَّآ اَنْ یُّسْجَنَ اَوْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ ﴾’’مگر یہی کہ اسے جیل میں ڈال دیا جائے یا اسے دردناک سزا دی جائے۔‘‘ یوسف
26 یوسف علیہ السلام نے اس الزام سے، جو اس عورت نے لگایا تھا، اپنے آپ کو بری کرتے ہوئے کہا﴿  هِيَ رَاوَدَتْنِي عَن نَّفْسِي ﴾ ’’اسی نے مجھ کو مائل کرنا چاہا تھا‘‘ اس صورت حال میں دونوں کی صداقت کا احتمال تھا مگر یہ معلوم نہیں کیا جاسکتا تھا کہ دونوں میں سے کون سچا ہے؟ اللہ تبارک و تعالیٰ نے حق اور صداقت کی کچھ علامات اور نشانیاں مقرر فرمائی ہیں۔ جو حق کی طرف راہ نمائی کرتی ہیں جنہیں بسا اوقات بندے جانتے ہیں اور بسا اوقات نہیں جانتے، چنانچہ اس قضیہ میں اللہ تعالیٰ نے سچے کی پہچان سے نوازا، تاکہ اس کے نبی اور چنیدہ بندے، جناب یوسف علیہ السلام کی براءت کا اظہار ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اس عورت کے گھر والوں میں سے ایک شاہد کو کھڑا کردیا اور اس نے قرینے کی گواہی دی کہ جس کے پاس یہ قرینہ موجود ہوگا وہی سچا ہے۔ اس گواہ نے کہا﴿ اِنْ کَانَ قَمِیْصُہٗ قُدَّ مِنْ قُبُلٍ فَصَدَقَتْ وَہُوَ مِنَ الْکٰذِبِیْنَ ﴾ ’’اگر اس کا کرتہ آگے سے پھٹا ہوا ہے تو وہ عورت سچی ہے اور وہ جھوٹا ہے‘‘ کیونکہ یہ صورت حال دلالت کرتی ہے کہ یوسف علیہ السلام ہی بڑھ کر اس عورت پر ہاتھ ڈالنے والے، اس کو پھسلانے والے اور زور آزمائی کرنے والے تھے اور وہ عورت تو بس اپنی مدافعت کر رہی تھی اور اس نے اپنی مدافعت کی حالت میں اس جانب سے یوسف کا کرتہ پھاڑ ڈالا۔ یوسف
27 ﴿ وَاِنْ کَانَ قَمِیْصُہٗ قُدَّ مِنْ دُبُرٍ فَکَذَبَتْ وَہُوَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ ﴾ ’’اور اگر اس کا کرتہ پیچھے سے پھٹا ہوا ہے، تو وہ عورت جھوٹی ہے اور وہ سچا ہے‘‘ کیونکہ یہ صورت حال جناب یوسف علیہ السلام کے اپنے آپ کو چھڑا کر بھاگنے پر دلالت کرتی ہے اور یہ کہ یہ عورت ہی ہے جس نے یوسف علیہ السلام پر ڈورے ڈالنے چاہے اور اس طرح کرتہ اس جانب سے پھٹ گیا۔ یوسف
28 ﴿ فَلَمَّا رَاٰ قَمِیْصَہٗ قُدَّ مِنْ دُبُرٍ ﴾ ’’پس جب عزیزی مصر نے ان کا کرتا پیچھے سے پھٹا ہوا دیکھا‘‘ تو اسے جناب یوسف علیہ السلام کی صداقت اور ان کی براءت کا یقین ہوگیا۔ نیز یہ کہ عورت جھوٹی ہے، تو عورت کے شوہر نے اس سے کہا ﴿اِنَّہٗ مِنْ کَیْدِکُنَّ ۭ اِنَّ کَیْدَکُنَّ عَظِیْمٌ ﴾ ’’یہ ایک فریب ہے تم عورتوں کا، یقیناً تمہارا فریب بڑا ہے‘‘ اس سے بڑھ کر کوئی اور فریب ہوسکتا ہے کہ اس عورت نے بدی کا ارادہ کیا، اس کا ارتکاب کرنے کی کوشش کی پھر اپنے آپ کو بری قرار دے کر اپنا کرتوت اللہ تعالیٰ کے نبی جناب یوسف کے سر تھوپ دیا۔ جب اس عورت کے شوہر کے سامنے سارا معاملہ متحقق ہوگیا تو اس نے حضرت یوسف علیہ السلام سے کہا یوسف
29 ﴿ یُوْسُفُ اَعْرِضْ عَنْ ھٰذَا﴾ ’’یوسف ! جانے دو اس ذکر کو‘‘ یعنی اس واقعہ کے بارے میں کوئی بات نہ کرو، اسے بھول جاؤ اور کسی سے اس کا ذکر نہ کرو۔ وہ اپنی بیوی کے فعل پر پردہ ڈالنا چاہتا تھا۔ ﴿وَاسْتَغْفِرِیْ﴾ ’’اے عورت ! بخشش مانگ‘‘ ﴿  لِذَنبِكِ ۖ إِنَّكِ كُنتِ مِنَ الْخَاطِئِينَ ﴾ ’’اپنے گناہ پر، بے شک تو ہی گناہ گار تھی‘‘ اس شخص نے یوسف علیہ السلام کو اس تمام معاملے کو نظر انداز کرنے کی درخواست کی اور اس عورت کو توبہ و استغفار کا حکم دیا۔ یوسف
30 یعنی اس واقعے کی خبر مشہور ہوگئی اور تمام شہر میں پھیل گئی اور اس بارے میں عورتوں نے چہ میگوئیاں کیں اور عزیز مصر کی بیوی کو ملامت کرنے لگیں اور کہنے لگیں :﴿ امْرَأَتُ الْعَزِيزِ تُرَاوِدُ فَتَاهَا عَن نَّفْسِهِ ۖ قَدْ شَغَفَهَا حُبًّا ﴾” عزیز کی بیوی، پھسلاتی ہے اپنے غلام کو اس کے جی سے، اس کا دل اس کی محبت میں فریفتہ ہوگیا ہے“ یہ کام بہت برا ہے یہ عورت ایک انتہائی معزز شخص کی معزز بیوی ہے، بایں ہمہ وہ اپنے غلام پر ڈورے ڈالتی رہی ہے جو زیردست اور اس کی خدمت پر مامور تھا، اس کے باوجود اس عورت کے دل میں اس غلام کی محبت جاگزیں ہوگئی﴿قَدْ شَغَفَهَا حُبًّا ﴾ ” اس کی محبت اس کے دل میں گھر کرگئی۔“ یعنی یوسف کی محبت عورت کے دل کی گہرائیوں تک پہنچ گئی ہے۔ یہ محبت کا انتہائی درجہ ہے۔ ﴿إِنَّا لَنَرَاهَا فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ ﴾’’یقیناً ہم اس کو کھلی گمراہی میں دیکھتی ہیں۔“ یہ عورت اس حالت کو پہنچ گئی ہے جو اس کی شان کے لائق نہیں، یہ حالت لوگوں کے ہاں اس کی قدر و قیمت گھٹا دے گی۔ ان عورتوں کا اس قول سے مجرد ملامت اور محض لعن طعن مقصود نہیں تھا، بلکہ یہ ان کی ایک چال تھی۔ وہ درحقیقت یہ کہہ کر جناب یوسف تک رسائی حاصل کرنا چاہتی تھیں جن کی وجہ سے عزیز مصر کی بیوی فتنے میں پڑگئی۔۔۔ تاکہ یہ بات سن کر عزیز مصر کی بیوی غصے میں آئے اور ان کے سامنے آپ کو معذور ظاہر کرنے کے لئے یوسف کا دیدار کروا دے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کو مکر قرار دیا۔ یوسف
31 چنانچہ فرمایا : ﴿فَلَمَّا سَمِعَتْ بِمَكْرِهِنَّ أَرْسَلَتْ إِلَيْهِنَّ﴾” جب اس نے ان کا فریب سنا تو ان کو بولا بھیجا“ ان کو اپنے گھر ایک ضیافت پر بلایا ﴿وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَأً ﴾ ” اور ان کے لئے ایک مجلس تیار کی“ ان کے لئے ایک ایسی جگہ تیار کی جہاں مختلف اقسام کے فرش بچھے ہوئے تھے جن پر تکئے لگے ہوئے تھے اور کھانے سجے ہوئے تھے۔ علاوہ ازیں اس ضیافت میں عزیز مصر کی بیوی نے کچھ ایسے کھانے بھی پیش کئے جن میں چھری کے استعمال کی ضرورت پڑتی ہے، مثلاً لیموں وغیرہ﴿وَآتَتْ كُلَّ وَاحِدَةٍ مِّنْهُنَّ سِكِّينًا  ﴾” اور ان میں سے ہر ایک کے ہاتھ میں چھری دی“ تاکہ اس چھری سے وہ مخصوص کھانا کاٹ سکیں﴿ وَقَالَتِ﴾ اوریوسف علیہ السلام سے بولی : ﴿اخْرُجْ عَلَيْهِنَّ﴾” ان کے سامنے نکل آؤ“ اپنے پورے جمال اور رعنائیوں کے ساتھ ان عورتوں کے سامنے آؤ۔ ﴿فَلَمَّا رَأَيْنَهُ أَكْبَرْنَهُ﴾ ” پس جب انہوں نے اسے دیکھا تو اسے بہت بڑا سمجھا“ یعنی اپنے دل میں اسے بہت بڑا سمجھا اور انہیں ایک نہایت عمدہ اور سحر انگیز منظر نظر آیا کہ اس سے پہلے انہوں نے ایسا منظر کبھی نہیں دیکھا تھا۔ ﴿وَقَطَّعْنَ ﴾ ” اور کاٹ لئے انہوں نے“ یعنی تحیر اور مدہوشی میں﴿أَيْدِيَهُنَّ ﴾ ” اپنے ہاتھ“ ان چھریوں سے جو ان کے پاس تھیں اپنے ہاتھ کاٹ لئے۔ ﴿وَقُلْنَ حَاشَ لِلَّـهِ ﴾” اور کہنے لگیں اللہ تعالیٰ پاک ہے۔“ ﴿ مَا هَـٰذَا بَشَرًا إِنْ هَـٰذَا إِلَّا مَلَكٌ كَرِيمٌ ﴾ ”یہ شخص انسان نہیں ہے، یہ تو کوئی بزرگ فرشتہ ہے“ اس کی وجہ یہ تھی کہ جناب یوسف کو بے پناہ حسن و جمال، نورانیت اور مردانہ وجاہت عطا کی گئی تھی جو دیکھنے والوں کے لئے ایک نشانی اور غور کرنے والوں کے لئے عبرت تھی۔ یوسف
32 جب ان عورتوں کے سامنے یوسف علیہ السلام کا ظاہری جمال متحقق ہوگیا اور یوسف علیہ السلام ان کو بہت ہی اچھے لگے، تو عزیز مصر کی بیوی پر ان کا بہت کچھ عذر ظاہر ہوگیا۔ پھر اس نے چاہا کہ وہ ان عورتوں کو یوسف علیہ السلام کے باطنی جمال۔۔۔ یعنی عفت کامل۔۔۔ کا نظارہ کروائے چنانچہ اس عورت نے کسی چیز کے پروا کئے بغیر، کیونکہ آج عورتوں کی طرف سے ملامت منقطع ہوگئی تھی یوسف علیہ السلام سے اپنی شدید محبت کا اعلان کرتے ہوئے کہا : ﴿فَذَٰلِكُنَّ الَّذِي لُمْتُنَّنِي فِيهِ ۖ وَلَقَدْ رَاوَدتُّهُ عَن نَّفْسِهِ فَاسْتَعْصَمَ﴾” یہ وہی ہے کہ طعنہ دیا تھا تم نے مجھ کو اس کے بارے میں اور میں نے پھسلایا تھا اس کو اس کے جی سے، پس اس نے اپنے کو بچا لیا“ یعنی اس نے اپنے آپ کو بچا لیا گویا وہ اب بھی یوسف علیہ السلام کو پھسلانے کے موقف پر قائم تھی اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی بے قراری، محبت اور شوق وصال میں اضافہ ہوتا چلا گیا تھا۔ لہٰذا اس نے ان عورتوں کی موجودگی میں یوسف علیہ السلام سے کہا ﴿وَلَئِن لَّمْ يَفْعَلْ مَا آمُرُهُ لَيُسْجَنَنَّ وَلَيَكُونًا مِّنَ الصَّاغِرِينَ ﴾ ” اگر اس نے وہ کام نہ کیا، جس کا حکم میں اس کو دے رہی ہوں، تو یہ یقیناً قید کردیا جائے گا اور بے عزت ہوگا“ تاکہ وہ اس دھمکی کے ذریعے سے جناب یوسف علیہ السلام سے اپنا مقصد حاصل کر کے سکے۔ یوسف
33 تب یوسف علیہ السلام نے اپنے رب سے پناہ مانگی اور ان عورتوں کے مکر و فریب کے مقابلے میں اپنے رب سے مدد کے طلب گار ہئے ﴿قَالَ رَبِّ السِّجْنُ أَحَبُّ إِلَيَّ مِمَّا يَدْعُونَنِي إِلَيْهِ ﴾ ” انہوں نے کہا، اے رب ! مجھے قید اس سے زیادہ پسند ہے جس طرح یہ مجھے بلا رہی ہیں“ یہ چیز دلالت کرتی ہے کہ ان عورتوں نے یوسف علیہ السلام کو مشورہ دیا تھا کہ وہ اپنی مالکہ کا حکم مانیں اور ان عورتوں نے یوسف علیہ السلام کو فریب سے پھسلانا شروع کردیا تھا۔ اس لئے یوسف علیہ السلام نے اس لذت کے مقابلے میں، جو اخروی عذاب کی موجب ہے، قید خانے اور دنیاوی عذاب کو پسند کیا۔ ﴿وَإِلَّا تَصْرِفْ عَنِّي كَيْدَهُنَّ أَصْبُ إِلَيْهِنَّ﴾ ” اور اگر تو نے ان عورتوں کی چالوں اور مکر و فریب کو مجھ سے دور نہ کیا تو میں ان کی طرف مائل ہو کر ان کے دام میں پھنس جاؤں گا“ کیونکہ میں تو ایک عاجز اور کمزور بندہ ہوں ﴿وَأَكُن مِّنَ الْجَاهِلِينَ﴾ ” اور میں جاہلوں سے ہوجاؤں گا“ کیونکہ یہ سب جہالت کا کام ہے، کیونکہ جاہل ختم ہوجانے والی قلیل لذت کو جنت میں حاصل ہونے والی دائمی لذات اور انواع و اقسام کی شہوات پر ترجیح دیتا ہے اور جو دنیا کی اس لذت کو جنت کی لذتوں پر ترجیح دیتا ہے اس سے بڑھ کر جاہل کون ہے؟ علم و عقل ہمیشہ بڑی مصلحت اور دائمی لذت کو مقدم رکھنے اور ان امور کو تج دینے کی دعوت دیتے ہیں جن کا انجام قابل ستائش ہوتا ہے۔ یوسف
34 ﴿فَاسْتَجَابَ لَهُ رَبُّهُ﴾ ” تو اس کے رب نے اس کی دعا قبول کرلی۔“ جب یوسف علیہ السلام نے دعا مانگی، اللہ تعالیٰ نے اسے قبول فرما لیا ﴿فَصَرَفَ عَنْهُ كَيْدَهُنَّ﴾ ” پس ان سے ان عورتوں کا فریب پھیر دیا“ وہ عورت جناب یوسف علیہ السلام پر ڈورے ڈال کر ان کو اپنے دام فریب میں پھانسنے کی کوشش کرتی رہی اور اس سلسلے میں وہ تمام وسائل استعمال کرتی رہی جو اس کی قدرت و اختیار میں تھے۔ یہاں تک کہ یوسف علیہ السلام نے اس کو مایوس کردیا اور اللہ تعالیٰ نے اس مکرو فریب کو یوسف علیہ السلام سے رفع کردیا۔ ﴿إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ ﴾اللہ تعالیٰ دعا مانگنے والے کی دعا کو سنتا ہے ﴿الْعَلِيمُ ﴾ اور اس کی نیک نیت اور کمزور فطرت کو خوب جانتا ہے جو اس کی مدد، معاونت اور اس کے لطف و کرم کا تقاضا کرتی ہے۔ پس یہ دعا تھی جس کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے جناب یوسف علیہ السلام کو اس فتنہ اور بہت بڑی آزمائش سے نجات دی۔ رہے ان کے آقا تو جب یہ خبر مشہور ہوئی اور بات کھل گئی تو لوگوں میں سے کسی نے ان کو معذور سمجھا، کسی نے ملامت کی اور کسی نے جرح و قدح کی۔ یوسف
35 ﴿ بَدَا لَهُم ﴾ ” ان پر ظاہر ہوا۔“ ﴿مِّن بَعْدِ مَا رَأَوُا الْآيَاتِ﴾ایسی نشانیاں دیکھنے کے بعد جو یوسف علیہ السلام کی برأت پر دلالت کرتی تھیں ﴿لَيَسْجُنُنَّهُ حَتَّىٰ حِينٍ  ﴾” کہ ایک وقت تک ان کو قید میں رکھیں“ تاکہ اس طرح خبر منقطع ہوجائے اور لوگ اس واقعہ کو بھول جائیں، کیونکہ جب کوئی خبر شائع ہوجاتی ہے تو اس کا ذکر عام ہونے لگتا ہے اور وجود اسباب کے باعث یہ خبر پھیلتی چلی جاتی ہے۔ جب اسباب معدوم ہوجاتے ہیں اس واقعہ کو بھلا دیا جاتا ہے۔۔۔ چنانچہ انہوں نے اس میں یہی مصلحت دیکھی تو یوسف علیہ السلام کو قید خانے میں ڈال دیا۔ یوسف
36 ﴿وَدَخَلَ مَعَهُ السِّجْنَ فَتَيَانِ﴾ ” اور ان کے ساتھ دو اور جوان بھی قید خانے میں داخل ہوئے۔“ جب یوسف علیہ السلام قید خانے میں ڈالے گئے تو ان کے ساتھ دو اور نوجوان بھی قید کئے گئے۔ ان دونوں نوجوان قیدیوں نے خواب دیکھا، انہوں نے تعبیر پوچھنے کی غرض سے اپنا اپنا خواب یوسف علیہ السلام کو سنایا﴿قَالَ أَحَدُهُمَا إِنِّي أَرَانِي أَعْصِرُ خَمْرًا ۖ وَقَالَ الْآخَرُ إِنِّي أَرَانِي أَحْمِلُ فَوْقَ رَأْسِي خُبْزًا ﴾ ” ان میں سے ایک نے کہا، میں دیکھتا ہوں کہ میں شراب نچوڑ رہا ہوں اور دوسرے نے کہا، میں دیکھتا ہوں کہ میں اپنے سر پر روٹی اٹھا رہا ہوں“ اور یہ روٹی ﴿تَاْکُلُ الطَّیْرُمِنْہُ﴾ ” پرندے کھا رہے ہیں۔“ ﴿نَبِّئْنَا بِتَأْوِيلِهِ ﴾” ہمیں اس کی تعبیر بتا دیجئے۔‘‘ یعنی اس کی تفسیر سے ہمیں آگاہ کیجیے کہ اس خواب کا انجام کیا ہوگا۔ ان دونوں نوجوان قیدیوں نے کہا : ﴿ إِنَّا نَرَاكَ مِنَ الْمُحْسِنِينَ﴾ ” بے شک ہم آپ کو بھلائی کرنے والا دیکھتے ہیں“ یعنی آپ مخلوق کے ساتھ بھلائی کرنے والے ہیں۔ آپ ہمیں ہمارے خوابوں کی تعبیر بتا کر ہم پر احسان کیجیے جیسا کہ آپ نے دوسرے لوگوں پر احسان کیا ہے۔ انہوں نے یوسف علیہ السلام کے احسان کو وسیلہ بنایا۔ یوسف
37 ﴿ قَالَ﴾ یوسف علیہ السلام نے ان کی درخواست کا جواب دیتے ہوئے فرمایا: ﴿لَا يَأْتِيكُمَا طَعَامٌ تُرْزَقَانِهِ إِلَّا نَبَّأْتُكُمَا بِتَأْوِيلِهِ قَبْلَ أَن يَأْتِيَكُمَا﴾” جو کھانا تم کو ملنے والا ہے وہ آنے نہیں پائے گا کہ میں اس سے پہلے تم کو ان کی تعبیر بتا دوں گا۔“ یعنی تمہیں دلی اطمینان ہونا چاہئے کہ میں تمہیں تمہارے خواب کی تعبیر ضرور بتاؤں گا میں تمہارا کھانا آنے سے بھی پہلے تمہیں تمہارے خواب کی تعبیر بتا دوں گا۔ شاید یوسف علیہ السلام یہ ارادہ رکھتے تھے کہ اس حال میں، جب کہ ان قیدیوں نے حضرت یوسف علیہ السلام کی حاجت محسوس کی وہ ان قیدیوں کو ایمان کی دعوت دیں، تاکہ یہ حال ان کی دعوت کے لئے زیادہ مفید اور ان قیدیوں کے لئے زیادہ قابل قبول ہو۔ پھر یوسف علیہ السلام سے فرمایا : ﴿ذَٰلِكُمَا ﴾یعنی یہ تعبیر جو میں تم دونوں کو بتاؤں گا ﴿مِمَّا عَلَّمَنِي رَبِّي﴾” یہ اس علم میں سے ہے جو میرے رب نے مجھے عطا کیا ہے۔“ نیز اللہ تبارک و تعالیٰ نے مجھ پر احسان فرمایا اور وہ احسان یہ ہے﴿ إِنِّي تَرَكْتُ مِلَّةَ قَوْمٍ لَّا يُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَهُم بِالْآخِرَةِ هُمْ كَافِرُونَ ﴾ ” میں نے اس قوم کا دین چھوڑا جو اللہ پر یقین نہیں رکھتی اور وہ آخرت کے منکر ہیں“ (ترک) کا اطلاق جس طرح اس داخل ہونے والے پر ہوتا ہے جو داخل ہونے کے بعد وہاں سے منتقل ہوجاتا ہے اسی طرح اس شخص پر بھی ہوتا ہے جو اصلاً اس میں داخل ہی نہیں ہوتا۔ اس لئے یہ کہنا صحیح نہ ہوگا کہ اس سے پہلے یوسف علیہ السلام ملت ابراہیم کے علاوہ کسی اور ملت پر تھے۔ یوسف
38 ﴿وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبَائِي إِبْرَاهِيمَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ ﴾” اور میں نے پیروی کی اپنے باپ دادا کی ملت کی، ابراہیم، اسحٰق اور یعقوب کی“ اس کے بعد یوسف علیہ السلام نے ملت ابراہیم کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا : ﴿مَا كَانَ لَنَا أَن نُّشْرِكَ بِاللَّـهِ مِن شَيْءٍ﴾” ہمارے لائق نہیں کہ ہم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائیں“ یعنی ہم اللہ تعالیٰ کو ایک مانتے ہیں اور اسی کے لئے دین اور عبودیت کو خالص کرتے ہیں۔ ﴿ذَٰلِكَ مِن فَضْلِ اللَّـهِ عَلَيْنَا وَعَلَى النَّاسِ ﴾ ” یہ ہم پر اللہ کی بہترین نوازش اور اس کا فضل و احسان ہے۔“ یہ احسان ان لوگوں پر بھی ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے ہماری طرح راہ ہدایت پر گامزن کیا ہے، کیونکہ بندوں پر اللہ تعالیٰ کی اس نوازش اور عنایت سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں کہ وہ ان کو اسلام اور دین قویم سے نواز دے۔ پس جو کوئی اسے قبول کرلیتا ہے اور اس کی اطاعت کرتا ہے، تو یہ اس کی خوش نصیبی ہے وہ سب سے بڑی نعمت اور جلیل ترین فضیلت حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے ﴿وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَشْكُرُونَ﴾ ” لیکن اکثر لوگ شکر نہیں کرتے“ اسی لئے ان کے پاس اللہ تعالیٰ کی نوازشیں اور احسانات آتے ہیں مگر وہ انہیں قبول نہیں کرتے اور نہ اللہ تعالیٰ کے کسی حق کو قائم کرتے ہیں۔ یہ بات مخفی نہیں کہ اس میں اس راستے کی اتباع کی ترغیب ہے جس پر خود جناب یوسف علیہ السلام گامزن تھے۔ یوسف علیہ السلام نے چونکہ ان نوجوانوں کے بارے میں یہ چیز محسوس کرلی تھی کہ وہ ان کی عزت و تکریم کرتے ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ یوسف علیہ السلام ایک اچھے اور تعلیم دینے والے شخص ہیں۔۔۔ اس لئے جناب یوسف علیہ السلام نے ان دونوں کو بتایا کہ میری یہ حالت، جس پر میں اس وقت ہوں، یہ سب اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر احسان فرمایا کہ میں شرک سے بچ گیا اور میں نے اپنے آباء و اجداد کی ملت کی اتباع کی اور میں اس مقام پر پہنچ گیا جہاں تم مجھے دیکھ رہے ہو تمہارے لئے مناسب یہی ہے کہ تم بھی اس راستے پر چلو جس پر میں چل رہا ہوں۔ یوسف
39 پھر یوسف علیہ السلام نے نہایت صراحت کے ساتھ ان دونوں کو توحید کی دعوت دی۔ فرمایا : ﴿يَا صَاحِبَيِ السِّجْنِ أَأَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُونَ خَيْرٌ أَمِ اللَّـهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ  ﴾” اے قید کے ساتھیو ! کیا متفرق معبود بہتر ہیں یا ایک غالب اللہ“ یعنی عاجز اور کمزور معبود جو کسی کو نفع دے سکتے ہیں نہ نقصان، جو کسی کو عطا کرسکتے ہیں نہ محروم کرسکتے ہیں یہ معبود شجرو و حجر، فرشتوں، مردہ ہستیوں اور دیگر مختلف قسم کے معبودوں میں بکھرے ہوئے اور منقسم ہیں جن کو ان مشرکین نے معبود بنا رکھا ہے کیا یہ معبودان اچھے ہیں ﴿أَمِ اللَّـهُ  ﴾ ” یا اللہ“ جو صفات کمال کا مالک ہے﴿الْوَاحِدُ﴾ وہ اپنی ذات و صفات اور افعال میں یکتا ہے۔ ان تمام امور میں اس کا کوئی شریک نہیں۔ ﴿الْقَهَّارُ  ﴾ اس کے قہر اور تسلط کے سامنے تمام کائنات سر افگندہ ہے وہ جو چیز چاہتا ہے ہوجاتی ہے جو نہیں چاہتا نہیں ہوتی۔ ﴿ مَّا مِن دَابَّةٍ إِلَّا هُوَ آخِذٌ بِنَاصِيَتِهَا ﴾ (ھود:11؍56) ” جو بھی چلنے پھرنے والا جاندار ہے اس کی پیشانی اس کے قبضہ اختیار میں ہے۔“ یہ بات معلوم ہے کہ جس ہستی کی یہ شان اور یہ وصف ہو وہ ان متفرق معبودوں سے بہتر ہے جو محض گھڑے ہوئے نام ہیں جو کسی کمال اور فعل سے عاری ہیں۔ یوسف
40 بنا بریں یوسف علیہ السلام نے فرمایا:﴿مَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِهِ إِلَّا أَسْمَاءً سَمَّيْتُمُوهَا أَنتُمْ وَآبَاؤُكُم ﴾ ” تم اللہ کو چھوڑ کر جن کی عبادت کرتے ہو، وہ صرف نام ہیں جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے رکھ لئے ہیں“ یعنی تم نے ان کو معبود کا نام دے دیا ہے حالانکہ یہ کچھ بھی نہیں اور نہ ان میں الوہیت کی صفات میں سے کوئی صفت ہے۔﴿مَّا أَنزَلَ اللَّـهُ بِهَا مِن سُلْطَانٍ ﴾ ” اللہ نے ان پر کوئی دلیل نازل نہیں کی“ بلکہ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ نے ان کی عبادت کی ممانعت نازل کر کے ان کا باطل ہونا واضح کیا ہے اور جب اللہ تعالیٰ نے ان معبود ان باطل کے حق میں کوئی دلیل نازل نہیں کی اس لئے کوئی طریقہ، کوئی وسیلہ اور کوئی دلیل ایسی نہیں جس سے ان کا استحقاق عبودیت ثابت ہوتا ہو۔ ﴿ إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّـهِ ۚ ﴾’’اللہ اکیلے کے سوا کسی کا حکم نہیں‘‘ وہی ہے جو حکم دیتا ہے اور منع کرتا ہے، وہی ہے جو تمام شرائع اور احکام کو مشروع کرتا ہے اور وہی ہے ﴿أَمَرَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ ۚ ذَٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ  ﴾ ” جس نے حکم دیا کہ عبادت صرف اسی کی کرو، یہی سیدھا مضبوط دین ہے“ یہی صراط مستقیم ہے جو ہر بھلائی کی منزل تک پہنچاتا ہے، دیگر تمام ادیان سیدھی راہ سے محروم ہیں، بلکہ یہ ٹیڑھے راستے ہیں اور ہر برائی تک پہنچاتے ہیں۔﴿وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ ﴾ ’’مگر اکثر لوگ اشیاء کے حقائق کو نہیں جانتے۔ ورنہ اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت اور اس کے ساتھ شرک میں فرق سب سے زیادہ واضح اور نمایاں چیز ہے۔ مگر اکثر لوگ علم سے محروم ہونے کی وجہ سے شرک میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ یوسف
41 پس یوسف علیہ السلام نے قید کے دونوں ساتھیوں کو اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت اور اخلاص کی طرف دعوت دی، تو یہ احتمال بھی ہے کہ ان دونوں ساتھیوں نے یوسف علیہ السلام کی دعوت قبول اور آپ کی اطاعت اختیار کرلی ہو اور اللہ کی نعمت کا ان پر اتمام ہوگیا ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ اپنے شرک پر جمے رہے ہوں اور ان پر اللہ تعالیٰ کی حجت قائم ہوگئی ہو۔ پھر یوسف علیہ السلام نے ان دونوں کے ساتھ کئے ہوئے وعدے کے مطابق ان کے خوابوں کی تعبیر بتانا شروع کی۔ فرمایا : ﴿يَا صَاحِبَيِ السِّجْنِ أَمَّا أَحَدُكُمَا﴾ ” میرے جیل خانے کے رفیقو ! تم میں سے ایک“ یہ وہ شخص تھا جس نے خواب میں دیکھا تھا کہ وہ شراب نکال رہا ہے۔ اس کے بارے میں یوسف علیہ السلام نے بتایا کہ وہ قید سے آزاد ہوگا ﴿فَيَسْقِي رَبَّهُ خَمْرًا ﴾ ” پس وہ اپنے آقا کو شراب پلائے گا۔‘‘ یعنی وہ اپنے آقا کو جس کی وہ خدمت کیا کرتا تھا شراب پلائے گا اور یہ تعبیر اس کے قید سے نکلنے کو مستلزم تھی۔﴿وَأَمَّا الْآخَرُ ﴾’ ’’رہا دوسرا قیدی“ جس نے خواب میں دیکھا تھا کہ وہ اپنے سر پر روٹیاں اٹھائے ہوئے ہے اور پرندے روٹیاں کھا رہے ہیں ﴿فَيُصْلَبُ فَتَأْكُلُ الطَّيْرُ مِن رَّأْسِهِ ۚ ﴾ ” وہ سولی دیا جائے گا اور جانور اس کا سر کھا جائیں گے۔“ یوسف علیہ السلام نے روٹیاں سر پر اٹھانے کی جن کو پرندے کھا رہے ہوں، یہ تعبیر بتلائی کہ اس کا سر قلم کیا جائے گا۔ اس کے سر کا گوشت، چربی اور مغز جدا کئے جائیں گے، اس کو دفن نہیں کیا جائے گا اور نہ اسے پرندوں سے بچایا جائے گا، بلکہ اسے ایسی جگہ صلیب پر لٹکایا جائے گا جہاں پرندے اس کو نوچ نوچ کر کھائیں گے۔ جناب یوسف علیہ السلام نے آگاہ فرمایا کہ خواب کی یہ تعبیر، جو انہوں نے ان کو بتائی ہے پوری ہو کر رہے گی۔ فرمایا ﴿قُضِيَ الْأَمْرُ الَّذِي فِيهِ تَسْتَفْتِيَانِ  ﴾ ” وہ امرتم مجھ سے پوچھتے تھے اس کا فیصلہ ہوچکا ہے۔“ یعنی جس معاملے کی تعبیر و تفسیر کے بارے میں تم پوچھ رہے تھے اس کا فیصلہ ہوچکا۔ یوسف
42 ﴿وَقَالَ ﴾ یعنی یوسف علیہ السلام نے فرمایا : ﴿ لِلَّذِي ظَنَّ أَنَّهُ نَاجٍ مِّنْهُمَا  ﴾ ” اس شخص سے جس کی بابت انہوں نے گمان کیا تھا کہ وہ بچے گا“ یہ وہ شخص تھا جس نے خواب میں دیکھا تھا کہ وہ شراب پلا رہا ہے۔﴿اذْكُرْنِي عِندَ رَبِّكَ ﴾ ” اپنے آقا کے پاس میرا ذکر کرنا“ یعنی اس کے پاس میرے قصے اور میرے معاملے کا ذکر کرنا شاید وہ نرم پڑ جائے اور مجھے اس قید خانے سے نکال دے۔ ﴿ فَأَنسَاهُ الشَّيْطَانُ ذِكْرَ رَبِّهِ ﴾ ” لیکن شیطان نے ان کا اپنے آقا سے ذکر کرنا بھلا دیا۔“ یعنی قید سے نجات پانے والے اس شخص کو شیطان نے اللہ تعالیٰ کا ذکر فراموش کرا دیا۔ [فاضل مصنف کے برعکس اکثر مفسرین نے (ذکر ربہ) میں رب سے آقا، یعنی بادشاہ وقت مراد لیا ہے، یعنی نجات پانے والے کو شیطان نے بھلا دیا اور اس نے حضرت یوسف علیہ السلام کی خواہش کے مطابق بادشاہ سے آ کر ان کے جیل میں محبوب رہنے کا ذکر نہیں کیا۔ (ص۔ ی)] اور نیز ہر اس چیز کو فراموش کرا دیا جو اللہ تعالیٰ کے تقرب کا باعث تھی اور انہی چیزوں میں یوسف علیہ السلام کا تذکرہ بھی تھا جو اس چیز کے مستحق تھے کہ بہترین اور کامل ترین بھلائی کے ساتھ ان کو بدلہ دیا جاتا۔ یہ اس لئے ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ اور اس کا حکم پورا ہو۔ ﴿فَلَبِثَ فِي السِّجْنِ بِضْعَ سِنِينَ ﴾ ” پس ٹھہرے رہے یوسف علیہ السلام جیل میں کئی سال“ (بِضْعَ ) کا اطلاق تین سے لے کر نوتک کے عدد پر ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ سات برس تک قید میں رہے۔ جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے چاہا کہ اس کا حکم پورا ہو اور یوسف علیہ السلام کو قید سے نکالنے کا اذن دے تو اس نے یوسف علیہ السلام کو قید سے نکالنے، ان کی شان بلند کرنے اور ان کی قدر و منزلت نمایاں کرنے کے لئے ایک سبب مقدر کردیا۔۔۔ وہ تھا بادشاہ کا خواب دیکھنا۔ یوسف
43 جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے یوسف علیہ السلام کو قید خانے سے نکالنا چاہا تو بادشاہ کو ایک عجیب و غریب خواب دکھایا۔ جس کی تعبیر تمام قوم کو متاثر کرتی تھی۔۔۔ تاکہ یوسف علیہ السلام اس خواب کی تعبیر بتائیں اور یوں ان کا علم و فضل ظاہر ہو اور دین و دنیا میں ان کو رفعت حاصل ہو۔ اس میں تقدیر کی مناسبت یہ ہے کہ بادشاہ نے۔۔۔ جو رعایا کے تمام امو کا ذمہ دار ہوتا ہے۔۔۔ یہ خواب دیکھا، کیونکہ قوم کے مصالح کا تعلق بادشاہ سے ہوتا ہے۔ اس بادشاہ نے ایک خواب دیکھا جس نے بادشاہ کو خوف زدہ کردیا۔ اس نے اپنی قوم کے اہل علم اور اصحاب الرائے کو اکٹھا کیا اور ان سے کہا : ﴿إِنِّي أَرَىٰ سَبْعَ بَقَرَاتٍ سِمَانٍ يَأْكُلُهُنَّ سَبْعٌ عِجَافٌ ﴾’’میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ سات موٹی گائیں، ان کو کھاتی ہیں سات کمزور اور لاغر گائیں۔“ یہ عجیب بات ہے کہ لاغر اور کمزور گائیں، جن میں قوت ختم ہوچکی ہے وہ ایسی سات موٹی گایوں کو کھا جائیں جو انتہائی طاقتور ہوں۔ ﴿وَ ﴾ اور میں نے دیکھا ہے ﴿سَبْعَ سُنبُلَاتٍ خُضْرٍ وَأُخَرَ يَابِسَاتٍ ﴾ ’’سات خوشے سبز ہیں اور سات خشک۔‘‘ یعنی ان سات ہری بالیوں کو سوکھی بالیاں کھا رہی ہیں۔ ﴿ يَا أَيُّهَا الْمَلَأُ أَفْتُونِي فِي رُؤْيَايَ ﴾ ” اے دربار والو ! مجھے میرے خواب کی تعبیر بتلاؤ“ کیونکہ سب کی تعبیر ایک تھی اس خواب کی تاویل بھی ایک ہی چیز تھی۔ ﴿ إِن كُنتُمْ لِلرُّؤْيَا تَعْبُرُونَ  ﴾ ” اگر ہو تم خواب کی تعبیر کرنے والے“ یوسف
44 پس وہ سخت حیران ہوئے اور اس خواب کی کوئی تعبیر نہ کرسکے۔ کہنے لگے : ﴿أَضْغَاثُ أَحْلَامٍ ﴾ ” یہ تو پریشان سے خواب ہیں۔“ یعنی یہ ایسا پریشان خواب ہے جس کا کوئی حاصل ہے نہ اس کی کوئی کوئی تعبیر۔ یہ ان کی اس بارے میں حتمی رائے تھی جس کے بارے میں وہ کچھ جانتے ہی نہ تھے اور انہوں نے ایسی چیز کو عذر بنایا جو درحقیقت عذر ہی نہیں۔ پھر انہوں نے کہا : ﴿وَمَا نَحْنُ بِتَأْوِيلِ الْأَحْلَامِ بِعَالِمِينَ ﴾ ” ہم ایسے خوابوں کی تعبیر نہیں جانتے۔“ یعنی ہم تو صرف خوابوں کی تعبیر بتاتے ہیں۔ رہے پریشان خواب جو شیطانی وسوسوں اور نفس کی خواہشات پر مبنی ہوتے ہیں تو ہم ان کی تفسیر نہیں جانتے۔ پس انہوں نے جہالت، حتمی رائے کہ یہ پریشان خواب ہیں اور خودپسندی کو ایک جگہ جمع کردیا، کیونکہ انہوں نے یہ نہ کہا کہ ہم اس خواب کی تعبیر نہیں جانتے اور یہ ایسا رویہ ہے جو اہل دین اور عقل مندوں کو زیب نہیں دیتا، نیز یہ یوسف علیہ السلام پر اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم بھی ہے، کیونکہ اگر شروع ہی سے، بادشاہ کے اعیان سلطنت اور ان کے علماء کے سامنے یہ، خواب پیش ہونے اور ان کے اس کی تعبیر بتانے سے عاجز ہوئے بغیر، جناب یوسف علیہ السلام نے اس خواب کی تعبیر بتائی ہوتی تو ان کی تعبیر کی اتنی وقعت نہ ہوتی۔ مگر جب بادشاہ نے یہ خواب علماء اور اعیان سلطنت کے سامنے پیش کیا اور وہ اس کی تعبیر بتانے سے عاجز آگئے اور بادشاہ کو خواب نے بہت زیادہ فکر میں ڈال دیا تھا، پس جب یوسف علیہ السلام نے اس خواب کی تعبیر بتا دی تو ان کے ہاں یوسف علیہ السلام کی قدر اور وقعت بہت بڑھ گئی۔ یہ اس واقعہ کی نظیر ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے فرشتوں پر علم کے ذریعے سے جناب آدم علیہ السلام کی فضیلت ظاہر کی۔ پہلے اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے سوال کیا، وہ جواب نہ دے سکے، پھر آدم علیہ السلام سے سوال کیا، انہوں نے فرشتوں کو ہر چیز کا نام بتا دیا اور اس طرح فرشتوں پر آدم کی فضیلت ثابت ہوگئی۔ اسی طرح قیامت کے روز، اللہ کی مخلوق میں بہترین ہستی، جناب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فضیلت ظاہر ہوگی، اللہ مخلوق کو الہام کرے گا اور تمام مخلوق جناب آدم، پھر جناب نوح، پھر جناب ابراہیم، پھر جناب موسیٰ اور پھر جناب عیسیٰ (علیہم السلام) سے شفاعت کی درخواست کرے گی مگر وہ معذرت کردیں گے، پھر تمام مخلوق نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر شفاعت کی استدعا کرے گی جسے قبول کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمائیں گے ” ہاں میں شفاعت کروں گا، میں ہی اس کا مستحق ہوں“۔۔۔ اور یوں آپ تمام مخلوق کی شفاعت کریں گے اور اس طرح وہ اس مقام محمود پر فائز ہوں گے جس پر اولین و آخرین رشک کریں گے۔ پاک ہے وہ ذات جس کا لطف و کرم مخفی ہے، اور وہ اپنے اولیاء و اصفیا اور اپنے خاص بندوں کو نہایت دقیق طریقے سے اپنے فضل و احسان سے نوازتی ہے۔ یوسف
45 ﴿وَقَالَ الَّذِي نَجَا مِنْهُمَا ﴾ ” ان دونوں جوانوں میں سے جو بچ گیا تھا، اس نے کہا“ اور یہ وہ شخص تھا جس نے خواب میں دیکھا تھا کہ وہ شراب نچوڑ رہا ہے جس سے یوسف علیہ السلام نے کہا تھا کہ وہ اپنے آقا کے پاس ان کا ذکر کرے ﴿وَادَّكَرَ بَعْدَ أُمَّةٍ ﴾ ” اور جسے مدت کے بعد وہ بات یاد آگئی۔“ یعنی کئی سال کی مدت کے بعد اسے یوسف علیہ السلام اور ان کا ان دونوں قیدیوں کے خواب کی تعبیر بتانا اور یوسف علیہ السلام کا وصیت کرنا یاد آیا اور اسے معلوم تھا کہ اس خواب کی تعبیر صرف یوسف علیہ السلام ہی بتا سکتے ہیں۔ اس لئے وہ کہنے لگا : ﴿أَنَا أُنَبِّئُكُم بِتَأْوِيلِهِ فَأَرْسِلُونِ ﴾ ” میں بتاؤں تم کو اسی کی تعبیر، پس تم مجھے بھیجو‘‘ یعنی مجھے یوسف علیہ السلام کے پاس بھیجو تاکہ میں ان سے اس خواب کی تعبیر پوچھ سکوں۔ انہوں نے اسے بھیج دیا وہ یوسف علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا۔ یوسف علیہ السلام نے اس کے فراموش کردینے پر اس پر عتاب نہیں فرمایا، بلکہ اس نے جو کچھ پوچھا یوسف علیہ السلام نے اسے نہایت غور سے سنا اور اس کے سوال کا جواب دیا۔ یوسف
46 اس شخص نے کہا تھا : ﴿يُوسُفُ أَيُّهَا الصِّدِّيقُ ﴾ ’’اے یوسف علیہ السلام، اے سچے !“ یعنی اپنے اقوال و افعال میں بہت ہی سچے شخص ﴿ أَفْتِنَا فِي سَبْعِ بَقَرَاتٍ سِمَانٍ يَأْكُلُهُنَّ سَبْعٌ عِجَافٌ وَسَبْعِ سُنبُلَاتٍ خُضْرٍ وَأُخَرَ يَابِسَاتٍ لَّعَلِّي أَرْجِعُ إِلَى النَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَعْلَمُونَ ﴾ ”ہمیں اس خواب کی تعبیر بتلاؤ، کہ سات موٹی گائیں، ان کو سات کمزور گائیں کھا جاتی ہیں اور سات ہری بالیاں، دوسری خشک بالیوں کو، تاکہ میں لوگوں کی طرف واپس جاؤں شاید ان کو معلوم ہو“ کیونکہ اس خواب نے ان لوگوں کو سخت پریشان کر رکھا ہے اور وہ اس خواب کی تعبیر جاننے کے لئے سخت بے تاب ہیں۔ یوسف علیہ السلام نے اس خواب کی تعبیر بتاتے ہوئے کہا کہ سات موٹی تازی گایوں اور سات ہری بالیوں سے سات آئندہ سالوں کی سرسبزی و شادابی کی طرف اشارہ ہے اور سات لاغر اور کمزور گایوں اور سات سوکھی بالیوں سے شادابی کے بعد آنے ولای خشک سالی اور قحط کے ساتھ سالوں کی طرف اشارہ ہے۔ اس تعبیر کا پہلو غالباً یہ ہے۔۔۔ اللہ اعلم۔۔۔ چونکہ کھیتی کا دارو مدار شادابی اور خشک سالی پر ہے، جب شادابی آتی ہے تو کھیتیوں اور فصلوں کو طاقت ملتی ہے، وہ خوشنما نظر آتی ہیں، غلے کی بہتات ہوتی ہے، قحط سالی میں کھیتیوں کی حالت اس کے برعکس ہوتی ہے۔ گیہوں کی بالیاں سب سے اچھی اور سب سے بڑی خوراک لئے ہوئے ہوتی ہیں، وجود مناسبت کی بنا پر یوسف علیہ السلام نے تعبیر بیان کی۔ یوسف
47 اس خواب کی تعبیر بتانے کے ساتھ ساتھ جناب یوسف علیہ السلام نے اس طرف بھی اشارہ کردیا کہ انہیں کیا کرنا چاہئے۔ شادابی کے سالوں کے دوران قحط سالی کا مقابلہ کرنے کے لئے انہیں کیسے تیاری کرنی چاہئے اور کیا کیا تدابیر اختیار کرنی چاہئیں، چنانچہ فرمایا : ﴿تَزْرَعُونَ سَبْعَ سِنِينَ دَأَبًا  ﴾ ” تم لگاتار سات سال تک (شادابی کی وجہ سے) کھیتی باڑی کرتے رہو گے“ ﴿فَمَا حَصَدتُّمْ ﴾ ” پس جو فصلیں تم کاٹو“ ﴿ فَذَرُوهُ﴾ ” تو اس (فصل) کو چھوڑو دو۔‘‘ ﴿فِي سُنبُلِهِ  ﴾ ” اس کے خوشوں میں“ کیونکہ اس سے غلہ زیادہ عرصہ تک باقی رہ سکتا ہے اور تلف ہونے کا امکان بعید تر ہوتا ہے ﴿إِلَّا قَلِيلًا مِّمَّا تَأْكُلُونَ  ﴾’’تھوڑے غلے کے سوا جو تم کھاتے ہو۔“ یعنی شادابی کے ان دنوں میں اپنی خوراک کا اس طرح انتظام کرو کہ کم سے کم خوراک استعمال کرو، تاکہ زیادہ سے زیادہ خوراک کا ذخیرہ کرسکو۔ جس کا فائدہ اور وقعت زیادہ ہوگی۔ یوسف
48 ﴿ثُمَّ يَأْتِي مِن بَعْدِ ذَٰلِكَ ﴾’’پھر اس کے بعد آئیں گے۔“ یعنی شادابی کے ان سات سالوں کے بعد ﴿سَبْعٌ شِدَادٌ ﴾ ” خشک سالی اور سخت قحط کے سات سال آئیں گے۔“ ﴿ يَأْكُلْنَ مَا قَدَّمْتُمْ لَهُنَّ ﴾ (یعنی قحط کے یہ سات سال)’’وہ سب کچھ کھا جائیں گے جو کچھ تم نے ذخیرہ کیا ہوگا“ خواہ کتنا ہی زیادہ ذخیرہ کیوں نہ کیا ہو۔ ﴿إِلَّا قَلِيلًا مِّمَّا تُحْصِنُونَ  ﴾ ” مگر تھوڑا سا جو روک رکھو گے تم بیج کے واسطے“ یعنی جنہیں تم اصلی فصل کی تیاری کے لئے روک کر رکھو گے۔ یوسف
49 ﴿ثُمَّ يَأْتِي مِن بَعْدِ ذَٰلِكَ  ﴾ ” پھر اس کے بعد آئے گا۔“ یعنی سخت قحط سالی کے ان سات سالوں کے بعد ﴿عَامٌ فِيهِ يُغَاثُ النَّاسُ وَفِيهِ يَعْصِرُونَ ﴾ ” ایک سال، اس میں لوگوں پر بارش ہوگی اور اس میں وہ رس نچوڑیں گے“ یعنی اس سال بہت کثرت سے بارشیں ہوں گی، بہت زیادہ سیلاب آئیں گے۔ کثرت سے غلہ پیدا ہوگا جو ان کی خوراک کی ضرویات سے زیادہ ہوگا، حتیٰ کہ وہ انگوروں کا رس نچوڑیں گے جو ان کے کھانے سے زیادہ ہوں گے۔ شاید اس شادابی اور سرسبز سال پر استدلال اس لئے کیا۔۔۔ حالانکہ بادشاہ کے خواب میں اس سال کی صراحت نہیں تھی کہ یوسف علیہ السلام نے سات سالہ قحط کی تعبیر سے سمجھا کہ ان کے بعد آنے والے سال میں قحط کی شدت زائل ہوجائے گی۔ کیونکہ یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ سات سال کا لگاتار قحط بکثرت شادابی کے ذریعے سے ہی ختم ہوسکتا ہے ورنہ اندازے کا کوئی فائدہ نہیں۔ یوسف
50 جب قاصد بادشاہ اور لوگوں کے پاس واپس پہنچا اور انہیں یوسف علیہ السلام کی تعبیر کے بارے میں آگاہ کیا تو انہیں تعبیر سن کر تعجب ہوا اور بے حد خوش ہوئے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿وَقَالَ الْمَلِكُ ﴾ ” بادشاہ نے (وہاں موجود لوگوں سے کہا) کہا“ ﴿ائْتُونِي بِهِ ﴾ ” اسے میرے پاس لاؤ۔“ یعنی یوسف علیہ السلام کو قید خانے سے نکال کر میرے سامنے حاضر کرو۔ ﴿فَلَمَّا جَاءَهُ الرَّسُولُ ﴾’’پس جب بادشاہ کا ایلچی جناب یوسف علیہ السلام کے پاس آیا“ اور اسے بادشاہ کے پاس حاضر ہونے کے لئے کہا، تو انہوں نے اس وقت تک قید خانے سے باہر آنے سے انکار کردیا جب تک کہ ان کی برأت مکمل طور پر لوگوں کے سامنے عیاں نہیں ہوجاتی۔ یہ چیز ان کے صبر، عقل اور اصابت پر دلالت کرتی ہے۔ ﴿قَالَ ﴾ اس وقت انہوں نے بادشاہ کے ایلچی سے کہا : ﴿ ارْجِعْ إِلَىٰ رَبِّكَ ﴾ ” بادشاہ کے پاس واپس جا“ ﴿فَاسْأَلْهُ مَا بَالُ النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ ۚ ﴾ ” بادشاہ سے پوچھ کہ ان عورتوں کا کیا قصہ ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لئے تھے۔“ کیونکہ ان کا معاملہ بالکل ظاہر اور واضح ہے ﴿إِنَّ رَبِّي بِكَيْدِهِنَّ عَلِيمٌ ﴾ ” میرا رب تو ان کا فریب، سب جانتا ہے۔ “ یوسف
51 بادشاہ نے ان عورتوں کو بلایا اور ان سے پوچھا ﴿مَا خَطْبُكُنَّ ﴾ ” تمہارا کیا معاملہ ہے؟“ ﴿إِذْ رَاوَدتُّنَّ يُوسُفَ عَن نَّفْسِهِ ﴾’’جب تم نے یوسف کو اس کے نفس سے پھسلانا چاہا تھا؟“ کیا تم نے یوسف میں کوئی برائی دیکھی ؟ ان عورتوں نے یوسف علیہ السلام کی برأت کا اقرار کیا اور کہنے لگیں : ﴿قُلْنَ حَاشَ لِلَّـهِ مَا عَلِمْنَا عَلَيْهِ مِن سُوءٍ ۚ ﴾ ” حاشا للہ ہم نے اس میں کوئی برائی معلوم نہیں کی۔“ یعنی تھوڑا یا بہت ہم نے اس میں کوئی عیب نہیں دیکھا۔ تب وہ سبب زائل ہوگیا جس پر تہمت کا دار و مدار تھا۔ اب کوئی سبب باقی نہ بچا سوائے اس الزام کے جو عزیز مصر کی بیوی نے لگایا تھا۔ ﴿قَالَتِ امْرَأَتُ الْعَزِيزِ الْآنَ حَصْحَصَ الْحَقُّ ﴾ ” عزیز کی بیوی نے کہا، اب حق واضح ہوگیا ہے“ یعنی حق واضح ہوگیا ہے جب کہ ہم نے یوسف کو برائی اور تہمت میں ملوث کرنے کی بھرپور کوشش کی تھی جو اس کو محبوب کرنے کا باعث بنا۔ ﴿أَنَا رَاوَدتُّهُ عَن نَّفْسِهِ وَإِنَّهُ لَمِنَ الصَّادِقِينَ ﴾ ” میں نے ہی اس کو اس کے جی سے پھسلانے کی کوشش کی تھی اور وہ یقیناً سچا ہے“ یعنی یوسف علیہ السلام اپنے اقوال اور اپنی برأت کے دعوے میں سچے ہیں۔ یوسف
52 ﴿ذَٰلِكَ ﴾ یعنی یہ اقرار جس میں، میں نے تسلیم کیا ہے کہ میں نے ہی یوسف علیہ السلام پر ڈورے ڈالنے کی کوشش کی تھی۔ ﴿لِيَعْلَمَ أَنِّي لَمْ أَخُنْهُ بِالْغَيْبِ ﴾’’تاکہ وہ جان لے کہ میں نے پیٹھ پیچھے اس کی خیانت نہیں کی“ اس میں یہ احتمال ہے کہ اس سے مراد عورت کا خاوند ہے، یعنی یہ اقرار میں نے اس لئے کیا، تاکہ میرا خاوند جان لے کہ میں نے یوسف علیہ السلام پر ڈورے ڈالنے کی کوشش کی، مگر میں نے اس کی عدم موجودگی میں اس کے ساتھ خیانت نہیں کی۔ میں نے مجرد اس کو پھسلانے کی کوشش کی مگر میں نے عزیز مصر کے بستر کو خراب نہیں کیا۔ اور یہ احتمال بھی ہے کہ اس سے مراد یوسف علیہ السلام ہوں، یعنی تاکہ یوسف جان لے کہ وہ سچا ہے اور میں نے ہی اس پر ڈورے ڈالنے کی کوشش کی تھی۔ جب وہ میرے پاس موجود نہیں تھا تو میں نے اس کے ساتھ خیانت نہیں کی۔ ﴿ وَأَنَّ اللَّـهَ لَا يَهْدِي كَيْدَ الْخَائِنِينَ  ﴾ ” اور یہ کہ اللہ دغا بازوں کا فریب نہیں چلنے دیتا“ یہ لازمی امر ہے کہ ہر خائن کی خیانت اور اس کی سازش کا وبال آخر کار اسی کی طرف پلٹے گا اور حقیقت حال ضرور واضح ہوگی۔ یوسف
53 چونکہ اس کلام میں عورت کے اپنے لئے تزکیہ کے دعوے کا شائبہ پایا جاتا ہے اور یہ دعویٰ بھی پایا جاتا ہے کہ یوسف علیہ السلام کے معاملے میں اس سے کوئی گناہ سرزد نہیں ہوا۔ اس لئے عورت نے استدارک کے طور پر کہا : ﴿وَمَا أُبَرِّئُ نَفْسِي  ﴾ ” اور میں اپنے تئیں پاک صاف نہیں کہتی۔“ یعنی میں نے یوسف علیہ السلام کو پھسلانے، اس کے ساتھ برائی کے ارادے اور اس کی شدید حرص اور اس کے بارے میں سازش کرنے میں اپنے آپ کو بری قرار نہیں دیتی۔ ﴿إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ ﴾ ” کیونکہ نفس امارہ )انسان کو( برائی ہی سکھاتا رہتا ہے۔“ یعنی نفس انسان کو بہت کثرت سے برائی، یعنی بے حیائی اور دیگر تمام گناہوں کا حکم دیتا ہے۔ نفس شیطان کی سواری ہے اور شیطان نفس کے راستے سے انسان میں داخل ہوتا ہے۔ ﴿إِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّي ۚ ﴾ ” سوائے اس شخص کے جس پر میرا رب رحم کر دے“ اور اسے اس کے نفس امارہ سے نجات دے دے اور اس طرح اس کا نفس امارہ نفس مطمئنہ میں بدل جائے۔ ہلاکت کے داعی کی نافرمانی کرکے ہدایت کے داعی کی آواز پر لبیک کہے۔ اس میں نفس کا کوئی کمال نہیں، بلکہ یہ اللہ کا اپنے بندے پر بے انتہا فضل و کرم اور اس کی بے پایاں رحمت ہے۔ ﴿إِنَّ رَبِّي غَفُورٌ ﴾ ” بے شک میرا رب بخشنے والا“ جب کوئی گناہ اور معاصی کے ارتکاب کی جرات کرنے کے بعد توبہ کرکے اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹ آتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے بخش دیتا ہے۔ ﴿رَّحِيمٌ ﴾ ” رحم کرنے والا ہے۔“ اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرکے اور اسے نیک اعمال کی توفیق عطا کرکے اس پر رحم کرتا ہے۔ ان آیات کریمہ کی تفسیر میں قرین صواب یہی ہے کہ یہ عزیز مصر کی بیوی کا قول ہے یوسف علیہ السلام کا نہیں، کیونکہ یہ بات عورت کے کلام کے سیاق میں آئی ہے اور یوسف علیہ السلام تو اس وقت قید میں تھے۔ یوسف
54 جب بادشاہ اور لوگوں کے پاس یوسف علیہ السلام کی کامل براءت متحقق ہوگئی، تو بادشاہ نے ان کو بلا بھیجا اور کہا : ﴿ائْتُونِي بِهِ أَسْتَخْلِصْهُ لِنَفْسِ ﴾ ” اسے میرے پاس لاؤ اور اسے اپنا مصاحب خاص بناؤں گا۔“ یعنی میں اس کو مقربین خاص میں شامل کرلوں گا اسے میرے پاس نہایت عزت و احترام سے لے کر آؤ۔ ﴿فَلَمَّا كَلَّمَهُ  ﴾ ” پس جب اس نے ان سے گفتگو کی“ یعنی جب بادشاہ نے یوسف علیہ السلام سے گفتگو کی تو اسے ان کی باتیں اچھی لگیں اور اس کے ہاں ان کی وقعت اور زیادہ ہوگئی، تو اس نے یوسف علیہ السلام سے کہا : ﴿إِنَّكَ الْيَوْمَ لَدَيْنَا ﴾ ”بے شک آپ آج ہمارے ہاں“ ﴿مَكِينٌ أَمِينٌ ﴾ ” صاحب منزلت اور صاحب اعتبار ہیں۔“ یعنی آپ ہمارے ہاں بلند مرتبہ کے مالک اور ہمارے رازوں کے امین ہیں۔ یوسف
55 ﴿قَالَ ﴾ یوسف علیہ السلام نے مصلحت عامہ کی خاطر بادشاہ سے مطالبہ کیا۔ ﴿اجْعَلْنِي عَلَىٰ خَزَائِنِ الْأَرْضِ ﴾ ” مجھے اس ملک کے خزانوں پر مقرر کردیجیے۔“ یعنی مجھے زمین کی پیدا وار، اس کے محاصل کا نگران، محافظ اور منتظم مقرر کردیں ﴿إِنِّي حَفِيظٌ عَلِيمٌ ﴾ ” کیونکہ میں حفاطت بھی کرسکتا ہوں اور اس کام سے واقف بھی ہوں۔“ یعنی جس چیز کا آپ مجھے نگران بنائیں گے میں اس کی حفاظت کروں گا اس میں سے کچھ بھی بے محل استعمال ہو کر ضائع نہیں ہوگا، میں ان محاصل کے داخل خارج کو منضبط کرسکتا ہوں میں ان کے انتظام کی کیفیت کا پورا علم رکھتا ہوں۔ میں یہ بھی خوب جانتا ہوں کہ کسے عطا کرنا ہے کسے محروم رکھنا ہے اور ان میں تصرفات کی پوری طرح دیکھ بھال کرسکتا ہوں۔ یوسف علیہ السلام کی طرف سے اس عہدے کا مطالبہ، عہدے کی حرص کی وجہ سے نہ تھا، بلکہ نفع عام میں رغبت کی وجہ سے تھا۔ یوسف علیہ السلام اپنے بارے میں کفایت اور حفظ و امانت کے متعلق جو کچھ جانتے تھے وہ لوگ نہیں جانتے تھے۔ بنا بریں یوسف علیہ السلام نے بادشاہ مصر سے مطالبہ کیا کہ وہ انہیں زمین کے محاصل کے خزانوں کے انتظام پر مقرر کر دے۔ چنانچہ بادشاہ نے انہیں زمین کے محاصل کے خزانوں کا والی اور منتظم مقرر کردیا۔ یوسف
56 اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَكَذَٰلِكَ ﴾ ” اور اسی طرح“ یعنی ان مذکورہ اسباب اور مقدمات کے ذریعے سے ﴿مَكَّنَّا لِيُوسُفَ فِي الْأَرْضِ يَتَبَوَّأُ مِنْهَا حَيْثُ يَشَاءُ ﴾ ” ہم نے یوسف علیہ السلام کو جگہ دی اس ملک میں، وہ اس میں جہاں چاہتے، جگہ پکڑتے“ وہ نہایت آسودہ زندگی، بے شمار نعمتوں اور بے پناہ جاہ و جلال میں رہنے لگے۔ ﴿ نُصِيبُ بِرَحْمَتِنَا مَن نَّشَاءُ ﴾ ” ہم اپنی رحمت جس کو چاہتے ہیں، پہنچا دیتے ہیں“ یوسف علیہ السلام پر یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت تھی جو اس نے ان کے لئے مقدر کر رکھی تھی جو صرف دنیاوی نعمتوں پر ہی مشتمل نہ تھی۔ ﴿وَلَا نُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ  ﴾ ” اور ہم محسنین کا اجر ضائع نہیں کرتے“ اور یوسف علیہ السلام کا شمار تو سادات محسنین میں ہوتا ہے۔ ان کے لئے دنیا میں بھی بھلائی ہے اور آخرت میں بھی بھلائی ہے۔ یوسف
57 اس لئے فرمایا : ﴿وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ ﴾ ” آخرت کا اجر دنیا کے اجر سے بہتر ہے“ ﴿لِّلَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ ﴾ ” ان لوگوں کے لئے جو ایمان لائے اور اللہ سے ڈرتے رہے۔“ یعنی جن لوگوں میں تقویٰ اور ایمان جمع ہے۔ پس تقویٰ کے ذریعے سے حرام امور، یعنی کبیرہ اور صغیرہ گناہوں کو ترک کیا جاتا ہے اور ایمان کامل کے ذریعے سے ان امور میں تصدیق قلب حاصل ہوتی ہے جن امور کی تصدیق کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اور فرض و مستحب، اعمال قلوب اور اعمال جوارح، تصدیق قلب کی پیروی کرتے ہیں۔ یوسف
58 جب یوسف علیہ السلام زمین کے محاصل کے ذخیرہ کے منتظم بن گئے تو انہوں نے بہترین طریقے سے ان کا انتظام کیا۔ انہوں نے شادابی کے سالوں میں مصر کی تمام قابل کاشت زمین میں غلہ کاشت کردیا اور اس غلہ کو ذخیرہ کرنے کے لئے بڑے بڑے مکانات بنوائے۔ خراج اور لگان میں بہت سا غلہ جمع کیا، اس کی حفاظت کی اور اس کا بہترین انتظام کیا۔ جب قحط سالی شروع ہوئی اور قحط تمام علاقوں میں پھیل گیا حتیٰ کہ فلسطین بھی قحط کی لپیٹ میں آگیا جہاں یعقوب اور ان کے بیٹے رہتے تھے، تو حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹوں کو اناج کے لئے مصر بھیجا۔ ﴿ وَجَاءَ إِخْوَةُ يُوسُفَ فَدَخَلُوا عَلَيْهِ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنكِرُونَ  ﴾ ” یوسف علیہ السلام کے بھائی آئے اور ان کے دربار میں داخل ہوئے“ تو یوسف علیہ السلام نے ان کو پہچان لیا، جب کہ وہ ان کو نہیں پہچانتے تھے“ یعنی انہوں نے یوسف علیہ السلام کو نہ پہچانا۔ یوسف
59 ﴿وَلَمَّا جَهَّزَهُم بِجَهَازِهِمْ ﴾ ” اور جب تیار کر دیا ان کو ان کا اسباب‘‘ یعنی جب یوسف علیہ السلام نے ان کو اناج ناپ کر دے دیا جیسا کہ وہ سروں کو ناپ کر دیا کرتے تھے۔ یہ ان کا احسان انتظام تھا کہ وہ کسی کو ایک اونٹ کے بوجھ سے زیادہ اناج نہیں دیا کرتے تھے۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے ان سے ان کا حال احوال پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ ان کا ایک اور بھائی ہے، جو اپنے باپ کے پاس ہے اس کا نام بنیامین ہے۔ ﴿قَالَ ﴾ ” حضرت یوسف علیہ السلام نے کہ ان سے کہا؟ ﴿ ائْتُونِي بِأَخٍ لَّكُم مِّنْ أَبِيكُمْ ﴾ ” اپنے بھائی کو میرے پاس لاؤ جو تمہارے باپ کی طرف سے ہے“ پھر آنجناب نے اپنے بھائی کو مصرلانے کی ترغیب دیتے ہوئے کہا : ﴿ أَلَا تَرَوْنَ أَنِّي أُوفِي الْكَيْلَ وَأَنَا خَيْرُ الْمُنزِلِينَ  ﴾ ” کیا ہم دیکھتے نہیں ہو کہ میں ماپ بھی پورا دیتا ہوں اور خوب مہمان نواز بھی ہوں۔“ یعنی مہمان نوازی اور عزت و اکرام کرنے میں سب سے بہتر ہوں۔ یوسف
60 پھر حضرت یوسف علیہ السلام نے ان کو اپنا بھائی ساتھ نہ لانے کی صورت میں ڈراتے ہوئے کہا : ﴿فَإِن لَّمْ تَأْتُونِي بِهِ فَلَا كَيْلَ لَكُمْ عِندِي وَلَا تَقْرَبُونِ ﴾ ” پس اگر تم اس کو میرے پاس نہ لائے تو تمہارے لئے میرے پاس کوئی ماپ نہیں ہے اور میرے پاس نہ آنا“ یہ بات حضرت یوسف علیہ السلام نے اس لئے کہی، کیونکہ انہیں علم تھا کہ وہ مصر ان کے پاس ضرور آئیں گے اور اپنے بھائی کو ساتھ لانے پر مجبور ہوں گے۔ یوسف
61 ﴿قَالُوا سَنُرَاوِدُ عَنْهُ أَبَاهُ ﴾ ” انہوں نے کہا، ہم ضرور خواہش کریں گے اس کی بابت اس کے باپ سے“ یہ چیز دلالت کرتی ہے کہ یعقوب علیہ السلام بنیامین سے بے حد محبت کرتے تھے اور حضرت یوسف علیہ السلام کی جدائی کے بعد بنیامین ہی ان کے لئے تسلی کا باعث تھے۔ اس لئے یوسف علیہ السلام نے بنیامین کو بھائیوں کے ساتھ بلوانے کے لئے یہ تدبیر اختیار کی ﴿وَإِنَّا لَفَاعِلُونَ ﴾ ” اور ہم )یہ کام( کرکے رہیں گے۔“ یعنی جو کچھ آپ نے کہا ہے، ہم اس پر ضرور عمل کریں گے۔ یوسف
62 ﴿وَقَالَ ﴾ یوسف علیہ السلام نے فرمایا : ﴿لِفِتْيَانِهِ ﴾ ” اپنے خدام سے۔“ یعنی اپنے کارندوں سے جو ان کی خدمت میں موجود تھے۔ ﴿اجْعَلُوا بِضَاعَتَهُمْ ﴾ ” رکھ دوان کی پونجی“ یعنی وہ قیمت جس کے بدلے انہوں نے اناج خریدا تھا۔ ﴿ فِي رِحَالِهِمْ لَعَلَّهُمْ يَعْرِفُونَهَا ﴾ ”ان کے اسباب میں، شاید وہ اس کو پہچان لیں“ یعنی جب وہ اپنے مال کو جو انہوں نے قیمت کے طور پر ادا کیا تھا، واپس اپنے اپنے کجاووں میں دیکھیں گے ﴿لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ  ﴾ ” شاید پھر یہاں آئیں۔“ یعنی شاید وہ اپنے مال کی واپسی کو گناہ سمجھتے ہوئے اسے لوٹانے کے لئے مصر واپس آئیں۔ ظاہر ہے یوسف علیہ السلام نے ان کے ساتھ پورے تول کے ذریعے سے نیکی کی تھی، پھر ان کی قیمت بھی ان کو اس طرح واپس لوٹا دی تھی کہ اس کی واپسی کا کوئی احسان نہیں انسان کے لئے دھڑ ٹھہراتا کہ محسن کے لئے پوری وفا داری کی جائے۔ یوسف
63 ﴿فَلَمَّا رَجَعُوا إِلَى أَبِيهِمْ قَالُوا يَاأَبَانَا مُنِعَ مِنَّا الْكَيْلُ﴾’’پس جب وہ اپنے باپ کی طرف لوٹے، تو بولے، ابا جان روک دی گئی ہے ہم میں سے ماپ‘‘ یعنی اگر آپ ہمارا بھائی ہمارے ساتھ نہیں بھیجیں گے تو ہمیں اناج نہیں ملے گا۔﴿ فَأَرْسِلْ مَعَنَا أَخَانَا نَكْتَلْ ﴾ ” پس ہمارے ساتھ ہمارے بھائی کو بھیجیں کہ ہم ماپ لے کر آئیں“ یعنی تاکہ اناج حاصل کرنے میں ہمارا بھائی ہمارے لئے سبب بن سکے۔ پھر انہوں نے اپنے بھائی کی حفاظت کا ذمہ اٹھاتے ہوئے کہا : ﴿وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ ﴾ ” اور ہم اس کے نگہبان ہیں۔“ یعنی ہم کسی نا خوشگوار صورت حال میں اس کی حفاظت کریں گے۔ یوسف
64 ﴿قَالَ  ﴾ یعقوب علیہ السلام نے ان سے کہا : ﴿هَلْ آمَنُكُمْ عَلَيْهِ إِلَّا كَمَا أَمِنتُكُمْ عَلَىٰ أَخِيهِ مِن قَبْلُ ﴾ ” کیا میں تمہارا اسی طرح اعتبار کروں جیسے اس سے پہلے اس کے بھائی کے معاملے میں اعتبار کیا تھا ؟“ یعنی یوسف علیہ السلام کی حفاظت کے بارے میں تم اپنی ذمہ داری کے التزام کا وعدہ اس سے پہلے بھی کرچکے ہو۔ بایں ہمہ تم نے اس کی حفاظت کا وعدہ پورا نہیں کیا تھا، لہٰذا مجھے تمہارے اس عہد پر کوئی بھروسہ نہیں کہ تم اس کی حفاظت کا التزام کرو گے۔ مجھے تو بس اللہ تعالیٰ پر بھروسہ ہے۔ ﴿فَاللَّـهُ خَيْرٌ حَافِظًا ۖ وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ ﴾ ” سو اللہ ہی بہتر نگہبان ہے اور وہ سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔“ یعنی وہ میرے حال کو جانتا ہے مجھے امید ہے کہ وہ مجھ پر رحم کرے گا اس کی حفاظت کرکے اسے میرے پاس لائے گا۔ گویا انہوں نے بنیامین کو بھائیوں کے ساتھ بھیجنے کے لئے اپنی گفتگو میں نرمی کا مظاہرہ کیا۔ یوسف
65 ﴿وَلَمَّا فَتَحُوا مَتَاعَهُمْ وَجَدُوا بِضَاعَتَهُمْ رُدَّتْ إِلَيْهِمْ ۖ ﴾ ” اور جب انہوں نے اپنا سامان کھولا تو انہوں نے پایا کہ ان کا مال بھی واپس کردیا گیا ہے۔“ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ انہیں معلوم تھا کہ یوسف علیہ السلام نے یہ مال قصداً واپس کیا تھا اور وہ اس مال کا واپس بھائیوں کو مالک بنانا چاہتے تھے۔ ﴿قَالُوا ﴾ انہوں نے بھائی کو ساتھ بھیجنے کے لئے ترغیب دیتے ہوئے باپ سے کہا : ﴿يَا أَبَانَا مَا نَبْغِي ﴾ ” ابا جان ! ہمیں)اور( کیا چاہیے۔“ یعنی اس بہترین اکرام و تکریم کے بعد ہمیں اور کیا چاہیے جب کہ بادشاہ نے ہمیں اناج پورا دیا ہے اور نہایت خوبصورت طریقے سے ہمارا مال بھی واپس لو ٹا دیا ہے اور یہ بات اخلاص اور مکارم اخلاق پر دلالت کرتی ہے۔ ﴿هَـٰذِهِ بِضَاعَتُنَا رُدَّتْ إِلَيْنَا ۖ وَنَمِيرُ أَهْلَنَا ﴾ ” یہ ہماری پونجی جو ہمیں واپس کردی گئی ہے، اب جائیں تو غلہ لے کر آئیں اپنے گھر والوں کے لیے‘‘ یعنی جب ہم اپنے بھائی کو ساتھ لے کر جائیں گے تو ہم اس کے حصے کا غلہ حاصل کرسکیں گے اور اپنے گھر والوں کے لئے غلہ لا سکیں گے، کیونکہ وہ خوراک کے سخت محتاج ہیں۔ ﴿وَنَحْفَظُ أَخَانَا وَنَزْدَادُ كَيْلَ بَعِيرٍ ﴾ ” اور ہم اپنے بھائی کی حفاطت کریں گے اور ایک اونٹ کی بھرتی بھی زیادہ لیں گے“ یعنی ہمارے بھائی کو ہمارے ساتھ بھیجنے کی وجہ سے ایک اونٹ کا بوجھ غلہ زیادہ ملے گا، کیونکہ ہر شخص کو ایک اونٹ کا بوجھ غلہ دیا جاتا تھا۔ ﴿ذَٰلِكَ كَيْلٌ يَسِيرٌ  ﴾ ” اور وہ بھرتی آسان ہے۔“ یہ بڑا آسان سا کام ہے اس سے آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا، کیونکہ یہ کوئی زیادہ لمبی مدت نہیں اور اس میں جو مصلحت ہے وہ بھی آپ کے سامنے واضح ہے۔ یوسف
66 ﴿قَالَ ﴾ یعقوب علیہ السلام نے ان سے کہا : ﴿لَنْ أُرْسِلَهُ مَعَكُمْ حَتَّىٰ تُؤْتُونِ مَوْثِقًا مِّنَ اللَّـهِ ﴾ ” میں ہرگز اس کو تمہارے ساتھ نہیں بھیجوں گا، یہاں تک کہ دو تم مجھے عہد اللہ کا“ یعنی جب تک تم اللہ تعالیٰ کی قسم اٹھا کر پکا عہد نہ کرو۔ ﴿ لَتَأْتُنَّنِي بِهِ إِلَّا أَن يُحَاطَ بِكُمْ ۖ ﴾ ” کہ تم ضرور اس کو میرے پاس پہنچا دو گے، مگر یہ کہ گھیرے جاؤ تم سب“ یعنی سوائے کسی ایسی صورت حال کے جو تمہیں پیش آجائے جس پر تمہارا کوئی اختیار نہ ہو اور تم اس کو ہٹانے کی قدرت نہ رکھتے ہو۔ ﴿ فَلَمَّا آتَوْهُ مَوْثِقَهُمْ  ﴾ ” پس جب انہوں نے ان سے عہد کرلیا۔“ یعنی جب یعقوب علیہ السلام کی خواہش کے مطابق انہوں نے عہد و پیمان دے دیا۔ ﴿قَالَ اللَّـهُ عَلَىٰ مَا نَقُولُ وَكِيلٌ ﴾ ” حضرت یعقوب علیہ نے کہا، اللہ ہماری باتوں پر نگہبان ہے“ یعنی اللہ تعالیٰ کی گواہی، اس کی حفاظت اور اس کی کفایت ہمارے لئے کافی ہے۔ یوسف
67 پھر جب یعقوب علیہ السلام نے بنیامین کو بھائیوں کے ساتھ بھیج دیا، تو ان کو وصیت کی کہ جب وہ مصر پہنچیں تو ﴿لَا تَدْخُلُوا مِن بَابٍ وَاحِدٍ وَادْخُلُوا مِنْ أَبْوَابٍ مُّتَفَرِّقَةٍ ۖ ﴾ ” ایک ہی دروازے سے داخل نہ ہوں، بلکہ الگ الگ دروازوں سے داخل ہوں“ یعنی وہ ان کے ایک ہی شخص کے بیٹے ہوتے ہوئے ان کی کثرت اور ان کے حسن منظر کی وجہ سے ان کو نظر لگنے سے ڈرتے تھے۔ یہ تو محض سبب ہے جو میں اختیار کر رہا ہوں ورنہ حقیقت یہ ہے ﴿ وَمَا أُغْنِي عَنكُم مِّنَ اللَّـهِ مِن شَيْءٍ ﴾ ” میں تم کو اللہ کی کسی بات سے نہیں بچا سکتا“ پس جو چیز تقدیر میں لکھی جاچکی ہے وہ ہو کر رہے گی ﴿إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّـهِ ﴾ ” حکم تو اللہ ہی کا ہے۔“ یعنی فیصلہ وہی ہے جو اللہ کا فیصلہ ہے اور حکم وہی ہے جو اس کا حکم ہے۔ پس جس چیز کا فیصلہ اللہ تعالیٰ کر دے وہ ضرور واقع ہوتا ہے۔ ﴿عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ ﴾ ” اسی پر میرا بھروسہ ہے“ یعنی جن اسباب کو اختیار کرنے کی میں نے تمہیں وصیت کی ہے، میں اس پر بھروسہ نہیں کرتا، بلکہ میں اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتا ہوں۔ ﴿وَعَلَيْهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُونَ ﴾ ” اور اسی پر بھروسہ کرنے والوں کو بھروسہ کرنا چاہیے۔“ کیونکہ توکل ہی کے ذریعے سے ہر مطلوب و مقصود حاصل ہوتا ہے اور توکل ہی کے ذریعے سے خوف کو دور کیا جاتا ہے۔ یوسف
68 ﴿وَلَمَّا ﴾ ” اور جب“ یعنی جب وہ روانہ ہوگئے۔ ﴿دَخَلُوا مِنْ حَيْثُ أَمَرَهُمْ أَبُوهُم مَّا كَانَ يُغْنِي عَنْهُم مِّنَ اللَّـهِ مِن شَيْءٍ إِلَّا حَاجَةً فِي نَفْسِ يَعْقُوبَ قَضَاهَا ﴾ ”)اور( داخل ہوئے جہاں سے ان کے باپ نے ان کو حکم دیا تھا، )ان کا یہ فعل( ان کو اللہ کی کسی بات سے نہ بچا سکتا تھا، مگر ایک خواہش تھی یعقوب کے جی میں، سو وہ اس نے پوری کرلی۔“ اور وہ تھا اولاد کے لئے شفقت اور محبت کا موجب، ایسا کرنے سے ان کو ایک قسم کا اطمینان حاصل ہوگیا تھا اور ان کے دل میں جو خیال گزرا تھا وہ بھی پورا ہوگیا اور یہ یعقوب علیہ السلام کے علم کی کوتاہی نہیں، کیونکہ وہ انبیائے کرام اور علمائے ربانی میں سے تھے۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے یعقوب علیہ السلام کی مدافعت کرتے ہوئے فرمایا : ﴿وَإِنَّهُ لَذُو عِلْمٍ ﴾ ” وہ علم عظیم کے مالک تھے“ ﴿لِّمَا عَلَّمْنَاهُ ﴾ ” کیونکہ ہم نے ان کو تعلیم دی تھی۔“ یعنی انہوں نے اپنی قوت و اختیار سے اس کا ادراک نہیں کیا تھا، بلکہ اس کے پیچھے اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم اور اس کا عطا کردہ علم کار فرما تھا۔ ﴿وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ  ﴾ ” لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔“ یعنی اکثر لوگ معاملات کے انجام اور اشیاء کی باریکیوں کو نہیں جانتے۔ اسی طرح اہل علم پر بھی علم، احکام اور اس کے لوازم میں سے بہت کچھ مخفی رہ جاتا ہے۔ یوسف
69 جب یوسف علیہ السلام کے بھائی ان کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ﴿آوَىٰ إِلَيْهِ أَخَاهُ ۖ ﴾ ” تو اپنے بھائی کو اپنے پاس جگہ دی“ یوسف علیہ السلام نے اپنے حقیقی بھائی بنیامین کو، جس کو لانے کے لئے انہوں نے اپنے بھائیوں کو حکم دیا تھا، پاس بلا کر اپنے ساتھ بٹھایا اور بھائیوں سے اس کو الگ کرلیا اور اسے تمام حقیقت حال سے آگاہ کردیا۔ ﴿قَالَ إِنِّي أَنَا أَخُوكَ فَلَا تَبْتَئِسْ ﴾ ” اس نے کہا، میں تیرا بھائی ہوں، پس غمگین مت ہو“ یعنی غم زدہ نہ ہو ﴿بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴾ ” ان کاموں سے جو یہ کرتے رہے ہیں“ کیونکہ ہماری عاقبت اچھی ہے، پھر انہوں نے بنیامین کو اپنے اس منصوبے اور حیلے سے آگاہ کیا جس کے مطابق یوسف علیہ السلام، بنیامین کو اپنے پاس رکھنا چاہتے تھے، جب تک کہ معاملہ اپنے انجام کو نہیں پہنچ جاتا۔ یوسف
70 ﴿فَلَمَّا جَهَّزَهُم بِجَهَازِهِمْ  ﴾ ” پس جب تیار کردیا ان کے واسطے ان کا اسباب“ یعنی جب یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں میں سے ہر ایک کو غلہ ناپ کر دے دیا، ان میں ان کا حقیقی بھائی بنیامین بھی شامل تھا۔ ﴿جَعَلَ السِّقَايَةَ ﴾ ” تو رکھ دیا پینے کا پیالہ“ اس سے مراد وہ پیالہ ہے جس میں پانی پیا جاتا ہے اور اس میں اناج وغیرہ بھی ناپا جاتا ہے ﴿فِي رَحْلِ أَخِيهِ ثُمَّ ﴾ یعنی پیالہ بھائی کے سامان میں رکھ دیا۔ پھر جب انہوں نے اپنا سامان سمیٹ لیا اور وہ کوچ کرنے لگے تو ﴿أَذَّنَ مُؤَذِّنٌ أَيَّتُهَا الْعِيرُ إِنَّكُمْ لَسَارِقُونَ﴾ ” اعلان کرنے والے نے اعلان کیا کہ اے قافلے والو ! تم تو چور ہو“ شاید اعلان کرنے والے کو حقیقت حال کا علم نہیں تھا۔ یوسف
71 ﴿قَالُوا﴾ یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے کہا : ﴿وَأَقْبَلُوا عَلَيْهِم﴾ ” اور ان کی طرف متوجہ ہوئے“ تہمت کو دور کرنے کے لئے، کیونکہ چور ہمیشہ اس شخص سے دور ہونے کی کوشش کرتا ہے جس کی اس نے چوری کی ہو تاکہ اس کی چوری پکڑی نہ جائے اور یہ لوگ ان کے پاس واپس آگئے، تہمت کے ازالے کے سوا ان کا کوئی ارادہ نہ تھا۔ اس صورت میں انہوں نے اعلان کرنے والوں سے پوچھا ﴿مَّاذَا تَفْقِدُونَ ﴾ ” تمہاری کیا چیز گم ہوگئی ہے ؟“ انہوں نے یہ نہیں پوچھا ” ہم نے تمہاری کیا چیز چرالی ہے؟“ کیونکہ وہ چوری کے اس الزام سے اپنے آپ کو یقینی طور پر بری سمجھتے تھے۔ یوسف
72 ﴿ قَالُوا نَفْقِدُ صُوَاعَ الْمَلِكِ وَلِمَن جَاءَ بِهِ حِمْلُ بَعِيرٍ﴾ ” ہم نہیں پاتے بادشاہ کا پیمانہ اور جو کوئی اس کو لائے گا، اس کے لئے ایک اونٹ کا بوجھ ہے“ یعنی اس کو ڈھونڈنے کی اجرت میں ایک بار شتر اناج ملے گا ﴿وَأَنَا بِهِ زَعِيمٌ﴾ ” اور میں اس کا ضامن ہوں۔“ یعنی یہ اناج دلانے کا میں ذمہ لیتا ہوں، یہ بات تلاش کرنے والے نے کہی تھی۔ یوسف
73 ﴿قَالُوا تَاللَّـهِ لَقَدْ عَلِمْتُم مَّا جِئْنَا لِنُفْسِدَ فِي الْأَرْضِ﴾ ” انہوں نے کہا، اللہ کی قسم، تم جانتے ہو، ہم ملک میں بگاڑ ڈالنے کے لئے نہیں آئے“ گناہوں کی تمام اقسام کے ذریعے سے ﴿وَمَا كُنَّا سَارِقِينَ﴾ ” اور نہ ہم چورہی ہیں“ کیونکہ چوری فساد فی الارض کی سب سے بڑی قسم ہے۔ انہوں نے قسم اس لئے اٹھائی تھی، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ وہ فساد پھیلانے والے ہیں نہ چور۔ وہ جانتے تھے کہ ان کے احوال کی خوب جانچ پڑتال ہوئی ہے جو ان کی پاکیزگی اور پرہیز گاری پر دلالت کرتی ہے اور یہ کہ یہ کام ان کے علم سے نہیں ہوسکتا جن پر وہ چوری کی تہمت لگا رہے ہیں۔۔۔۔۔۔ یہ پیرا یہ چوری کی تہمت کی نفی میں اس فقرے سے زیادہ بلیغ ہے (تَاللهَ لَمْ تُفْسِدُفِى الْارضِ وَلَمْ نَسْرِقُ) ” اللہ کی قسم ہم نے زمین میں فساد کیا ہے نہ ہم نے چوری کی ہے۔‘‘ یوسف
74 ﴿قَالُوا فَمَا جَزَاؤُهُ﴾ ” انہوں نے کہا، تو اس کی جزا کیا ہے“ یعنی اس فعل کی جزا کیا ہوگی ﴿ إِن كُنتُمْ كَاذِبِينَ﴾ ” اگر تم جھوٹے ہوئے؟“ یعنی اگر بادشاہ کا پیمانہ تمہارے پاس ہوا۔ یوسف
75 ﴿قَالُوا جَزَاؤُهُ مَن وُجِدَ فِي رَحْلِهِ فَهُوَ ﴾ ” انہوں نے کہا، اس کی جزا یہی ہے کہ جس کے سامان میں وہ پیالہ پایا جائے تو وہی‘‘ یعنی جس کے سامان میں موجود ہوگا ﴿جَزَاؤُهُ﴾ ” اس کی جزا ہے۔“ یعنی جس کی چوری کی گئی ہے وہ اس کا مالک بن جائے گا، ان کے دین میں چوری کی سزا یہ تھی کہ اگر اس پر چوری کا الزام ثابت ہوجاتا ہے تو وہ مال مسروقہ کے مالک کی ملکیت بن جاتا ہے، اسی لئے انہوں نے کہا : ﴿كَذَٰلِكَ نَجْزِي الظَّالِمِينَ﴾ ” ہم ظالموں کو اسی طرح بدلہ دیتے ہیں۔ “ یوسف
76 ﴿فَبَدَأَ بِأَوْعِيَتِهِمْ قَبْلَ وِعَاءِ أَخِيهِ﴾ ” پھر انہوں نے اپنے بھائی کے سامان سے پہلے ان کے سامان کو دیکھنا شروع کیا۔“ یعنی تلاشی لینے والے نے پہلے یوسف علیہ السلام کے بھائیوں کی خرجیوں کی تلاشی لی، تاکہ وہ شک زائل ہوجائے کہ سب کچھ قصداً کیا گیا ہے۔ ﴿ثُمَّ﴾ ”پھر“ یعنی جب بھائیوں کی خرجیوں سے کچھ نہ ملا، تو ﴿اسْتَخْرَجَهَا مِن وِعَاءِ أَخِيهِ﴾ ” اس برتن کو نکال لیا اپنے بھائی کی خرجی سے“ یعنی حقیقت واقعہ کی رعایت رکھتے ہوئے ﴿وَجَدَهَا﴾ یا ﴿سَرَقَهَا﴾ نہیں کہا۔ اس طرح یوسف علیہ السلام کے اس منصوبے کی تکمیل ہوگئی جس کے مطابق وہ اپنے بھائی کو اس طرح اپنے پاس رکھنا چاہتے تھے کہ ان کے بھائیوں کو اصل صورت حال کا علم نہ ہو، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ كَذَٰلِكَ كِدْنَا لِيُوسُفَ﴾ ” اس طرح تدبیر کی ہم نے یوسف علیہ السلام کے لئے“ یعنی ہم نے یوسف علیہ السلام کے لئے اس تدبیر کو آسان کردیا جس کے ذریعے سے وہ غیر مذموم ہو طریقے سے اپنے مقصد کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ ﴿مَا كَانَ لِيَأْخُذَ أَخَاهُ فِي دِينِ الْمَلِكِ﴾ ” وہ اپنے بھائی کو نہیں لے سکتا تھا اس بادشاہ کے دین میں“ یعنی بادشاہ کے قانون کے مطابق مال مسروقہ کے مالک کو یہ اختیار حاصل نہ تھا کہ وہ چور کا مالک بن سکے۔ ان کے ہاں چوری کی کوئی اور سزا تھی۔ اگر فیصلہ بادشاہ کے قانون کے مطابق ہوتا تو یوسف علیہ السلام اپنے بھائی کو اپنے پاس نہ رکھ سکتے۔ اس لئے حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں سے فیصلہ کروایا، تاکہ ان کے منصوبے کی تکمیل ہو۔ ﴿ نَرْفَعُ دَرَجَاتٍ مَّن نَّشَاءُ﴾ ” ہم جس کے چاہتے ہیں درجے بلند کرتے ہیں“ یعنی علم نافع اور اس راستے کی معرفت عطا کرکے جو منزل مقصود تک پہنچاتا ہے۔ جیسے ہم نے حضرت یوسف علیہ السلام کے درجات بلند کئے۔ ﴿وَفَوْقَ كُلِّ ذِي عِلْمٍ عَلِيمٌ ﴾ ” اور ہر علم والے سے دوسرا علم والا بڑھ کر ہے۔“ یعنی ہر صاحب علم کے اوپر ایک شخص ہوتا ہے جو اس سے زیادہ علم رکھتا ہے، یہاں تک کہ یہ سلسلہ غائب اور موجودہ کا علم رکھنے والی ہستی تک جا پہنچتا ہے۔ یوسف
77 جب یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے یہ معاملہ دیکھا، تو ﴿قَالُوا إِن يَسْرِقْ﴾ ” انہوں نے کہا، اگر اس )بھائی( نے چوری کی ہے“ تو یہ کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔ ﴿فَقَدْ سَرَقَ أَخٌ لَّهُ مِن قَبْلُ﴾ ” اس سے پہلے اس کے بھائی نے بھی چوری کی تھی“ ان کی مراد یوسف علیہ السلام تھے۔ ان کا مقصود خود اپنی براءت کا اظہار کرنا تھا۔ نیز یہ کہ بنیامین اور اس کے بھائی سے چوری صادر ہوئی ہے اور یہ دونوں ہمارے حقیقی بھائی نہیں ہیں۔ یہ ان کی طرف سے یوسف علیہ السلام اور ان کے بھائی بنیامین کا مرتبہ گھٹانے کی کوشش تھی۔ اس لئے یوسف علیہ السلام نے اس کے جواب کو اپنے دل میں رکھا۔ ﴿وَلَمْ يُبْدِهَا لَهُمْ﴾ ” اور اس کو ان کے سامنے ظاہر نہیں کیا“ اس لیے ان کی اس بات پر کسی ایسے رد عمل کا اظہار نہ کیا جو انہیں ناگوار گزرے، بلکہ وہ اپنے غصے کو پی گئے اور تمام معاملے کو اپنے دل میں چھپالیا۔ ﴿ قَالَ ﴾ حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے دل میں کہا : ﴿أَنتُمْ شَرٌّ مَّكَانًا﴾ ” تم بدتر ہو درجے میں“ کیونکہ تم نے ایک بے بنیاد بات پر ہماری مذمت کی ہے اور خود اس سے بھی بد تر اعمال کے مرتکب ہوئے ہو۔ ﴿وَاللَّـهُ أَعْلَمُ بِمَا تَصِفُونَ﴾ ” اور اللہ خوب جانتا ہے جو تم بیان کرتے ہو۔“ ہماری بابت، جو تم ہمیں سرقہ سے متصف کرتے ہو، اللہ تبارک وتعالیٰ خوب جانتا ہے کہ ہم چوری کے بہتان سے بری ہیں۔ یوسف
78 پھر انہوں نے یوسف علیہ السلام کی خوشامد شروع کردی کہ وہ ان کے بھائی کے بارے میں نرمی سے کام لیں، پس ﴿قَالُوا يَا أَيُّهَا الْعَزِيزُ إِنَّ لَهُ أَبًا شَيْخًا كَبِيرًا ﴾ ” انہوں نے کہا، اے عزیز ! اس کا باپ بوڑھا ہے، بڑی عمر کا“ یعنی وہ اس کی جدائی پر صبر نہیں کرسکے گا، اس کی جدائی پر اس پر بہت شاق گزرے گی۔ ﴿فَخُذْ أَحَدَنَا مَكَانَهُ ۖ إِنَّا نَرَاكَ مِنَ الْمُحْسِنِينَ ﴾ ” پس اس کی جگہ ہم میں سے کسی ایک کو رکھ لے، یقیناً ہم تجھے احسان کرنے والا دیکھتے ہیں“ پس ہم پر اور ہمارے باپ پر احسان کیجیے۔ یوسف
79 ﴿قَالَ﴾ یوسف علیہ السلام نے کہا : ﴿ مَعَاذَ اللَّـهِ أَن نَّأْخُذَ إِلَّا مَن وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِندَهُ ﴾ ” اللہ پناہ میں رکھے جس شخص کے پاس ہم نے اپنی چیز پائی ہے اس کے سوا کسی اور کو پکڑ لیں۔“ یعنی ہماری طرف سے یہ بہت بڑا ظلم ہوگا اگر ہم اس شخص کے بدلے جس کے پاس سے ہمارا مال برآمد ہوا ہے، ایک بے گناہ شخص کو پکڑ لیں۔ یوسف علیہ السلام نے یہ نہیں کہا ” جس نے چوری کی“ یہ جھوٹ سے احتراز ہے۔ ﴿إِنَّا إِذًا﴾ ” ہم تو پھر“ یعنی اگر ہم اس شخص کو پکڑنے کی بجائے جس کے سامان سے ہمارا مال برآمد ہوا ہے کسی اور شخص کو پکڑ لیں ﴿لَّظَالِمُونَ﴾ ”ظالم ہوں گے“ کیونکہ اس طرح ہم ایسے شخص کو سز ادیں گے جو سزا کا مستحق نہیں۔ یوسف
80 جب یوسف علیہ السلام کے بھائی اس بارے میں مایوس ہوگئے کہ وہ ان کے بھائی کے معاملے میں نرمی اختیار کریں۔ ﴿خَلَصُوا نَجِيًّا﴾ ” تو وہ علیحدگی میں اکٹھے ہوئے اور اصلاح کرنے لگے۔“ جہاں کوئی اور موجود نہ تھا انہوں نے سر گوشیوں میں ایک دوسرے سے مشورہ کیا۔ ﴿قَالَ كَبِيرُهُمْ أَلَمْ تَعْلَمُوا أَنَّ أَبَاكُمْ قَدْ أَخَذَ عَلَيْكُم مَّوْثِقًا مِّنَ اللَّـهِ﴾ ” ان کے بڑے نے کہا، کیا تم نہیں جانتے کہ تمہارے باپ نے تم سے اللہ کا عہد لیا تھا“ یعنی تم سے اس کی حفاظت کرنے اور ساتھ لے کر آنے کا عہد لیا تھا، سوائے اس کے کہ تم کسی مصیبت میں گھر کر بے بس ہوجاؤ۔ ﴿وَمِن قَبْلُ مَا فَرَّطتُمْ فِي يُوسُفَ﴾ ” اور اس سے پہلے تم یوسف علیہ السلام کے بارے میں کوتاہی کرچکے ہو“ پس تم میں دو امور اکٹھے ہوگئے ہیں۔ (1) یوسف علیہ السلام کے بارے میں تمہاری گزشتہ کو تاہی۔ (2) اس کے چھوٹے بھائی کو اپنے ساتھ نہ لانا۔۔۔ میرے پاس تو ایسی کوئی دلیل نہیں جس کے ذریعے سے میں اپنے باپ کا سامنا کرسکوں۔ ﴿فَلَنْ أَبْرَحَ الْأَرْضَ﴾ پس میں تو یہیں مقیم رہوں گا اور یہاں سے نہیں جاؤں گا ﴿حَتَّىٰ يَأْذَنَ لِي أَبِي أَوْ يَحْكُمَ اللَّـهُ لِي﴾ ” یہاں تک کہ حکم دے مجھ کو میرا باپ یا اللہ میری بابت فیصلہ کر دے“ یعنی اللہ تعالیٰ میرے لئے اکیلے یا بھائی کے ساتھ آنا مقدر کر دے۔ ﴿وَهُوَ خَيْرُ الْحَاكِمِينَ﴾ ” اور وہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔ “ پھر اس نے اپنے بھائیوں کو وصیت کی کہ انہیں اپنے باپ سے جا کر کیا کہنا ہے۔ یوسف
81 ﴿ارْجِعُوا إِلَىٰ أَبِيكُمْ فَقُولُوا يَا أَبَانَا إِنَّ ابْنَكَ سَرَقَ﴾ ” اپنے باپ کے پاس جاؤ اور کہو، ابا جان ! آپ کے بیٹے نے تو چوری کی“ یعنی وہ چوری کے جرم میں دھر لیا گیا ہے اس کے باوجود کہ ہم نے اس کے بارے میں بھرپور کوشش کی مگر ہم اس کو ساتھ نہ لا سکے۔ صورت حال یہ ہے کہ ہم کسی ایسی چیز کی گواہی نہیں دیتے جو ہمارے سامنے نہ تھی ہم تو صرف اسی چیز کا مشاہدہ کرسکتے تھے جو ہمارے سامنے تھی، کیونکہ ہم نے مشاہدہ کیا کہ بادشاہ کا پیمانہ بنیامین کی خرجی سے برآمد ہوا۔ ﴿وَمَا كُنَّا لِلْغَيْبِ حَافِظِينَ ﴾ ” اور ہم کو غیب کی بات کا دھیان نہ تھا“ اگر ہمیں غیب کا علم ہوتا تو ہم اسے اپنے ساتھ لے جانے کی خواہش کرتے نہ اس کو ساتھ لے جانے کے لئے اتنی کوشش کرتے اور نہ آپ کو کوئی عہد دیتے۔ ہمارے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ معاملہ یہاں تک پہنچ جائے گا۔ یوسف
82 ﴿ وَاسْأَلِ﴾ ” اور دریافت کرلیجیے“ یعنی اگر آپ کو ہماری بات میں کوئی شک ہے، تو ﴿الْقَرْيَةَ الَّتِي كُنَّا فِيهَا وَالْعِيرَ الَّتِي أَقْبَلْنَا فِيهَا ۖ  ﴾ ”اس بستی سے جس میں ہم تھے اور اس قافلے سے جس میں ہم آئے ہیں“ ہم نے جو آپ کو خبر سنائی ہے اس کے بارے میں پوری اطلاع رکھتے ہیں۔ ﴿وَإِنَّا لَصَادِقُونَ﴾ ” اور ہم البتہ سچے ہیں۔“ ہم نے جھوٹ بولا ہے نہ ہم نے تغیر و تبدیل کیا ہے، بلکہ یہی واقعات ہیں۔ (جو ہم آپ کو بتا رہے ہیں) یوسف
83 جب وہ اپنے باپ کے پاس واپس پہنچے اور انہیں ان واقعات سے آگاہ کیا تو یعقوب علیہ السلام بہت غم زدہ ہوئے اور ان کی اداسی کئی گنا بڑھ گئی۔ پہلے کی طرح اس واقعہ میں بھی حضرت یعقوب علیہ السلام نے ان کو متہم قرار دیا ﴿قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ أَنفُسُكُمْ أَمْرًا ۖ فَصَبْرٌ جَمِيلٌ ۖ﴾ ” (اور) کہا بلکہ بنا لی ہے تمہارے جی نے ایک بات، پس اب صبر ہی بہتر ہے“ یعنی میں اس معاملے میں صبر جمیل کی پناہ لیتا ہوں جس میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ ناراضی ہے نہ بے صبری کا مظاہرہ اور نہ مخلوق کے پاس شکوہ۔ اور جب انہوں نے دیکھا کہ غم و کرب بہت شدید ہوگیا تو انہوں نے سکون کا سہارا لینے کے لئے کہا : ﴿عَسَى اللَّـهُ أَن يَأْتِيَنِي بِهِمْ جَمِيعًا﴾ ” شاید اللہ لے آئے میرے پاس ان سب کو“ یعنی یوسف علیہ السلام، بنیامین اور سب سے بڑا بھائی، جو مصر میں رہ پڑا تھا۔ ﴿ إِنَّهُ هُوَ الْعَلِيمُ﴾ ” بے شک وہ جاننے والا ہے“ جو میرے حال کو جانتا ہے، جو یہ بھی جانتا ہے کہ میں اس کی طرف سے کشادگی اور نوازش کا محتاج اور اس کے احسان کا ضرورت مند ہوں۔ ﴿الْحَكِيمُ﴾ ”وہ دانا ہے“۔ جس نے اپنی حکمت ربانی کے تقاضے کے مطابق ہر چیز کا اندازہ اور اس کا منتہا مقرر کیا ہے۔ یوسف
84 یعنی جب یعقوب علیہ السلام کے بیٹوں نے انہیں یہ خبر سنائی تو انہوں نے اپنے بیٹوں سے منہ پھیر لیا، ان پر غم و اندوہ کا پہاڑ ٹوٹ پڑا، دل میں چھپے ہوئے غم اور کرب کی وجہ سے رو رو کر ان کی آنکھیں سفید ہوگئیں۔ ﴿ فَهُوَ كَظِيمٌ﴾ ” سو وہ اپنے آپ کو گھونٹ رہا تھا“ یعنی ان کا دل حزن و غم سے لبریز تھا۔ یوسف
85 ﴿ وَقَالَ يَا أَسَفَىٰ عَلَىٰ يُوسُفَ ﴾ ” اور کہا، اے افسوس یوسف پر“ یعنی پرانا حزن و غم اور نہ ختم ہونے والا اشتیاق جو حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنے دل میں چھپا رکھا تھا، ظاہر ہوگیا اور اس نئی اور پہلی مصیبت کی نسبت قدرے ہلکی مصیبت نے پہلی مصیبت کی یاد تازہ کردی۔ یعقوب علیہ السلام کے بیٹوں نے ان کے حال پر تعجب کرتے ہوئے کہا : ” اللہ کی قسم ! آپ اسی طرح یوسف علیہ السلام کو یاد کرتے رہیں گے“ یعنی آپ اپنے تمام احوال میں یوسف علیہ السلام کو یاد کرتے رہیں گے۔ ﴿حَتَّىٰ تَكُونَ حَرَضًا﴾ ” یہاں تک کہ آپ فنا ہوجائیں گے“ آپ حرکت تک نہیں کرسکیں گے اور آپ میں بولنے کی قدرت نہیں رہے گی۔ ﴿ أَوْ تَكُونَ مِنَ الْهَالِكِينَ﴾ ” یا ہوجائیں گے آپ ہلاک۔“ یعنی آپ یوسف علیہ السلام کو یاد کرنے کی قدرت رکھتے ہوئے اس کو یاد کرنا کبھی نہیں چھوڑیں گے۔ یوسف
86 ﴿قَالَ﴾ یعقوب علیہ السلام نے کہا : ﴿إِنَّمَا أَشْكُو بَثِّي﴾ ” میں تو کھولتا ہوں اپنا اضطراب“ یعنی میں جو بات کرتا ہوں ﴿وَحُزْنِي﴾ ” اور اپنا غم“ وہ جو میرے دل میں پوشیدہ ہے ﴿ إِلَى اللَّـهِ ﴾ ” اللہ کے سامنے“ یعنی میں اپنے حزن و غم کا شکوہ تمہارے پاس یا کسی اور کے پاس نہیں کرتا، بلکہ صرف اللہ تعالیٰ کے پاس کرتا ہوں۔ اس لئے تم جو چاہو کہتے رہو۔ ﴿ وَأَعْلَمُ مِنَ اللَّـهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ﴾ ” اور میں جانتا ہوں اللہ کی طرف سے جو تم نہیں جانتے“ یعنی میں جانتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ضرور انہیں میرے پاس لوٹائے گا اور ان سب کو میرے پاس اکٹھا کرکے میری آنکھیں ٹھنڈی کرے گا۔ یوسف
87 یعنی یعقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹوں سے کہا : ﴿يَا بَنِيَّ اذْهَبُوا فَتَحَسَّسُوا مِن يُوسُفَ وَأَخِيهِ﴾ ” اے بیٹو ! جاؤ اور تلاش کرو یوسف علیہ السلام اور اس کے بھائی کو“ یعنی پوری حرص اور کوشش کے ساتھ دونوں کو تلاش کرو۔ ﴿وَلَا تَيْأَسُوا مِن رَّوْحِ اللَّـهِ ۖ ﴾ ” اور اللہ کے فیض سے ناامید نہ ہو“ کیونکہ امید بندے کو اپنے مقصد کے لئے کوشش اور جدو جہد کے لئے آمادہ کرتی ہے اور مایوسی اسے سست اور کاہل بنا دیتی ہے اور سب سے بہترین چیز جس کے بندے کو امید رکھنی چاہیے وہ ہے اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم اور اس کی رحمت و مہربانی۔ ﴿لَا يَيْأَسُ مِن رَّوْحِ اللَّـهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْكَافِرُونَ﴾ ” اور اللہ کے فیض سے کافر ہی ناامیدہوتے ہیں۔“ کیونکہ کفار اپنے کفر کی وجہ سے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دور سمجھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رحمت ان سے دور ہے، اس لئے کفار کی مشابہت اختیار نہ کرو۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ بندہ اپنے ایمان کے مطابق ہی اللہ تعالیٰ کی رحمت و مہربانی کی امید رکھتا ہے۔ یوسف
88 پس وہ وہاں سے روانہ ہوگئے۔ ﴿ فَلَمَّا دَخَلُوا عَلَيْهِ﴾ ” جب وہ اس کے پاس گئے“ یعنی جب وہ یوسف علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ﴿قَالُوا﴾ تو انہوں نے عاجزی کے ساتھ عرض کیا : ﴿يَا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنَا وَأَهْلَنَا الضُّرُّ وَجِئْنَا بِبِضَاعَةٍ مُّزْجَاةٍ فَأَوْفِ لَنَا الْكَيْلَ وَتَصَدَّقْ عَلَيْنَا﴾ ” اے عزیز ! پڑی ہے ہم پر اور ہمارے گھر والوں پر سختی اور ہم ناقص پونجی لے کر آئے ہیں، سو ہمیں بھرتی پوری دیں اور ہم پر خیرات کریں“ یعنی ہم اور ہمارے اہل و عیال سخت محتاج ہوگئے ہیں۔ ﴿وَجِئْنَا بِبِضَاعَةٍ مُّزْجَاةٍ﴾ ” اور ہم تھوڑا سا سرمایہ لائے ہیں۔“ یعنی ہم ایسا مال لے کر آئے ہیں جو قلیل، بے وقعت ہونے کی بنا پر کسی اہمیت کا حامل نہیں۔ ﴿فَأَوْفِ لَنَا الْكَيْلَ ﴾ ” پس آپ ہمیں پورا غلہ دیجیے۔“ یعنی ہمارے پاس قیمت کم ہونے کے باوجود، ہمیں قیمت سے زیادہ غلہ عنایت کرکے ہم پر صدقہ کیجیے۔ ﴿ إِنَّ اللَّـهَ يَجْزِي الْمُتَصَدِّقِينَ﴾ ” بیشک اللہ صدقہ کرنے والوں کو ثواب دیتا ہے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ صدقہ کرنے والوں کو دنیا و آخرت کا ثواب عطا کرتا ہے۔ یوسف
89 جب معاملہ اپنی انتہا اور شدت کو پہنچ گیا، تو یوسف علیہ السلام نرم پڑگئے اور انہوں نے ان کو اپنا تعارف کروایا اور ان پر عتاب کرتے ہوئے فرمایا : ﴿هَلْ عَلِمْتُم مَّا فَعَلْتُم بِيُوسُفَ وَأَخِيهِ﴾ ” کیا تمہیں معلوم ہے، تم نے یوسف علیہ السلام اور اس کے بھائی کے ساتھ کیا کیا ؟“ رہے یوسف علیہ السلام تو ان کے ساتھ ان کا سلوک ظاہر ہے اور رہا ان کا بھائی بنیامین تو شاید۔۔۔۔۔۔ واللہ۔۔۔۔۔۔ اس سے مراد بھائیوں کا یہ قول ہے ﴿ قَالُوا إِن يَسْرِقْ فَقَدْ سَرَقَ أَخٌ لَّهُ مِن قَبْلُ﴾(یوسف:12؍77) یا اس سے مراد وہ حادثہ ہے جس کی بنا پر باپ اور بیٹے میں جدائی واقع ہوئی اور اس جدائی کے اصل سبب اور موجب وہی تھے۔ ﴿ إِذْ أَنتُمْ جَاهِلُونَ﴾ ” جب تم ناسمجھ تھے“ یہ ان کی جہالت پر ایک قسم کا اعتزار ہے یا ان پر زجروتوبیخ ہے کیونکہ انہوں نے جاہلوں کا سا کام کیا، حالانکہ یہ کام ان کے شایان شان نہیں تھا۔ یوسف
90 انہوں نے پہچان لیا کہ جو شخص ان سے مخاطب ہے وہ یوسف علیہ السلام ہے اس لئے انہوں نے پوچھا : ﴿ أَإِنَّكَ لَأَنتَ يُوسُفُ ۖ قَالَ أَنَا يُوسُفُ وَهَـٰذَا أَخِي ۖ قَدْ مَنَّ اللَّـهُ عَلَيْنَا ۖ﴾ ” کیا آپ یوسف ہیں؟ انہوں نے کہا، ہاں میں یوسف ہوں اور یہ میرا بھائی ہے، اللہ نے ہم پر احسان کیا ہے“ کہ اس نے ہمیں ایمان، تقویٰ اور زمین میں اقتدار سے نوازا۔ یہ سب کچھ صبر اور تقویٰ کا ثمرہ ہے۔ ﴿ إِنَّهُ مَن يَتَّقِ وَيَصْبِر﴾ ” بے شک جو شخص اللہ سے ڈرتا اور صبر کرتا ہے“ یعنی جو کوئی فعل حرام سے پرہیز کرتا ہے، آلام و مصائب پر صبر کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے احکام کی تعمیل کرتا ہے۔ ﴿فَإِنَّ اللَّـهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ﴾ ” تو اللہ نیکو کاروں کا اجرضائع نہیں کرتا۔“ یہ تمام امور احسان کے زمرے میں آتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کسی کے اعمال حسنہ کو ضائع نہیں کرتا۔ یوسف
91 ﴿قَالُوا تَاللَّـهِ لَقَدْ آثَرَكَ اللَّـهُ عَلَيْنَا﴾ ” انہوں نے کہا، اللہ کی قسم، اللہ نے آپ کو ہمارے مقابلے میں پسند کرلیا ہے“ یعنی اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ کو مکارم اخلاق اور محاسن عادات کے ذریعے سے ہم پر فضیلت سے نوازا، ہم نے آپ کے ساتھ انتہائی برا سلوک کیا، ہم نے آپ کو تکلیف پہنچانے اور آپ کو اپنے باپ سے دور کرنے کی خواہش کی مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو فضیلت بخشی اور ان امور کو آپ کے لئے ممکن بنا دیا جو آپ چاہتے تھے۔ ﴿وَإِن كُنَّا لَخَاطِئِينَ﴾ ” اور بلا شبہ ہم خطا کار تھے۔ “ یوسف
92 ﴿قَالَ﴾ یوسف علیہ السلام نے اپنے جو دو کرم کی بنا پر ان سے کہا : ﴿ لَا تَثْرِيبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ﴾ ” آج تم پر کوئی الزام نہیں“ یعنی میں تمہارا کوئی مواخذہ اور تم پر کوئی ملامت نہیں کرتا۔ ﴿يَغْفِرُ اللَّـهُ لَكُمْ ۖ وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ﴾ ” اللہ تمہیں معاف کرے، وہ سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔“ یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں کے گزشتہ جرائم پر عار دلائے بغیر ان کے ساتھ انتہائی نرمی اور فراخ دلی کا سلوک کیا اور ان کے لئے مغفرت اور رحمت کی دعا کی، یہ احسان کی انتہا ہے، اس سلوک کا مظاہرہ اللہ تعالیٰ کے خاص اور چنے ہوئے بندے ہی کرسکتے ہیں۔ یوسف
93 یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں سے کہا : ﴿اذْهَبُوا بِقَمِيصِي هَـٰذَا فَأَلْقُوهُ عَلَىٰ وَجْهِ أَبِي يَأْتِ بَصِيرًا﴾ ” تم میری یہ قمیص لے جاؤ اور اسے میرے باپ کے چہرے پر ڈال دینا، وہ آنکھوں سے دیکھتا ہوا آئے گا“ کیونکہ ہر بیماری کا علاج اس کی ضد کے ذریعے سے کیا جاتا ہے۔ اس قمیص میں چونکہ یوسف علیہ السلام کی خوشبو کا اثر تھا جس کی جدائی نے اپنے باپ کے دل کو اس قدر حزن و غم سے لبریز کردیا تھا۔۔۔ جسے اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔۔۔ حضرت یوسف علیہ السلام چاہتے تھے کہ یہ قمیص ان کے باپ کو سونگھائی جائے تو ان کی روح، ان کا نفس اور ان کی بصارت لوٹ آئے گی۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی حکمتیں اور اسرار پنہاں ہیں جن کو بندے نہیں جانتے مگر اس معاملے پر یوسف علیہ السلام کو مطلع کیا گیا۔ ﴿وَأْتُونِي بِأَهْلِكُمْ أَجْمَعِينَ﴾ ” اور میرے پاس اپنا سارا گھر لے آؤ“ یعنی اپنے بال بچوں، قبیلے والوں اور دیگر تمام متعلقہ لوگوں کو میرے پاس لاؤ تاکہ ملاقات کی تکمیل ہو اور تمہاری معاشی بد حالی اور رزق کی تنگی دور ہو۔ یوسف
94 ﴿وَلَمَّا فَصَلَتِ الْعِيرُ﴾ ” اور جب یہ قافلہ جدا ہوا“ یعنی مصر سے فلسطین کی طرف روانہ ہوا تو یعقوب علیہ السلام نے قمیص کی خوشبو سونگھ لی اور کہنے لگے : ﴿إِنِّي لَأَجِدُ رِيحَ يُوسُفَ ۖ لَوْلَا أَن تُفَنِّدُونِ﴾ ” میں یوسف علیہ السلام کی خوشبو پاتا ہوں، اگر تم میرا تمسخر نہ اڑاؤ“ اور یہ نہ سمجھو کہ بات مجھ سے غیر شعوری طور پر صادر ہوئی ہے، کیونکہ یعقوب علیہ السلام نے اس حال میں ان کی طرف سے تعجب کا مظاہرہ ہی دیکھا جو اس قول کا موجب بنا۔ یوسف
95 پس وہی کچھ ہوا جو حضرت یعقوب علیہ السلام سمجھتے تھے، چنانچہ وہ کہنے لگے : ﴿تَاللَّـهِ إِنَّكَ لَفِي ضَلَالِكَ الْقَدِيمِ﴾ ” اللہ کی قسم ! آپ تو اسی پرانی غلطی میں ہیں“ یعنی آپ تو ہمیشہ محبت کے سمندر میں سرگرداں رہیں گے، آپ نہیں جانتے کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔ یوسف
96 ﴿فَلَمَّا أَن جَاءَ الْبَشِيرُ﴾ ” پس جب خوشخبری دینے والا آپہنچا“ یعنی جب ایلچی حضرت یوسف علیہ السلام، ان کے بھائیوں اور ان کے باپ کے اجتماع کی خوشخبری لے کر آیا ﴿أَلْقَاهُ﴾ ” تو ڈال دیا اس کو“ یعنی قمیص کو ﴿عَلَىٰ وَجْهِهِ فَارْتَدَّ بَصِيرًا﴾ ” ان کے چہرے پر، جس سے وہ دوبارہ دیکھنے والے ہوگئے“ یعنی یعقوب علیہ السلام اپنی پہلی سی بصارت والی حالت میں آگئے حالانکہ غم و اندوہ کی وجہ سے ان کی آنکھیں سفید ہوگئی تھیں۔ یعقوب علیہ السلام نے ان لوگوں سے۔۔۔ جو وہاں موجود تھے اور جو ان کی رائے کو جھٹلاتے رہے تھے اور ان پر تعجب کر رہے تھے۔۔۔ اللہ تعالیٰ کی نعمت پر خوش ہو کر فاتحانہ انداز میں کہا : ﴿أَلَمْ أَقُل لَّكُمْ إِنِّي أَعْلَمُ مِنَ اللَّـهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ﴾ ” کیا میں نے تمہیں نہیں کہا تھا کہ میں اللہ سے وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے“ کیونکہ میں یوسف علیہ السلام کے ملنے کی امید رکھتا تھا اور حزن و غم کے ختم ہونے کا منتظر تھا۔ یوسف
97 جب یعقوب علیہ السلام کے بیٹوں نے اپنے گناہ کا اقرار کرتے ہوئے کہا : ﴿ يَا أَبَانَا اسْتَغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا إِنَّا كُنَّا خَاطِئِينَ﴾ ” ابا جان ! ہمارے لئے ہمارے گناہوں کی بخشش طلب کریں بے شک ہم گناہ گار تھے“ کیونکہ ہم نے آپ کے ساتھ جو سلوک کیا اس کی بنا پر ہم خطا کار ہیں۔ یوسف
98 ﴿قَالَ﴾ یعقوب علیہ السلام نے ان کی درخواست کو قبول کرتے ہوئے جواب دیا : ﴿سَوْفَ أَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّي ۖ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ﴾ ”میں ضرور تمہارے لئے اپنے رب سے بخشش مانگوں گا، بلا شبہ وہ بہت بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔“ اور مجھے امید ہے کہ وہ تمہیں بخش دے گا، تم پر رحم کرے گا اور تمہیں اپنی رحمت سے ڈھانپ دے گا۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت یعقوب نے ان کے لئے استغفار کو فضیلت والے وقت سحر تک موخر کردیا تاکہ استغفار کامل ترین اور قبولیت کے قریب ترین ہو۔ یوسف
99 ﴿فَلَمَّا﴾ جب یعقوب علیہ السلام، ان کے بیٹے اور گھر والے تیار ہو کر اپنے ملک فلسطین روانہ ہوئے، ان کا مقصد مصر میں حضرت یوسف علیہ السلام کے پاس پہنچ کر وہاں آباد ہونا تھا، پس جب وہ مصر پہنچ گئے ﴿دَخَلُوا عَلَىٰ يُوسُفَ آوَىٰ إِلَيْهِ أَبَوَيْهِ﴾ ” وہ یوسف کے پاس پہنچے، تو یوسف نے اپنے ماں باپ کو اپنے پاس جگہ دی“ یعنی حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے ماں باپ کو اپنے ساتھ بٹھایا ان کو اپنا قرب عطا کیا اور ان کے ساتھ نیکی اور حسن سلوک نہایت تعظیم و تکریم سے پیش آئے۔ ﴿وَقَالَ﴾ اور اپنے تمام گھر والوں سے کہا : ﴿ ادْخُلُوا مِصْرَ إِن شَاءَ اللَّـهُ آمِنِينَ﴾ ” داخل ہو مصر میں، اگر اللہ نے چاہا، بے خوف ہو کر“ ہر قسم کے خطرناک حالات اور سختیوں سے محفوظ ہو۔ وہ اسی حالت میں مصر میں داخل ہوئے ان سے تمام سختی اور معاشی تنگی دور ہوگئی اور بہجت و سرور حاصل ہوگیا۔ یوسف
100 ﴿وَرَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ﴾ ” اور اونچا بٹھایا اپنے ماں باپ کو تخت پر“ یعنی انہیں شاہی تخت اور مقام عزت پر بٹھایا ﴿وَخَرُّوا لَهُ سُجَّدًا﴾ ” اور سب اس کے آگے سجدے میں گر پڑے۔“ یعنی یوسف علیہ السلام کے والدین اور ان کے بھائی ان کی تعظیم اور عزت و اکرام کے لئے ان کے سامنے سجدے میں گر گئے۔ ﴿وَقَالَ﴾ جب یوسف علیہ السلام نے انہیں اس حالت میں دیکھا کہ وہ ان کے سامنے سجدہ ریز ہیں، تو کہنے لگے : ﴿يَا أَبَتِ هَـٰذَا تَأْوِيلُ رُؤْيَايَ مِن قَبْلُ﴾ ” ابا جان ! یہ ہے تعبیر میرے خواب کی جو اس سے پہلے دیکھا تھا“ یعنی جب یوسف علیہ السلام نے خواب میں دیکھا تھا کہ گیارہ ستارے، سورج اور چاند انہیں سجدہ کر رہے ہیں۔ یہ تھی اس خواب کی تعبیر، جو اس مقام پر پہنچ کر پوری ہوئی۔ ﴿ قَدْ جَعَلَهَا رَبِّي حَقًّا﴾ ” میرے رب نے اسے سچ کردیا۔“ یعنی میرے رب نے اس خواب کو حقیقت بنا دکھایا اور اسے خواب پریشان نہ بنایا۔ ﴿ وَقَدْ أَحْسَنَ بِي﴾ ” اور اس نے مجھ پر بڑا احسان کیا۔“ ﴿إِذْ أَخْرَجَنِي مِنَ السِّجْنِ وَجَاءَ بِكُم مِّنَ الْبَدْوِ﴾ ” جب اس نے مجھے قید خانے سے نکالا اور تم کو گاؤں سے (یہاں) لے آیا“ یہ یوسف علیہ السلام کی مہربانی اور حسن تخاطب ہے کہ انہوں نے اپنے بھائیوں کے لئے اتمام عفو کی خاطر اپنی حالت قید کا تو ذکر کیا مگر اندھے کنوئیں میں ان پر جو کچھ گزری، اس کا ذکر نہیں کیا اور نہ انہوں نے اپنے بھائیوں کے قصور کا ذکر کیا نیز ان کو صحرا سے مصر لانے میں اللہ تعالیٰ کے احسان کا ذکر کیا۔ یوسف علیہ السلام نے یہ پیرا یہ بھی اختیار نہیں کیا کہ ” تمہیں بھوک اور بد حالی سے نکال کر یہاں لایا“ نہ یہ کہا’’اس نے تم پر احسان کیا“ بلکہ کہا ” اس نے مجھ پر احسان فرمایا“ اور اللہ تعالیٰ کے احسان کو اپنی طرف لوٹایا۔ نہایت بابرکت ہے وہ ذات جو اپنے بندوں میں سے جسے چاہتی ہے اپنی رحمت کے لئے مختصر کرلیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی طرف سے بے پایاں رحمت سے نوازتا ہے وہ بہت زیادہ نوازشات کرنے والا ہے۔ ﴿مِن بَعْدِ أَن نَّزَغَ الشَّيْطَانُ بَيْنِي وَبَيْنَ إِخْوَتِي﴾ ” بعد اس کے کہ شیطان نے میرے اور میرے بھائیوں کے درمیان جھگڑا ڈال دیا“ اور یہ نہیں کہا : (نَزَغَ الشَّيْطَانُ إِخْوَتِي) ” شیطان نے میرے بھائیوں کو بہکا دیا“ بلکہ پیرا یہ استعمال کیا گیا گویا گناہ اور جہالت دونوں طرف سے صادر ہوئی۔۔۔ تمام ستائش اللہ تعالیٰ کے لئے ہے جس نے شیطان کو رسوا کرکے دھتکار دیا اور اس انتہائی تکلیف دہ جدائی کے بعد اس نے ہمیں پھر اکٹھا کردیا۔ ﴿إِنَّ رَبِّي لَطِيفٌ لِّمَا يَشَاءُ﴾ ” بے شک میرا رب تدبیر سے کرتا ہے جو چاہتا ہے“ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو اپنے کرم اور احسان سے اس طرح نوازتا ہے کہ اسے شعور تک نہیں ہوتا اور بعض ناپسندیدہ امور کے ذریعے سے بلند ترین منازل پر پہنچا دیتا ہے۔ ﴿إِنَّهُ هُوَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ﴾ ” بے شک وہ جاننے والا“ یعنی وہ جو تمام معاملات کے ظاہر و باطن کو جانتا ہے اور وہ بندوں کے ضمیر میں نہاں رازوں کو بھی جانتا ہے۔ ﴿الْحَكِيمُ﴾ وہ حکمت والا ہے اور تمام اشیاء کو ان کے لائق مقام پر رکھتا ہے اور تمام امور کو ان کے اوقات مقرر پر وقوع پذیر کرتا ہے۔ یوسف
101 جب اللہ تبارک وتعالیٰ نے یوسف علیہ السلام کو زمین میں مکمل اقتدار عطا کردیا اور ان کے والدین اور بھائیوں کی ملاقات کے ذریعے سے ان کی آنکھیں ٹھنڈی کردیں، تو یوسف علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی نعمت کا اقرار کرتے، اس پر اس کا شکریہ ادا کرتے اور اسلام پر ثبات اور استقامت کی دعا کرتے ہوئے کہا : ﴿رَبِّ قَدْ آتَيْتَنِي مِنَ الْمُلْكِ﴾ ” اے رب تو نے مجھے بادشاہی سے حصہ دیا“ یہ انہوں نے اس لئے کہا تھا کہ وہ زمین کے خزانوں کے منتظم اور بادشاہ کے بہت بڑے وزیر تھے۔ ﴿وَعَلَّمْتَنِي مِن تَأْوِيلِ الْأَحَادِيثِ﴾ ” اور مجھے خوابوں کی تعبیر کا علم بخشا۔“ یعنی تو نے مجھے آسمانی کتاب کی تفسیر اور خوابوں کی تعبیر کا علم عطا کیا۔ ﴿فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ أَنتَ وَلِيِّي فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۖ تَوَفَّنِي مُسْلِمًا﴾ ” اے آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے ! تو ہی میرا کار ساز ہے دنیا اور آخرت میں، مجھے اسلام پر موت دے“ یعنی مجھے اسلام پر قائم اور ثابت قدم رکھ حتیٰ کہ اسلام ہی پر مجھے وفات دے۔ یہ دعا موت کے جلدی آنے کی دعا نہیں ہے۔ ﴿وَأَلْحِقْنِي بِالصَّالِحِينَ﴾ ” اور مجھے نیک بندوں میں داخل کردیجیے۔“ یعنی مجھے انبیاء و ابرار، اپنے چنے ہوئے اور بہترین بندوں میں شامل کر۔ یوسف
102 اللہ تبارک وتعالیٰ نے رسول مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر یہ قصہ بیان کرنے کے بعد فرمایا : ﴿ذَٰلِكَ﴾ یعنی یہ خبر جس سے ہم نے آپ کو آگاہ کیا ہے۔ ﴿مِنْ أَنبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهِ إِلَيْكَ﴾ ” غیب کی خبریں، جو ہم آپ کی طرف وحی کرتے ہیں“ اور اگر ہم آپ کی طرف وحی نہ کرتے تو اس جلیل القدر واقعہ کی خبر آپ تک نہ پہنچ سکتی۔ ﴿ وَمَا كُنتَ لَدَيْهِمْ﴾ ” اور آپ ان کے پاس موجود نہ تھے“ ﴿ إِذْ أَجْمَعُوا أَمْرَهُمْ﴾ ” جب وہ اتفاق کر رہے تھے اپنے کام پر“ یعنی یوسف علیہ السلام کے بھائی فریب پر اتفاق کر رہے تھے۔ ﴿وَهُمْ يَمْكُرُونَ﴾ ” اور وہ چال چل رہے تھے۔“ جب کہ ان کے اور ان کے باپ کے درمیان جدائی ڈالنے کے لئے اس طرح سازش کر رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو اطلاع نہ تھی اور نہ کسی کے لئے یہ ممکن ہی تھا کہ اصل واقعہ معلوم کرسکتا جب تک کہ اللہ تعالیٰ اصل واقعہ سے آگاہ نہ کرے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے جب موسیٰ علیہ السلام کا قصہ بیان کرنے کے بعد وہ حالات بیان فرمائے، جن کا علم، اللہ کی وحی کے بغیر مخلوق کو حاصل نہیں ہوسکتا، تو وہاں فرمایا : ﴿وَمَا كُنتَ بِجَانِبِ الْغَرْبِيِّ إِذْ قَضَيْنَا إِلَىٰ مُوسَى الْأَمْرَ وَمَا كُنتَ مِنَ الشَّاهِدِينَ ﴾ (القصص:28؍44)” اور جب ہم نے موسیٰ کی طرف وحی کی تو آپ طور کے غربی جانب نہ تھے اور نہ آپ اس واقعہ کا مشاہدہ کرنے والے تھے۔“ اور یہ اس بات کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ آپ جو کچھ لے کر آئے ہیں وہ حق ہے۔ یوسف
103 اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے نبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرماتا ہے : ﴿وَمَا أَكْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ﴾ ” اور نہیں ہیں اکثر لوگ، اگرچہ آپ ان کے ایمان کی شدید خواہش رکھتے ہوں“ ﴿بِمُؤْمِنِينَ﴾ ” ایمان لانے والے۔“ کیونکہ ان کے مدارک و مقاسد فاسد ہوچکے ہیں اس لئے خیر خواہوں کی خر خواہی انہیں کوئی فائدہ نہیں دے گی اگرچہ موانع معدوم ہی کیوں نہ ہوں، یعنی اگرچہ یہ خیر خواہ انہیں تعلیم دیتے رہیں انہیں ان امور کی طرف بلاتے رہیں جن میں ان کے لئے بھلائی اور ان سے شرکا دفعیہ ہے، خواہ یہ خیر خواہی اپنی صداقت پر شواہد، آیات اور دلائل ہی کیوں نہ پیش کریں۔ یوسف
104 بنا بریں اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَمَا تَسْأَلُهُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ ۚ إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرٌ لِّلْعَالَمِينَ ﴾ ” اور آپ ان سے اس پر کوئی معاوضہ نہیں مانگتے، یہ تو صرف جہانوں کے لئے نصیحت ہے“ اس کے ذریعے سے یہ نصیحت حاصل کرتے ہیں کہ کون سی چیز فائدہ مند ہے، تاکہ اس پر عمل کریں اور کون سی چیز نقصان دہ ہے تاکہ اسے چھوڑ دیں۔ یوسف
105 ﴿وَكَأَيِّن﴾ ” اور کتنی ہی“ ﴿مِّنْ آيَةٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ يَمُرُّونَ عَلَيْهَا﴾ ” نشانیاں ہیں آسمانوں اور زمین میں، جن پر ان کا گزر ہوتا رہتا ہے“ جو توحید الٰہی پر دلالت کرتی ہیں ﴿وَهُمْ عَنْهَا مُعْرِضُونَ﴾ ” اور یہ ان سے روگردانی کرتے ہیں۔ “ یوسف
106 ﴿وَ﴾ ” اور“ ان میں سے کچھ لوگوں میں کچھ ایمان پایا جاتا ہے، تو ﴿ مَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُم بِاللَّـهِ إِلَّا وَهُم مُّشْرِكُونَ﴾ ” ان اللہ کے ماننے والوں کی اکثریت مشرک ہے۔“ یعنی وہ اگرچہ توحید ربوبیت کا اقرار کرتے ہیں اور تسلیم کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی خالق، رازق اور تمام امور کی تدبیر کرنے والا ہے مگر وہ توحید الوہیت میں شرک کرتے ہیں۔ پس یہ لوگ اب اس حالت کو پہنچ گئے ہیں کہ ان پر نزول عذاب کے سوا کوئی بات باقی نہیں رہی اور یہ کہ ان کے پاس اچانک عذاب آجائے اور وہ اپنے آپ کو محفوظ اور مامون سمجھتے ہوں۔ یوسف
107 بنا بریں اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا : ﴿ أَفَأَمِنُوا﴾ ” کیا یہ بے خوف ہیں“ یعنی کیا ان افعال کا ارتکاب کرنے اور آیات الٰہی سے روگردانی کرنے والے اس بات سے بے خوف ہیں کہ ﴿أَن تَأْتِيَهُمْ غَاشِيَةٌ مِّنْ عَذَابِ اللَّـهِ ﴾ ” ان پر اللہ کا ایسا عذاب نازل ہو، جو سب کو ڈھانپ لے“ اور ان کی جڑ کاٹ دے۔ ﴿أَوْ تَأْتِيَهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً﴾ ” یا ان پر قیامت کی گھڑی اچانک آجائے“ ﴿وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ﴾ ” اور ان کو خبر نہ ہو۔“ کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے عذاب کے مستحق بن چکے ہیں۔ پس وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں توبہ کریں اور ان اسباب کو ترک کردیں جو ان کے لئے عذاب کا باعث ہیں۔ یوسف
108 اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے نبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرماتا ہے : ﴿قُلْ﴾ ’’)لوگوں سے( کہہ دیجیے !“ ﴿ هَـٰذِهِ سَبِيلِي﴾ ” یہ میرا راستہ ہے“ جس کی طرف میں دعوت دیتا ہوں، یہ راستہ اللہ تعالیٰ اور اس کے کرامت کے گھر تک پہنچاتا ہے جو علم حق، اس پر عمل کرنے، اس کو ترجیح دینے اور اللہ تعالیٰ کے لئے اخلاص دین کو متضمن ہے۔ ﴿أَدْعُو إِلَى اللَّـهِ﴾ ” میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں“ یعنی میں تمام مخلوق اور تمام بندوں کو اپنے رب کے پاس پہنچنے پر آمادہ کرتا ہوں اور انہیں اس کی ترغیب دیتا ہوں اور انہیں ان تمام امور سے ڈراتا ہوں جو انہیں اللہ تعالیٰ سے دور کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ﴿عَلَىٰ بَصِيرَةٍ أَنَا﴾ ” سمجھ بوجھ کر“ یعنی میں اپنے دین کے بارے میں بغیر کسی شک و شبہ کے پورے علم و یقین پر ہوں۔ ﴿وَمَنِ اتَّبَعَنِي﴾ ” اور میرے متبعین بھی“ اسی طرح اللہ تعالیٰ کی طرف بلاتے ہیں جیسے میں اللہ تعالیٰ کے معاملے میں پوری بصیرت اور یقین کے ساتھ اس کی طرف بلاتا ہوں۔ ﴿وَسُبْحَانَ اللَّـهِ ﴾ ” اور اللہ پاک ہے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ ایسے تمام امور کی نسبت سے پاک ہے جو اس کے کمال کے منافی ہیں اور اس کے جلال کے لائق نہیں۔ ﴿وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ ﴾ ” میں کسی بھی معاملے میں مشرکین میں شامل نہیں۔“ بلکہ دین کو صرف اسی کے لئے خالص کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا ہوں۔ یوسف
109 ﴿وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ إِلَّا رِجَالًا﴾ ” اور ہم نے آپ سے پہلے صرف مرد ہی رسول بنا کر بھیجے“ یعنی ہم انسانوں کی ہدایت کے لئے فرشتے یا کوئی اور مخلوق نہیں بھیجتے۔ تب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قوم کو آپ کی رسالت میں کون سی چیز انوکھی نظر آرہی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ اس کو ان پر کوئی فضیلت نہیں ہے۔ پس آپ کے لئے انبیائے سابقین میں اسوہ حسنہ ہے۔ ﴿نُّوحِي إِلَيْهِم مِّنْ أَهْلِ الْقُرَىٰ ۗ﴾ ” ہم وحی کرتے تھے ان کی طرف، )وہ( بستیوں کے رہنے والے ہیں“ یعنی یہ انبیائے کرام صحراؤں میں رہنے والے نہیں تھے، بلکہ بستیوں میں رہنے والے تھے جو سب سے زیادہ کامل عقل اور سب سے زیادہ صحیح رائے کے حامل تھے، تاکہ ان کا معاملہ نہایت واضح اور ان کی شان نمایاں ہو۔ ﴿ أَفَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ ﴾ ” کیا پس انہوں نے زمین کی سیر نہیں کی“ جب وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات کی تصدیق نہیں کرتے تو پھر انہوں نے چل پھر کر نہیں دیکھا ﴿فَيَنظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ۗ﴾ ” تو وہ دیکھ لیتے کہ جو لوگ ان سے پہلے تھے ان کا انجام کیا ہوا۔“ یعنی اور وہ دیکھتے کہ کیسے اللہ تعالیٰ نے ان کو ان کی تکذیب کی پاداش میں ہلاک کر ڈالا۔ لہٰذا تم بھی اس رویہ کو اختیار کرنے سے بچو جس رویے پر وہ قائم رہے ہیں ورنہ تم پر بھی وہی عذاب نازل ہوجائے گا جو ان پر نازل ہوا تھا۔ ﴿وَلَدَارُ الْآخِرَةِ ﴾ ” اور آخرت کا گھر“ یعنی جنت اور جنت کی دائمی نعمتیں ﴿خَيْرٌ لِّلَّذِينَ اتَّقَوْا ۗ﴾ ” ان لوگوں کے لئے بہتر ہیں جو پرہیز گار ہیں“ جو اللہ تعالیٰ کے اوامر کی تعمیل اور اس کے نواہی سے اجتناب کرنے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں، کیونکہ دنیا کی نعمتیں منقطع ہو کر ختم ہوجانے والی ہیں۔ آخرت کی نعمت کامل اور کبھی نہ فنا ہونے والی ہے، بلکہ وہ ہمیشہ بڑھتی چلی جاتی ہے۔ ﴿عَطَاءً غَيْرَ مَجْذُوذٍ﴾ (ہود:11؍108)” یہ (اللہ تعالیٰ کی) بخشش ہے جو کبھی منقطع نہ ہوگی“ ﴿ أَفَلَا تَعْقِلُونَ﴾ ” کیا تم سمجھتے نہیں۔“ یعنی کیا تمہارے پاس اتنی سی بھی عقل نہیں جو اعلیٰ کو ادنیٰ پر ترجیح دے سکے۔ یوسف
110 اللہ تبارک وتعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ وہ انبیاء کرام کو مبعوث فرماتا ہے ان کی قوم کے مجرم اور لئیم لوگ انہیں جھٹلا دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو مہلت دیتا ہے کہ وہ حق کی طرف لوٹ آئیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں مہلت پر مہلت دئیے چلا جاتا ہے یہاں تک کہ انبیاء کرام پر ان کی سختیاں انتہا کو پہنچ جاتی ہیں اور انبیاء و مرسلین یقین کامل اور اللہ تعالیٰ کے وعد و وعید کی تصدیق کے باوجود کبھی کبھی ان کے دل میں مایوسی کا کوئی خیال سا گزرتا ہے اور ان کے علم اور یقین میں ایک قسم کا ضعف سا آجاتا ہے۔ جب معاملہ اس حال کو پہنچ جاتا ہے ﴿جَاءَهُمْ نَصْرُنَا فَنُجِّيَ مَن نَّشَاءُ﴾ ” تو ان کے پاس ہماری مدد پہنچ گئی، پس جن کو ہم نے چاہا، نجات دے دی گئی“ اس سے مراد انبیاء و رسل اور ان کے متبعین ہیں۔ ﴿وَلَا يُرَدُّ بَأْسُنَا عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ﴾ ” اور ہمارا عذاب مجرموں سے پھر انہیں کرتا۔“ یعنی ہمارے عذاب کو مجرموں اور اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں جرات کرنے والے پر سے دور نہیں کیا جاسکتا۔ ان کی کوئی پیش چل سکے گی نہ ان کی کوئی مدد کرسکے گا۔ یوسف
111 ﴿لَقَدْ كَانَ فِي قَصَصِهِمْ﴾ ” ان کے قصے میں“ یعنی انبیاء و رسل کے اپنی قوم کے ساتھ قصے میں ﴿عِبْرَةٌ لِّأُولِي الْأَلْبَابِ﴾ ” عقل والوں کے لئے عبرت ہے“ یعنی وہ اہل خیر اور اہل شر کے بارے میں عبرت لیتے ہیں۔ جو کوئی ان جیسے افعال کا ارتکاب کرے گا تو اپنے فعل کے مطابق کرامت یا اہانت کا مستحق ٹھہرے گا۔ وہ ان قصوں میں سے اللہ تعالیٰ کی صفات کمال اور اس کی عظیم حکمت کا استنباط کرتے ہیں۔ نیز وہ ان قصوں سے اس حقیقت کو اخذ کرتے ہیں کہ اللہ واحد کے سوا عبادت کسی کے لئے مناسب نہیں۔ ﴿مَا كَانَ حَدِيثًا يُفْتَرَىٰ﴾ ” یہ ایسی بات نہیں جو بنا لی گئی ہو۔“ یعنی یہ قرآن جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ تمہیں غیب کی خبروں سے آگاہ کرتا ہے، گھڑی ہوئی باتوں اور خود ساختہ کہانیوں پر مشتمل نہیں ہے۔ ﴿وَلَـٰكِن تَصْدِيقَ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ﴾ ” بلکہ جو اس سے پہلے نازل ہوئی ہیں ان کی تصدیق کرنے والا ہے۔“ بلکہ کتب سابقہ کی تصدیق، ان کی موافقت اور ان کی صحت کی شہادت پر مشتمل ہے۔ ﴿وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ﴾ ” اور ہر چیز کی تفصیل ہے“ بندے جن کے محتاط ہیں، مثلاً دین کے اصول و فروع اور دلائل و براہین۔ ﴿وَهُدًى وَرَحْمَةً لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ﴾ ” اور ایمان لانے والوں کے لئے ہدایت اور رحمت ہے“ یعنی اس سبب سے کہ اس قرآن کے ذریعے سے انہیں جو حق کا علم حاصل ہوتا ہے اور وہ حق کو ترجیح دیتے ہیں۔۔۔ انہیں ہدایت حاصل ہوتی ہے اور انہیں جو دنیاوی یا اخروی ثواب حاصل ہوتا ہے اس کے ذریعے سے رحمت سے نوازے جاتے ہیں۔ ضمیمہ : اس عظیم قصہ میں بعض فوائد اور عبرتوں کا ذکر کیا جاتا ہے جن پر یہ مشتمل ہے۔ اس قصہ کی ابتداء میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا ہے : ﴿ نَحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ أَحْسَنَ الْقَصَصِ ﴾ ” ہم آپ پر بہترین قصہ بیان کرتے ہیں۔“ اور فرمایا ہے : ﴿لَّقَدْ كَانَ فِي يُوسُفَ وَإِخْوَتِهِ آيَاتٌ لِّلسَّائِلِينَ﴾ ” یوسف علیہ السلام اور اس کے بھائیوں (کے واقعے) میں، پوچھنے والوں کے لئے نشانیاں ہیں۔“ اور سورۃ کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : ﴿لَقَدْ كَانَ فِي قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ﴾ ” ان کے واقعات میں عبرتیں ہیں۔“ یہ فوائد ان فوائد کے علاوہ ہیں جو (سورۃ کی تفسیر کے دوران)گزشتہ صفحات میں گزر چکے ہیں۔ (1) یہ قصہ سب سے اچھا، سب سے واضح اور سب سے صریح قصہ ہے، کیونکہ یہ مختلف انواع کے انتقالات پر مشتمل ہے، مثلاً ایک حال سے دوسرے حال میں، ایک امتحان سے دوسرے امتحان میں، امتحان سے اللہ تعالیٰ کی نوازشات میں، ذلت سے عزت میں، غلامی سے بادشاہی میں، تفرقہ و تشتت سے اجتماع و اتحاد میں، حزن و غم سے مسرت و سرور میں، فراخی سے قحط میں، قحط سے شادابی میں، تنگی سے وسعت میں اور انکار سے اقرار میں انتقال۔ پس نہایت بابرکت ہے اللہ تعالیٰ کی ذات جس نے یہ قصہ نہایت خوبصورت اور واضح اسلوب میں بیان کیا۔ (2)اس سورۃ مبارکہ میں خواب کی تعبیر کی اصل بیان کی گئی ہے، کیونکہ علم تعبیر اہم علوم میں شمار ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے یہ عطا کرتا ہے۔ غالب طور پر علم تعبیر، نام اور صفات میں مناسبت اور مشابہت پر مبنی ہے، کیونکہ حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے خواب میں دیکھا تھا کہ سورج، چاند اور ستارے ان کے سامنے سجدہ ریز ہیں۔ اس خواب میں مناسبت کا پہلو یہ ہے کہ روشنی کے تینوں ذرائع آسمان کی زینت اور اس کا حسن و جمال ہیں اور انہی پر اس کے فوائد کا دارومدار ہے۔ اسی طرح انبیاء اور علماء زمین کی زینت اور اس کا حسن و جمال ہیں۔ جیسے اندھیروں میں ستاروں سے راہ نمائی لی جاتی ہے، اسی طرح گمراہی کی تاریکیوں میں انبیاء اور علماء راہ دکھاتے ہیں۔ نیز حضرت یوسف علیہ السلام کے ماں اور باپ اصل ہیں اور ان کے بھائی فرع ہیں۔ پس مناسبت کا تقاضا یہ ہے کہ اصل، روشنی میں بھی اپنی فرع سے سب سے زیادہ بڑا ہو اور حجم کے اعتبار سے بھی عظیم تر۔ اس لئے سورج سے یوسف علیہ السلام کی ماں، چاند سے ان کے باپ اور ستاروں سے ان کے بھائی مراد ہیں اور ان میں مناسبت کا پہلو یہ ہے کہ الشمس ایک مونث لفظ ہے، لہٰذا اس کی مناسبت ماں سے ہے۔ القمر اور الکواکب مذکر ہیں اور اس لئے ان کی مناسبت باپ اور بھائیوں سے ہے۔ نیز اس خواب میں مناسبت کا پہلو یہ بھی ہے کہ سجدہ کرنے والا مسجودلہ، کے لئے معظم و محترم اور مسجود لہ معظم و محترم ہے اور یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام اپنے ماں باپ اور بھائیوں کے نزدیک نہایت معظم اور محترم ہوں گے اور اس کا لازم یہ ہے کہ وہ علم اور دیگر فضائل کے اعتبار سے صاحب فضیلت اور چنے ہوئے شخص ہوں گے اس لئے ان کے والد نے کہا تھا : ﴿وَكَذَٰلِكَ يَجْتَبِيكَ رَبُّكَ وَيُعَلِّمُكَ مِن تَأْوِيلِ الْأَحَادِيثِ﴾(یوسف علیہ السلام:12؍6) ” اور اسی طرح تیرا رب تجھے چن لے گا اور تجھے باتوں کی تعبیر کا علم سکھا دے گا۔ “ اور دونوں نوجوان قیدیوں کے خواب میں مناسبت یہ ہے کہ پہلے نوجوان نے خواب دیکھا کہ وہ شراب کشید کر رہا ہے اور وہ شخص جو شراب کشید کرتا ہو وہ عادتاً دوسروں کا خادم ہوتا ہے، شراب دوسروں کے لئے کشید کی جاتی ہے اس لئے یوسف علیہ السلامنے اس کی یہ تعبیر کی کہ وہ اپنے آقا کو شراب پلائے گا اور یہ چیز قید سے اس کی رہائی کو متضمن ہے۔ یوسف علیہ السلام نے دوسرے نوجوان کے خواب کی تعبیر، جس نے خواب میں دیکھا تھا کہ اس نے اپنے سر پر روٹیاں اٹھا رکھی ہیں جنہیں پرندے کھا رہے ہیں، یہ کی کہ اس کے سر کی کھال، گوشت اور مغز وغیرہ جنہیں وہ اٹھائے ہوئے ہے، کھول کر ایسی جگہ پھینک دیا جائے گا جہاں گوشت خور پرندے اس کے سر کو نوچ نوچ کر کھائیں گے۔ یوسف علیہ السلام نے اس کے احوال کو دیکھ کر اس کے خواب کی یہ تعبیر کی کہ اس کو قتل کردیا جائے گا اور قتل کرنے کے بعد اسے صلیب پر لٹکا دیا جائے گا۔ یہ سب تبھی ممکن ہے جب قتل کے بعد اسے صلیب پر چڑھایا گیا ہو۔ یوسف علیہ السلام نے بادشاہ کے خواب، جس میں اس نے گائیں اور اناج کی بالیاں دیکھی تھیں، کی تعبیر شادابی اور قحط سالی سے کی۔ اس میں وجہ مناسبت یہ ہے کہ رعایا کے احوال اور اس کے مصالح کا دارو مدار بادشاہ پر ہوتا ہے اگر بادشاہ ٹھیک ہے تو رعایا بھی درست رہے گی اگر بادشاہ خراب ہے تو رعایا میں خرابیاں پیدا ہوجائیں گی۔ اسی طرح سال بہ سال حالات کے ساتھ رعایا کے احوال مربوط ہیں، رعایا کی درستی، ان کا معاشی استحاکم اور عدم استحکام کا دارومدار سال بہ سال (موسمی) حالات پر ہے۔ رہی گائیں تو ان کے ذریعے سے زمین میں ہل چلایا جاتا ہے اور اس کے ذریعے سے آبپاشی کی جاتی ہے، اگر شادابی کا سال ہو تو گائیں موٹی تازی ہوجاتی ہیں اور اگر قحط سالی ہو تو گائیں دبلی اور لاغر ہوجاتی ہیں۔ اسی طرح شادابی کے سالوں میں اناج کے خوشے سرسبز اور بکثرت ہوتے ہیں۔ جبکہ خشک سالی میں یہ خوشے بہت کم پیدا ہوتے ہیں اور سوکھ جاتے ہیں اور زمین کا بہترین اناج خوشوں سے ہی سے حاصل ہوتا ہے۔ (3) یہ قصہ نبوت محمدی (صلوات اللہ وسلامه علی صاحبھا) کی صحت پر دلالت کرتا ہے، کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی قوم کے سامنے یہ طویل قصہ بیان کیا درآنحالیکہ آپ نے گزشتہ انبیا کی کتابیں پڑھی تھیں نہ کسی سے درس لیا تھا۔ آپ کی قوم نے آپ کا خوب اچھی طرح مشاہدہ کیا ہے۔ آپ کے شب و روز آپ کی قوم کے سامنے تھے وہ خوب جانتے تھے کہ آپ امی ہیں، آپ لکھ سکتے ہیں نہ پڑھ سکتے ہیں۔ یہ قصہ کتب سابقہ میں مذکورہ قصہ سے مطابقت رکھتا ہے حالانکہ آپ وہاں موجود نہ تھے جب یوسف علیہ السلام کے بھائی ان کے خلاف منصوبے بنا رہے تھے اور سازش کر رہے تھے۔ (4) شر کے اسباب سے دور رہنا مناسب ہے۔ اسی طرح ایسے امورکو چھپانا مناسب ہے جن سے ضرر پہنچنے کا خدشہ ہوجیسا کہ یعقوب علیہ السلام نے یوسف علیہ السلام سے فرمایا تھا : ﴿ لَا تَقْصُصْ رُؤْيَاكَ عَلَىٰ إِخْوَتِكَ فَيَكِيدُوا لَكَ كَيْدًا﴾ ” اپنا خواب اپنے بھائیوں کو نہ سنانا ورنہ وہ تجھے آزار پہنچانے کے لئے سازشیں کریں گے۔ “ (5) کسی کے سامنے خیر خواہی کے طور پر ناپسندیدہ امور کا ذکر کرنا جائز ہے اور اس کی دلیل یہ ہے ﴿ فَيَكِيدُوا لَكَ كَيْدًا ﴾ ” وہ تجھے آزار پہنچانے کے لئے سازشیں کریں گے۔ “ (5) یہ قصہ دلالت کرتا ہے کہ بندے کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ نعمت اس کے تمام متعلقین، مثلاً اس کے گھر والوں، عزیز و اقارب اور دوست احباب سے سب کے لئے نعمت ہوتی ہے اور بسا اوقات وہ اس نعمت میں سب کو شامل کرلیتا ہے اور ان کو بھی اس کے باعث وہ چیز حاصل ہوجاتی ہے جو اسے حاصل ہوتی ہے۔ جیسا کہ یعقوب علیہ السلام نے یوسف علیہ السلام کے خواب کی تعبیر بیان کرتے ہوئے فرمایا: ﴿وَكَذَٰلِكَ يَجْتَبِيكَ رَبُّكَ وَيُعَلِّمُكَ مِن تَأْوِيلِ الْأَحَادِيثِ وَيُتِمُّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكَ وَعَلَىٰ آلِ يَعْقُوبَ ﴾ ” اسی طرح تیرا رب تجھے چن لے گا اور باتوں کی تعبیر کا علم دے گا اور تجھ پر اور آل یعقوب پر اپنی نعمت کا اتمام کرے گا۔“ جب یوسف علیہ السلام پر اللہ تعالیٰ کی نعمت کا اتمام ہوا تو آل یعقوب کو بھی عزت و وقار اور ملک میں اقتدار حاصل ہوا اور یوسف علیہ السلام کے سبب سے انہیں بھی مسرت اور خوشی حاصل ہوئی۔ (7) سورۃ مقدسہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ عدل و انصاف تمام امور میں مطلوب و مقصود ہے، بادشاہ کا اپنی رعیت وغیرہ کے ساتھ ہی انصاف کا معاملہ کرنا ضروری نہیں، بلکہ محبت اور ترجیح دینے کے معاملے میں والد اور اولاد کے مابین بھی عدل و انصاف ہوجاتا ہے اور حالات خرابی کا شکار ہوجاتے ہیں، کیونکہ جب محبت کے معاملے میں یعقوب علیہ السلام نے یوسف علیہ السلام کو ان کے بھائیوں پر ترجیح دی تو بھائیوں کی طرف سے خود ان پر، ان کے باپ پر اور ان کے بھائی پر مصائب کے پہاڑ ٹوٹے۔ (8) گناہوں کی نحوست سے بچنا چاہیے کیونکہ ایک گناہ اپنے ساتھ متعدد گناہ لاتا ہے اور بہت سے جرائم کے بعد اس گناہ کی تکمیل ہوتی ہے۔ چنانچہ جب یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے یوسف علیہ السلام اور ان کے باپ کے مابین جدائی ڈالنے کا ارادہ کیا تو انہوں نے یہ مقصد حاصل کرنے کے لئے بہت سے حیلے استعمال کئے، متعدد بار جھوٹ بولا، انہوں نے یوسف علیہ السلام کی قمیص اور خون کے سلسلے میں باپ کے سامنے باطل افسانہ گھڑا۔ ان کے اس افسانے اور عشاء کے وقت روتے ہوئے آنے میں نرا جھوٹ تھا اور یہ بھی کوئی بعید نہیں کہ اس مدت کے دوران اس بارے میں بہت بحث و تمحیص ہوئی ہو بلکہ شاید یہ بحث اس وقت تک ہوتی رہی ہو جب تک کہ وہ یوسف علیہ السلام کے ساتھ اکٹھے نہ ہوئے اور جب کبھی بحث ہوتی ہے تو جھوٹی خبریں اور افترا پردازی ضرور ہوتی ہے۔ یہ گناہ کی نحوست اور اس کے آثار ہیں۔ (9)بندے کے احوال میں ابتدائی نقص میں عبرت نہیں ہوتی، بلکہ کمال انتہا میں عبرت حاصل ہوتی ہے، کیونکہ یعقوب علیہ السلام کے بیٹوں سے ابتدائی طور پر جو کچھ صادر ہوا وہ نقص کا سب سے بڑا سبب اور ملامت کا موجب تھا مگر اس کی انتہا، خالص توبہ اور یوسف علیہ السلام اور ان کے باپ کی طرف سے کامل معافی، مغفرت اور رحمت کی دعا پر ہوئی اور جب بندہ اپنے حق کو معاف کردیتا ہے تو اللہ تعالیٰ تو سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔ اس لئے صحیح ترین قول یہ ہے کہ یوسف علیہ السلام کے بھائی نبی تھے اور اس کی دلیل اللہ تبارک وتعالیٰ کا یہ ارشاد ہے ﴿وَأَوْحَيْنَا إِلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطِ ﴾ (النساء :4؍163)” اور ہم نے وحی بھیجی ابراہیم، اسماعیل، اسحاق، یعقوب اور اولاد یعقوب کی طرف۔“ یہاں ﴿ الْأَسْبَاطِ ﴾سے مراد یعقوب علیہ السلام کے بارہ بیٹے اور ان کی اولاد ہے۔ نیز ان کی نبوت کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ یوسف علیہ السلام نے اپنے خواب میں ان کو روشن ستاروں کے طور پر دیکھا اور ستاروں میں روشنی اور راہ نمائی ہوتی ہے۔ اور یہ انبیاء کے اوصاف ہیں اور اگر وہ نبی نہیں تھے تو وہ راہ نمائی کرنے والے علماء تھے۔ [برادران یوسف علیہ السلام کی نبوت کی یہ ” دلیلیں“ جن سے فاضل مفسر نے استدلال کیا ہے، کوئی واضح اور مضبوط دلیل نہیں۔ ان کے مقابلے میں عدم نبوت کی دلیل زیادہ واضح ہے، انہوں نے ایک ایسے کبیرہ گناہ کا ارتکاب کیا جس میں چھوٹے معصوم بچے کے ساتھ سنگ دلانہ اقدام اور ظلم و ستم ہے، قطع رحمی ہے، والدین کی نافرمانی اور ان کی ایذا رسانی ہے، جھوٹ کا ارتکاب ہے، وغیرہ۔ انبیاء علیہم السلام سے ان حرکتوں کا صدور ممکن ہے؟ (مزید دیکھئے تفسیر فتح القدیر وابن کثیر، تفسیر سورۃ یوسف علیہ السلام آیت : ٩، ١٠) علاوہ ازیں ”اوحینا“ کے لفظ سے بھی نبوت پر استدلال اپنے اندر کوئی قوت نہیں رکھتا۔ اس لئے کہ یہ لفظ غیر انبیاء کے لئے بھی قرآن مجید میں استعمال ہوا ہے۔ (ص۔ ی) ] (10) اللہ تبارک وتعالیٰ نے یوسف علیہ السلام کو علم، حلم، مکارم اخلاق اور اللہ اور اس کے دین کی طرف دعوت سے نوازا۔ نیز یہ بھی ان پر اللہ تعالیٰ کی نوازش اور عنایت ہی تھی کہ انہوں نے اپنے خطا کار بھائیوں کو فوراً معاف کردیا اور اس معافی کی تکمیل یہ کہہ کر کردی کہ اب وہ ان کا کوئی مواخذہ کریں گے نہ اس پر انہیں کوئی عار دلائیں گے۔ پھر حضرت یوسف علیہ السلام کا اپنے ماں باپ کے ساتھ عظیم کرنا اور اپنے بھائیوں بلکہ تمام مخلوق کے ساتھ نیک سلوک کرنا۔ (11)کچھ برائیاں دوسری برائیوں سے خفیف تر اور چھوٹی ہوتی ہیں۔ (اگر دو برائیوں میں سے ایک برائی کا ارتکاب ناگزیر ہو تو)اس برائی کا ارتکاب کرنا جس کا ضرر کم تر ہو، اس برائی کے ارتکاب سے اولیٰ و افضل ہے جس کا ضرر بڑا ہے۔ یوسف علیہ السلام کے بھائیوں میں جب حضرت یوسف علیہ السلام کے قتل یا ان کو کہیں دور زمین میں پھینکنے پر اتفاق ہوگیا، تو ان میں سے ایک نے کہا : ﴿لَا تَقْتُلُوا يُوسُفَ وَأَلْقُوهُ فِي غَيَابَتِ الْجُبِّ ﴾ ” یوسف کو قتل نہ کرو بلکہ اسے کسی اندھے کنوئیں میں پھینک دو۔“ گویا اس کی تجویزسب سے بہتر اور نرم تجویز تھی۔ جس کے سبب سے ان کے بھائیوں سے ایک بہت بڑا گناہ ٹل گیا اور یہ بڑا گناہ ایک خفیف تر گناہ میں منتقل ہوگیا۔ (12) جب کوئی چیز کاروبار میں دست بدست متداول ہوجائے اور وہ مال شمار ہونے لگے اور کاروبار کرنے والے کو اس کے غیر شرعی ہونے کا علم نہ ہو تو اس کی خرید و فروخت کا کاروبار کرنے والے، اس میں خدمت کرنے والے، اس سے مفاد اٹھانے والے اور اس کو استعمال میں لانے والے کے لئے کوئی گناہ نہیں۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے انہیں بیع حرام کی صورت میں فروخت کیا تھا، یہ بیع قطعاً جائز نہ تھی۔ پھر حضرت یوسف علیہ السلام کو خریدنے والا قافلہ انہیں لے کر مصر چلا گیا اور وہاں لے جا کر فروخت کردیا اور وہ اپنے آقا کے پاس غلام کے طور پر رہے اور اللہ تعالیٰ نے بھی اس کو ” آقا“ کے نام سے موسوم کیا ہے اور حضرت یوسف علیہ السلام کے پاس ایک مکرم غلام کے طور پر رہتے رہے۔ (13) ان عورتوں کے ساتھ خلوت سے بچنا چاہیے جن سے فتنے کا خوف ہو۔ اسی طرح ایسی محبت سے بھی بچنا چاہیے جس سے نقصان پہنچنے کا خدشہ ہو۔ عزیز مصر کی بیوی کی طرف سے جو کچھ ہوا وہ حضرت یوسف علیہ السلام کے ساتھ خلوت اور ان کے ساتھ اس کی شدید محبت کے سبب سے ہوا، محبت نے اس عورت کو اس وقت تک نہ چھوڑا جب تک کہ اس نے حضرت یوسف علیہ السلام کو پھسلانے کے لئے ڈورے نہیں ڈالے، پھر ان پر بہتان لگایا اور یوسف علیہ السلام اس عورت کے بہتان کے سبب سے طویل مدت تک قید میں رہے۔ (15) یوسف علیہ السلام نے اس عورت کے ساتھ ارادہ کیا پھر اسے اللہ تعالیٰ کی خاطر ترک کردیا۔ اس ترک ارادہ نے حضرت یوسف کو اللہ تعالیٰ کے اور قریب کردیا۔ کیونکہ اس قسم کا ارادہ نفس امارہ کے اسباب میں شمار ہوتا ہے جو ہمیشہ برائی کا حکم دیتا ہے اور اکثرلوگوں کی یہی فطرت ہے۔ پس جب انہوں نے اس ارادے کا اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کی خشیت کے ساتھ تقابل کیا تو اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کی خشیت نفس امارہ کے داعیے اور اس کی خواہش پر غالب آگئی۔ گویا آپ ان لوگوں میں سے تھے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَىٰ ﴾ (النزعت:79؍40)” جو کوئی اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈر گیا اور اپنے نفس کو خواہشات سے روکتا رہا۔“ اور آپ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد کے مطابق، ان سات قسم کے لوگوں میں سے ہیں جنہیں قیامت کے روز عرش کے سائے میں جگہ ملے گی، جس روز اس کے سائے کے سوا کہیں سایہ نہ ہوگا اور ان سات قسم کے لوگوں میں ایک وہ شخص ہوگا جسے حسن وجمال رکھنے والی اور منصب و حیثیت کی حامل کوئی عورت بد کاری کی دعوت دیتی ہے اور وہ جواب میں کہتا ہے ”میں تو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہوں۔“ اور وہ ارادہ جس پر بندہ قابل ملامت ہے، وہ ارادہ ہے جو دل میں جا گزیں ہو کر عزم بن جائے جس کے ساتھ بسا اوقات فعل مل جاتا ہے۔ (15)جس کے دل میں ایمان جا گزیں ہوجاتا ہے اور وہ تمام امور میں اللہ تعالیٰ کے لئے اخلاص سے کام لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ایمان، صدق اور اخلاص کی برہان کے ذریعے سے مختلف اقسام کی برائیوں، بے حیائی اور گناہوں کے اسباب سے مدافعت کرتا ہے۔ یہ مدافعت اس کے ایمان اور اخلاص کی جزا ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿وَهَمَّ بِهَا لَوْلَا أَن رَّأَىٰ بُرْهَانَ رَبِّهِ ۚ كَذَٰلِكَ لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوءَ وَالْفَحْشَاءَ ۚ إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِينَ  ﴾(لنصرف) کے یہ معنی لازم کے کسرے کے ساتھ ہیں (جیسا کہ متد اول قراءت میں ہے) اور اگر اسے لام کے فتح کے ساتھ پڑھایاجائے تو اس کے معنی ہوں گے، اللہ تعالیٰ کا اسے اپنے لئے چن لینا اور یہ خود اس کے اخلاص کو متضمن ہے، یعنی جب بندہ اپنے عمل کو اللہ تعالیٰ کے لئے خالص کرلیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے برائی اور بے حیائی سے پاک کرکے اسے اپنے لئے چن لیتا ہے۔ (16) بندہ مومن کے لئے مناسب یہ ہے کہ جب وہ کوئی ایسا مقام دیکھے جہاں فتنہ اور معصیت کے اسباب موجود ہوں، تو مقدور بھر وہاں سے نکلنے اور بھاگنے کی کوشش کرے تاکہ وہ گناہ سے بچ سکے، کیونکہ جب یوسف علیہ السلام پر اس عورت نے، جس کے گھر میں وہ رہ رہے تھے، ڈورے ڈالنے شروع کئے تو وہ اس جگہ سے فرار ہو کر دروازے کی طرف بھاگے، تاکہ وہ اس عورت کے شر سے بچ جائیں۔ (17) اشتباہ کے موقع پر قرائن سے کام لیا جاسکتا ہے۔ چنانچہ اگر خاوند اور بیوی گھر کے ساز و سامان کی ملکیت کے بارے میں جھگڑ پڑیں اور دونوں کے پاس اپنی ملکیت کا واضح ثبوت نہ ہو تو جو چیز مرد کے حال کے مطابق ہے وہ مرد کی ملکیت ہے اور جو عورت کے حال کے مطابق ہے وہ اس کی مالک ہے۔ اسی طرح اگر بڑھئی اور لوہار کسی اوزار کی ملکیت پر جھگڑ پڑیں اور دونوں میں سے کسی کے پاس بھی کوئی ثبوت نہ ہو تو قرائن پر عمل کیا جائے گا۔ ملتی جلتی چیزوں اور نشان قدم میں قیافہ پر عمل کرنا بھی اسی باب میں شامل ہے۔ یوسف علیہ السلام کے گواہ نے قرینے کی گواہی دی تھی۔ اس نے قمیص کی پھٹن کو دیکھ کر قرینے کی گواہی دی اور قمیص کو پیچھے سے پھٹا ہوا دیکھ کر حضرت یوسف علیہ السلام کی صداقت اور اس عورت کے جھوٹے ہونے پر استدلال کیا۔ اس قاعدے کی صحت پر ایک دلیل یہ ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائی کی خرجی میں سے گیہوں ناپنے والے پیالے کے پائے جانے سے استدلال کرتے ہوئے بغیر کسی ثبوت اور اقرار کے اس پر چوری کا حکم لگایا گیا۔ پس اگر مال مسروقہ چور کے قبضے میں پایا جائے، خاص طور پر جبکہ وہ چوری کرنے میں معروف ہو تو اس پر چوری کا حکم لگایا جائے گا اور یہ (عینی) شہادت سے زیادہ بلیغ شہادت ہے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص شراب کی قے کرتا ہے یا کوئی ایسی عورت، جس کا شوہر یا آقا نہیں، حاملہ پائی جاتی ہے تو اس پر حد جاری کی جائے گی بشرطیکہ کوئی مانع موجود نہ ہو۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے قرینے کے اس فیصلے کو شاہد سے موسوم کیا ہے۔ ﴿وَشَهِدَ شَاهِدٌ مِّنْ أَهْلِهَا ﴾ (18) حضرت یوسف علیہ السلام ظاہری اور باطنی حسن و جمال کے حامل تھے ان کا ظاہری حسن و جمال اس عورت کے لئے، جس کے گھر میں حضرت یوسف علیہ السلام تھے، اس امر کا موجب بنا جس کی تفصیل گزری اور اسی طرح ان کا حسن و جمال ان عورتوں کے لئے بھی، جن کو عزیز مصر کی بیوی نے ان کے ملامت کرنے پر اکٹھا کیا تھا، اس امر کا موجب بنا کہ انہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لئے اور وہ بے ساختہ پکاراٹھیں: ﴿مَا هَـٰذَا بَشَرًا إِنْ هَـٰذَا إِلَّا مَلَكٌ كَرِيمٌ ﴾ ” یہ شخص انسان نہیں یہ تو کوئی بزرگ فرشتہ ہے۔ “ رہا ان کا باطنی حسن و جمال تو وہ ان کی عظیم عفت تھی۔ گناہ میں پڑنے کے بہت سے اسباب کے باوجود گناہ سے بچے رہے۔ اس کے بعد خود عزیز مصر کی بیوی اور ان عورتوں نے آپ کی عفت اور پاک دامنی کی شہادت دی۔ اس لئے عزیز مصر کی بیوی نے کہا : ﴿وَلَقَدْ رَاوَدتُّهُ عَن نَّفْسِهِ فَاسْتَعْصَمَ ﴾ ” میں نے اسے پھسلانے کی بھرپور کوشش کی تھی مگر وہ بچ نکلا“ اس کے بعد اس نے کہا : ﴿الْآنَ حَصْحَصَ الْحَقُّ أَنَا رَاوَدتُّهُ عَن نَّفْسِهِ وَإِنَّهُ لَمِنَ الصَّادِقِينَ ﴾ ” اب حق واضح ہوگیا ہے، میں نے ہی اسے پھسلانے کی کوشش کی تھی اور بے شک وہ سچا ہے“ عورتوں نے کہا : ﴿حَاشَ لِلَّـهِ مَا عَلِمْنَا عَلَيْهِ مِن سُوءٍ ۚ ﴾ ” حاشا للہ ! ہم نے اس میں کوئی برائی نہیں دیکھی۔ “ (19) یوسف علیہ السلام نے معصیت کے مقابلے میں قید کو ترجیح دی۔ بندہ مومن کے یہی شایان شان ہے کہ اگر وہ دوامور کے بارے میں کسی آزمائش میں مبتلا ہوجائے۔ ایک طرف کسی معصیت کا ارتکاب ہو اور دوسری طرف دنیاوی عقوبت، تو وہ گناہ کی بجائے، جو دنیا و آخرت میں سخت عقوبت کا موجب ہے، دنیاوی عقوبت کو ترجیح دے۔ ایمان کی علامات میں سے ایک علامت یہ ہے کہ بندہ کفر کی طرف لوٹنے کو، جبکہ اللہ تعالیٰ نے اسے کفر سے بچا لیا ہے، اسی طرح ناپسند کرے، جس طرح وہ آگ میں پھینکے جانے کو ناپسند کرتا ہے۔ (20) بندہ مومن کے لئے مناسب یہی ہے کہ اسباب گناہ کے موجود ہونے پر اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں آکر اسی کی پناہ میں رہے اور اپنی قوت و اختیار سے وست بردار ہوجائے جیسا کہ یوسف علیہ السلام نے فرمایا تھا : ﴿وَإِلَّا تَصْرِفْ عَنِّي كَيْدَهُنَّ أَصْبُ إِلَيْهِنَّ وَأَكُن مِّنَ الْجَاهِلِينَ ﴾ ” اگر تو نے ان کی چالوں کو مجھ سے دور نہ ہٹایا تو میں ان کی چالوں میں آکر جاہلوں میں شامل ہوجاؤں گا۔ “ (21) جس طرح فراخی میں بندے پر اللہ تعالیٰ کی عبودیت کا التزام واجب ہے، اسی طرح تنگی میں بھی اس پر یہ التزام واجب ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام ہمیشہ اللہ تعالیٰ کو پکارتے رہے جب وہ قید میں ڈال دئیے گئے تب بھی وہ اللہ تعالیٰ کی عبودیت پر قائم رہے اور ان دو نوجوان قیدیوں کو (جو ان کے ساتھ قید میں ڈالے گئے تھے) توحید کی دعوت دی اور ان کو شرک سے روکا۔ یہ سیدنا یوسف علیہ السلام کی ذہانت تھی کہ جب انہوں نے دیکھا کہ ان نوجوان قیدیوں میں ان کی دعوت قبول کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔۔۔ کیونکہ وہ دونوں حضرت یوسف علیہ السلام کے بارے میں حسن ظن رکھتے تھے چنانچہ ان کا قول تھا ﴿إِنَّا نَرَاكَ مِنَ الْمُحْسِنِينَ ﴾ اور وہ حضرت یوسف علیہ السلام کے پاس اپنے اپنے خواب کی تعبیر پوچھنے کے لئے آئے اور حضرت یوسف علیہ السلام نے بھی دیکھا کہ وہ ان کے پاس اپنے خواب کی تعبیر جاننے کا اشتیاق رکھتے ہیں، تو حضرت یوسف علیہ السلام نے اس موقع کو غنیمت جانا اور ان کو ان کے خواب کی تعبیر بتانے سے پہلے توحید کی دعوت دی تاکہ وہ اپنا مطلوب ومقصود حاصل کرنے میں کامیاب ہوں۔ سب سے پہلے آپ نے ان کے سامنے واضح کیا کہ جس نے آپ کو علم و کمال کے اس مقام پر پہنچایا، جسے وہ دیکھ رہے ہیں، وہ ہے ایمان، توحید اور ان لوگوں کی ملت کو چھوڑ دینا جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان نہیں رکھتے۔ یہ زبان حال سے ان کو توحید کی دعوت دینا ہے۔ پھر آنجناب نے ان کو زبان قال سے توحید کی دعوت دی۔ آپ نے ان کے سامنے شرک کی خرابی بیان کی ہے اور اس کی دلیل اور برہان پیش کی اور دلیل و برہان ہی کے ساتھ ان کے سامنے حقیقت توحید کو بیان کیا۔ (22) معاملات میں، اہم ترین معاملے سے ابتدا کرنی چاہیے۔ جب مفتی سے کوئی سوال کیا جائے اور سائل اس سوال سے زیادہ کسی اور چیز کا ضرورت مندہو تو مفتی کے لئے مناسب یہی ہے کہ وہ سب سے پہلے اسے اس چیز کی تعلیم دے جس کا وہ زیادہ حاجت مند ہے۔ یہ معلم کی خیر خواہی، اس کی فطانت اور اس کے حسن تعلیم و ارشاد کی علامت ہے۔ جب نوجوان قیدیوں نے حضرت یوسف علیہ السلام سے اپنے خواب کی تعبیر پوچھی تو آپ نے ان کو خواب کی تعبیر بتانے سے قبل اللہ وحدہ لا شریک کی طرف دعوت دی۔ (23) اگر کوئی شخص کسی نا خوشگوار صورت حال اور کسی سختی میں گرفتار ہوجائے تو کسی ایسے شخص سے مد دلینا جو اس صورت حال سے نجات میں مددگار ثابت ہوسکتا ہو، یا اسے اپنے حال سے آگاہ کرے تو یہ مخلوق کے پاس شکوے کے زمرے میں نہیں آتا کیونکہ اس کا تعلق امور عادیہ سے ہے۔ جو عرف عام میں لوگوں کی ایک دوسرے کی مدد کے ذریعے سے سر انجام پاتے ہیں۔ بنا بریں یوسف علیہ السلام نے ان نوجوان قیدیوں میں سے جس کے رہا ہونے کی امید تھی، اس سے کہا : ﴿اذْكُرْنِي عِندَ رَبِّكَ  ﴾ ” اپنے آقا کے پاس میرا ذکر کرنا “ (24) معلم کے لئے تاکید ہے کہ وہ تعلیم دینے میں کامل اخلاص سے کام لے اور اپنی تعلیم کو کسی سے معاوضہ میں مال و جاہ یا کوئی منفعت حاصل کرنے کا ذریعہ نہ بنائے۔ تعلیم دینے میں خیر خواہی سے کام لے جب تک سائل کوئی ایسا کام نہ کرے جس سے معلم کو تکلیف پہنچے، تعلیم دینے سے یا اس کی خیر خواہی کرنے سے انکار نہ کرے۔ یوسف علیہ السلام نے ان دو نوجوان قیدیوں میں سے جس کو تاکید کی تھی کہ وہ اپنے آقا کے پاس ان کا ذکر کرے مگر اسے اپنے آقا کے سامنے حضرت یوسف علیہ السلام کا ذکر کرنا یاد نہ رہا۔ جب انہیں حضرت یوسف علیہ السلام کے پاس سوال کرنے کی ضرورت پیش آئی تو انہوں نے اسی نوجوان کو بھیجا وہ اس خواب کی تعبیر کے بارے میں پوچھنے کے لئے حضرت یوسف علیہ السلامکی خدمت میں حاضر ہوا۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے محض اس بنا پر کہ اس نے ان کا ذکر اپنے آقا کے پاس نہیں کیا، اس پر ناراضی کا اظہار کیا نہ اس پر زجر و توبیخ کی، بلکہ اس کے برعکس انہوں نے اسے ہر لحاظ سے اس کے سوال کا مکمل جواب دیا۔ (25) مسؤل کو چاہیے کہ وہ سوال کا جواب دیتے وقت سائل کی ایسے معاملے کی طرف رہنمائی کرے جو اس کے سوال سے متعلق اور اس کے لئے فائدہ مند ہو۔ اسے وہ راستہ دکھائے جس پر گامزن ہو کر وہ دین و دنیا میں فائدہ اٹھائے۔ یہ اس کی طرف سے کامل خیر خواہی، اس کی فطانت اور اس کا حسن ارشاد ہے۔ کیونکہ یوسف علیہ السلام نے بادشاہ مصر کو صرف اس کے خواب کی تعبیر بتانے پر اکتفا نہیں کیا تھا، بلکہ آپ نے خواب کی تعبیر بتانے کے ساتھ ساتھ ان کی رہنمائی فرمائی کہ وہ شادابی کے سالوں میں بکثرت پیدا ہونے والے اناج اور محاصل کو ذخیرہ کرنے کے لئے کیا انتظامات کریں۔ (26) اگر کوئی شخص اپنے ذمے کسی تہمت کو دور کرنے اور اپنی براءت کو ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کو ملامت نہیں کی جاسکتی، بلکہ اس کا یہ فعل قابل ستائش ہے۔ جیسے جناب یوسف علیہ السلام نے اس وقت تک قید سے رہا ہونے سے انکار کردیا تھا جب تک کہ ان عورتوں کے احوال کے ذریعے سے لوگوں کے سامنے آپ کی براءت نہ ہوجائے جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لئے تھے۔ (27) ان آیات کریمہ سے علم، یعنی علم شریعت و احکام، علم تعبیر، علم تدبیر اور علم تربیت کی فضیلت مستفاد ہوتی ہے۔ نیز علم، ظاہری شکل و صورت سے افضل ہے خواہ یہ ظاہری شکل و صورت، حسن یوسف ہی کو کیوں نہ پہنچ جائے، کیونکہ یوسف علیہ السلام کو اپنے حسن و جمال کی وجہ سے ابتلاء ومحن اور قید و ہند کا سامنا کرنا پڑا اور اپنے علم کے سبب سے انہیں عزت، سر بلندی اور زمین میں اقتدار حاصل ہوا۔ دنیا و آخرت کی ہر بھلائی علم کے آثار اور اس کے موجبات ہیں۔ )28( علم تعبیر، علوم شرعیہ میں شمار ہوتا ہے، اس کی تعلیم و تعلم میں مشغول ہونے والے کو ثواب حاصل ہوتا ہے اور خواب کی تعبیر فتویٰ میں داخل ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿ قُضِيَ الْأَمْرُ الَّذِي فِيهِ تَسْتَفْتِيَانِ ﴾ ’’اس بات کا فیصلہ کر دیا گیا جس کے بارے میں تم فتوی طلب کر رہے تھے۔ ‘‘ اللہ تعالیٰ نے بادشاہ کا قول نقل فرمایا ﴿ أَفْتُونِي فِي رُؤْيَايَ﴾ ’’مجھے میرے خواب کےبارے میں فتوی دو‘‘ نجات پانے والے نوجوان نے یوسف علیہ السلام سے کہا : ﴿ أَفْتِنَا فِي سَبْعِ بَقَرَاتٍ﴾ ’’ہمیں سات گایوں کےبارے میں فتویٰ دو‘‘ ان تمام آیات میں تعبیر کے لیے فتویٰ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے ۔ اس لیے علم کے بغیر خواب کی تعبیر نہیں بتانی چاہیے ۔ (29) اگر انسان اپنی کسی صفت کمال مثلاً علم یا عمل وغیرہ کے بارے میں کسی حقیقی مصلحت کے تحت لوگوں کو آگاہ کرتا ہے ، نیز اس سے ریاکاری مقصود نہ ہو او رجھوٹ سے محفوظ ہو... تو اس میں کوئی حرج نہیں ۔ جیسا کہ یوسف علیہ السلام نے بادشاہ مصر سے فرمایا تھا : ﴿اجْعَلْنِي عَلَى خَزَائِنِ الْأَرْضِ إِنِّي حَفِيظٌ عَلِيمٌ ﴾ ’’مجھے زمین کے خزانوں پر مقرر کر دیجیے ، میں حفاظت کرنے والا ہوں اور ان کے انتظام کا علم بھی رکھتا ہوں۔‘‘ اسی طرح عہدہ قابل مذمت نہیں جبکہ اس عہدہ میں متعین شخص مقدور بھر حقوق اللہ اور حقوق العباد کی حفاظت کرتا ہو اور اسی طرح اس عہدے کے طلب کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں جبکہ وہ کسی دوسرے سے زیادہ اس عہدے کا اہل ، عہدہ طلب کرنا اس وقت قابل مذمت ہے جب وہ اس عہدے کا اہل نہ ہو اور اس عہدے کی قابلیت رکھنے والا اس جیسا یا اس سے زیادہ قابل کوئی اور شخص موجود ہو ۔ یا وہ اس عہدے کے ذریعے سے ان امور کو قائم کرنے کا ارادہ نہ رکھتا ہو جن کو قائم کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیاہے ۔ ان وجوہات کی بنا پر اسے عہدہ حاصل کرنے سے روکا جائے گا۔ (30) اللہ تبارک و تعالیٰ کا جود و کرم بحربے کراں کی مانند ہے ۔ وہ اپنے بندے کو دنیا و آخرت کی بھلائی سے نوازتا ہے ۔ آخرت کی بھلائی کے دو اسباب ہیں ..... ایمان وتقوی.......... آخرت کی بھلائی ، دنیاوی ثواب اور دنیاوی اقتدار سے کہیں زیادہ بہتر ہے ۔ بندے کو چاہیے کہ وہ اپنے نفس کےلیے دعا کرتا رہے اور اسے اخروی ثواب کا شوق دلاتا رہے اور وہ نفس کو یوں نہ چھوڑ دے کہ وہ دنیاداروں کی زیب و زینت اور لذات کو دیکھ کر غم زدہ ہوتا رہے ۔ درآں حالیکہ وہ ان کے حصول پر قادر نہ ہو ، بلکہ اس کے برعکس وہ اخروی ثواب اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کے ذریعے سے اسے تسلی دیتا رہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿ وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ ﴾ ’’ اور آخرت کا اجر ان لوگوں کے لیے بہتر ہے جو ایمان لائے اور تقویٰ سے انہوں نے کام لیا ۔ ‘‘ (31) غلے اور اناج کو جمع اور ذخیرہ کر کے رکھنا، جبکہ اس سے لوگوں کی فلاح و بہبود اور ان کے لیے وسعت مقصود ہو، اور اس سے لوگوں کو کوئی نقصان نہ پہنچتا ہو، کوئی حرج نہیں۔ یوسف علیہ السلام نے شادابی اور فراوانی کے ایام میں غلے اور اناج کو جمع کر کے رکھنے کا حکم دیا، تاکہ خشک سالی کے ایام کا مقابلہ کرنے کی تیاری کی جا سکے اور اس طرح غلہ جمع کرنا توکل کے منافی نہیں، بلکہ بندہ مومن کو چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرے اور وہ تمام اسباب کام میں لائے جو اس کے لئے دین و دنیا میں فائدہ مند ہوں۔ (32)یہ قصہ دلالت کرتا ہے کہ جب حضرت یوسف علیہ السلام کو زمین کے خزانوں کا منتظم مقرر کیا گیا تو انہوں نے حسن انتظام سے کام لیا یہاں تک کہ ان کے ہاں بکثرت اناج جمع ہوگیا اور دوسرے ملکوں سے لوگ غلہ اور خوراک حاصل کرنے کے لئے مصر کا قصد کرنے لگے، کیونکہ انہیں علم تھا کہ مصر میں غلہ بکثرت موجود ہے اور حضرت یوسف علیہ السلام ہر آنے والے کو بقدر حاجت غلہ دیتے ہیں، وہ غلہ زیادہ دیتے تھے نہ کم، چنانچہ ہر آنے والے کو ایک بار شتر سے زیادہ غلہ نہیں دیتے تھے۔ (33) مہمان نوازی مشروع ہے اور یہ انبیاء و مرسلین کی سنت ہے مہمان کی عزت و تکریم یوسف علیہ السلام کے اس قول سے مستفاد ہے ﴿أَلَا تَرَوْنَ أَنِّي أُوفِي الْكَيْلَ وَأَنَا خَيْرُ الْمُنزِلِينَ  ﴾ ” کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ میں اناج پورا ناپ کردیتا ہوں اور میں بہترین مہمانی کرتا ہوں۔ “ (34) قرینے کی دلیل موجود ہوتے ہوئے بدظنی ممنوع ہے نہ حرام۔ کیونکہ حضرت یعقوب علیہ السلام نے جب حضرت یوسف علیہ السلام کو بھائیوں کے ساتھ بھیجنے سے انکار کردیا اور ان کے بیٹوں نے سخت اصرار کیا اور جب انہوں نے جھوٹا بہانہ بنایا کہ یوسف علیہ السلام کو بھیڑیا کھا گیا، تو یعقوب نے ان سے کہا : ﴿بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ أَنفُسُكُمْ أَمْرًا ۖ ﴾ ” بلکہ تمہارے نفس نے تمہارے لئے ایک کام کو مزین کر کے آسان بنا دیا۔“ پھر یعقوب علیہ السلام نے دوسرے بھائی (بنیامین) کے بارے میں فرمایا: ﴿هَلْ آمَنُكُمْ عَلَيْهِ إِلَّا كَمَا أَمِنتُكُمْ عَلَىٰ أَخِيهِ مِن قَبْلُ ﴾ ” کیا میں اس کے بارے میں بھی اسی طرح اعتماد کرلوں جس طرح میں نے اس سے پہلے اس کے بھائی کے بارے میں اعتماد کیا تھا“ اور جب حضرت یوسف علیہ السلام نے بنیامین کو اپنے پاس روک لیا اور اس کے بھائی اپنے باپ یعقوب علیہ السلام کے پاس آئے تو حضرت یعقوب علیہ السلام نے ان سے پھر یہی کہا : ﴿بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ أَنفُسُكُمْ أَمْرًا ﴾ حالانکہ دوسری مرتبہ انہوں نے کوتاہی کا مظاہرہ نہیں کیا تھا۔ البتہ ان سے ایک ایسا کام سر زد ہوا جس پر ان کے باپ کو یہ کہنا پڑا، جس میں کوئی گناہ اور حرج نہیں۔ (35) نظر بد کے اثرات کے سدباب یا اس کے اثر انداز ہونے کے بعد اس اثر کو ختم کرنے کے لئے اسباب کو استعمال کرنا ممنوع نہیں، بلکہ جائز ہے، اگرچہ ہر چیز اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر ہی سے واقع ہوتی ہے اور اسباب اختیار کرنا بھی اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر ہی ہے، چنانچہ یعقوب نے اپنے بیٹوں کو اسباب اختیار کرنے کا حکم دیتے ہوئے ان سے فرمایا : ﴿ يَا بَنِيَّ لَا تَدْخُلُوا مِن بَابٍ وَاحِدٍ وَادْخُلُوا مِنْ أَبْوَابٍ مُّتَفَرِّقَةٍ ۖ ﴾ ”اے میرے بیٹو ! ایک ہی دروازے میں سے شہر میں مت داخل ہونا بلکہ مختلف دروازوں سے داخل ہونا۔ “ (36 ) اس سورۃ مقدسہ سے، حقوق کے حصول کے لئے، حیلہ سازی کا جواز مستفاد ہوتا ہے اور خفیہ طریقوں کو استعمال کر کے ایسی معلومات حاصل کرنا، جن کے ذریعے سے ان کے مقاصد تک پہنچنا آسان ہو، ایسے امور میں سے ہے، جس پر بندہ قابل ستائش ہے۔ صرف ایسی حیلہ سازی حرام اور ممنوع ہے جس سے کسی واجب کا اسقاط اور کسی حرام کا ارتکاب لازم آتا ہو۔ (37) اس شخص کے لئے، جو کسی کو کسی ایسے معاملے میں وہم میں ڈالنا چاہتا ہے جس کے بارے میں اسے مطلع کرنا اسے پسند نہ ہو، مناسب ہے کہ وہ ایسی قولی اور فعلی تعاریضات استعمال کرے، جو جھوٹ سے مانع ہوں۔ جیسا کہ یوسف علیہ السلام نے کیا تھا، چنانچہ انہوں نے گیہوں ناپنے والا پیمانہ اپنے بھائی کی خرجی میں ڈلوا دیا۔ پھر اس میں سے نکال دکھایا اور ظاہر کیا کہ وہ چور ہے اور اس میں اس کے بھائیوں کیلئے اس کے چور ہونے کا بس ایک قرینہ تھا۔ اس کے بعد یوسف علیہ السلام نے فرمایا : ﴿ مَعَاذَ اللَّـهِ أَن نَّأْخُذَ إِلَّا مَن وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِندَهُ  ﴾ ” اللہ کی پناہ ! ہم اس شخص کو چھوڑ کر جس کے پاس ہم نے اپنا سامان پایا ہے دوسرے کو کیسے پکڑ سکتے ہیں۔“ نیز حضرت یوسف علیہ السلام نے یہ نہیں فرمایا : ( مَنْ سَرَقَ مَتَاعَنَا ) ” جس نے ہمارا سامان چوری کیا‘‘ اور نہ یہ فرمایا ( اِنّاوَجَدْنَامَتَاعَنَاعِنْدَه) ” بے شک ہم نے اپنا سامان اس کے پاس پایا ہے۔“ بلکہ انہوں نے ایسے اسلوب میں بات کی جس کا اطلاق ان کے بھائی کے علاوہ کسی اور پر بھی ہوسکتا تھا اور اس میں کوئی ایسی چیز نہیں جس سے بچا جانا چاہئے، اس میں صرف یہ ابہام ہے کہ وہ چور ہے تاکہ وہ مقصد حاصل ہوسکے جو ان کے پیش نظر تھا اور ان کا بھائی ان کے پاس رہ سکے اور جب صورتحال واضح ہوگئی تو ان کے بھائی سے یہ ابہام بھی زائل ہوگیا۔ (38) انسان کے لئے جائز نہیں کہ وہ اپنے علم تحقیق، مشاہدہ اور قابل اعتماد خبر جس پر اطمینان نفس ہو۔۔۔ کے علاوہ کسی اور چیز کے مطابق گواہی دے۔ یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے کہا تھا : ﴿وَمَا شَهِدْنَا إِلَّا بِمَا عَلِمْنَا ﴾ ” ہم تو صرف اسی کے متعلق گواہی دے سکتے ہیں جس کے متعلق ہم جانتے ہیں۔ “ (39) یہ ایک عظیم آزمائش تھی جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے اپنے ہی اور اپنے چنے ہوئے بندے، یعقوب کو آزمایا، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اور ان کے بیٹے یوسف علیہ السلام کے درمیان جدائی ڈال دی جن سے ایک گھڑی کے لئے جدا ہونا بھی ان کے بس میں نہ تھا، اتنی سی جدائی بھی انہیں سخت غم زدہ کردیتی تھی۔ پس طویل عرصے تک وہ ایک دوسرے سے جدا رہے جو تیس سال سے کم نہ تھا اس عرصہ کے دوران حزن و غم یعقوب کے دل سے کبھی جدا نہ ہوا۔ ﴿وَابْيَضَّتْ عَيْنَاهُ مِنَ الْحُزْنِ فَهُوَ كَظِيمٌ ﴾ ” غم سے ان کی آنکھیں سفید پڑگئیں اور وہ غم میں گھل رہا تھا۔“ اور معاملہ اس وقت اور بھی زیادہ سخت ہوگیا جب ان کا دوسرا بیٹا، یوسف علیہ السلام کا حقیقی بھائی بھی، ان سے جدا ہوگیا۔ حضرت یعقوب علیہ السلام اللہ تعالیٰ کی طرف سے اجر کی امید میں اس کے حکم کے مطابق صبر کر رہے تھے انہوں نے اپنے آپ سے صبر کا عہد کرلیا تھا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اپنے عہد پر پورے اترے۔ ان کا یہ قول صبر کے منافی نہیں ﴿إِنَّمَا أَشْكُو بَثِّي وَحُزْنِي إِلَى اللَّـهِ﴾ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے پاس شکوہ کرنا صبر کے منافی نہیں ہوتا۔ صرف وہ شکوہ صبر کے منافی ہے جو مخلوق کے پاس کیا جائے۔ (40) دکھ کے بعد سکھ اور تنگی کے بعد فراخی ضرور آتی ہے۔ یعقوب پر رنج و غم کی مدت بہت طویل ہوگئی۔ شدت غم اپنی انتہا کو پہنچ گئی اور آل یعقوب کو بدحالی نے لاچار کردیا۔ تب اللہ تعالیٰ نے ان پر خوش حالی بھیج دی۔ انتہائی سخت حالات میں ان کی ملاقات ہوئی اور یوں اجر کی تکمیل ہوگئی اور انہیں راحت و سرور حاصل ہوا۔ اس سے یہ حقیقت معلوم ہوئی کہ اللہ تعالیٰ اپنے اولیاء کو سختی اور نرمی، تنگ دستی اور فراخ دستی کے ذریعے سے آزماتا ہے، تاکہ ان کے صبر و شکر کا امتحان لے اور اس طرح ان کے ایمان، یقین اور عرفان میں اضافہ ہو۔ (41) اگر انسان اپنے موجودہ احوال یعنی کسی مرض اور فقروغیرہ کے بارے میں ناراضی کا اظہار کئے بغیر کسی کو آگاہ کرتا ہے تو یہ جائز ہے۔ یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے یوسف علیہ السلام سے کہا : ﴿يَا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنَا وَأَهْلَنَا الضُّرُّ  ﴾ ” اے عزیز مصر ! ہمیں اور ہمارے گھر والوں کو مصیبت اور بدحالی نے آ گھیرا ہے۔“ اور ان کے اس قول پر حضرت یوسف علیہ السلام نے نکیر نہیں فرمائی۔ (42) اس پورے قصے میں تقویٰ کی فضیلت مستفاد ہوتی ہے۔ دنیا و آخرت کی ہر بھلائی تقویٰ اور صبر کے آثار کی وجہ سے ہے۔ اہل تقویٰ اور اہل صبر کا انجام بہترین انجام ہے۔ چنانچہ فرمایا : ﴿قَدْ مَنَّ اللَّـهُ عَلَيْنَا ۖ إِنَّهُ مَن يَتَّقِ وَيَصْبِرْ فَإِنَّ اللَّـهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ  ﴾ ” اللہ نے ہم پر احسان فرمایا بے شک اگر کوئی تقویٰ اور صبر سے کام لے تو اللہ نیک لوگوں کے اجر کو ضائع نہیں کرتا۔ “ (43) جس کسی کو شدید محتاجی اور بدحالی کے بعد اللہ تعالیٰ نے نعمتوں سے نوازا ہو، اس کے لئے مناسب یہی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی نعمت کا اعتراف کرے اور اپنی پہلی بدحالی اور محتاجی کو یاد رکھے تاکہ وہ اللہ کا شکر ادا کرتا رہے۔ جیسا کہ سیدنا یوسف علیہ السلام نے فرمایا تھا : ﴿وَقَدْ أَحْسَنَ بِي إِذْ أَخْرَجَنِي مِنَ السِّجْنِ وَجَاءَ بِكُم مِّنَ الْبَدْوِ  ﴾ ” اللہ تعالیٰ نے مجھ پر احسان فرمایا ہے کہ اس نے مجھے قید خانے سے نکالا اور تم لوگوں کو صحرا سے یہاں لایا۔ “ (44) یوسف علیہ السلام پر اللہ تبارک و تعالیٰ کا عظیم لطف و کرم تھا کہ اس نے آپ کو ان احوال سے منتقل کر کے سختیوں اور مصائب میں مبتلا کیا، تاکہ اس کے ذریعے سے وہ آپ کو اعلیٰ ترین منازل اور بلند ترین درجات پر فائز کرے۔ (45) بندہ مومن کو چاہئے کہ وہ اپنے ایمان پر ثابت قدمی کے لئے ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے سامنے گڑ گڑاتا رہے اور ایسے اسباب روبہ عمل لاتا رہے جو ایمان پر ثابت قدمی کے موجب ہیں اور اللہ تبارک و تعالیٰ سے اتمام نعمت اور خاتمہ بالخیر کا سوال کرتا رہے۔ جیسا کہ یوسف علیہ السلام نے عرض کیا : ﴿رَبِّ قَدْ آتَيْتَنِي مِنَ الْمُلْكِ وَعَلَّمْتَنِي مِن تَأْوِيلِ الْأَحَادِيثِ ۚ فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ أَنتَ وَلِيِّي فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۖ تَوَفَّنِي مُسْلِمًا وَأَلْحِقْنِي بِالصَّالِحِينَ ﴾ ” اے میرے رب ! تو نے مجھے اقتدار عطا کیا اور تو نے مجھے خوابوں کی تعبیر کا علم بخشا۔ اے آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے دنیا و آخرت میں تو ہی میرا سرپرست ہے۔ اسلام پر مجھے موت دے اور مآل کار مجھے نیک لوگوں کے ساتھ شامل کر۔ “ اس بابرکت قصے میں یہ چند نکات اور تعبیرات ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے میرے لئے آسان فرمایا اور ضروری ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ اس قصہ میں غور و فکر کرنے والے پر تعبیرات کے کچھ اور دریچے وا کر دے۔ ہم اللہ تعالیٰ سے عمل نافع اور عمل مقبول کا سوال کرتے ہیں، بلاشبہ وہ جو دو کرم کا مالک ہے۔ یوسف
0 الرعد
1 اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ یہ قرآن، کتاب اللہ کی آیات ہیں جو دین کے اصول و فروع میں ہر اس چیز کی طرف راہنمائی کرتی ہیں جس کے بندے محتاج ہیں اور یہ قرآن جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر آپ کے رب کی طرف سے اتارا گیا وہ واضح حق ہے، کیونکہ اس کی خبریں صدق پر مبنی اور اس کے اوامر و نواہی سراسر عدل ہیں اور قطعی دلائل و براہین ان کی تائید کرتے ہیں۔ جو کوئی اس کے علم کی طرف متوجہ ہوتا ہے وہی حقیقی اہل علم میں شمار ہوتا ہے اور اس کا علم اس کے لئے عمل کا موجب بنتا ہے۔ ﴿وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يُؤْمِنُونَ ﴾ ” لیکن اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے۔“ یعنی اکثر لوگ یا تو (قرآن) سے جہالت، اس سے روگردانی اور اس کی طرف عدم توجہ کی بنا پر یا محض عناد اور ظلم کی وجہ سے، اس قرآن پر ایمان نہیں رکھتے۔ بنا بریں اکثر لوگ اس سے فائدہ نہیں اٹھاتے، اس کی وجہ اس سبب کا معدوم ہونا ہے جو فائدہ اٹھانے کا موجب ہے۔ الرعد
2 اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ وہ تخلیق و تدبیر اور عظمت و سلطان میں منفرد ہے اس کی یہ وحدانیت دلالت کرتی ہے کہ وہ اکیلا معبود ہے جس کے سوا کسی کی بندگی نہیں کرنی چاہئے، چنانچہ فرمایا : ﴿اللَّـهُ الَّذِي رَفَعَ السَّمَاوَاتِ ﴾ ” اللہ وہی تو ہے جس نے آسمانوں کو بلند کیا“ آسمانوں کے بہت بڑے اور بہت وسیع ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ نے ان کو بلند کر رکھا ہے۔ ﴿بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا ۖ ﴾ ” ستونوں کے بغیر جیسا کہ تم دیکھتے ہو“ یعنی آسمانوں کو سہارا دینے کے لئے ان کے نیچے کوئی ستون نہیں اور ان کو ستون نے سہارا دیا ہوتا تو وہ تمہیں ضرور دکھائی دیتے۔ ﴿ثُمَّ  ﴾ ” پھر“ یعنی آسمانوں اور زمین کی تخلیق کے بعد ﴿اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ ﴾ ” وہ عرش پر مستوی ہوا۔“ وہ عرش عظیم جو اعلیٰ ترین مخلوق ہے۔ استواء کی کیفیت وہ ہے جو اس کے جلال کے لائق اور اس کے کمال کے مناسب ہے۔ ﴿وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ۖ ﴾ ” اور سورج اور چاند کو مسخر کردیا۔“ بندوں کے مصالح نیز ان کے مویشیوں، باغات اور کھیتوں کے مصالح کی خاطر ﴿كُلٌّ ﴾ ” ہر ایک“ یعنی چاند اور سورج ﴿يَجْرِي ﴾ ” چل رہا ہے۔“ یعنی غالب اور علم والی ہستی کے مقرر کردہ اندازے پر چل رہا ہے۔ ﴿لِأَجَلٍ مُّسَمًّى﴾ ” ایک وقت مقرر تک“ دونوں ایک منظم رفتار سے چل رہے ہیں جس میں کوئی فرق آتا ہے نہ ان کی رفتار میں کوئی سستی آتی ہے۔ یہاں تک کہ وہ وقت مقرر آجائے گا اور اللہ اس جہان آب و گل کی بساط لپیٹ دے گا اور بندوں کو دارآخرت میں منتقل کر دے گا۔ جو ہمیشہ رہنے کی جگہ ہے۔ تب اس وقت اللہ تعالیٰ ان آسمانوں کو لپیٹ دے گا اور ان کو اور ہی آسمانوں سے بدل دے گا اور اسی طرح اس زمین کو دوسری زمین سے بدل دے گا۔ سورج اور چاند بے نور کردیئے جائیں گے اور ان کو اکٹھا کر کے جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ تاکہ ان کی عبادت کرنے والے دیکھ لیں کہ وہ عبادت کے مستحق نہ تھے تاکہ وہ سخت حسرت زدہ ہوں اور کفار کو معلوم ہوجائے کہ وہ جھوٹے تھے۔ ﴿ يُدَبِّرُ الْأَمْرَ يُفَصِّلُ الْآيَاتِ ﴾ ” تدبیر کرتا ہے کام کی، وہ کھول کر بیان کرتا ہے آیتوں کو“ یہاں خلق و امر کو اکٹھا بیان کیا گیا ہے یعنی اللہ عظمت والا تخت اقتدار پر مستوی ہے اور وہ عالم علوی اور عالم سفلی کی تدبیر کر رہا ہے، پس وہی پیدا کرتا ہے اور رزق عطا کرتا ہے، وہی غنی کرتا اور محتاج کرتا ہے، وہ کچھ قوموں کو سربلند کرتا ہے اور کچھ قوموں کو قعر مذلت میں گرا دیتا ہے، وہی عزت عطا کرتا ہے، وہی ذلت سے ہمکنار کرتا ہے، وہی گراتا ہے اور وہی رفعتیں عطا کرتا ہے، وہی لغزشوں پر عذر قبول کرتا ہے، وہی مصیبتوں اور تکلیفوں کو دور کرتا ہے، وہی تقدیر کو اس کے وقت مقرر پر نافذ کرتا ہے، جو اس کے احاطہ علم میں ہے اور جس پر اس کا علم جاری ہوچکا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ان فرشتوں کو تدبیر کائنات کے لئے بھیجتا ہے جن کو اس تدبیر کے لئے مقرر کر رکھا ہے۔ وہ کتب الٰہی کو اپنے رسولوں پر نازل فرماتا ہے، احکام شریعت اور اوامرونواہی کے جن کے بندے سخت محتاج ہیں، کھول کھول کر بیان کرتا ہے تو ضیح، تبیین، اور تمیز کے ذریعے سے ان کی تفصیل بیان کرتا ہے ﴿لَعَلَّكُم  ﴾ ” شاید کہ تم“ یعنی اس سبب سے کہ اس نے تمہیں آفاق میں اپنی نشانیاں دکھائیں اور تم پر آیات قرآنیہ نازل فرمائیں ﴿بِلِقَاءِ رَبِّكُمْ تُوقِنُونَ ﴾ ” اپنے رب کی ملاقات کا یقین کرو۔“ کیونکہ دلائل کی کثرت اور ان کی توضیح وتبیین تمام امور الٰہیہ میں، خاص طور پر بڑے بڑے عقائد مثلاً زندگی بعد موت اور قبروں سے نکلنے میں یقین کے حصول کا سبب بنتی ہے۔ نیز ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ﴿حَكِيمٌ ﴾ ” حکمت والا“ ہے وہ مخلوق کو بے فائدہ پیدا نہیں کرتا، نہ وہ ان کو عبث چھوڑے گا۔ پس جیسے اس نے انبیاء و مرسلین مبعوث کئے اور بندوں کے لئے اوامرونواہی کی طرح کتابیں نازل فرمائیں۔ تب یہ ضروری ٹھہرا کہ وہ بندوں کو ایک ایسے جہاں میں منتقل کرے جہاں انہیں ان کے اعمال کی جزا دی جائے۔ نیکو کاروں کو بہترین بدلہ اور بدکاروں کو ان کی بدی کا بدلہ۔ الرعد
3 ﴿ وَهُوَ الَّذِي مَدَّ الْأَرْضَ  ﴾ ” وہی ہے جس نے پھیلائی زمین“ یعنی اللہ تعالیٰ نے زمین کو اپنے بندوں کے لئے تخلیق کیا، اس کو وسعت بخشی، اس میں برکت عطا کی، اپنے بندوں کے لئے اس کو پھیلایا اور اس کے اندران کے لئے فوائد و مصالح ودیعت کئے۔ ﴿وَجَعَلَ فِيهَا رَوَاسِيَ ﴾ ”اور رکھے اس میں پہاڑ“ یعنی زمین پر بڑے بڑے پہاڑ رکھ دیئے تاکہ زمین مخلوق کے ساتھ ڈھلک نہ جائے۔ اس لئے اگر پہاڑ نہ ہوتے تو زمین اپنے رہنے والوں کے ساتھ ایک طرف جھک جاتی، کیونکہ زمین پانی کی سطح پر تیر رہی ہے جس کو ثبات و استقرار نہیں۔ مضبوطی کے ساتھ جمے ہوئے پہاڑوں کے ذریعے سے اس میں توازن پیدا کیا ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے زمین کے لئے میخیں بنایا ہے۔ ﴿وَأَنْهَارًا ﴾ ” اور دریا“ یعنی زمین کے اندر دریا بنائے جو انسان، ان کے مویشیوں اور ان کے کھیتوں کو سیراب کرتے ہیں۔ پس ان دریاؤں کے ذریعے سے درخت، کھیتیاں اور باغات اگائے اور ان کے ذریعے سے خیر کثیر برآمد کیا۔ اس لئے فرمایا : ﴿ وَمِن كُلِّ الثَّمَرَاتِ جَعَلَ فِيهَا زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ ﴾ ” اور ہر پھل کے رکھے اس میں جوڑے، دو دو قسم“ یعنی ان میں دو اصناف پیدا کیں جن کے بندے محتاج ہوتے ہیں۔ ﴿يُغْشِي اللَّيْلَ النَّهَارَ ﴾ ” ڈھانکتا ہے دن پر رات کو“ وہ دن پر رات کو طاری کردیتا ہے جس سے تمام آفاق پر اندھیرا چھا جاتا ہے اور ہر جاندار اپنے اپنے ٹھکانے پر پہنچ کر دن بھر کی مشقت اور تھکن کو دور کرنے کے لئے آرام کرتا ہے۔ جب وہ اپنی نیند پوری کرلیتے ہیں تو دن رات پر چھا جاتا ہے تو لوگ دن کے وقت پھیل کر اپنے مصالح کے حصول اور اپنے کام کاج میں مشغول ہوجاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَمِن رَّحْمَتِهِ جَعَلَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ لِتَسْكُنُوا فِيهِ وَلِتَبْتَغُوا مِن فَضْلِهِ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ ﴾(القصص:28؍73) ” اور یہ اس کی رحمت ہے کہ اس نے تمہارے لئے دن اور رات بنائے تاکہ تم اس میں آرام کرو اور تاکہ تم اللہ کا فضل تلاش کرو اور شاید کہ تم شکر گزار بنو۔ “ ﴿ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ ﴾ ” اس میں بہت سی نشانیاں ہیں۔“ یعنی اس میں مطالب الٰہیہ پر دلائل ہیں ﴿ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ  ﴾ ” غور و فکر کرنے والوں کے لئے۔“ یعنی ان لوگوں کے لئے جو ان آیات و دلائل میں غور و فکر کرتے ہیں، انہیں عبرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جو اس ہستی کی طرف راہنمائی کرتی ہیں جس نے ان کو تخلیق کیا، ان کی تدبیر کی اور ان میں تصرف کیا۔ وہ اللہ ہی ہے جس کے سوا کوئی الٰہ اور کوئی عبادت کا مستحق نہیں۔ وہ غائب اور موجود ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔ وہ مہربان اور نہایت رحم کرنے والا ہے وہ ہر چیز پر قادر ہے، وہ اپنے ہر کام میں حکمت رکھتا ہے، اپنے خلق و امر میں قابل تعریف، نہایت بابرکت اور بہت بلند ہستی ہے۔ الرعد
4 ﴿وَفِي الْأَرْضِ قِطَعٌ مُّتَجَاوِرَاتٌ وَجَنَّاتٌ ﴾ ” اور زمین میں کئی طرح کے قطعات ہیں ایک دوسرے سے ملے ہوئے اور باغات“ اس کے کمال قدرت اور انوکھی صنعت کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ زمین میں الگ الگ مگر ایک دوسرے سے متصل خطے پائے جاتے ہیں اور اس کے اندر باغات ہیں جن میں انواع و اقسام کے درخت ہیں ﴿مِّنْ أَعْنَابٍ وَزَرْعٌ وَنَخِيلٌ ﴾ ” انگور کے باغ، کھیتیاں اور کھجور کے باغ ہیں“ اور دیگر پھل، اور کھجور کے باغات جن میں سے بعض ﴿ صِنْوَانٌ ﴾ ” ایک کی جڑ دوسری سے ملی ہوئی“ یعنی متعدد درخت ایک ہی جڑ سے پھوٹے ہیں ﴿وَغَيْرُ صِنْوَانٍ يُسْقَىٰ بِمَاءٍ وَاحِدٍ ﴾ ” اور بعض بن ملی، ان کو پانی بھی ایک ہی دیا جاتا ہے“ یعنی تمام درخت ایک ہی پانی سے سیراب ہوتے ہیں اور ایک ہی زمین میں اگے ہوئے ہیں۔ ﴿وَنُفَضِّلُ بَعْضَهَا عَلَىٰ بَعْضٍ فِي الْأُكُلِ ﴾ ” اور فضیلت دی ہم نے بعض کو بعض پر میووں میں“ یعنی رنگ، ذائقہ، فوائد اور لذت میں بعض کو بعض پر فضیلت دی۔ پس یہ اچھی اور زرخیز زمین ہے جس میں بکثرت سرسبز گھاس، بیل بوٹے، درخت اور کھیتیاں اگتی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ملی ہوئی زمین کی ایک قسم وہ ہے جس میں گھاس اگتی ہے نہ وہ پانی کو روک کر اس کا ذخیرہ کرسکتی ہے۔ زمین کی ایک قسم وہ ہے جو پانی کو روک کر ذخیرہ کرلیتی ہے مگر اس میں ہریالی نہیں اگتی، ایک زمین وہ ہے جس میں درخت اور کھیتیاں اگتی ہیں مگر گھاس نہیں ہوتی۔ کوئی پھل شیریں ہے، کوئی تلخ اور کسی کا ذائقہ ان کے بین بین ہے۔ کیا یہ تنوع ان کا ذاتی اور طبعی ہے یا غالب اور رحم کرنے والی ہستی کی مقرر کردہ تقدیر ہے؟ ﴿إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ ﴾ ”بے شک اس میں سمجھنے والوں کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں۔“ یعنی اس میں ان لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں جو ایسی عقل سے بہرہ ور ہیں جو ان کی ان امور کی طرف راہنمائی کرتی ہے جو ان کے لئے مفید ہیں یہ عقل ان امور کی طرف لے چلتی ہے جن کے ذریعے سے وہ اللہ تعالیٰ کے احکام اور اس کے اوامرونواہی کو سمجھتے ہیں۔ رہے روگرداں اور بلید الذہن لوگ تو وہ اپنے نظریات کے اندھیروں میں حیران و سرگرداں اور اپنی گمراہی میں مارے مارے پھرتے ہیں۔ اپنے رب کی طرف انہیں کوئی راہ سجھائی دیتی ہے نہ اس کی بات کو یاد رکھتے ہیں۔ الرعد
5 اللہ تبارک و تعالیٰ کے ارشاد : ﴿وَإِن تَعْجَبْ ﴾ ” اور اگر آپ تعجب کریں“ میں احتمال ہے کہ اس سے مراد اللہ تعالیٰ کی عظمت اور توحید کے دلائل کی کثرت پر تعجب ہو۔ اس لئے کہ اس کے باوجود جھٹلانے والوں کا انکار اور ان کا روز قیامت کی تکذیب کرنا عجیب بات ہے، ان کا یہ کہنا : ﴿ أَإِذَا كُنَّا تُرَابًا أَإِنَّا لَفِي خَلْقٍ جَدِيدٍ ﴾ ” کیا جب ہم مٹی ہوجائیں گے، کیا نئے سرے سے بنائے جائیں گے؟“ یعنی ان کے زعم باطل کے مطابق، یہ بہت بعید اور ممتنع ہے کہ جب وہ مٹی میں رل مل جائیں گے تو اللہ تعالیٰ انہیں دوبارہ زندہ کرے گا۔ انہوں نے بربنائے جہالت خالق کی قدرت کو مخلوق کی قدرت پر قیاس کرلیا ہے۔ جب انہوں نے دیکھا کہ یہ مخلوق کی قدرت سے باہر ہے تو انہوں نے یہ سمجھ لیا کہ خلاق کے لئے بھی ممتنع ہے۔ حالانکہ وہ فراموش کر بیٹھے کہ ان کی پہلی بار اللہ تعالیٰ ہی نے پیدا کیا ہے جبکہ وہ کچھ بھی نہ تھے۔ آیت کریمہ میں اس معنی کا احتمال بھی ہے اگر آپ ان کی بات اور ان کی ان کے مرنے کے بعد اٹھائے جانے کی تکذیب پر تعجب کرتے ہیں تو واقعی ان کی یہ بات عجائبات میں شمار ہوتی ہے۔ کیونکہ وہ شخص جس کے سامنے آیات الٰہی بیان کی جائیں، جو زندگی بعد موت پر ایسے قطعی دلائل دیکھتا ہو جن میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں اور اس کے بعد وہ انکار کر دے تو یہ عجیب بات ہے۔ مگر ان کی یہ بات کوئی انوکھی چیز نہیں ہے۔ ﴿أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا بِرَبِّهِمْ ﴾ ” یہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کا انکار کیا“ اور اس کی وحدانیت کو جھٹلایا حالانکہ توحید سب سے زیادہ واضح اور سب سے زیاد روشن چیز ہے۔ ﴿ وَأُولَـٰئِكَ الْأَغْلَالُ ﴾ ” اور وہی لوگ، طوق ہیں“ جو ان کو راہ ہدایت سے روکتے ہیں ﴿فِي أَعْنَاقِهِمْ﴾ ان کی گردنوں میں“ کیونکہ انہیں ایمان کی طرف بلایا گیا مگر وہ ایمان نہ لائے، ان کے سامنے ہدایت پیش کی گئی مگر انہوں نے اسے قبول نہ کیا، لہٰذا سزا کے طور پر ان کے دل پلٹ دیئے گئے کیونکہ یہ لوگ پہلی مرتبہ ایمان نہیں لائے۔ ﴿وَأُولَـٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ﴾ ” یہی لوگ دوزخی ہیں جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔“ یعنی وہ جہنم سے کبھی نہیں نکلیں گے۔ الرعد
6 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جھٹلانے والے مشرکین کی جہالت کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے۔ جن کو نصیحت کی گئی مگر انہوں نے نصیحت حاصل نہ کی۔ ان پر دلائل قائم کئے گئے مگر انہوں نے ان دلائل کو نہ مانا، بلکہ اس کے برعکس انہوں نے کھلم کھلا انکار کیا انہوں نے اللہ واحد و قہار کے حلم اور ان کے گناہوں پر فوری طور پر گرفت نہ ہونے کی وجہ سے استدلال کیا کہ وہ حق پر ہیں۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہنا شروع کردیا کہ وہ جلدی سے عذاب لے آئیں اور ان میں سے بعض تو یہاں تک کہہ دیتے : ﴿ اللَّـهُمَّ إِن كَانَ هَـٰذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِندِكَ فَأَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَاءِ أَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ أَلِيمٍ  ﴾(الانفال:8؍32) ” اے اللہ ! اگر یہ واقعی تیری طرف سے حق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا دے یا ہم پر کوئی درد ناک عذاب لے آ۔ “ ﴿وَقَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِمُ الْمَثُلَاتُ ﴾ ” اور گزر چکی ہیں ان سے پہلے مثالیں“ اور حال یہ ہے کہ جھٹلانے والی قوموں پر اللہ تعالیٰ کے عذاب کے نازل ہونے کے واقعات گزر چکے ہیں کیا وہ اپنے حال پر غور و فکر کر کے اپنی جہالت کو چھوڑ نہیں سکتے؟ ﴿وَإِنَّ رَبَّكَ لَذُو مَغْفِرَةٍ لِّلنَّاسِ عَلَىٰ ظُلْمِهِمْ ۖ ﴾ ” اور آپ کا رب لوگوں کو ان کے ظلم کے باوجود معاف کرنے والا ہے“ یعنی اللہ تعالیٰ کی بھلائی، اس کا احسان، اس کا کرم اور اس کا عفو و در گزر اس کے بندوں پر ہمیشہ نازل ہوتا رہتا ہے اور بندوں کی طرف سے ان کا شرک و عصیان اس کی طرف بلند ہوتا ہے، اس کے بندے اس کی نافرمانی کرتے ہیں وہ ان کو اپنے دروازے کی طرف بلاتا ہے، وہ جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں مگر وہ انہیں اپنے فضل و احسان سے محروم نہیں کرتا۔ پس اگر وہ توبہ کرلیں تو وہ ان کا دوست ہے، کیونکہ وہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے بہت محبت کرتا ہے۔ اگر وہ توبہ نہ کریں تو وہ ان کا طبیب ہے، وہ ان کو مصائب میں مبتلا کرتا ہے، تاکہ وہ ان کو گناہوں سے پاک کر دے۔ وہ کہتا ہے : ﴿ قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّـهِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا ۚ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ ﴾ (الزمر:39؍53)” کہہ دیجیے ! اے میرے بندو ! جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا، بے شک اللہ تمام گناہوں کو بخش دیتا ہے۔ وہ بہت بخشنے والا، نہایت رحم کرنے والا ہے۔“ ﴿وَإِنَّ رَبَّكَ لَشَدِيدُ الْعِقَابِ ﴾ ” بے شک آپ کا رب سخت عذاب دینے والا ہے۔“ ان لوگوں کو جو اپنے گناہوں پر مصر رہتے ہیں، جو اللہ غالب اور بخشنے والے کے پاس توبہ، استغفار اور التجا کرنے سے انکار کردیتے ہیں۔ پس بندوں کو اللہ تعالیٰ کی ان سزاؤں سے ڈرنا چاہئے جو وہ اہل جرائم کو دیتا ہے، اس کی پکڑ نہایت سخت اور درد ناک ہے۔ الرعد
7 یعنی کفار آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بغیر سوچے سمجھے اور اپنی خواہشات کے مطابق معین آیات و معجزات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہتے ہیں : ﴿لَوْلَا أُنزِلَ عَلَيْهِ آيَةٌ مِّن رَّبِّهِ ﴾ ” کیوں نہیں اتاری گئی آپ پر کوئی نشانی، آپ کے رب کی طرف سے“ معجزات کے مطالبے کا جواب نہ ملنے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے عذر پیش کرتے ہوئے یہ بات کہتے ہیں۔ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو محض ڈرانے والے ہیں آپ کو کسی چیز پر کوئی اختیار نہیں۔ اللہ تعالیٰ ہی ہے جو آیات و معجزات نازل فرماتا ہے۔ اس نے ایسے واضح دلائل کے ساتھ رسول کی تائید فرمائی جو عقل مندوں پر مخفی نہیں ہیں اور طالب حق ان دلائل کے ذریعے سے راہ راست پا سکتا ہے۔ رہا منکر حق، جو اپنے ظلم و جہالت کی وجہ سے بغیر سوچے سمجھے آیات و معجزات کا مطالبہ کرتا ہے تو یہ مطالبہ باطل جھوٹ اور بہتان طرازی ہے، کیونکہ اس کے پاس جو بھی معجزہ اور نشانی آئے گی وہ اس پر ایمان لائے گا۔ اس کی اطاعت کرے گا، کیونکہ اس کے ایمان نہ لانے کی وجہ یہ نہیں ہے کہ اس کی صحت پر دلائل نہیں، بلکہ اس کے ایمان نہ لانے کی وجہ صرف خواہشات نفس اور شہوات کی پیروی ہے۔ ﴿وَلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ﴾ ” اور ہر قوم کے لئے ایک راہنما ہوا کرتا ہے۔“ یعنی ہر قوم کے پاس انبیاء و مرسلین اور ان کے متبعین میں سے ایک داعی آتا ہے جو انہیں ہدایت کی طرف بلاتا ہے۔ ان کے پاس دلائل و براہین ہوتے ہیں جو اس ہدایت کی صحت پر دلالت کرتے ہیں۔ الرعد
8 اللہ تبارک و تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ اس کا علم سب کو شامل، اس کی اطلاع بہت وسیع اور اس نے ہر چیز کا احاطہ کر رکھا ہے، چنانچہ فرماتا ہے : ﴿ اللَّـهُ يَعْلَمُ مَا تَحْمِلُ كُلُّ أُنثَىٰ ﴾ ”اللہ جانتا ہے جو پیٹ میں رکھتی ہے ہر مادہ“ یعنی انسان اور جانوروں میں سے ﴿وَمَا تَغِيضُ الْأَرْحَامُ ﴾ ”اور جو کم کرتے ہیں پیٹ“ یعنی رحم میں موجود حمل میں جو کمی ہوتی ہے، یا وہ ہلاک ہوجاتے ہیں، یا وہ سکڑ کر مضمحل ہوجاتے ہیں،﴿وَمَا تَزْدَادُ ﴾ ” اور جو وہ زیادہ کرتے ہیں“ اور ان میں موجود بچے بڑے ہوجاتے ہیں۔ ﴿وَكُلُّ شَيْءٍ عِندَهُ بِمِقْدَارٍ ﴾ ” اور ہر چیز کا اس کے ہاں اندازہ ہے۔“ کوئی چیز اس مقدار سے آگے بڑھ سکتی ہے نہ پیچھے ہٹ سکتی ہے۔ اس مقدار سے زیادہ ہوسکی نہ کم، مگر جس کا تقاضا اس کی حکمت اور علم کرے۔ الرعد
9 ﴿عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ الْكَبِيرُ ﴾ ” وہ نہاں اور آشکار کا جاننے والا اور بڑا ہے“ یعنی وہ عالم غیب اور عالم ظاہر کا علم رکھتا ہے وہ اپنی ذات اور اپنے اسماء و صفات میں بڑا ہے۔ ﴿ الْمُتَعَالِ  ﴾ ” عالی رتبہ ہے۔“ یعنی وہ اپنی ذات، قدرت اور غلبہ کے اعتبار سے تمام مخلوق پر بلند ہے۔ الرعد
10 ﴿ سَوَاءٌ مِّنكُم ﴾ ” برابر ہے تم میں سے“ یعنی اس کے علم اور سمع و بصر میں ﴿مَّنْ أَسَرَّ الْقَوْلَ وَمَن جَهَرَ بِهِ وَمَنْ هُوَ مُسْتَخْفٍ بِاللَّيْلِ ﴾ ”جو آہستہ بات کہے اور جو پکار کر کہے اور جو چھپنے والا ہے رات میں“ یعنی رات کے وقت کسی خفیہ مقام پر ٹھہرا ہوا ہے۔ ﴿وَسَارِبٌ بِالنَّهَارِ  ﴾ ” اور جو دن میں چلنے والا ہے۔“ یعنی دن کے وقت اپنی پناہ گاہ کے اندر ہے اور (اَالسَّرَب )اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں انسان چھپتا ہے، خواہ یہ جگہ گھر کے اندر ہو، کوئی غار ہو یا کوئی کھوہ وغیرہ ہو۔ الرعد
11 ﴿ لَهُ﴾ ” اس کے لئے“ یعنی انسان کے لئے ﴿مُعَقِّبَاتٌ  ﴾ ” پہرے دار ہیں“ یعنی فرشتے جو شب و روز ایک دوسرے کے پیچھے آتے ہیں۔ ﴿ مِّن بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ يَحْفَظُونَهُ مِنْ أَمْرِ اللَّـهِ ﴾ ” بندے کے آگے سے اور اس کے پیچھے سے اللہ کے حکم سے اس کی نگہبانی کرتے ہیں۔“ یعنی یہ فرشتے اس کے جسم و روح کی ہر اس چیز سے حفاظت کرتے ہیں جو اس کو نقصان پہنچانا چاہتی ہے، وہ اس کے اعمال کی حفاظت کرتے ہیں اور وہ ہمیشہ اس کے ساتھ رہتے ہیں۔ پس جیسے اللہ تعالیٰ کے علم نے انسان کا احاطہ کر رکھا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی حفاظت کے لئے یہ فرشتے بھیج رکھے ہیں جب کہ انسان کے اعمال اور احوال اللہ تعالیٰ سے اوجھل ہیں نہ وہ ان میں سے کچھ بھولتا ہے۔ ﴿ إِنَّ اللَّـهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ ﴾ ” بے شک اللہ، وہ نہیں بدلتا جو لوگوں کو حاصل ہے“ یعنی نعمت، احسان اور اسباب زیست کی فراوانی ﴿حَتَّىٰ يُغَيِّرُوا مَا بِأَنفُسِهِمْ ﴾ ” جب تک وہ خود اس چیز کو نہ بدل دیں“ یعنی جب تک کہ وہ ایمان سے کفر، اطاعت سے نافرمانی اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر شکر سے ناشکری کی طرف منتقل نہیں ہوتے، تب اس صورت میں اللہ تعالیٰ ان سے اپنی نعمتیں سلب کرلیتا ہے اور اسی طرح جب بندے اپنی حالت کو بدل لیتے ہیں اور وہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کو چھوڑ کر اطاعت کا راستہ اختیار کرلیتے ہیں تو پھر ان کی بدبختی کی حالت کو بھلائی، مسرت، خوشی اور رحمت کی حالت میں بدل دیتا ہے۔ ﴿وَإِذَا أَرَادَ اللَّـهُ بِقَوْمٍ سُوءًا ﴾ ” اور جب اللہ کسی قوم کے ساتھ برائی کا ارادہ کرتا ہے“ یعنی اللہ تعالیٰ کسی قوم کے لئے کسی عذاب، سختی یا کسی ایسے امر کا ارادہ کرتا ہے جسے وہ ناپسند کرتے ہیں، تو اس کا ارادہ ان پر ضرور نافذ ہوتا ہے۔ ﴿فَلَا مَرَدَّ لَهُ ۚ ﴾ ” اسے کوئی رد نہیں کرسکتا“ یعنی اس سے انہیں کوئی بچا نہیں سکتا۔ ﴿وَمَا لَهُم مِّن دُونِهِ مِن وَالٍ ﴾ ” اور اس کے سوا ان کا کوئی حمایتی نہیں ہے۔“ یعنی جو ان کے معاملات کی سرپرستی کر کے ان کے لئے ان کی محبوب و مرغوب اشیا مہیا کرے اور ناپسندیدہ چیزوں کو ان سے دور کرے۔ پس لوگ ان امور پر قائم رہنے سے بچیں جو اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہیں مباداکہ ان پر وہ عذاب نازل ہوجائے جو مجرموں پر سے ہٹایا نہیں جاتا۔ الرعد
12 ﴿هُوَ الَّذِي يُرِيكُمُ الْبَرْقَ خَوْفًا وَطَمَعًا ﴾ ” وہی ہے جو دکھاتا ہے تم کو بجلی، ڈرانے کے لئے اور امید دلانے کے لئے“ یعنی اس بجلی(کے گرنے) کی وجہ سے کڑک اور عمارتوں کے منہدم ہونے کا نیز باغات اور کھیتیوں کے پھلوں پر مختلف اقسام کے ضرر رساں اثرات کا خدشہ ہوتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ اس میں بھلائی اور فائدے کی امید بھی ہوتی ہے۔ ﴿وَيُنشِئُ السَّحَابَ الثِّقَالَ ﴾ ” اور وہ بارش سے لدے ہوئے بھاری بھاری بادل اٹھاتا ہے۔“ یہ بارش بندوں کو اور زمین کو فائدہ دیتی ہے۔ الرعد
13 ﴿وَيُسَبِّحُ الرَّعْدُ بِحَمْدِهِ ﴾ ” اور تسبیح بیان کرتا ہے گرجنے والا، اس کی خوبیوں کی“ ﴿الرَّعْد﴾ سے مراد بجلی کی کڑک کی آواز ہے جو بادلوں سے سنائی دیتی ہے اور بندوں کو ڈرا دیتی ہے۔ یہ کڑک اپنے رب کے سامنے جھکی ہوئی، اس کی تسبیح کے ساتھ اس کی حمد کرتی ہے۔ ﴿وَالْمَلَائِكَةُ مِنْ خِيفَتِهِ ﴾ ” اور سب فرشتے اس کے ڈر سے“ یعنی اپنے رب کے سامنے فروتنی کے ساتھ اور اس کی سطوت سے ڈرتے ہوئے اس کی تسبیح بیان کرتے ہیں ﴿وَيُرْسِلُ الصَّوَاعِقَ ﴾ ” اور بھیجتا ہے وہ کڑکتی بجلیاں“ اس سے مراد وہ آگ ہے، جو بادلوں سے نکلتی ہے۔ ﴿فَيُصِيبُ بِهَا مَن يَشَاءُ  ﴾ ” پھر ڈالتا ہے ان کو جس پر چاہے“ وہ کڑکتی ہوئی بجلیاں اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اور جتنی چاہتا ہے اور جب ارادہ کرتا ہے گرا دیتا ہے۔ ﴿وَهُمْ يُجَادِلُونَ فِي اللَّـهِ وَهُوَ شَدِيدُ الْمِحَالِ ﴾ ” اور وہ جھگڑتے ہیں اللہ کی بات میں اور اس کی گرفت سخت ہے“ وہ بہت زیادہ قوت و اختیار کا مالک ہے وہ جو چاہتا ہے کر گزرتا ہے کوئی اس کے سامنے دم مار سکتا ہے نہ بھاگ کر بچ سکتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ اکیلا ہی، بندوں کے لئے بادل اور بارش لاتا ہے جس کے اندر ان کے رزق کا مادہ ہے، وہی ہے جو تمام امور کی تدبیر کرتا ہے، بڑی سے بڑی مخلوق اس کے خوف سے نہایت عاجزی کے ساتھ اس کے سامنے سرافگندہ ہے، بندے اس کے خوف سے لرزاں ہیں اور وہ بہت بڑی قوت کا مالک ہے۔۔۔ تب وہی عبادت کا مستحق ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں۔ الرعد
14 ﴿لَهُ دَعْوَةُ الْحَقِّ ﴾ ”سود مند پکارنا تو اسی کا ہے۔“ یعنی صرف اللہ تعالیٰ ہی کے لئے دعوت حق ہے۔ دعوت حق سے مراد، صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا اور دعائے عبادت اور دعائے مسئلہ کو صرف اسی کے لئے خالص کرنا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ ہی اس بات کا مستحق ہے کہ اس کو پکارا جائے، اس سے ڈرا جائے، اس پر امیدیں باندھی جائیں، اس سے محبت کی جائے، اس کی طرف رغبت رکھی جائے، اس سے خوف کھایا جائے اور اسی کی طرف رجوع کیا جائے کیونکہ اسی کی الوہیت حق ہے اور غیر اللہ کی الوہیت باطل ہے۔ ﴿وَالَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِهِ ﴾ ” اور جن کو یہ لوگ اس کے سوا پکارتے ہیں“ یعنی جو اللہ تعالیٰ کے سوا بتوں اور خود ساختہ معبودوں کو، جن کو ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرا رکھا ہے، پکارتے ہیں ﴿ لَا يَسْتَجِيبُونَ لَهُم بِشَيْءٍ ﴾ ”وہ ان کی پکار کو کسی طرح قبول نہیں کرسکتے۔“ یعنی یہ خود ساختہ معبود ان کو تھوڑا یا بہت کوئی جواب نہیں دے سکتے جو ان کو پکارتے اور عبادت کرتے ہیں خواہ اس پکار کا تعلق امور دنیا سے ہو یا آخرت سے ﴿إِلَّا كَبَاسِطِ كَفَّيْهِ إِلَى الْمَاءِ ﴾ ” مگر جیسے کسی نے پھیلائے دونوں ہاتھ پانی کی طرف“ یعنی وہ شخص جس کے ہاتھ دور ہونے کی بنا پر پانی تک پہنچ نہیں سکتے۔ ﴿ لِيَبْلُغَ ﴾ ” کہ آ پہنچے وہ پانی“ یعنی اپنے ہاتھوں کو پانی کی طرف پھیلانے کی وجہ سے ﴿فَاهُ﴾ ” اس کے منہ تک“ کیونکہ وہ پیاسا ہے اور شدت پیاس کی وجہ سے اپنا ہاتھ پانی کی طرف بڑھاتا ہے مگر وہ پانی اس تک پہنچ نہیں پاتا۔ اسی طرح کفار جو اللہ کے ساتھ خود ساختہ معبودوں کو پکارتے ہیں، یہ معبو ان کو کوئی جواب دے سکتے ہیں نہ ان کی حاجت کے شدید ترین اوقات میں ان کو کچھ فائدہ پہنچاسکتے ہیں۔ کیونکہ وہ خود اسی طرح محتاج ہیں جس طرح ان کو پکارنے والے محتاج ہیں۔ وہ زمین و آسمان میں ذرہ بھر کسی چیز کے مالک نہیں، نہ وہ ان میں شریک ہیں اور نہ ان میں کوئی اللہ کا مددگار ہے۔ ﴿ وَمَا دُعَاءُ الْكَافِرِينَ إِلَّا فِي ضَلَالٍ ﴾ ” اور کافروں کی ساری پکار گمراہی میں ہے“ کیونکہ جن کو وہ اللہ کے سوا پکارتے ہیں، باطل ہیں۔ پس ان کی عبادت کرنا اور ان کو پکارنا سب باطل ٹھہرا، مقاصد کے بطلان کے ساتھ وسائل بھی باطل ہوجاتے ہیں اور چونکہ اللہ تعالیٰ ہی واضح حقیقی بادشاہ ہے، اس لئے اس کی عبادت حق ہے اور عبادت گزار کو دنیا و آخرت میں نفع پہنچاتی ہے۔ غیر اللہ کو پکارنے والے کفار کی پکار کو اس شخص سے تشبیہ دینا جو پانی کی طرف ہاتھ پھیلاتا ہے تاکہ پانی اس کے منہ تک پہنچ جائے۔۔۔ ایک بہترین تشبیہ ہے، کیونکہ یہ ایک امر محال سے تشبیہ ہے جس طرح یہ امر محال ہے اسی طرح مشبہ بہ بھی محال ہے۔ کسی چیز کی نفی کے لئے اس کو امر محال پر معلق ٹھہرانا، نفی کا بلیغ ترین پیرا یہ ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ﴿إِنَّ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا وَاسْتَكْبَرُوا عَنْهَا لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَلَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّىٰ يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ ﴾(الاعراف:7؍40) ” بے شک وہ لوگ جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا اور ان کے ساتھ تکبر سے پیش آئے ان کے لئے آسمان کے دروازے نہ کھولے جائیں گے۔ ان کا جنت میں داخل ہونا اتنا ہی محال ہوگا جتنا اونٹ کا سوئی کے ناکے میں سے گزرنا۔ “ الرعد
15 یعنی زمین و آسمان کی ہر چیز اپنے رب کی مطیع اور اس کے سامنے سجدہ ریز ہے ﴿ طَوْعًا وَكَرْهًا  ﴾ ” خوشی سے اور ناخوشی سے“ ( طَوْعًا ) اس شخص کے لئے جو اختیاری طور پر اللہ کے سامنے جھکتا اور اسے سجدہ کرتا ہے جیسے اہل ایمان اپنے اختیار سے اللہ تعالیٰ کے سامنے جھکتے ہیں ﴿كَرْ ھاً﴾ اس شخص کے لئے استعمال ہوا ہے جو تکبر کرتے ہوئے اپنے رب کی عبادت نہیں کرتا مگر خود اس کی فطرت اور اس کا حال اس کی تکذیب کرتے ہیں ﴿وَظِلَالُهُم بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ ﴾ ” اور ان کی پرچھائیاں صبح اور شام“ یعنی تمام مخلوقات کے سائے، صبح و شام اللہ تعالیٰ کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہیں اور ہر چیز کا سجدہ اس کے حسب حال ہوتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ﴿وَإِن مِّن شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَـٰكِن لَّا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ ۗ ﴾(بنی اسرائیل:17؍44) ” اس جہان ہست و بود میں کوئی چیز ایسی نہیں جو اس کی تعریف کے ساتھ اس کی تسبیح بیان نہ کر رہی ہو مگر تم ان کی تسبیح کو سمجھتے نہیں۔“ جب صورتحال یہ ہے کہ تمام کائنات طوعاً وکرہاً اپنے رب کے سامنے سرافگندہ ہے تو معلوم ہوا کہ وہی الٰہ حقیقی اور وہی معبود حقیقی ہے اور غیر اللہ کی الوہیت باطل ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے غیر اللہ کی الوہیت کے بطلان کا ذکر کرتے ہوئے دلیل دی ہے۔ الرعد
16 یعنی ان مشرکین سے کہہ دیجیے جو بتوں اور خود ساختہ معبودوں کو اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہراتے ہیں اور ان کے ساتھ ویسی ہی محبت کرتے ہیں جیسی وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت کرتے ہیں اور ان کے تقرب کے لئے مختلف انواع کی عبادت ان کو پیش کرتے ہیں۔ کیا تمہاری عقل ماری گئی ہے کہ تم نے اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کو اپنا سرپرست بنا لیا ہے، تم ان کی عبادت کرتے ہو حالانکہ وہ عبادت کے مستحق نہیں ہیں؟ ﴿لَا يَمْلِكُونَ لِأَنفُسِهِمْ نَفْعًا وَلَا ضَرًّا ﴾ ” وہ اپنے نفسوں کے لئے بھی نفع اور نقصان کا اختیار نہیں رکھتے“ اور تمہارا حال یہ ہے کہ تم نے اس ہستی کی سرپرستی کو چھوڑ دیا جو اسماء و صفات میں کامل، زندوں اور مردوں کی مالک ہے، جس کے ہاتھ میں تمام کائنات کی تخلیق و تدبیر اور نفع و نقصان ہے۔ پس اللہ وحدہ کی عبادت اور خود ساختہ شریکوں کی عبادت برابر نہیں ہوسکتی۔ فرمایا : ﴿قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الْأَعْمَىٰ وَالْبَصِيرُ أَمْ هَلْ تَسْتَوِي الظُّلُمَاتُ وَالنُّورُ ﴾ ” کہہ دیجیے ! کیا اندھا اور بینا برابر ہوسکتا ہے، یا کیا اندھیرے اور روشنی برابر ہوسکتی ہے؟“ اگر انہیں کوئی شک و شبہ ہے اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کے شریک ٹھہرا دیئے اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے معبود بھی پیدا کرسکتے ہیں جیسے اللہ پیدا کرتا ہے ان کے معبود بھی وہ کام کرسکتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر دلیل قائم کر کے ان کا شک و شبہ زائل کردیجیے۔ پس ان سے کہہ دیجیے ﴿اللَّـهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ ﴾ ” اللہ ہر چیز کا پیدا کرنے الا ہے“ پس یہ محال ہے کہ کوئی چیز اپنے آپ کو پیدا کرسکتی ہے اور یہ بھی محال ہے کہ کوئی چیز خالق کے بغیر وجود میں آجائے اور تب یہ حقیقت متعین ہوگئی کہ کوئی ایسی ہستی موجود ہے جو کائنات کی خالق اور الٰہ ہے، اس کی تخلیق میں کوئی اس کا شریک نہیں کیونکہ وہ واحد و قہار ہے اور وحدانیت اور غلبہ یہ باہم لازم ہیں اور یہ اکیلے اللہ کے لئے متعین ہیں۔ تمام کائنات میں ہر مخلوق کے اوپر ایک اور مخلوق ہے جو اس پر غالب ہے پھر اس غالب مخلوق پر فوقیت رکھنے والی ایک اور مخلوق ہے حتی کہ یہ سلسلہ اس واحد و قہار ہستی پر جا کر ختم ہوجاتا ہے۔ غلبہ اور توحید لازم و ملزوم اور اللہ واحد کے لئے متحقق اور متعین ہیں۔۔۔ تب ناقابل تردید عقلی دلیل کے ذریعے سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ اللہ تعالیٰ کے سوا جن ہستیوں کو پکارا جاتا ہے انہوں نے ان مخلوقات میں سے کسی چیز کو بھی تخلیق نہیں کیا اور اس طرح یہ بات متحقق ہوگئی کہ ان ہستیوں کی عبادت باطل ہے۔ الرعد
17 اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہدایت کو جسے قلب و روح کی زندگی کے لئے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل فرمایا، پانی سے تشبیہ دی ہے جسے اس نے بدن کی زندگی کے لئے نازل فرمایا۔ ہدایت الٰہی میں جو عام اور کثیر نفع ہے اور بندے جس کے محتاج ہیں، اس کو بارش میں موجود اس نفع عام سے تشبیہ دی ہے جو بندوں کے لئے بہت ضروی ہے اور ہدایت کے حامل قلوب اور ان کے تفاوت (باہمی فرق) کو ان وادیوں سے تشبیہ دی ہے جن کے اندر سیلاب بہتے ہیں۔ پس بڑی وادی، جس میں بہت زیادہ پانی سما جاتا ہے اس بڑے دل کی مانند ہے جو بہت زیادہ علم سے لبریز ہے اور چھوٹی وادی جو تھوڑے سے پانی کی متحمل ہوتی ہے اس چھوٹے دل کی مانند ہوتی ہے جس میں بہت تھوڑا علم سماتا ہے۔ وصول حق کے وقت دلوں کے اندر جو شہوات و شبہات ہوتے ہیں ان کو اس جھاگ سے تشبیہ دی ہے جو سیلاب کے پانی کی سطح پر آجاتا ہے اور یہ جھاگ اس وقت بھی اوپر آجاتا ہے جب زیور کو کھوٹ سے خالص کرنے کے لئے آگ میں تپایا جاتا ہے اور جھاگ برابر پانی کے اوپر رہتا ہے اور پانی کو مکدر کرنے والا میل کچیل پانی کی سطح پر تیرتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ مضمحل ہو کر ختم ہوجاتا ہے اور صاف پانی اور خالص زیور باقی رہ جاتا ہے جو لوگوں کے لئے فائدہ مند ہے۔ یہی حال شبہات و شہوات کا ہے قلب ان شبہات و شہوات کو ناپسند کرتا ہے، وہ دلائل و براہین اور پختہ ارادے کے ذریعے سے ان کے خلاف جدوجہد کرتا ہے حتیٰ کہ یہ شبہات و شہوات مضمحل ہو کر ختم ہوجاتے ہیں اور قلب پاک صاف اور خالص ہوجاتا ہے اور حق کے علم، اس کو ترجیح دینے اور اس کی رغبت کے سوا اس میں کچھ بھی باقی نہیں رہتا ہے۔ باطل زائل ہوجاتا ہے اور حق اس کو مٹا دیتا ہے۔ ﴿إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا ﴾(بنی اسرائیل:17؍81) ” بے شک باطل مٹنے ہی والا ہے۔“ یہاں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿كَذَٰلِكَ يَضْرِبُ اللَّـهُ الْأَمْثَالَ ﴾ ” اس طرح بیان کرتا ہے اللہ مثالیں“ تاکہ باطل میں سے حق اور گمراہی میں سے ہدایت واضح ہوجائے۔ الرعد
18 جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے حق کو باطل سے واضح کردیا، تو اب فرما رہا ہے کہ لوگ دو اقسام میں تقسیم ہیں : (1) اپنے رب کی دعوت پر لبیک کہنے والے، اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے ثواب کا ذکر فرمایا۔ (2) اپنے رب کی دعوت پر لبیک نہ کہنے والے، اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے عذاب کا ذکر فرمایا۔ ﴿ لِلَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّهِمُ  ﴾ ” ان لوگوں کے لئے جنہوں نے اپنے رب کا حکم مانا“ یعنی جن کے دل علم و ایمان کے سامنے سرافگندہ ہیں اور ان کے جوارح امرونہی پر عمل پیرا ہیں اور اللہ تعالیٰ ان سے جو کچھ چاہتا ہے وہ اس کی مراد کی موافقت کرتے ہیں۔ ﴿الْحُسْنَىٰ ﴾ ” بھلائی ہے۔“ یعنی اچھی حالت اور اچھا ثواب ان کی صفات جلیل ترین، ان کے مناقب بہترین اور ان کے لئے دنیاوی اور اخروی ثواب ہے جسے کسی آنکھ نے دیکھا ہے نہ کسی کان نے سنا ہے اور نہ کسی بشر کے دل میں اس کا گزر ہوا ہے۔ ﴿وَالَّذِينَ لَمْ يَسْتَجِيبُوا لَهُ ﴾ ” اور جنہوں نے اس کا حکم نہ مانا“ یعنی ان کے سامنے مثالیں بیان کرنے اور حق واضح کرنے کے بعد بھی انہوں نے اپنے رب کی آواز پر لبیک نہ کہا، ان کی حالت اچھی نہ ہوگی۔ ﴿لَوْ أَنَّ لَهُم مَّا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا  ﴾ ” اگر ان کے پاس ہو جو کچھ کہ زمین میں ہے سارا“ یعنی زمین کا تمام سونا چاندی وغیرہ ﴿وَمِثْلَهُ مَعَهُ لَافْتَدَوْا بِهِ ﴾ ” اور اتنا ہی اس کے ساتھ اور، تو سب دے ڈالیں اپنے بدلے میں“ یعنی قیامت کے روز کے عذاب سے بچنے کے لئے فدیہ میں، تو ان سے یہ سب کچھ ہرگز قبول نہ کیا جائے گا اور یہ مال انہیں حاصل بھی کہاں سے ہوگا؟ ﴿أُولَـٰئِكَ لَهُمْ سُوءُ الْحِسَابِ ﴾ ” ان کے لئے ہے برا حساب“ یعنی یہ حساب ہر اس بد اعمالی کے بارے میں ہوگا جس کا انہوں نے دنیا میں ارتکاب کیا تھا اور بندوں کے جو حقوق ضائع کئے تھے، ان کی تمام بد اعمالیاں لکھ کر محفوظ کرلی گئی ہیں۔ وہ پکار اٹھیں گے۔ ﴿يَا وَيْلَتَنَا مَالِ هَـٰذَا الْكِتَابِ لَا يُغَادِرُ صَغِيرَةً وَلَا كَبِيرَةً إِلَّا أَحْصَاهَا ۚ وَوَجَدُوا مَا عَمِلُوا حَاضِرًا ۗ وَلَا يَظْلِمُ رَبُّكَ أَحَدًا  ﴾(الکھف:18؍49) ” ہائے ہماری بدبختی ! یہ کیسی کتاب ہے جو کسی چھوٹی بات کو لکھنے سے چھوڑتی ہے نہ کسی بڑی بات کو، اور وہ اپنے تمام اعمال کو موجود پائیں گے جو انہوں نے سرانجام دیئے ہوں گے اور آپ کا رب کسی پر ظلم نہیں کرے گا۔ “ ﴿وَ ﴾ ” اور“ یعنی اس برے حساب کتاب کے بعد ﴿مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ ۖ ﴾ ” ان کا ٹھکانا جہنم ہے“ جس میں ہر قسم کا عذاب جمع ہے۔ مثلاً شدید بھوک، درد ناک پیاس، بھڑکتی ہوئی آگ، کھانے کو تھوہر، ٹھٹھرا دینے والی سردی، خار دار جھاڑ اور عذاب کی وہ تمام اقسام جن کا اللہ تبارک و تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے۔ ﴿وَبِئْسَ الْمِهَادُ  ﴾ ” اور وہ بری جگہ ہے۔“ یعنی ان کا مسکن اور ٹھکانا بدترین ہوگا۔ الرعد
19 اللہ تبارک و تعالیٰ اہل علم و عمل اور غیر اہل علم لوگوں کے درمیان فرق کرتے ہوئے فرماتا ہے : ﴿أَفَمَن يَعْلَمُ أَنَّمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ الْحَقُّ ﴾ ” بھلا جو شخص جانتا ہے کہ جو کچھ اترا آپ پر آپ کے رب کی طرف سے، حق ہے“ پس اس حق کو خوب سمجھ لیا اور اس پر عمل پیرا ہوا،﴿كَمَنْ هُوَ أَعْمَىٰ ﴾ ” برابر ہوسکتا ہے اس کے جو کہ اندھا ہے“ اور وہ حق کا علم رکھتا ہے نہ حق پر عمل کرتا ہے، دونوں کے درمیان زمین آسمان کا فرق ہے۔ پس بندے پر لازم ہے کہ وہ غور کرے کہ فریقین میں سے کس کا حال اچھا اور کس کا انجام بہتر ہے۔ پھر اسے چاہئے کہ اسی راستے کو ترجیح دے اور اسی گروہ کی پیروی میں رواں دواں رہے۔ مگر اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ ہر شخص غور و فکر نہیں کرتا کہ اس کے لئے کیا چیز فائدہ مند اور کیا چیز نقصان دہ ہے؟ ﴿إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُو الْأَلْبَابِ ﴾ ” عقل مند لوگ ہی نصیحت حاصل کرتے ہیں۔“ یعنی جو پختہ عقل اور کامل رائے رکھتے ہیں یہ لوگ کائنات کالب لباب اور بنی آدم میں چنے ہوئے لوگ ہیں۔ الرعد
20 اگر آپ ان کے اوصاف کے بارے میں سوال کریں تو آپ ان اوصاف سے بڑھ کر کوئی وصف نہیں پائیں گے جن سے اللہ تعالیٰ نے ان کو موصوف کیا ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿الَّذِينَ يُوفُونَ بِعَهْدِ اللَّـهِ  ﴾ ” وہ لوگ جو اللہ کے عہد کو پورا کرتے ہیں“ وہ ذمہ داری جو اللہ تعالیٰ نے ان پر عائد کی تھی اور وہ عہد جو اللہ تعالیٰ نے ان سے لیا تھا یعنی اس کے حقوق کو کامل طور پر قائم کرنا، ان کو پوری طرح ادا کرنا یعنی ان حقوق کی نشوو نما اور ان میں خیر خواہی کرنا۔ ﴿وَ ﴾ ” اور“ ان حقوق کی تکمیل یہ ہے کہ وہ ﴿ وَلَا يَنقُضُونَ الْمِيثَاقَ ﴾ ’’وہ اقرار کو نہیں توڑتے۔“ یعنی اس عہد کو نہیں توڑتے جو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے باندھا ہے۔ اس آیت کریمہ کے حکم میں ہر قسم کا معاہدہ، عہد، قسم اور نذر وغیرہ داخل ہیں جنہیں بندے اپنے آپ پر لازم کرتے ہیں۔ اس عہد اور میثاق کو بتمام پورا کئے بغیر بندہ، عقل مندوں میں شمار نہیں ہوسکتا جن کے لئے ثواب عظیم ہے۔ الرعد
21 ﴿وَالَّذِينَ يَصِلُونَ مَا أَمَرَ اللَّـهُ بِهِ أَن يُوصَلَ ﴾ ” اور وہ لوگ جو ملاتے ہیں جس کے ملانے کا اللہ نے حکم دیا“ یہ ان تمام امور کے لئے عام ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے ملانے کا حکم دیا ہے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے ساتھ محبت، اللہ تعالیٰ وحدہ کی عبادت اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کے لئے سرتسلیم خم کرنا۔ سب اس میں داخل ہے۔ یہ لوگ اپنے ماں باپ کے ساتھ قولی اور فعلی حسن سلوک کے ذریعے سے صلہ رحمی کرتے ہیں اور ان کی نافرمانی نہیں کرتے۔ اسی طرح اپنے قریبی رشتہ داروں کے ساتھ اپنے قول و فعل میں حسن سلوک کے ذریعے سے صلہ رحمی کرتے ہیں۔ اپنی بیویوں، اپنے دوستوں، ساتھیوں اور اپنے غلاموں کے دین اور دنیاوی حقوق کی کامل ادائیگی کے ذریعے سے حسن سلوک سے پیش آتے ہیں۔ اور وہ سبب جس کی بنا پر بندہ ان امور کو ملاتا ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے ملانے کا حکم دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ اور روز حساب کا خوف ہے۔ بنابریں فرمایا : ﴿وَيَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ﴾ ” اور وہ اپنے رب سے ڈرتے ہیں۔“ یعنی وہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں، اللہ تعالیٰ کا خوف اور قیامت کے دن اس کے حضور پیش ہونے کا ڈر انہیں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے ارتکاب اور اس کے احکام میں کوتاہی سے بچاتا ہے، ان کا یہ رویہ عذاب کے ڈر اور ثواب کی امید کی بنا پر ہے۔ الرعد
22 ﴿وَالَّذِينَ صَبَرُوا ﴾ ” اور جو صبر کرتے ہیں۔“ یعنی وہ لوگ جو مامورات کی تعمیل اور منہیات سے بچنے اور ان سے دور رہنے اور اللہ تعالیٰ کی تکلیف دہ قضا و قدر پر عدم ناراضی کے ساتھ صبر کرتے ہیں مگر اس شرط کے ساتھ کہ یہ صبر صرف ﴿ابْتِغَاءَ وَجْهِ رَبِّهِمْ ﴾ ” اپنے رب کی رضا کی خاطر ہو“ کسی فاسد اغراض و مقاصد کے لئے نہ ہو۔ یہی وہ صبر ہے جو فائدہ مند ہے جو بندے کو اپنے رب کی رضا کی طلب اور اس کے قرب کی امید کا پابند اور اس کے ثواب سے بہرہ ور کرتا ہے اور یہی وہ صبر ہے جو اہل ایمان کی خصوصیات میں شمار ہوتا ہے۔ وہ صبر جو بہت سے لوگوں میں مشترک ہوتا ہے اس کی غایت و انتہا استقلال اور فخر ہے یہ صبر نیک اور بد، مومن اور کافر، ہر قسم کے لوگوں سے صادر ہوسکتا ہے، صبر کی یہ قسم درحقیقت ممدوح نہیں ہے۔ ﴿وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ  ﴾ ” اور نماز قائم کرتے ہیں۔“ یعنی وہ نماز کو اس کے تمام ارکان، شرائط اور ظاہری و باطنی تکمیل کے ساتھ قائم کرتے ہیں﴿وَأَنفَقُوا مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ سِرًّا وَعَلَانِيَةً ﴾ ” اور جو ہم نے ان کو دیا ہے، اس میں سے پوشیدہ اور ظاہر خرچ کرتے ہیں“ اس میں تمام نفقات واجبہ مثلاً زکوٰۃ اور کفارہ اور نفقات مستحبہ داخل ہیں۔ یہ کھلے چھپے ان تمام مقامات پر خرچ کرتے ہیں جہاں ضرورت تقاضا کرتی ہے۔ ﴿وَيَدْرَءُونَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ  ﴾ ” اور وہ برائی کے مقابلے میں بھلائی کرتے ہیں“ یعنی جو کوئی قول و فعل کے ذریعے سے ان کے ساتھ برا سلوک کرتا ہے، وہ اس کے ساتھ برے طریقے سے پیش نہیں آتے بلکہ اس کے برعکس حسن سلوک سے پیش آتے ہیں۔ پس جو کوئی انہیں محروم کرتا ہے یہ اسے عطا کرتے ہیں، جو کوئی ان پر ظلم کرتا ہے یہ اسے معاف کردیتے ہیں، جو کوئی ان سے قطع تعلق کرتا ہے یہ اس سے جڑتے ہیں اور جو کوئی ان سے برا سلوک کرتا ہے یہ اس کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آتے ہیں۔۔۔ جب برا سلوک کرنے والوں کے ساتھ ان کے حسن سلوک کی یہ کیفیت ہے تو اس شخص کے ساتھ ان کے حسن سلوک کی کیفیت ہوگی جس نے ان کے ساتھ کبھی برا سلوک نہیں کیا۔ ﴿أُولَـٰئِكَ  ﴾ ” یہی“ یعنی وہ لوگ جو ان صفات جلیلہ اور مناقبت جمیلہ کے حامل ہیں ﴿لَهُمْ عُقْبَى الدَّارِ ﴾ ” انہی کے لئے آخرت کا گھر ہے۔ الرعد
23 اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا : ﴿جَنَّاتُ عَدْنٍ ﴾ ” باغ میں ہمیشہ رہنے کے لئے“ یعنی وہ ان جنتوں میں قیام کریں گے وہ کبھی ان سے دور نہ ہوں گے اور نہ وہ ان جنتوں سے منتقل ہونا چاہیں گے وہ سمجھتے ہیں کہ اس کے اوپر کوئی منزل نہیں۔۔۔ کیونکہ یہ جنتیں ایسی نعمت اور مسرت پر مشتمل ہیں جو مطلوب و مقصود ہے۔ اور ان کے لئے نعمت کی تکمیل اور ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک یہ ہے کہ ﴿يَدْخُلُونَهَا وَمَن صَلَحَ مِنْ آبَائِهِمْ وَأَزْوَاجِهِمْ وَذُرِّيَّاتِهِمْ ۖ ﴾ ” وہ اس (جنت) میں داخل ہوں گے اور جو نیک ہوئے ان کے باپ دادا میں سے، )مردوں اور عورتوں میں سے( اور ان کی بیویوں میں سے اور ان کی اولاد میں سے“ اور اسی طرح ان جیسے دیگر لوگ، ان کے دوست، ہم نشین، ان کے ساتھی۔ اس لئے کہ یہ سب ان کی ازواج اور اولاد کی قبیل ہی میں شمار ہوں گے ﴿وَالْمَلَائِكَةُ يَدْخُلُونَ عَلَيْهِم مِّن كُلِّ بَابٍ  ﴾ ” اور فرشتے ان پر ہر دروازے سے داخل ہوں گے۔“ وہ انہیں سلام اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اکرام و تکریم کے ذریعے سے ہدیہ تہنیت پیش کریں گے۔ اور کہیں گے الرعد
24 ﴿سَلَامٌ عَلَيْكُم ﴾ ” تم پر سلامتی ہو۔“ یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے تم پر سلامتی اور سلام کا ہدیہ ہے جو تمہیں پیش کیا گیا ہے اور یہ سلام ہر ناخوشگوار کے زائل ہونے کو متضمن اور ہر محبوب چیز کے حصول کو مستلزم ہے ﴿ بِمَا صَبَرْتُمْ ﴾ ” تمہارے صبر کے سبب سے“ یہ صبر ہی ہے جس نے تمہیں ان مقامات بلند اور جنت عالیشان میں پہنچایا ﴿فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ ﴾ ” سو کیا خوب ہے عاقبت کا گھر۔“ پس جو کوئی اپنے نفس کا خیر خواہ ہے اور اس کے نزدیک اس کی قدرو قیمت ہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ اس کے تزکیہ کے لئے پوری جدوجہد کرے شاید وہ عقل مندوں کے اوصاف سے بہرہور ہوسکے اور شاید اسے آخرت کے گھر سے کوئی حصہ مل سکے، جو دلوں کی آرزو اور روح کا سرور ہے، جو ہر قسم کی لذتوں اور فرحتوں کا جامع ہے۔ پس اس قسم کی منزل کے لئے عمل کرنے والوں کو عمل کرنا چاہیے اور اس قسم کے مقام کے لئے سبقت کرنی چاہیے۔ الرعد
25 اہل جنت کا حال بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اہل جہنم کے ایسے احوال بیان فرمائے ہیں جو اہل جنت کے وصاف کے برعکس ہیں۔ چنانچہ فرمایا : ﴿وَالَّذِينَ يَنقُضُونَ عَهْدَ اللَّـهِ مِن بَعْدِ مِيثَاقِهِ  ﴾ ” وہ لوگ جو اللہ کے عہد کو توڑتے ہیں اس کو مضبوط کرنے کے بعد“ یعنی اللہ تعالیٰ کے اپنے انبیاء و مرسلین کے ذریعے سے اس عہد کو مؤکد اور پکا کرنے کے بعد انہوں نے اللہ تعالیٰ کے عہد کو توڑا اور اطاعت و تسلیم سے اس عہد کو پورا نہ کیا بلکہ اس سے روگردانی کرتے ہوئے اس کو توڑ دیا۔ ﴿وَيَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللَّـهُ بِهِ أَن يُوصَلَ ﴾ ” اور قطع کرتے ہیں اس چیز کو جس کے جوڑنے کا اللہ نے حکم دیا“ پس انہوں نے ایمان و عمل کے ذریعے سے اپنے اور اپنے رب کے مابین تعلق کو قائم کیا، نہ انہوں نے صلہ رحمی کی اور نہ انہوں نے حقوق ادا کئے بلکہ اس کے برعکس انہوں نے کفرو معاصی کا ارتکاب کرکے، لوگوں کو اللہ کے راستے سے روک کر اور اس کے راستے کو ٹیڑھا کرنے کی کوششوں کے ذریعے سے، زمین میں فساد پھیلایا۔ ﴿أُولَـٰئِكَ لَهُمُ اللَّعْنَةُ ﴾ ” ایسوں پر لعنت ہے“ یعنی ان کے لئے اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دوری اور اس کے فرشتوں اور اس کے مومن بندوں کی طرف سے مذمت ہے ﴿ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ﴾ ” اور ان کے لئے گھر بھی برا ہے۔“ اس سے مراد جہنم ہے کیونکہ اس میں ان کے لئے المناک عذاب ہوگا۔ الرعد
26 یعنی وہ اللہ تعالیٰ اکیلا ہے۔ رزق وسیع کرتا ہے اور جس کے لئے چاہتا ہے اسے کشادہ کردیتا ہے اور جسے چاہتا ہے اسے نپا تلا رزق عطا کرکے اس پر رزق کو تنگ کردیتا ہے ﴿وَفَرِحُوا ﴾ ” اور وہ خوش ہیں“ یعنی کفار، ﴿بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا ﴾ ” دنیا کی زندگی پر“ انہیں ایسی خوشی ہے جو ان کے لئے دنیا پر اطمینان اور آخرت سے غفلت کی موجب ہے اور یہ ان کی کم عقلی ہے۔ ﴿وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا فِي الْآخِرَةِ إِلَّا مَتَاعٌ ﴾ ” اور نہیں ہے دنیا کی زندگی آخرت کے مقابلے میں، مگر حقیر سامان“ یعنی دنیا کی زندگی ایک حقیر سی چیز ہے جس سے بہت کم فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے اور جو فائدہ اٹھانے والے دنیا داروں سے جدا ہوجائے گی اور اپنے پیچھے ایک طویل ہلاکت چھوڑ جائے گی۔ الرعد
27 اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کی آیات کا انکار کرتے ہیں، اللہ کے رسول سے بطریق تلبیس بے سوچے سمجھے سوال کرتے ہیں اور کہتے ہیں ﴿لَوْلَا أُنزِلَ عَلَيْهِ آيَةٌ مِّن رَّبِّهِ ۗ  ﴾ ” کیوں نہ اتری اس پر کوئی نشانی اسکے رب کی طرف سے“ یعنی ان کے زعم کے مطابق، اگر ان کے پاس معجزہ آگیا ہوتا تو وہ ضرور ایمان لے آتے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کو جواب دیتے ہوئے فرمایا : ﴿قُلْ إِنَّ اللَّهَ يُضِلُّ مَنْ يَشَاءُ وَيَهْدِي إِلَيْهِ مَنْ أَنَابَ ﴾ ” کہہ دیجئے ! اللہ گمراہ کرتا ہے جس کو چاہے اور راہ دکھلاتا ہے اپنی طرف اس کو جس نے رجوع کیا۔“ یعنی جو کوئی اللہ تعالیٰ کی رضا کا طلب گار ہوا۔ پس ہدایت اور گمراہی ان کے ہاتھ میں نہیں ہے کہ وہ اسے آیات و معجزات پر موقوف قرار دیں، بایں ہمہ وہ سخت جھوٹے ہیں۔ ﴿وَلَوْ أَنَّنَا نَزَّلْنَا إِلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةَ وَكَلَّمَهُمُ الْمَوْتَىٰ وَحَشَرْنَا عَلَيْهِمْ كُلَّ شَيْءٍ قُبُلًا مَّا كَانُوا لِيُؤْمِنُوا إِلَّا أَن يَشَاءَ اللَّـهُ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ يَجْهَلُونَ ﴾ )الانعام : 6؍ 111( ” اگر ہم ان پر فرشتے نازل کردیں، ان کے ساتھ مردے ہم کلام ہوں اور ان کے سامنے ہر چیز اکٹھی کردیں تب بھی یہ اللہ تعالیٰ کی مشیت کے بغیر ایمان نہیں لائیں گے۔ مگر ان میں سے اکثر لوگ جاہل ہیں۔ “ یہ لازم نہیں کہ رسول ان کے پاس وہی متعین معجزہ لے کر آئے جس کا وہ مطالبہ کرتے ہیں بلکہ وہ جو نشانی لے کر آئے جس سے حق واضح ہوجائے تو کافی ہے اور اس سے مقصد حاصل ہوجاتا ہے اور ان کے لئے ان کے متعین معجزات کے طلب کرنے سے زیادہ نفع مند ہے۔ کیونکہ اگر ان کے مطالبے کے مطابق نشانی آجائے اور وہ اس پر ایمان لانے سے انکار کردیں تو بہت جلد ان کو اللہ تعالیٰ کا عذاب آلے گا۔ الرعد
28 پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اہل ایمان کی علامت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : ﴿الَّذِينَ آمَنُوا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُم بِذِكْرِ اللَّـهِ ﴾ ” وہ لوگ جو ایمان لائے اور ان کے دل اللہ کی یاد سے چین پاتے ہیں“ یعنی اللہ تعالیٰ کے ذکر سے دلوں کا قلق اور اضطراب دور ہوجاتا ہے اور اس کی جگہ فرحت اور لذت آجاتی ہے۔ فرمایا : ﴿أَلَا بِذِكْرِ اللَّـهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ ﴾ ” سنو ! اللہ کے ذکر ہی سے دل چین پاتے ہیں۔“ دلوں کے لائق اور سزا وار بھی یہی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ذکر کے سوا کسی چیز سے مطمئن نہ ہوں کیونکہ دلوں کے لئے اللہ تعالیٰ کی محبت ان کے انس اور اس کی معرفت سے بڑھ کر کوئی چیز لذیذ اور شیریں نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کی معرفت اور محبت کی مقدار کے مطابق دل اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے ہیں۔ اس قول کے مطابق یہاں ذکر سے مراد بندے کا اپنے رب کا ذکر کرنا ہے مثلاً تسبیح اور تکبیر و تہلیل وغیرہ۔ ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد کتاب اللہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کی یاد دہانی کے لئے نازل فرمائی ہے۔ تب ذکر الہٰی کے ذریعے سے اطمینان قلب کے معنی یہ ہوں گے کہ دل جب قرآن کے معانی اور اس کے احکام کی معرفت حاصل کرلیتے ہیں تو اس پر مطمئن ہوجاتے ہیں۔ کیونکہ قرآن کے معانی حق مبین پر دلالت کرتے ہیں اور دلائل و براہین سے ان کی تائید ہوتی ہے اور اس پر دل مطمئن ہوتے ہیں کیونکہ علم اور یقین کے بغیر دلوں کو اطمینان حاصل نہیں ہوتا اور کتاب اللہ کامل ترین وجوہ کے ساتھ علم اور یقین کو متضمن ہے۔ کتاب اللہ کے سوا دیگر کتب علم و یقین کی طرف راجع نہیں ہوتیں، اس لئے دل ان پر مطمئن نہیں ہوتے، بلکہ اس کے برعکس وہ دلائل کے تعارض اور احکام کے تضاد کی بنا پر ہمیشہ قلق کا شکار رہتے ہیں ﴿وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللَّـهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا ﴾ )النساء : 4؍ 82( ” اگر یہ قرآن اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو وہ اس میں بہت سا اختلاف پاتے۔“ اور یہ چیز کتاب اللہ کی دی ہوئی خبر، کتاب اللہ میں تدبیر اور دیگر مختلف علوم میں غوروفکر سے واضح ہوجاتی ہے پس (طالب حق) ان کتب علوم اور کتاب اللہ کے درمیان بہت بڑا فرق پائے گا۔ الرعد
29 پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ﴾ ” جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کئے۔“ یعنی جو اپنے دل سے اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر اور یوم آخرت پر ایمان لائے اور اعمال صالحہ یعنی اعمال قلوب مثلاً محبت الہٰی، خشیت الہٰی اور اللہ تعالیٰ پر امید وغیرہ اور اعمال جو ارح مثلاً نماز وغیرہ کے ذریعے سے اس ایمان کی تصدیق کرے۔ ﴿طُوبَىٰ لَهُمْ وَحُسْنُ مَآبٍ ﴾ ” ان کے لئے خوش حالی اور عمدہ ٹھکانا ہے۔“ یعنی ان کا حال پاک صاف اور ان کا انجام اچھا ہے اور یہ اس بنا پر ہے کہ انہیں دنیا و آخرت میں اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی طرف سے اکرام و تکریم حاصل ہے اور انہیں کامل راحت اور پورا اطمینان قلب عطا کیا گیا ہے۔ ان جملہ نعمتوں میں، جنت کا ” شجر طوبیٰ“ بھی شامل ہے کہ ایک سوار اس درخت کے سائے میں ایک سو سال تک چلتا رہے گا مگر سایہ ختم ہونے کو نہیں آئے گا۔ جیسا کہ صحیح احادیث میں وارد ہوا ہے۔ [مسند احمد: 3؍ 17] الرعد
30 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرماتا ہے : ﴿كَذَٰلِكَ أَرْسَلْنَاكَ ﴾ ’’اسی طرح ہم نے آپ کو بھیجا۔“ یعنی ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آپ کی قوم کی طرف مبعوث کیا تاکہ آپ ان کو ہدایت کی طرف دعوت دیں ﴿ فِي أُمَّةٍ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهَا أُمَمٌ ﴾ ” ایک امت میں کہ اس سے پہلے کئی امتیں گزرچکی ہیں“ جن کے اندر ہم نے اپنے رسول بھیجے، لہٰذا آپ کوئی انوکھے رسول نہیں ہیں کہ وہ آپ کی رسالت کو اوپرا سمجھیں اور نہ آپ اپنی طرف سے کوئی بات کرتے ہیں۔ بلکہ ان کے سامنے اللہ تعالیٰ کی آیات کی تلاوت کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے آپ کی طرف وحی کی ہیں جو دلوں کی تطہیر اور نفوس کا تزکیہ کرتی ہیں اور آپ کی قوم کا حال یہ ہے کہ وہ رحمان کا انکار کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنی رحمت اور احسان سے نوازا اور سب سے بڑی رحمت یہ ہے کہ ہم نے آپ کو ان کی طرف مبعوث فرمایا اور ہم نے آپ پر کتاب نازل فرمائی مگر انہوں نے شکر گزاری کے ساتھ اس کو قبول کرنے کی بجائے اس کا انکار کرکے اسے ٹھکرادیا۔ پس انہوں نے تکذیب کرنے والی ان قوموں سے عبرت حاصل نہ کی جو ان سے پہلے گزرچکی ہیں، کہ اللہ تعالیٰ نے کیسے ان کو ان کے گناہوں کی پاداش میں پکڑ لیا۔ ﴿قُلْ هُوَ رَبِّي لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ ﴾ ” کہہ دیجئے ! وہ میرا رب ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں“ یہ آیت کریمہ دو قسم کی توحید کو متضمن ہے، توحید الوہیت اور توحید ربوبیت۔ پس وہ میرا رب ہے اور جب سے وہ مجھے وجود میں لایا ہے اس وقت سے میری پرورش کررہا ہے اور وہی میرا معبود ہے ﴿عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ ﴾ ” میں اسی پر بھروسہ کرتا ہوں“ یعنی میں اپنے تمام امور میں اسی پر بھروسہ کرتا ہوں ﴿وَإِلَيْهِ مَتَابِ ﴾ ” اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں۔“ یعنی میں اپنی تمام عبادات اور حاجات میں اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں۔ الرعد
31 اللہ تبارک و تعالیٰ تمام کتب منزلہ پر قرآن کریم کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے : ﴿وَلَوْ أَنَّ قُرْآنًا ﴾ ” اور اگر کوئی قرآن ایسا ہوتا“ یعنی کب الہٰیہ میں سے کوئی قرآن ایسا ہوتا ﴿ سُيِّرَتْ بِهِ الْجِبَالُ ﴾ ” کہ اس کے ذریعے سے پہاڑوں کو (اپنی جگہ سے) ہلا دیا جاتا“ ﴿أَوْ قُطِّعَتْ بِهِ الْأَرْضُ ﴾ ” یا ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتی ہے اس سے زمین“ اور اس کے ذریعے سے زمین پھٹ جاتی اور وہ باغات اور دریاؤں میں تبدیل ہوجاتی ﴿ أَوْ كُلِّمَ بِهِ الْمَوْتَىٰ ﴾ ” اور اس کے ذریعے سے مردے بولنے لگتے“ تو وہ یہی قرآن ہوتا، ﴿بَل لِّلَّـهِ الْأَمْرُ جَمِيعًا﴾ ” بلکہ سب کام تو اللہ کے ہاتھ میں ہیں۔“ اس لئے اللہ تعالیٰ صرف وہی معجزے دکھاتا ہے جن کا تقاضا اس کی حکمت کرتی ہے۔ تب ان جھٹلانے والوں کو کیا ہوگیا ہے کہ اپنی خواہش سے معجزات کا مطالبہ کرتے ہیں؟ پس کیا ان کو یا کسی اور کو آیات و معجزات پر کوئی اختیار ہے؟ ﴿أَفَلَمْ يَيْأَسِ الَّذِينَ آمَنُوا أَن لَّوْ يَشَاءُ اللَّـهُ لَهَدَى النَّاسَ جَمِيعًا ۗ  ﴾ ” کیا ایمان والوں کو اس بات پر اطمینان نہیں کہ اللہ چاہے تو سب لوگوں کو ہدایت سے نواز دے۔‘‘ پس انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ان سب کو ہدایت دینے پر قادر ہے مگر اللہ تعالیٰ ایسا کرنا نہیں چاہتا۔ بلکہ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے ہدایت عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے۔ ﴿ وَلَا يَزَالُ الَّذِينَ كَفَرُوا ﴾ ” اور کفار اپنے کفر پر جمے رہیں گے“ یعنی وہ عبرت حاصل کریں گے نہ نصیحت حاصل کریں گے۔ اور اللہ تعالیٰ ان کے شہروں پر پے درپے ہلاکتیں اور عذاب نازل فرماتا ہے یا ان کے قریب علاقوں پر مصائب نازل ہوتے ہیں اور ان کا حال یہ ہے کہ وہ اپنے کفر پر مصر ہیں ﴿حَتَّىٰ يَأْتِيَ وَعْدُ اللَّـهِ ﴾ ”یہاں تک کہ اللہ کا وعدہ آپہنچے“ یعنی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے فوری نزول عذاب کے وعدے کا وقت آجائے جس کو روکنا ممکن نہیں۔ ﴿ إِنَّ اللَّـهَ لَا يُخْلِفُ الْمِيعَادَ ﴾ ”بے شک اللہ اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا۔“ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نزول عذاب کے بارے میں تہدید و تخویف ہے، جس کا اللہ تعالیٰ نے ان کے کفر، عناد اور ظلم کی بنا پر وعدہ کررکھا ہے۔ الرعد
32 اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے رسول اللہ ﷺ کوثبات کی تلقین کرتے اور تسلی دیتے ہوئے فرمایا : ﴿وَلَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ مِّن قَبْلِكَ﴾”اور ٹھٹھا کیاگیا آپ سے پہلے کتنے رسولوں کے ساتھ”یعنی آپ پہلے رسول نہیں ہیں جس کی تکذیب کی گئی اور جسے ایذا پہنچائی گئی ہو، ﴿فَأَمْلَيْتُ لِلَّذِينَ كَفَرُوا  ﴾ ” پس میں نے کافروں کو ڈھیل دی“ یعنی جنہوں نے اپنے رسولوں کا انکار کیا، میں نے ایک مدت تک ان کو مہلت دی حتیٰ کہ وہ اس گمان باطل میں مبتلا ہوگئے کہ ان کو عذاب نہیں دیا جائے گا ﴿ثُمَّ أَخَذْتُهُمْ ﴾ ” پھر میں نے انکو ﴿مختلف قسم کے عذاب کے ذریعے سے﴾ پکڑلیا“ ﴿فَكَيْفَ كَانَ عِقَابِ ﴾ ” پس کیسا تھا میرا عقاب؟“ اللہ تعالیٰ کی سزا بڑی سخت اور اس کا عذاب بڑا دردناک ہے۔ وہ لوگ جو آپ کو جھٹلاتے ہیں اور آپ کا تمسخر اڑاتے ہیں، ہماری دی ہوئی مہلت سے دھوکے میں مبتلا نہ ہوں، ان کے سامنے ان سے پہلے گزری ہوئی قوموں کا نمونہ موجود ہے، لہٰذا انہیں ڈرنا چاہیے کہ کہیں ان کے ساتھ بھی وہی سلوک نہ کیا جائے جو گزشتہ نافرمان قوموں کے ساتھ کیا گیا۔ الرعد
33 ﴿أَفَمَنْ هُوَ قَائِمٌ عَلَىٰ كُلِّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ ﴾ ” تو کیا جو ہر متنفس کے اعمال کا نگران ہے۔“ یعنی کیا وہ ہستی جو دنیاوی اور اخروی جزا اور عدل و انصاف کے ساتھ ہر متنفس کے عمل کو دیکھ رہی ہے۔۔۔ اور وہ ہے اللہ تبارک و تعالیٰ۔۔۔ اس ہستی کی مانند ہوسکتی ہے جو اس جیسی نہیں ہے۔ بنا بریں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَجَعَلُوا لِلَّـهِ شُرَكَاءَ ﴾ ” اور انہوں نے اللہ کے شریک ٹھہرالئے“ حالانکہ اللہ تعالیٰ ایک ہے، وہ یکتا اور بے نیاز ہے، جس کا کوئی شریک ہے نہ ہمسر اور نظیر۔ ﴿قُلْ  ﴾ اگر وہ سچے ہیں تو ان سے کہہ دیجئے ﴿سَمُّوهُمْ ۚ ﴾ ” ان کے نام لو“ تاکہ ہمیں ان کا حال معلوم ہو ﴿أَمْ تُنَبِّئُونَهُ بِمَا لَا يَعْلَمُ فِي الْأَرْضِ  ﴾ ” یا تم اللہ کو بتلاتے ہو جو وہ نہیں جانتا زمین میں“ جبکہ اللہ تبارک و تعالیٰ غائب اور حاضر ہر چیز کو جانتا ہے اور اس کے علم میں کوئی ایسی ہستی نہیں جو اس کی شریک ہو تو ان کے اس دعویٰ کا بطلان واضح ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک ہے اور تم اس شخص کی مانند ہو جو اللہ تعالیٰ کو یہ بتانا چاہتا ہے کہ اس کا کوئی شریک ہے اور اللہ تعالیٰ کو اس کا علم نہیں ہے اور یہ باطل ترین قول ہے اس لئے فرمایا : ﴿ أَم بِظَاهِرٍ مِّنَ الْقَوْلِ ﴾ ” یا کرتے ہو اوپر ہی اوپر باتیں“ تمہارے دعویٰ، کہ اللہ تعالیٰ کا شریک ہے، کی انتہا یہ ہے کہ یہ تمہاری خالی خولی باتیں ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور تمام کائنات میں کوئی ایسی ہستی نہیں جو کچھ بھی عبادت کی مستحق ہو۔ ﴿بَلْ زُيِّنَ لِلَّذِينَ كَفَرُوا مَكْرُهُمْ ﴾ ” بلکہ خوبصورت کردئیے گئے ہیں کافروں کے لئے ان کے فریب“ وہ چال جو انہوں نے چلی، یعنی ان کا کفر، شرک اور آیات الہٰی کو جھٹلانا ﴿ وَصُدُّوا عَنِ السَّبِيلِ ﴾ ” اور وہ (ہدایت کے) راستے سے روک لئے گئے ہیں۔“ یعنی انہیں صراط مستقیم سے روک دیا گیا جو اللہ تعالیٰ اور اس کے کرامت کے گھر تک پہنچاتا ہے ﴿وَمَن يُضْلِلِ اللَّـهُ فَمَا لَهُ مِنْ هَادٍ ﴾ ” اور جس کو گمراہ کردے اللہ، اس کو کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔“ کیونکہ کسی کے اختیار میں کچھ بھی نہیں۔ الرعد
34 ﴿لَّهُمْ عَذَابٌ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَلَعَذَابُ الْآخِرَةِ أَشَقُّ ۖ ﴾ ”ان کے لئے عذاب ہے دنیا کی زندگی میں اور آخرت کا عذاب تو بہت ہی سخت ہے۔“ یعنی آخرت کا عذاب اپنی شدت اور دوام کی بنا پر دنیا کے عذاب سے زیادہ سخت ہے۔ ﴿ وَمَا لَهُم مِّنَ اللَّـهِ مِن وَاقٍ ﴾ ” اور ان کو اللہ سے بچانے والا کوئی نہیں“ جو انہیں اللہ کے عذاب سے بچاسکے، جب اس کے عذاب کا رخ ان کی طرف پھیر دیا جائے گا تو اسے کوئی نہیں روک سکے گا۔ الرعد
35 اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿مَثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِي وُعِدَ الْمُتَّقُونَ﴾’’جنت کا حال، جس کا وعدہ پرہیزگاروں سے ہے‘‘ یعنی وہ لوگ جنھوں نے اللہ تعالیٰ کے نواہی کو ترک کر دیا اور اس کے اوامر کی تعمیل میں کوتاہی نہیں کی، ان کے لیے جنت کا وعدہ ہے۔ اس جنت کا وصف اور اس کی حقیقت یہ ہے ﴿تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ﴾’’بہتی ہیں اس کے نیچے نہریں‘‘ یعنی شہد، شراب، دودھ اور پانی کی نہریں بہہ رہی ہوں گی جن میں گڑھے نہ ہوں گے۔ یہ نہریں جنت کے باغات اور درختوں کو سیراب کریں گی، یہ باغات اور درخت ہر قسم کے پھل اٹھائیں گے۔ ﴿أُكُلُهَا دَائِمٌ وَظِلُّهَا﴾’’ان کے پھل ہمیشہ رہنے والے ہیں اور ان کا سایہ بھی لازوال ہے‘‘﴿تِلْكَ عُقْبَى الَّذِينَ اتَّقَوْا﴾ ’’یہ انجام ہے ان لوگوں کا جو ڈرتے رہے‘‘ یعنی ان کا انجام اور ان کی عاقبت جس کی طرف یہ رواں دواں ہیں ﴿وَعُقْبَى الْكَافِرِينَ النَّارُ﴾ ’’اور کافروں کا انجام جہنم ہے۔‘‘ پس دیکھ لو! دونوں فریقوں کے درمیان کتنا فرق ہے۔ الرعد
36 ﴿ وَالَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ ﴾ ” اور وہ لوگ جن کو دی ہم نے کتاب“ یعنی ہم نے ان کو کتاب اللہ اور اس کی معرفت سے نوازا ﴿يَفْرَحُونَ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ ﴾ ” وہ خوش ہوتے ہیں اس پر جو نازل ہوا آپ پر“ پس وہ اس پر ایمان لاتے ہیں، اس کی تصدیق کرتے ہیں اور کتب الہٰیہ کی ایک دوسری کے ساتھ موافقت اور ایک دوسری کی تصدیق کرنے کی بنا پر خوش ہوتے ہیں یہ ان لوگوں کا حال ہے جو اہل کتاب میں سے ایمان لائے۔ ﴿وَمِنَ الْأَحْزَابِ مَن يُنكِرُ بَعْضَهُ ﴾ ” اور بعض گروہ وہ ہیں جو اس کی بعض باتوں کا انکار کرتے ہیں“ یعنی کفار کے، حق سے منحرف، گروہ اس قرآن کے کچھ حصے کا انکار کرتے ہیں اور اس کی تصدیق نہیں کرتے۔ ﴿فَمَنِ اهْتَدَىٰ فَلِنَفْسِهِ ۖ وَمَن ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا ﴾ (الزمر: 39؍ 41) ” تو جو کوئی راہ راست پر چلتا ہے (تو اس کی راست روی( اس کے اپنے لئے فائدہ مند ہے۔ اور جو کوئی گمراہی اختیار کرتا ہے تو گمراہی کا وبال بھی اسی پر ہے۔“ اے محمد ! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ تو صرف ڈرانے والے اور ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلانے والے ہیں۔ ﴿ قُلْ إِنَّمَا أُمِرْتُ أَنْ أَعْبُدَ اللَّـهَ وَلَا أُشْرِكَ بِهِ ۚ ﴾ ” کہہ دیجئے ! مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں صرف اللہ کی عبادت کروں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤں“ یعنی مجھے صرف اللہ وحدہ کے لئے دین کو خالص کرنے کا حکم دیا گیا ہے ﴿إِلَيْهِ أَدْعُو وَإِلَيْهِ مَآبِ ﴾ ” اسی کی طرف میں بلاتاہوں اور اسی کی طرف میرا ٹھکانا ہے۔“ یعنی وہی میرا مرجع ہے جس کی طرف میں لوٹوں گا وہ مجھے اس بات کی جزا دے گا کہ میں نے اس کے دین کی طرف لوگوں کو دعوت دی اور مجھے جو حکم دیا گیا میں نے اس کی تعمیل کی۔ الرعد
37 یعنی ہم نے اس قرآن اور اس کتاب کو فرمان عربی بنا کر نازل کیا ہے یعنی واضھ ترین اور فصیح ترین زبان کے ذریعے سے اسے محکم اور پختہ بنا کر نازل کیا ہے تاکہ اس میں کوئی شک و شبہ واقع نہ ہو، تاکہ یہ اس امر کا موجب ہو کہ صرف اسی کی اتباع کی جائے، اس میں مداہنت نہ کی جائے اور بے علم لوگوں کی خواہشات نفس میں سے اس کے متضاد اور متناقض امور کی پیروی نہ کی جائے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو۔۔۔ درآنحالیکہ آپ معصوم ہیں۔۔۔ وعید سنائی تاکہ آپ کو آپ کی عصمت یاد دلائے، اور تاکہ تمام احکام میں آپ امت کے لئے نمونہ بنیں۔ فرمایا : ﴿وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُمْ بَعْدَ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ﴾ ” اگر آپ نے ان کی خواہشات کی پیروی کی، اس علم کے بعد جو آپ کے پاس پہنچا“ واضح علم، جو آپ کو ان کی خواہشات نفس کی پیروی سے روکتا ہے ﴿مَا لَكَ مِنَ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ﴾ ” تو نہیں ہوگا آپ کے لئے اللہ کے مقابلے میں کوئی حمایتی“ جو آپ کی سرپرستی کرے اور آپ کو آپ کا امر محبوب عطا کرے ﴿وَلَا وَاقٍ﴾ ” اور نہ کوئی بچانے والا“ جو آپ کو امر مکروہ سے بچاسکے۔ الرعد
38 یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہلے رسول نہیں ہیں، جن کو لوگوں کی طرف مبعوث کیا گیا ہے، کہ یہ لوگ آپ کی رسالت کو کوئی انوکھی چیز سمجھیں۔ فرمایا : ﴿وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّن قَبْلِكَ وَجَعَلْنَا لَهُمْ أَزْوَاجًا وَذُرِّيَّةً﴾ ” اور آپ سے پہلے ہم نے کئی رسول بھیجے اور دیں ہم نے ان کو بیویاں اور اولاد“ اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دشمن اس وجہ سے آپ کی عیب چینی نہ کریں کہ آپ کے بیوی بچے ہیں۔ آپ کے بھائی دیگر انبیاء و مرسلین کے بھی بیوی بچے تھے۔ تب وہ آپ میں کس بات پر جرح و قدح کرتے ہیں؟ حالانکہ وہ خوب جانتے ہیں کہ آپ سے قبل انبیاء ورسل بھی اسی طرح تھے۔ ان کی یہ عیب چینی اپنی اغراض فاسدہ اور خواہشات نفس کی خاطر ہے۔۔۔ اگر وہ آپ سے کوئی معجزہ طلب کرتے ہیں تو اپنی خواہش کے مطابق مطالبہ کرتے ہیں۔ آپ کو کسی چیز کا بھی اختیار نہیں۔ ﴿وَمَا كَانَ لِرَسُولٍ أَن يَأْتِيَ بِآيَةٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّـهِ﴾ ” اور کسی رسول سے یہ نہیں ہوا کہ وہ لے آئے کوئی نشانی، مگر اللہ کے حکم سے“ اور اللہ تعالیٰ معجزے دکھانے کی تب اجازت دیتا ہے جب اس کی قضا و قدر کے مطابق مقرر کیا ہوا وقت آجاتا ہے۔ ﴿لِكُلِّ أَجَلٍ كِتَابٌ﴾ ” ہر ایک وعدہ لکھا ہوا ہے۔“ اور یہ مقرر کیا ہوا وقت آگے بڑھ سکتا ہے نہ پیچھے ہٹ سکتا ہے، لہٰذا ان کا آیات و معجزات اور عذاب کے مطالبے میں جلدی مچانا اس بات کا موجب نہیں ہوسکتا کہ اللہ تعالیٰ اپنے مقرر کردہ وقت کو آگے کردے جس کو اس نے اپنی تقدیر میں موخر کررکھا ہے۔ بایں ہمہ کہ وہ جو چاہتا ہے کر گزرتا ہے۔ الرعد
39 ﴿يَمْحُو اللَّـهُ مَا يَشَاءُ﴾ ” اللہ جس کو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے“ یعنی وہ اپنی مقرر کردہ تقدیر میں سے جو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے ﴿وَيُثْبِتُ﴾ ” اور قائم رکھتا ہے۔“ یعنی اس تقدیر میں سے جو چاہتا ہے قائم رکھتا ہے اور یہ تغیر اور محو کرنا ان امورکے علاوہ ہے جن کو اس کا قلم تقدیر لکھ چکا ہے۔ پس ان امور میں تغیر و تبدیل نہیں ہوتا، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں یہ محال ہے کہ اس کے علم میں کوئی نقص یا خلل ہو۔ اس لئے فرمایا : ﴿وَعِندَهُ أُمُّ الْكِتَابِ﴾ ” اور اسی کے پاس اصل کتاب ہے۔“ یعنی اس کے پاس لوح محفوظ ہے۔ جس کی طرف تمام اشیاء لوٹتی ہیں یہ اصل ہے اور باقی تمام اشیاء اس کی فروع ہیں۔ پس تغیر و تبدل فروع میں واقع ہوتا ہے مثلاً روزو شب کے اعمال جن کو فرشتے لکھ لیتے ہیں اور ان اعمال کو قائم رکھنے کے لئے اللہ تعالیٰ اسباب فراہم کرتا ہے اور ان کو محو کرنے کے لئے بھی اسباب مہیا کرتا ہے اور یہ اسباب اس نوشتۂ تقدیر سے تجاوز نہیں کرتے جو لوح محفوظ میں مرقوم ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے نیکی، صلہ رحمی اور احسان کو لمبی عمر اور کشائش رزق کے لئے اسباب بنایا ہے، جیسے گناہوں کو رزق اور عمر میں بے برکتی کا سبب بنایا ہے۔ اور جیسے ہلاکت سے نجات کے اسباب کو سلامتی کا سبب بنایا اور جیسے ہلاکت کے مواقع میں پڑنے کو ہلاکت کا سبب بنایا۔ پس اللہ تعالیٰ اپنی قدرت اور ارادے کے مطابق تمام امور کی تدبیر کرتا ہے، اس کی تدبیر اس کے مخالف نہیں ہوتی جسے اس نے اپنے علم کے مطابق لوح محفوظ میں لکھ دیا ہے۔ الرعد
40 اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے نبی محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا ہے کہ کفار کو جس عذاب کی وعید سنائی گئی ہے آپ اس کے بارے میں جلدی نہ کریں۔ اگر وہ اپنی سرکشی اور کفر پر جمے رہے تو وہ عذاب ان کو ضرور آئے گا جس کی ان کو وعید سنائی گئی ہے۔ ﴿ وَإِن مَّا نُرِيَنَّكَ ﴾ ”اگر دکھلا دیں ہم آپ کو“ یعنی ان کو عذاب دیا جانا ہم آپ کو دنیا ہی میں دکھادیں جس سے آپ کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں۔ یہ نزول عذاب اللہ تعالیٰ کے عدل و انصاف اور اس کی حمدو ثنا پر مبنی ہے کوئی اس میں نقص اور خامی تلاش نہیں کرسکتا اور نہ اس میں جرح و قدح کی کوئی گنجائش ہے۔ ﴿أَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ﴾ ” یا آپ کو اٹھالیں“ یعنی ان پر نزول عذاب سے قبل اگر ہم آپ کو وفات دے دیں پس آپ اس میں مشغول نہ ہوں۔ ﴿فَإِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلَاغُ ﴾ ” آپ کے ذمہ تو پہنچا دینا ہے۔“ اور مخلوق کے سامنے بیان کردینا ہے ﴿ وَعَلَيْنَا الْحِسَابُ﴾ ” اور حساب لینا ہمارے ذمے ہے۔“ ہم مخلوق سے ان کی ذمہ داریوں کا حساب لیں گے کہ انہوں نے ان کو پورا کیا ہے یا ضائع کیا ہے۔ پھر ہم انہیں ثواب سے نوازیں گے یا عذاب میں مبتلا کریں گے۔ الرعد
41 اللہ تبارک و تعالیٰ نے جھٹلانے والوں کو وعید سناتے ہوئے فرمایا: ﴿أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ نَنقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا ۚ﴾ ” کیا وہ نہیں دیکھتے کہ ہم زمین کو اس کے کناروں سے گھٹاتے چلے آرہے ہیں“ یعنی جھٹلانے والوں کی ہلاکت اور ظالموں کے استیصال کے ذریعے سے زمین کا دائرہ ہر طرف سے تنگ کرتے چلے آرہے ہیں۔ نیز اس کی تفسیر میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مشرکین کے شہروں کی فتح، ان کے مال اور بدن میں کمی کے ذریعے سے چاروں طرف سے ان پر حلقہ تنگ ہوتا جارہا ہے۔۔۔ اس کی تفسیر میں بعض دیگر اقوال بھی ہیں۔ اس کے ظاہر معنی یہ ہیں۔۔۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔۔۔ کہ اللہ تعالیٰ نے ان جھٹلانے والوں کی اراضی کی حالت یہ بنا دی کہ وہ فتح ہو رہی ہیں اور چھینی جا رہی ہیں، ان پر چاروں طرف سے مصائب ٹوٹ رہے ہیں، ان کی جان و مال میں کمی سے پہلے یہ ان کے لئے تنبیہ ہے اور اللہ تعالیٰ ان پر ایسے عذاب نازل کر رہا ہے جسے کوئی رد کرنے پر قادر نہیں۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَاللَّـهُ يَحْكُمُ لَا مُعَقِّبَ لِحُكْمِهِ﴾ ” اور اللہ فیصلہ کرتا ہے، اس کے فیصلے کو کوئی پیچھے ڈالنے والا نہیں“ اس میں اللہ تعالیٰ کا حکم شرعی، حکم کونی و قدری اور حکم جزائی داخل ہے۔ یہ تمام احکام، جن کا اللہ تعالیٰ فیصلہ کرتا ہے، حکمت اور پختگی کے بلند ترین درجے پر پائے جاتے ہیں، جن میں کوئی نقص اور کوئی خلل نہیں۔ بلکہ یہ تمام احکام عدل و انصاف اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا پر مبنی ہیں کوئی ان فیصلوں میں خامی اور نقص تلاش نہیں کرسکتا اور نہ ان میں جرح و قدح کی کوئی گنجائش ہے۔ اس کے برعکس دیگر ہستیوں کے فیصلے کبھی حق و صواب کے موافق ہوتے ہیں اور کبھی نہیں ہوتے۔ ﴿وَهُوَ سَرِيعُ الْحِسَابِ﴾ ” اور وہ جلد حساب لینے والا ہے۔“ یعنی وہ عذاب کے مطالبے میں جلدی نہ مچائیں کیونکہ ہر وہ چیز جسے آنا ہے وہ قریب ہوتی ہے۔ الرعد
42 اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿وَقَدْ مَكَرَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ﴾ ” ان سے پہلے لوگوں نے بھی چال چلی۔“ یعنی انہوں نے اپنے رسولوں اور حق کے خلاف سازشیں کیں جنہیں لے کر رسول آئے تھے مگر ان کی چالیں اور سازشیں کسی کام نہ آئیں اور وہ کچھ بھی نہ کرسکے۔ کیونکہ وہ اللہ کے خلاف جنگ کرتے ہیں۔ ﴿فَلِلَّـهِ الْمَكْرُ جَمِيعًا ۖ﴾ ” پس اللہ کے ہاتھ میں ہے سب تدبیر“ یعنی کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر کوئی چال چلنے پر قادر نہیں اور یہ چال اللہ تعالیٰ کی قضا وقدر کے تحت آتی ہے۔ چونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے دین کے خلاف سازشیں کرتے ہیں لہٰذا ان کی سازش اور چال ناکامی اور ندامت کا داغ لے کر انہی کی طرف لوٹے گی۔ ﴿يَعْلَمُ مَا تَكْسِبُ كُلُّ نَفْسٍ﴾ ” وہ جانتا ہے جو کماتا ہے ہر نفس“ کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہر جان کے بارے میں خوب جانتا ہے کہ اس نے کیا کمائی کی، یعنی اللہ تعالیٰ ہر ایک نفس کے عزم و ارادے اور ظاہری اور باطنی اعمال کو خوب جانتا ہے۔ مکر اور سازش بھی لازمی طور پر انسان کے اکتساب میں شمار ہوتے ہیں، پس ان کا مکر اللہ تعالیٰ سے چھپا ہوا نہیں۔ اس لئے یہ ممتنع ہے کہ ان کے چال حق اور اہل حق کو نقصان پہنچ اکر ان کو کوئی فائدہ دے فرمایا : ﴿وَسَيَعْلَمُ الْكُفَّارُ لِمَنْ عُقْبَى الدَّارِ﴾ ” اور عنقریب جان لیں گے کافر کہ کس کے لئے ہے گھر عاقبل کا“ یعنی اچھا انجام کفار کے لئے ہے یا اللہ کے رسولوں کے لئے؟ اور یہ حقیقت معلوم ہے کہ اہل تقویٰ کی عاقبت اچھی ہے۔ کفر اور اہل کفر کی عاقبت اچھی نہیں ہے۔ الرعد
43 ﴿وَيَقُولُ الَّذِينَ كَفَرُوا لَسْتَ مُرْسَلًا ۚ﴾ ” اور کافر کہتے ہیں کہ آپ بھیجے ہوئے نہیں ہیں“ یعنی کفار آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اور اس حق کی تکذیب کرتے ہیں جس کے ساتھ آپ کو مبعوث کیا گیا ہے ﴿ قُلْ﴾ اگر وہ آپ سے گواہ طلب کریں تو ان سے کہہ دیجیے ﴿كَفَىٰ بِاللَّـهِ شَهِيدًا بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ ﴾ ” اللہ میرے اور تمہارے درمیان گواہ کافی ہے“ اور اس کی گواہی اس کے قول و فعل اور اقرار کے ذریعے سے ہوتی ہے۔ قول کے ذریعے سے اس کی شہادت یہ ہے کہ اس نے یہ قرآن مخلوق میں سب سے سچی ہستی پر نازل فرمایا جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کو ثابت کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی فعلی شہادت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو اپنی تائید سے نوازا اور آپ کو ایسی فتح و نصرت عطا کی جو آپ کی، آپ کے اصحاب اور آپ کے متبعین کی قدرت و اختیار سے باہر تھی۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے فعل و تائید کے ذریعے سے شہادت ہے۔ اقرار کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کی شہادت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کو خبر دی کہ وہ اللہ کے رسول ہیں اور اس نے لوگوں کو حکم دیا ہے کہ وہ آپ کی اطاعت کریں۔ پس جو کوئی آپ کی اطاعت کرتا ہے اس کے لئے اللہ کی رضا مندی اور اس کی کرامت ہے اور جو کوئی آپ کی اطاعت نہیں کرتا تو اس کے لئے اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور جہنم ہے اور اس کا خون اور مال حلال ہے اور اللہ تعالیٰ آپ کو آپ کے دعوے پر برقرار رکھتا ہے۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ تعالیٰ پر کوئی جھوٹ باندھا ہوتا تو اللہ تعالیٰ اس دنیا میں آپ کو عذاب دے دیتا۔ ﴿وَمَنْ عِندَهُ عِلْمُ الْكِتَابِ﴾ ” اور جس کو خبر ہے کتاب کی“ یہ آیت کریمہ اہل کتاب کے تمام اعمال کو شامل ہے۔ کیونکہ ان میں سے جو کوئی ایمان لا کر حق کی اتباع کرتا ہے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گواہی دیتا ہے اور نہایت صراحت سے آپ کے حق میں شہادت دیتا ہے اور ان میں سے جو کوئی گواہی کو چھپاتا ہے تو اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی خبر کہ اس کے پاس شہادت ہے، اس کی خبر سے زیادہ بلیغ ہے۔ اگر اس کے پاس شہادت نہ ہوتی، تو دلیل کے ساتھ اپنے طلب شہادت کو رد کردیتا۔ پس اس کو سکوت دلالت کرتا ہے کہ اس کے پاس رسول کے حق میں شہادت موجود ہے جو اس نے چھپا رکھی ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اہل کتاب سے گواہی لینے کا حکم اس لئے دیا ہے کہ وہ گواہی دینے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ ہر معاملے میں صرف اسی شخص سے گواہی لی جانی چاہئے جو اس کا اہل ہو اور دوسروں کی نسبت اس بارے میں زیادہ علم رکھتا ہو۔ اس کے برعکس وہ لوگ جو اس معاملے میں بالکل اجنبی ہوں، مثلاً ان پڑھ مشرکین عرب وغیرہ، تو ان سے شہادت طلب کرنے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ انہیں اسی معاملے کی کوئی خبر ہے نہ انہیں اس کی معرفت ہی حاصل ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ الرعد
0 ابراھیم
1 اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ اس نے مخلوق کے فائدے کے لئے اپنے رسول محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کتاب نازل فرمائی تاکہ وہ لوگوں کو کفر و جہالت، اخلاق بد اور مختلف اقسام کے گناہوں کی تاریکی سے نکال کر علم و ایمان اور اخلاق حسنہ کی روشنی میں لے جائے اور فرمایا ﴿بِإِذْنِ رَبِّهِمْ ﴾ ” ان کے رب کے حکم سے“ یعنی اللہ تعالیٰ کی محبوب مراد صرف اللہ تعالیٰ کے اراے اور اس کی مدد ہی سے حاصل ہوسکتی ہے۔ اس آیت کر یمہ میں بندوں کے لئے ترغیب ہے کہ وہ اپنے رب سے مدد طلب کریں۔ پھر اللہ نے اس ” نور“ کی تفسیر بیان فرمائی جس کی طرف یہ کتاب راہنمائی کرتی ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿إِلَىٰ صِرَاطِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ﴾ ” غالب اور قابل تعریف (اللہ) کے راستے کی طرف“ یعنی اللہ تعالیٰ کے عزت و تکریم والے گھر تک پہنچانے والا راستہ، جو حق کے علم اور اس پر عمل کو متضمن ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف پہنچانے والے راستے کا ذکر کرنے کے بعد ﴿الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ ﴾ کا ذکر اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جو کوئی اس راستے پر گامزن ہوتا ہے۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ کے سوا اس کے کوئی اعوان و انصار نہ ہوں، تب بھی وہ اللہ تعالیٰ کے غلبے کے ساتھ غالب اور طاقتور ہے، وہ اپنے تمام امور میں قابل ستائش اور اچھے انجام کا مالک ہے۔ نیز یہ اس بات پر دلالت کرے کہ اللہ تعالیٰ کا راستہ، اللہ تعالیٰ کی صفات کمال اور نعوت جلال پر سب سے بڑی دلیل ہے۔ اور جس نے اپنے بندوں کے لئے یہ راستہ مقرر کیا ہے، وہ غالب، قوت والا، اپنے اقوال و افعال اور احکام میں قابل ستائش ہے۔ وہ معبود ہے اور تمام عبادات کا مستحق ہے یہ عبادات اس صراط مستقیم کی منازل ہیں۔ اللہ تعالیٰ، تخلیق، رزق اور تدبیر کے اعتبار سے جس طرح آسمانوں اور زمین کا مالک ہے اسی طرح وہ اپنے بندوں پر احکام دینی بھی نافذ کرتا ہے کیونکہ وہ اس کی ملکیت میں ہیں اور اللہ تعالیٰ کے لائق نہیں کہ وہ ان کو بے فائدہ چھوڑ دے۔ ابراھیم
2 جب اللہ تعالیٰ نے دلیل اور برہان واضح کردی تو اس نے ان لوگوں کو سخت وعید سنائی ہے جو اس کے سامنے سرتسلیم خم نہیں کرتے، چنانچہ فرمایا : ﴿وَوَيْلٌ لِّلْكَافِرِينَ مِنْ عَذَابٍ شَدِيدٍ﴾ ” اور ہلاکت ہے کافروں کے لئے سخت عذاب کی صورت میں۔“ یعنی اس کی شدت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے نہ اس کا وصف بیان کیا جاسکتا ہے۔ ابراھیم
3 پھر اللہ تعالیٰ نے ان کفار کا وصف بیان کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ الَّذِينَ يَسْتَحِبُّونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا عَلَى الْآخِرَةِ﴾ ” وہ لوگ جو دنیا کی زندگی کو پسند کرتے ہیں آخرت پر“ پس وہ دنیا پر راضی اور مطمئن ہو کر آخرت سے غافل ہوگئے۔ ﴿وَيَصُدُّونَ﴾ ” اور (لوگوں کو)روکتے ہیں“ ﴿عَن سَبِيلِ اللَّـهِ﴾ ” اللہ کے راستے سے“ وہ راستہ جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے مقرر فرمایا ہے اور اسے اپنی کتابوں میں اور اپنے رسولوں کی زبان پر خوب بیان کردیا ہے مگر یہ لوگ اپنے آقا و مولا کے مقابلے میں عداوت و محاربت کا اظہار کرتے ہیں ﴿وَيَبْغُونَهَا﴾ ” اور تلاش کرتے ہیں اس میں“ یعنی اللہ تعالیٰ کے راستے میں ﴿عِوَجًا ۚ﴾ ” کجی“ یعنی وہ اس راستے کو خراب کرنا چاہتے ہیں تاکہ اس کے خلاف نفرت پیدا ہوجائے۔ مگر اللہ تعالیٰ اپنی روشنی کو پورا کر کے رہے گا خواہ کفار کو ناگوار ہی کیوں نہ گزرے۔ ﴿ أُولَـٰئِكَ﴾ یعنی وہ لوگ جن کا وصف بیان کیا گیا ہے،﴿ فِي ضَلَالٍ بَعِيدٍ﴾ ” دور کی گمراہی میں ہیں۔“ کیونکہ وہ خود گمراہ ہوئے، لوگوں کو گمراہ کیا، انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کی اور ان کے خلاف جنگ کی۔ پس اس سے بڑھ کر اور کون سی گمراہی ہے؟ لیکن اہل ایمان کا معاملہ اس کے برعکس ہے وہ اللہ تعالیٰ اور اس کی آیات پر ایمان رکھتے ہیں، دنیا پر آخرت کو ترجیح دیتے ہیں، وہ لوگوں کو اللہ کے راستے کی طرف دعوت دیتے ہیں، وہ امکان بھر اس راستے کو خوبصورت بناتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ یہ راستہ سیدھا رہے۔ ابراھیم
4 یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا اپنے بندوں پر لطف و کرم ہے کہ ” اس نے ہر ایک رسول کو اس کی قوم کی زبان میں بھیجا تاکہ وہ ان کے سامنے ان امور کو واضح کرے جن کے وہ محتاج ہیں“ اور وہ ان کی زبان کے علاوہ کسی اور زبان میں کتاب لے کر آیا ہوتا تو وہ اس زبان کو سیکھنے کے محتاج ہوتے جس میں رسول کلام کرتا ہے تب کہیں جا کر رسول کی باتیں ان کی سمجھ میں آتیں پس جب رسول ان تمام امور کو بیان کردیتا ہے جن کا انہیں حکم دیا گیا اور جن سے ان کو روکا گیا ہے اور ان پر اللہ تعالیٰ کی حجت قائم ہوجاتی ہے تو ان میں سے جو لوگ ہدایت کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کرتے، اللہ تعالیٰ انکو گمراہ کردیتا ہے اور جن کو اپنی رحمت کے لئے مختص کرلیتا ہے ان کو راہ ہدایت سے نواز دیتا ہے۔ ﴿وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ﴾ ” اور وہ غالب حکمت والا ہے۔“ جس کا غلبہ یہ ہے کہ وہ ہدایت دینے، گمراہ کرنے اور جس طرف چاہے دلوں کو پھیر دینے میں منفرد ہے اور اس کی حکمت یہ ہے کہ وہ ہدایت اور گمراہی کو اسی مقام پر واقع کرتا ہے جو ان کے لائق ہے۔ اس آیت کریمہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ وہ علوم عربیہ، جن کے ذریعے سے کلام اللہ اور کلام رسول کی توضیح و تبیین ہوتی ہے، امور مطلوبہ میں شمار ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کو محبوب ہیں کیونکہ ان کے بغیر کتاب اللہ کی معرفت کی تکمیل نہیں ہوتی۔ البتہ اگر لوگوں کی حالت یہ ہو کہ وہ ان علوم عربیہ کے محتاج نہ ہوں اور یہ تب ہی ممکن ہے کہ انہیں عربی زبان پر عبور حاصل ہو اور ان کے چھوٹے بچوں نے عربی زبان میں تعلیم و تربیت حاصل کی ہو اور عربی زبان ان کی طبیعت بن گئی ہو، تو اس صورت میں اس مشقت میں پڑنے کی ان کو ضرورت نہیں اور وہ ابتدا ہی میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دین اس طرح اخذ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جس طرح صحابہ کرام(نے بغیر علوم آلیہ اور عبریہ کے) دین اخذ کیا تھا۔ ابراھیم
5 اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ اس نے اپنی بڑی بڑی نشانیوں کے ساتھ موسیٰ کو مبعوث فرمایا جو آپ کی رسالت کی صداقت اور صحت پر دلالت کرتی تھیں اور ان کو بھی وہی حکم دیا جو اپنے رسول محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیا ہے بلکہ یہ وہی حکم ہے جو تمام انبیاء و مرسلین نے اپنی قوم کو دیا تھا ﴿أَنْ أَخْرِجْ قَوْمَكَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ ﴾ ” یہ کہ نکال اپنی قوم کو اندھیروں سے روشنی کی طرف“ یعنی جہالت، کفر اور اس کی فروعات کی تاریکیوں سے نکال کر علم، ایمان اور اس کی توابع کی روشنی کی طرف ﴿وَذَكِّرْهُم بِأَيَّامِ اللَّـهِ ۚ﴾ ’’اور یاد دلا ان کو اللہ کے دن“ یعنی ان کو اللہ تعالیٰ کی نعمتیں اور اس کے احسانات اور جھٹلانے والی قوموں (کفار) کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے سلوک اور وقائع یاد دلایئے تاکہ یہ اس کی نعمت کا شکر ادا کریں اور اس کے عذاب سے ڈریں۔ ﴿إِنَّ فِي ذَٰلِكَ ﴾ ” اس میں“ یعنی بندوں کے متعلق ایام الٰہی میں ﴿ لَآيَاتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُورٍ﴾ ” ہر صابر و شاکر کے لئے نشانیاں ہیں۔“ یعنی مصائب، تکلیف اور تنگی میں نہایت صابر، اور خوشحالی اور نعمتوں پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے والے۔ ابراھیم
6 ایام الٰہی سے اللہ تعالیٰ نے اپنی کامل قدرت، بے پایاں احسان اور اپنے کامل عدل و حکمت پر استدلال کیا ہے۔ اس لئے موسیٰ علیہ السلام نے اپنے رب کے حکم کی میل لی اور ان کو اللہ کی نعمتیں یاد دلاتے ہوئے فرمایا : ﴿اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّـهِ عَلَيْكُمْ ﴾ ” اللہ نے تم پر جو انعامات کئے ہیں ان کو یاد کرو۔“ یعنی اپنے دل اور زبان سے اللہ تعالیٰ کی نعمت کو یاد کرو۔ ﴿إِذْ أَنجَاكُم مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَسُومُونَكُمْ﴾ ” جب اس نے تمہیں فرعونیوں سے بچایا، وہ چکھاتے تھے تمہیں“ یعنی تمہیں عذاب دیتے تھے ﴿سُوءَ الْعَذَابِ﴾ ” برے عذاب“ یعنی سخت ترین عذاب، پھر اس عذاب کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا : ﴿وَيُذَبِّحُونَ أَبْنَاءَكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِسَاءَكُمْ﴾ ” اور وہ تمہارے بیٹوں کو ذبح کردیتے اور تمہاری عورتوں کو زندہ رکھتے“ یعنی وہ تمہاری عورتوں کو قتل نہیں کرتے تھے بلکہ ان کو زندہ رکھتے تھے ﴿ وَفِي ذَٰلِكُم﴾ ” اور اس میں“ یعنی اس نجات میں ﴿ بَلَاءٌ مِّن رَّبِّكُمْ عَظِيمٌ﴾ ” تمہارے رب کی طرف سے عظیم نعمت تھی۔“ یعنی عظیم نعمت تھی یا (اس کا معنی یہ بھی ہوسکتا ہے کہ) اس عذاب میں جس میں تمہیں فرعون اور اس کے سرداروں نے مبتلا کیا تھا، تمہارے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بہت بڑی آزمائش تھی تاکہ وہ دیکھے کہ آیا تم اس سے عبرت حاصل کرتے ہو یا نہیں۔ ابراھیم
7 اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی نعمتوں پر شکر کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا : ﴿وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكُمْ﴾ ” جب تمہارے رب نے آگاہ کیا‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے اعلان فرمایا اور وعدہ کیا ﴿لَئِن شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ﴾ ” اگر تم شکر کرو گے، تو میں تمہیں اور زیادہ دوں گا“ یعنی اپنی نعمتوں میں اضافہ کروں گا ﴿وَلَئِن كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ﴾ ” اور اگر تم نے کفر کیا، تو میرا عذاب نہایت سخت ہے‘‘ عذاب کی ایک صورت یہ ہے کہ وہ ان نعمتوں کو زائل کر دے جو انہیں عطا کی تھیں۔ شکر سے مراد، دل سے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا اعتراف کرنا، ان نعمتوں پر دل سے اس کی حمد و ثنا کرنا اور انہیں اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق صرف کرنا ہے اور ان امور کے برعکس رویہ اختیار کرنا، کفران نعمت ہے۔ ابراھیم
8 ﴿ وَقَالَ مُوسَىٰ إِن تَكْفُرُوا أَنتُمْ وَمَن فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا ﴾ ” موسیٰ نے کہا، اگر تم اور جو لوگ زمین میں ہیں سارے کفر کریں“ تو تم اللہ تعالیٰ کو کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتے ﴿فَإِنَّ اللَّـهَ لَغَنِيٌّ حَمِيدٌ﴾ ” بے شک اللہ تعالیٰ بے نیاز ہے سب خوبیوں والا۔“ پس نیکیاں اس کی بادشاہی میں اضافہ کرسکتی ہیں نہ گناہ اس کی بادشاہی میں کوئی کمی واقع کرسکتے ہیں، وہ غنا میں کامل ہے اور وہ اپنی ذات، اپنے اسماء و صفات اور افعال میں قابل حمد و ستائش ہے اس کی ہر صفت، صفت حمد و کمال ہے۔ اس کا ہر نام اچھا نام ہے اور اس کا ہر فعل، فعل جمیل ہے۔ ابراھیم
9 جھٹلانے والی قوموں کے پاس جب ان کے رسول آئے اور انہوں نے ان کو جھٹلایا تو ان قوموں پر عذاب نازل ہوا اور اللہ تعالیٰ نے اس دنیا ہی میں ان کو جو سزا دے دی یہ عذاب لوگوں نے دیکھا اور سنا، پس اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اس عذاب سے ڈراتے ہوئے فرماتا ہے : ﴿أَلَمْ يَأْتِكُمْ نَبَأُ الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ قَوْمِ نُوحٍ وَعَادٍ وَثَمُودَ﴾ ” کیا تمہارے پاس ان لوگوں کی خبر نہیں آئی جو تم سے پہلے تھے، قوم نوح، عاد اور ثمود“ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں نہایت بسط و تفصیل سے ان کے واقعات ذکر فرمائے ہیں۔ ﴿وَالَّذِينَ مِن بَعْدِهِمْ ۛ لَا يَعْلَمُهُمْ إِلَّا اللَّـهُ﴾ ” اور جو ان کے بعد ہوئے، جن کو صرف اللہ جانتا ہے“ انکی کثرت اور ان کی تاریخ مٹ جانے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے سوا انہیں کوئی نہیں جانتا ﴿جَاءَتْهُمْ رُسُلُهُم بِالْبَيِّنَاتِ﴾ ” ان کے پاس ان کے رسول نشانیاں لے کر آئے“ یعنی ان کے رسول ان کے پاس ایسے دلائل لے کر آئے جو ان کی تعلیمات کی صداقت پر دلالت کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے جو بھی رسول مبعوث فرمایا اس کو ایسی آیات عطا فرمائیں جو انسان کے بس میں نہ تھیں۔ جب ان کے رسول واضح دلائل کے ساتھ ان کے پاس آئے تو انہوں نے ان دلائل کے سامنے سر تسلیم خم نہ کیا بلکہ انہوں نے نہایت تکبر کے ساتھ ان کو ٹھکرا دیا۔ ﴿فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْوَاهِهِمْ﴾ ” پس لوٹائے انہوں نے اپنے ہاتھ اپنے مونہوں میں“ یعنی وہ اس وحی پر ایمان نہ لائے جو رسول لے کر آئے تھے انہوں نے کوئی ایسی بات نہ کہی جو ان کے ایمان پر دلالت کرتی ہو۔ یہ آیت کریمہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی مانند ہے۔ ﴿يَجْعَلُونَ أَصَابِعَهُمْ فِي آذَانِهِم مِّنَ الصَّوَاعِقِ حَذَرَ الْمَوْتِ ۚ﴾(البقرۃ:2؍ 19) ” تو یہ بجلی کی کڑک سے ڈر کر موت کے خوف سے اپنے کانوں میں انگلیاں دے لیتے ہیں۔“ ﴿وَقَالُوا﴾ اور صراحت کے ساتھ اپنے رسولوں سے انہوں نے کہا : ﴿إِنَّا كَفَرْنَا بِمَا أُرْسِلْتُم بِهِ وَإِنَّا لَفِي شَكٍّ مِّمَّا تَدْعُونَنَا إِلَيْهِ مُرِيبٍ﴾ ” ہم نے انکار کیا اس چیز کا جس کے ساتھ تمہیں بھیجا گیا اور بے شک ہمیں اس چیز میں جس کی طرف تم ہمیں بلا رہے ہو ایک خلجان میں ڈالنے والا شک ہے۔‘‘ ابراھیم
10 اس بارے میں انہوں نے یقیناً جھوٹ کہا تھا اور ظلم کیا تھا۔ اسی لئے ﴿قَالَتْ رُسُلُهُمْ ﴾ ” ان کے رسولوں نے (ان سے) کہا‘‘: ﴿أَفِي اللَّـهِ شَكٌّ﴾ ” کیا اللہ کے بارے میں بھی شک ہے؟“ ﴿فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ﴾ ” جو آسمان اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے۔“ یعنی جس کے وجود پر تمام اشیاء کے وجود کا دار و مدار ہے۔ تو اس کے پاس کوئی مضبوط دلیل نہیں جو معلوم ہو، حتیٰ کہ امور محسوسہ بھی اس کی تائید نہیں کرتے۔ اس لئے انبیاء و مرسلین نے ان کو اس طرح خطاب فرمایا ہے کہ اس میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں۔ ﴿يَدْعُوكُمْ﴾ ” وہ تمہیں بلاتا ہے“ یعنی وہ تمہیں تمہارے فائدے کے امور اور تمہارے مصالح کی طرف بلاتا ہے ﴿لِيَغْفِرَ لَكُم مِّن ذُنُوبِكُمْ وَيُؤَخِّرَكُمْ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى﴾ ” تاکہ تمہارے گناہ بخشے اور فائدہ پہنچانے کے لئے ایک مدت مقرر تک تم کو مہلت دے۔“ یعنی تمہیں رسول کی دعوت پر لبیک کہنے کے اجر میں دنیاوی اور اخروی ثواب عطا کرے۔ اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس لئے دعوت نہیں دی کہ تمہاری عبادت سے مستفید ہو بلکہ تمہاری عبادت کا فائدہ تمہاری ہی طرف لوٹے گا۔ انہوں نے اپنے رسولوں کی دعوت کو اس طرح ٹھکرا دیا جیسے جاہل اور بے وقوف لوگ ٹھکراتے ہیں ﴿قَالُوا ﴾ انہوں نے اپنے رسولوں سے کہا ﴿ إِنْ أَنتُمْ إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا﴾ ” تم تو ہم جیسے انسان ہی ہو“ یعنی تمہیں ہم پر نبوت اور رسالت کی بنا پر کیسے فضیلت حاصل ہے؟ ﴿ تُرِيدُونَ أَن تَصُدُّونَا عَمَّا كَانَ يَعْبُدُ آبَاؤُنَا ﴾ ” تم چاہتے ہو کہ تم ہمیں ان چیزوں سے روک دو جن کی عبادت ہمارے باپ دادا کرتے رہے“ تب ہم تمہاری سکتے ہیں جب کہ تم ہماری ہی طرف انسان ہو؟ ﴿فَأْتُونَا بِسُلْطَانٍ مُّبِينٍ ﴾ ”پس ہمارے پاس کوئی کھلی دلیل لاؤ۔“ یعنی واضح دلیل اور حجت پیش کرو اور دلیل سے ان کی مراد وہ آیت اور معین معجزہ تھا جس کا وہ مطالبہ کرتے تھے، حالانکہ گزشتہ صفحات میں گزر چکا ہے کہ ان کے رسول ان کے پاس واضح دلائل لے کر آئے تھے۔ ابراھیم
11 ﴿قَالَتْ لَهُمْ رُسُلُهُمْ ﴾ ان کے رسولوں نے ان کے مطالبے اور اعتراض کا جواب دیتے ہوئے فرمایا : ﴿إِن نَّحْنُ إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ﴾ ” ہم تمہارے ہی جیسے آدمی ہیں۔“ یعنی یہ صحیح اور حقیقت ہے کہ ہم تمہاری ہی طرح بشر ہیں ﴿وَلَـٰكِنَّ ﴾ مگر تمہارا یہ اعتراض اس حق کو باطل نہیں کرسکتا جسے ہم لے کر آئے ہیں، کیونکہ ﴿اللَّـهَ يَمُنُّ عَلَىٰ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ﴾ ” اللہ اپنے بندوں میں جس پر چاہتا ہے، احسان فرماتا ہے۔“ جب اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنی وحی اور رسالت سے نواز دیا، تو یہ اس کا فضل و احسان ہے اور کسی کے بس میں نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کو روک سکے اور اس کو اس کی نوازشوں سے منع کرسکے۔ تم اس چیز میں غور کرو جو تمہارے پاس لے کر آئے ہیں اگر وہ حق ہے تو اسے قبول کرلو اور اگر وہ حق نہیں ہے تو بے شک اسے ٹھکرا دو۔ مگر ہم جو کچھ لے کر آئے اسے ٹھکرانے کے لئے ہمارے حال کو اپنے لئے دلیل نہ بناؤ اور تمہارا یہ کہنا ﴿فَأْتُونَا بِسُلْطَانٍ مُّبِينٍ﴾ ” کوئی واضح دلیل لے کر آؤ“ تو یہ چیز ہمارے ہاتھ میں نہیں ہے اور ہمارے اختیار میں تو کچھ بھی نہیں۔ ﴿وَمَا كَانَ لَنَا أَن نَّأْتِيَكُم بِسُلْطَانٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّـهِ﴾ ” ہمارا کام نہیں کہ تمہارے پاس کوئی دلیل لے آئیں، مگر اللہ کی حکم سے“ یہ اللہ تعالیٰ ہی ہے اگر وہ چاہے تو تمہارے پاس معجزہ لے آئے اور اگر وہ نہ چاہے تو تمہارے پاس معجزہ نہ لائے، اور وہ جو کچھ بھی کرتا ہے اپنی حکمت اور رحمت کے تقاضے کے مطابق کرتا ہے۔ ﴿ وَعَلَى اللَّـهِ﴾ ” اللہ تعالیٰ ہی پر“ یعنی اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور پر نہیں ﴿فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ﴾ ” چاہیے کہ مومن بھروسہ کریں“ پس وہ اپنے مصالح کے حصول اور ضرر کو روکنے کے لئے اللہ تعالیٰ ہی پر بھروسہ کرتے ہیں۔ کیونکہ انہیں علم ہے کہ اللہ تعالیٰ کفایت تامہ، قدرت کاملہ اور بے پایاں احسان کا مالک ہے۔ جلب مصالح اور دفع ضرر میں آسانی پیدا کرنے میں اہل ایمان اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہیں اور ان کا توکل ان کے ایمان کی مقدار کے مطابق ہوتا ہے۔ اس آیت کریمہ سے توکل کا وجوب مستفاد ہوتا ہے نیز اس سے ثابت ہوتا ہے کہ توکل لوازمات ایمان اور بڑی بڑی عبادات میں شمار ہوتا ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کو محبوب اور جن پر اللہ تعالیٰ راضی ہے کیونکہ تمام عبادات توکل پر موقوف ہیں۔ ابراھیم
12 ﴿وَمَا لَنَا أَلَّا نَتَوَكَّلَ عَلَى اللَّـهِ وَقَدْ هَدَانَا سُبُلَنَا﴾ ” اور ہم کو کیا ہوا کہ ہم اللہ پر بھروسہ نہ کریں اور وہ سجھاچکا ہمیں ہماری راہیں“ یعنی کون سی چیز ہمیں اللہ تعالیٰ پر توکل کرنے سے روک سکتی ہے۔ حالانکہ ہم واضح حق اور ہدایت پر ہیں اور جو کوئی حق اور ہدایت کی راہ پر گامزن ہوتا ہے تو یہ ہدایت اس کے لئے توکل کی تکمیل کی موجب بنتی ہے۔ اسی طرح یہ معلوم ہونا کہ، اللہ تعالیٰ راہ ہدایت پر چلنے والے کے بوجھ کی کفالت کرتا اور اس کے لئے کافی ہوجاتا ہے، توکل کی دعوت دیتا ہے۔ اس کے برعکس جو کوئی حق اور ہدایت کی راہ اختیار نہیں کرتا تو اللہ تعالیٰ اس کی کفالت و کفایت کا ضامن نہیں ہوتا، پس اس کا حال متوکل کے حال کے برعکس ہوتا ہے۔ اس آیت کریمہ میں، انبیاء ومرسلین کی طرف سے گویا اپنی قوم کے لئے ایک عظیم معجزے کی طرف اشارہ ہے اور اس کی تفصیل یہ ہے کہ انبیاء کی قوم غالب حالات میں، اقتدار اور غلبہ کی مالک ہوتی ہے۔ اس کے رسول ان کو مقابلے کی دعوت دیتے ہوئے کہتے تھے کہ وہ ان کی چالوں اور سازشوں کو ناکام کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہیں اور انہیں اللہ تعالیٰ کی کفایت کا پورا یقین ہے اور کفار کی انبیاء ومرسلین کی بیخ کنی کی خواہش اور نورحق کو بجھانے کی حرص کے باوجود، اللہ نے انبیاء ومرسلین کی کفایت کی اور انہیں کفار کے مکروکید سے بچایا۔ یہ جناب نوح علیہ السلام کے اس قول کی مانند ہے جو انہوں نے اپنی قوم سے کہا تھا : ﴿يَا قَوْمِ إِن كَانَ كَبُرَ عَلَيْكُم مَّقَامِي وَتَذْكِيرِي بِآيَاتِ اللَّـهِ فَعَلَى اللَّـهِ تَوَكَّلْتُ فَأَجْمِعُوا أَمْرَكُمْ وَشُرَكَاءَكُمْ ثُمَّ لَا يَكُنْ أَمْرُكُمْ عَلَيْكُمْ غُمَّةً ثُمَّ اقْضُوا إِلَيَّ وَلَا تُنظِرُونِ ﴾ ( : یونس : 10؍ 71) ” اے میری قوم ! اگر تمہارے درمیان میرا قیام اور اللہ تعالیٰ کی آیات کے ذریعے تمہیں میرا نصیحت کرنا تم پر گراں گزرتا ہے، تو میرا توکل اللہ پر ہے، پس تم اپنے ٹھہرائے ہوئے شریکوں کو ساتھ لے کر ایک فیصلے پر متفق ہوجاؤ اور تمہارے اس فیصلے کا کوئی پہلو تم پر پوشیدہ نہ رہے پھر میرے خلاف جو کچھ کرنا چاہو کر گزرو اور مجھے کوئی مہلت نہ دو۔“ اسی طرح ہود علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا تھا : ﴿إِنِّي أُشْهِدُ اللَّـهَ وَاشْهَدُوا أَنِّي بَرِيءٌ مِّمَّا تُشْرِكُونَ  مِن دُونِهِ ۖ فَكِيدُونِي جَمِيعًا ثُمَّ لَا تُنظِرُونِ﴾ (ھود : 11؍ 54، 55)” میں اللہ کو گواہ بناتا ہوں اور تم بھی گواہ رہو کہ تم نے جو اللہ کے شریک ٹھہرا رکھے ہیں میں ان سے بیزار ہوں، پس تم سب مل کر میرے خلاف چال چل لو اور مجھے ہرگز مہلت نہ دو۔ “ ﴿ وَلَنَصْبِرَنَّ عَلَىٰ مَا آذَيْتُمُونَا ۚ﴾ ” اور ہم ضرور ان تکلیفوں پر صبر کریں گے جو تم ہمیں دو گے“ یعنی ہم تمہیں حق کی دعوت دیتے اور تمہیں وعظ و نصیحت کرتے رہیں گے اور تمہاری طرف سے ہمیں جو تکلیف پہنچے گی ہم اس کی پروانہ کریں گے، ہم اللہ تعالیٰ سے اجر کی امید رکھتے ہیں اور تمہاری خیرخواہی کرتے ہوئے اپنے آپ کو تمہاری اذیتوں کا عادی بنائیں گے۔ شاید کثرت نصیحت کی بنا پر اللہ تعالیٰ تمہیں ہدایت سے نواز دے۔ ﴿وَعَلَى اللَّـهِ﴾ ” اور صرف اللہ پر“ اور اللہ تعالیٰ کے سوا کسی پر نہیں، ﴿فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُونَ﴾ ” چاہیے کہ بھروسہ کریں بھروسہ کرنے والے۔‘‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ پر توکل ہر بھلائی کی کنجی ہے۔۔۔ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ انبیاء ومرسلین توکل کے بہترین مطالب اور بلند ترین مراتب پر فائز ہیں اور وہ ہے اقامت دین میں، اللہ تعالیٰ کی مدد میں، اس کے بندوں کی راہنمائی اور ان سے گمراہی کے ازالے میں اللہ تعالیٰ پر توکل کرنا اور یہ کامل ترین توکل ہے۔ ابراھیم
13 جب اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے انبیاء ورسل کی اپنی قوم کے سامنے دعوت، اس پر دوام اور عدم ملال کا ذکر فرمایا، تو ان کی قوم کے ساتھ ان کا منتہائے حال بھی بیان فرمایا، چنانچہ فرمایا : ﴿وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِرُسُلِهِمْ﴾ ” اور جو کافرتھے انہوں نے اپنے رسولوں سے کہا“ ان کو دھمکی دیتے ہوئے کہا : ﴿لَنُخْرِجَنَّكُم مِّنْ أَرْضِنَا أَوْ لَتَعُودُنَّ فِي مِلَّتِنَا﴾ ” ہم تمہیں اپنے وطن سے نکال دیں گے یا پھر تم ہمارے مذہب میں واپس آجاؤ“ یہ انبیاء کی دعوت کو ٹھکرانے کا سب سے زیادہ بلیغ طریقہ ہے اور اس کے بعد ان پر کوئی امید باقی نہیں رہتی۔ کیونکہ انہوں نے ہدایت ہی سے ردگردانی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ انہوں نے رسولوں کو ان کے وطن سے نکال دینے کی بھی دھمکی دی اور وطن کو صرف اپنی طرف منسوب کیا، ان کا زعم تھا کہ وطن پر رسولوں کا کوئی حق نہیں۔ اور یہ سب سے بڑا ظلم ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو روئے زمین پر پھیلایا اور ان کو اپنی عبادت کا حکم دیا اور زمین اور زمین کی ہر چیز کو ان کے لئے مسخر کردیا، اور وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت پر ان چیزوں سے مدد لیتے ہیں۔ پس جو کوئی ان چیزوں کو اللہ تعالیٰ کی عبادت میں استعمال کرتا ہے یہ اس کے لئے جائز ہیں اور اس پر کوئی گرفت نہیں اور جو کوئی ان کو کفر اور مختلف قسم کے گناہ اور معاصی میں استعمال کرتا ہے تو یہ اشیاء اس کے لئے خالص ہیں نہ اس کے لئے حلال ہیں۔ پس معلوم ہوا کہ دشمنان انبیاء، درحقیقت، زمین کی کسی شے کے مالک نہیں، وہ زمین سے جس سے وہ انبیاء کرام کو جلاوطن کرنے کی دھمکی دیتے ہیں اس کی کسی چیز کے بھی مالک نہیں۔۔۔ اگر ہم مجرد عادت کی طرف رجوع کریں تو انبیاء ومرسلین بھی اہل بلاد میں شمار ہوتے ہیں اور ان کے وطن ہی میں بسنے والے افراد ہیں، تب وہ انہیں ان کے واضح اور صریح حق سے کیوں محروم کررہے ہیں کیا یہ تمام تر دین اور مروت کے منافی نہیں؟۔۔۔ اسی لئے جب رسولوں کے خلاف ان کی سازشیں اس حال کو پہنچ گئیں تو اس کے سوا کچھ باقی نہ رہا کہ اللہ اپنے حکم کو نافذ کردے اور اپنے اولیاء کی مدد کرے۔ ﴿فَأَوْحَىٰ إِلَيْهِمْ رَبُّهُمْ لَنُهْلِكَنَّ الظَّالِمِينَ﴾ ” پس ان کے رب نے ان کی طرف وحی کی کہ ہم ضرور ظالموں کو ہلاک کردیں گے“ عذاب کی مختلف اقسام کے ذریعے سے۔ ابراھیم
14 ﴿وَلَنُسْكِنَنَّكُمُ الْأَرْضَ مِن بَعْدِهِمْ ۚ ذَٰلِكَ﴾ ” اور ان کے بعد ہم تم کو زمین میں آباد کریں گے، یہ“ یعنی یہ اچھا انجام جس سے اللہ تعالیٰ نے انبیاء ورسل اور ان کے پیروکاروں کو بہرہ ور کیا، اس شخص کی جزا ہے ﴿ لِمَنْ خَافَ مَقَامِ﴾ ” جو میرے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرے“ یعنی جو دنیا میں، مرے حضور کھڑا ہونے سے ڈرتا ہو اور اللہ تعالیٰ کی نگہبانی کا اس شخص کی مانند خوف کھاتا ہو جسے علم ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے دیکھ رہا ہے۔ ﴿وَخَافَ وَعِيدِ﴾ ” اور میرے عذاب سے خوف کرے۔“ یعنی میری وعید سے ڈرتا ہو جو میں نے اپنے نافرمانوں کو سنائی ہے، پس یہ ڈر اس بات کا موجب ہے کہ وہ ان امور سے رک جائے جن کو اللہ تعالیٰ ناپسند کرتا ہے اور ان کی طرف سبقت کرے جن کو اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے۔ ابراھیم
15 ﴿وَاسْتَفْتَحُوا﴾ ” اور انہوں نے فیصلہ طلب کیا“ یعنی کفار نے۔ یعنی یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے فیصلے، اس کے اولیاء اور اس کے اعداء کے درمیان تفریق وامتیاز کے مطالبے میں جلدی مچائی، پس انہوں نے جو فیصلہ طلب کیا تھا، وہ ان کے پاس آگیا۔ ورنہ اللہ تعالیٰ تو نہایت حلم والا ہے۔ وہ اپنے نافرمانوں کو سزادینے میں جلدی نہیں کرتا۔ ﴿وَخَابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِيدٍ﴾ ” اور نامراد ہوا ہر سرکش ضدی“ یعنی جو اللہ تعالیٰ، حق اور اللہ کے بندوں کے مقابلے میں سرکشی دکھاتا ہے، زمین میں تکبر کرتا ہے اور انبیاء ورسل کے خلاف عنادرکھتا ہے اور ان کی مخالفت کرتا ہے، وہ دنیا و آخرت میں خائب وخاسر ہوتا ہے۔ ابراھیم
16 ﴿مِّن وَرَائِهِ جَهَنَّمُ﴾ ” اس کے پیچھے دوزخ ہے“ یعنی جہنم اس معاند حق، جابر شخص کی گھات میں ہے وہ ضرور اس جہنم میں وارد ہوگا، تب اسے سخت عذاب کا مزاچکھایا جائے گا۔ ﴿وَيُسْقَىٰ مِن مَّاءٍ صَدِيدٍ﴾ ” اور اسے پیپ کا پانی پلایا جائے گا“ جو اپنے رنگ، ذائقے اور بدبو میں خون اور پیپ جیسا ہوگا اور وہ انتہائی گرم ہوگا۔ ابراھیم
17 ﴿ يَتَجَرَّعُهُ﴾ ’’وہ اس کو گھونٹ گھونٹ پیے گا۔‘‘ یعنی سخت پیاس کے مارے گھونٹ گھونٹ پیے گا۔ ﴿ وَلَا يَكَادُ يُسِيغُهُ﴾” اور اس کو گلے سے نہیں اتار سکے گا“ کیونکہ جب وہ اسے اپنے منہ کے قریب لے کر جائے گا تو وہ چہرے کو بھون کر رکھ دے گا اور جب یہ پانی پیٹ میں جائے گا تو جہاں سے گزرے گا انتڑیوں کو کاٹ کر رکھ دے گا۔ ﴿وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِن كُلِّ مَكَانٍ وَمَا هُوَ بِمَيِّتٍ﴾ ” اور اسے ہر جگہ سے موت آئے گی جب کہ وہ مرے گا نہیں“ یعنی اس کو ہرقسم کا سخت عذاب دیا جائے گا اور اپنی شدت کے اعتبار سے عذاب کی ہر نوع موت کی مانند ہوگی مگر اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہوگا کہ اسے موت نہ آئے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿لَا يُقْضَىٰ عَلَيْهِمْ فَيَمُوتُوا وَلَا يُخَفَّفُ عَنْهُم مِّنْ عَذَابِهَا ۚ كَذَٰلِكَ نَجْزِي كُلَّ كَفُورٍ وَهُمْ يَصْطَرِخُونَ فِيهَا﴾ ( فاطر : 35؍ 36، 37) ” انہیں موت نہیں آئے گی کہ مرجائیں نہ ان پر عذاب ہی کو ہلکا کیا جائے گا ہم ہر بڑے کافر کو اسی طرح سزادیتے ہیں اور وہ اس میں چلائیں گے“۔ ﴿وَمِن وَرَائِهِ﴾ ” اور اس کے پیچھے“ یعنی جبار، معاند حق کے پیچھے ﴿عَذَابٌ غَلِيظٌ﴾ ” سخت عذاب ہوگا۔“ یعنی نہایت قوی اور سخت عذاب، جس کے وصف اور شدت کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ ابراھیم
18 اللہ تبارک وتعالیٰ کفار کے اعمال کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے۔۔۔ اور ان اعمال سے یا تو وہ اعمال مراد ہیں جو انہوں نے اللہ تعالیٰ کی خاطر کئے ہیں۔ یہ اعمال بے فائدہ جانے، اپنے بطلان اور اپنے اضمحلال میں راکھ کی مانند ہیں جو سب سے گھٹیا اور سب سے ہلکی چیز ہے۔ سخت آندھی والے دن جب سخت ہواچلتی ہے، تو اس راکھ میں سے کچھ بھی باقی نہیں رہتا، اس راکھ کے اڑجانے اور مضمحل ہونے سے روکنے کی قدرت کوئی نہیں رکھتا۔ اسی طرح کفار کے اعمال ہیں ﴿لَّا يَقْدِرُونَ مِمَّا كَسَبُوا عَلَىٰ شَيْءٍ﴾ ” جو وہ کام کرتے رہے ان پر وہ کچھ دسترس نہ رکھیں گے۔“ یعنی وہ اپنے اعمال میں سے ذرہ بھر عمل کے اجر کے حصول پر بھی قادر نہ ہوں گے کیونکہ یہ عمل کفر اور تکذیب پر مبنی ہے ﴿ ذَٰلِكَ هُوَ الضَّلَالُ الْبَعِيدُ﴾ ” یہی ہے دور کی گمراہی“ کیونکہ ان کی کوشش رائیگاں گئی اور ان کا عمل باطل ہوگیا۔ یا ان اعمال سے مراد کفار کے وہ اعمال ہیں جن کے ذریعے سے وہ حق کے خلاف سازشیں کیا کرتے تھے، وہ حق میں جرح اور قدح کیا کرتے تھے۔ ان کے مکروفریب کا وبال انہی کی طرف لوٹ آئے گا۔ اور وہ اللہ تعالیٰ اس کے رسول اور اس کے لشکر اور حق کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکیں گے۔ ابراھیم
19 اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے بندوں کو متنبہ کرتے ہوئے فرماتا ہے : ﴿أَنَّ اللَّـهَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ﴾ ” بے شک اللہ نے پیدا کیا آسمانوں اور زمین کو حق کے ساتھ“ یعنی تاکہ مخلوق اس کی عبادت کرے اور اس کی معرفت حاصل کرے، اور اللہ تعالیٰ ان کو اپنے اوامرونواہی جاری کرے اور مخلوق ان آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان دونوں میں ہے، اس سے اللہ تعالیٰ کی صفات کمال پر استدلال کرے اور ان کو معلوم ہوجائے کہ وہ ہستی جس نے اتنے بڑے اور وسیع آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے وہ تمام مخلوق کو نئے سرے سے دوبارہ پیدا کرنے پر قادر ہے تاکہ ان کی نیکی اور بدی پر ان کو جزاوسزا دے اور اس کی قدرت ومشیت ایسا کرنے سے قاصر نہیں ہے۔ بنا بریں فرمایا : ﴿إِن يَشَأْ يُذْهِبْكُمْ وَيَأْتِ بِخَلْقٍ جَدِيدٍ ﴾ ” اگر وہ چاہے تو تمہیں لے جائے اور نئی مخلوق لے آئے“ اس آیت کریمہ میں اس معنیٰ کا احتمال بھی ہے کہ اللہ تمہیں لے جائے اور تمہاری جگہ کسی اور قوم کو لے آئے جو تم سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے والی ہو اور یہ احتمال بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں فنا کردے اور پھر تمہیں دوبارہ زندہ کرکے ایک نئی تخلیق عطا کرے۔ اس احتمال کے مطابق اس آیت سے قیامت کے احوال کا اثبات ہوتا ہے جن کا ذکر مابعد سطور میں آرہا ہے۔ ابراھیم
20 ﴿وَمَا ذَٰلِكَ عَلَى اللَّـهِ بِعَزِيزٍ﴾ ” اور یہ اللہ کو کچھ بھی مشکل نہیں۔“ یعنی یہ اللہ تعالیٰ کے لئے مشکل نہیں، بلکہ بہت آسان ہے ﴿مَا خَلْقُكُمْ وَلَا بَعْثُكُمْ إِلَّا كَنَفْسٍ وَاحِدَةٍ ﴾ (لقمان: 31؍ 28)” تمہیں پیدا کرنا اور پھر دوبارہ جلا اٹھانا ایک شخص کو پیدا کرنے اور اس کو جلا اٹھانے کی مانند ہے۔“ ﴿مَّا خَلْقُكُمْ وَلَا بَعْثُكُمْ إِلَّا كَنَفْسٍ وَاحِدَةٍ ۗ ﴾( الروم : 30؍ 27) ” وہی تو ہے جو تخلیق کی ابتداء کرتا ہے پھر وہ اس کا اعادہ کرے گا اور یہ دوبارہ پیدا کرنا اس کے لئے زیادہ آسان ہے۔ “ ابراھیم
21 ﴿ وَبَرَزُوا لِلَّـهِ جَمِيعًا﴾ ” اور سب لوگ اللہ کے حضور کھڑے ہوں گے۔“ یعنی قیامت کے روز جب صورپھونکا جائے گا تو تمام مخلوق اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضر ہوگی، سب اپنی اپنی قبروں سے نکل کر اپنے رب کی خدمت میں جائیں گے۔ وہ ایک ہموار زمین میں کھڑے ہوں گے جس میں تو کوئی نشیب وفراز نہ دیکھے گا۔ لوگ اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضر ہوں گے اور اس سے ان کی کوئی بات پوشیدہ نہ رہے گی۔ پس جب وہ اللہ تعالیٰ کے حضور ہوں گے تو آپس میں جھگڑا کریں گے، ہر شخص اپنے آپ کی مدافعت کرے گا۔ مگر وہ ایسا نہیں کرسکیں گے۔ ﴿فَقَالَ الضُّعَفَاءُ﴾ ” پس کمزور کہیں گے“ یعنی پیروی کرنے والے اور مقلدین ﴿ لِلَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا ﴾ ” بڑائی والوں کو“ یہ وہ لوگ ہیں جن کی دنیا میں پیروی کی جاتی تھی جو گمراہی کے میدان میں قیادت کرتے تھے ﴿إِنَّا كُنَّا لَكُمْ تَبَعًا﴾ ” ہم تو تمہارے پیرو تھے۔“ یعنی دنیا میں ہم تمہاری پیروی کرتے تھے، تم ہمیں گمراہی کا حکم دیا کرتے تھے اور گمراہی کو ہمارے سامنے آراستہ کیا کرتے تھے، پس تم نے ہمیں بدراہ کردیا ﴿فَهَلْ أَنتُم مُّغْنُونَ عَنَّا مِنْ عَذَابِ اللَّـهِ مِن شَيْءٍ﴾ ” کیا پس تم ہم کو بچاؤ گے اللہ کے کسی عذاب سے کچھ“ یعنی خواہ یہ عذاب سے بچانا ذرہ بھر ہی کیوں نہ ہو ﴿ قَالُوا﴾ یعنی قائدین اور سردار کہیں گے جیسے ہم گمراہ تھے ویسے ہی ہم نے تمہیں گمراہ کردیا۔ اور ﴿لَوْ هَدَانَا اللَّـهُ لَهَدَيْنَاكُمْ﴾ ” اگر اللہ ہمیں ہدایت کرتا تو ہم تمہیں ہدایت کردیتے“ پس کوئی کسی کے کام نہ آئے گا ﴿ سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا ﴾ ” اب برابر ہے ہمارے حق میں بے قراری کریں“ عذاب کی وجہ سے۔ ﴿أَمْ صَبَرْنَا ﴾ ” یا صبر کریں“ اس عذاب پر ﴿ مَا لَنَا مِن مَّحِيصٍ﴾ ” ہمارے لئے کوئی خلاصی نہیں۔“ یعنی کوئی پناہ گاہ نہیں جہاں ہم پناہ لے سکیں اور کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں ہم اللہ کے عذاب سے بھاگ کر جاسکیں۔ ابراھیم
22 ﴿وَقَالَ الشَّيْطَانُ ﴾ شیطان، جو دنیا میں واقع ہونے والی ہر برائی کا سبب ہے جہنمیوں سے براءت کا اظہار کرتے ہوئے ان سے مخاطب ہو کر کہے گا : ﴿لَمَّا قُضِيَ الْأَمْرُ﴾ ” جب فیصلہ ہوچکے گا سب امور کا“ اور جنتی جنت میں داخل ہوجائیں گے اور جہنمی جہنم میں دھکیل دیئے جائیں گے۔ ﴿إِنَّ اللَّـهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِّ﴾ ” جو وعدہ اللہ نے کیا تھا وہ تو سچ تھا۔“ یعنی اللہ تعالیٰ نے رسولوں کی زبان پر تمہارے ساتھ سچا وعدہ کیا تھا مگر تم نے اس کی اطاعت نہ کی، اگر تم نے اس کی اطاعت کی ہوتی تو تم فوزعظیم سے بہرہ ور ہوتے ﴿وَوَعَدتُّكُمْ﴾ ” اور میں نے بھی تم سے وعدہ کیا تھا“ بھلائی کا ﴿فَأَخْلَفْتُكُمْ﴾ ” پس میں نے تم سے وعدہ خلافی کی“ یعنی میں نے تمہیں جو جھوٹی آرزوئیں اور امیدیں دلائی تھیں وہ حاصل نہیں ہوئیں اور نہ کبھی حاصل ہوں گی۔ ﴿وَمَا كَانَ لِيَ عَلَيْكُم مِّن سُلْطَانٍ﴾ ” اور میرا تم پر کوئی زور نہیں تھا“ میرے پاس کوئی دلیل اور اپنے قول کی کوئی تائید نہ تھی۔ ﴿إِلَّا أَن دَعَوْتُكُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِي﴾ ” مگر یہ کہ میں نے تمہیں بلایا اور تم نے میری بات مان لی“ یعنی میرے پاس زیادہ سے زیادہ جو اختیار تھا وہ یہ تھا کہ میں نے تمہیں اپنے مقصد کی طرف بلایا اور تمہارے سامنے اسے خوب آراستہ کیا، تم نے اپنی خواہشات نفس اور شہوات کی پیروی کرتے ہوئے دعوت پر لبیک کیا۔ جب صورت حال یہ ہے ﴿فَلَا تَلُومُونِي وَلُومُوا أَنفُسَكُم ۖ﴾ ” تو تم مجھے ملامت نہ کرو، اپنے آپ کو ملامت کرو“ پس موجب عذاب میں تم ہی پردارومدار ہے اور تم ہی اس عذاب کا سبب ہو۔ ﴿مَّا أَنَا بِمُصْرِخِكُمْ ﴾ ” میں تمہاری فریاد کو نہیں پہنچ سکتا“ یعنی جس شدت عذاب میں تم مبتلا ہو میں تمہاری مدد نہیں کرسکتا۔ ﴿وَمَا أَنتُم بِمُصْرِخِيَّ﴾ ” اور نہ تم میری فریاد کو پہنچ سکتے ہو“ ہر ایک کے لئے اپنے اپنے حصے کا عذاب ہے ﴿إِنِّي كَفَرْتُ بِمَا أَشْرَكْتُمُونِ مِن قَبْلُ﴾ ” میں منکر ہوں جو تم نے مجھے شریک بنایا تھا اس سے پہلے“ یعنی تم نے مجھے اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرایا تھا، میں اللہ تعالیٰ کا شریک نہ تھا اور تم پر میری اطاعت واجب نہ تھی پس میں تم سے بری الذمہ ہوں ﴿إِنَّ الظَّالِمِينَ﴾ بے شک شیطان کی اطاعت کرکے اپنے آپ پر ظلم کرنے والے ﴿لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ﴾ ” ان کے لئے درد ناک عذاب ہے۔“ وہ اس عذاب میں ابدالآبادتک رہیں گے۔ اور یہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا اپنے بندوں پر لطف وکرم ہے کہ اس نے انہیں شیطان کی اطاعت سے ڈرایا ہے، اس نے شیطان کے مقاصد اور ان راستوں کی نشاندہی کردی ہے جہاں سے وہ داخل ہو کر انسان کو گمراہ کرتا ہے، اس کا مقصد صرف انسان کو جہنم کی آگ میں جھونکنا ہے۔ ان آیات کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے ہم پر واضح کردیا ہے کہ جب شیطان اپنے لشکر سمیت جہنم میں داخل ہوگا تو وہ اپنے متبعین سے بری الذمہ ہوجائے گا اور ان کے شرک سے صاف انکار کردے گا۔ ﴿وَلَا يُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِيرٍ ﴾(فاطر : 35؍ 14) ” اور اللہ باخبر کی مانند تمہیں کوئی خبر نہیں دے سکتا۔ “ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس آیت کریمہ میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا ہے کہ شیطان کے پاس کوئی اختیار نہیں اور ایک دوسری آیت کریمہ میں فرمایا : ﴿إِنَّمَا سُلْطَانُهُ عَلَى الَّذِينَ يَتَوَلَّوْنَهُ وَالَّذِينَ هُم بِهِ مُشْرِكُونَ (النحل : 16؍100) ” شیطان کا زور تو صرف انہی لوگوں پر چلتا ہے جو اسے اپنا والی اور سرپرست بناتے ہیں اور اسے اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہراتے ہیں۔“ پس وہ ” زور“ اور ” تسلط“ جس کی اللہ تعالیٰ نے نفی کی ہے اس سے مراد حجت اور دلیل ہے، شیطان جس چیز کی طرف دعوت دیتا ہے، اس پر درحقیقت اس کے پاس کوئی دلیل نہیں۔ وہ زیادہ سے زیادہ یہ کرتا ہے کہ ان کو شبہات میں مبتلا کرے، گناہوں کو ان کے سامنے مزین اور آراستہ کرے، جن سے متاثر ہو کر وہ گناہوں کے ارتکاب کی جسارت کرلیں۔ رہا وہ ” زور“ جس کا اللہ تعالیٰ نے اثبات کیا ہے تو اس سے مراد وہ تسلط ہے جس کے بل پر وہ اپنے دوستوں کو گناہوں پر آمادہ کرتا ہے اور ان کو نافرمانیوں پر ابھارتا ہے۔ بندے شیطان سے موالات پیدا کرکے اور اس کے گروہ میں شامل ہو کر اس کو اپنے آپ پر مسلط کرلیتے ہیں۔ اس لئے شیطان کا ان لوگوں پر کوئی زور نہیں چلتا جو ایمان لاتے ہیں اور اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں۔ ابراھیم
23 اللہ تعالیٰ نے ظالموں کو دیئے جانے والے عذاب کا ذکر کرنے کے بعد اطاعت کرنے والوں کے لئے ثواب کا ذکر فرمایا ہے۔ چنانچہ فرمایا : ﴿وَأُدْخِلَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ﴾ ” اور داخل کئے گئے وہ لوگ جو ایمان لائے اور عمل کئے نیک“ یعنی وہ لوگ جنہوں نے قول وفعل اور اعتقاد کے ساتھ دین کو قائم کیا۔ ﴿جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ﴾ ” ایسے باغات میں، جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں“ ان جنتوں میں ایسی لذات وشہوات ہوں گی جو کسی آنکھ نے دیکھی نہ کسی کان نے سنی ہیں اور نہ کسی بشر کے دل میں ان کے تصور کا گزر ہوا ہے۔ ﴿خَالِدِينَ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِمْ﴾ ” وہ ان میں اپنے رب کے حکم سے ہمیشہ رہیں گے“ یعنی وہ اپنی قوت واختیار سے جنت میں داخل نہیں ہوں گے بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کی قوت واختیار سے جنت میں داخل ہوں گے ﴿ تَحِيَّتُهُمْ فِيهَا سَلَامٌ﴾ ” ان کی دعائے ملاقات ہے ان میں سلام“ وہ سلام اور اچھے کلمات کے ساتھ ایک دوسرے کا خیر مقدم کریں گے۔ ابراھیم
24 ﴿أَلَمْ تَرَ كَيْفَ ضَرَبَ اللَّـهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَيِّبَةً﴾ ” کیا آپ نے نہیں دیکھا، کیسے بیان کی اللہ نے ایک مثال، ستھری بات“ یہاں کلمہ طیبہ (ستھری بات) سے مراد ہے اس امر کی گواہی کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اس کی فروعات (ایسے ہے) ﴿كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ﴾ ”جیسے ایک ستھرا درخت ہے“ اور اس سے مراد کھجورکا درخت ہے ﴿أَصْلُهَا ثَابِتٌ﴾ ” اس کی جڑ مضبوط ہے“ یعنی زمین میں مضبوطی سے گڑی ہوئی ہے ﴿وَفَرْعُهَا﴾ ” اور اس کی شاخیں“ یعنی اس کی شاخیں پھیلی ہوئی ہیں۔ ﴿ فِي السَّمَاءِ﴾ ” آسمان میں“ اور یہ درخت دائمی طور پر کثیر الفوائد ہے۔ ابراھیم
25 ﴿تُؤْتِي أُكُلَهَا﴾ ” وہ پھل لاتا ہے“ ﴿ كُلَّ حِينٍ بِإِذْنِ رَبِّهَا﴾ ” ہر وقت پر اپنے رب کے حکم سے“ یہی حال شجر ایمان کا ہے، اس کی جڑیں علم واعتقاد کے اعتبار سے بندۂ مومن کے قلب کی گہرائیوں میں نہایت مضبوطی سے جمی ہوئی ہیں، اس کی شاخیں یعنی کلمات طیبات، عمل صالح، اخلاق جمیلہ، آداب حسنہ ہمیشہ آسمان کی طرف بلند رہتی ہیں۔ بندۂ مومن کی طرف سے ایسے اعمال واقوال بلند ہوتے ہیں، جو شجر ایمان سے نکلتے ہیں، جن سے بندۂ مومن اور دیگر لوگ منتفع ہوتے ہیں۔ ﴿وَيَضْرِبُ اللَّـهُ الْأَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ﴾ ” اور اللہ لوگوں کے واسطے مثالیں بیان کرتا ہے تاکہ وہ نصیحت پکڑیں۔“ ان سے جن کا اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم دیا ہے اور ان سے جن سے ان کو روکا ہے، کیونکہ ضرب الامثال میں، معانی معقولہ کو امثال محسوسہ کے ذریعے سے قریب لایا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے معنی مراد کی غایت حدتک تبیین اور توضیح ہوتی ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کا حسن تعلیم ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی کے لئے پوری، کامل اور بے پایاں حمدوثنا ہے۔ پس یہ بندۂ مومن کے قلب میں کلمۂ توحید کا وصف اور اس کے ثبات کا بیان ہے۔ ابراھیم
26 پھر اللہ تبارک وتعالیٰ نے کلمۂ توحید کی ضد کلمۂ کفر اور اس کی شاخوں کا ذکر فرمایا۔ چنانچہ فرمایا : ﴿وَمَثَلُ كَلِمَةٍ خَبِيثَةٍ كَشَجَرَةٍ خَبِيثَةٍ﴾ ”اور گندی بات کی مثال، جیسے گندادرخت ہے“ جو کھانے اور ذائقے میں بدترین درخت ہے اور اس سے مراد اندرائن وغیرہ کا پودا ہے ﴿اجْتُثَّتْ﴾ یعنی اس پودے کو اکھاڑ لیا گیا ﴿مِن فَوْقِ الْأَرْضِ مَا لَهَا مِن قَرَارٍ﴾ ” زمین کے اوپر سے، اس کو کوئی ٹھہراؤ نہیں“ یعنی اس پودے کو ثبات حاصل نہیں اس پودے کی رگیں نہیں ہیں جو اس کو سہارا دے کر کھڑا کرسکیں اور نہ یہ کوئی اچھا پھل لاتا ہے بلکہ اس میں پھل پایا بھی جاتا ہے تو انتہائی بدذائقہ۔ اسی طرح کفر اور گناہ کی بات قلب میں کوئی فائدہ مند مضبوطی اور ثبات پیدا نہیں کرتی، اس کا ثمرہ بھی قول خبیث اور عمل خبیث کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے جو اس کو تکلیف دیتا ہے۔ اس بندے کی طرف سے کوئی عمل صالح اللہ تعالیٰ کی طرف بلند نہیں ہوتا۔ اس قول وعمل سے وہ خود منتفع ہوتا ہے نہ کوئی اور۔ ابراھیم
27 اللہ تبارک وتعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ وہ اپنے مومن بندوں کو ثابت قدمی عطا کرتا ہے جو کامل طور پر قلبی ایمان کو قائم کرتے ہیں۔ جو اعمال جوارح کو مستلزم ہے یہ اعمال اس ایمان کا ثمرہ ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو دنیا کے اندر شبہات کے وارد ہونے کے وقت ہدایت اور یقین کے ذریعے سے ثبات اور استقامت عطا کرتا ہے اور جب شہوات پیش آتی ہیں تو اللہ تعالیٰ انہیں قطعی اور پختہ ارادہ عطا کرتا ہے تب وہ خواہش نفس اور اس کی مراد پر اس امر کو مقدم رکھتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہے۔ آخرت میں، موت کے وقت دین اسلام اور خاتمہ بالخیر پر ثابت قدمی عطا کرتا ہے اور قبر میں منکر نکیر کے سوالات کے وقت صحیح جواب کی توفیق عطا کرکے ثبات اور مضبوطی سے نوازتا ہے۔ جب میت سے پوچھا جاتا ہے ” تیرا رب کون ہے ؟ تیرا دین کیا ہے؟ تیرا نبی کون ہے ؟ تو اللہ تعالیٰ صحیح جواب کی طرف اس کی راہ نمائی کرتا ہے اور مومن جواب دیتا ہے ” میرا رب اللہ ہے، میرا دین اسلام ہے اور میرے نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔“ ﴿وَيُضِلُّ اللَّـهُ الظَّالِمِينَ ۚ﴾ ”اور اللہ ظالموں کو گمراہ کرتا ہے۔“ یعنی دنیا وآخرت میں راہ صواب سے۔ اور اللہ تعالیٰ نے ان پر ظلم نہیں کیا بلکہ انہوں نے خود اپنے آپ پر ظلم کیا ہے۔ یہ آیت کریمہ، قبر کے امتحان، قبر کے عذاب اور اس کی نعمت اور آرام پر دلالت کرتی ہے۔ جیسا کہ قبر کے امتحان، اس کی صفت وکیفیت، قبر کے عذاب اور اس کے آرام کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نہایت تواتر کے ساتھ نصوص واردہوئی ہیں۔ ابراھیم
28 اللہ تبارک وتعالیٰ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تکذیب کرنے والے کفار قریش کا اور ان کے معاملات کا مآل بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے : ﴿أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ بَدَّلُوا نِعْمَتَ اللَّـهِ كُفْرًا﴾ ” کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہوں نے اللہ کی نعمت کو کفر سے بدل دیا“ یہاں اللہ تعالیٰ کی نعمت سے مراد حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت ہے۔ آپ انہیں دنیا وآخرت میں نیکیوں کے ادراک کی طرف دعوت دیتے تھے، مگر انہوں نے اس نعمت کو ٹھکرا کر، اس کا انکار کرکے اور اپنے آپ کو اس نعمت کو قبول کرنے سے باز رکھ کر اس نعمت کو بدل ڈالا۔ ﴿وَ﴾ اور دوسروں کو اس نعمت کو قبول کرنے سے روکا حتیٰ کہ ﴿أَحَلُّوا قَوْمَهُمْ دَارَ الْبَوَارِ ﴾ ” اتارا انہوں نے اپنی قوم کو ہلاکت کے گھر میں“ اس سے مراد جہنم ہے، کیونکہ وہ ان کی گمراہی کا سبب بنے اور اپنی قوم کے لئے وبال بن گئے جبکہ ان سے نفع کی اور امید تھی۔ منجملہ اس کے یہ بھی ہے کہ غزوہ بدر کے لئے ان کو نکلنے پر آمادہ کرنے کے لئے جنگ پر نکلنے کے بڑے فوائد بیان کئے۔ تاکہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے خلاف جنگ کریں۔ پس ان کے ساتھ عبرت ناک سلوک ہوا اور جنگ بدر میں ان کے بہت سے بڑے بڑے سردار اور بہادر مارے گئے۔ ابراھیم
29 ﴿جَهَنَّمَ يَصْلَوْنَهَا﴾ ” جہنم، داخل ہوں گے وہ اس میں“ یعنی جہنم کی حرارت انہیں ہر جانب سے گھیرلے گی ﴿وَبِئْسَ الْقَرَارُ ﴾ ” اور (جہنم) بہت ہی براٹھکانہ ہے۔ “ ابراھیم
30 ﴿وَجَعَلُوا لِلَّـهِ أَندَادًا﴾ ” اور ٹھہرائے انہوں نے اللہ کے لئے مقابل“ یعنی اللہ تعالیٰ کے ہمسر اور شریک ﴿ لِّيُضِلُّوا عَن سَبِيلِهِ ﴾ ” تاکہ اس کے راستے سے گمراہ کریں۔“ یعنی، تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کے ہمسر بناکر اور ان کی عبادت کی طرف دعوت دے کر بندوں کو اللہ کے راستے سے بھٹکا سکیں ﴿قُلْ﴾ ان کو وعید سناتے ہوئے کہہ دیجئے ﴿ تَمَتَّعُواا﴾ اپنے کفر اور گمراہی سے تھوڑا سا فائدہ اٹھالو۔ پس یہ تمہیں کوئی فائدہ نہ دیں گے ﴿ فَإِنَّ مَصِيرَكُمْ إِلَى النَّارِ﴾ ” اس لیے کہ تمہارا ٹھکانہ جہنم ہے“ اور یہ بہت ہی برا ٹھکانا ہے۔ ابراھیم
31 ﴿قُل لِّعِبَادِيَ الَّذِينَ آمَنُوا﴾ ” میرے مومن بندوں سے کہہ دو۔“ یعنی انہیں ان امور کا حکم دیجئے جن میں ان کی اصلاح ہے اور انہیں یہ بھی حکم دیا کہ اس سے قبل کہ ان کی اصلاح ممکن نہ ہو وہ فرصت کو غنیمت جانیں۔ ﴿يُقِيمُوا الصَّلَاةَ ﴾ وہ ظاہری اور باطنی آداب کے ساتھ نماز قائم کریں ﴿وَيُنفِقُوا مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ﴾ ” اور ہم نے جو انہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کریں۔“ یعنی ہم نے انہیں کم یا زیادہ جو بھی نعمتیں عطا کی ہیں ان میں سے خرچ کریں ﴿ سِرًّا وَّ عَلَانِيَةً﴾ ” چھپے اور ظاہر“ یہ حکم نفقات واجبہ مثلاً زکوٰۃ اور نفقات کفالت اور نفقات مستحبہ مثلاً عام صدقات وغیرہ کو شامل ہے۔ ﴿مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِيَ يَوْمٌ لَّا بَيْعٌ فِيهِ وَلَا خِلَالٌ ﴾ ” پہلے اس کے کہ وہ دن آجائے، جس میں نہ کوئی سودا ہوگا نہ دوستی“ یعنی اس دن کوئی چیز فائدہ نہ دے گی اور جو چیز فوت ہوگئی ہوگی تو کسی خریدوفروخت کے معاوضے، کسی ہبہ اور کسی دوست یار کے ذریعے سے اس کا تدارک ممکن نہیں ہوگا۔ پس ہر شخص کا اپنا اپنا معاملہ ہوگا جو اس کو دوسروں سے بے نیاز کردے گا۔ اس لیے ہر شخص کو اپنے لئے کچھ بھیجنا چاہئے، اور خوب اچھی طرح غور کرلے کہ وہ کل کے لئے کیا آگے بھیج رہا ہے؟ وہ اپنے اعمال پر نظر ڈالے اور بڑے حساب کتاب سے پہلے اپنے نفس کا محاسبہ کرلے۔ ابراھیم
32 اللہ تبارک وتعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ وہ اکیلا ہی ہے ﴿ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ﴾ ” جس نے آسمانوں اور زمین کو (ان کی وسعتوں کے ساتھ) پیدا کیا“ ﴿وَأَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً﴾ ” اور اتارا آسمان سے پانی“ اس سے مراد وہ بارش ہے جسے اللہ تعالیٰ بادلوں سے برساتا ہے ﴿ فَأَخْرَجَ بِهِ ﴾ ” پس اس کے ذریعے سے نکالے۔“ یعنی اس پانی کے ذریعے سے ﴿مِنَ الثَّمَرَاتِ﴾ مختلف انواع کے پھل ﴿رِزْقًا لَّكُمْ﴾ تمہارے اور تمہارے مویشیوں کے لئے رزق ﴿وَسَخَّرَ لَكُمُ الْفُلْكَ﴾ ” اور کام میں لگادیا تمہارے لئے کشتیوں کو“ یعنی جہاز، اور کشتیاں ﴿لِتَجْرِيَ فِي الْبَحْرِ بِأَمْرِهِ ﴾ ” کہ چلیں وہ سمندر میں اس کے حکم سے“ وہی ہے جس نے جہازوں اور کشتیوں کی صنعت کو تمہارے لئے آسان بناکر تمہیں ان پر قدرت عطا کی۔ پانی کی موجوں پر ان کی حفاظت کی۔ تاکہ تمہیں اور تمہارے تجارتی مال واسبا کو اس شہرتک اٹھالے جائے جہاں کا تم قصد رکھتے ہو۔ ﴿وَسَخَّرَ لَكُمُ الْأَنْهَارَ﴾ ” اور کام میں لگادیا تمہارے لئے نہروں کو“ تاکہ تم اپنے کھیتوں اور باغات کو سیراب کرو اور خود بھی ان کا پانی پیو۔ ابراھیم
33 ﴿وَسَخَّرَ لَكُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ دَائِبَيْنِ﴾ ” اور کام میں لگادیا تمہارے لئے سورج اور چاند کو، ایک دستور پر برابر۔“ ان کی رفتار میں نرمی آتی ہے نہ وہ سست پڑتے ہیں بلکہ تمہارے مصالح یعنی زمان واوقات کے حساب، تمہارے ابدان، تمہارے مویشی و حیوانات، کھیتوں اور باغات کے فائدے کے لئے رواں دواں رہتے ہیں۔ ﴿وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ﴾ ” اور کام میں لگایا دیا تمہارے لئے رات کو“ تاکہ تم آرام کرسکو۔ ﴿ وَالنَّهَارَ﴾ ” اور دن کو“ تمہارے دیکھنے کے لئے تاکہ تم اللہ کا فضل تلاش کرو۔ ابراھیم
34 ﴿وَآتَاكُم مِّن كُلِّ مَا سَأَلْتُمُوهُ﴾ ” اور دیا تم کو ہر چیز میں سے جو تم نے مانگا“ یعنی اس نے تمہیں ہر وہ چیز عطا کی جس کے ساتھ تمہاری آرزوئیں اور ضرورتیں وابستہ ہیں جو تم اپنی زبان حال یا زبان قال کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ سے مانگتے ہو۔ مثلاً مال مویشی، مختلف اقسام کے آلات وصناعات وغیرہ ﴿ وَإِن تَعُدُّوا نِعْمَتَ اللَّـهِ لَا تُحْصُوهَا﴾ ” اور اگر اللہ کے احسان گننے لگو تو تم شمار نہ کرسکو۔“ یعنی تمہارا ان نعمتوں پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا تو کجا، تم ان کو شمار بھی نہیں کرسکتے۔ ﴿إِنَّ الْإِنسَانَ لَظَلُومٌ كَفَّارٌ﴾ ” یقیناً انسان نہایت نادان، بہت بے شکرا ہے“ یہ انسانی فطرت کا خاصہ ہے، کیونکہ وہ نہایت ظالم، معاصی کے ارتکاب کی جسارت کرنے والا، اپنے رب کے حقوق کے بارے میں کوتاہی کرنے والا اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری کرنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا اعتراف اور اس کا شکروہی ادا کرسکتا ہے، جس کی اللہ تعالیٰ راہ نمائی کرے۔ تب وہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرتا ہے، اپنے رب کے حق کو پہچانتا ہے اور اسے قائم کرتا ہے۔ پس ان آیات کریمہ میں بندوں پر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی بہت سی اصناف مجمل اور مفصل طور پر بیان ہوئی ہیں۔۔۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو دعوت دیتا ہے کہ وہ اس کا ذکر اور اس کا شکر ادا کریں اور وہ ان کو ترغیب دیتا ہے کہ وہ دن رات اللہ تعالیٰ سے سوال کرتے اور اس سے دعا مانگتے رہیں جیسے ہر وقت بتکرار ان پر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا فیضان رہتا ہے۔ ابراھیم
35 ﴿وَ﴾ ”اور‘‘ یعنی اس حالت جمیلہ میں ابراہیم علیہ السلام کو یاد کیجئے ﴿إِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَـٰذَا الْبَلَدَ﴾ ” جب ابراہیم نے کہا، اے رب ! بنادے اس شہر کو“ یعنی حرم مبارک کو ﴿آمِنًا﴾ ”امن والا“ پس اللہ تعالیٰ نے شرعاً اور قدراً آپ کی دعا قبول فرمائی اور اس کی حرمت کے اسباب میسر فرمائے جو کہ ہمیں معلوم ہیں حتیٰ کہ اگر کوئی ظالم حرم میں برائی کا ارادہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کا قلع قمع کردیتا ہے جیسے اصحاب فیل کے ساتھ کیا تھا۔۔۔ ابراہیم علیہ السلام نے اپنے لئے، اپنے بیٹوں کے لئے اور اس ارض محترم کے لئے امن کی دعا کی۔ چنانچہ فرمایا : ﴿وَاجْنُبْنِي وَبَنِيَّ أَن نَّعْبُدَ الْأَصْنَامَ ﴾ ” اور مجھے اور میری اولاد کو بتوں کی عبادت سے دور رکھ“ یعنی ان کے قریب جانے سے بچا۔ ابراھیم
36 پھر آپ نے اپنے اور اپنی اولاد کے بارے میں ان خدشات کا ذکر فرمایا جو انہیں اکثر لوگوں کے ان بتوں کی عبادت کے فتنے میں مبتلا ہونے کی وجہ سے لاحق ہوئے، اس لئے انہوں نے بارگاہ الٰہی میں عرض کیا : ﴿رَبِّ إِنَّهُنَّ أَضْلَلْنَ كَثِيرًا مِّنَ النَّاسِ﴾ ” اے پروردگار ! انہوں نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کیا ہے۔“ یعنی ان کے سبب سے بہت سے لوگ گمراہ ہوئے۔ ﴿ فَمَن تَبِعَنِي﴾ ” پس جس نے میری اتباع کی“ یعنی توحید الٰہی اور اخلاص للہ میں جس نے میری پیروی کی۔ ﴿فَإِنَّهُ مِنِّي ۖ﴾ ’۔ تو وہ میرا ہے“ یعنی کامل موافقت کی وجہ سے وہ مجھ سے ہے، جو کوئی جس قوم سے محبت کرتا ہے اور اس کی پیروی کرتا ہے، وہ اسی قوم سے ملحق شمار ہوتا ہے۔ ﴿وَمَنْ عَصَانِي فَإِنَّكَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴾ ” اور جس نے میری نافرمانی کی، تو تو بہت بخشنے والا مہربان ہے“ یہ حضرت خلیل علیہ السلام کی شفقت ہے کہ انہوں نے گناہ گاروں کے لئے بخشش اور رحمت کی دعا کی اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے اللہ تعالیٰ صرف اسے عذاب دے گا جو سرکشی اختیار کرتا ہے۔ ابراھیم
37 ﴿رَّبَّنَا إِنِّي أَسْكَنتُ مِن ذُرِّيَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ ذِي زَرْعٍ عِندَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ﴾ ” اے رب ! میں نے بسایا ہے اپنی ایک اولاد کو، ایسے میدان میں جہاں کھیتی نہیں، تیرے محترم گھر کے پاس“ یعنی آنجناب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت اسماعیل اور ان کی والدہ حضرت ہاجرہ علیہما التسلیم کو شام سے لاکر مکہ مکرمہ کی سرزمین میں بسایا تھا، اس وقت حضرت اسماعیل علیہ السلام دودھ پیتے تھے۔ اس وقت یہ وادی بالکل سنسان تھی اور اس میں کوئی آبادی نہ تھی۔ جب آپ نے ماں بیٹے کو اس وادی میں آباد کردیا تو اس وقت یہ دعا مانگی : ﴿رَّبَّنَا إِنِّي أَسْكَنتُ مِن ذُرِّيَّتِي﴾ یعنی میں نے اپنی تمام اولاد کو نہیں بلکہ اپنی کچھ اولاد کو یہاں لا بسایا ہے۔ کیونکہ حضرت اسحاق علیہ السلام شام میں تھے اسی طرح ان کے دیگر بیٹے بھی شام میں آباد تھے۔ وادی مکہ میں انہوں نے حضرت اسماعیل علیہ السلام اور ان کی اولاد کو آباد کیا۔ ﴿بِوَادٍ غَيْرِ ذِي زَرْعٍ﴾ ” ایسی وادی میں جہاں کھیتی نہیں“ کیونکہ ارض مکہ بے آب وگیاہ تھی ﴿ رَبَّنَا لِيُقِيمُوا الصَّلَاةَ﴾ ” اے رب ! تاکہ وہ نماز قائم کریں“ یعنی ان کو موحد اور نماز قائم کرنے والے بناکر کیونکہ نماز سب سے زیادہ خصوصیت کی حامل اور سب سے افضل عبادت ہے اور جس نے نماز کو قائم کرلیا، وہ دین کو قائم کرنے والا ہوگیا۔ ﴿فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِي إِلَيْهِمْ﴾ ” پس کردے کچھ لوگوں کے دل کہ مائل ہوں ان کی طرف“ یعنی لوگ ان سے محبت کریں اور اس جگہ سے محبت کریں جہاں یہ آباد ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمائی اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں نبی آخر الزمان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیدا ہوئے، آپ نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد کو دین اسلام اور ملت ابراہیم کی طرف دعوت دی انہوں نے آپ کی دعوت پر لبیک کہا اور نماز قائم کرنے والے بن گئے۔ اور اللہ تعالیٰ نے اس گھر کی زیارت کو فرض قرار دیا جس کے پاس ابراہیم علیہ السلام کی اولاد آباد تھی اور اس میں ایک ایسا بھید پنہاں رکھا جو دلوں کے لئے کشش رکھتا ہے، دل اس گھر کی زیارت کا قصد کرتے ہیں اور اس کی زیارت سے کبھی سیر نہیں ہوتے بلکہ بندۂ مومن جس قدر زیادہ اس گھر کی زیارت کرتا ہے اس کی آتش شوق اسی قدر زیادہ بھڑکتی ہے اور اس کا سرنہاں یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنی طرف مضاف کیا ہے۔ ﴿وَارْزُقْهُم مِّنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُونَ﴾ ” اور ان کو روزی دے پھلوں سے، شاید وہ شکر کریں“ اور اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت خلیل علیہ السلام کی دعا قبول فرمالی اور ہر قسم کا پھل اس ارض پاک میں پہنچنے لگا آپ دیکھیں گے کہ مکہ مشرفہ میں ہر وقت ہرقسم کا پھل بافراط ملتا ہے اور رزق ہر طرف سے مکہ مکرمہ کی طرف کھنچا چلا آتا ہے۔ ابراھیم
38 ﴿ رَبَّنَا إِنَّكَ تَعْلَمُ مَا نُخْفِي وَمَا نُعْلِنُ﴾ ” اے ہمارے رب ! تو جانتا ہے جو ہم چھپا کر کرتے ہیں اور جو دکھا کر کرتے ہیں“ یعنی تو ہم کو ہم سے زیادہ جانتا ہے، پس ہم تجھ سے سوال کرتے ہیں کہ اپنی تدبیر اور تربیت سے ہمارے لئے ان کاموں کو آسان فرمادے جن کو ہم جانتے ہیں اور ان کو بھی جن کو ہم نہیں جانتے، جو تیرے علم اور تیری رحمت کا تقاضا ہے۔ ﴿وَمَا يَخْفَىٰ عَلَى اللَّـهِ مِن شَيْءٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ﴾ ’’اور اللہ پر کوئی چیز مخفی نہیں ہے، زمین میں اور نہ آسمان میں“ اور اس میں یہ دعا بھی شامل ہے جس میں حضرت خلیل علیہ السلام کا ارادۂ بھلائی اور اللہ رب العالمین کے لئے کثرت شکر کے سوا کچھ نہ تھا۔ ابراھیم
39 ﴿الْحَمْدُ لِلَّـهِ الَّذِي وَهَبَ لِي عَلَى الْكِبَرِ إِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ ۚ ﴾ ” تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے مجھے بڑھاپے میں اسمٰعیل اور اسحٰق عطا کئے“ اور یہ سب سے بڑی نعمت ہے اور بڑھاپے میں، مایوسی کی حالت میں اولاد کا عطا ہونا ایک دوسری نعمت ہے۔ پھر ان سب کا صالح انسان اور نبی ہونا جلیل ترین اور افضل ترین مرتبہ ہے۔ ﴿إِنَّ رَبِّي لَسَمِيعُ الدُّعَاءِ ﴾ ” میرا رب دست دعا کا سننے والا ہے۔“ یعنی جو کوئی اس سے دعا مانگتا ہے وہ قبولیت کے قریب ہوتی ہے۔ میں نے بھی اس کے سامنے دست دعا دراز کیا اور اس نے مجھے ناامید نہیں کیا۔ ابراھیم
40 پھر خلیل علیہ السلام نے اپنے لئے اور اپنی اولاد کے لئے ان الفاظ میں دعا مانگی ﴿رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلَاةِ وَمِن ذُرِّيَّتِي ۚ رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَاءِ رَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ﴾ ” اے میرے رب ! مجھے اور میری اولاد کو نماز قائم کرنے والا بنا اور میری دعا قبول فرما، اے ہمارے رب ! بخش مجھ کو، میرے ماں باپ کو اور سب مومنوں کو جس دن قائم ہو حساب۔“ اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ہر دعا قبول فرمالی، سوائے ان کے باپ کے لئے مغفرت کی دعا کے، جو انہوں نے اپنے باپ کے ساتھ ایک وعدے کی بنا پر مانگی تھی، اور جب آپ پر واضح ہوگیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کا دشمن ہے، تو آپ نے اس سے براءت کا اظہار کردیا۔ ابراھیم
41 ابراھیم
42 یہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی ظالموں کے لئے سخت وعید اور مظلوموں کے لئے تسلی ہے، فرمایا : ﴿وَلَا تَحْسَبَنَّ اللَّـهَ غَافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ ۚ﴾ ” اور ہرگز مت خیال کریں کہ اللہ ان کاموں سے بے خبر ہے جو ظالم کرتے ہیں“ اللہ تعالیٰ نے ان کو مہلت دی ہے اور ان کو نہایت فراوانی سے رزق عطا کیا اور ان کو چھوڑ دیا کہ وہ نہایت اطمینان اور امن کے ساتھ چلیں پھریں۔ پس یہ مہلت اور رزق کی فراوانی ان کے حسن حال پر دلالت نہیں کرتی، کیونکہ اللہ تعالیٰ ظالم کو ڈھیل دیتا ہے تاکہ اس کے گناہوں میں اضافہ ہوجائے یہاں تک کہ جب وہ اسے پکڑ لیتا ہے تو پھر وہ چھوٹ نہیں سکتا۔ ﴿وَكَذَٰلِكَ أَخْذُ رَبِّكَ إِذَا أَخَذَ الْقُرَىٰ وَهِيَ ظَالِمَةٌ ۚ إِنَّ أَخْذَهُ أَلِيمٌ شَدِيدٌ﴾(سورۃ ھود : 11؍ 102 ” اور اسی طرح ہوتی ہے تیرے رب کی پکڑ جب وہ کسی بستی کو اس کے ظلم کے سبب سے پکڑتا ہے، بے شک اس کی پکڑ بڑی سخت اور المناک ہوتی ہے“۔ یہاں ظلم سے مراد وہ ظلم بھی ہے جو بندے اور اس کے رب کے مابین ہے اور وہ ظلم بھی ہے جو بندہ اللہ تعالیٰ کے بندوں پر روارکھتا ہے۔ ﴿إِنَّمَا يُؤَخِّرُهُمْ لِيَوْمٍ تَشْخَصُ فِيهِ الْأَبْصَارُ ﴾ ” ان کو تو اس دن کے لئے ڈھیل دے رکھی ہے کہ کھلی رہ جائیں گی اس میں آنکھیں“ یعنی ہول اور دہشت کی وجہ سے آنکھیں ادھر ادھر دیکھ نہیں سکیں گی، کھلی کی کھلی رہ جائیں گی ابراھیم
43 ﴿مُهْطِعِينَ﴾ ” دوڑتے ہوں گے“ جب پکارنے والا انہیں اللہ تعالیٰ کے حضور حساب دینے کے لئے پکارے گا تو وہ جلدی سے اس پکار پر لبیک کہیں گے، وہ اس سے بچ نہ سکیں گے، ان کا کوئی ٹھکانا ہوگا نہ کوئی پناہ گاہ ﴿مُقْنِعِي رُءُوسِهِمْ﴾ ” اوپر اٹھائے اپنے سر“ یعنی اپنے سروں کو اس طرح اٹھائے ہوئے ہوں گے کہ ان کے ہاتھ ان کی ٹھوڑیوں کے ساتھ بندھے ہوں گے جس کی وجہ سے ان کے سراوپر کو اٹھ جائیں گے۔ ﴿لَا يَرْتَدُّ إِلَيْهِمْ طَرْفُهُمْ ۖ وَأَفْئِدَتُهُمْ هَوَاءٌ﴾ ” ان کی طرف ان کی آنکھیں پھر کر نہیں آئیں گی اور ان کے دل اڑ گئے ہوں گے“ ان کے دل خالی ہوں گے اور حلق تک آجائیں گے مگر وہ ہرقسم کے غم وہموم اور حزن وقلق سے لبریز ہوں گے۔ ابراھیم
44 اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے نبی محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرماتا ہے : ﴿ وَأَنذِرِ النَّاسَ يَوْمَ يَأْتِيهِمُ الْعَذَابُ﴾ یعنی ان کے سامنے اس دن کے احوال کا وصف بیان کیجئے اور انہیں برے اعمال سے ڈرائیے جو اس عذاب کے موجب ہیں جو انہیں شدائد میں آپکڑے گا۔ ﴿ فَيَقُولُ الَّذِينَ ظَلَمُوا ﴾ ” تب ظالم لوگ کہیں گے“ یعنی جنہوں نے کفر، تکذیب اور دیگر معاصی کے ذریعے سے ظلم کیا وہ اپنے کرتوتوں پر نادم ہو کر واپس دنیا میں لوٹائے جانے کی درخواست کریں گے مگر یہ واپس لوٹنے کا وقت نہ ہوگا۔ ﴿رَبَّنَا أَخِّرْنَا إِلَىٰ أَجَلٍ قَرِيبٍ﴾ ” اے ہمارے رب ! مہلت دے ہم کو تھوڑی دیر تک“ یعنی ہمیں دنیا میں واپس بھیج دے ہم پر ہر بات واضح ہوچکی ہے ﴿نُّجِبْ دَعْوَتَكَ ﴾ ” کہ ہم قبول کرلیں تیری دعوت کو“ اور اللہ تعالیٰ سلامتی کے گھر کی طرف دعوت دیتا ہے ﴿وَنَتَّبِعِ الرُّسُلَ﴾ ” اور پیروی کرلیں ہم رسولوں کی“ ان کی یہ تمام آہ وزاریاں دردناک عذاب سے گلو خلاصی کے لئے ہوں گی ورنہ حقیقت یہ ہے کہ وہ اس وعدے میں بھی جھوٹے ہیں۔ ﴿وَلَوْ رُدُّوا لَعَادُوا لِمَا نُهُوا عَنْهُ وَإِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ﴾(سورہ الانعام : 6؍ 28) ” اگر انہیں واپس بھیج بھی دیا جائے تو یہ وہی کام دوبارہ کریں گے جن سے ان کو روکا گیا ہے۔“ اس لئے ان کو سخت زجروتوبیخ کی جائے گی اور کہا جائے گا۔ ﴿أَوَلَمْ تَكُونُوا أَقْسَمْتُم مِّن قَبْلُ مَا لَكُم مِّن زَوَالٍ﴾ ” کیا تم پہلے قسمیں نہ کھاتے تھے کہ تم کو دنیا سے نہیں ٹلنا“ یعنی اس دنیا سے منتقل ہو کر آخرت میں نہیں جاؤ گے، یہ تو اب تم پر واضح ہوگیا کہ تم اپنی قسم میں سخت جھوٹے تھے اور جو تم دعوے کیا کرتے تھے وہ تمہارے سب دعوے بھی جھوٹ تھے۔ ابراھیم
45 ﴿وَ﴾ تمہارے اعمال کی کوتاہی کی وجہ یہ نہ تھی کہ تمہارے پاس واضح دلائل نہ آئے تھے۔ بلکہ ﴿سَكَنتُمْ فِي مَسَاكِنِ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَنفُسَهُمْ وَتَبَيَّنَ لَكُمْ كَيْفَ فَعَلْنَا بِهِمْ ﴾ ” تم ان بستیوں میں آباد تھے جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور تم پر واضح ہوگیا تھا کہ کیسا کیا ہم نے ان کے ساتھ“ ان کو مختلف انواع کی سزائیں دے کر، اور جب انہوں نے واضح دلائل کی تکذیب کی تو کیسے ہم نے ان پر عذاب نازل کیا ؟ ہم نے تمہارے سامنے واضح مثالیں بیان کردی ہیں جو دل میں شک کا ادنیٰ ساشائبہ بھی نہیں رہنے دیتیں۔ پس ان آیات بینات نے تمہیں کوئی فائدہ نہ دیا بلکہ اس کے برعکس تم نے روگردانی کی اور اپنے باطل پر جمے رہے، حتیٰ کہ تم پر یہ روز بد آگیا جس میں تمہاری جھوٹی معذرت خواہی کوئی فائدہ نہ دے گی۔ ابراھیم
46 ﴿ وَقَدْ مَكَرُوا ﴾ ” اور چال چلی“ یعنی انبیاء ومرسلین کو جھٹلانے والوں نے ﴿مَكْرَهُمْ﴾ ” اپنی چال“ ایسی ایسی چالیں چلیں جن کا انہوں نے ارادہ کیا اور جو وہ چل سکتے تھے۔ ﴿وَعِندَ اللَّـهِ مَكْرُهُمْ﴾ ” اور اللہ کے ہاں ہے ان کی چال“ یعنی اللہ تعالیٰ اپنے علم اور اپنی قدرت کے ذریعے سے ان کا حاطہ کئے ہوئے ہے اور ان کی چالیں لوٹ کر انہی کے خلاف گئیں۔ ﴿وَلَا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِ﴾(فاطر : 35؍ 43) ” اور بری چالوں کا وبال انہی لوگوں پر پڑتا ہے جو چالیں چلتے ہیں “۔ ﴿وَإِن كَانَ مَكْرُهُمْ لِتَزُولَ مِنْهُ الْجِبَالُ﴾ ” اگرچہ ان کی چال ایسی تھی کہ ٹل جائیں اس سے پہاڑ“ یعنی انبیاء ورسل اور وحی کو جھٹلانے والوں کی چالیں اور سازشیں اتنی بڑی ہیں کہ ان کے سبب سے بڑے بڑے پہاڑ بھی اپنی جگہ سے ٹل جائیں۔ یعنی ﴿وَمَكَرُوا مَكْرًا كُبَّارًا﴾(نوح : 71؍ 22) ” انہوں نے بڑی بڑی چالیں چلیں۔“ ان کی سازشیں اتنی بڑی تھیں کہ ان کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے ان کی سازشیں انہی پر الٹ دیں۔ اس آیت کریمہ کی وعید میں ہر وہ شخص شامل ہے جو باطل کی نصرت اور حق کے ابطال کے لئے انبیاء ورسل کے خلاف سازشیں کرتا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ ان کی چالیں ان کے کسی کام نہ آئیں اور نہ وہ اللہ تعالیٰ کو کوئی نقصان پہنچا سکے، بلکہ انہوں نے خود اپنا ہی نقصان کیا۔ ابراھیم
47 اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے : ﴿فَلَا تَحْسَبَنَّ اللَّـهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ ۗ﴾ ” پس خیال مت کریں کہ اللہ خلاف کرے گا اپنا وعدہ اپنے رسولوں سے“ یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں اور ان کے پیروکاروں کی نجات اور ان کی سعادت، رسولوں کے دشمنوں کی ہلاکت، دنیا میں ان کو بے یارومددگار چھوڑنے اور آخرت میں ان کو سزا دینے کا جو وعدہ کررکھا ہے اس کی خلاف ورزی نہیں کرے گا۔ پس اس وعدے کا پورا ہونا ضروری ہے۔ کیونکہ یہ صادق القول ہستی کا وعدہ ہے جو اس نے اپنی مخلوق میں سب سے زیادہ سچے لوگوں، یعنی اپنے رسولوں کی زبان پر کیا ہے اور یہ مرتبے کے اعتبار سے بلند ترین خبر ہے۔۔۔ خاص طور پر اس بنا پر بھی کہ یہ حکمت الٰہی، سنت ربانی اور عقل انسانی کے مطابق ہے۔ ﴿ إِنَّ اللَّـهَ﴾ ” بے شک اللہ“ اور اللہ تعالیٰ کو کوئی چیز بے بس نہیں کرسکتی، اس لیے کہ وہ ﴿  عَزِيزٌ ذُو انتِقَامٍ ﴾ ” زبردست بدلہ لینے والا ہے۔“ جب وہ کسی سے انتقام لینے کا ارادہ کرتا ہے تو کوئی اس سے بچ سکتا ہے نہ اسے عاجز کرسکتا ہے اور یہ قیامت کے رز ہوگا۔ ابراھیم
48 ﴿يَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَيْرَ الْأَرْضِ وَالسَّمَاوَاتُ ۖ﴾ ” جس دن یہ زمین دوسری زمین سے بدل دی جائے گی اور آسمان بھی۔“ یعنی جس روز زمین اور آسمان کو بدل کر کچھ اور ہی بنادیا جائے گا، یہ تبدیلی ذات کی تبدیلی نہیں بلکہ صفات کی تبدیلی ہوگی کیوں کہ قیامت کے روز زمین کو ہموار کرکے اس طرح پھیلا دیا جائے گا جیسے چمڑے کو پھیلا دیا جاتا ہے، روئے زمین پر کوئی پہاڑ یا کوئی بلند جگہ نہ ملے گی تمام زمین ہموار اور برابر ہوجائے گی اور تو اس میں کوئی نشیب وفراز نہیں دیکھے گا اور آسمان اس دن کی دہشت کی وجہ سے پگھلے ہوئے تابنے کی مانند ہوجائے گا، پھر اللہ تعالیٰ آسمانوں کو اپنے دائیں ہاتھ پر لپیٹ لے گا۔ ﴿وَبَرَزُوا للّٰـهِ ﴾ ” اور سب لوگ اللہ کے سامنے نکل کھڑے ہوں گے۔“ یعنی قیامت کے روز تمام خلائق اپنی قبروں سے اٹھ کھڑی ہوگی اور ان میں کوئی بھی اللہ تعالیٰ سے چھپ نہ سکے گا۔ ﴿الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ﴾ ” یگانہ، زبردست“ یعنی اللہ تعالیٰ اپنی ذات، اپنے اسماء وصفات کی عظمت اور اپنے افعال کی عظمت میں منفرد ہے۔ وہ تمام کائنات پر غالب ہے۔ کائنات کی ہر چیز اس کے دست تصرف اور تدبیر کے تحت ہے۔ اس کی اجازت کے بغیر کوئی چیز حرکت کرسکتی ہے نہ ساکن ہوسکتی ہے۔ ابراھیم
49 ﴿وَتَرَى الْمُجْرِمِينَ﴾ ” اور دیکھے گا تو گناہ گاروں کو“ جن کا وصف جرم کرنا اور گناہوں کی کثرت ہے ﴿يَوْمَئِذٍ﴾ ” اس روز“ ﴿مُّقَرَّنِينَ فِي الْأَصْفَادِ﴾ ” باہم جکڑے ہوں گے زنجیروں میں“ یعنی تمام مجرموں کو آگ کی زنجیروں سے باندھ دیا جائے گا اور ذلیل ترین صورت، بدترین ہئیت اور قبیح ترین حالت میں ان کو جہنم کے عذاب کی طرف ہانکا جائے گا۔ ابراھیم
50 ﴿سَرَابِيلُهُم﴾ ” ان کے کرتے“ یعنی ان کے کپڑے ﴿مِّن قَطِرَانٍ﴾ ” گندھک کے ہوں گے“ یعنی وہ انتہائی شدید شعلہ زن آگ، سخت حرارت اور جہنم کی بدبو میں ہوں گے۔ ﴿وَتَغْشَىٰ وُجُوهَهُمُ ﴾ ” اور ان کے چہروں کو لپیٹ لے گی۔“ جو ان کے بدن میں سب سے زیادہ شرف کے حامل ہوں گے۔ ﴿النَّارُ ﴾ ” آگ“ یعنی آگ ان کے چہرے کو گھیر لے گی اور ہر جانب سے اس کو جلا ڈالے گی اور چہرے کے علاوہ جسم کے دیگر حصے تو بدرجہ اولیٰ اس آگ میں جلیں گے۔ ابراھیم
51 یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر ظلم نہیں ہے بلکہ یہ ان کے اعمال کی جزا ہے جن کا انہوں نے اکتساب کر کے آگے بھیجے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿لِيَجْزِيَ اللّٰـهُ كُلَّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ﴾ ” تاکہ اللہ ہر شخص کو اس کے اعمال کا بدلہ دے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ ہر شخص کو اس کے اچھے برے اعمال کا نہایت عدل و انصاف کے ساتھ بدلہ دے جس میں کسی بھی پہلوسے کوئی ظلم نہ ہو ﴿إِنَّ اللّٰـهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ﴾ ” بے شک اللہ جلد حساب لینے والا ہے“ جیسا کہ فرمایا : ﴿اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَهُمْ فِي غَفْلَةٍ مُّعْرِضُونَ﴾ (الانبیاء :21؍1) ” لوگوں کے حساب کا وقت قریب آگیا ہے اور ان کا حال یہ ہے کہ وہ غفلت میں ڈوبے اور منہ موڑے ہوئے ہیں۔“ اس میں اس معنی کا احتمال بھی ہے کہ بہت سرعت سے ان کا حساب کتاب ہوگا اور ایک ہی گھڑی میں تمام مخلوق کا حساب کتاب ہوجائے گا جیسے اللہ تعالیٰ آن واحد میں تمام مخلوق کو رزق عطا کرتا ہے اور ان میں مختلف انواع کی تدبیر کرتا ہے۔ کوئی معاملہ اسے کسی دوسرے معاملے سے غافل نہیں کرسکتا اور یہ سب کچھ اس کے لئے کچھ مشکل نہیں ہے۔ ابراھیم
52 جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس بات کو پوری طرح کھول کھول کر اس قرآن میں بیان کردیا تو پھر اس کی مدح میں فرمایا ﴿ هَـٰذَا بَلَاغٌ لِّلنَّاسِ﴾ ” یہ خبر پہنچا دینی ہے لوگوں کو“ یعنی یہ ان کے لئے کافی ہے، وہ اسے زاد راہ بنا کر بلند ترین مقامات پر اور افضل ترین کرامات تک پہنچ سکتے ہیں کیونکہ یہ تمام علوم اور اصول و فروع پر مشتمل ہے جس کے بندے محتاج ہیں ﴿وَلِيُنذَرُوا بِهِ﴾ ” اور تاکہ انہیں اس سے ڈرایا جائے“ کیونکہ اس میں برے اعمال اور اس عذاب سے ڈرایا گیا ہے جو اللہ تعالیٰ نے بد اعمال لوگوں کے لئے تیار کر رکھا ہے۔ ﴿وَلِيَعْلَمُوا أَنَّمَا هُوَ إِلَـٰهٌ وَاحِدٌ﴾ ” اور تاکہ وہ جان لیں کہ معبود صرف وہی ایک ہے“ کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ نے اپنی الوہیت اور وحدانیت پر ایسے دلائل اور براہین بیان کئے ہیں جن سے یہ علم حق الیقین بن جاتا ہے ﴿وَلِيَذَّكَّرَ أُولُو الْأَلْبَابِ﴾ ”اور تاکہ اہل عقل نصیحت پکڑیں۔“ یعنی عقل کامل کے حامل لوگ اس سے نصیحت پکڑیں، وہ کام کریں جو ان کے لئے فائدہ مند ہے اور وہ کام چھوڑ دیں جو ان کے لئے نقصان دہ ہے۔ ایسا کرنے سے وہ عقل مند اور اصحاب بصیرت بن جائیں گے۔ اس لئے کہ قرآن کے ذریعے سے ان کے معارف اور آراء صائبہ میں اضافہ اور ان کے افکار روشن ہوتے ہیں۔ کیونکہ انہوں نے قرآن کے تازہ افکار حاصل کئے ہیں، قرآن انہیں بلند ترین اخلاق و اعمال کی طرف دعوت دیتا ہے اور وہ ان پر قوی ترین، واضح ترین دلائل سے استدلال کرتا ہے۔ ایک ذہین بندہ مومن جب اس قاعدہ کلیہ کو اپنا لائحہ عمل بنا لیتا ہے تو وہ دائمی طور پر ہر قابل ستائش خصلت میں ترقی کی راہوں پر گامزن رہتا ہے۔ ابراھیم
0 الحجر
1 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی کتاب کی تعظیم اور مدح بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے: ﴿تِلْكَ اٰيٰتُ الْكِتٰبِ﴾ ’’یہ کتاب کی آیات ہیں۔‘‘ یعنی یہ آیات بہترین معانی اور افضل ترین مطالب پر دلالت کرتی ہیں﴿وَلِيَعْلَمُوا أَنَّمَا هُوَ إِلَـٰهٌ وَاحِدٌ﴾ ’’اور قرآن روشن کی۔‘‘ جو بہترین الفاظ اور اپنے مقصد پر قوی دلائل کے ذریعے سے حقائق کو کھول کھول کر بیان کرتا ہے اور یہ چیز اس بات کی موجب ہے کہ مخلوق اس کی اطاعت کرے، اس کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کر دے اور فرحت و سرور کے ساتھ اس کو قبول کرے۔ الحجر
2 جو کوئی اس عظیم نعمت کو ٹھکراتا ہے اور اس کا انکار کرتا ہے تو وہ گمراہ اور مکذبین میں شمار ہوتا ہے جن پر ایک ایسا وقت آئے گا کہ وہ تمنا کریں گے کہ کاش وہ مسلمان ہوتے یعنی انہوں نے اس کے احکام کو تسلیم کیا ہوتا اور یہ وہ وقت ہوگا جب ان کی آنکھوں پر سے پردہ ہٹ جائے گا، آخرت کی علامات اور موت کے مقدمات شروع ہوجائیں گے۔ وہ آخرت کے تمام احوال میں تمنا کریں گے کہ کاش وہ مسلمان ہوتے مگر اب وقت ہاتھ سے نکل چکا ہوگا۔ یہ لوگ اس دنیا میں دھوکے میں پڑے رہے۔ الحجر
3 پس ﴿ذَرْهُمْ يَأْكُلُوا وَيَتَمَتَّعُوا ﴾ ” چھوڑ دیں ان کو، کھا لیں اور فائدہ اٹھا لیں“ اپنی لذتوں سے ﴿وَيُلْهِهِمُ الْأَمَلُ ﴾ ” اور امید ان کو غفلت میں ڈالے رکھے“ یعنی وہ دنیا میں باقی رہنے کی امید رکھتے ہیں۔ پس بقاء کی یہ امید انہیں آخرت سے غافل کردیتی ہے ﴿فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ﴾’’عنقریب ان کو معلوم ہوجائے گا۔“ یعنی اپنے باطل موقف کو عنقریب جان لیں گے اور ان کو معلوم ہوجائے گا کہ ان کے اعمال ان کے لئے محض خسارے کا باعث تھے۔ پس وہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی مہلت سے دھوکا نہ کھائیں۔ کیونکہ قوموں کے بارے میں یہ مہلت سنت الٰہی ہے۔ الحجر
4 ﴿وَمَا أَهْلَكْنَا مِن قَرْيَةٍ﴾ ” اور کسی بستی کو ہم نے ہلاک نہیں کیا“ جو کہ عذاب کی مستحق تھی ﴿إِلَّا وَلَهَا كِتَابٌ مَّعْلُومٌ ﴾ ” مگر اس کا وقت لکھا ہوا مقرر تھا“ یعنی اس کی ہلاکت کا وقت مقرر تھا۔ الحجر
5 ﴿ مَّا تَسْبِقُ مِنْ أُمَّةٍ أَجَلَهَا وَمَا يَسْتَأْخِرُونَ﴾ ” کوئی قوم اپنے وقت مقررہ سے پہلے ہلاک ہوسکتی ہے نہ پیچھے رہ سکتی ہے۔“ ورنہ خواہ کتنی ہی تاخیر ہو گناہوں کی تاثیر کا واقع ہونا لابدی ہے۔ الحجر
6 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تکذیب کرنے والے کفار نے تمسخر اور استہزا کے طور پر کہا۔ ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِي نُزِّلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ﴾ ” اے وہ شخص کہ اترا ہے اس پر قرآن“ یعنی تیرے زعم کے مطابق ﴿إِنَّكَ لَمَجْنُونٌ ﴾ ” بے شک تو دیوانہ ہے“ کیونکہ تو سمجھتا ہے کہ محض تیرے کہنے پر ہم تیری پیروی کرنے لگ جائیں گے اور اس مذبہ کو چھوڑ دیں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے۔ الحجر
7 ﴿لَّوْ مَا تَأْتِينَا بِالْمَلَائِكَةِ﴾ ” کیوں نہیں لے آتا تو ہمارے پاس فرشتوں کو“ جو اس چیز کی صداقت اور صحت کی گواہی دیں جو تو لے کر آیا ہے ﴿إِن كُنتَ مِنَ الصَّادِقِينَ﴾ ” اگر تو سچا ہے“ اور چونکہ تیری تائید کیلئے تیرے ساتھ فرشتے نہیں آئے اس لئے تو سچا نہیں ہے اور ان کا یہ کہنا سب سے بڑا ظلم اور سب سے بڑی جہالت ہے۔ رہا اس کا ظلم ہوناتو یہ صاف ظاہر ہے کیونکہ معین معجزات کا مطالبہ اللہ تعالیٰ کی جناب میں بہت بڑی جسارت اور محض تعنت )بے جا سختی( ہے حالانکہ ان معین معجزات کے بغیر بھی بہت سی نشانیوں کے ذریعے سے دلیل اور برہان کا مقصد حاصل ہوجاتا ہے جو اس چیز کی صحت اور اس کے حق ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔۔۔ اور رہی جہالت، تو وہ اپنے مصالح اور نقصان کے بارے میں کچھ نہیں جانتے، پس فرشتوں کو نازل کرنے میں ان کے لئے کوئی بھلائیاں ہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ جب فرشتے نازل کرتا ہے تو حق کے ساتھ نازل کرتا ہے اور اس کے بعد ان لوگوں کو کوئی مہلت نہیں دی جاتی جو حق کی پیروی نہیں کرتے۔ الحجر
8 ﴿وَمَا كَانُوا إِذًا﴾ ” اور اس وقت نہ ملے گی“ یعنی فرشتے کے نازل ہونے کے بعد اگر وہ ایمان نہ لائے۔۔۔ اور وہ ایمان نہیں لائیں گے ﴿مُّنظَرِينَ ﴾ ” ان کو مہلت“ یعنی ان کو مہلت نہیں دی جائے گی۔ فرشتوں کے نازل ہونے کا مطالبہ، انکی فوری ہلاکت اور تباہی کا باعث بن جائے گا۔ کیونکہ ایمان ان کے اختیار میں نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَلَوْ أَنَّنَا نَزَّلْنَا إِلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةَ وَكَلَّمَهُمُ الْمَوْتَىٰ وَحَشَرْنَا عَلَيْهِمْ كُلَّ شَيْءٍ قُبُلًا مَّا كَانُوا لِيُؤْمِنُوا إِلَّا أَن يَشَاءَ اللّٰـهُ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ يَجْهَلُونَ﴾(الانعام:6؍111) ”اگر ہم ان پر فرشتوں کو بھی نازل کردیتے۔ مردے ان سے ہم کلام ہوتے اور ہر چیز ان کے سامنے اکٹھی کردیتے تب بھی یہ ایمان لانے والے نہ تھے الا یہ کہ اللہ چاہتا، مگر ان میں سے اکثر لوگ جاہل ہیں۔“ اگر یہ اپنی بات میں سچے ہوتے تو قرآن عظیم کی یہ آیات ہی ان کے لئے کافی ہوتیں۔ الحجر
9 بنا بریں اللہ تعالیٰ نے یہاں فرمایا : ﴿إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ﴾ ” بے شک ہم نے اتاری ہے یہ نصیحت“ یعنی قرآن جس میں ہر چیز کا تذکرہ ہے مثلاً مسائل اور واضح دلائل وغیرہ اور جو کوئی نصیحت حاصل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، اس سے نصیحت حاصل کرسکتا ہے۔ ﴿وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ ﴾ ” اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں“ یعنی اس کو نازل کرنے کی حالت میں ہر شیطان مردود کی چوری سے ہم اس کی حفاظت کرنے والے ہیں اور اس کو نازل کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قلب میں اور آپ کی امت کے قلوب میں ودیعت کردیا۔ نیز اس کے الفاظ کو تغیر و تبدل، کمی بیشی اور اس کے معانی کو ہر قسم کی تبدیلی سے محفوظ کردیا۔ تحریف کرنے والا جب کبھی اس کے معنی میں تحریف کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کسی ایسے شخص کو مقرر فرما دیتا ہے جو حق مبین کو واضح کردیتا ہے۔ قرآن کی حقانیت کی یہ سب سے بڑی دلیل ہے اور اللہ تعالیٰ کی اپنے مومن بندوں پر سب سے بڑی نعمت ہے۔ نیز اللہ تعالیٰ کی حفاظت یہ ہے کہ وہ اہل قرآن کو ان کے دشمنوں سے محفوظ رکھتا ہے اور وہ ان پر کسی ایسے دشمن کو مسلط نہیں کرتا جو ان کو ہلاک کر ڈالے۔ الحجر
10 جب مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تکذیب کی تو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول سے فرمایا کہ گزری ہوئی قوموں اور قرون ماضیہ میں مشرکین کا اپنے انبیاء کے ساتھ یہی رویہ رہا ہے۔ ﴿وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ فِي شِيَعِ الْأَوَّلِينَ﴾ ” اور ہم نے آپ سے پہلے لوگوں میں رسول بھیجے تھے۔“ یعنی گزرے ہوئے گروہوں اور جماعتوں میں رسول مبعوث کرچکے ہیں۔ الحجر
11 ﴿وَمَا يَأْتِيهِم مِّن رَّسُولٍ﴾ ” اور جو بھی رسول ان کے پاس آتا“ جو ان کو حق اور ہدایت کی طرف دعوت دیتا۔ ﴿إِلَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ﴾ ” تو وہ (مشرکین) ان کا تمسخر ہی اڑاتے تھے۔“ الحجر
12 ﴿كَذَٰلِكَ نَسْلُكُهُ﴾ ” اسی طرح داخل کردیتے ہیں ہم اس کو“ یعنی جھٹلانے کو ﴿فِي قُلُوبِ الْمُجْرِمِينَ﴾ ” گناہ گاروں کے دلوں میں“ ہم نے ان کو یہ سزا دی، جب ان کے دل کفر و تکذیب میں پچھلے لوگوں کے مشابہ ہوگئے اور اپنے رسولوں اور پیغمبروں کے ساتھ استہزاء و تمسخر اور عدم ایمان کے بارے میں بھی ان کا معاملہ ان کے مشابہ ہوگیا۔ یعنی وہ لوگ جن کا وصف ظلم اور بہتان طرازی تھا۔ ہم نے ان کو اس بنا پر سزا دی کہ ان کے دلوں نے کفر اور تکذیب کی مشابہت اختیار کی، اپنے انبیاء کے معاملے میں تشابہ کا شکار ہوگئے، اپنے رسولوں کے ساتھ ان کا یہ رویہ استہزاء، تمسخر اور عدم ایمان کا تھا۔ الحجر
13 اسی لئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ا يُؤْمِنُونَ بِهِ ۖ وَقَدْ خَلَتْ سُنَّةُ الْأَوَّلِينَ﴾ ” وہ اس پر ایمان نہیں لائیں گے اور ہوتی آئی ہے رسم پہلوں کی“ یعنی انکے بارے میں عادت الٰہی یہ ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتا اللہ تعالیٰ اسے ہلاک کردیتا ہے۔ الحجر
14 اس آیت کی تفسیر اگلی آیت کے ساتھ ملاحظہ کیجئے۔ الحجر
15 یعنی اگر ان کے پاس کوئی بڑا سا معجزہ بھی آجائے تو یہ حق کا انکار کردیں گے اور ہرگز ایمان نہیں لائیں گے چنانچہ فرمایا : ﴿وَلَوْ فَتَحْنَا عَلَيْهِم بَابًا مِّنَ السَّمَاءِ﴾ ” اگر کھول دیں ہم ان پر دروازہ آسمان سے“ اور وہ خود اس دروازے کا عیاں طور پر مشاہدہ کرلیں اس دروازے میں سے اوپر چڑھ بھی جائیں تب بھی وہ اپنے ظلم و عناد کی بنا پر اس معجزے کا انکار کرتے ہوئے کہیں گے ﴿إِنَّمَا سُكِّرَتْ أَبْصَارُنَا﴾ ” باندھ دیا گیا ہے ہماری نگاہوں کو“ یعنی ہماری آنکھوں پر نشے کا پردہ آگیا، حتی کہ ہم نے وہ کچھ دیکھا جو ہم دیکھ نہ سکتے تھے۔ ﴿بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَّسْحُورُونَ﴾ ”بلکہ ہم لوگوں پر جادو کردیا گیا ہے“ یعنی یہ حقیقت نہیں ہے بلکہ جادو ہے اور جو قوم ان کی اس حالت کو پہنچ جائے، تو ان لوگوں میں اصلاح کی کوئی امید باقی نہیں رہتی۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان آیات کا ذکر فرمایا جو انبیاء و رسل کے لائے ہوئے حق پر دلالت کرتی ہیں چنانچہ فرمایا : الحجر
16 اللہ تعالیٰ اپنے کامل اقتدار اور مخلوق پر اپنی رحمت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے : ﴿وَلَقَدْ جَعَلْنَا فِي السَّمَاءِ بُرُوجًا﴾ ” اور ہم نے بنائے ہیں آسمان میں برج“ یعنی ہم نے ستاروں کو برجوں کی مانند بنایا اور انہیں بڑی علامتیں بنایا جن کے ذریعے سے بحر و بر کی تاریکیوں میں راستے تلاش کئے جاتے ہیں ﴿وَزَيَّنَّاهَا لِلنَّاظِرِينَ ﴾ ” اور خوب صورت بنایا ہے اس کو دیکھنے والوں کے لئے“ اگر ستارے نہ ہوتے تو آسمان کا منظر اتنا خوبصورت اور اس کی ہئیت اتنی تعجب خیز نہ ہوتی اور یہ چیز دیکھنے والوں کو ان پر تدبر، ان کے معانی میں غور و فکر اور ان کے ذریعے سے ان کے پیدا کرنے والے پر استدلال کی دعوت دیتی ہے۔ الحجر
17 ﴿وَحَفِظْنَاهَا مِن كُلِّ شَيْطَانٍ رَّجِيمٍ﴾ ” اور ہم نے اس کی حفاظت کی ہر شیطان مردوں سے“ جب وہ سن گن لینے کی کوشش کرتا ہے تو شہاب ثاقب اس کا پیچھا کرتے ہیں اور یوں آسمان شیطان کی دست برد سے محفوظ ہے۔ آسمان کا ظاہری حصہ روشن ستاروں کے ذریعے سے خوبصورتی سے سجا ہوا ہے اور اس کا باطنی حصہ آفتوں سے محفوظ کردیا گیا ہے۔ الحجر
18 ﴿إِلَّا مَنِ اسْتَرَقَ السَّمْعَ﴾ ” مگر جو چوری سے سن بھاگا“ یعنی بعض اوقات، کبھی کبھار کوئی شیطان سن گن لینے کی کوشش کرتا ہے ﴿فَأَتْبَعَهُ شِهَابٌ مُّبِينٌ﴾ ” تو چمکتا ہوا انگارا اس کے پیچھے لپکتا ہے۔“ یعنی ایک روشن ستارہ اس کا پیچھا کر کے اس کو قتل کردیتا ہے یا اسے سن گن لینے سے روک دیتا ہے اور کبھی کبھی یہ شہاب ثاقب اس شیطان کو اپنے دوست کے پاس پہنچنے سے پہلے جا لیتا ہے اور آسمان کی خبر زمین پر جانے سے روک دیتا ہے۔ بسا اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ شہاب ثاقب کے پہنچنے سے پہلے ہی وہ آسمانی خبر اپنے دوست کو القا کردیتا ہے۔ پس وہ شخص اس میں سو جھوٹ ملا کر بیان کرتا ہے اور وہ کلام جو اس نے آسمان سے سنا ہوتا ہے اس سے استدلال کرتا ہے۔ الحجر
19 ﴿ وَالْأَرْضَ مَدَدْنَاهَا ﴾ ” اور زمین کو ہم نے پھیلایا“ یعنی ہم نے زمین کو نہایت وسیع اور کشادہ بنایا ہے تاکہ انسانوں اور حیوانوں کی اس وسیع و عریض زمین کے کناروں تک رسائی، اس سے وافر مقدار میں رزق کا حصول اور اس کے اطراف و جوانب میں سکونت آسان ہو۔ ﴿وَأَلْقَيْنَا فِيهَا رَوَاسِيَ﴾ ” اور اس پر پہاڑ رکھ دیے۔‘ یعنی زمین پر بڑے بڑے پہاڑ رکھ دیئے جو اللہ کے حکم سے زمین کی حفاظت کرتے ہیں کہ کہیں وہ جھک نہ جائے اور وہ زمین کو جمائے رکھتے ہیں کہ کہیں وہ ڈھلک نہ جائے۔ ﴿وَأَنبَتْنَا فِيهَا مِن كُلِّ شَيْءٍ مَّوْزُونٍ﴾ ” اور اگائی اس میں ہر چیز انداز سے“ یعنی فائدہ مند اور درست چیز جس کے لوگ اور بستیاں ضرورت مند ہوتی ہیں مثلاً کھجور، انگور، مختلف اصناف کے درخت، انواع و اقسام کی نباتات اور معدنیات۔ الحجر
20 ﴿وَجَعَلْنَا لَكُمْ فِيهَا مَعَايِشَ﴾ ” اور بنا دیئے تمہارے لئے اس میں روزی کے اسباب“ یعنی کھیتی باڑی، مویشیوں اور مختلف اقسام کے پیشوں اور دستکاریوں کے ساتھ تمہاری روزی وابستہ کی ﴿ وَمَن لَّسْتُمْ لَهُ بِرَازِقِينَ﴾ ” اور ایسی چیزیں جن کو تم روزی نہیں دیتے“ یعنی ہم نے تمہارے فائدے اور تمہارے مصالح کے لئے تمہیں غلام، لونڈیاں اور مویشی عطا کئے جن کا رزق تمہارے ذمے نہیں ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو تمہیں عطا کیا اور انکے رزق کی کفالت اپنے ذمے لی۔ الحجر
21 یعنی ہر قسم کا رزق اور ہر قسم کی تقدیر اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کے قبضہ اختیار میں نہیں، رزق کے خزانے اسی کے ہاتھ میں ہیں وہ اپنی حکمت اور بے کراں رحمت کے مطابق جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے محروم کردیتا ہے ﴿وَمَا نُنَزِّلُهُ﴾ ” اور نہیں اتارتے ہم اس کو“ یعنی ہر مقررہ چیز، جیسے بارش وغیرہ ﴿إِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُومٍ﴾ ” مگر معین اندازے پر“ یعنی اس کی جو مقدار اللہ تعالیٰ نے مقرر کردی ہے، اس سے زیادہ ہوتی ہے نہ اس سے کم ہوتی ہے۔ الحجر
22 ہم نے ہواؤں، یعنی رحمت کی ہواؤں کو مسخر کیا ہے جو بادلوں کو بار آور کرتی ہیں جیسے نر مادہ کو بار آور کرتا ہے۔ ان بادلوں سے، اللہ تعالیٰ کے حکم سے پانی نازل ہوتا ہے۔ اس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ بندوں کو، ان کے مویشیوں اور زمینوں کو سیربا کرتا ہے اور باقی پانی زمین میں ذخیرہ ہوجاتا ہے، وہ ان کی حاجات و ضروریات میں کام آتا ہے، جو اللہ تعالیٰ کی قدرت اور رحمت کا تقاضا ہے۔ ﴿وَمَا أَنتُمْ لَهُ بِخَازِنِينَ﴾ ”اور تم تو اس کا خزانہ نہیں رکھتے۔“ یعنی تمہیں یہ قدرت حاصل نہیں کہ تم پانی کو جمع کر کے اس پانی کا ذخیرہ کرسکو، بلکہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جو تمہارے لئے اس کے خزانے جمع کرتا ہے پھر چشموں کی صورت میں زمین پر بہا دیتا ہے یہ اس کی تم پر رحمت اور احسان ہے۔ الحجر
23 یہ اللہ وحدہ لاشریک ہی ہے جو تمام خلائق کو عدم سے وجود میں لاتا ہے حالانکہ وہ اس سے قبل کچھ بھی نہ تھے اور ان کی مدت مقررہ پوری ہونے کے بعد ان کو موت دیتا ہے۔ ﴿وَنَحْنُ الْوَارِثُونَ﴾ ” اور ہم ہی ہیں پیچھے رہنے والے“ اللہ کا یہ ارشاد اس آیت کریمہ کی مانند ﴿إِنَّا نَحْنُ نَرِثُ الْأَرْضَ وَمَنْ عَلَيْهَا وَإِلَيْنَا يُرْجَعُونَ﴾ )مریم :19؍40( ” ہم ہی زمین کے وارث ہوں گے اور سب ہماری ہی طرف لوٹائے جائیں گے۔“ اور یہ چیز اللہ تعالیٰ کے لئے مشکل اور محال نہیں ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ پہلے لوگوں کو بھی جانتا ہے اور اسے آنے والے لوگوں کا بھی علم ہے، زمین ان میں جو کمی واقع کر رہی ہے اور ان کے اجزاء کو بکھیر رہی ہے، سب اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جس کے دست قدرت کو کوئی چیز عاجز نہیں کرسکتی۔ پس وہ اپنے بندوں کو دوبارہ نئے سرے سے پیدا کرے گا پھر ان کو اپنے حضور اکٹھا کرے گا الحجر
24 الحجر
25 ﴿إِنَّهُ حَكِيمٌ عَلِيمٌ﴾ ” وہ دانا، جاننے والا ہے۔“ یعنی وہ تمام اشیاء کو ان کے لائق شان مقام پر رکھتا ہے اور ان کے لائق حال مقام پر نازل کرتا ہے، وہ ہر عمل کرنے والے کو اس کے عمل کا بدلہ دے گا، اگر اچھا عمل ہوگا تو اچھی جزا ہوگی اور اگر برا عمل ہوگا تو بری جزا ہوگی۔ الحجر
26 اللہ تبارک و تعالیٰ ہمارے باپ حضرت آدم پر اپنی نعمت اور اپنے احسان کا ذکر کرتاہے، حضرت آدم کا اپنے دشمن ابلیس کے ساتھ جو معاملہ ہوا اس کو بھی بیان کرتا ہے اور اس ضمن میں ہمیں ابلیس کے شر اور فتنہ سے ڈراتا ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ﴾ ” ہم نے انسان کو پیدا کیا۔“ یعنی آدم علیہ السلام کو پیدا کیا ﴿مِن صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَإٍ مَّسْنُونٍ﴾ ” کھنکھناتے سڑے ہوئے گارے سے“ یعنی خمیر شدہ گارے سے پیدا کیا جس میں خشک ہونے کے بعد کھنکھناہٹ کی آواز پیدا ہوجاتی ہے۔ جیسے پکی ہوئی ٹھیکری کی آواز۔ (اَلْحَماُالْمَسْنُون) اس گارے کو کہتے ہیں، جس کا رنگ اور بو، طویل عرصے تک پڑا رہنے کی وجہ سے بدل گئے ہوں۔ ﴿وَالْجَانَّ﴾ ” اور جنوں کو۔“ اس سے مراد جنوں کا باپ، یعنی ابلیس ہے الحجر
27 ﴿خَلَقْنَاهُ مِن قَبْلُ﴾’’پیدا کیا ہم نے اس کو پہلے“ یعنی تخلیق آدم سے پہلے ﴿ مِن نَّارِ السَّمُومِ﴾ ” لوکی آگ سے“ یعنی نہایت سخت حرارت والی آگ سے، پس جب اللہ تعالیٰ نے آدم کی تخلیق کا ارادہ فرمایا تو فرشتوں سے کہا : الحجر
28 ﴿ إنِّي خَالِقٌ بَشَرًا مِّن صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَإٍ مَّسْنُونٍ  فَإِذَا سَوَّيْتُهُ ﴾ ” میں کھنکھناتے سڑے ہوئے گارے سے ایک انسان بنانے لگا ہوں۔ پس جب میں اس کو ٹھیک ٹھاک کر لوں“ یعنی جب میں اس کے جسد کی تکمیل کرچکوں۔ الحجر
29 ﴿وَنَفَخْتُ فِيهِ مِن رُّوحِي فَقَعُوا لَهُ سَاجِدِينَ﴾ ”اور اپنی روح اس میں پھونک دوں، تو سب اس کو سجدہ کرتے ہوئے گر پڑنا۔“ پس انہوں نے اپنے رب کے حکم کی تعمیل کی۔ الحجر
30 ﴿فَسَجَدَ الْمَلَائِكَةُ كُلُّهُمْ أَجْمَعُونَ﴾ ” پس تمام فرشتوں نے سجدہ کیا“ یہاں تاکید کے بعد تاکید کو ذکر کرنے سے مقصود یہ ہے کہ یہ اسلوب اس حقیقت پر دلالت کرے کہ فرشتوں میں سے کوئی ایک فرشتہ بھی سجدہ کرنے سے پیچھے نہیں رہا تھا اور یہ سجدہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعظیم اور آدم علیہ السلام کی تکریم کے لئے تھا، کیونکہ حضرت آدم علیہ السلام وہ کچھ جانتے تھے جس کا فرشتوں کو علم نہیں۔ الحجر
31 ﴿ إِلَّا إِبْلِيسَ أَبَىٰ أَن يَكُونَ مَعَ السَّاجِدِينَ﴾ ”مگر ابلیس نے اس بات سے انکار کردیا کہ وہ سجدہ کرنے والوں کے ساتھ ہو“ یہ شیطان کی آدم علیہ السلام اور ان کی اولاد کے ساتھ پہلی عداوت ہے۔ الحجر
32 اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿يَا إِبْلِيسُ مَا لَكَ أَلَّا تَكُونَ مَعَ السَّاجِدِينَ  قَالَ لَمْ أَكُن لِّأَسْجُدَ لِبَشَرٍ خَلَقْتَهُ مِن صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَإٍ مَّسْنُونٍ﴾ ” اے ابلیس ! تجھے کیا ہے کہ تو سجدہ کرنے والوں کے ساتھ نہ ہوا، اس نے کہا، میں اس انسان کو سجدہ نہیں کروں گا جس کو تو نے کھنکتے، سڑے ہوئے گارے سے پیدا کیا ہے“ پس شیطان مردود نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مقابلے میں تکبر، حضرت آدم علیہ السلام اور ان کی اولاد کے خلاف عداوت کا اظہار کیا اور اپنے عناصر ترکیبی پر خود پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بولا ” میں آدم سے بہتر ہوں۔“ الحجر
33 ﴿قَالَ﴾ اللہ تبارک و تعالیٰ نے شیطان کے کفر و استکبار پر سخت گرفت کرتے ہوئے فرمایا : ﴿فَاخْرُجْ مِنْهَا فَإِنَّكَ رَجِيمٌ ﴾ ” پس تو نکل جا یہاں سے، بے شک تو مردود ہے“ یعنی تو دھتکارا ہوا اور ہر بھلائی سے دور کردیا گیا ہے۔ ﴿وَإِنَّ عَلَيْكَ اللَّعْنَةَ ﴾ ” اور تجھ پر لعنت ہے“ یعنی تو مذمت اور ملامت کا مستحق اور اللہ کی رحمت سے دور ہے۔ ﴿إِلَىٰ يَوْمِ الدِّينِ ﴾ ” جزا کے دن تک“ اس آیت اور اس جیسی دیگر آیات میں دلیل ہے کہ شیطان اپنے کفر پر قائم اور بھلائی سے دور رہے گا۔ ﴿قَالَ رَبِّ فَأَنظِرْنِي﴾’’شیطان نے کہا، اے رب مجھے ڈھیل دے“ یعنی مجھے مہلت دے الحجر
34 الحجر
35 الحجر
36 ﴿ إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ  قَالَ فَإِنَّكَ مِنَ الْمُنظَرِينَ إِلَىٰ يَوْمِ الْوَقْتِ الْمَعْلُومِ ﴾ ” قیامت کے دن تک، اللہ نے کہا، تجھ کو ڈھیل دی، اسی مقرر وقت کے دن تک“ اللہ تعالیٰ کا شیطان کی دعا کو قبول کرلینا اس کے حق میں اکرام و تکریم نہیں، بلکہ یہ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے شیطان اور بندوں کے لئے ابتلاء اور امتحان ہے، تاکہ دشمن میں سے اس کا وہ سچا بندہ الگ ہوجائے جو اس کی اطاعت کرتا ہے۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے ہمیں شیطان مردود سے بہت ڈرایا ہے اور کھول کھول کر بیان کردیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سے کیا چاہتا ہے۔ الحجر
37 الحجر
38 الحجر
39 ﴿قَالَ رَبِّ بِمَا أَغْوَيْتَنِي لَأُزَيِّنَنَّ لَهُمْ فِي الْأَرْضِ ﴾ ” شیطان نے کہا، اب رب، جیسے تو نے مجھے گمراہ کیا ہے، میں بھی ان سب کو بہاریں دکھلاؤں گا زمین میں“ یعنی میں ان کے سامنے دنیا کو آراستہ کروں گا، میں ان کو اس بات پر آمادہ کروں گا کہ وہ دنیا کو آخرت پر ترجیح دیں یہاں تک کہ وہ ہر گناہ کرنے لگ جائیں گے۔ ﴿وَلَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ﴾ ” اور ان سب کو بہکا دوں گا“ یعنی میں تمام انسانوں کو راہ راست پر چلنے سے روک دوں گا۔ الحجر
40 ﴿إِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ﴾ ” مگر ان میں سے جو تیرے مخلص بندے ہیں۔“ یعنی وہ لوگ جن کو تو نے ان کے اخلاص، ایمان اور توکل کی وجہ سے چن کر اپنے لئے خالص کرلیا۔ (وہ میرے جال سے بچ جائیں گے۔) اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : الحجر
41 ﴿هَـٰذَا صِرَاطٌ عَلَيَّ مُسْتَقِيمٌ﴾ ” یہ راستہ ہے مجھ تک سیدھا“ یعنی یہ راستہ معتدل، مجھ تک اور میرے عزت والے گھر تک پہنچاتا ہے۔ الحجر
42 ﴿ إِنَّ عِبَادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطَانٌ ﴾ ” جو میرے بندے ہیں ان پر تجھے کچھ قدرت نہیں۔“ یعنی میرے بندوں پر تجھے کوئی اختیار نہیں کہ تو جہاں چاہے انہیں مختلف انواع کی گمراہیوں میں مبتلا کر دے اور اس کا سبب یہ ہے کہ وہ اپنے رب کی عبادت کرتے ہیں اور اس کے احکام کی تعمیل کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کی مدد فرماتا ہے اور انہیں شیطان سے بچاتا ہے ﴿إِلَّا مَنِ اتَّبَعَكَ﴾ ” مگر جس نے تیری پیروی کی“ اور اللہ رحمٰن کی اطاعت کی بجائے تیری سرپرستی قبول کرنے اور تیری اطاعت کرنے پر راضی ہوگیا۔ ﴿مِنَ الْغَاوِينَ﴾ ” بہکے ہوؤں میں سے ہے“ (الْغَاوِي) ” گمراہ“ (الراشد) ” ہدایت یافتہ‘‘ کی ضد ہے اور اس شخص کو کہتے ہیں جو حق کو پہچان کر ترک کر دے اور (الضال) اس شخص کو کہتے ہیں جو حق کو جانے بغیر اس کو ترک کر دے۔ الحجر
43 ﴿ وَإِنَّ جَهَنَّمَ لَمَوْعِدُهُمْ أَجْمَعِينَ﴾ ” اور جہنم ان سب کے وعدے کی جگہ ہے“ یعنی ابلیس اور اس کے لشکروں کے لئے۔ الحجر
44 ﴿لَهَا سَبْعَةُ أَبْوَابٍ﴾ ” اس کے سات دروازے ہیں“ ہر دروازہ دوسرے دروازے سے نیچے ہوگا۔ ﴿لِّكُلِّ بَابٍ مِّنْهُمْ ﴾ ” ہر دروازے کے واسطے ان میں سے“ یعنی ابلیس کے پیروکاروں میں سے ﴿جُزْءٌ مَّقْسُومٌ﴾ ” ایک حصہ ہے بانٹا ہوا“ یعنی ان کے اعمال کے مطابق اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : ﴿فَكُبْكِبُوا فِيهَا هُمْ وَالْغَاوُونَ وَجُنُودُ إِبْلِيسَ أَجْمَعُونَ ﴾ (الشعراء: 26؍95۔94)’ ’’پس ان کے معبود، یہ گمراہ لوگ اور ابلیس کے لشکر سب کے سب اوپر تلے جہنم میں پھینک دیئے جائیں گے۔ “ الحجر
45 اللہ تبارک و تعالیٰ نے جہاں یہ ذکر فرمایا کہ آخرت میں اس کے دشمنوں یعنی ابلیس کیپ یرو کاروں کو کیا سخت عذاب اور سزا دی جائے گی وہاں یہ بھی بتایا کہ وہ اپنے دوستوں کو کس فضل عظیم اور دائمی نعمتوں سے نوازے گا۔ چنانچہ فرمایا : ﴿إِنَّ الْمُتَّقِينَ﴾ ” بے شک پرہیز گار“ جو شیطان کی اطاعت، اس کے وسوسوں، گناہوں اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے بچتے ہیں ﴿فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ ﴾ ” باغات اور چشموں میں ہوں گے“ جن میں درختوں کی تمام اقسام ہوں گی اور اس میں ہر قوت اور ہر قسم کے پکے ہوئے پھل ہوں گے۔ جنت میں داخل ہوتے وقت ان سے کہا جائے گا ۔ الحجر
46 ﴿ادْخُلُوهَا بِسَلَامٍ آمِنِينَ ﴾ ” داخل ہوجاؤ اس میں سلامتی سے ہر نقصان سے محفوظ“ یعنی موت، نیند، تھکن سے، وہاں حاصل نعمتوں میں سے کسی نعمت کے منقطع ہونے، یا ان میں کمی واقع ہونے سے، بیماری، حزن و غم اور دیگر تمام کدورتوں سے مامون و محفوظ الحجر
47 ﴿وَنَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِم مِّنْ غِلٍّ﴾ ” اور نکال ڈالیں گے ہم ان کے سینوں سے کینہ“ پس ان کے دل ہر قسم کے کینہ اور حسد سے سلامت، پاک صاف اور آپس میں محبت کرنے والے ہوں گے ﴿إِخْوَانًا عَلَىٰ سُرُرٍ مُّتَقَابِلِينَ﴾ ” وہ آپس میں بھائی بھائی بن کر تختوں پر ایک دوسرے کے سامنے بیٹھے ہوں گے۔“ یہ آیت کریمہ ان کے آپس میں ایک دوسرے کی زیارت کرنے، ان کو اکٹھے ہونے اور ان کے آپس میں حسن ادب پر دلالت کرتی ہے نیز یہ اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ وہ جنت میں ایک دوسرے سے پیٹھ پھیر کر نہیں بلکہ سجے تختوں پر تکیے لگا کر، موتی اور مختلف قسم کے جواہرات جڑے ہوئے بچھونوں پر، ایک دوسرے کے سامنے بیٹھیں گے۔ الحجر
48 ﴿لَا يَمَسُّهُمْ فِيهَا نَصَبٌ ﴾ ” نہیں پہنچے گی وہاں ان کو کوئی تھکاوٹ“ انہیں ظاہری تھکاوٹ لاحق ہوگی، نہ باطنی، اور یہ اس وجہ سے ہوگا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے انہیں ایسی حیات کاملہ سے نوازا ہوگا جو آفات کا اثر قبول نہیں کرے گی۔ ﴿وَمَا هُم مِّنْهَا بِمُخْرَجِينَ ﴾ ” اور نہ وہاں وہاں سے نکالے جائیں گے۔“ یعنی وہ کسی بھی وقت جنت سے نکالے نہیں جائیں گے۔ الحجر
49 اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے فیصلوں، یعنی جنت اور جہنم کا ذکر فرمانے کے بعد، جو ترغیب و ترہیب کا موجب ہیں، اپنے ان اوصاف کا ذکر فرمایا جو جنت و جہنم کے موجب ہیں۔ چنانچہ فرمایا : ﴿ نَبِّئْ عِبَادِي﴾ ” میرے بندوں کو بتا دو۔“ یعنی میرے بندوں کو نہایت جزم کے ساتھ خبر دیجیے جس کی تائید دلائل کرتے ہوں کہ ﴿ أَنِّي أَنَا الْغَفُورُ الرَّحِيمُ﴾ ” میں بہت بخشنے والا نہایت مہربان ہوں۔“ کیونکہ جب بندے اللہ تعالیٰ کی رحمت کاملہ اور اس کی مغفرت کی معرفت حاصل کرلیں گے تو ان اسباب کے حصول میں کوشاں ہوں گے جو اللہ تعالیٰ کی رحمت کاملہ تک پہنچاتے ہیں، گناہوں کے ارتکاب سے رک کر ان سے توبہ کریں گے، تاکہ وہ اس کی مغفرت کے مستحق قرار پائیں اور وہ امید کے اس حال تک نہ پہنچ جائیں کہ وہ اپنے آپ کو اللہ کی گرفت سے مامون سمجھ کر اللہ تعالیٰ کے بارے میں جرأت کا رویہ رکھیں۔ نیز انہیں اس بات سے بھی آگاہ کردیجیے ! الحجر
50 ﴿ وَأَنَّ عَذَابِي هُوَ الْعَذَابُ الْأَلِيمُ﴾ ” میرا عذاب، وہ درد ناک عذاب ہے“ درحقیقت اللہ تعالیٰ کے عذاب کے سوا دوسرا عذاب کوئی عذاب ہی نہیں، اللہ تعالیٰ کے عذاب کا کوئی اندازہ کیا جاسکتا ہے نہ اس کی کنہ تک پہنچا جاسکتا ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ کے عذاب سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے ہیں، کیونکہ جب انہیں اس حقیقت کی معرفت حاصل ہوگی کہ ﴿ فَيَوْمَئِذٍ لَّا يُعَذِّبُ عَذَابَهُ أَحَدٌ وَلَا يُوثِقُ وَثَاقَهُ أَحَدٌ﴾ (الفجر :89؍25۔26) ” اس روز نہ کوئی اللہ کے عذاب کی مانند کوئی عذاب دے گا اور نہ اللہ کی گرفت کی مانند کوئی گرفت کرسکے گا۔“ تب وہ ڈریں گے اور ہر اس سبب سے دور رہیں گے جو اللہ تعالیٰ کے عذاب کا موجب بنتا ہے۔ بندہ مومن کے لائق یہی ہے کہ اس کا قلب دائمی طور پر خوف اور امید، رغبت اور رہبت کے درمیان رہے۔ جب بندہ اپنے رب کی بے پایاں رحمت، اس کی مغفرت اور اس کے جود و احسان کی طرف نظر کرے تو اس کا قلب امید اور رغبت سے لبریز ہوجائے اور جب وہ اپنے گناہوں اور اپنے رب کے حقوق کے بارے میں اپنی تقصیر پر نظر ڈالے تو اس کے دل میں خوف اور رہبت پیدا ہوا اور وہ گناہوں کو چھوڑ دے۔ الحجر
51 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے نبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرماتا ہے : ﴿وَنَبِّئْهُمْ عَن ضَيْفِ إِبْرَاهِيمَ﴾ ” ان کو ابراہیم کے مہمانوں کی بابت خبر دیں“ یعنی اس عجیب قصے کے بارے میں ان کو آگاہ کیجیے، کیونکہ آپ کے ان کے سامنے انبیاء کرام کے قصے اور ان کے حالات بیان کرنے سے، ان کو عبرت حاصل ہوگی اور وہ ان کی پیروی کریں گے۔۔۔ خاص طور پر اللہ تعالیٰ کے خلیل ابراہیم علیہ السلام کا قصہ، جن کے بارے میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم ان کی ملت کی پیروی کریں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مہمانوں سے مراد وہ مکرم فرشتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مہمان بنا کر ان کو اعزاز بخشا۔ الحجر
52 ﴿إِذْ دَخَلُوا عَلَيْهِ فَقَالُوا سَلَامًا﴾ ” جب وہ آئے ان کے گھر میں تو کہا سلام“ یعنی انہوں نے ابراہیم علیہ السلام کو سلام کیا اور ابراہیم علیہ السلام نے ان کو سلام کا جواب دیا اور کہا ﴿ إِنَّا مِنكُمْ وَجِلُونَ﴾ ” ہم تم لوگوں سے خائف ہیں۔“ اور خوف زدہ ہونے کی وجہ یہ تھی کہ جب فرشتے ابراہیم علیہ السلام کے پاس آئے تو آپ نے ان کو مہمان سمجھا اور آپ جلدی سے گھر گئے اور ان کی مہمان نوازی کے لئے بھنا ہوا بچھڑا لے آئے اور ان کی خدمت میں پیش کردیا۔ جب آپ نے دیکھا کہ مہمانوں کے ہاتھ کھانے کی طرف نہیں بڑھ رہے تو آپ نے ان کو چور وغیرہ سمجھا اور خوف زدہ ہوگئے۔ الحجر
53 ﴿ قَالُوا﴾ فرشتوں نے ان سے کہا : ﴿لَا تَوْجَلْ إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلَامٍ عَلِيمٍ ﴾ ” ڈریں مت، ہم آپ کو ایک سمجھ دار لڑکے کی خوش خبری سناتے ہیں“ یہاں لڑکے سے مراد اسحاق علیہ السلام ہیں۔ یہ بشارت اس بات کو متضمن ہے کہ وہ بچہ جس کی خوشخبری دی گی تھی، لڑکا تھا، لڑکی نہ تھا، یہاں ” علیم“ سے مراد ہے ” کثیر العلم“ (بہت علم و فہم والا) ایک اور آیت کریمہ میں یوں آتا ہے ﴿وَبَشَّرْنَاهُ بِإِسْحَاقَ نَبِيًّا مِّنَ الصَّالِحِينَ﴾(الصافات:37؍112) ” اور ہم نے اسے اسحاق کی خوشخبری دی کہ وہ نبی اور صالح لوگوں میں سے ہوں گے۔ “ الحجر
54 ابراہیم علیہ السلام نے اس خوش خبری پر متعجب ہو کر کہا ﴿أَبَشَّرْتُمُونِي ﴾ ” کیا تم مجھے (بیٹے کی) خوشخبری دیتے ہو۔“ ﴿عَلَىٰ أَن مَّسَّنِيَ الْكِبَرُ﴾ ” جب کہ پہنچ چکا مجھ کو بڑھاپا“ بنا بریں وہ اولاد ہونے کے بارے میں ایک قسم کی مایوسی سے دو چار تھے ﴿ فَبِمَ تُبَشِّرُونَ﴾ ” پس کس وجہ سے تم مجھے خوشخبری دیتے ہو؟“ حالانکہ اولاد ہونے کے اسباب تو معدوم ہوچکے ہیں۔ الحجر
55 ﴿ قَالُوا بَشَّرْنَاكَ بِالْحَقِّ﴾ ” انہوں نے کہا، ہم نے آپ کو سچی خوش خبری سنائی ہے“ جس میں کوئی شک و شبہ نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے خاص طور پر۔۔۔ اے نبوت کے گھر والو ! تم پر اللہ کی رحمت اور برکتیں ہیں۔۔۔ تمہیں تو اللہ کے فضل و احسان کو نادرو ناممکن نہیں سمجھنا چاہئے۔ ﴿فَلَا تَكُن مِّنَ الْقَانِطِينَ﴾ ”پس آپ ناامیدوں میں سے نہ ہوں“ یعنی آپ ان لوگوں میں سے نہ ہو جائیں جو بھلائی کے وجود کو مستبعد سمجھتے ہیں۔ بلکہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور اس کی عنایات و احسان کے امیدوار رہیے۔ الحجر
56 ابراہیم علیہ السلام نے جواب میں فرمایا : ﴿وَمَن يَقْنَطُ مِن رَّحْمَةِ رَبِّهِ إِلَّا الضَّالُّونَ﴾ ” رب کی رحمت سے ناامید گمراہ لوگ ہی ہوتے ہیں“ جو اپنے رب اور اس کی قدرت کاملہ سے لاعلم ہیں، لیکن جسے اللہ تعالیٰ نے ہدایت اور علم عظیم سے نواز رکھا ہو، مایوسی اس تک راہ نہیں پا سکتی کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے حصول کے لئے اسباب و وسائل اور طریقوں کی کثرت کو خوب جانتا ہے۔ پھر جب فرشتوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بیٹے کی بشارت دی تو انہوں نے جان لیا کہ ان کو نہایت اہم کام پر بھیجا گیا ہے۔ الحجر
57 ﴿قَالَ﴾ خلیل علیہ السلام نے فرشتوں سے پوچھا : ﴿ فَمَا خَطْبُكُمْ أَيُّهَا الْمُرْسَلُونَ﴾ ” پس کیا تمہاری مہم ہے اے اللہ کے بھیجے ہوؤ؟“ یعنی تمہارا کیا معاملہ ہے اور تمہیں کس کام کے لئے بھیجا گیا ہے الحجر
58 ﴿قَالُوا إِنَّا أُرْسِلْنَا إِلَىٰ قَوْمٍ مُّجْرِمِينَ﴾ ” انہوں نے کہا، ہم ایک گناہ گار قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں“ یعنی ان میں شر اور فساد بہت زیادہ ہوگیا ہے، اس لئے ہمیں ان کو سزا دینے اور ان پر عذاب نازل کرنے کے لئے بھیجا گیا ہے۔ الحجر
59 ﴿إِلَّا آلَ لُوطٍ إِنَّا لَمُنَجُّوهُمْ أَجْمَعِينَ ﴾ ” سوائے لوط اور انکے گھر والوں کے، ان سب کو ہم بچا لیں گے۔“ الحجر
60 ﴿إِلَّا امْرَأَتَهُ قَدَّرْنَا ۙ إِنَّهَا لَمِنَ الْغَابِرِينَ ﴾ ’’سوائے اس کی بیوی کے، ہم نے ٹھہرا لیا ہے کہ وہ پیچھے رہ جانے والوں میں سے ہے۔“ یعنی وہ عذاب میں رہ جانے والوں میں شامل ہوگی۔ رہے لوط تو ہم ان کو اور ان کے گھر والوں کو وہاں سے نکال کر بچا لیں گے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام قوم لوط کی ہلاکت کے بارے میں فرشتوں سے جھگڑنے لگے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کہا گیا : ﴿يَا إِبْرَاهِيمُ أَعْرِضْ عَنْ هَـٰذَا ۖ إِنَّهُ قَدْ جَاءَ أَمْرُ رَبِّكَ ۖ وَإِنَّهُمْ آتِيهِمْ عَذَابٌ غَيْرُ مَرْدُودٍ﴾ (ھود:11؍76)” اے ابراہیم ! اس بات کو جانے دو تیرے رب کا حکم صادر ہوچکا ہے اب ان پر عذاب آ کر رہے گا اب اس کو روکا نہیں جاسکتا۔“ اور فرشتے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس سے چلے گئے۔ الحجر
61 ﴿فَلَمَّا جَاءَ آلَ لُوطٍ الْمُرْسَلُونَ﴾ ” پس جب فرشتے آل لوط کے پاس آئے۔ “ الحجر
62 ﴿قَالَ ﴾ تو لوط علیہ السلام نے فرشتوں سے کہا : ﴿ إِنَّكُمْ قَوْمٌ مُّنكَرُونَ﴾ ” بے شک تم اوپرے لوگ ہو“ یعنی میں تمہیں پہچانتا نہیں ہوں اور میں نہیں جانتا کہ تم کون ہو۔ انہوں نے جواب دیا۔ الحجر
63 ﴿ بَلْ جِئْنَاكَ بِمَا كَانُوا فِيهِ يَمْتَرُونَ﴾ ” ہم آپ کے پاس وہ چیز لے کر آئے ہیں جس میں لوگ شک کرتے تھے۔“ یعنی ہم ان پر وہ عذاب نازل کرنے کے لئے آپ کے پاس آئے ہیں جس کے بارے میں وہ شک کیا کرتے تھے اور جب آپ ان کو عذاب کی وعید سناتے تھے تو آپ کو جھٹلایا کرتے تھے۔ الحجر
64 ﴿ وَأَتَيْنَاكَ بِالْحَقِّ ﴾ ” اور ہم آپ کے پاس پکی بات لے کر آئے ہیں“ جو مذاق نہیں ہے۔ ﴿ وَإِنَّا لَصَادِقُونَ ﴾ ” اور بے شک ہم سچے ہیں۔“ اس میں جو ہم آپ سے کہہ رہے ہیں۔ الحجر
65 ﴿فَأَسْرِ بِأَهْلِكَ بِقِطْعٍ مِّنَ اللَّيْلِ ﴾’’پس لے نکل اپنے گھر والوں کو کچھ رات رہے سے“ یعنی رات کے اوقات میں جب لوگ سو رہے ہوں اور کسی کو آپ کے نکل جانے کا علم نہ ہو ﴿وَاتَّبِعْ أَدْبَارَهُمْ وَلَا يَلْتَفِتْ مِنكُمْ أَحَدٌ ﴾ ” اور تو ان کے پیچھے چل اور تم میں سے کوئی مڑ کر نہ دیکھے“ یعنی جلدی سے نکل جاؤ﴿وَامْضُوا حَيْثُ تُؤْمَرُونَ﴾ ” اور چلے جاؤ جہاں تم کو حکم دیا جاتا ہے“ گویا ان کے ساتھ کوئی رہبر تھا جو ان کی راہنمائی کرتا تھا کہ انہیں کہاں جانا ہے۔ الحجر
66 ﴿وَقَضَيْنَا إِلَيْهِ ذَٰلِكَ﴾ ” اور مقرر کردی ہم نے اس کی طرف یہ بات“ یعنی ہم نے اسے ایسی خبر سے آگاہ کیا جس میں تبدیلی کی کوئی گنجائش نہیں ﴿أَنَّ دَابِرَ هَـٰؤُلَاءِ مَقْطُوعٌ مُّصْبِحِينَ ﴾ ” ان لوگوں کی جڑ صبح ہوتے ہوتے کاٹ دی جائے گی۔“ یعنی صبح سویرے عذاب انہیں آ لے گا اور ان کی جڑ کاٹ کر رکھ دے گا۔ الحجر
67 ﴿وَجَاءَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ﴾ ’’اور اہل شہر آئے۔“ یعنی اس شہر کے لوگ آئے جس میں لوط رہتے تھے۔ ﴿يَسْتَبْشِرُونَ﴾ ” خوشیاں کرتے“ یعنی لوط علیہ السلام کے خوبصورت مہمانوں کی آمد اور ان پر انہیں قدرت حاصل ہونے کی بنا پر وہ ایک دوسرے کو خوشخبری دیتے تھے۔ ان کا مقصد ان کے ساتھ بد فعلی کرنے کا تھا۔ پس وہ آئے اور حضرت لوط علیہ السلام کے گھر پہنچ گئے اور ان کے مہمانوں کے بارے میں ان کے ساتھ جھگڑنے لگے اور لوط علیہ السلام نے ان سے بچنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا : الحجر
68 ﴿قَالَ إِنَّ هَـٰؤُلَاءِ ضَيْفِي فَلَا تَفْضَحُونِ وَاتَّقُوا اللّٰـهَ وَلَا تُخْزُونِ﴾ ” یہ میرے مہمان ہیں مجھے رسوا نہ کرو، اور اللہ سے ڈرو اور میری رسوائی کا سامان نہ کرو۔“ یعنی اس بارے میں سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا خوف کرو، اگر اللہ تعالیٰ کا خوف نہیں تو میرے مہمانوں کے بارے میں مجھے رسوا نہ کرو۔ انتہائی گندے کام کے ذریعے سے ان کی ہتک حرمت کرنے سے باز آجاؤ۔ الحجر
69 الحجر
70 ﴿قَالُوا ﴾ انہوں نے لوط علیہ السلام کے قول ” مجھے رسوا نہ کرو“ کے جواب میں بس یہی کہا : ﴿أَوَلَمْ نَنْهَكَ عَنِ الْعَالَمِينَ﴾ ” کیا ہم نے تجھے منع نہیں کیا جہان کی حمایت کرنے سے“ یعنی ان کی مہمان نوازی وغیرہ کرنے سے۔ پس ہم نے تجھے ان باتوں سے ڈرایا ہے اور جس نے ڈرا دیا ہے وہ بری الذمہ ہے۔ الحجر
71 ﴿قَالَ﴾ لوط علیہ السلام نے معاملے کی شدت کی بنا پر ان سے کہا : ﴿هَـٰؤُلَاءِ بَنَاتِي إِن كُنتُمْ فَاعِلِينَ﴾ ” یہ میری بیٹیاں حاضر ہیں اگر تم کو کرنا ہے“ مگر انہوں نے جناب لوط کے اس قول کی کوئی پروا نہ کی۔ [بیٹیوں سے مراد، ان کی بیویاں ہیں، یعنی اپنی بیویوں سے اپنی جنسی خواہش پوری کرو۔ پیغمبر بمنزلہ باپ کے ہوتا ہے، اس لئے ان کی بیویوں کو اپنی بیٹیاں کہا۔ یا یہ مطلب ہے کہ تم میری بیٹیوں سے نکاح کرلو اور اپنی خواہش کی تسکین کا سامان کرلو، میں اپنی بیٹیاں تمہارے حبالہ عقد میں دینے کو تیار ہوں۔(ص۔ ی)] الحجر
72 اس لئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرمایا : ﴿لَعَمْرُكَ إِنَّهُمْ لَفِي سَكْرَتِهِمْ يَعْمَهُونَ ﴾ ” آپ کی زندگی کی قسم، وہ اپنی مستی میں مدہوش ہیں“ اور یہ مستی فحش کام کی چاہت کی مستی ہے جس کے ہوتے ہوئے وہ کسی ملامت کی پروا نہیں کرتے۔ پس جب فرشتوں نے حضرت لوط علیہ السلام کے سامنے اپنی حقیقت کھول دی تو ان کا کرب اور پریشانی دور ہوگئی۔ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اپنے گھر والوں کے ساتھ راتوں رات وہاں سے نکل گئے اور نجات پائی۔ الحجر
73 رہے بستی کے لوگ ﴿فَأَخَذَتْهُمُ الصَّيْحَةُ مُشْرِقِينَ﴾ ”پس آپکڑا ان کو چنگھاڑ نے سورج نکلتے وقت، یعنی طلوع آفتاب کے وقت، کیونکہ اس وقت عذاب کی شدت زیادہ ہوتی ہے۔ الحجر
74 ﴿فَجَعَلْنَا عَالِيَهَا سَافِلَهَا﴾ ” پھر کر ڈالی ہم نے وہ بستی اوپر تلے“ یعنی ہم نے ان پر ان کی بستی کو الٹ دیا ﴿ وَأَمْطَرْنَا عَلَيْهِمْ حِجَارَةً مِّن سِجِّيلٍ﴾ ” اور ان پر کھنگر کے پتھروں کی بارش برسائی“ یہ پتھر اس شخص کا پیچھا کرتے تھے جو بستی سے فرار ہوتا تھا الحجر
75 ﴿إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّلْمُتَوَسِّمِينَ ﴾ ” بے شک اس میں دھیان کرنے والوں کے لئے نشانیاں ہیں“ یعنی غور و فکر کرنے والوں کے لئے وہ لوگ جو فکر و رائے اور فراست کے مالک ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ اس سے کیا مراد ہے، انہیں معلوم ہے کہ جوئی کوئی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی جرأت کرتا ہے، خاص طور پر اس انتہائی فحش کام کا ارتکاب، تو اللہ تعالیٰ اسی طرح بدترین سزا دے گا جس طرح انہوں نے بدترین جرم کے ارتکاب کی جسارت کی ہے۔ الحجر
76 ﴿وَإِنَّهَا﴾ یعنی حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کا شہر ﴿ لَبِسَبِيلٍ مُّقِيمٍ﴾ ” واقع ہے سیدھے راستے پر“ یعنی یہ بستی گزرنے والوں کے لئے ایک عام گزر گاہ پر واقع ہے اور جس کسی کا اس علاقے میں آنا جانا ہے وہ اس جگہ کو پہچانتا ہے۔ الحجر
77 ﴿إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لِّلْمُؤْمِنِينَ﴾ ” بے شک اس (واقعے) میں مومنوں کے لئے نشانیاں ہیں، اور اس قصے میں بہت سی عبرتیں ہیں۔ (1) اللہ تعالیٰ کی اپنے خلیل ابراہیم علیہ السلام پے بے حد عنایات تھیں۔ لوط علیہ السلام اور ان پر ایمان لانے والے اہل ایمان ابراہیم علیہ السلام کے متبعین میں شمار ہوتے ہیں۔ گویا حضرت لوط علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کے شاگرد تھے۔ پس جب اللہ تعالیٰ نے قوم لوط علیہ السلام کے ہلاکت کے مستحق ہونے پر ان کو ہلاک کرنے کا اردہ فرمایا تو اس نے اپنے فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ ابراہیم علیہ السلام کے پاس سے ہو کر جائیں، تاکہ وہ ان کو بیٹے کی خوشخبری دے سکیں اور ان کو آگاہ بھی کریں کہ ان کو کس کام کے لئے بھیجا گیا ہے۔ یہاں تک کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام قوم لوط علیہ السلام کے بارے میں فرشتوں سے بحث کرنے لگے۔ حتیٰ کہ فرشتوں نے ان کو مطمئن کردیا اور وہ مطمئن ہوگئے۔ (2) اسی طرح حضرت لوط علیہ السلام پر اللہ تعالیٰ کی بے پایاں عنایات تھیں۔ کیونکہ ان کی قوم کے لوگ، ان کے اہل وطن تھے، اس لئے بسا اوقات ان کو ان پر رحم آجاتا تھا، اللہ تعالیٰ نے ایسے اسباب مقرر فرمائے جن کی بنا پر ان کو اپنی قوم پر سخت غصہ آیا حتیٰ کہ وہ سمجھنے لگے کہ ان کی قوم پر عذاب نازل ہونے میں دیر ہو رہی ہے۔ ان سے کہا گیا : ﴿إِنَّ مَوْعِدَهُمُ الصُّبْحُ ۚ أَلَيْسَ الصُّبْحُ بِقَرِيبٍ﴾ ” ان کے عذاب کے لئے صبح کا وقت مقرر ہے، کیا صبح قریب نہیں؟“ (3) جب اللہ تعالیٰ کسی قوم کو ہلا ک کرنے کا ارادہ کرتا ہے، تو ان کا شر اور ان کی سرکشی بڑھ جاتی ہے اور جب شر اور سرکشی کی انتہا ہوجاتی ہے، تو اللہ تعالیٰ ان پر وہ عذاب واقع کردیتا ہے جس کے وہ مستحق ہوتے ہیں۔ الحجر
78 یہ حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم ہے اللہ تعالیٰ نے ان کی(الایکۃ) کی طرف اضافت کی ہے اور (الایکۃ) سے مراد وہ باغ ہے جس میں بکثرت درخت ہوں، تاکہ اللہ تعالیٰ ان پر اپنی نعمت کا ذکر فرمائے، مگر انہوں نے اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کا شکر ادا نہ کیا، بلکہ اس کے برعکس، جب ان کے نبی حضرت شعیب علیہ السلام ان کے پاس آئے اور ان کو توحید کی دعوت دی، ناپ تول میں ان کو لوگوں پر ظلم کرنے سے باز آنے کی تلقین کی اور اس ظلم سے ان کو سختی سے منع کیا مگر وہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کے بارے میں اپنے ظلم پر جمے رہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کا یہاں ظالمین کے لفظ سے ذکر فرمایا۔ الحجر
79 ﴿فَانتَقَمْنَا مِنْهُمْ﴾ ” پس ہم نے ان سے بدلہ لیا“ اور چھتری والے دن کے عذاب نے ان کو آلیا، بلاشبہ بہت بڑے دن کا عذاب تھا۔ ﴿وَإِنَّهُمَا﴾ ” اور یہ دونوں“ یعنی دیار قوم لوط اور اصحاب ایکہ ﴿ لَبِإِمَامٍ مُّبِينٍ ﴾ ’’کھلے راستے پر ہیں۔“ یعنی یہ دونوں بستیاں واضح راستے پر واقع ہیں جہاں ہر وقت مسافروں کے قافلے گزرتے رہتے ہیں۔ ان کے وہ آثار نمایاں ہیں جن کا آنکھوں سے مشاہدہ کیا جاسکتا ہے اور عقل مند لوگ اس سے عبرت حاصل کرسکتے ہیں۔ الحجر
80 اللہ تبارک و تعالیٰ اہل حجر یعنی صالح علیہ السلام کی قوم کے بارے میں آگا فرماتا ہے جو حجاز کے علاقہ حجر میں آباد تھی انہوں نے اپنے رسولوں، یعنی صالح کو جھٹلایا، جس نے کسی ایک رسول کو جھٹلایا اس نے گویا تمام رسولوں کو جھٹلایا، کیونکہ ان سب کی دعوت ایک تھی۔ انہوں نے کسی رسول کی اس کی ذاتی شخصیت کی بنا پر تکذیب نہیں کی بلکہ انہوں نے حق کی تکذیب کی جس کے لانے میں تمام رسول مشترک تھے۔ الحجر
81 ﴿ وَآتَيْنَاهُمْ آيَاتِنَا﴾ اور ہم نے انہیں وہ نشانیاں عطا کیں جو اس حق کی صحت پر دلالت کرتی تھیں جنہیں صالح علیہ السلام لے کر آئے تھے، ان نشانیوں میں سے وہ اونٹنی بھی تھی جو اللہ تعالیٰ کی عظمت کی بہت بڑی نشانی تھی۔ ﴿فَكَانُوا عَنْهَا مُعْرِضِينَ ﴾ ” پس وہ ان سے منہ پھیرتے رہے“ وہ تکبر اور سرکشی کی بنا پر ان نشانیوں سے روگردانی کیا کرتے تھے۔ الحجر
82 ﴿وَكَانُوا﴾ ” اور تھے وہ“ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی کثرت کی بنا پر ﴿يَنْحِتُونَ مِنَ الْجِبَالِ بُيُوتًا آمِنِينَ﴾ ” تراشتے تھے پہاڑوں کے گھر اطمینان کے ساتھ“ یعنی اپنے گھروں میں ہر قسم کے خوف سے مطمئن ہو کر۔ پس اگر انہوں نے اللہ تعالیٰ کی نعمت کا شکر ادا کیا ہوتا اور اپنے نبی صالح علیہ السلام کی تصدیق کی ہوتی تو اللہ تعالیٰ ان کو بے پناہ رزق عطا کرتا اور مختلف انواع کے دنیاوی اور اخروی ثواب کے ذریعے سے ان کی عزت افزائی کرتا۔ مگر انہوں نے اونٹنی کی کونچیں کاٹ ڈالیں اور اپنے رب کے حکم کی نافرمانی کرتے ہوئے کہنے لگے : ﴿يَا صَالِحُ ائْتِنَا بِمَا تَعِدُنَا إِن كُنتَ مِنَ الْمُرْسَلِينَ﴾ (الاعراف:7؍77)” اے صالح ! لے آؤ وہ عذاب جس کی تم ہمیں دھمکی دیتے ہو، اگر تم واقعی رسول ہو۔“ الحجر
83 ﴿فَأَخَذَتْهُمُ الصَّيْحَةُ مُصْبِحِينَ﴾ ” سو پکڑ لیا ان کو چنگھاڑنے، صبح ہونے کے وقت“ پس ان کے سینوں میں ان کے دل پارہ پارہ ہو کر رہ گئے اور وہ اپنے گھر میں ہلاک ہو کر اوندھے منہ پڑے رہ گئے اور اس کے ساتھ ساتھ دائمی رسوائی اور لعنت نے ان کا پیچھا کیا۔ الحجر
84 ﴿فَمَا أَغْنَىٰ عَنْهُم مَّا كَانُوا يَكْسِبُونَ﴾ ” پس کام نہ آیا ان کے جو کچھ وہ کماتے تھے۔“ کیونکہ جب اللہ تعالیٰ کا حکم (عذاب) آجاتا ہے تو پھر اس کو لشکروں کی کثرت، انصار و اعوان کی قوت اور مال و دولت کی بہتات واپس نہیں لوٹا سکتی۔ الحجر
85 یعنی ہم نے زمین و آسمان کو عبث اور باطل پیدا نہیں کیا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے دشمن سمجھتے ہیں۔ ﴿إِلَّا بِالْحَقِّ ۗ﴾ بلکہ ہم نے زمین و آسمان کو حق کے ساتھ پیدا کیا ہے، جو اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہے۔ زمین و آسمان اور جو کچھ ان کے اندر ہے اس حقیقت پر دلالت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کا خالق ہے نیز زمین و آسمان اللہ کی قدرت کاملہ، بے پایاں رحمت، حکمت اور اس کے علم محیط پر دلالت کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ وہ ہستی ہے جس کے سوا کوئی دوسری ہستی عبادت کے لائق نہیں۔ وہ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔ ﴿ وَإِنَّ السَّاعَةَ لَآتِيَةٌ﴾ ” اور قیامت بے شک آنے والی ہے“ اور اس گھڑی کے آنے میں کوئی شک نہیں، کیونکہ ابتدا میں زمین و آسمان کی تخلیق، مخلوقات کو دوسری مرتبہ پیدا کرنے کی نسبت زیادہ مشکل ہے۔ ﴿فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِيلَ ﴾’’پس درگزر کریں اچھی طرح درگزر کرنا“ یعنی ان سے اس طرح درگزر کیجیے کہ اس میں کسی قسم کی اذیت نہ ہو بلکہ اس کے برعکس برائی کرنے والے کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئیے، اس کی تقصیر کو بخش دیجیے، تاکہ آپ اپنے رب سے بہت زیادہ اجرو ثواب حاصل کریں۔ کیونکہ ہر آنے والی چیز قریب ہوتی ہے۔ اس آیت کریمہ کے جو معانی میں نے یہاں ذکر کئے ہیں مجھ پر اس سے بہتر معانی ظاہر ہوئے ہیں اور وہ یہ ہے کہ۔۔۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جس کام کا حکم دیا گیا ہے وہ ہے نہایت اچھے طریقے سے درگزر کرنا، یعنی وہ اچھا طریقہ جو بغض، کینہ اور قولی و فعلی اذیت سے پاک ہو۔ اس طرح درگزر کرنا نہ ہو جو احسن طریقے سے نہیں ہوتا اور یہ ایسا درگزر کرنا ہے جو صحیح مقام پر نہ ہو۔ اس لئے جہاں سزا دینے کا تقاضا ہو وہاں عفو اور درگزر سے کام نہ لیا جائے، مثلاً زیادتی کرنے والے ظالموں کو سزا دینا، جن کو سزا کے سوا کوئی اور طریقہ درست نہیں کرسکتا۔۔۔ یہ ہے اس آیت کریمہ کا معنی۔ الحجر
86 ﴿إِنَّ رَبَّكَ هُوَ الْخَلَّاقُ﴾ بے شک آپ کا رب تمام کائنات کا پیدا کرنے والا ہے۔ ﴿الْعَلِيمُ﴾ اور ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔ اس کی مخلوقات اور اس کے احاطہ علم یعنی تمام کائنات میں سے کوئی چیز اسے بے بس نہیں کرسکتی۔ الحجر
87 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اپنی نوازشوں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے۔ ﴿وَلَقَدْ آتَيْنَاكَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِي﴾ ” ہم نے دیں آپ کو سات آیتیں، دہرائی جانے والی“ صحیح ترین تفسیر یہ ہے کہ اس سے مراد (السبع الطوال) ” سات لمبی سورتیں“ یعنی البقرہ، آل عمران، النساء، المائدہ، الانعام، الاعراف، الانفال اور التوبہ ہیں۔ یا اس سے مراد سورۃ فاتحہ ہے۔ پس ﴿وَالْقُرْآنَ الْعَظِيمَ﴾ کا عطف، عام کا عطف خاص پر، کے باب سے ہوگا۔ کیونکہ ان بار بار پڑھی جانے والی سورتوں میں توحید، علوم غیب اور احکام جلیلہ کا ذکر کیا گیا ہے اور ان مضامین کو بار بار دہرایا گیا ہے اور ان مفسرین کے قول کے مطابق جو سورۃ فاتحہ کو)لسبع المثانی( کی مراد قرار دیتے ہیں، معنی یہ ہے کہ یہ سات آیتیں ہیں جو ہر رکعت میں دہرائی جاتی ہیں اور جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قرآن عظیم اور اس کے ساتھ ” سبع مثانی“ عطا کیں تو گویا اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بہترین عطیے سے نواز دیا جس کے حصول میں لوگ ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر رغبت رکھتے ہیں اور مومنین جس پر سب سے زیادہ خوشی محسوس کرتے ہیں۔ فرمایا : ﴿قُلْ بِفَضْلِ اللّٰـهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَٰلِكَ فَلْيَفْرَحُوا هُوَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَ﴾ (یونس:10؍58)’’کہہ دیجیے کہ یہ اللہ کے فضل و کرم اور اس کی رحمت کے سبب سے ہے، پس اس پر انہیں خوش ہونا چاہئے۔ یہ ان تمام چیزوں سے بہتر ہے جنہیں یہ لوگ جمع کر رہے ہیں۔ “ الحجر
88 بنا بریں اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ لَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلَىٰ مَا مَتَّعْنَا بِهِ أَزْوَاجًا مِّنْهُمْ﴾ ” آپ ان چیزوں کی طرف نظر نہ ڈالیں جو ہم نے ان میں سے کئی قسم کے لوگوں کو برتنے کے لئے دیں“ یعنی یہ چیزیں آپ کو اتنی زیادہ اچھی نہ لگیں کہ آپ کے فکر و نظر کو شہوات دنیا میں مشغول کردیں جن سے دنیا پرست خوش حال لوگ متمعتع ہو رہے ہیں اور ان کی وجہ سے جاہل لوگ دھوکے میں پڑے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو جو سات بار بار دہرائی جانے والی آیات اور قرآن عظیم عطا کیا ہے اس کے ذریعے سے بے نیاز رہیے۔ ﴿وَلَا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ﴾ ” اور ان پر غم نہ کھائیں“ کیونکہ ان سے کسی بھلائی کی امید اور کسی فائدہ کی توقع نہیں ہے۔ پس اہل ایمان کی صورت میں آپ کو بہترین نعم البدل اور افضل ترین عوض عطا کردیا گیا ہے۔ ﴿وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِلْمُؤْمِنِينَ﴾ ” اور مومنوں کے لئے اپنے بازو جھکائے رکھیں“ یعنی ان کے ساتھ نرم رویہ رکھیے اور ان کے ساتھ حسن اخلاق، محبت، تکریم اور مودت سے پیش آئیے۔ الحجر
89 ﴿وَقُلْ إِنِّي أَنَا النَّذِيرُ الْمُبِينُ﴾ ” اور کہہ دیجیے، میں تو کھول کر ڈرانے والا ہوں“ یعنی لوگوں کو ڈرانے، رسالت کی ادائیگی، قریب اور بعید، دوست اور دشمن کو تبلیغ کی ذمہ داری آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر عائد ہے اسے پورا کیجیے۔ جب آپ نے یہ ذمہ داری ادا کردی تو ان کا حساب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ہے نہ آپ کا حساب ان کے ذمہ ہے۔ الحجر
90 ﴿كَمَا أَنزَلْنَا عَلَى الْمُقْتَسِمِينَ﴾ ” جیسا کہ (عذاب) بھیجا ہم نے ان بانٹنے والوں پر“ یعنی (آپ ان کو اسی طرح عذاب سے ڈرا رہے ہیں) جیسے ہم نے اس چیز کو جھٹلانے والوں پر، جسے لے کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مبعوث ہوئے، اور لوگوں کو اللہ کے راستےسے روکنے میں کوشاں رہنے والوں پر، عذاب نازل کیا۔ الحجر
91 ﴿الَّذِينَ جَعَلُوا الْقُرْآنَ عِضِينَ﴾ ” جنہوں نے قرآن کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا۔“ یعنی جنہوں نے قرآن کو مختلف اصناف، اعضا اور جزا میں تقسیم کر رکھا ہے اور اپنی خواہشات نفس کے مطابق اس میں تصرف کرتے ہیں۔ ان میں سے بعض (قرآن کے متعلق) کہتے ہیں کہ یہ جادو ہے۔، بعض کہتے ہیں کہ یہ کہانت ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ افتراء پردازی ہے اور اس قسم کے دیگر اقوال جو ان جھٹلانے والے کفار نے پھیلا رکھے ہیں جو محض اس مقصد کے لئے قرآن میں جرح و قدح کرتے ہیں تاکہ لوگوں کو ہدایت کے راستے سے روک سکیں۔ الحجر
92 ﴿فَوَرَبِّكَ لَنَسْأَلَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ﴾’’پس قسم ہے آپ کے رب کی، ہم ضرور ان سب سے پوچھیں گے“ یعنی ان تمام لوگوں سے جنہوں نے اس قرآن میں جرح و قدح کی، اس میں عیب چینی اور اس میں تحریف کر کے اس کو بدل ڈالا الحجر
93 ﴿عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ﴾ ” ان کاموں کے بارے میں جو وہ کرتے رہے۔“ یعنی ہم ان سے ان کے اعمال کے بارے میں ضرور پوچھیں گے۔ یہ ان کے لئے سب سے بڑی ترہیب اور ان کے اعمال پر زجر و توبیخ ہے۔ الحجر
94 پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم دیا کہ وہ کفار مکہ اور اور دیگر کفار کو ہرگز خاطر میں نہ لائیں اور اس چیز کو کھلا کھلا بیان کردیں جس کا اللہ تبارک و تعالیٰ نے حکم دیا ہے اور تمام لوگوں کے سامنے اس کا اعلان کردیں، کوئی رکاوٹ آپ کو اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل سے روک نہ دے اور ان مضطرب اذہان کے مالک لوگوں کی باتیں آپ کو اللہ کی راہ سے روک نہ دیں ﴿وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِينَ﴾ ”اور مشرکین سے اعراض کریں۔“ یعنی مشرکین کی پروا نہ کیجیے اور اپنا کام کرتے رہیے۔ الحجر
95 ﴿ إِنَّا كَفَيْنَاكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ﴾ ” ہم تمہیں ان لوگوں کے شر سے بچانے کے لئے کافی ہیں جو تم سے سے استہزاء کرتے ہیں۔“ یعنی جو لوگ آپ کا اور اس حق کا جسے لے کر آپ مبعوث ہوئے ہیں تمسخر اڑاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا اپنے رسول سے یہ وعدہ ہے کہ تمسخر اڑانے والے آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ان کے مقابلہ میں، اللہ تعالیٰ آپ کے لئے کافی ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس کو ہلاک کیا اور اسے بدترین طریقے سے قتل کیا۔ الحجر
96 پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان لوگوں کا وصف بیان کیا اور فرمایا کہ یہ لوگ جس طرح آپ کو ایذا پہنچاتے ہیں۔ اسی طرح اللہ کو بھی ایذا دیتے ہیں۔ ﴿الَّذِينَ يَجْعَلُونَ مَعَ اللّٰـهِ إِلَـٰهًا آخَرَ﴾ ” جو کہ ٹھہراتے ہیں اللہ کے ساتھ دوسرے معبود“ حالانکہ اللہ تعالیٰ ان کا رب اور ان کا خالق ہے اور ان پر تمام احسان اسی کی طرف سے ہیں۔ ﴿فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ﴾ ” عنقریب وہ جان لیں گے“ یعنی جب وہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضر ہوں گے تو انہیں اپنے کرتوتوں کا انجام معلوم ہوجائے گا۔ الحجر
97 ﴿وَلَقَدْ نَعْلَمُ أَنَّكَ يَضِيقُ صَدْرُكَ بِمَا يَقُولُونَ ﴾ ” اور ہم جانتے ہیں کہ آپ کا سینہ ان باتوں سے تنگ ہوتا ہے جو وہ کہتے ہیں“ وہ آپ کی تکذیب اور استہزاء کی بابت جو باتیں کہتے ہیں، وہ ہمیں معلوم ہیں اور ہم عذاب کے ذریعے سے ان کے استیصال پر پوری پوری قدرت رکھتے ہیں نیز ان کو فوری طور پر وہ سزا دے سکتے ہیں جس کے وہ مستحق ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو ڈھیل دے رہا ہے، تاہم ان کو مہمل نہیں چھوڑے گا۔ الحجر
98 ﴿فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَكُن مِّنَ السَّاجِدِينَ﴾ ” پس (اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ اپنے رب کی خوبیاں بیان کریں اور سجدہ کرنے والوں میں سے ہوں۔“ یعنی نہایت کثرت سے اللہ تعالیٰ کا ذکر اور اس کی تسبیح و تحمید کیجیے اور نماز پڑھیے کیونکہ اس سے شرح صدر حاصل ہوتا ہے اور یہ ذکر اور نماز آپ کے امور میں آپ کی مدد کریں گے۔ الحجر
99 ﴿ وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتَّىٰ يَأْتِيَكَ الْيَقِينُ﴾ ” اور اپنے رب کی عبادت کیجیے، یہاں تک کہ آپ کے پاس یقینی بات آجائے“ یعنی آپ کو موت آجائے۔ یعنی اپنے تمام اوقات میں، اللہ تعالیٰ کے قرب کے لئے دائمی طور پر مختلف عبادات میں مصروف رہیے۔ پس نبی مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب کے حکم کی تعمیل کی حتیٰ کہ آپ کو آپ کے رب کی طرف سے واپسی کا حکم آپہنچا۔ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تسلیما کثیرا۔ الحجر
0 النحل
1 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے وعدے کو قریب بتلاتے ہوئے اور اس کے وقوع کو متحقق کرتے ہوئے فرماتا ہے : ﴿أَتَىٰ أَمْرُ اللّٰـهِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوهُ﴾ ”اللہ کا حکم آ پہنچا، پس آپ اس میں جلدی نہ کریں“ کیونکہ یہ وعدہ ضرور آئے گا اور جو چیز آنے والی ہے وہ قریب ہی ہوتی ہے۔ ﴿سُبْحَانَهُ وَتَعَالَىٰ عَمَّا يُشْرِكُونَ﴾ ” وہ پاک اور بلند ہے ان چیزوں سے جن کو وہ اس کا شریک بناتے ہیں“ اللہ تبارک و تعالیٰ شریک، بیٹے، بیوی اور ہمسر وغیرہ کی نسبت سے بالکل پاک ہے جن کو یہ مشرکین اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرتے ہیں، یہ نسبت اللہ تعالیٰ کے جلال کے لائق نہیں اور اس کے کمال کے منافی ہے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے آپ کو ان سے منزہ قرار دیا ہے جن سے اللہ تعالیٰ کو اس کے دشمنوں نے متصف کیا ہے۔ اس لئے اس وحی کا ذکر فرمایا جو اس نے اپنے انبیاء و مرسلین پر نازل فرمائی جس کی اتباع کو وہ پسند فرماتا ہے۔ اس وحی میں ان صفات کمال کا ذکر فرمایا جن کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا جانا چاہئے۔ النحل
2 فرمایا : ﴿يُنَزِّلُ الْمَلَائِكَةَ بِالرُّوحِ مِنْ أَمْرِهِ ﴾ ” وہ اتارتا ہے فرشتوں کو وحی دے کر اپنے حکم سے“ یعنی اس وحی کے ساتھ، جس پر روح کی زندگی کا دار و مدار ہے ﴿عَلَىٰ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ﴾ ” اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے“ یعنی ان بندوں پر وحی نازل فرماتا ہے جن کے بارے میں وہ جانتا ہے کہ وہ اس کی رسالت کا بوجھ اٹھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ تمام انبیاء و مرسلین کی دعوت کا لب لباب اور اس کا دار و مدار اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد پر ہے : ﴿أَنْ أَنذِرُوا أَنَّهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا أَنَا﴾ ” انہیں خبردار کرو کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں‘‘ یعنی انہیں اللہ تعالیٰ کی معرفت اور صفات عظمت میں اس کی وحدانیت کے بارے میں ڈراؤ، جو کہ درحقیقت صفات الوہیت ہیں اور انہیں اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف بلاؤ جس کی خاطر اللہ تعالیٰ نے اپنی کتابیں نازل فرمائیں اور اپنے رسول مبعوث کئے۔ تمام شرائع اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف دعوت دیتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت پر زور دیتی ہیں اور جو کوئی اللہ تعالیٰ کی عبادت کی مخالفت کرتا اور اس کے متضاد کام کرتا ہے یہ شرائع اس کے خلاف جہاد کرتی ہیں۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس کے دلائل و براہین کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : النحل
3 اس سورۃ مبارکہ کو ” سورۃ النعم“ کے نام سے بھی موسوم کیا جاتا ہے کیونکہ اس کی ابتدا میں اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمتوں کے اصول اور اس کے قواعد بیان کئے ہیں اور اس کے آخر میں وہ امور بیان کئے ہیں جو ان کی تکمیل کرتے ہیں، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ اس نے زمین اور آسمان کو حق کے ساتھ پیدا کیا تاکہ بندے اس کے ذریعے سے ان کے خالق کی عظمت اور اس کی صفات کمال پر استدلال کریں تاکہ انہیں معلوم ہو کہ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو اپنے ان بندوں کے رہنے کے لئے پیدا کیا ہے جو اس کی عبادت اس طرح کرتے ہیں جس طرح اس نے اپنی شرائع میں ان کو حکم دیا ہے جن کو اس نے اپنے رسولوں کی زبان پر نازل فرمایا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے آپ کو مشرکین کے شرک سے منزہ قرار دیا۔ فرمایا : ﴿تَعَالَىٰ عَمَّا يُشْرِكُونَ﴾ ” یہ لوگ جو شریک بناتے ہیں وہ اس سے بالاتر ہے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ ان کے شرک سے پاک اور بہت بڑا ہے۔ وہی معبود حقیقی ہے جس کے سوا کسی اور کی عبادت، کسی اور سے محبت اور کسی اور کے سامنے عاجزی کا اظہار مناسب نہیں۔ النحل
4 اللہ تبارک و تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کا ذکر کرنے کے بعد زمین و آسمان کی مخلوق کا ذکر فرمایا اور اشرف المخلوقات یعنی انسان سے اس کی ابتدا کی، چنانچہ فرمایا : ﴿خَلَقَ الْإِنسَانَ مِن نُّطْفَةٍ﴾ ” اس نے انسان کو ایک بوند سے پیدا کیا“ اللہ تعالیٰ اس نطفہ کی تدبیر کرتا رہا اور اس کو نشو و نما دیتا رہا یہاں تک کہ وہ ظاہری اور باطنی طور پر کامل اعضاء کے ساتھ کامل انسان بن گیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو بے شمار نعمتوں سے نوازا یہاں تک کہ اس کی تکمیل ہوگئی تو اپنے آپ پر فخر کرنے لگا اور خودپسندی کا شکار ہوگیا۔ فرمایا : ﴿ فَإِذَا هُوَ خَصِيمٌ مُّبِينٌ﴾ ” پھر جبھی ہوگیا وہ علانیہ جھگڑا کرنے والا۔“ اس میں اس معنی کا بھی احتمال ہے کہ وہ اپنے رب کی مخالفت کرنے لگا، اس کا انکار کرنے لگا، اس کے انبیاء و رسل سے جھگڑنے لگا اور اس کی آیات کی تکذیب کرنے لگا۔ اس نے اپنی تخلیق کے اولین مراحل اور اس کی نعمتوں کو فراموش کردیا اور ان نعمتوں کو نافرمانی میں استعمال کیا اور اس معنی کا احتمال بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدمی کو نطفہ (بوند) سے پیدا کیا، پھر اس کو ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف منتقل کرتا رہا یہاں تک کہ وہ ایک کلام کرنے والا، ذہین، صاحب رائے، عقل مند انسان بن گیا تو جھگڑے اور بحث کرنے لگ گیا۔ پس بندے کو اپنے رب کا شکر ادا کرنا چاہئے جس نے اسے اس حالت تک پہنچایا۔ جس حالت تک پہنچنا کسی طرح بھی اس کی قدرت اور اختیار میں نہ تھا۔ النحل
5 ﴿وَالْأَنْعَامَ خَلَقَهَا ۗ لَكُمْ ﴾ ” اور چوپایوں کو بھی اس نے تمہارے لئے پیدا کیا۔“ یعنی اللہ تعالیٰ نے چوپایوں کو تمہاری خاطر، تمہارے فوائد اور مصالح کی خاطر تخلیق فرمایا۔ ان کے جملہ بڑے بڑے فوائد میں سے ایک فائدہ یہ ہے ﴿لَكُمْ فِيهَا دِفْءٌ﴾ ” ان میں تمہارے لئے گرمی ہے“ جو تم ان کی صوف، ان کی پشم، ان کے بالوں سے لباس، بچھونے اور خیمے بنا کر حاصل کرتے ہو۔ ﴿وَمَنَافِعُ﴾ اس کے علاوہ تمہارے لئے دیگر فوائد ہیں ﴿وَمِنْهَا تَأْكُلُونَ﴾ ” اور ان (جانوروں) میں سے بعض کو تم کھاتے ہو۔“ النحل
6 ﴿ وَلَكُمْ فِيهَا جَمَالٌ حِينَ تُرِيحُونَ وَحِينَ تَسْرَحُونَ﴾ ” اور تمہارے واسطے ان میں خوبصورتی ہے جب شام کو چرا کر لاتے ہو اور جب چرانے لے جاتے ہو“ یعنی شام کے وقت ان مویشیوں کے گھر لوٹنے اور آرام کرنے اور صبح کے وقت چرنے کے لئے باہر جانے میں تمہارے لئے خوبصورتی ہے۔ ان چوپایوں کی خوبصورتی کا ان کے لئے کوئی فائدہ نہیں کیونکہ یہ تم ہی ہو جو ان مویشیوں کو، اپنے لباس، اپنی اولاد اور اپنے مال کو اپنے جمال کا ذریعہ بناتے ہو اور یہ چیزیں تمہیں اچھی لگتی ہیں۔ النحل
7 ﴿وَتَحْمِلُ أَثْقَالَكُمْ ﴾ ” اور وہ تمہارے بوجھ اٹھاتے ہیں۔“ یعنی یہ چوپائے تمارے بھاری بھاری بوجھ اٹھاتے ہیں بلکہ وہ تمہیں بھی اٹھاتے ہیں۔ ﴿ إِلَىٰ بَلَدٍ لَّمْ تَكُونُوا بَالِغِيهِ إِلَّا بِشِقِّ الْأَنفُسِ﴾ ” ان شہروں تک کہ تم نہ پہنچتے وہاں، مگر جان مار کر“ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان جانوروں کو تمہارے مطیع بنا دیا۔ ان میں سے بعض پر تم سواری کرتے ہو اور بعض جانوروں پر تم جو چاہتے ہو بوجھ لادتے ہو اور دور دراز شہروں اور ملکوں تک لے جاتے ہو۔ ﴿إِنَّ رَبَّكُمْ لَرَءُوفٌ رَّحِيمٌ﴾ ” بے شک تمہارا رب بڑا شفقت کرنے والا، نہایت مہربان ہے“ اس نے تمہارے لئے ان تمام چیزوں کو مسخر کردیا جن کی تمہیں ضرورت اور جن کی تمہیں حاجت تھی۔ پس ہر قسم کی حمد و ثنا کا وہی مستحق ہے، جیسا کہ اس کے جلال، اس کی عظمت سلطنت اور اس کے بے پایاں جود و کرم کے لائق ہے۔ النحل
8 ﴿وَالْخَيْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِيرَ﴾ ” اور گھوڑے، خچر اور گدھے“ یعنی ہم نے ان تمام چوپایوں کو تمہارے قابو میں دے دیا ﴿لِتَرْكَبُوهَا وَزِينَةً ۚ﴾ ” تاکہ تم ان پر سوار ہو اور زینت کے لئے“ یعنی کبھی تو تم انہیں سواری کی ضرورت کے لئے استعمال کرتے ہو اور کبھی خوبصورتی اور زینت کی خاطر تم انہیں پالتے ہو۔ یہاں ان کو کھانے کا ذکر نہیں کیا کیونکہ خچر اور گدھے کا گوشت حرام ہے۔ گھوڑوں کو بھی غالب طور پر کھانے کے لئے استعمال نہیں کیا جاتا بلکہ اس کے برعکس اس کو کھانے کی غرض سے ذبح کرنے سے منع کیا گیا ہے، اس ڈر سے کہ کہیں ان کی نسل منقطع نہ ہوجائے۔ ورنہ صحیحین میں حدیث سے ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے گھوڑے کا گوشت کھانے کی اجازت دی ہے۔ ﴿وَيَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُونَ ﴾ ” اور پیدا کرتا ہے جو تم نہیں جانتے“ نزول قرآن کے بعد بہت سی ایسی چیزیں وجود میں آئیں جن پر انسان بحر و بر اور فضا میں سواری کرتے ہیں اور جنہیں وہ اپنے فوائد اور مصالح کے لئے اپنے کام میں لاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اعیان کے ساتھ ان کا ذکر نہیں کیا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں صرف ایسی ہی چیزوں کا ذکر فرماتا ہے جن کو اس کے بندے جانتے ہیں یا جن کی نظیر کو وہ جانتے ہوں اور جس کی نظیر ان کے زمانے میں دنیا میں موجود نہ ہو اور اللہ تعالیٰ اس کا تذکرہ کرتا تو لوگ اس چیز کو نہ پہچان سکتے اور یہ نہ سمجھ سکتے کہ اس سے کیا مراد ہے؟ لہٰذا اللہ تعالیٰ صرف جامع اصول ذکر فرماتا ہے جس میں وہ تمام چیزیں داخل ہیں جنہیں لوگ جانتے ہیں اور جنہیں لوگ نہیں جانتے۔ جیسے اللہ تبارک و تعالیٰ نے جنت کی نعمتوں کے بارے میں ان چیزوں کا نام لیا ہے جن کو ہم جانتے ہیں اور جن کی نظیر کا مشاہدہ کرتے ہیں، مثلاً کھجور، انگور اور انار وغیرہ اور جس کی کوئی نظیر ہم نہیں جانتے، اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس کا ذکر مجمل طور پر اپنے اس ارشاد میں کیا ہے۔ ﴿فِيهِمَا مِن كُلِّ فَاكِهَةٍ زَوْجَانِ﴾ (الرحمٰن :55؍52) ” ان میں سب میوے دو دو قسم کے ہوں گے۔“ اسی طرح یہاں بھی صرف انہی سواریوں کا ذکر کیا گیا ہے جن سے ہم متعارف ہیں، مثلاً گھوڑے، خچر، گدھے، اونٹ اور بحری جہاز وغیرہ اور باقی کو اس نے اس قول ﴿وَيَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُونَ ﴾ میں مجمل رکھا۔ النحل
9 اللہ تبارک و تعالیٰ نے جہاں حسی راستے کا ذکر فرمایا، نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر یہ عنایت فرمائی کہ وہ اس راستے کو اونٹوں اور دیگر سواریوں کے ذریعے سے طے کرتے ہیں۔۔۔ وہاں اس معنوی راستے کا بھی ذکر فرمایا جو اللہ تعالیٰ تک پہنچاتا ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿وَعَلَى اللّٰـهِ قَصْدُ السَّبِيلِ﴾ ” اور اللہ تک پہنچتا ہے سیدھا راستہ“ یعنی صراط مستقیم جو قریب ترین اور مختصر ترین راستہ ہے اور اللہ تعالیٰ تک پہنچاتا ہے۔ رہا عقائد و اعمال میں ظلم کا راستہ تو اس سے مراد ہر وہ راستہ ہے جو صراط مستقیم کی مخالفت کرتا ہے یہ راستہ اللہ تعالیٰ سے منقطع کر کے شقاوت کے گڑھے میں گرا دیتا ہے۔ پس ہدایت یافتہ لوگ اپنے رب کے حکم سے صراط مستقیم پر گامزن رہتے ہیں اور صراط مستقیم سے بھٹکے ہوئے لوگ ظلم وجور کے راستوں کو اختیار کرتے ہیں ﴿وَلَوْ شَاءَ لَهَدَاكُمْ أَجْمَعِينَ ﴾ ” اور اگر وہ چاہے تو سب کو ہدایت دے دے“ مگر اللہ تعالیٰ بعض کو اپنے فضل و کرم سے ہدایت عطا کرتا ہے اور بعض کو اپنے عدل و حکمت کی بنا پر گمراہ کرتا ہے۔ النحل
10 اللہ تبارک و تعالیٰ ان آیات کریمہ میں اپنی عظمت اور قدرت کے بارے میں انسان کو آگاہ فرماتا ہے اور ان آیات کے اختتام پر ﴿لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ﴾ ” غور و فکر کرنے والوں کے لئے۔“ کہہ کر اپنی قدرت کا ملہ پر غور و فکر کرنے کی ترغیب دی ہے، جس نے اپنی قدرت کاملہ سے اس رقیق و لطیف بادل سے پانی برسایا، یہ اس کی رحمت ہے کہ اس نے بکثرت پانی نازل کیا جسے وہ خود پیتے ہیں، اپنے مویشیوں کو پلاتے ہیں اور اس سے اپنے کھیتوں کو سیراب کرتے ہیں، پس ان کھیتوں سے بے شمار پھل اور دیگر نعمتیں پیدا ہوتی ہیں۔ النحل
11 النحل
12 یعنی یہ تمام چیزیں تمہارے فوائد اور تمہارے مختلف مصالح کے لئے مسخر کی ہیں کیونکہ تم ان چیزوں سے کبھی بھی بے نیاز نہیں رہ سکتے۔ رات کے وقت تم سوتے ہو، سکون اور آرام حاصل کرتے ہو، دن کے وقت تم اپنی معاش اور اپنے دینی اور دنیاوی مفادات کے حصول کی خاطر زمین میں پھیل جاتے ہو۔ سورج اور چاند سے تمہیں روشنی، نور اور اجالا حاصل ہوتا ہے، اس سے درختوں، پھلوں اور نباتات کی اصلاح ہوتی ہے۔ زمین کی مختلف رطوبتوں میں کمی واقع ہوتی ہے اور اس برودت کا ازالہ ہوتا ہے جو زمین اور حیوانی ابدان کے لئے نقصان دہ ہوتی ہے۔۔۔ اور اس قسم کی دیگر ضروریات و حوائج جن کا دار و مدار سورج اور چاند کے وجود پر ہے۔ علاوہ ازیں چاند، سورج اور ستارے آسمان کی زینت ہیں، بحر و بر کی تاریکیوں میں ان کے ذریعے سے راستے تلاش کئے جاتے ہیں، اوقات معلوم کئے جاتے ہیں اور زمانوں کا حساب لگایا جاتا ہے۔ جن سے مختلف انواع کے دلائل حاصل ہوتے ہیں اور آیات میں تصرف ہوتا ہے۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے ان سب کی طرف اشارہ کر کے فرمایا۔ ﴿إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ﴾ ” بے شک ان میں ان لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں جو سمجھ رکھتے ہیں“ یعنی ان لوگوں کے لئے جو عقل رکھتے ہیں اور جس مقصد کے لئے یہ اشیاء بنائی اور تیار کی گئی ہیں اس میں غور و فکر اور تدبر کرتے ہوئے وہ اس عقل کو استعمال کرتے ہیں اور عقل جس چیز کو بھی دیکھتی یا سنتی ہے اسے سمجھتی ہے۔ نہ کہ غافلوں کی مانند نظر رکھنا، جو دیکھنے سے اتنے ہی بہرہ ور ہوتے ہیں جتنے وہ جانور جو عقل و فہم سے عاری ہیں۔ النحل
13 یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ نے مختلف انواع کے جو حیوانات، نباتات اور شجر وغیرہ پیدا کئے ہیں، جن کے رنگ ایک دوسرے سے مختلف اور جن کے فوائد بہت متنوع ہیں اور ان کو بندوں کے استفادے کے لئے زمین پر پھیلایا ہے، یہ سب اللہ تعالیٰ کی کامل قدرت، بے پایاں احسان اور بے حساب فضل و کرم کی نشانیاں ہیں، نیز اس حقیقت پر دلالت کرتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔ ﴿لِّقَوْمٍ يَذَّكَّرُونَ﴾ ” ان لوگوں کے لئے نشانی ہیں جو سوچتے ہیں“ یعنی وہ لوگ جو اپنے حافظے میں علم نافع کو محفوظ رکھتے ہیں، پھر ان امور پر غور و فکر کرتے ہیں جن پر غور و فکر کرنے کی اللہ تعالیٰ نے دعوت دی ہے یہاں تک کہ وہ اس حقیقت تک پہنچ جاتے ہیں جس پر یہ علم دلالت کرتا ہے۔ النحل
14 وہ اللہ تعالیٰ ہی ہے ﴿الَّذِي سَخَّرَ الْبَحْرَ﴾ ” جس نے سمندر کو مسخر کیا“ اور تمہارے مختلف انواع کے فوائد کے لئے اسے تیار کیا۔ ﴿لِتَأْكُلُوا مِنْهُ لَحْمًا طَرِيًّا ﴾ ” تاکہ کھاؤ تم اس سے تازہ گوشت“ اس سے مراد مچھلی وغیرہ ہے جسے تم شکار کرتے ہو۔ ﴿وَتَسْتَخْرِجُوا مِنْهُ حِلْيَةً تَلْبَسُونَهَا﴾ ” اور نکالو تم اس سے زیور جو تم پہنتے ہو“ جو تمہارے حسن و جمال میں اضافہ کرتے ہیں۔ ﴿وَتَرَى الْفُلْكَ ﴾ ” اور تم دیکھتے ہو کشتیاں“ یعنی جہاز اور کشتیاں وغیرہ ﴿مَوَاخِرَ فِيهِ ﴾ ” چلتی ہیں اس میں پانی پھاڑ کر، یعنی موجیں مارتے ہوئے ہولناک سمندر کا سینہ چیرتی ہوئی کشتیاں ایک ملک سے دوسرے ملک تک جاتی ہیں جو مسافروں، ان کا رزق، ان کا مال اسباب اور ان کا سامان تجارت لے کر چلتی ہیں۔ سامان تجارت سے وہ رزق اور اللہ کا فضل تلاش کرتے ہیں۔ ﴿وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ﴾ ” اور تاکہ تم شکر کرو“ یعنی اس ہستی کا شکر ادا کرو جس نے تمہائے لئے یہ تمام چیزیں تیار کر کے تمہیں میسر کیں اور تم اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کرو جس نے تمہیں ان چیزوں سے نوازا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ ہی شکر کا مستحق ہے اور اس کے لئے حمد و ثنا ہے کیونکہ اس نے اپنے بندوں کو ان کی طلب سے زیادہ اور ان کی آرزؤں سے بڑھ کر مصالح اور فوائد عطا کئے۔ اس کی حمد و ثنا کا شمار نہیں جاسکتا بلکہ وہ ویسے ہی ہے جیسے اس نے اپنی ثنا خود بیان کی۔ النحل
15 اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَأَلْقَىٰ ﴾ ” اور رکھ دیئے اس نے“ اللہ تعالیٰ نے بندوں کی خاطر ﴿فِي الْأَرْضِ رَوَاسِيَ ﴾ ” زمین میں بوجھ“ اس سے مراد بڑے بڑے پہاڑ ہیں تاکہ زمین مخلوق کے ساتھ ڈھلک نہ جائے اور تاکہ زمین پر کھیتی باڑی کرسکیں، اس پر عمارتیں بنا سکیں اور اس پر چل پھر سکیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی بے پایاں رحمت کا کرشمہ ہے کہ اس نے زمین پر دریاؤں کو جاری کردیا، وہ ان دریاؤں کو دور دراز زمین سے بہا کر اس زمین تک لاتا ہے جو ان کے پانی کی ضرورت مند ہے تاکہ وہ خود، ان کے مویشی اور کھیت سیراب ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے کچھ دریا سطح زمین پر اور کچھ دریا سطح زمین کے نیچے جاری کئے، لوگ کنوئیں کھودتے ہیں یہاں تک کہ وہ زیر زمین بہنے والے دریاؤں تک پہنچ جاتے ہیں تب وہ رہٹ اور دیگر آلات کے ذریعے سے، جن کو اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے مسخر کردیا ہے۔۔۔ ان زمینی دریاؤں (کے پانی) کو باہر نکالتے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی بے کراں رحمت ہی ہے کہ اس نے زمین میں تمہارے لئے راستے بنا دیئے جو دور دراز شہروں تک لے جاتے ہیں۔ ﴿لَّعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ﴾ شاید کہ تم ان راستوں کے ذریعے سے اپنی منزل مقصود کو پالو، حتیٰ کہ تم ایسا علاقہ بھی پاؤ گے جو پہاڑوں کے سلسلے سے گھرا ہوا ہے، مگر اللہ تعالیٰ نے ان پہاڑوں میں لوگوں کے لئے درے اور راستے بنا دیئے ہیں۔ النحل
16 النحل
17 اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ ذکر کرنے کے بعد کہ اس نے بڑی بڑی مخلوقات کو تخلیق کیا اور اس نے تمہیں لا محدود نعمتیں عطا کیں۔۔۔ فرمایا کہ کوئی ہستی اس کے مشابہ نہ اس کی برابری کرسکتی ہے اور نہ اس کی ہمسر ہے، چنانچہ فرمایا ﴿أَفَمَن يَخْلُقُ﴾ ” پس کیا وہ ہستی جو تمام مخلوقات کو پیدا کرتی ہے“ اور وہ جو ارادہ کرتی ہے اسے کر گزرتی ہے۔ ﴿كَمَن لَّا يَخْلُقُ﴾ ” اس ہستی کی مانند ہوسکتی ہے جو (کم یا زیادہ) کچھ بھی پیدا کرنے پر قادر نہیں۔“ ﴿أَفَلَا تَذَكَّرُونَ ﴾ ” کیا تم (اتنا)نہیں سمجھتے“ کہ تم پہچان سکو کہ وہ ہستی جو تخلیق میں یکتا ہے، وہی ہر قسم کی عبودیت کی مستحق ہے۔ اللہ تعالیٰ جس طرح اپنی تخلیق و تدبیر میں یکتا ہے اسی طرح وہ اپنی الوہیت، وحدانیت اور عبادت میں بھی یکتا ہے اور جس طرح اس وقت اس کا کوئی شریک نہ تھا جب اللہ تعالیٰ نے تمہیں اور دیگر چیزوں کو پیدا کیا۔ پس اس کی عبادت میں اس کے ہم سر نہ بناؤ بلکہ دین کو اس کے لئے خالص رکھو۔ النحل
18 ﴿وَإِن تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللّٰـهِ﴾ ” اور اگر تم شمار کرو اللہ کی نعمتوں کو“ یعنی اللہ تعالیٰ کے شکر سے صرف نظر کرتے ہوئے، صرف تعداد کے اعتبار سے ﴿لَا تُحْصُوهَا ۗ﴾ ” تو تم ان کو شمار نہیں کرسکو گے“ یعنی ان نعمتوں کا شکر ادا کرنا تو کجا تم ان کو شمار بھی نہیں کرسکتے اس لئے کہ ہر قسم کی ظاہری و باطنی نعمتیں، جو اس نے سانسوں اور لحظوں کی تعداد میں بندوں پر کی ہیں، جن میں سے کچھ کو وہ جانتے ہیں اور کچھ کو نہیں جانتے، اسی طرح جو تکلیفیں وہ ان سے دور فرماتا رہتا ہے، یہ سب اتنی زیادہ ہیں کہ حیطہ شمار سے باہر ہیں۔ ﴿إِنَّ اللّٰـهَ لَغَفُورٌ رَّحِيمٌ﴾ ” بے شک اللہ بہت بخشنے والا نہایت مہربان ہے“ النحل
19 وہ معمولی سے شکر کو قبول کرلیتا ہے باوجود اس بات کے کہ اس کے انعامات بہت زیادہ ہیں اور جیسے اس کی رحمت بے پایاں، اس کا جود و کرم لا محدود اور اس کی مغفرت تمام بندوں کو شامل ہے، ایسے ہی اس کا علم ان سب کو محیط ہے۔ ﴿يَعْلَمُ مَا تُسِرُّونَ وَمَا تُعْلِنُونَ﴾ ” وہ جانتا ہے جو تم چھپاتے ہو اور جو تم ظاہر کرتے ہو۔“ النحل
20 اور اللہ کے سوا جن کی عبادت کی جاتی ہے، وہ اس کے برعکس ہیں یعنی وہ کچھ نہیں جانتے۔ کیونکہ ﴿ لَا يَخْلُقُونَ شَيْئًا ﴾ ” وہ (کم یا زیادہ) کچھ بھی تخلیق کرنے پر قادر نہیں ہیں“ ﴿ وَهُمْ يُخْلَقُونَ ﴾ ” اور ان کو پیدا کیا گیا ہے۔“ یعنی حالت یہ ہے کہ خود ان کو پیدا کیا گیا ہے وہ ہستیاں جو خود اپنے وجود کیلئے اللہ تعالیٰ کی محتاج ہوں وہ کیسے کوئی چیز پیدا کرسکتی ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ وہ تمام اوصاف کمال اور علم وغیرہ سے محروم ہیں۔ النحل
21 ﴿أَمْوَاتٌ غَيْرُ أَحْيَاءٍ﴾ ” وہ مردہ ہیں، زندہ نہیں“ جو سن سکتے ہیں نہ دیکھ سکتے ہیں اور نہ کچھ عقل رکھتے ہیں۔ کیا تم اللہ رب العالمین کو چھوڑ کر ان کو معبود بناتے ہو؟ پس مشرکین کی مت ماری گئی ہے، ان کی عقل کتنی گمراہ اور کتنی فاسد ہے کہ وہ ان اشیاء میں بھی بہک گئی جن کا فساد بالکل واضح اور اظہر ہے۔ انہوں نے ان لوگوں کو جو ہر لحاظ سے ناقص، اوصاف کمال سے عاری اور افعال سے محروم ہیں اللہ تعالیٰ کے برابر قرار دے دیا ہے جو ہر لحاظ سے کامل ہے۔ وہ ہر صفت کمال کا مالک ہے اور یہ صفت اس میں سب سے کامل اور سب سے زیادہ پائی جاتی ہے۔ اس کا علم کامل تمام اشیاء پر محیط، اس کی قدرت سب کو شامل اور اس کی رحمت بے حدوحساب ہے جو تمام کائنات پر سایہ کناں ہے۔ وہ حمد و ثنا، مجدو کبریاء اور عظمت کا مالک ہے، اس کی مخلوق میں کوئی بھی اس کی کسی صفت کا احاطہ نہیں کرسکتا۔ النحل
22 بنا بریں فرمایا : ﴿إِلَـٰهُكُمْ إِلَـٰهٌ وَاحِدٌ﴾ ” تمہارا معبود، ایک معبود ہے“ اور وہ ہے اللہ جو ایک اور یکتا ہے اور وہ بے نیاز ہے اس نے کسی کو جنم دیا ہے نہ اس کو کسی نے جنم دیا ہے اور اس کا کوئی بھی ہمسر نہیں۔ پس عقل مند اور اہل ایمان نے اللہ تعالیٰ اور اس کی عظمت کو اپنے دلوں میں بسا لیا ہے، ان کے دل اس سے بے پناہ محبت کرتے ہیں، بدنی اور مالی عبادات، اعمال قلوب اور اعمال جو ارح میں سے جو کچھ بھی ان کی استطاعت میں ہے اللہ تعالیٰ کی جناب میں پیش کرتے ہیں اور اس کے اسمائے حسنیٰ، صفات علیا اور افعال مقدسہ کے ذکر کے ذریعے سے اس کی حمد و ثناء بیان کرتے ہیں۔ ﴿فَالَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ قُلُوبُهُم مُّنكِرَةٌ ﴾ ” پس وہ لوگ، جن کو آخرت کا یقین نہیں، ان کے دل نہیں مانتے“ یعنی ان کے دل اس امر عظیم کے منکر ہیں اور اس کا انکار صرف وہی کرتے ہیں جن میں جہالت اور عناد بہت زیادہ ہو اور یہ امر عظیم اللہ تعالیٰ کی توحید ہے۔ ﴿وَهُم مُّسْتَكْبِرُونَ ﴾ ” اور وہ مغرور ہیں“ اور وہ تکبر ہی وجہ کی سے اللہ تعالیٰ کی عبادت سے انکار کرتے ہیں۔ النحل
23 ﴿لَا جَرَمَ ﴾ ” کوئی شک نہیں۔“ یعنی یہ ایک اٹل حقیقت ہے ﴿أَنَّ اللّٰـهَ يَعْلَمُ مَا يُسِرُّونَ وَمَا يُعْلِنُونَ﴾ ” جو کچھ وہ چھپاتے ہیں اور جو ظاہر کرتے ہیں بے شک اللہ اس کو جانتا ہے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ ان کے کھلے چھپے قبیح اعمال کو جانتا ہے۔ ﴿إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْتَكْبِرِينَ﴾ ” بے شک وہ غرور کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا“ بلکہ اللہ تعالیٰ ان سے سخت ناراض ہوتا ہے وہ ان کو ان کے عمل کی جنس کے مطابق جزا دے گا۔ ﴿ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ ﴾ ” وہ لوگ جو تکبر کی بنا پر میری عبادت سے انکار کرتے ہیں وہ ذلیل و خوار ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے۔ “ النحل
24 اللہ تبارک و تعالیٰ آیات الٰہی کے بارے میں مشرکین کی شدت تکذیب کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے : ﴿ وَإِذَا قِيلَ لَهُم مَّاذَا أَنزَلَ رَبُّكُمْ﴾ ” جب ان سے کہا جاتا ہے، تمہارے رب نے کیا اتارا ہے؟“ یعنی جب ان سے قرآن اور وحی، جو اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں پر سب سے بڑی نعمت ہے۔۔۔ کے بارے میں سوال کیا جاتا ہے۔۔۔ کہ تمہار اس کی بابت کیا جواب ہے؟ کیا تم اس نعمت کا اعتراف کرتے ہوئے شکر ادا کرتے ہو یا اس کی ناشکری کرتے ہوئے عناد رکھتے ہو؟“ تو وہ بدترین جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں یہ ﴿ أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ﴾ ” پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں“ یعنی یہ جھوٹ ہے جسے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے گھڑ لیا ہے۔ یہ گزرے ہوئے لوگوں کے قصے کہانیاں ہیں جنہیں لوگ نسل در نسل نقل کرتے چلے آرہے ہیں، ان میں کچھ قصے سچے ہیں اور بعض محض جھوٹے ہیں۔ یہ ان کا نظر یہ تھا اور انہوں نے اپنے پیرو کاروں کو اس نظریہ کے قبول کرنے کی دعوت دی اور اس طرح انہوں نے ان کا بوجھ اٹھایا اور قیامت تک کے لئے ان لوگوں کا بوجھ بھی اٹھا لیا جو ان کی پیروی کریں گے۔ النحل
25 ﴿وَمِنْ أَوْزَارِ الَّذِينَ يُضِلُّونَهُم بِغَيْرِ عِلْمٍ﴾ ” اور ان لوگوں کا بوجھ، جن کو وہ گمراہ کرتے ہیں بغیر علم کے“ یعنی اپنے مقلدین کا بوجھ بھی اٹھائیں گے جن کے پاس کوئی علم نہیں سوائے اس کے جس کی طرف یہ قائدین بلاتے ہیں۔ پس یہ قائدین ان کا بوجھ بھی اٹھائیں گے۔ رہے وہ لوگ جو ان کے باطل ہونے کا علم رکھتے ہیں تو ان میں ہر ایک مستقل مجرم ہے کیونکہ وہ ان کے باطل نظریات کو جانتے ہیں جس طرح وہ خود جانتے ہیں۔ ﴿أَلَا سَاءَ مَا يَزِرُونَ﴾ ” سن رکھو کہ جو بوجھ یہ اٹھا رہے ہیں، برے ہیں۔“ یعنی کتنا برا ہے وہ بھاری بوجھ جو انہوں نے اپنی پیٹھ پر اٹھا رکھا ہے، خود ان کے اپنے گناہوں کا اور ان لوگوں کے گناہوں کا بوجھ جن کو انہوں نے گمراہ کیا۔ النحل
26 ﴿ قَدْ مَكَرَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ﴾ ” تحقیق سازش کی ان لوگوں نے جو ان سے پہلے تھے“ یعنی جنہوں نے اپنے رسولوں کے خلاف سازشیں کیں اور ان کی دعوت کو ٹھکرانے کے لئے مختلف قسم کے حیلے ایجاد کئے اور اپنے مکر و فریب کی اساس اور بنیاد پر خوفناک عمارت اور محل تعمیر کئے۔ ﴿فَأَتَى اللّٰـهُ بُنْيَانَهُم مِّنَ الْقَوَاعِدِ﴾ یعنی اللہ کے عذاب نے ان کے مکرو فریب (کی عمارتوں) کو بنیادوں اور جڑوں سے اکھاڑ پھینکا ،﴿فَخَرَّ عَلَيْهِمُ السَّقْفُ مِن فَوْقِهِمْ ﴾ ” پس گری پڑی ان پر چھت“ سازشوں کا تانا بنا بن کر انہوں نے مکر و فریب کی جو عمارت کھڑی کی تھی ان کے لئے عذاب بن گئی جس کے ذریعے سے ان کو عذاب دیا گیا۔ ﴿وَأَتَاهُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَيْثُ لَا يَشْعُرُونَ﴾ ” اور آیا ان کے پاس عذاب، جہاں سے ان کو خبر نہ تھی“ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے سمجھا کہ یہ عمارت ان کو فائدہ دے گی اور ان کو عذاب سے بچا لے گی مگر اس کے برعکس انہوں نے جو بنیاد رکھی تھی وہ ان کے لئے عذاب بن گئی۔ النحل
27 اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے دشمنوں کے مکرو فریب کے ابطال میں بہترین مثال دی ہے، کیونکہ جب انہوں نے رسولوں کی دعوت کی تکذیب کی تو انہوں نے خوب سوچ سمجھ کر ان کی تکذیب کی انہوں نے کچھ باطل اصول و قواعد وضع کئے جن کی طرف یہ رجوع کرتے تھے اور ان خود ساختہ اصولوں کی بنا پر رسولوں کی دعوت کو ٹھکراتے تھے، نیز انبیاء و رسل اور ان کے متبعین کو نقصان اور تکالیف پہنچانے کے لئے حیلے وضع کرتے تھے۔ پس ان کا مکرو فریب ان کے لئے وبال بن گیا اور ان کی تدبیریں خود ان کی تباہی کا باعث بن گئیں۔ کیونکہ ان کا مکرو فریب انتہائی برا کام تھا ﴿ وَلَا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِ ۚ﴾ (فاطر :35؍43) ” اور مکرو فریب کا وبال انہی پر پڑتا ہے جو مکرو فریب کرتے ہیں۔“ یہ تو ہے دنیا کا عذاب، اور آخرت کا عذاب اس سے زیادہ رسوا کن ہے، اس لئے فرمایا : ﴿ثُمَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يُخْزِيهِمْ﴾ ” پھر قیامت کے دن رسوا کرے گا ان کو“ یعنی اللہ تعالیٰ برسر عام خلائق کے سامنے ان کو رسوا کرے گا، ان کے جھوٹ اور اللہ تعالیٰ پر ان کی افرا پردازی کو آشکارا کرے گا۔ ﴿وَيَقُولُ أَيْنَ شُرَكَائِيَ الَّذِينَ كُنتُمْ تُشَاقُّونَ فِيهِمْ﴾ ” اور کہے گا، کہاں ہیں میرے وہ شریک جن پر تم کو بڑی ضد تھی یعنی جن کی خاطر تم اللہ تعالیٰ اور حزب اللہ سے عداوت اور ان سے جنگ کرتے اور ان کے بارے میں یہ زعم باطل رکھتے تھے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے شریک ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ ان سے یہ سوال کرے گا تو ان کے پاس اپنی گمراہی کے اقرار اور اپنے عناد کے اعتراف کے سوا کوئی جواب نہ ہوگا۔ پس وہ کہیں گے ﴿ ضَلُّوا عَنَّا وَشَهِدُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ أَنَّهُمْ كَانُوا كَافِرِينَ﴾(الاعراف:7؍37) ” وہ سب غائب ہوگئے اور وہ خود اپنے خلاف گواہی دیں گے کہ واقعی وہ حق کا انکار کیا کرتے تھے۔“ ﴿قَالَ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ ﴾ ” وہ لوگ کہیں گے جن کو علم دیا گیا تھا“ یعنی علمائے ربانی ﴿إِنَّ الْخِزْيَ الْيَوْمَ ﴾ ” بے شک رسوائی آج کے دن“ یعنی قیامت کے روز ﴿وَالسُّوءَ﴾ ” اور برائی“ یعنی بہت برا عذاب ﴿ عَلَى الْكَافِرِينَ﴾ ” کافروں پر ہے“ اس آیت کریمہ میں اہل علم کی فضیلت کا بیان ہے کہ وہ اس دنیا میں حق بولتے ہیں اور اس روز بھی حق بات کہیں گے جس روز گواہ کھڑے ہوں گے اور ان کی بات اللہ تعالیٰ اور مخلوق کے نزدیک قابل اعتبار ہوگی۔ النحل
28 پھر اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا کہ ان کی وفات کے وقت اور قیامت کے روز اللہ تعالیٰ ان سے کیا سلوک کرے گا، چنانچہ فرمایا : ﴿الَّذِينَ تَتَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ ظَالِمِي أَنفُسِهِمْ﴾ ” جب فرشتے ان کی روحیں قبض کرنے لگتے ہیں جب کہ وہ اپنے ہی حق میں ظلم کرنے والے ہیں۔“ یعنی فرشتے اس حال میں ان کی جان قبض کر رہے ہوں گے کہ ان کا ظلم اور ان کی گمراہی اپنے عروج پر ہوگی اور ظالم لوگ جس طرح وہاں، مختلف قسم کے عذاب، رسوائی اور اہانت سے دوچار ہوں گے، معلوم ہوجائے گا۔ ﴿ فَأَلْقَوُا السَّلَمَ ﴾ ” تب وہ ظاہر کریں گے فرماں برداری“ یعنی اس وقت وہ بڑی فرمانبرداری کا اظہار اور اپنے ان معبودوں کا انکار کریں گے جن کی وہ عبادت کیا کرتے تھے اور کہیں گے: ﴿مَا كُنَّا نَعْمَلُ مِن سُوءٍ﴾ ” ہم کوئی برا کام نہیں کرتے تھے۔“ ان سے کہا جائے گا : ﴿بَلَىٰ﴾ ” کیوں نہیں“ تم برائی کیا کرتے تھے۔ ﴿ إِنَّ اللّٰـهَ عَلِيمٌ بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ﴾ ” یقیناً اللہ، تم جو کچھ کرتے تھے، جانتا ہے“ النحل
29 پس تمہارا انکار تمہیں کچھ فائدہ نہ دے گا۔ ان کے یہ احوال قیامت کے بعض مقامات پر ہوں گے۔ وہ یہ گمان کرتے ہوئے، دنیا میں کئے ہوئے اعمال کا انکار کردیں گے کہ ان کا یہ انکار ان کو کچھ فائدہ دے گا۔ مگر جب ان کے ہاتھ پاؤں اور دیگر جوارح ان کے خلاف گواہی دیں گے اور ان کے اعمال لوگوں کے سامنے آشکارا ہوجائیں گے تو اپنے کرتوتوں کا اقرار اور اعتراف کرلیں گے، اس لئے وہ اس وقت تک جہنم میں داخل نہیں ہوں گے جب تک کہ وہ اپنے گناہوں کا اعتراف نہ کرلیں گے۔ جب وہ جہنم کے دروازوں میں داخل ہوں گے تو تمام گناہ گار اپنے گناہ کے مطابق اور اپنے حسب حال دروازوں میں سے داخل ہوں گے۔ ﴿ فَلَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِينَ﴾’’پس کیا برا ٹھکانا ہے غرور کرنے والوں کا“ یعنی جہنم کی آگ، کیونکہ یہ حسرت و ندامت کا ٹھکانا، الم و شقاوت کی منزل، رنج و غم کا مقام اور اللہ حیی و قیوم کی سخت ناراضی کا موقع ہوگا۔ جہنم کا عذاب ان سے دور نہ کیا جائے گا، جہنم کے عذاب کی المناکی کو ان سے ایک دن کے لئے بھی رفع نہ کیا جائے گا۔ رب رحیم ان سے منہ پھیر لے گا اور ان کو عذاب عظیم کا مزا چکھائے گا۔ النحل
30 جن لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی وحی کو جھٹلایا، ان کے قول کا ذکر کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اہل تقویٰ کے قول کا ذکر فرمایا کہ انہوں نے اس بات کا اقرار و اعتراف کیا کہ اللہ نے جو کتاب نازل فرمائی ہے، وہ ایک عظیم نعمت اور بڑی بھلائی ہے جس کے ذریعے سے اللہ نے بندوں پر احسان فرمایا۔ (ان کے لئے اس دنیا میں بھلائی ہے)پس انہوں نے اس نعمت کا قبولیت اور اطاعت کے جذبے کے ساتھ استقبال کیا اور اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔ پس انہوں نے اسے جانا اور اس پر عمل کیا۔ ﴿ لِّلَّذِينَ أَحْسَنُوا﴾ ” ان کے لئے جو نیکو کار ہیں۔ “ یعنی وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مقام احسان پر فائز ہوئے اور انہوں نے اللہ کے بندوں کے ساتھ بھلائی کی ﴿ فِي هَـٰذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةٌ﴾ ” اس دنیا میں بھلائی ہے“ یعنی اس دنیا میں ان کے لئے وسیع رزق، بہترین زندگی، اطمینان قلب اور امن و سرور ہے۔ ﴿وَلَدَارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ﴾ ”اور آخرت کا گھر بہت ہی اچھا ہے۔“ یعنی آخرت کا گھر دنیا کے گھر اور اس میں موجود لذات و شہوات سے بہتر ہے کیونکہ دنیا کی نعمتیں بہت کم، مختلف قسم کی آفات سے گھری ہوئی اور آخر کار ختم ہوجانے والی ہیں۔ اس کے برعکس آخرت کی نعمتیں ہمیشہ رہنے والی ہیں اس لئے فرمایا : ﴿وَلَنِعْمَ دَارُ الْمُتَّقِينَ جَنَّاتُ عَدْنٍ يَدْخُلُونَهَا تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ۖ لَهُمْ فِيهَا مَا يَشَاءُونَ ۚ﴾ ” اور کیا خوب گھر ہے پرہیز گاروں کا، باغ ہیں ہمیشہ رہنے کے، جن میں وہ داخل ہوں گے، بہتی ہیں ان کے نیچے نہریں، ان کے لئے وہاں وہ ہے جو وہ چاہیں گے“ یعنی جب بھی ان کے دل کسی چیز کی آرزو اور اس کا ارادہ کریں گے تو وہ چیز انہیں اپنی کامل ترین شکل میں حاصل ہوجائے گی، یہ ممکن نہ ہوگا کہ وہ کوئی ایسی نعمت طلب کریں جس میں ان کے دلوں کی لذت اور روح کا سرور ہو اور وہ حاضر نہ ہو، اس لئے اللہ تعالیٰ اہل جنت کو ہر وہ چیز عطا کرے گا جس کی وہ تمنا کریں گے حتیٰ کہ وہ ان کو ایسی ایسی نعمتیں یاد دلائے گا جو کبھی ان کے خواب و خیال میں بھی نہ آئی ہوں گی۔ النحل
31 نہایت بابرکت ہے وہ ذات جس کے کرم کی کوئی انتہا اور اس کی سخاوت کی کوئی حد نہیں۔ اس کی صفات ذات، صفات افعال، ان صفات کے آثار اور اس کے اقتدار اور بادشاہی کی عظمت و جلالت میں، کوئی چیز اس جیسی نہیں ہے ﴿ كَذَٰلِكَ يَجْزِي اللّٰـهُ الْمُتَّقِينَ ﴾ ” اللہ پرہیز گاروں کو اسی طرح جزا دیتا ہے“ جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے ان فرائض کو ادا کرتے ہیں جو ان کے ذمے عائد ہیں، یعنی وہ فرائض و واجبات جو قلب، بدن، زبان اور حقوق اللہ اور حقوق العباد سے متعلق ہیں اور ان تمام امور کو ترک کردینا جن سے اللہ تعالیٰ نے روکا ہے۔ النحل
32 ﴿ الَّذِينَ تَتَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ﴾ ” وہ لوگ، فرشتے جن کی جان قبض کرتے ہیں“ اس حالت میں کہ وہ دائمی طور پر تقویٰ کا التزام کرتے ہیں۔ ﴿طَيِّبِينَ﴾ ” وہ پاکیزہ ہیں“ یعنی وہ ہر نقص اور گندگی سے پاک صاف رہتے ہیں جو ایمان میں خلل انداز ہوتی ہے۔ ان کے دل اللہ تعالیٰ کی معرفت اور محبت سے، ان کی زبان اللہ تعالیٰ کے ذکر و ثنا سے اور ان کے جوارح اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے شاد کام ہوتے ہیں۔ ﴿يَقُولُونَ سَلَامٌ عَلَيْكُمُ ﴾ ” فرشتے کہتے ہیں، تم پر سلامتی ہو“ تمہارے لئے خاص طور پر کامل سلام اور ہر آفت سے سلامتی اور تم ہر ناپسندیدہ چیز سے محفوظ ہو۔ ﴿ادْخُلُوا الْجَنَّةَ بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ ﴾ ” جو عمل تم کیا کرتے تھے ان کے بدلے میں جنت میں داخل ہوجاؤ۔“ یعنی اللہ تعالیٰ پر ایمان اور اس کے حکم کی تعمیل کے بدلے جنت میں داخل ہوجاؤ۔ کیونکہ عمل ہی دراصل جنت میں داخل ہونے اور جہنم سے نجات کا سبب ہے اور اس عمل کی توفیق اللہ تعالیٰ کی رحمت اور عنایت سے حاصل ہوتی ہے، نہ کہ انسانوں کی قوت و اختیار سے۔ النحل
33 اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے : کیا یہ لوگ جن کے پاس اللہ تعالیٰ کی آیتیں آئیں مگر وہ ایمان نہ لائے انہیں نصیحت کی گئی مگر انہوں نے نصیحت نہ پکڑی۔۔۔ اس بات کا انتظار کر رہے ہیں؟ ﴿ إِلَّا أَن تَأْتِيَهُمُ الْمَلَائِكَةُ﴾ ” کہ فرشتے (ان کی روح قبض کرنے کے لئے) ان کے پاس آئیں۔“ ﴿أَوْ يَأْتِيَ أَمْرُ رَبِّكَ﴾ ” یا تمہارے رب کا حکم (عذاب) نازل ہوجائے“ کیونکہ انہوں نے اپنے آپ کو عذاب کے وقوع کا مستحق بنا لیا۔ ﴿كَذَٰلِكَ فَعَلَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ﴾ ”اسی طرح کیا ان لوگوں نے جو ان سے پہلے تھے“ انہوں نے انبیاء کی تکذیب کی اور ان کا انکار کیا، پھر وہ اس وقت تک ایمان نہ لائے جب تک ان پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل نہ ہوا۔ ﴿ وَمَا ظَلَمَهُمُ اللّٰـهُ﴾ ” اور نہیں ظلم کیا ان پر اللہ نے“ یعنی جب ان پر اللہ تعالیٰ نے عذاب نازل کیا۔ ﴿وَلَـٰكِن كَانُوا أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ ﴾ ” لیکن وہ خود اپنے آپ پر ظلم کرنے والے تھے“ کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے پیدا کئے گئے ہیں تاکہ ان کا انجام اللہ تعالیٰ کے اکرام و تکریم کا حصول ہو۔ پس انہوں نے ظلم کیا اور اس چیز کو ترک کردیا جس کے لئے ان کو پیدا کیا گیا تھا اور انہوں نے اپنے نفوس کو دائمی اہانت اور پیچھا نہ چھوڑنے والی بدبختی کے سامنے پیش کردیا۔ النحل
34 ﴿فَأَصَابَهُمْ سَيِّئَاتُ مَا عَمِلُوا ﴾’’پھر پڑے ان کے سر ان کے برے کام“ یعنی ان کے اعمال بد کے اثرات اور ان کی سزا ﴿ وَحَاقَ بِهِم﴾ ” اور الٹ پڑا ان پر“ یعنی ان پر وہ عذاب نازل ہوا ﴿ مَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ﴾ ” جس کے ساتھ وہ ٹھٹھا کرتے تھے“ کیونکہ ان کے رسولوں نے جب انہیں عذاب سے ڈرایا تو انہوں نے ان سے استہز کیا اور جو خبر انہوں نے دی اس کا تمسخر اڑایا آخر ان پر وہ عذاب ٹوٹ پڑا جس کا وہ تمسخر اڑایا کرتے تھے۔ النحل
35 مشرکین اپنے شرک پر مشیت الٰہی کو دلیل بناتے ہیں اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو وہ کبھی شرک نہ کرتے اور نہ وہ ان مویشیوں کو حرام ٹھہراتے جن کو اللہ تعالیٰ نے حلال قرار دیا ہے، مثلاً بحیرہ، وصیلہ اور حام وغیرہ۔۔۔ مگر ان کی یہ دلیل باطل ہے اگر ان کی یہ دلیل صحیح ہوتی تو اللہ تعالیٰ ان سے پہلے لوگوں کو ان کے شرک کی پاداش میں کبھی عذاب نہ دیتا اس کے برعکس اللہ تعالیٰ نے ان کو سخت عذاب کا مزا چکھایا۔ اگر اللہ تعالیٰ ان کے شرک کو پسند کرتا تو ان کو کبھی عذاب نہ دیتا۔ دراصل حق کو، جسے رسول لے کر آئے، رد کرنے کے سوا ان کا کوئی اور مقصد نہیں ہے ورنہ وہ خوب جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے خلاف ان کے پاس کوئی دلیل نہیں، کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کو امرونہی کا پابند بنایا ہے، ان کو اسی چیز کا مکلف ٹھہرایا ہے جس پر عمل پیرا ہونا ممکن ہے اور اس پر عمل پیرا ہونے اور دو چیزوں میں سے کسی ایک کو اختیار کرنے کی ان کو قوت عطا کی ہے جس سے ان کے افعال صادر ہوتے ہیں۔ اس لئے ان کا قضاء و قدر کو دلیل بنانا سب سے بڑا باطل ہے اور ہر شخص حسی طور پر جانتا ہے کہ انسان جس فعل کا ارادہ کرتا ہے، اسے اس کو کرنے کی قدرت حاصل ہوتی ہے، اس میں کوئی نزاع نہیں ہے، پس انہوں نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں کی تکذیب اور عقلی اور حسی امور کی تکذیب کا ارتکاب کیا۔ ﴿فَهَلْ عَلَى الرُّسُلِ إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ﴾ ” پس رسولوں کی ذمے داری، کھول کر پہنچا دینا ہے“ یعنی واضح اور ظاہر ابلاغ جو دل کی گہرائیوں تک پہنچ جائے اور کسی کے پاس اللہ تعالیٰ کے خلاف کوئی حجت نہ رہے۔ جب انبیاء و رسل ان کو اللہ تبارک و تعالیٰ کے اوامرنواہی پہنچا دیتے ہیں اور وہ اس کے مقابلے میں تقدیر کا بہانہ کرتے ہیں، تو رسولوں کے اختیار میں کچھ نہیں، ان کا حساب اللہ عزوجل کے ذمے ہے۔ النحل
36 اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ تمام قوموں میں اس کی حجت قائم ہوچکی ہے، نیز یہ کہ متقدمین یا متاخرین میں کوئی قوم ایسی نہیں ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے کوئی رسول مبعوث نہ فرمایا ہو اور تمام رسول ایک دعوت اور ایک دین پر متفق تھے اور وہ ہے صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا ﴿ أَنِ اعْبُدُوا اللّٰـهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ ۖ﴾ ” صرف اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت (غیر اللہ کی عبادت) سے بچو۔“ پس قومیں، انبیاء کی دعوت کو قبول کرنے اور رد کرنے کی بنیاد پر دو گروہوں میں منقسم ہوگئیں۔ ﴿فَمِنْهُم مَّنْ هَدَى اللّٰـهُ﴾ ” بعض ان میں سے وہ ہیں جن کو اللہ نے ہدایت دی“ پس انہوں نے علم و عمل کے لحاظ سے رسولوں کی اتباع کی ﴿ وَمِنْهُم مَّنْ حَقَّتْ عَلَيْهِ الضَّلَالَةُ﴾ ” اور بعض ان میں سے وہ ہیں جن پر گمراہی ثابت ہوگئی“ پس انہوں نے گمراہی کا راستہ اختیار کیا۔ ﴿فَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ﴾ ” پس تم )اپنے قلب و بدن کے ساتھ( زمین پر چلو پھرو“ ﴿فَانظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ﴾ ” اور دیکھو کہ جھٹلانے والوں کا کیسا انجام ہوا“ پس تم روئے زمین پر بڑی بڑی عجیب چیزوں کا مشاہدہ کرو گے۔ تم جھٹلانے والا کوئی ایسا شخص نہیں پاؤ گے جس کا انجام ہلاکت نہ ہو۔ النحل
37 ﴿إِن تَحْرِصْ عَلَىٰ هُدَاهُمْ﴾ ” اگر آپ خواہش رکھیں ان کی ہدایت کی“ اور اس بارے میں آپ اپنی جدوجہد صرف کریں ﴿فَإِنَّ اللّٰـهَ لَا يَهْدِي مَن يُضِلُّ﴾ ” تو اللہ اس کو ہدایت نہیں دیتا جس کو وہ گمراہ کر دے“ اگرچہ وہ ہدایت کا ہر سبب ہی کیوں نہ استعمال کرلے، اللہ تعالیٰ اسے ہدایت سے نہ نوازے گا۔ ﴿وَمَا لَهُم مِّن نَّاصِرِينَ ﴾ ” اور ان کے لئے کوئی مددگار نہیں“ جو اللہ کے عذاب کے مقابلے میں ان کی مدد کرسکیں اور ان کو اللہ کے عذاب سے بچا سکیں۔ النحل
38 اپنے رسولوں کو جھٹلانے والے مشرکین کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿وَأَقْسَمُوا بِاللّٰـهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ﴾ ” اور یہ اللہ کی بڑی پکی قسمیں کھاتے ہیں۔“ یعنی وہ اللہ تعالیٰ کی تکذیب پر بہت پکی قسمیں کھاتے ہیں اور اس بات پر کہ اللہ تعالیٰ مردوں کو دوبارہ زندہ کرے گا نہ وہ ان کے مٹی ہوجانے کے بعد ان کو زندہ کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو جھٹلاتے ہوئے کہتا ہے : ﴿بَلَىٰ﴾ ”کیوں نہیں۔“ اللہ تعالیٰ انہیں دوبارہ زندہ کر کے اٹھائے گا، پھر انہیں ایسے روز اکٹھا کرے گا جس کے آنے میں کوئی شک نہیں ﴿وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا﴾ ” اس پر وعدہ ہوچکا ہے پکا“ اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے خلاف کرتا ہے نہ اسے تبدیل کرتا ہے ﴿وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ﴾ ”لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے“ اور مرنے کے بعد دوبارہ زندگی اور جزا سزا کو جھٹلانا ان کی سب سے بڑی جہالت ہے۔ النحل
39 پھر اللہ تعالیٰ زندگی بعد موت اور سزا و جزا کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے : ﴿لِيُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي يَخْتَلِفُونَ فِيهِ﴾ ” تاکہ وہ ان کے سامنے واضح کرے جس میں وہ اختلاف کرتے ہیں“ وہ مسائل بڑے ہوں یا چھوٹے۔ پس وہ ان کے حقائق کو بیان کرے گا۔ ﴿وَلِيَعْلَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّهُمْ كَانُوا كَاذِبِينَ﴾ ” اور تاکہ کافر جان لیں کہ وہ جھوٹے تھے۔“ حتیٰ کہ وہ دیکھ لیں گے کہ ان کے اعمال ان کے لئے حسرت کا باعث ہیں اور جب آپ کے رب کا حکم آگیا تو ان کے خود ساختہ معبود ان کی کوئی مدد نہ کرسکے جن کو وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ پکارا کرتے تھے اور اس وقت وہ دیکھ لیں گے کہ ان کے معبود ان باطل جہنم کا ایندھن ہیں اور سورج اور چاند بے نور کردیئے جائیں گے، ستارے جھڑ کر بکھر جائیں گے اور جو لوگ سورج، چاند اور ستاروں کی عبادت کیا کرتے تھے ان پر واضح ہوجائے گا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے غلام اور اس کے سامنے مسخر ہیں اور ہر حالت میں اللہ تعالیٰ کے محتاج ہیں اور یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے لئے کچھ مشکل نہیں ہے۔ النحل
40 کیونکہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو وہ صرف اتنا کہتا ہے ” ہوجا“ اور وہ ہوجاتی ہے بغیر اس کے کہ کوئی جھگڑا ہو یا کوئی رکاوٹ بلکہ وہ چیز اس کے ارداے اور مشیت کے مطابق ہی ہوتی ہے۔ النحل
41 اللہ تبارک و تعالیٰ ان اہل ایمان کی فضیلت سے آگاہ کرتا ہے جن کو امتحان میں ڈالا گیا تھا۔ چنانچہ فرمایا﴿وَالَّذِينَ هَاجَرُوا فِي اللّٰـهِ﴾ ” جنہوں نے اللہ کی رضا کی خاطر )اللہ تعالیٰ کی راہ میں( ہجرت کی“ ﴿مِن بَعْدِ مَا ظُلِمُوا ﴾ ” بعداس کے کہ ان پر ظلم کیا گیا“ یعنی ان کی قوم کی طرف سے اذیت اور تعذیب کے ذریعے سے ان پر ظلم کیا گیا، کفر اور شرک کی طرف واپس لانے کے لئے ان کو آزمائش اور ابتلاء میں ڈالا گیا۔ پس انہوں نے اپنے وطن اور دوست احباب کو اللہ رحمٰن کی اطاعت کی خاطر چھوڑ دیا۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے ثواب کی دو اقسام بیان کی ہیں : )1( دنیاوی ثواب : یعنی کشادہ رزق اور خوشحال زندگی اس ثواب کا انہوں نے ہجرت کے بعد اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا۔ انہوں نے اپنے دشمنوں کے خلاف فتح و نصرت حاصل کی، ان کے شہر فتح کئے، انہیں غنیمت میں بہت سامال ہاتھ آیا جس سے وہ مال دار ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو اس دنیا ہی میں بھلائی سے نواز دیا۔ )2( اخروی ثواب : ﴿ وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ﴾ ” اور آخرت کا اجر“ یعنی وہ ثواب جس کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کی زبان پر کیا ہے﴿أَكْبَرُ ۚ﴾ ”(دنیا کے ثواب سے )بہت بڑا ہے۔“ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :﴿الَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللّٰـهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ أَعْظَمُ دَرَجَةً عِندَ اللّٰـهِ ۚ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْفَائِزُونَ يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُم بِرَحْمَةٍ مِّنْهُ وَرِضْوَانٍ وَجَنَّاتٍ لَّهُمْ فِيهَا نَعِيمٌ مُّقِيمٌ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۚ إِنَّ اللّٰـهَ عِندَهُ أَجْرٌ عَظِيمٌ ﴾(التوبة:9؍20۔22) ’’جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں اپنی جان اور مال کے ساتھ جہاد کیا، ان کے لئے اللہ کے ہاں سب سے بڑا درجہ ہے اور یہی لوگ کامیاب ہیں ان کا رب انہیں اپنی رحمت، خوشنودی اور ایسی جنتوں کی خوشخبری دیتا ہے جن میں ان کے لئے ہمیشہ رہنے والی نعمتیں ہیں ان جنتوں میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ بے شک اللہ تعالیٰ کے پاس بہت بڑا اجر ہے۔“ ﴿لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ  ﴾ ” کاش وہ جانتے“ یعنی کاش انہیں اس اجر و ثواب کا علم اور یقین ہوتا جو اللہ تعالیٰ کے ہاں ان لوگوں کے لئے ہے جو ایمان لائے اور اس کی راہ میں ہجرت کی اور ہجرت کرنے سے کوئی بھی پیچھے نہ رہا۔ النحل
42 پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے اولیاء کا وصف بیان کرتے ہوئے فرمایا : ﴿الَّذِينَ صَبَرُوا  ﴾ ” وہ لوگ جو صبر کرتے ہیں۔“ یعنی وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کے اوامر و نواہی، اللہ تعالیٰ کی تکلیف دہ قضا و قدر اور اللہ تعالیٰ کے راستے میں اذیتوں پر صبر کرتے ہیں ﴿وَعَلَىٰ رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ ﴾ ” اور وہ اپنے رب پر توکل کرتے ہیں۔“ یعنی وہ اللہ تعالیٰ کے محبوب امور کے نفاذ میں اپنے آپ پر بھروسہ نہیں کرتے بلکہ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتے ہیں۔ اسی طرح ان کے تمام معاملات سر انجام پاتے ہیں اور ان کے احوال درست رہتے ہیں کیونکہ صبر اور توکل تمام امور کا سرمایہ ہے۔ جب بھی کوئی شخص کسی بھلائی سے محروم ہوتا ہے تو عدم صبر اور اپنے مقصد میں عدم جہد کی وجہ سے ناکام ہوتا ہے یا اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ پر اعتماد اور توکل نہیں کرتا۔ النحل
43 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے نبی محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے : ﴿وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ إِلَّا رِجَالًا ﴾ ” نہیں بھیجا ہم نے آپ سے پہلے مگر مردوں ہی کو“ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی نئے اور انوکھے رسول نہیں ہیں۔ پس آپ سے پہلے ہم نے فرشتوں کو رسول بنا کر نہیں بھیجا بلکہ کامل ترین انسانوں ہی کو رسول بنا کر بھیجا ہے اور اسی طرح عورتوں میں سے بھی کسی عورت کو رسول نہیں بنایا۔ ﴿ نُّوحِي إِلَيْهِمْ ۚ ﴾ ” وحی کرتے تھے ہم ان کی طرف“ ہم ان رسولوں کی طرف شریعت اور احکام وحی کرتے تھے جو بندوں پر اللہ تعالیٰ کا فضل و احسان ہے اور یہ رسول اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتے۔ ﴿فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ ﴾ ” پس پوچھ لو یاد رکھنے والوں سے“ یعنی اہل کتاب سے ﴿إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ ﴾ ” اگر تم نہیں جاتے۔“ یعنی اگر تمہیں گزشتہ امتوں کے بارے میں کوئی خبر نہیں اور تمہیں شک ہے کہ آیا اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو رسول بنایا ہے یا نہیں تو تم ان لوگوں سے پوچھ لو جو اس کا علم رکھتے ہیں جن پر اللہ تعالیٰ کی کتابیں اور معجزات نازل ہوئے جنہوں نے ان کتابوں کو پڑھا اور سمجھا۔ ان سب کے ہاں یہ بات متحقق ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بستیوں میں سے صرف انسانوں ہی کو رسول بنا کر بھیجا ہے۔ اس آیت کریمہ کا عموم اہل علم کی مدح پر دلالت کرتا ہے، نیز علم کی تمام انواع میں کتاب اللہ کا علم بلند ترین علم ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس شخص کو جو علم نہیں رکھتا حکم دیا ہے کہ وہ تمام حوادث میں اہل علم کی طرف رجوع کرے۔ یہ آیت کریمہ اہل علم کی تعدیل اور ان کے تزکیہ کو بھی متضمن ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان سے سوال کرنے کا حکم دیا ہے، نیز جاہل آدمی اہل علم سے سوال کرنے پر گرفت سے نکل جاتا ہے۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اہل علم کو اپنی وحی اور تنزیل کا امین بنایا ہے اور وہ تزکیہ اور صفات کمال سے متصف ہونے پر مامور ہیں اور اہل ذکر میں بہترین لوگ اہل قرآن ہیں کیونکہ وہی در حقیقت اہل ذکر ہیں اور دوسروں کی نسبت زیادہ اس نام کے مستحق ہیں، اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : النحل
44 ﴿ وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ ﴾ ” اور ہم نے آپ کی طرف ذکر نازل کیا“ یعنی قرآن جس میں ہر وہ چیز مذکور ہے، جس کی بندوں کو ظاہری اور باطنی طور پر اپنے دینی اور دنیاوی امور میں سخت ضرورت ہے۔ ﴿لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ ﴾ ’’تاکہ آپ لوگوں کے سامنے ان باتوں کی وضاحت کریں جو ان کی طرف نازل کی گئیں“ اور یہ تبیین، الفاظ اور معانی دونوں کو شامل ہے۔ ﴿وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ  ﴾ ” اور تاکہ وہ غور و فکر کریں“ پس وہ اس میں غور و فکر کر کے اپنی استعداد اور اللہ تعالیٰ کی طرف اپنی توجہ کے مطابق، اس کے علم میں سے معانی کے خزانوں کا استخراج کریں۔ النحل
45 یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انکار کرنے والوں، جھٹلانے والوں اور گناہوں کا ارتکاب کرنے والوں کے لئے تخویف ہے کہ کہیں اللہ تعالیٰ کا عذاب انہیں غفلت میں نہ آ پکڑے اور انہیں شعور تک نہ ہو۔ یہ عذاب ان پر یا تو اوپر سے نازل ہو، یا نیچے سے پھوٹ پڑے، جیسے زمین میں دھنس جانے یا کسی اور صورت میں ظاہر ہو یا یہ عذاب ان پر اس وقت نازل ہو، جب وہ زمین پر چل پھر رہے ہوں اور اپنے کاروبار میں مصروف ہوں اور عذاب کا نازل ہونا ان کے خواب و خیال میں بھی نہ ہو یا اس حال میں ان پر عذاب نازل ہو کہ وہ عذاب سے خائف ہوں۔ پس وہ کسی بھی حالت میں اللہ تعالیٰ کو بے بس نہیں کرسکتے بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کے قبضہء قدرت میں ہیں اور ان کی پیشانیاں اس کے ہاتھ میں ہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ نہایت مہربان اور بہت رحیم ہے، وہ گناہ گاروں کو سزا دینے میں جلدی نہیں کرتا بلکہ وہ ان کو ڈھیل دیتا ہے اور ان کو معاف کردیتا ہے، وہ ان کو رزق سے نوازتا ہے اور ان کا حال یہ ہے کہ وہ اسے اور اس کے اولیاء کو ایذا پہنچاتے ہیں۔ بایں ہمہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے توبہ کے دروازے کھول رکھے ہیں، وہ انہیں گناہوں کو ختم کرنے کی دعوت دیتا ہے، جو ان کے لئے سخت ضرر رساں ہیں اللہ تعالیٰ انہیں اس کے بدلے میں بہترین اکرام و تکریم اور ان کے گناہوں کو بخش دینے کا وعدہ کرتا ہے۔۔۔۔۔ پس مجرم کو اپنے رب سے شرمانا چاہئے کہ اس کی نعمتیں ہر حال میں اس پر نازل ہوتی رہتی ہیں اور اس کے بدلے میں اس کی طرف سے ہر وقت نافرمانیاں اپنے رب کی طرف بلند ہوتی ہیں۔ اسے معلوم ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ڈھیل دیتا ہے مہمل نہیں چھوڑتا اور جب وہ گناہ گار نافرمان کو پکڑتا ہے تو اس کی پکڑ ایک غالب اور مقتدر ہستی کی پکڑ ہے۔ پس اسے توبہ کرنی چاہئے اور ہر معاملے میں اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ بس اس کی بے پایاں رحمت اس کے لامحدود احسان کے سائے کے نیچے آجاؤ اور جلدی سے اس راستے پر گامزن ہوجاؤ جو رب رحیم کے فضل و کرم کی منزل تک پہنچتا ہے اور یہ راستہ اللہ تعالیٰ کے تقویٰ اور اس کے محبوب اور پسندیدہ امور پر عمل کرنے سے عبارت ہے۔ النحل
46 النحل
47 النحل
48 اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿ أَوَلَمْ يَرَوْا ﴾ ” کیا انہوں نے نہیں دیکھا۔“ یعنی کیا اپنے رب کی توحید، اس کی عظمت اور اس کے کمال میں شک کرنے والوں نے نہیں دیکھا؟ ﴿إِلَىٰ مَا خَلَقَ اللّٰـهُ مِن شَيْءٍ  ﴾ ” ان چیزوں کی طرف جن کو اللہ نے پیدا کیا“ یعنی تمام مخلوقات کی طرف ﴿يَتَفَيَّأُ ظِلَالُهُ ﴾ کہ ’’ انکے سائے لوٹتے رہتے ہیں“ ﴿عَنِ الْيَمِينِ وَالشَّمَائِلِ سُجَّدًا لِّلّٰـهِ ﴾ ” ان کی دائیں طرف سے یا بائیں طرف سے، اللہ کو سجدہ کرتے ہوئے“ یعنی تمام اشیاء کے سائے، اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلال کے سامنے نہایت عاجزی کے ساتھ سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ ﴿ وَهُمْ دَاخِرُونَ ﴾ ” اور وہ جھکے رہتے ہیں۔“ یعنی وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے ذلیل، مسخر اور اس کے دست تدبیر کے تحت مقہور ہیں۔ ان میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہے جس کی پیشانی اللہ تعالیٰ کی گرفت میں اور اس کی تدبیر اس کے پاس نہ ہو۔ النحل
49 ﴿وَلِلّٰـهِ يَسْجُدُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ مِن دَابَّةٍ ﴾ ” اور اللہ کو سجدہ کرتا ہے جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے جانداروں میں سے“ یعنی تمام انسانوں اور حیوانات میں سے ﴿ وَالْمَلَائِكَةُ  ﴾ ” اور فرشتے“ یعنی اللہ تعالیٰ کے مکرم فرشتے، اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کی فضیلت، ان کے شرف اور ان کی کثرت عبادت کی وجہ سے، تمام مخلوقات کا عمومی ذکر کرنے کے بعد ان کا خصوصی ذکر کیا ہے۔ بنابریں فرمایا : ﴿ وَهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُونَ ﴾ ” اور وہ تکبر نہیں کرتے۔“ یعنی وہ اپنی کثرت، عظمت اخلاق اور قوت کے باوجود اللہ تعالیٰ کی عبادت سے انکار نہیں کرتے، جیساکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿لَّن يَسْتَنكِفَ الْمَسِيحُ أَن يَكُونَ عَبْدًا لِّلّٰـهِ وَلَا الْمَلَائِكَةُ الْمُقَرَّبُونَ ﴾ (النساء: 4؍172) ” مسیح (عیسیٰ علیہ السلام )اور مقرب فرشتے اس بات کو عار نہیں سمجھتے کہ وہ اللہ کے بندے ہیں۔“ النحل
50 ﴿يَخَافُونَ رَبَّهُم مِّن فَوْقِهِمْ ﴾ ” ڈر رکھتے ہیں وہ اپنے رب کا اپنے اوپر سے“ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کی کثرت اطاعت اور ان کے خشوع و خضوع پر ان کی مدح کرنے کے بعد، اللہ تعالیٰ سے ان کے خوف پر ان کی مدح فرمائی ہے، جو بالذات ان کے اوپر، ان پر غالب اور کامل اوصاف کا مالک ہے اور وہ اس کے دست قدرت کے تحت ذلیل اور مقہور ہیں۔ ﴿ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ ﴾ ” جو ان کو ارشاد ہوتا ہے وہ اس پر عمل کرتے ہیں۔“ یعنی اللہ تعالیٰ جو بھی انہیں حکم دیتا ہے وہ خوشی اور پسندیدگی سے اس کی تعمیل کرتے ہیں۔ )١( سجدہ اضطراری : یہ سجدہ اللہ تعالیٰ کی صفات کمال پر دلالت کرتا ہے۔ اس سجدہ میں مومن اور کافر، نیک اور بد، انسان اور حیوان سب شامل ہیں۔ )٢( سجدہ اختیاری : جو اس کے اولیاء، اس کے مومن بندوں، فرشتوں اور دیگر مخلوقات سے مختص ہے۔ النحل
51 اللہ تعالیٰ صرف اپنی عبادت کا حکم دیتا ہے کہ وہی یکتا ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں اور اس پر وہ اس بات سے استدلال کرتا ہے کہ نعمتیں عطا کرنے والا صرف وہی اکیلا ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿لَا تَتَّخِذُوا إِلَـٰهَيْنِ اثْنَيْنِ﴾ ” نہ بناؤ تم معبود دو“ یعنی تم ان کو اللہ تعالیٰ کی الوہیت میں شریک نہ ٹھہراؤ۔ ﴿ إِنَّمَا هُوَ إِلَـٰهٌ وَاحِدٌ ﴾ ” وہ صرف ایک ہی معبود ہے“ وہ اپنی ذات، اپنے اسماء و صفات اور اپنے افعال میں متفرد ہے۔ پس جس طرح وہ اپنی ذات، اپنے اسماء و صفات اور افعال میں ایک ہے، اسی طرح ان کو چاہئے کہ وہ عبادت میں بھی اس کو ایک مانیں۔ اسی لئے فرمایا : ﴿فَإِيَّايَ فَارْهَبُونِ ﴾ ” پس مجھ ہی سے ڈرو“ میرے حکم کی تعمیل اور میرے نواہی سے اجتناب کرو اور میرے ساتھ مخلوق میں سے کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، کیونکہ تمام مخلوق تو اللہ تعالیٰ کی مملوک ہے۔ النحل
52 ﴿وَلَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلَهُ الدِّينُ وَاصِبًا ﴾ ” اور اسی کے لئے ہے جو آسمانوں اور زمین میں ہے اور اسی کی اطاعت ہے ہمیشہ“ یعنی اطاعت، عبادت اور تذلل دائمی طور پر ہر وقت صرف اللہ تعالیٰ کے لئے ہے تمام مخلوق پر فرض ہے کہ وہ اطاعت کو اللہ تعالیٰ کے لئے خالص کریں اور اس کی عبودیت میں رنگے جائیں۔ ﴿ أَفَغَيْرَ اللّٰـهِ تَتَّقُونَ ﴾ ” کیا اللہ کے سوا اوروں سے تم ڈرتے ہو“ زمین والوں میں سے یا آسمان والوں میں سے؟ وہ تمہارے کسی نفع و نقصان کا اختیار نہیں رکھتے اور اللہ تعالیٰ اپنی نوازشات اور احسانات میں یکتا ہے۔ النحل
53 ﴿وَمَا بِكُم مِّن نِّعْمَةٍ﴾ ” اور جو کچھ تمہارے پاس ہے نعمت“ ظاہری اور باطنی ﴿فَمِنَ اللّٰـهِ ﴾ ” پس وہ اللہ کی طرف سے ہے“ یعنی کوئی ایسی ہستی نہیں ہے جو یہ نعمتیں عطا کرنے میں اللہ تعالیٰ کی شریک ہو۔ ﴿ثُمَّ إِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ ﴾ ” پس جب پہنچتی ہے تمہیں کوئی تکلیف“ یعنی محتاجی، بیماری یا کوئی اور مصیبت ﴿فَإِلَيْهِ تَجْأَرُونَ ﴾ ” تو تم اسی سے فریاد کرتے ہو۔“ یعنی گڑ گڑا کر آہ و زاری کرتے ہوئے دعا کرتے ہو کیونکہ تم جانتے ہو کہ نقصان اور مصیبت کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی دور نہیں کرسکتا۔ پس وہ اللہ جو تمہاری پسندیدہ اشیاء عطا کرنے اور ناپسندیدہ امور کو تم سے دور کرنے میں متفرد(یکتا) ہے تو اس اکیلے کے سوا کوئی اور عبادت کے لائق نہیں۔ مگر بہت سے لوگ اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ ان کو مصیبت سے نجات دیتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں پر حمد و ثناء بیان کرتے ہیں۔ مگر جب وہ آرام اور خوشحالی کی حالت میں آجاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے اتھ اس کی محتاج مخلوق کو شریک ٹھہرا دیتے ہیں، النحل
54 النحل
55 اسی لئے فرمایا : ﴿لِيَكْفُرُوا بِمَا آتَيْنَاهُمْ ﴾ ” تاکہ انکار کریں وہ اس چیز کا جو ہم نے ان کو دی“ یعنی جو کچھ ہم نے انہیں عطا فرمایا۔ کیونکہ ہم نے انہیں سختیوں سے نجات دلائی اور مشقت سے چھڑایا۔ ﴿ فَتَمَتَّعُوا ۖ ﴾ ” پس فائدہ اٹھا لو تم“ اپنی دنیا میں تھوڑا سا۔ ﴿فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ  ﴾ تمہیں عنقریب اپنے کفر کا انجام معلوم ہوجائے گا۔ النحل
56 اللہ تبارک و تعالیٰ مشرکین کی جہالت، ان کے ظلم اور اللہ تبارک و تعالیٰ پر ان کی افترا پردازی کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے، نیز وہ خبر دیتا ہے کہ وہ اپنے ان بتوں کو۔۔۔۔ جو کوئی نہ علم رکھتے ہیں، نہ کوئی نفع دے سکتے ہیں اور نہ نقصان پہنچا سکتے ہیں۔۔۔۔ اس رزق میں حصہ دار بناتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے انہیں عطا کیا اور جس سے اللہ تعالیٰ نے ان کو نوازا تھا۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ رزق سے اس کا شریک بنانے میں مدد حاصل کی اور خود ساختہ اور گھڑے ہوئے بتوں کے تقرب کے لئے اللہ تعالیٰ کے اس رزق کو پیش کرتے ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿وَجَعَلُوا لِلَّٰهِ مِمَّا ذَرَأَ مِنَ الْحَرْثِ وَالْأَنْعَامِ نَصِيبًا فَقَالُوا هَـٰذَا لِلّٰـهِ بِزَعْمِهِمْ وَهَـٰذَا لِشُرَكَائِنَا ۖ فَمَا كَانَ لِشُرَكَائِهِمْ فَلَا يَصِلُ إِلَى اللّٰـهِ ﴾ (الانعام : 6؍ 136) ” ان مشرکین نے اللہ کی پیدا کی ہوئی کھیتیوں اور مویشیوں میں سے اللہ کے لئے ایک حصہ مقرر کردیا اور بزعم خود کہتے ہیں کہ اللہ کے لئے ہے اور یہ ہمارے خود ساختہ شرکوں کے لئے ہے پھر جو حصہ ان کے شریکوں کے لئے ہے، وہ اللہ تک نہیں پہنچتا۔۔۔۔ ‘‘ ﴿تَاللّٰـهِ لَتُسْأَلُنَّ عَمَّا كُنتُمْ تَفْتَرُونَ  ﴾ ” اللہ کی قسم ! تم جو افترا پردازی کرتے ہو اس کے بارے میں تم سے ضرور پوچھا جائے گا۔“ فرمایا ﴿  آللّٰـهُ أَذِنَ لَكُمْ ۖ أَمْ عَلَى اللّٰـهِ تَفْتَرُونَ - وَمَا ظَنُّ الَّذِينَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللّٰـهِ الْكَذِبَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۗ ﴾ ” کیا اللہ نے تمہیں اس کا حکم دیا ہے یا تم اللہ پر افترا کر رہے ہو؟ اور ان لوگوں کا کیا خیال ہے، جو اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں کہ قیامت کے روز ان کے ساتھ کیا معاملہ ہوگا“ اس افترا پردازی پر انہیں سخت عذاب دیا جائے گا۔ (یونس : 10؍60،59) النحل
57 ﴿وَيَجْعَلُونَ لِلّٰـهِ الْبَنَاتِ سُبْحَانَهُ ۙ ﴾ ” اور ٹھہراتے ہیں وہ اللہ کے لئے بیٹیاں، وہ اس سے پاک ہے“ کیونکہ انہوں نے فرشتوں کے بارے میں، جو اللہ تعالیٰ کے مقرب بندے ہیں، کہا تھا کہ یہ اللہ کی بیٹیاں ہیں ﴿وَلَهُم مَّا يَشْتَهُونَ ﴾ ” اور ان کے لئے وہ جو وہ چاہتے ہیں“ یعنی خود اپنے لئے بیٹے چاہتے ہیں حتیٰ کہ بیٹیوں کو سخت ناپسند کرتے ہیں۔ النحل
58 پس ان کا یہ حال تھا کہ ﴿وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُهُم بِالْأُنثَىٰ ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا  ﴾ ”جب انہیں سے کسی کو بیٹی کی خوش خبری ملتی تو اس کا منہ سیاہ ہوجاتا“ اس کرب و غم سے جو اس کو پہنچتا۔ ﴿وَهُوَ كَظِيمٌ ﴾ ” اور وہ جی میں گھٹتا۔“ یعنی جب اسے بیٹی کی پیدائش کی خبر دی جاتی تو وہ حزن و غم کے مارے خاموش ہوجاتا حتیٰ کہ وہ اس خبر سے اپنے ابنائے جنس میں اپنی فضیحت محسوس کرتا اور اس خبر پر وہ عار کی وجہ سے منہ چھپاتا پھرتا، پھر وہ اپنی اس بیٹی کے بارے میں جس کی اس کو خوش خبری ملتی، اپنی فکر اور فاسد رائے کی وجہ سے تذبذب کا شکار ہوجاتا کہ وہ اس کے ساتھ کیا معاملہ کرے؟ النحل
59 ﴿أَيُمْسِكُهُ عَلَىٰ هُونٍ ﴾ ” کیا اسے رہنے دے، ذلت قبول کر کے“ یعنی آیا اہانت اور ذلت برداشت کر کے اسے قتل نہ کرے اور زندہ چھوڑ دے۔ ﴿أَمْ يَدُسُّهُ فِي التُّرَابِ ﴾ ” یا اس کو داب دے مٹی میں“ یعنی اسے زندہ دفن کر دے۔ یہی وہ بیٹیوں کو زندہ درگور کرنا ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے مشرکین کو سخت مذمت کی ہے۔ ﴿أَلَا سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ  ﴾ ” خبردار، برا ہے جو وہ فیصلہ کرتے ہیں“ کیونکہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کو اوصاف سے متصف کیا جو اس کے جلال کے لائق نہ تھیں، یعنی اس کی طرف اولاد کو منسوب کرنا، پھر انہوں نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ دونوں قسموں میں سے اس بد تر قسم کو اللہ کی طرف منسوب کیا جس کو خود اپنی طرف منسوب کرنا پسند نہیں کرتے تھے۔ پس وہ اللہ تعالیٰ کی طرف کیسے اسے منسوب کردیتے تھے؟ پس بہت ہی برا فیصلہ ہے جو وہ کرتے۔ چونکہ یہ بری مثال تھی جس کو اللہ تعالیٰ کے دشمنوں، مشرکین نے اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا، اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : النحل
60 ﴿لِلَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ مَثَلُ السَّوْءِ ﴾ ” ان لوگوں کے واسطے جو آخرت پر یقین نہیں رکھتے، بری مثال ہے“ ناقص مثال اور کامل عیب ﴿ وَلِلّٰـهِ الْمَثَلُ الْأَعْلَىٰ ﴾ ” اور اللہ کے لئے مثال ہے سب سے بلند“ اس سے مراد ہر وصف کمال ہے اور تمام کائنات میں جو بھی صفت کمال پائی جاتی ہے اللہ تعالیٰ اس کا سب سے زیادہ مستحق ہے اور کسی بھی پہلو سے کسی نقص کو مستلزم نہیں ہے اور اس کے اولیاء کے دلوں میں بھی مثل اعلیٰ یعنی اس کی تعظیم، اجلال، محبت، اس کی طرف انابت اور اس کی معرفت جاگزیں ہے۔ ﴿وَهُوَ الْعَزِيزُ ﴾ ” اور وہ زبردست ہے“ جو تمام اشیاء پر غالب ہے اور تمام کائنات اس کی مطیع ہے ﴿الْحَكِيمُ ﴾ ” حکمت والا ہے“ جو تمام اشیاء کو ان کے لائق محل و مقام رکھتا ہے۔ وہ جو بھی حکم دیتا ہے اور جو بھی فعل سر انجام دیتا ہے، اس پر اس کی ستائش کی جاتی ہے اور اس کے کمال پر اس کی ثناء بیان کی جاتی ہے۔ النحل
61 اللہ تبارک و تعالیٰ نے ظالموں کی افترا پردازی بیان کرنے کے بعد اپنا کامل حلم و صبر ذکر کرتے ہوئے فرمایا ﴿وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللّٰـهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِم ﴾ ” اگر پکڑے اللہ لوگوں کو ان کی بے انصافی پر“ بغیر کسی کمی یا زیادتی کے ﴿مَّا تَرَكَ عَلَيْهَا مِن دَابَّةٍ ﴾ ” نہ چھوڑے وہ زمین پر ایک بھی چلنے والا“ یعنی معصیت کا ارتکاب کرنے والوں کے علاوہ چوپایوں اور حیوانات میں سے بھی کچھ نہیں بچتا، کیونکہ گناہوں کی نحوست کھیتوں اور نسل کو ہلاک کردیتی ہے۔ ﴿وَلَـٰكِن يُؤَخِّرُهُمْ  ﴾ ” لیکن وہ ان کو ڈھیل دیتا ہے“ یعنی انہیں جلدی سزا نہیں دیتا، بلکہ ایک مقرر مدت یعنی قیامت کے روز تک موخر کردیتا ہے ﴿ فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ لَا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً ۖ وَلَا يَسْتَقْدِمُونَ ﴾ ” پس جب ان کا مقرر وقت آجائے گا، تو پیچھے سرک سکیں گے ایک گھڑی نہ آگے سرک سکیں گے“ اس لئے جب تک انہیں مہلت کا وقت حاصل ہے، اس سے پہلے کہ وہ وقت آن پہنچے جب کوئی مہلت نہ ہوگی، انہیں ڈر جانا چاہئے۔ النحل
62 اللہ تبارک و تعالیٰ مشرکین کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے: ﴿وَيَجْعَلُونَ لِلّٰـهِ مَا يَكْرَهُونَ ﴾ ” اور وہ کرتے ہیں اللہ کے لئے وہ، جسے خود پسند نہیں کرتے“ یعنی خود بیٹیوں اور دیگر اوصاف قبیحہ کو ناپسند کرتے ہیں۔ اس سے مراد شرک ہے، یعنی عبادت میں بعض ہستیوں کو کیسے اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرا رہے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی غلام ہیں۔ ﴿وَتَصِفُ أَلْسِنَتُهُمُ الْكَذِبَ أَنَّ لَهُمُ الْحُسْنَىٰ ﴾ ” اور ان کی زبانیں جھوٹ بیان کرتی ہیں کہ ان کے لئے بھلائی ہے۔“ وہ اس عظیم برائی کے ساتھ ساتھ یہ جھوٹ بھی بولتے ہیں کہ ان کے لئے آخرت کی بھلائی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی تردید کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ لَا جَرَمَ أَنَّ لَهُمُ النَّارَ وَأَنَّهُم مُّفْرَطُونَ  ﴾ ” یقیناً ان کے لئے آگ ہے اور وہ (اس کی طرف) بڑھائے جا رہے ہیں“ یعنی وہ جہنم میں داخل ہوں گے، جہنم میں رہیں گے اور اس سے کبھی نہیں نکلیں گے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے واضح کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ پہلے رسول نہیں ہیں جن کو جھٹلایا گیا ہے۔ النحل
63 ﴿ تَاللّٰـهِ لَقَدْ أَرْسَلْنَا إِلَىٰ أُمَمٍ مِّن قَبْلِكَ  ﴾ ” اللہ کی قسم ! ہم نے آپ سے پہلے، مختلف امتوں کی طرف رسول بھیجے۔“ ایسے رسول، جو انہیں توحید کی دعوت دیتے تھے۔ ﴿فَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ أَعْمَالَهُمْ  ﴾ ” پس اچھے کر کے دکھلائے ان کو شیطان نے ان کے کام“ پس انہوں نے رسولوں کو جھٹلایا اور انہوں نے یہ باطل گمان کیا کہ وہ جس راستے پر چل رہے ہیں وہی حق اور ہر دکھ سے نجات دینے والا ہے جس راستے کی طرف انبیاء و رسول بلاتے ہیں وہ اس کے برعکس ہے۔ پس جب شیطان نے ان کے سامنے ان کے اعمال مزین کردیئے ﴿فَهُوَ وَلِيُّهُمُ الْيَوْمَ ﴾ ” تو وہ آج ان کا دوست ہے“ دنیا میں۔ پس وہ اس کی اطاعت کرنے لگے اور انہوں نے اس کو اپنا دوست بنا لیا۔ ﴿أَفَتَتَّخِذُونَهُ وَذُرِّيَّتَهُ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِي وَهُمْ لَكُمْ عَدُوٌّ ۚ بِئْسَ لِلظَّالِمِينَ بَدَلًا  ﴾ (الکھف : 18؍50) ” کیا تم اسے اور اس کی ذریت کو میرے سوا اپنا دوست بناتے ہو حالانکہ وہ تمہارے دشمن ہیں اور یہ ظالموں کے لئے بہت برا بدلہ ہے۔“ ﴿ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ﴾ ” اور (آخرت میں) ان کے لئے دردناک عذاب ہے“ کیونکہ وہ اللہ رحمان کی دوستی سے منہ موڑ کر شیطان کی دوستی پر راضی ہوگئے۔ بنابریں وہ رسوا کن عذاب کے مستحق ٹھہرے۔ النحل
64 اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے محمد ! صلی اللہ علیہ وسلم ہم نے آپ پر یہ قرآن صرف اس لئے نازل فرمایا ہے کہ آپ توحید، تقدیر، احکام افعال اور احوال معاذ کے بارے میں ان کے اختلاف کے موقع پر ان کے سامنے حق واضح کردیں تاکہ اللہ تعالیٰ اور اس کی نازل کردہ کتاب پر ایمان رکھنے والوں کے لئے کامل ہدایت اور بے پایاں رحمت ہو۔ النحل
65 اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ سب سے بڑی نعمت کا ذکر فرماتا ہے تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کے وعظ و تذکیر کو سمجھیں اور وہ اس حقیقت پر استدلال کریں کہ اللہ تعالیٰ ہی معبود ہے صرف وہی عبادت کا مستحق ہے کیونکہ وہ بارش نازل کر کے اور مختلف اصناف کی نباتات اگا کر بندوں کو نعمتوں سے نوازتا ہے اور اس پر بھی استدلال کریں کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اور وہ ہستی جس نے زمین کو اس کے مر جانے کے بعد زندہ کیا، وہ مردوں کو دوبارہ زندہ کرنے پر بھی قدرت رکھتی ہے اور وہ ہستی جس نے ان احسانات کو عام کیا، وہ بے کراں رحمت اور عظیم سخاوت کی مالک ہے۔ النحل
66 ﴿ وَإِنَّ لَكُمْ فِي الْأَنْعَامِ  ﴾ ” اور بے شک تمہارے لئے چوپایوں میں“ جن کو اللہ تعالیٰ نے تمہارے فوائد کے لئے مسخر کیا ﴿لَعِبْرَةً ﴾ ”سوچنے کی جگہ ہے“ جس سے تم اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ اور وسعت احسان پر استدلال کرسکتے ہو کیونکہ اس نے تمہیں ان مویشیوں کے پیٹ سے(دودھ) پلایا جس کا مادہ گوبر اور خون پر مشتمل ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے گوبر اور خون سے ایسا دودھ نکالا جو ہر قسم کی آلائش سے پاک اور اپنی لذت کی بنا پر پینے والوں کے لئے انتہائی خوش ذائقہ ہے، نیزیہ کہ اس کو پیا جاتا ہے اور اس سے غذا حاصل کی جاتی ہے۔ کیا یہ سب کچھ طبیعی امور کی بجائے قدرت الٰہیہ نہیں ہے؟ اس عالم طبیعیات میں کونسی چیز ہے جو اس چارہ کو جسے چوپائے کھاتے ہیں اور اس میٹھے یا کھارے پانی کو جسے یہ چوپائے پیتے ہیں، پینے والوں کے لئے خالص اور لذیذ دودھ میں بدل دیتی ہے۔ النحل
67 اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے کھجور اور انگور پیدا کئے، نیز بندوں کے فوائد کے لئے رزق حسن کی مختلف انواع پیدا کیں ہیں جن کو وہ تازہ بتازہ اور ان کے پکنے کے بعد کھاتے ہیں، انہیں ذخیرہ کرتے ہیں، انہیں کھانے پینے کے لئے استعمال میں لاتے ہیں، ان سے رس نچوڑ کر نبیذ اور دیگر نشہ آور مشروبات بناتے ہیں جو اس سے قبل ان کے لئے حلال تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے تمام نشہ آور چیزوں کو حرام قرار دے دیا اور اس کے عوض انہیں پھلوں سے نچوڑے ہوئے پاک و صاف رس، نبیذ اور مختلف اقسام کے لذیذ اور مباح مشروبات عطا کئے۔ اس لئے جن مفسرین کا قول یہ ہے کہ ” یہاں نشہ آور چیزوں سے مراد، لذیذ مطعومات و مشروبات ہیں“ وہ پہلے قول سے زیادہ قرین صواب ہے۔ ﴿إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ ﴾ ” جو لوگ عقل رکھتے ہیں ان کے لئے ان (چیزوں) میں نشانی ہے۔“ یعنی ان میں ان لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں جو اس کی قدرت کاملہ کو خوب سمجھتے ہیں کیونکہ اس نے درختوں پر ایندھن سے مشابہت رکھنے والی چیزیں پیدا کیں جو ایک لذیذ پھل اور خوش ذائقہ میوہ بن جاتی ہیں۔ اس کی رحمت عام اور بے پایاں ہے جو اپنے تمام بندوں پر سایہ کناں ہے، اللہ تعالیٰ نے اس رحمت کو سب کے لئے آسان کردیا۔۔۔۔۔ نیز وہ اکیلا ہی معبود برحق ہے کیونکہ ان نعمتوں کو عطا کرنے میں وہ یکتا ہے۔ النحل
68 اس چھوٹی سی شہد کی مکھی میں بھی غور و فکر کرنے والوں کے لئے نشانیاں ہیں جس کی اللہ تعالیٰ نے حیرت انگیز طریقے سے راہنمائی کی اور اسے (پھولوں کا رس چوسنے کے لئے)پھلواریاں مہیاکیں، پھر ان گھروں کی طرف واپس لوٹنے کے لئے وحی کی جو اس نے اللہ تعالیٰ کی تعلیم سے تیار کئے تھے۔ وہ شہد کی اس مکھی کے پیٹ سے نہایت لذیذ شہد نکالتا ہے جو زمین اور پھلواری کے مطابق مختلف رنگوں کا ہوتا ہے۔ شہد میں لوگوں کے لئے متعدد امراض سے شفا رکھ دی گئی ہے۔ یہ چیز اللہ تعالیٰ کی لا محدود عنایت اور اپنے بندوں پر اس کے کامل لطف و کرم پر دلالت کرتی ہے، نیز یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس کے سوا کسی سے محبت کی جائے نہ اس کے سوا کسی کو پکارا جائے۔ النحل
69 النحل
70 اللہ تبارک و تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ وہی ہے جس نے بندوں کو پیدا کیا اور ان کی تخلیق کے ایک مرحلے سے دوسرے مرحلے میں داخل کیا اور جب وہ اپنی مدت مقررہ پوری کرلیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کو وفات دے دیتا ہے۔ ان میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ طویل عمر عطا کرتا ہے حتیٰ کہ ﴿ يُرَدُّ إِلَىٰ أَرْذَلِ الْعُمُرِ ﴾ ” اس کو بدترین عمر تک پہنچا دیتا ہے“ اس عمر میں انسان ظاہری اور باطنی قویٰ کی کمزوری کا شمار ہوجاتے ہیں یہاں تک کہ عقل بھی، جو کہ انسان کا جوہر ہے، اس سے متاثر ہوتی ہے، اس کی عقل کی کمزوری میں اضافہ ہوتا رہتا ہے حتیٰ کہ وہ ان تمام چیزوں کو بھول جاتا ہے جو اسے معلوم تھیں، اس کی عقل بچے کی عقل کی مانند ہوجاتی ہے، اس لئے فرمایا : ﴿لِكَيْ لَا يَعْلَمَ بَعْدَ عِلْمٍ شَيْئًا ۚ إِنَّ اللّٰـهَ عَلِيمٌ قَدِيرٌ﴾ ” تاکہ سمجھنے کے بعداب کچھ نہ سمجھے، اللہ تعالیٰ جاننے والا، قدرت والا ہے“ یعنی اللہ تعالیٰ کے علم اور قدرت نے تمام اشیاء کا احاطہ کر رکھا ہے۔ یہ چیز بھی اللہ تعالیٰ کے دست قدرت کے تحت ہی ہے کہ آدمی تخلیق کے ایک مرحلے سے دوسرے مرحلے میں داخل ہوتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿اللّٰـهُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن ضَعْفٍ ثُمَّ جَعَلَ مِن بَعْدِ ضَعْفٍ قُوَّةً ثُمَّ جَعَلَ مِن بَعْدِ قُوَّةٍ ضَعْفًا وَشَيْبَةً ۚ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ ۖ وَهُوَ الْعَلِيمُ الْقَدِيرُ ﴾ (الروم : 30؍54) ” وہ اللہ ہی تو ہے جس نے تمہیں کمزور حالت میں پیدا کیا پھر کمزوری کے بعد اس نے تمہیں قوت عطا کی پھر قوت کے بعد کمزوری اور بڑھاپا دے دیا، وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے، وہ علم اور قدرت والا ہے۔ “ النحل
71 یہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی دلیل اور شرک کی قباحت پر برہان ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم سب اس بات میں مشترک ہو کہ تم مخلوق اور مرزوق ہو ﴿فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ ۚ  ﴾ (البتہ اللہ تعالیٰ نے) ” رزق کے معاملے میں تمہیں ایک دوسرے پر فضیلت دی ہے“ تم میں سے بعض کو آزاد بنایا، ان کومال و دولت اور ثروت سے نوازا اور تم میں بعض کو ان کا غلام بنا دیا، وہ دنیا میں کسی چیز کے مالک نہیں ہیں اور جس طرح ان غلاموں کے وہ آقا جن کو اللہ تعالیٰ نے رزق میں فضیلت عطاکی ہے۔ ﴿بِرَادِّي رِزْقِهِمْ عَلَىٰ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَهُمْ فِيهِ سَوَاءٌ ﴾ ” وہ روزی پہنچانے والے نہیں ان کو جن کے ان کے دائیں ہاتھ مالک ہوئے وہ سب اس میں برابر ہوجائیں“ اور وہ اس امر کو محال سمجھتے ہیں۔ اسی طرح وہ ہستیاں جن کو تم نے اللہ تعالیٰ کے شریک ٹھہرا رکھا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کے غلام ہیں وہ کسی ذرہ بھر چیز کے مالک نہیں ہیں۔۔۔۔ پھر تم ان کو اللہ تعالیٰ کا شریک کیسے ٹھہراتے ہو؟ کیا یہ سب سے بڑا ظلم اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا انکار نہیں؟ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿أَفَبِنِعْمَةِ اللَٰـهِ يَجْحَدُونَ ﴾ ” کیا پس وہ اللہ کی نعمتوں کا انکار کرتے ہیں؟“ اگر انہوں نے ان نعمتوں کا اقرار کیا ہوتا اور ان کو اس ہستی کی طرف منسوب کیا ہوتا جو اس کی مستحق ہے تو یہ کبھی شرک نہ کرتے۔ النحل
72 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں پر اس احسان عظیم کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے کہ اس نے ان کی بیویاں بنائیں تاکہ وہ ان بیویوں کے پاس سکون حاصل کریں اور ان بیویوں سے ان کو اولاد عطا کی تاکہ ان سے ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں، یہ اولاد ان کی خدمت کرے اور ان کی مختلف حوائج پوری کرے اور وہ متعدد پہلوؤوں سے اپنی اولاد سے فائدہ اٹھائیں اور ان کو پاک مطعومات و مشروبات سے نوازا اور دیگر ظاہری نعمتیں عطا کیں جن کو شمار کرنا بندوں کے بس میں نہیں۔ ﴿أَفَبِالْبَاطِلِ يُؤْمِنُونَ ﴾ ”کیا پس وہ باطل کو مانتے ہیں؟“ یعنی کیا یہ لوگ باطل پر ایمان رکھتے ہیں جو کوئی قابل ذکر چیز تھا ہی نہیں؟ پھر اللہ تعالیٰ نے اس کو وجود عطا کیا اور اس کا وجود عدم کے سوا کچھ بھی نہیں تھا۔ پس یہ باطل معبود تخلیق، رزق اور تدبیر کسی چیز پر بھی قادر نہیں اور یہ بات ہر اس چیز کو شامل ہے جس کی اللہ تعالیٰ کے سوا عبادت کی جاتی ہے، کیونکہ وہ باطل ہے۔ تب مشرکین اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر ان کو معبود کیسے بنا لیتے ہیں؟ ﴿وَبِنِعْمَتِ اللّٰـهِ هُمْ يَكْفُرُونَ ﴾ ” اور وہ اللہ کی نعمت کا انکار کرتے ہیں“ اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں اور کفر میں اس کو استعمال کرتے ہیں۔ کیا یہ سب سے بڑا ظلم، سب سے بڑا گناہ اور سب سے بڑی حماقت نہیں؟ النحل
73 اللہ تبارک و تعالیٰ مشرکین کی جہالت اور ان کے ظلم کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے سوا خود ساختہ معبودوں کی عبادت کرتے ہیں جن کو انہوں نے اللہ تعالیٰ کے شرک ٹھہرایا ہے اور ان باطل معبودوں کا حال یہ ہے کہ وہ ان کے لئے زمین و آسمان میں رزق کا اختیار نہیں رکھتے۔ وہ بارش برسا سکتے ہیں نہ رزق عطا کرسکتے ہیں اور نہ ہی زمین میں نباتات اگا سکتے ہیں، وہ زمین و آسمان میں کسی ذرہ بھر چیز کے بھی مالک نہیں ہیں بلکہ اگر وہ چاہیں بھی تو کسی چیز کے مالک نہیں بن سکتے، کیونکہ بسا اوقات کسی چیز کا غیر مالک بھی اس چیز پر، جو نفع دے سکتی ہو، قدرت اور اختیار رکھتا ہے۔۔۔۔ مگر یہ خود ساختہ معبود کسی چیز کے مالک ہیں نہ قدرت اور اختیار رکھتے ہیں۔ یہ ہیں ان کے خود ساختہ معبودوں کے اوصاف، کیسے انہوں نے ان کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ معبود بنا لیا، مالک ارض و سماء کے ساتھ تشبیہ دے دی جو تمام تر اقدار کا مالک، ہر قسم کی حمد و ثنا کا مستحق ہے اور تمام قوت اسی کے پاس ہے؟ النحل
74 اسی لئے فرمایا : ﴿فَلَا تَضْرِبُوا لِلّٰـهِ الْأَمْثَالَ ﴾ ” اللہ کے لئے مثالیں بیان مت کرو“ جو اللہ تعالیٰ اور اس کی مخلوق کے درمیان مساوات کو متضمن ہیں۔ ﴿إِنَّ اللّٰـهَ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ  ﴾ ” بے شک اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے“ پس ہم پر واجب ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے بارے میں بلا علم کوئی بات نہ کہیں اور ان مثالوں کوغور سے سنیں جن کو اللہ علیم و خبیر نے بیان کیا ہے۔ بنابریں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے لئے دو مثالیں بیان کی ہیں جو اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر دوسروں کی عبادت کرتے ہیں۔ النحل
75 پہلی مثال ایک غلام کی ہے جو کسی دوسرے کی غلامی میں ہے جو مال کا مالک ہے نہ دنیا کی کسی چیز کا جبکہ دوسرا ایک آزاد اور دولت مندشخص ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے مال کی تمام اصناف میں سے بہترین رزق سے نوازا ہے وہ سخی اور بھلائی کو پسند کرنے والا شخص ہے۔ وہ اس مال میں سے کھلے چھپے خرچ کرتا ہے۔ کیا یہ مرد آزاد اور وہ غلام برابر ہوسکتے ہیں؟ حالانکہ یہ دونوں مخلوق ہیں اور ان کے درمیان مساوات محال نہیں ہے۔ پس جب یہ دونوں مخلوق ہوتے ہوئے برابر نہیں ہوسکتے، تو ایک مخلوق اور غلام ہستی، جو کسی چیز کی مالک ہے نہ کوئی قدرت اور اختیار رکھتی ہے بلکہ وہ ہر لحاظ سے محتاج ہے، رب تعالیٰ کے برابر کیسے ہوسکتی ہے جو تمام سلطنتوں کا مالک اور ہر چیز پر قادر ہے؟ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے اپنی تعریف کی اور حمد و ستائش کی تمام انواع سے اپنے آپ کو متصف کرتے ہوئے فرمایا : ﴿الْحَمْدُ لِلّٰـهِ﴾ ” تمام تعریف اللہ کے لئے ہے“ گویا کہ یوں کہا گیا کہ جب معاملہ یہ ہے تو مشرکین نے اپنے خود ساختہ معبودوں کو اللہ تعالیٰ کے برابر کیوں ٹھہرا دیا؟ اور اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ ﴾ ” بلکہ ان کے اکثر لوگ علم نہیں رکھتے“ پس اگر انہیں حقیقت کا علم ہوتا تو وہ اس شرک عظیم کے ارتکاب کی کبھی جرات نہ کرتے۔ النحل
76 دوسری مثال یہ ہے ﴿ رَّجُلَيْنِ أَحَدُهُمَا أَبْكَمُ  ﴾ ” دو آدمی ہیں، ایک ان میں سے گونگا ہے“ جو سن سکتا ہے نہ بول سکتا ہے ﴿لَا يَقْدِرُ عَلَىٰ شَيْءٍ  ﴾ ” جو )قلیل یا کثیر( کسی چیز پر قادر نہیں“ ﴿وَهُوَ كَلٌّ عَلَىٰ مَوْلَاهُ ﴾ ” اور وہ اپنے آقا پر بوجھ ہے“ وہ خود اپنی خدمت کرنے پر قادر نہیں بلکہ اس کے برعکس اس کا مالک اس کی خدمت کرتا ہے اور وہ ہر لحاظ سے ناقص ہے۔ ﴿هَلْ يَسْتَوِي هُوَ وَمَن يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ ۙ وَهُوَ عَلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ  ﴾ ” کیا برابر ہے وہ اور ایک وہ شخص جو انصاف کے ساتھ حکم کرتا ہے اور وہ سیدھی راہ پر ہے“ پس اس کے اقوال عدل پر مبنی اور اس کے افعال درست ہیں تو جس طرح یہ دونوں برابر نہیں ہوسکتے، اسی طرح وہ ہستی جس کی اللہ تعالیٰ کے سوا عبادت کی جاتی ہے درآنحالیکہ وہ اپنے مصالح پر بھی کوئی اختیار نہیں رکھتی، اللہ تعالیٰ کے برابر کیسے ہوسکتی ہے؟ اگر اللہ تعالیٰ اس کے مصالح کا انتظام نہ کرے تو وہ ان میں سے کسی چیز پر بھی قادر نہیں۔ ایسا شخص اس شخص کی برابری کرسکتا ہے نہ اس کا ہمسر ہوسکتا ہے جو حق کے سوا کچھ نہیں بولتا اور وہ صرف وہی فعل سر انجام دیتا ہے جو قابل ستائش ہے۔ النحل
77 یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ آسمانوں اور زمین کے عیب کا علم رکھنے میں منفرد اور یکتا ہے، پس چھپی ہوئی باطن کی باتیں اور اسرار نہاں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا، قیامت کی گھڑی کا علم بھی اسی زمرے میں آتا ہے۔ چنانچہ اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ قیامت کب آئے گی۔ جب قیامت کی گھڑی نمایاں ہو کر سامنے آجائے گی تو یہ ﴿إِلَّا كَلَمْحِ الْبَصَرِ أَوْ هُوَ أَقْرَبُ ۚ ﴾ ” آنکھ جھپکنے یا اس سے بھی کم وقت میں آجائے گی۔“ پس لوگ اپنی قبروں سے اٹھ کھڑے ہوں گے اور محشر کی طرف دوڑیں گے اور جو لوگ مہلت چاہیں گے ان کے لئے مہلت کا وقت ختم ہوجائے گا۔ ﴿نَّ اللّٰـهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ﴾ ” بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔“ اللہ تعالیٰ کی قدرت کے سامنے، جو ہر چیز کو شامل ہے، مردوں کو زندہ کرنا کوئی انوکھی بات نہیں۔ النحل
78 یعنی اللہ تعالیٰ یہ نعمتیں عطا کرنے میں منفرد اور یکتا ہے ﴿ أَخْرَجَكُم مِّن بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ لَا تَعْلَمُونَ شَيْئًا  ﴾ ” اس نے تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹوں سے نکالا، تم کچھ نہیں جانتے تھے“ اور نہ کسی چیز پر قدرت رکھتے تھے۔ اور اس نے ﴿وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَةَ ۙ ﴾ ” تمہارے کان، آنکھیں اور دل بنائے“ اللہ تعالیٰ نے ان تینوں اعضاء کا ان کے فضل و شرف کی بنا پر خاص طور پر ذکر کیا ہے، نیز اس خصوصیت کی وجہ یہ بھی ہے کہ یہ تینوں اعضاء ہر علم کی کلید ہیں۔ صرف یہی تین دروازے ہیں جن کے ذریعے سے علم انسان تک پہنچتا ہے ورنہ تمام اعضاء اور تمام ظاہری اور باطنی قوی اللہ تعالیٰ ہی نے عطا کئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو نشونما دیتا رہتا ہے حتیٰ کہ وہ اس حالت کو پہنچ جاتے ہیں جو انسان کے لائق ہوتی ہے۔ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ نے اس لئے عطا کیا ہے کہ وہ ان جوارح کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں استعمال کر کے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں۔ پس جو کوئی ان جورح کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے علاوہ کہیں اور استعمال کرتا ہے تو یہ جوارح اس کے خلاف حجت ہوں گے کیونکہ وہ اللہ کی نعمت کا بد ترین رویے سے مقابلہ کرتا ہے۔ النحل
79 کیونکہ اہل ایمان آیات الٰہی سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور آیات الٰہی میں غور و فکر کرتے ہیں۔ رہے کفار، تو وہ آیات الٰہی کو لہو و لعب اور غفلت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ اس آیت کریمہ کے معنی یہ ہیں کہ پرندوں کو اللہ تعالیٰ نے ایسی ہئیت میں پیدا کیا ہے جو ان کے اڑنے کے لئے درست ہے، پھر ان کے لئے اس لطیف ہوا کو مسخر کردیا، پھر ان پرندوں میں حرکت کرنے کی قوت اور وہ چیز ودیعت کی جن کے ذریعے سے وہ اڑنے پر قادر ہوتے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت، لامحدود علم، تمام مخلوق پر اس کی عنایت ربانی اور اس کے اقتدار کامل کی دلیل ہے۔ نہایت بابرکت ہے اللہ تعالیٰ جو تمام جہانوں کا رب ہے۔ النحل
80 اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اپنی نعمتیں یا دلاتا ہے اور ان سے ان نعمتوں کے اعتراف اور ان پر شکر کا مطالبہ کرتا ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿وَاللّٰـهُ جَعَلَ لَكُم مِّن بُيُوتِكُمْ سَكَنًا  ﴾ ” اور اللہ ہی نے تمہارے لئے گھروں کو رہنے کی جگہ بنایا۔“ یعنی اللہ تعالیٰ نے تمہارے گھر اور بڑے بڑے محلبنائے جو گرمی اور سردی سے بچاتے ہیں، تمہیں، تمہاری اولاد اور تمہارے مال و متاع کو ٹھکانا مہیا کرنے ہیں۔ تم ان گھروں میں، اپنے مختلف اقسام کے فوائد اور مصالح کے لئے کمرے اور بالا خانے بناتے ہو۔ ان گھروں میں تمہارے مال و متاع اور تمہاری عزت و ناموس کی حفاظت ہے اور اس قسم کے دیگر فوائد جن کا روز مشاہد ہوتا ہے۔ ﴿وَجَعَلَ لَكُم مِّن جُلُودِ الْأَنْعَامِ ﴾ ” اور بنا دیئے تمہارے لئے چوپاؤں کی کھالوں سے“ یعنی یہ تو خود ان چوپایوں کی کھال سے یا اس کھال پر اگنے والے بالوں اور اون سے ﴿بُيُوتًا تَسْتَخِفُّونَهَا ﴾ ” ڈیرے، جو ہلکے رہتے ہیں تم پر“ یعنی جن کے بوج کو اٹھانا تمہارے لئے بہت آسان ہوتا ہے ﴿ يَوْمَ ظَعْنِكُمْ وَيَوْمَ إِقَامَتِكُمْ ﴾ ” سفر اور حضر میں“ یعنی وہ سفر اور ان منزلوں میں تمہارے ساتھ ہوتے ہیں جہاں گھر بنانا تمہارا مقصد نہیں ہوتا۔ پس یہ خیمے تمہیں گرمی، سردی اور بارش سے بچاتے ہیں اور تمہارے مال و متاع کو بھی بارشوں سے محفوظ رکھتے ہیں۔ ﴿وَ ﴾ ” اور“ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے بنائے ﴿وَمِنْ أَصْوَافِهَا ﴾ ” انکی اون سے۔“ یعنی ان چوپایوں کی پشم سے ﴿وَأَوْبَارِهَا وَأَشْعَارِهَا أَثَاثًا﴾ ” اور اونٹوں کی پشن سے اور بکریوں کے بالوں سے کتنے اسباب“ (اثاث) کا لفظ برتنوں، خرجیوں، بچھونوں، لباس اور اوپراوڑھنے والے کپڑے وغیرہ سب کو شامل ہے ﴿وَمَتَاعًا إِلَىٰ حِينٍ﴾ ” اور استعمال کی چیزیں ایک وقت مقرر تک“ یعنی ان چیزوں کو اس دنیا میں استعمال کرتے ہو اور ان سے فائدہ اٹھاتے ہو۔ پس یہ ان چیزوں میں سے ہے جن کی صنعت و حرفت کے لئے اللہ نے بندوں کو مقرر کردیا ہے۔ النحل
81 ﴿وَاللّٰـهُ جَعَلَ لَكُم مِّمَّا خَلَقَ ﴾ ” اور بنا دیئے اللہ نے تمہارے واسطے ان میں سے جن کو پیدا کیا“ یعنی جن میں تمہارے لئے کوئی صنعت نہیں ہے۔ ﴿ ظِلَالًا ﴾ ” سائے“ مثلاً درختوں پہاڑوں اور ٹيلوں کے سائے۔ ﴿وَجَعَلَ لَكُم مِّنَ الْجِبَالِ أَكْنَانًا ﴾ ”اور بنادیں تمہارے لئے پہاڑوں میں چھپنے کی جگہیں“ یعنی غار اور کھوہ بنائے جہاں تم گرمی، بارش اور اپنے دشمنوں سے بچنے کے لئے پناہ لیتے ہو ﴿وَجَعَلَ لَكُمْ سَرَابِيلَ ﴾ ” اور بنا دیئے تمہارے لئے کرتے“ یعنی لباس اور کپڑے ﴿تَقِيكُمُ الْحَرَّ  ﴾ ” وہ تمہیں گرمی سے بچاتے ہیں“ اللہ تبارک و تعالیٰ نے سردی کا ذکر نہیں فرمایا کیونکہ گزشتہ صفحات میں گزر چکا ہے۔ اس سورۃ مبارکہ کی ابتداء میں اصولی نعمتوں کا ذکر ہے اور اس کے آخر میں ان امور کا ذکر ہے جو ان نعمتوں کی تکمیل کرتے ہیں۔ سردی میں بچاؤ ایک بنیادی نعمت اور ضرورت ہے اللہ تعالیٰ نے سورت کی ابتداء میں اس کا ان الفاظ میں ذکر فرمایا ہے : ﴿لَكُمْ فِيهَا دِفْءٌ وَمَنَافِعُ ﴾ (النحل :16؍ 5) ” جن میں تمہارے لئے جاڑے کا سامان ہے اور فائدے ہیں“ ﴿وَسَرَابِيلَ تَقِيكُم بَأْسَكُمْ ﴾ ”اور کرتے جو تمہیں لڑائی سے محفوظ رکھیں۔“ یعنی وہ لباس جو جنگ اور لڑائی کے وقت تمہیں ہتھیاروں کی زد سے بچاتے ہیں مثلاً زرہ، بکتر وغیرہ ﴿كَذَٰلِكَ يُتِمُّ نِعْمَتَهُ ﴾ ” اسی طرح پوری کرتا ہے وہ اپنی نعمت“ اس نے تمہیں لا محدود نعمتوں سے نوازا ہے جن کا شمار ممکن نہیں۔ ﴿لَعَلَّكُمْ ﴾ ” تاکہ تم“ جب اللہ کی نعمت کو یاد کرو اور دیکھو کہ اس نعمت نے تمہیں ہر لحاظ سے ڈھانپ رکھا ہے۔ ﴿تُسْلِمُونَ ﴾ ” فرماں بردار بن جاؤ“ تب شاید تم اللہ تعالیٰ کی عظمت کے سامنے سر تسلیم خم کرو اور اس کے حکم کی تعمیل کرو اور اس نعمت کو تم اس کے والی اور عطا کرنے والے کی اطاعت میں صرف کرو۔ پس نعمتوں کی کثرت بندوں کی طرف سے ایسے اسباب کی باعث بنتی ہے جو اللہ تعالیٰ کے شکر اور اس کی حمد و ثناء میں اضافے کا موجب ہے۔ مگر ظالموں نے تکبر اور عناد ہی کا مظاہرہ کیا۔ النحل
82 بنابریں اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں فرمایا : ﴿فَإِن تَوَلَّوْا ﴾ ” پھر اگر وہ پھر جائیں“ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور اس کی آیات کے ذریعے سے تذکیر کے بعد بھی اگر وہ اللہ تعالیٰ اور اس کی اطاعت سے روگردانی کریں ﴿فَإِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلَاغُ الْمُبِينُ ﴾ ” تو آپ کا کام صرف کھول کر سنا دینا ہے“ ان کی ہدایت و توفیق آپ کے ذمے نہیں ہے بلکہ آپ سے صرف وعظ و تذکیر اور انذار و تحذیر کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ جب آپ نے یہ فرض ادا کردیا تو ان کا حساب اللہ کے پاس ہے اس لئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے احسان کو دیکھ رہے ہیں اور اس کی نعمت کو پہنچانتے ہیں مگر اس کا انکار کردیتے ہیں ۔ النحل
83 ﴿وَأَكْثَرُهُمُ الْكَافِرُونَ ﴾ ” اور ان کے اکثر لوگ انکار کرنے والے ہیں“ ان میں کوئی بھلائی نہیں، آیت الٰہی کا بار بار آنا بھی انہیں کوئی فائدہ نہیں دیتا، کیونکہ ان کی عقل فساد کا اور ان کے مقاصد برائی کا شکار ہیں، وہ عنقریب دیکھ لیں گے کہ اللہ تعالیٰ حق کے ساتھ عناد رکھنے والے جابر، اس کی نعمتوں کی ناشکری کرنے والے اور اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ تکبر سے پیش آنے والے کو سزا دے گا۔ النحل
84 اللہ تبارک و تعالیٰ قیامت کے روز کفار کے حال کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے کہ اس روز ان سے کوئی عذر قبول کیا جائے گا نہ ان سے عذاب کو رفع کیا جائے گا اور ان کے ٹھہرائے ہوئے شریک ان سے بیزاری کا اظہار کریں گے اور وہ اقرار کریں گے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر اور اس پر افترا پردازی کیا کرتے تھے، چنانچہ فرمایا : ﴿وَيَوْمَ نَبْعَثُ مِن كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيدًا ﴾ ” اور جس دن کھڑا کریں گے ہم ہر امت میں سے ایک گواہی دینے والا“ جو ان کے اعمال پر گواہی دے گا کہ انہوں نے داعی ہدایت کو کیا جواب دیا تھا اور یہ گواہ جس کو اللہ گواہی کے لئے کھڑا کرے گا، وہ سب سے پاک اور سب سے عادل گواہ ہوگا اور یہ گواہ رسول ہی ہوں گے۔ جب وہ گواہی دیں گے تو لوگوں کے خلاف فیصلہ مکمل ہوجائے گا۔ ﴿ثُمَّ لَا يُؤْذَنُ لِلَّذِينَ كَفَرُوا  ﴾ ” پھر کافروں کو اجازت نہیں دی جائے گی“ یعنی کفار کو معذرت پیش کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی کیونکہ ان کو اپنے موقف کے بطلان کے معلوم ہونے کے بعد ان کا عذر، محض جھوٹا ہوگا، جو ان کو کچھ فائدہ نہ دے گا۔ اگر وہ دنیا میں واپس جانا چاہیں گے تاکہ وہ اپنے گناہوں کی تلافی کرسکیں تو انہیں واپس جانے کی اجازت ملے گی نہ ان سے ناراضی کو دور کیا جائے گا بلکہ جب وہ عذاب کو دیکھ لیں گے تو ان کو جلدی سے عذاب میں دھکیل دیا جائے گا، وہ عذاب جس میں کوئی تخفیف کی جائے گی نہ ان کو کوئی ڈھیل دی جائے گی نہ مہلت، کیونکہ ان کے دامن میں کوئی نیکی نہ ہوگی ان کے اعمال کو شمار کر کے ان کے سامنے کیا جائے گا وہ اس کا اقرار کریں گے اور شرمسار ہوں گے۔ النحل
85 ﴿وَإِذَا رَأَى الَّذِينَ أَشْرَكُوا شُرَكَاءَهُمْ ﴾ ”اور جب دیکھیں گے مشرک اپنے شریکوں کو“ یعنی قیامت کے روز جب وہ اپنے خود ساختہ شریکوں کو دیکھیں گے اور ان کا بطلان ان پر واضح ہوجائے گا اور ان کے لئے انکار ممکن نہیں رہے گا۔ النحل
86 ﴿قَالُوا رَبَّنَا هَـٰؤُلَاءِ شُرَكَاؤُنَا الَّذِينَ كُنَّا نَدْعُو مِن دُونِكَ﴾ ” تو کہیں گے، اے ہمارے رب ! یہ ہمارے شریک ہیں جن کو ہم تجھے چھوڑ کر پکارتے تھے۔“ یہ کوئی نفع دے سکتے ہیں نہ سفارش کرسکتے ہیں۔ وہ خود پکار پکار کر ان خود ساختہ معبودوں کے بطلان کا اعلان کر کے ان کا انکار کریں گے اور ان کے اور ان کے معبودوں کے درمیان عداوت ظاہر ہوجائے گی۔ ﴿فَأَلْقَوْا إِلَيْهِمُ الْقَوْلَ ﴾ ” پس ڈالیں گے وہ ان کی طرف بات“ یعنی ان کے خود ساختہ معبودان کے قول کی تردید کرتے ہوئے کہیں گے : ﴿إِنَّكُمْ لَكَاذِبُونَ  ﴾ ” بے شک تم جھوٹے ہو“ کیونکہ تم نے ہمیں اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرایا اور تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہماری بھی عبادت کیا کرتے تھے۔ پس ہم نے تمہیں عبادت کا حکم دیا تھا نہ ہم نے کبھی الوہیت کے استحقاق کا دعویٰ کیا تھا، اس لئے اپنے آپ کو کوسو۔ تب اس وقت وہ اللہ تعالیٰ کے حضور اپنے شرک کو تسلیم کرلیں گے اور اس کے فیصلے کے سامنے جھک جائیں گے اور انہیں معلوم ہوجائے گا کہ وہ عذاب کے مستحق ہیں۔ النحل
87 ﴿ وَضَلَّ عَنْهُم مَّا كَانُوا يَفْتَرُونَ ﴾ ” اور ان سے گم ہوجائیں گے جو جھوٹ وہ باندھتے تھے“ پس وہ جہنم میں داخل ہوں گے اور ان کے دل خود اپنے آپ پر غصہ اور اپنے رب کی حمد و ستائش سے لبریز ہوں گے، نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں انہی بداعمالیوں کی سزا دی ہے جن کا انہوں نے ارتکاب کیا۔ النحل
88 اللہ تعالیٰ اس آیت کریمہ میں مجرموں کے انجام کا ذکر فرماتا ہے کہ انہوں نے کفر کیا، آیات الٰہی کی تکذیب کی، انبیاء و رسل کے خلاف جنگ کی، لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکا اور گمراہی کے داعی بن گئے، اس لئے وہ کئی گنا عذاب کے مستحق قرار پائے، جس طرح ان کا جرم کئی گنا ہے اور جس طرح انہوں نے اللہ کی زمین میں فساد برپا کیا۔ النحل
89 گزشتہ سطور میں گزر چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر امت میں ایک گواہ کھڑا کرے گا۔ ﴿فِي كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيدًا ﴾ یہاں بھی گواہ کھڑا کرنے کا ذکر کیا ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گواہ ہونے کا خاص طور پر ذکر کرتے ہوئے فرمایا : ﴿وَجِئْنَا بِكَ شَهِيدًا عَلَىٰ هَـٰؤُلَاءِ ﴾ ” اور لائیں گے ہم آپ کو ان پر گواہ“ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کے خیر و شر پر گواہ ہوں گے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا کمال عدل ہے کہ ہر رسول اپنی امت پر گواہی دے گا کیونکہ وہ اپنی امت کے اعمال کے بارے میں کسی دوسرے کی نسبت زیادہ اطلاع رکھتا ہے، وہ اتنا عادل اور اپنی امت کے بارے میں اتنا شفیق ہوتا ہے کہ وہ ان کے بارے میں صرف اسی چیز کی گواہی دے گا جس کے وہ مستحق ہوں گے۔ اس کی نظیر اللہ تبارک و تالیٰ کا یہ قول ہے : ﴿وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا ﴾ (البقرۃ: 2؍143) ” اور اسی طرح ہم نے تمہیں امت وسط بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم تم پر گواہی دیں۔“ اور اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے کہ ﴿فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِن كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَىٰ هَـٰؤُلَاءِ شَهِيدًا يَوْمَئِذٍ يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَعَصَوُا الرَّسُولَ لَوْ تُسَوَّىٰ بِهِمُ الْأَرْضُ ﴾ (النساء :4؍41۔42) ” اس وقت ان کا کیسا حال ہوگا جب ہم ہر امت میں سے ایک گواہ کھڑا کریں گے اور ان لوگوں پر آپ کو گواہ بنائیں گے۔ اس روز کافر اور رسول کی نافرمانی کرنے والے تمنا کریں گے کہ کاش وہ زمین میں سما جائیں اور ان پر مٹی برابر کردی جائے۔ “ ﴿وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ  ﴾ ” اور اتاری ہم نے آپ پر کتاب، کھلا بیان ہر چیز کا“ دین کے اصول و فروع، دنیا و آخرت کے احکام اور ہر وہ چیز جس کے بندے محتاج ہیں اس کتاب میں واضح الفاظ و معانی کے ساتھ مکمل طور پر بیان کردی گئی ہے حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ اس کتاب کریم میں بڑے بڑے امور کو بتکرار بیان کرتا ہے جن کے بارے میں قلب کو ہر وقت اور ہر گھڑی تکرار اور بار بار دہرانے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ ان امور کا مختلف عبارات اور متنوع دلائل کے ساتھ اعادہ کرتا رہتا ہے تاکہ وہ دلوں کی گہرائی میں اتر کر اچھی طرح جاگزیں ہوجائیں۔ پس یہ دل میں جس طرح راسخ ہوتے ہیں اس کے مطابق خیر و شر کی صورت میں اثرات حاصل ہوتے ہیں حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نہایت قلیل اور واضح الفاظ میں بہت سے معانی جمع کردیتا ہے، الفاظ ان معانی کے لئے بنیاد اور اساس کا کام دیتے ہیں۔ اس آیت کریمہ کے بعد آنے والی آیت اور اس میں جو اوامرو نواہی ہیں، جن کا شمار نہیں کیا جاسکتا، اس پر غو ر کریں تو یہ نکتہ واضح ہوجائے گا۔ چونکہ یہ قرآن عظیم ہر چیز کو کھول کھول کر بیان کرتا ہے اس لئے تمام انسانوں پر حجت ہے۔ اس کے خلاف ظالموں کی حجت منقطع ہوگئی۔ مسلمانوں نے اس سے استفادہ کیا اور وہ ان کے لئے راہ نما بن گیا۔ وہ اپنے دینی اور دنیاوی امور میں اس سے راہنمائی حاصل کرتے ہیں۔ وہ ان کے لئے رحمت ہے جس کے ذریعے سے وہ دنیا و آخرت کی ہر بھلائی حاصل کرتے ہیں۔ اس کے ذریعے سے جو وہ علم نافع اور علم صالح حاصل کرتے ہیں، وہی ہدایت ہے۔ دنیا و آخرت کا جو ثواب اس پر مترتب ہوتا ہے، مثلاً اصلاح قلب، اطمینان قلب اور نیکی وغیرہ، وہی رحمت ہے۔ قرآن عظیم کے معانی کے مطابق، جو کہ بلند ترین معانی ہیں۔۔۔۔۔۔۔ تربیت کے بغیر عقل کی تکمیل نہیں ہوتی۔۔۔۔ اس کے معانی کے مطابق تربیت کے بغیر اعمال کریمہ، اخلاق فاضلہ، رزق کشادہ، قول و فعل کے ذریعے سے دشمنوں پر فتح و نصرت، اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی عزت و اکرام والی جنت حاصل نہیں ہوتی جس میں ہمیشہ رہنے والی ایسی ایسی نعمتیں ہیں جن کو رب رحیم کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ النحل
90 اس آیت کریمہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے جس عدل کا حکم دیا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے حقوق کے بارے میں عدل اور بندوں کے حقوق کے بارے میں عدل کو شامل ہے۔ عدل یہ ہے کہ تمام حقوق کو پوری طرح ادا کیا جائے۔ بندہ مالی، بدنی اور ان دونوں پر مبنی حقوق اللہ اور حقوق العباد کو ادا کرے جو اللہ تعالیٰ نے اس پر واجب کئے ہیں۔ مخلوق کے ساتھ کامل انصاف پر مبنی معاملہ کیا جائے۔ پس ہر ولی اپنی ولایت کے تحت آنے والے ہر معاملے میں عدل و انصاف سے کام لے، خواہ یہ ولایت امامت کبریٰ (خلافت و امارت) یا ولایت قضاء یا خلیفہ کی نیابت یا قاضی کی نیابت ہو، اس معاملے میں سب برابر ہیں۔ عدل وہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے توسط سے اہل ایمان پر فرض کیا ہے اور عدل کے راستے پر گامزن رہنے کا حکم دیا ہے۔ معاملات میں عدل یہ ہے کہ خرید و فروخت اور تمام معاوضات میں آپ لوگوں کے ساتھ اس طرح معاملہ کریں کہ آپ کے ذمہ جو کچھ ہے اسے پوری طرح ادا کریں۔ آپ ان کے حق میں کمی کریں نہ دھوکہ دیں نہ ان کے ساتھ فریب کاری کریں اور نہ ان پر ظلم کریں۔ عدل کرنا فرض ہے، احسان سے پیش آنا فضیلت اور مستحب ہے، مثلاً لوگوں کو مال، بدن، علم اور دیگر مختلف قسم کی منفعتوں کے ذریعے سے فائدہ پہنچانا حتیٰ کہ اس جانور کے ساتھ احسان کرنا بھی اس میں داخل ہے جس کا گوشت کھایا جاتا ہے یا نہیں کھایا جاتا۔ اللہ تعالیٰ نے قرابت داروں کو عطا کرنے کا خاص طور پر ذکر کیا ہے۔۔۔۔۔ اگرچہ وہ (احسان کرنے کے)عمومی حکم میں داخل ہیں۔۔۔۔۔ کیونکہ ان کا حق موکد، ان کے ساتھ صلہ رحمی اور نیکی متعین ہے اور صلہ رحمی کی ترغیب دی گئی ہے۔ اس حکم میں، قریب اور دور کے تمام رشتہ دار داخل ہیں مگر جو رشتہ میں زیادہ قریب ہے وہ صلہ رحمی اور حسن سلوک کا زیادہ مستحق ہے۔ ﴿وَيَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ ﴾ ” اور وہ فحشاء سے منع کرتا ہے“ (الفحشاء)ہر اس بڑے گناہ کو کہتے ہیں جس کو شریعت اور فطرت سلیم برا سمجھتی ہو، مثلاً شرک، قتل ناحق، زنا، چوری، خود پسندی، تکبر اور اللہ کی مخلوق کے ساتھ حقارت سے پیش آنا وغیرہ۔ (المنکر) میں ہر وہ گناہ اور معصیت داخل ہے جس کا تعلق حقوق اللہ کے ساتھ ہو۔ (البغی) سے مراد ہے لوگوں کے جان، مال اور ناموس پر ظلم و زیادتی کا ارتکاب کرنا۔۔۔۔۔ اس طرح یہ آیت کریمہ تمام مامورات و منہیات کی جامع ہے کوئی چیز ایسی نہیں جو اس میں داخل نہ ہو۔ یہ ایک اصول ہے جس کی طرف تمام جزئیات لوٹتی ہیں۔ پس ہر مسئلہ جو عدل، احسان یا قرابت داروں کو عطا کرنے پر مشتمل ہے تو وہ ان چیزوں میں سے ہے جن کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اور وہ مسئلہ جو فواحش، منکرات یا ظلم اور زیادتی پر مشتمل ہے تو وہ ان چیزوں میں سے ہے جن سے اللہ تعالیٰ نے روکا ہے اور اسی سے اللہ تعالیٰ کے اوامرونواہی کے حسن و قبح کی معرفت حاصل ہوتی ہے، اسی کے ذریعے سے لوگوں کے اقوال کو جانچا جاتا ہے اور اسی کی طرف تمام احوال لوٹتے ہیں۔ نہایت ہی بابرکت ہے وہ ذات جس نے اپنے کلام کو ہدایت، شفاء، روشنی اور تمام اشیاء کو پرکھنے کے لئے فرقان بنایا۔ اسی لئے فرمایا : ﴿يَعِظُكُمْ ﴾ ” وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ ان امور کے ذریعے سے تمہیں نصیحت کرتا ہے جن کو اس نے تمہارے لئے اپنی کتاب میں واضح فرمایا۔ وہ تمہیں اس چیز کا حکم دیتا ہے جس میں تمہاری بھلائی ہے اور اس چیز سے روکتا ہے جو تمہارے لئے ضرر رساں ہے۔ ﴿لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ ﴾ ” تاکہ تم نصیحت پکرو“ جس چیز کی تمہیں نصیحت کی گئی ہے۔ پس تم اس کو سمجھو کیونکہ جب تم اس سے نصیحت حاصل کر کے اس کو سمجھ لو گے تب تم اس کے تقاضے کے مطابق عمل کرو گے اور تم ایسی سعادت سے فیض یاب ہو گے جس کے اندر شقاوت کا شائبہ نہیں ہوتا۔ پس جب اللہ تعالیٰ نے ان امور کا حکم دیا جو اصل شریعت میں واجب ہیں، تو اس نے ان امور کے پورا کرنے کا بھی حکم دیا جن کو بندہ خود اپنے آپ پر واجب کرتا ہے، چنانچہ فرمایا : النحل
91 یہ آیت کریمہ ان تمام عہدوں کو شامل ہے جو بندے نے اپنے رب کے ساتھ کئے ہیں، مثلاً عبادات، نذریں اور قسمیں وغیرہ جن کو بندے نے اپنے آپ پر لازم کیا ہو جبکہ وہ صحیح اور جائز ہوں اور یہ اس معاہدے کو بھی شامل ہے جو دو بندوں کے درمیان ہو، مثلاً لین دین کرنے والے دو اشخاص کے درمیان معاہدہ اور وہ وعدہ جو بندہ کسی اور کے ساتھ کرتا ہے اور اپنے آپ پر اس کو لازم قرار دے لیتا ہے۔ ان تمام صورتوں میں قدرت رکھتے ہوئے معاہدوں اور وعدوں کو پورا کرنا واجب ہے۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے عہد توڑنے سے روکا ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿وَلَا تَنقُضُوا الْأَيْمَانَ بَعْدَ تَوْكِيدِهَا ﴾ ” اور جب پکی قسمیں کھاؤ تو ان کو مت توڑو۔“ یعنی اللہ کے نام پر قسمیں کھانے کے بعد ان کو مت توڑو۔ ﴿وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللّٰـهَ عَلَيْكُمْ ﴾ ” اور تم نے کیا ہے اللہ کو اپنا“ اے معاہدہ کرنے والو ! ﴿ كَفِيلًا ﴾ ” ضامن“ اس لئے تمہارے لئے یہ ہرگز جائز نہیں کہ تم اس کے مطابق عمل نہ کرو جس پر تم نے اللہ تعالیٰ کو اپنا ضامن مقرر کیا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی تعظیم کو کم تر کرنا اور اس کی استہانت ہے۔ حالانکہ دوسرا فریق تم سے حلف لینے اور اس تاکید پر راضی ہوگیا جس میں تم نے اللہ تعالیٰ کو ضامن بنایا۔ جس طرح اس نے تمہیں ضامن بنایا اور تم پر اپنے حسن ظن کا اظہار کیا ہے اسی طرح تم بھی اپنے الفاظ اور تاکید کی پاسداری کرو۔ ﴿إِنَّ اللّٰـهَ يَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ ﴾ ” تم جو کچھ کرتے ہو، اللہ جانتا ہے“ اس لئے اللہ تعالیٰ ہر عمل کرنے والوں کو اس کی نیت اور قصد کے مطابق جزادے گا۔ النحل
92 ﴿وَلَا تَكُونُوا ﴾ اپنے عہد توڑنے میں بدترین مثال نہ بنو جو بد عہدی میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے والوں کی صفت پر دلالت کرتی ہے ﴿ كَالَّتِي نَقَضَتْ غَزْلَهَا مِن بَعْدِ قُوَّةٍ أَنكَاثًا ﴾ ”اس عورت کی مانند، جس نے مضبوطی سے سوت کاتنے کے بعد اسے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا۔“ یعنی پہلے اس نے محنت سے سوت کا تا، جب وہ مضبوط اور اس کی خواہش کے مطابق ہوگیا، تو اسے ٹکڑے ٹکڑے کردیا، گویا اس نے پہلے کاتنے کی محنت کی، پھر اسے ٹکڑے ٹکڑے کرنے میں محنت کی۔ پس ناکامی، تھکاوٹ، حماقت اور عقل کی کمی کے سوا کچھ ہاتھ نہ آیا۔ اسی طرح جو کوئی عہد کو توڑتا ہے وہ ظالم، جاہل اور احمق ہے، اس کے دین اور مروت میں نقص ہے۔ ﴿تَتَّخِذُونَ أَيْمَانَكُمْ دَخَلًا بَيْنَكُمْ أَن تَكُونَ أُمَّةٌ هِيَ أَرْبَىٰ مِنْ أُمَّةٍ ﴾ ” کہ ٹھہراؤ اپنی قسموں کو دخل دینے کا بہانہ آپس میں، اس واسطے کہ ایک فرقہ ہو چڑھا ہوا دوسرے سے“ یعنی تمہاری یہ حالت نہیں ہونی چاہئے کہ موکد اور پختہ قسمیں اٹھاؤ، پھر موقع اور حالات کی تلاش میں رہو۔ پس ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ اگر معاہدہ کرنے والا کمزور ہو اور مخالف فریق پر قدرت نہ رکھتا ہو تو معاہدے کو پورا کرے مگر قسم اور معاہدے کی حرمت اور تعظیم کی خاطر نہیں بلکہ اپنی بے بسی کی بنا پر اور اگر معاہدہ کرنے والا طاقتور ہو اور معاہدہ توڑنے میں اسے کوئی دنیاوی مصلحت نظر آتی ہو تو اسے توڑ دالے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ کئے عہد کی پرواہ نہ کرے۔ یہ سب کچھ خواہشات نفس کے تابع ہو اور اسے اللہ تعالیٰ کی مراد، مروت انسانی اور اخلاق فاضلہ پر مقدم رکھا گیا ہو اور یہ اس لئے کہ ایک قوم عدالت اور طاقت کے لحاظ سے دوسری قوم سے بڑی ہے۔ ﴿إِنَّمَا يَبْلُوكُمُ اللّٰـهُ بِهِ  ﴾ ” یہ تو اللہ پر کھتا ہے تم کو اس کے ذریعے سے“ یہ اللہ کی طرف سے تمہارا امتحان ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو آزمانے کے لئے مصیبتوں کے اسباب مقرر کرتا ہے جس سے سچا اور وفادار شخص بدعہد اور بدبخت شخص سے ممتاز ہوجاتا ہے۔ ﴿وَلَيُبَيِّنَنَّ لَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ ﴾ ” اور آئندہ کھول دے گا اللہ تمہارے لئے قیامت کے دن جس بات میں تم جھگڑتے تھے“ پس وہ ہر ایک کو اس کے اعمال کی جزا دے گا اور بد عہدی کرنے والے کو رسوا کرے گا۔ النحل
93 ﴿وَلَوْ شَاءَ اللّٰـهُ  ﴾ ” اور اگر اللہ چاہے“ تو تمام لوگوں کو ہدایت پر جمع کر دے اور ﴿ لَجَعَلَكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً ﴾ ” تم کو ایک امت بنا دے۔“ مگر اللہ تعالیٰ ہدایت دینے اور گمراہ کرنے میں یکتا ہے اور اس کا ہدایت دینا اور گمراہ کرنا اس کے ایسے افعال ہیں جو اس کے علم و حکمت کے تابع ہیں، وہ اپنے فضل و کرم سے ایسے شخص کو ہدایت سے نوازتا ہے جو اس کا مستحق ہے اور اپنے عدل کی بنا پر ایسے شخص کو ہدایت سے محروم کردیتا ہے جو اس کا مستحق نہیں۔ ﴿وَلَتُسْأَلُنَّ عَمَّا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ ﴾ ” اور جو عمل تم کرتے ہو ان کے بارے میں تم سے ضرور پوچھا جائے گا۔“ یعنی تمہارے اچھے برے اعمال کے بارے میں تم سے ضرور پوچھا جائے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ عدل کے ساتھ تمہیں اسکی پوری پوری جزا دے گا۔ النحل
94 ﴿وَلَا تَتَّخِذُوا أَيْمَانَكُمْ  ﴾ ” اور نہ ٹھہراؤ تم اپنی قسموں کو“ یعنی اپنے عہد اور میثاق کو ﴿دَخَلًا بَيْنَكُمْ ﴾ ” آپس میں دھوکے کا ذریعہ“ یعنی اپنی خواہشات نفس کا تابع نہ بناؤ کہ جب چاہو پورا کر دو اور جب چاہو توڑ دو۔ اگر تم ایسا کرو گے تو صراط مستقیم پر سے تمہارے قدم پھسل جائیں گے۔ ﴿وَتَذُوقُوا السُّوءَ ﴾ ” اور چکھو گے تم سزا“ یعنی تم ایسے عذاب کا مزا چکھو گے جو بہت بڑا اور غمزدہ کردینے والا عذاب ہوگا ﴿بِمَا صَدَدتُّمْ عَن سَبِيلِ اللّٰـهِ ﴾ ” اس بات پر کہ تم نے اللہ کے راستے سے روکا“ کیونکہ تم خود بھی راہ راست سے بھٹکے اور دوسروں کو بھی بھٹکا دیا۔ ﴿وَلَكُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ  ﴾ ” اور تمہارے لئے عذاب سے بڑا“ یعنی کئی گنا۔ النحل
95 اللہ تبارک و تعالیٰ ان لوگوں کو ڈراتا ہے جو متاع دنیا اور اس کے چند ٹکڑوں کی خاطر عہد اور قسم کو توڑتے ہیں۔ فرمایا : ﴿ وَلَا تَشْتَرُوا بِعَهْدِ اللّٰـهِ ثَمَنًا قَلِيلًا ﴾ ” اور نہ لو تم اللہ کے عہد پر تھوڑا سا مول“ یعنی وہ متاع دنیا جو تم بد عہدی کے ذریعے سے حاصل کرتے ہو۔ ﴿إِنَّمَا عِندَ اللّٰـهِ ﴾ ” بے شک جو اللہ کے ہاں ہے“ دنیوی اور اخروی ثواب، اس شخص کے لئے جو اللہ کی رضا کو ترجیح دیتا اور اس عہد کو پورا کرتا ہے جو اللہ نے اس سےلئے لیا۔ ﴿هُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ﴾ ” وہ تمہارے لئے بہتر ہے“ اور وہ زائل ہوجانے والی دنیا کی متاع سے کہیں بہتر ہے۔ پس انہوں نے باقی رہنے والی چیز کو ختم ہوجانے والی چیز پر ترجیح دی ہے۔ ﴿مَا عِندَكُمْ ﴾ ” جو کچھ تمہارے پاس ہے“ خواہ وہ کتنا ہی زیادہ کیوں نہ ہو ﴿يَنفَدُ﴾ ” وہ ختم (ہو کر فنا)ہوجائے گا“ ﴿وَمَا عِندَ اللّٰـهِ ﴾ ” اور جو اللہ کے پاس ہے، وہ باقی رہے گا“ کیونکہ وہ خود باقی رہنے والا ہے، اسے فنا اور زوال نہیں۔ پس وہ شخص عقل مند نہیں جو فانی اور خسیس چیز کو ہمیشہ رہنے والی نفیس چیز پر ترجیح دیتا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی مانند ہے۔ ﴿ بَلْ تُؤْثِرُونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا  وَالْآخِرَةُ خَيْرٌ وَأَبْقَ ﴾ (الاعلیٰ :87؍17۔16)” مگر تم دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو حالانکہ آخرت بہتر اور ہمیشہ رہنے والی چیز ہے۔“ ﴿وَمَا عِندَ اللّٰـهِ خَيْرٌ لِّلْأَبْرَارِ  ﴾ (آل عمران : 3؍198) ” اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ نیک لوگوں کے لئے بہتر ہے۔ “ النحل
96 اس آیت کریمہ میں زہد اور دنیا سے بے رغبتی کی ترغیب دی گئی ہے، خاص طور پر زہد متعین اور اس سے مراد ان چیزوں میں بے رغبتی اور ان سے پہلو بچانا ہے جو بندے کے لئے ضرر رساں ہیں اور اس بات کی موجب ہیں کہ بندہ اللہ تعالیٰ کی واجب کی ہوئی چیزوں کو چھوڑ کر ان دنیاوی چیزوں میں مشغول ہوجائے اور حقوق اللہ پر ان دنیاوی چیزوں کو ترجیح دینے لگے، اس لئے کہ یہ زہد فرض ہے۔ زہد کے اسباب میں سے ایک داعیہ (سبب) یہ ہے کہ بندہ دنیا کی ناپائیدار لذات اور شہوات کا آخرت کی بھلائیوں کے ساتھ تقابل کرے۔ وہ ان کے درمیان بہت بڑا فرق اور تفاوت پائے گا اور یہ تفاوت اسے بلند تر چیز کو ترجیح دینے پر آمادہ کرے گا۔ اور عبادات مثلاً نماز، روزے اور ذکر اذکار وغیرہ پر توجہ مرکوز کرکے دنیا سے منقطع ہوجانا، زہد ممدوح نہیں ہے بلکہ صحیح معنوں میں زاہد بننا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ بندہ مقدور بھر شریعت کے ظاہری اور باطنی احکام کی تعمیل نہ کرے اور قول و فعل کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کے دین کی دعوت نہ دے۔ پس حقیقی زہد یہ ہے کہ بندہ ہر چیز سے منہ موڑ لے جس کا دین و دنیا میں کوئی فائدہ نہیں اور ہر اس چیز کے حصول کے لئے رغبت کے ساتھ کوشش کرے جو دین و دنیا میں فائدہ مند ہے۔ ﴿وَلَنَجْزِيَنَّ الَّذِينَ صَبَرُوا  ﴾ ” اور ہم بدلے میں دیں گے صبر کرنے والوں کو“ یعنی جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت کر کے اور اس کی نافرمانی سے باز رہ کر صبر کرتے ہیں اور دنیاوی شہوات سے منہ موڑ لیتے ہیں جو ان کے دین کے لئے مضر ہیں۔ ﴿أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴾ ” ان کے اعمال کا نہایت اچھا بدلہ۔“ یعنی نیکی کا اجر دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک ہے بلکہ اس سے بھی کئی گنا زیادہ تک۔ کیونکہ جو کوئی نیک کام کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے اجر کو ضائع نہیں کرتا۔ النحل
97 بنابریں اللہ تعالیٰ نے عمل کرنے والوں کے لئے دنیاوی اور اخروی ثواب کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : ﴿مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ ﴾ ” جس نے نیک کام کیا مرد ہو یا عورت وہ مومن ہو“ اس لئے کہ ایمان، اعمال صالح کی صحت اور ان کی قبولیت کے لئے شرط ہے بلکہ اعمال صالحہ کو ایمان کے بغیر اعمال صالحہ کہا ہی نہیں جاسکتا۔ ایمان، ایمان صالحہ کا تقاضا کرتا ہے کیونکہ ایمان تصدیق جازم کا نام ہے۔ واجبات و مستحبات پر مشتمل اعمال جو ارح ایمان کا ثمرہ ہیں۔ پس جو کوئی ایمان اور عمل صالح کو جمع کرلیتا ہے ﴿فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً ﴾ ” تو ہم اس کو زندگی دیں گے اچھی زندگی“ یہ زندگی اطمینان قلب، سکون نفس اور ان امور کی طرف عدم التفات پر مشتمل ہے جو قلب کو تشویش میں مبتلا کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اس کو اس طرح رزق حلال سے نوازتا ہے کہ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا۔ ﴿وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ ﴾ ” اور ہم بدلے میں دیں گے ان کو“ یعنی آخرت میں ﴿أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴾ ” ان کے اعمال کا نہایت اچھا صلہ۔“ یعنی اللہ تعالیٰ انہیں مختلف قسم کی لذات سے نوازے گا جن کو کسی آنکھ نے دیکھا ہے نہ کسی کان نے سنا ہے اور نہ کسی انسان کے دل میں کبھی ان کا خیال گزرا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ انہیں دنیا میں بھی بھلائی سے نوازے گا اور آخرت میں بھی بھلائی عطا کرے گا۔ النحل
98 یعنی جب آپ کتاب اللہ کی قراءت کا ارادہ کریں، جو تمام کتابوں میں سے سے زیادہ شرف کی حامل اور جلیل ترین کتاب ہے۔ اس کتاب میں دلوں کی اصلاح اور بہت سے علوم پنہاں ہیں۔ بندہ جب فضیلت والے امور کی ابتداء کرتا ہے تو شیطان کی سب سے بڑی خواہش ہوتی ہے کہ بندے کو ان کے مقاصد اور معانی سے دور کر دے۔ شیطان کے شر سے سلامتی کا راستہ یہ ہے کہ بندہ اللہ تعالیٰ کی پناہ کے لئے التجا کرے، چنانچہ کتاب اللہ کی قراءت کرنے والا تعوذ کے معانی میں تدبر کے ساتھ ﴿أَعُوذُ بِاللّٰـهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ﴾ پڑھے اور اپنے دل کی گہرائیوں سے اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرے کہ وہ شیطان کے شر کو اس سے دور رکھے گا۔ وہ شیطان کے وسوسوں اور ردی افکار کو دور جھٹکنے کی پوری کوشش کرے اور ان وسوسوں کو دفع کرنے کے لئے مضبوط ترین سبب استعمال کرے اور وہ ہے ایمان اور توکل کے زیور سے آراستہ ہونا اس لئے کہ شیطان النحل
99 ﴿ لَيْسَ لَهُ سُلْطَانٌ﴾ ” اسے کوئی تسلط حاصل نہیں“ ﴿عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَلَىٰ رَبِّهِمْ﴾ ” ان لوگوں پر جو ایمان لائے اور وہ اپنے رب پر“ جس کا کوئی شریک نہیں ﴿يَتَوَكَّلُونَ﴾ ” بھروسہ کرتے ہیں۔“ پس اللہ تبارک و تعالیٰ توکل کرنے والے اہل ایمان سے شیطان کے شر کو دور ہٹا دیتا ہے اور شیطان کو ان پر کوئی اختیار نہیں رہتا۔ النحل
100 ﴿إِنَّمَا سُلْطَانُهُ﴾ یعنی شیطان کا تسلط ﴿عَلَى الَّذِينَ يَتَوَلَّوْنَهُ ﴾ ” صرف انہی لوگوں پر ہے جو اسے اپنا دوست بناتے ہیں“ اور اس کا سبب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی دوستی سے نکل کر شیطان کی اطاعت میں داخل ہوجاتے ہیں اور اس کے گروہ میں شمولیت اختیار کرلیتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو اپنے آپ کو شیطان کی سرپرستی میں دے دیتے ہیں۔ شیطان ان کو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی پر ابھارتا رہتا ہے اور انہیں جہنم کے راستوں پر لے جاتا ہے۔ النحل
101 اللہ تبارک و تعالیٰ اس قرآن کی تکذیب کرنے والوں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ یہ لوگ قرآن کریم میں ایسے امور کی تلاش میں رہتے ہیں جو ان کے لئے حجت ہوں حالانکہ اللہ تبارک و تعالیٰ حاکم اور حکمت والا ہے، جو احکام کو مشروع کرتا ہے اور اپنی حکمت اور رحمت کی بنا پر کسی حکم کو بدل کر اس کی جگہ کسی دوسرے حکم کو لے آتا ہے۔ پس جب وہ اس قسم کی تبدیلی دیکھتے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم میں عیب چینی کرتے ہیں ﴿قَالُوا إِنَّمَا أَنتَ مُفْتَرٍ﴾ ” تو کہتے ہیں کہ تو افترا پرداز ہے“ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ ﴾ ” بلکہ ان میں سے اکثر نادان ہیں۔“ پس وہ جاہل ہیں جنہیں اپنے رب کے بارے میں کچھ علم ہے نہ شریعت کے بارے میں اور یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ جاہل کی جرح و قدح کا کوئی اعتبار نہیں کیونکہ کسی چیز کے بارے میں جرح و قدح اس کے بارے میں علم کی ایک شاخ ہے جو مدح اور قدح کی موجب ہے۔ النحل
102 اسی لئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ قُلْ نَزَّلَهُ رُوحُ الْقُدُسِ﴾ ” کہہ دیجئے ! اس کی روح القدس نے اتارا“ اس سے مراد اللہ تعالیٰ کے فرشتے جناب جبرائیل علیہ السلام ہیں جو نہایت مقدس اور ہر عیب، خیانت اور آفت سے پاک ہیں۔ ﴿مِن رَّبِّكَ بِالْحَقِّ﴾ ” آپ کے رب کی طرف سے سچائی کے ساتھ“ یعنی وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حق کے ساتھ نازل ہوا ہے، اس کی خبریں اور اس کے اوامرونواہی حق پر مشتمل ہیں۔ پس کسی کے لئے گنجائش نہیں کہ اس میں بامعنی جرح و قدح کرسکے، کیونکہ جب اسے معلوم ہوجائے گا کہ یہ حق ہے تو اسے یہ بھی معلوم ہوجائے گا کہ جو چیز اس کے متناقض اور معارض ہے، وہ باطل ہے۔ ﴿لِيُثَبِّتَ الَّذِينَ آمَنُوا﴾ ” تاکہ ثابت کرے ایمان والوں کو“ وقتاً فوقتاً اس کی آیات کے نزول اور ان پر توارد کے وقت۔ اور یوں رفتہ رفتہ حق ان کے دلوں میں جاگزیں ہو کر پہاڑوں سے بھی زیادہ مضبوط ہوجاتا ہے کیونکہ انہیں معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ حق ہے اور جب اللہ تعالیٰ کوئی حکم مشروع کر کے اسے منسوخ کردیتا ہے تو انہیں یقین ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس حکم کو اسی جیسے یا اس سے بہتر کسی اور حکم سےبدل دیا ہے، نیز اللہ تعالیٰ کا کسی حکم کو منسوخ کرنا حکمت ربانی اور عقلی مناسبت رکھتا ہے۔ ﴿وَهُدًى وَبُشْرَىٰ لِلْمُسْلِمِينَ﴾ ” اور ہدایت اور خوش خبری ہے واسطے مسلمانوں کے“ یعنی اللہ تعالیٰ اشیاء کے حقائق کی طرف ان کی راہنمائی کرتا ہے، ان کے سامنے باطل میں سے حق اور گمراہی میں سے ہدایت کو واضح کرتا ہے اور وہ انہیں اس بات کی خوشخبری دیتا ہے کہ ان کے لئے اچھا اجر ہے جہاں وہ ابدالآ باد تک رہیں گے، نیز اللہ تعالیٰ کا اپنے احکام کو رفتہ رفتہ نازل کرنا اہل ایمان کے لئے زیادہ ہدایت اور بشارت کا باعث بنتا ہے۔ یک بارگی نازل کرنے سے فکر تفریق اور تشتت کا شکار ہوتا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ حکم اور بشارت کو زیادہ کثرت سے نازل کرتا ہے۔ جب اہل ایمان ایک حکم کو سمجھ کر اس کی فہم حاصل کرلیتے ہیں، انہیں اس کی مراد کی معرفت حاصل ہوتی ہے اور وہ اس کے مفاہیم و معانی سے خوب سیراب ہوجاتے ہیں تب اللہ تعالیٰ اس جیسا ایک اور حکم نازل کردیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کتاب اللہ پر عمل کر کے بہت بڑے مقام پر پہنچ گئے ان کی عادات اور طبائع بدل گئیں اور انہوں نے ایسے اخلاق، عادتیں اور اعمال اختیار کر لئے جن کی بنا پر وہ تمام اولین و آخرین سے بڑھ گئے۔ ان کے بعد آنے والوں کے لئے زیادہ مناسب یہی ہے کہ وہ کتاب اللہ کے علوم کے ذریعے سے اپنی تربیت کریں، اس کے اخلاق کو اپنائیں، گمراہی اور جہالتوں کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں سے اس کے نور سے روشنی حاصل کریں اور تمام حالات میں اس کو اپنا راہنما بنائیں پس اس طرح ہی ان کے دینی اور دنیاوی معاملات درست رہیں گے۔ النحل
103 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تکذیب کرنے والے مشرکین کے قول کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے۔ ﴿أَنَّهُمْ يَقُولُونَ إِنَّمَا يُعَلِّمُهُ﴾ ” وہ کہتے ہیں کہ اس کو تو سکھلاتا ہے“ یعنی یہ قرآن جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لے کر آئے ہیں ﴿بَشَرٌ﴾ ”ایک آدمی“ اور وہ شخص جس کی طرف یہ لوگ اشارہ کرتے ہیں عجمی زبان رکھتا ہے ﴿وَهَـٰذَا﴾ اور یہ قرآن ﴿لِسَانٌ عَرَبِيٌّ مُّبِينٌ﴾ ” زبان عربی ہے صاف“ کیا یہ بات ممکن ہے؟ کیا اس بات کا ذرا بھی احتمال ہوسکتا ہے؟ مگر جھوٹا شخص جھوٹ بولتا ہے اور وہ نہیں سوچتا کہ اس کا جھوٹ اسی کی طرف لوٹ آئے گا۔ اس کی بات ایسے تناقض اور فسا دکی حامل ہوگی جو محض تصور ہی سے اس بات کی تردید کا موجب ہوگا۔ النحل
104 ﴿إِنَّ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِآيَاتِ اللّٰهِ﴾ ” بے شک وہ لوگ جو اللہ کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے“ جو نہایت صراحت کے ساتھ حق مبین پر دلالت کرتی ہیں۔ پس یہ لوگ ان آیات کریمہ کو ٹھکراتے ہیں اور انہیں قبول نہیں کرتے۔ ﴿ لَا يَهْدِيهِمُ اللّٰـهُ ﴾ ” ان کو اللہ ہدایت نہیں دیتا“ کیونکہ ان کے پاس ہدایت آئی مگر انہوں نے اسے ٹھکرا دیا اس لئے ان کو یہ سزا دی گئی کہ ان کو ہدایت سے محروم کردیا گیا اور اللہ تعالیٰ نے ان کو ان کے حال پر چھوڑ یا ﴿ وَلَهُمْ ﴾ ”اور ان کے واسطے“ یعنی آخرت میں ﴿عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴾ ” درد ناک عذاب ہے۔ “ النحل
105 ﴿إِنَّمَا يَفْتَرِي الْكَذِبَ﴾ یعنی جھوٹ اور افترا پردازی ان لوگوں سے صادر ہوتی ہے ﴿  الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِآيَاتِ اللّٰـهِ ﴾ ” جو آیات الٰہی پر ایمان نہیں رکھتے“ مثلاً وہ لوگ جو واضح دلائل آجانے کے بعد بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عناد رکھتے ہیں ﴿وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْكَاذِبُونَ﴾ ” اور وہی لوگ جھوٹے ہیں“ یعنی جھوٹ ان میں منحصر ہے اور دوسروں کی بجائے وہی جھوٹ کے اطلاق کے زیادہ مستحق ہیں۔ رہے محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو وہ آیات الٰہی پر ایمان رکھتے ہیں اور اپنے رب کے سامنے عاجزی کے ساتھ جھکتے ہیں اس لئے محال ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھیں اور اللہ تعالیٰ سے کوئی ایسی بات منسوب کریں جو اس نے نہیں کہی۔ پس آپ کے دشمنوں نے آپ پر جھوٹ کا الزام لگایا، حالانکہ جھوٹ خود ان کا وصف تھا تو اللہ تعالیٰ نے ان کی رسوائی کو ظاہر اور ان کی فضیحت کو واضح کردیا۔ پس ہر قسم کی ستائش اسی کے لئے ہے۔ النحل
106 اللہ تبارک و تعالیٰ کفار کے احوال بد کے بارے میں خبر دیتا ہے۔ ﴿مَن كَفَرَ بِاللّٰـهِ مِن بَعْدِ إِيمَانِهِ﴾ ” جس نے اللہ کے ساتھ کفر کیا اس پر ایمان لانے کے بعد“ یعنی چشم بینا سے حقائق کو دیکھ لینے کے بعد بھی اندھا ہی رہا، راہ پا لینے کے بعد گمراہی کی طرف لوٹ گیا اور اس نے برضا و رغبت، شرح صدر اور اطمینان قلب کے ساتھ کفر کو اختیار کرلیا۔ ایسے لوگوں پر رب رحیم سخت غضب ناک ہوگا۔ وہ جب ناراض ہوتا ہے تو دنیا کی کوئی چیز اس کے غضب کے سامنے نہیں ٹھہرتی اور ہر چیز ان سے ناراض ہوجاتی ہے۔ ﴿ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ﴾ ” اور ان کے لئے بڑا عذاب ہے“ یعنی یہ عذاب اپنی انتہائی شدت کے ساتھ ساتھ دائمی بھی ہوگا۔ النحل
107 ﴿ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمُ اسْتَحَبُّوا الْحَيَاةَ الدُّنْيَا عَلَى الْآخِرَةِ ﴾” یہ اس واسطے کہ انہوں نے دنیا کی زندگی کو پسند کیا آخرت پر“ کیونکہ وہ دنیا کے چند ٹکڑوں میں طمع اور رغبت کی بنا پر اور آخرت کی بھلائی سے روگردانی کر کے الٹے پاؤں پھر گئے۔ پس جب انہوں نے ایمان کے مقابلے میں کفر کو چن لیا تب اللہ تعالیٰ نے ان کو ہدایت سے محروم کردیا اور ان کی راہنمائی نہ کی، کیونکہ کفر ان کا وصف ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی۔ پس کسی قسم کی بھلائی ان کے اندر داخل نہیں ہوسکتی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے کانوں اور ان کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا ہے اس لئے کوئی ایسی چیز ان میں نفوذ نہیں کرسکتی جو ان کے لئے فائدہ مند ہو اور ان کے دلوں تک پہنچ سکے۔ پس غفلت ان پر طاری ہوگئی، رسوائی نے ان کا احاطہ کرلیا اور وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم ہوگئے جو ہر چیز پر سایہ کناں ہے اور یہ اس وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ان کے پاس آئی انہوں نے اس کو ٹھکرا دیا اور ان پر پیش کی گئی مگر انہوں نے اس کو قبول نہ کیا۔ النحل
108 النحل
109 ﴿لَا جَرَمَ أَنَّهُمْ فِي الْآخِرَةِ هُمُ الْخَاسِرُونَ﴾ ” یقیناً وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والے ہیں“ یہ وہ لوگ ہیں جو قیامت کے روز اپنی جان، مال اور اہل و عیال کے بارے میں گھاٹے میں پڑگئے، ہمیشہ رہنے والی نعمتوں سے محروم ہوگئے اور ان کو درد ناک عذاب میں ڈال دیا گیا۔ اس کے برعکس جس شخص کو جبر کے ساتھ کفر پر مجبور کیا گیا مگر ان کا دل ایمان پر مطمئن ہے اور ایمان میں پوری رغبت رکھتا ہے تو اس پر کوئی حرج ہے نہ گناہ۔ ایسے شخص کے لئے جبروا کراہ کے تحت کلمہء کفر کہنا جائز ہے۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ جبرواکراہ کے تحت دی گئی طلاق، غلام کی آزادی، خرید و فروخت اور تمام معاہدوں کا کوئی اعتبار نہیں اور نہ ان امور پر کوئی شرعی حکم مترتب ہوتا ہے کیونکہ جب جبرواکراہ کی صورت میں کلمہء کفر کہنے پر اس پر کوئی گرفت نہیں تو دوسرے امور زیادہ اس باتے کے مستحق ہیں کہ جبر کی صورت میں ان پر گرفت نہ ہو۔ النحل
110 یعنی بلا شبہ ان کا رب جس نے اپنے مخلص بندوں کی، اپنے لطف و احسان کے ذریعے سے تربیت کی اس شخص کے لئے بہت غفور و رحیم ہے جو اس کی راہ میں ہجرت کرتا ہے، اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کی خاطر اپنا گھر بار اور مال اسباب سب چھوڑ دیتا ہے، دین کی وجہ سے اسے ستایا جاتا ہے تاکہ وہ کفر کی طرف دوبارہ لوٹ آئے، مگر وہ ایمان پر ثابت قدم رہتا ہے اور اپنے یقین کو بچا لیتا ہے، پھر وہ اپنے ہاتھ اور زبان سے اللہ تعالیٰ کے دشمنوں کے خلاف جہاد کرتا ہے تاکہ ان کو اللہ کے دین میں داخل کرے اور وہ ان عبادات پر صبر کرتا ہے جو اکثر لوگوں پر بہت شاق گزرتی ہیں۔ یہ سب سے بڑے اسباب ہیں جن کے ذریعے سب سے بڑے عطیات اور بہترین مواہب حاصل ہوتے ہیں اور وہ عطیات و مواہب یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ صغیرہ اور کبیرہ گناہوں کو بخش دیتا ہے اور ہر امر مکروہ کو اس سے دور کردیتا ہے اور وہ اپنی عظیم رحمت سے اسے ڈھانپ لیتا ہے جس سے بندوں کے احوال صحیح اور ان کے دینی اور دنیاوی امور درست ہوتے ہیں۔ پس قیامت کے روز ان کے لئے رحمت ہے۔ النحل
111 ﴿يَوْمَ تَأْتِي كُلُّ نَفْسٍ تُجَادِلُ عَن نَّفْسِهَا﴾ ” جس دن آئے گا ہر نفس جھگڑا کرتا ہوا اپنی طرف سے“ یعنی ہر شخص)نفسی نفسی( پکارے گا اور اسے اپنے سوا کسی کا ہوش نہ ہوگا، پس اس روز بندہ ذرہ بھر نیکی کے حصول کا بھی محتاج ہوگا۔ ﴿وَتُوَفَّىٰ كُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ﴾ ” اور پورا ملے گا ہر نفس کو جو اس نے کمایا“ یعنی نیک یا بد جو بھی عمل کیا ہوگا ﴿وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ﴾ ” اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے۔“ یعنی ان کے گناہوں میں اضافہ کیا جائے گا نہ ان کی نیکیوں میں کمی کی جائے گی۔ ﴿فَالْيَوْمَ لَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْئًا وَلَا تُجْزَوْنَ إِلَّا مَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ﴾(یس: 36؍ 54) ” آج کسی جان پر ظلم نہ کیا جائے گا اور تمہیں ویسی ہی جزا دی جائے گی جیسے تم عمل کرتے رہے ہو۔ “ النحل
112 اس بستی سے مراد مکہ ہے، جو امن کا گہوارہ اور اطمینان کی جگہ تھی، اس بستی میں کسی کو پریشان نہیں کیا جاتا تھا۔ بڑے بڑے جہلا بھی اس کا احترام کرتے تھے حتیٰ کہ اس بستی میں کوئی شخص اپنے باپ یا بھائی کے قاتل کو بھی دیکھتا تو اس کا جذبہ انتقام جوش نہیں مارتا تھا، حالانکہ ان میں عربی حمیت و تکبر بہت زیادہ تھا۔ مگر مکہ مکرمہ میں کامل امن تھا جو کسی اور شہر میں نہ تھا۔ اسی طرح اس کو کشادہ رزق سے بھی نوازا گیا تھا۔ مکہ مکرمہ ایسا شہر تھا جہاں کھیتیاں تھیں نہ باغات بایں ہمہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے رزق کو آسان کردیا تھا، ہر سمت سے ان کو رزق پہنچتا تھا۔ پس ان کے پاس انہی میں سے ایک رسول آیا، جس کی صداقت اور امانت کو وہ خوب جانتے تھے جو انہیں کامل ترین امور کی طرف دعوت دیتا تھا اور انہیں بری باتوں سے روکتا تھا۔ مگر انہوں نے اسے جھٹلایا اور اللہ کی نعمت کی ناشکری کی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو امن و اطمینان کے برعکس بدامنی کا مزہ چکھایا، انہیں بھوک کا لباس پہنا دیا جو خوشحالی کی ضد ہے اور اس پر خوف طاری کردیا جو امن کی ضد ہے۔ یہ سب ان کی بداعمالیوں، ان کے کفر اور ان کی ناشکری کی پاداش میں تھا۔ ﴿وَمَا ظَلَمَهُمُ اللّٰـهُ وَلَـٰكِن كَانُوا أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ﴾ (النحل: 16؍33) ” اور اللہ نے ان پر ظلم نہیں کیا بلکہ وہ خود اپنے آپ پر ظلم کرتھے تھے۔ “ النحل
113 النحل
114 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ رزق میں سے حیوانات، غلہ جات اور میوہ جات وغیرہ کھائیں۔ ﴿حَلَالًا طَيِّبًا﴾ ” حلال اور پاکیزہ“ یعنی اس رزق کو اس حالت میں کھائی کہ وہ مذکورہ دو اوصاف سے متصف ہو یعنی یہ ان چیزوں میں سے نہ ہو جن کو اللہ تعالیٰ نے حرام ٹھہرایا ہے اور نہ ہو رزق کسی غصب کے نتیجے میں حاصل ہوا ہو۔ پس بغیر کسی اسراف اور زیادتی کے اللہ تعالیٰ کے رزق سے فائدہ اٹھاؤ ﴿ وَاشْكُرُوا نِعْمَتَ اللّـهِ ﴾ ” اور اللہ کی نعمت کا شکرا دا کرو“ قلب کے ذریعے سے اس نعمت کا اعتراف کر کے، اس نعمت پر اللہ تعالیٰ کی حمت و ثناء کر کے اور اس کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں صرف کر کے ﴿ إِن كُنتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ﴾ ” اگر تم اسی کی عبادت کرتے ہو۔“ یعنی اگر تم اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مخلص ہو تو صرف اسی کا شکر ادا کرو اور نعمتیں عطا کرنے والے کو فراموش نہ کرو۔ النحل
115 ﴿إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ﴾ ” اس نے تم پر صرف حرام کردیا ہے۔“ اللہ تعالیٰ نے تمہاری پاکیزگی کی خاطر ضرر رساں چیزوں کو تم پر حرام ٹھہرا دیا ہے۔ ﴿الْمَيْتَةَ﴾ ” مردار۔“ یعنی ان چیزوں میں ایک مردار ہے اس میں ہر وہ جانور داخل ہے جس کی موت مشروع طریقے سے ذبح کے بغیر واقع ہوئی ہو۔ ٹڈی اور مچھلی کا مردار اس حکم سے مستثنیٰ ہے۔ ﴿وَالدَّمَ ﴾ ” اور خون“ یعنی بہایا ہوا، )جو ذبح کے وقت بہتا ہے( اور وہ خون جو ذبح کرنے کے بعد رگوں اور گوشت میں باقی رہ جائیے اس میں کوئی حرج نہیں۔ ﴿وَلَحْمَ الْخِنزِيرِ﴾ ” اور خنزیر کا گوشت“ یہ اس کی گندگی اور ناپاکی کی وجہ سے حرام ہے اور یہ حکم اس کے گوشت، اس کی چربی اور اس کے تمام اجزاء کو شامل ہے۔ ﴿وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللّٰـهِ بِهِ ۖ﴾ ” اور جس پر نام پکارا جائے اللہ کے سوا کسی اور کا۔“ مثلاً وہ جانور جو بتوں اور قبروں وغیرہ پر ذبح کیا جائے کیونکہ اس کا مقصد شرک ہے۔ ﴿فَمَنِ اضْطُرَّ﴾ ” پس جو شخص مجبور ہوجائے“ ان محرمات میں سے کسی چیز کے استعمال کرنے پر، یعنی ضرورت اسے اس کے استعمال پر مجبور کر دے اور اسے ڈر ہو کہ اگر وہ یہ حرام چیز نہیں کھائے گا تو مر جائے گا تو اس حرام چیز کو کھا لینے میں کوئی گناہ نہیں۔ ﴿غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ﴾ ” نہ سرکشی کرنے والا ہو اور نہ زیادتی کرنے والا“ یعنی جب وہ مجبور نہ ہو تو حرام چیز کھانے کا ارادہ رکھتا ہو نہ حلال کو چھوڑ کر حرام کی طرف جاتا ہو اور نہ ضرورت سے زیادہ حرام چیز کو استعمال میں لاتا ہو۔ یہ وہ محرمات ہیں جن کو اضطراری حالت میں اللہ تعالیٰ نے حلال کردیا ہے۔ النحل
116 ﴿وَلَا تَقُولُوا لِمَا تَصِفُ أَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ هَـٰذَا حَلَالٌ وَهَـٰذَا حَرَامٌ﴾ ” اور نہ کہو تم جن کو تمہاری زبانیں جھوٹ نہ بنا لیں کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے“ یعنی اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھتے اور افترا پردازی کرتے ہوئے خود اپنی طرف سے حلال اور حرام کے ضابطے نہ بناؤ۔ ﴿ لِّتَفْتَرُوا عَلَى اللّٰـهِ الْكَذِبَ ۚ إِنَّ الَّذِينَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللّٰـهِ الْكَذِبَ لَا يُفْلِحُونَ﴾ ” تاکہ تم اللہ پر بہتان باندھو۔ بے شک جو اللہ پر بہتان باندھتے ہیں وہ فلاح نہیں پائیں گے“ النحل
117 دنیا میں نہ آخرت میں اللہ تبارک و تعالیٰ ان کو ضرور ذلیل و رسوا کرے گا، اگر انہوں نے اس دنیا سے فائدہ اٹھایا بھی ﴿مَتَاعٌ قَلِيلٌ﴾ ” تو یہ بہت ہی قلیل متاع ہے“ اور ان کا ٹھکانا جہنم ہے ﴿وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴾ ” اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے“ النحل
118 پس اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و احسان کی بنا پر ہمیں گندگی سے بچانے کے لئے ہمارے لئے صرف ناپاک چیزوں کو حرام کیا ہے لیکن یہودیوں پر اللہ تعالیٰ نے ان کے ظلم کی سزا کے طور پر طیبات کو حرام ٹھہرا دیا تھا جو ان کے لئے حلال تھیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الانعام میں ان الفاظ میں اس کا ذکر فرمایا ہے۔ ﴿وَعَلَى الَّذِينَ هَادُوا حَرَّمْنَا كُلَّ ذِي ظُفُرٍ ۖ وَمِنَ الْبَقَرِ وَالْغَنَمِ حَرَّمْنَا عَلَيْهِمْ شُحُومَهُمَا إِلَّا مَا حَمَلَتْ ظُهُورُهُمَا أَوِ الْحَوَايَا أَوْ مَا اخْتَلَطَ بِعَظْمٍ ۚ ذَٰلِكَ جَزَيْنَاهُم بِبَغْيِهِمْ ۖ وَإِنَّا لَصَادِقُونَ﴾ (الانعام :6؍146) ” اور یہودیوں پر ہم نے ناخن والے جانور حرام کردیئے، گائے اور بکری کی چربی بھی حرام ٹھہرا دی سوائے اس چربی کے جو ان کی پیٹھ یا ان کی انتڑیوں یا ہڈی کے ساتھ لگی ہوئی رہ جائے۔ یہ ہم نے ان کو ان کی سرکشی کی سزا دی تھی اور بے شک ہم سچے ہیں۔ “ النحل
119 اگر کوئی شخص گناہ کے انجام سے لا علمی کی بنا پر گناہ کر بیٹھتا ہے، خواہ وہ گناہ عمداً ہی کیوں کہ کیا ہو تو گناہ کے ارتکاب کے وقت اس کے قلب میں لازمی طور پر علم کم ہوجاتا ہے۔ جب وہ توبہ کر کے اپنی اصلاح کرلیتا ہے، یعنی ترک گناہ کے بعد گناہ پر نادم ہوتا ہے اور اپنے اعمال کی اصلاح کرلیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو بخش دیتا ہے، اس پر رحم کرتا ہے، اس کی توبہ قبول کر کے اس کو اس کی پہلی حالت کی طرف لوٹا دیتا ہے یا پہلے سے بھی بلند تر مقام عطا کرتا ہے۔ النحل
120 اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ اس نے اپنے خلیل ابراہیم علیہ السلام کو فضیلت بخشی اور انہیں فضائل عالیہ اور مناقب کاملہ سے مختص کیا۔ فرمایا : ﴿ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ كَانَ أُمَّةً ﴾ ” بے شک ابراہیم ایک امت تھے“ یعنی امام، بھلائی کے خصائل کے جامع، ہدایت یافتہ اور راہنما تھے۔ ﴿قَانِتًا لِّلّٰـهِ﴾ ” اللہ کے فرماں بردار“ اپنے رب کے دائمی مطیع اور اس کے لئے دین کو خالص کرنے والے۔ ﴿ حَنِيفًا﴾ ” سب سے ایک طرف ہو کر“ یعنی محبت، انابت اور عبودیت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ رہنے والے اور ماسوا سے منہ موڑنے والے : ﴿وَلَمْ يَكُ مِنَ الْمُشْرِكِينَ﴾ ” اور وہ شرک کرنے والوں میں سے نہ تھے“ اپنے قول و عمل اور اپنے تمام احوال میں مشرکین میں سے نہ تھے کیونکہ وہ یک سوموحدین کے امام تھے۔ النحل
121 ﴿شَاكِرًا لِّأَنْعُمِهِ﴾ ” اس کے احسانات کا شکر ادا کرنے والے“ یعنی اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کو دنیا میں بھلائی عطا کی، ان کو ظاہری اور باطنی نعمتوں سے نوازا اور انہوں نے ان نعمتوں پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔ ان تمام اچھی خصلتوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ ﴿ اجْتَبَاهُ﴾ ” ان (ابراہیم علیہ السلام) کے رب نے ان کو چن لیا“ انہیں اپنا خلیل بنایا اور انہیں اپنی مخلوق میں سے چنے ہوئے مقرب بندوں میں شامل کیا۔ ﴿وَهَدَاهُ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ ﴾ ” اور انہیں (اپنے علم و عمل سے) صراط مستقیم پر گامزن کیا“ یعنی انہوں نے حق کو جان لیا اور اسے دیگر ہر چیز پر ترجیح دی۔ النحل
122 ﴿وَآتَيْنَاهُ فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً﴾ ” اور دی ہم نے ان کو دنیا میں بھلائی“ یعنی ہم نے انہیں دنیا میں کشادہ رزق، خوبصورت و نیک سیرت بیوی، نیک اولاد اور اچھے اخلاق اور عادات سے نوازا ﴿وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ﴾ ” اور وہ آخرت میں اچھے لوگوں میں سے ہیں“ النحل
123 یعنی وہ لوگ جنہیں عالی قدرت منزلت اور اللہ تعالیٰ کا قرب عظیم حاصل ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سب سے بڑی فضیلت یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے سید الوریٰ اور کامل ترین ہستی، نبی مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف وحی کی کہ وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ملت کی اتباع کریں، آپ اور آپ کی امت کی پیروی کریں۔ النحل
124 ﴿إِنَّمَا جُعِلَ السَّبْتُ﴾ ہفتے کا دن فرض کیا گیا ﴿عَلَى الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِيهِ﴾ ” صرف انہی پر جو اس میں اختلاف کرتے تھے“ یعنی جب وہ جمعہ کے دن کے بارے میں بھٹک گئے۔۔۔۔۔ مراد یہود ہیں۔۔۔۔۔ ان کا اختلاف اس بات کا سبب بنا کہ اللہ ہفتے کے دن کا احترام اور تعظیم ان پر واجب کر دے ورنہ حقیقی فضیلت تو جمعہ کے دن ہی کو حاصل ہے۔ جس کی طرف اللہ تعالیٰ نے اس امت کی راہنمائی فرمائی۔ ﴿وَإِنَّ رَبَّكَ لَيَحْكُمُ بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ﴾ ” بے شک آپ کا رب ان کے درمیان قیامت کے دن فیصلہ فرمائے گا ان چیزوں میں جن میں وہ اختلاف کرتے تھے“ پس اللہ تعالیٰ قیامت کے روز ان کے سامنے حق پسند اور باطل پسند کے درمیان فرق واضح کر دے گا اور ظاہر کر دے گا کہ ثواب کا مستحق کون ہے اور عذاب کا مستحق کون ہے۔ النحل
125 یعنی تمام مخلوق کو، خواہ وہ مسلمان ہوں یا کافر، آپ کی اپنے رب کے سیدھے راستے کی طرف دعوت، علم نافع اور عمل صالح پر مشتمل ہونی چاہئے ﴿بِالْحِكْمَةِ﴾ ” حکمت کے ساتھ“ یعنی ہر ایک کو اس کے حال، اس کی فہم اور اس کے اندر قبولیت اور اطاعت کے مادے کے مطابق دعوت دیجئے۔ حکمت یہ ہے کہ جہل کی بجائے علم کے ذریعے سے دعوت دی جائے اور اس چیز سے ابتدا کی جائے جو سب سے زیادہ اہم، عقل اور فہم کے سبب سے زیادہ قریب ہو اور ایسے نرم طریقے سے دعوت دی جائے کہ اسے کامل طور پر قبول کرلیا جائے۔ اگر حکمت کے ساتھ دی گئی دعوت کے سامنے سر تسلیم خم کر دے تو ٹھیک ورنہ اچھی نصیحت کے ذریعے سے دعوت کی طرف منتقل ہوجائے اور اس سے مراد امرونہی ہے جو ترغیب و ترہیب سے مقرون ہو۔۔۔۔۔ یا تو ان متعدد مصالح کا ذکر کرے جن پر اوامر مشتمل ہیں اور ان متعدد مضرتوں کو بیان کرے جو نواہی میں پنہاں ہیں، یا ان لوگوں کی اللہ کے ہاں تکریم کو بیان کرے جنہوں نے اللہ کے دین کو قائم کیا اور ان لوگوں کی اہانت کا تذکرہ کرے جنہوں نے اللہ کے دین کو قائم نہیں کیا، یا اس دنیاوی اور اخروی ثواب کا ذکر کرے جو اس نے اپنے اطاعت کیش بندوں کے لئے تیار کر رکھا ہے اور اس دنیاوی اور اخروی عذاب کا ذکر کرے جو اس نے نافرمانوں کے لئے تیار کیا ہوا ہے۔ اگر وہ شخص جس کو دعوت دی گئی، یہ سمجھتا ہے کہ اس کا موقف برحق ہے یا داعی باطل کی طرف دعوت دینے والا ہے تو اس کے ساتھ احسن طریقے سے بحث کی جائے۔ یہ ایسا طریقہ ہے جو عقلاً اور نقلاً دعوت کی قبولیت کا زیادہ موجب ہے، مثلاً اس شخص سے ایسے دلائل کے ساتھ بحث کی جائے جن کو وہ خود تسلیم کرتا ہو یہ حصول مقصد کا قریب ترین ذریعہ ہے۔ یہ بحث جھگڑے اور گالی گلوچ تک نہ پہنچے ورنہ مقصد فوت ہوجائے گا اور کوئی فائدہ حاصل نہ ہوگا۔ بحث کا مقصد گو لوگوں کی حق کی طرف راہنمائی کرنا ہے نہ کہ بحث میں جیتنا وغیرہ۔ ﴿إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِيلِهِ ﴾ ” آپ کا رب ہی بہتر جانتا ہے اس کو جو بھٹک گیا اس کے راستے سے“ یعنی آپ کا رب اس سبب کو زیادہ جانتا ہے جس نے اسے گمراہی میں مبتلا کیا ہے اور وہ اس کے ان اعمال کو بھی جانتا ہے جو اس کی گمراہی پر مترتب ہوئے ہیں وہ عنقریب ان کو ان اعمال کی جزا دے گا۔ ﴿وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ﴾ ” اور وہ ان لوگوں کو بھی خوب جانتا ہے جو ہدایت قبول کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔“ پس اللہ تعالیٰ نے ان کو ہدایت سے نوازا، پھر ان پر احسان کرتے ہوئے انہیں چن لیا۔ النحل
126 اللہ تبارک و تعالیٰ عدل کو مباح کرتے ہوئے فضل اور احسان کی ترغیب دیتے ہوئے فرماتا ہے : ﴿وَإِنْ عَاقَبْتُمْ﴾ ” اور اگر تم بدلہ لو“ اگر تم اس شخص کا مواخذہ کرنا چاہو جس نے تمہیں قول و فعل کے ذریعے سے برے سلوک کا نشانہ بنایا ہے ﴿فَعَاقِبُوا بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُم بِهِ ﴾ ” تو بدلہ لو اسی قدر جس قدر کہ تم کو تکلیف پہنچائی گئی“ یعنی تمہارے ساتھ جو معاملہ کیا گیا ہے، بدلہ لیتے وقت تمہاری طرف سے اس میں زیادتی نہ ہو۔ ﴿ وَلَئِن صَبَرْتُمْ﴾ ” اور اگر تم صبر کرلو“ یعنی بدلہ نہ لو اور ان کا جرم معاف کر دو تو ﴿لَهُوَ خَيْرٌ لِّلصَّابِرِينَ﴾ ” وہ صبر کرنے والوں کے لئے بہتر ہے۔“ یعنی یہ بدلہ لینے سے بہتر ہے اور جو اجر و ثواب اللہ تعالیٰ کے پاس ہے وہ تمہارے لئے بہتر اور انجام کے اعتبار سے اچھا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللّٰـهِ﴾ (الشوریٰ::42؍40) ” جو معاف کر کے معاملے کی اصلاح کر دے تو اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے۔“ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ وہ مخلوق کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت پر صبر کریں اور اس پر اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کریں اور نفس پر بھروسہ نہ کریں ۔ النحل
127 چنانچہ فرمایا : ﴿وَاصْبِرْ وَمَا صَبْرُكَ إِلَّا بِاللّٰـهِ ۚ ﴾ ” اور صبر کیجئے اور آپ کے لئے صبر ممکن نہیں، مگر اللہ ہی کی مدد سے“ وہی صبر پر آپ کی مدد کرتا ہے اور آپ کو ثابت قدم رکھتا ہے ﴿وَلَا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ﴾ ” اور ان کے بارے میں غم نہ کرو۔“ یعنی جب آپ ان کو دین کی دعوت دیں اور دیکھیں کہ وہ اس دعوت کو قبول نہیں کر رہے تو غمزدہ نہ ہوں کیونکہ حزن و غم آپ کو کوئی فائدہ نہ دے گا۔ ﴿وَلَا تَكُ فِي ضَيْقٍ﴾ ” اور تنگ دل نہ ہوں۔“ یعنی آپ کسی سختی اور حرج میں نہ پڑیں۔ ﴿ مِّمَّا يَمْكُرُونَ ﴾ ” ان کی چالوں سے“ کیونکہ ان کے مکر و فریب کا وبال انہی پر لوٹے گا اور آپ تو پرہیز گاروں اور نیکوکاروں میں سے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنی معونت، توفیق اور تسدید کے ذریعے سے پرہیز گاروں اور نیکوکاروں کے ساتھ ہے یہ وہ لوگ ہیں جو کفر اور معاصی سے اجتناب کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ کی عبودیت میں مقام احسان پر فائز ہیں یعنی وہ اس طرح اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں گویا وہ اسے دیکھ رہے ہیں اگر ان پر یہ کیفیت پیدا نہیں ہوتی تو انہیں یہ یقین حاصل ہو کہ اللہ تعالیٰ تو انہیں دیکھ رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی مخلوق پر احسان یہ ہے کہ اسے ہر لحاظ سے فائدہ پہنچایا جائے۔ ہم اللہ تعالیٰ سے سوال کرتے ہیں کہ وہ ہمیں پرہیز گاروں اور احسان کرنے والوں میں شامل کرے۔ النحل
128 النحل
0 الإسراء
1 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی ذات مقدس کی تنزیہ و تعظیم بیان کرتا ہے کیونکہ اس کے افعال بہت عظیم اور اس کے احسانات بہت جسیم ہیں۔ اس کے جملہ افعال و احسانات میں سے ایک یہ ہے۔ ﴿ أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا﴾ ’’وہ رات کے ایک حصے میں اپنے بندے کو لے گیا۔‘‘ یعنی وہ اپنے رسول محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو راتوں رات لے گیا ﴿مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ﴾ ’’مسجد حرام سے‘‘جو علی الاطلاق تمام مساجد میں جلیل ترین مسجد ہے۔ ﴿إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى ﴾ ’’مسجد اقصیٰ تک‘‘ جو فضیلت والی مسجدوں میں شمار ہوتی ہے اور وہ انبیاء کرام کی سر زمین ہے۔ جناب نبی مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایک ہی رات میں بہت دور مسافت تک لے جا یا گیا پھر اسی رات واپس لایا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنی نشانیاں دکھائیں جن سے ہدایت، بصیرت، ثبات اور قوت تفریق و امتیاز میں اضافہ ہوا۔ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی آپ پر عنایت اور لطف و کرم ہے کہ اس نے تمام امور میں آپ کے لئے بھلائی کو آسان فرما دیا اور آپ کو ایسی ایسی نعمتوں سے نوازا جن کی بناء پر آپ نے تمام اولین و آخرین پر فوقیت حاصل کی۔ آیت کریمہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ’’اسراء‘‘ کا یہ واقعہ رات کے ابتدائی حصے میں پیش آیا اور سفر مسجد حرام سے شروع ہوا مگر صحیح حدیث میں آتا ہے کہ آپ کو حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا کے گھر سے رات کے اس سفر پر لے جایا گیا۔ [تفسیر طبری: 9؍5] اس سے ظاہر ہوا کہ مسجد حرام کو جو فضیلت حاصل ہے، وہ تمام حرم کے لئے ہے۔ حرم میں عبادات کا ثواب اسی طرح کئی گنا بڑھ جاتا ہے جس طرح مسجد حرام میں عبادت کا ثواب کئی گنا ہوجاتا ہے، نیز یہ ’’اسراء‘‘ (معراج) کا واقعہ آپ کو بیک وقت جسم اور روح کے ساتھ پیش آیا تھا۔ اگر آپ کو معراج جسم اور روح کے ساتھ نہ ہوئی ہوتی تو اس میں ’’آیت کبریٰ‘‘ کا کوئی مفہوم ہے نہ کسی بڑی منقبت کا کوئی پہلو ہے۔ [صحيح بخاري، كتاب المناقب، باب كان النبي صلي الله عليه وسلم..... الخ، حديث: 3570] معراج کے واقعہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بہت سی صحیح احادیث منقول ہیں ان میں ان تمام امور کی تفاصیل مذکور ہیں جن کا آپ نے مشاہدہ کیا۔ آپ کو بیت المقدس لے جایا گیا وہاں سے آسمانوں پر لے جایا گیا حتیٰ کہ آپ تمام آسمانوں کے اوپر چلے گئے۔ وہاں آپ نے جنت، جہنم اور تمام انبیاء کرام کو ان کے مراتب کے مطابق دیکھا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ پر پچاس نمازیں فرض کیں، پھر آپ موسیٰ علیہ اسلام کے مشورے سے بار بار اپنے رب کے حضور حاضر ہوتے رہے حتیٰ کہ وہ بالفعل پانچ ہوگئیں مگر ان کا ثواب، پچاس نمازوں کا ہے۔ اس رات آپ کو اور آپ کی امت کو بہت سے مفاخر عطا کئے گئے جن کی مقدار کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہاں، قرآن مجید کو نازل کرنے کے ذکر کے مقام پر (سورہ فرقان میں) اور جہاں قرآن کی بابت چیلنج کیا گیا، (سورہ بقرہ میں) ان تینوں مقامات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صفت عبودیت (آپ کے بندے ہونے کی خوبی) کو بیان فرمایا، اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ مقامات بلند اپنے رب کی عبودیت کی تکمیل کی وجہ ہی سے حاصل کئے ہیں۔ ﴿الَّذِي بَارَكْنَا ححَوْلَهُ ﴾ ’’وہ جس کے گرد ہم نے برکت رکھی ہے‘‘ یعنی درختوں، دریاؤں اور سدا بہار شادابی کے ذریعے سے برکت عطا کی اور یہ بھی اللہ تعالیٰ کی برکت ہی ہے کہ مسجد اقصیٰ کو مسجد حرام اور مسجد نبوی کے سوا دیگر تمام مسجدوں پر فضیلت عطا کی گئی، نیز مسجد اقصیٰ میں عبادت کرنے اور نماز پڑھنے کے لئے دور سے سفر کر کے جانا مطلوب ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس سر زمین کو اپنے نبیوں اور چنے ہوئے بندوں کے رہنے کے لئے مختص فرمایا۔ الإسراء
2 اللہ تعالیٰ نے بہت سے مقامات پر نبوی محمدی اور نبوت موسوی، قرآن اور تورات اور دونوں کی شریعتوں کو مقرون (ساتھ ساتھ) بیان کیا ہے کیونکہ دونوں کی کتابیں سب سے افضل، دونوں کی شریعتیں سب سے کامل، دونوں کی نبوتیں سب سے اعلیٰ اور دونوں کے پیروکار سب سے زیادہ ہیں۔ اس لئے یہاں فرمایا : ﴿وَآتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ ﴾ ’’اور دی ہم نے موسیٰ کو کتاب‘‘ یعنی تورات ﴿ وَجَعَلْنَاهُ هُدًى لِّبَنِي إِسْرَائِيلَ﴾ ’’اور کیا اس کو ہدایت واسطے بنی اسرائیل کے‘‘ یعنی بنی اسرائیل جہالت کی تاریکیوں میں علم حق تک پہنچنے کے لئے تورات سے راہنمائی حاصل کرتے تھے۔ ہم نے ان سے کہا ﴿ أَلَّا تَتَّخِذُوا مِن دُونِي وَكِيلًا﴾ ’’تم میرے سوا کسی کو کار ساز نہ بنانا‘‘ اور ہم نے اس مقصد کے لیے ان کی طرف کتاب نازل کی تاکہ وہ اکیلے اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں، صرف اسی کی طرف رجوع کریں، اپنے دینی اور دنیاوی امور میں اکیلے اسی کو اپنا کار ساز اور مدبر بنائیں۔ اللہ تعالیٰ کے سوا مخلوق کے ساتھ الوہیت کا کوئی تعلق نہ رکھیں جو کسی چیز کی مالک نہیں اور نہ وہ انہیں کوئی نفع دے سکتی ہے۔ الإسراء
3 ﴿ذُرِّيَّةَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوحٍ ۚ﴾ ’’اے ان لوگوں کی اولاد جن کو ہم نے نوح کے ساتھ کشتی میں سوار کیا۔‘‘ یعنی اے ان لوگوں کی اولاد جن پر ہم نے احسان کیا۔ ﴿  إِنَّهُ كَانَ عَبْدًا شَكُورًا ﴾ ’’بلا شبہ وہ شکر گزار بندہ تھا‘‘ اس میں نوح علیہ اسلام کی، ان کے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے اور شکر گزاری کی صفت سے موصوف ہونے کی بنا پر مدح و ثنا ہے اور ان کی ذریت کو ترغیب دی گئی ہے کہ وہ شکر کے بارے میں نوح علیہ اسلام کی پیروی کریں اور اللہ کی اس نعمت کو یاد کریں جس سے اس نے انہیں نوازا، جب اللہ تعالیٰ نے ان کو بچا کر باقی رکھا اور ان کو زمین میں اپنا خلیفہ بنایا اور ان کے علاوہ دیگر لوگوں کو غرق کردیا۔ الإسراء
4 ﴿وَقَضَيْنَا إِلَىٰ بَنِي إِسْرَائِيلَ ﴾’’اور صاف کہہ سنایا ہم نے بنی اسرائیل کو‘‘ یعنی ہم نے ان کے بارے میں فیصلہ کیا اور انہیں ان کی کتاب میں آگاہ کیا کہ وہ نافرمانیوں، اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری اور زمین میں تکبر اور اقتدار کی بنا پر زمین میں دو بار فساد پھیلانے کا باعث بنیں گے۔ جب ان کی طرف سے ایک فساد واقع ہوا تو ہم نے ان پر دشمنوں کو مسلط کردیا جو ان سے انتقام لیتے تھے۔ یہ ان کے لئے تحذیر و انذار تھا شاید کہ وہ لوٹ آئیں اور نصیحت پکڑیں۔ الإسراء
5 ﴿ فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ أُولَاهُمَا﴾ ’’پس جب پہلے وعدے کا وقت آیا۔‘‘ یعنی جب دو مرتبہ فساد کرنے کے وعدے میں سے پہلے وعدے کا وقت آگیا یعنی ان سے فساد واقع ہوا ﴿بَعَثْنَا عَلَيْكُمْ﴾ ’’تو ہم نے تم پر مسلط کردیئے۔‘‘ یعنی ہم نے تکوین، تقدیر اور جزا کے طور پر تم پر مسلط کردیئے ﴿عِبَادًا لَّنَا أُولِي بَأْسٍ شَدِيدٍ﴾ ’’اپنے بندے سخت لڑائی والے‘‘ بہت کثیر تعداد میں بہادر بندے جن کو اللہ نے تم پر فتح و نصرت عطا کی، انہوں نے تمہیں قتل کیا، تمہاری اولاد کو غلام بنایا اور تمہارے مال و متاع کو لوٹا۔ ﴿فَجَاسُوا خِلَالَ الدِّيَارِ ۚ﴾ ’’پس وہ شہروں کے اندر پھیل گئے۔‘‘ یعنی وہ تمہارے گھروں میں گھس گئے اور انہیں تہس نہس کردیا۔ انہوں نے مسجد اقصیٰ میں داخل ہو کر مسجد کو برباد کردیا۔ ﴿وَكَانَ وَعْدًا مَّفْعُولًا﴾ ’’اور وہ وعدہ ہونا ہی تھا‘‘ چونکہ انہوں نے اس وعدے کے پورے ہونے کے تمام اسباب مہیا کردیئے تھے، لہٰذا اس وعدے کو پورا ہونا ضروری تھا۔ اصحاب تفسیر کا مسلط ہونے والی قوم کے تعین کے بارے میں اختلاف ہے البتہ اس بات پر سب متفق ہیں کہ وہ کافر تھی۔ اس قوم کا تعلق یا تو عراق سے تھا یا وہ جزیرۃ العرب سے تھی یا ان کے علاوہ کوئی اور قوم تھی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو بنی اسرائیل پر مسلط کردیا کیونکہ ان کی نافرمانیاں بڑھ گئی تھیں، انہوں نے شریعت کے اکثر احکام کو پس پشت ڈال دیا اور انہوں نے زمین میں سرکشی اختیار کرلی تھی۔ الإسراء
6 ﴿ثُمَّ رَدَدْنَا لَكُمُ الْكَرَّةَ عَلَيْهِمْ﴾ ’’پھر ہم نے پھیر دی تمہاری باری ان پر‘‘ یعنی پھر ہم نے تمہیں اس متغلب کا فرقوم پر غلبہ عطا کیا اور تم نے انہیں اپنے شہروں سے نکال باہر کیا۔ ﴿وَأَمْدَدْنَاكُم بِأَمْوَالٍ وَبَنِينَ﴾ ’’اور قوت دی ہم نے تم کو مالوں سے اور بیٹوں س‘‘ یعنی ہم نے نہایت کثرت سے تمہیں رزق عطا کیا، تمہاری تعداد کو زیادہ کردیا اور تمہیں ان کے مقابلے میں طاقتور بنا دیا۔ ﴿ وَجَعَلْنَاكُمْ أَكْثَرَ نَفِيرًا﴾ ’’اور تمہاری نفری کو ان کے مقابلے میں بڑھا دیا‘‘ اور اس کا سبب تمہارے نیک کام اور اللہ کے سامنے تمہارا خشوع و خضوع تھا۔ الإسراء
7 ﴿إِنْ أَحْسَنتُمْ أَحْسَنتُمْ لِأَنفُسِكُمْ﴾’’اگر بھلائی کی تم نے تو بھلائی کی اپنے لئے‘‘ یعنی تمہاری نیکی کا فائدہ تمہاری ہی طرف لوٹے گا حتیٰ کہ دنیا میں بھی تمہیں ہی فائدہ ہوگا، جیسا کہ تم نے مشاہدہ کرلیا ہے کہ دشمن کے مقابلے میں تم فتح یاب ہوئے۔ ﴿ وَإِنْ أَسَأْتُمْ فَلَهَا﴾ ’’اور اگر برائی کی تو اپنے لئے‘‘ یعنی اگر تم برائی کا ارتکاب کرتے ہو تو اس کا نقصان بھی خود تمہاری طرف لوٹے گا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری بد اعمالیوں کی پاداش میں تمہارے دشمنوں کو تم پر مسلط کردیا تھا۔ ﴿ فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ الْآخِرَةِ﴾ ’’ پس جب دوسرے وعدے کا وقت آیا‘‘ جس میں ذکر تھا کہ تم زمین میں فساد برپا کرو گے، ہم نے تم پر دشمنوں کو مسلط کردیا۔ ﴿ لِيَسُوءُوا وُجُوهَكُمْ﴾ ’’تاکہ وہ تمہارے چہروں کو بگاڑ دیں۔‘‘ یعنی وہ فتح یاب ہو کر تمہیں غلام بنائیں اور چہروں کو بگاڑ دیں۔ ﴿وَلِيَدْخُلُوا الْمَسْجِدَ كَمَا دَخَلُوهُ﴾’’اور گھس جائیں مسجد میں جیسے گھس گئے تھے وہ پہلی بار‘‘ یہاں مسجد سے مراد بیت المقدس ہے ﴿وَلِيُتَبِّرُوا﴾’’اور خراب کردیں‘‘ یعنی اجاڑ کر پیوند زمین کردیں ﴿مَا عَلَوْا ﴾ ’’جس جگہ پر وہ غالب آجائیں۔‘‘ ﴿ تَتْبِيرًا ﴾ ’’پوری طرح خراب کرنا‘‘ پس وہ تمہارے گھروں، تمہاری عبادت گاہوں اور تمہارے کھیتوں کو تہس نہس کر کے رکھ دیں۔ الإسراء
8 ﴿عَسَىٰ رَبُّكُمْ أَن يَرْحَمَكُمْ﴾ ’’بعید نہیں کہ تمہارا رب تم پر رحم کرے‘‘ یعنی ہوسکتا ہے اللہ تعالیٰ تمہیں ان پر فتح و نصرت عطا کرے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان پر رحم کرتے ہوئے انہیں دوبارہ حکومت عطا کی اور انہیں نافرمانیوں پر وعید سناتے ہوئے فرمایا : ﴿وَإِنْ عُدتُّمْ﴾ ’’اور اگر تم پھر وہی کرو گے‘‘ یعنی اگر تم زمین میں فساد برپا کرنے کا اعادہ کرو گے ﴿عُدْنَا ۘ﴾’’ تو ہم پھر وہی کریں گے‘‘ ہم بھی تمہیں دو بارہ سزا دیں گے۔ پس انہوں نے زمین میں دوبارہ فساد برپا کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنے رسول محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مسلط کردیا اور اللہ تعالیٰ نے آپ کے ذریعے سے ان سے انتقام لیا۔ یہ تو ہے دنیا کی سزا اور اللہ تعالیٰ کے ہاں جو آخرت کی سزا ہے وہ اس سے زیادہ بڑی اور رسوا کن ہے، اس نے فرمایا : ﴿وَجَعَلْنَا جَهَنَّمَ لِلْكَافِرِينَ حَصِيرًا﴾’’ اور کیا ہم نے جہنم کو کافروں کے لئے قید خانہ‘‘ جس میں وہ جھونکے جائیں گے، جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے اور وہاں سے کبھی نہ نکلیں گے۔ ان آیات کریمہ میں اس امت کے لئے تحذیرو تخویف ہے کہ وہ معاصی سے بچیں ایسا نہ ہو کہ ان کو بھی سزا دی جائے جو نبی اسرائیل کو دی گئی تھی۔ سنت الٰہی ایک ہی ہے اس میں کوئی تغیر و تبدل نہیں آتا۔ جو کوئی اس بارے میں غوروفکر کرے کہ کس طرح کفار مسلمانوں پر مسلط ہوئے تو اسے معلوم ہوجائے گا کہ یہ ان کے گناہوں کی سزا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ جب مسلمان قرآن اور سنت کو نافذ کریں گے تو وہ انہیں زمین کا اقتدار عطا کرے گا اور ان کے دشمنوں کے خلاف ان کی مدد کرے گا۔ الإسراء
9 اللہ تبارک و تعالیٰ قرآن کریم کے شرف اور اس کی جلالت شان کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے اور یہ کہ وہ ﴿ يَهْدِي لِلَّتِي هِيَ أَقْوَمُ﴾’’ بتلاتا ہے وہ راستہ جو سب سے زیادہ سیدھا ہے‘‘ یعنی عقائد اعمال اور اخلاق کے بارے میں زیادہ معتدل اور بلند موقف کا حامل ہے، لہٰذا جو کوئی ان امور سے راہنمائی حاصل کرتا ہے جن کی طرف قرآن دعوت دیتا ہے تو وہ تمام امور میں تمام لوگوں سے زیادہ کامل، سب سے زیادہ درست اور سب سے زیادہ ہدایت یافتہ ہے۔ ﴿وَيُبَشِّرُ الْمُؤْمِنِينَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ الصَّالِحَاتِ﴾ ’’اور خوش خبری سناتا ہے ایمان والوں کو جو اچھے عمل کرتے ہیں‘‘ یعنی و اجبات و سنن ادا کرتے ہیں۔ ﴿ أَنَّ لَهُمْ أَجْرًا كَبِيرًا﴾ ’’کہ ان کے لئے ہے بڑا ثواب‘‘ جو اللہ تعالیٰ نے اپنے عزت والے گھر میں تیار کر رکھا ہے جس کے وصف کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا ۔ الإسراء
10 ﴿وَأَنَّ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ أَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا﴾ ’’اور یہ کہ جو آخرت پر یقین نہیں رکھتے، ان کے لئے ہم نے درد ناک عذاب تیار کیا ہے۔‘‘ قرآن کریم تبشیر و انذار پر مشتمل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے وہ اسباب ذکر فرما دیئے ہیں جن کی بنا پر بشارت ملتی ہے اور وہ ہیں ایمان اور عمل صالح اور ان اسباب کا بھی ذکر فرمایا ہے جو انذار کا مستحق ٹھہراتے ہیں اور وہ ہیں ایمان اور عمل صالح کے متضاد امور۔ الإسراء
11 یہ انسان کی جہالت اور عجلت پسندی ہے کہ وہ غیظ و غضب کے وقت اپنے لئے اور اپنی اولاد کے لئے بد دعا کرنے میں جلدی کرتا ہے جس طرح اچھی دعا کرنے میں جلدی کرتا ہے مگر یہ اللہ تعالیٰ کا لطف و کرم ہے کہ وہ اس کی اچھی دعا کو تو قبول کرلیتا ہے اور بد دعا کو قبول نہیں کرتا۔ ﴿ وَلَوْ يُعَجِّلُ اللّٰـهُ لِلنَّاسِ الشَّرَّ اسْتِعْجَالَهُم بِالْخَيْرِ لَقُضِيَ إِلَيْهِمْ أَجَلُهُمْ﴾ (یونس : 10؍11) ’’اگر اللہ ان کے ساتھ برا معاملہ کرنے میں اتنی ہی جلدی کرتا جیسے کہ وہ جلدی خیر مانگتے ہیں تو ان کی مدت مقررہ کے خاتمے کا فیصلہ کردیا جاتا۔‘‘ الإسراء
12 ﴿وَجَعَلْنَا اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ آيَتَيْنِ﴾’’اور ہم نے دن اور رات کو دو نشانیاں بنایا۔‘‘ یعنی یہ دن رات اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ اور بے پایاں رحمت پر دلالت کرتے ہیں، نیز یہ کہ صرف وہی عبادت کے لائق ہے۔ ﴿ فَمَحَوْنَا آيَةَ اللَّيْلِ﴾ ’’پھر مٹا دیا ہم نے رات کی نشانی کو‘‘ یعنی ہم نے رات کو تاریک بنایا تاکہ لوگ اس میں سکون اور راحت حاصل کریں۔ ﴿وَجَعَلْنَا آيَةَ النَّهَارِ مُبْصِرَةً﴾ ’’اور بنایا دن کی نشانی کو دکھلانے والی‘‘ یعنی روشن ﴿لِّتَبْتَغُوا فَضْلًا مِّن رَّبِّكُمْ﴾ ’’تاکہ تم اپنے رب کا فضل تلاش کرو۔‘‘ اپنی معاش، اپنی صنعت و حرفت، اپنی تجارت اور اپنے سفر میں اللہ کا فضل تلاش کرو۔ ﴿لِتَعْلَمُوا﴾ ’’اور تاکہ تم جان لو‘‘ رات اور دن کے پے در پے آنے جانے اور چاند کے گھٹنے بڑھنے سے ﴿عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسَابَ﴾ ’’برسوں کا شمار اور حساب‘‘ پس تم جیسے چاہتے ہو دنوں کے اس حساب و کتاب پر اپنے مصالح کی بنیاد رکھتے ہو۔ ﴿وَكُلَّ شَيْءٍ فَصَّلْنَاهُ تَفْصِيلًا ﴾ ’’اور ہر چیز کو ہم نے کھول کر بیان کردیا ہے‘‘ یعنی ہم نے آیات کو واضح کر کے ان کو مختلف طریقوں سے بیان کیا ہے تاکہ چیزیں ایک دوسرے سے ممتاز ہوں اور باطل میں سے حق نمایاں اور واضح ہوجائے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿ مَّا فَرَّطْنَا فِي الْكِتَابِ مِن شَيْءٍ﴾ (الانعام : 6؍38) ’’ہم نے نوشتہء تقدیر میں کوئی کوتاہی نہیں کی۔‘‘ الإسراء
13 یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے عدل کامل کے بارے میں خبر ہے، نیز یہ کہ ہر انسان کا اعمال نامہ اس کے گلے میں لٹکا ہوا ہے، یعنی بندہ جو اچھایا برا کام سر انجام دیتا ہے وہ اسی کے ساتھ لازم ہوتا ہے وہ کسی دوسرے کی طرف متعدی نہیں ہوتا اور کسی دوسرے کے عمل کا حساب اس سے لیا جائے گا نہ اس کا حساب کسی اور سے لیا جائے گا۔ ﴿ وَنُخْرِجُ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كِتَابًا يَلْقَاهُ مَنشُورًا ﴾ ’’اور نکال دکھائیں گے ہم اس کو قیامت کے دن ایک کتاب، وہ دیکھے گا اس کو کھلی ہوئی‘‘ اس کتاب میں اس کے تمام اچھے اور برے، چھوٹے اور بڑے تمام اعمال موجود ہوں گے اس سے کہا جائے گا ۔ الإسراء
14 ﴿اقْرَأْ كِتَابَكَ كَفَىٰ بِنَفْسِكَ الْيَوْمَ عَلَيْكَ حَسِيبًا ﴾ ’’پڑھ لے اپنی کتاب، تو ہی کافی ہے آج کے دن اپنا حساب لینے والا‘‘ یہ سب سے بڑا عدل و انصاف ہے کہ بندے سے کہا جائے کہ وہ اپنے نفس کا محاسبہ کرے تاکہ معلوم ہوجائے کہ اس کے ذمہ کون کون سے حقوق ہیں جو سزا کے موجب ہیں۔ الإسراء
15 یعنی ہر نفس کی ہدایت اور گمراہی خود اس کے لئے ہے کوئی شخص کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا اور نہ ذرہ بھر تکلیف اس سے دور ہٹا سکے گا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ سب سے بڑا عادل ہے وہ اس وقت تک کسی کو عذاب نہیں دے گا جب تک کہ اس پر رسالت کی حجت قائم نہ ہوجائے اور یہ ثابت نہ ہوجائے کہ اس نے اس حجت کے ساتھ عناد کا مظاہرہ کیا۔ رہا وہ شخص جس نے رسالت کی اس حجت کے سامنے سر تسلیم خم کردیا، یا اس کے پاس حجت پہنچی ہی نہیں، تو اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو عذاب نہیں دے گا۔ اس آیت کریمہ سے استدلال کیا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اہل فترات (یعنی اس زمانے یا علاقے کے لوگ جن تک نبوت نہیں پہنچی) اور مشرکین کے بچوں کو عذاب نہیں دے گا جب تک کہ ان کی طرف رسول نہ بھیج لے کیونکہ وہ ظلم سے پاک اور منزہ ہے۔ الإسراء
16 اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ جب کبھی وہ کسی ظالم بستی کو ہلاک کرنا اور عذاب کے ذریعے سے اس کا استیصال کرنا چاہتا ہے تو وہ اس میں رہنے والے خوشحال لوگوں کو حکم دیتا ہے۔۔۔ یعنی کونی و قدرتی حکم۔۔۔ وہ اس میں نافرمانیاں کرتے ہیں اور ان کی سرکشی بڑھ جاتی ہے۔ ﴿فَحَقَّ عَلَيْهَا الْقَوْلُ﴾ ’’تب ثابت ہوجاتی ہے ان پر بات‘‘ یعنی کلمہ عذاب، جسے کوئی نہیں ٹال سکتا۔ ﴿فَدَمَّرْنَاهَا تَدْمِيرًا﴾ ’’پس اس بستی کو ہم ہلاک کر کے رکھ دیتے ہیں۔‘‘ الإسراء
17 نوح علیہ السلام کی قوم کے بعد بہت سی قوموں کو اللہ تعالیٰ کے عذاب کے ذریعے سے ہلاک کیا، مثلاً عاد، ثمود اور قوم لوط وغیرہ۔ یہ وہ قومیں ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے سزا دی کیونکہ جب ان کی بغاوت بہت زیادہ ہوگئی اور ان کا کفر بڑھ گیا تو اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنا بڑا عذاب نازل کردیا۔ ﴿وَكَفَىٰ بِرَبِّكَ بِذُنُوبِ عِبَادِهِ خَبِيرًا بَصِيرًا﴾ ’’اور کافی ہے آپ کا رب اپنے بندوں کے گناہوں کو جاننے والا دیکھنے والا۔‘‘ پس بندوں کو اس کی طرف سے کسی ظلم کا خوف نہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو صرف ان کے اپنے اعمال کی سزا دیتا ہے۔ الإسراء
18 اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے۔ ﴿مَّن كَانَ يُرِيدُ الْعَاجِلَةَ﴾ ’’جو شخص دنیا کا خواہش مند ہو۔‘‘ یعنی جو کوئی ختم اور زائل ہوجانے والی دنیا چاہتا ہے وہ اس کے لئے عمل اور کوشش کرتا ہے، اس کی ابتدایا انتہا کو فراموش کردیتا ہے تو اللہ تعالیٰ جلدی سے دنیا کے وہ ٹکڑے اور اس کا مال و متاع اسے عطا کردیتا ہے، جسے وہ چاہتا تھا اور اس کا ارادہ رکھتا تھا، جس کو اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے لوح محفوظ میں لکھ دیا تھا۔ مگر یہ متاع دنیا فائدہ دینے والی ہے نہ ہمیشہ رہنے والی ہے۔ پھر آخرت میں اس کے لئے ﴿جَهَنَّمَ يَصْلَاهَا﴾ ’’جہنم ہے جس میں وہ داخل ہوگ‘‘ یعنی اس کے عذاب میں ڈالا جائے گا۔ ﴿مَذْمُومًا مَّدْحُورًا ﴾ ’’مذموم اور راندہ ہو کر۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ اور اس کی مخلوق کی طرف سے مذمت، رسوائی اور فضیحت کی حالت میں ہوگا، وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے بہت دور ہوگا، اس کے لئے رسوائی اور عذاب کو جمع کردیا جائے گا۔ الإسراء
19 ﴿وَمَنْ أَرَادَ الْآخِرَةَ ﴾ ’’جو آخرت چاہتا ہے‘‘ اس پر راضی ہے اور اسے دنیا کے مال و متاع پر ترجیح دیتا ہے۔ ﴿وَسَعَىٰ لَهَا سَعْيَهَا﴾ ’’اور اس کے لیے اتنی کوشش کرتا ہے جتنی اسے لائق ہے۔‘‘ یعنی جس کی طرف تمام کتب سماوی اور آثار نبوت نے دعوت دی ہے اور امکان بھر اس کے لئے جدوجہد کرتا ہے۔ ﴿وَهُوَ مُؤْمِنٌ﴾’’اور وہ مومن بھی ہے۔‘‘ یعنی وہ اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے۔ ﴿فَأُولَـٰئِكَ كَانَ سَعْيُهُم مَّشْكُورًا﴾ ’’پس یہی وہ لوگ ہیں جن کی کوشش مقبول ہے۔‘‘ الإسراء
20 جو اللہ تعالیٰ کے ہاں نشو نما پا کر جمع ہوتی رہے گی۔ ان کا اجر و ثواب ان کے رب کے پاس ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ دنیا کے حصے سے بھی محروم نہ ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ ہر ایک کو سامان زیست عطا کرتا ہے کیونکہ یہ اس کی عطا اور اس کا فضل و احسان ہے۔ ﴿وَمَا كَانَ عَطَاءُ رَبِّكَ مَحْظُورًا ﴾ ’’اور تیرے تب کی عطاء و بخشش رکی ہوئی نہیں۔‘‘ یعنی اللہ کی عطا کسی کے لئے ممنوع نہیں بلکہ تمام مخلوق اس کے فضل و کرم سے بہرہ ور ہو رہی ہے۔ الإسراء
21 ﴿انظُرْ كَيْفَ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ ۚ﴾ ’’دیکھو، کیسے ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی‘‘ یعنی کیسے ہم نے ان کو دنیا میں رزق کی کشادگی اور کمی، آسانی اور تنگی، علم اور جہالت، عقل اور سفاہت وغیرہ امور میں ایک دوسرے پر فضیلت دی ہے۔ ﴿ وَلَلْآخِرَةُ أَكْبَرُ دَرَجَاتٍ وَأَكْبَرُ تَفْضِيلًا﴾ ’’اور آخرت کے گھر میں تو اور بڑے درجے ہیں اور بڑی فضیلت‘‘ دنیا کی لذتوں اور نعمتوں کو آخرت سے کسی لحاظ سے کوئی نسبت ہی نہیں۔ کتنے ہی لوگ بلند و بالا محلوں، مختلف انواع کی لذتوں، فرحتوں، خوبصورت چیزوں سے حظ اٹھاتے ہوں گے اور دوسری طرف وہ لوگ ہوں گے جن کو جہنم میں جھونک دیا گیا ہوگا، وہاں وہ درد ناک عذاب سے دو چار ہوں گے اور رب رحیم کی سخت ناراضی ان پر نازل ہوگی اور دنیا و آخرت کے لوگوں میں اس قدر تفاوت ہے کہ کسی کے لئے اس کا شمار کرنا ممکن نہیں ہے۔ الإسراء
22 یعنی، یہ اعتقاد نہ رکھ کہ مخلوق میں سے کوئی ہستی کسی قسم کی عبادت کی مستحق ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرا کیونکہ شرک مذمت اور خذ لان کو دعوت دیتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ اس کے فرشتوں اور اس کے رسولوں نے شرک سے روکا ہے اور مشرک کی سخت مذمت کی ہے اور اسے اس شرک کی بنا پر انتہائی مذموم ناموں سے موسوم اور قبیح اوصاف سے موصوف کیا ہے۔ جو اس شرک کا مرتکب ہے، وہ بدترین اوصاف اور قبیح ترین صفات سے متصف ہے۔ وہ جتنا اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق کو ترک کرتا ہے، اس کے مطابق اللہ تعالیٰ اس کے دینی اور دنیاوی معاملات میں اسے اپنے حال پر چھوڑ کر اس سے علیحدہ ہوجاتا ہے۔ پس جو کوئی اس کے سوا کسی اور سے تعلق قائم کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس سے علیحدہ ہوجاتا ہے اور اس کو اسی کے سپرد کردیتا ہے جس کے ساتھ وہ تعلق جوڑتا ہے اور مخلوق میں کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر کسی کو کوئی نفع نہیں پہنچا سکتا۔ جو کوئی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور ہستی کو معبود بنا لیتا ہے وہ مذمت وخذ لان کا مستحق ہے اور جو کوئی اللہ تعالیٰ کو ایک گردانتا ہے، اس کے لئے اپنے دین کو خالص کرتا ہے اور دوسروں کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ سے اپنا تعلق جوڑتا ہے وہ قابل ستائش ہے اور اس کے تمام احوال میں اس کی دست گیری کی جاتی ہے۔ الإسراء
23 اللہ تبارک و تعالیٰ نے شرک سے منع کرنے کے بعد توحید کا حکم دیا ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿وَقَضَىٰ رَبُّكَ ﴾ ’’آپ کے رب نے (دینی) فیصلہ کردیا، اور شرعی حکم دے دیا ہے۔ ﴿ أَلَّا تَعْبُدُوا﴾ ’’کہ تم عبادت نہ کرو۔‘‘ یعنی زمین اور آسمان کے رہنے والوں، زندوں یا مردوں میں سے کسی کی عبادت نہ کرو۔ ﴿ إِلَّا إِيَّاهُ﴾ ’’ مگر صرف اس کی‘‘ کیونکہ وہ واحد اور یکتا، فرد اور بے نیاز ہے۔ جو ہر صفت کمال کا مالک ہے۔ اس کی ہر صفت کامل ترین ہے اور مخلوق میں کوئی ہستی اس کی کسی صفت میں کسی بھی پہلو سے مشابہت نہیں کرسکتی وہ منعم ہے ظاہری اور باطنی نعمتوں سے وہی نوازتا ہے وہی تمام تکالیف کو دور کرتا ہے، وہ خالق، رازق اور تمام امور کی تدبیر کرنے والا ہے۔ وہ ان تمام اوصاف میں منفرد اور یکتا ہے اس کے سوا کوئی دوسری ہستی اوصاف میں سے کسی چیز کی بھی مالک نہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے حق کے بعد والدین کے حقوق کو قائم کرنے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : ﴿وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا﴾ ’’اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو۔‘‘ یعنی قول و فعل، ہر لحاظ سے والدین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ کیونکہ والدین ہی بندے کے وجود میں آنے کا سبب ہیں، وہ اولاد کے لئے محبت رکھتے ہیں، اولاد کے ساتھ اچھا سلوک کرتے ہیں اور اولاد کو قریب رکھتے ہیں، یہ امور ان کے ساتھ نیک سلوک کرنے کے حق کی تاکید اور ان کے ساتھ بھلائی کے وجوب کا تقاضا کرتے ہیں۔ ﴿إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا﴾ ’’اگر پہنچ جائے تیرے سامنے بڑھاپے کو، ان میں سے ایک یا دونوں‘‘ یعنی جب وہ اس عمر کو پہنچ جائیں جس میں ان کے قوی کمزور پڑجاتے ہیں اور وہ نرمی اور حسن سلوک کے معروف طریقے سے محتاج ہوتے ہیں۔ ﴿فَلَا تَقُل لَّهُمَا أُفٍّ﴾ ’’تو تو ان کو ہوں بھی نہ کہہ‘‘ یہ اذیت کا ادنیٰ مرتبہ ہے اس کے ذریعے سے اذیت کی دیگر انواع پر تنبیہ کی ہے۔ معنیٰ یہ ہے کہ ان کو ادنیٰ اذیت بھی نہ پہنچاؤ۔ ﴿وَلَا تَنْهَرْهُمَا ﴾ ’’اور نہ ان کو جھڑکو‘‘ اور نہ ان سے سخت کلامی کرو۔ ﴿وَقُل لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا﴾ ،، اور کہہ ان سے بات ادب کی،، ان کے لئے ایسے الفاظ استعمال کرو جن کو وہ پسند کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ نہایت ادب اور مہربانی سے پیش آؤ۔ انتہائی نرمی اور اچھے پیرائے میں بات کرو جس سے ان کے دل لذت محسوس کریں اور ان کو اطمینان حاصل ہو۔ یہ حسن سلوک احوال و عادات اور زمانے کے اختلاف کے مطابق مختلف ہوتا ہے۔ الإسراء
24 ﴿وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ﴾ ’’اور جھکا دے ان کے آگے کندھے عاجزی کے، نیاز مندی سے‘‘ یعنی ان کے سامنے تواضع، انکساری اور شفقت کا اظہار کرتے ہوئے جھک کر رہو۔ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ سے اجر کی امید پر ہو نہ کہ ان سے ڈر کی بنا پر یا ان کے مال وغیرہ کے لالچ کی وجہ سے یا اس قسم کے دیگر مقاصد کی بنا پر جن پر بندے کو اجر نہیں ملتا۔ ﴿وَقُل رَّبِّ ارْحَمْهُمَا﴾ ’’اور کہہ، اے رب ان پر رحم فرما‘‘ یعنی ان کی زندگی میں اور ان کے وفات پا جانے کے بعد ان کے لئے رحمت کی دعا کرو۔ انہوں نے بچپن میں تمہاری جو تربیت کی ہے یہ اس کا بدلہ ہے۔ اس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ تربیت جتنی زیادہ ہوگی والدین کا حق بھی اتنا ہی زیادہ ہوجائے گا۔ اسی طرح والدین کے سوا کوئی شخص دینی اور دنیاوی امور میں کسی کی نیک تربیت کرتا ہے تو تربیت کرنے والے شخص کا اس شخص پر حق ہے جس کی اس نے تربیت کی ہے۔ الإسراء
25 یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ تمہارے اچھے اور برے چھپے ہوئے بھیدوں کو جانتا ہے۔ وہ تمہارے اعمال اور ابدان کو نہیں دیکھتا بلکہ وہ تمہارے دلوں اور ان کے اندر چھپے ہوئے خیر و شر پر نظر رکھتا ہے۔ ﴿إِن تَكُونُوا صَالِحِينَ﴾ ’’اگر تم نیک ہو گے‘‘ یعنی اگر تمہارے ارادے اور مقاصد اللہ تعالیٰ کی رضا کے دائرے میں اور تمہاری رغبت صرف انہی امور پر مرتکز رہے جو اللہ کے تقرب کا ذریعہ ہیں اور تمہارے دلوں میں غیر اللہ کے ارادے براجمان نہ ہوں۔ ﴿فَإِنَّهُ كَانَ لِلْأَوَّابِينَ ﴾ ’’تو وہ رجوع کرنے والوں کو۔‘‘ یعنی وہ ہر وقت اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے والوں کے لئے ﴿غَفُورًا ﴾ ’’بخشنے والا ہے۔‘‘ پس اللہ تعالیٰ جس کے دل میں جھانکتا ہے اور وہ جان لیتا ہے کہ اس دل میں، اللہ تعالیٰ کی طرف انابت، اس کی محبت اور ان امور کی محبت جو قرب الٰہی کا ذریعہ ہیں کے سوا کچھ بھی نہیں، تب اگر اس بندے سے طبائع بشری کے تقاضے کے مطابق کوئی گناہ سر زد ہو بھی جائے تو اللہ تعالیٰ معاف کردیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان عارضی گناہوں کو بخش دیتا ہے، جو مستقل طور پر جز نہیں پکڑتے۔ الإسراء
26 ﴿وَآتِ ذَا الْقُرْبَىٰ حَقَّهُ﴾ ’’اور دے رشتے دار کو اس کا حق ‘‘ یعنی رشتہ دار کو واجب و مسنون حسن سلوک اور اکرام و تکریم میں سے اس کا حق ادا کرو اور یہ حق احوال، زبان و مکان، ضرورت اور عدم ضرورت اور اقارب میں تفاوت کے مطابق متفاوت ہوتا ہے۔ ﴿وَالْمِسْكِينَ﴾ ’’اور مسکین کو‘‘ یعنی زکوٰۃ وغیرہ میں سے مسکین کو اس کا حق ادا کرو تاکہ اس کی مسکینی دور ہوجائے۔ ﴿وَابْنَ السَّبِيلِ﴾ ’’اور مسافر کو‘‘ اس سے مراد وہ غریب الوطن شخص ہے۔ جو اپنے شہر سے دور پھنس کر رہ گیا ہو۔ ﴿ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيرًا﴾ ’’اور بے جامت اڑا‘‘ پس مال اس طریقے سے عطا کیا جائے کہ عطا کرنے والے کو نقصان پہنچے نہ اس مقدار سے زائد ہو جو دی جانی چاہیے ورنہ یہ اسراف و تبذیر کے زمرے میں آئے گا اور اس سے اللہ تعالیٰ نے منع کیا ہے اور بتلایا ہے کہ الإسراء
27 ﴿إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ﴾ ’’بے جا خرچ کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں‘‘ کیونکہ شیطان ہمیشہ ہر قسم کی مذموم خصلت ہی کی طرف دعوت دیتا ہے، وہ انسان کو بخل اور مال روک رکھنے کی طرف دعوت دیتا ہے اگر انسان اس کی بات نہ مانے تو وہ اسے اسراف اور تبذیر کی راہ پر لے آتا ہے اور اللہ تعالیٰ معتدل اور مبنی برعدل رویے کا حکم دیتا ہے اور اس کی مدح کرتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کے بارے میں فرماتا ہے : ﴿ وَالَّذِينَ إِذَا أَنفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوا وَلَمْ يَقْتُرُوا وَكَانَ بَيْنَ ذَٰلِكَ قَوَامًا﴾ (الفرقان : 25؍67) ’’رحمن کے بندے وہ ہیں جو خرچ کرتے ہیں تو فضول خرچ کرتے ہیں نہ بخل سے کام لیتے ہیں بلکہ ان دونوں کے درمیان اعتدال کی راہ اختیار کرتے ہیں۔‘‘ الإسراء
28 پس فرمایا : ﴿وَإِمَّا تُعْرِضَنَّ عَنْهُمُ ابْتِغَاءَ رَحْمَةٍ مِّن رَّبِّكَ تَرْجُوهَا ﴾ ’’اگر تو اعراض کرے ان سے اپنے رب کی مہربانی کے انتظار میں جس کی تجھ کو امید ہے‘‘ یعنی اگر تم ان کو عطا نہیں کرتے اور تم اس کو کسی ایسے وقت کے لئے اٹھا رکھتے ہو جب اللہ تمہیں خوشحالی عطا کرے۔ ﴿فَقُل لَّهُمْ قَوْلًا مَّيْسُورًا﴾ ’’تو کہہ ان کو نرم بات‘‘ یعنی ان سے نرم لہجے میں بات کرو اور اچھا وعدہ کہ جب بھی گنجائش ہوئی تو ان کو عطا کیا جائے گا اور اس وقت عطا کرنا ممکن نہ ہونے پر ان سے معذرت کرے تاکہ جب وہ تمہارے پاس سے واپس جائیں تو ان کے دل مطمئن ہوں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ قَوْلٌ مَّعْرُوفٌ وَمَغْفِرَةٌ خَيْرٌ مِّن صَدَقَةٍ يَتْبَعُهَا أَذًى﴾ (البقرۃ : 2؍263) ’’صدقہ دینے کے بعد ایذا پہنچانے سے تو یہ بہتر ہے کہ نرم بات کہہ دی جائے اور کسی ناگوار بات پر چشم پوشی کی جائے۔‘‘ یہ بھی اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر لطف و کرم ہے کہ اس نے ان کو رحمت اور رزق کا انتظار کرنے کا حکم دیا ہے کیونکہ یہ انتظار عبادت ہے۔ اسی طرح ضرورت مندوں کے ساتھ گنجائش اور فراخدستی کے وقت عطا کرنے کا وعدہ کرنا بھی عبادت ہے کیونکہ نیک کام کا ارادہ بھی نیکی ہے۔ اس لئے انسان کو چاہیے کہ مقدور بھر نیکی کرتا رہے اور جس نیک کام پر اسے قدرت نہیں اسے کرنے کی نیت رکھے تاکہ اسے ثواب ملتا رہے اور شاید اللہ تعالیٰ اس کی امید کے سبب سے اس کے لئے آسانی پیدا کر دے۔ الإسراء
29 اور یہاں فرمایا : ﴿وَلَا تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُولَةً إِلَىٰ عُنُقِكَ ﴾ ’’اور نہ رکھ اپنا ہاتھ بندھا ہوا اپنی گردن کے ساتھ‘‘ یہ بخل اور خرچ نہ کرنے کے لئے کنایہ ہے۔ ﴿ وَلَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ﴾’’اور نہ کھول اسے بالکل کھول دینا‘‘ ایسا نہ ہو کہ تم ان معاملات میں خرچ کرنے لگو جہاں خرچ کرنا مناسب نہیں یا جتنا خرچ کرنا ہو اس سے زیادہ خرچ کرنے لگو۔ ﴿فَتَقْعُدَ﴾ ’’پس تو بیٹھ رہے گا‘‘ اگر تو نے یہ کام کیا ﴿مَلُومًا﴾ ’’الزام کھایا ہوا‘‘ یعنی اپنے کئے پر ملامت زدہ ہو کر ﴿مَّحْسُورًا ﴾ ’’ہارا ہوا‘‘ یعنی تم خالی ہاتھ ہو کر رہ جاؤ گے، تمہارے ہاتھ میں مال باقی بچے گا نہ اس کے پیچھے مدح و ثناء۔۔۔ اور رشتہ دروں کو عطا کرنے کا یہ حکم صرف قدرت اور غنا کی صورت میں ہے۔ رہی تنگدستی اور اخراجات میں عدم گنجائش، تو اس صورت میں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ ان کو نہایت اچھے طریقے سے جواب دیا جائے۔ الإسراء
30 پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ إِنَّ رَبَّكَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن يَشَاءُ﴾ ’’بے شک آپ کا رب جس کے لئے چاہتا ہے روزی کشادہ کردیتا ہے‘‘ ﴿وَيَقْدِرُ﴾ اور جس کے لئے چاہتا ہے رزق تنگ کردیتا ہے۔ یہ اس کی حکمت کا تقاضا ہے۔ ﴿إِنَّهُ كَانَ بِعِبَادِهِ خَبِيرًا بَصِيرًا﴾ ’’وہ اپنے بندوں کو خوب جاننے والا دیکھنے والا ہے۔‘‘ پس جو اس کے علم کے مطابق ان کے لئے درست ہے، اس پر انہیں جزا دے گا اور اپنے لطف و کرم سے ان کی تدبیر کرے گا۔ الإسراء
31 یہ اللہ تعالیٰ کی اپنے بندے پر بے پایاں رحمت ہے۔ وہ اپنے بندوں پر ان کے ماں باپ سے بھی زیادہ مہربانی ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے والدین کو بھوک اور فقر کے خوف سے اپنی اولاد کو قتل کرنے سے منع کیا اور سب کی کفالت کا ذمہ لیا ہے اور آگاہ فرمایا ہے کہ اولاد کو قتل کرنا، بہت بڑی خطا اور کبیرہ گناہوں میں سب سے بڑا گناہ ہے اور اس کا سبب دل کا شفقت سے خالی ہونا اور بچوں کے قتل کی جسارت ہے جن سے کوئی گناہ اور معصیت سر زد نہیں ہوئی۔ الإسراء
32 زنا کے قریب جانے کی ممانعت، زنا کے مجرد فعل کی ممانعت سے زیادہ بلیغ ہے، اس لیے زنا کے قریب جانے کی ممانعت، زنا کے تمام مقدمات اور اس کے اسباب کو شامل ہے کیونکہ اگر کوئی بادشاہ کی مخصوص چراگاہ کے آس پاس پھرتا ہے تو ہوسکتا ہے وہ چراگاہ میں جاداخل ہو۔ خاص طور پر جب کہ بات یہ ہے کہ اکثر نفوس کے اندر زنا کا قوی ترین داعیہ ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے زنا کی برائیاں بیان کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ كَانَ فَاحِشَةً﴾ ’’وہ بے حیائی‘‘ یعنی زنا عقل، شریعت اور فطرت انسانی کے نزدیک بہت بڑی برائی ہے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ، عورت، اس کے گھر والوں اور اس کے شوہر کے حق میں ہتک حرمت، شوہر کے بستر کو خراب کرنے اور انساب وغیرہ کے اختلاط اور دیگر مفاسد کو متضمن ہے۔ ﴿وَسَاءَ سَبِيلًا﴾ ’’اور بری راہ ہے‘‘ یعنی جو کوئی اس گناہ عظیم کے ارتکاب کی جرات کرتا ہے اس کا یہ راستہ بہت ہی برا راستہ ہے۔ الإسراء
33 اس آیت کریمہ کا حکم ہر اس جان کو شامل ہے جس کے قتل کو ﴿حَرَّمَ اللّٰـهُ ﴾ ’’اللہ نے حرام ٹھہرایا ہے‘‘ وہ خواہ چھوٹا ہو یا بڑا، مرد ہو یا عورت، آزاد ہو یا غلام اور مسلم ہو یا کافر معاہد ﴿إِلَّا بِالْحَقِّ﴾ ’’سوائے اس (قتل)کے جو برحق ہو‘‘ مثلاً مقتول کے قصاص میں قاتل کو قتل کرنا، شادی شدہ زانی کو قتل کرنا، مسلمانوں کی جماعت سے علیحدہ ہونے والے مرتد کو قتل کرنا اور باغی کو بغاو ت کی حالت میں قتل کرنا جبکہ اس کو قتل کئے بغیر بغاوت پر قابو نہ پایا جاسکتا ہو۔ ﴿وَمَن قُتِلَ مَظْلُومًا ﴾ ’’ اور جو شخص ظلم سے قتل کیا جائے‘‘ یعنی جسے ناحق قتل کیا گیا ہو۔ ﴿ فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِيِّهِ﴾’’تو کی ہم نے اس کے ولی کے لئے‘‘ یہاں’’ولی‘‘ سے مراد وہ شخص ہے جو مقتول کے ورثاء اور عصبہ میں سے اس کے سب سے زیادہ قریب ہو۔ ﴿سُلْطَانًا﴾ ’’دلیل‘‘ یعنی ہم نے مقتول کے ولی کے لئے قاتل سے قصاص لینے کی ظاہری دلیل فراہم کردی، نیز اسے قدرتی طور پر بھی قاتل پر اختیار عطا کردیا ہے مگر یہ اس وقت ہے جب قصاص کی موجب تمام شرائط یکجاء ہوں، مثلاً ارادہ اور تعدی کے ساتھ قتل کرنا اور مقتول اور قاتل میں برابری وغیرہ۔ ﴿فَلَا يُسْرِف فِّي الْقَتْلِ﴾ ’’پس وہ قتل (کے قصاص)میں زیادتی نہ کرے۔‘‘ یعنی ولی قاتل کے قتل میں اسراف سے کام نہ لے۔ یہاں ’’اسراف‘‘ سے مراد یہ ہے کہ مقتول کا ولی قاتل کو قتل کرنے میں حد سے تجاوز کرے۔ (اس اسراف کی تین صورتیں ہیں۔) (1) ولی قاتل کا مثلہ کرے۔(یعنی اسے ایذا دے دے کر مارے، ناک کاٹے، کان کاٹے، وغیرہ وغیرہ) (2) ولی قاتل کو کسی ایسی چیز کے ذریعے سے قتل کرے جس کے ذریعے سے مقتول کو قتل نہ کیا گیا ہو۔ (3) قاتل کو چھوڑ کر کسی اور کو قتل کردیا جائے۔ اس آیت کریمہ میں دلیل ہے کہ صرف ولی کو قصاص لینے کا حق ہے اور ولی کی اجازت کے بغیر قصاص نہیں لیا جاسکتا۔ اگر ولی قاتل کو معاف کر دے تو قصاص ساقط ہوجاتا ہے، نیز اس میں اس امر کی بھی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ قاتل اور اس کے مددگاروں کے مقابلے میں مقتول کے ولی کی مدد کرتا ہے۔ الإسراء
34 یہ اللہ تعالیٰ کا اس یتیم پر اپنی رحمت اور لطف کرم کا اظہار ہے۔ جس کا باپ اس کی چھوٹی عمر میں فوت ہوجائے اور وہ ابھی اپنے مفادات کی معرفت رکھتا ہو نہ ان کا انتظام کرسکتا ہو۔ اللہ تعالیٰ نے یتیم کے سر پرستوں کو حکم دیا ہے کہ وہ یتیم اور اس کے مال کی حفاظت کریں اور اس کے مال کی اصلاح کریں اور یہ کہ اس کے قریب بھی نہ جائیں ﴿إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ﴾ ’’مگر ایسے طریقے سے جو بہتر ‘‘یعنی تم اس کے مال کی تجارت میں لگاؤ، اس کو اتلاف کے خطرے میں نہ ڈالو اور اس میں اضافے اور نشوونما کی خواہش رکھو اور یہ صورت حال اس وقت تک رہے یہاں تک کہ ﴿يَبْلُغَ أَشُدَّهُ﴾ ’’وہ (یتیم) جوانی کو پہنچ جائے۔‘‘ یعنی بلوغت اور عقل و رشد کی عمر کو پہنچ جائے۔ پس جب وہ بالغ و عاقل ہوجائے تو اس سے سرپرستی زائل ہوجائے گی اور وہ اپنے معاملات کا خود سرپرست بن جائے گا اور اس کا مال اس کے حوالے کردیا جائے گا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿فَإِنْ آنَسْتُم مِّنْهُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوا إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ﴾ (النساء : 4؍6) ’’پس اگر تم ان میں عقل کی پختگی پاؤ تو ان کے مال ان کے حوالے کر دو۔‘‘ ﴿ وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ﴾ ’’اور عہد کو پورا کرو‘‘ جو تم نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ باندھا ہے، نیز اس عہد کو پورا کرو جو تم نے مخلوق کے ساتھ کیا ہے۔ ﴿ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولًا ﴾ ’’عہد کے بارے میں ضرور باز پرس ہوگی۔‘‘ یعنی ایفائے عہد کے بارے میں تم سے سوال کیا جائے گا اگر تم نے عہد پورا کیا تو تمہارے لئے بہت بڑا ثواب ہے اور اگر تم نے عہد کو پورا نہ کیا تو تم پر بہت بڑا گناہ ہے۔ الإسراء
35 اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے عدل اور ناپ تول کو بغیر کسی کمی کے انصاف کے ساتھ پورا کرنے کا حکم دیا ہے۔ آیت کے عمومی معنی سے دھوکہ دہی، اندازے سے قیمت لگانے، کسی چیز کی قیمت طے ہونے کے بعد کسی دوسرے شخص کی طرف سے قیمت لگانے کی ممانعت اور معاملات میں خیر خواہی اور صداقت مستنبط ہوتی ہے۔ ﴿ ذَٰلِكَ خَيْرٌ﴾ ’’یہ بہتر ہے‘‘ اس کے نہ ہونے سے ﴿وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا﴾ ’’اور اس کا انجام اچھا ہے‘‘ یعنی یہ عدل انجام کے اعتبار سے بہتر ہے، بندہ تاوان اور نقصان سے محفوظ رہتا ہے اور عدل و انصاف اور ناپ تول پورا کرنے سے برکت نازل ہوتی ہے۔ الإسراء
36 یعنی اس چیز کے پیچھے نہ لگو جس کا تمہیں علم نہیں بلکہ تم جو کچھ کہتے یا کرتے ہو، اس کے بارے میں پوری تحقیق کرلیا کرو اور یہ خیال نہ کرو کہ تمہارا قول و فعل یوں ہی ختم ہوجائے گا، تمہیں اس کا کوئی فائدہ یا نقصان نہیں ہوگا۔ ﴿ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَـٰئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولً﴾ ’’بے شک کان، آنکھ اور دل ان سب کی اس سے پوچھ ہوگی‘‘ پس جو بندہ یہ جانتا ہے کہ اس سے اس کے قول و فعل کے بارے میں پوچھا جائے گا اور اس بارے میں اسے جواب دہی کرنی ہوگی کہ اس نے اپنے ان اعضاء کو کہاں کہاں استعمال کیا جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے۔۔۔ اس پر لازم ہے کہ وہ اس سوال کا جواب تیار کرلے۔ ان امور کا جواب اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ اس نے ان اعضاء کو اللہ تعالیٰ کی عبودیت میں استعمال نہ کیا ہو، دین کو اللہ تعالیٰ کے لئے خالص نہ کیا ہو اور ان باتوں سے باز نہ رہا ہو جن کو اللہ تعالیٰ ناپسند کرتا ہے۔ الإسراء
37 ﴿ وَلَا تَمْشِ فِي الْأَرْضِ مَرَحًا﴾ ’’اور زمین میں اتراتا ہوا مت چل‘‘ یعنی تکبر، غرور، اتراہٹ، حق کے سامنے استکبار اور تکبر کے ساتھ مخلوق سے اپنے آپ کو بڑا سمجھتے ہوئے زمین پر مت چلو۔ ﴿إِنَّكَ لَن تَخْرِقَ الْأَرْضَ وَلَن تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُولًا﴾ ’’بے شک تو پھاڑ نہ ڈالے گا زمین کو اور نہ پہنچے گا پہاڑوں کو لمبا ہو کر‘‘ بلکہ اس کے برعکس تو اللہ تعالیٰ کے سامنے بہت حقیر ہوگا اور مخلوق کے نزدیک بہت ذلیل، ناپسندیدہ اور مذموم ہوگا۔ بلا شبہ جن چیزوں کا تو نے قصد کیا ہے ان میں بغیر سوچے سمجھے تو نے بدترین اور ذیل ترین اخلاق کا اکتساب کیا ہے۔ الإسراء
38 ﴿كُلُّ ذَٰلِكَ﴾ مذکورہ تمام امور جن سے اللہ تعالیٰ نے روکا ہے جن کا ذکر گزشتہ سطور میں اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿وَلَا تَجْعَلْ مَعَ اللّٰـهِ إِلَـٰهًا آخَرَ ﴾ میں گزر چکا ہے، نیز والدین کی نافرمانی وغیرہ۔ ﴿كَانَ سَيِّئُهُ عِندَ رَبِّكَ مَكْرُوهًا﴾ ’’اس کی برائی آپ کے رب کے نزدیک ناپسندیدہ ہے‘‘ یعنی ان میں سے ہر برائی کا ارتکاب کرنے والوں کے ساتھ یہ برائی براسلوک کرے گی اور ان کو نقصان پہنچائے گی اور اللہ تعالیٰ اس برائی کو ناپسند کرتا اور اس کا انکار کرتا ہے۔ الإسراء
39 ﴿ذَٰلِكَ ﴾ ’’یہ ہے‘‘ یعنی یہ احکام جلیلہ جن کو ہم نے واضح کر کے بیان کردیا ہے۔ ﴿مِمَّا أَوْحَىٰ إِلَيْكَ رَبُّكَ مِنَ الْحِكْمَةِ ۗ﴾ ’’ان باتوں میں سے ہیں جو وحی بھیجی آپ کے رب نے آپ کی طرف حکمت کے کاموں سے‘‘ اور حکمت محاسن اعمال، مکارم اخلاق کے حکم اور اخلاق رذیلہ اور اعمال قبیحہ سے ممانعت کا نام ہے اور یہ اعمال جو ان آیات کریمہ میں مذکور ہیں، حکمت عالیہ سے تعلق رکھتے ہیں جس کو رب کائنات نے، افضل ترین کتاب، قرآن کریم میں سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف وحی کیا تاکہ آپ بہترین امت کو اس پر عمل کرنے کا حکم دیں اور جسے یہ حکمت عطا کردی گئی اسے خیر کثیر عطا کردی گئی۔ پھر آیت کریمہ کو غیر اللہ کی عبادت کی ممانعت پر ختم کیا جیسا کہ غیر اللہ کی عبادت کی ممانعت سے اس کی ابتداء کی تھی۔ فرمایا : ﴿وَلَا تَجْعَلْ مَعَ اللّٰـهِ إِلَـٰهًا آخَرَ فَتُلْقَىٰ فِي جَهَنَّمَ ﴾ ’’اور نہ ٹھہرا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود، پھر پڑے گا تو جہنم میں‘‘ یعنی ابدالا آباد تک جہنم میں رہے گا۔ کیونکہ جو کوئی اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرتا ہے اللہ تعالیٰ نے اس پر جنت کو حرام کردیا ہے اور اس کا ٹھکانا جہنم ہے۔ ﴿مَلُومًا مَّدْحُورًا ﴾ ’’ملامت زدہ دھتکارا ہوا‘‘ یعنی تیرے لئے ملامت اور لعنت ہوگی اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتوں اور تمام لوگوں کی طرف سے۔ الإسراء
40 یہ اس شخص پر نہایت شدت سے نکیر ہے جس کا نظریہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں سے بعض ہستیوں کو اپنی بیٹیاں بنا لیا ہے بنا بریں فرمایا : ﴿ أَفَأَصْفَاكُمْ رَبُّكُم بِالْبَنِينَ﴾ ’’کیا تمہارے رب نے تم کو لڑکے دیے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے چن کر تمہارے لئے کامل ترین حصہ مقرر کردیا اور خود فرشتوں کو اپنی بیٹیاں بنا لیا۔۔۔ کیونکہ مشرکین کا یہ خیال تھا کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں۔ ﴿ إِنَّكُمْ لَتَقُولُونَ قَوْلًا عَظِيمًا﴾ ’’بے شک تم کہتے ہو بھاری بات۔‘‘ تمہارا یہ قول اللہ تعالیٰ کی جناب میں بہت بڑی جسارت ہے کیونکہ تم نے اللہ تعالیٰ کی طرف اولاد منسوب کردی۔ تمہارا قول اس بات کو متضمن ہے کہ اللہ تعالیٰ محتاج ہے اور اس کی کچھ مخلوق اس سے بے نیاز ہے اور تم نے اللہ تعالیٰ کے حق میں اولاد کی دونوں قسموں میں سے زیادہ ردی قسم کا فیصلہ کیا یعنی تم نے اس کی طرف بیٹیوں کو منسوب کردیا، حالانکہ اس نے تمہیں پیدا کیا اور تمہیں بیٹے عطا کئے۔ پس بہت بلند ہے اللہ تعالیٰ اس بات سے جو یہ ظالم کہتے ہیں۔ الإسراء
41 اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ اس نے قرآن مجید میں اپنے بندوں کے لئے مختلف انواع کے احکام واضح کر کے بیان کئے ہیں اور اپنی دعوت کی حقانیت پر بہت سے دلائل اور براہین بیان کئے ہیں اور انہیں وعظ و نصیحت کی ہے تاکہ وہ نصیحت پکڑیں جس سے انہیں فائدہ ہو اور اسے اپنا لائحہ عمل بنائیں اور جس سے نقصان ہو اسے چھوڑ دیں۔ مگر اکثر لوگ باطل سے محبت اور حق کے خلاف بغض رکھنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی آیات سے بدک کر دور بھاگتے ہیں حتیٰ کہ وہ باطل کے لئے تعصب میں مبتلا ہوگئے۔ انہوں نے آیات الٰہی کو سنا نہ ان کی کوئی پروا کی۔ الإسراء
42 جس موضوع پر اللہ تعالیٰ نے سب سے زیادہ دلائل و براہین بیان کئے، وہ توحید ہے جو تمام اصولوں کی اساس ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا حکم دیا ہے اور اس کی ضد سے روکا ہے اور اس پر بہت سے عقلی اور نقلی دلائل بیان کئے ہیں جو کوئی ان میں سے کسی پر توجہ دیتا ہے تو اس کے قلب میں کوئی شک و شبہ نہیں رہتا۔ ان دلائل میں سے ایک عقلی دلیل یہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے یہاں ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے ﴿قُل﴾ یعنی ان مشرکین سے کہہ دیجئے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ اور بھی معبود بنا لئے ہیں۔ ﴿لَّوْ كَانَ مَعَهُ آلِهَةٌ كَمَا يَقُولُونَ ﴾ ،، اگر اس کے ساتھ کوئی اور معبود ہوتے جیسا کہ یہ کہتے ہیں،، یعنی ان کے زعم اور افترا پردازی کے مطابق ﴿إِذًا لَّابْتَغَوْا إِلَىٰ ذِي الْعَرْشِ سَبِيلًا ﴾ ،، تو نکالتے صاحب عرض کی طرف کوئی راستہ،، یعنی وہ عبادت، انابت، تقرب اور وسیلے کے ذریعے سے ضرور اللہ تعلایٰ کی طرف کوئی راستہ تلاش کرتے۔ پس وہ شخص جو اپنے آپ کو اپنے رب کی عبودیت کا نہایت شدت سے محتاج سمجھتا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کے سوا دوسری ہستیوں کو معبود کیسے قرار دے سکتا ہے؟ کیا یہ سب سے بڑا ظلم اور سب سے بڑی سفاہت نہیں ہے؟ اس معنی کے مطابق یہ آیت کریمہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد جیسی ہے۔ ﴿أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ يَدْعُونَ يَبْتَغُونَ إِلَىٰ رَبِّهِمُ الْوَسِيلَةَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ﴾ )نبی اسرائیل : 17؍57( ،، جن لوگوں کو یہ پکارٹے ہیں وہ تو خود اللہ کے ہاں تقرب کے حصول کا وسیلہ تلاش کرتے ہیں کہ کون اس کے قریب تر ہے۔،، اور اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی مانند ہے۔ ﴿ وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ وَمَا يَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللّٰـهِ فَيَقُولُ أَأَنتُمْ أَضْلَلْتُمْ عِبَادِي هَـٰؤُلَاءِ أَمْ هُمْ ضَلُّوا السَّبِيلَ قَالُوا سُبْحَانَكَ مَا كَانَ يَنبَغِي لَنَا أَن نَّتَّخِذَ مِن دُونِكَ مِنْ أَوْلِيَاءَ﴾ (الفرقان : 25؍17،18) ،، اور جس روز وہ ان لوگوں کو اکٹھا کرے گا اور ان کو بھی جن کی یہ اللہ کو چھوڑ کر پوجا کرتے ہیں، پھر ان سے پوچھے گا کیا تم نے میرے ان بندوں کو گمراہ کیا تھا؟ یا وہ خود گمراہ ہوگئے تھے؟ وہ جواب دیں گے تیری ذات پاک ہے ہمارے لئے یہ مناسب نہ تھا کہ ہم تجھے چھوڑ کر کسی اور کو اپنا مولا بنائیں۔،، اور یہ احتمال بھی ہے کہ اس آیت کے معنی یہ ہوں کہ وہ اللہ تعالیٰ پر غالب آنے کے لئے کوشش کرتے اور کوئی راستہ تلاش کرتے۔ پس یا تو وہ اس پر غالب آجاتے اور جو غالب آجاتا وہی رب اور الٰہ ہوتا لیکن جیسا کہ انہیں علم ہے اور وہ اقرار کرتے ہیں کہ ان کے خود ساختہ معبود جن کو یہ اللہ کے سوا پکارتے ہیں، مقہور و مجبور اور مغلوب ہیں انہیں کسی چیز کا کوئی اختیار نہیں، ان کا یہ حال ہوتے ہوئے پھر ان کو انہوں نے معبود کیوں بنایا ہے؟ تب اس معنی کے مطابق یہ آیت کریمہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے مشابہ ہے۔ ﴿مَا اتَّخَذَ اللّٰـهُ مِن وَلَدٍ وَمَا كَانَ مَعَهُ مِنْ إِلَـٰهٍ ۚ إِذًا لَّذَهَبَ كُلُّ إِلَـٰهٍ بِمَا خَلَقَ وَلَعَلَا بَعْضُهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ﴾ (المومنون : 23؍91) ،، اللہ نے کوئی بیٹا نہیں بنایا اور نہ اس کے ساتھ کوئی اور معبود ہے اگر ایسا ہوتا تو ہر معبود اپنی اپنی مخلوق لے کر الگ ہوجاتا پھر تمام ایک دوسرے پر غالب آنے کی کوشش کرتے۔۔ الإسراء
43 فرمایا : ﴿سُبْحَانَهُ وَتَعَالَىٰ﴾ ’’وہ پاک اور بلند ہے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ مقدس اور منزہ ہے اس کے اوصاف عالیشان ہیں۔ ﴿عَمَّا يَقُولُونَ﴾ ’’ان سے جو وہ کہتے ہیں‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ ان کے شرک سے اور ان کے اس کا ہمسر بنا لینے سے پاک ہے ﴿عُلُوًّا كَبِيرًا﴾ ’’بہت بلند۔‘‘ پس وہ عالی قدر اور عظیم الشان ہے اور اس کی کبریائی ظاہر ہے اس کی کبریائی برداشت نہیں کرسکتی کہ اس کے ساتھ کوئی اور معبود ہو۔ جو کوئی اس بات کا قائل ہے وہ صاف گمراہ اور بہت بڑا ظالم ہے۔ اس کی عظمت کے سامنے بڑی بڑی مخلوقات نہایت عاجز اور اس کی کبریائی کے سامنے بہت حقیر ہیں۔ ساتوں آسمان اور جو کچھ ان کے اندر موجود ہے اور ساتوں زمینیں اور جو کچھ ان کے اوپر ہے، سب اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہے۔ ﴿وَالْأَرْضُ جَمِيعًا قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَالسَّمَاوَاتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ﴾ (الزمر : 39؍67) ’’قیامت کے روز تمام زمین اس کی مٹھی میں ہوگی اور تمام آسمان اس کے دائیں ہاتھ میں لپٹے ہوئے ہوں گے۔‘‘ الإسراء
44 تمام عالم علوی اور عالم سفلی اپنی ذات کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کا محتاج ہے اور یہ احتیاج کسی وقت بھی ان سے جدا نہیں ہوتی یہ فقرو احتیاج ہر لحاظ سے، تخلیق، رزق اور تدبیر کی احتیاج ہے نیز یہ اضطراری طور پر بھی فقرو احتیاج ہے نیز یہ اضطرای طور پر بھی فقرو احتیاج ہے کہ ان کا کوئی معبود و محبوب ہو جس کا وہ تقرب حاصل کریں اور ہر حال میں اس کی پناہ لیں۔ بنا بریں فرمایا ﴿تُسَبِّحُ لَهُ السَّمَاوَاتُ السَّبْعُ وَالْأَرْضُ وَمَن فِيهِنَّ ۚ وَإِن مِّن شَيْءٍ ﴾ ”اس کی تسبیح بیان کرتے ہیں ساتوں آسمان اور زمین اور جو کوئی ان میں ہے اور نہیں ہے کوئی چیز۔“ یعنی حیوان ناطق، حیوان غیر ناطق، درخت، نباتات، جمادات، زندہ اور مردہ ﴿ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ﴾ ” مگر تسبیح بیان کرتی ہے اس کی خوبیوں کے ساتھ“ اپنی زبان حال اور زبان مقال سے ﴿وَلَـٰكِن لَّا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ ۗ﴾ ” لیکن تم ان کی تسبیح کو نہیں سمجھتے“ یعنی تم باقی تمام مخلوقات کی تسبیح نہیں سمجھتے جن کی زبان تمہاری زبان سے مختلف ہے۔ مگر اللہ علام الغیوب ان سب کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ ﴿إِنَّهُ كَانَ حَلِيمًا غَفُورًا ﴾ ” بے شک وہ بردبار اور بڑا بخشنے والا ہے“ کیونکہ اللہ تعالیٰ اس شخص کو بھی فوراً سزا نہیں دیتا جو اس کے بارے میں ایسی بات کہتا ہے کہ اس کی اس بات سے آسمان پھٹ جائیں اور پہاڑ بھی ریزہ ریزہ ہو کر گر پڑیں۔ مگر اللہ تعالیٰ انہیں مہلت دیتا ہے، انہیں نعمتوں سے نوازتا ہے، ان سے درگزر کرتا ہے، ان کو رزق عطا کرتا ہے اور ان کو اپنے دروازے پر بلاتا ہے تاکہ وہ اس گناہ عظیم سے توبہ کریں اور وہ ان کو ثواب جزیل عطا کرے اور ان کے گناہ بخش دے۔ اگر اس کا حلم اور مغفرت نہ ہوتی تو آسمان زمین پر گر پڑتے اور زمین کی پیٹھ پر ایک جاندار بھی زندہ نہ بچتا۔ الإسراء
45 اللہ تبارک و تعالیٰ حق کی تکذیب کرنے والوں کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے، جنہوں نے حق کو ٹھکرایا اور اس سے روگردانی کی کہ اللہ تعالیٰ ان کے اور ان کے ایمان کے درمیان حائل ہوجاتا ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿  وَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ﴾ ” اور جب آپ قرآن پڑھتے ہیں“ جس کے اندر وعظ و تذکیر، ہدایت و ایمان، بھلائی اور علم کثیر ہے۔ الإسراء
46 ﴿جَعَلْنَا بَيْنَكَ وَبَيْنَ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ حِجَابًا مَّسْتُورًا﴾ ” تو ہم کردیتے ہیں آپ کے اور ان کے درمیان جو آخرت پر یقین نہیں رکھتے، ایک چھپا ہوا پردہ۔“ جو انہیں اس کے حقیقی فہم، اس کے حقائق کے تحقق اور جس بھلائی کی طرف یہ دعوت دیتا ہے اس کی اطاعت سے محجوب (آڑ) کردیتا ہے ﴿وَجَعَلْنَا عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ أَكِنَّةً ﴾ ” اور ہم نے ان کے دلوں پر پردے ڈال دیئے ہیں“ ان کے ہوتے ہوئے یہ اس قرآن کو سمجھنے سے عاری ہیں۔ البتہ یہ اسے اس طرح سنتے ہیں جس سے ان پر حجت قائم ہوجاتی ہے۔ ﴿وَفِي آذَانِهِمْ وَقْرًا﴾ ”اور ان کے کانوں میں بوجھ ہے“ یعنی ان کے کان قرآن سننے سے بہرے ہیں۔ ﴿وَإِذَا ذَكَرْتَ رَبَّكَ فِي الْقُرْآنِ وَحْدَهُ﴾” اور جب آپ ذکر کرتے ہیں اپنے رب کا قران میں کہ وہ اکیلا ہے“ یعنی توحید کی طرف دعوت دیتے ہوئے اور شرک سے روکتے ہوئے ﴿وَلَّوْا عَلَىٰ أَدْبَارِهِمْ نُفُورًا﴾ ” تو بھاگ جاتے ہیں اپنی پیٹھ پر بدک کر“ قرآن سے نہایت سخت بغض رکھنے اور اپنے باطل موقف سے محبت کی وجہ سے منہ پھیر کر چلے جاتے ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿وَإِذَا ذُكِرَ اللّٰـهُ وَحْدَهُ اشْمَأَزَّتْ قُلُوبُ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ ۖ وَإِذَا ذُكِرَ الَّذِينَ مِن دُونِهِ إِذَا هُمْ يَسْتَبْشِرُونَ ﴾ (الزمر : 39؍45)” جب تنہا اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو وہ لوگ جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ان کے دل کراہٹ کی وجہ سے منقبض ہوجاتے ہیں اور جب اللہ کے سوا خود ساختہ خداؤں کا ذکر کیا جاتا ہے تو خوشی سے کھل جاتے ہیں۔ “ الإسراء
47 ﴿نَّحْنُ أَعْلَمُ بِمَا يَسْتَمِعُونَ بِهِ﴾ ”ہم خوب جانتے ہیں جس واسطے یہ سنتے ہیں“ یعنی ہم نے ان کو قرآن کے استماع کے وقت اس سے فائدہ اٹھانے سے روک دیا ہے کیونکہ ہم ان کے برے ارادوں کا علم رکھتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ کوئی چھوٹی سی بات ہی ہاتھ آئے تاکہ اس کے ذریعے سے اس میں عیب جوئی کریں۔ ان کا قرآن سننا طلب ہدایت اور قبول حق کے لیے نہیں ہے بلکہ اس کے برعکس وہ تو اس کی عدم اطاعت کا تہیہ کئے ہوئے ہیں اور جن کا یہ حال ہو تو استماع قرآن ان کو کوئی فائدہ نہیں دیتا، اس لیے فرمایا : ﴿إِذْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ وَإِذْ هُمْ نَجْوَىٰ﴾ ” جب وہ کان لگاتے ہیں آپ کی طرف اور جب وہ مشاورت کرتے ہیں“ یعنی جب وہ ایک دوسرے کے ساتھ سرگوشی کرتے ہیں۔ ﴿إِذْ يَقُولُ الظَّالِمُونَ﴾ ” جب کہ ظالم کہتے ہیں“ اپنی سرگوشیوں میں : ﴿ إِن تَتَّبِعُونَ إِلَّا رَجُلًا مَّسْحُورًا ﴾ ” جس کی تم پیروی کرتے ہو، وہ تو ایک سحر زدہ آدمی ہے۔“ پس جب ان کی باہمی سرگوشی اس طرح کی بے انصافی پر مبنی ہوتی تھی جس کی بنیاد اس امر پر تھی کہ یہ شخص جادو زدہ ہے تو اس لیے وہ اس کے قول کا اعتبار نہیں کرتے اور سمجھتے تھے کہ یہ شخص نا معقول باتیں کرتا ہے اور اسے خود بھی معلوم نہیں کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔ الإسراء
48 ﴿ انظُرْ ﴾ یعنی تعجب کے ساتھ ان کے طرف دیکھیے۔ ﴿ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثَالَ﴾ ” کیسے بیان کرتے ہیں وہ آپ کے لیے مثالیں“ جو کہ گمراہ ترین اور حق و ثواب سے سب سے زیادہ ہٹی ہوئی مثالیں ہیں ﴿فَضَلُّوا ﴾ ” پس وہ گمراہ ہوگئے۔“ یعنی اس بارے میں وہ گمراہ ہوگئے یا یہ ضرب الامثال ان کی گمراہی کا سبب بن گئیں کیونکہ انہوں نے اپنے معاملات کی بنیاد ان مثالوں پر رکھی اور کسی فاسد چیز پر رکھی ہوئی بنیاد اس سے زیادہ فاسد ہوتی ہے۔ ﴿فَلَا يَسْتَطِيعُونَ سَبِيلًا﴾” پس وہ راہ نہیں پا سکتے“ یعنی انہیں کسی طور بھی راستہ نہیں مل سکتا، اس لیے ان کے نصیب میں محض گمراہی اور صرف ظلم ہے۔ الإسراء
49 اللہ تبارک و تعالیٰ، زندگی بعد موت کا انکار کرنے والوں، اس کو جھٹلانے والوں اور اس کو بعید سمجھنے والوں کا یہ قول نقل کرتا ہے۔ ﴿أَإِذَا كُنَّا عِظَامًا وَرُفَاتًا﴾ ” کیا جب ہم ہوجائیں گے ہڈیاں اور چورا چورا“ یعنی جب ہم بوسیدہ ہوجائیں گے ﴿أَإِنَّا لَمَبْعُوثُونَ خَلْقًا جَدِيدًا﴾ ” کیا پھر ہم اٹھیں گے نئے بن کر ؟“ یعنی ایسا نہیں ہوسکتا ان کے زعم کے مطابق یہ بہت محال ہے۔ پس انہوں نے اللہ تعالیٰ کے رسول کی تکذیب کر کے اور اس کی آیات کو جھٹلا کر سخت جہالت کا ثبوت دیا ہے، خالق کائنات کی قدرت کو اپنی کمزور اور عاجز قدرت پر قیاس کیا ہے۔ جب انہوں نے دیکھا کہ ایسا کرنا ان کے بس میں نہیں اور وہ اس پر قدرت نہیں رکھتے تو انہوں نے اللہ تعالیٰ کی قدرت کو بھی اسی پر قیاس کرلیا۔ پس پاک ہے وہ ذات جس نے اپنی مخلوق میں سے کچھ لوگوں کو جہالت کی مثال بنایا ہے۔۔۔ اور وہ سمجھتے ہیں کہ وہ بہت عقلمند ہیں، حالانکہ ان کی جہالت سب سے واضح، سب سے نمایاں، دلائل و براہین کے اعتبار سے سب سے روشن اور سب سے بلند ہے۔۔۔ تاکہ وہ اپنے بندوں کو دکھائے کہ یہاں سوائے اس کی توفیق اور اعانت یا ہلاکت اور ضلالت کے کچھ بھی نہیں۔ ﴿  رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِن لَّدُنكَ رَحْمَةً ۚ إِنَّكَ أَنتَ الْوَهَّابُ ﴾ (آل عمران : 3؍8)” اے ہمارے رب ! ہمیں ہدایت بخش دینے کے بعد ہمارے دلوں کو کجی میں مبتلا نہ کر ہمیں اپنی رحمت سے نواز، بے شک تو بہت نوازنے والا ہے۔ “ الإسراء
50 بنا بریں اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم دیا کہ وہ زندگی بعد موت کو بعید سمجھنے والوں سے کہہ دیں ﴿كُونُوا حِجَارَةً أَوْ حَدِيدًا أَوْ خَلْقًا مِّمَّا يَكْبُرُ فِي صُدُورِكُمْ ۚ﴾ ” تم ہوجاؤ پتھر یا لوہا یا کوئی ایسی مخلوق جس کو تم مشکل سمجھواپنے جی میں“ تاکہ تم اس طرح اپنے زعم کے مطابق اس بات سے محفوظ ہوجاؤ کہ تم قدرت الہٰی کی گرفت میں آؤ یا اس کی مشیت تمہاری بابت نافذ ہو۔ پس تم کسی بھی حالت میں اور کسی بھی وصف میں منتقل ہو کر اللہ تعالیٰ کو بے بس نہیں کرسکتے اور اس زندگی میں اور موت کے بعد تم اپنے بارے میں کسی تدبیر کا اختیار نہیں رکھتے، اس لیے تدبیر اور تصرف اس ہستی کے لیے چھوڑ دو جو ہر چیز پر قادر اور ہر چیز پر محیط ہے۔ الإسراء
51 ﴿فَسَيَقُولُونَ﴾ ” پس وہ کہیں گے“ یعنی جب آپ زندگی بعد موت کے بارے میں ان پر حجت قائم کرتے ہیں۔ ﴿مَن يُعِيدُنَا ۖ قُلِ الَّذِي فَطَرَكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ ۚ﴾ ” کون لوٹا کر لائے گا ہم کو ؟ کہہ دیجیے ! وہ جس نے تمہیں پہلی مرتبہ پیدا کیا۔“ یعنی جب تم کوئی قابل ذکر چیز نہ تھے اس نے تمہیں پیدا کیا اسی طرح وہ تمہیں نئے سرے سے پیدا کرے گا۔ ﴿كَمَا بَدَأْنَا أَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِيدُهُ﴾ (الانبیاء : 104؍21)” جس طرح ہم نے تخلیق کی ابتدا کی تھی اسی طرح ہم تخلیق کا اعادہ کریں گے۔“ ﴿فَسَيُنْغِضُونَ إِلَيْكَ رُءُوسَهُمْ﴾ ” تو (تعجب سے) تمہارے آگے سر ہلائیں گے۔“ یعنی وہ آپ کی بات پر تعجب اور انکار سے سر ہلاتے ہیں ﴿ وَيَقُولُونَ مَتَىٰ هُوَ﴾ ” اور کہتے ہیں کہ یہ کب ہوگا؟“ یعنی مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے کا وقت کب ہوگا جیسا کہ تم کہتے ہو۔ یہ ان کی طرف سے زندگی بعد موت کا اقرار نہیں، بلکہ یہ ان کی سفاہت اور بزعم خود، دلیل میں بے بس کرنا ہے۔ ﴿قُلْ عَسَىٰ أَن يَكُونَ قَرِيبًا ﴾ ” کہہ دیجیے ! شاید یہ نذدیک ہی ہوگا“ اس لیے اس کے وقت کے تعین کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس کا فائدہ اور اس کا دارومدار تو اس کے اقرار، اس کی تحقیق اور اس کے اثبات میں ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ جس طرح اسے ضرور آنا ہے اس اعتبار سے وہ قریب ہی ہے۔ الإسراء
52 ﴿يَوْمَ يَدْعُوكُمْ ﴾ ” جس دن وہ تم کو پکارے گا“ جب موت کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے کے لیے اللہ تعالیٰ تمہیں پکارے گا اور صور پھونکا جائے گا۔ ﴿ فَتَسْتَجِيبُونَ بِحَمْدِهِ﴾ ” پس تم اس کی خوبی بیان کرتے ہوئے چلے آؤ گے“ یعنی تم اس کے حکم کی تعمیل کرو گے اور اس کی نافرمانی نہیں کرسکو گے اور اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿ بِحَمْدِهِ ﴾ سے مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فعل پر قابل ستائش ہے۔ جب وہ اپنے بندوں کو قیامت کے روز اکٹھا کرے گا تو ان کو جزا دے گا۔ ﴿وَتَظُنُّونَ إِن لَّبِثْتُمْ إِلَّا قَلِيلًا﴾ ” اور تم خیال کرو گے کہ تم ﴿دنیا میں﴾ تھوڑا ہی عرصہ ٹھہرے ہو“ یعنی قیامت کے نہایت سرعت کے ساتھ واقع ہونے کی بنا پر اور جو نعمتیں تمہیں حاصل رہی ہیں۔ گویا کہ یہ سب کچھ واقع ہوا ہی نہیں۔ پس وہ لوگ جو قیامت کا انکار کرتے ہوئے کہتے تھے : ﴿مَتَىٰ هُوَ﴾ ” قیامت کا دن کب ہوگا؟“ وہ قیامت کے ورود کے وقت بہت نادم ہوں گے اور ان سے کہا جائے گا : ﴿هَـٰذَا الَّذِي كُنتُم بِهِ تُكَذِّبُونَ ﴾ (المطففین : 83؍17)” یہ وہی دن ہے جسے تم جھٹلایا کرتے تھے۔“ الإسراء
53 یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا اپنے بندوں پر لطف و کرم ہے کہ اس نے انہیں بہتر اخلاق، اعمال اور اقوال کا حکم دیا ہے جو دنیا و آخرت کی سعادت کے موجب ہیں چنانچہ فرمایا : ﴿وَقُل لِّعِبَادِي يَقُولُوا الَّتِي هِيَ أَحْسَنُ ۚ﴾ ” کہہ دو میرے بندوں سے، بات وہی کہیں جو اچھی ہو۔“ یہ ہر اس کلام کے بارے میں حکم ہے جو اللہ تعالیٰ کے تقرب کا ذریعہ ہے مثلاً قراءت قرآن، ذکر الہٰی، حصول علم، امر بالمعروف، نہی عن المنکر اور لوگوں کے ساتھ ان کے حسب مراتب اور حسب منزلت شیریں کلامی وغیرہ۔ اگر دو اچھے امور درپیش ہوں اور ان دونوں میں جمع و تطبیق ممکن نہ ہو تو ان میں جو بہتر ہو اس کو ترجیح دی جائے اور اچھی بات ہمیشہ خلق جمیل اور عمل صالح کو دعوت دیتی ہے، اس لیے جسے اپنی زبان پر اختیار ہے اس کے تمام معاملات اس کے اختیار میں ہیں۔ ﴿إِنَّ الشَّيْطَانَ يَنزَغُ بَيْنَهُمْ ﴾ ” بے شک شیطان ان کے درمیان جھڑپ کرواتا ہے“ یعنی شیطان بندوں کے دین و دنیا کو خراب کر کے ان کے درمیان فساد پھیلانا چاہتا ہے اور اس فساد کی دوا یہ ہے کہ وہ بری باتوں میں شیطان کی پیروی نہ کریں جن کی طرف شیطان دعوت دیتا رہتا ہے اور آپس میں نرم رویہ اختیار کریں تاکہ شیطان کی ریشہ دوانیوں کا قلع قمع ہو جو ان کے درمیان فساد کا بیج بوتا رہتا ہے، اس لیے کہ شیطان ان کا حقیقی دشمن ہے اور ان پر لازم ہے کہ وہ شیطان کے خلاف مصروف جنگ رہیں۔ اس لیے کہ وہ تو انہیں دعوت دیتا رہتا ہے ﴿ لِيَكُونُوا مِنْ أَصْحَابِ السَّعِيرِ﴾ (فاطر :35؍6)” تاکہ وہ جہنم والے بن جائیں۔“ اگرچہ شیطان ان کے درمیان فساد اور عداوت ڈالنے کی بھر پور کوشش کرتا ہے لیکن اس بارے میں کامل حزم و احتیاط یہ ہے کہ اپنے دشمن شیطان کی مخالفت کی جائے، نفس امارہ کا قلع قمع کیا جائے جس کے راستے سے شیطان داخل ہوتا ہے، اس طرح وہ اپنے رب کی اطاعت کرسکیں گے، ان کا معاملہ درست رہے گا اور راہ ہدایت پالیں گے۔ الإسراء
54 ﴿رَّبُّكُمْ أَعْلَمُ بِكُمْ﴾ ” تمہارا رب تمہارے بارے میں تم سے زیادہ جانتا ہے“ اس لیے تمہارے لیے وہی چاہتا ہے جس میں تمہاری بھلائی ہے اور تمہیں صرف اسی چیز کا حکم دیتا ہے جس میں تمہاری کوئی مصلحت ہے بسا اوقات تم ایک چیز کا ارادہ کرتے ہو مگر بھلائی اس کے برعکس کسی اور چیز میں ہوتی ہے۔ ﴿إِن يَشَأْ يَرْحَمْكُمْ أَوْ إِن يَشَأْ يُعَذِّبْكُمْ ﴾ ” اگر وہ چاہے، تو تم پر رحم کرے اور اگر چاہے تو تمہیں عذاب دے۔“ پس جسے چاہتا ہے اسباب رحمت کی توفیق عطا کردیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے اس کو اس کے حال پر چھوڑ کر اس سے الگ ہوجاتا ہے۔ پس وہ اسباب رحمت سے محروم ہو کر عذاب کا مستحق بن جاتا ہے۔ ﴿وَمَا أَرْسَلْنَاكَ عَلَيْهِمْ وَكِيلًا ﴾ ” اور ہم نے آپ کو ان پر ذمے دار بنا کر نہیں بھیجا“ کہ آپ ان کے معاملات کی تدبیر کریں اور ان کو جزا دیں۔ وکیل اور کارساز تو صرف اللہ ہے اور آپ تو صرف صراط مستقیم کی طرف راہنمائی کرنے والے ہیں۔ الإسراء
55 ﴿وَرَبُّكَ أَعْلَمُ بِمَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ﴾ ” اور آپ کا رب خوب جانتا ہے ان کو جو آسمانوں اور زمین میں ہیں“ یعنی وہ تمام مخلوق کو جانتا ہے۔ پس ان میں سے جو کوئی جس چیز کا مستحق ہے اور اس کی حکمت جس کا تقاضا کرتی ہے اسے وہی عطا کرتا ہے اور وہ تمام حسی اور معنوی خصائل میں ان کو ایک دوسرے پر فضیلت عطا کرتا ہے۔ جیسے اس نے بعض انبیاء علیہم السلام کو وحی میں ان کے اشتراک کے باوجود بعض فضائل اور خصائص میں، جو محض اللہ تعالیٰ کا احسان ہے، بعض پر فضیلت دی ہے، مثلاً اوصاف ممدوحہ، اخلاق جمیلہ، اعمال صالحہ، کثرت متبعین اور ان میں سے بعض پر کتابوں کا نزول جو عقائد اور احکام شریعت پر مشتمل ہیں، جیسا کہ داؤد علیہ السلام پر زبور نازل فرمائی جو کہ ایک معروف آسمانی کتاب ہے۔ پس جب اللہ تعالیٰ نے انبیائے گرام علیہم السلام کو ایک دوسرے پر فضیلت عطا کی ہے اور ان میں سے بعض کو کتاب شریعت عطا کی، تو پھر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تکذیب کرنے والے کفار اس کتاب اور نبوت کا کیوں انکار کرتے ہیں جو آپ پر نازل کی گئی اور اس فضیلت کا کیوں انکار کرتے ہیں جو آپ کو عطا کی گئی۔ الإسراء
56 ﴿قُلِ﴾ ” کہہ دیجیے۔“ یعنی مشرکین سے ان کے اعتقاد کی صحت پر دلیل طلب کرتے ہوئے کہہ دیجیے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے سوا معبود بنا رکھے ہیں، جن کی یہ اسی طرح عبادت کرتے ہیں جس طرح اللہ تعالیٰ کی عبادت کی جاتی ہے، جن کو یہ اسی طرح پکارتے ہیں جس طرح اللہ تعالیٰ کو پکارتے ہیں۔۔۔ کہ اگر وہ سچے ہیں تو ﴿ادْعُوا الَّذِينَ زَعَمْتُم﴾ ” پکارو تم ان کو جن کو تم گمان کرتے ہو“ یعنی جن کے بارے میں تم اس زعم میں مبتلا ہو کہ وہ معبود ہیں ﴿مِّن دُونِهِ ﴾ ” اللہ کو چھوڑ کر“ پس غور کرو کہ آیا وہ تمہیں کوئی نفع دے سکتے ہیں یا تمہیں کسی نقصان سے بچا سکتے ہیں ۔ ﴿فَلَا يَمْلِكُونَ كَشْفَ الضُّرِّ عَنكُمْ﴾ ” سو وہ نہیں اختیار رکھتے تم سے تکلیف دور کرنے کا“ یعنی یہ خود ساختہ معبود، فقر اور سختی وغیرہ کو بالکل دور نہیں کرسکتے۔ ﴿  وَلَا تَحْوِيلًا﴾ ” اور نہ بدلنے کا“ اور نہ یہ باطل معبود کسی سختی کو کسی ایک شخص سے دوسرے شخص کی طرف منتقل ہی کرسکتے ہیں۔ پس جب ان باطل معبودوں کے یہ اوصاف ہیں تو تم اللہ کے سوا انہیں کس لیے پکارتے ہو؟ یہ کسی کمال کے مالک ہیں نہ افعال نافعہ کے۔ تب ان بے بس اور بے اختیار ہستیوں کے معبود بنانا عقل و دین کی کمی اور رائے کی سفاہت ہے۔ تعجب کی بات تو یہ ہے کہ جب انسان سفاہت میں پڑے رہنے کی وجہ سے اس کا عادی ہوجاتا ہے اور اس کو اپنے گمراہ آباء واجداد سے اخذ کرتا ہے تو اسی سفاہت کو انتہائی درست رائے اور عقل مندی سمجھنے لگتا ہے اور اس کے برعکس اللہ واحد کے لیے۔۔۔ جو تمام ظاہری اور باطنی نعمتیں عطا کرنے والا ہے۔۔۔۔ اخلاص کو سفاہت خیال کرتا ہے۔ یہ کتنا تعجب خیز معاملہ ہے، جیسا کہ مشرکین کا قول ہے : ﴿أَجَعَلَ الْآلِهَةَ إِلَـٰهًا وَاحِدًا ۖ إِنَّ هَـٰذَا لَشَيْءٌ عُجَابٌ﴾(ص :38؍5) کیا اس نے بہت سے معبودوں کو ایک معبود بنا دیا ہے یہ تو بڑی عجیب بات ہے۔ “ الإسراء
57 پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ مشرکین اللہ کے سوا جن لوگوں کی عبادت کرتے ہیں وہ ان سے بے خبر ہیں، وہ خود اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ مشرکین اللہ کے سوا جن لوگوں کی عبادت کرتے ہیں وہ ان سے بے خبر ہیں، وہ خود اللہ تعالیٰ کے محتاج ہیں اور اس کی طرف وسیلہ کے متلاشی ہیں۔ فرمایا : ﴿أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ يَدْعُونَ ﴾ ” وہ لوگ جن کو یہ پکارتے ہیں“ یعنی انبیاء و صالحین اور فرشتے ﴿يَبْتَغُونَ إِلَىٰ رَبِّهِمُ الْوَسِيلَةَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ﴾ ” وہ ڈھونڈھتے ہیں اپنے رب کی طرف وسیلہ کہ کون زیادہ نزدیک ہے“ یعنی اپنے رب کے قرب کے حصول کے لیے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں اور مقدور بھر ایسے اعمال میں اپنی پوری کوشش صرف کرتے ہیں جو ان کو اللہ تعالیٰ کے قریب کرنے والے ہیں ﴿ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخَافُونَ عَذَابَهُ﴾ ” اور اس کی رحمت کی امید رکھتے اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں۔“ پس وہ ہر اس کام سے اجتناب کرتے ہیں جو عذاب کا موجب ہے۔ ﴿ إِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ كَانَ مَحْذُورًا﴾ ” آپ کے رب کا عذاب ڈرنے کے لائق ہے“ اس لیے ضروری ہے کہ ان تمام اسباب سے بچا جائے جو اللہ تعالیٰ کے عذاب کے موجب ہیں۔ خوف، امید اور محبت، یہ تین امور جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے ان مقربین کا وصف قرار دیا ہے، ہر بھلائی کی اساس ہیں۔ جس نے ان تینوں امور کی تکمیل کرلی، اس کے تمام امور مکمل ہوگئے اور اگر قلب ان امور سے خالی ہے تو وہ تمام بھلائیوں سے محروم ہوجائے گا اور برائیاں اس کو گھیر لیں گی اور اللہ تعالیٰ نے محبت الہٰی کی علامت یہ بتائی ہے کہ بندہ ہر اس کام میں جدو جہد کرتا ہے جو قرب الہٰی کا ذریعہ ہے اور اپنے تمام اعمال میں اللہ تعالیٰ کے لیے اخلاص، خیر خواہی اور حتی المقدوران کو بہترین طریقے سے اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کر کے اس کے قرب کے حصول کے لیے سبقت لے جانے کی کوشش کرتا ہے۔ ان تمام امور کے بغیر اگر کوئی اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت کرنے کا دعویٰ کرتا ہے تو وہ جھوٹا ہے۔ الإسراء
58 یعنی اللہ تعالیٰ کے رسولوں کے جھٹلانے والی کوئی بستی ایسی نہیں جسے روز قیامت سے پہلے ہلاکت یا عذاب کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اسے اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ میں لکھ دیا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ اور اس کی مقرر کردہ تقدیر ہے جس کا وقوع لازمی ہے، لہٰذا اس سے قبل کہ عذاب کا حکم آجائے اور ان پر اللہ تعالیٰ کی بات پوری ہوجائے تکذیب کرنے والوں کو چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کر کے اس کے رسولوں کی تصدیق کریں۔ الإسراء
59 اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ اس کی رحمت ہے کہ اس نے اہل تکذیب کے مطالبے کے مطابق معجزات نازل نہیں فرمائے اور اللہ تعالیٰ نے صرف اس وجہ سے معجزات ارسال نہیں فرمائے کہ وہ ان کو جھٹلا دیں گے اور جب یہ ان معجزات کو جھٹلا دیں گے تو ان پر بغیر کسی تاخیر کے فوراً عذاب نازل ہوجائے گا، جیسا کہ پہلے لوگوں کے ساتھ کیا گیا تھا جنہوں نے معجزات کی تکذیب کی اور سب سے بڑا معجزہ جو اللہ تبارک و تعالیٰ نے ثمود کی طرف ارسال کیا وہ عظیم اونٹنی تھی کہ جس کے پاسی پینے کے دن تام قبیلے کو پانی نہ ملتا تھا مگر اس کے باوجود انہوں نے اس کی تکذیب کی اور اس کی پاداش میں ان پر وہ عذاب ٹوٹ پڑا جس کا اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے اپنی کتاب میں ذکر فرمایا ہے۔ اسی طرح اگر ان کے پاس بڑے بڑے معجزات آتے، تب بھی یہ ایمان نہ لاتے۔ اس لیے کہ ان کے ایمان نہ لانے کی وجہ یہ نہیں کہ وہ چیز ان سے اوجھل اور ان پر مشتبہ ہوگئی جو رسول لے کر آیا تھا کہ آیا یہ حق ہے یا باطل کیونکہ رسول تو ان کے پاس بے شمار دلائل و براہین لے کر آیا ہے جو اس کی دعوت کی حقانیت پر دلالت کرتے ہیں۔ یہ دعوت اس شخص کی ہدایت کی موجب ہے جو ہدایت کا طلب گار ہے ان کے سوا دیگر معجزات و وبراہین بھی انہیں دلائل کی مانند ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیش کرچکے ہیں انہیوں نے جو سلوک ان کے ساتھ کیا تھا ان کے ساتھ بھی یہی سلوک کریں گے اور ان کی حالت یہ ہو تو معجزات کا نازل نہ کرنا ان کے لیے بہتر اور فائدہ مند ہے۔ ﴿ وَمَا نُرْسِلُ بِالْآيَاتِ إِلَّا تَخْوِيفًا﴾ ” اور انہیں بھیجتے ہم نشانیاں مگر ڈرانے کے لیے“ یعنی ان آیات کا یہ مقصد نہ تھا کہ یہ ایمان کی موجب اور اس کی طرف دعوت دیتی تھیں اور ایمان کا حصول ان کے بغیر ممکن نہ تھا بلکہ ان آیات کا مقصد صرف تخویف و ترہیب تھا تاکہ وہ اپنے کرتوتوں سے باز آجائیں۔ الإسراء
60 ﴿وَإِذْ قُلْنَا لَكَ إِنَّ رَبَّكَ أَحَاطَ بِالنَّاسِ﴾ ” اور جب ہم نے آپ سے کہا کہ آپ کے رب نے لوگوں کو گھیر لیا ہے“ یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے علم و قدرت سے لوگوں کو گھیر رکھا ہے۔ پس ان کے لیے کوئی ٹھکانا نہیں جہاں یہ چھپ سکیں اور کوئی پناہ گاہ نہیں جہاں اللہ سے بھاگ کر پناہ لے سکیں اور یہ چیز عقل مند کے لیے ان امور سے باز رہنے کے لیے کافی ہے جو اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہیں جس نے تمام لوگوں کا احاطہ کر رکھا ہے۔ ﴿وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْيَا الَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلَّا فِتْنَةً لِّلنَّاسِ﴾ ” اور نہیں کیا ہم نے وہ خواب جو آپ کو دکھایا مگر لوگوں کی آزمائش کے لیے۔“ اکثر مفسرین کی رائے ہے کہ اس سے مراد شب معراج ہے۔ ﴿وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُونَةَ فِي الْقُرْآنِ﴾ ” اور (ایسے ہی) وہ درخت جس پر قرآن میں پھٹکار ہے“ جس کا ذکر قرآن مجید میں کیا گیا ہے اور اس سے مراد زقوم (تھوہر) کا پودا ہے جو جہنم کی تہہ سےا گتا ہے۔۔۔ معنی یہ ہے کہ یہ دونوں امور لوگوں کے لیے آزمائش بن گئے یہاں تک کہ کفار اپنے کفر پر جم گئے اور ان کا شر اور زیادہ ہوگیا۔ جب آپ نے ان کو بعض امور کے بارے میں آگاہ فرمایا جن کا آپ نے معراج کی رات مشاہدہ فرمایا تھا اور آپ نے خبر دی تھی کہ ” مجھے راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے جایا گیا“ جو ایک خارق عادت واقعہ تھا تو بعض کمزور ایمان والے اپنے ایمان سے پھر گئے۔ زقوم کے پودے کے بارے میں خبر دینا، جو جہنم کی تہہ سے اگتا ہے، یہ بھی ایک خارق عادت معاملہ ہے جو ان کے لیے تکذیب کا موجب بنا۔ پس اگر وہ اللہ تعالیٰ کی بڑی بڑی نشانیاں اور بڑے بڑے خارق عادت واقعات کا مشاہدہ کرلیتے تو ان کا کیا حال ہوتا؟ اور اس کے سبب سے ان کے شر میں اضافہ نہ ہوجاتا؟ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے ان پر رحم کرتے ہوئے ان خوارق کو ان سے ہٹا دیا۔ یہ جن سے آپ کو معلوم ہوجاتا ہے کہ بڑے بڑے امور کا قرآن و سنت میں صراحت کے ساتھ مذکور نہ ہونا زیادہ بہتر اور اولیٰ ہے کیونکہ وہ امور جن کی نظیر کا لوگوں نے مشاہدہ نہ کیا ہو بسا اوقات ان کی عقل ان کو قبول نہیں کر پاتی اور یوں یہ چیز بعض اہل ایمان کے دلوں میں شکوک و شبہات کا باعث بنتی ہے اور ایسا مانع رکاوٹ بن جاتی ہے جو لوگوں کو اسلام میں داخل ہونے سے روکتی ہے اور ان کو اسلام سے متنفر کرتی ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے عام الفاظ استعمال کئے ہیں جو تمام امور کو شامل ہیں۔ ﴿وَنُخَوِّفُهُمْ فَمَا يَزِيدُهُمْ إِلَّا طُغْيَانًا كَبِيرًا ﴾’’اور ہم ان کو ڈراتے ہیں (نشانیوں کے ساتھ) تو وہ ان کو بڑی شرارتوں میں زیادہ ہی کرتی ہیں۔‘‘ تخویف ان کی سرکشی کو اور زیادہ بڑھا دیتی ہے اور شر کی محبت اور خیر سے بغض رکھنے اور خیر کی عدم پیروی کے بارے میں بلیغ ترین پیرایہ ہے۔ الإسراء
61 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں کو شیطان کی سخت عداوت اور اس کی بندوں کو گمراہ کرنے کی بے پناہ حرص کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے، نیز اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ جب اس نے آدم علیہ السلام کو تخلیق کیا، تو شیطان نے تکبر کا اظہار کرتے ہوئے سجدہ کرنے سے انکار کردیا۔ ﴿ قَالَ﴾ اور نہایت تکبر سے کہا: ﴿ أَأَسْجُدُ لِمَنْ خَلَقْتَ طِينًا ﴾ ” کیا میں اس کو سجدہ کروں جس کو تو نے مٹی کا بنایا“ یعنی جس کو تو نے گارے سے پیدا کیا اور بزعم خود وہ آدم سے بہتر ہے کیونکہ اسے آگ سے پیدا کیا گیا ہے۔ گزشتہ صفحات میں متعدد پہلوؤں سے اس قیاس باطل کی خرابی بیان کی جا چکی ہے۔ الإسراء
62 جب ابلیس پر واضح ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو فضیلت بخشی ہے ﴿ قَالَ﴾ تو اللہ تبارک و تعالیٰ سے مخاطب ہو کر کہنے لگا : ﴿أَرَأَيْتَكَ هَـٰذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ لَئِنْ أَخَّرْتَنِ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ لَأَحْتَنِكَنَّ ذُرِّيَّتَهُ﴾ ” بھلا یہ شخص جس کو تو نے مجھ پر فضیلت دی ہے، اگر تو مجھے قیامت تک ڈھیل دے دے تو میں اس کی اولاد کو اپنے بس میں کرلوں گا“ یعنی میں ضلالٹ کے ذریعے سے ضرور ان کو تباہ کروں گا اور ضرور ان کو سیدھے راستے سے بھٹکاؤں گا۔ ﴿ إِلَّا قَلِيلًا﴾ ” سوائے تھوڑے لوگوں کے“ اس خبیث کو اچھی طرح معلوم تھا کہ بنی آدم میں سے کچھ لوگ ضرور ایسے ہوں گے جو اس سے عداوت رکھیں گے اور اس کی بات نہیں مانیں گے۔ الإسراء
63 اللہ تعالیٰ نے اس سے فرمایا : ﴿اذْهَبْ فَمَن تَبِعَكَ مِنْهُمْ﴾ ” جا، ان میں سے جس نے تیری پیروی کی“ اور اپنے رب اور اپنے حقیقی سر پرست کو چھوڑ کر تجھے چن لیا۔ ﴿ فَإِنَّ جَهَنَّمَ جَزَاؤُكُمْ جَزَاءً مَّوْفُورًا﴾ ” پس تم سب کی سزا جہنم ہے، سزا پوری“ یعنی تمہارے لیے تمہارے اعمال کی پوری پوری جزا جمع کردی گئی ہے۔ الإسراء
64 پھر اللہ تعالیٰ شیطان کو حکم دیا کہ وہ اس کے بندوں کو گمراہ کرنے کے لیے پورا زور لگالے، چنانچہ فرمایا : ﴿وَاسْتَفْزِزْ مَنِ اسْتَطَعْتَ مِنْهُم بِصَوْتِكَ﴾ ” اور بہکالے ان میں سے جس کو تو بہکا سکے اپنی آواز سے۔“ اس میں ہر وہ شخص داخل ہے جو معصیت کی طرف دعوت دیتا ہے۔ ﴿وَأَجْلِبْ عَلَيْهِم بِخَيْلِكَ وَرَجِلِكَ﴾ ” اور لے آ ان پر اپنے سوار اور پیادے۔“ ہر وہ شخص جو اللہ تعالیٰ کی معصیت میں سوار ہو کر یا پیدل بھاگ دوڑ کرتا ہے، شیطان کے سواروں اور پیادوں میں داخل ہے۔ مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو اس کھلے دشمن کے ذریعے سے آزمائش میں ڈالا ہے جو اپنے قول و فعل کے ذریعے سے ان کو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی طرف دعوت دیتا ہے ﴿وَشَارِكْهُمْ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ﴾ ” اور ساجھا کر ان سے مالوں میں اور اولاد میں۔“ اس میں ہر وہ معصیت شامل ہے جو ان کے مال اور اولاد سے متعلق ہے، مثلاً زکوٰۃ کفارات، حقوق واجبہ ادا نہ کرنا، اولاد کی بھلائی اختیار کرنے اور شرکو ترک کرنے کی تربیت نہ کرنا، ناحق مال لینا یا مال کو ناحق خرچ کرنا اور روز گار میں حرام ذریعے اختیار کرنا، وغیرہ بلکہ بہت سے مفسرین ذکر کرتے ہیں کہ کھانا کھاتے، پانی پیتے اور جمع کرتے وقت بسم اللہ سے ابتدا نہ کرنا، مال اور اولاد میں شیطان کو شریک کرنے میں داخل ہے کیونکہ حدیث میں وارد ہے کہ ان مذکورہ کاموں میں بسم اللہ نہ پڑھی جائے تو اس میں شیطان شریک ہوجاتا ہے۔ [صحيح بخاري، الأطعمة، باب التسمية..... الخ، حديث: 5376] ﴿وَعِدْهُمْ﴾ یعنی ان کے ساتھ سجا سجا کر جھوٹے وعدے کر جن کی کوئی حقیقت نہیں، بنا بریں فرمایا : ﴿وَمَا يَعِدُهُمُ الشَّيْطَانُ إِلَّا غُرُورًا ﴾ ” شیطان ان سے جو وعدہ کرتا ہے، وہ فریب ہوتا ہے“ یعنی شیطان ان کے ساتھ جو وعدہ کرتا ہے وہ محض جھوٹا اور انتہائی بودا ہوتا ہے، جیسے وہ ان کے سامنے معاصی اور عقائد فاسدہ کو سجا کر پیش کرتا ہے اور ان پر اجر کا وعدہ کرتا ہے، کیونکہ وہ اپنے آپ کو حق پر سمجھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿الشَّيْطَانُ يَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَيَأْمُرُكُم بِالْفَحْشَاءِ ۖ وَاللّٰـهُ يَعِدُكُم مَّغْفِرَةً مِّنْهُ وَفَضْلًا ﴾ (البقرہ 2؍268) ” شیطان تمہیں تنگدستی سے ڈراتا ہے اور تمہیں فحش کام کا حکم دیتا ہے اور اللہ تمہیں اپنی طرف سے بخشش اور فضل عطا کرنے کا وعدہ کرتا ہے۔ “ یہ خبر دینے کے بعد کہ شیطان بندوں کے ساتھ کیا کرنا چاہتا ہے اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا کہ وہ کون سی چیز ہے جس کے ذریعے سے اس کے فتنے سے بچا جاسکتا ہے اور وہ ہے اللہ تعالیٰ کی عبودیت، ایمان پر قائم رہنا اور اللہ تعالیٰ پر توکل۔ الإسراء
65 چنانچہ فرمایا : ﴿إِنَّ عِبَادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطَانٌ﴾ ” بے شک میرے بندوں پر تجھے غلبہ نہیں ہوگا“ یعنی تجھے ان پر کوئی تسلط ہوگا نہ تو ان کو بھٹکا سکے گا، بلکہ اللہ تعالیٰ ان کے قیام عبودیت کی بنا پر ان سے ہر قسم کے شرکو دور ہٹا دے گا، شیطان مردود سے ان کی حفاظت کرے گا اور ان کے لیے کافی ہوجائے گا۔ ﴿وَكَفَىٰ بِرَبِّكَ وَكِيلًا﴾ ” اور آپ کا رب کافی ہے بطور کار ساز“ یعنی جو کوئی اس پر بھروسہ کرتا ہے اور اس کے حکم کی تعمیل کرتا ہے تو آپ کا رب اس کا کار ساز ہے اور اس کے لیے کافی ہے۔ الإسراء
66 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں پر اپنی نعمت کا ذکر فرماتا ہے کہ اس نے ان کے لیے کشتیوں، سفینوں اور دیگر سواریوں کو مسخر کردیا اور ان کو الہام کے ذریعے سے کشتی سازی کی صنعت و دیعت کی، موجیں مارتا ہوا سمندر ان کے لیے مسخر کردیا جس کی پیٹھ پر یہ سفینے تیرتے پھرتے ہیں تاکہ بندے اس پر سوار ہوں اور اپنے مال و متاع کی نقل و حمل میں اس سے فائدہ اٹھائیں اور یہ اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں پر بے پایاں رحمت ہے وہ ہمیشہ سے ان پر بہت مہربان اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔ وہ انہیں ہر وہ چیز عنایت کرتا ہے جس کا وہ ارادہ کرتے ہیں اور جس کے ساتھ ان کے مفادات وابستہ ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رحمت ہی ہے جو یہ دلالت کرتی ہے کہ باطل معبودوں کی بجائے صرف اللہ تعالیٰ ہی معبود ہے۔ جب سمندر میں انہیں کوئی تکلیف پہنچتی ہے اور نیچے بلند ہوتی ہوئی موجوں کی وجہ سے جب وہ ہلاکت سے ڈرتے ہیں تو وہ ان تمام زندہ اور مردہ معبودوں کو بھول جاتے ہیں جنہیں وہ اپنی خوش حالی میں اللہ کو چھوڑ کر پکارا کرتے تھے۔۔۔۔ اس وقت تو ایسے لگتا ہے جیسے انہوں نے کسی وقت بھی ان کمزور معبودوں کو نہیں پکارا جو کسی قسم کی تکلیف دور کرنے سے عاجز ہیں اور وہ کائنات کو پیدا کرنے والے کو پکارتے ہیں جس کو تمام مخلوق اپنی سختیوں میں مدد کے لیے پکارتی ہے اور وہ اس حال میں صرف اللہ تعالیٰ ہی کو پکارتے اور اسی کے سامنے گڑگڑاتے ہیں۔ الإسراء
67 پس جب اللہ تعالیٰ ان کی مصیبت دور کردیتا ہے اور انہیں صحیح سلامت کنارے پر لگا کر سمندر کی ہلاکت سے نجات دے دیتا ہے تو وہ سب کچھ بھول جاتے ہیں جو انہوں نے اللہ کو پکارا تھا۔ پھر وہ ان ہستیوں کو اللہ تعالیٰ کا شریک بنا دیتے ہیں جو کوئی نفع دے سکتی ہیں نہ نقصان، جو کسی کو عطا کرسکتی ہیں نہ کسی کو محروم کرسکتی ہیں اور اپنے رب اور مالک سے منہ موڑ لیتے ہیں۔ یہ انسان کی جہالت اور نا سپاسی ہے۔ بے شک انسان اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا سخت ناسپاس ہے، سوائے اس شخص کے جسے اللہ تعالیٰ راہ راست دکھا دے۔ پس اسے عقل سلیم سے نواز دیتا ہے اور وہ راہ راست پر گامزن ہوجاتا ہے، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جو مصیبتیں دور کرتا ہے، اہوال سے نجات دیتا ہے وہی اس بات کا مستحق ہے کہ سختی اور نرمی میں، خوشحالی اور تنگدستی میں تمام اعمال کو صرف اسی کے لیے خالص کیا جائے۔ رہا وہ شخص جس کو اللہ تعالیٰ اس کی کمزور عقل کے حوالے کر دے تو وہ مصیبت اور سختی کے وقت صرف موجودہ اور عارضی مصلحت کو ملحوظ اور اس حال میں اپنی نجات کو مد نظر رکھتا ہے اور جب اسے اس مصیبت سے نجات حاصل ہوتی ہے اور اس سے سختی دور ہوجاتی ہے تو وہ اپنی حالت کی وجہ سے سمجھ بیٹھتا ہے کہ اس نے اللہ تعالیٰ کو بے بس کردیا اور اس کے دل میں آخرت کا خیال تو کجا اسے اپنے دنیاوی انجام کے بارے میں بھی کبھی خیال نہیں آتا۔ الإسراء
68 اسی لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ کہہ کر یاد دہانی کروائی ہے۔ ﴿أَفَأَمِنتُمْ أَن يَخْسِفَ بِكُمْ جَانِبَ الْبَرِّ أَوْ يُرْسِلَ عَلَيْكُمْ حَاصِبًا﴾ ” کیا تم ( اس سے) بے خوف ہو کہ اللہ تمہیں خشکی کی طرف ( لے جا کر زمین میں) دھنسا دے یا تم پر سنگریزوں کی بھری ہوئی آندھی چلا دے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے اگر وہ چاہے تو تمہیں عذاب کے طور پر زمین میں دھنسا دے یا تم پر پتھر برسانے والی طوفانی ہوا بھیج دے اور یہ وہ عذاب ہے جو ان کو پہنچے گا اور وہ سب ہلاک ہوجائیں اس لیے یہ نہ سوچو کہ سمندر کے سوا کہیں اور عذاب نہیں آسکتا۔ الإسراء
69 اور اگر تم یہی سمجھتے ہو تو کیا تم اس بات سے محفوظ ہو کہ ﴿أَن يُعِيدَكُمْ فِيهِ تَارَةً أُخْرَىٰ فَيُرْسِلَ عَلَيْكُمْ قَاصِفًا مِّنَ الرِّيحِ﴾ ”وہ تمہیں پھر سمندر میں لے جائے دوسری مرتبہ، پھر بھیجے وہ تم پر سخت ہوا کا جھونکا“ یعنی سخت تیز ہوا جو جہاں سے گزرے ہر چیز کو توڑ کر رکھ دے۔ ﴿فَيُغْرِقَكُم بِمَا كَفَرْتُمْ ۙ ثُمَّ لَا تَجِدُوا لَكُمْ عَلَيْنَا بِهِ تَبِيعًا ﴾ ” پس وہ تمہیں تمہاری نا شکری کی وجہ سے غرق کر دے، پھر نہ پاؤ تم اپنی طرف سے ہم پر اس کا کوئی باز پرس کرنے والا“ یعنی کوئی تاوان اور مطالبہ، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ذرہ بھر تم پر ظلم نہیں کیا۔ الإسراء
70 یہ اس کا بے پناہ کرم و احسان ہے جس کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا۔۔۔۔ کہ اس نے بنی آدم کو ہر لحاظ سے عزت و تکریم سے نوازا۔ انہیں علم و عقل عطا کر کے، انبیاء و رسل بھیج کر اور ان پر کتابیں نازل کر کے اکرام بخشا، ان میں سے اپنے اولیاء اور دیگر چنے ہوئے بندے پیدا کیے اور ان کو اپنی ظاہری اور باطنی نعمتوں سے نوازا۔ ﴿وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ﴾ ” اور ہم نے سواری دی ان کو خشکی میں“ یعنی ہم نے انہیں اونٹوں، خچروں، گدھوں اور دیگر زمینی سواریوں پر سوار کرایا۔ ﴿وَالْبَحْرِ ﴾ ” اور دریا میں“ یعنی ہم نے انہیں بحری جہازوں اور کشتیوں پر سوار کرایا۔ ﴿وَرَزَقْنَاهُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ﴾ ” اور ان کو پاکیزہ چیزوں سے روزی دی“ یعنی ہم نے انہیں ماکولات، مشروبات، ملبوسات اور بیویاں عطا کیں، چنانچہ ہر وہ پاک چیز جس کے ساتھ ان کی ضروریت وابستہ ہیں اللہ تعالیٰ نے اس کے ساتھ ان کو مشرف فرمایا اور اس کا حصول ان کے لیے نہایت آسان کردیا۔ ﴿وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَىٰ كَثِيرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًا﴾ ” اور ہم نے بہت سی مخلوق پر ان کو بڑی فضیلت عطا کی“ یعنی ہم نے انہیں بہت سے مناقب کے ذریعے سے خصوصی اعزاز بخشا اور انہیں بہت سے فضائل عطا کیے جو مختلف اقسام کی دیگر مخلوقات کو عطا نہیں کیے۔۔۔۔ پھر وہ اس ہستی کا شکر کیوں نہیں کرتے جس نے نعمتیں عطا کیں، تکالیف دور کیں؟ یہ نعمتیں انہیں اللہ تعالیٰ سے محجوب نہ کریں کہ وہ ان نعمتوں میں مشغول ہو کر اپنے رب کی عبادت سے غافل ہوجائیں بلکہ بسا اوقات انہوں نے ان نعمتوں کو اپنے رب کی نافرمانی میں استعمال کیا۔ الإسراء
71 قیامت کے روز مخلوق کا جو حال ہوگا اللہ تعالیٰ اس کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے کہ وہ تمام لوگوں کو (اپنی عدالت میں) بلائے گا ان کے ساتھ ان کے امام اور رشدو ہدایت کی طرف راہنمائی کرنے والے راہ نما یعنی انبیاء و مرسلین اور ان کے نائبین بھی ہوں گے۔ پس ہر امت اللہ کے حضور پیش ہوگی اور اس امت کو وہی رسول، اللہ کے حضور پیش کرے گا جس نے دنیا میں اسے دعوت توحید پیش کی تھی۔ ان کے اعمال اس کتاب کے سامنے پیش کیے جائیں گے، جسے لے کے رسول اس امت میں مبعوث ہوا تھا کہ آیا ان کے اعمال اس کتاب کے موافق ہیں یا نہیں۔ تب یہ لوگ دو قسم کے گروہوں میں منقسم ہوجائیں گے۔ ﴿فَمَنْ أُوتِيَ كِتَابَهُ بِيَمِينِهِ﴾ ” پس جس کو ملا اس کا اعمال نامہ اس کے دائیں ہاتھ میں“ کیونکہ اس نے صراط مستقیم کی طرف رہنمائی کرنے والے اپنے ہادی و راہنما کی پیروی کی تھی اور اس کی کتاب کو اپنا لائحہ عمل بنایا تھا تب اس کی نیکیاں بڑھ گئیں اور اس کے گناہ کم ہوگئے۔ ﴿فَأُولَـٰئِكَ يَقْرَءُونَ كِتَابَهُمْ ﴾ ” پس وہ ( خوش خوش) اپنے اعمال نامے کو پڑھیں گے“ کیونکہ وہ اس اعمال نامے میں ایسی چیزیں دیکھیں گے جنہیں دیکھ کر انہیں فرحت و سرور حاصل ہوگا۔ ﴿وَلَا يُظْلَمُونَ فَتِيلًا﴾ ” اور ان پر ایک دھاگے برابر ظلم نہیں ہوگا“ یعنی انہوں نے جو نیک عمل کئے ہیں اس بارے میں ان پر ذرہ بھر ظلم نہیں کیا جائے گا۔ الإسراء
72 ﴿وَمَن كَانَ فِي هَـٰذِهِ﴾اور جو رہا اس دنیا میں ﴿أَعْمَىٰ﴾ ” اندھا“ یعنی حق کے دیکھنے سے۔ پس اس نے حق کو قبول کیا نہ اس کی پیروی کی بلکہ وہ گمراہی کے راستے پر چلتا رہا ﴿ فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أَعْمَىٰ﴾ ” تو وہ آخرت میں بھی اندھا ہوگا“ یعنی جس طرح وہ دنیا میں جنت کے راستے پر گامزن نہ ہوا اسی طرح وہ آخرت میں بھی جنت کے راستے کو دیکھ نہ سکے گا ﴿ وَأَضَلُّ سَبِيلًا﴾ ” اور بہت دور پڑا ہوا راستے سے“ کیونکہ عمل کی جزا بھی اسی کی جنس سے ہوتی ہے، یعنی جیسا کرو گے ویسا بھرو گے۔ اس آیت کریمہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ ہر امت کو اس کے دین اور کتاب کی طرف بلایا جائے گا کہ آیا اس نے اس کتاب کے مطابق عمل کیا یا نہیں؟ ان کا کسی ایسے نبی کی شریعت کے مطابق مواخذہ نہیں کیا جائے گا جس کی اتباع کا ان کو حکم نہیں دیا گیا تھا اور اللہ تعالیٰ کسی شخص کو صرف اسی وقت عذاب دیتا ہے جب اس پر حجت قائم کردی گئی ہو اور اس نے اس کی مخالفت کی ہو اور نیک لوگوں کو ان کے اعمال نامے ان کے دائیں ہاتھ میں پکڑائے جائیں گے اور انہیں بہت زیادہ فرحت و سرور حاصل ہوگا اور اس کے برعکس برے لوگوں کو ان کے اعمال نامے بائیں ہاتھ میں دیے جائیں گے اور وہ غم زدہ ہوں گے وہ شدت حزن و غم اور ہلاکت کی وجہ سے اپنے اعمال ناموں کو پڑھنے پر قادر نہ ہوں گے۔ الإسراء
73 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے رسول محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اپنے احسان و نوازش اور آپ کے دشمنوں سے آپ کی حفاظت کا ذکر کرتا ہے جو ہر طریقے سے آپ کو آزمائش میں مبتلا کرنے کی شدید خواہش رکھتے تھے، چنانچہ فرمایا : ﴿وَإِن كَادُوا لَيَفْتِنُونَكَ عَنِ الَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ لِتَفْتَرِيَ عَلَيْنَا غَيْرَهُ ﴾ ” یقیناً قریب تھا کہ وہ آپ کو بہکا دیتے اس وحی سے جو ہم نے آپ کی طرف بھیجی تاکہ آپ جھوٹ بنا لائیں ہم پر وحی کے سوا“ یعنی وہ آپ کے خلاف ایک معاملے میں سازش کرچکے ہیں مگر وہ اس میں کامیاب نہیں ہوسکے انہوں نے آپ کے خلاف چال چلی تھی کہ آپ اس قرآن کے علاوہ، اللہ تعالیٰ پر کوئی اور بہتان گھڑیں جو ان کی خواہشات نفس کے موافق ہو اور آپ اس چیز کو چھوڑ دیں جو اللہ تعالیٰ نے آپ پر نازل فرمائی ہے۔ ﴿ وَإِذًا﴾ ” اور تب“ یعنی اگر آپ وہ کچھ کرتے جو وہ چاہتے ہیں تو ﴿ لَّاتَّخَذُوكَ خَلِيلًا﴾ ” وہ بنا لیتے آپ کو دوست“ یعنی خاص دوست، جو ان کو ان کے دوستوں سے زیادہ عزیز ہوتے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو مکارم اخلاق اور محاسن آداب سے نوازا ہے جو قریب اور بعید، دوست اور دشمن سب کو پسند ہیں۔ مگر آپ کو علم ہونا چاہیے کہ وہ آپ کے ساتھ صرف اس حق کی وجہ سے عداوت رکھتے ہیں جسے آپ لے کر مبعوث ہوئے ہیں ان کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کے ساتھ کوئی عداوت نہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿قَدْ نَعْلَمُ إِنَّهُ لَيَحْزُنُكَ الَّذِي يَقُولُونَ  فَإِنَّهُمْ لَا يُكَذِّبُونَكَ وَلَـٰكِنَّ الظَّالِمِينَ بِآيَاتِ اللّٰـهِ يَجْحَدُونَ﴾ (الانعام : 6؍33)” ہم جانتے ہیں کہ جو لوگ یہ باتیں بناتے ہیں ان سے آپ کو دکھ ہوتا ہے مگر درحقیقت یہ لوگ آپ کو نہیں جھٹلاتے بلکہ یہ ظالم اللہ کی آیات کا انکار کر رہے ہیں۔ “ الإسراء
74 ﴿وَلَوْلَا أَن ثَبَّتْنَاكَ﴾ ” اگر یہ نہ ہوتا کہ ہم نے آپ کو سنبھالے رکھا“ بایں ہمہ اگر ہم نے آپ کو حق پر ثابت قدم نہ رکھا ہوتا اور آپ کو گمراہی کی طرف بلانے والے کی دعوت کو قبول نہ کر کے آپ پر احسان نہ کیا ہوتا ﴿لَقَدْ كِدتَّ تَرْكَنُ إِلَيْهِمْ شَيْئًا قَلِيلًا﴾ ” تو قریب تھا کہ آپ جھک جاتے ان کی طرف تھوڑا سا“ یعنی ان کی ہدایت کی کوشش اور چاہت میں الإسراء
75 ﴿إِذًا﴾ ” تب“ یعنی اگر آپ ان کی خواہشات کی طرف مائل ہوجاتے ﴿لَّأَذَقْنَاكَ ضِعْفَ الْحَيَاةِ وَضِعْفَ الْمَمَاتِ﴾ ” ہم ضرور چکھاتے آپ کو دگنا (عذاب) زندگی میں اور دگنا مرنے میں“ یعنی ہم آپ کو دنیا و آخرت میں کئی گنا عذاب دیتے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو کامل ترین نعمتوں سے نوازا ہے اور آپ کو اللہ تعالیٰ کی کامل معرفت حاصل ہے۔ ﴿ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَكَ عَلَيْنَا نَصِيرًا﴾ ” پھر نہ پاتے آپ اپنے لیے ہم پر مدد کرنے والا“ جو آپ کو نازل ہونے والے عذاب سے بچا سکے۔ اللہ تعالیٰ ہی ہے جس نے آپ کو شر اور تمام اسباب شر سے محفوظ رکھا، آپ کو ثابت قدمی عطا کی اور صراط مستقیم کی طرف آپ کی راہنمائی فرمائی اور آپ کسی طرح بھی مشرکین کی طرف مائل نہ ہوئے۔ پس آپ کو اللہ تعلاٰ نے کامل ترین نعمتوں سے نواز رکھا ہے۔ الإسراء
76 ﴿وَإِن كَادُوا لَيَسْتَفِزُّونَكَ مِنَ الْأَرْضِ لِيُخْرِجُوكَ مِنْهَا﴾ ” اور یقیناً قریب تھا کہ وہ پھسلا دیں آپ کو اس زمین سے تاکہ نکال دیں وہ آپ کو یہاں سے“ یعنی آپ کے ساتھ ان کے درمیان رہنے پر بغض کے سبب سے آپ کو سر زمین مکہ سے نکالنے اور آپ کو جلا وطن کرنے کے لیے سازشیں کرتے رہے ہیں۔ اگر انہوں نے ایسا کیا تو آپ کے بعد بہت تھوڑا عرصہ یہاں ٹھہر سکیں گے یہاں تک کہ ان پر عذاب نازل ہوجائے جیسا کہ سنت الٰہی ہے اور تمام قوموں کے بارے میں سنت الٰہی میں کبھی تغیر و تبدل واقع نہیں ہوتا۔ جس قوم نے اپنے رسول کو جھٹلایا اور اس کو نکال دیا تو اللہ تعالیٰ نے اس دنیا ہی میں اس پر عذاب نازل کردیا۔ جب کفار مکہ نے آپ کے خلاف سازشیں کیں اور آپ کو مکہ مکرمہ سے نکال دیا تو وہ کچھ زیادہ عرصہ مکہ میں نہ رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر میدان بدرمیں عذاب نازل کردیا، ان کے تمام بڑے بڑے اور سر کردہ سردار قتل کردیے گئے اور ان کی کمر توڑ دی گئی۔ فَلَهُ الْحَمْدُ یہ آیات کریمہ دلالت کرتی ہیں کہ بندہ اس بات کا شدید محتاج ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے ثابت قدمی سے نوازے رکھے اور یہ بندہ گڑ گڑا کر اپنے رب سے دعا کرتا رہے کہ وہ اسے ایمان پر ثابت قدمی عطا کرے اور اس مقصد کے حصول کے لیے تمام اسباب اختیار کرنے میں کوشاں رہے۔ نبی مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مخلوق میں سب سے کامل ہستی تھے بایں ہمہ اللہ تعالیٰ نے آپ سے فرمایا : ﴿وَلَوْلَا أَن ثَبَّتْنَاكَ لَقَدْ كِدتَّ تَرْكَنُ إِلَيْهِمْ شَيْئًا قَلِيلًا ﴾ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں جب اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے تو دوسروں کے بارے میں کیا کہا جاسکتا ہے۔ ان آیات کریمہ میں اللہ کی طرف سے اس بات کی یاد دہانی ہے کہ اس نے اپنے رسول پر احسان فرمایا اور اس کو شر سے محفوظ رکھا۔ پس یہ بات دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی طرف سے یہ امر پسند کرتا ہے کہ وہ اسباب شر کے وجود کے وقت اس کی نعمتوں کا ادراک کریں کہ اس نے ان کو شر سے بچایا اور ایمان پر ثبات عطا کیا۔ ان آیات کریمہ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ بندے کے بلند مرتبے کے مطابق اس کو پے درپے نعمتیں عطا ہوتی ہیں۔ اسی طرح جب وہ قابل ملامت فعل سر انجام دیتا ہے تو اس کا گناہ بھی بڑا ہوتا ہے اور اس کا جرم کئی گنا زیادہ ہوجاتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس ارشاد کے ذریعے سے نصیحت فرمائی حالانکہ آپ ہر گناہ سے پاک اور معصوم ہیں۔ ﴿إِذًا لَّأَذَقْنَاكَ ضِعْفَ الْحَيَاةِ وَضِعْفَ الْمَمَاتِ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَكَ عَلَيْنَا نَصِيرًا﴾ اس آیت کریمہ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی قوم کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرلیتا ہے تو اس کے جرائم بڑھ کر کئی گنا ہوجاتے ہیں، ان پر اللہ تعالیٰ کا فیصلہ حق ثابت ہوجاتا ہے، تب اللہ ان پر عذاب واقع کردیتا ہے جیسا کہ قوموں کے بارے میں سنت الٰہی ہے جب وہ اپنے رسول کو اس کے وطن سے نکال دیتی ہیں۔ الإسراء
77 الإسراء
78 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم دیتا ہے کہ وہ نماز کو ظاہری اور باطنی طور پر اس کے اوقات میں مکمل طور پر قائم کریں ﴿لِدُلُوكِ الشَّمْسِ﴾ ” سورج ڈھلنے سے“ یعنی زوال کے بعد سورج کے مغربی افق کی طرف مائل ہوجانے سے لے کر، اس میں ظہر اور عصر کی نمازیں داخل ہیں ﴿إِلَىٰ غَسَقِ اللَّيْلِ﴾ ” رات کے اندھیرے تک“ یعنی رات کی تاریکی میں اور اس میں مغرب اور عشاء کی نمازیں داخل ہیں۔ ﴿وَقُرْآنَ الْفَجْرِ﴾ ” اور فجر کا قرآن پڑھنا“ یعنی فجر کی نماز، اور اسے ” قرآن“ اس لیے کہا گیا ہے کیونکہ اس میں قراءت قرآن کی طوالت مشروع ہے۔ یہ قراءت سے زیادہ لمبی ہوتی ہے نیز فجر کی نماز میں قراءت کی فضیلت ہے کیونکہ اس میں رات اور دن کے فرشتے حاضر ہوتے ہیں۔ اس آیت کریمہ میں فرض نمازوں کے اوقات پنجگانہ کا ذکر ہے ان اوقات میں پڑھی جانے والی نمازیں فرض ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر ان کو قائم کرنے کا حکم دیا ہے آیت کریمہ اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ وقت، صحت نماز کے لیے شرط ہے اور دخول وقت، نماز کے واجب ہونے کا سبب ہے کیونکہ اس نے ان اوقات میں نماز کو قائم کرنے کا حکم دیا ہے، نیز آیت سے یہ بھی مستفاد ہوتا ہے کہ ظہر، عصر، مغرب اور عشاء کو کسی عذر کی بناء پر جمع کیا جاسکتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہر دو نمازوں کے اوقات کو اکٹھا بیان کیا ہے۔ اس سے نماز فجر کی فضیلت ثابت ہوتی ہے نیز اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ نماز فجر میں لمبی قراءت کی فضیلت ہے اور ثابت ہوتا ہے کہ قراءت نماز کا رکن ہے کیونکہ جب عبادت کے کسی جز کو اس عبادت کے نام سے موسوم کردیا جائے تو وہ اس جز کی فرضیت پر دلالت کرتا ہے۔ الإسراء
79 ﴿ وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ﴾ ” اور رات کے ایک حصے میں آپ اس قرآن کے ساتھ جاگئے“ یعنی اس کے تمام اوقات میں نماز پڑھئے ﴿نَافِلَةً لَّكَ ﴾ ” آپ کے لیے زیادت ہے۔“ یعنی تاکہ رات کی یہ نماز آپ کے لیے زیادہ ثواب، بلند مراتب اور بلند درجات کی باعث ہو، بخلاف دیگر اہل ایمان کے، کہ ان کے لیے یہ نماز ان کی برائیوں کا کفارہ ہے۔ اس میں اس معنی کا احتمال بھی ہے کہ پانچ نمازیں آپ پر اور تمام اہل ایمان پر فرض ہیں اور تہجد کی نماز خصوصی طور پر آپ پر فرض ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو تکریم بخشی کہ آپ کا وظیفہء عبادت دوسرے مومنوں سے زیادہ مقرر فرمایا تاکہ وہ آپ کی عظمت شان کو سمجھیں اور آپ اس کے ذریعے سے مقام محمود پر فائز ہوں۔ یہ وہ مقام ہے جہاں اولین و آخرین آپ کی ستائش کریں گے۔ یہ شفاعت عظمیٰ کا مقام ہے جب تمام خلائق حضرت آدم، حضرت نوح، حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ اور آخر میں حضرت عیسیٰ علیہم السلام کے پاس شفاعت کروانے کے لیے جائیں گے تو یہ تمام رسول شفاعت کرنے سے معذرت کریں گے اور پیچھے ہٹ جائیں گے تب لوگ بنی آدم کے سردار حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے شفاعت کرنے کی درخواست کریں گے تاکہ اللہ تعالیٰ ان پر رحم کرتے ہوئے اس مقام کی ہولناکیوں سے ان کو نجات دے۔ نبی مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رب کے پاس شفاعت کریں گے اللہ تعالیٰ آپ کی شفاعت قبول فرمائے گا اور آپ کو ایسے مقام پر فائز کرے گا کہ اولین و آخرین آپ پر رشک کریں گے اور یوں تمام مخلوق آپ کی احسان مند ہوگی۔ الإسراء
80 ﴿وَقُل رَّبِّ أَدْخِلْنِي مُدْخَلَ صِدْقٍ وَأَخْرِجْنِي مُخْرَجَ صِدْقٍ﴾ ” کہہ دیجیے ! اے میرے رب داخل کر مجھ کو سچا داخل کرنا اور نکال مجھ کو سچا نکالنا“ یعنی میرا داخل ہونا اور میرا باہر نکلنا تیری اطاعت میں اور تیری رضا کے مطابق ہوتا کہ داخل ہونا اور باہر نکلنا اخلاص کو متضمن اور امر کے موافق ہو ﴿وَاجْعَل لِّي مِن لَّدُنكَ سُلْطَانًا نَّصِيرً﴾ ” اور کردے میرے لیے اپنی طرف سے مدد کرنے والی دلیل“ یعنی مجھے اپنی طرف سے ان تمام امور پر حجت ظاہرہ اور برہان قاطع عطا کر، جن کو میں اختیار کروں اور جن کو میں ترک کروں۔ یہ بندے کا بلند ترین حال ہے جس پر اللہ تعالیٰ اسے فائز کرتا ہے۔ ہونا یہ چاہیے کہ بندے کے تمام احوال بہترین احوال ہوں جو اسے اپنے رب کے قریب کریں اور بندے کے پاس اس کے ہر حال پر ایک ظاہری دلیل ہو اور یہ چیز علم نافع، عمل صالح اور مسائل و دلائل کے علم کم متضمن ہے۔ الإسراء
81 ﴿وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ﴾ ” اور کہہ دیجیے ! حق آگیا اور بال نکل بھاگا۔“ حق وہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف ناز ل فرمایا اور آپ کو حکم دیا کہ وہ اپنے قول سے اس کا اعلان کردیں کہ حق آگیا ہے اس کے مقابلے میں کوئی چیز کھڑی نہیں رہ سکتی اور باطل چلا گیا، یعنی مضمحل ہو کر معدوم ہوگیا۔ ﴿إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا﴾ ” بے شک باطل ہے نکل بھاگنے والا‘‘ یعنی یہ باطل کا وصف ہے مگر کبھی کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ اگر باطل کے مقابلے میں حق موجود نہ ہو تو باطل عروج پاکر مروج ہوجاتا ہے تاہم جب حق آجاتا ہے تو باطل مضمحل ہوجاتا ہے اور اس میں کوئی حرکت باقی نہیں رہتی، اسی لیے باطل صرف انہیں زمانوں اور انہیں علاقوں میں رواج پاتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی آیات اور اس کی بینات کے علم سے خالی ہوتے ہیں۔ الإسراء
82 ﴿وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ وَرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِينَ ۙ وَلَا يَزِيدُ الظَّالِمِينَ إِلَّا خَسَارًا ﴾” اور اتارتے ہیں ہم قرآن میں سے جس میں شفا ہے اور مومنوں کے لیے رحمت اور گناہ گاروں کا تو اس سے نقصان ہی بڑھتا ہے“ یعنی قرآن کریم شفا اور رحمت پر مشتمل ہے اور یہ شفا اور رحمت ہر ایک کے لیے نہیں ہے بلکہ صرف اہل ایمان کے لیے ہے جو اس کی آیات کی تصدیق کر کے اس پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔ رہے ظالم جو اس کی تصدیق نہیں کرتے یا اس پر عمل پیرا نہیں ہوتے تو اس کی آیات ان کے خسارے ہی میں اضافہ کرتی ہیں کیونکہ ان پر حجت قائم ہوجاتی ہے۔ پس وہ شفا جس کو قرآن متضمن ہے وہ قلوب کے لیے شفائے عام ہے اور قلوب کو شبہات، جہالت، آراء فاسدہ، انحراف مذموم اور گھٹیا مقاصد جیسے امراض کو دور کرتی ہے کیونکہ قرآن علم یقینی پر مشتمل ہے جو ہر قسم کی جہالت اور تمام شبہات کو زائل کردیتا ہے۔ قرآن وعظ و تذکیر پر مشتمل ہے جو ہر شہوت کو ختم کردیتا ہے جس میں اللہ تعالیٰ کے حکم کی مخالفت ہو۔ قرآن ابدان کے آلام و امراض سے شفا کو بھی متضمن ہے۔ رہی رحمت، تو قرآن کے اندر ایسے اسباب اور وسائل ذکر کئے گئے ہیں جن کو اختیار کرنے کی قرآن ترغیب دیتا ہے جب بندہ ان کو اختیار کرلیتا ہے تو بے پایاں رحمت، ابدی سعادت، دنیاوی اور اخروی ثواب سے بہرہ ور ہوتا ہے۔ الإسراء
83 انسان جہاں بھی ہے یہ اس کی فطرت ہے، سوائے اس کے جس کی اللہ راہنمائی فرمائے، کہ جب انسان کو اللہ تعالیٰ کی نعمتیں عطا ہوتی ہیں تو وہ ان نعمتوں پر بہت خوش ہوتا ہے، ان پر اتراتا ہے، حق سے روگردانی کرتا ہے، اینٹھتا ہے اور اپنے رب سے منہ موڑ لیتا ہے، وہ اس کا شکر ادا کرتا ہے نہ اس کو یاد کرتا ہے۔ ﴿وَإِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ﴾ ” اور جب اس کو برائی پہنچتی ہے“ مثلا بیماری وغیرہ ﴿كَانَ يَئُوسًا ﴾ ’’ وہ مایوس ہوجاتا ہے۔“ یعنی بھلائی سے بالکل مایوس ہوجاتا ہے، رب سے اپنی امید منقطع کرلیتا ہے اور وہ یہ سمجھتا ہے کہ وہ جس حالت میں ہے ہمیشہ اسی میں رہے گا۔ اور وہ شخص جسے اللہ تعالیٰ ہدایت سے نواز دیتا ہے وہ نعمتیں میسر ہونے پر اللہ تعالیٰ کے سامنے عاجزی کے ساتھ جھک جاتا ہے اور اس کی نعمت کا شکر ادا کرتا ہے اور جب وہ سختی اور مصیبت سے دو چار ہوتا ہے تو اللہ کے سامنے گڑگڑاتا ہے اللہ تعالیٰ سے عافیت اور اس مصیبت کے دور ہونے کی امید رکھتا ہے اور اس سے اس کی مصیبت ہلکی ہوجاتی ہے۔ الإسراء
84 ﴿قُلْ كُلٌّ﴾ ” کہہ دیجیے ہر ایک“ یعنی لوگوں میں سے۔ ﴿يَعْمَلُ عَلَىٰ شَاكِلَتِهِ﴾ ” کام کرتا ہے اپنے ڈھنگ پر“ یعنی اس طریقے پر جو اس کے احوال کے لائق ہوتا ہے۔ اگر وہ نیک بندوں میں سے ہیں تو ان کا طریقہ صرف یہ ہے کہ ان کا عمل رب کائنات کی رضا کی خاطر ہوتا ہے اور اگر وہ نیک اور ابرار لوگوں کی بجائے ان لوگوں میں سے ہوں جن کو اللہ تعالیٰ ان کے حال پر چھوڑ کر ان سے الگ ہوگیا ہو تو ان کے لیے صرف وہی عمل مناسب ہوتا ہے جو اس نے مخلوق کو خوش کرنے کے لیے کیا ہو اور ان کے موافق صرف وہی عمل ہوتا ہے جو ان کی اغراض کے موافق ہو۔ ﴿فَرَبُّكُمْ أَعْلَمُ بِمَنْ هُوَ أَهْدَىٰ سَبِيلًا ﴾ ” پس تمہارا رب اس شخص سے خوب واقف ہے جو سب سے زیادہ سیدھے راستے پر ہے۔“ یعنی وہ خوب جانتا ہے کہ کون ہے جو ہدایت قبول کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ پس اسے ہدایت سے نواز دیتا ہے اور کون ہے جو صلاحیت نہیں رکھتا تو وہ اسے اپنے حال پر چھوڑ کر ہدایت سے محروم کردیتا ہے۔ الإسراء
85 یہ آیت کریمہ ایسے لوگوں کو باز رکھنے کو متضمن ہے جو ایسے سوالات پوچھتے ہیں جن سے ان کا مقصد محض تعنت اور مسئول کو لاجواب کرنا ہوتا ہے۔ درآنحالیکہ وہ اہم امور کے بارے میں سوال نہیں کرتے۔ پس وہ روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں جس کا تعلق مخفی امور سے ہے۔ کوئی شخص بھی روح کا وصف اور اس کی کیفیت بیان نہیں کرسکتا اور ان کی حالت یہ ہے کہ وہ اس علم میں بھی قاصر ہیں جس کے وہ محتاج ہیں اس لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرمایا کہ وہ ان کے سوال کا یہ جواب دیں۔ ﴿قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّ﴾ ” کہہ دیجیے ! روح میرے رب کے امر سے ہے“ یعنی من جملہ مخلوقات سے ہے جن کے بارے میں میرے رب نے حکم دیا کہ ”ہوجاؤ“ اور وہ وجود میں آگئیں، لہٰذا ان کے بارے میں سوال کرنا تمہارے لیے کوئی زیادہ فائدہ مند نہیں جبکہ ان کے علاوہ دیگر امور میں بھی تمہارا علم معدوم ہے۔ اس آیت مقدسہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ جب مسؤل سے کسی معاملے میں سوال کیا جائے تو اس کے لیے بہتر یہ ہے کہ وہ ( لایعنی) سوال کا جواب دینے سے گریز کرے جو سائل نے پوچھا ہے اور اس امر میں اس کی راہنمائی کرے جس کا وہ محتاج ہے اور جو اس کے لیے فائدہ مند ہے۔ الإسراء
86 اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ قرآن اور وحی جسے اس نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا ہے وہ آپ پر اور بندوں پر رحمت اور احسان ہے قرآن اور وحی علی الاطلاق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے سب سے بڑی نعمت ہے کیونکہ آپ پر اللہ تعالیٰ کا بہت زیادہ فضل و کرم ہے جس کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا۔۔۔۔ پس جس ہستی نے آپ پر یہ فضل و کرم کیا ہے وہ اس پر قادر ہے کہ اسے واپس لے لے پھر آپ کوئی ایسی ہستی نہیں پائیں گے جو یہ فضل و کرم واپس لا سکے اور آپ کو کوئی ایسا وکیل اور کار ساز نہیں ملے گا جو اللہ کے حضور اس بارے میں بات کرسکے۔ پس آپ کو اس بارے میں خوش ہوتا چاہیے اور آپ کی آنکھیں ٹھنڈی رہنی چاہئیں اور تکذیب کرنے والوں کی تکذیب اور گمراہوں کا استہزا و تمسخر آپ کو غم زدہ نہ کرے۔ اس لیے کہ لوگوں کے سامنے جلیل ترین نعمت پیش کی گئی انہوں نے اسے ٹھکرا دیا۔ کیونکہ یہ اللہ کے نزدیک بہت حقیر ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیا ہے۔ الإسراء
87 الإسراء
88 یہ اس بات کی قطعی دلیل اور واضح برہان ہے کہ جو کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے ہیں وہ صحیح اور صداقت پر مبنی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تمام جنوں اور انسانوں کو معارضے کی دعوت دی ہے کہ وہ اس جیسا قرآن بنا لائیں اور اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے ان کو آگاہ بھی فرمایا دیا کہ وہ اس جیسا قرآن نہیں لا سکتے۔ خواہ وہ ایک دوسرے کی مدد ہی کیوں نہ کرلیں۔ یہ سب کچھ اسی طرح واقع ہوا جس طرح اللہ تعالیٰ نے خبر دی تھی۔ جھٹلانے والوں کی بہت زیادہ خواہش تھی کہ وہ کسی طریقے سے اس دعوت کو جھوٹا ثابت کریں جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لے کر آئے اور وہ لغت عرب کے ماہر اور فصاحت و بلاغت کے مالک تھے۔۔ اگر ان میں اس دعوت کا مقابلہ کرنے کی ذرا سی بھی اہلیت ہوتی تو وہ ضرور اس کا مقابلہ کرتے۔ اس سے یہ واضح ہوگیا کہ انہیوں نے طوعاً و کرہاً اس بارے میں میں اپنی بے بسی کو تسلیم کرلیا اور قرآن کے معارضے سے عاجز آگئے۔۔۔ اور وہ مخلوق جو مٹی سے پیدا کی گئی، جو ہر پہلو سے ناقص ہے، جو علم، قدرت، ارادہ اور مشیت سے محروم ہے، اس کا کلام اور کمال اس کے رب کا عطا کردہ ہے، رب کائنات کے کلام کا کس طرح مقابلہ کرسکتی ہے، جو تمام بھید کو جاننے والا ہے، جو کمال مطلق، حمد مطلق اور مجد عظیم کا مالک ہے، وہ ایسی ہستی ہے کہ اگر سات سمندروں کو روشنائی اور تمام درختوں کے قلم بنا دیے جائیں، تو تمام روشنائی ختم ہوجائے گی اور قلم فنا ہوجائیں گے مگر اللہ تعالیٰ کے کلمات کبھی ختم نہ ہوں گے۔ پس جیسے اللہ تعالیٰ کی صفات میں، اس کی مخلوق میں سے کوئی اس کے مماثل نہیں اسی طرح اللہ تعالیٰ کا کلام بھی جو کہ اس کی صفت ہے۔۔۔ بے مثل ہے۔ اس کی ذات، اس کے اسماء، اس کی صفات اور اس کے افعال میں کوئی چیز اس کی مثیل نہیں۔ تب ہلاکت ہے اس شخص کے لیے جو مخلوق کے کلام کو خالق کے کلام کے مشابہ قرار دیتا ہے اور کہتا ہے کہ محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اپنے دل سے گھڑ کر اللہ تعالیٰ پر افترا پردازی کی ہے۔ الإسراء
89 اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿وَلَقَدْ صَرَّفْنَا لِلنَّاسِ فِي هَـٰذَا الْقُرْآنِ مِن كُلِّ مَثَلٍ﴾ ” اور ہم نے پھیر پھیر کر بیان کی واسطے لوگوں کے اس قرآن میں ہر مثال“ یعنی ہم نے اس میں مختلف انواع کے مواعظ اور مثالیں بیان کی ہیں اور ان معانی و مضامین کو بار بار دہرایا ہے لوگ جن کے ضرورت مند ہیں تاکہ وہ نصیحت پکڑیں اور تقویٰ اختیار کریں مگر ان میں سے بہت کم لوگوں نے نصیحت پکڑی ہے، سوائے ان لوگوں کے، جن کے بارے میں پہلے ہی سے سعادت کا فیصلہ ہوچکا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنی توفیق کے ذریعے سے ان کی اعانت فرمائی مگر اکثر لوگوں نے اس نعمت کی ناقدری کی جو تمام نعمتوں سے بڑی نعمت ہے اور انہوں نے اپنی خواہشات کے مطابق معجزات و آیات کا مطالبہ کر کے تعنت کا مظاہرہ کیا اور وہ اپنے نفس کی طرف سے، جو ظالم اور جاہل ہے، آیات گھڑتے ہیں پس وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے، جو یہ قرآن لے کر مبعوث ہوئے ہیں جو ہر قسم کی دلیل اور برہان پر مشتمل ہے۔ الإسراء
90 کہتے ہیں : ﴿لَن نُّؤْمِنَ لَكَ حَتَّىٰ تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الْأَرْضِ يَنبُوعًا ﴾ ” ہم ہرگز تجھ پر ایمان نہیں لائیں گے یہاں تک کہ تو جاری کر دے ہمارے واسطے زمین سے ایک چشمہ“ یعنی بہتی ہوئی نہر جاری کر دے۔ الإسراء
91 ﴿أَوْ تَكُونَ لَكَ جَنَّةٌ مِّن نَّخِيلٍ وَعِنَبٍ﴾ ” یا ہو تیرے واسطے ایک باغ کھجور اور انگور کا“ جن کی مدد سے تو بازاروں میں چلنے پھرنے اور آنے جانے سے مستغنی ہوجائے۔ الإسراء
92 ﴿  أَوْ تُسْقِطَ السَّمَاءَ كَمَا زَعَمْتَ عَلَيْنَا كِسَفًا﴾ ” یا گرا دے ہم پر آسمان، جیسا کہ تو کہا کرتا ہے، ٹکڑے ٹکڑے کر کے“ یعنی عذاب سے ٹکڑے ٹکڑے کر کے ﴿ أَوْ تَأْتِيَ بِاللّٰـهِ وَالْمَلَائِكَةِ قَبِيلًا ﴾ ” یا لے آ اللہ کو اور فرشتوں کو سامنے“ یعنی تمام فرشتے، یا دوسرا معنی یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تمام فرشتے رو برو آجائیں اور وہ تیری نبوت کی گواہی دیں۔ الإسراء
93 ﴿أَوْ يَكُونَ لَكَ بَيْتٌ مِّن زُخْرُفٍ﴾ ” یا ہو تیرے واسطے گھر سنہرا“ یعنی سونے وغیرہ سے منقش اور آراستہ ﴿أَوْ تَرْقَىٰ فِي السَّمَاءِ﴾ ” یا تو آسمان پر چڑھ جا۔“ یعنی حسی طور پر آسمان پر چڑھ جائے۔ ﴿وَ﴾ ” اور“ اس کے باوجود ﴿وَلَن نُّؤْمِنَ لِرُقِيِّكَ حَتَّىٰ تُنَزِّلَ عَلَيْنَا كِتَابًا نَّقْرَؤُهُ﴾ ” ہم نہیں مانیں گے تیرے چڑھ جانے کو، یہاں تک کہ لائے تو ہمارے پاس کتاب جسے ہم پڑھیں“ چونکہ یہ کلام محض تعنت اور رسول کو بے بس کرنے کی خواہش اور داعیہ ہے، یہ احمق ترین اور ظالم ترین لوگوں کا کلام ہے جو حق کو ٹھکرا دینے کو متضمن ہے، نیز یہ اللہ تعالیٰ کے حضور بے ادبی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں بے بنیاد دعویٰ ہے کہ آپ یہ آیات خود تصنیف کرتے ہیں۔۔۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ آپ اللہ کی تنزیہ بیان کریں۔ ﴿ قُلْ سُبْحَان َرَبِّي ﴾ ” کہہ دیجیے ! کہ پاک ہے میرا رب“ جو کچھ تم اللہ کے بارے میں کہتے ہو وہ اس سے بہت بلند اور بالاتر ہے۔ اس کی ذات اس سے پاک ہے کہ اس کے احکام اور آیات ان کی خواہشتات نفس اور گمراہ آراء و نظریات کے تابع ہوں۔ الإسراء
94 ﴿هَلْ كُنتُ إِلَّا بَشَرًا ررَّسُولًا﴾ ” میں نہیں ہوں مگر ایک آدمی بھیجا ہوا“ میرے ہاتھ میں کچھ بھی اختیار نہیں۔۔۔ یہی وہ سبب ہے جس کی بنا پر اکثر لوگ ایمان نہ لائے کیونکہ ان کی طرف جو رسول اور نبی مبعوث کئے گئے وہ سب انہی کی جنس میں سے تھے، یعنی وہ سب بشر تھے۔ الإسراء
95 یہ ان پر اللہ تعالیٰ کی بے پایاں رحمت ہے کہ اس نے ان کی طرف انسانوں کو رسول بنا کر بھیجا کیوں کہ وہ فرشتوں سے بلا واسطہ احکام وصول کرنے کی طاقت نہیں رکھتے، اس لیے فرمایا : ﴿  قُل لَّوْ كَانَ فِي الْأَرْضِ مَلَائِكَةٌ يَمْشُونَ مُطْمَئِنِّينَ﴾ ” کہہ دیجیے ! اگر ہوتے زمین میں فرشتے پھرتے، بستے“ یعنی اگر وہ فرشتوں کو دیکھ لینے اور ان سے احکام اخذ کرنے کی طاقت رکھتے ہوتے ﴿لَنَزَّلْنَا عَلَيْهِم مِّنَ السَّمَاءِ مَلَكًا رَّسُولًا ﴾ ” تو اتارتے ہم ان پر آسمان سے کوئی فرشتہ پیغام دے کر۔“ الإسراء
96 ﴿ قُلْ كَفَىٰ بِاللّٰـهِ شَهِيدًا بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ ۚ إِنَّهُ كَانَ بِعِبَادِهِ خَبِيرًا بَصِيرًا﴾ ’’کہہ دیجیے اللہ کافی ہے بطور گواہ میرے اور تمہارے درمیان، بے شک وہ ہے اپنے بندوں سے خبر دار، دیکھنے والا۔“ اللہ تعالیٰ کی اپنے رسول کے لیے گواہی یہ ہے کہ اس نے آیات اور معجزات کے ذریعے سے اس کی تائید کی اور ان لوگوں کے خلاف آپ کو فتح و نصرت سے نوازا جنہوں نے آپ سے عداوت کی۔ اگر آپ نے اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھا ہوتا تو اللہ تعالیٰ آپ کو دائیں ہاتھ سے پکڑ کر آپ کی رگ جاں کاٹ دیتا۔ اللہ تعالیٰ باخبر اور دیکھنے والا ہے اور بندوں کے احوال میں سے کوئی چیز اللہ تعالیٰ سے چھپی ہوئی نہیں ہے۔ الإسراء
97 اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ ہدیت اور گمراہی صرف اسی کے قبضہء قدرت میں ہے وہ جسے ہدایت سے نوازانا چاہتا ہے تو اسے آسان راہیں میسر کردیتا ہے اور اس کو تنگی سے بچا لیتا ہے اور وہی درحقیقت ہدایت یافتہ ہے اور جسے گمراہ کرتا ہے اسے اس کے نفس کے حوالے کر کے اس سے الگ ہوجاتا ہے تب اللہ تعالیٰ کے سوا اس کو کوئی راہ نہیں دکھا سکتا اور ان کا اس روز کوئی حمایتی نہیں ہوگا جو ان کو اللہ کے عذاب کے مقابلے میں مدد کرسکے جب اللہ تبارک و تعالیٰ ان کو ان کے چہروں کے بل، نہایت رسوائی کی حالت میں اندھے اور گونگے بنا کر اکٹھے کرے گا وہ دیکھ سکیں گے نہ بول سکیں گے۔ ﴿مَّأْوَاهُمْ ﴾ ” ان کا ٹھکانا“ یعنی ان کی جائے قرار اور ان کا گھر ﴿جَهَنَّمُ ۖ﴾ ” جہنم ہے“ جہاں ہر قسم کا حزن و غم اور عذاب جمع ہے۔ ﴿ كُلَّمَا خَبَتْ ﴾ ” جب وہ بجھنے لگے گی“ ﴿زِدْنَاهُمْ سَعِيرًا﴾ ” تو ہم ان پر اس آگ کو اور بھڑکا دیں گے۔“ عذاب ان پر سے منقطع نہ ہوگا۔ ان کو موت آئے گی نہ ان کے عذاب میں کوئی تخفیف ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر ظلم نہیں کیا بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اس بات کی جزادی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی آیات کا انکار کیا کرتے تھے اور قیامت کے روز پر ایمان نہیں رکھتے تھے جس کے بارے میں تمام انبیاء و رسل نے آگاہ فرمایا اور تمام آسمانی کتابوں نے اس کے برپا ہونے کا اعلان کیا۔ انہوں نے اپنے رب کو عاجز قرار دے کر اس کی قدرت کا ملہ کا انکار کردیا۔ الإسراء
98 ﴿وَقَالُوا أَإِذَا كُنَّا عِظَامًا وَرُفَاتًا أَإِنَّا لَمَبْعُوثُونَ خَلْقًا جَدِيدًا﴾ (بنی آسرائیل 17؍49)” اور انہیوں نے کہا، جب ہم ہوگئے ہذیاں اور چورا چورا، کیا ہم اٹھائے جائیں گے نئے بنا کر“ یعنی یہ ہو ہی نہیں سکتا۔۔۔ وہ یہ بات اس لیے کہتے تھے کہ ان کی فاسد عقل کے مطابق ایسا ہونا بہت بعید تھا۔ الإسراء
99 اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّ اللّٰـهَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ﴾ ” کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ جس اللہ نے آسمان اور زمین بنائے“ جو کہ انسانوں کی تخلق سے زیادہ مشکل امر ہے۔ ﴿ قَادِرٌ عَلَىٰ أَن يَخْلُقَ مِثْلَهُمْ ﴾ ” وہ قادر ہے کہ پیدا کرے ان جیسوں کو“ کیوں نہیں ! بے شک اللہ تعالیٰ ایسا کرنے پر قادر ہے ﴿ وَجَعَلَ لَهُمْ أَجَلًا لَّا رَيْبَ فِيهِ﴾ ” اور اس نے ان کے لیے ایک مدت مقرر کردی ہے جس میں کوئی شک وشبہ نہیں ” اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو اس گھڑی کو اچانک لے آئے اور اس بات کے باوجود کہ اللہ تعالیٰ نے زندگی بعد موت پر دلائل و براہین قائم کردیے ہیں۔ ﴿فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُورًا ﴾ ” پھر بھی نہیں رہا جاتا ظالموں سے نا شکری کیے بغیر“ ظلم کرتے اور افترا کرتے ہوئے۔ الإسراء
100 ﴿  قُل لَّوْ أَنتُمْ تَمْلِكُونَ خَزَائِنَ رَحْمَةِ رَبِّ﴾ ” کہہ دیجیے ! اگر تمہارے ہاتھ میں ہوتے میرے رب کی رحمت کے خزانے“ جو کبھی ختم ہوتے ہیں نہ تباہ ہوتے ہیں ﴿  إِذًا لَّأَمْسَكْتُمْ خَشْيَةَ الْإِنفَاقِ ۚ ﴾ ” تو تم ضرور بند کر رکھتے، اس ڈر سے کہ خرچ نہ ہوجائیں“ یعنی اس خوف سے کہ جو کچھ خرچ کرتے ہو کہیں ختم نہ ہوجائے، حالانکہ اللہ تعالیٰ کے خزانوں کا ختم ہونا محال ہے مگر بخل اور کنجوسی انسان کی جبلت میں رکھ دیئے گئے ہیں۔ الإسراء
101 یعنی اے رسول ! کہ جس کی آیات و معجزات کے ذریعے سے تائید کی گئی ہے۔۔۔ آپ پہلے رسول نہیں ہیں جس کی لوگوں نے تکذیب کی ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے موسیٰ بن عمران علیہ السلام کو رسول بنا کر فرعون اور اس کی قوم کی طرف مبعوث کیا، ہم نے انہیں عطا کیے ﴿تِسْعَ آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ﴾ ” نو معجزات“ جو شخص حق کا قصد رکھتا ہے اس کے لیے ان میں ایک ہی معجزہ کافی ہے۔۔۔ جیسے اژدہا، عصا، طوفان، طوفان، ٹڈی دل، جوئیں، مینڈ، خون، یدبیضا اور سمندر کا پھٹ جانا۔ اگر آپ کو اس بارے میں کوئی شک ہے ﴿فَاسْأَلْ بَنِي إِسْرَائِيلَ إِذْ جَاءَهُمْ فَقَالَ لَهُ فِرْعَوْنُ ﴾ ” تو آپ بنی اسرائیل سے پوچھ لیں جب آئے موسیٰ ان کے پاس تو ( ان معجزات کے باوجود) فرعون نے کہا : ﴿إِنِّي لَأَظُنُّكَ يَا مُوسَىٰ مَسْحُورًا ﴾ ” اے موسیٰ ! میں سمجھتا ہوں، تجھ پر ضرور جادو کردیا گیا ہے۔“ الإسراء
102 ﴿قَالَ﴾ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا : اے فرعون ! ﴿ لَقَدْ عَلِمْتَ﴾ ” تجھے علم ہے“ ﴿  مَا أَنزَلَ هَـٰؤُلَاءِ﴾ ” نہیں نازل کیا ان معجزات کو“ ﴿إِلَّا رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ بَصَائِرَ﴾ ” مگر آسمان و زمین کے رب نے سمجھانے کو“ اپنی طرف سے بندوں کے لیے۔ پس تیرا یہ قول حقیقت پر مبنی نہیں۔ تیرا یہ قول اپنی قوم میں ابہام پیدا کرنے اور حق و صواب کی راہ سے ہٹانے کے لیے ہے۔ ﴿  وَإِنِّي لَأَظُنُّكَ يَا فِرْعَوْنُ مَثْبُورًا﴾ ” اے فرعون ! میں خیال کرتا ہوں کہ تو ہلاک ہوجائے گا۔“ یعنی اے فرعون ! میں سمجھتا ہوں کہ تو سخت مبغوض، مذموم، دھتکارا ہوا اور اللہ کے عذاب میں پھینکا جانے والا ہے۔ الإسراء
103 ﴿فَأَرَادَ﴾ پس فرعون نے ارادہ کیا ﴿أَن يَسْتَفِزَّهُم مِّنَ الْأَرْضِ ﴾ ’’کہ وہ ان کو اس زمین (مصر) سے نکال دے۔‘‘ یعنی بنی اسرائیل کو سرزمین مصر سے نکال کر جلاوطن کر دے ﴿فَأَغْرَقْنَاهُ وَمَن مَّعَهُ جَمِيعًا﴾”پس ہم نے اس کو اور اس کے ساتھیوں کو سب کو غرق کردیا“ اور اس کے بعد ہم نے بنی اسرائیل کو ان کی زمینوں اور گھروں کا وارث بنا دیا۔ الإسراء
104 اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَقُلْنَا مِن بَعْدِهِ لِبَنِي إِسْرَائِيلَ اسْكُنُوا الْأَرْضَ فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ الْآخِرَةِ جِئْنَا بِكُمْ لَفِيفًا ﴾ ” اس کے بعد ہم نے بنی اسرائیل سے کہا، رہو تم زمین میں، پس جب آخرت کا وعدہ آئے گا، تو ہم تم سب کو سمیٹ کرلے آئیں گے“ یعنی تم سب کو لے کر آئیں گے اور پھر ہر عمل کرنے والے کو اس عمل کی جزا دیں گے۔ الإسراء
105 یعنی ہم نے اس قرآن کو حق کے ساتھ، اپنے بندوں کے لیے امرو نہی اور ان کے عذاب و عقاب کی خاطر نازل کیا ہے ﴿وَبِالْحَقِّ نَزَلَ﴾ ” اور حق کے ساتھ اترا“ یعنی یہ قرآن صدق و عدل اور شیطان مردود کے ہر وسوسہ سے محفوظ نازل ہوا ﴿وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا مُبَشِّرًا ﴾ ” اور نہیں بھیجا ہم نے آپ کو مگر خوشخبری دینے والا بنا کر“ یعنی ان لوگوں کو دنیاوی اور اخروی ثواب کی خوشخبری دینے کے لیے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی ﴿وَنَذِيرًا﴾ ” اور ڈرانے والا“ یعنی انہیں دنیاوی اور اخروی عذاب سے ڈرانے کے لیے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی اور اس سے ان امور کا بیان لازم آتا ہے جو تبشیر و انذار پر مبنی ہیں۔ الإسراء
106 یعنی ہم نے اس قرآن کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے نازل کیا ہے جو ہدایت اور گمراہی، حق اور باطل کے درمیان تفریق کرتا ہے ﴿ لِتَقْرَأَهُ عَلَى النَّاسِ عَلَىٰ مُكْثٍ﴾ ” تاکہ آپ لوگوں کے سامنے ٹھہر ٹھہر کر پڑھیں“ تاکہ وہ اس کے معانی میں تدبر کریں اور اس میں سے اس کے مختلف علوم کا استخراج کریں۔ ﴿وَنَزَّلْنَاهُ تَنزِيلًا﴾ ” اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا ہے۔“ یعنی اس کو تھوڑا تھوڑا کر کے، ٹکڑوں میں تئیس(23) سال کے عرصہ میں نازل کیا ہے۔ ﴿وَلَا يَأْتُونَكَ بِمَثَلٍ إِلَّا جِئْنَاكَ بِالْحَقِّ وَأَحْسَنَ تَفْسِيرًا﴾ (الفرقان25؍33)” اور وہ جب کبھی آپ کے پاس کوئی پیچیدہ بات لے کر آئے تو ہم نے حق کے ساتھ اس کا جواب دے دیا اور بہترین طریقے سے بات کو کھول دیا۔“ پس جب حق واضح ہوجائے جس میں کسی بھی پہلو سے کوئی شک و شبہ نہیں۔ الإسراء
107 ﴿قُلْ ﴾ تو ان لوگوں سے کہہ دیجیے جنہوں نے حق کو جھٹلایا اور اس سے منہ موڑا ﴿آمِنُوا بِهِ أَوْ لَا تُؤْمِنُوا ﴾ ” تم اس کے ساتھ ایمان لاؤ یا نہ لاؤ“ اللہ تعالیٰ کو تمہاری کوئی حاجت نہیں اور تم اللہ تعالیٰ کو نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ اس تکذیب کا نقصان تمہیں ہی پہنچے گا کیونکہ تمہارے علاوہ اللہ تعالیٰ کے اور بھی بندے ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے علم نافع عطا کیا ہے۔ ﴿إِذَا يُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ يَخِرُّونَ لِلْأَذْقَانِ سُجَّدًا﴾ ” جب پڑھا جاتا ہے ان پر تو وہ گر پڑتے ہیں ٹھوڑیوں پر سجدہ کرتے ہوئے“ یعنی اس سے بہت زیادہ متاثر ہوتے ہیں اور اس کے سامنے نہایت عاجزی سے سرافگندہ ہوتے ہیں۔ الإسراء
108 ﴿وَيَقُولُونَ سُبْحَانَ رَبِّنَا﴾ ” اور کہتے ہیں پاک ہے ہمارا رب“ وہ ان تمام صفات سے پاک اور منزہ ہے جو اس کے جلال کے لائق نہیں اور جو مشرکین نے ان کی طرف منسوب کر رکھی ہیں ﴿إِن كَانَ وَعْدُ رَبِّنَا﴾ ” اور بے شک ہمارے رب کا وعدہ“ یعنی اس نے زندگی بعد موت اور اعمال کی جزا کا جو وعدہ کر رکھا ہے۔ ﴿لَمَفْعُولًا﴾ ” ہونے والا ہے“ اس میں کوئی وعدہ خلافی ہے نہ اس میں کوئی شک ہے۔ الإسراء
109 ﴿ وَيَخِرُّونَ لِلْأَذْقَانِ ﴾ ” اور گرتے ہیں وہ ٹھوڑیوں پر“ یعنی منہ کے بل ﴿يَبْكُونَ وَيَزِيدُهُمْ﴾ ” روتے ہوئے اور زیادہ کرتا ہے ان کو“ یعنی قرآن ﴿ خُشُوعًا ﴾ ” خشوع خضوع میں۔“ یہ اہل کتاب کے ان مومنین کی مانند ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے احسان کیا اور وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں اور اس کے بعد ایمان لائے۔ الإسراء
110 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں سے فرماتا ہے : ﴿ ادْعُوا اللّٰـهَ أَوِ ادْعُوا الرَّحْمَـٰنَ﴾ ” تم پکارو اللہ کو یا پکارو رحمٰن کو“ یعنی ان دونوں ناموں میں سے چاہے جس نام سے پکارو ﴿أَيًّا مَّا تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ ﴾ ” جو کہہ کر پکارو گے، پس اسی کے ہیں سب نام اچھے“ یعنی اس کا کوئی اسم مبارک ایسا نہیں جو اچھا نہ ہو اور اس کو اس نام سے پکارنے سے روکا گیا ہو۔ تم جس نام سے بھی اسے پکارو گے اس سے مقصد حاصل ہوجائے گا۔ مگر مناسب یہی ہے کہ اسے ہر مطلوب کی مناسبت سے، مطلوب کے مطابق نام سے پکارا جائے۔ ﴿وَلَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِكَ﴾ ” اور پکار کر نہ پڑھیں اپنی نماز“ یعنی بہت بلند آواز سے قراءت نہ کیجیے ﴿وَلَا تُخَافِتْ بِهَا﴾ ” اور نہ چپکے سے پڑھیں“ یعنی ان دونوں امور سے بچا جانا چاہیے۔ زیادہ بلند آواز میں قراءت سے اس لیے روکا گیا ہے کہ مشرکین قرآن مجید سن کر برا بھلا کہیں گے اور قرآن لانے والے کو سب و شتم کا نشانہ بنائیں گے اور بہت نیچی آواز میں قرآن پڑھنے سے اس شخص کا مقصد پورا نہ ہوسکے گا جو دھیمی آواز میں قرآن سننا چاہتا ہے۔ ﴿وَابْتَغِ بَيْنَ ذَٰلِكَ سَبِيلًا﴾ ” اور ڈھونڈ لیں اس کے درمیان راستہ“ یعنی بہت زیادہ بلند آواز اور بہت زیادہ پست آواز کے بین بین اور ان دونوں کے درمیان متوسط راہ اختیار کیجیے۔ الإسراء
111 ﴿ وَقُلِ الْحَمْدُ لِلَٰـهِ﴾ ” اور کہہ دیجیے ! تمام تعریف اللہ ہی کے لیے ہے“ جو ہر لحاظ سے کمال، مدح و ثنا اور حمد و مجد کا مالک اور ہر آفت اور نقص سے پاک ہے۔ ﴿الَّذِي لَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًا وَلَمْ يَكُن لَّهُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ﴾ ” جو نہیں رکھتا اولاد اور نہیں اس کا کئی شریک بادشاہی میں“ بلکہ تمام تر اقتدار کا مالک اللہ واحد و قہار ہے، تمام عالم علوی اور عالم سفلی کے رہنے والے سب اللہ تعالیٰ کے مملوک ہیں ﴿ وَلَمْ يَكُن لَّهُ وَلِيٌّ مِّنَ الذُّلِّ﴾ ” اور نہیں ہے اس کا کوئی مددگار عاجزی کے وقت“ یعنی اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق میں سے کسی کو اپنا سر پرست نہیں بناتا کہ وہ اس کے تعاون کے ذریعے سے عزت و غلبہ حاصل کرے۔ پس وہ بے نیاز اور قابل ستائش ہے، وہ زمین اور آسمانوں میں اپنی مخلوق میں سے کسی کا محتاج نہیں۔ مگر وہ اپنے بندوں پر احسان کرتے اور ان کو اپنی رحمت سے ڈھانپتے ہوئے ان کو اپنا دوست بناتا ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿اللّٰـهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا يُخْرِجُهُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ﴾ (البقرہ :2؍ 257) ” جو لوگ ایمان لائے، اللہ ان کا دوست ہے جو انہیں تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لاتا ہے“ ﴿ وَكَبِّرْهُ تَكْبِيرًا﴾ ” اور اس کی بڑائی بیان کر بڑا جان کر“ یعنی اس کے عظیم اوصاف کے بارے میں خبر دے کر، اس کے اسماء حسنٰی کے ذریعے سے حمد و ثنا کے ساتھ، اس کے افعال مقدسہ کے ذریعے سے ستائش کے ساتھ، صرف اس کے لیے عبادت کے ذریعے اس کی عظمت و جلال بیان کرتے ہوئے اس کی تعظیم و جلال کا اعتراف کیجیے، اس کا کوئی شریک نہیں اور اخلاص دین صرف اسی کے لیے ہے۔ الإسراء
0 الكهف
1 حمد سے مراد اللہ تعالیٰ کی صفات کے ذریعے سے، جو کہ صفت کمال ہیں، نیز اللہ تعالیٰ کی ظاہری و باطنی اور دینی و دنیاوی نعمتوں کے اظہار و اعتراف کے ذریعے سے اس کی ثنا بیان کرنا۔۔۔۔ اور علی الاطلاق اللہ تعالیٰ کی جلیل ترین نعمت اپنے بندے اور رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن نازل کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خود اپنی حمد بیان کی اور اس ضمن میں بندوں کے لیے اس امر کی طرف راہنمائی ہے کہ وہ اس بات پر اللہ تعالیٰ کی حمدو ثنا بیان کریں کہ اس نے ان کی طرف اپنا رسول بھیجا اور کتاب نازل کی، پھر اللہ تعالیٰ نے اس کتاب کی دو خوبیاں بیان فرمائیں جو اس بات پر مشتمل ہیں کہ یہ کتاب ہر لحاظ سے کامل ہے۔ یہ دو صفات مندرجہ ذیل ہیں۔ (1) اس کتاب عظیم سے کجی کی نفی۔ (2) اس بات کا اثبات کہ یہ کتاب کجی دور کرنے والی اور راہ راست پر مشتمل ہے۔ کجی کی نفی اس امر کا تقاضا کرتی ہے کہ کتاب میں کوئی جھوٹی خبر ہو نہ اس کے اوامر نواہی میں ظلم کا کوئی پہلو ہو اور نہ کوئی عبث بات ہو۔ الكهف
2 استقامت کا اثبات اس بات کا متقضی ہے کہ یہ کتاب جلیل ترین امور کا حکم دیتی اور جلیل ترین خبروں سے اگاہ کرتی ہے اور یہ وہ خبریں ہیں جو قلوب انسانی کو معرفت الہٰی اور ایمان و عقل سے لبریز کردیتی ہیں، مثلاً اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات اور اس کے افعال کے بارے میں خبریں، نیز گزرے ہوئے اور آئندہ آنے والے غیبی معاملات کی خبریں۔ اس کتاب کی استقامت کا اثبات اس امر کا بھی تقاضا کرتا ہے کہ اس کے اوامر و نواہی نفوس انسانی کا تزکیہ، ان کی نشو ونما اور ان کی تکمیل کرتے ہیں کیونکہ یہ اوامر و نواہی کامل عدل و انصاف، اخلاص اور اکیلے اللہ رب العالمین کے لیے عبودیت پر مشتمل ہیں۔ یہ کتاب، جس کے مذکورہ بالا اوصاف بیان کیے گئے ہیں، اس بات کی مستحق ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے نازل کرنے پر اپنی حمد بیان کرے اور اپنے بندے سے اپنی حمدو ستائش کا مطالبہ کرے۔ ﴿ لِّيُنذِرَ بَأْسًا شَدِيدًا مِّن لَّدُنْهُ﴾ ” تاکہ وہ اپنی طرف سے ڈرائے سخت عذاب سے‘‘ یعنی اس شخص کو اپنی اس قضاو قدر سے ڈرائے جو اس کے احکامات کی مخالفت کرنے والوں کے لیے ہے۔ یہ دنیاوی عذاب اور اخروی عذاب دونوں کو شامل ہے، نیز یہ بھی اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے کہ اس نے اپنے بندوں کو خوف دلایا ہے اور ان کو ان امور سے ڈریا ہے جو ان کے لیے نقصان اور ہلاکت کا باعث ہیں۔ جیسا کہ جب اللہ تعالیٰ نے قرآن میں آگ کا وصف بیان کیا تو فرمایا : ﴿ذَٰلِكَ يُخَوِّفُ اللّٰـهُ بِهِ عِبَادَهُ ۚ يَا عِبَادِ فَاتَّقُونِ﴾ (الزمر: 39؍16)” اللہ اس کے ذریعے سے اپنے بندوں کو ڈراتا ہے اے میرے بندو! پس مجھ سے ڈرو“ پس یہ بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے کہ اس نے ان لوگوں کے لیے سخت سزائیں مقرر کر رکھی ہیں جو ان کے احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہیں، ان سزاؤں کو ان کے سامنے بیان کردیا اور ان اسباب کو بھی واضح کردیا جو ان سزاؤں کے موجب ہیں۔ ﴿وَيُبَشِّرَ الْمُؤْمِنِينَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ الصَّالِحَاتِ﴾ ” اور خوشخبری دیجیے مومنوں کو جو نیک عمل کرتے ہیں“ یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے پر کتاب نازل فرمائی، تاکہ اس کے ذریعے سے، نیز اپنے رسولوں اور کتابوں کے ذریعے سے، ان لوگوں کو خوشخبری سنائے جو اس کتاب پر ایمان لاکر اپنے ایمان کی تکمیل کرتے ہیں۔ پس اس نے اپنے بندوں پر نیک اعمال واجب کئے اور اس سے مراد واجبات و مستحبات پر مشتمل نیک اعمال ہیں، جن میں اخلاص اور اتباع رسول جمع ہوں۔ ﴿ أَنَّ لَهُمْ أَجْرًا حَسَنًا ﴾ ” کہ ان کے لیے اچھا اجر ہے“ اس سے مراد وہ ثواب ہے جو اللہ تعالیٰ نے ایمان اور عمل صالح پر مترتب کیا ہے۔ سب سے بڑا اور جلیل ترین ثواب، اللہ تعالیٰ کی رضا اور جنت کا حصول ہے جس کو کسی آنکھ نے دیکھا ہے نہ کسی کان نے سنا ہے اور نہ کسی انسان کے تصور میں اس کا گزر ہوا ہے اور اس اجر کو ” حسن“ کے وصف کے ساتھ موصوف کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ جنت میں کسی بھی لحاظ سے کوئی تکدر نہ ہوگا۔ کیونکہ اگر اس میں کسی قسم کا تکدر پایا جائے تو یہ اجر مکمل طور پر حسن نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کہ یہ اچھا اجر ہے۔ الكهف
3 ﴿مَّاكِثِينَ فِيهِ أَبَدًا﴾ ” وہ اس میں ابدالآباد تک رہیں گے“۔ یہ اجر و ثواب کبھی ان سے زائل ہوگا نہ یہ اس سے دور کئے جائیں گے بلکہ ان کی یہ نعمتیں ہر وقت بڑھتی ہی رہیں گی۔ تبشیر کا ذکر تقاضا کرتا ہے کہ ان اعمال کا ذکر کیا جائے جو بشارت کے موجب ہیں اور وہ یہ ہے کہ قرآن کریم تمام اعمال صالحہ پر مشتمل ہے جو اس اجرو ثواب کا سبب ہیں جس سے نفس خوش ہوں گے اور روحوں کو فرحت حاصل ہوگی۔ الكهف
4 ﴿وَيُنذِرَ الَّذِينَ قَالُوا اتَّخَذَ اللّٰـهُ وَلَدًا ﴾ ” اور ان لوگوں کو ڈرائے جنہوں نے کہا اللہ اولاد رکھتا ہے“ یعنی یہودو نصاریٰ اور مشرکین، جن کا یہ بدترین قول ہے اور ان کا یہ قول کسی علم و یقین پر مبنی نہیں ہے۔ وہ اس کے بارے میں خود کوئی علم رکھتے ہیں نہ ان کے آباء اجداد کے پاس کوئی علم تھا جن کی یہ تقلید کرتے ہیں، بلکہ یہ تو محض ظن و گمان اور خواہشات نفس کی پیروی کرتے ہیں۔ الكهف
5 ﴿كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ ﴾ ” بڑی ہے بات جو نکلتی ہے ان کے مونہوں سے“ یعنی ان کی اس بات کی قباحت بہت زیادہ اور اس کی سزا بہت سخت ہے، اور اس شخص کے اس قول کی قباحت سے بڑھ کر اور کون سی قباحت ہوسکتی ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف بیٹا منسوب کرتا ہے حالانکہ یہ نسبت اس کی ذات میں نقص اور خصائص ربوبیت و الوہیت میں غیر اللہ کی شراکت اور اس پر بہتان طرازی کی متقضی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَىٰ عَلَى اللّٰـهِ كَذِبًا﴾ (الانعام: 6؍21)” اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہوسکتا ہے جو اللہ پر جھوٹ باندھتا ہے۔“ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے یہاں فرمایا : ﴿ إِن يَقُولُونَ إِلَّا كَذِبًا ﴾ ” یہ لوگ محض جھوٹ بولتے ہیں“ جس میں صداقت کا ذرہ بھر شائبہ نہیں۔ غور کیجیے کہ اللہ تعالیٰ نے کس طرح بتدریج ان کے قول کا ابطال کیا ہے اور کم تر باطل چیز سے زیادہ باطل چیز کی طرف انتقال کیا ہے، چنانچہ پہلے مرحلے میں اللہ تعالیٰ نے خبر دی۔ ﴿مَّا لَهُم بِهِ مِنْ عِلْمٍ وَلَا لِآبَائِهِمْ ﴾ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ بلا علم اللہ تعالیٰ کی طرف کوئی بات منسوب کرنا ممنوع اور باطل ہے پھر دوسرے مرحلے میں فرمایا کہ یہ انتہائی قبیح قول ہے، فرمایا : ﴿كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ﴾ پھر قباحت کے تیسرے مرتبے میں فرمایا کہ یہ محض جھوٹ ہے جو صدق کے منافی ہے۔۔ الكهف
6 چونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خلائق کی ہدیت کی بے انتہا خواہش رکھتے تھے اور ان کی ہدایت کے لیے بے حد کوشاں رہتے تھے۔ آپ دین اسلام اختیار کرنے والے کے ہدایت قبول کرنے پر بہت خوش ہوتے تھے۔ تکذیب کرنے والے گمراہ لوگوں پر رحم و شفقت کی بنا پر متاسف اور غم زدہ ہوتے تھے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے آپ سے فرمایا کہ آپ ان لوگوں کے رویے پر افسوس اور تاسف میں مشغول نہ ہوں جو اس قرآن پر ایمان نہیں لاتے۔ جیسا کہ ایک دوسری آیت میں فرمایا ہے: ﴿لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ أَلَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ ﴾ (الشعرا:26؍3) ” شاید آپ اسی غم میں اپنے آپ کو ہلکان کرلیں گے کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے۔“ ایک اور مقام پر فرمایا : ﴿ فَلَا تَذْهَبْ نَفْسُكَ عَلَيْهِمْ حَسَرَاتٍ﴾ (فاطر35؍8) ” پس ان لوگوں کے غم میں آپ کی جان نہ گھلے۔“ یہاں فرمایا : ﴿فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ ﴾ ” کیا آپ اپنے آپ کو ہلاک ڈالیں گے۔“ یعنی ان کے غم میں حالانکہ آپ کا اجرو ثواب تو اللہ تعالیٰ پر واجب ہوچکا ہے اگر ان لوگوں کی کوئی بھلائی اللہ تعالیٰ کے علم میں ہوتی تو وہ ضرور ان کو ہدایت سے نواز دیتا۔ مگر اسے معلوم ہے کہ یہ لوگ آگ کے سوا، کسی چیز کے قابل نہیں ہیں اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیا ہے اور وہ راہ راست نہ پا سکے آپ کا ان کے غم اور تاسف میں اپنے آپ کو مشغول کرنا آپ کو کوئی فائدہ نہیں دے گا۔ اس آیت کریمہ اور اس قسم کی دیگر آیات کریمہ میں عبرت ہے۔ مخلوق کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینے پر مامور شخص پر تبلیغ دعوت، ان تمام اسباب کے حصول میں کوشاں رہنا جو ہدایت کی منزل پر پہنچاتے ہیں، امکان بھر گمراہی کے راستوں کو مسدود کرنا اور اس بارے میں اللہ تعالیٰ پر توکل فرض ہے۔ پس اگر وہ راہ راست پر گامزن ہوجائیں تو بہتر ہے ورنہ اس کو ان کے افسوس میں گھلنا نہیں چاہیے کیونکہ یہ چیز نفس کو کمزور اور قوی کو منہدم کردیتی ہے۔ اس میں کوئی فائدہ نہیں بلکہ ایسا کرنے سے وہ مقصد فوت ہوجائے گا جس پر اسے مامور کیا گیا ہے۔ تبلیغ، دعوت اور کوشش کے سوا ہر چیز اس کے اختیار سے باہر ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے : ﴿  إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ﴾ (القصص 28؍56)” آپ اسے ہدایت نہیں دے سکتے جسے آپ چاہتے ہیں۔“ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اعتراف کیا۔ ﴿ رَبِّ إِنِّي لَا أَمْلِكُ إِلَّا نَفْسِي وَأَخِي ﴾ (المائدہ 5؍25)” اے میرے رب ! میں اپنے آپ پر اور اپنے بھائی کے سوا کسی پر کوئی اختیار نہیں رکھتا۔“ تو انبیائے کرام کے علاوہ دیگر لوگ بدرجہ اولیٰ کسی کو ہدایت دینے کا اختیار نہیں رکھتے، جنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿فَذَكِّرْ إِنَّمَا أَنتَ مُذَكِّرٌ لَّسْتَ عَلَيْهِم بِمُصَيْطِرٍ ﴾ (الغاشیة :88؍22،21)” آپ نصیحت کیجیے۔ آپ تو صرف نصیحت کرنے والے ہیں، آپ ان پر کوئی داروغہ مقرر نہیں ہوئے۔ “ الكهف
7 اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس نے روئے زمین پر پائی جانے والی ہر چیز کو، لذت بھرے ماکولات و مشروبات، خوبصورت ملبوسات، اشجارو انہار، کھیتوں، باغات، دلفریب مناظر، خوش منظر باغیچوں، سحر انگیز آوازوں، خوبصورت چہروں، سونے چاندی، اونٹوں اور گھروں، ان سب کو دنیا کی زینت، فتنہ اور آزمائش کے لیے پیدا کیا ہے۔ ﴿لِنَبْلُوَهُمْ أَيُّهُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا ﴾ ” تاکہ ہم ان کو آزمائیں کہ کون ان میں اچھے عمل کرتا ہے۔“ یعنی کون زیادہ خالص اور زیادہ صحیح اعمال پیش کرتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے مذکورہ تمام چیزوں کو مضحمل ہونے والی، فانی اور زائل ہوجانے والی بنایا ہے۔ عنقریب یہ زمین بے آب و گیاہ اور بنجر ہوجائے گی، اس کی تمام لذتیں نا پید ہوجائی گی۔ یہ ہے اس دنیا کی حقیقت، اللہ تعالیٰ نے اس حقیقت کو ہمارے سامنے اس طرح بیان کردیا ہے گویا کہ ہم اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس دنیا سے دھوکہ کھانے سے بچنے کے لیے کہا ہے اور ہمیں اس گھر کے حصول کی ترغیب دی ہے جس کی نعمتیں دائمی اور جہاں کے رہنے والے بہت خوش بخت ہیں۔ یہ سب کچھ ہم پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے۔ جن لوگوں کا باطن گناہوں کے میل کچیل سے آلودہ ہے اور وہ دنیا کی ظاہری شکل کی طرف دیکھتے ہیں تو وہ دنیا کی زیب و زینت سے فریب کھا جاتے ہیں تب وہ دنیا میں بہائم کی طرح رہتے ہیں، مویشیوں کی طرح اس دنیا سے فائدہ اٹھاتے ہیں، اپنے رب کے حق میں غور کرتے ہیں نہ اس کی معرفت کے حصول کا اہتمام کرتے ہیں بلکہ ان کے ارادے صرف شہوات کے حصول پر مرتکز ہوتے ہیں خواہ وہ کسی بھی طریقے سے اور کسی بھی حالت میں حاصل ہوں۔ جب ان لوگوں کی موت کا وقت آتا ہے تو انہیں اپنی ذات کے ویران ہونے اور لذتوں کے چھوٹ جانے پر بہت قلق ہوتا ہے۔ اس قلق کا سبب یہ نہیں کہ وہ کوتاہی اور گناہوں کے مرتکب ہوئے ہیں۔ اور جو اس دنیا کے باطن پر نظر ڈالتا ہے اور اسے دنیا اور خود اپنے مقاصد کا علم ہوتا ہے وہ اس دنیا سے صرف اتنا سا استفادہ کرتا ہے جس سے وہ اپنے مقاصد کے حصول میں مدد لے سکے جن کے لیے اس کو تخلیق کیا گیا ہے اور اپنی عمر میں فرصت کو غنیمت جانتا ہے وہ دنیا کو راہ گزر سمجھتا ہے، آرام کی منزل نہیں۔ وہ اسے انتہائی دشوار اور تکلیف دہ سفر سمجھتا ہے، عیش و آرام کا گھر نہیں۔ پس وہ اپنے رب کی معرفت کے حصول اس کے احکام کے نفاذ اور اپنے اعمال کو مقام احسان پر پہنچانے کے لیے پوری جدوجہد کرتا ہے۔ یہ شخص اللہ تعالیٰ کے ہاں بہترین منازل میں قیام کرے گا وہ ہر قسم کے اکرام و تکریم، نعمتوں اور مسرتوں کا مستحق ہوگا۔ جب فریب خوردہ لوگ دنیا کے ظاہر کو دیکھتے تھے تو اس شخص کی نظر دنیا کے باطن پر تھی، جب لوگ حصول دنیا کے لیے کام کرتے تھے تو یہ اپنی آخرت کے لیے کام کرتا تھا دونوں فریقوں میں بہت بڑا فرق اور دونوں گروہوں کے درمیان بہت بڑا تفاوت ہے۔ الكهف
8 الكهف
9 یہ استفہام، نفی اور نہی کے معنیٰ میں ہے۔ یعنی اصحاب کہف کے قصہ اور ان کے واقعات کو اللہ تعالیٰ کی آیات کے سامنے انہونی بات، اس کی حکمت میں انوکھا واقعہ نہ سمجھو اور نہ یہ سمجھو کہ اس کی کوئی نظیر نہیں اور اس قسم کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا بلکہ اللہ تعالیٰ کے بے شمار تعجب خیز معجزات ہیں جو اصحاب کہف کے معجزے کی جنس میں سے ہیں یا اس سے بھی بڑے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے اپنے بندوں کو آفاق اور ان کے نفوس میں اپنی نشانیاں دکھاتا رہا ہے جن سے حق و باطل اور ہدایت و ضلالت واضح ہوتے ہیں۔ نفی سے مراد یہ نہیں کہ اصحاب کہف کا قصہ عجائبات میں سے نہیں بلکہ یہ قصہ تو اللہ تعالیٰ کے معجزات میں سے ہے اور اس سے صرف یہ مراد ہے کہ اس جنس کے اور بہت سے معجزات ہیں، اس لیے صرف اس ایک معجزے پر تعجب کے ساتھ ٹھہر جانا علم و عقل میں نقص ہے۔ بندہ مومن کا وظیفہ تو یہ ہونا چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ان آیات میں غور و فکر کرے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو غورو فکر کی دعوت دی ہے کیونکہ غورو فکر ایمان کی کلید اور علم و ایقان کا راستہ ہے۔ اصحاب کہف کو (الکھف) اور ( الرقیم)کی طرف مضاف کیا گیا ہے۔ کہف سے مراد پہاڑ کے اندر ایک غار ہے اور رقیم سے مراد کتبہ ہے جس پر اصحاب کہف کے نام اور ان کا واقعہ درج تھا کہ وہ طویل زمانے تک اس غار میں پڑے رہے ہیں۔ الكهف
10 اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اصحاب کہف کا واقعہ نہایت مجمل طور پر ذکر کیا اور پھر اس کی تفصیل بیان کی، چنانچہ فرمایا : ﴿إِذْ أَوَى الْفِتْيَةُ إِلَى الْكَهْفِ ﴾ ”جب جا بیٹھے وہ نوجوان غار میں“ اور یہ نوجوان اس غار میں پناہ گزین ہو کر اپنی قوم کی تعذیب اور فتنے سے بچنا چاہتے تھے۔ ﴿فَقَالُوا رَبَّنَا آتِنَا مِن لَّدُنكَ رَحْمَةً ﴾ ” پس انہوں نے کہا، اے ہمارے رب ! ہمیں نیکی کی توفیق دے۔‘‘ ﴿ وَهَيِّئْ لَنَا مِنْ أَمْرِنَا رَشَدًا﴾ ”اور ہمارے کام میں درستی پیدا کر۔“ یعنی رشدو ہدایت تک پہنچانے والا ہر راستہ ہمارے لیے آسان فرما دے اور ہمارے دینی اور دنیاوی امور کی اصلاح کر۔ پس وہ کوشش کے ساتھ اپنی قوم کی تعذیب اور فتنہ سے فرار ہو کر ایسے محل و مقام کی طرف بھاگے جہاں ان کے لیے چھپنا ممکن تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ نہایت عاجزی اور انکساری کے ساتھ اور اپنے نفس اور مخلوق پر بھروسہ کیے بغیر، اپنے معاملات میں اللہ تعالیٰ سے آسانی کا سوال کرتے رہے۔ اسی لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمالی اور ان کے لیے ایک ایسا امر مقرر کردیا جو ان کے گمان میں بھی نہ تھا۔ الكهف
11 فرمایا : ﴿فَضَرَبْنَا عَلَىٰ آذَانِهِمْ فِي الْكَهْفِ﴾ ” پس تھپک دیے ہم نے ان کے کان اس غار میں“ یعنی کہ انہیں سلا دیا ﴿سِنِينَ عَدَدًا﴾ ” چند سال گنتی کے“ اور یہ تین سونو سال کا عرصہ ہے۔ اس نیند میں ان کے دلوں کے لیے اضطراب اور خوف سے اور ان کی قوم سے حفاظت تھی۔ الكهف
12 ﴿ثُمَّ بَعَثْنَاهُمْ﴾ ” پھر ہم نے ان کو اٹھایا“ یعنی پھر ہم نے ان کو ان کی نیند سے بیدار کیا ﴿لِنَعْلَمَ أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصَىٰ لِمَا لَبِثُوا أَمَدًا﴾ ” تاکہ ہم جانیں کہ دونوں گروہوں میں سے کس نے یاد رکھی ہے وہ مدت، جس میں وہ ٹھہرے رہے“ یعنی تاکہ ہم دیکھیں کہ ان میں سے اپنی مدت کی مقدار کو کون ٹھیک طرح سے شمار کرتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَكَذٰلِكَ بَعَثْنَاهُمْ لِيَتَسَاءَلُوا بَيْنَهُمْ  ﴾ (الکھف :18؍19)” اور اس طرح ہم نے انہیں دوبارہ اٹھایا تاکہ وہ ایک دوسرے سے پوچھیں“ یعنی اپنے سوئے رہنے کی مدت کی مقدار، ضبط حساب اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ، اس کی حکمت اور رحمت کے بارے میں ایک دوسرے سے سوال کریں۔۔۔ اور اگر وہ دائمی طور پر سوئے رہتے تو ان کے واقعہ کی کسی کو کوئی اطلاع نہ ہوتی۔ الكهف
13 یہاں سے اصحاب کہف کے واقعہ کی تفصیل شروع ہوتی ہے اور اللہ تبارک و تعالیٰ اس قصے کو حق اور صداقت کے ساتھ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بیان کرتا ہے جس میں کسی لحاظ سے کوئی شک و شبہ نہیں۔ ﴿ إِنَّهُمْ فِتْيَةٌ آمَنُوا بِرَبِّهِمْ ﴾ ” وہ چند نوجوان تھے جو اپنے rب پر ایمان لائے“ )فِتْيَةٌ( جمع قلت ہے جو اس پر دلالت کرتی ہے کہ وہ نوجوان تعداد میں دس سے کم تھے۔ وہ اللہ وحدہ لا شریک پر ایمان لائے مگر ان کی قوم ایمان نہ لائی تھی۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کے ایمان کی قدر کی اور ان کی ہدایت میں اضافہ کیا، یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کے راہ ایمان پر گامزن ہونے کے سبب سے ان کی ہدایت کو اور زیادہ کردیا۔ ہدایت سے مراد علم نافع اور عمل صالح ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَيَزِيدُ اللّٰـهُ الَّذِينَ اهْتَدَوْا هُدًى﴾ )مریم:19؍76) ” جو لوگ راہ راست اختیار کرتے ہیں اللہ ان کی راست روی اور زیادہ بڑھاتا ہے۔“ الكهف
14 ﴿وَرَبَطْنَا عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ﴾” اور گرہ لگا دی ہم نے ان کے دلوں پر“ یعنی ہم نے انہیں صبر عطا کیا اور ان کو ثابت قدم رکھا وار ان کو اس انتہائی پریشان کن حالت میں اطمینان قلب سے نوازا۔ یہ ان پر اللہ تعالیٰ کا لطف و کرم ہے کہ اس نے ان کو ایمان اور ہدایت کی توفیق عطا کی اور ان کو صبر و ثبات اور طمانیت قلب سے نوازا۔ ﴿ إِذْ قَامُوا فَقَالُوا رَبُّنَا رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ﴾ ” جب وہ کھڑے ہوئے، پس انہوں نے کہا ہمارا رب آسمانوں اور زمین کا رب ہے“ یعنی جس نے ہمیں پیدا کیا، ہماری پرورش کی اور جو ہمیں رزق عطا کرتا ہے اور ہماری تدبیر کرتا ہے وہی تمام کائنات کو پیدا کرنے والا ہے۔ وہ ان عظیم مخلوقات کو پیدا کرنے میں منفرد ہے۔ یہ بت اور خود ساختہ معبود اس کائنات کے خالق نہیں ہیں جو کسی چیز کو پیدا کرسکتے ہیں نہ رزق دے سکتے ہیں، وہ کسی نفع و نقصان کے مالک ہیں نہ موت وحیات کے اور نہ موت کے بعد دوبارہ اٹھانے پر قادر ہیں۔ پس انہوں نے توحید ربوبیت سے توحید الوہیت پر استدلال کیا اور کہا : ﴿لَن نَّدْعُوَ مِن دُونِهِ إِلَـٰهًا ﴾ ” ہم اس کے سوا کسی کو معبود نہ پکاریں گے۔“ یعنی ہم تمام مخلوقات میں سے کسی کو الٰہ نہیں بنائیں گے۔ ﴿لَّقَدْ قُلْنَا إِذًا﴾ ” تحقیق کہی ہم نے بات اس وقت“ یعنی یہ جان لینے کے باوجود کہ اللہ تعالیٰ ہمارا پروردگار اور معبود حقیقی ہے اس کے سوا کسی اور کے لیے عبادت جائز ہے نہ مناسب ہے ﴿شَطَطًا﴾ ” عقل سے دور“ یعنی حق و صواب سے دور۔ پس انہوں نے توحید ربوبیت اور توحید الوہیت کے اقرار اور التزام کو جمع کیا اور واضح کردیا کہ صرف یہی حق ہے اس کے سوا سب کچھ باطل ہے یہ اس بات کی دلیل ہے کہ انہیں اپنے رب کی مکمل معرفت حاصل تھی اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں ہدایت عطا کی گئی تھی۔ الكهف
15 یہ ذکر کرنے کے بعد کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو ایمان، ہدایت اور تقویٰ سے نوازا، وہ اپنی قوم کے شرک کی طرف متوجہ ہوئے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے سوا دوسری ہستیوں کو معبود بنا رکھا ہے۔ انہوں نے اپنی قوم کے نظریات پر ناراضی کا اظہار کیا اور ان پر واضح کیا کہ ان کے مشرکانہ عقائد یقین پر مبنی نہیں ہیں بلکہ اس کے برعکس وہ جہالت اور ضلالت میں مبتلا ہیں، چنانچہ انہوں نے کہا : ﴿لَّوْلَا يَأْتُونَ عَلَيْهِم بِسُلْطَانٍ بَيِّنٍ﴾’’کیوں نہیں لاتے ان پر کوئی واضح دلیل‘‘ یعنی وہ اپنے باطل عقائد پر کوئی حجت و برہان پیش نہیں کرسکتے نہ ان کے پاس اس کا کوئی چارہ ہے یہ تو ان کی طرف سے اللہ تعالیٰ پر جھوٹ اور بہتان طرازی ہے اور یہ سب سے بڑا ظلم ہے، اس لئے فرمایا : ﴿فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَىٰ عَلَى اللّٰـهِ كَذِبًا﴾ ’’اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو اللہ پر جھوٹ باندھتا ہے۔‘‘ الكهف
16 یعنی انہوں نے ایک دوسرے سے کہا کہ چونکہ تم جسمانی اور دینی طور پر اپنی قوم سے الگ ہوگئے ہو، اس لئے اب ان کے شر سے نجات پانا اور اس کے لئے اسباب اختیار کرنا باقی ہے کیونکہ وہ ان کے ساتھ جنگ کرسکتے ہیں نہ اس بنا پر ان کے ساتھ رہ سکتے ہیں کہ ان کا دین ان کی قوم کے دین سے مختلف ہے۔ ﴿فَأْوُوا إِلَى الْكَهْفِ﴾ ” پس جگہ پکڑ و غار کی طرف“ یعنی غار میں جاکر چھپ جاؤ۔ ﴿ يَنشُرْ لَكُمْ رَبُّكُم مِّن رَّحْمَتِهِ وَيُهَيِّئْ لَكُم مِّنْ أَمْرِكُم مِّرْفَقًا﴾ ” پھیلا دے گا تم پر تمہارا رب اپنی رحمت اور مہیا کرے گا تمہیں تمہارے کام میں آسانی“ گزشتہ سطور میں گزر چکا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کی اس دعا کے بارے میں خبر دی تھی۔ ﴿ رَبَّنَا آتِنَا مِن لَّدُنكَ رَحْمَةً وَهَيِّئْ لَنَا مِنْ أَمْرِنَا رَشَدًا﴾ انہوں نے اپنی قوت و اختیار سے براءت کا اظہار کیا، اپنے معاملے کی اصلاح کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور اس کے حضور ملتجی ہوئے اور اس پر بھروسہ کیا کہ وہ ان کے معاملے کی اصلاح کرے گا۔ یقیناً اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی بے پایاں رحمت سے ڈھانپ لیا اور ان کے معاملے میں آسانی پیدا کردی۔ ان کی زندگی اور ان کے دین کی حفاظت کی اور خلائق کے لیے انہیں ایک بڑا معجزہ بنا دیا اور ان کی ثنائے حسن کو دنیا میں پھیلا دیا جو ان پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے اور ان کے لیے ہر سبب آسان کردیا حتیٰ کہ وہ جگہ جہاں وہ سوتے رہے ممکن حد تک محفوظ تھی۔ الكهف
17 یعنی اللہ تعالیٰ نے سورج کی تمازت سے ان کی حفاظت کی۔ انہیں ایک ایسا غار مہیا کیا کہ جب سورج طلوع ہوتا تو اس کے دائیں طرف سے گزر جاتا اور جب غروب ہوتا تو اس کی بائیں طرف سے گزر جاتا اس طرح سورج کی تمازت ان تک نہ پہنچ پاتی، جو ان کے ابدان کو خراب کرتی۔ ﴿وَهُمْ فِي فَجْوَةٍ مِّنْهُ﴾ ” اور وہ اس کے میدان میں تھے۔“ یعنی وہ غار کے اندر ایک کھلی جگہ میں لیٹے ہوئے تھے تاکہ وہاں تازہ ہوا کا گزر ہو اور یوں وہ گھٹن اور بدن کے خراب ہونے سے بچیں رہیں خاص طور پر جبکہ انہوں نے طویل عرصہ تک پڑے رہنا تھا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی ایک نشانی ہے جو اس کی قدرت اور رحمت پر دلالت کرتی ہے نیز ان کی دعا کے قبول ہونے اور ان کے ہدایت یافتہ ہونے پر دلالت کرتی ہے۔ بنا بریں فرمایا : ﴿  مَن يَهْدِ اللّٰـهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِ﴾ ” جس کو ہدایت دے اللہ، پس وہی ہدایت پر ہے“ یعنی اللہ کے سوا ہدایت کے حصول کا کوئی راستہ نہیں، دین و دنیا کے مصالح کے لیے اللہ تعالیٰ ہی ہادی اور راہنما ہے۔ ﴿وَمَن يُضْلِلْ فَلَن تَجِدَ لَهُ وَلِيًّا مُّرْشِدًا﴾ ” اور جس کو وہ گمراہ کر دے، پس آپ اس کے لیے ہرگز ررہنمائی کرنے والا رفیق نہیں پائیں گے۔“ یعنی آپ کوئی ایسی ہستی نہیں پائیں گے جو اس کی سر پرستی کرے اور اس کے معاملے کی اس طرح تدبیر کرے جو اس کے لیے درست ہے اور نہ کوئی ایسی ہستی پائیں گے جو نیکی اور فلاح کی طرف اس کی راہ نمائی کرسکے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کی گمراہی کا فیصلہ کردیا ہے اور اس کے فیصلے کو کوئی رد نہیں کرسکتا۔ الكهف
18 ﴿  وَتَحْسَبُهُمْ أَيْقَاظًا وَهُمْ رُقُودٌ﴾ ” اور تم ان کو خیال کرو کہ جاگ رہے ہیں حالانکہ وہ سوتے ہیں۔“ سو رہے ہیں مفسرین کہتے ہیں، اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں تاکہ خراب نہ ہوں، اس لیے ان کو دیکھنے والا سمجھتا تھا کہ وہ جاگ رہے ہیں حالانکہ وہ محو خواب تھے۔ ﴿  وَنُقَلِّبُهُمْ ذَاتَ الْيَمِينِ وَذَاتَ الشِّمَالِ﴾” اور کروٹیں دلاتے ہیں ہم ان کو دائیں اور بائیں جانب۔“ یہ انتظام بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے جسموں کی حفاظت کے لیے تھا کیونکہ یہ زمین کی خاصیت ہے کہ جو چیز اس کے ساتھ پیوست رہتی ہے یہ اس کو کھا جاتی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت تھی کہ وہ ان کو دائیں پہلو پر اور کبھی بائیں پہلو پر پلٹاتا رہتا تھا تاکہ زمین ان کے جسم کو خراب نہ کرے اور اللہ تعالیٰ تو اس پر بھی قادر ہے کہ وہ ان کے پہلوؤں کو ادل بدل کے بغیر ہی ان کے جسموں کی حفاظت کرے۔ مگر اللہ تعالیٰ حکیم ہے اس نے ارادہ فرمایا کہ وہ اس تکوینی قوانین میں اپنی سنت کو جاری و ساری کرے اور اسباب کو ان کے مسببات کے ساتھ مربوط کرے ﴿ وَكَلْبُهُم بَاسِطٌ ذِرَاعَيْهِ بِالْوَصِيدِ﴾ ” اور ان کا کتا اپنے بازو پھیلائے ہوئے تھا چوکھٹ پر“ یعنی وہ کتا جو اصحاب کہف کے ساتھ تھا اس کی چوکیداری کے وقت اس پر بھی وہی نیند طاری ہوئی جو ان پر طاری ہوگئی تھی وہ اس وقت اپنی اگلی ٹانگیں زمین پر بچھائے غار کے دہانے پر بیٹھا تھا یا وہ غار میں کھلی جگہ پر بیٹھا تھا، یہ انتظام تو ان کو زمین سے بچانے کے لیے تھا۔ رہا لوگوں سے ان کی حفاظت کرنا، تو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ رعب کے ذریعے سے ان کی حفاظت کی جو کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی ہیئت میں رکھ دیا تھا۔ اگر کوئی شخص غار کے اندر جھانک کر دیکھے تو اس کا دل رعب سے بھر جائے اور وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ جائے۔ یہی وہ چیز تھی جو اس امر کی موجب تھی کہ وہ طویل مدت تک صحیح سلامت باقی رہیں۔ اور شہر سے بہت قریب ہونے کے باوجود کسی کو ان کے بارے میں علم نہ ہوا اور شہر سے ان کے قرب کی دلیل یہ ہے کہ جب وہ نیند سے بیدار ہوئے تو انہوں نے اپنے میں سے ایک شخص کو بھیجا کہ وہ شہر سے کھانا خرید کر لائے اور دوسرے لوگ اس کا انتظار کرتے رہے یہ چیز دلالت کرتی ہے کہ شہر ان سے بہت قریب تھا۔ الكهف
19 ﴿ وَكَذٰلِكَ بَعَثْنَاهُمْ﴾ یعنی اسی طرح ہم نے ان کو ان کی طویل نیند سے بیدار کیا ﴿لِيَتَسَاءَلُوا بَيْنَهُمْ  ﴾ ” تاکہ آپس میں ایک دوسرے سے دریافت کریں۔“ یعنی سونے کی مدت کے بارے میں حقیقت معلوم کرنے کے لیے ایک دوسرے سے پوچھیں۔ ﴿ قَالَ قَائِلٌ مِّنْهُمْ كَمْ لَبِثْتُمْ ۖ قَالُوا لَبِثْنَا يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ ﴾ ” ان میں سے ایک نے کہا، تم کتنی مدت ٹھہرے ؟ انہوں نے کہا، ہم ٹھہرے ایک دن یا ایک دن سے کم۔“ یہ قائل کے ظن پر مبنی ہے گویا ان کو اپنی مدت کی طوالت کے بارے میں اشتباہ واقع ہوگیا تھا، اس لیے ﴿قَالُوا رَبُّكُمْ أَعْلَمُ بِمَا لَبِثْتُمْ ﴾ ” انہوں نے کہا تمہارا رب ہی خوب جانتا ہے جتنی مدت تم ٹھہرے“ پس انہوں نے اپنے علم کو اس ہستی کی طرف لوٹا دیا جس کا علم اجمالا اور تفصیلا ہر چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ شاید اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کے سوئے رہنے کی مدت سے ان کو مطلع کردیا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو بیدار کردیا تھا تاکہ وہ اس مدت کے بارے میں ایک دوسرے سے پوچھیں پھر اللہ تعالیٰ نے خبر دی کہ انہوں نے ایک دوسرے سے سوال کیا اور اپنے اپنے مبلغ علم کے مطابق انہوں نے کلام کیا اور ان کی آپس میں بحث کا نتیجہ یہ رہا کہ ان کے سونے کی مدت کا معاملہ مشتبہ ہی رہا۔ یہ لازمی امر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو یقینی طور پر آگاہ کیا ہوگا اور ہمیں یہ بات ان کے بیدار کیے جانے میں اللہ تعالیٰ کی حکمت سے معلوم ہوئی ہے اور اللہ تعالیٰ کا کوئی فعل عبث نہیں ہوتا اور یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی رحمت ہے کہ جو کوئی ان معاملات میں حقیقت کا طلب گار ہوتا ہے جن کا جاننا مطلوب ہے اور اس کے لیے امکان بھر کوشش بھی کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ ان معاملات کو اس پر واضح کردیتا ہے اور بعد میں مذکور اللہ تعالیٰ کے اس قول سے بھی اس کی وضاحت ہوتی ہے۔ ﴿وَكَذٰلِكَ أَعْثَرْنَا عَلَيْهِمْ لِيَعْلَمُوا أَنَّ وَعْدَ اللّٰـهِ حَقٌّ وَأَنَّ السَّاعَةَ لَا رَيْبَ فِيهَا﴾ (الکھف:18؍21)” اور اسی طرح ہم نے لوگوں کو ان کے حال سے آگاہ کردیا تاکہ انہیں معلوم ہوجائے کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے اور بے شک قیامت کی گھڑی ضرور آئے گی۔“ اگر ان کے حال کے بارے میں آگاہی نہ ہوئی ہوتی تو ان کے لیے مذکورہ واقعہ میں کوئی دلیل نہ ہوتی۔ پھر جب انہوں نے ایک دوسرے سے سوال کیا اور ان کے درمیان وہ سوال جواب ہوا جس کی اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے تو انہوں نے اپنے میں سے ایک شخص کو کچھ سکے، یعنی درہم دے کر، جو ان کے پاس تھے، کھانا خرید کر لانے کے لیے اس شہر میں بھیجا جہاں سے وہ نکل کر آئے تھے اور اس سے کہا کہ وہ اچھا اور لذیذ ترین کھانا منتخب کر کے لائے، نیز اس کے شہر جانے، کھانا خرید نے اور واپس لوٹنے میں ایسا نرم رویہ اختیار کرے کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو۔ وہ اپنے آپ کو بھی چھپائے اور اپنے بھائیوں کے حال کو بھی مخفی رکھے اور کسی کو اس کے بارے میں کوئی علم نہ ہو۔ ان کے سامنے یہ اندیشہ تھا کہ لوگوں کو اگر ان کی اطلاع ہوگئی اور اس کے نتیجے میں ان کے ساتھ جو سلوک ہوگا وہ ان دو امور میں سے ایک ہوگا۔ یا تو وہ ان کو سنگسار کر کے نہایت برے طریقے سے ان کو قتل کردیں گے کیونکہ انہیں ان پر اور ان کے دین پر سخت غصہ ہے۔ یا انہیں تعذیب اور آزمائش میں مبتلا کر کے ان کو اپنے دین میں واپس لانے کی کوشش کریں گے اور اس حال میں وہ کبھی فلاح نہیں پائیں گے بلکہ وہ اپنے دین، دنیا اور آخرت کے بارے میں سخت خسارے میں رہیں گے۔ یہ دو آیات کریمہ متعدد فوائد پر دلالت کرتی ہیں : (1)حصول علم اور علمی مباحثہ پر ترغیب، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسی خاطر اصحاب کہف کو دوبارہ زندہ کیا۔ (2) جب بندے پر علم مشتبہ ہوجائے تو اس کا ادب یہ ہے کہ وہ اس علم کو اس شخص کی طرف لوٹا دے جو اس کا عالم ہے اور خود اپنی حد پر ٹھہر جائے۔ (3) خرید و فروخت میں وکالت اور اس میں شراکت صحیح ہے۔ (4) اچھی چیزیں اور لذیذ کھانے کھانا جائز ہے جبکہ ان میں اسراف نہ ہو جو ممنوع ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : ﴿فَلْيَنظُرْ أَيُّهَا أَزْكَىٰ طَعَامًا فَلْيَأْتِكُم بِرِزْقٍ مِّنْهُ ﴾ ” پس وہ دیکھے کہ سب سے اچھا کھانا کہاں سے ملتا ہے پس وہ تمہارے لیے وہیں سے کچھ کھانے کے لیے لے کر آئے۔“ خاص طور پر جبکہ انسان کو اس کے سوا کوئی اور کھانا موافق نہ آتا ہو۔ شاید یہی آیت کریمہ ان مفسرین کے قول کی بنیاد ہے جو یہ کہتے ہیں کہ اصحاب کہف بادشاہوں کی اولاد تھے اس کی دلیل یہ ہے کہ انہوں نے کھانا لانے والے کو اچھا اور لذیذ کھانا لانے کا حکم دیا تھا کیونکہ خوشحال اور بڑے لوگوں کی عادت ہے کہ وہ اچھا کھانا تناول کرتے ہیں۔ (5) جب دین میں ابتلا اور فتنہ کا موقع ہو تو اس سے بچنے چھپنے اور فتنوں کی جگہوں سے دور رہنے کی ترغیب دی گئی ہے، نیز یہ کہ وہ اپنے آپ کو اور اپنے دینی بھائیوں کو چھپائے۔ (6) ان آیات کریمہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ ان نوجوانوں کو دین میں شدید رغبت تھی وہ اپنے دین کے بارے میں ہر قسم کے فتنہ سے دور بھاگتے تھے اور انہوں نے دین کی خاطر اپنے وطن کو چھوڑ دیا تھا۔ الكهف
20 (7) ان آیات کریمہ میں اس شرکا ذکر ہے جو ضرر اور ان مفاسد پر مشتمل ہے جو اس کی نا پسندیدگی کا باعث اور اس کو ترک کرنے کی دعوت دیتے ہیں اور یہ کہ یہ طریقہ تمام متقدمین اور متاخرین اہل ایمان کا طریقہ ہے کیونکہ اہل کہف نے کہا تھا : ﴿وَلَن تُفْلِحُوا إِذًا أَبَدًا  ﴾ اگر وہ تمہیں اپنی ملت میں واپس لوٹا دیں تو تم کبھی فلاح نہیں پاؤ گے۔ الكهف
21 اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس نے لوگوں کو اصحاب کہف کے احوال سے مطلع کیا اور یہ اطلاع یوں ہوئی (واللہ اعلم) کہ اصحاب کہف جب اپنی نیند سے بیدار ہوئے تو انہوں نے اپنے ایک ساتھی کو کھانا لانے کے لیے شہر بھیجا اور اسے ہدایت کی کہ وہ خود اپنے آپ کو اور ان کے معاملے کو چھپائے رکھے۔ مگر اللہ تعالیٰ ایک ایسا معاملہ چاہتا تھا جس میں لوگوں کی بھلائی اور ان کے لیے زیادہ اجر تھا۔ انہوں نے اصحاب کہف میں اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے اس بات کی نشانی کا عینی مشاہدہ کیا کہ اللہ تعالیٰ کا قیامت کا وعدہ سچا ہے جس میں کوئی شک و شبہ نہیں اور اس کا آنا بعید نہیں۔ اس سے پہلے وہ اس امر میں اختلاف کیا کرتے تھے۔ بعض لوگ قیامت اور جزائے اعمال کو مانتے تھے اور بعض اس کا انکار کرتے تھے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اصحاب کہف کے واقعہ کو اہل ایمان کے لیے ان کے یقین و بصیرت میں اضافے اور منکرین کے خلاف حجت و برہان کا باعث بنایا اور اس تمام قضیے کا اجر اصحاب کہف کو حاصل ہوا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اصحاب کہف کے واقعہ کو تشہیر بخشی، ان کی قدرو منزلت بلند کی یہاں تک کہ ان لوگوں کی بھی عظمت بیان کی جو ان کے احوال پر مطلع ہوئے۔ ﴿  فَقَالُوا ابْنُوا عَلَيْهِم بُنْيَانًا ﴾ ” پس نہوں نے کہا، بناؤ ان پر ایک عمارت۔“ اللہ تعالیٰ ان کے حال و مآل کے بارے میں زیادہ جانتا ہے۔ وہ لوگ جو ان کے معاملے میں اختیار رکھتے تھے، یعنی اصحاب اقتدار وہ کہنے لگے : ﴿ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَيْهِم مَّسْجِدًا ﴾ ” ہم بنائیں گے ان کی جگہ پر ایک مسجد“، یعنی ہم اس مسجد میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں گے اور اس مسجد کی وجہ سے ان کے حالات و واقعات کو یاد رکھیں گے۔ مگر یہ حالت ممنوع اور حرام ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے منع کیا ہے اور ایسا کرنے والوں کی مذمت فرمائی ہے۔ [صحيح البخاري، كتاب الجنائز، باب ما يكره من اتخاذ المساجد علي القبور، حديث: 1230] یہاں اس کا ذکر کرنا اس کے مذموم نہ ہونے پر دلالت نہیں کرتا کیونکہ آیات کا سیاق اصحاب کہف کی شان اور ان کی مدح و ثنا کے بارے میں ہے، یعنی اصحاب کہف کے بارے میں اطلاع پاکر لوگوں کی حالت یہ تھی کہ وہ یہاں تک کہنے لگے کہ ان پر ایک مسجدتعمیر کر دو۔ کہاں تو اصحاب کہف کو اپنی قوم سے شدید خوف اور اپنے بارے میں اطلاع ہونے کا ڈر تھا اور کہاں یہ حالت تھی جو آپ کے سامنے ہے۔ ﴿1﴾ یہ واقعہ اس بات کی دلیل ہے کہ جو کوئی اپنے دین کو فتنوں سے بچانے کے لیے فرار ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اسے فتنوں سے محفوظ رکھتا ہے۔ ﴿2﴾ جو کوئی عافیت کی خواہش رکھتا ہے اللہ تعالیٰ اسے عافیت عطا کرتا ہے۔ ﴿3﴾ جو اللہ تعالیٰ کے پاس پناہ لیتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو پناہ دیتا ہے اور اسے دوسروں کے لیے ذریعہ ہدایت بنا دیتا ہے۔ ﴿4﴾ جو کوئی اللہ تعالیٰ کے راستے میں اس کی رضا کی خاطر ذلت اٹھاتا ہے انجام کار اسے بہت زیادہ عزت نصیب ہوتی ہے اور اسے اس کا وہم و گمان بھی نہیں ہوتا۔ ﴿ وَمَا عِندَ اللّٰـهِ خَيْرٌ لِّلْأَبْرَارِ  ﴾ (آل عمران :3؍198)” جو اللہ کے پاس ہے وہ نیکو کار لوگوں کے لیے بہت بہتر ہے۔“ الكهف
22 اللہ تبارک و تعالیٰ اصحاب کہف کی تعداد کے بارے میں اہل کتاب کے اختلاف کا ذکر فرماتا ہے ان کا اختلاف محض اٹکل پچو اور بے تکی باتیں تھیں۔ انہوں نے بغیر کسی علم کے یہ باتیں گھڑ لی تھیں۔ ان کی تعداد کے متعلق اہل کتاب کے تین اقوال تھے : (1) ان میں سے بعض کا خیال تھا کہ اصحاب کہف تین آدمی تھے اور چوتھا ان کا کتا تھا۔ (2) بعض کی رائے تھی کہ وہ پانچ آدمی تھے اور چھٹا ان کا کتا تھا۔۔۔۔ یہ دو قول ہیں جن کو ذکر کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کو ( رجما بالغیب)قرار دیا ہے اور اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ان دونوں اقوال کے بطلان پر دلالت کرتا ہے۔ (3) بعض کہتے ہیں کہ وہ تعداد میں سات تھے اور آٹھواں ان کا کتا تھا اور یہی قرین صواب ہے۔ ( واللہ اعلم) کیونکہ اللہ تعالیٰ نے پہلے دو اقوال کا ابطال کیا ہے مگر اس قول کا ابطال نہیں کیا جو اس کی صحت کی دلیل ہے۔ تاہم یہ ایسا اختلاف ہے جس کے تحت کوئی فائدہ نہیں، نہ ان کے عدد کی معرفت سے لوگوں کو کوئی دینی یا دنیاوی مصلحت حاصل ہوتی ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿قُل رَّبِّي أَعْلَمُ بِعِدَّتِهِم مَّا يَعْلَمُهُمْ إِلَّا قَلِيلٌ  ﴾ ” کہہ دیجیے ! میرا رب ہی خوب جانتا ہے ان کی تعداد کو، تھوڑے لوگ ہی ان کا علم رکھتے ہیں۔“ اور یہ وہ لوگ ہیں جو صواب تک پہنچ گئے اور انہیں اپنی اصابت کا علم بھی ہوگیا۔ ﴿فَلَا تُمَارِ فِيهِمْ  ﴾ ” لہٰذا ان کے بارے میں جھگڑا نہ کیجیے“ ﴿  إِلَّا مِرَاءً ظَاهِرًا ﴾ ” مگر سرسری گفتگو“ یعنی ایسی بحث جو علم و یقین پر مبنی ہو اس میں فائدہ بھی ہو۔ رہی وہ بحث اور مجادلہ جو جہالت اور اٹکل پچو دلائل پر مبنی ہو یا اس بحث میں کوئی دینی یا دنیاوی فائدہ نہ ہو یا مد مقابل عناد رکھتا ہو یا زیر بحث مسئلہ کی کوئی اہمیت نہ ہو، اس کی معرفت سے کوئی دینی فائدہ حاصل نہ ہوتا ہو، مثلاً اصحاب کہف کی تعداد وغیرہ۔۔۔ تو اس قسم کے امور میں کثرت سے بحث مباحثہ کرنا تضیع اوقات ہے اور یہ بحث مباحثہ باہمی مودت و محبت پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ ﴿ وَلَا تَسْتَفْتِ فِيهِم  ﴾ ” اور نہ پوچھیے ان کے بارے میں“ یعنی اصحاب کہف کے بارے میں ﴿ مِّنْهُمْ  ﴾ یعنی اہل کتاب میں سے ﴿ أَحَدًا ﴾ ” کسی سے بھی“ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کا کلام محض اندازوں اور وہم و گمان پر مبنی ہے جو حق کے مقابلے میں کوئی فائدہ نہیں دیتا۔ اس آیت کریمہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ جو فتویٰ دینے کی صلاحیت نہیں رکھتا اس سے استفتاء نہ کیا جائے، خواہ اس کی وجہ یہ ہو کہ جس امر کے بارے میں فتویٰ پوچھا جا رہا ہے وہ اس میں کوتاہ علم ہے یا اس کی وجہ یہ ہو کہ وہ بولتے وقت اس بات کی پروا نہیں کرتا کہ وہ کیا بول رہا ہے اور وہ ورع سے بھی خالی ہے جو اسے لا یعنی کلام سے روک دے۔ جب اس قسم کے امور میں استفتاء ممنوع ہے تو فتویٰ دینا تو بدرجہ اولیٰ ممنوع ہے۔ اس آیت کریمہ میں اس بات کی بھی دلیل ہے کہ انسان کو بسا اوقات کسی ایک امر میں استفتاء کرنے سے روکا گیا مگر کسی دوسرے معاملے میں استفتاء کی اجازت ہوتی ہے۔ پس وہ ایسے شخص سے فتویٰ : طلب کرے جو فتویٰ دینے کا اہل ہو، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے فتویٰ پوچھنے سے علی الاطلاق منع نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ نے صرف اصحاب کہف کے قصے میں اور اس قسم کے دیگر واقعات میں فتویٰ پوچھنے سے روکا ہے۔ الكهف
23 یہ نہی دیگر نواہی کی مانند ( عام) ہے اگرچہ یہ ایک خاص سبب کی بنا پر ہے اور اس کے مخاطب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، مگر اس کا خطاب عام مکلفین کے لیے بھی ہے۔ پس اللہ تبارک و تعالیٰ نے روک دیا ہے کہ بندہ مومن، مستقبل کے امور کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی مشیت کو ملائے بغیر کہے ” میں یہ کام کروں گا“ اور یہ اس لیے کہ اس میں خطرات ہیں، اور وہ ہے مستقبل کے غیبی معاملات کے بارے میں کلام کرنا، جن کے بارے میں بندہ نہیں جانتا کہ وہ ان پر عمل کر سکے گا یا نہیں، یا وہ ہو گا یا نہیں؟ اس طرح کہنے میں فعل کے کرنے یا نہ کرنے کا معاملہ مستقل طور پر بندے کی طرف لوٹانا ہے، حالانکہ یہ قابل احتراز شے اور ممنوع ہے، کیونکہ مشیت تمام تر اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہے۔ فرمایا : ﴿وَمَا تَشَاءُونَ إِلَّا أَن يَشَاءَ اللّٰـهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ ﴾ (التکویر :81؍29)’’تم نہیں چاہتے مگر جو اللہ جہانوں کا رب چاہتا ہے۔“ اپنے کسی امر میں اللہ کی مشیت کے ذکر کرنے میں اس امر کی آسانی تسہیل، اس میں برکت کا حصول اور بندے کی اپنے رب سے مدد کی طلب ہے۔ علاوہ ازیں بندہ ایک بشر ہے اور اللہ تعالیٰ کی مشیت کے ذکر کو بھول جانا ایک لا بدی امر ہے اس لیے اس نے اپنے بندے کو حکم دیا کہ جب اسے یاد آئے وہ استثناء کرلیا کرے ( یعنی ” ان شاء اللہ“ کہہ لیا کرے) تاکہ مطلوبہ و مقصود حاصل ہو اور محزور سے بچا جا سکے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد الكهف
24 ﴿ وَاذْكُر رَّبَّكَ إِذَا نَسِيتَ﴾ ” جب تو بھول جائے تو اپنے رب کو یاد کر“ کے عموم سے بھی یہ حکم اخذ کیا جاتا ہے کہ نسیان کے وقت اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا جائے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ذکر نسیان کو زائل کردیتا ہے اور بندے کو وہ امر یاد دلا دیتا ہے جو اسے بھول گیا تھا۔ اسی طرح اللہ کا ذکر بھول جانے اور نسیان کا شکار ہوجانے والے کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنے رب کو یاد کرے اور اور غافلوں میں شامل نہ ہو۔ چونکہ بندہ اصابت کی توفیق اور اپنے اقوال و افعال میں عدم خطا کے لیے اللہ تعالیٰ کا محتاج ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کو حکم دیا ہے کہ وہ کہے ﴿ عَسَىٰ أَن يَهْدِيَنِ رَبِّي لِأَقْرَبَ مِنْ هَـٰذَا رَشَدًا ﴾ ” امید ہے کہ دکھائے مجھے میرا رب اس سے زیادہ نزدیک نیکی کی راہ“ پس اللہ تعالیٰ نے اسے حکم دیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کو پکارے، اسی سے امید وابستہ کرے اور اسی پر اس بارے میں بھروسہ کرے کہ وہ اس کی رشدو ہدایت کے لیے قریب ترین راستہ کی طرف اس کی راہنمائی کرے گا۔ جس بندے کا حال یہ ہو، پھر وہ رشد و ہدایت کی طلب میں اپنی کوشش اور جہد صرف کرے وہ اس لائق ہے کہ اس کو رشد وہدایت کی توفیق عطا ہو اس کے پاس اس کے رب کی مدد آئے اور اس کے تمام امور میں اسے درستی وراستی عطا ہو۔ الكهف
25 چونکہ اللہ تعالیٰ نے اصحاب کہف کے بارے میں اہل کتاب سے سوال کرنے سے منع کردیا ہے کیونکہ انہیں اس کے متعلق کچھ علم نہیں، اللہ تعالیٰ ہی غیب اور حاضر کا علم رکھتا ہے اور وہ ہر چیز کو جانتا ہے۔۔۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے سوئے رہنے کی مدت سے آگاہ فرمایا۔ اس مدت کو وہ اکیلا ہی جانتا ہے کیونکہ اس کا تعلق آسمانوں اور زمین کے غیبی امور سے ہے اور غیبی امور کا علم اللہ تعالیٰ سے مختص ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان امور کے بارے میں اپنے رسولوں کی زبانی آگاہ فرمایا ہے وہی حق یقینی ہے جس میں کوئی شک نہیں اور وہ امور جن کے بارے میں وہ اپنے انبیاء و رسل کو مطلع نہیں کرتا مخلوق میں سے کوئی بھی ان کو نہیں جان سکتا۔ الكهف
26 اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد : ﴿أَبْصِرْ بِهِ وَأَسْمِعْ  ﴾ ” کیا ہی خوب وہ دیکھتا اور سنتا ہے۔“ تمام معلومات پر اپنے علم کے احاطہ کے بارے میں آگاہ کرنے کے بعد کامل سمع و بصر، تمام مسموعات و مبصرات پر اس سمع و بصر کے محیط ہونے پر تعجب کا اظہار ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ ولایت عامہ اور ولایت خاصہ میں وہی منفرد ہے وہی ولی اور مددگار ہے جو تمام کائنات کی تدبیر کرتا ہے اپنے مومن بندوں کا دوست اور مددگار ہے وہ اہنیں اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لاتا ہے۔ فرمایا : ﴿مَا لَهُم مِّن دُونِهِ مِن وَلِيٍّ  ﴾ ” نہیں ہے واسطے ان کے اس کے سوا، کوئی دوست کار ساز“ یعنی وہی ہے جس نے اپنے لطف و کرم سے اصحاب کہف کی سرپرستی فرمائی اور ان کے معاملے کو اپنی مخلوق میں سے کسی پر نہیں چھوڑا۔ ﴿وَلَا يُشْرِكُ فِي حُكْمِهِ أَحَدًا ﴾ ” اور وہ اپنے حکم میں کسی کو شریک نہیں کرتا“ اور یہ حکم کونی و قدری اور حکم دینی و شرعی دونوں کو شامل ہے وہی قضا و قدر اور تخلیق و تدبیر کے ذریعے سے اور امرو نہی اور ثواب و عقاب کے ذریعے سے اپنی مخلوق میں اپنا حکم نافذ کرتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرما دیا کہ آسمانوں اور زمین کے تمام غیبی امور کو وہ جانتا ہے تو مخلوق کے لیے ان کو جاننے کا اس طریقے کے سوا کوئی اور طریقہ نہیں، جو اس نے اپنے بندوں کو بتایا ہے۔ یہ قرآن کریم بہت سے غیبی امور پر مشتمل ہے اللہ تعالیٰ نے اس پر اپنی توجہ مرکوز کرنے کا حکم دیا ہے۔ چنانچہ فرمایا : الكهف
27 تلاوت سے مراد اتباع کرنا ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف جو وحی بھیجی ہے اس کے معانی کی معرفت اور ان کا فہم حاصل کر کے، اس کی دی ہوئی خبروں کی تصدیق اور اس کے اوامر نواہی کی تعمیل کر کے اس کی اتباع کیجیے کیونکہ یہ بہت ہی جلیل القدر کتاب ہے جس کی باتوں کو کوئی تبدیل نہیں کرسکتا، ان کلمات کے صدق و عدل اور حسن میں ہر غایت و انتہا سے بڑھ جانے کی وجہ سے، ان میں کوئی تغیر و تبدل نہیں ہوسکتا : ﴿وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَعَدْلًا ﴾ (الانعام 6؍115)” آپ کے رب کی بات صدق و عدل کے اعتبار سے کامل ہے۔“ پس اپنے کمال کی وجہ سے ان باتوں میں تغیر و تبدل محال ہے اگر اللہ تعالیٰ کے کلمات ناقص ہوتے تو ان میں تغیر و تبدل واقع ہوسکتا۔ اس میں قرآن کریم کی عظمت کا اظہار ہے اور اسی ضمن میں قرآن کریم کی طرف توجہ کرنے کی ترغیب ہے۔ ﴿ وَلَن تَجِدَ مِن دُونِهِ مُلْتَحَدًا ﴾ ” اور اس کے سوا تم کہیں پناہ کی جگہ بھی نہیں پاؤ گے۔“ یعنی آپ کے رب کے سوا آپ کو کہیں کوئی ٹھکانا نہیں ملے گا جہاں آپ چھپ سکیں، نہ پناہ گاہ ملے گی جہاں پناہ لے سکیں۔ پس جب یہ حقیقت متعین ہوگئی کہ تمام امور میں وہی ملجاو ماویٰ ہے تو یہ بات بھی متعین ہوگئی کہ وہی الٰہ ہے خوشحالی اور بدحالی میں اسی کی طرف رغبت کی جائے، لوگ اپنے تمام احوال میں اسی کے محتاج ہیں اور اپنے تمام مطالب میں اسی سے سوال کیا جائے۔ الكهف
28 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اور دوسروں کو، جو اوامر نواہی میں آپ کے نمونہ پر عمل پیرا ہیں، حکم دیتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو مومنوں کے ساتھ جوڑے رکھیں جو اللہ کے بندے اور اس کی طرف رجوع کرنے والے ہیں۔ ﴿ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُم بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ  ﴾ ” جو پکارتے ہیں اپنے رب کو صبح و شام“ یعنی دن کے پہلے اور آخری حصے میں، اس طرح وہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی چاہتے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کی بندگی اور اس میں ان کے اخلاص کو بیان کیا ہے۔ پس اس آیت کریمہ میں حکم دیا گیا ہے کہ نیک لوگوں کی صحبت اختیار کی جائے ان کی صحبت اختیار کرنے اور ان کے ساتھ اختلاط میں، نفس کے ساتھ مجاہدہ کیا جائے۔ خواہ یہ نیک لوگ فقرا ہی کیوں نہ ہوں کیونکہ ان کی صحبت میں اتنے فوائد ہیں جن کا شمار نہیں ہوسکتا۔ ﴿وَلَا تَعْدُ عَيْنَاكَ عَنْهُمْ ﴾ ” اور تمہاری نگاہیں ان میں سے (گزر کر اور طرف) نہ دوڑیں۔“ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظریں ان سے تجاوز کریں نہ آپ اپنی نظروں کو ان سے ہٹائیں۔ ﴿تُرِيدُ زِينَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ﴾ ” دنیا کی زندگی کی رونق کی تلاش میں“ کیونکہ یہ چیز نقصان دہ ہے اس میں کوئی فائدہ نہیں یہ تمام دینی مصالح کی قاطع ہے یہ دنیا سے دل کے تعلق کی موجب بنتی ہے، دل میں اندیشے اور وسوسے جاگزیں ہوجاتے ہیں اور دل سے آخرت کی رغبت زائل ہوجاتی ہے دنیا کی زیب و زینت دیکھنے والے کو بہت خوش کن نظر آتی ہے، قلب پر جادو کردیتی ہے جس سے قلب اللہ تعالیٰ کے ذکر سے غافل ہو کر لذات و شہوات میں مگن ہوجاتا ہے تب وہ اپنے وقت کو ضائع کر کے اپنے معاملے میں کوتاہی کا شکار ہوتا ہے۔ وہ دائمی خسارے میں پڑجاتا ہے اور ابدی ندامت اس کا نصیب بن جاتی ہے، اس لیے فرمایا : ﴿وَلَا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَن ذِكْرِنَا ﴾ ” اس شخص کا کہنا نہ مانیے جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا“ یعنی وہ اللہ تعالیٰ سے غافل ہوگیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کو سزا دی کہ اسے اپنے ذکر سے غافل کردیا۔ ﴿وَاتَّبَعَ هَوَاهُ  ﴾ ” اور وہ اپنی خواہشات نفس کے پیچھے لگ گیا“ اس کے نفس نے جو چاہا وہ کیا اور اس کو پا لینے کی کوشش کرنے لگا خواہ اس میں اس کی ہلاکت اور اس کے لیے خسارہ ہی کیوں نہ ہو۔ پس اس نے اپنی خواہشات نفس کو اپنا معبود بنا لیا جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَـٰهَهُ هَوَاهُ وَأَضَلَّهُ اللّٰـهُ عَلَىٰ عِلْمٍ ﴾(الجاثیة:45؍23) ’’کیا تو نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا معبود بنا لیا اور اللہ نے علم کے باوجود اسے گمراہ کردیا۔“ ﴿ وَكَانَ أَمْرُهُ  ﴾ ” اور اس کا کام ہے“ یعنی اس کے دین و دنیا کے مصالح ﴿فُرُطًا  ﴾ ” حد سے نکل جانا“ یعنی ضائع اور معطل ہونے والے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے ایسے شخص کی اطاعت سے روکا ہے کیونکہ اس کی اطاعت اس کی پیروی کرنے کی دعوت دیتی ہے، نیز اس لیے کہ وہ صرف اسی چیز کی طرف دعوت دیتا ہے جس سے وہ خود متصف ہے۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ وہی شخص اطاعت کے لائق اور لوگوں کا امام بننے کے قابل ہے جس کا دل محبت الٰہی سے لبریز ہو اور اس کی زبان پر محبت الٰہی کا فیضان ہو وہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتا ہو اپنے رب کی رضا کی پیروی کرتا ہو اور اسے اپنے نفس کی خواہشات پر مقدم رکھتا ہو۔ پس اس طرح وہ اپنے وقت کی حفاظت کرے گا، اس کے تمام احوال درست اور تمام افعال ٹھیک ہوجائیں گے۔ وہ لوگوں کو اس چیز کی طرف دعوت دے گا جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے اس پر احسان کیا ہے۔ پس یہ شخص اس بات کا مستحق ہے کہ اس کی اتباع کی جائے اور اس کو امام بنایا جائے۔ آیت مقدسہ میں جس صبر کا ذکر کیا گیا ہے اس سے مراد اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر صبر ہے۔ یہ صبر کی بلند ترین قسم ہے اس کی تکمیل سے صبر کی باقی تمام اقسام کی تکمیل ہوتی ہے۔ آیت مبارکہ سے ذکر الٰہی، دعا اور دن کے دونوں حصوں میں عبادت کا استحباب مستفاد ہوتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس فعل پر ان کی مدح کی ہے اور جس فعل پر اللہ تعالیٰ فاعل کی مدح کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کو محبوب ہے اور جب اللہ تعالیٰ اس فعل کو پسند کرتا ہے تو اس کا حکم اور اس کی ترغیب دیتا ہے۔ الكهف
29 اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! لوگوں سے کہہ دیجیے کہ یہ تمہارے رب کی طرف سے حق ہے، یعنی ضلالت میں سے ہدایت، گمراہی میں سے راہ راست اور اہل شقاوت و اہل سعادت کی صفات واضح ہوگئی ہیں اور یہ اس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے حق کو اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان پر واضح کردیا اور جب حق واضح ہوگیا تو اس میں کوئی شک و شبہ باقی نہ رہا۔ ﴿  فَمَن شَاءَ فَلْيُؤْمِن وَمَن شَاءَ فَلْيَكْفُرْ ۚ ﴾ ” پھر جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر کرے“ یعنی دو راستوں میں سے ایک راستے کو اختیار کیے بغیر چارہ نہیں۔ جس پر بندہ تو فیق اور عدم توفیق کے مطابق گامزن ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بندے کو ارادے کی آزادی عطا کی ہے، اس آزادی کی بنا پر بندہ ایمان لانے، کفر کرنے اور خیرو شر کے ارتکاب کی قدرت رکھتا ہے۔ پس جو کوئی ایمان لے آتا ہے اسے حق و صواب کی توفیق عطا ہوتی ہے اور جو کوئی کفر کرتا ہے اس پر حجت قائم ہوجاتی ہے۔ اسے ایمان پر مجبور نہیں کیا جاتا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :۔ ﴿لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ ۖ قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ ۚ ﴾ (البقرہ :2؍256)’’دین میں کوئی جبر نہیں، ہدایت گمراہی سے واضح ہوگئی ہے۔“ پھر اللہ تعالیٰ نے دونوں فریقوں کے انجام کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : ﴿إِنَّا أَعْتَدْنَا لِلظَّالِمِينَ ﴾ ” بے شک ہم نے ظالموں کے لیے تیار کی ہے“ یعنی جنہوں نے کفر، فسق اور معصیت کے ذریعے سے ظلم کا ارتکاب کیا ﴿  نَارًا أَحَاطَ بِهِمْ سُرَادِقُهَا ۚ ﴾ ” آگ، جن کو گھیر رہی ہیں اس کی قنا تیں“ یعنی آگ کی بڑی بڑی دیواریں ہیں جنہوں نے ان ظالموں کو گھیر رکھا ہے۔ وہاں سے نکلنے کا کوئی راستہ ہوگا نہ نجات کا کوئی ذریعہ، وہ بھڑکتی ہوئی آگ میں جھونکے جائیں گے۔ ﴿ وَإِن يَسْتَغِيثُوا ﴾ ” اور اگر وہ فریاد کریں گے“ یعنی اگر وہ اپنی سخت پیاس بجھانے کے لیے پانی مانگیں گے ﴿ يُغَاثُوا بِمَاءٍ كَالْمُهْلِ ﴾ ” تو ملے گا ان کو پانی، جیسے پیپ“ یعنی انہیں پگھلے ہوئے سیسے یا تیل کی تلچھٹ جیسا پانی پلایا جائے گا۔ ﴿ يَشْوِي الْوُجُوهَ  ﴾ ” جو چہروں کو بھون ڈالے گا۔“ یعنی جو شدت حرارت کی وجہ سے چہروں کو بھون کر رکھ دے گا، تب انتڑیوں اور پیٹ کا کیا حال ہوگا؟ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿يُصْهَرُ بِهِ مَا فِي بُطُونِهِمْ وَالْجُلُودُ  وَلَهُم مَّقَامِعُ مِنْ حَدِيدٍ﴾ )الحج :22؍20،21)’’اس گرم پانی سے ان کے پیٹ اور ان کی کھالیں گل جائیں گی اور ان کے لیے لوہے کے گرز ہوں گے۔“ ﴿بِئْسَ الشَّرَابُ ﴾ ” کیا برا پینا ہے“ وہ جس سے پیاس بجھانا اور پیاس کے اس عذاب کو دور کرنا مقصود ہوگا مگر اس کے برعکس ان کے عذاب میں اضافہ اور ان کی عقوبت میں شدت ہوگی۔ ﴿  وَسَاءَتْ مُرْتَفَقًا ﴾ ” اور کیا بری (یہ آگ) آرام گاہے ” یہ آگ کے احوال کی مذمت ہے یعنی یہ آرام کی بدترین جگہ ہوگی۔ کیونکہ یہاں آرام نہیں بلکہ عذاب عظیم ہوگا جو بہت ہی تکلیف دہ ہوگا۔ گھڑی بھر کے لیے بھی یہ عذاب ان سے دور نہیں ہوگا اور وہ سخت مایوسی کے عالم میں ہوں گے۔ وہ ہر بھلائی سے مایوس ہوجائیں گے جس طرح انہوں نے مہربان اللہ کو فراموش کردیا وہ بھی انہیں، فراموش کر دے گا۔ الكهف
30 پھر اللہ تبارک و تعالیٰ، فریق ثانی یعنی اہل ایمان کا ذکر فرماتا ہے : ﴿ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ﴾ ” بے شک وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کیے“ یعنی جنہوں نے اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتوں اس کی کتابوں اس کے رسولوں، یوم آخرت اور اچھی و بری تقدیر پر ایمان لانے کے ساتھ ساتھ نیک کام یعنی واجبات و مستحبات پر عمل کیا ﴿  إِنَّا لَا نُضِيعُ أَجْرَ مَنْ أَحْسَنَ عَمَلًا﴾ ” بے شک ہم ان لوگوں کا اجر ضائع نہیں کرتے جو اچھے عمل کرتے ہیں۔“ عمل میں احسان یہ ہے کہ اس عمل میں بندے کے پیش نظر صرف اللہ تعالیٰ کی رضا ہو اور یہ عمل شریعت کی اتباع میں ہو۔ یہی وہ عمل ہے جس کو اللہ تعالیٰ ہرگز ضائع نہیں کرے گا بلکہ اسے عمل کرنے والوں کے لیے محفوظ رکھے گا اور اپنے فضل و کرم سے ان کے عمل کے مطابق انہیں پورا پورا اجر عطا کرے گا ۔ الكهف
31 اور ان الفاظ میں ان کے اجر کا ذکر فرمایا : ﴿أُولَـٰئِكَ لَهُمْ جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهِمُ الْأَنْهَارُ يُحَلَّوْنَ فِيهَا مِنْ أَسَاوِرَ مِن ذَهَبٍ وَيَلْبَسُونَ ثِيَابًا خُضْرًا مِّن سُندُسٍ وَإِسْتَبْرَقٍ مُّتَّكِئِينَ فِيهَا عَلَى الْأَرَائِكِ ۚ﴾ ” ایسے لوگوں کے لیے ہمشہ رہنے والے باغ ہیں جن میں ان کے ( محلوں کے) نیچے نہریں بہ رہی ہیں ان کو وہاں سونے کے کنگن پہنائے جائیں گے اور وہ باریک دیبا اور اطلس کے سبز کپڑے پہنا کریں گے اور تختوں پر کیے لگا کر بیٹھا کریں گے۔“ یعنی وہ لوگ جو ایمان اور عمل صالح کی صفات سے موصوف ہیں ان کے لیے بلند باغات ہوں گے جن میں بکثرت درخت ہوں گے جو جنت کے رہنے والوں پر سایہ کناں ہوں گے ان میں بکثرت دریا ہوں گے جو ان خوبصورت درختوں اور عالیشان محلوں کے نیچے بہہ رہے ہوں گے۔ جنت میں ان کے لیے سونے کے زیورات ہوں گے ان کے ملبوسات سبز ریشم کے بنے ہوں ہوں گے ( سندس)سے مراد دبیز ریشم اور ( استبرق)سے مراد باریک ریشم جو مصفر سے رنگا ہوا ہو۔ وہ قیمتی کپڑوں سے آراستہ کئے ہوئے اور سجائے ہوئے تختوں پر براجمان ہوں گے۔ (اریکۃ) کو اس وقت تک (اریکۃ) نہیں کہا جاسکتا جب تک کہ وہ مذکورہ صفات سے متصف نہ ہو۔ تختوں پر سہارا لگا کر ان کے بیٹھنے کی کیفیت دلالت کرتی ہے کہ وہ کامل راحت میں ہوں گے اور ہر قسم کی تکان ان سے دور ہوگی، خدام ان کی دل پسند چیزوں کے ساتھ ان کی خدمت میں مصروف ہوں گے اور ان تمام امور کی تکمیل اس طرح ہوگی کہ انہیں جنتوں میں دائمی خلود اور ابدی قیام حاصل ہوگا۔ پس یہ جلیل القدر گھر ﴿ نِعْمَ الثَّوَابُ﴾ ” کیا خوب بدلہ ہے، نیک عمل کرنے والوں کے لیے‘‘ ﴿وَحَسُنَتْ مُرْتَفَقًا ﴾ ” اور کیا خوب آرام کی جگہ ہے“ جس میں یہ آرام کریں گے اور اس کی چیزوں سے متمتع ہوں گے جن کی ان کے نفس خواہش کریں گے، آنکھیں لذت اٹھائیں گی، یعنی خوشی، مسرت، دائمی فرحت، کبھی ختم نہ ہونے والی لذتیں اور وافر نعمتیں۔ اس گھر سے بہتر آرام کرنے کی جگہ اور کون سی ہوسکتی ہے کہ اس کے رہنے والوں میں سے سب سے ادنیٰ شخص اپنی ملکیت اور اپنی نعمتوں میں، اپنے محلوں اور باغوں میں دو ہزار سال چلے پھر گا اور وہ اس سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں دیکھے گا۔ اس کی تمام آرزوئیں اور اس کے تمام مقاصد پورے ہوں گے۔ جہاں اس کی آرزوئیں پہنچنے سے قاصر ہوں گی وہاں ان کے مطالب میں اضافہ کردیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ، ان نعمتوں کا دوام ان کے او صاف اور حسن میں اضافے کا باعث ہے۔ پس ہم اللہ تعالیٰ سے سوال کرتے ہیں کہ ہمارے شر، ہماری تقصیر اور ہمارے گناہوں کے سبب سے ہمیں اپنے اس احسان سے محروم نہ کرے جو اس کے پاس ہے۔ اس آیت کریمہ اور اس قسم کی دیگر آیت کریمہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ جنت میں مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے زیورات ہوں گے جیسا کہ صحیح احادیث میں وارد ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿ يُحَلَّوْنَ ﴾ ” زیور پہنائے جائیں گے“ علی الطلاق بیان کیا گیا ہے اور اسی طرح ریشم کے ملبوسات بھی سب کے لیے ہوں گے۔ الكهف
32 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرماتا ہے کہ ان کے سامنے دو آدمیوں کی مثال بیان کردیجیے ایک وہ شخص جو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہے دوسرا وہ جو ان نعمتوں پر اللہ تعالیٰ کا نا شکر گزار ہے اور ان دونوں سے جس قسم کے اقوال و افعال صادر ہوتے ہیں اور ان کی بنا پر انہیں جو دنیاوی اور اخروی عذاب اور ثواب حاصل ہوگا، تاکہ یہ لوگ ان دونوں کے احوال سے عبرت حاصل کریں اور انہیں جو عذاب یا ثواب حاصل ہوا اس سے نصیحت پکڑیں۔ ان دونوں آدمیوں کی متعین طور پر معرفت حاصل کرنے اور یہ معلوم کرنے میں کہ وہ کس زمانے اور کون سی جگہ کے لوگ ہیں؟ کوئی فائدہ نہیں۔ فائدہ اور نتیجہ صرف ان کے واقعہ کو بیان کرنے میں ہے۔ ان کے قصہ کے علاوہ دیگر امور میں تعرض کرنا محض تکلف ہے۔ پس ان دونوں میں سے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی نا سپاسی کرنے والے شخص کو اللہ تعالیٰ نے دو باغ عطا کیے، یعنی انگوروں کے دو خوبصورت باغ ﴿ وَحَفَفْنَاهُمَا بِنَخْلٍ﴾ ” اور ان دونوں کے گرد کھجوروں کے درخت تھے“ یعنی ان باغات میں ہر قسم کے پھل تھے خاص طور پر انگور اور کھجور کے درخت جو سب سے افضل درخت ہیں۔ باغ کے وسط میں انگور کی بیلیں تھیں کھجور کے درختوں نے اس کو چاروں طرف سے گھیرا ہوا تھا۔ اس طرح وہ بہت خوبصورت نظر آتا تھا انگور کی بیلوں اور کھجور کے درختوں کو بکثرت ہوا اور سورج کی وافر روشنی حاصل ہوتی تھی، ہوا اور روشنی پھل کی تکمیل اور اس کے پکنے کے لیے بہت ضروری ہے اور اس کے ساتھ ساتھ درختوں کے درمیان کھیتی کاشت کی ہوئی تھی۔ پس ان کے لیے اس کے سوا کچھ باقی نہ تھا کہ ان سے کہا جاتا کہ ان دونوں باغوں کے پھل کیسے ہیں؟ کیا ان کو سیراب کرنے کے لیے کافی پانی موجود ہے؟ الكهف
33 اللہ تبارک و تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ دونوں باغوں میں سے ہر باغ کا پھل اور اس کی فصل کئی گنا ہوتی تھی ﴿ وَلَمْ تَظْلِم مِّنْهُ شَيْئًا﴾ ” اور وہ نہیں گھٹاتے تھے اس میں سے کچھ“ یعنی پھل لانے میں تھوڑی سی بھی کسر نہ چھوڑی اور اس کے ساتھ ساتھ دریا پانی سے لبریز اس کے چاروں جانب بہہ رہے تھے۔ الكهف
34 ﴿وَكَانَ لَهُ ثَمَرٌ ﴾ اور اس شخص کا باغ بہت پھل لایا تھا جیسا کہ لفظ ( ثَمَرٌ) کے نکرہ ہونے سے مستفاد ہوتا ہے۔ اس کے باغوں کا پھل پوری طرح پک گیا تھا ان کے درخت پھل کے بوجھ سے جھک رہے تھے۔ ان پر کوئی آفت نازل نہیں ہوئی تھی۔ پس یہ کھیتی باڑی کے پہلو سے دنیا کی زیب و زینت کی انتہاہے، اس وجہ سے وہ شخص دھوکے میں پڑگیا، تکبر کرنے اور اترانے لگا اور اپنی آخرت کو فراموش کر بیٹھا۔ ان باغوں کے مالک نے اپنے صاحب ایمان ساتھی سے نہایت فخر سے کہا جبکہ وہ دونوں روز مرہ کے بعض معاملات میں ایک دوسرے سے بات چیت کر رہے تھے : ﴿  أَنَا أَكْثَرُ مِنكَ مَالًا وَأَعَزُّ نَفَرًا ﴾ ” میرے پاس تجھ سے زیادہ مال ہے اور زیادہ آبرو والے لوگ“ اس نے اپنے مال کی کثرت اور اپنے اعوان و انصار، یعنی اپنے غلام و خدام اور عزیز و اقارب کی طاقت پر فخر کا اظہار کیا۔ یہ اس کی جہالت تھی ورنہ ایک ایسے خارجی امر میں کون سی فخر کی بات ہے جس میں کوئی نفسی فضیلت ہے نہ معنوی صفت۔ یہ تو ایک بچے کا سا فخر ہے جو محض اپنی آرزؤں پر فخر کرتا ہے جن کا حقیقت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ الكهف
35 پھر اس نے صرف اپنے ساتھی پر فخر کے اظہار پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اپنی جہالت اور ظلم کی بنا پر حکم لگایا اور جب وہ اپنے باغ میں داخل ہوا تو اس نے اپنے گمان کو الفاظ کا پیرا یہ دیا : ﴿  قَالَ مَا أَظُنُّ أَن تَبِيدَ هَـٰذِهِ أَبَدًا﴾ ” اس نے کہا، میں نہیں خیال کرتا کہ یہ (باغ) کبھی تباہ ہو۔“ یعنی یہ باغ کبھی ختم اور مضمحل نہ ہوگا۔ وہ اس دنیا پر مطمئن ہو کر اسی پر راضی ہوگیا اور اس نے آخرت کا انکار کردیا۔ الكهف
36 کہنے لگا : ﴿وَمَا أَظُنُّ السَّاعَةَ قَائِمَةً وَلَئِن رُّدِدتُّ إِلَىٰ رَبِّي ﴾” اور نہیں خیال کرتا میں کہ قیامت قائم ہونے والی ہے اور اگر میں اپنے رب کی طرف لوٹایا گیا“ یعنی فرض کیا قیامت قائم ہوتی ہے ﴿ لَأَجِدَنَّ خَيْرًا مِّنْهَا مُنقَلَبًا﴾ ” تو پاؤں گا اس سے بہتر وہاں پہنچ کر“ یعنی اللہ مجھے ان باغوں سے بہتر ٹھکانا عطا کرے گا، اس کی یہ بات دوامور سے خالی نہیں : (1) یا تو وہ حقیقت حال کا علم رکھتا ہے تب اس کا یہ کلام ٹھٹھے اور تمسخر کے طور پر ہے یہ اس کے کفر میں اضافے کا باعث ہے۔ (2) یا وہ حقیقت میں یہی سمجھتا ہے کہ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ نہیں کیا جائے گا تب وہ دنیا کا جاہل ترین شخص اور عقل سے بے بہرہ ہے۔ دنیا کی عطا اور آخرت کی عطا میں کون سا تلازم ہے کہ کوئی جاہل شخص اپنی جہالت کی بنا پر یہ سمجھے کہ جسے اس دنیا میں عطا کردیا گیا ہے اسے آخرت میں بھی عطا کیا جائے گا بلکہ غالب طور پر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے اولیا اور خاص بندوں سے دنیا کو دور ہٹا دیتا اور اپنے دشمنوں کو دنیا عطا کرتا ہے جن کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوتا۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس شخص کو حقیقت کا علم تھا مگر اس نے بات محض ٹھٹھے اور تمسخر کے طور پر کہی تھی اور اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے ﴿ وَدَخَلَ جَنَّتَهُ وَهُوَ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهِ﴾ ” اور وہ اپنے باغ میں گیا، جب کہ وہ اپنے ساتھ ظلم کر رہا تھا“ پس باغ میں داخل ہوتے وقت اس سے صادر ہونے والے کلمات سے اس کے وصف ظلم کا اثبات، اس کے تَمَرُّد اور عناد پر دلالت کرتا ہے۔ الكهف
37 یعنی اس کے صاحب ایمان ساتھی نے اس کو نصیحت کرتے ہوئے اور اس کو اس کی ابتدائی حالت یاد دلاتے ہوئے جس حالت میں اللہ تعالیٰ اسے وجود میں لایا تھا۔۔۔ کہا : ﴿ أَكَفَرْتَ بِالَّذِي خَلَقَكَ مِن تُرَابٍ ثُمَّ مِن نُّطْفَةٍ ثُمَّ سَوَّاكَ رَجُلً﴾ ” کیا تو نے اس ذات کا انکار کیا جس نے تجھے پیدا کیا مٹی سے، پھر قطرے سے، پھر پورا کردیا تجھ کو مرد۔“ پس وہی ہے جس نے تجھے وجود بخشا اور تجھ تک اپنی نعمتیں پہنچائیں، تجھے ایک ہئیت سے دوسری ہئیت میں منتقل کیا یہاں تک کہ تجھے کامل اعضائے محسوسہ و معقولہ کے ساتھ آدمی بنا کر پیدا کیا، تیرے لئے اسباب میں آسانی پیدا کی اور تجھے دنیا کی نعمتیں مہیا کیں۔ تو اپنی قوت و اختیار سے کبھی یہ دنیا حاصل نہ کرسکتا تھا بلکہ اللہ تعالیٰ نے تجھ پر فضل و کرم کیا ہے۔ تب تیرے لئے کیونکر یہ مناسب ہے کہ تو اللہ تعالیٰ کا انکار کرے جس نے تجھے مٹی سے پیدا کیا، پھر قطعہ سے جنم دیا اور نک سک درست کر کے آدمی بنایا اور تو اس کی نعمت کو جھٹلاتا ہے اور سمجھتا ہے کہ تیرے مرنے کے بعد وہ تجھ کو دوبارہ زندہ نہیں کرے گا اور اگر اس نے تجھے دوبارہ زندہ کیا تو تجھے تیرے اس باغ سے بہتر باغ عطا کرے گا اور یہ ایسی بات ہے جو تیرے لئے مناسب اور تیرے لائق نہیں۔ جب اس کے مومن ساتھی نے دیکھا کہ وہ اپنے کفر اور سرکشی پر جما ہوا ہے تو اس نے مجادلات و شبہات کے وارد ہونے کے وقت اپنے رب کی شکر گزاری اور اپنے دین کا اعلان کرتے ہوئے بتایا : الكهف
38 ﴿لَّـٰكِنَّا هُوَ اللّٰـهُ رَبِّي وَلَا أُشْرِكُ بِرَبِّي أَحَدًا ﴾ ” میں تو یہی کہتا ہوں کہ وہ اللہ میرا رب ہے، میں اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا۔“ پس اس نے اپنے رب کی ربوبیت اور اس ربوبیت میں اس کی یکسائی اور اس کی اطاعت و عبادت کے ضروری ہونے کا اقرار کیا اور یہ کہ وہ کسی کو اللہ تعالیٰ کا شریک نہیں ٹھہرائے گا، پھر اس نے آگاہ کیا کہ اللہ تعالیٰ نے اسے ایمان اور اسلام کی نعمت سے نوازا ہے اگرچہ اس کے پاس مال اور اولاد قلیل ہے، لیکن حقیقی نعمت ایمان اور اسلام ہی ہے اور ان کے سوا ہر چیز زائل ہوجانے والی ہے اور سزا اور عقوبت کی باعث ہے، چنانچہ فرمایا : الكهف
39 یعنی صاحب ایمان شخص نے اس کافر سے کہا کہ تو اگرچہ کثرت مال و اولاد کی بنا پر مجھ پر فخر جتاتا ہے اور تو سمجھتا ہے کہ میں مال و اولاد کے لحاظ سے تجھ سے کم تر ہوں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ کے پاس ہے وہ بہتر اور ہمیشہ باقی رہنے والا ہے اور جو امید اللہ تعالیٰ کی نوازش اور احسان پر رکھی جاسکتی ہے وہ اس دنیا و مافیہا سے بہتر ہے جس کو حاصل کرنے کے لئے لوگ ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ الكهف
40 ﴿فَعَسَىٰ رَبِّي أَن يُؤْتِيَنِ خَيْرًا مِّن جَنَّتِكَ وَيُرْسِلَ عَلَيْهَا﴾ ” پس امید ہے کہ میرا رب مجھے تیرے باغ سے بہتر عطا کرے گا اور بھیجے گا اس پر“ یعنی اس باغ پر جس کی بنا پر تو نے سرکشی کا رویہ اختیار کیا اور اس باغ نے تجھے دھوکے میں مبتلا کردیا ﴿حُسْبَانًا مِّنَ السَّمَاءِ﴾ ” عذاب آسمان سے“ یعنی طوفانی بارش یا اور کسی قسم کا عذاب ﴿فَتُصْبِحَ﴾’’پس اس سبب سے وہ ہوجائے“ ﴿صَعِيدًا زَلَقًا ﴾ ” میدان صاف“ کہ اس کے تمام درخت جڑوں سے اکھڑ جائیں، اس کا پھل تلف ہوجائے، اس کی کھیتی تباہ ہوجائے اور اس کا فائدہ مفقود ہو کر رہ جائے۔ الكهف
41 ﴿ أَوْ يُصْبِحَ مَاؤُهَا﴾ ” یا ہوجائے پانی اس کا“ یعنی باغ کے پانی کا سرچشمہ ﴿غَوْرًا ﴾ ” زمین میں اور گہرا“ ﴿ فَلَن تَسْتَطِيعَ لَهُ طَلَبًا﴾ ’’پس ہرگز نہیں لا سکے گا تو اسے ڈھونڈ کر“ یعنی اتنی گہرائی میں چلا جائے کہ تم کھدائی کے آلات کے ذریعے سے بھی وہاں تک نہ پہنچ سکو۔ اس صاحب ایمان شخص نے صرف اللہ تعالیٰ کی خاطر غضبناک ہو کر اس کے باغ کے لئے بد دعا کی تھی کیونکہ اس باغ نے اس کو دھوکے اور سرکشی میں مبتلا کردیا تھا اور وہ اس باغ پر مطمئن ہو کر رہ گیا تھا۔ اس بد دعا کا مقصد یہ تھا کہ شاید وہ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرے اور اس کی رشد و ہدایت کی طرف لوٹ آئے اور اپنے بارے میں وہ خوب غور و فکر کرے۔ الكهف
42 پس اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس کی دعا قبول فرمائی۔ ﴿ وَأُحِيطَ بِثَمَرِهِ ﴾ ” اور سمیٹ لیا گیا اس کا سارا پھل“ یعنی اس کے پھل پر عذاب نازل ہوگیا، اس نے اس کا احاطہ کر کے اس کو تباہ کردیا اور اس میں سے کچھ بھی باقی نہ چھوڑا۔ پھل کا احاطہ کرنا اس بات کو مستلزم ہے کہ اس کے باغ کے تمام درخت، ان کا تمام پھل اور زمین میں کاشت کی ہوئی تمام فصل سب کچھ تبا ہوگیا۔ پس وہ بے حد نادم ہوا اور اسے سخت افسوس ہوا۔ ﴿فَأَصْبَحَ يُقَلِّبُ كَفَّيْهِ عَلَىٰ مَا أَنفَقَ فِيهَا﴾ ” پس رہ گیا وہ اپنے ہاتھوں کو پھیرتا ہوا، اس مال پر جو اس نے اس باغ میں لگایا تھا“ یعنی اس نے اپنے باغ پر جو دنیاوی اخراجات کئے تھے وہ سب ضائع ہوگئے اور وہ کف افسوس ملتا رہ گیا اور اس کا کوئی عوض باقی نہ رہا، نیز وہ اپنے شرک اور اپنی بدی پر بھی پشیمان رہا، اس لئے وہ کہنے لگا : ﴿وَيَقُولُ يَا لَيْتَنِي لَمْ أُشْرِكْ بِرَبِّي أَحَدًا ﴾ ” کاش میں اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرتا۔ “ الكهف
43 اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَلَمْ تَكُن لَّهُ فِئَةٌ يَنصُرُونَهُ مِن دُونِ اللّٰـهِ وَمَا كَانَ مُنتَصِرًا﴾ ’’اور نہ ہوئی اس کی کوئی جماعت کہ وہ اس کی مدد کرے اور نہ ہوا وہ خود بدلہ لینے والا“ یعنی جب اس کے باغ پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہوا تو ہر چیز اس کے ہاتھوں سے نکل گئی جس پر وہ فخر کیا کرتا تھا جس کے زعم پر کہا کرتا تھا : ﴿أَنَا أَكْثَرُ مِنكَ مَالًا وَأَعَزُّ نَفَرًا ﴾ یہ اعوان و انصار اس سے کچھ بھی عذاب دور نہ کرسکے جبکہ اسے ان کی سخت ضرورت تھی اور وہ خود بھی اپنی مدد نہ کرسکا اور وہ اس عذاب سے کیسے بچ سکتا تھا اور اللہ تعالیٰ کی قضاء و قدر کے مقابلے میں کون اس کی مدد کرسکتا تھا جس کا فیصلہ جب اللہ تعالیٰ جاری فرما دیتا ہے تو زمین و آسمان کے تمام رہنے والے ملکر بھی اس میں سے کسی چیز کو زائل کرنا چاہیں تو وہ اس کی قدرت نہیں رکھتے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کے لطف و کرم سے بعید نہیں کہ اس شخص نے جس کے باغ پر آفت نازل ہوئی تھی، اپنے احوال کی اصلاح کرلی ہو، وہ اپنے رشد و ہدایت کی طرف لوٹ آیا ہو اور اس کا تمام تکبر اور اس کی سرکشی ختم ہوگئی ہو۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اس نے اپنے شرک پر ندامت کا اظہار کیا تھا اور یہ بھی بعید نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے تمرد اور سرکشی کو دور کر کے اس کو دنیا ہی میں سزا دے دی ہو کیونکہ جب اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے ساتھ بھلائی چاہتا ہے تو اسے اس دنیا ہی میں سزا دے دیتا ہے۔ عقل و وہم اللہ تعالیٰ کے فضل کا احاطہ نہیں کرسکتے اور اس کا انکار صرف وہی شخص کرسکتا ہے جو ظالم اور سخت جاہل ہے۔ الكهف
44 ﴿هُنَالِكَ الْوَلَايَةُ لِلّٰـهِ الْحَقِّ ۚ هُوَ خَيْرٌ ثَوَابًا وَخَيْرٌ عُقْبًا ﴾ ” وہاں سب اختیار اللہ برحق کا ہے، اسی کا انعام بہتر ہے اور اسی کا دیا ہوا بدلہ اچھا ہے“ یعنی اس حال میں جس میں اللہ تعالیٰ اس شخص کو سزا دینے کا حکم جاری کرتا ہے جس نے سرکشی اختیار کی اور دنیاوی زندگی کو ترجیح دی اور عزت و تکریم اس شخص کے لئے جس نے ایمان لا کر نیک عمل کئے، اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لاتا رہا اور دوسروں کو اس کی طرف دعوت دیتا رہا اس بنا پر واضح ہوگیا کہ حقیقی ولایت کا مالک صرف اکیلا اللہ تعالیٰ ہے۔ پس جو کوئی اللہ تعالیٰ پر ایمان لا کر تقویٰ اختیار کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کا ولی اور دوست ہے، وہ اسے مختلف اقسام کی کرامات کے ذریعے سے تکریم بخشتا ہے اور اس کو شر اور تمام آفتوں سے بچاتا ہے۔ جو اپنے رب پر ایمان نہیں رکھتا اور نہ اسے اپنا والی اور سرپرست بناتا ہے، وہ دنیا و آخرت میں خسارہ اٹھاتا ہے۔۔۔ پس اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ دنیاوی اور اخروی ثواب بہترین ثواب ہے جس پر امیدوں کو مرتکز ہونا چاہئے۔ اس عظیم قصے میں اس شخص کے حال میں جس کو اللہ تعالیٰ نے دنیاوی نعمتیں عنایت کیں، مگر ان نعمتوں نے اسے آخرت سے غافل کر کے سرکش بنا دیا اور وہ ان میں مگن ہو کر اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے لگا۔۔۔ لوگوں کے لئے عبرت ہے کہ ان نعمتوں کا انجام زوال اور اضمحلال ہے اگر بندہ ان نعمتوں سے تھوڑا فائدہ اٹھاتا ہے تو طویل عرصے تک محرومی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور بندہ مومن کے لئے مناسب یہی ہے کہ جب اسے اپنے مال اور اولاد میں سے کچھ اچھا لگے تو وہ اس نعمت کو نعمت عطا کرنے والے کی طرف منسوب کرے اور یہ کہے : (ماشاء اللہ لا قوۃ الا باللہ) تاکہ وہ شکر گزار بنے اور اللہ تعالیٰ کی نعمت کی بقا کے لئے سبب بنے والا بنے۔ اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : ﴿وَلَوْلَا إِذْ دَخَلْتَ جَنَّتَكَ قُلْتَ مَا شَاءَ اللّٰـهُ لَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللّٰـهِ ﴾ ” کیوں نہ، جب تو داخل ہوا اپنے باغ میں، کہا تو نے، جو چاہے اللہ سو وہ ہو۔ طاقت نہیں مگر جو دے اللہ۔ “ ان آیات کریمہ میں لذات دنیا اور اس کی شہوات کے بدلے میں ان بہتر چیزوں کے ذریعے تسلی کی طرف اشارہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں۔ فرمایا : ﴿  إِن تَرَنِ أَنَا أَقَلَّ مِنكَ مَالًا وَوَلَدًا فَعَسَىٰ رَبِّي أَن يُؤْتِيَنِ خَيْرًا مِّن جَنَّتِكَ﴾ ان آیات کریمہ سے یہ بھی مستفاد ہوتا ہے کہ مال اور اولاد اگر اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں مددگار نہ بنیں تو وہ کوئی فائدہ نہیں دیتے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿وَمَا أَمْوَالُكُمْ وَلَا أَوْلَادُكُم بِالَّتِي تُقَرِّبُكُمْ عِندَنَا زُلْفَىٰ إِلَّا مَنْ آمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا﴾ (السبا:34؍37)” تمہارا مال اور تمہاری اولاد نہیں، جو تمہیں ہم سے قریب کرتی ہو مگر وہی قریب ہوتا ہے جو ایمان لائے اور نیک کام کرے۔“ اس سے یہ بھی مستفاد ہوتا ہے کہ جس شخص کا مال اس کی سرکشی، کفر اور اس کے لئے اخروی خسارے کا سبب ہو اس مال کے تلف ہونے کی دعا کرنا جائز ہے۔ خاص طور پر جبکہ وہ اس مال کی بنا پر اپنے آپ کو اہل ایمان سے افضل سمجھتا ہو اور ان پر فخر کا اظہار کرتا ہو۔ ان آیات کریمہ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ولایت اور عدم ولایت، اس وقت ظاہر ہوگی جب غبار چھٹ جائے گا، جزا و سزا ثابت ہوگی اور علم کرنے والے اپنا اجر پا لیں گے : ﴿هُنَالِكَ الْوَلَايَةُ لِلّٰـهِ الْحَقِّ  هُوَ خَيْرٌ ثَوَابًا وَخَيْرٌ عُقْبًا﴾ ” اس وقت معلوم ہوگا کہ کار سازی تو اللہ برحق کے اختیار میں ہے، اسی کا انعام بہتر ہے اور اسی کا دیا ہوا بدلہ اچھا ہے۔ “ الكهف
45 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے نبی سے اصلاً اور ان لوگوں سے تبعاً فرماتا ہے جو آپ کے بعد آپ کے قائم مقام ہیں کہ لوگوں کے سامنے دنیاوی زندگی کی مثال بیان کردیجیے تاکہ وہ اس زندگی کا اچھی طرح تصور کرلیں اور اس کے ظاہر و باطن کی معرفت حاصل کرلیں۔ پس وہ دنیاوی زندگی اور ہمیشہ باقی رہنے والی زندگی کے درمیان تقابل کریں اور ان میں جو ترجیح دیئے جانے کی مستحق ہے اسے ترجیح دیں۔ اس دنیاوی زندگی کی مثال بارش کی سی ہے جو آسمان سے زمین پر برستی ہے جس سے زمین کی روئیدگی بہت گھنی ہوجاتی ہے اور ہر قسم کی خوش منظر نباتات اگ آتی ہیں۔ پس اس وقت کہ جب اس کی خوبصورتی اور سجاوٹ دیکھنے والوں کو خوش کن لگتی ہے، لوگ اس سے فرحت حاصل کرتے ہیں اور زمین کا یہ حسن غافل لوگوں کی نظروں کو اپنی طرف متوجہ کرلیتا ہے کہ اچانک نباتات بھس بن کر رہ جاتی ہیں اور ہوائیں اسے اڑائے لے جاتی ہیں۔ پس وہ تروتازہ، خوبصورت اور خوش منظر روئیدگی ختم ہوجاتی ہے، زمین چٹیل میدان بن جاتی ہے جہاں خاک اڑتی ہے جس سے نظریں دور ہٹ جاتی ہیں اور دل وحشت محسوس کرتے ہیں۔ دنیا کی زندگی کا بھی یہی حال ہے دنیا کی زندگی میں مگن شخص کو اپنا شباب بہت اچھا لگتا ہے، وہ اس زندگی میں اپنے ساتھیوں اور ہم جولیوں سے آگے نکل جاتا ہے، اس کے درہم و دنیار کے حصول میں لگا رہتا ہے، اس کی لذت سے خوب حظ اٹھاتا ہے، ہر وقت اس کی شہوات کے سمندر میں غوطہ زن رہتا ہے اور وہ یہی سمجھتا ہے کہ زندگی بھر اس دنیا کی لذتیں اور شہوتیں زائل نہ ہوں گی۔۔۔ کہ اچانک موت اسے آلیتی ہے یا اس کا مال تلف ہوجاتا ہے۔ خوشیاں اس سے روٹھ جاتی ہیں، اس کی لذتیں اس سے چھن جاتی ہیں، اس کا قلب مصائب و آلام سے وحشت کھاتا ہے، اس کی جوانی، اس کی طاقت اور اس کا مال سب اس کا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں اور وہ نیک یا برے اعمال کے ساتھ اکیلا باقی رہ جاتا ہے۔ یہی وہ حال ہے کہ جب ظالم کو اس کی حقیقت کا علم ہوگا تو اپنے ہاتھوں کو کاٹے گا۔ وہ تمنا کرے گا کہ اسے دنیا میں واپس بھیجا جائے، اس لئے نہیں کہ وہ ان شہوات کو پورا کرے جو نامکمل رہ گئی تھیں بلکہ اس لئے کہ اس سے غفلت میں جو کو تاہیاں صادر ہوئیں تو بہ و استغفار اور اعمال صالحہ کے ذریعے سے ان کی تلافی کرسکے، لہٰذا عقل مند اور پختہ ارادے والا شخص، جسے توفیق سے نوازا گیا ہو، اپنے آپ پر یہی حالت طاری کرتا ہے اور اپنے آپ سے کہتا ہے : ’’فرض کرلو کہ تم مر چکے ہو“ اور موت ایک یقینی امر ہے۔ پس مذکورہ دونوں حالتوں میں سے کون سی حالت کو تو اختیار کرتا ہے؟ اس دنیا کی زیب و زینت سے دھوکہ کھانا، اس سے اس طرح فائدہ اٹھانا جس طرح چراگاہ میں مویشی چرتے ہیں یا ایسی جنت کے حصول کی خاطر عمل کرنا جس کے پھل ہمیشہ رہنے والے اس کے سائے بہت گھنے ہیں۔ وہاں وہ سب کچھ ہوگا جو دل چاہے گا اور آنکھیں لذت حاصل کریں گی۔ پس یہی وہ حالت ہے جس کے ذریعے سے یہ معرفت حاصل ہوتی کہ بندے کو توفیق الٰہی سے نوازا گیا ہے یا اس کو اپنے حال پر چھوڑ دیا گیا ہے؟ اسے نفع حاصل ہوا ہے یا خسارہ؟ اسی لئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے آگاہ فرمایا ہے کہ مال اور بیٹے دنیا کی زندگی کی زیب و زینت ہیں اور اس سے آگے کچھ نہیں۔ انسان کے لئے جو کچھ باقی رہ جاتا اور جو اسے فائدہ اور خوشی دیتا ہے وہ باقی رہنے والی نیکیاں ہیں اور وہ واجب اور مستحب نیکی کے تمام کاموں کو شامل ہیں مثلاً: حقوق اللہ، حقوق العباد، نماز، زکوٰۃ، صدقہ، حج، عمرہ، تسبیح، تحمید، تہلیل، قراءت قرآن، طلب علم، نیکی کا حکم دینا برائی سے روکنا، صلہ رحمی، والدین کے ساتھ حسن سلوک، بیویوں کے حقوق پورے کرنا، غلاموں اور جانوروں کے حقوق کا احترام کرنا اور مخلوق کے ساتھ ہر لحاظ سے اچھا سلوک کرنا، یہ تمام باقی رہنے والی نیکیاں ہیں یہی وہ نیکیاں ہیں جن کا اجر اللہ تعالیٰ کے ہاں بہتر ہے اور انہی سے اچھی امیدیں وابستہ کی جاسکتی ہیں۔ ان کا اجر و ثواب باقی رہتا ہے اور ابد الآباد تک بڑھتا ہے۔ ان کے اجر و ثواب اور نفع کی ضرورت کے وقت امید کی جاسکتی ہے۔ پس یہی وہ کام ہیں کہ سبقت کرنے والوں کو ان کی طرف سبقت کرنی چاہئے، عمل کرنے والوں کو انہی کے لئے آگے بڑھنا چاہئے اور جدوجہد کرنے والوں کو ان کے حصول کے لئے جدوجہد کرنی چاہئے۔ غور کیجیے کہ جب اللہ تعالیٰ نے دنیا کی زندگی کے حال اور اس کے اضمحلال کی مثال دی تو اس کی دو قسمیں بیان کیں : (1) دنیاوی زندگی کی زیب و زینت، جس سے انسان بہت کم فائدہ اٹھاتا ہے۔ پھر بغیر کسی فائدے کے یہ دنیا زائل ہوجاتی ہے اور اس کا نقصان انسان کی طرف لوٹتا ہے بلکہ بسا اوقات اس کا نقصان اس کے لئے لازم ہوجاتا ہے۔ یہ مال اور بیٹے ہیں۔ (2) دوسری قسم وہ ہے جو انسان ک ےلیے ہمیشہ باقی رہتی ہے اور وہ ہیں باقی رہنے والی نیکیاں۔ الكهف
46 الكهف
47 اللہ تبارک و تعالیٰ قیامت کے دن کا حال بیان کرتا ہے کہ اس میں پریشان کن ہولناکیاں اور تڑپا دینے والی سختیاں ہوگی، چنانچہ فرمایا : ﴿وَيَوْمَ نُسَيِّرُ الْجِبَالَ﴾ ” اور جس دن ہم چلائیں گے پہاڑ“ یعنی اللہ تعالیٰ ان کو ان کی جگہ سے ہٹا کر انکو ریت کے ٹیلے بنا دے گا، پھر ان کو دھنکی ہوئی اون کی مانند کر دے گا پھر وہ مضمحل ہو کر غبار کی مانند اڑ جائیں گی اور زمین ایک ہموار میدان نظر آئے گی جس میں کوئی نشیب و فراز نہ ہوگا اللہ تعالیٰ اس زمین پر تمام مخلوق کو اکٹھا کرے گا کسی کو باقی نہیں چھوڑے گا۔ وہ اگلوں پچھلوں سب کو صحراؤں کے پیٹوں سے اور سمندروں کی گہرائیوں سے نکال کر ایک جگہ اکٹھا کرے گا۔ جب ان کے اجزا بکھر چکے ہوں گے اور وہ پارہ پارہ ہوچکے ہوں گے تو اللہ تعالیٰ ان کو نئی زندگی عطا کرے گا۔ الكهف
48 پس لوگ صفیں باندھے اس کے سامنے پیش ہوں گے تاکہ وہ ان سے جوابدہی کرے، ان کے اعمال دیکھ کر ان کے بارے میں عدل پر مبنی فیصلہ کرے گا جس میں کوئی ظلم وجور نہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ان سے فرمائے گا : ﴿ لَّقَدْ جِئْتُمُونَا كَمَا خَلَقْنَاكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ ﴾ ” تم اسی طرح ہمارے سامنے حاضر ہوگئے ہو، جس طرح ہم نے تمہیں پہلی مرتبہ (اکیلا اکیلا) پیدا کیا تھا۔“ یعنی لوگ مال و متاع، اہل و عیال اور قبیلے کنبے کے بغیر اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہوں گے۔ ان کے ساتھ صرف وہی اعمال ہوں گے جو وہ کرتے رہے تھے اور نیکی اور بدی ساتھ ہوگی جس کا اکتساب کرتے رہے ہوں گے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :” ﴿ وَلَقَدْ جِئْتُمُونَا فُرَادَىٰ كَمَا خَلَقْنَاكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَتَرَكْتُم مَّا خَوَّلْنَاكُمْ وَرَاءَ ظُهُورِكُمْ ۖ وَمَا نَرَىٰ مَعَكُمْ شُفَعَاءَكُمُ الَّذِينَ زَعَمْتُمْ أَنَّهُمْ فِيكُمْ شُرَكَاءُ﴾(الانعام:6؍94) ’’تم اسی طرح ہمارے سامنے تن تنہا حاضرہو گئے ہو جس طرح ہم نے تمہیں پہلی مرتبہ(اکیلا اکیلا) پیدا کیا تھا اور جو کچھ ہم نے تمہیں عطا کیا تھا تم اسے اپنے پیچھے چھوڑ آئے ہو اور ہمیں تمہارے ساتھ تمہارے وہ سفارشی بھی نظر نہیں آتے جن کے متعلق تم سمجھتے تھے کہ وہ اللہ کے شریک ہیں۔ “ اس مقام پر اللہ تعالیٰ منکرین آخرت سے مخاطب ہو کر فرمائے گا جب کہ وہ اس کا مشاہدہ اپنی آنکھوں سے کرلیں گے : ﴿بَلْ زَعَمْتُمْ أَلَّن نَّجْعَلَ لَكُم مَّوْعِدًا﴾ ” لیکن تم نے یہ خیال کر رکھاتھا کہ ہم نے تمہارے لئے کوئی وقت مقرر ہی نہیں کیا۔“ یعنی تم اعمال کی سزا و جزا کا انکار کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ نے تمہارے ساتھ اس جزا و سزا کا وعدہ کر رکھا تھا، لو ! اس کا وعدہ آگیا تم نے اسے دیکھ لیا اور اس کا مزا چکھ لیا۔ الكهف
49 اس وقت وہ اعمال نامے حاضر کئے جائیں گے جن کو کراماً کاتبین لکھا کرتے تھے۔ ان کو دیکھ کر دل اڑنے لگیں گے ان کے وقوع سے غم اور مشقتیں بڑھ جائیں گی۔ جن کو دیکھ کر ٹھوس اور سخت چٹانیں بھی پگھل جائیں گی اور مجرم ڈریں گے۔ جب وہ دیکھیں گے کہ ان اعمال ناموں میں ان کے اعمال لکھے ہوئے ہیں اور ان کے تمام اقوال و افعال ان اعمال ناموں میں محفوظ ہیں، تو بول اٹھیں گے۔ ﴿يَا وَيْلَتَنَا مَالِ هَـٰذَا الْكِتَابِ لَا يُغَادِرُ صَغِيرَةً وَلَا كَبِيرَةً إِلَّا أَحْصَاهَا ۚ﴾ ” ہائے افسوس ! کیسی ہے یہ کتاب، نہیں چھوڑا اس نے چھوٹی بات کو نہ بڑی بات کو، مگر اس نے ان کو شمار کرلیا۔“ یعنی کوئی چھوٹا یا بڑا گناہ ایسا نہیں جو اس میں لکھا ہوا اور محفوظ نہ ہو اور کوئی کھلایا چھپا، رات کے وقت کیا ہوا یا دن کے وقت کیا ہوا گناہ ایسا نہیں جو بھولے سے لکھنے سے رہ گیا ہو۔ ﴿وَوَجَدُوا مَا عَمِلُوا حَاضِرًا﴾ ” اور پائیں گے جو کچھ انہوں نے کیا، سامنے۔“ وہ اس کا انکار نہیں کرسکیں گے۔ ﴿ وَلَا يَظْلِمُ رَبُّكَ أَحَدًا﴾ ”اور آپ کا رب کسی پر ظلم نہیں کرے گا۔“ اس وقت ان کو ان کے اعمال کی جزا دی جائے گی، وہ ان اعمال کا اقرار کریں گے، ان اعمال کی بنا پر رسوا ہوں گے اور ان پر عذاب واجب ہوجائے گا۔ ﴿ذَٰلِكَ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيكُمْ وَأَنَّ اللّٰـهَ لَيْسَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِيدِ﴾(آل عمران:3؍186،الانفال:8؍51) ” یہ سب کچھ ان اعمال کی جزا ہے جو تم نے آگے بھیجے تھے اور اللہ اپنے بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں۔“ بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کے فضل و عدل سے باہر نہیں نکلیں گے۔ الكهف
50 اللہ تبارک و تعالیٰ آدم اور ان کی اولاد کے ساتھ ابلیس کی عداوت کا ذکر کرتا ہے، نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ نے آدم کی تعظیم و تکریم اور اپنے حکم کی تعمیل کے لئے فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ آدم کو سجدہ کریں۔ پس انہوں نے حکم کی تعمیل کی۔ ﴿إِلَّا إِبْلِيسَ كَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ أَمْرِ رَبِّهِ ﴾ ” سوائے ابلیس کے، وہ جنوں میں سے تھا، پس اس نے اپنے رب کے حکم کی نافرمانی کی“ اور کہنے لگا ﴿أَأَسْجُدُ لِمَنْ خَلَقْتَ طِينًا﴾(بنی اسرائیل:17؍61) ” کیا میں اسے سجدہ کروں جسے تو نے مٹی سے پیدا کیا۔“ اور کہا ﴿ أَنَا خَيْرٌ مِّنْهُ﴾ (الاعراف 7؍12) ” میں اس سے بہتر ہوں۔“ اس سے واضح ہوگیا کہ وہ اللہ تعالیٰ اور تمہارے جد امجد سے عداوت رکھتا ہے، پھر کیسے تم اس کو اور اس کی ذریت کو دوست بناتے ہو؟ ﴿بِئْسَ لِلظَّالِمِينَ بَدَلًا ﴾ ” برا ہے ظالموں کے لئے بدل“ یعنی کتنی بری ہے شیطان کی دوستی اور سرپرستی جو انہوں نے اپنے لئے چنی ہے، جو انہیں صرف فحش اور برے کاموں کا حکم دیتا ہے اور رب رحمٰن کی دوستی اور سرپرستی چھوڑ دی جس کی دوستی میں ہر قسم کی سعادت، فلاح اور سرور ہے۔ اس آیت کریمہ میں پر زور ترغیب ہے کہ شیطان کو دشمن سمجھا جائے اور وہ سبب بھی بیان کردیا گیا جو اس کو دشمن قرار دینے کا موجب ہے، نیز یہ بھی واضح کردیا کہ صرف ظالم شخص ہی اس کو اپنا دوست قرار دیتا ہے اور اس کے شخص کے ظلم سے بڑھ کر کون سا ظلم ہوسکتا ہے جو اپنے حقیقی دشمن کو دوست سمجھے اور اپنے حقیقی اور قابل تعریف دوست کو چھوڑ دے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿اللّٰـهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا يُخْرِجُهُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ ۖ وَالَّذِينَ كَفَرُوا أَوْلِيَاؤُهُمُ الطَّاغُوتُ يُخْرِجُونَهُم مِّنَ النُّورِ إِلَى الظُّلُمَاتِ﴾ ” اللہ ان لوگوں کا دوست اور مددگار ہے جو ایمان لائے، وہ ان کو اندھیروں سے نکال کر روشنی میں لاتا ہے اور وہ لوگ جو کفر کی راہ اختیار کرتے ہیں ان کے والی اور مددگا رطاغوت ہیں جو ان کی روشنی سے نکال کر تاریکیوں کی طرف لے جاتے ہیں۔“ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿إِنَّهُمُ اتَّخَذُوا الشَّيَاطِينَ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِ اللَّـهِ ﴾ ” انہوں نے اللہ کو چھوڑ کر شیاطین کو دوست اور سرپرست بنا لیا ہے۔ “ الكهف
51 اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے :” میں نے شیاطین (اور ان گمراہی پھیلانے والوں) کو گواہ نہیں بنایا“ ﴿خَلْقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلَا خَلْقَ أَنفُسِهِمْ ﴾ ” آسمانوں، زمین اور ان کی اپنی تخلیق پر۔“ یعنی میں نے ان کی پیدائش پر ان کو حاضر کیا نہ ان سے مشورہ لیا پھر وہ ان میں سے کسی چیز کے خالق کیسے کہلا سکتے ہیں؟ بلکہ اللہ تعالیٰ تخلیق و تدبیر اور حکمت و تقدیر میں یکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی تمام اشیاء کاخالق ہے اور وہی اپنی حکمت سے ان میں تصرف کرتا ہے پس کیسے شیاطین کو اللہ کے شریک ٹھہرایا جاتا ہے ان کو والی و مددگار بنایا جاتا ہے اور ان کی اسی طرح اطاعت کی جاتی ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کی کی جاتی ہے، حالانکہ انہوں نے کچھ پیدا کیا ہے نہ کائنات کی پیدائش پر وہ حاضر تھے اور نہ کائنات کی پیدائش پر اللہ تعالیٰ کے معاون و مددگار تھے؟ اسی لئے فرمایا : ﴿ وَمَا كُنتُ مُتَّخِذَ الْمُضِلِّينَ عَضُدًا ﴾ ” اور نہیں ہوں میں کہ گمراہ کرنے والوں کو مددگار بناؤں“ یعنی اللہ تعالیٰ کے کسی کام میں معاونین کا ہونا، اللہ تعالیٰ کی شان کے لائق نہیں اور نہ یہ مناسب ہے کہ وہ تدبیر کائنات کا کچھ حصہ ان کے سپرد کر دے کیونکہ وہ تو مخلوق کو گمراہ کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور اپنے رب کی عداوت پر کمربستہ رہتے ہیں، اس لئے وہ اسی لائق ہیں کہ وہ ان کو دور رکھے اور اپنے قریب نہ آنے دے۔ الكهف
52 جب اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کا حال بیان کیا جنہوں نے دنیا میں اس کے ساتھ شرک کیا تھا اور ان کے شرک کا پوری طرح ابطال کیا اور مشرک پر جہالت اور سفاہت کا حکم لگایا تو قیامت کے روز ان کے خود ساختہ شریکوں کی معیت میں ان کا جو حال ہوگا وہ بھی بیان کردیا، چنانچہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ ان سے کہے گا : ﴿ نَادُوا شُرَكَائِيَ ﴾ ” پکارو میرے شریکوں کو۔“ یعنی تمہارے اپنے زعم باطل کے مطابق میرے جو شریک ہیں ان سب کو بلا لو۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ زمین و آسمان میں کوئی اللہ تعالیٰ کا شریک نہیں یعنی اب ان خود ساختہ شریکوں کو بلا لو تاکہ تمہیں کوئی فائدہ دے سکیں اور تمہیں ان سختیوں سے نجات دلا سکیں۔ ﴿فَدَعَوْهُمْ فَلَمْ يَسْتَجِيبُوا لَهُمْ ﴾ ” پس یہ ان کو پکاریں گے مگر وہ ان کو جواب نہ دیں گے۔“ اس لئے کہ اس روز اقتدار اور فیصلے کا اختیار صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہوگا کسی ہستی کے پاس ذرہ بھر بھی اختیار نہیں ہوگا کہ وہ اپنے آپ کو یا کسی اور کو کوئی نفع پہنچا سکے : ﴿وَجَعَلْنَا بَيْنَهُم ﴾ ” اور کردیں گے ہم ان کے درمیان“ یعنی مشرکین اور ان کے شریکوں کے درمیان ﴿ مَّوْبِقًا  ﴾ ” ہلاکت کا سامان“ یعنی ہلاکت کا گڑھا ان کے درمیان حائل کردیں گے جو ان کو جدا کر دے گا اور ان کو ایک دوسرے سے دور کر دے گا۔ اس وقت ان کی ایک دوسرے کے ساتھ عداوت ظاہر ہوجائے گی، ان کے خود ساختہ شرکاء ان کا انکار کریں گے اور ان سے بیزاری کا اظہار کریں گے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿ وَإِذَا حُشِرَ النَّاسُ كَانُوا لَهُمْ أَعْدَاءً وَكَانُوا بِعِبَادَتِهِمْ كَافِرِينَ ﴾(الاحقاف:46؍6) ” جب تمام لوگوں کو جمع کیا جائے گا تو اس وقت وہ اپنے پکارنے والوں کے دشمن ہوں گے اور ان کی عبادت کا انکار کریں گے۔ “ الكهف
53 جب قیامت کے روز حساب کتاب ختم ہوجائے گا اور مخلوق میں سے ہر گر وہ اپنے اعمال کی بنا پر علیحدہ ہوجائے گا اور مجرموں کے بارے میں عذاب کا وعدہ پورا ہوجائے گا۔ پس وہ جہنم میں داخل ہونے سے قبل جہنم کو دیکھیں گے اور گھبرا جائیں گے اور یہ یقین کر کے کہ ان کو اس میں پھینکا جائے گا ان کا قلق بڑھ جائے گا۔ آیت کریمہ میں مذکور (ظن) کے بارے میں اہل تفسیر کہتے ہیں کہ یہاں (ظن) سے مراد یقین ہے۔ پس انہیں یقین ہوجائے گا کہ وہ ضرور جہنم میں داخل ہوں گے۔ ﴿ وَلَمْ يَجِدُوا عَنْهَا مَصْرِفًا  ﴾ ” اور نہیں پائیں گے وہ اس سے پھر جانے کی جگہ“ یعنی کوئی جائے پناہ نہیں جہاں وہ پناہ لے سکیں اور اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر کوئی ان کی سفارش نہیں کرسکے گا۔ اس آیت کریمہ میں تخویف و ترہیب ہے جس سے دل کانپ اٹھتے ہیں۔ الكهف
54 اللہ تبارک و تعالیٰ قرآن مجید کی عظمت و جلالت اور اس کے عموم کا ذکر کرتے ہوئے آگاہ فرماتا ہے کہ اس نے قرآن کریم میں ہر قسم کی مثال بیان کی ہے یعنی ہر وہ راستہ واضح کردیا ہے جو علوم نافعہ اور سعادت ابدیہ تک پہنچاتا ہے اور ہر اس طریق سے آگاہ فرما دیا ہے جو انسان کو شر اور ہلاکت سے بچاتا ہے۔ پس اس قرآن کریم میں حلال و حرام، جزائے اعمال، ترغیب و ترہیب کی مثالیں ہیں، سچی خبریں ہیں جو اعتقاد، طمانیت اور روشنی کے اعتبار سے دلوں کے لئے فائدہ مند ہیں۔ یہ چیز واجب ٹھہراتی ہے کہ قرآن کریم کو اطاعت و انقیاد اور کسی بھی امر میں عدم منازعت کے ساتھ تسلیم کیا جائے۔۔۔ مگر اس کے باوجود اکثر لوگ، حق کے واضح ہوجانے کے بعد بھی، باطل دلائل کے ساتھ حق کے بارے میں جھگڑتے ہیں۔ ﴿ لِيُدْحِضُوا بِهِ الْحَقَّ ﴾(الکھف:18؍56) ”تاکہ حق کو نیچا دکھائیں ۔“بنابریں فرمایا: ﴿ وَكَانَ الْإِنسَانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا﴾ ’’اور ہے انسان سب چیز سے زیادہ جھگڑا لو‘‘ یعنی بہت جھگڑا لو اور بحثیں کرنے والا ہے، حالانکہ یہ اس کے لائق ہے نہ یہ قرین انصاف ہے اور اس کا اللہ پر ایمان نہ لانے کا سبب یہ نہیں کہ اس کو بیان کرنے اور اس کی حجت و برہان کو واضح کرنے میں کوئی کمی رہ گئی ہے بلکہ ظلم و عناد، ان کے اس رویے کا موجب ہے۔ ورنہ اگر ان پر عذاب اور وہ سختیاں اور مصیبتیں آجاتیں جو پہلے لوگوں پر آئی تھیں تو ان کا یہ حال نہ ہوتا، اس لئے فرمایا : الكهف
55 یعنی لوگوں کو ایمان لانے سے کس چیز نے منع کیا ہے حالانکہ ہدایت جس سے راہ راست اور گمراہی، حق اور باطل کے درمیا ن فرق واضح ہوتا ہے ان تک پہنچ چکی ہے اور ان پر حجت قائم ہوچکی ہے۔۔۔ ان کے ایمان نہ لانے کی یہ وجہ بھی نہیں کہ حق واضح نہیں ہوا بلکہ ان کے ایمان نہ لانے کی وجہ ظلم و تعدی ہے۔ پس اب کوئی چیز باقی نہیں رہی سوائے اس کے کہ سنت الٰہی کے مطابق وہی عذاب آجائے جو پہلی قوموں پر آیا تھا؟ جب وہ ایمان نہ لاتے تو ان پر عذاب بھیج دیا جاتا یا عذاب ان کے سامنے آجاتا اور وہ اپنی آنکھوں سے اسے دیکھ لیتے۔۔۔ مطلب یہ ہے کہ پس انہیں ڈرنا چاہئے اور اپنے کفر سے توبہ کرلینی چاہئے قبل اس کے کہ ان پر عذاب ٹوٹ پڑے جسے روکا نہیں جاسکتا۔ الكهف
56 یعنی ہم رسولوں کو عبث اور بے فائدہ نہیں بھیجتے نہ ان کو اس لئے مبعوث کرتے ہیں کہ لوگ ان کو معبود بنا لیں اور نہ اس لئے کہ وہ خود معبود ہونے کا دعویٰ کریں بلکہ ہم نے انہیں صرف اس لئے مبعوث کیا ہے تاکہ وہ لوگوں کو ہر بھلائی کی طرف بلائیں اور ہر برائی سے روکیں اطاعت کرنے پر ان کو دنیاوی اور اخروی ثواب کی خوشخبری سنائیں اور نافرمانی کرنے پر دنیاوی اور اخروی عذاب سے ڈرائیں۔ پس رسولوں کو بھیج کر اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں پر حجت قائم ہوگئی۔ بایں ہمہ ظالم کفار باطل ہتھکنڈوں کے ساتھ حق کو نیچا دکھانے کے لئے جھگڑتے ہیں۔ پس جہاں تک ممکن ہوا کفار حق کے ابطال اور اس کے نیچا دکھانے کے لئے باطل کی مدد میں کشواں رہے، انہوں نے اللہ تعالیٰ کے رسولوں اور اس کی آیات کا تمسخر اڑایا اور ان کے پاس جو کچھ علم تھا اسی پر اتراتے رہے۔ مگر اللہ تعالیٰ اپنے نور کو مکمل کئے بغیر نہیں رہتا اگرچہ کفار کو یہ بات ناپسند ہی کیوں نہ ہو، وہ حق کو باطل پر غالب کرتا ہے۔ ﴿بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْبَاطِلِ فَيَدْمَغُهُ فَإِذَا هُوَ زَاهِقٌ﴾ (الانبیاء:21؍18) ” بلکہ ہم تو باطل پر حق کے ذریعے سے چوٹ لگاتے ہیں جو اس کو نیست و نابود کردیتی ہے، اور باطل دیکھتے ہی دیکھتے مٹ جاتا ہے۔ “ یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت اور اس کی رحمت ہے کہ اس کا باطل ہتکنڈوں کے ذریعے سے حق کے خلاف جھگڑنے والے باطل پسندوں کو مقرر کرنا، حق کے ظہور اور اس کے شواہد و دلائل کی توضیح، باطل اور اس کے فساد کے ظاہر ہونے کا سب سے بڑا سبب ہے۔ کیونکہ : ﴿بضدھا تتبین الاشیاء﴾ ” اشیاء اپنی ضد ہی سے واضح ہوتی ہیں۔ “ الكهف
57 اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ اس بندے سے بڑھ کر کوئی ظالم اور اس سے بڑا کوئی مجرم نہیں جسے اللہ تعالیٰ کی آیات کے ذریعے سے نصیحت کی جائے، اس کے سامنے حق اور باطل، ہدایت اور ضلالت کو واضح کردیا گیا ہو، اسے برے انجام سے ڈرایا گیا اور آخرت کے ثواب کی ترغیب دی گئی ہو اور وہ روگردانی کرے، نصیحت نہ پکڑے، اپنے کرتوتوں سے باز نہ آئے اور اپنے ہاتھوں کی کمائی سے انجان بنا رہے اور اللہ علام الغیوب کو اپنے اوپر نگران نہ سمجھے۔ پس یہ اس روگرداں شخص کے ظلم سے بڑا ظالم ہے جس کے پاس اللہ تعالیٰ کی آیات نہیں پہنچیں اور اس کو ان آیات کے ذریعے سے نصیحت نہیں کی گئی۔۔۔ یہ بھی اگرچہ ظالم ہے مگر وہ پہلا شخص اس سے زیادہ بڑا ظالم ہے کیونکہ علم اور بصیرت رکھتے ہوئے گناہ کرنے والا لاعلمی سے گناہ کرنے والے سے زیادہ بڑا گناہ گار ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے آیات الٰہی سے اس کے اعراض، اپنے گناہوں کو بھول جانے اور حالت شر پر راضی رہنے کے سبب سے اس کو سزا دی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اسے علم ہے کہ ہدایت کے دروازے اس پر بند ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کے قلب پر پردے ڈال دیئے ہیں یعنی مضبوط پردوں نے اس کو آیات الٰہی کے تفقہ سے محروم کر رکھا ہے اگرچہ وہ اللہ تعالیٰ کی آیات کو سنتا ہے مگر ان میں ایسا تفقہ حاصل کرنا جو قلب کی گہرائی میں اتر جائے اس کے بس کی بات نہیں۔ ﴿وَفِي آذَانِهِمْ وَقْرًا﴾ ” اور ان کے کانوں میں بوجھ ہے“ یعنی ان کے کانوں میں گرانی ہے جو ان کو آیات الٰہی کے فائدہ مند سماع سے محروم کردیتی ہے اور اگر وہ اسی حالت میں رہیں تو ان کی ہدایت کا کوئی راستہ نہیں۔ ﴿وَإِن تَدْعُهُمْ إِلَى الْهُدَىٰ فَلَن يَهْتَدُوا إِذًا أَبَدًا ﴾” اگر آپ ان کو ہدایت کی طرف بلائیں تو ہرگز ہدایت پر نہ آئیں اس وقت کبھی“ کیونکہ داعی ہدایت کی دعوت پر اسی شخص کے لبیک کہنے کی امید ہوتی ہے جو علم نہیں رکھتا۔ رہے وہ لوگ جنہوں نے آیات الٰہی کو خوب دیکھا، بھالا پھر اندھے پن کا مظاہرہ کیا، انہوں نے راہ حق کو پہچان لیا مگر اسے چھوڑ دیا اور گمراہی کی راہ پر گامزن ہوگئے اور اللہ تعالیٰ نے ان کو اس کی یہ سزا دی کہ ان کے دلوں پر تالے ڈال دیئے اور ان پر مہر لگا دی۔۔۔ تو ان لوگوں کی ہدایت کا کوئی راستہ اور کوئی حیلہ نہیں۔ اس آیت کریمہ میں اس شخص کے لئے تخویف و ترہیب ہے جو حق کو پہچان لینے کے بعد اسے ترک کر دے اور یہ کہ اس کے اور حق کے درمیان رکاوٹ کھڑی کردی جائے اور اس کے بعد اس کے لئے کوئی چیز ایسی نہ رہے جو اس کے حق میں اس سے بڑھ کر ڈرانے والی اور اس غلط روی سے اسے روکنے والی ہو۔ الكهف
58 پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی بے پایاں مغفرت اور رحمت کا ذکر کیا ہے، نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ گناہوں کو بخش دیتا ہے، جو کوئی توبہ کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرتا ہے اور اسے اپنی رحمت سے ڈھانپ لیتا ہے اور اسے اپنے احسان میں شامل کرلیتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی ان کے گناہوں پر گرفت کرے تو ان پر فوراً عذاب بھیج دے مگر وہ حلم والا ہے وہ سزا دینے میں جلدی نہیں کرتا وہ اپنے بندوں کو مہلت دیتا ہے مہمل نہیں چھوڑتا، جبکہ گناہوں کے آثار کا واقع ہونا ضروری امر ہے اگرچہ اس میں طویل مدت تک تاخیر ہی کیوں نہ ہو۔ اس لئے فرمایا : ﴿بَل لَّهُم مَّوْعِدٌ لَّن يَجِدُوا مِن دُونِهِ مَوْئِلًا﴾ ” بلکہ ان کے لئے ایک وعدہ ہے، ہرگز نہیں پائیں گے اس سے ورے سرک جانے کی جگہ“ یعنی ان کے لئے ایک وقت مقررہ ہے جس میں انہیں ان کے اعمال کی جزا دی جائے گی۔ یہ جزا انہیں ضرور ملے گی اور اس جزا و سزا سے بچنے کی ان کے لئے کوئی گنجائش نہیں۔ اس سے بچنے کے لئے کوئی پناہ گاہ ہے نہ کوئی جائے فرار۔۔۔ اولین و آخرین میں یہی سنت الٰہی ہے کہ وہ عذاب دینے میں جلدی نہیں کرتا بلکہ وہ انہیں توبہ اور انابت کی طرف بلاتا ہے۔ اگر وہ توبہ کر کے رجوع کرلیں تو اللہ تعالیٰ ان کو بخش دیتا ہے اور ان کو اپنی رحمت کے سائے میں لے کر ان سے عذاب کو ہٹا دیتا ہے۔ لیکن اگر وہ اپنے ظلم اور عناد پر جمے رہیں اور وقت مقررہ آجائے تو اللہ تعالیٰ ان پر اپنا عذاب نازل کردیتا ہے۔ الكهف
59 بنا بریں فرمایا : ﴿وَتِلْكَ الْقُرَىٰ أَهْلَكْنَاهُمْ لَمَّا ظَلَمُوا﴾” اور یہ بستیاں، ہم نے ان کو ہلاک کردیا جب انہوں نے ظلم کیا“ یعنی ہم نے ان پر ظلم نہیں کیا بلکہ خود انکے ظلم کی بنا پر ہم نے انہیں ہلاک کیا۔ ﴿وَجَعَلْنَا لِمَهْلِكِهِم مَّوْعِدًا ﴾ ” اور مقرر کیا تھا ہم نے ان کی ہلاکت کا ایک وعدہ“ یعنی ایک وقت مقرر جس سے وہ آگے ہوئے نہ پیچھے۔ الكهف
60 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے نبی موسیٰ اور بھلائی اور طلب علم میں ان کی شدید رغبت کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے کہ انہوں نے اپنے خادم سے فرمایا جو سفر و حضر میں ہمیشہ ان کے ساتھ ہوتا تھا اور وہ یوشع بن نون تھے جن کو بعد میں اللہ تعالیٰ نے نبوت سے سرفراز فرمایا : ﴿لَا أَبْرَحُ حَتَّىٰ أَبْلُغَ مَجْمَعَ الْبَحْرَيْنِ﴾” جب تک میں دو دریاؤں کے ملنے کی جگہ نہ پہنچ جاؤں ہٹنے کا نہیں۔“ یعنی میں سفر کرتارہوں گا خواہ مسافت کتنی ہی طویل اور مشقت کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو یہاں تک کہ میں دونوں دریاؤں کے سنگم پر پہنچ جاؤں۔ الكهف
61 یہ وہ جگہ......نبی نہ تھے...؟؟؟ الكهف
62 الكهف
63 الكهف
64 الكهف
65 ﴿آتَيْنَاهُ رَحْمَةً مِّنْ عِندِنَا ﴾ ” جس کو ہم نے اپنے پاس سے رحمت دی تھی۔“ یعنی اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی خاص رحمت سے نوازا تھا جس کی وجہ سے وہ بہت زیادہ علم اور حسن عمل سے بہرہ ور تھے۔ ﴿ وَعَلَّمْنَاهُ مِن لَّدُنَّا عِلْمًا﴾ ”اور سکھایا تھا اس کو اپنے پاس سے ایک علم۔“ حضرت خضر کو وہ علم عطا کیا گیا تھا جو موسیٰ علیہ السلام کو عطا نہیں کیا گیا تھا۔ اگرچہ موسیٰ علیہ السلام بہت سے امور میں ان سے زیادہ علم رکھتے تھے خاص طور پر علوم ایمانیہ اور علوم اصولیہ، کیونکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اولوالعزم رسولوں میں سے تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے علم و عمل کے ذریعے سے تمام مخلوق پر فضیلت سے نوازا تھا۔ الكهف
66 جب موسیٰ علیہ السلام حضرت خضر سے ملے تو از راہ ادب و مشاورت اور اپنا مقصد بیان کرتے ہوئے ان سے کہا : ﴿هَلْ أَتَّبِعُكَ عَلَىٰ أَن تُعَلِّمَنِ مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا ﴾ ” یعنی کیا میں آپ کی پیروی کروں کہ آپ مجھے وہ علم سکھا دیں جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا کر رکھا ہے‘‘ تاکہ اس کے ذریعے سے میں رشد و ہدایت کی راہ پا سکوں اور اس علم کے ذریعے سے ان تمام قضیوں میں حق کو پہچان سکوں؟ خضر کو اللہ تعالیٰ نے الہام و کرامت سے نوازا ہوا تھا جس کی وجہ سے انہیں بہت سی چیزوں کے اسرار نہاں کی، جو دوسرے لوگوں پر مخفی تھے حتیٰ کہ موسیٰ پر بھی مخفی تھے، اطلاع ہوجاتی تھی۔ الكهف
67 خضر نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ میں ایسا کرنے سے انکار نہیں کرتا لیکن ﴿ لَن تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا ﴾ ” آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر پائیں گے۔“ الكهف
68 یعنی آپ کو میرے ساتھ رہنے اور میری پیروی کرنے کی قدرت حاصل نہیں کیونکہ آپ ایسے امور ملاحظہ کریں گے جن کا ظاہر برا اور باطن اس کے برعکس ہوگا۔ بناء بریں خضر نے فرمایا : ﴿ وَكَيْفَ تَصْبِرُ عَلَىٰ مَا لَمْ تُحِطْ بِهِ خُبْرًا﴾ ” اور کیوں کر صبر کریں گے آپ ایسی چیز پر کہ جس کا سمجھنا آپ کے بس میں نہیں۔“ یعنی آپ کسی ایسے معاملے میں کیسے صبر کرسکتے ہیں جس کے ظاہر و باطن کا آپ کو علم ہے نہ اس کے مقصد و مآل کا۔ الكهف
69 موسیٰ علیہ السلام نے کہا : ﴿سَتَجِدُنِي إِن شَاءَ اللّٰـهُ صَابِرًا وَلَا أَعْصِي لَكَ أَمْرًا﴾ ” اگر اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صابر پائیں گے اور آپ کے کسی حکم کی نافرمانی نہیں کروں گا۔“ جس چیز کے بارے میں امتحان تھا، اس کے سامنے آنے سے پہلے یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے عزم کا اظہار تھا۔ عزم ایک الگ چیز ہے اور صبر کا وجود ایک دوسری چیز ہے، اس لئے جب وہ امر واقع ہوا تو موسیٰ علیہ السلام اس پر صبر نہ کرسکے۔ الكهف
70 اس وقت خضر نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا : ﴿ فَإِنِ اتَّبَعْتَنِي فَلَا تَسْأَلْنِي عَن شَيْءٍ حَتَّىٰ أُحْدِثَ لَكَ مِنْهُ ذِكْرًا ﴾’’پس اگر میرے ساتھ رہنا ہے تو مت پوچھنا مجھ سے کسی چیز کی بابت، جب تک کہ میں شروع نہ کروں آپ کے سامنے اس کا ذکر“ یعنی مجھ سے کوئی سوال کرنے میں پہل کرنا نہ میرے کسی فعل پر مجھ پر کوئی نکیر کرنا جب تک کہ میں خود آپ کو مناسب وقت پر اس کے حال کے بارے میں نہ بتا دوں۔ یہ گویا حضرت خضر نے ان سے وعدہ کیا کہ وہ بالآخر حقیقت حال سے انہیں آگاہ کریں گے۔ الكهف
71 ﴿فَانطَلَقَا حَتَّىٰ إِذَا رَكِبَا فِي السَّفِينَةِ خَرَقَهَا﴾ ” پس وہ دونوں چلے، یہاں تک کہ جب وہ کشتی میں سوار ہوئے، تو اس کو پھاڑ ڈالا“ یعنی حضرت خضر نے اس کشتی کا ایک تختہ اکھاڑ دیا اور اس کے پیچھے ایک مقصد تھا جس کو وہ عنقریب بیان کریں گے۔ موسیٰ علیہ السلام اس پر صبر نہ کرسکے کیونکہ ظاہری طور پر یہ ایک برا فعل تھا۔ خضر نے کشتی میں عیب ڈال دیا تھا جو کشتی میں سوار لوگوں کے ڈوبنے کا باعث ہوسکتا تھا۔ اس لئے موسیٰ علیہ السلام نے کہا : ﴿أَخَرَقْتَهَا لِتُغْرِقَ أَهْلَهَا لَقَدْ جِئْتَ شَيْئًا إِمْرًا﴾ ” کیا آپ نے اس کو پھاڑ دیا تاکہ ڈبو دیں اس کے لوگوں کو، البتہ کی آپ نے ایک چیز انوکھی“ یعنی آپ نے بہت برا کام سر انجام دیا ہے۔ الكهف
72 اس بولنے کا سبب موسیٰ علیہ السلام کا عدم صبر تھا خضر نے ان سے کہا : ﴿ أَلَمْ أَقُلْ إِنَّكَ لَن تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا ﴾ ” کیا میں نے آپ سے نہیں کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر کرنے کی طاقت نہیں رکھیں گے“ یعنی بالکل اسی طرح واقع ہوا جیسا میں نے آپ سے کہا تھا۔ الكهف
73 یہ موسیٰ علیہ السلام سے بھول کر صادر ہوا تھا، اس لئے انہوں نے کہا : ﴿لَا تُؤَاخِذْنِي بِمَا نَسِيتُ وَلَا تُرْهِقْنِي مِنْ أَمْرِي عُسْرًا﴾ ” میری بھول پر آپ مجھے نہ پکڑیں اور نہ ڈالیں مجھ پر میرا کام مشکل“ یعنی مجھے مشکل میں نہ ڈالئے، میرے ساتھ نرمی کیجیے کیونکہ بھول میں مجھ سے ایسا ہوا ہے۔ پہلی مرتبہ میری گرفت نہ کیجیے۔ پس انہوں نے اقرار اور عذر کو اکٹھا کردیا۔ اے خضر ! اپنے ساتھی پر سختی کرنا آپ کے شایان شان نہیں، چنانچہ حضرت خضر نے ان سے درگزر کیا۔ الكهف
74 ﴿فَانطَلَقَا حَتَّىٰ إِذَا لَقِيَا غُلَامًا﴾ ” پھر وہ دونوں چلے، یہاں تک کہ ایک بچے کو ملے“ یعنی چھوٹا سا بچہ ﴿ فَقَتَلَهُ﴾ ” پس (خضر نے) اس کو قتل کر ڈالا“ اس پر موسیٰ علیہ السلام سخت ناراض ہوئے۔ جب خضر نے اس چھوٹے سے بچے کو قتل کردیا جس سے کوئی گناہ صادر نہیں ہوا تو موسیٰ علیہ السلام کی حمیت دینی نے جوش مارا اور کہنے لگے : ﴿أَقَتَلْتَ نَفْسًا زَكِيَّةً بِغَيْرِ نَفْسٍ لَّقَدْ جِئْتَ شَيْئًا نُّكْرًا ﴾ ” کیا آپ نے ایک ستھری جان بغیر عوض کسی جان کے مار ڈالی، بے شک آپ نے ایک نامعقول کام کیا۔“ چھوٹے سے معصوم بچے کے قتل جیسا برا کام اور کون سا ہوسکتا ہے، جس کا کوئی جرم نہیں اور نہ اس نے کسی کو قتل کیا ہے۔ الكهف
75 پہلی مرتبہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا اعتراض ان کے نسیان کا نتیجہ تھا۔ دوسری مرتبہ اعتراض نسیان کی وجہ سے نہ تھا بلکہ اس کاسبب عدم صبر تھا، اس لئے حضرت خضر علیہ السلام نے عتاب کرتے ہوئے اور ان کو یاد دلاتے ہوئے کہا : ﴿ أَلَمْ أَقُلْ إِنَّكَ لَن تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا ﴾ ”کیا میں نے آپ سے نہیں کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کرسکیں گے“ الكهف
76 موسیٰ علیہ السلام علیہ السلام نے کہا : ﴿ إِن سَأَلْتُكَ عَن شَيْءٍ بَعْدَهَا﴾ ” اگر اس کے بعد میں نے آپ سے کسی چیز کی بابت پوچھا“ یعنی اس مرتبہ کے بعد ﴿فَلَا تُصَاحِبْنِي﴾ ” تو آپ مجھے ساتھ نہ رکھیں“ یعنی آپ مجھے مصاحبت میں نہ رکھنے پر معذور ہیں۔ ﴿ قَدْ بَلَغْتَ مِن لَّدُنِّي عُذْرًا﴾ ” آپ میری طرف سے عذر کو پہنچ گئے“ یعنی آپ میری طرف سے معذور ہیں اور آپ نے کوتاہی نہیں کی۔ الكهف
77 ﴿فَانطَلَقَا حَتَّىٰ إِذَا أَتَيَا أَهْلَ قَرْيَةٍ اسْتَطْعَمَا أَهْلَهَا ﴾ ” پس وہ دونوں چلے یہاں تک کہ جب آئے وہ ایک بستی کے لوگوں تک، تو کھانا مانگا بستی کے لوگوں سے“ یعنی بستی والوں سے مہمان کے طور پر ٹھہرانے کی استدعا کی۔ ﴿فَأَبَوْا أَن يُضَيِّفُوهُمَا فَوَجَدَا فِيهَا جِدَارًا يُرِيدُ أَن يَنقَضَّ﴾ ” پس انہوں نے ان کی مہمان نوازی کرنے سے انکار کردیا، تو انہوں نے ایک دیوار کو دیکھا جو گرا چاہتی تھی“ یعنی وہ منہدم ہوا چاہتی تھی : ﴿فَأَقَامَهُ﴾ ” پس اس کو سیدھا کردیا“ یعنی خضر علیہ السلام نے اسے تعمیر کر کے دوبارہ نیا بنا دیا۔ جناب موسیٰ علیہ السلام نے ان سے کہا : ﴿لَوْ شِئْتَ لَاتَّخَذْتَ عَلَيْهِ أَجْرًا﴾ ” اگر آپ چاہتے تو اس بستی والوں سے اس کام کی اجرت لے سکتے تھے۔“ بستی والوں نے ہمیں مہمان نہیں ٹھہرایا تھا اور آپ ہیں کہ بغیر کسی اجرت کے ان کی دیوار تعمیر کر رہے ہیں، حالانکہ آپ ان سے اجرت طلب کرسکتے ہیں۔ اس وقت موسیٰ علیہ السلام وہ شرط پوری نہ کرسکے جس کا انہوں نے وعدہ کیا تھا۔ الكهف
78 اس پر حضرت خضر نے ان کی رفاقت سے معذرت کرلی اور ان سے کہا : ﴿هَـٰذَا فِرَاقُ بَيْنِي وَبَيْنِكَ ﴾ ” اب جدائی ہے میرے اور آپ کے درمیان“ کیونکہ جو شرائط آپ نے خود اپنے آپ پر عائد کی تھیں (ان کو آپ پورا نہ کرسکے) اب کوئی عذر باقی نہیں رہا اور نہ مصاحبت کی کوئی وجہ۔ ﴿سَأُنَبِّئُكَ بِتَأْوِيلِ مَا لَمْ تَسْتَطِع عَّلَيْهِ صَبْرًا﴾ ” اب میں آپ کو بتاؤں گا ان چیزوں کی حقیقت، جن پر آپ صبر نہ کرسکے“ یعنی میں ان امور کے بارے میں آپ کو بتاؤں گا جن کے بارے میں آپ نے مجھ پر نکیر کی اور آپ کو بتاؤں گا کہ ان تمام کاموں کے پیچھے کچھ مقاصد تھے جن پر معاملہ مبنی تھا۔ الكهف
79 ﴿أَمَّا السَّفِينَةُ﴾یعنی وہ کشتی جس میں میں نے سوراخ کردیا تھا ﴿فَكَانَتْ لِمَسَاكِينَ يَعْمَلُونَ فِي الْبَحْرِ ﴾ ” وہ مسکینوں کی تھی جو سمندر میں کام کرتے تھے“ ان پر ترس اور ان کے ساتھ مہربانی اس فعل کی مقتضی تھی۔ ﴿فَأَرَدتُّ أَنْ أَعِيبَهَا وَكَانَ وَرَاءَهُم مَّلِكٌ يَأْخُذُ كُلَّ سَفِينَةٍ غَصْبًا﴾ ” تو میں نے چاہا کہ اس کو عیب دار کر دوں اور ان کے ورے ایک بادشاہ تھا جو ہر کشتی کو لے لیتا تھا چھین کر“ یعنی ان کا راستہ اس ظالم بادشاہ کے پاس سے گزرتا تھا، لہٰذا اگر کشتی صحیح اسلم ہوتی اور اس میں کوئی عیب نہ ہوتا تو ظلم کی بنا پر اسے پکڑ لیتا اور غصب کرلیتا۔ میں نے اس کشتی میں اس لئے سوراخ کردیا تھا تاکہ یہ کشتی عیب دار ہوجائے اور اس ظالم کی دست برد سے بچ جائے۔ الكهف
80 ﴿وَأَمَّا الْغُلَامُ ﴾ ” رہا وہ لڑکا“ یعنی وہ لڑکا جس کو میں نے قتل کیا تھا : ﴿فَكَانَ أَبَوَاهُ مُؤْمِنَيْنِ فَخَشِينَا أَن يُرْهِقَهُمَا طُغْيَانًا وَكُفْرًا﴾ ” پس اس کے ماں باپ مومن تھے، پھر ہم کو اندیشہ ہوا کہ وہ ان کو مجبور کر دے گا سرکشی اور کفر اختیار کرنے پر۔“ یعنی اس لڑکے کے بارے میں یہ مقدر تھا کہ اگر وہ بالغ ہوجاتا تو اپنے والدین کو کفر اور سرکشی پر مجبور کرتا۔ یا تو ان دونوں کی اس سے محبت کی بنا پر یا اس سبب سے کہ دونوں اس کے ضرورت مند ہوں گے اور ضرورت ان کو ایسا کرنے پر مجبور کر دے گی، یعنی میں اس بچے کے بارے میں مطلع تھا اس لئے میں نے اس کے والدین کے دین کی حفاظت کے لئے اس کو قتل کردیا۔ اس جلیل القدر فائدے سے بڑھ کر اور کون اس فائدہ ہوسکتا ہے۔ اگرچہ اس بچے کے قتل کرنے میں ان کے لئے تکلیف اور ان کی نسل کا انقطاع ہے۔ الكهف
81 پس اللہ تعالیٰ ان کو اور اولاد عطا کرے گا جو اس سے بہتر ہوگی بناء بریں فرمایا : ﴿فَأَرَدْنَا أَن يُبْدِلَهُمَا رَبُّهُمَا خَيْرًا مِّنْهُ زَكَاةً وَأَقْرَبَ رُحْمًا ﴾ ”پس ہم نے چاہا کہ بدلہ دے ان کو ان کا رب اس سے بہتر پاکیزگی میں اور نزدیک تر شفقت میں“ یعنی اللہ تعالیٰ اس کے بدلے ایسا بیٹا عطا کرے گا جو نیک، پاک اور صلہ رحمی کرنے والا ہوگا کیونکہ وہ بچہ جس کو قتل کردیا گیا تھا اگر بالغ ہوجاتا تو وہ والدین کا سخت نافرمان ہوتا اور وہ ان کو کفر اور سرکشی پر مجبور کردیتا۔ الكهف
82 ﴿وَأَمَّا الْجِدَارُ﴾ ” وہ دیوار“ جس کو میں نے سیدھا کردیا تھا ﴿فَكَانَ لِغُلَامَيْنِ يَتِيمَيْنِ فِي الْمَدِينَةِ وَكَانَ تَحْتَهُ كَنزٌ لَّهُمَا وَكَانَ أَبُوهُمَا صَالِحًا﴾ ” تو وہ دو یتیموں کی تھی اس شہر میں اور اس کے نیچے ان کا خزانہ تھا اور ان کا باپ نیک تھا“ یعنی ان کا حال ان پر رافت و رحمت کا تقاضا کرتا تھا کیونکہ وہ دونوں بہت چھوٹے تھے اور باپ سے محروم تھے، اللہ تعالیٰ نے ان کے باپ کی نیکی کی بنا پر ان دونوں کی حفاظت فرمائی۔ ﴿فَأَرَادَ رَبُّكَ أَن يَبْلُغَا أَشُدَّهُمَا وَيَسْتَخْرِجَا كَنزَهُمَا﴾ ” پس آپ کے رب نے چاہا کہ یہ دونوں بچے اپنی جوانی کو پہنچیں اور اپنا مدفون خزانہ نکالیں“ یعنی اس لئے میں نے دیوار منہدم کردی اور اس کے نیچے سے ان کا خزانہ نکال لیا اور خزانے کو دوبارہ دفن کرکے دیوار کو بغیر کسی اجرت کے دوبارہ تعمیر کردیا۔ ﴿رَحْمَةً مِّن رَّبِّكَ ﴾ یعنی یہ جو میں نے افعال سرانجام دیئے ہیں یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے جس سے اس نے اپنے بندے خضر کو نوازا ہے۔ ﴿وَمَا فَعَلْتُهُ عَنْ أَمْرِي﴾ ” اور میں نے اسے اپنی طرف سے نہیں کیا“ یعنی میں نے ان میں سے کوئی کام اپنی طرف سے مجرد اپنے ارادے سے نہیں کیا بلکہ یہ تو اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کا حکم تھا۔ ﴿ذٰلِكَ﴾ یعنی یہ جو میں نے آپ کے سامنے وضاحت کی ہے ﴿تَأْوِيلُ مَا لَمْ تَسْطِع عَّلَيْهِ صَبْرًا﴾ ” یہ حقیقت ہے ان تمام واقعات کی جن پر آپ صبر نہ کرسکے۔ “ اس تعجب خیز اور جلیل القدر قصے میں بہت سے فوائد، احکام اور قواعد ذکر کئے گئے ہیں ہم اللہ تعالیٰ کی مدد سے ان میں سے بعض کی طرف اشارہ کرتے ہیں : (1) اس قصے سے علم اور طلب علم کے لئے رحلت کی فضیلت ثابت ہوتی ہے نیز یہ کہ طلب علم اہم ترین معاملہ ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے طلب علم کے لئے طویل سفر کیا اور تکالیف برداشت کیں۔ بنی اسرائیل کو تعلیم دینے اور ان کی راہنمائی کے لئے ان کے پاس بیٹھنا ترک کر کے علم میں اضافے کے لئے سفر اختیار کیا۔ (2) اس قصے سے مستفاد ہوتا ہے کہ سب سے زیادہ اہم کام سے ابتداء کی جائے۔ انسان کا علم اور اس علم میں اضافہ کرنا اس کو ترک کرنے اور علم حاصل کئے بغیر تعلیم میں مشغول رہنے سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ مگر دونوں امور کا یکجا ہونا زیادہ کامل اور افضل ہے۔ (3) سفر و حضر میں، کام کاج اور راحت کے حصول کے لئے خادم رکھنا جائز ہے جيسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کیا تھا۔ (4) اگر کوئی شخص طلب علم یا جہاد وغیرہ کے لئے سفر کرتا ہے اور مصلحت کے تقاضے کے مطابق اگر وہ اپنے مقصد اور منزل کے بارے میں بتاتا ہے تو یہ اس کو چھپانے سے بہتر ہے کیونکہ اس کو ظاہر کرنے میں بہت سے فوائد ہیں، مثلاً اس سفر کی تیاری،سامان مہیا کرنے، اس کام کو دیکھ بھال کر احسن طریقے سے سرانجام دینے کا اہتمام اور اس جلیل القدر عبادت کے لئے شوق کا اظہار وغیرہ۔ جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا تھا : ﴿ لَا أَبْرَحُ حَتَّىٰ أَبْلُغَ مَجْمَعَ الْبَحْرَيْنِ أَوْ أَمْضِيَ حُقُبًا﴾ (الکھف : 18؍60) ” میں اس وقت تک سفر کرتا رہوں گا جب تک کہ میں دونوں دریاؤں کے سنگم پر نہ پہنچ جاؤں، ورنہ میں برسوں چلتا رہوں گا۔“ اور جیسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب غزوہ تبوک کا ارادہ فرمایا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اس کے بارے میں آگاہ فرما دیا تھا حالانکہ ایسے امور میں تو ریہ کرنا آپ کی عادت مبارکہ تھی۔ یہ چیز مصلحت کے تابع ہے۔ (5) اس سے ثابت ہوتا ہے کہ شر اور اس کے اسباب کو اس لحاظ سے شیطان کی طرف منسوب کرتے ہیں کہ وہ بہکاتا ہے اور شر کو مزین کرتا ہے اگرچہ خیر و شر ہر چیز اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر سے واقع ہوتی ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے خادم نے کہا : ﴿وَمَا أَنسَانِيهُ إِلَّا الشَّيْطَانُ أَنْ أَذْكُرَهُ﴾ (الکھف : 18 ؍63) ” شیطان نے مجھے اس کا تذکرہ کرنا بھلا دیا۔ “ (6) انسان کے لئے جائز ہے کہ وہ اپنی طبیعت کے تقاضوں، مثلاً تھکاوٹ، بھوک اور پیاس وغیرہ کے بارے میں اطلاع دے، جبکہ اس میں صداقت ہو اور اس میں (اللہ تعالیٰ اور تقدیر پر) ناراضی کے اظہار کا کوئی پہلو نہ ہو۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا : ﴿لَقَدْ لَقِينَا مِن سَفَرِنَا هَـٰذَا نَصَبًا﴾ (الکھف : 18؍62) ” ہمیں اپنے اس سفر میں بہت تھکاوٹ لاحق ہوئی ہے۔ “ (7) خادم کا ذہین و فطین اور سمجھ دار ہونا پسندیدہ ہے تاکہ انسان اپنے مطلوبہ ارادوں کی بہتر طریقے سے تکمیل کرسکے۔ (8) انسان کا اپنے خادم کو اپنے کھانے سے اور اپنے ساتھ بٹھا کر کھلانا مستحب ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قول سے یہی ظاہر ہوتا ہے فرمایا : ﴿آتِنَا غَدَاءَنَا ﴾ (الکھف : 18 ؍62) ” لاؤ ہمارے پاس ہمارا کھانا“ یہ اضافت سب کی طرف ہے، کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کے خادم نے اکٹھے کھانا کھایا۔ )9( اس واقعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ بندے پر، اللہ تعالیٰ کے احکام کو قائم کرنے کے مطابق، اللہ تعالیٰ کی مدد نازل ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے حکم کی موافقت کرنے والے کی جو مدد کی جاتی ہے وہ کسی اور کی نہیں کی جاتی۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا : ﴿ لَقَدْ لَقِينَا مِن سَفَرِنَا هَـٰذَا نَصَبًا ﴾ )الکھف : 18؍62) ” اس سفر سے ہم کو بہت تکان ہوگئی۔“ یہ دریاؤں کے سنگم سے متجاوز سفر کی طرف اشارہ ہے۔ دریاؤں کے سنگم سے ماقبل سفر کے بارے میں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے تھکاوٹ کی شکایت نہیں کی، حالانکہ وہ بہت طویل سفر تھا کیونکہ یہی حقیقی سفر تھا۔ لیکن اللہ کی مدد کی وجہ سے وہ محسوس نہیں ہوا رہا دریاؤں کے سنگم کے بعد والا سفر تو ظاہر ہے کہ وہ سفر کا کچھ حصہ یعنی دن کا ایک حصہ تھا کیونکہ جب انہوں نے چٹان پر بیٹھ کر آرام کیا تھا وہاں مچھلی غائب ہوئی تھی، ظاہر ہے وہاں چٹان کے پاس ہی انہوں نے رات بسر کی پھر اگلی صبح سفر پر روانہ ہوئے۔ حتیٰ کہ جب صبح کے کھانے کا وقت ہوا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے خادم سے کہا : ﴿آتِنَا غَدَاءَنَا ﴾ )الکھف :18؍ 62)” ہمارے لئے کھانا لاؤ۔“ یہاں آ کر خادم کو یاد آیا کہ اسے اس مقام پر مچھلی کے غائب ہونے کے بارے میں ذکر کرنا بھول گیا جو ان کی منزل اور مقصودسفر تھا۔)لیکن اس تھوڑے سے سفر میں انہیں تھکاوٹ ہوگئی تھی( (10( اللہ تعالیٰ کا وہ بندہ جس سے ان دونوں نے ملاقات کی تھی، نبی نہیں تھا بلکہ ایک صالح بندہ تھا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کو عبودیت کی صفت سے موصوف کیا ہے اور یہ بھی ذکر کیا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو رحمت اور علم سے نوازا تھا مگر رسالت اور نبوت کا ذکر نہیں فرمایا۔ اگر جناب خضر نبی ہوتے تو اللہ تعالیٰ ان کی نبوت کا ضرور ذکر کرتا جیسا کہ دوسرے انبیاء و مرسلین کے بارے میں ذکر کیا ہے۔ جہاں تک قصے کے آخر میں ان کے اس قول ﴿ وَمَا فَعَلْتُهُ عَنْ أَمْرِي ﴾ (الکھف : 18؍82) کا تعلق ہے تو یہ ان کے نبی ہونے کی دلیل نہیں۔ یہ تو الہام اور تحدیث کی طرف اشارہ ہے۔ جیسا کہ غیر انبیا کو الہام سے نوازا جاتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿وَأَوْحَيْنَا إِلَىٰ أُمِّ مُوسَىٰ أَنْ أَرْضِعِيهِ﴾ (القصص : 28 ؍7) ” ہم نے موسیٰ علیہ السلام کی ماں کی طرف الہام کیا کہ اس کو دودھ پلا۔“ اسی طرح ارشاد ہے : ﴿وَأَوْحَىٰ رَبُّكَ إِلَى النَّحْلِ أَنِ اتَّخِذِي مِنَ الْجِبَالِ بُيُوتًا﴾ (النحل : 16 ؍68) ” آپ کے رب نے شہد کی مکھی کی طرف وحی کی کہ وہ پہاڑوں میں اپنے چھتے بنائے۔ “ (11) وہ علم جو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو عطا کرتا ہے، اس کی دو اقسام ہیں : (i )علم اکتاسبی : جسے بندہ اپنی جدوجہد اور اجتہاد سے حاصل کرتا ہے۔ (ii ) علم لدنی : اللہ اپنے بندوں میں سے جس پر کرم نوازی کرتا ہے اسے یہ علم عطا کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿ وَعَلَّمْنَاهُ مِن لَّدُنَّا عِلْمًا﴾ (الکھف :18 ؍65) ” ہم نے انہیں اپنی طرف سے ایک خاص علم سے نوازا تھا۔ “ (12) ان آیات سے مستفاد ہوتا ہے کہ معلم کے ساتھ ادب کے ساتھ پیش آنا چاہئے اور متعلم کو چاہئے کہ وہ نہایت لطیف طریقے سے معلم سے مخاطب ہو۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت خضر سے اس طرح عرض کی تھی : ﴿هَلْ أَتَّبِعُكَ عَلَىٰ أَن تُعَلِّمَنِ مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا ﴾ (الکھف : 18؍66) ” کیا میں آپ کے پیچھے آسکتا ہوں تاکہ آپ مجھے وہ علم و دانش سکھائیں جو آپ کو عطا کی گئی ہے۔“ چنانچہ موسیٰ علیہ السلام نے ملاطفت اور مشاورت کے اسلوب میں بات کی گویا عرض کی کہ کیا آپ مجھے اجازت عنایت فرمائیں گے یا نہیں اور ساتھ ہی یہ اقرار کیا کہ وہ متعلم ہیں۔ بے ادب اور متکبر لوگوں کا رویہ اس کے برعکس ہوتا ہے جو معلم پر یہ ظاہر نہیں کرتے کہ وہ اس کے علم کے محتاج ہیں بلکہ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ حصول علم میں وہ ایک دوسرے کی مدد کر رہے ہیں بلکہ بسا اوقات ان میں سے بعض تو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے معلم کو تعلیم دے رہے ہیں۔ ایسا شخص سخت جاہل ہے۔ معلم کے سامنے تذلل اور انکساری اور معلم کے علم کا محتاج ہونے کا اظہار متعلم کے لئے بہت فائدہ مندہ چیز ہے۔ (13) اس قصہ سے مستفادہ ہوتا ہے کہ ایک عالم اور صاحب فضیلت شخص کو بھی علم حاصل کرتے وقت تواضع اور انکساری کا اظہار کرنا چاہئے، چاہے اس کا استاذ اس سے درجے میں کمتر ہی ہو کیونکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام بلاشبہ حضرت خضر علیہ السلام سے افضل تھے۔ (14) اس واقعے سے یہ بھی استنباط ہوتا ہے کہ عالم فاضل شخص کسی علم میں مہارت حاصل کرنے کے لئے جس میں وہ ماہر نہیں، اس شخص سے علم حاصل کرے جو اس علم میں مہارت رکھتا ہے اگرچہ وہ علم و فضل میں اس سے بدرجہا کمتر کیوں نہ ہو۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اولوالعزم رسولوں میں شمار ہوتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے وہ علم عطا کیا جو دوسروں کو عطا نہیں کیا مگر یہ خاص علم جو حضرت خضر کے پاس تھا، آپ اس سے محروم تھے اس لئے اس علم کو سیکھنے کی خواہش ظاہر کی۔ بناء بریں ایک محدث وفقیہ کے لئے مناسب نہیں۔۔۔. جبکہ وہ علم صرف و نحو وغیرہ میں کم مایہ ہو۔۔۔. کہ وہ اس شخص سے یہ علم سیکھنے کی کوشش نہ کرے جو اس میں ماہر ہے اگرچہ وہ محدث اور فقیہ نہ ہو۔ (15) ان آیات کریمہ سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ علم اور دیگر فضائل کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف کرنی چاہئے، اس کا اقرار کرنا چاہئے اور اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر کرنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿تُعَلِّمَنِ مِمَّا عُلِّمْتَ﴾ (الکھف : 18 ؍66) ” آپ مجھے سکھائیں اس میں سے جو آپ کو سکھایا گیا ہے“ یعنی اس علم سے جو اللہ نے آپ کو سکھایا ہے۔ (16) علم نافع وہ علم ہے جو خیر کی طرف راہنمائی کرے، ہر وہ علم جس میں رشد و ہدایت اور خیر کے راستے کی طرف راہنمائی ہو، شر کے راستے سے ڈرایا گیا، یا ان مقاصد کے حصول کا وسیلہ ہو، وہ علم نافع ہے۔ اس کے علاوہ دیگر علوم، وہ یا تو نقصان دہ ہوتے ہیں یا ان میں کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ جیسے فرمایا : ﴿أَن تُعَلِّمَنِ مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا ﴾ (الکھف : 18؍66) (17) اس واقعے سے مستفاد ہوتا ہے کہ جس شخص میں عالم اور علم کی صحبت کے لئے قوت، صبر اور حسن ثبات نہیں وہ علم حاصل کرنے کا اہل نہیں۔ جو صبر سے محروم ہے وہ علم حاصل نہیں کرسکتا۔ جو شخص صبر کو کام میں لاتا اور اس کا التزام کرتا ہے وہ جس امر میں بھی کوشش کرے گا اس کو حاصل کرلے گا۔ حضرت خضر علیہ السلام نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے معذرت کرتے ہوئے اس مانع کا ذکر کیا تھا جو ان کے لئے حصول علم سے مانع تھا اور وہ تھا جناب خضر کی معیت میں ان کا عدم صبر۔ (18) اس قصے سے ثابت ہوا کہ حصول صبر کا سب سے بڑا سبب، اس امر میں اس کا علم و آگہی ہے جس میں صبر کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ پس وہ شخص جو اس بارے میں کچھ نہیں جانتا، نہ اس کے غرض و غایت، اس کے نتیجہ، اس کے فوائد و ثمرات کا اسے علم ہے وہ صبر کے اسباب سے بے بہرہ ہے اور اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿ وَكَيْفَ تَصْبِرُ عَلَىٰ مَا لَمْ تُحِطْ بِهِ خُبْرًا ﴾ (الکھف : 18 ؍68) ” جس چیز کے بارے میں آپ کو کوئی خبر نہ ہو آپ اس بارے میں کیسے صبر کرسکتے ہیں۔“ پس جناب خضر نے اس چیز کے بارے میں عدم علم کو بے صبری کا سبب قرار دیا۔ (19) اس قصے سے مستنبط ہوتا ہے کہ جب تک کسی چیز کے مقصد اور اس بات کی معرفت حاصل نہ ہوجائے کہ اس سے کیا مراد ہے تو اس وقت تک اس پر خوب غوروفکر کیا جائے اور اس پر حکم لگانے میں جلدی نہ کی جائے۔ (20) اس قصے سے مستفاد ہوتا ہے کہ مستقبل میں واقع ہونے والے بندوں کے افعال کو مشیت الٰہی سے معلق کیا جائے۔ جب بندہ کسی چیز کے بارے میں کہے کہ وہ مستقبل میں یہ کرے گا تو اس کے ساتھ ان شاء اللہ ” اگر اللہ نے چاہا“ ضرور کہے ۔ (21) کسی چیز کے فعل کا عزم، اس فعل کے قائم مقام نہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا تھا : ﴿ سَتَجِدُنِي إِن شَاءَ اللّٰـهُ صَابِرًا﴾ (الکھف : 18؍69) ” اگر اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صابر پائیں گے۔“ پس انہوں نے اپنے نفس کو صبر پر مجبور کیا مگر صبر نہ کرسکے۔ (22) ان آیات کریمہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ اگر معلم اس امر میں مصلحت سمجھتا ہو کہ متعلم بعض چیزوں کے متعلق سوال میں ابتدا نہ کرے جب تک کہ معلم خود اسے ان چیزوں سے واقف نہ کرائے۔۔۔. تو مصلحت ہی کی پیروی جائے، مثلاً: اگر معلم سمجھے کہ متعلم کم فہم ہے یا معلم متعلم کو زیادہ باریک سوال کرنے سے روک دے جبکہ اس کے علاوہ دیگر امور زیادہ اہم ہوں یا متعلم کا ذہن اس کا ادراک نہ کرسکتا ہو یا وہ کوئی ایسا سوال کرے جو زیر بحث موضوع سے متعلق نہ ہو۔ )23( اس سے مستفاد ہوتا ہے کہ ایسی حالت میں سمندر میں سفر کرنا جائز ہے جبکہ خوف نہ ہو۔ )24( اس سے یہ بھی مستفاد ہوتا ہے کہ بھول جانے والے شخص کا اس کے نسیان کی بنا پر حقوق اللہ اور حقوق العباد میں کوئی مواخذہ نہیں اور اس کی دلیل موسیٰ علیہ السلام کا یہ قول ہے : ﴿لَا تُؤَاخِذْنِي بِمَا نَسِيتُ﴾ )الکھف : 18؍73 (” میری بھول پر مجھے نہ پکڑیئے۔ “ )25( انسان کو چاہئے کہ وہ لوگوں کے اخلاق اور معاملات میں عفو سے کام لے۔ ان کے ساتھ رویہ نرم رکھے ان کو ایسے امور کا مکلف نہ کرے جن کی وہ طاقت نہ رکھتے ہوں، یا ان پر شاق گزرتے ہوں یا ایسا کرنا ان پر ظلم کا باعث ہو کیونکہ یہ چیز نفرت اور اکتاہٹ کا باعث بنتی ہے بلکہ وہ طریقہ اختیار کرے جو آسان ہو تاکہ اس کا کام آسان ہوجائے۔ )26( تمام معاملات میں ان کے ظاہر پر حکم لگایا جاتا ہے، مال اور خون وغیرہ کے دنیاوی معاملات میں ان کے ظاہر کے مطابق فیصلہ کیا جاتا ہے، اس لئے کہ جناب موسیٰ علیہ السلام نے خضر علیہ السلام کے کشتی میں سوراخ کرنے اور بچے کے قتل کرنے پر نکیر فرمائی کیونکہ یہ دونوں ایسے امور ہیں جو بظاہر منکر ہیں۔ جناب خضر کی مصاحبت کے علاوہ کوئی اور صورت حال ہوتی تو موسیٰ علیہ السلام خاموش نہ رہ سکتے تھے۔ اس لئے آنجناب نے اس پر عام معاملات کے مطابق حکم لگانے میں جلدی کی اور اس عارض کی طرف التفات نہ کیا جو آپ پر صبر اور انکار میں عدم عجلت کو واجب کرتا ہے۔ )27( اس قصے سے ایک نہایت جلیل القدر قاعدہ مستنبط ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ ” چھوٹی برائی کے ارتکاب کے ذریعے سے بڑی برائی کا سدباب کیا جائے“ اور چھوٹی مصلحت کو ضائع کر کے بڑی مصلحت کی رعایت رکھی جائے۔ معصوم بچے کا قتل یقیناً بہت بڑی برائی ہے مگر اس کے زندہ رہنے سے ماں باپ کا دین کے بارے میں فتنہ میں مبتلا ہونا اس سے زیادہ بڑی برائی ہے، بچے کا قتل نہ ہونا اور اس کا باقی رہنا اگرچہ بظاہر نیکی ہے مگر اس کے والدین کے دین و ایمان کا باقی رہنا زیادہ بڑی نیکی ہے اسی وجہ سے خضرعلیہ السلام نے اس بچے کو قتل کیا تھا۔ اس قاعدے کے بہت سے فوائد اور بہت سی فروع ہیں جن کو شمار نہیں کیا جاسکتا۔ پس تمام مصالح اور مفاسد جو ایک دوسرے سے متصادم ہوتے ہیں سب اسی زمرے میں آتے ہیں۔ )28( اس واقعے سے ایک اور جلیل القدر قاعدہ مستفاد ہوتا ہے اور وہ یہ کہ ” کسی شخص کے مال میں کسی دوسرے شخص کا ایسا عمل جو کسی مصلحت یا ازالہ مفسدہ کی خاطر ہو وہ جائز ہے، خواہ وہ بغیر اجازت ہی کیوں نہ ہو، خواہ اس سے کسی کے مال میں کچھ اتلاف ہی کیوں نہ واقع ہو۔“ جیسے جناب خضر علیہ السلام نے کشتی میں سوراخ کر کے اس میں عیب ڈال دیا تھا اور اس طرح وہ اس ظالم بادشاہ کے ہاتھوں غصب ہونے سے بچ گئی۔ اسی طرح کسی شخص کے گھر یا مال کے ڈوبنے یا آگ لگنے کی صورت میں اگر کچھ مال کو تلف کر کے باقی مال یا گھر کے کچھ حصہ کو منہدم کر کے باقی گھر کو بچایا جاسکتا ہو تو ایسا کرنا جائز ہے بلکہ دوسرے کے مال کو بچانے کے لئے ایسا کرنا مشروع ہے۔ اسی طرح اگر کوئی ظالم شخص کسی دوسرے کے مال کو غصب کرنا چاہتا ہے، کوئی دوسرا شخص جو مال کا مالک نہیں، اصل مالک کی اجازت کے بغیر، مال کا کچھ حصہ ظالم اور غاصب شخص کو دے کر باقی مال کو بچا لے تو ایسا کرنا جائز ہے۔ )29( اس سے ثابت ہوتا ہے کہ سمندر میں کام کرنا اسی طرح جائز ہے جس طرح خشکی میں۔ ارشاد فرمایا : ﴿يَعْمَلُونَ فِي الْبَحْرِ﴾)الکھف : 18 ؍79 (اور یہ فرمانے کے بعد ان کے عمل پر نکیر نہیں فرمائی۔ )30( کبھی کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ مسکین کچھ مال رکھتا ہے مگر وہ اس کے لئے کافی نہیں ہوتا اس لئے وہ ” مسکین“ کے نام کے اطلاق سے خارج نہیں ہوتا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ ان مساکین کے پاس ایک کشتی تھی۔ )31( اس واقعے سے مستفاد ہوتا ہے کہ قتل بہت بڑا گناہ ہے۔ اس بچے کے قتل کے بارے میں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا : ﴿لَّقَدْ جِئْتَ شَيْئًا نُّكْرًا﴾ )الکھف : ٨١ ؍٤٧ (” آپ نے ایک بہت برا کام کیا۔ “ )32( اس واقعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ قصاص کے طور پر قتل کرنا برائی نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿ بِغَيْرِ نَفْسٍ ﴾) الکھف : 74؍18 ) (33) ان آیات کریمہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کی جان اور اولاد کی حفاظت کرتا ہے۔ (35) ان آیات کریمہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ صالحین یا ان کے متعلقین کی خدمت کرنا کسی اور کی خدمت کرنے سے افضل ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان یتیموں کے مدفون خزانہ کو باہر نکالنے اور پھر ان کی دیوار تعمیر کردینے میں یہ علت بیان فرمائی ہے کہ ان کا باپ ایک صالح شخص تھا۔ (35) اس واقعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں الفاظ استعمال کرتے وقت ادب کو ملحوظ رکھنا چاہئے، چنانچہ جناب خضر علیہ السلام نے کشتی کو عیب دار کرنے کے فعل کی اضافت اپنی طرف کی : ﴿فَأَرَدتُّ أَنْ أَعِيبَهَا ﴾( الکھف : 18 ؍79) ” میں نے چاہا کہ اسے عیب دار کردوں“ اور خیر کی اضافت اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف کی۔ فرمایا : ﴿ فَأَرَادَ رَبُّكَ أَن يَبْلُغَا أَشُدَّهُمَا وَيَسْتَخْرِجَا كَنزَهُمَا رَحْمَةً مِّن رَّبِّكَ﴾( الکھف : 18 ؍82) اور جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا : ﴿وَإِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِينِ﴾ (الشعراء : 26؍80) ”جب میں بیمار پڑجاتا ہوں تو وہی مجھے شفا عطا کرتا ہے۔“ اور جنات نے کہا تھا : ﴿وَأَنَّا لَا نَدْرِي أَشَرٌّ أُرِيدَ بِمَن فِي الْأَرْضِ أَمْ أَرَادَ بِهِمْ رَبُّهُمْ رَشَدًا﴾ (الجن : 76 ؍10) ” اور ہم نہیں جانتے کہ زمین پر رہنے والوں کے لئے کوئی برا ارادہ کیا گیا ہے یا ان کے بارے میں ان کے رب نے اچھا ارادہ کیا ہے۔“ حالانکہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی قضاء و تقدیر سے ہوتا ہے۔ (36) کسی شخص کے لئے مناسب نہیں کہ وہ کسی بھی حال میں اپنے ساتھی سے علیحدہ ہوجائے اور اس کی صحبت کو ترک کر دے جب تک کہ اس کی سرزنش نہ کرے اور اس کا عذر نہ سن لے جیسا کہ خضر علیہ السلام نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ کیا تھا۔ (37) ان امور میں جو ناجائز نہیں، ایک ساتھی کی دوسرے ساتھی سے موافقت کرنا مطلوب اور دوستی کی بقا کا سبب ہے۔ اسی طرح عدم موافقت رشتہ دوستی کے منقطع ہونے کا سبب ہے۔ الكهف
83 اہل کتاب تھے یا مشرکین انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ذوالقرنین کے بارے میں سوال کیا تو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ آپ ان سے کہیں : ﴿ سَأَتْلُو عَلَيْكُم مِّنْهُ ذِكْرًا﴾ ” میں پڑھتا ہوں تم پر اس کا کچھ حال“ جس میں نہایت مفید مگر تعجب خیز خبر ہے۔ یعنی میں تمہیں ذوالقرنین کے صرف وہی احوال سناؤں گا جن میں نصیحت اور عبرت ہے۔ ان کے علاوہ دیگر احوال، تو وہ ان کو نہیں سنائے گئے۔ الكهف
84 ﴿إِنَّا مَكَّنَّا لَهُ فِي الْأَرْضِ﴾ ” ہم نے اس کو قوت عطا کی تھی زمین میں“ یعنی اللہ تعالیٰ نے اسے بادشاہی سے نوازا اور زمین کے گوشوں پر اس کے حکم کو نافذ کیا اور لوگوں کو اس کا مطیع بنایا۔ ﴿وَآتَيْنَاهُ مِن كُلِّ شَيْءٍ سَبَبًافَأَتْبَعَ سَبَبًا ﴾ ” اور دیا ہم نے اس کو ہر چیز کا سامان پھر پیچھے پڑا وہ ایک سامان کے“ یعنی اللہ تعالیٰ نے اسے وہ تمام اسباب مہیا کئے جن کے ذریعے سے وہ ہر اس جگہ پہنچا جہاں وہ پہنچنا چاہتا تھا، جن کے ذریعے سے اس نے شہروں پر غلبہ حاصل کیا اور نہایت سہولت کے ساتھ دور دراز علاقوں تک پہنچ گیا۔ اس نے وہ تمام اسباب جو اللہ تعالیٰ نے اس کو عطا کئے تھے بہتر طریقے سے استعمال کئے۔ پس ہر شخص کو اسباب مہیا نہیں ہوتے اور نہ ہر شخص اسباب مہیا کرنے کی قدرت ہی رکھتا ہے۔ پس جب سبب حقیقی اور اس کو عمل میں لانے کی قدرت یکجا ہوجائے تو مقصد حاصل ہوجاتا ہے اور اگر دونوں یا کوئی ایک معدوم ہو تو مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ اور وہ اسباب جو اللہ تعالیٰ نے اس کو عطا کئے تھے، ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں آگاہ فرمایا نہ اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اور نہ اس بارے میں کوئی ایسی اخبار منقول ہیں جو افادہ علم کی موجب ہوں، اس لئے اس بارے میں سکوت اور ان اسرائیلیات کی طرف عدم التفات کے سوا کوئی چارہ نہیں جن کو ناقلین روایت کرتے ہیں۔ مگر ہم اجمالی طور پر یہ ضرور جانتے ہیں کہ داخلی اور خارجی طور پر یہ اسباب نہایت قوی تھے جن کی بنا پر اس کے پاس ایک عظیم فوج تیار ہوگئی تھی جو اپنی عددی قوت، سامان حرب اور نظم کے اعتبار سے ایک بہت بڑی فوج تھی۔ اس فوج کی مدد سے اس نے اپنے دشمنوں پر غلبہ حاصل کیا اور زمین کے مشرق و مغرب اور اس کے دور دراز گوشوں تک پہنچنے کی سہولت حاصل ہوئی۔ الكهف
85 الكهف
86 پس اللہ تعالیٰ نے اسے وہ اسباب عطا کئے جن کے ذریعے سے وہ غروب آفتاب کی حد تک پہنچ گیا جہاں اس نے چشمے میں سورج کا عکس دیکھا گویا کہ وہ گدلے یعنی سیاہ پانی میں ڈوب رہا تھا۔ یہ منظر اس شخص کے لئے عام ہے، جس کے اور مغربی افق کے درمیان پانی ہو۔ اسے ایسے نظر آئے گا گویا سورج پانی کے اندر غروب ہو رہا ہے۔ اگرچہ وہ بہت بلندی پر ہو۔ اور مغرب کی سمت میں ذوالقرنین کو ایک قوم ملی۔ ﴿ قُلْنَا يَا ذَا الْقَرْنَيْنِ إِمَّا أَن تُعَذِّبَ وَإِمَّا أَن تَتَّخِذَ فِيهِمْ حُسْنًا ﴾ ” ہم نے کہا : اے ذوالقرنین ! یا تو لوگوں کو تکلیف دے یا ان میں (اپنی بابت) خوبی رکھ“ یعنی خواہ تو ان کو قتل و ضرب یا قیدی بنا کر عذاب میں مبتلا کریا ان پر احسان کر۔ ذوالقرنین کو ان دو امور میں سے ایک کو منتخب کرنے کا اختیار دیا گیا تھا کیونکہ ظاہر ہے کہ وہ کفار یا فاسق قوم تھی یا ان میں کچھ کفر اور فسق موجود تھا کیونکہ اگر وہ غیر فاسق مومن ہوتے تو ان کو عذاب دینے کی اجازت نہ دی جاتی۔ پس ذوالقرنین کو سیاست شرعیہ کا کچھ حصہ ملا تھا، جس کے ذریعے سے اس نے اللہ کی توفیق سے ایسے کام کئے جن پر وہ مدح و ستائش کا مستحق ٹھہرا، چنانچہ اس نے کہا : ان کو دو قسموں میں تقسیم کر دوں گا۔ الكهف
87 ﴿ أَمَّا مَن ظَلَمَ ﴾ ” جس نے ظلم کیا“ یعنی کفر کیا۔ ﴿فَسَوْفَ نُعَذِّبُهُ ثُمَّ يُرَدُّ إِلَىٰ رَبِّهِ فَيُعَذِّبُهُ عَذَابًا نُّكْرًا﴾ ” سو ہم اس کو سزا دیں گے، پھر لوٹ جائے گا وہ رب کے پاس، پس وہ عذاب دے گا اس کو برا عذاب“ یعنی اسے دو سزائیں ملیں گی، ایک سزا اس دنیا میں اور ایک سزا آخرت میں۔ الكهف
88 ﴿وَأَمَّا مَنْ آمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَهُ جَزَاءً الْحُسْنَىٰ ﴾ ” اور جو کوئی ایمان لایا اور کیا اس نے بھلا کام، سو اس کا بدلہ بھلائی ہے۔“ یعنی اس کو جزا کے طور پر قیامت کے دن جنت عطا ہوگی اور اللہ تعالیٰ کے ہاں اچھے احوال سے نوازا جائے گا۔ ﴿وَسَنَقُولُ لَهُ مِنْ أَمْرِنَا يُسْرًا ﴾ ” اور ہم حکم دیں گے اس کو اپنے کام میں آسانی کا“ یعنی ہم اس سے اچھا سلوک کریں گے، ہم اس سے نرم بات اور آسان معاملہ کریں گے۔ یہ بات اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ ذوالقرنین نیک بادشاہوں، اولیائے صالحین اور عدل کرنے والوں میں سے تھا کیونکہ اس نے اللہ تعالیٰ کی رضا کی موافقت کرتے ہوئے ہر شخص کے ساتھ وہی معاملہ کیا جس کے وہ لائق تھا۔ الكهف
89 یعنی جب وہ غروب آفتاب کی حدود تک پہنچ گیا تو واپس لوٹا اور ان اسباب کے ذریعے سے جو اللہ نے اسے عطا کر رکھے تھے طلوع آفتاب کی حدود کا قصد کیا۔ الكهف
90 پس وہ طلوع آفتاب کی حدود میں پہنچ گیا تو ﴿وَجَدَهَا تَطْلُعُ عَلَىٰ قَوْمٍ لَّمْ نَجْعَل لَّهُم مِّن دُونِهَا سِتْرًا﴾ ” پایا سورج کو کہ وہ ایسی قوم پر نکلتا ہے کہ نہیں بنایا ہم نے ان کے لئے آفتاب کے ورے کوئی پردہ“ یعنی اس نے دیکھا کہ سورج ایسی قوم پر طلوع ہو رہا ہے کہ جس کے پاس دھوپ سے بچنے کے لئے کوئی سامان نہ تھا یا تو اس بنا پر کہ وہ بنانے کی استعداد نہ رکھتے تھے اور اس کا سبب یہ تھا کہ وہ یکسر وحشی اور غیر متمدن تھے۔۔۔. یا اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کے پاس سورج غروب نہیں ہوتا تھا ہمیشہ نظر آتا رہتا تھا۔ جیسا کہ جنوبی افریقہ کے مشرقی حصوں میں ہوتا ہے۔ ذوالقرنین اس مقام پر پہنچ گیا جہاں کسی انسان کا اپنے ظاہری بدن کے ساتھ پہنچنا تو کجا انسان کو ان علاقوں کے بارے میں علم تک نہ تھا۔۔۔ الكهف
91 بایں ہمہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی تقدیر اور اس کے علم کے مطابق تھا۔ اس لئے فرمایا : ﴿كَذَٰلِكَ وَقَدْ أَحَطْنَا بِمَا لَدَيْهِ خُبْرًا ﴾ ” یونہی ہے اور تحقیق ہم نے گھیر لیا تھا اس کے پاس کی تمام خبروں کو“ یعنی ذوالقرنین کے پاس جو بھلائی اور عظیم اسباب تھے اور جہاں کہیں وہ جاتا تھا سب اللہ تعالیٰ کے علم میں تھا۔ الكهف
92 ﴿ثُمَّ أَتْبَعَ سَبَبًا حَتَّىٰ إِذَا بَلَغَ بَيْنَ السَّدَّيْنِ﴾ ” پھر لگا وہ ایک سامان کے پیچھے، یہاں تک کہ جب پہنچا وہ دو پہاڑوں کے درمیان“ اصحاب تفسیر کہتے ہیں کہ وہ مشرق سے شمال کی طرف روانہ ہوا اور وہ دو پہاڑوں کے درمیان پہنچا اور یہ دونوں اس زمانے میں معروف تھے۔ یہ دائیں بائیں دو بندوں کی مانند دو پہاڑی سلسلے تھے اور دونوں پہاڑ یاجوج و ماجوج اور لوگوں کے درمیان رکاوٹ تھے۔ ذوالقرنین کو ان پہاڑی سلسلوں کے اس طرف ایک ایسی قوم ملی جو اپنی اجنبی زبان اور اذہان و قلوب میں ابہام ہونے کی وجہ سے کوئی بات سمجھنے سے قاصر تھی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ذوالقرنین کو ایسے علمی اسباب مہیا کر رکھے تھے جن کی بنا پر وہ اس اجنبی قوم کی زبان سمجھ سکتا تھا، ان سے بات چیت کرسکتا تھا اور وہ اس سے بات کرسکتے تھے۔ پس ان لوگوں نے اس کے سامنے یاجوج و ماجوج کی مار دھاڑ کی شکایت کی۔ الكهف
93 ﴿ثُمَّ أَتْبَعَ سَبَبًا حَتَّىٰ إِذَا بَلَغَ بَيْنَ السَّدَّيْنِ﴾ ” پھر لگا وہ ایک سامان کے پیچھے، یہاں تک کہ جب پہنچا وہ دو پہاڑوں کے درمیان“ اصحاب تفسیر کہتے ہیں کہ وہ مشرق سے شمال کی طرف روانہ ہوا اور وہ دو پہاڑوں کے درمیان پہنچا اور یہ دونوں اس زمانے میں معروف تھے۔ یہ دائیں بائیں دو بندوں کی مانند دو پہاڑی سلسلے تھے اور دونوں پہاڑ یاجوج و ماجوج اور لوگوں کے درمیان رکاوٹ تھے۔ ذوالقرنین کو ان پہاڑی سلسلوں کے اس طرف ایک ایسی قوم ملی جو اپنی اجنبی زبان اور اذہان و قلوب میں ابہام ہونے کی وجہ سے کوئی بات سمجھنے سے قاصر تھی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ذوالقرنین کو ایسے علمی اسباب مہیا کر رکھے تھے جن کی بنا پر وہ اس اجنبی قوم کی زبان سمجھ سکتا تھا، ان سے بات چیت کرسکتا تھا اور وہ اس سے بات کرسکتے تھے۔ پس ان لوگوں نے اس کے سامنے یاجوج و ماجوج کی مار دھاڑ کی شکایت کی۔ الكهف
94 یاجوج و ماجوج آدم علیہ السلام کی نسل سے دو بہت بڑے گروہ تھے۔۔۔. ان لوگوں نے ذوالقرنین کے پاس شکایت کرتے ہوئے کہا : ﴿إِنَّ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ مُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ ﴾ ” یاجوج و ماجوج زمین میں فاسد مچاتے ہیں“ یعنی قتل و غارت اور لوٹ مار کے ذریعے سے زمین میں فساد برپا کرتے ہیں۔ ﴿ فَهَلْ نَجْعَلُ لَكَ خَرْجًا ﴾ ” پس )تو کہے( تو ہم مقرر کردیں تیرے واسطے کچھ محصول“ یعنی خراج ﴿ عَلَىٰ أَن تَجْعَلَ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمْ سَدًّا ﴾ ” اس شرط پر کہ تو بنا دے ہمارے اور ان کے درمیان ایک بند“ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ وہ بند بنانے کی خود قدرت نہ رکھتے تھے اور انہیں علم تھا کہ ذوالقرنین یہ دیوار تعمیر کروا سکتا ہے۔ پس انہوں نے ذوالقرنین کو اجرت ادا کرنے کی پیشکش کی تاکہ وہ ان کے لئے دیوار تعمیر کروا دے اور انہوں نے ذوالقرنین کو وہ سبب بھی بتایا جو دیوار تعمیر کرنے کا داعی تھا۔۔۔. اور وہ تھا یاجوج ماجوج کا ان کے علاقے میں مار دھاڑ کرنا اور فساد پھیلانا۔ ذوالقرنین لالچی تھا نہ دنیا کی اسے کوئی رغبت تھی اور نہ وہ رعایا کی اصلاح احوال کے لئے کوشش ترک کرنیوالا تھا بلکہ اس کا مقصد تو محض اصلاح تھا، اس لئے اس نے ان کا مطالبہ مان لیا کیونکہ اس میں مصلحت تھی اور ان سے دیوار تعمیر کروانے کی اجرت نہ لی، اس نے بس اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کیا جس نے اسے دیوار بنانے کی طاقت اور قدرت عطا کی۔ الكهف
95 چنانچہ ذوالقرنین نے ان سے کہا : ﴿مَا مَكَّنِّي فِيهِ رَبِّي خَيْرٌ ﴾ ” مجھے میرے رب نے جو قوت عطا کی ہے، وہ بہتر ہے“ یعنی جو بھلائی مجھے اللہ تعالیٰ نے عطا کی ہے وہ اس سے بہتر ہے جو تم مجھے عطا کرنا چاہتے ہو۔ البتہ میں چاہتا ہوں کہ تم افرادی قوت اور اپنے ہاتھوں کے ذریعے سے میری مدد کرو۔ ﴿ أَجْعَلْ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ رَدْمًا ﴾ ” میں بنا دیتا ہوں تمہارے اور ان کے درمیان ایک موٹی دیوار“ یعنی میں ایسی رکاوٹ تعمیر کئے دیتا ہوں جسے وہ عبور کر کے تم پر حملہ آور نہیں ہوسکیں گے۔ الكهف
96 ﴿ آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ ۖ﴾ ” لا دو تم مجھے لوہے کے تختے“ یعنی لوہے کے ٹکڑے۔ پس انہوں نے لوہے کے بڑے بڑے ٹکڑے لا دیئے۔ ﴿حَتَّىٰ إِذَا سَاوَىٰ بَيْنَ الصَّدَفَيْنِ﴾ ” حتیٰ کہ جب اس نے دونوں کناروں تک برابر کردیا“ یعنی جب دیوار ان دو پہاڑوں کے برابر ہوگئی جن کے درمیان یہ دیوار بنائی گئی تھی۔ ﴿قَالَ انفُخُوا  ﴾ ” کہا دھنکو“ یعنی بہت بڑا الاؤ جلاؤ اس کے لئے بڑی بڑی دھونکنی استعمال کرو تاکہ آگ کی تپش بہت شدید ہوجائے اور تانبا اچھی طرح پگھل جائے۔ جب تانبا پگھل گیا جس کو وہ فولاد کے تختوں کے درمیان ڈالنا چاہتا تھا تو ﴿قَالَ آتُونِي أُفْرِغْ عَلَيْهِ قِطْرًا ﴾ ” کہا لاؤ میرے پاس کہ ڈالوں اس پر پگھلا ہوا تانبا۔“ پس اس نے پگھلا ہوا تانبا دیوار پر ڈالا جس سے دیوار بے پناہ مضبوط ہوگئی اور یوں دیوار سے ادھر رہنے والے لوگ یا جوج اور ماجوج کی تباہ کاریوں سے محفوظ ہوگئے۔ الكهف
97 ﴿فَمَا اسْطَاعُوا أَن يَظْهَرُوهُ وَمَا اسْتَطَاعُوا لَهُ نَقْبًا﴾ یعنی وہ اس دیوار پر چڑھنے کی قدرت نہیں رکھتے تھے کیونکہ یہ بہت بلند تھی اور نہ اس میں نقب لگا سکتے تھے کیونکہ یہ بے حد مضبوط تھی۔ جب وہ اس اچھے اور جلیل القدر کام سے فارغ ہوا تو اس نے اس نعمت کی اضافت نعمت عطا کرنے والے کی طرف کی۔ الكهف
98 اس نے کہا : ﴿هَـٰذَا رَحْمَةٌ مِّن رَّبِّي﴾ ” یہ ایک مہربانی ہے میرے رب کی“ یعنی یہ مجھ پر اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان ہے۔ اور یہ صالح خلفاء کا حال ہے، جب اللہ تعالیٰ انہیں جلیل القدر نعمتوں سے نوازتا ہے تو ان کے شکر، اللہ تعالیٰ کی نعمت کے اقرار اور اعتراف میں اضافہ ہوجاتا ہے جیسا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے۔۔۔. جب اتنی دور سے ملکہ سبا کا تخت ان کی خدمت میں حاضر کیا گیا تھا۔۔۔. اللہ تعالیٰ کی نعمت کا اقرار کرتے ہوئے کہا تھا : ﴿ هَـٰذَا مِن فَضْلِ رَبِّي لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ﴾ )النمل : 27 ؍40 (” یہ میرے رب کا فضل ہے تاکہ وہ مجھے آزمائے کہ آیا میں شکر کرتا ہوں یا کفران نعمت کا مرتکب ہوتا ہوں۔“ اس کے برعکس جابر، متکبر اور زمین پر عام غالب لوگوں کو بڑی بڑی نعمتیں اور زیادہ متکبر اور مغرور بنا دیتی ہیں، جیسا کہ قارون نے، جس کو اللہ تعالیٰ نے اتنے بڑے خزانے عطا کئے تھے کہ ان کی کنجیاں ایک طاقتور جماعت اٹھاتی تھی، کہا تھا : ﴿إِنَّمَا أُوتِيتُهُ عَلَىٰ عِلْمٍ عِندِي﴾ )القصص : 28 ؍78) ” یہ دولت مجھے اس علم کی بنا پر دی گئی ہے جو مجھے حاصل ہے۔ “ ﴿فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ رَبِّي ﴾ ” پس جب میرے رب کا وعدہ آجائے گا“ یعنی یاجوج و ماجوج کے خروج کا وعدہ ﴿جَعَلَهُ دَكَّاءَ﴾ ” اس کو برابر کر دے گا۔“ یعنی اس مضبوط اور مستحکم دیوار کو گرا کر منہدم کردے گا اور وہ زمین کے ساتھ برابر ہوجائے گی۔ ﴿وَكَانَ وَعْدُ رَبِّي حَقًّا﴾ ” اور میرے رب کا وعدہ سچا ہے۔ “ الكهف
99 ﴿وَتَرَكْنَا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ﴾ ”اور چھوڑ دیں گے ہم ان کے بعض کو اس دن ایک دوسرے میں گھستے“ اس میں یہ احتمال ہے کہ ضمیر یاجوج و ماجوج کی طرف لوٹتی ہو۔ جب وہ اپنے علاقوں سے نکل کر لوگوں پر حملہ آور ہوں گے تو اپنی کثرت اور تمام زمین پر پھیل جانے اور اس کو بھر دینے کی وجہ سے سمندر کی موجوں کی مانند ایک دوسرے سے گتھم ہوں گے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿حَتَّىٰ إِذَا فُتِحَتْ يَأْجُوجُ وَمَأْجُوجُ وَهُم مِّن كُلِّ حَدَبٍ يَنسِلُونَ﴾ (الانبیاء : 21 ؍96) ” یہاں تک کہ یا جوج و ماجوج کو کھول دیا جائے گا اور وہ بلند جگہ سے اتر پڑیں گے۔“ اور یہ احتمال بھی ہے کہ ضمیر خلائق کی طرف لوٹتی ہو یہ کہ لوگ قیامت کے روز اکٹھے ہوں گے وہ بہت زیادہ ہوں گے اور اضطراب، ہول اور زلزلوں کی وجہ سے ایک دوسرے کو دھکم پیل کر رہے ہوں گے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ : ﴿وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَجَمَعْنَاهُمْ جَمْعًا وَعَرَضْنَا جَهَنَّمَ يَوْمَئِذٍ لِّلْكَافِرِينَ عَرْضًا الَّذِينَ كَانَتْ أَعْيُنُهُمْ فِي غِطَاءٍ عَن ذِكْرِي وَكَانُوا لَا يَسْتَطِيعُونَ سَمْعًا﴾ یعنی جب اسرافیل علیہ السلام صور پھونکیں گے تو اللہ تعالیٰ تمام ارواح کو جسموں میں واپس لوٹا دے گا۔ پھر تمام اولین و آخرین، کفار اور مومنین کو اکٹھا کر کے میدان قیامت میں جمع کرے گا، تاکہ ان سے ان کے اعمال کے بارے میں پوچھا جائے، ان کا محاسبہ کیا جائے اور ان کے اعمال کی جزا دی جائے پس کفار کو، ان کے کفر کے مطابق، جہنم میں ڈالا جائے گا جہاں وہ ابدل الآباد تک رہیں گے۔ الكهف
100 اسی لئے فرمایا : ﴿وَعَرَضْنَا جَهَنَّمَ يَوْمَئِذٍ لِّلْكَافِرِينَ عَرْضًا ﴾ ” اور دکھلا دیں گے ہم جہنم اس دن کافروں کو سامنے“ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَبُرِّزَتِ الْجَحِيمُ لِلْغَاوِينَ ﴾ (الشعراء : 26 ؍91) ” اور دوزخ گمراہوں کے سامنے لایا جائے گا۔“ یعنی کفار کے سامنے پیش کیا جائے گا تاکہ یہ ان کا ٹھکانہ بنے اور تاکہ کفار جہنم کی بیڑیوں، اس کی بھڑکتی ہوئی آگ، اس کے ابلتے ہوئے پانی اور اس کی ناقابل برداشت سردی سے متمتع ہوں اور اس کے عذاب کا مزا چکھیں جس سے دل گونگے اور کان بہرے ہوجائیں گے یہ ان کے اعمال کا نتیجہ اور ان کے افعال کی جزا ہے۔ الكهف
101 یہ لوگ دنیا میں اس حال میں تھے : ﴿ الَّذِينَ كَانَتْ أَعْيُنُهُمْ فِي غِطَاءٍ عَن ذِكْرِي ﴾ ” ان کی آنکھوں پر پردہ پڑا تھا میری یاد سے“ یعنی یہ لوگ ذکر حکیم اور قرآن کریم سے روگردانی کیا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے : ﴿قُلُوبُنَا فِي أَكِنَّةٍ مِّمَّا تَدْعُونَا إِلَيْهِ﴾ (حم السجدة: 41؍5) ”جس چیز کی طرف تم ہمیں دعوت دیتے ہو اس سے ہمارے دل پردوں میں ہیں۔“ اور ان کی آنکھوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں جو ان کو اللہ تعالیٰ کی فائدہ مند نشانیوں کو دیکھنے سے روکتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿ وَعَلَىٰ أَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ ﴾(البقرة : 2؍7) ” اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑا ہوا ہے۔“ ﴿وَكَانُوا لَا يَسْتَطِيعُونَ سَمْعًا﴾ ” اور وہ نہیں طاقت رکھتے تھے سننے کی“ یعنی وہ اللہ تعالیٰ کی آیات کو، جو ایمان تک پہنچاتی ہیں، قرآن اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بغض رکھنے کی وجہ سے سن نہیں سکتے کیونکہ بغض رکھنے والا شخص جس کے خلاف بغض رکھتا ہے اس کی بات کو غور سے سن نہیں سکتا۔ جب وہ علم اور بھلائی کے راستوں سے محجوب ہوجاتے ہیں تب ان کے پاس سننے کے لئے کان ہوتے ہیں نہ دیکھنے کے لئے آنکھیں اور نہ سمجھنے کے لئے عقل نافع۔ پس انہوں نے اللہ تعالیٰ سے کفر کیا، اس کی آیات کا انکار کیا اور اس کے رسولوں کو جھٹلایا، اس لئے وہ جہنم کے مستحق ٹھہرے جو بہت برا ٹھکانا ہے۔ الكهف
102 یہ مشرکین اور کافروں کے دعوے کے بطلان کی دلیل ہے جنہوں نے بعض انبیائے کرام اور اولیاء اللہ کو اللہ تعالیٰ کا شریک بنا دیا، وہ ان کی عبادت کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہ اولیائے کرام ان کے مددگار ہوں گے جو ان کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نجات دلائیں گے اور ثواب عطا کریں گے، حالانکہ انہوں نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں سے کفر کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ استفہام اور انکار کے پیرائے میں، جس سے ان کے اس عقیدے کا عقلی طور پر بطلان متحقق ہوتا ہے۔۔۔. فرماتا ہے : ﴿أَفَحَسِبَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَن يَتَّخِذُوا عِبَادِي مِن دُونِي أَوْلِيَاءَ ﴾ ” کیا سمجھتے ہیں کافر لوگ کہ ٹھہرائیں میرے بندوں کو میرے سوا دوست“ یعنی ایسا نہیں ہوسکتا اور کوئی ولی اللہ، اللہ تعالیٰ کے کسی دشمن کو اپنا دوست نہیں بنا سکتا کیونکہ تمام اولیاء اللہ، اللہ تعالیٰ سے محبت، اس کی رضا، اس کی ناراضی اور اس کے بغض کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی موافقت کرتے ہیں۔ اس معنی میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد، اس کے اس ارشاد کے مشابہہ ہے۔ ﴿وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ جَمِيعًا ثُمَّ يَقُولُ لِلْمَلَائِكَةِ أَهَـٰؤُلَاءِ إِيَّاكُمْ كَانُوا يَعْبُدُونَ قَالُوا سُبْحَانَكَ أَنتَ وَلِيُّنَا مِن دُونِهِم  ﴾ )سبا:34؍40۔41 ( ” جس روز اللہ تمام لوگوں کو جمع کرے گا پھر فرشتوں سے (ان مشرکین کے متعلق) پوچھے گا کیا یہی وہ لوگ ہیں جو تمہاری عبادت کیا کرتے تھے؟ تو وہ جواب میں عرض کریں گے، تو پاک ہے ان کی بجائے تو ہمارا ولی (دوست) ہے۔ “ پس جو کوئی اس زعم میں مبتلا ہے کہ اس نے ولی اللہ کو اپنا دوست بنا لیا ہے جب کہ وہ خود اللہ تعالیٰ کا دشمن ہے۔ تو وہ سخت جھوٹا ہے۔۔۔. ظاہر میں اس آیت میں اس معنیٰ کا احتمال ہے کہ کیا کفار نے، جو اللہ تعالیٰ کے منکر اور اس کے رسولوں کے ساتھ دشمنی کرتے ہیں یہ گمان کیا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کو اپنا ولی و مددگار بنا لیں گے جو ان کی مدد کریں گے، ان کو فائدہ پہنچائیں گے اور ان سے تکلیفوں کو دور کریں گے؟ یہ ان کا باطل خیال اور فاسد گمان ہے کیونکہ مخلوق میں سے کسی کے قبضہ قدرت میں نفع و نقصان نہیں۔ یہ معنی اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے مشابہت رکھتا ہے۔ ﴿قُلِ ادْعُوا الَّذِينَ زَعَمْتُم مِّن دُونِهِ فَلَا يَمْلِكُونَ كَشْفَ الضُّرِّ عَنكُمْ وَلَا تَحْوِيلًا ﴾ (بنی اسرائیل : 17؍56) ” کہہ دیجئے کہ تم پکاردیکھو اپنے ان خود ساختہ معبودوں کو جن کو تم اللہ کے سوا کار ساز سمجھتے ہو، تو (یاد رکھو) وہ تمہاری تکلیف دور کرنے کی قدرت رکھتے ہیں نہ بدلنے کی۔“ اور اللہ تعالیٰ کے اس قول کے مشابہہ ہے۔ ﴿ وَلَا يَمْلِكُ الَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِهِ الشَّفَاعَةَ ﴾ (الزخرف : 43؍86)” وہ لوگ جن کو یہ اللہ کے سوا پکارتے ہیں، سفارش کا کوئی اختیار نہیں رکھتے۔“ اور اس قسم کی دیگر آیات جن میں اللہ تعالیٰ ذکر فرماتا ہے کہ جو کوئی اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر کسی کو ولی و مددگار بناتا ہے تاکہ وہ اس کی مدد کرے اور اس سے موالات رکھے وہ گمراہ ہے، وہ خائب و خاسر ہے اس کی امید پوری نہیں ہوگی اور نہ وہ اپنے مقصد کو پا سکے گا۔ ﴿إِنَّا أَعْتَدْنَا جَهَنَّمَ لِلْكَافِرِينَ نُزُلًا﴾ ” بے شک ہم نے تیار کیا ہے جہنم کو کافروں کی مہمانی کے لئے۔“ یعنی ہم نے کفار کی ضیافت اور مہمانی کے لئے جہنم تیار کر رکھی ہے۔ پس کیا بدترین قیام گاہ ان کا مسکن ہے اور کیا بدترین جہنم ان کی مہمانی ہے ! الكهف
103 اے محمد! (صلی اللہ علیہ وسلم) لوگوں کو ڈرانے کے لئے کہہ دیجئے ! کیا میں تمہیں اس شخص کے بارے میں آگاہ کروں جو علی الاطلاق، اپنے اعمال میں سب سے زیادہ خائب و خاسر ہے؟ ﴿الَّذِينَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا﴾ ” وہ لوگ جن کی کوششیں رائیگاں گئیں دنیا کی زندگی میں۔“ یعنی انہوں نے جو بھی عمل کیا سب باطل ہو کر رائیگاں گیا اور وہ سمجھتے ہیں کہ وہ اچھے کام کر رہے ہیں۔ تب ان اعمال کا کیا حال ہوگا جن کے بارے میں وہ خود بھی جانتے ہیں کہ یہ باطل ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے ساتھ عداوت ہے؟ پس یہ کون لوگ ہیں جن کے اعمال رائیگاں گئے، جو قیامت کے روز خود اور ان کے اہل و عیال سب خائب و خاسر ہوئے۔ آگاہ رہو، یہ تو کھلا خسارہ ہے۔ الكهف
104 الكهف
105 ﴿أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ وَلِقَائِهِ﴾ ” یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ کی آیات اور اس کی ملاقات کا انکار کیا“ یعنی جنہوں نے آیات قرآنی اور آیات عیانی، جو اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتوں، اس کے رسولوں، اس کی کتابوں اور یوم آخرت پر ایمان کی موجب ہیں۔۔۔. کا انکار کیا ﴿فَحَبِطَتْ﴾ ” پس برباد ہوگئے“ اس انکار کے باعث ﴿أَعْمَالُهُمْ فَلَا نُقِيمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَزْنًا﴾ ” ان کے عمل، پس نہیں قائم کریں گے ہم ان کے لئیے قیامت کے روز کوئی تول۔“ وزن کا فائدہ تو نیکیوں اور برائیوں کے مقابلے کے وقت ہوتا ہے تاکہ راجح اور مرجوح کو دیکھا جا سکے اور ان لوگوں کے پاس تو نیکیاں سرے سے ہیں ہی نہیں کیونکہ ان میں نیکیوں کے معتبر ہونے کی شرط معدوم ہے اور وہ ہے ایمان۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿وَمَن يَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحَاتِ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَا يَخَافُ ظُلْمًا وَلَا هَضْمًا ﴾ (طٰہ : 20 ؍112) ”جو کوئی نیک عمل کرتا ہے اور وہ مومن بھی ہے تو اسے کسی ظلم اور حق تلفی کا خوف نہ ہوگا۔“ لیکن ان کے اعمال کو شمار کیا جائے گا اور وہ اپنے اعمال کا اقرار کریں گے اور وہ گواہوں کے سامنے ذلیل و رسوا ہوں گے۔ الكهف
106 اور پھر ان اعمال کی پاداش میں انہیں عذاب دیا جائے گا اس لئے فرمایا : ﴿ذٰلِكَ جَزَاؤُهُمْ﴾’’یہ بدلہ ہے ان کا“ یعنی ان کے اعمال کا ضائع جانا ان کے کرتوتوں کا بدلہ ہے، قیامت کے روز ان کی حقارت اور خساست کی وجہ سے ان کے اعمال کا کوئی وزن ہی نہیں ہوگا کیونکہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی آیات کے ساتھ کفر کیا، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں کے ساتھ استہزا کیا اور ان کا تمسخر اڑایا، حالانکہ اللہ تعالیٰ کی آیات اور اس کے رسولوں پر کامل طور پر ایمان لانا، ان آیات کی تعظیم کرنا اور انہیں پوری طرح قائم کرنا فرض ہے۔ مگر اس قضیے میں ان کا عمل اس کے برعکس ہے اس لئے وہ ہلاک ہوئے اور اوندھے منہ جہنم میں جا گرے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے کفار اور ان کے اعمال کا انجام ذکر کرنے کے بعد اہل ایمان اور ان کے اعمال کا انجام ذکر فرمایا ہے، چنانچہ فرمایا : الكهف
107 یعنی جو اپنے دل سے ایمان لائے اور اپنے جوارح سے نیک عمل کئے اور یہ وصف تمام دین، یعنی اس کے عقائد و اعمال اور اس کے ظاہری اور باطنی اصول و فروع سب کو شامل ہے۔ تمام اہل ایمان کو، ان کے ایمان اور اعمال صالحہ کے مراتب کے مطابق، جنت فردوس کے مختلف طبقات عطا ہوں گے۔” جنات الفردوس“ میں اس معنی کا احتمال ہے کہ اس سے مراد جنت کا بلند ترین، بہترین اور افضل درجہ ہو اور یہ ثواب ان لوگوں کے لئے ہے جنہوں نے اپنے ایمان اور اعمال صالحہ کی تکمیل کی اور وہ ہیں انبیائے کرام اور مقربین۔ اس میں یہ احتمال بھی ہے کہ اس سے جنت کی تمام منازل اور اس کے تمام درجے مراد ہوں اور یہ ثواب جنت کے تمام طبقات، یعنی مقربین، ابرار اور متوسطین ان کے حسب حال سب کو شامل ہو اور یہی معنی زیادہ صحیح ہے کیونکہ یہ معنی عام ہے، نیز اس لئے کہ جنت کو جمع کے لفظ کے ساتھ ” فردوس“ کی طرف مضاف کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں فردوس کا اطلاق اس باغ پر ہوتا ہے جو انگور کی بیلوں اور گنجان درختوں پر مشتمل ہو تب یہ لفظ تمام جنت پر صادق آتا ہے۔ پس جنت فردوس ان لوگوں کے لئے مہمانی اور ضیافت کی جگہ ہے جنہوں نے ایمان لانے کے بعد نیک عمل کئے۔ اس ضیافت سے بڑی، زیادہ عظیم اور زیادہ جلیل القدر کون سی ضیافت ہوسکتی ہے جو قلب و روح اور بدن کے لئے ہر نعمت پر مشتمل ہے۔ اس میں ہر وہ نعمت موجود ہے جس کی نفس خواہش کریں گے اور آنکھیں لذت حاصل کریں گی، مثلاً خوبصورت گھر، سرسبز باغات، پھل دار درخت، سحر انگیز گیت، گاتے ہوئے پرندے، لذیذ ماکولات و مشروبات، خوبصورت بیویاں، خدمت گزار لڑکے، بہتی ہوئی نہریں، دلکش مناظر، حسی اور معنوی حسن و جمال اور ہمیشہ رہنے والی نعمتیں۔ اس سے بھی افضل اور جلیل القدر نعمت، رحمٰن کا تقرب، اس کی رضا کا حصول جو کہ جنت کی سب سے بڑی نعمت ہے۔ اللہ تعالیٰ کے دیدار اور رؤف و رحیم کے کلام سے لطف اندوز ہونا۔۔۔. اللہ کی قسم ! یہ ضیافت کتنی جلیل القدر کتنی خوبصورت، ہمیشہ رہنے والی اور کتنی کامل ہوگی۔ یہ ضیافت اس سے بہت بڑی ہے کہ مخلوق میں سے کوئی شخص اس کا وصف بیان کرسکے، یا دلوں میں اس کے تصور کا گزر ہوسکے۔ اگر بندوں کو ان میں سے کچھ نعمتوں کا حقیقی علم حاصل ہو کر ان کے دلوں میں جاگزیں ہوجائے تو دل شوق سے اڑنے لگیں گے، جدائی کے درد سے روح لخت لخت ہوجائے گی اور بندے اکیلے اکیلے اور گروہ در گروہ اس کی طرف کھنچے چلے آئیں گے۔ وہ اس کے مقابلے میں دنیائے فانی اور اس کی ختم ہوجانے والی لذات کو کبھی بھی ترجیح نہیں دیں گے۔ وہ اپنے اوقات کو ضائع نہیں کریں گے کہ یہ اوقات خسارے اور ناکامی کا باعث بنیں کیونکہ اس جنت کا ایک لمحہ دنیا کی ہزاروں سال کی نعمتوں کے برابر ہے۔ مگر حقیقت حال یہ ہے کہ غفلت نے گھیر رکھا ہے، ایمان کمزور پڑگیا اور ارادہ اضمحلال کا شکار ہوگیا ہے، پس اس کا نتیجہ وہی نکلا جو نکلنا چاہئے تھا فلا حول ولا قوة الا باللّٰہ العلی العظیم۔ الكهف
108 اللہ تعالیٰ کا فرمان : ﴿خَالِدِينَ فِيهَا ﴾ ” وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے“ یہ تکمیل نعمت ہے۔ جنت میں کامل نعمتیں عطا ہوں گی اور ان نعمتوں کی تکمیل یہ ہے کہ وہ کبھی منقطع نہیں ہوں گی۔ ﴿ لَا يَبْغُونَ عَنْهَا حِوَلًا﴾ ” نہیں چاہیں گے وہ وہاں سے جگہ بدلنی“ یعنی وہ ان نعمتوں سے منتقل ہونا نہیں چاہیں گے کیونکہ وہ صرف اسی چیز کی طرف دیکھیں گے جو انہیں پسند آئے اور اچھی لگے، جس سے وہ خوش ہوں اور فرحت حاصل کریں اور اس سے بڑھ کر انہیں کوئی نعمت نظر نہیں آئے گی جس سے وہ لطف اندوز ہو رہے ہوں گے۔ الكهف
109 یعنی انہیں اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اس کی لامحدود صفات کے متعلق آگاہ کر دیجئے، نیز ان سے یہ بھی کہہ دیجئے کہ بندے ان صفات کا کچھ بھی احاطہ نہیں کرسکتے۔ ﴿لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ﴾ ” اگر ہوں سمندر“ یعنی اس دنیا میں موجود تمام سمندر ﴿مِدَادًا لِّكَلِمَاتِ رَبِّي﴾ ” میرے رب کے کلمات لکھنے کے لئے روشنائی“ یعنی روز اول سے لے کر آخر تک شہروں اور صحراؤں کے تمام درختوں کی قلمیں بن جائیں اور سمندر روشنائی میں تبدیل ہوجائیں۔ ﴿لَنَفِدَ الْبَحْرُ﴾ تو سمندر ختم ہوجائیں گے اور قلم )لکھتے لکھتے گھس کر( ٹوٹ جائیں گے۔ ﴿ قَبْلَ أَن تَنفَدَ كَلِمَاتُ رَبِّي ﴾ ” پہلے اس کے کہ ختم ہوں میرے رب کی باتیں“ اور یہ بہت بڑی چیز ہے۔ مخلوق میں سے کوئی ہستی اس کا احاطہ نہیں کرسکتی۔ ایک اور آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿وَلَوْ أَنَّمَا فِي الْأَرْضِ مِن شَجَرَةٍ أَقْلَامٌ وَالْبَحْرُ يَمُدُّهُ مِن بَعْدِهِ سَبْعَةُ أَبْحُرٍ مَّا نَفِدَتْ كَلِمَاتُ اللّٰـهِ ۗ إِنَّ اللّٰـهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ﴾ )لقمٰن :31 ؍27( ” زمین پر جتنے بھی درخت ہیں، اگر وہ سب قلم بن جائیں، سمندر، جیسےسات سمندر روشنائی مہیا کریں، دوات بن جائیں تب بھی اللہ کی باتیں لکھتے لکھتے ختم نہ ہوں گی، بے شک اللہ غالب، حکمت والا ہے۔‘‘ یہ معانی کو ذہن کے قریب تر کرنے کا ایک اسلوب ہے کیونکہ یہ تمام اشیاء مخلوق ہیں اور تمام مخلوقات ختم ہونے والی ہیں اور اللہ تعالیٰ کا کلام اس کی جملہ صفات میں شمار ہوتا ہے اور اس کی صفات غیر مخلوق ہیں جن کی کوئی حدود و انتہا نہیں۔ پس جتنی بھی عظمتیں اور وسعتیں ہیں، جن کا تصور دلوں میں آسکتا ہے، اللہ تعالیٰ ان سب سے بڑھ کر ہے۔ اسی طرح اللہ تبارک و تعالیٰ کی باتیں صفات کا معاملہ ہے، مثلاً: اللہ تعالیٰ کا علم، اس کی حکمت، اس کی قدرت اور اس کی رحمت۔۔۔. اگر زمین اور آسمان کی مخلوق میں سے تمام اولین و آخرین کے علم کو اکٹھا کرلیا جائے تو وہ اللہ تعالیٰ کے لامحدود علم کے مقابلے میں اتنا ہی قلیل ہے جتنا ایک چڑیا کی چونچ میں وہ پانی جو وہ ایک سمندر سے لیتی ہے۔ اس قطرہ آب کو جو نسبت عظیم سمندر سے ہے، وہی نسبت عام انسانوں کی صفت کو اللہ کی عظیم صفات سے ہے۔ یہ اس لئے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ عظیم، لامحدود اور کامل صفات کا مالک ہے اور ہر چیز کی انتہا اللہ ہی کے پاس ہے۔ الكهف
110 ﴿ قُلْ﴾ اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کفار سے کہہ دیجئے ! ﴿إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ ﴾ ” میں بھی ایک آدمی ہوں جیسے تم“ یعنی میں معبود نہیں، اقتدار الٰہی میں میرا کوئی حصہ ہے نہ میرے پاس کوئی علم غیب ہے اور نہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہی ہیں : ﴿إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ ﴾ میں اپنے رب کے بندوں میں سے ایک بندہ ہوں۔ ﴿ يُوحَىٰ إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَـٰهُكُمْ إِلَـٰهٌ وَاحِدٌ ﴾ ” وحی آتی ہے مجھ پر کہ تمہارا معبود ایک معبود ہے“ یعنی مجھے تم پر یہ فضیلت حاصل ہے کہ اللہ تعالیٰ میری طرف وحی کرتا ہے اور جلیل ترین وحی یہ ہے کہ اس نے تمہیں آگاہ کیا ہے کہ تمہارا معبود ایک ہے، یعنی اس کا کوئی شریک نہیں اور نہ کوئی ذرہ بھر عبادت کا مستحق ہے اور میں تمہیں ان اعمال کی دعوت دیتا ہوں جو تمہیں اللہ تعالیٰ کے قریب اور اس کے ثواب سے بہرہ ور کرتے ہیں اور تم سے اللہ تعالیٰ کے عذاب کو دور کرتے ہیں۔ اسی لئے فرمایا : ﴿فَمَن كَانَ يَرْجُو لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا ﴾ ” پس جس کو امید ہو اپنے رب سے ملاقات کی، سو وہ کرے نیک عمل۔“ اس سے مراد وہ اعمال ہیں جو واجب اور مستحب ہیں۔ ﴿وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا ﴾ ” اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرے“ یعنی اپنے اعمال میں ریا سے کام نہ لے بلکہ اس کے اعمال خالص اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے ہوں۔ یہی وہ چیز ہے جو اخلاص اور اتباع کی جامع ہے اور اسی سے مطلوب ثواب حاصل ہوسکتا ہے۔ اس طریقے کے سوا دیگر طریقوں کو اختیار کرنے والے لوگ اپنی دنیاو آخرت میں خائب و خاسر لوگ ہیں۔ جو اپنے آقا و مولا کے قرب اور اس کی رضا کے حصول سے محروم ہوں گے۔ الكهف
0 مريم
1 كهيعص مريم
2 ﴿ ذِكْرُ رَحْمَتِ رَبِّكَ عَبْدَهُ زَكَرِيَّا﴾ ” یہ آپ کے رب کی اپنے بندے زکریا پر رحمت کا ذکر ہے۔“ جو ہم آپ کے سامنے نہایت تفصیل کے ساتھ بیان کریں گے جس سے اللہ تعالیٰ کے نبی زکریا علیہ السلام کے احوال، ان کے آثار صالحہ اور مناقب جمیلہ کی معرفت حاصل ہوگی کیونکہ اس قصے میں عبرت حاصل کرنے والوں کے لئے عبرت اور پیروی کرنے والوں کے لئے ایک نمونہ ہے علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ کی اپنے دوستوں پر رحمت کا مفصل ذکر اور اس کے حصول کے اسباب کا بیان اللہ تعالیٰ کی محبت، اس کے ذکر کی کثرت، اس کی معرفت اور اس تک پہنچانے والے اسباب کی طرف دعوت دیتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت زکریا علیہ السلام کو اپنی رسالت کے لئے چن لیا اور انہیں اپنی وحی کے لئے مختص کرلیا۔ انہوں نے اس ذمہ داری کو اسی طرح ادا کیا جس طرح دیگر انبیاء و مرسلین نے ادا کیا۔ بندوں کو اپنے رب کی طرف دعوت دی اور انہیں وہ تعلیم دی جو اللہ تعالیٰ نے ان کو دی تھی۔ اپنی زندگی میں اور اپنی موت کے بعد ان کی اسی طرح خیر خواہی کی جیسے ان کے برادران دیگر انبیاء و مرسلین اور ان کے متبعین نے کی تھی۔ مريم
3 جب انہوں نے اپنے آپ کو کمزور ہوتے ہوئے دیکھا تو انہیں اس بات کا خدشہ لاحق ہوا کہ وہ اس حال میں وفات پا جائیں گے کہ بندوں کو ان کے رب کی طرف دعوت دینے اور ان کے ساتھ خیر خواہی کرنے میں ان کی نیابت کرنے والا کوئی نہ ہوگا۔۔۔. تو انہوں نے اپنے رب کے پاس اپنی ظاہری اور باطنی کمزوری کا شکوہ کیا اور اسے چپکے چپکے پکارا تاکہ یہ دعا اخلاص کے لحاظ سے اکمل و افضل ہو۔ مريم
4 انہوں نے عرض کی : ﴿رَبِّ إِنِّي وَهَنَ الْعَظْمُ مِنِّي﴾ ” اے میرے رب ! میری ہڈیاں کمزور ہوگئی ہیں“ اور جب ہڈیاں، جو کہ بدن کا سہارا ہیں، کمزور ہوجاتی ہیں تو دیگر تمام اعضاء بھی کمزور پڑجاتے ہیں۔ ﴿وَاشْتَعَلَ الرَّأْسُ شَيْبًا﴾ ” اور بڑھکا سر بڑھاپے سے“ کیونکہ بڑھاپا ضعف اور کمزوری کی دلیل، موت کا ایلچی اور اس سے ڈرانے والا ہے۔ حضرت زکریا علیہ السلام نے اپنے ضعف اور عجز کو اللہ کی طرف وسیلہ بنایا اور اللہ تعالیٰ کے ہاں یہ محبوب ترین وسیلہ ہے کیونکہ یہ بندے کے اپنی قوت و اختیار سے براءت اور دل کے اللہ تعالیٰ کی قوت و اختیار پر بھروسہ کرنے کے اظہار پر دلالت کرتا ہے۔ ﴿وَلَمْ أَكُن بِدُعَائِكَ رَبِّ شَقِيًّا﴾ ” اور تجھ سے مانگ کر اے رب، میں کبھی محروم نہیں رہا“ یعنی اے میرے رب ! تو نے کبھی بھی میری دعا کو قبولیت سے محروم کر کے مجھے خائب و خاسر نہیں کیا بلکہ تو مجھے ہمیشہ عزت و اکرام سے نوازتا اور میری دعا کو قبول کرتا رہا ہے۔ تیرا لطف و کرم ہمیشہ مجھ پر سایہ فگن رہا اور تیرے احسانات مجھ تک پہنچتے ر ہے۔ یہ حضرت زکریا علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور اپنی گزشتہ دعاؤں کی قبولیت کو بارگاہ الٰہی میں بطور وسیلہ پیش کیا۔ پس حضرت زکریا علیہ السلام نے اس ہستی سے سوال کیا جس نے ماضی میں ان کو احسانات سے نوازا کہ وہ آئندہ بھی انہیں اپنی عنایات سے نوازے۔ مريم
5 ﴿ وَإِنِّي خِفْتُ الْمَوَالِيَ مِن وَرَائِي﴾ ” اور میں ڈرتا ہوں بھائی بندوں سے اپنے پیچھے“ یعنی مجھے خدشہ ہے کہ میری موت کے بعد بنی اسرائیل پر کون مقرر ہوگا؟ وہ تیرے دین کو اس طرح قائم نہیں کرسکیں گے جس طرح قائم کرنے کا حق ہے اور وہ تیرے بندوں کو تیری طرف دعوت نہیں دیں گے۔ اس سے ظاہر ہے کہ حضرت زکریا علیہ السلام کو بنی اسرائیل میں کوئی ایسا آدمی نظر نہیں آرہا تھا جس میں یہ لیاقت ہو کہ وہ ان کی دینی سربراہی کی ذمہ داری اٹھا سکے۔ اس سے حضرت زکریا علیہ السلام کی شفقت اور خیر خواہی کا اظہار ہوتا ہے نیز اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے، کہ آپ کو بیٹے کی طلب عام لوگوں کے مانند نہ تھی، جس میں مجرد دنیاوی مصلحتیں مقصود ہوتی ہیں۔ آپ کی طلب تو صرف دینی مصالح کی بنا پر تھی آپ کو خدشہ تھا کہ کہیں دین ضائع نہ ہوجائے اور آپ کسی دوسرے کو اس منصب کا اہل نہیں سمجھتے تھے۔ حضرت زکریا علیہ السلام کا گھرانہ مشہور دینی گھرانوں میں سے تھا اور رسالت و نبوت کا گھر شمار ہوتا تھا اور اس گھرانے سے ہمیشہ بھلائی کی امید رکھی جاتی تھی، اس لئے حضرت زکریا علیہ السلام نے دعا کی کہ وہ انہیں بیٹا عطا کرے جو ان کے بعد دینی ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھا سکے۔ انہوں نے شکوہ کیا کہ ان کی بیوی بانجھ ہے اور وہ بچہ جننے کے قابل نہیں اور وہ خود بھی بہت بوڑھے ہوگئے ہیں اور ایسی عمر میں داخل ہوگئے ہیں کہ جس میں شہوت اور اولاد کا وجود بہت نادر ہے۔ انہوں نے عرض کی : ﴿فَهَبْ لِي مِن لَّدُنكَ وَلِيًّا﴾ ” سو عطا کر تو مجھ کو اپنی طرف سے ایک معاون“ اور یہ ولایت، دینی ولایت ہے اور نبوت، علم اور عمل کی میراث ہے۔ مريم
6 اس لئے فرمایا : ﴿ يَرِثُنِي وَيَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوبَ  وَاجْعَلْهُ رَبِّ رَضِيًّا ﴾ ” جو وارث ہو میرا اور وارث ہو یعقوب کی اولاد کا اور کر اس کو اے میرے رب پسندیدہ“ یعنی اسے نیک بندہ بنا جس سے تو راضی ہو اور تو اسے اپنے بندوں کا محبوب بنا دے۔ غرضیکہ حضرت زکریا علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے صالح بیٹے کی دعا کی جو ان کے مرنے کے بعد باقی رہے، جو ان کا ولی اور وارث بنے، اللہ تعالیٰ اور اس کی مخلوق کے نزدیک نہایت پسندیدہ اور نبی ہو۔ یہ اولاد کی بہترین صفات ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کی اپنے بندے پر بے پایاں رحمت ہے کہ وہ اسے ایسا نیک بیٹا عطا کرے جو مکارم اخلاق اور قابل ستائش عادات کا جامع ہو۔ مريم
7 یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کو فرشتوں کے توسط سے ” یحییٰ“ علیہ السلام کی خوشخبری سنائی اور اللہ تعالیٰ نے اس بیٹے کو ” یحییٰ“ کے نام سے موسوم کیا۔ اسم اپنے مسمیٰ کے عین موافق تھا، چنانچہ یحییٰ علیہ السلام نے حسی زندگی بسر کی جس سے اللہ تعالیٰ کی عنایت کی تکمیل ہوئی اور آپ نے معنوی زندگی بھی بسر کی، وہ ہے وحی، علم اور دین کے ذریعے سے قلب و روح کی زندگی۔ ﴿لَمْ نَجْعَل لَّهُ مِن قَبْلُ سَمِيًّا ﴾ ” نہیں کیا ہم نے پہلے اس نام کا کوئی“ یعنی اس سے پہلے کسی کا یہ نام نہیں رکھا گیا اور یہ احتمال بھی ہے کہ اس کے معنی یہ ہوں کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام سے پہلے آپ جیسا کوئی نہیں بنایا، تب یہ ان کی کاملیت اور اوصاف حمیدہ سے ان کے متصف ہونے کی بشارت ہے، نیز یہ کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام اپنے سے پہلے تمام لوگوں پر فوقیت رکھتے ہیں۔۔۔.مگر اس احتمال کے مطابق، اس عموم میں سے حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ اور حضرت نوح علیہم السلام اور ان جیسے دیگر انبیاء کرام کو مخصوص کرنا ہوگا جو قطعی طور پر حضرت یحییٰ علیہ السلام سے افضل ہیں۔ مريم
8 جب ان کے پاس اس مولود کے بارے میں، جس کے لئے انہوں نے دعا مانگی تھی، خوشخبری آگئی تو انہوں نے اس کو عجیب و غریب سمجھا اور تعجب کرتے ہوئے عرض کی : ﴿ رَبِّ أَنَّىٰ يَكُونُ لِي غُلَامٌ ﴾ ” اے رب ! کہاں سے ہوگا میرے لئے لڑکا؟“ اور حال یہ ہے کہ مجھ میں اور میری بیوی میں بعض ایسے اسباب موجود ہیں جو اولاد کے وجود سے مانع ہیں۔ گویا آپ کی دعا کے وقت آپ کے سامنے یہ مانع مستحضر نہ تھا اور اس کا سبب قلب میں وارد ہونے والے جذبے کی قوت اور بیٹے کی شدید خواہش تھی اور اس حال میں جب آپ کی دعا قبول ہوگئی تو آپ کو تعجب ہوا۔ مريم
9 اللہ تبارک و تعالیٰ نے جواب میں فرمایا : ﴿ كَذَٰلِكَ قَالَ رَبُّكَ هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ ﴾ ” یوں ہی ہوگا، فرما دیا تیرے رب نے وہ مجھ پر آسان ہے“ یعنی وہ امر جو عادتاً اور مخلوق میں سنت الٰہی کے مطابق ناممکن ہے مگر اللہ تعالیٰ کی قدرت تو اسے اسباب کے بغیر وجود میں لانے کی صلاحیت رکھتی ہے، اس لئے یہ اس کے لئے بہت آسان ہے۔ اس کو وجود میں لانا اس سے زیادہ مشکل نہیں جو اس سے قبل اس کو وجود میں لایا تھا، جبکہ وہ کچھ بھی نہ تھا۔ مريم
10 ﴿ قَالَ رَبِّ اجْعَل لِّي آيَةً﴾ ” زکریا نے کہا : اے رب ! ٹھہرا دے میرے لئے کوئی نشانی“ یعنی جس سے میرا دل مطمئن ہو۔ یہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی خبر میں شک نہیں، بلکہ یہ ویسے ہی ہے جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے عرض کی تھی ﴿ رَبِّ أَرِنِي كَيْفَ تُحْيِي الْمَوْتَىٰ ۖ قَالَ أَوَلَمْ تُؤْمِن ۖ قَالَ بَلَىٰ وَلَـٰكِن لِّيَطْمَئِنَّ قَلْبِي﴾ (البقرہ : 2 ؍260) ” اے میرے رب ! مجھے دکھا دے کہ تو کیسے مردوں کو زندہ کرے گا؟ فرمایا : کیا تو ایمان نہیں رکھتا؟ عرض کی کیوں نہیں، مگر یہ اس لئے پوچھا ہے تاکہ اطمینان قلب حاصل ہو۔“ پس ان کو اپنے علم میں اضافہ کی طلب تھی، انہیں علم الیقین کے بعد عین الیقین کے مقام پر پہنچنے کی خواہش تھی۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر رحم کرتے ہوئے ان کی دعا قبول فرمائی۔ ﴿ قَالَ آيَتُكَ أَلَّا تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلَاثَ لَيَالٍ سَوِيًّا ﴾ ” فرمایا : تیری نشانی یہ ہے کہ تو بات نہیں کرے گا لوگوں سے تین رات تک صحیح تندرست ہوتے ہوئے۔“ ایک دوسری آیت میں ارشاد فرمایا : ﴿أَلَّا تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ إِلَّا رَمْزًا﴾ (آل عمران :3 ؍41) ” تو بات نہیں کرے گا تین دن تک، مگر اشارے سے“ دونوں کا معنی ایک ہے کیونکہ کبھی رات سے تعبیر کیا جاتا ہے کبھی دن سے، دونوں کا مقصد ایک ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی تعجب خیز نشانیوں میں سے ہے کیونکہ تین دن تک، بغیر کسی بیماری اور نقص کے اور بغیر گونگا ہوئے بلکہ صحیح سلامت حالت میں بولنے سے عاجز ہونا اللہ تعالیٰ کی قدرت کی دلیل ہے جو فطرت کے قوانین عادیہ کو توڑ سکتی ہے۔ مريم
11 بایں ہمہ حضرت زکریا علیہ السلام صرف اس کلام سے عاجز تھے جس کا تعلق انسانوں سے ہے۔ تسبیح اور ذکر وغیرہ سے یہ چیز مانع نہ تھی۔ بناءبریں ایک اور آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَاذْكُر رَّبَّكَ كَثِيرًا وَسَبِّحْ بِالْعَشِيِّ وَالْإِبْكَارِ﴾ (آل عمران : 3 ؍41) ” نہایت کثرت سے صبح و شام اپنے رب کا ذکر اور تسبیح کر۔“ پس ان کا دل مطمئن ہوگیا اور وہ اس عظیم بشارت سے خوش ہوگئے اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے، اس کی عبادت اور ذکر کے ذریعے سے اس کا شکر ادا کیا۔ پس وہ اپنی محراب میں معتکف ہوگئے اور وہاں سے وہ اپنی قوم کے سامنے آئے ﴿فَأَوْحَىٰ إِلَيْهِمْ ﴾ اور انہیں حکم دیا یعنی اشارے اور رمز کے ساتھ ﴿ أَن سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا ﴾ ” کہ صبح اور شام اللہ کی پاکیزگی بیان کرو“ کیونکہ یحییٰ علیہ السلام کی بشارت تمام لوگوں کے حق میں دینی مصلحت تھی۔ مريم
12 گزشتہ کلام، حضرت یحییٰ علیہ السلام کی ولادت، ان کے شباب اور ان کی تربیت پر دلالت کرتا ہے۔ جب حضرت یحییٰ علیہ السلام اس عمر کو پہنچ گئے جس عمر میں خطاب سمجھ میں آجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم دیا کہ وہ قوت یعنی کوشش اور اجتہاد کے ساتھ کتاب اللہ کو پکڑے رکھیں یعنی اس کے الفاظ کی حفاظت، اس کے معانی کے فہم اور اس کے اوامرونواہی پر عمل میں پوری کوشش اور اجتہاد سے کام لیں۔۔۔. یہ ہے کتاب اللہ کو کامل طور پر پکڑنا۔ حضرت یحییٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کی، انہوں نے کتاب اللہ کی طرف توجہ کی، اسے حفظ کیا اور اس کا فہم حاصل کیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو ایسی ذہانت و فطانت عطا کی جو کسی اور میں نہ تھی اس لئے فرمایا : ﴿وَآتَيْنَاهُ الْحُكْمَ صَبِيًّا﴾ ہم نے اسے بچپن ہی سے احکام الٰہی اور ان کی حکمتوں کی معرفت سے نوازا۔ مريم
13 نیز ﴿وَحَنَانًا مِّن لَّدُنَّا﴾ ” اور شفقت اپنی طرف سے“ یعنی رحمت اور رافت عطا کی جس کی بنا پر ان کے تمام امور آسان ہوئے، ان کے احوال کی اصلاح ہوئی اور ان کے تمام اعمال درست ہوئے۔ ﴿ وَزَكَاةً﴾” اور ستھرائی“ یعنی اللہ تعالیٰ نے انہیں گناہوں اور آفات سے پاک کیا۔ پس ان کا قلب پاک اور ان کی عقل صیقل ہوگئی اور یہ چیز تمام اوصاف مذمومہ اور اخلاق قبیحہ کے زائل ہونے اور اوصاف محمودہ اور اخلاق حسنہ میں اضافے کو متضمن ہیں۔ ﴿وَكَانَ تَقِيًّا﴾ ” اور تھے وہ پرہیز گار“ یعنی مامورات کی تعمیل کرنے والے اور محظورات کو ترک کرنے والے تھے اور جو کوئی مومن اور متقی ہے وہ اللہ کا ولی اور اہل جنت میں سے ہوتا ہے وہ جنت جو متقین کے لئے تیار کی گئی ہے اور مومن متقی کو دنیاوی اور اخروی ثواب حاصل ہوتا ہے، جو اللہ تعالیٰ نے تقویٰ پر مرتب کر رکھا ہے۔ مريم
14 ﴿وَبَرًّا بِوَالِدَيْهِ ﴾ ” اور تھے وہ نیکی کرنے والے اپنے ماں باپ کے ساتھ“ نیز یحییٰ علیہ السلام اپنے والدین کے ساتھ نیک سلوک کرنے والے یعنی ان کی نافرمانی کرنے والے اور ان کے ساتھ برائی سے پیش آنے والے نہ تھے بلکہ وہ قول و فعل کے ذریعے سے اپنے والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرنے والے تھے۔ ﴿ وَلَمْ يَكُن جَبَّارًا عَصِيًّا ﴾ ” اور نہ تھے وہ سرکش، خود سر“ یعنی وہ تکبر کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی عبادت سے روگرانی کرنے والے نہ تھے اور وہ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے بندوں سے بڑا سمجھتے تھے نہ اپنے والدین سے بلکہ وہ متواضع، عاجز، مطیع اور ہمیشہ اللہ کی بارگاہ میں جھکنے والے تھے۔ پس وہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کو ادا کرنے والے تھے، اس لئے ان کو اپنے تمام احوال میں، اللہ تعالیٰ کی طرف سے سلامتی حاصل تھی۔ مريم
15 ﴿وَسَلَامٌ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ وَيَوْمَ يَمُوتُ وَيَوْمَ يُبْعَثُ حَيًّا﴾ ” اور سلام ہو ان پر جس دن پیدا ہوئے اور جس دن مریں گے اور جس دن اٹھ کھڑے ہوں گے زندہ ہو کر“ اور یہ ارشاد ان تینوں احوال میں شیطان، اس کے شر اور اللہ تعالیٰ کے عذاب سے سلامتی کا تقاضا کرتا ہے، نیز اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ جہنم اور اس کی ہولناکیوں سے محفوظ اور اصحاب دارالسلام میں سے ہیں۔۔۔. اللہ تعالیٰ کی بے شمار رحمتیں ہوں آپ پر، آپ کے والد پر اور تمام انبیاء و مرسلین پر۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان کے متبعین میں شامل کرے، وہ بڑا سخت اور نہایت کرم کرنے والا ہے۔ مريم
16 اللہ تبارک و تعالیٰ نے زکریا اور یحییٰ علیہ السلام کا واقعہ بیان کرنے کے بعد۔۔۔ کہ یہ واقعہ اللہ تعالیٰ کی عجیب نشانیوں میں سے ہے۔۔۔ ایک اور قصہ بیان فرمایا جو اس سے بھی زیادہ عجیب ہے۔ یہ ادنیٰ سے اعلیٰ کی طرف تدریج ہے۔ ﴿وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ﴾ ” اور ذکر کر کتاب میں“ یعنی قرآن کریم میں ﴿ مَرْيَمَ﴾ مریم علیہا السلام کا۔ یہ مریم علیہا السلام کی سب سے بڑی فضیلت ہے کہ کتاب عظیم میں ان کا نام مذکور ہے جس کی مشرق و مغرب کے تمام مسلمان تلاوت کرتے ہیں۔ اس کتاب عظیم میں بہترین پیرائے میں ان کا ذکر اور ان کی مدح و ثنا بیان کی گئی ہے یہ ان کے اچھے اعمال اور کوشش کامل کی جزا ہے، یعنی کتاب عظیم میں، حضرت مریم علیہا السلام کے بہترین حال کا ذکر کیجئے۔ جب ﴿انتَبَذَتْ ﴾ ” وہ جدا ہوئی“ یعنی جب مریم علیہا السلام اپنے گھر والوں سے الگ ہو کر ﴿مَكَانًا شَرْقِيًّا﴾ مشرقی جانب ایک مکان میں گوشہ نشیں ہوگئی تھیں۔ مريم
17 ﴿فَاتَّخَذَتْ مِن دُونِهِمْ حِجَابًا﴾ ” پھر پکڑ لیا ان سے ورے ایک پردہ“ یعنی ایک پردہ ڈال لیا تھا جو لوگوں کی ملاقات سے مانع تھا۔ حضرت مریم علیہا السلام کا گوشہ نشیں ہونا، پردہ لٹکا کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے الگ تھلگ ہوجانا، اخلاص، خشوع و خضوع اور اللہ تعالیٰ کے لئے تذلل کی حالت میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت دراصل اس ارشاد الٰہی کی تعمیل ہے: ﴿وَإِذْ قَالَتِ الْمَلَائِكَةُ يَا مَرْيَمُ إِنَّ اللّٰـهَ اصْطَفَاكِ وَطَهَّرَكِ وَاصْطَفَاكِ عَلَىٰ نِسَاءِ الْعَالَمِينَ يَا مَرْيَمُ اقْنُتِي لِرَبِّكِ وَاسْجُدِي وَارْكَعِي مَعَ الرَّاكِعِينَ ﴾ (آل عمران : 3 ؍42۔ 43) ” جب فرشتوں نے (جناب مریم علیہا السلام سے)کہا اے مریم ! اللہ نے تجھے چن لیا، تجھے پاکیزگی عطا کی اور تجھے تمام جہانوں کی عورتوں پر ترجیح دے کر چن لیا۔ اے مریم ! اپنے رب کی اطاعت کر، اس کے حضور سجدہ ریز ہو اور جھکنے والوں کے ساتھ تو بھی جھک۔ “ ﴿ فَأَرْسَلْنَا إِلَيْهَا رُوحَنَا ﴾ ” پس بھیجی ہم نے ان کی طرف اپنی روح“ یہاں روح سے مراد جبریل علیہ السلام ہیں۔ ﴿ فَتَمَثَّلَ لَهَا بَشَرًا سَوِيًّا ﴾ ” پس وہ ان کے سامنے پورا آدمی بن کر آیا“ یعنی ایک خوبصورت اور حسین و جمیل مرد کی شکل میں ظاہر ہوئے، جس میں کوئی عیب تھا نہ نقص، کیونکہ حضرت مریم علیہا السلام جبریل علیہ السلام کو ان کی اصل شکل میں دیکھنے کی متحمل نہ تھیں۔ مريم
18 جب مریم علیہا السلام نے جبریل علیہ السلام کو اس حال میں دیکھا، جبکہ وہ اپنے گھر سے علیحدہ اور لوگوں سے الگ ہو کر گوشہ نشیں ہوگئی تھیں اور عزیز ترین لوگوں، یعنی اپنے گھر والوں سے بھی پردہ کرلیا تھا۔۔۔ تو ڈر گئیں کہ وہ مرد ہے کہیں وہ ان کے بارے میں کوئی برا ارادہ نہ رکھتا ہو اور کہیں وہ ان کے ساتھ برائی سے پیش نہ آئے تو انہوں نے اس سے اللہ کی پناہ مانگی اور اس سے کہنے لگیں : ﴿إِنِّي أَعُوذُ بِالرَّحْمَـٰنِ مِنكَ﴾ ” میں رحمٰن کی پناہ مانگتی ہوں تجھ سے“ یعنی میں اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرتی ہوں اور اس کی رحمت کے سائے میں آتی ہوں کہ کہیں تو مجھے نقصان نہ پہنچائے۔ ﴿ إِن كُنتَ تَقِيًّا﴾ ” اگر تم متقی ہو۔“ یعنی اگر تم اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہو اور اس کے تقویٰ کے مطابق عمل کرتے ہو تو مجھ سے کوئی تعرض نہ کرو۔ حضرت مریم علیہا السلام نے اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگی اور ساتھ ساتھ اسے اللہ تعالیٰ سے ڈرایا اور اسے التزام تقویٰ کا حکم دیا جبکہ وہ تنہائی کی حالت میں تھیں، جوان تھیں اور لوگوں سے الگ تھلگ تھیں۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام بھی بشریت کے کامل روپ اور حیران کن حسن و جمال میں ظاہر ہوئے انہوں نے حضرت مریم علیہا السلام سے کوئی تعرض کیا نہ کوئی ان سے بری بات کہی۔۔۔ یہ تو حضرت مریم علیہا السلام کا خوف تھا اور یہ عفت کے بلند ترین درجے، شر اور اس کے اسباب سے بعد کی دلیل ہے۔ یہ عفت۔۔۔ خاص طور پر جبکہ تمام اسباب جمع ہوں اور گناہ سے کوئی مانع بھی موجود نہ ہو۔۔۔ بہترین عمل ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کی ستائش کی۔ فرمایا : ﴿وَمَرْيَمَ ابْنَتَ عِمْرَانَ الَّتِي أَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِيهِ مِن رُّوحِنَا﴾(التحریم : 66 ؍12) ” اور مریم بنت عمران، جس نے اپنی عفت کی حفاظت کی، ہم نے اس میں اپنی روح پھونک دی۔“ اور فرمایا : ﴿وَالَّتِي أَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِيهَا مِن رُّوحِنَا وَجَعَلْنَاهَا وَابْنَهَا آيَةً لِّلْعَالَمِينَ ﴾ (الانبیاء :21 ؍91) ” اور وہ (مریم علیہا السلام) جس نے اپنی عفت کی حفاظت کی، ہم نے اس کے اندر اپنی روح پھونک دی، پھر اسے اور اس کے بیٹے کو تمام جہانوں کے لئے نشانی بنا دیا۔ “ مريم
19 اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت مریم علیہا السلام کی عفت کے عوض انہیں ایک بیٹا عطا کیا جو اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی اور اس کے رسولوں میں سے ایک رسول تھا۔ جب جبریل علیہ السلام نے حضرت مریم علیہا السلام کی گھبراہٹ اور ان کا خوف دیکھا تو انہوں نے کہا: ﴿ إِنَّمَا أَنَا رَسُولُ رَبِّكِ﴾ ” میں تو آپ کے رب کا قاصد ہوں“ یعنی میرا کام اور میرا شغل تو آپ کے بارے میں اپنے رب کے حکم کو نافذ کرنا ہے۔ ﴿لِأَهَبَ لَكِ غُلَامًا زَكِيًّا ﴾ ” تاکہ دے جاؤں میں آپ کو ایک لڑکا ستھرا“ یہ بیٹے اور اس کی پاکیزگی کی بہت بڑی بشارت ہے کیونکہ پاکیزگی، تمام خصائل مذمومہ سے تطہیر اور اوصاف حمیدہ سے متصف ہونے کو مستلزم ہے۔ مريم
20 پس حضرت مریم علیہا السلام باپ کے بغیر بیٹے کے وجود پر بہت متعجب ہوئیں اور کہنے لگیں : ﴿أَنَّىٰ يَكُونُ لِي غُلَامٌ وَلَمْ يَمْسَسْنِي بَشَرٌ وَلَمْ أَكُ بَغِيًّا ﴾ ” کہاں سے ہوگا میرے لئے لڑکا اور نہیں چھوا مجھ کو آدمی نے اور میں بدکار بھی نہیں ہوں“ اور بیٹے کا وجود اس کے بغیر ممکن نہیں۔ مريم
21 ﴿قَالَ كَذَٰلِكِ قَالَ رَبُّكِ هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ  وَلِنَجْعَلَهُ آيَةً لِّلنَّاسِ﴾ ” جبریل نے کہا : یوں ہی ہے، آپ کے رب نے کہا، یہ مجھ پر آسان ہے، اور چاہتے ہیں ہم کہ بنائیں اس کو لوگوں کے لئے نشانی“ کہ وہ نشانی اللہ تعالیٰ کی قدرت پر دلالت کرے، نیز اس امر پر بھی کہ اسباب کی کوئی مستقل تاثیر نہیں، ان میں تاثیر صرف اللہ تعالیٰ کی تقدیر سے ہے۔ پس وہ اپنے بندوں کو بعض اسباب کے خلاف خارق عادت و اقعات کا مشاہدہ کراتا ہے تاکہ وہ اسباب پر نہ ٹھہر جائیں اور مسبب الاسباب اور ان کو مقدر کرنے والی ہستی کے افعال میں غور وفکر ترک نہ کریں۔ ﴿وَرَحْمَةً مِّنَّا ﴾ ” اور اپنی طرف سے رحمت“ تاکہ ہم اس کو خود اس کے لئے، اس کی والدہ کے لئے اور تمام لوگوں کے لئے رحمت بنائیں۔ ان کا خود اپنے لئے رحمت ہونا اس بنا پر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنی وحی کے لئے مختص کیا اور آپ کو اپنی عنایات سے نوازا جس طرح اس نے اولوالعزم انبیاء و مرسلین کو نوازا۔ آپ کی والدہ کے لئے آپ کا رحمت ہونا یہ ہے کہ آپ کی وجہ سے آپ کی والدہ کو فخر، ثنائے حسن اور بڑے بڑے اخروی فوائد حاصل ہوئے۔ لوگوں کے لئے آپ کا رحمت ہونا یہ ہے کہ ان پر اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت یہ ہے کہ اس نے ان کے اندر اپنا رسول مبعوث کیا جو ان پر اللہ تعالیٰ کی آیات تلاوت کرتا ہے، ان کو پاک کرتا ہے اور ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے، وہ اس پر ایمان لاتے ہیں، اس کی اطاعت کرتے ہیں اور وہ دنیا و آخرت کی سعادت سے بہرہ ور ہوتے ہیں۔ ﴿وَكَانَ أَمْرًا مَّقْضِيًّا ﴾ ” اور ہے یہ کام مقرر ہوچکا“ یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا اس حالت میں وجود میں آنا، اللہ تعالیٰ کا فیصلہ تھا اللہ تعالیٰ کے اس فیصلے اور اس کی تقدیر کا نافذ ہونا ایک لابدی امر تھا۔ پس جبریل علیہ السلام نے حضرت مریم علیہا السلام کے گریبان میں پھونک ماری۔ مريم
22 جب حضرت مریم علیہا السلام کو حمل ٹھہر گیا تو وہ فضیحت اور رسوائی کے خوف سے لوگوں سے دور چلی گئیں ﴿مَكَانًا قَصِيًّا﴾ ” دور جگہ“ جب بچہ جننے کا وقت قریب آیا تو زچگی کی تکلیف نے ان کو کھجور کے نیچے پناہ لینے پر مجبور کردیا۔ مريم
23 جب حضرت مریم علیہا السلام کو زچگی کی تکلیف برداشت کرنا پڑی، کھانے پینے کی عدم موجودگی کی تکلیف کا سامنانا کرنا پڑا اور سب سے بڑی بات یہ کہ لوگوں کی تکلیف دہ باتوں اور طعنوں سے دلی صدمہ پہنچا اور انہیں خوف ہوا کہ کہیں صبر کا دامن ان کے ہاتھ سے نہ چھوٹ جائے۔۔۔ تو انہوں نے تمنا کی کہ کاش وہ اس حادثہ سے پہلے ہی مر گئی ہوتیں، ان کو بھلا دیا جاتا اور ان کا کہیں تذکرہ تک نہ ہوتا۔ حضرت مریم علیہا السلام کی یہ تمنا ان کی گھبراہٹ کی بنا پر تھی اور اس آرزو اور تمنا میں ان کے لئے کوئی بھلائی تھی نہ مصلحت۔ بھلائی اور مصلحت تو صرف تقدیر کے مطابق اس چیز میں تھی جو انہیں حاصل ہوئی۔ مريم
24 اس وقت فرشتے نے ان کے دل کو تسلی دی اور اسے ثبات عطا کیا اور فرشتے نے ان کو نیچے سے پکارا۔ شاید یہ جگہ، جہاں سے فرشتے نے پکارا تھا، حضرت مریم علیہا السلام کی جگہ سے زیادہ نیچے تھی۔ فرشتے نے کہا : مت گھبرا اور نہ غم کر ﴿قَدْ جَعَلَ رَبُّكِ تَحْتَكِ سَرِيًّا﴾ ” تمہارے رب نے تمہارے نیچے ایک چشمہ جاری کردیا ہے۔“ یعنی تیرے نیچے نہر جاری کردی ہے جس سے تو پانی پئے گی۔ مريم
25 ﴿وَهُزِّي إِلَيْكِ بِجِذْعِ النَّخْلَةِ تُسَاقِطْ عَلَيْكِ رُطَبًا جَنِيًّا﴾ ” اور ہلا اپنی طرف کھجور کا تنا، اس سے گریں گی تجھ پر پکی کھجوریں“ یعنی تازہ لذیذ اور فائدہ بخش کھجوریں۔ مريم
26 ﴿فَكُلِي ﴾ یعنی کھجوریں کھا ﴿وَاشْرَبِي﴾ ” اور (اس نہر کا) پانی پی۔“ ﴿ وَقَرِّي عَيْنًا﴾ ” اور حضرت عیسیٰ علیہ السلا م کو دیکھ دیکھ کر اپنی آنکھیں ٹھنڈی کر“۔ یہ زچگی کی تکلیف سے سلامتی اور لذیذ و خوشگوار ماکول و مشروب کی فراہمی کے پہلو سے، حضرت مریم علیہا السلام کے لئے اطمینان تھا۔ رہی لوگوں کی باتیں اور ان کے طعنے، تو فرشتے نے حضرت مریم علیہا السلام کو حکم دیا کہ وہ جب کسی آدمی کو دیکھیں تو اشارے سے اسے بتائیں : ﴿إِنِّي نَذَرْتُ لِلرَّحْمَـٰنِ صَوْمًا﴾ ” میں نے نذر مانی ہے رحمٰن کے لئے روزے کی“ یعنی خاموش رہنے کی۔ ﴿فَلَنْ أُكَلِّمَ الْيَوْمَ إِنسِيًّا ﴾’’پس میں آج بات نہیں کروں گی کسی آدمی سے“ یعنی ان سے بات چیت نہ کرنا، تاکہ تم ان کی باتوں سے بچ سکو۔ ان کے ہاں معروف تھا کہ خاموشی ایک عبادت مشروعہ ہے۔ ان کو اپنی طرف سے اس معاملے کی نفی کے سلسلے میں لوگوں سے گفتگو نہ کرنے کا حکم اس لئے دیا گیا تھا کہ لوگ اس کو تسلیم نہیں کریں گے اور نہ اس میں کوئی فائدہ ہے، نیز یہ کہ ان کی براءت کا اظہار پنگوڑے کے اندر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ذریعے سے ہونا ان کی براءت کی سب سے بڑی شہادت بن جائے کیونکہ عورت کا شوہر کے بغیر کسی بچے کو جنم دینا اور پھر اس کا یہ دعویٰ کرنا کہ یہ بچہ کسی مرد کے چھوئے بغیر ہے، سب سے بڑا دعویٰ ہے۔ اگر اس دعویٰ کی تائید میں متعدد گواہ بھی موجود ہوں تب بھی اس دعوے کو تسلیم نہیں کیا جاسکتا، اس لئے اس خارق عادت واقعہ کی تائید کے لئے، اسی جیسا ایک اور خارق عادت واقعہ پیش آیا اور وہ ہے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا اپنی انتہائی چھوٹی عمر میں کلام کرنا، بناء بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : مريم
27 یعنی جب حضرت مریم علیہا السلام اپنے نفاس سے پاک ہوئیں تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو لے کر اپنی قوم میں تشریف لائیں، چونکہ انہیں اپنی براءت اور اپنی طہارت نفس کا علم تھا اس لئے انہوں نے کسی کی پروانہ کی۔ لوگوں نے باتیں بناتے ہوئے کہا : ﴿لَقَدْ جِئْتِ شَيْئًا فَرِيًّا﴾ ” تو نے بڑا عجیب کام کیا“ یعنی بہت نازیبا کام، اس سے ان کی مراد زنا تھا۔۔۔ حالانکہ وہ اس سے پاک تھیں۔ مريم
28 ﴿يَا أُخْتَ هَارُونَ﴾ ” اے ہارون کی بہن۔“ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت مریم علیہا السلام کا کوئی حقیقی بھائی تھا جس کی طرف ان کو منسوب کیا گیا۔ وہ انبیاء کے نام پر نام رکھا کرتے تھے۔ یہ ہارون، موسیٰ علیہ السلام کے بھائی ہارون بن عمران علیہ السلام نہیں ہیں کیوں کہ ان دونوں کے درمیان بہت صدیوں کا فاصلہ ہے۔ ﴿مَا كَانَ أَبُوكِ امْرَأَ سَوْءٍ وَمَا كَانَتْ أُمُّكِ بَغِيًّا ﴾ ” تیرا باپ برا آدمی تھا نہ تیری ماں بدکار“ یعنی تمہارے والدین بہت نیک اور برائی سے بچے ہوئے تھے خاص طور پر اس برائی سے، جس کی طرف وہ اشارہ کررہے تھے، محفوظ تھے۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ تو نے کیونکر اس فعل بد کا ارتکاب کیا جس سے تمہارے والدین محفوظ تھے اور یہ کہنے کی وجہ یہ تھی کہ غالب حالات میں، نیکی اور بدی کے معاملے میں، اولاد اپنے والدین سے اثر پذیر ہوتی ہے، چنانچہ لوگوں کو، ان کے دلوں میں جو بات راسخ تھی، اس کی وجہ سے تعجب ہوا کہ حضرت مریم علیہا السلام سے اس فعل بد کا کیسے ارتکاب ہوگیا؟ مريم
29 پس حضرت مریم علیہا السلام نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف اشارہ کیا کہ اس سے بات کرو اور انہوں نے اس لئے اس طرف اشارہ کیا کیونکہ حضرت مریم علیہا السلام کو حکم دیا گیا تھا کہ جب لوگ ان سے مخاطب ہوں تو تم کہہ دینا : ﴿نِّي نَذَرْتُ لِلرَّحْمَـٰنِ صَوْمًا فَلَنْ أُكَلِّمَ الْيَوْمَ إِنسِيًّا﴾ ” میں نے اللہ تعالیٰ کے لئے روزے کی منت مانی ہے تو آج میں کسی آدمی سے ہرگز کلام نہ کروں گی۔“ جب انہوں نے لوگوں کو اشارہ کیا کہ وہ اس حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے کلام کریں تو لوگوں نے اس پر تعجب کا اظہار کیا اور انہوں نے کہا : ﴿كَيْفَ نُكَلِّمُ مَن كَانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا﴾ ” ہم کیوں کر کلام کریں اس سے کہ ہے وہ گود میں بچہ“ کیونکہ یہ عام طور پر عادت جاریہ نہیں اور نہ کسی نے اس عمر میں کلام کیا ہے۔ مريم
30 اس وقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام، پنگوڑے میں سے بولے : ﴿إِنِّي عَبْدُ اللّٰـهِ ﴾ ” بے شک میں اللہ کا بندہ ہوں“ آپ علیہ السلام نے ان کو اپنے وصف عبودیت سے آگاہ فرمایا اور ان پر واضح کیا کہ وہ کسی ایسی صفت کے حامل نہیں جو انہیں الوہیت یا اللہ کا بیٹا ہونے کا مستحق بنا دے۔ اللہ تعالیٰ ان عیسائیوں کے قول سے بالا و برتر ہے۔ جو حضرت مسیح علیہ السلام کے قول : ﴿إِنِّي عَبْدُ اللّٰـهِ ﴾ ” بے شک میں اللہ کا بندہ ہوں‘‘ کی صریحاً مخالفت کرتے ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ وہ آپ علیہ السلام کی موافقت کرتے ہیں۔ ﴿آتَانِيَ الْكِتَابَ﴾ ” دی اس نے مجھے کتاب“ یعنی اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کردیا ہے کہ وہ مجھے کتاب عطا کرے گا ﴿وَجَعَلَنِي نَبِيًّا﴾ ” اور اس نے مجھے نبی بنایا ہے“ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے آگاہ فرمایا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان کو کتاب کی تعلیم دی اور انہیں جملہ انبیاء میں شامل کیا اور یہ ان کا کمال نفس ہے۔ مريم
31 پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ذریعے سے دوسروں کی تکمیل کا ذکر فرمایا : ﴿وَجَعَلَنِي مُبَارَكًا أَيْنَ مَا كُنتُ﴾ ” اور بنایا مجھ کو برکت والا، جس جگہ بھی میں ہوں“ یعنی ہر جگہ اور ہر زمانے میں۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے بھلائی کی تعلیم، بھلائی کی طرف دعوت، شر سے ممانعت، اپنے اقوال و افعال میں اللہ تعالیٰ کی دعوت کی توفیق عطا فرما کر بابرکت بنایا ہے، لہٰذا جو کوئی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی صحبت اختیار کرتا تھا وہ آپ کی برکت اور سعادت سے بہرہ ور ہوتا تھا۔ ﴿وَأَوْصَانِي بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ مَا دُمْتُ حَيًّا﴾ ” اور تاکید کی مجھ کو نماز کی اور زکوٰۃکی، جب تک ہوں میں زندہ“ یعنی اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے حقوق ادا کرنے کی وصیت کی ہے، جن میں سب سے بڑا حق نماز ہے اور بندوں کے حقوق پورا کرنے کی وصیت کی ہے جن میں سب سے زیادہ جلیل القدر حق زکوٰۃہے اور مجھے حکم دیا ہے کہ میں زندگی بھر یہ کام کرتا رہوں۔ پس میں اپنے رب کا حکم مانتا، اس کی وصیت پر عمل کرتا اور اس کو نافذ کرتا رہوں گا، نیز اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ وصیت بھی کی ہے کہ میں اپنی ماں کی اطاعت کروں، اس کے ساتھ خوب احسان کروں اور اس کے حقوق پورے کروں، کیونکہ اسے شرف اور فضیلت حاصل ہے، نیز وہ ماں ہے اس لئے وہ جنم دینے کی بنا پر مجھ پر ولادت کا حق اور اس کے تابع دیگر حقوق رکھتی ہے۔ مريم
32 ﴿ وَلَمْ يَجْعَلْنِي جَبَّارًا ﴾ ” اور نہیں بنایا اس نے مجھے سرکش“ یعنی میں اللہ تعالیٰ کے حضور تکبر کرنے والا اور بندوں سے اپنے آپ کو بڑا اور بلند سمجھنے والا نہیں ہوں۔ ﴿شَقِيًّا ﴾ یعنی میں دنیا و آخرت میں بدبخت نہیں ہوں۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنا اطاعت شعار، اپنے سامنے جھکنے والا، عاجزی اور تذلل اختیار کرنے والا، اللہ کے بندوں کے ساتھ تواضع اور انکساری سے پیش آنے والا اور دنیا و آخرت میں سعادت سے بہرہ مند ہونے والا بنایا۔ مجھے بھی اور میرے پیروکاروں کو بھی۔ مريم
33 پس جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے کمال اور ان کے قابل ستائش خصائل کی تکمیل ہوگئی تو انہوں نے فرمایا : ﴿وَالسَّلَامُ عَلَيَّ يَوْمَ وُلِدتُّ وَيَوْمَ أَمُوتُ وَيَوْمَ أُبْعَثُ حَيًّا ﴾ ” اور سلام ہے مجھ پر جس دن میں پیدا ہوا اور جس دن میں مروں اور جس دن اٹھ کھڑا ہوں زندہ ہو کر“ یعنی میرے رب کے فضل و کرم سے، جس روز میری ولادت ہوئی، جس روز میں مروں اور جس روز مجھے اٹھایا جائے گا، مجھے ہر قسم کے شر، شیطان اور عذاب سے سلامتی حاصل ہے۔ یہ سلامتی ہر قسم کے خوف، فاجروں کے گھر سے سلامتی اور دارالسلام کے مستحق ہونے کا تقاضا کرتی ہے۔ پس یہ ایک عظیم معجزہ اور اس بات کی بہت بڑی دلیل ہے کہ آپ درحقیقت اللہ کے رسول اور اس کے بندے ہیں۔ مريم
34 یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام ان صفات سے متصف ہیں اس میں کوئی شک و شبہ نہیں بلکہ یہ قول حق اور اللہ تعالیٰ کا کلام ہے، جس سے زیادہ سچی اور اچھی کسی اور کی بات نہیں۔ پس حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بابت دی ہوئی خبر، علم یقینی ہے اور اس کے خلاف جو کچھ کہا گیا ہے وہ قطعی طور پر باطل ہے۔ اس کے بارے میں زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ قائل کا محض شک ہے جو علم سے بے بہرہ ہے، اس لئے ارشاد فرمایا : ﴿ الَّذِي فِيهِ يَمْتَرُونَ ﴾ ” جس میں لوگ جھگڑتے ہیں“ یعنی شک کرتے ہیں اور شک کی بنیاد پر جھگڑتے اور اندازوں کی بنیاد پر بحث کرتے ہیں۔ ان میں ایسے لوگ بھی ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام اللہ ہیں، یا اللہ کے بیٹے ہیں یا تین میں سے ایک ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی افتراء پردازی سے بہت بلند اور بالاتر ہے۔ مريم
35 ﴿مَا كَانَ لِلَّـهِ أَن يَتَّخِذَ مِن وَلَدٍ ﴾ ” نہیں لائق اللہ کے کہ پکڑے وہ اولاد“ یعنی یہ بات اللہ تعالیٰ کے لائق ہی نہیں، کیونکہ یہ ایک امر محال ہے۔ اللہ تعالیٰ بے نیاز اور قابل ستائش ہے وہ تمام مملکتوں کا مالک ہے۔ پس وہ اپنے بندوں اور غلاموں کو کیسے اولاد بنا سکتے ہیں؟ ﴿سُبْحَانَهُ  ﴾ اللہ تبارک و تعالیٰ ہر نقص اور بیٹے کی حاجت سے پاک اور مقدس ہے۔ ﴿إِذَا قَضَىٰ أَمْرًا﴾ یعنی جب بھی اللہ تعالیٰ چھوٹے یا بڑے معاملے کا ارادہ فرماتا ہے تو وہ معاملہ اس کے لئے مشکل اور ممتنع نہیں ہوتا۔ ﴿فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُن فَيَكُونُ﴾ ” تو وہ صرف یہی کہتا ہے کہ ہوجا، پس وہ ہوجاتا ہے“ جب اس کی قدرت اور مشیت تمام عالم علوی اور سفلی پر نافذ ہے تو اس کی اولاد کیسے ہوسکتی ہے؟ اور جب وہ کسی چیز کے وجود کا ارادہ کرتا ہے تو صرف اتنا کہتا ہے (كُن) ” ہوجا“ (فَيَكُونُ) ” تو وہ چیز ہوجاتی ہے۔“ مريم
36 تب حضرت عیسی ٰعلیہ السلام کو بغیر باپ کے وجود میں لانا کون سا مشکل کام ہے؟ اس لئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے بارے میں آگاہ فرمایا کہ وہ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں جس طرح دوسری مخلوق ہے۔ فرمایا : ﴿وَإِنَّ اللّٰـهَ رَبِّي وَرَبُّكُمْ ﴾ ” بے شک اللہ رب ہے میرا اور رب ہے تمہارا“ جس نے ہمیں پیدا کیا، ہماری صورت گری کی، ہم میں اس کی تدبیر نافذ ہوئی اور ہم میں اس کی تقدیر نے تصرف کیا۔ ﴿فَاعْبُدُوهُ﴾ ” پس تم اسی کی عبادت کرو“ یعنی عبادت کو صرف اسی کے لئے خالص کرو اور اس کی طرف انابت اور رجوع میں جدوجہد کرو۔ اس میں توحید ربوبیت اور توحید الوہیت کا اقرار اور توحید ربوبیت کے ذریعے سے توحید الوہیت پر استدلال ہے۔ اسی لئے فرمایا : ﴿هَـٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِيمٌ﴾ ” یہ ہے راستہ سیدھا“ یعنی یہی اعتدال کا راستہ ہے جو اللہ تعالیٰ تک پہنچاتا ہے کیونکہ یہ انبیاء و مرسلین اور ان کے متبعین کا راستہ ہے اس کے سوا ہر راستہ گمراہی کا راستہ ہے۔ مريم
37 جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ بن مریم علیہا السلام کا حال بیان فرما دیا جس میں کوئی شک اور شبہ نہیں تو آگاہ فرمایا کہ یہود و نصاریٰ اور دیگر فرقے اور گروہ جو گمراہی کے راستے پر گامزن ہیں، اپنے اپنے طبقات کے اختلاف کے مطابق، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں اختلاف کرتے ہیں۔ اس بارے میں ایک گروہ افراط اور غلو میں مبتلا ہے تو دوسرا ان کی شان میں تنقیص اور تفریط کرنے والا ہے۔ پس ان میں سے کچھ لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ مانتے ہیں۔ بعض ان کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا قرار دیتے ہیں، بعض کہتے ہیں وہ تین میں سے ایک ہیں، بعض ان کو رسول بھی تسلیم نہیں کرتے بلکہ وہ بہتان طرازی کرتے ہیں کہ وہ (معاذ اللہ) ولدالزنا ہیں۔۔۔ مثلاً: یہودی وغیرہ۔ ان تمام گروہوں کے اقوال باطل اور ان کی آراء فاسد ہیں جو شک و عناد، بے بنیاد شبہات اور انتہائی بودے دلائل پر مبنی ہیں۔ اس قبیل کے تمام لوگ انتہائی سخت وعید کے مستحق ہیں، اسی لئے فرمایا : ﴿فَوَيْلٌ لِّلَّذِينَ كَفَرُوا ﴾ ” پس ہلاکت ہے کافروں کے لئے“ جو اللہ، اس کے رسول اور اس کی کتابوں کا انکار کرتے ہیں، ان میں یہود اور نصاریٰ دونوں شامل ہیں جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں کفریہ کلمات کہتے ہیں : ﴿مِن مَّشْهَدِ يَوْمٍ عَظِيمٍ﴾ ” بڑے دن کی حاضری سے“ یعنی قیامت کے روز جب اولین و آخرین سب حاضر ہوں گے، زمین اور آسمانوں کے تمام رہنے والے، خالق اور مخلوق موجود ہوں گے اس وقت بے شمار زلزلے ہوں گے اور اعمال کی جزا پر مشتمل ہولناک عذاب ہوں گے تب ان کا وہ سب کچھ ظاہر ہوجائے گا جو کچھ وہ چھپاتے یا ظاہر کیا کرتے تھے۔ مريم
38 ﴿أَسْمِعْ بِهِمْ وَأَبْصِرْ يَوْمَ يَأْتُونَنَا ﴾ ” کیا خوب وہ سننے والے اور دیکھنے والے ہوں گے جس دن آئیں گے وہ ہمارے پاس“ اس روز وہ خوب سنیں گے اور خوب دیکھیں گے۔ پس وہ اپنے کفر و شرک پر مبنی اقوال و نظریات کا اقرار کرتے ہوئے کہیں گے : ﴿رَبَّنَا أَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا إِنَّا مُوقِنُونَ ﴾ (السجدة: 32 ؍12) ” اے ہمارے رب ! ہم نے دیکھ لیا اور سن لیا۔ پس ہمیں دنیا میں واپس بھیج تاکہ ہم نیک عمل کریں اب ہمیں یقین آگیا۔“ پس قیامت کے روز اس حقیقت کا یقین آجائے گا جس میں وہ مبتلا ہوں گے۔ ﴿لَـٰكِنِ الظَّالِمُونَ الْيَوْمَ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ﴾ ” لیکن ظالم لوگ آج صریح گمراہی میں ہیں۔“ اس گمراہی کا ان کے پاس کوئی عذر نہ ہوگا کیونکہ ان میں سے کچھ لوگ، بصیرت کے ساتھ حق کو پہچان کر عناد کی بنا پر روگردانی کرتے ہوئے گمراہ ہوئے ہیں اور کچھ لوگ حق و صواب کو پہچاننے کی قدرت رکھنے کے باوجود، راہ حق سے بھٹک گئے اور اپنی گمراہی اور بداعمالیوں پر راضی ہیں اور باطل میں سے حق کو پہچاننے کی کوشش نہیں کرتے۔ غور کیجئے اللہ تعالیٰ نے ﴿فَاخْتَلَفَ الْأَحْزَابُ مِن بَيْنِهِمْ﴾ کہنے کے بعد کیسے فرمایا : ﴿ فَوَيْلٌ لِّلَّذِينَ كَفَرُوا﴾ اور (فَوَيْلٌ لَّهُمْ) نہیں فرمایا کیونکہ اس صورت میں ضمیر کا مرجع ” الاحزاب“ ہوتا اور ایک دوسرے کے ساتھ اختلاف کرنے والے گروہوں میں سے ایک گروہ حق و صواب پر تھا جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں کہتا تھا : ” وہ اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔“ پس وہ عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لائے اور ان کی پیروی کی۔ یہ لوگ مومن ہیں اور اس وعید میں داخل نہیں ہیں، اس لئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے صرف کفار کو اس وعید کے ساتھ مختص فرمایا ہے۔ مريم
39 کسی خوفناک معاملے میں، ترہیب کے پہلو سے اس کی صفات بیان کر کے آگاہ کرنا ” انذار“ ہے۔ اور وہ معاملہ جس کے بارے میں بندوں کو سب سے زیادہ ڈرایا جانا چاہئے وہ ” حسرت کا دن“ ہے جب فیصلہ کیا جائے گا۔ پس اولین و آخرین ایک ہی جگہ اکٹھے کئے جائیں گے اور ان کے اعمال کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ پس جو کوئی اللہ پر ایمان لایا اور اس کے رسولوں کی اتباع کرتا رہا تو وہ ابدی سعادت سے بہرہ مند ہوگا اس کے بعد کبھی اسے بدبختی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا اور جو کوئی اللہ تعالیٰ پر ایمان نہ لایا اور اس کے رسولوں کی پیروی نہ کی تو وہ بدبختی میں پڑے گا اور اس کے بعد نیک بختی اس کے حصے میں نہیں آئے گی اور اس نے اپنے کو اور اپنے گھر والوں کو خسارے میں ڈال دیا۔ پس اس وقت حسرت اور ندامت سے دل پارہ پارہ ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کی رضا اور جنت سے محرومی اور اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور جہنم کے استحقاق سے بڑھ کر کون سی حسرت ہوسکتی ہے، جہاں دوبارہ عمل کرنے کے لئے واپسی ممکن نہ ہو اور دنیا میں دوبارہ آ کر اپنے احوال کے بدلنے کا کوئی راستہ نہ ہو۔ یہ سب کچھ انہیں پیش آئے گا مگر ان کی حالت یہ ہے کہ وہ دنیا میں اس عظیم معاملے کے بارے میں غفلت میں پڑے ہوئے ہیں، اس کے بارے میں انہیں کبھی خیال ہی نہیں آیا اور اگر انہیں کبھی خیال آیا بھی ہے تو وہ بھی غفلت میں۔ غفلت نے ان کو گھیر رکھا ہے اور مدہوشی ان پر غالب ہے۔ پس وہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتے ہیں نہ اس کے رسولوں کی اتباع کرتے ہیں۔ ان کی دنیا نے ان کو غافل کردیا، ان کے اور ان کے ایمان کے درمیان ختم ہوجانے والی فانی شہوات حائل ہوگئیں۔ مريم
40 یہ دنیا اور اول سے لے کر آخر تک دنیا کی تمام چیزیں دنیا داروں کو چھوڑ جائیں گی اور وہ دنیا کو چھوڑ کر چل دیں گے اور زمین اور اس میں موجود تمام چیزوں کا وارث اللہ تعالیٰ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو اپنی طرف لوٹائے گا اور ان کو ان کے اعمال کی جزا دے گا۔ وہ ان اعمال میں خسارہ اٹھائیں گے یا نفع میں رہیں گے، لہٰذا جو کوئی نیک کام کرتا ہے اسے اللہ تعالیٰ کی حمد و ستائش کرنی چاہئے اور جس کے اعمال اس سے مختلف ہیں اسے اپنے نفس کے سوا کسی کو ملامت نہیں کرنی چاہئے۔ مريم
41 تمام کتابوں میں سب سے زیادہ جلیل القدر، سب سے افضل اور سب سے زیادہ بلند مرتبے والی کتاب، یہ کتاب مبین اور ذکر حکیم یعنی قرآن مجید ہے۔ اگر اس میں خبریں بیان کی گئی ہیں تو یہ خبریں سب سے زیادہ سچی، سب سے زیادہ حق اور سب سے زیادہ نفع مند ہیں۔ اگر اس میں اوامر ونواہی کا تذکرہ ہے تو یہ اوامرونواہی سب سے زیادہ قدر و قیمت کے حامل اور سب سے زیادہ عدل و انصاف پر مبنی ہیں۔ اگر اس میں سزا و جزا اور وعدے و عید کا ذکر کیا گیا ہے تو وہ سب سے زیادہ سچی خبر اور سب سے زیادہ حق ہے اور اللہ تعالیٰ کی حکمت اور اس کے عدل و فضل پر سب سے زیادہ دلالت کرتی ہے اور اگر اس میں انبیاء و مرسلین کا ذکر ہے تو اس میں مذکور یہ مقدس ہستیاں دیگر تمام لوگوں سے کامل اور افضل ہیں۔ بناء بریں اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان انبیائے کرام کے واقعات بیان کئے ہیں اور ان کا بار بار اعادہ کیا ہے، جن کو اللہ تعالیٰ نے دوسرے لوگوں پر فضیلت عطا کی اور انہیں قدر و منزلت سے نوازا۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت، اس کی محبت، اس کی طرف انابت، حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کرنے، لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینے اور اس راستے میں اذیتوں پر صبر کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کو بلند درجات عطا کئے اور انہیں مقامات فاخرہ اور منازل عالیہ سے نوازا۔ پس اس سورۃ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء کا ذکر فرمایا اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ وہ بھی ان کا ذکر کریں کیونکہ ان کے تذکرے میں اللہ تعالیٰ کی بھی تعریف ہے اور ان کی مدح ستائش کا اظہار اور ان پر اس کے فضل و کرم کا بیان بھی ہے، نیز اس میں ان پر ایمان لانے، ان کے ساتھ محبت کرنے اور ان کی پیروی کرنے کی ترغیب ہے۔ فرمایا : ﴿وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِبْرَاهِيمَ ۚ إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَّبِيًّا ﴾ ” اور یاد کرو کتاب میں ابراہیم کو، بے شک وہ سچے نبی تھے۔“ اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بیک وقت صدیقیت اور نبوت سے سرفراز فرمایا۔ صدیق، بہت راست باز شخص کو کہا جاتا ہے۔ پس وہ اپنے اقوال، افعال اور احوال میں سچا ہونے کے ساتھ ساتھ ہر اس چیز کی بھی تصدیق کرتا ہے جس کی تصدیق کا اس کو حکم دیا جاتا ہے اور یہ خوبی مستلزم ہے اس عظیم علم کو جو دل کی گہرائیوں تک پہنچتا اور اس پر اثر انداز ہوتا ہے، نیز یقین اور کامل صالح کا موجب ہوتا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تمام انبیاء و مرسلین میں افضل ہیں۔ وہ تمام اصحاب فضیلت گروہوں کے تیسرے باپ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی ذریت کو نبوت اور کتاب سے نوازا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تمام لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دی پھر اس راستے میں پیش آنے والی اذیتوں اور بڑی بڑی تعذیب پر صبر کیا۔ انہوں نے قریب اور بعید، سب کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دی اور اپنے باپ کو، جیسے بھی ممکن ہوا، اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینے کی بھرپورجدوجہد کی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس بحث و تکرار کا ذکر کیا جو انہوں نے اپنے باپ سے کی۔ مريم
42 چنانچہ فرمایا : ﴿إِذْ قَالَ لِأَبِيهِ ﴾ ” جب انہوں نے کہا اپنے باپ سے“ یعنی بتوں کی عبادت کی قباحت بیان کرتے ہوئے اپنے باپ سے کہا : ﴿ يَا أَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا يَسْمَعُ وَلَا يُبْصِرُ وَلَا يُغْنِي عَنكَ شَيْئًا﴾ یعنی آپ ان بتوں کی عبادت کیوں کرتے ہیں جو اپنی ذات اور افعال میں ناقص ہیں، جو سن سکتے ہیں نہ دیکھ سکتے ہیں، جو اپنے عبادت گزار کو کوئی نفع پہنچا سکتے ہیں نہ نقصان، بلکہ وہ خود اپنے آپ کو کوئی نفع نہیں پہنچاسکتے اور نہ اپنی ذات سے کوئی چیز دور ہٹانے کی قدرت رکھتے ہیں۔ پس یہ اس حقیقت پر ایک روشن دلیل ہے کہ ایسی ہستی کی عبادت کرنا، جو اپنی ذات اور اپنے افعال میں ناقص ہے، عقل اور شرع کے اعتبار سے قبیح ہے۔ اس کی تنبیہ اور اس کا اشارہ دلالت کرتا ہے کہ عبادت صرف اسی ہستی کی واجب اور مستحسن ہے جو کمال کی مالک ہے، جس کے سوا بندے کہیں سے نعمتیں حاصل نہیں کرسکتے، جس کے سوا کوئی اور ہستی ان سے کوئی تکلیف دور نہیں کرسکتی اور وہ ہے اللہ تعالیٰ کی ذات۔ مريم
43 ﴿ يَا أَبَتِ إِنِّي قَدْ جَاءَنِي مِنَ الْعِلْمِ مَا لَمْ يَأْتِكَ﴾ یعنی ابا جان ! مجھے حقیر نہ جانیں اور یہ نہ سمجھیں کہ میں آپ کا بیٹا ہوں اور یہ کہ جو کچھ آپ کے پاس ہے وہ میرے پاس نہیں بلکہ اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے وہ علم عطا کیا ہے جو آپ کو عطا نہیں کیا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس قول کا مقصد یہ کہنا تھا کہ ﴿فَاتَّبِعْنِي أَهْدِكَ صِرَاطًا سَوِيًّا ﴾ ” آپ میری پیروی کریں میں دکھلاؤں گا آپ کو سیدھا راستہ“ یعنی سیدھا اور معتدل راستہ اور وہ ہے اکیلے اللہ تعالیٰ کی عبادت اور تمام احوال میں اس کی اطاعت کرنا۔ اس خطاب میں جو لطف و کرم اور جو نرمی ہے وہ مخفی نہیں۔ آپ علیہ السلام نے یہ نہیں فرمایا کہ ” ابا جان میں عالم ہوں اور آپ جاہل ہیں“ یا ” آپ کے پاس کوئی علم نہیں“ آپ علیہ السلام نے اس پیرائے میں گفتگو فرمائی ” میرے پاس اور آپ کے پاس علم ہے مگر جو علم مجھ تک پہنچا ہے وہ آپ تک نہیں پہنچا، اس لئے آپ کے لئے مناسب یہی ہے کہ آپ دلیل کی پیروی کریں اور اس کے سامنے سرتسلیم خم کردیں۔ “ مريم
44 ﴿يَا أَبَتِ لَا تَعْبُدِ الشَّيْطَانَ﴾ ” ابا جان ! شیطان کی عبادت نہ کریں“ کیونکہ جس نے غیر اللہ کی عبادت کی اس نے شیطان کی عبادت کی جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿ أَلَمْ أَعْهَدْ إِلَيْكُمْ يَا بَنِي آدَمَ أَن لَّا تَعْبُدُوا الشَّيْطَانَ ۖ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ﴾ (یٰسین : 36؍60) ”اے آدم کی اولاد ! کیا میں نے تم سے کہہ نہیں دیا تھا کہ تم شیطان کی عبادت نہ کرو وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔“ ﴿ إِنَّ الشَّيْطَانَ كَانَ لِلرَّحْمَـٰنِ عَصِيًّا﴾ ” بے شک شیطان رحمٰن کا نافرمان ہے“ پس جو کوئی شیطان کے نقش قدم کی پیروی کرتا ہے وہ شیطان کا دوست، اور شیطان کی مانند اللہ تعالیٰ کا نافرمان ہے۔ یہاں نافرمانی کو اللہ تعالیٰ کے اسم مبارک (رحمن) کی طرف مضاف کرنے میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ نافرمانیاں بندے کو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم کردیتی ہیں اور اس پر رحمت کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں۔ مريم
45 جیسے اللہ تعالیٰ کی اطاعت، رحمت الٰہی کے حصول کا سب سے بڑا سبب ہے، اس لئے فرمایا : ﴿ يَا أَبَتِ إِنِّي أَخَافُ أَن يَمَسَّكَ عَذَابٌ مِّنَ الرَّحْمَـٰنِ﴾ ” ابا جان ! مجھے اندیشہ ہے کہ آپ کو کہیں رحمٰن کی طرف سے عذاب نہ آ لے“ یعنی کفر پر آپ کے اصرار اور سرکشی میں آپ کے بڑھتے چلے جانے کے سبب سے۔ ﴿فَتَكُونَ لِلشَّيْطَانِ وَلِيًّا ﴾ ” پس آپ شیطان کے دوست ہوجائیں“ یعنی دنیا و آخرت میں۔ پس آپ اس کے مذموم مقام و منزلت پر اتار دیئے جائیں اور شیطان کی ضرر رساں اور گندی چراگاہ میں چریں۔ اور یوں حضرت خلیل علیہ السلام نے اپنے باپ کو آسان سے آسان تر امر کی طرف دعوت دی۔ آپ نے اسے اپنے علم کے ذریعے سے بتایا کہ یہ چیز آپ پر میری اطاعت کی موجب ہے اگر آپ میری اطاعت کریں گے تو میں سیدھے راستے کی طرف آپ کی راہنمائی کروں گا، پھر آپ نے اسے شیطان کی عبادت سے منع فرمایا اور اسے ان مضرتوں کے بارے میں خبردار کیا جو شیطان کی عبادت میں پنہاں ہیں، پھر اسے اللہ تعالیٰ کے عذاب اور اس کی ناراضی سے ڈرایا کہ اگر وہ اپنے اسی حال پر قائم رہا تو اسے اللہ تعالیٰ کے عذاب اور ناراضی کاسامنا کرنا پڑے گا اور وہ شیطان کا دوست شمار ہوگا۔ مريم
46 مگر یہ دعوت اس بدبخت کے کسی کام نہ آئی۔ اس نے ایک جاہل کی مانند جواب دیا : ﴿أَرَاغِبٌ أَنتَ عَنْ آلِهَتِي يَا إِبْرَاهِيمُ﴾ ” اے ابراہیم ! کیا تو میرے معبودوں سے اعراض کرتا ہے؟“ اس نے اپنے معبودوں پر فخر کا اظہار کیا جو پتھر کے بنے ہوئے بت تھے۔ اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ان معبودوں سے روگردانی کرنے پر ملامت کرنے لگا، یہ اس کی بہت بڑی جہالت اور بہت بڑا کفر تھا، وہ بتوں کی عبادت پر مدح چاہتا تھا اور اس عبادت کی طرف لوگوں کو دعوت دیتا تھا۔ ﴿لَئِن لَّمْ تَنتَهِ﴾ یعنی اگر تو میرے معبودوں کو سب وشتم کرنے اور مجھے اللہ کی عبادت کی طرف دعوت دینے سے باز نہ آیا ﴿ لَأَرْجُمَنَّكَ﴾ یعنی میں تجھے پتھر مار مار کر قتل کر دوں گا ﴿وَاهْجُرْنِي مَلِيًّا﴾ ” اور چھوڑ دے مجھ کو ایک مدت تک“ یعنی طویل زمانے تک میرے ساتھ بات نہ کر۔ مريم
47 حضرت خلیل علیہ السلام نے اپنے باپ کو اس طرح جواب دیا جس طرح رحمٰن کے بندے جہلاء کو جواب دیتے ہیں۔ آپ اس سے سب و شتم سے پیش نہیں آئے بلکہ صبر سے کام لیا اور کوئی ایسی بات نہیں کہی جو آپ کو ناگوار گزرتی۔ فرمایا : ﴿سَلَامٌ عَلَيْكَ﴾ ” سلام آپ پر“ یعنی آپ میرے خطاب میں سب و شتم ناگوارباتوں سے محفوظ رہیں گے۔ ﴿ سَأَسْتَغْفِرُ لَكَ رَبِّي﴾ یعنی میں آپ کے لئے اللہ تعالیٰ سے ہدایت اور مغفرت کی دعا مانگتا رہوں گا کہ وہ آپ کی اسلام کی طرف راہنمائی کرے جس کے ذریعے سے مغفرت حاصل ہوتی ہے۔ ﴿إِنَّهُ كَانَ بِي حَفِيًّا ﴾ کیونکہ وہ میرے حال پر بہت رحیم اور مہربان ہے اور مجھے اپنے سایہ اعتناء میں رکھتا ہے۔ پس حضرت ابراہیم علیہ السلام اس امید پر کہ اللہ تعالیٰ اس کو ہدایت دے دے گا، اپنے باپ کے لئے استغفار کرتے رہے، پھر جب آپ پر واضح ہوگیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کا دشمن ہے اور اس کے لئے استغفار کرنا اسے کوئی فائدہ نہیں دے گا تو اس کے لئے مغفرت کی دعا کرنا چھوڑ دی اور اس سے براءت کا اظہار کردیا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہمیں ملت ابراہیم کی اتباع کا حکم دیا ہے اور انکی ملت کی پیروی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینے میں ہم آپ کی راہ پر گامزن ہوں اور علم و حکمت اور نرم رویہ اپنائیں۔ دعوت الی اللہ میں تدریج اور ترتیب کا طریقہ اختیار کریں، اس پر صبر کریں اور اس سے ہرگز نہ اکتائیں۔ اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینے والے کو، لوگوں کی طرف سے، جن قولی اور فعلی اذیتوں کسامنانا کرناپڑتا ہے ان پر صبر کرے اور عفو، درگزر، قولی اور فعلی حسن سلوک کے ساتھ ان ذیتوں کا مقابلہ کے۔ مريم
48 جب ابراہیم علیہ السلام اپنی قوم اور اپنے باپ کے ایمان لانے سے مایوس ہوگئے، تو کہنے لگے : ﴿وَأَعْتَزِلُكُمْ وَمَا تَدْعُونَ مِن دُونِ اللّٰـهِ ﴾ یعنی میں تم سے اور تمہارے بتوں سے بیزاری کا اعلان کرتا ہوں ﴿وَأَدْعُو رَبِّي ﴾ ” اور میں یہ دعا کروں گا اپنے رب سے“ یہ دعائے عبادت اور دعائے سوال دونوں کو شامل ہے۔ ﴿عَسَىٰ أَلَّا أَكُونَ بِدُعَاءِ رَبِّي شَقِيًّا﴾ ” امید ہے کہ میں اپنے رب سے دعا کر کے محروم نہ رہوں گا“ یعنی ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ میری دعا اور اعمال کو قبول فرما کر مجھے سعادت سے نواز دے۔ یہ اس داعی حق کا وظیفہ ہے جو ایسے لوگوں سے مایوس ہوگیا تھا جن کو اس نے اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دی مگر وہ اپنی خواہشات نفس کی پیروی کرتے رہے اور وعظ و نصیحت نے ان کو کوئی فائدہ نہیں دیا اور وہ اپنی سرکشی میں اصرار کے ساتھ سرگرداں رہے۔ جو کوئی اس قسم کی صورت حال میں مبتلا ہوجائے تو اس پر فرض ہے کہ وہ اپنے نفس کی اصلاح میں مشغول رہے اور اپنے رب سے امید رکھے کہ وہ اس کی کوشش کو قبول فرمائے گا اور وہ شر اور اہل شر سے دور رہے۔ مريم
49 انسان کے لئے اپنے وطن مالوف، اپنے اہل و عیال اور اپنی قوم سے جدا ہونا سب سے مشکل اور سب سے زیادہ شاق گزرنے والا کام ہے، اور اس کی کئی وجوہ ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ وہ اپنی قوم کی وجہ سے باعزت اور کثرت والا ہوتا ہے اور جو کوئی اللہ کی خاطر کوئی چیز چھوڑتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو اس کے عوض اس سے بہتر چیز عطا کرتا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قوم کو چھوڑ دیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے حق میں فرمایا : ﴿فَلَمَّا اعْتَزَلَهُمْ وَمَا يَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللّٰـهِ وَهَبْنَا لَهُ إِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَكُلًّا ﴾ ” پس جب وہ( ابراہیم علیہ السلام) ان لوگوں سے اور جن کی وہ اللہ کے سوا پرستش کرتے تھے، ان سے الگ ہوگئے تو ہم نے ان کو اسحاق اور یعقوب عطا کئے، اور سب کو۔“ حضرت اسحاق اور یعقوب علیہما السلام دونوں کو ﴿ جَعَلْنَا نَبِيًّا﴾ ” ہم نے نبی بنایا۔“ پس حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان تمام صالحین و مرسلین کو یہ شرف نبوت حاصل ہوا جن کو اللہ تعالیٰ نے رسول بنا کر لوگوں کی طرف بھیجا، انہیں اپنی وحی کے لئے مختص کیا، انہیں اپنی رسالت کے لئے تمام جہانوں میں سے چن لیا۔ مريم
50 فرمایا ﴿ وَوَهَبْنَا لَهُم﴾ یعنی ہم نے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے دونوں بیٹوں حضرت اسحاق علیہ السلام اور حضرت یعقوب علیہ السلام کو ﴿مِّن رَّحْمَتِنَا ﴾ ” اپنی رحمت سے نوازا۔“ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کو اپنی رحمت سے بہرہ ور کیا، علوم نافعہ اور اعمال صالحہ عطاء کئے اور انہیں بے شمار ذریت عطا کی جو ساری دنیا میں پھیلی اور ان کے اندر بکثرت انبیاء اور صالحین ہوئے۔ ﴿وَجَعَلْنَا لَهُمْ لِسَانَ صِدْقٍ عَلِيًّا ﴾ ” اور ان کے ذکر جمیل کو بلند کیا۔“ یہ بھی ان پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے جس سے ان کو بہرہ ور کیا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے نیک کام کرنے والے ہر شخص سے وعدہ کیا ہے کہ وہ اس کی نیکی کے مطابق اسے سچی شہرت عطا کرے گا۔ ان کا شمار تو آئمہ محسنین میں ہوتا ہے اللہ تعالیٰ نے انہیں سچی، جس میں جھوٹ کا شائبہ نہیں، ظاہر وبا ہر اور غیر مخفی ثنائے حسن عطا کی۔ ان کے ذکر خیر، ان کی ثنائے حسن اور ان کے ساتھ محبت نے مشرق و مغرب کو لبریز کردیا ہے۔ خلائق کے دلوں میں ان کی محبت سما گئی، لوگوں کی زبان پر ان کا ذکر اور ان کی مدح و ثنا جاری ہوگئی۔ وہ پیروی کرنے والوں کے قائد اور راہنمائی حاصل کرنے والوں کے راہ نما بن گئے۔ ہر زمانے میں ان کا ذکر خیر نئے نئے اسلوب میں لوگوں کی زبانوں پر جاری رہا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے اور وہ جسے چاہتا ہے اپنے فضل سے نوازتا ہے اور اللہ تعالیٰ فضل عظیم کا مالک ہے۔ مريم
51 یعنی اس قرآن عظیم میں، حضرت موسیٰ علیہ السلام بن عمران کی تعظیم و توقیر، ان کے مقام عالی قدر اور اخلاق کاملہ کی تعریف کے طور پر، ان کا ذکر کیجیے۔ ﴿ إِنَّهُ كَانَ مُخْلَصًا﴾ (مُخْلَصًا ) کو لام کی زبر کے ساتھ پڑھا گیا ہے۔ اس کا معنی یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو تمام جہانوں پر فضیلت دی، اسے پسند کرلیا اور اسے چن لیا۔ ایک دوسری قراءت میں (مُخْلِصًا) کو لام کی زیر کے ساتھ پڑھا گیا ہے تب اس کا معنی یہ ہوگا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے تمام اعمال، اقوال اور نیت میں اللہ تعالیٰ کے لئے مخلص تھے۔ ان کے تمام احوال میں اخلاص ان کا وصف تھا۔۔۔ دونوں معنی ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اخلاص کی بنا پر ان کو چن لیا اور ان کا اخلاص اس بات کا موجب تھا کہ اللہ تعالیٰ ان کو چن لے اور بندہ مومن کا جلیل ترین حال یہ ہے کہ وہ اپنے رب کے لئے اخلاص کا حامل ہو اور اس کا رب اسے اپنے لئے چن لے۔ ﴿وَكَانَ رَسُولًا نَّبِيًّا  ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کی ذات میں رسالت اور نبوت کو یکجا کردیا۔ پس رسالت، بھیجنے والے کے کلام کی تبلیغ کا تقاضا کرتی ہے، نیز یہ بھی تقاضا کرتی ہے کہ شریعت کی جو بھی چھوٹی یا بڑی چیز آئی ہے اسے بندوں تک پہنچایا جائے۔۔۔ اور نبوت اس بات کی مقتضی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس پر وحی آتی ہو اور اللہ تعالیٰ نے وحی کی تنزیل کے لئے اسے مختص کرلیا ہو۔ پس نبوت کا تعلق بندے اور اس کے رب کے درمیان ہے اور رسالت کا تعلق بندے اور مخلوق کے درمیان ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو وحی کی جلیل ترین اور سب سے افضل نوع کے ساتھ خاص فرمایا اور وہ ہے اللہ تعالیٰ کا ان سے کلام کرنا اور انہیں اپنی سرگوشی کیلئے اپنے قریب کرنا۔ انبیاء میں سے اس فضیلت کے ساتھ صرف موسیٰ علیہ السلام کو خاص کیا گیا کہ وہ رحمان کے کلیم ہیں۔ مريم
52 اسی لئے فرمایا : ﴿وَنَادَيْنَاهُ مِن جَانِبِ الطُّورِ الْأَيْمَنِ ﴾ یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دائیں جانب سے، جب وہ سفر کر رہے تھے، ہم نے ان کو ندا دی ﴿ الْأَيْمَنَ ﴾ سے مراد بابرکت ہے یعنی یہ ﴿ يُمْنٌ ﴾ ” برکت“ سے ہے اور اس معنی پر اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد دلالت کرتا ہے۔ ﴿أَن بُورِكَ مَن فِي النَّارِ وَمَنْ حَوْلَهَا  ﴾)(النمل :27؍8) ” بابرکت ہے وہ ہستی جو اس آگ میں ہے اور جو اس کے اردگرد ہے۔ “ مريم
53 ﴿وَقَرَّبْنَاهُ نَجِيًّا ﴾ ” اور ہم نے موسیٰ علیہ السلام کو سرگوشی کے لئے اپنے قریب کیا۔“ ندا اور مناجات میں فرق یہ ہے، کہ ندا بلند آواز میں ہوتی اور مناجات اس سے کم تردھیمی آواز میں ہوتی ہیں۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ کے کلام اور اس کی تمام انواع مثلاً ندا اور مناجات وغیرہ، کا اثبات ہوتا ہے جیسا کہ اہل سنت و الجماعت کا مذہب ہے۔ اس کے برعکس جھمیة، معتزلۃ اور ان کے ہم مسلک گروہ اللہ تعالیٰ کے کلام کا انکار کرتے ہیں۔ ﴿ وَوَهَبْنَا لَهُ مِن رَّحْمَتِنَا أَخَاهُ هَارُونَ نَبِيًّا  ﴾ یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی سب سے بڑی فضیلت ہے اور ان کا اپنے بھائی ہارون علیہ السلام کے ساتھ حسن سلوک اور ان کی خیر خواہی ہے کہ انہوں نے اپنے رب سے دعا کی کہ وہ ان کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کو ان کی ذمہ داری میں شریک کر کے انہیں بھی ان کی مانند رسول بنا دے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرما لی اور اپنی رحمت سے ان کے بھائی ہارون علیہ السلام کو رسول بنا دیا۔۔۔ پس ہارون علیہ السلام کی نبوت حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نبوت کے تابع ہے، حضرت ہارو ن علیہ السلام نبوت کے معاملات میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی مدد اور اعانت کرتے تھے۔ مريم
54 یعنی قرآن کریم میں اس عظیم نبی (حضرت اسماعیل علیہ السلام) کا ذکر کیجیے جس سے عربی قبیلے کی نسل چلی جو سب سے افضل اور جلیل قبیلہ ہے، جس سے اولاد آدم کے سردار، حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مبعوث ہوئے۔ ﴿ إِنَّهُ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ ﴾ یعنی وہ جو بھی وعدہ کرتے تھے اسے پورا کرتے تھے۔ اس میں وہ تمام وعدے شامل ہیں جو اللہ تعالیٰ سے کئے گئے اور وہ جو بندوں سے کئے گئے۔۔۔ اسی لئے جب ان کے والد نے ان کو ذبح کرنے کا ارادہ کیا تو انہوں نے اپنے آپ سے صبر کرنے کا وعدہ کیا، چانچہ انہوں نے اپنے والد سے کہا ﴿  سَتَجِدُنِي إِن شَاءَ اللّٰـهُ مِنَ الصَّابِرِينَ ﴾ )الصٰفّٰت :37؍102) ” اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔“ انہوں نے یہ وعدہ پورا کر دکھایا اور اپنے والد کو پورا اختیار دیا کہ وہ ان کو ذبح کریں، جو کہ سب سے بڑی مصیبت ہے جو انسان کو پہنچ سکتی ہے، پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو رسالت اور نبوت سے متصف کیا جو اللہ تعالیٰ کا اپنے بندے پر سب سے بڑا احسان ہے۔۔۔ اور انہیں مخلوق کے بلند طبقے میں سے کیا۔ مريم
55 ﴿وَكَانَ يَأْمُرُ أَهْلَهُ بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ  ﴾ ” اور وہ اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوۃ کا حکم دیتے تھے۔“ یعنی اپنے گھر والوں پر اللہ کا حکم نافذ کرتے تھے۔ پس انہیں نماز کا حکم دیتے جو معبود کے لئے اخلاص کو متضمن ہے اور زکوٰۃ کا حکم دیتے جو بندوں کے ساتھ احسان کرنے کو متضمن ہے۔ یوں انہوں نے اپنے آپ کو بھی درجہ کمال پر پہنچایا اور دوسروں کو بھی کامل بنایا، بالخصوص ان کو جو لوگوں میں سے سب سے زیادہ ان کے نزدیک خاص تھے اور وہ ان کے اہل خانہ تھے کیونکہ وہ دوسروں کے مقابلے میں ان کی دعوت و تبلیغ کے سب سے زیادہ حق دار تھے۔ ﴿وَكَانَ عِندَ رَبِّهِ مَرْضِيًّا  ﴾ اور اس کا سبب یہ تھا کہ انہوں نے اپنے رب کی مرضیات کے سامنے سرتسلیم خم کردیا اور ایسے امور سر انجام دینے میں کوشاں رہے جن سے اللہ تعالیٰ راضی ہوجائے۔ اس نے ان کو اپنے خاص بندوں اور اولیاء مقربین میں سے کردیا۔ پس اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہوگئے اور وہ اپنے رب سے راضی ہوگئے۔ مريم
56 یعنی اس کتاب کریم میں تعظیم و اجلال اور صفات کمال سے متصف ہونے کے اعتبار سے ادریس علیہ السلام کا ذکر کرو ! ﴿إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَّبِيًّا ﴾ اللہ تعالیٰ نے ان کو بیک وقت صدیقیت۔۔۔ جو تصدیق تام، علم کامل، یقین ثابت اور عمل صالح کی جامع ہے۔۔۔ اور اپنی وحی اور رسالت کے لئے چن لیا۔ مريم
57 ﴿وَرَفَعْنَاهُ مَكَانًا عَلِيًّا ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ نے جہانوں میں ان کا ذکر اور مقربین کے درمیان ان کا درجہ بلند کیا۔ پس وہ ذکر کے لحاظ سے بھی بلند تھے اور مقام و مرتبہ کے اعتبار سے بھی بلند۔ مريم
58 جب اللہ تعالیٰ نے ان انبیائے مکرمین اور خواص مرسلین کا ذکر فرمایا اور ان کے فضائل و مراتب کا تذکرہ کیا، تو فرمایا : ﴿أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللّٰـهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کو ایسی نعمت عطا کی ہے جسے کوئی اور حاصل نہیں کرسکتا، نبوت اور رسالت عطا کر کے ان پر ایسا احسان کیا ہے جس میں کوئی سبقت نہیں کرسکتا۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ ان لوگوں کے راستے کی طرف ہماری راہنمائی کرے جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام فرمایا، نیز یہ کہ جو کوئی اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتا ہے وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوگا ﴿مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللّٰـهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ ﴾ (النساء :4؍69) جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام فرمایا، یعنی انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کے ساتھ۔ ان میں سے بعض ﴿مِن ذُرِّيَّةِ آدَمَ وَمِمَّنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوحٍ ﴾ ” آدم کی اولاد میں سے ہیں اور کچھ ان میں سے جن کو ہم نے نوح کے ساتھ (کشتی میں) سوار کردیا۔“ یعنی نوح کی ذریت میں سے ہیں۔ ﴿وَمِن ذُرِّيَّةِ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْرَائِيلَ  ﴾ یہ گھرانے دنیا کے تمام گھرانوں سے بہتر ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے لئے پسند کرلیا اور چن لیا۔ جب ان کے سامنے رحمٰن کی وہ آیات تلاوت کی جاتی تھیں جو غیب کی خبروں، علام الغیوب کی صفات، روز آخرت کی خبروں اور وعدو وعید کو متضمن ہیں تو ان کا حال یہ ہوتا ہے۔ ﴿خَرُّوا سُجَّدًا وَبُكِيًّا ﴾ یعنی انہوں نے اللہ تعالیٰ کی آیات کے سامنے سرتسلیم خم کردیا۔ ان آیات نے ان کے دلوں کو ایمان اور رغبت و رہبت سے لبریز کردیا جو ان کے لئے آہ و بکا، انابت اور اپنے رب کے حضور سجدے کی موجب ہیں۔ وہ ان لوگوں کی مانند نہیں ہیں جو اللہ تعالیٰ کی آیات سنتے ہیں تو ان پر اندھے بہرے بن کر رہ جاتے ہیں۔ آیات کی، اللہ تعالیٰ کے اسم مبارک (رحمان) کی طرف اضافت اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی آیات، اس کے بندوں پر اس کی رحمت اور احسان ہے کیونکہ اس نے آیات کے ذریعے سے ان کی حق کی طرف راہنمائی کی، ان کی کورنگاہی کو دور کر کے بصیرت سے نوازا، انہیں گمراہی سے بچایا اور جہالت کی تاریکیوں میں انہیں علم کی روشنی عطا کی۔ مريم
59 جب اللہ تعالیٰ نے ان انبیائے کرام کا ذکر فرمایا جو مخلص، اپنے رب کی رضا کی پیروی کرنے والے اور اس کی طرف رجوع کرنے والے تھے، تو اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کا ذکر کیا جو ان کے بعد آئے اور انہوں نے امور کو بدل دیا جن کا ان کو حکم دیا گیا تھا، ان کے بعد ایسے ناخلف لوگ ان کے جانشین بنے جو پیچھے لوٹ گئے۔ انہوں نے نماز کو ضائع کیا جس کی حفاظت اور اس کو قائم کرنے کا انہیں حکم دیا گیا تھا، انہوں نے نماز کو حقیر سمجھا اور اسے ضائع کردیا۔ جب انہوں نے نماز کو ضائع کردیا جو دین کا ستون، ایمان کی میزان اور رب العالمین کے لئے اخلاص ہے، جو سب سے زیادہ مؤکد عمل اور سب سے افضل خصلت ہے، تو نماز کے علاوہ باقی دین کو ضائع کرنے اور اس کو چھوڑ دینے کی زیادہ توقع کی جاسکتی ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ وہ شہوات نفس اور اس کے ارادوں کے پیچھے لگ گئے، اس لئے ان کی ہمتوں کا رخ ان شہوات کی طرف پھر گیا اور انہوں نے ان شہوات کو حقوق اللہ پر ترجیح دی۔ یہیں سے حقوق اللہ کو ضائع کرنے اور شہوات نفس پر توجہ دینے نے جنم لیا۔ یہ شہوات نفس جہاں کہیں بھی نظر آئیں اور جس طریقے سے بھی بن پڑا، انہوں نے ان کو حاصل کیا۔ ﴿ فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا ﴾ ” پس عنقریب ملیں گے وہ ہلاکت کو۔“ یعنی کئی گنا سخت عذاب۔ مريم
60 پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے استثناء فرمایا ﴿ إِلَّا مَن تَابَ ﴾ یعنی جس نے شرک، بد عات اور معاصی سے توبہ کرلی، ان کو ترک کر کے ان پر نادم ہوا اور دوبارہ ان کا ارتکاب نہ کرنے کا پکا عزم کرلیا ﴿ وَآمَنَ ﴾ اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں اور روز قیامت پر ایمان لایا ﴿وَعَمِلَ صَالِحًا  ﴾ ” اور نیک عمل کئے۔“ اور عمل صالح سے مراد وہ عمل ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کی زبان پر مشروع فرمایا ہے جبکہ عمل کرنے والے کی نیت رضائے الٰہی کا حصول ہو۔ ﴿فَأُولَـٰئِكَ ﴾ یعنی جس نے توبہ، ایمان اور عمل صالح کو یکجا کرلیا ﴿يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ ﴾ ” وہ جنت میں داخل ہوں گے۔“ جو ہمیشہ رہنے والی نعمتوں، ہرقسم کے تکدر سے سلامت زندگی اور رب کریم کے قرب پر مشتمل ہوگی۔ ﴿ وَلَا يُظْلَمُونَ شَيْئًا ﴾ یعنی ان کے اعمال میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی بلکہ ان کو ان کے اعمال کا کئی گنا زیادہ اجر ملے گا۔ مريم
61 پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے ذکر فرمایا کہ وہ جنت جس کا ان کے ساتھ وعدہ کیا گیا ہے عام باغات کی مانند نہیں، بلکہ وہ تو ﴿جَنَّاتِ عَدْنٍ ﴾ ” ہمیشہ قیام والی جنتیں ہیں“ جہاں نازل ہونے والے کبھی کوچ کریں گے نہ کہیں اور منتقل ہوں گے اور نہ ان کی نعمتیں زائل ہوں گی اور اس کا سبب یہ ہے کہ یہ جنتیں بہت وسیع ہوں گی اور ان میں بے شمار نعمتیں، مسرتیں، رونقیں اور خوش کن چیزیں ہوں گی۔ ﴿الَّتِي وَعَدَ الرَّحْمَـٰنُ عِبَادَهُ بِالْغَيْبِ ﴾ یعنی جس کا رحمان نے وعدہ کر رکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس جنت کو اپنے اسم مبارک (الرحمان) کی طرف مضاف کیا ہے کیونکہ ان میں ایسی رحمتیں اور ایسا حسن سلوک ہوگا کہ ان کو کسی آنکھ نے دیکھا ہے نہ کسی کان نے سنا ہے اور نہ کسی کے تصور میں کبھی ان کا گزر ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس جنت کو اپنی رحمت سے موسوم فرمایا ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿ وَأَمَّا الَّذِينَ ابْيَضَّتْ وُجُوهُهُمْ فَفِي رَحْمَةِ اللّٰـهِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ﴾ (آل عمران : 3؍107) ’’اور جن کے چہرے سفید اور روشن ہوں گے تو وہ اللہ کی رحمت میں ہوں گے جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔“ نیز اللہ تعالیٰ کی رحمت کی طرف ان کی اضافت، ان کی مسرتوں کے دوام پر دلالت کرتی ہے، اللہ تعالیٰ کی رحمت کی بقاء کے ساتھ یہ بھی باقی رہیں گی کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے آثار اور اس کی موجبات میں شمار ہوتی ہیں۔ اس آیت کریمہ میں (عِبَاد) سے مراد اس کی الوہیت کے معتقد وہ بندے ہیں جو اس کی عبادت کرتے ہیں اور اس کی شریعت کا التزام کرتے ہیں۔ پس عبودیت ان کا وصف بن جاتی ہے، مثلاً (عباد الرحمٰن) وغیرہ بخلاف ان بندوں کے جو ملک کے اعتبار سے تو اس کے بندے ہیں مگر اس کی عبادت نہیں کرتے۔ یہ بندے اگرچہ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کے بندے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو پیدا کیا، وہ ان کو رزق عطا کرتا ہے اور ان کی تدبیر کرتا ہے مگر یہ اللہ تعالیٰ کی الوہیت کے بندے نہیں اور اس کی عبودیت اختیاری کے تحت نہیں آتے جس کو اختیار کرنے والا قابل مدح ہے۔ ان کی عبودیت تو عبودیت اضطراری ہے جو قابل مدح نہیں۔ ارشاد مقدس ﴿بِالْغَيْبِ﴾ میں یہ احتمال ہے کہ ﴿وَعَدَ الرَّحْمَـٰنُ﴾ سے متعلق ہو تب اس احتمال کی صورت میں یہ معنی ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے ساتھ ان جنتوں کا غائبانہ وعدہ کیا ہے جن کا انہوں نے مشاہدہ کیا ہے نہ ان کو دیکھا ہے، وہ ان پر ایمان لائے، غائبانہ ان کی تصدیق کی اور ان کے حصول کے لئے کوشاں رہے، حالانکہ انہوں نے ان کو دیکھا ہی نہیں اور اگر وہ ان کو دیکھ لیتے تب ان کا کیا حال ہوتا، اس صورت میں ان کی شدید طلب رکھتے ہیں، ان میں بہت زیادہ رغبت رکھتے اور ان کے حصول کے لئے سخت کوشش کرتے۔ اس میں ان کے ایمان بالغیب کی بنا پر ان کی مدح ہے، یہی وہ ایمان ہے جو فائدہ دیتا ہے، نیز اس امر کا احتمال بھی ہے کہ (بالغیب) (عبادہ) سے متعلق ہو یعنی وہ لوگ جنہوں نے حالت غیب میں اور اللہ تعالیٰ کو دیکھے بغیر اس کی عبادت کی۔ ان کی عبادت کا یہ حال ہے حالانکہ انہوں نے اس کو دیکھا نہیں اگر وہ اس کو دیکھ لیتے تو وہ اس کی بہت زیادہ عبادت کرتے اور اس کی طرف بہت زیادہ رجوع کرتے اور اللہ تعالیٰ کے لئے ان کے اندر بہت زیادہ محبت اور اشتیاق ہوتا۔ اس کا یہ معنی بھی ہوسکتا ہے کہ یہ جنتیں، جن کا رحمٰن نے اپنے بندوں کے ساتھ وعدہ کر رکھا ہے، ان کا تعلق ایسے امور کے ساتھ ہے جو اوصاف کے دائرہ ادر اک سے باہر ہیں۔ جنہیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ پس اس آیت کریمہ میں جنت کے لئے شوق ابھارا گیا ہے، نیز آیت کریمہ میں بیان کردہ مجمل وصف نفوس کو اس کے حصول اور ساکن کو اس کی طلب میں متحرک کرتا ہے اور یہ آیت کریمہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی مانند ہے۔ ﴿فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أُخْفِيَ لَهُم مِّن قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ﴾(السجدة:32؍17) ” کوئی متنفس نہیں جانتا کہ ان کے اعمال کے صلے میں ان کے لئے آنکھوں کی کون سی ٹھنڈک چھپا رکھی گئی ہے۔“ مذکورہ تمام معانی صحیح اور ثابت ہیں۔ البتہ پہلا احتمال زیادہ صحیح ہے اور اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : ﴿إِنَّهُ كَانَ وَعْدُهُ مَأْتِيًّا﴾ ” بے شک اس کا وعدہ آنے والا ہے۔“ یعنی یہ ضرور ہو کر رہے گا اس لئے کہ اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا۔ وہ سب سے زیادہ سچی ہستی ہے۔ مريم
62 ﴿ لَّا يَسْمَعُونَ فِيهَا لَغْوًا ﴾ یعنی وہ جنت میں کوئی ایسی لغو بات نہیں سنیں گے جس کا کوئی فائدہ نہیں اور نہ ہی کوئی ایسی بات سنیں گے جس کا سننا گناہ ہو، لہٰذا وہ جنت میں کوئی سب وشتم، کوئی عیب جوئی اور نہ کوئی ایسی بات سنیں گے جس کے سننے سے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا ارتکاب ہوتا ہو اور نہ ہی تکدر پر مبنی کوئی بات ﴿ إِلَّا سَلَامًا﴾ یعنی وہ صرف ایسی باتیں سنیں گے جو ہر عیب سے پاک ہوں گی۔ یعنی ذکر الٰہی، سلام، پر سرور باتیں، بشارت، دوستوں کے درمیان خوبصورت اور اچھی اچھی باتیں، رحمٰن کا خطاب، حوروں، فرشتوں اور غلمان کی دل ربا آوازیں، طرب انگیز نغمات اور نرم الفاظ سننے کو ملیں گے کیونکہ یہ سلامتی کا گھر ہے جہاں ہر لحاظ سے کامل سلامتی کے سوا کچھ نہیں۔ ﴿وَلَهُمْ رِزْقُهُمْ فِيهَا﴾ ” اور ان کے لئے ان کا رزق ہوگا اس میں“ یعنی ماکولات و مشروبات اور مختلف انواع کی لذات جب بھی وہ طلب کریں گے اور جب بھی رغبت کریں گے ہمیشہ موجود پائیں گے۔ ان کی تکمیل، ان کی لذت اور ان کا حسن یہ ہے کہ یہ معلوم اوقات میں ہوں گی ﴿بُكْرَةً وَعَشِيًّا ﴾ ” صبح اور شام“ تاکہ ان چیزوں کا وقوع با عظمت اور ان کا فائدہ کامل ہو۔ مريم
63 وہ جنت جس کا ہم نے وصف بیان کیا ہے۔ ﴿الَّتِي نُورِثُ مِنْ عِبَادِنَا مَن كَانَ تَقِيًّا﴾ ہم اہل تقویٰ کو اس جنت کا وارث بنائیں گے، اس جنت کو ہم ان کا دائمی گھر بنائیں گے جہاں سے وہ کبھی کوچ کریں گے نہ یہاں سے کہیں اور منتقل ہونا چاہیں گے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿وَسَارِعُوا إِلَىٰ مَغْفِرَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ﴾(آل عمران:3؍133) ” دوڑ کر بڑھو اپنے رب کی مغفرت کی طرف اور اس جنت کی طرف جس کی وسعت زمین اور آسمانوں جیسی ہے جو اہل تقویٰ کیلئے تیار کی گئی ہے۔ “ مريم
64 ایک دفعہ جبرئیل علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر دیر سے نازل ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جبرئیل علیہ السلام سے فرمایا ’’آپ جتنی بار ہمارے پاس آتے ہیں، کاش اس سے زیادہ ہمارے پاس آئیں“ آپ نے یہ بات جبرئیل علیہ السلام کی طرف اشتیاق اور اس کی جدائی سے وحشت محسوس کرتے ہوئے کہی تاکہ اس کے نزول سے اطمینان قلب حاصل ہو۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے جبرئی علیہ السلام کی زبانی فرمایا : ﴿ وَمَا نَتَنَزَّلُ إِلَّا بِأَمْرِ رَبِّكَ﴾ ” ہم تو اپنے رب کے حکم ہی سے اترتے ہیں“ یعنی اس معاملے میں ہمیں کوئی اختیار نہیں اگر ہمیں نازل ہونے کا حکم دیا جاتا ہے تو ہم اس کے حکم کی تعمیل کرتے ہیں ہم اس کے کسی حکم کی نافرمانی نہیں کرسکتے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿لَّا يَعْصُونَ اللّٰـهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ ﴾ (التحریم :66؍6) ” اللہ جو حکم ان کو دیتا ہے، وہ اس کی نافرمانی نہیں کرتے اور وہ وہی کرتے ہیں جو ان کو حکم دیا جاتا ہے۔“ ہم تو مامور و محکوم بندے ہیں۔ ﴿ لَهُ مَا بَيْنَ أَيْدِينَا وَمَا خَلْفَنَا وَمَا بَيْنَ ذٰلِكَ﴾ ” اسی کیلئے ہے جو ہمارے سامنے ہے اور جو ہمارے پیچھے ہے اور جو اس کے درمیان میں ہے۔“ یعنی وہی ہے جو ہر زمان و مکان میں، امور ماضی، امور حاضر اور امور مستقبل کا مالک ہے اور جب یہ حقیقت واضح ہوگئی کہ تمام معاملات اللہ تعالیٰ ہی کے قبضہ اختیار میں ہیں، تو ہم محض اس کے بندے اور اس کی دست تدبیر کے تحت ہیں، اس لئے تمام معاملہ ان دو باتوں کے مابین ہے: 1۔ آیا حکمت الٰہی اس فعل کا تقاضا کرتی ہے، کہ وہ اسے نافذ فرمائے؟ 2۔ یا حکمت الٰہی اس فعل کا تقاضا نہیں کرتی؟ کہ وہ اسے مؤخر کر دے؟ اس لئے فرمایا : ﴿وَمَا كَانَ رَبُّكَ نَسِيًّا﴾ ” اور آپ کا رب بھولنے والا نہیں ہے۔“ یعنی آپ کا رب آپ کو فراموش کر کے مہمل نہیں چھوڑے گا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلَىٰ﴾( الضحیٰ :93؍3) ” آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رب نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو چھوڑا ہے نہ وہ آپ سے ناراض ہے۔“ بلکہ وہ اپنے بہترین قوانین جمیلہ اور تدابیر جلیلہ کے مطابق، آپ کے لئے احکام جاری کرتے ہوئے آپ کے تمام امور کو درخور اعتناء رکھتا ہے، یعنی جب ہم وقت معتاد سے تاخیر سے نازل ہوتے ہیں تو یہ چیز آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو غمزدہ نہ کرے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو معلوم ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے اس تاخیر کا ارادہ کیا ہے کیونکہ اس میں اس کی حکمت ہے۔ مريم
65 پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے احاطہ علم اور عدم نسیان کی علت بیان کرتے ہوئے فرمایا : ﴿رَّبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ﴾ ” وہ رب ہے آسمانوں اور زمین کا۔“ پس زمین اور سامان میں اس کی ربوبیت، اور ان کا بہترین اور کامل ترین نظا م کے مطابق رواں دواں رہنا، جس میں غفلت کا کوئی شائبہ ہے نہ ان میں کوئی چیز بے فائدہ ہے اور نہ کوئی چیز باطل ہے۔۔۔ اس حقیقت پر قطعی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کا علم ہر چیز کو شامل ہے، لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے آپ کو اس میں مشغول نہ کریں بلکہ آپ ان امور میں اپنے آپ کو مشغول کریں جو آپ کو کوئی فائدہ دیتے ہیں اور جن کا فائدہ آپ کی طرف لوٹتا ہے اور وہ ہے اکیلے اللہ تعالیٰ کی عبادت جس کا کوئی شریک نہیں۔ ﴿وَاصْطَبِرْ لِعِبَادَتِهِ﴾ یعنی اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی عبادت پر کار بند رکھئے اس میں کوشاں رہئے اور مقدور بھر اس کو کامل ترین طریقے سے قائم کیجیے۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مشغولیت عبادت گزار کو تمام تعلقات اور شہوات کے ترک کرنے میں تسلی کا باعث ہوتی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿ وَلَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلَىٰ مَا مَتَّعْنَا بِهِ أَزْوَاجًا مِّنْهُمْ زَهْرَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا لِنَفْتِنَهُمْ فِيهِ ۚ وَرِزْقُ رَبِّكَ خَيْرٌ وَأَبْقَىٰ وَأْمُرْ أَهْلَكَ بِالصَّلَاةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا﴾(طٰهٰ: 20؍131،132) ” ان کی اس دنیاوی شان و شوکت کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھیے جو ہم نے ان میں سے مختلف قسم کے لوگوں کو عطا کی ہے، تاکہ ہم اس کے ذریعے سے انہیں آزمائیں اور آپ کے رب کا عطا کردہ رزق بہتر اور ہمیشہ رہنے والا ہے، اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دیتے رہیے اور اور خود بھی اس کے پابند رہیے۔ “ ﴿هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا﴾ کیا آپ تمام مخلوق میں اس کی کوئی ہم نام، کوئی مشابہت اور مماثلت رکھنے وال ہستی جانتے ہیں؟ یہ استفہام نفی کا معنی دیتا ہے جو عقلاً معلوم ہے، یعنی آپ کسی ایسی ہستی کو نہیں جانتے جو اللہ تعالیٰ کی برابری کرنے والی اس کے مشابہ اور مماثل ہو۔ کیونکہ وہ رب ہے اور دوسرے مربوب، وہ خالق ہے اور دیگر تمام مخلوق، وہ ہر لحاظ سے بے نیاز ہے اور دیگر تمام ہر لحاظ سے بالذات محتاج ہیں، وہ کامل ہے جو ہر لحاظ سے کمال مطلق کا مالک ہے دیگر تمام ناقص ہیں کسی میں کوئی کمال نہیں سوائے اس کے جو اللہ تعالیٰ نے اسے عطا کردیا۔ پس یہ اس حقیقت پر برہان قاطع ہے کہ اللہ تعالیٰ اکیلا عبودیت کا مستحق ہے۔ اس کی عبادت حق اور ماسوا کی عبادت باطل ہے، اس لئے اس نے صرف اپنی عبادت کرنے اور اس پر پابند رہنے کا حکم دیا اور اس کی علت یہ بتلائی کہ وہ اپنے کمال، اپنی عظمت اور اسمائے حسنیٰ میں منفرد ہے۔ مريم
66 یہاں (الانسان) سے مراد ہر وہ شخص ہے جو زندگی بعد موت کا منکر ہے اور وہ مرنے کے بعد زندہ کئے جانے کو بعید سمجھتا ہے، چنانچہ وہ نفی، عناد اور کفر کی وجہ سے استفہامیہ اسلوب میں کہتا ہے : ﴿ أَإِذَا مَا مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا﴾ یعنی میرے مرنے کے بعد، جبکہ میں بوسیدہ ہوچکا ہوں گا، اللہ تعالیٰ مجھے دوبارہ کیسے زندہ کرے گا؟ ایسا نہیں ہوسکتا اور اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ یہ اس کی عقل فاسد، برے مقصد، اللہ تعالیٰ کے رسولوں اور کتابوں کے ساتھ اس کے عناد کے مطابق ہے۔ اگر اس نے تھوڑا سا بھی غور و فکر کیا ہوتا تو اسے معلوم ہوجاتا کہ اس کا دوبارہ زندہ کئے جانے کو بعید سمجھنا بہت بڑی حماقت ہے۔ بناء بریں اللہ تبارک و تعالیٰ نے زندگی بعد موت کے امکان پر ایسی قطعی برہان اور واضح دلیل بیان فرمائی ہے جسے ہر شخص جانتا ہے۔ مريم
67 ﴿أَوَلَا يَذْكُرُ الْإِنسَانُ أَنَّا خَلَقْنَاهُ مِن قَبْلُ وَلَمْ يَكُ شَيْئًا﴾ کیا وہ اس طرف التفات نہیں کرتا اور اپنی پہلی حالت کو یاد نہیں کرتا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو پہلی مرتبہ پیدا کیا جبکہ وہ کچھ بھی نہ تھا۔ پس جو ہستی اسے عدم سے وجود میں لانے کی قدرت رکھتی ہے جبکہ وہ کوئی قابل ذکر چیز نہ تھا، کیا وہ ہستی اسے اس کے ریزہ ریزہ ہوجانے کے بعد دوبارہ پیدا کرنے کی اور اس کے بکھر جا نے کے بعد اس کو دوبارہ اکٹھا کرنے کی قدرت نہیں رکھتی؟ یہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی مانند ہے۔ ﴿وَهُوَ الَّذِي يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ﴾ (الروم :30؍27) ”وہی ہے جو تخلیق کی ابتدا کرتا ہے اور پھر اس کا اعادہ کرتا ہے اور ایسا کرنا اس کے لئے آسان تر ہے۔ “ اور اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿أَوَلَا يَذْكُرُ الْإِنسَانُ﴾ میں لطیف ترین پیرائے میں عقلی دلیل کے ذریعے سے غور و فکر کرنے کی دعوت دی گئی ہے اور جو کوئی اس کا انکار کرتا ہے، اس کا انکار پہلی حالت کے بارے میں اس کی غفلت پر مبنی ہے۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اگر وہ اس کو یاد کر کے اپنے ذہن میں حاضر کرنے کی کوشش کرے تو وہ ہرگز انکار نہیں کرے گا۔ مريم
68 اللہ تعالیٰ نے اپنی ربوبیت کی قسم اٹھائی اور وہ سب سے سچی ہستی ہے کہ وہ زندگی بعد موت کا انکار کرنے والوں کو ضرور اکٹھا کرے گا، ان کو اور ان کے شیطانوں کو ایک مقررہ روز جمع کرے گا۔ ﴿ثُمَّ لَنُحْضِرَنَّهُمْ حَوْلَ جَهَنَّمَ جِثِيًّا﴾ یعنی ہولناکیوں کی شدت، زلزلے کی کثرت اور احوال کی خوفناکی کی وجہ سے وہ اپنے گھٹنوں کے بل آئیں گے اور بلند و برتر اللہ کے حکم کے منتظر ہوں گے۔ مريم
69 اس لئے ارشاد فرمایا : ﴿ ثُمَّ لَنَنزِعَنَّ مِن كُلِّ شِيعَةٍ أَيُّهُمْ أَشَدُّ عَلَى الرَّحْمَـٰنِ عِتِيًّا﴾ یعنی ہم ہر گروہ اور ہر فرقے سے ظالموں سے زیادہ سرکش، سب سے بڑا ظالم اور سب سے بڑا کافر ہے۔ پس اس کو عذاب کی طرف ان سب میں مقدم کیا جائے گا، پھر اسی طرح عذاب کی طرف اس کو مقدم کیا جائے گا جو گناہ میں اس سے کم تر ہوگا پھر اسے جو اس سے کم تر ہوگا علی ہذا لقیاس اور وہ اس حال میں ایک دوسرے پر لعنت بھیج رہے ہوں گے۔ ان میں آخری گروہ اولین گروہ سے کہے گا: ﴿ رَبَّنَا هَـٰؤُلَاءِ أَضَلُّونَا فَآتِهِمْ عَذَابًا ضِعْفًا مِّنَ النَّارِ﴾ (الاعراف:7؍38) ” اے ہمارے رب ! یہی لوگ تھے جنہوں نے ہمیں گمراہ کیا پس انہیں جہنم کا دو گنا عذاب دے۔“ اور فرمایا : ﴿وَقَالَتْ أُولَاهُمْ لِأُخْرَاهُمْ فَمَا كَانَ لَكُمْ عَلَيْنَا مِن فَضْلٍ ﴾ ( الاعراف :7؍39) ” پہلا گروہ آخری گروہ سے کہے گا تمہیں ہم پر کچھ بھی فضیلت حاصل نہیں۔“ اور یہ سب کچھ اس کے عدل و حکمت اور اس کے لامحدود علم کے تابع ہے۔ مريم
70 بناء بریں فرمایا : ﴿ثُمَّ لَنَحْنُ أَعْلَمُ بِالَّذِينَ هُمْ أَوْلَىٰ بِهَا صِلِيًّا﴾ یعنی ہمارا علم ہر اس شخص کا احاطہ کئے ہوئے ہے جو آگ میں جھونکے جانے کا زیادہ مستحق ہے، ہمیں ان کے بارے میں علم ہے اور ہم ان کے اعمال، ان اعمال کے استحقاق اور ان کے عذاب کی مقدار بھی جانتے ہیں۔ مريم
71 یہ خطاب نیک و بد، مومن اور کافر، تمام خلائق کے لئے ہے، خلائق میں کوئی ایسا نہیں ہوگا جو جہنم پر وارد نہ ہو۔ یہ اللہ تعالیٰ کا حتمی فیصلہ ہے اور اس نے اس کے ذریعے سے اپنے بندوں کو ڈرایا ہے اس کا نفاذ لابدی اور اس کا وقوع حتمی ہے۔ البتہ وارد ہونے کے معنی میں اختلاف ہے۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ تمام مخلوق جہنم میں حاضر ہوگی حتیٰ کہ تمام لوگ گھبرا اٹھیں گے پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ اہل تقویٰ کو نجات دے دے گا۔ بعض کہتے ہیں کہ وارد ہونے کا معنی یہ ہے کہ وہ جہنم میں داخل ہوں گے۔ مگر اہل ایمان پر جہنم کی آگ سلامتی والی اور ٹھنڈی ہوجائے گی۔ بعض مفسرین کی رائے یہ ہے کہ ’’وارد ہونے“ سے مراد پل صراط پر سے گزرنا ہے جو جہنم کے اوپر بنا ہوا ہوگا۔ لوگ اپنے اعمال کی مقدار کے مطابق پل پر سے گزریں گے، بعض لوگ پلک جھپکتے گزر جائیں گے، بعض ہوا کی سی تیزی سے گزریں گے، بعض عمدہ گھوڑوں، عمدہ سواریوں کی طرح اور بعض چلتے ہوئے، بعض گھسٹتے ہوئے گزریں گے اور کچھ ایسے ہوں گے جن کو اچک کر جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ ہر ایک کے ساتھ اس کے تقویٰ کے مطابق معاملہ ہوگا۔ مريم
72 اس لئے فرمایا:﴿ثُمَّ نُنَجِّي الَّذِينَ اتَّقَوا ﴾ یعنی پھر ہم ان لوگوں کو نجات دے دیں گے جو اللہ تعالیٰ سے ڈر کر مامورات کی تعمیل کرتے اور محظورات سے اجتناب کرتے رہے ہوں گے۔ ﴿ وَّنَذَرُ الظَّالِمِينَ﴾ ” اور چھوڑ دیں گے ہم ظالموں کو۔“ یعنی جنہوں نے کفر اور معاصی کا ارتکاب کر کے اپنے آپ پر ظلم کیا ﴿فِيهَا جِثِيًّا﴾ ” اس میں گھنٹوں کے بل گرے ہوئے۔“ یہ سب عذاب ان کے ظلم اور کفر کے سبب سے ہوگا، جہنم میں ہمیشہ رہنا ان کا مقدر بن جائے گا، وہ عذاب کے مستحق ہوں گے اور نجات اسباب منقطع ہوجائیں گے۔ مريم
73 جب ان کفار کے سامنے ہماری آیات بینات کی تلاوت کی جاتی ہے جو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کے رسولوں کی صداقت پر واضح طور پر دلالت کرتی ہیں اور جو کوئی ان کو سنتا ہے اس کے لئے صدق ایمان اور شدت ایقان کا موجب بنتی ہیں۔۔۔ تو یہ ان آیات کا متضاد امور اور استہزا کے ساتھ سامنا کرتے ہیں اور ان پر ایمان لانے والوں کا تمسخر اڑاتے ہیں اور دنیا میں اپنی خوش حالی سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ اہل ایمان سے بہتر ہیں۔ پس وہ حق سے معارضہ کرتے ہوئے کہتے ہیں : ﴿أَيُّ الْفَرِيقَيْنِ﴾ ” دونوں فریقوں میں سے کون۔“ یعنی مومنین اور کفار میں سے ﴿خَيْرٌ مَّقَامًا﴾ ” زیادہ بہتر ہے مقام کے لحاظ سے“ یعنی دنیا میں کثرت مال و اولاد اور تفوق شہوات کے اعتبار سے کون اچھے مقام پر ہے ﴿وَأَحْسَنُ نَدِيًّا﴾ ” اور کس کی مجلس اچھی ہے؟“ یعنی انہوں نے دنیا میں اپنے مال اور اولاد کی کثرت اکثر آسائشوں کے حصول اور مجلس آرائیوں سے یہ نتیجہ نکالا کہ ان کے احوال اچھے ہیں اور اہل ایمان کا حال اس کے برعکس ہے، اس لئے وہ اہل ایمان سے بہتر ہیں اور یہ انتہائی فاسد دلیل ہے یہ چیز تقلیب حقائق میں شمار ہوتی ہے۔ ورنہ کثرت سے مال و اولاد اور خوبصورت منظر میں بہت سی ایسی چیزیں ہوتی ہیں جو ان لوگوں کی ہلاکت، شر اور شقاوت کی باعث ہیں، مريم
74 اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَكَمْ أَهْلَكْنَا قَبْلَهُم مِّن قَرْنٍ هُمْ أَحْسَنُ أَثَاثًا ﴾ ” اور ہم نے ان سے پہلے بہت سی امتیں ہلاک کردیں وہ زیادہ اچھے تھے مال و متاع کے اعتبار سے۔“ یعنی برتن، بچھونے، گھر اور سامان آرائش وغیرہ کے اعتبار سے اچھے تھے۔ ﴿ وَرِئْيًا﴾ ” اور نام و نمود میں۔“ یعنی آسودہ زندگی، لذتوں کے سرور اور خوبصورت چہروں کے پرکشش مناظر کے اعتبار سے پس جب وہ ہلاک شدگان جو بہترین اثاثے اور خوبصورت مناظر رکھتے تھے، ان چیزوں کے ذریعے عذاب سے نہ بچ سکے تو یہ لوگ کیسے بچ سکتے ہیں جو مال و متاع اور سہولتوں میں ان سے کمتر اور کمزور ہیں۔ ارشاد فرمایا : ﴿أَكُفَّارُكُمْ خَيْرٌ مِّنْ أُولَـٰئِكُمْ أَمْ لَكُم بَرَاءَةٌ فِي الزُّبُرِ﴾ (القمر :54؍43) ” کیا تمہارے کافر ان لوگوں سے بہتر ہیں یا پہلی کتابوں میں تمہارے لئے براءت لکھ دی گئی ہے۔“ اس سے واضح ہوگیا کہ دنیاوی بہتری سے اخروی بہتری پر استدلال کرنا سب سے فاسد دلیل ہے اور یہ کفار کا طریق استدلال ہے۔ مريم
75 جہاں اللہ تعالیٰ نے ان کی باطل دلیل کا ذکر کیا جو ان کے عناد کی شدت اور گمراہی کی قوت پر دلالت کرتی ہے، وہاں اس نے یہ بھی آگاہ فرما دیا کہ جو کوئی گمراہمی میں مستغرق اور اس پر راضی ہے اور گمراہی کے لئے کوشاں رہتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی گمراہی کو اور زیادہ کردیتا ہے اور گمراہی کے لئے اس کی چاہت میں اضافہ کردیتا ہے۔ یہ اس کے لئے اس جرم کی سزا ہے کہ اس نے ہدایت کو چھوڑ کر گمراہی کو اختیار کیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ وَنُقَلِّبُ أَفْئِدَتَهُمْ وَأَبْصَارَهُمْ كَمَا لَمْ يُؤْمِنُوا بِهِ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَنَذَرُهُمْ فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ ﴾ (الانعام :6؍110) ” اور ہم ان کے دلوں اور نگاہوں کو پھیر دیں گے تو جیسے یہ پہلی مرتبہ ایمان نہ لائے تھے (ویسے پھر ایمان نہ لائیں گے) اور ہم ان کو ان کی سرکشی میں سرگرداں چھوڑ دیں گے۔ “ ﴿حَتَّىٰ إِذَا رَأَوْا﴾ ” یہاں تک کہ جب وہ لوگ دیکھیں گے“ جو کہتے تھے :” دونوں فریقوں میں سے کون زیادہ بہتر ہے مقام کے لحاظ سے اور کس کی مجلس اچھی ہے؟“ ﴿مَا يُوعَدُونَ إِمَّا الْعَذَابَ ﴾ ” جس کا ان سے وعدہ کیا گیا تھا تو عذاب“ یعنی قتل وغیرہ کے ذریعے ان کو عذاب کی وعید سنائی گئی ہے۔ ﴿وَإِمَّا السَّاعَةَ﴾ ” اور یا قیامت“ جو اعمال کی جزا کا دروازہ ہے۔ ﴿فَسَيَعْلَمُونَ مَنْ هُوَ شَرٌّ مَّكَانًا وَأَضْعَفُ جُندًا﴾ ” پس عنقریب وہ جان لیں گے کہ کون بدتر ہے مقام کے لحاظ سے اور زیادہ کمزور ہے جتھے کے اعتبار سے۔“ یعنی اس وقت ان کے دعوے کا بطلان ظاہر ہوگا تب یہ حقیقت واضح ہوجائے گی کہ ان کا دعویٰ کس قدر کمزور تھا اور انہیں یقین ہوجائے گا کہ واقعی وہ بدکار لوگ تھے۔ مگر یہ علم انہیں کوئی فائدہ نہ دے گا کیونکہ اب ان کا دنیا میں واپس جانا ممکن نہیں کہ وہاں وہ پہلے اعمال کے برعکس اعمال بجا لائیں۔ مريم
76 اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ ذکر کرنے کے بعد، کہ وہ ظالموں کی گمراہی کو اور زیادہ کردیتا ہے یہ بھی بیان فرمایا کہ وہ ہدایت یافتہ لوگوں کی ہدایت میں، اپنے فضل و کرم اور رحمت سے مزید اضافہ کردیتا ہے۔۔۔ اور ہدایت، علم نافع اور عمل صالح دونوں کو شامل ہے۔ پس ہر وہ شخص جو علم و ایمان اور عمل صالح کے راستے پر گامزن ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اسے اور زیادہ علم و ایمان عطا کرتا ہے اور اس راستے میں اس کے لئے آسانی کردیتا ہے اور اسے بعض ایسے امور عطا کرتا ہے جو اس کے اپنے کسب کے تحت نہیں آتے اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ایمان میں کمی بیشی ہوتی ہے جیسا کہ سلف صالح کا قول ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد بھی دلالت کرتا ہے۔ ﴿وَيَزْدَادَ الَّذِينَ آمَنُوا إِيمَانًا ۙ﴾ (المدثر :74؍31)” تاکہ جو لوگ ایمان لائے ان کے ایمان میں اضافہ ہو۔“ نیز اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ ﴿وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ آيَاتُهُ زَادَتْهُمْ إِيمَانًا ﴾ (الانفال :8؍2) ” جب ان کے سامنے اللہ کی آیات تلاوت کی جاتی ہیں تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے۔“ نیز واقعات بھی اس پر دلالت کرتے ہیں، کیونکہ ایمان دل اور زبان کے قول اور دل، زبان اور اعضاء کے عمل کا نام ہے، اور ان امور میں تمام اہل ایمان ایک دوسرے سے بہت زیادہ متفاوت ہیں۔ پھر فرمایا : ﴿وَالْبَاقِيَاتُ الصَّالِحَاتُ﴾ یعنی باقی رہنے والے وہ اعمال جو کبھی منقطع نہیں ہوتے جبکہ دیگر اعمال منقطع ہوجاتے ہیں اور جو مضمحل نہیں ہوتے، یہ نیک اعمال ہیں مثلاً نماز، زکوٰۃ، روزہ، حج، عمرہ، قراءت قرآن، تسبیح و تکبیر، تحمید و تہلیل مخلوق کے ساتھ حسن سلوک اور دیگر تمام اعمال قلب اور اعمال بدن وغیرہ۔ پس یہ تمام اعمال ﴿خَيْرٌ عِندَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَخَيْرٌ مَّرَدًّا﴾ یعنی اللہ تعالیٰ کے ہاں ان اعمال کا بہتر اجر و ثواب ہے، اہل اعمال کے لئے ان اعمال کا فائدہ اور اجر بہت زیادہ ہے۔ یہ اسم تفصیل کو کسی اور جگہ استعمال کرنے کے باب میں ہے کیونکہ وہاں باقیات صالحات کے سوا کوئی عمل صاحب عمل کو کوئی فائدہ دے گا نہ اس کا ثواب صاحب عمل کے لئے باقی رہے گا۔ یہاں باقیات صالحات کو ذکر کرنے کی مناسبت یہ ہے (واللہ اعلم) چونکہ اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے کہ ظالم کفار اپنے مال و اولاد اور حسن مقام وغیرہ کے دنیاوی احوال کو اپنے حسن حال کی علامت قرار دیتے ہیں، اس لئے یہاں آگاہ فرمایا کہ معاملہ اس طرح نہیں جس طرح وہ سمجھتے ہیں بلکہ عمل، جو سعادت کا عنوان اور فلاح کا منشور ہے، ان امور کی تعمیل ہے جنہیں اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے اور ان پر راضی ہے۔ مريم
77 کیا اس کافر کی حالت پر تعجب نہیں ہوتا جس نے اللہ تعالیٰ کی آیات کے انکار کو اپنے بہت بڑے دعوے کے ساتھ یکجا کردیا ہے کہ اس کو آخرت میں بھی مال و اولاد سے نوازا جائے گا، یعنی وہ اہل جنت میں سے ہوگا۔ اس کا یہ دعویٰ سب سے زیادہ تعجب انگیز امور میں سے ہے۔ اگر وہ اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھنے والا ہوتا اور پھر یہ دعویٰ کرتا تو معاملہ آسان تھا۔ یہ آیت کریمہ اگرچہ کسی معین کافر کے بارے میں نازل ہوئی ہے تاہم یہ ہر کافر کو شامل ہے جو اس زعم میں مبتلا ہے کہ وہ حق پر ہے اور وہ اہل جنت میں سے ہے۔ مريم
78 اللہ تعالیٰ ان کو توبیخ و تکذیب کے طور پر فرماتا ہے : ﴿أَطَّلَعَ الْغَيْبَ ﴾ ” کیا وہ غیب پر مطلع پر گیا ہے؟“ یعنی کیا اس کے علم نے غیب کا احاطہ کر رکھا ہے حتیٰ کہ اسے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ کیا کچھ ہوگا جس میں یہ بات بھی شامل ہے کہ قیامت کے روز اسے مال و اولاد سے نوازا جائے گا ﴿ أَمِ اتَّخَذَ عِندَ الرَّحْمَـٰنِ عَهْدًا﴾ ” یا اس نے رحمٰن سے عہد لے رکھا ہے“ کہ وہ ان چیزوں کو حاصل کرے گا جن کا اس نے دعویٰ کیا ہے۔۔۔ یعنی کچھ بھی ایسے نہیں ہوگا۔ تب معلوم ہوا کہ وہ شخص اللہ تعالیٰ پر بہتان طرازی کرتا ہے اور ایسی بات کہتا ہے جس کے بارے میں اسے خود بھی علم نہیں۔ اس تقسیم اور تردید کی غرض و غایت، الزامی جواب اور مخالف پر حجت قائم کرنا ہے۔ کیونکہ جو یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اسے آخرت میں اللہ تعالیٰ کے ہاں بھلائی حاصل ہوگی اسے مندرجہ ذیل امور میں سے ایک ضرور حاصل ہے: (1) یا تو اس کا یہ قول، امور مستقبل کے بارے میں علم غیب سے صادر ہوا مگر ہم یقینی طور پر جانتے ہیں کہ غیب کا علم صرف اللہ تعالیٰ وحدہ کو ہے۔ مستقبل میں پیش آنے والے امور کو کوئی نہیں جانتا سوائے اس کے رسولوں میں سے جسے اللہ تعالیٰ مطلع کر دے۔ (2) یا اس نے اللہ تعالیٰ کے ہاں، اپنے ایمان باللہ اور اتباع رسل کے ذریعے سے عہد لے رکھا ہے، جن کے پیروکاروں کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہوا ہے کہ وہ آخرت میں نجات یافتہ اور کامیاب لوگ ہوں گے۔ جب ان دونوں امور کی نفی ہوگئی تو معلوم ہوا کہ دعویٰ باطل ہے۔ مريم
79 اس لئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿كَلَّا سَنَكْتُبُ مَا يَقُولُ﴾ ” ہرگز نہیں، وہ جو کہتا ہے ہم لکھ رکھیں گے“ یعنی اصل معاملہ یوں نہیں جس طرح وہ دعویٰ کرت ہے کیونکہ اس کا قائل امور غیبیہ کی اطلاع نہیں رکھتا، اس لئے کہ وہ کافر ہے۔ اس کے پاس نبوت کا علم ہے نہ اس نے رحمٰن سے عہد لے رکھا ہے کیونکہ وہ کافر ہے اور ایمان سے محروم ہے۔ بلکہ اس کے اس جھوٹ کے برعکس وہ جہنم کا مستحق ہے۔ اس کا یہ قول لکھ لیا گیا ہے اور اللہ کے ہاں محفوظ ہے، اسے اس کی سزا ملے گی اور اس کو عذاب میں مبتلا کیا جائے گا، اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَنَمُدُّ لَهُ مِنَ الْعَذَابِ مَدًّا﴾ ” اور ہم اس کے لئے عذاب بڑھائے چلے جائیں گے۔“ یعنی جس طرح یہ اپنی گمراہی میں بڑھتا گیا اسی طرح ہم اس کو دیئے جانے والے مختلف اقسام کے عذاب میں اضافہ کریں گے۔ مريم
80 ﴿ وَنَرِثُهُ مَا يَقُولُ ﴾ ” اور ہم وارث ہوں گے اس کے جس کی بابت وہ کہہ رہا ہے۔“ یعنی ہم اس کے مال اور اولاد کے وارث ہوں گے، چنانچہ وہ مال، اہل و عیال اور اعوان و انصار کے بغیر اس دنیا سے آخرت کے گھر کی طرف منتقل ہوگا ﴿وَيَأْتِينَا فَرْدًا﴾ ” اور آئے گا وہ ہمارے پاس اکیلا ہی۔“ پس وہ بدترین عذاب کاسامنا کرے گا جو اس جیسے ظالم لوگوں کی سزا ہے۔ مريم
81 یہ کفار کی سزا ہے۔ اس لئے کہ جب انہوں نے اللہ کے حکموں کو نہیں مانا اور نہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑا بلکہ اس کے برعکس انہوں نے شرک کا ارتکاب کیا اور اللہ تعالیٰ کے دشمنوں یعنی شیاطین کے ساتھ موالات رکھی، تو اللہ تعالیٰ نے شیاطین کو ان پر مسلط کردیا اور شیاطین نے ان کو ورغلا کر گناہوں پر آمادہ کرنا شروع کردیا۔ وہ انہیں کفر کی ترغیب دیتے ہیں، انہیں وسوسوں میں مبتلا کرتے ہیں، ان پر القاء کرتے ہیں اور ان کے سامنے باطل کو مزین کر کے اور حق کو بدنما بنا کر پیش کرتے ہیں۔ پس باطل کی محبت ان کے دلوں میں داخل ہو کر جاگزیں ہوجاتی ہے، وہ باطل کی خاطر اسی طرح کوشش کرتا ہے جس طرح حق پرست حق کے لئے جدوجہد کرتا ہے، وہ اپنی کوشش اور سعی سے باطل کی مدد کرتا ہے اور باطل کے راستے میں حق کے خلاف جدوجہد کرتا ہے اور یہ سب کچھ اس بات کی سزا ہے کہ اس نے اپنے حقیقی دوست اور سرپرست سے منہ موڑ کر اپنے دشمن کو دوست بنا لیا اور اپنے آپ کو اس کے تسلط میں دے دیا۔ ورنہ اگر وہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لے آتا اور اس پر بھروسہ کرتا تو شیطان اس پر کبھی تسلط قائم نہ کرسکتا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿إِنَّهُ لَيْسَ لَهُ سُلْطَانٌ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَلَىٰ رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ إِنَّمَا سُلْطَانُهُ عَلَى الَّذِينَ يَتَوَلَّوْنَهُ وَالَّذِينَ هُم بِهِ مُشْرِكُونَ﴾(النحل: 16؍99۔100) ” اسے ان لوگوں پر کوئی اختیار حاصل نہیں جو ایمان لاتے اور اپنے رب بھروسہ کرتے ہیں اس کا بس تو صرف انہی لوگوں پر چلتا ہے جو اسے اپنا دوست بناتے ہیں اور ان پر جو اس (کے گمراہ کرنے) کی وجہ سے شرک کرتے ہیں۔ “ مريم
82 مريم
83 مريم
84 ﴿فَلَا تَعْجَلْ عَلَيْهِمْ ۖ﴾ یعنی آپ ان کفار کے بارے میں عجلت نہ کیجیے جو عذاب کے لئے جلدی مچاتے ہیں۔ ﴿ إِنَّمَا نَعُدُّ لَهُمْ عَدًّا ﴾ ” ہم تو خود ہی ان کے لئے (مدت) شمار کر رہے ہیں۔“ یعنی ان کے لئے دن مقرر کردیئے گئے ہیں جن میں کوئی تقدیم ہوگی نہ تاخیر۔ ہم انہیں کچھ مدت کے لئے مہلت دے کر برد باری سے کام لے رہے ہیں تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کریں۔ جب اس مہلت کا کوئی فائدہ نہ ہوا تو ہم اسے ایک غالب اور مقتدر ہستی کی طرح اپنی گرفت میں لے لیں گے۔ مريم
85 اللہ تبارک و تعالیٰ دونوں گروہوں، یعنی متقین و مجرمین کے درمیان تفاوت بیان کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ متقین کو، ان کے شرک و بدعات اور دیگر گناہوں سے بچنے کے سبب سے، قیامت کے ورز، اکرام و تعظیم کے ساتھ اکٹھا کرے گا اور وہ وفود کی صورت میں اللہ تعالیٰ کی خدمت میں حاضر ہوں گے۔ ان کی منزل اور ان کا مطلوب و مقصود رحمٰن و منان ہوگا اور یہ ضرو ری ہے کہ آنے والے کا دل امید سے لبریز ہو اور جس کے پاس آیا ہے اس پر حسن ظن ہو۔ پس اہل تقویٰ، اللہ تعالیٰ کی رحمت کے بے پایاں احسان کی امید کھتے ہوئے اور اس کی رضا کے گھر میں اس کی نوازشوں سے فوزیاب ہوتے ہوئے، اس کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور اس کا سبب ان کے وہ نیک اعمال ہوں گے جو انہوں نے آگے بھیجے اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کی رضا کی اتباع کی اور بے شک اللہ تعالیٰ نے بھی اپنے انبیاء و رسل کی زبان پر انکے لئے اس ثواب کا عہد کر رکھا ہے۔ پس وہ نہایت اطمینان کے ساتھ اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہوئے اس کی طرف رواں دواں ہوں گے۔ رہے مجرم، تو ان کو پیاسا ہی جہنم کی طرف ہانکا جائے گا اور یہ ان کی بدترین حالت ہوگی کہ ان کو انتہائی ذلت و رسوائی کے ساتھ سب سے بڑے قید خانے اور بدترین عذاب میں، یعنی جہنم میں دھکیل دیا جائے گا۔ وہ تھکے ماندے سخت پیاسے ہوں گے، وہ مدد کے لئے پکاریں گے مگر ان کی مدد نہ کی جائے گی، وہ دعائیں کریں گے مگر ان کی دعائیں قبول نہ ہوں گی اور وہ سفارش تلاش کریں گے مگر ان کی سفارش نہ کی جائے گی۔ مريم
86 مريم
87 اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿لَّا يَمْلِكُونَ الشَّفَاعَةَ﴾ یعنی وہ سفارش کے مالک ہوں گے نہ انہیں سفارش کا کوئی اختیار ہوگا۔ تمام تر سفارش کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہوگا۔ ﴿قُل لِّلَّـهِ الشَّفَاعَةُ جَمِيعًا ﴾ (الزمر :33؍39) ” کہہ دیجیے سفارش سب اللہ کے لئے ہے“ اور اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرما دیا ہے کہ سفارش کرنے والوں کی سفارش ان کے کسی کام نہ آئے گی کیونکہ انہوں نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں پر ایمان لا کر اس سے کوئی عہد نہیں لیا۔۔۔ ورنہ وہ شخص جس نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں پر ایمان کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے عہد لیا اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی تو وہ ان لوگوں میں شامل ہے جن پر اللہ تعالیٰ راضی ہے اور اس کو سفارش حاصل ہوگی، جیسا کہ فرمایا : ﴿وَلَا يَشْفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ارْتَضَىٰ﴾ (الانبیاء :21؍28) ” وہ اس کے پاس کسی کی سفارش نہیں کرسکتے مگر اس شخص کی جس سے وہ اللہ تعالیٰ راضی ہو۔“ اللہ تعالیٰ نے ایمان باللہ اور اپنے رسولوں کی اتباع کو عہد قرار دیا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتابوں میں اور اپنے انبیاء و رسل کی زبان پر عہد کیا ہے کہ وہ ان لوگوں کو جزائے جمیل عطا کرے گا جو انبیاء و رسل کی اتباع کریں گے۔ مريم
88 یہ ان لوگوں کے قول کی قباحت کا بیان ہے جو عناد اور انکار پر جمے ہوئے ہیں اور اس عزم باطل میں مبتلا ہیں کہ رحمٰن نے اپنابیٹا بنایا ہے۔ جیسا کہ نصاریٰ کہتے ہیں ﴿ الْمَسِيحُ ابْنُ اللّٰـهِ﴾ (التوبۃ: 9؍30) ” مسیح اللہ کا بیٹا ہے“ یہودی کہتے ہیں ﴿ عُزَيْرٌ ابْنُ اللّٰـهِ ﴾ (التوبۃ:9؍30) ”عزیز اللہ کا بیٹا ہے“ اور مشرکین کہتے ہیں ” فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں۔“ اللہ تعالیٰ ان کی باتوں سے بہت بلند اور بڑا ہے۔ مريم
89 ﴿ لَّقَدْ جِئْتُمْ شَيْئًا إِدًّا ﴾ یعنی تم نے بدترین بات کہی ہے۔ مريم
90 یہ اتنی بڑی بات ہے کہ ﴿تَكَادُ السَّمَاوَاتُ ﴾ قریب تھا کہ آسمان اپنی عظمت اور صلابت کے باوصف ﴿يَتَفَطَّرْنَ مِنْهُ ﴾ اس قول سے پھٹ جاتے۔ ﴿وَتَنشَقُّ الْأَرْضُ ﴾ اور زمین پھٹ کر ریزہ ریزہ ہوجاتی۔ ﴿ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ هَدًّا  ﴾ اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر برابر ہوجاتے۔ مريم
91 ﴿ أَن دَعَوْا لِلرَّحْمـٰنِ وَلَدًا  ﴾ ” اس بنا پر کہ انہوں نے رحمٰن کی اولاد ٹھہرائی۔“ یعنی اس بدترین دعویٰ کی بنا پر ان تمام مخلوقات کی حالت یہ ہوتی جو ان آیات میں ذکر کی گئی ہے۔ مريم
92 جب کہ حال یہ ہے ﴿وَمَا يَنبَغِي لِلرَّحْمَـٰنِ ﴾ رحمان کے یہ لائق نہیں ہے اور نہ یہ ہو ہی سکتا ہے ﴿أَن يَتَّخِذَ وَلَدًا  ﴾ ” کہ وہ اولاد بنائے۔“ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا اپنے لئے بیٹا بنانا اس میں نقص اور احتیاج پر دلالت کرتا ہے جب کہ وہ بے نیاز اور حمید ہے، نیز بیٹا اپنے باپ کی جنس سے ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کا کوئی شبیہ ہے نہ مثیل اور نہ اس کی نظیر ہے۔ مريم
93 ﴿إِن كُلُّ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمَـٰنِ عَبْدًا  ﴾ ” آسمانوں اور زمین میں جو بھی ہیں، وہ سب رحمٰن کے غلام بن کر آنے والے ہیں۔“ یعنی ذلیل اور مطیع ہو کر بغیر کسی نافرمانی کے رحمٰن کی خدمت میں حاضر ہوں گے، فرشتے، جن و انس سب اللہ کے مملوک اور اس کے دست تصرف کے تحت ہیں، اقتدار میں ان کا کوئی حصہ ہے نہ تدبیر کائنات میں ان کا کوئی اختیار ہے۔۔۔ جب اس کی شان اور اس کے اقتدار کی عظمت یہ ہو، تب اس کا بیٹا کیسے ہوسکتا ہے؟ مريم
94 ﴿لَّقَدْ أَحْصَاهُمْ وَعَدَّهُمْ عَدًّا  ﴾ اس کا علم زمین اور آسمانوں کی تمام خلائق کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو اور ان کے اعمال کو شمار کر رکھا ہے وہ گمراہ ہوتا ہے نہ بھولتا ہے اور کوئی چیز اس سے چھپی ہوئی نہیں ہے۔ مريم
95 ﴿وَكُلُّهُمْ آتِيهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَرْدًا  ﴾ ” ہر ایک اس کے پاس قیامت کے دن اکیلا ہی آئے گا۔“ یعنی اولاد، مال و دولت اور اعوان و انصار اس کے ساتھ نہ ہوں گے۔ اس کے ساتھ اس کے عمل کے سوا کچھ نہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ اسے اس کے اعمال کا بدلہ دے گا اور اس سے پورا پورا حساب لے گا۔ اگر اعمال اچھے ہوں گے تو جزا بھی اچھی ہوگی اور اگر اعمال برے ہوں گے تو ان کی جزابھی بری ہوگی۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : ﴿وَلَقَدْ جِئْتُمُونَا فُرَادَىٰ كَمَا خَلَقْنَاكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ  ﴾ (الانعام :6؍94) ” تم اسی طرح ہمارے پاس تن تنہا آئے ہو جس طرح پہلی مرتبہ ہم نے تمہیں اکیلا پیدا کیا تھا۔ “ مريم
96 یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے ان بندوں پر انعام ہے جنہوں نے ایمان و عمل صالح کو جمع کیا۔۔۔ کہ وہ ان کے لئے اپنے اولیاء اور زمین و آسمان کے رہنے والوں کے دلوں میں محبت اور مودت ڈال دیتا ہے۔ جب ان کے بارے میں دلوں میں محبت ہوجاتی ہے تو ان کے اکثر معاملات ان کے لئے آسان ہوجاتے ہیں اور ان کو بھلائی، دعائیں، راہنمائی اور امامت حاصل ہوجاتی ہے اس لئے ایک صحیح حدیث میں وارد ہے ” جب اللہ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو جبرئیل کو پکار کر کہتا ہے کہ میں فلاں شخص سے محبت کرتا ہوں، تو بھی اس سے محبت کر، پھر جبرئیل آسمان والوں کو پکار کر کہتا ہے کہ اللہ فلاں شخص سے محبت کرتا ہے، اس لئے تم بھی اسے محبوب رکھو، آسمان والے اس سے محبت کرنے لگتے ہیں پھر زمین والوں میں اسے قبولیت عطا کی جاتی ہے“ [ صحیح البخاری، الادب، باب المقۃ من الله تعالیٰ، ح :6.30 و صحیح مسلم، البرو الصلۃ باب اذا احب اللّٰہ عبدا۔۔۔، ح :2637] اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے زمین و سامان کے رہنے والوں کے دلوں میں محبت اس لئے پیدا کی کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے تھے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اپنے اولیاء اور محبوب لوگوں کے نزدیک ان کو محبوب بنا دیا۔ مريم
97 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی نعمت کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے کہ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان اقدس پر اس قرآن کریم کو آسان کیا۔ اس کے الفاظ و معانی کو عام فہم بنایا تاکہ مقصد حاصل ہو اور اس سے فائدہ اٹھایا جا سکے۔ ﴿ لِتُبَشِّرَ بِهِ الْمُتَّقِينَ ﴾ تاکہ آپ دنیاوی اور اخروی ثواب کی ترغیب کے ذریعے سے متقین کو بشارت دیں اور ان اسباب کا ذکر کریں جو بشارت کے موجب ہیں۔ ﴿ وَتُنذِرَ بِهِ قَوْمًا لُّدًّا ﴾ تاکہ آپ ان لوگوں کو ڈرائیں جو اپنے باطل میں نہایت سخت اور اپنے کفر میں نہایت قوی ہیں۔ اس طرح ان پر حجت قائم ہوگی اور ان کے سامنے صراط مستقیم واضح ہوجائے گی۔ تب جو کوئی ہلاک ہوگا تو دلیل کی بنیاد پر ہلاک ہوگا اور جو کوئی زندہ رہے گا تو دلیل کی طاقت سے زندہ رہے گا۔ مريم
98 پھر ان کو پہلے لوگوں کی، جنہوں نے انبیاء و مرسلین کو جھٹلایا، ہلاکت کا ذکر کر کے ڈرایا ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿ وَكَمْ أَهْلَكْنَا قَبْلَهُم مِّن قَرْنٍ ﴾ ” ہم نے ان سے پہلے کتنی ہی امتوں کو ہلاک کردیا۔“ یعنی قوم نوح، قوم عاد اور قوم ثمود وغیرہ جو انبیاء کے ساتھ عناد رکھتے اور ان کی تکذیب کرتے تھے۔ جب وہ اپنی سرکشی میں جمے رہے تو اللہ تعالیٰ نے ان کو ہلاک کر ڈالا اور ان کا نام و نشان باقی نہ رہا۔ ﴿هَلْ تُحِسُّ مِنْهُم مِّنْ أَحَدٍ أَوْ تَسْمَعُ لَهُمْ رِكْزًا  ﴾ یہاں (رکز) سے مراد خفیہ آواز ہے یعنی ان لوگوں کے آثار تک باقی نہ رہے۔ بس ان کے قصے باقی رہ گئے جو عبرت حاصل کرنے والوں کے لئے عبرت ہیں اور ان کی کہانیاں باقی رہ گئیں جو نصیحت کے متلاشی لوگوں کے لئے نصیحت ہیں۔ مريم
0 طه
1 ﴿طٰهٰ  ﴾ اس کا شمار من جملہ حروف مقطعات سے ہے جن کے ساتھ بہت سی سورتوں کی ابتداء ہوتی ہے اور واضح رہے کہ یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كا اسم گرامی نہیں ہے۔ طه
2 ﴿مَا أَنزَلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لِتَشْقَىٰ ﴾ ” نہیں اتارا ہم نے آپ پر قرآن اس لئے کہ آپ مشقت میں پڑیں۔“ یعنی آپ کی طرف وحی بھیجنے، قرآن نازل کرنے اور آپ کو شریعت عطا کرنے کا مقصد یہ نہیں کہ آپ کسی سختی میں مبتلا ہوں، (ایسا نہیں کہ) شریعت میں کوئی تکلیف ہو جو مکلفین پر شاق گزرے اور عمل کرنے والوں کے قویٰ اس پر عمل کرنے سے عاجز ہوجائیں۔ وحی، قرآن اور شریعت کو تو رحیم و رحمان نے نازل کیا ہے اور اسے سعادت اور فوز و فلاح کا راستہ قرار دیا، اسے انتہائی سہل رکھا، اس کے تمام راستوں اور دروازوں کو آسان بنایا اور اسے قلب و روح کی غذا اور بدن کی راحت قرار دیا۔ فطرت سلیم اور عقل مستقیم نے اسے قبول کر کے اس کے سامنے سرتسلیم خم کردیا کیوکہ فطرت سلیم اور عقل مستقیم کو علم ہے کہ یہ دنیا و آخرت کی بھلائی پر مشتمل ہے ۔ طه
3 اس لئے فرمایا : ﴿إِلَّا تَذْكِرَةً لِّمَن يَخْشَىٰ ﴾ یہ اس لئے نازل کیا تاکہ اس سے وہ شخص نصیحت پکڑے جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے۔ پس وہ جلیل ترین مقاصد کی خاصر اس کے اندر دی گئی ترغیب سے نصیحت پکڑتا اور اس کی وجہ سے اس پر عمل کرتا ہے اور اس کے اندر شقاوت و خسران سے جو ڈرایا گیا ہے، اس سے ڈرتا اور شریعت کے احکام جمیلہ سے نصیحت پکڑتا ہے جن کا حسن و جمال، مجمل طور پر عقل میں جاگزیں ہے اور وہ ان تفاصیل کے مطابق ہیں جو اس کی عقل و فطرت میں موجود ہیں، اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کو (تذکرہ) کہا ہے۔ کسی چیز کا ” تذکرہ“ موجود ہوتا ہے البتہ انسان خود اس سے غافل ہوتا ہے یا اس کی تفاصیل مستحضر نہیں ہوتیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس ” تذکرہ“ (یاد دہانی) کو اس شخص کے ساتھ مختص کیا ہے ﴿لِّمَن يَخْشَىٰ ﴾ ” جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے“ کیونکہ اللہ تعالیٰ سے نہ ڈرنے والا شخص اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا اور وہ شخص فائدہ اٹھا بھی کیسے سکتا ہے جو جنت پر ایمان رکھتا ہے نہ جہنم پر اور اس کے قلب میں ذرہ بھر بھی خوف الٰہی موجود نہیں؟ یہ ایسی بات ہے جو کبھی نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿ سَيَذَّكَّرُ مَن يَخْشَىٰ  وَيَتَجَنَّبُهَا الْأَشْقَى الَّذِي يَصْلَى النَّارَ الْكُبْرَىٰ ﴾ (الاعلیٰ :87؍10۔12) ” جو اللہ کا خوف رکھتا ہے وہی اس سے نصیحت پکڑتا ہے اور بدبخت (اور بے خوف انسان) اس سے پہلو تہی کرتا ہے، وہ جو بہت بڑی دھکتی ہوئی آگ میں جھونکا جائے گا۔ “ طه
4 پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس قرآن عظیم کی جلالت شان کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ خلاق ارض و سماء کی طرف سے نازل کردہ کتاب ہے جو تمام کائنات کی تدبیر کرتا ہے۔۔۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کتاب کو حد درجہ اطاعت اور محبت و تسلیم کے ساتھ قبول کرو اور انتہائی حد تک اس کی تعظیم کرو۔ اللہ تعالیٰ نے بہت دفعہ ( خَلق ) اور ( اَمر) کو مقرون (ساتھ ساتھ) بیان کیا ہے جیسا کہ اس آیت کریمہ میں بھی ہے اور جيسا کہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں ہے : ﴿ أَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ  ﴾ (الاعراف :7؍54) ” آگاہ رہو کہ تخلیق بھی اسی کی اور حکم بھی اسی کا ہے۔“ جیسا کہ فرمایا : ﴿اللّٰـهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ يَتَنَزَّلُ الْأَمْرُ بَيْنَهُنَّ ﴾(الطلاق:65؍12) ” اللہ ہی تو ہے جس نے ساتوں آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی (سات)زمینیں، ان میں امر الٰہی نازل ہوتا ہے۔“ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی خالق کائنات، حکم دینے والا اور روکنے والا ہے۔ پس جس طرح اس کے سوا کوئی خالق نہیں، اسی طرح مخلوق پر اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی لازم کرنے والا نہیں۔ ان کے خالق کے سوا کوئی حکم دے سکتا ہے نہ روک سکتا ہے۔ طه
5 نیز اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیا تو اس کے خلاق میں اس کی تدبیر کوفی و قدیر جاری و ساری ہے اور اس کے امر میں دینی و شرعی تدبیر کار فرما ہے۔ پس جیسے اس کی تخلیق اس کی حکمت کے دائرے سے باہر نہیں نکلتی، اس نے کوئی چیز عبث پیدا نہیں کی۔ پس اسیر طح اللہ تعالیٰ صرف اسی چیز کا حکم دیتا ہے جو عدل و احاسن پر مبنی ہو اور صرف عدل و احاسن اور حکمت کے تقاضے کے مطابق ہی کسی چیز سے روکتا ہے۔ جب یہ حقیت واضح ہوگئی کہ اللہ تعالیٰ ہی تمام کائنات کا خالق اور مدبر ہے، وہی حکم دینے والا اور روکنے والا ہے تو اس نے اپنی عظمت اور کبریائی کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے فرمایا : ﴿الرَّحْمَـٰنُ عَلَى الْعَرْشِ ﴾ ” رحمٰن عرش پر“ جو تمام کائنتا سے بلند، تمام کائنات سے بڑا اور تمام کائنات سے وسیع ہے ﴿اسْتَوَىٰ ﴾ ” مستوی ہے“ یہاں استواء سے مراد وہ استواء ہے جو اس کے جلال کے لائق اور اس کی عظمت و جمال سے مناسبت رکھتا ہے۔ پس وہ عرش پر مستوی اور کائنات پر حاوی ہے۔ طه
6 ﴿ لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا ﴾ ” اسی کے لئے ہے جو آسمان میں ہے اور جو زمین میں ہے اور جو ان دونوں کے درمیان ہے۔“ تمام ملائکہ، جن و انس، حیوانات، جمادات اور نباتات ﴿ وَمَا تَحْتَ الثَّرَىٰ ﴾ ” اور جو کچھ سطح زمین کے نیچے ہے“ سب اللہ تعالیٰ کی ملکیت اور تمام لوگ اس کے بندے ہیں جو اس کے دست تدبیر اور اس کی قضا و قدر کے تحت مسخر ہیں۔ اقتدار الٰہی میں ان کا کوئی حصہ نہیں اور وہ خود اپنی ذات کے لئے کسی نفع و نقصان، موت و حیات اور دوبارہ اٹھائے جانے پر کوئی اختیار نہیں رکھتے۔ طه
7 ﴿وَإِن تَجْهَرْ بِالْقَوْلِ فَإِنَّهُ يَعْلَمُ السِّرَّ ﴾ ” اور اگر آپ اونچی بات کہیں تو وہ تو جانتا ہے سری بات کو بھی۔“ یعنی پوشیدہ کلام کو ﴿وَأَخْفَى  ﴾ ”اور سری سے بھی زیادہ مخفی بات کو۔“ یعنی خفی سے خفی تر بات، جو انسان کے دل میں ہوتی ہے اور ابھی نطق زبان پر نہیں آئی ہوتی۔ یا (السِّرَّ ) سے مراد وہ خیال ہے جو انسان کے دل میں آتا ہے اور (أَخْفَى  ) سے مراد وہ خیال ہے جسے ابھی دل میں آنا ہے اور ابھی تک نہیں آیا۔ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ کب وہ خیال اپنے وقت پر اپنی صفت کے ساتھ دل میں داخل ہوگا۔ معنی یہ ہے کہ علم الٰہی، چھوٹی بڑی اور ظاہر و باطن تمام اشیاء کا احاطہ کئے ہوئے ہے، اس لئے آپ بلند آواز سے بولیں یا آہستہ آواز سے، علم الٰہی کی نسبت سے سب برابر ہے۔ جب یہ بات متحقق ہوگئی کہ وہ کمال مطلق کا مالک ہے، اپنی تخلیق کے عموم کی وجہ، اپنے امرو نہی اور اپنی رحمت کے عموم کی وجہ سے، اپنی عظمت کی وسعت اور اپنے عرش پر بلند ہونے کی وجہ سے اور اپنی بادشاہی اور اپنے علم کے عموم کی وجہ سے، تو اس سے یہ نتیجہ نکلا کہ صرف وہی عبادت کا مستحق ہے اور اسی کی عبادت حق ہے جس کو شریعت اور عقل و فطرت واجب ٹھہرتای ہے اور غیر اللہ کی عبادت باطل ہے۔ طه
8 اس لئے فرمایا : ﴿اللّٰـهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ  ﴾ یعنی کوئی معبود حق ہے نہ کوئی قابل عبادت جس کے سامنے محبت، تذلل، خوف، امید اور انابت کا اظہار کیا جائے اور اس کو پکارا جائے مگر صرف اللہ ہی ﴿ لَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَ﴾ ” اسی کے لئے ہیں اچھے نام“ یعنی اس کے بہت سے نام ہیں جو بہت اچھے ہیں۔ اس کے ناموں کا حسن یہ ہے کہ وہ نام تمام تر مدح پر دلالت کرتے ہیں۔ ان ناموں میں سے کوئی نام ایسا نہیں جو مدح و حمد پر دلالت نہ کرتا ہو۔ ان ناموں کا حسن یہ بھی ہے کہ وہ محض اعلام )نام( نہیں بلکہ وہ نام اور اوصاف ہیں۔ ان کا حسن یہ بھی ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی کامل صفات پر دلالت کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی ہر صفت کامل، عام اور جلیل ترین ہے اور ان کا حسن یہ بھی ہے کہ اس نے اپنے بندوں کو حکم دیا ہے کہ وہ اسے ان ناموں سے پکاریں کیونکہ یہ ایک وسیلہ ہیں جو بندوں کو اللہ کے قریب کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان ناموں کو پسند کرتا ہے اور ان لوگوں سے محبت کرتا ہے جو ان ناموں کو پسند کرتے ہیں اور جو انہیں یاد کرتے ہیں اور ان لوگوں سے بھی محبت کرتا ہے جو ان کے معانی کی تحقیق کرتے ہیں اور ان ناموں کے ذریعے سے اس کی عبادت کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿ وَلِلَّـهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ فَادْعُوهُ بِهَا ۖ ﴾ )الاعراف :7؍181 )” اللہ کے اچھے اچھے نام ہیں اسے انہی ناموں سے پکارو۔ “ طه
9 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے نبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے استفہام تقریری کے طور پر اور اس قصہ مذکورہ کی تعظیم اور عظمت کی خاطر فرماتا ہے : ﴿وَهَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ مُوسَىٰ ﴾ ” کیا آپ کے پاس موسیٰ کی بات آئی؟“ یعنی جناب موسیٰ علیہ السلام کی اس حالت کا قصہ، جو ان کی سعادت کی بنیاد اور ان کی نبوت کی ابتدا تھی کہ انہیں بہت دور سے آگ نظر آئی اور وہ راستے سے بھٹک گئے تھے اور سردی محسوس کر رہے تھے اور ان کے پاس کوئی ایسی چیز نہ تھی جس سے وہ اپنے سفر میں گرمی حاصل کرسکیں۔ طه
10 ﴿فَقَالَ لِأَهْلِهِ امْكُثُوا إِنِّي آنَسْتُ نَارًا ﴾ ” تو انہوں نے اپنے گھر والوں سے کہا، ذرا ٹھہرو میں نے آگ دیکھی ہے“ اور یہ آگ کوہ طور کے دائیں جانب تھی۔ ﴿لَّعَلِّي آتِيكُم مِّنْهَا بِقَبَسٍ﴾ ” شاید میں تمہارے پاس اس میں سے ایک انگارا لاؤں۔“ تاکہ تم اس سے آگ تاپ سکو ﴿ أَوْ أَجِدُ عَلَى النَّارِ هُدًى﴾ یا اس آگ کے پاس مجھے کوئی ایسا شخص مل جائے جو مجھے راستہ بتا دے۔ موسیٰ علیہ السلام کا مقصود تو حسی روشنی اور حسی ہدیات تھا۔ مگر انہوں نے وہاں معنوی نور یعنی نور وحی پا لیا۔ جس سے قلوب و ارواح روشن ہوتے ہیں اور انہیں حقیقی ہدایت یعنی صراط مستقیم کی طرف راہنمائی حاصل ہوئی جو نعمتوں بھری جنت کو جاتی ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام ایک ایسی چیز سے بہرہ ور ہوئے جو ان کے کسی حاسب اور خواب و خیال میں بھی نہ تھی۔ طه
11 ﴿فَلَمَّا أَتَاهَا ﴾ یعنی جب حضرت موسیٰ علیہ السلام اس آگ کے پاس پہنچے جو انہوں نے دور سے دیکھی تھی۔۔۔ جو دلالت کرتا ہے (حِجَابُهُ النُّورُ- وَفِي رِوَايَةٍ: النَّارُ - لَوْ كَشَفَهُ لَأَحْرَقَتْ سُبُحَاتُ وَجْهِهِ مَا انْتَهَى إِلَيْهِ بَصَرُهُ﴾[صحیح مسلم، الایمان، باب فی قولہ (ان اللہ لاینام) ح :179] اس کا حجاب نور ہے۔ ایک روایت میں ہے : آگ۔ اگر وہ اس حجاب کو ہٹا دے تو اس کے چہرے کا جلال حد نگاہ تک ہر چیز کو بھسم کر ڈالے۔“ جب موسیٰ علیہ السلام وہاں پہنچے تو اس میں سے آواز آئی یعنی اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو ندادی جیسا کہ ارشاد فرمایا : ﴿وَنَادَيْنَاهُ مِن جَانِبِ الطُّورِ الْأَيْمَنِ وَقَرَّبْنَاهُ نَجِيًّا ﴾(مریم :19؍52) ” ہم نے اسے کوہ طور کی دائیں جانب سے پکارا اور سرگوشی کرنے کے لئے اس کو قریب کیا۔ “ طه
12 ﴿إِنِّي أَنَا رَبُّكَ فَاخْلَعْ نَعْلَيْكَ ۖ إِنَّكَ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى﴾ اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ وہ موسیٰ علیہ السلام کا رب ہے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حکم دیا کہ وہ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی مناجات کے لئے تیار اور اس کا اہتمام کرلیں اور اپنے جوتے اتار دیں کیونکہ وہ مقدس، پاک اور قابل تعظیم وادی میں ہیں۔ اگر وادی کی تقدیس کے لئے کوئی اور چیز نہ ہوتی تب بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کلیم اللہ کو مناجات کے لئے چن لینا ہی کافی تھا۔ بہت سے مفسرین نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جوتے اتارنے کا اس لئے حکم دیا تھا کیونکہ وہ گدھے کی کھال سے بنے ہوئے تھے۔ واللہ تعالیٰ اعلم طه
13 ﴿وَأَنَا اخْتَرْتُكَ﴾ یعنی میں نے لوگوں میں سے تجھے چن لیا ہے۔ یہ سب سے بڑی نعمت اور احسان ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو نوازا جو اس شکر کا تقاضا کرتی ہے جو اس کے لائق ہے، اس لئے فرمایا ﴿فَاسْتَمِعْ لِمَا يُوحَىٰ﴾ یعنی اس وحی کو غور سے سن جو تیری طرف کی جا رہی ہے، وہ اس کی مستحق ہے کہ اس کو غور سے سنا جائے کیونکہ یہ دین کی اساس اور دعوت اسلامی کا ستون ہے۔ طه
14 پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس وحی کو بیان کرتے ہوئے فرمایا : ﴿إِنَّنِي أَنَا اللّٰـهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا أَنَا﴾ ” بے شک میں ہی اللہ ہوں، میرے سوا کوئی معبود نہیں۔“ یعنی اللہ ہی ہے جو الوہیت کا مستحق اور اس سے متصف ہے کیونکہ وہ اسماء، وصفات میں کامل اور اپنے افعال میں منفرد ہے، جس کا کوئی شریک ہے نہ مثیل اور جس کا کوئی ہمسر ہے نہ برابری کرنے والا۔ ﴿فَاعْبُدْنِي﴾ ” پس میری ہی عبادت کر“ عبادت کی ظاہری اور باطنی، اصولی اور فروعی تمام انواع کے ذریعے سے۔ پھر نماز کا بطور خاص ذکر فرمایا، حالانکہ نماز عبادت میں داخل ہے۔ اس کی ایک وجہ نماز کا شرف و فضل ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ نماز ایسی عبادت ہے جو دل، زبان اور اعضا کی عبادت کو متضمن ہے۔ ﴿لِذِكْرِي﴾ یہاں لام تعلیل کے لئے ہے، یعنی میرے ذکر کی خاطر نماز قائم کر کیونکہ ذکر الٰہی جلیل ترین مقصد ہے، علاوہ ازیں یہ عبودیت قلب کو متضمن ہے اور اسی پر انسان کی سعادت کا دار و مدار ہے۔ پس ذکر الٰہی سے خالی دل، ہر بھلائی سے محروم ہو کر پوری طرح برباد ہوجاتا ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے بندوں کے لئے مختلف انواع کی عبادات مشروع فرمائی ہیں، خاص طور پر نماز، تو ان عبادات کا مقصد صرف ذکر الٰہی کا قیام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿اتْلُ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنَ الْكِتَابِ وَأَقِمِ الصَّلَاةَإِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ  وَلَذِكْرُ اللّٰـهِ أَكْبَرُ﴾(العنکبوت:29؍45) ” اس کتاب کی تلاوت کیجیے جو آپ کی طرف وحی کی گئی ہے اور نماز قائم کیجیے بے شک نماز فحش اور برے کاموں سے روکتی ہے اور ذکر الٰہی اس سے بھی بڑی چیز ہے۔“ یعنی نماز کے اندر اللہ تعالیٰ کا جو ذکر ہے، وہ نماز کے فحش اور برے کاموں سے روکنے سے، زیادہ بڑی چیز ہے۔ عبادت کی اس نوع کو توحید الوہیت اور توحید عبادت کہا جاتا ہے۔ الوہیت اللہ تعالیٰ کاوصف ہے اور عبودیت بندے کا وصف ہے۔ طه
15 ﴿إِنَّ السَّاعَةَ آتِيَةٌ﴾ یعنی قیامت کی گھڑی کا واقع ہونا لازمی امر ہے۔ ﴿أَكَادُ أُخْفِيهَا ﴾ یعنی قیامت کی گھڑی خود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے چھپی ہوئی ہے، جیسا کہ بعض قراءت میں ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے مطابق ہے : ﴿يَسْأَلُكَ النَّاسُ عَنِ السَّاعَةِ ۖ قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِندَ اللّٰـهِ ﴾ (الاحزاب :33؍63) ” آپ سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں، کہہ دیجیے اس کا علم اللہ کے پاس ہے۔“ اور فرمایا : ﴿إِنَّ اللّٰـهَ عِندَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ﴾ (لقمٰن :33؍31) ” قیامت کا علم اللہ ہی کے پاس ہے۔“ اللہ تعالیٰ نے اس کے علم کو تمام مخلوقات سے چھپا رکھا ہے قیامت کے بارے میں کوئی مقرب فرشتہ جانتا ہے نہ کوئی نبی مرسل۔ اور قیامت کے آنے کی حکمت یہ ہے کہ ﴿ لِتُجْزَىٰ كُلُّ نَفْسٍ بِمَا تَسْعَىٰ ﴾ ہر شخص نے جو بھلے یا برے اعمال میں بھاگ دوڑ کی ہے اس کو ان کی جزا دی جائے کیونکہ قیامت دارالجزا کا دروازہ ہے۔ ﴿لِيَجْزِيَ الَّذِينَ أَسَاءُوا بِمَا عَمِلُوا وَيَجْزِيَ الَّذِينَ أَحْسَنُوا بِالْحُسْنَ﴾ (النجم :53؍31) ” تاکہ جن لوگوں نے برے کام کئے، انہیں ان کے اعمال کا بدلہ دے اور جنہوں نے نیک کام کئے ان کو اچھا بدلہ دے۔ “ طه
16 وہ شخص، جو قیامت کا انکار کرتا ہے اور اس کے واقع ہونے کا اعتقاد نہیں رکھتا وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قیامت اور جزا و سزا پر ایمان لانے اور اس کے مطابق عمل کرنے سے روک نہ دے۔ وہ اس بارے میں شک کرتا ہے اور شک پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے، اس بارے میں باطل دلائل کے ذریعے سے بحث کرتا ہے، خواہشات نفس کی پیروی کرتے ہوئے، مقدور بھر قیامت کے بارے میں شبہات پیدا کرتا ہے، اس کا مقصد حق تک پہنچنا نہیں بلکہ اس کا مقصد صرف خواہشات نفس کی پیروی ہے۔ جس شخص کا یہ حال ہو اس کی بات پر کان دھرنے اور اس کے اقوال و افعال کو، جو قیامت پر ایمان لانے سے روکتے ہیں، قبول کرنے سے بچئے۔ جس شخص کا یہ حال ہے اس سے بچنے کا اللہ تعالیٰ نے صرف اس لئے حکم دیا ہے کہ وہ ایسا شخص ہے جس کا دجل اور اس کی وسوسہ اندازی مومن کے لئے سب سے زیادہ ڈرنے کی چیز ہے اور نفوس انسانی کی فطرت ہے کہ وہ اپنے ابنائے جنس کی مشابہت اختیار کرتے ہیں اور ان کی پیروی کرتے ہیں۔ اس میں تنبیہ اور اشارہ ہے کہ ہر اس شخص سے بچا جائے جو باطل کی طرف دعوت دیتا ہے، ایمان واجب یا اس کی تکمیل سے روکتا ہے اور قلب میں شبہات پیدا کرتا ہے، نیز ان تمام کاتبوں سے بچا جائے جو باطل نظریات پر مشتمل ہیں۔ ان آیات کریمہ میں اللہ تعالیٰ پر ایمان، آخرت پر ایمان اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کا ذکر کیا گیا ہے کیونکہ یہ تینوں امور ایمان کی اساس اور دین کا ستون ہیں۔ اگر یہ امور کامل ہیں تو دین بھی کامل ہے اور ان امور کے فقدان یا ان کے ناقص رہنے سے دین بھی ناقص رہ جاتا ہے۔ اس کی نظیر اللہ تبارک و تعالیٰ کا وہ ارشاد ہے جس میں ان گروہوں کی سعادت اور شقاوت کی میزان کے بارے میں خبر دی گئی ہے، جن کو کتاب عطا کی گئی تھی۔ فرمایا: ﴿إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا وَالصَّابِئُونَ وَالنَّصَارَىٰ مَنْ آمَنَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ﴾(المائدۃ:5؍69)” بے شک جو لوگ ایمان لائے یا یہودی ہوئے یا صابی یا عیسائی، جو بھی اللہ اور روز آخرت پر ایمان لائے گا اور نیک عمل بھی کرے گا، ان کے لئے کوئی خوف ہوگا نہ وہ غمگین ہوں گے۔“ ارشاد فرمایا : ﴿فَتَرْدَىٰ﴾ یعنی اگر آپ اس شخص کے راستے پر گامزن ہوئے جو مذکورہ امور سے روکتا ہے تو آپ ہلاک ہو کر بدبختی کا شکار ہوجائیں گے۔ طه
17 جب اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کے سامنے اساس ایمان کا ذکر کیا تو ارادہ فرمایا کہ وہ ان کے سامنے اساس ایمان کو اچھی طرح واضح کر دے اور انہیں اپنی نشانیاں دکھائے جن سے ان کا دل مطمئن اور آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور دشمن کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ کی تائید سے ان کے ایمان کو تقویت حاصل ہو، اس لئے فرمایا : ﴿ وَمَا تِلْكَ بِيَمِينِكَ يَا مُوسَىٰ﴾ ” اے موسیٰ علیہ السلام ! تیرے دائیں ہاتھ میں کیا ہے؟“ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد اس کے باوجود تھا کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا علم رکھتا ہے مگر اللہ تعالیٰ نے اس مقام پر زیادہ اہتمام کی بنا پر استفہام کے اسلوب میں کلام فرمایا۔ طه
18 موسیٰ علیہ السلام نے جواب میں عرض کیا :﴿  هِيَ عَصَايَ أَتَوَكَّأُ عَلَيْهَا وَأَهُشُّ بِهَا عَلَىٰ غَنَمِي﴾ ” یہ میری لاٹھی ہے میں اس پر ٹیک لگاتا ہوں اور اپنی بکریوں کے لئے پتے جھاڑتا ہوں۔“ اس میں اللہ تعالیٰ نے دو فوائد ذکر فرمائے ہیں۔ (1) آدمی کے لئے فائدہ، وہ چلنے پھرنے اور کھڑے ہونے میں اس کا سہارا لیتا ہے اور اسے اس سے مدد حاصل ہوتی ہے۔ (2) بہائم کے لئے فائدہ، آدمی اس کے ذریعے سے اپنی بھیڑ بکریوں کو چراتا ہے۔ جب وہ اپنے مویشیوں کو درختوں کے پاس چراتا ہے تو اس سے درختوں کے پتے جھاڑتا ہے، یعنی یہ عصا درخت پر مارتا ہے تاکہ پتے جھڑیں اور ان کو بکریاں چر لیں۔ یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا حسن خلق ہے جس کے آثار یہ ہیں کہ وہ بہائم و حیوانات کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرتے تھے اور ان کے ساتھ حسن رعایت سے پیش آتے تھے، نیز یہ اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر اللہ تعالیٰ کی عنایات تھیں اللہ تعالیٰ نے انہیں چن کر اپنے لئے مخصوص کرلیا تھا اللہ تعالیٰ کی رحمت اور حکمت اس تخصیص کا تقاضا کرتی تھی۔ ﴿وَلِيَ فِيهَا مَآرِبُ أُخْرَىٰ﴾ ” اور میرے لئے اس میں دوسرے مقاصد بھی ہیں۔“ یعنی ان مذکورہ دو مقاصد کے علاوہ، دیگر مقاصد، یہ موسیٰ علیہ السلام کا ادب تھا کہ جب اللہ تعالیٰ نے ان سے سوال کیا کہ ان کے دائیں ہاتھ میں کیا ہے۔۔۔ یہ سوال عصا کے عین کے بارے میں ہے یا اس کی منفعت کے بارے میں، اس میں دونوں احتمالات ہیں۔۔۔ موسیٰ علیہ السلام نے اس کے عین اور منفعت، یعنی دونوں احتمالات کے مطابق جواب دیا۔ طه
19 اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ارشاد فرمایا : ﴿ قَالَ أَلْقِهَا يَا مُوسَىٰ فَأَلْقَاهَا فَإِذَا هِيَ حَيَّةٌ تَسْعَىٰ ﴾ ” اے موسیٰ! اسے زمین پر ڈال دے، تو انہوں نے ڈال دیا، پس وہ دوڑتا ہوا سانپ بن گیا۔“ اللہ تعالیٰ کے حکم سے یہ عصا ایک بہت بڑے اسنپ میں تبدیل ہوگیا اور موسیٰ علیہ السلام خوف کھا کر بھاگ اور پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا۔ اس سانپ کا وصف یہ بیان فرمایا کہ وہ حرکت کرتا تھا یہ ایک ہم کے ازالے کے لئے تھا جو ممکن تھا کہ کہیں یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ یہ سب تخیل کی کارفرمائی ہے اور اس میں کوئی حقیقت نہیں۔ پس کے حرکت کرنے نے اس دہم کا ازالہ کردیا۔ طه
20 طه
21 اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا : ﴿خُذْهَا وَلَا تَخَفْ﴾ ” اسے پکڑ لے اور مت ڈر“ یعنی اس سے تجھ کو کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی۔ ﴿سَنُعِيدُهَا سِيرَتَهَا الْأُولَىٰ ﴾ یعنی ہم اسے اس کی اصلی ہئیت اور صفت کی طرف لوٹا دیں گے جو عصا کی ہوتی ہے۔ موسیٰ علیہ السلام نے ایمان اور تسلیم و رضا سے اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کی اور سانپ کو پکڑ لیا اور سانپ اسی جانے پہچانے عصا میں تبدیل ہوگیا۔ یہ (پہلا)معجزہ ہے۔ طه
22 اللہ تعالیٰ نے دوسرے معجزے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ وَاضْمُمْ يَدَكَ إِلَىٰ جَنَاحِكَ ﴾ یعنی اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں ڈال اور اپنے بازو کو اپنے ساتھ لگا لے جو انسان کے پر ہیں۔ ﴿تَخْرُجْ بَيْضَاءَ مِنْ غَيْرِ سُوءٍ ﴾ یعنی بغیر کسی عیب اور برص وغیرہ کے، سفید، چمکتا ہوا نکلے گا۔ ﴿ آيَةً أُخْرَىٰ﴾ یہ دوسرا معجزہ ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿فَذَانِكَ بُرْهَانَانِ مِن رَّبِّكَ إِلَىٰ فِرْعَوْنَ وَمَلَئِهِ ۚ إِنَّهُمْ كَانُوا قَوْمًا فَاسِقِينَ ﴾ (القصص :28؍32) ” تیرے رب کی طرف سے یہ دو معجزے ہیں، فرعون اور اس کے درباریوں کی طرف وہ بڑے نافرمان لوگ ہیں۔ “ طه
23 ﴿لِنُرِيَكَ مِنْ آيَاتِنَا الْكُبْرَى﴾ یہ مذکور افعال۔۔۔ یعنی عصا کا سانپ بن جانا اور ہاتھ کا دیکھنے والوں کے لئے سفید چمکدار ہوجانا۔۔۔ صرف اس لئے سر انجام دیئے ہیں تاکہ ہم تجھ کو اپنی بڑی بڑی نشانیوں کا مشاہدہ کروائیں، جو تیری رسالت کی صحت اور جو کچھ تو لے کر آیا ہے اس کی حقیقت پر دلالت کرتی ہیں اور یوں تجھ کو اطمینان قلب حاصل ہوگا، تیرے علم میں اضافہ ہوگا اور تو اللہ تعالیٰ کی حفاظت اور نصرت کے وعدے پر بھروسہ کرے گا، نیز یہ نشانیاں ان لوگوں کے سامنے حجت اور دلیل ہوں گی جن کی طرف تجھ کو مبعوث کیا جا رہا ہے۔ طه
24 جب اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر وحی نازل کر کے انہیں نبوت عطا کردی اور انہیں بڑے بڑے معجزات کا مشاہدہ کروا دیا، تو اللہ تعالیٰ نے انہیں مصر کے بادشاہ فرعون کی طرف مبعوث کیا اور فرمایا : ﴿اذْهَبْ إِلَىٰ فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغَىٰ﴾ ” فرعون کی طرف جا، وہ سرکش ہوگیا ہے۔“ یعنی وہ، اپنے کفر و فاسد میں، زمین میں تغلب اور کمزوروں پر ظلم کرنے میں حد سے بڑھ گیا ہے حتیٰ کہ اس نے ربوبیت اور الوہیت کا دعویٰ کردیا۔۔۔ قبحہ اللہ۔۔۔ یعنی اس کی سرکشی اس کی ہلاکت کا سبب ہے، لیکن یہ اللہ تعالیٰ کی بے پایاں رحمت، اس کی حکمت اور اس کا عدل ہے کہ وہ کسی کو اس وقت تک عذاب نہیں دیتا جب تک کہ انبیاء و مرسلین کے ذریعے سے اس پر حجت قائم نہیں کردیتا۔ اس وقت موسیٰ علیہ السلام کو معلوم ہوا کہ انہوں نے بہت بڑی ذمہ داری کا بوجھ اٹھا لیا ہے اور انہیں ایک جابر اور سرکش انسان کی طرف مبعوث کیا گیا ہے، جس کا مصر میں مقابلہ کرنے والا کوئی نہیں جب کہ موسیٰ علیہ السلام تن تنہا ہیں، علاوہ ازیں ان سے ایک قتل بھی سر زد ہوچکا تھا، لیکن انہوں نے اپنے رب کے حکم کی تعمیل کی اور انشراح صدر کے ساتھ اس کو قبول کیا اور اللہ تعالیٰ سے مدد اور اسباب کی فراہمی کا سوال کیا جن کی بنا پر دعوت کی تکمیل ہوتی ہے۔ طه
25 چنانچہ عرض کیا : ﴿رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي﴾ یعنی اے اللہ! میرے سینے کو کھول دے اور اسے وسعت عطا کرتا کہ میں قولی اور فعلی اذیتیں برداشت کرسکوں اور میرا قلب تکدر کا شکار نہ ہو اور میرا سینہ تنگ نہ ہو کیونکہ انسان کا سینہ جب تنگ ہوتا ہے تو وہ مخلوق کی ہدایت اور ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینے کا اہل نہیں رہتا۔ اللہ تعالیٰ اپنے نبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرمایا : ﴿فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰـهِ لِنتَ لَهُمْ ۖ وَلَوْ كُنتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ﴾ (آل عمران :3؍159) ” یہ اللہ کی رحمت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے لئے بہت نرم دل ہیں اگر آپ تند خو سخت دل ہوتے تو یہ سب آپ کے اردگرد سے چھٹ جاتے۔“ لوگ (داعی کی) نرم خوئی، کشادہ دلی اور ان کے بارے میں اس سے انشراح صدر کی بناء پر قبول حق کے قریب آتے ہیں۔ طه
26 ﴿وَيَسِّرْ لِي أَمْرِي﴾ یعنی میرے لئے میرا ہر معاملہ اور اپنے راستے میں میری ہر منزل کو آسان کر دے، میرے سامنے جو مشکلات اور سختیاں ہیں ان کو نرم کر دے۔ معاملے کو آسان کرنا یہ ہے کہ داعی نہایت آسانی کے ساتھ تمام معاملات کو ان کے اپنے اپنے دائرے میں نمٹا سکے۔ ہر شخص سے اس کے مزاج کی مناسبت سے مخاطب ہو اور اسے اس طریقے سے دعوت دے جو قبول حق کے قریب تر ہو۔ طه
27 ﴿وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّن لِّسَانِي  يَفْقَهُوا قَوْلِي﴾ موسیٰ علیہ السلام کی زبان میں ثقل تھا جس کی وجہ سے ان کی بات مشکل سے سمجھ میں آتی تھی۔ جیسا کہ مفسرین کی رائے ہے اور جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اس بارے میں فرمایا : ﴿وَأَخِي هَارُونُ هُوَ أَفْصَحُ مِنِّي لِسَانًا ﴾ (القصص :28؍34) ”اور میرا بھائی ہارون، مجھ سے زیادہ فصیح اللسان ہے۔‘‘ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ وہ ان کی زبان کی گرہ کھول دے تاکہ لوگ ان کی بات کو سمجھ سکیں اور خطاب اور معانی کے بیان کا مقصد پورا ہوسکے۔ طه
28 طه
29 ﴿وَاجْعَل لِّي وَزِيرًا مِّنْ أَهْلِي ﴾ یعنی میرے گھر والوں میں سے میرا مددگار بنا دے جو میری مد کرے، جو میرا بوجھ بٹائے اور جن لوگوں کی طرف مجھے رسول بنا کر بھیجا جا رہا ہے ان کے مقابلے میں مجھے تقویت دے اور اللہ تعالیٰ سے یہ بھی دعا کی کہ یہ مددگار ان کے گھر والوں میں سے ہو اس لئے کہ یہ صلہ رحمی کا ایک طریقہ ہے۔ انسان کی نیکی کا سب سے زیادہ مستحق اس کا رشتہ دار ہوتا ہے۔ طه
30 پھر اپنی دعا میں اس مددگار کا تعین کرتے ہوئے فرمایا : ﴿هَارُونَ أَخِي اشْدُدْ بِهِ أَزْرِي﴾ یعنی مجھے میرے بھائی کے ذریعے قوت عطا کر، اور میری کمر کو مضبوط کر۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿سَنَشُدُّ عَضُدَكَ بِأَخِيكَ وَنَجْعَلُ لَكُمَا سُلْطَانًا﴾ (القصص :28؍35) ” ہم آپ کے بھائی کے ذریعے سے آپ کے ہاتھ مضبوط کریں گے اور آپ دونوں کو غلبہ دیں گے۔“ طه
31 طه
32 ﴿وَأَشْرِكْهُ فِي أَمْرِي ﴾ نبوت میں اسے میرا شریک بنا دے۔ یعنی اسے بھی نبی اور رسول بنا دے جس طرح مجھے بنایا ہے۔ طه
33 پھر اس کا فائدہ بیان کرتے ہوئے عرض کیا : ﴿ كَيْ نُسَبِّحَكَ كَثِيرًا وَنَذْكُرَكَ كَثِيرًا﴾ موسیٰ علیہ السلام کو معلوم تھا کہ تمام عبادات اور دین کا دار و مدار اللہ تعالیٰ کے ذکر پر ہے تو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ وہ ان کے ساتھ ان کے بھائی کو بھی نبوت عطا کردے، وہ نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے کی مدد کریں گے اور اس طرح اللہ تعالیٰ کا ذکر یعنی تسبیح و تہلیل اور عبادات کی دیگر انواع میں اضافہ ہوگا۔ طه
34 طه
35 ﴿إِنَّكَ كُنتَ بِنَا بَصِيرًا﴾ اے اللہ ! تو ہمارے حال، ہماری کمزوری اور ہمارے عجز کو جانتا ہے اور تو یہ بھی جانتا ہے کہ ہم ہر معاملے میں تیرے محتاج ہیں، تو ہمیں ہم سے زیادہ دیکھتا ہے اور ہم پر ہم سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔ پس ہم نے تجھ سے جو سوال کیا ہے وہ ہمیں عطا کر کے ہمیں ممنون فرما اور ہماری دعا قبول فرما۔ طه
36 اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ قَدْ أُوتِيتَ سُؤْلَكَ يَا مُوسَىٰ﴾ اے موسیٰ! جو کچھ تو نے مانگا ہے تجھ کو عطا کیا جاتا ہے، ہم تجھ کو انشراح صدر عطا کردیں گے، تیرے معاملے کو آسان کردیں گے، تیری زبان کی گرہ کھول دیں گے، لوگ تیری بات کو سمجھیں گے اور ہم تیرے بھائی ہارون کے ذریعے سے تیرے ہاتھ مضبوط کردیں گے۔ ﴿وَنَجْعَلُ لَكُمَا سُلْطَانًا فَلَا يَصِلُونَ إِلَيْكُمَا  بِآيَاتِنَا أَنتُمَا وَمَنِ اتَّبَعَكُمَا الْغَالِبُونَ﴾(القصص:28؍35) ” ہم تم دونوں کو غلبہ دیں گے اور وہ تمہاری نشانیوں کے سبب سے تم دونوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے، غلبہ تم دونوں اور تمہارے متبعین ہی کا ہوگا۔ “ موسیٰ علیہ السلام کا سوال اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ کی کامل معرفت حاصل تھی، آپ کمال درجے کے ذہین و فطین تھے اور تمام معاملات کی کامل معرفت رکھتے تھے اور کامل خیر خواہی سے بہرہ ور تھے، نیز یہ اس بات کی بھی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینے والا اور مخلوق کی راہنمائی کرنے والا۔۔۔ خاص طور پر جب اس داعی کے مخاطب اہل عناد، متکبر اور سرکش لوگ ہوں۔۔۔ کشادہ دلی، اذیتوں پر بردباری اور فصاحت، زبان، جس کے ذریعے سے وہ اپنے مقاصد اور ارادوں کی تعبیر پر قادر ہو، محتاج ہوتا ہے بلکہ اس مقام پر فائز شخص کے لئے فصاحت و بلاغت نہایت ضروری ملکہ ہے کیونکہ اسے کثرت سے بحث و تکرار کی ضرورت پیش آتی ہے، علاوہ ازیں یہ بھی اس کی ضرورت ہے کہ وہ حتی المقدور حق کو خوبصورت اور مزین کر کے پیش کرے تاکہ لوگوں کے دلوں میں اس کی محبت پیدا ہو اور باطل کی قباحت و شناعت کو اجاگر کرے تاکہ لوگ اس سے متنفر ہوں۔ اس کے ساتھ ساتھ داعی حق اس بات کا بھی محتاج ہے کہ اس کے معاملے میں آسانی پیدا ہو اور وہ اس کے لئے درست طریق کار اختیار کرے۔ حکمت، اچھی نصیحت اور بہترین طریق گفتگو کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کے راستے کی طرف دعوت دے اور لوگوں کے ساتھ ان کے حسب حال معاملہ کرے اور ان سب باتوں کی تکمیل یہ ہے کہ جو شخص یہ وصف رکھتا ہو اس کے کچھ اعوان و مددگار ہوں جو اس کے مقصد کے حصول میں اس کی مدد کریں کیونکہ جب آوازیں زیادہ ہوں گی تو وہ زیادہ اثر انداز ہوں گی، اسی لئے موسیٰ علیہ السلام نے ان امور کا سوال کیا تھا جو انہیں عطا کردیئے گئے۔ اگر آپ انبیاء کی حالت پر غور کریں گے، جن کو مخلوق کی طرف بھیجا گیا، تو ان کے احوال کے مطابق ان کو اسی حال میں پائیں گے۔ خاص طور پر افضل الانبیاء خاتم المرسلین جناب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو، جو ہر صفت کمال میں بلند ترین درجے پر فائز تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جس طرح شرح صدر، تیسیرا امر، فصاحت زبان، حسن تعبیر و بیان اور حق کی راہ میں اعوان و انصار یعنی صحابہ و تابعین اور ان کے بعد آنے والوں سے نوازا گیا، دوسرے انبیاء کو یہ خوبیاں اس انداز سے میسر نہیں آئیں۔ طه
37 اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ بیان کرنے کے بعد کہ اس نے اپنے بندے اور رسول حضرت موسیٰ علیہ السلام بن عمران کو دین، وحی، رسالت اور قبولیت دعا سے نوازا۔۔۔ اس نعمت کا ذکر فرمایا جو اس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ان کی پرورش اور ان کو ایک مرحلے سے دوسرے مرحلے میں منتقل کرتے وقت عطا کی تھی، چنانچہ فرمایا : ﴿ وَلَقَدْ مَنَنَّا عَلَيْكَ مَرَّةً أُخْرَىٰ﴾ ” اور ہم نے تجھ پر احسان کیا دوسری مرتبہ“ جب ہم نے تیری والدہ کی طرف الہام کیا کہ وہ تجھ کو رضاعت کے وقت، فرعون کے خوف سے، ایک صندوق میں ڈال دے، کیونکہ فرعون نے بنی اسرائیل کے بچوں کو ذبح کرنے کا حکم دے رکھا تھا، موسیٰ علیہ السلام کی والدہ نے آپ کو چھپا دیا، انہیں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں سخت خوف لاحق ہوا چنانچہ انہوں نے آپ کو ایک صندوق میں کھ کر دریائے نیل میں ڈال دیا۔ اللہ تعالیٰ نے دریا کو حکم دیا کہ وہ اس صندوق کو کنارے پر لگا دے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ مقدر کردیا کہ اس صندوق کو، اللہ تعالیٰ اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کا سب سے بڑا دشمن پکڑ لے اور اس کی اپنی اولاد کے ساتھ تربیت حاصل کرے اور جو کوئی اس کو دیکھے اس کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں۔ طه
38 طه
39 اسی لئے فرمایا : ﴿وَأَلْقَيْتُ عَلَيْكَ مَحَبَّةً مِّنِّي﴾ ” اور میں نے ڈال دی تجھ پر محبت اپنی طرف سے۔“ یعنی جو کوئی آپ کو دیکھتا محبت کرنے لگتا تھا۔ ﴿ وَلِتُصْنَعَ عَلَىٰ عَيْنِي﴾ یعنی تاکہ تو میری آنکھوں کے سامنے، میری حفاظت میں تربیت حاصل کرے اور رحیم و کریم اللہ کی سرپرستی سے بڑھ کر کس کی کفالت اور دیکھ بھال جلیل القدر اور کامل ہوسکتی ہے، جو اپنے بندے کو اس کے مصالح عطا کرنے اور ضرر رساں امور کو اس سے دور کرنے کی پوری قدرت رکھتا ہے؟ پس موسیٰ علیہ السلام ایک حال سے دوسرے حال میں منتقل ہوتے، تو اللہ ہی ان کی مصلحت کے مطابق ان کی تدبیر فرماتا اور یہ اللہ تعالیٰ کی حسن تدبیر ہی تھی کہ جب موسیٰ علیہ السلام دشمن کے قبضے میں چلے گئے تو ان کی والدہ سخت بے چین ہوگئیں اور ان کا دل رنجیدہ ہوگیا۔ اگر اللہ تعالیٰ نے ان کے دل کو مضبوط نہ کیا ہوتا تو قریب تھا کہ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا بھید کھول دیتیں۔ اس حالت میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام پر تمام دودھ پلانے والیوں کا دودھ حرام کردیا۔ انہوں نے کسی عورت کی چھاتی کو منہ نہ لگایا تاکہ معاملہ آخر کار ماں تک پہنچے اور ماں ان کو دودھ پلائے، بچہ ماں کے پاس رہے اور ماں مطمئن اور پرسکون ہو اور اس کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں۔ طه
40 فرعون کے کارندے دودھ پلانے کو ایک ایک کر کے بچے کے پاس لائے مگر اس نے کسی کی چھاتی کو قبول نہ کیا۔ موسیٰ علیہ السلام کی بہن آئی اور فرعون اور اس کے کارندوں سے کہنے لگی۔ ﴿هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَىٰ أَهْلِ بَيْتٍ يَكْفُلُونَهُ لَكُمْ وَهُمْ لَهُ نَاصِحُونَ﴾ (القصص :28؍12) ” کیا میں تمہیں ایسے گھرانے کے متعلق نہ بتاؤں جو اس کی کفالت کریں اور اس کی خیر خواہی بھی کریں؟“ چنانچہ اس طرح ہم نے موسیٰ علیہ السلام کو اس کی ماں کے پاس پہنچا دیا۔ ﴿فَرَجَعْنَاكَ إِلَىٰ أُمِّكَ كَيْ تَقَرَّ عَيْنُهَا وَلَا تَحْزَنَ ۚ وَقَتَلْتَ نَفْسًا﴾ ” پھر ہم نے تجھے تیری ماں کی طرف لوٹایا، تاکہ اس کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور وہ غم نہ کرے اور تو نے ایک جان کو قتل کردیا۔“ وہ مقتول قبطی تھا۔ ایک روز موسیٰ علیہ السلام ایسے وقت شہر میں داخل ہوئے جب شہر کے لوگ غفلت میں تھے۔ آپ نے دیکھا کہ وہ شخص آپس میں لڑر ہے ہیں ان میں ایک موسیٰ علیہ السلام کی قوم کا آدمی تھا اور دوسرا ان کی دشمن قوم یعنی قبطیوں سے تعلق رکھتا تھا۔ ﴿فَاسْتَغَاثَهُ الَّذِي مِن شِيعَتِهِ عَلَى الَّذِي مِنْ عَدُوِّهِ فَوَكَزَهُ مُوسَىٰ فَقَضَىٰ عَلَيْهِ ﴾ (القصص :28؍15) ” جو شخص ان کی قوم سے تھا اس نے اس شخص کے خلاف موسیٰ علیہ السلام کو مدد کے لئے پکارا جو اس کی دشمن قوم سے تھا، موسیٰ علیہ السلام نے اس کو ایک گھونسا مارا اور اس کا کام تمام کردیا۔“ اسی پر موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کی، اللہ تعالیٰ نے ان کو بخش دیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو معلوم ہوا کہ دربار کے لوگ ان کو تلاش کر رہے ہیں تاکہ ان کو قتل کردیا جائے تو وہاں سے فرار ہوگئے۔ ﴿ فَنَجَّيْنَاكَ مِنَ الْغَمِّ ﴾ ” پس ہم نے تجھ کو نجات دی غم سے“ یعنی گناہ کی سزا اور قتل سے ﴿وَفَتَنَّاكَ فُتُونًا ﴾ یعنی ہم نے تجھ کو آزمایا اور تجھ کو اپنے تمام احوال میں راست روپایا، یا ہم تجھ کو مختلف احوال و اطوار میں منتقل کرتے رہے یہاں تک کہ تو اپنے اس مقام کو پہنچ گیا جہاں تجھے پہنچناتھا۔ ﴿فَلَبِثْتَ سِنِينَ فِي أَهْلِ مَدْيَنَ﴾ ” پس تو اہل مدین میں کئی سال رہا۔“ یعنی جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرعون اور اس کے درباریوں نے قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تو موسیٰ علیہ السلام وہاں سے فرار ہو کر مدین پہنچ گئے اور وہاں انہوں نے نکاح کرلیا اور مدین میں آٹھ یا دس سال رہے۔ ﴿ ثُمَّ جِئْتَ عَلَىٰ قَدَرٍ يَا مُوسَىٰ ﴾ ” پھر تو آیا تقدیر کے مطابق اے موسیٰ!“ یعنی تو اس مقام پر اتفاقاً بغیر قصدوار اوہ بغیر ہماری تدبیر کے نہیں پہنچا بلکہ ہمارے لطف و کرم اور اندازے سے پہنچا ہے۔ طه
41 یہ آیات کریمہ دلالت کرتی ہیں کہ موسیٰ علیہ السلام کلیم اللہ پر اللہ تعالیٰ کی کامل نظر عنایت تھی۔ بناء بریں فرمایا:﴿وَاصْطَنَعْتُكَ لِنَفْسِي﴾ ” اور میں نے تجھ کو پسند کرلیا اپنی ذات کے لئے“ یعنی میں نے تجھ پر اپنی نعمتوں کا فیضان کیا اور تجھ کو اپنی خصوصی توجہ اور تربیت سے نوازا تاکہ تو میرا خاص محبوب بندہ بن جائے اور ایسے مقام پر فائز ہوجائے جہاں تک کوئی شاذ و نادر شخص ہی پہنچتا ہے۔ مخلوق میں جب ایک دوست دوسرے دوست کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ اس کا دوست اپنے کمال مطلوب میں بلند ترین مقام پر پہنچ جائے تو وہ اس کو اس مقام پہ پہنچانے کے لئے انتہائی کوشش اور جدوجہد کرتا ہے۔۔۔ جب مخلوق کا یہ حال ہے تو آپ کا رب قادر و کریم کے بارے میں کیا خیال ہے، کہ وہ مخلوق میں سے جس کو اپنا محبوب اور دوست بنانے کے لئے چن لے اس کے ساتھ کیا کرے گا؟ طه
42 اللہ تبارک و تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو دینی اور دنیاوی نعمتوں سے نوازنے کے بعد فرمایا : ﴿اذْهَبْ أَنتَ وَأَخُوكَ﴾ ” جا تو اور تیرا بھائی۔“ یعنی ہارون ﴿ بِآيَاتِي ﴾ ” میری نشانیوں کے ساتھ“ یعنی ان نشانیوں کے ساتھ جائیں جو حق کے حسن اور باطل کی قباحت پر دلالت کرتی ہیں، مثلاً یدبیضا اور عصا سمیت نو معجزات لے کر فرعون اور اس کی اشرافیہ کے پاس جائیں۔ ﴿وَلَا تَنِيَا فِي ذِكْرِي﴾ ” اور تم دونوں میرے ذکر میں سستی نہ کرو۔“ یعنی میرا ذکر ہمیشہ کرتے رہو اور اس کو دائمی طور پر قائم رکھتے ہوئے کسی سستی کا شکار نہ ہو، میرے ذکر کو لازم بناؤ جیسا کہ تم دونوں نے خود ان الفاظ میں وعدہ کیا ہے۔ ﴿كَيْ نُسَبِّحَكَ كَثِيرًا  وَنَذْكُرَكَ كَثِيرًا ﴾( طٰهٰ :20؍33‘34 ) اس لئے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ذکر تمام معاملات میں مدد و معونت فراہم کر کے ان کو سہل بناتا ہے اور ان معاملات کے بوجھ میں تخفیف کرتا ہے۔ طه
43 ﴿ اذْهَبَا إِلَىٰ فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغَىٰ﴾ ” تم دونوں فرعون کی طرف جاؤ، وہ سرکش ہوگیا ہے۔“ یعنی وہ کفر، سرکشی، ظلم اور تعدی کی تمام حدود پھلانگ گیا ہے۔ طه
44 ﴿فَقُولَا لَهُ قَوْلًا لَّيِّنًا﴾ لفظی آداب کا خیال رکھتے ہوئے، نرمی کے ساتھ نہایت سہل اور لطیف بات کیجیے، فحش گوئی، ڈینگیں مارنے، سخت الفاظ اور درشت افعال سے پرہیز کیجیے۔ ﴿لَّعَلَّهُ﴾ شاید وہ اس نرم گوئی کے سبب سے ﴿يَتَذَكَّرُ﴾ نصیحت پکڑے جو اس کو فائدہ دے اور وہ اس پر عمل کرنے لگے ﴿يَخْشَىٰ﴾ اور نقصان دہ چیز سے ڈرے اور اسے ترک کر دے کیونکہ نرم گوئی اس کی طرف دعوت دیتی ہے اور سخت گوئی لوگوں کو اس سے متنفر کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ” نرم گوئی“ کی اپنے ارشاد میں تفسیر بیان کی ہے۔ ﴿فَقُلْ هَل لَّكَ إِلَىٰ أَن تَزَكَّىٰ وَأَهْدِيَكَ إِلَىٰ رَبِّكَ فَتَخْشَیٰ﴾ (النزعت: 79؍18،19) ” اور اس سے کہئے کہ کیا تو چاہتا ہے کہ پاک ہوجائے اور میں تیرے رب کی طرف تیری راہنمائی کروں تاکہ تو اپنے رب سے ڈرنے لگے؟“ کیونکہ اس قول میں جو نرمی اور آسانی پنہاں ہے اور سختی اور درشتی سے جس طرح پاک ہے، غور کرنے والے پر مخفی نہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے (ھل) کا لفظ استعمال کیا ہے جو ”عرض“ اور ” مشاورت“ پر دلالت کرتا ہے جس سے کوئی شخص نفرت نہیں کرتا اور اسے ہر قسم کی گندگی سے تطہیر اور تزکیہ کی طرف بلایا ہے۔ جس کی اصل شرک کی گندگی سے تطہیر ہے جسے ہر عقل سلیم قبول کرتی ہے۔ آپ نے یہ نہیں فرمایا (اُزَكِّيكَ) ” میں تجھے پاک کروں“ بلکہ فرمایا :( تَزَكّٰى) یعنی ” تو خود پاک ہوجائے۔ “ پھر موسیٰ علیہ السلام نے اسے اس کے رب کی طرف بلایا جس نے اس کی پرورش کی اور اسے ظاہری اور باطنی نعمتوں سے نوازا جن پر شکر اور ذکر کرنا چاہئے۔ اس لئے فرمایا : ﴿وَأَهْدِيَكَ إِلَىٰ رَبِّكَ فَتَخْشَىٰ﴾ (النزٰعت:79؍19) ” اور تاکہ میں تیرے رب کی طرف تیری راہنمائی کروں تاکہ تو اپنے رب سے ڈرنے لگے۔“ جب فرعون نے اس کلام نرم و نازک کو قبول نہ کیا، جس کا حسن دلوں کو پکڑ لیتا ہے تو معلوم ہوا کہ اس کو وعظ و نصیحت کا کوئی فائدہ نہیں، تو اللہ تعالیٰ نے اسے اسی طرح پکڑ لیا جس طرح ایک غالب اور مقتدر ہستی پکڑتی ہے۔ طه
45 ﴿قَالَا رَبَّنَا إِنَّنَا نَخَافُ أَن يَفْرُطَ عَلَيْنَا﴾ ” دونوں نے کہا، اے ہمارے رب ! ہم اس بات سے ڈرتے ہیں کہ وہ ہم پر زیادتی کرے۔“ یعنی کہیں وہ ہمیں عقوبت میں نہ ڈال دے اور تیرا پیغام پہنچانے اور اس پر حجت قائم کرنے سے پہلے ہی کہیں ہمیں کسی تعذیب میں مبتلا نہ کر دے ﴿أَوْ أَن يَطْغَىٰ﴾ یا وہ حق کے خلاف تکبر سے اقتدار و سلطنت، اپنے اعوان اور اپنی افواج کی بنا پر سرکشی نہ دکھائے۔ طه
46 ﴿قَالَ لَا تَخَافَا ﴾ فرمایا، اس بات سے نہ ڈرو کہ وہ تم پر زیادتی کرے گا۔ ﴿ إِنَّنِي مَعَكُمَا أَسْمَعُ وَأَرَىٰ﴾ ” میں تم دونوں کے ساتھ ہوں، سنتا اور دیکھتا ہوں۔“ یعنی تم دونوں میری حفاظت اور نگرانی میں ہو، میں تمہاری بات کو سن رہا اور تمہارے تمام احوال کو دیکھ رہا ہوں اس لئے فرعون سے نہ ڈرو ! چنانچہ ان دونوں کے دلوں سے فرعون کا خوف زائل ہوگیا اور اپنے رب کے وعدے پر ان کا دل مطمئن ہوگیا۔ طه
47 تحقیق وحی کی گئی ہے ہماری طرف کہ بے شک عذاب ہے اس شخص پر جس نے تکذیب کی اور منہ پھیرا، یعنی ان دو باتوں کے ساتھ فرعون کے پاس جائیں۔ (1) فرعون کو اسلام کی دعوت دیں۔ (2) شرف کے حامل قبیلہ، بنی اسرائیل کو فرعون کی قید اور اس کی غلامی سے نجات دلائیں تاکہ وہ آزاد ہو کر اپنے معاملات کے بارے میں خود فیصلہ کریں اور موسیٰ ان پر اللہ تعالیٰ کی شریعت اور اس کے دین کو نافذ کریں۔ ﴿قَدْ جِئْنَاكَ بِآيَةٍ﴾ ” ہم تیرے پاس آئے ہیں نشانی لے کر۔“ جو ہماری صداقت پر دلالت کرتی ہے۔ ﴿ فَأَلْقَىٰ عَصَاهُ فَإِذَا هِيَ ثُعْبَانٌ مُّبِينٌ وَنَزَعَ يَدَهُ فَإِذَا هِيَ بَيْضَاءُ لِلنَّاظِرِينَ﴾(الاعراف:7؍108،107) ” موسیٰ نے اپنا عصا پھینکا اور یکایک وہ واضح طور پرسانپ بن گیا اور اس نے اپنا ہاتھ گریبان سے نکالا تو دیکھنے والوں کے سامنے سفید چمک رہا تھا۔“ ﴿ وَالسَّلَامُ عَلَىٰ مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَىٰ﴾ ” اور سلام ہے اس پر جس نے ہدایت کی پیروی کی۔“ یعنی جس نے صراط مستقیم کی پیروی کی اور شرع مبین سے راہ نمائی لی، اسے دنیا و آخرت کی سلامتی حاصل ہوگئی۔ طه
48 ﴿إِنَّا قَدْ أُوحِيَ إِلَيْنَا ﴾ ” ہماری طرف وحی کی گئی ہے۔“ یعنی ہم جو خبر دے رہے ہیں، اپنی طرف سے نہیں دے رہے بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے﴿أَنَّ الْعَذَابَ عَلَىٰ مَن كَذَّبَ وَتَوَلَّىٰ﴾ یعنی اس شخص کے لئے عذاب ہے جس نے اللہ اور انبیاء و رسل کی خبر کی تکذیب کی اور ان کی اطاعت سے منہ موڑا۔ اس میں فرعون کو ایمان و تصدیق اور دونوں نبیوں کی اطاعت و اتباع کی ترغیب دی گئی ہے اور اس کے متضاد امور سے ڈرایا گیا ہے۔ مگر اس کو کسی وعظ و نصیحت نے کوئی فائدہ نہ دیا اور اس نے اپنے رب کا انکار کردیا اور ظلم و عناد کی بنا پر اس بارے میں جھگڑا کیا۔ طه
49 یعنی فرعون نے موسیٰ سے انکار کے طور پر کہا : ﴿فَمَن رَّبُّكُمَا يَا مُوسَىٰ﴾ ” تم دونوں کا رب کون ہے اے موسی؟“ موسیٰ نے نہایت واضح اور کافی و شافی جواب دیا۔ طه
50 فرمایا : ﴿رَبُّنَا الَّذِي أَعْطَىٰ كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ٰ﴾ یعنی ہمارا رب وہ ہے جس نے تمام مخلوقات کو پیدا کیا اور ہر مخلوق کو اپنی حسن تخلیق، حسن صنعت اور اس کی ضرورت کے مطابق وجود عطا کیا، مثلاً کسی کو بڑا، کسی کو چھوٹا اور کسی کو متوسط جسم عطا کیا اور یہی حال تمام صفات کا ہے۔ ﴿ ثُمَّ هَدَىٰ﴾ ” پھر اس نے رہنمائی کی۔“ یعنی ہر مخلوق کو جس مقصد کے لئے پیدا کیا گیا ہے اس کی طرف اس نے اس کی راہنمائی کی۔ اس ہدایت کامل کا تمام مخلوقات میں مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ ہر مخلوق جس منفعت کے لئے تخلیق کی گئی ہے اس کے حصول اور مضرت کے دور کرنے کے لئے کوشاں رہتی ہے حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے جانوروں کو بھی عقل عطا کی جس کے ذریعے وہ ان امور کے حصول پر متمکن ہوتے ہیں اور یہ چیز اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے مطابق ہے۔ ﴿الَّذِي أَحْسَنَ كُلَّ شَيْءٍ خَلَقَهُ﴾ (السجدة:32؍7)” جس نے ہر چیز کو بہترین طریقے سے تخلیق کیا۔“ وہ ہستی جس نے تمام مخلوقات کو پیدا کیا اور انہیں ایسی بہترین تخلیق عطا کی کہ عقل انسانی اس سے زیادہ خوبصورت تخلیق پیش نہیں کرسکتی اور وہ ہستی جس نے تمام مخلوقات میں ان کے مصالح کی طرف راہنمائی ودیعت کی، وہی حقیقت میں رب کائنات ہے۔ اس رب کا انکار، سب سے بڑی چیز کے وجود کا انکار کرنا ہے اور یہ حقیقت کا انکار اور صریح جھوٹ ہے۔ اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ انسان نے بعض ایسے امور کا انکار کیا ہے جو یقینی طور پر معلوم ہیں تو ان کا رب کائنات کا انکار کرنا سب سے بڑا انکار ہے، اس لئے جب فرعون اس قطعی دلیل کا مقابلہ نہ کرسکا تو اصل مقصد سے ہٹ کر جھگڑنے پر اتر آیا ۔ طه
51 اور موسیٰ سے کہنے لگا : ﴿فَمَا بَالُ الْقُرُونِ الْأُولَىٰ﴾ یعنی پہلے زمانے کے لوگوں کا کیا معاملہ ہے اور ان کی کیا خبر اور کیا حال ہے؟ ان لوگوں نے تو ہم سے پہلے حق کا انکار کر کے کفر، ظلم اور عناد کا ارتکاب کیا، کیا وہ ہمارے لئے نمونہ ہیں؟ طه
52 موسیٰ نے فرمایا : ﴿ عِلْمُهَا عِندَ رَبِّي فِي كِتَابٍ  لَّا يَضِلُّ رَبِّي وَلَا يَنسَى﴾ یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کے اچھے برے تمام اعمال کو شمار کر کے اپنی کتاب، یعنی لوح محفوظ میں لکھ دیا ہے۔ علم و خبر کے اعتبار سے اس نے ان کا احاطہ کر رکھا ہے کوئی چیز اس کے شمار کرنے اور لکھنے سے چھوٹتی نہیں اور نہ کوئی چیز اس سے بھولتی ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ انہوں نے جو بھی اعمال آگے بھیجے ہیں قیامت کے روز انہیں ان اعمال کا سامنا کرنا ہوگا اور ان کو ان کے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا۔۔۔ اس لئے اے فرعون ان کے بارے میں تیرے اس سوال اور استفہام کا کوئی معنی نہیں۔ وہ ایک امت تھی جو گزر گئی ان کے اعمال ان کے لئے ہیں اور تم جو عمل کرو گے وہ تمہارے لئے ہے۔ اس لئے وہ دلیل جو ہم نے تیرے سامنے پیش کی ہے اور وہ نشانیاں جو ہم تجھے دکھا چکے ہیں، اگر تجھ پر ان کی صداقت متحقق ہوچکی ہے تو حق کے سامنے سرتسلیم خم کر دے۔ کفر، ظلم اور باطل کے ذریعے کثرت جدال کو چھوڑدے اور اگر تجھے اس بارے میں کوئی شک ہے اور تجھے اس پر یقین نہیں ہے تو بحث کا دروازہ کھلا ہوا ہے، دلیل کا جواب دلیل سے اور برہان کا جواب برہان سے ہونا چاہئے اور جب تک دن رات باقی ہیں تو کبھی بھی ایسا نہیں کرسکے گا اور یہ ہو بھی کیسے سکتا ہے حالانکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس کے بارے میں خبر دی ہے کہ اس نے ان آیات کا ان کی صداقت کا قائل ہونے کے بعد انکار کیا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ﴿وَجَحَدُوا بِهَا وَاسْتَيْقَنَتْهَا أَنفُسُهُمْ ظُلْمًا وَعُلُوًّا﴾ (النمل:27؍14) ” انہوں نے ان آیات کا، ان کا قائل ہونے کے بعد، ظلم اور تکبر کی بنا پر انکار کیا۔ “ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا : ﴿ لَقَدْ عَلِمْتَ مَا أَنزَلَ هَـٰؤُلَاءِ إِلَّا رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ بَصَائِرَ ﴾ (بنی اسرائیل:17؍102)” تجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ یہ بصیرت افروز نشانیاں آسمانوں اور زمین کے رب کے سوا کسی نے نازل نہیں کیں۔“ تب معلوم ہوا کہ فرعون اپنی بحث و جدال میں ظلم کا مرتکب ہوا اور اس کا مقصد زمین میں تغلب کا حصول تھا۔ طه
53 پھر موسیٰ نے اللہ تعالیٰ کی بہت سی نعمتوں اور احاسنات کا ذکر کر کے اس دلیل قاطع کو ان پر لازم کردیا، چنانچہ فرمایا : ﴿الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ مَهْدًا﴾ یعنی اس نے زمین کو تمہارے لئے بچھونا بنایا، تم اس سے سکون و قرار حاصل کرتے ہو، اس پر عمارتیں تعمیر کرتے ہو، باغات لگاتے ہو، زراعت کے لئے اس میں ہل چلاتے ہو اور ان تمام کاموں کے لئے زمین کو تمہارے لئے مسخر کردیا ہے اور وہ تمہارے لئے تمہارے فوائد اور مصالح فراہم کرنے سے انکار نہیں کرتی ﴿وَسَلَكَ لَكُمْ فِيهَا سُبُلًا ﴾ یعنی ایک جگہ سے دوسری جگہ، ایک ملک سے دوسرے ملک پہنچانے کے لئے تمہارے لئے زمین میں راستے بنائے یہاں تک کہ انسان تمام روئے زمین پر ہر جگہ آسانی سے پہنچنے پر قادر ہیں اور وہ اپنے گھروں میں قیام پذیر رہ کر جو فائدہ اٹھاتے ہیں اس کی نسبت اپنے سفروں میں زیادہ فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ﴿وَأَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجْنَا بِهِ أَزْوَاجًا مِّن نَّبَاتٍ شَتَّىٰ﴾ ” یعنی اللہ تعالیٰ نے بارش برسائی ﴿فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا﴾ (البقرۃ:2؍164)’’اور اس بارش سے زمین کے مردہ ہوجانے کے بعد اس کو زندہ کیا۔“ پھر اس بارش کے ذریعے سے مختلف انواع، مختلف اشکال اور مختلف احوال کے مطابق نباتات کی بہت سی اصناف پیدا کیں، پھر اس نباتات سے ہمارے لئے اور ہمارے مویشیوں کے لیے رزق فراہم کیا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو روئے زمین کے تمام انسان اور حیوان ہلاک ہوجاتے۔ طه
54 اس لئے فرمایا : ﴿كُلُوا وَارْعَوْا أَنْعَامَكُمْ ﴾ ” تم کھاؤ اور اپنے چو پاؤں کو چراؤ۔“ اللہ تعالیٰ نے احسان کے طور پر اس آیت کریمہ کو بیان فرمایا ہے تاکہ یہ اس بات کی دلیل ہو کہ تمام نباتات مباح ہیں اور ان میں سے کوئی چیز حرام نہیں سوائے ضرر رساں نباتات کے، مثلاً زہر وغیرہ ﴿إِنَّ فِي ذٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّأُولِي النُّهَىٰ﴾ یعنی اس میں پختہ عقل اور فکر راست رکھنے والوں کے لئے اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم، اس کے احسان، اس کی رحمت، اس کے بے پایاں جو دوسخا اور اس کی عنایات کامل کی نشانیاں ہیں اور یہ اس حقیقت پر دلیل ہیں کہ وہی رب معبود اور وہی مالک مسجود ہے جس کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں۔ حمد، مدح اور ثنا کا اس ہستی کے سوا کوئی مستحق نہیں جس نے یہ تمام نعمتیں عطا کی ہیں، نیز یہ اس امر پر بھی دلیل ہیں کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ پس اس نے جس طرح زمین کو اس کے مردہ ہوجانے کے بعد زندہ کیا اسی طرح وہ مردوں کو دوبارہ زندہ کرے گا۔ طه
55 اللہ تعالیٰ نے یہاں عقل مندوں کو خاص طور پر مخاطب کیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ عقل مند لوگ ہی ان نشانیوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور ان کو عبرت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ ان کے علاوہ دیگر لوگ بہائم اور چوپایوں کی مانند ہیں، وہ ان نشانیوں کو عبرت کی نظر سے نہیں دیکھتے اور نہ ان کی بصیرت کو ان نشانیوں کے مقاصد تک رسائی حاصل ہے بلکہ ان کے لئے ان نشانیوں میں اتنا ہی حصہ ہے جتنا بہائم (چوپایوں) کا ہے۔ وہ کھاتے ہیں، پیتے ہیں اور ان کے دل غافل اور جسم اعراض کرنے والے ہیں۔ ﴿وَكَأَيِّن مِّنْ آيَةٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ يَمُرُّونَ عَلَيْهَا وَهُمْ عَنْهَا مُعْرِضُونَ﴾ (یوسف:12؍105)” زمین اور آسمان میں کتنی ہی نشانیاں ہیں جن پر سے ان کا گزر ہوتا ہے مگر یہ ان سے منہ پھیر لیتے ہیں۔ “ جب اللہ تعالیٰ نے زمین کی نفاست و فیاضی اور اللہ تعالیٰ کے اس پر بارش براسنے کے سبب اس کے حسن شکر کا ذکر کیا نیز بیان فرمایا کہ زمین اپنے رب کے حکم سے مختلف اقاسم کی نباتات اگاتی ہے۔۔۔ تو اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ اس نے ہمیں زمین سے پیدا کیا، ہمارے مرنے کے بعد ہمیں زمین ہی کی طرف لوٹائے گا اور ہمیں زمین میں دفن کر دے گا اور ایک مرتبہ پھر وہ ہمیں زمین سے نکال کھڑا کرے گا۔ پس جس طرح وہ ہمیں عدم سے وجود میں لایا۔۔۔ اور یہ حقیقت ہمیں معلوم اور ہمارے سامنے متحقق ہے۔۔۔ اسی طرح ہمارے مرنے کے بعد ہمیں دوبارہ زندہ کرے گا اور پھر ہمیں ہمارے اعمال کی جزا دے گا اور مرنے کے بعد اعادہ حیات پر یہ دونوں دلیلیں واضح اور عقلی دلیلیں ہیں۔ 1۔ زمین کے مردہ ہوجانے کے بعد اس میں سے نباتات کو دوبارہ نکالنا۔ 2۔ مکلفین کو زمین میں سے نکال کر دوبارہ وجود میں لانا۔ طه
56 اللہ تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ اس نے فرعون کو عیانی، آفاقی اور نفسی تمام اقسام کی نشانیاں دکھائیں مگر وہ درست ہوا نہ کفر سے باز آیا بلکہ اس نے ان کو جھٹلایا اور روگردانی کی۔ اس نے رسول کی دی ہوئی خبر کی تکذیب کی، اللہ تعالیٰ کے امرو نہی سے اعراض کیا، اس نے حق کو باطل اور باطل کو حق بنایا اور لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے باطل دلائل کے ذریعے سے جھگڑا کیا۔ طه
57 پس اس نے موسیٰ سے کہا۔ ﴿ أَجِئْتَنَا لِتُخْرِجَنَا مِنْ أَرْضِنَا بِسِحْرِكَ﴾ ” کیا تو ہمارے پاس اس لئے آیا ہے کہ تو ہم کو ہمارے زمین سے نکال دے۔“ فرعون سمجھتا تھا کہ موسیٰ علیہ السلام نے جو معجزات دکھائے ہیں، وہ محض جادو کا کرشمہ اور شعبدہ بازی ہے اور ان کے پیچھے مقصد یہ ہے کہ فرعون کی قوم کو مصر کی سر زمین سے نکال کر خود قبضہ کیا جائے اور تاکہ موسیٰ کا کلام ان کی قوم کے دلوں کو متاثر کرے کیونکہ انسانی طبیعت اپنے وطن کی طرف مائل ہوتی ہے وطن سے نکلنا اور اس سے جدا ہونا اس کے لئے بہت مشکل ہوتا ہے۔ پس فرعون نے اپنی قوم کے لوگوں کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قصد سے آگاہ کیا تاکہ وہ ان کے خلاف ہوجائیں اور ان کے خلاف لڑائی پر آمادہ ہوجائیں۔ فرعون نے موسیٰ سے کہا کہ ہم بھی تمہارے جادو دکھا سکتے ہیں ہمیں کچھ مہلت دو۔ طه
58 ﴿مَوْعِدًا لَّا نُخْلِفُهُ نَحْنُ وَلَا أَنتَ مَكَانًا سُوًى﴾ اور طے کر دے کہ کب اور کہاں مقابلہ کرنا ہے یعنی اس کا ہمیں بھی علم ہو اور تمہیں بھی۔ یا کؤئی ہموار میدان ہو جہاں ان کر تبوں کا مشاہدہ ممکن ہو۔ طه
59 موسیٰ نے فرمایا : ﴿مَوْعِدُكُمْ يَوْمُ الزِّينَةِ﴾ ” زینت (جشن) کے دن کا تم سے وعدہ ہے۔“ یہ دن ان کی عید کا دن تھا۔ جس میں وہ اپنے کام کاج سے فارغ ہوتے تھے اور تمام مشاغل منقطع کردیتے تھے۔ ﴿وَأَن يُحْشَرَ النَّاسُ ضُحًى﴾ یعنی چاہشت کے وقت تمام لوگوں کو جمع کیا جائے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے یہ مطالبہ اس لئے کیا تھا کیونکہ ان کے جشن کا وقت دن چڑھے ہوتا تھا۔ اس جشن میں لوگ کثیر تعداد میں اکٹھے ہوتے تھے نیز اس وقت اشیاء کے حقائق کا صاف طور پر مشاہدہ ہوتا ہے جو کسی دوسرے وقت نہیں ہوسکتا۔ طه
60 ﴿فَتَوَلَّىٰ فِرْعَوْنُ فَجَمَعَ كَيْدَهُ ﴾ یعنی اس نے وہ تمام وسائل جمع کر لئے جن کے ذریعے سے وہ موسیٰ کے خلاف چال چل سکتا تھا۔ اس نے تمام شہروں میں اپنے ہر کارے دوڑا دیئے تاکہ وہ ماہر جادو گردوں کو اکٹھا کریں۔ اس زمانے میں جادو بہت عام تھا اور لوگ اس کا علم حاصل کرنے میں بہت رغبت رکھتے تھے۔ فرعون نے جادوگروں کا ایک جم غفیر اکٹھاکر لیا۔ دونوں گروہ مقررہ مقام پر آگئے اور لوگ اس مقام پر اکٹھے ہوگئے۔ اجتماع بہت بڑا تھا وہاں مرد، عورتیں، امراء، اشراف، عوام اور چھوٹے بڑے سب لوگ مقابلہ دیکھنے کے لئے جمع ہوگئے انہوں نے لوگوں کو ترغیب دے کر جمع کیا تھا۔ انہوں نے لوگوں سے کہا تھا : ﴿هَلْ أَنتُم مُّجْتَمِعُونَ - لَعَلَّنَا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ إِن كَانُوا هُمُ الْغَالِبِينَ ﴾ (الشعراء:26؍39،40)” کیا تم اجتماع میں اکٹھے ہو گے؟ تاکہ اگر جادو گر غالب رہے تو ہم ان کی پیروی کریں۔ “ طه
61 جب جادو گر تمام شہروں سے اکٹھے ہوگئے تو موسیٰ نے ان کو وعظ و نصیحت کی اور ان پر حجت قائم کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ وَيْلَكُمْ لَا تَفْتَرُوا عَلَى اللّٰـهِ كَذِبًا فَيُسْحِتَكُم بِعَذَابٍ ﴾باطل مسلک کی مدد کر کے حق پر غالب آنے کی کوشش نہ کرو اور نہ اللہ تعالیٰ پر افترا پردازی کرو ورنہ عذاب الٰہی تمہیں تباہ کر دے گا۔ تمہاری کوشش اور تمہاری بہتان طرازی ناکام ہوجائے گی اور تمہیں فتح و نصرت اور فرعون اور اس کے درباریوں کے ہاں کوئی عزت و جاہ حاصل نہیں ہوگی اور تم اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچ نہیں سکو گے۔ طه
62 کلام حق دلوں کو ضرور متاثر کرتا ہے۔ جب جادو گروں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بات سنی تو ان جادوگروں کے درمیان باہم نزاع اور جھگڑا برپا ہوگیا۔ ان کے درمیان نزاع کا سبب شاید یہ اشتباہ تھا کہ آیا موسیٰ حق پر ہیں یا نہیں؟ مگر اس وقت تک ان کے درمیان اس بارے میں کوئی فیصلہ نہ ہوسکا تھا۔۔۔ تاکہ اللہ تعالیٰ اس معاملے کو ظہور میں لے آئے جس کا وہ فیصلہ کرچکا ہے۔ ﴿لِّيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَن بَيِّنَةٍ وَيَحْيَىٰ مَنْ حَيَّ عَن بَيِّنَةٍ﴾ (الانفال:8؍42) ’’تاکہ جسے ہلاک ہونا ہے وہ دلیل کے ساتھ ہلاک ہو اور جسے زندہ رہنا ہے وہ دلیل کے ساتھ زندہ رہے۔“ اس وقت انہوں نے آپس میں سرگوشیاں شروع کردیں کہ وہ ایک موقف پر متفق ہوجائیں تاکہ اپنے قول و فعل میں کامیابی سے ہمکنار ہوں اور لوگ ان کے دین کی پیروی کریں۔ طه
63 وہ سرگوشی، جو وہ آپس میں کر رہے تھے، اس کی بابت اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ قَالُوا إِنْ هَـٰذَانِ لَسَاحِرَانِ يُرِيدَانِ أَن يُخْرِجَاكُم مِّنْ أَرْضِكُم بِسِحْرِهِمَا﴾ ” انہوں نے کہا، یہ دونوں جادوگر ہیں جو تمہیں اپنے جادو کے ذریعے سے تمہاری زمین سے نکالنا چاہتے ہیں۔ ان کا یہ قول فرعون کے قول کی مانند ہے جو گزشتہ سطور میں گزر چکا ہے۔ یا تو فرعون اور جادوگروں میں بغیر کسی قصد کے اس قول پر اتفاق ہوا یا فرعون نے ان جادو گروں کو اس قول کی تلقین کی جس کا اس نے لوگوں کے سامنے اظہار کیا تھا اور لوگوں سے کہلوایا تھا، چنانچہ جادوگروں نے فرعون کی بات پر اضافہ کرتے ہوئے کہا : ﴿وَيَذْهَبَا بِطَرِيقَتِكُمُ الْمُثْلَىٰ﴾ ” اور تمہارے بہترین طریقے کو ختم کردیں۔“ یعنی تمہارا جادو کا طریقہ جس پر موسیٰ تمہارے ساتھ حسد کرتا ہے اور تم پر غالب آنا چاہتا ہے تاکہ اسے فخر اور شہرت حاصل ہو اور اس علم کا مقصد بھی یہی ہے جس میں تم ایک زمانے سے مشغول ہو۔ موسیٰ چاہتا ہے کہ وہ تمہارے جادو کو ختم کر دے جو تمہارا ذریعہ معاش ہے، جس کی وجہ سے تمہیں ریاست ملی ہوئی ہے۔ یہ جادو گروں کی ایک دوسرے کو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر غالب آنے کے لئے ان کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کی ترغیب ہے۔ طه
64 اس لئے انہوں نے ایک دوسرے سے کہا : ﴿فَأَجْمِعُوا كَيْدَكُمْ﴾ ” پس تم اپنا داؤ اکٹھا کرو۔“ یعنی اپنی رائے اور بات پر متفق ہو کر، ایک دوسرے کی مدد کرتے ہوئے یکبارگی موسیٰ پر غلبہ حاصل کرلو ﴿ثُمَّ ائْتُوا صَفًّا﴾ ” پھر آؤ تم صف بندی کر کے۔“ تاکہ تم بہتر طریقے سے اپنا کام کرسکو اور دلوں میں تمہاری ہیبت بٹھ جائے اور تاکہ تم میں سے کوئی اس کام کو نہ چھوڑے جس کی وہ قدرت رکھتا ہے اور یاد رکھو ! جو آج کامیاب ہو کر اپنے مدمقابل پر غالب آگیا وہی فوز و فلاح کے مقام پر فائز ہے آج کی کامیابی پر مستقبل کی تمام کامیابیوں کا دار و مدار ہے۔ وہ اپنے باطل میں کتنے سخت تھے، حق کے خلاف سازشوں میں انہوں نے ہر قسم کا سبب اور وسیلہ استعمال کیا مگر اللہ تعالیٰ اپنی روشنی کو مکمل اور حق کو باطل پر غالب کر کے رہنے والا ہے۔ پس جب ان کی سازش مکمل ہوگئی اور ان کا قصد منحصر ہوگیا اور عمل کے سوا کچھ باقی نہ رہا۔ طه
65 ﴿قَالُوا يَا مُوسَىٰ إِمَّا أَن تُلْقِيَ﴾ ” انہوں نے کہا، اے موسیٰ یا تو تو پہلے ڈال“ یعنی اپنا عصا ﴿وَإِمَّا أَن نَّكُونَ أَوَّلَ مَنْ أَلْقَىٰ﴾ ” یا ہم پہلے ڈالنے والے بن جائیں۔“ انہوں نے یہ ظاہر کرتے ہوئے کہ وہ ہر حالت میں غالب آئیں گے، موسیٰ علیہ السلام کو ابتدا کرنے یا نہ کرنے کا اختیار دیا۔ طه
66 موسیٰ علیہ السلام نے ان سے کہا : ﴿ بَلْ أَلْقُوا﴾ ” بلکہ تم ہی ڈالو۔“ پس انہوں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں پھینکیں ﴿فَإِذَا حِبَالُهُمْ وَعِصِيُّهُمْ يُخَيَّلُ إِلَيْهِ﴾ ” یکایک ان کی رسیاں اور لاٹھیاں (حضرت)موسیٰ کو یوں محسوس ہوئیں“ ﴿مِن سِحْرِهِمْ﴾ ان کے بہت بڑے جادو کے زور سے ﴿أَنَّهَا تَسْعَىٰ﴾ ” کہ وہ دوڑ رہی ہیں۔ “ طه
67 جب موسیٰ کو رسیاں اور لاٹھیاں سانپ بن کر چلتی ہوئی محسوس ہوئیں ﴿ فَأَوْجَسَ فِي نَفْسِهِ خِيفَةً مُّوسَىٰ ﴾ تو موسیٰ اپنے دل میں ڈر گئے جیسا کہ طبیعت بشری کا تقاضا ہے، ورنہ حقیقت میں انہیں اللہ تعالیٰ کے وعدے اور اس کی نصرت کا پورا یقین تھا۔ طه
68 ﴿ قُلْنَا﴾ ان کو ثابت قدم اور مطمئن رکھنے کے لئے ہم نے کہا : ﴿ لَا تَخَفْ إِنَّكَ أَنتَ الْأَعْلَىٰ﴾ ” ڈر نہ، تو ہی غالب ہوگا“ یعنی تو ہی ان پر غالب رہے گا اور وہ ہارمان کر تیرے سامنے سرنگوں ہوجائیں گے۔ طه
69 ﴿وَأَلْقِ مَا فِي يَمِينِكَ﴾ یعنی اپنا عصا زمین پر پھینک دے ﴿تَلْقَفْ مَا صَنَعُواإِنَّمَا صَنَعُوا كَيْدُ سَاحِرٍ  وَلَا يُفْلِحُ السَّاحِرُ حَيْثُ أَتَىٰ﴾ ” وہ نگل جائے گا وہ جو کچھ انہوں نے کیا ہے۔ ان کا کیا ہوا، جادوگر کا کرتب ہے اور جادوگر جہاں سے بھی آئے، کامیاب نہیں ہوتا۔“ یعنی ان کی سازش اور ان کی چال ان کے لئے بار آور نہ ہوگی اور اس سے انہیں کوئی فائدہ حاصل نہ ہوگا کیونکہ یہ ان جادوگروں کا فریب اور شعبدہ بازی ہے جو لوگوں کو فریب دیتے ہیں۔ وہ باطل کا لبادہ اوڑھے ہوتے ہیں مگر ظاہر یہ کرتے ہیں کہ وہ حق پر ہیں۔ پس موسیٰ علیہ السلام نے اپنا عصا زمین پر ڈال دیا اور وہ ان جادوگروں کے بناوٹی سانپوں کو نگل گیا اور لوگ اس سارے کرشمے کو دیکھ رہے تھے۔ طه
70 تب جادوگروں کو یقینی طور پر معلوم ہو گیا کہ یہ جادو نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ معجزہ ہے پس وہ فوراً ایمان لے آئے۔ ﴿فَأُلْقِيَ السَّحَرَةُ سَاجِدِينَ  قَالُوا آمَنَّا بِرَبِّ الْعَالَمِينَ رَبِّ مُوسَىٰ وَهَارُونَ ﴾(الشعراء :26؍46،48) ” پس گر گئے جادو گر سجدے میں اور کہا ہم رب کائنات پر ایمان لے آئے جو ہارون اور موسیٰ کا رب ہے۔“ پس اس بھرے مجمع میں حق ظاہر اور روشن ہوگیا اور مکر و فریب اور جادو باطل ہوگیا اور یہ چیز اہل ایمان کے لئے ایک واضح دلیل اور رحمت بن گئی اور معاندین حق پر حجت قائم ہوگئی۔ طه
71 ﴿قَالَ ﴾ فرعون نے جادوگروں سے کہا : ﴿آمَنتُمْ لَهُ قَبْلَ أَنْ آذَنَ لَكُمْ﴾ یعنی مجھ سے پوچھے اور میری اجازت کے بغیر تم نے ایمان لانے کا اقدام کیسے کرلیا؟ چونکہ وہ اپنے ہر معاملے میں فرعون کے مطیع تھے اور اس کا نہایت ادب کرتے تھے، اس لئے فرعون کو ان کا ایمان لانابڑا عجیب اس لگا۔ اس کا خیال تھا کہ وہ اس معاملے میں بھی اس کی اطاعت کریں گے۔ اس دلیل اور برہان کو دیکھ لینے کے بعد فرعون اپنے کفر اور سرکشی میں بڑھتا ہی چلا گیا۔ یہ بات کہہ کر اس نے اپنی قوم کی عقل کو اپنی اس بات سے ماؤف کردیا اور یہ ظاہر کیا کہ موسیٰ علیہ السلام کو جادوگروں پر جو غلبہ حاصل ہوا ہے اس کی وجہ یہ نہیں کہ حق موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہے بلکہ یہ موسیٰ علیہ السلام اور جادوگروں کا گٹھ جوڑ ہے، انہوں نے فرعون اور اس کی قوم کو ان کی زمین سے باہر نکالنے کے لئے اسزش کی ہے۔ پس فرعون کی قوم نے مکرو فریب پر مبنی اس موقف کو سچ سمجھ کر قبول کرلیا۔ ﴿فَاسْتَخَفَّ قَوْمَهُ فَأَطَاعُوهُإِنَّهُمْ كَانُوا قَوْمًا فَاسِقِينَ﴾ (الزخرف :30؍73) ” اس نے اپنی قوم کی عقل کو ہلکا کردیا اور انہوں نے اس کی بات مان لی، بے شک وہ نافرمان لوگ تھے۔ “ فرعون کی یہ بات کسی آدمی کی سمجھ میں نہیں آسکتی جو رتی بھر عقل اور واقعہ کی معرفت رکھتا ہے۔ کیونکہ موسیٰ علیہ السلام جب مدین سے تشریف لائے تو وہ تنہا تھے جب وہ مصر پہنچے تو وہ کسی جادوگر سے نہیں ملے بلکہ وہ فرعون اور اس کی قوم کو دعوت دینے کے لئے جلدی سے اس کے پاس پہنچ گئے اور اسے معجزات دکھائے۔ فرعون نے موسیٰ علیہ السلام کے معجزات کا مقابلہ کرنے کا ارادہ کرلیا اور امکان بھر کوشش کی، چنانچہ ہر کارے بھیج کر تمام شہروں سے ماہر جادوگر اکٹھے کر لئے۔ اس نے جادوگروں سے وعدہ کیا کہ اگر وہ موسیٰ علیہ السلام پر غالب آگئے تو وہ انہیں بہت بڑا معاوضہ اور قدر و منزلت عطا کرے گا۔ چونکہ وہ بہت زیادہ لالچی تھے اس لئے انہوں نے موسیٰ علیہ السلام پر غلبہ حاصل کرنے کے لئے مکرو فریب کے ہتھکنڈے استعمال کئے۔ کیا اس صورتحال میں یہ تصور کرنا ممکن ہے کہ جادو گروں اور موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کے خلاف سازش کرلی ہو اور جو کچھ پیش آیا اس پر پہلے سے اتفاق کرلیا ہو۔ یہ محال ترین بات ہے۔ پھر فرعون نے جادوگروں کو دھمکی دیتے ہوئے کہا : ﴿فَلَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُم مِّنْ خِلَافٍ﴾ ” پس میں ضرور کاٹ دوں گا تمہارے ہاتھ اور تمہارے پیر الٹے سیدھے“ جیسے فساد برپا کرنے والے محاربین کے ساتھ کیا جاتا ہے کہ ان کا دایاں ہاتھ اور بایاں پاؤں کاٹ دیا جاتا ہے۔ ﴿وَلَأُصَلِّبَنَّكُمْ فِي جُذُوعِ النَّخْلِ﴾ یعنی تمہاری رسوائی اور اس کی تشہیر کی خاطر تمہیں کھجور کے تنوں پر سولی دے دوں گا۔ ﴿وَلَتَعْلَمُنَّ أَيُّنَا أَشَدُّ عَذَابًا وَأَبْقَىٰ﴾ ” اور تم جان لو گے کہ ہم میں سے کس کا عذاب زیادہ سخت اور پائیدار ہے۔“ یعنی فرعون اور اس کے گروہ کا یہ گمان تھا کہ فرعون کا عذاب اللہ تعالیٰ کے عذاب سے زیادہ سخت، حقائق کو بدلنے اور بے عقل لوگوں کو خوفزدہ کرنے کے لئے زیادہ دیرپا ہے، اس لئے جب جادوگروں نے حق کو پہچان لیا اور اللہ تعالیٰ نے ان کو عقل دے دی جس کی بنا پر انہوں نے حقائق کا ادراک کرلیا تو انہوں نے جواب دیا۔ ﴿لَن نُّؤْثِرَكَ عَلَىٰ مَا جَاءَنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ﴾ ” ہم ہرگز تجھ کو ترجیح نہیں دیں گے ان دلیلوں پر جو ہمارے پاس آئیں۔“ جو اس حقیقت پر دلالت کرتی ہیں کہ اللہ اکیلا ہی رب ہے، وہ اکیلا ہی معظم اور معزز ہے اور اس کے سوا (دوسرے تمام) معبود باطل ہیں۔ تجھے ہم اس ہستی پر ترجیح دیں جس نے ہمیں پیدا کیا؟ یہ نہیں ہوسکتا۔ ﴿فَاقْضِ مَا أَنتَ قَاضٍ﴾ ” پس تو جو کرسکتا ہے کرلے۔“ یعنی جن باتوں سے تو نے ہمیں ڈرایا ہے، ہاتھ پیر کاٹنے سے، سولی پر چڑھانے سے یا اور سخت سزا سے، وہ تو دے کر دیکھ لے۔ ﴿إِنَّمَا تَقْضِي هَـٰذِهِ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا﴾ تو ہمیں جس تعذیب کی دھمکی دیتا ہے اس کی غایت و انتہاء یہ ہے کہ تو صرف اس دنیا میں ہمیں عذاب دے سکتا ہے جو ختم ہوجانے والا ہے یہ عذاب ہمیں کوئی نقصان نہیں دے سکتا۔ اس کے برعکس اس شخص کے لئے اللہ تعالیٰ کا دائمی عذاب ہے جو اس کا انکار کرتا ہے۔ یہ گویا فرعون کے اس قول کا جواب ہے۔ ﴿وَلَتَعْلَمُنَّ أَيُّنَا أَشَدُّ عَذَابًا وَأَبْقَىٰ﴾ ”اگرتم جان لوگے کہ ہم میں سے کس کاعذاب زیادہ سخت اور پائیدار ہے ۔“یعنی فرعون اور اس کے گروہ کا یہ گمان تھا کہ فرعون کا عذاب اللہ تعالیٰ کےعذاب سے زیادہ سخت،حقائق کوبدلنے اور بےعقل لوگوں کوخوفزدہ کرنے کے لیے زیادہ دیرپا ہے۔ طه
72 اس لیے جب جادوگردوں نےحق کوپہچان لیا اور اللہ تعالیٰ نے ان کوعقل دےدی جس کی بناء پر انہوں نے حقائق کا ادراک کرلیا تو انہوں نے جواب دیا۔﴿ لَن نُّؤْثِرَكَ عَلَىٰ مَا جَاءَنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ﴾ ”ہم ہرگز تجھ کو ترجیح نہیں دیں گے ان دلیلوں پر جو ہمارے پاس آئیں۔“جواس حقیقت پردلالت کرتی ہیں کہ اللہ اکیلا ہی رب ہے، وہ اکیلا ہی معظم اور معززہےا ور اس کےسوا (دوسرےتمام )معبود باطل ہیں۔تجھے ہم اس ہستی پرترجیح دیں جس نے ہمیں پیدا کیا؟یہ نہیں ہوسکتا۔﴿ فَاقْضِ مَا أَنتَ قَاضٍ﴾ ”پس توجوکرسکتاہے کرلے۔“یعنی جن باتوں سےتونے ہمیں ڈرایا ہے،ہاتھ پیر کاٹنےسے،سولی پرچڑھانے سے اورسخت سزا سے، وہ تو دےکر دیکھ لے۔﴿إِنَّمَا تَقْضِي هَـٰذِهِ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا ﴾توہمیں جس تعذیب کی دھمکی دیتاہے ا س کی غایت وانتہاء یہ ہے کہ توصرف اس دنیا میں ہمیں عذاب دے سکتاہےجوختم ہوجانےو الا ہے یہ عذاب ہمیں کوئی نقصان نہیں دے سکتا۔ اس کےبرعکس اس شخص کےلیے اللہ تعالیٰ کا دائمی عذاب ہے جو اس کا انکارکرتاہے۔ یہ گویا فرعون کے اس قول کا جواب ہے﴿ وَلَتَعْلَمُنَّ أَيُّنَا أَشَدُّ عَذَابًا وَأَبْقَىٰ﴾ جادوگروں کے اس کلام میں اس بات کی دلیل ہے کہ عقل مند کے لئے مناسب ہے کہ وہ دنیا کی لذتوں اور آخرت کی لذتوں، دنیا کے عذاب اور آخرت کے عذاب کے مابین موازنہ کرے۔ طه
73 ﴿ إِنَّا آمَنَّا بِرَبِّنَا لِيَغْفِرَ لَنَا خَطَايَانَا﴾ ” ہم اپنے رب پر ایمان لائے تاکہ وہ ہماری خطائیں بخش دے۔“ یعنی ہمارے کفر اور ہمارے گناہوں کو اس لیے کہ ایمان برائیوں کا کفارہ ہے اور توبہ پچھلے گناہوں کو مٹا دیتی ہے ﴿وَمَا أَكْرَهْتَنَا عَلَيْهِ مِنَ السِّحْرِ ﴾ ” اور اس جادو کو بھی معاف کر دے جس پر تو نے ہمیں مجبور کیا۔“ یعنی وہ جس سے ہم نے حق کا مقابلہ کیا۔ جادو گروں کا یہ قول دلالت کرتا ہے کہ انہوں نے خود اختیاری سے جادو کا کام نہیں کیا تھا بلکہ فرعون نے ان کو ایسا کرنے پر مجبور کیا تھا۔ ظاہر ہوتا ہے، واللہ اعلم کہ جب موسیٰ علیہ السلام نے ان کو نصیحت کی جیسا کہ گزشتہ صفحات میں آپ کا یہ ارشاد گزر چکا ہے ﴿ وَيْلَكُمْ لَا تَفْتَرُوا عَلَى اللّٰـهِ كَذِبًا فَيُسْحِتَكُم بِعَذَابٍ﴾ (طٰهٰ: 20؍61) ” کم بختو ! اللہ پر بہتان طرازی نہ کرو، ورنہ وہ کسی عذاب کے ذریعے سے تمہاری جڑ کاٹ دے گا۔“ تو آپ کی نصیحت نے جادوگروں کو متاثر کیا اور ان کے دلوں میں جاگزین ہوگئی، اس لئے موسیٰ علیہ السلام کی نصیحت کے بعد ان کے درمیان اختلاف اور تنازع پیدا ہوا لیکن فرعون نے ان جادوگروں کو اس مکر و فریب پر عمل پیرا ہونے پر مجبور کردیا، اسی لیے نہوں نے جادو کے کرتب دکھانے سے پہلے فرعون کی بات دہرائی﴿إِنْ هَـٰذَانِ لَسَاحِرَانِ يُرِيدَانِ أَن يُخْرِجَاكُم مِّنْ أَرْضِكُم بِسِحْرِهِمَا﴾ یہ کہہ کہ وہ اپنے کام کی طرف متوجہ ہوگئے جس پر فرعون نے ان کو مجبور کیا تھا۔ شاید یہی نکتہ تھا کہ باطل کے ذریعے سے حق کی معارضت کی ناپسندیدگی ان کے دلوں میں جاگزیں ہوگئی تھی۔۔۔ انہوں نے جو کام سر انجام دیا وہ انہوں نے اغماض برتتے ہوئے سر انجام دیا۔۔۔ اسی نکتہ نے ان کے دلوں کو متاثر کیا، اس کے سبب سے اللہ تعالیٰ نے ان پر رحم فرمایا اور ان کو ایمان اور توبہ کی توفیق عطا فرمائی۔ انہوں نے کہا تو نے جو اجر و منزلت اور عزت و جاہ کا ہم سے وعدہ کیا ہے اس سے اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ ثواب بہتر ہے اور فرعون کے اس قول کی نسبت اللہ تعالیٰ کا ثواب اور احسان باقی رہنے والا ہے۔ ﴿وَلَتَعْلَمُنَّ أَيُّنَا أَشَدُّ عَذَابًا وَأَبْقَىٰ ﴾ فرعون کی مرادیہ تھی کہ اس کا عذاب زیادہ سخت اور باقی رہنے والا ہے۔ قرآن کریم میں جہاں کہیں فرعون کے ساتھ موسیٰ علیہ السلام کا ذکر آیا ہے۔ وہاں جادوگروں کے واقعے کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے کہ فرعون نے جادوگروں کے ہاتھ پاؤں کاٹنے اور سولی دینے کی دھمکی دی تھی مگر یہ ذکر نہیں فرمایا کہ اس نے اپنی اس دھمکی پر عمل کیا تھا اور نہ ہی کسی صحیح حدیث میں اس کی تصریح آئی ہے۔ اس دھمکی پر عمل ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں کوئی حتمی بات کہنا دلیل پر موقوف ہے (جو موجود نہیں) واللہ تعالیٰ اعلم مگر اس نے اپنے اقتدار کے بل بوتے پر ان کو جو دھمکی دی تھی، وہ اس پر عمل کی دلیل ہے۔ کیوں کہ اگر یہ واقعہ نہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ اس کا ذکر فرما دیتا۔ ناقلین کا اس پر اتفاق ہے۔ طه
74 اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ جو کوئی مجرم کی حیثیت سے اس کے حضور حاضر ہوتا ہے یعنی وہ ہر لحاظ سے مجرمانہ صفات سے متصف ہے جو کفر کو مستلزم ہے اور وہ مرتے دم تک اس پر جما رہتا ہے، اس کی سزا جہنم ہے، جس کا عذاب بہت ہی سخت، جس کی ہتھکڑیاں بہت بڑی، جس کی گہرائی بہت زیادہ اور جس کی گرمی اور سردی بہت المناک ہوگی اور جہنم میں اس کو ایسا عذاب دیا جائے گا جو دل و جگر کو پگھلا کر رکھ دے گا۔ جہنم کے عذاب کی ایسی شدت ہوگی کہ جس کو عذاب دیا جائے گا وہ اس عذاب میں مرے گا نہ جئے گا، نہ وہ مرے گا کہ اس کی جان چھوٹ جائے اور نہ وہ جئے گا کہ وہ اس زندگی سے لذت اٹھا سکے۔ اس کی زندگی قلبی، روحانی اور جسمانی عذاب سے لبریز ہوگی، جس کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا۔ یہ عذاب ایک گھڑی کے لئے بھی اس سے دور نہ ہوگا۔ وہ مدد کے لئے پکارے گا لیکن اس کی مدد نہ کی جائے گی اور وہ دعائیں کرے گا لیکن اس کی دعا قبول نہ ہوگی۔ ہاں ! جب وہ پانی مانگے گا تو اسے پینے کے لئے ایسا پانی دیا جائے گا جو تیل کی تلچھٹ کی مانند ہوگا جو چہروں کو بھون کر رکھ دے گا۔ جب وہ پکارے گا تو اس کو جواب دیا جائے گا۔ ﴿ اخْسَئُوا فِيهَا وَلَا تُكَلِّمُونِ﴾ (المومنون :23؍108) ” دفع ہوجاؤ اور اسی عذاب میں پڑے رہو اور میرے ساتھ کلام نہ کرو۔“ طه
75 اور جو کوئی اپنے رب پر ایمان رکھتے، اس کے رسولوں کی تصدیق کرتے اور اس کی کتابوں کی اتباع کرتے ہوئے، اس کے حضور حاضر ہوتا ہے﴿قَدْ عَمِلَ الصَّالِحَاتِ﴾ اور اس نے قرض اور مستحب اعمال بھی سر انجام دیئے ہوتے ہیں ﴿فَأُولَـٰئِكَ لَهُمُ الدَّرَجَاتُ الْعُلَىٰ﴾ ” تو ان کے لئے بڑے درجے ہوں گے۔“ یعنی ان لوگوں کے لئے آراستہ بالا خانوں میں عالیشان ضیافتیں ہوں گی، کبھی نہ ختم ہونے والی لذتیں، بہتی ہوئی نہریں، دائمی خلود اور ایسی عظیم مسرتیں ہوں گی جو کسی آنکھ نے دیکھی ہیں نہ کسی کان نے سنی ہیں اور نہ کسی کے تصور میں ان کا گزر ہوا ہے۔ طه
76 ﴿وَذٰلِكَ﴾ یعنی یہ ثواب ﴿جَزَاءُ مَن تَزَكَّىٰ ﴾ اس شخص کی جزا ہے جو شرک، کفر، فسق اور معصیت سے اپنے آپ کو پاک کرتا ہے۔ وہ یا تو ان مذکورہ گناہوں کا ارتکاب کرتا ہی نہیں یا اگر اس سے کسی گناہ کا ارتکاب ہوجاتا ہے تو وہ تو بہ کرلیتا ہے، نیز وہ اپنے نفس کو پاک کرتا ہے، ایمان اور عمل صالح کے ذریعے اس کی نشو و نما کرتا ہے۔ ” تزکیہ“ کے دو معنی ہیں۔ (1) صاف کرنا اور گندگی کو زائل کرنا۔ (2) بھلائی کے حصول میں اضافہ کرنا ۔ زکوٰۃ کو انہی دو امور کی بنا پر زکوۃ کہا جاتا ہے۔ طه
77 جب موسیٰ علیہ السلام معجزات کے ذریعے سے فرعون اور اس کی قوم پر غالب آگئے تو وہ مصر میں ٹھہر گئے اور فرعون اور قوم فرعون کو اسلام کی دعوت دینے لگے اور اس کے ساتھ ساتھ بنی اسرائیل کو فرعون کی غلامی اور اس کی تعذیب سے نجات دلانے میں کوشاں رہے۔ فرعون اپنی سرکشی اور روگردانی پر جما ہوا تھا اور بنی اسرائیل کے بارے میں اس کا معاملہ بہت سخت تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اسے وہ آیات و معجزات دکھائے جن کا قرآن میں ذکر فرمایا اور بنی اسرائیل اعلانیہ اپنے ایمان کے اظہار پر قادر نہیں تھے انہوں نے اپنے گھروں کو مسجد بنا رکھاتھا اور نہایت صبر و استقامت کے ساتھ وہ فرعون کی تعذیب اور اذیتوں کا سامنا کر رہے تھے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ارادہ فرمایا کہ وہ بنی اسرائیل کو اس کے دشمن کی غلامی سے رہائی دلا کر ایک ایسی سرزمین میں آباد کرے جہاں وہ علانیہ اس کی عبادت کریں اور اس کے دین کو قائم کریں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بنی موسیٰ علیہ السلام کے ذریعے سے حکم دیا کہ وہ خفیہ طور پر بنی اسرائیل کو مصر سے نکلنے کے منصوبے سے آگاہ کریں، رات کے ابتدائی حصے میں مصر سے نکل کرراتوں رات بہت دور نکل جائیں اور خبردار کردیا کہ فرعون اپنی قوم کے ساتھ ان کا تعاقب کرے گا، چنانچہ تمام بنی اسرائیل اپنے اہل و عیال سمیت، رات کے پہلے پہر، مصر سے نکل کھڑے ہوئے۔ جب صبح ہوئی تو مصریوں نے دیکھا کہ شہر میں (بنی اسرائیل میں سے) کوئی بلانے والا ہے، نہ جواب دینے والا تو ان کا دشمن فرعون سخت غضبناک ہوا۔ اس نے تمام شہروں میں ہر کارے بھجوا دیئے تاکہ وہ لوگوں کو اکٹھا کریں اور ان کو بنی اسرائیل کے تعاقب پر آمادہ کریں تو وہ ان کو پکڑ کر ان پر اپنا غصہ نکال سکے، لیکن اللہ تعالیٰ اپنے امر کو نافذ کرنے پر غالب ہے۔ پس فرعونی لشکر جمع ہوگیا تو وہ اسے لے کر بنی اسرائیل کے تعاقب میں روانہ ہوگیا ﴿ فَلَمَّا تَرَاءَى الْجَمْعَانِ قَالَ أَصْحَابُ مُوسَىٰ إِنَّا لَمُدْرَكُونَ﴾ (الشعراء:26؍61) ” جب دونوں گروہوں نے ایک دوسرے کو دیکھا تو (حضرت) موسیٰ علیہ السلام کے ساتھیوں نے کہا لو ہم پکڑے گئے“ ان پر خوف طاری ہوگیا، سمندر ان کے سامنے تھا اور فرعون (اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ) ان کے پیچھے تھا اور وہ غیض و غضب سے لبریز تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نہایت مطمئن اور پرسکون اور انہیں اپنے رب کے وعدے پر پورا بھروسہ تھا، چنانچہ انہوں نے کہا : ﴿كَلَّا إِنَّ مَعِيَ رَبِّي سَيَهْدِينِ﴾ (الشعراء:26؍62) ” ہرگز نہیں ! میرے ساتھ میرا رب ہے وہ مجھے ضرور کوئی راہ دکھائے گا۔‘‘ پس اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام علیہ السلام کی طرف وحی کی کہ وہ اپنا عصا سمندر پر ماریں۔ انہوں نے اپنا عصا سمندر پر مارا تو وہ پھٹ گیا اور اس میں بارہ راستے بن گئے اور پانی بلند پہاڑ کی مانند راستوں کے دائیں بائیں کھڑا ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان تمام راستوں کو خشک کردیا جن سے پانی دور ہٹ گیا۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو تسلی دیتے ہوئے حکم دیا کہ وہ فرعون سے ڈریں نہ سمندر میں غرق ہونے سے ڈریں۔ پس وہ سمندر میں بنے ہوئے راستوں پر چل پڑے۔ طه
78 فرعون اپنے لشکر کے ساتھ ساحل سمندر پر پہنچا تو وہ ان راستوں پر ان کے پیچھے سمندر میں گھس گیا۔ جب موسیٰ علیہ السلام علیہ السلام کی قوم مکمل طور پر سمندر سے باہر آگئی اور فرعون اور اس کا لشکر پورے کا پورا سمندر میں داخل ہوگیا تو اللہ تعالیٰ نے سمندر کو حکم دیا تو سمندر کی موجوں نے ان پر تھپیڑے مارنے شروع کردیئے (راستے کے دونوں طرف کی موجیں آپس میں مل گئیں) اور سمندر نے ان کو ڈھانپ لیا اور تمام لشکر ڈوب گیا اور ان میں سے ایک بھی نہ بچا، جبکہ بنی اسرائیل اپنے دشمنوں کو ڈوبتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی آنکھوں کے سامنے ان کے دشمن کو ہلاک کر کے ان کی آنکھوں کو ٹھنڈا کیا۔ طه
79 اور یہ کفر، ضلالت، بدراہی اور اللہ تعالیٰ کے راستے سے عدم اعتناء کا انجام ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَأَضَلَّ فِرْعَوْنُ قَوْمَهُ﴾ ” اور گمراہ کردیا فرعون نے اپنی قوم کو“ یعنی فرعون نے کفر کو مزین اور موسیٰ علیہ السلام کی دعوت کا استخفاف کر کے اور اس کو برا کہہ کر اپنی قوم کو گمراہ کیا اور کبھی بھی ان کو راہ راست نہ دکھائی۔ وہ انہیں گمراہی اور بدراہی کے گھاٹ پر لے گیا، پھر انہیں عذاب اور ہلاکت کے گڑھے میں دھکیل دیا۔ طه
80 اللہ تبارک و تعالیٰ بنی اسرائیل کو اپنا احسان عظیم یاد دلاتا ہے کہ اس نے ان کے دشمن کو ہلاک کیا اور کوہ طور کے دائیں جانب وعدہ کیا کہ وہ ان پر کتاب نازل کرے گا جس میں جلیل القدر احکام اور عالیشان خبریں ہیں۔ اس طرح دنیاوی نعمت کی تکمیل کے بعد دینی نعمت کی تکمیل ہوئی۔ مزید برآں اللہ تعالیٰ ان کو اپنا یہ احسان یاد دلاتا ہے کہ اس نے بے آب و گیا بیابان میں ان پر من و سلویٰ نازل کیا اور ان کو بافراط رزق سے نوازا جو انہیں بلا مشقت حاصل ہوتا تھا۔ طه
81 اور اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے فرمایا : ﴿كُلُوا مِن طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ نے جو نعمتیں تمہیں عطا کی ہیں، ان پر اس کا شکر ادا کرو۔ ﴿وَلَا تَطْغَوْا فِيهِ﴾ یعنی اس کے عطا کردہ رزق میں سر کشی نہ کرو کہ اسے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں استعمال کرنے لگو یا اس کی نعمت پر اترانے لگو۔ اگر تم نے ایسا کیا تو تم پر میرا غضب نازل ہوگا، یعنی میں تم سے ناراض ہوجاؤں گا اور تمہیں عذاب میں مبتلا کر دوں گا۔ ﴿وَمَن يَحْلِلْ عَلَيْهِ غَضَبِي فَقَدْ هَوَىٰ﴾ یعنی جس پر میرا غضب نازل ہوا وہ ہلاک اور خائب و خاسر ہوا کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور احسان سے محروم ہوگیا اور اس کی ناراضی اور خسارہ اس کے حصے میں آیا۔ بایں ہمہ بندے نے خواہ کتنا بڑا گناہ کیوں نہ کیا، اس کے لئے توبہ کا دروازہ ہر وقت کھلا ہے۔ طه
82 اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَإِنِّي لَغَفَّارٌ﴾ یعنی جو شخص کفر، بدعت اور فسق و فجور سے توبہ کر کے اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں اور قیامت کے دن پر ایمان لے آتا ہے اور قلب، بدن اور زبان کے ذریعے سے نیک عم کرتا ہے، تو میں بہت زیادہ بخشنے والا اور بے پایاں رحمت کا مالک ہیں ہوں۔ ﴿ ثُمَّ اهْتَدَىٰ ﴾ یعنی پھر وہ صراط مستقیم پر گامزن ہوا، رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع اور دین قیم کی پیروی کی۔ پس یہ وہ شخص ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے تمام گناہوں کو بخش دے گا۔ وہ اس کے گزشتہ گناہوں اور ان پر اس کے اصرار کو معاف کر دے گا کیونکہ وہ بخشش اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کے حصول کے لئے سب سے بڑا سبب لے کر اللہ تعالیٰ کی خدمت میں حاضر ہوا، بلکہ تمام اسباب انہی اشیاء پر منحصر ہیں، کیونکہ توبہ گزشتہ تمام گناہوں کو مٹا دیتی ہے۔ راہ ہدایت کی تمام طرف دعوت دینا، بدعت، کفرو ضلالت کا رد کرنا، جہاد اور ہجرت وغیرہ اور ہدایت کی دیگر جزئیات۔ یہ سب گناہوں کو مٹا دیتی ہیں اور منزل مطلوب کے حصول میں مدد دیتی ہیں۔ طه
83 اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام علیہ السلام کے لئے جگہ اور وقت مقرر کردیا تاکہ ان پر تیس دن میں تو رات نازل کر دے۔ پھر چالیس دن میں اس کا اتمام کیا۔ جب مدت مقرر پوری ہوئی تو موسیٰ علیہ السلام اپنے رب کی ملاقات کے شوق اور چاہت میں وعدے کے مطابق جلدی سے مقررہ مقام پر پہنچے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَمَا أَعْجَلَكَ عَن قَوْمِكَ يَا مُوسَىٰ﴾ یعنی کس چیز نے تجھ کو اپنی قوم سے پہلے آنے پر آمادہ کیا؟ تُو نے صبر کیوں نہ کیا یہاں تک کہ تو اپنی قوم کے ساتھ آتا۔ طه
84 موسیٰ علیہ السلام علیہ السلام نے غرض کیا : ﴿هُمْ أُولَاءِ عَلَىٰ أَثَرِي ﴾ وہ یہاں سے قریب ہی ہیں وہ عنقریب میرے پیچھے پہنچ جائیں گے اور جس چیز نے مجھے تیری جناب میں جلدی حاضر ہونے پر آمادہ کیا وہ ہے تیرے قرب کی طلب، تیری رضا کے حصول میں جلدی اور تیرا شوق۔ طه
85 اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿فَإِنَّا قَدْ فَتَنَّا قَوْمَكَ مِن بَعْدِكَ﴾ یعنی تیرے بعد تیری قوم کو بچھڑے کی پوجا کے ذریعے سے ہم نے آزمایا۔ پس انہوں نے صبر نہیں کیا اور جب ان کا امتحان ہوا تو انہوں نے کفر کا ارتکاب کیا۔﴿وَأَضَلَّهُمُ السَّامِرِيُّ﴾ ” اور سامری نے ان کو گمراہ کردیا“ ﴿فَأَخْرَجَ لَهُمْ عِجْلًا جَسَدًا﴾ وہ ان کے لئے ایک بچھڑے کا بت بنا لایا ﴿لَّهُ خُوَارٌ فَقَالُوا ﴾ اس میں سے بیل کی سی آواز نکلتی تھی۔ لوگ کہنے لگے ﴿هَـٰذَا إِلَـٰهُكُمْ وَإِلَـٰهُ مُوسَىٰ ﴾ ” یہ تمہارا اور موسیٰ کا معبود ہے“ جسے موسیٰ بھول گیا ہے۔ اسی طرح بنی اسرائیل فتنے میں مبتلا ہوگئے اور انہوں نے بچھڑے کو پوجنا شروع کردیا۔ حضرت ہارون علیہ السلام نے ان کو روکا مگر وہ بچھڑے کی عبادت سے باز نہ آئے۔ طه
86 جب موسیٰ علیہ السلام علیہ السلام اپنی قوم میں واپس آئے تو سخت ناراض ہوئے وہ تاسف اور غیض و غضب سے لبریز تھے انہوں نے اس فعل پر زجرو تو بیخ کرتے ہوئے فرمایا : ﴿يَا قَوْمِ أَلَمْ يَعِدْكُمْ رَبُّكُمْ وَعْدًا حَسَنًا ﴾ ” اے میری قوم ! کیا تم سے تمہارے رب نے ایک اچھا وعدہ کیا تھا؟“ اور یہ تورات نازل کرنے کا وعدہ تھا۔ ﴿أَفَطَالَ عَلَيْكُمُ الْعَهْدُ﴾ کیا وعدہ پورا ہونے میں دیر لگ گئی تھی اور میری عدم موجودگی طویل ہوگئی تھی، حالانکہ یہ تو بہت ہی تھوڑی سی مدت تھی۔ یہ بہت سے مفسرین کا قول ہے اور اس میں ایک دوسرے معنی کا احتمال بھی ہے، وہ یہ کہ کیا عہد نبوت اور تمہارے پاس کوئی خبر نہ پہنچی اور طول عہد کی بنا پر آثار نبوت محو ہوگئے تھے اور اسی طرح تم نے آثار رسالت اور علم کے معدوم ہونے اور غلبۂ جہالت کی وجہ سے غیر اللہ کی عبادت شروع کردی۔۔۔؟ مگر معاملہ یوں نہیں، بلکہ نبوت تمہارے درمیان موجود اور علم قائم ہے۔ اس لئے تمہارا یہ عذر قابل قبول نہیں۔ یا اس فعل کے ذریعے سے تمہارا ارادہ یہ تھا کہ تم پر تمہارے رب کا غضب نازل ہو، یعنی تم نے ایسے اسباب اختیار کئے جو اللہ تعالیٰ کے عذاب کے موجب ہیں اور حقیقت بھی یہی ہے۔ ﴿ فَأَخْلَفْتُم مَّوْعِدِي﴾ ” پس تم نے میرے وعدے کے خلاف کیا“ جب میں نے تمہیں استقامت کا حکم دیا اور ہارون علیہ السلام کو تمہارے بارے میں وصیت کی تو تم نے غائب کا انتظار کیا نہ موجود کا احترام کیا۔ طه
87 انہوں نے موسیٰ علیہ السلام علیہ السلام سے کہا کہ ان سے یہ کام جان بوجھ کر اور اپنے اختیار سے سرزد نہیں ہوا بلکہ اس کا سبب یہ تھا کہ ہم زیورات کے گناہ سے جو ہمارے پاس تھے، بچنا چاہتے تھے۔ اہل تفسیر ذکر کرتے ہیں کہ بنی اسرائیل نے مصر سے نکلنے سے پہلے قبطیوں سے زیورات وغیرہ مستعار لئے تھے۔ مصر سے نکلتے وقت وہ زیورات بھی ساتھ لے آئے۔ وہاں سے نکل کر انہوں نے وہ زیورات پھینک دیئے تھے جب موسیٰ علیہ السلام علیہ السلام چلے گئے تو انہوں نے وہ زیورات اکٹھے کر لئے تاکہ موسیٰ علیہ السلام کی واپسی پر اس بارے میں ان سے رجوع کریں۔ جس روز فرعون اپنے لشکر سمیت سمندر میں غرق ہوا اس روز سامری نے رسول کا نقش پا دیکھ لیا تھا، اس کے نفس نے اسے آمادہ کیا اور اس نے نقش پا سے خاک کی ایک مٹھی اٹھا لی اور اس خاک میں یہ تاثیر تھی کہ جب اسے کسی چیز پر ڈالا جاتا تو وہ زندہ ہوجاتی تھی۔۔۔ یہ امتحان اور آزمائش تھی۔ اس نے یہ خاک بچھڑے کے اس بت پر ڈال دی، جو اس نے گھڑا تھا۔ اس سے اس میں حرکت پیدا ہوگئی اور اس سے آواز بھی نکلتی تھی۔ طه
88 بنی اسرائیل نے کہا موسیٰ علیہ السلام اپنے رب کو تلاش کرنے گیا ہے اور وہ یہاں موجود ہے، موسیٰ علیہ السلام بھول گیا۔ یہ ان کی کم عقلی اور حماقت تھی کہ انہوں نے گائے کے بچھڑے کو جو ایک دھات کا بنا ہوا تھا جس میں آواز پیدا ہوگئی تھی۔۔۔ زمین اور آسمانوں کا الٰہ سمجھ لیا تھا۔ طه
89 ﴿أَفَلَا يَرَوْنَ﴾ ” کیا وہ نہیں دیکھتے“۔ کہ وہ بچھڑا ﴿أَلَّا يَرْجِعُ إِلَيْهِمْ قَوْلًا﴾ ان سے کلام کرسکتا ہے، نہ وہ ان کی بات کا جواب دے سکتا ہے نہ ان کو کوئی نفع دے سکتا ہے نہ نقصان؟ پس صرف وہی ہستی عبادت کی مستحق ہے جو کمال، کلام اور افعال کی مالک ہو اور ایسی ہستی عبادت کئے جانے کا استحاق نہیں رکھتی جو اپنے عبادات گزاروں سے بھی ناقص ہو، کیونکہ عبادت گزار تو کلام کرسکتے ہیں اور بعض معاملات میں اللہ تعالیٰ کی عطا کی ہوئی قدرت کے مطابق، نفع و نقصان کا اختیار بھی رکھتے ہیں۔ طه
90 یعنی بچھڑے کو معبود بنانے میں وہ معذور نہیں تھے۔ اگر وہ بچھڑے کی عبادت کے بارے میں کسی شبہ میں مبتلا ہوگئے تھے تو ہارون علیہ السلام نے ان کو بہت روکا تھا اور ان کو آگاہ کردیا تھا کہ یہ ان کی آزمائش ہے۔ ان کا رب تو رحمٰن ہے، جس کی طرف سے تمام ظاہری اور باطنی نعمتوں کا فیضان جاری ہے اور وہ تمام تکالیف کو دور کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم دیا ہے کہ وہ ہارون علیہ السلام کی اتباع کریں اور بچھڑے کو چھوڑ دیں، مگر انہوں نے ایسا نہ کیا۔ طه
91 اور کہنے لگے : ﴿لَن نَّبْرَحَ عَلَيْهِ عَاكِفِينَ حَتَّىٰ يَرْجِعَ إِلَيْنَا مُوسَىٰ﴾ ” موسیٰ علیہ السلام کے آنے تک ہم تو اسی کی عبادت و تعظیم میں لگے رہیں گے“اور موسیٰ علیہ السلام اپنے بھائی کو ملازمت کرتے ہوئے آئے۔ طه
92 اور کہنے لگے : ﴿ يَا هَارُونُ مَا مَنَعَكَ إِذْ رَأَيْتَهُمْ ضَلُّوا  أَلَّا تَتَّبِعَنِ ﴾ ” اے ہارون جب تو نے ان کو دیکھا کہ گمراہ ہوگئے ہیں، تو تجھے میرے پیچھے آنے سے کس چیز نے روک دیا؟“ کہ آ کر تو مجھے خبر کردینا تاکہ میں جلدی سے ان کی طرف لوٹ آیا۔ طه
93 ﴿أَفَعَصَيْتَ أَمْرِي ﴾ کیا تو نے میرے اس حکم کی نافرمانی کی ہے۔ ﴿ اخْلُفْنِي فِي قَوْمِي وَأَصْلِحْ وَلَا تَتَّبِعْ سَبِيلَ الْمُفْسِدِينَ﴾ (الاعراف:7؍146)” تو میری قوم میں میری جانشینی کر، معاملات کو درست کر اور اہل فساد کے راستے کی پیروی نہ کر“ طه
94 موسیٰ علیہ السلام نے حضرت ہارون علیہ السلام کو سر اور داڑھی سے پکڑا اور غصے میں اپنی طرف کھینچا۔ ہارون علیہ السلام نے کہا : ﴿يَا ابْنَ أُمَّ ﴾ ” اے میرے ماں جائے“ انہوں نے موسیٰ علیہ السلام سے رقت قلبی کی امید پر یہ فقرہ کہا تھا ورنہ حقیقت یہ ہے کہ موسیٰ علیہ السلام ماں اور باپ دونوں طرف سے ان کے بھائی تھے۔ ﴿ لَا تَأْخُذْ بِلِحْيَتِي وَلَا بِرَأْسِي  إِنِّي خَشِيتُ أَن تَقُولَ فَرَّقْتَ بَيْنَ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَلَمْ تَرْقُبْ قَوْلِي ﴾ ” آپ میری داڑھی اور سر نہ پکڑیں، میں تو اس بات سے ڈرا کہ کہیں آپ یہ نہ کہیں کہ تو نے بنی اسرائیل کے درمیان تفریق ڈال دی اور میری بات کا انتظار نہ کیا“کیونکہ آپ کا حکم تھا کہ مَیں ان میں آپ کی جانشینی کروں اگر میں آپ کے پیچھے چلا آتا تو مَیں اس چیز کو چھوڑ بیٹھتا جس کے التزام کا آپ نے حکم دیا تھا اور میں آپ کی ملامت سے ڈرتا۔ ﴿أَن تَقُولَ فَرَّقْتَ بَيْنَ بَنِي إِسْرَائِيلَ﴾ کہ کہیں آپ یہ نہ کہیں کہ کسی نگرانی کرنے والے اور کسی جانشین کے بغیر ان کو چھوڑ دیا اور اس سے ان میں تشتت و افتراق پیدا ہوگیا۔ اس لئے آپ مجھے ظالموں میں شریک نہ کریں اور نہ دشمنوں کو ہم پر ہنسنے کا موقع دیں۔ اس پر موسیٰ علیہ السلام کو بھائی کے ساتھ اپنے طرز عمل پر ندامت ہوئی کہ وہ اس سلوک کے مستحق نہ تھے، اس لئے دعا کی۔ ﴿رَبِّ اغْفِرْ لِي وَلِأَخِي وَأَدْخِلْنَا فِي رَحْمَتِكَ ۖ وَأَنتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ﴾(الاعراف:7؍151)۔” اے میرے رب ! مجھے اور میرے بھائی کو بخش اور ہمیں اپنی رحمت کے سایہ میں داخل کر، تو سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے“۔ پھر سامری کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا : طه
95 یعنی یہ جو تو نے سب کچھ کیا ہے یہ کیا معاملہ ہے؟ طه
96 سامری نے جواب دیا۔ ﴿بَصُرْتُ بِمَا لَمْ يَبْصُرُوا﴾ ” مَیں نے وہ چیزی دیکھی جو انہوں نے نہیں دیکھی“۔ یعنی وہ جبرائیل علیہ السلام تھے جن کو سامری نے سمندر سے باہر نکلتے اور فرعون کے اپنے لشکر ڈوبتے وقت گھوڑی پر سوار دیکھا۔ جیسا کہ مفسرین کی رائے ہے۔ یعنی میں نے گھوڑی کے سم کے نیچے سے خاک کی ایک مٹھی اٹھائی اور بچھڑے (کے بت) پر ڈال دی۔ ﴿وَكَذٰلِكَ سَوَّلَتْ لِي نَفْسِي ﴾ میرے نفس میں مجھے ایسے ہی سمجھایا تھا کہ مَیں (جبریل کے نقش پا سے) ایک مٹھی خاک لوں اور اسے اس بچھڑے پر ڈال دو اور اس طرح وہ کچھ ہوجائے جو ہوگیا۔ طه
97 پس موسیٰ علیہ السلام نے سامری سے کہا : ﴿فَاذْهَبْ﴾ مجھ سے دور ہوجا ﴿فَإِنَّ لَكَ فِي الْحَيَاةِ أَن تَقُولَ لَا مِسَاسَ﴾ یعنی تجھے زندگی میں ایسی سزا دی جائے گی کہ کوئی شخص تیرے قریب آئے گا نہ تجھے چھوئے گا۔ اگر کوئی شخص تیرے پاس آنا چاہے گا تو خود ہی پکار کر اسے کہہ دے گا ” مجھے مت چھونا، میرے قریب نہ آنا“ یہ تمہارے اس فعل کی سزا ہوگی۔۔۔ کیونکہ سامری نے اس چیز کو چھوا جسے کسی دوسرے نے نہیں چھوا اس نے وہ کچھ جاری کیا جو کسی اور نے جاری نہیں کیا۔ ﴿وَإِنَّ لَكَ مَوْعِدًا لَّن تُخْلَفَهُ﴾ ” اور تیرے لیے ایک وعدہ ہے جو ہرگز تجھ سے نہیں ملے گا“ پس اس وقت تجھے تیرے اچھے برے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا ﴿وَانظُرْ إِلَىٰ إِلَـٰهِكَ الَّذِي ظَلْتَ عَلَيْهِ عَاكِفًا﴾ ” اور دیکھ تو اپنے اس معبود کی طرف جس کی تو تعظیم و عبادت کرتا ہے“۔ اس سے مراد بچھڑا ہے ﴿لَّنُحَرِّقَنَّهُ ثُمَّ لَنَنسِفَنَّهُ فِي الْيَمِّ نَسْفًا﴾ ” ہم اسے جلا کر، اس کا ریزہ ریزہ اڑا دیں گے“۔ اور موسیٰ علیہ السلام نے ایسا ہی کیا۔ اگر وہ بچھڑا معبود ہوتا تو وہ ایذا دینے والے اور تلف کرنے والے سے بچ سکتا تھا۔ بنی اسرائیل کے دلوں میں بچھڑے کی محبت رچ بس گئی تھی، اس لئے موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کے سامنے اس کو تلف کرنے کا ارادہ کیا تاکہ وہ اس کو دوبارہ نہ بنا سکیں۔۔۔ اس کو جلانے اور اس کو ریزہ ریزہ کر کے سمندر میں بکھیرنے سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مقصد یہ تھا کہ جس طرح بچھڑا جسمانی طور پر ختم کردیا گیا ہے اسی طرح ان کے دلوں سے اس کی محبت بھی زائل ہوجائے، نیز اس کے باقی رکھنے میں نفوس کے لئے فتنے کا امکان تھا کیونکہ نفسوں کے اندر باطل کی طرف بڑا قوی داعیہ ہوتا ہے۔ جب ان کے سامنے اس خود ساختہ خدا کا بطلان واضح ہوگیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کو اس ہستی کے متعلق آگاہ فرمایا جو عبادت کی مستحق ہے، جو یکتا ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں، فرمایا : طه
98 یعنی اللہ کریم کے سوا کوئی معبود نہیں، صرف اسی کے ساتھ محبت کی جائے، اسی پر امیدیں رکھی جائیں، اسی سے ڈرا جائے اور اسی کو پکارا جائے۔ وہی کامل ہستی ہے جو اسماء حسنیٰ اور اوصاف عالیہ کی مالک ہے۔ اس کے علم نے تمام اشیاء کا احاطہ کر رکھا ہے۔ وہ ایسی ہستی ہے کہ بندوں پر جتنی بھی نعمتیں ہیں صرف اسی کی عطا کردہ ہیں۔ صرف وہی ہے جو تمام تکالیف کو دور کرتا ہے۔ اس کے سوا کوئی الٰہ اور اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ طه
99 اللہ تعالیٰ اپنے نبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اپنے احسان کا ذکر کرتا ہے کہ اس نے آپ کو گزرے ہوئے لوگوں کی خبروں سے آگاہ فرمایا ۔۔۔ مثلاً یہ عظیم واقعہ اور اس کے اندر مذکور تمام احکام، جن کا اہل کتاب میں سے کوئی شخص انکار نہیں کرسکتا۔ پس آپ نے گزری ہوئی قوموں کی تاریخ کا درس لیا ہے نہ کسی سے اس کا علم حاصل کیا ہے، لہٰذا آپ کا ان کے واقعات کے بارے میں حق الیقین کے ساتھ آگاہ کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کے رسول برحق ہیں اور آپ جو کچھ لے کر آئے ہیں وہ سب صداقت پر مبنی ہے۔ بناء بریں فرما : ﴿ وَقَدْ آتَيْنَاكَ مِن لَّدُنَّا ﴾ ” اور دیا ہم نے آپ کو اپنی طرف سے“۔ یعنی اپنی طرف سے نفیس عطیہ اور عظیم نوازش کے طور پر ﴿ذِكْرًا﴾ ” ایک ذکر“ اس سے مراد قرآن کریم ہے، جس میں تمام گزرے ہوئے اور آنے والے واقعات کی خبر دی گئی ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ کے کامل اسماء وصفات کا ذکر ہے اور اس میں احکام امرونہی اور احکام جزا کا تذکرہ ہے۔ یہ چیز دلالت کرتی ہے کہ قرآن کریم بہترین احکام پر مشتمل ہے۔ عقل اور فطرت سلیم ان احکام کے حسن و کمال کی گواہی دیتی ہیں اور قرآن کریم آگاہ کرتا ہے کہ ان احکام میں کیا کیا مصالح پنہاں ہیں، اس لئے جب قرآن کریم رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کی امت کے لئے تذکرہ ہے تب اس کو قبول کرنا، اس کے سامنے سر تسلیم خم کرنا، اس کی اطاعت کرنا، اس کی روشنی میں صراط مستقیم پر گامزن ہونا اور اس کی تعلیم و تعلم واجب ہے اس سے روگردانی کے ساتھ پیش آنا یا اس کے ساتھ ایسا سلوک کرنا جو اس سے بھی زیادہ عمومیت کا حامل ہو، جیسے اس کی باتوں کا انکار کرنا۔ تو یہ اس نعمت کی ناشکری ہے اور جو کوئی اس ناشکری کا ارتکاب کرتا ہے وہ سزا کا مستحق ہے۔ طه
100 اس لئے فرمایا : ﴿مَّنْ أَعْرَضَ عَنْهُ﴾ جس نے اس سے روگردانی کی اور اس پر ایمان نہ لایا یا اس کے اوامرو نواہی کو حقیر سمجھایا اس نے اس کے معانی کے تعلم کا تمسخر اڑایا تو یہ شخص ﴿فَإِنَّهُ يَحْمِلُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وِزْرًا﴾ قیامت کے روز اپنے گناہ کا بوجھ اٹھائے گا جس کے سبب سے اس نے قرآن سے روگردانی کی۔ سب سے بڑا گناہ تو کفر اور قرآن کو چھوڑنا ہے۔ طه
101 ﴿خَالِدِينَ فِيهِ﴾ یعنی وہ اپنے گناہ کے بوجھ اٹھانے کے عذاب میں ہمیشہ رہیں گے، کیونکہ (برے) اعمال ہی درحقیقت عذاب ہیں۔ یہ اعمال برصغیر یا کبیرہ ہونے کے مطابق، ارتکاب کرنے والوں کے عذاب میں بدل جاتے ہیں۔ ﴿ وَسَاءَ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حِمْلًا﴾ یعنی بہت برا بوجھ ہے جو وہ اٹھائیں گے اور بہت برا عذاب ہے جو انہیں قیامت کے روز بگھتنا ہوگا۔ پھر بات کو آگے بڑھاتے ہوئے قیامت کے دن کے احوال اور اس کی ہولناکیوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : طه
102 یعنی جب صور پھونکا جائے گا اور تمام لوگ اپنے اپنے حسب حال اپنی قبروں سے اٹھ کھڑے ہوں گے، اہل تقویٰ وفد کی صورت میں رحمٰن کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور مجرم اس حال میں اکٹھے کئے جائیں گے کہ خوف، غم اور سخت پیاس کے مارے ان کا رنگ نیلا پڑگیا ہوگا، تو وہ ایک دوسرے سے سرگوشیاں کریں گے اور نہایت پست آواز میں دنیا کی مدت کے کم ہونے اور آخرت کے جلد آجانے کے بارے میں ایک دوسرے سے گفتگو کریں گے۔ ان میں سے کچھ لوگ کہیں گے کہ تم لوگ بس دس دن دنیا میں رہے ہو اور بعض دوسرے لوگ کچھ اور کہیں گے۔ پست آواز میں وہ جو سرگوشیاں کر رہے ہوں گے اللہ انہیں جانتا ہوگا اور جو باتیں کر رہے ہوں گے وہ انہیں سنتا ہوگا۔ طه
103 طه
104 ﴿إِذْ يَقُولُ أَمْثَلُهُمْ طَرِيقَةً﴾ یعنی ان میں سے سب سے زیادہ معتدل اور اندازے کے سب سے زیادہ قریب شخص کہے گا : ﴿إِن لَّبِثْتُمْ إِلَّا يَوْمًا﴾ تم صرف ایک دن دنیا میں رہے ہو۔ اس سے ان کا مقصد بہت بڑی ندامت اور پشیمانی کا اظہار ہے کہ انہوں نے اوقات قصیرہ کیسے ضائع کردیے اور غفلت اور لہو و لعب میں ڈوب کر فائدہ مند اعمال سے اعراض کرتے ہوئے اور نقصان دہ اعمال میں پڑ کر ان اوقات کو گزار دیا۔ اب جزا کا وقت آگیا ہے اور اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہوا اور اب ندامت، ہلاکت اور موت کی دعا کے سوا کچھ باقی نہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿قَالَ كَمْ لَبِثْتُمْ فِي الْأَرْضِ عَدَدَ سِنِينَ  قَالُوا لَبِثْنَا يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ فَاسْأَلِ الْعَادِّينَ قَالَ إِن لَّبِثْتُمْ إِلَّا قَلِيلًا لَّوْ أَنَّكُمْ كُنتُمْ تَعْلَمُونَ﴾ (المؤمنون:23؍114،112) ” اللہ پوچھے گا تم زمین میں کتنے سال رہے ہو؟ وہ جواب دیں گے کہ ایک دن یا دن کا کچھ حصہ ٹھہرے ہیں، شمار کرنے والوں سے پوچھ لیجئے ! فرمایا تم زمین میں بہت تھوڑا ٹھہرے ہو، کاش تم نے اس وقت جانا ہوتا“۔ طه
105 اللہ تبارک و تعالیٰ قیامت کی ہولنا کیوں اور اس کے خوفناک زلزلوں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے﴿وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْجِبَالِ﴾ ” یعنی وہ آپ سے پوچھتے ہیں کہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ ان پہاڑوں کے ساتھ کیا کرے گا؟ کیا یہ پہاڑ اپنی حالت پر باقی رہیں گے؟ ﴿  فَقُلْ يَنسِفُهَا رَبِّي نَسْفًا﴾ یعنی اللہ تعالیٰ ان پہاڑوں کو ان کی جگہ سے اکھاڑ پھینکے گا اور یہ پہاڑ ایسے ہوجائیں گے جیسے دھنکی ہوئی اوان اور ریت پھر ان کو ریزہ ریزہ کر کے اڑتی ہوئی خاک میں تبدیل کر دے گا۔ پہاڑ فنا ہو کر ختم ہوجائیں گے اللہ تعالیٰ ان کو ہموار کر کے زمین کے برابر کر دے گا اور زمین کو ہموار چٹیل میدان بنا دے گا۔ زمین کے کامل طور پر ہموار ہونے کی بنا پر دیکھنے والے کو کوئی نشیب و فراز نظر نہیں آئے گا، یعنی وادیاں اور پست یا بلند مقامات نہیں ہوں گے۔ تمام زمین ہموار اور یکساں نظر آئے گی جو تمام مخلوقات کے لئے کشادہ ہوگی اور اللہ اس کو اس طرح بچھا دے گا جس طرح چمڑا بچھایا جاتا ہے۔ تمام مخلوق ایک جگہ کھڑی ہوگی پکارنے والے کی آواز ان کو سنائی دے گی اور دیکھنے والا ان کو دیکھ سکے گا۔ طه
106 طه
107 طه
108 اس لئے فرمایا : ﴿يَوْمَئِذٍ يَتَّبِعُونَ الدَّاعِيَ﴾ ” اس دن وہ پکارنے والے کے پیچھے لگیں گے۔ اور یہ اس وقت ہوگا جب وہ دوبارہ زندہ ہو کر قبروں سے کھڑے ہوں گے اور پکارنے والا ان کو اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہونے اور ایک جگہ جمع ہونے کے لئے پکارے گا تو وہ تیزی سے دوڑتے ہوئے اس کی طرف جائیں گے اور دائیں بائیں وہ اس سے نظر ہٹائیں گے نہ دائیں بائیں التفات کریں گے۔ فرمایا ﴿لَا عِوَجَ لَهُ﴾ یعنی پکارنے والے کی دعوت میں کوئی کجی نہ ہوگی بلکہ اس کی دعوت تمام خلائق کے لئے حق اور صدق پر مبنی ہوگی اور وہ پکار کر تمام خلائق تک اپنی آواز پہنچائے گا۔ تمام لوگ قیامت کے میدان میں حاضر ہوں گے اور رحمٰن کے سامنے ان کی آوازیں پست ہوں گی۔ ﴿فَلَا تَسْمَعُ إِلَّا هَمْسًا﴾ ” پس نہیں سنے گا تو سوائے کھسر پھسر کے۔“ یعنی فقط قدموں کی چاپ یا ہونٹوں کی حرکت سے پیدا ہونے والی پست آواز سنائی دے گی اور ان پر خشوع سکوت اور خاموشی طاری ہوگی اور رب رحمٰن کے فیصلے کے منتظر ہوں گے اور چہرے تذلل اور خضوع سے جھکے ہوئے ہوں گے تم اس عظیم مقام پر دیکھو گے کہ دولت مند اور فقراء مرد اور عورتیں آزاد اور غلام بادشاہ اور عوام سب نظریں نیچے کئے ساکت اور خاموش گھٹنوں کے بل گرے ہوئے اور گردنوں کو جھکائے ہوئے ہوں گے۔ کسی کو معلوم نہیں ہوگا کہ اس کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا۔ ہر شخص اپنے باپ بھائی اور دوست یار کو بھول کر صرف اپنے معاملے میں مشغول ہو گا﴿لِكُلِّ امْرِئٍ مِّنْهُمْ يَوْمَئِذٍ شَأْنٌ يُغْنِيهِ﴾ (عبس: 80؍38) ” اس روز ہر شخص ایک معاملے میں مصروف ہوگا جو اسے دوسروں کے بارے میں بے پروا کر دے گا۔ “ حاکم عادل اس بارے میں فیصلہ کرے گا، نیکوکار کو اس کی نیکی کی جزا دے گا اور بدگار کو محروم کرے گا۔ رب کریم اور رحمٰن و رحیم پر امید یہ ہے کہ تمام خلائق اس کے ایسے فضل و احسان، عفو و درگزر اور بخشش کو دیکھے گی زبان جس کی تعبیر سے قاصر اور فکر اس کے تصور سے بے بس ہے۔ تب تمام خلائق اس کی رحمت کی منتظر ہوگی مگر رحمت ان لوگوں کے لئے مختص ہوگی جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے۔ اگر یہ سوال کیا جائے کہ یہ امید آپ کیسے رکھ سکتے ہیں؟ دوسرے لفظوں میں کہا جاسکتا ہے کہ اس امید مذکور کا آپ کو کیسے علم ہوا؟ تو ہم اس کے جواب میں عرض کریں گے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اس کے غضب پر غالب ہے اس کی عنایات تمام مخلوقات پر عام ہیں۔ ہم اس دنیاوی زندگی میں مشاہدہ کرتے ہیں کہ ہمیں اور دیگر لوگوں کو لا محدود نعمتیں حاصل ہیں خاص طور پر روز قیامت کے متعلق اللہ کے یہ فرامین ﴿وَخَشَعَتِ الْأَصْوَاتُ لِلرَّحْمَـٰنِ﴾،﴿إِلَّا مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمَـٰنُ﴾ اور ﴿ الْمُلْكُ يَوْمَئِذٍ الْحَقُّ لِلرَّحْمَـٰنِ﴾ (الفرقان : 25؍26)” اس امر پر دلالت کرتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ اللہ کی رحمت کے سو حصے ہیں اس نے ایک حصہ اپنے بندوں کے لئے نازل فرمایا ہے، اس رحمت ہی کی بنا پر وہ ایک دوسرے کے ساتھ رحم اور عاطفت سے پیش آتے ہیں حتیٰ کہ ایک چو پائے کا پاؤں اگر اس کے بچے پر آجائے تو وہ اپنے پاؤں کو اٹھا لیتا ہے تاکہ وہ اس کو روند نہ ڈالے یہ اس رحم کی وجہ سے ہے جو اس چو پائے کے دل میں و دیعت کیا گیا ہے۔ جب قیامت کا روز ہوگا تو رحمت کا یہ حصہ بھی ننانوے حصے میں شامل ہوجائے گا۔ اور اللہ رحمت کے ان سو حصوں کے ساتھ اپنے بندوں پر رحم فرمائے گا۔‘‘ [صحيح البخاري، الادب، باب جعل الله الرحمة في مائة جزء، ح: 6000 و صحيح مسلم، التوبة، باب سعة رحمة الله تعاليٰ.....، ح: 2752] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :” ماں اپنی اولاد کے لئے جس قدر رحیم ہے اللہ اس سے کہیں زیادہ اپنے بندوں کے لیے رحیم ہے۔‘‘ [صحيح البخاري، الادب، باب رحمة الولد و تقبيله و معانقته، ح: 2752] اللہ تعالیٰ کی رحمت کے بارے میں آپ جو چاہیں کہیں وہ آپ کے اندازوں اور آپ کے تصور سے کہیں زیادہ ہے..... پس پاک ہے وہ ذات، جو اپنے عدل و انصاف اور سزا دینے میں اسی طرح رحیم ہے جس طرح وہ اپنے فضل و احسان اور ثواب عطا کرنے میں رحیم ہے۔ بلند و بالا ہے وہ ہستی جس کی رحمت ہر چیز پر سایہ کناں ہے اور جس کا فضل و کرم ہر زندہ مخلوق کو شامل ہے وہ اپنی بے نیازی کے باعث اپنے بندوں سے بالا و برتر اور ان پر نہایت رحم کرنے والا ہے۔ بندے اپنے تمام احوال میں ہمیشہ اس کے محتاج ہیں اور لمحہ بھر کے لئے اللہ تعالیٰ سے بے نیاز نہیں رہ سکتے۔ طه
109 فرمایا : ﴿ يَوْمَئِذٍ لَّا تَنفَعُ الشَّفَاعَةُ إِلَّا مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمَـٰنُ وَرَضِيَ لَهُ قَوْلًا﴾ ” یعنی اس کی اجازت کے بغیر کوئی شخص اس کے ہاں سفارش نہیں کرسکے گا اور وہ صرف اس شخص کے لئے سفارش کی اجازت دے گا جس کے لئے وہ راضی ہوگا‘‘ یعنی انبیاء و مرسلین اور مقرب بندوں کو صرف ان لوگوں کے لئے سفارش کی اجازت ہوگی جن کی باتوں کو اللہ کی رضا حاصل ہوگی اور وہ صرف مخلص مومن ہیں۔ اگر ان میں سے ایک شرط بھی معدوم ہوگی تو کسی کے لئے کسی کی سفارش قبول نہ ہوگی۔ (1) اپنے کفر کی وجہ سے اپنے آپ پر ظلم کرنے والے جنہیں نا کامی، حرماں نصیبی جہنم میں درد ناک عذاب، اور اللہ تعالیٰ کی سخت ناراضی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ طه
110 طه
111 طه
112 (2) وہ لوگ جو ان امور پر ایمان لائے جن پر ایمان لانے کے لئے ان کو حکم دیا گیا، نیک عمل کرتے رہے یعنی واجبات و مستحبات پر عمل پیرا رہے۔ ﴿فَلَا يَخَافُ ظُلْمًا﴾ ” پس اسے ظلم کا خوف نہیں ہوگا۔“ یعنی اس کی اصل بد اعمالیوں میں اضافہ نہیں کیا جائے گا ﴿وَلَا هَضْمًا ﴾ ”اور نہ حق تلفی کا۔“ یعنی نہ اس کی نیکیوں میں کمی کی جائے گی بلکہ اس کے گناہوں کو بخش دیا جائے گا اس کے عیوب کو پاک کردیا جائے گا اور اس کی نیکیوں میں کئی گنا اضافہ کردیا جائے گا۔ فرمایا ﴿ وَإِن تَكُ حَسَنَةً يُضَاعِفْهَا وَيُؤْتِ مِن لَّدُنْهُ أَجْرًا عَظِيمًا﴾ (النساء : 4؍40) ”اگر کوئی نیکی ہوگی تو وہ اسے دو گنا کردے گا اور اپنی طرف سے بہت بڑا اجر عطا کرے گا۔ “ طه
113 یعنی اسی طرح ہم نے اس کتاب کو فضیلت والی عربی زبان میں نازل کیا ہے جس کو تم خوب سمجھتے ہو اور اس میں کامل تفپہ رکھتے ہو اور اس کے الفاظ و معانی تم پر مخفی نہیں ہیں۔ ﴿ وَصَرَّفْنَا فِيهِ مِنَ الْوَعِيدِ﴾ یعنی اس کتاب میں ہم نے وعید کو بہت سی انواع کے ذریعے بیان کیا ہے۔ کبھی تو ان اسماء کے ذریعے سے بیان کیا ہے جو عدل و انتقام پر دلالت کرتے ہیں کبھی اس عبرت ناک عذاب کے ذکر کے ذریعے سے اس وعید کو بیان کیا جو گزشتہ قوموں پر نازل ہوا اور حکم دیا کہ آنے والی امتیں اس سے عبرت حاصل کریں اور کبھی گناہوں کے آثار اور ان سے پیدا ہونے والے عیوب کو بیان کر کے اس وعید کا ذکر کیا۔ کبھی قیامت کی ہولنا کیوں اور اس کے دل کو ہلا دینے والے مناظر کو بیان کر کے اس ووعید کا ذکر کیا۔ کبھی جہنم کے مناظر اور اس میں دئیے جانے والے مختلف انواع کے عذاب اور عقوبتوں کا ذکر کر کے اس وعید بیان کیا ہے۔ اور یہ سب اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں پر رحمت کی وجہ سے ہے شاید کہ وہ اللہ تعالیٰ سے ڈریں اور گناہوں اور معاصی کو چھوڑ دیں جن سے ان کو نقصان پہنچتا ہے ﴿أَوْ يُحْدِثُ لَهُمْ ذِكْرًا﴾ یا اللہ تعالیٰ ان کے لئے نصیحت پیدا کر دے اور یہ لوگ نیک عمل کرنے لگیں جو ان کو فائدہ دیں.... پس اس کتاب کا عربی زبان میں نازل ہونا اور وعید کا مختلف طریقوں سے بیان ہونا عمل صالح کا سب سے بڑا سبب اور سب سے بڑا داعی ہے۔ اگر یہ عظیم کتاب عربی زبان میں نہ ہوتی یا اس وعید کو مختلف انواع میں بیان نہ کیا گیا ہوتا تو اس میں یہ تاثیر نہ ہوتی۔ طه
114 جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے حکم جزائی ذکر کیا جس سے اس کے بندے دو چار ہوتے ہیں اور حکم دینی و امری بیان فرمایا جو اس کتاب کریم میں نازل کیا اور یہ اللہ تعالیٰ کی بادشاہی اور اقتدار کے آپ ثار ہیں تو فرمایا : ﴿فَتَعٰلَی اللّٰہُ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ ہر نقص اور آفت سے پاک بلند اور جلیل تر ہے ﴿ الْمَلِكُ ﴾ اقتدار حاکمیت جس کا وصف ہے اور تمام مخلوق اس کی مملوک (غلام) ہے۔ اس کی بادشاہی کےقدری و شرعی احکام تمام مخلوق پر نافذ ہیں ﴿الْحَقُّ﴾ یعنی اس کا وجود، اس کا اقتدار اور اس کا کمال سب حق ہے۔ پس صفات کمال کی مالک صرف ایسی ہستی ہوسکتی ہے جو ذی جلال ہو اور اس میں اقتدار بھی شامل ہے۔ بعض اوقات اس کے سوا مخلوق اس کے سوا مخلوق بھی محض اشیاء پر اقتدار اور اختیار رکھتی ہے مگر یہ اقتدار نقص اور باطل ہے جو زائل ہوجانے والا ہے۔۔۔ مگر رب تعالیٰ ہمیشہ کے لئے بادشاہ حقیقی جلال کا مالک اور قائم و دائم رہنے والا ہے۔ ﴿وَلَا تَعْجَلْ بِالْقُرْآنِ مِن قَبْلِ أَن يُقْضَىٰ إِلَيْكَ وَحْيُهُ﴾ یعنی جب جبریل آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے قرآن کی تلاوت کرتا ہے تو اس کو اخذ کرنے میں جلدی نہ کیجئے اس وقت تک صبر کیجئے جب تک کہ وہ تلاوت سے فارغ نہ ہوجائے۔ جب وہ تلاوت سے فارغ ہوجائے تب اس کو پڑھئے کیونکہ للہ تعالیٰ نے قرآن کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سینے میں جمع کرنے اور آپ کے اس کی قراءت کرنے کی ضمانت دی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿ لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ﴾ (القیٰمه : 75؍ 16۔ 19) ” جلدی سے وحی پڑھنے کے لئے اپنی زبان کو حرکت نہ دیا کیجئے اس کو جمع کرنا اور پڑھوانا ہماری ذمہ داری ہے اور جب ہم اس وحی کو پڑھیں تو آپ اسی طرح پڑھا کریں پھر اس کے معانی کی تبیین و توضیح ہمارے ذمہ ہے“۔ چونکہ وحی کو اخذ کرنے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عجلت دلالت کرتی ہے کہ آپ علم کے ساتھ کامل محبت رکھتے تھے اور اس کے حصول کے بے حد خواہش مند تھے اس لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا کہ وہ اپنے لئے از دیاد علم کی دعا کریں کیونکہ علم بھلائی ہے اور بھلائی کی کثرت مطلوب ہے اور یہ کثرت اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوتی ہے اور اس کے حصول کا راستہ کوشش شوق علم اللہ تعالیٰ سے سوال کرنا اس سے مدد مانگنا اور ہر وقت اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کا محتاج سمجھنا ہے۔ اس آیت کریمہ سے حصول علم کے آداب اخذ کئے جاتے ہیں۔ علم کی سماعت کرنے والے کے لئے مناسب ہے کہ صبر سے کام لے یہاں تک کہ املا کرانے والا اور معلم اپنے کلام سے فارغ ہوجائیں جو لگا تار اور مسلسل ہے۔ اگر ذہن میں کوئی سوال ہے تو وہ اس وقت کیا جائے جب معلم فارغ ہوجائے۔ معلم کی قطع کلامی اور سوال کرنے میں عجلت سے باز رہے کیونکہ یہ حرماں نصیبی کا سبب ہے۔ اسی طرح مسؤل کے لئے مناسب ہے کہ وہ سائل کے سوال کو لکھ لے اور جواب دینے سے قبل سائل کے مقصود کو اچھی طرح سمجھ لے کیونکہ یہ صحیح جواب کا سبب ہے۔ طه
115 یعنی ہم نے آدم علیہ السلام کو وصیت کی، اسے حکم دیا اور اس سے عہد لیا کہ وہ اس پر قائم رہے۔ اس نے اس وصیت کا التزام کیا اس کے سامنے سر تسلیم خم کیا اور اس کو قائم کرنے کا عزم کیا مگر اس کے باوجود وہ اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کی وصیت کو بھول گیا اور اس کا مضبوط عزم ٹوٹ گیا تب اس سے ایسی لغزش صادر ہوئی جسے سب جانتے ہیں۔ پس وہ اپنی اولاد کے لئے عبرت بن گیا اور اولاد آدم کی طبیعت اور فطرت آدم علیہ السلام کی طرح ہوگئی آدم علیہ السلام سے بھول ہوگئی اس کی اولاد بھی نسیان کا شکار ہوگئی آدم علیہ السلام سے خطا ہوئی اور اولاد بھی غلطی کا ارتکاب کرتی ہے۔ آدم علیہ السلام اپنے عزم پر قائم نہ رہ سکے اسی طرح اس کی اولاد اپنے عزم کو توڑ بیٹھتی ہے، آدم علیہ السلام نے اپنی خطا کا اعتراف اور اقرار کے کے فوراً توبہ کرلی اور اس کی خطا کو بخش دیا گیا، جو کوئی اپنے باپ کی مشابہت اختیار کرتا ہے اس پر ظلم نہیں کیا جاتا۔ پھر اس اجمال کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرمایا : طه
116 یعنی جب اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے آدم علیہ السلام کی تخلیق کو مکمل کیا انہیں اشیاء کے نام سکھائے انہیں فضیلت اور تکریم بخشی اور ان کے اکرام و تعظیم اور ان کی جلالت شان کو تسلیم کروانے کے لئے فرشتوں کو سجدہ کرنے کا حکم دیا اور فرشتے اس حکم کو مانتے ہوئے فوراً سجدہ ریز ہوگئے۔ ان فرشتوں کے اندر ابلیس بھی تھا اس نے تکبر کی وجہ سے اپنے رب کے حکم کو ماننے سے انکار کردیا اور آدم علیہ السلام کو سجدہ نہ کیا۔ اس نے کہا : ﴿قَالَ أَنَا خَيْرٌ مِّنْهُ خَلَقْتَنِي مِن نَّارٍ وَخَلَقْتَهُ مِن طِينٍ﴾ (الاعراف : 7؍12) ” مَیں اس سے بہتر ہوں تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اس کو مٹی سے۔‘‘ تب آدم علیہ السلام اور ان کی بیوی کے ساتھ حد کو پہنچی ہوئی اس کی عداوت ظاہر ہوئی۔ چونکہ شیطان اللہ تعالیٰ کا دشمن ہے اور اس کا وہ حسد بھی ظاہر ہوگیا جو اس عداوت کا سبب تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام اور ان کی بیوی کو اس سے چوکنا رہنے کا حکم دیا۔ طه
117 فرمایا : ﴿ فَلَا يُخْرِجَنَّكُمَا مِنَ الْجَنَّةِ فَتَشْقَىٰ﴾ اگر تمہیں جنت سے نکال دیا گیا تو تم بد نصیب ٹھہرو گے کیونکہ جنت میں تمہارے لئے لامحدود رزق اور راحت کامل ہے۔ طه
118 ﴿إِنَّ لَكَ أَلَّا تَجُوعَ فِيهَا وَلَا تَعْرَىٰ وَأَنَّكَ لَا تَظْمَأُ فِيهَا وَلَا تَضْحَىٰ ﴾یعنی وہاں تجھے سورج کی دھوپ نہیں لگے گی۔ وہاں دائمی طور پر مطعومات و مشروبات لباس اور پانی کی فراہمی تکان وغیرہ کی عدم موجودگی کی ضمانت ہوگی۔ البتہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک معین درخت کے قریب جانے سے روک دیا۔ فرمایا : ﴿وَلَا تَقْرَبَا هَـٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُونَا مِنَ الظَّالِمِينَ﴾ (البقرۃ: 2؍35) تم دونوں اس درخت کے قریب مت جانا ورنہ ظالموں میں ہوجاؤ گے“۔ طه
119 طه
120 شیطان ان دونوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالتا رہا اور ان کے سامنے اس درخت کے پھل کے کھانے کو مزین کرتا رہا، چنانچہ وہ ان سے کہتا : ﴿هَلْ أَدُلُّكَ عَلَىٰ شَجَرَةِ الْخُلْدِ﴾ یعنی جو کوئی اس کو کھائے گا وہ ہمیشہ جنت میں رہے گا۔ ﴿وَمُلْكٍ لَّا يَبْلَىٰ﴾ اور جب وہ اس درخت کا پھل کھا لے گا تو ایسی بادشاہت حاصل ہوگی جو کبھی منقطع نہ ہوگی۔ طه
121 شیطان آدم علیہ السلام کے پا س ایک ناصح کی صورت میں آیا بڑی نرمی اورحیلہ سازی کے ساتھ آدم علیہ السلام سے بات چیت کی ۔ آدم علیہ السلام اس کے فریب میں آگئے اور یوں آدم اور حواء علیہما السلام نے اس درخت کاپھل کھا لیا۔اس پر ان کوسخت ندامت ہوئی، ان کا لباس اترگیا اوران کی نافرمانی ان کے سامنے واضح ہوگئی ایک دوسرے کے سامنے ان کے ستر کھل گئے ،حالانکہ اس سے قبل وہ دونوں سترپوش تھے۔انہوں نے جنت کےدرختوں کےپتوں کے ذریعے سے اپنے آپ کو ڈھانپنا شروع کیا تاکہ اس طرح وہ ستر پوشی کرسکیں۔اس پر انہیں اس قدرخجالت ہوئی جسے اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے ۔ ﴿وَعَصَىٰ آدَمُ رَبَّهُ فَغَوَىٰ﴾”اورآدم نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور بہک گیا گیا۔“پس انہوں نے فوراً توبہ کی اور اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کیااورعرض کیا: ﴿ رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ ﴾(الاعراف :7؍23)”اے ہمارے رب !ہم نے اپنے آپ پرظلم کیا،اگرتوہمیں بخش نہ دے اور ہم پر رحم نہ کرے توہم خسارہ پانے والوں میں سےہوجائیں گے۔“ طه
122 پس حضرت آدم علیہ السلام کوان کے رب نے چن لیا اور ان کوتوبہ کی توفیق سےنوازا۔﴿فَتَابَ عَلَيْهِ وَهَدَىٰ﴾ اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول کرلی اور راہ راست کی طرف ان کی راہنمائی کی اور حضرت آدم علیہ السلام کا توبہ کےبعد کاحال توبہ سے پہلے کےحال سے بہتر تھا۔ دشمن کا مکروفریب اسی کی طرف پلٹ گیا اس کی چال الٹ گئی اورحضرت آدم علیہ السلام اور ان کی اولاد پراللہ تعالیٰ کی نعمت کا اتمام ہوگیا اور ان پر واجب ہوگیا کہ وہ اس کو قائم رکھیں اور ا س کا اعتراف کریں،نیز وہ اپنے دشمن سے بچتے رہیں جودن رات ان کی تاک میں رہتاہے۔ فرمایا: ﴿يَا بَنِي آدَمَ لَا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطَانُ كَمَا أَخْرَجَ أَبَوَيْكُم مِّنَ الْجَنَّةِ يَنزِعُ عَنْهُمَا لِبَاسَهُمَا لِيُرِيَهُمَا سَوْآتِهِمَا  إِنَّهُ يَرَاكُمْ هُوَ وَقَبِيلُهُ مِنْ حَيْثُ لَا تَرَوْنَهُمْ  إِنَّا جَعَلْنَا الشَّيَاطِينَ أَوْلِيَاءَ لِلَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ﴾ (الاعراف:7؍27) ”اے بنی آدم ! دیکھنا کہیں شیطان تمہیں فتنے میں مبتلا نہ کردے جیسے اس نے تمہارے ماں باپ کوجنت سے نکلوایا تھا۔ یعنی ان کا لباس اتروایا تاکہ ان کے سامنے ان کا ستر کھول دے ۔وہ اور اس کے بھائی بند تمہیں ایسی جگہ سے دیکھتے ہیں جہاں سے تم ان کونہیں دیکھ سکتے ہم نے شیطان کوان لوگوں کا دوست بنایاہے جو ایمان نہیں رکھتے۔“ طه
123 اللہ تبارک وتعالیٰ خبردیتاہے کہ اس نے آدم علیہ السلام اورابلیس کوحکم دیا کہ وہ زمین پراترجائیں ،آدم اور ان کی اولاد شیطان کو اپنادشمن سمجھیں اور ا س سے بچیں اس کا مقابلہ کرنےا ور جنگ کےلیے تیار رہیں ۔اللہ تعالیٰ ان پر کتابیں نازل کرے گا ان کی طرف رسول بھیجے گاجوان کےسامنے صراط مستقیم کوواضح کریں گے جوان کو اللہ تعالیٰ اور ا س کی جنت تک پہنچاتا ہے،نیز وہ ان کو ان کے دشمن سے متنبہ اور چوکنا کریں گے، لہٰذا ان کے پاس جس وقت بھی یہ ہدایت آجائے یعنی کتاب اور انبیاء المرسلین ۔۔۔پس اگر کسی نے اس کتاب کی اتباع کی، ان امور پرعمل کیاجن کا اس نے حکم دیااور ان امور سے اجتناب کیا جن سے اس نے منع کیاتوایسا شخص دنیا میں گمراہ ہوگا نہ آخرت میں اور نہ وہ دنیا وآخرت میں تکلیف میں پڑے گا بلکہ دونوں جہاں میں ان کی سیدھی راہ کی طرف راہنمائی کی جائے گی اور آخرت میں ان کوامن اور سعادت سے نوازاجائے گا۔ا یک اور آیت کریمہ میں واردہے کہ آخرت میں حزن وخوف ان سے دوررہےگا۔ ﴿ فَمَن تَبِعَ هُدَايَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ﴾(البقرۃ:2؍38)”پس جس کسی نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کےلیے کوئی خوف ہوگا نہ وہ غمزدہ ہوں گے۔“اور”ہدایت“کی پیروی یہ ہے کہ رسول کی دی ہوئی خبر کی تصدیق کی جائے،شبہات کےذریعے سے اس کے ساتھ معارضہ نہ کیاجائے،اس کےحکم کی اس طرح تعمیل کی جائے کہ کسی قسم کی خواہش اس کی معارض نہ ہو۔ طه
124 ﴿وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِكْرِي﴾یعنی جس کسی نے میری کتاب کریم سے اعراض کیا جس سے تمام مطالب عالیہ حاصل کیے جاتے ہیں اور اس سے روگردانی کرکے اس کوچھوڑدیا ،یا اس کے ساتھ اس سے بھی بڑھ کر برا سلوک کیا،یعنی اس کا انکار کرکے کفر کاارتکاب کیا﴿فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكًا﴾ یعنی اس کی سز ایہ ہوگی کہ ہم ا س کو معیشت کوتنگ اور نہایت پر مشقت بنادیں گے اور یہ معیشت اس کے لیے محض ایک عذاب ہوگی ۔ ”تنگ معیشت“کی تفسیر بیان کی جاتی ہے کہ ا س سے مراد عذاب قبر ہے،یعنی اس کے لیے اس کی قبر کوتنگ کردیاجائے گا وہ اس میں گھٹ کررہ جائے گا اور ا س کوعذاب دیاجائے گایہ اس بات کی سزاہے کہ اس نے اپنے رب کےذکر سے روگردانی کی تھی۔یہ ان آیات میں سے ایک آیت ہے جوعذاب قبرپردلالت کرتی ہیں۔ دوسری آیت کریمہ یہ ہے۔ ﴿وَلَوْ تَرَىٰ إِذِ الظَّالِمُونَ فِي غَمَرَاتِ الْمَوْتِ وَالْمَلَائِكَةُ بَاسِطُو أَيْدِيهِمْ أَخْرِجُوا أَنفُسَكُمُ ۖ الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُونِ بِمَا كُنتُمْ تَقُولُونَ عَلَى اللّٰـهِ غَيْرَ الْحَقِّ وَكُنتُمْ عَنْ آيَاتِهِ تَسْتَكْبِرُونَ﴾ (الانعام : 6؍93) ” کاش آپ ان ظالموں کو اس وقت دیکھیں، جب یہ موت کی سختیوں میں ہوں گے اور فرشتے ان کی طرف ہاتھ بڑھا رہے ہوں گے۔( اور کہہ رہے ہوں گے) نکالو اپنی جان آج تمہیں انتہائی رسوا کن عذاب کی سزا دی جائے گی اس کا سبب یہ ہے کہ تم اللہ پر جھوٹ باندھا کرتے تھے اور تم اس کی آیتوں کے ساتھ تکبر کیا کرتے تھے“۔ تیسری آیت کریمہ یہ ہے۔ ﴿وَلَنُذِيقَنَّهُم مِّنَ الْعَذَابِ الْأَدْنَىٰ دُونَ الْعَذَابِ الْأَكْبَرِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ﴾ (المسجدۃ: 32؍21) ” ہم ان کو قیامت کے بڑے عذاب سے کمتر عذاب کا مزا بھی چکھائیں گے، شاید کہ وہ لوٹ آئیں“۔ چوتھی آیت کریمہ یہ ہے ﴿النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَعَشِيًّا ۖ وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ﴾ (المومن : 40؍46) ” انہیں صبح و شام آگ کے عذاب کے سامنے پیش کیا جاتا ہے اور جس روز قیامت برپا ہوگی اس روز کہا جائے گا کہ آل فرعون کو شدید ترین عذاب میں داخل کردو“۔ جو چیز سلف میں سے بعض مفسرین کے لئے، اس آیت کریمہ کو عذاب قبر پر محمول کرنے اور صرف اسی پر اقتصار کرنے کی موجب بنی۔۔۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔۔۔ وہ ہے آیت کریمہ کا آخر۔ اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ کے آخر میں قیامت کے عذاب کا ذکر کیا ہے۔ اور بعض مفسرین کی رائے ہے کہ ” تنگ معیشت“ عام ہے یعنی اپنے رب کے ذکر سے روگردانی کرنے والوں پر دنیا میں غم و ہموم اور مصائب و آلام کے جو پہاڑ ٹوٹتے ہیں، وہ عذاب معجل ہے۔ برزخ میں بھی ان کو عذاب میں ڈالا جائے گا اور آخرت میں بھی عذاب میں داخل ہوں گے کیونکہ ” تنگ معیشت“ کو بغیر کسی قید کے مطلق طور پر بیان کیا گیا ہے۔ ﴿وَنَحْشُرُهُ﴾ ” اور اکٹھا کریں گے ہم اس کو“۔ یعنی اپنے رب کے ذکر سے اعراض کرنے والے اس شخص کو ﴿ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَىٰ﴾ قیامت کے روز اندھا اٹھائیں گے۔۔۔ اور صحیح تفسیر یہی ہے۔۔۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿وَنَحْشُرُهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَىٰ وُجُوهِهِمْ عُمْيًا وَبُكْمًا وَصُمًّا﴾ (بنی اسرائیل : 17؍97)” اور قیامت کے روزان لوگوں کو اندھے، گونگے اور بہرے ہونے کی حالت میں، اوندھے منہ اکٹھا کریں گے“۔ طه
125 وہ نہایت ذلت، الم اور اس حالت پر تنگ دلی کے ساتھ کہے گا: ﴿رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِي أَعْمَىٰ وَقَدْ كُنتُ بَصِيرًا﴾ ” اے میرے رب ! کس بنا پر میری یہ بری حالت ہے میں تو دنیا میں آنکھوں والا تھا؟“ طه
126 ﴿قَالَ كَذٰلِكَ أَتَتْكَ آيَاتُنَا فَنَسِيتَهَا﴾ ” اللہ کہے گا، اسی طرح تیرے پاس ہماری آیتیں آئی تھیں، تو تو نے ان کو بھلا دیا تھا“۔ یعنی تو نے روگردانی کے ذریعے سے ان کو فراموش کردیا۔ ﴿وَكَذٰلِكَ الْيَوْمَ تُنسَىٰ﴾ ” اور اسی طرح آج تجھے بھلا دیا جائے گا“۔ یعنی تجھے عذاب میں چھوڑ دیا جائے گا۔ پس جواب دیا گیا کہ یہ بعینہ تیرا عمل ہے کیونکہ جزا عمل ہی کی جنس سے ہوتی ہے۔ جس طرح تو نے اپنے رب کے ذکر کے بارے میں اندھے پن کا مظاہرہ کرکے اس سے منہ موڑا، اسے فراموش کیا اور اس میں سے اپنے حصے کو بھول گیا، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے تجھے آخرت میں اندھا کردیا ہے، تجھے اندھا بہرہ اور گونگا بنا کر جہنم کی طرف سے لے جایا گیا اور اللہ تعالیٰ نے تجھے جہنم میں جھونک کر تجھ سے منہ پھیر لیا۔ طه
127 ﴿وَكَذٰلِكَ﴾ یعنی یہ جزا ﴿نَجْزِي مَنْ أَسْرَفَ ﴾ اس شخص کے لئے ہے جس نے حدود سے تجاوز کیا اور جن امور کی اجازت دی گئی ہے ان سے آگے بڑھ کر محرمات کا مرتکب ہوا ﴿وَلَمْ يُؤْمِن بِآيَاتِ رَبِّهِ ﴾ اور جو اپنے رب کی آیتوں پر ایمان نہ لایا جو تمام مطالب ایمان پر واضح طور پر اور صراحت کے ساتھ دلالت کرتی ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے اس پر ہرگز ظلم نہیں کیا اور نہ غیر مستحق کو سزا دی ہے، بلکہ اس کا سبب تو صرف اس کا اسراف اور عدم ایمان ہے۔ ﴿وَلَعَذَابُ الْآخِرَةِ أَشَدُّ ﴾دنیا کے عذاب کے برعکس آخرت کا عذاب کئی گنا زیادہ سخت ہوگا۔ ﴿وَأَبْقَىٰ﴾ اور دنیا کے عذاب کے برعکس آخرت کا عذاب کبھی ختم نہ ہوگا، کیونکہ دنیا کا عذاب تو کبھی نہ کبھی منقطع ہوجاتا ہے۔ پس آخرت کے عذاب سے ڈرنا اور اس سے بچنا واجب ہے۔ طه
128 ان جھٹلانے والوں اور آیات الٰہی سے روگردانی کرنے والوں کو، اس عذاب نے راہ ہدایت پر گامزن ہونے، گمراہی اور فساد کی راہ سے اجتناب کرنے پر آمادہ نہیں کیا، جو گزشتہ قوموں اور ایک دوسرے کے پیچھے آنے والی امتوں پر نازل ہوا؟ یہ ان کے واقعات کو خوب جانتے ہیں، ان کے واقعات کو ایک دوسرے سے نقل کرتے چلے آرہے ہیں اور ان قوموں کے مسکن اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں، مثلاً ہود، صالح اور لوط علیہم السلام کی قوموں کے اجڑے ہوئے مسکن۔ انہوں نے جب ہمارے رسولوں کو جھٹلایا اور ہماری کتابوں سے روگردانی کی تو ہم نے ان پر دردناک عذاب نازل کردیا۔ کس چیز نے ان کو بے خوف کیا ہے کہ جو عذاب ان قوموں پر نازل ہوا تھا ان پر نازل نہیں ہوگا؟ ﴿أَكُفَّارُكُمْ خَيْرٌ مِّنْ أُولَـٰئِكُمْ أَمْ لَكُم بَرَاءَةٌ فِي الزُّبُرِ  أَمْ يَقُولُونَ نَحْنُ جَمِيعٌ مُّنتَصِرٌ ﴾ (القمر : 54؍43۔ 44) ” کیا تمہارے کفار ان گزرے ہوئے لوگوں سے بہتر ہیں یا تمہارے لئے (گزشتہ)کتابوں میں براءت لکھ دی گئی ہے یا وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم بڑے مضبوط ہیں“۔ یعنی ان میں سے کوئی چیز بھی ان پر صادق نہیں آتی۔ یہ کفار ان کافروں سے کسی لحاظ سے بھی بہتر نہیں کہ ان سے عذاب کو ٹال دیا جائے بلکہ یہ ان سے زیادہ شریر اور برے لوگ ہیں کیونکہ انہوں نے افضل ترین رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور بہترین کتاب کی تکذیب کی ہے اور نہ ان کے پاس کوئی تحریری براءت نامہ اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی عہد نامہ ہے۔۔۔ اور ایسا بھی نہیں ہوسکتا جیسا کہ وہ کہتے ہیں کہ ان کی قوم انہیں کوئی فائدہ دے گی اور ان سے عذاب کو دور کر دے گی، بلکہ اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ یہ ان سے زیادہ ذلیل اور ان سے زیادہ حقیر ہیں۔ پس گزشتہ قوموں کو ان کی کرتوتوں کی پاداش میں ہلاک کرنا، ہدایت کے اسباب میں سے ہے، کیونکہ یہ ان رسولوں کی رسالت کی، جو ان کے پاس آئے، صداقت کی اور ان قوموں کے موقف کے بطلان کی دلیل ہے، مگر ہر شخص آیات الٰہی سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا صرف وہی لوگ اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں جن کو عقل و دانش سے نوازا گیا ہے، یعنی عقل سلیم، فطرت مستقیم اور ذہن جو انسان کو ان امور سے روکتے ہیں جو اس کے لئے مناسب نہیں۔ طه
129 اس آیت کی تفسیر اگلی آیت کے ساتھ ملاحظہ کیجئے۔ طه
130 یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے تسلی اور صبرکی ترغیب ہے کہ وہ ان جھٹلانے اور روگردانی کرنے والوں کے لئے جلدی ہلاکت کی خواہش نہ کریں۔ ان کا کفر اور تکذیب، ان پر عذاب نازل ہونے کے لئے ایک معقول سبب ہے۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے سزاؤں کے لئے سبب مقرر کیا ہے جو گناہوں سے جنم لیتا ہے اور ان لوگوں نے نزول عذاب کے اسباب پیدا کردیئے ہیں مگر جس چیز نے اس عذاب کو موخر کر رکھا ہے وہ ہے اللہ تعالیٰ کا حکم جو مہلت دینے اور وقت مقرر کرنے کو متضمن ہے۔ وقت کا مقرر ہونا اور اللہ تعالیٰ کے حکم کا نفاذ، نزول عذاب کو اس وقت کے آنے تک کے لئے موخر کردیتا ہے۔ شاید کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی طرف رجوع کریں، اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول کرلے اور عذاب کو ان سے دور کر دے جب تک کہ اللہ کا کلمہ ان پر ثابت نہ ہوجائے۔ اس لئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم دیا کہ وہ ان کی قولی اذیتوں پر صبر کرے اور اس کے مقابلے میں ان اوقات فاضلہ میں رب کی تسبیح و تحمید سے مدد لے۔۔۔ یعنی طلوع آفتاب اور غروب آفتاب، دن کے کناروں پر، یعنی اس کے اوائل اور اواخر میں۔۔۔ یہ خصوص کے بعد عموم کا ذکر ہے۔۔۔ نیز رات کے اوقات اور اس کی گھڑیوں میں۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس پر عمل پیرا ہوئے تو شاید آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے رب کے عطا کردہ دنیاوی اور اخروی ثواب پر راضی ہوجائیں، آپ کو اطمینان قلب حاصل ہو، اپنے رب کی عبادت سے آپ آنکھیں ٹھنڈی کریں اور ان کی اذیت رسانی پر اس عبادت کے ذریعے سے دل کو تسلی ہو تب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے صبر بہت آسان ہوجائے گا۔ طه
131 یعنی دنیا اور اس کی متاع، مثلاً لذیذ ما کو لات و مشروبات، ملبوسات فاخرہ، آراستہ کئے ہوئے گھروں اور حسین و جمیل عورتوں سے حظ اٹھانے والوں کے احوال کو استحسان اور پسندیدگی کی نظر سے دوبارہ نہ دیکھیں، اس لئے کہ یہ سب کچھ دنیا کی خوبصورتی ہے اور اس سے صرف فریب خوردہ لوگ ہی خوش ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے روگردانی کرنے والوں کی نظریں ہی اسے پسندیدگی سے دیکھتی ہیں۔ آخرت سے قطع نظر کرکے، صرف ظالم لوگ ہی اس سے متمتع ہوتے ہیں۔ پھر یہ دنیا سب کی سب، تیزی سے گزر جاتی ہے، اپنے چاہنے والوں اور عشاق کو بے موت مار دیتی ہے۔ پس دنیا سے محبت کرنے والے لوگ اس وقت نادم ہوں گے جب ندامت کوئی فائدہ نہیں دے گی اور قیامت کے روز جب اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہوں گے تب انہیں اپنی بے مائیگی کا علم ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے تو اس دنیا کو فتنہ اور آزمائش بنایا ہے تاکہ معلوم ہو کہ کون اس کے پاس ٹھہرتا اور اس کے فریب میں مبتلا ہوتا ہے اور کون اچھے عمل کرتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿إِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَى الْأَرْضِ زِينَةً لَّهَا لِنَبْلُوَهُمْ أَيُّهُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا  وَإِنَّا لَجَاعِلُونَ مَا عَلَيْهَا صَعِيدًا جُرُزًا ﴾ (الکھف :18؍7۔ 8) ” جو کچھ زمین پر موجود ہے اس کو ہم نے زمین کی زینت بنایا ہے تاکہ ہم ان کو آزمائیں کہ ان میں سے کون اچھے کام کرتا ہے۔ پھر جو کچھ اس زمین پر ہے ہم سب کو ایک چٹیل میدان بنا دینے والے ہیں“۔ ﴿وَرِزْقُ رَبِّكَ﴾ ” اور تیرے رب کا رزق“ دنیاوی رزق یعنی علم، ایمان اور عمال صالحہ کے حقائق، اخروی رزق یعنی ہمیشہ رہنے والی نعمتیں اور رب رحیم کے جوار رحمت میں سلامتی سے بھرپور زندگی۔ ﴿خَيْرٌ﴾ اپنی ذات و صفات میں اس زندگی سے بہتر ہے جو ہم نے مختلف قسم کے لوگوں کو دے رکھی ہے ﴿ وَأَبْقَىٰ﴾ ” اور پائیدار ہے ” کیونکہ اس کے پھل کبھی ختم نہ ہوں گے اور اس کے سائے دائمی ہوں گے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿بَلْ تُؤْثِرُونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا  وَالْآخِرَةُ خَيْرٌ وَأَبْقَىٰ﴾ (الاعلٰی: 87؍16۔ 17) ” مگر تم دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو، حالانکہ آخرت کی زندگی بہتر اور ہمیشہ رہنے والی ہے“۔ اس آیت کریمہ میں اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ بندہ جب دیکھے کہ اس کا نفس سرکشی اختیار کرکے دنیا کی زیب و زینت کی طرف مائل اور متوجہ ہے تو وہ اپنے رب کے اس رزق کو یاد کرے جو آئندہ زندگی میں اسے عطا ہونے والاہے۔ پھر ان دونوں کے درمیان موازنہ کرے۔ طه
132 اپنے گھر والوں کو نماز کی ترغیب دیجئے، انہیں فرض اور نفل نماز پڑھنے کا حکم دیتے رہیے اور کسی چیز کا حکم دینا ان تمام امور کو شامل ہے جن کے بغیر كسی چیز کی تکمیل نہیں ہوتی۔ پس یہ حکم، اپنے گھر والوں کو نماز کے بارے میں ان امور کی تعلیم دینا ہے جو نماز کی اصلاح کرتے ہیں، جو نماز کو فاسد کرتے ہیں اور جو نماز کی تکمیل کرتے ہیں۔ ﴿وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا﴾ ” اور خود بھی اس پر جمے رہیے۔“ یعنی نماز پر، اس کی تمام حدود، اس کے ارکان، اس کے آداب اور اس کے خشوع و خضوع کے ساتھ۔ کیونکہ اس میں نفس کے لئے مشقت ہے۔ تاہم مناسب یہی ہے کہ دائمی طور پر نفس کو نماز پڑھنے پر مجبور اور اس کے ساتھ جہاد کرتے رہنا چاہیے اور اس پر صبر کرنا چاہیے کیونکہ بندۂ مومن جب اس طریقے سے نماز قائم کرتا ہے جس طریقے سے قیام کرنے کا اسے حکم دیا گیا ہے تو نماز کے علاوہ دیگر دین کی حفاظت کرنے اور اس کو قائم کرنے کی اس سے زیادہ توقع کی جاسکتی ہے۔ اگر وہ نماز کو ضائع کرتا ہے تو دیگر دین کو زیادہ برے طریقے سے ضائع کرے گا۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رزق کی ضمانت دی اور ترغیب دی کہ آپ اقامت دین کو چھوڑ کر حصول رزق میں مشغول نہ ہوں۔ چنانچہ فرمایا : ﴿نَّحْنُ نَرْزُقُكَ﴾ یعنی آپ کا رزق ہمارے ذمہ ہے ہم نے جس طرح تمام خلائق کے رزق کی کفالت اپنے ذمہ لی ہے اسی طرح آپ کے رزق کی کفالت بھی ہمارے ذمہ ہے۔ اس شخص کے رزق کی ذمہ داری ہم پر کیسے نہ ہو جو ہمارے حکم کی تعمیل کرتا ہے اور ہمارے ذکر میں مشغول رہتا ہے؟ اللہ تعالیٰ کا رزق متقی اور غیر متقی سب کے لئے عام ہے، اس لئے ان امور کا اہتمام کرنا چاہیے جن پر ابدی سعادت کا دارومدار ہے اور وہ ہے تقویٰ، لہٰذا فرمایا : ﴿وَالْعَاقِبَةُ﴾ یعنی دنیا و آخرت کا انجام ﴿لِلتَّقْوَىٰ ﴾ تقویٰ کے لئے ہے اور تقویٰ سے مراد ہے مامورات کی تعمیل اور منہیات سے اجتناب اور جو کوئی ان کو قائم کرتا ہے، انجام اسی کا اچھا ہے جیسا کہ فرمایا : ﴿ وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ﴾ (الاعراف : 7؍128) ” اور اچھا انجام متقین کا ہے“۔ طه
133 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تکذیب کرنے والے آپ سے کہتے ہیں کہ آپ کے رب کی طرف سے ہمارے پاس کوئی نشانی کیوں نہیں آتی؟ نشانی سے ان کی مراد معجزات ہیں۔ یہ بات ان کے اس قول کی مانند ہے ﴿وَقَالُوا لَن نُّؤْمِنَ لَكَ حَتَّىٰ تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الْأَرْضِ يَنبُوعًا أَوْ تَكُونَ لَكَ جَنَّةٌ مِّن نَّخِيلٍ وَعِنَبٍ فَتُفَجِّرَ الْأَنْهَارَ خِلَالَهَا تَفْجِيرًا أَوْ تُسْقِطَ السَّمَاءَ كَمَا زَعَمْتَ عَلَيْنَا كِسَفًا أَوْ تَأْتِيَ بِاللّٰـهِ وَالْمَلَائِكَةِ قَبِيلًا﴾ (بنی اسرائیل : 17؍۔ 90۔ 92) ” انہوں نے کہا کہ ہم تم پر اس وقت تک ایمان نہیں لائیں گے جب تک تو زمین سے ہمارے لئے چشمہ جاری نہ کرے۔ یا تیرے لئے کھجوروں اور انگوروں کا باغ ہو اور تو اس باغ کے درمیان نہریں جاری کر دے یا تو آسمان کو۔۔۔ جیسا کہ تو دعویٰ کرتا ہے۔۔۔ ٹکڑے ٹکڑے کرکے ہمارے اوپر گرا دے یا تو اللہ اور فرشتوں کو ہمارے روبرو لے آئے۔“ یہ ان کی طرف سے محض تعنت، عناد اور ظلم ہے۔ کیونکہ رسول اور وہ خود محض بشر اور اللہ کے بندے ہیں۔ ان کا اپنی خواہشات کے مطابق معجزات کا مطالبہ کرنا مناسب نہیں۔ یہ تو صرف اللہ تعالیٰ ہے جو اپنی حکمت کے مطاق آیات و معجزات کا انتخاب کرکے نازل کرتا ہے۔ چونکہ ان کا قول ﴿لَوْلَا يَأْتِينَا بِآيَةٍ مِّن رَّبِّهِ﴾ تقاضا کرتا ہے کہ ان کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت پر کوئی نشانی اور آپ کے حق ہونے پر دلیل نازل نہیں ہوئی۔۔۔ حالانکہ یہ جھوٹ اور بہتان ہے کیونکہ آپ بڑے بڑے معجزات اور ناقابل تردید دلائل لے کر آئے کہ ان میں سے کسی ایک کے ذریعے سے مقصود حاصل ہوسکتا ہے، اس لئے فرمایا : ﴿أَوَلَمْ تَأْتِهِم ﴾ ” کیا ان کے پاس نہیں آئی“۔ اگر وہ اپنی بات میں سچے ہیں اور دلیل کے ذریعے سے وہ حق کے متلاشی ہیں ﴿بَيِّنَةُ مَا فِي الصُّحُفِ الْأُولَىٰ ﴾ ” وہ دلیل جو پہلے صحیفوں میں ہے؟“ یعنی یہ قرآن عظیم ان تمام باتوں کی تصدیق کرتا ہے جو گزشتہ صحیفوں، یعنی تورات، انجیل اور دیگر کتابوں میں نازل ہوئی ہیں اور انہی امور کے بارے میں خبر دیتا ہے جن کے بارے میں ان گزشتہ کتابوں نے خبر دی ہے ان گزشتہ کتب اور صحیفوں میں اس قرآن عظیم کی تصدیق بھی موجود ہے اور اس کو لانے والے رسول کی بشارت بھی دی گئی ہے۔ یہ آیت کریمہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی مانند ہے۔ ﴿أَوَلَمْ يَكْفِهِمْ أَنَّا أَنزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ يُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ ۚ إِنَّ فِي ذٰ لِكَ لَرَحْمَةً وَذِكْرَىٰ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ﴾ (العنکبوت : 29؍51)” کیا ان کے لئے یہی کافی نہیں کہ ہم نے آپ پر یہ کتاب عظیم نازل کی جو انہیں پڑھ کر سنائی جاتی ہے، بلاشبہ اس میں ان لوگوں کے لئے رحمت اور نصیحت ہے جو ایمان لاتے ہیں“۔ آیات الٰہی اہل ایمان کو فائدہ دیتی ہیں، ان کی تلاوت سے ان کے ایمان و ایقان میں اضافہ ہوتا ہے لیکن آیات الٰہی سے اعراض کرنے والے اور ان کی مخالفت کرنے والے ان پر ایمان رکھتے ہیں نہ ان سے کوئی فائدہ ہی اٹھاتے ہیں۔ ﴿إِنَّ الَّذِينَ حَقَّتْ عَلَيْهِمْ كَلِمَتُ رَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ  وَلَوْ جَاءَتْهُمْ كُلُّ آيَةٍ حَتَّىٰ يَرَوُا الْعَذَابَ الْأَلِيمَ ﴾ (یونس : 10؍96۔ 97) ” بلاشبہ وہ لوگ جن پر تیرے رب کا حکم قرار پا چکا ہے خواہ ان کے پاس ہر قسم کی نشانی آجائے، وہ اس وقت تک ایمان نہیں لائیں گے جب تک کہ وہ دردناک عذاب نہ دیکھ لیں“۔ طه
134 ان آیات کو ان کی طرف بھیجنے اور ان کے ذریعے سے ان سے مخاطب ہونے کا پس ایک ہی فائدہ ہے کہ ان پر اللہ تعالیٰ کی حجت قائم ہوجاتی ہے تاکہ جب ان پر دردناک عذاب نازل ہو تو ان کو یہ کہنے کا موقع نہ ملے: ﴿ لَوْلَا أَرْسَلْتَ إِلَيْنَا رَسُولًا فَنَتَّبِعَ آيَاتِكَ مِن قَبْلِ أَن نَّذِلَّ وَنَخْزَىٰ ﴾ ” کیوں نہیں بھیجا تو نے ہماری طرف کوئی رسول، پس ہم تیری آیات کی پیروی کرتے قبل اس کے کہ ہم ذلیل و رسوا ہوتے“۔ یعنی عقوبت کے ذریعے سے، لو تمہارے پاس، میری آیات و براہین کے ساتھ، میرا رسول آگیا ہے اگر بات ایسے ہی ہے جیسے تم کہتے ہو تو اٹھو اس کی تصدیق کرو۔ طه
135 اے محمد ! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان لوگوں سے کہہ دیجئے جو آپ کی تکذیب کرتے ہوئے کہتے ہیں ” اس کے بارے میں گردش زمانہ کا انتظار کرو“ ﴿قُلْ كُلٌّ مُّتَرَبِّصٌ﴾ ” کہہ دیجئے ! ہم میں سے ہر ایک منتظر ہے“۔ تم میری موت کا انتظار کرو میں تم پر عذاب الٰہی کے ٹوٹ پڑنے کا انتظار کرتا ہوں۔ ﴿قُلْ هَلْ تَرَبَّصُونَ بِنَا إِلَّا إِحْدَى الْحُسْنَيَيْنِ﴾ (التوبۃ: 9؍52) ” کہہ دیجئے کہ تم ہمارے بارے میں بس دو بھلائیوں میں سے ایک کے منتظر ہو“ یعنی کامیابی یا شہادت ﴿وَنَحْنُ نَتَرَبَّصُ بِكُمْ أَن يُصِيبَكُمُ اللّٰـهُ بِعَذَابٍ مِّنْ عِندِهِ أَوْ بِأَيْدِينَا ۖ﴾ (التوبۃ : 9؍52) ” اور ہم اس بات کے منتظر ہیں کہ اللہ تعالیٰ تم پر اپنی طرف سے کوئی عذاب بھیجے یا ہمارے ہاتھوں تمہیں کوئی سزا دے“۔ ﴿فَتَرَبَّصُوا  فَسَتَعْلَمُونَ مَنْ أَصْحَابُ الصِّرَاطِ السَّوِيِّ﴾ ” پس تم انتظار کرو جلد ہی تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ سیدھے راستے (یعنی صراط مستقیم) والے کون ہیں؟“ ﴿ وَمَنِ اهْتَدَىٰ﴾ ” اور کون ہدایت یافتہ ہے؟“ یعنی اپنے طرز عمل کے اعتبار سے، میں یا تم؟ کیونکہ اس راستے پر چلنے والا شخص ہی صاحب رشد و ہدایت، فوزوفلاح سے بہرہ ور اور نجات یافتہ ہے اور جو کوئی اس راستے سے منہ موڑتا ہے وہ خائب و خاسر اور عذاب کا مستحق ہے اور یہ حقیقت واضح طور پر معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صراط مستقیم پر گامزن ہیں اور آپ کے دشمن اس کے برعکس راستوں پر چل رہے ہیں۔ واللہ اعلم۔ طه
0 الأنبياء
1 یہ لوگوں کے احوال پر تعجب کا اظہار ہے اور اس امر کی آگاہی کہ انہیں کوئی وعظ و نصیحت فائدہ دیتی ہے نہ وہ کسی ڈرانے والے کی طرف دھیان دیتے ہیں اور یہ کہ ان کے حساب اور ان کے اعمال صالحہ کی جزا کا وقت قریب آگیا ہے اور ان کا حال یہ ہے کہ وہ غفلت میں پڑے روگردانی کر رہے ہیں، یعنی وہ ان مقاصد سے غافل ہیں جن کے لئے ان کو پیدا کیا گیا ہے اور ان کو جو تنبیہ کی جاتی ہے وہ اسے درخور اعتناء نہیں سمجھتے۔ گویا کہ انہیں صرف دنیا کے لئے تخلیق کیا گیا ہے اور وہ محض اس دنیا سے فائدہ اٹھانے کے لئے پیدا ہوئے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نئے نئے انداز سے انہیں وعظ و نصیحت کرتا ہے اور یہ ہیں کہ اپنی غفلت اور اعراض میں مستغرق ہیں۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ ذکر فرماتا ہے کہ ظالم کفار عناد اور باطل کے ذریعے سے حق کا مقابلہ کرنے کی خاطر ایک دوسرے سے سرگوشیاں کرتے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں یہ کہنے پر متفق ہیں کہ وہ تو ایک بشر ہے، کس بنا پر اسے تم پر فضیلت دی گئی ہے اور کس وجہ سے اسے تم میں سے خاص کرلیا گیا ہے اور تم میں سے کوئی اس قسم کا دعویٰ کرے تو اس کا دعویٰ بھی اسی طرح کا دعویٰ ہوگا۔ درحقیقت یہ شخص تم پر اپنی فضیلت ثابت کر کے تمہارا سردار بننا چاہتا ہے، اس لئے اس کی اطاعت کرنا نہ اس کی تصدیق کرنا، یہ جادوگر ہے اور یہ جو قرآن لے کر آیا ہے، وہ جادو ہے، اس لئے اس سے خود بھی دور رہو اور لوگوں کو بھی اس سے متنفر کرو اور لوگوں سے کہو ! ﴿أَفَتَأْتُونَ السِّحْرَ وَأَنتُمْ تُبْصِرُونَ﴾ یعنی اسے دیکھتے ہوئے تم اس جادو کی طرف کھنچے چلے آرہے ہو۔۔۔ حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کے برحق رسول ہیں کیونکہ وہ بڑی بڑی آیات الٰہی کا مشاہدہ کرتے ہیں جن کا مشاہدہ ان کے علاوہ کسی اور نے نہیں کیا، لیکن ظلم، عناد اور بدبختی نے ان کو اس انکار پر آمادہ کیا اور جو وہ سرگوشیاں کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کے لامحدود علم نے ان کا احاطہ کررکھا ہے عنقریب وہ ان کو ان سرگوشیوں کی سزا دے گا۔ الأنبياء
2 اس لئے فرمایا ﴿مَا يَأْتِيهِم مِّن ذِكْرٍ مِّن رَّبِّهِم مُّحْدَثٍ﴾ ” نہیں آتی ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے کوئی نئی نصیحت۔“ جو انہیں ایسی باتوں کی یاد دہانی کراتی اور ان کی ان کو ترغیب دیتی ہے جو انہیں فائدہ دیتی ہے اور ان باتوں کی بھی، جو ان کے لئے نقصان دہ ہیں اور ان سے ان کو ڈراتی ہے۔ ﴿إِلَّا اسْتَمَعُوهُ ﴾ مگر وہ اسے اس طرح سنتے ہیں جس سے ان پر حجت قائم ہوتی ہے۔ الأنبياء
3 ﴿  وَهُمْ يَلْعَبُونَ لَاهِيَةً قُلُوبُهُمْ﴾ یعنی ان کے دل اپنے دنیاوی اغراض و مقاصد میں مستغرق ہو کر اس ” ذکر“ سے روگرداں اور ان کے جسم شہوات کے حصول، باطل پر عمل پیرا ہونے اور ردی اقوال میں مشغول ہیں۔ جب کہ ان کے لئے مناسب یہ ہے کہ وہ اس صفت سے متصف نہ ہوں بلکہ اس کے برعکس وہ اللہ تعالیٰ کے امر ونہی کو قبول کریں، اسے اس طرح سنیں جس سے اس کی مراد ان کی سمجھ میں آئے، ان کے جوارح اپنے رب کی عبادت میں مشغول ہوں جس کیلئے ان کو پیدا کیا گیا ہے اور وہ روز قیامت، حساب و کتاب اور جزا و سزا کو ہمیشہ یاد رکھیں۔ اس طرح ہی ان کے معاملے کی تکمیل ہوگی، ان کے احوال درست اور ان کے اعمال پاک ہوں گے۔ اور اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ﴾ ” لوگوں کے لئے ان کا حساب قریب آگیا ہے۔“ کی تفسیر میں اصحاب تفسیر سے دو قول منقول ہیں۔ (1) پہلا قول یہ ہے کہ یہ امت آخری امت اور یہ رسول آخری رسول ہے۔ اس رسول کی امت پر ہی قیامت قائم ہوگی گزشتہ امتوں کی نسبت، قیامت اس امت کے زیادہ قریب ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ” مجھے اس زمانے میں مبعوث کیا گیا ہے کہ میں اور قیامت کا دن اس طرح ساتھ ساتھ ہیں۔“ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شہادت کی انگلی اور ساتھ والی انگلی کو اکٹھا کر کے دکھایا۔ [صحیح البخاری،الرقاق،باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم (بعث أنا۔۔۔) ح:6503، وصحیح مسلم ،الجمعة،باب تخفیف الصلاۃ والخطبة،ح:867] (2) دوسرا قول یہ ہے کہ ” حساب“ کے قریب ہونے سے مراد موت کا قریب ہونا ہے، نیز یہ کہ جو کوئی مر جاتا ہے، اس کی قیامت قائم ہوجاتی ہے اور وہ اپنے اعمال کی جزا و سزا کے لئے دارالجزا میں داخل ہوجاتا ہے اور یہ تعجب ہر اس شخص پر ہے جو غافل اور روگرداں ہے۔ اسے معلوم نہیں کہ صبح یا شام، کب اچانک موت کا پیغام آجائے۔ تمام لوگوں کی یہی حالت ہے سوائے اس کے جس پر عنایت ربانی سایہ کناں ہے۔ پس وہ موت اور اس کے بعد پیش آنے والے حالات کے لئے تیاری کرتا ہے۔ الأنبياء
4 اس لئے فرمایا : ﴿قَالَ رَبِّي يَعْلَمُ الْقَوْلَ﴾ یعنی میرا رب جلی اور خفی ہر بات کو جانتا ہے ﴿فِي السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ﴾ ” آسمان اور زمین میں۔“ یعنی ہر اس جگہ میں جن کو ان دونوں کے کناروں نے گھیر رکھا ہے ﴿وَهُوَ السَّمِيعُ﴾ یعنی لوگوں کی زبانوں کے اختلافات اور ان کی متنوع حاجات کے باوجود ان کی آوازیں سنتا ہے ﴿الْعَلِيمُ﴾ وہ دلوں کے بھید کو بھی جانتا ہے۔ الأنبياء
5 اللہ تبارک و تعالیٰ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لائے ہوئے قرآن عظیم پر کفار کی بہتان طرازی کا ذکر کرتا ہے کہ وہ قرآن کے بارے میں جھوٹ گھڑتے اور اس کے بارے میں مختلف باطل باتیں پھیلاتے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں ” یہ پراگندہ خواب ہیں“ ایک سوئے ہوئے شخص کے ہذیانی کلام کی مانند، جسے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔ کبھی کہتے ہیں ” یہ اس کا من گھڑت کلام ہے“ جو اس نے اپنی طرف سے گھڑ کر اللہ کی طرف منسوب کردیا ہے اور کبھی کہتے ہیں ” یہ شاعر ہے“ اور جو قرآن یہ لے کر آیا ہے وہ محض شاعری ہے۔ جو کوئی واقعات اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احوال کی ادنیٰ سی بھی معرفت رکھتا ہے اور اس کلام میں غور کرتا ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لے کر آئے ہیں وہ ایسے جزم و یقین سے پکار اٹھتا ہے، جس میں ذرہ بھر بھی شک نہیں ہوتا کہ یہ نہایت جلیل القدر اور بلند ترین کلام ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ کوئی بشر اس جیسا کلام پیش کرنے پر قادر نہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے دشمنوں کے سامنے چیلنج کیا ہے کہ وہ اس کلام کا مقابلہ کر دکھائیں، حالانکہ ان کے اندر قرآن عظیم کی مخالفت اور اس کے ساتھ عداوت کا وافر داعیہ موجود تھا۔ بایں ہمہ وہ اس کلام کا مقابلہ نہ کرسکے اور وہ یہ سب کچھ جانتے ہیں۔ ورنہ وہ کیا چیز تھی جس نے ان کو باز رکھا، ان کو کانٹوں پر لوٹنے پر مجبور کیا اور ان کی زبانوں کو گنگ کردیا؟۔۔۔ وہ حق کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے جس کا کوئی چیز مقابلہ نہیں کرسکتی؟ اور چونکہ وہ اس پر ایمان نہیں رکھتے اس لئے ایسے لوگوں کو، جو اس کی معرفت نہیں رکھتے متنفر کرنے کے لئے اس قسم کی باتیں کرتے ہیں۔ یہ قرآن عظیم ہمیشہ رہنے والا سب سے بڑا معجزہ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی لائی ہوئی ہدایت کی صحت اور آپ کی صداقت پر دلالت کرتا ہے اور یہ کافی وشافی ہے۔ پس جو اس کے علاوہ کوئی اور دلیل طلب کرتا ہے اور اپنی خواہش کے مطابق معجزوں کا مطالبہ کرتا ہے، وہ جاہل اور ظالم ہے اور ان معاندین حق سے مشابہت رکھتا ہے جنہوں نے اس کی تکذیب کی، معجزات کا مطالبہ کیا جو ان کے لئے سب سے زیادہ ضرر رساں چیز ہے اور ان معجزات میں ان کے لئے کوئی بھلائی نہیں کیونکہ اگر ان کا مقصد واضح دلیل کے ذریعے سے معرفت حق ہے تو دلیل ان معجزات کے بغیر بھی واضح ہوچکی ہے اور اگر ان کا مقصد عاجز کرنا اور معجزات کا مطالبہ پورا نہ ہونے کی صورت میں اپنے لئے عذر کا جواز پیدا کرنا ہے۔۔۔ تو اس صورت میں بھی جب کہ فرض کرلیا جائے کہ ان کی خواہش کے مطابق معجزہ پیش کردیا جائے، وہ قطعاً ایمان نہیں لائیں گے۔ پس واقعہ یہ ہے کہ اگر ان کے پاس ہر قسم کا معجزہ ہی کیوں نہ آجائے تو پھر بھی وہ اس وقت تک ایمان نہیں لائیں گے جب تک کہ وہ دردناک عذاب نہ دیکھ لیں۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ان کا قول نقل فرمایا : ﴿فَلْيَأْتِنَا بِآيَةٍ كَمَا أُرْسِلَ الْأَوَّلُونَ﴾ ” وہ ہمارے پاس ایسی کوئی نشانی لائے جیسے پہلے پیغمبر (ان کے ساتھ) بھیجے گئے۔“ جیسے صالح علیہ السلام کی اونٹنی اور موسیٰ علیہ السلام علیہ السلام کا عصا اور اس جیسے معجزات۔ الأنبياء
6 بناء بریں اللہ تبارک و تعالیٰ نے جواب میں فرمایا : ﴿ مَا آمَنَتْ قَبْلَهُم مِّن قَرْيَةٍ أَهْلَكْنَاهَا ۖ أَفَهُمْ يُؤْمِنُونَ﴾ ” نہیں ایمان لائی ان سے پہلے کوئی بستی جن کو ہم نے ہلاک کیا، کیا پس یہ لوگ ایمان لے آئیں گے؟“ یعنی ان معجزات پر جو ان کے مطالبوں پر پیش کئے جائیں گے۔ اللہ کی سنت کا تقاضا تو یہ ہے کہ جو معجزے طلب کرتا ہے، پھر وہ اسے دکھا دیا جاتا ہے (پھر بھی وہ ایمان نہیں لاتا تو)وہ فوری سزا سے محفوظ نہیں ہے۔ پس پہلے لوگ ان معجزات کی وجہ سے ایمان نہیں لائے، تو کیا یہ ان کی وجہ سے ایمان لے آئیں گے؟ آخر ان (عربوں) کو پہلے لوگوں پر کیا فضیلت حاصل ہے اور وہ کیا بھلائی ہے جو ان کے اندر موجود ہے جو اس بات کی مقتضی ہو کہ معجزات کے صدور پر یہ ایمان لے آئیں گے؟ یہ استفہام، نفی کے معنی میں ہے، یعنی ان سے کبھی ایسا نہیں ہوگا کہ وہ ایمان لے آئیں۔ الأنبياء
7 یہ رسولوں کو جھٹلانے والوں کے شبہ کا جواب ہے جو یہ کہتے تھے۔ ” کوئی فرشتہ کیوں نہیں بھیجا گیا جو کھانے پینے اور بازاروں میں گھومنے پھرنے کا محتاج نہ ہوتا؟ کوئی ایسا رسول کیوں نہ بھیجا گیا جسے دائمی زندگی عطا کی گئی ہوتی؟ جب ایسا نہیں ہے تو معلوم ہوا کہ وہ رسول نہیں ہے۔“ یہ شبہ انبیاء و رسل کو جھٹلانے والوں کے دلوں میں ہمیشہ ہے۔ چونکہ اہل تکذیب کفر میں ایک دوسرے سے مشابہت رکھتے ہیں اس لئے ان کے نظریات بھی ایک دوسرے سے مشابہ ہیں۔ پس اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کفار کو۔۔۔ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تو جھٹلاتے ہیں اور گزشتہ رسولوں کی رسالت کا اقرار کرتے ہیں اگرچہ صرف حضرت ابراہیم علیہ السلام ہی نبی ہوتے جن کی نبوت کا تمام گروہ اقرار کرتے ہیں، بلکہ مشرکین تو دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ ان کی ملت پر ہیں۔۔۔ ان کے شبہ کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے بھی تمام رسول بشر ہی تھے، جو کھانا کھاتے تھے، بازاروں میں چلتے پھرتے تھے، ان پر موت وغیرہ اور تمام بشری عوارض طاری ہوتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو ان کی قوموں اور امتوں میں مبعوث فرمایا ان قوموں میں سے کسی نے ان کی تصدیق کی اور کسی نے ان کو جھٹلایا اور اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیوں اور ان کے متبعین سے نجات اور سعادت کا جو وعدہ کیا تھا اس نے پورا کردیا اور اس نے حد سے بڑھنے والے اہل تکذیب کو ہلاک کر ڈالا، تو محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ یہ کیا معاملہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کے انکار کے لئے باطل شبہات قائم کئے جاتے ہیں، حالانکہ یہی شبہات دیگر انبیاء و مرسلین پر بھی وارد ہوتے ہیں جن کی رسالت کا یہ لوگ اقرار کرتے ہیں جو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تکذیب کرتے ہیں۔۔۔ پس ان پر یہ الزامی جواب بالکل واضح ہے۔ اگر انہوں نے کسی بشر رسول کا اقرار کیا ہے تو وہ کسی غیر بشر رسول کا اقرار ہرگز نہیں کریں گے تب ان کے شبہات باطل ہیں انہوں نے ان شبہات کے فساد اور اپنے تناقض کا اقرار کر کے خود ان شبہات کا ابطال کرلیا ہے۔ اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ یہ لوگ سرے ہی سے کسی بشر کے نبی ہونے کے منکر ہیں اور اس بات کے قائل ہیں کہ صرف دائمی زندگی رکھنے والا فرشتہ ہی نبی ہوسکتا ہے جو کھانا نہیں کھاتا تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کے اس کے اس شبہ کا جواب دیتے ہوئے فرمایا : ﴿وَقَالُوا لَوْلَا أُنزِلَ عَلَيْهِ مَلَكٌ وَلَوْ أَنزَلْنَا مَلَكًا لَّقُضِيَ الْأَمْرُ ثُمَّ لَا يُنظَرُونَ وَلَوْ جَعَلْنَاهُ مَلَكًا لَّجَعَلْنَاهُ رَجُلًا وَلَلَبَسْنَا عَلَيْهِم مَّا يَلْبِسُونَ ﴾(الانعام 6؍8، 9) ” اور وہ کہتے ہیں کہ اس پر کوئی فرشتہ کیوں نہیں اتارا گیا، اگر ہم نے فرشتہ اتارا ہوا ہوتا تو تمام معاملے کا فیصلہ ہوگیا ہوتا، پھر ان کو ڈھیل نہ دی جاتی اور اگر ہم نے اس کو فرشتہ بنایا ہوتا تو تب بھی اس کو بشر ہی بنایا ہوتا اور )اس طرح) ہم معاملہ ان پر مشتبہ کردیتے جسے اب وہ اشتباہ پیش کر رہے ہیں۔ “ انسان فرشتوں سے وحی اخذ کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ ارشاد فرمایا : ﴿قُل لَّوْ كَانَ فِي الْأَرْضِ مَلَائِكَةٌ يَمْشُونَ مُطْمَئِنِّينَ لَنَزَّلْنَا عَلَيْهِم مِّنَ السَّمَاءِ مَلَكًا رَّسُولًا ﴾ (بنی اسرائیل : 17؍95) ” کہہ دیجئے کہ اگر زمین میں فرشتے ہوتے اور اطمینان سے چل پھر رہے ہوتے تو ہم ان کے پاس کسی فرشتے ہی کو رسول بنا کر بھیجتے۔“ اگر گزشتہ رسولوں کے بارے میں تمہیں کوئی شک ہے یا ان کے احوال کا علم نہیں ﴿ فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ﴾ ”تو تم اہل ذکر سے پوچھ لو۔“ یعنی کتب سابقہ رکھنے والوں سے پوچھ لو، مثلاً اہل تورات اور اہل انجیل وغیرہ، ان کے پاس جو علم ہے وہ اس کے مطابق تمہیں بتائیں گے کہ گزشتہ تمام رسول انسان تھے جیسے یہ انسان ہیں۔ اس آیت کریمہ کا سبب نزول انبیائے مقتدمین کے بارے میں اہل کتاب سے سوال کرنے سے مختص ہے، کیونکہ وہ اس بارے میں علم رکھتے تھے۔۔۔ مگر یہ دین کے اصول وفروع کے تمام مسائل کے لئے عام ہے۔ جب انسان کے پاس ان مسائل کا علم نہ ہو تو وہ اس شخص سے پوچھ لے جو اس کا علم رکھتا ہے، نیز اس آیت کریمہ میں علم حاصل کرنے اور اہل علم سے سوال کرنے کا حکم ہے اور اہل علم سے سوال کرنے کا اس لئے حکم دیا گیا کہ اہل علم پر تعلیم دینا اور اپنے علم کے مطابق جواب دینافرض ہے۔ اہل علم اور اہل ذکر سے سوال کرنے کی تخصیص سے یہ مفہوم نکلتا ہے کہ جو شخص جہالت اور عدم علم میں معروف ہو اس سے سوال کرنے کی ممانعت ہے اور اس شخص کے لئے بھی جواب دینے کے درپے ہونا ممنوع ہے۔ اس آیت میں اس امر پر دلیل ہے کہ عورتیں نبی نہیں ہوئیں، حضرت مریم علیہا السلام نبی تھیں نہ کوئی اور عورت کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿ إِلَّا رِجَالًا﴾ یعنی ہم نے صرف مرد ہی نبی بنا کر بھیجے۔ الأنبياء
8 الأنبياء
9 الأنبياء
10 اے وہ لوگو ! جن کی طرف محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رسول بنا کر بھیجا گیا ہے، ہم نے تمہاری طرف ایک جلیل القدر کتاب اور ایک واضح قرآن نازل کیا ﴿ فِيهِ ذِكْرُكُمْ﴾ یعنی جو کچھ اس میں سچی باتیں بیان کی گئیں ہیں اگر تم اس سے نصیحت پکڑو، انہیں اپنا اعتقاد بناؤ اس کے احکام کی تعمیل کرو اور اس کے نواہی سے اجتناب کرو تو اس میں تمہارا شرف و فخر اور تمہاری سر بلندی ہے، تمہاری قدر بڑھے گی اور تمہارا معاملہ عظیم ہوجائے گا۔ ﴿اأَفَلَا تَعْقِلُونَ﴾ کیا تم ان معاملات کو نہیں سمجھ سکتے جن میں تمہارا نفع و نقصان ہے؟ تم اس چیز پر کیوں عمل پیرا نہیں ہوتے جس میں تمہارا ذکر اور جس میں تمہارے لئے دنیا و آخرت کا شرف ہے ؟ اگر تم میں عقل ہوتی تو تم اسی راستے پر گامزن ہوتے۔ چونکہ تم اس راستے پر نہیں چلے بلکہ تم نے کوئی دوسرا راستہ اختیار کرلیا ہے جس میں تمہارے لئے دنیا و آخرت کی ذلت اور تحقیر ہے اور جس کی منزل تمہارے لئے دنیا و آخرت کی بد بختی ہے، اس لئے معلوم ہوا کہ تم صحیح معقولات اور راجح آراء سے تہی دامن ہو، جو کچھ واقع ہوا یہ آیت کریمہ اس کا مصداق ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانے والے صحابہ کرام اور بعد میں آنے والے اہل ایمان نے اس قرآن سے نصیحت پکڑی تو انہیں غلبہ، سر بلندی، عظیم شہرت اور بادشاہوں پر سرداری حاصل ہوئی اور یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے ہر شخص جانتا ہے جیسے اس شخص کے بارے میں معلوم ہے جس نے اس قرآن کے ذریعے سے سر بلندی حاصل نہیں کی، اس کی راہنمائی قبول نہیں کی اور اس کے ذریعے اپنے آپ کو پاک نہ کیا، اس کے نصیب میں اللہ تعالیٰ کی ناراضی، ذلت و رسوائی، گمنامی اور بد بختی ہے۔ پس دنیا و آخرت کی سعادت تک رسائی صرف اس کتاب عظیم کے ذریعے نصیحت پکڑنے ہی سے حاصل ہوسکتی ہے۔ الأنبياء
11 اللہ تبارک و تعالیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جھٹلانے والے ظالموں کو ان قوموں کے انجام سے ڈراتا ہے جنہوں نے دیگر انبیاء و مرسلین کی تکذیب کی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ﴿ وَكَمْ قَصَمْنَا﴾ اور کتنی ہی ہم نے ہلاک کردیں۔ یعنی جڑ کاٹنے والے عذاب کے ذریعے سے ﴿ مِن قَرْيَةٍ﴾ بستیاں جنہوں نے اپنے انجام کو نظر انداز کیا۔ ﴿وَأَنشَأْنَا بَعْدَهَا قَوْمًا آخَرِينَ﴾ اور ان کے بعد ہم نے دوسری قوموں کو پیدا کیا۔ الأنبياء
12 الأنبياء
13 جب ان ہلاک ہونے والوں نے اللہ تعالیٰ کے عذاب اور اس کے عقاب کے نزول کو دیکھ لیا تو ان کے لئے لوٹنا ممکن نہ رہا اور اس عذاب سے رہائی پانے کا ان کے پاس کوئی راستہ نہ رہا تو وہ تو صرف ندامت، افسوس اور اپنے کرتوتوں پر حسرت کے مارے زمین پر پاؤں پٹختے تھے، تو تمسخر اور ٹھٹھے کے انداز میں ان سے کہا گیا۔ ﴿لَا تَرْكُضُوا وَارْجِعُوا إِلَىٰ مَا أُتْرِفْتُمْ فِيهِ وَمَسَاكِنِكُمْ لَعَلَّكُمْ تُسْأَلُونَ﴾ یعنی اب ندامت کا اظہار کرنے اور ایڑیاں مارنے سے تمہیں کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ اگر تم قدرت رکھتے ہو تو اپنی لذتوں اور شہوتوں بھری خوشحال زندگی، اپنے آراستہ اور مزین گھروں اور اس دنیا کی طرف واپس لوٹ کر دکھاؤ جس نے تمہیں دھوکے میں ڈال کر غافل رکھا تھا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا حکم آن پہنچا۔ پس واپس لوٹ کر دنیا میں ڈیرے ڈال دو، اس کی لذات کی خاطر جرائم کا ارتکاب کرو، اپنے گھروں میں اطمینان کے ساتھ بڑے بن کر رہو۔ شاید اپنے امور میں تم پھر مقصود بن جاؤ اور دنیا کے معاملات میں پھرتم سے جواب دہی کی جائے جیسا کہ پہلے تمہارا حال تھا۔ لیکن یہ بہت بعید ہے۔ اب دنیا میں کیسے واپس جایا جاسکتا ہے، وہ وقت ہاتھ سے نکل گیا اور ان پر اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور اس کا عذاب نازل ہوگیا، ان کا عزو شرف ختم ہوگیا اور ان کی دنیا بھی فنا ہوگئی اور ندامت اور حسرت ان کا نصیب بن گئی۔ الأنبياء
14 اسی لئے ﴿ قَالُوا يَا وَيْلَنَا إِنَّا كُنَّا ظَالِمِينَ فَمَا زَالَت تِّلْكَ دَعْوَاهُمْ﴾ انہوں نے کہا ہائے افسوس ! ہم ہی ظالم تھے، تو ان کی یہی پکار رہی یعنی وہ پکار پکار کر کہتے رہے کہ ہائے ہم تباہ و برباد ہوگئے انہوں نے ندامت کا اظہار کیا اور اس حقیقت کا اعتراف کیا۔ کہ خود انہوں نے اپنے آپ پر ظلم کیا اللہ تعالیٰ نے عذاب بھیجنے میں ان کے ساتھ انصاف کیا ہے۔ الأنبياء
15 ﴿ حَتَّىٰ جَعَلْنَاهُمْ حَصِيدًا خَامِدِينَ﴾ یہاں تک کہ کردیا ہم نے ان کو کٹے ہوئے کھیت اور بجھنے والی آگ ( کی طرح) یعنی اس نباتات کی مانند جسے کاٹ گرایا گیا ہو۔ ان کی حرکات مدہم پڑگئیں اور آوازیں ختم ہوگئیں، اس لئے اے لوگوں جن کو مخاطلب کیا جا رہا ہے تم افضل ترین رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جھٹلانے سے بچو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم پر بھی اللہ کا عذاب اسی طرح نازل ہوجائے جیسے ان لوگوں پر ہوا تھا۔ الأنبياء
16 اللہ تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ اس نے زمین اور آسمان کو کھیل تماشے کے طور پر عبث اور بے فائدہ پیدا نہیں کیا بلکہ ان کو حق کے ساتھ اور حق کے لئے پیدا کیا ہے تاکہ بندے اس کائنات سے استدلال کریں کہ اللہ تعالیٰ ہی خالق، عظمت والا، کائنات کی تدبیر کرنے والا، حکمت والا اور رحمان و رحیم ہے، جو کمال کلی، ہر قسم کی تعریف اور تمام تر عزت کی مالک ہے۔ وہ اپنے قول میں سچاہے اس کے رسول بھی اس کی طرف سے خبردینے میں سچے ہیں۔ وہ قادر ہستی جو زمین و آسمان کو ان کی وسعت اور عظمت کے ساتھ پیدا کرنے پر قادر ہے وہ جسموں کے مرنے کے بعد ان کو دوبارہ پیدا کرنے پر بھی قدرت رکھتی ہے تاکہ نیک کو اس کی نیکی کی جزا اور بد کو اس کو بدی کی سزا دے۔ الأنبياء
17 ﴿لَوْ أَرَدْنَا أَن نَّتَّخِذَ لَهْوًا﴾ ” اگر ہم کھیل تماشے ہی کا ارادہ کرتے“ یعنی بفرض محال اگر یہ تسلیم کرلیا جائے ﴿لَّاتَّخَذْنَاهُ مِن لَّدُنَّا﴾ تو ہم اسے بنا لیتے اپنی ہی طرف سے ﴿إِن كُنَّا فَاعِلِينَ ﴾ اگر ہوتے ہم کرنے والے۔ اور کھیل تماشے کی بابت تمہیں مطلع بھی نہ کرتے کیونکہ یہ نقص اور براوصف ہے، جسے ہم تمہیں دکھانا پسند نہ کرتے۔ یہ زمین و آسمان جو ہمیشہ سے تمہارے سامنے ہیں، ممکن نہیں کہ ان کو عبث اور کھیل تماشے کے مقصد سے پیدا کیا گیا ہو۔ یہ سب کچھ موٹی عقل کے لوگوں کی سطح پر اتر کر کہا گیا ہے تاکہ ان کو ہر لحاظ سے مطمئن کیا جائے۔ پس پاک ہے وہ ذات جو حلم والی، رحم کرنے والی اور حکمت والی ہے، وہ تمام اشیاء کو ان کے اپنے مقام پر رکھنے میں حکمت سے کام لیتی ہے۔ الأنبياء
18 اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ اس نے احقاق حق اور ابطلال باطل کی ذمہ داری لی ہے۔ باطل خواہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو اللہ تعالیٰ حق، علم اور بیان نازل کرتا ہے، جس سے باطل پر ضرب لگتی ہے پس باطل مضمحل ہوجاتا ہے اور اس کا بطلان ہر ایک پر ظاہر ہوجاتا ہے ﴿  فَإِذَا هُوَ زَاهِقٌ﴾ یعنی مضمحل ہو کر فنا کے گھاٹ اتر جاتا ہے اور تمام دینی مسائل میں یہی اصول عام ہے، جب بھی کوئی باطل پرست شخص باطل کو حق ثابت کرنے یا حق کو رد کرنے کے لئے کوئی عقلی یا نقلی شبہ وارد کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے عقلی اور نقلی دلائل میں اتنا زور ہوتا ہے کہ وہ اس قول باطل کو زائل کر کے اس کا قلع قمع کردیتا ہے اور یوں اس کا بطلان ہر شخص پر واضح ہوجاتا ہے۔ اگر تمام مسائل میں ایک ایک مسئلہ کا اسقراء کیا جائے تو آپ اس اصول کو اسی طرح پائیں گے۔ پھر ارشاد فرمایا ﴿وَلَكُمُ﴾ اور تمہارے لئے۔ اے لوگو ! جو اللہ تعالیٰ کو ان صفات سے موصوف کرتے ہو جو اس کے شایان شان نہیں، یعنی اللہ تعالیٰ کا بیٹا، بیوی، اس کے ہمسر اور شریک قرار دینا۔ ان باطل باتوں میں سے تمہارا حصہ اور تمہارا نصیب ہے کہ اس پاداش میں تمہارے لئے ہلاکت، ندامت اور خسارہ ہے تم نے جو کچھ کہا ہے اس میں تمہارے لئے کوئی فائدہ ہے نہ تمہارے لئے کوئی بھلائی، جس کی خاطر تم عمل کر رہے ہو اور جہاں پہنچنے کے لئے تم کوشاں ہو، البتہ تمہارے مقصود و مطلوب کے برعکس، تمہارے نصیب میں نا کامی اور محرومی ہے۔ الأنبياء
19 پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ زمین، آسمان اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے ان سب کا مالک اللہ تعالیٰ ہے۔ پس تمام مخلوق اس کی غلام اور مملوک ہے۔ زمین و آسمان کا اقتدار اللہ کے سوا کسی کی ملکیت ہے نہ اس میں کسی کا حصہ ہے، نہ اس اقتدار میں اس کا کوئی معاون ہے اور نہ اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر کوئی سفارش کرسکے گا، پھر کیسے ان کو معبود بنایا جاسکتا ہے اور کیسے ان میں سے کسی کو اللہ کا بیٹا قرار دیا جاسکتا ہے ؟۔۔۔۔۔۔ بالا و بلند اور پاک ہے وہ ہستی جو مالک اور عظمت والی ہے جس کے سامنے گردنیں جھکی ہوئی، بڑے بڑے سرکش سرافگندہ اور جس کے حضور مقرب فرشتے عاجز اور فروتن ہیں اور سب اس کی دائمی عبادت میں مصروف ہیں۔ بناء بریں فرمایا ﴿وَمَنْ عِندَهُ﴾ ” اور جو اس کے پاس ہیں“۔ یعنی فرشتے ﴿لَا يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِهِ وَلَا يَسْتَحْسِرُونَ﴾ ” وہ اس کی عبادت سے انکار کرتے ہیں نہ وہ تھکتے ہیں۔“ یعنی شدت رغبت، کامل محبت اور اپنے بدن کی طاقت کی وجہ سے، اس کی عبادت سے تھکتے ہیں نہ اکتاتے ہیں۔ الأنبياء
20 ﴿يُسَبِّحُونَ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ لَا يَفْتُرُونَ﴾ یعنی وہ اپنے تمام اوقات میں اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کی تسبیح و تحمید میں مستغرق رہتے ہیں ان کے اوقات میں کوئی وقت فارغ ہے نہ عبادت سے خالی ہے۔ وہ اپنی کثرت کی صفت سے متصف ہیں۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلال، اس کی قدرت، اس کے کامل علم و حکمت کا بیان ہے جو اس امر کا موجب ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت کی جائے نہ عبادت کو غیر اللہ کی طرف پھیرا جائے۔ الأنبياء
21 اللہ تعالیٰ نے اپنے کامل اقتدار اور اپنی عظمت کا ذکر کرنے اور اس حقیقت کو بیان کرنے کے بعد، کہ ہر چیز اس کے سامنے سرنگوں ہے، مشرکین پر نکیر کی جنہوں نے اللہ کے سوا زمین سے معبود بنا لئے ہیں جو انتہائی عاجز اور قدرت سے محروم ہیں ﴿ هُمْ يُنشِرُونَ ﴾ ” وہ ان کو ان کے مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کرسکیں گے؟“ یہ استفہام نفی کے معنی میں ہے، یعنی وہ ان کے حشر و نشر پر قادر نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد اس آیت کریمہ کی تفسیر کرتا ہے۔ ﴿وَاتَّخَذُوا مِن دُونِهِ آلِهَةً لَّا يَخْلُقُونَ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُونَ وَلَا يَمْلِكُونَ لِأَنفُسِهِمْ ضَرًّا وَلَا نَفْعًا وَلَا يَمْلِكُونَ مَوْتًا وَلَا حَيَاةً وَلَا نُشُورًا﴾( الفرقان: 25؍3) انہوں نے اللہ کوچھوڑکرایسے الہ بنالیےہیں جوکسی چیز کوپیدانہیں کرسکتے بلکہ وہ توخود پیدا کیے جاتےہیں وہ خود اپنے لیےکسی نقصان کا اختیار رکھتےہیں نہ نفع کا اورنہ وہ موت وحیات کا اختیار رکھتےہیں اور نہ دوبارہ جی اٹھنے کا۔“ اور فرمایا : ﴿وَاتَّخَذُوا مِن دُونِ اللّٰـهِ آلِهَةً لَّعَلَّهُمْ يُنصَرُونَ  لَا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَهُمْ وَهُمْ لَهُمْ جُندٌ مُّحْضَرُونَ ﴾(یٰسین : 36، 74، 75) پس مشرک مخلوق کی عبادت کرتا ہے جو کسی نفع و نقصان کی مالک نہیں اور اللہ تعالیٰ کے لئے اخلاص کو ترک کردیتا ہے جو تمام کمالات کا مالک ہے اور تمام معاملات اور نفع و نقصان اسی کے قبضہ قدرت میں ہیں۔ یہ توفیق سے محرومی، اس کی بد قسمتی، اس کی جہالت کی فروانی اور اس کے ظلم کی شدت ہے۔ یہ وجودکائنات صرف ایک ہی الٰہ کے لئے درست اور لائق ہے اور اس وجود کائنات میں صرف ایک ہی رب موجود ہے الأنبياء
22 اس لئے فرمایا ﴿ لَوْ كَانَ فِيهِمَا﴾ اگر ہوتے زمین اور آسمان میں ﴿ آلِهَةٌ إِلَّا اللّٰـهُ لَفَسَدَتَا﴾ ’’کئی معبود اللہ کے سوا، تو یہ دونوں درہم برہم ہوجاتے “۔ خود زمین و آسمان فساد کا شکار ہوجاتے اور زمین و آسمان میں موجود تمام مخلوق میں فساد برپا ہوجاتا۔ اس کی توضیح یہ ہے کہ عالم علوی اور عالم سفلی۔۔۔۔ جیسا کہ نظر آرہا ہے بہترین اور کامل ترین انتظام کے تحت چل رہے ہیں جس میں کوئی خلل ہے نہ عیب، جس میں کوئی اختلاف ہے نہ معارضہ۔۔۔۔۔ پس کائنات کا یہ انتظام دلالت کرتا ہے کہ ان کی تدبیر کرنے والا، ان کا رب اور ان کا معبود ایک ہے۔ اگر اس کائنات کی تدبیر کرنے والے اور اس کے رب دو یا دو سے زیادہ ہوتے تو اس کا پورا نظام درہم برہم ہوجاتا اور اس کے تمام ارکان منہدم ہوجاتے کیونکہ دونوں معبود ایک دوسرے کے معارض ہوتے اور ایک دوسرے کے انتظام سے مزاحم ہوتے۔ جب ان دو معبودوں میں سے ایک معبود کسی چیز کی تدبیر کا ارادہ کرتا اور دوسرا اس کو معدوم کرنے کا ارادہ کرتا تو بیک وقت دونوں کی مراد کا وجود میں آنا محال ہوتا اور دونوں میں سے کسی ایک کی مراد کا پورا ہونا دوسرے کے عجز اور اس کے عدم اقتدار پر دلالت کرتا ہے اور تمام معاملات میں کسی ایک مراد پر دونوں کا متفق ہونا ناممکن ہے، تب یہ حقیقت متعین ہوگئی کہ وہ غالب و قاہر ہستی جس اکیلے ہی کی مراد بغیر کسی مانع کے وجود میں آتی ہے، وہ اللہ واحد و قہار ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے باہم ممانعت کی دلیل یہ بیان فرمائی﴿ مَا اتَّخَذَ اللّٰـهُ مِن وَلَدٍ وَمَا كَانَ مَعَهُ مِنْ إِلَـٰهٍ  إِذًا لَّذَهَبَ كُلُّ إِلَـٰهٍ بِمَا خَلَقَ وَلَعَلَا بَعْضُهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ  سُبْحَانَ اللّٰـهِ عَمَّا يَصِفُونَ ﴾(المومنون : 23، 91) ” اللہ نے کسی کو اپنا بیٹا نہیں بنایا اور نہ کوئی دوسرا معبود ہی اس کی عبودت میں اس کے ساتھ شریک ہے اگر ایسا ہوتا تو ہر معبود اپنی اپنی مخلوق کو لے کر علیحدہ ہوجاتا اور غالب آنے کے لئے ایک دوسرے پر چڑھائی کرتے، جن اوصاف سے تم اسے موصوف کر رہے ہو اللہ ان سے پاک ہے۔“ اور ایک تفسیر کے مطابق درج ذیل آیت بھی اسی تمانع کی دلیل ہے۔ ﴿قُل لَّوْ كَانَ مَعَهُ آلِهَةٌ كَمَا يَقُولُونَ إِذًا لَّابْتَغَوْا إِلَىٰ ذِي الْعَرْشِ سَبِيلًا سُبْحَانَهُ وَتَعَالَىٰ عَمَّا يَقُولُونَ عُلُوًّا كَبِيرًا﴾(بنی اسرائیل : 17؍ 42، 43 ) ” کہہ دیجئے اگر اللہ کے ساتھ دوسرے معبود بھی ہوتے کہ یہ لوگ دعویٰ کرتے ہیں تو عرش کے مالک تک پہنچنے کے لئے کوئی راستہ ضرور تلاش کرتے، وہ پاک اور بلند و بالا ہے، ان باتوں سے جو یہ مشرکین کہہ رہے ہیں “۔ اسی لئے فرمایا ﴿فَسُبْحَانَ اللّٰـهِ ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ پاک اور منزہ ہے ہر نقص سے کیونکہ وہ اکیلا کمال کا مالک ہے ﴿ رَبِّ الْعَرْشِ﴾ ” رب ہے عرش کا “۔ وہ عرش و مخلوقات کی چھت، تمام مخلوقات سے زیادہ وسیع اور سب سے بڑا ہے، لہٰذا اس سے کمتر مخلوق کے لئے اس کا رب ہونا تو بطریق اولیٰ ثابت ہے۔ ﴿ عَمَّا يَصِفُونَ ﴾ یعنی یہ منکرین حق اور کفار جو کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا بیٹا اور بیوی ہے، کسی بھی لحاظ سے اس کا کوئی شریک ہے، ان سب باتوں سے وہ پاک ہے۔ الأنبياء
23 ﴿لَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ﴾ ” نہیں پوچھا جائے گا اس سے ( اس کی بابت) جو وہ کرتا ہے“۔ اس کی طاقت، اس کے غلبہ اور اس کی کامل قدرت کی بناء پر کوئی اس کے افعال میں، قول یا فعل کے ذریعے، مزاحم نہیں ہوسکتا اس نے اپنی حکمت کاملہ کی بنا پر تمام اشیاء کو ان کے لائق مقامات پر رکھا ہے، ان کو نہایت مہارت سے تخلیق کیا اور ہر چیز کو احسن طریقے سے بنایا، عقل جس کا اندازہ کرسکتی ہے۔ اس پر سوال وارد نہیں ہوسکتا کیونکہ اس کی تخلیق میں کوئی خلل اور نقص نہیں ﴿ وَهُمْ﴾ یعنی تمام مخلوقات ﴿  يُسْأَلُونَ ﴾ یعنی اپنے افعال و اقوال کے بارے میں جواب دہ ہیں کیونکہ وہ عاجز، محتاج اور غلام ہیں۔ وہ خود اپنی ذات پر یا کسی دوسرے پر ذرہ بھر اختیار نہیں رکھتے۔ الأنبياء
24 پھر اللہ تعالیٰ مشرکین کے احوال کی تحقیر کی طرف لوٹتے ہوئے فرماتا ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے سوا بہت سے معبود بنا لئے ہیں، لہٰذا ان کو زجر و توبیخ کرتے ہوئے کہو ﴿أَمِ اتَّخَذُوا مِن دُونِهِ آلِهَةً ۖ قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْبھانکم﴾ یعنی اپنے موقف کی صحت پر حجت اور دلیل لاؤ مگر وہ کبھی دلیل نہ لا سکیں گے بلکہ اس کے برعکس ان کے اس موقف کے بطلان پر قطعی دلائل دلالت کرتے ہیں، اس لئے فرمایا ﴿ هَـٰذَا ذِكْرُ مَن مَّعِيَ وَذِكْرُ مَن قَبْلِ﴾ یعنی تمام آسمانی کتابیں اور شریعتیں، ابطال شرک کے بارے میں میرے موقف کی صحبت پر متفق ہیں۔ یہ اللہ کی کتاب ہے جس میں عقلی اور نقلی دلائل کے ساتھ ہر چیز کا ذکر موجود ہے اور یہ سابقہ تمام کتب ہیں، یہ بھی میرے موقف پر واضح دلیل اور برہان ہیں اور چونکہ یہ حقیقت معلوم ہے کہ ان کے موقف کے بطلان پر حجت و برہان قائم ہوگئی اس لئے صاف ظاہر ہوگیا کہ ان کے پاس کوئی نہیں دلیل نہیں کیونکہ دلیل و برہان قطعی طور پر فیصلہ کردیتی ہے کہ اس کا کوئی معارض نہیں۔ اگر بظاہر کچھ معارضات موجود ہوں تو یہ محض شبہات ہیں اور جو حق کے مقابلے میں کسی کام نہیں آسکتے۔ ﴿ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ﴾ یعنی وہ اپنے اسلاف کی تقلید کی بنا پر اپنے باطل موقف پر قائم ہیں اور بغیر کسی علم اور ہدایت کے جھگڑا کرتے ہیں۔ ان کا حق کے علم سے محروم ہونے کا باعث یہ نہیں کہ حق مخفی ہے بلکہ اس محرومی کا سبب ان کی حق سے روگردانی ہے، ورنہ اگر انہوں نے حق کی طرف ادنیٰ سا التفات بھی کیا ہوتا تو حق ان پر روز روشن کی طرح واضح ہوجاتا، اس لئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا ﴿ فَهُم مُّعْرِضُونَ﴾ پس وہ اعراض کرنے والے ہیں۔ الأنبياء
25 چونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے انبیائے مقتدمین کا ذکر فرمایا اور حکم دیا کہ اس مسئلہ کی توضیح و تبیین کے بارے میں ان کی طرف رجوع کیا جائے، اس لئے اس مسئلہ کو اپنے اس ارشاد مقدس میں مکمل طور پر واضح فرما دیا ہے ﴿وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ إِلَّا نُوحِي إِلَيْهِ أَنَّهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُونِ﴾ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے آنے والے تمام انبیاء و مرسلین کی دعوت اور ان کی کتابوں کا لب لباب اور مقصد وحید، اللہ وحدہ لا شریک کی عبادت کا حکم اور اس حقیقت کو کھول کر بیان کرنا ہے کہ صرف وہی معبود برحق ہے اور اس کے سوا کسی اور کی عبادت باطل ہے۔ الأنبياء
26 اللہ تبارک و تعالیٰ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تکذیب کرنے والے مشرکین کی سفاہت اور ان کے زعم باطل کے بارے میں خبر دیتا ہے۔۔۔۔ ان کا برا ہو۔۔۔۔ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا بیٹا بنایا ہے اور وہ ہر زہ سرائی کرتے ہیں کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی اس ہر زہ سرائی سے بلند و بالا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے اوصاف کے متعلق آگاہ فرمایا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ربویت کے مرہون بندے اور اس کے دست تدبیر کے تحت مجبور ہیں اور انہیں کسی قسم کا اختیار حاصل نہیں۔ وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں لائق تکریم ہیں، اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی رحمت اور کرامت کے مستحق بندوں میں شامل کیا ہے، انہیں رذائل سے پاک اور بے شمار فضائل سے مختص فرمایا ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کے حضور انتہائی باادب اور اس کے احکامات کی تعمیل کرنے والے ہیں۔ الأنبياء
27 ﴿لَا يَسْبِقُونَهُ بِالْقَوْلِ ﴾ تدبیر مملکت کے متعلق اس وقت تک کوئی بات نہیں کرتے جب تک کہ اللہ تعالیٰ ارشاد نہ فرمائے کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے حضور کامل طور پر مؤدب اور اللہ تعالیٰ کے کمال و حکمت سے پوری طرح آگاہ ہیں ﴿ وَهُم بِأَمْرِهِ يَعْمَلُونَ ﴾ وہ انہیں جو بھی حکم دیتا ہے وہ اس کی تعمیل کرتے ہیں اور جس کام پر انہیں لگاتا ہے وہ اسے سر انجام دیتے ہیں، وہ لمحہ بھر کے لئے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتے ہیں نہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کو نظر انداز کر کے اپنی خواہشات نفس کے پیچھے لگتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کے علم نے ان کا احاطہ کر رکھا ہے۔ الأنبياء
28 ﴿يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ ان کے ماضی اور مستقبل کے تمام معاملات کا علم رکھتا ہے وہ اس کے احاطہ علم سے اسی طرح باہر نہیں نکل سکتے جیسے وہ اس کے دائرہ امر و تدبیر سے باہر قدم نہیں رکھ سکتے۔ ان کے اوصاف میں سے یہ بھی ہے کہ وہ کسی بات میں اللہ تعالیٰ سے سبقت نہیں کرسکتے اور نہ اس کی اجازت اور رضا مندی کے بغیر کسی کی سفارش کرسکتے ہیں، اس لئے جب اللہ تعالیٰ ان کو اجازت دیتا ہے اور جس کے بارے میں وہ سفارش کرنا چاہتے ہیں اس سے اللہ تعالیٰ راضی ہوتا ہے، تب وہ سفارش کرتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ صرف اسی قول و عمل سے راضی ہوتا ہے جو خالص اسی کی رضا کے لئے اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع میں کیا گیا ہو۔۔۔۔۔ یہ آیت کریمہ شفاعت کے اثبات پر دلالت کرتی ہے، نیز اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ فرشتے شفاعت کریں گے۔ ﴿وَهُم مِّنْ خَشْيَتِهِ مُشْفِقُونَ ﴾ یعنی وہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں، ان کے جلال کے سامنے سرنگوں اور اس کے غلبہ و جمال کے سامنے سرافگندہ ہیں۔ الأنبياء
29 جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے واضح فرما دیا کہ الوہیت میں ان )فرشتوں( کا کوئی حق نہیں اور نہ وہ عبودیت ہی کا کوئی استحقاق رکھتے ہیں کیونکہ وہ ایسی صفات سے متصف ہیں جو عدم استحقاق کا تقاضا کرتی ہیں، تو اللہ تعالیٰ نے بھی ذکر فرما دیا کہ الوہیت میں بھی ان کا کوئی حصہ نہیں اور نہ مجرد دعویٰ سے الوہیت کا استحقاق ثابت ہوتا ہے اور ان میں سے جو کوئی یہ دعویٰ کرتا ہے کہ ﴿ إِنِّي إِلَـٰهٌ مِّن دُونِهِ﴾ ” کہ میں اللہ کے سوا معبود ہوں“ یعنی فرض کیا اگر ان میں سے کوئی یہ دعویٰ کرتا ہے ﴿فَذٰلِكَ نَجْزِيهِ جَهَنَّمَ ۚ كَذٰلِكَ نَجْزِي الظَّالِمِينَ﴾ ’’تو ہم اس کو جہنم کی سزا دیں گے، اسی طرح ہم ظالموں کو جزا دیتے ہیں “۔ اور اس سے بڑا اور کونسا ظلم ہوسکتا ہے کہ ایک ناقص مخلوق جو ہر لحاظ سے اللہ تعالیٰ کی محتاج ہے، خصائص الوہیت و ربوبیت میں اللہ تعالیٰ کی شریک ہونے کا دعویٰ کرے؟ الأنبياء
30 کیا ان لوگوں نے۔۔۔۔ جنہوں نے اپنے رب سے کفر کیا اور عبودیت کو اس کے لئے خالص کرنے سے انکار کیا۔۔۔۔ ان نشانیوں کو نہیں دیکھا جو عیاں طور پر دلالت کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی رب محمود و کریم اور معبود۔ وہ زمین و آسمان کا مشاہدہ کرتے ہیں وہ ان کو ایک دوسرے سے جڑا ہوا پاتے ہیں، آسمان میں کوئی بادل ہوتا ہے نہ بارش، زمین مردہ، بے آب وگیاہ اور بنجر دکھائی دیتی ہے، پھر ہم دونوں کو جدا کردیتے ہیں، آسمان کو پانی کے ذریعے سے اور زمین کو نباتات کے ذریعے سے۔ کیا وہ ہستی جو آسمان پر بادل وجود میں لائی تھی جبکہ آسمان بالکل صاف تھا کہیں بادل کا ٹکڑا نہیں آتا تھا، پھر اس نے اس میں بہت سا پانی ودیعت کیا، پھر وہ ہستی اس بادل کو ایک ایسی مردہ زمین پر لے گئی جہاں پانی کی نایابی کی وجہ سے اس کے کناروں تک خاک اڑتی تھی۔ پس اس نے اس مردہ زمین میں بارش برسائی اور وہ لہلہا اٹھی، حرکت کرنے اور بڑھنے لگی اور اس نے مختلف انواع اور متعدد فوائد کی خوشنما نباتات اگائی۔ کیا یہ سب کچھ اس بات کی دلیل نہیں کہ صرف وہی حق ہے اور اس کے سوا سب باطل ہے، وہی مردوں کو زندہ کرے گا، وہی رحمن و رحیم ہے؟ اس لئے فرمایا ﴿ أَفَلَا يُؤْمِنُونَ ﴾ یعنی کیا وہ صحیح طور پر ایمان نہیں لاتے جس میں کوئی شک ہو نہ شرک۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے دلائل آفاقی شمار کرتے ہوئے فرمایا : الأنبياء
31 یعنی یہ بات اللہ تعالیٰ کی قدرت، اس کے کمال، اس کی وحدانیت اور رحمت پر دلیل ہے کہ جب زمین میں پہاڑوں کے بغیر ٹھہراؤ نہیں تھا تو اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کے ذریعے سے اس میں ٹھہراؤ پیدا کیا تاکہ وہ بندوں کے ساتھ جھک نہ جائے یعنی زمین میں اضطراب پیدا نہ ہو اور بندے سکون اور کھیتی باڑی کرنے سے محروم نہ رہ جائیں اور کہیں ایسا نہ ہو کہ زمین میں ٹھہراؤ نہ رہے۔۔۔۔۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کے ذریعے سے زمین کو ٹھہراؤ عطا کیا تب اس سبب سے بندوں کو جو بہت سے مصالح اور منافع حاصل ہوئے، وہ محتاج وضاحت نہیں۔ چونکہ پہاڑ ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں اور ان میں بہت زیادہ اتصال ہے۔ اگر اسی حالت اتصال میں بڑے بڑے پہاڑ اور بلند چوٹیاں ہوتیں تو بہت سے شہروں کا آپس میں رابطہ نہ رہتا، اس لئے یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت اور بندوں پر اس کی رحمت ہے کہ اس نے پہاڑوں کے درمیان راستے بنائے، یعنی آسان راستے جن پر چلنا مشکل نہ ہوتا کہ وہ اپنی مطلوبہ منزلوں تک پہنچ سکیں اور شاید وہ اسی طرح احسان کرنے والی اس ہستی کی وحدانیت پر اس سے استدلال کر کے راہ ہدایت پا لیں۔ الأنبياء
32 ﴿ وَجَعَلْنَا السَّمَاءَ سَقْفًا﴾ یعنی آسمان کو اس زمین کے لئے چھت بنایا جس پر تم رہ رہے ہو ﴿مَّحْفُوظًا﴾ یعنی گرنے سے محفوظ۔ جیسا کہ فرمایا ﴿إِنَّ اللّٰـهَ يُمْسِكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ أَن تَزُولَا ﴾(فاطر:35؍41)” بے شک اللہ تعالیٰ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو تھام رکھا ہے کہ وہ ٹل نہ جائیں“ نیز اللہ تعالیٰ نے آسمانوں کو شیاطین کے سن گن لینے سے بھی محفوظ کر رکھا ہے۔ ﴿وَهُمْ عَنْ آيَاتِهَا مُعْرِضُونَ﴾ یعنی وہ اس کی آیات سے غافل اور لہو و لعب میں مبتلا ہے۔ یہ آسمان کی تمام نشانیوں کے لئے عام ہے، مثلاً اس کی بلندی، کشادگی، عظمت اس کے حسین رنگ، حیرت انگیز مہارت سے اس کی مضبوطی وغیرہ، نیز اس میں بہت سی دیگر نشانیوں کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے، مثلاً ستارے، سیارے، روشن سورج اور چاند جو رات اور دن کے وجود کا باعث بنتے ہیں اور ہمیشہ سے اپنے افلاک میں تیر رہے ہیں۔ اسی طرح ستارے اپنے اپنے فلک میں رواں دواں ہیں۔ پس اس سبب سے بندوں کے مصالح پورے ہوتے ہیں، مثلاً گرمی سردی کا پیدا ہونا، موسموں کا تغیر و تبدل، جس سے بندے اپنی عبادات اور دیگر معاملات کا حساب رکھتے ہیں، رات کے وقت راحت اور سکون پاتے ہیں اور دن کے وقت اپنی معاش کے حصول کے لئے زمین میں پھیل جاتے ہیں۔ ان تمام امور کی تدبیر ایک دانا و بیناہستی کر رہی ہے اور وہ نہایت توجہ سے اس پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ اس سے قطعی طور پر نتیجہ نکلتا ہے جس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو ایک وقت مقرر اور حتمی مدت تک کیلئے بنایا ہے تاکہ اس دوران میں اپنے مصالح و منافع حاصل کرلیں اور فائدہ اٹھا لیں۔ اس کے بعد یہ سب کچھ زائد ہو کر مضمحل ہوجائے گا اور وہ ہستی اسے فنا کے گھاٹ اتار دے گی جو اسے وجود سے لائی ہے، وہ ہستی اس کون و مکاں کو ساکن کر دے گی جس سے اس کو متحرک کیا ہے۔ مکلفین اس گھر سے دوسرے گھر میں منتقل ہوجائیں گے جہاں انہیں ان کے اعمال کی پوری پوری جزا دی جائے گی۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ دنیا آخرت کے دائمی گھر کے لئے کھیتی ہے، یہ سفر کی ایک منزل ہے، مستقل قیام کی جگہ نہیں ہے۔ الأنبياء
33 الأنبياء
34 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دشمن کہا کرتے تھے تم اس رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں گردش زمانہ کا انتظار کرو ! تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ موت کا راستہ ایک ایسی گزر گاہ ہے جس پر سب رواں دواں ہیں۔ ﴿ وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّن قَبْلِكَ الْخُلْدَ ﴾ ” اے محمد ! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم نے آپ سے پہلے دنیا میں کسی بشر کو دائمی زندگی عطا نہیں کی“۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم موت سے ہم آغوش ہوں گے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرح دیگر رسول، انبیا اور اولیاء بھی اسی راستے پر گامزن رہے ہیں جس کی منزل موت ہے۔ ﴿أَفَإِن مِّتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ﴾ یعنی اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وفات پا جائیں گے تو کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد یہ لوگ ہمیشہ زندہ رہیں گے تاکہ وہ اس دائمی زندگی سے لطف اندوز ہوں؟ معاملہ اس طرح نہیں (جس طرح انہوں نے سمجھ رکھا ہے) بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جو کوئی زمین پر ہے اس کی منزل فنا ہے۔ الأنبياء
35 اس لئے فرمایا ﴿  كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ﴾ ” ہر جان موت کا مزہ چھکنے والی ہے“۔ یہ آیت کریمہ تمام خلائق کے نفوس کو شامل ہے۔ بندے کو خواہ کتنی ہی لمبی مہلت اور کتنی ہی طویل عمر کیوں نہ دے دی جائے آخر موت کا پیالہ اسے پینا ہی پڑے گا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس دنیا میں اپنے بندوں کو وجود بخشا، ان کو اوامر و نواہی عطا کئے ان کو خیر و شر، غنا و فقر، عزت و ذلت اور موت و حیات کے ذریعے سے آزمائش میں مبتلا کیا تاکہ وہ دیکھے کہ فتنے کے مواقع پر کون فتنے میں مبتلا ہوتا ہے اور کون فتنے سے نجات پاتا ہے۔ فرمایا ﴿ وَإِلَيْنَا تُرْجَعُونَ﴾ ” پھر تم ہماری ہی طرف لوٹائے جاؤگے“۔ پھر ہم تمہیں تمہارے اعمال کا بدل دیں گے، اگر اچھے اعمال ہیں تو جزا ابھی ہوگی، اگر برے اعمال ہیں تو جزا بھی بری ہوگی۔ ﴿وَمَا رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِيدِ﴾ (حم السجدۃ: 41، 46) ” اور آپ کا رب بندوں پر ظلم نہیں کرتا“۔ یہ آیت کریمہ ان لوگوں کے بطلان پر دلالت کرتی ہے جو حضرت خضر علیہ السلام کی بقاء کے قائل ہیں اور کہتے ہیں کہ حضرت خضر علیہ السلام ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ یہ ایک ایسا قول ہے جس پر کوئی دلیل نہیں، نیز یہ دلائل شرعیہ کے بھی منافی ہے۔ الأنبياء
36 یہ ان کے کفر کی شدت کی طرف اشارہ ہے۔ مشرکین جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تمسخر اڑاتے اور کہتے ﴿ أَهَـٰذَا الَّذِي يَذْكُرُ آلِهَتَكُمْ ﴾ یعنی ان کے زعم کے مطابق یہی ہے جو تمہارے معبودں کی تحقیر کرتا ہے، ان کو سب و شتم اور ان کی مذمت کرتا ہے اور ان کی برائیاں بیان کرتا ہے اس کی پیروی کرو نہ اس کی طرف دھیان دو۔۔۔۔ یہ سب کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ان کا استہزاء اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تحقیر ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صفات کمال شمار ہوتی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ اکمل افضل ہستی ہیں جس کے فضائل و مکارم میں اخلاص اللہ، غیر اللہ کی عبادت مذمت اور عبادت کے اصل مقام و مرتبہ کا ذکر شامل ہے۔ ذلت و استہزاء تو ان کفار کے لئے ہے جن میں ہر قسم کے مذموم اخلاق جمع ہیں۔ اگر ان میں صرف یہی عیب ہوتا کہ انہوں نے رب کریم کے ساتھ کفر کیا اور اس کے رسولوں کا انکار کیا تو اس کی وجہ ہی سے وہ مخلوق میں سب سے زیادہ گھٹیا اور رذیل ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کا رحمٰن کا ذکر کرنا، جو ان کا بلند ترین حال ہے، اس کے ساتھ کفر کرنے والے ہیں کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے ہیں یا اس پر ایمان لاتے ہیں تو اس کے ساتھ شرک کرتے ہیں، اس لئے جب ان کا ذکر کفر اور شرک ہے تو اس کے بعد ان کے دیگر احوال کیسے ہوں گے ؟ اس لئے فرمایا: ﴿وَهُم بِذِكْرِ الرَّحْمَـٰنِ هُمْ كَافِرُونَ﴾ ” اور وہ رحمٰن کے ذکر کے منکر ہیں“۔ یہاں اللہ تعالیٰ کے اسم مبارک( الرحمٰن) کا ذکر کرنے میں ان کے حال کی قباحت کا بیان ہے، نیز یہ بیان کرنا مقصود ہے کہ وہ رحمٰن کا کیسے کفر اور شرک کے ساتھ سامنا کرتے ہیں، حالانکہ وہ تمام نعمتیں عطا کرنے والا اور مصائب کو دور کرنے والا ہے، بندوں کے پاس جتنی نعمتیں ہیں وہ اسی کی طرف سے ہیں اور تمام تکلیف کو صرف وہی رفع کرتا ہے۔ الأنبياء
37 ﴿ خُلِقَ الْإِنسَانُ مِنْ عَجَلٍ﴾ یعنی انسان کو جلد باز پیدا کیا گیا ہے، وہ تمام امور میں عجلت پسند ہے اور ان کے وقوع میں جلدی مچاتا ہے۔ اہل ایمان کفار کے لئے عذاب میں جلدی چاہتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ کفار پر عذاب بھیجنے میں دیر کردی گئی ہے۔ کفار تکذیب و عناد کے ساتھ روگردانی کرتے اور نزول عذاب کے لئے جلدی مچاتے ہیں الأنبياء
38 اور کہتے ہیں ﴿ مَتَىٰ هَـٰذَا الْوَعْدُ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ﴾ ” کب ہے یہ (عذاب کا) وعدہ، اگر تم سچے ہو۔“ اور اللہ تعالیٰ نہایت حلم کے ساتھ ان کو مہلت دیتا ہے ان کو مہمل نہیں چھوڑتا اور ان کے لئے ایک وقت مقرر کردیتا ہے۔ ﴿ فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ لَا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةًوَلَا يَسْتَقْدِمُونَ﴾ (الاعراف : 7 ؍34) ” جب ان کا وقت مقرر آن پہنچتا ہے تو ان کے لئے ایک گھڑی بھر کی تاخیر ہوتی ہے نہ تقدیم۔ “ اور اسی لئے فرمایا : ﴿سَأُرِيكُمْ آيَاتِي ﴾ یعنی جس نے میرے ساتھ کفر کیا اور میری نافرمانی کی میں انہیں اپنے انتقام کا مزا چکھانے میں اپنی نشانیاں دکھاؤں گا ﴿فَلَا تَسْتَعْجِلُونِ﴾ اس لئے اس کی بابت جلدی نہ مچاؤ۔ اسی طرح جو کفار کہتے تھے کہ ﴿ مَتَىٰ هَـٰذَا الْوَعْدُ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ﴾ وہ فریب میں مبتلا ہونے کی وجہ سے یہ بات کہتے تھے کیونکہ ابھی ان کے لئے سزا مقرر نہیں ہوئی تھی اور ان پر عذاب نازل نہیں ہوا تھا۔ الأنبياء
39 ﴿لَوْ يَعْلَمُ الَّذِينَ كَفَرُوا﴾ ” کاش جان لیں کافر“ یعنی اپنی بری حالت کو ﴿حِينَ لَا يَكُفُّونَ عَن وُجُوهِهِمُ النَّارَ وَلَا عَن ظُهُورِهِمْ﴾ ’’کہ جب نہیں روک سکیں گے وہ عذاب کو اپنے چہروں سے اور نہ اپنی پشتوں سے۔“ جب عذاب انہیں ہر جانب سے گھیر لے گا اور ہر طرف سے ان پر چھا جائے گا ﴿وَلَا هُمْ يُنصَرُونَ﴾ ” اور نہ وہ مدد کئے جائیں گے۔“ یعنی کوئی ان کی مدد کرسکے گا نہ وہ خود کسی کی مدد کرسکیں گے اور نہ کسی سے مدد حاصل کرسکیں گے۔ الأنبياء
40 ﴿ بَلْ تَأْتِيهِم﴾ ” بلکہ آجائے گی ان کے پاس۔“ یعنی آگ ﴿ بَغْتَةً فَتَبْهَتُهُمْ﴾ ” اچانک، پس وہ ان کو مبہوت کر دے گی۔“ یعنی ناگہاں ان پر ٹوٹ پڑے گی، گھبراہٹ، دہشت اور عظیم خوف انہیں ہکا بکا کردیں گے۔ ﴿فَلَا يَسْتَطِيعُونَ رَدَّهَا﴾ ” پس وہ اس کو لوٹانے کی طاقت نہیں رکھیں گے۔“ کیوں کہ وہ ایسا کرنے سے عاجز اور بہت کمزور ہوں گے۔ ﴿ وَلَا هُمْ يُنظَرُونَ﴾ یعنی ان کو مہلت دے کر ان پر سے عذاب موخر نہیں کیا جائے گا۔ اگر انہیں اپنی اس حالت اور انجام کا علم ہوتا تو کبھی عذاب کے لئے جلدی نہ مچاتے بلکہ عذاب سے بہت زیادہ ڈرتے۔ مگر جب یہ علم ان کے پاس نہ رہا تو انہوں نے اس قسم کی باتیں کیں۔ الأنبياء
41 اور جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے رسول کے ساتھ کفار کے تمسخر کا ذکر فرمایا ﴿أَهَـٰذَا الَّذِي يَذْكُرُ آلِهَتَكُمْ﴾ تو اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تسلی دی کہ گزشتہ قوموں کا بھی اپنے رسولوں کے ساتھ یہی رویہ تھا، چنانچہ فرمایا : ﴿وَلَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ مِّن قَبْلِكَ فَحَاقَ بِالَّذِينَ سَخِرُوا مِنْهُم مَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ ﴾ ” اور آپ سے پہلے رسولوں کے ساتھ بھی استہزاء کیا گیا۔ پس گھیر لیا ان لوگوں کو جنہوں نے ان میں سے استہزاء کیا تھا اس چیز نے جس کے ساتھ وہ استہزاء کرتے تھے۔“ یعنی ان پر عذاب الٰہی ٹوٹ پڑا اور ان کے تمام اسباب منقطع ہوگئے، اس لئے ان لوگوں کو ڈرنا چاہئے کہ کہیں ان پر بھی وہ عذاب نازل نہ ہوجائے جو گزشتہ امتوں پر نازل ہوا تھا جنہوں نے اپنے رسولوں کی تکذیب کی۔ الأنبياء
42 اللہ تبارک و تعالیٰ ان لوگوں کی بے بسی کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے جنہوں نے اللہ کے بغیر دوسرے معبود بنا لئے۔۔۔ کہ وہ اپنے رب رحمان کے محتاج ہیں جس کی بے پایاں رحمت شب و روز ہر نیک اور بد پر سایہ کناں ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿قُلْ مَن يَكْلَؤُكُم﴾ یعنی کون تمہاری حفاظت کرتا ہے ﴿ بِاللَّيْلِ﴾ ” رات کو۔“ یعنی جب تم اپنے بستروں میں سو رہے اور اپنے حواس سے محروم ہوتے ہو ﴿وَالنَّهَارِ﴾ ” اور دن کو۔“ یعنی تمہارے زمین میں پھیل جانے اور تمہاری غفلت کے وقت ﴿مِنَ الرَّحْمَـٰنِ﴾ ” رحمن کے مقابلے میں۔“ یعنی اللہ تعالیٰ کے سوا کون تمہاری حفاظت کرتا ہے اس کے بغیر کوئی ہے جو تمہاری حفاظت کرتا ہو؟ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی تمہاری حفاظت کرنیوالا نہیں۔ ﴿ بَلْ هُمْ عَن ذِكْرِ رَبِّهِم مُّعْرِضُونَ﴾ ” بلکہ وہ اپنے رب کے ذکر سے اعراض کرنے والے ہیں۔“ اسی لئے انہوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کا ارتکاب کیا۔ اگر انہوں نے اپنے رب کی طرف توجہ کی ہوتی، اس کی نصیحتوں کو قبول کیا ہوتا، تو یقیناً انہیں رشد و ہدایت عطا کردی جاتی اور ان کے معاملے میں انہیں توفیق سے نواز دیا جاتا۔ الأنبياء
43 ﴿  أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُم مِّن دُونِنَا﴾ یعنی جب ہم ان کے ساتھ کسی برائی کا ارادہ کرتے ہیں، تو کیا ان کے خود ساختہ معبود ان کو اس برائی اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والے شر سے بچانے کی قدرت رکھتے ہیں؟ ﴿لَا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَ أَنفُسِهِمْ وَلَا هُم مِّنَّا يُصْحَبُونَ﴾ ” نہیں طاقت رکھتے وہ خود اپنی مدد کرنے کی اور نہ وہ ہماری طرف سے رفاقت دیئے جاتے ہیں۔“ یعنی ہماری طرف سے ان کے معاملات میں ان کی مدد نہیں کی جاتی۔ جب ان کی مدد نہ کی جائے تو گویا ان کو اللہ تعالیٰ کی توفیق سے محروم کر کے ان کے اپنے حال پر چھوڑ دیا جاتا ہے اور یوں وہ کوئی فائدہ اٹھانے اور ضرر دور کرنے پر قادر نہیں ہوتے۔ الأنبياء
44 جو چیز ان کے اپنے کفر و شرک پر جمے رہنے کی باعث بنی اس کے بارے میں فرمایا : ﴿بَلْ مَتَّعْنَا هَـٰؤُلَاءِ وَآبَاءَهُمْ حَتَّىٰ طَالَ عَلَيْهِمُ الْعُمُرُ﴾ ہم نے مال اور اولاد کے ذریعے سے ان کی مدد کی، ان کو لمبی عمریں عطا کیں تو وہ ان مقاصد کو چھوڑ کر جن کے لئے ان کو پیدا کیا گیا تھا، لہو و لعب کی بنا پر، مال اور اولاد سے متمتع ہونے میں مشغول ہوگئے اور ان کی مدت مہلت طویل ہوگئی، جس سے ان کے دل سخت ہوگئے، ان کی سرکشی بڑھ گئی اور ان کا کفر بہت زیادہ ہوگیا۔ اگر وہ اس زمین پر دائیں بائیں مڑ کر اپنے جیسے لوگوں کا انجام دیکھتے تو ہلاک ہونے والوں کے سوا کچھ نہ پاتے اور موت کی خبر دینے والے کی آواز کے سوا کوئی آواز نہ سنتے۔ انہیں معلوم ہوتا کہ کئی قومیں پے در پے ہلاک ہوگئیں اور موت نے نفوس کو پھانسنے کے لئے ہر راستے پر پھندہ لگا رکھا ہے۔ بنا بریں فرمایا : ﴿أَفَلَا يَرَوْنَ أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ نَنقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا﴾ یعنی ہم زمین کو اہل زمین کی موت اور ان کو فنا کرنے کے ذریعے آہستہ آہستہ کم کر رہے ہیں یہاں تک کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی زمین اور زمین کے رہنے والوں کا وارث ہوگا اور وہ بہترین وارث ہے اگر وہ اپنی اس حالت کو دیکھیں تو کبھی فریب میں مبتلا نہ ہوں اور کبھی اپنے کفر و شرک کے موجودہ رویے پر جمے نہ رہیں۔ ﴿أَفَهُمُ الْغَالِبُونَ﴾ ” کیا پس وہ غالب ہیں۔“ جو اپنے زور سے اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر کو روک سکتے ہوں اور اپنی طاقت سے موت سے بچ سکتے ہوں؟ کیا یہ ان کا وصف ہے کہ جس کی بنا پر وہ طول بقاء کے فریب میں مبتلا ہیں؟ یا ان کی حالت یہ ہے کہ جب ان کی ارواح کو قبض کرنے کے لئے ان کے رب کا فرشتہ ان کے پاس آئے گا تو اس کے سامنے سرنگوں ہوجائیں گے اور ادنیٰ سی مزاحمت پر بھی قادر نہ ہوں گے۔ الأنبياء
45 ﴿قُلْ﴾ اے محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) آپ تمام لوگوں سے کہہ دیجئے ﴿ إِنَّمَا أُنذِرُكُم بِالْوَحْيِ﴾ یعنی میں تو اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں جو کچھ تمہارے پاس لایا ہوں وہ اپنی طرف سے نہیں لایا نہ میرے پاس اللہ تعالیٰ کے خزانے ہیں، نہ میں غیب جانتا ہوں اور نہ میں دعویٰ کرتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں، میں تو صرف اس چیز کے ذریعے سے تمہیں ڈراتا ہوں جو اللہ تعالیٰ میری طرف وحی کرتا ہے۔ اگر تم نے میری دعوت پر لبیک کہی تو یہ اللہ تعالیٰ کی دعوت پر لبیک ہے وہ تمہیں اس پر ثواب عطا کرے گا اور اگر تم روگردانی کر کے اس کی مخالفت کرو گے، تو میرے ہاتھ میں کوئی اختیار نہیں۔ اختیار تو تمام تر اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہے اور تقدیر صرف اسی کی طرف سے ہے۔ ﴿ وَلَا يَسْمَعُ الصُّمُّ الدُّعَاءَ﴾ یعنی بہرہ کسی قسم کی آواز نہیں سن سکتا کیونکہ اس کی سماعت خراب ہوچکی ہے جس طرح آواز کا سننا اس شرط کے ساتھ مشروط ہے کہ آواز کو قبول کرنے والا مقام و محل موجود ہو۔ اسی طرح وحی قلب و روح کے لئے زندگی اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے سمجھ کا سبب ہے لیکن اگر قلب ہدایت کی آواز کو قبول نہیں کرتا، تو وہ ہدایت اور ایمان کی نسبت سے اس بہرے کی مانند ہے جو آوازوں کو نہیں سن سکتا۔ یہ مشرکین بھی ہدایت اور ایمان کی آواز سننے سے بہرے ہیں اس لئے ان کا ہدایت کو قبول نہ کرنا کوئی تعجب انگیز بات نہیں خاص طور پر اس حالت میں کہ ابھی تک ان کو عذاب اور اس کی تکلیف نے چھوا نہیں۔ الأنبياء
46 ﴿ وَلَئِن مَّسَّتْهُمْ نَفْحَةٌ مِّنْ عَذَابِ رَبِّكَ﴾ یعنی اگر اللہ تعالیٰ کے عذاب کا ایک معمولی سا حصہ ان کو چھولے ﴿لَيَقُولُنَّ يَا وَيْلَنَا إِنَّا كُنَّا ظَالِمِينَ﴾ ” تو پکاراٹھیں گے ہائے ہماری کم بختی ! ہم تو ظالم تھے۔“ یعنی وہ پکاریں گے : ہائے ہم تباہ و برباد ہوگئے اور ان کی پکار اپنی ندامت کا اظہار اور اپنے ظلم، کفر اور استحقاق عذاب ہی کا اعتراف ہوگی۔ الأنبياء
47 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے عدل پر مبنی حکم کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے، قیامت کے روز جب وہ اپنے بندوں کو جمع کرے گا تو ان کے درمیان عدل و انصاف کے ساتھ فیصلے کرے گا۔ نہایت عدل کے ساتھ وزن کرنے والی ترازوئیں قائم کردی جائیں جن پر ذرہ بھر وزن بھی واضح ہوجائے گا۔ یہ ترازوئیں نیکیوں اور برائیوں کا وزن کریں گی۔ ﴿ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ﴾ ” پس کسی نفس پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔“ خواہ وہ مسلمان ہو یا کافر ﴿ شَيْئًا﴾ ” کچھ بھی۔“ یعنی کسی شخص کی نیکیوں میں کمی کی جائے گی نہ کسی شخص کی برائیوں میں اضافہ کیا جائے گا۔ ﴿وَإِن كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ﴾ ” اور اگر ہوگا (عمل) رائی کے دانے کے برابر۔“ جو کہ سب سے چھوٹی اور حقیر سی چیز ہے یعنی رائی کے دانے کے برابر بھی نیکی یا بدی ہوگی ﴿ أَتَيْنَا بِهَا ﴾ ہم اسے سامنے حاضر کردیں گے تاکہ اس پر اس کے مرتکب کو جزا دی جائے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿فَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ وَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ ﴾ (الزلزال : 99؍7، 8) ” جس نے ذرہ بھر نیکی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ بھر برائی کا ارتکاب کیا ہوگا وہ اسے دیکھ لے گا۔“ نیز اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿ وَيَقُولُونَ يَا وَيْلَتَنَا مَالِ هَـٰذَا الْكِتَابِ لَا يُغَادِرُ صَغِيرَةً وَلَا كَبِيرَةً إِلَّا أَحْصَاهَا ۚ وَوَجَدُوا مَا عَمِلُوا حَاضِرًا﴾ (الکھف :18؍49) ” وہ کہیں گے کہ ہماری کم بختی ! یہ کیسی کتاب ہے کہ کوئی چھوٹا یا بڑا عمل ایسا نہیں جو اس میں لکھنے سے رہ گیا ہو اور وہ اپنے تمام اعمال کو موجود پائیں گے۔ “ ﴿ وَكَفَىٰ بِنَا حَاسِبِينَ﴾ اللہ تعالیٰ کی اس سے مراد خود اپنا نفس کریمہ ہے اور وہ حساب لینے کے لئے کافی ہے۔ یعنی اللہ اپنے بندوں کے اعمال کا علم رکھتا ہے، ان اعمال کو کتاب میں درج کر کے ان کی حفاظت کرتا ہے، وہ ان اعمال کی مقدار کے مطابق ثواب اور ان کے استحقاق کا بھی علم رکھتا ہے اور وہ عمل کرنے والوں کو ان کی جزا عطا کرے گا۔ الأنبياء
48 اللہ تبارک و تعالیٰ نے نہایت کثرت سے ان دو جلیل القدر کتابوں کا اکٹھا ذکر کیا ہے ان دونوں سے افضل، ذکر میں ان سے بڑی، ان سے زیادہ بابرکت اور ہدایت و بیان کے لئے زیادہ عظیم کوئی اور کتاب دنیا میں نازل نہیں ہوئی اور وہ ہیں تو رات اور قرآن کریم، اس لئے اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ اس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اصلاً اور حضرت ہارون علیہ السلام کو تبعاً تورات عطا فرمائی ﴿الْفُرْقَانَ﴾ جو حق اور باطل کے درمیان اور ہدایت اور گمراہی کے درمیان فرق کرتی ہے ﴿وَضِيَاءً﴾ نور ہے جس سے راہنمائی کے خواہشمند راہنمائی حاصل کرتے ہیں، اہل سلوک اس کو اپنا امام بناتے ہیں، اس سے احکام کی معرفت حاصل ہوتی ہے، اس کے ذریعے سے حلال و حرام کی پہچان حاصل ہوتی ہے، وہ جہالت، گمراہی اور بدعات کی تاریکیوں میں روشنی عطا کرتی ہے۔ ﴿وَذِكْرًا لِّلْمُتَّقِينَ﴾ ” اور نصیحت ہے متقین کے لئے۔“ یعنی اہل تقویٰ کے ذریعے سے نصیحت پکڑتے ہیں کہ کون سے امور ان کو فائدہ دیتے ہیں اور کون سے امور ان کے لئے نقصان دہ ہیں اور اس کے ذریعے سے خیر و شر کی معرفت حاصل کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اہل تقویٰ کو ” ذکر“ کے ساتھ اس لئے مختص کیا ہے کیونکہ صرف وہی اس سے علم و عمل میں فائدہ اٹھاتے ہیں۔ الأنبياء
49 یہاں عطف، ایک ہی چیز اور ایک ہی موصوف پروارد ہونے والی متضاد صفات پر عطف کے باب میں سے ہے۔ ﴿وَهَـٰذَا﴾ ” اور یہ“ یعنی قرآن کریم ﴿ذِكْرٌ مُّبَارَكٌ أَنزَلْنَاهُ﴾ ” مبارک ذکر ہے جسے ہم نے اتارا ہے۔ “پس اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم کو خود جلیل القدر اوصاف سے موسوم کیا ہے۔ (1) قرآن حکیم ” ذکر“ ہے۔ تمام مطالب میں قرآن سے نصیحت حاصل کی جاتی ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات اور اس کے افعال، اس کے انبیاء و اولیاء کی صفات اور احکام جزا، جنت اور جہنم کی معرفت حاصل ہوتی ہے، نیز اللہ تعالیٰ نے قرآن کو اس لئے بھی ” ذکر“ کہا ہے کہ قرآن۔۔۔. اخبار صادقہ کی تصدیق، ان امور کا حکم دینا جو عقلاً حسن ہیں اور ان امور سے روکنا جو عقلاً قبیح ہیں، جیسی صفات کو جو اللہ تعالیٰ نے انسان کی عقل و فطرت میں ودیعت کررکھی ہیں ان کی یاددہانی کراتا ہے۔ (2) قرآن کریم کا ” مبارک“ (یعنی بابرکت) ہونا اس میں بھلائی کی کثرت، بھلائی کی نشونما اور اس میں اضافے کا تقاضا کرتا ہے۔ اس قرآن حکیم سے بڑھ کر کوئی چیز بابرکت نہیں کیونکہ ہر بھلائی، ہر نعمت، دینی، دنیاوی اور اخروی امور میں ہر اضافہ اسی کے سبب سے ہے اور اس پر عمل کے آثار ہیں۔ جب ” ذکر“ بابرکت ہو تو اس کو قبول کرنا، اس کی اطاعت کرنا اور اس کے سامنے سر تسلیم خم کرنا واجب ہے تاکہ اللہ تعالیٰ کی اس جلیل القدر نعمت کا شکر ادا ہو، اس کو قائم کیا جا سکے اور اس کے الفاظ و معانی کو سیکھ کر اس سے برکت حاصل کی جائے اور اس رویے سے متضاد رویہ، یعنی اس سے روگردانی کرنا، اسے درخور اعتنا نہ سمجھنا، اس کا انکار کرنا اور اس پر ایمان نہ لانا سب سے بڑا کفر، شدید ترین جہالت اور سخت ظلم ہے۔ الأنبياء
50 اس لئے جو کوئی اس کا انکار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر نکیر کرتے ہوئے فرماتا ہے ﴿أَفَأَنتُمْ لَهُ مُنكِرُونَ ﴾ کیا تم اس کا انکار کرتے ہو۔ الأنبياء
51 اللہ تبارک و تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام علیہ السلام اور حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ور ان کی جلیل القدر کتابوں کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا : ﴿وَلَقَدْ آتَيْنَا إِبْرَاهِيمَ رُشْدَهُ مِن قَبْلُ﴾ یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) بعثت اور ان کی کتابوں کے نازل ہونے سے پہلے، اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کو زمین و آسمان کی بادشاہی کا مشاہدہ کروایا اور انہیں رشد و ہدایت عطا کی، جس سے ان کے نفس کو کمال حاصل ہوا اور آپ نے لوگوں کو اس کی طرف دعوت دی، جو اللہ تعالیٰ نے محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی کو عطا نہیں کی اور آپ کے ہدایت یافتہ ہونے کے باعث، آپ کے حسب حال اور آپ کے بلند مرتبہ کی بنا پر رشد کو آپ کی طرف مضاف کیا گیا ورنہ ہر مومن کو اس کے حسب ایمان رشد و ہدایت سے نوازا گیا ہے۔ ﴿ وَكُنَّا بِهِ عَالِمِينَ ﴾ ” اور ہم اس کو جانتے تھے۔“ یعنی ہم نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو رشد و ہدایت عطا کی، ان کو رسالت کے لئے منتخب کیا، انہیں اپنا خلیل بنایا اور دنیا و آخرت میں انہیں اپنے لئے چن لیا اس لئے کہ ہم جانتے تھے کہ وہ اس مرتبہ کے اہل اور اپنی پاکیزگی اور ذہانت کی بنا پر اس کے مستحق ہیں۔ الأنبياء
52 بنا بریں اللہ تعالیٰ نے ان کا اپنی قوم کے ساتھ مباحثہ، شرک سے ان کو روکنے، بتوں کو توڑنے اور ان پر آپ کے حجت قائم کرنے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ إِذْ قَالَ لِأَبِيهِ وَقَوْمِهِ مَا هَـٰذِهِ التَّمَاثِيلُ﴾ ” جب انہوں نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا، یہ مورتیاں کیا ہیں؟“ جن کو تم نے بعض مخلوقات کی صورت پر خود اپنے ہاتھوں سے بنایا اور خود گھڑا ہے ﴿الَّتِي أَنتُمْ لَهَا عَاكِفُونَ﴾ جن پر تم ان کی عبادت کے لئے قیام اور اس کا التزام کرتے ہو۔۔۔. یہ گھڑے ہوئے پتھر کیا ہیں؟ ان میں کونسی فضیلت ظاہر ہوئی ہے؟ تمہاری عقلیں کہاں چلی گئی ہیں کہ تم نے اپنے اوقات کو ان بتوں کی عبادت میں ضائع کردیا، حالانکہ تم نے خود ان کو اپنے ہاتھوں سے گھڑا ہے؟ یہ سب سے بڑی تعجب انگیز بات ہے کہ جس چیز کو تم خود اپنے ہاتھوں سے گھڑتے ہو اسی کی عبادت کرتے ہو، تو انہوں نے بغیر کسی حجت اور برہان کے اس شخص کا سا جواب دیا جو عاجز اور بے بس ہو اور جسے ادنیٰ سا بھی شبہ نہ ہو۔ الأنبياء
53 چنانچہ انہوں نے کہا : ﴿وَجَدْنَا آبَاءَنَا﴾ ہم نے اپنے آباؤ اجداد کو ایسے ہی کرتے پایا ہم بھی ان کی راہ پر گامزن ہیں اور ان کی پیروی میں ان بتوں کی عبادت کرتے ہیں۔ الأنبياء
54 یہ حقیقت اچھی طرح معلوم ہے کہ انبیاء و مرسلین کے سوا، کسی شخص کا فعل حجت ہے نہ اس کی پیروی ہی کرنا جائز ہے۔ خاص طور پر اصول دین اور توحید الٰہی میں۔۔۔. اس لئے ابراہیم علیہ السلام نے ان تمام لوگوں کو گمراہ قرار دیتے ہوئے فرمایا : ﴿ لَقَدْ كُنتُمْ أَنتُمْ وَآبَاؤُكُمْ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ﴾ یعنی تم اور تمہارے آباؤ اجداد واضح گمراہی میں مبتلا ہو اور کونسی گمراہی ہے جو ان کے شرک میں مبتلا ہونے اور توحید کو ترک کرنے کی گمراہی سے زیادہ بڑی ہو؟ یعنی اس گمراہی کو پکڑے رہنے کے لئے تم نے جو دلیل دی ہے وہ درست نہیں، تم اور تمہارے باپ دادا کھلی گمراہی پر ہو جو ہر ایک پر واضح ہے۔ الأنبياء
55 ﴿قَالُوا ﴾ انہوں نے تعجب اور ابراہیم علیہ السلام کے قول پر استفہام کے طور پر کہا، نیز یہ کہ ابراہیم علیہ السلام نے انہیں اور ان کے آباؤ اجداد کو بے وقوف قرار دیا تھا۔ ﴿أَجِئْتَنَا بِالْحَقِّ أَمْ أَنتَ مِنَ اللَّاعِبِينَ﴾ یعنی کیا وہ بات جو تم نے کہی ہے اور وہ چیز جو تو لے کر آیا ہے، حق ہے؟ یا تیرا ہمارے ساتھ بات کرنا، کسی دل لگی کرنے والے اور تمسخر اڑانے والے کا بات کرنا ہے جو یہ نہیں جانتا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے؟۔۔۔. پس انہوں نے ان دو امور کی بنا پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بات کو رد کردیا، انہوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعوت کو اس بنا پر رد کردیا کہ ان کے ہاں یہ بات تسلیم شدہ تھی کہ جو کلام حضرت ابراہیم علیہ السلام لے کر آئے ہیں وہ ایک بے وقوف کا کلام ہے، آپ جو بات کہتے ہیں وہ عقل میں نہیں آتی۔ ابراہیم علیہ السلام نے ان کی بات کا اس طرح جواب دیا جس سے ان کی سفاہت اور کم عقلی واضح ہوتی تھی۔ الأنبياء
56 چنانچہ فرمایا : ﴿بَل رَّبُّكُمْ رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الَّذِي فَطَرَهُنَّ وَأَنَا عَلَىٰ ذَٰلِكُم مِّنَ الشَّاهِدِينَ﴾ ” بلکہ تمہارا رب تو وہ ہے جو آسمانوں اور زمین کا رب ہے جس نے ان کو پیدا کیا اور میں بھی ان باتوں کو ماننے والوں میں سے ہوں۔“ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان کے لئے عقلی اور نقلی دونوں دلیلوں کو جمع کردیا۔ عقلی دلیل یہ ہے کہ ہر ایک شخص، حتیٰ کہ وہ خود بھی جنہوں نے ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ جھگڑا کیا، جانتے تھے کہ اللہ تعالیٰ ہی نے انسانوں، فرشتوں، جنوں، جانوروں اور زمین و آسمان کو پیدا کیا ہے اور وہی ہے جو مختلف الانواع تدابیر کے ساتھ ان کی تدبیر کر رہا ہے۔ پس تمام مخلوق پیدا شدہ، محتاج تدبیر اور زیر تصرف ہے اور جن کی یہ مشرکین عبادت کرتے ہیں وہ بھی اس مخلوق میں داخل ہیں۔۔۔. کیا یہ چیز اس شخص کے نزدیک، جو ادنیٰ سی عقل اور تمیز رکھتا ہے۔۔۔ مناسب ہے کہ ایک ایسی مخلوق ہستی کی عبادت کی جائے جو کسی کے زیر تصرف ہے، جو کسی نفع و نقصان کی مالک نہیں، جو زندگی اور موت پر قدرت رکھتی ہے نہ دوبارہ زندہ کرنے پر اور خالق، رازق اور مدبر کائنات کی عبادت کو چھوڑ دیا جائے؟ نقلی اور سمعی دلیل وہ ہے جو انبیاء کرام علیہ السلام سے منقول ہے کہ وہ جو کچھ لے کر آئے ہیں وہ معصوم اور غلطیوں سے پاک ہے اور وہ صرف حق کی خبر دیتا ہے اور دلیل سمعی اس کی ایک قسم کسی نبی کی گواہی ہے، بنا بریں ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا : ﴿وَأَنَا عَلَىٰ ذَٰلِكُم﴾ ” اور میں اس پر“ یعنی اس امر پر کہ اللہ تعالیٰ ہی اکیلا عبادت کا مستحق ہے اور اس کے سوا ہر ہستی کی عبادت باطل ہے۔ ﴿ مِّنَ الشَّاهِدِينَ﴾ ”گواہی دینے والوں میں سے ہوں۔“ اور اللہ تعالیٰ کی گواہی کے بعد کونسی گواہی ہے جو انبیاء و رسل کی گواہی سے افضل ہو خاص طور پر اولوالعزم رسول اور رحمان کے خلیل کی گواہی سے؟ الأنبياء
57 چونکہ آپ نے دلیل سے واضح کردیا تھا کہ ان کے بت کسی تدبیر کا اختیار نہیں رکھتے، اس لئے آپ نے ان کو بالفعل ان کے خود ساختہ معبودوں کی بے بسی اور خود اپنی مدد کرنے پر بے اختیاری کا مشاہدہ کروانے کا ارادہ کیا اور ایسا طریق کار استعمال کیا کہ وہ اپنے معبودوں کی بے بسی اور بے اختیاری کا خود اقرار کریں، اس لئے ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا : ﴿ وَتَاللّٰـهِ لَأَكِيدَنَّ أَصْنَامَكُم ﴾ یعنی تمہیں لاجواب کرنے کے لئے چال کے طور پر میں ان بتوں کو توڑ دوں گا ﴿بَعْدَ أَن تُوَلُّوا مُدْبِرِينَ ﴾ ” جب تم پیٹھ پھیر کر چلے جاؤ گے۔“ یعنی جب اپنی کوئی عید منانے کے لئے چلے جاؤ گے۔ الأنبياء
58 چنانچہ جب وہ وہاں سے چلے گئے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام چپکے سے ان بتوں کے پاس گئے ﴿فَجَعَلَهُمْ جُذَاذًا ﴾ اور ان بتوں کو ریزہ ریزہ کردیا۔ تمام بت ایک ہی بت خانے میں جمع تھے، اس لئے ان سب کو توڑ دیا۔ ﴿إِلَّا كَبِيرًا لَّهُمْ﴾ سوائے ان کے بڑے بت کے اور اسے ایک خاص مقصد کے لئے چھوڑ دیا، جسے عنقریب اللہ تعالیٰ بیان فرمائے گا۔ ذرا اس عجیب ” احتراز“ پر غور فرمائیے کیونکہ ہر وہ چیز جو اللہ تعالیٰ کے ہاں مغضوب ہے۔ اس پر تعظیم کے الفاظ کا اطلاق صحیح نہیں سوائے اس صورت میں کہ تعظیم کی اضافت تعظیم کرنے والوں کی طرف ہو۔ جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ تھا کہ آپ جب زمین کے مشرک بادشاہوں کی طرف خط لکھتے تو اس طرح مخاطب فرماتے : (( اِلٰی عَظِيمَ الْفُرْسِ أَوْ إِلٰی عَظِيمِ الرُّوْمِ ))یعنی ” اہل فارس کے بڑے کی طرف یا اہل روم کے بڑے کی طرف“ اور ﴿ إِلَى الْعَظِيمِ ﴾ ” یعنی بڑی ہستی کی طرف“ جیسے الفاظ استعمال نہیں فرمائے۔ یہاں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿إِلَّا كَبِيرًا لَّهُمْ ﴾ ” ان کے بڑے بت کو چھوڑ دیا۔“ اور یہ نہیں فرمایا ( كَبِيرًامِّنْ أَصْنَامِهِمْ )” ان کے بتوں میں سے بڑے بت کو“ پس یہ بات اس لائق ہے کہ آدمی اس پر متنبہ رہے اور اس ہستی کی تعظیم سے احتراز کرے جسے اللہ تعالیٰ نے حقیر قرار دیا ہے۔ البتہ اس تعظیم کی اضافت ان لوگوں کی طرف کی جاسکتی ہے جو اس کی تعظیم کرتے ہیں۔ ﴿ لَعَلَّهُمْ إِلَيْهِ يَرْجِعُونَ  ﴾ یعنی ابراہیم علیہ السلام نے ان کے اس بڑے بت کو چھوڑ دیا تاکہ وہ اس کی طرف رجوع کریں اور آپ کی حجت و دلیل سے زچ ہو کر اس حجت کی طرف التفات کریں اور اس سے روگردانی نہ کریں اسی لئے آیت کریمہ کے آخر میں فرمایا : ﴿ فَرَجَعُوا إِلَىٰ أَنفُسِهِمْ  ﴾ ” پس انہوں نے اپنے دل میں غور کیا۔ “ الأنبياء
59 جب انہوں نے اپنے معبودوں کی اہانت اور رسوائی دیکھی تو کہنے لگے : ﴿مَن فَعَلَ هَـٰذَا بِآلِهَتِنَا إِنَّهُ لَمِنَ الظَّالِمِينَ ﴾ ” ہمارے معبودوں کے ساتھ یہ کام کس نے کیا ہے؟ یقیناً وہ ظالموں میں سے ہے۔“ انہوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ظالم کہا، حالانکہ وہ خود اس صفت کے زیادہ مستحق ہیں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان بتوں کو توڑا اور آپ کا ان بتوں کو توڑنا آپ کے بہترین مناقب میں سے ہے، نیز آپ کے عدل اور آپ کی توحید پر دلالت کرتا ہے۔ ظالم تو وہ لوگ ہیں جنہوں نے ان بتوں کو معبود بنا لیا تھا، حالانکہ انہوں نے دیکھ لیا کہ ان کے معبدوں کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا۔ الأنبياء
60 ﴿ قَالُوا سَمِعْنَا فَتًى يَذْكُرُهُمْ ﴾ یعنی جو ان بتوں کی عیب چینی اور مذمت کرتا تھا۔ جس کا یہ حال ہے یقیناً اسی نے ان بتوں کو توڑا ہوگا۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام ان بتوں کے خلاف چال چلنے کی بات کر رہے تھے تو ان مشرکین میں سے کسی نے سن لیا ہو۔ الأنبياء
61 جب ان کے سامنے یہ بات متحقق ہوگئی کہ یہ سب کچھ ابراہیم علیہ السلام نے کیا ہے ﴿قَالُوا فَأْتُوا بِهِ ﴾ تو کہنے لگے ابراہیم(علیہ السلام) کو لے کر آؤ ﴿ عَلَىٰ أَعْيُنِ النَّاسِ ﴾ یعنی لوگوں کے سامنے ﴿لَعَلَّهُمْ يَشْهَدُونَ ﴾ یعنی جس شخص نے ان کے معبودوں کو توڑا ہے اس کے ساتھ ہونے والے سلوک کے وقت لوگ موجود ہوں اور یہی بات ابراہیم علیہ السلام چاہتے تھے اور یہی ان کا مقصد تھا کہ لوگوں کے بھرے مجمع میں حق ظاہر ہو لوگ حق کا مشاہدہ کریں اور ان پر حجت قائم ہوجائے، جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون سے اس وقت کہا تھا جب اس نے موسیٰ علیہ السلام کو مقابلے کیلئے ایک دن مقرر کرنے کے لئے کہا تھا، چنانچہ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا ﴿ مَوْعِدُكُمْ يَوْمُ الزِّينَةِ وَأَن يُحْشَرَ النَّاسُ ضُحًى ﴾ (طٰهٰ :20؍59)” تمہارے لیے جشن کا دن مقرر ہوا چاشت کے وقت لوگوں کو اکٹھا کیا جائے۔ “ الأنبياء
62 جب لوگ اکٹھے ہوگئے اور ابراہیم علیہ السلام کو بھی حاضر کیا گیا تو انہوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے پوچھا ﴿ أَأَنتَ فَعَلْتَ هَـٰذَا  ﴾ ”کیا تو نے یہ کیا ہے؟“ یعنی بتوں کو توڑا ہے ﴿بِآلِهَتِنَا يَا إِبْرَاهِيمُ ﴾ یہ استفہام تقریری ہے یعنی اس اقدام کی تجھے کیسے جرات ہوئی؟ الأنبياء
63 ابراہیم علیہ السلام نے لوگوں کے سامنے بھرے مجمع میں جواب دیا ﴿ بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هَـٰذَا  ﴾ یعنی اس بڑے بت نے ناراض ہو کر ان کو توڑا ہے کیونکہ اس کے ساتھ ان کی بھی عبادت کی جاتی تھی اور وہ چاہتا تھا کہ عبادت صرف تمہارے اس بڑے بت کی ہو۔ اس سے ابراہیم علیہ السلام کا مقصد الزامی جواب اور حجت قائم کرنا تھا، اس لئے فرمایا : ﴿ فَاسْأَلُوهُمْ إِن كَانُوا يَنطِقُونَ ﴾ ” ان سے پوچھو، اگر یہ بول سکتے ہیں۔“ یعنی ان ٹوٹے ہوئے بتوں سے پوچھو کہ ان کو کیوں توڑا گیا؟ اور جس بت کو نہیں توڑا گیا، اس سے پوچھو کہ اس نے ان بتوں کو کیوں توڑا؟ اگر وہ بول سکتے ہیں تو تمہیں جواب دیں۔۔۔میں، تم اور ہر شخص اچھی طرح جانتا ہے کہ یہ بت بول سکتے ہیں نہ کلام کرسکتے ہیں، کوئی نفع پہنچاسکتے ہیں نہ نقصان۔ بلکہ اگر کوئی ان کو نقصان پہنچانا چاہے تو یہ خود اپنی مدد کرنے پر بھی قادر نہیں۔ الأنبياء
64 ﴿فَرَجَعُوا إِلَىٰ أَنفُسِهِمْ ﴾ ” پس وہ اپنے آپ ہی کی طرف لوٹے۔“ یعنی ان کی عقل ان کی طرف لوٹی اور انہیں معلوم ہوگیا کہ وہ ان بتوں کی عبادت کر کے گمراہی میں مبتلا تھے اور انہوں نے اپنے ظلم اور شرک کا اقرار کرلیا۔ ﴿ فَقَالُوا إِنَّكُمْ أَنتُمُ الظَّالِمُونَ ﴾ ” اور کہنے لگے، تم ہی ظالم ہو۔“ پس اس سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مقصد حاصل ہوگیا اور ان کے اس اقرار کے ساتھ، کہ ان کا موقف باطل اور ان کا فعل کفر اور ظلم ہے، ان پر حجت قائم ہوگئی۔ مگر وہ اس حالت پر قائم نہ رہ سکے۔ الأنبياء
65 بلکہ ﴿ نُكِسُوا عَلَىٰ رُءُوسِهِمْ ﴾ ” اوندھے ہوگئے اپنے سروں کے بل۔“ یعنی ان کا معاملہ بدل گیا ان کی عقل اوندھی ہوگئی اور ان کے خواب پریشان ہوگئے۔ چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کہنے لگے : ﴿ لَقَدْ عَلِمْتَ مَا هَـٰؤُلَاءِ يَنطِقُونَ ﴾ تم کیسے ہمارے ساتھ ٹھٹھا اور تمسخر کر رہے ہو اور ہمیں کہہ رہے ہو کہ ہم ان بتوں سے پوچھ لیں حالانکہ تو جانتا ہے کہ یہ بول نہیں سکتے؟ الأنبياء
66 اس پر ابراہیم علیہ السلام نے ان کی زجر و توبیخ اور علی الاعلان ان کے شرک اور عبادت کے لئے ان کے خداؤں کے عدم استحقاق کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ أَفَتَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللّٰـهِ مَا لَا يَنفَعُكُمْ شَيْئًا وَلَا يَضُرُّكُمْ ﴾ ” کیا جو کوئی نفع دے سکتے ہیں نہ کوئی تکلیف دور کرسکتے ہیں تم اللہ کو چھوڑ کر ان کی عبادت کرتے ہو؟“ الأنبياء
67 ﴿ أُفٍّ لَّكُمْ وَلِمَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللّٰـهِ ﴾ ” تْف ہے تم پر اور ان پر جن کی تم، اللہ کو چھوڑ کر، عبادت کرتے ہو۔“ یعنی تم کتنے گمراہ، تمہاری تجارت کتنی گھاٹے کی تجارت اور تم اور تمہارے معبود جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو، کتنے گھٹیا ہو۔ ﴿ أَفَلَا تَعْقِلُونَ ﴾ کیا تم عقل نہیں رکھتے کہ صورتحال کو پہچان سکو؟ چونکہ تم نے عقل سے عاری ہونے کی بنا پر جانتے بوجھتے، جہالت اور گمراہی کا ارتکاب کیا ہے اس لئے جانوروں کا حال تمہارے حال سے کہیں بہتر ہے۔ الأنبياء
68 جب ابراہیم علیہ السلام نے ان کو لاجواب کردیا، اور وہ اپنی دلیل کو واضح نہ کرسکے تو آپ کو سزا دینے کے لئے قوت استعمال کی، چنانچہ وہ کہنے لگے : ﴿ حَرِّقُوهُ وَانصُرُوا آلِهَتَكُمْ إِن كُنتُمْ فَاعِلِينَ ﴾ یعنی اسے بدترین طریقے سے قتل کرو، اپنے معبودوں کی حمایت اور تائید میں، اسے آگ میں ڈال دو۔۔۔. ان کی ہلاکت ہے، وہ ان معبودوں کی عبادت کرتے ہیں اور ساتھ ہی یہ اعتراف بھی کرتے ہیں کہ ان کے معبود ان کی مدد کے محتاج ہیں، پھر بھی انہوں نے بے بس ہستیوں کو معبود بنا لیا۔ الأنبياء
69 پس جب انہوں نے ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈال دیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے خلیل کی مدد فرمائی اور آگ کو حکم دیا : ﴿ يَا نَارُ كُونِي بَرْدًا وَسَلَامًا عَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ ﴾ ’’اے آگ ! ابراہیم پر ٹھنڈی اور سلامتی والی ہوجا۔“ اور آگ سلامتی کیساتھ ٹھنڈی ہوگئی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو کوئی اذیت اور کوئی گزند نہ پہنچی۔ الأنبياء
70 ﴿ وَأَرَادُوا بِهِ كَيْدًا ﴾ ” انہوں نے ابراہیم کے ساتھ برا چاہا۔ “یعنی ان کو جلانے کا ارادہ کیا ﴿ فَجَعَلْنَاهُمُ الْأَخْسَرِينَ ﴾ ” پس ہم نے انہی کو نقصان اٹھانے والوں میں سے کردیا۔“ یعنی دنیا و آخرت میں ان کو گھاٹا کھانے والوں میں شامل کردیا اور اس کے برعکس خلیل (علیہ السلام) اور آپ کے پیروکاروں کو نفع اٹھانے اور فلاح پانے والے لوگوں میں شامل کردیا۔ الأنبياء
71 ﴿ وَنَجَّيْنَاهُ وَلُوطًا ﴾ ” اور ہم نے اسے اور لوط کی نجات دی۔“ اور اس کی وجہ یہ تھی کہ ابراہیم علیہ السلام پر حضرت لوط علیہ السلام کے سوا کوئی شخص ایمان نہ لاتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ لوط علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھتیجے تھے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کو کفار سے نجات دی اور وہ ہجرت کر گئے ﴿ إِلَى الْأَرْضِ الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا لِلْعَالَمِينَ ﴾ ” اس زمین کی طرف جس میں ہم نے جہانوں کے لئے برکت رکھی ہے۔“ اس سے مراد ملک شام ہے، یعنی وہ اپنی قوم کو ” بابل“ یعنی عراق میں چھوڑ کر شام کی طرف ہجرت کر گئے ﴿ وَقَالَ إِنِّي ذَاهِبٌ إِلَىٰ رَبِّي ﴾ (الصفت : 37؍99) ” انہوں نے کہا، میں اپنے رب کی طرف ہجرت کر رہا ہوں۔ “ سرزمین شام کی برکتوں میں سے چند یہ ہیں کہ بہت سے انبیاء کرام یہیں پیدا ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے اس کو حضرت خلیل علیہ السلام کی ہجرت کے لئے چن لیا اور اللہ تعالیٰ کے تین مقدس گھروں میں ایک گھر یہیں واقع ہے یعنی بیت المقدس۔ الأنبياء
72 ﴿وَوَهَبْنَا لَهُ ﴾ ” اور ہم نے عطا کئے اسے۔“ جب وہ اپنی قوم سے علیحدگی اختیار کر کے ہجرت کر گئے ﴿إِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ ﴾ ” اسحاق اور یعقوب بن اسحاق علیہما السلام “ ﴿ نَافِلَةً ﴾ ” مزید“ یعنی ابراہیم علیہ السلام کے بوڑھا ہوجانے کے بعد، جبکہ ان کی بیوی بھی بانجھ تھی۔ فرشتوں نے ان کو اسحاق علیہ السلام کی خوشخبری دی۔ ﴿ وَمِن وَرَاءِ إِسْحَاقَ يَعْقُوبَ ﴾ (ھود : 11؍71) ” اور اسحاق کے بعد یعقوب کی خوشخبری دی۔“ اور یعقوب سے مراد حضرت اسرائیل علیہ السلام ہیں جو ایک بہت بڑی امت کے جد امجد ہیں اور حضرت اسماعیل بن ابراہیم علیہ السلام، فضیلت والی امت عربی کے جد امجد ہیں۔ اولین و آخرین کے سردار حضرت محمد مصطفیٓ آپ ہی کی نسل میں سے ہیں۔ ﴿ وَكُلًّا ﴾ ” اور ہر ایک کو۔“ یعنی ابراہیم، اسحاق اور یعقوب علیہم السلام کو ﴿ جَعَلْنَا صَالِحِينَ ﴾ ” ہم نے نیک بنایا۔“ یعنی اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کے حقوق کو قائم کرنے والے۔ ان کی صالحیت میں سے یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو رہبر و راہنما بنایا جو اس کے حکم سے راہنمائی حاصل کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ کی اپنے بندے پر سب سے بڑی نعمت یہ ہے کہ وہ راہنما ہو اور لوگ اس کی راہنمائی میں راہ راست پر گامزن ہوں۔۔۔. چلنے والے ان کی راہنمائی میں چلتے تھے اور ان کی راہنمائی کی یہ نعمت اس سبب سے عطا ہوئی کہ وہ صابر تھے اور اللہ تعالیٰ کی آیات پر یقین رکھتے تھے۔ الأنبياء
73 ﴿ يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا ﴾ یعنی ہمارے دین کے ذریعے سے لوگوں کی راہنمائی کرتے تھے۔ وہ ان کو اپنی خواہشات نفس کے مطابق حکم نہیں دیتے تھے بلکہ وہ صرف اللہ تعالیٰ کے دین اور اس کی رضا کی اتباع ہی کا حکم دیتے تھے اور بندہ اس وقت تک امامت کے رتبے پر فائز نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے حکم کی طرف دعوت نہ دے۔ ﴿ وَأَوْحَيْنَا إِلَيْهِمْ فِعْلَ الْخَيْرَاتِ ﴾ ” اور ہم نے ان کی طرف وحی کی نیک کاموں کے کرنے کی۔“ وہ خود بھی ان نیک کاموں کو سرانجام دیتے تھے اور لوگوں کو بھی اس کی طرف دعوت دیتے تھے۔ یہ حقوق اللہ اور حقوق العباد سے متعلق تمام نیک کاموں کو شامل ہے۔ ﴿ وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ﴾” اور نماز قائم کرنے اور زکوٰۃادا کرنے کی۔“ یہ عام پر خاص کے عطف کے باب سے ہے کیونکہ ان دونوں عبادات کو باقی تمام عبادات پر شرف اور فضیلت حاصل ہے، نیز اس لئے بھی کہ جس نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ان عبادات کو پایہ تکمیل تک پہنچایا اس نے دین کو قائم کرلیا اور جس نے ان دونوں عبادات کو ضائع کردیا، اس سے ان کے علاوہ دیگر امور کو ضائع کرنے کی زیادہ توقع کی جاسکتی ہے، نیز نماز ان عملوں میں سب سے افضل عمل ہے جو خالص اللہ تعالیٰ کے حق پر مبنی ہیں اور زکوٰۃ ان عملوں میں سب سے افضل عمل ہے جن میں اللہ کی مخلوق کے ساتھ احسان کرنے کا پہلو پایا جاتا ہے۔ ﴿  وَكَانُوا لَنَا عَابِدِينَ ﴾ ” اور وہ ہمارے عبادت گزار بندے تھے۔“ یعنی وہ ہمیشہ اپنے تمام اوقات میں قلبی، قولی اور بدنی عبادات میں مصروف رہتے تھے۔ پس وہ اس بات کے مستحق ہوگئے کہ عبادت ان کا وصف بن جائے، چنانچہ وہ اس صفت سے متصف ہوگئے جس سے اللہ تعالیٰ نے اپنی تمام مخلوق کو متصف ہونے کا حکم دیا اور جس کی خاطر اللہ تعالیٰ نے اپنی تمام مخلوق کو پیدا کیا۔ الأنبياء
74 یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے رسول لوط علیہ السلام کی مدح و ثناء ہے کہ وہ شریعت کا علم رکھتے تھے، نیز یہ کہ وہ لوگوں کے درمیان صواب اور راستی کے ساتھ فیصلے کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں ان کی قوم کی طرف مبعوث فرمایا وہ انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دیتے تھے انہیں ان کی بدکاریوں اور فواحش سے روکتے تھے۔ پس وہ انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دیتے رہے مگر انہوں نے ان کی دعوت پر لبیک نہ کہی۔ تو اس کی پاداش میں اللہ تعالیٰ نے ان کی بستیوں کو تلپٹ کردیا ﴿ كَانُوا قَوْمَ سَوْءٍ فَاسِقِينَ ﴾ کیونکہ وہ بڑے ہی برے اور فاسق لوگ تھے۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے داعی کو جھٹلایا اور انہیں ملک بدر کرنے کی دھمکی دی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو اور ان کے گھر والوں کو بچا لیا۔ پس اللہ تعالیٰ نے لوط علیہ السلام کو حکم دیا کہ وہ اپنے گھر والوں کو لے کر راتوں رات اس بستی سے دور نکل جائیں، چنانچہ وہ اپنے گھر والوں کو لے کر اس بستی سے دور نکل گئے اور اللہ تعالیٰ کے عذاب سے محفوظ رہے اور یہ ان پر اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان کی وجہ سے ہوا۔ الأنبياء
75 ارشاد فرمایا : ﴿ وَأَدْخَلْنَاهُ فِي رَحْمَتِنَا ﴾ ” اور ہم نے اس کو داخل کرلیا اپنی رحمت میں۔“ اور جو کوئی اللہ تعالیٰ کی رحمت میں داخل ہوجاتا ہے وہ ان لوگوں میں شامل ہوجاتا ہے جو ہر قسم کے خوف سے مامون ہیں، جو ہر قسم کی بھلائی، سعادت، نیکی، مسرت اور مدح و ثنا سے بہرہ ور ہیں۔ یہ اس لئے کہ لوط علیہ السلام ان صالحین میں سے ہیں، جن کے اعمال درست اور احوال پاک ہوگئے اور اللہ تعالیٰ نے ان کے تمام فاسد امور کو درست فرما دیا اور بندے کا درست ہونا اللہ تعالیٰ کی رحمت میں اس کے داخل ہونے کا سبب ہے جیسے بندے کا فاسد ہونا اس کے اللہ تعالیٰ کی رحمت اور خیر سے محروم ہونے کا سبب ہے۔ صالحیت کے اعتبار سے انبیاء کرام علیہم السلام سب سے بڑے لوگ ہیں اس لئے صالحیت کے ساتھ ان کا وصف بیان فرمایا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا مانگی : ﴿ وَأَدْخِلْنِي بِرَحْمَتِكَ فِي عِبَادِكَ الصَّالِحِينَ ﴾ (النمل:27؍19)” مجھے اپنی رحمت سے اپنے صالح بندوں میں شامل کر۔ “ الأنبياء
76 ہمارے بندے اور رسول نوح علیہ السلام کی مدح و ثنا بیان کرتے ہوئے ان کا ذکر کیجئے۔ جب اللہ تعالیٰ نے ان کو ان کی طرف مبعوث فرمایا اور وہ ان کے اندر ساڑھے نو سو سال رہے، ان کو اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف بلاتے رہے، انہیں اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنے سے روکتے رہے، بار بار انہیں کھلے چھپے اور شب و روز اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دیتے رہے۔ جب انہوں نے دیکھا کہ وعظ و نصیحت اور زجر و توبیخ سے ان کو کوئی فائدہ نہیں ہو رہا، تو انہوں نے اپنے رب کو پکارا اور دعا کی۔ ﴿ رَّبِّ لَا تَذَرْ عَلَى الْأَرْضِ مِنَ الْكَافِرِينَ دَيَّارًا إِنَّكَ إِن تَذَرْهُمْ يُضِلُّوا عِبَادَكَ وَلَا يَلِدُوا إِلَّا فَاجِرًا كَفَّارًا  ﴾ (نوح : 17؍26، 27)” اے میرے رب ! روئے زمین پر کسی کافر کو آباد نہ رہنے دے اگر تو نے ان کو چھوڑ دیا تو وہ تیرے بندوں کو گمراہ کریں گے اور فاجر اور کافر اولاد ہی کو جنم دیں گے۔“ اللہ تبارک و تعالیٰ نے نوح علیہ السلام کی دعا کو قبول فرما لیا اور ان کو سیلاب میں غرق کردیا، ان میں سے ایک شخص کو بھی زندہ باقی نہ چھوڑا۔ صرف نوح علیہ السلام ان کی ذریت اور مومنین باقی رہ گئے اور اللہ تعالیٰ نے ٹھٹھا کرنے والی قوم کے خلاف ان کی مدد فرمائی۔ الأنبياء
77 الأنبياء
78 ہمارے دو انبیائے کرام، سلیمان اور داؤد علیہما السلام کا مدح و ثنا کے ساتھ ذکر کیجئے جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان دونوں کو وسیع علم سے نوازا اور انہیں بندوں کے درمیان فیصلے کرنے کی صلاحیت بخشی اور اس کی دلیل یہ ہے۔ ﴿ إِذْ يَحْكُمَانِ فِي الْحَرْثِ إِذْ نَفَشَتْ فِيهِ غَنَمُ الْقَوْمِ ﴾ یعنی جب ایک کھیتی کا مالک ان کے پاس فیصلہ کروانے کے لئے آیا جسے دوسرے لوگوں کی بکریاں چر گئی تھیں، یعنی رات کے وقت کھیت میں داخل ہوگئیں اور اس کے درختوں اور تمام فصل کو چر گئیں۔ اس جھگڑے میں داؤد علیہ السلام نے فیصلہ کیا کہ تمام بکریاں کھیتی کے مالک کو دے دی جائیں کیونکہ بکریوں کے مالک عام طور پر کوتاہی سے کام لیتے ہیں۔ پس اس طرح آپ نے ان کو سزا دی۔ سلیمان علیہ السلام نے اس قضیے میں حق و صواب کے مطابق فیصلہ سنایا کہ بکریوں کے مالک اپنی بکریاں کھیتی کے مالک کے حوالے کردیں تاکہ وہ ان بکریوں کے دودھ اور اون سے فائدہ اٹھائے اور بکریوں کے مالک اس کے باغ اور کھیت میں اس وقت تک کام کریں گے جب تک کہ باغ اپنی پہلی حالت پر نہیں آتا۔ جب باغ اپنی پہلی حالت پر واپس آجائے تو دونوں ایک دوسرے کا مال لوٹا دیں اور ہر شخص اپنا اپنا مال لے لے۔ یہ فیصلہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے کمال فہم اور فطانت پر دلالت کرتا ہے۔ الأنبياء
79 اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ فَفَهَّمْنَاهَا سُلَيْمَانَ ﴾ یعنی ہم نے سلیمان کو اس قضیے کا فہم عطا کیا۔ یہ چیز اس امر پر دلالت نہیں کرتی کہ داؤد علیہ السلام کو کسی دوسرے قضیے کا فہم بھی عطا نہیں کیا گیا تھا۔ اس لئے ان دونوں کا ذکر فرمایا اور اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد مقدس ہے ﴿ وَكُلًّا ﴾ ” اور ہر ایک کو۔“ یعنی داؤد اور سلیمان علیہما السلام کو ﴿ آتَيْنَا حُكْمًا وَعِلْمًا ﴾ ” دیا ہم نے حکم اور علم۔“ فیصلہ کرنے کی صلاحیت اور علم سے ہم نے دونوں کو سرفراز کیا تھا۔ یہ واقعہ دلالت کرتا ہے کہ حاکم جب کوئی فیصلہ کرتا ہے تو اس کا فیصلہ کبھی تو حق وصواب کے موافق ہوتا ہے اور کبھی اس میں اس سے خطا بھی ہوجاتی ہے۔ اگر فیصلے میں کوشش و اجتہاد کے باوجود اس سے خطا ہوجائے تو وہ ملامت کا مستحق نہیں۔ پھر ان مخصوص امور کا ذکر فرمایا جن سے ان میں سے ہر ایک کو الگ الگ نوازا گیا تھا۔ فرمایا : ﴿ وَسَخَّرْنَا مَعَ دَاوُودَ الْجِبَالَ يُسَبِّحْنَ وَالطَّيْرَ ﴾ ” اور تابع کردیئے ہم نے داؤد کے پہاڑ، وہ تسبیح کرتے تھے اور پرندے بھی۔“ ذکر کیا جاتا ہے کہ داؤد علیہ السلام سب سے زیادہ عبادت گزار اور سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کا ذکر اور تسبیح و تحمید کرنے والے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو خوبصورت اور نرم آواز اور رقت عطا کی تھی جو کسی اور کو عطا نہیں ہوئی۔ جب آپ اللہ تعالیٰ کی تسبیح اور حمد و ثنا بیان کرتے تو ٹھوس پتھر، گونگے پرندے اور بے شعور جانور بھی ان کے ہم زبان ہوجاتے اور یہ داؤد علیہ السلام پر اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم تھا، اس لئے فرمایا : ﴿ وَكُنَّا فَاعِلِينَ ﴾ یعنی اس فعل کو کرنے والے ہم ہی تھے۔ الأنبياء
80 ﴿ وَعَلَّمْنَاهُ صَنْعَةَ لَبُوسٍ لَّكُمْ ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ نے داؤد علیہ السلام کو زرہ بکتر بنانے کا علم بخشا اور حضرت داؤد علیہ السلام پہلے شخص ہیں جنہوں نے زرہ بکتر بنائی اور پھر اس کا علم آئندہ آنے والوں کی طرف منتقل ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے لوہے کو نرم کردیا اور ان کو زرہ بنانا سکھایا، اس میں بہت بڑا فائدہ ہے۔ ﴿ لِتُحْصِنَكُم مِّن بَأْسِكُمْ ﴾ یعنی سخت لڑائی اور جنگ میں تمہاری حفاظت کرنے والی ہے۔ ﴿ فَهَلْ أَنتُمْ شَاكِرُونَ ﴾ یعنی کیا تم اللہ تعالیٰ کی نعمت کا شکرادا کرتے ہو جو اس نے اپنے بندے داؤد علیہ السلام کے توسط سے تمہیں عطا کی؟ جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿ وَجَعَلَ لَكُمْ سَرَابِيلَ تَقِيكُمُ الْحَرَّ وَسَرَابِيلَ تَقِيكُم بَأْسَكُمْ ۚ كَذَٰلِكَ يُتِمُّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكُمْ لَعَلَّكُمْ تُسْلِمُونَ ﴾ (النحل : 16؍ 81) ”اور تمہارے لئے ایسی پوشاک بنائی جو گرمی سے تمہاری حفاظت کرتی ہے اور ایسی پوشاک بنائی جو جنگ میں تمہاری حفاظت کرتی ہے اور اس طرح اللہ تعالیٰ تم پر اپنی نعمت کی تکمیل کرتا ہے شاید کہ تم سرتسلیم خم کرو۔ “ اس میں یہ احتمال بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا داؤد علیہ السلام کو زرہ بکتر بنانا سکھانا اور ان کے لئے لوہے کو نرم کرنا، خارق عادت امر ہو۔۔۔جیسا کہ مفسرین کہتے ہیں۔۔۔اللہ تعالیٰ نے داؤد علیہ السلام کے لئے لوہے کو نرم کردیا۔ وہ لوہے کو آگ میں پگھلائے بغیر اسی طرح استعمال میں لاتے تھے گویا کہ وہ گندھا ہوا آٹا اور گندھی مٹی ہو۔ اس میں یہ احتمال بھی ہے کہ عادت جاریہ کے مطابق انہیں لوہے کو استعمال میں لانا سکھایا گیا ہو۔ اللہ کی طرف سے لوہے کو نرم کرنے کی تعلیم ان معروف اسباب میں سے ہو جن کے ذریعے سے آج کل لوہا پگھلایا جاتا ہے۔۔۔اور یہی راجح ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر اپنے اس احسان کا ذکر فرمایا اور ان کو اس پر شکر کرنے کا حکم دیا اور اگر صنعت آہن گری ان امور میں سے نہ ہوتی جن پر اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو تصرف کی قدرت عطا کی ہے تو اللہ تعالیٰ ان پر اس احسان اور اس کے فوائد کا ذکر نہ کرتا کیونکہ یہ ممکن نہیں کہ داؤد علیہ السلام کی جن زر ہوں کے بنانے کا ذکر ہے اس سے مراد متعین زر ہیں ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے تو زرہ بکتر کی جنس کا ذکر کر کے اپنے احسان یاد دلایا ہے اور وہ احتمال جس کا ذکر اصحاب تفسیر کرتے ہیں، تو اس کی کوئی دلیل نہیں سوائے اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے ﴿ وَأَلَنَّا لَهُ الْحَدِيدَ ﴾ (سبا : 34 ؍10) ” ہم نے اس کے لئے لوہے کو نرم کردیا۔“ اور اس میں یہ واضح نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے لوہے کو بغیر کسی سبب کے نرم کردیا تھا۔ واللہ اعلم۔ الأنبياء
81 ﴿ وَلِسُلَيْمَانَ الرِّيحَ ﴾ یعنی ہم نے سلیمان علیہ السلام کے لئے ہوا کو مسخر کردیا ﴿ عَاصِفَةً ﴾ جو بہت تیز چلتی تھی ﴿ تَجْرِي بِأَمْرِهِ ﴾ جہاں چلنے کا اس کو حکم دیا جاتا تھا ہوا اس حکم کی اطاعت کرتی تھی۔ صبح کے وقت اس کا چلناایک مہینے کی منزل تک تھا اور شام کے وقت اس کا چلنا ایک مہینے کی منزل تک تھا۔ ﴿ إِلَى الْأَرْضِ الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا ﴾ ” اس زمین کی طرف، جس میں ہم نے برکت رکھی تھی۔“ یعنی سرزمین شام، جو سلیمان علیہ السلام کا مستقر تھا، وہ ہوا کے دوش پر مشرق و مغرب میں سفر کرتے تھے، اور ہوا کا ٹھکانا اور لوٹنا ارض مقدس کی طرف ہوتا تھا۔ ﴿ وَكُنَّا بِكُلِّ شَيْءٍ عَالِمِينَ ﴾ ہمارا علم، تمام چیزوں کا احاطہ کئے ہوئے ہے ہم نے داؤد اور سلیمان (علیہما السلام) کو ان امور کی تعلیم دی جن کے ذریعے سے ہم نے ان کو اس مقام پر پہنچایا جس کا ہم ذکر کرچکے ہیں۔ الأنبياء
82 ﴿ وَمِنَ الشَّيَاطِينِ مَن يَغُوصُونَ لَهُ وَيَعْمَلُونَ عَمَلًا دُونَ ذَٰلِكَ ﴾ ” اور جنات میں سے بھی ہم نے بہت سے ان کے تابع کردیئے تھے جو ان کے لئے غوطے لگاتے تھے اور اس کے علاوہ کئی کام کرتے تھے۔“ یہ چیز بھی سلیمان علیہ السلام کے خصائص میں شمار ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے جن اور عفریت مسخر کردیئے اور آپ کو ان پر تسلط بخشا۔ وہ آپ کے لئے بڑے بڑے کام کرتے تھے اور ان میں سے بہت سے کاموں کو ان کے سوا کوئی اور نہیں کرسکتا تھا۔ ان میں کچھ جن وہ تھے جو سمندر میں غوطہ لگاتے اور اس کی تہہ سے موتی نکالتے تھے اور کچھ وہ تھے جو ان کے لئے ﴿ مَّحَارِيبَ وَتَمَاثِيلَ وَجِفَانٍ كَالْجَوَابِ وَقُدُورٍ رَّاسِيَاتٍ ﴾ (سبا : 34؍13) ” اونچی محرابیں ( عمارتیں)، تصویریں، بڑے بڑے حوض کی مانند لگن اور اپنی جگہ پر جمی ہوئی بڑی بڑی دیگیں“ بناتے تھے۔ اور ان میں سے ایک گروہ کو بیت المقدس کی تعمیر کیلئے مسخر کر رکھا تھا۔ جب سلیمان علیہ السلام نے وفات پائی تو جن بیت المقدس کی تعمیر میں مصروف تھے آپ کی وفات کے بعد ایک سال تک یہ کام کرتے رہے یہاں تک کہ ان کو آپ کی وفات کا علم ہوگیا جیسا کہ ان شاء اللہ عنقریب اس کا ذکر آئے گا۔ ﴿ وَكُنَّا لَهُمْ حَافِظِينَ ﴾ ” اور ہم ان کی حفاظت کرنے والے تھے۔“ یعنی وہ سلیمان علیہ السلام کی نافرمانی پر قادر نہ تھے بلکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی قوت، غلبہ اور تسلط کے ذریعے سے ان کو حضرت سلیمان علیہ السلام کا مطیع کر رکھا تھا۔ الأنبياء
83 یعنی ہمارے بندے اور رسول ایوب علیہ السلام کا تعظیم و ثنا اور ان کی قدر و منزلت بڑھاتے ہوئے ذکر کیجئے جب اللہ تعالیٰ نے ان کو ایک نہایت ہی سخت آزمائش میں مبتلا کیا۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کو صابر اور اپنی ذات سے راضی پایا۔ اور یہ اس طرح ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ابتلا اور آزمائش کے طور پر شیطان کو آپ پر مسلط کردیا گیا۔ شیطان نے آپ کے جسم پر پھونک ماری جس کے نتیجہ میں جسم پر بڑے بڑے پھوڑے بن گئے، وہ اس امتحان اور مصیبت میں مدت تک مبتلا رہے۔ اس دوران میں آپ کے گھر والے وفات پا گئے، آپ کا تمام مال چلا گیا تب حضرت ایوب علیہ السلام نے اپنے رب کو پکارا : ﴿ أَنِّي مَسَّنِيَ الضُّرُّ وَأَنتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ ﴾ ” مجھے تکلیف پہنچی ہے اور تو سب رحم کرنے والوں میں سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔“ پس انہوں نے اپنے حال کے ذکر کو وسیلہ بنا کر اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ اب تکلیف اپنی انتہاء کو پہنچ گئی ہے۔ ان کے رب نے اپنی بے پایاں رحمت سے ان کی دعا قبول فرما لی اور فرمایا ﴿ ارْكُضْ بِرِجْلِكَ هَـٰذَا مُغْتَسَلٌ بَارِدٌ وَشَرَابٌ﴾ (ص : 38 ؍42) ” زمین پر اپنا پاؤں مار، یہ ہے ٹھنڈا پانی نہانے اور پینے کے لئے۔ “ ایوب علیہ السلام نے زمین پر ایڑی ماری اور وہاں سے ٹھنڈے پانی کا چشمہ پھوٹ پڑا۔ آپ نے اس پانی کو پیا اور اس سے غسل کیا اور اللہ تعالیٰ نے ان کی تکلیف دور کردی۔ الأنبياء
84 ﴿ وَآتَيْنَاهُ أَهْلَهُ ﴾ یعنی ہم نے ان کو ان کا مال اور اہل و عیال واپس لوٹا دیئے ﴿ وَمِثْلَهُم مَّعَهُمْ ﴾ ” اور ان کی مثل ان کے ساتھ اور۔‘‘ اس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو عافیت، اہل و عیال اور بہت سا مال عطا کیا ﴿ رَحْمَةً مِّنْ عِندِنَا ﴾ ” اپنی طرف سے مہربانی کرتے ہوئے۔“ کیونکہ آپ نے صبر کیا اور اللہ تعالیٰ پر راضی رہے، تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو اخروی ثواب سے پہلے دنیاوی ثواب سے سرفراز کیا۔ ﴿ وَذِكْرَىٰ لِلْعَابِدِينَ ﴾ ہم نے اس واقعہ کو عبادت گزاروں کے لئے عبرت بنا دیا جو صبر سے کام لیتے ہیں۔ اگر لوگ دیکھیں کہ ایوب علیہ السلام کس آزمائش میں مبتلا ہوئے پھر اس مصیبت کے زائل ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کو کتنے بڑے ثواب سے نوازا تو صبر ہی کو اس کا سبب پائیں گے۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے ایوب علیہ السلام کی ان الفاظ میں مدح فرمائی۔ ﴿ إِنَّا وَجَدْنَاهُ صَابِرًا ۚ نِّعْمَ الْعَبْدُ إِنَّهُ أَوَّابٌ ﴾ (ص : 38 ؍44) ”ہم نے اسے صبر کرنے والا پایا، وہ بہترین بندہ اور اپنے رب کی طرف بہت ہی رجوع کرنے والا تھا۔“ جب اہل ایمان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو حضرت ایوب علیہ السلام کے اسوہ پر عمل کرتے ہوئے صبر کرتے ہیں۔ الأنبياء
85 یعنی ہمارے چنے ہوئے بندوں، اور انبیاء و مرسلین کو بہترین اسلوب میں یاد کیجئے اور بلیغ ترین پیرائے میں ان کی مدح و ثنا کیجئے، یعنی اسماعیل، ادریس، ذوالکفل اور بنی اسرائیل کے انبیاء علیہم السلام کا ذکر کیجئے۔ ﴿ كُلٌّ ﴾ یعنی تمام انبیاء جن کا ذکر اوپر گزر چکا ہے ﴿ مِّنَ الصَّابِرِينَ ﴾ صبر کرنے والے تھے۔ صبر سے مراد نفس کو اس کے طبعی میلان کی طرف مائل ہونے سے روکنا ہے اور یہ صبر تین انواع پر مشتمل ہے: ١۔ اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر صبر (یعنی اس کے حکموں کی پابندی) کرنا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے صبر کرنا (یعنی اس کے حکموں کی خلاف ورزی نہ کرنا) ٣۔ اللہ تعالیٰ کی تکلیف و قضا و قدر پر صبر کرنا۔ بندہ صبر کامل کے نام کا اس وقت تک مستحق نہیں ہوتا جب تک کہ صبر کی مذکورہ تینوں اقسام کا حق ادا نہ کر دے۔ اللہ تعالیٰ نے ان انبیائے کرام کو صبر کی صفت کے ساتھ موصوف کیا ہے، لہٰذا یہ بات دلالت کرتی ہے کہ انہوں نے صبر کی ان تینوں اقسام کو پورا کیا اور صبر کا اسی طرح التزام کیا جس طرح کرنا چاہئے تھا، نیز ان کو ” صلاح“ کی صفت سے موصوف فرمایا جو مشتمل ہے ” صلاح قلب“ پر جو اللہ تعالیٰ کی معرفت، اس کی محبت اور ہر وقت اس کی طرف انابت سے حاصل ہوتی ہے اور ” صلاح لسان“ پر جس کا مطلب ہر وقت زبان کا اللہ کے ذکر سے تر رہنا ہے اور ” صلاح جوارح“پر، جس کا مطلب جوارح (اعضاء) کو اللہ کی اطاعت میں لگائے رکھنا اور نافرمانی سے ان کو روکے رکھنا ہے۔ الأنبياء
86 پس اللہ تعالیٰ نے ان کو ان کے صبر اور صلاح کی بناء پر اپنی بے پایاں رحمت کے سائے میں سمیٹ لیا، ان کو ان کے دیگر برادر انبیاء و مرسلین میں شامل کیا اور انہیں دنیاوی اور اخروی ثواب عطا کیا۔ اگر اللہ تعالیٰ نے ان کو اتنا بڑا ثواب عطا نہ بھی کیا ہوتا تب بھی اللہ نے جو دنیا میں ان کا ذکر بلند کیا ہے اور آئندہ لوگوں میں انہیں سچی شہرت عطا کی ہے تو ان کے فضل و شرف کے لئے یہی کافی تھا۔ الأنبياء
87 یعنی ہمارے بندے اور رسول ذوالنون کو ذکر جمیل اور ثنائے حسن کے ساتھ یاد کریں اور ذوالنون سے مراد حضرت یونس علیہ السلام ہیں، یعنی مچھلی والے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو ان کی قوم کی طرف مبعوث کیا آپ نے ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دی مگر وہ ایمان نہ لائے۔ حضرت یونس علیہ السلام نے ان کو نزول عذاب کی وعید سنائی اور عذاب کے نزول کے لئے ایک وقت مقرر کردیا۔ پس جب ان پر عذاب آیا اور انہوں نے اپنی آنکھوں سے عذاب دیکھ لیا تو وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے گڑگڑائے اور توبہ کی، تو اللہ تعالیٰ نے ان سے عذاب کو ہٹا دیا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ فَلَوْلَا كَانَتْ قَرْيَةٌ آمَنَتْ فَنَفَعَهَا إِيمَانُهَا إِلَّا قَوْمَ يُونُسَ لَمَّا آمَنُوا كَشَفْنَا عَنْهُمْ عَذَابَ الْخِزْيِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَمَتَّعْنَاهُمْ إِلَىٰ حِينٍ ﴾ (یونس : 10؍98) ” کوئی ایسی بستی کی مثال ہے جو عذاب دیکھنے کے بعد ایمان لائی ہو اور اس کے ایمان لانے نے اس کو کوئی فائدہ دیا ہو۔ قوم یونس کے سوا۔ وہ لوگ جب ایمان لے آئے تو ہم نے ان سے دنیا کی زندگی میں رسوا کن عذاب کو ٹال دیا اور ایک مدت تک کے لئے ہم نے اس کو متاع دنیا سے بہرہ مند رکھا۔“ اور فرمایا : ﴿ وَأَرْسَلْنَاهُ إِلَىٰ مِائَةِ أَلْفٍ أَوْ يَزِيدُونَ فَآمَنُوا فَمَتَّعْنَاهُمْ إِلَىٰ حِينٍ ﴾ (الصفت : 37؍147، 148) ” اور ہم نے اسے ایک لاکھ یا اس سے زائد کچھ زائد لوگوں کی طرف مبعوث کیا پس وہ ایمان لے آئے اور ہم نے ایک وقت تک ان کو متاع دنیا سے بہرہ مند رکھا۔“ یہ ایک بہت بڑی امت تھی جویونس علیہ السلام پر ایمان لائی۔ یہ واقعہ آپ کی سب سے بڑی فضیلت ہے۔ مگر حضرت یونس علیہ السلام، کسی گناہ کی بنا پر، ناراضی کی حالت میں اپنے رب سے فرار ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں یہ ذکر نہیں فرمایا کہ وہ کونسا گناہ تھا اور اس کے تعین کی ہمیں حاجت بھی نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : ﴿ إِذْ أَبَقَ إِلَى الْفُلْكِ الْمَشْحُونِ َسَاهَمَ فَكَانَ مِنَ الْمُدْحَضِينَ فَالْتَقَمَهُ الْحُوتُ وَهُوَ مُلِيمٌ ﴾ (الصفت : 37 ؍140، 142) ” جب وہ فرار ہو کر ایک بھری ہوئی کشتی کی طرف آیا۔ پس وہ قرعہ اندازی میں شامل ہوا اور ہار گیا۔ آخر مچھلی نے اس کو نگل لیا اور وہ ملامت زدہ تھا۔“ یعنی وہ قابل ملامت فعل کا ارتکاب کرنے والے تھے۔ ظاہری طور پر یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان کا جلدی کرنا، قوم پر غصہ کرنا اور ان کے پاس سے نکل بھاگنا اللہ تعالیٰ کے حکم سے پہلے تھا۔ اور ان کو گمان تھا کہ اللہ تعالیٰ کو ان پر قدرت نہیں، یعنی اللہ تعالیٰ ان کو مچھلی کے پیٹ میں محبوس نہیں کرسکتا، یا ان کا خیال تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے نکل بھاگیں گے اور مخلوق میں سے کسی کو بھی ایسا گمان پیش آنے سے کچھ مانع نہیں مگر اس طرح کہ اس کو استقرار اور استمرار حاصل نہ ہو۔۔۔پس یونس علیہ السلام بھاگ کر کچھ لوگوں کے ساتھ کشتی میں سوار ہوگئے۔۔۔اور انہوں نے آپس میں قرعہ اندازی کی کہ ان میں سے کس کو سمندر میں پھینکا جائے کیونکہ انہیں خوف تھا کہ اگر سب کشتی میں رہے تو کشتی ڈوب جائے گی۔ قرعہ یونس علیہ السلام کے نام کا نکلا اور ان کو سمندر میں پھینک دیا گیا۔ ایک بہت بڑی مچھلی ان کو نگل کر سمندر کی گہرائیوں میں لے کر چلی گئی۔ سمندر کی ان تاریکیوں میں حضرت یونس علیہ السلام نے اپنے رب کو پکارا ﴿ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنتُ مِنَ الظَّالِمِينَ ﴾ ” تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو پاک ہے میں ہی ظلم کرنے والوں میں سے ہوں۔ “ پس حضرت یونس علیہ السلام نے اللہ کی کامل الوہیت کا اقرار کیا، اس کی ذات مقدس کو ہر نقص، ہر عیب اور ہر آفت سے منزہ اور پاک قرار دیا اور اپنے ظلم و جرم کا اعتراف کیا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ فَلَوْلَا أَنَّهُ كَانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ لَلَبِثَ فِي بَطْنِهِ إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ ﴾ (الصفت : 37 ؍143، 144) ” اگر وہ تسبیح کرنے والوں میں نہ ہوتا تو قیامت کے دن تک مچھلی کے پیٹ ہی میں رہتا۔ “ الأنبياء
88 اسی لئے یہاں فرمایا : ﴿ فَاسْتَجَبْنَا لَهُ وَنَجَّيْنَاهُ مِنَ الْغَمِّ ﴾ ’’ہم نے اس کی دعا قبول کی اور اسے غم سے نجات دی۔“ یعنی اس مصیبت سے نجات دی جس میں وہ مبتلا ہوگئے تھے۔ ﴿ وَكَذَٰلِكَ نُنجِي الْمُؤْمِنِينَ ﴾ ” اور اسی طرح ہم مومنوں کو نجات دیتے ہیں۔“ یہ ہر اس مومن کے لئے وعدہ اور بشارت ہے جو کسی مصیبت اور غم میں مبتلا ہوجائے۔ یقیناً اللہ تعالیٰ اس کو اس مصیبت سے نجات دے گا، اس کے ایمان کے سبب سے اس کی مصیبت کو دور کر دے گا۔ جیسا کہ اس نے حضرت یونس علیہ السلام کے ساتھ کیا تھا۔ الأنبياء
89 یعنی ہمارے بندے اور رسول زکریا علیہ السلام کو اس کی تعریف و تعظیم کے ساتھ اور ان مناقب و فضائل کا ذکر کرتے ہوئے یاد کیجئے۔ ان جملہ فضائل میں یہ عظیم منقبت بھی شامل ہے کہ انہوں نے مخلوق کے ساتھ خیر خواہی کی اور ان پر اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت ہوئی۔ زکریا علیہ السلام نے اپنے رب کو پکارا : ﴿ رَبِّ لَا تَذَرْنِي فَرْدًا ﴾ ” اے رب ! مجھے تنہا نہ چھوڑنا“ یعنی اللہ تعالیٰ سے کہا : ﴿ رَبِّ إِنِّي وَهَنَ الْعَظْمُ مِنِّي وَاشْتَعَلَ الرَّأْسُ شَيْبًا وَلَمْ أَكُن بِدُعَائِكَ رَبِّ شَقِيًّا وَإِنِّي خِفْتُ الْمَوَالِيَ مِن وَرَائِي وَكَانَتِ امْرَأَتِي عَاقِرًا فَهَبْ لِي مِن لَّدُنكَ وَلِيًّا يَرِثُنِي وَيَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوبَ ۖ وَاجْعَلْهُ رَبِّ رَضِيًّا﴾(مریم : 19؍4۔ 6) ” اے میرے رب ! میری ہڈیاں کمزور پڑگئیں اور سر پر بڑھاپے کی وجہ سے سفید ہوگیا۔ اے میرے رب ! میں تجھ سے دعا مانگ کر کبھی نامراد نہیں رہا۔ مجھے اپنے پیچھے اپنے رشتہ داروں کے بارے میں خوف ہے اور میری بیوی بانجھ ہے تو اپنی عنایت سے مجھے ایک وارث عطا کر جو میرا وارث ہو اور آل یعقوب کا وارث بنے اور اے میرے رب ! تو اسے ایک پسندیدہ انسان بنا۔ “ ان آیات کریمہ سے ہمیں معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿ رَبِّ لَا تَذَرْنِي فَرْدًا ﴾ سے مراد یہ ہے کہ جب حضرت زکریا علیہ السلام کی وفات کا وقت قریب آیا تو آپ کو یہ خوف لاحق ہوا کہ آپ کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینے اور مخلوق کے ساتھ خیر خواہی کرنے کے لئے کوئی آپ کا قائم مقام نہ ہوگا، نیز یہ کہ حضرت زکریا علیہ السلام اس وقت تنہا تھے کوئی ان کا خلف رشید نہ تھا جو دعوت میں ان کی اعانت کرتا۔ ﴿ وَأَنتَ خَيْرُ الْوَارِثِينَ﴾ یعنی تو باقی رہنے والوں میں سب سے بہتر ہے اور بھلائی میں میرے کسی خلف رشید سے بہتر ہے اور تو اپنے بندوں کے ساتھ مجھ سے زیادہ رحم کرنے والا ہے مگر میں چاہتا ہوں کہ میرا دل مطمئن اور نفس کو سکون حاصل ہو اور میرے لئے اس کا ثواب جاری رہے۔ الأنبياء
90 ﴿ فَاسْتَجَبْنَا لَهُ وَوَهَبْنَا لَهُ يَحْيَىٰ ﴾ ” پس ہم نے اس کی دعا قبول کی اور اسے یحییٰ عطا کیا۔“ جو ایسا مکرم نبی ہے کہ اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اس نام کا کوئی شخص نہیں کیا ﴿ وَأَصْلَحْنَا لَهُ زَوْجَهُ ﴾ ” اور ہم نے درست کردیا اس کے لئے اس کی بیوی کو۔ “یعنی حضرت زکریا علیہ السلام کی بیوی بانجھ تھیں اور ان کا رحم بچہ پیدا کرنے کے قابل نہ تھا اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی زکریا علیہ السلام کی خاطر ان کے رحم کو درست کر کے اسے حمل کے قابل بنا دیا۔ نیک ساتھی اور ہم نشین کے فوائد میں سے ہے کہ وہ اپنے ساتھی کے لئے بابرکت ہوتا ہے۔ پس حضرت یحییٰ علیہ السلام ماں باپ میں (برکت کے لئے )مشترک ہوگئے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان تمام انبیاء و مرسلین کا فرداً فرداً ذکر کرنے کے بعد ان سب کو عمومی مدح و ثنا سے نوازا ہے چنانچہ فرمایا : ﴿ إِنَّهُمْ كَانُوا يُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ ﴾ یعنی وہ نیکیوں میں سبقت کرتے تھے، اوقات فاضلہ میں نیکیاں کرتے تھے اور ان کی تکمیل اس طریقے سے کرتے تھے جو ان کے لائق اور ان کے لئے مناسب ہو۔ وہ مقدور بھر کسی فضیلت کو نہ چھوڑتے تھے اور فرصت کو غنیمت جانتے تھے ﴿وَيَدْعُونَنَا رَغَبًا وَرَهَبًا ﴾ یعنی ہم سے دنیا و آخرت کے مرغوب امور کا سوال کرتے تھے اور دنیا و آخرت کے ضرر رساں، خوفناک امور سے ہماری پناہ طلب کرتے تھے۔ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف رغبت رکھتے تھے، وہ غافل اور کھیل کود میں ڈوبے ہوئے تھے نہ اللہ تعالیٰ کے حضور گستاخی اور جرأت کرتے تھے۔ ﴿ وَكَانُوا لَنَا خَاشِعِينَ ﴾ یعنی ہمارے سامنے خشوع، تذلل اور انکساری کا اظہار کرتے تھے اور اس کا سبب یہ تھا کہ وہ اپنے رب کی کامل معرفت رکھتے تھے۔ الأنبياء
91 یعنی مریم علیہا السلام کا، ان کی مدح و ثنا کے ساتھ، ان کی قدر و منزلت کا بیان اور ان کے فضل و شرف کا اعلان کرتے ہوئے، ذکر کیجئے ! فرمایا: ﴿ وَالَّتِي أَحْصَنَتْ فَرْجَهَا ﴾ یعنی جس نے حرام کے قریب جانے سے بلکہ حلال سے بھی اپنی شرمگاہ کو بچائے رکھا۔ پس مریم علیہا السلام نے ہمہ وقت عبادت میں مشغول اور اپنے رب کی خدمت میں مستغرق رہنے کی وجہ سے شادی نہیں کی تھی۔ جب حضرت جبریل علیہ السلام ایک کامل اور خوبصورت مرد کی شکل میں مریم علیہا السلام کے پاس آئے تو آپ کہنے لگیں : ﴿ إِنِّي أَعُوذُ بِالرَّحْمَـٰنِ مِنكَ إِن كُنتَ تَقِيًّا ﴾ (مریم : 19؍18) ” میں تجھ سے رحمان کی پناہ مانگتی ہوں، اگر تو اللہ سے ڈرتا ہے۔ “ اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم علیہا السلام کو ان کے عمل کی جنس ہی سے اس کا بدلہ دیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو بغیر باپ کے ایک بیٹے سے نوازا۔ جبریل علیہ السلام نے پھونک ماری تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے حضرت مریم علیہا السلام کو حمل ٹھہر گیا ﴿ وَجَعَلْنَاهَا وَابْنَهَا آيَةً لِّلْعَالَمِينَ ﴾ ”اور کردیا ہم نے اس کو اور اس کے بیٹے کو نشانی جہانوں کے لئے۔“ کیونکہ حضرت مریم علیہا السلام کو بغیر کسی مرد کے چھوئے حمل ٹھہرا اور پھر بیٹے کو جنم دیا اور اس بیٹے نے گہوارے میں کلام کیا اور بہتان طراز آپ پر جو تہمت لگاتے تھے اس سے مریم علیہا السلام کی برأت کا اعلان کیا اور اسی حالت میں انہوں نے اپنے بارے میں آگاہ کیا اور اللہ تعالیٰ نے آپ کے ہاتھ پر معجزات ظاہر فرمائے جو کہ سب کو معلوم ہیں۔ حضرت مریم اور ان کا فرزند ارجمند علیہما السلام تمام جہانوں کے لئے ایک نشانی بن گئے لوگ نسل در نسل اس واقعے کو بیان کرتے اور اس سے عبرت حاصل کرتے چلے آرہے ہیں۔ الأنبياء
92 جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے انبیائے کرام علیہم السلام کا ذکر فرمایا تو لوگوں سے مخاطب ہو کر فرمایا : ﴿ إِنَّ هَـٰذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً ﴾ یہ تمام انبیاء و مرسلین جن کا ذکر گزشتہ سطور میں گزر چکا ہے وہ تمہاری امت اور تمہارے امام ہیں جن کی راہنمائی میں تم ان کے طریقے کی پیروی کرتے ہو۔ ان سب کا دین ایک، سب کا راستہ ایک اور سب کا رب ایک ہے۔ بنا بریں فرمایا : ﴿ وَأَنَا رَبُّكُمْ ﴾ میں تمہارا رب ہوں جس نے تمہیں پیدا کیا اور دین و دنیا میں اپنی نعمت کے ذریعے سے تمہاری پرورش کی۔ جب تمہارا رب ایک، تمہارا نبی ایک اور تمہارا دین ایک، یعنی عبادت کی تمام انواع کے ذریعے ایک اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا۔۔۔تو تمہارا وظیفہ اور تم پر فرض ہے کہ تم اسی کی عبادت کرو، اس لئے فرمایا : ﴿ فَاعْبُدُونِ ﴾ ” پس تم میری ہی عبادت کرو۔“ پس حرف ” فاء“ کے ذریعے سے اس جملے کو گزشتہ مضمون کے ساتھ اس طرح مرتب کیا جس طرح مسبب سبب پر مرتب ہوتا ہے۔ الأنبياء
93 مناسب یہی تھا کہ اس امر پر سب کا اتفاق اور اجتماع ہوتا اور اس میں تفرق اور تشتت نہ ہوتا مگر ظلم اور زیادتی سے افتراق اور تشتت پیدا ہو کر رہا، اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿ وَتَقَطَّعُوا أَمْرَهُم بَيْنَهُمْ ﴾ یعنی انبیائے کرام کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرنے والے، فرقوں میں تقسیم اور تشتت کا شکار ہوگئے۔ ان میں ہر فرقہ دعویٰ کرتا تھا کہ حق اس کے ساتھ ہے اور دوسرا فرقہ باطل پر ہے۔ ﴿ كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ ﴾(الروم : 30 ؍32) ” ہر ایک گروہ ان باتوں پر جو ان کے پاس ہیں خوش ہیں“ اور یہ بات معلوم ہے کہ ان میں سے راہ صواب پر صرف وہی ہے جو انبیاء کرام علیہم السلام کی اتباع کرتے ہوئے دین قویم اور صراط مستقیم پر گامزن ہے۔۔۔اور یہ حقیقت اس وقت ظاہر ہوگی جب پردہ ہٹ جائے گا اور اصلیت سامنے آجائے گی اور اللہ تعالیٰ فیصلوں کے لئے تمام لوگوں کو اکٹھا کرے گا تب اس وقت صاف نظر آئے گا کہ سچا کون ہے اور جھوٹا کون، اس لئے فرمایا : ﴿ كُلٌّ ﴾ تمام فرقوں میں سے ہر فرقہ ﴿ إِلَيْنَا رَاجِعُونَ ﴾ ہماری ہی طرف لوٹے گا اور ہم اسے پوری پوری جزا دیں گے۔ الأنبياء
94 پھر منطوق اور مفہوم کے اسلوب میں، اس جزا کی تفصیل بیان کی، فرمایا : ﴿ فَمَن يَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحَاتِ ﴾ یعنی ایسے عمل کئے جن کو انبیائے کرام نے مشروع کیا اور کتب الٰہیہ نے ان کی ترغیب دی۔ ﴿ وَهُوَ مُؤْمِنٌ ﴾ یعنی وہ اللہ تعالیٰ، اس کے رسولوں اور ان کی لائی ہوئی کتابوں پر ایمان رکھتا ہو۔ ﴿ فَلَا كُفْرَانَ لِسَعْيِهِ ﴾ یعنی ہم اس کی کوششوں کو ضائع کریں گے نہ باطل کریں گے، بلکہ اس کو کئی گنا بڑھا کر اجر عطا کریں گے۔ ﴿ وَإِنَّا لَهُ كَاتِبُونَ ﴾ یعنی ہم اس کی کوشش کو لوح محفوظ اور ان صحیفوں میں لکھنے والے ہیں جو کراماً کاتبین کے پاس ہیں۔ دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو کوئی نیک کام کرے اور وہ مومن نہ ہو تو وہ ثواب آخرت سے محروم اور اپنے دین و دنیا میں خائب و خاسر ہوگا۔ الأنبياء
95 یعنی ان بستیوں کا، جنہیں عذاب کے ذریعے سے ہلاک کر ڈالا گیا، اپنی کوتاہیوں کی تلافی کی خاطر اس دنیا میں واپس لوٹنا ممکن نہیں، پس ان کے لئے واپس لوٹنے کا کوئی راستہ نہیں جنہیں عذاب کے ذریعے سے ہلاک کر ڈالا گیا۔ اس لئے مخاطبین کو ان اعمال پر جمے رہنے سے ڈرنا چاہئے جو ہلاکت کا باعث بنتے ہیں۔۔۔مباداکہ یہ اعمال انہیں ہلاکت میں ڈال دیں اور اس وقت اس ہلاکت سے بچنا ممکن نہ ہوگا۔ اس لئے تلافی اور استدراک کے وقت اس قسم کے کاموں سے باز آجانا چاہئے۔ الأنبياء
96 یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے لوگوں کے لئے تحذیر ہے کہ وہ اپنے کفر اور معاصی پر جمے نہ رہیں۔ یاجوج و ماجوج کے کھلنے کا وقت قریب ہے اور یاجوج و ماجوج بنی آدم کے دو قبیلوں کا نام ہے۔ جب ذوالقرنین سے ان کے فساد فی الارض کا شکوہ کیا گیا تو اس نے درے کو دیوار کے ذریعے بند کر کے ان کا راستہ مسدود کردیا۔ آخری زمانے میں یہ درہ کھل جائے گا اور وہ اس طرح لوگوں کی طرف نکلیں گے جیسے اللہ نے یہاں ذکر فرمایا ہے کہ وہ نہایت تیزی سے ہر ٹیلے سے نیچے اترتے نظر آئیں گے۔ یہ آیت کریمہ ان کی کثرت اور نہایت تیزی کے ساتھ ان کے زمین میں پھیل جانے پر دلالت کرتی ہے۔ ان کی نقل و حرکت میں سرعت، یا تو اس وجہ سے ہوگی کہ وہ جسمانی اعتبار سے نہایت پھرتیلے اور سریع الحرکت ہوں گے یا اللہ تعالیٰ کی تخلیق کردہ ان اسباب کی وجہ سے، جو دور کی مسافتوں کو قریب اور آسان کردیں گے۔ وہ لوگوں پر قہر بن کر ٹوٹیں گے اور اس دنیا میں ان پر غالب آجائیں گے، نیز یہ کہ کسی کے اندر ان کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں ہوگی۔ الأنبياء
97 ﴿ وَاقْتَرَبَ الْوَعْدُ الْحَقُّ ﴾ ”اور قریب آ لگے گا برحق وعدہ۔“ یعنی قیامت کا دن، جس کے آنے کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ کر رکھا ہے اور اس کا وعدہ سچا اور برحق ہے۔ پس اس روز گھبراہٹ، خوف اور دہلا دینے والے زلزلوں سے کفار کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں گی کیونکہ انہیں اپنے جرائم اور گناہوں کا علم ہوگا۔ وہ موت کو پکاریں گے اور اپنی کوتاہیوں پر ندامت اور حسرت کا اظہار کریں گے، کہیں گے : ﴿ قَدْ كُنَّا فِي غَفْلَةٍ مِّنْ هَـٰذَا ﴾ ” ہم اس عظیم دن سے غافل تھے“ پس دنیا کے لہو و لعب میں مستغرق رہے حتیٰ کہ فرشتہ اجل آگیا اور ہم قیامت کی گھاٹی میں اتر گئے۔ اگر کوئی حسرت و ندامت کی وجہ سے مر سکتا تو وہ ضرور مرتے۔ وہ کہیں گے ﴿ بَلْ كُنَّا ظَالِمِينَ ﴾ ” بلکہ ہم ہی ظالم تھے۔“ وہ اپنے ظلم اور اپنے بارے میں اللہ تعالیٰ کے عدل کا اعتراف کریں گے۔ اس وقت حکم دیا جائے گا کہ انہیں اور ان کے ان معبودوں کو جہنم میں جھونک دو جن کی یہ عبادت کیا کرتے تھے۔ اس لئے فرمایا : الأنبياء
98 یعنی اے وہ لوگو ! جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسرے معبودوں کی عبادت کرتے ہو ﴿ حَصَبُ جَهَنَّمَ ﴾ تم سب جہنم کا ایندھن ہو ﴿ أَنتُمْ لَهَا وَارِدُونَ ﴾ تمہیں اور تمہارے بتوں کو جہنم میں جھونکا جائے گا۔ بتوں کو جہنم میں جھونکنے میں حکمت یہ ہے۔۔۔حالانکہ یہ پتھر ہیں، عقل و شعور نہیں رکھتے اور ان کا کوئی گناہ بھی نہیں۔۔۔کہ ان کا کذب و افترا واضح ہوجائے جنہوں نے ان بتوں کو معبود بنا رکھا تھا اور تاکہ ان کے عذاب میں اضافہ ہو۔ الأنبياء
99 اس لئے فرمایا : ﴿ لَوْ كَانَ هَـٰؤُلَاءِ آلِهَةً مَّا وَرَدُوهَا ﴾ ” اگر یہ واقعی معبود ہوتے تو جہنم میں کبھی داخل نہ ہوتے۔“ یہ آیت کریمہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد مقدس کی مانند ہے۔ ﴿لِيُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي يَخْتَلِفُونَ فِيهِ وَلِيَعْلَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّهُمْ كَانُوا كَاذِبِينَ ﴾)النحل :16 ؍93 ( ”تاکہ اللہ تعالیٰ ان کے سامنے اس حقیقت کو واضح کر دے جس میں یہ اختلاف کر رہے ہیں، اور تاکہ کفار جان لیں کہ وہ جھوٹے تھے۔“ اور عابد و معبود سب ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے، اس سے کبھی باہر نہیں نکلیں گے اور نہ جہنم سے کسی اور جگہ منتقل ہوں گے۔ الأنبياء
100 ﴿ لَهُمْ فِيهَا زَفِيرٌ ﴾ ” وہ جہنم میں پھنکاریں گے“ شدت عذاب کی وجہ سے ﴿وَهُمْ فِيهَا لَا يَسْمَعُونَ  ﴾ وہ بہرے، گونگے اور اندھے ہوں گے یا جہنم کے سخت بھڑکنے، اس کے غیظ و غضب اور اس کی پھنکار کے باعث، جہنم کی آواز کے سوا کوئی اور آواز نہیں سن سکیں گے۔ الأنبياء
101 اور مشرکین کے معبودوں کا جہنم میں داخل ہونا اس وجہ سے ہے کہ وہ پتھر کے بت ہیں یا صرف اس شخص کو اپنی عبادت کرنے والوں کے ساتھ جہنم میں جھونکا جائے گا جو اپنی عبادت کئے جانے پر راضی تھا۔ رہے حضرت مسیح، حضرت عزیز علیہا السلام، فرشتے اور اولیاء کرام جن کی عبادت کی جاتی ہے تو ان کو عذاب نہیں دیا جائے گا۔ وہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے تحت آتے ہیں۔ ﴿ إِنَّ الَّذِينَ سَبَقَتْ لَهُم مِّنَّا الْحُسْنَ ﴾ ” اور وہ لوگ کہ سبقت کرگئی ان کے لئے ہماری طرف سے بھلائی۔“ یعنی اللہ تعالیٰ کے علم میں ان کے لئے پہلے ہی سے لوح محفوظ میں سعادت لکھ دی گئی اور دنیا میں نیک اعمال ان کے لئے آسان کردیئے گئے ہیں۔ ﴿ أُولَـٰئِكَ عَنْهَا ﴾ ” یہ لوگ اس سے۔ “یعنی جہنم سے ﴿مُبْعَدُونَ ﴾ ” دور رکھے جائیں گے۔“ پس وہ جہنم میں داخل ہوں گے نہ جہنم کے قریب جائیں گے بلکہ وہ اس سے انتہائی حد تک دور رہیں گے حتیٰ کہ اس کی آواز تک نہیں سنیں گے اور نہ اس کا نظارہ کرسکیں گے۔ الأنبياء
102 الأنبياء
103 ﴿ لَا يَحْزُنُهُمُ الْفَزَعُ الْأَكْبَرُ ﴾ ” نہیں غم میں ڈالے گی انہیں بڑی گھبراہٹ۔“ یعنی جب لوگ بہت زیادہ گھبراہٹ میں ہوں گے تو انہیں کسی قسم کا قلق نہ ہوگا اور یہ قیامت کے روز ہوگا۔ جب جہنم کو قریب لایا جائے گا جہنم کفار اور نافرمان لوگوں پر سخت غضبناک ہوگی، اس بنا پر لوگ سخت گھبراہٹ میں مبتلا ہوں گے۔ مگر انہیں کوئی غم نہ ہوگا کیونکہ انہیں علم ہوگا کہ وہ اللہ کے پاس کیا لے کر حاضر ہوئے ہیں، نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اس چیز سے مامون کردیا ہے جس سے وہ ڈرتے تھے۔ ﴿ وَتَتَلَقَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ ﴾ ” اور ہاتھوں ہاتھ لیں گے ان کو فرشتے۔“ جب فرشتے ان کو ان کی قبروں سے اٹھائیں گے اور وہ نیک لوگوں کے پاس ان کو دوبارہ زندہ کرنے کے لئے وفد کی صورت میں آئیں گے اور ان کو مبارک دیتے ہوئے کہیں گے : ﴿ هَـٰذَا يَوْمُكُمُ الَّذِي كُنتُمْ تُوعَدُونَ ﴾ ” یہ تمہارا وہ دن ہے جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا۔“ لہٰذا تمہیں مبارک ہو وہ وعدہ جو اللہ تعالیٰ نے تم سے کیا ہے۔۔۔تمہارے سامنے اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو عزت و تکریم تمہاری منتظر ہے اس پر تمہیں بہت زیادہ خوش ہونا چاہئے اور اللہ تعالیٰ نے خوفناک اور ناپسندیدہ حالات سے تمہیں محفوظ و مامون رکھا ہے اس پر تمہیں بے پایاں فرحت اور سرور ہونا چاہئے۔ الأنبياء
104 اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ وہ قیامت کے روز آسمانوں کو، ان کی عظمت اور وسعت کے باوجود، لپیٹ دے گا، جس طرح کاتب ورق کو لپیٹتا ہے یہاں (السجل) سے مراد ورق ہے جس کے اندر کچھ تحریر کیا گیا ہو۔ پس آسمان کے تمام ستارے ٹوٹ کر بکھر جائیں گے۔ سورج اور چاند اپنی روشنی سے محروم ہو کر اپنی اپنی جگہ سے ہٹ جائیں گے۔ ﴿ كَمَا بَدَأْنَا أَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِيدُهُ ﴾ ہم مخلوق کو دوبارہ اسی طرح پیدا کریں گے جس طرح ہم نے ان کو ابتدا میں پیدا کیا تھا۔ پس جس طرح ہم نے ان کو اس وقت پیدا کیا جب وہ کچھ بھی نہ تھے، اسی طرح ہم ان کو ان کے مرنے کے بعد دوبارہ پیدا کریں گے۔ ﴿ وَعْدًا عَلَيْنَا إِنَّا كُنَّا فَاعِلِينَ ﴾ یعنی جو ہم نے وعدہ کیا ہے اس کو پورا کریں گے۔ اللہ تعالیٰ اس کو پورا کرنے کی پوری پوری قدرت رکھتا ہے اور کوئی چیز اس کے لئے ناممکن نہیں۔ الأنبياء
105 اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُورِ ﴾ ” اور ہم نے لکھا زبور میں۔“ اور وہ ہے لکھی ہوئی کتاب اور اس سے مراد ہے کتب الٰہیہ، مثلاً تورات وغیرہ ﴿ مِن بَعْدِ الذِّكْرِ ﴾ ” ذکر (میں لکھنے) کے بعد۔“ یعنی ہم نے کتاب سابق لوح محفوظ یعنی ام الکتاب میں لکھنے کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ کتابوں میں لکھ دیا۔ تمام تقدیریں ام الکتاب کے موافق واقع ہوتی ہیں اور اس میں یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ ﴿ أَنَّ الْأَرْضَ ﴾ ” بلاشبہ زمین“یعنی جنت کی زمین ﴿ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ ﴾ ” اس کے وارث ہوں گے میرے نیک بندے۔“ جو مامورات کو قائم اور منہیات سے اجتناب کرتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ جنت کا وارث بنائے گا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اہل جنت کا قول نقل فرمایا : ﴿ الْحَمْدُ لِلّٰـهِ الَّذِي صَدَقَنَا وَعْدَهُ وَأَوْرَثَنَا الْأَرْضَ نَتَبَوَّأُ مِنَ الْجَنَّةِ حَيْثُ نَشَاءُ ﴾ (الزمر : 39؍74 )” ہر قسم کی حمد و ثنا اللہ تعالیٰ کے لئے ہے جس نے ہمارے ساتھ اپنے وعدے کو سچا کر دکھایا اور ہمیں زمین کا وارث بنایا ہم جنت میں جہاں چاہیں اپنی جگہ بنا سکتے ہیں۔ “ اس آیت کریمہ میں یہ احتمال بھی ہے کہ زمین سے مراد زمین کی خلافت ہو۔ اللہ تعالیٰ صالحین کو زمین میں اقتدار عطا کرے گا اور ان کو زمین کا والی بنائے گا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿ وَعَدَ اللّٰـهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ﴾ (النور : 24؍55) ” اللہ تعالیٰ نے تم میں سے ان لوگوں کے ساتھ وعدہ کیا ہے، جو ایمان لائیں گے اور نیک کام کریں گے کہ وہ ان کو اسی طرح زمین کی خلافت عطا کرے گا جس طرح ان سے پہلے لوگوں کو عطا کی تھی۔ “ الأنبياء
106 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی کتاب عزیز قرآن کریم کی ستائش کرتا ہے اور واضح کرتا ہے کہ قرآن کریم میں ہر چیز سے مکمل کفایت ہے اور اس سے مستغنی نہیں رہا جاسکتا، چنانچہ فرمایا ﴿ إِنَّ فِي هَـٰذَا لَبَلَاغًا لِّقَوْمٍ عَابِدِينَ ﴾ ” بے شک اس میں البتہ کفایت ہے عبادت گزار لوگوں کے لئے۔“ یعنی وہ اپنے رب اور اس کے عزت و تکریم کے گھر تک پہنچنے کے لئے قرآن عزیز پر اکتفاء کرتے ہیں۔ پس یہ گراں قدر کتاب ان کو جلیل ترین مقاصد اور افضل ترین مرغوبات تک پہنچاتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والوں کے لئے، جو سب سے زیادہ فضل و شرف کے حامل ہیں، اس سے آگے اور کوئی منزل نہیں کیونکہ قرآن ان کے رب کی، اس کے اسماء و صفات اور افعال کے ذریعے سے معرفت کے لئے کفیل ہے اور غیب کی خبریں بیان کرنے اور حقائق ایمان اور شواہد ایقان کی دعوت کا بھی کفیل ہے، قرآن ہی تمام مامورات اور تمام منہیات کو بیان کرتا ہے، یہ قرآن ہی ہے جو نفس و عمل کے عیوب اور دین کے دقیق و جلیل معاملات میں ان راستوں کی نشاندہی کرتا ہے جن پر اہل ایمان کو گامزن رہنا چاہئے اور یہ قرآن ہی ہے جو شیطان کے راستوں پر چلنے سے بچاتا ہے اور انسان کے عقائد و اعمال میں ان کی مداخلت کے دروازوں کی نشاندہی کرتا ہے۔ جسے قرآن غنی نہیں کرتا، اللہ تعالیٰ اس کو غنی نہ کرے اور جس کے لئے قرآن کافی نہیں، اللہ اس کو کفایت نہ کرے۔ الأنبياء
107 پھر اپنے رسول کی، جو قرآن لے کر آئے، مدح بیان کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ ﴾ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کے بندوں کے لئے اس کی رحمت کا تحفہ ہیں۔ پس اہل ایمان نے اس رحمت کو قبول کیا، اس کی قدر کی اور اس کے تقاضوں پر عمل کیا اور جو آپ پر ایمان نہ لائے انہوں نے اللہ کی نعمت کو کفر سے بدل دیا اور اس کی اس رحمت اور نعمت کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔ الأنبياء
108 ﴿ قُلْ ﴾ اے محمدکہہ دیجئے ! ﴿ إِنَّمَا يُوحَىٰ إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَـٰهُكُمْ إِلَـٰهٌ وَاحِدٌ ﴾ ” میری طرف تو یہی وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے۔“ جس کے سوا کوئی ہستی عبادت کی مستحق نہیں، اس لئے فرمایا ﴿ فَهَلْ أَنتُم مُّسْلِمُونَ ﴾ یعنی کیا تم اس کی عبودیت کو اختیار اور اس کی الوہیت کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہو؟۔۔۔اگر وہ ایسا کریں تو انہیں اپنے رب کی ستائش کرنی چاہئے کہ اس نے ان کو اس نعمت سے سرفراز کیا، جو تمام نعمتوں پر فوقیت رکھتی ہے۔ الأنبياء
109 ﴿ فَإِن تَوَلَّوْا ﴾ اگر وہ اپنے رب کی عبودیت سے منہ موڑ لیں تو ان کو گزری ہوئی قوموں پر نازل ہونے والے عذاب اور سزا سے ڈراؤ! ﴿فَقُلْ آذَنتُكُمْ ﴾ یعنی میں نے اللہ تعالیٰ کے عذاب کے بارے میں تمہیں آگاہ کردیا ہے ﴿ عَلَىٰ سَوَاءٍ ﴾ ” برابری پر۔“ یعنی میں اور تم اس حقیقت کو برابر طور پر جانتے ہیں، اس لئے جب تم پر اللہ تعالیٰ کے عذاب کا کوڑا بر سے تو یہ نہ کہنا ﴿ مَا جَاءَنَا مِن بَشِيرٍ وَلَا نَذِيرٍ ﴾ (المائدہ: 5 ؍19) ” ہمارے پاس کوئی خوشخبری دینے والا آیا ہے نہ کوئی ڈرانے والا۔“ بلکہ ہم اس حقیقت سے برابر طور پر آگاہ ہیں کیونکہ میں تم کو ڈرا چکا ہوں اور تمہیں کفر کے انجام کے بارے میں آگاہ کرچکا ہوں اور میں نے تم سے کچھ بھی نہیں چھپایا۔ ﴿ وَإِنْ أَدْرِي أَقَرِيبٌ أَم بَعِيدٌ مَّا تُوعَدُونَ ﴾ یعنی جس عذاب کا تمہارے ساتھ وعدہ کیا گیا ہے ( میں نہیں جانتا کہ وہ عذاب قریب آن لگا ہے یا دور ہے) کیونکہ اس کا علم اللہ تعالیٰ کے پاس ہے اور اسی کے قبضہ قدرت میں ہے، میرے اختیار میں کچھ بھی نہیں۔ الأنبياء
110 الأنبياء
111 ﴿ وَإِنْ أَدْرِي لَعَلَّهُ فِتْنَةٌ لَّكُمْ وَمَتَاعٌ إِلَىٰ حِينٍ ﴾ یعنی۔۔۔شاید اس عذاب میں تاخیر جس کے لئے تم جلدی مچا رہے ہو، تمہارے لئے بہت بری ہے اور اگر تم ایک وقت مقرر تک اس دنیا سے متمتع ہوتے ہو تو یہ تمہارے لئے بہت بڑے عذاب کا باعث ہوگا۔ الأنبياء
112 ﴿ قَالَ رَبِّ احْكُم بِالْحَقِّ ﴾ ” کہا، اے میرے رب ! حق کے ساتھ فیصلہ کر دے“ یعنی ہمارے اور کافروں کی قوم کے درمیان۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ دعا قبول فرما لی اور اس دنیا میں ان کے درمیان فیصلہ کردیا اور اللہ تعالیٰ نے جنگ بدر وغیرہ میں ان کافروں کو سزا دے دی۔ ﴿وَرَبُّنَا الرَّحْمَـٰنُ الْمُسْتَعَانُ عَلَىٰ مَا تَصِفُونَ ﴾ یعنی تم جو باتیں بناتے ہو ان کے مقابلے میں ہم اپنے رب رحمٰن ہی سے سوال کرتے ہیں اور اسی سے مدد کے طلب گار ہیں، ہم عنقریب تم پر غالب آئیں گے اور عنقریب تمہارا دین ختم ہوجائے گا۔ پس اس بارے میں ہم کسی خود پسندی میں مبتلا ہیں نہ ہم اپنی قوت و اختیار پر بھروسہ کرتے ہیں۔ ہم تو رب رحمٰن سے مدد مانگتے ہیں جس کے قبضہ قدرت میں تمام مخلوق کی پیشانی ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ ہم نے رب رحمٰن سے جس امر کے بارے میں استعانت طلب کی ہے، وہ اپنی رحمت سے ضرور اس کو پورا کرے گا۔۔۔ اور اس نے ایسا کیا۔ وللّٰہ الحمد الأنبياء
0 الحج
1 اللہ تبارک و تعالیٰ تمام لوگوں سے مخاطب ہو کر فرماتا ہے کہ وہ اپنے رب سے ڈریں جس نے ظاہری اور باطنی نعمتوں کے ذریعے سے ان کی پرورش کی، اس لئے ان کے لائق یہی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے ڈریں، شرک، فسق اور نافرمانی کو ترک کردیں اور جہاں تک استطاعت ہو، اس کے احکام پر عمل کریں، پھر ان امور کا ذکر فرمایا جو تقویٰ اختیار کرنے میں ان کی مدد کرتے ہیں اور ان لوگوں کو ڈراتے ہیں جو تقویٰ کو ترک کردیتے ہیں اور وہ ہے قیامت کی ہولناکیوں کی خبر دینا، چنانچہ فرمایا : ﴿إِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَيْءٌ عَظِيمٌ ﴾ ” بے شک قیامت کا بھونچال، بہت بڑی چیز ہے۔“ کوئی اس کا اندازہ کرسکتا ہے نہ اس کی کنہ کو پہنچ سکتا ہے۔ جب قیامت واقع ہوگی تو زمین کو نہایت شدت سے ہلا دیا جائے گا، زمین میں زلزلہ آجائے گا، پہاڑ پھٹ کر ریزہ ریزہ ہوجائیں گے اور بھربھری ریت کے ٹیلوں کی شکل اختیار کرلیں گے، پھر غبار بن کر اڑ جائیں گے، پھر لوگ تین اقسام میں منقسم ہوجائیں گے۔ آسمان پھٹ جائے گا، سورج اور چاند بے نور ہوجائیں گے، ستارے بکھر جائیں گے، ایسے خوفناک زلزلے آئیں گے کہ خوف کے مارے دل پھٹ جائیں گے، خوف سے بچے بھی بوڑھے ہوجائیں گے اور بڑی بڑی سخت چٹانیں پگھل جائیں گی۔ الحج
2 اس لئے فرمایا : ﴿يَوْمَ تَرَوْنَهَا تَذْهَلُ كُلُّ مُرْضِعَةٍ عَمَّا أَرْضَعَتْ ﴾ ” جس دن تم اسے دیکھ لو گے ہر دودھ پلانے والی اپنے دودھ پیتے بچے کو بھول جائے گی۔“ حالانکہ دودھ پلانے والی ماں کی جبلت میں اپنے بچے کی محبت رچی بسی ہوتی ہے، خاص طور پر اس حال میں جبکہ بچہ ماں کے بغیر زندہ نہ رہ سکتا ہو ﴿وَتَضَعُ كُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَهَا﴾ یعنی شدت ہول اور سخت گھبراہٹ کے عالم میں ہر حاملہ عورت اپنا حمل گرا دے گی۔ ﴿وَتَرَى النَّاسَ سُكَارَىٰ وَمَا هُم بِسُكَارَىٰ﴾ یعنی اے دیکھنے والو ! تم سمجھو گے کہ لوگ شراب کے نشہ میں مدہوش ہیں، حالانکہ وہ شراب نوشی کی وجہ سے مدہوش نہ ہوں گے ﴿وَلَـٰكِنَّ عَذَابَ اللّٰـهِ شَدِيدٌ﴾ ” بلکہ اللہ تعالیٰ کا عذاب ہی بڑا سخت ہوگا“ جس کی وجہ سے عقل ماری جائے گی، دل خالی ہو کر گھبراہٹ اور خوف سے لبریز ہوجائیں گے، دل اچھل کر حلق میں اٹک جائیں گے اور آنکھیں خوف سے کھلی کی کھلی رہ جائیں گی۔ اس روز کوئی باپ اپنے بیٹے کی طرف سے بدلہ دے گا اور نہ کوئی بیٹا اپنے باپ کی طرف سے بدلہ دینے والا ہوگا ﴿يَوْمَ يَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ أَخِيهِ وَأُمِّهِ وَأَبِيهِ وَصَاحِبَتِهِ وَبَنِيهِ لِكُلِّ امْرِئٍ مِّنْهُمْ يَوْمَئِذٍ شَأْنٌ يُغْنِيهِ وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ مُّسْفِرَةٌ﴾ (عبس : 80 ؍34۔ 37) ” اس روز بھائی اپنے بھائی سے دور بھاگے گا، اپنی ماں اور باپ سے، اپنی بیوی اور بیٹوں سے، اس روز ہر شخص ایک فکر میں مبتلا ہوگا جو اس کو دوسروں کے بارے میں بے پروا کر دے گی۔“ وہاں ﴿ يَعَضُّ الظَّالِمُ عَلَىٰ يَدَيْهِ يَقُولُ يَا لَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِيلًا يَا وَيْلَتَىٰ لَيْتَنِي لَمْ أَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِيلًا﴾ (الفرقان : 25 ؍27۔ 28) ” ظالم مارے پشیمانی اور حسرت کے اپنے ہاتھوں کو کاٹے گا اور پکار اٹھے گا، اے کاش میں نے رسول کا راستہ اختیار کیا ہوتا۔ ہائے میری کم بختی ! میں نے فلاں کو دوست نہ بنایا ہوتا۔“ اس وقت کچھ چہرے سیاہ پڑجائیں گے اور کچھ چہرے روشن ہوں گے۔ ترازوئیں نصب کردی جائیں گی جن میں ذرہ بھر نیکی اور بدی کا بھی وزن کیا جاسکے گا۔ اعمال نامے پھیلا دیئے جائیں گے اور ان کے اندر درج کئے ہوئے تمام اعمال، اقوال اور نیتیں، خواہ وہ چھوٹے ہوں یا بڑے، سامنے ہوں گے اور جہنم کے اوپر پل صراط کو نصب کردیا جائے گا۔ جنت اہل تقویٰ کے قریب کردی جائے گی اور جہنم کو گمراہ لوگوں کے سامنے کردیا جائے گا ﴿إِذَا رَأَتْهُم مِّن مَّكَانٍ بَعِيدٍ سَمِعُوا لَهَا تَغَيُّظًا وَزَفِيرًا وَإِذَا أُلْقُوا مِنْهَا مَكَانًا ضَيِّقًا مُّقَرَّنِينَ دَعَوْا هُنَالِكَ ثُبُورًا ﴾ (الفرقان : 25 ؍12۔ 13)” جب وہ جہنم کو دور سے دیکھیں گے تو اس کی غضبناک آواز اور اس کی پھنکار سنیں گے، اور جب ان کو جکڑ کر جہنم کی کسی تنگ جگہ میں پھینک دیا جائے گا تو وہاں اپنی موت کو پکارنے لگیں گے“ ان سے کہا جائے گا ﴿لَّا تَدْعُوا الْيَوْمَ ثُبُورًا وَاحِدًا وَادْعُوا ثُبُورًا كَثِيرًا﴾ (الفرقان : 25؍14) ” آج ایک موت کو نہیں بہت سی موتوں کا پکارو۔“ اور جب وہ اپنے رب کو پکاریں گے کہ وہ ان کو وہاں سے نکالے تو رب تعالیٰ فرمائے گا۔ ﴿قَالَ اخْسَئُوا فِيهَا وَلَا تُكَلِّمُونِ ﴾ (المومنون : 23 ؍108) ” دفع ہوجاؤ میرے سامنے سے پڑے رہو جہنم میں اور میرے ساتھ کلام نہ کرو“ رب رحیم کا غضب ان پر بھڑک اٹھے گا اور وہ ان کو درد ناک عذاب میں ڈال دے گا، وہ ہر بھلائی سے مایوس ہوجائیں گے اور وہ اپنے تمام اعمال کو موجود پائیں گے اور کوئی چھوٹے سے چھوٹا عمل بھی مفقود نہیں ہوگا۔ یہ تو ہوگا کفار کا حال اور متقین کو جنت کے باغات میں خوش آمدید کہا جائے گا۔ وہ انواع و اقسام کی لذتوں سے لطف اندوز ہوں گے، جہاں جی چاہے گا وہاں ہمیشہ رہیں گے۔ پس عقل مند شخص، جو جانتا ہے کہ یہ سب کچھ پیش آنے والا ہے تو اس کے لائق یہی ہے کہ وہ اس کے لئے تیاری کر رکھے، مہلت اسے غفلت میں مبتلا نہ کر دے کہ وہ عمل کو چھوڑ بیٹھے۔ تقویٰ الٰہی اس کا شعار، خوف الٰہی اس کا سرمایہ اور اللہ کی محبت اور اس کا ذکر اس کے اعمال کی روح ہو۔ الحج
3 یعنی لوگوں میں ایک گروہ ایسا ہے جو گمراہی کے راستے پر گامزن ہے، وہ باطل دلائل کے ساتھ حق سے جھگڑتے ہیں، وہ باطل کو حق اور حق کو باطل ثابت کرنا چاہتے ہیں اور ان کا حال یہ ہے کہ وہ جہالت کی انتہا کو پہنچے ہوئے ہیں، ان کے پاس کچھ بھی علم نہیں۔ ان کے علم کی انتہا یہ ہے کہ وہ ائمہ ضلال اور ہر سرکش شیطان کے پیچھے چلتے ہیں جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں کے ساتھ عناد رکھتا ہے، ان کے خلاف سرکشی کرتا ہے۔ وہ اللہ اور رسول کی مخالفت کر کے ائمہ ضلال میں شامل ہوجاتا ہے جو لوگوں کو جہنم کی طرف بلاتے ہیں۔ الحج
4 ﴿ كُتِبَ عَلَيْهِ﴾ ” لکھ دیا گیا ہے اس پر۔“ یعنی اس سرکش شیطان کے لئے مقرر کردیا گیا ہے ﴿أَنَّهُ مَن تَوَلَّاهُ﴾ کہ جو اس کی پیروی کرے گا ﴿فَأَنَّهُ يُضِلُّهُ﴾ وہ اسے حق سے دور اور راہ راست سے بھٹکا دے گا ﴿وَيَهْدِيهِ إِلَىٰ عَذَابِ السَّعِيرِ ﴾ اور اسے جہنم کا راستہ دکھائے گا اور یہ یقیناً ابلیس کا نائب ہے، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے ابلیس کے بارے میں فرمایا : ﴿إِنَّمَا يَدْعُو حِزْبَهُ لِيَكُونُوا مِنْ أَصْحَابِ السَّعِيرِ﴾ (فاطر : 35؍6) ” وہ اپنے پیروکاروں کو صرف اس لئے اپنی راہ پر بلا رہا ہے تاکہ وہ بھی جہنمیوں میں شامل ہوجائیں۔“ یہی وہ شخص ہے جو اللہ تعالیٰ کے بارے میں جھگڑتا ہے، خود اپنے آپ کو بھی گمراہ کرتا ہے اور لوگوں کو بھی گمراہ کرنے کے درپے ہوتا ہے اور یہی وہ شخص ہے جو ہر سرکش شیطان کا مقلد ہے۔۔۔ اندھیرے ایک سے ایک بڑھ کر ہیں۔ اس گروہ میں اہل کفر اور اہل بدعت کی اکثریت شامل ہے کیونکہ ان کی اکثریت مقلدین پر مشتمل ہے جو بغیر علم کے جھگڑتی ہے۔ الحج
5 اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِن كُنتُمْ فِي رَيْبٍ مِّنَ الْبَعْثِ﴾ یعنی اگر تم کسی شک و شبہ میں مبتلا ہو اور قیامت کے وقوع کے بارے میں تمہیں کوئی علم نہیں جب کہ تم پر لازم ہے کہ تم اس بارے میں اپنے رب اور اس کے رسولوں کی تصدیق کرو لیکن اگر تم شک کئے بغیر نہ رہ سکو تو تمہارے سامنے یہ دو عقلی دلائل ہیں جن میں سے ہر ایک کا تم مشاہدہ کرتے ہو۔ جس بارے میں تم شک کرتے ہو اس پر قطعی دلالت کرتے ہیں اور تمہارے دلوں میں شک کو زائل کرتے ہیں : پہلی دلیل : انسان کی تخلیق کی ابتداء سے استدلال ہے، یعنی وہ ہستی جس نے ابتداء میں اس کو پیدا کیا ہے وہی اس کو دوبارہ پیدا کرے گا، چنانچہ فرمایا : ﴿ فَإِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن تُرَابٍ﴾” ہم نے تم کو مٹی سے پیدا کیا۔“ اور یہ اس طرح کہ اس نے ابو البشر آدم علیہ السلام کو مٹی سے پیدا کیا ﴿ثُمَّ مِن نُّطْفَةٍ﴾ یعنی منی سے پیدا کیا۔ یہ انسان کی تخلیق کا اولین مرحلہ ہے ﴿ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ﴾” پھر گاڑھے خون سے۔“ یعنی پھر یہ نطفہ اللہ کے حکم سے سرخ خون میں بدل جاتا ہے۔ ﴿ثُمَّ مِن مُّضْغَةٍ﴾ ” پھر لوتھڑے سے۔“ یعنی پھر وہ گاڑھا خون لوتھڑے یعنی بوٹی کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ اور یہ بوٹی کبھی تو ﴿ مُّخَلَّقَةٍ﴾ اس سے آدمی کی تصویر بن جاتی ہے۔ ﴿ وَغَيْرِ مُخَلَّقَةٍ﴾ ” اور بے تصویر“ یعنی کبھی اس کی تخلیق سے قبل ہی رحم سے اس کا اسقاط ہوجاتا ہے۔ ﴿ لِّنُبَيِّنَ لَكُمْ﴾ ” تاکہ ہم تمہارے سامنے تمہاری اصل تخلیق کو واضح کریں“ حالانکہ اللہ تعالیٰ ایک لمحہ میں اس کی تخلیق کی تکمیل کرسکتا ہے مگر وہ ہمارے سامنے اپنی کامل حکمت، عظیم قدرت اور بے پایاں رحمت کا اظہار کرتا ہے۔ ﴿وَنُقِرُّ فِي الْأَرْحَامِ مَا نَشَاءُ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى﴾ یعنی اگر اسقاط نہ ہو تو اسے جب تک ہم چاہتے ہیں رحم میں باقی رکھتے ہیں، یعنی مدت حمل تک ﴿ ثُمَّ نُخْرِجُكُمْ﴾ پھر ہم تمہیں تمہاری ماؤں کے رحموں سے باہر نکال لاتے ہیں ﴿ طِفْلًا﴾ ” بچے کی صورت میں“ اس وقت تمہیں کسی بات کا علم ہوتا ہے نہ کسی چیز کی قدرت اور تمہاری ماؤں کو تمہارے لئے مسخر کردیتے اور اس کی چھاتی میں سے تمہارے لئے رزق جاری کردیتے ہیں پھر تم ایک حال سے دوسرے حال میں منتقل ہوتے ہوحتیٰ کہ تم اپنی بلوغت کی عمر کو پہنچ جاتے ہو اور یہ مکمل قوت اور عقل کی عمر ہے۔ ﴿وَمِنكُم مَّن يُتَوَفَّىٰ ﴾ اور تم میں کچھ بلوغت کی عمر کو پہنچنے سے پہلے فوت ہوجاتے ہیں اور کچھ اس سے آگے گزر کر رذیل ترین یعنی خسیس ترین عمر کو پہنچ جاتا ہے اور یہ وہ عمر ہے جب انسان نہایت کمزور ہوجاتا ہے، قویٰ فاسد ہوجاتے ہیں، عقل بھی اسی طرح مضمحل ہو کر زائل ہوجاتی ہے جس طرح دیگر قویٰ کمزور پڑجاتے ہیں۔ ﴿لِكَيْلَا يَعْلَمَ مِن بَعْدِ عِلْمٍ شَيْئًا﴾ یعنی۔۔۔ تاکہ اس معمر شخص کو ان تمام چیزوں کا کچھ بھی علم نہ ہو جن کو وہ اس سے قبل جانتا تھا اور اس کا سبب اس کا ضعف عقل ہے۔ پس انسان کی قوت دو قسم کے ضعفوں میں گھری ہوئی ہے۔ 1۔ طفولیت کا ضعف اور اس کا نقص۔ 2۔ بڑھاپے کا ضعف اور اس کا نقص۔ جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿اللّٰـهُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن ضَعْفٍ ثُمَّ جَعَلَ مِن بَعْدِ ضَعْفٍ قُوَّةً ثُمَّ جَعَلَ مِن بَعْدِ قُوَّةٍ ضَعْفًا وَشَيْبَةً ۚ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ ۖ وَهُوَ الْعَلِيمُ الْقَدِيرُ (الروم : 30؍54) ” اللہ ہی تو ہے جس نے تم کو کمزور حالت میں پیدا کیا پھر کمزوری کے بعد تمہیں قوت عطا کی پھر قوت کے بعد کمزوری اور بڑھاپا دیا، وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے، وہ علم والا اور قدرت والا ہے۔ “ دوسری دلیل اللہ تعالیٰ کا زمین کو اس کے مردہ ہوجانے کے بعد دوبارہ زندہ کرنا ہے چنانچہ فرمایا : ﴿وَتَرَى الْأَرْضَ هَامِدَةً ﴾ ” اور تو دیکھتا ہے زمین کو بنجر۔“ یعنی خشک، چٹیل اور بے آب و گیاہ ﴿فَإِذَا أَنزَلْنَا عَلَيْهَا الْمَاءَ اهْتَزَّتْ﴾ ” پس جب ہم اس پر بارش نازل کرتے ہیں تو وہ ابھرتی ہے۔“ یعنی نباتات سے لہلہا اٹھتی ہے ﴿وَرَبَتْ﴾ ” اور پھولتی ہے۔“ یعنی خشک ہونے کے بعد خوب سرسبز ہو کر بلند ہوتی ہے۔ ﴿وَأَنبَتَتْ مِن كُلِّ زَوْجٍ﴾ یعنی زمین نباتات کی ہر صنف کو اگاتی ہے ﴿بَهِيجٍ ﴾ یعنی جو دیکھنے والوں کو خوش کرتی ہے۔ یہ دو قطعی دلائل ہیں جو ان پانچ مقاصد پر دلالت کرتے ہیں۔ الحج
6 ﴿ذٰلِكَ﴾ یہ سب کچھ یعنی آدمی کا اس طرح پیدا کرنا جو اللہ نے بیان کیا اور زمین کو اس کے مردہ ہوجانے کے بعد زندہ کرنا، اس لئے ہے کہ ﴿بِأَنَّ اللّٰـهَ هُوَ الْحَقُّ﴾ ” اللہ، وہی حق ہے۔“ یعنی وہی رب معبود ہے اس کے سوا کوئی ہستی عبادت کے لائق نہیں، اسی کی عبادت حق ہے اور اس کے سوا کسی دوسرے کی عبادت باطل ہے ﴿وَأَنَّهُ يُحْيِي الْمَوْتَىٰ﴾ ” اور وہ زندہ کرے گا مردوں کو۔“ جس طرح اس نے ابتداءً تخلیق کی اور جس طرح اس نے زمین کو اس کے مردہ ہوجانے کے بعد زندہ کیا ﴿وَأَنَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ﴾ ” بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔“ جیسا کہ اس نے اپنی بدیع قدرت اور عظیم صنعت کا تمہیں مشاہدہ کروایا۔ الحج
7 ﴿ وَأَنَّ السَّاعَةَ آتِيَةٌ لَّا رَيْبَ فِيهَا ﴾ ” اور بلاشبہ قیامت آنے والی ہے اس میں کوئی شک نہیں ہے۔“ پس اس کو بعید سمجھنے کی کوئی وجہ نہیں ﴿وَأَنَّ اللّٰـهَ يَبْعَثُ مَن فِي الْقُبُورِ ﴾ ” اور اللہ ان کو دوبارہ اٹھائے گا جو قبروں میں ہیں۔“ پھر تمہیں تمہارے تمام اچھے برے اعمال کی جزا دے گا۔ الحج
8 یہ جھگڑا جس کا ذکر آیت نمبر ٣ اور ٤ میں بھی گزر چکا ہے سرکش شیطان کے مقلد کا جھگڑا ہے اور اسی کی خاطر ہے جو لوگوں کو بدعات کی طرف دعوت دیتا ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا : ﴿ يُجَادِلُ فِي اللّٰـهِ ﴾ یعنی وہ اللہ تعالیٰ کے انبیاء و رسل اور ان کے متبعین کے ساتھ باطل دلائل سے جھگڑتا ہے تاکہ حق کو نیچا دکھائے ﴿بِغَيْرِ عِلْمٍ ﴾ بغیر کسی صحیح علم کے ﴿وَلَا هُدًى﴾ وہ اپنے جھگڑے میں کسی ایسے شخص کی اتباع نہیں کرتا جو اس کی راہنمائی کرے، نہ عقل کے پیچھے لگتا ہے جو اس کو راہ راست پر رکھے اور نہ کسی مقتدا کی اقتداء کرتا ہے جو خود ہدایت یافتہ ہو۔ ﴿وَلَا كِتَابٍ مُّنِيرٍ﴾ ” اور نہ کسی روشن اور واضح کتاب کی پیروی کرتا ہے۔“ لہٰذا اس کے پاس کوئی عقلی دلیل ہے نہ نقلی دلیل، یہ محض شبہات ہیں جو شیطان اس کی طرف القاء کرتا ہے۔ ﴿وَإِنَّ الشَّيَاطِينَ لَيُوحُونَ إِلَىٰ أَوْلِيَائِهِمْ لِيُجَادِلُوكُمْ ﴾ (الانعام :6 ؍121) ” اور شیطان اپنے دوستوں کے دلوں میں القاء کرتے ہیں تاکہ وہ تمہارے ساتھ جھگڑا کریں۔ “ الحج
9 اس کے ساتھ ساتھ ﴿ ثَانِيَ عِطْفِهِ ﴾ وہ گردن اکڑائے، منہ موڑ کر چلتا ہے یہ حق کے بارے میں اس کے تکبر اور مخلوق کے ساتھ اس کے حقارت آمیز رویے کے لئے کنایہ ہے۔ پس وہ اسی پر فرحاں و شاداں ہے کہ اس کے پاس غیر نافع علم ہے اور وہ حق اور اہل حق کو حقیر گردانتا ہے۔ ﴿لِيُضِلَّ﴾ ” تاکہ لوگوں کو گمراہ کرے“ یعنی گمراہی کے داعیوں میں اس کا شمار ہو۔ اس آیت کریمہ کے تحت تمام ائمہ کفر و ضلالت آجاتے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس شخص کے لئے دنیاوی اور اخروی سزا کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : ﴿لَهُ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ﴾ یعنی وہ آخرت سے پہلے ، اس دنیا ہی میں رسوا ہوگا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک عجیب نشانی ہے۔ آپ داعیان کفر و ضلالت میں سے جس کو بھی دیکھیں وہ تمام لوگوں کی ناراضی، لعنت، بغض اور مذمت کا اسی طرح نشانہ ہوتا ہے جیسے وہ اس کا مستحق ہوتا ہے اور ہر شخص حسب حال جزا پاتا ہے۔ ﴿وَنُذِيقُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَذَابَ الْحَرِيقِ﴾ یعنی ہم اسے جہنم کی سخت گرمی اور اس کی بھڑکتی ہوئی آگ کے عذاب کا مزا چکھائیں گے۔ اور یہ سب کچھ اس کے ان کرتوتوں کی وجہ سے ہے جو اس نے آگے بھیجے۔ الحج
10 ﴿ذٰلِكَ﴾ یعنی یہ دنیاوی اور اخروی عذاب جس کا ذکر کیا گیا اور اس میں بعد کا جو معنی پایا جاتا ہے اور وہ ہے (ذلک) کے اندر موجود لام کا معنی جو بعد کی طرف اشارہ کے لئے وضع کیا گیا ہے۔ وہ اس امر پر دلیل ہے کہ کفار ہول اور قباحت کی انتہاء پر ہوں گے۔ ﴿بِمَا قَدَّمَتْ يَدَاكَ﴾ یعنی اس سبب سے، جو تیرے ہاتھوں نے کفر اور معاصی کا اکتساب کیا ہے۔ ﴿وَأَنَّ اللّٰـهَ لَيْسَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِيدِ﴾ اور حقیقت امر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ان کے پہلے گناہوں کے بغیر عذاب نہیں دے گا۔ اس کا اجمالی معنی یہ ہے کہ اس کافر کو، جو ان صفات سے متصف ہے جن کا ذکر مذکورہ دو آیتوں میں گزر چکا ہے، کہا جائے گا کہ یہ عذاب اور رسوائی جس کا تو سامنا کر رہا ہے تیری افترا پردازی اور تکبر کے سبب سے ہے، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ عادل ہے ظلم نہیں کرتا وہ مومن اور کافر، نیک اور بد کے ساتھ مساوی سلوک نہیں کرتا وہ ہر ایک کو اس کے عمل کی جزا دیتا ہے۔ الحج
11 یعنی لوگوں میں سے کوئی ایسا بھی ہے جو ضعیف الایمان ہے جس کے دل میں ایمان داخل نہیں ہوا، ایمان کی بشاشت اس کے دل میں جاگزیں نہیں ہوئی۔ بلکہ وہ یا تو خوف سے ایمان لایا ہے یا محض عادت کی بنا پر اور وہ بھی اس طریقے سے کہ وہ سختیاں برداشت کرنے کی ہمت نہیں رکھتا۔ ﴿فَإِنْ أَصَابَهُ خَيْرٌ اطْمَأَنَّ بِهِ ﴾ یعنی اگر اسے وافر رزق مل رہا ہے اور اسے کوئی تکلیف نہیں پہنچی، تو وہ ایمان پر نہیں، بلکہ پہنچنے والی بھلائی پر مطمئن ہوتا ہے۔۔۔ اور اللہ تعالیٰ بسا اوقات اسے عافیت میں رکھتا ہے اور اسے ایسے فتنوں میں مبتلا نہیں کرتا جو اسے اس کے دین سے پھیر دیں۔ ﴿وَإِنْ أَصَابَتْهُ فِتْنَةٌ﴾اس کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے یا کوئی محبوب چیز اس سے چھن جاتی ہے ﴿انقَلَبَ عَلَىٰ وَجْهِهِ ﴾ ” پھر جاتا ہے اپنے چہرے پر۔“ یعنی اپنے دین سے پھر جاتا ہے۔ ﴿خَسِرَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةَ﴾ ” خسارہ اٹھایا اس نے دنیا اور آخرت کا۔“ دنیا میں خسارہ یہ ہے کہ جس امید پر وہ مرتد ہوا اور جس امید کو اس نے سرمایہ قرار دے رکھا تھا وہ پوری نہ ہوئی اور وہ عوض جس کے حاصل ہونے کا اسے یقین تھا حاصل نہ ہوا۔ پس اس کی کوشش ناکام ہوئی اور اسے صرف وہی کچھ حاصل ہوا جو اس کی قسمت میں لکھا ہوا تھا۔ رہا آخرت کا خسارہ، تو ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جنت کو جس کی چوڑائی آسمانوں اور زمین کے برابر ہے، اس پر حرام کردیا اور وہ جہنم کا مستحق ہوا۔ ﴿ذٰلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِينُ ﴾ اور یہ واضح اور کھلا خسارہ ہے۔ الحج
12 ﴿ يَدْعُو ا﴾ ” پکارتا ہے۔“ یعنی یہ مرتد ﴿مِن دُونِ اللّٰـهِ مَا لَا يَضُرُّهُ وَمَا لَا يَنفَعُهُ﴾ اللہ کے سوا ایسی ہستیوں کو، جو اسے کوئی نقصان دے سکتی ہیں نہ نفع۔ یہ ہر اس معبود باطل کی صفت ہے، جس کی اللہ کے سوا عبادت کی جاتی ہے۔ معبود باطل اپنے لئے یا کسی اور کے لئے کسی نفع و نقصان کا اختیار نہیں رکھتا۔ ﴿ذٰلِكَ هُوَ الضَّلَالُ الْبَعِيدُ﴾ یہ گمراہی بعد میں انتہا کو پہنچی ہوئی ہے کیونکہ اس نے اس ہستی کی عبادت سے روگردانی کی جس کے قبضہ قدرت میں نفع و نقصان ہے، جو خود بے نیاز ہے اور بے نیاز کرنے والی ہے۔۔۔ اور اپنے جیسی یا اپنے سے بھی کمتر ہستی کے سامنے سربسجود ہوا جس کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں بلکہ اس کے برعکس وہ اپنے مقصد کی ضد کے حصول کے زیادہ قریب ہے۔ الحج
13 اس لئے فرمایا : ﴿ يَدْعُو لَمَن ضَرُّهُ أَقْرَبُ مِن نَّفْعِهِ﴾ ” وہ اسے پکارتے ہیں جس کا نقصان اس کے نفع سے زیادہ قریب ہے۔“ اس لئے کہ اس کا نقصان عقل، بدن، دنیا اور آخرت میں ہے ﴿ لَبِئْسَ الْمَوْلَىٰ﴾ ” البتہ برا ہے والی۔“ یعنی یہ معبود باطل ﴿وَلَبِئْسَ الْعَشِيرُ ﴾ یعنی بہت برا ہم نشین ہے جس کی صحبت کو اس نے لازم پکڑ رکھا ہے کیونکہ دوست اور ہم نشین سے حصول نفع اور دفع ضرر مقصود ہوتا ہے۔ اگر اس میں اسے کچھ بھی حاصل نہ ہو تو وہ قابل مذمت اور قابل ملامت ہے۔ الحج
14 جب اللہ تعالیٰ نے باطل دلیلوں سے جھگڑنے والے کا ذکر فرمایا اور یہ بھی بتایا کہ ایسے لوگ دو اقسام میں منقسم ہیں، ایک مقلدین اور دوسرے اپنی بدعات کی طرف دعوت دینے والے تو اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی بھی دو اقسام ذکر فرمائیں جو اپنے آپ کو ایمان سے منسوب کرتے ہیں۔ پہلی قسم ان لوگوں کی جن کے دلوں میں ابھی ایمان داخل نہیں ہوا جیسا کہ گزشتہ سطور میں گزرا اور دوسری قسم ان لوگوں کی جو حقیقی مومن ہیں جنہوں نے اعمال صالحہ کے ذریعے سے اپنے ایمان کی تصدیق کی۔ پس ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ وہ ان کو ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی۔ جنت کو ” جنت“ اس لئے کہا گیا ہے کیونکہ یہ خوبصورت منازل، محلوں، درختوں اور نباتات پر مشتمل ہے یہ درخت اور نباتات اپنی کثرت کے باعث ان لوگوں کو ڈھانپ لیں گے اور ان پر سایہ کناں ہوں گے جو اس میں داخل ہوں گے۔ ﴿إِنَّ اللّٰـهَ يَفْعَلُ مَا يُرِيدُ﴾ پس اللہ تعالیٰ جو بھی ارادہ کرتا ہے اسے بغیر کسی مانع اور معارض کے، کر گزرتا ہے۔ اس کا ایک ارادہ یہ ہے کہ وہ اہل جنت کو جنت میں داخل کرے گا۔۔۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم اور احسان سے ہمیں بھی ان لوگوں میں شامل کرے۔ الحج
15 یعنی جو کوئی یہ اعتقاد رکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول کی مدد نہیں کرے گا اور اس کا دین عنقریب ختم ہوجائے گا تو بلا شبہ و مدد اللہ تعالیٰ کی طرف سے آسمان سے نازل ہوتی ہے۔ ﴿فَلْيَمْدُدْ بِسَبَبٍ إِلَى السَّمَاءِ ثُمَّ لْيَقْطَعْ﴾ ” پس وہ آسمان کی طرف رسی دراز کرے، پھر کاٹ دے۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس مدد کو منقطع کر دکھائے۔ ﴿فَلْيَنظُرْ هَلْ يُذْهِبَنَّ كَيْدُهُ﴾ یعنی وہ کیا چیز ہے جس کے ذریعے سے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف چال چل سکتا ہے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف جنگ برپا کرسکتا ہے، جس کے ذریعے سے وہ اللہ تعالیٰ کے دین کے ابطال کی خواہش رکھتا ہے وہ کیا چیز ہے جو دین کے ظہور پر اسے غیظ و غضب میں مبتلا کرتی ہے۔۔۔ یہ استفہام نفی کے معنی میں ہے یعنی وہ ان اسباب کے ذریعے سے اپنے غیظ و غضب کو ٹھنڈا نہیں کرسکتا۔ اس آیت مقدسہ کا معنیٰ یہ ہے، اے وہ شخص ! جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عداوت رکھتا ہے، جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین کو مٹانے میں کوشاں ہے، جو اپنی جہالت کی بنا پر سمجھتا ہے کہ اس کی کوشش رنگ لائے گی، تجھے معلوم ہونا چاہئے کہ تو جو بھی اسباب اختیار کرلے، رسول کے خلاف کوئی بھی چال چل لے، اس سے تیرے غیظ و غضب اور تیرے دل کی بیماری کو شفا حاصل نہیں ہوگی۔ اس پر تجھے کوئی قدرت حاصل نہیں البتہ ہم تجھے ایک مشورہ دیتے ہیں جس سے تو اپنے دل کی آگ کو ٹھنڈا کرسکتا ہے اور اگر یہ ممکن ہے کہ تو رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) سے اللہ کی مدد و نصرت کو منقطع کرسکتا ہے، تو معاملے میں صحیح راستے سے داخل ہو اور درست اسباب اختیار کر اور وہ یہ کہ کھجور وغیرہ کی چھال سے بٹی ہوئی رسی لے، پھر اسے آسمان پر لٹکا کر آسمان پر چڑھ جا اور ان دروازوں تک پہنچ جا جہاں سے اللہ تعالیٰ کی نصرت نازل ہوتی ہے اور ان دروازوں کو بند کر کے اللہ تعالیٰ کی مدد منقطع کر دے۔ اس طریقے سے تیرے غیظ و غضب کو شفا حاصل ہوگی۔۔۔ بس یہ تجویز اور چال ہے اس طریقے کے علاوہ تیرے دل میں بھی یہ بات نہیں آنی چاہئے کہ تو اپنے غیظ و غضب سے چھٹکارا پا سکتا ہے خواہ مخلوق تیری مدد کے لئے کمر کیوں نہ باندھ لے۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے دین، اپنے رسول اور اپنے مومن بندوں کے لئے فتح و نصرت کا جو وعدہ اور خوشخبری ہے، وہ مخفی نہیں اور کفار کے لئے مایوسی ہے جو اللہ تعالیٰ کے نور کو اپنی پھونکوں سے بجھانا چاہتے ہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ اپنے نور کو پورا کر کے رہے گا خواہ کفار کو ناگوار ہی کیوں نہ گزرے اور خواہ وہ اس نور کو بجھانے کی امکان بھر کوشش کیوں نہ کرلیں۔ الحج
16 یعنی اسی طرح جب ہم نے اس قرآن عظیم میں تفاصیل بیان کی تو ہم نے اس کو آیات بینات بنایا جو تمام مطالب اور مسائل نافعہ پر دلالت کرتی ہیں، لیکن ہدایت تو اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہے۔ پس اللہ تعالیٰ جس کی ہدایت کا ارادہ کرلیتا ہے تو وہ اس قرآن کے ذریعے سے ہدایت پا لیتا ہے، وہ قرآن کو اپنا راہنما اور مقتدا بنا لیتا ہے اور قرآن کے نور سے روشنی حاصل کرتا ہے۔ اور جس کی ہدایت اللہ تعالیٰ نہیں چاہتا اس کے پاس خواہ ہر قسم کی نشانی کیوں نہ آجائے وہ کبھی ایمان نہیں لاتا، قرآن اسے کوئی فائدہ نہیں دیتا بلکہ قرآن اس کے خلاف حجت بنے گا۔ الحج
17 اللہ تبارک و تعالیٰ روئے زمین پر بسنے والے مذاہب کے پیروکاروں کے تمام گروہوں، یعنی وہ لوگ جن کو کتاب عطا کی گئی ہے، مثلاً اہل ایمان، یہود، نصاریٰ، صابئین، مجوس اور مشرکین کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سب کو قیامت کے روز جمع کرے گا اور ان کے درمیان عدل کے ساتھ فیصلہ کرے گا اور ان کو ان کے اعمال کی جزا دے گا جن کو اس نے حفاظت کے ساتھ ان کے اعمال ناموں میں درج کر رکھا ہے اور ان پر گواہ ہے، اس لئے فرمایا : ﴿إِنَّ اللّٰـهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ﴾ ” بے شک اللہ تعالیٰ ہر چیز کو دیکھ رہا ہے۔“ الحج
18 الحج
19 پھر اللہ تعالیٰ نے ان کے مابین مزید تفصیل بیان کرتے ہوئے فرمایا : ﴿هَـٰذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِي رَبِّهِمْ﴾ ” یہ دو فریق ہیں جو اپنے رب کے بارے میں جھگڑتے ہیں۔“ ان میں سے ہر فریق دعویٰ کرتا ہے کہ وہ حق پر ہے۔ ﴿فَالَّذِينَ كَفَرُوا ﴾ یہ جملہ تمام کفار، یعنی یہود، نصاریٰ، مجوس، صابئین اور مشرکین کو شامل ہے۔ ﴿قُطِّعَتْ لَهُمْ ثِيَابٌ مِّن نَّارٍ﴾ یعنی ان کے کپڑے گندھک کے ہوں گے جن میں آگ شعلہ زن ہوگی تاکہ عذاب ان کو ہر جانب سے پوری طرح گھیر لے۔ ﴿ يُصَبُّ مِن فَوْقِ رُءُوسِهِمُ الْحَمِيمُ ﴾ یعنی ان کے سروں پر سخت کھولتا ہوا پانی انڈیلا جائے گا جس کی شدت حرارت سے ان کے پیٹ کے اندر گوشت، چربی، انتڑیاں گل جائیں گی۔ الحج
20 اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان آیات کریمہ کے درمیان، جملہ معترضہ کے طور پر اپنے لئے مخلوقات کے سجدے کا ذکر فرمایا ہے، یعنی آسمانوں اور زمین کی تمام مخلوقات، سورج، چاند، ستاروں، پہاڑ، زمین پر چلنے والے تمام جاندار یعنی تمام حیوانات اور لوگوں کی ایک بڑی تعداد یعنی اہل ایمان کے سجدے کا ذکر فرمایا ہے۔ ﴿وَكَثِيرٌ حَقَّ عَلَيْهِ الْعَذَابُ﴾ بہت سے لوگ ایسے ہیں، جن کے کفر اور عدم ایمان کی وجہ سے ان پر عذاب واجب ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو ایمان کی توفیق نہ بخشی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو رسوا کیا ﴿وَمَن يُهِنِ اللّٰـهُ فَمَا لَهُ مِن مُّكْرِمٍ ﴾ ” اور جس کو اللہ تعالیٰ رسوا کرے تو کوئی اس کو عزت دینے والا نہیں۔“ اور کوئی اس کو اس کے ارادے سے باز نہیں رکھ سکتا اور نہ کوئی ہستی اس کی مشیت کی مخالفت کرسکتی ہے۔ پس جب تمام مخلوق اپنے رب کے حضور سربسجود، اس کی عظمت کے سامنے سرافگندہ، اس کے غلبہ کے سامنے عاجز و فروتن اور اس کے تسلط کے سامنے لاچار ہے۔ تو یہ چیز دلالت کرتی ہے کہ وہی اکیلا رب معبود اور بادشاہ محمود ہے اور جو کوئی اس سے روگردانی کر کے کسی اور کی عبادت کرتا ہے تو وہ بہت دور کی گمراہی اور واضح خسارے میں جا پڑا۔ الحج
21 ﴿وَلَهُم مَّقَامِعُ مِنْ حَدِيدٍ ﴾ ” اور ان کے لئے ہتھوڑے ہوں گے لوہے کے۔“ جو سخت اور درشت خو فرشتوں کے ہاتھوں میں ہوں گے جن کے ساتھ وہ ان کو ماریں گے اور سزا دیں گے۔ الحج
22 فرمایا : ﴿كُلَّمَا أَرَادُوا أَن يَخْرُجُوا مِنْهَا مِنْ غَمٍّ أُعِيدُوا فِيهَا﴾ ” جب بھی وہ اس جہنم سے نکلنے کا ارادہ کریں گے، غم کی وجہ سے، تو وہ اسی میں لوٹا دیئے جائیں گے۔“ پس کسی وقت بھی عذاب ان سے منقطع ہوگا نہ ان کو مہلت دی جائے گی بلکہ زجر و توبیخ کرتے ہوئے ان سے کہا جائے گا : ﴿وَذُوقُوا عَذَابَ الْحَرِيقِ﴾ یعنی دلوں اور بدنوں کو جلانے والا عذاب چکھو۔ الحج
23 ﴿إِنَّ اللّٰـهَ يُدْخِلُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ﴾ ” اللہ داخل کرے گا ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور انہوں نے عمل صالح کئے، ایسے باغات میں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں۔“ اور یہ چیز معلوم ہے کہ یہ وصف مسلمان کے علاوہ کسی اور پر صادق نہیں آتا، جو تمام کتابوں اور تمام رسولوں پر ایمان لائے ہیں۔ ﴿ يُحَلَّوْنَ فِيهَا مِنْ أَسَاوِرَ مِن ذَهَبٍ ﴾ یعنی تمام اہل ایمان مردوں اور عورتوں کو سونے کے کنگن پہنائے جائیں گے ﴿وَلِبَاسُهُمْ فِيهَا حَرِيرٌ ﴾ ” اور ان کا لباس اس میں ریشم کا ہوگا۔“ پس اس کے ساتھ ان پر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور لذیذ ماکولات کی تکمیل ہوجائے گی جن پر جنت مشتمل ہے، نیز یہ بہتی ہوئی نہروں کے ذکر کو بھی شامل ہے، یعنی پانی کی نہریں، دودھ کی نہریں اور شراب کی نہریں، انواع و اقسام کے لباس اور قیمتی زیورات۔ الحج
24 یہ سب کچھ اس سبب سے عطا ہوگا کہ ﴿وَهُدُوا إِلَى الطَّيِّبِ مِنَ الْقَوْلِ﴾ ” ان کی رہنمائی پاکیزہ بات کی طرف کی گئی۔“ جس میں سب سے افضل اور سب سے اچھا قول کلمہ، اخلاص ہے، پھر دیگر تمام اقوال طیبہ ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے یا اللہ تعالیٰ کی عبادت کو اچھے طریقے سے کرنا ہے۔ ﴿وَهُدُوا إِلَىٰ صِرَاطِ الْحَمِيدِ﴾ ” اور ان کی رہنمائی کی گئی صراط حمید کی طرف۔“ یعنی قابل ستائش طریقے کی طرف۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شریعت الٰہی تمام تر حکمت، اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا، مامورات کے حسن اور منہیات کی قباحت پر مشتمل ہے اور یہ ایک ایسا دین ہے جس میں کوئی افراط اور تفریط نہیں جو علم نافع اور عمل صالح پر مبنی ہے۔ یا اس کا معنی یہ ہے کہ ان کی اللہ تعالیٰ کے راستے کی طرف رہنمائی کی گئی، وہ اللہ جو قابل تعریف ہے۔ اس لئے کہ اکثر راستے کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی جاتی ہے، کیونکہ وہ چلنے والے کو اللہ تعالیٰ تک پہنچاتا ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے )الحمید( کا ذکر فرمایا کیونکہ اہل ایمان یعنی اس راستے پر گامزن لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا اور اس کے احسان ہی کی بنا پر ہدایت حاصل کی۔ بنا بریں وہ جنت میں کہیں گے : ﴿الْحَمْدُ لِلَّـهِ الَّذِي هَدَانَا لِهَـٰذَا وَمَا كُنَّا لِنَهْتَدِيَ لَوْلَا أَنْ هَدَانَا اللّٰـهُ﴾ )الاعراف : 7؍43)” ہر قسم کی ستائش اللہ ہی کیلئے ہے جس نے ہمیں جنت کی راہ دکھائی، ہم خود کبھی یہ راہ نہ پا سکتے اگر اللہ ہمیں یہ راہ نہ دکھاتا۔ “ الحج
25 اللہ تبارک و تعالیٰ مشرکین کی برائی کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے کہ انہوں نے اپنے رب کے ساتھ کفر کیا، انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کا انکار کرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکا، لوگوں کو ایمان لانے سے منع کیا اور لوگوں کو مسجد حرام سے روکا، جو ان کی ملکیت ہے نہ ان کے باپ دادا کی۔ بلکہ مسجد حرام مقیم اور دور سے زیارت کے لئے آنے والوں کے لئے برابر ہے۔ بلکہ انہوں نے مخلوق میں افضل ترین ہستی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کرام کو بھی مسجد میں داخل ہونے سے روک دیا، حالانکہ مسجد حرام کا احترام، حرمت اور عظمت یہ ہے کہ جو کوئی اس مسجد میں الحاد اور ظلم کا ارادہ کرتا ہے، ہم اسے درد ناک عذاب کا مزا چکھاتے ہیں۔ پس حرم میں مجرد ظلم اور الحاد کا ارادہ ہی عذاب کا موجب ہے، حالانکہ دیگر گناہوں میں بندے کو صرف اس وقت سزا ملتی ہے جب وہ اپنے ارادہ گناہ پر عمل کرتا ہے۔ تو اس شخص کا کیا حال ہوگا جو مسجد میں سب سے بڑے گناہ یعنی کفر اور شرک کا ارتکاب کرتا ہے، لوگوں کو اللہ کے راستے سے اور زیارت کا ارادہ رکھنے والوں کو مسجد حرام سے روکتا ہے۔ تمہارا کیا خیال ہے، اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ کیا سلوک کریگا؟ اس آیت کریمہ میں حرم کے احترام اور اس کی شدت تعظیم کے وجوب کا اور اس کے اندر ارادہ معصیت اور اس کے ارتکاب سے بچنے کی تاکید کا اثبات ہے۔ الحج
26 اللہ تبارک و تعالیٰ مسجد حرام کی عظمت و جلال اور اس کے بانی، رحمان کے خلیل، ابراہیم علیہ السلام کی عظمت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے : ﴿وَإِذْ بَوَّأْنَا لِإِبْرَاهِيمَ مَكَانَ الْبَيْتِ﴾ ” اور جب ہم نے مقرر کردی ابراہیم علیہ السلام کے لئے بیت اللہ کی جگہ۔“ یعنی ہم نے ان کیلئے اسے مہیا کردیا، آپ کو وہاں رہنے کے لئے بھیج دیا اور آپ کی اولاد کے ایک حصے کو وہاں آباد کیا تو اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کو بیت اللہ کی تعمیر کا حکم دیا پس آپ نے بیت اللہ کو تقویٰ اور اطاعت الٰہی کی اساس پر تعمیر کیا۔ بیت اللہ کو آپ اور آپ کے بیٹے اسماعیل علیہ السلام نے مل کر تعمیر کیا اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا کہ آپ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں، نیز یہ کہ اپنے اعمال کو اللہ کے لئے خالص کریں اور اس مقدس گھر کی اللہ تعالیٰ کے نام پر بنیاد رکھیں۔ ﴿ وَطَهِّرْ بَيْتِيَ﴾ یعنی میرے گھر کو شرک، معاصی، نجاست اور گندگی سے پاک کیجئے۔ اللہ تعالیٰ نے اس گھرکو شرف اور فضیلت بخشنے، بندوں کے دلوں میں اس کی عظمت کو اجاگر کرنے اور ہر جانب سے دلوں کو اس کی طرف مائل کرنے کے لئے اپنی طرف مضاف کیا ہے تاکہ یہ طواف کرنے والوں، اعتکاف کرنے والوں، ذکر، قراءت قرآن، تعلیم و تعلم اور دیگر عبادات کے لئے ٹھہرنے والوں کے لئے رب تعالیٰ کا گھر ہونے کے ناطے سے اپنی تطہیر اور تعظیم کے لئے عظیم ترین گھر ہو۔ ﴿وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ﴾ ” اور رکوع سجود کرنے والوں کے لئے۔“ یعنی نماز پڑھنے والوں کے لئے، یعنی اس گھر کو ان اصحاب فضیلت کے لئے پاک کیجئے جن کا ارادہ یہ ہے کہ وہ اس گھر کے پاس اپنے آقا کی اطاعت اور اس کی خدمت کریں، نیز اس کا تقرب حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ یہی لوگ حقدار ہیں اور انہیں کے لئے اکرام ہے۔ ان کا اکرام یہ ہے کہ ان کی خاطر اس گھر کی تطہیر کا حکم دیا گیا ہے اور اس کی تطہیر میں لغو آوازوں اور شوروشغب سے اس کا پاک صاف ہونا بھی شامل ہے جو نماز اور طواف میں مصروف لوگوں کو تشویش میں ڈالتی ہیں۔ طواف کو اعتکاف اور نماز پر اس لئے مقدم رکھا ہے کیونکہ طواف صرف اسی گھر کے ساتھ مختص ہے اور پھر اعتکاف کا ذکر کیا کیونکہ وہ تمام مساجد سے مختص ہے۔ الحج
27 ﴿وَأَذِّن فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ﴾ یعنی حج کے بارے میں ان کو آگاہ کیجئے اور ان کو حج کی دعوت دیجئے، نیز قریب اور دور کے رہنے والے تمام لوگوں کو حج کی فرضیت اور اس کی فضیلت کی تبلیغ کیجئے کیونکہ جب آپ ان کو حج کی دعوت دیں گے تو حج کے ارادے سے آپ کے پاس آئیں گے اور اس گھر کو آباد کرنے کے شوق میں پیدل چل کر آئیں گے ﴿وَعَلَىٰ كُلِّ ضَامِرٍ﴾ لاغر اونٹنیوں پر مسلسل سفر کرتے ہوئے، صحراؤں اور بیابانوں کو چیرتے ہوئے سب سے زیادہ شرف کے حامل اس مقام پر پہنچیں گے ﴿مِن كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ ﴾ ” دور دراز کی تمام راہوں سے۔“ یعنی لوگ تمام دور دراز کے شہروں سے پہنچیں گے۔ حضرت خلیل علیہ السلام نے لوگوں میں حج کا اعلان فرمایا۔ آپ کے بعد آپ کے بیٹے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی تعمیل کی۔ دونوں مقدس ہستیوں نے لوگوں کو اس گھر کے حج کی دعوت دی، ان دونوں نے ابتداء کی اور اس کا اعادہ کیا اور وہ مقصد حاصل ہوگیا جس کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا تھا۔۔۔ اور لوگ مشرق و مغرب سے پیدل اور سوار ہو کر بیت اللہ کی زیارت کے لئے پہنچے۔ الحج
28 پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے ترغیب کی خاطر ان فوائد کا ذکر فرمایا جو بیت اللہ کی زیارت سے حاصل ہوتے ہیں، چنانچہ فرمایا : ﴿ لِّيَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ﴾ تاکہ بیت اللہ میں دینی منافع، یعنی فضیلت والی عبادات اور ان عبادات کا ثواب حاصل کریں جو اس گھر کے سوا کہیں اور نہیں کی جاسکتیں اور دنیاوی منفعتیں، یعنی اکتساب مال اور دنیاوی فوائد حاصل کریں۔ یہ مشاہدہ میں آنے والا ایسا امر ہے جسے ہر شخص جانتا ہے۔ ﴿وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللّٰـهِ فِي أَيَّامٍ مَّعْلُومَاتٍ عَلَىٰ مَا رَزَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ﴾ ” اور اللہ کا نام یاد کریں پالتو چوپایوں پر جو اللہ نے ان کو دیئے۔“ اور یہ چیز دینی اور دنیاوی منافع میں شمار ہوتی ہے، یعنی قربانیوں کو ذبح کرتے وقت، اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے لئے، کہ اس نے یہ قربانیاں عطا فرمائیں اور ان کے لئے یہ قربانیاں میسر کیں۔۔۔ ان پر اللہ تعالیٰ کا نام لیں اور جب تم ان کو ذبح کرچکو ﴿ فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْبَائِسَ الْفَقِيرَ﴾ ” تو خود بھی اس میں سے کھاؤ اور بھوکے فقیر کو بھی کھلاؤ۔“ یعنی اسے بھی کھلاؤ جو سخت محتاج ہو۔ الحج
29 ﴿ثُمَّ لْيَقْضُوا تَفَثَهُمْ﴾ ” پھر وہ اپنا میل کچیل دور کریں۔“ یعنی اپنے مناسک پورے کریں اور پھر اپنے جسم سے وہ میل کچیل دور کریں جو حالت احرام میں ان کو لاحق ہوگیا تھا ﴿وَلْيُوفُوا نُذُورَهُمْ﴾ اور اپنی نذروں کو پورا کریں جو انہوں نے اپنے آپ پرواجب کی تھیں، یعنی حج، عمرہ اور ہدی وغیرہ ﴿وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ کے قدیم گھر کا طواف کریں جو علی الاطلاق تمام مساجد میں سب سے افضل ہے اور ہر جابر و سرکش کے تسلط سے آزاد ہے۔ یہ طواف کا حکم ہے، تمام مناسک کا عمومی حکم دینے کے بعد اس کے فضل و شرف کی بنا پر یہ خصوصی حکم ہے کیونکہ یہ بالذات مقصود ہے اور اس سے قبل تمام امور اس مقصد کے حصول کے وسائل اور ذرائع ہیں۔ اور شاید۔۔۔ واللہ اعلم۔۔۔ اس میں ایک اور فائدہ بھی ہے اور وہ ہے کہ طواف ہر وقت اور ہر آن مشروع ہے خواہ یہ طواف مناسک حج کے تابع ہو یا بنفسہ مستقل حیثیت کا حامل ہو۔ الحج
30 ﴿ذٰلِكَ﴾ یعنی وہ احکام جن کا ہم تمہارے سامنے ذکر کرچکے ہیں، ان میں اللہ تعالیٰ کی حرمات کی تعظیم، توقیر اور تکریم ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی حرمات کی تعظیم ایسے امور میں شمار ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ کو نہایت محبوب اور اس کے تقریب کا ذریعہ ہیں۔ جس نے ان کی تعظیم و توقیر کی، اللہ تعالیٰ اسے بے پایاں ثواب عطا کرے گا یہ حرمات اللہ تعالیٰ کے نزدیک بندے کے دین، دنیا اور آخرت میں اس کے لئے بہتر ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی حرمات سے مراد، وہ امور ہیں جو اللہ تعالیٰ کے ہاں محترم ہیں اور جن کے احترام کا اس نے حکم دیا ہے، یعنی عبادات وغیرہ، مثلاً تمام مناسک حج، حرم اور احرام، بیت اللہ کو بھیجے گئے قربانی کے جانور اور وہ تمام عبادات جن کو قائم کرنے کا اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو حکم دیا ہے۔ پس ان کی تعظیم یہ ہے کہ دل سے ان کی توقیر اور ان کے ساتھ محبت کی جائے اور کسی تحقیر، سستی اور بے دلی کے بغیر ان میں عبودیت کی تکمیل کی جائے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے احسان اور اپنی نوازشات کا ذکر فرمایا کہ اس نے اپنے بندوں کے لئے چوپایوں میں سے مویشی حلال کردیئے، مثلاً اونٹ، گائے اور بھیڑبکری وغیرہ اور ان کو ان جملہ مناسک میں مشروع کیا جن کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کیا جاتا ہے۔ پس ان دونوں پہلوؤں سے ان میں اللہ تعالیٰ کی عنایت بہت عظیم ہوگئی ہے۔ ﴿إِلَّا مَا يُتْلَىٰ عَلَيْكُمْ﴾” سوائے ان جانوروں کے جن کی تلاوت تم پر کی جاتی ہے۔“ یعنی جن کی تحریم قرآن مجید میں بایں الفاظ ہے۔ ﴿حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنزِيرِ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللّٰـهِ بِهِ وَالْمُنْخَنِقَةُ وَالْمَوْقُوذَةُ وَالْمُتَرَدِّيَةُ وَالنَّطِيحَةُ وَمَا أَكَلَ السَّبُعُ إِلَّا مَا ذَكَّيْتُمْ وَمَا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ﴾ (المائدۃ :5؍3) ” حرام کردیا گیا تم پر مردار، خون، خنزیر کا گوشت اور جس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام پکارا جائے، وہ جانور جو گلا گھٹ کر مر جائے، جو چوٹ لگ کر مر جائے، جو سینگ لگ کر مر جائے اور جس کو درندے پھاڑ کھائیں سوائے اس کے جس کو تم مرنے سے پہلے ذبح کرلو اور وہ جانور جن کو استھانوں پر ذبح کیا جائے۔ “ یہ اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں پر رحمت ہے کہ اس نے ان چیزوں کو ان کے تزکیہ کے لئے اور شرک اور جھوٹی بات سے تطہیر کی خاطر حرام قرار دیا ہے۔ بناء بریں فرمایا : ﴿ فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ﴾ یعنی خبث اور گندگی سے اجتناب کرو۔ ﴿مِنَ الْأَوْثَانِ﴾ ” یعنی بتوں سے“ یعنی ہمسروں سے، جن کو تم نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ معبود بنا رکھا ہے، یہ معبود ان باطل سب سے بڑی گندگی ہیں۔ ظاہر ہے یہاں حرف جار) مِنْ( بیان جنس کے لئے نہیں ہے، جیسا کہ اکثر مفسرین کی رائے ہے بلکہ یہ تبعیض کے لئے ہے اور )رجس( تمام منہیات محرمات کے لئے عام ہے تب یہ نہی عام ہے اور بتوں کی گندگی سے اجتناب کا حکم خاص ہے، جو حرام شدہ منہیات ہی کا حصہ ہے ﴿وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ ﴾ یعنی تمام حرام شدہ اقوال سے اجتناب کرو کیونکہ یہ سب جھوٹی کلام میں شمار ہوتے ہیں۔ الحج
31 اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم دیا ہے کہ وہ ﴿حُنَفَاءَ لِلَّـهِ﴾ اللہ تعالیٰ کے لئے یکسو رہیں یعنی ہر ماسوا سے منہ پھیر کر صرف اللہ تعالیٰ اور اس کی عبادت پر اپنی توجہ کو مرکوز رکھیں۔ ﴿وَمَن يُشْرِكْ بِاللّٰـهِ﴾ ” اور جو اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے۔“ اس کی مثال ایسے ہے ﴿فَكَأَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَاءِ﴾ جیسے کہ وہ آسمان سے گر پڑا ہو۔ ﴿فَتَخْطَفُهُ الطَّيْرُ﴾ ” پس پرندوں نے اسے اچک لیا ہو“ نہایت سرعت سے ﴿ أَوْ تَهْوِي بِهِ الرِّيحُ فِي مَكَانٍ سَحِيقٍ ﴾ ” یا ہوا اسے کہیں دور لے جا کر پھینک دے۔“ یہی حال مشرکین کا ہے۔ پس ایمان آسمان کی مانند محفوظ اور بلند ہے اور جس نے ایمان کو ترک کردیا وہ اس چیز کی مانند ہے جو آسمان سے گرے اور آفات و بلیات کا شکار ہوجائے تو اسے پرندے اچک لیتے ہیں اور اس کے اعضاء کو ٹکڑے ٹکڑے کردیتے ہیں۔ مشرک کا یہی حال ہے جب وہ ایمان کو ترک کردیتا ہے تو شیاطین ہر جانب سے اسے اچک لیتے ہیں، اسے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالتے ہیں اور اس کا دین اور دنیا تباہ کردیتے ہیں۔۔۔ یا اسے سخت تیز ہوا لے اڑتی ہے اورا سے فضا کے مختلف طبقات میں لئے پھرتی ہے اور اس کے اعضاء کے چیتھڑے بنا کر کہیں دور جا پھینکتی ہے۔ الحج
32 یعنی اللہ تعالیٰ کی وہ حرمات اور اس کے شعائرکی تعظیم جس کا ہم نے تمہارے سامنے ذکر کیا ہے اور شعائر سے مراد دین کی ظاہری علامات ہیں۔ انہی شعائر میں تمام مناسک حج شامل ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿ إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِن شَعَائِرِ اللّٰـهِ﴾ )البقرۃ:2 ؍158) ”صفا اور مروہ اللہ کے شعائر میں سے ہیں۔“ بیت اللہ کو بھیجے گئے قربانی کے جانور بھی اللہ تعالیٰ کے شعائر ہیں اور گزشتہ سطور میں ذکر کیا جا چکا ہے کہ ان شعائر کی تعظیم سے مراد ان کی توقیر، ان کو قائم کرنا اور بندے کی استطاعت اور قدرت کے مطابق ان کی تکمیل کرنا ہے۔ ہدی یعنی بیت اللہ کو بھیجے گئے قربانی کے جانور بھی شعائر اللہ میں سے ہیں۔ پس ان کی تعظیم سے مراد ان کی توقیر کرنا ان کو اچھا جاننا اور ان کو موٹا کرنا ہے، نیز یہ کہ قربانی کے یہ جانور ہر لحاظ سے کامل ہوں۔ اللہ تعالیٰ کے شعائر کی تعظیم، دلوں کے تقویٰ سے صادر ہوتی ہے۔ پس شعائر کی تعظیم کرنے والا اپنے تقویٰ اور صحت ایمان کی دلیل پیش کرتا ہے، اس لئے کہ شعائر کی تعظیم دراصل اللہ تعالیٰ کی تعظیم و ترقیر کے تابع ہے۔ الحج
33 ﴿لَكُمْ فِيهَا﴾ ” تمہارے لئے ان میں۔“ یعنی اللہ تعالیٰ کے گھر کو بھیجی گئی قربانیوں میں ﴿ مَنَافِعُ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى﴾ ” ایک مقررہ مدت تک فائدے ہیں۔“ بیت اللہ کو بھیجے گئے قربانی کے اونٹوں وغیرہ میں ایک مدت کے لئے چند فوائد ہیں جن سے ان کے مالک استفادہ کرسکتے ہیں مثلاً ان پر سوار ہونا اور ان کے دودھ دوہنا وغیرہ اور ایسے ہی بعض دیگر کام، جن سے ان قربانیوں کو ضرر نہ پہنچے۔ ﴿إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى﴾ یعنی ان کے ذبح ہونے کے وقت تک فوائد ہیں۔ جب وہ مقام مقصود پر پہنچ جائیں اور وہ (البیت العتیق) ” بیت اللہ“ ہے، یعنی سارا حرم، منیٰ وغیرہ۔ پس جب ان کو ذبح کردیا جائے، تو ان کا گوشت خود بھی کھاؤ، ہدیہ بھیجو اور محتاجوں کو کھلاؤ۔ الحج
34 ہم نے گزشتہ تمام قوموں کیلئے قربانی کو مشروع کیا ہے۔ پس تم تیزی کے ساتھ نیکیوں کی طرف بڑھوتاکہ ہم دیکھیں کہ تم میں سے کون اچھے عمل کرتا ہے۔ ہر قوم میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے قربانی کے طریقے کو مقرر کرنے میں حکمت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ذکر قائم اور اس کے شکر کی طرف التفات ہو، اس لئے فرمایا : ﴿ لِّيَذْكُرُوا اسْمَ اللّٰـهِ عَلَىٰ مَا رَزَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ  فَإِلَـٰهُكُمْ إِلَـٰهٌ وَاحِدٌ﴾ اگرچہ تمام شریعتیں مختلف ہیں مگر ایک اصول پر سب متفق ہیں اور وہ ہے اللہ تعالیٰ کی الوہیت، اللہ تعالیٰ اکیلے کا عبودیت کا مستحق ہونا اور اس کے ساتھ شرک کا ترک کردینا، اس لئے فرمایا : ﴿فَلَهُ أَسْلِمُوا ﴾ یعنی اسی کی اطاعت کرو اسی کے سامنے سرتسلیم خم کرو، اس کے سوا کسی کی اطاعت نہ کرو کیونکہ اس کی اطاعت ہی سلامتی کے گھر تک پہنچنے کا راستہ ہے۔ ﴿وَبَشِّرِ الْمُخْبِتِينَ﴾ یعنی عاجزی کرنے والوں کو دنیا و آخرت کی بھلائی کی خوشخبری دو (الْمُخْبِت) سے مراد اپنے رب کے سامنے عاجزی اور فروتنی کرنے والا، اس کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کرنے والا اور اس کے بندوں کے ساتھ نہایت تواضع سے پیش آنے والا ہے۔ الحج
35 پھر اللہ تعالیٰ نے عاجزی کرنے والوں کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا : ﴿الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللّٰـهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ ﴾ ” وہ لوگ جب اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل کانپ اٹھتے ہیں۔“ یعنی اللہ تعالیٰ کی تعظیم اور اس کے خوف سے ان کے دل کانپ اٹھتے ہیں اور صرف اس کے خوف ہی کی بنا پر محرمات کو ترک کردیتے ہیں ﴿وَالصَّابِرِينَ عَلَىٰ مَا أَصَابَهُمْ﴾ ان پر جو مصیبتیں اور سختیاں آتی ہیں اور انہیں جن مختلف اقسام کی اذیتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ان پر صبر کرتے ہیں، ان میں سے کسی چیز کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ناراضی کا اظہار نہیں کرتے، بلکہ اپنے رب کی رضا کے حصول کی خاطر صبر کرتے ہیں اور اس پر اللہ تعالیٰ سے اجر و ثواب کی امید رکھتے ہیں۔ ﴿ وَالْمُقِيمِي الصَّلَاةِ ﴾یعنی یہ وہ لوگ ہیں جو نماز کو کامل اور درست طریقے سے قائم کرتے ہیں، یعنی وہ اس کی ظاہری اور باطنی عبودیت اور اس کے تمام فرائض و مستحبات کے ساتھ ادا کرتے ہیں۔ ﴿وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ ﴾ ” اور جو ہم نے ان کو دیا ہے، اس میں سے وہ خرچ کرتے ہیں۔“ یہ تمام نفقات واجبہ، مثلاً زکوٰۃ، کفارات، بیویوں، غلاموں اور اقارب پر خرچ کرنا اور تمام نفقات مستحبہ، جیسے تمام قسم کے صدقات ہیں، کو شامل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حرف جار (مِنْ) کا استعمال کیا ہے جو تبعیض کا فائدہ دیتا ہے تاکہ اللہ تعالیٰ نے جو حکم دیا ہے، اس میں سہولت کو مدنظر رکھتے ہوئے رغبت کرے نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ نے جو رزق عطا کیا ہے، یہ اس کا بہت معمولی حصہ ہے، اس رزق کے حصول میں بندے کی قدرت کو کوئی دخل نہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ اس کے حصول کو آسان نہ بناتا اور اس کو عطا نہ کرتا تو بندہ اسے حاصل نہ کرسکتا۔۔۔ پس اے وہ شخص ! جس کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے نوازا گیا ہے، اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ رزق کو خرچ کر، اللہ تعالیٰ تجھ پر خرچ کریگا اور اپنے فضل سے تیرے رزق میں اضافہ کرے گا۔ الحج
36 یہ آیت کریمہ اس بات کی دلیل ہے کہ ” شعائر“ دین کی تمام ظاہری علامات میں عام ہے۔ گزشتہ صفحات میں بیان کیا جا چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جو کوئی اللہ تعالیٰ کے شعائر کی تعظیم کرتا ہے تو یہ دلوں کا تقویٰ ہے۔ یہاں آگاہ فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے جملہ شعائر میں (الْبُدْن) بھی داخل ہیں۔ ایک قول کے مطابق ” بدن“ وہ اونٹ اور گائے وغیرہ ہیں جن کو قربانی کے لئے بڑا اور موٹا کیا جائے اور ان کو اچھا جانا جائے۔ ﴿  لَكُمْ فِيهَا خَيْرٌ ﴾ یعنی قربانی دینے والے کے لئے اس میں بھلائی ہے یعنی اس میں سے کھانا، صدقہ کرنا، اس سے متمتع ہونا اور اجر و ثواب، سب بھلائی ہے ﴿فَاذْكُرُوا اسْمَ الّـهِ عَلَيْهَا ﴾ یعنی ذبح کرتے وقت ” بسم اللہ“ پڑھ کر ان کو ذبح کیا کرو۔ ﴿ صَوَافَّ ﴾ یعنی کھڑے ہونے کی حالت میں ان کو ذبح کرو۔ ان کو چاروں پاؤں پہ کھڑا کرو پھر ان کا اگلا بایاں پاؤں باندھ دو اور پھر ان کو نحر کرو۔ ﴿ فَإِذَا وَجَبَتْ جُنُوبُهَا ﴾ جب ان کے پہلو زمین پر ٹک جائیں، پھر قصاب ان کو زمین پر گرا کر اس کی کھال وغیرہ اتار دے تب یہ جانور کھائے جانے کے لئے تیار ہوتے ہیں۔ ﴿ فَكُلُوا مِنْهَا ﴾ ” پس تم کھاؤ اس سے۔“ یہ قربانی کرنے والے سے خطاب ہے۔ پس اس کا اپنی قربانی کا گوشت کھانا جائز ہے۔ ﴿ وَأَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ ﴾ یعنی اس محتاج کو بھی گوشت کھلاؤ جو قناعت اور عفت پسندی کی بنا پر سوال نہیں کرتا اور اس فقیر کو بھی قربانی کا گوشت دو جو اس کا سوال کرتا ہے۔ ہر ایک کا حق ہے۔ ﴿ كَذٰلِكَ سَخَّرْنَاهَا لَكُمْ ﴾ یعنی ہم نے ان قربانیوں کو تمہارے لئے مسخر کیا ﴿ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ ﴾ تاکہ ان کی تسخیر پر تم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو کیونکہ اگر اللہ تعالیٰ نے ان کو تمہارے لئے مسخر نہ کیا ہوتا تو تم میں ان کو مسخر کرنے کی طاقت نہ تھی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو تمہارا مطیع بنایا، تم پر رحم اور احسان کرتے ہوئے ان کو تمہارے لئے مسخر کردیا۔ پس اسی کی حمد و ثنا بیان کرو۔ الحج
37 اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ لَن يَنَالَ اللّٰـهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا ﴾ یعنی ان کو فقط ذبح کرنا مقصود نہیں۔ اللہ تعالیٰ کے پاس ان کا گوشت پہنچتا ہے نہ ان کا خون پہنچتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ ان سب چیزوں سے بے نیاز اور قابل ستائش ہے اس کے پاس تو صرف بندوں کا اخلاص، ثواب کی امید اور صالح نیت پہنچتی ہے، اس لئے فرمایا : ﴿ وَلَـٰكِن يَنَالُهُ التَّقْوَىٰ مِنكُمْ ﴾ ” لیکن اس کے پاس تو تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔“ پس اس آیت کریمہ میں قربانی میں اخلاص کی ترغیب دی گئی ہے۔ قربانی کا مقصد صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کی طلب ہو، اس کا مقصد تفاخر، ریاکاری، شہرت کی خواہش یا محض عادت نہ ہو۔ اسی طرح دیگر تمام عبادات کے ساتھ اگر اخلاص اور تقویٰ مقرون نہ ہوں تو وہ اسی چھلکے کی مانند ہیں جس کے اندر مغز نہ ہو اور اس کی مثال اس جسد کی سی ہے جس کے اندر روح نہ ہو۔ ﴿ كَذٰلِكَ سَخَّرَهَا لَكُمْ لِتُكَبِّرُوا اللّٰـهَ ﴾ یعنی تم اللہ تعالیٰ کی تعظیم و توقیر کرو ﴿ عَلَىٰ مَا هَدَاكُمْ﴾ یعنی اس بنا پر کہ اس نے تمہیں ہدایت سے نوازا ہے کیونکہ وہ کامل ترین ثنا، جلیل ترین حمد اور بلند ترین تعظیم کا مستحق ہے۔ ﴿ وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِينَ ﴾ ” اور خوشخبری دے دو نیکی کرنے والوں کو۔ “یعنی جو اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرتے ہیں گویا وہ اسے دیکھ رہے ہیں، اگر وہ اس درجہ پر فائز نہیں تو عبادت کے وقت یہ اعتقاد رکھتے ہوئے عبادت کرتے ہیں کہ اللہ ان سے مطلع ہے اور ان کو دیکھ رہا ہے، وہ اس کے بندوں سے ہر لحاظ سے اچھے سلوک سے پیش آتے ہیں، یعنی ان کو مالی فائدہ یا علمی فائدہ پہنچاتے ہیں یا انہیں منصب اور جاہ کے ذریعے سے کوئی فائدہ دیتے ہیں، یا ان کی خیر خواہی کرتے ہیں، یا ان کو کسی نیکی کا حکم دیتے ہیں یا ان کو کسی برائی سے روک دیتے ہیں، یا انہیں کوئی اچھی بات کہہ دیتے ہیں یہ تمام چیزیں ” احسان“ کے زمرے میں آتی ہیں۔ پس احسان کرنے والوں کے لئے دنیا و آخرت میں سعادت کی خوشخبری ہے۔ جس طرح انہوں نے اللہ تعالیٰ کی عبادات میں احسان کو مدنظر رکھا، اسی طرح اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ حسن سلوک کرے گا، جیسا کہ فرمایا : ﴿ هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ ﴾ (الرحمٰن : 55؍60) ” احسان کا بدلہ، احسان کے سوا کچھ اور ہے؟“ اور فرمایا : ﴿ لِّلَّذِينَ أَحْسَنُوا الْحُسْنَىٰ وَزِيَادَةٌ ﴾ (یونس : 10 ؍26) ” جو احسان کے طریقے پر کاربند ہوئے ان کے لئے احسان ہے اور کچھ زیادہ ہے۔“ (یعنی دیدار الٰہی) الحج
38 یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اہل ایمان کے لئے خوشخبری اور وعدہ ہے کہ وہ ہر تکلیف دہ معاملے میں ان کی مدافعت کرے گا، یعنی وہ ان کے ایمان کے سبب سے کفار کے ہر قسم کے شر سے، شیطان کے وسوسوں کے شر سے اور خود ان کے اپنے نفس اور برے اعمال کے شر سے ان کی مدافعت کرے گا۔ مصائب کے نزول کے وقت جن کا بوجھ اٹھانے سے وہ قاصر ہیں، اللہ تعالیٰ ان کی طرف سے یہ بوجھ اٹھائے گا اور انتہائی حد تک ان کے بوجھ کو ہلکا کر دے گا۔ ہر مومن اپنے ایمان کے مطابق اس فضیلت اور مدافعت سے بہرہ ور ہوگا۔ کسی کو کم حصہ ملے گا کسی کو زیادہ۔ ﴿ إِنَّ اللّٰـهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ خَوَّانٍ ﴾ اللہ تعالیٰ امانت میں خیانت کرنے والے کو پسند نہیں کرتا، جو اس نے اس کے سپرد کی ہے۔ پس خائن اللہ تعالیٰ کے حقوق میں کوتاہی کرتا ہے، ان میں خیانت کا مرتکب ہوتا ہے اور مخلوق کے حقوق میں بھی خیانت کرتا ہے ﴿كَفُورٍ ﴾ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری کرنے والا، اللہ تعالیٰ اس پر احسان کرتا ہے اور یہ خائن جواب میں کفر اور عصیان پیش کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس شخص کو کبھی پسند نہیں کرتا بلکہ اس سے ناراض ہوتا ہے۔ وہ عنقریب اسے اس کے کفر اور خیانت کی سزا دے گا۔ اس آیت کریمہ کا مفہوم مخالف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر امانت دار شخص سے، جو اپنی امانت کی حفاظت کرتا ہے اور اپنے مولا کا شکر گزار ہے، محبت کرتا ہے۔ الحج
39 اسلام کی ابتداء میں مسلمانوں کو کفار کے خلاف جنگ کرنے کی ممانعت تھی اور ان کو صبر کرنے کا حکم تھا، اس میں حکمت الٰہیہ پوشیدہ تھی۔ جب انہوں نے مدینہ کی طرف ہجرت کی اور انہیں اللہ تعالیٰ کے راستے میں ستایا گیا اور مدینہ منورہ پہنچ کر انہیں طاقت اور قوت حاصل ہوگئی تو انہیں کفار کے خلاف جہاد کی اجازت دیدی گئی، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ ﴾ ” ان لوگوں کو اجازت دی جاتی ہے جن سے کافر لڑائی کرتے ہیں۔“ اس سے معلوم ہوا کہ اس سے قبل مسلمانوں کو جہاد کی اجازت نہ تھی پس اللہ نے انہیں ان لوگوں کے خلاف جہاد اور جنگ کی اجازت مرحمت فرما دی جو ان کے خلاف جنگ کرتے ہیں اور انہیں کفار کے خلاف جنگ کرنے کی اجازت صرف اس لئے ملی کیونکہ ان پر ظلم ڈھائے گئے، انہیں ان کے دین سے روکا گیا، دین کی وجہ سے ان کو اذیتیں دی گئیں اور ان کو ان کے گھروں اور وطن سے نکال دیا گیا۔ ﴿ وَإِنَّ اللّٰـهَ عَلَىٰ نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ ﴾ ” اور اللہ ان کی مدد کرنے پر یقیناً قادر ہے۔“ اس لئے اہل ایمان اسی سے نصرت طلب کریں اور اسی سے مدد مانگیں۔ الحج
40 پھر اللہ تعالیٰ نے کفار کے ظلم کا وصف بیان کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِن دِيَارِهِم ﴾ یعنی ان کو اذیتوں اور فتنے میں مبتلا کر کے اپنے گھروں سے نکل جانے پر مجبور کردیا گیا ﴿ بِغَيْرِ حَقٍّ إِلَّا ﴾ یعنی ناحق اور ان کا گناہ اس کے سوا کچھ نہیں جس کی بنا پر ان کے دشمن ناراض ہو کر ان کو سزا دینے پر تلے ہوئے ہیں کہ وہ ﴿ أَن يَقُولُوا رَبُّنَا اللّٰـهُ ﴾ یہ کہتے ہیں کہ ہمارا رب اللہ ہے، یعنی ان کا قصور صرف یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی توحید کا اقرار کرتے ہیں اور دین کو اس کے لئے خالص کرتے ہوئے، اس کی عبادت کرتے ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ کی توحید کا اقرار کرنا گناہ ہے تو وہ ضرور گنہگار ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿ وَمَا نَقَمُوا مِنْهُمْ إِلَّا أَن يُؤْمِنُوا بِاللّٰـهِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ ﴾ (البروج : 85 ؍8) ” وہ اہل ایمان سے صرف اس بات پر ناراض ہیں کہ اللہ تعالیٰ غالب اور قابل ستائش پر ایمان لاتے ہیں۔ “ یہ آیت کریمہ جہاد کی حکمت پر دلالت کرتی ہے۔ جہاد کا مقصد اقامت دین یا اہل ایمان کا کفار کی اذیتوں، ان کے ظلم اور ان کی تعدی سے دفاع کرنا ہے جو اہل ایمان پر ظلم و زیادتی کی ابتدا کرتے ہیں، نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کو ممکن بنایا جائے اور دین کے تمام ظاہری قوانین کو نافذ کیا جائے، اس لئے فرمایا : ﴿ وَلَوْلَا دَفْعُ اللّٰـهِ النَّاسَ بَعْضَهُم بِبَعْضٍ ﴾ ” اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کو آپس میں ایک دوسرے سے نہ ہٹاتا۔“ پس اللہ تعالیٰ مجاہدین فی سبیل اللہ کے ذریعے سے کفار کی ریشہ دوانیوں کا سدباب کرتا ہے۔ ﴿ لَّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ ﴾ یعنی یہ بڑے بڑے معابد منہدم کردیئے جاتے، جو اہل کتاب کے مختلف گروہوں سے تعلق رکھتے ہیں مثلاً یہود و نصاریٰ کے معابد اور مسلمانوں کی مساجد۔ ﴿ يُذْكَرُ فِيهَا ﴾ ” ذکر کیا جاتا ہے ان میں“ یعنی ان عبادت گاہوں میں ﴿ اسْمُ اللّٰـهِ كَثِيرًا ﴾ ” اللہ کا نام بہت زیادہ۔“ یعنی ان عبادت گاہوں کے اندر نماز قائم کی جاتی ہے، کتب الٰہیہ کی تلاوت ہوتی ہے اور مختلف طریقوں سے اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا جاتا ہے اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے سے نہ روکے، تو کفار مسلمانوں پر غالب آجائیں، ان کے معابد کو تباہ کردیں اور دین کے بارے میں ان کو آزمائش میں مبتلا کردیں۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ جہاد جارح کی جارحیت اور ایذا رسانی کا سدباب کرنے اور بعض دیگر مقاصد کے لئے مشروع کیا گیا ہے، نیز یہ اس امر کی بھی دلیل ہے کہ وہ شہر جہاں امن اور اطمینان سے اللہ تعالیٰ کی عبادت ہوتی ہے، اس کی مساجد آباد ہیں جہاں دین کے تمام شعائر قائم ہیں، یہ مجاہدین کی فضیلت اور ان کی برکت کی وجہ سے ہے۔ ان کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے کفار کی ریشہ دوانیوں کا سدباب کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿ وَلَوْلَا دَفْعُ اللّٰـهِ النَّاسَ بَعْضَهُم بِبَعْضٍ لَّفَسَدَتِ الْأَرْضُ وَلَـٰكِنَّ اللّٰـهَ ذُو فَضْلٍ عَلَى الْعَالَمِينَ ﴾ (البقرۃ : 2؍152)” اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے سے نہ ہٹاتا رہے تو زمین میں فساد برپا ہوجائے، مگر اللہ تعالیٰ جہان والوں پر بڑا ہی فضل کرتا ہے۔ “ اگر آپ یہ اعتراض کریں کہ ہم آج کل مسلمانوں کی مساجد کو آباد دیکھتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ان مساجد میں ایک چھوٹی سی امارت اور ایک غیر منظم حکومت قائم ہوتی ہے حالانکہ ان پر اردگرد کے فرنگیوں کے خلاف جہاد لازم ہے بلکہ ہم ایسی مساجد بھی دیکھتے ہیں جو کفار کی حکومت اور ان کے انتظام کے تحت آباد ہیں۔ اہل مسجد پرامن اور مطمئن ہیں حالانکہ کافر حکومتوں کو قدرت اور طاقت حاصل ہے کہ وہ ان مساجد کو منہدم کردیں۔ ادھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے سے نہ ہٹائے تو یہ معابد منہدم کردیئے جائیں اور ہم نے تو لوگوں کو ایک دوسرے کو ہٹاتے ہوئے نہیں دیکھا۔ اس اعتراض اور اشکال کا جواب، اس آیت کریمہ کے عموم میں داخل اور اس کے افراد میں سے ایک فرد ہے۔ جو کوئی زمانہ جدید کی حکومتوں کے حالات اور ان کے نظام کی معرفت رکھتا ہے وہ جانتا ہے کہ ان حکومتوں کے تحت زندگی بسر کرنے والا ہر گروہ اور ہر قوم کو، اس مملکت کا رکن، اس کے اجزائے حکومت میں سے ایک جزو تصور کیا جاتا ہے خواہ یہ گروہ اپنی تعداد کی بنا پر اقتدار میں ہو، خواہ اپنی حربی استعداد یا مال، یا علم یا خدمات کی بنا پر اقتدار میں شریک ہو۔ حکومتیں اس گروہ کے دینی اور دنیاوی مصالح و مفادات کی رعایت رکھتی ہیں اور اس بات سے ڈرتی ہیں کہ اگر انہوں نے ان کے مصالح کی رعایت نہ رکھی تو حکومت کے انتظام میں خلل واقع ہوجائے گا اور حکومت کے بعض ارکان مفقود ہوجائیں گے۔ پس اس سبب سے دین کے معاملات قائم ہیں۔ خاص طور پر مساجد کا نظم و نسق۔۔۔الْحَمْدُ لِلَّـهِ ۔۔۔ بہترین طریقے سے ہو رہا ہے حتیٰ کہ بڑے بڑے ممالک کے دارالحکومتوں میں مساجد کا انتظام انتہائی اچھے طریقے سے چل رہا ہے۔ ان ممالک کی حکومتیں، اپنی مسلمان رعایا کی دل جوئی کی خاطر اس بات کا پورا خیال رکھتی ہیں، حالانکہ ان نصرانی ممالک کے درمیان آپس میں ایک دوسرے کے خلاف بغض اور حسد موجود ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ یہ بغض اور حسد ان کے درمیان روز قیامت تک موجود رہے گا۔ پس مسلمان حکومت، جو اپنا دفاع کرنے کی طاقت نہیں رکھتی، ان کے آپس کے افتراق اور حسد کی وجہ سے ان کی جارحیت سے محفوظ رہتی ہے۔ کوئی ملک اس مسلمان ملک کے خلاف اس خوف سے جارحیت کا ارتکاب کرنے کی قدرت نہیں رکھتا کہ وہ کسی اور ملک کی حمایت اور مدد حاصل کرے گا۔ علاوہ ازیں یہ بھی ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اسلام اور مسلمانوں کی نصرت کا مشاہدہ کروائے جس کا اس نے اپنی کتاب میں وعدہ کر رکھا ہے اور دین کی طرف مسلمانوں کے رجوع کی ضرورت کے شعور کے اجاگر ہونے کی بنا پر اس نصرت کے اسباب ظاہر ہوگئے ہیں۔۔۔ ولِلَّـهِ الْحَمْدُ ۔۔۔ اور یہ شعور عمل کی پر بنیاد ہے لہٰذا ہم اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے سوال کرتے ہیں کہ وہ ہم پر اپنی نعمت کا اتمام کرے اور اسی لئے اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا جو واقع کے مطابق سچ ثابت ہوا، فرمایا : ﴿ وَلَيَنصُرَنَّ اللّٰـهُ مَن يَنصُرُهُ ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرتا ہے جو اخلاص کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے دین کی نصرت کے لئے کھڑا ہوتا ہے اور اس کے راستے میں جہاد کرتا ہے تاکہ اللہ تعالیٰ کا کلمہ بلند ہو۔ ﴿ إِنَّ اللّٰـهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ ﴾ یعنی وہ پوری قوت کا مالک اور غالب ہے اس کے سامنے کسی کی کوئی مجال نہیں۔ وہ تمام مخلوق پر غالب ہے ان کی پیشانیاں اس کے قبضہ قدرت میں ہیں۔ پس اے مسلمانو ! خوش ہوجاؤ کہ اگرچہ تم تعداد اور ساز و سامان کے اعتبار سے کمزور ہو اور تمہارا دشمن طاقتور ہے مگر تمہیں قوت والی اور غالب ہستی پر بھروسہ اور اس ذات پر اعتماد ہے جس نے تمہیں اور تمہارے اعمال کو تخلیق کیا۔ پس وہ تمام اسباب اختیار کرو جن کو استعمال کرنے کا تم کو حکم دیا گیا ہے پھر اللہ تعالیٰ سے مدد مانگو، وہ ضرور تمہاری مدد کرے گا۔ ﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن تَنصُرُوا اللّٰـهَ يَنصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ ﴾ (محمد : 47؍7)” اے ایمان والو ! اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ بھی تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں ثابت قدم رکھے گا۔“ اے مسلمانو ! ایمان اور عمل صالح کی خاطر اٹھ کھڑے ہو ! ﴿ وَعَدَ اللّٰـهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَىٰ لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا ۚ يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا ﴾ (النور : 24 ؍55) ” تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام کرتے رہے ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ ان کو زمین کی خلافت عطا کرے گا جس طرح ان سے پہلے لوگوں کو زمین کی خلافت عطا کی تھی، ان کے دین کو ان کے لئے مستحکم کر دے گا، جسے اللہ نے ان کے لئے پسند فرمایا ہے، ان کے خوف کو امن میں بدل دے گا، وہ میری عبادت کریں گے اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔ “ الحج
41 پھر اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی علامت بیان فرمائی ہے جو اس کی مدد کرتے ہیں۔ یہی علامت ان کی پہچان ہے اور جو کوئی دعویٰ کرتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے دین کی مدد کرتا ہے مگر وہ اس وصف سے متصف نہیں ہوتا تو وہ جھوٹا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ علامت بیان فرمائی ہے ﴿ الَّذِينَ إِن مَّكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ ﴾ یعنی اگر ہم ان کو زمین کا مالک بنا دیں اور ان کو زمین کا تسلط بخش دیں اور کوئی ان کی معارضت اور مخالفت کرنے والا باقی نہ رہے ﴿ أَقَامُوا الصَّلَاةَ ﴾ تو وہ نماز کے اوقات میں نماز کو اس کی تمام حدود، ارکان، شرائط، جمعہ اور جماعت کے ساتھ قائم کرتے ہیں ﴿ وَآتَوُا الزَّكَاةَ﴾ اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔“ جو ان پر خاص طور پر اور رعایا پر عام طور پر واجب ہے، یہ زکوٰۃ وہ مستحقین کو ادا کرتے ہیں ﴿ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ ﴾ نیکیوں کا حکم دیتے ہیں۔ (مَعْرُوفِ) ہر اس کام کو شامل ہے جو عقلاً اور شرعاً حقوق اللہ اور حقوق العباد کے اعتبار سے نیک ہو۔ ﴿ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنكَرِ ﴾ ” اور برائی سے وہ روکتے ہیں۔“ ہر برائی جس کی قباحت شرعاً اور عقلاً معروف ہو (منکر) کہلاتی ہے۔ کسی چیز کے حکم دینے اور اس کے منع کرنے میں ہر وہ چیز داخل ہے جس کے بغیر اس کی تکمیل ممکن نہ ہو۔ پس جب امر بالمعروف اور نہی عن المنکر تعلیم و تعلم پر موقوف ہے تو لوگوں کو تعلیم اور تعلم پر مجبور کرتے ہیں اور جب امر بالمعروف اور نہی عن المنکر، شرعی طور پر مقرر کردہ یا غیر مقرر کردہ تادیب پر موقف ہو، مثلاً مختلف قسم کی تعزیرات تو انہیں قائم کرتے ہیں۔ جب یہ معاملہ اس بات پر موقوف ہو کہ لوگ کچھ امور کے خوگر ہوں جن کے بغیر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا اتمام ممکن نہیں تو ان پر ان امور کو لازم کیا جائے گا اور اسی طرح معاملات ہیں کہ ان کے بغیر اگر امر بالمعروف یا نہی عن المنکر ممکن نہ ہو، تو ان کا اہتمام ضروری ہوگا۔ ﴿ وَلِلّٰـهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ ﴾ یعنی تمام امور اللہ تعالیٰ ہی کی طرف لوٹتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا ہے کہ اچھا انجام تقویٰ ہی کے لئے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جن بادشاہوں کو بندوں پر تسلط بخشا اور انہوں نے اللہ کے حکم کو نافذ کیا ان کی حالت رشد و ہدایت پر مبنی اور ان کی عاقبت قابل ستائش ہے۔ اور وہ بادشاہ، جو جبر سے لوگوں پر مسلط ہوجاتا ہے پھر وہ اپنی خواہشات نفس کو ان پر نافذ کرتا ہے، تو اقتدار اگرچہ ایک مقررہ وقت تک اس کے پاس رہتا ہے تاہم اس کا انجام ناقابل ستائش، اس کی حکومت نامقبول اور اس کی عاقبت مذموم ہے۔ الحج
42 اللہ تعالیٰ اپنے نبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دیتے ہوئے فرماتا ہے کہ اگر یہ مشرکین آپ کی تکذیب کرتے ہیں تو آپ کوئی پہلے رسول نہیں ہیں جس کو جھٹلایا گیا ہو اور یہ امت بھی کوئی پہلی امت نہیں جس نے اپنے رسول کو جھٹلایا ہے ﴿ فَقَدْ كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوحٍ وَعَادٌ وَثَمُودُ وَقَوْمُ إِبْرَاهِيمَ وَقَوْمُ لُوطٍ وَأَصْحَابُ مَدْيَنَ وَكُذِّبَ مُوسَىٰ ﴾ ”بلاشبہ ان سے پہلے قوم نوح نے، عاد و ثمود نے، قوم ابراہیم و قوم لوط نے اور اصحاب مدین (قوم شعیب) نے رسولوں کو جھٹلایا، موسیٰ (علیہ السلام) کی بھی تکذیب کی گئی ان جیسے کتنے ہی لوگ ہیں جن کو عذاب سے ہلاک کیا گیا۔ الحج
43 الحج
44 ﴿ فَأَمْلَيْتُ لِلْكَافِرِينَ ﴾ یعنی تکذیب کرنے والوں کو میں نے ڈھیل دی۔ ان کو سزا دینے میں میں نے جلدی نہ کی، یہاں تک کہ وہ اپنی سرکشی پر جمے رہے اور اپنے کفر و شرک میں بڑھتے ہی چلے گئے ﴿ ثُمَّ أَخَذْتُهُمْ﴾ پھر میں نے ان کو غالب اور قدرت رکھنے والی ہستی کی طرح عذاب کے ذریعے سے گرفت میں لے لیا۔ ﴿فَكَيْفَ كَانَ نَكِيرِ ﴾ پھر دیکھا ان کے کفر اور ان کی تکذیب پر میری نکیر کیسی تھی اور اس کا کیسا حال تھا۔ ان کے لئے بدترین سزا اور قبیح ترین عذاب تھا۔ ان میں سے بعض کو غرق کردیا گیا، بعض کو ایک چنگھاڑنے آلیا اور بعض طوفانی ہوا کے ذریعے ہلاک کردیئے گئے، بعض کو زمین میں دھنسا دیا گیا اور بعض کو چھتری والے دن کے عذاب کے ذریعے سے ہلاک کیا گیا، لہٰذا تکذیب کرنے والوں کو ان قوموں سے عبرت پکڑنی چاہئے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کو بھی وہی عذاب آ لے جو گزشتہ بدکردار قوموں پر نازل ہوا یہ ان سے بہتر نہیں ہیں اور نہ ان کے لئے اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کتابوں ہی میں برٓت کی کوئی ضمانت ہے۔ الحج
45 اس لئے فرمایا : ﴿ فَكَأَيِّن مِّن قَرْيَةٍ ﴾یعنی کتنی ہی بستیاں ہیں ﴿ أَهْلَكْنَاهَا ﴾ جن کو ہم نے دنیاوی رسوائی کے ساتھ سخت عذاب کے ذریعے سے ہلاک کیا۔ ﴿وَهِيَ ظَالِمَةٌ ﴾ اور ان کی حالت یہ تھی کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کا انکار اور رسول کی تکذیب کر کے ظلم کا ارتکاب کیا تھا۔ ان کے لئے ہماری سزا ظلم نہ تھا۔ ﴿فَهِيَ خَاوِيَةٌ عَلَىٰ عُرُوشِهَا ﴾ پس ان کے گھر منہدم ہو کر اجڑے پڑے ہیں، ان کے محل اور عمارتیں اپنی چھتوں پر الٹی پڑی ہیں۔ کبھی یہ آباد تھیں اب ویران پڑی ہیں، کبھی اپنے رہنے والوں کے ساتھ معمور تھیں اب وہاں وحشت ٹپکتی ہے۔ ﴿ وَبِئْرٍ مُّعَطَّلَةٍ وَقَصْرٍ مَّشِيدٍ ﴾ کتنے ہی کنویں ہیں جہاں کبھی پانی پینے اور مویشیوں کو پلانے کے لئے لوگوں کا ژدحام ہوا کرتا تھا۔ اب ان کنوؤں کے مالک مفقود اور پانی پینے والے معدوم ہیں، کتنے ہی محل اور قصر ہیں جن کے لئے ان کے رہنے والوں نے مشقت اٹھائی ان کو چونے سے مضبوط کیا، ان کو بلند کیا، ان کو محفوظ کیا اور ان کو خوب سجایا مگر جب اللہ کا حکم آگیا تو کچھ بھی ان کے کام نہ آیا اور یہ محل خالی پڑے رہ گئے اور ان میں رہنے والے عبرت پکڑنے والوں کے لئے سامان عبرت اور فکر و نظر رکھنے والوں کے لئے مثال بن گئے۔ الحج
46 بنا بریں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو زمین میں چلنے پھرنے کی دعوت دی ہے تاکہ وہ غوروفکر کریں اور عبرت پکڑیں، چنانچہ فرمایا : ﴿ أَفَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ ﴾ کیا وہ اپنے قلب و بدن کے ساتھ زمین میں چلے پھرے نہیں۔ ﴿ فَتَكُونَ لَهُمْ قُلُوبٌ يَعْقِلُونَ بِهَا ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ کی آیات کو سمجھتے اور عبرت کے لئے ان میں غوروفکر کرتے۔ ﴿ أَوْ آذَانٌ يَسْمَعُونَ بِهَا ﴾ یعنی گزرے ہوئے لوگوں کے واقعات اور جن قوموں پر عذاب نازل کیا گیا ان کی خبریں سنتے۔۔۔ وگرنہ محض آنکھوں اور کانوں سے سننا اور تفکر اور عبرت سے خالی ہو کر زمین میں چلنا پھرنا کوئی فائدہ نہیں دیتا اور نہ اس سے مطلوب کا حصول ممکن ہے، اسی لئے فرمایا : ﴿ فَإِنَّهَا لَا تَعْمَى الْأَبْصَارُ وَلَـٰكِن تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ ﴾ یعنی یہ اندھا پن جو دین کے لئے ضرر رساں ہے، درحقیقت حق کے بارے میں قلب کا اندھا پن ہے حتیٰ کہ جیسے بصارت کا اندھا مرئیات کا مشاہدہ نہیں کرسکتا اسی طرح بصیرت کا اندھا حق کا مشاہدہ کرنے سے عاری ہے لیکن بصارت کا اندھا تو صرف دنیاوی منفعت تک پہنچنے سے محروم ہے۔ الحج
47 عذاب کی تکذیب کرنے والے، اپنی جہالت، ظلم، عناد، اللہ تعالیٰ کو عاجز سمجھتے اور اس کے رسولوں کی تکذیب کرتے ہوئے آپ سے جلدی عذاب نازل کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ عذاب کا جو وعدہ کیا ہے وہ ضرور واقع ہو کر رہے گا کوئی روکنے والا اس کو روک نہیں سکتا۔ رہا اس عذاب کا جلدی آنا، تو اے محمد! (صلی اللہ علیہ وسلم) یہ آپ کے اختیار میں نہیں ان کے جلدی مچانے اور ہمیں عاجز گرداننے پر، آپ کو ہلکانہ سمجھیں، قیامت کا دن ان کے سامنے ہے، جس میں اللہ تعالیٰ تمام اولین و آخرین کو اکٹھا کرے گا، ان کو ان کے اعمال کی جزا دی جائے گی اور ان کو درد ناک عذاب میں ڈالا جائے گا، اس لئے فرمایا : ﴿ وَإِنَّ يَوْمًا عِندَ رَبِّكَ كَأَلْفِ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّونَ﴾ یعنی قیامت کا دن اپنی طوالت، اپنی شدت اور اپنی ہولناکی کی وجہ سے ہزار برس کا لگے گا۔۔۔ لہٰذا خواہ ان پر دنیا کا عذاب نازل ہوجائے یا آخرت تک عذاب کو موخر کردیا جائے یہ دن تو بہر طور ان پر آکر رہے گا۔ اور یہ احتمال بھی ہے کہ مراد یہ ہو کہ اللہ تعالیٰ نہایت حلم والاہے، پس اگر وہ عذاب کے لئے جلدی مچاتے ہیں تو (انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ) اللہ تعالیٰ کے ہاں ایک دن تمہارے شمار کے ہزار برس کے برابر ہے۔ پس یہ مدت خواہ تم اس کو کتنا ہی لمبا کیوں نہ سمجھو اور اللہ تعالیٰ کے عذاب کو کتنا ہی دور کیوں نہ سمجھو، اللہ تعالیٰ بہت طویل مدتوں تک مہلت عطا کرتا رہتا ہے مگر حساب لئے بغیر، بے فائدہ نہیں چھوڑتا حتیٰ کہ جب وہ ظالموں کو اپنے عذاب کی گرفت میں لے لیتا ہے، تو پھر ان کو چھوڑتا نہیں۔ الحج
48 ﴿ وَكَأَيِّن مِّن قَرْيَةٍ أَمْلَيْتُ لَهَا ﴾ یعنی میں نے ایک طویل مدت تک ان کو مہلت دی ﴿ وَهِيَ ظَالِمَةٌ ﴾ یعنی ان کے ظلم کے باوجود، اور ان کا ظلم میں سبقت کرنا ہمارے عذاب میں جلدی کا موجب نہ بنا ﴿ ثُمَّ أَخَذْتُهَا ﴾ پھر میں نے ان کو عذاب کی گرفت میں لے لیا۔ ﴿ وَإِلَيَّ الْمَصِيرُ ﴾ دنیا میں ان پر عذاب نازل کرنے کے باوجود، انہیں اللہ تعالیٰ ہی کی طرف لوٹنا ہے پھر وہ انہیں ان کے گناہوں کی پاداش میں عذاب دے گا۔ یہ ظالم اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی مہلت سے فریب نہ کھائیں اور اللہ تعالیٰ کے عذاب کے نازل ہونے سے بچیں۔ الحج
49 اللہ تعالیٰ اپنے بندے اور رسول محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیتا ہے کہ وہ تمام لوگوں سے مخاطب ہو کر کہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے رسول برحق ہیں، اہل ایمان کو ثواب کی خوشخبری سنانے والے اور کافروں اور ظالموں کو اس کے عذاب سے ڈرانے والے ہیں ﴿ مُّبِينٌ ﴾ یعنی واضح طور پر ڈرانے والے ہیں۔ ” انذار“ سے مراد ایسا ڈرانا ہے جس میں اس امر سے بھی خبردار کیا گیا ہو جس سے ڈرانا مقصود ہے کیونکہ آپ نے جس امر سے ان کو ڈرایا، اس کی صداقت پر روشن اور واضح دلائل قائم کئے۔ الحج
50 پھر اللہ تعالیٰ نے اس انذار اور تبشیر کی تفصیل بیان فرمائی ﴿ فَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَهُم مَّغْفِرَةٌ ﴾ ” اہل ایمان اور عمل صالح کرنے والوں کے لئے مغفرت ہے۔“ یعنی ان سے کسی گناہ کا ارتکاب ہوجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ ان کو بخش دیتا ہے۔ ﴿ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ ﴾ اس سے مراد جنت ہے، یعنی رزق کی اقسام میں بہترین قسم، جو تمام فضائل کی جامع اور تمام کمالات سے بڑھ کر ہے۔ آیت کریمہ کا حاصل معنی یہ ہے کہ وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے اور یہ ایمان ان کے دلوں میں گھر کر گیا اور پھر ایمان صادق بن گیا۔۔۔ اور اس ایمان کے ساتھ انہوں نے نیک کام بھی کئے، ان کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان گناہوں کی مغفرت ہے جو ان سے واقع ہوگئے تھے اور ان کے لئے جنت میں بہترین رزق ہوگا اور یہ رزق تمام فضائل و کمالات کا جامع ہوگا۔ الحج
51 ﴿ وَالَّذِينَ سَعَوْا فِي آيَاتِنَا مُعَاجِزِينَ ﴾ ” وہ لوگ جو ہماری آیتوں کو پست کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔“ یعنی جو بزعم خود اللہ تعالیٰ کی آیات کو نیچا دکھانے کے لئے بڑھ چڑھ کر کوشش کرتے ہیں یہ امید رکھتے ہوئے کہ اسلام کے خلاف ان کی سازش کامیاب ہوجائے گی۔ ﴿ أُولَـٰئِكَ﴾ ” یہی لوگ“ جو آیات الٰہی کو نیچا دکھانے کی کوشش کرنے سے متصف ہیں۔“ ﴿ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ ﴾ ” جہنمی ہیں۔“ یعنی بھڑکتی ہوئی آگ میں داخل ہوں گے اور ہر وقت وہیں رہیں گے۔ ان کے عذاب میں کوئی تخفیف ہوگی نہ لمحہ بھر کے لئے یہ درد ناک عذاب ان سے ہٹایا جائے گا۔ حاصل معنی یہ ہے کہ جو لوگ قرآن کے خلاف جدوجہد کرتے ہیں اور بزعم خود اہل ایمان کو نیچا دکھانے کے لئے ان کی مخالفت اور ان سے دشمنی کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس طرح وہ اپنا مقصد حاصل کرلیں گے، یہ لوگ ہمیشہ جہنم کے عذاب میں رہیں گے۔ الحج
52 اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی حکمت بالغہ اور اپنے بندوں کے لئے جو کچھ اختیار کر رکھا ہے اس کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے، نیز بیان فرماتا ہے کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے ﴿ مِن رَّسُولٍ وَلَا نَبِيٍّ إِلَّا إِذَا تَمَنَّىٰ ﴾ ” جو بھی رسول اور نبی گزرا، جب بھی اس نے تمنا کی“ یعنی قراءت کی جس کے ذریعے سے وہ لوگوں کو نصیحت کرتا، ان کو معروف کا حکم دیتا اور منکر سے روکتا ﴿ أَلْقَى الشَّيْطَانُ فِي أُمْنِيَّتِهِ ﴾ ” تو شیطان اس کی تمنا میں القاء کردیتا ہے۔“ یعنی اس کی قراءت میں ایسے امر سے فریب دینے کی کوشش کرتا جو اس قراءت کے مناقض (مخالف) ہوتا۔۔۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء و رسل کو تبلیغ رسالت کے ضمن میں معصوم رکھا ہے اور ہر چیز سے اپنی وحی کی حفاظت کی ہے تاکہ اس میں کوئی اشتباہ یا اختلاط واقع نہ ہو۔ مگر اس شیطانی القاء کو استقرار اور دوام نہیں ہوتا۔ یہ ایک عارض ہے جو پیش آتا ہے پھر زائل ہوجاتا ہے اور عوارض کے کچھ احکام ہیں اس لئے فرمایا : ﴿ فَيَنسَخُ اللّٰـهُ مَا يُلْقِي الشَّيْطَانُ ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ اس القاء کو زائل کر کے باطل کردیتا ہے اور واضح کردیتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی آیات نہیں ہیں۔ ﴿ ثُمَّ يُحْكِمُ اللّٰـهُ آيَاتِهِ ﴾ یعنی پھر اللہ تعالیٰ اپنی آیات کو محکم اور متحقق کردیتا ہے اور ان کی حفاظت کرتاہے پس اللہ تعالیٰ کی آیات شیطانی القاء کے اختلاط سے محفوظ اور خالص رہتی ہے۔ ﴿ وَاللّٰـهُ عَلِيمٌ ﴾ اور اللہ تعالیٰ کامل علم کا مالک ہے۔ وہ اپنے کمال علم سے اپنی وحی کی حفاظت کر کے شیطانی القاء کو زائل کردیتا ہے۔ ﴿ حَكِيمٌ ﴾ وہ اشیاء کو ان کے لائق شان مقام پر رکھتا ہے۔ الحج
53 پس یہ اس کے کمال حکمت کا حصہ ہے کہ اس نے شیاطین کو القاء کا اختیار دیا تاکہ اس امر کا حصول ہو جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ لِّيَجْعَلَ مَا يُلْقِي الشَّيْطَانُ فِتْنَةً﴾” تاکہ کر دے اللہ القائے شیطانی کو آزمائش۔“ لوگوں کے دو گروہوں کے لئے فتنہ بنا دے۔ اللہ تعالیٰ کو ان کی کوئی پروا نہیں اور یہ وہ لوگ ہیں ﴿ لِّلَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ ﴾ جن کے دلوں میں کمزوری ہے اور ان کے دلوں میں ایمان کامل اور تصدیق جازم معدوم ہیں۔ پس یہ القاء ایسے دلوں پر اثر کرتا ہے جن کے دلوں میں ادنیٰ سا شبہ بھی ہوتا ہے، جب وہ اس شیطانی القاء کو سنتے ہیں تو شک و ریب ان کے دلوں میں گھر کرلیتا ہے اور یہ چیز ان کے لئے فتنہ بن جاتی ہے۔ ﴿ وَالْقَاسِيَةِ قُلُوبُهُمْ﴾ یعنی (دوسرا گروہ) وہ لوگ ہیں جن کے دل سخت ہوتے ہیں۔ ان کی قساوت قلبی کی بنا پر کوئی وعظ و نصیحت اور کوئی زجر و توبیخ ان پر اثر کرتی ہے نہ اللہ اور اس کے رسول کی کوئی بات ان کی سمجھ میں آتی ہے۔ پس جب وہ شیطانی القاء کو سنتے ہیں تو اسے اپنے باطل کے لئے حجت بنا لیتے ہیں اور اس کو دلیل بنا کر جھگڑا کرتے ہیں اور پھر اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہیں، اسی لئے فرمایا : ﴿ وَإِنَّ الظَّالِمِينَ لَفِي شِقَاقٍ بَعِيدٍ ﴾ یعنی یہ ظالم لوگ اللہ تعالیٰ کے ساتھ دشمنی، حق کے ساتھ عناد اور اس کی مخالفت میں راہ صواب سے بہت دور نکل گئے ہیں۔ پس شیطان جو کچھ القاء کرتے ہیں وہ ان دونوں قسم کے گروہوں کے لئے فتنہ بن جاتا ہے اور یوں ان کے دلوں میں جو خبث چھپا ہوتا ہے، ظاہر ہوجاتا ہے۔ الحج
54 رہا تیسرا گروہ تو یہ شیطانی القاء ان کے حق میں رحمت بن جاتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کا اس آیت کریمہ میں ذکر کیا گیا ہے۔ ﴿ وَلِيَعْلَمَ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِن رَّبِّكَ ﴾ ” اور تاکہ جان لیں وہ لوگ جن کو علم دیا گیا کہ وہ حق ہے آپ کے رب کی طرف سے۔“ اور اللہ تعالیٰ نے ان کو علم سے نواز رکھا ہے، جس کے ذریعے سے وہ حق اور باطل، ہدایت اور گمراہی کے درمیان امتیاز کرتے ہیں۔ پس وہ دونوں امور میں تفریق کرتے ہیں، ایک حق مستقر ہے، جس کو اللہ محکم کرتا ہے اور دوسرا عارضی طور پر طاری ہونے والا باطل ہے، جس کو اللہ تعالیٰ زائل کردیتا ہے، وہ حق و باطل کے شواہد اور علامات کے ذریعے سے ان میں تفریق کرتے ہیں۔۔۔تاکہ ان کو معلوم ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ حکمت والا ہے۔ وہ آزمائش میں ڈالتا ہے تاکہ اچھے اور برے نفوس میں چھپے ہوئے خیالات کو ظاہر کر دے۔ ﴿ فَيُؤْمِنُوا بِهِ ﴾ تاکہ وہ اس سبب سے اس پر ایمان لائیں، اور معارضات و شبہات کے دور ہونے سے ان کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔ ﴿فَتُخْبِتَ لَهُ قُلُوبُهُمْ ﴾ اور اس کے سامنے ان کے دل جھک جائیں اور اس کی حکمت کو تسلیم کرلیں اور یہ ان کے لئے اللہ تعالیٰ کی ہدایت ہے ﴿ وَإِنَّ اللّٰـهَ لَهَادِ الَّذِينَ آمَنُوا إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ ﴾ اللہ ان کو ان کے ایمان کے سبب سے راہ راست پر گامزن کرتا ہے، یعنی حق کے علم اور اس کے تقاضوں پر عمل کی طرف راہ نمائی کرتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ قول ثابت کے ذریعے سے اہل ایمان کو دنیا اور آخرت کی زندگی میں ثابت قدمی عطا کرتا ہے۔۔۔ اور یہ نوع، بندے کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ ثابت قدمی ہے۔ ان آیات کریمہ میں اس امر کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے گزشتہ انبیاء و مرسلین کا طریقہ ایک نمونہ ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ” النجم“ تلاوت فرمائی تو جب آپ اس مقام پر پہنچے ﴿ أَفَرَأَيْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزَّىٰ وَمَنَاةَ الثَّالِثَةَ الْأُخْرَىٰ ﴾ (النجم : 53؍20، 19) ” بھلا تم لوگوں نے لات اور عزیٰ کو دیکھا اور تیسرے منات کو بھی (بھلا یہ بت معبود ہوسکتے ہیں؟“ تو شیطان نے آپ کی تلاوت کے درمیان یہ الفاظ القاء کردیئے۔(( تِلْکَ الْغَرَانِيْقُ الْعُلٰی، وَاِنَّ شَفَاعَتَھُنَّ لَتُرْتَجٰی )) ” یہ خوبصورت اور بلند مرتبہ دیویاں ہیں جن کی سفارش کی توقع کی جاسکتی ہے۔“ اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حزن و غم کا سامنا کرنا پڑا اور لوگ فتنہ میں مبتلا ہوئے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا، تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں۔ [حدیث غرانیق موضوع اور باطل ہے۔محدث عصر علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ علیہ نے اپنے رسالہ”نصب المجانیق لنسف قصة الغرانیق“ میں سندا ور متن دونوں اعتبارسے حدیث غرانیق کا بطلان واضح کیاہے۔اوراس سے قبل شیخ محمد عبدہ نےبھی اس کےموضوع ہونےکی وضاحت کی ہے۔ (ازمحقق) ] الحج
55 اللہ تبارک و تعالیٰ کفار کی حالت کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے کہ کفار ہمیشہ شک و ریب میں مبتلا رہیں گے۔ اے محمد ! (صلی اللہ علیہ وسلم) آپ جو کچھ ان کے پاس لے کر آئے ہیں کفار اپنے عناد اور اعراض کے باعث شک کرتے رہیں گے اور وہ اسی حال میں ہمیشہ رہیں گے ﴿حَتَّىٰ تَأْتِيَهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً ﴾ ” یہاں تک کہ ان کے پاس قیامت کی گھڑی اچانک آجائے“ ﴿ أَوْ يَأْتِيَهُمْ عَذَابُ يَوْمٍ عَقِيمٍ ﴾ ” یا ان کے پاس بانجھ دن کا عذاب آجائے۔“ یعنی ایسے دن کا عذاب آجائے، جس میں ان کے لئے کوئی بھلائی نہیں اور وہ قیامت کا دن ہے۔ جب قیامت کی گھڑی ان کے پاس آجائے، جس میں ان کے لئے کوئی بھلائی نہیں اور وہ قیامت کا دن ہے۔ جب قیامت کی گھڑی ان کے پاس آجائے گی، یا وہ دن آجائے گا تو ان لوگوں کو معلوم ہوجائے گا جنہوں نے کفر کیا کہ وہ جھوٹے تھے۔ وہ نادم ہوں گے جبکہ ان کی ندامت انہیں کوئی فائدہ نہ دے گی۔ وہ ہر بھلائی سے مایوس ہوجائیں گے اور کہیں گے کہ کاش انہوں نے رسول پر ایمان لا کر اس کا راستہ اختیار کیا ہوتا۔ اس آیت میں کفار کو اپنے شک و شبہات اور افترا پردازی پر قائم رہنے سے ڈرایا گیا ہے۔ الحج
56 ﴿ الْمُلْكُ يَوْمَئِذٍ ﴾ ” بادشاہی اس دن۔“ یعنی قیامت کے روز ﴿ لِّلَّـهِ ﴾ ” صرف اللہ تعالیٰ کی ہوگی۔“ اور اس کے سوا کسی اور کا کوئی اقتدار و اختیار نہ ہوگا۔ ﴿ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ ﴾ وہ ان کے درمیان عدل و انصاف سے فیصلہ کرے گا۔ ﴿ فَالَّذِينَ آمَنُوا ﴾ پس وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ، اس کے رسول اور جو کچھ رسول لے کر آئے، اس پر ایمان لائے ﴿ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ﴾ اور نیک عمل کئے تاکہ ان کے ذریعے سے اپنے ایمان کی سچائی کا ثبوت بہم پہنچائیں ﴿ فِي جَنَّاتِ النَّعِيمِ﴾ ” نعمت والے باغوں میں ہوں گے۔“ یعنی انہیں قلب و روح اور بدن کی ایسی نعمت حاصل ہوگی جسے کوئی بیان کرنے والا بیان کرسکتا ہے نہ عقل اس کا ادراک کرسکتی ہے۔ الحج
57 ﴿ وَالَّذِينَ كَفَرُوا ﴾ اور وہ جنہوں نے اللہ اور اس کے رسولوں کا انکار کیا ﴿ وَكَذَّبُوا بِآيَاتِنَا ﴾ اور حق و صواب کی طرف را ہنمائی کرنے والی ہماری آیات کی تکذیب کی، ان سے روگردانی کی یا ان سے عناد رکھا ﴿ فَأُولَـٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِينٌ ﴾ ان کے لئے، انتہائی شدید، المناک اور دلوں تک اتر جانے والا رسوا کن عذاب ہے کیونکہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے انبیاء و مرسلین اور اس کی آیات کی اہانت کی، اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کو اہانت آمیز عذاب میں مبتلا کیا۔ الحج
58 یہ آیت کریمہ اس شخص کے لئے بہت بڑی بشارت ہے جس نے اللہ کے راستے میں ہجرت کی، وہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور دین کی نصرت کی خاطر اپنا گھر بار، مال اور اولاد چھوڑ کر وطن سے نکلا۔ اب یہ شخص خواہ اپنے بستر پر جان دے یا جہاد کرتے ہوئے اللہ کے راستے میں قتل کردیا جائے، اللہ تعالیٰ پر اس کا اجر واجب ہوگیا ﴿ لَيَرْزُقَنَّهُمُ اللّٰـهُ رِزْقًا حَسَنًا﴾ ” اللہ تعالیٰ انہیں اچھا رزق عطا کرے گا“ عالم برزخ میں اور قیامت کے روز جنت میں داخل کر کے اچھے رزق سے نوازے گا۔ اس جنت میں آرام، خوشبوئیں، حسن، احسان اور قلب و بدن کی تمام نعمتیں جمع ہوں گی۔ اس میں اس معنی کا بھی احتمال ہے کہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں ہجرت کرنے والے کے لئے اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں کشادہ اور اچھے رزق کی ذمہ داری اٹھائی ہے، خواہ اللہ تعالیٰ کے علم میں وہ بستر پر جان دے یا اللہ کے راستے میں شہید کردیا جائے، ان سب کے لئے رزق کی ضمانت ہے۔ اس لئے ہجرت کرنے والے کو یہ وہم لاحق نہ ہو کہ جب وہ اپنے گھر بار اور مال و اولاد کو چھوڑ کر نکلے گا تو محتاج ہوجائے گا کیونکہ اس کا رازق وہ ہے جو سب سے بہتر رزق عطا کرنے والا ہے۔ الحج
59 یہ اسی طرح واقع ہوا جس طرح اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا تھا۔ مہاجرین سابقین نے نصرت دین کی خاطر اپنا گھر بار، اولاد اور مال چھوڑ دیا، تو ابھی کچھ ہی عرصہ گزرا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھوں سے بہت سے شہر فتح کروائے، انہیں لوگوں پر اقتدار و اختیار عطا کیا تو انہوں نے ان شہروں سے مال حاصل کیا اور اس مال کے ذریعے سے سب سے دولت مند ہوگئے اور ان کا حال اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے مصداق ہوگیا : ﴿ لَيُدْخِلَنَّهُم مُّدْخَلًا يَرْضَوْنَهُ ﴾ ” اور اللہ ان کو ایسی جگہ میں داخل فرمائے گا جس کو وہ پسند کریں گے۔ “ اس سے مراد یا تو وہ شہر ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھوں فتح کئے، خاص طور پر مکہ مکرمہ، کیونکہ اہل ایمان مکہ مکرمہ میں نہایت مسرت اور رضا کی حالت میں داخل ہوئے تھے۔۔۔ یا اس سے مراد آخرت کا رزق اور جنت میں داخل ہونا ہے۔ پس آیت کریمہ رزق کی دونوں اقسام، یعنی رزق دنیا اور رزق آخرت دونوں کو جمع کرنے والی ہے لفظ کا اطلاق دونوں کے لئے درست اور معنی دونوں کے صحیح ہے۔ ان تمام معانی کے اطلاق سے کوئی امر مانع نہیں۔ ﴿ وَإِنَّ اللّٰـهَ لَعَلِيمٌ ﴾ اللہ تعالیٰ ظاہری اور باطنی، گزرے ہوئے اور آنے والے تمام امور کا علم رکھتا ہے۔ ﴿ حَلِيمٌ ﴾ مخلوق اس کی نافرمانی کرتی ہے اور بڑے بڑے گناہوں کا ارتکاب کرتی ہے مگر وہ کامل قدرت رکھنے کے باوجود سزا دینے میں جلدی نہیں کرتا بلکہ ان کو پیہم رزق مہیا فرماتا اور اپنے فضل سے انہیں نوازتا ہے۔ الحج
60 جس شخص کے ساتھ زیادتی اور ظلم کا ارتکاب کیا گیا ہو اس کے لئے جائز ہے کہ وہ اس ظالم کا مقابلہ ویسی ہی زیادتی کے ساتھ کرے۔ اگر وہ ایسا کرے تو اس پر کوئی مواخذہ اور کوئی ملامت نہیں۔ پس اگر اس کے بعد بھی وہ اس پر زیادتی کرے تو اللہ تعالیٰ اس ظالم کی مدد کرے گا کیونکہ وہ اب مظلوم ہے، اس بنا پر اس کو ظلم و زیادتی کا نشانہ بنانا جائز نہیں کیوں کہ اس نے اپنا حق وصول کرلیا ہے پس جب دوسرے سے اس کی برائی کا بدلہ لینے والا شخص اپنا بدلہ لینے کے بعد زیادتی کرے تو اس کے بعد اس پر پھر ظلم کیا جائے، اللہ تعالیٰ اس دوسرے کی)جواب مظلوم ہے( مدد فرماتا ہے اور وہ مظلوم جو سرے سے بدلہ ہی نہ لے، تو اس کے لئے تو اللہ کی مدد بہت زیادہ قریب ہے۔ ﴿ إِنَّ اللّٰـهَ لَعَفُوٌّ غَفُورٌ ﴾ ” بلاشبہ اللہ بہت معاف کرنے والا، بہت بخشنے والا ہے۔“ یعنی وہ گناہ گاروں کو معاف کردیتا ہے۔ ان کو سزا دینے میں جلدی نہیں کرتا، وہ ان کے گناہ بخش دیتا ہے اور ان گناہوں کو دور کر کے ان کے آثار بھی مٹا دیتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا ذاتی، دائمی اور وصف لازم ہے اور ہر وقت اپنے بندوں کے ساتھ اس کا معاملہ عفو اور مغفرت کا معاملہ ہوتا ہے، اس لئے اے وہ مظلوم لوگو ! جن کے خلاف جرم کیا گیا ہے، تمہارے لئے مناسب یہی ہے کہ تم معاف کردو، درگزر سے کام لو اور بخش دو تاکہ اللہ تعالیٰ بھی تمہارے ساتھ وہی معاملہ کرے جو تم نے اس کے ساتھ کیا ہے۔ ﴿ فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللّٰـهِ ﴾ )الشوریٰ: 42 ؍40 ( ” جس نے معاف کردیا اور اصلاح کی تو اس کا اجر اللہ کے ہاں واجب ٹھہرا۔ “ الحج
61 وہ اللہ جس نے تمہارے لئے یہ اچھے اور انصاف پر مبنی احکام مشروع کئے ہیں، اپنی تقدیر اور تدبیر میں بہترین طریقے سے تصرف کرتا ہے، جو ﴿ يُولِجُ اللَّيْلَ فِي النَّهَارِ ﴾ رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے۔ پس وہ دن کے بعد رات کو اور رات کے بعد دن کو لاتا ہے اور وہ ان دونوں میں سے ایک کو بڑھاتا اور دوسرے میں اسی حساب سے کمی کرتا رہتا ہے، پھر اس کے برعکس پہلے میں کمی کرتا ہے اور دوسرے کو بڑھاتا ہے۔ پس دن رات کی اس کمی بیشی پر موسم مترتب ہوتے ہیں اور اسی پر شب و روز اور سورج چاند کے فوائد کا انحصار ہے، جو بندوں پر اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت ہیں اور یہ مختلف مواسم ان کے لئے نہایت ضروری ہیں۔ ﴿ وَأَنَّ اللّٰـهَ سَمِيعٌ ﴾ ” اور اللہ سننے والا ہے۔“ بندوں کی زبان کے اختلاف اور ان کی مختلف حاجات کے باوجود وہ ان کی چیخ و پکار میں ہر ایک کی بات سنتا ہے۔ ﴿ بَصِيرٌ ﴾ ” دیکھنے والا ہے۔“ وہ رات کی تاریکی میں، ٹھوس چٹان کے نیچے، سیاہ چیونٹی کو چلتے ہوئے دیکھتا ہے۔ ﴿ سَوَاءٌ مِّنكُم مَّنْ أَسَرَّ الْقَوْلَ وَمَن جَهَرَ بِهِ وَمَنْ هُوَ مُسْتَخْفٍ بِاللَّيْلِ وَسَارِبٌ بِالنَّهَارِ ﴾ (الرعد : 13؍10) ” تم میں سے کوئی شخص خواہ بلند آواز سے بات کرے یا آہستہ اور کوئی رات کے اندھیروں میں چھپا ہوا ہو یا دن کے اجالے میں چل رہا ہو اس کے لئے سب برابر ہے۔ “ الحج
62 ﴿ ذٰلِكَ ﴾ یہ حکم اور احکام والی ہستی ﴿ بِأَنَّ اللّٰـهَ هُوَ الْحَقُّ ﴾ وہ ثابت ہے جو ہمیشہ سے ہے، وہ زائل ہونے والی نہیں، وہ ” اول“ ہے اس سے پہلے کچھ نہ تھا وہ ” آخر“ ہے اس کے بعد کچھ نہیں، وہ کامل اسماء و صفات کا مالک، وعدے کا سچا، اس کا وعدہ حق ہے، اس سے ملاقات ہونا حق ہے، اس کا دین حق ہے، اس کی عبادت حق، نفع مند اور ہمیشہ باقی رہنے والی ہے۔ ﴿ وَأَنَّ مَا يَدْعُونَ مِن دُونِهِ ﴾ اور اس کے سوا تم جن بتوں اور جمادات و حیوانات میں سے خود ساختہ خداؤں کو پکارتے ہو ﴿ هُوَ الْبَاطِلُ ﴾ وہ فی نفسہ باطل ہیں اور ان کی عبادت بھی باطل ہے کیونکہ یہ ایسی ہستی سے متعلق ہے جو مضمحل اور فانی ہے، لہٰذا وہ بھی اپنے باطل مقصد کی بنا پر باطل ہے۔ ﴿ وَأَنَّ اللّٰـهَ هُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ ﴾ وہ فی ذاتہ بلند ہے، اس لئے وہ تمام مخلوقات سے بلند ہے، وہ عالی قدر ہے، اس لئے وہ اپنی صفات میں کامل ہے، وہ تمام مخلوقات پر غالب ہے، وہ اپنی ذات اور اسماء و صفات میں بلند ہے۔ یہ اس کی عظمت و کبریائی ہے کہ قیامت کے روز زمین اس کے قبضہ قدرت میں اور آسمان اس کے دائیں ہاتھ پر لپٹے ہوئے ہوں گے۔ یہ اس کی کبریائی ہے کہ اس کی کرسی آسمانوں اور زمین پر محیط ہے، یہ اس کی کبریائی ہے کہ تمام بندوں کی پیشانیاں اس کے ہاتھ میں ہیں۔ وہ اس کی مشیت کے بغیر تصرف نہیں کرسکتے۔ وہ اس کے ارادے کے بغیر حرکت کرسکتے ہیں نہ ساکن ہوسکتے ہیں۔ اس کی کبریائی کی حقیقت کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا، کوئی مقرب فرشتہ جانتا ہے نہ کوئی نبی مرسل۔ ہر صفت کمال و جلال، اور عظمت و کبریائی اس کے لئے ثابت ہے۔ اس کی یہ صفت کامل ترین اور جلیل ترین درجے پر ہے۔ یہ اس کی کبریائی ہے کہ زمین و آسمان والوں سے صادر ہونے والی عبادات کا مقصد وحید اس کی تعظیم و کبریائی کا اقرار اور اس کے جلال و اکرام کا اعتراف ہے، بنا بریں تکبیر تمام بڑی بڑی عبادات مثلاً نماز وغیرہ کا شعار ہے۔ الحج
63 یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے آیات الٰہی میں تفکر و تدبر کی ترغیب ہے، جو اس کی وحدانیت اور اس کے کمال پر دلالت کرتی ہیں، چنانچہ فرمایا : ﴿ أَلَمْ تَرَ ﴾ یعنی کیا تم نے چشم بصارت اور چشم بصیرت سے دیکھا نہیں؟ ﴿ أَنَّ اللّٰـهَ أَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً ﴾ ” بے شک اللہ اتارتا ہے آسمان سے پانی۔“ اس سے مراد بارش ہے جو پیاسی اور قحط زدہ زمین پر، جس کے کنارے غبار آلود اور اس میں موجود تمام درخت اور نباتات خشک ہوچکے ہوتے ہیں، نازل ہوتی ہے۔ پس زمین سرسبز ہوجاتی ہے، ہر قسم کا خوبصورت لباس پہن لیتی ہے اور اس طرح زمین خوش منظر بن جاتی ہے۔ بلاشبہ وہ ہستی جس نے زمین کو اس کے مردہ ہوجانے کے بعد زندہ کیا، مردوں کو ان کے بوسیدہ ہوجانے کے بعد زندہ کرے گی۔ ﴿ إِنَّ اللّٰـهَ لَطِيفٌ خَبِيرٌ ﴾ (للطیف)سے مراد وہ ہستی ہے جو تمام اشیاء کے باطن، ان کے مخفی امور اور ان کے تمام بھیدوں کو خوب جانتی ہے، جو اپنے بندوں کو ان دیکھے راستوں سے بھلائی عطا کرتی ہے اور ان سے برائی کو دور کرتی ہے۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کا لطف و کرم ہے کہ وہ اپنے بندے کو اپنے انتقام میں اپنی قوت اور اپنی قدرت کاملہ کا نظارہ کرواتا ہے اور جب بندہ ہلاکت کے گڑھے پر پہنچ جاتا ہے تو اس پر اپنے لطف کا اظہار کرتا ہے۔ یہ بھی اس کے لطف و کرم کا حصہ ہے کہ وہ بارش ہونے کی جگہوں اور زمین کے سینے میں چھپے ہوئے بیجوں کو جانتا ہے۔ وہ بارش کے اس پانی کو اس بیج تک پہنچاتا ہے۔ جو مخلوق سے مخفی ہے پھر اس سے مختلف انواع کی نباتات اگاتا ہے۔ ﴿ خَبِيرٌ ﴾ وہ تمام امور کے رازوں اور تمام سینوں کے بھیدوں کی خبر رکھتا ہے۔ الحج
64 ﴿ لَّهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ﴾ یعنی جو کچھ زمین و آسمان میں ہے وہ سب اللہ تعالیٰ کی تخلیق اور اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنی قوت، حکمت اور اقتدار کامل سے ان میں تصرف کرتا ہے۔ اس معاملے میں اس کے سوا کسی کو کوئی اختیار نہیں ﴿ وَإِنَّ اللّٰـهَ لَهُوَ الْغَنِيُّ ﴾ یعنی وہ بذاتہ غنی ہے، جو ہر لحاظ سے غنائے مطلق و تام کا مالک ہے یہ اس کی غنائے کامل ہے کہ وہ اپنی مخلوق میں سے کسی کا محتاج نہیں وہ ذلت سے بچنے کے لئے ان کو مددگار بناتا ہے نہ قلت کو دور کرنے کے لئے ان کے ذریعے کثرت حاصل کرتا ہے۔ یہ اس کی غنائے تام ہے کہ اس کی کوئی بیوی ہے نہ اولاد۔ یہ اس کی غنا ہے کہ وہ ہر چیز سے بے نیاز ہے وہ کھاتا ہے نہ پیتا ہے کسی لحاظ سے وہ کسی چیز کا محتاج نہیں جس کی مخلوق محتاج ہوتی ہے، وہ مخلوق کو کھلاتا ہے کوئی اس کو نہیں کھلاتا۔ یہ اس کی غنا ہے کہ تمام مخلوق اپنے وجود میں آنے، اپنے تیار ہونے، اپنی امداد میں اور اپنے دین و دنیا میں اسی کی محتاج ہے۔ یہ اس کی غنائے تام ہے کہ اگر آسمانوں اور زمین کے تمام لوگ زندہ و مردہ سب ایک میدان میں جمع ہوجائیں، پھر ان میں سے ہر شخص اپنی اپنی خواہش و تمنا کے مطابق اس سے سوال کرے اور وہ ان کو ان کی تمنا اور خواہش سے بڑھ کر عطا کر دے تب بھی اس کے خزانے میں کوئی کمی واقع نہیں ہوگی۔ یہ اس کی غنا ہے کہ اس کا دست عطا دن رات خیر و برکات عنایت کرتا رہتا ہے، اس کا فضل و کرم تمام جانداروں پر جاری و ساری ہے۔ یہ اس کی غنا ہے کہ اس نے اپنے اکرام و تکریم والے گھر میں وہ کچھ تیار کر رکھا ہے جسے کسی آنکھ نے دیکھا ہے نہ کسی کان نے سنا ہے اور نہ کسی کے تصور سے اس کے طائر خیال کا گزر ہوا ہے۔ ﴿ الْحَمِيدُ ﴾ وہ اپنی ذات میں محمود ہے اور وہ اپنے اسماء میں محمود ہے کیونکہ اس کے تمام نام اچھے ہیں۔ وہ اپنی صفات میں محمود ہے کیونکہ اس کی تمام صفات، صفات کمال ہیں۔ وہ اپنے افعال میں محمود ہے کیونکہ اس کے تمام افعال عدل و احسان اور رحمت و حکمت پر مبنی ہیں۔ وہ اپنی تشریع میں محمود ہے کیونکہ وہ صرف اسی چیز کا حکم دیتا ہے جس میں کوئی خالص یاراجح مصلحت ہو اور وہ اسی چیز سے روکتا ہے جس میں کوئی خالص یاراجح فساد ہو۔ وہ جس کے لئے ہر قسم کی ستائش ہے جس نے زمین و آسمان اور جو کچھ ان کے درمیان ہے اور ان کے بعد جو کچھ وہ چاہے، سب کو لبریز کر رکھا ہے۔ وہ ہستی کہ بندے اس کی حمد و ثنا بیان کرنے سے قاصر ہیں بلکہ وہ ویسے ہی ہے جیسے اس نے خود اپنی حمد و ثنا بیان کی ہے۔ وہ اس حمدو ثنا سے بالا و بلند تر ہے جو بندے بیان کرتے ہیں۔ وہ جسے اپنی توفیق سے نوازتا ہے تو اپنی توفیق پر قابل تعریف ہے اور جب اس سے علیحدہ ہو کر اسے اپنے حال پر چھوڑ دیتا ہے تو اس پر بھی قابل تعریف ہے۔ وہ اپنی حمد و ثنا میں غنی اور اپنی غنا میں قابل تعریف ہے۔ الحج
65 کیا تم نے اپنی آنکھ اور دل سے اپنے رب کی بے پایاں نعمت اور بے حد احسانات کو نہیں دیکھا؟ ﴿ أَنَّ اللّٰـهَ سَخَّرَ لَكُم مَّا فِي الْأَرْضِ ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ نے حیوانات نباتات اور جمادات کو تمہارے لئے مسخر کردیا ہے۔ روئے زمین کی تمام موجودات کو اللہ تعالیٰ نے بنی آدم کے لئے مسخر کردیا ہے، چنانچہ زمین کے تمام حیوانات کو انسان کی سواری، نقل و حمل، کام کاج، کھانے اور مختلف انواع کے استفادے کے لئے مسخر کردیا اور اس کے تمام درختوں اور پھلوں کو بھی مسخر کردیا تاکہ وہ ان سے خوراک حاصل کرسکے اور اللہ تعالیٰ نے انسان کو درخت لگانے زمین سے غلہ حاصل کرنے اور معدنیات نکالنے کی طاقت عطا کی تاکہ وہ ان سے استفادہ کرے۔ ﴿ وَالْفُلْكَ ﴾ یعنی تمہارے لئے کشتیوں کو مسخر کردیا ﴿ تَجْرِي فِي الْبَحْرِ بِأَمْرِهِ ﴾ وہ سمندروں میں تمہیں اور تمہارے تجارتی سامان کو اٹھائے پھرتی ہیں اور تمہیں ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچاتی ہیں، نیز تم سمندر سے موتی نکالتے ہو جنہیں تم زیور کے طور پر پہنچتے ہو۔ یہ اللہ تعالیٰ کی تم پر رحمت ہے کہ ﴿ وَيُمْسِكُ السَّمَاءَ أَن تَقَعَ عَلَى الْأَرْضِ ﴾ ” اس نے آسمان کو زمین پر گرنے سے تھام رکھا ہے۔“ اگر اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کی قدرت نہ ہوتی تو آسمان زمین پر گر پڑتا اور زمین پر موجود ہر چیز کو تلف اور ہر انسان کو ہلاک کردیتا۔ ﴿ إِنَّ اللّٰـهَ يُمْسِكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ أَن تَزُولَا وَلَئِن زَالَتَا إِنْ أَمْسَكَهُمَا مِنْ أَحَدٍ مِّن بَعْدِهِ إِنَّهُ كَانَ حَلِيمًا غَفُورًا ﴾ (فاطر : 35 ؍ 41) ” بے شک اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو تھام رکھا ہے اگر وہ دونوں ٹل (ڈول) جائیں تو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اور ان کو تھامنے والا نہیں۔ بے شک اللہ تعالیٰ بہت حلیم اور بخش دینے والا ہے۔ “ ﴿ إِنَّ اللّٰـهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوفٌ رَّحِيمٌ ﴾ اللہ تعالیٰ ان پر ان کے والدین سے اور خود ان سے زیادہ مہربان ہے، اسی لئے اللہ تعالیٰ ان کے لئے بھلائی چاہتا ہے اور وہ خود اپنے لئے برائی اور ضرر چاہتے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے کہ اس نے ان تمام اشیاء کو ان کے لئے مسخر کردیا ہے۔ الحج
66 ﴿ وَهُوَ الَّذِي أَحْيَاكُمْ ﴾ ” اور وہی ہے جس نے تمہیں زندہ کیا۔“ اور تمہیں عدم سے وجود میں لایا ﴿ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ﴾ پھر وہ تمہیں زندہ کرنے کے بعد مارے گا ﴿ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ ﴾ پھر تمہارے مرنے کے بعد تمہیں دوبارہ زندہ کرے گا تاکہ نیک کو اس کی نیکی اور بد کو اس کی بدی کا بدلہ دے۔ ﴿ إِنَّ الْإِنسَانَ ﴾ ” بے شک انسان۔“ یعنی جنس انسان، سوائے اس کے جس کو اللہ تعالیٰ بچا لے ﴿ لَكَفُورٌ ﴾ ” ناشکرا ہے“ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا اور اللہ تعالیٰ کا ناسپاس ہے، وہ اللہ تعالیٰ کے احسان کا اعتراف نہیں کرتا بلکہ بسا اوقات وہ دوبارہ اٹھائے جانے کا اور اپنے رب کی قدرت کا انکار کرتا ہے۔ الحج
67 اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ اس نے ہر امت کے لئے ﴿ مَنسَكًا ﴾ ایک عبادت مقرر کی ہے جو عدل و حکمت پر متفق ہونے کے باوجود بعض امور میں مختلف ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿ لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنكُمْ شِرْعَةً وَمِنْهَاجًا ۚ وَلَوْ شَاءَ اللّٰـهُ لَجَعَلَكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلَـٰكِن لِّيَبْلُوَكُمْ فِي مَا آتَاكُمْ ﴾ (المائدة:5؍48) ” ہم نے تم میں سے ہر ایک گروہ کے لئے ایک شریعت اور طریقہ مقرر کیا ہے، اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو تمہیں ایک ہی امت بنا دیتا مگر اس نے جو احکام تمہیں دیئے ہیں وہ ان میں تمہیں آزمانا چاہتا ہے۔ “ ﴿ هُمْ نَاسِكُوهُ ﴾ یعنی وہ اس پر اپنے احوال کے مطابق عمل پیرا ہیں، اس لئے ان شریعتوں میں سے کسی شریعت پر اعتراض کی گنجائش نہیں، خاص طور پر ان پڑھوں کے لئے جو شرک اور کھلی جہالت میں مبتلا ہیں کیونکہ جب رسول کی رسالت دلائل کے ساتھ ثابت ہوگئی تو اس پر اعتراض کو ترک کرنا، ان تمام احکام کو قبول کرنا اور ان کے سامنے سرتسلیم خم کرنا واجب ہے، جو رسول لے کر آیا ہے، بناء بریں فرمایا : ﴿ فَلَا يُنَازِعُنَّكَ فِي الْأَمْرِ ﴾ یعنی آپ کی تکذیب کرنے والے اپنی فاسد عقل کی بنیاد پر آپ کے ساتھ جھگڑا کریں نہ آپ کی لائی ہوئی کتاب پر اعتراض کریں، جیسے وہ اپنے فاسد قیاس کی بنا پر مردار کی حلت کے بارے میں آپ سے جھگڑتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ” جسے تم قتل کرتے ہو اسے تو کھا لیتے ہو اور جسے اللہ تعالیٰ قتل کرتا ہے اسے نہیں کھاتے“ اور جیسے وہ سود کی حلت کے لئے کہتے ہیں : ” تجارت بھی تو سود ہی کی مانند ہے“ اور اس قسم کے دیگر اعتراضات، جن کا جواب دینا لازم نہیں۔ وہ درحقیقت، اصل رسالت ہی کے منکر ہیں، جس میں کسی بحث اور مجادلے کی گنجائش نہیں بلکہ ہر مقام کے لئے ایک الگ دلیل اور گفتگو ہے۔ اس قسم کا اعتراض کرنے والا، منکر رسالت جب یہ دعویٰ کرے کہ وہ تو صرف تلاش حق کے لئے بحث کرتا ہے تو اس سے یہ کہا جائے : ”آپ کیساتھ صرف رسالت کے اثبات اور عدم اثبات پر گفتگو ہوسکتی ہے“ ورنہ اس کا صرف اپنی بات پر اقتصار کرنا، اس بات کی دلیل ہے کہ ان کا مقصد محض عاجز کرنا اور مشقت میں ڈالنا ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا ہے کہ وہ لوگوں کو حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ اپنے رب کی طرف بلائیں اور اسی رویے کو اپنائے رکھیں، خواہ معترضین اعتراض کریں یا نہ کریں اور یہ مناسب نہیں کہ کوئی چیز آپ کو اس دعوت سے ہٹا دے کیونکہ ﴿ إِنَّكَ لَعَلَىٰ هُدًى مُّسْتَقِيمٍ ﴾ ” یقیناً آپ سیدھے راستے پر ہیں“ جو معتدل اور منزل مقصود پر پہنچاتا ہے اور علم حق اور اس پر عمل کا متضمن ہے۔ آپ کو اپنی دعوت کی حقانیت پر اعتماد اور اپنے دین پر یقین ہے، لہٰذا یہ اعتماد اور یقین اس امر کے موجب ہیں کہ آپ اپنے موقف پر سختی سے جمے رہیں اور وہ کام کرتے رہیں جس کا آپ کے رب نے آپ کو حکم دیا ہے۔ آپ کا موقف مشکوک اور کمزور نہیں یا آپ کی دعوت جھوٹ پر مبنی نہیں کہ آپ لوگوں کی خواہشات نفس اور انکی آراء کی طرف التفات کریں اور ان کا اعتراض آپ کی راہ کو کھوٹا کر دے۔ اس کی نظیر اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے : ﴿ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰـهِ إِنَّكَ عَلَى الْحَقِّ الْمُبِينِ ﴾ (النمل : 27؍79) ” اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کیجئے، بے شک آپ واضح حق پر ہیں۔ “ نیز اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿ إِنَّكَ لَعَلَىٰ هُدًى مُّسْتَقِيمٍ ﴾ میں جزئیات شرع پر معترضین کے اس اعتراض کے جواب کی طرف اشارہ ہے جو عقل صحیح پر مبنی ہے کیونکہ ہدایت ہر اس چیز کا وصف ہے جسے رسول لے کر آئے ہیں۔ ہدایت وہ طریق کار ہے جس سے اصولی اور فروعی مسائل میں راہنمائی حاصل ہوتی ہے اور یہ وہ مسائل ہیں جن کا حسن اور جن میں پنہاں عدل و حکمت عقل صحیح اور فطرت سلیم کے نزدیک معروف ہے اور یہ چیز مامورات و منہیات کی تفاصیل پر غور کرنے سے معلوم کی جاسکتی ہے۔ الحج
68 بناء بریں اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس حالت میں ان کے ساتھ بحث کرنے سے گریز کرنے کا حکم دیا اور فرمایا : ﴿ وَإِن جَادَلُوكَ فَقُلِ اللّٰـهُ أَعْلَمُ بِمَا تَعْمَلُونَ ﴾ ” اگر وہ آپ سے جھگڑا کریں، تو کہہ دیجئے، اللہ خوب جانتا ہے جو تم کرتے ہو۔“ یعنی اللہ تعالیٰ تمہارے مقاصد اور تمہاری نیتوں کو خوب جانتا ہے۔ الحج
69 وہ تمہیں قیامت کے دن ان کی جزا دے گا اور تمہارے درمیان ان سب باتوں کا فیصلہ کرے گا جن کے بارے میں تم آپس میں اختلاف کرتے ہو۔ پس جو کوئی صراط مستقیم کے موافق ہوگا وہ ان لوگوں میں شامل ہوگا جنہیں نعمتوں سے نوازا جائے گا اور جو صراط مستقیم سے ہٹا ہوا ہوگا وہ جہنمیوں میں شامل ہوگا۔ الحج
70 اس کے فیصلے کی تکمیل یہ ہے کہ یہ فیصلہ اس کے علم کی بنیاد پر ہوگا، بنابریں اللہ تعالیٰ نے احاطہ علم اور احاطہ کتاب کا ذکر فرمایا : ﴿ أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللّٰـهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ ﴾ اللہ تعالیٰ پر تمام معاملات کے ظاہر و باطن، جلی و خفی اور اول و آخر میں سے کچھ بھی مخفی نہیں، زمین و آسمان کی موجودات کا احاطہ کرنے والا علم اللہ تعالیٰ نے ایک کتاب میں درج کر رکھا ہے۔۔۔ اور وہ ہے لوح محفوظ۔ اللہ تعالیٰ نے قلم کو پیدا کیا اور اسے حکم دیا ” لکھ ! قلم نے عرض کیا ” کیا لکھوں؟ فرمایا ” قیامت تک جو کچھ ہونے والا ہے اسے لکھ“[سنن ابی داؤد، السنة‘باب فی القدر،ح :4700وجامع الترمذی‘تفسیر القرآن‘ باب و من سورة نون والقلم، ح:3319)] ﴿ إِنَّ ذَٰلِكَ عَلَى اللّٰـهِ يَسِيرٌ ﴾ اگرچہ تمہارے نزدیک اس کے تصور کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا مگر اللہ تعالیٰ کے لئے تمام اشیاء کے علم کا احاطہ کرنا بہت آسان ہے اور اس کے لئے یہ بھی بہت آسان ہے کہ آئندہ واقعات کے علم کو واقعات کے مطابق ایک کتاب میں درج کر دے۔ الحج
71 اللہ تبارک و تعالیٰ مشرکین کی حالت کا ذکر کرتا ہے جنہوں نے خود ساختہ معبودوں کو اللہ تعالیٰ کے ہمسر ٹھہرا رکھا ہے کہ ان کی حالت بدترین حالت ہے۔ ان افعال پر ان کے پاس کوئی سند ہے نہ نہ ان کے پاس کوئی علم ہی ہے۔ یہ تو محض مقلد ہیں یہ سب کچھ انہوں نے اپنے گمراہ آباؤ اجداد سے حاصل کیا ہے۔۔۔ اور کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ انسان جو کوئی کام کرتا ہے اس کے پاس۔۔۔ فی نفس الامر۔۔۔ کوئی علمی دلیل نہیں ہوتی چنانچہ یہاں اللہ تعالیٰ نے خبردی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس شرک پر کوئی دلیل نازل نہیں کی جو اس کے جواز پر دلالت کرتی ہو بلکہ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ نے ایسی براہین قاطعہ نازل فرمائی ہیں جو اس کے فساد و بطلان پر دلالت کرتی ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان ظالموں کو، جو حق کے ساتھ عناد رکھتے ہیں، وعید سناتے ہوئے فرمایا : ﴿ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِن نَّصِيرٍ ﴾ ” ظالموں کا کوئی مددگار نہ ہوگا“ جو ان کو اللہ تعالیٰ کے نازل ہونے والے عذاب سے بچا سکے۔ کیا یہ لوگ جن کو اپنے موقف کے بطلان کا علم نہیں، یہ ارادہ رکھتے ہیں کہ جب ان کے پاس اللہ تعالیٰ کی آیات اور ہدایت آجائے گی وہ اس کی اتباع کریں گے یا وہ اپنے باطل ہی پر راضی ہیں؟ الحج
72 اللہ تبارک و تعالیٰ اس کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے : ﴿ وَإِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا بَيِّنَاتٍ ﴾ ” جب پڑھی جاتی ہیں ان پر ہماری واضح آیات۔“ وہ جو اللہ تعالیٰ کی جلیل القدر آیات ہیں اور باطل میں سے حق کو واضح کرنے کو مستلزم ہیں۔۔۔ تو یہ ان آیات کی طرف التفات کرتے ہیں نہ ان کو درخور اعتناء سمجھتے ہیں بلکہ اس کے برعکس ﴿ تَعْرِفُ فِي وُجُوهِ الَّذِينَ كَفَرُوا الْمُنكَرَ ﴾ آپ ان کے چہروں کو، ان آیات الٰہی کے ساتھ ان کے بغض و کراہت کی بنا پر، بگڑا ہوا اور ان کو منقبض اور ترش رو دیکھتے ہیں۔ ﴿ يَكَادُونَ يَسْطُونَ بِالَّذِينَ يَتْلُونَ عَلَيْهِمْ آيَاتِنَا﴾ یعنی ان کے شدت بغض اور حق کے ساتھ عناد اور عداوت کی وجہ سے قریب ہے کہ وہ ان آیات کی تلاوت کرنے والے کو قتل کرنے یا مارنے کے لئے اس پر چڑھ دوڑیں۔ پس کفار کی یہ حالت بہت ہی بری حالت اور ان کا شر بہت ہی برا شر ہے مگر ان کی ایک حالت اس سے بھی بدتر ہے جس کی طرف یہ لوٹیں گے، اس لئے فرمایا : ﴿ قُلْ أَفَأُنَبِّئُكُم بِشَرٍّ مِّن ذَٰلِكُمُ ۗ النَّارُ وَعَدَهَا اللّٰـهُ الَّذِينَ كَفَرُوا وَبِئْسَ الْمَصِيرُ ﴾ ” کہہ دیجئے ! کیا میں تمہیں خبر دوں اس سے بھی بدتر چیز کی، وہ آگ ہے جس کا وعدہ اللہ نے کافروں سے کیا ہے اور وہ بہت بری جگہ ہے۔“ پس اس کا شر بہت طویل اور عریض ہے، اس کے آلام بہت شدید ہیں جو ہمیشہ بڑھتے ہی رہیں گے۔ الحج
73 اللہ تبارک و تعالیٰ نے بتوں کی عبادت کی قباحت، ان کی عبادت کرنے والوں میں عقل کی کمی اور ان سب کی کمزوری کو بیان کرنے کے لئے ایک مثال بیان کی ہے۔ فرمایا : ﴿ يَا أَيُّهَا النَّاسُ ﴾ ” اے لوگو !“ یہ خطاب مومنین اور کفار دونوں کے لئے ہے۔ اس سے اہل ایمان کے علم و بصیرت میں اضافہ ہوتا ہے اور کفار کے خلاف حجت قائم ہوتی ہے۔ ﴿ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسْتَمِعُوا لَهُ ﴾ یعنی اس بیان کردہ مثال کو غور سے سنو اور اس کے مطالب کو سمجھنے کی کوشش کرو۔ یہ تمہارے دلوں کو غافل اور تمہارے کانوں کو اس سے اعراض کرنے والا نہ پائے، بلکہ اپنے کانوں اور دلوں سے خوب غور سے سنو۔ وہ مثال یہ ہے۔ ﴿ إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللّٰـهِ ﴾ ” بے شک وہ لوگ جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو۔“ یہ آیت کریمہ ان تمام ہستیوں کو شامل ہے جن کو اللہ تعالیٰ کے سوا پکارا جاتا ہے۔ ﴿ لَن يَخْلُقُوا ذُبَابًا ﴾ ” وہ مکھی بھی پیدا نہیں کرسکتے“ جو حقیر ترین اور خسیس ترین مخلوق ہے۔ پس وہ اس نہایت کمزور سی مخلوق کو پیدا کرنے پر قادر نہیں ہیں، اس لئے بڑی مخلوق تو وہ کیا پیدا کرسکتے ہیں؟ ﴿ وَلَوِ اجْتَمَعُوا لَهُ﴾ ”اگرچہ وہ سب اکٹھے کیوں نہ ہوجائیں۔“ بلکہ اس سے بھی بلیغ تر بات یہ ہے کہ ﴿ إِن يَسْلُبْهُمُ الذُّبَابُ شَيْئًا لَّا يَسْتَنقِذُوهُ مِنْهُ ﴾ ” اگر مکھی ان سے کچھ چھین کرلے جائے تو وہ اس سے وہ بھی نہیں چھڑا سکتے۔“ یہ عجز اور بے بسی کی انتہاء ہے۔ ﴿ضَعُفَ الطَّالِبُ ﴾ ” کمزور ہے طالب۔“ یعنی وہ جس کی اللہ تعالیٰ کے سوا عبادت کی جاتی ہے ﴿ وَالْمَطْلُوبُ ﴾ ” اور وہ جس سے طلب کیا جا رہا ہے۔“ یعنی مکھی، پس دونوں ہی کمزور ہیں اور ان دونوں سے بھی کمزور تر وہ لوگ ہیں جنہوں نے ان کو رب العالمین کے مقام پر فائز کر رکھا ہے۔ الحج
74 پس یہ وہ لوگ ہیں ﴿ مَا قَدَرُوا اللّٰـهَ حَقَّ قَدْرِهِ ﴾ ” جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی قدر نہ پہچانی جیسا کہ پہچاننے کا حق ہے“ کیونکہ انہوں نے ایک ایسی ہستی کو جو ہر لحاظ سے محتاج اور عاجز ہے، اس اللہ تعالیٰ کا ہم پلہ بنا دیا جو ہر اعتبار سے بے نیاز اور طاقتور ہے۔ انہوں نے اس ہستی کو، جو خود اپنے یا کسی دوسرے کے لئے کسی نفع و نقصان کی مالک ہے نہ زندگی اور موت کا اختیار رکھتی ہے اور نہ دوبارہ زندہ اٹھانے پر قادر ہے، اس ہستی کے برابر ٹھہرا دیا جو نفع و نقصان کی مالک ہے، جو عطا کرتی ہے اور محروم کرتی ہے، جو اقتدار کی مالک اور اپنی بادشاہی میں ہر قسم کا تصرف کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔ ﴿ إِنَّ اللّٰـهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ ﴾ یعنی وہ کامل قوت اور کامل عزت کا مالک ہے اس کی قوت کاملہ اور کامل غلبے کا یہ حال ہے کہ تمام مخلوق کی پیشانیاں اس کے ہاتھوں میں ہیں۔ اس کے ارادہ اور مشیت کے بغیر کوئی چیز حرکت کرسکتی ہے نہ ساکن ہوسکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے وہ ہوجاتا ہے، جو نہیں چاہتا وہ نہیں ہوسکتا اور یہ اس کا کمال قوت ہے کہ وہ تمام مخلوق کو اول سے لے کر آخر تک، ایک چنگھاڑ کے ذریعے سے زندہ اٹھا کر کھڑا کرے گا اور یہ اس کا کمال قوت ہے کہ اس نے بڑے بڑے جابروں اور سرکش قوموں کو ایک معمولی سی چیز اور اپنے عذاب کے کوڑے سے ہلاک کر ڈالا۔ الحج
75 اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنا کمال اور بتوں کی کمزوری اور عجز بیان کرنے کے بعد، نیزیہ کہ وہی معبود برحق ہے۔۔۔ انبیاء و رسل کا حال بیان کیا ہے اور ان کے وہ امتیازی فضائل بیان کئے جن کے ذریعے سے وہ دیگر مخلوق سے ممتاز ہیں، تو فرمایا : ﴿ اللّٰـهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلَائِكَةِ رُسُلًا وَمِنَ النَّاسِ ﴾ یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ فرشتوں اور انسانوں میں سے رسول منتخب کرتا ہے جو اپنی نوع میں بہترین فرد اور صفات مجد کے سب سے زیادہ جامع اور منتخب کئے جانے کے سب سے زیادہ اہل اور مستحق ہوتے ہیں۔ پس رسول علی الاطلاق مخلوق میں سے چنے ہوئے لوگ ہوتے ہیں اور جس ہستی نے ان کو رسالت کے منصب کے لئے منتخب کیا ہے وہ اشیاء کے حقائق سے لاعلم نہیں یا وہ ایسی ہستی نہیں کہ وہ کچھ چیزوں کا علم رکھتی ہو اور کچھ چیزوں سے لاعلم ہو بلکہ ان کو منتخب کرنے والی ہستی، سمیع و بصیر ہے جس کے علم اور سمع و بصر نے تمام اشیاء کا احاطہ کر رکھا ہے، اس لئے اس نے اپنے علم ہی کی بنیاد پر ان لوگوں کو اپنی رسالت کے لئے منتخب کیا ہے۔ وہ اس منصب کے اہل ہیں اور وحی کی ذمہ داری سونپے جانے کے لئے یہ صحیح لوگ ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ اللّٰـهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهُ ﴾ (الانعام : 6؍124) ” اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ رسالت کسے عنایت فرمائے۔“ الحج
76 ﴿ وَإِلَى اللّٰـهِ تُرْجَعُ الْأُمُورُ ﴾ ” اور اللہ ہی کی طرف سب کام لوٹائے جاتے ہیں۔“ یعنی اللہ تعالیٰ رسولوں کو بھیجتا ہے وہ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دیتے ہیں، کچھ لوگ ان کی دعوت پر لبیک کہتے ہیں اور کچھ لوگ ان کی دعوت کو رد کردیتے ہیں، کچھ لوگ ان کی لائی ہوئی وحی پر عمل کرتے ہیں اور کچھ لوگ اس پر عمل نہیں کرتے۔ پس یہ تو ہے رسولوں کی ذمہ داری اور ان کا وظیفہ۔ اور رہی ان اعمال کی جزا و سزا تو یہ اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ پس وہ اس جزاء و سزا میں فضل و کرم کا اہتمام بھی کرے گا اور عدل و انصاف کا بھی۔ الحج
77 اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو نماز کا حکم دیتا ہے اور اس نے رکوع و سجود کا، ان کی فضیلت اور ان کے رکن نماز ہونے کی بنا پر خاص طور پر ذکر کیا ہے۔ نماز اس کی عبادت ہے جو آنکھوں کی ٹھنڈک اور غمزدہ دل کے لئے تسلی ہے۔ اس کی ربوبیت اور بندوں پر اس کا احسان ان سے تقاضا کرتے ہیں کہ وہ عبادت کو اس کے لئے خالص کریں۔ نیز اللہ تعالیٰ عمومی طور پر ان کو بھلائی کے کاموں کا حکم دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے فلاح کا انہی امور سے وابستہ کیا ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ﴾ یعنی تم اپنے مطلوب و مرغوب کے حصول اور ناپسندیدہ اور خوفناک امور سے نجات پانے میں کامیاب ہوجاؤ گے۔ پس اللہ تعالیٰ کی عبادت میں اخلاص اور اس کے بندوں کو نفع پہنچانے کی کوشش کے سوا، فلاح کے حصول کا کوئی راستہ نہیں۔ جسے اس راستے کی توفیق حاصل ہوگئی اسی کے لئے کامیابی، سعادت اور فلاح ہے۔ الحج
78 ﴿ وَجَاهِدُوا فِي اللّٰـهِ حَقَّ جِهَادِهِ ﴾ ” اور اللہ کی راہ میں ویسا ہی جہاد کرو جیسے جہاد کا حق ہے۔“ مقصود و مطلوب کے حصول میں پوری کوشش کرنا جہاد ہے۔ اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد، جیسا کہ جہاد کرنے کا حق ہے۔۔۔ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دین کو پوری طرح نافذ کیا جائے، مخلوق کو ہر طریقے سے اللہ تعالیٰ کے راستے کی طرف دعوت دی جائے۔ خیر خواہی سے، تعلیم، قتال اور تادیب سے، زجر و توبیخ یا وعظ و نصیحت کے ذریعے سے اس مقصد کے لئے جس طریقے اور ذریعے کی بھی ضرورت ہو، اسے اختیار کیا جائے۔ ﴿ هُوَ اجْتَبَاكُمْ ﴾ یعنی اے مسلمانوں کے گروہ ! اس نے تمہیں لوگوں سے چن لیا ہے اور تمہارے لئے دین کو منتخب کر کے اسے تمہارے لئے پسند کرلیا ہے، تمہارے لئے افضل ترین کتاب اور افضل ترین رسول کو منتخب کیا، اس لئے جہاد کو اچھی طرح قائم کر کے اللہ تعالیٰ کی اس عظیم نوازش کا بدلہ دو۔ چونکہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿ وَجَاهِدُوا فِي اللّٰـهِ حَقَّ جِهَادِهِ ﴾ سے بسا اوقات کسی متوہم کو یہ وہم ہوتا ہے کہ یہ ایسا حکم ہے جس کی تعمیل طاقت سے باہر ہے یا جس کی تعمیل میں سخت مشقت ہے، اس لئے اس وہم سے احتراز کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ ﴾ ” اور نہیں کی اس نے تم پر دین میں کوئی تنگی۔“ یعنی مشقت اور تنگی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے دین کو انتہائی آسان اور سہل بنایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے صرف انہی امور کا حکم دیا ہے، جس کو بجا لانا نفوس انسانی کے لئے نہایت سہل ہے جو ان کے لئے گراں بار ہیں نہ تھکا دینے والے ہیں۔ پھر بھی اگر کوئی ایسا سبب پیش آجائے جو تخفیف کا موجب ہو تو اللہ تعالیٰ اس حکم کو ساقط کر کے یا اس میں کمی کر کے اس میں تخفیف کردیتا ہے۔ اس آیت کریمہ سے ایک شرعی قاعدہ اخذ کیا جاتا ہے اور وہ ہے ﴿ اَلْمُشَقَّةُ تَجْلِبُ التَّيْسِيْرَ ﴾ ” مشقت اپنے ساتھ آسانی لے کر آتی ہے“ ﴿ اَلضَّرُوْرَاتُ تُبِيْحُ الْمَحْظُوْرَاتِ ﴾ ” ضرورت ممنوع چیز کو مباح کردیتی ہے۔“ بہت سے فروعی احکام اس قاعدہ کے تحت آتے ہیں جن کا ذکر احکام کی کتابوں میں معروف ہے۔ ﴿ مِّلَّةَ أَبِيكُمْ إِبْرَاهِيمَ ﴾ یعنی مذکورہ دین اور احکام تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کا دین ہیں جن پر وہ ہمیشہ عمل پیرا رہے، اس لئے تم بھی ان کا التزام کرو اور ان پر عمل پیرا رہو۔ ﴿ هُوَ سَمَّاكُمُ الْمُسْلِمِينَ مِن قَبْلُ ﴾ یعنی اس نے کتب سابقہ میں تمہارا نام ” مسلم“ رکھا ہے اور اسی نام سے تم مذکور و مشہور ہو یعنی ابراہیم علیہ السلام ہی نے تمہارا نام ” مسلم“ رکھا ہے۔ ﴿ وَفِي هٰـٰذَا ﴾ اور اس کتاب اور اس شریعت میں بھی تمہارا نام ” مسلم“ ہی ہے یعنی قدیم اور جدید زمانے میں تمہیں ” مسلم“ کے نام ہی سے پکارا جاتا رہا ہے۔ ﴿ لِيَكُونَ الرَّسُولُ شَهِيدًا عَلَيْكُمْ ﴾ تاکہ رسول تمہارے اچھے اور برے اعمال کی گواہی دیں۔ ﴿ وَتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ ﴾ تم انبیاء و رسل کے حق میں ان کی امتوں کے خلاف گواہی دو گے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں جو کچھ نازل فرمایا تھا انہوں نے اپنی امتوں کو پہنچا دیا تھا کیونکہ تم بہترین، معتدل، بھلائی کے راستے پر گامزن اور امت وسط ہو۔ ﴿ فَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ ﴾نماز کو اس کے تمام ارکان، تمام شرائط وحدود اور اس کے تمام لوازم کے ساتھ قائم کرو۔ ﴿ وَآتُوا الزَّكَاةَ ﴾اللہ تعالیٰ نے تمہیں جن نعمتوں سے نوازا ہے اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے لئے زکوٰۃ مفروضہ ادا کرو۔ ﴿ وَاعْتَصِمُوا بِاللّٰـهِ ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آجاؤ اور اس بارے میں صرف اسی پر بھروسہ کرو اور اپنی قوت و اختیار پر اعتماد نہ کرو۔ ﴿ هُوَ مَوْلَاكُمْ ﴾ ” وہی تمہارا مولیٰ ہے“ جو تمہارے تمام امور کی دیکھ بھال کرنے والا ہے۔ پس وہ بہترین طریقے سے تمہاری تدبیر، اور بہترین اندازے سے تم میں تصرف کرتا ہے۔ ﴿ فَنِعْمَ الْمَوْلَىٰ وَنِعْمَ النَّصِيرُ ﴾ ” پس کیا اچھا مولیٰ اور کیا اچھا مددگار ہے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ جس کی سرپرستی کرتا ہے تو وہ بہترین سرپرست ہے۔ پس اس سے اس کا مطلوب و مقصود حاصل ہوجاتا ہے اور جو کوئی اپنی مصیبت دور کرنے کے لئے اس سے مدد مانگتا ہے تو وہ بہترین مددگار ہے، اس سے اس مصیبت کو وہ دور کردیتا ہے۔ الحج
0 المؤمنون
1 یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے مومن بندوں کی تعریف و تعظیم اور ان کی فلاح و سعادت کا ذکر ہے، نیز اس امر کا بیان ہے کہ وہ فلاح و سعادت کیسے حاصل کرسکتے ہیں اور اس ضمن میں اہل ایمان کو ترغیب دی گئی ہے کہ وہ اپنے آپ کو ان مذکورہ صفات سے متصف کریں۔ پس بندہ مومن ان آیات کی میزان پر اپنے آپ کا وزن کرے، اور یہ معلوم کرے کہ اس کے پاس اور دوسروں کے پاس قلت و کثرت یا اضافے اور کمی کے اعتبار سے کتنا ایمان ہے۔ پس فرمایا ﴿ قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ ﴾ یعنی اہل ایمان کامیابی اور سعادت سے بہرہ مند ہوئے اور انہوں نے ہر وہ چیز حاصل کرلی جس کا حصول اہل ایمان کا مقصود و مطلوب ہے جو اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اور انہوں نے انبیاء و مرسلین کی تصدیق کی ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد : ﴿ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ ﴾ دلالت کرتا ہے کہ مملوکہ لونڈی کی حلت کے لئے شرط یہ ہے کہ وہ تمام کی تمام صرف اسی کی ملکیت میں ہو۔ اگر وہ صرف اس کے کچھ حصے کا مالک ہے تو یہ لونڈی اس کے لئے حلال نہیں کیونکہ وہ کامل طور پر اس کا مالک نہیں کیونکہ وہ اس کی اور کسی دوسرے شخص کی مشترکہ ملکیت ہے۔ پس جس طرح یہ جائز نہیں کہ کسی آزاد عورت کے دو شوہر ہوں، اسی طرح یہ بھی جائز نہیں کہ کسی لونڈی کی ملکیت میں دو مالکوں کا اشتراک ہو ) اور وہ اس سے مجامعت کرتے ہوں( المؤمنون
2 جن کی صفات کاملہ میں سے ایک صفت یہ ہے کہ بلا شبہ وہ ﴿ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ ﴾ ’’اپنی نماز میں خشوع اختیار کرتے ہیں‘‘ نماز میں خشوع یہ ہے کہ بندے کا دل اللہ تعالیٰ کو قریب سمجھتے ہوئے اس کے حضور حاضر ہو۔۔۔ اس سے قلب کو سکون اور اطمینان حاصل ہوتا ہے، اس کی تمام حرکات ساکن اور غیر اللہ کی طرف اس کا التفات کم ہوجاتا ہے۔ وہ اپنے رب کے سامنے نہایت ادب کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے، وہ اپنی نماز کے اندر، اول سے لے کر آخر تک جو کچھ کرتا ہے اور جو کچھ کہتا ہے پورے استحضار کے ساتھ کہتا ہے۔ اس طرح اس کے دل سے تمام و سو سے اور غلط افکار زائل ہوجاتے ہیں۔ یہی نماز کی روح اور یہی اس سے مقصود ہے اور یہی وہ مقصد ہے جو بندے کے لئے لکھ دیا گیا ہے۔ پس وہ نماز جو خشوع و خضوع اور حضور قلب سے خالی ہو اس پر اگرچہ ثواب ملتا ہے مگر صرف اتنا ملتا ہے جتنا قلب اس کو سمجھ کر ادا کرتا ہے۔ المؤمنون
3 ﴿ وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ ﴾ ’’اور وہ لغو سے۔‘‘ یہاں (لغو) سے مراد وہ کلام ہے جس میں کوئی بھلائی اور کوئی فائدہ نہ ہو۔ ﴿ مُعْرِضُونَ ﴾ ’’اعراض کرنے والے ہیں۔‘‘ اپنے آپ کو لغو سے پاک اور برتر رکھنے کے لئے۔ جب کبھی کسی لغو چیز پر سے ان کا گزر ہوتا ہے تو نہایت وقار کے ساتھ گزر جاتے ہیں اور جب یہ لغو باتوں سے اعراض کرتے ہیں تو حرام کاموں سے ان کا اعراض اولیٰ و احریٰ ہے۔ جب بندہ بھلائی کے سوا لغویات میں اپنی زبان پر قابو پا لیتا ہے تو معاملہ اس کے اختیار میں آجاتا ہے جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے، جب کہ آپ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو نصیحت فرما رہے تھے۔۔۔ فرمایا’’ کیا میں تمہیں اس چیز کے بارے میں آگاہ نہ کروں جس پر ان سب چیزوں کا دارومدار ہے؟‘‘ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، میں نے عرض کیا، جی ہاں ! ضرور بتائیں، چنانچہ آپ نے اپنی زبان پکڑی اور فرمایا’’اس کو اپنے قابو میں رکھو‘‘ [جامع الترمذی، الایمان، باب ماجاء فی حرمةالصلاۃ، ح: 2616وسنن ابن ماجه، الفتن، باب کف اللسان فی الفتنة،ح:3973) پس اہل ایمان کی صفات حمیدہ میں سے ایک صفت یہ ہے کہ وہ لغویات اور محرمات سے اپنی زبان کو روکے رکھتے ہیں۔ المؤمنون
4 ﴿ وَالَّذِينَ هُمْ لِلزَّكَاةِ فٰعِلُونَ ﴾ یعنی مال کی مختلف جنسوں کے مطابق اس کی زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اپنے آپ کو گندے اخلاق اور برے اعمال سے پاک کرتے ہوئے جن کے ترک کرنے اور جن کے اجتناب ہی سے نفس پاک ہوتے ہیں۔ پس وہ نماز میں خشوع کا اہتمام کر کے اپنے خالق کی اچھے طریقے سے عبادت کرتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کر کے مخلوق کے ساتھ احسان کا رویہ اپناتے ہیں۔ المؤمنون
5 ﴿ وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ ﴾ ’’اور وہ (زنا سے)اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں۔‘‘ اور کامل حفاظت یہ ہے کہ ان تمام امور سے اجتناب کیا جائے جو زنا کی دعوت دیتے ہیں، مثلاً غیر محرم کو دیکھنا اور چھونا وغیرہ۔ پس وہ اپنی شرم گاہوں کی ہر ایک سے حفاظت کرتے ہیں۔ المؤمنون
6 ﴿ إِلَّا عَلَىٰ أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ ﴾ ’’سوائے اپنی بیویوں اور مملوکہ لونڈیوں کے۔‘‘ ﴿ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ ﴾ یعنی اپنی بیویوں اور لونڈیوں کے پاس جانے میں ان پر کوئی ملامت نہیں، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو حلال ٹھہرایا ہے۔ المؤمنون
7 ﴿ فَمَنِ ابْتَغَىٰ وَرَاءَ ذٰلِكَ ﴾ ’’پس جو تلاش کرے گا اس کے علاوہ۔‘‘ یعنی بیوی اور لونڈی کے علاوہ ﴿ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْعَادُونَ ﴾ ’’پس وہی حد سے تجاوز کرنے والے ہیں۔‘‘ یعنی جو اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ چیزوں سے تجاوز کر کے حرام میں پڑگئے اور اللہ تعالیٰ کی محرمات کے ارتکاب کی جسارت کی۔ اس آیت کریمہ کا عموم تحریم متعہ پر دلالت کرتا ہے کیونکہ نکاح متعہ کے ذریعے بنی ہوئی بیوی حقیقی بیوہ ہے نہ اس کو نکاح میں باقی رکھنا ہی مقصود ہے اور نہ وہ لونڈیاں ہی کے زمرے میں آتی ہے، نیز یہ آیت کریمہ نکاح حلالہ کی تحریم پر بھی دلالت کرتی ہے۔ المؤمنون
8 ﴿ وَالَّذِينَ هُمْ لِأَمَانَاتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رَاعُونَ ﴾ یعنی وہ اپنی امانت اور اپنے عہد کی رعایت اور حفاظت کرتے ہیں، ان کو قائم کرنے اور ان کے نفاذ کے بہت حریص ہیں۔۔۔ یہ آیت کریمہ تمام امانتوں کے لئے عام ہے خواہ حقوق اللہ سے متعلق ہوں یا حقوق العباد سے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿ إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَيْنَ أَن يَحْمِلْنَهَا وَأَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْإِنسَانُ ﴾ )الاحزاب : 33؍72) ’’ہم نے اس امانت کو آسمانوں، زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا مگر انہوں نے اس ذمہ داری کو اٹھانے سے انکار کیا اور اس سے ڈر گئے اور انسان نے اس ذمہ داری کو اٹھا لیا۔‘‘ پس ہر وہ چیز جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے پر فرض کی ہے، امانت ہے، اس کو پوری طرح سے ادا کرنا اور اس کی حفاظت کرنا بندے کی ذمہ داری ہے، اسی طرح انسانوں کی امانتیں اس کے تحت آتی ہے، مثلاً مال کی امانت اور راز کی امانت وغیرہ۔ پس امانت کی ان دونوں اقسام کی حفاظت اور ان کو پوری طرح ادا کرنا فرض ہے۔ فرمایا : ﴿ إِنَّ اللّٰـهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَىٰ أَهْلِهَا ﴾ (النساء : 4؍58) ’’بے شک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کو ان کی امانتیں واپس کردیا کرو۔‘‘ اسی طرح عہد کا پورا کرنا بھی فرض ہے اور یہ اس عہد کو شامل ہے جو ان کے اور ان کے رب کے درمیان ہے اور جو ان کے اور بندوں کے درمیان ہے اور اس سے مراد وہ التزامات اور معاہدے ہیں جو بندہ کسی سے کرتا ہے، ان کی حفاظت کرنا اور ان کو پورا کرنا اس پر واجب ہے، ان میں کوتاہی کرنا یا ان کو جان بوجھ کر چھوڑ دینا حرام ہے۔ المؤمنون
9 ﴿ وَالَّذِينَ هُمْ عَلَىٰ صَلَوَاتِهِمْ يُحَافِظُونَ ﴾ یعنی وہ نمازوں کو ہمیشہ ان کے اوقات میں، ان کی حدود، شرائط اور ارکان کی کامل رعایت کے ساتھ ادا کرتے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے نماز میں ان کے خشوع اور نماز کی حفاظت، دونوں باتوں کی بنا پر ان کی مدح و ستائش کی ہے کیونکہ ان کا معاملہ ان دونوں امور کے بغیر تکمیل نہیں پاتا۔ پس جو شخص نماز پر مداومت تو کرتا ہے مگر بغیر خشوع کے نماز پڑھتا ہے، یا وہ کامل خشوع کے ساتھ تو نماز پڑھتا ہے مگر اس کی حفاظت نہیں کرتا تو وہ ناقص اور مذموم ہے۔ المؤمنون
10 ﴿ا أُولَـٰئِكَ ﴾ یہی لوگ جو مذکورہ صفات سے متصف ہیں۔ ﴿ هُمُ الْوَارِثُونَ الَّذِينَ يَرِثُونَ الْفِرْدَوْسَ ﴾ ’’فردوس کے وارث ہوں گے‘‘ جو جنت کا بلند ترین، بہتر اور افضل طبقہ ہے کیونکہ وہ ایسی صفات سے متصف ہوئے ہیں جو بھلائی کی صفات میں سب سے اعلیٰ صفات ہیں۔۔۔ یا اس سے مراد تمام جنت ہے تاکہ عام مومن اپنے اپنے درجات و مراتب اور اپنے اپنے حال کے مطابق اس میں داخل ہوجائیں۔ المؤمنون
11 ﴿ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ﴾ ’’وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔‘‘ وہ وہاں سے کبھی کوچ کریں گے نہ وہاں سے منتقل ہونا چاہیں گے کیونکہ جنت فردوس کامل اور افضل ترین نعمتوں پر مشتمل ہے وہاں کوئی تکدر ہوگا نہ پریشانی۔ المؤمنون
12 اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان آیات کریمہ میں انسان کی ابتدائے تخلیق سے لے کر آخر تک مختلدادوار اور مراحل کا ذکر کیا ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے نوع بشری کے جد امجد آدم علیہ اسلام کی پیدائش کا ذکر فرمایا کہ ﴿ مِن سُلَالَةٍ مِّن طِينٍ ﴾ ’’اسے زمین کے ست سے پیدا کیا۔ جو کہ تمام زمین سے حاصل کیا گیا تھا۔ المؤمنون
13 بنا بریں حضرت آدم علیہ اسلام کے بیٹے زمین کی نوعیت کے مطابق ہیں، ان میں کچھ پاک، کچھ خبیث اور کچھ ان دونوں کے درمیان ہیں اور کچھ نرم دل، کچھ سخت دل اور کچھ ان دونوں کے درمیان ہیں۔ ﴿ ثُمَّ جَعَلْنَاهُ ﴾ ’’پھر ہم نے اس کو بنایا‘‘ یعنی جنس آدم علیہ اسلام کو ﴿نُطْفَةً﴾ ’’نطفہ‘‘ جو انسان کی پیٹھ اور سینے کے درمیان سے نکلتا ہے، پھر وہ نطفہ جگہ پکڑتا ﴿ فِي قَرَارٍ مَّكِينٍ ﴾ ’’ایک محفوظ جگہ میں۔‘‘ اس سے مراد رحم مادر ہے جو ہر قسم کی خرابی اور ہوا وغیرہ سے محفوظ ہے۔ المؤمنون
14 ﴿ ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ ﴾ ’’پھر بنایا ہم نے نطفے کو‘‘ جو رحم مادر میں قرار پا چکا تھا۔ ﴿ عَلَقَةً ﴾ ’’لوتھڑا‘‘ یعنی نطفے کو چالیس دن گزرنے کے بعد سرخ خون میں تبدیل کردیا۔ ﴿ فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ ﴾ ’’پھر بنایا ہم نے جمے ہوئے خون کو‘‘ یعنی چالیس دن کے بعد اس خون کے لوتھڑے کو ﴿مُضْغَةً ﴾ گوشت کا ٹکڑایعنی گوشت کی چھوٹی سی بوٹی یعنی اس مقدار کے برابر جسے چبایا جاسکتا ہے۔ ﴿ فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ ﴾ ’’پھر بنایا نرم بوٹی کو‘‘ ﴿ عِظَامًا ﴾ ’’ہڈیاں‘‘ یعنی سخت ہڈیاں بنا دیتے ہیں جو کہ بدن کی ضرورت کے مطابق گوشت کے درمیان ہوتی ہیں۔ ﴿ فَكَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْمًا ﴾ یعنی ہم ہڈیوں کو گوشت کا لباس پہنا دیتے ہیں جس طرح ہڈیوں کو گوشت کا سہارا بنایا اور اور یہ تیسرے چالیس دنوں میں سر انجام پاتا ہے۔ ﴿ ثُمَّ أَنشَأْنَاهُ خَلْقًا آخَرَ ﴾ ’’پھر پیدا کیا ہم نے اس کو ایک دوسری بناوٹ میں۔‘‘ اس میں روح پھونک دی، پس وہ بے جان جسم سے جان دار میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ ﴿ فَتَبَارَكَ اللّٰـهُ ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ بہت بلند، بہت بڑا اور بہت زیادہ بھلائی والا ہے۔ ﴿ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ ﴾ ’’وہ سب تخلیق کاروں سے اچھا تخلیق کار ہے۔‘‘ ﴿ الَّذِي أَحْسَنَ كُلَّ شَيْءٍ خَلَقَهُ ۖ وَبَدَأَ خَلْقَ الْإِنسَانِ مِن طِينٍ ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَهُ مِن سُلَالَةٍ مِّن مَّاءٍ مَّهِينٍ ثُمَّ سَوَّاهُ وَنَفَخَ فِيهِ مِن رُّوحِهِ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَةَ ۚ قَلِيلًا مَّا تَشْكُرُونَ ﴾ (السجدۃ : 32؍7،9) ’’جس نے ہر چیز بہترین طریقے سے پیدا کی اور اس نے انسان کی تخلیق کی ابتدا گارے سے کی پھر اس کی نسل ایک خلاصے یعنی ایک حقیر پانی سے چلائی، پھر سے نک سک سے درست کیا اور اس کے اندر اپنی طرف سے روح پھونکی اور اس نے تمہارے کان، آنکھیں اور دل بنائے مگر تم بہت کم شکر گزار ہو۔‘‘ انسان کی تمام تخلیق اچھی ہے اور انسان بہترین مخلوق، بلکہ تمام مخلوقات میں علی الاطلاق بہترین ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ ﴾ (التین : 95؍4)’’ہم نے انسان کو بہترین صورت میں پیدا کیا ہے‘‘ اس لئے انسان کے خواص تمام مخلوق میں سب سے افضل اور سب سے کامل ہیں۔ المؤمنون
15 ﴿ ثُمَّ إِنَّكُم بَعْدَ ذٰلِكَ ﴾ یعنی انسان کی تخلیق اور اس میں روح کے پھونکے جانے کے بعد ﴿ لَمَيِّتُونَ ﴾ یعنی تم ان مراحل میں سے گزرتے ہوئے ایک مرحلہ میں موت سے ہم کنار ہو گے۔ المؤمنون
16 ﴿ ثُمَّ إِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ تُبْعَثُونَ ﴾ ’’پھر تم قیامت کے دن اٹھائے جاؤ گے۔‘‘ پھر تمہیں تمہارے اچھے برے اعمال کی جزا و سزا دی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ أَيَحْسَبُ الْإِنسَانُ أَن يُتْرَكَ سُدًى أَلَمْ يَكُ نُطْفَةً مِّن مَّنِيٍّ يُمْنَىٰ ثُمَّ كَانَ عَلَقَةً فَخَلَقَ فَسَوَّىٰ فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنثَىٰ أَلَيْسَ ذَٰلِكَ بِقَادِرٍ عَلَىٰ أَن يُحْيِيَ الْمَوْتَىٰ ﴾ (القیمة: 75؍36-40) ’’کیا انسان سمجھتا ہے کہ اسے یونہی چھوڑ دیا جائے گا، کیا وہ مٹی کا ایک ٹپکایا ہوا قطرہ نہ تھا پھر وہ لوتھڑا بنا پھر اللہ نے اس کو تخلیق کیا اور نک سک سے درست کیا پھر اس کی دو قسمیں بنائیں یعنی مرد اور عورت۔ کیا اللہ اس بات پر قادر نہیں کہ مردوں کو زندہ کرے؟‘‘ المؤمنون
17 اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق کا ذکر کرنے کے بعد، اس کے مسکن اور اس پر ہر لحاظ سے اپنی بے پایاں نعمتوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : ﴿وَلَقَدْ خَلَقْنَا فَوْقَكُمْ ﴾ ’’اور بنائے ہم نے تمہارے اوپر‘‘ یعنی شہروں کی چھت کے طور پر اور بندوں کے فائدے کی خاطر ﴿ سَبْعَ طَرَائِقَ ﴾ ہم نے سات آسمان طبق برطبق بنائے کہ ہر طبقے کے اوپر دوسرا طبقہ ہے۔ اور ان کو سورج، چاند اور ستاروں کے ذریعے سے سجایا اور ان میں مخلوق کے تمام فوائد و دیعت کئے گئے۔ ﴿ وَمَا كُنَّا عَنِ الْخَلْقِ غَافِلِينَ ﴾ ’’اور ہم مخلوق سے غافل نہیں ہیں۔‘‘ پس جیسے ہماری تخلیق ہر مخلوق کے لئے عام ہے۔ اسی طرح ہمارا علم بھی تمام مخلوق پر محیط ہے، ہم اپنی کسی مخلوق سے غافل ہیں نہ اسے بھولتے ہیں اور نہ کسی مخلوق کو پیدا کرنے کے بعد اسے ضائع کرتے ہیں، نہ آسمان سے غافل ہوتے ہیں کہ وہ زمین پر گر پڑے اور نہ سمندروں کی موجوں میں تیرتے ہوئے اور صحراؤں میں پڑے ہوئے ایک ذرے کو بھی فراموش کرتے ہیں۔ کوئی ایسا جان دار نہیں جس کو ہم رزق نہ پہنچاتے ہوں۔ ﴿ وَمَا مِن دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللّٰـهِ رِزْقُهَا وَيَعْلَمُ مُسْتَقَرَّهَا وَمُسْتَوْدَعَهَا ﴾ (ھو د:11؍6) ’’زمین میں چلنے والا کوئی ایسا جاندار نہیں جس کا رزق اللہ کے ذمہ نہ ہو اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ کہاں اس کا ٹھکانہ ہے اور کہاں اسے سونپا جانا ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے بہت کثرت سے اپنی تخلیق اور اپنے علم کو اکٹھا بیان کیا ہے، مثلاً فرمایا : ﴿ أَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ ﴾ (الملک : 67؍14) ’’کیا وہ نہیں جانتا جس نے پیدا کیا ہے، حالانکہ وہ پوشیدہ باتوں کو جاننے والا اور ہر چیز سے آگاہ ہے۔‘‘ نیز فرمایا : ﴿ بَلَىٰ وَهُوَ الْخَلَّاقُ الْعَلِيمُ ﴾ (یٰس : 36؍81) ’’کیوں نہیں ! جبکہ وہ پیدا کرنے والا اور علم رکھنے والا ہے۔‘‘ کیونکہ مخلوقات کی تخلیق، ان کے خالق کے علم اور حکمت پر سب سے بڑی عقلی دلیل ہے۔ المؤمنون
18 ﴿ وَأَنزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً ﴾ ’’اور اتارا ہم نے آسمان سے پانی‘‘ تاکہ تمہارے لئے اور تمہارے مویشیوں کے لئے بقدر کفایت رزق حاصل ہو۔ پس وہ اسے اتنا کم بھی نہیں کرتا کہ جس سے زمین اور درختوں کی ضرورت پوری نہ ہو اور مقصود حاصل نہ ہو اور نہ اسے اتنا زیادہ کرتا ہے کہ جس سے آبادیاں تلف ہوجائیں اور نباتات اور درخت اس کے ساتھ زندہ نہ رہیں بلکہ جب اس کو نازل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ اسے نازل کرتا ہے اور جب اس کے زیادہ برسنے سے نقصان کا خدشہ ہوتا ہے تو اسے روک دیتا ہے۔ ﴿ فَأَسْكَنَّاهُ فِي الْأَرْضِ ﴾ ’’پس ہم اس کو زمین میں ٹھہرا دیتے ہیں۔‘‘ یعنی ہم پانی کو زمین پر نازل کرتے ہیں اور وہ وہاں ٹھہر جاتا ہے اور اپنے نازل کرنے والے کی قدرت سے، ہر قسم کی نباتات اگاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے دور زیر زمین پانی کے خزانوں تک لے جا کر ٹھہراتا ہے حتی ٰ کہ کنواں کھودنے والا اس کی گہرائیوں تک پہنچنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ ﴿ وَإِنَّا عَلَىٰ ذَهَابٍ بِهِ لَقَادِرُونَ ﴾ ’’اور ہم اس کے لے جانے پر قادر ہیں۔‘‘ اس طرح کہ یا تو ہم اسے نازل ہی نہ کریں یا نازل تو کریں لیکن اسے اتنا گہرا لے جائیں کہ وہاں تک پہنچنا ممکن نہ ہو یا اس سے مقصد حاصل نہ ہو۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندوں کو تنبیہ ہے کہ وہ اس کی نعمت کا شکر ادا کریں اور اس کے معدوم ہونے پر اندازہ کریں کہ انہیں کیا نقصان پہنچ سکتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : ﴿ قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِنْ أَصْبَحَ مَاؤُكُمْ غَوْرًا فَمَن يَأْتِيكُم بِمَاءٍ مَّعِينٍ ﴾ )الملک :67؍30، کہہ دیجئے کہ کیا تم نے سوچا اگر تمہارا پانی گہرا چلا جائے یعنی خشک ہوجائے تو کون ہے جو تمہارے لئے پانی کا چشمہ بہا لائے۔ المؤمنون
19 ﴿ فَأَنشَأْنَا لَكُم ﴾ ’’پس ہم پیدا کرتے ہیں تمہارے لیے اس کے ساتھ ‘‘ یعنی اس پانی کے ذریعے (جنت) یعنی باغات ﴿ مِّن نَّخِيلٍ وَأَعْنَابٍ﴾ ’’ کھجور اور انگور کے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر ان دو قسموں کا ذکر کیا ہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے دوسرے درخت اور نباتات وغیرہ بھی پانی ہی سے پیدا کی ہیں کیونکہ یہ اپنی فضیلت اور منفعت کی بنا پر دیگر درختوں پر فوقیت رکھتے ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے اس ارشاد میں عام ذکر فرمایا۔ ﴿ لَّكُمْ فِيهَا ﴾ ’’تمہارے لیے ان (باغات) میں‘‘ ﴿ فَوَاكِهُ كَثِيرَةٌ وَمِنْهَا تَأْكُلُونَ ﴾ ’’بہت سے میوے ہوتے ہیں، انہی میں سے تم کھاتے ہو‘‘ یعنی زیتون، لیموں، انار اور سیب وغیرہ۔ المؤمنون
20 ﴿ وَشَجَرَةً تَخْرُجُ مِن طُورِ سَيْنَاءَ ﴾ اور وہ درخت جو طور سیناء (پہاڑ)سے نکلتا ہے۔ اور اس سے مراد زیتون کا درخت ہے یعنی جنس زیتون۔ خاص طور پر اس کا ذکر اس لئے کیا کیونکہ ارض شام میں اس کا خاص علاقہ ہے، نیز اس کے کچھ فوائد ہیں۔ ان میں سے بعض اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں مذکور ہیں۔ ﴿ تَنبُتُ بِالدُّهْنِ وَصِبْغٍ لِّلْآكِلِينَ ﴾ ’’اگاتا ہے وہ تیل اور سالن ہے کھانے والوں کے لیے۔‘‘ اس میں سے زیتون کا تیل نکلتا ہے جو کہ چکنائی ہے جسے روشنی کرنے اور کھانے کے لئے بکثرت استعمال کیا جاتا ہے یعنی اس کو کھانے کے لئے سالن بنایا جاتا ہے۔ اس میں اس کے علاوہ دیگر فوائد بھی ہیں۔ المؤمنون
21 ﴿ وَإِنَّ لَكُمْ فِي الْأَنْعَامِ لَعِبْرَةً ﴾ یعنی یہ تم پر اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے کہ اس نے تمہارے لئے مویشیوں، یعنی اونٹوں، گایوں اور بکریوں کو مسخر کیا۔ اس میں عبرت حاصل کرنے والوں کے لئے عبرت اور فائدہ اٹھانے والوں کے لئے فوائد ہیں۔ ﴿ نُّسْقِيكُم مِّمَّا فِي بُطُونِهَا﴾ ’’پلاتے ہیں ہم تمہیں اس سے جو ان کے پیٹوں میں ہے۔‘‘ یعنی دودھ، جو گوبر اور خون کے درمیان سے نکلتا ہے جو خالص اور پینے والوں کے لئے نہایت خوشگوار ہے۔ ﴿ وَلَكُمْ فِيهَا مَنَافِعُ كَثِيرَةٌ ﴾ یعنی ان کی پشم، اون اور بالوں میں تمہارے لئے بہت سے فائدے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے مویشیوں کے چمڑے سے تمہارے لئے خیمے بنائے جنہیں تم اپنے سفر اور پڑاؤ کے دوران (استعمال میں)بہت ہلکا پاتے ہو۔ ﴿ وَمِنْهَا تَأْكُلُونَ ﴾ یعنی تم ان کے گوشت اور چربی سے حاصل شدہ بہترین کھانے کھاتے ہو۔ المؤمنون
22 ﴿ وَعَلَيْهَا وَعَلَى الْفُلْكِ تُحْمَلُونَ ﴾ ’’اور ان پر اور کشتیوں پر تم سوار کرائے جاتے ہو۔‘‘ یعنی خشکی پر تم ایک شہر سے دوسرے شہر تک ان جانوروں پر اپنے بوجھ لاد کرلے جاتے ہو جہاں تم سخت مشقت کے بغیر نہیں پہنچ سکتے، اسی طرح سمندر میں تمہارے سفر کے لئے کشتیاں بنائیں جو تمہیں اور تمہارے سامان کو، خواہ تھوڑا ہو یا زیادہ اٹھائے پھرتی ہیں۔ پس وہ ہستی جس نے یہ تمام نعمتیں عطا کی ہیں، جس نے مختلف انواع کے احسانات کئے ہیں اور جس نے اپنی نوازشوں کی بارش کی، وہی کامل شکر، کامل حمد و ثناء اور عبودیت میں پوری کوشش کی مستحق ہے اور وہ اس چیز کی بھی مستحق ہے کہ اس کی نعمتوں سے اس کی نافرمانی پر مدد نہ لی جائے۔ المؤمنون
23 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندے اور رسول نوح علیہ السلام کا ذکر کرتا ہے حضرت نوح علیہ اسلام زمین پر پہلے رسول تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے ان کی قوم کی طرف مبعوث فرمایا۔ ان کی قوم کی حالت یہ تھی کہ وہ بتوں کی پوجا کرتی تھی۔ انہوں نے اپنی قوم کو حکم دیا کہ وہ اکیلے اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں، چنانچہ انہوں نے فرمایا : ﴿ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰـهَ ﴾’’اے میری قوم ! اللہ کی عبادت کرو۔‘‘ یعنی اس کے لئے عبادت کو خالص کرو کیونکہ اخلاص کے بغیر عبادت قابل قبول نہیں۔ ﴿ مَا لَكُم مِّنْ إِلَـٰهٍ غَيْرُهُ ﴾’’تمہارے لیے اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔‘‘ اس میں غیر اللہ کی الوہیت کا ابطال اور صرف اللہ تعالیٰ کی الوہیت کا اثبات ہے وہی خالق اور رزاق ہے اور غیر اللہ کے برعکس صرف وہی کامل کمال کا مالک ہے۔ ﴿ أَفَلَا تَتَّقُونَ ﴾ کیا تم استھانوں اور بتوں کی عبادت کرنے پر اللہ تعالیٰ سے ڈرتے نہیں، جن کو قوم کے صالح لوگوں کی شکل پر گھڑ لیا گیا تھا، اس طرح انہوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ ان کی بھی عبادت شروع کردی تھی۔ حضرت نوح علیہ اسلام نے ان کو کھلے چھپے، شب و روز، ساڑھے نو سو برس تک دعوت دی مگر ان کی سرکشی اور روگردانی میں اور اضافہ ہوگیا۔ المؤمنون
24 ﴿ فَقَالَ الْمَلَأُ ﴾ پس نوح علیہ السلام کی قوم کے اشراف اور سرداروں نے معارضہ اور مخالفت کے طور پر اور ان کے اتباع سے لوگوں کو ڈراتے ہوئے کہا : ﴿ مَا هَـٰذَا إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُرِيدُ أَن يَتَفَضَّلَ عَلَيْكُمْ ﴾ یعنی یہ محض تمہارے ہی جیسا آدمی ہے اور اس نے تم پر فضیلت حاصل کرنے کے لئے نبوت کا دعویٰ کیا ہے تاکہ وہ سردار اور پیشواء بن سکے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اس میں کون سی ایسی چیز ہے جس کی بناء پر اسے تم پر فضیلت حاصل ہو حالانکہ وہ تمہاری ہی جنس سے ہے؟ یہ معارضہ رسولوں کی تکذیب کرنے والوں میں ہمیشہ سے موجود رہا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کی زبان پر اس کا شافی جواب دیا ہے۔ جیسا کہ اللہ کے اس ارشاد میں ہے۔ ﴿ قَالُوا ﴾ یعنی کافروں نے اپنے رسولوں سے کہا : ﴿ إِنْ أَنتُمْ إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا تُرِيدُونَ أَن تَصُدُّونَا عَمَّا كَانَ يَعْبُدُ آبَاؤُنَا فَأْتُونَا بِسُلْطَانٍ مُّبِينٍقَالَتْ لَهُمْ رُسُلُهُمْ إِن نَّحْنُ إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ وَلَـٰكِنَّ اللّٰـهَ يَمُنُّ عَلَىٰ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ ﴾ (ابراہیم : 14؍10،11) ’’تم اس کے سوا کچھ نہیں کہ ہم جیسے ہی انسان ہو، تم ہمیں ان معبودوں کی عبادت سے روکنا چاہتے ہو جن کی عبادت ہمارے آباؤ اجداد کیا کرتے تھے۔ ہمارے پاس کوئی واضح دلیل لاؤ۔ رسولوں نے ان سے کہا ہم تمہارے ہی جیسے بشر ہیں مگر اللہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے، نوازتا ہے۔‘‘ پس رسولوں نے ان کو آگاہ فرمایا کہ یہ تو اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی عنایت ہے تم اللہ تعالیٰ پر پابندی لگا سکتے ہو نہ اس کے فضل کو ہم تک پہنچنے سے روک سکتے ہو۔ انہوں نے اپنے رسولوں سے یہ بھی کہا : ﴿ وَلَوْ شَاءَ اللّٰـهُ لَأَنزَلَ مَلَائِكَةً ﴾ ’’اور اگر اللہ چاہتا تو وہ فرشتے نازل کردیتا۔‘‘ یہ بھی ان کا مشیت الٰہی کے ساتھ معارضہ باطلہ ہے کیونکہ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو فرشتے نازل کرسکتا ہے مگر وہ نہایت مہربان اور بہت حکمت والا ہے۔ اس کی حکمت اور بے پایاں رحمت تقاضا کرتی ہے کہ رسول انسانوں ہی کی جنس میں سے ہو کیونکہ انسان فرشتوں سے مخاطب ہونے کی قدرت نہیں رکھتے، نیز اگر فرشتہ بھیجا جائے تو اس کا انسان ہی کی شکل میں آنا ممکن ہے۔ تب اشتباہ تو ان پر پھر بھی واقع ہوجائے گا جیسا کہ پہلے ہے۔ کفار کا قول تھا ﴿ مَّا سَمِعْنَا بِهَـٰذَا ﴾ یعنی رسول کے مبعوث ہونے کے بارے میں ہم نے نہیں سنا۔ ﴿ فِي آبَائِنَا الْأَوَّلِينَ ﴾ ’’اپنے باپ دادا کے زمانے میں۔‘‘ اور یہ کون سی دلیل ہے کہ انہوں نے اپنے آباؤ اجداد میں کسی رسول کے مبعوث ہونے کے بارے میں نہیں سنا؟ کیونکہ گزرے واقعات ان کے احاطہء علم میں نہیں، اس لئے وہ اپنی لا علمی اور جہالت کو دلیل نہ بنائیں۔ اور فرض کیا کہ اللہ تعالیٰ نے ان میں کسی کو رسول بنا کر نہیں بھیجا تو اس کی وجہ یا تو یہ ہوگی کہ وہ سب ہدایت پر ہوں گے تب اس صورت میں ان میں رسول بھیجنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں اور اگر وہ ہدایت پر نہ تھے تو انہیں اپنے رب کی حمد و ثناء اور اس کا شکر کرنا چاہیے کہ اس نے ان کو ایسی نعمت سے خصوصی طور پر نوازا ہے جو ان کے آباؤ اجداد کو عطا نہیں ہوئی اور نہ ان کو اس نعمت کا شعور تھا۔ دوسروں پر عدم احسان کو سبب بنا کر خود پر اللہ تعالیٰ کے احسان کی ناشکری نہ کریں۔ المؤمنون
25 کفار نے کہا : ﴿ إِنْ هُوَ إِلَّا رَجُلٌ بِهِ جِنَّةٌ ﴾ یعنی یہ تو مجنون ہے ﴿ فَتَرَبَّصُوا بِهِ ﴾ یعنی اس کے بارے میں انتظار کرو ﴿حَتَّىٰ حِينٍ﴾ یہاں تک کہ اس کو موت آجائے۔ یہ شبہات جو انہوں نے وارد کئے تھے درحقیقت یہ اپنے نبی سے ان کا معارضہ تھا جو ان کے کفر اور عناد کی شدت پر دلالت کرتا ہے نیز یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ انتہائی جہالت اور ضلالت میں مبتلا تھے۔ یہ شبہات کسی بھی لحاظ سے معارضے کی صلاحیت نہیں رکھتے جیسا کہ ہم گزشتہ سطور میں ذکر کرچکے ہیں بلکہ یہ شبہات فی نفسہ متناقض اور متعارض ہیں۔ پس ان کا یہ کہنا ﴿مَا هَـٰذَا إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُرِيدُ أَن يَتَفَضَّلَ عَلَيْكُمْ﴾ ثابت کرتا ہے کہ انہیں اس حقیقت کا اعتراف تھا کہ ان کا نبی عقل مند ہے جو ان کے خلاف چال چلتے ہوئے ان پر غلبہ حاصل کر کے ان پر سرداری کرے گا اور ایسی صورت حال میں ضرورت اس امر کی ہے کہ اس سے بچا جائے تاکہ اس سے دھوکہ نہ کھایا جا سکے۔ ان کا یہ مذکورہ قول ان کے اس دعوے کے ساتھ کیسے مناسبت رکھتا ہے۔ ﴿إِنْ هُوَ إِلَّا رَجُلٌ بِهِ جِنَّةٌ﴾ کیا یہ گمراہ شخص کا شبہ نہیں، جو اسی کے خلاف جاتا ہے؟ اس شخص کا مقصد دراصل یہ ہوتا ہے کہ جس طرح بھی ممکن ہو ان کی دعوت کو روکا جائے اور اسے علم نہیں ہوتا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس شخص کو رسوا کر کے رہتا ہے جو اس کے رسولوں سے عداوت رکھتا ہے۔ المؤمنون
26 جب نوح علیہ اسلام نے دیکھا کہ ان کی دعوت سوائے ان کے فرار کے انہیں کوئی فائدہ نہیں دے رہی تو ﴿قَالَ رَبِّ انصُرْنِي بِمَا كَذَّبُونِ﴾ ’’انہوں نے عرض کیا : اے میرے رب ! ان لوگوں نے جو مجھے جھٹلایا ہے اس پر تو ہی میری مدد فرما۔‘‘ حضرت نوح علیہ اسلام نے اپنی قوم سے ناراض ہو کر ان کے خلاف اللہ تعالیٰ سے نصرت کی درخواست کی تھی کیونکہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم کو ضائع کیا اور اس کے رسولوں کی تکذیب کی۔ حضرت نوح علیہ السلام نے کہا : ﴿قَالَ نُوحٌ رَّبِّ لَا تَذَرْ عَلَى الْأَرْضِ مِنَ الْكَافِرِينَ دَيَّارًا إِنَّكَ إِن تَذَرْهُمْ يُضِلُّوا عِبَادَكَ وَلَا يَلِدُوا إِلَّا فَاجِرًا كَفَّارًا ﴾ (نوح : 71؍26،27) ’’اے میرے رب ! تو کافروں میں کسی کو زمین پر بسا نہ رہنے دے۔ تو اگر ان کو چھوڑ دے گا تو یہ تیرے بندوں کو گمراہ کریں گے اور وہ جس اولاد کو جنم دیں گے وہ بھی فاجر اور کافر ہی ہوگی۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَلَقَدْ نَادَانَا نُوحٌ فَلَنِعْمَ الْمُجِيبُونَ﴾ (الصفت : 37؍75) ’’نوح نے ہم کو پکارا، پس ہم بہت اچھی طرح جواب دینے والے ہیں۔‘‘ المؤمنون
27 ﴿ فَأَوْحَيْنَا إِلَيْهِ ﴾ ہم نے حضرت نوح علیہ اسلام کی دعا قبول فرما کر، اس کی طرف وقوع عذاب سے قبل، ایک سبب اور وسیلہ نجات کے متعلق وحی کی۔ ﴿أَنِ اصْنَعِ الْفُلْكَ﴾ ’’یہ کہ کشتی تیار کر‘‘ ﴿ بِأَعْيُنِنَا وَوَحْيِنَا﴾ یعنی ہمارے حکم کے مطابق اور ہماری مدد سے، تو ہماری حفاظت اور نگرانی میں ہے ہم تجھ کو دیکھتے اور سنتے ہیں۔ ﴿فَإِذَا جَاءَ أَمْرُنَا ﴾ ’’پس جب ہمارا حکم آجائے‘‘جس کے ذریعے سے ان کو عذاب دیا گیا تھا۔ ﴿ وَفَارَ التَّنُّورُ ﴾ یعنی زمین سے پانی پھوٹ پڑے، چشمے بہہ نکلیں حتیٰ کہ آگ جلانے والی جگہوں سے بھی پانی نکلنے لگے جہاں سے عادت کے مطابق پانی کا نکلنا بہت بعید ہوتا ہے۔ ﴿فَاسْلُكْ فِيهَا مِن كُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ﴾ تو تمام حیوانات میں سے ہر جنس سے ایک نر اور مادہ، کشتی میں داخل کرلے تاکہ تمام حیوانات کی نسل باقی رہے جن کے وجود کو زمین میں باقی رکھنے کا حکمت ربانی تقاضا کرتی ہے۔ ﴿وَأَهْلَكَ﴾ یعنی اپنے گھر والوں کو بھی کشتی میں بٹھا لے۔ ﴿إِلَّا مَن سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ﴾ ’’سوائے اس کے جس کی بابت (ہمارا) قول گزر چکا۔‘‘ جیسے حضرت نوح علیہ السلام کا بیٹا۔ ﴿وَلَا تُخَاطِبْنِي فِي الَّذِينَ ظَلَمُوا﴾ یعنی مجھ سے یہ درخواست نہ کرنا کہ میں ان کو نجات دوں، کیونکہ قضاء و قدر کے مطابق حتمی فیصلہ ہوچکا ہے کہ انہیں غرق ہونا ہے۔ المؤمنون
28 ﴿فَإِذَا اسْتَوَيْتَ أَنتَ وَمَن مَّعَكَ عَلَى الْفُلْكِ﴾ یعنی جب تم لوگ کشتی پر سوار ہوجاؤ اور کشتی سر کش موجوں پر تیرنے لگے تو نجات اور سلامتی پر اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کرو۔ ﴿فَقُلِ الْحَمْدُ لِلَّـهِ الَّذِي نَجَّانَا مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ ﴾ ’’اور کہو ! تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے ہمیں ظالموں سے نجات دی۔‘‘ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت نوح علیہ السلام اور اس کے اصحاب کے لئے تعلیم تھی کہ وہ ظالم کے اعمال اور عذاب سے نجات پر اللہ تعالیٰ کے شکر اور اس کی ستائش کے طور پر یہ کلمات کہیں۔ المؤمنون
29 ﴿ وَقُل رَّبِّ أَنزِلْنِي مُنزَلًا مُّبَارَكًا وَأَنتَ خَيْرُ الْمُنزِلِينَ﴾ یعنی تمہیں ایک نعمت ابھی عطا ہونا باقی ہے، اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے دعا مانگو کہ وہ تمہیں بابرکت منزل میسر کرے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کی دعا سن لی اور فرمایا : ﴿وَقُضِيَ الْأَمْرُ وَاسْتَوَتْ عَلَى الْجُودِيِّ ۖ وَقِيلَ بُعْدًا لِّلْقَوْمِ الظَّالِمِينَ﴾ (ھود:11؍44)’’اور فیصلہ چکا دیا گیا اور کشتی جو دی پہاڑ پر جا ٹھہری اور کہہ دیا گیا لعنت ہے ظالموں پر۔‘‘ اور فرمایا : ﴿قِيلَ يَا نُوحُ اهْبِطْ بِسَلَامٍ مِّنَّا وَبَرَكَاتٍ عَلَيْكَ وَعَلَىٰ أُمَمٍ مِّمَّن مَّعَكَ ﴾ (ھو د:11؍48) ’’کہا گیا اے نوح ! اتر جا، سلامتی کے ساتھ ہماری طرف سے اور برکتیں ہوں تجھ پر اور ان گروہوں پر جو تیرے ساتھ ہیں۔‘‘ المؤمنون
30 ﴿إِنَّ فِي ذٰلِكَ﴾ بلا شبہ اس قصہ میں ﴿لآيَاتٍ﴾ ’’نشانیاں ہیں۔‘‘ جو دلالت کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی اکیلا معبود ہے اور اس کے رسول نوح علیہ السلام سچے ہیں اور ان کی قوم جھوٹی ہے، نیز دلالت کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اس کے بندوں پر سایہ کناں ہے کہ اس نے انہیں ان کے باپ حضرت نوح علیہ السلام کی صلب میں، کشتی پر سوار کر کے محفوظ کیا جبکہ روئے زمین پر بسنے والے تمام لوگ ڈوب گئے اور کشتی بھی اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَلَقَد تَّرَكْنَاهَا آيَةً فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍ﴾ (القمر : 54؍15) ’’ہم نے اس کشتی کو نشانی کے طور پر چھوڑ دیا۔ تو ہے کوئی نصیحت پکڑنے والا؟‘‘ اسی لئے اس کو یہاں جمع کیا ہے کیونکہ یہ متعدد آیات و مطالب پر دلالت کرتی ہے۔ ﴿وَإِن كُنَّا لَمُبْتَلِينَ﴾ ’’اور ہم آزمائش کر کے ہی رہتے ہیں۔‘‘ المؤمنون
31 نوح علیہ السلام اور ان کی قوم کا ذکر کرنے کے بعد کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو کیسے ہلاک کیا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ثُمَّ أَنشَأْنَا مِن بَعْدِهِمْ قَرْنًا آخَرِينَ ﴾ ،، پھر ان کے بعد ہم نے ایک دوسری امت پیدا کی۔ ،، بظاہر اس سے مراد ثمود، یعنی صالح علیہ السلام کی قوم ہے کیونکہ یہ قصہ ان کے قصہ سے مشابہت رکھتا ہے۔ المؤمنون
32 ﴿فَأَرْسَلْنَا فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْهُمْ ﴾ ’’پس ان کے اندر انہی میں سے (یعنی انہی کی جنس سے) ایک رسول مبعوث ک‘‘ جس کے حسب و نسب اور صداقت کے بارے میں انہیں پورا علم تھا۔۔۔ تاکہ وہ اطاعت کرنے میں جلدی کریں اور رسول ان کی کراہت اور نفرت سے بہت دور ہو۔ اس رسول نے بھی ان کو اسی چیز کی طرف دعوت دی جس کی طرف اس سے پہلے رسول اپنی قوموں کو دعوت دیتے چلے آرہے تھے۔ ﴿ أَنِ اعْبُدُوا اللّٰـهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَـٰهٍ غَيْرُهُ﴾ ’’کہ اللہ کی عبادت کرو تمہارے لیے اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔‘‘ پس تمام انبیاء و مرسلین اس دعوت پر متفق تھے۔ یہ اولین دعوت تھی جس کی طرف تمام رسولوں نے اپنی قوموں کو بلایا، یعنی اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حکم دینا، اس حقیقت سے آگاہ کرنا کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی عبادت کا مستحق ہے، غیر اللہ کی عبادت سے روکنا اور غیر اللہ کی عبادت کے بطلان اور فساد سے آگاہ کرنا ہے۔ بنابریں فرمایا : ﴿ أَفَلَا تَتَّقُونَ﴾ ” کیا تم اپنے رب سے ڈرتے نہیں؟“ کہ تم خود ساختہ معبودوں اور بتوں سے اجتناب کرو۔ المؤمنون
33 ﴿وَقَالَ الْمَلَأُ مِن قَوْمِهِ الَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِلِقَاءِ الْآخِرَةِ وَأَتْرَفْنَاهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا﴾ یعنی ان کے روساء نے جن میں کفرو عناد، زندگی بعد موت اور جزا و سزا کا انکار جمع تھے اور ان کو دنیاوی زندگی کی خوش حالی نے سرکش بنا دیا تھا ’ اپنے نبی کے ساتھ معارضہ کرتے اس کو جھٹلاتے اور لوگوں کو اس سے ڈراتے ہوئے کہا ﴿ مَا هَـٰذَا إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ﴾ ” نہیں ہے یہ مگر انسان تم جیسا ہی۔“ یعنی تمہاری جنس میں سے ﴿يَأْكُلُ مِمَّا تَأْكُلُونَ مِنْهُ وَيَشْرَبُ مِمَّا تَشْرَبُونَ﴾ ” وہی کچھ کھاتا پیٹا ہے جو تم کھاتے پیتے ہو۔“ پس اسے کس چیز میں تم پر فضیلت حاصل ہے ؟ وہ فرشتہ کیوں نہیں کہ وہ کھانا کھاتا نہ پانی پیتا۔ المؤمنون
34 ﴿وَلَئِنْ أَطَعْتُم بَشَرًا مِّثْلَكُمْ إِنَّكُمْ إِذًا لَّخَاسِرُونَ﴾ یعنی اگر تم نے اپنے جیسے انسان کی اتباع کی اور اس کو اپنا سردار بنا لیا تو تمہاری عقل ماری گئی اور تم اپنے اس فعل پر ندامت اٹھاؤ گے۔ یہ بڑی ہی عجیب بات ہے، کیونکہ حقیقی ندامت تو اس شخص کے لیے ہے جو رسول کی اتباع اور اطاعت نہیں کرتا۔ یہ اس شخص کی سب سے بڑی جہالت اور سفاہت ہے جو تکبر کے باعث ایسے انسان کی اطاعت نہ کرے، جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی وحی سے مختص کر کے اپنی رسالت کے ذریعے سے فضیلت بخشی، اور شجر و حجر کی عبادت میں مبتلا ہوجائے۔ اس کی نظیر کفار کا یہ قول ہے ﴿ فَقَالُوا أَبَشَرًا مِّنَّا وَاحِدًا نَّتَّبِعُهُ إِنَّا إِذًا لَّفِي ضَلَالٍ وَسُعُرٍ أَأُلْقِيَ الذِّكْرُ عَلَيْهِ مِن بَيْنِنَا بَلْ هُوَ كَذَّابٌ أَشِرٌ﴾ (القمر : 54؍25،24 )” بھلا ہم ایک آدمی کی پیروی کریں جو ہم ہی میں سے ہے، تب تو ہم سخت گمراہی اور دیوانگی میں پڑگئے۔ کیا ہم سب میں سے صرف اسی پر وحی نازل کی گئی، نہیں ! بلکہ وہ تو سخت جھوٹا اور متکبر ہے۔ “ المؤمنون
35 چونکہ انہوں نے رسول کی رسالت کا انکار کر کے اسے رد کردیا تھا، اس لیے انہوں نے زندگی بعد موت اور اعمال کی جزا و سزا کا بھی انکار کردیا، چنائچہ انہوں نے کہا: ﴿ أَيَعِدُكُمْ أَنَّكُمْ إِذَا مِتُّمْ وَكُنتُمْ تُرَابًا وَعِظَامًا أَنَّكُم مُّخْرَجُونَ هَيْهَاتَ هَيْهَاتَ لِمَا تُوعَدُونَ﴾ یعنی تمہارے ریزہ ریزہ ہو کر، مٹی اور ہڈیاں بن کر بکھر جانے کے بعد تمہارے دوبارہ زندہ کئے جانے کا جو وعدہ یہ رسول تمہارے ساتھ کرتا ہے وہ بہت بعید ہے۔ پس انہوں نے انتہائی کو تاہ بینی کا ثبوت دیا اور انہوں نے اپنی طاقت اور قدرت کے مطابق اسے ناممکن سمجھا اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کی قدرت کو اپنی قدرت پر قیاس کیا، حالانکہ اللہ تعالیٰ اس سے بلند تر ہے۔ پس انہوں نے اللہ تعالیٰ کے مردوں کو زندہ کرنے پر قادر ہونے کا انکار کیا، انہوں نے اللہ تعالیٰ کو عاجز اور بے بس ٹھہرایا اور خود اپنی پہلی پیدائش کو بھول گئے حالانکہ وہ ہستی جو ان کو عدم سے وجود میں لائی ہے، اس کے لیے ان کے مرنے اور بوسیدہ ہوجانے کے بعد، دوبارہ پیدا کرنا آسان تر ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے لیے دونوں بار پیدا کرنا نہایت آسان ہے۔ پس وہ اپنی پہلی تخلیق کا اور محسوس چیزوں کا انکار کیوں نہیں کرتے، نیز وہ کیوں نہیں کہتے کہ ہم ہمیشہ سے موجود ہیں تاکہ ان کے لیے انکار قیامت آسان ہوتا اور ان کے پاس خالق عظیم کے وجود کے اثبات کے خلاف حجت ہوتی۔ یہاں ایک اور دلیل بھی ہے۔۔۔۔ وہ ہستی جو زمین کو اس کے مردہ ہوجانے کے بعد دوبارہ زندہ کرتی ہے وہی ہستی مردوں کو دوبارہ زندگی عطا کرے گی بلاشبہ وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور دلیل بھی ہے جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے زندگی بعد الموت کے منکرین کو جواب دیا ہے۔ چنانچہ فرمایا: ﴿ بَلْ عَجِبُوا أَن جَاءَهُم مُّنذِرٌ مِّنْهُمْ فَقَالَ الْكَافِرُونَ هَـٰذَا شَيْءٌ عَجِيبٌ أَإِذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا ذَٰلِكَ رَجْعٌ بَعِيدٌ﴾ (ق: 50؍2، 3) ان لوگوں کو تعجب ہوا کہ ان کے پاس، انہیں میں سے ایک ڈرانے والا آیا، تو کافروں نے کہا۔ یہ تو بڑی ہی عجیب بات ہے کیا جب ہم مر کر مًٹی ہوجائیں گے۔ ( تو پھر زندہ ہوں گے؟) یہ زندگی تو بہت ہی بعید بات ہے۔“ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس قول کا جواب دیتے ہوئے فرمایا: ﴿قَدْ عَلِمْنَا مَا تَنقُصُ الْأَرْضُ مِنْهُمْ وَعِندَنَا كِتَابٌ حَفِيظٌ﴾ (ق 50؍4) ” ان کے اجساد کو زمین کھا کھا کر کم کرتی جاتی ہے ہمیں اس کا علم ہے اور ہمارے پاس محفوظ رکھنے والی ایک کتاب موجود ہے۔ “ المؤمنون
36 المؤمنون
37 ﴿إِنْ هِيَ إِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوتُ وَنَحْيَا ﴾ ’’بس یہ دنیا کی زندگی ہے ہم مرتے اور جیتے رہتے ہیں۔“ یعنی کچھ لوگ مر جاتے ہیں اور کچھ لوگ زندہ رہتے ہیں ﴿ وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوثِينَ﴾ ” اور ہمارے مرنے کے بعد ہمیں دوبارہ زندہ کر کے نہیں اٹھایا جائے گا۔ “ المؤمنون
38 المؤمنون
39 پس جب ان کا کفر بہت بڑھ گیا اور انذار نے ان کو کوئی فائدہ نہ دیا۔ تو ان کے نبی نے ان کے لیے بددعا کی، اس نے کہا : ﴿ رَبِّ انصُرْنِي بِمَا كَذَّبُونِ ﴾ ’’اے میرے رب ! میری مدد فرما بسبب اس کے جو انہوں نے مجھے جھٹلایا۔“ ان کو ہلاک کر کے اور آخرت سے پہلے دنیا میں ان کو رسوا کر کے۔ المؤمنون
40 اس آیت کی تفسیر اگلی آیت کے ساتھ ملاحظہ کیجئے۔ المؤمنون
41 ﴿  قَالَ﴾ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی دعا قبول کرتے ہوئے فرمایا : ﴿عَمَّا قَلِيلٍ لَّيُصْبِحُنَّ نَادِمِينَ فَأَخَذَتْهُمُ الصَّيْحَةُ بِالْحَقِّ﴾ ” بہت ہی جلد یہ اپنے کیے پر پچھتانے لگیں گے، پس ان کو چیخ نے پکڑ لیا حق ( عدل) کے ساتھ۔“ یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کو ظلم وجور سے نہیں پکڑا بلکہ اس کی پکڑ ان کے ظلم اور اس کے عدل کی وجہ سے ہوئی، چنانچہ ایک زبر دست چنگھاڑ نے ان کو آلیا ﴿ فَجَعَلْنَاهُمْ غُثَاءً﴾ یعنی ہم نے ان کو خشک بھوسہ بنا کر رکھ دیا ایسے لگتا تھا جیسے کوڑے کرکٹ کو سیلاب نے وادی کے کناروں پر پھینک دیا ہو، ایک اور آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿إِنَّا أَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ صَيْحَةً وَاحِدَةً فَكَانُوا كَهَشِيمِ الْمُحْتَظِرِ ﴾ )القمر:31؍54)” ہم نے ان پر عذاب کے لیے ایک زبردست چیخ بھیجی اور وہ ایسے ہوگئے جسے ٹوٹی ہوئی باڑ“ اور فرمایا : ﴿ فَبُعْدًا لِّلْقَوْمِ الظَّالِمِينَ﴾ ” پس دوری ہے ظالم لوگوں کے لیے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ کے عذاب کے ساتھ، اس کی رحمت سے محرومی، اس کی لعنت اور جہانوں کی مذمت بھی ان کے حصے میں آئی ﴿فَمَا بَكَتْ عَلَيْهِمُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ وَمَا كَانُوا مُنظَرِينَ ﴾ (الدخان :44؍29)” پس ان پر آسمان رویا نہ زمین اور نہ ان کو مہلت دی گئی۔“ المؤمنون
42 یعنی ان جھٹلانے والے معاندین حق کے بعد ہم نے دوسری قومیں پیدا کیں، ہر قوم وقت مقرر اور مدت معین کے لیے برپا کی گئی، اس سے ایک لمحہ کے لیے آگے پیچھے نہیں ہوسکتی۔ پھر ان میں پے درپے رسول بھیجے، شاید کہ وہ ایمان لے آئیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کریں۔ مگر کفر اور تکذیب نافرمان، کافر اور باغی قوموں کا وتیرہ بنا رہا۔ کسی قوم کے پاس جب بھی ان کا رسول آتا، وہ اس کو جھٹلاتے رہے، حالانکہ وہ ان کے پاس ایسی ایسی نشانیاں لے کر آتا جو انسان کے بس سے باہر تھیں بلکہ ان رسولوں کی مجرد دعوت اور شریعت ہی اس چیز کی حقانیت پر دلالت کرتی تھی جو وہ لے کر آتے رہے۔ المؤمنون
43 المؤمنون
44 ﴿ فَأَتْبَعْنَا بَعْضَهُم بَعْضًا﴾ “ پس پیچھے لگایا ہم نے بعض کو بعض کے۔“ ہلاک کرنے میں، یعنی یکے بعد دیگرے سب کو ہلاک کردیا۔ پس ان میں سے کوئی قوم باقی نہ رہی اور ان کے بعد ان کے گھر اجڑگئے ﴿ وَجَعَلْنَاهُمْ أَحَادِيثَ﴾ ” اور ہم نے ان کو قصے کہانیاں بنا کر رکھ دیا“ جن کو بیان کیا جاتا، جو اہل تقویٰ کے لیے عبرت مکذبین کے لیے عقوبت اور خود ان کے لیے عذاب اور رسوائی ہے۔ ﴿فَبُعْدًا لِّقَوْمٍ لَّا يُؤْمِنُونَ﴾ ” پس دوری ہے اس قوم کے لیے جو ایمان نہیں لاتی۔“ کتنے بد بخت ہیں وہ اور ان کی تجارت کس قدر خسارے کی تجارت ہے۔ المؤمنون
45 بہت عرصے کی بات ہے، کسی اہل علم کا قول میری نظر سے گزرا ہے، جن کا نام اس وقت مجھے یاد نہیں۔۔۔۔ کہ موسیٰ علیہ السلام کی بعثت اور تورات کے نزول کے بعد اللہ تعالیٰ نے قوموں پر سے عذاب کو اٹھایالیا، یعنی وہ عذاب جو ان کا جڑ سے خاتمہ کردیتا تھا اور اس کی جگہ اللہ تعالیٰ نے مکذبین و معاندین حق کے خلاف جہاد مشروع کیا۔ معلوم نہیں انہوں نے یہ رائے کہاں سے اخذ کی ہے لیکن جب میں نے ان آیات کو سورۃ القصص کی آیات کے ساتھ ملا کر غور کیا تو میرے سامنے اس کا سبب واضح ہوگیا کہ ان آیات کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے پے درپے ہلاک ہونے والی قوموں کا ذکر فرمایا پھر آگاہ فرمایا کہ اس نے ان قوموں کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام کو رسول بنا کر بھیجا ان پر تورات نازل فرمائی جس میں لوگوں کے لیے راہنمائی تھی اور فرعون کی ہلاکت سے اس نقطہ نظر کی تردید نہیں ہوتی کیونکہ فرعون نزول تورات سے پہلے ہلاک ہوگیا تھا۔ رہی سورۃ القصص کی آیات، تو وہ نہایت واضح ہیں کیونکہ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے فرعون کی ہلاکت کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا : ﴿ وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ مِن بَعْدِ مَا أَهْلَكْنَا الْقُرُونَ الْأُولَىٰ بَصَائِرَ لِلنَّاسِ وَهُدًى وَرَحْمَةً لَّعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ﴾ (القصص :28؍43)” پچھلی قوموں کو ہلاک کردینے کے بعد ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب سے نوازا، لوگوں کے لیے بصیرت، ہدایت اور رحمت بنا کر تاکہ شاید وہ نصیحت پکڑیں۔‘‘ اس آیت کریمہ میں صراحت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان باغی اور سرکش قوموں کی ہلاکت کے بعد موسیٰ علیہ السلام کو تورات عطا فرمائی اور آگاہ فرمایا کہ یہ کتاب لوگوں کے لیے بصیرت، ہدایت اور رحمت کے طور پر نازل کی گئی ہے۔ شاید وہ آیات بھی اسی پر دلالت کرتی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے سورۃ یونس میں ذکر فرمایا ہے : ﴿ثُمَّ بَعَثْنَا مِن بَعْدِهِ رُسُلًا إِلَىٰ قَوْمِهِمْ فَجَاءُوهُم بِالْبَيِّنَاتِ فَمَا كَانُوا لِيُؤْمِنُوا بِمَا كَذَّبُوا بِهِ مِن قَبْلُ ۚ كَذٰلِكَ نَطْبَعُ عَلَىٰ قُلُوبِ الْمُعْتَدِينَ - ثُمَّ بَعَثْنَا مِن بَعْدِهِم مُّوسَىٰ وَهَارُونَ﴾ (یونس : 10؍74، 75)” پھر نوح کے بعد ہم نے دیگر رسولوں کو ان کی قوموں کی طرف بھیجا وہ ان کے پاس واضح نشانیاں لے کر آئے مگر جس کو انہوں نے پہلے جھٹلا دیا تھا وہ اب بھی اس پر ایمان نہ لائے ہم اسی طرح حد سے گزر جانے والوں کے دلوں پر مہر لگا دیتے ہیں، پھر ان کے بعد ہم نے موسیٰ(بن عمران، کلیم اللہ) کو بھیجا“ ﴿ وَأَخَاهُ هَارُونَ﴾ ’’اور ( ان کے ساتھ)ان کے بھائی ہارون کو‘‘ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دعا کی کہ حضرت ہارون کو نبوت کے معاملے میں ان کے ساتھ شریک کیا جائے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا قبول فرمالی۔ ﴿بِآيَاتِنَا ﴾ ” اپنی نشانیوں کے ساتھ۔“ جو ان کی صداقت اور ان کی دعوت کی صحت پر دلالت کرتی تھیں ﴿ وَسُلْطَانٍ مُّبِينٍ﴾ “ اور واضح برہان کے ساتھ۔“ ان دلائل میں ایسی قوت تھی کہ وہ دلوں پر غالب آجاتے اور اپنی قوت کی بنا پر دلوں میں گھر کرلیتے اور اہل ایمان کے دل ان کو مان لیتے اور معاندین حق کے خلاف حجت قائم ہوجاتی۔ اور یہ آیت کریمہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے مانند ہے﴿ وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَىٰ تِسْعَ آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ﴾ (بنی اسرائیل :17؍101) ” اور بلاشبہ ہم نے موسیٰ کو نوکھلی کھلی نشانیاں عطا کیں۔“ اس لیے معاندین حق کے سردار فرعون نے ان کو پہچان لیا لیکن عناد کا راستہ اختیار کیا۔ ﴿فَاسْأَلْ بَنِي إِسْرَائِيلَ إِذْ جَاءَهُمْ﴾ “آپ بنی اسرائیل سے پوچھ لیجیے ! جب موسیٰ یہ نشانیاں لے کر ان کے پاس آئے“ ﴿فَقَالَ﴾ تو فرعون نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا ﴿ إِنِّي لَأَظُنُّكَ يَا مُوسَىٰ مَسْحُورًا﴾ ( بنی اسرائیل : 17؍101)” اے موسیٰ ! میں تو تجھے سحر زدہ خیال کرتا ہوں۔“ ﴿ قَالَ لَقَدْ عَلِمْتَ مَا أَنزَلَ هَـٰؤُلَاءِ إِلَّا رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ بَصَائِرَ وَإِنِّي لَأَظُنُّكَ يَا فِرْعَوْنُ مَثْبُورًا ﴾ ( بنی اسرائیل:17؍101)” موسیٰ نے کہا : تو جانتا ہے کہ یہ بصیرت افروز نشانیاں اللہ کے سوا کسی نے نازل نہیں کیں۔ اے فرعون ! میں سمجھتا ہوں کہ تو ضرور ہلاک ہونے والا ہے۔“ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَجَحَدُوا بِهَا وَاسْتَيْقَنَتْهَا أَنفُسُهُمْ ظُلْمًا وَعُلُوًّا ﴾ (النمل :27؍14) ’’انہوں نے محض ظلم اور تکبر کی بنا پر ان نشانیوں کو جھٹلایا حالانکہ ان کے دلوں نے ان کو مان لیا تھا۔ “ یہاں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ ثُمَّ أَرْسَلْنَا مُوسَىٰ وَأَخَاهُ هَارُونَ بِآيَاتِنَا وَسُلْطَانٍ مُّبِينٍ إِلَىٰ فِرْعَوْنَ وَمَلَئِهِ ﴾ ” پھر ہم نے بھیجا موسیٰ اور ان کے بھائی ہارون کو اپنی نشانیوں اور واضح برہان کے ساتھ، فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف۔“ مثلاً ہامان اور دیگر سرداران قوم۔ المؤمنون
46 ﴿ فَاسْتَكْبَرُوا ﴾ پس تکبر کی بنا پر وہ اللہ تعالیٰ پر ایمان نہ لائے اور اس کے انبیاء کے ساتھ تکبر سے پیش آئے۔ ﴿ وَكَانُوا قَوْمًا عَالِينَ﴾ ’’اور تھے وہ سرکش لوگ۔“ یعنی ان کا وصف غلبہ، قہر اور فساد فی الارض تھا اس لیے ان سے تکبر صادر ہوا اور اسے وہ کوئی بری بات نہیں سمجھتے تھے۔ المؤمنون
47 ﴿فَقَالُوا ﴾ انہوں نے تکبر اور غرور سے ضعیف العقل لوگوں کو ڈراتے اور فریب کاری کرتے ہوئے کہا : ﴿ أَنُؤْمِنُ لِبَشَرَيْنِ مِثْلِنَا﴾ ” کیا ہم اپنے جیسے دو انسانوں پر ایمان لے آئیں؟“ جیسا کہ ان سے پہلے لوگ بھی ایسے ہی کہا کرتے تھے چونکہ کفر میں ان کے دل ایک دوسرے سے مشابہت رکھتے تھے۔ اس لیے ان کے اقوال و افعال بھی ایک دوسرے کے مشابہ تھے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے رسالت کے ذریعے سے ان پر جو عنایت کی انہوں نے اسے جھٹلایا دیا ﴿وَقَوْمُهُمَا﴾ ’’اور ان دونوں کی قوم“ یعنی بنی اسرائیل ﴿ لَنَا عَابِدُونَ﴾ ” ہماری غلام ہے۔“ یعنی وہ پر مشقت کام سر انجام دینے کے لیے ہمارے مطیع ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَإِذْ نَجَّيْنَاكُم مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَسُومُونَكُمْ سُوءَ الْعَذَابِ يُذَبِّحُونَ أَبْنَاءَكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِسَاءَكُمْ وَفِي ذَٰلِكُم بَلَاءٌ مِّن رَّبِّكُمْ عَظِيمٌ ﴾( البقرة : 2؍49)” یاد کرو وہ وقت جب ہم نے تمہیں آل فرعون سے نجات دی وہ تمہیں بہت عذاب دیتے تھے۔ تمہارے بیٹوں کو ذبح کر ڈالتے تھے اور تمہاری بیٹیوں کو زندہ رکھتے تھے۔ اس میں تمہارے رب کی طرف سے بہت بڑی آزمائش تھی۔“ پس ہم ان کے متبوع ( پیشوا) ہوتے ہوئے ان کے تابع کیسے بن سکتے ہیں؟ اور یہ ہم پر سردار کیسے ہوسکتے ہیں؟ ان کے قول کی نظیر نوح علیہ السلام کی قوم کا یہ قول ہے ﴿ أَنُؤْمِنُ لَكَ وَاتَّبَعَكَ الْأَرْذَلُونَ ﴾ ( الشعراء:26؍111)” کیا ہم تجھے مان لیں حالانکہ تیری پیروی تو رذیل لوگوں نے کی ہے۔“ ﴿ وَمَا نَرَاكَ اتَّبَعَكَ إِلَّا الَّذِينَ هُمْ أَرَاذِلُنَا بَادِيَ الرَّأْيِ﴾ ( ھود:11؍27) ’’ہم دیکھ رہے ہیں کہ صرف انہیں لوگوں نے تیری پیروی کی ہے جو ہماری قوم میں رذیل اور چھچھورے تصور کئے جاتے ہیں۔“ المؤمنون
48 اور یہ بات واضح ہے کہ حق کو رد کرنے کے لیے یہ بات درست نہیں ہے اور ظاہر ہے کہ یہ تکذیب اور عناد ہے، اس لیے فرمایا ﴿فَكَذَّبُوهُمَا فَكَانُوا مِنَ الْمُهْلَكِينَ ﴾ ” پس انہوں نے ان دونوں کو جھٹلایا اور وہ بھی ہلاک شدہ لوگوں میں ہوگئے۔“ یعنی بنی اسرائیل کے آنکھوں دیکھتے سمندر میں ڈوب کر ہلاک ہوگئے۔ المؤمنون
49 ﴿وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ﴾ ” اور دی ہم نے موسیٰ کو کتاب۔“ جب اللہ تعالیٰ نے فرعون کو ہلاک کر کے اسرائیلی قوم کو موسیٰ علیہ السلام کی معیت میں نجات بخشی تب موسیٰ علیہ السلام کو قوت اور طاقت حاصل ہوئی کہ وہ اللہ تعالیٰ کے دین کو قائم اور اس کے شعائر کو غالب کریں تو اللہ تعالیٰ نے آپ سے وعدہ فرمایا کہ وہ آپ پر چالیس دن میں تورات نازل کرے گا۔ موسیٰ علیہ السلام اپنے رب کے مقرر کردہ وقت پر پہنچ گئے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَكَتَبْنَا لَهُ فِي الْأَلْوَاحِ مِن كُلِّ شَيْءٍ مَّوْعِظَةً وَتَفْصِيلًا لِّكُلِّ شَيْءٍ﴾ (الاعراف :7؍145) ” اور ہم نے ہر چیز کے متعلق نصیحت اور ہر چیز کی تفصیل اس کے لیے تختیوں پر لکھ دی“ بنا بریں یہاں فرمایا : ﴿ لَعَلَّهُمْ يَهْتَدُونَ﴾ ” تاکہ وہ ہدایت پائیں۔“ یعنی امرو نہی اور ثواب و عقاب کی تفاصیل کی معرفت حاصل کر کے شاید راہ راست پر گامزن ہوجائیں اور اپنے رب کے اسماء و صفات کی بھی معرفت حاصل کریں۔ المؤمنون
50 ﴿وَجَعَلْنَا ابْنَ مَرْيَمَ وَأُمَّهُ آيَةً﴾ یعنی ہم نے عیسیٰ بن مریم علیہ السلام پر احسان کیا، ان کو اور ان کی والدہ کو انتہائی تعجب انگیز نشان بنا دیا کیونکہ حضرت مریم علیہا السلام نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بغیر باپ کے اپنے پیٹ میں رکھا اور پھر آپ کو جنم دیا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے گہوارے میں کلام کیا اور اللہ تعالیٰ نے آپ کے ہاتھ پر بڑے بڑے معجزات دکھائے۔ ﴿ وَآوَيْنَاهُمَا إِلَىٰ رَبْوَةٍ ﴾ یعنی ہم نے ان دونوں کو ایک بلند مقام پر پناہ دی اور یہ اس وقت کی بات ہے۔۔۔ واللہ اعلم۔۔۔۔ جب حضرت جناب مریم علیہا السلام نے عیسیٰ علیہ السلام کو جنم دیا۔ ﴿ ذَاتِ قَرَارٍ﴾ یعنی آرام دہ ٹھکانا ﴿ وَمَعِينٍ﴾ یعنی جاری چشمے کا پانی اور اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے: ﴿ قَدْ جَعَلَ رَبُّكِ تَحْتَكِ ﴾ ” کردی ہے تیرے رب نے تیرے نیچے“ یعنی اس جگہ سے بہت نیچے جہاں حضرت مریم علیہا السلام نے پناہ لی تھی اور یہ اس لیے کہا گیا کیونکہ آپ بلند جگہ پر تھیں۔ ﴿سَرِيًّا ﴾ یعنی ندی اور وہ چشمے کا بہتا ہوا پانی ہے۔ ﴿ وَهُزِّي إِلَيْكِ بِجِذْعِ النَّخْلَةِ تُسَاقِطْ عَلَيْكِ رُطَبًا جَنِيًّافَكُلِي وَاشْرَبِي وَقَرِّي عَيْنًا﴾ ( مریم : 19؍24۔26)’’تو کھجور کے تنے کو ہلا تجھ پر تازہ کھجوریں گریں گی۔ کھا، پی اور اپنی آنکھوں کو ٹھنڈا کر۔ المؤمنون
51 ﴿ يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا إِنِّي بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ ﴾ ” اے رسولو ! پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو، بے شک میں تمہارے عملوں کو خوب جانتا ہوں۔“ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے انبیاء و رسل کو حکم ہے کہ وہ پاک اور حلال رزق کھائیں اور اعمال صالحہ کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لائیں یہ اعمال صالحہ قلب و بدن اور دنیا و آخرت کی اصلاح کرتے ہیں، نیز اللہ تعالیٰ نے ان کو خبر دار کیا ہے کہ وہ ان کے اعمال سے آگاہ ہے ان کا ہر عمل اور ان کی ہر کوشش اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو ان اعمال کی کامل ترین اور افضل ترین جزا دے گا۔ پس یہ آیت اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ تمام انبیاء و مرسلین کھانے پینے کی تمام پاک چیزوں کی اباحت اور ناپاک چیزوں کی تحریم پر متفق ہیں نیز وہ تمام اعمال صالحہ پر بھی متفق ہیں۔ اگرچہ بعض مامورات کی جنس میں تنوع اور بعض شرائع میں اختلاف ہے تاہم ہر شریعت اعمال صالحہ پر مشتمل ہے۔ البتہ زمانے کے تفاوت کی بنا پر متفاوت ہیں، اس لیے وہ تمام اعمال صالحہ جو ہر زمانے میں صلاح کے حامل تھے ان پر تمام انبیاء اور شریعتیں متفق ہیں مثلاً توحید الہٰی، دین میں اخلاص، محبت الہٰی، خوف الٰہی، اللہ پر امید، نیکی، صدق، ایفائے عہد، صلہ رحمی، والدین کے ساتھ حسن لوک، کمزوروں، مسکینوں اور یتیموں کی دستگیری اور تمام مخلوق کے ساتھ مہربانی کا رویہ جیسے احکام۔ اس لیے تمام اہل علم، کتب سابقہ اور عقل سلیم کے مالک محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت پر، آپ کے مامورات اور منہیات کی جنس کے ذریعے سے استدلال کرتے ہیں۔ جیسا کہ ہر قل نے استدلال کیا تھا کیونکہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان امور کا حکم دیتے ہیں جن کا حکم آپ سے پہلے گزرے ہوئے انبیائے کرام دیتے رہے ہیں اور آپ ان چیزوں سے روکتے ہیں جن سے گزشتہ انبیائے کرام روکتے رہے ہیں تو یہ چیز اس بات کی دلیل ہے کہ یہ بھی انبیا ئے کرام کی جنس سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس کے برعکس ایک کذاب برائی کا حکم دے گا اور بھلائی سے روکے گا۔ المؤمنون
52 بنا بریں انبیائے کرام سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَإِنَّ هَـٰذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً﴾ اے رسولوں کے گروہ تمہاری جماعت ایک دین پر متفق ہے اور تمہارا رب بھی ایک ہے ﴿ فَاتَّقُونِ﴾ ” پس تم مجھ سے ڈرو“ میرے احکام کی تعمیل کر کے اور میرے زجرو توبیخ کے موجب امور سے اجتناب کر کے۔ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو انہیں امور کا حکم دیا جن کا حکم اپنے رسولوں کو دیا کیونکہ اہل ایمان انبیاء و رسل کی پیروی کرتے ہیں اور انہیں کے راستے پر گامزن ہیں، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا آیت ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِن طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ وَاشْكُرُوا لِلَّـهِ إِن كُنتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ ﴾(البقرة:2؍172)” اے اہل ایمان ! جو پاک چیزیں ہم نے تمہیں عطا کی ہیں، انہیں کھاؤ اور اللہ کا شکر ادا کرو اگر تم صرف اسی کی عبادت کرتے ہو۔“ پس انبیائے کرام سے نسبت رکھنے والوں اور دیگر لوگوں پر واجب ہے کہ وہ اس حکم کی تعمیل کریں۔ المؤمنون
53 بایں ہمہ جھٹلانے والے ظالم، نافرمان ہی رہے اس لیے فرمایا : ﴿فَتَقَطَّعُوا ﴾ ” پس کاٹ دیا۔“ یعنی انبیاء و رسل کی اتباع کا دعویٰ کرنے والوں نے ﴿ أَمْرَهُم﴾ یعنی اپنے دین کو ﴿  بَيْنَهُمْ زُبُرًا﴾ ” آپس میں ٹکڑے ٹکڑے کر کے“ ﴿ كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ﴾ ” ہر گر وہ اس پر جو اس کے پاس ہے۔“ یعنی ہر گر وہ اور فرقے کے پاس جو علم اور دین ہے ﴿فَرِحُونَ ﴾ وہ اسی پر خوش ہے اور سمجھتا ہے کہ وہ حق پر ہے اور دیگر لوگ حق پر نہیں ہیں حالانکہ ان میں سے حق پر صرف وہی لوگ ہیں جو انبیاء کے راستے پر گامزن ہیں، پاک چیزیں کھاتے ہیں اور نیک عمل کرتے ہیں۔ ان کے سوا دیگر لوگ تو وہ باطل کی راہوں میں سرگرداں ہیں۔ المؤمنون
54 ﴿فَذَرْهُمْ فِي غَمْرَتِهِمْ﴾ ” پس چھوڑ دیجیے آپ ان کو ان کی غفلت ہی میں۔ ” یعنی انہیں حق کے بارے میں ان کی جہالت اور ان کے دعوؤں میں، کہ وہ حق پر ہیں، غلطاں چھوڑ دیجیے ﴿ حَتَّىٰ حِينٍ﴾ یعنی اس وقت تک جب تک کہ ان پر عذاب نازل نہیں ہوجاتا کیونکہ ان کو کوئی وعظ و نصیحت اور زجرو توبیخ فائدہ نہیں دے سکتی۔ یہ چیزیں انہیں فائدہ دے بھی کیسے سکتی ہیں جبکہ وہ اس زعم میں مبتلا ہوں کہ وہ حق پر ہیں اور اپنے اس مسلک کی طرف دوسروں کو دعوت دینے کے متمنی ہوں۔ المؤمنون
55 ﴿أَيَحْسَبُونَ أَنَّمَا نُمِدُّهُم بِهِ مِن مَّالٍ وَبَنِينَ نُسَارِعُ لَهُمْ فِي الْخَيْرَاتِ﴾ یعنی کیا وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے مال اور اولاد میں ہماری طرف سے اضافہ، اس امر کی دلیل ہے کہ وہ بھلائی اور سعادت سے بہرہ مند ہیں اور دنیا اور آخرت کی بھلائی انہیں کے لیے ہے ؟ یہ ان کا اپنا زعم باطل ہے حالانکہ معاملہ ایسے نہیں ہے۔ المؤمنون
56 ﴿ بَل لَّا يَشْعُرُونَ ﴾ ” بلکہ وہ نہیں سمجھتے۔“ کہ ہم ان کو ڈھیل اور مہلت دیے جا رہے ہیں اور ان کو نعمتوں سے نواز رہے ہیں وہ اس لیے کہ تاکہ وہ اپنے گناہوں میں اور اضافہ کرلیں اور آخرت میں اپنے عذاب کو بڑھالیں اور دنیا میں میں ان کو جو نعمتیں عطا ہوئیں ہیں انہیں سے مزے لیتے رہیں۔ ﴿ حَتَّىٰ إِذَا فَرِحُوا بِمَا أُوتُوا أَخَذْنَاهُم بَغْتَةً﴾ (الانعام : 6؍44) ’’حتیٰ کہ جو کچھ ان کو عطا کیا گیا تھا‘ اس سے بہت خوش ہوگئے‘ تو ہم نے ان کو اچانک پکڑ لیا“ المؤمنون
57 اللہ تبارک و تعالیٰ نے جب ان لوگوں کا ذکر فرمایا جنہوں نے برائی اور امن کو جمع کیا اور سمجھتے رہے کہ دنیا میں ان پر اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کا ذکر بھی فرمایا جنہوں نے بھلائی اور خوف کو یکجا کیا‘ چنانچہ فرمایا : ﴿ إِنَّ الَّذِينَ هُم مِّنْ خَشْيَةِ رَبِّهِم مُّشْفِقُونَ﴾ ” بے شک جو لوگ اپنے رب کی ہیبت سے ڈرتے ہیں۔“ یعنی ان کے دل اپنے رب کے خوف سے لرزاں ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ نے عدل کیا تو ان کے پاس کوئی نیکی باقی نہیں رہے گی اور انہیں اپنے بارے میں سوء ظن ہے کہ انہوں نے اللہ کے حق کو ادا نہیں کیا اور ایمان کے زوال کا خوف رہتا ہے، انہیں اپنے رب کے بارے میں معرفت حاصل ہے کہ وہ کس اجلال و اکرام کا مستحق ہے ان کا یہ خوف انہیں گناہوں اور واجبات میں کوتاہی سے باز رکھتا ہے۔ المؤمنون
58 ﴿وَالَّذِينَ هُم بِآيَاتِ رَبِّهِمْ يُؤْمِنُونَ﴾ ” اور وہ جو اپنے رب کی آیات پر ایمان رکھتے ہیں۔“ یعنی جب ان کے سامنے اللہ تعالیٰ کی آیات کی تلاوت کی جاتی ہے تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے، نیز وہ آیات قرآنی میں تفکر و تدبر کرتے ہیں تو ان پر قرآن عظیم کی جلالت شان، اس کی آیات و مضامین میں اتفاق اور ان میں عدم اختلاف اور عدم تناقض واضح ہوتا ہے اور وہ ان کو اللہ تعالیٰ اس کے خوف، اس سے امید اور احوال جزا و سزا کی معرفت کی طرف دعوت دیتا ہے جس سے ان کو ایمان کی تفاصیل حاصل ہوتی ہیں۔ زبان جن کی تعبیر کرنے سے قاصر ہے۔ نیز وہ آیات آفاقی میں بھی غورو فکر کرتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَآيَاتٍ لِّأُولِي الْأَلْبَابِ ﴾ ( اٰل عمران : 3؍190)”بے شک آسمانوں اور زمین کی تخلیق، دن اور رات کے آنے جانے میں عقل مندوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ “ المؤمنون
59 ﴿ وَالَّذِينَ هُم بِرَبِّهِمْ لَا يُشْرِكُونَ﴾ ” اور وہ جو اپنے رب کے ساتھ شرک نہیں کرتے۔“ یعنی وہ کسی شرک جلی میں مبتلا نہیں ہیں مثلاً غیر اللہ کو معبود بنانا اس کو پکارنا اور اس سے امیدیں رکھنا اور نہ شرک خفی میں مبتلا ہیں، مثلاً ریاء وغیرہ بلکہ وہ اپنے تمام اقوال، اعمال اور احوال میں اللہ تعالیٰ کے لیے اخلاص رکھتے ہیں۔ المؤمنون
60 ﴿وَالَّذِينَ يُؤْتُونَ مَا آتَوا ﴾ ” اور وہ لوگ جو دیتے ہیں جو کچھ بھی دیتے ہیں۔“ یعنی جس چیز کا انہیں حکم دیا گیا ہے مقدور بھر اس کی تعمیل کرتے ہیں، مثلاً نماز، زکوٰۃ، حج، صدقہ وغیرہ ﴿وَّ﴾ اس کے باوجود ﴿ قُلُوبُهُمْ وَجِلَةٌ ﴾ ” اس کے دل خوف زدہ ہیں۔“ ﴿أَنَّهُمْ إِلَىٰ رَبِّهِمْ رَاجِعُونَ﴾ ” اس بات سے کہ وہ اپنے رب کی طرف لوٹنے والے ہیں۔“ یعنی اپنے رب کے سامنے حاضر ہونے اور اپنے اعمال کے اس کے سامنے پیش کئے جانے سے ڈرتے ہیں کہ ان کے اعمال اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نجات دلانے کے قابل نہیں کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ ان کا رب کیسا اور کس قسم کی عبادات کا مستحق ہے۔ المؤمنون
61 ﴿أُولَـٰئِكَ يُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ﴾ ” یہی لوگ ہیں جو جلدی کرتے ہیں بھلائیوں میں۔“ یعنی وہ بھلائی کے کاموں کی طرف جلدی سے لپکتے ہیں ان کا عزم صرف اسی چیز پر مرتکز ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے قریب کرتی ہے اور ان کا ارادہ انہیں امور میں مصروف ہوتا ہے جو انہیں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نجات دیتے ہیں۔ ہر بھلائی جو وہ سنتے ہیں یا اس کی جب بھی انہیں فرصت ملتی ہے، اٹھ کر اس کی طرف لپکتے ہیں وہ اولیاء اللہ، اس کے چنیدہ بندوں کو اپنے آگے اور دائیں بائیں دیکھتے ہیں جو بھلائی کے کاموں میں لپکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے تقرب کے لیے سبقت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مسابقت کرنے والا جب کسی دوسرے سے مسابقت کرتا ہے تو کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ وہ اپنی جدوجہد اور کوشش سے آگے نکل جاتا ہے اور کبھی اپنی کوتاہی کی بنا پر پیچھے رہ جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں خبر دی ہے کہ یہ سبقت کرنے والے ہیں، چنانچہ فرمایا : ﴿وَهُمْ لَهَا ﴾ ” اور وہ اس کے لیے۔“ یعنی بھلائیوں کے لیے ﴿ سَابِقُونَ ﴾ ” دوڑتے ہیں۔“ بلاشبہ وہ بھلائی کی چوٹی پر پہنچ گئے ہیں۔ وہ سب سے آگے نکلنے والے سے مسابقت کرتے ہیں، نیز اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے لیے سعادت لکھ دی گئی کہ وہ سبقت کرنے والے ہیں۔ المؤمنون
62 جب اللہ تعالیٰ نے نیکیوں میں ان کی سرعت اور سبقت کا ذکر کیا تو اس سے کسی کو یہ وہم لاحق ہوسکتا تھا کہ ان سے اور دیگر لوگوں سے ایسے امور مطلوب ہیں جو ان کی مقدرت سے باہر یا بہت مشکل ہیں، بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَلَا نُكَلِّفُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ﴾ یعنی ہم ہر نفس کو بس اتنی ہی تکلیف دیتے ہیں جتنی اس کی قوت کے دائرے میں ہوتی ہے اور وہ تکلیف ایسی نہیں ہوتی جو اس کی پوری قوت کو صرف کر دے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور حکمت ہے تاکہ اس کے پاس پہنچنے کا راستہ ہو اور اہل سلوک کی راہیں ہر وقت آباد رہیں۔ ﴿ وَلَدَيْنَا كِتَابٌ يَنطِقُ بِالْحَقِّ﴾’’اور ہمارے پاس کتاب ہے جو حق کے ساتھ بولتی ہے۔“ اور وہ کتاب اول ہے جس میں ہر چیز درج ہے اور چونکہ جو کچھ اس میں درج ہے ہر چیز اس کے مطابق واقع ہوگی، اس لیے یہ حق ہے﴿وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ ﴾ ”اور وہ ظلم نہیں کیے جائیں گے۔“ یعنی ان کی نیکیوں میں کچھ کمی کی جائے گی نہ ان کی سزا اور گناہوں میں کوئی اضافہ ہوگا۔ المؤمنون
63 اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ یہ جھٹلانے والے، اس بارے میں جہالت میں مبتلا ہیں یعنی جہالت، ظلم، غفلت اور روگردانی میں غلطاں ہیں یہ جہالت اور غفلت انہیں قرآن تک نہیں پہنچنے دیتی۔ پس یہ قرآن سے راہنمائی حاصل کرنے سے قاصر ہیں اور قرآن سے ان کے دلوں تک کچھ نہیں پہنچتا۔ فرمایا : ﴿وَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ جَعَلْنَا بَيْنَكَ وَبَيْنَ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ حِجَابًا مَّسْتُورًا وَجَعَلْنَا عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ أَكِنَّةً أَن يَفْقَهُوهُ وَفِي آذَانِهِمْ وَقْرًا ﴾ )بنی اسرائیل :17؍45، 46) ” جب آپ قرآن پڑھتے ہیں تو آپ کے درمیان اور ان لوگوں کے درمیان جو آخرت پر ایمان نہیں لاتے ہم ایک پردہ حائل کردیتے ہیں اور دلوں پر غلاف چڑھا دیتے ہیں کہ وہ کچھ نہ سمجھیں اور ان کے کانوں میں گرانی ڈال دیتے ہیں۔“ اور جب ان کے دل غفلت اور جہالت میں مستغرق ہیں تو وہ اپنے حسب حال کفریہ اور شریعت کے خلاف اعمال بجا لائیں گے جو ان کے لیے عذاب کے موجب ہیں۔ ﴿ وَلَهُمْ أَعْمَالٌ مِّن دُونِ ذَٰلِكَ ﴾ مگر ان کے علاوہ بھی ان کے برے اعمال ہیں ﴿هُمْ لَهَا عَامِلُونَ ﴾ ” جنہیں وہ کرنے والے ہیں۔“ یعنی وہ عذاب کے عدم وقوع پر تعجب نہ کریں کیونکہ اللہ تعالیٰ انہیں مہلت فراہم کر رہا ہے تاکہ وہ ان اعمال بد کا ارتکاب بھی کرلیں جو باقی رہ گئے ہیں اور جو ان کے لیے درج کئے گئے ہیں۔ جب وہ ان اعمال بد کا پوری طرح ارتکاب کرلیں گے تو وہ بدترین حالت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے غضب اور غذاب میں منتقل ہوں گے۔ گویا پوچھا گیا کہ وہ کون سا سبب ہے جس نے ان کو اس حال پر پہنچایا تو جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ قَدْ كَانَتْ آيَاتِي تُتْلَىٰ عَلَيْكُمْ ﴾ ”میری آیات پڑھی جاتی تھیں تم پر۔“ تاکہ تم ان آیات پر ایمان لاؤ اور ان کی طرف توجہ کرو مگر تم نے ایسا نہ کیا بلکہ اس کے برعکس ﴿فَكُنتُمْ عَلَىٰ أَعْقَابِكُمْ تَنكِصُونَ ﴾ ” تم پیچھے کی طرف الٹے پاؤں پھرتے رہے کیونکہ قرآن کی اتباع کے ذریعے سے لوگ آگے بڑھتے ہیں اور اس سے روگردانی کر کے پیچھے رہ جاتے ہیں اور پست ترین مقام پر جا اترتے ہیں۔ المؤمنون
64 ﴿حَتَّىٰ إِذَا أَخَذْنَا مُتْرَفِيهِم﴾ یعنی جب ہم نے ان لوگوں کو پکڑ لیا جو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے متمتع ہیں جو صرف ناز و نعمت اور خوشحالی کے عادی ہیں اور انہیں کبھی کوئی تکلیف نہیں پہنچی۔ ﴿ بِالْعَذَابِ ﴾ ” عذاب کے ساتھ“ یعنی جب ہم نے ان کو عذاب کی گرفت میں لے لیا اور انہیں نے بھی عذاب کو دیکھ لیا۔ ﴿إِذَا هُمْ يَجْأَرُونَ﴾ تب وہ چیخنے اور چلانے لگے کیونکہ انہیں ایک ایسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا جو ان کی گزشتہ حالت سے مختلف تھی۔ المؤمنون
65 وہ مدد کے لیے پکارنے لگے تو ان سے کہا گیا ﴿ لَا تَجْأَرُوا الْيَوْمَإِنَّكُم مِّنَّا لَا تُنصَرُونَ ﴾ ” نہ چیخو چلاؤ آج، تم ہماری طرف سے مدد نہیں کیے جاؤ گے۔“ اور جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے نصرت نہ آئی اور اس کی جانب سے مدد منقطع ہوگئی تو وہ خود اپنی مدد کرنے پر قادر ہوئے نہ کوئی ان کی مدد کرسکا۔ المؤمنون
66 المؤمنون
67 ﴿ مُسْتَكْبِرِينَ بِهِ سَامِرًا تَهْجُرُونَ ﴾ ” تکبر کرتے ہوئے ساتھ اس کے افسانہ گوئی کرتے ہوئے تم بیہودہ بکتے تھے۔“ اصحاب تفسیر اس کا یہ معنی بیان کرتے ہیں کہ ﴿ مُسْتَكْبِرِينَ بِهِ ﴾ میں ضمیر بیت اللہ یا حرم کی طرف لوٹتی ہے، جو مخاطبین کے ہاں معبود (ذہن میں موجود) ہے یعنی تم حرم یا بیت اللہ کے سبب سے لوگوں کے ساتھ تکبر سے پیش آتے تھے۔ اور کہتے تھے کہ ہم اہل حرم ہیں بنا بریں ہم دوسروں سے اعلیٰ و افضل ہیں۔ ﴿ سَامِرًا ﴾ یعنی جماعت کی صورت میں رات کے وقت بیت اللہ کے گرد بیٹھ کر باتیں کرتے ﴿ تَهْجُرُونَ ﴾ یعنی تم اس قرآن عظیم کے بارے میں قبیح گفتگو کرتے تھے۔ پس قرآن کریم کے بارے میں اہل تکذیب کا طریقہ روگردانی پر مبنی تھا اور اسی طریقے کی وہ ایک دوسرے کو صیت کیا کرتے تھے۔﴿ وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَا تَسْمَعُوا لِهَـٰذَا الْقُرْآنِ وَالْغَوْا فِيهِ لَعَلَّكُمْ تَغْلِبُونَ ﴾ (حمٓ السجدۃ :41؍26)” وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا کہتے ہیں کہ اس قرآن کو مت سنو، جب سنایا جائے تو شور مچا دیا کرو شاید کہ تم غالب رہو“ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کے بارے میں فرمایا : ﴿ أَفَمِنْ هَـٰذَا الْحَدِيثِ تَعْجَبُونَ وَتَضْحَكُونَ وَلَا تَبْكُونَ وَأَنتُمْ سَامِدُونَ﴾ (النجم:53؍59۔60) ”کیاتم اس کلام کے بارے میں تعجب کرتے ہو،ہنستےہواور روتے نہیں ہوا اورتم غفلت میں پڑے ہوئے ہو۔“اور فرمایا: ﴿ أَمْ يَقُولُونَ تَقَوَّلَهُ ﴾ (الطور : 52؍33)” کیا کفار یہ کہتے ہیں کہ اپ نے یہ قرآن خود گھڑا لیا ہے ؟ “ وہ ان رذائل کے جامع تھے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ان پر عذاب واجب ہوگیا اور جب یہ عذاب واقع ہوگیا تو ان کا کوئی حامی بنا جو ان کی مدد کرسکے نہ فریاددرس بنا ہوگا جو ان کو اس عذاب سے بچا سکے اس وقت ان کے اعمال بد کی بنا پر ان کی زجزو توبیخ کی گئی۔ المؤمنون
68 ﴿ أَفَلَمْ يَدَّبَّرُوا الْقَوْلَ ﴾ ” کیا انہوں نے قرآن میں غورو فکر اور تدبر نہیں کیا ؟“ اگر انہوں نے قرآن میں تدبر کیا ہوتا تو وہ ان کے ایمان کا موجب اور ان کو کفر منع کرنے کا باعث بنتا، مگر ان پر جو مصیبت نازل ہوئی ہے اس کا سبب ان کا قرآن سے اعراض ہے اور یہ آیت اس امر کی دلیل ہے کہ قران میں تدبر و تفکر ہر بھلائی کی طرف دعوت دیتا ہے اور ہر برائی سے بچاتا ہے اور جس چیز نے ان کو قرآن میں غورو فکر کرنے سے روک رکھا ہے وہ یہ ہے کہ ان کے دلوں پر تالے پڑے ہوئے ہیں۔ ﴿ أَمْ جَاءَهُم مَّا لَمْ يَأْتِ آبَاءَهُمُ الْأَوَّلِينَ ﴾ یعنی یا اس بات نے ان کو ایمان لانے سے روک رکھا ہے کہ ان کے پاس رسول آیا اور ایک ایسی کتاب ان کے پاس آئی جو ان کے اباء و اجداد کے پاس نہیں آئی تھی لہذا یہ اپنے گمارہ آباء و اجداد کی راہ پر چلنے پر راضی ہوگئے۔ جو چیز اس راہ کے خلاف تھی انہوں نے اس کی مخالفت کی لہٰذا انہوں نے اور ان جیسے دوسرے کفار نے یہی کہا تھا جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے۔ ﴿ وَكَذٰلِكَ مَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ فِي قَرْيَةٍ مِّن نَّذِيرٍ إِلَّا قَالَ مُتْرَفُوهَا إِنَّا وَجَدْنَا آبَاءَنَا عَلَىٰ أُمَّةٍ وَإِنَّا عَلَىٰ آثَارِهِم مُّقْتَدُونَ ﴾ (الزخرف :43؍23)” اسی طرح آپ سے پہلے جس بستی میں بھی ہم نے کوئی ڈرانے والا بھیجا تو اس کے خوشحال لوگوں نے کہا ہم نے اپنے آباء واجداد کو ایک طریقے پر پایا ہے ہم تو انہیں کی پیروی کر رہے ہیں۔“ اور ان کے جواب میں ہر رسول نے فرمایا : ﴿ أَوَلَوْ جِئْتُكُم بِأَهْدَىٰ مِمَّا وَجَدتُّمْ عَلَيْهِ آبَاءَكُمْ ﴾ (الزخرف :43؍24) ” کیا تم اسی طریقے پر چلتے چلے جاؤ گے خواہ میں تمہیں اس راستے سے بہتر راستہ بتاؤں جس پر تم نے آباء واجداد کو پیا ہے“ اگر تمہارا مقصد حق جوئی ہے تو کیا تم اس کی پیروی کرو گے؟ اور انہوں نے اپنی نیتوں کے مطابق جواب دیا : ﴿ إِنَّا بِمَا أُرْسِلْتُم بِهِ كَافِرُونَ ﴾ (الزخرف:43؍24)” بلاشبہ تمہیں جس چیز کے ساتھ بھیجا گیا ہے ہم اس کا انکار کرتے ہیں۔ “ المؤمنون
69 اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ أَمْ لَمْ يَعْرِفُوا رَسُولَهُمْ فَهُمْ لَهُ مُنكِرُونَ ﴾ ” یا کیا انہوں نے اپنے رسول کو نہیں پہچانا کہ وہ اس کا انکار کر رہے ہیں۔“ یعنی کیا اس چیز نے انہیں اتباع حق سے روک رکھا ہے کہ ان کے رسول محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے ہاں غیر معروف ہیں اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نہیں پہچانتے، اس لیے ان کو ماننے سے انکار کر رہے ہیں؟ اور وہ کہتے ہیں کہ ہم اس کو نہیں جانتے نہ اس کی صداقت کے بارے میں ہمیں کچھ علم ہے۔ ہمیں چھوڑ دو ہم اس کے احوال کے بارے میں غور کریں اس کے متعلق لوگوں سے معلومات حاصل کریں۔ نہیں ! ایسی بات نہیں ہے بلکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اچھی طرح جانتے ہیں، اس لیے ان کو ماننے سے انکار کر رہے ہیں؟ اور وہ کہتے ہیں کہ ہم اس کو نہیں جانتے نہ اس کی صداقت کے بارے میں ہمیں کچھ علم ہے۔ ہمیں چھوڑ دو ہم اس کے احوال کے بارے میں غور کریں اس کے متعلق لوگوں سے معلومات حاصل کریں۔ نہیں ! ایسی بات نہیں ہے بلکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ آپ کو ان کا چھوٹا اور بڑا ہر شخص جانتا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ آپ اخلاق جمیلہ کے حامل ہیں وہ آپ کے صدق و امانت کو خوب پہچانتے ہیں حتیٰ کہ وہ آپ کو بعثت سے قبل ” الامین“ کے نام سے پکارا کرتے تھے۔ جب آپ ان کے پاس حق عظیم اور صدق مبین لے کر آئے تب انہوں نے آپ کی تصدیق کیوں نہ کی ؟ المؤمنون
70 ﴿ أَمْ يَقُولُونَ بِهِ جِنَّةٌ ﴾ ” یا وہ کہتے ہیں کہ اسے جنون لاحق ہے“ اس لیے وہ ایسی باتیں کر رہا ہے اور مجنون کی باتوں پر کان دھرا جاتا ہے نہ اس کی باتوں کا اتبار ہی کیا جاتا ہے کیونکہ وہ باطل اور احمقانہ باتیں منہ سے نکالتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کی بات کا جواب دیتے ہوئے فرمایا : ﴿ بَلْ جَاءَهُم بِالْحَقِّ ﴾ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے پاس حق ( امر ثابت) لے کر آئے ہیں جو سراسر صدق و عدل پر مبنی ہے جس میں کوئی اختلاف ہے نہ تناقض۔ تب وہ شخص جو یہ چیز لے کر آیا ہو وہ کیسے پاگل ہے ؟۔۔۔۔ بلکہ وہ تو علم و فعل اور مکارم اخلاق کے اعتبار سے درجہ کمال پر فائز ہے۔ اس میں گزشتہ مضمون سے انتقال ہے یعنی بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ان کو ایمان لانے سے صرف اس چیز نے منع کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ﴿ بَلْ جَاءَهُم بِالْحَقِّ وَأَكْثَرُهُمْ لِلْحَقِّ كَارِهُونَ ﴾ ” ان کے پاس حق لے کر آئے ہیں لیکن ان کی اکثریت حق کو ناپسند کرنے والی ہے۔“ اور سب سے بڑا حق جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے پاس لے کر آئے ہیں، اکیلے اللہ تعالیٰ کی عبادت میں اخلاص اور غیر اللہ کی عبادت کو ترک کرنا ہے اور ان کا اس بات کو ناپسند کرنا اور اس سے تعجب کرنا معلوم ہے۔ پس رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حق لے کر آنا اور ان کا حق کو ناپسند کرنا دراصل حق کی تکذیب کرنا ہے۔ یہ کسی شک کی بنا پر ہے نہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تکذیب کی وجہ سے، بلکہ یہ انکار حق ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿ فَإِنَّهُمْ لَا يُكَذِّبُونَكَ وَلَـٰكِنَّ الظَّالِمِينَ بِآيَاتِ اللّٰـهِ يَجْحَدُونَ ﴾ (الانعام :2؍33)” یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نہیں جھٹلا رہے، بلکہ ظالم اللہ تعالیٰ کی آیتوں کا انکار کر رہے ہیں۔ “ المؤمنون
71 اگر یہ کہا جائے کہ حق ان کی خواہشات نفس کے موافق کیوں نہیں تاکہ وہ ایمان لے آتے اور جلدی سے حق کی اطاعت کرتے تو اللہ تعالیٰ نے اس کا یوں جواب عطا فرمایا : ﴿ وَلَوِ اتَّبَعَ الْحَقُّ أَهْوَاءَهُمْ لَفَسَدَتِ السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ ﴾ ” اگر حق (دین) ہی ان کی خواہشات کی پیروی کرنے لگ جائے تو آسمانوں اور زمین کا سارا نظام ہی درہم برہم ہوجائے۔“ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی خواہشات نفس، ظلم، کفر اور فساد پر مبنی اخلاق و اعمال سے متعلق ہوتی ہیں۔ پس اگر حق ان کی خواہشات کی پیروی کرنے لگے تو آسمان و زمین ظلم اور عدل عدم عدل کی بنا پر درست ہیں۔ ﴿ بَلْ أَتَيْنَاهُم بِذِكْرِهِمْ ﴾ ” یعنی ہم ان کے پاس یہ قرآن لے کر آئے جو ان کو ہر قسم کی بھلائی کی نصیحت کرتا ہے۔‘‘ یہ ان کا فخرو شرف ہے۔ اگر وہ اس کو قائم کریں گے تو لوگوں کی سیادت کریں گے۔ ﴿ فَهُمْ عَن ذِكْرِهِم مُّعْرِضُونَ ﴾ ” وہ اپنے ذکر ( نصیحت) سے روگردانی کر رہے ہیں“ اپنی بدبختی اور عدم توفیق کی وجہ سے ﴿ نَسُوا اللّٰـهَ فَنَسِيَهُمْ ﴾ (التوبۃ :9؍67)” انہوں نے اللہ کو بھلا دیا اور اللہ نے ان کو اپنے تئیں بھلوا دیا“ پس قرآن عظیم اور اس کو لانے والی ہستی سب سے بڑی نعمت ہے جو اللہ تعالیٰ نے ان کو عطا کی ہے مگر انہوں نے اس عظیم نعمت کو ٹھکرا دیا اور اس سے روگردانی کی کیا اس ایمان سے محرومی کے بعد اس سے بڑی کوئی حرماں نصیبی ہے ؟ اور کیا اس کے پیچھے انتہائی درجے کا خسارہ نہیں ؟ المؤمنون
72 ﴿ أَمْ تَسْأَلُهُمْ خَرْجًا ﴾ اے محمد ! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا ان کو آپ کی اتباع سے اس چیز نے روکا ہے کہ آپ ان سے اس کام پر کوئی اجرت طلب کرتے ہیں؟ ﴿ أَمْ تَسْأَلُهُمْ أَجْرًا فَهُم مِّن مَّغْرَمٍ مُّثْقَلُونَ ﴾ (الطور:52؍40) ” کہ ان پر تاوان کا بوجھ پڑ رہا ہے“ اور اس طرح آپ کی اطاعت سے ان کو تکلیف پہنچتی ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان سے اجرت اور خراج طلب کرتے ہیں؟ معاملہ یوں نہیں بلکہ ﴿ فَخَرَاجُ رَبِّكَ خَيْرٌ وَهُوَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ ﴾ ” آپ کے رب کی اجرت بہت بہتر ہے اور وہ بہترین روزی رساں ہے۔“ یہ اسی طرح کا قول ہے جس طرح انبیائے کرام علیہم السلام نے اپنی اپنی قوم سے فرمایا: ﴿ يَا قَوْمِ لَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا ﴾ (ھود :11؍51)” اے میری قوم میں اس پر تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا‘‘﴿إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللّٰـهِ ﴾ (ھود :11؍29) ” میرا صلہ تو اللہ کے پاس ہے۔“ یعنی انبیائے کرام علیہم السلام کی طرف سے لوگوں کو دعوت دینے میں یہ لالچ نہیں ہوتا کہ انہیں لوگوں کی طرف سے مال و دولت حاصل ہوگا۔ وہ تو صرف خیر خواہی اور ان کے اپنے فائدے کی خاطر ان کو دعوت دیتے ہیں بلکہ انبیاء و مرسلین مخلوق کے لیے، خود ان سے بھی زیادہ خیر خواہ ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ ان کو ان کی امتوں کی طرف سے جزائے خیر عطا کرے اور تمام احوال میں ہمیں بھی ان کی اقتداء سے بہرہ مند کرے۔ المؤمنون
73 اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان آیات کریمہ میں ان تمام اسباب کا ذکر کیا ہے جو ایمان کے موجب ہیں اسی طرح تمام موانع ایمان کا ذکر کیا ہے اور فرداً فرداً ان کے فساد کو واضح کیا ہے۔ پس موانع ایمان کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ منکرین حق کے دل غفلت اور جہالت میں ڈوبے ہوئے ہیں، انہوں نے قرآن میں غورو فکر نہیں کیا، وہ اپنے آباء واجداد کی تقلید پر جمے ہوئے ہیں اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ انہیں جنون لاحق ہے جیسا کہ گزشتہ صفحات میں اس کا ذکر ہوچکا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے ان امور کا بھی ذکر کیا، جو موجب ایمان ہیں اور وہ ہیں قرآن میں تدبر کرنا، اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کو قبول کرنا، رسول مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احوال اور آپ کے کمال صدق و امانت کی معرفت حاصل کرنا، نیز یہ کہ آپ ان سے کسی قسم کے اجرو صلہ کے طلب گار نہیں آپ کی کوشش تو صرف لوگوں کے فائدے اور مصالح کے لیے ہے اور جس راستے کی طرف آپ لوگوں کو دعوت دیتے ہیں وہ سیدھا راستہ ہے۔ سیدھا ہونے کی بنا پر تمام لوگوں کے لیے نہایت آسان اور منزل مقصود تک پہنچانے کے لیے قریب ترین راستہ ہے۔ نرمی اور آسانی پر مبنی دین حنیف ہے، یعنی توحید میں حنیفیت اور اعمال میں آسانی۔ المؤمنون
74 پس آپ کا ان کو صراط مستقیم کی طرف دعوت دینا اس شخص کے لیے جو حق کا ارادہ رکھتا ہے، اس بات کا موجب ہے کہ وہ آپ کی اتباع کرے کیونکہ یہ ایسا راستہ ہے جس کے اچھا اور انسانی مصالح کے موافق ہونے کی شہادت عقل صحیح اور فطرت سلیم بھی دیتی ہے۔۔۔۔ اگر وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع نہیں کرتے تو کہاں جائیں گے کیونکہ ان کے پاس کوئی ایسی چیز نہیں جس کو اختیار کر کے آپ کی اتباع سے مستغنی ہوجائیں کیونکہ ﴿ عَنِ الصِّرَاطِ لَنَاكِبُونَ ﴾ وہ صراط مستقیم سے، جو اللہ تعالیٰ اور اس کے اکرام و تکریم کے گھر تک پہنچاتا ہے، انحراف کرنے والے ہیں ان کے پاس ضلالت و جہالت کے سوا کچھ نہیں۔ یہی معاملہ ہر اس شخص کا ہے جو حق کی مخالفت کرتا ہے وہ لازمی طور پر تمام معاملات میں راہ راست سے منحرف ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿ فَإِن لَّمْ يَسْتَجِيبُوا لَكَ فَاعْلَمْ أَنَّمَا يَتَّبِعُونَ أَهْوَاءَهُمْ ۚ وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَوَاهُ بِغَيْرِ هُدًى مِّنَ اللّٰـهِ﴾ (القصص : 28؍50)” اور اب اگر وہ آپ کی بات نہیں مانتے۔ تو سمجھ لیجیے کہ وہ اپنی خواہشات نفس کی پیروی کر رہے ہیں اور اس شخص سے بڑھ کر کون گمراہ ہوسکتا ہے جو اللہ کی طرف سے کسی ہدایت کے بغیر اپنی خواہشات نفس کی پیروی کرے۔‘‘ المؤمنون
75 یہ ان کے شدید تمرد کا بیان ہے کہ جب ان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اللہ تعالیٰ سے اس کو دور کرنے کی دعا مانگتے ہیں تاکہ وہ ایمان لے آئیں یا اللہ تعالیٰ ان کو آزمائش میں مبتلا کرتا ہے، تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کریں اور اللہ تعالیٰ جب ان کی تکلیف دور کردیتا ہے تو پھر سرکشی اختیار کرلیتے ہیں اور ہمیشہ اپنی سرکشی میں سرگرداں اور اپنے کفر میں متردد اور حیرت زدہ رہتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے کشتی میں سوار ہونے کے وقت ان کا حال بیان کیا ہے کہ اس وقت وہ دین کو اللہ کے لیے خالص کرتے ہوئے پکارتے ہیں اور ان ہستیوں کو بھول جاتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرا رکھا ہے اور جب اللہ تعالیٰ ان کو اس صورت سے نجات دیتا ہے تو پھر زمین میں شرک کرتے ہوئے بغاوت کا رویہ اختیار کرلیتے ہیں۔ المؤمنون
76 ﴿ وَلَقَدْ أَخَذْنَاهُم بِالْعَذَابِ ﴾ ” اور ہم نے ان کو پکڑ لیا ساتھ عذاب کے۔“ مفسرین کہتے ہیں کہ اس سے وہ قحط مراد ہے جس میں وہ سات سال تک مبتلا رہے اور اللہ تعالیٰ نے ان کو اس مصیبت میں اس لیے ڈالا تاکہ وہ تذلل اور اطاعت کے ساتھ اس کی طرف رجوع کریں مگر اس چیز نے انہیں کوئی فائدہ دیا نہ ان میں سے کوئی کامیاب ہوی۔ ﴿ فَمَا اسْتَكَانُوا لِرَبِّهِمْ ﴾ پس وہ اپنے رب کے سامنے جھکے نہ انہوں نے فروتنی اختیار کی۔ ﴿ وَمَا يَتَضَرَّعُونَ ﴾ اور وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے گڑگڑائے نہ انہوں نے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کا محتاج سمجھا، بلکہ قحط آیا اور گزر گیا مگر وہ اپنی گمراہی اور کفر پر قائم رہے گویا ان پر کوئی مصیبت آئی ہی نہ تھی۔ المؤمنون
77 مگر ان کے پیچھے ایک ایسا عذاب ہے جسے روکا نہیں جاسکتا، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿ حَتَّىٰ إِذَا فَتَحْنَا عَلَيْهِم بَابًا ذَا عَذَابٍ شَدِيدٍ ﴾ ”یہاں تک کہ جب ہم نے ان پر سخت عذاب کا دروازہ کھول دیا۔“ جیسے بدر کے روز ان کا قتل کیا جانا ﴿ إِذَا هُمْ فِيهِ مُبْلِسُونَ ﴾ تب وہ ہر بھلائی سے مایوس ہوجاتے ہیں ان کے پاس شر اور اس کے اسباب پہنچ چکے ہیں۔ لہذا انہیں چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا سخت عذاب نازل ہونے سے پہلے پہلے اپنا بچاؤ کرلیں ایسا عذاب جسے روکا نہیں جاسکتا۔ اس کے برعکس عام عذاب بسا اوقات وہ ان سے روک لیا جاتا ہے جیسے دنیاوی سزائیں جن کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی تادیب کرتا ہے۔ اس قسم کی سزاؤں کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿ ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيقَهُم بَعْضَ الَّذِي عَمِلُوا لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ ﴾ (الروم : 30؍41)” خشکی اور سمندروں میں لوگوں کی کرتوتوں کی وجہ سے فساد برپا ہوگیا تاکہ اللہ ان کو ان کے بعض اعمال کا مزا چکھائے شاید کہ وہ اللہ کی طرف رجوع کریں۔‘‘ المؤمنون
78 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں پر اپنی نوازشوں کا ذکر کرتا ہے جو انہیں اس کے شکر اور اس کے حقوق ادا کرنے کی دعوت دیتی ہیں، چنانچہ فرمایا : ﴿ وَهُوَ الَّذِي أَنشَأَ لَكُمُ السَّمْعَ ﴾ ” اور وہی ہے جس نے پیدا کیے تمہارے لیے کان۔“ تاکہ مسموعات کا ادراک کرسکو اور اس طرح تم اپنے دین و دنیا میں فائدہ اٹھا سکو ﴿ وَالْأَبْصَارَ ﴾ ” اور آنکھیں“ تاکہ مرئیات کا ادراک کرسکو اور اپنے مصالح میں ان سے فائدہ اٹھا سکو۔ ﴿ وَالْأَفْئِدَةَ ﴾ ” اور دل۔“ یعنی اللہ تعالیٰ نے تمہیں عقل سے نوازاتاکہ تم اس کے ذریعے سے اشیاء کا ادراک کرسکو اور جانوروں سے ممتاز ہوسکو۔ اگر تم سماعت، بصارت اور عقل سے محروم ہوجاؤ بایں طور کہ تم بہرے، اندھے اور گونگے ہوجاؤ تو تمہارا کیا حال ہو ؟ اور تم کن کن ضروریات اور کون کون سے کمالات سے محروم ہو کر رہ جاؤ؟ کیا تم اس ہستی کا شکر نہیں کرتے جس نے تمہیں ان نعمتوں سے نوازا ہے کہ تم اس کی توحید اور اطاعت پر قائم رہتے ؟ مگر اس کے برعکس اللہ تعالیٰ کی پے درپے نعمتوں کے باوجود، تم اس کا بہت ہی کم شکر کرتے ہو۔ المؤمنون
79 ﴿ وَهُوَ الَّذِي ذَرَأَكُمْ فِي الْأَرْضِ ﴾ یعنی وہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جس نے تمہیں مختلف سمتوں میں زمین کے کناروں تک پھیلایا اور تمہیں زمین کے فوائد اور مصالح حاصل کرنے کی قدرت عطا کی اور زمین کو تمہاری معاش اور رہائش کے لیے کافی کردیا۔ ﴿ وَإِلَيْهِ تُحْشَرُونَ ﴾ ” اور (مرنے کے بعد)تم اسی کے پاس اکٹھے کئے جاؤ گے“ اور زمین پر تم جس خیر وشر کا ارتکاب کرتے رہے ہو اس کا بدلہ پاؤ گے اور زمین، جس پر تم آباد تھے تمہاری خبریں بیان کرے گی۔ المؤمنون
80 ﴿ وَهُوَ الَّذِي يُحْيِي وَيُمِيتُ ﴾ وہ اکیلا اللہ تعالیٰ ہی ہے جو زندگی اور موت میں تصرف کرتا ہے۔ ﴿ وَلَهُ اخْتِلَافُ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ ﴾ یعنی شب و روز کا باری باری ایک دوسرے کے پیچھے آنا اسی کے اختیار میں ہے۔ اگر وہ چاہے تو تم پر ہمیشہ کے لیے دن طاری کر دے پھر اللہ کے سوا کون سا معبود ہے جو تمہارے آرام و سکون کے لیے تمہیں دن کی روشنی واپس لا دے ؟ کیا تم دیکھتے نہیں؟ ﴿ وَمِن رَّحْمَتِهِ جَعَلَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ لِتَسْكُنُوا فِيهِ وَلِتَبْتَغُوا مِن فَضْلِهِ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ ﴾ (القصص :27؍73)” یہ اللہ تعالیٰ کی بے پایاں رحمت ہے کہ اس نے تمہارے لیے رات اور دن بنائے تاکہ تم آرام کرسکو اور اللہ تعالیٰ کا فضل تلاش کرسکو اور شاید تم اللہ تعالیٰ کا شکر کرو۔ “ بنابریں یہاں فرمایا : ﴿أَفَلَا تَعْقِلُونَ ﴾ ” کیا تم عقل نہیں رکھتے ؟“ کہ تم یہ پہچان سکو کہ وہ ہستی جس نے تمہیں سماعت و بصارت اور عقل جیسی نعمتیں عطا کیں، جس اکیلے نے تمھیں زمین پر پھیلایا، وہ ہستی جو اکیلی زندگی اور موت پر اختیار رکھتی ہے اور جو اکیلی رات اور دن پر تصرف کرتی ہے، یہ بات اس بات کو واجب ٹھہراتی ہے کہ تم خالص اسی کی عبادت کرو جس کا کوئی شریک نہیں اور ان تمام ہستیوں کی عبادت چھوڑ دو، جو کسی قسم کا کوئی فائدہ دے سکتی ہیں نہ نقصان اور نہ وہ کسی چیز میں تصرف کی مالک ہی ہیں بلکہ وہ ہر لحاظ سے عاجز ہیں اگر تم میں ذرہ بھر بھی عقل ہوتی تو تم کبھی بھی ان کی عبادت نہ کرتے۔ المؤمنون
81 ﴿ بَلْ قَالُوا مِثْلَ مَا قَالَ الْأَوَّلُونَ ﴾ ” بلکہ انہوں نے بھی ایسی ہی بات کہی جو پہلوں نے کہی تھی۔“ یعنی یہ مکذبین بھی انہیں راہوں پر چل پڑے جن پر ان سے پہلے زندگی بعد موت کی تکذیب کرنے والے گامزن تھے، زندگی بعد موت کو بہت بعید سمجھتے تھے۔ المؤمنون
82 اور کہا کرتے تھے : ﴿ أَإِذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا وَعِظَامًا أَإِنَّا لَمَبْعُوثُونَ ﴾ ” کیا جب ہم مرجائیں گے اور مٹی اور ہڈیاں ہوجائیں گے، تو کیا ہم زندہ کر کے اٹھائے جائیں گے؟“ یعنی ان کے زعم باطل کے مطابق اس کا تصور کیا جاسکتا ہے نہ یہ بات عقل میں آسکتی ہے۔ المؤمنون
83 ﴿ لَقَدْ وُعِدْنَا نَحْنُ وَآبَاؤُنَا هَـٰذَا مِن قَبْلُ ﴾ یعنی ہمارے ساتھ ہمیشہ سے یہ وعدہ کیا جاتا رہا ہے کہ قیامت آئے گی، ہمیں اور ہمارے آباء و اجداد کو دوبارہ زندہ کیا جائے گا اور ہم نے تو اسے نہیں دیکھا اور نہ آئندہ ہی وہ آئے گی۔ ﴿ إِنْ هَـٰذَا إِلَّا أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ ﴾ یہ تو محض قصے کہانیاں ہیں جو کھیل کے طور پر بیان کی جاتی ہیں ورنہ ان کی کوئی حقیقت نہیں۔ وہ جھوٹ کہتے ہیں۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ ان کا برا کرے۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنی نشانیوں کا مشاہدہ کروایا جو قیامت کے برباد ہونے سے بھی بڑی ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ لَخَلْقُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ أَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ ﴾(المومن : 40؍57)” آسمانوں اور زمین کی تخلیق یقیناً انسان کی تخلیق سے زیادہ بڑا کام ہے۔“ اور فرمایا : ﴿ وَضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَنَسِيَ خَلْقَهُ ۖ قَالَ مَن يُحْيِي الْعِظَامَ وَهِيَ رَمِيمٌ ﴾ (یٰس :36؍78)” وہ ہمارے لیے مثالیں بیان کرتا ہے اور اپنی تخلیق کو بھول جاتا ہے اور کہتا ہے ان ہڈیوں کو کون زندہ کرے گا جبکہ یہ بوسیدہ ہو کر مٹی بن چکی ہوں گی۔“ اور فرمایا : ﴿ وَتَرَى الْأَرْضَ هَامِدَةً فَإِذَا أَنزَلْنَا عَلَيْهَا الْمَاءَ اهْتَزَّتْ ﴾ (الحج :22؍5) ” تو زمین کو دیکھتا ہے کہ وہ سوکھی پڑی ہے، ہم نے اس پر پانی برسایا تو وہ لہلہا اٹھی اور پھول گئی۔ “ المؤمنون
84 یعنی زندگی بعدالموت اور آخرت کی تکذیب کرنے والوں سے، جو اللہ تعالیٰ کے ہم سر اور شریک ٹھہراتے ہیں، توحید ربوبیت کو جس کا وہ اقرار اور اثبات کرتے ہیں، توحید الوہیت اور توحید عبادت پر دلیل بناتے ہوئے، اسی طرح بڑی بڑی مخلوقات کی تخلیق کے اثبات کو، مرنے کے بعد زندگی کے اعادہ پر، جو کہ اس سے آسان تر ہے، برہان ٹھہراتے ہوئے، کہیے ! ﴿ لِّمَنِ الْأَرْضُ وَمَن فِيهَا ﴾ یعنی زمین، اور زمین کی تمام مخلوقات، حیوانات، نباتات، جمادات، سمندروں، دریاؤں اور پہاڑوں کو کس نے پیدا کیا، ان کا مالک کون ہے اور کون ان کی تدبیر کرتا ہے ؟ المؤمنون
85 اگر آپ ان سے اس بارے میں سوال کریں تو وہ یہیں جواب دیں گے ” صرف اللہ “! جب وہ اس حقیقت کا اقرار کرلیں تو آپ ان سے کہیے ! ﴿ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ ﴾ یعنی کیا تم اس چیز کی طرف رجوع نہیں کرتے جس کی یاد دہانی تمہیں اللہ تعالیٰ نے کروائی ہے جس کا تمہیں علم ہے جو تمہاری فطرت میں راسخ ہے البتہ اعراض بسا اوقات اسے ذہن سے غائب کردیتا ہے۔۔۔۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر تم جروتھوڑے سے غورو فکر کے ذریعے سے، اپنی اس یاددہانی کی طرف رجوع کرو تو تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ اس تمام کائنات کا مالک ہی اکیلا معبود ہے اور وہ ہستی جو مملوک ہے، اس کی الوہیت سب سے بڑا باطل ہے۔ المؤمنون
86 پھر اللہ تبارک و تعالیٰ اس سے بھی بڑی دلیل کی طرف منتقل ہوتا ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿ قُلْ مَن رَّبُّ السَّمَاوَاتِ السَّبْعِ ﴾ ” کہہ دیجیے سات آسمانوں کا رب کون ہے ؟“ اور ان کے اندر ستاروں، سیاروں، کو اکب اور ثوابت کا رب کون ہے ؟ ﴿ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ ﴾ ” اور عرش عظیم کا رب کون ہے“ جو تمام مخلوقات سے زیادہ بلند، سب سے وسیع اور سب سے بڑا ہے ؟ وہ کون ہے جس نے اس پورے نظام کی تخلیق کی پھر اس کی تدبیر کی اور وہ مختلف تدابیر کے ذریعے سے ان میں تصرف کرتا ہے ؟ المؤمنون
87 ﴿ سَيَقُولُونَ لِلَّـهِ ﴾ یعنی وہ اس حقیقت کا اقرار کریں گے کہ ان سب کا رب اللہ تعالیٰ ہی ہے جب وہ اس کا اقرار کرلیں تو ان سے کہیے ! ﴿أَفَلَا تَتَّقُونَ ﴾ ” کیا پس تم ( عاجز اور بے بس مخلوق کی عبادت سے) بچتے کیوں نہیں؟ ” اس کے برعکس تم رب عظیم کی عبادت سے، جو کامل قدرت اور عظیم قوت کا مالک ہے، دور بھاگتے ہو۔ اس آیت کریمہ میں خطاب کا ایسا الوب ہے جو لطف و کرم پر مبنی ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ ﴾ اور ﴿ أَفَلَا تَتَّقُونَ ﴾ میں نظر آتا ہے‘ نیز اس میں وعظ و نصیحت کا ایسا پیرا یہ ہے جو انتہائی دلکش ہے۔ المؤمنون
88 ﴿ وَهُوَ يُجِيرُ ﴾ ” وہ شر سے پناہ دیتا ہے“ اپنے بندوں کو ان کی تکلیفوں کو دور کرتا ہے اور ان چیزوں سے ان کو محفوظ کرتا ہے جو انہیں ضرر پہنچاتی ہیں ﴿ وَلَا يُجَارُ عَلَيْهِ ﴾ کسی کی قدرت میں نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں کسی کو پناہ دے سکے اور نہ کوئی اس شر اور تکلیف کو دور کرسکتا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے مقدر کردیا ہو بلکہ اس کی اجازت کے بغیر اس کے سامنے کسی کو سفارش کرنے کی بھی مجال نہیں۔ المؤمنون
89 ﴿ سَيَقُولُونَ لِلَّـهِ ﴾ یعنی وہ اس حقیقت کا اقرار کریں گے کہ اللہ تعالیٰ ہی ہر چیز کا مالک ہے‘ وہی پناہ دیتا ہے اور اس کے مقابلے میں کوئی کسی کو پناہ نہیں دے سکتا۔ ﴿ قُلْ ﴾ جب وہ اس حقیقت کا اقرار کریں تو الزامی طور پر ان سے کہہ دیجیے !﴿ فَأَنَّىٰ تُسْحَرُونَ ﴾ ” پھر تم کہاں سے جادو کردیے جاتے ہو ؟“ یعنی پھر تمہاری عقل کہاں ماری جاتی ہے کہ تم ان ہستیوں کی عبادت کرنے لگے جن کے بارے میں تم خود جانتے ہو کہ وہ کسی چیز کی مالک نہیں اقتدار میں ان کا کوئی حصہ نہیں اور وہ ہر لحاظ سے عاجز اور بے بس ہیں اور تم نے مالک عظیم‘ قادر مطلق اور تمام امور کی تدبیر کرنے والے کے لیے اخلاص کو ترک کردیا۔ اس لیے وہ عقل جس نے اس غیر معقول کام کی طرف تمہاری راہ نمائی کی ہے‘ سحر زدہ ہونے کے سوا کچھ نہیں۔ بلاشبہ شیطان نے ان کی عقل پر جادو کردیا ہے اس نے ان کے راہ نمائی کی ہے‘ سحر زدہ ہونے کے سوا کچھ نہیں۔ بلاشبہ شیطان نے ان کی عقل پر جادو کردیا ہے اس نے ان کے سامنے شرک کو مزین کر کے خوبصورت بنا کر دکھایا‘ حقائق کو بدل ڈالا اور یوں ان کی عقلوں پر جادو کردیا جس طرح جادو گر لوگوں کی آنکھوں پر جادو کردیتے ہیں۔ المؤمنون
90 اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے بلکہ ہم ان جھٹلانے والوں کے پاس حق لے کر آئے ہیں جو خبر میں صدق اور امرو نہی میں عدل کو متضمن ہے۔ ان کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ حق کا اعتراف نہیں کرتے حالانکہ حق اس بات کا زیادہ مستحق ہے کہ اس کی اتباع کی جائے؟ ان کے پاس جھوٹ اور ظلم کے سوا کوئی ایسی چیز نہیں جو حق کا بدل بن سکے، اس لیے فرمایا : ﴿ وَإِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ ﴾ ” اور وہ سخت جھوٹے ہیں۔ “ المؤمنون
91 ﴿ مَا اتَّخَذَ اللّٰـهُ مِن وَلَدٍ وَمَا كَانَ مَعَهُ مِنْ إِلَـٰهٍ ﴾ ” اللہ کی کوئی اولاد ہے نہ اس کے ساتھ کوئی معبود ہے۔“ یعنی یہ سب جھوٹ ہے جس سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں نے آگاہ فرمایا ہے اور جسے عقل صحیح خوب پہچانتی ہے۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے دو معبودوں کے ممتنع ہونے پر عقلی دلیل کی طرف توجہ دلائی ہے۔ چنانچہ فرمایا : ﴿ إِذًا ﴾ ’’اس وقت۔“ یعنی اگر ان کے زعم باطل کے مطابق اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسرے معبود بھی ہوں ﴿ لَّذَهَبَ كُلُّ إِلَـٰهٍ بِمَا خَلَقَ﴾ یعنی دونوں معبود ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور ایک دوسرے پر غالب آنے کے لیے اپنی اپنی مخلوق کو لے کر الگ ہوجاتے۔ ﴿ وَلَعَلَا بَعْضُهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ ﴾ ” اور ایک، دوسرے پر چڑھ دوڑتا۔“ پس جو غالب ہوتا وہی معبود ہوتا۔ اس قسم کی کھینچا تانی میں وجود کائنات کا باقی رہنا ممکن نہیں تھا اور نہ اس صورت حال میں کائنات کے اس عظیم انتظام کا تصور کیا جاسکتا ہے جسے دیکھ کر عقل حیرت میں گم ہوجاتی ہے۔ اس کا اندازہ سورج، چاند، ایک جگہ قائم رہنے والے ستاروں اور سیاروں کے درمیان باہمی نظم کو دیکھ کر کرو ! جب سے ان کو پیدا کیا گیا ہے یہ ایک خاص ترتیب اور ایک خاص نظام کے مطابق چل رہے ہیں، اس بے کراں کائنات کے تمام سیارے اللہ تعالیٰ کی قدرت سے مسخر ہیں، اس کی حکمت تمام مخلوق کی ضروریات و مصالح کے مطابق ان کی تدبیر کرتی ہے، ان میں کوئی ایک دوسرے پر منحصر نہیں۔ آپ اس نظام کائنات میں، اس کے کسی ادنیٰ سے تصرف میں بھی کوئی خلل دیکھیں گے نہ تناقض اور تعارض۔ کیا دو معبودوں کے انتظام کے تحت اس قسم کے نظام کا تصور کیا جاسکتا ہے ؟ ﴿ سُبْحَانَ اللّٰـهِ عَمَّا يَصِفُونَ ﴾ ” اللہ پاک ہے ان چیزوں سے جو وہ بیان کرتے ہیں۔“ یہ تمام کائنات اپنی زبان حال سے پکار پکار کر کہہ رہی ہے اور اپنی مختلف اشکال کے ذریعے سے سمجھا رہی ہے کہ اس کی تدبیر کرنے والا، الٰہ ایک ہے جو کامل اسماء و صفات کا مالک ہے تمام مخلوقات، اس کی ربوبیت و الوہیت میں اس کی محتاج ہے۔ جس طرح اس کی ربوبیت کے بغیر مخلوقات کا کوئی وجود ہے نہ اس کو کوئی دوام، اسی طرح صرف اسی کی عبادت اور صرف اسی کی اطاعت کے بغیر مخلوقات کے لیے کوئی صلاح ہے نہ اس کا کوئی قوام۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ایک نمونے کے ذریعے سے اپنی صفات مقدسہ کی عظمت کی طرف توجہ مبذول کروائی ہے اور وہ ہے اس کا علم محیط۔ المؤمنون
92 چنانچہ فرمایا : ﴿ عَالِمِ الْغَيْبِ ﴾ یعنی وہ تمام واجبات، مستحیلات اور ممکنات کو جاننے والا ہے جو ہماری نظروں اور ہمارے علم سے اوجھل ہیں ﴿ وَالشَّهَادَةِ ﴾ اور وہ ان امور کو بھی جانتا ہے جن کا ہم مشاہدہ کرتے ہیں۔ ﴿ فَتَعَالَىٰ ﴾ وہ بہت بلند اور بہت بڑا ہے ﴿ عَمَّا يُشْرِكُونَ ﴾ ” ان ہستیوں سے جن کو وہ اس کا شریک ٹھہراتے ہیں۔“ کہ جن کے پاس کوئی علم نہیں سواے اس علم کے جو اللہ تعالیٰ نے عطا کیا ہے۔ المؤمنون
93 چونکہ اللہ تعالیٰ نے حق کی تکذیب کرنے والوں پر اپنے عظیم دلائل و براہین قائم کردیے مگر انہوں نے ان دلائل کی طرف التفات کیا نہ ان کے سامنے سر تسلیم خم کیا اس لیے ان پر عذاب واجب ہوگیا اور ان پر عذاب نازل ہونے کی دھمکی دے دی گئی اور اللہ تعالیٰ نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرمایا کہ وہ یوں کہیں : ﴿ قُل رَّبِّ إِمَّا تُرِيَنِّي مَا يُوعَدُونَ ﴾ یعنی اے رب ! تو جس وقت بھی ان پر ٹوٹنے والا عذاب مجھے دکھائے اور میری موجودگی میں تو یہ عذاب لائے۔ المؤمنون
94 ﴿ رَبِّ فَلَا تَجْعَلْنِي فِي الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ﴾ ” تواے میرے رب ! تومجھے ظالموں میں سے نہ کرنا ۔“ یعنی اے میرے رب ! مجھ پررحم فرما مجھے ان گناہوں سے بچالے جوتیری ناراضی کے موجب ہیں اور جن کے ذریعے سے تو نے ان کفار کوآزمائش میں مبتلا کیاہے۔ اے میرے رب ! مجھے اس عذاب سے بھی بچالے جوان پر نازل ہوگا کیونکہ عذاب عام جب نازل ہوتاہے تونیک اور بد سب کواپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ المؤمنون
95 اللہ تبارک و تعالیٰ عذاب کے قریب ہونے کے بارے میں فرماتا ہے : ﴿ وَإِنَّا عَلَىٰ أَن نُّرِيَكَ مَا نَعِدُهُمْ لَقَادِرُونَ ﴾ ” اور ہم اس بات پر کہ ہم آپ کو وہ )عذاب( دکھا دیں جس کا وعدہ ہم ان سے کرتے ہیں، یقیناً قادر ہیں۔“ لیکن اگر ہم اس عذاب کو موخر کرتے ہیں تو کسی حکمت کی بنا پر ورنہ ہم اس عذاب کو واقع کرنے کی پوری پوری قدرت رکھتے ہیں۔ المؤمنون
96 یہ ان مکارم اخلاق میں سے ہے جن کا اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم دیا ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿ ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ السَّيِّئَةَ ﴾ ” دور کریں برائی کو اس طریقے سے جو احسن ہو۔“ یعنی جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دشمن قول و فعل کے ذریعے سے آپ کے ساتھ برائی سے پیش آئیں تو آپ ان کے ساتھ برائی سے پیش نہ آئیں، ہرچند کہ برائی کا بدلہ اسی قسم کی برائی سے دینا جائز ہے مگر آپ ان کے برے سلوک کے بدلے میں، ان کے ساتھ بھلائی سے پیش آئیں یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے برا سلوک کرنے والے پر احسان ہے۔ اس میں فائدہ یہ ہے کہ حال اور مستقبل میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے برائی میں تخفیف ہوگی۔ آپ کا یہ حسن سلوک آپ کے ساتھ برائی سے پیش آنے والے کو حق کی طرف لانے میں زیادہ ممد ثابت ہوگا۔ آپ کا حسن سلوک برائی سے پیش آنے والے کو ندامت، تاسف اور توبہ کے ذریعے سے بدسلوکی سے رجوع کرنے کے زیادہ قریب لے آئے گا۔ معاف کرنے والے کو احسان کی صفت سے متصف ہونا چاہیے، اس سے وہ اپنے دشمن شیطان پر غلبہ حاصل کرتا ہے اور رب کریم کی طرف سے ثواب کا مستحق قرار پاتا ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿ فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللّٰـهِ ﴾ )الشوریٰ :42؍42)” جو کوئی معاف کردے اور اصلاح کرلے تو اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے۔“ اور فرمایا : ﴿ دْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا الَّذِينَ صَبَرُوا وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا ذُو حَظٍّ عَظِيمٍ ﴾ (حمٓ السجدۃ:41؍34۔35)” آپ برائی کو ایسی نیکی کے ذریعے سے روکئے جو بہترین ہو تب آپ دیکھیں گے کہ وہ شخص، جس کی آپ کے ساتھ عداوت ہے، آپ کا جگری دوست بن جائے گا اور یہ صفت نصیب نہیں ہوتی ( یعنی خلق جمیل کی توفیق) مگر ان لوگوں کو جو صبر کرتے ہیں اور اس صفت سے بہرہ مند نہیں ہوتے مگر وہ لوگ جو بہت بڑے نصیب کے مالک ہیں۔ “ ﴿ نَحْنُ أَعْلَمُ بِمَا يَصِفُونَ ﴾ ” ہم خوب جانتے ہیں جو وہ بیان کرتے ہیں۔“ یعنی ان باتوں کو جو کفر اور تکذیب حق کو متضمن ہیں ہمارے علم نے ان کی باتوں کا احاطہ کر رکھا ہے۔ ہم نے ان کے بارے میں حلم سے کام لیا، ہم نے ان کو مہلت دی اور ہم نے ان کے بارے میں صبر کیا ہے۔ حق ہمارے لیے ہے اور ان کی تکذیب بھی ہماری طرف لوٹتی ہے۔ اے محمد ! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کے لیے مناسب یہ ہے کہ آپ ان کی اذیت ناک باتوں پر صبر کریں اور ان سے حسن سلوک سے پیش آئیں انسانوں کی طرف سے برے سلوک کے مقابلے میں بندہ مومن کا یہی وظیفہ ہے۔ رہی شیاطین کی بدسلوکی تو ان کے ساتھ حسن سلوک کوئی فائدہ نہیں دیتا۔ شیاطین تو اپنے گروہ کے لوگوں کو دعوت دیتے ہی اس لیے ہیں کہ وہ جہنم میں جھونکے جانے والوں میں شال ہوجائیں۔ المؤمنون
97 المؤمنون
98 پس شیطان کی بدسلوکی کے مقابلے میں بندہ مومن کا وظیفہ وہ جس کی طرف اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی راہ نمائی فرمائی ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿ وَقُل رَّبِّ أَعُوذُ بِكَ ﴾ یعنی میں اپنی قدرت وقوت سے برأت کا اظہار کر کے تیری قدرت و قوت کی پناہ پکڑتا ہوں۔ ﴿ مِنْ هَمَزَاتِ الشَّيَاطِينِ وَأَعُوذُ بِكَ رَبِّ أَن يَحْضُرُونِ ﴾ یعنی میں اس شر سے تیری پناہ مانگتا ہوں جو ان شیاطین سے ملنے جلنے کی وجہ سے مجھے لاحق ہوسکتا ہے، نیز میں ان کی وسوسہ اندازی اور ایذا رسانی سے تیری پناہ کا طلب گار ہوں اور میں اس شر سے تیری پناہ چاہتا ہوں جو ان کی موجودگی اور ان کی وسوسہ اندازی کے باعث مجھے لاحق ہوسکتا ہے۔ یہ استعاذہ ہر قسم کے شر اور اس کی اصل سے پناہ طلبی ہے اس میں شیطان کی دراندازی، اس کا وسوسہ اور اس کی ایذا رسانی وغیرہ سب داخل ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی دعا قبول کر کے اسے شیطان کے شر سے پناہ دے دیتا ہے تو بندہ ہر شر سے محفوظ و مصؤن ہوجاتا ہے اور اسے ہر بھلائی کی توفیق عطا ہوجاتی ہے۔ المؤمنون
99 اللہ تبارک و تعالیٰ بدکردار اور ظالم لوگوں کے ان لمحات کا حال بیان فرماتا ہے جب موت ان کے سامنے آتی ہے۔ جب وہ اپنے انجام کو دیکھتے ہیں اور اپنے اعمال بد کا مشاہدہ کرتے ہیں تو اس حال میں وہ سخت نادم ہوتے ہیں تو وہ دنیا میں واپس لوٹنے کی خواہش کرتے ہیں، اس کی لذات سے متمتع اور اس کی شہوات سے مستفید ہونے کی خاطر نہیں، بلکہ وہ صرف یہ کہتے ہیں : ﴿ لَعَلِّي أَعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ ﴾ ” شاید کہ میں نیک عمل کروں اپنی چھوڑی ہوئی دنیا میں۔“ یعنی میں نے اللہ تعالیٰ کی جناب میں جو کوتاہی کی اور نیک اعمال کو ترک کیا شاید ان نیک اعمال کو سر انجام دے سکوں۔ المؤمنون
100 ﴿ كَلَّا ﴾ ” ہرگز نہیں، یعنی اب وہ دنیا میں واپس لوٹ سکیں گے نہ ان کو مہلت عطا ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے فیصلہ صادر کردیا ہے کہ وہ دنیا میں واپس نہیں جائیں گے۔ ﴿ إِنَّهَا ﴾ یعنی ان کی وہ بات جس میں وہ دنیا میں واپس جانے کی تمنا کرتے ہیں ﴿ كَلِمَةٌ هُوَ قَائِلُهَا﴾ مجرد زبان سے نکلی ہوئی بات ہے جو اپنے قائل کو حسرت و ندامت کے سوا کچھ فائدہ نہ دے گی۔۔۔۔ علاوہ بریں وہ اس میں بھی سچا نہیں ہے کیونکہ اگر اسے دنیا میں واپس بھیج بھی دیا جائے تو دوبارہ وہی کام کرے گا جن سے اس کو روکا گیا تھا۔ ﴿ وَمِن وَرَائِهِم بَرْزَخٌ إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ ﴾ ” اور ان کے سامنے برزخ ہے ان کے دوبارہ اٹھائے جانے تک“ ( بَرْزَخٌ) دو چیزوں کے درمیان رکاوٹ کو کہا جاتا ہے۔ یہاں وہ حجاب مراد ہے جو دنیا اور آخرت کے درمیان حائل ہے۔ اس برزخ میں اللہ تعالیٰ کے مطیع بندے نعمتوں سے سرفراز ہوں گے اور نافرمانوں کو عذاب دیا جائے گا موت کی ابتدا یعنی ان کو قبروں میں رکھے جانے سے لے کر قیامت کے روز دوبارہ اٹھائے جانے کے وقت تک۔ پس ان کو کو چاہیے کہ وہ اس کے لیے تیاری اور اس کا سامان کریں۔ المؤمنون
101 اللہ تبارک و تعالیٰ قیامت کے روز کی ہولناکیوں اور دل دہلا دینے والے مناظر کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے۔ جب انسانوں کو ان کی قبروں سے اٹھانے کے لیے صور پھونکا جائے گا اور تمام لوگوں کو ایک مقررہ مقام پر اکٹھا کیا جائے گا تو لوگ اس وقت ہول اور دہشت میں مبتلا ہوں گے وہ اپنے نسبی تعلق تک کو بھول جائیں گے جو کہ سب سے زیادہ طاقتور تعلق ہوتا ہے۔ جب ایسا ہوگا تو نسب کے علاوہ تعلقات تو زیادہ آسانی سے بھول جائیں گے اور نفسا نفسی کے اس عالم میں کوئی کسی کا حال نہیں پوچھے گا۔ کسی کو علم نہیں ہوگا کہ آیا اسے نجات مل جائے گی یا نہیں، ایسی نجات کہ اس کے بعد بدبختی قریب نہیں پھٹکے گی؟ یا وہ ایسی بدبختی سے دو چار ہوگا کہ اس کے بعد کبھی خوش بختی سے بہرہ مند نہیں ہوگا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ يَوَدُّ الْمُجْرِمُ لَوْ يَفْتَدِي مِنْ عَذَابِ يَوْمِئِذٍ بِبَنِيهِ وَصَاحِبَتِهِ وَأَخِيهِ وَفَصِيلَتِهِ الَّتِي تُؤْوِيهِ وَمَن فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا ثُمَّ يُنجِيهِ ﴾ (المعارج : 70؍11- 14)” اس دن مجرم چاہے گا کہ اس دن کے عذاب کے بدلے میں سب کچھ دے دے یعنی اپنے بیٹوں، بیوی، بھائی اور اپنے خاندان کو جو اسے پناہ دیتا تھا اور زمین کی ہر چیز فدیہ میں دے کر عذاب سے نجات حاصل کرلے۔“ اور جیسا کہ ارشاد ہے۔ ﴿ فَإِذَا جَاءَتِ الصَّاخَّةُ يَوْمَ يَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ أَخِيهِ وَأُمِّهِ وَأَبِيهِ وَصَاحِبَتِهِ وَبَنِيهِ لِكُلِّ امْرِئٍ مِّنْهُمْ يَوْمَئِذٍ شَأْنٌ يُغْنِيهِ ﴾ (عبس :80؍33،37)” جب قیامت برپا ہوگی تو اس دن آدمی اپنے بھائی سے دور بھاگے گا، اپنی ماں اور باپ سے، بیوی اور بیٹوں سے دور بھاگے گا۔ اس روز ہر شخص اپنی ہی فکر میں مبتلا ہوگا جو اسے دوسروں سے بے پروا کر دے گی۔“ قیامت کے روز بعض مقامات ایسے ہوں گے جو شدید کرب ناک اور سخت تکلیف دہ ہوں گے جیسے میزان عدل کا مقام، جہاں بندے کے اعمال کا وزن کیا جائے گا اور نہایت عدل و انصاف سے دیکھا جائے گا کہ اس کے نیک اور بد اعمال کیا ہیں اور اس وقت نیکی اور بدی کا ذرہ بھر وزن بھی ظاہر ہوجائے گا۔ المؤمنون
102 ﴿ فَمَن ثَقُلَتْ مَوَازِينُهُ ﴾ پس جس کی نیکیوں کا پلڑا برائیوں کے پلڑے سے جھک جائے گا ﴿ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ﴾ ” تو یہی لوگ کامیاب ہیں۔“ یعنی یہی لوگ جہنم سے نجات حاصل کریں گے اور جنت کے استحقاق سے بہرہ ور ہوں گے اور ثنائے جمیل سے سرفراز ہوں گے۔ المؤمنون
103 ﴿ وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِينُهُ ﴾ اور جس کی برائیوں کا پلڑا نیکیوں کے پلڑے سے بھاری ہوگا اور اس کے پلڑے پر برائیاں چھا جاہیں گی۔ ﴿فَأُولَـٰئِكَ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنفُسَهُمْ﴾ ” پس یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو خسارے میں ڈالا۔“ اس خسارے کی نسبت دنیا کا بڑے سے بڑا خسارہ بھی بہت معمولی ہے۔ یہ بہت بڑا اور ناقابل برداشت خسارہ ہے جس کی تلافی ممکن ہی نہیں۔ نہیں یہ ابدی خسارہ اور دائمی بدبختی ہے اس نے اپنے شرف کے حامل نفس کو خسارے میں مبتلا کردیا جس کے ذریعے سے وہ ابدی سعادت حاصل کرسکتا تھا۔ پس تھا پس اس نے اپنے رب کریم کے پاس ابدی نعمتوں کو ہاتھ سے گنوا دیا۔ ﴿ فِي جَهَنَّمَ خَالِدُونَ ﴾ ” وہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔“ وہ ابدالآ باد تک اس سے نہیں نکلیں گے۔ یہ وعید، جیسا کہ ہم گزشتہ سطور میں ذکر کرچکے ہیں، اس شخص کے لیے ہے جس کی برائیاں اس کی نیکیوں پر چھا گئی ہوں گی اور ایسا شخص کافر ہی ہوسکتا ہے۔ اس طرح اس کا حساب اس شخص کے حساب کی مانند نہیں ہوگا جس کی نیکیوں اور برائیوں دونوں کا وزن ہوگا کیونکہ کفار کے پاس تو کوئی نیکی ہی نہیں ہوگی۔ البتہ ان کی بداعمالیوں کو اکٹھا کر کے شمار کیا جائے گا۔ وہ ان بداعمالیوں کا مشاہدہ اور ان کا اقرار کریں گے اور رسوائی اٹھائیں گے۔ رہا وہ شخص جو بنیادی طور پر مومن ہے مگر اس کی برائیوں کا پلڑا نیکیوں کے پلڑے کے مقابلے میں جھکا ہوا ہوا ہوگا۔۔۔۔۔ تو وہ اگرچہ جہنم میں داخل ہوگا مگر وہ اس میں ہمیشہ نہیں رہے گا جیسا کہ کتاب و سنت کی نصوص اس پر دلالت کرتی ہیں۔ المؤمنون
104 پھر اللہ تعالیٰ نے کافروں کے برے انجام کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ﴿ تَلْفَحُ وُجُوهَهُمُ النَّارُ ﴾ ” جھلسائے گی ان کے چہروں کو آگ۔“ یعنی آگ انہیں ہر جانب سے ڈھانپ لے گی حتیٰ کہ ان کے تمام قابل شرف و احترام اعضاء کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی آگ کے شعلے ان کے چہروں سے ٹکڑے ہو ہو کر گریں گے۔ ﴿ وَهُمْ فِيهَا كَالِحُونَ ﴾ ” اور وہ اس میں بدشکل ہوں گے۔“ شدت عذاب کی وجہ سے ان کے چہرے بگڑ جائیں گے اور ان کے ہونٹ اوپر کی طرف سکڑ جائیں گے۔ المؤمنون
105 زجرو توبیخ اور ملامت کے طور پر ان سے کہا جائے گا : ﴿ أَلَمْ تَكُنْ آيَاتِي تُتْلَىٰ عَلَيْكُمْ ﴾ ” کیا میری آیتوں کی تم پر تلاوت نہیں کی جاتی تھی؟“ ان آیات کے ذریعے سے تمہیں دعوت دی گئی کہ تم ایمان لے آؤ اور آیات تمہارے سامنے پیش کی گئیں تاکہ تم غور کرو ﴿ فَكُنتُم بِهَا تُكَذِّبُونَ ﴾ پس تم ظلم اور عناد کی وجہ سے ان آیات کو جھٹلاتے تھے حالانکہ یہ واضح آیات تھیں جو حق اور باطل پر دلالت کرتی تھیں اور اہل حق اور اہل باطل کو کھول کھول کر بیان کرتی تھیں۔ المؤمنون
106 یہ اس وقت اپنے ظلم کا اقرار کریں گے جب اقرار کوئی فائدہ نہ دے گا۔ ﴿ قَالُوا رَبَّنَا غَلَبَتْ عَلَيْنَا شِقْوَتُنَا ﴾ کہیں گے ہم پر ہماری بد بختی غالب آگئی جس نے ظلم، حق سے روگردانی، ضرررساں امور کو اختیار کرنے اور فائدہ مند امور کو ترک کرنے سے جنم لیا۔ ﴿ وَكُنَّا قَوْمًا ضَالِّينَ﴾” اور ہم گمراہ لوگ تھے۔“ یعنی اپنے عمل میں گمراہ تھے۔ اگرچہ وہ جانتے تھے کہ وہ ظالم ہیں، یعنی ہم نے دنیا میں اس طرح کام کئے جس طرح گمراہ، بیوقوف اور حیران و سرگرداں لوگ کام کرتے ہیں۔ جس طرح ایک اور آیت میں ان کا قول نقل ہوا ہے۔ ﴿وَقَالُوا لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ أَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا فِي أَصْحَابِ السَّعِيرِ ﴾(الملک :67؍10)” اور کہیں گے اگر ہم سنتے یا سمجھتے ہوتے تو جہنمیوں میں سے نہ ہوتے۔ “ المؤمنون
107 ﴿ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْهَا فَإِنْ عُدْنَا فَإِنَّا ظَالِمُونَ ﴾ ” اے ہمارے رب ! ہمیں اس سے نکال لے، پھر اگر ہم یہی کام کریں تو یقینًا ظالم ہوں گے۔“ وہ اپنے اس وعدے میں بھی جھوٹے ہیں کیونکہ تب بھی ان کا حال وہی ہوگا جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿ وَلَوْ رُدُّوا لَعَادُوا لِمَا نُهُوا عَنْهُ ﴾ (الانعام : 6؍28)” اور اگر ان کو دنیا میں لوٹا دیا جائے تو دوبارہ وہی کام کریں گے جن سے ان کو منع کیا گیا ہے۔“ اللہ تبارک و تعالیٰ نے کوئی حجت باقی نہیں رکھی بلکہ ان کے تمام عذر منقطع کردیے اور دنیا میں ان کو اس نے اتنی عمریں دیں کہ اس میں نصیحت پکڑنے والے نصیحت پکڑ لیتے ہیں اور مجرم جرم سے باز آجاتے ہیں۔ المؤمنون
108 اللہ تبارک و تعالیٰ ان کے سوال کا جواب دیتے ہوئے فرمائے گا : ﴿ اخْسَئُوا فِيهَا وَلَا تُكَلِّمُونِ ﴾ ” پھٹکارے ہوئے اسی میں پڑے رہو اور مجھ سے کلام نہ کرو۔“ اللہ تبارک و تعالیٰ کا یہ کلام۔۔۔ ہم اللہ تعالیٰ سے عافیت کا سوال کرتے ہیں۔۔۔۔ علی الاطلاق بہت بڑا قول ہے جو مجرموں کو ناکامی، زجرو توبیخ، ذلت، خسارے ہر بھلائی سے مایوسی اور ہر شر کی بشارت کے طور پر سننے کو ملے گا۔ یہ کلام اور رب رحیم کا غیظ و غضب جہنم کے عذاب سے زیادہ تکلیف دہ ہے۔ المؤمنون
109 پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کا وہ حال بیان کیا ہے جس نے ان کو عذاب تک پہنچایا اور اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم کیا، چنانچہ فرمایا : ﴿ إِنَّهُ كَانَ فَرِيقٌ مِّنْ عِبَادِي يَقُولُونَ رَبَّنَا آمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا وَأَنتَ خَيْرُ الرَّاحِمِينَ ﴾ ” میرے بندوں میں سے کچھ لوگ تھے جو کہتے تھے، اے ہمارے رب ! ہم ایمان لائے پس تو ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم فرما، اور تو سب سے بہتر رحم فرمانے والا ہے۔“ پس انہوں نے ایمان کو، جو اعمال صالحہ کا تقاضا کرتا ہے، اپنے رب سے مغفرت اور رحمت کی دعا کو اس کی ربوبیت کے توسل کو ایمان عنایت کرنے میں اس کی نوازش کو، اس کی بے پایاں رحمت کو اور احسان کو جمع کردیا۔ یہ آیت کریمہ ضمناً اہل ایمان کے خشوع و خضوع، اپنے رب کے حضور ان کی فروتنی، ان کے خوف الہٰی اور اللہ تعالیٰ سے پر امیدی پر دلالت کرتی ہے۔ المؤمنون
110 پس یہ لوگوں کے سردار اور اصحاب فضیلت ہیں ﴿ فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ ﴾ ” لیکن تم نے ان کو بنا لیا۔“ اے حقیر اور ناقص العقل کافرو !﴿ سِخْرِيًّا ﴾ ” مذاق (کاموضوع) “ یعنی تم ان کے ساتھ استہزاء کرتے تھے اور ان کے ساتھ حقارت سے پیش آتے تھے حتیٰ کہ تم انہیں بیوقوف سمجھتے تھے ﴿ حَتَّىٰ أَنسَوْكُمْ ذِكْرِي وَكُنتُم مِّنْهُمْ تَضْحَكُونَ ﴾ ” یہاں تک کہ ( اس شغل نے)تمہیں میری یاد ہی بھلا دی اور تم ان سے مذاق کرتے رہے۔“ اہل ایمان کے ساتھ استہزاء میں ان کی مشغولیت ان کے لیے ذکر کو بھلا دینے کی موجب ہوئی، جیسے ذکر کو فراموش کردینا ان کو تمسخرو استہزاء پر آمادہ کرتا رہا۔ پس دونوں امور ایک دوسرے کے لیے معاون بنے رہے۔ کیا اس جرات سے بڑھ کر کوئی جرات ہے ؟ المؤمنون
111 ﴿ إِنِّي جَزَيْتُهُمُ الْيَوْمَ بِمَا صَبَرُوا ﴾ میں نے آج ان کو اپنی اطاعت کرنے اور تمہاری اذیتوں کو برداشت کرنے کا بدلہ دیا ہے، حتیٰ کہ وہ مجھ تک پہنچ گئے۔ ﴿ أَنَّهُمْ هُمُ الْفَائِزُونَ ﴾ ” بے شک وہی لوگ کامیاب ہیں۔“ یعنی دائمی نعمتیں اور جہنم سے چھٹکارا پاکر کامیاب ہوئے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ ایک اور آیت کریمہ میں فرماتا ہے : ﴿ فَالْيَوْمَ الَّذِينَ آمَنُوا مِنَ الْكُفَّارِ يَضْحَكُونَ ﴾ (المطففین :83؍34)” آج وہ لوگ جو ایمان لائے ہیں کافروں پر ہنسیں گے۔ “ المؤمنون
112 ﴿ قَالَ ﴾ اللہ تعالیٰ ملامت کے اسلوب میں ان سے کہے گا۔ یہ اسلوب اس لیے بھی ہوگا کیونکہ وہ بیوقوف تھے انہوں نے اس تھوڑی سی مدت میں ہر برائی کا ارتکاب کیا جو اس کے غضب اور عقاب کا باعث بنتی ہے۔ انہوں نے ان نیکیوں کاا کتساب نہ کیا جن کا اکتساب اہل ایمان نے کیا تھا جو ان کے لیے دائمی سعادت اور ان کے رب کی رضا کی باعث بنیں۔﴿كَمْ لَبِثْتُمْ فِي الْأَرْضِ عَدَدَ سِنِينَ قَالُوا لَبِثْنَا يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ ﴾ ” تم زمین میں کتنے برس رہے، وہ کہیں گے ایک دن یا دن کا کچھ حصہ۔“ ان کا یہ کلام، ان کے دنیا میں رہنے اس سے فائدہ اٹھانے کے بارے میں بہت ہی کم اندازے پر مبنی ہے مگر یہ اس کی مقدار کو کوئی فائدہ دیتی ہے نہ اس کی تعین کرتی ہے اس لیے وہ کہیں گے۔ المؤمنون
113 ﴿ فَاسْأَلِ الْعَادِّينَ ﴾ یعنی اس کی تعداد کا حساب کتاب رکھنے والوں سے پوچھ لیجیے۔ وہ خود تو اب ایک شغل اور اس کے عدد کی معرفت سے غافل کردینے والے عذاب میں مبتلا ہیں۔ المؤمنون
114 اللہ تعالیٰ ان سے فرمائے گا : ﴿ إِن لَّبِثْتُمْ إِلَّا قَلِيلًا ﴾ ” نہیں ٹھہرے تم مگر بہت کم۔“ خواہ تم اس کی تعداد کا تعین کرو یا نہ کرو تمہارے لیے برابر ہے۔ ﴿ لَّوْ أَنَّكُمْ كُنتُمْ تَعْلَمُونَ ﴾ ” کاش تمہیں علم ہوتا۔‘‘ المؤمنون
115 ﴿ أَفَحَسِبْتُمْ ﴾ یعنی اے مخلوق !” کیا تم نے یہ سمجھ لیا ہے“ کہ ﴿ أَنَّمَا خَلَقْنَاكُمْ عَبَثًا ﴾ ” بلاشبہ ہم نے تمہیں بے فائدہ اور باطل پیدا کیا ہے“ کہ تم کھاؤ، پیو، زمین پر اکڑ کر چلو اور دنیا کی لذتوں سے متمتع ہوتے رہو اور ہم تمہیں یوں نہیں چھوڑ دیں گے۔ ہم تمہیں کسی چیز کا حکم دیں گے نہ تمہیں منع کریں گے، تمہیں ثواب عطا کریں گے نہ تمہیں عذاب دیں گے ؟ اس لیے فرمایا : ﴿ وَأَنَّكُمْ إِلَيْنَا لَا تُرْجَعُونَ ﴾ ” اور یہ کہ تم ہماری طرف نہیں لوٹائے جاؤ گے ؟“ یہ بات تمہارے دل ہی میں نہ آئے۔ المؤمنون
116 ﴿ فَتَعَالَى اللّٰـهُ ﴾ یعنی اس گمان باطل سے اللہ بہت بڑا اور بلند تر ہے جو اس کی حکمت میں قادح ہے۔ ﴿ الْمَلِكُ الْحَقُّ ۖ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيمِ ﴾ ” وہ حقیقی بادشاہ ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں وہی عرش کریم کا رب ہے۔“ اس کا تمام مخلوق کا مالک ہونا حق ہے وہ اپنے صدق، اپنے وعدہ اور وعید میں حق ہے، وہ محبوب اور معبود ہے کیونکہ وہ ہر کمال کا مالک ہے۔ ﴿ رَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيمِ ﴾ ’’وہ عرش کریم کا رب ہے۔“ پھر اس سے کم تر مخلوق کا تو بدرجہ اولیٰ رب ہے۔ یہ چیز مانع ہے اس سے کہ وہ تمہیں عبث پیدا کرے۔ المؤمنون
117 یعنی جو کوئی اللہ تعالیٰ کے ساتھ غیر اللہ کو پکارتا ہے جس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی دلیل اور برہان نہیں جو اس کے اس مذہب کی صحت پر دلالت کرتی ہو۔ یہ ایک الزامی قید ہے ورنہ حقیقت یہ کہ جو کوئی غیر اللہ کو پکارتا ہے اس کے پاس کوئی دلیل ہوتی ہی نہیں بلکہ تمام دلائل و براہین اس کے مذہب کے بطلان پر دلالت کرتے ہیں، مگر اس نے ظلم اور عناد کی بناء پر ان سے روگردانی کی۔ پس یہ شخص جب اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہوگا تو اللہ تعالیٰ اسے اس کے برے اعمال کا بدلہ دے گا اسے فلاح میں سے کچھ حاصل نہیں ہوگا‘ کیونکہ وہ کافر ہے۔ ﴿ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الْكَافِرُونَ ﴾ ” بلاشبہ، کافر فلاح نہیں پاتے۔“ پس ان کے کفر نے ان کو فلاح سے محروم کردیا۔ المؤمنون
118 ﴿ وَقُل ﴾ دین کو اپنے رب کے لیے خالص کر کے اسے پکارتے ہوئے کہہ دیجیے !﴿ رَّبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ ﴾ اے میرے رب ! ہمیں بخش دے یہاں تک کہ ہمیں نا پسندیدہ چیزوں سے بچا اور ہم پر رحم فرما تاکہ تو ہمیں اپنی بے پایاں رحمت کے ساتھ ہر بھلائی کی منزل تک پہنچا دے۔ ﴿وَأَنتَ خَيْرُ الرَّاحِمِينَ ﴾ ” اور تو سب رحم کرنے والوں میں سب سے بہتر رحم کرنے والا ہے۔“ پس اللہ تعالیٰ بندے پر رحم کرنے والی ہر ہستی سے زیادہ رحیم ہے ماں اپنی اولاد کے لیے جس قدر رحیم و شفیق ہے اللہ تعالیٰ اپنے بندے پر اس سے بھی زیادہ رحم کرنے والا ہے۔ بلکہ انسان اپنے آپ پر جس قدر رحم کرسکتا ہے اللہ تعالیٰ اس سے بھی زیادہ رحیم ہے۔ المؤمنون
0 النور
1 ﴿ سُورَةٌ ﴾ یعنی یہ عظیم القدر سورت ﴿ أَنزَلْنَاهَا ﴾ ” ہم نے اسے (بندوں پر رحمت کے طور پر) نازل کیا“ اور ہر شیطان سے اس کو محفوظ رکھا ﴿ وَفَرَضْنَاهَا ﴾ یعنی ہم نے اس میں حدود اور شہادات کا ضابطہ وغیرہ مقرر کیا ﴿ وَأَنزَلْنَا فِيهَا آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ ﴾ اور ہم نے اس میں جلیل القدر احکام، اور امر و نواہی اور عظیم الشان حکمتیں نازل کیں﴿ لَّعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ ﴾ یعنی جس وقت ہم تمہارے سامنے یہ احکام بیان کریں اور ہم تمہیں ان امور کی تعلیم دیں جن کا تمہیں علم نہیں تھا تب شاید تم نصیحت پکڑو۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے وہ احکام بیان کرنا شروع کئے جن کی طرف گزشتہ آیت کریمہ میں اشارہ کیا گیا ہے، چنانچہ فرمایا : النور
2 آیت میں مذکوریہ حکم غیر شادی شدہ زانی اور زانیہ کے لیے ہے کہ ان کو سوسو کوڑے مارے جائیں۔ البتہ شادی شدہ زنا کار ہو تو سنت صحیحہ مشہورہ دلالت کرتی ہے کہ اس کی حد رجم (یعنی سنگسار کرنا) ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس بات سے منع کیا ہے کہ زنا کار مردوزن پر حد جاری کرتے وقت ہم میں رحم و شفقت کا ایسا جذبہ پیدا ہو جو ہمیں ان پر حد قائم کرنے سے روک دے۔ خواہ یہ رحم طبعی ہو یا قرابت یا دوستی وغیرہ کی وجہ سے ہو۔ ایمان اس رحم کی نفی کا موجب ہے جو اللہ تعالیٰ کے حکم کو قائم کرنے سے مانع ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کی حقیقی رحمت تو زانی پر حد نافز کرنے میں ہے۔ اگر زانی پر تقدیر کا فیصلہ جاری ہونے پر ہمیں رحم آئے تو یہ اور بات ہے مگر نفاذ حد کے پہلو سے ہمیں اس پر رحم نہیں آنا چاہیے، نیز اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ زنا کاروں پر حد جاری کرتے وقت اہل ایمان کی ایک جماعت موجود ہوتاکہ حد کا نفاذ مشتہر ہو، مجرموں کی رسوائی ہو، مجرم اس گھناؤنے جرم سے باز رہیں اور لوگ بالفعل نفاذ حد کا مشاہدہ کریں، کیونکہ شریعت کے احکام کے بالفعل مشاہدے سے شریعت کا علم زیادہ پختہ اور اس کا فہم راسخ ہوجاتا ہے اور مشاہدہ کرنے والا منزل صواب کے زیادہ قریب ہوتا ہے۔ پس اس میں کوئی اضافہ کیا جاتا ہے نہ کمی۔ واللہ اعلم۔ النور
3 اس آیت کریمہ میں زنا کی رذالت اور قباحت کا بیان ہے کہ یہ فعل بد، فاعل اور اس کے ساتھ میل جول رکھنے والے لوگوں کی عزت پر ایسا دھبہ لگا دیتا ہے جو دیگر گناہوں سے نہیں لگتا۔ اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا ہے کہ زانی مرد صرف زنا کار عورت ہی سے نکاح کرے۔ اس کا حال ایسی ہی عورت کے حال سے مناسبت رکھتا ہے یا مشرک عورت اس کے مناسب حال ہے جو یوم آخرت اور جزا و سزا پر ایمان رکھتی ہے نہ اللہ تعالیٰ کے حکم کا التزام کرتی ہے۔ اسی طرح زانیہ عورت سے صرف زانی مرد یا مشرک ہی نکاح کرے۔ ﴿وَحُرِّمَ ذٰلِكَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ ﴾ ” اور اللہ تعالیٰ نے اسے مومنوں پر حرام ٹھہرا دیا ہے“ یعنی یہ کہ وہ کسی عفت مآب عورت کا زنا کار مرد کے ساتھ نکاح کریں یا عفت مآب مرد کسی زنا کار عورت کو اپنے نکاح میں لائے۔ اس آیت کریمہ کا معنی یہ ہے کہ وہ مرد یا عورت جو زنا میں ملوث ہے اور اس نے اس بدکاری سے توبہ نہیں کی اللہ تعالیٰ کی طرف سے تحریم کے باوجود، اس کے ساتھ نکاح کرنے والا، دو میں سے ایک امر سے خالی نہیں۔ یا تو وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کا التزام نہیں کرتا اور یہ صرف مشرک شخص کا وتیرہ ہے یا وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کا التزام کرتا ہے اور زنا کار کے زنا کا علم رکھنے کے باوجود، اس کے ساتھ عفت مآب عورت کے نکاح کا اقدام کرتا ہے تو ایسا نکاح زنا ہے اور نکاح کرنے والا زنا کا مرتکب ہے۔ اگر وہ سچا مومن ہوتا تو کبھی بھی یہ کام نہ کرتا۔ یہ آیت کریمہ زانیہ عورت کے ساتھ نکاح کی تحریم پر صراحت کے ساتھ دلالت کرتی ہے جب تک کہ وہ توبہ نہ کرے۔ اسی طرح زانی کے ساتھ نکاح کی تحریم پر دلیل ہے کیونکہ میاں بیوی کا ایک دوسرے کے ساتھ رہنا سب سے بڑی مقارنت ہے اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : ﴿ احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْوَاجَهُمْ ﴾ (الصّٰفّٰت :37؍22)”وہ لوگ جو ظلم کرتے تھے، ان کو اور ان کے ساتھیوں کو اکٹھا کرو۔“ یعنی ان کے جلیسوں کو۔ چونکہ اس میں بہت بڑا شر ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس نکاح کو حرام ٹھہرادیا ہے۔ اس سے غیرت میں کمی واقع ہوتی ہے۔ خاوند کے ساتھ ایسی اولاد کا الحاق ہوتا ہے جو درحقیقت اس کی نہیں۔ نیز وہ دوسری عورتوں کے ساتھ مشغول ہونے کے سبب عفت سے محروم رہتا ہے۔ یہ آیت کریمہ صریحا دلالت کرتی ہے کہ زنا کار مومن نہیں ہوتا جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ” جب زانی زنا کا ارتکاب کرتا ہے تو اس وقت وہ مومن نہیں ہوتا۔،، [صحیح البخاری، المظالم، باب النھی، بغیر اذن صاحبه، ح2475وصحیح مسلم، الإیمان، باب بیان نقصان الإیمان بالمعاصی۔۔۔،ح :57] پس وہ اگرچہ مشرک بھی نہیں ہوتا تاہم وہ اسم مدح سے موسوم نہیں ہوتا جو کہ ایمان مطلق ہے۔ النور
4 چونکہ کوڑوں کی سزا کے وجوب کی وجہ سے زانی کے معاملہ کو بڑی اہمیت دی گئی ہے، نیز اگر وہ شادی شدہ ہے تو رجم بہت بڑا معاملہ ہے اسی طرح زانی کے ساتھ ہم نشینی اور اس سے اختلاط، کسی بھی لحاظ سے جائز نہیں، جس سے بندہ شر سے محفوظ نہ رہ سکے اس لیے اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی عزت و ناموس پر زنا کی تہمت لگانے کو بہت بڑا اقدام قرار دیا ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿وَالَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ﴾ یعنی وہ لوگ جو پاک باز عورتوں پر بہتان لگاتے ہیں، اسی طرح پاک باز مردوں پر بہتان طرازی کرتے ہیں۔ دونوں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ یہاں بہتان سے مراد، سیاق کے اعتبار سے زنا کا الزام لگانا ہے۔ ﴿ثُمَّ لَمْ يَأْتُوا ﴾ ” پھر نہ پیش کرسکیں وہ“ یعنی اس پر جو انہوں نے بہتان لگایا ﴿بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ ﴾ ” چار گواہ“ یعنی چار عادل مرد، جو نہایت صراحت کے ساتھ زنا کی گواہی دیں۔ ﴿ فَاجْلِدُوهُمْ ثَمَانِينَ جَلْدَةً﴾ ” تو انہیں (ایک متوسط کوڑے کے ساتھ) اسی (80) کوڑے مارو“ جن سے بہتان لگانے والے کو تکلیف پہنچے، مگر کوڑے کی سختی اتنی زیادہ نہ ہو جس سے اس کی جان چلی جائے کیونکہ کوڑے لگانے سے مقصود تادیب ہے نہ کہ جان لینا۔ اس آیت کریمہ میں بہتان لگانے کی حد کا تعین ہے۔ البتہ یہ حد اس شرط کے ساتھ مشروط ہے کہ جس پر بہتان لگایا گیا ہے وہ مومن اور پاک دامن ہو اور اگر وہ پاک دامن نہ ہو تو بہتان لگانے والے پر حد نہیں لگائی جائے گی یہ چیز صرف تعزیر کی موجب ہے۔ ﴿وَلَا تَقْبَلُوا لَهُمْ شَهَادَةً أَبَدًا ﴾ ” یہ ایک اور سزا ہے یعنی بہتان طرازی کرنے والے کی گواہی قابل قبول نہیں خواہ اس پر قذف کی حد جاری کیوں نہ کردی گئی ہو۔ جب تک کہ وہ بہتان طرازی سے توبہ نہ کرے۔ جیسا کہ عنقریب اس کا بیان آئے گا۔ ﴿وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ﴾ ” یہی وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے نکل جانے والے ہیں“ اور جن کا شر بہت زیادہ ہے۔ یہ سزا اس لیے دی گئی ہے کیونکہ اس نے اللہ تعالیٰ کے محارم کا ارتکاب کیا اور اپنے بھائی کی ہتک عزت کی اور لوگوں کو اس کے بارے میں بڑھ چڑھ کر باتیں بنانے کا موقع فراہم کیا اور اس قذف کے ذریعے سے وہ اس اخوت کو زائل کرنے کا باعث بنا جو اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کے مابین قائم کی تھی اور اس نے چاہا کہ اہل ایمان میں فواحش پھیل جائیں۔ یہ آیت کریمہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ قذف گناہ کبیرہ ہے۔ النور
5 ﴿إِلَّا الَّذِينَ تَابُوا مِن بَعْدِ ذٰلِكَ وَأَصْلَحُوا فَإِنَّ اللّٰـهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ﴾ یہاں توبہ سے مراد یہ ہے کہ بہتان طرازی کرنے والا خود اپنی تکذیب کرے یعنی وہ اس بات کا اقرار کرے کہ اس نے جھوٹا الزام لگایا تھا اپنی تکذیب کرنا اس پر واجب ہے اگرچہ اس کو زنا کے وقوع کا یقین ہو مگر وہ چار گواہ مہیا نہ کرسکے تب بھی اس الزام کی تردید کرنا اس پر واجب ہے۔ اگر بہتان طرازی کرنے والا توبہ کر کے اپنے عمل کی اصلاح کرلے اور برائی کی بجائے بھلائی کو وتیرہ بنا لے تو اس کا فسق زائل ہوجائے گا اور صحیح مذہب ہے کہ اس کی شہادت بھی قابل قبول ہے کیونکہ جو کوئی توبہ کر کے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بخشنے والا اور نہایت مہربان ہے وہ تمام گناہوں کو بخش دیتا ہے۔ بہتان لگانے والے کو اس صورت میں کوڑے مارے جائیں گے جب وہ چار گواہ مہیا نہ کرسکے اور جس پر اس نے بہتان لگایا ہے وہ اس کی بیوی نہ ہو۔ اگر جس پر اس نے بہتان لگایا ہے وہ اس کی بیوی ہو تو اللہ تعالیٰ نے اس صورت حال کا ذکر اس طرح کیا ہے۔ النور
6 بیوی پر زنا کا الزام لگانے کی صورت میں شوہر کی چار گواہیاں اسے قذف کی حد سے بچا سکتی ہیں کیونکہ غالب حالات میں شوہر بیوی پر زنا کا بہتان نہیں لگاتا جس سے اس کی بیوی کے ساتھ ساتھ اس کی اپنی شخصیت بھی عیب دار ہوتی ہے سوائے اس صورت میں کہ جب وہ الزام لگانے میں سچا ہو۔ نیز شوہر کا اس بارے میں حق ہے اور اسے اس بات کا بھی خوف ہوتا ہے کہ کہیں ایسی اولاد کا اس سے الحاق نہ ہوجائے جو اس کی نہیں ہے، نیز اس میں بعض دیگر حکمتیں بھی ہیں جو دوسرے احکام میں موجود نہیں ہیں۔ اس لیے فرمایا : ﴿وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ﴾ اور وہ جو تہمت لگائیں اپنی بیویوں پر“ یعنی لونڈیوں پر نہیں بلکہ آزاد عورتوں پر، جو بیویاں ہوں ﴿ وَلَمْ يَكُن لَّهُمْ ﴾ ” اور نہ ہوں ان کے لیے“ اس الزام پر ﴿شُهَدَاءُ إِلَّا أَنفُسُهُمْ﴾ ” اپنے سوا کوئی اور گواہ“ جنہیں وہ اپنے اس الزام پر اپنا گواہ بنا سکیں۔ ﴿ فَشَهَادَةُ أَحَدِهِمْ أَرْبَعُ شَهَادَاتٍ بِاللَّـهِ إِنَّهُ لَمِنَ الصَّادِقِينَ ﴾ ” تو ان میں سے ایک کی گواہی، چار گواہیاں دینی ہیں اللہ کی کہ وہ سچا ہے۔“ ( یعنی اپنی سچائی پر چار قسمیں کھائے) اللہ تعالیٰ نے ان قسموں کو( شھادت) کہا ہے کیونکہ یہ قسمیں گواہوں کے قائم مقام ہیں، قسمیں اٹھانے والا یہ الفاظ کہتا ہے ” میں اللہ کو گواہ بنا کر گواہی دیتا ہوں کہ، میں نے جو الزام لگایا ہے، میں اس میں سچا ہوں۔ “ النور
7 ﴿وَالْخَامِسَةُ أَنَّ لَعْنَتَ اللّٰـهِ عَلَيْهِ إِن كَانَ مِنَ الْكَاذِبِينَ﴾ ” پانچویں مرتبہ کہے کہ اس پر اللہ کی لعنت ہو، اگر وہ جھوٹا ہو۔“ یعنی ان گواہیوں کو موکد بنانے کے لیے ان مذکورہ گواہیوں کے ساتھ پانچویں مرتبہ اپنے لیے لعنت کی بددعا کرے۔ جب لعان مکمل ہوجائے تو اس سے قذف کی حد ساقط ہوجائے گی۔ آیات کریمہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ شخص جس کے ساتھ اس نے اپنی بیوی کے ملوث ہونے کا الزام لگایا ہے تبعاً اس کا حق بھی ساقط ہوجائے گا۔ (یعنی اس کی طرف سے بھی اس خاوند پر حد قذف نہیں لگائی جائے گی۔ ) النور
8 شوہر کے لعان کرنے اور بیوی کے لعان کرنے سے گریز کرنے پر، کیا بیوی پر حد جاری کی جائے گی، یا اس کو قید کیا جائے گا؟ اس بارے میں اہل علم کی دو آراء ہیں۔ وہ رائے جس کی تائید دلیل کرتی ہے وہ یہ ہے کہ اس پر حد قائم کی جائے گی، جیسے فرمایا ﴿ وَيَدْرَأُ عَنْهَا الْعَذَابَ أَن تَشْهَدَ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللَّـهِ إِنَّهُ لَمِنَ الْكَاذِبِينَ﴾ ’ ’ اور اس عورت کا چار مرتبہ اللہ کی قسمیں کھا کر، یہ کہنے سے کہ وہ ( خاوند) جھوٹا ہے، اس سے سزا کو ٹال دے گا۔“ ’’عذاب“ سے مراد وہ حد نہ ہوتی جو شوہر کے لعان کی وجہ سے واجب ہوئی ہے تو عورت کا لعان اس عذاب کو ہٹانہ سکتا اور عورت سے عذاب کو دور کردیا جائے گا جب وہ شوہر کی گواہیوں کا اسی جیسی گواہیوں کے ذریعے سے مقابلہ کرے گی ﴿ أَن تَشْهَدَ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللَّـهِ إِنَّهُ لَمِنَ الْكَاذِبِينَ ﴾ ” وہ چار مرتبہ اللہ کی قسمیں کھا کر کہے گی کہ اس کا خاوند جھوٹا ہے۔“ اور پانچویں گواہی میں، جو ان چار گواہیوں کو موکد بنانے کے لیے ہے اپنے لیے اللہ تعالیٰ کے غضب کی دعا کرے گی۔ پس جب اس طرح ان کے مابین لعان مکمل ہوجائے گا تو ہمیشہ کے لیے ان کو ایک دوسرے سے علیحدہ کردیا جائے گا اور شوہر سے بچے کے نسب کی نفی ہوجائے گی۔ آیات کریمہ کا ظاہر دلالت کرتا ہے کہ مرد اور عورت کی طرف سے لعان انہیں مذکورہ الفاظ اور ترتیب سے مشروط ہے، ان میں کمی بیشی یا ردو بدل جائز نہیں، نیز لعان صرف شوہر کے ساتھ مختص ہے، جب وہ اپنی بیوی پر زنا کا الزام لگائے، مگر اس کی بیوی ایسا نہیں کرسکتی۔ لعان کے لیے بچے میں مشابہت معتبر نہیں، جس طرح ” فراش“ ( یعنی نکاح )کی موجودگی میں معتبر نہیں، مشابہت تو صرف وہاں معتبر ہے جہاں مشابہت کے سوا کوئی اور ترجیح دینے والی چیز نہ ہو، تو وہاں مشابہت یقیناً معتبر ہوگی۔ النور
9 النور
10 ﴿وَلَوْلَا فَضْلُ اللّٰـهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ وَأَنَّ اللّٰـهَ تَوَّابٌ حَكِيمٌ﴾ شرط کا جواب محذوف ہے جس پر سیاق کلام دلالت کرتا ہے یعنی اگر اللہ تعالیٰ کا تم پر فضل نہ ہوتا تو دونوں لعان کرنے والوں میں سے جھوٹے پر اللہ تعالیٰ کا غضب نازل ہوجاتا جس کی اس نے دعا کی تھی۔ یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کا فضل ہے کہ اس نے یہ حکم نازل فرمایا جو میاں بیوی کے ساتھ مختص ہے کیونکہ اس حکم کی سخت ضرورت تھی، نیز اس نے تمہارے سامنے زنا اور قذف کی قباحت اور شدت کو واضح کیا اور اس نے ان کبیرہ گناہوں سے توبہ کو مشروع فرمایا۔ النور
11 چونکہ گزشتہ سطور میں اللہ تعالیٰ نے زنا کے بہتان کی برائی کا عمومی ذکر فرمایا وہ گویا اس بہتان کا مقدمہ ہے جو دنیا کی افضل ترین خاتون، ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر لگایا گیا۔ یہ آیات کریمہ مشہور قصہء افک کے بارے میں نازل ہوئیں۔ بہتان کا یہ واقعہ تمام صحاح، سنن اور اور مسانید میں صحت کے ساتھ منقول ہے۔ اس تمام قصہ کا حاصل یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی غزوہ میں تھے، آپ کے ساتھ آپ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ بنت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہا بھی تھیں۔ ان کا ہار ٹوٹ کر کہیں گرگیا ، وہ اس کی تلاش میں رک گئیں، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساربان آپ کے اونٹ اور ہودج سمیت لشکر کے ساتھ کوچ کر گئے اور ان کو ہودج میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاکی عدم موجودگی کا علم نہ ہوا اور لشکر کوچ کر گیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ہار کی تلاش کے بعد واپس اس جگہ پہنچیں تو لشکر موجود نہ تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو معلوم تھا کہ جب لشکر والے انہیں ہودج میں مفقود پائیں گے تو واپس لوٹیں گے۔ پس انہوں نے اپنا سفر جاری رکھا اور صفوان بن معطل سلمی رضی اللہ عنہ افاضل صحابہ میں شمار ہوتے ہیں انہوں نے لشکر کے آخری لوگوں کے ساتھ رات کے آخری حصے میں پڑاؤ کیا اور سوتے رہ گئے تھے۔ انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو دیکھا تو پہچان لیا حضرت صفوان رضی اللہ عنہ نے اپنی سواری بٹھائی اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو اس پر سوار کرایا۔ انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کوئی بات کی نہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان سے کوئی بات کی، پھر وہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی سواری کی مہار پکڑے دوپہر کے وقت جبکہ لشکر بھی پڑاؤ کے لیے اتر اچکا تھا، پڑاؤ میں پہنچ گئے۔ پس جب منافقین میں سے، جو اس سفر میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ تھے، کسی نے حضرت صفوان رضی اللہ عنہ کو اس حالت میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ آتے دیکھا تو اس نے بہتان طرازی کی خوب اشاعت کی، بات پھیل گئی، زبانیں ایک دوسرے سے اخذ کرتی چلی گئیں یہاں تک کہ بض مخلص مومن بھی دھوکہ کھاگئے اور وہ بھی بات پھیلانے کے مرتکب ہوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر طویل مدت تک وحی ناز ل نہ ہوئی بہت مدت کے بعد حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو منافقین کے بہتان کا علم ہوا اس پر انہیں شدید صدمہ پہنچا، چنانچہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی براءت میں یہ آیات کریمہ نازل فرمائیں۔ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو نصیحت فرمائی اور ان کو مفید وصیتوں سے سرفراز کیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿إِنَّ الَّذِينَ جَاءُوا بِالْإِفْكِ﴾ ” وہ لوگ جو نہایت قبیح جھوٹ گھڑ کر لائے ہیں۔“ اس سے مراد وہ بہتان ہے جو ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر لگایا گیا۔ ﴿عُصْبَةٌ مِّنكُمْ ﴾ اے مومنو ! بہتان طرازی کرنے والا گروہ تمہاری ہی طرف منسوب ہے۔ ان میں کچھ لوگ سچے مومن بھی ہیں مگر منافقین کے بہتان کو پھیلانے سے دھوکہ کھا گئے۔ ﴿لَا تَحْسَبُوهُ شَرًّا لَّكُم بَلْ هُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ﴾ ” تم اس کو اپنے لیے برا مت سمجھو، بلکہ وہ تمہارے بہتر ہے۔“ کیونکہ یہ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی براءت، ان کی پاک دامنی اور ان کی تعظیم و توقیر کے اعلان کو متضمن ہے حتیٰ کہ یہ عمومی مدح تمام ازواج مطہرات کو شامل ہے۔ نیز اس میں ان آیات کا بھی بیان ہے بندے جن کے محتاج ہیں اور جن پر قیامت تک عمل ہوتا رہے گا۔ پس یہ سب کچھ بہت بڑی بھلائی ہے۔ اگر بہتان طراز منافقین نے بہتان نہ لگایا ہوتا تو یہ خیر عظیم حاصل نہ ہوتی اور جب اللہ تعالیٰ کسی کام کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے لیے سبب پیدا کردیتا ہے، اسی لیے اس کا خطاب تمام مومنین کے لیے عام ہے نیز اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ اہل ایمان کا ایک دوسرے پر عیب لگانا خود اپنے آپ پر عیب لگانے کے مترادف ہے۔ ان آیات کریمہ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اہل ایمان آپس میں محبت و مودت، ایک دوسرے کے ساتھ مہربانی اور باہم نرمی کا رویہ رکھنے اور اپنے مصالح میں اکٹھے ہونے کے لحاظ سے جسد و احد کی مانند ہیں اور ایک مومن دوسرے مومن کے لیے عمارت کی مانند ہے دونوں ایک دوسرے کی مضبوطی کا باعث ہیں۔ پس جیسے وہ چاہتا ہے کہ کوئی شخص اس کی عزت و آبرو پر عیب نہ لگائے اسی طرح اس کو یہ بھی ناپسند ہونا چاہیے کہ کوئی شخص اپنے کسی بھائی کی عزت و ناموس پر عیب نہ لگائے جو خود اس کے نفس کی مانند ہے۔ اگر بندہ اس مقام پر نہ پہنچے تو یہ اس کے ایمان کا نقص اور اس میں خیر خواہی کا نہ ہونا ہے۔ ﴿لِكُلِّ امْرِئٍ مِّنْهُم مَّا اكْتَسَبَ مِنَ الْإِثْمِ ﴾ ” ان میں سے ہر آدمی کے لیے وہ گناہ ہے جو اس نے کمایا۔“ یہ ان لوگوں کے لیے وعید ہے جنہوں نے حضرت عائشہ طاہرہ رضی اللہ عنہا پر بہتان لگایا تھا اور انہیں عنقریب ان کی بہتان طرازی کی سزا دی جائے گی، چنانچہ ان میں سے کچھ لوگوں پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حد جاری فرمائی ﴿وَالَّذِي تَوَلَّىٰ كِبْرَهُ ﴾ ” جس نے اس کے بڑے حصے کو سر انجام دیا ہے۔“ یعنی وہ شخص جس نے بہتان کے اس واقعے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اس سے مراد خبیث منافق، عبداللہ بن ابی ابن سلول (لَعَنَهُ اللّٰهُ) ﴿ لَهُ عَذَابٌ عَظِيمٌ ﴾ اس کے لیے بڑا عذاب ہے۔“ اس سے مراد ہے کہ وہ جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں ہمیشہ رہے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی رہنمائی کی کہ جب وہ اس قسم کی بات سنیں تو انہیں کیا کرنا چاہیے۔ النور
12 چنانچہ فرمایا : ﴿ لَّوْلَا إِذْ سَمِعْتُمُوهُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بِأَنفُسِهِمْ خَيْرًا ﴾ ” کیوں نہیں، جب سنا تم نے اس ( بہتان) کو گمان کیا مومن مردوں اور مومن عورتوں نے اپنی جانوں کے ساتھ بھلائی کا۔“ یعنی مومنین ایک دوسرے کے بارے میں اچھا گمان رکھتے ہیں اور وہ ہے اس بہتان سے محفوظ ہونا جو ان منافقین نے گھڑا ہے۔ ان کا ایمان، ان کو اس بہتان طرازی سے روکتا ہے۔ ﴿ وَقَالُوا ﴾ ’’اور وہ کہتے‘‘ یعنی اس حسن ظن کی بنا پر : ﴿ سُبْحَانَكَ ﴾ اے اللہ ! تو برائی سے پاک اور منزہ ہے تو اپنے محبوب بندوں کو اس قسم کے قبیح امور میں مبتلا نہیں کرتا۔ ﴿ هَـٰذَا إِفْكٌ مُّبِينٌ ﴾ ” یہ تو کھلا جھوٹ اور بہتان ہے۔“ اس کا جھوٹ اور بہتان ہونا، سب سے واضح اور سب سے بڑی بات ہے۔ بندہ مومن پر واجب ہے کہ جب وہ اپنے مومن بھائی کے بارے میں کوئی ایسی بات سنے تو اپنی زبان سے اس کی براءت کا اظہار اور اس قسم کا بہتان لگانے والے کی تکذیب کرے۔ النور
13 ﴿ لَّوْلَا جَاءُوا عَلَيْهِ بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ ﴾ یعنی یہ بہتان طراز اپنے بہتان پر چار عادل اور معتبر گواہ کیوں نہیں لائے۔ ﴿ فَإِذْ لَمْ يَأْتُوا بِالشُّهَدَاءِ فَأُولَـٰئِكَ عِندَ اللّٰـهِ هُمُ الْكَاذِبُونَ ﴾ ” پس جب وہ گواہ نہیں لائے تو اللہ کے ہاں وہ جھوٹے ہیں۔‘‘ اگرچہ انہیں اپنے بارے میں یقین ہی کیوں نہ ہو مگر اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق وہ جھوٹے ہیں۔ (کیونکہ انہوں نے چار گواہ پیش نہیں کئے) اور اللہ تعالیٰ نے چار گواہوں کے بغیر ایسی بات منہ سے نکالنا حرام قرار دے دیا ہے۔ بناء بریں فرمایا : ﴿ فَأُولَـٰئِكَ عِندَ اللّٰـهِ هُمُ الْكَاذِبُونَ ﴾ اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا: ( فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْكَاذِبُونَ ) ” وہ جھوٹے ہیں“ یہ سب کچھ مسلمان کی عزت و ناموس کی حرمت کی بنا پر ہے۔ شہادت کے پورے نصاب کے بغیر، اس کی عزت و آبرو پر الزام لگانا جائز نہیں۔ النور
14 ﴿ وَلَوْلَا فَضْلُ اللّٰـهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ﴾ ” اور اگر دنیا و آخرت میں (تمہارے دینی اور دنیاوی امور میں)تم پر اللہ تعالیٰ کا احسان اور اس کی رحمت سایہ کناں نہ ہوتی“ ﴿ لَمَسَّكُمْ فِي مَا أَفَضْتُمْ فِيهِ ﴾ ” تو ضرور پہنچتا تمہیں اس بات کی وجہ سے جس کا چرچا تم نے کیا۔“ یعنی جس بہتان طرازی میں تم شریک ہوئے ہو ﴿ عَذَابٌ عَظِيمٌ ﴾ ” بہت بڑا عذاب۔“ کیونکہ تم اپنی بہتان طرازی کی بنا پر اس عذاب کے مستحق ہوگئے تھے مگر تم پر اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی بے پایاں رحمت تھی کہ اس نے تمہارے لیے توبہ مشروع کی اور عقوبت کو گناہوں سے پاک کرنے کا ذریعہ بنایا۔ النور
15 ﴿ إِذْ تَلَقَّوْنَهُ بِأَلْسِنَتِكُمْ ﴾ اور اس وقت کو یاد کرو جب تم اسے اپنی زبانوں سے نقل درنقل لے رہے تھے اور پھر یہ واقعہ بڑھا چڑھا کر ایک دوسرے کو سنا رہے تھے۔۔۔۔ حالانکہ وہ باطل قول تھا۔ ﴿ وَتَقُولُونَ بِأَفْوَاهِكُم مَّا لَيْسَ لَكُم بِهِ عِلْمٌ ﴾ ” اور تم اپنے مونہوں سے ایسی بات کہہ رہے تھے جس کا تمہیں علم ہی نہیں تھا) دونوں امور حرام ہیں، یعنی کلام باطل اور بغیر علم کے بات کرنا ﴿ وَتَحْسَبُونَهُ هَيِّنًا ﴾ ” اور تم اس بات کو بہت معمولی سمجھ رہے تھے“ اہل ایمان میں سے جس کسی نے اس کا ارتکاب کیا اسی وجہ سے کیا، بعدازاں اس سے توبہ کی اور اس گناہ سے پاک ہوئے ﴿ وَهُوَ عِندَ اللّٰـهِ عَظِيمٌ ﴾ ” حالانکہ وہ اللہ کے ہاں بہت بڑی بات ہے۔“ اس آیت کریمہ میں بعض گناہوں کو معمولی اور حقیر سمجھ کر ان کا ارتکاب کرنے پر سخت زجرو توبیخ ہے۔ بندے کا گناہوں کو ہلکا شمار کرنا اس کو فائدہ نہیں دیتا اور نہ اس سے گناہ کی سزا میں کمی ہی کی جاتی ہے، بلکہ اس طرح گناہ دگنا چوگنا ہوجاتا ہے اور گناہ میں دوبارہ مبتلا ہونا اس کے لیے آسان ہوجاتا ہے۔ النور
16 ﴿ وَلَوْلَا إِذْ سَمِعْتُمُوهُ ﴾ یعنی اے مومنو ! جب تم نے بہتان تراشوں کی یہ باتیں سنیں ﴿ قُلْتُم ﴾ تو تم نے اس بہتان کا انکار کرتے ہوئے اور اس کے معاملے کو بہت بڑا سمجھتے ہوئے کیوں نہ کہا؟ ﴿ مَّا يَكُونُ لَنَا أَن نَّتَكَلَّمَ بِهَـٰذَا ﴾ اس واضح بہتان طرازی کے ساتھ کلام کرنا ہمارے لیے مناسب ہے نہ ہمارے لائق کیونکہ مومن کا ایمان اسے قبیح کاموں کے ارتکاب سے روکتا ہے۔ ﴿ هَـٰذَا بُهْتَانٌ عَظِيمٌ ﴾ ” یہ بہت بڑا جھوٹ ہے۔ “ النور
17 ﴿ يَعِظُكُمُ اللّٰـهُ أَن تَعُودُوا لِمِثْلِهِ ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ تمہیں نصیحت کرتا ( روکتا) ہے کہ تم اہل ایمان پر بدکاری کے بہتان جیسے گناہ کا اعادہ کرو۔ اللہ تعالیٰ تمہیں نصیحت کرتا ہے اور اس بارے میں تمہاری خیر خواہی کرتا ہے۔ ہمارے رب کے مواعظ اور نصائح کتنے اچھے ہیں۔ ہم پر فرض ہے کہ ہم انہیں قبول کریں ان کے سامنے سر تسلیم خم کریں، ان کی پیروی کریں اور اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو ہمارے سامنے واضح کیا۔ ﴿ إِنَّ اللّٰـهَ نِعِمَّا يَعِظُكُم بِهِ ﴾ (النساء: 4؍58)” اللہ تمہیں اچھی نصیحت کرتا ہے۔“ ﴿ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ﴾ ” اگر تم مومن ہو۔“ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ ایمان صادق، صاحب ایمان کو محرمات کے ارتکاب سے روکتا ہے۔ النور
18 ﴿ وَيُبَيِّنُ اللّٰـهُ لَكُمُ الْآيَاتِ ﴾ ” اور اللہ تمہارے لیے اپنی آیتیں بیان کرتا ہے۔ ” جو احکامات، وعظ و نصیحت، زجرو توبیخ، اور ترغیب و ترہیب پر مشتمل ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان آیات کو خوب اچھی طرح واضح کرتا ہے ﴿ وَاللّٰـهُ عَلِيمٌ ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ کامل علم والا ہے۔ ﴿ حَكِيمٌ ﴾ اور اس کی حکمت عام ہے، یہ اس کا علم اور اس کی حکمت ہے کہ اس نے اپنے علم میں سے تمہیں علم سکھایا، اگرچہ یہ علم ہر وقت تمہارے اپنے مصالح کی طرف لوٹتا ہے۔ النور
19 ﴿ إِنَّ الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَن تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ ﴾ ” جو لوگ بے حیائی پھیلانے کے آرز مند رہتے ہیں۔“ یعنی جو چاہتے ہیں کہ قبیح امور کی اشاعت اور فواحش کا چلن ہو ﴿ فِي الَّذِينَ آمَنُوا لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴾ ” اہل ایمان میں ان کے لیے درد ناک عذاب ہے۔“ یعنی قلب و بدن کو سخت تکلیف دینے والا عذاب اور اس کا سبب یہ ہے کہ اس نے اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ دھوکہ کیا، ان کے لیے برا چاہا اور ان کی عزت و ناموس پر ہاتھ ڈالنے کی جرات کی۔ صرف فواحش کی اشاعت کی خواہش اور دل میں ان کی چاہت کی بنا پر اتنی بڑی وعید سنائی ہے، تو ان امور پر وعید کا کیا حال ہوگا جو اس سے زیادہ بڑے ہیں۔ مثلاً فواحش کا اظہار اور ان کو نقل کرنا، خواہ فواحش صادر ہوں یا صادر نہ ہوں۔ یہ تمام احکامات اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے مومن بندوں کے لیے رحمت اور ان کی عزت و ناموس کی حفاظت ہے۔ جس طرح اس نے ان کی جان و مال کی حفاظت کی اور ان کو ایسے امور کا حکم دیا جو خالص اور باہمی محبت کا تقاضا ہیں، نیز نہیں حکم دیا کہ وہ اپنے بھائی کے لیے وہی کچھ پسند کریں جو اپنے لیے پسند کرتے ہیں اور وہ کچھ ان کے لیے بھی ناپسند کریں جو اپنے لیے ناپسند کرتے ہیں۔ ﴿ وَاللّٰـهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ ﴾ ” اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔“ اس لیے اللہ تعالیٰ نے تمہیں تعلیم دی اور تم پر وہ سب کچھ واضح کیا جس سے تم لا علم تھے۔ النور
20 ﴿ وَلَوْلَا فَضْلُ اللّٰـهِ عَلَيْكُمْ ﴾ ” اور اگر تم پر اللہ کا فضل نہ ہوتا۔“ جس نے تمہیں ہر جانب سے گھیر رکھا ہے ﴿ وَرَحْمَتُهُ وَأَنَّ اللّٰـهَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ ﴾ ” اور اس کی رحمت اور یہ کہ اللہ بڑا شفیق اور نہایت مہربان ہے۔“ تو وہ تمہارے سامنے یہ احکام، مواعظ اور جلیل القدر حکمتیں بیان نہ کرتا نیز وہ اس شخص کو ڈھیل اور مہلت بھی نہ دیتا، جو اس کے حکم کی مخالفت کرتا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم اور اس کی رحمت ہے اور یہ اس کا وصف لازم ہے کہ اس نے تمہارے لیے دنیاوی اور اخروی بھلائی کو ترجیح دی جسے تم شمار نہیں کرسکتے۔ جہاں اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر اس گناہ کے ارتکاب سے منع کیا ہے وہاں عام طور پر دیگر گناہوں کے ارتکاب سے بھی روکا ہے۔ النور
21 چنانچہ فرمایا : ﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ ﴾ ” اے ایمان والو ! شیطان کے قدموں کی پیروی نہ کرو۔“ یعنی اس کے طریقوں اور اس کے وسوسوں کی پیروی نہ کرو۔ ( خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ )’’شیطان کے نقش قدم“ میں وہ تمام گناہ داخل ہیں جو قلب، زبان اور بدن سے متعلق ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے کہ اس نے تمہارے سامنے حکم واضح کیا اور وہ شیطان کے نقش قدم کی پیروی کرنے سے ممانعت ہے۔ اور حکمت ممنوع شدہ چیز میں جو شر ہے اس کے بیان کو کہتے ہیں جو اسے ترک کرنے کا تقاضا کرتا ہے اور اس کا داعی ہے۔ فرمایا : ﴿ وَمَن يَتَّبِعْ خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ فَإِنَّهُ ﴾ ” اور جو پیروی کرتا ہے شیطان کے قدموں کی، تو بے شک وہ“ یعنی شیطان ﴿ يَأْمُرُ بِالْفَحْشَاءِ ﴾ ” حکم دیتا ہے فحشاء کا۔“ (فحشائ) سے مراد وہ بڑے بڑے گناہ ہیں جن کو ان کی طرف بعض نفوس کے میلان کے باوجود شریعت اور عقل برا سمجھتی ہے۔ ﴿وَالْمُنكَرِ ﴾ ” اور منکر کا“ اور (منکر) وہ گناہ ہیں جن کا عقل انکار کرتی ہے۔ پس تمام گناہ جو شیطان کے نقوس پا ہیں وہ اس صفت سے باہر نہیں نکلتے، اس لیے اللہ تبارک و تعالیٰ کا اپنے بندوں کو ان گناہوں کے ارتکاب سے روکنا ان پر اس کی نعمت کا فیضان ہے وہ اس کا شکر ادا کریں اور اس کا ذکر کریں کیونکہ یہ ممانعت رذائل اور قبائح کی گندگی سے ان کی حفاظت ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا ان پر احسان ہے کہ اس نے بندوں کو گناہوں کے ارتکاب سے روکا جس طرح اس نے ان کو زہر قاتل وغیرہ کھانے سے روکا ہے۔ ﴿ وَلَوْلَا فَضْلُ اللّٰـهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ مَا زَكَىٰ مِنكُم مِّنْ أَحَدٍ أَبَدًا ﴾ ” اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی، تو تم میں سے کوئی بھی کبھی بھی پاک نہ ہوتا۔“ یعنی تم میں سے کوئی بھی شیطان کے نقش قدم کی پیروی کرنے سے کبھی نہیں بچ سکتا کیونکہ شیطان اور اس کے لشکر بندوں کو اپنے نقش قد کی پیروی کرنے کی دعوت دیتے رہتے ہیں اور گناہوں کو ان کے سامنے مزین کرتے رہتے ہیں اور نفس کی حالت تو یہ ہے کہ ہمیشہ برائی کی طرف مائل رہتا ہے، بندے کو برائی کے ارتکاب کا حکم دیتا رہتا ہے اور نقص ہر جہت سے بندے پر غالب ہے اور ایمان قوی نہیں ہے اگر بندے کو ان داعیوں کے حوالے کردیا جائے تو کوئی شخص بھی گناہوں اور برائیوں سے بچ کر اور نیکیوں کے اکتساب کے ذریعے سے پاک نہیں ہوسکتا کیونکہ ” تزکیہ“ طہارت اور بڑھاؤ کا متضمن ہے۔ تم میں سے جس کسی نے اپنا تزکیہ کرلیا تو اس کے موجب اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم اور اس کی رحمت ہیں۔ نبی مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا کیا کرتے تھے : (( اللَّهُمَّ اٰتِ نَفْسِي تَقْوَاهَا وَزَكِّهَا أَنْتَ خَيْرُ مَنْ زَكَّاهَا أَنْتَ وَلِيُّهَا وَمَوْلَاهَا)) [صحیح مسلم، الذکر والدعاء، باب فی الأدعیة،ح:2722 وسنن نسائی،الاستعاذة،باب الاستعاذة من العجز،ح:542]” اے اللہ ! میرے نفس کو تقویٰ عطا کر، اسے پاک کر، تو سب سے اچھا پاک کرنے والا ہے۔ تو اس کا والی اور مولا ہے۔ “ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَلَـٰكِنَّ اللّٰـهَ يُزَكِّي مَن يَشَاءُ ﴾ ” اور لیکن اللہ پاک کرتا ہے جس کو چاہتا ہے۔“ ہے اسی لیے فرمایا ﴿ وَاللّٰـهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ﴾ اور اللہ سننے والا جاننے والا ہے۔ “ النور
22 ﴿ وَلَا يَأْتَلِ ﴾ یعنی قسم نہ اٹھائیں ﴿ أُولُو الْفَضْلِ مِنكُمْ وَالسَّعَةِ أَن يُؤْتُوا أُولِي الْقُرْبَىٰ وَالْمَسَاكِينَ وَالْمُهَاجِرِينَ فِي سَبِيلِ اللّٰـهِ وَلْيَعْفُوا وَلْيَصْفَحُوا ﴾ ” جو تم میں سے بزرگی اور کشادگی والے ہیں، رشتے داروں مسکینوں اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو دینے سے اور چاہیے کہ معاف کردیں اور درگزر سے کام لیں۔“ واقعہ افک میں ملوث ہونے والوں میں مسطح بن اثاثہ بھی شامل تھے جو ابوبکر صدیق کے رشتہ دار تھے، وہ اللہ کے راستے میں ہجرت کرنے والے اور انتہائی نادار تھے۔ مسطح بن اثاثہ کی بہتان طرازی کی وجہ سے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے قسم کھا لی کہ وہ ان کی مالی مدد نہیں کریں گے ( جو کہ اس سے وہ کیا کرتے تھے)اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی جس میں اللہ تعالیٰ نے ان کو اس قسم سے روکا جو انفاق فی سبیل اللہ کے منقطع کرنے کو متضمن تھی اور انہیں عفو اور درگزر کرنے کی ترغیب دی اور اللہ نے ان سے وعدہ کیا کہ اگر وہ ان تقصیر کاروں کو بخش دیں گے تو اللہ تعالیٰ ان کو بخش دے گا۔ پس فرمایا : ﴿ أَلَا تُحِبُّونَ أَن يَغْفِرَ اللّٰـهُ لَكُمْ وَاللّٰـهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴾ ” کیا تم پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمہیں بخش دے اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔“ یعنی جب تم اللہ تعالیٰ کے بندوں کے ساتھ عفو اور درگزر کا معاملہ کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ بھی عفو اور درگزر کا معاملہ کرے گا۔ جب ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یہ آیت کریمہ سنی تو انہوں نے کہا :” کیوں نہیں اللہ کی قسم ! میں یہ چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے بخش دے۔“ چنانچہ انہوں نے دوبارہ حضرت مسطح رضی اللہ عنہ کی مالی مدد شروع کردی۔ [صحیح البخاری،التفسیر،باب ﴿إِنَّ الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَنْ تَشِيعَ﴾، ح:4757 وصحیح مسلم،التوبة ،باب فی حدیث الافک۔۔۔،ح:277] یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ قریبی رشتہ داروں پر خرچ کرنا چاہیے اور بندے کی معصیت کی بنا پر یہ مالی مدد ترک نہیں کرنی چاہیے، نیز جرم کا ارتکاب کرنے والے سے خواہ کتنا ہی بڑا جرم سر زد کیوں نہ ہوا ہو، اللہ تعالیٰ نے عفو اور درگزر کی ترغیب دی ہے۔ النور
23 پھر اللہ تعالیٰ نے عفت مآب عورتوں پر بہتان لگانے والوں کو سخت وعید سناتے ہوئے فرمایا : ﴿ إِنَّ الَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ﴾ ” وہ لوگ جو تہمت لگاتے ہیں پاک دامن عورتوں پر۔“ یعنی فسق وفجور سے پاک عورتیں ﴿ الْغَافِلَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ ﴾ ’’بے خبر، مومن عورتوں پر۔“ یعنی جن کے دلوں میں کبھی بدکاری کا خیال بھی نہیں گزرا ﴿ لُعِنُوا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ﴾ ” ان پر دنیا و آخرت میں لعنت ہے۔“ اور لعنت صرف کسی بڑے گناہ پر کی جاتی ہے اور لعنت کو موکد اس طرح کیا گیا ہے کہ اس کا دنیا و آخرت میں ان کو مود قرار دیا گیا ہے ﴿ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ ﴾ ” اور ان کے لیے عذاب عظیم ہے۔“ یہ عذاب عظیم اس لعنت پر مستزاد ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنی رحمت سے دور کیا اور ان پر اپنا غضب نازل فرمایا۔ النور
24 یہ عذاب عظیم قیامت کے روز ہوگا ﴿ يَوْمَ تَشْهَدُ عَلَيْهِمْ أَلْسِنَتُهُمْ وَأَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُم بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴾ جس (قیامت کے) روز ہر عضو اپنے اعمال کی گواہی دے گا اور وہ ہستی انہیں قوت گویائی عطا کرے گی جس نے ہر چیز کو گویائی بخشی ہے پس بندے سے گناہوں کا انکار ممکن نہ ہوگا۔ یقیناً وہ ہستی جس نے بندوں کے نفوس ہی میں سے گواہ برپا کئے اس نے بندوں کے ساتھ انصاف کیا۔ النور
25 ﴿ يَوْمَئِذٍ يُوَفِّيهِمُ اللّٰـهُ دِينَهُمُ الْحَقَّ ﴾ ” اس دن اللہ ان کو حق کے مطابق پوری پوری جزا دے گا۔“ یعنی ان کے اعمال کا بدلہ حق کے ساتھ ہوگا جو عدل و انصاف پر مبنی ہوگا۔ ان کو اپنے اعمال کی پوری پوری جزا ملے گی اور وہ ان اعمال میں سے کوئی چیز مفقود نہ پائیں گے۔ ﴿وَيَقُولُونَ يَا وَيْلَتَنَا مَالِ هَـٰذَا الْكِتَابِ لَا يُغَادِرُ صَغِيرَةً وَلَا كَبِيرَةً إِلَّا أَحْصَاهَا وَوَجَدُوا مَا عَمِلُوا حَاضِرًاوَلَا يَظْلِمُ رَبُّكَ أَحَدًا ﴾ (الکھف :18؍49)” اور پکار اٹھیں گے ہائے ہماری کم بختی ! یہ کیسی کتاب ہے کہ اس نے چھوٹی اور بڑی کوئی ایسی چیز نہیں چھوڑی جو اس میں درج نہ ہوئی ہو اور انہوں نے جو عمل کئے ان سب کو اپنے سامنے موجود پائیں گے اور تیرا رب ذرہ بھر کسی پر ظلم نہیں کرے گا۔“ اس عظیم مقام پر انہیں معلوم ہوجائے گا کہ اللہ تعالیٰ ہی حق مبین ہے، انہیں یہ بھی معلوم ہوجائے گا کہ واضح حق اللہ تعالیٰ ہی میں منحصر ہے۔ اس کے تمام اوضاف عظیم حق ہیں، اس کے افعال حق ہیں، اس کی عبادت حق ہے، اس سے ملاقات ہونا حق ہے، اس کا وعدہ و وعید اور اسکا حکم دینی و جزائی حق ہے اور اس کے رسول حق ہیں۔ پس حق صرف اللہ تعالیٰ ہی میں منحصر ہے اور جو کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے وہ حق ہے۔ النور
26 ﴿ الْخَبِيثَاتُ لِلْخَبِيثِينَ وَالْخَبِيثُونَ لِلْخَبِيثَاتِ ﴾ یعنی تمام ناپاک مردوزن، تمام ناپاک کلمات اور تمام ناپاک افعال نا پاک شخص کے لائق اور اسی کے مناسب حال، اسی سے مقرون اور اسی سے مشابہت رکھتے ہیں اور تمام پاک مردو زن، پاک کلمات اور پاک افعال پاک شخص کے لائق، اسی کے مناسب حال، اسی سے مقرون اور اسی سے مشابہت رکھتے ہیں۔ یہ ایک عام اصول ہے اس سے کوئی چیز باہر نہیں۔ اس کا سب سے بڑا اور اہم اطلاق انبیائے کرام پر ہوتا ہے، انبیائے کرام علیہم السلام، خاص طور پر اولوالعزم انبیاء ورسل علیہم السلام اور ان میں بھی خاص طور پر سید الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو تمام مخلوق میں علی الاطلاق سب سے زیادہ طیب و طاہر ہیں، کے لائق اور مناسب حال صرف طیبات و طاہرات عورتیں ہی ہوسکتی ہیں۔ بنابریں اس بارے میں سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا میں جرح و قدح خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیوی ہونے سے معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ اس قبیح بہتان سے پاک ہیں۔ تب ان کے بارے میں کیسے قبیح بات کہی جاسکتی ہے جبکہ ان کی اتنی بڑی شان ہے ؟ وہ عورتوں میں ” صدیقہ“ کے مرتبے پر فائز ہیں، عورتوں میں سب سے افضل، سب سے زیادہ عالمہ سب سے زیادہ طیبہ و طاہرہ اور رب العالمین کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبوبہ ہیں۔ صرف حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا تھیں کہ آپ ان کے لحاف میں ہوتے تو بھی آپ پر وحی نازل ہوجاتی دیگر ازواج مطہرات میں سے کسی اور کو یہ فضیلت حاصل نہ تھی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس طرح تصریح فرمائی کہ کسی باطل پسند کے لیے کسی بات اور کسی شک و شبہ کی کوئی گنجائش باقی نہ رکھی، چنانچہ فرمایا : ﴿أُولَـٰئِكَ مُبَرَّءُونَ مِمَّا يَقُولُونَ ﴾ ” یہ لوگ پاک ہیں ان باتوں سے جو لوگ (ان کی بابت) کہتے ہیں۔“ اصولاً یہ اشارہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی طرف ہے اور تبعاً دیگر مومن، پاک دامن اور بھولی بھالی بے خبر عورتوں کی طرف ہے ﴿ لَهُم مَّغْفِرَةٌ ﴾ ” ان کے لیے بخشش ہے۔“ جو سارے گناہوں پر حاوی ہوگی ﴿ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ ﴾ ” اور با عزت رزق“ جو جنت میں رب کریم کی طرف سے صادر ہوگا۔ النور
27 اللہ باری تعالیٰ اپنے بندوں سے فرماتا ہے کہ وہ اپنے گھر کے سوا دوسرے گھروں میں اجازت لیے بغیر داخل نہ ہوا کریں، کیونکہ اس میں متعدد مفاسد ہیں : (1) جس کا ذکر کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :” اجازت طلبی نظر پڑنے سے بچاؤ ہی کے لیے مقرر کی گئی ہے۔‘‘ [صحیح البخاری، الاستئذان، من اجل البصر، ح:6241وصحیح مسلم، الآداب،باب تحریم النظر فی بیت غیرہ،ح:2156] اجازت طلبی میں خلل واقع ہوجانے سے گھر کے اندر ستر پر نظر پڑتی ہے۔ کیونکہ گھر انسان کے لیے باہر کے لوگوں سے ستر اور پردہ ہے جیسے کپڑا جسم کو چھپاتا ہے۔ (2) اجازت طلب کئے بغیر گھر میں داخل ہونا، داخل ہونے والے کے بارے میں شک کا موجب ہے اور وہ برائی یعنی چوری وغیرہ سے متہم ہوتا ہے کیونکہ گھر میں خفیہ طور پر داخل ہونا شر پر دلالت کرتا ہے۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو اپنے گھروں کے سوا دوسروں کے گھروں میں داخل ہونے سے منع کردیا ہے۔ یہاں تک کہ وہ اجازت طلب کرلیں۔ یہاں ( اِسْتئِذَان ) کو ( اسْتِئنَاس ) اس لیے کہا گیا ہے کہ اس سے انس حاصل ہوتا ہے اور اس کے معدوم ہونے سے وحشت حاصل ہوتی ہے۔ ﴿ وَتُسَلِّمُوا عَلَىٰ أَهْلِهَا ﴾ ” اور گھر میں رہنے والوں کو سلام کرو“ حدیث شریف میں اس کا یہ طریقہ بیان ہوا ہے کہ کسی کے گھر میں داخل ہونے سے پہلے کہو : ” السلام علیکم ! اور پھر پوچھو، کیا میں اندر آجاؤں؟“ ﴿ ذَٰلِكُمْ ﴾ ” یعنی یہ مذکورہ اجازت طلبی ﴿ خَيْرٌ لَّكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ ﴾ ” تمہارے لیے بہتر ہے، تاکہ تم نصیحت پکڑو۔“ کیونکہ اجازت طلبی متعدد مصالح پر مشتمل ہے اور اس کا شمار ایسے مکارم اخلاق میں ہوتا ہے جن کو اپنا نا واجب ہے۔ پس اگر گھر میں داخل ہونے کی اجازت دے دی جائے تو اجازت طلب کرنے والے کو داخل ہونا چاہیے۔ النور
28 ﴿ فَإِن لَّمْ تَجِدُوا فِيهَا أَحَدًا فَلَا تَدْخُلُوهَا حَتَّىٰ يُؤْذَنَ لَكُمْ وَإِن قِيلَ لَكُمُ ارْجِعُوا فَارْجِعُوا ﴾ ” اگر وہاں تمہیں کوئی بھی نہ مل سکے تو پھر بھی اجازت ملے بغیر اندر نہ جاؤ اور اگر تمہیں لوٹ جانے کو کہا جائے تو تم لوٹ جاؤ۔“ یعنی اگر تمہیں واپس لوٹنے کے لیے کہا جائے تو انکار نہ کرو اور نہ اس پر ناراضگی کا ہی اظہار کرو کیونکہ صاحب خانہ نے تمہیں کسی ایسے امر سے نہیں روکا جو تمہارا حق واجب ہو یہ تو اس کی صوابدید اور نوازش ہے چاہے اجازت دے، چاہے انکار کر دے۔ تم میں سے کسی کو ہتک اور انقباض محسوس نہیں کرنا چاہیے۔ ﴿هُوَ أَزْكَىٰ لَكُمْ ﴾ تمہیں برائیوں سے پاک کرنے اور تمہاری نیکیوں میں اضافہ کرنے کے لیے یہ طریق کار تمہارے لیے بہتر ہے ﴿ وَاللّٰـهُ بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ﴾ ” اور جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ تعالیٰ اسے خوب جانتا ہے۔“ پس اللہ تعالیٰ ہر شخص کو اس کے تھوڑے یا زیادہ، اچھے یا برے اعمال کا بدلہ دے گا۔ یہ حکم ان گھروں کے لیے ہو جو آباد ہیں خواہ ان میں آدمی کا مال و متاع موجود ہو یا نہیں ہو۔ نیز یہ حکم ان گھروں کے لیے بھی ہے جن میں رہائش نہ ہو مگر اس میں آدمی کا کوئی مال و متاع موجود ہو۔ رہے وہ گھر جن میں گھر والے رہائش نہ رکھے ہوئے ہوں اس گھر میں داخل ہونے کے ضرورت مند شخص کا مال و متاع اس گھر میں موجود ہو، اس گھر میں گھر کے مالکان میں سے کوئی ایسا شخص بھی موجود نہ ہو جس سے اجازت طلب کی جاسکتی ہو مثلاً: کرائے کے مکانات وغیرہ۔۔۔ النور
29 تو ایسے گھروں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ لَّيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ ﴾ ان گھروں میں داخل ہونے میں تمہارے لیے کوئی حرج ہے نہ گناہ۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ مذکورہ بالا گھروں میں اجازت حاصل کئے بغیر داخل ہونا حرام ہے اور اس میں حرج اور گناہ ہے۔ ﴿ أَن تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ مَسْكُونَةٍ فِيهَا مَتَاعٌ لَّكُمْ ﴾ ” یہ کہ ایسے گھروں میں تم داخل ہو جن میں رہائش نہ ہو، البتہ اس میں تمہارا سامان ہو۔“ یہ حکم قرآن کریم کے تعجب انگیز احترازات میں سے ایک ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد : ﴿ لَا تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ بُيُوتِكُمْ ﴾ ” اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں داخل نہ ہو۔“ ہر گھر کے بارے میں لفظ عام ہے جو اس کی ملکیت میں تو نہیں ہیں البتہ اس کی کوئی متاع وہاں موجود ہے اور اس گھر میں کسی کی رہائش نہیں ہے، پس اللہ تعالیٰ نے اس گھر میں داخل ہونے میں حرج کو ساقط کردیا۔ ﴿ وَاللّٰـهُ يَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا تَكْتُمُونَ ﴾ اللہ تعالیٰ تمہارے تمام ظاہری اور باطنی احوال کو خوب جانتا ہے اور اسے تمہارے مصالح کا بھی علم ہے اس لیے اس نے تمہارے لیے ایسے احکام کی تشریع کی ہے جن کے تم محتاج اور ضرورت مند ہو۔ النور
30 ﴿ قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ ﴾ مومنوں سے فرمائیے اور ان لوگوں سے کہہ دیجیے جن کے پاس کچھ ایمان ہے جو انہیں ایسے امور میں پڑنے سے روکتا ہے جو ایمان میں خلل ڈالتے ہیں۔ ﴿ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ ﴾ ” وہ اپنی نظروں کو پست رکھیں۔“ یعنی قابل ستر اور اجنبی عورتوں کی طرف سے اپنی نظروں کو ہٹا لیا کریں، ان بے ریش لڑکوں پر سے بھی نظر ہٹا لیں جن کو دیکھنے سے فتنے میں مبتلا ہونے کا خدشہ ہو، نیز دنیا کی زیب و زینت کی طرف بھی جن کو دیکھ کر فتنے میں مبتلا ہونے کا خدشہ ہو، نیز دنیا کی زیب و زینت کی طرف بھی جن کو دیکھ کر فتنے میں مبتلا ہونے کا خدشہ ہو اور جو حرام میں مبتلا کردیتی ہیں۔ ﴿و وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ﴾ یعنی عورتوں یا مردوں کے ساتھ بدکاری یا ان کے علاوہ دوسری صورتوں سے اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔ اسی طرح ان کو چھونے اور ان کو دیکھنے سے بچیں۔ ﴿ ذٰلِكَ ﴾ آنکھوں اور شرم گاہ کی یہ حفاظت ﴿ أَزْكَىٰ لَهُمْ ﴾ ان کے لیے زیادہ طہارت، پاکیزگی اور ان کے اعمال خیر میں زیادہ اضافے کا باعث ہے کیونکہ جو کوئی اپنی نظر اور شرم گاہ کی حفاظت کرتا ہے اور اس گندگی سے پاک ہوجاتا ہے جس میں فواحش کے مرتکب لوگ ملوث ہوتے ہیں اور ان محرمات کو ترک کرنے سے، نفس جن کی خواہش کرتا اور ان کی طرف دعوت دیتا ہے، اعمال خیر میں اضافہ ہوتا ہے۔ جو کوئی اللہ تعالیٰ کی خاطر کوئی چیز ترک کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اس سے بہتر عوض عطا کرتا ہے۔ جو کوئی اپنی آنکھوں کو حرام پر پڑنے سے بچائے رکھتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی بصیرت کو روشن کردیتا ہے۔۔۔ نیز اگر بندہ اپنی شرم گاہ اور نظر کو حرام اور اس کے کے مقدمات میں پڑنے سے بچا سکتا ہے درآنحالیکہ شہوت کا داعیہ پوری طرح موجود ہو، تو وہ دوسرے حرام میں پڑنے سے اپنے آپ کو زیادہ بچا سکتا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے یہاں ” حفاظت“ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ پس کسی محفوظ چیز کی حفاظت کے لیے نگرانی اور ان اسباب کو بروئے کار نہ لایا جائے جو اس کی حفاظت کے موجب بنیں تو وہ چیز محفوظ نہیں رہ سکتی۔ اسی طرح نظر اور شرم گاہ کا معاملہ ہے، اگر بندہ ان کی حفاظت کی کوشش نہیں کرتا تو وہ ان کو آزمائشوں اور مصیبتوں میں ڈال دیتی ہیں علاوہ ازیں غور کیجیے، اللہ تعالیٰ نے کیسے شرم گاہ کی حفاظت کا مطلق طور پر حکم دیا ہے، کیونکہ شرم گاہ کا غلط استعمال کسی حالت میں بھی جائز نہیں۔ لیکن نظر کے بارے میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ ﴾ حرف جار ( مِنْ ) تبعیض پر دلالت کرتا ہے کیونکہ بعض حالات میں، کسی ضرورت کے تحت غیر محرم چہروں کو دیکھنا جائز ہے۔ مثلاً گواہ، حاکم اور نکاح کا پیغام دینے والے کے لیے غیر محرم چہروں پرنظر ڈالناجائز ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے کئی اعمال کا ذکر فرمایا ہے تاکہ لوگ محرمات سے اپنے نفسوں کی حفاظت کرنے کی کوشش کریں۔ النور
31 اللہ تعالیٰ نے مومنین کو نظریں جھکانے اور شرم گاہوں کی حفاظت کرنے کا حکم دیا تو مومنات کو بھی نظر جھکانے اور شرم گاہوں کی حفاظت کا حکم دیا۔ فرمایا : ﴿ وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ ﴾ ” اور مومن عورتوں سے بھی کہہ دیجیے ! کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھیں۔“ یعنی وہ ستر کی جگہوں اور مردوں پر شہوت کی نظر ڈالنے سے اپنی آنکھوں کو بچائے رکھیں ﴿ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ ﴾ اور جماع حرام سے اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں، نیز شرم گاہوں کو چھونے اور ان کی طرف حرام نظر سے ان کی حفاظت کریں۔ ﴿ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ ﴾ ” اور اپنی زیب و زینت کی نمائش نہ کریں“ مثلاً خوبصورت لباس، زیورات اور تمام بدن زینت میں شمار ہوتے ہیں۔ چونکہ ظاہری لباس جس کو عادت کے مطابق پہنا جاتا ہے، کی نمائش کو نہیں روکا جاسکتا اس لیے فرمایا : ﴿ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا ﴾ ” مگر جو اس زینت سے ظاہر ہو۔“ یعنی وہ ظاہری لباس، جو عام طور پر پہنا جاتا ہے، اس لباس میں ایسی کوئی چیز نہ ہو جو فتنہ کو دعوت دیتی ہو۔ ﴿ وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَىٰ جُيُوبِهِنَّ ﴾ ” اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رکھیں۔“ اور یہ حکم کامل ستر پوشی کے لیے ہے اور یہ چیز دلالت کرتی ہے کہ وہ زینت جس کی نمائش حرام ہے اس میں تمام بدن داخل ہے جیسا کہ ہم اس کا ذکر کرچکے ہیں، پھر زیب و زینت کی نمائش سے مکرر منع کرتے ہوئے اس میں سے ان لوگوں کو مستثنیٰ فرمایا : ﴿ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ﴾ یعنی اپنے شوہروں کے سامنے زینت کا اظہار جائز ہے۔ ﴿ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ ﴾ ” یا ان کے اپنے باپ دادا یا ان کے شوہروں کے باپ دادا کے سوا“ یعنی اس استثناء میں باپ دادا اوپر تک شامل ہیں۔ ﴿ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ ﴾ اور اس میں اپنے بیٹے، اپنے خاوندوں کے بیٹے اور پوتے اور پر پوتے بھی، نیچے تک شامل ہیں۔ ﴿ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ ﴾ ” یا بھائی یا بھتیجے“ خواہ وہ حقیقی (عینی)علاتی ( باپ شریک) یا اخیا فی ( ماں شریک) بھائی ہوں۔ ﴿ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ ﴾ ’’یا بھانجے یا ان کی عورتیں۔“ یعنی مسلمان عورتوں کے لیے ایک دوسری پر نظر ڈالنا مطلقاً جائز ہے۔ اس میں اس امر کا احتمال بھی ہے کہ اضافت جنسیت کی مقتضی ہو، یعنی اپنی ” عورتوں“ سے مراد مسلمان عورتیں ہیں جو تمہاری جنس سے تعلق رکھتی ہیں تب اس میں ان لوگوں کے لیے دلیل ہے جن کا موقف ہے کہ مسلمان عورت کی طرف ذمی عورت کا دیکھنا جائز نہیں۔ ﴿ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ ﴾ ” یا جن کے تمہارے دائیں ہاتھ مالک ہوئے۔“ یعنی اس غلام کے لیے جو گھر میں صرف خواتین کی خدمت کے لیے مامور ہے، اپنی ملک کو اس وقت تک دیکھنا جائز ہے جب تک کہ مکمل طور پر اس کی ملکیت میں ہے جب ملکیت مکمل طور پر یا جزوی طور پر زائل ہوجائے تو مالکہ پر نظر ڈالنا جائز نہیں۔ ﴿ أَوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ أُولِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ ﴾ یعنی وہ مرد جو تمہارے زیر دست ہیں اور تمہارے ساتھ ان کا تعلق ہے جو کسی قسم کی شہوانی اغراض نہ رکھتے ہوں، مثلاً العقل لوگ، جو شہوانی شعور نہیں رکھتے اور وہ لوگ جن میں عورتوں کے پاس جانے کی خواہش باقی نہ رہے، ان کی شرمگاہ میں شہوت ہو نہ ان کے دل میں خواہش۔ ایسے شخص کے لیے نظر ڈالنا جائز ہے۔ ﴿ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَىٰ عَوْرَاتِ النِّسَاءِ ﴾ یعنی وہ بچے جو اس قسم کی تمیز نہیں رکھتے ان کے لیے غیر عورتوں کو دیکھنا جائز ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس کی یہ علت بیان کی ہے کہ وہ عورتوں کی پوشیدہ باتوں سے واقف ہیں نہ اس کا علم رکھتے ہیں اور نہ ان میں شہوت پائی جاتی ہے۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ ایسے بچوں سے پردہ کرنا فرض ہے جو سن تمیز کو پہنچ چکے ہوں کیونکہ اب وہ عورتوں کی پوشیدہ باتوں سے واقف ہیں۔ ﴿ وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِن زِينَتِهِنَّ ﴾ یعنی وہ زمین پر پاؤں مار کر نہ چلیں تاکہ ان کے پہنے ہوئے زیورات مثلاً پازیب وغیرہ کی آواز نہ آئے اور اس سبب سے اس کی زینت ظاہر نہ ہو جو فتنے کا وسیلہ بن سکے۔ اس آیت کریمہ اور اس قسم کی دیگر آیات سے ” سد ذرائع“ کے فقہی قاعدے کا استنباط کیا جاتا ہے، یعنی کوئی امر، اگرچہ وہ فی نفسہ مباح ہے مگر اس پر عمل کرنے سے کسی حرام امر کا ارتکاب ہوتا ہے یا اس کا خدشہ ہے، تو سد ذریعہ کے طور پر یہ مباح امر ممنوع ہوجائے گا۔۔۔ زمین پر پاؤں مارنا فی نفسہ مباح ہے لیکن چونکہ یہ اظہار زینت کا ذریعہ ہے، اس لیے پاؤں مار کر چلنے سے روک دیا گیا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے بہترین احکام کا حکم دیا ہے اور بہترین و صیتیں عنایت فرمائی ہیں۔ ان پر عمل کرنے میں بندہ مومن سے کوتاہی واقع ہونا ایک لابدی امر ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے توبہ کا حکم دیتے ہوئے فرمایا : ﴿ وَتُوبُوا إِلَى اللّٰـهِ جَمِيعًا أَيُّهَ الْمُؤْمِنُونَ ﴾ ” اور تمام مومنو ! اللہ کے ہاں توبہ کرو“ یہ حکم دینے کے بعد فلاح کو اس پر معلق رکھا، چنانچہ فرمایا : ﴿ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ﴾” تاکہ تم کامیابی حاصل کرو“ اور توبہ کیا ہے ؟ ان کا موں کو ظاہری اور باطنی طور پر ترک کر کے، جو اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہیں، ان امور کی طرف لوٹنا جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہیں۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ ہر مومن توبہ کا محتاج ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تمام اہل ایمان کو خطاب فرمایا ہے، نیز اس آیت میں خالص توبہ کی ترغیب دی گئی ہے۔ ﴿ وَتُوبُوا إِلَى اللّٰـهِ ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے سوا اور کوئی مقصد نہ ہو۔ آفات دنیا، ریاء اور شہرت وغیرہ جیسے فاسد مقاصد سے محفوظ ہو۔ النور
32 اللہ تبارک و تعالیٰ سر پرستوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ ان مجرد عورتوں اور مردوں کا نکاح کریں جو ان کی سر پرستی میں ہیں۔ (أَيَامَىٰ) سے مراد وہ مرد اور عورتیں ہیں جن کی بیویاں اور شوہر نہ ہوں یعنی کنوارے اور رنڈوے مردو زن لہذا قریبی رشتہ داروں اور یتیموں کے سر پرستوں پر واجب ہے کہ وہ ایسے مردو زن کا نکاح کریں جو نکاح کے محتاج ہیں، یعنی جن کی کفالت ان پر واجب ہے۔ جب وہ ان لوگوں کا نکاح کرنے پر مامور ہیں جو ان کے زیر دست میں تو خود اپنے نکاح کا حکم تو زیادہ موکد اور اولیٰ ہے۔ ﴿ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ ﴾ ” اور اپنے نیک بخت غلاموں اور لونڈیوں کا بھی۔“ اس میں یہ احتمال ہے کہ صالحین سے مراد وہ لونڈی اور غلام ہیں جو دینی اعتبار سے صالح ہوں کیونکہ لونڈیوں اور غلاموں میں سے جو لوگ دینی اعتبار سے صالح ہیں، وہی لوگ ہیں جو بدکار اور زانی نہیں ہوتے، ان کا آقا اس بات پر مامور ہے کہ وہ ان کا نکاح کرے، یہ ان کی صالحیت کی جزا اور اس کی ترغیب ہے، نیز زنا کار کا نکاح کرنے سے روکا گیا ہے۔ تب یہ اس حکم کی تائید ہے جس کا ذکر سورت کی ابتداء میں کیا گیا ہے کہ زانی اور زانیہ جب تک توبہ نہ کریں، ان کا نکاح حرام ہے۔۔۔ اور آزاد مردوزن کی بجائے غلاموں کے نکاح کے لیے صالحیت کی تخصیص اس لیے ہے کہ عادتاً غلاموں میں فسق و فجور زیادہ ہوتا ہے۔ اس میں یہ احتمال بھی ہے کہ صالحین سے مراد وہ لونڈی اور غلام ہوں جو نکاح کی صلاحیت رکھتے ہوں اور نکاح کے محتاج ہوں۔ اس معنی کی تائید یہ بات بھی کرتی ہے کہ جب تک مملوک نکاح کا حاجت مند نہ ہو اس کا مالک اس کا نکاح کرنے پر مامور نہیں۔۔۔۔ اور یہ بھی کوئی بعید بات نہیں کہ اس سے دونوں ہی معنی مراد ہوں۔ واللہ اعلم ﴿ إِن يَكُونُوا فُقَرَاءَ ﴾ ” اور اگر ہوں گے وہ تنگ دست۔“ یعنی خاوند اور نکاح کرنے والے ﴿ يُغْنِهِمُ اللّٰـهُ مِن فَضْلِهِ ﴾ ” تو غنی کر دے گا اللہ ان کو اپنے فضل سے۔“ پس تمہیں یہ وہم نکاح کرنے سے نہ روک دے کہ جب تم نکاح کرلو گے تو عائل بوجھ کی وجہ سے محتاج ہوجاؤ گے۔ اس آیت کریمہ میں نکاح کی ترغیب ہے نیز نکاح کرنے والے سے وعدہ کیا گیا ہے کہ اسے فقر کے بعد فراخی اور خوش حالی حاصل ہوگی۔ ﴿ وَاللّٰـهُ وَاسِعٌ ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ بہت زیادہ بھلائی اور فضل عظیم کا مالک ہے۔ ﴿ عَلِيمٌ ﴾ وہ ان سب کو جانتا ہے جو اس کے دینی اور دنیاوی فضل یا کسی ایک کے مستحق ہیں اور وہ انہیں بھی جانتا ہے جو اس کے مستحق نہیں ہیں۔ وہ ان سب کو اپنے علم اور اپنی حکمت کے تقاضے کے مطابق عطا کرتا ہے۔ النور
33 ﴿ وَلْيَسْتَعْفِفِ الَّذِينَ لَا يَجِدُونَ نِكَاحًا حَتَّىٰ يُغْنِيَهُمُ اللّٰـهُ مِن فَضْلِهِ ﴾ ” اور ان لوگوں کو پاک دامن رہنا چاہیے جو نکاح کی طاقت نہیں رکھتے، یہاں تک کہ اللہ ان کو اپنے فضل سے غنی کر دے۔، ض یہ اس شخص کے لیے حکم ہے جو نکاح کرنے سے عاجز ہے۔ اللہ نے اس کو حکم دیا ہے کہ وہ پاک بازی کو اپنا شیوہ بنائے، حرام کاری میں پڑنے سے بچے اور ایسے اسباب اختیار کرے جو اسے حرام کاری سے بچائیں یعنی قلب کو ایسے خیالات سے بچائے رکھے جو حرام کاری میں پڑنے کی دعوت دیتے ہوں، نیز وہ حرام کاری سے محفوظ رہنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس ارشاد پر عمل کرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’اے نوجوانو ! تم میں سے جو کوئی نکاح کی طاقت رکھتا ہے وہ نکاح کرے اور جو کوئی نکاح کی طاقت نہیں رکھتا تو اسے چاہیے کہ وہ روزے رکھے کیونکہ روزہ شہوت کو ختم کرتا ہے۔ “ [صحیح البخاری، النکاح، باب قول النبی صلی اللہ علیه وسلم من استطاع منکم۔۔۔،ح :5065وصحیح مسلم، النکاح،باب استحباب النکاح لمن ثاقت۔۔۔،ح:1400] ﴿ الَّذِينَ لَا يَجِدُونَ نِكَاحًا ﴾ یعنی اپنی محتاجی یا اپنے مالکوں کی محتاجی یا مالکوں کے نکاح نہ کرنے کی وجہ سے اگر وہ نکاح کرنے کی قدرت نہیں رکھتے اور وہ اپنے نکاح کے لیے اپنے مالکوں کو مجبور بھی نہیں کرسکتے۔ یہ معنی مقدر اس معنی سے بہتر ہے جو بعض لوگوں نے مراد لیا ہے کہ“ جو لوگ نکاح کا مہر ادا کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔“ انہوں نے مضاف الیہ کو مضاف کا قائم مقام بنایا۔ مگر یہ معنی مراد لینے میں دو رکاوٹیں ہیں۔ (1) کلام میں حذف ماننا پڑے گا، جبکہ اصل عدم حذف ہے۔ (2) معنی کا اس شخص میں منحصر ہونا جس کی دو حالتیں ہوں، اپنے مال کی وجہ سے غنا کی حالت اور ناداری کی حالت۔ اس صورت میں غلام اور لونڈیاں اس سے نکل جاتی ہیں اور اسی طرح وہ بھی جن کا نکاح کرانا سر پرست کے ذمے ہے جیسا کہ ہم نے ذکر کیا۔ ﴿ حَتَّىٰ يُغْنِيَهُمُ اللّٰـهُ مِن فَضْلِهِ ﴾ اللہ تبارک و تعالیٰ نے پاک دامن شخص کے لیے غنا کا وعدہ کیا ہے، نیز یہ کہ وہ اس کے معاملے کو آسان کر دے گا اور اللہ تعالیٰ نے اس کو حکم دیا ہے کہ کشادگی کا انتظار کرے تاکہ موجود حالات اس پر گراں نہ گزریں۔ ﴿ وَالَّذِينَ يَبْتَغُونَ الْكِتَابَ مِمَّا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ فَكَاتِبُوهُمْ ﴾ یعنی تمہارے غلام اور لونڈیوں میں سے جو کوئی تم سے مکاتبت کا طلب گار ہو اور اپنے آپ کو خریدنا چاہے تو اس کی بات مانتے ہوئے اس سے مکاتبت کرلو ﴿ إِنْ عَلِمْتُمْ فِيهِمْ ﴾ ” اگر جانو تم ان میں۔‘‘ یعنی مکاتبت کے طلب گار غلاموں میں ﴿ خَيْرًا ﴾ ” بھلائی“ یعنی کمانے کی طاقت اور دین میں بھلائی، کیونکہ مکاتبت میں دو مصلحتوں کا حصول مقصود ہے۔ آزادی کی مصلحت اور اس معاوضے کی مصلحت، جو وہ اپنے نفس کی آزادی کے لیے خوچ کرتا ہے۔ بسا اوقات وہ جدوجہد کر کے مکاتبت کی مدت کے اندر اپنے آقا کو اتنا مال مہیا کردیتا ہے جو وہ غلامی میں رہتے ہوئے نہیں کرسکتا۔ اس لیے غلام کے لیے ایک بڑی منفعت کے حصول کے ساتھ ساتھ، اس مکاتبت میں آقا کو بھی نقصان نہیں پہنچتا۔ بنابریں اللہ تعالیٰ نے اس پہلو سے مکاتبت کا حکم دیا ہے، جو وجوب کا حکم ہے جیسا کہ ظاہر ہے۔ یا دوسرے قول کے مطابق یہ حکم استحباب کے طور پر۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی مکاتبت پر ان کی مدد کرنے کا حکم دیا ہے کیونکہ وہ اس کے محتاج ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے پاس کوئی مال نہیں، چنانچہ فرمایا : ﴿ وَآتُوهُم مِّن مَّالِ اللّٰـهِ الَّذِي آتَاكُمْ ﴾ ” اور تم ان کو اس مال میں سے دو جو اللہ نے تمہیں دیا ہے۔“ اس میں مکاتب کے آقا کا معاملہ بھی شامل ہے جس نے اس کے ساتھ مکاتبت کی ہے کہ وہ اس کی مکاتبت میں اس کو کچھ عطا کرے یا مکاتبت کی مقررہ رقم میں سے کچھ حصہ ساقط کر دے اور اللہ تعالیٰ نے دوسرے لوگوں کو بھی مکاتب کی مدد کرنے کا حکم دیا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے مکاتبین کے لیے زکوٰۃ میں حصہ رکھ دیا ہے اور زکوٰۃ میں سے مکاتبین کو عطا کرنے کی ترغیب دی ہے۔ فرمایا : ﴿ مِّن مَّالِ اللّٰـهِ الَّذِي آتَاكُمْ ﴾ یعنی جس طرح، یہ مال درحقیقت اللہ کا مال ہے، اس مال کا تمہارے ہاتھوں میں ہونا تم پر اللہ تعالیٰ کی عنایت اور اس کا محض عطیہ ہے، اسی طرح تم بھی اللہ تعالیٰ کے بندوں کے ساتھ احسان کرو جس طرح اللہ تعالیٰ نے تم پر احسان کیا ہے۔ آیت کریمہ کا مفہوم مخالف یہ ہے کہ اگر غلام مکاتبت کا مطالبہ نہ کرے تو اس کے آقا کو حکم نہیں دیا جاسکتا کہ وہ اس کے ساتھ مکاتبت کی ابتدا کرے، جبکہ اس میں اسے کوئی بھلائی نظر نہ آئے، یا اسے معاملہ برعکس نظر آئے، یعنی وہ جانتا ہو کہ وہ کما نہیں سکتا اور اس طرح وہ لوگوں پر بوجھ بن کر ضائع ہوجائے گا۔ یا اسے یہ خوف ہو کہ جب بھی اس کو آزاد کردیا گیا اور اسے آزادی حاصل ہوگئی تو اسے فساد برپا کرنے کی قدرت حاصل ہوجائے گی تو ایسے غلام کے بارے میں اس کے آقا کو مکاتبت کا حکم نہیں دیا جاسکتا بلکہ اس کے برعکس اس کو مکاتبت سے روکا جائے گا، کیونکہ اس میں متذکرہ بالا خطرہ موجود ہے جس سے بچنا چاہیے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَلَا تُكْرِهُوا فَتَيَاتِكُمْ ﴾ ” اور نہ مجبور کرو تم اپنی لونڈیوں کو“ ﴿ عَلَى الْبِغَاءِ ﴾ ” زنا کار بننے پر“ ﴿ إِنْ أَرَدْنَ تَحَصُّنًا﴾ ” اگر وہ پاک دامن رہنا چاہیں۔“ اس لیے کہ اس حالت کے سوا کسی حالت میں اسے مجبور کرنے کا تصور نہیں کیا جاسکتا اور اگر وہ پاک دامن رہنا نہ چاہے تو اس صورت میں وہ بدکار ہے اور اس کے آقا پر واجب ہے کہ وہ اس کو اس بدکاری سے روک دے۔ اللہ تعالیٰ نے لونڈیوں کو بدکاری پر مجبور کرنے سے اس لیے روکا ہے کہ جاہلیت میں لونڈیوں کو بدکاری کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ آقا اجرت کی خاطر اپنی لونڈی کو بدکاری پر مجبور کرتا تھا، اس لیے فرمایا : ﴿ لِّتَبْتَغُوا عَرَضَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ﴾ ” تاکہ تم تلاش کرو دنیا کی زندگی کا سامان۔“ پس تمہارے لیے یہ مناسب نہیں کہ تمہاری لونڈیاں تم سے بہتر اور پاک باز ہوں اور تم صرف دنیا کے مال و متاع کی خاطر ان کے ساتھ یہ سلوک کرو۔ دنیا کا مال بہت قلیل ہے وہ سامنے آتا ہے، پھر ختم ہوجاتا ہے۔ تمہاری کمائی تمہاری پاکیزگی لطافت اور مروت ہے۔۔۔ آخرت کے ثواب و عقاب سے قطع نظر۔۔۔۔ یہ اس تھوڑے سے سامان دنیا کمانے سے کہیں بہتر ہے جو تمہارے رذالت اور خساست کے کمانے سے حاصل ہوتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو توبہ کی طرف بلایا جن سے اپنی لونڈیوں پر جبر کرنے کا یہ گناہ سر زد ہوا، چنانچہ فرمایا : ﴿ وَمَن يُكْرِههُّنَّ فَإِنَّ اللّٰـهَ مِن بَعْدِ إِكْرَاهِهِنَّ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴾ ” اور جو ان کو مجبور کرے گا تو اللہ ان کے مجبور کرنے کے بعد غفور رحیم ہے۔“ یعنی اسے اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ کرنی چاہیے اور ان تمام گناہوں کو چھوڑ دینا چاہیے جو اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا باعث بنتے ہیں۔ جب وہ ان تمام گناہوں سے توبہ کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کو بخش دے گا اور اس پر اسی طرح رحم فرمائے گا جس طرح تائب نے اپنے نفس کو عذاب سے بچا کر اپنے آپ پر رحم کیا اور جس طرح اس نے اپنی لونڈی کو ایسے فعل پر، جو اس کے لیے ضرررساں تھا، مجبور نہ کر کے اس پر رحم کیا۔ النور
34 یہ ان آیات کریمہ کی قدرو منزلت اور تعظیم ہے جن کی اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر تلاوت فرمائی تاکہ وہ ان کی قدرو قیمت کو پہچان لیں اور ان کے حقوق کو قائم کریں، چنانچہ فرمایا : ﴿ وَلَقَدْ أَنزَلْنَا إِلَيْكُمْ آيَاتٍ مُّبَيِّنَاتٍ ﴾ ” اور ہم نے نازل کیں تمہاری طرف آیات واضح کرنے والیں۔“ یعنی وہ اصولی اور فروعی ہر معاملے میں، جن کے تم محتاج ہو، اس طرح واضح طور پر دلالت کرتی ہیں کہ کوئی اشکال اور شبہ باقی نہیں رہتا۔ ﴿وَ ﴾ ” اور اسی طرح نازل کیں ہم نے ﴿ مَثَلًا مِّنَ الَّذِينَ خَلَوْا مِن قَبْلِكُمْ ﴾ ” ان لوگوں کی کہاوتیں جو تم سے پہلے گزرے۔“ یعنی ہم نے تمہاری طرف تم سے پہلے گزرے ہوئے اچھے برے لوگوں، ان کے اعمال اور ان کے ساتھ جو کچھ ہوا۔۔۔ کی خبریں نازل کیں، جن کو مثال بنا کر تم عبرت حاصل کرسکتے ہو، یعنی جو کوئی ان جیسے افعال کا ارتکاب کرے گا اس کو وہی جزا دی جائے گی جو ان لوگوں کو دی گئی۔ ﴿ وَمَوْعِظَةً لِّلْمُتَّقِينَ ﴾ یعنی اور ہم نے تمہاری طرف اہل تقویٰ کے لیے نصیحت نازل کی ہے جو وعدہ، وعید اور ترغیب و ترہیب پر مشتمل ہے۔ اہل تقویٰ اس سے نصیحت پکڑتے ہیں اور ان امور سے رک جاتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ ناپسند کرتا ہے اور ایسے امور اختیار کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہیں۔ النور
35 ﴿ اللّٰـهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ﴾ ” اللہ تعالیٰ(حسی اور معنوی طور پر) آسمانوں اور زمین کا نور ہے“ اللہ تعالیٰ بذات خود نور ہے اس کا حجاب نور ہے۔ اگر وہ اس حجاب کو ہٹا دے تو اس کے چہرہ مبارک کے انوار جلال حد نگاہ تک تمام مخلوق کو جلا کر راکھ کردیں۔ اس کے نور سے عرش، کرسی، سورج، چاند اور جنت منور ہیں۔۔۔ اسی طرح معنوی نور کا منبع بھی اللہ تعالیٰ ہے اس کی کتاب نور ہے، اس کی شریعت نور ہے، ایمان نور ہے، اللہ تعالیٰ کے رسولوں اور اس کے مومن بندوں کے دلوں میں موجود معرفت الہی نور ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کا نور نہ ہو تو گمراہیوں کے گھٹاٹوپ اندھیرے چھا جائیں، ﴿ مَثَلُ نُورِهِ ﴾’’اس کے نور کی مثال “یعنی وہ نور جس کی طرف اللہ تعالیٰ راہ نمائی فرماتا ہے اور وہ اہل ایمان کے دلوں میں ایمان اور قرآن کا نور ہے۔ ﴿ كَمِشْكَاةٍ ﴾ ” ایک طاق کی مانند ہے“ ﴿ فِيهَا مِصْبَاحٌ ﴾ ” جس میں چراغ ہو شیشے کے فانوس میں رکھا ہوا ہو اور وہ فانوس“ اپنی صفائی اور خوبصورتی کی وجہ سے یوں لگے ﴿ كَأَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ ﴾ ” جیسے وہ چمکتا ہوا ستارہ ہو“ یعنی وہ موتی کی مانند چمکتا ہو۔ ﴿ يُوقَدُ ﴾” جلایا جائے“ یعنی وہ چراغ جو اس چمک دار فانوس کے اندر ہے ﴿ مِن شَجَرَةٍ مُّبَارَكَةٍ زَيْتُونَةٍ ﴾ یعنی وہ زیتون کے تیل سے روشن کیا جاتا ہے جس کا شعلہ سب سے زیادہ روشن ہوتا ہے۔ ﴿ لَّا شَرْقِيَّةٍ ﴾ یعنی وہ فقط مشرقی جانب نہیں کہ دن کے آخری حصے میں اس کو سورج کی روشنی نہ پہنچتی ہو ﴿ وَلَا غَرْبِيَّةٍ ﴾ اور وہ فقط مغربی جانب بھی نہیں کہ دن کے پہلے حصے میں اس کو سورج کی روشنی حاصل نہ ہوتی ہو۔ جب یہ دونوں امور نہیں تو وہ زمین کے درمیان میں اگا ہوا ہے۔ جیسے ملک شام کا زیتون، جسے صبح و شام سورج کی روشنی حاصل ہوتی ہے اس وجہ سے وہ نہایت عمدہ ہوتا ہے اور اس کا تیل انتہائی صاف ہوتا ہے، اس لیے فرمایا : ﴿ يَكَادُ زَيْتُهَا ﴾ ” قریب ہے کہ اس کا تیل۔“ یعنی انتہائی صاف ہونے کی وجہ سے ﴿ يُضِيءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ ﴾ ” آپ ہی روشنی دینے لگے، اگرچہ اسے اگ بھی نہ چھوئے۔“ اور جب اسے آپ چھوئے تو بہت زیادہ روشنی ہو ﴿ نُّورٌ عَلَىٰ نُورٍ ﴾ ”روشنی پر روشنی۔“ یعنی آگ کی روشنی اور زیتون کے تیل کی روشنی۔ یہ مثال جو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی ہے اور اسے مومن کے احوال کے ساتھ تطبیق دی ہے نیز یہ کہ اس کا قلب اللہ تعالیٰ کے نور سے منور ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی فطرت جس پر اسے پیدا کیا گیا ہے وہ زیتون کے پاس صاف تیل کی مانند ہے۔ پس اس کی فطرت صاف اور تعلیمات الٰہیہ اور اعمال مشروعہ کے لیے مستعد ہے جب۔ جب اس کے پاس علم و ایمان پہنچتا ہے تو یہ نور اس کے قلب میں روشن ہوجاتا ہے جیسے آگ چراغ کی بتی کو روشن کردیتی ہے۔ اس کا قلب برے ارادوں اور فہم کی خرابی سے پاک ہوتا ہے۔ جب قلب میں ایمان جاگزیں ہوتا ہے تو تمام کدورتوں سے پاک ہونے کی وجہ سے اس نور سے جگمگا اٹھتا ہے اور قلب کی یہ صفائی، موتی کی طرح چمکتے ہوئے فانوس کی مانند ہے۔ پس قلب میں نور فطرت، نور ایمان، نور علم اور معرفت کی صفائی، موتی کی طرح چمکتے ہوئے فانون کی مانند ہے۔ پس قلب میں نور فطرت، نور ایمان، نور علم اور معرفت کی صفائی تمام اسباب مجتمع ہوجاتے ہے۔ اور یوں قلب میں روشنی پر روشنی بڑھتی چلی جاتی ہے اور چونکہ یہ سب اللہ تعالیٰ کا نور ہے اور ہر کسی میں اس نور کو قبول کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی، اس لیے فرمایا : ﴿ يَهْدِي اللّٰـهُ لِنُورِهِ مَن يَشَاءُ﴾ ” رہنمائی کرتا ہے اللہ اپنے نور کے لیے جس کی چاہتا ہے۔“ اللہ تعالیٰ اپنے نور کے لیے صرف اسی کی راہ نمائی کرتا ہے جس کے متعلق اسے علم ہے کہ وہ پاک اور طیب و طاہر ہے اور یہ نور اس کی معیت میں مزید بڑھے گا۔ ﴿ وَيَضْرِبُ اللّٰـهُ الْأَمْثَالَ لِلنَّاسِ ﴾ ” اور اللہ تعالیٰ لوگوں کے لیے مثالیں بیان کرتا ہے“ تاکہ وہ اس سے عقل و فہم حاصل کریں یہ ان پر اللہ تعالیٰ کا لطف و احسان ہے، نیز یہ مثالیں اس لیے بھی بیان کی گئی ہیں تاکہ باطل سے حق واضح ہوجائے کیونکہ ضرب الامثال معانی معقولہ کو محسواسات کے قریب کردیتی ہیں اور بندوں کو واضح طور پر ان کا علم حاصل ہوجاتا ہے۔ ﴿ وَاللّٰـهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ ﴾ پس اس کا علم تمام اشیاء کا احاطہ کئے ہوئے ہے اس لیے تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ ضرب الامثال اس ہستی کی بیان کی ہوئی ہیں جو تمام اشیاء کے حقائق اور ان کی تفاصیل کو جانتی ہے اور وہ یہ بھی جانتی ہے کہ ان میں بندوں کے لیے مصلحت ہے پس تمہیں ان پر اعتراض اور ان کی مخالفت نہیں کرنی چاہیے۔ بلکہ تمہیں ان میں تدبر اور غورو فکر کرنا چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے تو نہیں جانتے۔ النور
36 یعنی اللہ کی عبادت کی جاتی ہے ﴿ فِي بُيُوتٍ ﴾ ” گھروں میں“ یعنی فضیلت اور عظمت والے گھروں میں جو اللہ تعالیٰ کو زمین کے سب ٹکڑوں سے زیادہ محبوب ہیں اور وہ مساجد ہیں۔ ﴿ أَذِنَ اللّٰـهُ ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ نے حکم دیا وصیت کی ہے ﴿ أَن تُرْفَعَ وَيُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ ﴾ ” کہ انہیں بلند کیا جائے اور ان میں اللہ کا نام ذکر کیا جائے۔“ ان دو امو میں مساجد کے احکام جمع کردیے گئے ہیں۔ مساجد کو بلند کرنے میں ان کی تعمیر، ان میں جھاڑ و دینا، ان کو نجاستوں سے پاک رکھنا، ان کو بچوں اور فاتراعقل لوگوں سے محفوظ رکھنا جو نجاست سے نہیں بچتے، کفار سے محفوظ رکھنا ان کو لغو یات اور ذکر الہی کے سوا دیگر بلند آوازوں سے محفوظ رکھنا، شامل ہیں۔ ﴿ وَيُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ ﴾ ذکر میں فرض و نفل ہر قسم کی نماز، قراءت قرآن، تسبیح و تہلیل اور دیگر اذکار، علم کی تعلیم و تعلم، علمی مذاکرہ، اعتکاف اور دیگر عبادات جن کو مساجد میں سر انجام دیا جاتا ہے، سب شامل ہیں۔ اسی لیے مساجد کی آبادی دو اقسام پر مشتمل ہے۔ (1) مساجد کی تعمیر اور ان کی حفاظت کے ساتھ ان کو آباد رکھنا (2) نماز اور ذکر الٰہی وغیرہ سے مساجد کو آباد رکھنا۔۔۔ دونوں اقسام میں یہ قسم افضل ہے اسی لیے نماز پنجگانہ اور جمعہ کو مساجد میں مشروع کیا گیا ہے۔ اکثر اہل علم کے نزدیک یہ حکم و جوب کے طور پر ہے اور بعض دیگر علماء کے نزدیگ مستحب ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی مدح کی ہے جو عبادت کے ذریعے سے مساجد کو آباد کرتے ہیں، چنانچہ فرمایا : ﴿ يُسَبِّحُ لَهُ ﴾’ وہ اللہ کی تسبیح بیان کرتے ہیں ان میں۔، ض اخلاص کے ساتھ ﴿ بِالْغُدُوِّ ﴾ ” دن کے ابتدائی حصے میں“ ﴿ وَالْآصَالِ ﴾ ” اور دن کے آخری حصے میں“ اللہ تعالیٰ نے ان دو اوقات کو ان کے شرف و فضیلت کی بنا پر مخصوص کیا ہے، نیز ان دو اوقات میں اللہ تعالیٰ کی طرف سفر آسان اور سہل ہوتا ہے۔ اس تسبیح میں نماز وغیرہ داخل ہیں، اس لیے تمام اذکار اور صبح اور شام کے اوقات میں مشروع کئے گئے ہیں۔ النور
37 ﴿ رِجَالٌ ﴾ یعنی ان مساجد میں، ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتے ہیں جو اپنے رب پر دنیا، اس کی لذتوں، تجارت، کاروبار اور اللہ سے غافل کردینے والے کسی مشغلے کو ترجیح نہیں دیتے۔ ﴿ لَّا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ ﴾ ” ان کو غفلت میں نہیں ڈالتی کوئی تجارت۔“ اور یہ ہر اس کسب کو شامل ہے جس میں معاوضہ لینا مقصود ہو تب اس صورت میں ﴿ وَلَا بَيْعٌ ﴾ کا جملہ، عام پر عطف خاص کے باب میں سے ہے کیونکہ دیگر کاموں کی نسبت خرید فروخت میں زیادہ مشغولیت پائی جاتی ہے۔ پس یہ لوگ، اگرچہ تجارت کرتے ہیں، خرید و فروخت کرتے ہیں۔۔۔۔ کیونکہ اس میں کوئی ممانعت نہیں۔۔۔۔ مگر یہ تمام کام انہیں غافل نہیں کرتے کہ وہ ان امور کو ﴿ عَن ذِكْرِ اللّٰـهِ وَإِقَامِ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ ﴾ ” اللہ تعالیٰ کے ذکر، نماز قائم کرنے اور زکوۃ ادا کرنے“ پر ترجیح دیتے ہوئے ان کو مقدم رکھیں بلکہ اس کے برعکس ان کی غایت مراد اور نہایت مقصود یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور عبادت کریں۔ اس اطاعت و عبادت اور ان کے درمیان جو چیز بھی حائل ہو، وہ اسے دور پھینک دیتے ہیں۔ چونکہ اکثر نفوس کے لیے دنیا کا ترک کرنا بہت مشکل ہوتا ہے، مختلف انواع کی تجارت اور مکاسب سے انہیں شدید محبت ہوتی ہے، غالب حالات میں ان امور کو ترک کرنا ان پر گراں گزرتا ہے اور ان امور پر اللہ تعالیٰ کے حقوق کو مقدم رکھنے سے انہیں بہت تکلیف پہنچتی ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ترغیب و ترہیب کے ذریعے سے اس کی طرف دعوت دی ہے، چنانچہ فرمایا ﴿ يَخَافُونَ يَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِيهِ الْقُلُوبُ وَالْأَبْصَارُ ﴾ اس روز شدت ہول اور قلب و بدن کے دہشت زدہ ہونے کے باعث دل الٹ جائیں گے اور آنکھیں پتھرا جائیں گی، اس لیے وہ اس دن سے ڈرتے ہیں، بنا بریں ان کے لیے عمل کرنا اور عمل سے غافل کرنے والے امور کو ترک کرنا آسان ہوجاتا ہے۔ النور
38 ﴿ لِيَجْزِيَهُمُ اللّٰـهُ أَحْسَنَ مَا عَمِلُوا ﴾ ” تاکہ اللہ تعالیٰ ان کے اعمال کا بہترین بدلہ دے۔“ ( أَحْسَنَ مَا عَمِلُوا ) سے مراد ان کے اعمال حسنہ اور اعمال صالحہ ہیں کیونکہ یہ ان کے بہترین اعمال ہیں کیونکہ وہ مباح اور دیگر اعمال بجا لاتے ہیں۔ ثواب صرف اسی عمل پر عطا ہوتا ہے جو عمل حسن کے زمرے میں آتا ہوجیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ لِيُكَفِّرَ اللّٰـهُ عَنْهُمْ أَسْوَأَ الَّذِي عَمِلُوا وَيَجْزِيَهُمْ أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ الَّذِي كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴾ (الزمر :39؍35)” تاکہ جو بدترین عمل انہوں نے کئے ہیں اللہ ان کو ان کے حساب سے مٹا دے اور جو انہوں نے بہترین عمل کیے ہیں، ان کے مطابق ان کو اجر عطا فرمائے۔“ ﴿ وَيَزِيدَهُم مِّن فَضْلِهِ ﴾ یعنی وہ ان کے اعمال کے مقابلے میں بہت زیادہ جزا عطا کرے گا۔ ﴿ وَاللّٰـهُ يَرْزُقُ مَن يَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ ﴾ ” اور اللہ جسے چاہتا ہے بغیر حساب کے روزی عطا فرماتا ہے۔“ بلکہ اللہ اسے اتنا اجر عطا کرے گا کہ اس کے اعمال وہاں تک پہنچ ہی نہیں سکتے اور اس کی آرزو کی بھی وہاں تک رسائی نہیں۔ اللہ تعالیٰ اسے بغیر کسی شمار اور بغیر کسی ناپ تول کے اجر عطا کرے گا۔۔۔۔ اور یہ بہت زیادہ کثرت کے لیے کنایہ ہے۔ النور
39 یہ دو مثالیں ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے کفار کے اعمال کے بطلان، ان کے اکارت جانے اور ان اعمال کو سر انجام دینے والوں کی حسرت کو ظاہر کرنے کے لیے بیان فرمائی ہیں، چنانچہ فرمایا : ﴿ وَالَّذِينَ كَفَرُوا﴾ ” اور وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا“ اپنے رب کے ساتھ اور اس کے رسولوں کو جھٹلایا ﴿ أَعْمَالُهُمْ كَسَرَابٍ بِقِيعَةٍ ﴾ ” ان کے اعمال چٹیل میدان میں سراب کی طرح ہیں۔“ یعنی ان کے اعمال کی مثال ایسا دشت بے آب ہے جہاں کوئی درخت ہو نہ نباتات ﴿ يَحْسَبُهُ الظَّمْآنُ مَاءً ﴾ ” پیاسا آدمی اسے پانی سمجھتا ہے۔“ یعنی سخت پیاسا شخص اس سراب کو پانی سمجھتا ہے کیونکہ پیاس کے مارے شخص کو پیاس کی وجہ سے وہ تو ہم لاحق ہوتا ہے جو کسی اور کو لاحق نہیں ہوتا۔ اور یہ گمان باطل ہے لیکن پیاسا شخص اپنی پیاس بجھانے کا ارادہ کرتا ہے ﴿ حَتَّىٰ إِذَا جَاءَهُ لَمْ يَجِدْهُ شَيْئًا ﴾ ” حتیٰ کہ جب اس کے پاس آتا ہے تو وہ اس کو کچھ نہیں پاتا۔“ پس اسے سخت ندامت ہوتی ہے اور امید کے منقطع ہوجانے کی وجہ سے اس کی پیاس اور بڑھ جاتی ہے۔ اسی طرح کفار کے اعمال سراب کی مانند ہیں۔ جاہل شخص جو معاملات کو نہیں جانتا اسے وہ اعمال اچھے دکھائی دیتے ہیں، ان کی ظاہری شکل و صورت اس کو دھوکہ کے میں ڈال دیتی ہے۔ اپنی خواہشات نفس کی وجہ سے انہیں بھی اچھے اعمال سمجھتا ہے اور وہ اعمال کا اسی طرح محتاج ہوتا ہے جس طرح ایک پیاسا شخص پانی کا محتاج ہوتا ہے حتیٰ کہ قیامت کے روز جب اپنے اعمال کا سامنا کرے گا تو ان کو ضائع شدہ اور بے فائدہ پائے گا اور حال یہ ہوگا کہ یہ اعمال اس کے حق میں ہوں گے نہ اس کے خلاف ہوں گے۔ ﴿ وَوَجَدَ اللّٰـهَ عِندَهُ فَوَفَّاهُ حِسَابَهُ ﴾ ” بلکہ وہ وہاں اللہ کو موجود پاتا ہے جو اس کا پورا پورا حساب چکا دیتا ہے۔“ اس پر اس کا معمولی سا عمل بھی مخفی نہیں رہ سکے گا اور وہاں تھوڑا یا زیادہ عمل مفقود نہ ہوگا۔ ﴿ وَاللّٰـهُ سَرِيعُ الْحِسَابِ ﴾ ” اور اللہ جلد حساب لینے والا ہے“ پس یہ جاہل لوگ اللہ تعالیٰ کے وعدے کو دور نہ سمجھیں۔ یہ ضرور پورا ہو کر رہے گا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے کفار کے اعمال کو سراب کے ساتھ تشبیہ دی ہے جو ایسے دشت بے آب و گیاہ میں نظر آتا ہے جہاں کوئی درخت ہوتا ہے نہ نباتات۔ کفار کے دلوں کی یہی مثال ہے جن میں کوئی بھلائی اور کوئی نیکی نہیں ہوتی۔ پس وہ وہاں اعمال خیر چھوڑ دیتے ہیں، ایک مانع کی وجہ سے اور وہ کفر ہے۔ النور
40 کفار کے اعمال کے بطلان کو واضح کرنے کے لیے یہ دوسری مثال ہے۔ ﴿ أَوْ كَظُلُمَاتٍ فِي بَحْرٍ لُّجِّيٍّ ﴾ ” یا (ان کے عملوں کی مثال) ان اندھیروں کی سی ہے جو نہایت گہرے سمندر کی تہہ میں ہوں۔“ اتھاہ اور بے کراں سمندر ﴿ يَغْشَاهُ مَوْجٌ مِّن فَوْقِهِ مَوْجٌ مِّن فَوْقِهِ سَحَابٌ ظُلُمَاتٌ بَعْضُهَا فَوْقَ بَعْضٍ ﴾ ” جس پر لہر چلی آتی ہو اور اس کے اوپر دوسری لہر اور اس کے اوپر بادل ہو، غرض اندھیرے ہی اندھیرے ہوں، ایک پر ایک۔“ بحربے پایاں کی تاریکی، پھر اس پر ایک دوسری کے اوپر سوار موجوں کی تاریکی، پھر بادلوں کا گھٹا ٹوپ اندھیرا اور پھر سیاہ رات کا اندھیرا۔۔۔ اور جہاں یہ حال ہو تو تاریکی بہت زیادہ ہوتی ہے۔ ﴿ إِذَا أَخْرَجَ يَدَهُ لَمْ يَكَدْ يَرَاهَا ﴾ ” جب آدمی اپنے ہاتھ کو نکالتا ہے تو اسے ) اپنے قریب ہونے کے باوجود بھی( نہیں دیکھ پاتا“ پھر دوسری چیزوں کو کیسے دیکھ سکتا ہے۔ کفار کا بھی یہی حال ہے، ان کے دلوں کو تہ درتہ تاریکیوں نے ڈھانپ رکھا ہے طبیعت کی تاریکی، جس میں کوئی بھلائی نہیں ہوتی اس کے اوپر کفر کی تاریکی، اس کے اوپر جہالت کی تاریکی اور اس کے اوپر ان مذکورہ بالا صفات کی وجہ سے صادر ہونے والے اعمال کی تاریکی۔۔۔۔ پس کفار ان اندھیروں میں متحیر، اپنی جہالت میں سرگرداں، صراط مستقیم سے بھٹکے ہوئے، ضلالت اور گمراہی کے راستوں میں مارے مارے پھرتے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنی توفیق سے محروم کر کے ان کو اپنے حال پر چھوڑ دیا ہے اور انہیں اپنا نور عطا نہیں کیا۔ ﴿ وَمَن لَّمْ يَجْعَلِ اللّٰـهُ لَهُ نُورًا فَمَا لَهُ مِن نُّورٍ ر﴾ ” اور جس کے حصے میں اللہ نور نہ کرے، تو اس کے لیے کوئی نور نہیں۔ “ کیونکہ اس کا نفس ظالم اور جاہل ہے، اس میں کوئی بھلائی اور کوئی روشنی نہیں سوائے اس بھلائی اور روشنی کے جو اس کا رب اسے عطا کر دے۔۔۔ ان دونوں تمثیلوں میں اس امر کا احتمال ہے کہ اس سے تمام کفار کے اعمال مراد ہوں۔ دونوں تمثیلیں کفار کے اعمال پر منطبق ہوتی ہیں اور اعمال کے تعدد اوصاف کی بنا پر ان کو متعدد بیان کیا ہے اور اس بات کا بھی احتمال ہے کہ دونوں مثالیں الگ الگ گروہوں کے لیے بیان کی گئی ہوں۔ پہلی تمثیل قائدین کے لیے اور دوسری مثال پیرو کاروں کے لیے ہو۔ واللہ اعلم۔ النور
41 اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے بندوں کو آگاہ فرمایا ہے کہ وہ عظمت اور کامل تسلط کا مالک ہے، تمام مخلوق اپنی ربوبیت اور عبادت میں اس کی محتاج ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿ أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللّٰـهَ يُسَبِّحُ لَهُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ﴾ ” کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ کی تسبیح بیان کرتی ہے ہر وہ مخلوق جو آسمانوں اور زمین میں ہے۔“ یعنی تمام حیوانات و جمادات ﴿ وَالطَّيْرُ صَافَّاتٍ ﴾ اور وہ پرندے ) جو آسمان میں( اپنے پر پھیلائے اڑ رہے ہیں وہ بھی تسبیح کرتے ہیں ﴿ كُلٌّ﴾ ” ہر ایک نے‘‘ یعنی ان تمام مخلوقات میں سے ﴿ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَهُ وَتَسْبِيحَهُ ﴾ ” جان لیا ہے اپنی نماز اور اپنی تسبیح کو۔“ یعنی تمام مخلوقات میں ہر نوع کی، اس کی حسب حال نماز اور عبادت ہے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے ﴿ وَاللّٰـهُ عَلِيمٌ بِمَا يَفْعَلُونَ ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ ان کے تمام افعال کو جانتا ہے اس سے کوئی چیز چھپی ہوئی نہیں ہے وہ عنقریب انہیں اس کی جزا دے گا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ ان کے تمام افعال کو جانتا ہے اس سے کوئی چیز چھپی ہوئی نہیں ہے وہ عنقریب انہیں اس کی جزا دے گا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کے ان اعمال کے بارے میں اپنے علم کو، جو اس کے سکھلانے سے وہ کرتے ہیں اور ان کے ان اعمال کے بارے میں، جو جزا اور سزا کو متضمن ہیں، اپنے علم کو جمع کردیا۔ آیت کریمہ میں یہ احتمال بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَهُ وَتَسْبِيحَهُ ﴾ میں ضمیر اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹتی ہو یعنی اللہ تعالیٰ ان کی عبادات کو جانتا ہے اگرچہ تم نہیں جانتے۔۔۔ اے بندو! اگرچہ تم اس میں سے صرف وہی کچھ جانتے ہو جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے تمہیں مطلع کیا ہے۔۔۔ یہ آیت کریمہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی مانند ہے۔﴿ تُسَبِّحُ لَهُ السَّمَاوَاتُ السَّبْعُ وَالْأَرْضُ وَمَن فِيهِنَّ وَإِن مِّن شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَـٰكِن لَّا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ إِنَّهُ كَانَ حَلِيمًا غَفُورًا ﴾ ) بنی اسرائیل :17؍44) ’’ساتوں آسمان، زمین اور ان کے اندر جتنی چیزیں ہیں سب اس کی تسبیح بیان کر رہے ہیں۔ کوئی چیز ایسی نہیں جو اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح بیان نہ کر رہی ہو، مگر تم ان کی تسبیح کو نہیں سمجھتے، بے شک وہ بڑا ہی برد بار اور بخشنے والا ہے۔‘‘ النور
42 اللہ تبارک و تعالیٰ نے عبادت اور توحید کے پہلو سے ان کی عبودیت اور اللہ تعالیٰ کے سامنے ان کی احتیاج بیان فرمائی، بعد ازاں بیان فرمایا کہ وہ اقتدار، تربیت اور تدبیر کے پہلو سے بھی اس کے محتاج ہیں، چنانچہ فرمایا : ﴿ وَلِلّٰـهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ﴾’ ’’اور اللہ ہی کے لیے ہے بادشاہی آسمانوں اور زمین کی۔“ یعنی اللہ تعالیٰ زمین و آسمان کا خالق، رازق اور اس دنیا میں اپنے حکم شرعی و قدری کے ذریعے سے ان میں تصرف کرنے والا ہے اور آخرت میں حکم جزائی کے ذریعے سے ان میں تصرف کرے گا اور اس کی دلیل یہ ارشاد الٰہی ہے : ﴿ وَإِلَى اللّٰـهِ الْمَصِيرُ ﴾ یعنی آخر کار تمام مخلوق کا مرجع و منتہیٰ اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہے تاکہ اللہ تعالیٰ ان کو ان کے اعمال کی جزا دے۔ النور
43 کیا تو نے اپنی آنکھوں کے ساتھ، اللہ تعالیٰ کی عظیم قدرت کا مشاہدہ نہیں کیا کہ وہ کیسے ﴿ يُزْجِي سَحَابًا ﴾ ” بادل کے بکھرے ہوئے ٹکڑوں کو ہانکتا ہے“ ﴿ ثُمَّ يُؤَلِّفُ ﴾ پھر وہ ان بدلیوں کو اکٹھا کرتا ہے اور ان کو پہاڑوں کی مانند گہرا ابر بنا دیتا ہے۔ ﴿ فَتَرَى الْوَدْقَ ﴾ تو ان بادلوں میں سے متفرق قطروں کی صورت میں بارش کو نکلتے ہوئے دیکھتا ہے تاکہ کسی ضرر کے بغیر اس بارش سے فائدہ حاصل ہو۔ پس اس بارش سے بڑے بڑے تالاب بھر جاتے ہیں، دریا ٹھاٹھیں مارنے لگتے ہیں، وادیاں بہہ نکلتی ہیں اور روئے زمین پر قسم قسم کی نباتات اگ آتی ہیں اور کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس بادل میں سے ژالہ باری بھی کرتا ہے یہ ژالہ باری جہاں ہوتی ہے ہر چیز کو تلف کر کے رکھ دیتی ہے۔ ﴿ فَيُصِيبُ بِهِ مَن يَشَاءُ وَيَصْرِفُهُ عَن مَّن يَشَاءُ ﴾ پس وہ اپنے حکم کونی و قدری کے تقاضے اور اپنی قابل ستائش حکمت کے مطابق جس پر چاہتا ہے ژالہ باری کردیتا اور جسے چاہتا ہے اس ژالہ باری سے بچا لیتا ہے ﴿ يَكَادُ سَنَا بَرْقِهِ ﴾ یعنی اس بادل میں کوندنے والی بجلی اپنی تیز روشنی کی وجہ سے، قریب ہے کہ ﴿ يَذْهَبُ بِالْأَبْصَارِ ﴾ ” آنکھوں کو لے جائے۔“ وہ ہستی، جس نے ان بادلوں کو اٹھایا اور ان کو اپنے ان بندوں تک پہنچایا جو اس کے محتاج ہیں اور ان کو اس طرح برسایا کہ اس بارش سے فائدہ حاصل ہو اور نقصان نہ ہو۔۔۔ کیا وہ کامل قدرت، اٹل مشیت اور بے پایاں رحمت کی مالک نہیں؟ النور
44 ﴿ يُقَلِّبُ اللّٰـهُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ ﴾ ” بدلتا ہے اللہ رات اور دن کو۔“ یعنی گرمی میں سے نکال کر سردی کی طرف لاتا ہے اور سردی سے نکال کر گرمی کی طرف لاتا ہے۔ رات میں سے دن کو اور دن میں سے رات کو نکال لاتا ہے۔ وہ اپنے بندوں کے درمیان دنوں کو الٹ پلٹ کرتا رہتا ہے۔ ﴿ إِنَّ فِي ذٰلِكَ لَعِبْرَةً لِّأُولِي الْأَبْصَارِ ﴾ یعنی اس میں اصحاب بصیرت اور امور مطلوبہ کی گہرائی تک پہنچنے والی عقل رکھنے والوں کے لیے عبرت ہے، جیسے نظر قابل مشاہدہ حسی امور تک پہنچتی ہے۔ صاحب بصیرت ان مخلوقات کو عبرت اور تفکر کی نظر سے دیھتا ہے اور اس بات میں تدبر کرتا ہے کہ ان مخلوقات کی تخلیق کا کیا مقصد ہے اور روگردانی کرنے والا جاہل شخص اس کائنات پر غفلت کی نظر ڈالتا ہے، جیسے جانور اشیاء کو دیکھتے ہیں۔ النور
45 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں کو آگاہ فرماتا ہے کہ اس نے روئے زمین کے تمام جانداروں کو۔۔۔ جیسا کہ وہ مشاہدہ کرتے ہیں ﴿ مِّن مَّاءٍ ﴾ ”پانی سے“ تخلیق فرمایا، یعنی تمام جان داروں کا مادہ تخلیق پانی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ ﴾ (الانبیاء :21؍30)” اور ہم نے پانی سے ہر زندہ چیز پیدا کی ہے۔“ پس وہ حیوانات جن کا سلسلہء تناسل جاری ہے، ان کا مادہ تخلیق نطفہ کا پانی ہے جب نر مادہ کو حاملہ کرتا ہے تو اسی آب نطفہ سے تخلیق ہوتی ہے اور وہ حیوانات جو زمین سے پیدا ہوتے ہیں وہ صرف پانی کی رطوبتوں سے پیدا ہوتے ہیں، مثلاً حشرات الارض۔ ان میں نطفہ وغیرہ موجود نہیں ہوتا، وہ ہمیشہ آب نطفہ کے بغیر پیدا ہوتے ہیں۔ پس مادہ تخلیق ایک ہے، مگر اس سے پیدا ہونے والی مخلوق بہت سے پہلوؤں سے ( ایک دوسرے سے)مختلف ہوتی ہے۔ ﴿ فَمِنْهُم مَّن يَمْشِي عَلَىٰ بَطْنِهِ﴾ ” پس ان میں سے کوئی پیٹ کے بل چلتا ہے“ جیسے سانپ وغیرہ ﴿ وَمِنْهُم مَّن يَمْشِي عَلَىٰ رِجْلَيْنِ ﴾ ” اور کوئی دو ٹانگوں پر چلتا ہے“ جیسے آدمی اور بہت سے پرندے ﴿ وَمِنْهُم مَّن يَمْشِي عَلَىٰ أَرْبَعٍ ﴾ ” اور بعض ان میں سے چار ٹانگوں پر چلتے ہیں۔“ جیسے چوپائے اور مویشی وغیرہ۔ اصل ایک کے باوجود ان میں تنوع دلالت کرتا ہے کہ اس کی قدرت سب کو شامل اور اس کی مثیت سب میں نافذ ہے۔ بنابریں فرمایا : ﴿ يَخْلُقُ اللّٰـهُ مَا يَشَاءُ ﴾ ” اللہ جو چاہتا ہے ( اور جیسی چاہتا ہے اپنی مخلوق)پیدا کرتا ہے“ ﴿ إِنَّ اللّٰـهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ﴾ ” بے شک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔“ مثلاً اللہ تعالیٰ زمین پر پانی نازل کرتا ہے، یعنی پانی ایک ہی ہے ماں، یعنی زمین ایک ہے مگر اس زمین سے جنم لینے والی اولاد مختلف اوصاف کی حامل اور متنوع ہے۔ فرمایا : ﴿و وَفِي الْأَرْضِ قِطَعٌ مُّتَجَاوِرَاتٌ وَجَنَّاتٌ مِّنْ أَعْنَابٍ وَزَرْعٌ وَنَخِيلٌ صِنْوَانٌ وَغَيْرُ صِنْوَانٍ يُسْقَىٰ بِمَاءٍ وَاحِدٍ وَنُفَضِّلُ بَعْضَهَا عَلَىٰ بَعْضٍ فِي الْأُكُلِ إِنَّ فِي ذٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ ﴾ ( الرعد :13؍4)” اور زمین میں الگ الگ خطے ہیں جو ساتھ ساتھ پائے جاتے ہیں، انگور کے باغات ہیں، کھیتیاں ہیں، نخلستان ہیں ان میں سے کچھ ایک ہی جڑ سے دو درخت نکلے ہوئے ہیں، کچھ اکہرے ہیں، جن کو ایک ہی پانی سے سیراب کیا جاتا ہے مگر مزے میں ہم ان کو ایک دوسرے پر فضیلت دے دیتے ہیں۔ بے شک اس میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیتے ہیں۔ “ النور
46 ہم نے اپنے بندوں پر رحم کر کے آیات بینات نازل کی ہیں، جو تمام مقاصد شرعیہ، آداب محمودہ اور معارف رشیدہ پر واضح طور پر دلالت کرتی ہیں۔ پس اس طرح راستے واضح ہوگئے، گمراہی میں سے راہ راست اور ضلالت میں سے ہدایت نمایاں ہوگئی۔ اس بارے میں کسی باطل پسند کے لیے شبہ کی ادنیٰ سی گنجائش باقی رہی نہ کسی متلاشی حق کے لیے کوئی اشکال باقی رہا۔۔۔ کیونکہ یہ آیات بینات اسی ہستی کی طرف سے نازل کردہ ہیں جس کا علم کامل، جس کی رحمت کامل اور جس کا بیان کامل ہے۔ اس کے بیان سے بڑھ کر کوئی بیان نہیں ﴿ لِّيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَن بَيِّنَةٍ وَيَحْيَىٰ مَنْ حَيَّ عَن بَيِّنَةٍ ﴾ (الانفال :8؍42)” تاکہ ( اس کے بعد) جو کوئی ہلاک ہو تو وہ دلیل کے ساتھ ہلاک ہو اور جو زندہ رہے تو دلیل کے ساتھ زندہ رہے۔ “ ﴿ وَاللّٰـهُ يَهْدِي مَن يَشَاءُ ﴾ ” اور اللہ ہدایت دیتا ہے جس کو چاہتا ہے۔“ ان لوگوں میں سے جن کے لیے بھلائی اور سچی عزت سبقت کرگئی ﴿إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ ﴾ واضح اور مختصر راستے کی، جو اس تک اور اس کے اکرام و تکریم والے گھر تک جاتا ہے، جو علم حق، اس کو ترجیح دینے اور اس پر عمل کرنے کو متضمن ہے۔ اس کا بیان کامل تمام مخلوق کے لیے اور سب کو شامل ہے مگر ہدایت صرف اسی کے لیے مخصوص ہے جسے وہ چاہتا ہے یہ اس کا فضل و احسان ہے اور رب کریم کا فضل و کرم کبھی منقطع نہیں ہوتا اور یہ اس کا عدل ہے۔ اس نے کسی کے لیے کوئی حجت باقی نہیں رہنے دی اور احسان کے مواقع کو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔ النور
47 اللہ تبارک و تعالیٰ ان ظالموں کی حالت بیان کرتا ہے جن کے دلوں میں بیماری ضعف ایمان، نفاق شک و ریب اور ضعف علم ہے جو اپنی زبان سے ایمان باللہ اور اطاعت کے التزام کا دعوی ٰ کرتے ہیں مگر وہ اپنی بات پر قائم نہیں رہتے اور ان میں سے ایک گروہ اطاعت سے بہت زیادہ روگردانی کرتا ہے۔ فرمایا : ﴿ وَّهُم مُّعْرِضُونَ ﴾ ( الانفال :8؍23)” اور وہ اعراض کرنے والے ہیں۔“ کیونکہ روگردانی کرنے والے کی کبھی کبھی اس امر کی طرف رجوع کی نیت ہوتی ہے جس سے اس نے روگردانی کی تھی مگر یہ ظالم اس کی طرف التفات اور اس کی طرف رجوع کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا اور اس حالت کو آپ ایسے بہت سے لوگوں کے احوال کے مطابق پائیں گے جو ایمان اور اطاعت کا دعویٰ کرتے ہیں حالانکہ وہ ضعیف الایمان ہیں۔ آپ دیکھیں گے کہ وہ بہت سی عبادات کو قائم نہیں کرتے خاص طور پر ایسی عبادات جو بہت سے نفوس پر گراں گزرتی ہیں۔ مثلاً نفقات واجبہ و مستحبہ اور جہاد فی سبیل اللہ وغیرہ۔ النور
48 ﴿ وَإِذَا دُعُوا إِلَى اللّٰـهِ وَرَسُولِهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ ﴾ جب ان کے اور کسی دوسرے شخص کے درمیان مخاصمت ہوتی ہے اور انہیں اللہ اور اس کے رسول کے فیصلے کی طرف بلایا جاتا ہے۔ ﴿ إِذَا فَرِيقٌ مِّنْهُم مُّعْرِضُونَ ﴾ ” تو ایک گروہ ان میں سے اعراض کرتا ہے۔“ وہ جاہلیت کے احکام چاہتے ہیں اور غیر شرعی قوانین کو شرعی قوانین پر ترجیح دیتے ہیں کیونکہ انہیں علم ہے کہ حق ان کے خلاف ہوگا اور شریعت وہی فیصلہ کرے گی جو واقع کے مطابق ہوگا۔ النور
49 ﴿ وَإِن يَكُن لَّهُمُ الْحَقُّ يَأْتُوا إِلَيْهِ ﴾ اور اگر فیصلہ ان کے حق میں ہوتا ہے تو شریعت کے فیصلے کو قبول کرلیتے ہیں ﴿ مُذْعِنِينَ ﴾ ” اس کو مانتے ہوئے۔‘‘ ان کا شریعت کے فیصلے کو قبول کرنا اس بنا پر نہیں کہ یہ شرعی فیصلہ ہے بلکہ وہ اس فیصلے کو اس بنا پر قبول کرتے ہیں کہ یہ ان کی خواہشات نفس کے موافق ہے تب وہ اس صورت میں قابل ستائش نہیں ہیں خواہ وہ سر تسلیم خم کرتے ہوئے ہی کیوں نہ آئیں کیونکہ بندہ درحقیقت وہ ہے جو اپنے محبوب اور ناپسندیدہ امور میں اور اپنی خوشی اور غمی میں حق کی اتباع کرتا ہو اور وہ شخص جو شریعت کی اتباع اس وقت کرتا ہے جب شریعت اس کی خواہشات نفس کے موافق ہو اور اگر شریعت کا حکم اس کی خواہش کے خلاف ہو تو اسے دور پھینک دیتا ہے، وہ خواہش نفس کو شریعت پر مقدم رکھتا ہے ایسا شخص اللہ تعالیٰ کا حقیقی بندہ نہیں ہے۔ النور
50 ان لوگوں کی احکام شریعت سے رو گردانی پر ملامت کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿ أَفِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ ﴾ ” کیا ان کے دلوں میں کوئی بیماری ہے ؟“ جس نے ان کے دلوں کو صحت کے دائرہ سے نکال دیا، اس کا احساس جاتا رہا اور وہ بیمار آدمی کی طرح ہوگئے جو ہمیشہ اس چیز سے اعراض کرتا ہے جو اس کے لیے فائدہ مند ہے اور اس چیز کو قبول کرتا ہے جو اس کے لیے ضرر رساں ہے۔ ﴿ أَمِ ارْتَابُوا﴾ یا انہیں کوئی شک ہے یا ان کے دل اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کے بارے میں اضطراب کا شکار ہوگئے ہیں اور وہ اللہ تعالیٰ پر تہمت لگاتے ہیں کہ وہ حق کے مطابق فیصلہ نہیں کرتا۔ ﴿ أَمْ يَخَافُونَ أَن يَحِيفَ اللّٰـهُ عَلَيْهِمْ وَرَسُولُهُ ﴾ ” یا وہ ڈرتے ہیں کہ اللہ اور اس کا رسول ان پر ظلم کرے گا۔“ یعنی اللہ تعالیٰ ان کے بارے میں ظلم و جور پر مبنی فیصلہ کرے گا حالانکہ یہ تو انہی کا وصف ہے۔ ﴿ بَلْ أُولَـٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ ﴾ ” بلکہ ظالم تو وہ خود ہیں۔“ رہا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فیصلہ، تو وہ انتہائی عدل و انصاف پر مبنی اور حکمت کے موافق ہے۔ ﴿ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللّٰـهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ يُوقِنُونَ ﴾ ( المائدہ :5؍50)” یقین رکھنے والے لوگوں کے لیے اللہ سے بڑھ کر کس کا فیصلہ اچھا ہوسکتا ہے ؟ “ ان آیات کریمہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ ایمان مجرو قول کا نام نہیں، بلکہ ایمان صرف اسی وقت معتبر ہوتا ہے جب اس کے ساتھ عمل بھی مقرون ہو۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے اس شخص کے ایمان کی نفی کی ہے جو اطاعت سے منہ موڑتا ہے اور ہر حال میں اللہ اور اس کے رسول کے فیصلے کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے وجوب کو نہیں مانتا اور اگر وہ اللہ اور اس کے رسول کے فیصلے کے سامنے سر افگندہ نہیں ہوتا تو یہ چیز دلالت کرتی ہے کہ اس کے دل میں بیماری اور اس کے ایمان میں شک و ریب کا شائبہ ہے، نیز احکام شریعت کے بارے میں بدگمانی کرنا اور ان کو عدل و حکمت کے خلاف سمجھنا حرام ہے۔ النور
51 اللہ تبارک و تعالیٰ نے احکام شریعت سے رو گردانی کرنے والوں کا حال بیان کرنے کے بعد، اہل ایمان جو مدح کے مستحق ہیں، کا حال بیان کیا ہے، چنانچہ فرمایا: ﴿ إِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِينَ ﴾ یعنی حقیقی مومن جنہوں نے اپنے اعمال کے ذریعے اپنے ایمان کی تصدیق کی جب انہیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جاتا ہے تاکہ وہ ان کے درمیان فیصلہ کرے خواہ یہ فیصلہ ان کی خواہشات نفس کے موافق ہے یا مخالف ﴿أَن يَقُولُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا ﴾ ” وہ کہتے ہیں کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی۔“ یعنی ہم نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فیصلے کو سنا اور جس نے ہمیں اس فیصلے کی طرف بلایا ہم نے اس کی آواز پر لبیک کہا اور ہم نے مکمل طور پر بغیر کسی تنگی کے، اس کی اطاعت کی۔ ﴿ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ﴾ ” اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔“ النور
52 اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں پر فلاح کو منحصر قرار دیا ہے کیونکہ فلاح سے مراد ہے مطلوب و مقصود کے حصول میں کامیابی اور امر مکروہ سے نجات۔۔۔ صرف وہی شخص فلاح پا سکتا ہے جو اللہ اور اس کے رسول کو حکم اور ثالث بناتا ہے اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتا ہے۔ جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے اطاعت، خاص طور پر حکم شریعت کی اطاعت کی فضیلت بیان کی، تو تمام احوال میں اطاعت کی فضیلت کا عمومی تذکرہ کیا اور فرمایا : ﴿ وَمَن يُطِعِ اللّٰـهَ وَرَسُولَهُ ﴾ ’’اور جو اطاعت کرتا ہے اللہ اور اس کے رسول کی۔“ یعنی اللہ اور اس کے رسول کی خبر کی تصدیق اور ان کے حکم کی تعمیل کرتا ہے ﴿ وَيَخْشَ اللّٰـهَ ﴾ اور اللہ تعالیٰ سے اس طرح ڈرتا ہے کہ اس کا یہ خوف معرفت سے مقرو ن ہوتا ہے، بنا بریں وہ منہیات کو ترک کردیتا ہے اور خواہشات نفس کی تعمیل سے باز آجاتا ہے، اس لیے فرمایا : ﴿ وَيَتَّقْهِ ﴾ اور تقویٰ اختیار کرتے ہوئے محظورات کو چھوڑ دیتا ہے کیونکہ تقویٰ سے، علی الاطلاق مراد ہے مامورات کی تعمیل کرنا اور منہیات کو چھوڑ دینا اور جب یہ نیکی اور اطاعت سے مقرون ہو۔۔۔ جیسا کہ اس مقام پر ہے۔۔۔ تب اس سے مراد اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں کو چھوڑ کر اس کے عذاب سے بچنا ہے۔ ﴿ فَأُولَـٰئِكَ ﴾ یہی لوگ، جو اطاعت الہٰی، اطاعت رسول، تقوائے الہٰی اور خشیت الہٰی کے جامع ہیں ﴿ هُمُ الْفَائِزُونَ ﴾ ” کامیاب ہیں۔“ اسباب عذاب کو ترک کر کے، اس سے نجات حاصل کر کے، ثواب کے اسباب اختیار کر کے اور اس کی منزل تک پہنچ کر وہ کامیاب ہوئے۔ پس کامیابی انہیں کے لیے مخصوص ہے۔ جو کوئی ان لوگوں کے اوصاف سے متصف نہیں تو وہ ان اوضاف حمیدہ میں کوتاہی کے مطابق اس فوز و فلاح سے محروم ہوگا۔ یہ آیت کریمہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مشترک حق کے بیان پر مشتمل ہے۔ رسول کے حق سے مراد اطاعت رسول ہے جو ایمان کو مستلزم ہے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ مختص حق سے مراد تقویٰ اور خشیت الہٰی ہے اور تیسرا حق جو صرف رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ مختص ہے، وہ ہے آپ کی مدد توقیر کرنا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان حقوق ثلاثہ کو ” سورۃ الفتح“ میں یوں جمع فرمایا ہے : ﴿ لِّتُؤْمِنُوا بِاللَّـهِ وَرَسُولِهِ وَتُعَزِّرُوهُ وَتُوَقِّرُوهُ وَتُسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَأَصِيلًا ﴾ ( الفتح :48؍9) ” تاکہ تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ، اس کی مدد اور توقیر کرو اور صبح و شام اس اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرو۔ “ النور
53 اللہ تبارک تعالیٰ ان منافقین کا حال بیان کرتا ہے جو جہاد سے جی چرا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نہیں نکلے اور پیچھے گھروں میں بیٹھ رہے، نیز ان کا حال بیان کرتا ہے جن کے دلوں میں مرض اور ضعف ایمان ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی قسمیں اٹھا کر کہتے ہیں : ﴿ لَئِنْ أَمَرْتَهُمْ ﴾ ” البتہ اگر آپ انہیں حکم دیں“ تو وہ ضرور نکلیں گے۔“ پہلا معنی زیادہ صحیح ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ان کا رد کرتے ہوئے فرماتا ہے : ﴿ قُل لَّا تُقْسِمُوا ” کہہ دیجیے ! نہ قسمیں کھاؤ۔“ یعنی ہمیں تم سے قسمیں اٹھوانے کی اور تمہارے عذروں کو توضیح کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے بارے میں ہمیں آگاہ فرما دیا ہے اور تمہاری اطاعت گزاری سب کے سامنے ہے، ہم پر مخفی نہیں، ہم تمہاری سستی اور کسی عذر کے بغیر تمہاری کسل مندی کو خوب جانتے ہیں، اس لیے تمہارے عذر پیش کرنے اور قسمیں اٹھانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اس کا محتاج تو صرف وہ ہوتا ہے جس کے معاملے میں متعدد احتمالات ہوں اور اس کا حال مشتبہ ہو ایسے شخص کے لیے کبھی کبھی عذر اس کی براءت کے لیے مفید ثابت ہوتا ہے۔ مگر تمہیں عذر کوئی فائدہ نہیں دے گا۔ تمہارے بارے میں تو اس بات کا ڈر اور انتظار ہے کہ کب تم پر اللہ تعالیٰ کا عذاب اور اس کا غضب نازل ہوتا ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو وعید سناتے ہوئے فرمایا : ﴿ إِنَّ اللّٰـهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ ﴾ ’’بے شک اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے باخبر ہے‘‘ وہ تمہیں ان اعمال کی پوری پوری جزا دے گا۔۔۔ یہ ہے ان کی حقیقت احوال۔ النور
54 رہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو آپ کا وظیفہ یہ ہے کہ آپ نیکیوں کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں اس لیے فرمایا : ﴿ قُلْ أَطِيعُوا اللّٰـهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ ﴾ ” کہہ دیجیے ! اطاعت کرو اللہ اور رسول کی۔“ اگر وہ اس حکم کے سامنے سر تسلیم خم کردیں تو یہ ان کی سعادت ہے۔ ﴿ فَإِن تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا عَلَيْهِ مَا حُمِّلَ ﴾ ” پس اگر تم نے رو گردانی کی، تو اس ( پیغمبر) پر وہ ( ذمے داری) ہے جو اس پر ڈالی گئی۔“ یعنی رسالت کی ذمے داری، جو اس نے ادا کردی ﴿ وَعَلَيْكُم مَّا حُمِّلْتُمْ ﴾ ” اور تم پر وہ ہے جو تم پر ڈالی گئی۔“ یعنی اطاعت کی ذمہ داری اور اس بارے میں تمہارا حال ظاہر ہوگیا ہے، تمہاری گمراہی اور تمہارا استحقاق عذاب واضح ہوگیا ہے۔ ﴿ وَإِن تُطِيعُوهُ تَهْتَدُوا ﴾ ” اور اگر تم اس کی اطاعت کرو تو ہدایت پالو گے۔“ اپنے قول و فعل میں راہ راست کی۔ اس کی اطاعت کے سوا تم کسی طریقے سے بھی راہ راست نہیں پا سکتے، یہ ناممکن ہی نہیں بلکہ سخت محال بھی ہے۔ ﴿ وَمَا عَلَى الرَّسُولِ إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ ﴾ یعنی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذمے تمہیں واضح طور پر پیغام الہی پہنچا دینا ہے، جس میں کسی کے لیے کوئی شک و شبہ باقی نہ رہے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسا ہی کیا اور پیغام الہٰی کو واضح طور پر پہنچا دیا ہے اور اب اللہ تعالیٰ ہی تمہارا حساب لے گا اور تمہیں اس کی جزا دے گا۔ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اس معاملے میں کوئی اختیار نہیں اس نے تو اپنی ذمہ داری پوری کردی۔ النور
55 یہ اللہ تعالیٰ کے ان سچے وعدوں میں سے ہے جن کی تاویل و تعبیر کا مشاہدہ کروایا گیا ہے۔ امت محمدیہ میں سے جو لوگ ایمان پر قائم رہتے ہیں اور نیک عمل کرتے ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ وعدہ فرمایا ہے کہ وہ ان کو زمین کی خلافت عطا کرے گا۔ وہ زمین میں خلفاء ہوں گے اور زمین کی تمام تدبیر ان کے دست تصرف میں ہوگی۔ وہ اس دین کو جسے اس نے ان کے لیے پسند کیا ہے، یعنی دین اسلام کو جو تمام ادیان پر فائق ہے، مضبوط بنیادوں پر قائم کر دے گا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس امت کے لئے اس کے فضل و شرف اور اس پر اپنی نعمت کی بنا پر دین اسلام کو پسند فرمایا، یعنی وہ اس دین کو قائم کرنے، اس کے ظاہری و باطنی قوانین کو خود اپنی ذات پر اور دوسروں پر یعنی دیگر ادیان کے پیرو کاروں اور تمام کفار پر نافذ کریں گے جو مفتوح اور مغلوب ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ ان کے خوف کو امن میں بدل دے گا۔ ان میں سے جب اور جہاں کہیں ایک مسلمان ہوتا تو وہ اپنے دین کے اظہار کی قدرت نہیں رکھتا تھا اگر اظہار کرتا تو کفار کی طرف سے بے شمار اذیتوں کا سامنا کرنا پڑتا۔ مسلمان من حیث الجماعت دوسروں کی نسبت بہت کم تھے روئے زمین کے تمام لوگ مسلمانوں کو اذیت دینے میں متحد تھے اور ان پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہے تھے۔ اس آیت کریمہ کے نزول کے وقت اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کے ساتھ ان امور کا وعدہ فرمایا جن کا اس سے قبل مشاہدہ نہیں کیا گیا تھا اور وہ ہیں خلافت ارضی، زمین میں اقتدار، امامت دین پر قدرت، کامل امن، نیز یہ کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں گے، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے اور اللہ تعالیٰ کے سوا انہیں کسی کا خوف نہ ہوگا۔ اس امت کے اولین لوگوں نے ایمان کو قائم کیا اور دوسروں سے بڑھ کر نیک کام کئے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو ملکوں اور قوموں پر حکمرانی عطا کی، مشرق و مغرب کو ان کے زیرنگیں کردیا، ان کو کامل امن اور کامل قدرت عطا کی۔ یہ اللہ تعالیٰ کی بڑی حیران کن اور تعجب انگیز نشانی ہے۔ قیامت کے برپا ہونے تک یہ معاملہ اسی نہج پر جاری و ساری رہے گا جب تک مسلمان ایمان کو قائم رکھیں گے اور اس کے تقاضوں کے مطابق نیک کام کرتے رہیں گے اس وقت تک انہیں اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق یہ چیزیں حاصل ہوتی رہیں گی۔۔۔ البتہ مسلمانوں کے ایمان اور عمل سالح میں خلل واقع ہوجانے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کبھی کبھی کفار کو اقتدار عطا کر کے انہیں مسلمانوں پر مسلط کردیتا ہے۔ ﴿ وَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ ﴾ اے مسلمانو ! اس کامل اقتدار اور تسلط کے بعد بھی اگر کوئی کفران نعمت کا ارتکاب کرتا ہے۔ ﴿ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ ﴾ ’’تو یہی لوگ نافرمان ہیں‘‘جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے دائرے سے باہر نکلے ہوئے اور بگڑے ہوئے ہیں انہوں نے اصلاح کا کوئی کام سر انجام دیا نہ ان میں بھلائی کی کوئی اہلیت ہے کیونکہ جو کوئی اپنے اقتدار، غلبہ اور موانع ایمان کے عدم وجود کے وقت ایمان کو ترق کردیتا ہے تو یہ چیز اس کے فساد نیت اور خبث باطن پر دلالت کرتی ہے کیونکہ اس کے لیے خبث باطن کے سوا ترک دین کا کوئی داعیہ موجود نہیں۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم سے پہلے بھی اہل ایمان کو خلافت ارضی عطا کی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ اسلام سے فرمایا: ﴿ وَيَسْتَخْلِفَكُمْ فِي الْأَرْضِ فَيَنظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُونَ ﴾ (الاعراف : 7؍129) ’’اور تم کو زمین کی خلافت عطا کرے گا تاکہ دیکھے تم کیسے عمل کرتے ہو۔‘‘ اور فرمایا : ﴿ وَنُرِيدُ أَن نَّمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الْأَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمُ الْوَارِثِينَ وَنُمَكِّنَ لَهُمْ فِي الْأَرْضِ وَنُرِيَ فِرْعَوْنَ وَهَامَانَ وَجُنُودَهُمَا مِنْهُم مَّا كَانُوا يَحْذَرُونَ ﴾ (القصص : 28؍6،5)’’ہم چاہتے تھے کہ ان لوگوں پر احسان کریں جن کو زمین میں کمزور اور ذلیل بنا کر رکھا گیا ہے اور انہیں سردار بنائیں اور انہی کو (بادشاہت کا) وارث ٹھہرائیں، نیز ہم زمین میں ان کو اقتدر عطا کریں۔‘‘ النور
56 اللہ تبارک و تعالیٰ نے نماز کو ظاہری اور باطنی طور پر اس کے تمام ارکان، شرائط اور آداب کے ساتھ قائم کرنے اور اس مال کی زکوٰۃ ادا کرنے کا حکم دیا ہے جو اللہ تعالیٰ نے بندوں کو عطا کیا اور ان کو اس مال پر خلیفہ بنایا کہ وہ یہ مال محتاجوں اور ان لوگوں پر خرچ کریں جن کا ذکر اللہ تعالیٰ نے مصارف زکوٰۃ کے ضمن میں کیا ہے اور یہ دو عبادات سب سے زیادہ جلیل القدر عبادات ہیں جو حقوق اللہ اور حقوق العباد، اللہ تعالیٰ کے لئے اخلاص اور مخلوق کے ساتھ حسن سلوک کی جامع ہیں پھر اس حکم پر عطف کے ساتھ عام حکم دیا، فرمایا : ﴿ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ ﴾ ’’اور اطاعت کرو رسول کی۔‘‘ یعنی او امر کی تعمیل اور نواہی سے اجتناب کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کا ثبوت دو۔ ﴿مَّن يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللّٰـهَ ﴾ (النساء : 4؍80)’’جس نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی۔‘‘ ﴿ لَعَلَّكُمْ ﴾ ’’تاکہ تم‘‘ یعنی جب تم ان امور کا خیال رکھو گے تو ﴿ تُرْحَمُونَ ﴾ ’’رحم کیے جاؤ۔‘‘ جو کوئی رحمت کا طلب گار ہے تو اس کے حصول کا صرف یہی طریقہ ہے اور جو کوئی نماز قائم کئے، زکوٰۃ ادا کئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کئے بغیر رحمت کی امید رکھتا ہے تو اس کی تمنائیں جھوٹی ہیں اور وہ جھوٹی آرزؤں میں گرفتار ہے۔ النور
57 ﴿ لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا مُعْجِزِينَ فِي الْأَرْضِ ﴾ ’’نہ گمان کریں آپ کافروں کو کہ وہ (اللہ کو) زمین میں عاجز کردیں گے۔‘‘ پس اس دنیا کی زندگی میں ان کو مال و متاع سے نوازا جانا آپ کو دھوکے میں نہ ڈال دے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اگرچہ ان کی مہلت دے رکھی ہے مگر وہ ان کو مہمل نہیں چھوڑے گا، جیسا کہ فرمایا ﴿ نُمَتِّعُهُمْ قَلِيلًا ثُمَّ نَضْطَرُّهُمْ إِلَىٰ عَذَابٍ غَلِيظٍ ﴾ (لقمان : 31؍24) ’’ہم تھوڑے عرصے کے لئے ان کو متاع دنیا سے نوازتے ہیں پھر ان کو بے بس کر کے ایک نہایت سخت عذاب کی طرف کھینچ لاتے ہیں۔ ‘‘ بنا بریں فرمایا ﴿ وَمَأْوَاهُمُ النَّارُ وَلَبِئْسَ الْمَصِيرُ ﴾ ’’ان کا ٹھکانا آگ ہے اور البتہ وہ برا ٹھکانا ہے۔‘‘ یعنی کافروں کا انجام بد ترین ہے، ان کا انجام شر، حسرت اور ابدی عذاب ہے۔ النور
58 اللہ تبارک و تعالیٰ نے اہل ایمان کو حکم دیا ہے کہ ان کے غلام اور نابالغ بچے اجازت طلب کر کے ان کے پاس آیا کریں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی حکمت بیان کی ہے اور یہ کہ اجازت طلب کرنے والوں کے لئے پردے کے یہ تین اوقات ہیں۔ عشاء کی نماز کے بعد جب سونے کا وقت ہوتا ہے اور فجر کی نماز کے لئے بیدار ہونے سے پہلے۔ غالب حالات میں، رات کے وقت سونے والے نے معمول کے لباس کی بجائے شب خوابی کا لباس پہنا ہوتا ہے۔۔۔ البتہ دن کے وقت، قیلولہ وغیرہ میں انسان بسا اوقات اسی معمول کے لباس ہی میں ہوتا ہے۔ اس کو اپنے اس ارشاد کے ساتھ مقید کیا ہے۔ ﴿ وَحِينَ تَضَعُونَ ثِيَابَكُم مِّنَ الظَّهِيرَةِ ﴾ ’’دوپہر کے وقت جب تم (قیلولہ کے لئے) کپڑے اتارتے ہو۔‘‘ پس مذکورہ بالا تین اوقات میں تمہارے غلام اور چھوٹے بچوں کو دوسرے لوگوں کی مانند اجازت لئے بغیر داخل ہونے کی اجازت نہیں۔۔۔ ان تین اوقات کے علاوہ دیگر اوقات کے بارے میں فریاما : ﴿ لَيْسَ عَلَيْكُمْ وَلَا عَلَيْهِمْ جُنَاحٌ بَعْدَهُنَّ ﴾ ’’نہیں ہے تم پر اور نہ ان پر کوئی گناہ ان اوقات کے بعد۔‘‘ یعنی یہ غلام اور بچے دوسروں کی مانند نہیں کیونکہ وہ ہمیشہ ان کے محتاج ہوتے ہیں اس لئے ان کا ہر وقت اجازت طلب کرتے رہنا ان کے لئے باعث تکلیف ہوگا۔ بنا بریں فرمایا : ﴿ طَوَّافُونَ عَلَيْكُم بَعْضُكُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ ﴾ یعنی تمہارے کام سر انجام دینے اور تمہاری ضروریات پوری کرنے کے لئے ان کا تمہارے پاس آنا جانا رہتا ہے۔ ﴿ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰـهُ لَكُمُ الْآيَاتِ ﴾ وہ تاکید کے لئے اپنی آیات کو اپنی حکمت کے ساتھ مقرون بیان کرتا ہے تاکہ شارع کی رحمت اور اس کی حکمت کی معرفت حاصل ہو۔ اس لئے فرمایا : ﴿ وَاللّٰـهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ ﴾ ’’اور اللہ جاننے والا حکمت والا ہے۔‘‘ اس کا علم تمام واجبات و مستحبات اور تمام ممکنات کا احاطہ کئے ہوئے ہے، وہ اس حکمت کو بھی خوب جانتا ہے جس کی بنا پر ہر چیز کو اس کے مقام پر رکھا گیا۔ پس ہر مخلوق کو وہی تخلیق عطا کی گئی ہے جو اس کے لائق ہے اور اس نے تمام شرعی احکام عطا کئے ہیں جو اسکے مناسب حال ہیں۔ یہ متذکرہ صدر احکام بھی انہیں میں سے ہیں جنہیں اس نے خوب کھول کھول کر بیان کیا ہے اور ان کے مآخذ کو اور ان کے حسن کو واضح کیا ہے۔ النور
59 ﴿ وَإِذَا بَلَغَ الْأَطْفَالُ مِنكُمُ الْحُلُمَ ﴾ ’’اور جب پہنچ جائیں بچے تم میں سے بلوغت کو۔‘‘ اور یہ وہ عمر ہے جب سوتے یا جاگتے میں منی کا انزال ہوجاتا ہے۔ ﴿ فَلْيَسْتَأْذِنُوا كَمَا اسْتَأْذَنَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ﴾ ’’تو ان کو چاہیے کہ وہ اجازت طلب کریں جیسے اجازت مانگتے ہیں وہ لوگ جو ان سے پہلے تھے۔‘‘ یعنی تمام اوقات میں۔ اور جن لوگوں کی طرف اللہ تعالیٰ نے ﴿ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ﴾ میں اشارہ فرمایا ہے، یہ وہ لوگ ہیں جو اس آیت کریمہ میں مذکور ہیں : ﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ بُيُوتِكُمْ حَتَّىٰ تَسْتَأْنِسُوا ﴾ (النور : 24؍27) ’’اے ایمان والو ! اپنے گھروں کے سوا اور گھروں میں نہ جاؤ جب تک کہ اجازت نہ لے لو۔‘‘ ﴿ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰـهُ لَكُمْ آيَاتِهِ ﴾ ’’اسی طرح بیان کرتا ہے اللہ اپنے آیتیں۔‘‘ یعنی واضح کرتا ہے اور اس کے احکام کو کھول کھول کر بیان کرتا ہے۔ ﴿ وَاللّٰـهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ ﴾ ’’اور اللہ تعالیٰ باخبر اور حکمت والا ہے۔‘‘ ان دو آیات کریمہ میں متعدد فوائد ہیں : (1) آقا اور چھوٹے بچوں کے سر پرست کو مخاطب کیا گیا ہے کہ وہ اپنے غلاموں اور ان چھوٹے بچوں کو علم اور آداب شرعیہ کی تعلیم دیں جو ان کی سرپرستی میں ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں اس کے خطاب کا رخ ان کی طرف ہے : ﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِيَسْتَأْذِنكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ وَالَّذِينَ لَمْ يَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنكُمْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ﴾ ’’اے ایمان والو ! تم سے تمہاری ملکیت کے غلاموں اور انہیں بھی جو تم میں سے بلوغت کو نہ پہنچے ہوں ان کو تین اوقات میں اجازت طلب کرنی چاہیے۔‘‘ اور یہ چیز ان کی تعلیم و تادیب کے بغیر ممکن نہیں اور نیز اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد بھی اسی بات پر دلالت کرتا ہے۔ ﴿ لَيْسَ عَلَيْكُمْ وَلَا عَلَيْهِمْ جُنَاحٌ بَعْدَهُنَّ ﴾ ’’تم پر اور ان پر ان اوقات کے بعد کوئی گناہ نہیں ہے۔‘‘ (2) اللہ تعالیٰ نے پردہ کی حفاظت اور اس معاملے میں ہر قسم کی احتیاط کا حکم دیا ہے، نیز اس جگہ پر جہاں انسان کے ستر کے نظر آنے کا امکان ہو وہاں غسل اور استنجاء وغیرہ سے روکا گیا ہے۔ (3) ضرورت کے وقت ستر کھولنا جائز ہے، مثلاً سونے یا بول و براز وغیرہ کے وقت۔ (4) ان آیات کریمہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان دنوں میں مسلمان رات کے وقت سونے کی طرح دوپہر کے وقت قیلولہ کرنے کے عادی تھے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں انہیں ان کی موجودہ حالت کے مطابق خطاب کیا ہے۔ (6) اس بچے کے بارے میں جو ابھی بالغ نہیں ہوا، جائز نہیں کہ اسے ستر دیکھنے کی اجازت دی جائے اور نہ ہی اس کا ستر دیکھنا جائز ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اجازت طلب کرنے کا حکم ایسے معاملے میں دیا ہے جو جائز ہے۔ (7) غلام کے لئے اپنے مالک کا ستر دیکھنا جائز نہیں۔ اسی طرح مالک کے لئے بھی جائز نہیں کہ وہ اپنے غلام کا ستر دیکھے، جیسے ہم نے بچے کے سلسلے میں بیان کیا۔ (7) واعظ اور معلم جو علوم شرعیہ میں بحث کرتا ہے، اس کے لئے مناسب ہے کہ وہ حکم بیان کرنے کے ساتھ اس کا مآخذ اور اس کی وجہ بھی بیان کر دے اور دلیل اور تعلیل کے بغیر کوئی بات نہ کرے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حکم مذکور بیان کرنے کے بعد اس کی علت بیان کی ہے۔ فرمایا : ﴿ ثَلَاثُ عَوْرَاتٍ لَّكُمْ ﴾ ’’یہ تین اوقات تمہارے لئے پردے کے اوقات ہیں۔‘‘ (8) یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ نابالغ بچے اور غلام حکم شرعی میں مخاطب ہیں جس طرح ان کا سر پرست مخاطب ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے ﴿ لَيْسَ عَلَيْكُمْ وَلَا عَلَيْهِمْ جُنَاحٌ بَعْدَهُنَّ ﴾ ’’ان اوقات کے بعد اگر وہ اجازت لئے بغیر آئیں تو تم پر کوئی گناہ ہے نہ ان پر۔‘‘ (9) بچے کا لعاب پاک ہے خواہ وہ نجاست، مثلاً قے وغیرہ کے بعد کا لعاب ہی کیوں نہ ہو۔ اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : ﴿ طَوَّافُونَ عَلَيْكُم ﴾ ’’وہ تمہارے پاس بار بار آنے والے ہیں۔‘‘ نیز جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بلی کے جھوٹے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا : ((إِنَّهَا مِنْ الطَّوَّافِينَ عَلَيْكُمْ وَالطَّوَّافَاتِ)) [سنن ابی داؤد،الطھارة،باب سؤرالھرة،ح:75وسنن النسائی، الطھارة،باب سؤر الھمرة،ح:67] ’’یہ تمہارے پاس نہایت کثرت سے آنے جانے والوں اور آنے جانے والیوں میں سے ہیں۔‘‘ (اس لیے ان کا جوٹھا جائز ہے) (10) انسان کے لئے جائز ہے کہ وہ اپنے زیر سایہ بچوں سے ایسی خدمت لے جس میں ان کے لئے مشقت نہ ہو۔ اس کے لئے دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : ﴿طَوَّافُونَ عَلَيْكُم﴾ ’’وہ تمہارے پاس بار بار آنے والے ہیں۔‘‘ (11) متذکرہ صدر حکم صرف ان بچوں کے لئے ہے جو ابھی بالغ نہیں ہوئے۔ بالغ ہونے کے بعد تو ہر حال میں اجازت طلب کرنے کا حکم ہے۔ (12) منی کے انزال سے بلوغت حاصل ہوجاتی ہے اور وہ تمام شرعی احکام جو بلوغت پر مرتب ہوتے ہیں، انزال کے ساتھ ہی لاگو ہوجاتے ہیں اور اس پر تمام امت کا اجماع ہے البتہ اس امر میں اختلاف ہے کہ عمر یا زیر ناف بال اگنے سے بلوغت حاصل ہوجاتی ہے یا نہیں۔ النور
60 ﴿وَالْقَوَاعِدُ مِنَ النِّسَاءِ﴾ ’’اور بڑی بوڑھی عورتیں۔‘‘ یعنی وہ عورتیں جو شہوت اور تعلقات زن و شوہر میں رغبت نہ رکھتی ہوں۔ ﴿اللَّاتِي لَا يَرْجُونَ نِكَاحًا﴾ جو نکاح کی خواہش مند ہوں نہ کوئی مرد ان کے ساتھ نکاح کی رغبت رکھتا ہو اور یہ اس کے بوڑھی ہونے کی وجہ سے ہو کہ کسی کو اس میں کوئی رغبت ہو نہ وہ رغبت رکھتی ہو یا اتنی بد صورت ہو کہ کسی کو اس میں رغبت نہ ہو۔ ﴿فَلَيْسَ عَلَيْهِنَّ جُنَاحٌ﴾ ’’تو ان پر کوئی گناہ اور حرج نہیں‘‘ ﴿ أَن يَضَعْنَ ثِيَابَهُنَّ ﴾ کہ وہ اپنا ظاہری لباس یعنی چادر وغیرہ اتار دیں جس کے بارے میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے عورتوں کو حکم دیا تھا : ﴿وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَىٰ جُيُوبِهِنَّ﴾ (النور : 24؍31) ’’اور وہ اپنے سینوں پر اپنے دوپٹوں کی بکل مارے رہیں۔‘‘ پس ان خواتین کے لئے اپنے چہروں کو ننگا کرنا جائز ہے کیونکہ اب ان کے لئے یا ان کی طرف سے کسی فتنے کا ڈر نہیں۔ چونکہ ان خواتین کے اپنی چادر اتار دینے میں نفی حرج سے بعض دفعہ یہ وہم بھی لا حق ہوسکتا ہے کہ اس اجازت کا استعمال ہر چیز کے لئے ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس احتراز کو اپنے اس ارشاد کے ذریعے سے دور کیا ہے : ﴿غَيْرَ مُتَبَرِّجَاتٍ بِزِينَةٍ ﴾ ’’وہ اپنی زینت کو ظاہر کرنے والی نہ ہوں۔‘‘ یعنی ظاہری لباس اور چہرے کے نقاب کی زینت کو لوگوں کو نہ دکھائیں اور نہ زمین پر پاؤں مار کر چلیں کہ ان کی زینت ظاہر ہو کیونکہ عورت کی مجرد ز ینت خواہ پردے ہی میں کیوں نہ ہو اور خواہ اس میں عدم رغبت ہی کیوں نہ ہو۔۔۔ فتنہ کی باعث ہے اور دیکھنے والے کو گناہ میں مبتلا کرسکتی ہے۔ ﴿وَأَن يَسْتَعْفِفْنَ خَيْرٌ لَّهُنَّ﴾ ’’اور اگر وہ احتیاط کریں تو ان کے لیے زیادہ بہتر ہے۔‘‘ استعفاف سے مراد ہے، ان اسباب کو استعمال کر کے جو عفت کا تقاضا کرتے ہیں، عفت کا طلب گار ہونا، مثلاً نکاح کرنا اور ان امور کو ترک کرنا جن کی وجہ سے فتنہ میں پڑنے کا خوف ہو۔ ﴿وَاللّٰـهُ سَمِيعٌ﴾ اللہ تعالیٰ تمام آوازوں کو سنتا ہے۔ ﴿عَلِيمٌ ﴾ اور وہ نیتوں اور مقاصد کو بھی خوب جانتا ہے، اس لئے ان عورتوں کو ہر قول فاسد اور قصد فاسد سے بچنا چاہیے۔ النور
61 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں پر اپنی عنایات کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے کہ اس نے ان کو دین کے معاملے میں کسی حرج میں مبتلا نہیں کیا بلکہ اس نے دین کو بے حد آسان کردیا ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿ لَّيْسَ عَلَى الْأَعْمَىٰ حَرَجٌ وَلَا عَلَى الْأَعْرَجِ حَرَجٌ وَلَا عَلَى الْمَرِيضِ حَرَجٌ﴾ ’’اندھے پر، لنگڑے پر، اور مریض پر کوئی حرج نہیں۔‘‘ یعنی ان لوگوں پر، ان امور واجبہ کو ترک کرنے میں جن کا دارو مدار ان میں سے کسی ایک پر ہوتا ہے مثلاً جہاد وغیرہ جن کا دارو مدار بصارت، لنگڑے پن سے صحیح ہونا یا مریض کی صحت پر ہے اس عام معنی ہی کی وجہ سے، جس کا ہم نے ذکر کیا ہے، اس میں کلام مطلق کیا گیا ہے اور اس کو مقید نہیں فرمایا جس طرح کہ اس نے اپنے اس ارشاد میں مقید فرمایا ہے۔ ﴿وَلَا عَلَىٰ أَنفُسِكُمْ ﴾ یعنی خود تم پر کوئی حرج نہیں ﴿أَن تَأْكُلُوا مِن بُيُوتِكُمْ﴾ ’’اس بات میں کہ تم کھاؤ اپنے گھروں سے۔‘‘ یعنی تم پر اپنی اولاد کے گھروں میں سے کھانے میں بھی کوئی حرج نہیں یہ آیت کریمہ اس حدیث صحیح کے موافق ہے۔ آپ نے فرمایا : ((اَنْتَ وَمَالُكَ لِاَبِيْكَ)) [سنن ابن ماجه،التجارات،باب ماللرجل من مال ولدہ،ح:2291] ’’تو اور تیرا مال تیرے باپ کی ملکیت ہے۔‘‘ ایک دوسری حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ((اِنَّ اَطْيَبَ مَآَكَلْتُمْ مِنْ كَسْبِكُمْ وَاِنَّ اَوْلَادَكُمْ مِنْ كَسْبِكُمْ )) [سنن ابن ماجہ، التجارات، باب ماللرجل من مال ولدہ، ح:229وسنن ابی داود،البیوع، باب الرجل یأکل من مال ولدہ،ح:3528]’’بہترین چیز جو تم کھاتے ہو، تمہاری کمائی ہے اور تمہاری اولاد بھی تمہاری کمائی ہے۔‘‘ اور ﴿ مِن بُيُوتِكُمْ ﴾ سے مراد خود اپنا گھر نہیں ہے کیونکہ یہ تو تحصیل حاصل ہے، جس سے اللہ تعالیٰ کا کلام منزہ اور پاک ہے، نیز یہ نفی حرج، ان جگہوں کے بارے میں ہے جہاں گناہ کا گمان یا وہم ہوسکتا ہے۔ رہا انسان کا اپنا گھر تو وہاں گناہ اور حرج کا ادنیٰ سا گمان بھی نہیں ہوسکتا۔ ﴿ أَوْ بُيُوتِ آبَائِكُمْ أَوْ بُيُوتِ أُمَّهَاتِكُمْ أَوْ بُيُوتِ إِخْوَانِكُمْ أَوْ بُيُوتِ أَخَوَاتِكُمْ أَوْ بُيُوتِ أَعْمَامِكُمْ أَوْ بُيُوتِ عَمَّاتِكُمْ أَوْ بُيُوتِ أَخْوَالِكُمْ أَوْ بُيُوتِ خَالَاتِكُمْ ﴾ ’’تم پر اپنے باپوں، اپنی ماؤں، اپنے بھائیوں، اپنی بہنوں، اپنے چچاؤں، اپنی پھوپھیوں، اپنے ماموؤں اور اپنی خالاؤں کے گھر سے کھانے پر کوئی حرج نہیں ہے۔‘‘ یہ سب لوگ معروف ہیں۔ ﴿ أَوْ مَا مَلَكْتُم مَّفَاتِحَهُ ﴾ ’’یا وہ (گھر) جن کی چابیوں کے تم مالک ہوئے۔‘‘ اس سے مراد وہ گھر ہیں جن میں آپ وکالت یا سرپرستی وغیرہ کی بنا پر تصرف کا اختیار رکھتے ہیں رہا۔ غلام سے اس کی تفسیر کرنا تو یہ دو وجوہ سے صحیح نہیں ہے۔ (1) غلام کے لئے : ﴿ مَلَكْتَ مَفَاتِحَهُنہیں کہا جاتا، بلکہ )مَامَلَكْتُمُوهُ( یا )مَامَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ( کہا جاتا ہے کیونکہ وہ اس گھر کی صرف کنجیوں کے مالک نہیں ہوتے بلکہ وہ تمام گھر کے مالک ہوتے ہیں۔ )2( غلاموں کے مکان انسان کے خود اپنے گھر سے باہر نہیں ہیں کیونکہ غلام اور اس کی ہر چیز اس کے آقا کی ملکیت ہے۔ پس یہاں نفی حرج کو بیان کرنے کی کوئی وجہ نہیں۔ ﴿أَوْ صَدِيقِكُمْ﴾ ’’یا اپنے دوست کے )گھر(سے۔‘‘ یہ نفی حرج، مذکورہ بالا تمام گھروں میں، بغیر اجازت کھا پی لینے میں نفی حرج ہے اور اس کی حکم سیاق کلام سے واضح ہے۔ ان مذکورہ گھروں میں عادت اور عرف عام کے مطابق، قرابت قریبہ، تصرف کامل اور دوستی کی وجہ سے، کھا پی لینے کے معاملے میں مسامحت برتی جاتی ہے۔ اگر ان مذکورہ بالا گھروں میں کھا لینے میں عدم مسامحت اور بخل معلوم ہوجائے تو حکمت اور معنی کو مد نظر رکھتے ہوئے کھان اپینا جائز ہے نہ حرج ہی رفع ہوتا ہے۔ ﴿لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَأْكُلُوا جَمِيعًا أَوْ أَشْتَاتًا﴾ ’’نہیں ہے تم پر کوئی گناہ یہ کہ تم اکٹھے کھاؤ یا الگ الگ‘‘ یہ سب جائز ہے ایک گھر کے تمام افراد کا اکٹھے مل کر کھانا یا علیحدہ علیحدہ کھانا ہر طرح سے جائز ہے۔ یہاں حرج کی نفی ہے فضیلت کی نفی نہیں ہے۔ اس لیے اکٹھے مل کر کھانا افضل ہے۔ ﴿فَإِذَا دَخَلْتُم بُيُوتًا﴾ ’’جب تم داخل ہو گھروں میں۔‘‘ یہ سیاق شرط میں نکرہ ہے جو خود اپنے گھر اور دیگر گھروں کو شامل ہے، خواہ گھر میں کوئی سکونت پذیر ہو یا نہ ہو۔ جب تم ان گھروں میں داخل ہوا کرو۔ ﴿فَسَلِّمُوا عَلَىٰ أَنفُسِكُمْ﴾ یعنی تم ایک دوسرے کو سلام کیا کرو، کیونکہ تمام مسلمان ایک دوسرے کے ساتھ محبت کرنے، ایک دوسرے پر مہربانی کرنے اور ایک دوسرے کے ساتھ عاطفت سے پیش آنے میں، فرد واحد کی مانند ہیں، لہٰذا کسی فرق و امتیاز کے بغیر تمام گھروں میں داخل ہوتے وقت سلام کرنا مشروع ہے اور اجازت طلبی کے بارے میں گذشتہ صفحات میں گزر چکا ہے کہ اس کے احکام میں تفصیل ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس سلام کی مدح بیان کرتے ہوئے فرمایا۔ ﴿تَحِيَّةً مِّنْ عِندِ اللّٰـهِ مُبَارَكَةً طَيِّبَةً﴾ ’’یہ اللہ کی طرف سے مبارک اور پاکیزہ تحفہ ہے۔‘‘ یعنی تمہارا سلام جب تم گھروں میں داخل ہو، ان الفاظ میں ہونا چاہیے۔ (اَلسَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللّٰهِ وَبَرَكَاتُه) یا ( اَلسَّلاَمُ عَلَيْنَا وَعَلٰی عِبَادِ اللّٰہِ الصَّالِحِيْنَ ) ﴿ تَحِيَّةً مِّنْ عِندِ اللّٰـهِ ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ نے اسے تمہارے لئے تحیہ و سلام کے طور پر مشروع کیا ہے۔ ﴿ مُبَارَكَةً ﴾ ’’بابرکت۔‘‘ کیونکہ یہ ہر قسم کے نقص سے سلامتی، حصول رحمت، برکت، نمو اور اضافے پر مشتمل ہے۔ ﴿ طَيِّبَةً ﴾ ’’پاکیزہ۔‘‘ کیونکہ ان کا شمار ان کلمات طیبہ میں سے ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کو بہت محبوب ہیں جن میں اس شخص کے لئے دلی مسرت، محبت اور مودت ہے جسے سلام کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے سامنے یہ احکام جلیلہ واضح کرنے کے بعد فرمایا : ﴿ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰـهُ لَكُمُ الْآيَاتِ ﴾ ’’اسی طرح بیان کرتا ہے اللہ تمہارے لیے اپنی آیتیں۔‘‘ جو احکام شرعیہ اور ان کی حکمتوں پر دلالت کرتی ہیں۔ ﴿ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ ﴾ شاید کہ تم ان آیات کو سمجھو اور اپنے دل میں ان پر غور کرو تاکہ تم عقل و فہم رکھنے والوں میں شامل ہوجاؤ کیونکہ احکام شریعہ کی معرفت عقل میں اضافہ کرتی ہے اور فہم کو نشو ونما دیتی ہے، اس لیے اس کے معانی و آداب سب سے زیادہ جلیل القدر ہیں، نیز عمل کی جزا اس کی جنس میں سے ہوتی ہے۔ پس جس طرح اس نے اپنے رب کو سمجھنے اور ان آیات میں تفکر و تدبر کرنے کے لئے عقل کو استعمال کیا جن میں اسے تفکر و تدبر کی دعوت دی گئی تھی، اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کی عقل میں اضافہ کردیا۔ یہ آیات کریمہ ایک عام قاعدہ و کلیہ پر دلالت کرتی ہے، وہ قاعدہ و کلیہ یہ ہے : ’’عرف اور عادت الفاظ کی اسی طرح تخصیص کرتے ہیں، جس طرح لفظ کی تخصیص لفظ کرتا ہے۔‘‘ کیونکہ اصل یہ ہے کہ انسان کے لئے کسی دوسرے کا کھانا ممنوع ہے اس کے باوجود عرف و عادت کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے مذکور لوگوں کے گھروں سے کھانے کی اجازت دی ہے۔ درحقیقت ہر مسئلہ چیز کے مالک کی اجازت پر موقوف ہے، اگر قول یا عرف و عادت کے ذریعے مالک کی اجازت معلوم ہوجائے تو اس پر اقدام جائز ہے۔ اس آیت کریمہ میں اس بات کی بھی دلیل ہے کہ باپ کا اپنے بیٹے کے مال میں سے اتنے مال کو اپنی ملکیت میں لے لینا جائز ہے جس سے اس کو ضرر نہ پہنچے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے بیٹے کے گھر کو باپ کے گھر سے موسوم کیا ہے۔ یہ آیت کریمہ اس پر بھی دلالت کرتی ہے کہ کسی شخص کے گھر میں تصرف کرنے والا، مثلاً اس کی بیوی اور بہن وغیرہ۔۔۔ تو عادت اور عرف کے مطابق ان کے لئے اس شخص کے گھر سے کھانا پینا اور کسی سائل کو کھلانا جائز ہے۔ اس میں کھانے میں مشارکت کے جواز پر دلیل ہے، خواہ وہ مل کر کھائیں یا متفرق طور پر، خواہ ان میں سے بعض، بعض سے زیادہ کھا لیں۔ النور
62 یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سی اپنے مومن بندوں کے لئے ارشاد ہے کہ جب وہ کسی جامع معاملے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہوں، یعنی آپ کی ضرورت اور مصلحت مثلاً جہاد اور مشاورت وغیرہ میں، جہاں اہل ایمان کا اشتراک عمل ہوتا ہے۔۔۔ تو اس معاملے میں اکٹھے رہیں کیونکہ مصلحت ان کے اجتماع و اتحاد اور عدم تفرق و تشتت کا تقاضا کرتی ہے۔۔۔ اللہ اور اس کے رسول پر سچا ایمان رکھنے والا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے بعد آپ کے نائب کی اجازت کے بغیر اپنے گھر لوٹتا ہے نہ اپنی کسی ضرورت سے دیگر مومنوں کو چھوڑ کرجاتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اجازت کے بغیر نہ جانے کو موجب ایمان قرار دیا ہے اور اس فعل پر نیز رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے نائب کے ساتھ ان کے ادب پر ان کی مدح کی ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَأْذِنُونَكَ أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَرَسُولِهِ ﴾ ’’بے شک وہ لوگ جو آپ سے اجازت مانگتے ہیں وہی لوگ ایمان رکھتے ہیں اللہ اور اس کے رسول پر۔‘‘ مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا آپ اور آپ کا نائب ان کو اجازت دے یا نہ دے؟ اجازت دینے کے لئے دو شرائط عائد کی گئی ہیں : (1) یہ اجازت طلبی ان کے کسی ضروری معاملے اور ضروری کام کے لیے ہو اور اگر کوئی شخص بغیر کسی عذر کے اجازت طلب کرتا ہے تو اس کو اجازت نہ دی جائے۔ (2) اجازت دینے میں مشیت مصلحت کے تقاضے پر مبنی ہو اور اجازت دینے والے کو ضرر نہ پہنچے۔ اس لئے فرمایا : ﴿ فَإِذَا اسْتَأْذَنُوكَ لِبَعْضِ شَأْنِهِمْ فَأْذَن لِّمَن شِئْتَ مِنْهُمْ ﴾ ’’پس جب وہ آپ سے اجازت مانگیں اپنے کسی کام کے لئے، تو آپ ان میں سے جس کو چاہیں اجازت دیں۔‘‘ اگر اجازت طلب کرنے والے کے پاس کوئی عذر ہو اور وہ اجازت طلب کرے اگر اس کے پیچھے بیٹھ رہنے میں اور ساتھ نہ جانے میں اس کی رائے یا شجاعت سے محرومی کی وجہ سے نقصان ہو تو صاحب امر اس کو اجازت نہ دے۔۔۔ بایں ہمہ اگر کسی نے پیچھے رہنے کی اجازت طلب کی اور صاحب امر ان مذکورہ شرائط کے ساتھ اجازت دے دے، تو اللہ نے اپنے رسول کو حکم دیا ہے کہ وہ اجازت طلب کرنے والے کے لئے بخشش کی دعا کریں۔ کیونکہ ہوسکتا ہے کہ اس کی اجازت طلبی تقصیر پر مبنی ہو، اس لئے فرمایا : ﴿ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمُ اللّٰـهَ إِنَّ اللّٰـهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴾ ’’اور بخشش مانگیں ان کے لئے اللہ سے، بلا شبہ اللہ غفور رحیم ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ ان کے گناہ بخش دیتا ہے اور ان پر رحم فرماتا ہے کہ اس نے کسی عذر کی بنا پر اجازت طلبی کا جواز عطا کیا۔ النور
63 ﴿ لَّا تَجْعَلُوا دُعَاءَ الرَّسُولِ بَيْنَكُمْ كَدُعَاءِ بَعْضِكُم بَعْضًا ﴾ ،، نہ کرو تم رسول کے بلا نے کو آپس میں جیسے ایک تمہارے دوسرے کو بلاتا ہے۔‘‘ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تمہیں بلانا اور تمہارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بلانا ایسے نہ ہوجیسے تم ایک دوسرے کو بلاتے ہو۔ پس جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمہیں بلائیں تو ان کی آواز پر لبیک کہنا تم پر فرض ہے۔ یہاں تک کہ اگر تم نماز کی حالت میں ہو تب بھی تم پر آپ کے بلانے پر جواب دینا فرض ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سوا امت میں کوئی ایسی ہستی نہیں جس کے قول کو قبول کرنا اور اس پر عمل کرنا واجب ہو کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معصوم ہیں اور ہم پر آپ کی اتباع واجب ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلّٰـهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ ﴾ (الانفال: 8؍24) ’’اے ایمان والے لوگو ! اللہ اور اس کے رسول کی آواز پر لبیک کہو، جب رسول تمہیں اس چیز کی طرف بلائے جو تمہیں زندگی عطا کرتی ہے۔‘‘ اسی طرح تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس طرح نہ بلاؤ جس طرح تم ایک دوسرے کو بلاتے ہو، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مخاطب ہوتے وقت (یا محمد)’’اے محمد !‘‘ (یا محمد بن عبداللہ)’’اے محمد بن عبداللہ !‘‘ نہ کہو جیسا کہ تم ایک دوسرے سے مخاطب ہوتے ہو۔۔۔ بلکہ آپ کو فضل و شرف حاصل ہے اور آپ دوسروں سے ممتاز ہیں اس لئے آپ سے مخاطب ہوتے وقت یہ کہا جائے’’اے اللہ کے رسول ! ‘‘ ’’اے اللہ کے نبی !‘‘ ﴿ قَدْ يَعْلَمُ اللّٰـهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنكُمْ لِوَاذًا ﴾ ’’اللہ جانتا ہے ان لوگوں کو جو کھسک جاتے ہیں تم میں سے نظر بچا کر‘‘اللہ تبارک و تعالیٰ نے اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے والوں کی مدح بیان کی ہے کہ جہ وہ کسی جامع معاملے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہوتے ہیں تو آپ سے اجازت لئے بغیر واپس نہیں جاتے۔ بعد ازاں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو وعید سنائی جنہوں نے ایسا نہیں کیا اور جازت لئے بغیر چلے گئے۔ اگرچہ ان کا چپکے سے چلے جانا تم پر مخفی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے یہی مراد ہے۔ ﴿ يَتَسَلَّلُونَ مِنكُمْ لِوَاذًا ﴾ یعنی کھسکتے اور آپ کے پاس سے جاتے وقت، لوگوں کی نظر سے چھپنے کے لئے کسی چیز کی آڑ لیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو جانتا ہے وہ ان کو ان کے ان کرتوتوں کی پوری پوری جزا دے گا، اس لئے فرمایا : ﴿ فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ ﴾ ’’پس چاہیے کہ ڈریں وہ لوگ جو مخالفت کرتے ہیں آپ کے حکم کی۔‘‘ یعنی جو لوگ اپنے کسی ضروری کام کے لئے اللہ اور اس کے رسول کے کام کو چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ تب اس شخص کا کیا حال ہوگا جو اپنے کسی ضروری کام اور مشعولیت کے بغیر اللہ تعالیٰ کے حکم کو ترک کرتا ہے۔ ﴿ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ ﴾ ’’یہ کہ پہنچے ان کو کوئی فتنہ‘‘ یعنی شرک اور شر ﴿ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴾ ’’یا ان کو کوئی درد ناک عذاب آلے۔‘‘ النور
64 ﴿ أَلَا إِنَّ لِلّٰـهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ﴾آگاہ ہوجاؤ کہ آسمان و زمین میں جو کچھ ہے وہ سب اللہ کے لیے ہے۔،، وہ سب اللہ تعالیٰ کی ملکیت اور اس کے بندے ہیں وہ ان میں اپنے حکم قدری اور حکم شرعی کے ذریعے سے تصرف کرتا ہے۔ ﴿ قَدْ يَعْلَمُ مَا أَنتُمْ عَلَيْهِ ﴾ تم جو بھلائی یا برائی کرتے ہو اللہ تعالیٰ کا علم اس کا احاطہ کئے ہوئے ہے، وہ تمہارے تمام اعمال کو جانتا ہے، اس کے علم نے اس کو محفوظ اور اس کے قلم نے اس کو لکھ رکھا ہے اور (کراماً کاتبین) فرشتوں نے اس کو درج کرلیا ہے۔ ﴿ وَيَوْمَ يُرْجَعُونَ إِلَيْهِ ﴾ اور جس دن لوٹائے جاؤ گے تم اس کی طرف۔ یعنی قیامت کے روز ﴿ فَيُنَبِّئُهُم بِمَا عَمِلُوا ﴾ ،، پس وہ انہیں ان کے عملوں کی خبر دے گا۔،، وہ ان کے تمام چھوٹے بڑے اعمال کے بارے میں ان کو اس طرح آگاہ کرے گا کہ یہ آگاہی واقع کے مطابق ہوگی۔ وہ ان کے اعضاء سے ان کے خلاف گواہی لے گا۔ وہ اس کے فضل و عدل سے محروم نہیں ہو گے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ نے یہاں اپنے علم کو بندوں کے اعمال کے ساتھ مقید کیا ہے اس لئے خصوصی کے بعد عموم کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ وَاللّٰـهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ ﴾ اور اللہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔ النور
0 الفرقان
1 یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی عظمت کاملہ، ہر لحاظ سے واحدانیت میں اس کے متفرد ہونے، اس کی بھلائی اور احسان کی کثرت کا بیان ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿ تَبَارَكَ ﴾ یعنی وہ بہت بڑا ہے اس کے تمام اوصاف نہایت کامل اور اس کے احسانات بہت زیادہ ہیں۔ اس کا سب سے بڑا احسان اور سب سے بڑی نعمت یہ ہے کہ اس نے یہ عظیم قرآن نازل فرمایا جو حلال و حرام، ہدایت و ضلالت، اہل سعادت اور اہل شقاوت کے درمیان فرق بیان کرتا ہے۔ ﴿ عَلَىٰ عَبْدِهِ ﴾ یہ فرقان عظیم اس نے اپنے بندے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل فرمایا جنہوں نے تمام مراتب عبودیت مکمل کرلیے اور اللہ نے ان کو تمام انبیاء و مرسلین پر فوقیت عطا کی۔ ﴿ لِيَكُونَ ﴾ ’’تاکہ وہ ہوجائے۔‘‘ یعنی اپنے بندے پر اس فرقان کا نازل کرنا۔ ﴿ لِلْعَالَمِينَ نَذِيرًا ﴾ ’’جہانوں کے لیے ڈرانے والا۔‘‘ جو ان کو اللہ تعالیٰ کے عذاب اور غصے سے ڈراتا ہے اور ان کے سامنے اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی ناراضگی کے مقامات کو واضح کرتا ہے۔ جو کوئی اس کے انداز کو قبول کر کے اس پر عمل پیرا ہوتا ہے وہ دنیا و آخرت میں نجات پانے والوں میں شمار ہوتا ہے، جنہیں ابدی سعادت اور سرمدی بادشاہی حاصل ہوتی ہے۔ پس کیا اللہ تعالیٰ کی اس نعمت اور اس کے اس فضل و احسان سے بڑھ کر بھی کوئی اور چیز ہے؟ پس نہایت ہی بابرکت ہے وہ ذات، جس کے احسانات و برکات میں قرآن بھی شامل ہے۔ الفرقان
2 ﴿ الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ﴾ وہ جس کے لیے بادشاہی ہے آسمانوں اور زمین کی۔ ،، یعنی وہ اکیلا ہی زمین و آسمان میں تصرف کرتا ہے اور زمین اور آسمانوں میں رہنے والے، سب اللہ تعالیٰ کے مملوک اور غلام ہیں، اس کی عظمت کے سامنے فروتن، اس کی ربوبیت کے سامنے سرافگندہ اور اس کی رحمت کے محتاج ہیں۔ ﴿ وَلَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًا وَلَمْ يَكُن لَّهُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ ﴾ ،، اس نے کوئی اولاد بنائی ہے نہ اس کا بادشاہی میں کوئی شریک ہے۔،، کوئی اس کا بیٹا یا شریک کیسے ہوسکتا ہے، حالانکہ وہ مالک ہے دیگر تمام لوگ اس کے مملوک ہیں، وہ قاہرو غالب ہے اور تمام مخلوق مقہور ہے۔ وہ ہر لحاظ سے بذاتہ غنی ہے اور تمام مخلوق ہر لحاظ سے اس کی محتاج ہے؟ کوئی کیسے اقتدار میں اس کا شریک ہوسکتا ہے، حالانکہ تمام بندوں کی پیشانیاں اس کے قبضہ قدرت میں ہیں، اس کی اجازت کے بغیر ان میں کوئی حرکت ہے نہ سکون اور نہ وہ کسی تصرف کا اختیار رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس شرک سے بہت بلند اور بالا تر ہے۔ جس کسی نے اس کے بارے میں یہ بات کہی ہے اس نے اس کی ویسی قدر نہیں کی جیسا کہ قدر کرنے کا حق ہے، اس لئے فرمایا : ﴿ وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ ﴾ ’’اس نے ہر چیز کو پیدا کیا۔‘‘ یہ تخلیق عالم علوی، عالم سفلی، تمام حیوانات، نباتات اور جمادات کو شامل ہے۔ ﴿ فَقَدَّرَهُ تَقْدِيرًا ﴾ ’’اور اس کا مناسب اندازہ کیا۔‘‘ یعنی عالم علوی اور عالم سفلی کی ہر مخلوق کو ایسی تخلیق عطا کی جو اس کے لائق اور اس کے لئے مناسب ہے اور جو اس کی حکمت تقاضا کرتی ہے۔ جہاں تمام مخلوق کی شکل ایسے ہے کہ عقل صحیح یہ تصور بھی نہیں کرسکتی کہ وہ کسی ایسی شکل میں ہو جو موجودہ شکل و صورت کے خلاف ہو جس کا ہم مشاہدہ کر رہے ہیں بلکہ مخلوق واحد کا کوئی جزو اور کوئی عضو صرف اسی جگہ مناسب ہے جہاں موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى الَّذِي خَلَقَ فَسَوَّىٰ وَالَّذِي قَدَّرَ فَهَدَىٰ ﴾ (الاعلیٰ : 87؍1۔3) ’’تسبیح بیان کیجئے اپنے عالی شان رب کے نام کی۔ جس نے (انسان کو) پیدا کیا اور اس کو نک سک سے برابر کیا اور جس نے اس کا اندازہ ٹھہرایا پھر اس کو راہ دکھائی۔‘‘ اور فرمایا : ﴿ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطَىٰ كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدَىٰ ﴾ (طہ: 20؍50)’’ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی تخلیق عطا کی پھر اس کو راہ دکھائی۔‘‘ جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی عظمت اپنے کمال اور اپنے کثرت احسان کو بیان فرمایا اور یہ چیز اس امر کا تقاضا کرتی ہے کہ صرف اسی کو الٰہ محبوب و معظم ہونا چاہیے صرف اس کے لیے عبادت کو خالص کیا جائے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔۔۔ تب مناسب ہے کہ غیر اللہ کی عبادت کے بطلان کو بھی بیان کیا جائے، اس لئے فرمایا : الفرقان
3 یہ عجیب ترین بات ہے اور ان کی بے وقوفی اور کم عقلی کی سب سے بڑی دلیل ہے بلکہ ان کے ظلم اور اپنے رب کے حضور ان کی جسارت پر بھی بہت بڑی دلیل ہے کہ انہوں نے کمال عجز سے موصوف ہستیوں کو اپنا معبود بنا لیا۔ ان کے خود ساختہ معبودوں کا عجز یہاں تک پہنچا ہوا ہے کہ وہ کسی چیز کی تخلیق پر قادر نہیں بلکہ وہ خود مخلوق ہیں بلکہ ان میں سے بعض تو خود ان کے اپنے ہاتھوں کے بنائے ہوئے ہیں۔ ﴿ وَلَا يَمْلِكُونَ لِأَنفُسِهِمْ ضَرًّا وَلَا نَفْعًا ﴾ ’’اور وہ اپنے نفسوں کے لیے بھی نفع نقصان کے مالک نہیں ہیں۔‘‘ خواہ وہ تھوڑا ہو یا زیادہ۔ یہاں سیاق نفی میں نکرہ کا استعمال ہے جو عموم پر دلالت کرتا ہے۔ ﴿ وَلَا يَمْلِكُونَ مَوْتًا وَلَا حَيَاةً وَلَا نُشُورًا ﴾ ’’اور نہ وہ اختیار رکھتے ہیں کسی کے مارنے کا اور نہ زندہ کرنے کا اور (نہ مرنے کے بعد دوبارہ) زندہ کرنے کا۔‘‘ احکام عقل میں سب سے بڑا حکم، ان خود ساختہ معبود ان کی الوہیت کے بطلان اور ان کے فساد کا حکم ہے، نیز سب سے بڑا حکم ان لوگوں کے فساد عقل کا حکم ہے، جنہوں نے ان کو معبود بنا کر اس ہستی کا شریک ٹھہرا دیا ہے جو بغیر کسی شراکت کے خالق کائنات ہے جس کے دست قدرت میں نفع و نقصان ہے، عطا کرنا اور محروم کرنا ہے، جس کے اختیار میں زندگی اور موت ہے، وہ ہستی قبروں میں پڑے ہوئے مردوں کو دوبارہ زندہ کر کے قیامت کے روز جمع کرے گی۔ اس نے لوگوں کے لئے آخرت میں دو گھر بنائے، پہلا بد بختی، رسوائی اور عذاب کا گھر، یہ اس شخص کا گھر ہوگا جس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسری ہستیوں کو الٰہ بنا رکھا ہے، دوسرا کامیابی، خوش بختی اور دائمی نعمتوں کا گھر اور یہ اس شخص کا گھر ہوگا جس نے صرف اللہ تعالیٰ ہی کو اپنا معبود قرار دیا۔ اللہ تعالیٰ نے قطعی اور واضح دلیل کے ذریعے سے توحید کی صحت اور شرک کے بطلان کو ثابت کرنے کے بعد رسالت کی صحت اور منکرین رسالت کے موقف کے بطلان کو ثابت کرنے کے لئے دلائل دیئے، چنانچہ فرمایا : الفرقان
4 یعنی اللہ تعالیٰ کا انکار کرنے والے، جن کے قرآن اور رسول کے بارے میں قول باطل کی بنا پر للہ تعالیٰ نے ان پر کفر واجب کیا۔۔۔ کہتے ہیں کہ یہ قرآن جھوٹ ہے جسے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود تصنیف کیا ہے، ایک بہتان ہے جسے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے گھڑ کر اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کردیا ہے اور ایسا کرنے میں کچھ دوسرے لوگوں نے اس کی مدد کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی تردید کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ ان کا انکار حق، ظلم اور باطل پر مبنی اقدام ہے جو کسی کی عقل میں نہیں آسکتا، حالانکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احوال، آپ کے کامل صدق و امانت اور آپ کی کامل نیکی کی پوری پوری معرفت رکھتے ہیں۔ وہ اس حقیقت کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دیگر تمام مخلوق کے لئے یہ قرآن تصنیف کرنا ممکن نہیں جو جلیل ترین اور بلند ترین درجے کا کلام ہے۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس قرآن کی تصنیف میں مدد حاصل کرنے کے لئے کسی کے پاس نہیں گئے۔۔۔ پس کفار نے ظلم اور جھوٹ پر مبنی بات کہی ہے۔ الفرقان
5 ان کی ان باتوں میں سے ایک بات یہ ہے کہ یہ قرآن، جسے محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لے کر آئے ہیں ﴿ أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ اكْتَتَبَهَا ﴾ یعنی یہ پہلے لوگوں کے قصے کہانیاں ہیں جو لوگوں میں پھیلی ہوئی ہوتی ہیں اور انہیں ہر شخص آگے بیان کردیتا ہے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی ان کہانیوں کو سن کر لکھ لیا ہے۔ ﴿ فَهِيَ تُمْلَىٰ عَلَيْهِ بُكْرَةً وَأَصِيلًا ﴾ ’’پس وہ صبح و شام اس پر پڑھی جاتی ہیں۔‘‘ ان کی اس بات میں متعدد گناہ کی باتیں ہیں : (1) ان کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جھوٹ اور عظیم جسارت کے ارتکاب کا بہتان لگانا، حالانکہ آپ لوگوں میں سب سے زیادہ نیک اور سچے ہیں۔ (2) قرآن کریم کے بارے میں یہ کہنا کہ یہ جھوٹ اور افتراء ہے، حالانکہ یہ سب سے سچا، جلیل ترین اور عظیم ترین کلام ہے۔ (3) اس ضمن میں ان کا یہ دعویٰ کہ وہ ایسا کلام لانے کی قدرت رکھتے ہیں یعنی یہ مخلوق جو ہر پہلو سے ناقص ہے، خالق جو ہر لحاظ سے کامل ہے، کی ایک صفت یعنی صفت کلام میں اس کی برابری کرسکتی ہے؟ (4)رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے احوال معلوم ہیں یہ آپ کے احوال کو سب سے زیادہ جانتے ہیں انہیں خوب معلوم ہے کہ آپ لکھ سکتے ہیں نہ آپ کسی ایسے شخص کے پاس جاتے ہیں جو آپ کو لکھ کر دے۔ اس کے باوجود وہ یہ کہتے ہیں کہ آپ یہ قصے کہانیاں کسی کے پاس سے لکھ لاتے ہیں۔ اسی لئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کے اس قول کی تردید کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ قُلْ أَنزَلَهُ الَّذِي يَعْلَمُ السِّرَّ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ﴾ یعنی اس قرآن عظیم کو اس ہستی نے نازل کیا ہے جس کے علم نے زمین و آسمان کی ہر چیز کا، خواہ وہ غائب ہو یا سامنے ہو، چھپی ہوئی ہو یا ظاہر ہو۔۔۔ احاطہ کر رکھا ہے۔ جیسے اللہ کا ارشاد ہے : ﴿ وَإِنَّهُ لَتَنزِيلُ رَبِّ الْعَالَمِينَ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ عَلَىٰ قَلْبِكَ لِتَكُونَ مِنَ الْمُنذِرِينَ﴾ (الشعراء :26؍194۔192 ) ’’یہ رب العالمین کی طرف سے اتاری ہوئی چیز ہے۔ جسے لے کر روح الامین آپ کے دل پر اترا ہے تاکہ آپ ان لوگوں میں شامل ہوں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے لوگوں کو ان کے انجام سے ڈرانے والے ہیں۔‘‘ اس میں ان پر حجت قائم کرنے کا پہلو یہ ہے کہ وہ ہستی، جس نے اس قرآن کو نازل کیا ہے اور جس کا علم ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے، اس کے بارے میں یہ محال اور ممتنع ہے کہ کوئی مخلوق یہ قرآن گھڑ کر اس کی طرف منسوب کر دے اور کہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، حالانکہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہے اور جو کوئی اس کی مخالفت کرے اس کی جان و مال کو مباح قرار دے دے اور دعویٰ کرے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے ایسا کرنے کا حکم دیا ہے اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کا علم رکھتا ہے، بایں ہمہ وہ اس شخص کی اس کے دشمنوں کے مقابلے میں مدد کرتا ہے، ان کی جانوں اور شہروں کو اس کے حوالے کردیتا ہے۔۔۔ پس اللہ تعالیٰ کے علم کا انکار کیے بغیر، کسی کے لیے اس قرآن کا انکار کرنا ممکن نہیں۔ بنی آدم میں سے سوائے دہرئیے فلاسفہ کے علم کا انکار کیے بغیر، کسی کے لیے اس قرآن کا انکار کرنا ممکن نہیں بنی آدم میں سے سوائے دہرئیے فلسفہ کے، کوئی ایسی بات نہیں کہتا۔ الفرقان
6 نیز اللہ تعالیٰ کا اپنے وسیع علم کا ذکر کرنا، ان کو قرآن میں تدبر کرنے کی طرف متوجہ کرتا ہے، اگر انہوں نے قرآن میں تدبر کیا ہوتا تو وہ اس کے علم اور احکام میں کوئی ایسی چیز ضرور دیکھتے جو قطعی طور پر دلالت کرتی کہ یہ قرآن غائب اور حاضر، تمام امور کا علم رکھنے والی ہستی کے سوا، کسی کی طرف سے نہیں۔۔۔ ان کے توحید و رسالت کا، جو ان پر اللہ تعالیٰ کا لطف و کرم ہے۔۔۔ انکار کرنے کے باوجود اللہ تعالیٰ نے ان کو ان کے ظلم کے حوالے کر کے چھوڑ نہیں دیا بلکہ ان کو توبہ و انابت کی طرف بلایا اور ان کے ساتھ وعدہ کیا کہ اگر وہ توبہ کریں گے تو وہ ان کو اپنی رحمت اور مغفرت سے نوازے گا۔ فرمایا : ﴿ إِنَّهُ كَانَ غَفُورًا ﴾ ” وہ بہت بخشنے والا ہے۔“ یعنی اس کا وصف یہ ہے کہ وہ مجرموں اور گناہ گاروں کو بخش دیتا ہے، جب وہ مغفرت کے اسباب کام میں لاتے ہیں۔ یعنی وہ گناہوں سے رجوع کر کے توبہ کرتے ہیں۔ ﴿ رَّحِيمًا ﴾ وہ ان پر بہت رحم کرنے والا ہے کیونکہ اس نے ان کو سزا دینے میں جلدی نہیں کی حالانکہ انہوں نے اس کے تقاضوں کو پورا کردیا تھا۔ ان کی نافرمانیوں کے بعد اس نے ان کی توبہ قبول فرمائی، ان کی برائیوں کے ارتکاب کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کی برائیوں کو مٹا دیا، اس نے ان کی نیکیوں کو قبول فرمایا، اس نے اپنے سے دور بھاگنے کے بعد اپنی طرف رجوع کرنے والوں کو اور رو گردانی کے بعد اپنی طرف متوجہ ہونے والوں کو اطاعت مندوں اور رجوع کرنے والوں کی حالت کی طرف لوٹا دیا۔ الفرقان
7 یہ ان لوگوں کا قول ہے جنہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جھٹلایا اور آپ کی رسالت میں جرح و قدع کی۔ انہوں نے اعتراض کیا کہ یہ رسول فرشتہ یا کوئی بادشاہ کیوں نہیں یا اس کی خدمت اور مدد کے لیے کوئی فرشتہ کیوں نہیں آیا ؟ چنانچہ انہوں نے کہا : ﴿ مَالِ هَـٰذَا الرَّسُولِ ﴾ یعنی یہ کیسا شخص ہے جو رسالت کا دعویٰ کرتا ہے ﴿ يَأْكُلُ الطَّعَامَ ﴾ ” کھانا کھاتا ہے“ حالانکہ یہ تو بشرکی خصوصیات میں سے ہے۔ وہ فرشتہ کیوں نہیں کہ وہ کھانا کھاتا نہ ان امور کا محتاج ہوتا بشر جن کا محتاج ہے۔ ﴿ وَيَمْشِي فِي الْأَسْوَاقِ ﴾ یعنی خرید و فروخت کے لیے’’بازاروں میں چلتا پھرتا ہے‘‘ اور یہ ان کے خیال کے مطابق ایک رسول کے لائق نہیں، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : ﴿ وَمَا أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنَ الْمُرْسَلِينَ إِلَّا إِنَّهُمْ لَيَأْكُلُونَ الطَّعَامَ وَيَمْشُونَ فِي الْأَسْوَاقِ ﴾ (الفرقان :25؍20)” ہم نے آپ سے پہلے جتنے بھی رسول بھیجیے ہیں وہ سب کھاتے تھے اور بازاروں میں چلتے پھرتے تھے۔“ ﴿ لَوْلَا أُنزِلَ إِلَيْهِ مَلَكٌ ﴾ یعنی اس کے ساتھ کوئی فرشتہ کیوں نہ نازل کیا گیا جو اس کا ہاتھ بٹاتا ﴿ فَيَكُونَ مَعَهُ نَذِيرًا ﴾ ” پس وہ اس کے ساتھ ڈرانے والا ہوتا۔“ یعنی ان کے زعم باطل کے مطابق آپ رسالت کا بوجھ اٹھانے کے لیے کافی نہیں ہیں اور نہ آپ کو رسالت کی۔ ذمہ داریاں اٹھانے کی طاقت اور قدرت حاصل ہے۔ ﴿ فَضَلُّوا فَلَا يَسْتَطِيعُونَ سَبِيلًا ﴾ ” پس وہ گمراہ ہوگئے اور کسی طرح وہ راہ پر نہیں آسکتے۔“ انہوں نے اس قسم کی متناقض باتیں کہی ہیں جو سراسر جہالت، گمراہی اور حماقت پر مبنی ہیں۔ ان میں کوئی بھی ہدایت کی بات نہیں، بلکہ ان میں کوئی ادنیٰ ساشبہ ڈالنے والی بات بھی نہیں جو رسالت میں قادح ہو۔ مجرد غورو فکر کرنے سے ایک عقلمند شخص کو اس کے بطلان کا قطعی یقین ہوجاتا ہے جو اس کو رد کرنے کے لیے کافی ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے غورو فکر اور تدبر کرنے کا حکم دیا ہے کہ آیا یہ اعتراضات رسول کی رسالت اور صداقت کے قطعی یقین کے بارے میں توقف کے موجب بن سکتے ہیں؟ الفرقان
8 ﴿ أَوْ يُلْقَىٰ إِلَيْهِ كَنزٌ ﴾ ” یا ڈال دیا جاتا اس کی طرف کوئی خزانہ۔“ یعنی ایسا مال جو بغیر کسی محنت مشقت کے اکٹھا کیا گیا ہو ﴿ أَوْ تَكُونُ لَهُ جَنَّةٌ يَأْكُلُ مِنْهَا ﴾ ” یا اس کے لیے باغ ہوتا جس سے وہ کھاتا۔“ یعنی اس باغ کی وجہ سے وہ طلب رزق کی خاطر بازاروں میں چلنے پھرنے سے مستغنی ہوجاتا ﴿ وَقَالَ الظَّالِمُونَ ﴾ ” اور ظالموں نے کہا۔، ض یعنی ان کے اس اعتراض کا باعث ان کا اشتباہ نہیں، بلکہ ان کا ظلم ہے ﴿ إِن تَتَّبِعُونَ إِلَّا رَجُلًا مَّسْحُورًا ﴾ “ تم تو ایک سحر زدہ شخص کی پیروی کرتے ہو۔“ حالانکہ وہ آپ کی کامل عقل، آپ کی اچھی شہرت اور تمام مطاعن سے سلامت اور محفوظ ہونے کے بارے میں خوب جانتے تھے۔ الفرقان
9 چونکہ ان کے یہ اعتراض بہت ہی عجیب و غیریب تھے اس لیے ان کے جواب میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ انظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثَالَ ﴾ ” دیکھو، وہ آپ کے لیے کیسے مثالیں بیان کرتے ہیں۔“ اور وہ یہ کہ وہ رسول فرشتہ کیوں نہ ہوا؟ اور اس سے بشری خصوصیات کیوں زائل نہ ہوئیں؟ یا اس کے ساتھ کوئی فرشتہ ہوتا : کیونکہ وہ جو کچھ کہتا ہے وہ اس کی قدرت نہیں رکھتا یا اس پر کوئی خزانہ اتارا گیا ہوتا یا اس کی ملکیت میں کوئی باغ ہوتا جو اس کو بازاروں میں طلب معاش کے لیے مارے مارے پھرنے سے مستغنی رکھتا ؟ یا یہ کوئی سحر زدہ آدمی ہے ؟ الفرقان
10 اس لیے اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا ہے کہ وہ آپ کو اس دنیا میں خیر کثیر سے نوازنے کی قدرت رکھتا ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿ تَبَارَكَ الَّذِي إِن شَاءَ جَعَلَ لَكَ خَيْرًا مِّن ذٰلِكَ ﴾ ” بابرکت ہے وہ ذات جو اگر چاہے تو آپ کے لیے ان سے بہتر چیزیں کر دے۔“ یعنی ان چیزوں سے بھی بہتر جن کا انہوں نے ذکر کیا ہے پھر اس کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ وَيَجْعَل لَّكَ قُصُورًا ﴾ ” باغات جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں اور کردے وہ آپ کے لیے محلات۔“ یعنی بلند اور آراستہ محل۔ پس اللہ تعالیٰ کی قدرت اور مشیت ایسا کرنے سے قاصر نہیں مگر، چونکہ دنیا اللہ تعالیٰ کے ہاں انتہائی حقیر چیز ہے، اس لیے وہ اپنے انبیاء و اولیاء کو صرف اتنی ہی دنیا عطا کرتا ہے جتنی حکمت اس کا تقاضا کرتی ہے اور ان کے دشمنوں کے اعتراضات کہ انہیں بہت زیادہ رزق سے کیوں نہیں نوازا گیا، محض ظلم اور جسارت ہے۔ الفرقان
11 چونکہ ان تمام اعتراضات و اقوال کا فساد واضح ہے، اللہ تعالیٰ نے بھی آگاہ فرما دیا ہے کہ ان کی طرف سے یہ تمام اعتراضات طلب حق کی خاطر صادر ہوئے ہیں نہ دلیل کی پیروی کے لیے بلکہ یہ تمام اعتراضات انہوں نے تعنت، ظلم اور تکزیب حق کی وجہ سے کئے ہیں، انہوں نے وہی بات کہی جو ان کے دل میں تھی بنابریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ بَلْ كَذَّبُوا بِالسَّاعَةِ ﴾ ” بلکہ انہوں نے قیامت کی تکذیب کی“ اور تکذیب کرنے والے اور اعتراض کے لیے لغزشیں تلاش کرنے والے شخص کے لیے، جس کا مقصد اتباع حق نہیں ہوتا ہدایت کا کوئی راستہ نہیں اور نہ اس کے ساتھ بحث کرنے میں کوئی فائدہ ہے اس کا صرف ایک ہی علاج ہے کہ اس پر عذاب نازل کردیا جائے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَأَعْتَدْنَا لِمَن كَذَّبَ بِالسَّاعَةِ سَعِيرًا ﴾ ” اور ہم نے قیامت کی تکذیب کرنے والوں کے لیے بھڑکتی آگ تیار کی ہے۔“ یعنی بڑی آگ جس کے شعلے بہت زیادہ بھڑک رہے ہوں گے، جہنمیوں پر سخت غیظ و غضب ظاہر کرے گی اور اس کی پھنکار بہت شدید اور خوف ناک ہوگی۔ الفرقان
12 ﴿ إِذَا رَأَتْهُم مِّن مَّكَانٍ بَعِيدٍ ﴾ ” جب وہ ( آگ) ان کو دیکھے گی دور کی جگہ سے۔“ یعنی اس سے پہلے کہ وہ جہنم میں پہنچیں اور جہنم ان کو وصول کرے ﴿ سَمِعُوا لَهَا تَغَيُّظًا ﴾ ” وہ (اپنے اوپر) اس کے غیظ و غضب کی آوازیں سنیں گے“ ﴿ وَزَفِيرًا ﴾ ” اور دھاڑنا ( سنیں گے)۔“ کہ جس سے صدمے اور خوف کی وجہ سے کلیجے پھٹ جائیں گے اور دل پارہ پارہ ہوجائیں گے اور قریب ہے کہ ان میں کوئی خوف اور دہشت کے مارے مر ہی جائے۔ جہنم اپنے خالق کے غضب کی وجہ سے ان پر غضب ناک ہوگی، ان کے کفر اور برائی کی کثرت کی وجہ سے جہنم کے شعلے اور زیادہ ہوجائیں گے۔ الفرقان
13 ﴿ وَإِذَا أُلْقُوا مِنْهَا مَكَانًا ضَيِّقًا مُّقَرَّنِينَ ﴾ ” اور جب انہیں جکڑ کر جہنم میں کسی تنگ جگہ میں ڈال دیا جائے گا۔“ یعنی عذاب کے وقت، جہنم کے عین وسط میں ایک بہت ہی تنگ جگہ اور بھیڑ میں، بیڑیوں اور زنجیروں میں باندھ کر ڈال دیا جائے گا۔ جب یہ اس منحوس جگہ پر پہنچیں گے اور انہیں بدترین حبس کا سامنا کرنا پڑے گا ﴿ دَعَوْا هُنَالِكَ ثُبُورًا ﴾ تو اس وقت وہ اپنے لیے موت، رسوائی اور فضیحت کو پکاریں گے۔ انہیں معلوم ہوجائے گا کہ وہ ظالم اور حد سے بڑھنے والے ہیں اور خالق کائنات نے انہیں ان کے اعمال کی پاداش میں اس جگہ بھیج کر انصاف کیا ہے۔ مگر یہ دعا اور استغاثہ ان کے کسی کام آئیں گے نہ انہیں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچا سکیں گے بلکہ ان سے کہا جائے گا : الفرقان
14 ﴿ لَّا تَدْعُوا الْيَوْمَ ثُبُورًا وَاحِدًا وَادْعُوا ثُبُورًا كَثِيرًا ﴾ ” آج تم ایک ہی موت کو نہ پکارو بلکہ بہت سی موتوں ( ہلاکتوں)کو پکارو !“ یعنی اگر تم اس سے بھی کئی گنا زیادہ چیختے چلاتے رہو، تو تمہیں حزن و غم کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ ظالموں کی سزا بیان کرنے کے بعد یہ مناسب تھا کہ متقین کی جزا کا ذکر کیا جائے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : الفرقان
15 یعنی ان کی حماقت اور ان کے نفع کی بجائے نقصان کو اختیار کرنے کو بیان کرتے ہوئے ان سے کہہ دیجیے !﴿ أَذٰلِكَ ﴾ یعنی وہ عذاب جو میں نے تمہارے لیے بیان کیا ہے ﴿ خَيْرٌ أَمْ جَنَّةُ الْخُلْدِ الَّتِي وُعِدَ الْمُتَّقُونَ ﴾ ” بہتر ہے یا وہ ہمیشگی والی جنت، جس کا وعدہ متقین سے کیا گیا ہے ؟“ جن کو تقویٰ نے بڑھا دیا ہے، پس جو کوئی تقویٰ قائم کرتا ہے اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے جنت کا وعدہ کر رکھا ہے۔ ﴿ كَانَتْ لَهُمْ جَزَاءً ﴾ ”ہوگی وہ ان کے لیے بدلہ۔“ یعنی متقین کے تقویٰ کی جزا کے طور پر ﴿ وَمَصِيرًا ﴾ اور ان کا ٹھکانا ہوگی، جس کی طرف وہ لوٹیں گے جہاں وہ ابدالآباد تک رہیں گے۔ الفرقان
16 ﴿ لَّهُمْ فِيهَا مَا يَشَاءُونَ ﴾ یعنی انہیں جس چیز کی طلب ہوگی اور جنت میں جس چیز کی خواہش اور آرزو ہوگی وہ انہیں حاصل ہوگی، مثلاً لذیذ مطعومات و مشروبات، ملبوسات فاخرہ، خوبصورت بیویاں، بلند و بالا محل، باغات پھلوں سے لدے ہوئے باغیچے، میوے، جن کی خوبصورتی، ان کا تنوع اور ان کی کثرت اصناف دیکھنے والوں اور کھانے والوں کو خوش کر دے گی۔ جنت کی پھلواریوں اور باغات میں نہریں بہہ رہی ہوں گی، وہ جدھر چاہیں گے ان نہروں کو موڑ سکیں گے، وہ نہ بدلنے والے اس پانی کی نہروں کو جہاں چاہیں گے لے جا سکیں گے، کچھ دودھ کی نہریں ہوں گی جن کا ذائقہ تبدیل نہیں ہوا ہوگا، پینے والوں کی لذت کی خاطر کچھ نہریں شراب کی ہوں گی، کچھ نہریں مصفیٰ شہد کی ہوں گی، جن میں خوشبوئیں پھیلی ہوئی ہوں گی، آراستہ اور مزین گھر ہوں گے، سحر انگیز اور دلکش آوازیں ہوں گی اور وہ بھائیوں کی زیارت اور دوستوں کی ملاقاتوں سے لطف اندوز ہوں گے۔ اور ان تمام نعمتوں سے اعلیٰ تر رب رحیم کے دیدار اور اس کے کلام کے سماع سے لطف اندوز ہونا، اس کے قرب اور رضا کی سعادت حاصل کرنا، اس کی ناراضی سے مامون ہونا ان نعمتوں کا دوام اور وقت گزرنے کے ساتھ ان تمام نعمتوں کا بڑھتے چلے جانا ہے۔ ﴿ كَانَ ﴾ ” ہے (یہ) “ جنت میں داخل ہونا اور جنت میں پہنچنا ﴿ عَلَىٰ رَبِّكَ وَعْدًا مَّسْئُولًا ﴾ ” آپ کے رب کے ذمے قابل درخواست وعدہ۔“ یعنی اللہ تعالیٰ کے متقی بندے اپنی زبان حال اور زبان قال سے، اللہ تعالیٰ سے سوال کریں گے۔ پس ان دونوں گھروں میں سے کون سا گھر اچھا ہے کہ اس کو ترجیح دی جائے؟ اے عقل مندو ! ان دونوں قسم کے عمل کرنے والوں، یعنی دارشقاوت کے اعمال رکھنے والوں اور دار سعادت کے اعمال رکھنے والوں میں سے کون سے لوگ فضیلت، عقل اور فخر کے مستحق ہیں؟ حق واضح اور راہ راست روشن ہوگئی ہے اب کسی افراط پسند کے پاس دلیل کو ترک کرنے کا کوئی عذر نہیں۔ اے وہ ذات گرامی ! جس نے کچھ لوگوں کے لیے شقاوت اور کچھ لوگوں کے لیے سعادت کا فیصلہ کیا ہے، ہم تیرے حضور اس بات کے امیدوار ہیں کہ تو ہمیں ان لوگوں میں شامل کردے جن کے لیے تو نے بھلائی اور اپنے دیدار کا شرف لکھ دیا ہے اور اے اللہ ! ہم بدبختوں کے احوال سے تیری مدد مانگتے ہیں اور تجھ سے عافیت کا سوال کرتے ہیں۔ الفرقان
17 قیامت کے روز مشرکین اور ان کے خود ساختہ معبودوں کے احوال کے بارے میں اللہ تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ ان کے خود ساختہ معبود ان سے براءت کا اظہار کریں گے اور ان کی تمام کوششیں رائیگاں جائیں گی۔ فرمایا : ﴿ وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ ﴾ ” اور اس دن اکٹھا کرے گا ان کو۔“ یعنی ان تکذیب کرنے والے مشرکین کو اکٹھا کرے گا ﴿ وَمَا يَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللّٰـهِ فَيَقُولُ ﴾ ” اور ان کو بھی جن کی وہ عبادت کرتے تھے اللہ کے سوا، اور کہے گا۔“ یعنی اللہ تعالیٰ ان مشرکین کو جھڑکنے کی خاطر ان کے جھوٹے معبودوں سے مخاطب ہو کر کہے گا : ﴿ أَأَنتُمْ أَضْلَلْتُمْ عِبَادِي هَـٰؤُلَاءِ أَمْ هُمْ ضَلُّوا السَّبِيلَ﴾ ” کیا تم نے میرے بندوں کو گمراہ کیا تھا یا وہ خود ہی راستے سے بھٹک گئے تھے؟“ یعنی کیا تم نے انہیں اپنی عبادت کا حکم دیا تھا اور اس کو ان کے سامنے آراستہ کیا تھا یا یہ خود ان کی اپنی کارستانی تھی؟ الفرقان
18 ﴿ قَالُوا سُبْحَانَكَ ﴾ ” وہ کہیں گے، تو پاک ہے۔“ وہ اللہ تعالیٰ کو مشرکین کے شرک سے پاک گردانیں گے اور خود کو شرک سے بری الذمہ قرار دیتے ہوئے کہیں گے : ﴿ مَا كَانَ يَنبَغِي لَنَا ﴾ ” یہ ہماری شان کے لائق نہیں“ اور نہ ہم ایسا کر ہی سکتے ہیں کہ تیرے سوا کسی اور کو اپنا سر پرست، والی و مددگار بنائیں، اس کی عبادت کریں اور اپنی حاجتوں میں اس کو پکاریں۔ جب ہم تیری عبادت کرنے کے محتاج ہیں اور تیرے سوا کسی اور کی عبادت سے بیزاری کا اظہار کرتے ہیں تب ہم کسی کو اپنی عبادت کا کیسے حکم دے سکتے ہیں؟ ایسا نہیں ہوسکتا۔ تو پاک ہے ﴿ أَن نَّتَّخِذَ مِن دُونِكَ مِنْ أَوْلِيَاءَ ﴾ ” اس بات سے کہ ہم تیرے سوا کوئی دوست بنائیں۔“ ان کا یہ قول حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قول کی مانند ہے : ﴿ وَإِذْ قَالَ اللّٰـهُ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ أَأَنتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَـٰهَيْنِ مِن دُونِ اللّٰـهِ قَالَ سُبْحَانَكَ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أَقُولَ مَا لَيْسَ لِي بِحَقٍّ ۚ إِن كُنتُ قُلْتُهُ فَقَدْ عَلِمْتَهُ ۚ تَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِي وَلَا أَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِكَ ۚ إِنَّكَ أَنتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ مَا قُلْتُ لَهُمْ إِلَّا مَا أَمَرْتَنِي بِهِ أَنِ اعْبُدُوا اللّٰـهَ رَبِّي وَرَبَّكُمْ ﴾ )المائدۃ:5؍117،116)” جب اللہ کہے گا اے عیسیٰ بن مریم ! کیا تو نے لوگوں سے کہا تھا کہ اللہ کو چھوڑ کر مجھے اور میری ماں کو معبود بنا لو ؟ حضرت عیسیٰ جواب دیں گے تو پاک ہے ! میری شان کے لائق نہیں کہ میں کوئی ایسی بات کہتا جس کا مجھے کوئی حق نہیں۔ اگر میں نے کوئی ایسی بات کہی ہوتی تو وہ تیرے علم میں ہوتی کیونکہ جو بات میرے دل میں ہے تو اسے جانتا ہے اور جو بات تیرے دل میں ہے میں اسے نہیں جانتا بے شک تو علام الغیوب ہے۔ تو نے جو مجھے حکم دیا تھا میں نے اس کے سوا انہیں کچھ نہیں کہا کہ تم اللہ کی عبادت کرو جو میرا رب اور تمہارا رب ہے۔ “ اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿ وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ جَمِيعًا ثُمَّ يَقُولُ لِلْمَلَائِكَةِ أَهَـٰؤُلَاءِ إِيَّاكُمْ كَانُوا يَعْبُدُونَ قَالُوا سُبْحَانَكَ أَنتَ وَلِيُّنَا مِن دُونِهِم بَلْ كَانُوا يَعْبُدُونَ الْجِنَّ أَكْثَرُهُم بِهِم مُّؤْمِنُونَ ﴾ )سبا : 34؍40،41) ” جس روز وہ ان سب کر اکٹھا کرے گا پھر فرشتوں سے کہے گا کیا یہ لوگ تمہاری عبادت کیا کرتے تھے؟ تو وہ جواب میں عرض کریں گے تو پاک ہے، ان کو چھوڑ کر ہمارا ولی تو تو ہے، حقیقت یہ ہے کہ وہ ہمیری نہیں، بلکہ وہ جنوں کی عبادت کیا کرتے تھے اور ان میں سے اکثر انہیں کم منتے تھے۔“ اور فرمایا : ﴿ وَإِذَا حُشِرَ النَّاسُ كَانُوا لَهُمْ أَعْدَاءً وَكَانُوا بِعِبَادَتِهِمْ كَافِرِينَ ﴾ (الاحقاف :46؍6)” جب تمام لوگوں کو اکٹھا کیا جائے گا تو اس وقت وہ اپنے پکارنے والوں کے دشمن ہوں گے اور ان کی عبادت کا انکار کردیں گے۔ “ جب انہوں نے اس بات سے اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دیا کہ انہوں نے غیر اللہ کی عبادت کی طرف ان کو بلایا یا ان کو گمراہ کیا ہو۔ تو انہوں نے مشرکین کی گمراہی کا اصل سبب کا ذکر کرتے ہوئے کہا: ﴿ وَلَـٰكِن مَّتَّعْتَهُمْ وَآبَاءَهُمْ ﴾ یعنی تو نے ان کو اور ان کے آباؤ اجداد کو دنیا کی لذات و شہوات اور اس کے دیگر مطالب سے فائدہ اٹھانے دیا ﴿ حَتَّىٰ نَسُوا الذِّكْرَ ﴾ ” یہاں تک کہ وہ نصیحت کو بھلا بیٹھے۔“ لذات دنیا میں مشغول اور اس کی شہوت میں مستغرق ہو کر۔ پس انہوں نے اپنی دنیا کی تو حفاظت کی، لیکن اپنے دین کو ضائع کردیا ﴿ وَكَانُوا قَوْمًا بُورًا ﴾ ” اور تھی وہ ہلاک ہی ہونے والی قوم۔“ (بَائِرِیْن) ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جن میں کوئی بھلائی نہ ہو وہ کسی اصلاح کی طرف راغب نہیں ہوتے اور وہ ہلاکت کے سوا کسی چیز کے لائق نہیں ہوتے۔ پس انہوں نے اس مانع کا ذکر کیا جس نے ان کو اتباع ہدایت سے روک دیا اور وہ ہے ان کا دنیا سے متمتع ہونا، جس نے ان کو راہ راست سے ہٹا دیا۔۔۔ پس ان کے لیے ہدایت کا تقاضا معدوم ہے یعنی ان کے اندر کوئی بھلائی نہیں جب تقاضا معدوم اور مانع موجود ہو تو آپ جو شر اور ہلاکت چاہیں وہ ان کے اندر دیکھ سکتے ہیں۔ الفرقان
19 پس جب ان مشرکین کے معبود ان سے بیزاری کا اظہار کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کی عبادت کرنے والوں کو زجرو توبیخ کرتے ہوئے فرمائے گا: ﴿ فَقَدْ كَذَّبُوكُم بِمَا تَقُولُونَ ﴾ ” انہوں نے تو تمہیں تمہاری باتوں میں جھٹلا دیا۔“ یعنی وہ اس بات کا انکار کریں گے کہ انہوں نے تمہیں اپنی عبادت کا حکم دیا تھا یا تمہارے اس شرک پر راضی تھے یا یہ کہ وہ تمہارے رب کے پاس تمہاری سفارش کریں گے۔ وہ تمہارے اس زعم باطل کی تکذیب کریں گے اور وہ تمہارے سب سے بڑے دشمن بن جائیں گے۔ پس تم پر عذاب واجب ہوجائے گا۔ ﴿ فَمَا تَسْتَطِيعُونَ صَرْفًا﴾ ” پس نہیں طاقت رکھو گے تم اس کو پھیرنے کی۔“ یعنی تم بالفعل اپنے سے اس عذاب کو ہٹا سکو گے نہ فدیہ وغیرہ کے ذریعے سے اس کو دور کرسکو گے ﴿ وَلَا نَصْرًا﴾ ” اور نہ مدد کرنے کی۔“ یعنی تم اپنے عجز اور کسی حامی و ناصر کے نہ ہونے کی وجہ سے، اپنی مدد نہ کرسکو گے۔ یہ گمراہ اور جاہل مقلدین کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے اور یہ، جیسا کہ آپ نے دیکھا ان کے حق میں انتہائی برا فیصلہ اور ان کا بدترین ٹھکانا ہے۔ رہا ان میں سے حق کے ساتھ عناد رکھنے والا شخص، جس نے حق کو پہچان کر اس سے منہ موڑ لیا، تو اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَمَن يَظْلِم مِّنكُمْ ﴾ یعنی تم میں سے جو کوئی ظلم اور عناد کی بنا پر حق کو چھوڑ دیتا ہے تو ﴿ نُذِقْهُ عَذَابًا كَبِيرًا ﴾ ہم اس کو اتنے بڑے عذاب کا مزا چکھائیں گے جس کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اہل تکذیب کے اعتراض ﴿ مَالِ هَـٰذَا الرَّسُولِ يَأْكُلُ الطَّعَامَ وَيَمْشِي فِي الْأَسْوَاقِ ﴾ )الفرقان:25؍7)یہ یسا رسول ہے کہ کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے۔“ کا جواب دیتے ہوئے فرمایا : الفرقان
20 ﴿ وَمَا أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنَ الْمُرْسَلِينَ إِلَّا إِنَّهُمْ لَيَأْكُلُونَ الطَّعَامَ وَيَمْشُونَ فِي الْأَسْوَاقِ ﴾ ” اور ہم نے آپ سے پہلے جتنے رسول بھیجے سب کے سب کھانا بھی کھاتے تھے اور بازاروں میں بھی چلتے پھرتے تھے۔“ پس ہم نے ان کو کوئی ایسی مخلوق نہیں بنایا جو کھانا نہ کھاتی ہو اور نہ ہم نے ان کو فرشتے بنایا۔ پس وہ آپ کے لیے نمونہ ہیں۔ رہا فقرو غنا، تو یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے، اس کی حکمت پر مبنی آزمائش ہے جیساکہ فرمایا : ﴿ وَجَعَلْنَا بَعْضَكُمْ لِبَعْضٍ فِتْنَةً ﴾ ” اور بنایا ہم نے ایک کو دوسرے کے لیے آزمائش کا ذریعہ۔“ یعنی رسول ان لوگوں کے لیے آزمائش ہے جن کی طرف اسے مبعوث کیا گیا ہے، نیز اس لیے مبعوث کیا گیا ہے تاکہ اطاعت کرنے والوں اور نافرمانی کرنے والوں کے درمیان فرق واضح ہوجائے اور رسولوں کو ہم نے آزمایا مخلوق کو دعوت دینے کے ذریعے سے۔ مال دار فقیر کے لیے اور فقیر مال دار کے لیے آزمائش ہے اور اسی طرح اس دنیا میں مخلوق کی تمام قسمیں آزمائش، ابتلاء اور امتحان میں مبتلا ہیں۔ اس امتحان اور آزمائش سے مقصود یہ ہے۔ ﴿ أَتَصْبِرُونَ ﴾ کہ تم صبر کر کے اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرتے ہو تاکہ تمہارا امولا تمہیں ثواب عطا کرے یا صبر نہیں کرتے اور اس طرح تم عذاب کے مستحق ٹھہرتے ہو ؟ ﴿ وَكَانَ رَبُّكَ بَصِيرًا ﴾ ” اور آپ کا رب خوب دیکھنے والا ہے۔“ وہ تمہارے احوال کو دیکھتا اور جانتا ہے اور وہ اس شخص کو چن لیتا ہے جس کے متعلق وہ جانتا ہے کہ وہ رسالت کا اہل ہے اور وہ اسے اپنی فضیلت کے لیے مختص کرلیتا ہے وہ تمہارے اعمال کا علم رکھتا ہے، وہ تمہیں ان کی جزا دے گا اگر اچھے اعمال ہوں گے تو اچھی جزا ہوگی اور برے اعمال ہوں گے تو بری جزا ہوگی۔ الفرقان
21 وہ لوگ جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تکذیب کی، جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے وعدہ و وعید کو جھٹلایا، جن کے دل میں وعید کا خوف ہے نہ خالق سے ملاقات کی امید۔۔۔ انہوں نے کہا : ﴿ لَوْلَا أُنزِلَ عَلَيْنَا الْمَلَائِكَةُ أَوْ نَرَىٰ رَبَّنَا ﴾ یعنی فرشتے کیوں نہ اترے جو تیری رسالت کی گواہی دیتے اور تیری تائید کرتے یا مستقل رسول نازل ہوتے یا ہم اپنے رب کو دیکھتے وہ ہمارے ساتھ کلام کرتا اور خود کہتا کہ یہ میرا رسول ہے اس کی اتباع کرو؟ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ یہ معارضہ کسی اعتراض کی بناء پر نہیں بلکہ اس کا سبب صرف تکبر، تغلب اور سرکشی ہے ﴿ لَقَدِ اسْتَكْبَرُوا فِي أَنفُسِهِمْ ﴾ ” انہوں نے اپنے آپ کو بہت بڑا سمجھ رکھا ہے۔“ کیونکہ انہوں نے اس قسم کے اعتراض کئے اور اتنی جسارت کا مظاہرہ کیا۔ اے محتاج اور بے بس لوگو ! تم ہو کون جو اللہ تعالیٰ کے دیدار کا مطالبہ کرتے ہو اور سمجھتے ہو کہ رسالت کی صحت کا ثبوت اللہ تعالیٰ کے دیدار پر موقوف ہے۔ اس سے بڑا تکبر اور کیا ہوسکتا ہے؟ ﴿ وَعَتَوْا عُتُوًّا كَبِيرًا ﴾ ” اور انہوں نے بڑی سرکشی کی۔“ یعنی انہوں نے حق کے خلاف قساوت اور صلابت کا رویہ اختیار کیا۔ پس ان کے دل پتھر اور فولاد سے زیادہ سخت تھے وہ حق کے لئے نرم پڑتے تھے نہ خیر خواہی کرنے والوں کی آواز پر کان دھرتے تھے، اس لئے ان کو کسی وعظ و نصیحت نے کوئی فائدہ نہ دیا اور جب ان کے پاس ان کو ان کے انجام سے ڈرانے والا آیا تو انہوں نے اس کی پیروی نہ کی بلکہ انہوں نے مخلوق میں سب سے زیادہ سچی اور خیر خواہ ہستی کا اور اللہ تعالیٰ کی واضح آیات کا اعراض و تکذیب کے ساتھ استقبال کیا، اس سے بڑھ کر اور کونسی سرکشی ہوسکتی ہے؟ بنا بریں ان کے اعمال باطل ہو کر اکارت گئے اور وہ سخت خسارے میں مبتلا ہوگئے۔ الفرقان
22 ﴿ يَوْمَ يَرَوْنَ الْمَلَائِكَةَ ﴾ ” جس دن وہ فرشتوں کو دیکھیں گے۔“ جن کے نزول کا انہوں نے مطالبہ کیا تھا۔ ﴿ لَا بُشْرَىٰ يَوْمَئِذٍ لِّلْمُجْرِمِينَ﴾ ” اس دن مجرموں کے لئے کوئی خوش خبری نہ ہوگی۔“ یہ اس وجہ سے کہ وہ اپنے جرم اور عناد پر جمے رہنے کی بنا پر فرشتوں کو صرف اس وقت دیکھیں گے جب وہ ان کو سزا دینے اور ان پر عذاب نازل کرنے کے لئے آئیں گے۔ پس یہ پہلا موقع ہوگا جب موت کے وقت ان پر فرشتے نازل ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿ وَلَوْ تَرَىٰ إِذِ الظَّالِمُونَ فِي غَمَرَاتِ الْمَوْتِ وَالْمَلَائِكَةُ بَاسِطُو أَيْدِيهِمْ أَخْرِجُوا أَنفُسَكُمُ ۖ الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُونِ بِمَا كُنتُمْ تَقُولُونَ عَلَى اللّٰـهِ غَيْرَ الْحَقِّ وَكُنتُمْ عَنْ آيَاتِهِ تَسْتَكْبِرُونَ ﴾ (الانعام : 6؍93) ” کاش آپ ان ظالم مشرکوں کو اس وقت دیکھیں، جب یہ موت کی سختیوں میں مبتلا ہوں گے اور فرشتے جان قبض کرنے کے لئے ان کی طرف ہاتھ بڑھا رہے ہوں گے، ( اور کہتے ہوں گے) نکالو اپنی جانیں، آج تمہیں انتہائی رسوا کن عذاب کی سزا دی جائے گی یہ سزا اس پاداش میں ہے کہ تم اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولا کرتے تھے اور اس کی آیتوں سے تکبر کیا کرتے تھے۔ “ دوسرا موقع وہ ہے جب قبر میں ان کے پاس منکر نکیر آئیں گے، پس وہ ان سے ان کے رب، ان کے نبی اور ان کے دین کے بارے میں پوچھیں گے اور وہ کوئی ایسا جواب نہ دے پائیں گے جو ان کو عذاب سے نجات دلا سکے۔ پس ان پر اللہ تعالیٰ کی ناراضی نازل ہوگی اور وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دور کردئیے جائیں گے۔ تیسرا موقع وہ ہے جب قیامت کے روز فرشتے انہیں جہنم کی طرف ہانک کرلے جائی گے اور پھر ان کو جہنم کے فرشتوں کے حوالے کردیں گے جو ان کو سزا اور عذاب دینے پر مقرر ہوں گے۔ پس یہی وہ چیز ہے جس کا وہ مطالبہ کرتے ہیں اور اگر وہ اپنے جرائم پر جمے رہے تو لازمی طور پر اس کا سامنا کریں گے اور اس وقت فرشتوں سے پناہ مانگیں گے، ان سے فرار ہونے کی کوشش کریں گے، لیکن ان کے لئے کوئی فرار کی راہ نہ ہوگی۔ ﴿ وَيَقُولُونَ حِجْرًا مَّحْجُورًا ﴾ ” اور وہ کہیں گے یہ محروم کیے گئے ہیں۔“ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : ﴿ يَا مَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ إِنِ اسْتَطَعْتُمْ أَن تَنفُذُوا مِنْ أَقْطَارِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ فَانفُذُوا ۚ لَا تَنفُذُونَ إِلَّا بِسُلْطَانٍ ﴾ (الرحمن : 52؍33) ” اے جن وانس کے گروہ ! تمہیں زمین و آسمان کے کناروں سے نکل جانے کی قدرت ہے تو نکل جاؤ، تم طاقت کے سوا نکل نہیں سکتے۔“ الفرقان
23 ﴿ وَقَدِمْنَا إِلَىٰ مَا عَمِلُوا مِنْ عَمَلٍ ﴾ یعنی ان کے وہ اعمال جن کے بارے میں انہیں امید ہے کہ وہ نیکی کے کام ہیں اور ان کے لئے انہوں نے مشقت اٹھائی ہے ﴿ فَجَعَلْنَاهُ هَبَاءً مَّنثُورًا ﴾ ” پس ہم ان کو اڑے ہوئے ذرات کی طرح کردیں گے۔“ یعنی ان کا سب کیا دھرا باطل کردیں گے، وہ گھاٹے میں رہیں گے اور ان کو اجر سے محروم کردیا جائے گا اور ان کو سزا دی جائے گی۔ کیونکہ یہ اعمال ایسے شخص سے صادر ہوئے ہیں جس میں ایمان کا فقدان ہے اور جو اللہ اور اس کے رسولوں کی تکذیب کرنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ صرف وہی عمل قبول کرتا ہے جو مخلص مومن، رسولوں کی تصدیق اور ان کی اتباع کرنے والے سے صادر ہو۔ الفرقان
24 یعنی قیامت کے ہولناک اور سخت مصیبت والے دن ﴿ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ ﴾ ” اہل جنت“ جو اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے، انہوں نے نیک کام کئے اور اپنے رب سے ڈرتے رہے۔ ﴿ خَيْرٌ مُّسْتَقَرًّا ﴾ ” وہ بہتر ہوں گے باعتبار ٹھکانے کے“ جہنمیوں سے ﴿ وَأَحْسَنُ مَقِيلًا ﴾ ” اور خواب گاہ بھی عمدہ ہوگی۔“ یعنی ان کا ٹھکانا جنت میں ہوگا، وہ آرام اور راحت میں قیلولہ کریں گے کیونکہ وہ کامل نعمتوں پر مشتمل، جن میں تکدر کا کوئی شائبہ تک نہ ہوگا، بہت اچھا اور مکمل طور پر آرام دہ ٹھکانا ہوگا۔ اس کے برعکس اہل جہنم کا ٹھکانا بہت برا ٹھکانا ہوگا۔۔۔ یہ اسلوب بیان اسم تفضیل کے اس باب سے تعلق رکھتا ہے جس میں دوسری طرف اس میں سے کوئی چیز نہیں ہوتی کیونکہ اہل جہنم کے ٹھکانے اور قیلولے کی جگہ میں کوئی بھلائی نہیں ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿ آللّٰـهُ خَيْرٌ أَمَّا يُشْرِكُونَ ﴾(النمل : 27؍53) ” اللہ تعالیٰ بہتر ہے یا وہ معبود ان باطل جنہیں یہ لوگ اللہ تعالیٰ کا شریک بنا رہے ہیں؟“ الفرقان
25 اللہ تبارک و تعالیٰ قیامت کے دن کی عظمت، اور اس دن پیش آنے والی سختی اور کرب اور دلوں کو ہلا دینے والے مناظر کو بیا کرتے ہوئے فرماتا ہے : ﴿ وَيَوْمَ تَشَقَّقُ السَّمَاءُ بِالْغَمَامِ ﴾ ” اور جس دن آسمان پھٹ جائے گا ساتھ بادل کے۔“ یہ وہ بادل ہوگا جس میں اللہ تبارک و تعالیٰ آسمانوں سے نزول فرمائے گا۔ پس آسمان پھٹ جائیں گے اور تمام آسمانوں کے فرشتے نیچے اتر آئیں گے اور صف در صف کھڑے ہوجائیں گے یا تو تمام ایک ہی صف بنا کر تمام خلائق کو گھیر لیں گے یا اس کی صورت یہ ہوگی کہ ایک آسمان کے فرشتے صف بنائیں گے اس کے ساتھ دوسرے آسمان کے فرشتے صف بنائیں گے اور اسی طرح ساتوں آسمانوں کے فرشتے صف در صف موجود ہوں گے مقصد یہ ہے کہ فرشتے نہایت کثرت اور قوت کے ساتھ نازل ہوں گے۔ ان میں سے کوئی فرشتہ اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر کلام نہیں کرسکے گا۔(اس روز جب یہ حال ہوگا) تو اس کمزور آدمی کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے جس نے بڑے بڑے گناہوں کا ارتکاب کیا، اللہ تعالیٰ کی ناراضی کے کام کئے اور توبہ کئے بغیر گناہوں کا بوجھ اٹھائے اللہ تعالیٰ کی خدمت میں حاضر ہوگا۔ اللہ تعالیٰ جو بادشاہ اور خالقِ کائنات ہے، ان کے درمیان ایسا فیصلہ کرے گا جس میں ذرہ بھر ظلم و جور نہ ہوگا، اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَكَانَ يَوْمًا عَلَى الْكَافِرِينَ عَسِيرًا ﴾ یہ دن اپنی سختی اور صعوبت کی وجہ سے کفار کے لئے بہت کٹھن ہوگا اور ان کے تمام امور ان کے لئے بہت مشکل ہوجائیں گے۔ اس کے برعکس مومن کا معاملہ آسان اور اس کا بوجھ بہت ہلکا ہوگا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿ يَوْمَ نَحْشُرُ الْمُتَّقِينَ إِلَى الرَّحْمَـٰنِ وَفْدًا وَنَسُوقُ الْمُجْرِمِينَ إِلَىٰ جَهَنَّمَ وِرْدًا ﴾ (مریم :19؍85۔ 86) ” جس روز ہم اہل تقویٰ کو اکٹھا کرکے رحمان کے حضور مہمانوں کے طور پیش کریں گے اور مجرموں کو جہنم کی طرف پیاسے ہانک کرلے جائیں گے۔ “ الفرقان
26 ﴿ الْمُلْكُ يَوْمَئِذٍ ﴾ ” بادشاہی اس روز“ یعنی قیامت کے روز ﴿ الْحَقُّ لِلرَّحْمـٰنِ ﴾ ” رحمان ہی کے لئے صحیح طور پر ہوگی۔“ یعنی مخلوقات میں سے کسی کے لئے کوئی اختیار یا اختیار واقتدار کی کوئی صورت نہیں ہوگی جس طرح کہ وہ دنیا میں تھے۔ بلکہ بادشاہ اور ان کی رعایا۔ آزاد اور غلام، اشرف اور نیچ سب برابر ہوں گی اور جس چیز سے دل کو راحت اور نفس کو اطمینان حاصل ہوتا ہے، وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قیامت کے روزاقتدار کی اپنے اسم مبارک ﴿ الرَّحْمَـٰن﴾ کی طرف اضافت کی ہے۔ جس کی رحمت ہر چیز پر سایہ کناں ہے اللہ تعالیٰ کی رحمت ہر زندہ کے لئے عام ہے، اس نے تمام کائنات کو لبریز کر رکھا ہے، دنیا وآخرت اللہ تعالیٰ کی رحمت سے معمور ہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ہر ناقص کامل ہوجاتا ہے اور اس کی رحمت سے ہر نقص زائل ہوجاتا ہے۔ اس کی رحمت پر دلالت کرنے والے اسمائے حسنیٰ ان اسمائے حسنیٰ پر غالب ہیں جو اس کے غضب پر دلالت کرتے ہے۔ اس کی رحمت کو اس کے غضب پر سبقت حاصل ہے، اس کی رحمت غضب پر غالب ہے۔ پس اس کے لئے سبقت اور غلبہ ہے۔ یہ کمزور آدمی اس لئے پیدا کیا گیا ہے اور اسے عزت وتکریم اس لئے عطا کی گئی ہے تاکہ اللہ تعالیٰ اس پر اپنی نعمت کا اتمام کرے اور اسے اپنی نعمت سے ڈھانپ لے۔ لوگ تذلل، خضوع اور انکسار کی حالت میں اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہو کر انتظار کریں گے کہ وہ کیا حکم جاری کرتا ہے درآنحالیکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر اس سے بھی زیادہ رحم کرتا ہے جتنا وہ خود اپنے آپ پر رحم کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے والدین سے بھی زیادہ رحیم ہے۔ پس آپ کا کیا خیال ہے وہ اپنے بندوں کے ساتھ کیسا معاملہ کرے گا؟ اور اللہ تعالیٰ صرف اسی کو ہلاک کرے گا جو خود ہلاک ہونا چاہتا ہے، اس کی رحمت کے دائرے سے صرف وہی خارج ہوگا جس پر بدبختی غالب آگئی ہو اور جس پر عذاب واجب ٹھہر گیا ہو۔ الفرقان
27 ﴿ وَيَوْمَ يَعَضُّ الظَّالِمُ ﴾ ” اور جس دن کاٹے گا ظالم، اپنے شرک، کفر اور انبیاء و رسل کی تکذیب کی بنا پر ﴿عَلَى يَدَيْهِ﴾ ” اپے ہاتھوں کو۔‘‘ تاسف، حسرت اور حزن و غم کا اظہار کرتے ہوئے اپنے ہاتھوں پر کاٹے گا۔ ﴿ يَقُولُ يَا لَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِيلًا ﴾ ” وہ کہے گا، ہائے افسوس ! میں نے پکڑا ہوتا رسول کے ساتھ راستہ۔“ یعنی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان، آپ کی تصدیق اور آپ کی اتباع کا راستہ۔ الفرقان
28 ﴿ يَا وَيْلَتَىٰ لَيْتَنِي لَمْ أَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِيلًا ﴾ ” ہائے افسوس، کاش نہ پکڑا ہوتا میں نے فلاں کو“ یعنی شیاطین انس وجن کو ﴿ خَلِيلًا ﴾ یعنی اپنا جگری دوست اور مخلص ساتھی۔ میں نے ان ہستیوں سے عداوت رکھی جو میرے سب سے زیادہ خیر خواہ، میرے ساتھ سب سے زیادہ بھلائی کرنے والے اور مجھ پر سب سے زیادہ مہربان تھے اور اس کو دوست بنایا جو درحقیقت میرا سب سے بڑا دشمن تھا۔ اس کی دوستی نے بدبختی، خسارے، رسوائی اور ہلاکت کے سوائی اور ہلاکت کے سوا کوئی فائدہ نہ دیا۔ ﴿ لَّقَدْ أَضَلَّنِي عَنِ الذِّكْرِ بَعْدَ إِذْ جَاءَنِي ﴾ ” بلاشبہ میرے پاس نصیحت آجانے کے بعد اس نے مجھے اس سے بھٹکا دیا۔“ کیونکہ اس نے دھوکے اور فریب سے اس کی گمراہی کو اس کے سامنے مزین کردیا۔ الفرقان
29 ﴿ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِلْإِنسَانِ خَذُولًا ﴾ ” اور ہے شیطان، انسان کو دغا دینے والا۔“ یعنی شیطان انسان کے سامنے باطل کا آراستہ کرتا ہے اور حق کو بری صورت میں پیش کرتا ہے، اسے بڑی بڑی آرزوئیں دلاتا ہے بعد ازاں اس سے علیحدہ ہو کر اس سے برا ءت کا اظہار کرتا ہے جیسا کہ قیامت کے روز جب تمام معاملات چکا دئیے جائیں گے اور اللہ تبارک و تعالیٰ مخلوق کے حساب کتاب سے فارغ ہوگا تو شیطان اس روز اپنے پیروں کاروں سے کہے گا : ﴿ وَقَالَ الشَّيْطَانُ لَمَّا قُضِيَ الْأَمْرُ إِنَّ اللّٰـهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَوَعَدتُّكُمْ فَأَخْلَفْتُكُمْ ۖ وَمَا كَانَ لِيَ عَلَيْكُم مِّن سُلْطَانٍ إِلَّا أَن دَعَوْتُكُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِي فَلَا تَلُومُونِي وَلُومُوا أَنفُسَكُم مَّا أَنَا بِمُصْرِخِكُمْ وَمَا أَنتُم بِمُصْرِخِيَّ إِنِّي كَفَرْتُ بِمَا أَشْرَكْتُمُونِ مِن قَبْلُ ﴾ (ابراہیم :40؍22) ” اور جب تمام معالات کا فیصلہ کردیا جائے گا تو شیطان کہے گا، بے شک اللہ نے جو تم سے وعدہ کیا تھا وہ سچا وعدہ تھا اور میں نے تمہارے ساتھ جتنے وعدے کئے تھے ان میں کوئی وعدہ پورا نہ کیا، میرا تم پر کوئی اختیار نہ تھا۔ میں نے اس کے سوا کچھ نہیں کیا کہ میں نے تمہیں اپنے راستے کی طرف بلایا اور تم نے میری دعوت پر لبیک کہا۔ پس اب مجھے ملامت نہ کرو بلکہ اپنے آپ کو ملامت کرو۔ اب میں تمہاری فریاد رسی کرسکتا ہوں نہ تم میری کرسکتے ہو، اس سے پہلے تم نے جو مجھے اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرا رکھا تھا میں اس سے بھی براءت کا اعلان کرتا ہوں۔ “ پس بندے کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ غور کرے اور اس وقت سے پہلے کہ گناہوں کا تدارک ممکن نہ رہے بندے کو چاہیے کہ اپنے گناہوں کا تدارک کرلے۔ اور اس ہستی کو اپنا دوست بنائے جس کی دوستی میں سعادت ہے اور اسے اپنا دشمن سمجھے جس کو دشمن سمجھنے میں فائدہ اور اس کے دوست بنانے میں سرا سر نقصان ہے۔ واللّٰہ الموفق۔ الفرقان
30 ﴿ وَقَالَ الرَّسُولُ ﴾ اور کہا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے“ اپنے رب کو پکارتے، قرآن سے ان کی روگردانی کا شکوہ کرتے اور ان کے رویے پر تاسف کا اظہار کرتے ہوئے : ﴿ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي ﴾ ” اے میرے رب ! میری قوم نے۔“ جن کی ہدایت اور جن میں تبلیغ کرنے کے لئے تو نے مجھے مبعوث کیا تھا ﴿ اتَّخَذُوا هَـٰذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا ﴾ انہوں نے اس قرآن سے اعراض کرتے ہوئے اسے چھوڑ دیا ہے حالانکہ ان پر واجب ہے کہ وہ اسے کے فیصلے کے سامنے سر تسلیم خم کرتے، اس کے احکام کو قبول کرتے اور اس کی پیروی کرتے۔ الفرقان
31 اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دیتے ہوئے آگاہ فرمایا کہ ان کے گزشتہ آباء واجداد نے بھی ایسا ہی کیا تھا جیسا یہ کہ کر رہے ہیں، چنانچہ فرمایا : ﴿ وَكَذٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا مِّنَ الْمُجْرِمِينَ ﴾ ” اور اسی طرح بنایا ہم نے ہر نبی کا دشمن، گناہ گاروں میں سے۔“ یعنی ان لوگوں میں سے جو بھلائی کی صلاحیت رکھتے تھے نہ اس کے لائق تھے بلکہ اس کے برعکس وہ انبیاء و رسل کی مخالفت کرتے تھے، ان کی دعوت کو ٹھکراتے تھے اور باطل دلائل کے ذریعے سے ان کے ساتھ جھگڑتے تھے۔ یہ آیات کریمہ دلالت کرتی ہیں کہ حق ہمیشہ باطل پر غالب آتا ہے، حق پوری طرح واضح ہوتا ہے کیونکہ باطل کا حق کے ساتھ معارضی ایک ایسا امر ہے جو حق کو اور زیادہ واضح اور استدلال کو درجہء کمال تک پہنچا دیتا ہے اور یہ واضح ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اہل حق کو کس عزت و تکریم سے سرفراز کرے گا اور اہل باطل کے ساتھ کیا سلوک کرے گا، لہٰذا آپ ان کی باتوں پر غمزدہ نہ ہوں اور ان پر حسرت اور غم کے مارے آپ کی جان نہ گھلے۔﴿ وَكَفَىٰ بِرَبِّكَ هَادِيًا ﴾ ” اور آپ کو راہ دکھانے کے لئے آپ کا رب کافی ہے۔“ پس آپ کو اپنا مطلوب و مقصود اور دنیا و آخرت کے تمام مصالح حاصل ہوں گے۔ ﴿ وَنَصِيرًا ﴾ ” اور مددگار بھی۔“ وہ آپ کے دشمنوں کے خلاف آپ کی مدد کرے گا آپ کے دینی اور دنیاوی معاملات میں آپ سے تکلیف دہ امور کو دور کرے گا، اس لئے آپ اللہ تعالیٰ ہی کو کافی سمجھئے اور اسی پر بھروسہ کیجئے۔ الفرقان
32 یہ کفار کے جملہ اعتراضات میں سے ایک اعتراض ہے جو ان کو ان کے نفس نے سمجھایا ہے، چنانچہ ان کا قول ہے : ﴿ لَوْلَا نُزِّلَ عَلَيْهِ الْقُرْآنُ جُمْلَةً وَاحِدَةً ﴾ یعنی وہ کونسی رکاوٹ ہے جس کی وجہ سے تمام قرآن ایک ہی دفعہ نازل نہیں ہوا، جیسا کہ اس سے پہلے کتابیں نازل ہوئیں؟ بلکہ اس کا ایک ہی دفعہ نازل ہونا تو زیادہ اچھا ہے۔ اس لئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے جواب میں فرمایا : ﴿ كَذٰلِكَ ﴾ یعنی اسی طرح ہم نے اسے ٹکڑے ٹکڑے کرکے نازل کیا ہے ﴿ لِنُثَبِّتَ بِهِ فُؤَادَكَ ﴾ ” تاکہ ہم اس کے ذریعے سے آپ کے دل کو مضبوط کریں۔“ کیونکہ جب بھی آپ پر قرآن کا کوئی حصہ نازل ہوتا تھا آپ کے اطمینان اور ثابت قدمی میں اضافہ ہوجاتا تھا، خاص طور پر اس وقت جب اسباب قلق وارد ہوتے تو آپ کا اطمینان بڑھ جاتا تھا، کیونکہ کسی قلق کے پیش آن پر قرآن کا نازل ہونا برمحل ہے اور بہت زیادہ ثبات کا باعث ہے اور اس سے زیادہ فائدہ مند ہے کہ اس واقعہ سے پہلے نازل ہوا ہو اور اس سبب کے وقوع پریاد آئے۔ ﴿ وَرَتَّلْنَاهُ تَرْتِيلًا ﴾ ” ہم نے اسے ٹھہر ٹھہر کر ہی پڑھ سنایا ہے۔“ یعنی ہم نے اسے آہستہ آہستہ بتدریج نازل کیا۔ یہ تمام آیات کریمہ اپنے رسول محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے اعتناء پر دلالت کرتی ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب کو رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احوال اور آپ کے دینی مصالح کے مطابق نازل فرمایا۔ الفرقان
33 اس لئے فرمایا : ﴿ وَلَا يَأْتُونَكَ بِمَثَلٍ ﴾ ” اور یہ لوگ کوئی بھی ایسی مثال آپ کے سامنے پیش نہیں کریں گے۔“ جس سے وہ حق کے ساتھ معارضہ (مقابلہ) کریں اور آپ کی رسالت کا انکار کریں۔ ﴿ إِلَّا جِئْنَاكَ بِالْحَقِّ وَأَحْسَنَ تَفْسِيرًا ﴾ ” مگر ہم اس کا سچا جواب اور عمدہ توجیہ آپ کو بتا دیں گے۔“ یعنی ہم نے آپ پر قرآن نازل کیا جو اپنے معانی میں جامع، اپنے الفاظ میں واضح اور بیان کامل کا حامل ہے۔ اس کے تمام معانی حق اور صداقت پر مبنی ہیں جس میں کسی بھی پہلو سے باطل کا کوئی شائبہ نہیں، تمام اشیاء کے بارے میں اس کے الفاظ اور حدود انتہائی واضح، مفصل اور معانی کو کامل طور پر بیان کرتے ہیں۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ علم میں بحث کرنے والے محدث، معلم یا واعظ کے لئے مناسب ہے کہ وہ اپنے رب کی تدبیر کی پیروی کرے جس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احوال کے مطابق تدبیر فرمائی اسی طرح اس عالم کو چاہیے کہ وہ مخلوق کے معاملے کی اسی طرح تدبیر کرے جب بھی کوئی ایسا موجب اور موقع پیش آئے تو موقع کی مناسبت سے لوگوں میں آیات قرآنی، احادیث نبوی اور مواعظ بیان کرے۔ نیز ان آیات کریمہ میں جہمیہ کا رد ہے جو قرآن کریم کی تفسیر میں تکلف سے کام لیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ قرآن کی بہت سی نصوص کو ان کے ظاہری معنوں پر محمول نہیں کیا جائے گا، ان کے اصل معانی ان معانی سے مختلف ہیں جو ظاہر میں سمجھ میں آتے ہیں تب اگر ان کی اس بات کو تسلیم کرلیا جائے تو قرآن کی یہ تفسیر ” احسن تفسیر“ نہیں ہوگی ان کے زعم باطل کے مطابق، احسن تفسیر تو وہ ہے، جس کے لئے وہ معانی میں تحریف کرتے ہیں۔ الفرقان
34 اللہ تبارک و تعالیٰ مشرکین کے احوال اور ان کے انجام کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے فرماتا ہے : ﴿ يُحْشَرُونَ عَلَىٰ وُجُوهِهِمْ ﴾ ” وہ منہ کے بل جمع کیے جائیں گے۔“ یعنی ان کو جمع کئے جانے کا منظر بدترین منظر ہوگا۔ عذاب کے فرشتے انہیں (چہروں کے بل) گھسیٹ رہے ہوں گے ﴿ إِلَىٰ جَهَنَّمَ ﴾ ” جہنم کی طرف۔“ جس میں ہر قسم کا بدترین عذاب اور عقاب جمع ہے۔ ﴿ أُولَـٰئِكَ ﴾ یعنی جن کا حال یہ ہے ﴿ شَرٌّ مَّكَانًا ﴾ ان کی جگہ اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لانے والوں کی جگہ کی نسبت سے بدترین جگہ ہے۔ ﴿ وَأَضَلُّ سَبِيلًا ﴾ ” اور بہت زیادہ گمراہ راستے والے ہیں۔“ یہ اسلوب بیان اس تفصیل کے اس باب میں سے ہے جس کے بالمقابل دوسرا پہلو موجود نہیں ہوتا۔ پس اہل ایمان کی جگہ بہترین ٹھکانا ہوگی۔ اس دنیا میں ان کو راہ راست کی طرف راہنمائی عطا کی جاتی ہے اور آخرت میں انہیں نعمت والے باغوں میں داخل کیا جائے گا۔ الفرقان
35 اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہاں ان واقعات کی طرف اشارہ کیا ہے جن کو دیگر آیات میں نہایت شرح و بسط کے ساتھ بیان فرمایا ہے، تاکہ مخاطبین کو انبیاء و رسل کی تکذیب پر جمے رہنے سے ڈرائے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ان پر بھی وہی عذاب نازل ہوجائے جو ان سے پہلی قوموں پر نازل ہوا تھا، جو ان کے قریب ہی آباد تھیں وہ ان کے واقعات کو خوب جانتے ہیں اور ان کے واقعات بہت مشہور ہیں۔ بعض قوموں کے آثار کا وہ اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرتے ہیں مثلاً حجر کے علاقے میں صالح علیہ السلام کی قوم اور وہ بستی جس پر کھنگر کے پتھروں کی بدترین بارش برسائی گئی تھی۔ ان کا اپنے سفروں کے دوران میں دن رات ان بستیوں پر گزر ہوتا ہے۔ وہ قومیں ان سے کوئی زیادہ بری نہیں تھیں اور نہ ان کے رسول ان لوگوں کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بہتر تھے۔ ﴿ أَكُفَّارُكُمْ خَيْرٌ مِّنْ أُولَـٰئِكُمْ أَمْ لَكُم بَرَاءَةٌ فِي الزُّبُرِ ﴾ (القمر : 54؍43) ” کیا تمہارے کفر ان لوگوں سے بہتر ہیں یا تمہارے لئے پہلی کتابوں میں براءت نامہ تحریر کردیا گیا ہے۔ “ جس چیز نے ان کو ایمان لانے سے روک رکھا ہے، حالانکہ وہ نشانیوں کا مشاہدہ کرچکے ہیں، وہ یہ ہے کہ وہ مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے کی امید نہیں رکھتے۔ وہ اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہونے کی امید رکھتے ہیں نہ اس کی سزا سے ڈرتے ہیں۔ اسی لئے وہ اپنے عناد پر جمے ہوئے ہیں ورنہ ان کے پاس ایسی ایسی نشانیاں آئی ہیں جنہوں نے کوئی شک و شبہ اور کوئی اشکال وریب باقی نہیں رہنے دیا۔ الفرقان
36 الفرقان
37 الفرقان
38 الفرقان
39 الفرقان
40 الفرقان
41 اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کی تکذیب کرنے والے، اللہ تعالیٰ کی آیات سے عناد رکھنے والے اور زمین پر تکبر سے چلنے والے جب آپ کو دیکھتے ہیں تو آپ سے استہزءا کرتے ہیں اور آپ کی تحقیر کرتے ہیں، آپ کو معمولی سمجھتے ہوئے حقارت آمیز لہجے میں کہتے ہیں : ﴿أَهَـٰذَا الَّذِي بَعَثَ اللّٰـهُ رَسُولً ﴾ ” کیا یہی وہ شخص ہے جسے اللہ نے رسول بنا کر بھیجا ہے؟“ یعنی یہ مناسب اور لائق نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس شخص کو رسول بناتا۔ یہ سب کچھ ان کے شدت ظلم، ان کے عناد اور حقائق بدلنے کے سبب تھا کیونکہ ان کے اس کلام سے یہ ذہن میں آتا ہے کہ (معاذ اللہ) رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انتہائی خسیس اور حقیر شخص تھے اور اگر رسالت کا منصب کسی اور شخص کو عطا کیا گیا ہوتا تو زیادہ مناسب تھا۔﴿ وَقَالُوا لَوْلَا نُزِّلَ هَـٰذَا الْقُرْآنُ عَلَىٰ رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْيَتَيْنِ عَظِيمٍ﴾ (الزخرف : 43؍31) ” وہ کہتے ہیں کہ یہ قرآن دونوں شہروں میں سے کسی بڑے آدمی پر کیوں نہ اتارا گیا۔“ پس یہ کلام کسی جاہل ترین اور گمراہ ترین شخص ہی سے صادر ہوسکتا ہے یا کسی ایسے شخص سے صادر ہوسکتا ہے جو بڑا عناد پسند اور جانتے بوجھتے جاہل ہو۔ اس کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ اپنے نظریات کو رائج کرے اور حق اور حق پیش کرنے والے میں جرح و قدح کرے، ورنہ اگر کوئی شخص، رسول مصطفی محمد بن عبد اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احوال پر غور کرے تو وہ آپ کو عقل، علم، ذہانت، وقار، مکارم اخلاق، محاسن عادات، عفت، شجاعت اور تمام اخلاق فاضلہ میں دنیا کا سب سے بڑا شخص، ان کا سردار اور ان کا قائد پائے گا۔ آپ کو حقیر جاننے اور آپ کے ساتھ دشمنی رکھنے والے شخص میں حماقت، جہالت، گمراہی، تناقض، ظلم اور تعدی جمع ہیں جو کسی اور شخص میں جمع نہیں۔ اس کی جہالت اور گمراہی کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ اس عظیم رسول اور بہترین قائد میں جرح و قدح کرتا ہے۔ اس جرح و قدح سے اس کا مقصد آپ کا تمسخر اڑانا، اپنے باطل نظریات پر ڈٹے رہنا اور ضعیف العقل لوگوں کو فریب دینا ہے۔ الفرقان
42 اس لئے انہوں نے کہا : ﴿ إِن كَادَ لَيُضِلُّنَا عَنْ آلِهَتِنَا ﴾ ” یقیناً یہ تو ہمیں ہمارے معبودوں سے بہکا چلا تھا۔“ کیونکہ یہ سب معبودوں کو ختم کرکے ایک ہی معبود قرار دیتا ہے۔ ﴿ لَوْلَا أَن صَبَرْنَا عَلَيْهَا ﴾ ” اگر ہم ان معبودوں کی عقیدت پر جم نہ گئے ہوتے“ تو اس نے ہمیں گمراہ کردیا ہوتا۔ وہ سمجھتے تھے۔۔۔ اللہ کا برا کرے۔۔۔ کہ توحید گمراہی اور ان کے شرکیہ عقائد ہی سراسر ہدایت ہیں، لہٰذا وہ اپنے ان عقائد پر ثابت قدم رہنے کی ایک دوسرے کو تلقین کرتے تھے۔ ﴿ وَانطَلَقَ الْمَلَأُ مِنْهُمْ أَنِ امْشُوا وَاصْبِرُوا عَلَىٰ آلِهَتِكُمْ ﴾ (ص : 38؍6) ” اور سرداران قوم یہ کہتے ہوئے چل پڑے کہ چلو اپنے معبودوں کی عبادت پر ڈٹے رہو۔ “ یہاں ان مشرکین نے کہا : ﴿ لَوْلَا أَن صَبَرْنَا عَلَيْهَا ﴾ اور صبر سوائے اس مقام کے ہر مقام پر قابل تعریف ہے، کیونکہ یہ اسباب غضب اور جہنم کا ایندھن بننے پر صبر کرنا ہے۔ رہے اہل ایمان تو ان کے رویے کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا ب بِالصَّبْرِ ﴾ (العصر : 103؍3) ” وہ ایک دوسرے کو حق کی تلقین اور ایک دوسرے کو صبر کی تاکید کرتے ہیں۔ “ چونکہ ان کا فیصلہ تھا کہ وہ راہ راست پر گامزن ہیں اور رسول گمراہ ہے حالانکہ یہ بات محقق ہے کہ ان کے پاس تصرف کی قدرت اور کوئی اختیار نہیں ہے، تو اللہ تعالیٰ نے ان کو عذاب کو وعید سناتے ہوئے آگاہ فرمایا : ﴿ حِينَ يَرَوْنَ الْعَذَابَ ﴾ ” کہ جب وہ عذاب کو دیکھیں گے“ تب انہیں اس حقیقت کا علم ہوگا کہ ﴿ مَنْ أَضَلُّ سَبِيلًا ﴾ ” راہ راست سے کون زیادہ بھٹکا ہوا ہے؟‘‘ ﴿ وَيَوْمَ يَعَضُّ الظَّالِمُ عَلَىٰ يَدَيْهِ يَقُولُ يَا لَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِيلًا ﴾ (الفرقان : 25؍27 )” اور اس روز ظالم اپنا ہاتھ کاٹ کاٹ کھائے گا، اور کہے گا کاش میں نے رسول کا ساتھ دیا ہوتا۔“ الفرقان
43 کیا اس سے بڑھ کر بھی کوئی گمراہی ہے کہ انسان اپنی خواہش نفس کو اپنا معبود بنا لے اور جو جی چاہے کرتا رہے۔ اس لئے فرمایا : ﴿ أَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَـٰهَهُ هَوَاهُ ﴾ ” کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا معبود بنا لیا۔“ کیا آپ کو اس کے حال پر تعجب نہیں، کیا آپ نے غور نہیں کیا کہ وہ کس گمراہی میں مبتلا ہے اور حال یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو بلند منازل کا مستحق سمجھتا ہے؟ ﴿ أَفَأَنتَ تَكُونُ عَلَيْهِ وَكِيلًا ﴾ ” کیا آپ اس پر وکیل ہوں گے؟“ یعنی آپ کو اس پر نگران مقرر نہیں کیا آپ تو صرف ڈرانے والے ہیں۔ آپ نے اپنی ذمہ داری پوری کردی اور اس کا حساب اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے۔ الفرقان
44 پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کی حد کو پہنچی ہوئی گمراہی پر یہ فیصلہ کیا کہ ان کی عقل اور سماعت کو سلب کرلیا اور گمراہی میں ان کو مویشیوں سے تشبیہ دی جو آواز اور پکار کے سوا کچھ نہیں سنتے وہ بہرے، گونگے اور اندھے ہیں۔ اس لئے ان کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا، بلکہ یہ تو چوپایوں سے بھی زیادہ گمراہ ہیں۔ کیونکہ مویشیوں کو جب ان کا چرواہا راہ دکھاتا ہے تو وہ اس راہ پر چل پڑتے ہیں وہ ہلاکت کی راہوں کو پہچانتے ہیں اس لئے ان سے بچتے ہیں۔ ان چوپایوں کی عاقبت ان گمراہوں کی نسبت زیادہ محفوظ ہے۔ پس اس سے واضح ہوگیا کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر گمراہی کا الزام لگانے والا خود اس وصف کا زیادہ مستحق ہے اور جانور بھی اس سے زیادہ راہ راست پر ہیں۔ الفرقان
45 کیا تم نے اپنی آنکھ اور اپنی بصیرت سے اپنے رب کی قدرت کاملہ اور بے پایاں رحمت کا مشاہدہ نہیں کیا کہ وہ بندوں پر سائے کو پھیلا دیتا ہے اور یہ طلوع آفتاب سے قبل ہوتا ہے۔ ﴿ ثُمَّ جَعَلْنَا الشَّمْسَ عَلَيْهِ ﴾ ” پھر بنایا ہم نے سورج کو اس پر‘‘ یعنی سائے پر ﴿ دَلِيلًا ﴾ ” دلیل“ اگر سورج نہ ہوتا تو سایہ نہ پہچانا جاتا کیونکہ تمام اشیاء اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہیں۔ الفرقان
46 ﴿ ثُمَّ قَبَضْنَاهُ إِلَيْنَا قَبْضًا يَسِيرًا ﴾ ” پھر ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اپنی طرف کھینچ لیا۔“ پس جوں جوں سورج بلند ہوتا ہے تو سایہ آہستہ آہستہ سکڑتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ ختم ہوجاتا ہے۔ مخلوق پرسائے اور دھوپ کا یکے بعد دیگرے واقع ہونا جس کا وہ اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرتے ہیں، اسی سے لیل ونہار ترتیب پاتے ہیں اور ایک دوسرے کا تعاقب کرتے ہیں پھر مختلف موسم ایک دوسرے کے پیچھے آتے ہیں اور اس سبب سے مخلوق کے بہت سے مصالح حاصل ہوتے ہیں۔۔۔ یہ تمام امور اس حقیقت کی سب سے بڑی دلیل ہیں کہ اللہ تعالیٰ قدرت و عظمت کا مالک ہے وہ اپنے بندوں سے کمال رحمت و عنایت سے پیش آتا ہے۔ وہ اکیلا ہی معبود محمود، محبت اور تعظیم کا مستحق اور ذوالجلال والا کرام ہے۔ الفرقان
47 یہ اللہ تعالیٰ کی تم پر بے پایاں رحمت اور اس کا لطف و کرم ہے کہ اس نے رات کو تمہارے لئے بمنزلہ لباس بنایا جو تمہیں ڈھانپ لیتی ہے حتیٰ کہ تم رات کے وقت قرار پکڑتے ہو، سو کر آرام کرتے ہو اور نیند کے وقت تمہاری تمام حرکات منقطع ہوجاتی ہیں۔ اگر رات نہ ہوتی تو بندے آرام نہ کرسکتے اور اپنی مصروفیات کو جاری نہ رکھ سکتے اور اس طرح انہیں بہت زیادہ ضرر پہنچتا اور اس کے برعکس اگر ہمیشہ رات رہتی تو بندے کی معاش اور دیگر مصالح معطل ہو کر رہ جاتے۔ مگر دن کو اللہ تعالیٰ نے جی اٹھنے کا وقت بنایا ہے جس میں بندے اپنی تجارت، سفر اور دیگر کاروبار کے لئے پھیل جاتے ہیں اور اس سے ان کے مصالح کا انتظام ہوتا ہے۔ الفرقان
48 یعنی اکیلا اللہ تعالیٰ ہی ہے جس نے اپنے بندوں کو اپنی بے پایاں رحمت سے ڈھانپ لیا ہے اور اپنے رزق کی ان پر اس طرح فراوانی کی کہ اس نے اپنی رحمت یعنی بارش کے آگے آگے خوشخبری دینے والی ہوائیں بھیجیں (اور اس کے ذریعے سے اس نے بادلوں پر اپنے رزق کے دروازے کھول دئیے) ان ہواؤں کے ذریعے سے بادل اٹھتا ہے پھر اکٹھا ہو کر گھٹا کے ٹکڑے بن جاتا ہے، ہوائیں اسے بار آور کرتی ہیں اور پھر اپنے رب اور تصرف کرنے والے کے حکم سے اس گھٹا کو کھینچ کر لاتی ہیں۔۔۔ تاکہ بارش برسنے سے پہلے بندے بارش کی آمد کی نوید پر خوش ہوجائیں اور بارش کے اچانک آجانے سے پہلے بارش کے لئے تیار ہوجائیں۔ ﴿ وَأَنزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً طَهُورًا ﴾ ” اور اتارا ہم نے آسمان سے پانی پاک کرنے والا۔“ جو بندوں کو حدث اور گندگی سے پاک اور میل کچیل کو صاف کرتا ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی برکت یہ ہے کہ اس نے بارش برسا کرمردہ زمین کو زندہ کیا، پھر اس سے مختلف قسم کی نباتات اور درخت اگائے جنہیں انسان اور مویشی کھاتے ہیں۔ الفرقان
49 ﴿ وَنُسْقِيَهُ مِمَّا خَلَقْنَا أَنْعَامًا وَأَنَاسِيَّ كَثِيرًا ﴾ یعنی ہم تمہیں اور تمہارے مویشیوں کو اس پانی سے سیراب کرتے ہیں۔ کیا وہ ہستی، جس نے خوشخبری دینے والی ہوائیں بھیجیں، ان کو متنوع امور پر مامور کیا، جس نے آسمان سے پاک اور بابرکت پانی برسایا، جس میں بندوں اور ان کے جانوروں کا رزق ہے، اس بات کی مستحق نہیں کہ صرف اسی کی عبادت کی جائے اور اس کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ ٹھہرایا جائے؟ الفرقان
50 اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان آیات کا ذکر فرمایا جن کا عینی مشاہدہ کیا جاسکتا ہے اور بندوں کی طرف انہیں پھیر دیا تاکہ بندے اپنے رب کو پہنچان لیں، اس کا شکرادا کریں اور اس کو یاد رکھیں مگر اس کے باوجود ﴿ فَأَبَىٰ أَكْثَرُ النَّاسِ إِلَّا كُفُورًا ﴾ اکثر لوگوں نے فساد اخلاق اور فساد طبائع کی بنا پر کفر اور ناشکری ہی کا رویہ اختیار کیا۔ الفرقان
51 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی مشیت کے نفوذ کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے کہ اگر وہ چاہتا تو ہر بستی میں ڈرانے والا بھیج دیتا، یعنی ہر بستی میں ایسا رسول بھیج دیتا جو ان کو گناہوں کے انجام سے ڈراتا۔ پس اس کی مشیت اس سے قاصر نہ تھی مگر اے محمد ! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ اور اپنے بندوں پر اس کی حکمت اور رحمت کا تقاضا یہ تھا کہ اس نے آپ کو سرخ و سیاہ، عربی وعجمی اور انس و جن تمام لوگوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا۔ الفرقان
52 اس لئے ﴿ فَلَا تُطِعِ الْكَافِرِينَ ﴾ ” پس نہ بات مانیں آپ کافروں کی۔“ یعنی کفار کی بات مان کر اس چیز کو ترک نہ کیجئے جس چیز کے ساتھ آپ کو بھیجا گیا ہے بلکہ اس کی تبلیغ کے لئے پوری کوشش کیجئے۔ ﴿ وَجَاهِدْهُم بِهِ ﴾ ” اور ان کے ساتھ جہاد کیجئے قرآن کے زور پر“ ﴿ جِهَادًا كَبِيرًا ﴾ ” جہاد بہت بڑا۔“ یعنی نصرت حق اور باطل کے قلع قمع کرنے میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھیے۔ اگرچہ آپ دیکھتے ہیں کہ وہ تکذیب اور جسارت پر جمے ہوئے ہیں تاہم آپ اپنی پوری کوشش کرتے رہیے، آپ ان کی ہدایت سے مایوس ہو کر اور ان کی خواہشات کی خاطر تبلیغ کو ترک نہ کیجئے۔ الفرقان
53 یعنی وہ اکیلا اللہ تعالیٰ ہی ہے جس نے دو سمندروں کو ملا رکھا ہے، ایک لذیذ اور شیریں پانی، اور یہ روئے زمین پر بہنے والے دریا ہیں، دوسرا تلخ اور شورپانی۔ دونوں کی منفعت بندوں کے مصالح کے لئے ہے۔ ﴿ وَجَعَلَ بَيْنَهُمَا بَرْزَخًا ﴾ ” اور اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کے درمیان ایک پردہ حائل کر رکھا ہے“ جو دونوں کو ایک دوسرے کے ساتھ ملنے سے روکتا ہے تاکہ منفعت مقصود ضائع نہ ہو۔ ﴿ وَحِجْرًا مَّحْجُورًا ﴾ اور دونوں کے درمیان ایک مضبوط رکاوٹ حائل ہے۔ الفرقان
54 وہ اکیلا اللہ تعالیٰ ہی ہے جس نے انسان کو ایک حقیر پانی سے پیدا کیا پھر اس میں سے بے شمار اولاد پھیلائی پھر اس نے نسب اور سسرال کے دو الگ الگ اور اکٹھے سلسلے چلائے ان تمام کا مادہ یہی حقیر پانی ہے اور یہ چیز اس کے اقتدار پر دلالت کرتی ہے۔ ﴿ وَكَانَ رَبُّكَ قَدِيرًا ﴾ ” اور آپ کا رب بہت قدرت والا ہے۔“ اور اللہ کا قادر ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ اس کی عبادت حق ہے اور اس کے سوا کسی اور کی عبادت باطل ہے۔ الفرقان
55 یعنی یہ لوگ بتوں اور مردوں کی عبادت کرتے ہیں جو کوئی نفع دے سکتے ہیں نہ نقصان۔ انہوں نے ان معبود ان باطل کو نفع و نقصان کے مالک کے ہمسر بنا رکھا ہے، حالانکہ ان پر فرض ہے کہ وہ اپنے رب کے ارشادات کی پیروی کریں اور اس کے دین کا دفاع کریں، لیکن ان کا رویہ اس کے برعکس ہے۔ ﴿ وَكَانَ الْكَافِرُ عَلَىٰ رَبِّهِ ظَهِيرًا ﴾ ” اور ہے کافر اپنے رب کے خلاف مدد کرنے والا۔‘‘ پس باطل جو خود ساختہ بت اور ہمسر ہیں، وہ اللہ تعالیٰ کے دشمن ہیں اور کافر اپنے رب کے خلاف ان کی معاونت کرکے اپنے رب کا دشمن بن جاتا ہے اور اس کے خلاف جنگ اور عداوت کا اعلان کرتا ہے، حالانکہ وہی ہے جس نے اسے پیدا کیا، اسے اپنی ظاہری اور باطنی نعمتوں سے نوازا۔ وہ اللہ تعالیٰ کی ملکیت، تسلط اور قبضہء قدرت سے باہر نہیں نکل سکتا اور اللہ تعالیٰ اس سے اپنے احسان اور بھلائی کو کبھی منقطع نہیں کرتا ہے، لیکن وہ ہے کہ اپنی جہالت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے ساتھ عداوت پر ڈٹا ہوا ہے۔ الفرقان
56 اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ اس نے اپنے رسول محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لوگوں پر داروغہ بنا کر بھیجا ہے نہ انہیں فرشتہ بنایا ہے اور نہ ان کے پاس چیزوں کے خزانے ہیں اس نے تو آپ کو صرف ﴿ مُبَشِّرًا ﴾ ” خوشخبری سنانے والا“ بنا کر بھیجا ہے آپ اس شخص کو دنیاوی اور اخروی ثواب کو خوشخبری سناتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتا ہے ﴿ وَنَذِيرًا ﴾ ” اور ڈرانے والا۔“ جو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتا ہے اس کو دنیاوی اور اخروی سزا سے ڈراتے ہیں اور یہ اوامرونواہی میں سے ان امور کو تبیین کو مستلزم ہے جن کی بشارت دی گئی ہے اور جن سے انداز حاصل ہوتا ہے۔ اے محمد ! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ قرآن اور ہدایت پہنچانے پر ان سے کسی اجر کا مطالبہ نہیں کرتے کہ یہ چیز ان کو آپ کی اتباع کرنے سے روکتی ہو اور انہیں اس مالی بوجھ کی تکلیف اٹھانی پڑتی ہو۔ الفرقان
57 ﴿ إِلَّا مَن شَاءَ أَن يَتَّخِذَ إِلَىٰ رَبِّهِ سَبِيلًا ﴾ ” مگر جو چاہیے یہ کہ وہ اپنے رب کی طرف کوئی راستہ پکڑے۔“ یعنی سوائے اس شخص کے کہ جو کوئی اللہ تعالیٰ کے راستے میں اس کی رضا کی خاطر کچھ خرچ کرنا چاہتا ہے، تو اس بارے میں بھی میں تمہیں ترغیب دیتا ہوں لیکن تمہیں اس پر مجبور نہیں کرتا اور تمہارے ذمے میرا کوئی اجر نہیں، یہ تو تمہاری اپنی مصلحت اور تمہارے رب کے پاس پہنچانے والے راستے پر تمہارا گامزن ہونا ہے۔ الفرقان
58 پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپن رب پر بھروسہ کرنے اور اسی سے مدد مانگنے کا حکم دیا، فرمایا : ﴿ وَتَوَكَّلْ عَلَى الْحَيِّ ﴾ ” اور اس زندہ پر بھروسہ کیجئے۔“ یعنی اس ہستی پر بھروسہ کیجئے جس کے لئے کامل اور مطلق زندگی ہے ﴿ الَّذِي لَا يَمُوتُ وَسَبِّحْ بِحَمْدِهِ ﴾ ” جو کبھی نہیں مرے گا اور اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتے رہیے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ کی عبادت کیجئے اور اپنی ذات اور مخلوق سے متعلق عام امور کے بارے میں اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کیجئے۔ ﴿ وَكَفَىٰ بِهِ بِذُنُوبِ عِبَادِهِ خَبِيرًا ﴾ ” اور وہ اپنے بندوں کے گناہوں سے خبر رکھنے کے لئے کافی ہے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے گناہوں سے خبردار ہے وہ انہیں ان گناہوں کی سزا دے گا۔ ان کی ہدایت کی ذمہ داری آپ پر ہے نہ ان کے اعمال کی حفاظت آپ کا فرض ہے۔ یہ تمام امور صرف اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں ﴿ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ ﴾ ” جس نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے چھ دن میں پیدا کیا پھر وہ مستوی ہوا۔“ یعنی ان امور کے بعد ﴿ عَلَى الْعَرْشِ ﴾ ”عرش پر“ وہ جو تمام مخلوقات کے لئے چھت ہے اور تمام مخلوقات سے بلند، سب سے وسیع اور سب سے خوبصورت ہے۔ ﴿ الرَّحْمَـٰنُ ﴾ ” وہ رحم کرنے والا ہے“ جس کی بے پایاں رحمت ہر چیز پر سایہ کناں ہے۔ پس اللہ تعالیٰ اپنی سب سے زیادہ وسیع صفت کے ساتھ مخلوقات میں سے سب سے زیادہ وسیع مخلوق پر مستوی ہوا۔ الفرقان
59 اس آیت کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوقات کو پیدا کیا، اوہ ان کے تمام ظاہر و باطن کی اطلاع رکھتا ہے، وہ عرش کے اوپر مستوی اور تمام مخلوق سے جدا ہے۔ ﴿ فَاسْأَلْ بِهِ خَبِيرًا ﴾ ” تو اس کا حال کسی باخبر سے دریافت کر۔“ اس سے اللہ تعالیٰ نے اپنی ہی ذات کریمہ مراد لی ہے۔ وہی ہے جو اپنے تمام اوصاف اور اپنی عظمت و جلال کا علم رکھتا ہے اور اس نے تمہیں اپنے بارے میں آگاہ فرمادیا ہے اور اس نے تمہارے سامنے اپنی عظمت بیان کردی ہے۔ جس کے ذریعے سے تم اس کی معرفت حاصل کرسکتے ہو۔ عارف اس کی معرفت حاصل کرکے اس کے سامنے سرافگندہ ہوگئے اور کفار نے اس کی عبادت سے تکبر کیا اور اس کو عار گردانتے ہوئے اس سے اعراض کیا۔ الفرقان
60 بنا بریں فرمایا : ﴿ وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اسْجُدُوا لِلرَّحْمَـٰنِ ﴾ ” جب ان )کفار( سے کہا جاتا ہے کہ رحمان کو سجدہ کرو۔“ یعنی صرف رحمن کے سامنے سجدہ ریز ہوجاؤ جس نے تمہیں تمام نعمتوں سے نواز رکھا ہے اور تم سے تمام سختیوں کو دور کیا ہے ﴿ قَالُوا ﴾ ” تو انہوں نے )انکار کرتے ہوئے(کہا : ﴿ وَمَا الرَّحْمَـٰنُ ﴾ ” اور رحمان کیا ہے؟“ یعنی وہ اپنے زعم فاسد کے مطابق کہتے ہیں کہ وہ ” رحمٰن“ کو نہیں پہنچانتے۔ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں ان کی جملہ جرح وقدح یہ بھی ہے کہ وہ انہیں اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسرے معبودوں کی عبادت سے روکتا ہے اور خود اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک اور معبود کو پکارتا ہے اور کہتا ہے) )یارحمن(( جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ قُلِ ادْعُوا اللّٰـهَ أَوِ ادْعُوا الرَّحْمَـٰنَ أَيًّا مَّا تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ ۚ ﴾ )بنی اسرائیل : 17؍110)” کہہ دیجیے کہ اللہ کہہ کر پکارو یا رحمان کہہ کر پکارو۔ اسے جس نام سے بھی پکارو اس کے سب نام بہت اچھے ہیں۔“ اللہ تعالیٰ کے کثرت اوصاف اور تعدد کمال کی بنا پر اس کے نام بھی بکثرت ہیں، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ہر نام اس کی ایک صفت کمال پر دلالت کرتا ہے۔ ﴿ أَنَسْجُدُ لِمَا تَأْمُرُنَا ﴾ ” کیا جس کے لئے تم ہمیں کہتے ہو کہ ہم اس کے آگے سجدہ کریں؟“ یعنی مجرد تیرے حکم دینے سے اس کے سامنے سجدہ ریز ہوجائیں۔ ان کا یہ قول رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تکذیب اور اللہ کی اطاعت کے بارے میں ان کے تکبر پر مبنی ہے۔ ﴿وَزَادَهُمْ ﴾ ” اور زیادہ کیا ان کو“ یعنی رحمٰن کو سجدہ کرنے کی دعوت نے ﴿ نُفُورًا ﴾ ” بدکنے میں“ یعنی ان کے حق سے باطل کی طرف بھاگنے نے ان کے کفر اور ان کی بدبختی میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ الفرقان
61 اللہ تعالیٰ نے اس سورۃ کریمہ میں (تبارک) کا لفظ تین مرتبہ استعمال فرمایا ہے کیونکہ، جیسا کہ گزشتہ صفحات میں گزر چکا ہے، یہ لفط باری تعالیٰ کی عظمت، اس کے اوصاف کی کثرت اور اس کے احسان اور بھلائی کی وسعت پر دلالت کرتا ہے۔ یہ سورۃ مبارکہ اللہ تعالیٰ کی عظمت، اس کی لامحدود قوت وتسلط، اس کی مشیت کے نفوذ، اس کے علم و قدرت کے عموم، امری و جزائی احکام پر اس کے احاطہ اختیار اور اس کی کامل حکمت پر دلالت کرتی ہے۔ اس میں بعض ایسی چیزیں بھی ہیں جو اس کی بے پایاں رحمت، اس کے وسیع جودو کرم اور اس کے دینی و دنیاوی احسانات پر دلالت کرتی ہیں یہ تمام اس وصف حسن کے تکرار کا تقاضا کرتے ہیں۔ چنانچہ فرمایا : ﴿ تَبَارَكَ الَّذِي جَعَلَ فِي السَّمَاءِ بُرُوجًا ﴾ ” اور بڑی بابرکت ہے وہ ذات جس نے آسمانوں میں برج بنائے۔“ یہ عام ستارے ہیں یا سورج اور چاند کی منازل ہیں جہاں وہ منزل بمنزل چلتے رہتے ہیں اور وہ منازل ایسی ہیں جیسے شہروں کی حفاظت کے لئے برج اور قلعے ہوتے ہیں۔ اس طرح ستارے ان برجوں کی مانند ہوتے ہیں جو حفاظت کیلئے بنائے جاتے ہیں۔۔۔ کیونکہ یہ ستارے شیاطین کے لئے شہاب ثاقب ہیں﴿ وَجَعَلَ فِيهَا سِرَاجًا ﴾ ’’اور اس میں (آفتاب کو) چراغ بنایا۔“ یعنی جس میں روشنی اور حرارت ہو اس سے مراد سورج ہے ﴿ وَقَمَرًا مُّنِيرًا ﴾ ” اور چمکتا ہوا چاند بھی بنایا۔“ جس میں روشنی ہو مگر حرارت نہ ہو (وہ چاند ہے) یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی عظمت اور اس کے بے شمار احسانات کی دلیل ہے، چونکہ اس میں نمایاں تخلیق، انتہائی منظم تدبیر اور عظیم جمال ہے اس لئے یہ اپنے خالق کے تمام اوصاف میں اس کی عظمت پر دلالت کرتی ہے اور چونکہ ان میں مخلوق کے لئے مصالح اور منافع ہیں اس لئے یہ اس کی بھلائیوں کی کثرت پردلالت کرتی ہے۔ الفرقان
62 ﴿ وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ خِلْفَةً ﴾ ” اور وہی تو ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے والا بنایا۔“ یعنی دن رات میں سے ایک جاتا ہے تو دوسرا اس کا پیچھا کرتا ہے یہ سلسلہ یونہی ہمیشہ چلتا رہے گا وہ کبھی اکٹھے ہوں گے نہ کبھی مرتفع ہوں گے۔ ﴿لِّمَنْ أَرَادَ أَن يَذَّكَّرَ أَوْ أَرَادَ شُكُورًا ﴾ ” اس شخص کے لئے جو غور کرنا چاہے یا شکر گزاری کا ارادہ کرے۔“ یہ شب و روز اس شخص کے لئے نصیحت ہیں جو ان سے نصیحت حاصل کرنا، عبرت پکڑنا، ان کے ذریعے سے بہت سے مطالب الٰہیہ پر استدلال کرنا اور اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہتا ہے۔ جو کوئی اللہ تعالیٰ کا ذکر اور اس کا شکر کرنا چاہتا ہے تو دن یا رات میں اس کے لئے ورد ہے۔ اگر کسی ایک وقت اس سے اس کا ورد فوت ہوجائے تو وہ دوسرے وقت میں اس کی تلافی کرسکتا ہے۔ نیز دل بھی شب و روز کی مختلف گھڑیوں میں، اپنی کیفیات کے اعتبار سے تبدیلیوں کا سامنا کرتے رہتے ہیں انہیں نشاط اور کسل مندی، ذکر اور غفلت، تنگی اور کشادگی اقبال اور اعراض کی کیفیات پیش آتی رہتی ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے شب و روز کو اس طرح تخلیق فرمایا ہے کہ وہ تسلسل سے باری باری وارد ہوتی رہتی ہیں تاکہ اگر ایک وقت فوت ہوجائے تو دوسرے وقت میں نشاط، ذکر اور شکر کی کیفیت حاصل ہوجائے نیز شب و روز کے تکرار میں عبادات کے اوقات کا تکرار ہے۔ جب بھی عبادات کا وقت دوبارہ آئے گا تو بندے میں ایک نیا ارادہ پیدا ہوگا جو گزشتہ وقت میں اس کی کسل مندی کا شکار ہوگیا تھا۔ اس طرح اس کے ذکر وشکر میں اضافہ ہوگا نیکیوں کا وظیفہ شجرۂ ایمان کے لئے آب پاشی کی حیثیت رکھتا ہے جس سے ایمان بڑھتا چلا جاتا ہے اگر یہ نہ ہو تو ایمان کا پودا مرجھا کرسوکھ جاتا ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ کی خوبصورت پیرائے میں کامل ترین حمد ہے۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان بے شمار بھلائیوں اور احسانات کا ذکر کیا ہے جن سے اس نے اپنے نیک بندوں کو نوازا اور انہیں نیک اعمال کی توفیق سے سرفراز کیا جو انہیں جنت میں بلند ترین مقامات پر فائز کریں گے، چنانچہ فرمایا : الفرقان
63 اللہ تعالیٰ کی عبودیت کی دو اقسام ہیں : (1) اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کی بنا پر اس کی عبودیت : یہ عبودیت مسلمان اور کافر، نیک اور بدتمام مخلوق میں مشترک ہے تمام مخلوق اللہ تعالیٰ کی غلام، اس کی ربوبیت کی محتاج اور اس کے دست تدبیر کے تحت ہے۔ ﴿ إِن كُلُّ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمَـٰنِ عَبْدًا ﴾ (مریم: 19؍93) ” آسمانوں اور زمین میں جو بھی ہیں وہ سب رحمان کے حضور بندوں کی حیثیت سے حاضر ہوں گے۔ “ (2)اللہ تعالیٰ کی الوہیت اس کی عبادت اور اس کی رحمت کے سبب سے اس کی عبودیت : یہ اللہ تعالیٰ کے انبیاء و مرسلین اور اس کے اولیاء کی عبودیت ہے اور یہاں عبودیت کی یہی قسم مراد ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کی اضافت اپنے اسم مبارک (رحمن) کی طرف کی جو اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے سبب سے اس مقام پر پہنچے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا کہ ان کی صفات سب سے کامل اور ان کی نعت سب سے افضل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کا وصف بیان کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا ﴾ ” وہ زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں۔“ یعنی اللہ تعالیٰ اور مخلوق کے سامنے نہایت پر سکون متواضع ہوتے ہیں۔ وقار، سکون اور اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کے سامنے تواضع اور انکسار ان کا وصف ہے۔ ﴿ وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ ﴾ ” اور جب جاہل لوگ ان سے گفتگو کرتے ہیں۔“ یعنی جہالت پر مبنی خطاب اور اس کی دلیل یہ ہے کہ فعل کی اضافت اور اس کی نسبت اس وصف کی طرف ہے ﴿ قَالُوا سَلَامًا ﴾ ” تو سلام کہتے ہیں۔“ یعنی وہ انہیں اس طریقے سے خطاب کرتے ہیں جس سے وہ گناہ اور جاہل کی جہالت کے مقابلہ سے محفوظ رہتے ہیں۔ یہ ان کے حلم، برائی کے بدلے احسان، جاہل سے عفو و درگزر اور ووفور عقل کی مدح ہے جس نے انہیں اس بلند مقام پر فائز کیا۔ الفرقان
64 ﴿ وَالَّذِينَ يَبِيتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَقِيَامًا ﴾ ” اور وہ جو اپنے رب کے حضور سجدہ کرکے اور قیام کرکے راتیں بسر کرتے ہیں۔“ یعنی راتوں کے وقت بہت کثرت سے نماز پڑھتے ہیں، اپنے رب کے سامنے اخلاص اور قیام کرکے راتیں بسر کرتے ہیں۔“ یعنی راتوں کے وقت بہت کثرت سے نماز پڑھتے ہیں، اپنے رب کے سامنے اخلاص اور تذلل کا اظہار کرتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿ تَتَجَافَىٰ جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أُخْفِيَ لَهُم مِّن قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴾ (السجدۃ: 32؍16، 17)’’ان کے پہلو بستروں سے الگ رہتے ہیں، وہ اپنے رب کو خوف اور امید کے ساتھ پکارتے ہیں اور جو کچھ رزق ہم نے انہیں عطا کیا ہے، اس میں سے اللہ کے راستے میں خرچ کرتے ہیں۔ کسی متنفس کو خبر نہیں کہ کیا کچھ آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان ان کے نیک اعمال کے بدلے میں ان کے لئے چھپا کر کرتے ہیں۔ کسی متنفس کو خبر نہیں کہ کیا کچھ آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان ان کے نیک اعمال کے بدلے میں ان کے لئے چھپا رکھا گیا ہے۔“ الفرقان
65 ﴿ وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَهَنَّمَ ﴾ ” اور وہ جو دعا مانگتے ہیں کہ اے ہمارے رب ! دوزخ کے عذاب کو ہم سے دور رکھ۔“ یعنی اسباب عصمت کے ذریعے سے اور ہمارے ان گناہوں کو بخش کر جو موجب عذاب ہیں، ہم سے جہنم کے عذاب کو دور فرمایا۔ ﴿إِنَّ عَذَابَهَا كَانَ غَرَامًا ﴾ ” بے شک اس کا عذاب بڑی تکلیف کی چیز ہے۔“ یعنی جہنم کا عذاب جہنمیوں سے چپک جائے گا۔ جیسے قرض خواہ مقروض سے چپک جاتا ہے۔ الفرقان
66 ﴿ إِنَّهَا سَاءَتْ مُسْتَقَرًّا وَمُقَامًا ﴾ ” بلاشہ دوزخ ٹھہرنے اور رہنے کی بری جگہ ہے۔“ یہ ان کی طرف سے اپنے رب کے سامنے عاجزی اور شدت احتیاج کا اظہار ہے۔ نیز یہ کہ ان میں اتنی طاقت نہیں کہ اس عذاب کو برداشت کرسکیں۔۔۔ نیز یہ کہ وہ اللہ تعالیٰ کے احسانات کو یاد رکھیں کیونکہ سختی کو دور کرنا بھی اس کی شدت اور برائی کے مطابق ہوتا ہے اور سختی جس قدر زیادہ شدت سے واقع ہوگی، اس کے ہٹائے جانے سے خوشی بھی اس قدر زیادہ ہوگی۔ الفرقان
67 ﴿ وَالَّذِينَ إِذَا أَنفَقُوا ﴾ ” اور وہ جب خرچ کرتے ہیں۔‘‘ یعنی نفقات واجبہ و مستحبہ ﴿ لَمْ يُسْرِفُوا ﴾ ” تو اسراف نہیں کرتے۔“ یعنی وہ حد اعتدال سے آگے بڑھ کر تبذیر اور حقوق واجبہ سے بے اعتنائی کی حدود میں داخل نہیں ہوتے ﴿ وَلَمْ يَقْتُرُوا ﴾ اور نہ نفقات میں تنگی کرکے بخل اور کنجوسی کا مظاہرہ کرتے ہیں ﴿ وَكَانَ ﴾ ” اور ہوتا ہے“ یعنی ان کا خرچ کرنا۔ ﴿ بَيْنَ ذٰلِكَ ﴾ اسراف اور بخل کے بین بین ﴿ قَوَامًا ﴾ ”اعتدال کی راہ پر۔“ وہ ان مقامات پر خرچ کرتے ہیں جہاں خرچ کرنا واجب ہے مثلاً زکوٰۃ، کفارہ اور نفقات واجبہ وغیرہ۔ نیز ان مقامات پر خرچ کرتے ہیں جہاں خرچ کرنا مناسب ہو اور اس سے نقصان نہ پہنچتا ہو۔ یہ ان کے عدل و انصاف اور اعتدال کی دلیل ہے۔ الفرقان
68 ﴿ وَالَّذِينَ لَا يَدْعُونَ مَعَ اللّٰـهِ إِلَـٰهًا آخَرَ ﴾ ” اور وہ جو اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو نہیں پکارتے۔“ بلکہ وہ دین کو اللہ تعالیٰ کے لئے خالص کرکے غیر اللہ سے منہ موڑ کر یکسوئی کے ساتھ اس کی طرف توجہ کرتے ہوئے صرف اسی کی عیادت کرتے ہیں ﴿ وَلَا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللّٰـهُ ﴾ ” اور جس جان کا مار ڈالنا اللہ نے حرام قرار دیا ہے اس کو قتل نہیں کرتے۔“ اس سے مراد مسلمان اور معاہد کافر ہے ﴿ إِلَّا بِالْحَقِّ ﴾ ” مگر جائز طریق پر۔ ” مثلاً قتل کے قصاص میں قتل کرنا، شادی شدہ زانی کو زنا کی پاداش میں قتل کرنا اور اس کافر کو قتل کرنا جس کو قتل کرنا جائز ہو۔ ﴿ وَلَا يَزْنُونَ ﴾ ” اور وہ زنا نہیں کرتے۔“ بلکہ وہ اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں ﴿ إِلَّا عَلَىٰ أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ ﴾ (المومنون : 23؍6) ” سوائے اپنی بیویوں کے اور ان عورتوں کے جو ان کی ملکیت میں ہوں۔“ ﴿ وَمَن يَفْعَلْ ذٰلِكَ ﴾ ” اور جو یہ کام کرے گا۔“ یعنی جو کوئی شرک اور زنا کا ارتکاب کرے گا اور ناحق قتل کرے گا تو عن قریب ﴿ يَلْقَ أَثَامًا ﴾ ” وہ گناہ کا بدلہ پائے گا۔ “ الفرقان
69 پھر اس کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ يُضَاعَفْ لَهُ الْعَذَابُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَيَخْلُدْ فِيهِ ﴾ ” قیامت کے دن اس کو دگنا عذاب ہوگا، اس میں ہمیشہ رہے گا۔“ یعنی وہ اس عذاب میں ہمیشہ رہے گا ﴿ مُهَانًا ﴾ ” رسوائی کے ساتھ۔“ اس میں کوئی شک نہیں کہ جو کوئی ان تمام افعال کا ارتکاب کرتا ہے وہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا اسی طرح شرک کا مرتکب بھی ہمیشہ جہنم میں رہے گا۔ اسی طرح ان تینوں گناہوں میں سے ہر گناہ کے ارتکاب پر سخت عذاب کی وعید ہے۔ کیونکہ یہ گناہ یا تو شرک ہے یا کبیرہ گناہ ہے۔ رہا قاتل اور زنا کار کا ہمیشہ کے لئے جہنم میں رہنا تو قرآن اور سنت کی نصوص دلالت کرتی ہیں کہ وہ جہنم میں ہمیشہ نہیں رہے گا۔ اس لئے کہ تمام اہل ایمان جہنم سے نکال لئے جائیں گے، کوئی مومن جہنم میں ہمیشہ نہیں رہے گا۔ اس لئے کہ تمام اہل ایمان جہنم سے نکال لئے جائیں گے، کوئی مومن جہنم میں ہمیشہ نہیں رہے گا خواہ اس نے کتنے ہی بڑے بڑے گناہ کیوں نہ کئے ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے صراحت کے ساتھ انہیں اس لئے ذکر کیا ہے کہ یہ تینوں سب سے بڑے گناہ ہیں۔ شرک فساد ادیان، قتل فسادا بدان اور زنا فساد و عزت و ناموس ہے۔ الفرقان
70 ﴿ إِلَّا مَن تَابَ ﴾ ” مگر جس نے توبہ کی۔“ یعنی جس نے ان گناہوں اور دیگر گناہوں سے توبہ کی، اس نے فی الفور ان گناہوں کو ترک کردیا، ان گناہوں پر نادم ہوا اور پختہ عزم کرلیا کہ اب وہ دوبارہ گناہ نہیں کرے گا ﴿ وَآمَنَ ﴾ ” اور ایمان لایا۔“ یعنی اللہ تعالیٰ پر صحیح طور پر ایمان لایا جو گناہوں کو ترک کرنے اور نیکیوں کے اکتساب کا تقاضا کرتا ہے ﴿ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا ﴾ ” اور اچھے کام کیے۔“ یعنی وہ ایسے نیک کام کرتا ہے جن کا شارع نے حکم دیا ہے اور ان سے اللہ تعالیٰ کی رضا مقصود ہے۔ ﴿ فَأُولَـٰئِكَ يُبَدِّلُ اللّٰـهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ ﴾ ” تو ایسے لوگوں کے گناہوں کو اللہ نیکیوں سے بدل دے گا۔“ یعنی ان کے وہ افعال اور اقوال جو برائی کی راہ میں سرانجام پانے کے لئے تیار تھے، نیکیوں میں بدل جاتے ہیں، چنانچہ ان کا شرک ایمان میں بدل جاتا ہے، ان کی نافرمانی اطاعت میں، اور وہ برائیاں جن کا انہوں نے ارتکاب کیا تھا، بدل جاتی ہیں۔ پھر ان کا وصف یہ بن جاتا ہے کہ جو بھی گناہ ان سے صادر ہوتا ہے تو وہ اس کے بعد توبہ کرتے اور انابت و اطاعت کا راستہ اختیار کرتے ہیں، جس سے وہ گناہ بھی نیکیوں میں تبدیل ہوجاتے ہیں، جیسا کہ آیت کریمہ سے ظاہر ہوتا ہے۔ اس ضمن میں ایک حدیث وارد ہوئی ہے جو اس شخص کے بارے میں ہے جس کے بعض گناہوں کا اللہ تعالیٰ محاسبہ کرے گا اور ان گناہوں کو اس کے سامنے شمار کرے گا پھر ہر برائی کو نیکی میں بدل دے گا۔ وہ شخص اللہ تعالیٰ سے عرض کرے گا ” اے میرے رب ! میری تو بہت سی برائیاں تھیں جو مجھے یہاں دکھائی نہیں دیتیں۔“[صحیح مسلم ،الایمان،باب ادنیٰ اھل الجنة منزلة فیھا،ح:19] واللہ اعلم۔ ﴿ وَكَانَ اللّٰـهُ غَفُورًا ﴾ ” اور اللہ تو بخشنے والا ہے۔“ جو توبہ کرتا ہے، اللہ تعالیٰ تمام بڑے برے گناہوں کو بخش دیتا ہے۔ ﴿ رَّحِيمًا ﴾ وہ اپنے بندوں پر بہت مہربان ہے، اس نے ان کو ان کے گناہ کرنے کے بعد توبہ کی طرف بلایا ہے، پھر انہیں توبہ کی توفیق عطا کی اور ان کی توبہ کو قبول فرمایا۔ الفرقان
71 ﴿ وَمَن تَابَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَإِنَّهُ يَتُوبُ إِلَى اللّٰـهِ مَتَابًا ﴾ ” اور جو توبہ کرتا ہے اور نیک عمل کرتا ہے تو بے شک وہ اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے۔“ یعنی بندے کو معلوم ہونا چاہیے کہ توبہ کمال کا بلند ترین مقام ہے کیونکہ توبہ اس راستے کی طرف رجوع ہے جو بندے کو اللہ تعالیٰ تک پہنچاتا ہے اور اس مقام پر پہنچے میں بندے کی عین سعادت اور فلاح ہے اس لئے اس چاہیے کہ وہ توبہ میں اخلاص سے کام لے اور توبہ کو اغراض فاسدہ کے تمام شائبوں سے پاک رکھے۔ اس سے مقصود دراصل بندوں کو تکمیل توبہ نیز بہترین اور جلیل القدر انداز سے اس کی اتباع کی ترغیب دینا ہے، تاکہ اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والے کی طرف توجہ فرمائے اور، توبہ کی تکمیل کے مطابق، پورا پورا اجر عطا کرے۔ الفرقان
72 ﴿ وَالَّذِينَ لَا يَشْهَدُونَ الزُّورَ ﴾ یعنی جو لوگ جھوٹ میں شریک نہیں ہوتے ﴿ الزُّورَ ﴾ سے مراد حرام قول و فعل ہے۔ پس وہ ان تمام مجالس سے اجتناب کرتے ہیں جو اقوال محرمہ یا افعال محرمہ پر مشتمل ہوتی ہیں، مثلاً اللہ تعالیٰ کی آیات میں باطل انداز سے گفتگو میں مشغول ہونا اور جھگڑنا، غیبت، چغلی، سب و شتم، قذف واستہزا، حرام گانا بجانا، شراب پینا، ریشم کے بچھونے اور تصاویر وغیرہ۔ جب وہ جھوٹ میں حاضر ہونے سے اجتناب کرتے ہیں تو جھوٹی بات کہنے اور جھوٹے فعل کے ارتکاب سے بدرجہ الٰہی بچتے ہوں گے۔ جھوٹی گواہی جھوٹی بات میں داخل ہے اور یہ بھی بدرجہ اولیٰ اس آیت کریمہ میں داخل ہے۔ ﴿ وَإِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ ﴾ ” اور جب وہ بے ہودہ چیزوں کے پاس سے گزرتے ہیں۔“ ﴿ مَرُّوا كِرَامًا ﴾ ” تو باوقار انداز سے گزر جاتے ہیں۔“ یعنی وہ لغویات میں مشغول ہونے سے اپنے آپ کو بچاتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ لغویات میں مغشول ہونا خواہ ان میں کوئی گناہ کی بات نہ ہو، سفاہت ہے جو انسانیت اور مروت کے منافی ہے بنا بریں وہ اپنے لئے اسے پسند نہیں کرتے۔ اور اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿ وَإِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ ﴾ میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان لغویات میں حاضر ہونا اور انہیں سننا، ان کا مقصد نہیں بلکہ اگر کسی لغوبات کا کہیں سامنا ہوجاتا ہے تو نہایت باوقار طریقے سے اپنے آپ کو وہاں سے بچالیتے ہیں۔ الفرقان
73 ﴿ وَالَّذِينَ إِذَا ذُكِّرُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ ﴾ ” اور وہ لوگ جب ان کو ان کے رب کی آیات کے ذریعے سے سمجھا جاتا ہے۔“ جن کو سننے اور جن سے راہنمائی حاصل کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ ﴿ لَمْ يَخِرُّوا عَلَيْهَا صُمًّا وَعُمْيَانًا ﴾ ” تو ان پر اندھے اور بہرے ہو کر نہیں گرتے۔“ یعنی ان سے روگردانی نہیں کرتے۔ وہ آیات الٰہی کو بہرے بن کر سنتے ہیں نہ اپنے قلب و نظر کی توجہ کو کسی دوسری طرف کرتے ہیں، جس طرح اس پر ایمان نہ لانے والوں اور اس کی تصدیق نہ کرنے والوں کا رویہ ہوتا ہے۔ ان کا آیات الٰہی کے سماع کے وقت یہ حال ہوتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ إِنَّمَا يُؤْمِنُ بِآيَاتِنَا الَّذِينَ إِذَا ذُكِّرُوا بِهَا خَرُّوا سُجَّدًا وَسَبَّحُوا بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُونَ ﴾ (السجدۃ: 32؍15) ” ہماری آیتوں پر وہی لوگ ایمان لاتے ہیں، جنہیں یہ آیات سنا کر جب نصیحت کی جاتی ہے تو وہ سجدہ ریز ہواتے ہیں اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح بیان کرتے ہیں اور تکبر نہیں کرتے۔“ وہ اپنے آپ کو آیات الٰہی کا محتاج سمجھتے ہوئے انہیں قبول کرتے ہیں اور ان کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہیں۔ الفرقان
74 ﴿ وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا ﴾ ” اور وہ جو کہتے ہیں کہ ہمیں عطا کر ہماری بیویوں کی طرف سے‘‘ یعنی ہمارے ہم عصروں، ہمارے ساتھیوں اور ہماری بیویوں کی طرف سے ﴿ وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ ﴾ ” اور ہماری اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک۔“ یعنی ان کے ذریعے سے ہماری آنکھیں ٹھنڈی ہوں۔ جب ہم ان اللہ کے نیک بندوں کے احوال و اوصاف کا استقراء کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ بلند ہمت اور عالی مرتبہ لوگ ہیں، اس لئے ان کی آنکھیں تب ہی ٹھنڈئی ہوں گی جب وہ انہیں اپنے رب کے حضور مطیع، اس کے متعلق جاننے والے اور نیک اعمال کرتے ہوئے دیکھیں گے۔ گویا کہ ان کی یہ دعا جو ان کی بیویوں اور ان کی اپنی اولاد کی اصلاح کے لئے ہے، در حقیقت وہ ان کے اپنے ہی لیے ہے۔ کیونکہ اس دعا کا فائدہ خود انہی کی طرف لوٹتا ہے، اس لئے انہوں نے اس کو اپنے لیے ہبہ قرار دیتے ہوئے یوں کہا : ﴿ هَبْ لَنَا ﴾ ” ہمیں عطا فرما۔“ بلکہ ان کی دعا کا فائدہ عام مسلمانوں کی طرف لوٹتا ہے کیونکہ مذکورہ لوگوں کی اصلاح سے بہت سے لوگوں کی اصلاح ہوگی جو ان سے متعلق ہیں اور جو ان سے مستفید ہوتے ہیں۔ ﴿ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا ﴾ ’’اور ہمیں پرہیز گاروں کا امام بنا۔“ یعنی، اے ہمارے رب ! ہمیں بلنددرجہ یعنی صدیقین اور اللہ کے صالح بندوں کے درجے پہ پہنچا دے اور وہ ہے امامت دینی کا درجہ، نیز یہ کہ وہ اپنے اقوال و افعال میں اہل تقویٰ کے لئے نمونہ بن جائیں لوگ ان کے افعال کی پیروی کریں اور ان کے اقوال پر مطمئن ہوں اور اہل خیر ان کے پیچھے چلیں اور ان سے راہنمائی حاصل کریں۔ یہ حقیقت اچھی طرح معلوم ہے کہ کسی چیز تک پہنچے کی دعا ایسی چیز کی دعا ہے جس کے بغیر اس کی تکمیل نہیں ہوتی۔ یہ درجہ۔۔۔ امامت دین کا درجہ۔۔۔ صبر ویقین کے بغیر اس درجہ کی تکمیل نہیں ہوتی۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوا وَكَانُوا بِآيَاتِنَا يُوقِنُونَ ﴾ (السجدۃ: 32؍24) ” جب انہوں نے صبر کیا اور ہماری آیات پر یقین رکھتے رہے، تو ہم نے ان کے اندر راہنما پیدا کردئیے جو ہمارے حکم سے راہنمائی کرتے تھے۔ “ الفرقان
75 الفرقان
76 یہ دعا اعمال صالحہ، اطاعت الٰہی پر استقامت اور ثابت قدمی، معاصی سے باز رہنے، المناک تقدیر پر صبر کرنے، علم کامل۔۔۔ جو صاحب علم کو درجہ یقین پر فائز کرتا ہے۔۔۔ خیر کثیر اور عطائے جزیل کو مستلزم ہے۔ نیز یہ دعا اس امر کو بھی مستلزم ہے کہ وہ انبیاء و مرسلین کے بعد مخلوق میں بلند ترین درجہ پر فائز ہوں۔ چونکہ وہ بلند ہمت اور بلند مقصد لوگ ہیں اس لئے ان کی جزا بھی ان کے عمل کی جنس سے ہوگی، اللہ تعالیٰ انہیں جزا کے طور پر بلند منازل عطا کرے گا، چنانچہ فرمایا : ﴿ أُولَـٰئِكَ يُجْزَوْنَ الْغُرْفَةَ بِمَا صَبَرُوا ﴾ ” ان لوگوں کو ان کے صبر کے بدلے اونچے اونچے محل دیے جائیں گے۔“ یعنی انہیں بلند منازل اور خوبصورت مساکن عطا کئے جائیں گے اور ان کے لئے ہر وہ چیز جمع ہوگی جس کی دل خواہش کرے گا اور جس سے آنکھیں لذت حاصل کریں گی۔ یہ سب کچھ انہیں ان کے صبر کی بنا پر عطا ہوگا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿وَالْمَلَائِكَةُ يَدْخُلُونَ عَلَيْهِم مِّن كُلِّ بَابٍ سَلَامٌ عَلَيْكُم بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ ﴾ (الرعد : 13؍23، 24) ”فرشتے ہر دروازے سے ان کے پاس آئیں گے اور کہیں گے کہ تم پر سلامتی ہو۔ یہ سب کچھ اس بنا پر عطا ہوا کہ تم نے صبر کیا تھا، کیا ہی اچھا ہے آخرت کا گھر۔“ اس لئے یہاں فرمایا : ﴿ وَيُلَقَّوْنَ فِيهَا تَحِيَّةً وَسَلَامًا ﴾ ” اور وہ ان سے دعا وسلام سے ملاقات کریں گے۔“ یعنی ان کو ان کے رب کی طرف سے سلام بھیجا جائے گا، عالی قدر فرشتے ان کو سلام کہیں گے اور وہ آپس میں بھی ایک دوسرے کو سلام کہیں گے اور وہ ہر قسم کے تکدر اور ناخوشگواری سے محفوظ ہوں گے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں وقار، سکینت، اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کے لئے تواضع اور انکسار، حسن ادب، بردباری، وسعت اخلاق، جہلاء سے درگزر اور اعراض، ان کے برے سلوک کے مقابلے میں حسن سلوک، تہجد، اس میں اخلاص، جہنم سے خوف، اس (جہنم) سے اپنی نجات کے لئے اپنے رب کے سامنے گڑگڑانے، اللہ تعالیٰ کے راستے میں واجب اور مستحب نفقات میں سے خرچ کرنے اور اس میں اعتدال کی راہ اختیار کرنے جیسے اوصاف سے ان کو موصوف کیا ہے۔ جب خرچ کرنے میں، جس کے بارے میں عادۃً افراط و تفریط سے کام لیا جاتا ہے، وہ اعتدال کو اختیار کرتے ہیں تو دیگر معاملات میں ان کی میانہ روی تو بدرجہ اولیٰ ہوگی۔ وہ کبائر سے محفوط ہیں، اللہ تعالیٰ کی عبادت میں اخلاص، جان اور ناموس کے معاملات میں عفت اور کسی گناہ کے صادر ہونے پر توجہ جیسی صفات سے متصف ہیں نیز وہ ایسی تقریبات اور مجالس میں حاضر نہیں ہوتے جن میں منکرات اور قولی و فعلی فسق و فجور ہو اور نہ وہ خود اس کا ارتکاب کرتے ہیں۔ وہ لغویات اور ایسے گھٹیا افعال سے اپنے آپ کو بچائے رکھتے ہیں، جن میں کوئی فائدہ نہیں اور یہ چیز ان کی مروت، انسانیت اور ان کے کمال کو مستلزم ہے نیز اس امر کو مستلزم ہے کہ وہ قولی و فعلی طور پر خسیس افعال سے بالا و بلند تر ہیں۔ وہ آیات الٰہی کا قبولیت کے ساتھ استقبال کرتے ہیں، ان کے معانی کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، ان پر عمل کرتے ہیں، ان کے احکام کے نفاذ کے لئے جدوجہد کرتے ہیں۔ وہ اپنی دعا میں اللہ تعالیٰ کو کامل ترین طریقے سے پکارتے ہیں جس سے وہ خود فائدہ اٹھاتے ہیں اور ان کے متعلقین فائدہ اٹھاتے ہیں، اور ان کی اولاد اور ان کی بیویوں کی اصلاح سے تمام مسلمان فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ان تمام امور کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کو تعلیم دیتے ہیں، انہیں نصیحت کرتے ہیں اور ان کے ساتھ خیر خواہی کا رویہ رکھتے ہیں کیونکہ جو کوئی کسی چیز کی خواہش کرتا ہے اور اس بارے میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہے وہ لازمی طور پر اس کے لئے اسباب بھی اختیار کرتا ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ سے بلند ترین درجات پر پہنچنے کی دعا کرتے ہیں جہاں تک پہنچنا ان کے لئے ممکن ہے اور وہ امامت اور صدیقیت کا درجہ ہے۔۔۔ اللہ کی قسم ! یہ کتنی بلند مرتبہ صفات ہیں، یہ کتنی بلند ہمتی ہے، یہ کتنے جلیل القدر مقاصد ہیں، یہ نفوس کتنے پاک اور یہ قلوب کتنے طاہر ہیں، یہ چنے ہوئے لوگ کتنے پاکیزہ اور یہ سادات کتنے متقی ہیں ! یہ ان پر اللہ تعالیٰ کا فضل، اس کی نعمت اور اس کی رحمت ہے جس نے ان کو ڈھانپ لیا ہے اور یہ اس کا لطف و کرم ہے جس نے ان کو بلند مقامات تک پہنچایا۔ اللہ کی قسم ! یہ اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں پر عنایت ہے کہ اس نے ان کے سامنے اپنے ان بلند ہمت بندوں کے اوصاف بیان فرمائے، ان کی نشانیاں بیان کیں، ان کے سامنے ان کی ہمت اور عزائم آشکارا کئے اور ان کا اجرواضح کیا تاکہ ان میں بھی ان اوصاف سے متصف ہونے کا اشتیاق پیدا ہو اور یہ بھی اس راستے میں جدوجہد کریں اور وہ اس ہستی سے سوال کریں، جس نے اپنے ان بندوں پر احسان کیا، جس نے ان کو اکرام و تکریم سے سرفراز فرمایا اور جس کا فضل و کرم ہر زمان و مکان میں ہر وقت اور ہرآن عام ہے۔۔۔ کہ وہ انہیں بھی ہدایت سے نوازے جیسے ان کو ہدایت سے نوازا یہ اور اپنی تربیت خاص کے ذریعے سے ان کی بھی سرپرستی فرمائے جیسے ان کی سرپرستی فرمائی ہے۔ اے اللہ ! ہر قسم کی ستائش کا صرف تو ہی مستحق ہے، میں صرف تیرے ہی پاس شکوہ کرتا ہوں، تجھ ہی سے اعانت طلب کرتا ہوں اور تجھ ہی سے مدد مانگتا ہوں۔ مجھ میں گناہ سے بچنے کی طاقت ہے اور نہ نیکی کرنے کی مگر صرف تیری توفیق کے ساتھ۔ ہم خود اپنے نفع و نقصان کے مالک نہیں ہیں اور اگر تو ہمیں نیکی کرنے کی توفیق عطا کرکے نیکی کو ہمارے لئے آسان نہ کرے تو ہم ذرہ برابر بھی نیکی کرنے کی قدرت نہیں رکھتے، ہم ہر لحاظ سے نہایت کمزور اور عاجز بندے ہیں۔ ہم گواہی دیتے ہیں کہ اگر تو ایک لمحے کے لئے بھی ہمیں ہمارے نفس کے حوالے کردے تو گویا تو نے ہمیں کمزوری، عجز اور گناہ کے حوالے کردیا ہے۔ اے ہمارے رب ! ہم صرف تیری رحمت پر بھروسہ کرتے ہیں جس کی بنا پر تو نے ہمیں پیدا کیا، ہمیں رزق عطا کیا، ہمیں ظاہری اور باطنی نعمتوں سے سرفراز کیا اور تکلیفوں اور سختیوں کو ہم سے دور کیا، ہم پر ایسی رحمت کا سایہ کرجو ہمیں تیری رحمت کے سوا ہر رحمت سے بے نیاز کردے۔ پس جو کوئی تجھ سے سوال کرتا ہے اور تجھ سے امیدیں باندھتا ہے وہ کبھی خائب و خاسر نہیں ہوتا۔ الفرقان
77 چونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ان بندوں کی اپنی رحمت کی طرف اضافت کی ہے اور ان کے فضل و شرف کی وجہ سے ان کو عبودیت سے مختص کیا ہے اس لئے کسی کو یہ وہم لاحق ہوسکتا ہے کہ ان مذکورہ لوگوں کے سوا وہ بذات خود اور دوسرے لوگ عبودیت میں داخل کیوں نہیں ہوسکتے؟ پس اللہ تبارک و تعالیٰ نے آگاہ فرمایا ہے کہ اس کو ان مذکورہ لوگوں کے سوا کسی کی پروا نہیں۔ اگر تم نے دعائے عبادت اور دعائے مسئلہ میں اسے نہ پکارا ہوتا تو وہ تمہاری کبھی پروا کرتا نہ تم سے محبت کرتا، چنانچہ فرمایا : ﴿ قُلْ مَا يَعْبَأُ بِكُمْ رَبِّي لَوْلَا دُعَاؤُكُمْ فَقَدْ كَذَّبْتُمْ فَسَوْفَ يَكُونُ لِزَامًا ﴾ ” کہہ دیجئے ! اگر تم اللہ کو نہ پکارتے تو میرا رب بھی تمہاری کچھ پروا نہ کرتا۔ پس تم نے تکذیب کی ہے سو اس کی سزا لازم ہوگی۔“ یعنی عذاب تم سے اس طرح چپک جائے گا جس طرح قرض خواہ مقروض سے چپک جاتا ہے اور عنقریب اللہ تعالیٰ تمہارے درمیان اور اپنے مومن بندوں کے درمیان فیصلہ کر دے گا۔ الفرقان
0 الشعراء
1 طسم الشعراء
2 اللہ تعالیٰ ایسا اشارہ فرماتا ہے جو کھول کھول کر بیان کرنے والی اس کی کتاب کی تعظیم پر دلالت کرتا ہے کہ یہ کتاب عظیم تمام مطالب الٰہیہ اور مقاصد شرعیہ پر دلالت کرتی ہے۔ غوروفکر کرنے والے کے لئے، اس کی خبر اور حکم میں کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہتا کیونکہ یہ نہایت واضح کتاب ہے، بلند ترین معانی پر دلالت کرتی ہے، اس کے احکام مربوط اور اس کی تعلیق مناسب ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کتاب عظیم کے ذریعے سے لوگوں کو ان کی بد اعمالیوں کے انجام سے ڈراتے تھے اور اس کے ذریعے سے راہ راست کی طرف راہنمائی کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کے متقی بندے اس سے راہنمائی حاصل کرتے ہیں اور صرف وہی لوگ اس سے روگردانی کرتے ہیں جن کے لئے بدبختی لکھ دی گئی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مشرکین کے ایمان نہ لانے پر بہت غمگین ہوتے تھے کیونکہ وہ ان کی بھلائی کی خواہش رکھتے تھے اور ان کے خیر خواہ تھے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرمایا : الشعراء
3 ﴿ لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ ﴾ ” شاید کہ آپ اپنے آپ کو ہلاک کرلیں گے۔“ یعنی اپنے آپ کو ہلاکت اور مشقت میں ڈال رہے ہیں ﴿ أَلَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ ﴾ ” اس وجہ سے کہ یہ لوگ ایمان کیوں نہیں لاتے؟“ یعنی ایسانہ کیجئے اور ان پر حسرت سے اپنی جان کو ختم نہ کیجئے، کیونکہ ہدایت تو اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ آپ کی ذمہ داری تبلیغ تھی، سو آپ نے یہ ذمہ داری ادا کردی اور اس قرآن مبین کے بعد کوئی ایسا نشان باقی نہیں کہ جسے ہم نازل کریں تاکہ یہ اس پر ایمان لے آئیں۔ الشعراء
4 جو کوئی ہدایت کا طلب گار ہے اس کے لئے یہ قرآن کافی و شافی ہے، اس لئے فرمایا : ﴿ إِن نَّشَأْ نُنَزِّلْ عَلَيْهِم مِّنَ السَّمَاءِ آيَةً ﴾ ” اگر ہم چاہیں تو ان پر آسمان سے نشانی اتار دیں۔“ یعنی آیات معجزہ میں سے ﴿ فَظَلَّتْ أَعْنَاقُهُمْ ﴾ ” پھر ہوجائیں ان کی گردنیں۔“ یعنی جھٹلانے والوں کی گردنیں ﴿ لَهَا خَاضِعِينَ ﴾ ” اس کے آگے جھکنے والی۔“ مگر اس کی کوئی ضرورت ہے نہ اس میں کوئی مصلحت، کیونکہ اس وقت ایمان لانا فائدہ مند نہیں، ایمان لانا صرف اسی وقت فائدہ دے گا جب وہ ایمان بالغیب ہو۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿ هَلْ يَنظُرُونَ إِلَّا أَن تَأْتِيَهُمُ الْمَلَائِكَةُ أَوْ يَأْتِيَ رَبُّكَ أَوْ يَأْتِيَ بَعْضُ آيَاتِ رَبِّكَ ۗ يَوْمَ يَأْتِي بَعْضُ آيَاتِ رَبِّكَ لَا يَنفَعُ نَفْسًا إِيمَانُهَا ﴾ (الانعام: 6؍158)” کیا یہ لوگ صرف اس بات کے منتظر ہیں کہ ان کے پاس فرشتے آئیں یا خود آپ کا رب آئے یا آپ کے رب کی کچھ نشانیاں آجائیں، جس روز آپ کے رب کی کچھ نشانیاں آجائیں گی تو اس روز کسی جان کو اس کا ایمان لانا کوئی فائدہ نہ دے گا۔‘‘ الشعراء
5 ﴿ وَمَا يَأْتِيهِم مِّن ذِكْرٍ مِّنَ الرَّحْمَـٰنِ مُحْدَثٍ ﴾ ” اور ان کے پاس رحمٰن کی طرف سے کوئی بھی نئی نصیحت نہیں آتی۔“ جو انہیں حکم دے، انہیں روکے اور ان کو یاد دہانی کرائے کہ کون سے امور انہیں فائدہ دیتے ہیں اور کون سے امور انہیں نقصان دیتے ہیں ﴿ إِلَّا كَانُوا عَنْهُ مُعْرِضِينَ ﴾ ” مگر یہ اس سے منہ پھیر لیتے ہیں۔“ اپنے قلب و بدن کے ساتھ۔ یہ ان کا اس نئی نصیحت اور یاددہانی سے اعراض ہے جس کاموثر ہونا عادت کے مطابق زیادہ بلیغ ہوتا ہے، تو پھر کسی اور نصیحت کے بارے میں ان کا رویہ کیا ہوگا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے اندر کوئی بھلائی نہیں اور وعظ و نصیحت انہیں کوئی فائدہ نہیں دیتے۔ بنا بریں فرمایا : الشعراء
6 ﴿ فَقَدْ كَذَّبُوا ﴾ ” پس انہوں نے تکذیب کی۔ ” یعنی حق کی اور یہ تکذیب ان کی فطرت بن گئی جس میں تغیر و تبدل نہیں ہے۔ ﴿فَسَيَأْتِيهِمْ أَنبَاءُ مَا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ ﴾ ” اب عنقریب ان کے پاس وہ خبریں آجائیں گی جن کا وہ استہزا کیا کرتے تھے۔‘‘ یعنی عنقریب ان پر عذاب واقع ہوگا اور ان پر وہ عذاب نازل ہوگا جسے وہ جھٹلایا کرتے تھے کیونکہ وہ عذاب کے مستحق بن چکے ہیں۔ الشعراء
7 اللہ تعالیٰ نے غوروفکر کی، جو انسان کو فائدہ دیتا ہے، ترغیب دیتے ہوئے فرمایا : ﴿ أَوَلَمْ يَرَوْا إِلَى الْأَرْضِ كَمْ أَنبَتْنَا فِيهَا مِن كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ﴾ ” کیا انہوں نے زمین کی طرف نہیں دیکھا، کہ ہم نے اس میں ہر قسم کی کتنی نفیس چیزیں اگائی ہیں۔“ یعنی ہم نے نباتات کی صفات کی تمام اصناف اگائیں جو بہت خوبصورت نظر آتی ہیں جو بہت فوائد کی حامل ہیں۔ الشعراء
8 ﴿ إِنَّ فِي ذٰلِكَ لَآيَةً ﴾ ” کچھ شک نہیں کہ اس میں نشانی ہے۔“ یعنی اس میں اس امر کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ مُردوں کو اسی طرح دوبارہ زندہ کرے گا جس طرح زمین کو اس کے مرجانے کے بعد دوبارہ زندہ کرتا ہے۔ ﴿ وَمَا كَانَ أَكْثَرُهُم مُّؤْمِنِينَ ﴾ ” مگر یہ ایمان لانے والے نہیں ہیں۔“ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿ وَمَا أَكْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِينَ ﴾ (یوسف : 12؍103) ” خواہ آپ کتنا ہی کیوں نہ چاہیں اکثر لوگ ایمان نہیں لائیں گے۔‘‘ الشعراء
9 ﴿ وَإِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الْعَزِيزُ ﴾ ” اور آپ کا رب غالب ہے۔“ یعنی جو تمام مخلوق پر غالب ہے اور تمام عالم علوی و سفلی اس کے سامنے سرنگوں ہیں ﴿ الرَّحِيمُ ﴾ اس کی رحمت ہر چیز پر سایہ کناں ہے، اس کی نوازشیں ہر زندہ چیز تک پہنچتی ہیں۔ وہ غالب ہے، بد بختوں کو مختلف عقوبتوں کے ذریعے سے ہلاک کرتا ہے اور سعادت مندوں پر بہت مہربان انہیں ہر شر اور ہر بلا سے نجات دیتا ہے۔ الشعراء
10 اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن مجید میں موسیٰ علیہ السلام کی مدح وثنا اور ان کے واقعات کا بار بار جتنا اعادہ کیا ہے اتنا کسی اور واقعے کو بیان نہیں فرمایا کیونکہ موسیٰ علیہ السلام کا قصہ عظیم حکمتوں اور عبرتوں پر مشتمل ہے اور اس قصے میں اہل ایمان اور اہل کفر کے ساتھ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے طرز عمل کی تفصیل ہے نیز موسیٰ علیہ السلام صاحب شریعت کبریٰ اور صاحب تورات تھے جو قرآن عظیم کے بعد سب سے افضل کتاب ہے۔ فرمایا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے فضیلت والے احوال کو یاد کیجئے جب اللہ تعالیٰ نے ان کو ندادی، ان سے کلام فرمایا، ان کو نبوت سے سرفراز کیا، ان کو رسول بنا کر بھیجا اور انہیں حکم دیا ﴿ أَنِ ائْتِ الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ ﴾ ” ظالم لوگوں کے پاس جاؤ۔‘‘ جنہوں نے زمین میں تکبر کا رویہ اختیار کر رکھا ہے اور اللہ کی مخلوق پر جبرکے ساتھ مسلط ہیں اور ان کے سردار نے ربوبیت کا دعویٰ کر رکھا ہے۔ الشعراء
11 ﴿ قَوْمَ فِرْعَوْنَ أَلَا يَتَّقُونَ ﴾ ” قوم فرعون کے پاس کیا وہ ڈرتے نہیں۔“ یعنی انہیں نہایت نرم لہجے اور لطیف عبارت میں کہہ دیجئے کہ تم اللہ تعالیٰ سے کیوں نہیں ڈرتے جس نے تمہیں پیدا کیا، تمہیں رزق سے نوازا اور تم اس کے بدلے میں کفر کا رویہ اختیار کئے ہوئے ہو؟ موسیٰ علیہ السلام نے اپنے رب کے سامنے معذرت پیش کرکے، اپنا عذر بیان کرتے ہوئے اس بھاری ذمہ داری کو اٹھانے میں معاون کا سوال کیا : الشعراء
12 ﴿ قَالَ رَبِّ إِنِّي أَخَافُ أَن وَيَضِيقُ صَدْرِي وَلَا يَنطَلِقُ لِسَانِي ﴾ ” انہوں نے کہا، میرے رب ! میں ڈرتا ہوں کہ یہ مجھے جھوٹا سمجھیں اور میرا دل تنگ ہوتا ہے اور میری زبان رکتی ہے۔“ عرض کی﴿ قَالَ رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي وَيَسِّرْ لِي أَمْرِي وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّن لِّسَانِي يَفْقَهُوا قَوْلِي وَاجْعَل لِّي وَزِيرًا مِّنْ أَهْلِي هَارُونَ أَخِي﴾ (طٰہٰ: 20؍25۔ 30) ” اے میرے رب ! میرا سینہ کھول دے میرے کام کو میرے لئے آسان کردے، میری زبان کی گرہ کو کھول دے تاکہ یہ لوگ میری بات کو سمجھ سکیں۔ میرے خاندان میں سے میرے لئے ایک وزیر مقرر کردے، ہارون کو جو میرا بھائی ہے۔ “ الشعراء
13 ﴿ فَأَرْسِلْ إِلَىٰ هَارُونَ ﴾ ” پس تو ہارون کی طرف پیغام بھیج۔“ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کی دعا قبول فرما لی اور آپ کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کو اسی طرح نبوت سے سرفراز فرمایا جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کو سرفراز فرمایا تھا : ﴿ فَأَرْسِلْهُ مَعِيَ رِدْءًا ﴾ (القصص : 28؍34) ” اس کو میرے ساتھ معاون بنا کر بھیج۔“ یعنی میرے کام میں ہارون کو میرا معاون بنا دے تاکہ وہ لوگ میری تصدیق کریں۔ الشعراء
14 ﴿ وَلَهُمْ عَلَيَّ ذَنبٌ ﴾ ” اور ان لوگوں کا میرے ذمہ ایک گناہ ہے۔“ یعنی قبطی کے قتل کے ضمن میں ﴿فَأَخَافُ أَن يَقْتُلُونِ﴾” تو میں ڈرتا ہوں کہ وہ مجھے قتل کردیں گے۔“ ﴿ قَالَ كَلَّا ﴾ ” اللہ نے فرمایا، ہرگز نہیں“ یعنی وہ تجھ کو قتل کرنے کی قدرت نہیں رکھتے۔ تم دونوں کو ہم قوت عطا کردیں گے۔ ﴿ فَلَا يَصِلُونَ إِلَيْكُمَا بِآيَاتِنَا أَنتُمَا وَمَنِ اتَّبَعَكُمَا الْغَالِبُونَ ﴾ (القصص : 28؍35) ” پس وہ ہماری نشانیوں کی وجہ سے تم دونوں تک پہنچ نہیں سکیں گے تم دونوں اور تمہارے پیروکار ہی غالب رہیں گے۔“ اسی لئے فرعون، حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ انتہائی دشمنی، آپ کی رائے کو سفاہیت قرار دینے، آپ کو اور آپ کی قوم کو گمراہی جاننے کے باوجود آپ کے قتل پر قادر نہ ہوسکا۔ الشعراء
15 ﴿ فَاذْهَبَا بِآيَاتِنَا ﴾ ” پس تم دونوں ہماری نشانیوں کے ساتھ جاؤ“ جو تمہاری صداقت اور جو کچھ تم لے کر آئے ہو اس کی صحت پر دلالت کرتی ہیں۔ ﴿ إِنَّا مَعَكُم مُّسْتَمِعُونَ ﴾ ” ہم تمہارے ساتھ سننے والے ہیں۔“ میں تم دونوں کی حفاظت کروں گا اور تم پر نظر رکھوں گا۔ الشعراء
16 ﴿ فَأْتِيَا فِرْعَوْنَ فَقُولَا إِنَّا رَسُولُ رَبِّ الْعَالَمِينَ ﴾ ” تم دونوں فرعون کے پاس جاؤ اور کہو کہ ہم تمام جہانوں کے رب کے بھیجے ہوئے ہیں۔“ یعنی ہمیں تیری طرف بھیجا گیا ہے تاکہ تو اللہ تعالیٰ پر اور ہم پر ایمان لائے، اس کی توحید کو مان لے اور اس کی عبادت کے لئے اس کی اطاعت کرے۔ الشعراء
17 ﴿ أَنْ أَرْسِلْ مَعَنَا بَنِي إِسْرَائِيلَ ﴾ “ یہ کہ تو بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ بھیج دے۔“ ان کو تعذیب اور ایذا دینا چھوڑ دے اور ان پر سے اپنی غلامی کا جوا اٹھالے تاکہ وہ اپنے رب کی عبادت کرسکیں اور اپنے امور دین کو قائم کرسکیں۔ جب حضرت موسیٰ اور ہارون علیہما السلام فرعون کے پاس آئے اور وہ سب کچھ اس سے کہہ دیا جس کا اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم دیا تھا۔ مگر فرعون ایمان نہ لایا اور نہ اس میں کسی قسم کی نرمی ہی پیدا ہوئی بلکہ اس نے موسیٰ علیہ السلام کی مخالفت شروع کردی۔ کہنے لگا: الشعراء
18 ﴿ أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينَا وَلِيدًا ﴾ ” کیا ہم نے تیری، کہ تو ابھی بچہ ہی تھا، پرورش نہیں کی۔” یعنی کیا ہم نے تجھے اپنی نعمتوں سے نہیں نوازا؟ کیا ہم نے تیری اس وقت سے پرورش نہیں کی جب تو پنگوڑے میں تھا اور تو اسی طرح ہمارے پاس پرورش پاتا رہا؟ ﴿ وَلَبِثْتَ فِينَا مِنْ عُمُرِكَ سِنِينَ وَفَعَلْتَ فَعْلَتَكَ الَّتِي فَعَلْتَ ﴾ ” اور تو نے ہمارے پاس اپنی عمر کے کتنے ہی سال گزارے ہیں اور تو نے وہ کام کیا تھا جو کیا۔“ اس سے مراد موسیٰ علیہ السلام کے ہاتھوں قبطی کا قتل ہے، جب اس قبطی کے خلاف جو کہ دشمن گروہ سے تھا اس شخص نے مدد چاہی جو کہ موسیٰ علیہ السلام کی قوم سے تھا۔ ﴿ فَوَكَزَهُ مُوسَىٰ فَقَضَىٰ عَلَيْهِ ﴾ (القصص : 27؍15) ” تو موسیٰ علیہ السلام نے اس کو ایک مکار سید کیا اور اس کا کام تمام کردیا۔“ الشعراء
19 ﴿ وَأَنتَ مِنَ الْكَافِرِينَ ﴾ ” اور تو بھی کافروں میں سے تھا۔“ یعنی اس وقت تیرا طریقہ اور راستہ وہی تھا جو کافرانہ طریقہ اور راستہ ہمارا تھا۔ پس فرعون نے اپنے بارے میں غیر شعوری طور پر کفر کا اقرار کیا۔ الشعراء
20 موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا : ﴿ فَعَلْتُهَا إِذًا وَأَنَا مِنَ الضَّالِّينَ ﴾ ” وہ حرکت مجھ سے ناگہاں سرزد ہوئی تھی اور میں خطاکاروں میں سے تھا۔“ یعنی میں نے وہ قتل کفر کی بنا پر نہیں کیا وہ خطا اور نادانی کے باعث ہوا۔ پس میں نے اپنے رب سے مغفرت طلب کی تو اس نے مجھے معاف کردیا۔ الشعراء
21 ﴿ فَفَرَرْتُ مِنكُمْ لَمَّا خِفْتُكُمْ ﴾ ” پس جب مجھے تم سے ڈر لگا تو میں تم سے بھاگ گیا۔“ یہ وہ وقت تھا جب تم نے میرے قتل کا مشورہ کرلیا تھا پس میں مدین کی طرف بھاگ کر چلا گیا اور کئی سال وہاں رہا، پھر تمہارے پاس چلا آیا۔ ﴿ فَوَهَبَ لِي رَبِّي حُكْمًا وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُرْسَلِينَ ﴾ ” پھر اللہ نے مجھے نبوت و علم بخشا اور مجھے پیغمبروں میں سے کیا۔“ حاصل کلام یہ ہے کہ موسیٰ علیہ السلام پر فرعون کا اعتراض ایک جاہل اور جان بوجھ کر جاہل بننے والے کا اعتراض ہے کیونکہ اس نے آنجناب کے رسول ہونے سے اس امر کو مانع قرار دیا کہ ان سے قتل کا ارتکاب ہوگیا تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون پر واضح کردیا کہ ان سے یہ قتل انجانے اور خطا سے ہوا ہے جس میں انسان کے قتل کے ارادے کو دخل نہیں ہوتا۔ نیز اللہ تعالیٰ کا فضل کسی کے لئے ممنوع نہیں ہے تو پھر تم حکمت اور رسالت کو مجھ سے کیونکر روک سکتے ہو جو اللہ تعالیٰ نے مجھے عطا کی ہے۔ اے فرعون ! باقی رہا تیرا یہ طعنہ : ﴿ أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينَا وَلِيدًا ﴾ ” کیاہم نے تیری، جب کہ تو بچہ تھا، پرورش نہیں کی۔“ اگر حقیقت پسندی سے دیکھا جائے تو یہ بات واضح ہوجائے گی کہ اس میں تیرا کوئی احسان نہیں۔ الشعراء
22 اس لئے موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا : ﴿ وَتِلْكَ نِعْمَةٌ تَمُنُّهَا عَلَيَّ أَنْ عَبَّدتَّ بَنِي إِسْرَائِيلَ ﴾ یعنی تو مجھ پر یہ احسان جتلاتا ہے حالانکہ تو نے بنی اسرائیل کو غلام بنا رکھا ہے اور تو نے مجھے اپنی غلامی سے بچا دیا ہے اور اسے تو مجھ پر اپنی نعمت اور اپنا احسان قرار دیتا ہے۔ غور کرنے سے یہ حقیقت واضح ہوجائے گی کہ تو نے اس فضیلت والے گروہ پر ظلم کیا ہے تو نے اپنے ظلم سے ان کو مطیع کرکے عذاب میں مبتلا کر رکھا ہے۔ اس کے باوجود کہ تم نے میرے قوم پر اذیت اور تعذیب کے پہاڑ توڑ رکھے ہیں مگر اللہ تعالیٰ نے مجھے تیری ایذا رسانی سے محفوظ رکھا۔ اس میں کون سا احسان ہے جو تو مجھ پر جتلاتا ہے؟ الشعراء
23 ﴿ قَالَ فِرْعَوْنُ وَمَا رَبُّ الْعَالَمِينَ ﴾ ” فرعون نے کہا، تمام جہانوں کا مالک کیا ہے؟“ یہ فرعون کی طرف سے ظلم اور تکبر کی بنا پر اپنے رب کا انکار ہے۔ حالانکہ اسے موسیٰ علیہ السلام کی دعوت کی صحت کا یقین تھا۔ الشعراء
24 موسیٰ علیہ السلام نے جواب میں فرمایا : ﴿ رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا ﴾ ” آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان میں ہے سب کا مالک ہے۔“ یعنی جس نے عالم علوی اور عالم سفلی کو پیدا کیا اور مختلف تدابیر کے ذریعے سے ان کا انتظام کیا اور مختلف طریقوں سے انکی تربیت کی۔ اے مخاطب لوگو ! تم کائنات اور زمین و آسمان کو پیدا کرنے والے کا کیونکر انکار کرسکتے ہو؟ ﴿ إِن كُنتُم مُّوقِنِينَ ﴾ ”اگر تم یقین رکھتے ہو۔“ الشعراء
25 فرعون نے تکبر اور تعجب کرتے ہوئے اپنی قوم سے کہا : ﴿ أَلَا تَسْتَمِعُونَ ﴾ “ کیا تم سنتے نہیں“ کہ یہ شخص کیا کہتا ہے۔ الشعراء
26 موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا : ﴿ رَبُّكُمْ وَرَبُّ آبَائِكُمُ الْأَوَّلِينَ ﴾ یعنی خواہ تم تعجب کرو یا نہ کرو، خواہ تم تکبر کرویا فروتنی، اللہ تعالیٰ تمہارا اور تمہارے آباؤ واجداد کا رب ہے۔ الشعراء
27 فرعون نے حق کے ساتھ عناد کا مظاہرہ کیا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعوت میں جرح و قدح کرتے ہوئے کہا : ﴿ إِنَّ رَسُولَكُمُ الَّذِي أُرْسِلَ إِلَيْكُمْ لَمَجْنُونٌ ﴾ ” تمہارا یہ رسول، جسے تمہاری طرف بھیجا گیا ہے، دیوانہ ہے۔“ کیونکہ وہ ایسی بات کہتا ہے جو ہمارے عقیدے کے خلاف ہے اور اس راستے کی مخالفت کرتا ہے جس پر ہم گامزن ہیں۔ پس اس کے نزدیک عقل مندی اور عقل مند وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ انہیں اور زمین و آسمان کو کسی نے پیدا نہیں کیا۔ یہ زمین و آسمان کسی موجد کی ایجاد کے بغیر ہمیشہ سے موجود ہیں اور خود ان کی ذات بغیر خالق کے خود بخود وجود میں آئی ہے اور اس کے نزدیک عقل مندی یہ ہے کہ مخلوق کی عبادت کی جائے جو ہر لحاظ سے ناقص اور محتاج ہے اور جنون اس کے نزدیک یہ ہے کہ رب کا اثبات کیا جائے جو عالم علوی اور عالم سفلی کو پیدا کرنے والا، ظاہری اور باطنی نعمتیں عطا کرنے والا ہے اور اس رب کی عبادت کی طرف دعوت دی جائے۔ اس نے اپنی بات کو آراستہ کرکے اپنی قوم کے سامنے پیش کیا جبکہ اس کی قوم کے لوگ بیوقوف اور کم عقل تھے : ﴿ فَاسْتَخَفَّ قَوْمَهُ فَأَطَاعُوهُ ۚ إِنَّهُمْ كَانُوا قَوْمًا فَاسِقِينَ ﴾ (الزخرف : 43؍54) ” پس اس نے اپنی قوم کی عقل کھودی اور انہوں نے اس کی اطاعت کرلی، یقیناً وہ بڑے فاسق لوگ تھے۔ “ الشعراء
28 فرعون کا انکار اور رب العالمین کو اس کے معطل قرار دینے پر موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا : ﴿ رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَمَا بَيْنَهُمَا ﴾ ”مشرق و مغرب اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان میں ہے، سب کا مالک ہے۔“یعنی تمام مخلوق کا پروردگار ہے۔﴿ إِن كُنتُمْ تَعْقِلُونَ﴾ یعنی میں نے پوری طرح واضح کر دیا ہے، جس کے پاس معمولی سی بھی عقل ہے اس کی سمجھ میں یہ بات آ جاتی ہے۔ تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ جو چیز میں تمہیں بتا رہا ہوں تم اس کے بارے میں جان بوجھ کر جہالت کا مظاہرہ کررہے ہو۔ اس آیت کریمہ میں اس امر کی طرف اشارہ اور تنبیہ ہے کہ تم نے جس جنون کو موسیٰ علیہ السلام کی طرف منسوب کیا ہے وہ درحقیقت تمہاری بیماری ہے اور تم نے اسے مخلوق میں سب سے زیادہ عقل مند اور علم میں سب سے زیادہ کامل ہستی کی طرف منسوب کردیا ہے۔ درآنحالیکہ تم خود مجنون ہو کیونکہ تم نے موجودات میں سب سے زیادہ ظاہر ہستی کا انکار کردیا ہے جو زمین و آسمان اور تمام کائنات کی خالق ہے۔ جب تم نے اس کا نکار کردیا تو پھر کون سی چیز ہے جس کا تم اثبات کر رہے ہو؟ جب تم یہ چیز نہیں جانتے تو پھر تم کیا جانتے ہو؟ جب تم اللہ تعالیٰ اور اس کی آیات پر ایمان نہیں لاتے تو پھر اللہ اور اس کی آیات کے بعد تم کسی چیز پر ایمان لاؤ گے؟ اللہ کی قسم ! وہ پاگل لوگ جو جانوروں کی مانند ہیں، تم سے زیادہ عقل مند ہیں اور گھاس چرنے والے مویشی بھی تم سے زیادہ ہدایت یافتہ ہیں۔ الشعراء
29 جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دلیل نے فرعون کو لاجواب کردیا تو اس کی قدرت اور اس کا بیان موسیٰ علیہ السلام کا مقابلہ کرنے سے عاجز آگیا ﴿ قَالَ ﴾ تو اس نے موسیٰ علیہ السلام کو طاقت اور سلطنت کا رعب جماتے ہوئے اور دھمکی دیتے ہوئے کہا ﴿ لَئِنِ اتَّخَذْتَ إِلَـٰهًا غَيْرِي لَأَجْعَلَنَّكَ مِنَ الْمَسْجُونِينَ ﴾ ” اگر تو نے میرے سوا کسی اور کو معبود بنایا تو میں تجھے قید کردوں گا۔“ اللہ اس کا برا کرے۔۔۔ اس کی خواہش تھی کہ وہ موسیٰ علیہ السلام کو گمراہ کر دے اور موسیٰ علیہ السلام اس کے سوا کسی اور کو اپنا معبود نہ بنائیں ورنہ یہ بات متحقق تھی کہ موسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کا موقف بصیرت پر مبنی تھا۔ الشعراء
30 موسیٰ علیہ السلام نے اس سے فرمایا : ﴿ أَوَلَوْ جِئْتُكَ بِشَيْءٍ مُّبِينٍ ﴾ یعنی خواہ میں اپنی دعوت پر واضح اور نمایاں معجزہ ہی کیوں نہ لے آؤں؟ الشعراء
31 ﴿ قَالَ فَأْتِ بِهِ إِن كُنتَ مِنَ الصَّادِقِينَ فَأَلْقَىٰ عَصَاهُ فَإِذَا هِيَ ثُعْبَانٌ مُّبِينٌ ﴾ ” فرعون نے کہا، اگر سچے ہو تو اس کو لاؤ۔ پس انہوں نے لاٹھی ڈالی تو وہ اسی وقت اژدھا بن گئی۔“ یعنی نرسانپ ﴿ مُّبِينٌ ﴾ وہ ہر ایک پر ظاہر تھا، تخیل اور تشبیہ کا کرشمہ نہ تھا۔ الشعراء
32 الشعراء
33 ﴿ وَنَزَعَ يَدَهُ﴾ ” اور آپ نے اپنا ہاتھ نکالا“ اپنے گریبان سے۔ ﴿ فَإِذَا هِيَ بَيْضَاءُ لِلنَّاظِرِينَ ﴾ ” تو وہ اسی وقت دیکھنے والوں کو سفید نظر آنے لگا۔“ یعنی یہ بہت زیادہ روشن تھا اور اس میں کسی قسم کا کوئی نقص نہ تھا۔ الشعراء
34 ﴿ قَالَ لِلْمَلَإِ حَوْلَهُ ﴾ فرعون نے حق اور موسیٰ علیہ السلام کی مخالفت کرتے ہوئے اپنے حاشیہ نشیں سرداروں سے کہا : ﴿ إِنَّ هَـٰذَا لَسَاحِرٌ عَلِيمٌ يُرِيدُ أَن يُخْرِجَكُم مِّنْ أَرْضِكُم ﴾ ” یہ کامل فن جادو گر ہے چاہتا ہے کہ تم کو اپنے جادو کے ذریعے سے تمہارے ملک سے نکال دے۔“ چونکہ اسے علم تھا کہ یہ ضعیف العقل لوگ ہیں اس لئے ان کے سامنے ملمع سازی کرتے ہوئے کہا کہ یہ تو جادوگروں کے شعبدوں کی جنس میں سے ایک شعبدہ ہے کیونکہ ان کے ہاں یہ بات مسلمہ تھی کہ جادوگر ایسے حیرت انگیز شعبدے دکھا سکتے ہیں جو لوگوں کی قدرت سے باہر ہیں۔ الشعراء
35 فرعون نے ان کو ڈرایا کہ موسیٰ علیہ السلام کا مقصد اس جادو کے ذریعے سے تمام لوگوں کو ان کے وطن سے نکال باہر کرنا ہے تاکہ وہ اس شخص کے ساتھ عداوت رکھنے میں پوری جدوجہد کریں جو انہیں اپنے اہل و عیال اور گھروں سے جلا وطن کرنا چاہتا ہے۔ ﴿ فَمَاذَا تَأْمُرُونَ ﴾ ’’بتلاؤ! تمہارا کیا مشورہ ہے“ کہ اس کے ساتھ کیا سلوک کریں۔ الشعراء
36 ﴿ قَالُوا أَرْجِهْ وَأَخَاهُ ﴾ ” انہوں نے کہا، اس کے اور اس کے بھائی کے بارے میں کچھ توقف کیجئے۔“ یعنی ان دونوں کو روک لو ﴿ وَابْعَثْ فِي الْمَدَائِنِ حَاشِرِينَ ﴾ اور لوگوں کو اکٹھا کرنے کے لئے شہروں میں ہر کارے دوڑا دو۔ الشعراء
37 ﴿ يَأْتُوكَ بِكُلِّ سَحَّارٍ عَلِيمٍ ﴾ ” وہ سب ماہر جادوگروں کو آپ کے پاس لے آئیں۔“ یعنی ان تمام شہروں میں ہر کارے دوڑا دو جو علم کا گہوراہ اور جادو کا گڑھ ہیں۔ تاکہ وہ تمام ماہر جادوگروں کو اکٹھا کرلیں جو جادو کا پورا علم رکھتے ہیں کیونکہ جادو گر کا مقابلہ اسی قسم کے جاد ہی سے کیا جاتا ہے۔ الشعراء
38 یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا لطف و کرم ہے کہ اس نے اپنے بندوں پر جاہل، گمراہ اور گمراہی کرنے والے فرعون کی جعل سازیوں کا بطلان واضح کیا جو یہ کہتا تھا کہ یہ سب موسیٰ علیہ السلام کی شعبدہ بازی ہے۔ اس نے انہیں پابند کیا کہ وہ ماہر جادوگروں کو جمع کریں تاکہ ایک بہت بڑے مجمع کے سامنے مجلس منعقد ہو، حق باطل پر غالب آئے اور اہل علم اور شعبدہ بازی موسیٰ علیہ السلام کی دعوت کی صحت کا اقرار کریں نیز یہ اعتراف کریں کہ موسیٰ علیہ السلام کا معجزہ جادو نہیں۔ فرعون نے ان کی رائے پر عمل کرتے ہوئے تمام شہروں میں ہر کارے دوڑا دئیے تاکہ وہ جادوگروں کو اکٹھا کریں اور اس نے معاملے میں پوری جدوجہد کی۔ ﴿ فَجُمِعَ السَّحَرَةُ لِمِيقَاتِ يَوْمٍ مَّعْلُومٍ ﴾ ” تو جادوگر ایک مقرر دین کی میعاد پر جمع کر لئے گئے۔“ یہ دن موسیٰ علیہ السلام نے مقابلے کے لئے مقرر کردیا، یعنی ان کے جشن کا دن اس دن وہ اپنے کاموں سے فارغ ہوتے تھے۔ الشعراء
39 ﴿ وَقِيلَ لِلنَّاسِ هَلْ أَنتُم مُّجْتَمِعُونَ ﴾ ” اور لوگوں سے کہہ دیا گیا ہے کہ تم )سب( کو اکٹھے ہو کر جانا چاہیے۔“ یعنی اس مقررہ دن، لوگوں کے جمع ہونے کے لئے عام منادی کرائی گئی۔ الشعراء
40 ﴿ لَعَلَّنَا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ إِن كَانُوا هُمُ الْغَالِبِينَ ﴾ ” تاکہ اگر جادوگر غالب رہیں تو ہم ان کے پیرو ہوجائیں۔“ یعنی انہوں نے لوگوں سے کہا کہ سب اکٹھے ہوجاؤ تاکہ موسیٰ علیہ السلام پر جادوگروں کی فتح کا نظارہ کرسکو۔ یہ بہت ماہر جادو گر ہیں ہم ان کی تعظیم اور پیروی کریں اور علم سحر کا اعتراف کریں۔ اگر وہ حق کے خواہاں ہوتے تو کہتے کہ ہم ان میں سے اس شخص کی پیروی کریں، جو حق پر ہو۔ نیز حق و صواب کا اعتراف کریں، اس لئے اس معاملے نے ان کو کوئی فائدہ نہ دیا، البتہ ان کے خلاف حجت قائم ہوگئی۔ الشعراء
41 ﴿ فَلَمَّا جَاءَ السَّحَرَةُ ﴾ ” پس جب جادو گر آگئے۔“ یعنی جب جادوگر فرعون کے پاس پہنچے تو کہنے لگے : ﴿ أَئِنَّ لَنَا لَأَجْرًا إِن كُنَّا نَحْنُ الْغَالِبِينَ ﴾ ” کیا ہمیں انعام ملے گا اگر ہم موسیٰ پر غالب رہے۔“ الشعراء
42 ﴿ قَالَ نَعَمْ ﴾ ” کہا ضرور“ تم کو اجرت اور انعام ملے گا ﴿ وَإِنَّكُمْ إِذًا لَّمِنَ الْمُقَرَّبِينَ ﴾ ” اور اس وقت تم مقربین میں شامل کرلئے جاؤ گے۔“ فرعون نے ان سے انعام اور مقرب بنانے کا وعدہ کرلیاتاکہ ان کے نشاط میں اضافہ ہو اور وہ پوری طاقت کے ساتھ موسیٰ علیہ السلام کے معجزات کا مقابلہ کریں۔ جب مقررہ روز جادوگر، موسیٰ علیہ السلام اور اہل مصر اکٹھے ہوئے تو موسیٰ علیہ السلام نے ان کو وعظ و نصیحت کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ وَيْلَكُمْ لَا تَفْتَرُوا عَلَى اللّٰـهِ كَذِبًا فَيُسْحِتَكُم بِعَذَابٍ وَقَدْ خَابَ مَنِ افْتَرَىٰ ﴾ )طٰہٰ : 20؍61( ” تمہارا برا ہو، اللہ تعالیٰ پر جھوٹ نہ باندھو ورنہ عذاب تمہاری جڑ کاٹ کر رکھ دے گا، اور جو بہتان طرازی کرتا ہے وہ خائب و خاسر ہوتا ہے۔“ اس پروہ آپس میں جھگڑنے لگے، پھر فرعون نے ان کا حوصلہ بڑھایا اور انہوں نے خود بھی ایک دوسرے کا حوصلہ بڑھایا۔ الشعراء
43 ﴿ قَالَ لَهُم مُّوسَىٰ أَلْقُوا مَا أَنتُم مُّلْقُونَ ﴾ ” تو موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا جو تمہارے جی میں آئے اسے پھینکو۔“ آپ نے ان پر کسی جادو اور شعبدہ بازی کی قید نہیں لگائی کیونکہ آپ کو یقین تھا کہ حق کے مقابلے کے لئے جس شعبدہ بازی کا بھی سامان لے کر آئے ہیں، سب باطل ہے۔ الشعراء
44 ﴿ فَأَلْقَوْا حِبَالَهُمْ وَعِصِيَّهُمْ ﴾ ” تو انہوں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں ڈالیں۔“ تو اسی وقت وہ سانپ بن کر چلنے لگیں اور اس طرح انہوں نے لوگوں کی آنکھوں کو سحر زدہ کردیا۔ ﴿ وَقَالُوا بِعِزَّةِ فِرْعَوْنَ إِنَّا لَنَحْنُ الْغَالِبُونَ ﴾ ” اور وہ کہنے لگے کہ فرعون کی عزت کی قسم ! ہم ضرور غالب رہیں گے۔“ پس انہوں ایک کمزور بندے سے مدد طلب کی جو ہر لحاظ سے عاجز تھا، البتہ وہ جبر سے مسلط تھا اور اسے اقتدار اور فوج کی طاقت حاصل تھی۔ اس تکبر اور نخوت نے اس کو فریب میں مبتلا کر رکھا تھا اور ان کی نظر فریب کے اس پردے کو چاک کرکے حقیقت الامر تک نہیں پہنچ سکی۔۔۔ یا یہ ان کی طرف سے عزت فرعون کے ساتھ قسم ہے اور ( إِنَّهُمْ الْغَالِبُونَ ) مقسم علیہ ہے۔ الشعراء
45 ﴿ فَأَلْقَىٰ مُوسَىٰ عَصَاهُ فَإِذَا هِيَ تَلْقَفُ مَا يَأْفِكُونَ ﴾ ” پس موسیٰ علیہ السلام نے اپنی لاٹھی ڈالی تو یکایک وہ ان کے جھوٹے شعبدے کو نگلتی چلی گئی۔“ اور موسیٰ علیہ السلام کے عصا نے ان تمام رسیوں اور لاٹھیوں کو ہڑپ کرلیا جو انہوں نے پھینکی تھیں کیونکہ ان کا جادو، سرا سر بہتان، کذب اور باطل تھا جو حق کا مقابلہ نہیں کرسکتا تھا۔ جب جادو گروں نے یہ عظیم معجزہ دیکھا تو انہیں یقین ہوگیا کہ یہ جادو نہیں ہے بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی اور ایک معجزہ ہے جو موسیٰ علیہ السلام کی صداقت ور ان کی دعوت کی صحت پر دلالت کرتا ہے۔ الشعراء
46 ﴿ فَأُلْقِيَ السَّحَرَةُ سَاجِدِينَ ﴾ ” پس جادوگر (اپنے رب کے حضور)سجدہ ریز ہوگئے۔“ الشعراء
47 ﴿ قَالُوا آمَنَّا بِرَبِّ الْعَالَمِينَ رَبِّ مُوسَىٰ وَهَارُونَ ﴾ ” کہنے لگے ہم تمام جہانوں کے رب پر ایمان لائے جو موسیٰ اور ہارون علیہ السلام کا رب ہے۔“ اس بھرے مجمع میں باطل ذلیل و خوار ہوگیا۔ باطل کے رؤسا اور سرداروں نے اس کے بطلان کا قرار کیا۔ حق واضح ہوگیا اور غالب آگیا حتی کہ حق کی فتح کو دیکھنے والوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا مگر فرعون نے اپنی سرکشی اور ضلالت کو نہ چھوڑا اور وہ اپنی گمراہی اور عناد میں بڑھتا چلا گیا۔ الشعراء
48 الشعراء
49 اس نے جادوگر سے کہا : ﴿ آمَنتُمْ لَهُ قَبْلَ أَنْ آذَنَ لَكُمْ ﴾ ” کیا تم، اس سے پہلے کہ میں تم کو اجازت دوں، اس پر ایمان لے آئے۔“ فرعون کے سامنے جادوگروں کی جرأ ت اور اس کی اجازت اور مشورہ کے بغیر ان کے ایمان لانے کے اقدام کو دیکھ کر فرعون اور اس کی قوم حیرت زدہ رہ گئے۔ ﴿ إِنَّهُ لَكَبِيرُكُمُ الَّذِي عَلَّمَكُمُ السِّحْرَ ﴾ ” بے شک یہ تمہارا بڑا ہے جس نے تم کو جادو سکھایا ہے۔“ حالانکہ اسی نے جادوگروں کو جمع کیا اور یہ اس کے مصاحبین ہی تھے جنہوں نے دوسرے شہروں سے جادوگروں کو اکٹھا کرنے کا مشورہ دیا۔ حالانکہ ان کو اچھی طرح علم تھا کہ وہ اس سے پہلے موسیٰ علیہ السلام سے ملے تھے نہ انہوں نے موسیٰ علیہ السلام کو دیکھا تھا، نیز ان جادوگروں نے جادو کا ایسا کرتب دکھایا تھا جس نے ناظرین کو حیرت زدہ اور خوف زدہ کردیا۔ اس کے باوجود فرعون نے ان سے یہ بات کہی، حالانکہ جادوگر خود جادو کے بطلان سے واقف ہوچکے تھے۔ اس قسم کی عقل رکھنے والوں سے یہ بات بعید نہیں کہ وہ بڑے بڑے معجزات اور واضح حق کو دیکھ کر بھی ایمان نہ لائیں۔ کیونکہ اگر فرعون کسی بھی چیز کے بارے میں کہتا ہے کہ یہ خلاف حقیقت ہے، تو وہ اس کی تصدیق کرتے۔ پھر فرعون نے جادوگروں کو دھمکی دیتے ہوئے کہا : ﴿ لَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُم مِّنْ خِلَافٍ ﴾ ” میں تمہارے ہاتھ اور پاؤں مخالف اطراف سے کٹوا دوں گا۔“ یعنی میں تمہارا دایاں ہاتھ اور بایاں پاؤں کاٹ دوں گا۔ جیسا کہ زمین میں فساد پھیلانے والے کو سزا دی جاتی ہے۔ ﴿ وَلَأُصَلِّبَنَّكُمْ أَجْمَعِينَ ﴾ ” اور میں تم سب کو سولی چڑھوا دوں گا۔“ تاکہ ساری دنیا تمہاری ذلت و رسوائی کا تماشہ دیکھے۔ الشعراء
50 جب جادو گروں نے ایمان کی حلاوت پالی اور اس کا مزا چکھ یا تو کہنے لگے : ﴿ لَا ضَيْرَ ﴾ ” کچھ نقصان نہیں۔“ یعنی ہمیں تمہاری دھمکیوں کی کوئی پرواہ نہیں ﴿ إِنَّا إِلَىٰ رَبِّنَا مُنقَلِبُونَ إِنَّا نَطْمَعُ أَن يَغْفِرَ لَنَا رَبُّنَا خَطَايَانَا ﴾ ” بے شک ہمیں اپنے رب کی طرف لوٹنا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ ہمارا رب (کفر اور جادو جیسی) ہماری خطائیں معاف کردے گا۔“ الشعراء
51 ﴿ أَن كُنَّا أَوَّلَ الْمُؤْمِنِينَ ﴾ ” اس لئے کہ ہم اول ایمان لانے والوں میں ہیں۔“ یعنی موسیٰ علیہ السلام پر ان لشکروں سے پہلے ایمان لائے ہیں پس اللہ تعالیٰ نے ان کو ثابت قدمی اور صبر عطا کیا۔ اس بات کا احتمال ہے کہ فرعون نے اپنی دھمکی پر عمل کیا ہو کیونکہ اس وقت وہ سلطنت اور اقتدار کا مالک تھا اور یہ بھی احتمال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنی دھمکی پر عمل کرنے نہ دیا ہو۔ اس کے باوجود کہ موسیٰ علیہ السلام فرعون اور اس کی قوم کے پاس واضح نشانیاں لے کر آئے، وہ اپنے کفر پر جمے رہے۔ جب بھی ان کے پاس کوئی نشانی آتی اور ان پر پوری طرح اثر انداز ہوتی، تب وہ موسیٰ علیہ السلام سے وعدہ کرتے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے ان سے اس عذاب کو دور کردیا تو وہ ان پر ایمان لے آئیں گے اور بنی اسرائیل کو ان کے ساتھ بھیج دیں گے۔ پس اللہ تعالیٰ ان سے عذاب کو ہٹا دیتا مگر وہ اپنے عہد سے پھر جاتے۔ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام ان کے یمان سے مایوس ہوگئے اور ان پر عذاب الٰہی واجب ہوگیا اور وہ وقت آن پہنچا کہ اللہ تعالیٰ بنی اسرائیل کو ان کی قید و غلامی سے آزادی عطا فرمائے اور ان کو زمین (ملک) پر اقتدار عطا فرمائے تو اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کی طرف وحی کی۔ الشعراء
52 ﴿ أَنْ أَسْرِ بِعِبَادِي ﴾ یعنی رات کے پہلے حصے بنی اسرائیل کو لے کر نکل جائیے تاکہ ان کو نکل جانے میں کافی مہلت مل جائے۔ ﴿ إِنَّكُم مُّتَّبَعُونَ ﴾ یعنی فرعون اور اس کے لشکر تمہارا پیچھا کریں گے اور ایسے ہی ہوا جیسے اللہ تعالیٰ نے خبر دی تھی۔ جب صبح کے وقت فرعونی بیدار ہوئے تو انہوں نے دیکھا کہ تمام بنی اسرائیل راتوں رات موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ نکل گئے ہیں۔ الشعراء
53 ﴿ فَأَرْسَلَ فِرْعَوْنُ فِي الْمَدَائِنِ حَاشِرِينَ ﴾ ” تو فرعون نے تمام شہروں میں جمع کرنے والے ہر کارے دوڑائے“ جو لوگوں کو جمع کرتے تھے تاکہ بنی اسرائیل کے ساتھ جنگ کی جائے۔ الشعراء
54 الشعراء
55 الشعراء
56 ﴿ وَإِنَّا لَجَمِيعٌ حَاذِرُونَ ﴾ اور ہمیں ان سے چوکنار رہنا چاہیے وہ ہم سب کے اور ہمارے مشترکہ مصالح و مفادات کے دشمن ہیں۔ فرعون اپنی فوج کو ایک بہت بڑے لشکر اور عام لوگوں کے گروہ کے ساتھ لے کربنی اسرائیل کے تعاقب میں نکلا۔ معذور لوگوں کے سوا، جو اپنے عجز کے باعث ساتھ نہ جاسکتے تھے، کوئی پیچھے نہ رہا۔ الشعراء
57 اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ فَأَخْرَجْنَاهُم مِّن جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ ﴾’ ’ پس ہم نے ان کو باغوں اور چشموں سے نکال لیا۔“ یعنی ہم نے ان کو ان کے خوبصورت اور اعلیٰ درجے کے باغات، ابلتے ہوئے چشموں اور ان کے کھیتوں سے، جنہوں نے ان کی زمینوں کو بھر رکھا تھا، جن کو ان کے شہریوں اور دیہاتیوں نے آباد کر رکھا تھا، نکال دیا۔ الشعراء
58 ﴿ وَمَقَامٍ كَرِيمٍ ﴾ ” اور خوبصورت اقامت گاہوں سے نکالا“ جو دیکھنے والوں کو تعجب میں ڈالتی تھیں اور ان میں غور کرنیوالوں کو مشغول کردیتی تھیں۔ انہوں نے طویل زمانے تک اس سازو سامان سے فائدہ اٹھایا، اور ایک لمبی عمر تک، کفر و فساد، بندوں کے ساتھ تکبر اور بہت زیادہ غرور کے ساتھ اس کی لذات و شہوات سے بہرہ مند رہے۔ الشعراء
59 ﴿ كَذٰلِكَ وَأَوْرَثْنَاهَا ﴾ ” اسی طرح ہوا اور ہم نے ان تمام چیزوں کا وارث بنادیا“ یعنی ان باغات، چشموں، کھیتیوں اور خوبصورت اقامت گاہوں کا ﴿ بَنِي إِسْرَائِيلَ ﴾ ” بنی اسرائیل کو“ جن کو اس سے پہلے انہوں نے اپنا غلام بنا رکھا تھا اور وہ ان سے نہایت پر مشقت کام لیتے تھے۔۔۔ پاک ہے وہ ذات، جو جسے چاہتی ہے اقتدار عطا کرتی ہے اور جس چاہتی ہے اقتدار چھین لیتی ہے، جسے چاہتی ہے، اس کی اطاعت کی بنا پر عزت عطا کرتی ہے اور جسے چاہتی ہے اس کی نافرمانی کے بنا پر ذلت سے ہمکنار کرتی ہے۔ الشعراء
60 ﴿ فَأَتْبَعُوهُم مُّشْرِقِينَ ﴾ یعنی طلوع آفتاب کے وقت، فرعون کے لشکروں نے موسیٰ علیہ السلام کی قوم کا پیچھا کیا اور انتہائی غصے اور غیظ و غضب میں ان کے تعاقب میں گئے۔ الشعراء
61 ﴿ فَلَمَّا تَرَاءَى الْجَمْعَانِ ﴾ پس جب دونوں گروہوں نے ایک دوسرے کو دیکھا ﴿ قَالَ أَصْحَابُ مُوسَىٰ ﴾ تو موسیٰ علیہ السلام کی قوم نے غمزدہ ہو کر موسیٰ علیہ السلام کے پاس شکایت کی ﴿ إِنَّا لَمُدْرَكُونَ ﴾ ” ہم تو پکڑے گئے۔“ الشعراء
62 ﴿ قَالَ ﴾ موسیٰ علیہ السلام نے ان کو ثابت قدم رہنے کی تلقین اور اپنے رب کے سچے وعدے سے آگاہ کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ كَلَّا﴾ ” ہرگز ایسا نہیں ہوگا“ جیسا کہ تم کہہ رہے ہو کہ تم پکڑ لئے جاؤ گے۔ ﴿ إِنَّ مَعِيَ رَبِّي سَيَهْدِينِ ﴾ ” بے شک میرا رب میرے ساتھ ہے وہ میری راہنمائی کرے گا۔“ یعنی وہ میری اور تمہاری نجات کی راہ دکھائے گا۔ الشعراء
63 ﴿ فَأَوْحَيْنَا إِلَىٰ مُوسَىٰ أَنِ اضْرِب بِّعَصَاكَ الْبَحْرَ ﴾’’پس ہم نے موسیٰ کی طرف وحی بھیجی کہ دریا پر لاٹھی مارو۔“ تو آپ نے عصا مارا ﴿فَانفَلَقَ ﴾ ” پس وہ (سمندر) پھٹ گیا۔“ اور بارہ راستے بن گئے۔ ﴿ فَكَانَ كُلُّ فِرْقٍ كَالطَّوْدِ الْعَظِيمِ ﴾ ” اور ہر ایک (یوں) ہوگیا کہ گویا بڑا پہاڑ ہے۔“ اور موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم سمندر میں داخل ہوگئی۔ الشعراء
64 ﴿ وَأَزْلَفْنَا ثَمَّ ﴾ ” اور وہاں ہم نے قریب کردیا۔“ یعنی اسی جگہ ﴿ الْآخَرِينَ ﴾ ” دوسروں کو“ یعنی ہم نے فرعون اور اس کی قوم کو قریب کرکے ان راستوں میں ڈال دیا جہاں سے موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم نے سمندر کو پار کیا تھا۔ الشعراء
65 ﴿ وَأَنجَيْنَا مُوسَىٰ وَمَن مَّعَهُ أَجْمَعِينَ ﴾ ” اور ہم نے موسیٰ اور ان کے تمام ساتھیوں کو بچالیا۔“ یعنی موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کے تمام لوگ باہر آگئے اور ان میں سے کوئی بھی پیچھے نہ رہا۔ الشعراء
66 ﴿ ثُمَّ أَغْرَقْنَا الْآخَرِينَ ﴾ ” پھر ہم نے دوسروں کو ڈبو دیا۔“ یعنی فرعون کی قوم میں سے کوئی شخص بھی ڈوبنے سے نہ بچا۔ الشعراء
67 ﴿ إِنَّ فِي ذٰلِكَ لَآيَةً ﴾ اس میں موسیٰ علیہ السلام کی دعوت کی صداقت اور فرعون اور اس کی قوم کے موقف کے بطلان پر بہت بڑی دلیل ہے۔ ﴿ وَمَا كَانَ أَكْثَرُهُم مُّؤْمِنِينَ ﴾ ان نشانیوں کے باوجود، جو کہ ایمان لانے کا تقاضا کرتی ہیں، ان میں سے اکثر اپنے فساد قلب کی بنا پر ایمان نہ لائے۔ الشعراء
68 ﴿ وَإِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ ﴾ ” اور بلاشبہ آپ کا رب غالب مہربان ہے۔“ یعنی اس نے اپنی قوت اور غلبے کی بنا پر جھٹلانے والے کفار کو ہلاک کیا اور اپنی رحمت سے موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کو نجات دی۔ الشعراء
69 اس آیت کی تفسیر اگلی آیت کے ساتھ ملاحظہ کیجئے۔ الشعراء
70 فرمایا : اے محمد ! (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ لوگوں کو، اللہ تعالیٰ کے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس خاص حالت کی جلیل القدر ! خبر سنا دیجئے اگرچہ ان کی زندگی کے تمام پہلو عظیم واقعات سے پر ہیں۔ مگر ان کا یہ واقعہ سب سے زیادہ حیرت انگیز اور سب سے افضل ہے جو آپ کی رسالت، اپنی قوم کو دعوت، اپنی قوم سے آپ کے مباحثہ اور آپ کی قوم کے موقف کے ابطال کو متضمن ہے اس لئے اسے ظرف کے ساتھ مقید کرتے ہوئے فرمایا : ﴿إِذْ قَالَ لِأَبِيهِ وَقَوْمِهِ مَا تَعْبُدُونَ قَالُوا ﴾ ” جب انہوں نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے پوچھا کہ یہ کیا چیزیں ہیں جن کی تم عبادت کرتے ہو تو انہوں نے کہا“ الشعراء
71 بتوں کی عبادت پر فخر کا اظہار کرتے ہوئے : ﴿ نَعْبُدُ أَصْنَامًا ﴾ ” ہم بتوں کی عبادت کرتے ہیں“ جن کو ہم خود اپنے ہاتھوں سے تراشتے اور بناتے ہیں ۔ ﴿ فَنَظَلُّ لَهَا عَاكِفِينَ﴾ ” اور ان کی پوجا پر قائم ہیں۔“ یعنی ہم نے اپنے اکثر اوقات میں، ان بتوں کی عبادت کے لئے قیام کرتے ہیں۔ الشعراء
72 ابراہیم علیہ السلام نے ان بتوں کے لئے عبادت کے عدم استحقاق کو واضح کرتے ہوئے فرمایا : ﴿هَلْ يَسْمَعُونَكُمْ إِذْ تَدْعُونَ﴾ ” جب تم ان کو پکارتے ہو تو کیا وہ تمہاری پکار کو سنتے ہیں؟“ الشعراء
73 ﴿أَوْ يَنفَعُونَكُمْ أَوْ يَضُرُّونَ﴾ ” یا وہ تمہیں کوئی نفع یا نقصان دے سکتے ہیں؟“ انہوں نے اقرار کیا کہ ان مذکورہ صفات میں سے کوئی بھی ان میں موجود نہیں۔ وہ پکار کو سن سکتے ہیں نہ نفع دے سکتے ہیں اور نہ نقصان۔ اس لئے جب آپ نے بتوں کو توڑا تو فرمایا : ﴿بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هَـٰذَا فَاسْأَلُوهُمْ إِن كَانُوا يَنطِقُونَ﴾ (الانبیاء : 21؍63) ” بلکہ یہ سب کچھ ان کے بڑے نے کیا ہے ان سے پوچھ لو اگر یہ بول سکتے ہیں۔“ انہوں نے جواب دیا : ﴿ لَقَدْ عَلِمْتَ مَا هَـٰؤُلَاءِ يَنطِقُونَ﴾ (الانبیاء : 21؍65) ” تمہیں علم ہے کہ یہ بولتے نہیں ہیں۔“ یعنی زبان حال ہی سے یہ امر ثابت ہو رہا ہے جس میں کوئی شک و شبہ اور اشکال نہیں۔ انہوں نے اپنے گمراہ آباء واجداد کی تقلید کا سہارا لیتے ہوئے کہا : الشعراء
74 ﴿بَلْ وَجَدْنَا آبَاءَنَا كَذٰلِكَ يَفْعَلُونَ﴾ ” بلکہ ہم نے اپنے آباء واجداد کو ایسے ہی کرتے پایا ہے“ اور ہم نے ان کی پیروی کی اور ان کی عادات کی اتباع کرتے ہوئے ان کے راستے پر گامزن ہوئے۔ الشعراء
75 الشعراء
76 ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا اس معاملے میں تم اور تمہارے آباء واجداد سب ایک فریق ہو اور تم سب سے ہم ایک ہی بات کہتے ہیں: ﴿أَفَرَأَيْتُم مَّا كُنتُمْ تَعْبُدُونَ أَنتُمْ وَآبَاؤُكُمُ الْأَقْدَمُونَ فَإِنَّهُمْ عَدُوٌّ لِّي﴾ ” تم نے دیکھا کہ جن کو تم پوجتے رہے ہو تم بھی اور تمہارے اگلے باپ دادا بھی۔ وہ میرے دشمن ہیں۔“ پس وہ مجھے ذرا سا بھی نقصان پہنچائیں، میرے خلاف کوئی چال چل دیکھیں وہ ایسا کرنے کی قدرت نہیں رکھتے۔ الشعراء
77 ﴿ إِلَّا رَبَّ الْعَالَمِينَ الَّذِي خَلَقَنِي فَهُوَ يَهْدِينِ ﴾ ” لیکن اللہ رب العالمین، جس نے مجھے پیدا کیا اور وہی مجھے راستہ دکھاتا ہے۔“ یعنی تخلیق کی نعمت میں وہی متفرد ہے اور دینی اور دنیاوی مصالح کی طرف راہنمائی سے بھی صرف وہی نوازتا ہے۔ الشعراء
78 ﴿ إِلَّا رَبَّ الْعَالَمِينَ الَّذِي خَلَقَنِي فَهُوَ يَهْدِينِ ﴾ ” لیکن اللہ رب العالمین، جس نے مجھے پیدا کیا اور وہی مجھے راستہ دکھاتا ہے۔“ یعنی تخلیق کی نعمت میں وہی متفرد ہے اور دینی اور دنیاوی مصالح کی طرف راہنمائی سے بھی صرف وہی نوازتا ہے۔ الشعراء
79 الشعراء
80 الشعراء
81 الشعراء
82 پھر ان میں سے بعض ضروریات کا خاص طور پر ذکر کرتے ہوئے فرمایا : ﴿وَالَّذِي هُوَ يُطْعِمُنِي وَيَسْقِينِ وَإِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِينِ وَالَّذِي يُمِيتُنِي ثُمَّ يُحْيِينِ وَالَّذِي أَطْمَعُ أَن يَغْفِرَ لِي خَطِيئَتِي يَوْمَ الدِّينِ ﴾ ” اور وہی مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے اور جب میں بیمار پڑجاتا ہوں تو مجھے شفا بخشتا ہے اور وہی ہے جو مجھے مارے گا اور پھر زندہ کرے گا اور وہی ہے جس سے میں امید رکھتا ہوں کہ روز قیامت میرے گناہ بخش دے گا۔“ یعنی ان تمام افعال کو اکیلاوہی سرانجام دیتا ہے اس لئے واجب ہے کہ صرف اسی کی عبادت اور اطاعت کی جائے اور ان بتوں کی عبادت چھوڑدی جائے جو تخلیق پر قادر ہیں نہ ہدایت پر، جو کسی کو بیمار کرسکتے ہیں نہ شفا دے سکتے ہیں، جو کھلا سکتے ہیں نہ پلاسکتے ہیں، جو مار سکتے ہیں نہ زندہ کرسکتے ہیں اور نہ وہ اپنے عبادت گزاروں کی تکلیف کو دور کرکے ان کو کوئی فائدہ پہنچاسکتے ہیں اور نہ وہ گناہوں کو بخش سکتے ہیں۔ یہ ایسی قطعی دلیل اور روشن حجت ہے جس کا تم اور تمہارے آباء واجداد و مقابلہ نہیں کرسکتے۔ پس یہ چیز گمراہی میں تمہارے اشتراک، اور رشد و ہدایت کے راستے کو چھوڑ دینے پر دلالت کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿ وَحَاجَّهُ قَوْمُهُ قَالَ أَتُحَاجُّونِّي فِي اللّٰـهِ وَقَدْ هَدَانِ ۔۔۔ الایات﴾ (الانعام : 6؍80) ” اور ابراہیم سے اس کی قوم نے جھگڑا کیا، ابراہیم نے کہا، کیا تم مجھ سے اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہو، حالانکہ اسی نے مجھے ہدایت دی۔۔۔ “ الشعراء
83 پھر ابراہیم علیہ السلام نے ان الفاظ میں اپنے رب سے دعا کی : ﴿رَبِّ هَبْ لِي حُكْمًا﴾ ” اے میرے رب ! مجھے علم و دانش عطا فرما۔“ یعنی اے میرے رب مجھے علم کثیر عطا کر جس کے ذریعے سے میں تیرے احکام اور حلال و حرام کی معرفت حاصل کروں، پھر اس علم کے مطابق مخلوق کے درمیان فیصلے کروں۔ ﴿وَأَلْحِقْنِي بِالصَّالِحِينَ ﴾ ”اور مجھے نیکوکاروں میں شامل فرما۔“ یعنی میرے بھائی انبیاء و مرسلین میں۔ الشعراء
84 ﴿وَاجْعَل لِّي لِسَانَ صِدْقٍ فِي الْآخِرِينَ﴾ ” اور میرا ذکر خیر پچھلے لوگوں میں بھی باقی رکھ۔“ یعنی مجھے سچی مدح و ثناعطا کر جو ہمیشہ قائم رہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا قبول فرما لی اور آپ کو علم و حکمت سے سرفراز فرمایا جس کی بنا پر وہ تمام انبیاء و مرسلین پر فضیلت لے گئے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو انبیاء و مرسلین کے گروہ میں شامل کیا، آپ کو اپنا محبوب و مقبول بندہ بنایا۔ ہرآن تمام اقوام و ملل میں آپ کو عظمت اور مدح و ثنا عطاء کی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَتَرَكْنَا عَلَيْهِ فِي الْآخِرِينَ سَلَامٌ عَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ كَذٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِينَ﴾ (الصفت : 38؍108۔ 111) ” اور ہم نے آپ کی مدح و توصیف بعد میں آنے والی نسلوں میں چھوڑی، سلام ہو ابراہیم پر، ہم اپنے نیک بندوں کو ایسا ہی بدلہ دیا کرتے ہیں بے شک وہ ہمارے مومن بندوں میں تھا۔ “ الشعراء
85 ﴿وَاجْعَلْنِي مِن وَرَثَةِ جَنَّةِ النَّعِيمِ﴾ ” اور مجھے نعمت کی جنت کے وارثوں میں کر۔“ یعنی اہل جنت میں سے، جن کو اللہ تعالیٰ جنت کا وارث بنائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا قبول فرمالی اور نعمتوں بھری جنت میں بہت بلند قدرو منزلت عطا کی۔ الشعراء
86 ﴿وَاغْفِرْ لِأَبِي إِنَّهُ كَانَ مِنَ الضَّالِّينَ﴾ ” اور میرے باپ کو بخش دے بے شک وہ گمراہوں میں سے تھا۔“ آپ کی یہ دعا اس وعدے کے سبب سے تھی جو آپ نے اپنے باپ سے کیا تھا : ﴿ سَأَسْتَغْفِرُ لَكَ رَبِّي إِنَّهُ كَانَ بِي حَفِيًّا ﴾ (مریم : 19؍47) ” میں اپنے رب سے آپ کی بخشش کے لئے دعا کروں گا وہ مجھ پر بڑا ہی مہربان ہے۔“ فرمایا : ﴿وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ إِبْرَاهِيمَ لِأَبِيهِ إِلَّا عَن مَّوْعِدَةٍ وَعَدَهَا إِيَّاهُ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ أَنَّهُ عَدُوٌّ لِّلّٰـهِ تَبَرَّأَ مِنْهُ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ لَأَوَّاهٌ حَلِيمٌ﴾ (التوبۃ: 9؍114) ” ابراہیم کی اپنے باپ کے لئے دعائے مغفرت اس وعدے کی بنا پر تھی جو انہوں نے اپنے باپ سے کیا تھا جب ان پر واضح ہوگیا کہ وہ اللہ کا دشمن ہے تو انہوں نے اس سے براءت کا اظہار کردیا۔ ابراہیم بڑے ہی نرم دل اور بربار تھے۔ “ الشعراء
87 ﴿وَلَا تُخْزِنِي يَوْمَ يُبْعَثُونَ﴾ یعنی بعض لغزشوں پر زجرو توبیخ، عقاب اور فضیحت کے ذریعے سے قیامت کے روز مجھے رسوا نہ کرنا۔ الشعراء
88 الشعراء
89 بلکہ اس روز مجھے سعادت مند بنانا جس روز ﴿يَوْمَ لَا يَنفَعُ مَالٌ وَلَا بَنُونَ إِلَّا مَنْ أَتَى اللّٰـهَ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ﴾ ” مال کچھ فائدہ دے گا نہ بیٹے، ہاں جو شخص اللہ کے ہاں پاک دل لے کر آئے گا۔“ پس یہی وہ چیز ہے جو تیرے ہاں اس کے لئے فائدہ مند ہے اور یہی وہ چیز ہے جس کے ذریعے سے بندہ عذاب سے نجات پا سکے گا اور ثواب جزیل کا مستحق ٹھہرے گا۔ قلب سلیم سے مراد وہ دل ہے جو شرک، شک و شبہ، شر کی محبت اور بدعت و معاصی پر اصرار سے پاک اور محفوظ ہو۔ متذکرہ صدر امور سے قلب کا سلامت اور محفوظ ہونا اس بات کو مستلزم ہے کہ وہ ان کی اضداد یعنی اخلاص، علم، یقین، خیر کی محبت اور قلب کے اس مزین ہونے جیسی صفات سے متصف ہو، نیز اس کا ارادہ اور محبت اللہ تعالیٰ کی محبت کے تابع اور اس کی خواہشات اللہ تعالیٰ کی شریعت کے تابع ہوں۔ الشعراء
90 پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس عظیم دن کی صفات اور اس میں واقع ہونے والے ثواب و عقاب کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : ﴿وَأُزْلِفَتِ الْجَنَّةُ ﴾ ” جنت قریب کردی جائے گی“ ﴿لِلْمُتَّقِينَ﴾’’متقین کے“ یعنی ان کے جو اپنے رب سے ڈرتے ہوئے اس کے اوامر کی تعمیل اور اس کے نواہی سے اجتناب کرتے ہیں نیز اپنے رب کے عذاب اور اس کی ناراضی سے ڈرتے ہیں۔ الشعراء
91 ﴿وَبُرِّزَتِ الْجَحِيمُ﴾ ” اور جہنم کو سامنے لایا جائے گا“ اور ہر قسم کے عذاب کے ساتھ اس کو تیار کیا جائے گا ﴿ لِلْغَاوِينَ ﴾ ” گمراہ لوگوں کے لئے“ جو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں مبتلا رہے، اس کے محارم کے ارتکاب کی جرأت کی، اس کے رسولوں کو جھٹلایا اور رسول جو دعوت حق لے کر آئے تھے اس کو ٹھکرا دیا۔ الشعراء
92 الشعراء
93 ﴿وَقِيلَ لَهُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللّٰـهِ هَلْ يَنصُرُونَكُمْ أَوْ يَنتَصِرُونَ ﴾ ” اور ان سے کہا جائے گا کہ جن کو تم اللہ کے سوا پوجتے تھے وہ کہاں ہیں؟ کیا وہ تمہاری مدد کرسکتے ہیں، یا خود بدلہ لے سکتے ہیں؟“ یعنی وہ کچھ بھی کرنے کی قدرت نہیں رکھتے۔ اس سے ان کا جھوٹ اور ان کی ذلت و رسوائی ظاہر ہوجائے گی، ان کا خسارہ، فضیحت اور ندامت عیاں ہوجائے گی اور ان کی تمام کوشش رائیگاں جائے گی۔ الشعراء
94 ﴿فَكُبْكِبُوا فِيهَا ﴾ ” پس وہ اوندھے منہ اس میں ڈال دئیے جائیں گے۔“ یعنی جہنم میں پھینک دیے جائیں گے۔ ﴿هُمْ ﴾ ” ان کو“ یعنی ان معبودوں کو جن کو یہ عبادت کیا کرتے تھے ﴿وَالْغَاوُونَ﴾ اور ان کے گمراہ عبادت گزاروں کو۔ الشعراء
95 ﴿وَجُنُودُ إِبْلِيسَ أَجْمَعُونَ ﴾ ” اور شیطان کے لشکر سب کے سب۔“ یعنی شیاطین جن و انس، جنہیں ابلیس گناہوں پر اکسایا کرتا تھا، ان کے شرک اور عدم ایمان کی وجہ سے ان پر مسلط ہوگیا تھا اور یہ جن و انس اس کے داعی بن کر اس کو راضی کرنے کے لئے تگ و دو کیا کرتے تھے۔ جہنم میں جھونکے جانے والے یہ تمام لوگ یا تو ابلیس کی اطاعت کی طرف دعوت دیتے تھے یا وہ لوگ تھے جو اس دعوت پر لبیک کہتے تھے اور ان کے شرک میں ان کی تقلید کرتے تھے۔ الشعراء
96 ﴿قَالُوا﴾ یعنی ابلیس کے یہ گمراہ لشکر اپنے بتوں اور معبودوں سے کہیں گے جن کی یہ عبادت کیا کرتے تھے۔ الشعراء
97 ﴿تَاللّٰـهِ إِن كُنَّا لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ إِذْ نُسَوِّيكُم بِرَبِّ الْعَالَمِينَ﴾ ” اللہ کی قسم ! ہم تو صریح گمراہی میں تھے، جب کہ تمہیں رب العالمین کے برابر ٹھہراتے تھے۔“ یعنی عبادت، محبت، خوف اور رجاء میں ہم تمہیں رب کائنات کے برابر ٹھہرایا کرتے تھے اور تمہیں بھی ویسے ہی پکارتے تھے۔ جیسے رب تعالیٰ کا پکارتے تھے تب ان پر ان کی گمراہی عیاں ہوجائے گی اور اپنی سزا میں اللہ تعالیٰ کے عدل کو پکارتے تھے تب ان پر ان کی گمراہی عیاں ہوجائے گی اور اپنی سزا میں اللہ تعالیٰ کے عدل کا اقرار کرتے ہوئے کہیں گے کہ یہ سزا برمحل ہے۔ الشعراء
98 وہ تخلیق میں نہیں بلکہ صرف عبادت میں اپنے معبودوں کو رب کائنات کا ہم پلہ قرار دیتے تھے اس کی دلیل ان کا یہ قول ہے: ﴿بِرَبِّ الْعَالَمِينَ﴾ وہ اقرار کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ تمام جہانوں کا رب ہے جن میں ان کے بت اور معبود بھی شامل ہیں۔ الشعراء
99 ﴿وَمَا أَضَلَّنَا﴾ ” اور ہم کو نہیں گمراہ کیا تھا۔“ یعنی رشد و ہدایت کے راستے سے نہیں ہٹایا اور فسق و فجور اور گمراہی کے راستے پر نہیں چلایا ﴿إِلَّا الْمُجْرِمُونَ﴾ ” مگر مجرموں ہی نے“ اور مجرموں سے مراد وہ ائمہ ضلالت ہیں جو جہنم کی طرف بلاتے ہیں۔ الشعراء
100 ﴿فَمَا لَنَا﴾ ” پس نہیں ہمارے واسطے“ یعنی اس وقت ﴿ مِن شَافِعِينَ ﴾ ” کوئی سفارش کرنے والا۔“ یعنی جو ہماری سفارش کرکے ہمیں اس کے عذاب سے بچالے۔ الشعراء
101 ﴿وَلَا صَدِيقٍ حَمِيمٍ﴾ ” اور نہ گرم جوش دوست۔“ یعنی نہ کوئی قریبی اور خالص دوست ہے جو ہمیں ادنیٰ سا فائدہ پہنچا سکے جیسا کہ دنیا میں ہوا کرتا تھا۔ چنانچہ وہ ہر بھلائی سے مایوس ہوجائیں گے اور اپنے کرتوتوں کا خمیازہ بھگتیں گے۔ وہ تمنا کریں گے کہ کاش انہیں دوبارہ دنیا میں بھیجا جائے تاکہ وہ نیک کام کریں۔ الشعراء
102 وہ کہیں گے :﴿ فَلَوْ أَنَّ لَنَا كَرَّةً﴾ ” اگر کاش کہ ہمیں ایک مرتبہ پھر جانا ملتا۔“ یعنی دنیا کی طرف پلٹنا اور اس کی طرف لوٹنا ﴿فَنَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ ﴾ ” تو ہم مومنون میں سے ہوجاتے۔“ تاکہ ہم عذاب سے بچ جائیں اور ثواب کے مستحق بن جائیں۔ مگر یہ بہت بعید ہے اور ان کی یہ خواہش پوری نہ ہوگی ان کے قید خانے کے دروازے بند کردئیے جائیں گے۔ الشعراء
103 ﴿إِنَّ فِي ذَٰلِكَ﴾ ان تمام امور میں جن کا ہم نے تمہارے سامنے ذکر کیا ہے : ﴿لَآيَةً﴾ ” (تمہارے لیے) نشانی ہے“ ﴿ وَمَا كَانَ أَكْثَرُهُم مُّؤْمِنِينَ ﴾ ”(یعنی ان نشانیوں کے نازل ہونے کے باوجود) ان میں سے اکثر ایمان نہیں لاتے۔ “ الشعراء
104 الشعراء
105 اللہ تعالیٰ نے نوح علیہ السلام کی قوم کا ذکر فرمایا کہ انہوں نے اپنے رسول نوح علیہ السلام جو جھٹلایا، نیز نوح علیہ السلام نے ان کے شرک کو رد کیا اور انہوں نے حضرت نوح علیہ السلام کی دعوت کو ٹھکرا دیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان تمام لوگوں کے انجام سے آگاہ فرمایا، چنانچہ فرمایا : ﴿كَذَّبَتْ قَوْمُ نُوحٍ الْمُرْسَلِينَ﴾ ”نوح علیہ السلام کی قوم نے تمام رسولوں کو جھٹلایا۔“ گویا حضرت نوح علیہ السلام کی تکذیب کو تمام رسولوں کی تکذیب قرار دیا، اس لئے کہ تمام انبیاء و مرسلین کی دعوت ایک اور ان کی خبر ایک ہے اس لئے ان میں سے کسی ایک کی تکذیب اس دعوت حق کی تکذیب ہے جسے تمام انبیاء و مرسلین لے کر آئے ہیں۔ الشعراء
106 ﴿إِذْ قَالَ لَهُمْ أَخُوهُمْ نُوحٌ ﴾ ” جب ان کے (نسبی) بھائی نوح نے ان سے کہا“ اللہ تعالیٰ نے رسولوں کو ہمیشہ اسی قوم کے نسب سے پیدا کیا جس میں ان کو مبعوث کیا گیا تاکہ وہ اطاعت کرتے ہوئے انقباض اور کراہت محسوس نہ کریں کیونکہ وہ اس کی نسبی حقیقت سے واقف ہیں اور ان کو اس کے نسب کی تحقیق کی ضرورت نہیں۔ نوح علیہ السلام نے ان کو انتہائی نرمی سے خطاب کیا، جیسا کہ یہ تمام انبیاء کرام علیہم السلام کا طریقہ تھا۔ ﴿ أَلَا تَتَّقُونَ﴾ ” کیا تم (اللہ تعالیٰ سے) نہیں ڈرتے“ کہ تم بتوں کی عبادت کو چھوڑ دیتے اور صرف اللہ تعالیٰ کے لئے اپنی عبادت کو خالص کرتے؟ الشعراء
107 ﴿ إِنِّي لَكُمْ رَسُولٌ أَمِينٌ﴾ ” بے شک میں تو تمہارا امانت دار رسول ہوں۔“ حضرت نوح علیہ السلام کا خاص طور پر ان کی طرف رسول بنا کر بھیجا جانا اس امر کو موجب ہے کہ وہ، جو چیز ان کی طرف بھیجی گئی ہے اسے قبول کریں، اس پر ایمان لائیں اور اس نعمت پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں کہ اس نے انہیں اس معزز رسول کے ساتھ خاص فرمایا اور آپ کا امین ہونا اس امر کا تقاضا کرتا ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ نہ گھڑیں اور اس کی وحی میں کمی بیشی نہ کریں اور یہ چیز اس بات کی موجب ہے کہ لوگ آپ کی خبر کی تصدیق اور آپ کے حکم کی اطاعت کریں۔ الشعراء
108 ﴿فَاتَّقُوا اللّٰـهَ وَأَطِيعُونِ﴾ ” پس تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔“ یعنی جس چیز کا میں تمہیں حکم دیتا ہوں اور جس چیز سے میں تمہیں روکتا ہوں اس بارے میں میری اطاعت کرو۔ یہی وہ چیز ہے جو ان کی طرف آپ کے رسول امین کے طور پر مبعوث ہونے پر مترتب ہوتی ہے بنا بریں اللہ تعالیٰ نے (فاء) کے ساتھ ذکر فرمایا جو سبب پر دلالت کرتی ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے سب موجب کا ذکر کیا پھر نفی مانع کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : الشعراء
109 ﴿وَمَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ﴾ ” اور میں تم سے اس (دعوت) پر کوئی اجرت طلب نہیں کرتا“ جس سے تمہیں بھاری تاوان کی تکلیف برداشت کرنی پڑتی ہو۔ ﴿إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَىٰ رَبِّ الْعَالَمِينَ﴾ ” میرا اجر تو صرف رب العالمین پر ہے۔“ میں اس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کے تقرب اور ثواب جزیل کی امید رکھتا ہوں۔ رہا تمہارا معاملہ تو میری انتہائی تمنا اور ارادہ صرف تمہاری خیر خواہی اور تمہارا راہ راست پر گامزن ہوتا ہے۔ الشعراء
110 ﴿فَاتَّقُوا اللّٰـهَ وَأَطِيعُونِ﴾ یہ آیت مکرر ذکر کی گئی ہے کیونکہ نوح علیہ السلام ایک نہایت طویل عرصہ تک اپنی قوم کو بار بار دعوت توحید دیتے رہے، وہ بتکرار یہ بات کہتے رہے ” اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو“ فرمایا : ﴿ فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ إِلَّا خَمْسِينَ عَامًا﴾ (العنکبوت : 29؍14) ” پس وہ نوح علیہ السلام پچاس کم ایک ہزار سال اپنی قوم میں رہے۔“ نوح علیہ السلام نے کہا : ﴿رَبِّ إِنِّي دَعَوْتُ قَوْمِي لَيْلًا وَنَهَارًا فَلَمْ يَزِدْهُمْ دُعَائِي إِلَّا فِرَارًا﴾ )نوح : 71؍5، 6( ” اے میرے رب ! میں اپنی قوم کو رات دن توحید کی طرف بلاتا رہا مگر وہ میرے بلانے پر اور زیادہ دور بھاگنے لگے۔ “ الشعراء
111 جب ہم حضرت نوح علیہ السلام کی قوم کے بارے میں سنتے ہیں کہ انہوں نے نوح علیہ السلام کی دعوت کو رد کرتے ہوئے کہا : ﴿أَنُؤْمِنُ لَكَ وَاتَّبَعَكَ الْأَرْذَلُونَ﴾ تو ہمیں معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ لوگ گمراہ اور خطا کار ہیں اگرچہ ہم حضرت نوح علیہ السلام کے معجزات اور ان کی عظیم دعوت کا مشاہدہ نہ بھی کریں جو کہ آپ کی سچائی پر پختہ یقین اور جس چیز کو لے کر آپ اٹھے ہیں اس کے صحیح ہونے کا فائدہ دیتے ہیں کیونکہ ان منکرین نے حضرت نوح علیہ السلام کی دعوت کو رد کرنے کی بنیاد ایسی چیز پر رکھی ہے جس کا فساد سب پر واضح ہے۔ انہوں نے نوح علیہ السلام کی دعوت کو ٹھکراتے اور ایسی چیز کی بنا پر آپ کی مخالفت کرتے ہوئے کہا جس کی بنا پر مخالفت کرنا درست نہ تھا : ﴿أَنُؤْمِنُ لَكَ وَاتَّبَعَكَ الْأَرْذَلُونَ﴾ یعنی ہم تیری اتباع کیسے کرسکتے ہیں جبکہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ تیری اتباع کرنے والے معاشرے میں سبب سے گھٹیا، رذیل اور گرے پڑے لوگ ہیں۔ ان کی ان باتوں سے ان کا حق سے تکبر کرنا اور حقائق سے جاہل رہنا پہنچانا جاسکتا ہے، کیونکہ اگر ان کا مقصد تلاش حق ہوتا اور انہیں آپ کی دعوت میں کوئی شک و شبہ ہوتا تو کہتے کہ آپ جو چیز لے کر آئے ہیں اس تک پہنچانے والے طرق کے ذریعے سے ہمیں اس کے صحیح ہونے کے بارے میں وضاحت فرما دیجئے ! اگر وہ غور کرتے جیسا کہ غور کرنے کا حق ہے تو انہیں معلوم ہوجاتا ہے کہ نوح علیہ السلام کے متبعین ہی بہترین لوگ اور انسانیت کے اعلیٰ ترین درجے پر فائز ہیں، وہ بہترین عقل اور اخلاق فاضلہ کے حامل ہیں۔ سب سے رذیل وہ ہے جس سے خصوصیات عقل سلب کرلی گئی ہوں اور وہ پتھروں کی عبادت کو مستحسن سمجھتا ہو اور وہ ان کے سامنے سجدہ ریز ہونے اور حاجتوں میں ان کو پکارنے پر راضی ہو اور اس نے کامل ترین انسانوں یعنی انبیاء و رسل کی دعوت کو قبول کرنے سے انکار کردیا ہو۔ جب دو جھگڑے والوں میں سے ایک کلام باطل کے ساتھ بات کر رہا ہو تو محض اس کے کلام ہی سے اس کے فساد کا پتہ چل جائے گا، اس سے قطع نظر کہ اس کے مدمقابل دوسرے آدمی کے دعویٰ کی صحت پر غور کیا جائے۔ الشعراء
112 الشعراء
113 چنانچہ نوح علیہ السلام نے فرمایا : ﴿ وَمَا عِلْمِي بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ إِنْ حِسَابُهُمْ إِلَّا عَلَىٰ رَبِّي لَوْ تَشْعُرُونَ﴾ ” اور مجھے کیا خبر وہ پہلے کیا کرتے رہے ان کا حساب تو میرے رب کے ذمہ ہے اگر تم شعور رکھتے ہو۔“ یعنی ان کے اعمال کا حساب اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے اور میرا فرض اللہ تعالیٰ کے پیغام کو پہنچا دینا ہے، تم ان کا معاملہ چھوڑو۔ اگر میرے دعوت حق ہے تو اس کے سامنے سر تسلیم خم کردو۔ ہر شخص اپنے عمل کا خود ذمہ دار ہے۔ الشعراء
114 ﴿وَمَا أَنَا بِطَارِدِ الْمُؤْمِنِينَ﴾ ” اور میں مومنوں کا نکال دینے والا نہیں ہوں۔“ یوں لگتا ہے کہ انہوں نے ۔۔۔ اللہ ان کا برا کرے۔۔۔ تکبر اور جرب سے نوح علیہ السلام سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اہل ایمان کو اپنے پاس سے دھتکار دیں تب وہ ایمان لائیں گے تو نوح علیہ السلام نے جواب دیا : ﴿وَمَا أَنَا بِطَارِدِ الْمُؤْمِنِينَ﴾ کیونکہ یہ اہانت اور دھتکارے جانے کے مستحق نہیں بلکہ یہ تو قولی و فعلی اکرام و تکریم کے مستحق ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَإِذَا جَاءَكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِآيَاتِنَا فَقُلْ سَلَامٌ عَلَيْكُمْ كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلَىٰ نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ﴾ )الانعام : 6؍54 ) ” اور جب آپ کے پاس وہ لوگ آئیں جو ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں تو ان سے کہہ دیجئے تم پر سلامتی ہو۔ اللہ نے اپنی ذات پر رحمت کو واجب کرلیا ہے۔ “ الشعراء
115 ﴿إِنْ أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُّبِينٌ﴾ ” میں تو صرف واضح طور پر ڈرانے والا ہوں۔“ یعنی میں صرف ڈرانے والا، اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیغام پہنچا دینے والا ہوں اور میں بندوں کی خیر خواہی کی کوشش میں لگا رہتا ہوں۔ میرے پاس کوئی اختیار نہیں، معاملے کا تمام اختیار صرف اللہ تعالیٰ کے قبضہء قدرت میں ہے۔ الشعراء
116 نوح علیہ السلام دن رات، کھلے چھپے، انہیں دعوت دیتے رہے مگر وہ دور ہی دور بھاگتے رہے اور کہنے لگے : ﴿لَئِن لَّمْ تَنتَهِ يَا نُوحُ﴾ اے نوح ! اگر تو ہمیں اللہ کی طرف دعوت دینے سے باز نہ آیا ﴿ لَتَكُونَنَّ مِنَ الْمَرْجُومِينَ﴾ ہم تجھے پتھر مار مار کر بری طرح قتل کریں گے، جس طرح کتے کو قتل کیا جاتا ہے۔۔۔ ان کا برا ہو۔۔۔ انہوں نے کتنا برا تقابل کیا ہے۔ وہ ایک خیر خواہ، امین شخص کا تقابل، جو ان کے لئے خود ان سے زیادہ شفیق ہے، بدترین تقابل کر رہے ہیں۔ جب ان کے جرم کی انتہا ہوگئی اور ان کا کفر بہت زیادہ ہوگیا تو ان کے نبی نے ان کے لئے بدعا کی جس نے ان کو گھیر لیا، چنانچہ نوح علیہ السلام نے عرض کیا : ﴿رَّبِّ لَا تَذَرْ عَلَى الْأَرْضِ مِنَ الْكَافِرِينَ دَيَّارًا ﴾ (نوح : 71؍26) ”اے میرے رب کسی کافر کو زمین پر بسا نہ رہنے دے۔“ الشعراء
117 ور یہاں فرمایا : ﴿رَبِّ إِنَّ قَوْمِي كَذَّبُونِ فَافْتَحْ بَيْنِي وَبَيْنَهُمْ فَتْحًا﴾ ” میرے رب ! میری قوم نے تو مجھے جھٹلا دیا پس تو میرے اور ان کے درمیان ایک کھلا فیصلہ کردے۔“ یعنی ہم میں سے جو زیادتی کا مرتکب ہے اسے ہلاک کردے اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ وہ ظلم اور زیادتی کے مرتکب ہیں۔ الشعراء
118 اس لئے عرض کیا ﴿ وَنَجِّنِي وَمَن مَّعِيَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ﴾ ” مجھے اور ان مومنین کو جو میرے ساتھ ہیں، نجات دے۔ “ الشعراء
119 ﴿ فَأَنجَيْنَاهُ وَمَن مَّعَهُ فِي الْفُلْكِ﴾ ” پس ہم نے ان کو اور جو ان کے ساتھ کشتی میں سوار تھے بچالیا۔“ ﴿الْمَشْحُونِ ﴾ جو مخلوق اور حیوانات سے بھری ہوئی تھی۔ الشعراء
120 ﴿ ثُمَّ أَغْرَقْنَا بَعْدُ ﴾ ” پھر اس کے بعد غرق کردیا۔“ یعنی نوح علیہ السلام اور ان اہل یمان کے بعد جو آپ کے ساتھ تھے ﴿االْبَاقِينَ﴾ باقی تمام قوم کو غرق کردیا۔ الشعراء
121 ﴿إِنَّ فِي ذَٰلِكَ﴾ ” بے شک اس میں۔“ یعنی نوح علیہ السلام اور ان کی متبعین کی نجات اور جھٹلانے والوں کی ہلاکت میں ﴿ لَآيَةً﴾ ” ایک نشانی ہے“ جو ہمارے رسولوں کی صداقت اور ان کی دعوت کے حق ہونے اور ان کی تکذیب کرنے والے دشمنوں کے موقف کے بطلان پر دلالت کرتی ہے۔ الشعراء
122 ﴿وَإِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الْعَزِيزُ ﴾ ” بے شک تمہارا رب تو غالب ہے۔“ جو اپنی قوت اور غلبے کی بنا پر اپنے دشمنوں پر غالب ہے اور اس نے ان کو طوفان کے ذریعے سے غرق کردیا۔ ﴿ الرَّحِيمُ ﴾ ” مہربان ہے۔“ یعنی وہ اپنے اولیا پر بہت مہربان ہے اس نے حضرت نوح علیہ السلام اور ان کے ساتھ اہل ایمان کی نجات دی۔ الشعراء
123 یعنی عادنامی قبیلے نے اپنے رسول ہود علیہ السلام کی تکذیب کی، ان کا ہود علیہ السلام کی تکذیب کرنا تمام رسولوں کی تکذیب ہے کیونکہ تمام رسولوں کی دعوت ایک ہے۔ الشعراء
124 ﴿إِذْ قَالَ لَهُمْ أَخُوهُمْ﴾ ” جب ان کے بھائی نے انہیں کہا۔” یعنی نسبی بھائی ﴿ هُودٌ ﴾ ” ہود علیہ السلام نے“ نہایت شفقت اور بہترین طریقے سے مخاطب ہو کر کہا : ﴿ أَلَا تَتَّقُونَ ﴾ ” کیا تم ڈرتے نہیں۔“ یعنی تم اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے شرک اور غیر اللہ کی عبادت کو چھوڑتے نہیں؟ الشعراء
125 ﴿إِنِّي لَكُمْ رَسُولٌ أَمِينٌ﴾ ” میں تمہارے لئے امانت دار رسول ہیں۔“ یعنی اللہ تعالیٰ نے تم پر رحم اور نظر عنایت کرتے ہوئے مجھے تمہاری طرف رسول بنا کر بھیجا ہے اور تم مجھے اچھی طرح جانتے ہو کہ میں ایک امانت دار شخص ہوں اس تمہید پر انہوں نے اپنا یہ قول مرتب کیا۔ الشعراء
126 ﴿ فَاتَّقُوا اللّٰـهَ وَأَطِيعُونِ﴾ ” پس اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔“ یعنی اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرو اور وہ ہے تقویٰ اور میں جن امور کا حکم دیتا ہوں اور جن امور سے روکتا ہوں، ان میں میری اطاعت کرکے میرا حق ادا کرو اور یہ چیز اس امر کی موجب ہے کہ تم میری اتباع اور اطاعت کرو۔ تمہارے ایمان لانے میں کوئی چیز مانع نہیں اور میں تمہیں اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانے اور خیر خواہی کرنے کے بدلے میں تم سے کوئی اجرت نہیں مانگتا کہ تم اسے بھاری تاوان خیال کرو۔ الشعراء
127 ﴿ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَىٰ رَبِّ الْعَالَمِينَ﴾ ” میرا اجر تو رب کائنات کے ذمہ ہے“ جس نے بے شمار نعمتوں کے ذریعے سے ان کی تربیت کی اور اپنے فضل و کرم کا ان پر فیضان کیا، خاص طور پر جو اس نے اپنے اولیاء انبیاء کی تربیت فرمائی۔ الشعراء
128 ﴿ أَتَبْنُونَ بِكُلِّ رِيعٍ﴾ ” بھلا تم ہر اونچی جگہ پر بناتے ہو۔“ یعنی پہاڑوں کے درمیان کشادہ راستے پر ﴿آيَةً﴾ ” علامت“ یعنی یادگار کے طور پر ﴿ تَعْبَثُونَ ﴾’ ’ کھیل کود کرتے ہوئے۔“ یعنی یہ کام تم عبث کرتے ہو جس کا تمہارے دین اور دنیا میں کوئی فائدہ نہیں۔ الشعراء
129 ﴿ وَتَتَّخِذُونَ مَصَانِعَ﴾ ” اور تم محل (یاحوض) بناتے ہو۔“ یعنی بارش کا پانی جمع کرنے کے لئے حوض بناتے ہو۔ ﴿ لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُونَ﴾ ” شاید تم ہمیشہ رہو گے؟“ اور حال یہ ہے کہ کسی شخص کے لئے اس دنیا میں ہمیشہ زندہ رہنے کی کوئی راہ نہیں۔ الشعراء
130 ﴿وَإِذَا بَطَشْتُم ﴾ ” اور جب تم (مخلوق کو) پکڑتے ہو۔“ ﴿بَطَشْتُمْ جَبَّارِينَ ﴾’ ’ تو انتہائی ظلم و جبر کے ساتھ پکڑتے ہو۔“ ان کو قتل کرتے ہو، مارتے ہو اور ان کا مال و متاع لوٹ لیتے ہو۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کو بہت زیادہ قوت عطا کر رکھی تھی ان پر واجب تھا کہ وہ اس وقت کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں صرف کرتے مگر اس کے برعکس انہوں نے فخر اور تکبر کا مظاہرہ کیا اور کہنے لگے : ﴿مَنْ أَشَدُّ مِنَّا قُوَّةً﴾ (حٰم السجدۃ: 41؍15) الشعراء
131 ” کون ہے ہم سے زیادہ طاقتور؟“ اور انہوں نے اپنی قوت و طاقت کو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی، عبث اور سفاہیت کے کاموں میں استعمال کیا، اس لئے ان کے نبی نے ان کو ان کاموں سے روکا۔ ﴿فَاتَّقُوا اللَّـهَ﴾ ” پس تم اللہ سے ڈرو۔“ یعنی تم اپنے شرک اور تکبر کو چھوڑ دو ﴿وَأَطِيعُونِ﴾ ” اور میری اطاعت کرو۔“ کیونکہ تم جانتے ہو کہ مجھے تمہاری طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہے اور میں خیر خواہ اور امین ہوں۔ الشعراء
132 ﴿وَاتَّقُوا الَّذِي أَمَدَّكُم﴾ ” اور اس ذات سے ڈرو، جس نے تمہیں مدد دی۔“ یعنی جس نے تمہیں عطا کیا ﴿بِمَا تَعْلَمُونَ﴾ ” ان چیزوں سے جن کو تم جانتے ہو۔“ یعنی اللہ تعالیٰ نے تمہیں ان نعمتوں سے نوازا ہے جو مجمول ہیں نہ ان کا انکار کیا جاسکتا ہے۔ الشعراء
133 ﴿ أَمَدَّكُم بِأَنْعَامٍ﴾ ” اس نے چوپایوں کے ذریعے سے تمہاری مدد کی۔“ یعنی اس نے تمہیں اونٹ، بھیڑ بکریاں اور گائیں عطا کیں ﴿ وَبَنِينَ﴾ ” اور بیٹے عطا کیے۔“ یعنی کثرت نسل سے نوازا اس نے تمہیں بہت زیادہ مال اور اولاد، خاص طور پر نرینہ اولاد عطا کی۔ جو دونوں اقسام میں سے بہترین نعمت ہے۔ یہ تو تھی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو یاد دلا کر وعظ ونصیحت۔ الشعراء
134 الشعراء
135 پھر انہیں نزول عذاب سے ڈرایا : ﴿إِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ ﴾ میں تم پر اپنی شفقت اور تمہارے ساتھ نیکی کی بنا پر ڈرتا ہوں کہ کہیں تم پر بڑے دن کا عذاب نازل نہ ہوجائے۔ تمہارے کفر اور بغاوت کے رویے پر جمے رہنے کی بنا پر جب وہ عذاب نازل ہوگیا تو کسی کے روکے نہیں رکے گا۔ الشعراء
136 انہوں نے حق کے ساتھ عناد کا مظاہرہ اور اپنے نبی کی تکذیب کرتے ہوئے کہا : ﴿سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَوَعَظْتَ أَمْ لَمْ تَكُن مِّنَ الْوَاعِظِينَ ﴾ ”خواہ نصیحت کردیا نہ کرو، ہمارے لئے یکسان ہے۔“ یعنی سب برابر ہے۔ یہ سرکشی کی انتہاء ہے کہ جب قومیں اس حالت کو پہنچ جاتی ہیں کہ ان کے لئے اللہ تعالیٰ کے مواعظ و تذکری، جن کے سامنے پہاڑوں جیسی ٹھوس چٹانیں بھی پگھل جاتی ہیں اور عقل مندوں کے دل لخت لخت ہوجاتے ہیں، کا وجود اور عدم وجود برابر ہوں تو یہ ان کے ظلم اور بختی کی آخری حد ہے۔ تب ان کی ہدایت کی امید منقطع ہوجاتی ہے۔ الشعراء
137 اس لئے انہوں نے کہا : ﴿إِنْ هَـٰذَا إِلَّا خُلُقُ الْأَوَّلِينَ﴾ ” یہ تو اگلوں ہی کے طرق ہیں۔“ یعنی یہ احوال اور یہ تمام نعمتیں وغیرہ، پہلے لوگوں کے ساتھ بھی ایسے ہوتا آیا ہے۔ وہ کبھی مالدار ہوتے تھے اور کبھی محتاج۔ یہ زمانے کے حالات ہیں۔ یہ سختیاں اور نعمتیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں نہ اس کے بندوں کی آزمائش ہیں۔ الشعراء
138 ﴿وَمَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِينَ ﴾’ ’ اور ہم پر کوئی عذاب نہیں آئے گا۔“ یہ گویا ان کی طرف سے قیامت کا انکار یا اپنے نبی کو اس کی رائے سے ہٹانے کی کوشش یا اس کے ساتھ استہزا ہے اور اگر ہم فرض کرلیں کہ ہمیں مرنے کے بعد دوبارہ اٹھایا بھی گیا تو جس طرح ہمیں دنیا میں نعمتوں سے نوازا گیا ہے اسی طرح ہمیں دوسری زندگی میں بھی نعمتیں عطا ہوتی رہیں گے۔ الشعراء
139 ﴿فَكَذَّبُوهُ ﴾’’پس انہوں نے اس کی تکذیب کی۔“ یعنی تکذیب ان کی فطرت اور عادت بن گئی تھی اور اس سے کوئی انہیں باز نہیں رکھ سکتا۔ ﴿فَأَهْلَكْنَاهُمْ﴾ ” تو ہم نے ان کو ہلاک کردیا۔“ یعنی ﴿ بِرِيحٍ صَرْصَرٍ عَاتِيَةٍ سَخَّرَهَا عَلَيْهِمْ سَبْعَ لَيَالٍ وَثَمَانِيَةَ أَيَّامٍ حُسُومًا فَتَرَى الْقَوْمَ فِيهَا صَرْعَىٰ كَأَنَّهُمْ أَعْجَازُ نَخْلٍ خَاوِيَةٍ﴾ (الحاقۃ: 69؍6، 7) ” (قوم عاد کو ) نہایت تیز آندھی نے ہلاک کردیا اللہ تعالیٰ نے مسلسل سات رات اور آٹھ دن تک اس آندھی کو ان پر چلائے رکھا، پس تو لوگوں کو اس میں اس طرح پچھاڑے ہوئے دیکھے گا جیسے کھجوروں کے کھوکھلے تنے۔‘‘ ﴿إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً﴾ اس میں ہمارے نبی ہود علیہ السلام، ان کی دعوت کی صداقت اور ان کی قوم کے شرک اور سرکشی کے بطلان پر دلیل ہے۔ ﴿وَمَا كَانَ أَكْثَرُهُم مُّؤْمِنِينَ﴾ ان نشانیوں کے باوجود وہ ایمان نہ لائے جو ایمان کا تقاضا کرتی ہیں۔ الشعراء
140 ﴿وَإِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الْعَزِيزُ﴾ ” اور تمہارا رب تو غالب ہے۔“ جس نے اپنی قدرت کے ذریعے سے حضرت ہود علیہ السلام کی قوم کو، ان کے طاقتور اور زبردست ہونے کے باوجود، ہلاک کر ڈالا۔ ﴿الرَّحِيمُ﴾ ” نہایت رحم کرنے والا ہے۔“ یعنی وہ اپنے نبی ہود علیہ السلام پر بہت رحم کرنے والا تھا کیونکہ اس نے حضرت ہود علیہ السلام اور ان کے ساتھی اہل ایمان کو کفار سے نجات بخشی۔ الشعراء
141 ﴿كَذَّبَتْ ثَمُودُ﴾ ” قوم ثمود نے جھٹلا دیا۔“ علاقہ حجر کے شہروں میں آباد معروف قبیلہ ہے ﴿الْمُرْسَلِينَ﴾ ” پیغمبروں کو۔“ انہوں نے صالح علیہ السلام کی تکذیب کی جو توحید لے کر ان کے پاس آئے جو تمام انبیاء و مرسلین کی دعوت تھی، اس لئے حضرت صالح علیہ السلام کی تکذیب گویا تمام رسولوں کی تکذیب ہے۔ الشعراء
142 ﴿إِذْ قَالَ لَهُمْ أَخُوهُمْ صَالِحٌ﴾ ” جب ان کے بھائی صالح علیہ السلام نے (جو ان کے نسبی بھائی تھے، نہایت نرمی سے) ان سے کہا : ﴿ أَلَا تَتَّقُونَ ﴾ کیا تم اللہ تعالیٰ سے ڈر کر شرک اور معاصی کو نہیں چھوڑتے؟ الشعراء
143 ﴿إِنِّي لَكُمْ رَسُولٌ ﴾ ” بے شک میں تمہارے رب کی طرف سے رسول ہوں‘‘ اللہ تعالیٰ نے اپنے لطف و کرم اور رحمت کی بنا پر مجھے تمہاری طرف بھیجا ہے پس اللہ تعالیٰ کی رحمت کو قبول کرو اور فروتنی اور اطاعت کے ساتھ اس کا استقبال کرو۔ ﴿ أَمِينٌ ﴾ تم میری امانت و دیانت کو خوب جانتے ہو اور یہ چیز اس امر کی متقاضی ہے کہ تم مجھ پر اور میری دعوت پر ایمان لاؤ۔ الشعراء
144 الشعراء
145 ﴿ وَمَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ ﴾ ” اور میں اس کا تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا۔“ تاکہ تم یہ نہ کہو کہ ہمیں تمہاری اتباع سے صرف اس چیز نے روک رکھا ہے کہ تم ہمارا مال ہتھیانا چاہتے ہو۔ ﴿إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَىٰ رَبِّ الْعَالَمِينَ﴾ ” میرا اجر تو رب العالمین کے ذمے ہے۔“ یعنی میں اس اجرو ثواب صرف اللہ تعالیٰ سے طلب کرتا ہوں۔ الشعراء
146 ﴿أَتُتْرَكُونَ فِي مَا هَاهُنَا آمِنِينَ فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ وَزُرُوعٍ وَنَخْلٍ طَلْعُهَا هَضِيمٌ ﴾ ” کیا جو چیزیں ہیں ان میں تم بے خوف چھوڑ دیے جاؤ گے یعنی باغات اور چشموں میں، اور کھیتیاں اور کھجوریں جن کے خوشے لطیف اور نازک ہوتے ہیں۔“ یعنی پھل سے لدے ہوئے یعنی کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ تمہیں ان نعمتوں اور آسائشوں میں بے کار چھوڑ دیا جائے گا تاکہ تم ان نعمتوں سے فائدہ اٹھاؤ جیسے چوپائے فائدہ اٹھاتے ہیں تمہیں کوئی حکم دیا جائے گا نہ کسی چیز سے روکا جائے گا اور تم اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ ہی کی نافرمانی میں مدد طلب کرو گے۔ الشعراء
147 الشعراء
148 الشعراء
149 ﴿ وَتَنْحِتُونَ مِنَ الْجِبَالِ بُيُوتًا فَارِهِينَ ﴾ یعنی تمہاری مہارت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ تم ٹھوس سخت پہاڑوں کو تراش کر اپنے گھر بناتے ہو۔ الشعراء
150 الشعراء
151 ﴿فَاتَّقُوا اللّٰـهَ وَأَطِيعُونِ وَلَا تُطِيعُوا أَمْرَ الْمُسْرِفِينَ﴾ ” پس اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو اور حد سے تجاوز کرنے والوں کی بات نہ مانو۔“ جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی حدود سے تجاوز کیا۔ الشعراء
152 ﴿الَّذِينَ يُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ وَلَا يُصْلِحُونَ﴾ ” جو ملک میں فساد کرتے ہیں اور اصلاح نہیں کرتے۔“ یعنی جن کا وصف اور جن کی عادت، گناہوں کے ارتکاب اور لوگوں کو گناہوں کی طرف دعوت کے ذریعے سے زمین میں اس قدر فساد پھیلانا ہے کہ اس کی اصلاح ممکن نہ ہو۔ یہ سب سے زیادہ نقصان دہ چیز ہے کیونکہ یہ خالص شر ہے۔ حضرت صالح علیہ السلام کی قوم میں کچھ ایسے لوگ بھی تھے جو اپنے نبی کی مخالفت کے لئے ہر وقت مستعد اور کمر بستہ رہتے تھے اور محض لوگوں کو گمراہ کرنے کی خاطر دعوت توحید کا مرتبہ گھٹانے کی کوشش کرتے تھے۔ صالح علیہ السلام نے اپنی قوم کو ان مفسدوں کے دھوکے میں آنے سے روکا۔ شاید یہی وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَكَانَ فِي الْمَدِينَةِ تِسْعَةُ رَهْطٍ يُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ وَلَا يُصْلِحُونَ﴾ (النمل : 27؍48) ” اور شہر میں نو شخص تھے جو زمین میں فساد پھیلاتے تھے اور اصلاح کا کوئی کام نہ کرتے تھے۔ “ الشعراء
153 اس نہی اور وعظ و نصیحت نے انہیں کوئی فائدہ نہ دیا، چنانچہ انہوں نے حضرت صالح علیہ السلام سے کہا : ﴿ إِنَّمَا أَنتَ مِنَ الْمُسَحَّرِينَ﴾ یعنی تجھ پر تو جادو کردیا گیا ہے اس لئے تو ہذیانی کیفیت میں بول رہا ہے اور ایسی باتیں کہہ رہا ہے جس کا کوئی معنی نہیں۔ الشعراء
154 ﴿مَا أَنتَ إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا ﴾ ” تو ہماری ہی طرح کا آدمی ہے۔“ تب وہ کون سی فضیلت ہے جس کے ذریدے سے تجھے ہم پر فوقیت حاصل ہے، یہاں تک کہ تو ہمیں اپنی اتباع کی دعوت دیتا ہے۔ ﴿فَأْتِ بِآيَةٍ إِن كُنتَ مِنَ الصَّادِقِينَ﴾ ” اگر تو سچا ہے تو کوئی نشانی پیش کر۔“ حالانکہ صالح علیہ السلام کی مجرد حالت کا اعتبار نیز آپ کی دعوت کا اعتبار ہی اس چیز کی صحت اور صداقت پر سب سے بڑی اور سب سے واضح دلیل ہے جس کے ساتھ آپ کو مبعوث کیا گیا ہے مگر انہوں نے اپنی بدبختی کی بنا پر معجزات کا مطالبہ کیا۔ غالب حالات میں ان معجزات کا مطالبہ کرنے والے فلاح نہیں پاتے کیونکہ ان کا مطالبہ طلب رشد و ہدایت پر نہیں بلکہ تعنت پر مبنی ہوتا ہے۔ الشعراء
155 صالح علیہ السلام نے کہا : ﴿هَـٰذِهِ نَاقَةٌ﴾ ” یہ اونٹنی ہے“ جو ٹھوس اور ملائم پتھر سے نکلی ہے جسے تم دیکھ رہے ہو اور تم سب اس کا مشاہدہ کر رہے ہو۔ ﴿لَّهَا شِرْبٌ وَلَكُمْ شِرْبُ يَوْمٍ مَّعْلُومٍ﴾ ” اس کی پانی پینے کی باری اور ایک معین روز تمہاری باری ہے۔“ یعنی اس کنویں سے ایک دن اونٹنی پانی پئیے گی اور تم اس کا دود ھ پیو گے اگلے روز اونٹنی پانی نہیں پئیے گی اور تم کنویں کا پانی پیو گے۔ الشعراء
156 ﴿ وَلَا تَمَسُّوهَا بِسُوءٍ﴾ ” اور اس کو کوئی تکلیف پہنچانے کے لئے نہ چھونا۔“یعنی اسے ہلاک وغیرہ کرنے کی نیت سے چھونا بھی نہیں ﴿فَيَأْخُذَكُمْ عَذَابُ يَوْمٍ عَظِيمٍ﴾ ” ورنہ تم کو سخت دن کا عذاب آپکڑے گا۔“ پس یہ اونٹنی ان کے سامنے برآمد ہوئی اور اسی حال میں ان کے سامنے رہی مگر وہ ایمان نہ لائے اور اپنی سرکشی پر جمے رہے۔ الشعراء
157 ﴿فَعَقَرُوهَا فَأَصْبَحُوا نَادِمِينَ فَأَخَذَهُمُ الْعَذَابُ﴾ ”پس انہوں نے اس کی کونچیں کاٹ ڈالیں پھر نادم ہوئے۔ پس ان کو عذاب نے آپکڑا۔“ یہ عذاب ایک چیخ کی صورت میں نازل ہوا جس نے ان سب کو ہلاک کرکے رکھ دیا الشعراء
158 ﴿إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً﴾ اس میں ہمارے رسولوں کی دعوت کی صداقت اور ان کے مخالفین کے موقف کے بطلان کی دلیل ہے ۔ الشعراء
159 ﴿وَمَا كَانَ أَكْثَرُهُم مُّؤْمِنِينَ وَإِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ ﴾ الشعراء
160 حضرت لوط علیہ السلام نے اپنی قوم کو اللہ تعالیٰ کی دعوت دی انہوں نے لوط علیہ السلام کو ہی جواب دیا جو ان سے پہلے لوگ اپنے رسولوں کو دیتے چلے آئے ہیں۔ چونکہ ان کے دل کفر میں ایک دوسرے کے مشابہ تھے اس لئے ان کے اقوال بھی ایک دوسرے کے مشابہ ہوگئے۔ نیز وہ اپنے شرک کے ساتھ ساتھ ایسی بدکاری کا ارتکاب بھی کرتے تھے جو ان سے پہلے دنیا میں کسی نے نہ کی تھی۔ وہ اپنے اسراف اور حد سے تجاوز کرنے کی بنا پر اپنی بیویوں کو چھوڑ کر جنہیں اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے تخلیق فرمایا تھا، مردوں کے ساتھ مجامعت کے گندے اور خبیث فعل کا ارتکاب کرتے تھے۔ لوط علیہ السلام انہیں اس گندے کام سے روکتے رہے، یہاں تک کہ الشعراء
161 الشعراء
162 الشعراء
163 الشعراء
164 الشعراء
165 الشعراء
166 الشعراء
167 ﴿قَالُوْا﴾ ” انہوں نے کہا“ حضرت لوط علیہ السلام سے ﴿لَئِنْ لَّمْ تَنتَهِ يَا لُوطُ لَتَكُونَنَّ مِنَ الْمُخْرَجِينَ﴾ ” اے لوط ! اگر تو باز نہ آیا تو شہر بدر کردیا جائے گا۔ “ الشعراء
168 جب لوط علیہ السلام نے دیکھا کہ وہ اپنی بدکاری پر جمے ہوئے ہیں تو کہنے لگے : ﴿إِنِّي لِعَمَلِكُم مِّنَ الْقَالِينَ ﴾ ” میں تمہاری اس بدکرداری پر تم پر سخت ناراض ہوں“ میں تمہیں اس سے منع کرتا ہوں اور اس برے کام کے انجام سے ڈراتا ہوں۔ الشعراء
169 حضرت لوط علیہ السلام نے دعا کی : ﴿رَبِّ نَجِّنِي وَأَهْلِي مِمَّا يَعْمَلُونَ﴾ ” اے میرے رب ! مجھ کو اور میرے گھر والوں کو ان کے کاموں سے نجات دے۔“ یعنی ان کے فعل بد اور اس کے عذاب سے بچا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا قبول فرما لی۔ الشعراء
170 ﴿ فَنَجَّيْنَاهُ وَأَهْلَهُ أَجْمَعِينَ إِلَّا عَجُوزًا فِي الْغَابِرِينَ﴾ ” پس ہم نے ان کو اور ان کے سب سب گھر والوں کو نجات دی مگر ایک بڑھیا کہ پیچھے رہ گئی۔“ یعنی یہ عورت ان لوگوں میں رہ گئی جن پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہوا اور یہ عورت لوط علیہ السلام کی بیوی تھی۔ الشعراء
171 الشعراء
172 الشعراء
173 ﴿ثُمَّ دَمَّرْنَا الْآخَرِينَ وَأَمْطَرْنَا عَلَيْهِم مَّطَرًا﴾ ” پھر ہم نے دوسروں کو ہلاک کردیا اور ان پر بارش برسائی۔‘‘ یعنی ہم نے ان پر کھنگر کے پتھر برسائے ﴿فَسَاءَ مَطَرُ الْمُنذَرِينَ﴾ ” پس جو بارش ان ڈرائے گئے لوگوں پر برسائی گئی، بہت بری تھی۔“ اللہ تعالیٰ نے ان کے آخری متنفس تک کو ہلاک کردیا۔ الشعراء
174 الشعراء
175 ﴿ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً وَمَا كَانَ أَكْثَرُهُم مُّؤْمِنِينَ وَإِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ ﴾ ”بے شک اس میں ایک نشانی ہے مگر اکثر لوگ ایمان لانے والے نہیں۔ بے شک آپ کا رب بڑا زبردست ہے اور نہایت رحم والا بھی۔ الشعراء
176 ﴿أَصْحَابُ الْأَيْكَةِ ﴾ یعنی گنجان درختوں والے باغات میں بسنے والے، مراد اصحاب مدین ہیں انہوں نے اپنے رسول حضرت شعیب علیہ السلام کو جھٹلایا۔ شعیب علیہ السلام بھی وہی دعوت لے کر آئے تھے جو دیگر انبیاء و مرسلین لے کر آئے تھے۔ الشعراء
177 ﴿إِذْ قَالَ لَهُمْ شُعَيْبٌ أَلَا تَتَّقُونَ ﴾ ” جب شعیب نے انہیں کہا، تم ڈرتے کیوں نہیں؟“ یعنی اللہ تعالیٰ سے کہ تم کفر اور معاصی کو چھوڑدو جو اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا باعث بنتے ہیں۔ الشعراء
178 ﴿إِنِّي لَكُمْ رَسُولٌ أَمِينٌ﴾ ” میں تمہارے لئے امانت دار رسول ہیں۔“ اور اس پر یہ چیز مرتب ہوتی ہے کہ تم اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ یہ لوگ اپنے شرک کے ساتھ ساتھ ناپ تول میں بھی کمی کرتے تھے۔ الشعراء
179 الشعراء
180 الشعراء
181 اس لئے شعیب علیہ السلام نے ان سے فرمایا : ﴿أَوْفُوا الْكَيْلَ﴾ ” ناپ کو پورا کرو“ ﴿وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُخْسِرِينَ ﴾ ” اور کم کرکے دینے والوں میں شمولیت نہ کرو۔“ یعنی جو ناپ تول میں کمی کرکے لوگوں کے مال کم کرتے ہیں ان کے مال ہتھیا لیتے ہیں۔ الشعراء
182 ﴿وَزِنُوا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِيمِ﴾ یعنی پورا تولنے والے درست ترازو کے ساتھ تو لو جو کسی طرف نہ جھکے۔ الشعراء
183 الشعراء
184 ﴿وَاتَّقُوا الَّذِي خَلَقَكُمْ وَالْجِبِلَّةَ الْأَوَّلِينَ﴾ ” اور اس سے ڈرو جس نے تم کو اور تم سے پہلی خلقت کو پیدا کیا۔“ یعنی جس نے گزشتہ نسلوں کو پیدا کیا، وہ جس طرح تمہاری تخلیق میں منفرد ہے اسی طرح اس نے تم سے پہلے لوگوں کو کسی کی شراکت کے بغیر پیدا کیا۔ اس لئے اس اکیلے کو عبادت اور توحید کا مستحق جانو جس طرح اس نے تمہیں وجود عطا کیا اور تمہیں بے شمار نعمتوں سے سرفراز کیا اسی طرح تم بھی ان نعمتوں پر اس کا شکرا دا کرو۔ الشعراء
185 انہوں نے شعیب علیہ السلام کی تکذیب کرتے اور ان کی دعوت کو ٹھکراتے ہوئے کہا : ﴿إِنَّمَا أَنتَ مِنَ الْمُسَحَّرِينَ﴾ ” تم اس شخص کو مانند (کلام کرتے) ہو جس پر جادو کردیا گیا ہو“ اور وہ ہذیانی کیفیت میں باتیں کر رہا ہو۔ ایسے شخص کے بارے میں زیادہ یہی کیا جاسکتا ہے کہ اس کا مواخذہ نہ کیا جائے۔ الشعراء
186 ﴿ وَمَا أَنتَ إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا ﴾ ” اور تم ہماری ہی طرح کے انسان ہو۔“ اس لئے تمہارے اندر ایسی کوئی فضیلت نہیں ہے جس کی بنا پر تمہیں ہم پر کوئی اختصاص حاصل ہو، یہاں تک کہ تم ہم سے اپنی اتباع کا مطالبہ کرنے لگو۔ اس قسم کی بات ان سے پہلے لوگوں نے بھی کی اور ان کے بعد آنے والوں نے بھی کی اور اسی شبہ کی بنا پر انہوں نے رسولوں کی مخالفت کی اور ان پر حملہ آور ہوتے رہے ہیں۔ وہ دلوں کی مشابہت اور کفر پر اتفاق ہونے کی وجہ سے اس شبہ پر بھی متفق ہیں۔ رسولوں نے ان کے اس شبہ اور اعتراض کا ان الفاظ میں جواب دیا : ﴿ إِن نَّحْنُ إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ وَلَـٰكِنَّ اللّٰـهَ يَمُنُّ عَلَىٰ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ﴾ (ابراہیم :14؍11) ” ہم کچھ نہیں مگر تم ہی جیسے انسان ہیں، لیکن اللہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے نواز دیتا ہے۔“ ﴿وَإِن نَّظُنُّكَ لَمِنَ الْكَاذِبِينَ ﴾ ” اور ہمارا خیال ہے کہ تم جھوٹے ہو۔“ یہ ان کی جرأت، ظلم اور قول باطل تھا وہ سب حضرت شعیب علیہ السلام کی مخالفت پر متفق تھے۔ جو کوئی بھی رسول اپنی قوم میں مبعوث ہوا اس نے اپنی قوم کو توحید کی طرف دعوت دی اور اپنی قوم کے ساتھ مجادلہ کیا اور انہوں نے بھی اس (نبی) سے مجادلہ کیا البتہ اللہ تعالیٰ نے اس کے ہاتھ پر ایسی ایسی نشانیاں ظاہر کیں جن کی بنا پر انہیں اس کی صداقت اور امانت پر یقین تھا۔ خاص طور پر شعیب علیہ السلام، جن کو اپنی قوم کے ساتھ بہترین طریقے سے بحث و جدال کرنے کی بنا پر ” خطیب الانبیاء“ کہا جاتا ہے۔ حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم کو آپ کی صداقت کا یقین تھا اور وہ خوب جانتے تھے کہ آپ کی دعوت حق ہے۔ مگر ان کا آپ کے بارے میں جھوٹ کا گمان کرتے ہوئے خبر دینا، ان کا جھوٹ تھا۔ الشعراء
187 ﴿فَأَسْقِطْ عَلَيْنَا كِسَفًا مِّنَ السَّمَاءِ﴾ ” پس تم آسمان سے ایک ٹکڑا لا کر ہم پر گراؤ۔“ یعنی تو ہم پر عذاب نازل کردے جو ہماری جڑ کاٹ دے۔ ﴿إِن كُنتَ مِنَ الصَّادِقِينَ﴾ ” اگر تو سچا ہے۔“ ان کی یہ بات ان کے بھائی، دیگر کفار کے اس قول کی مانند تھی : ﴿وَإِذْ قَالُوا اللّٰـهُمَّ إِن كَانَ هَـٰذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِندِكَ فَأَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَاءِ أَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ أَلِيمٍ ﴾ (الانفال : 8؍32) ” اور آپ اس بات کو بھی یاد کیجئے جب انہوں نے کہا تھا کہ اے اللہ ! اگر یہ واقعی تیری طرف سے حق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھروں کی بارش کردے یا ہم پر کوئی درد ناک عذاب لے آ۔“ یا انہوں نے بعض معجزات کا مطالبہ کیا، جن کے سائل کے لئے مطلوب کو پورا کرنا لازم نہیں۔ الشعراء
188 ﴿قَالَ﴾ شعیب علیہ السلام نے کہا : ﴿ رَبِّي أَعْلَمُ بِمَا تَعْمَلُونَ﴾ ” تم جو کام کرتے ہو، میرا رب اس سے خوف واقف ہے۔“ یعنی میرا رب نزول عذاب اور وقوع معجزات کے بارے میں جانتا ہے۔ میں وہ ہستی نہیں جو اپنی طرف سے تمہیں یہ معجزات دکھاؤں یا تم پر کوئی عذاب نازل کروں مجھ پر اس کے سوا کوئی ذمہ داری نہیں کہ میں تمہیں اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچا دوں اور تمہاری خیر خواہی کروں۔ سو میں نے اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچا دیا۔ معجزات کو میرا رب لے کر آتا ہے جو تمہارے اعمال و احوال سے واقف ہے جو تمہارا حساب لے گا اور تمہیں تمہارے اعمال کی جزا دے گا۔ الشعراء
189 ﴿فَكَذَّبُوهُ﴾ ” پس انہوں نے اس شعیب علیہ السلام کو جھٹلایا۔“ اپنے انبیاء کی تکذیب کرنا ان کا وصف اور کفر ان کی عادت بن گئی حتیٰ کہ نزول عذاب کے سوا معجزات نے انہیں کوئی فائدہ دیا نہ کوئی حیلہ ان کے کام آیا۔ ﴿فَأَخَذَهُمْ عَذَابُ يَوْمِ الظُّلَّةِ﴾ ” پس یوم سائبان کے عذاب نے ان کو آپکڑا۔“ یعنی ایک بادل ان پر سایہ کناں ہوا اور یہ لوگ اس کے سائے سے لذت حاصل کرنے کے لئے اس کے نیچے جمع ہوگئے۔ پس اس بادل نے عذاب کے ذریعے سے ان کو جلا ڈالا اور وہ اس کے نیچے بے حس و حرکت پڑے رہ گئے، وہ اپنے گھروں کو چھوڑ کر بدبختی اور عذاب کی وادی میں جانا نازل ہوئے۔ ﴿إِنَّهُ كَانَ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ ﴾ ” بے شک وہ بڑے دن کا عذاب تھا۔“ یہ اب دنیا میں واپس نہیں آئیں گے کہ دوبارہ عمل کریں اور کسی گھڑی ان سے عذاب منقطع ہوگا نہ ان کو مہلت دی جائے گی۔ الشعراء
190 ﴿إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً﴾ ’’اس میں ایک نشانی ہے“ جو حضرت شعیب علیہ السلام کی صداقت، آپ کی دعوت کے صحیح ہونے اور آپ کی قوم نے جو آپ کا رد کیا اس کے باطل ہونے پر دلالت کرتی ہے۔ ﴿وَمَا كَانَ أَكْثَرُهُم مُّؤْمِنِينَ﴾ ان میں اکثر لوگ آیات و معجزات کا مشاہدہ کرلینے کے بعد بھی ایمان نہ لائے۔ کیونکہ ان میں کوئی پاکیزگی ہے نہ ان کے پاس کوئی بھلائی ہے : ﴿وَمَا أَكْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِينَ﴾(یوسف : 12؍103) ” خواہ آپ کتنی ہی خواہش کیوں نہ کریں مگر اکثر لوگ ایمان نہیں لائیں گے۔ “ الشعراء
191 ﴿وَإِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الْعَزِيزُ ﴾ ” بے شک تیرا رب غالب ہے“ جو اپنی قدرت کی بنا پر کسی کے ادارک کی گرفت میں نہیں آسکتا اور وہ تمام مخلوقات پر غالب اور زبردست ہے۔ ﴿ الرَّحِيمُ ﴾ وہ ذات، رحمت جس کا وصف ہے۔ دنیا اور آخرت کی تمام بھلائیاں، یعنی جب سے اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو تخلیق کیا ہے اس وقت سے لے کر اس کی انتہا تک، اس میں موجود تمام بھلائیاں، اللہ تعالیٰ کی رحمت کے آثار ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا غلبہ ہی ہے کہ اس نے اپنے دشمنوں کو ہلاک کردیا جب انہوں نے اس کے انبیاء و رسل کی تکذیب کی اور یہ اس کی رحمت ہی کے آثار ہیں کہ اس نے اپنے اولیاء اور ان کے متبعین اہل ایمان کو نجات دی۔ الشعراء
192 جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے انبیاء کرام کا ان کی قوموں کے ساتھ قصہ بیان فرمایا اور انبیاء کرام نے کیسے ان کو توحید کی دعوت دی اور کیسے انہوں نے ان کی دعوت کو ٹھکرایا اور پھر کیسے اللہ تعالیٰ نے ان کے دشمنوں کو ہلاک کیا اور ان کا انجام برا ہوا۔۔۔ تو اللہ تعالیٰ نے اس رسول کریم، عظمت شان کے حامل نبی مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اس کتاب کا ذکر فرمایا جس کے ساتھ آپ مبعوث ہوئے جس میں عقل مندوں کے لئے ہدایت ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿ وَإِنَّهُ لَتَنزِيلُ رَبِّ الْعَالَمِينَ ﴾ ” اور یہ (قرآن) رب العالمین کا اتارا ہوا ہے۔“ پس وہ ہستی جس نے اس عظیم کتاب کو نازل فرمایا، زمین و آسمان کو پیدا کرنے والی اور تمام عالم علوی اور سفلی کی مربی ہے۔ جس طرح اس نے بندوں کی ان کے جسمانی اور دنیاوی مصالح میں تربیت کی، اسی طرح اس نے ان کے دین و دنیا کے مصالح میں بھی راہنمائی فرما کر ان کی تربیت کی۔ سب سے عظیم چیز جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی تربیت کی ہے وہ اس کتاب کریم قرآن مجید کا نازل فرمانا ہے جو بے انتہا بھلائی اور بے پایاں نیکی پر مشتمل ہے۔ یہ دین و دنیا کے مصالح اور اخلاق فاضلہ کا متضمن ہے جن سے دوسری کتابیں تہی دامن ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿ وَإِنَّهُ لَتَنزِيلُ رَبِّ الْعَالَمِينَ ﴾ میں اس کتاب کی تعظیم اور اس کے مہتم بالشان ہونے پر دلیل ہے نیز اس امر کی دلیل ہے کہ یہ عظیم کتاب کسی اور ہستی کی طرف سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ ہے اور اس کے نازل کرنے کا مقصد تمہارا فائدہ اور تمہاری ہدایت ہے۔ الشعراء
193 ﴿ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ ﴾ ” اس کو امانت دار فرشتہ لے کر اترا ہے۔“ اس سے مراد جبرئیل علیہ السلام جو فرشتوں میں سب سے افضل اور سب سے طاقتور ہیں ﴿ الْأَمِينُ ﴾ ” وہ امانت دار ہیں‘‘ وہ اس میں کوئی کمی بیشی نہیں کرتے۔ الشعراء
194 ﴿ عَلَىٰ قَلْبِكَ ﴾ ” آپ کے دل پر۔“ یعنی اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! جبریل اسے لے کر آپ کے دل پر نازل ہوا ﴿ لِتَكُونَ مِنَ الْمُنذِرِينَ ﴾ تاکہ آپ اس کے ذریعے سے لوگوں کو رشدو ہدایت کی راہ دکھائیں اور ان کو گمراہی کا راستہ اختیار کرنے سے ڈرائیں۔ الشعراء
195 ﴿ بِلِسَانٍ عَرَبِيٍّ ﴾ ” صاف صاف عربی زبان میں“ اور عربی زبان سب سے افضل زبان ہے اور اسے ان لوگوں کی زبان میں نازل کیا گیا ہے جن کی طرف اسے بھیجا گیا ہے اور ان کو دعوت دینے میں یہی زبان استعمال ہوئی ہے، صاف اور واضح زبان۔ آپ غور کیجئے کہ کیسے یہ تمام فضائل فاخرہ اس عظیم کتاب میں جمع ہوگئے ہیں یہ کتاب سب سے افضل کتاب ہے، اسے سب سے افضل فرشتہ لے کر نازل ہوا، اس ہستی پر نازل ہوئی جو مخلوق میں سب سے افضل ہے اور جسم میں سب سے افضل حصے یعنی آپ کے دل پر نازل کی، سب سے افضل امت پر نازل کی گئی اور سب سے افضل، سب سے فصیح اور سب سے وسیع زبان میں نازل کی گئی اور وہ ہے واضح عربی زبان۔ الشعراء
196 ﴿ وَإِنَّهُ لَفِي زُبُرِ الْأَوَّلِينَ ﴾ ” اور اس کی خبر پہلی کتابوں میں ہے۔“ یعنی پہلی کتابوں میں اس کی خوشخبری دی گئی ہے اور پہلی کتابوں نے اس کی تصدیق کی ہے۔ چونکہ ان کتابوں نے اس کے بارے میں جو خبر دی تھی یہ اس کے مطابق نازل ہوئی ہے اس لئے یہ ان کی تصدیق ہے۔ بلکہ یہ کتاب حق کے ساتھ آئی ہے اور تمام رسولوں کی تصدیق کرتی ہے۔ الشعراء
197 ﴿ أَوَلَمْ يَكُن لَّهُمْ آيَةً ﴾ ” کیا ان کیلئے یہ دلیل نہیں“ اس کتاب کی صحت اور اس کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہونے پر ﴿ أَن يَعْلَمَهُ عُلَمَاءُ بَنِي إِسْرَائِيلَ ﴾” کہ اسے علماء بنی اسرائیل جانتے ہیں“ جن پر علم کی انتہا ہے اور وہ سب سے زیادہ علم رکھنے والے اور انصاف کرنے والے لوگ ہیں۔ کیونکہ اگر کسی معاملے میں اشتباہ واقع ہوجائے تو باصلاحیت اور اہل درایت کی طرف رجوع کیا جاتا ہے اور ان کا قول دوسروں پر حجت ہوتا ہے۔ جیسے ان جادوگروں نے، جو جادو کے علم میں ماہر تھے۔ موسیٰ علیہ السلام کے معجزہ کی صداقت کو پہچان لیا۔ اس کے بعد جاہل اور لاعلم لوگوں کے قول کو کوئی اہمیت ہیں دی جاتی۔ الشعراء
198 ﴿ فَقَرَأَهُ عَلَيْهِم مَّا كَانُوا بِهِ مُؤْمِنِينَ ﴾ ” تو وہ ان (قریش) کو پڑھ کر سناتا تب بھی وہ اس پر ایمان نہ لاتے۔“ وہ کہتے کہ وہ جو کہتا ہے ہماری سمجھ میں نہیں آتا اور ہم نہیں جانتے ہیں کہ وہ کس چیز کی طرف دعوت دیتا ہے۔ اس لئے ان کو اپنے رب کی حمدو ثنا کرنی چاہیے کہ یہ کتاب ایسے شخص پر نازل ہوئی ہے جو مخلوق میں سب سے زیادہ فصیح اللسان اور عبارات واضحہ کے ذریعے سے ان کتاب کے مقاصد کی تعبیر کرنے کی سب سے زیادہ قدرت رکھنے والا اور ان کا سب سے زیادہ خیر خواہ ہے۔ پس ان کو چاہیے کہ وہ اس کی تصدیق کرنے، اس کے سامنے سرتسلیم خم کرنے اور اسے قبول کرنے میں جلدی کریں مگر کسی شبہ کے بغیر ان کا اس کتاب کو جھٹلانا، کفر وعناد کے سوا کچھ نہیں اور یہ ایک معاملہ ہے جو انبیاء کی تکذیب کرنے والی امتوں میں متواتر چلا آرہا ہے۔ الشعراء
199 الشعراء
200 اس لئے فرمایا : ﴿ كَذٰلِكَ سَلَكْنَاهُ فِي قُلُوبِ الْمُجْرِمِينَ ﴾ ہم نے مجرموں کے دلوں میں اس (تکذیب) کو اسی طرح داخل کردیا ہے جیسے سوئی کے ناکے میں دھاگہ داخلہ ہوتا ہے۔ تکذیب ان کے دلوں میں رچ بس کر ان کا وصف بن گئی ہے۔ الشعراء
201 یہ ان کے ظلم اور ان کے جرائم کے سبب سے ہے۔ اس لئے ﴿ لَا يُؤْمِنُونَ بِهِ حَتَّىٰ يَرَوُا الْعَذَابَ الْأَلِيمَ﴾ ” یہ لوگ اس پر اس وقت تک ایمان نہیں لائیں گے جب تک کہ( اپنی تکذیب کی پاداش میں) درد ناک عذاب نہیں دیکھ لیتے۔“ الشعراء
202 ﴿ فَيَأْتِيَهُم بَغْتَةً وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ ﴾ یہ عذاب ان کو اچانک اور ان کی غفلت کی حالت میں آ لے گا، انہیں اس کا احساس تک ہوگا نہ اس کے نازل ہونے کا شعور ہوگا تاکہ اس عذاب کے ذریعے سے ان کو پوری طرح سزاد دی جائے۔ الشعراء
203 ﴿ فَيَقُولُوا ﴾ اس وقت یہ کہیں گے ﴿ هَلْ نَحْنُ مُنظَرُونَ ﴾ ” کیا ہمیں مہلت ملے گی؟“ یعنی وہ درخواست کریں گے کہ ان کو مہلت اور ڈھیل دی جائے اور حال یہ ہے کہ مہلت کا وقت گزر گیا اور ان پر عذاب نازل ہوگیا جسے ان پر سے کبھی نہیں اٹھایا جائے گا اور نہ کبھی ایک گھڑی کے لے منقطع ہوگا۔ الشعراء
204 اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے :﴿ أَفَبِعَذَابِنَا﴾ ” کیا یہ ہمارے عذاب کے لئے۔“ جو بہت بڑا اور دردناک عذاب ہے جسے ہیچ سمجھا جاسکتا ہے نہ حقیر جانا جاسکتا ہے ﴿ يَسْتَعْجِلُونَ ﴾ ” جلدی مچاتے ہیں؟“ کس چیز نے ان کو فریب میں مبتلا کر رکھا ہے؟ کیا اس عذاب کو برداشت کرنے کی ان میں قوت اور طاقت ہے؟ جب یہ عذاب نازل ہوجائے گا تو کیا یہ اس کو دور کرنے یا اس کو اٹھا لینے کی قوت رکھتے ہیں۔۔۔ یا یہ ہمیں عاجز سمجھتے ہیں اور گمان رکھتے ہیں کہ ہم عذاب نازل کرنے کی قدرت نہیں رکھتے؟ الشعراء
205 ﴿ أَفَرَأَيْتَ إِن مَّتَّعْنَاهُمْ سِنِينَ﴾” بھلا دیکھو تو اگر ہم ان کربرسوں فائدے دیتے رہیں۔“ یعنی کیا آپ نے کچھ غور کیا کہ اگر ہم ان پر جلدی عذاب نازل نہ کریں اور ان کو چند سالوں کے لئے مہلت دے دیں اور یہ دنیا سے فائدہ اٹھائیں۔ الشعراء
206 ﴿ ثُمَّ جَاءَهُم مَّا كَانُوا يُوعَدُونَ ﴾ ” پھر ان پر وہ واقع ہوجائے جس کا ان سے وعدہ کیا جاتا ہے۔“ یعنی عذاب کا۔ الشعراء
207 ﴿ مَا أَغْنَىٰ عَنْهُم مَّا كَانُوا يُمَتَّعُونَ ﴾ ” جن (لذات و شہوات) سے وہ متمتع ہوتے تھے، وہ ان کے کسی کام نہ آئیں گی۔“ یعنی کون سی چیز ان کے کام آسکتی اور انہیں کوئی فائدہ دے سکتی ہے؟ درآنحالیکہ لذتیں باطل اور مضمحل ہو کر ختم ہوگئیں اور اپنے پیچھے برے اثرات چھوڑ گئیں اور انہیں طویل مدت تک کئی گنا عذاب دیا جائے گا۔ مقصد یہ ہے کہ وہ وقوع عذاب اور اس کے مستحق ہونے سے بچیں اور رہا عذاب کا جلدی نازل ہونا یا اس کے نزول میں تاخیر ہونا، تو اس کے تحت کوئی اہمیت نہ اس کے نزدیک اس کا کوئی فائدہ۔ الشعراء
208 الشعراء
209 اللہ تبارک و تعالیٰ، اہل تکذیب کو ہلاک کرنے کے بارے میں اپنے عدل کامل کے متعلق آگاہ فرماتا ہے کہ وہ کسی بستی پر اس وقت تک عذاب اور ہلاکت نہیں کرتا جب تک ان کا عذر ختم نہ ہوجائے اور ان پر حجت قائم نہ ہوجائے۔ وہ ان کے اندر، ان کو برے انجام سے ڈرانے والے مبعوث کرتا ہے جو انہیں واضح آیات کے ذریعے سے ڈراتے ہیں، انہیں ہدایت کی طرف بلاتے ہیں، انہیں ہلاکت کے گڑھے میں گرنے سے روکتے ہیں، وہ انہیں اللہ تعالیٰ کی آیات کے ذریعے سے نصیحت کرتے ہیں، وہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور اس کی ناراضی کے بارے میں اس کی عادت سے متنبہ کرتے ہیں۔ ﴿ ذِكْرَىٰ ﴾ ” نصیحت“ یعنی یہ اتمام حجت ان کے لئے یا ددہانی اور ان کے خلاف حجت قائم کرنا ہے ﴿ وَمَا كُنَّا ظَالِمِينَ ﴾ ” اور ہم ظلم کرنے والے نہیں۔“ کہ ہم بستیوں کو ان کے انجام سے ڈرائے بغیر ہلاک کردیں، ان کو پکڑ لیں اور ان کی حالت یہ ہو کہ انہیں ڈرانے والوں کے بارے میں کچھ خبر نہ ہو۔ ﴿ وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّىٰ نَبْعَثَ رَسُولًا ﴾ ( بنی اسرائیل : 17؍15) ” اور ہم عذاب نہیں دیتے جب تک کہ حق و باطل کا فرق سمجھانے کے لئے ایک رسول نہ بھیج دیں۔“ ﴿ رُّسُلًا مُّبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللّٰـهِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ ﴾ (النساء: 4؍165) ’’تمام رسولوں کو خوشخبری سنانے والے اور ڈرانے والے بنا کر بھیجا ہے تاکہ رسولوں کے آنے کے بعد لوگوں کے پاس اللہ کے خلاف کوئی حجت باقی نہ رہے۔ “ الشعراء
210 اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن عظیم کا کمال اور اس کی جلالت بیان کرتے ہوئے اس ہر صفت نقص سے منزہ قرار دیا نیز واجح کردیا کہ وہ قرآن کے نازل ہونے کے وقت اور اس کے بعد شیاطین جن و انس سے ان کی حفاظت کرتا ہے۔ چنانچہ فرمایا : ﴿ وَمَا تَنَزَّلَتْ بِهِ الشَّيَاطِينُ وَمَا يَنبَغِي لَهُمْ ﴾ ” اور اس (قرآن) کو شیاطین لے کر نازل ہوئے ہیں نہ یہ ان کے لائق ہی ہے۔“ یعنی یہ چیز ان کے حال کے لائق ہے نہ ان سے کوئی مناسبت رکھتی ہے الشعراء
211 ﴿ وَمَا يَسْتَطِيعُونَ ﴾ ” اور نہ وہ ایسا کرہی سکتے ہیں۔“ الشعراء
212 ﴿ إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ ﴾ ” وہ (آسمانی باتوں کے) سننے سے الگ کردئے گئے ہیں۔“ یعنی وہ اس سے دور کردیے گئے ہیں اور اس کی حفاظت کی خاطر شیاطین کے لئے شہاب ثاقب تیار کئے گئے ہیں۔ اس قرآن کو جبریل لے کر نازل ہوتا ہے جو سب سے طاقتور فرشتہ ہے شیطان اس کے قریب پھٹک سکتا ہے نہ اس کے ارد گرد منڈ لاسکتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی مانند ہے :﴿ إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ﴾ (الحجر : 15؍9) ” ہم نے قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ “ الشعراء
213 اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اصلاً اور آپ کی امت کو تبعاً غیر اللہ یعنی تمام مخلوق کو پکارنے سے روکتا ہے۔ اس لئے کہ غیر اللہ کو پکار نا عذاب دائمی اور عقوبت سرمدی کا موجب ہے کیونکہ یہ شرک ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿ مَن يُشْرِكْ بِاللّٰـهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰـهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَاهُ النَّارُ ﴾(المائدۃ: 5؍72) ’’جو کوئی اللہ کے ساتھ شرک کرے گا اللہ اس پر جنت کو حرام کردے گا اور اس کا ٹھکانا جہنم ہوگا۔“ کسی کام سے روکنا دراصل اس کے مخالف کام کے کرنے کا حکم ہوتا ہے۔ اس لئے شرک سے روکنا درحقیقت عبادت میں اللہ تعالیٰ کے لئے اخلاص، اسی کے لئے محبت، اسی سے خوف، اسی سے امید، صرف اسی کے سامنے اظہار تذلل اور ہر وقت صرف اسی کی طرف رجوع کرنے کا حکم ہے۔ جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان امور کا حکم دیا جن سے آپ کے نفس کو کمال حاصل ہوتا ہے تو پھر آپ کو دوسروں کی تکمیل کے بارے میں حکم فرمایا۔ الشعراء
214 چنانچہ فرمایا : ﴿ وَأَنذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ ﴾ ” اور اپنے قریبی عزیزوں کو ڈرائیں۔“ یعنی جو آپ کے سب سے زیادہ قریبی اور دینی اور دنیاوی احسان کے سب سے زیادہ مستحق ہیں۔ یہ چیز تمام لوگوں کو ڈرانے کے حکم کے منافی ہے۔ جیسے، جب انسان کو عمومی احسان کا حکم دیا جاتا ہے اور پھر اسے کہا جاتا ہے : ( اَحْسِنْ إِلٰی قَرَابَتِکَ ) ” اپنے قریبی رشتہ داروں کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔“ تب یہ خاص حکم تاکید اور حق کے زیادہ ہونے پر دلالت کرتا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس حکم الٰہی کی تعمیل کی۔ چنانچہ آپ نے قریش کے تمام گھرانوں کو عمومی اور خصوصی دعوت دی ان کو وعظ و نصیحت کی۔ آپ نے اپنے رشتہ داروں کی خیر خواہی اور ہدایت کے لئے کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ جسے ہدایت عطا ہونی تھی اس نے ہدایت حاصل کرلی، جس نے روگردانی کرنی تھی اس نے روگردانی کی۔ الشعراء
215 ﴿ وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ ﴾ ” اہل ایمان جو آپ کے متعبین ہیں ان کے ساتھ نرم برتاؤ کیجئے، ان کے ساتھ نہایت نرمی سے بات کیجئے ان کے ساتھ محبت و مودت، حسن اخلاق اور احسان کامل سے پیش آئیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس ارشاد کی تعمیل کی۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے بارے میں فرمایا : ﴿ فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰـهِ لِنتَ لَهُمْ وَلَوْ كُنتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ ﴾(آل عمران : 3؍159) ” اللہ تعالیٰ کی رحمت سے آپ ان لوگوں کے لئے بڑے نرم واقع ہوئے ہیں اگر آپ تند خو اور سخت دل ہوتے تو یہ آپ کے آس پاس سے چھٹ جاتے پس آپ ان کو معاف کر دیجئے، ان کے لئے مغفرت مانگئے اور اجتماعی امور میں ان سے مشاورت کرلیا کیجئے۔ “ رسول مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یہ اخلاق، کامل ترین اخلاق تھے جن کے ذریعے سے عظیم مصالح حاصل ہوتے ہیں اور بہت سے مضر امور دور ہوتے ہیں۔ جن کا ہر روز مشاہدہ ہوتا ہے۔۔۔ تب کیا اس شخص کے لائق ہے جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتا ہے اور اس کی اتباع اور اقتداء کا دعویٰ کرتا ہے کہ وہ مسلمانوں پر بوجھ بنے، بد اخلاق، سخت طبیعت، سخت دل، بدخو اور بدکلام ہو؟ اور اگر وہ ان میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور سوء ادب دیکھے تو ان سے ناراض ہوجائے اور ان کو چھوڑ دے تب وہ ان سے نرم برتاؤ کرے نہ اس کے ہاں ان کے لئے کوئی ادب اور کوئی توفیق ہے۔ اس طرز کے نتیجے میں بہت سے مفاسد حاصل اور بہت سے مصالح ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ اسے پائیں گے کہ وہ اس شخص کی تحقیر کرتا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صفات کو اختیار کرتا ہے، وہ اس کے حسن اخلاق کو نفاق اور مداہنت کا نام دیتا ہے، اپنے آپ کو بہت اونچا سمجھتا ہے اور اپنے عمل پر خوش ہوتا ہے۔ یہ طرز عمل اس کی جہالت، شیطان کی تزیین ور اس کا فریب شمار ہوگا۔ الشعراء
216 اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرمایا : ﴿ فَإِنْ عَصَوْكَ ﴾ اگر یہ کسی معاملے میں آپ کی نافرمانی کریں تو آپ ان سے بیزار ہوں نہ ان سے معاملات کو ترک کریں ان کے ساتھ نرم برتاؤ کریں اور نرمی سے پیش آئیں۔ البتہ آپ ان کے برے عمل سے براءت کا اظہار کریں، ان کو نصیحت کریں اور ان کے ساتھ خیر خواہی سے پیش آئیں۔ ان کو اس برے عمل سے روکنے اوراس سے توبہ کروانے کے لئے مقدور بھر کوشش کریں۔ یہ آیت کریمہ ان لوگوں کے وہم کو رد کرتی ہے جو کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد : ﴿ وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ ﴾ اہل ایمان سے صادر ہونے والے ہر فعل پر، جب تک وہ مومن ہیں، رضا کا تقاضا کرتا ہے۔ واللہ اعلم۔ الشعراء
217 جن امور کو قائم کرنے کا حکم بندۂ مومن کو دیا گیا ہے، ان کے قیام میں سب سے بڑی مددگار چیز اپنے رب پر بھروسا اور ان امور کو قائم کرنے کی توفیق کے لئے اپنے مولائے کریم سے اعانت کا سوال ہے۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے توکل کا حکم دیا ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿ وَتَوَكَّلْ عَلَى الْعَزِيزِ الرَّحِيمِ ﴾ ” اور غالب، مہربان پر توکل کرو۔“ توکل سے مراد دل کا جلب منفعت اور دفع مضرت کے لئے، اپنے مطلوب کے حصول پر وثوق اور حسن ظن کے ساتھ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنا ہے کیونکہ وہ غالب اور مہربان ہے۔ وہ اپنی قوت اور غلبے کی بنا پر اپنے بندے کو بھلائی عطا کرنے اور اس سے شر کو دور کرنے پر قادر ہے اور وہ اپنی رحمت سے اس فعل کو سرانجام دیتا ہے۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی اعانت، اس کے قرب کے راستحضر اور مقام احسان پر فائز ہونے سے حاصل ہوتی ہے۔ الشعراء
218 ﴿ الَّذِي يَرَاكَ حِينَ تَقُومُ وَتَقَلُّبَكَ فِي السَّاجِدِينَ ﴾ وہ آپ کو، اس عظیم عبادت میں، جو نماز ہے، جب آپ قیام اور رکوع و سجود میں مصروف ہوتے ہیں دیکھ رہا ہوتا ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر نماز کا ذکر اس لئے کیا ہے کہ نماز فضل و شرف کی حامل ہے نیز جو کوئی استحضار کے ساتھ نماز پڑھتا ہے وہ اپنے رب کے قریب ہوجاتا ہے اور اسے خشوع و تذلل حاصل ہوتا ہے اور وہ اسے کی تکمیل کرتا ہے۔ نماز کی تکمیل ہی سے تمام اعمال کی تکمیل ہوتی ہے اور نماز ہی کے ذریعے سے دیگر تمام امور پر اللہ تعالیٰ سے اعانت طلب کی جاتی ہے۔ الشعراء
219 الشعراء
220 ﴿ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ ﴾ یعنی وہ تمام آوازوں کو، ان کے اختلاف، تشتت اور تنوع کے باوجود سنتا ہے۔ ﴿ الْعَلِيمُ ﴾ یعنی اس کے علم نے تمام ظاہر و باطن اور غائب و موجود کا احاطہ کر رکھا ہے۔ پس بندۂ مومن کا یہ استحضار اور شہودکہ اللہ تعالیٰ اسے اس کے تمام احوال میں دیکھ رہا ہے، وہ جو کچھ بولتا ہے اللہ تعالیٰ اسے سن رہا ہے، وہ اس کے دل کے عزائم، ارادوں اور نیتوں کو خوب جانتا ہے، منزل احسان تک پہنچنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ الشعراء
221 یہ اہل تکذیب میں سے ان لوگوں کے اس اعتراض کا جواب ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر شیطان نازل ہوتا ہے نیز ان لوگوں کی بات کا جواب ہے جو کہتے تھے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شاعر ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے جواب میں فرمایا : ﴿ هَلْ أُنَبِّئُكُمْ ﴾ ” کیا تمہیں (حقیقی خبر سے) آگاہ نہ کروں؟“ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ کن پر شیاطین نازل ہوتے ہیں، یعنی میں تمہیں ان لوگوں کی صفات سے آگاہ کرتا ہوں جن پر شیاطین نازل ہوا کرتے ہیں۔ الشعراء
222 ﴿ تَنَزَّلُ عَلَىٰ كُلِّ أَفَّاكٍ ﴾ ” ہر کذاب (قول باطل کے قائل اور افترا پرداز) پر شیطان نازل ہوتے ہیں۔“ ﴿اَثِیْمٍ﴾ یعنی گناہوں کا ارتکاب کرنے والا اور بہت نافرمان۔۔۔ اس قسم کے لوگوں پر شیاطین نازل ہوتے ہیں اور شیاطین انہی لوگوں کے احوال سے مناسبت رکھتے ہیں۔ الشعراء
223 ﴿ يُلْقُونَ السَّمْعَ ﴾ ” جو سنی ہوئی بات لا ڈالتے ہیں۔“ یعنی آسمان سے سن گن لے کر چرائی ہوئی باتیں ان کے کانوں میں ڈالتے ہیں ﴿وَأَكْثَرُهُمْ كَاذِبُونَ ﴾ ” اور وہ اکثر جھوٹے ہیں۔“ یعنی جو باتیں، ان کے کانوں میں ڈالتے ہیں ان میں سے اکثر باتیں جھوٹی ہیں۔ اگر ایک بات سچی ہوتی ہے تو اس کے ساتھ ایک سو جھوٹی باتیں شامل کردیتے ہیں۔ تب حق باطل کیساتھ خلط ملط ہوجاتا ہے اور حق اپنی قلت اور عدم علم کی بنا پر کمزور ہوجاتا ہے۔ یہ ان لوگوں کے اوصاف ہیں جن پر شیاطین نازل ہوتے ہیں اور یہ شیطانی الہام کا وصف ہے۔۔۔ رہے رسول مصطفی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو آپ کا حال ان احوال سے بہت زیاہ مختلف ہے کیونکہ آپ صادق، امین، نیکو کار، رشدو ہدایت پر کاربند ہیں۔ آپ طہارت قلب، صدق مقال، محرمات سے پاک افعال کے جامع ہیں۔ آپ کی طرف جو اللہ کی طرف سے وحی نازل کی جاتی ہے، نزول کے وقت اس کی حفاظت کی جاتی ہے یہ وحی صدق عظیم پر مشتمل ہوتی ہے جس میں کوئی شک وشبہ نہیں ہوتا۔ اے عقل مند لوگو ! کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رشدو ہدایت پر مبنی طریقہ اور شیاطین کی افترا پردازی برابر ہوسکتے ہیں؟ یہ دونوں متضاد اوصاف صرف اسی شخص پر مشتبہ ہوسکتے ہیں جو پاگل ہو اور چیزوں کے درمیان فرق اور امتیاز کرنے سے عاری ہو۔ الشعراء
224 جب اللہ تبارک وتعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان نزول شیاطین سے منزہ قرار دیا تو آپ کو شعر سے بھی مبرا قرار دیتے ہوئے فرمایا : ﴿ وَالشُّعَرَاءُ ﴾ یعنی کیا میں تمہیں شعراء کے احوال اور ان کے اوصاف ثابتہ کے بارے میں بھی آگاہ نہ کروں؟ ﴿ يَتَّبِعُهُمُ الْغَاوُونَ ﴾ ” ان کی پیروی وہ لوگ کرتے ہیں جو بھٹکے ہوئے“ راہ ہدایت سے اور گمراہی اور ہلاکت کے راستے پر گامزن ہیں۔ پس شعراء خود گمراہی ہیں اور آپ دیکھیں گے کہ نظریاتی طور پر بھٹکا ہوا گمراہی اور مفسد شخص ان کی پیروی کرنے والوں میں شامل ہے۔ الشعراء
225 ﴿ أَلَمْ تَرَ ﴾ کیا آپ نے ان گمراہی اور شدت ضلالت کو نہیں دیکھا ﴿ أَنَّهُمْ فِي كُلِّ وَادٍ ﴾ ” کہ بے شک وہ (شاعری کی) ہر وادی میں“ ﴿يَهِيمُونَ ﴾ ” آوارہ و سرگشتہ پھرتے ہیں۔“ کبھی مدح میں اشعار کہتے ہیں کبھی مذمت میں، کبھی صدق کے بارے میں اور کبھی کذب کے بارے میں، کبھی غزل کہتے ہیں اور کبھی تمسخر اڑاتے ہیں، کبھی تکبر کا اظہار کرتے ہیں اور کبھی حزن و غم کا۔ ان کو کہیں قرار ملتا ہے نہ کسی حال میں ثبات حاصل ہوتا ہے۔ الشعراء
226 ﴿ وَأَنَّهُمْ يَقُولُونَ مَا لَا يَفْعَلُونَ ﴾ ” اور بے شک وہ ایسی بات کہتے وہ ہیں جو وہ بذات خود نہیں کرتے۔“ یہ شعراء کا وصف ہے کہ ان کے قول و فعل میں سخت تضاد ہوتا ہے۔ اگر آپ کسی شاعر کو رقت انگیز غزل کہتے ہوئے سنیں گے تو آپ کہہ اٹھیں گے کہ یہ دنیا میں سب سے زیادہ عشق کا مارا ہوا شخص ہے حالانکہ اس کا دل عشق سے خالی ہوگا۔ اگر آپ اس کو کسی کی مدح یا مذمت کرتے ہوئے سنیں تو کہیں گے کہ یہ سچ ہے حالانکہ وہ جھوٹ ہوتا ہے۔ کبھی کبھی وہ بعض افعال پر اپنی ستائش آپ کرتا ہے حالانکہ وہ ان افعال کے قریب سے نہیں گزرا ہوتا، وہ افعال کے ترک کرنے پر اپنی تعریف کرتا ہے حالانکہ اس نے اس فعل کو کبھی ترک نہیں کیا ہوتا، وہ اپنی سخاوت کی تعریف میں زمین اور آسمان کے قلابے ملا دیتا ہے حالانکہ اس کا اس کو چے سے کبھی گزر ہی نہی ہوا ہوتا۔ وہ اپنی شجاعت کے تذکرے کرتا ہے جس کی بنا پر اس نے بڑے بڑے شہسواروں کو زیر کیا ہوتا ہے حالانکہ آپ اسے دیکھیں گے کہ وہ انتہائی بزدل ہے۔۔۔ یہ ہیں شعراء کے اوصاف۔ اب آپ غور کیجئے کہ آیا مرقومہ بالا احوال رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسی ہدایت یافتہ اور پاکیزہ ہستی کے احوال سے مطابقت رکھتے ہیں، جن کی پیروی ہر وہ شخص کرتا ہے جو صاحب رشدو ہدایت ہے۔ آپ راہ راست پر نہایت استقامت سے گامزن اور ہلاکت کی وادیوں سے دور رہتے ہیں۔ آپ کے افعال تناقض سے پاک ہوتے ہیں اور آپ کے اقوال و افعال میں تضاد نہیں ہوتا۔ آپ صرف نیکی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں، ہمیشہ سچی خبردیتے ہیں۔ اگر آپ کسی کام کے کرنے کا حکم دیتے ہیں تو اس پر سب سے پہلے خود عمل کرتے ہیں اور اگر کسی کام سے روکتے ہیں تو سب سے پہلے خود اس کام کو ترک کرتے ہیں۔ کیا آپ کا حال ان شاعروں کے احوال سے کوئی مناسبت رکھتا ہے یا ان کے احوالے کے کہیں قریب دکھائی دیتا ہے؟ یا ہر لحاظ سے آپ کے احوال ان شعراء حضرات کے احوال سے بالکل مختلف ہیں؟ اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اور اس کا سلام ہو ابدالآباد تک اس رسول اکمل اور سب سے افضل، عالی ہمت سردار پر جو شاعر ہے نہ ساحر و مجنون بلکہ اوصاف کمال کے سوا اور کچھ اس لائق نہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے شعراء کے یہ اوصاف بیان کرنے کے بعد ان میں ان شعراء کو مستثنیٰ قرار دیا ہے جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان رکھتے ہیں، نیک کام کرتے ہیں نہایت کثرت سے اللہ کا ذکر کرتے ہیں، اپنے مشرک دشمنوں سے ان کے ظلم کا بدلہ لیتے ہیں۔ ان کی شاعری ان کے اعمال صالحہ اور آثار ایمان میں شمار ہوتی ہے کیونکہ یہ اہل ایمان کی مدح، اہل کفرو شرک سے انتقام، اللہ تعالیٰ کے دین کے دفاع، علوم نافعہ کی توضیح و تبین اور اخلاق فاضلہ کی ترغیب پر مشتمل ہوتی ہے۔ الشعراء
227 اس لئے فرمایا : ﴿ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَذَكَرُوا اللّٰـهَ كَثِيرًا وَانتَصَرُوا مِن بَعْدِ مَا ظُلِمُوا وَسَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنقَلَبٍ يَنقَلِبُونَ ﴾ ” مگر جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام کیے اور اللہ کو بہت یاد کرتے رہے اور اپنے اوپر ظلم ہونے کے بعد انتقام لیا اور ظالم عنقریب جان لیں گے کہ وہ کون سی جگہ لوٹ کر جاتے ہیں۔“ یعنی حساب کتاب کے لئے، کوئی چھوٹی یا بڑی چیز ایسی نہ ہوگی جسے اللہ تعالیٰ نے درج نہ کر رکھا ہو، کوئی حق ایسا نہ ہوگا جسے اللہ تعالیٰ پورا نہ کرے۔ والحمد اللہ رب العالمین۔ الشعراء
0 النمل
1 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں کو قرآن کی عظمت کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے اور ایک ایسی دلیل بیان کرتا ہے جو اس کی تعظیم پر دلالت کرتی ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿ تِلْكَ آيَاتُ الْقُرْآنِ وَكِتَابٍ مُّبِينٍ ﴾ ” یہ قرآن اور کتاب واضح کی آیات ہیں۔“ یعنی یہ سب سے بڑی نشانی، سب سے قوی ثبوت اور سب سے واضح دلائل ہیں۔ نیز جلیل ترین مطالب، کو بیان کرنے والی، سب سے افضل مقاصد، بہترین اعمال اور پاکیزہ ترین اخلاق پر سب سے واضح دلیل ہے۔ یہ آیات ہیں جو سچی خبروں، بہترین احکام، تمام گندے اعمال اور مذموم اخلاق کی نہی پر دلالت کرتی ہیں۔ یہ آیات اپنے واضح اور ظاہر ہونے کے اعتبار سے روشن بصیرت کے لئے ایسے ہی ہیں جیسے چشم بینا کے لئے سورج۔ یہ ایسی آیات ہیں جو ایمان پر دلالت کرتی ہیں اور ایمان تک پہنچنے کی دعوت دیتی ہیں۔ ماضی اور مستقبل کے واقعات کی خبر دیتی ہیں۔ یہ ایسی آیات ہیں جو رعب عظیم کے اسمائے حسنیٰ، صفات عالیہ اور افعال کاملہ کے ذریعے سے اس کی معرفت کی دعوت دیتی ہیں۔ یہ ایسی آیات ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے رسولوں اور اس کے اولیاء کی پہچان کروائی اور ان کے اوصاف بیان کئے گویا کہ ہم ان کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ مگر اس کے باوجود بہت سے لوگوں نے ان آیات سے کوئی فائدہ نہ اٹھایا، تمام معاندین حق نے ان کی راہنمائی کو قبول نہ کیا، تاکہ یہ آیات الٰہی ان لوگوں سے محفوظ رہیں جن میں کوئی بھلائی اور کوئی صلاح نہیں ہے جن کے دل طہارت سے بے بہرہ ہیں۔ ان آیات سے صرف وہی لوگ راہنمائی حاصل کرتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے ایمان کے ساتھ مختص کیا ہے، جن کا باطن پاک صاف اور جن کے قلوب نور ایمان سے منور ہیں۔ النمل
2 اس لئے فرمایا : ﴿ هُدًى وَبُشْرَىٰ لِلْمُؤْمِنِينَ ﴾ ” مومنوں کے لے ہدایت اور بشارت ہے۔“ یعنی یہ آیات اہل ایمان کی صراط مستقیم کی طرف چلنے میں راہنمائی کرتی ہیں۔ ان کے سامنے کھول کھول کر بیان کرتی ہیں کہ انہیں کس راستے پر چلنا چاہیے اور کس راستے کو ترک کرنا چاہیے اور انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس ثواب کی خوشخبری دیتی ہیں جو اس راستے پر گامزن ہونے پر مترتب ہوتا ہے۔ بسا اوقات کہا جاتا ہے کہ ایمان کے دعوے دار تو بہت زیادہ ہوتے ہیں تب کیا ہر اس شخص کی بات کو قبول کرلیا جائے جو ایمان کا دعویٰ کرتا ہے، یا اس پر دلیل ضروری ہے؟ اور یہی بات صحیح ہے۔ النمل
3 اور اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ ﴾ ” جو نما زقائم کرتے ہیں۔“ یعنی جو فرض اور نفل نماز ادا کرتے ہیں، اس کے تمام ظاہری ارکان، شرائط، واجبات اور مستحباب کا پورا پورا خیال رکھتے ہیں نیز اس کے افعال باطنہ کا بھی خیال رکھتے ہیں اور افعال باطنہ سے مراد خشوع ہے جو کہ نما زکی روح اور اس کا لب لباب ہے جو اللہ کی قربت کے استحضار اور نمازی کا نماز کے اندر قراءت اور تسبیحات اور رکوع و سجود اور دیگر افعال میں تدبر و تفکر سے حاصل ہوتا ہے۔ ﴿ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ ﴾ ” اور (مستحق لوگوں کو) زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔“ ﴿ وَهُم بِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ ﴾ ” اور وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔“ یعنی ان کے ایمان کی یہ کیفیت ہے کہ وہ درجۂ یقین تک پہنچا ہوا ہے۔ یقین سے مراد علم کا مل ہے جو قلب کی گہرائیوں میں اتر کر عمل کی دعوت دیتا ہے۔ آخرت پر ان کا یقین تقاضا کرتا ہے کہ وہ اس کے حصول کے لئے پوری کوشش کریں، عذاب کے اسباب اور عقاب کے موجبات سے بچیں اور یہ ہر بھلائی کی بنیا دہے۔ النمل
4 ﴿ إِنَّ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ ﴾ ” جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے۔“ بلکہ وہ آخرت کو اور ان لوگوں کو جھٹلاتے ہیں جو آخرت کا اثبات کرتے ہیں۔ ﴿ زَيَّنَّا لَهُمْ أَعْمَالَهُمْ فَهُمْ يَعْمَهُونَ ﴾ ” ہم نے ان کے عملوں کو ان کے لئے مزین کردیا، پس وہ حیران و سرگرداں پھرتے ہیں۔“ وہ حیران و متردد ہیں، وہ اللہ تعالیٰ کی ناراضی کو اس کی رضا پر ترجیح دیتے ہیں، ان کی نظر میں حقائق بدل گئے ہیں وہ باطل کو حق اور حق کو باطل سمجھنے لگے ہیں۔ النمل
5 النمل
6 ﴿ وَإِنَّكَ لَتُلَقَّى الْقُرْآنَ مِن لَّدُنْ حَكِيمٍ عَلِيمٍ ﴾ ” اور بلا شبہ آپ کو قرآن، حکیم و علیم کی طرف سے عطا کیا جاتا ہے۔“ یعنی یہ قرآن جو آپ پر نازل ہوتا ہے اور آپ اسے اخذ کرتے ہیں ﴿ حَكِيمٍ ﴾ دانا ہستی کی طرف سے نازل ہوتا ہے جو تمام اشیاء کو ان کے مقام پر رکھتی اور ان کے جگہ پر نازل کرتی ہے ﴿ عَلِيمٍ ﴾ باخبر ہستی کی طرف سے نازل ہوتا ہے جو تمام امور کے اسرار اور ان کے باطن کا اسی طرح علم رکھتی ہے جس طرح وہ ان کے ظاہر کا علم رکھتی ہے۔ چونکہ یہ قرآن دانا و باخبر ہستی کی طرف سے ہے اسے لئے معلوم ہوا کہ یہ تمام تر حکمت و دانائی اور بندوں کے مصالح پر مشتمل ہے اور کون ہے جو ان کے مصالح کو اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر جانتا ہو؟ النمل
7 یعنی موسیٰ بن عمران علیہ السلام کے احوال میں سے آپ پر وحی کی ابتداء، اللہ تعالیٰ کے آپ کو چن لینے اور آپ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے کلام کرنے کی حالت شریفہ و فاضلہ کو یاد کیجئے۔۔۔ یہ واقعہ یوں ہے کہ جب موسیٰ علیہ السلام مدین میں چند سال ٹھہرے اور پھر مدین سے اپنے گھر والوں کو لے کر مصر کی طرف روانہ ہوئے تو سفر کے دوران وہ راستہ بھول گئے، رات سخت تاریک اور ٹھنڈی تھی۔ انہوں نے اپنے گھر والوں سے کہا : ﴿ إِنِّي آنَسْتُ نَارًا ﴾ یعنی میں نے (دور) آگ دیکھی ہے : ﴿ سَآتِيكُم مِّنْهَا بِخَبَرٍ ﴾ میں وہاں سے تمہارے لئے راستے کے بارے میں کوئی خبر لاتا ہوں ﴿ أَوْ آتِيكُم بِشِهَابٍ قَبَسٍ لَّعَلَّكُمْ تَصْطَلُونَ ﴾ ” یا سلگتا ہوا نگارا تمہارے پاس لاتا ہوں، تاکہ تم آگ تاپ سکو۔“ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اور ان کے گھر والے بیاباں میں بھٹک گئے تھے اور سخت سردرات تھی۔ النمل
8 ﴿ فَلَمَّا جَاءَهَا نُودِيَ أَن بُورِكَ مَن فِي النَّارِ وَمَنْ حَوْلَهَا ﴾ ” پس جب وہ اس کے پاس آئے تو ندا آئی کہ بابرکت ہے وہ جو آگ میں ہے اور وہ جو اس (آگ) کے اردگرد ہیں۔“ یعنی اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو پکارا اور آگاہ فرمایا کہ یہ نہایت مقدس اور مبارک جگہ ہے۔ یہ اس مقام کی برکت ہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس مقام کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کو شرف کلام بخشنے، آپ کو آواز دینے اور آپ کو رسالت سے سرفراز کرنے کے لئے منتخب فرمایا : ﴿ وَسُبْحَانَ اللّٰـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ﴾ یعنی اللہ رب کائنات اسی چیز سے پاک اور منزہ ہے کہ اس کے بارے میں کسی نقص اور برائی کا گمان کیا جائے۔ النمل
9 ﴿ يَا مُوسَىٰ إِنَّهُ أَنَا اللّٰـهُ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ﴾ ” اے موسیٰ! میں ہی اللہ، غالب و دانا ہوں۔“ یعنی اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو آگاہ فرمایا کہ صرف اللہ ہی اکیلا عبادت کا مستحق ہے جیسا کہ ایک دوسری آیت کریمہ میں فرمایا : ﴿ إِنَّنِي أَنَا اللّٰـهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدْنِي وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي ﴾ (طٰہٰ: 20؍14) ” میں اللہ ہوں، جس کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں۔ پس میری عبادت کر اور مجھے یادر کھنے کے لئے نماز قائم کرو۔“ ﴿اَلْعَزِیْزُ﴾ جو تمام اشیاء پر غالب ہے اور جس کے سامنے تمام مخلوقات مطیع اور سرافگندہ ہیں۔ ﴿ الْحَكِيمُ ﴾ وہ اپنے امرو خلق میں حکمت والا ہے۔ یہ اس کی حکمت ہی ہے کہ اس نے اپنے بندے موسیٰ بن عمران علیہ السلام کو رسول بنا کر بھیجا جن کے بارے میں اللہ تبارک تعالیٰ کو علم ہے کہ وہ رسالت، وحی اور شرف کلام بخشے جانے کے اہل ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا غلبہ ہی ہے کہ آپ اس پر بھروسہ کرتے ہیں آپ اپنے تنہا ہونے، دشمنوں کی کثرت اور ان کے ظلم و جبر کے باوجود وحشت نہیں کھاتے۔ کیونکہ ان کی پیشانیاں اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں اور ان کی حرکات و سکون اس کے دست تدبیر کے تحت ہیں۔ النمل
10 ﴿ وَأَلْقِ عَصَاكَ ﴾ ” اور اپنی لاٹھی ڈال دو۔“ پس انہوں نے اپنی لاٹھی ڈال دی ﴿ فَلَمَّا رَآهَا تَهْتَزُّ كَأَنَّهَا جَانٌّ ﴾ ” پس جب اسے حرکت کرتا ہوا دیکھا اس طرح کہ گویا وہ ایک سانپ ہے۔“ وہ ایک سریع الحرکت نر سانپ تھا۔ ﴿ وَلَّىٰ مُدْبِرًا وَلَمْ يُعَقِّبْ ﴾ ” تو پیٹھ پھیر کر بھاگے اور پیچھے مڑ کر نہ دیکھا۔“ آپ طبیعت بشری کے تقاضے کے مطابق اس سانپ سے خوف کھا کر بھاگے جو آپ نے دیکھا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا : ﴿ يَا مُوسَىٰ لَا تَخَفْ ﴾ ” اے موسیٰ ! ڈرئیے مت۔“ ایک مقام پر فرمایا : ﴿ أَقْبِلْ وَلَا تَخَفْ إِنَّكَ مِنَ الْآمِنِينَ ﴾ (القصص :28؍31) ” اے موسیٰ ! آگے آ، ڈر مت، یقیناً تو ہر طرح امن والا ہے۔“ ﴿ إِنِّي لَا يَخَافُ لَدَيَّ الْمُرْسَلُونَ ﴾ ” پیغمبر میرے پاس ڈرا نہیں کرتے۔“ پیغمبروں کو کوئی امر خوف زدہ نہیں کرتا اس لیے کہ تمام مقامات خوف اللہ تعالیٰ کی قضاو قدر، اس کے تصرف اور امر کے مطابق درج ہیں۔ وہ نفوس قدسیہ جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنی رسالت کے لئے مختص اور اپنی وحی کے لئے چن لیا ہے ان کے لئے مناسب نہیں کہ وہ غیر اللہ سے ڈریں خاص طور پر اللہ تعالیٰ کے ہاں انتہائی قرب اور اس سے ہم کلامی کے موقع پر۔ النمل
11 ﴿ إِلَّا مَن ظَلَمَ ثُمَّ بَدَّلَ حُسْنًا بَعْدَ سُوءٍ ﴾ ” ہاں جس نے ظلم کیا پھر برائی کے بعد اسے نیکی سے بدل دیا۔“ یعنی یہ ہے وہ مقام جہاں اپنے ظلم اور جرم کے سبب سے وحشت اور خوف آنا چاہیے۔ رہے انبیاء و مرسلین علیہم السلام تو وحشت اور خوف کا ان کے ساتھ کیا تعلق؟ اس کے ساتھ ساتھ اگر کسی نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرکے ظلم کا ارتکاب کیا پھر اس نے توبہ کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کیا اور اپنی برائیوں کو نیکیوں کے ساتھ اور اپنی نافرمانیوں کو اطاعت کے ساتھ بدل ڈالا تو بے شک اللہ تعالیٰ بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے کسی کو اس کی رحمت اور مغفر ت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے کیونکہ وہ تمام گناہوں کو بخش دیتا ہے۔ وہ اپنے بندوں پر اس سے بھی زیادہ مہربان ہے جتنی ماں اپنے بچے پر ہوتی ہے۔ النمل
12 ﴿ وَأَدْخِلْ يَدَكَ فِي جَيْبِكَ تَخْرُجْ بَيْضَاءَ مِنْ غَيْرِ سُوءٍ ﴾ ”اور اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں ڈالو، وہ سی بیماری کے بغیر سفید نکلے گا۔“ یعنی برص اور نقص نہیں تھا بلکہ سفید، اس کی شعاعیں دیکھنے والوں کو مبہوت کئے دے رہی تھی : ﴿ فِي تِسْعِ آيَاتٍ إِلَىٰ فِرْعَوْنَ وَقَوْمِهِ ﴾ ” نو معجزے لے کر فرعون اور اس کی قوم کے پاس جاؤ“ یعنی یہ دو معجزات، عصا کا دوڑتا ہوا سانپ بن جانا، ہاتھ کا گریبان سے نکالنا، اس کا سفید نکلنا، جملہ نو معجزات میں شامل ہیں۔ آپ ان معجزات کے ساتھ جائیں فرعون اور اس کی قوم کو اللہ تعالیٰ ی طرف بلائیں۔ ﴿ إِنَّهُمْ كَانُوا قَوْمًا فَاسِقِينَ﴾ ” بے شک وہ فاسق لوگ ہیں۔“ انہوں نے اپنے شرک، سرکشی، اللہ کے بندوں پر تغلب اور زمین میں ناحق تکبر کے ذریعے سے فسق کا ارتکاب کیا۔ پس حضرت موسیٰ علیہ السلام فرعون اور اس کے اشراف کے پاس گئے، انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دی اور ان کو معجزات دکھائے۔ النمل
13 ﴿ فَلَمَّا جَاءَتْهُمْ آيَاتُنَا مُبْصِرَةً ﴾ ” پس جب ان کے پاس روشن نشانیاں آئیں“ جو حق پر دلالت کرتی تھیں اور ان کے ذریعے سے (حق) ایسے دیکھا جاسکتا ہے جیسے آنکھیں سورج کے ذریعے سے دیکھتی ہیں۔ ﴿ قَالُوا هَـٰذَا سِحْرٌ مُّبِينٌ ﴾ ” تو انہوں نے کہا یہ صریح جادو ہے۔“ انہوں نے اتنا کہنے پر اکتفا نہیں کیا کہ ” یہ جادو ہے“ بلکہ انہوں نے ساتھ یہ بھی کہا : ﴿ مُّبِينٌ ﴾ ” یہ کھلا دجادو ہے“ جو ہر ایک پر ظاہر ہے، حالانکہ یہ سب سے زیادہ تعجب خیز معجزات، واضح دلائل اور ہر طرف پھیل جانے والی روشنیاں تھیں جو فرضی قصے کہانیاں سے بہت زیادہ واضح اور جادوں کے کرتبوں سے بہت زیادہ ظاہر کرکے دکھائی گئی تھیں۔ یہ سب انکار حق اور انتہائی مغالطہ آمیز طرز استدلال ہے۔ النمل
14 ﴿ وَجَحَدُوا بِهَا ﴾ ” اور انہوں نے اس کا انکار کیا۔“ یعنی انہوں نے اللہ تعالیٰ کی آیات کا انکار کرتے ہوئے ان سے کفر کیا۔ ﴿ وَاسْتَيْقَنَتْهَا أَنفُسُهُمْ ﴾ ” حالانکہ ان کے دل اس کو مان چکے تھے۔“ یعنی ان کا انکار کسی شک و ریب پر مبنی نہیں تھا۔ انہوں نے آیات الٰہی کی صحت کے علم اور یقین کے باوجود ان کا انکار کیا۔ ﴿ ظُلْمًا ﴾ یعنی انہوں نے اپنے رب کے حق اور خود اپنے آپ ظلم کرتے ہوئے ﴿ وَعُلُوًّا ﴾ حق اور بندوں پر غلبہ اور انبیاء و مرسلین کی اطاعت کے مقابلے میں تکبر کا اظہار کرتے ہوئے، اللہ تعالیٰ آیات کا انکار کیا۔ ﴿ فَانظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِينَ ﴾ ” پس دیکھئے مفسدوں کا کیسا (بدترین) انجام ہوا۔“ اللہ تعالیٰ نے ان کو تباہ و برباد کردیا، ان کو سمندر میں غرق کیا، انہیں رسوا کی اور ان کی رہائش گاہوں اور مساکن کا اپنے کمزور بندوں کو وارث بنایا۔ النمل
15 اللہ تبارک و تعالیٰ ان آیات کریمہ میں حضرت داؤد اور ان کے فرزند سلیمان علیہما السلام پر اپنے احسان کا ذکر کرتا ہے کہ اس نے انہیں وسیع علم عطا کیا اور اس معنی کی دلیل یہ ہے کہ ” علم“ کو نکرہ کے صیغے میں بیان کیا جیسا کہ ایک دوسرے مقام پر فرمایا : ﴿ وَدَاوُودَ وَسُلَيْمَانَ إِذْ يَحْكُمَانِ فِي الْحَرْثِ إِذْ نَفَشَتْ فِيهِ غَنَمُ الْقَوْمِ وَكُنَّا لِحُكْمِهِمْ شَاهِدِينَ فَفَهَّمْنَاهَا سُلَيْمَانَ ۚ وَكُلًّا آتَيْنَا حُكْمًا وَعِلْمًا ﴾ (الانبیاء : 21؍78۔ 79)” اور یاد کیجئے داؤد اور سلیمان کو جبکہ وہ دونوں ایک کھیت کے جھگڑے میں فیصلہ کر رہے تھے اس کھیت میں کچھ لوگوں کی بکریاں رات کے وقت چر گئی تھیں ہم ان کے فیصلے کو خود دیکھ رہے تھے۔ پس صحیح فیصلہ ہم نے سلیمان کو سمجھا دیا حالانکہ حکم اور علم سے ہم نے دونوں ہی کو سرفراز کیا تھا۔ “ ﴿ وَقَالَا ﴾ ان دونوں نے اس احسان پر کہ اللہ نے ان کو تعلیم دی، اپنے رب کا شکر بجا لاتے ہوئے کہا : ﴿ الْحَمْدُ لِلّٰـهِ الَّذِي فَضَّلَنَا عَلَىٰ كَثِيرٍ مِّنْ عِبَادِهِ الْمُؤْمِنِينَ ﴾ ” اللہ کا شکر ہے جس نے ہمیں اپنے بہت سے مومن بندوں پر فضیلت دی۔“ پس ان دونوں نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی کہ اس نے انہیں ایمان سے بہرہ مند کیا اور انہیں سعادت مند لوگوں میں شامل کی اور وہ ان کے خواص میں شمار ہوتے ہیں۔۔۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کہ اہل ایمان کے چار درجے ہیں۔ صالحین، ان سے اوپر شہداء، ان سے اوپر صدیقین اور سب سے اوپر انبیاء۔ داؤد اور سلیمان علیہما السلام اللہ تعالیٰ کے خاص رسولوں میں شمار ہوتے ہیں۔ اگرچہ ان کا درجہ پانچ اولوالعزم رسولوں کے درجے سے کم تر ہے۔ تاہم وہ جملہ اصحاب فضیلت انبیاء و رسل میں شمار ہوتے ہیں جن کا اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں نہایت تعظیم کے ساتھ ذکر کیا ہے اور ان کی بہت زیادہ مدح و توصیف بیان کی ہے۔ پس انہوں نے اس منزلت کے عطا ہونے پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔ یہ بندے کی سعادت کا عنوان ہے کہ وہ تمام دینی اور دنیاوی نعمتوں پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے اور یہ ایمان رکھے کہ تمام نعمتیں صرف اس کے رب کی طرف سے عطا ہوتی ہیں۔ وہ ان نعمتوں پر فخر کرے نہ ان پر تکبر کرے بلکہ وہ یہ سمجھے کہ یہ نعمتیں اس پر یہ لازم کرتی ہیں کہ ان پر اللہ تعالیٰ کا بے انتہا شکر ادا کیا جائے۔ پس جب اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہما السلام کی مشترک مدح کی پھر سلیمان علیہ السلام کا خصوصی ذکر کیا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو ایک عظیم سلطنت عطا کی اور انہوں نے وہ کارنامے سرانجام دئیے جو ان کے باپ داؤد علیہ السلام سرانجام نہ دے سکے۔ النمل
16 ﴿ وَوَرِثَ سُلَيْمَانُ دَاوُودَ ﴾ ” اور سلیمان، داؤد کے وارث بنے۔“ یعنی وہ حضرت داؤد علیہ السلام کے علم ور ان کی نبوت کے وارث بنے انہوں نے اپنے علم کے ساتھ اپنے والد کے علم کو اکٹھا کرلیا شاید انہوں نے اپنے باپ کے علم کو اپنے باپ سے سیکھا اس کے ساتھ ساتھ ان کے باپ کی موجودگی میں بھی ان کے پاس علم تھا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿ فَفَهَّمْنَاهَا سُلَيْمَانَ ﴾ (الانبیاء : 21؍79) ” پس صحیح فیصلہ ہم نے سلیمان کو سمجھا دیا۔“ اللہ تعالیٰ کے احسان پر اس کا شکر ادا کرتے ہوئے اور تحدیث نعمت کے طور پر سلیمان علیہ السلام نے کہا : ﴿ يَا أَيُّهَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنطِقَ الطَّيْرِ ﴾ ” لوگو ! ہمیں جانوروں کی بولی سکھائی گئی ہے۔ “ سلیمان علیہ السلام پرندوں کی بولی اور ان کی بات کو سمجھتے تھے جیسا کہ آنجناب نے ہد ہد سے بات چیت کی اور ہد دہد نے ان کی باتوں کا جواب دیا اور جیساکہ آنجناب نے چیونٹی کی بات کو سمجھ لیا تھا جو اس نے چیونٹیوں سے کی تھی۔۔۔ اس کا ذکر آئندہ سطور میں آئے گا۔ یہ فضیلت سلیمان علیہ السلام کے سوا کسی اور کو عطا نہیں ہوئی۔ ﴿ وَأُوتِينَا مِن كُلِّ شَيْءٍ ﴾ ” اور ہمیں ہر چیز عطا کی گئی ہے۔“ اللہ تعالیٰ نے ہمیں نعمتیں، اقتدار کے اسباب، سلطنت اور غلبہ عطا کیا جو انسانوں میں سے کسی کو عطا نہیں ہوئے اس لئے انہوں نے اپنے رب سے دعا کی : ﴿ وَهَبْ لِي مُلْكًا لَّا يَنبَغِي لِأَحَدٍ مِّن بَعْدِي ۖ ﴾ (ص : 38؍35) ” اور مجھے وہ اقتدار عطا کر جو میرے بعد کسی کے سزاوار نہ ہو۔“ پس اللہ تعالیٰ نے جنوں کو ان کے سامنے مسخر کردیا جو ان کے لئے ہر وہ کام کرتے تھے جو وہ چاہتے تھے، جو دوسرے لوگ نہیں کرسکتے تھے، اللہ تعالیٰ نے ہوا کو ان کے لئے مسخر کردیا وہ صبح کے وقت ایک مہینے کی راہ تک اور شام کے وقت ایک مہینے کی راہ تک چلتی تھی۔ ﴿ إِنَّ هَـٰذَا ﴾ ” بے شک یہ۔“ یعنی یہ سب کچھ جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا کیا، ہمیں فضیلت عطا کی اور جس کے ساتھ ہمیں مختص کیا۔ ﴿ لَهُوَ الْفَضْلُ الْمُبِينُ ﴾ ” البتہ وہ صریح فضل ہے۔“ یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا واضح فضل ہے۔ پس انہوں نے اللہ تعالیٰ کی نعمت کا پوری طرح اعترف کیا۔ النمل
17 ﴿ وَحُشِرَ لِسُلَيْمَانَ جُنُودُهُ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ وَالطَّيْرِ فَهُمْ يُوزَعُونَ ﴾ ” اور سلیمان (علیہ السلام)کے لئے جنوں، انسانوں اور پرندوں کے لشکر جمع کئے گئے اور وہ قسم وار کئے جاتے تھے۔“ یعنی ان کے سامنے ان کے بے شمار مختلف انواع کے خوف ناک لشکر جمع ہوئے یہ لشکر انسانوں، جنوں، شیاطین اور پرندوں میں سے تھے۔ ان کو نظم و ضبط میں رکھا جاتا اور ان کا انتظام کیا جاتا تھا۔ ان کے اول کو آخر کی طرف لوٹایا جاتا تھا وہ اپنے کوچ کرنے اور پڑاؤ ڈالنے میں نہایت نظم و ضبط سے کام لیتے تھے اور ہر ایک اس کے لئے پوری طرح مستعد اور تیار ہوتا تھا۔ یہ تمام لشکر سلیمان علیہ السلام کے حکم کی تعمیل کرتے تھے ان میں سے کوئی بھی، حکم عدولی کرنے اور سرکشی دکھانے کی قدرت نہیں رکھتا تھا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ هَـٰذَا عَطَاؤُنَا فَامْنُنْ أَوْ أَمْسِكْ ﴾ (ص : 38؍39) ” یہ ہماری نوازش ہے، آپ جسے چاہیں نوازیں اور جس سے چاہیں روک لیں۔“ یعنی جس کو چاہیں بغیر حساب عطا کریں۔ پس سلیمان علیہ السلام یہ عظیم لشکر لے کر اپنی کسی مہم پر روانہ ہوئے۔ النمل
18 ﴿ حَتَّىٰ إِذَا أَتَوْا عَلَىٰ وَادِ النَّمْلِ قَالَتْ نَمْلَةٌ ﴾ ” حتیٰ کہ جب وہ چیوینٹوں کی وادی میں پہنچے تو ایک چیونٹی نے کہا۔“ یعنی چیونٹی نے اپنے گروہ اور اپنے ابنائے جنس کو متنبہ کرتے ہوئے کہا : ﴿ يَا أَيُّهَا النَّمْلُ ادْخُلُوا مَسَاكِنَكُمْ لَا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمَانُ وَجُنُودُهُ وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ ﴾ ”اے چیونیٹو ! اپنے اپنے بلوں میں داخل ہوجاؤ، ایسانہ ہو کہ سلیمان علیہ السلام اور اس کے لشکر تم کو کچل ڈالیں اور ان کو خبر بھی نہ ہو۔“ اس چیونٹی نے خیر خواہی کی اور یہ بات چیونٹیوں کو سنائی۔ یہ بات یا تو اس نے خود سنائی اور ہوسکتا ہے اللہ تعالیٰ نے خرق عادت کے طور پر چیونٹیوں کو سماعت عطا کردی ہو کیونکہ چیونٹیوں کو ایک چیونٹی کی آواز کے ذریعے سے آگاہ کرنا، جبکہ چیونٹیوں نے وادی کو بھر رکھا تھا، بہت ہی تعجب انگیز بات ہے۔۔۔ یا اس چیونٹی نے ساتھی والی چیونٹی سے کہا ہوگا اور یہ خبر ایک چیونٹی سے دوسری چیونٹی تک حتیٰ کہ تمام چیونٹیوں میں سرایت کرگئی ہوگی اور اس چیونٹی نے دوسری چیونٹیوں کے بچنے کیلئے کہا اور اس کا طریقہ یہ تھا کہ تمام چیونٹیاں اپنے اپنے بلوں میں گھس جائیں۔ یہ چیونٹی سلیمان علیہ السلام، ان کے احوال اور ان کی سلطنت کی عظمت کو اچھی طرح جانتی تھی اس لئے اس نے ان کی طرف سے معذرت کرتے ہوئے کہا، اگر انہوں نے چیونٹیوں کو کچل ڈالا تو یہ فعل قصداً اور شعوری طور پر نہیں ہوگا۔ النمل
19 حضرت سلیمان علیہ السلام نے چیونٹی کی بات سن لی اور آپ اس کو سمجھ بھی گئے۔ ﴿ فَتَبَسَّمَ ضَاحِكًا مِّن قَوْلِهَا ﴾ ” پس وہ سلیمان علیہ السلام چیونٹی کی بات سن کر ہنس پڑے۔“ چیونٹی کی اپنی ہم جنسوں کے بارے میں اور خود اپنے بارے میں خیر خواہی اور حسن تعبیر پر خوش ہو کر مسکرا پڑے یہ انبیائے کرام کا حال ہے جو ادب کامل اور اپنے مقام پر اظہار تعجب کو شامل ہے نیز یہ کہ ان کا ہنسنا تبسم کی حد تک ہوتا ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا زیادہ تر ہنسنا مسکراہٹ کی حد تک ہوتا تھا۔ کیونکہ قہقہہ لگا کر ہنسنا خفت عقل اور سوء ادب پر دلالت کرتا ہے۔ خوش ہونے والی بات پر خوش نہ ہونا اور عدم تبسم بدخلقی اور طبیعت کی سختی پر دلالت کرتا ہے اور انبیاء و رسل اس سے پاک ہوتے ہیں۔ سلیمان علیہ السلام نے اللہ تبارک و تعالیٰ کا، جس نے اسے یہ مقام عطا کیا، شکر ادا کرتے ہوئے کہا : ﴿ رَبِّ أَوْزِعْنِي ﴾ یعنی اے رب ! مجھے الہام کر اور مجھے توفیق دے ﴿ أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَىٰ وَالِدَيَّ ﴾ ” کہ جو احسان تو نے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر کیے ہیں، ان کا شکر کروں۔“ کیونکہ والدین کو نعمت عطا ہونا اولاد کو نعمت عطا ہونا ہے۔ پس حضرت سلیمان علیہ السلام نے اپنے رب سے اس دینی اور دنیاوی نعمت پر، جو اس نے انہیں اور ان کے والدین کو عطا کی، شکر ادا کرنے کی توفیق کا سوال کیا : ﴿ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاهُ ‘﴾ ” اور یہ کہ ایسے نیک کام کروں کہ تو ان سے خوش ہوجائے۔“ یعنی مجھے توفیق عطا کر کہ میں ایسے نیک کام کروں جو تیرے حکم کے موافق، خالص تیرے لئے، مفسدات اور نقائص سے پاک ہوں، تاکہ تو ان سے راضی ہو۔ ﴿ وَأَدْخِلْنِي بِرَحْمَتِكَ ﴾ ” اور مجھے اپنی رحمت سے داخل فرما۔“ یعنی جنت بھی جس رحمت کا حصہ ہے۔ ﴿ فِي عِبَادِكَ الصَّالِحِينَ ﴾ ” اپنے جملہ نیک بندوں میں“ کیونکہ رحمت، صالحین کے لئے، ان کے درجات اور منازل کے مطابق رکھی گئی ہے۔ یہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے کی اس حالت کے نمونے کا ذکر ہے جو چیونٹی کی بات سن کر ہوئی تھی۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے پرندوں کے ساتھ سلیمان علیہ السلام کے مخاطب ہونے کا ایک اور نمونہ ذکر کیا۔ النمل
20 چنانچہ فرمایا : ﴿ وَتَفَقَّدَ الطَّيْرَ ﴾ ” اور انہوں نے پرندوں کا جائزہ لیا۔“ یہ چیز آپ کے کامل عزم و حزم، آپ کی افواج کی بہترین تنظیم اور چھوٹے بڑے معاملات میں آپ کی بہترین تدبیر پر دلالت کرتی ہے۔ یہاں تک کہ آپ نے پرندوں کو بھی مہمل نہیں چھوڑا بلکہ آپ نے ان کا بغور معائنہ کیا کہ تمام پرندے حاضر ہیں یا ان میں سے کوئی مفقود ہے؟ یہ ہے آیت کریمہ کا معنی۔ ان مفسرین کا یہ قول صحیح نہیں کہ سلیمان علیہ السلام نے پرندوں کا معائنہ اس لئے کیا تھا تاکہ وہ ہد ہد کو تلاش کریں کہ وہ کہاں ہے؟ جو ان کی رہنمائی کرے کہ آیا پانی قریب ہے یا دور ہے۔ جیسا کہ ہد ہد کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ وہ زمین کی کثیف تہوں کے نیچے پانی دیکھ سکتا ہے۔ ان کے اس قول پر کوئی دلیل نہیں بلکہ عقلی اور لفظی دلیل اس کے بطلان پر دلالت کرتی ہے۔ عقلی دلیل یہ ہے کہ عادت، تجربات اور مشاہدات کے ذریعے سے یہ بات معلوم ہے کہ تمام حیوانات میں کوئی حیوان ایسا نہیں جو خرق عادت کے طور پر زمین کی کثیف تہوں کے نیچے پانی دیکھ سکتا ہو۔ اگر ایسا ہوتا تو اللہ تعالیٰ اس کا ذکر ضرور کرتا کیونکہ یہ بہت بڑا معجزہ ہے۔ رہی لفظی دلیل، تو اگر یہی معنی مراد ہوتا تو اللہ تعالیٰ یوں فرماتا :” سلیمان نے ہد ہد کو طلب کیا تاکہ وہ ان کے لئے پانی تلاش کرے جب انہوں نے ہد ہد کو موجود نہ پایا تو انہوں نے کہا جو کہا۔۔۔“ یا عبارت اس طرح ہوتی ” سلیمان نے ہد ہد کے بارے میں تفتیش کی‘‘ یا ’’ہد ہد کے بارے میں تحقیق کی“ اور اس قسم کی دیگر عبارات۔ انہوں نے تو پرندوں کا صرف اس لئے جائزہ لیا تھا تاکہ وہ معلوم کریں کہ ان میں سے کون حاضر اور کون غیر حاضر ہے اور ان میں سے کون اپنے اپنےمقام پر موجود ہے جہاں اس کو متعین کیا گیا تھا۔ نیز حضرت سلیمان علیہ السلام پانی کے محتاج نہ تھے کہ انہیں ہد ہد کے علم ہندسہ کی ضرورت پڑتی۔ اس لئے کہ آپ کے پاس جن اور بڑے بڑے عفریت تھے جو پانی کو خواہ کتنا ہی گہرا کیوں نہ ہوتا زمین کھود کر نکال لاتے۔۔۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کیلئے ہوا کو مسخر کردیا تھا وہ صبح کے وقت ایک مہینے کی راہ تک اور شام کے وقت ایک مہینے کی راہ تک چلتی تھی ان تمام نعمتوں کے ہوتے ہوئے وہ ہد ہد کے کیسے محتاج ہوسکتے تھے؟ یہ جو موجود تفاسیر جو شہرت پا چکی ہیں ان کے سوا کوئی تفسیر معروف ہے نہ پائی جاتی ہے سب مجرد اسرائیلی روایات ہیں اور ان کے ناقلین صحیح معانی سے ان کے تناقض اور صحیح اقوال کے ساتھ ان کی تطبیق سے بے خبر ہیں۔ پھر یہ تفاسیر نقل ہوتی چلی آئیں، متاخرین متقدمین کے اعتماد پر ان کو نقل کرتے رہے حتیٰ کہ ان کے حق ہونے کا یقین آنے لگا۔ پس تفسیر میں ردی اقوال اسی طرح جگہ پاتے ہیں۔ ایک عقل مند اور ذہین شخص خوب جانتا ہے کہ یہ قرآن کریم عربی مبین میں نازل ہوا ہے جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے عالم و جاہل تمام مخلوق کو خطاب کیا ہے اور ان کو حکم دیا ہے کہ وہ اس کے معانی میں غوروفکر کریں اور ان کو معروف عربی الفاظ کے ساتھ جن کے معانی معروف ہیں تطبیق دینے کی کوشش کریں۔ جن سے اہل عرب نا واقف نہیں۔ اگر کچھ تفسیر اقوال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ کسی اور سے منقول ہیں تو ان کو اس اصل پر پرکھنا چاہیے۔ اگر وہ اس اصل کے مطابق ہیں تو ان کو قبول کرلیا جائے کیونکہ الفاظ معانی پر دلالت کرتے ہیں۔ اگر یہ اقوال لفظ اور معنی کی مخالفت کرتے ہیں یا وہ لفظ یا معنی میں سے ایک کی مخالفت کرتے ہیں تو ان کو رد کردے اور ان کے بطلان کا یقین کرے کیونکہ اس کے پاس ایک مسلمہ اصول ہے اور یہ تفسیری اقوال اس اصول کی مخالفت کرتے ہیں اور یہ اصول ہمیں کلام کے معنی اور اس کی دلالت کے ذریعے سے معلوم ہے۔ اور محل استشہاد یہ ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کا پرندوں کا معائنہ کرنا اور ہد ہد کو مفقود پانا ان کے کمال حزم و احتیاط، تدبیر سلطنت میں ذاتی عمل دخل اور ان کی ذہانت و فطانت پر دلالت کرتا ہے، یہاں تک کہ ہد ہد جیسے چھوٹے سے پرندے کو مفقود پایا تو فرمایا : ﴿ مَا لِيَ لَا أَرَى الْهُدْهُدَ أَمْ كَانَ مِنَ الْغَائِبِينَ ﴾ ” کیا وجہ ہے کہ ہد ہد نظر نہیں آتا، کیا کہیں غائب ہوگیا ہے؟“ کیا ہد ہد کا نظر نہ آنا میری قلت فطانت کی وجہ سے ہے۔ کیونکہ وہ مخلوق کے بے شمار گروہوں میں چھپا ہوا ہے؟ یا میری بات برمحل ہے کہ وہ میری اجازت اور حکم کے بغیر غیر حاضر ہے؟ النمل
21 تب سلیمان علیہ السلام ہد ہد پر سخت ناراض ہوئے اور اسے دھمکی دیتے ہوئے فرمایا : ﴿ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذَابًا شَدِيدًا ﴾ ” میں اسے سخت سزادوں گا۔“ یعنی قتل کے سوا اسے ہر قسم کا سخت عذاب دوں گا۔ ﴿ أَوْ لَأَذْبَحَنَّهُ أَوْ لَيَأْتِيَنِّي بِسُلْطَانٍ مُّبِينٍ ﴾ ” یا اسے ذبح کر ڈالوں گا یا وہ میرے سامنے دلیل صریح پیش کرے۔“ یعنی وہ اپنے پیچھے رہ جانے کے جواز پر واضح دلیل پیش کرے۔ یہ آپ کے کمال عدل و انصاف اور تقویٰ کی دلیل ہے کہ آپ نے ہد ہد کو یوں ہی سخت عذاب دینے یا قتل کرنے کی قسم نہیں کھائی کیوں کہ یہ سزا صرف بہت بڑے جرم کی پاداش ہی میں دی جاسکتی ہے اور ہد ہد کی غیر حاضری میں کسی واضح عذر کا احتمال بھی ہوسکتا ہے اس لئے آپ نے اپنے ورع اور فطانت کی بنا پر اس کو مستثنیٰ کیا۔ النمل
22 ﴿ فَمَكَثَ غَيْرَ بَعِيدٍ ﴾ ” ابھی زیادہ دیر نہیں گزری تھی“ کہ ہدہد پیش ہوا اور یہ چیز لشکر میں سلیمان علیہ السلام کی ہیبت اور اپنے معاملات پر ان کی گہری نظر پر دلالت کرتی ہے حتیٰ کہ ہد ہد بھی جسے ایک واضح عذر نے پیچھے چھوڑ دیا تھا، طویل عرصہ تک غیر حاضر نہ رہ سکا۔ ﴿ فَقَالَ ﴾ ہد ہد نے سلیمان علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا : ﴿ أَحَطتُ بِمَا لَمْ تُحِطْ بِهِ ﴾ ” میں کچھ علم رکھتا ہوں جس کا آپ (اپنے وسیع علم اور اس میں بلند درجے پر فائز ہونے کے باوجود) احاطہ نہیں کرسکے۔“ ﴿ وَجِئْتُكَ مِن سَبَإٍ ﴾ ” اور میں آپ کے پاس سبا سے لایا ہوں۔“ یعنی یمن کے مشہور قبیلہ سے ﴿بِنَبَإٍ يَقِينٍ﴾ ” ایک یقینی خبر۔“ یعنی میں ایک یقینی خبر لے کر آیا ہوں۔ النمل
23 پھر اس نے اس خبر کو واضح کرتے ہوئے عرض کیا : ﴿ إِنِّي وَجَدتُّ امْرَأَةً تَمْلِكُهُمْ ﴾ ” میں نے ایک عورت دیکھی کہ ان لوگوں پر بادشاہت کرتی ہے۔“ یعنی وہ عورت ہوتے ہوئے قبیلہ سبا کی بادشاہ تھی۔ ﴿ وَأُوتِيَتْ مِن كُلِّ شَيْءٍ ﴾ ” اور اسے ہر قسم کا سازوسامان عطا کیا گیا ہے“ جو بادشاہوں کو عطا ہوتا ہے، مثلاً: مال ودولت، اسلحہ، فوج، مضبوط دفاعی حصار اور قلعے وغیرہ۔ ﴿ وَلَهَا عَرْشٌ عَظِيمٌ ﴾ ” اور اس کے پاس بہت بڑا تخت (بادشاہی) ہے“ جس پر وہ جلوہ افروز ہوتی ہے۔ وہ بہت ہی حیران کن تخت ہے۔ تخت شاہی کا بڑا ہونا عظمت مملکت، قوت سلطنت اور شوریٰ کے افراد کی کثرت پر دلالت کرتا ہے۔ النمل
24 ﴿ وَجَدتُّهَا وَقَوْمَهَا يَسْجُدُونَ لِلشَّمْسِ مِن دُونِ اللّٰـهِ ﴾ ” میں نے دیکھا کہ وہ اور اس کی قوم اللہ کو چھوڑ کر کرسورج کو سجدہ کرتے ہیں۔“ یعنی وہ لوگ مشرک ہیں اور سورج کی پوجا کرتے ہیں۔ ﴿ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ أَعْمَالَهُمْ ﴾’’اور شیطان نے ان کے اعمال کو ان کے لئے مزین کردیا ہے“ انہیں اپنے اعمال حق نظر آتے ہیں ﴿ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ فَهُمْ لَا يَهْتَدُونَ ﴾’’اور ان کو راستے سے روک رکھا ہے پس وہ ہدایت پر نہیں آتے۔“ کیونکہ جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ اس کا موقف حق ہے اس کی ہدایت کی توقع نہیں کی جاسکتی جب تک کہ اس کا یہ عقیدہ بدل نہ جائے۔ النمل
25 ﴿ أَلَّا يَسْجُدُوا لِلّٰـهِ الَّذِي يُخْرِجُ الْخَبْءَ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ﴾ ” وہ اس اللہ کو سجدہ کیوں نہیں کرتے جو آسمانوں اور زمین میں چھپی چیزوں کو ظاہر کرتا ہے۔“ یعنی جو آسمان کے کناروں اور زمین کے دو درواز گوشوں میں چھپی ہوئی چھوٹی چھوٹی مخلوقات، نباتات کے بیچ اور سینوں میں چھپے ہوئے بھیدوں کو جانتا ہے۔ وہ زمین اور آسمان میں چھپی ہوئی چیزوں کو بارش برسا کر اور نباتات اگا کر ظاہر کرتا ہے۔ وہ زمین میں پوشیدہ اشیاء کو اس وقت بھی ظاہر کرے گا جب صور پھونکا جائے گا اور مردوں کو زمین سے اٹھا کر کھڑا کیا جائے گا تاکہ ان کا ان کے اعمال کی جزا یا سزا دے ﴿ وَيَعْلَمُ مَا تُخْفُونَ وَمَا تُعْلِنُونَ ﴾ ” اور وہ سب کچھ جانتا ہے جسے تم چھپاتے ہو اور جسے تم ظاہر کرتے ہو۔ “ النمل
26 ﴿ اللّٰـهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ ﴾ ” اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔“ یعنی عبادت، انابت، تذلل اور محبت صرف اسی کے لائق ہے۔ وہی عبادت کا مستحق ہے کیونکہ وہ صفات کا ملہ کا مالک اور تمام نعمتیں اسی کی طرف سے ہیں جو اس کی عبادت کی موجب ہیں۔ ﴿ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ ﴾ ” وہی عرش عظیم کا مالک ہے۔“ جو تمام مخلوقات کے لئے چھت ہے اور زمین اور آسمانوں کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ پس یہ بادشاہ عظیم سلطنت اور بہت بڑی شان کا مالک ہے، وہی ہے جس کے سامنے تذلل اور خضوع کا اظہار کیا جائے اور وہی ہے جس کے سامنے رکوع و سجود کیا جائے۔ النمل
27 جب ہد ہد نے سلیمان علیہ السلام کو یہ عظیم خبر سنائی تو وہ سزا سے بچ گیا اور حضرت سلیمان علیہ السلام حیران ہوئے کہ یہ بات ان سے کیسے چھپی رہ گئی۔ آپ نے ہد ہد کی عقل اور دانائی کا اثبات کرتے ہوئے کہا : ﴿ سَنَنظُرُ أَصَدَقْتَ أَمْ كُنتَ مِنَ الْكَاذِبِينَ اذْهَب بِّكِتَابِي ﴾ ” اچھا ہم دیکھیں گے کہ تم نے سچ کہا ہے یا تو جھوٹا ہے، یہ میرا خط لے جا۔“ اس خط کے مندرجات کا عنقریب ذکر آئے گا۔ النمل
28 ﴿ فَأَلْقِهْ إِلَيْهِمْ ثُمَّ تَوَلَّ عَنْهُمْ ﴾ ” اور اسے ان کی طرف ڈال دے پھر ان کے پاس سے پھر آ۔“ یعنی ذرا دور ہٹ جا ﴿ فَانظُرْ مَاذَا يَرْجِعُونَ ﴾ ” اور دیکھ کہ وہ کیا جواب دیتے ہیں۔“ یعنی تجھے کیا جواب دیتے ہیں اور آپس میں کیا گفتگو کرتے ہیں۔ النمل
29 ہد ہد یہ خط لے گیا اور ملکہ کے سامنے پھینک دیا، اس نے اپنی قوم سے کہا : ﴿ إِنِّي أُلْقِيَ إِلَيَّ كِتَابٌ كَرِيمٌ ﴾ ” میری طرف ایک نامۂ گرامی ڈالا گیا ہے۔“ یعنی روئے زمین کے سب سے بڑے بادشاہ کی طرف سے ایک جلیل القدر خط بھیجا گیا ہے۔ النمل
30 پھر اس نے خط کا مضمون بیان کرتے ہوئے کہا : ﴿ نَّهُ مِن سُلَيْمَانَ وَإِنَّهُ بِسْمِ اللّٰـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ أَلَّا تَعْلُوا عَلَيَّ وَأْتُونِي مُسْلِمِينَ ﴾ ” وہ سلیمان کی طرف سے ہے اور مضمون یہ ہے شروع اللہ کا نام لے کر جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے کہ مجھ سے سرکشی نہ کرو اور مطیع ہو کر میرے پاس چلے آؤ۔“ یعنی مجھ سے بڑے بننے کی کوشش نہ کرو بلکہ مطیع ہو کر میری حکمرانی کو قبول کرلو میرے احکام کو تسلیم کرکے فرمانبرداری کے ساتھ میرے پاس آؤ۔ یہ خط مکمل طور پر واضح ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی مختصر تھا کیونکہ یہ خط ان کو اپنی سرکشی، اپنے اس حال پر باقی رہنے سے روکنے، سلیمان علیہ السلام کے حکم کی اطاعت، ان کی حکمرانی قبول کرنے، مطیع ہو کر ان کی خدمت میں حاضر ہونے اور ان کو اسلام کی دعوت دینے کو متضمن تھا۔ اس آیت کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ خط کی ابتدا میں پوری بسم اللہ لکھنا اور خط کے عنوان وغیرہ میں اپنے نام سے ابتدا کرنا مستحب ہے۔ النمل
31 النمل
32 یہ اس ملکہ کے حزم و احتیاط اور اس کی عقل مندی تھی کہ اس نے سلطنت کے بڑے بڑے لوگوں کو جمع کیا اور کہنے لگی :﴿ يَا أَيُّهَا الْمَلَأُ أَفْتُونِي فِي أَمْرِي ﴾ ” اے اہل دربار ! میرے اس معاملے میں مجھے مشورہ دو۔“ یعنی مجھے بتاؤ کہ ہم سلیمان علیہ السلام کو کیا جواب دیں کیا ہم اس کی اطاعت قبول کرلیں یا اس کے علاوہ کچھ اور کریں؟ ﴿ مَا كُنتُ قَاطِعَةً أَمْرًا حَتَّىٰ تَشْهَدُونِ ﴾ یعنی میں تمہاری رائے اور مشورہ کے بغیر اپنی صوابدید کے مطابق احکام جاری نہیں کرتی۔ النمل
33 ﴿ قَالُوا نَحْنُ أُولُو قُوَّةٍ وَأُولُو بَأْسٍ شَدِيدٍ ﴾ ” انہوں نے کہا، ہم بڑے زور آور اور سخت جنگ جو ہیں۔“ یعنی اگر آپ سلیمان علیہ السلام کی بات کو ٹھکرا دیں اور اس کی اطاعت قبول نہ کریں تو ہم جنگ کرنے کی قوت رکھتے ہیں۔ ان کی اس بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اس رائے کی طرف مائل ہوگئے تھے۔ اگر اس پر عمل درآمد ہوجاتا تو ان کی بہت تباہی ہوتی، پھر وہ اپنی رائے پر قائم نہ رہے بلکہ کہے لگے: ﴿ وَالْأَمْرُ إِلَيْكِ﴾ ” اور حکم آپ کے اختیار میں ہے۔“ یعنی آپ جو رائے دیں گی اسی کو اختیار کیا جائے گا کیونکہ وہ اس کی عقل مندی، حزم و احتیاط اور خیر خواہی کو جانتے تھے۔ ﴿ فَانظُرِي ﴾ ” پس دیکھئے“ یعنی غور وفکر کیجئے !﴿ مَاذَا تَأْمُرِينَ ﴾ ” آپ کیا حکم فرماتی ہیں۔ “ النمل
34 قوم سبا کی ملکہ نے اپنے سرداروں کو ان کی رائے سے صرف نظر کرنے پر راضی کرتے اور جنگ کا انجام واضح کرتے ہوئے کہا : ﴿ إِنَّ الْمُلُوكَ إِذَا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوهَا ﴾ ” بادشاہ جب کسی بستی میں داخل ہوتے ہیں تو (قتل و غارت، لوٹ مار کرکے، لوگوں کو قیدی بنا کر اور گھروں کو اجاڑ کر) فساد برپا کرتے ہیں۔“ ﴿ وَجَعَلُوا أَعِزَّةَ أَهْلِهَا ﴾ ” اور وہاں کے عزت داروں کو ذلیل کردیتے ہیں۔“ یعنی وہ رؤسا اور اشراف کو ذلیل کرتے ہیں۔ پس یہ رائے درست نہیں ہے، نیز میں آزمائے بغیر اور کوئی ایسا آدمی بھیجے بغیر جو اس کے احوال پر سے پردہ ہٹا سکے، اس کی اطاعت قبول نہیں کروں گی تب ہمارا معاملہ بصیرت پر مبنی ہوگا۔ النمل
35 ملکہ نے کہا : ﴿ وَإِنِّي مُرْسِلَةٌ إِلَيْهِم بِهَدِيَّةٍ فَنَاظِرَةٌ بِمَ يَرْجِعُ الْمُرْسَلُونَ ﴾ ” اور میں ان کی طرف کوئی تحفہ بھیجتی ہوں اور دیکھتی ہوں کہ قاصد کیا جواب لاتے ہیں۔“ یعنی سلیمان علیہ السلام کی طرف سے ایلچی کو کیا جواب ملتا ہے آیا وہ اپنی رائے اور اپنے قول پر قائم رہتا ہے یا ہدیہ اسے فریب میں مبتلا کرکے اس کی رائے اور ارادے کو بدل دیتا ہے؟ نیز اس کے اور اس کی افواج کے کیا حالات ہیں؟ پس ملکہ نے اپنی قوم کے عقل مند اور اصحاب رائے لوگوں کو ہدیوں کے ساتھ سلیمان علیہ السلام کی خدمت میں روانہ کیا۔ النمل
36 ﴿ فَلَمَّا جَاءَ سُلَيْمَانَ ﴾ ” پس جب وہ (قاصد) سلیمان علیہ السلام کے پاس پہنچا۔“ یعنی ملکہ کے ایلچی تحائف لے کر سلیمان علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ﴿قَالَ ﴾ تو حضرت سلیمان علیہ السلام نے ان کے انکار کرنے اور ان کی دعوت پر لبیک نہ کہنے پر سخت ناراض ہوتے ہوئے کہا : ﴿ أَتُمِدُّونَنِ بِمَالٍ فَمَا آتَانِيَ اللّٰـهُ خَيْرٌ مِّمَّا آتَاكُم﴾ ” کیا تم مجھے مال سے مدد دینا چاہتے ہو؟ جو کچھ اللہ نے مجھے عطا فرمایا ہے وہ اس سے بہتر ہے جو اس نے تمہیں دیا ہے۔“ تمہاری ان چیزوں کی میرے نزدیک کوئی وقعت نہیں اور نہ ان کے آنے پر مجھے کوئی خوشی ہی ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے بے شمار نعمتوں سے نواز کر ان چیزوں سے بے نیاز کردیا ہے۔ ﴿ بَلْ أَنتُم بِهَدِيَّتِكُمْ تَفْرَحُونَ ﴾ ” بلکہ تم ہی اپنے ہدیے پر اتراتے ہو۔“ تم دنیا سے محبت کی بنا پر ان تحائف پر اتراتے ہو، تمہارے پاس جو کچھ ہے وہ اس کی نسبت کہیں کم ہے جو اللہ تعالیٰ نے مجھے عطا کر رکھا ہے۔ النمل
37 پھر حضرت سلیمان علیہ السلام نے جب ایلچی میں عقل و دانش دیکھی اور آپ نے اندازہ کرلیا کہ وہ آپ کے پیغام کو من و عن ملکہ تک پہنچا دے گا تو آپ نے خط لکھے بغیر پیغام دیا اور کہا : ﴿ ارْجِعْ إِلَيْهِمْ ﴾ ” ان کے پاس واپس جاؤ۔“ یعنی یہ تحائف واپس ان کے پاس لے جاؤ﴿فَلَنَأْتِيَنَّهُم بِجُنُودٍ لَّا قِبَلَ لَهُم بِهَا ﴾ ” ہم ان پر ایسے لشکر سے حملہ کریں گے جس کے مقابلے کی ان کو طاقت نہ ہوگی۔“ ﴿وَلَنُخْرِجَنَّهُم مِّنْهَا أَذِلَّةً وَهُمْ صَاغِرُونَ ﴾ ” اور ہم ان کو وہاں سے بے عزت کرکے نکال دیں گے۔“ پس وہ ایلچی واپس آیا اور ان کو سلیمان علیہ السلام کا پیغام پہنچا دیا اور وہ سلیمان علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہونے کے لئے تیار ہوگئے۔ النمل
38 حضرت سلیمان علیہ السلام کو علم تھا کہ وہ ضرور ان کی طرف آئیں گے اس لئے انہوں نے اپنی مجلس میں موجود جنوں اور انسانوں سے کہا : ﴿أَيُّكُمْ يَأْتِينِي بِعَرْشِهَا قَبْلَ أَن يَأْتُونِي مُسْلِمِينَ ﴾ ” کوئی تم میں ایسا ہے کہ قبل اس کے کہ وہ مطیع ہو کر ہمارے پاس آئیں، اس (ملکہ) کا تخت میرے پاس لے آؤ۔‘‘ تاکہ ان کے مسلمان ہونے سے پہلے پہلے ان کے تخت میں تصرف کرسکیں کیونکہ انکے مسلمان ہونے کے بعد ان کے اموال حرام ہوجائیں گے۔ النمل
39 ﴿ قَالَ عِفْرِيتٌ مِّنَ الْجِنِّ ﴾ ” جنات میں سے’’عفریت‘‘ نے کہا۔” عفریت سے مراد وہ (جن وغیرہ) ہے جو نہایت طاقتور اور چست ہو۔ ﴿أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَن تَقُومَ مِن مَّقَامِكَ وَإِنِّي عَلَيْهِ لَقَوِيٌّ أَمِينٌ ﴾ ’’قبل اس کے کہ آپ اپنی جگہ سے اٹھیں میں اس کو آپ کے پاس لا حاضر کرتا ہوں۔ میں اس کو اٹھانے کی طاقت رکھتا ہوں اور امانت دار ہوں۔“ ظاہر ہے اس وقت سلیمان علیہ السلام شام کے علاتے میں تھے ان کے درمیان اور قوم سبا کے علاقے کے درمیان تقریباً چارہ ماہ کی مسافت تھی۔۔۔ دو ماہ جانے کے لئے اور دو ماہ واپس لوٹنے کیلئے۔ بایں ہمہ اس عفریت نے کہا کہ اس تخت کے بڑا اور بھاری ہونے اور فاصلہ زیادہ ہونے کے باوجود وہ اسے لانے کا التزام کرتا ہے اور حضرت سلیمان علیہ السلام کے اس مجلس سے کھڑا ہونے سے پہلے پہلے وہ اسے لا کر پیش کردے گا۔ اس قسم کی طویل مجالس کی عادت یہ ہوتی ہے کہ یہ زیادہ تر چاشت کے وقت تک رہتی ہیں یعنی یہ مجالس دن کے تیسرے حصے تک جاری رہتی ہیں یہ عام معمول کے وقت کی انتہاء ہے تاہم اس وقت میں کمی بیشی بھی ہوسکتی ہے۔ النمل
40 اس عظیم بادشاہ کی رعیت میں ایسے فراد موجود تھے جن کے پاس اتنی قوت اور قدرت تھی اور اس سے بھی بڑھ کر ﴿ قَالَ الَّذِي عِندَهُ عِلْمٌ مِّنَ الْكِتَابِ ﴾ ” وہ شخص جس کے پاس کتاب کا علم تھا بولا“۔۔۔ مفسرین کہتے ہیں کہ وہ ایک عالم فاضل اور صالح شخص تھا جو حضرت سلیمان علیہ السلام کی خدمت میں رہتا تھا اسے ” آصف بن برخیا“ کہا جاتا تھا اس کے پاس ” اسم اعظم‘‘ کا علم تھا جس کے ذریعے سے جو دعا مانگی جائے اللہ تعالیٰ قبول کرتا ہے اور جو سوال کیا جائے اللہ عطا کرتا ہے۔۔۔ ﴿ أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَن يَرْتَدَّ إِلَيْكَ طَرْفُكَ﴾ ” میں آپ کی آنکھ کے جھپکنے سے پہلے پہلے اسے آپ کے پاس حاضر کیے دیتا ہوں۔‘‘ یعنی وہ اس ” اسم اعظم“ کے واسطے سے دعا مانگے گا اور تخت اسی وقت حاضر ہوجائے گا چنانچہ اس نے دعا مانگی اور ملکہ سبا کا تخت فوراً حاضر ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس سے یہی مراد ہے جو ہم نے بیان کیا ہے یا اس کے پاس کتاب کا کوئی ایسا علم تھا جس کی بنا پر وہ دور کی چیز کو اور مشکل امور کو حاصل کرنے کی قدرت رکھتا تھا۔ ﴿ فَلَمَّا رَآهُ مُسْتَقِرًّا عِندَهُ ﴾ ” پس جب انہوں نے اس (تخت) کو اپنے پاس رکھا ہوا دیکھا۔“ تو حضرت سلیمان علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی حمدو ثنا بیان کی کہ اس نے آپ کو قدرت اور اقتدار عطا کی اور تمام امور کو آپ کے لئے آسان کردیا۔ ﴿ قَالَ هَـٰذَا مِن فَضْلِ رَبِّي لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ ﴾ ” کہا کہ یہ میرے رب کا فضل ہے تاکہ مجھے آزمائے، کہ میں شکر کرتا ہوں یا کفران نعمت کرتا ہوں۔“ یعنی وہ مجھے اس کے ذریعے سے آزمائے، چنانچہ سلیمان علیہ السلام نے اپنے اقتدار، سلطنت اور طاقت سے۔۔۔ جیسا کہ جاہل ملوک وسلاطین کی عادت ہے۔۔۔ کبھی فریب نہیں کھایا۔ بلکہ آپ کو علم تھا کہ یہ قوت واقتدار اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک امتحان ہے۔ وہ خائف رہتے تھے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ اس نعمت کا شکر ادا نہ کرسکیں۔ پھر واضح کردیا کہ شکر کا اللہ تعالیٰ کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا اس کا فائدہ شکر کرنے والے ہی کی طرف لوٹتا ہے۔ فرمایا : ﴿ وَمَن شَكَرَ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ ﴾ ” اور جو شکر کرتا ہے تو اپنے ہی فائدے کے لئے شکر کرتا ہے اور جو ناشکری کرتا ہے تو میرا رب بے نیاز، کرم کرنے والا ہے۔“ یعنی وہ اس کے اعمال سے بے نیاز ہے، وہ کریم ہے بے پایاں بھلائی کا مالک ہے اس کی بھلائی شکر گزارا اور ناشکرکے سب کو شامل ہے البتہ جو کوئی اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرتا ہے تو وہ مزید نعمتوں کا مستحق بنتا ہے اور جو کوئی اس کی نعمتوں کی ناشکری کرتا ہے تو یہ ان کے زوال کا باعث بنتی ہے۔ النمل
41 پھر سلیمان علیہ السلام نے اپنے پاس والوں سے فرمایا : ﴿ نَكِّرُوا لَهَا عَرْشَهَا ﴾ ” اس ( ملکہ) کے لئے اس کے تخت کی صورت بدل دو۔“ یعنی اس تخت میں کچھ کمی بیشی کرکے اسے بدل ڈالو۔ ﴿ نَنظُرْ ﴾ ہم اس بارے میں اس کی عقل کا امتحان لیں گے۔ ﴿ أَتَهْتَدِي ﴾ کیا اسے راہ صواب ملتی ہے اور اس کے پاس وہ ذہانت اور فطانت ہے جو اقتدار کے لائق ہے یا وہ اس سے محروم ہے؟ النمل
42 ﴿ فَلَمَّا جَاءَتْ ﴾ ” پس جب وہ (ملکہ سبا) سلیمان علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئی۔“ تو حضرت سلیمان علیہ السلام نے وہ تخت ملکہ سبا کے سامنے پیش کیا اور جس تخت پر وہ متمکن تھی اسے وہ اپنے شہر میں چھوڑ کر آئی تھی۔ ﴿ قِيلَ أَهَـٰكَذَا عَرْشُكِ ﴾ ” پوچھا گیا کہ کیا آپ کا تخت بھی اسی طرح کا ہے۔“ یعنی ہمارے ہاں یہ بات مشہور ہے کہ آپ کے پاس ایک بہت بڑا تخت ہے۔ کیا وہ اس جیسا تخت ہے جو ہم نے آپ کی خدمت میں پیش کیا ہے؟ ﴿ قَالَتْ كَأَنَّهُ هُوَ ﴾ ” اس نے کہا، گویا کہ یہ وہی ہے۔“ یہ ملکہ سبا کی ذہانت وفطانت تھی کہ اس نے یہ نہیں کہا ” یہ وہی ہے“ کیونکہ اس میں تبدیلی ہوچکی تھی اور نہ اس نے اس کی نفی ہی کی کیونکہ وہ اس تخت کو پہنچان چکی تھی اس لئے اس نے اپنے جواب میں ایسا لفظ استعمال کیا جو دونوں امور کا محتمل اور دونوں حالتوں پر صادق آتا تھا۔ سلیمان علیہ السلام نے اس کی ہدایت اور عقل مندی پر حیران ہو کر اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے، کہ اس نے اسے اس سے بھی زیادہ عقل و دانش سے نوازا ہے، کہا : ﴿ وَأُوتِينَا الْعِلْمَ مِن قَبْلِهَا ﴾ ” اور ہم کو اس سے پہلے ہی علم ہوگیا تھا۔“ یعنی ہدایت، عقل و دانش اور حزم و احتیاط اس ملکہ سے پہلے عطا ہوچکی ہے ﴿وَكُنَّا مُسْلِمِينَ ﴾ ” اور ہم مسلمان ہیں۔“ اور یہی حقیقی اور نفع مند ہدایت ہے۔ اس میں یہ احتمال بھی ہے کہ یہ ملکہ سبا کا قول ہو یعنی ’’ہمیں سلیمان کی بادشاہت، سلطنت اور وسیع اقتدار کے بارے میں اس حالت سے پہلے ہی علم تھا، جو بہت لمبی مسافت سے ہمارا تخت منگوا کر پیش کرنے کی صورت میں ہم نے اس کی قدرت کا مشاہدہ کیا۔ ہم اس کے سامنے سر اطاعت خم کرتے ہوئے اور اس کی سلطنت اور اقتدار کو تسلیم کرتے ہوئے اطاعت کے لئے حاضر ہوئے ہیں۔“ النمل
43 اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَصَدَّهَا مَا كَانَت تَّعْبُدُ مِن دُونِ اللّٰـهِ ﴾’’اور اللہ کے سوا وہ جس کی پرستش کرتی تھی، اس نے اسے روکے رکھا۔“ یعنی اسے اسلام سے روکے رکھا ورنہ اس میں ذہانت و فطانت تھی جس کے ذریعے سے وہ باطل میں سے حق کو پہچان سکتی تھی۔ مگر حقیقت ہے کہ باطل عقائد بصیرت قلب کو زائل کردیتے ہیں ﴿ إِنَّهَا كَانَتْ مِن قَوْمٍ كَافِرِينَ ﴾ ” (اس سے پہلے)وہ کافروں میں سے تھی۔“ اس لئے وہ انہی کے دین پر قائم رہی۔ اہل دین سے کسی ایک شخص کا علیحدہ ہونا۔۔۔ جبکہ اس کی دائمی عادت اس معاملے کے بارے میں کہ ہے کہ اس کی عقل اے لوگوں کی گمراہی اور خطا قرار دیتی ہے۔۔۔ بہت نادر چیز ہے، اس لئے اس کا کفر پر باقی رہنا کوئی تعجب انگیز نہیں ہے۔ پھر سلیمان علیہ السلام نے ارادہ کیا کہ ملکہ ان کی سلطنت کا مشاہدہ کرکے جو عقول کو حیران کردیتی ہے۔ پس آپ نے اس سے کہا کہ وہ محل میں داخل ہو، وہ ایک بلند اور وسیع بیٹھنے کی جگہ تھی اور یہ شیشے سے بنائی گئی تھی جس کے نیچے نہریں جاری تھیں۔ النمل
44 ﴿ قِيلَ لَهَا ادْخُلِي الصَّرْحَ فَلَمَّا رَأَتْهُ حَسِبَتْهُ لُجَّةً ﴾ ” اس سے کہا گیا کہ محل میں داخل ہوجاؤ تو جب اس نے اس کو دیکھا تو اسے پانی کا حوض سمجھا۔“ کیونکہ شیشے شفاف تھے اور ان کے نیچے بہتا ہوا پانی صاف دکھائی دے رہا تھا اور وہ شیشہ یوں لگ رہا تھا جیسے وہ بذات خود چل رہا ہو۔ اس کے سوا کوئی چیز نہ ہو۔ ﴿ وَكَشَفَتْ عَن سَاقَيْهَا ﴾ ” اور اس نے اپنی پنڈلیوں سے کپڑا ہٹا لیا“ پانی میں داخل ہونے کے لئے۔ یہ چیز بھی ملکہ کی عقل مندی اور اس کے ادب پر دلالت کرتی ہے کیونکہ وہ محل میں جہاں اسے داخل ہونے کے لئے کہا گیا، داخل ہونے سے رکی نہیں۔ اسے علم تھا کہ صرف اس کے اکرام و تکریم کی خاطر ایسا کرنے کے لئے کہا گیا ہے اور سلیمان بادشاہ اور اس کی تنظیم نے حکمت اور دانائی کی بنیادی پر اسے تعمیر کرایا ہے اور جو کچھ اس نے دیکھا تھا اس کے بعد کسی بری حالت کے بارے میں اس کے دل میں ادنیٰ سا شک بھی نہ تھا۔ اور جب وہ ” پانی“ میں داخل ہونے کیلئے تیار ہوئی تو اسے کہا گیا : ﴿ إِنَّهُ صَرْحٌ مُّمَرَّدٌ ﴾ ” یہ ایسا محل ہے جس میں جڑے ہوئے ہیں۔“ یعنی چکنا اور ملائم کیا گیا ہے ﴿مِّن قَوَارِيرَ﴾” شیشوں سے۔“ اس لئے تجھے پنڈلیوں سے کپڑا اٹھانے کی ضرورت نہیں ہے۔ پس جب وہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس پہنچی، وہاں جو کچھ دیکھا اور اسے سلیمان علیہ السلام کی نبوت اور رسالت کے بارے میں علم ہوا تو وہ اپنے کفر سے باز آگئی اور کہنے لگی : ﴿رَبِّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي وَأَسْلَمْتُ مَعَ سُلَيْمَانَ لِلّٰـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ﴾ ” اے میرے رب ! میں اپنے آپ پر ظلم کرتی رہی، اب میں سلیمان کے ساتھ کائنات کے رب کی اطاعت قبول کرتی ہوں۔ “ ملکہ سبا اور حضرت سلیمان علیہ السلام کا یہ وہ قصہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے۔ اس کے علاوہ خود ساختہ فروعات اور اسرائیلی روایات، جو تفسیر کے نام پر پھیلی ہوئی ہیں ان کا اللہ تعالیٰ کے کلام کی تفسیر سے کوئی تعلق نہیں بلکہ اس قسم کی روایات ایسے امور میں شمار ہوتی ہیں جن کا قطعی فیصلہ ایسی دلیل پر موقوف ہوتا ہے جونبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول ہو۔ اس قصہ میں منقول اکثر روایات اس معیار پر پوری نہیں اترتیں۔ اس لئے کامل احتیاط یہ ہے کہ ان سے اعراض کیا جائے اور ان کو تفسیر میں داخل نہ کیا جائے۔ النمل
45 اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ اس نے معروف قبیلہ ثمود میں، ان کے نسبتی بھائی حضرت صالح علیہ السلام کو رسول بنا کر بھیجا۔ انہوں نے ان کو حکم دیا کہ وہ اکیلے اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں اور بتوں اور خود ساختہ معبودوں کی عبادت چھوڑ دیں۔ ﴿ فَإِذَا هُمْ فَرِيقَانِ يَخْتَصِمُونَ﴾ ” پس وہ دو فریق ہو کر جھگڑنے لگے۔“ ان میں ایک مومنوں کا گروہ تھا اور دوسرا کفار کا گروہ تھا جو بہت بڑا تھا۔ النمل
46 ﴿ قَالَ يَا قَوْمِ لِمَ تَسْتَعْجِلُونَ بِالسَّيِّئَةِ قَبْلَ الْحَسَنَةِ ﴾ ” انہوں (صالح علیہ السلام) نے کہا، اے میری قوم ! تم نیکی سے پہلے برائی کے لئے کیوں جلدی مچاتے ہو؟‘‘ یعنی تم برائیوں کے ارتکاب میں جلدی کیوں کرتے ہو؟ اور نیکی سے بڑھ کر برائی کرنے کے حریص کیوں ہو جو نیکی تمہارے احوال کو درست اور تمہارے دینی اور دنیاوی امور کی اصلاح کرتی ہے حالانکہ کوئی ایسا امر نہیں جو تمہیں برائیوں کے ارتکاب پر مجبور کرتا ہو؟ ﴿ لَوْلَا تَسْتَغْفِرُونَ اللّٰـهَ ﴾ ” تم اللہ سے مغفرت کیوں نہیں طلب کرتے؟“ یعنی اپنے شرک اور نافرمانی سے توبہ کرکے اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ وہ تمہیں بخش دے۔ ﴿ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ ﴾ ” تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔“ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت نیک لوگوں کے بہت قریب ہے اور گناہوں سے توبہ کرنے والا نیک لوگوں میں شمار ہوتا ہے۔ النمل
47 ﴿قَالُوا﴾ انہوں نے اپنے نبی صالح (علیہ السلام) کی تکذیب اور آپ کی مخالفت کرتے ہوئے کہا : ﴿اطَّيَّرْنَا بِكَ وَبِمَن مَّعَكَ﴾ ” تم اور تمہارے ساتھی ہمارے لئے شکون بد ہیں۔“ ان کا خیال تھا۔۔۔ اللہ ان کا برا کرے۔۔۔۔ کہ انہوں نے صالح (علیہ السلام) میں بھلائی کی کوئی بات نہیں دیکھی۔ انہیں جو دنیاوی مقاصد حاصل نہیں ہوتے تھے وہ اس کا سبب صالح علیہ السلام اور ان کے متبعین کو گردانتے تھے۔ اس لئے صالح علیہ السلام نے ان سے فرمایا : ﴿طَائِرُكُمْ عِندَ اللّٰـهِ﴾ ” تمہاری بدشگونی اللہ کے پاس ہے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ تمہارے گناہوں کی پاداش میں تم پر مصائب نازل کرتا ہے ﴿بَلْ أَنتُمْ قَوْمٌ تُفْتَنُونَ﴾ ” بلکہ تم ایسے لوگ ہو جنہیں (خوشحالی اور بدحالی، خیر اور شر کے ذریعے سے) آزمایا جاتا ہے“ تاکہ اللہ تعالیٰ دیکھے کہ آیا تم گناہوں سے باز آکر توبہ کرتے ہو یا نہیں؟ اپنے نبی کو جھٹلانے اور اس کے ساتھ اسی طرح پیش آنے کی، ان کی یہ عادت تھی۔ النمل
48 ﴿وَكَانَ فِي الْمَدِينَةِ﴾ ” اور شہر میں تھے۔“ یعنی اسی شہر میں، جس میں صالح علیہ السلام اور ان کی اکثر قوم رہتی تھی۔ ﴿تِسْعَةُ رَهْطٍ يُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ وَلَا يُصْلِحُونَ﴾ ” نو شخص، جو ملک میں فساد برپا کرتے تھے اور اصلاح نہیں کرتے تھے“ یعنی زمین میں فساد برپا کرنا، ان کا وصف تھا اور وہ اصلاح کا کوئی کام کرتے تھے نہ اس کا وہ ارادہ رکھتے تھے وہ صالح کی دشمنی، آپ کے دین میں طعن و تشنیع اور اپنی قوم کو بھی اسی راہ پر چلانے کے لئے ہر وقت تیار رہتے تھے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿فَاتَّقُوا اللّٰـهَ وَأَطِيعُونِ وَلَا تُطِيعُوا أَمْرَ الْمُسْرِفِينَ الَّذِينَ يُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ وَلَا يُصْلِحُونَ﴾(الشعراء :26؍152،150) ” اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو اور حد سے تجاوز کرنے والوں کی اطاعت نہ کرو وہ زمین میں فساد برپا کرتے ہیں اور اصلاح کا کوئی کام نہیں کرتے۔ “ النمل
49 وہ اسی بری حالت میں رہے حتیٰ کہ ان کی عداوت یہاں تک پہنچ گئی ﴿ تَقَاسَمُوا ﴾ ” انہوں نے آپس میں ایک دوسرے کو قسم دے کر کہا“ ﴿لَنُبَيِّتَنَّهُ وَأَهْلَهُ﴾ ” ہم رات کو اس پر اور اس کے گھر والوں پر شب خون ماریں گے“ یعنی ہم رات کے وقت اس کے اور اس کے اہل خانہ کے پاس آئیں گے اور انہیں قتل کردیں گے ﴿ثُمَّ لَنَقُولَنَّ لِوَلِيِّهِ ﴾ ” پھر ہم اس کے وارث کو کہہ دیں گے“ جب وہ کھڑا ہو کر ہمارے خلاف قتل کا دعویٰ کرے تو ہم حلف اٹھا کر اس کا انکار کردیں گے اور کہیں گے ﴿مَا شَهِدْنَا مَهْلِكَ أَهْلِهِ وَإِنَّا لَصَادِقُونَ﴾ ” ہم اس کے اہل کی ہلاکت کے وقت موجود نہیں تھے اور ہم سچے ہیں“ پس انہوں نے اس پر ایکا کرلیا النمل
50 ﴿وَمَكَرُوا مَكْرًا ﴾ ” اور انہوں نے مکر کیا“ انہوں نے خفیہ طور پر حضرت صالح علیہ السلام اور اس کے گھر والوں کو قتل کرنے کے منصوبے کی پوری تدبیر کرلی حتیٰ کہ انہوں نے حضرت صالح علیہ السلام کے اولیاء کے خوف سے اس بات کو اپنی قوم سے بھی چھپائے رکھا ﴿وَمَكَرْنَا مَكْرًا﴾ ” اور ہم نے بھی ایک چال چلی“ یعنی اپنے نبی صالح کی مدد، ان کےمعاملے کوآسان بنانے اوراوران کی قوم میں سے جھٹلانے والوں کوہلاک کرنےکےلیے چال چلی۔﴿ وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ﴾”اورانہیں کوئی خبرنہ تھی۔“ النمل
51 ﴿فَانظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ مَكْرِهِمْ﴾”پس دیکھ لوکہ ان کی چال کا انجام کیساہوا؟“کیاانہوں نے اپنا مقصد حاصل کرلیا؟کیااس چال سے انہوں نے اپنا مطلب پالیایاان کا معاملہ بگڑ گیا؟ اس لئے فرمایا:﴿أَنَّا دَمَّرْنَاهُمْ وَقَوْمَهُمْ أَجْمَعِينَ﴾ ” ہم نے ان کو اور ان کی قوم کو ہلاک کردیا۔ النمل
52 ﴿فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خَاوِيَةً﴾ ” اب ان کے یہ گھر خالی پڑے ہیں“ یعنی ان کی دیواریں چھتوں سمیت منہد م ہو گئیں، گھر اجڑ گئے اور اپنے رہنے والوں سے خالی ہوگئے ﴿ بِمَا ظَلَمُوا﴾ ” بسبب اس کے جو انہوں نے ظلم کیا“ یعنی یہ تھا ان کے ظلم، اللہ تعالیٰ کے ساتھ ان کے شرک اور زمین میں ان کی سرکشی کا انجام ﴿إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لِّقَوْمٍ يَعْلَمُونَ﴾ ” بے شک اس میں ان لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں جو (حقائق کو) جانتے ہیں“ وہ اللہ تعالیٰ کے اولیاء اور اس کے دشمنوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی جو عادت رہی ہے اس میں غور و فکر کرتے ہیں اور اس سے عبرت حاصل کرتے ہیں، وہ خوب جانتے ہیں کہ ظلم کا انجام تباہی اور ہلاکت ہے ایمان اور عدل کا انجام نجات اور کامیابی ہے۔ النمل
53 بنا بریں فرمایا ﴿ وَأَنجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ﴾ ” اور جو لوگ ایمان لائے اور ڈرتے تھے، ان کو ہم نے نجات دی“ یعنی ہم نے ان لوگوں کو نجات دی جو اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں، روز آخرت اور اچھی بری تقدیر پر ایمان رکھتے تھے، شرک اور گناہ سے بچتے تھے اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے تھے۔ النمل
54 ہمارے بندے اور رسول لوط(علیہ السلام) کا ذکر کیجیے اور ان کے فضیلت والے واقعات کی خبر دیجیے جب انہوں نے اپنی قوم کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلاتے اور ان کی خیر خواہی کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ أَتَأْتُونَ الْفَاحِشَةَ ﴾ ” کیا تم بے حیائی کرتے ہو؟“ یعنی تم ایک ایسا گندا کام کرتے ہو جسے عقل و فطرت انتہائی فحش اور شریعت قبیح گردانتی ہے ﴿وَأَنتُمْ تُبْصِرُونَ﴾ ” اور تم دیکھتے ہو“ النمل
55 اور اس کی قباحت کو جانتے ہوئے تم نے عناد، ظلم اور اللہ تعالیٰ کے حضور جسارت کی بناء پر اس گناہ کا ارتکاب کیا پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس (فاحشۃ) کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا : ﴿أَئِنَّكُمْ لَتَأْتُونَ الرِّجَالَ شَهْوَةً مِّن دُونِ النِّسَاءِ ﴾ ” کیا تم عورتوں کو چھوڑ کر شہوت کے لئے مردوں کی طرف مائل ہوتے ہو“ یعنی تم اس حالت کو کیسے پہنچ گئے کہ تم اپنی شہوت مردوں سے پوری کرتے ہو جبکہ ان کے پیٹھیں غلاظت، گندگی اور خباثت کا مقام ہیں اور اللہ نے تمہارے لئے جو عورتیں اور ان کی پاکیزہ چیزیں پیدا کیں، تم نے ان کو چھوڑ دیا جن کی طرف میلان نفوس کی جبلت میں ودیعت کیا گیا ہے تمہارا معاملہ بالکل الٹ ہوگیا تم نے برے کو اچھا اور اچھے کو برا بنا دیا ﴿ بَلْ أَنتُمْ قَوْمٌ تَجْهَلُونَ﴾ ” حقیقت یہ ہے کہ تم جاہل لوگ ہو“ یعنی تم اس فعل کی قباحت اور اس پر مرتب ہونے والی سزا اور عذاب سے جاہل ہو۔ النمل
56 ﴿فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهِ﴾ ” آپ کی قوم کا جواب صرف یہ تھا“ ان کا جواب قبولیت پر مبنی تھا نہ وہ گناہوں سے باز آئے اور نہ انہوں نے کوئی نصیحت ہی پکڑی اس کے برعکس ان کا جواب تو عناد، مخالفت، اپنے نبی اور اپنے امانت دار رسول کو اس کے وطن اور شہر سے جلا وطن کرنے کی دھمکی پر مبنی تھا ﴿إِلَّا أَن قَالُوا أَخْرِجُوا آلَ لُوطٍ مِّن قَرْيَتِكُمْ﴾ ” انہوں نے کہا کہ لوط کے گھرانے کو اپنی بستی سے نکال دو“ گویا ان سے پوچھا گیا کہ تم لوط علیہ السلام کے گھرانے سے کیوں ناراض ہو ان کا وہ کون سا گناہ ہے جو ان کو بستی سے نکالنے کا موجب ہے تو انہوں نے جواب دیا ﴿إِنَّهُمْ أُنَاسٌ يَتَطَهَّرُونَ﴾ ” وہ بڑے پاکباز بنتے ہیں“ یعنی وہ مردوں کے ساتھ بدفعلی سے بچتے ہیں۔۔۔ اللہ تعالیٰ ان کا برا کرے انہوں نے بہترین نیکی کو بدترین برائی بنا دیا انہوں نے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا کہ ان کے نبی نے ان کو جو نصیحت کی انہوں نے اس کی نافرمانی کی بلکہ وہ اس حد تک پہنچ گئے کہ اسے اپنی بستی سے نکالنے اکا ارادہ کرلیا، مصیبت کا دار و مدار زبان پر ہوتا ہے، اس لئے کہنے لگے ﴿أَخْرِجُوهُم مِّن قَرْيَتِكُمْ إِنَّهُمْ أُنَاسٌ يَتَطَهَّرُونَ ﴾(الاعراف:7؍82) ” انہیں اپنی بستی سے نکال باہر کرو وہ بڑے پاکباز لوگ بنتے ہیں“ اور اس کلام کا مفہوم یہ ہے کہ تم ایسی خباثت اور گندگی میں لتھڑے ہوئے ہو جو تمہاری بستی پر نزول عذاب اور جو اس بستی سے نکل جائے اس کی نجات کا تقاضا کرتی ہے۔ النمل
57 ﴿فَأَنجَيْنَاهُ وَأَهْلَهُ إِلَّا امْرَأَتَهُ كَانَتْ مِنَ الْغَابِرِينَ﴾ ” پس ہم نے ان کو اور ان کے گھر والوں کو نجات دی مگر ان کی بیوی کہ اس کی نسبت ہم نے مقرر کر رکھا تھا کہ وہ پیچھے رہنے والوں میں سے ہوگی۔‘‘ اور یہ اس وقت کی بات ہے جب مہمانوں کی شکل میں فرشتے لو ط علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کی قوم کو ان خوبصورت مہمانوں کی آمد کے بارے میں معلوم ہوا تو وہ برائی کے ارداے سے لوط علیہ السلام کے پاس آئے لوط علیہ السلام نے دروازہ بند کرلیا اور ان پر معاملہ بہت شدت اختیار کر گیا پھر فرشتوں نے لوط علیہ السلام کو صورت حال سے آگاہ کیا اور انہیں بتایا کہ وہ انہیں ان سے بچانے اور ان بدکاروں کو ہلاک کرنے آئے ہیں اور ان کی ہلاکت کے لئے صبح کا وقت مقررہ کیا گیا ہے انہوں نے لوط علیہ السلام سے کہا کہ وہ اپنی بیوی کے سوا تمام گھرو الوں کو لے کر راتوں رات یہاں سے نکل جائیں کیونکہ ان کی بیوی پر بھی وہی عذاب نازل ہونے والا ہے جو بستی والوں پر نازل ہوگا لوط علیہ السلام اپنے گھر والوں کو لے کر راتوں رات بستی سے نکل گئے اور بچ گئے اور صبح ہوتے ہی یک دم عذاب نے بستی کو آلیا۔ النمل
58 پس اللہ تعالیٰ نے ان کی بستی کو تلپٹ کردیا اور اوندھا کر کے اوپر کے حصے کو نیچے کردیا اور اللہ تعالیٰ نے ان پر تابڑ توڑ کھنگر کے پتھر برسائے جن میں سے ہر پتھر تیرے رب کے ہاں نشان زدہ تھا اسی لئے اللہ تعالیٰ نے یہاں ارشاد فرمایا :” ﴿وَأَمْطَرْنَا عَلَيْهِم مَّطَرًا فَسَاءَ مَطَرُ الْمُنذَرِينَ﴾ ” اور ہم نے ان پر مینہ برسایا پس (جو) مینہ اس دھمکائے ہوئے لوگوں پر برسایا گیا وہ بہت برا تھا“ یعنی بہت بری تھی وہ بارش جو ان پر برسائی گئی اور بہت برا تھا وہ عذاب جو ان پر نازل کیا گیا ان کو ڈرایا گیا اور خوف دلایا گیا مگر وہ بدکاری سے رکے نہ باز آئے تب اللہ تعالیٰ نے ان پر انتہائی سخت عذاب نازل کردیا۔ النمل
59 یعنی کہہ دیجیے ﴿ الْحَمْدُ لِلّٰـهِ﴾ ” حمد و ستائش اللہ ہی کے لئے ہے“ جو اپنے کمال اوصاف، اپنے جمال عطا و بخشش، اہل تکذیب کو سزا دینے اور ظالموں کو عذاب دینے میں عدل و حکمت کی بنا پر کامل حمد و ستائش اور مدح و ثناء کا مستحق ہے نیز اس کے بندوں انبیاء و مرسلین پر سلام بھیجیے جن کو اس نے تمام جہانوں میں سے منتخب فرمایا جو رب کائنات کے چنے ہوئے اور محبوب بندے تھے اور یہ اس لئے ہے تاکہ ان کا ذکر اور ان کی تعظیم اور زیادہ ہو نیز اس لئے بھی کہ وہ شر اور گندگی سے پاک ہیں، اپنے رب کے بارے میں جو کہتے ہیں وہ نقائص و عیوب سے محفوظ ہے۔ ﴿آللّٰـهُ خَيْرٌ أَمَّا يُشْرِكُونَ ﴾’’بھلا اللہ بہتر ہے یا جن کو یہ شریک ٹھہراتے ہیں؟“ یہ استفہام محقق اور معروف ہے، یعنی اللہ، رب عظیم، جو کامل اوصاف اور عظیم الطاف کا مالک ہے، بہتر ہے یا یہ اصنام واوثان بہتر ہیں، جن کی یہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ عبادت کرتے ہیں، جو ہر لحاظ سے ناقص ہیں جو کوئی نفع دے سکتے ہیں نہ نقصان، جو خود اپنے لئے اور اپنے عبادت گزاروں کے لئے ذرہ بھر بھلائی کے مالک نہیں۔ پس اللہ تعالیٰ ان ہستیوں سے بہتر ہے جن کو یہ اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہراتے ہیں۔ النمل
60 اللہ تعالیٰ نے ان تمام تفاصیل کا ذکر کیا ہے جن سے صاف واضح ہوجاتا ہے کہ وہی الٰہ معبود ہے، صرف اسی کی عبادت حق اور اس کے سوا دوسروں کی عبادت باطل ہے۔ چنانچہ فرمایا : ﴿ أَمَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ﴾ یعنی، بھلا وہ کون ہے جس نے آسمانوں کو اور ان کے اندر سورج، چاند، ستاروں اور فرشتوں کو، نیز زمین کو اور اس کے اندر پہاڑوں، سمندروں، دریاؤں اور درختوں وغیرہ کو پیدا کیا؟ ﴿وَأَنزَلَ لَكُم﴾ ” اور نازل کیا تمہارے لئے“ یعنی تمہاری خاطر ﴿مِّنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَنبَتْنَا بِهِ حَدَائِقَ﴾ ” آسمان سے پانی، پھر ہم ہی نے اس سے باغات لگائے“ ﴿ذَاتَ بَهْجَةٍ﴾ ” رونق والے۔“ یعنی وہ درختوں کی کثرت، ان کے تنوع اور اچھے پھلوں کی وجہ سے خوبصورت منظر پیش کرتے ہیں۔ ﴿مَّا كَانَ لَكُمْ أَن تُنبِتُوا شَجَرَهَا﴾ اگر بارش نازل کرکے تم پر اللہ تعالیٰ نے احسان نہ کیا ہوتا تو تم ان درختوں کو کبھی اگا نہ سکتے۔ ﴿ أَإِلَـٰهٌ مَّعَ اللّٰـهِ ﴾ ” کیا اللہ تعالیٰ کے ساتھ کوئی اور معبود ہے“ جو یہ افعال سرانجام دیتا ہو اور اس بنا پر اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کی بھی عبادت کی جائے؟ ﴿ بَلْ هُمْ قَوْمٌ يَعْدِلُونَ﴾ ” بلکہ یہ لوگ (تو اللہ تعالیٰ کے) ہمسر ٹھہراتے ہیں۔“ اس حقیقت کا علم رکھنے کے باوجود کہ اللہ تعالیٰ اکیلا عالم علوی اور عالم سفلی کا خالق اور رزق نازل کرنے والا ہے، وہ غیر اللہ کو اللہ تعالیٰ کا شریک بناتے ہیں۔ النمل
61 یعنی کیا یہ بت اور اصنام جو ہر لحاظ سے ناقص ہیں، جن سے کوئی فعل صادر نہیں ہوتا، جو رزق دینے پر قادر ہیں نہ کوئی نفع پہنچانے کی قدرت رکھتے ہیں، وہ بہتر ہیں یا اللہ تعالیٰ؟ جس نے ﴿ جَعَلَ الْأَرْضَ قَرَارًا ﴾ ” زمین کو قرار گاہ بنایا“ جہاں بندے گھر اور ٹھکانا بناتے ہیں، کھیتی باڑی کرتے ہیں، عمارتیں تعمیر کرتے ہیں اور ادھر ادھر آتے جاتے ہیں۔ ﴿وَجَعَلَ خِلَالَهَا أَنْهَارًا﴾ یعنی اس نے زمین کے اندر دریا جاری کئے جن سے اس کے بندے اپنی کھیتیوں اور باغات میں فائدہ اٹھاتے ہیں، ان سے خود پانی پیتے ہیں اور اپنے جانوروں کو پلاتے ہیں۔ ﴿وَجَعَلَ لَهَا رَوَاسِيَ ﴾ ” اور رکھ دئیے اس کے اندر بوجھ۔“ یعنی زمین کے اندر پہاڑ جمادئیے جو اسے مضبوط رکھتے ہیں تاکہ یہ کہیں ڈھلک نہ جائے اور پہاڑ میخوں کا کام دیں تاکہ زمین نہ ہلے ﴿وَجَعَلَ بَيْنَ الْبَحْرَيْنِ ﴾ ” دو دریاؤں کے مابین بنائی“ یعنی نمکین اور کھاری سمندر اور میٹھے سمندر کے درمیان ﴿حَاجِزًا﴾ ” رکاوٹ۔“ جو ان دونوں کو خلط ملط ہونے سے روکے ہوئے ہے تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ دونوں پانیوں کی منفعت مقصود ضائع ہوجائے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کے درمیان زمین کی رکاوٹ حائل کردی۔ اللہ تعالیٰ نے دریاؤں کی گزر گاہوں کو سمندر سے بہت دور رکھا ہے تاکہ دریاؤں سے مصالح اور مقاصد کا حصول ممکن ہو۔ ﴿ أَإِلَـٰهٌ مَّعَ اللّٰـهِ ﴾ ” کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود ہے“ جو یہ تمام افعال سرانجام دیتا ہو اور یوں اسے اللہ تعالیٰ کا ہمسر قرار دے کر اسے اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرایا جائے؟ ﴿بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ﴾ ” بلکہ اکثر لوگ نہیں جانتے“ اس لئے وہ اپنے سرداروں کی تقلید کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرتے ہیں ورنہ اگر انہیں پوری طرح علم ہوتا تو وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کبھی شرک نہ کرتے۔ النمل
62 یعنی اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اور ہستی ہے جو مضطرب و مجبور کی دعاؤں کا جواب دیتی ہو کہ جسے کرب و غم نے بے قرار کر رکھا ہو، جس کے لئے مطلوب کا حصول مشکل ہو اور جس مصیبت میں وہ مبتلا ہے اس سے گلوخلاصی پر مجبور ہو؟ اللہ تعالیٰ کے سوا برائی، مصیبت، شر اور اللہ تعالیٰ کی ناراضی کو کون دور کرتا ہے؟ کون ہے جو تمہیں زمین میں خلیفہ بناتا ہے، زمین میں تمہیں تمکن عطا کرتا ہے، تمہیں رزق سے نوازتا ہے اور تمہیں اپنی نعمتوں سے بہرہ مند کرتا ہے؟ اور تم گزرے ہوئے لوگوں کے خلیفہ بنتے ہو جس طرح عنقریب اللہ تعالیٰ تمہیں موت سے ہمکنار کرے گا اور تمہارے بعد کچھ اور لوگوں کو لے آئے گا۔ کیا للہ تعالیٰ کے ساتھ کوئی اور معبود ہے جو یہ تمام افعال سرانجام دیتا ہو؟ کوئی ایسی ہستی نہیں جس سے تمام افعال صدر ہوتے ہوں حتیٰ کہ اے مشرکو ! تمہیں خود بھی اس کا اقرار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب انہیں کوئی تکلیف پہنچتی تھی تو دین کو خالص کرکے صرف اللہ تعالیٰ ہی کو پکارتے تھے کیونکہ انہیں علم تھا کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی اس تکلیف کو دور کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔ ﴿قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُونَ﴾ یعنی تم بہت کم نصیحت پکڑتے ہو اور بہت کم تدبر کرتے ہو حالانکہ یہ معاملات ایسے ہیں کہ اگر تم ان سے نصیحت پکڑو تو تمہیں نصیحت آجائے اور تم ہدایت کی طرف لوٹ آؤ مگر غفلت اور اعراض تم پر مسلط ہے بنا بریں تم جہالت سے باز آتے ہو نہ راہ راست پر چلتے ہو۔ النمل
63 وہ کون ہے جو تمہیں اس وقت راہ دکھاتا ہے جب تم بحروبر کی تاریکیوں میں سفر کررہے ہوتے ہو جہاں تمہارے پاس کوئی راہنمائی کرنے والا ہوتا ہے نہ کوئی علامت دکھائی دیتی ہے اور نہ کوئی ایسا وسیلہ ہوتا ہے جس کے ذریعے تم نجات حاصل کرسکو۔ البتہ اللہ تعالیٰ کی راہنمائی تمہارے کام آتی ہے، وہ تمہارے لئے راستے کو آسان کرتا ہے وہ تمہیں اسباب مہیا کرتا ہے جن کے ذریعے سے تم صحیح راستہ پالیتے ہو۔ ﴿وَمَن يُرْسِلُ الرِّيَاحَ بُشْرًا بَيْنَ يَدَيْ رَحْمَتِهِ﴾ ” اور کون ہواؤں کو اپنی رحمت سے پہلے خوش خبری بنا کر بھیجتا ہے۔“ یعنی بارش ہونے سے پہلے۔ پس اللہ تعالیٰ ان ہواؤں کو بھیجتا ہے وہ بادل اٹھاتی ہیں، ان کو اکٹھا کرتی ہیں پھر ان کو بار آور کرتی ہیں اور بارش برسنے سے پہلے ہی بندے ان ہواؤں کو دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔ ﴿ أَإِلَـٰهٌ مَّعَ اللّٰـهِ﴾ ” کیا اللہ کے ساتھ کوئی معبود ہے“ جس نے یہ تمام افعال سرانجام دئیے ہیں یا صرف اکیلے اللہ تعالیٰ سے یہ افعال صادر ہوئے ہیں؟ پھر تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسروں کو کیوں شریک ٹھہراتے ہو اور اس کے سوا دوسروں کی عبادت کیوں کرتے ہو؟ ﴿ تَعَالَى اللّٰـهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ﴾ ’’اللہ بہت بڑا اور ان کے شرک اور ہمسر قرار دینے سے منزہ اور پاک ہے۔‘‘ النمل
64 وہ کون ہے جو تخلیق کا آغاز کرتا ہے، جو تمام مخلوقات کو پیدا کرتا ہے اور ان مخلوقات کی تخلیق کی ابتدا کرتا ہے پھر قیامت کے روز مخلوق کا اعادہ کرے گا؟ وہ کون ہے جو تمہیں بارش اور نباتات کے ذریعے سے آسمان اور زمین سے رزق مہیا کرتا ہے؟ ﴿أَإِلَـٰهٌ مَّعَ اللّٰـهِ ﴾ کیا اللہ تعالیٰ کے ساتھ کوئی اور ہستی ہے جو یہ سب کچھ کرنے کی قدرت رکھتی ہو؟ ﴿قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ﴾ یعنی اپنے دعوے پر کوئی حجت اور دلیل لاؤ ﴿ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ﴾ ” اگر تم سچے ہو“ ورنہ تمہارا یہ قول کہ یہ بت اللہ تعالیٰ کیش ریک ہیں، مجرد دعویٰ ہے۔ اس کی توثیق و تصدیق کسی دلیل کے ساتھ کرو ورنہ اس حقیقت کا اعتراف کرلو کہ تمہارا موقف باطل ہے اور تمہارے پاس کوئی دلیل نہیں۔ پس تم یقینی اور قطعی دلائل اور براہین کی طرف رجوع کرو جو اس حقیقت پر دلالت کرتے ہیں کہ وہ اللہ جو تمام تصرفات کا اختیار رکھتا ہے وہی اس بات کا مستحق ہے کہ عبادت کی تمام انواع کو صرف اسی کے ساتھ مختص کیا جائے۔ النمل
65 اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ صرف وہی ہے جو آسمانوں اور زمین کے غیب کا علم رکھتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : ﴿وَعِندَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَا إِلَّا هُوَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَمَا تَسْقُطُ مِن وَرَقَةٍ إِلَّا يَعْلَمُهَا وَلَا حَبَّةٍ فِي ظُلُمَاتِ الْأَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَلَا يَابِسٍ إِلَّا فِي كِتَابٍ مُّبِينٍ﴾ (الانعام : 6 ؍ 59) ” اور اسی کے پاس ہیں غیب کی کنجیاں، اس کے سوا انہیں کوئی نہیں جانتا، جو کچھ بروبحر میں ہے وہ سب جانتا ہے، کوئی پتا نہیں جھڑتا مگر وہ اس کے علم میں ہوتا ہے۔ کوئی تر اور کوئی سوکھی چیز نہیں مگر ایک واضح کتاب میں درج ہے۔“ اور فرمایا : ﴿إِنَّ اللّٰـهَ عِندَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ إِنَّ اللّٰـهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ﴾ (لقمان : 31؍ 43) ” قیامت کی گھڑی کا اللہ ہی کو علم ہے، وہی بارش برساتا ہے وہی جانتا ہے کہ ماؤں کے رحموں میں کیا ہے، کوئی شخص یہ نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کمائی کرنے والا ہے اور کوئی متنفس یہ نہیں جانتا کہ اسے کس سرزمین میں موت آئے گی بے شک اللہ ہی جاننے والا اور خبر رکھنے والا ہے۔ “ اس قسم کے تمام غیوب کے علم کو اللہ تعالیٰ نے اپنے ساتھ مختص کیا ہے۔ پس کوئی مقرب فرشتہ یا نبی بھی ان کو نہیں جانتا اور چونکہ وہ اکیلا غیب کا علم رکھتا ہے، اس کا علم تمام بھیدوں، باطنی اور خفیہ امور کا احاطہ کئے ہوئے ہے اس لئے اس کے سوا کوئی ہستی عبادت کے لائق نہیں۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے آخرت کی تکذیب کرنے والوں کے ضعف علم کے بارے میں ایک کمتر چیز سے برترچیز کی طرف منتقل کرتے ہوئے آگاہ کیا اور فرمایا : ﴿وَمَا يَشْعُرُونَ﴾ یعنی وہ نہیں جانتے ﴿أَيَّانَ يُبْعَثُونَ﴾ ” وہ کب اٹھائے جائیں گے؟“ یعنی قبروں سے دوبارہ زندہ کرکے کب کھڑا کیا جائے گا۔ یعنی پس اسی لئے انہوں نے تیاری نہیں کی۔ النمل
66 ﴿ بَلِ ادَّارَكَ عِلْمُهُمْ فِي الْآخِرَةِ﴾ ” بلکہ ان کا علم آخرت کے بارے میں ختم ہوگیا ہے۔“ یعنی بلکہ ان کا علم کمزور ہے، ان کا علم یقینی نہیں ہے اور وہ ایسا علم نہیں جو قلب کی گہرائیوں تک پہنچ سکے۔ یہ علم کا قلیل ترین اور ادنیٰ ترین درجہ ہے۔ بلکہ ان کے پاس کوئی قوی علم ہے نہ کمزور ﴿بَلْ هُمْ فِي شَكٍّ مِّنْهَا﴾ ” بلکہ وہ اس سے شک میں ہیں۔“ یعنی آخرت کے بارے میں۔ شک علم کو زائل کردیتا ہے کیونکہ علم اپنے تمام مراتب میں کبھی شک کے ساتھ یکجا نہیں ہوتا۔ ﴿ بَلْ هُم مِّنْهَا﴾ ” بلکہ وہ اس سے“ یعنی آخرت کے بارے میں ﴿عَمُونَ ﴾ ” اندھے ہیں۔“ ان کی بصیرتیں ختم ہوگئیں۔ ان کے دلوں میں آخرت کے وقوع کے بارے میں کوئی علم ہے نہ اس کا کوئی احتمال بلکہ وہ آخرت کا انکار کرتے ہیں اور اس کو بہت بعید سمجھتے ہیں۔ النمل
67 اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَإِذَا كُنَّا تُرَابًا وَآبَاؤُنَا أَئِنَّا لَمُخْرَجُونَ ﴾ ” اور کافروں نے کہا کہ جب ہم مٹی ہوجائیں گے اور ہمارے باپ دادا بھی، کیا ہم پھر نکالے جائیں گے۔“ یعنی یہ بہت بعید اور ناممکن ہے۔ انہوں نے کامل قدرت والی ہستی کی قدرت کو اپنی کمزور قدرت پر قیاس کیا۔ النمل
68 ﴿ لَقَدْ وُعِدْنَا هَـٰذَا﴾ تحقیق وعدہ کیاگیا ہے ہم سے اس کا۔“یعنی مرنےکےبعد دوبارہ اٹھائے جانے کا۔﴿نَحْنُ وَآبَاؤُنَا مِن قَبْلُ﴾ ” ہم سے بھی اور اس سے پہلے ہمارے باپ دادوں سے بھی“ لیکن یہ وعدہ ہمارے سامنے پورا ہوا نہ ہم نے اس کی بابت کچھ دیکھا۔ ﴿ إِنْ هٰـٰذَا إِلَّا أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ﴾ یعنی، یہ تو محض پہلے لوگوں کے قصے کہانیاں ہیں جن کے ذریعے سے وقت گزاری کی جاتی ہے۔ اس کی کوئی اصل ہے نہ ان میں کوئی سچائی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آخرت کی تکذیب کرنے والوں کے احوال کے بارے میں ایک مرحلے کے بعد دوسرے مرحلے کی خبردی کہ وہ کوئی علم نہیں رکھتے کہ قیامت کب آئے گی، پھر اس بارے میں ان کے ضعف علم کی خبر دی، پھر آگاہ فرمایا کہ وہ شک میں مبتلا ہیں پھر فرمایا کہ وہ اندھے ہیں پھر خبردی کہ وہ اس کا انکار کرتے ہیں اور اسے بعید سمجھتے ہیں۔۔۔ یعنی ان احوال کے سبب سے ان کے دلوں سے آخرت کا خوف نکل گیا اس لئے انہوں نے گناہ اور معاصی کا ارتکاب کیا، ان کے لئے تکذیب حق اور تصدیق باطل آسان ہوگئی اور عبادت کے مقابلے میں انہوں نے شہوات کو حلال ٹھہرالیا۔ پس وہ دنیا و آخرت کے خسارے میں پڑگئے۔ النمل
69 اللہ تعالیٰ نے ان امور کی صداقت، جن کے بارے میں انبیاء و مرسلین نے خبر دی ہے، آگاہ کرتے ہوئے فرمایا : ﴿قُلْ سِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَانظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُجْرِمِينَ﴾ ” کہہ دیجئے ! زمین میں چل پھر کر دیکھو، مجرمین کا انجام کیا ہوا؟“ پس آپ کوئی ایسا مجرم نہیں پائیں گے جو اپنے جرائم پر ڈٹا رہا ہو اور اس کا بدترین انجام نہ ہوا ہو۔ اللہ تبارک و تعالیٰ اسے ایسی سزا دیتا ہے جو اس کے احوال کے لائق ہوتی ہے۔ النمل
70 یعنی اے محمد ! (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان جھٹلانے والوں اور ان کے عدم ایمان کی وجہ سے غمزدہ نہ ہوں۔ اگر آپ کو یہ معلوم ہوجائے کہ ان میں کتنی برائی ہے اور وہ بھلائی کی صلاحیت نہیں رکھتے تو آپ کبھی غمگین ہوں گے نہ آپ تنگدل ہوں گے اور نہ آپ کا دل ان کے مکروفریب پر کوئی قلق محسوس کرے گا۔ ان کے مکرو فریب کا برا انجام آخر کار انہی کی طرف لوٹے گا۔ ﴿وَيَمْكُرُونَ وَيَمْكُرُ اللّٰـهُ وَاللّٰـهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ﴾ (الانفال : 8؍30) ” وہ چال چلتے ہیں، اللہ بھی ان کے مقابلے میں چال چلتا ہے، اور اللہ بہترین چال چلنے والا ہے۔ “ النمل
71 آخرت اور اس حق کو جھٹلانے والے جسے لے کر رسول مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مبعوث ہوئے ہیں، عذاب کے لئے جلدی مچاتے ہوئے کہتے ہیں : ﴿ مَتَىٰ هٰذَا الْوَعْدُ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ﴾ ” اگر تم سچے ہو تو یہ وعدہ کب پورا ہوگا؟“ یہ ان کی جہالت اور حماقت پر مبنی رائے ہے کیونکہ اس وعدے کا وقوع اور اس کا وقت اللہ تعالیٰ نے اپنی تقدیر کے مطابق مقرر کررکھا ہے۔ اس کا جلدی نہ آنا ان کے کسی مطلوب و مقصود پر دلالت نہیں کرتا۔ اس کے ساتھ ساتھ جس کے بارے میں وہ جلدی مچاتے ہیں اس کے بارے میں ڈراتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ النمل
72 ﴿ قُلْ عَسَىٰ أَن يَكُونَ رَدِفَ لَكُم ﴾ یعنی ہوسکتا ہے وہ وقت مقرر قریب آگیا ہو اور ہوسکتا ہے وہ تم پر واقع ہونے کے قریب ہو۔ ﴿ بَعْضُ الَّذِي تَسْتَعْجِلُونَ﴾ یعنی وہ عذاب جس کے لئے تم جلدی مچاتے ہو۔ النمل
73 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی وسعت جودوسخا اور کثرت فضل و کرم کے بارے میں اپنے بندوں کو آگاہ کرتا ہے اور ان نعمتوں پر شکر ادا کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ بایں ہمہ اکثر لوگ شکر ادا کرنے سے گریز کرتے ہیں اور نعمتوں میں مشغول ہر کو نعمتیں عطا کرنے والے کو فراموش کردیتے ہیں۔ النمل
74 ﴿وَإِنَّ رَبَّكَ لَيَعْلَمُ مَا تُكِنُّ صُدُورُهُمْ﴾ ” اور بلا شبہ جو باتیں ان کے سینے چھپاتے ہیں، تمہارا رب ان کو جانتا ہے۔“ یعنی جو ان کے سینوں میں جمع ہے۔ ﴿وَمَا يُعْلِنُونَ ﴾ ” اور جو وہ ظاہر کرتے ہیں۔“ اس لئے انہیں اس ہستی سے ڈرنا چاہیے جو ظاہر و باطن کا علم رکھتی ہے اور اس سے خوف کھانا چاہیے۔ النمل
75 ﴿وَمَا مِنْ غَائِبَةٍ فِي السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ﴾ یعنی آسمان و زمین کی کوئی چھپی ہوئی چیز اور عالم علوی اور عالم سفلی کا کوئی بھید ایسا نہیں جو ﴿إِلَّا فِي كِتَابٍ مُّبِينٍ﴾ ” واضح کتاب میں نہ ہو۔“ اس کتاب نے ان تمام امور و حوادث کا احاطہ کررکھا ہے جو اب تک وقوع میں آچکے ہیں اور جو قیامت تک واقع ہوں گے۔ پس جو بھی چھوٹا یا بڑا حادثہ وقوع میں آتا ہے وہ اس کے مطابق ہوتا ہے جو لوح محفوظ میں درج ہے۔ النمل
76 یہ آیت کریمہ اس بارے میں خبر دیتی ہے کہ قرآن کتب سابقہ کی تصدیق و توضیح اور ان کی تفصیل بیان کرتا ہے۔ چونکہ کتب سابقہ کے بارے میں بنی اسرائیل میں اشتباہ و اختلاف واقع ہوا ہے اس لئے قرآن کریم نے ایسی توضیحات بیان کی ہیں جن سے اشکال دور ہوجاتا ہے اور مختلف فیہ مسائل میں راہ صواب واضح ہوجاتی ہے اور جب اس میں جلالت و وضاحت، ہر اختلاف کا ازالہ اور ہر اشکال کی تفصیل جمع ہے تو یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندوں پر سب سے بڑی نعمت ہے، مگر سب بندے اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کا شکر ادا نہیں کرتے۔ اس لئے واضح فرمادیا کہ قرآن کا فائدہ، اس کی روشنی اور راہنمائی صرف اہل ایمان کے لئے مختص ہے۔ النمل
77 پس فرمایا : ﴿وَإِنَّهُ لَهُدًى ﴾ ” اور بے شک یہ ہدایت ہے۔“ یعنی ضلالت، شبہات اور گمراہی کے جھاڑ جھنکار کے درمیان راہ ہدایت ہے۔ ﴿وَرَحْمَةٌ ﴾ ” اور رحمت ہے۔“ اس سے ان کے سینے ٹھنڈے اور ان کے تمام دینی اور دنیاوی امور درست ہوتے ہیں ﴿لِّلْمُؤْمِنِينَ﴾ یہ ان لوگوں کے لئے رحمت ہے جو اس پر ایمان رکھتے ہیں، اس کی تصدیق کرتے ہوئے اس کو قبول کرتے ہیں، اس میں تدبر اور اس کے معانی میں غور و فکر کرتے ہیں۔ پس انہی لوگوں کو صراط مستقیم کی طرف راہنمائی اور رحمت سے سرفراز کیا جائے گا جو سعادت اور فوز و فلاح کو متضمن ہے۔ النمل
78 یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ ان اختلاف کرنے اور جھگڑنے والوں کے درمیان عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ کرے گا۔ اگرچہ دنیا میں معاملات کے بارے میں دلیل کے مخفی رہ جانے اور بعض دیگر مقاصد کی بنا پر اختلاف کرنے والوں کے درمیان اشتباہ واقع ہوجاتا ہے، مگر جب ان معاملات کے بارے میں اللہ تعالیٰ فیصلہ کرے گا تو حق واقع کے مطابق واضح اور روشن ہو کر سامنے آجائے گا ﴿وَهُوَ الْعَزِيزُ﴾ وہ تمام خلائق پر غالب ہے پس اس کے سامنے سراطاعت خم کردو ﴿ الْعَلِيمُ ﴾ وہ تمام اشیاء کا علم رکھتا ہے ﴿ الْعَلِيمُ ﴾ وہ اختلاف کرنے والوں کے اقوال سے آگاہ ہے، وہ جانتا ہے کہ یہ اقوال کس لئے صادر ہوئے ہیں، ان کے مقاصد اور ان کی غرض و غایت کیا ہے، ان اختلاف کرنے والوں کو وہ اپنے علم کے مطابق جزا دے گا۔ النمل
79 یعنی جلب منفعت، دفع ضرر، تبلیغ رسالت، اقامت دین اور دشمنان اسلام کے خلاف جہاد کرنے میں آپ اپنے رب پر بھروسہ کیجئے ! ﴿إِنَّكَ عَلَى الْحَقِّ الْمُبِينِ﴾ ” بے شک آپ واضح حق پر ہیں“۔ وہ شخص جو حق پر ہو، حق کی طرف دعوت دیتا ہو اور اس کی مدد کرتا ہوں، اللہ تعالیٰ پر توکل کرنے میں کسی دوسرے کی نسبت زیادہ مستحق ہے۔ کیونکہ وہ ایک ایسے معاملے کے لئے کوشاں ہے جس کی صداقت قطعی ہے اور جس میں کوئی شک و شبہ نہیں، نیز یہ انتہائی واضح طور پر حق ہے یہ کوئی چھپی ہوئی چیز ہے نہ اس میں کوئی اشتباہ ہے۔ جب آپ حق کی خاطر کھڑے ہوجاتے ہیں اور اس بارے میں اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتے ہیں تو کسی کا گمراہ ہونا آپ کو کوئی نقصان نہیں دے سکتا اور ان کو ہدایت دینا آپ کی ذمہ داری نہیں ہے۔ النمل
80 اس لئے فرمایا : ﴿إِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَىٰ وَلَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَاءَ﴾ ” کچھ شک نہیں کہ آپ مردوں کو سناسکتے ہیں نہ بہروں کو“۔ یعنی جب آپ ان کو پکارتے اور ندا دیتے ہیں اور خاص طور پر ﴿إِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِينَ﴾ ” اس وقت جب وہ منہ پھیر کر جارہے ہوں“ تب یہ عدم سماع کی انتہا کو پہنچے ہوئے ہوتے ہیں۔ النمل
81 ﴿وَمَا أَنتَ بِهَادِي الْعُمْيِ عَن ضَلَالَتِهِمْ﴾ ” اور نہ آپ اندھوں کو گمراہی سے (نکال کر) راستہ دکھا سکتے ہیں۔“ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَـٰكِنَّ اللّٰـهَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ﴾ (القصص : 28 تا 56) ” آپ جسے چاہیں اسے ہدایت نہیں دے سکتے بلکہ اللہ جسے چاہے ہدایت دیتا ہے۔“ ﴿إِن تُسْمِعُ إِلَّا مَن يُؤْمِنُ بِآيَاتِنَا فَهُم مُّسْلِمُونَ﴾ ” آپ تو ان ہی کو سناسکتے ہیں جو ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں اور وہ مطیع ہوجاتے ہیں۔“ یہی لوگ جو آپ کے سامنے سراطاعت خم کرتے ہیں یہی لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی آیات پر ایمان رکھتے ہیں اپنے اعمال اور اپنی اطاعت کے ذریعے سے ان آیات کی اتباع کرتے ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ ﴿ إِنَّمَا يَسْتَجِيبُ الَّذِينَ يَسْمَعُونَ وَالْمَوْتَىٰ يَبْعَثُهُمُ اللّٰـهُ ثُمَّ إِلَيْهِ يُرْجَعُونَ﴾ (الانعام : 6 تا 36) ” حق کو صرف وہی لوگ قبول کرتے ہیں جو سنتے ہیں اور مردوں کو تو اللہ تعالیٰ قیامت کے روز زندہ کرے گا پھر وہ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف لوٹائے جائیں گے۔ “ النمل
82 یعنی جب لوگوں پر وہ بات پوری ہونے کا وقت آپہنچے گا جسے اللہ تعالیٰ نے حتمی قرار دیا ہے اور اس کا وقت مقرر کردیا ہے ﴿ أَخْرَجْنَا لَهُمْ دَابَّةً مِّنَ الْأَرْضِ﴾ ” تو ہم ان کے لئے زمین میں سے ایک جانور نکالیں گے“ یا زمین کے جانوروں میں سے ایک جانور، جو آسمان کے جانوروں میں سے نہیں ہوگا۔ ﴿تُكَلِّمُهُمْ﴾ یہ جانور بندوں کے ساتھ کلام کرے گا کہ بے شک لوگ ہماری آیتوں پر ایمان نہیں لاتے، یعنی اس وجہ سے کہ لوگوں کا علم اور آیات الہٰی پر ان کا یقین کمزور ہوجائے گا، تو اللہ تعالیٰ اس جانور کو ظاہر فرمائے گا جو کہ اللہ تعالیٰ کی حیرت انگیز نشانیوں میں سے ہے تاکہ اس چیز کو وہ لوگوں پر کھول کھول کر بیان کردے جس میں وہ شک کیا کرتے تھے۔ یہ جانور وہ مشہور جانور ہے جو آخری زمانے میں ظاہر ہوگا اور قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ اس بارے میں بکثرت احادیث وارد ہوئی ہیں، (اللہ تعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس جانور کی کیفیت اور اس کی نوع ذکر نہیں فرمائی۔ یہ آیت کریمہ تو دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے لوگوں کے لئے ظاہر کرے گا اور وہ خارق عادت کے طور پر لوگوں سے کلام کرے گا اور یہ ان سچے دلائل میں سے ہے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں بتایا۔ واللہ اعلم) [بریکٹوں کے درمیان والی عبارت نسخہ الف کے حاشیے میں شیخ (مؤلف تفسیر) کے ہاتھ سے لکھی ہوئی ہے (ازمحقق)] النمل
83 اللہ تبارک و تعالیٰ قیامت کے روز جھٹلانے والوں کی حالت بیان کرتا ہے اللہ تعالیٰ ہر امت میں سے ایک گروہ کو اکٹھا کرے گا۔ ﴿مِّمَّن يُكَذِّبُ بِآيَاتِنَا فَهُمْ يُوزَعُونَ ﴾ ” جو ہماری آیات کو جھٹلایا کرتے تھے پس ان کو گروہ بندی کے ساتھ ترتیب وار کھڑا کیا جائے گا۔“ ان کے اول و آخر سب کو جمع کیا جائے گا سب سے پوچھا جائے گا اور سب کو زجر و توبیخ اور ملامت کی جائے گی۔ النمل
84 ﴿حَتَّىٰ إِذَا جَاءُوا﴾ اور جب وہ اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہوں گے تو اللہ تعالیٰ ان کو زجر و توبیخ کرتے اور ڈانٹتے ہوئے پوچھے گا ﴿أَكَذَّبْتُم بِآيَاتِي وَلَمْ تُحِيطُوا بِهَا عِلْمًا﴾ ” کیا تم نے میری آیات کو جھٹلایا حالانکہ تمہارے علم نے ان کا احاطہ نہیں کیا تھا۔“ تم پر اس وقت تک توقف کرنا فرض تھا جب تک کہ حق منکشف نہ ہوجاتا اور صرف کسی علم کی بنیاد پر کلام کرتے۔ تم نے ایک ایسے امر کی کیونکر تکذیب کردی جبکہ تمہیں اس کے بارے میں کچھ علم ہی نہیں ﴿أَمَّاذَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ﴾ ” اور یہ بھی بتلاؤ کہ تم کیا کچھ کرتے رہے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ ان سے ان کے علم اور ان کے عمل کے بارے میں سوال کرے گا تو وہ ان کے علم کو حق کی تکذیب کرنے والا اور ان کے عمل کو غیر اللہ کے لئے یا ان کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت کے خلاف پائے گا۔ النمل
85 ﴿وَوَقَعَ الْقَوْلُ عَلَيْهِم بِمَا ظَلَمُوا ﴾ اور جب، ان کے اس ظلم کی پاداش میں جس پر وہ اڑے ہوئے تھے، ان کے لئے عذاب کا حکم متحقق ہوجائے گا اور ان پر اللہ تعالیٰ کی حجت قائم ہوجائے گی۔ ﴿فَهُمْ لَا يَنطِقُونَ﴾ ” تو وہ بول نہیں سکیں گے۔“ کیونکہ ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ہوگی۔ النمل
86 یعنی کیا انہوں نے اس عظیم نشانی اور بہت بڑی نعمت کا مشاہدہ نہیں کیا؟ یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے شب و روز کو مسخر کردیا۔ یہ رات اپنے اندھیرے کی وجہ سے نعمت ہے لوگ اس میں سکون پاتے اور تھکن سے آرام کرتے ہیں اور کام کے لئے تیار ہوجاتے ہیں اور دن اپنی روشنی کی وجہ سے نعمت ہے تاکہ لوگ اس روشنی میں پھیل جائیں اور اپنی معاش اور دیگر مصروفیات میں مشغول ہوجائیں۔ ﴿إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ﴾ ” اس میں لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں جو ایمان رکھتے ہیں“ اللہ تعالیٰ کی کامل وحدانیت اور اس کی بے پایاں نعمت پر۔ النمل
87 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں کو قیامت کے دن سے، جو انہیں پیش آنے والا ہے، ڈراتا ہے یعنی اس دن انہیں جن سخت مصائب، مشقتوں اور دل کو دہلادینے والے واقعات کا سامنا کرناپڑے گا ان سے ڈراتا ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿ وَيَوْمَ يُنفَخُ فِي الصُّورِ فَفَزِعَ﴾ ” اور جس دن صور پھونکا جائے گا تو گھبرا اٹھیں گے۔“ صور پھونکے جانے کی وجہ سے۔ ﴿مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَمَن فِي الْأَرْضِ﴾ یعنی زمین و آسمان کی تمام مخلوق خوف سے کانپ اٹھے گی اور خوف کی وجہ سے جو انہیں پیش آنے والا ہے سمندر کی موجوں کی مانند ایک دوسرے سے تلاطم خیز ہوں گے ﴿إِلَّا مَن شَاءَ اللّٰـهُ﴾ سوائے ان لوگوں کے جنہیں اللہ تعالیٰ اکرام و تکریم بخش کر ثابت قدمی عطا کرے گا وہ اس گھبراہٹ سے محفوظ رکھے گا۔ ﴿وَكُلٌّ ﴾ یعنی صور پھونکے جانے کے وقت تمام مخلوق ﴿ أَتَوْهُ دَاخِرِينَ ﴾ ذلیل اور مطیع ہو کر بارگاہ رب العزت میں حاضر ہوگی جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿إِن كُلُّ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمَـٰنِ عَبْدًا﴾ (مریم : 19 ؍ 93) ” زمین اور آسمان کے اندر جو بھی مخلوق ہے وہ سب رحمٰن کے حضور بندوں کی حیثیت سے حاضر ہوں گے۔“ اور اس روز مالک الملک کے حضور تذلل اور عاجزی میں رؤساء اور عوام سب برابر ہوں گے۔ النمل
88 قیامت کے روز کی ہولناکی کی وجہ سے ﴿تَرَى الْجِبَالَ تَحْسَبُهَا جَامِدَةً﴾ ” آپ پہاڑوں کو دیکھیں گے تو خیال کریں گے کہ وہ جامد ہیں۔“ یعنی آپ ان میں سے کوئی چیز مفقود نہ پائیں گے اور آپ سمجھیں گے کہ یہ تمام پہاڑ اپنے اپنے احوال میں باقی ہیں حالانکہ یہ شدت اور ہولناکی کی انتہا کو پہنچے ہوئے ہوں گے اور ٹوٹ پھوٹ کر اور غبار بن کر اڑجائیں گے اس لئے فرمایا : ﴿ وَهِيَ تَمُرُّ مَرَّ السَّحَابِ﴾ ” اور وہ بادلوں کی چال چل رہے ہوں گے۔“ اپنی خفت اور شدت خوف کے باعث۔ ﴿صُنْعَ اللّٰـهِ الَّذِي أَتْقَنَ كُلَّ شَيْءٍ إِنَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَفْعَلُونَ﴾ ” یہ اللہ کی کاری گری ہے جس نے ہر چیز کو مضبوط بنایا، بے شک وہ تمہارے سب اعمال سے باخبر ہے۔“ پس وہ تمہیں تمہارے اعمال کی جزا دے گا۔ النمل
89 پھر اللہ تعالیٰ نے اس جزا کی کیفیت بیان کرتے ہوئے فرمایا : ﴿مَن جَاءَ بِالْحَسَنَةِ﴾ ” جو شخص نیکی لے کر آئے گا۔“ یہ اسم جنس ہے جو تمام قسم کی قولی، فعلی اور قلبی نیکیوں کو شامل ہے ﴿فَلَهُ خَيْرٌ مِّنْهَا﴾ ” تو اس کے لئے اس سے بہتر ہے۔“ یہ کمترین تفصیل ہے۔ [مصنف رحمۃ اللہ علیہ نے اس مقام پرسبقت قلم سے سورۃ الانعام کی آیت﴿فله عشرامثالھا﴾کی تفسیرکردی ہے۔] ﴿وَهُم مِّن فَزَعٍ يَوْمَئِذٍ آمِنُونَ﴾ یعنی وہ ان تمام امور سے مامون اور مصؤن ہوں گے جن سے مخلوق گھبراہٹ اور خوف میں مبتلا ہوگی اگرچہ وہ بھی ان کے ساتھ گھبرارہے ہوں گے۔ النمل
90 ﴿وَمَن جَاءَ بِالسَّيِّئَةِ ﴾ ” اور جو برائی لے کر آئے گا۔“ یہ اسم جنس ہے جو ہر قسم کی برائی کو شامل ہے ﴿فَكُبَّتْ وُجُوهُهُمْ فِي النَّارِ ﴾ یعنی انہیں چہروں کے بل جہنم میں پھینکا جائے گا اور ان سے کہا جائے گا ﴿هَلْ تُجْزَوْنَ إِلَّا مَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ﴾ ” تم کو تو ان ہی اعمال کا بدلہ ملے گا جو تم کرتے رہے ہو۔ “ النمل
91 اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے کہہ دیجئے : ﴿إِنَّمَا أُمِرْتُ أَنْ أَعْبُدَ رَبَّ هَـٰذِهِ الْبَلْدَةِ﴾ ” مجھے یہی حکم ہوا ہے کہ میں اس شہر کے رب کی عبادت کروں۔“ یعنی مکہ مکرمہ ﴿الَّذِي حَرَّمَهَا﴾ ” جس نے اس کو محترم بنایا۔“ اور اس کے رہنے والوں کو نعمتوں سے بہرہ ورکیا۔ پس اس لئے ان پر واجب ہے کہ وہ ان نعمتوں پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں۔ ﴿وَلَهُ كُلُّ شَيْءٍ﴾ عالم علوی اور عالم سفلی کی تمام اشیاء کا وہی مالک ہے اور یہ فقرہ اس وہم کے ازالے کے لئے استعمال کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت صرف بیت حرام سے مختص ہے ﴿وَأُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْمُسْلِمِينَ﴾ )یہاں مصنف نے سبقت قلم سے﴿وامرت ان اکون اول المسلمین﴾لکھ دیا ہے اور اسی کے مطابق تفسیر کی ہے( یعنی مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں جلدی سے اسلام کی طرف بڑھوں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی تعمیل کی کیونکہ وہ اولین مسلمان اور سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کے مطیع تھے۔ النمل
92 ﴿وَ﴾ ” اور“ اسی طرح مجھے یہ حکم بھی دیا گیا ہے ﴿أَنْ أَتْلُوَ الْقُرْآنَ﴾ ” کہ میں تمہارے سامنے قرآن کی تلاوت کروں“ تاکہ تم اس کے ذریعے سے راہنمائی حاصل کرو اور اس کے الفاظ اور معانی کو سیکھو۔ یہی میری ذمہ داری ہے جو میں نے پوری کردی ہے۔ ﴿ فَمَنِ اهْتَدَىٰ فَإِنَّمَا يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ﴾ ” پس جو شخص راہ راست اختیار کرتا ہے تو وہ اپنے ہی فائدے کے لئے اختیار کرتا ہے۔“ یعنی اس کا فائدہ اسی کو ہوگا اور وہی اس کا پھل پائے گا۔ ﴿ وَمَن ضَلَّ فَقُلْ إِنَّمَا أَنَا مِنَ الْمُنذِرِينَ﴾ ” اور جو گمراہ رہتا ہے تو کہہ دو کہ میں تو صرف متنبہ کرنے والا ہوں۔“ اور ہدایت میرے ہاتھ میں نہیں ہے۔ النمل
93 ﴿وَقُلِ الْحَمْدُ لِلّٰـهِ﴾ یعنی دنیا و آخرت میں، تمام خلائق، خاص طور پر اللہ تعالیٰ کے خاص اور چنے ہوئے بندوں کی طرف سے ہر قسم کی حمد و ثنا صرف اسی کے لئے ہے۔ کیونکہ ان کی طرف سے اپنے رب کے لئے ہونے والی حمد و ثنا دوسرے لوگوں کی طرف سے ہونے والی حمد و ثنا کی بنسبت زیادہ عظمت کے لائق ہے کیونکہ ان کے درجات بلند، ان کا اللہ تعالیٰ سے قرب کا مل نیز ان پر اس کے احسانات زیادہ ہیں۔ ﴿سَيُرِيكُمْ آيَاتِهِ فَتَعْرِفُونَهَا﴾ ” وہ عنقریب تمہیں اپنی نشانیاں دکھائے گا جنہیں تم پہچان لوگے۔“ ان آیات الہٰی کی تمہیں ایسی معرفت حاصل ہوگی جو حق اور باطل کے بارے میں راہنمائی کرے گی۔ اللہ تعالیٰ ضرور تمہیں اپنی نشانیاں دکھائے گا جن کے ذریعے سے تم اندھیروں میں اپنی راہوں کو روشنی کرو گے۔ ﴿ لِّيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَن بَيِّنَةٍ وَيَحْيَىٰ مَنْ حَيَّ عَن بَيِّنَةٍ ﴾ (الانفال : 8 ؍ 42) ” تاکہ جسے ہلاک ہونا ہے وہ واضح دلیل کے ساتھ ہلاک ہو اور جو زندہ رہے وہ واضح دلیل کے ساتھ زندہ رہے۔ “ ﴿ وَمَا رَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ﴾ ” اور تمہارا رب تمہارے عملوں سے بے خبر نہیں ہے۔“ بلکہ وہ تمہارے اعمال و احوال کو خوب جانتا ہے اور اسے ان اعمال کی جزا کی مقدار کا بھی علم ہے وہ تمہارے درمیان ایسا فیصلہ کرے گا کہ تم اس فیصلے پر اس کی حمد و ثنا بیان کرو گے اور یہ فیصلہ کسی بھی لحاظ سے تمہارے لئے اس کے خلاف حجت نہ ہوگا۔ النمل
0 القصص
1 طسم القصص
2 ﴿ تِلْكَ﴾ یہ آیات جو تعظیم و توقیر کی مستحق ہیں۔ ﴿ آيَاتُ الْكِتَابِ الْمُبِينِ﴾ کتاب مبین کی آیات ہیں ہر اس معاملے کو کھول کھول کر بیان کرتی ہیں جن کے بندے حاجت مند ہیں، مثلاً رب تعالیٰ کی معرفت، اس کے حقوق کی معرفت، اس کے اولیاء و اعداء کی معرفت، اس کے ایام و وقائع کی معرفت، اعمال کے ثواب اور عمل کرنے والوں کی جزا کی معرفت۔ قرآن مجید نے ان تمام امور کو کھول کھول کر بیان کرکے بندوں کے سامنے پوری طرح واضح کردیا۔ القصص
3 اس کے جملہ مضامین میں سے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کا قصہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے کھول کھول کر بیان کیا ہے اور متعدد مقامات پر اس کا اعادہ کیا ہے اور اس مقام پر بھی اس قصے کو تفصیل سے بیان کیا ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿نَتْلُو عَلَيْكَ مِن نَّبَإِ مُوسَىٰ وَفِرْعَوْنَ بِالْحَقِّ ﴾ ” ہم تمہیں موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کے کچھ حالات صحیح صحیح سناتے ہیں۔“ کیونکہ ان کے واقعات بہت ہی انوکھے اور ان کا قصہ نہایت تعجب انگیز ہے۔ ﴿لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ﴾ ” مومن لوگوں کے لئے“ پس انہی کو خطاب کیا گیا ہے اور کلام کا رخ بھی انہی کی طرف ہے۔ کیونکہ انہی کے پاس، ایمان ہے جس کی بنا پر وہ اس میں تدبر کرتے ہیں، اسے قبول کرتے ہیں اور عبرت کے مواقع پر اس سے راہنمائی حاصل کرتے ہیں اور ان کے ذریعے سے ایمان و یقین میں اضافہ ہوتا ہے اور ان کی نیکیاں نشوونما پاتی ہیں۔ رہے ان کے علاوہ دیگر لوگ تو وہ ان سے استفادہ نہیں کرسکتے۔ سوائے اس کے کہ ان پر حجت قائم ہو۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو دور رکھا ہے، اپنے اور ان کے درمیان پردہ حائل کردیا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ اس کو سمجھنے سے عاری ہیں۔ القصص
4 موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کے قصہ کی ابتدا اس طرح ہوتی ہے ﴿ إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِي الْأَرْضِ﴾ ” کہ بلاشبہ فرعون نے ملک میں سر اٹھا رکھا تھا۔“ یعنی اس نے اپنے اقتدار، سلطنت،لشکروں اور اپنے جبروت کی بناء پر تکبر اور سرکش لوگوں کا وتیرہ اختیار کیا۔ مگر وہ کامیاب لوگوں میں سے نہ تھا۔﴿وَجَعَلَ أَهْلَهَا شِيَعًا﴾’’اور اس نے وہاں کےلوگوں کوگروہ گروہ بنا رکھا تھا۔‘‘ یعنی ان کو متفرق گروہوں میں تقسیم کردیا تھا۔ وہ اپنی خواہش کے مطابق ان میں تصرت کرتا تھا اور اپنے قہر اور تسلط کے بل بوتے پر جو حکم چاہتا نافذ کرتا تھا۔ ﴿يَسْتَضْعِفُ طَائِفَةً مِّنْهُمْ ﴾ ” ان میں سے ایک گروہ کو کمزور کردیا تھا۔“ اس گروہ سے مراد بنی اسرائیل ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے تمام جہانوں پر فضیلت دی۔ اس کے لئے مناسب یہی تھا کہ وہ ان کی عزت و تکریم کرتا مگر اس نے ان کو زیر دست بنا کر ذلیل کیا کیونکہ اسے معلوم تھا کہ اس کو روکنے والا اور اس کے ارادوں میں حائل ہونے والا کوئی نہیں ہے۔ اس لئے وہ ان کی کوئی پروا نہیں کرتا تھا اور نہ وہ ان کے معاملے کو کوئی اہمیت ہی دیتا تھا اور حالت یہاں تک پہنچ گئی کہ ﴿يُذَبِّحُ أَبْنَاءَهُمْ وَيَسْتَحْيِي نِسَاءَهُمْ﴾ ” وہ ان کے بیٹوں کو ذبح کر ڈالتا تھا اور ان کی لڑکیوں کو زندہ رہنے دیتا۔“ اس خوف سے کہ کہیں ان کی تعداد زیادہ نہ ہوجائے اور اس کے ملک میں وہ غالب آکر کہیں اقتدار کے مالک نہ بن جائیں۔ ﴿ إِنَّهُ كَانَ مِنَ الْمُفْسِدِينَ﴾ ” یعنی وہ ان لوگوں میں سے تھا جن کا مقصد اصلاً دین ہوتا ہے نہ اصلاح دنیا اور اس کا مقصد زمین میں اس کی طرف سے بگاڑ پیدا کرنا تھا۔“ القصص
5 اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَنُرِيدُ أَن نَّمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الْأَرْضِ﴾ ” اور ہم چاہتے تھے کہ جو لوگ ملک میں کمزور کردئیے گئے ہیں ان پر احسان کریں۔“ کہ ان پر سے ذلت کے تمام نشانات مٹادیں اور ان لوگوں کو ہلاک کردیں جو ان کے ساتھ دشمنی کرتے تھے اور انہیں تنہا چھوڑدیں جو ان کی مخالفت کرتے تھے۔ ﴿وَنَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً ﴾ ” اور (دین میں) ہم ان کو امام بنادیں“ اور یہ چیز زیر دست رہتے ہوئے حاصل نہیں ہوسکتی۔ بلکہ اس کے لئے ضروری ہے کہ ان کو زمین میں اقتدار اور پورا اختیار عطا کیا جائے۔ ﴿ وَنَجْعَلَهُمُ الْوَارِثِينَ﴾ ”اور ہم ان کو زمین کا وارث بنادیں“ جن کا آخرت سے پہلے ہی دنیا میں اچھا انجام ہو۔ القصص
6 ﴿وَنُمَكِّنَ لَهُمْ فِي الْأَرْضِ﴾ ” اور ملک میں ان کو قدرت دیں۔“ ان تمام امور کا اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمالیا ان پر اس کی مشیت جاری ہوگئی۔ ﴿ وَ﴾ ” اور“ ہم اسی طرح چاہتے تھے کہ ﴿نُرِيَ فِرْعَوْنَ وَهَامَانَ وَجُنُودَهُمَا﴾ ” فرعون، (اس کے وزیر) ہامان اور ان کے لشکروں کو (جن کی مدد سے وہ ظلم اور بغاوت اور سرکشی کرتے تھے)‘‘ ﴿مِنْهُم﴾ یعنی اس کمزور گروہ کی طرف سے۔ ﴿مَّا كَانُوا يَحْذَرُونَ﴾ ” وہ چیز جس سے وہ ڈرتے تھے۔“ یعنی ان کو ان کے گھروں سے نکال دینا۔ اس لئے وہ ان کا قلع قمع کرنے، ان کی شوکت کو توڑنے اور ان کے بیٹوں کو قتل کرنے میں کوشاں تھے کیونکہ ان کے بیٹے ان کی طاقت اور شوکت کا سبب تھے۔ ان تمام امور کا اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا اور جب اللہ تعالیٰ کسی امر کا ارادہ کرلیتا ہے تو اس کے اسباب کو آسان اور اس کی راہ کو ہموار کردیتا ہے۔ یہ معاملہ بھی کچھ ایسا ہی تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے ایسے اسباب جاری فرمائے جس کو اس کے اولیاء جانتے تھے نہ اعداء۔۔۔ جو اس مطلوب و مقصود تک رسائی کا ذریعہ بن گئے۔ القصص
7 اس کی ابتدا یوں ہوئی کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول موسیٰ علیہ السلام کو پیدا فرمایا جن کے ذریعے سے بنی اسرائیل کے گروہ کو نجات دلانا تھی، ان کی پیدائش انتہائی خوف کے حالات میں ہوئی کہ جب وہ اسرائیلی بیٹوں کو ذبح کردیا کرتے تھے۔۔۔ تو اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کی طرف وحی کی کہ وہ اپنے بیٹے موسیٰ علیہ السلام کو دودھ پلاتی رہیں اور انہیں اپنے پاس رکھیں۔﴿فَإِذَا خِفْتِ عَلَيْهِ ﴾ ” اور جب تجھے اس کی نسبت کوئی خوف معلوم ہو“ یعنی جب کسی ایسے شخص کی آمد کا خطرہ محسوس کریں جو اسے فرعون کے پاس لے جائے۔ ﴿فَأَلْقِيهِ فِي الْيَمِّ ﴾ ” تو اسے دریا میں بہادینا“ یعنی ایک صندوق میں بند کرکے دریائے نیل میں ڈال دینا۔ ﴿وَلَا تَخَافِي وَلَا تَحْزَنِي إِنَّا رَادُّوهُ إِلَيْكِ وَجَاعِلُوهُ مِنَ الْمُرْسَلِينَ﴾ ” اور نہ خوف اور غم کھانا بے شک ہم اس بچے کو تیری ہی طرف لوٹادیں گے اور اسے اپنا رسول بنائیں گے۔“ پس اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کو خوشخبری سنادی کہ وہ اس بچے کو ان کے پاس واپس لوٹادے گا، یہ بچہ بڑا ہوگا اور ان کی سازشوں سے محفوظ رہے گا اور اللہ تعالیٰ اس کو رسول بنائے گا۔ یہ بہت بڑی اور جلیل القدر بشارت ہے جو موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کو دی گئی تاکہ ان کا دل مطمئن اور ان کا خوف زائل ہوجائے۔ القصص
8 چنانچہ انہوں نے وہی کچھ کیا جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا تھا اور موسیٰ علیہ السلام کو صندوق میں رکھ کر دریا میں ڈال دیا۔ اللہ تعالیٰ اس صدوق کو حفاظت کے ساتھ چلاتا رہا۔ حتیٰ کہ فرعون کے گھر والوں نے اسے نکال لیا گویا وہ ان کے لئے راستے میں پڑا ہوا بچہ بن گیا جنہوں نے اسے نکالا تھا اور وہ اسے پاکر بہت خوش ہوئے۔ ﴿ لِيَكُونَ لَهُمْ عَدُوًّا وَحَزَنًا ﴾ تاکہ ان کی عاقبت اور انجام یہ ہو کہ اٹھایا ہوا بچہ ان کا دشمن اور ان کے لئے حزن و غم اور صدمے کا باعث بنے، اس کا سبب یہ ہے کہ تقدیر الہٰی کے مقابلے میں احتیاط کام نہیں آتی۔ وہ چیز جس کے بارے میں وہ بنی اسرائیل سے خائف تھے اللہ تعالیٰ نے فیصلہ فرمادیا کہ ان کا قائد ان کے ہاتھوں میں، ان کی نظروں کے سامنے اور ان کی کفالت میں تربیت ہائے۔ جب آپ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے واقعے میں غوروفکر کریں گے تو اس ضمن میں آپ پائیں گے کہ بنی اسرائیل کے لئے بہت سے مصالح حاصل ہوئے اور بہت سے پریشان کن امور سے انہیں چھٹکارا حاصل ہوا، اسی طرح آپ کو رسالت ملنے سے پہلے بنی اسرائیل پر سے بہت سے مظالم ختم ہوگئے، کیونکہ آپ مملکت فرعون کے ایک بڑے عہدے دار کی حیثیت سے رہتے تھے۔۔۔ چونکہ آپ ایک بلند ہمت اور انتہائی غیرت مند انسان تھے اسی لئے طبعی طور پر آپ کی قوم کے بہت سے حقوق کا دفاع ہونا ضروری تھا۔ آپ کی ضعیف اور کمزور قوم۔۔۔ جن کی کمزوری و ناتوانی کا ذکر اللہ تعالیٰ نے بھی فرمایا ہے۔۔۔ کہ بعض افراد اس ظالم و غاصب قوم کے خلاف جھگڑنے لگے تھے جیسا کہ اس کا بیان آئندہ صفحات میں ملاحظہ فرمائیں گے۔ یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ظہور کے مقدمات تھے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی سنت جاریہ ہے کہ تمام امور آہستہ آہستہ اور بتدریج وقوع پذیر ہوتے ہیں، کوئی واقعہ اچانک رونما نہیں ہوتا۔ فرمایا : ﴿إِنَّ فِرْعَوْنَ وَهَامَانَ وَجُنُودَهُمَا كَانُوا خَاطِئِينَ﴾ یعنی یہ سب مجرم تھے اس لئے ہم نے ان کو ان کے جرم کی سزا دینے کا ارادہ کیا اور ہم نے ان کے مکر اور سازش کرنے کی پاداش میں ان کے خلاف چال چلی۔ القصص
9 پس جب فرعون کے گھر والوں نے موسیٰ علیہ السلام کو دریا سے نکال لیا تو اللہ تعالیٰ نے فرعون کی جلیل القدر اور مومنہ بیوی آسیہ بنت مزاحم کے دل میں رحم ڈال دیا۔ ﴿وَقَالَتِ﴾ ” وہ بولی“ یہ لڑکا ﴿قُرَّتُ عَيْنٍ لِّي وَلَكَ لَا تَقْتُلُوهُ ﴾ ” میری اور تیری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے“ یعنی اسے زندہ رکھ لو تاکہ اس کے ذریعے سے ہم اپنی آنکھیں ٹھنڈی کریں اور اپنی زندگی میں اس کے ذریعے سے مسرت حاصل کریں۔ ﴿عَسَىٰ أَن يَنفَعَنَا أَوْ نَتَّخِذَهُ وَلَدًا﴾ ” شاید یہ ہمیں فائدہ پہنچائے یا ہم اسے بیٹا بنالیں۔“ یعنی یہ بچہ ان خدام میں شامل ہوگا جو ہمارے مختلف کام کرنے اور خدمت سرانجام دینے میں کوشاں رہتے ہیں یا اس سے بلند تر مرتبہ عطا کرکے اسے اپنا بیٹا بنالیں گے اور اس کی عزت و تکریم کریں گے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے مقدر فرمادیا کہ وہ بچہ فرعون کی بیوی کو فائدہ دے جس نے یہ بات کہی تھی۔ جب وہ بچہ فرعون کی بیوی کی آنکھوں کی ٹھنڈک بن گیا اور اسے اس بچے سے شدید محبت ہوگئی اور وہ بچہ اس کے لئے حقیقی بیٹے کی حیثیت اختیار کرگیا یہاں تک کہ وہ بڑا ہوگیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کو نبوت اور رسالت سے سرفراز فرمایا۔۔۔ تو اس نے جلدی سے ایمان لا کر اسلام قبول کرلیا۔ رضی اللہ عنہا موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں ان کے مابین ہونے والی مذکورہ گفتگو کی بابت اللہ نے فرمایا : ﴿ وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ﴾ یعنی انہیں معلوم ہی نہیں تھا کہ لوح محفوظ میں کیا درج ہے تقدیر نے انہیں کس عظیم الشان مقام پر فائز کردیا ہے اللہ تعالیٰ کا لطف و کرم ہے۔ اگر انہیں اس حقیقت کا علم ہوتا تو ان کا اور موسیٰ علیہ السلام کا معاملہ کچھ اور ہی ہوتا۔ القصص
10 جب موسیٰ علیہ السلام اپنی والدہ سے جدا ہوگئے تو وہ بہت زیادہ غمگین ہوئیں۔ بشری تقاضے کے مطابق صدمے اور قلق سے ان کا دل سخت بے قرار اور غم سے اڑا جارہا تھا۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو غم کرنے اور خوف زدہ ہونے سے روک دیا تھا اور ان سے وعدہ کیا تھا کہ وہ موسیٰ علیہ السلام کو واپس ان کے پاس لوٹادے گا۔ ﴿إِن كَادَتْ لَتُبْدِي بِهِ﴾ ” تو قریب تھا کہ وہ اس (قصے) کو ظاہر کردیتی۔“ یعنی دلی صدمے کی وجہ سے ﴿ لَوْلَا أَن رَّبَطْنَا عَلَىٰ قَلْبِهَا﴾ پس ہم نے ان کو ثابت قدمی عطا کی اور انہوں نے صبر کیا اور اس راز کو ظاہر نہ کیا۔ ﴿ لِتَكُونَ﴾ ”تاکہ ہوجائے وہ“ صبر و ثبات کو یاد رکھتے ہوئے ﴿مِنَ الْمُؤْمِنِينَ﴾ ” مومنوں میں سے“ جب بندہ مومن پر کوئی مصیبت نازل ہوجائے اور وہ اس پر صبر اور ثابت قدمی سے کام لے تو اس سے اس کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے اور یہ چیز دلالت کرتی ہے کہ بندے کا مصیبت کے وقت ہمیشہ بے صبری کا مظاہرہ کرنا ایمان کی کمزوری ہے۔ القصص
11 ﴿ وَقَالَتْ﴾ ’’موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ نے کہا‘‘ ﴿لِأُخْتِهِ قُصِّيهِ ﴾ ” آپ کی بہن سے کہ اس بچے کے پیچھے پیچھے چلتی جاؤ۔“ یعنی اپنے بھائی کے پیچھے پیچھے جا اور اس پر اس طرح نظر رکھ کہ کسی کو تمہارے بارے میں پتہ نہ چلے اور نہ تمہارے مقصد کا ان کو علم ہو۔ پس وہ ان کے پیچھے پیچھے چلتی رہی ﴿فَبَصُرَتْ بِهِ عَن جُنُبٍ وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ﴾ یعنی وہ ایک طرف ہو کر اس طرح موسیٰ (علیہ السلام) کو دیکھتی رہی گویا کہ وہ کوئی راہ گیر عورت ہے اور اس کا کوئی قصد و ارادہ نہیں ہے۔ یہ انتہا درجے کی حزم و احتیاط تھی اگر وہ بچے کو دیکھتی رہتی اور ایک قصد و ارادہ کے ساتھ آتی تو لوگ سمجھ جاتے کہ اسی عورت نے صندوق کو دریا میں ڈالا ہے اور وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو، ان کے گھر والوں کو سزا دینے کی خاطر، ذبح کردیتے۔ القصص
12 یہ موسیٰ علیہ السلام اور ان کی والدہ پر اللہ تعالیٰ کا لطف و کرم تھا کہ اس نے موسیٰ علیہ السلام کو کسی عورت کا دودھ پینے سے روک دیا، چنانچہ وہ موسیٰ علیہ السلام پر ترس کھاتے ہوئے ان کو بازار میں لے آئے تاکہ شاید کوئی اسے تلاش کرتا ہوا آجائے۔ موسیٰ علیہ السلام اسی حال میں تھے کہ ان کی بہن آئی اور کہنے لگی : ﴿ هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَىٰ أَهْلِ بَيْتٍ يَكْفُلُونَهُ لَكُمْ وَهُمْ لَهُ نَاصِحُونَ ﴾ ” کیا میں تمہیں ایسے گھر والے بتاؤں کہ تمہارے لئے اس (بچے) کی کفالت کریں اور اس کے خیر خواہ بھی ہوں۔“ یہ ان کی سب سے بڑی غرض و غایت تھی کیونکہ وہ اس سے بہت شدید محبت کرتے تھے اور چونکہ اللہ تعالیٰ نے تمام دودھ پلانے والیوں کو موسیٰ علیہ السلام کے لئے ممنوع کردیا تھا اس لئے انہیں ڈر تھا کہ کہیں بچہ مر نہ جائے۔ جب موسیٰ علیہ السلام کی بہن نے وہ بات کہی اور ترغیب دی کہ وہ اس گھرانے کو دودھ پلانے کے لئے منتخب کریں جو بچے کی پوری حفاظت اور مکمل کفالت کے ذمہ دار اور اس کے خیر خواہ ہیں تو انہوں نے فوراً موسیٰ علیہ السلام کی بہن کی بات مان لی اور اس گھر کا پتہ بتادیا جو بچے کو دودھ پلاسکتے تھے۔ القصص
13 ﴿فَرَدَدْنَاهُ إِلَىٰ أُمِّهِ﴾ ” پس ہم نے ان (موسیٰ علیہ السلام) کو ان کی ماں کے پاس واپس پہنچادیا۔“ جیسا کہ ہم نے اس کے ساتھ وعدہ کیا تھا۔ ﴿كَيْ تَقَرَّ عَيْنُهَا وَلَا تَحْزَنَ﴾ ” تاکہ ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور وہ غم نہ کھائیں۔“ کیونکہ اس کے پاس اس طرح پرورش پائے گا کہ وہ اس سے مطمئن اور خوش ہوگی اور اس کے ساتھ دودھ پلانے کی بہت بڑی اجرت بھی حاصل کرے گی۔ ﴿وَلِتَعْلَمَ أَنَّ وَعْدَ اللّٰـهِ حَقٌّ ﴾ ”اور یہ جان لے کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے۔“ ہم نے اس کے ساتھ جو وعدہ کیا تھا اس میں سے کچھ وعدہ پورا ہوتے اسے عیاں طور پر دکھادیا تاکہ اس سے اس کا دل مطمئن اور اس کے ایمان میں اضافہ ہو اور تاکہ وہ یہ بھی جان لے کہ ہم نے اس کی حفاظت کرنے اور اس کو رسول بنانے کا جو وعدہ کیا ہے وہ بھی ضرور پورا ہوگا۔ ﴿ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ ﴾ ” لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔“ پس جب وہ کس سبب کو بے ترتیب دیکھتے ہیں تو اس حقیقت سے کم علمی کی وجہ سے، کہ جلیل القدر معاملات اور بلند مقاصد و مطالب کے حصول سے پہلے انسان کو آزمائشوں اور مشقتوں سے گزرنا پڑتا ہے، ان کا ایمان ڈول جاتا ہے۔ پس موسیٰ علیہ السلام آل فرعون کے پاس شاہی ماحول میں تربیت پاتے رہے وہ شاہی سواریاں استعمال کرتے اور شاہی لباس پہنتے تھے۔ ان کی والدہ اس پر مطمئن تھیں یہ بات تسلیم کرلی گئی تھی کہ وہ موسیٰ علیہ السلام کی رضاعی ماں ہیں۔ لہٰذا موسیٰ علیہ السلام کا )والدہ( کے ساتھ رہنے اور ان کے ساتھ مہربانی کرنے کا کسی نے انکار نہیں کیا۔ ذرا اللہ تبارک و تعالیٰ کے لطف و کرم پر غور کیجئے کہ اس نے کیسے اپنے نبی موسیٰ علیہ السلام کو ان کی بات چیت میں جھوٹ سے محفوظ رکھا اور معاملے کو ان کے لئے کتنا آسان کردیا جس کی بنا پر ماں بیٹے کے درمیان ایک تعلق قائم ہوگیا جو لوگوں کی نظر میں رضاعت کا تعلق تھا جس کی بنا پر موسیٰ علیہ السلام ان کو ماں کہتے تھے۔ اس لئے اس تعلق کے حوالے سے موسیٰ علیہ السلام اور دیگر لوگوں کا اکثر کلام صداقت اور حق پر مبنی تھا۔ القصص
14 اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَلَمَّا بَلَغَ أَشُدَّهُ﴾ جب موسیٰ علیہ السلام اپنی پوری قوت اور عقل و فہم کو پہنچ گئے اور یہ صفت انسان کو غالب طور پر چالیس سال کی عمر میں حاصل ہوتی ہے ﴿وَاسْتَوَىٰ﴾ اور ان مذکورہ صفات میں درجہ کمال کو پہنچ گئے ﴿ آتَيْنَاهُ حُكْمًا وَعِلْمًا ﴾ ” تو ہم نے ان کو حکمت اور علم عطا کیا۔“ یعنی ان کو ایسی دانائی عطا کی جس کی بناء پر انہیں احکام شرعیہ کی معرفت حاصل ہوگئی اور وہ نہایت دانائی کے ساتھ لوگوں میں فیصلہ کرتے تھے اور ان کو بہت سے علم سے نوازا ﴿وَكَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ﴾ ” اور اسی طرح ہم جزا دیتے ہیں احسان کرنے والوں کو۔“ اللہ تعالیٰ ان کے احسان کے مطابق علم اور حکمت سے سرفراز فرماتے ہیں۔ یہ آیت کریمہ موسیٰ علیہ السلام کے کمال احسان پر دلالت کرتی ہے۔ القصص
15 ﴿وَدَخَلَ الْمَدِينَةَ عَلَىٰ حِينِ غَفْلَةٍ مِّنْ أَهْلِهَا﴾ ” اور وہ ایسے وقت شہر میں داخل ہوئے کہ وہاں کے باشندے سورہے تھے۔“ یہ وقت یا تو قیلولے کا وقت تھا یا کوئی ایسا وقت تھا کہ جب لوگ آرام کرتے ہیں۔ ﴿فَوَجَدَ فِيهَا رَجُلَيْنِ يَقْتَتِلَانِ﴾ ’’پس انہوں نے دو آدمیوں کو ایک دوسرے کے ساتھ جھگڑتے ہوئے پایا“ وہ دونوں ایک دوسرے کو ماررہے تھے۔ ﴿هٰذَا مِن شِيعَتِهِ﴾ ” ایک تو ان کی قوم سے تھا۔“ یعنی بنی اسرائیل میں سے ﴿ وَهـٰذَا مِنْ عَدُوِّهِ﴾ ” دوسرا ان کے دشمنوں میں سے تھا۔“ مثلاً قبطی وغیرہ۔ ﴿فَاسْتَغَاثَهُ الَّذِي مِن شِيعَتِهِ عَلَى الَّذِي مِنْ عَدُوِّهِ﴾ ” پس جو شخص ان کی قوم میں سے تھا اس نے دوسرے شخص کے مقابلے میں، جو ان کے دشمنوں میں سے تھا، موسیٰ )علیہ السلام( سے مدد طلب کی۔“ کیونکہ موسیٰ علیہ السلام کا نسب اب مشہور ہوچکا تھا اور لوگوں کو علم تھا کہ موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل سے تعلق رکھتے ہیں۔ موسیٰ علیہ السلام سے اس شخص کا مدد کا خواستگار ہونا اس امر کی دلیل ہے کہ آپ دارالسلطنت میں ایک نہایت اہم منصب پر فائر تھے جس سے لوگ خوف کھاتے تھے اور اس سے اپنی امیدیں بھی وابستہ رکھتے تھے۔ ﴿فَوَكَزَهُ مُوسَىٰ﴾ موسیٰ علیہ السلام نے اسرائیلی کی مدد کرنے کے لئے اس دشمن شخص کو گھونسہ رسید کیا۔ ﴿فَقَضَىٰ عَلَيْهِ ﴾ پس حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوت اور گھونسے کی شدت نے اس قبطی کا کام تمام کردیا۔ اس پر آپ کو سخت ندامت ہوئی۔ آپ نے تاسف سے کہا : ﴿ هٰذَا مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ ﴾ ” یہ شیطان کا عمل ہے۔“ یعنی شیطان نے وسوسہ ڈالا اور اس برائی کو مزین کردیا۔ ﴿إِنَّهُ عَدُوٌّ مُّضِلٌّ مُّبِينٌ﴾ ” بے شک وہ دشمن اور صریح بہکانے والا ہے۔“ اسی لئے اس کی کھلی عداوت اور بندوں کو گمراہ کرنے کی حرص کے سبب سے یہ حادثہ پیش آیا۔ القصص
16 پھر موسیٰ علیہ السلام نے رب سے بخشش طلب کرتے ہوئے عرض کیا ﴿رَبِّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي فَاغْفِرْ لِي فَغَفَرَ لَهُ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ﴾ ” اے میرے رب ! میں نے اپنے آپ پر ظلم کیا تو مجھے بخش دے، پس اللہ نے اسے بخش دیا، بے شک وہ بخشنے والا مہربان ہے۔“ خاص طور پر جو اللہ تعالیٰ کے سامنے عاجزی اور فروتنی کرتے ہیں اور توبہ و انابت کے ساتھ فوراً اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے قتل ہوا اور آپ نے فوراً استغفار کرلیا۔ القصص
17 ﴿ققَالَ ﴾ موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا : ﴿ رَبِّ بِمَا أَنْعَمْتَ عَلَيَّ ﴾ ” اے رب ! بہ سبب اس کے جو تو نے مجھ پر انعام کیا۔“ تو نے مجھے قبول توبہ، مغفرت اور بے شمار نعمتوں سے سرفراز فرمایا ﴿ فَلَنْ أَكُونَ ظَهِيرًا ﴾ تو میں ہرگز مددگار نہیں ہوں گا ﴿للِّلْمُجْرِمِينَ ﴾ ” گناہ گاروں کا“ یعنی معاصی میں کسی کی مدد نہیں کروں گا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی عنایت و احسان کے سبب موسیٰ علیہ السلام کی طرف سے وعدہ ہے کہ وہ کسی مجرم کی مدد نہیں کریں گے جیسا کہ وہ قبطی کے قتل کے سلسلے میں کرچکے ہیں۔ اس آیت کریمہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتیں بندے سے نیکی کرنے اور برائی ترک کرنے کا تقاضا کرتی ہیں۔ القصص
18 جب موسیٰ )علیہ السلام( کے ہاتھ سے وہ شخص قتل ہوگیا جو آپ کے دشمن گروہ سء تعلق رکھتا تھا ﴿فَأَصْبَحَ فِي الْمَدِينَةِ خَائِفًا يَتَرَقَّبُ ﴾ ” تو وہ صبح کے وقت شہر میں ڈرتے ڈرتے داخل ہوئے۔“ کہ آیا آل فرعون کو اس قتل کے بارے میں علم ہوا ہے یا نہیں؟۔۔۔ اور آپ کو خوف صرف اس لئے تھا کہ وہ جانتے تھے کہ آپ اسرائیلیوں میں سے ہیں اور ان حالات میں، ان کے سوا کوئی اور شخص یہ اقدام کرنے کی جرأت نہیں کرسکتا تھا۔ ابھی وہ اس حال ہی میں تھے کہ ﴿فَإِذَا الَّذِي اسْتَنصَرَهُ بِالْأَمْسِ يَسْتَصْرِخُهُ﴾ ” یکایک وہ کیا دیکھتے ہیں کہ وہ شخص جس نے کل آپ کو)اپنے دشمن کے خلاف( مدد کے لئے پکارا آج پھر )ایک اور قبطی کے خلاف( مدد کے لئے پکاررہا ہے۔“ ﴿ قَالَ لَهُ مُوسَىٰ﴾ تو موسیٰ علیہ السلام نے اس کے حال پر اس کو زجروتوبیخ کرتے ہوئے کہا: ﴿إِنَّكَ لَغَوِيٌّ مُّبِينٌ ﴾ یعنی تم کھلے گمراہ اور واضح طور پر برائی کے ارتکاب کی جرأت کرنے والے ہو۔ القصص
19 ﴿فَلَمَّا أَنْ أَرَادَ أَن يَبْطِشَ﴾ ” پھر جب اس نے پکڑنے کا ارادہ کیا“ یعنی موسیٰ علیہ السلام نے ﴿بِالَّذِي هُوَ عَدُوٌّ لَّهُمَا ﴾ ” اس آدمی کو جو ان دونوں کا دشمن تھا“ یعنی موسیٰ علیہ السلام اور جھگڑا کرنے والے اس اسرائیلی کے دشمن کو جس نے موسیٰ علیہ السلام کو مدد کے لئے پکارا تھا۔ یعنی قبطی اور اسرائیلی کے درمیان جھگڑا جاری رہا اور اسرائیلی موسیٰ علیہ السلام کو مدد کے لئے پکارتا رہا اس پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حمیت نے آلیا حتٰی کہ انہوں نے اس قبطی کو پکڑنا چاہا ﴿قَالَ﴾ ” کہا“ قبطی نے اپنے قتل پر موسیٰ علیہ السلام کو زبر و توبیخ کرتے ہوئے : ﴿يَا مُوسَىٰ أَتُرِيدُ أَن تَقْتُلَنِي كَمَا قَتَلْتَ نَفْسًا بِالْأَمْسِ إِن تُرِيدُ إِلَّا أَن تَكُونَ جَبَّارًا فِي الْأَرْضِ ﴾ ” اے موسیٰ! کیا تم مجھے بھی قتل کرنا چاہتے ہو جس طرح تم نے کل ایک شخص کو مار ڈالا تھا، تم تو یہی چاہتے ہو کہ ملک میں ظلم و ستم کرتے پھرو۔“ کیونکہ زمین میں جابروں اور متکبروں کی سب سے بڑی علامت، ناحق قتل کرنا ہے۔ ﴿وَمَا تُرِيدُ أَن تَكُونَ مِنَ الْمُصْلِحِينَ﴾ ” اور یہ نہیں چاہتے کہ تم نیکوکاروں میں سے ہوجاؤ۔“ ورنہ اگر تم اصلاح چاہتے تو کسی ایک کو قتل کرنے کا ارادہ کئے بغیر میرے اور اس کے درمیان حائل ہوجاتے۔ اس پر موسیٰ علیہ السلام اس کو قتل کرنے کے ارادے سے باز آگئے اور اس کے وعظ اور زجروتوبیخ کی بنا پر رک گئے۔ ان دونوں واقعات پر موسیٰ علیہ السلام کی خبر پھیل گئی۔ یہاں تک کہ فرعون اور اس کے سرداروں نے باہم مشورہ کرکے موسیٰ علیہ السلام کے قتل کا ارادہ کیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس مرد صالح کو مقرر کیا جس نے جلدی سے موسیٰ علیہ السلام کو اطلاع دی کہ اہل دربار نے ان کے بارے میں متفقہ طور پر کیا فیصلہ کیا ہے۔ القصص
20 اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَجَاءَ رَجُلٌ مِّنْ أَقْصَى الْمَدِينَةِ يَسْعَىٰ ﴾ ” اور ایک شخص شہر کی پرلی طرف سے دوڑتا ہوا آیا۔“ یعنی موسیٰ علیہ السلام سے خیر خواہی کی بنا پر اور اس خوف سے کہ کہیں موسیٰ علیہ السلام کو خبر ہونے سے پہلے ہی نہ پکڑ لیں ﴿قَالَ يَا مُوسَىٰ إِنَّ الْمَلَأَ يَأْتَمِرُونَ بِكَ﴾ ” اس نے کہا، اے موسیٰ! بے شک فرعون کے درباری آپ کے بارے میں مشورہ کررہے ہیں“ ﴿لِيَقْتُلُوكَ فَاخْرُجْ ﴾ ” تاکہ آپ کو مار ڈالیں، پس آپ نکل جائیں۔“ یعنی شہر سے فرار ہوجائیں ﴿ إِنِّي لَكَ مِنَ النَّاصِحِينَ ﴾ ” میں آپ کا انتہائی خیر خواہ انسان ہوں۔ “ القصص
21 موسیٰ علیہ السلام نے اس خیر خواہ انسان کی خیر خواہی پر عمل کیا۔ ﴿ فَخَرَجَ مِنْهَا خَائِفًا يَتَرَقَّبُ﴾ ” پس اس بات سے ڈرتے ہوئے )کہ کہیں ان کو قتل نہ کردیا جائے( اس شہر سے نکل پڑے“ اور آپ نے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کی : ﴿قَالَ رَبِّ نَجِّنِي مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ﴾ ”میرے رب ! مجھے ظالم لوگوں سے نجات دے۔“ کیونکہ اب وہ اپنے اس فعل سے توبہ کرچکے ہیں جس کا انہوں نے بغیر کسی قصد و ارادے کے غصے کی حالت میں ارتکاب کیا تھا اب ان کا آپ کو دھمکی دینا ظلم اور زیادتی ہے۔ القصص
22 ﴿وَلَمَّا تَوَجَّهَ تِلْقَاءَ مَدْيَنَ﴾ یعنی جب آپ نے مدین جانے کا ارادہ کیا۔ مدین جنوبی فلسطین میں واقع تھا جہاں فرعون کی عملداری نہ تھی۔ ﴿قَالَ عَسَىٰ رَبِّي أَن يَهْدِيَنِي سَوَاءَ السَّبِيلِ﴾ ” کہنے لگے امید ہے کہ میرا رب مجھے سیدھا راستہ بتائے۔“ یعنی معتدل اور مختصر راستہ جو نہایت آسانی اور سہولت سے مدین پہنچاتا ہو۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو سیدھا اور مختصر راستہ دکھایا اور وہ مدین پہنچ گئے۔ القصص
23 ﴿وَلَمَّا وَرَدَ مَاءَ مَدْيَنَ وَجَدَ عَلَيْهِ أُمَّةً مِّنَ النَّاسِ يَسْقُونَ﴾ ” جب مدین کے پانی پر پہنچے تو دیکھا کہ وہاں لوگ جمع ہیں اور پانی پلا رہے ہیں۔“ یعنی اپنے مویشیوں کو پانی پلارہے تھے۔ اہل مدین بہت زیادہ مویشیوں کے مالک تھے ﴿وَوَجَدَ مِن دُونِهِمُ﴾ ” اور انہوں نے پائیں ان لوگوں سے ورے۔“ یعنی لوگوں سے الگ تھلگ ﴿امْرَأَتَيْنِ تَذُودَانِ﴾ ” دو عورتیں )اپنی بکریوں کو لوگوں کے حوضوں سے( دور ہٹاتے ہوئے“ کیونکہ وہ مردوں کے بخل اور عدم مروت کی بنا پر، ان سے مزاحم ہونے سے عاجز تھیں ﴿قَالَ﴾ موسیٰ علیہ السلام نے ان سے پوچھا ﴿ مَا خَطْبُكُمَا﴾ اس صورتحال میں تمہیں کیا پریشانی ہے۔ ﴿قَالَتَا لَا نَسْقِي حَتَّىٰ يُصْدِرَ الرِّعَاءُ ﴾ ” انہوں نے کہا، ہم اس وقت تک پانی نہیں پلاتیں جب تک چرواہے لوٹ نہ جائیں۔“ یعنی عام طور پر یوں ہوتا ہے کہ بکریوں کو پانی پلانے کے لئے ہماری باری نہیں آتی جب تک کہ تمام چرواہے اپنی بکریوں کو پانی پلا کر وہاں سے ہٹ نہ جائیں۔ جب جگہ خالی ہوتی ہے تو ہم اپنے مویشیوں کو پانی پلاتی ہیں۔ ﴿وَأَبُونَا شَيْخٌ كَبِيرٌ﴾ ” اور ہمارا والد ایک بوڑھا آدمی ہے۔“ جس میں مویشیوں کو پانی پلانے کی طاقت ہے نہ ہم میں اتنی قوت ہے کہ ہم اپنے مویشیوں کو پانی پلاسکیں اور نہ ہمارے گھرانے میں مرد ہی ہیں جو ان چرواہوں سے مزاحم ہوسکیں۔ القصص
24 حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ان دونوں عورتوں پر بہت رحم آیا ﴿فَسَقَىٰ لَهُمَا﴾ پس موسیٰ علیہ السلام نے ان سے کوئی اجرت لئے بغیر محض اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے مقصد سے ان کے مویشیوں کو پانی پلادیا۔ جب آپ نے ان کے مویشیوں کو پانی پلایا تو دوپہر اور سخت دھوپ کا وقت تھا اور اس کی دلیل یہ ہے ﴿ثُمَّ تَوَلَّىٰ إِلَى الظِّلِّ﴾ ” پھر ایک سایہ دار جگہ کی طرف ہٹ آئے۔“ یعنی تھکاوٹ کے بعد آرام لینے کے لئے سائے میں آئے۔ ﴿ فَقَالَ﴾ اس حالت میں اللہ تعالیٰ سے رزق کی درخواست کرتے ہوئے عرض کیا : ﴿رَبِّ إِنِّي لِمَا أَنزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ ﴾ یعنی تو جو بھلائی میری طرف بھیجے اور میرے لئے مہیا کرے میں اس کا محتاج ہوں۔ یہ موسیٰ علیہ السلام کی اپنی زبان حال کے ذریعے سے دعا تھی اور زبان حال کے ذریعے سے دعا کرنا زبان قال کے ذریعے سے دعا کرنے سے زیادہ بلیغ ہے، وہ اسی حالت میں اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتے رہے۔ القصص
25 وہ دونوں عورتیں اپنے والد کے پاس گئیں اور ان کو تمام واقعہ کہہ سنایا۔ ان کے والد نے ان میں سے ایک عورت کو موسیٰ علیہ السلام کے پاس بھیجا وہ آپ کے پاس آئی ﴿تَمْشِي عَلَى اسْتِحْيَاءٍ﴾ ” شرم و حیا کے ساتھ چلتی ہوئی۔“ یہ حیا اس عورت کی اچھی فطرت اور خلق حسن پر دلالت کرتی ہے۔ حیا اخلاق فاضلہ میں شمار ہوتی ہے۔۔۔ خاص طور پر عورتوں میں۔ یہ چیز اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے ان خواتین کے مویشیوں کو جو پانی پلایا تھا کسی نوکر یا غلام کی حیثیت سے نہیں پلایا تھا کہ جن سے عموماً شرمایا نہیں جاتا بلکہ موسیٰ علیہ السلام تو عزت نفس رکھنے والے شخص تھے اس لئے اس عورت نے آپ کے جس حسن اخلاق کا مشاہدہ کیا وہ اس کی حیا کا موجب تھا۔ ﴿قَالَتْ﴾ پس اس عورت نے آکر موسیٰ علیہ السلام سے کہا : ﴿إِنَّ أَبِي يَدْعُوكَ لِيَجْزِيَكَ أَجْرَ مَا سَقَيْتَ لَنَا﴾ ” بے شک آپ کو میرے والد بلاتے ہیں کہ آپ نے جو ہمارے لئے پانی پلایا تھا اس کی آپ کو اجرت دیں۔“ یعنی آپ پر کسی قسم کا احسان کرتے ہوئے نہیں بلکہ آپ نے ہم پر احسان کی ابتدا کی ہے ہمارا مقصد تو صرف یہ ہے کہ ہم آپ کے احسان کا بدلہ دیں۔ موسیٰ علیہ السلام نے اس کی بات مان لی۔ ﴿فَلَمَّا جَاءَهُ وَقَصَّ عَلَيْهِ الْقَصَصَ ﴾ ” پس جب موسیٰ ان کے پاس آئے اور ان کے سامنے اپنا واقعہ بیان کیا۔“ یعنی موسیٰ علیہ السلام نے ابتدائی اسباب سے لے کر، جو وہاں سے آپ کے فرار کے موجب بنے، یہاں پہنچنے تک، تمام واقعات سنا دئیے ﴿ قَالَ﴾ ” انہوں نے کہا“ موسیٰ علیہ السلام کا خوف دور کرتے اور ان کی دل جوئی کرتے ہوئے : ﴿لَا تَخَفْ نَجَوْتَ مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ﴾ یعنی آپ کو ڈرنا اور خوف نہیں کرنا چاہیے اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان ظالموں سے نجات دے دی ہے اور آپ ایک ایسی جگہ پہنچ گئے ہیں جہاں ان کا کوئی اختیار نہیں۔ القصص
26 ﴿ قَالَتْ إِحْدَاهُمَا ﴾ یعنی ان کی ایک بیٹی نے کہا : ﴿يَا أَبَتِ اسْتَأْجِرْهُ﴾ یعنی انہیں اپنے پاس اجرت پر رکھ لیں یہ آپ کی بکریوں کو چرائیں گے اور انہیں پانی پلائیں گے ﴿ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ﴾ یعنی موسیٰ علیہ السلام تمام ملازموں سے بہتر ہیں کیونکہ یہ طاقتور بھی ہیں اور امین بھی اور بہترین ملازم وہ ہوتا ہے جس میں وہ کام کرنے کی قوت اور قدرت ہو جس کے لئے اسے ملازم رکھا گیا ہے اور اس میں خیانت نہ ہو اور وہ امین ہو۔ یہ دونوں صفات ہر اس شخص میں اہمیت دئیے جانے کے لائق ہیں جس کو کوئی منصب سونپا جائے یا اسے اجرت وغیرہ پر رکھا جائے۔ معاملات میں خلل اس وقت واقع ہوتا ہے جب یہ دونوں اوصاف یا ان میں سے ایک وصف مفقود ہو۔ ان دونوں اوصاف کے اجتماع سے اس کام کی بدرجہ احسن تکیل ہوتی ہے۔ اس عورت نے اپنے باپ کو مشورہ اس لئے دیا تھا کہ اس نے بکریوں کو پانی پلاتے وقت موسیٰ علیہ السلام کی قوت اور نشاط کا مشاہدہ کرلیا تھا جس سے اس نے آپ کی قوت کا اندازہ لگا لیا تھا اور اسی طرح اس نے موسیٰ علیہ السلام کی امانت اور دیانت کو بھی پرکھ لیا تھا۔ موسیٰ علیہ السلام نے ان عورتوں پر اس وقت اور اس حالت میں رحم کھایا تھا جب ان سے کسی فائدے کی امید نہ تھی آپ کا مقصد صرف اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی تھا۔ القصص
27 ﴿قَالَ﴾ یعنی صاحب مدین نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا : ﴿إِنِّي أُرِيدُ أَنْ أُنكِحَكَ إِحْدَى ابْنَتَيَّ هَاتَيْنِ عَلَىٰ أَن تَأْجُرَنِي﴾ میں چاہتا ہوں کہ اپنی ان دو بیٹیوں میں سے ایک کو تم سے بیاہ دوں اس شرط پر کہ تم میری خدمت کرو۔“ یعنی میرے ہاں نوکر ٹھہر جاؤ۔ ﴿ثَمَانِيَ حِجَجٍ ﴾ آٹھ سال تک ﴿فَإِنْ أَتْمَمْتَ عَشْرًا فَمِنْ عِندِكَ﴾ ” پس اگر دس سال پورے کردیں تو یہ آپ کی طرف سے ہوگا۔“ یعنی آپ کی طرف سے عطیہ ہوگا زائد مدت آپ پر واجب نہیں ہے۔ ﴿ وَمَا أُرِيدُ أَنْ أَشُقَّ عَلَيْكَ ﴾ ” میں نہیں چاہتا کہ تم پر سختی کروں“ اور میں حتمی طور پر دس سال کی مدت مقرر کردوں اور نہ میں یہ چاہتا ہوں کہ آپ کو پر مشقت کاموں کے لئے ملازم رکھوں۔ میں نے تو آپ کو نہایت آسان کام کے لئے ملازم رکھا ہے جس میں کوئی مشقت نہیں۔ ﴿سَتَجِدُنِي إِن شَاءَ اللّٰـهُ مِنَ الصَّالِحِينَ﴾ ” تم مجھے ان شاء اللہ نیک لوگوں میں پاؤ گے۔“ صاحب مدین نے آپ کو کام کی سہولت اور حسن معاملہ کے ذریعے سے ترغیب دی۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ مرد صالح کے لئے مناسب یہی ہے کہ جہاں تک ممکن ہو حسن اخلاق سے کام لے۔ القصص
28 ﴿قَالَ﴾ موسیٰ علیہ السلام نے صاحب مدین کی شرائط اور اس کا مطالبہ قبول کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ذَٰلِكَ بَيْنِي وَبَيْنَكَ﴾ یعنی وہ شرط جس کا آپ نے ذکر کیا ہے مجھے منظور ہے میرے اور آپ کے درمیان معاہدہ پکا ہے۔ ﴿أَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ فَلَا عُدْوَانَ عَلَيَّ﴾ ” میں دونوں مدتوں میں سے جو بھی مدت پوری کروں، تو مجھ پر زیادتی نہ ہو۔“ خواہ میں آٹھ (سال) پورے کروں جن کو پورا کرنا واجب ہے یا عطیہ کے طور پر آٹھ سال سے زائد کام کروں۔ ﴿ وَاللّٰـهُ عَلَىٰ مَا نَقُولُ وَكِيلٌ﴾ ” اور ہم جو معاہدہ کرتے ہیں اللہ اس کا گواہ ہے۔“ یعنی حفاظت کرنے والا اور نگہبانی کرنے والا ہے وہ جانتا ہے کہ ہم نے کیا معاہدہ کیا ہوا ہے۔ مذکورہ شخص، ان دو عورتوں کا والد اور صاحب مدین، وہ شعیب نہیں جو معروف نبی ہیں جیسا کہ بہت سے لوگوں کے ہاں مشہور ہے۔ یہ ایک ایسا قول ہے جس پر کوئی دلیل نہیں۔ اس ضمن میں زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ شعیب علیہ السلام کا شہر بھی مدین ہی تھا اور یہ واقعہ بھی مدین ہی میں پیش آیا۔۔۔ دونوں امور میں تلازم کیونکر واقع ہوگیا؟ نیز یہ بھی یقینی طور پر معلوم نہیں کہ آیا موسیٰ علیہ السلام نے شعیب علیہ السلام کا زمانہ پایا ہے یا نہیں ان کا شعیب علیہ السلام سے ملاقات کرنا کیونکر معلوم ہوسکتا ہے؟ اگر وہ شخص، شعیب علیہ السلام ہی ہوتے تو اللہ تعالیٰ اس کا ذکر ضرور فرماتا اور وہ خواتین بھی اس بات کا ذکر کرتیں۔ نیز شعیب علیہ السلام کی قوم کو اللہ تعالیٰ نے ان کی تکذیب کی پاداش میں ہلاک کر ڈالا تھا، ان میں سے صرف وہی لوگ باقی بچے تھے جو ایمان لے آئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو اس بات سے اپنی پناہ میں رکھا ہے کہ وہ اپنے نبی کی دو بیٹیوں کو پانی سے محروم کرنے اور ان کے مویشیوں کو پانی سے روکنے پر راضی ہوں یہاں تک کہ ایک اجنبی شخص آئے اور ان کے ساتھ حسن سلوک کرتے ہوئے ان کے مویشیوں کو پانی پلادے۔ خود حضرت شعیب بھی اس پر راضی نہیں ہوسکتے تھے کہ موسیٰ علیہ السلام ان کی بکریاں چرائیں اور ان کے پاس خادم بن کر رہیں حالانکہ موسیٰ علیہ السلام شعیب علیہ السلام سے افضل اور بلند تر درجے پر فائز تھے۔۔۔ البتہ اگر یہ واقعہ موسیٰ علیہ السلام کی نبوت سے پہلے کا ہے تب اس میں کوئی منافات نہیں۔ بہر حال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت صحیحہ کے بغیر اس قول پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا کہ وہ شخص مذکور شعیب نبی تھے۔ واللہ اعلم۔ القصص
29 ﴿ فَلَمَّا قَضَىٰ مُوسَى الْأَجَلَ﴾ ” پس جب موسیٰ علیہ السلام نے مدت پوری کردی۔“ اس میں دونوں احتمال موجود ہیں کہ آپ نے وہ مدت پوری کی ہو جس کا پورا کرنا آپ پر واجب تھا یا اس کے ساتھ وہ زائد مدت بھی پوری کی ہوجیسا کہ موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں آپ کے ایفائے عہد کے وصف کی بنا پر یہی گمان کیا جاسکتا ہے۔ موسیٰ علیہ السلام کے دل میں اپنے گھر والوں، اپنی والدہ اور اپنے خاندان والوں کے پاس اپنے وطن پہنچنے کا اشتیاق پیدا ہوا۔۔۔ جناب موسیٰ علیہ السلام کا خیال تھا کہ اس طویل مدت میں لوگ اس قبطی کے قتل کے واقعہ کو بھول گئے ہوں گے۔ ﴿وَسَارَ بِأَهْلِهِ ﴾ ” اپنے گھر والوں کو لے کر چلے۔“ مصر کا قصد کرکے ﴿آنَسَ﴾ یعنی آپ نے دیکھا ﴿مِن جَانِبِ الطُّورِ نَارًا قَالَ لِأَهْلِهِ امْكُثُوا إِنِّي آنَسْتُ نَارًا لَّعَلِّي آتِيكُم مِّنْهَا بِخَبَرٍ أَوْ جَذْوَةٍ مِّنَ النَّارِ لَعَلَّكُمْ تَصْطَلُونَ﴾ ” طور کی طرف آگ کو، تو وہ اپنے گھر والوں سے کہنے لگے، ٹھہرو۔ مجھے آگ نظر آئی ہے۔ شاید میں وہاں سے کچھ پتہ لاؤں یا آگ کا انگارا لے آؤں تاکہ تم تاپو۔“ وہ راستے سے بھٹکے ہوئے بھی تھے اور موسم بھی سرد تھا۔ القصص
30 جب موسیٰ علیہ السلام وہاں پہنچے تو آواز دئیے گئے کہ ﴿ يَا مُوسَىٰ إِنِّي أَنَا اللّٰـهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ﴾ ” اے موسیٰ! یقیناً میں ہی اللہ ہوں سارے جہانوں کا پروردگار۔“ پس اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی الوہیت اور ربوبیت کی خبر دی ہے اور اس سے یہ چیز لازم آتی ہے کہ وہ اپنی عبادت کا حکم دے جیسا کہ دوسری آیت کریمہ میں آتا ہے ﴿فَاعْبُدْنِي وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي﴾ (طٰہٰ : 20 ؍ 14) ” میری عبادت کر اور میری یاد کے لئے نماز قائم کر۔ “ القصص
31 ﴿ وَأَنْ أَلْقِ عَصَاكَ ﴾ ” اور یہ کہ اپنی لاٹھی ڈال دیں“ تو آپ نے اپنا عصا پھینک دیا۔ ﴿ فَلَمَّا رَآهَا تَهْتَزُّ﴾ ” پس جب موسیٰ نے لاٹھی کو حرکت کرتے ہوئے دیکھا۔“ یعنی آپ نے اس کو دوڑتا ہوا دیکھا اس کی شکل بہت ہولناک تھی ﴿كَأَنَّهَا جَانٌّ ﴾ گویا کہ وہ بہت بڑا نر سانپ ہے۔ ﴿وَلَّىٰ مُدْبِرًا وَلَمْ يُعَقِّبْ﴾ تو موسیٰ علیہ السلام واپس بھاگے اور دل پر خوف کے غلبہ کی وجہ سے پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا : ﴿يَا مُوسَىٰ أَقْبِلْ وَلَا تَخَفْ إِنَّكَ مِنَ الْآمِنِينَ﴾ ” اے موسیٰ! آگے آؤ، اور ڈرو مت، تم امن پانے والوں میں ہو۔“ یہ فقرہ عدم خوف اور امن عطا کرنے میں بلیغ ترین فقرہ ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿ أَقْبِلْ ﴾ سامنے آنے کے حکم اور اس کی تعمیل کا تقاضا کرتا ہے اور کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ انسان سامنے آتا ہے مگر وہ ابھی تک خوف کی حالت میں ہوتا ہے۔ اس لئے فرمایا : ﴿ وَلَا تَخَفْ﴾ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو دو امور کا حکم دیا۔ سامنے آنا اور دل میں کسی قسم کے خوف کو نہ رکھنا۔ مگر ان کے باوجود یہ احتمال باقی رہ جاتا ہے کہ وہ شخص مامور خوف سے آزاد ہو کہ آئے مگر اسے امر مکر وہ سے حفاظت اور امن کی ضمانت حاصل نہ ہو۔ اس لئے فرمایا : ﴿إِنَّكَ مِنَ الْآمِنِينَ﴾ ” بے شک آپ امن پانے والوں میں سے ہیں“ تب خوف ہر لحاظ سے زائل ہوجاتا ہے۔ پس موسیٰ علیہ السلام ہر خوف اور رعب سے آزاد اور مطمئن ہو کر اور آپ اپنے رب کی خبر پر اعتماد کرتے ہوئے سامنے آئے، ان کے ایمان میں اضافہ اور ان کا یقین مکمل ہوچکا تھا۔ یہ معجزہ تھا جس کا اللہ تعالیٰ نے آپ کے فرعون کے پاس جانے سے قبل آپ کو مشاہدہ کروایا تاکہ جب آپ فرعون کے پاس جائیں تو یقین کامل کے مقام پر فائز ہوں تو اس صورت میں آپ زیادہ جرأت، زیادہ قوت اور صلابت کے ساتھ فرعون کے پاس جائیں گے۔ القصص
32 پھر اللہ نے ایک اور معجزے کا مشاہدہ کروایا، چنانچہ فرمایا : ﴿ اسْلُكْ يَدَكَ﴾ یعنی اپنا ہاتھ داخل کر ﴿فِي جَيْبِكَ تَخْرُجْ بَيْضَاءَ مِنْ غَيْرِ سُوءٍ﴾ ” اپنے گریبان میں تو بغیر کسی عیب کے سفید نکل آئے گا۔“ موسیٰ علیہ السلام نے اپنا ہاتھ گریبان میں ڈال کر باہر نکال لیا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کا ذکر فرمایا ہے۔ ﴿وَاضْمُمْ إِلَيْكَ جَنَاحَكَ مِنَ الرَّهْبِ﴾ اور اپنے بازوؤں کو بھینچ لیں تاکہ آپ کا ڈر اور خوف زائل ہوجائے ﴿فَذَانِكَ ﴾ ” پس یہ“ یعنی عصا کا سانپ بن جانا اور گریبان سے ہاتھ کا چمکتا ہوا نکلنا ﴿ بُرْهَانَانِ مِن رَّبِّكَ﴾ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دو قطعی براہین ہیں۔ ﴿إِلَىٰ فِرْعَوْنَ وَمَلَئِهِ إِنَّهُمْ كَانُوا قَوْمًا فَاسِقِينَ﴾ ” فرعون اور اس کے درباریوں کی طرف جاؤ کہ وہ نافرمان لوگ ہیں۔“ ان کے لئے مجرد انذار اور رسول کا ان کو حکم دینا ہی کافی نہیں ہے بلکہ ان کے لئے ظاہری معجزات بھی ضروری ہیں اگر وہ کوئی فائدہ دیں۔ القصص
33 ﴿قَالَ﴾ موسیٰ علیہ السلام نے اپنے رب کے حضور معذرت کرتے، رب تعالیٰ نے جو آپ پر ذمہ داری ڈالی تھی اس پر اس سے مدد کی درخواست کرتے اور اس راستے میں پیش آنے والے موانع کا ذکر کرتے ہوئے، تاکہ ان کا رب ان تمام مشکلات کو آسان کردے۔۔۔ عرض کیا : ﴿رَبِّ إِنِّي قَتَلْتُ مِنْهُمْ نَفْسًا﴾ ” اے میرے رب ! میں نے ان کے ایک آدمی کو قتل کیا ہے۔“ یعنی ﴿فَأَخَافُ أَن يَقْتُلُونِ وَأَخِي هَارُونُ هُوَ أَفْصَحُ مِنِّي لِسَانًا فَأَرْسِلْهُ مَعِيَ رِدْءًا ﴾ ” پس مجھے خوف ہے کہ وہ کہیں مجھ کو مار نہ ڈالیں اور ہارون جو میرا بھائی ہے اس کی زبان مجھ سے زیادہ فصیح ہے تو اس کو میرے ساتھ مددگار بنا کر بھیج۔“ یعنی اس کو میرے ساتھ میرا معاون اور مددگار بنا کر بھیج۔ القصص
34 ﴿يُصَدِّقُنِي﴾ ” جو میری تصدیق کرے“ کیونکہ ایک دوسرے کی موافقت کرتی ہوئی خبروں کے ساتھ تصدیق، حق کو طاقتور بنادیتی ہے۔ ﴿إِنِّي أَخَافُ أَن يُكَذِّبُونِ﴾ ” مجھے خوف ہے کہ وہ لوگ میری تکذیب کریں گے۔ “ القصص
35 اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کی دعا کو قبول کرتے ہوئے فرمایا : ﴿سَنَشُدُّ عَضُدَكَ بِأَخِيكَ﴾ یعنی ہم آپ کے بھائی کے ذریعے سے آپ کی مدد کریں گے اور آپ کو طاقت اور قوت عطا کریں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے قتل کے الزام کے خوف کو بھی زائل کردیا۔ فرمایا : ﴿وَنَجْعَلُ لَكُمَا سُلْطَانًا﴾ ہم آپ کو دلیل اور برہان کے ذریعے سے آپ کی دعوت میں قوت اور آپ کے دشمن کے مقابلے میں ہیبت الہٰیہ عطا کریں گے۔ ﴿فَلَا يَصِلُونَ إِلَيْكُمَا ﴾ ” پس وہ آپ دونوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے“ اور اس کا سبب ہماری نشانیاں اور وہ حق ہے جس پر یہ نشانیاں دلالت کرتی ہیں۔ نیز اس کا سبب یہ بھی ہے کہ جو کوئی ان نشانیوں کو دیکھتا خوف زدہ ہوجاتا ہے۔ انہی نشانیوں کے سبب سے آپ کو قوت حاصل ہوگی اور دشمن کے فریب کا تاروپود بکھر جائے گا اور یہ نشانیاں آپ کو، سازو سامان سے لیس بڑے بڑے لشکروں سے بڑھ کر کام دیں گی۔ ﴿ أَنتُمَا وَمَنِ اتَّبَعَكُمَا الْغَالِبُونَ﴾ ” تم اور تمہارے متبعین غالب رہو گے۔“ یہ وعدہ موسیٰ علیہ السلام سے اس وقت کیا گیا تھا جب آپ بالکل تنہا تھے اور فرار رہنے کے بعد اپنے وطن واپس لوٹے تھے۔ حالات و واقعات بدلتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا وعدہ پورا کردیا اور آپ کو ملک اور بندوں پر اختیار عطا کردیا۔ آپ اور آپ کے پیروکار ملک میں غالب آگئے۔ القصص
36 حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے رب کے پیغام کے ساتھ فرعون کے پاس گئے۔ ﴿فَلَمَّا جَاءَهُم مُّوسَىٰ بِآيَاتِنَا بَيِّنَاتٍ﴾ ” پس جب موسیٰ علیہ السلام ان کے پاس ہمارے کھلی نشانیاں لے کر آئے۔“ یعنی موسیٰ علیہ السلام اپنی دعوت کے تائید میں واضح دلائل لائے جن میں کوئی کوتاہی تھی نہ کوئی پوشیدہ چیز ﴿ قَالُوا﴾ تو فرعون کی قوم نے ظلم، تکبر اور عناد کی بنا پر کہا : ﴿مَا هٰذَا إِلَّا سِحْرٌ مُّفْتَرًى﴾ ” یہ تو جادو ہے جو اس نے بنا کر کھڑا کیا ہے۔“ جیسا کہ فرعون نے اس وقت کہا تھا جب حق ظاہر ہو کر باطل پر غالب آگیا اور باطل مضمحل ہوگیا، تمام بڑے بڑے سردار جو معاملات کے حقائق کو جانتے تھے آپ کے سامنے سرنگوں ہوگئے، تو فرعون نے کہا تھا : ﴿إِنَّهُ لَكَبِيرُكُمُ الَّذِي عَلَّمَكُمُ السِّحْرَ﴾ (طٰہٰ : 20؍ 71) ” یہ تمہارا سردار ہے جس نے تمہیں جادو سکھایا ہے۔“ یہ ذہین مگر ناپاک شخص جو مکرو فریب اور چالبازی کی انتہا کو پہنچ گیا تھا جس کا قصہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، حالانکہ وہ جانتا تھا کہ اسے زمین و آسمان کے رب نے نازل کیا ہے۔ مگر اس پر بدبختی غالب تھی۔ ﴿وَمَا سَمِعْنَا بِهٰذَا فِي آبَائِنَا الْأَوَّلِينَ﴾ ” اور یہ ہم نے اپنے اگلے باپ دادا میں تو (کبھی یہ بات) نہیں سنی۔“ یہ بھی انہوں نے جھوٹ بولا تھا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو واضح دلائل و براہین کے ساتھ مبعوث فرمایا تھا جیسا کہ فرمایا : ﴿وَلَقَدْ جَاءَكُمْ يُوسُفُ مِن قَبْلُ بِالْبَيِّنَاتِ فَمَا زِلْتُمْ فِي شَكٍّ مِّمَّا جَاءَكُم بِهِ حَتَّىٰ إِذَا هَلَكَ قُلْتُمْ لَن يَبْعَثَ اللّٰـهُ مِن بَعْدِهِ رَسُولًا كَذَٰلِكَ يُضِلُّ اللّٰـهُ مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ مُّرْتَابٌ ﴾ (غافر : 40؍ 34) ” اس سے پہلے تمہارے پاس یوسف واضح دلائل لے کر آئے مگر وہ جو کچھ لے کر آئے تھے اس کے بارے میں تم شک میں مبتلا رہے پھر جب وہ وفات پاگئے تو تم نے کہا اب اللہ ان کے بعد کوئی رسول مبعوث نہیں کرے گا۔ اسی طرح اللہ ہر ایسے شخص کو گمراہی میں مبتلا کردیتا ہے جو حد سے تجاوز کرنے والا اور شکی ہوتا ہے۔ “ القصص
37 ﴿وَقَالَ مُوسَىٰ﴾ جب انہوں نے دعویٰ کیا کہ جو چیز موسیٰ علیہ السلام لے کر آئے ہیں وہ جادو اور گمراہی ہے اور ان کا موقف سراسر ہدایت پر مبنی ہے۔ تو موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا : ﴿رَبِّي أَعْلَمُ بِمَن جَاءَ بِالْهُدَىٰ مِنْ عِندِهِ وَمَن تَكُونُ لَهُ عَاقِبَةُ الدَّارِ﴾ ” میرا رب اسے خوب جانتا ہے جو اس کی طرف سے ہدایت لے کر آیا ہے اور جس کے لئے آخرت کا اچھا انجام ہوگا۔“ جب تمہارے ساتھ بحث کرنے اور تمہارے سامنے واضح دلائل بیان کرنے کا کوئی فائدہ نہیں، تم نے گمراہی ہی میں سرگرداں رہنے اور اپنے کفر کی تائید میں جھگڑنے کا تہیہ کررکھا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے کہ ہدایت یافتہ کون ہے اور ہدایت سے محرومی کس کے حصے میں آئی ہے، نیز کس کا انجام اچھا ہے ہمارا یا تمہارا؟ ﴿إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الظَّالِمُونَ﴾ ” بے شک ظالم نجات نہیں پائیں گے۔“ اچھی عاقبت اور فوز و فلاح سے موسیٰ علیہ السلام اور ان کے متبعین سرفراز ہوئے اور ان منکرین حق کے نصیب میں برا انجام، خسارہ اور ہلاکت لکھ دئیے گئے۔ القصص
38 ﴿وَقَالَ فِرْعَوْنُ ﴾ فرعون نے اپنے رب کے بارے میں جسارت اور اپنی قوم کے احمق اور کمزور عقل لوگوں کے سامنے خوش نما باتیں کرتے ہوئے کہا : ﴿يَا أَيُّهَا الْمَلَأُ مَا عَلِمْتُ لَكُم مِّنْ إِلَـٰهٍ غَيْرِي﴾ ” اے اہل دربار ! میں تمہارا اپنے سوا کسی کو معبود نہیں جانتا“ یعنی میں اکیلا تمہارا الٰہ اور معبود ہوں اگر میرے سوا کوئی اور الٰہ ہوتا تو میرے علم میں ضرور ہوتا۔ ذرا فرعون کی یہ کامل احتیاط ملاحظہ کیجئے، اس نے یہ نہیں کہا : (مَالَکُمْ مِنْ إِلٰهٍ غَیْرِی ) ” میرے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔“ بلکہ یہ کہا ” میں تمہارا اپنے سوا کوئی معبود نہیں جانتا۔“ کیونکہ وہ ان کے نزدیک ایک عالم فاضل شخص تھا وہ جو بھی کوئی بات کرتا تھا وہ ان کے نزدیک حق ہوتی تھی اور وہ جو بھی کوئی حکم دیتا تھا اس کی اطاعت کرتے تھے۔ پس جب اس نے یہ بات کہی جس میں یہ احتمال تھا کہ فرعون کے سوا کوئی اور بھی الٰہ ہے تو اس نفی کو متحقق کرنے کے ارادے سے ہامان سے کہا : ﴿فَأَوْقِدْ لِي يَا هَامَانُ عَلَى الطِّينِ﴾ ” اے ہامان ! تو میرے لئے مٹی پر آگ جلا۔“ تاکہ وہ پکی اینٹیں تیار کرے۔ ﴿فَاجْعَل لِّي صَرْحًا﴾ ” پھر میرے لئے ایک محل بنوا دو۔“ یعنی ایک بلند عمارت ﴿لَّعَلِّي أَطَّلِعُ إِلَىٰ إِلَـٰهِ مُوسَىٰ وَإِنِّي لَأَظُنُّهُ مِنَ الْكَاذِبِينَ﴾ ” تاکہ میں موسیٰ کے معبود کی طرف جھانک لوں اور میں تو اسے جھوٹا سمجھتا ہوں۔“ مگر میں اس گمان کو سچ کر دکھاؤں گا اور تمہارے سامنے موسیٰ علیہ السلام کا جھوٹ عیاں کروں گا۔ ملاحظہ کیجئے اللہ تعالیٰ کے حضور یہ کتنی بڑی جسارت ہے۔ کسی آدمی نے اتنی بڑی جسارت نہیں کی۔ اس نے موسیٰ علیہ السلام کی تکذیب کی، خود اللہ ہونے کا دعویٰ کیا، اس نے اس بات کی بھی نفی کی کہ اسے معبود حق کے بارے میں علم ہے اور اس نے موسیٰ علیہ السلام کے معبود تک پہنچنے کے لئے اسباب مہیا کرنے کا حکم دیا۔ یہ سب ابہام پیدا کرنے کی کوشش ہے، مگر حیرت ہے ان درباریوں پر جو اپنے آپ کو مملکت کے ستون اور سلطنت کے معاملات میں بڑا مدبر سمجھتے تھے۔ فرعون کیسے ان کی عقلوں کے ساتھ کھیلتا رہا اور کیسے ان کو بیوقوف بناتا رہا۔ اس کا سبب ان کا فسق تھا جو ان کا وصف راسخ بن گیا تھا۔ ان کا دین فاسد ہوگیا پھر اس کے نتیجے میں ان کی عقل بھی خرابی کا شکار ہوگئی۔ اے اللہ ! ہم تجھ سے ایمان پر ثابت قدمی اور استقامت کا سوال کرتے ہیں ہمیں ہدایت سے سرفراز کرنے کے بعد ہمارے دلوں کو ٹیڑھا نہ کر۔ تو ہمیں اپنی بے پایاں رحمت سے نواز بلا شبہ تو بہت زیادہ نواز کرنے والا ہے۔ القصص
39 اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَاسْتَكْبَرَ هُوَ وَجُنُودُهُ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ﴾ ” اور فرعون نے اور اس کے لشکر نے ناحق طور پر ملک میں تکبر کیا۔“ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے بندوں کے ساتھ متکبرانہ رویہ رکھا اور ان کو سخت عذاب میں مبتلا کیا، انہوں نے اللہ تعالیٰ کے رسولوں اور ان کی دعوت کو تکبر کے ساتھ ٹھکرادیا۔ انہوں نے ان آیات الہٰی کی تکذیب کی اور اس زعم باطل میں مبتلا رہے کہ ان کا مسلک اعلیٰ و افضل ہے۔ ﴿وَظَنُّوا أَنَّهُمْ إِلَيْنَا لَا يُرْجَعُونَ﴾ ” اور وہ خیال کرتے تھے کہ وہ ہماری طرف لوٹ کر نہیں آئیں گے۔“ اس لئے انہیں ایسا کرنے کی جرأت ہوئی ورنہ اگر انہیں علم ہوتا اور انہیں اس بات کا یقین ہوتا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹ کر جائیں گے تو وہ کبھی بھی ایسا کام نہ کرتے جو انہوں نے کیا۔ القصص
40 ﴿ فَأَخَذْنَاهُ وَجُنُودَهُ﴾ جب وہ اپنے عناد اور سرکشی پر جمے رہے تو ہم نے فرعون اور اس کے لشکروں کو پکڑلیا ﴿فَنَبَذْنَاهُمْ فِي الْيَمِّ ۖ فَانظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الظَّالِمِينَ﴾ ” پھر ہم نے انہیں دریا میں ڈال دیا، پس دیکھ لو کہ ظالموں کا کیسا انجام ہوا۔“ ان کا انجام گھاٹے والا اور بدترین انجام تھا۔ پس اللہ تعالیٰ نے انہیں دنیاوی سزا کے ساتھ ساتھ اخروی عذاب میں بھی مبتلا کیا۔ القصص
41 ﴿وَجَعَلْنَاهُمْ أَئِمَّةً يَدْعُونَ إِلَى النَّارِ﴾ ” نیز ہم نے انہیں جہنم کی طرف دعوت دینے والے سرغنے بنادیا“ یعنی ہم نے فرعون اور اس کے سرداروں کو ایسے راہنما بنایا جن کی پیروی کا انجام جہنم کی رسوائی اور بدبختی ہے۔ ﴿وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ لَا يُنصَرُونَ﴾ اور قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچانے کے لئے ان کی مدد نہیں کی جاسکے گی، وہ کمزور ترین لوگ ہوں گے، اپنے آپ سے عذاب کو دور نہ کرسکیں گے اور اللہ تعالیٰ کے سوا ان کا کوئی والی اور مددگار نہ ہوگا۔ القصص
42 ﴿وَأَتْبَعْنَاهُمْ فِي هَـٰذِهِ الدُّنْيَا لَعْنَةً﴾ ” اور ہم نے اس دنیا میں ان کے پیچھے لعنت لگادی“ یعنی اس سزا اور رسوائی کے علاوہ، دنیا میں ہم نے ان کے پیچھے لعنت لگادی ہے۔ وہ مخلوق کے ہاں نہایت قبیح اوصاف کے ساتھ معروف، مغضوب اور مذموم ہیں اور یہ ایسا معاملہ ہے جس کا روزمرہ مشاہدہ ہوتا ہے۔ چنانچہ وہ اس دنیا میں ائمہ ملعونین اور ان کے پیشواؤں میں شمار ہوتے ہیں۔ ﴿وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ هُم مِّنَ الْمَقْبُوحِينَ﴾ ” اور وہ قیامت کے دن بدحالوں میں سے ہوں گے۔“ یعنی وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دور ہوں گے، ان کے افعال نہایت گندے ہیں، جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک مبغوض، اس کی مخلوق کے ہاں اور خود اپنی نظر میں ناپسندیدہ ہیں۔ القصص
43 ﴿وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ ﴾ ” اور ہم نے موسیٰ علیہ السلام کو کتاب عطا کی۔“ اس سے مراد تو رات ہے ﴿مِن بَعْدِ مَا أَهْلَكْنَا الْقُرُونَ الْأُولَىٰ﴾ ” پہلے زمانے کے لوگوں کو ہلاک کرنے کے بعد۔“ وہ لوگ جن کا خاتمہ تمام لوگوں کو یعنی فرعون اور اس کی افواج کو ہلاک کرکے کیا گیا۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ نزول تورات کے بعد قوموں کی ہلاکت عامہ کی سزا منقطع ہوگئی اور کفار کے خلاف جہاد بالسیف مشروع ہوا۔ ﴿بَصَائِرَ لِلنَّاسِ﴾ ” لوگوں کے لئے بصیرت افروز دلائل“ اس سے مراد کتاب اللہ ہے جو اللہ تبارک و تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام پر نازل فرمائی جس میں لوگوں کے لئے بصیرت ہے، یعنی اس میں ایسے اصول بیان کئے گئے ہیں جن کے ذریعے سے وہ دیکھ سکتے ہیں کہ کیا چیز ان کو فائدہ دیتی ہے اور کیا چیز ان کو نقصان دیتی ہے۔ پس اس سے نافرمان پر اللہ تعالیٰ کی حجت قائم ہوجاتی ہے اور مومن اس سے فائدہ اٹھاتا ہے تب یہ کتاب مومن کے حق میں رحمت اور اس کے لئے راہ راست کی طرف راہنمائی ہے۔ بنا بریں فرمایا : ﴿وَهُدًى وَرَحْمَةً لَّعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ﴾ ” اور ہدایت اور رحمت بنا کر، تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں“ جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان اخبار غیب سے آگاہ فرمایا تو پھر بندوں کو متنبہ کیا کہ یہ خبریں محض اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس وحی الہٰی کے سوا کوئی ایسا ذریعہ نہیں جس سے وہ یہ خبریں حاصل کرسکیں۔ القصص
44 بنا بریں فرمایا : ﴿وَمَا كُنتَ بِجَانِبِ الْغَرْبِيِّ﴾ ” اور آپ )اس وقت( مغرب کی طرف نہیں تھے۔“ یعنی کوہ طور کے مغربی گوشے میں جب ہم نے موسیٰ کو حکم احکام کی وحی پہنچائی تھی ﴿وَمَا كُنتَ مِنَ الشَّاهِدِينَ ﴾ ” اور نہ آپ دیکھنے والوں میں سے تھے۔“ یعنی آپ ان تمام واقعات کا مشاہدہ نہیں کررہے تھے کہ یہ کہا جائے کہ اس طریقے سے آپ کو اس قصے کی خبر ہوئی ہے۔ القصص
45 ﴿وَلَـٰكِنَّا أَنشَأْنَا قُرُونًا فَتَطَاوَلَ عَلَيْهِمُ الْعُمُرُ ﴾ ” لیکن ہم نے (موسیٰ کے بعد) کئی امتوں کو پیدا کیا پھر ان پر مدت طویل گزرگئی۔“ اس لئے علم ناپید ہوگیا اور آیات الہٰی کو فراموش کردیا گیا۔ ہم نے آپ کو ایسے وقت میں مبعوث کیا جب آپ کی سخت ضرورت، اور اس علم کی شدید حاجت تھی جو ہم نے آپ کو عطا کیا اور آپ کی طرف وحی کیا ﴿وَمَا كُنتَ ثَاوِيًا ﴾ یعنی آپ مقیم نہ تھے ﴿ فِي أَهْلِ مَدْيَنَ تَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِنَا ﴾ ” اہل مدین میں کہ ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سناتے۔“ یعنی آپ ان کو تعلیم دیتے تھے نہ ان سے تعلیم لیتے تھے، حتیٰ کہ (گمان گزرتا کہ) آپ نے موسیٰ علیہ السلام اور اہل مدین کے بارے میں جو خبر دی ہے اسی بنا پر دی ہے۔ ﴿وَلَـٰكِنَّا كُنَّا مُرْسِلِينَ﴾ ” لیکن ہم ہی رسول بھیجنے والے رہے ہیں۔“ یعنی موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں یہ خبر جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لے کر آئے ہیں وہ آپ کی رسالت کے آثار اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی ہے اور ہماری طرف سے وحی بھیجے جانے کے بغیر اس کا جاننے کا آپ کے پاس کوئی اور ذریعہ نہیں۔ القصص
46 ﴿وَمَا كُنتَ بِجَانِبِ الطُّورِ إِذْ نَادَيْنَا﴾ ” اور آپ طور کی جانب بھی نہیں تھے جب کہ ہم نے آواز دی۔“ موسیٰ علیہ السلام کو اور انہیں حکم دیا کہ وہ اس ظالم قوم کے پاس جائیں، انہیں ہمارا پیغام پہنچائیں، انہیں ہماری نشانیاں اور معجزات دکھائیں جو ہم آپ کے سامنے بیان کرچکے ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ وہ تمام واقعات جو ان مقامات پر موسیٰ علیہ السلام کو پیش آئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو بغیر کسی کمی بیشی کے اسی طرح بیان کیا ہے جس طرح وہ حقیقت میں واقع ہوئے تھے اور یہ چیز دو امور میں سے کسی ایک امر سے خالی نہیں : یا تو آپ وہاں موجود تھے اور آپ نے ان کا مشاہدہ کیا تھا یا آپ نے ان مقامات پر جاکر ان واقعات کو وہاں کے رہنے والوں سے معلوم کیا تب یہ چیز اس بات پر دلالت نہیں کرتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے رسول ہیں کیونکہ جن امور کے بارے میں ان کے مشاہدے کے ذریعے سے اور ان کا علم حاصل کرکے خبر دی جائے وہ تمام لوگوں میں مشترک ہوتے ہیں، وہ صرف انبیاء کے ساتھ مخصوص نہیں ہوتے۔۔۔ مگر یہ چیز پورے یقین کے ساتھ معلوم ہے کہ ایسا نہیں ہوا اور اس حقیقت کو آپ کے دوست اور دشمن سب جانتے ہیں۔ پس امر ثانی متعین ہوگیا کہ یہ تمام خبریں، اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی کے ذریعے سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچی ہیں۔ لہٰذا قطعی دلیل سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت ثابت ہوگئی اور یہ بات بھی پایہ تحقیق کو پہنچ گئی کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اور اس کے بندوں پر سایہ فگن ہے۔ بنا بریں فرمایا : ﴿وَلَـٰكِن رَّحْمَةً مِّن رَّبِّكَ لِتُنذِرَ قَوْمًا مَّا أَتَاهُم مِّن نَّذِيرٍ مِّن قَبْلِكَ﴾ ”لیکن یہ آپ کے رب کی رحمت ہے تاکہ ان لوگوں کو ڈرائیں جن کے ہاں آپ سے پہلے کوئی ڈرانے والا نہیں آیا تھا“ یعنی قریش اور عربوں کے پاس کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے زمانہ طویل سے رسالت ان کے ہاں معروف نہ تھی۔ ﴿ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ﴾ یعنی شاید کہ وہ خیر اور شر کے فرق میں غور کریں، خیر کو لائحہ عمل بنائیں اور شرکو ترک کردیں۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس بلند مقام پر فائز ہیں تو ان پر فرض ہے کہ وہ آپ پر ایمان لانے اور اس نعمت کا شکریہ ادا کرنے میں جلدی کریں جس کی قدروقیمت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے نہ اس کا شکر ادا کیا جاسکتا ہے۔ القصص
47 اہل عرب کے لئے آپ کا انذار و تنذیر اس امر کی نفی نہیں کرتا کہ آپ کو دوسری قوموں کے لئے بھی مبعوث کیا گیا ہے۔ عربوں کے لئے انذارو تنذیر کی وجہ یہ ہے کہ آپ عرب تھے، آپ پر نازل کیا گیا قرآن عربی میں تھا اور آپ کی دعوت کے اولین مخاطب عرب تھے۔ اس لئے اصولی طور پر آپ کی دعوت عربوں کے لئے تھی اور تبعاً دیگر قوموں کے لئے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا أَنْ أَوْحَيْنَا إِلَىٰ رَجُلٍ مِّنْهُمْ أَنْ أَنذِرِ النَّاسَ﴾ (یونس : 10 ؍ 2)” کہہ دیجئے اے لوگو ! میں تم سب کی طرف اللہ تعالیٰ کا بھیجا ہوا رسول ہوں۔ “ ﴿وَلَوْلَا أَن تُصِيبَهُم مُّصِيبَةٌ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ﴾ ” اور اگر ایسا نہ ہو کہ ان کے (اعمال) کے سبب جو ان کے ہاتھ آگے بھیج چکے ہیں ان پر کوئی مصیبت نازل ہو۔“ یعنی ان کے ارتکاب کفر و معاصی کی پاداش میں ﴿فَيَقُولُوا رَبَّنَا لَوْلَا أَرْسَلْتَ إِلَيْنَا رَسُولًا فَنَتَّبِعَ آيَاتِكَ وَنَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ﴾ ” تو یہ کہنے لگیں کہ اے ہمارے رب ! تو نے ہماری طرف کوئی پیغمبر کیوں نہ بھیجا کہ ہم تیری آیتوں کی پیروی کرنے اور ایمان لانے والوں میں سے ہوتے۔“ یعنی اے محمد ! (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم نے ان کی حجت کو ختم کرنے اور ان کی بات کو رد کرنے کے لئے آپ کو مبعوث کیا ہے۔ القصص
48 ﴿فَلَمَّا جَاءَهُمُ الْحَقُّ﴾ ” پس جب ان کے پاس حق آگیا۔“ جس میں کوئی شک نہیں ﴿مِنْ عِندِنَا ﴾ ” ہماری طرف سے“ اس سے مراد قرآن ہے جو ہم نے آپ کی طرف وحی کیا۔ ﴿قَالُوا ﴾ تو اس قرآن کی تکذیب کرتے اور اس پر لایعنی اعتراضات کرتے ہوئے انہوں نے کہا : ﴿لَوْلَا أُوتِيَ مِثْلَ مَا أُوتِيَ مُوسَىٰ﴾ ” انہیں وہ کیوں نہیں دیا گیا جو موسیٰ (علیہ السلام) کو دیا گیا۔“ یعنی موسیٰ علیہ السلام پر تمام کتاب اکٹھی نازل کی گئی اور رہی وہ کتاب جو ٹکڑوں کی صورت میں نازل ہوئی ہے تو وہ اللہ کی طرف سے نہیں ہے۔ ان کے اس قول میں کون سی دلیل ہے؟ اور یہ کونسا شبہ ہے کہ اگر کتاب ٹکڑوں میں نازل ہوئی ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہے؟ بلکہ یہ تو اس قرآن کا کمال ہے اور جس ہستی پر یہ قرآن نازل کیا گیا ہے اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی اعتنائے خاص ہے کہ اس نے اسے تھوڑا تھوڑا کرکے نازل کیا ہے تاکہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے سے اپنے رسول کو ثابت قدمی اور استقامت عطا کرے اور مومنین کے ایمان میں اضافہ ہو۔ فرمایا : ﴿وَلَا يَأْتُونَكَ بِمَثَلٍ إِلَّا جِئْنَاكَ بِالْحَقِّ وَأَحْسَنَ تَفْسِيرًا﴾ (الفرقان 25 ؍ 33) ” اور وہ جب کبھی کوئی مثال لے کر آپ کے پاس آئے اس کا درست اور بروقت جواب ہم نے آپ کو دے دیا اور بہترین طریقے سے بات کو کھول کر بیان کردیا۔ “ نیز قرآن کو موسیٰ علیہ السلام کی کتاب پر قیاس کرنا ایک ایسا قیاس ہے جسے یہ خود ہی توڑ رہے ہیں۔ یہ قرآن کریم کو ایک ایسی کتاب پر کیونکر قیاس کرتے ہیں جس کا یہ انکار کرتے ہیں اور اس پر ایمان نہیں لاتے؟ بنا بریں فرمایا : ﴿أَوَلَمْ يَكْفُرُوا بِمَا أُوتِيَ مُوسَىٰ مِن قَبْلُ قَالُوا سِحْرَانِ تَظَاهَرَا﴾ ” کیا جو پہلے موسیٰ (علیہ السلام) کو دیا گیا تھا انہوں نے اس کا کفر نہیں کیا، کہنے لگے کہ یہ دونوں جادوگر ہیں ایک دوسرے کے موافق۔“ یعنی قرآن مجید اور تورات مقدس، جو ان دونوں کی جادوگری اور لوگوں کو گمراہ کرنے میں ان کی مدد کرتی ہیں۔ ﴿وَقَالُوا إِنَّا بِكُلٍّ كَافِرُونَ﴾ ” انہوں نے کہا، ہم تو ہر ایک سے انکار کرنے والے ہیں۔“ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ یہ لوگ بلا دلیل حق کا ابطال اور ایسی چیز کے ذریعے سے حق کی مخالفت کرنا چاہتے ہیں جو حق کی مخالفت نہیں کرسکتی۔ ان کے اقوال میں تناقض اور اختلاف ہے اور ہر کافر کا یہی رویہ ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے تصریح فرمادی کہ انہوں نے دونوں کتابوں اور دونوں رسولوں کا انکار کیا ہے۔ القصص
49 مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا ان کا ان دونوں کتابوں کا انکار کرنا طلب حق اور کسی اپنے حکم کی اتباع کی بنا پر تھا جو ان دونوں کتابوں سے اور بہت بہترتھا یا محض خواہش نفس پر مبنی تھا؟ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿قُلْ فَأْتُوا بِكِتَابٍ مِّنْ عِندِ اللّٰـهِ هُوَ أَهْدَىٰ مِنْهُمَا﴾ ” کہہ دیجئے، اللہ کے پاس سے کوئی کتاب لے آؤ جو ان دونوں سے بڑھ کر ہدایت کرنے والی ہو۔“ یعنی تو رات اور قرآن سے بڑھ کر ہدایت کی حامل ﴿أَتَّبِعْهُ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ﴾ ” میں اس کی اتباع کروں گا اگر تم سچے ہو“ اور وہ ایسی کتاب لانے پر قادر نہیں اور نہ ہی کوئی دوسرا یہ طاقت رکھتا ہے کہ وہ قرآن اور تورات جیسی کتاب تصنیف کرلائے۔ جب سے اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو تخلیق کیا ہے، تب سے علم و ہدایت، بیان و تبیین اور مخلوق کے لئے رحمت کے اعتبار سے ان دو کتابوں جیسی کوئی اور کتاب وجود میں نہیں آئی۔ القصص
50 یہ داعی کا کمال انصاف ہے کہ وہ لوگوں سے یہ کہے کہ اس کا مقصد حق اور رشد و ہدایت ہے اور وہ ایسی کتاب لے کر آیا ہے جو حق پر مشتمل ہے اور موسی ٰعلیہ السلام کی کتاب کے موافق ہے، اس لئے ان دونوں کے سامنے سرنگوں ہونا ہم پر واجب ہے کیونکہ دونوں کتابیں حق اور ہدایت پر مشتمل ہیں اگر تم اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی ایسی کتاب لے آؤ جو ان دونوں سے زیادہ حق اور ہدایت پر مشتمل ہو تو میں اس کی پیروی کروں گا۔ ورنہ میں ہدایت اور حق کو چھوڑ کر کسی ایسی کتاب کی اتباع نہیں کرسکتا جو ہدایت اور حق پر مشتمل نہ ہو۔ ﴿ فَإِن لَّمْ يَسْتَجِيبُوا لَكَ﴾ ” پھر اگر یہ تمہاری بات قبول نہ کریں۔“ یعنی اگر وہ ایسی کتاب نہ لاسکیں جو ان دونوں کتابوں سے زیادہ ہدایت پر مشتمل ہو۔ ﴿ فَاعْلَمْ أَنَّمَا يَتَّبِعُونَ أَهْوَاءَهُمْ﴾ یعنی پھر آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ ان کا آپ کی اتباع کو ترک کرنا اس وجہ سے نہیں کہ انہوں نے حق اور ہدایت کو پہچان کر اس کی طرف رجوع کیا ہے بلکہ یہ تو مجرد خواہشات نفس کی پیروی ہے ﴿وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَوَاهُ بِغَيْرِ هُدًى مِّنَ اللّٰـهِ﴾ ” اور اس شخص سے بڑھ کر گمراہ کون ہوسکتا ہے جو اللہ کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے لگا ہوا ہو؟“ پس یہ شخص لوگوں میں گمراہ ترین شخص ہے کیونکہ اس کے سامنے ہدایت پیش کی گئی اور اسے صراط مستقیم دکھایا گیا جو اللہ تعالیٰ اور اس کے اکرام و تکریم کے گھر تک پہنچاتا ہے، مگر اس نے اس راستے کی طرف التفات کیا نہ اس ہدایت کو قبول کیا۔ اس کے برعکس اس کی خواہش نفس نے اس کو اس راستے پر چلنے کی دعوت دی جو ہلاکت اور بدبختی کی گھاٹیوں کی طرف جاتا ہے اور وہ راہ ہدایت کو چھوڑ کر اس راستے پر گامزن ہوگیا۔ جس کا یہ وصف ہو، کیا اس سے بڑھ کر کوئی اور گمراہ ہوسکتا ہے؟ اس کا ظلم و تعدی اور حق کے ساتھ اس کی عدم محبت اس بات کے موجب ہیں کہ وہ اپنی گمراہی پر جمارہے اور اللہ تعالیٰ اسے ہدایت سے محروم کردے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿إِنَّ اللّٰـهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ﴾ ” بے شک اللہ تعالیٰ ایسے ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔“ یعنی وہ لوگ کہ ظلم و عناد جن کا وصف بن گیا، ان کے پاس ہدایت آئی مگر انہوں نے اسے رد کردیا اور خواہشات نفس کے پیچھے لگ گئے اور خود اپنے ہاتھوں سے ہدایت کے دروازے کو بند اور ہدایت کی راہ کو مسدود کرکے گمراہی کے دروازوں اور اس کی راہوں کو اپنے لئے کھول لیا۔ پس وہ اپنی گمراہی اور ظلم میں سرگرداں، اپنی ہلاکت اور بدبختی میں مارے مارے پھرتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کے ارشاد : ﴿ فَإِن لَّمْ يَسْتَجِيبُوا لَكَ فَاعْلَمْ أَنَّمَا يَتَّبِعُونَ أَهْوَاءَهُمْ﴾ میں اس بات کی دلیل ہے کہ ہر وہ شخص جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت کو قبول نہیں کرتا اور اس قول کو اختیار کرتا ہے جو قول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف ہو، وہ ہدایت کے راستے پر گامزن نہیں بلکہ وہ اپنی خواہشات نفس کے پیچھے لگا ہوا ہے۔ القصص
51 ﴿وَلَقَدْ وَصَّلْنَا لَهُمُ الْقَوْلَ﴾ یعنی ہم نے اپنی بات کو لگاتار طریقے سے ان تک پہنچایا اور ان پر اپنی رحمت اور لطف و کرم کی بنا پر اسے تھوڑا تھوڑا کرکے نازل فرمایا ﴿لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ ﴾ ” تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔“ جب ان پر آیات الہٰی بتکرار نازل ہوں گی اور بوقت ضرورت ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے واضح دلائل نازل ہوں گے۔ پس کتاب اللہ کا ٹکڑوں میں نازل ہونا، ان پر اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کا لطف و کرم ہے۔ تب وہ اسی بات پر کیوں اعتراض کرتے ہیں جس میں ان کی بھلائی ہے؟ قصہء موسیٰ علیہ السلام سے بعض فوائد اور عبرتوں کا استنباط * آیات الہٰی، اللہ تعالیٰ کے نشانات عبرت اور گزشتہ قوموں میں اس کے ایام سے صرف اہل ایمان ہی فائدہ اٹھاتے اور روشنی حاصل کرتے ہیں۔ بندہ مومن اپنے ایمان کے مطابق عبرت حاصل کرتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ انہی کی خاطر گزشتہ قوموں کے قصے بیان کرتا ہے۔ رہے دیگر لوگ تو اللہ تعالیٰ کو ان کی کوئی پروا نہیں، ان کے نصیب میں روشنی ہے نہ ہدایت۔ * اللہ تبارک و تعالیٰ جب کسی کام کا ارادہ فرماتا ہے تو اس کے لئے اسباب مہیا کردیتا ہے اور اسے یک لخت منصۂ شہود پر نہیں لاتا، بلکہ بتدریج آہستہ آہستہ وجود میں لاتا ہے۔ * ان آیات کریمہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ مستضعفین خواہ کمزوری اور محکومی کی انتہا کو پہنچے ہوئے ہوں ان کے لئے مناسب نہیں کہ وہ سستی اور مایوسی کا شکار ہو کر اپنے حق کے حصول اور بلند مقاصد کے لئے جدوجہد کو چھوڑدیں خاص طور پر جبکہ وہ مظلوم ہوں۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل جیسی کمزور اور محکوم قوم کو فرعون اور اس کے سرداروں کی غلامی سے نجات دی، پھر انہیں زمین میں اقتدار بخشا اور انہیں اپنے شہروں کا مالک بنایا۔ * ان آیات کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ جب تک قوم مقہورومحکوم رہتی ہے اور اپنے حقوق حاصل کرتی ہے نہ ان کا مطالبہ کرتی ہے اس کے دین و دنیا کا معاملہ درست نہیں ہوتا اور نہ وہ دین میں امامت سے سرفراز ہوتی ہے۔ * حضرت موسی علیہ السلام کی والدہ ماجدہ پر اللہ تعالیٰ کا لطف وکرم تھا کہ اس نے اس بشارت کے ذریعے سے ان کی مصیبت کو آسان کردیا کہ وہ ان کو ان کا بیٹا واپس لوٹائے گا اور اسے رسول بنائے گا۔ * یہ آیات کریمہ دلالت کرتی ہیں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندے کے لئے بعض سختیاں مقدر کردیتا ہے۔ تاکہ مآل کار اسے ان شدائد سے بڑھ کر سرور حاصل ہو یا ان سے بڑا کوئی شر دور ہو، جیسا کہ موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کو شدید حزن و غم میں مبتلا کیا پھر یہی حزن و غم ان کے لئے اپنے بیٹے تک پہنچنے کا وسیلہ بنا جس سے ان کا دل مطمئن اور آنکھیں ٹھنڈی ہوگئیں اور ان کی فرحت و مسرت میں اضافہ ہوا۔ * ان آیات کریمہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ مخلوق کا طبعی خوف ایمان کے منافی ہے نہ ایمان کو زائل کرتا ہے۔ جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی والدہ کو خوف کے مقام پر خوف لاحق ہوا۔ * اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ایمان گھٹتا اور بڑھتا ہے اور سب سے بڑی چیز جس سے ایمان میں اضافہ اور یقین کی تکمیل ہوتی ہے، مصائب کے وقت صبر اور شدائد کے وقت ثابت قدمی اور استقامت ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ لَوْلَا أَن رَّبَطْنَا عَلَىٰ قَلْبِهَا لِتَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ ﴾ (القصص : 28 ؍ 10) ” اگر ہم اس کی ڈھارس نہ بندھاتے تاکہ وہ یقین کرنے والوں میں سے ہوجائے“ یعنی تاکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کے ایمان میں اضافہ ہو اور ان کا دل مطمئن ہو۔ * اللہ تعالیٰ کی اپنے بندے پر سب سے بڑی نعمت اور بندے کے معاملات میں اس کی طرف سے سب سے بڑی اعانت یہ ہے کہ وہ اس کو اپنی طرف سے ثابت قدمی اور استقامت سے سرفراز کرے، خوف اور اضطراب کے وقت اس کے دل کو قوت عطا کرے کیونکہ اسی صورت میں بندہ مومن صحیح قول و فعل پر قادر ہوسکتا ہے اس کے برعکس جو شخص پریشانی، خوف اور اضطراب کا شکار ہے اس کے افکار ضائع اور اس کی عقل زائل ہوجاتی ہے اور وہ اس حال میں اپنے آپ سے کوئی فائدہ نہیں اٹھاسکتا۔ * اگر بندے کو اس حقیقت کی معرفت حاصل ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر اور اس کے وعدے کا نفاذ لازمی امر ہے، تب بھی وہ اسباب کو ترک نہ کرے اور یہ چیز، اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی ہوئی خبر پر ایمان کے منافی نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ سے وعدہ فرمایا تھا کہ انہیں ان کا بیٹا لوٹادے گا۔ بایں ہمہ وہ اپنے بیٹے کو واپس لینے کے لئے کوشش کرتی رہیں انہوں نے اپنی بیٹی کو بھیجا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پیچھے پیچھے جائے اور دیکھے کہ وہ کہاں جاتا ہے۔ * اس قصہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ عورت کا اپنی ضروریات کے لئے گھر سے باہر نکلنا اور مردوں سے ہم کلام ہونا جائز ہے جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بہن اور صاحب مدین کی بیٹیوں کے ساتھ پیش آیا۔ * اس قصہ سے ثابت ہوتا ہے کہ کفالت اور رضاعت پر اجرت لینا جائز ہے اور جو اس طرح کرتا ہے، اس کے لئے دلیل ہے۔ * ان آیات کریمہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے اپنے کمزور بندے کو، جسے وہ اپنے اکرام و تکریم سے سرفراز کرنا چاہتا ہے، اسے اپنی نشانیاں دکھاتا ہے اور واضح دلائل کا مشاہدہ کراتا ہے جن سے اس کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے جیسا کہ موسیٰ علیہ السلام کو ان کی والدہ کے پاس لوٹادیا تاکہ انہیں معلوم ہوجائے کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ * اس قصہ سے ثابت ہوا کہ ایسے کافر کو، جو کسی معاہدے اور عرف کی بنا پر ذمی ہو، قتل کرنا جائز نہیں کیونکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کافر قبطی کے قتل کو گناہ شمار کیا اور اس پر اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کی۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ جو کوئی لوگوں کو ناحق قتل کرتا ہے، وہ ان جابروں میں شمار ہوتا ہے جو زمین میں فساد پھیلاتے ہیں۔ * نیز جو کوئی لوگوں کو ناحق قتل کرتا ہے اور بزعم خود زمین میں اصلاح کرتا ہے اور اہل معاصی کو ہیبت زدہ کرتا ہے، وہ جھوٹا اور فساد برپا کرنے والا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قبطی کا قول نقل فرمایا: ﴿ إِن تُرِيدُ إِلَّا أَن تَكُونَ جَبَّارًا فِي الْأَرْضِ وَمَا تُرِيدُ أَن تَكُونَ مِنَ الْمُصْلِحِينَ﴾ (القصص 28؍ 19) ” تو زمین میں صاحب جبر و استبداد بن کررہنا چاہتا ہے، تو اصلاح کرنا نہیں چاہتا۔“ اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ قول انکار کے لئے نہیں بلکہ تحقیق و تقریر کے لئے نقل فرمایا ہے۔ * کسی شخص کا کسی دوسرے شخص کو اس کے بارے میں خبر دینا کہ اس کے خلاف کوئی منصوبہ بن رہا ہے، تاکہ وہ اس کے شر سے بچ سکے، چغلی اور غیبت کے زمرے میں نہیں آئے گا۔ بلکہ بسا اوقات ایسا کرنا واجب ہے جیسا کہ اس درباری شخص نے خیر خواہی کے طور پر اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بچانے کے لئے دربار فرعون کے منصوبے کے بارے میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو آگاہ کیا تھا۔ * جب کسی جگہ قیام کرنے میں جان و مال کا خطرہ ہو تو انسان کو اپنے آپ کو ہلاکت میں نہیں ڈالنا چاہیے اور نہ اپنے آپ کو ہلاکت کے حوالے کرنا چاہیے بلکہ اپنے آپ کو بچانے کے لئے وہاں سے نکل جانا چاہیے، جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام مصر سے فرار ہوئے۔ * جب انسان کو دو برائیوں کا سامنا ہوا اور ان میں سے کسی ایک کو اختیار کئے بغیر کوئی چارہ نہ ہو تو وہ خفیف تر برائی کو اختیار کرے جس میں قدرے زیادہ سلامتی ہو۔ جیسے موسیٰ علیہ السلام کا معاملہ دو امور کے مابین تھا : 1۔ مصر میں رہتے، مگر اس صورت میں یقیناً قتل کردئیے جاتے۔ 2۔ یا دور کسی شہر میں چلے جاتے جس کا راستہ بھی انہیں معلوم نہ تھا اور ان کے رب کے سوا کوئی راہنمائی کرنے والا بھی ان کے ساتھ نہ تھا، مگر اس صورتحال میں، مصر میں رہنے کی نسبت، مصر چھوڑ جانے میں سلامتی کی زیادہ توقع تھی۔ * علم میں شغف رکھنے والے کو جب کبھی علمی بحث کی ضرورت پیش آئے، دو اقوال میں سے کوئی قول اس کے نزدیک راجح نہ ہو تو وہ اپنے رب سے ہدایت کی استدعا کرے کہ وہ اس کی راہ صواب کی طرف راہنمائی کرے، اپنے دل میں حق کو مقصود مطلوب بنائے رکھے اور حق ہی کو تلاش کرے اور جس کا یہ حال ہو اللہ تعالیٰ اس کو کبھی خائب و خاسر نہیں کرتا۔ جیسا کہ موسیٰ علیہ السلام نے مصر سے نکل کر مدین کی طرف رخ کیا تو کہنے لگے : ﴿قَالَ عَسَىٰ رَبِّي أَن يَهْدِيَنِي سَوَاءَ السَّبِيلِ﴾ (القصص : 28 ؍ 22) ” امید ہے میرا رب سیدھے راستے کی طرف میری رہنمائی کرے گا۔ “ * ان آیات کریمہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ مخلوق پر رحم کرنا اور جان پہچان رکھنے والے یا اجنبی لوگوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا انبیائے کرام کا اخلاق ہے، پیا سے مویشیوں کو پانی پلانا اور کسی عاجز اور لاچار کی مدد کرنا احسان کے زمرے میں آتا ہے۔ * اپنے حال کو بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرنا مستحب ہے اگرچہ اللہ تعالیٰ کو بندے کے احوال کا علم ہوتا ہے، مگر اللہ تعالیٰ کو بندے کی عاجزی اور اس کی تذلل و مسکنت کا اظہار پسند ہے، جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا : ﴿ رَبِّ إِنِّي لِمَا أَنزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ﴾ (القصص : 28 ؍ 24)” اے میرے رب ! جو بھلائی بھی تو مجھ پر نازل کرے، میں اس کا ضرورت مند ہوں۔ “ * شرم و حیاء، خاص طور پر باعزت لوگوں میں، ایک قابل مدح صفت ہے۔ * حسن سلوک کا اچھا بدلہ دینا گزشتہ قوموں کا بھی وتیرہ رہا ہے۔ * بندہ جب کوئی کام اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لئے کرتا ہے اور بغیر کسی قصد و ارادے کے اس کو اس کام کا اچھا بدلہ عطا ہوجاتا ہے تو وہ اس پر قابل ملامت نہیں جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے، صاحب مدین سے، اپنی نیکی کا بدلہ قبول کیا جو انہوں نے کسی عوض کے لئے کی تھی نہ وہ اپنے دل میں کسی عوض کے منتظر تھے۔ * اس قصہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ ملازم رکھنا مشروع ہے نیز بکریاں وغیرہ چرانے یا کسی ایسے ہی کام کی اجرت ادا کرنا جائز ہے جسے کرنے پر وہ خود قادر نہ ہو، البتہ اس کا دارومدار عرف عام پر ہے۔ * کسی کام کی اجرت میں کوئی منفعت حاصل کرنا جائز ہے خواہ یہ منفعت نکاح کی صورت ہی میں کیوں نہ ہو۔ * کسی ایسے شخص سے اپنی بیٹی کے رشتے کی درخواست کرنا جسے وہ پسند کرتا ہو تو یہ جائز ہے اس پر کوئی ملامت نہیں ہے۔ * بہترین نوکر اور مزدور وہ ہے جو طاقتور اور امانت دار ہو۔ * اپنے خادم اور نوکر سے حسن سلوک سے پیش آنا اور اس سے پر مشقت کام نہ لینا مکارم اخلاق میں شمار ہوتا ہے۔ کیونکہ فرمایا : ﴿وَمَا أُرِيدُ أَنْ أَشُقَّ عَلَيْكَ سَتَجِدُنِي إِن شَاءَ اللّٰـهُ مِنَ الصَّالِحِينَ﴾ (القصص :28 ؍ 27) ” میں تمہیں مشقت میں نہیں ڈالنا چاہتا اور تم مجھے ان شاء اللہ نیک آدمی پاؤ گے۔ “ * آیت کریمہ : ﴿وَاللّٰـهُ عَلَىٰ مَا نَقُولُ﴾ (القصص : 28؍ 28) سے ثابت ہوتا ہے کہ بغیر کسی گواہی کے اجرت کا معاہدہ کرنا جائز ہے۔ * اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ہاتھ پر واضح نشانات اور ظاہری معجزات جاری کئے، مثلاً عصا کا سانپ بن جانا، ہاتھ کا بغیر کسی عیب کے سفید ہوجانا اور اللہ تعالیٰ کا حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہما السلام کو فرعون کی اذیتوں اور سمندر میں غرق ہونے سے بچانا۔ * انسان کے لئے بدترین سزا یہ ہے کہ وہ برائی میں لوگوں کا امام ہو اور یہ امامت آیات الہٰی اور روشن دلائل کی مخالفت کے مطابق ہوتی ہے جس طرح بہترین نعمت جس سے اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو سرفراز فرماتا ہے، یہ ہے کہ وہ اسے نیکی کے راستے میں امامت کے مرتبے پر فائز کرے اور اسے لوگوں کے لئے ہادی اور مہدی بنادے۔ * ان آیات کریمہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت پر واضح دلیل ہے کیونکہ حضرت رسول مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس قصہ کو تفصیل کے ساتھ اصل واقعات کے عین مطابق بیان کیا جس کے ذریعے سے آپ نے رسولوں کی تصدیق اور حق مبین کی تائید کی، حالانکہ آپ ان واقعات کے وقت حاضر تھے نہ آپ ان مقامات میں سے کسی مقام کا مشاہدہ کیا تھا، آپ نے ان امور کے بارے میں کچھ پڑھا تھا نہ کسی سے درس لیا تھا اور نہ کسی اہل علم کی مجلس میں بیٹھے تھے یہ تو صرف رحمٰن و رحیم کی طرف سے رسالت اور وحی ہے جسے بے پایاں احسان کے مالک، اللہ کریم نے نازل کیا تاکہ وہ اس کے ذریعے سے جاہل اور انبیاء ورسل سے غافل قوم کو اس کے برے انجام سے ڈرائے۔ اللہ تعالیٰ کے درود و سلام ہوں اس ہستی پر جس کی مجرد خبر ہی آگاہی کرتی ہے کہ بلاشبہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول ہے اور جس کے مجرد اوامر و نواہی عقلوں کو متنبہ کرتے ہیں کہ یہ احکام اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں، کیونکر نہ ہوں جبکہ اولین و آخرین کی خبر، اس کی لائی ہوئی خبر اور وحی کی صحت و صداقت کی تائید و تصدیق کرتی ہے۔ وہ شریعت جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ رب العالمین سے لے کر مبعوث ہوئے ہیں، وہ اخلاق فاضلہ جو آپ کی جبلت میں رکھ دئیے گئے، صرف اسی ہستی کے لائق اور اسی کے لئے مناسب ہیں جو اخلاق کی بلند ترین درجہ پر فائز ہو جس کے دین اور امت کو فتح مبین سے سرفراز کیا گیا ہو۔ یہاں تک کہ آپ کا دین اس مقام تک پہنچ گیا جہاں تک سورج طلوع ہوتا اور غروب ہوتا ہے۔ آپ کی امت نے بڑے بڑے شہروں کو شمشیر و سناں کے ذریعے سے اور لوگوں کے دلوں کو علم و ایمان کے ذریعے سے فتح کرلیا۔ تمام معاند قومیں اور شاہان کفار اسلام کے خلاف متحد رہے اور اس کی روشنی کو بجھانے اور روئے زمین سے اس کو نیست و نابود کرنے کے لئے سازشیں کرتے رہے مگر دین ظاہر اور غالب ہو کر رہا، دین بڑھتا ہی رہا اس کے دلائل و براہین ظاہر ہوتے رہے۔ ہر وقت دین کی ایسی نشانیاں ظاہر ہوتی رہی ہیں جو تمام جہانوں کے لئے عبرت، اہل علم کے لئے ہدایت اور فراست مندوں کے لئے روشنی اور بصیرت ہیں۔ والحمد اللہ وحدہ القصص
52 اللہ تبارک و تعالیٰ قرآن کی عظمت، صداقت اور حقانیت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ حقیقت کا علم رکھنے والے اہل علم ہی اس کو پہچانتے، اس پر ایمان لاتے اور اس کی حقانیت کا اقرار کرتے ہیں، چنانچہ فرمایا : ﴿الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ مِن قَبْلِهِ﴾ ” جن لوگوں کو ہم نے اس سے پہلے کتاب دی تھی۔“ اس سے مراد وہ اہل تورات اور اہل انجیل ہیں جنہوں نے اپنی کتاب میں تغیر و تبدل نہیں کیا۔ ﴿ هُم بِهِ﴾ وہی اس قرآن اور قرآن کے لانے والے پر ﴿يُؤْمِنُونَ﴾ ” ایمان رکھتے ہیں۔“ القصص
53 ﴿وَإِذَا يُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ﴾ ” اور جب ان کے سامنے اس قرآن کو پڑھا جاتا ہے“ تو اسے غور سے سنتے ہیں اور اس کے سامنے سرتسلیم خم کردیتے ہیں۔ ﴿قَالُوا آمَنَّا بِهِ إِنَّهُ الْحَقُّ مِن رَّبِّنَا ﴾ ” تو کہتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان لے آئے بے شک وہ ہمارے رب کی طرف سے برحق ہے“ کیونکہ یہ ان کتابوں کے موافق ہے جنہوں نے انبیاء ورسل لے کر مبعوث ہوئے ہیں اور ان کتابوں میں جو کچھ مذکور ہے اس کے عین مطابق ہے، سچی خبروں اور حکمت پر مبنی اوامرونواہی پر مشتمل ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کی شہادت مفید اور ان کا قول نفع مند ہے۔ وہ جو کچھ بھی کہتے ہیں، علم و بصیرت کی بنیاد پر کہتے ہیں کیونکہ وہ اہل خبر اور اہل کتاب ہیں۔ ان کے علاوہ دیگر لوگوں کا قرآن کو رد کرنا اور اس کی مخالفت کرنا ان کے لئے حجت ہونا تو کجا، وہ کسی شبہ پر بھی دلالت نہیں کرتا کیونکہ وہ لوگ جاہل یا حق کے بارے میں معاند متجاہل ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿قُلْ آمِنُوا بِهِ أَوْ لَا تُؤْمِنُوا إِنَّ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ مِن قَبْلِهِ إِذَا يُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ يَخِرُّونَ لِلْأَذْقَانِ سُجَّدًا﴾ (بنی اسرائیل : 17؍ 107) ” کہہ دیجئے کہ تم اس پر ایمان لاؤ یا نہ لاؤ، جن لوگوں کو اس سے پہلے علم دیا گیا ہے جب ان کے سامنے اسے پڑھا جاتا ہے تو وہ منہ کے بل سجدوں میں گرجاتے ہیں۔ “ اور ان کا قول ہے : ﴿ إِنَّا كُنَّا مِن قَبْلِهِ مُسْلِمِينَ﴾ ” ہم تو اس کے پہلے سے مطیع ہیں۔“ اسی لئے جب اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایمان اور اسلام سے سرفراز فرمایا تو ہم اس پر ثابت قدم رہے، ہم نے اس قرآن کی تصدیق کی اور ہم پہلی اور آخری کتاب پر ایمان لائے، ہمارے علاوہ دیگر لوگ جب اس کتاب کی تکذیب کرتے ہیں تو ان کی یہ تکذیب پہلی کتاب پر ایمان کے متناقض ہے۔ القصص
54 ﴿أُولَـٰئِكَ﴾ ” یہی لوگ“ یعنی جو دونوں کتابوں پر ایمان لائے۔ ﴿يُؤْتَوْنَ أَجْرَهُم مَّرَّتَيْنِ﴾ ” ان کو دو بار اجر عطا کیا جائے گا“ ایک اجر پہلی کتاب پر ایمان لانے پر اور ایک اجر دوسری کتاب پر ایمان لانے پر ﴿ بِمَا صَبَرُوا ﴾ اس کا سبب یہ ہے کہ انہوں نے اپنے ایمان پر صبر کیا اور عمل پر ثابت قدم رہے کوئی شبہ ان کے ایمان کو منزلزل کرسکا نہ کوئی ریاست و شہوت ان کو اپنے ایمان سے ہٹاسکی ﴿وَ﴾ ” اور“ وہ اپنے بہترین خصائل، جو ان کے ایمان صحیح کے آثار ہیں، کے ذریعے سے بے شک وہ ﴿وَيَدْرَءُونَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ﴾ ” برائی کو بھلائی کے ساتھ دفع کرتے ہیں۔“ یعنی ہر ایک کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا اور ان کی عادت اور طریقہ ہے۔ یہاں تک کہ جو کوئی قول و فعل کے ذریعے سے ان کے ساتھ برا سلوک کرتا ہے تو یہ اچھی بات اور اچھے فعل کے ذریعے سے ان کا مقابلہ کرتے ہیں کیونکہ انہیں اس خلق عظیم کی فضیلت کا اچھی طرح علم ہے اور انہیں یہ بھی علم ہے کہ اس خلق عظیم کی توفیق کسی خوش قسمت ہی کو حاصل ہوتی ہے۔ القصص
55 ﴿وَإِذَا سَمِعُوا اللَّغْوَ﴾ ” اور جب وہ کوئی فضول بات سنتے ہیں“ کسی جاہل شخص سے جو ان سے لغو گفتگو کرتا ہے ﴿قَالُوا﴾ تو وہ رحمان کے عقلمند بندوں کی مانندان سے کہتے ہیں : ﴿لَنَا أَعْمَالُنَا وَلَكُمْ أَعْمَالُكُمْ﴾ ” ہمارے لئے ہمارے اعمال ہیں اور تمہارے لئے تمہارے اعمال“۔ یعنی ہر شخص کو اسی اکیلے کے عمل کی جزا دی جائے گی اس پر کسی دوسرے کے عمل کا بوجھ نہیں ہوگا۔ اس سے لازم آتا ہے کہ وہ جہلاء کے لغو اور باطل کاموں اور بے فائدہ کلام سے بچے ہوئے ہیں۔ ﴿سَلَامٌ عَلَيْكُمْ﴾ ” سلامتی ہو تم پر“ یعنی تم لوگ ہم سے بھلائی کے سوا کچھ نہیں سنو گے اور نہ ہم تم سے تمہاری جہالت کے تقاضے کے مطابق مخاطب ہوں گے۔ کیونکہ تم اگرچہ اپنے لئے اس کمینگی پر راضی ہو مگر ہم اپنے آپ کو اس کمینے رویے سے پاک رکھتے ہیں اور اس میں ملوث ہونے سے بچتے ہیں۔ ﴿لَا نَبْتَغِي الْجَاهِلِينَ﴾ ” ہم (کسی معاملے) میں جاہلوں سے نہیں الجھتے“۔ القصص
56 اللہ تبارک و تعالیٰ رسول مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آگاہ کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ آپ۔۔۔ اور آپ کے علاوہ لوگ بدرجہ اولیٰ۔۔۔ کسی کو ہدایت دینے کا کوئی اختیار نہیں رکھتے خواہ وہ آپ کو کتنا ہی زیادہ محبوب کیوں نہ ہو، کیونکہ یہ ایسا معاملہ ہے جو مخلوق کے اختیار میں نہیں۔ ہدایت کی توفیق اور قلب میں ایمان جاگزیں کرنا اللہ تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں ہے وہ جسے چاہتا ہے ہدایت سے سرفراز کرتا ہے اور وہ خوب جانتا ہے کہ کون ہدایت کا اہل ہے پس اسے ہدایت عطا کردیتا ہے اور کون ہدایت عطا کئے جانے کا اہل نہیں پس اسے اس کی گمراہی میں سرگرداں چھوڑ دیتا ہے۔ رہا اللہ تعالیٰ کے ارشاد : ﴿وَإِنَّكَ لَتَهْدِي إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ﴾ (الشوریٰ: 42؍52) ” اور بلاشبہ آپ صراط مستقیم کی طرف رہنمائی کر رہے ہیں“ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے ہدایت کا اثبات، تو یہ ہدایت بیان و ارشاد ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صراط مستقیم کو واضح کرتے ہیں لوگوں کو اس پر چلنے کی ترغیب دیتے ہیں اور لوگوں کو اس پر گامزن کرنے کی بھرپور جدوجہد کرتے ہیں۔ رہی یہ بات کہ آیا آپ دلوں میں ایمان پیدا کرنے پر قادر ہیں اور فعل کی توفیق عطا کرسکتے ہیں۔۔۔ تو حاشا و کلا ! ایسا ہرگز نہیں۔۔۔ لہذا اگر آپ اس پر قادر ہوتے تو آپ اس شخص کو ضرور ہدایت سے سرفراز فرماتے، جس نے آپ پر احسان فرمایا تھا، جس نے آپ کو اپنی قوم سے بچایا اور آپ کی مدد کی۔۔۔ یعنی آپ کا چچا ابو طالب۔۔۔ مگر آپ نے ابو طالب کو دین کی دعوت دی اور کامل خیر خواہی کے ساتھ اس پر احسان کیا اور یہ اس احسان سے بہت زیادہ ہے جو آپ کے چچا نے آپ کے ساتھ کیا مگر حقیقت یہ ہے کہ ہدایت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ القصص
57 اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ قریش میں سے اہل تکذیب اور دیگر اہل مکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا کرتے تھے : ﴿إِن نَّتَّبِعِ الْهُدَىٰ مَعَكَ نُتَخَطَّفْ مِنْ أَرْضِنَا ﴾ ” اگر ہم تمہارے ساتھ ہدایت کی پیروی کریں تو ہم اپنے ملک سے اچک لئے جائیں“۔ یعنی ہمیں قتل کرکے، قیدی بناکر اور ہمارا مال و متاع لوٹ کر زمین سے اچک لیا جائے گا کیونکہ لوگ آپ سے عداوت رکھتے ہیں اور آپ کی مخالفت کرتے ہیں، لہٰذا اگر ہم نے آپ کی اتباع کی تو ہمیں تمام لوگوں کی دشمنی کا سامنا کرنا پڑے گا اور ہم لوگوں کی دشمنی مول نہیں لے سکتے۔ ان کا یہ کلام اللہ تعالیٰ کے بارے میں ان کے سوء ظن پر دلالت کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے دین کو فتح و نصرت سے نوازے گا نہ اپنے کلمہ کو بلند کرے گا، بلکہ اس کے برعکس وہ لوگوں کو اپنے دین کے حاملین پر غالب کرے گا جو انہیں بدترین عذاب میں مبتلا کریں گے اور وہ سمجھتے تھے کہ باطل حق پر غالب آجائے گا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کی حالت بیان کرتے اور لوگوں کی بجائے ان کے اختصاص کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : ﴿أَوَلَمْ نُمَكِّن لَّهُمْ حَرَمًا آمِنًا يُجْبَىٰ إِلَيْهِ ثَمَرَاتُ كُلِّ شَيْءٍ رِّزْقًا مِّن لَّدُنَّا ﴾ ” کیا ہم نے پرامن حرم کو ان کا جائے قیام نہیں بنایا جہاں ہماری طرف سے رزق کے طور پر ہر طرح کے پھل کھنچے چلے آتے ہیں؟“ یعنی کیا ہم نے انہیں حرم میں اصحاب اختیار نہیں بنایا جہاں نہایت کثرت سے لوگ پے در پے آتے ہیں اور زائرین اس کی زیارت کا قصد کرتے ہیں۔ قریب والے اور بعید والے سب لوگ اس کا احترام کرتے ہیں۔ حرم کے رہنے والوں کو خوف زدہ نہیں کیا جاتا اور لوگ انہیں کم یا زیادہ کوئی نقصان نہیں پہنچاتے۔ حالانکہ ان کے اردگرد ہر جگہ خوف میں گھری ہوئی ہے اور وہاں کے رہنے والے محفوظ ہیں نہ مامون۔ اس لئے انہیں اپنے رب کی حمد و ثناء بیان کرنی چاہیے کہ اس نے انہیں کامل امن سے نوازا جو دوسروں کو میسر نہیں، انہیں اس رزق کثیر پر اپنے رب کا شکر ادا کرنا چاہیے جو ہر طرف سے پھلوں، کھانوں اور دیگر سازوسامان کی صورت میں ان کے پاس پہنچاتا ہے جس سے یہ متمتع ہوتے ہیں اور انہیں فراخی اور کشادگی حاصل ہوتی ہے۔ انہیں چاہیے کہ وہ اس رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع کریں تاکہ انہیں امن تام اور فراخی سے نوازا جائے۔ القصص
58 وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تکذیب اور اللہ تعالیٰ کی نعمت پر اترانے سے بچیں ورنہ ان کا امن خوف سے، ان کی عزت ذلت سے اور ان کی دولت مندی فقر سے بدل جائے گی۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے گزشتہ قوموں کو ان کی بداعمالیوں کی جو سزا دی ہے ان کو بھی اس سزا سے ڈرایا ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿وَكَمْ أَهْلَكْنَا مِن قَرْيَةٍ بَطِرَتْ مَعِيشَتَهَا﴾ ” اور کتنی ہی بستیوں کو ہم نے تباہ و برباد کردیا جو اپنی معیشت پر اترایا کرتی تھیں“ یعنی یہ بستیاں اپنی معیشت پر فخر کرتی تھیں اور غفلت میں مبتلا تھیں اور ان کے رہائشی اللہ تعالیٰ کے رسول پر ایمان لانے کی بجائے اپنی خوشحالی میں مشغول رہے تو اللہ تعالیٰ نے ان کو ہلاک کر ڈالا، ان سے نعمت چھین لی اور ان پر عذاب نازل کیا ﴿فَتِلْكَ مَسَاكِنُهُمْ لَمْ تُسْكَن مِّن بَعْدِهِمْ إِلَّاقَلِيلًا﴾ یعنی ان پر لگاتار ہلاکت نازل ہونے، ان کے جان و مال کے تلف ہونے اور ان کے بعد ان کی بستیوں کے اجڑ جانے کے بعد وہ کبھی آباد نہ ہوئیں۔ ﴿وَكُنَّا نَحْنُ الْوَارِثِينَ﴾ ” اور ہم ہی ان کے وارث ہوئے“۔ یعنی ہم بندوں کے وارث ہیں، ہم انہیں موت دیں گے اور وہ تمام نعمتیں ہماری طرف لوٹ آئیں گی جو ہم نے ان کو عطا کی تھیں پھر ہم ان کو واپس اپنی طرف لوٹائیں گے اور ان کو ان کے اعمال کی جزا و سزادیں گے۔ القصص
59 یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی حکمت اور رحمت ہے کہ وہ قوموں پر ان کے مجرو کفر کی بناء پر، ان پر حجت قائم کرنے اور ان کی طرف رسول مبعوث کرنے سے قبل، عذاب نازل نہیں کرتا۔ بنا بریں فرمایا : ﴿ وَمَا كَانَ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرَىٰ﴾ ” اور تمہارا رب بستیوں کو ہلاک نہیں کیا کرتا۔“ یعنی ان کے کفر اور ظلم کی بناء پر ﴿حَتَّىٰ يَبْعَثَ فِي أُمِّهَا﴾ ” جب تک ان کے بڑے شہر میں نہ بھیج لے۔“ یعنی اس بستی اور شہر میں، جہاں سے وہ گزرتے ہیں، جہاں وہ آتے جاتے رہتے ہیں، ان بستیوں کے اردگرد پھرتے رہتے ہیں اور ان سے ان کی خبریں اور واقعات مخفی نہیں رہتے ہیں۔ ﴿رَسُولًا يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِنَا﴾ ” رسول جو ان پر ہماری آیتیں پڑھتا“۔ جو اس وحی کی صحت پر دلالت کرتیں جسے رسول لے کر آیا اور اس کی دعوت کی تصدیق کرتی تھیں اور اللہ کا رسول ان کے قریب اور دور سب کو اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچاتا تھا۔ اس کے برعکس دور دراز بستیوں اور زمین کے دور دراز گوشوں میں، رسولوں کا مبعوث ہونا ان پر مخفی رہ سکتا ہے، مگر بڑے بڑے شہروں میں ان اخبار و واقعات کا شائع ہونا زیادہ یقینی ہے اور غالب حالات میں شہروں کے باشندوں میں دوسروں کی نسبت جفا کم ہوتی ہے۔ ﴿وَمَا كُنَّا مُهْلِكِي الْقُرَىٰ إِلَّا وَأَهْلُهَا ظَالِمُونَ﴾ ” اور ہم بستیوں کو ہلاک نہیں کیا کرتے مگر اسی وقت جب کہ وہاں کے باشندے ظالم ہوں“۔ یعنی انہوں نے کفر اور معاصی کا ارتکاب کرکے ظلم کیا اور سزا کے مستحق ٹھہرے۔ حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی کو اس کے ظلم کی بناء پر اور اس پر حجت قائم کرنے کے بعد ہی عذاب دیتا ہے۔ القصص
60 اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے بندوں کو دنیا میں زہد کی ترغیب دی ہے نیز انہیں خبردار کیا ہے کہ وہ دنیا کے دھوکے میں نہ آئیں اور یہ کہ وہ آخرت میں رغبت رکھیں، نیز اس نے آخرت کو بندے کا مطلوب و مقصود قرار دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ سب کچھ جو مخلوق کو عطا کیا گیا ہے، مثلاً سونا چاندی، حیوانات، مال و متاع، عورتیں، بیٹے، ماکولات، مشروبات اور لذات صرف دنیا کی متاع اور اس کی زینت ہیں۔ بندہ جن سے بہت تھوڑے وقت کے لئے متمتع ہوتا ہے وہ بہت ہی تھوڑی سی متاع ہے جو تکدر سے گھری ہوئی اور غم و اندوہ سے لبریز ہے۔ بندہ نہایت قلیل مدت کے لئے فخر وریا کے طور پر اس دنیا سے اپنے آپ کو آراستہ کرتا ہے پھر جلد ہی یہ دنیا زائل اور تمام کی تمام ختم ہوجاتی ہے اور اس دنیا سے محبت کرنے والا حسرت، ندامت، ناکامی اور حرماں نصیبی کے سوا اس دنیا سے کچھ حاصل نہیں کر پاتا۔ ﴿وَمَا عِندَ اللّٰـهِ﴾ ” اور جو اللہ کے پاس ہے“۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے پاس ہمیشہ رہنے والی نعمتیں اور ہر قسم کے تکدر سے محفوظ زندگی ﴿خَيْرٌ وَأَبْقَىٰ﴾ اپنے اوصاف اور کمیت کے اعتبار سے بہتر ہے وہ زندگی دائمی، سرمدی اور ابدی ہے۔ ﴿أَفَلَا تَعْقِلُونَ ﴾ کیا تم لوگوں میں عقل نہیں جس کے ذریعے سے تم دونوں امور کے مابین موازنہ کرسکو کہ کون سی زندگی ترجیح دیئے جانے کی مستحق ہے اور کون سی زندگی اس بات کی زیادہ مستحق ہے کہ اس کے لئے بھاگ دوڑ کی جائے۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ بندہ اپنی عقل کے مطابق، آخرت کو دنیا پر ترجیح دیتا ہے اور اگر کوئی آخرت پر دنیا کو ترجیح دیتا ہے تو اس کا باعث اس کی کم عقلی ہے۔ القصص
61 بنابریں اللہ تعالیٰ نے انسانی عقلوں کو اس طرف توجہ دلائی ہے کہ وہ دنیا کو ترجیح دینے والوں کے انجام اور آخرت کو ترجیح دینے والوں کے انجام کے مابین موازنہ کریں، چنانچہ فرمایا : ﴿فَمَن وَعَدْنَاهُ وَعْدًا حَسَنًا فَهُوَ لَاقِيهِ﴾ ” بھلا جسے ہم نے کوئی اچھا وعدہ دیا ہو اور وہ اسے پانے والا ہو“ کیا وہ مومن جو آخرت کے لئے کوشاں ہے، اپنے رب کے وعدۂ ثواب یعنی جنت کے لئے عمل پیرا ہے جس میں بڑی بڑی نعمتیں عطا ہوں گی اور بلاشبہ یہ وعدہ ضرور پورا ہوگا کیونکہ یہ ایک کریم ہستی کی طرف سے کیا گیا وعدہ ہے جس کا وعدہ سچا ہوتا ہے، وہ اپنے اس بندے سے کبھی وعدہ خلافی نہیں کرتی جو اس کی رضا پر چلتا ہے اور اس کو ناراض کرنے والے امور سے اجتناب کرتا ہے۔ ﴿كَمَن مَّتَّعْنَاهُ مَتَاعَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ﴾ ” اس شخص کی مانند ہوسکتا ہے جسے ہم نے دنیاوی زندگی کے سروسامان سے نوازا ہو“ جو اس دنیا کو حاصل کرتا ہے وہ کھاتا پیتا اور اس سے یوں متمتع ہوتا ہے جیسے جانورمتمتع ہوتے ہیں؟ یہ شخص اپنی آخرت سے غافل ہو کر اپنی دنیا میں مشغول ہے اس نے ہدایت الٰہی کی کوئی پروا کی نہ انبیاء و مرسلین کی اطاعت کی۔ یہ اپنے اسی رویے پر جما ہوا ہے۔ اس دنیا سے اس نے جو کچھ زاد راہ سمیٹا ہے وہ ہلاکت اور خسارے کے سوا کچھ نہیں۔ ﴿ثُمَّ هُوَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنَ الْمُحْضَرِينَ﴾ ” پھر قیامت کے دن وہ ان لوگوں میں ہوگا جو حاضر کئے جائیں گے“۔ یعنی پھر حساب کتاب کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کیا جائے گا۔ اسے معلوم ہے کہ اس کے دامن میں کوئی بھلائی نہیں، اس کے پاس جو کچھ ہے وہ سب اس کے لئے نقصان دہ ہے۔۔۔ کیا تم جانتے ہو اس کا کیا انجام ہوگا؟ اور اس کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا۔۔۔ عقل مند شخص کو وہی چیز اختیار کرنی چاہیے جو اختیار کئے جانے کی مستحق ہے اور اسی چیز کو ترجیح دینا چاہیے جو ترجیح دیئے جانے کے قابل ہے۔ القصص
62 اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ وہ قیامت کے روز خلائق سے چند سوال کرے گا: 1۔۔۔ اصولی چیزوں کے بارے میں سوال کرے گا۔ 2۔۔۔ اللہ تعالیٰ ان سے اپنی عبادت کے بارے میں سوال کرے گا۔ 3۔۔۔ اور انہوں نے اس کے رسولوں کو کیا جواب دیا اس بارے میں سوال کرے گا۔ چنانچہ فرمایا : ﴿يَوْمَ يُنَادِيهِمْ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ ان مشرکین کو پکار کر کہے گا جنہوں نے اس کے شریک بنائے، وہ ان کی عبادت کرتے رہے، جلب منفعت اور دفع ضرر میں ان پر امیدیں رکھتے رہے۔ اللہ تعالیٰ مخلوقات کے سامنے انہیں اس لئے پکار کر کہے گا تاکہ ان کے سامنے ان کے معبودوں کی بے بسی اور خود ان کی گمراہی ظاہر ہوجائے۔ ﴿فَيَقُولُ أَيْنَ شُرَكَائِيَ ﴾ ” پس وہ )اللہ تعالیٰ( فرمائے گا کہ میرے وہ شریک کہاں ہیں؟“ حالانکہ اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک نہیں اللہ تعالیٰ کی یہ ندا ان کے زعم اور ان کی بہتان طرازی پر طنز کے طور پر ہوگی، اس لئے فرمایا : ﴿الَّذِينَ كُنتُمْ تَزْعُمُونَ ﴾ ” جن کا تمہیں دعویٰ تھا“۔ تمہارے مزعومہ معبود اپنی ذات کے ساتھ کہاں ہیں اور کہاں ہے ان کی نفع دینے اور نقصان دینے کی طاقت؟ القصص
63 اور یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ اس وقت ان کے سامنے یہ بات اچھی طرح عیاں ہوجائے گی کہ جن خود ساختہ معبودوں کی وہ عبادت کرتے رہے ہیں جن پر ان کو بہت امیدیں اور توقعات تھیں، سب باطل اور کمزور تھے اور وہ امیدیں بھی بے ثمر تھیں جو انہوں نے ان معبودوں سے وابستہ کر رکھی تھیں وہ اپنے بارے میں ضلالت اور بے راہ روی کا اعتراف کریں گے۔ بنابریں ﴿قَالَ الَّذِينَ حَقَّ عَلَيْهِمُ الْقَوْلُ﴾ ” وہ لوگ جن پر عذاب کی بات واجب ہوجائے گی کہیں گے“ کفر و شرک میں ان کی قیادت کرنے والے سردار اپنے پیروکاروں کو گمراہ کرنے کا اقرار کرتے ہوئے کہیں گے ﴿ رَبَّنَا هَـٰؤُلَاءِ ﴾ ” اے ہمارے رب یہی“ وہ پیروکار ہیں ﴿الَّذِينَ أَغْوَيْنَا أَغْوَيْنَاهُمْ كَمَا غَوَيْنَا﴾ ” جن کو ہم نے بد راہ کیا، ہم نے ان کو اسی طرح بدراہ کیا جس طرح ہم خود بدراہ ہوئے“۔ یعنی گمراہی اور بدراہی میں ہم میں سے ہر ایک شریک ہے اور اس پر عذاب واجب ہوگیا۔ وہ کہیں گے : ﴿ تَبَرَّأْنَا إِلَيْكَ﴾ یعنی ہم ان کی عبادت سے بری الذمہ ہیں ہم ان سے اور ان کے عمل سے براءت کا اظہار کرتے ہیں۔ ﴿ مَا كَانُوا إِيَّانَا يَعْبُدُونَ﴾ ” یہ ہمیں نہیں پوجتے تھے“۔ یہ لوگ تو شیاطین کی عبادت کیا کرتے تھے۔ القصص
64 ﴿ وَقِيلَ﴾ ” کہا جائے گا“ ان سے ﴿ ادْعُوا شُرَكَاءَكُمْ ﴾ ” اپنے ان معبودوں کو بلا لو“ جن سے تمہیں کوئی نفع پہنچنے کی امید تھی چنانچہ مصیبت کی ایسی گھڑی میں ان کو اپنے مزعومہ معبودوں کو بلانے کا حکم دیا جائے گا جس میں عابد اپنے معبود کو پکارنے پر مجبور ہوتا ہے۔ ﴿فَدَعَوْهُمْ ﴾ ” پس وہ ان کو پکاریں گے“ تاکہ وہ ان کو کوئی فائدہ پہنچائیں یا ان کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچائیں ﴿فَلَمْ يَسْتَجِيبُوا لَهُمْ ﴾ ” مگر وہ ان کو کوئی جواب نہ دیں گے“ تب کفار کو معلوم ہوجائے گا کہ وہ جھوٹے اور سزا کے مستحق ہیں۔ ﴿وَرَأَوُا الْعَذَابَ﴾ ” اور وہ اس عذاب کو دیکھیں گے“ جو ان کے آنکھوں دیکھتے نازل ہوگا جس کو وہ جھٹلایا اور اس کا انکار کیا کرتے تھے۔ ﴿لَوْ أَنَّهُمْ كَانُوا يَهْتَدُونَ﴾ ” کاش وہ ہدایت یاب ہوتے“۔ تو ان کو اس عذاب کا سامنا نہ کرنا پڑتا اور انہیں جنت کے راستے کی طرف راہنمائی حاصل ہوتی، جیسے انہیں دنیا میں رہنمائی حاصل ہوئی تھی، مگر اس کے برعکس وہ دنیا میں راہ راست پر گامزن نہ ہوئے، اس لئے آخرت میں انہیں جنت کا راستہ نہیں ملا۔ القصص
65 ﴿وَيَوْمَ يُنَادِيهِمْ فَيَقُولُ مَاذَا أَجَبْتُمُ الْمُرْسَلِينَ﴾ ” اور جس روز اللہ ان کو پکارے گا اور کہے گا کہ تم نے رسولوں کو کیا جواب دیا تھا؟“ یعنی آیا تم نے ان کی تصدیق کرکے ان کی اتباع کی یا تم نے ان کی تکذیب کرکے ان کی مخالفت کر راستہ اختیار کیا؟ القصص
66 ﴿فَعَمِيَتْ عَلَيْهِمُ الْأَنبَاءُ يَوْمَئِذٍ فَهُمْ لَا يَتَسَاءَلُونَ﴾ یعنی انہیں اس سوال کا جواب بن نہیں پڑے گا اور نہ انہیں صواب کا راستہ ہی ملے گا اور یہ بھی اچھی طرح معلوم ہے کہ اس مقام پر صریح اور صحیح جواب دیئے بغیر ان کی جان نہیں چھوٹے گی۔ یعنی اپنے احوال کے مطابق انہیں بتانا پڑے گا کہ انہوں نے ایمان اور اطاعت کے ساتھ رسولوں کی آواز پر لبیک کہی تھی، مگر جب انہیں اپنے رسولوں کو جھٹلانے کے رویے، ان کے ساتھ اپنے عناد اور ان کے احکام کی مخالفت کے بارے میں معلوم ہوگا تو وہ کچھ نہیں بولیں گے اور نہ ایک دوسرے سے پوچھ سکیں گے کہ کیا جواب دیں خواہ جواب جھوٹا ہی کیوں نہ ہو۔ القصص
67 اللہ تبارک و تعالیٰ مخلوق سے ان کے معبود اور ان کے رسولوں کے بارے میں اپنے سوال کا ذکر کرنے کے بعد اس طریق کا ذکر کرتا ہے جس کے ذریعے سے بندہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچ سکتا ہے۔ بے شک صرف وہی شخص نجات حاصل کرسکتا ہے جو شرک اور معاصی سے توبہ کرتا ہے، اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتا ہے، اس کی عبادت کرتا ہے، اس کے رسولوں پر ایمان لاتا ہے، ان کی تصدیق کرتا ہے، نیک عمل کرتا ہے اور اپنے اعمال میں رسولوں کی اتباع کرتا ہے۔ ﴿فَعَسَىٰ أَن يَكُونَ ﴾ ” پس امید ہے کہ وہ ہوں“ یعنی وہ لوگ جن میں یہ تمام خصائل جمع ہیں۔ ﴿مِنَ الْمُفْلِحِينَ﴾ ” کامیاب ہونے والوں میں سے“۔ اپنا مطلوب و مقصود حاصل کرنے اور خوف سے نجات پانے میں کامیاب ہونے والے۔ پس متذکرہ بالا امور کے بغیر فلاح کا کوئی راستہ نہیں۔ القصص
68 اللہ تبارک و تعالیٰ ذکر فرماتا ہے کہ اس نے تمام مخلوقات کو پیدا کیا پھر ان میں اپنی مشیت نافذ کی اور وہ اپنے اختیار میں متفرد ہے۔ وہ اشخاص، او امر، ازمان اور اماکن میں سے جو چاہتا ہے چن کر مختص کرلیتا ہے کسی کو اس معاملے میں کوئی اختیار نہیں۔ اللہ تعالیٰ ان تمام شریکوں، مددگاروں، اولاد اور بیوی وغیرہ سے منزہ اور مبرا ہے جنہیں یہ مشرکین اس کا شریک ٹھہراتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان تمام امور کو خوب جانتا ہے جنہیں یہ اپنے سینوں میں چھپاتے ہیں اور جنہیں یہ ظاہر کرتے ہیں۔ وہ اکیلا ہی دنیا و آخرت میں اپنی صفات جمال و کمال اور اپنی مخلوق پر احسان و اکرام کی بناء پر مستحق عبادت اور لائق ستائش ہے۔ وہی دنیا و آخرت میں فیصلے کرنے والا ہے، دنیا میں اپنے حکم کو فی و قدری کے مطابق فیصلے کرتا ہے جو تمام مخلوق میں جاری و ساری ہیں اور وہ اپنے حکم دینی کے مطابق فیصلے کرتا ہے جس سے تمام شرائع او امر و نواہی وجود میں آتے ہیں۔ وہ آخرت میں بھی اپنے حکم قدری و جزائی کے مطابق فیصلے کرے گا۔ القصص
69 القصص
70 اس لئے فرمایا : ﴿وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ﴾ ” اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے“۔ تب وہ تمام میں سے ہر ایک کو اس کے اچھے اور برے عمل کی جزا دے گا۔ القصص
71 یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے بندوں پر احسان ہے۔ وہ ان کو اس احسان پر شکر ادا کرنے، اس کی عبودیت اور حق کو قائم کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ بے شک اس نے اپنی بے پایاں رحمت کی وجہ سے ان کے لئے دن بنایا تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کا فضل تلاش کریں اور دن کی روشنی میں اپنے رزق اور معیشت کی طلب میں زمین میں پھیل جائیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے رات پیدا کی تاکہ وہ اس میں سکون پائیں ان کے بدن، دن بھر کی تگ و دو کے بعد آرام کرکے تھکاوٹ کو دور کریں۔ یہ بندوں پر اس کا فضل و کرم اور اس کی رحمت ہے۔۔۔ کیا مخلوق میں سے کوئی ایسی ہستی ہے جو ایسا کرنے پر قادر ہو؟ ﴿إِن جَعَلَ اللّٰـهُ عَلَيْكُمُ اللَّيْلَ سَرْمَدًا إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ مَنْ إِلَـٰهٌ غَيْرُ اللّٰـهِ يَأْتِيكُم بِضِيَاءٍ أَفَلَا تَسْمَعُونَ﴾ ” اگر اللہ تم پر قیامت کے دن تک ہمیشہ رات ہی طاری کر دے گا تو اللہ کے سوا کوئی الٰہ ہے جو تمہیں روشنی لا دیتا کیا تم سنتے نہیں؟“ اللہ کی نصیحتوں اور آیتوں کو سمجھنے اور قبول کرنے کی غرض سے؟ القصص
72 اور ﴿ إِن جَعَلَ اللّٰـهُ عَلَيْكُمُ النَّهَارَ سَرْمَدًا إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ مَنْ إِلَـٰهٌ غَيْرُ اللّٰـهِ يَأْتِيكُم بِلَيْلٍ تَسْكُنُونَ فِيهِ أَفَلَا تُبْصِرُونَ ﴾ ” اگر اللہ تم پر قیامت کے دن تک ہمیشہ دن ہی طاری کردے تو اللہ کے سوا کوئی الٰہ ہے جو تمہارے لئے رات لے آتا جس میں تم آرام کرسکتے؟ کیا تم دیکھتے نہیں“ عبرت کے مواقع اور آیات الٰہی کی جگہیں تاکہ تمہاری بصیرت روشن رہے اور تم صراط مستقیم پر گامزن رہو۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے رات کی آیت مبارکہ میں فرمایا : ﴿أَفَلَا تَسْمَعُونَ﴾ ” کیا تم سنتے نہیں؟“ اور دن کی آیت مبارکہ میں فرمایا : ﴿أَفَلَا تُبْصِرُونَ ﴾ ” کیا تم دیکھتے نہیں؟“ اس کی وجہ یہ ہے کہ رات کے وقت سماعت کا حاسہ، بصارت کے حاسہ کی نسبت زیادہ قوی ہوتا ہے اور دن کے وقت بصارت کا حاسہ زیادہ قوی ہوتا ہے۔ ان آیات کریمہ میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ بندے کو چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غوروفکر کرے، ان میں بصیرت حاصل کرے اور ان کے وجود اور عدم وجود کے مابین موازنہ کرے۔ جب وہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے وجود اور ان کے عدم وجود کے مابین مواز نہ کرے گا تو اس کی عقل کو اللہ تعالیٰ کے احسان و عنایت پر تنبہ حاصل ہوگا۔ اس کے برعکس جو کوئی عادت کی پیروی کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ یہ ایسا معاملہ ہے جو ہمیشہ سے اسی طرح چلا آرہا ہے اور اسی طرح چلتا رہے گا اور اس کا دل اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر اس کی حمد و ثناء سے خالی اور اس حقیقت کی روایت سے بے بہرہ ہے کہ وہ ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا محتاج ہے۔۔۔ تو وہ ایسا شخص ہے جس کے دل میں کبھی شکر اور ذکر کا خیال پیدا نہیں ہوتا۔ القصص
73 القصص
74 جس روز اللہ تعالیٰ مشرکین کو اور ان لوگوں کو۔۔۔ جو غیر اللہ کو اس کا ہمسر ٹھہراتے ہیں، جو یہ سمجھتے ہیں کہ الوہیت میں غیر اللہ کا حصہ ہے اور ان کے یہ خود ساختہ معبود عبادت کے مستحق ہیں اور نفع و نقصان دینے کی طاقت رکھتے ہیں۔۔۔ پکارے گا۔ پس جب قیامت کا دن ہوگا تو اللہ تعالیٰ مشرکین کی جسارت، ان کے زعم کاذب اور ان کی خود اپنے آپ کی تکذیب کو ظاہر کرنا چاہے گا۔ ﴿ يُنَادِيهِمْ فَيَقُولُ أَيْنَ شُرَكَائِيَ الَّذِينَ كُنتُمْ تَزْعُمُونَ ﴾ ” تو ان کو پکار کر پوچھے گا کہ میرے وہ شریک کہاں ہیں جن کو تم ” شریک سمجھتے تھے“۔ یہ نفس امر میں شریک نہیں بلکہ ان کے زعم باطل کے مطابق شریک ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿وَمَا يَتَّبِعُ الَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللّٰـهِ شُرَكَاءَ إِن يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِنْ هُمْ إِلَّا يَخْرُصُونَ﴾ )یونس : 10؍66 )” اور وہ لوگ جو اللہ کے سوا اپنے خود ساختہ شریکوں کو پکارتے ہیں وہ تو محض اپنے وہم و گمان کے پیرو ہیں اور وہ صرف قیاس آرائیاں کر رہے ہیں“۔ القصص
75 جب یہ مشرکین اور ان کے معبود ان باطل اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہوں گے تو اللہ تعالیٰ ﴿ مِن كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيدًا﴾ ” ہر امت میں سے ایک گواہ“ یعنی جھٹلانے والی ہر امت میں سے ایک گواہ کھڑا کرے گا جو دنیا میں ان کے کرتوتوں، ان کے شرک اور ان کے اعتقادات پر گواہی دے گا اور یہ منتخب لوگ ہوں گے یعنی ہم جھٹلانے والوں کے سرداروں میں سے کچھ لوگوں کو منتخب کرلیں گے جو اپنی طرف سے اور اپنے بھائیوں کی طرف سے جھگڑیں گے کیونکہ وہ ایک ہی راستے پر چلتے رہے ہیں اور جب وہ محاکمہ کے لئے سامنے آئیں گے ﴿فَقُلْنَا هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ﴾ ” تو ہم (ان سے) کہیں گے اپنی دلیل لاؤ“ یعنی اپنے شرک کی صحت پر حجت و برہان کہ آیا ہم نے تمہیں اس شرک کا حکم دیا؟ کیا میرے رسولوں نے تمہیں اس کا حکم دیا؟ یا اس شرک کے جواز کے بارے میں تم نے میری کتابوں میں کچھ لکھا ہوا پایا؟ کیا ان خود ساختہ شریکوں میں کوئی ایسا ہے جو الوہیت کا مستحق ہو؟ کیا یہ معبود تمہیں کوئی فائدہ دے سکتے ہیں ؟ یا تم سے اللہ تعالیٰ کے عذاب کو ہٹانے میں تمہارے کوئی کام آسکتے ہیں؟ اگر ان میں کوئی اہلیت ہے تو وہ یہ کام کر دیکھیں وہ تم سے عذاب الٰہی کو دور کریں اگر وہ ایسا کرنے کی قدرت رکھتے ہیں۔ ﴿ فَعَلِمُوا﴾ ” تب وہ جان لیں گے“ اپنے قول کے بطلان و فساد کو اور انہیں یہ بھی معلوم ہوجائے گا ﴿ أَنَّ الْحَقَّ لِلّٰـهِ ﴾ ” کہ حق اللہ ہی کے لئے ہے“ خصومت ان کی طرف رخ کرلے گی۔ ان کی حجت ناکام اور اللہ تعالیٰ کی حجت غالب آجائے گی۔ ﴿وَضَلَّ عَنْهُم مَّا كَانُوا يَفْتَرُونَ ﴾ ”جو جھوٹ اور بہتان انہوں نے گھڑا تھا سب مضمحل، ناپید اور معدوم ہوجائے گا“۔ انہیں معلوم ہوجائے گا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں انصاف کیا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے صرف اسی شخص کو سزا دی ہے جو اس کا مستحق اور اہل ہے۔ القصص
76 اللہ تبارک و تعالیٰ قارون کے احوال اور اس کے کرتوتوں اور ان کرتوتوں کی پاداش میں اس کے ساتھ جو کیا گیا، اس کے ساتھ خیر خواہی اور جو اسے نصیحت کی گئی تھی ان سب کے بارے میں خبر دیتا ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿إِنَّ قَارُونَ كَانَ مِن قَوْمِ مُوسَىٰ﴾ یعنی قارون، بنی اسرائیل میں سے تھا جن کو تمام جہانوں پر فضیلت اور اپنے دور میں ان کو سب پر فوقیت دی گئی تھی۔ اللہ تعالیٰ، نے ان کو اپنے احسانات سے نوازا پس ان کا حال استقامت سے مناسبت رکھتا تھا، مگر قارون اپنی قوم کے راستے سے منحرف ہوگیا، اس نے ان پر ظلم کیا اور سرکشی کی راہ اختیار کی کیونکہ بڑے بڑے امور اس کے سپرد کئے تھے۔ ﴿وَآتَيْنَاهُ مِنَ الْكُنُوزِ ﴾ ” ہم نے اسے (مال و دولت بہت سے) خزانے عطا کئے تھے“ ﴿ مَا إِنَّ مَفَاتِحَهُ لَتَنُوءُ بِالْعُصْبَةِ أُولِي الْقُوَّةِ﴾ ” ان (خزانوں) کی کنجیاں ایک طاقتور ” عصبہ“ کو اٹھانی مشکل ہوتیں۔“ (عُصْبَۃٌ)کا اطلاق سات سے دس تک کی تعداد پر ہوتا ہے، یعنی حتیٰ کہ خزانوں کی کنجیاں اٹھانا ایک طاقتور جماعت کے لئے بھی بہت بھاری تھا۔ یہ تو تھیں ان خزانوں کی کنجیاں،تب ان خزانوں کے بارے میں آپ کاکیاخیال ہے؟﴿إِذْ قَالَ لَهُ قَوْمُهُ﴾ اس کی خیر خواہی کرتے اور اسے سرکشی سے ڈراتے ہوئے : ﴿ لَا تَفْرَحْ إِنَّ اللّٰـهَ لَا يُحِبُّ الْفَرِحِينَ﴾ یعنی اس دنیاوی شان وشوکت پر خوش ہو نہ اس پر فخر کر کہ یہ تجھے آخرت سے غافل کر دے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ اترانے والوں، فخر کرنے والوں اور دنیا کی محبت میں مشغول ہونے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ القصص
77 ﴿وَابْتَغِ فِيمَا آتَاكَ اللّٰـهُ الدَّارَ الْآخِرَةَ﴾ یعنی تجھے آخرت کے لئے ایسے مالی وسائل حاصل ہیں جو دوسروں کو حاصل نہیں لہٰذا ان وسائل کے ذریعے سے وہ کچھ طلب کر جو اللہ تعالیٰ کے پاس ہے، اللہ کی راہ میں صدقہ کر محض لذات و شہوات کے حصول پر اقتصار نہ کر ﴿ وَلَا تَنسَ نَصِيبَكَ مِنَ الدُّنْيَا ﴾ ” اور دنیا سے اپن حصہ نہ بھلا۔“ ہم تجھے یہ نہیں کہتے کہ تو اپنا سارا مال صدقہ کر دے اور خود ضائع ہوجا، بلکہ اپنی آخرت کے لئے خرچ کر اور اپنی دنیا سے اس طرح فائدہ اٹھا جس سے تیرے دین کو نقصان پہنچے نہ تیری آخرت خراب ہو۔ ﴿وَأَحْسِن﴾ ”اور بھلائی کر“ اللہ تعالیٰ کے بندوں سے ﴿ كَمَا أَحْسَنَ اللّٰـهُ إِلَيْكَ﴾ ” جیسے اللہ تعالیٰ نے (تجھے یہ مال و دولت عطا کر کے) تیرے ساتھ بھلائی کی ہے۔“ ﴿وَلَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِي الْأَرْضِ﴾ اور تکبر کے ساتھ، اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں اور منعم کو فراموش کر کے نعمتوں میں مشغول ہو کر زمین میں فساد برپا نہ کر ﴿إِنَّ اللّٰـهَ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ﴾ ” کیونکہ اللہ فساد کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔“ ملکہ فساد برپا کرنے پر انہیں سخت سزا دیتا ہے۔ القصص
78 ﴿قَالَ﴾ قارون نے اپنی قوم کی خیر خواہی کو ٹھکراتے اور اپنے رب کی نا شکری کرتے ہوئے کہا ﴿إِنَّمَا أُوتِيتُهُ عَلَىٰ عِلْمٍ عِندِي﴾ ” یہ (مال) مجھے میرے علم کی وجہ سے ملا ہے۔“ یعنی یہ ملا و دولت میں نے اپنے کسب مختلف مکاسب کے بارے میں اپنی معرفت اور مہارت کے ذریعے سے حاصل کیا ہے۔ یا اس بنا پر یہ مال مجھے حاصل ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو میرے حال کا علم ہے اور وہ جانتا ہے کہ میں اس مال و دولت کا اہل ہوں تب تم اس چیز کے بارے میں مجھے کیوں نصیحت کرتے ہو جو اللہ تعالیٰ نے مجھے عطا کر رکھی ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس حقیقت کو واضح کرتے ہوئے کہ اللہ کی عطا و بخش اس بات کی دلیل نہیں کہ جس کو عطا کیا جا رہا ہے اس کے احوال اچھے ہیں فرمایا : ﴿أَوَلَمْ يَعْلَمْ أَنَّ اللّٰـهَ قَدْ أَهْلَكَ مِن قَبْلِهِ مِنَ الْقُرُونِ مَنْ هُوَ أَشَدُّ مِنْهُ قُوَّةً وَأَكْثَرُ جَمْعًا﴾ ” کیا اس کو معلوم نہیں کہ اللہ نے اس سے پہلے بہت سی امتیں، جو اس سے قوت میں بڑھ کر اور جمعیت میں بیشتر تھیں، ہلاک کر ڈالی ہیں؟“ پس دوسرے زمانوں کے لوگوں کو ہلاک کرنے سے کون سی چیز مانع ہے حالانکہ ان جیسے اور ان سے بھی بڑے لوگوں کو ہلاک کرنے کے متعلق ہماری سنت اور اصول۔۔۔جب وہ ایسے افعال کا ارتکاب کرتےہیں جوان کی ہلاکت کےموجب ہوتے ہیں۔ گزرچکےہیں؟﴿ وَلَا يُسْأَلُ عَن ذُنُوبِهِمُ الْمُجْرِمُونَ﴾ ’’اور گناہ گاروں سے ان کے گناہوں کےمتعلق پوچھا نہیں جائےگا۔“ بلکہ اللہ تعالیٰ ان کو سزا دیتا ہے اور ان کی بد اعمالیوں پر ان کو عذاب میں مبتلا کرتا ہے۔ پس اگر وہ اپنے بارے میں حسن احوال کا دعویٰ کرتے ہیں اور ان احوال کو ذریعہء نجات سمجھتے ہیں تو ان کا یہ دعویٰ قابل قبول نہیں اور یہ دعویٰ ان سے عذاب کو دور نہیں کرسکے گا۔ کیونکہ ان کے کرتوت چھپے ہوئے نہیں ہیں اس لئے ان کا انکار بے محل ہے۔ القصص
79 قارون اپنے عناد اور سرکشی پر جما رہا اس نے تکبر اور غرور کی بنا پر اپنی قوم کی خیر خواہی کو قبول نہ کیا، وہ خود پسندی میں مبتلا تھا، جو مال و دولت اسے عطا کیا گیا تھا اس نے اسے دھوکے میں ڈال رکھا تھا۔ ﴿ فَخَرَجَ﴾ ایک روز باہر آیا ﴿عَلَىٰ قَوْمِهِ فِي زِينَتِهِ﴾ ” اپنی قوم کے لوگوں کے سامنے بڑی ٹھاٹھ باٹھ سے“ یعنی وہ اپنے بہترین دنیاوی حال میں اپنی قوم کے سامنے آیا، اس کے پاس بہت زیادہ مال و دولت تھا وہ پوری طرح تیار ہو کر اور پوری سج دھج کے ساتھ، اپنی قوم کے سامنے آیا۔ اس قسم کے لوگوں کی یہ سج دھج، عام طور پر بہت ہی مرعوب کن ہوتی ہے جس میں دنیاوی زیب و زینت، اس کی خوبصورتی، اس کی شان و شوکت، اس کی آسودگی اور اس کا تفاخرسب شامل ہوتے ہیں۔ قارون کو اس حالت میں انکھوں نے دیکھا، اس کے لباس کی ہیئت نے دلوں کو لبریز کردیا اور اس کی سج دھج نے نفوس کو اپنی طرف کھینچ لیا۔ دیکھنے والے دو گرہوں میں منقسم ہوگئے ہر گروہ نے اپنے اپنے عزم و ہمت اور اپنی اپنی رغبت کے مطابق تبصرہ کیا۔ ﴿قَالَ الَّذِينَ يُرِيدُونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا﴾ یعنی وہ لوگ جن کے ارادے صرف دنیاوی شان وشوکت ہی سے متعلق ہیں، دنیا ہی کی منتہائے رغبت ہے اور دنیا کے سوا ان کا کوئی مقصد نہیں انہوں نے کہا: ﴿يَا لَيْتَ لَنَا مِثْلَ مَا أُوتِيَ قَارُونُ﴾ ” کاش ہمیں بھی وہ )دنیاوی سازو سامان اور اس کی خوبصورتی( عطا کردی جاتی جس سے قارون کو نوازا گیا ہے۔ “ ﴿إِنَّهُ لَذُو حَظٍّ عَظِيمٍ﴾ ” بے شک وہ تو بڑا ہی صاحب نصیب ہے۔“ اگر ان کی رغبتوں کا منتہائے مقصود یہی ہے کہ اس دنیا کی زندگی کے بعد کوئی اور زندگی نہیں تو وہ کہنے میں حق بجانب تھے کہ وہ تو بڑے نصیبے والا ہے کیونکہ وہ دنیا کی بہترین نعمتوں سے بہرہ ور ہے جن کے ذریعے سے وہ اپنی زندگی کے مطالب و مقاصد کے حصول پر قادر تھا۔ یہ عظیم حصہ لوگوں کے ارادوں کے مطابق تھا۔ یہ ان لوگوں کے ارادے اور ان کے مقاصد و مطالب ہیں جو نہایت گھٹیا ہمتوں کے مالک ہیں، جن کے ارادے اعلٰی مقاصد و مطالب کی طرف ترقی کرنے سے قاصر ہیں۔ القصص
80 ﴿وَقَالَ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ﴾’’اور جن لوگوں کو علم دیا گیا تھا وہ کہنے لگے۔“ یعنی جنہوں نے اشیاء کے حقائق کو پہچانا اور دنیا کے باطن )بے ثباتی( کو مد نظر رکھا ہوا تھا۔ جبکہ ان لوگوں کی نظر دنیا کے ظاہر) زیب و زینت( پر تھی﴿وَيْلَكُمْ﴾ ” تم پر افسوس“ ان کے حال کو دیکھتے، ان کی تمناؤں پر دکھ محسوس کرتے اور ان کی بات پر نکیر کرتے ہوئے کہا : ﴿ثَوَابُ اللّٰـهِ﴾ ثواب عاجل یعنی اللہ تعالیٰ کی عبادت، اس کی محبت کی لذت، اس کی طرف انابت، اس کی طرف اقبال اور ثواب آخرت یعنی جنت کی نعمتیں اور جو کچھ اس میں ہے کہ نفس جن کی خواہش کرتے اور آنکھیں لذت حاصل کرتی ہیں ﴿ خَيْرٌ ﴾ ” بہتر ہے“ اس چیز سے جس کی تم تمنا کر رہے ہو اور جس کی طرف تم رغبت رکھتے ہو۔ یہ تو ہے معاملے کی اصل حقیقت، مگر اس حقیقت کا علم رکھنے والے سب لوگ تو اس کی طرف توجہ نہیں کرتے ﴿إِلَّا الصَّابِرُونَ ﴾ اس کی توفیق صرف ان لوگوں کو عطا کی گئی ہے جو صبر سے بہرہ ور ہیں اور جن لوگوں نے نافرمانی کو چھوڑ کر اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا پابند کر رکھا ہے، جو اللہ تعالیٰ کی تکلیف دہ قضا و قدر پر صبر کرتے ہیں، جو اپنے رب کو فراموش کر کے دنیا کی پرکشش لذات و شہوات میں مشغول ہوتے ہیں نہ یہ لذات و شہوات ان کے ان مقاصد کی راہ میں حائل ہوتی ہیں جن کے لئے ان کو پیدا کیا گیا ہے.... یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے ثواب کو اس دنیائے فانی پر ترجیح دیتے ہیں۔ القصص
81 جب قارون کی سرکشی اور فخر کی حالت انتہا کو پہنچ گئی اور اس کے سامنے دنیا پوری طرح آراستہ ہوگئی اور دنیا نے اس کو بے انتہا تکبر اور غرور میں ڈال دیا تو اس کو اچانک عذاب نے آلیا۔ ﴿فَخَسَفْنَا بِهِ وَبِدَارِهِ الْأَرْضَ ﴾ ” پس ہم نے سزا کے طور پر اس کو اور اس کے گھر کو زمین میں دھنسا دیا“ سزا اس کے عمل کی جنس میں سے تھی۔ جس طرح وہ اپنے آپ کو اللہ کے بندوں سے بلند سمجھتا تھا اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اسے، اس کے گھر اور مال و دولت سمیت، جس نے سے فریب میں مبتال کر رکھا تھا، انتہائی پستیوں میں اتار دیا ﴿ فَمَا كَانَ لَهُ مِن فِئَةٍ﴾ ” اس کی کوئی جماعت نہ تھی۔‘‘ یعنی کوئی جماعت، گروہ، خدام اور افواج نہ تھیں ﴿ يَنصُرُونَهُ مِن دُونِ اللّٰـهِ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُنتَصِرِينَ﴾ ” اللہ کے سوا جو اس کی مدد کرتی اور نہ وہ بدلہ لے سکا۔“ یعنی عذاب الٰہی آپہنچا کسی نے اس کی مدد کی نہ وہ کسی سے مدد حاصل کرسکا۔ القصص
82 ﴿وَأَصْبَحَ الَّذِينَ تَمَنَّوْا مَكَانَهُ بِالْأَمْسِ﴾ ” اور وہ لوگ جو کل اس کے مقام و مرتبے کی تمنا کرتے تھے۔“ یعنی وہ لوگ جو دنیا کی زندگی کے خواہش مند تھے اور کہا کرتے تھے : ﴿ يَا لَيْتَ لَنَا مِثْلَ مَا أُوتِيَ قَارُونُ ﴾ ” کاش ہمیں بھی وہ کچھ مل جاتا جو قارون کو عطا کیا گیا ہے۔‘‘ ﴿يَقُولُونَ ﴾ ” وہ کہنے لگے“ دکھ محسوس کرتے، عبرت پکڑتے اور ڈرتے ہوئے کہ کہیں وہ بھی عذاب کی گرفت میں نہ آجائیں : ﴿وَيْكَأَنَّ اللّٰـهَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَيَقْدِرُ﴾ ” ہماری حالت پر افسوس ! اللہ اپنے بندوں سے جس کا چاہے رزق وسیع کردیتا ہے اور جس کا چاہے تنگ کردیتا ہے“ تب ہمیں معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے قارون کے رزق میں فراخی، اس بات کی دلیل نہیں کہ اس میں اس میں کوئی بھلائی ہے، اور ہم یہ کہنے میں حق بجانب نہ تھے ﴿ إِنَّهُ لَذُو حَظٍّ عَظِيمٍ ﴾ ” قارون تو بڑے ہی نصیبے والا ہے۔ “ ﴿لَوْلَا أَن مَّنَّ اللّٰـهُ عَلَيْنَا ﴾ ” اگر ہم پر اللہ کی عنایت نہ ہوتی“ تو وہ ہماری بات پر ہماری گرفت کرلیتا اور اگر اس کا فضل و کرم نہ ہوتا ﴿لَخَسَفَ بِنَا ﴾ ” تو وہ ہمیں بھی زمین میں دھنسا دیتا“۔ قارون کی ہلاکت اس کے لئے سزا اور دوسروں کے لئے عبرت اور نصیحت تھی۔ حتیٰ کہ وہ لوگ بھی، جو قارون پر رشک کیا کرتے تھے نادم ہوئے اور قارون کے بارے میں ان کا نقطہ نظر بدل گیا۔ ﴿وَيْكَأَنَّهُ لَا يُفْلِحُ الْكَافِرُونَ﴾ ” اور حقیقت یہی ہے کہ کافر فلاح نہیں پائیں گے“ یعنی دنیا و آخرت میں۔ القصص
83 اللہ تبارک و تعالیٰ نے قارون اور جو کچھ اس کو عطا کیا گیا اور اس کے انجام کا ذکر کیا نیز اہل علم کے اس قول سے آگاہ فرمایا : ﴿ ثَوَابُ اللّٰـهِ خَيْرٌ لِّمَنْ آمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا﴾ ” اس شخص کے لئے اللہ کا ثواب بہتر ہے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرے۔“ پھر اللہ تعالیٰ نے آخرت کی ترغیب اور وہ سبب بیان فرمایا جو آخرت کے گھر تک پہنچاتا ہے۔ فرمایا : ﴿ تِلْكَ الدَّارُ الْآخِرَةُ﴾ ” آخرت کا یہ گھر“ جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے اپنی کتابوں میں خبر دی، اس کے رسولوں نے آگاہ کیا، جس میں ہر نعمت جمع کردی گئی اور جہاں سے ہر تکدر کو دور کردیا گیا ہے ﴿نَجْعَلُهَا ﴾ ہم اس کو گھر اور ٹھکانا بنا دیں گے ﴿لِلَّذِينَ لَا يُرِيدُونَ عُلُوًّا فِي الْأَرْضِ وَلَا فَسَادًا ۚ وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ﴾ ” ان لوگوں کے لئے جو زمین میں اپنی بڑائی چاہتے ہیں نہ فساد کرتے ہیں“ یعنی ان کا زمین میں فساد کرنے کا ارادہ تک نہیں تو پھر زمین میں اللہ تعالیٰ کے بندوں پر بڑائی حاصل کرنے کی کوشش کرنا، ان کے ساتھ تکبر سے پیش آنا اور حق کے بارے میں تکبر کا رویہ رکھنا تو بہت دور کی بات ہے۔ ﴿وَلَا فَسَادًا﴾ ” اور نہ فساد“ اور یہ تمام معاصی کو شامل ہے۔ جب ان کا زمین میں بڑائی حاصل کرنے اور فساد برپا کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تو اس سے یہ بات لازم آئی کہ ان کے ارادے اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی میں مصروف، آخرت کا گھر ان کا مطلوب و مقصود، اللہ کے بندوں کے ساتھ تواضع سے پیش آنا ان کا حال ہے، وہ حق کی اطاعت اور عمل صالح میں مشغول رہتے ہیں۔ یہی وہ اہل تقویٰ ہیں، جن کے لئے اچھا انجام ہے بنا بریں فرمایا : ﴿وَالْعَاقِبَةُ﴾ یعنی فلاح اور کامیابی دائمی طور پر ان لوگوں کا حال ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں۔ ان کے علاوہ دیگر لوگ اگرچہ ان کو کچھ غلبہ اور راحت حاصل ہوتی ہے مگر یہ لمبی مدت کے لئے نہیں ہوتی، جلد ہی زائل ہوجاتی ہے۔ آیت کریمہ میں اس حصر سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جو لوگ زمین میں بڑائی یا فساد کا ارادہ کرتے ہیں ان کے لئے آخرت کے گھر میں کوئی حصہ نہیں۔ القصص
84 اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم کے کئی گنا زیادہ ہونے اور اپنے عدل کامل کے بارے میں آگے فرماتا ہے : ﴿مَن جَاءَ بِالْحَسَنَةِ﴾ ” جو شخص نیکی لے کر آئے گا۔“ اس میں شرط عائد کی گئی ہے عامل نیکی کے ساتھ آئے کیونکہ کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ انسان کوئی نیکی کرتا ہے اور اس نیکی کے ساتھ کچھ ایسے اعمال بھی ہوتے ہیں جو قابل قبول نہیں ہوتے یا وہ اس نیکی کو باطل کردیتے ہیں.... تو یہ شخص در حقیقت نیکی لے کر اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر نہیں ہوتا۔ (اَلْحَسَنَةُ) ” نیکی“ یہاں اسم جنس ہے جو ان تمام امور کو شامل ہے جن کا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا ہے مثلاً حقوق اللہ اور حقوق العباد سے متعلق تمام اقوال اور تمام ظاہری اور باطنی اعمال ﴿فَلَهُ خَيْرٌ مِّنْهَا﴾ ” تو اس کے لیے اس سے بہتر نیکی ملے گی‘‘ یعنی اس کی جز ازیادہ بڑی اور زیادہ جلیل القدر ہے ایک اور آیت کریمہ میں آتا ہے ﴿فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا﴾ (الانعام : 6؍26) ” اس کے لئے ویسی ہی دس نیکیاں ہیں۔ “ نیکی کا اس طرح کئی گنا ہونا لازمی امر ہے۔ بسا اوقات اس کے ساتھ کچھ اسباب مقرون ہوتے ہیں جو اس کو اور زیادہ کردیتے ہیں : ﴿وَاللّٰـهُ يُضَاعِفُ لِمَن يَشَاءُ وَاللّٰـهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ﴾ (البقرۃ: 2؍261) ” اللہ جس کی نیکیوں کو چاہتا ہے کئی گنا کردیتا ہے، وہ بہت وسعت والا اور جاننے والا ہے۔“ اور یہ اضافہ نیکی کرنے والے کے حال، اس کے اس نیک عمل، اس عمل کے فائدے اور اس کے محل و مقام کے مطابق ہوتا ہے۔ ﴿وَمَن جَاءَ بِالسَّيِّئَةِ ﴾ ” اور جو شخص برائی لے آئے“ یہاں )السَّيِّئَةِ ( ” برائی“ سے مراد ہر وہ کام ہے جس کو شرع نے حرام ٹھہرا کر اس سے روک دیا ہو ﴿فَلَا يُجْزَى الَّذِينَ عَمِلُوا السَّيِّئَاتِ إِلَّا مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ﴾ ” تو ایسے لوگوں کو برائیوں کا اتنا ہی بدلہ ملے گا جس قدر انہوں نے کی ہوں گی“ یہ آیت کریمہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی مانند ہے : ﴿ مَن جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا وَمَن جَاءَ بِالسَّيِّئَةِ فَلَا يُجْزَىٰ إِلَّا مِثْلَهَا وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ ﴾ )الانعام : 6؍160)” جو کوئی اللہ کے حضور ایک نیکی لے کر آئے گا تو اس کے لئے ویسی ہی دس نیکیاں ہیں اور جو کوئی ایک برائی لے کر حاضر ہوگا تو اس کو صرف اتنی ہی سزا ملے گی جتنی اس نے برائی کی ہے اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔ “ القصص
85 اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿ إِنَّ الَّذِي فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ ﴾ ” جس (اللہ) نے تم پر قرآن (کے احکام) کو فرض کیا ہے۔“ یعنی جس ہستی نے آپ پر قرآن نازل کیا، اس میں احکام فرض کئے، اس میں حلال اور حرام کو واضح کیا ہے۔“ آپ کو اسے تمام لوگوں لوگوں تک پہنچانے کا حکم دیا، نیز آپ کو حکم دیا کہ آپ تمام مکلفین کو ان احکام پر عمل کرنے کی دعوت دیں اس اللہ تعالیٰ کی حکمت کے لائق نہیں کہ صرف اسی دنیا کی زندگی ہوتی اور بندوں کو جزا و سزا نہ دی جاتی، بلکہ ضروری ہے کہ وہ آپ کو (معاد) ” انجام کار“ کی طرف لوٹائے جہاں نیکو کاروں کو ان کی نیکی کی جزا دی جائے اور بد کاروں کو ان کے گناہوں کی سزا۔ آپ نے ان کے سامنے ہدایت کو کھول کھول کر بیان کردیا اور ہدایت کے راستے کو واضح کردیا ہے اب اگر وہ آپ کی پیروی کریں تو یہ ان کی خوش نصیبی اور سعادت مندی ہے اور اگر وہ آپ کی مخالفت پر ڈٹ جائیں، اس ہدایت میں جرح و قدح کریں جسے آپ لے کر آئے ہیں اور اپنے باطل موقف کو حق پر ترجیح دیں تو بحث کی کوئی گنجائش نہیں رہتی اور غیب و موجود کا علم رکھنے والی اس ہستی کی طرف سے ان کے اعمال کی جزا کے سوا کچھ باقی نہیں رہتا جو حق کا احقاق اور باطل کا ابطال کرتی ہے۔ بنابریں فرمایا : ﴿ قُل رَّبِّي أَعْلَمُ مَن جَاءَ بِالْهُدَىٰ وَمَنْ هُوَ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ ﴾ اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ اس کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود راہ راست پر گامزن اور راہ راست کی طرف راہنمائی کرنے والا ہے۔ اور آپ کے دشمن گمراہ اور دوسروں کو گمراہ کرنے والے ہیں۔ القصص
86 فرمایا : ﴿ وَمَا كُنتَ تَرْجُو أَن يُلْقَىٰ إِلَيْكَ الْكِتَابُ ﴾ یعنی آپ اس بات کے خواہش مند نہ تھے کہ یہ کتاب آپ پر نازل کی جاتی اور نہ اس کے لئے تیار تھے اور نہ اس کے درپے تھے ﴿ إِلَّا رَحْمَةً مِّن رَّبِّكَ ﴾ یہ تو آپ کے رب کی طرف سے آپ پر اور بندوں پر بے پایاں رحمت تھی کہ اس نے آپ کو اس کتاب کے ساتھ مبعوث کیا، اس نے تمام جہانوں پر رحم فرمایا اور انہیں وہ کچھ سکھایا جو وہ نہیں جانتے تھے، انہیں پاک کیا اور انہیں کتاب و حکمت کا علم سکھایا اگرچہ اس سے پہلے لوگ صریح گمراہی میں مبتلا تھے۔ جب آپ کو یہ معلوم ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف سے رحمت کے طور پر آپ کی طرف یہ کتاب نازل کی ہے تو آپ کو یہ بھی معلوم ہوگیا کہ وہ تمام امور جن کا للہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اور جن سے اللہ تعالیٰ نے روکا ہے سب اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کا فضل و کرم ہے، اس لئے آپ کے دل میں کسی قسم کی کچھ تنگی نہ ہو اور آپ یہ نہ سمجھیں کہ جو کچھ اس کے خلاف ہے، زیادہ درست اور زیادہ نفع مند ہے۔ ﴿ فَلَا تَكُونَنَّ ظَهِيرًا لِّلْكَافِرِينَ ﴾ یعنی کفارکے کفر پر ان کی اعانت نہ کیجئے۔ کفار کے کفر پر منجملہ اعانت یہ ہے کہ قرآن کی کسی آیت یا حکم کے بارے میں کہا جائے کہ یہ حکمت، مصلحت اور منفعت کے خلاف ہے۔ القصص
87 ﴿ وَلَا يَصُدُّنَّكَ عَنْ آيَاتِ اللّٰـهِ بَعْدَ إِذْ أُنزِلَتْ إِلَيْكَ ﴾ ” اور وہ تمہیں اللہ کی آیتوں سے بعد اس کے کہ وہ آپ پر نازل ہوچکی ہیں روک نہ دیں۔“ بلکہ اللہ تعالیٰ کی آیات کو آگے پہنچائیے ان کے احکام کو نافذ کیجئے ان کی چالوں کی پروا نہ کیجئے، کفار آپ کو ان آیات کے بارے میں فریب میں مبتلا نہ کریں اور آپ ان کی خواہشات کی پیروی نہ کیجئے۔ ﴿ وَادْعُ إِلَىٰ رَبِّكَ ﴾ یعنی اپنے رب کی طرف دعوت کو اپنا منتہائے مقصود اور اپنے عمل کی غرض و غایت بنائیے اور جو جو چیز بھی اس کے خلاف ہو اسے چھوڑ دیجئے مثلاً ریا، شہرت کی طلب اور اہل باطل کی اغراض کی موافقت وغیرہ۔ کیونکہ یہ تمام چیزیں اہل باطل کی معیت اور ان کے امور میں ان کی اعانت کی داعی ہیں ﴿ وَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُشْرِكِينَ ﴾ یعنی ان کے ساتھ ان کے شرک میں شامل ہوں نہ اس کی فروع میں۔ شرک کی فروع سے مراد تمام گناہ ہیں۔ القصص
88 ﴿ وَلَا تَدْعُ مَعَ اللّٰـهِ إِلَـٰهًا آخَرَ ﴾ ” اور اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو نہ پکارنا۔“ بلکہ اپنی عبادت کو اللہ تعالیٰ کے لئے خالص رکھئے !﴿ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ کی کامل اور ہمیشہ باقی رہنے والی ہستی کے سوا کوئی ہستی ایسی نہیں جس کو الٰہ بنایا جائے، اس سے محبت کی جائے اور اس کی عبادت کی جائے ﴿ كُلُّ شَيْءٍ هَالِكٌ إِلَّا وَجْهَهُ ﴾ ” اس کی ذات کے سوا ہر چیز فنا ہونے والی ہے۔“ جب اللہ تعالیٰ کے سوا ہر چیز مضمحل ہو کر ہلاک ہونے والی ہے تو ہلاکت کا شکار ہونے والی باطل ہستی کی عبادت بھی انتہائی باطل ہے۔ ﴿ لَهُ الْحُكْمُ﴾ دنیا و آخرت میں اسی کا حکم نافذ ہے۔ ﴿ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ ﴾ ” اور تمہیں صرف اسی کی طرف لوٹنا ہے۔“ جب اللہ تعالیٰ کے سوا ہر چیز باطل اور ہلاک ہونے والی ہے اور اللہ باقی رہنے والا ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہی تمام خلائق کا مرجع ہے تاکہ وہ ان کو ان کے اعمال کی جزا دے۔ جس شخص میں ادنیٰ سی بھی عقل ہے اس کے سامنے یہ حقیقت متعین ہوگئی کہ صرف اللہ تعالیٰ وحدہ لا شریک کی عبادت کی جائے ایسے اعمال کئے جائیں جو اس کے تقرب کا ذریعہ ہیں، اس کی ناراضی اور اس کے عذاب سے بچا جائے اور اس چیز سے بھی بچا جائے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور عدم توبہ کی حالت میں اور گناہ اور خطاؤں کو ختم کئے بغیر حاضر ہوا جائے۔ القصص
0 العنكبوت
1 آیت 1 العنكبوت
2 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی حکمت کاملہ کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے بیان فرماتا ہے کہ یہ اس کی حکمت کا تقاضا نہیں کہ جس کسی نے کہہ دیا کہ“ وہ مومن ہے“ اور وہ ایمان کا دعویٰ کرے.... اسے ایسی حالت میں باقی رکھا جائے کہ جس میں وہ آزمائش وابتلا سے سلامت رہے گا اور اسے کوئی ایسا امر پیش نہیں آئے گا جو اس کے ایمان اور اس کی فروع کو مضطرب کرے اور اگر معاملہ اسی طرح ہو تو سچے اور جھوٹے حق اور باطل میں امتیاز نہیں ہوسکتا لیکن اس کی عادت یہ رہی ہے کہ وہ اہل ایمان کو خوشحالی اور تنگدستی راحت اور مشقت بشاشت اور نا گواری فراخی اور محتاجی بعض اوقات دشمنوں کی فتح و غلبہ اور دشمنوں کے خلاف قول وفعل کے ساتھ جہاد وغیرہ جیسی آزمائشوں کے ذریعے سے آزماتا ہے جو تمام تر شبہات کے فتنے کی طرف لوٹتی ہیں جو عقیدے کی معارض ہیں اور شہوات (کے فتنے) کی طرف لوٹتی ہیں جو ارادے کی معارض ہیں۔ شبہات کے وارد ہونے کے وقت جس کسی کا ایمان مضبوط رہتا ہے اور متزلزل نہیں ہوتا اور وہ اس حق کے ذریعے سے شبہات کو دور کردیتا ہے جو اس کے پاس ہے اور شہوات کے وارد ہونے کے وقت..... جو گناہ اور معاصی کے موجب اور داعی ہیں یا وہ اسے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے حکم سے روگرداں کرتے ہیں..... وہ ایمان کے تقاضوں پر عمل کرتا ہے اپنی شہوات کے خلاف جدوجہد کرتا ہے تو یہ چیز اس کے ایمان کی صداقت اور صحت پر دلالت کرتی ہے۔ شبہات کے دارد ہونے کے وقت جس کسی کے دل میں شک وریب جڑ پکڑ لیتا ہے اور شہوات کے پیش آنے پر شہوات اسے گناہوں کی طرف موڑ دیتی یا واجبات کی ادائیگی سے روک دیتی ہیں تو یہ چیز اس کے ایمان کی عدم صحت اور عدم صداقت پر دلالت کرتی ہے۔ العنكبوت
3 اس مقام پر لوگ بہت سے درجات میں منقسم ہیں جن کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی شمار نہیں کرسکتا کچھ لوگوں کے پاس بہت قلیل ایمان اور کچھ لوگ اس سے بہت زیادہ سے بہرہ ور ہیں۔ پس ہم اللہ تعالیٰ سے سوال کرتے ہیں کہ وہ ہمیں دنیا و آخرت کی زندگی میں قول ثابت کے ذریعے سے ثابت قدمی عطا کرے اور ہمیں اپنے دین پر ثبات سے سرفراز کرے۔ ابتلاء اور امتحان نفوس انسانی کے لئے ایک بھٹی کی مانند ہے جو اچھی چیز میں سے گندگی اور میل کچیل کو نکال باہر کرتی ہے۔ العنكبوت
4 یعنی کیا ان لوگوں نے، جن کے ارادوں پر جرائم کا ارتکاب اور برے افعال غالب ہیں یہ سمجھ رکھا ہے کہ ان کے اعمال کو یونہی چھوڑ دیا جائے گا اور یہ کہ اللہ تعالیٰ ان کے بارے میں عنقریب غافل ہوجائے گا یا وہ اللہ تعالیٰ کی گرفت سے نکل بھاگیں گے۔ اسی لئے وہ گناہوں کا ارتکاب کر رہے ہیں اور ان کے لیے ان گناہوں پر عمل کرنا بہت آسان اور سہل ہے؟ ﴿ سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ ﴾ یعنی ان کا فیصلہ بہت برا ہے یہ فیصلہ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور حکمت کے انکار کو متضمن ہے نیز ان کے اس دعوے کو متضمن ہے کہ ان میں اتنی طاقت اور قدرت ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچ سکیں حالانکہ وہ سب سے کمزور اور سب سے عاجز مخلوق ہیں۔ العنكبوت
5 اے اپنے رب کے ساتھ محبت کرنے والے! اس کے قرب اور اس کی ملاقات کا اشتیاق رکھنے والے! اور اس کی رضا کے حصول کی خاطر بھاگ دوڑ کرنے والے! اپنے محبوب کی ملاقات کے وقت کے قریب آنے پر خوش ہوجا کیونکہ وہ وقت آنے والا ہے اور ہر آنے والا وقت قریب ہوتا ہے۔ اپنے محبوب کی ملاقات کے لئے زاد راہ لے کر، امید کو اپنا ساتھی بنا کر اور محبوب کے وصل کی آرزو کرتے ہوئے اس کی طرف رواں دواں ہوجا۔ مگر ہر شخص کو، اس کے دعویٰ کرنے پر عطا نہیں کردیا جاتا اور نہ اس کی ہر تمنا پوری کردی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ آوازوں کو سننے والا اور نیتوں کو جاننے والا ہے اس لئے جو کوئی اپنے دعوے اور تمناؤں میں سچا ہے اللہ تعالیٰ اس کی امیدوں کو پورا کردیتا ہے اور جو کوئی اپنے دعوے میں جھوٹا ہے اس کا دعویٰ اسے کوئی فائدہ نہیں دیتا وہ خوب جانتا ہے کہ کون اس کی محبت کا اہل ہے اور کون اس کا اہل نہیں۔ العنكبوت
6 ﴿ وَمَن جَاهَدَ ﴾جس نے اپنے نفس، شیطان اور کافر دشمن کے خلاف جہاد کیا۔ ﴿ فَإِنَّمَا يُجَاهِدُ لِنَفْسِهِ﴾ ” تو وہ اپنے ہی فائدے کے لئے جہاد کرتا ہے“ کیونکہ اس جہاد کا فائدہ اور اس کا ثمرہ اسی کی طرف لوٹتا ہے اور اللہ تو تمام جہانوں سے بے نیاز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جہاد کا حکم دیا ہے اس کا مقصد یہ نہیں کہ اس سے اسے کوئی فائدہ حاصل ہوگا اور نہ اللہ تعالیٰ نے بخل کی بنا پر بعض چیزوں سے روک رکھا ہے۔ یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ اوامرونواہی میں، مکلف جدوجہد کا محتاج ہے کیونکہ اس کا نفس طبعاً نیکی کرنے میں سستی کرتا ہے، اس کا شیطان اسے نیکی کی راہ سے روکتا ہے اور اس کا کافر دشمن اسے اقامت دین سے منع کرتا ہے ان تمام معارضات کو دور کرنے کے لئے مجاہدے اور سخت کوشش کی ضرورت ہے۔ العنكبوت
7 یعنی وہ لوگ جن کو اللہ تعالیٰ نے ایمان اور عمل صالح سے نوازا، وہ ان کے گناہوں کو ختم کر دے گا کیونکہ نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں۔ ﴿وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَحْسَنَ الَّذِي كَانُوا يَعْمَلُونَ﴾” اور ہم ان کو ان کے اعمال کا بہت اچھا صلہ دیں گے۔“ اس سے مراد اعمال خیر ہیں، مثلاً واجبات و مستحباب وغیرہ اور یہ بندے کے بہترین اعمال ہیں کیونکہ بندہ مباح کام بھی کرتا ہے۔ العنكبوت
8 یعنی ہم نے انسان کو حکم دیا اور اس کو وصیت کی ہے کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئے یعنی وہ اپنے قول و فعل میں والدین کی نافرمانی کرے نہ ان کے ساتھ برا سلوک کرے ﴿ وَإِن جَاهَدَاكَ لِتُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ﴾ ’’اور اگر وہ (والدین)دونوں تیرے در پے ہوں کہ تو میرے ساتھ کسی کو شریک بنائے جب کہ حقیقت سے تجھے واقفیت نہیں۔“ اور کسی کے پاس شرک کی صحت پر کوئی دلیل نہیں۔ اس آیت کریمہ میں شرک کے معاملے کی اہمیت کی بنا پر یہ اسلوب اختیار کیا ہے۔ ﴿ فَلَا تُطِعْهُمَا إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَأُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ ﴾ تو ان کا کہنا نہ ماننا، تم سب کو میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے، پھر جو کچھ تم کرتے تھے میں تم کو بتاؤں گا۔ پس میں تمہارے اعمال کو جزا دوں گا۔ اس لئے تم اپنے والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرو ان کی اطاعت کو ہر شخص کی اطاعت پر مقدم رکھو، سوائے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے، کیونکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت ہر چیز پر مقدم ہے۔ العنكبوت
9 جو کوئی اللہ تعالیٰ پر ایمان لایا، اس نے نیک عمل کئے اللہ تعالیٰ نے اس کے ساتھ وعدہ کر رکھا ہے کہ وہ اسے اپنے نیک بندوں کے ساتھ جنت میں داخل کرے گا، یعنی انبیاء صدیقین، شہداء اور صالحین کے ساتھ، اور اللہ تعالیٰ کے ہاں ہر ایک کا اپنا اپنا درجہ اور اپنا اپنا مرتبہ ہے۔ ایمان صحیح اور عمل صالح، بندے کی سعادت کا عنوان ہے اور بے شک وہ اہل رحمان میں سے اور اللہ کے نیک بندوں میں سے ہے۔ العنكبوت
10 جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ ذکر فرمایا کہ اس شخص کی آزمائش ہونا لازمی ہے جو ایمان کا دعویٰ کرتا ہے تاکہ سچے اور جھوٹے کے درمیان فرق ظاہر ہوجائے، تو یہ بھی واضح کردیا کہ لوگوں میں سے ایک گروہ محن و ابتلاء پر صبر نہیں کرسکتا بعض تکلیفوں اور مصیبتوں پر ثابت قدم نہیں رہ سکتا، چنانچہ فرمایا: ﴿ وَمِنَ النَّاسِ مَن يَقُولُ آمَنَّا بِاللّٰـهِ فَإِذَا أُوذِيَ فِي اللّٰـهِ ﴾ اور بعض لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں ہم اللہ پر ایمان لائے اور جب ان کو اللہ (کے راستے) میں کوئی تکلیف پہنچتی ہے۔ مار کر مال چھین کر اور عار دلا کر اسے اذیت دی جاتی ہے تاکہ وہ اپنے دین کو چھوڑ کر باطل کی طرف لوٹ آئے ﴿ جَعَلَ فِتْنَةَ النَّاسِ كَعَذَابِ اللّٰـهِ ﴾ تو لوگوں کی تکلیف (یوں) سمجھتے ہیں جیسے اللہ کا عذاب لوگوں کی ایذا رسانی انہیں متزلزل کر کے ایمان سے روک دیتی ہے جیسے عذاب انہیں اس چیز سے روک دیتا ہے جو اس عذاب کی باعث بنتی ہے۔ ﴿ وَلَئِن جَاءَ نَصْرٌ مِّن رَّبِّكَ لَيَقُولُنَّ إِنَّا كُنَّا مَعَكُمْ ﴾ اور اگر تمہارے رب کی طرف سے مدد پہنچے تو کہتے ہیں ہم تو تمہارے ساتھ تھے۔ کیونکہ یہ ان کی خواہشات نفس کے موافق ہے۔ یہ لوگوں کی اس صنف سے تعلق رکھتے ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَمِنَ النَّاسِ مَن يَعْبُدُ اللّٰـهَ عَلَىٰ حَرْفٍ فَإِنْ أَصَابَهُ خَيْرٌ اطْمَأَنَّ بِهِ ۖ وَإِنْ أَصَابَتْهُ فِتْنَةٌ انقَلَبَ عَلَىٰ وَجْهِهِ خَسِرَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةَ ذَٰلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِينُ ﴾ (الحج :22؍11) اور لوگوں میں وہ شخص بھی ہے جو کنارے پر رہ کر اللہ کی عبادت کرتا ہے اگر بھلائی پہنچے تو مطمئن ہوجاتا ہے اور کوئی مصیبت آجائے تو الٹے پاؤں پھر جاتا ہے۔ وہ دنیا و آخرت میں خسارے میں ہے اور یہ واضح خسارہ ہے۔ “ ﴿ أَوَلَيْسَ اللّٰـهُ بِأَعْلَمَ بِمَا فِي صُدُورِ الْعَالَمِينَ ﴾ ’’کیا جو جہان والوں کے سینوں میں ہے اللہ اس سے واقف نہیں؟“ اس نے تمہیں اس فریق کے بارے میں آگاہ فرمایا جن کا حال وہی ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے وصف بیان فرمایا ہے پس تم اس بات سے اس کے کامل علم اور بے پایاں حکمت کو جان سکتے ہو۔ العنكبوت
11 ﴿ وَلَيَعْلَمَنَّ اللّٰـهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَلَيَعْلَمَنَّ الْمُنَافِقِينَ ﴾ ’’اور اللہ ان کو ضرور معلوم کرلے گا جو )سچے(مومن ہیں اور منافقوں کو بھی معلوم کرلے گا“ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے آزمائش و ابتلاء مقرر کی ہے تاکہ ان کے بارے میں اپنا علم ظاہر کرے اور ان سے جو اعمال ظاہر ہوتے ہیں ان کے مطابق ان کو جزا دے اور مجرد اپنے عمل ہی پر ان کو جزا و سزا نہ دے کیونکہ اس طرح وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے حجت پیش کریں گے کہ اگر ان کو آزمایا گیا ہوتا تو وہ بھی ثابت قدم رہتے۔ العنكبوت
12 اللہ تبارک و تعالیٰ کفار کی بہتان طرازی اور اہل ایمان کو اپنے دین کی طرف ان کی دعوت کا ذکر کرتا ہے۔ اس ضمن میں اہل ایمان کو آگاہ کیا ہے کہ وہ کفار سے دھوکہ کھائیں نہ ان کی چالوں میں آئیں۔ چنانچہ فرمایا ﴿ وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِلَّذِينَ آمَنُوا اتَّبِعُوا سَبِيلَنَا ﴾ ’’اور جو کافر ہیں وہ مومنوں سے کہتے ہیں کہ ہمارے طریق کی پیروی کرو۔“ یعنی اپنے دین یا دین کے کچھ حصے کو ترک کر دو اور ہمارے دین میں ہماری پیروی کرو ہم تمام معاملے کی ذمہ داری لیتے ہیں ﴿ وَلْنَحْمِلْ خَطَايَاكُمْ﴾ اور ہم تمہاری خطاؤں کو اپنے اوپر لے لیں گے حالانکہ یہ معاملہ ان کے ہاتھ میں نہیں ہے، لہٰذا فرمایا: ﴿ وَمَا هُم بِحَامِلِينَ مِنْ خَطَايَاهُم مِّن شَيْءٍ ﴾ حالانکہ وہ ان کے گناہوں کا کچھ بھی بوجھ اٹھانے والے نہیں۔ یعنی وہ کم یا زیادہ، کچھ بھی خطائیں اپنے اوپر نہیں لے سکتے۔ خطاؤں کو اپنے ذمے لینے والا خواہ راضی ہی کیوں نہ ہو، وہ کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچا سکتا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا حق ہے اور اللہ تعالیٰ بندے کو اپنے حکم کے بغیر اپنے حق میں تصرف کی اجازت نہیں دیتا اور اس کا حکم ﴿ أَلَّا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ ﴾)النجم: 53؍38 )” کہ کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔“ کے اصول پر مبنی ہے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿ وَمَا هُم بِحَامِلِينَ مِنْ خَطَايَاهُم مِّن شَيْءٍ ﴾ سے یہ وہم بھی ہوسکتا ہے کہ اہل ایمان کو کفر وغیرہ کی طرف دعوت دینے کا کفار کو صرف وہی گناہ ہوگا جس کا انہوں نے ارتکاب کیا دوسروں کے گناہوں میں ان کا کوئی حصہ نہیں خواہ وہ دوسروں کے گناہوں کا سبب ہی کیوں نہ بنے ہوں۔۔۔ العنكبوت
13 اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس وہم کو دور کرتے ہوئے فرمایا ﴿ وَلَيَحْمِلُنَّ أَثْقَالَهُمْ ﴾ ” اور وہ اپنے بوجھ بھی اٹھائیں گے۔“ یعنی اپنے ان گناہوں کا بوجھ جن کا انہوں نے ارتکاب کیا ﴿ وَأَثْقَالًا مَّعَ أَثْقَالِهِمْ ﴾ اور اپنے بوجھ کے ساتھ اور بوجھ بھی )اٹھائیں گے( اس سے مراد وہ گناہ ہیں جو ان کے سبب سے اور ان کی جسارت کی بنا پر ان کے اعمال نامے میں لکھے گئے۔ وہ گناہ جس کا ارتکاب کوئی تابع شخص کرتا ہے اس میں تابع اور متبوع دونوں کا حصہ ہوتا ہے تابع کا حصہ اس لئے ہے کہ اس نے اس گناہ کا ارتکاب کیا اور متبوع کا حصہ اس لئے کہ وہ اس گناہ کا سبب بنا اور اس نے اس گناہ کی طرف دعوت دی۔ بالکل اسی طرح جب کوئی تابع شخص نیکی کرتا ہے تو نیکی کرنے والے کو اس کا ثواب ملتا ہے اور وہ شخص بھی اس ثواب سے بہرہ ور ہوتا ہے جس نے اسے نیکی کی دعوت دی اور نیکی کا سبب بنا۔ ﴿ وَلَيُسْأَلُنَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَمَّا كَانُوا يَفْتَرُونَ ﴾ اور جو بہتان یہ باندھتے رہے قیامت کے دن ان کی ان سے ضرور باز پرس ہوگی۔“ یعنی انہوں نے جو بری بات گھڑی ہے پھر اس کو آراستہ کیا ہے نیز ان سے ان کے اس قول ﴿ وَلْنَحْمِلْ خَطَايَاكُمْ ﴾ ” ہم تمہاری خطاؤں کو اپنے اوپر لے لیں گے۔“ کے بارے میں بھی پوچھا جائے گا۔ العنكبوت
14 اللہ تعالیٰ گزشتہ امتوں کے عذاب کی بابت اپنے حکم اور اپنی حکمت بیان کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے اور رسول حضرت نوح علیہ السلام کو ان کی قوم میں مبعوث فرمایا، جو ان کو توحید کی دعوت دیتے تھے، ان کو اکیلے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کا حکم دیتے، بتوں اور ان کے خود ساختہ معبودوں کی عبادت سے روکتے تھے۔ ﴿ فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ إِلَّا خَمْسِينَ عَامًا ﴾ ” پس وہ پچاس برس کم ایک ہزار سال ان کے درمیان رہے“ وہ نبی کی حیثیت سے ان کو دعوت دینے سے اکتائے نہ ان کی خیر خواہی سے باز آئے وہ رات دن اور کھلے چھپے ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلاتے رہے، مگر وہ رشد و ہدایت کی راہ پر نہ آئے۔ بلکہ اس کے برعکس وہ اپنے کفر اور سرکشی پر جمے رہے۔ یہاں تک کہ ان کے نبی حضرت نوح علیہ السلام نے اپنے بے انتہا صبر، حلم اور تحمل کے باوجود ان کے لئے ان الفاظ میں بد دعا کی ﴿ رَبِّ لَا تَذَرْ عَلَى الْأَرْضِ مِنَ الْكَافِرِينَ دَيَّارًا﴾ )نوح : 71؍26) اے میرے رب ! روئے زمین پر کسی کافر کو بستانہ چھوڑ۔ “ ﴿ فَأَخَذَهُمُ الطُّوفَانُ ﴾ پس ان کو طوفان نے آپکڑا“ یعنی ان کو اس پانی نے (طوفان کی صورت میں)آلیا جو بہت کثرت سے آسمان سے برسا تھا اور نہایت شدت سے زمین سے پھوٹا تھا ﴿ وَهُمْ ظَالِمُونَ ﴾ اور وہ ظالم تھے اور اس عذاب کے مستحق تھے۔ العنكبوت
15 ﴿ فَأَنجَيْنَاهُ وَأَصْحَابَ السَّفِينَةِ ﴾ ” پس ہم نے ان کو اور کشتی والوں کو نجات دی۔“ یعنی وہ لوگ جو ان کے ساتھ کشتی میں سوار ہوئے تھے یعنی ان کے گھر والے اور ان پر ایمان لانے والے دیگر لوگ ﴿ وَجَعَلْنَاهَا﴾ ’’اور ہم نے اس کو بنایا‘‘ یعنی کشتی کو یا قصہ نوح کو ﴿ اٰيَةً لِّلْعَالَمِينَ ﴾ ” تمام جہانوں کے لئے نشانی“ جس سے لوگ عبرت پکڑتے ہیں کہ جو کوئی اپنے رسولوں کی تکذیب کرتا ہے اس کا انجام ہلاکت ہے، نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو ہر غم سے نجات دیتا اور ہر تنگی سے نکلنے کی راہ دکھاتا ہے، نیز اللہ تبارک و تعالیٰ نے کشتی کو۔۔۔ یعنی کشتی کی جنس کو تمام جہانوں کے لئے نشانی بنا دیا جسے وہ اپنے رب کی رحمت سے تعبیر کرتے ہیں، جس نے ان کے لئے اس کے اسباب مہیا کئے اور اس کے معاملے کو ان کے لئے آسان بنایا اور وہ انہیں اور ان کے مال و اسباب کو ایک گوشے سے دوسرے گوشے تک اٹھائے پھرتی ہے۔ العنكبوت
16 اللہ تبارک و تعالیٰ ذکر فرماتا ہے کہ اس نے اپنے خلیل ابراہیم علیہ السلام کو ان کی قوم کی طرف مبعوث فرمایا جو ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دیتے تھے، چنانچہ انہوں نے اپنی قوم سے کہا ﴿ اعْبُدُوا اللّٰـهَ ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ کو ایک مانو صرف اسی کی عبادت کرو اور جو کچھ وہ تمہیں حکم دیتا ہے اس کی اطاعت کرو ﴿ وَاتَّقُوهُ ﴾’’اور اس سے ڈرو“ کہ وہ تم پر ناراض ہو کر تمہیں عذاب دے اور یہ اس طرح ممکن ہے کہ تم ان امور کو چھوڑ دو جو اس کی ناراضی کا بارعث ہیں ﴿ ذَٰلِكُمْ﴾ ’’یہ“ یعنی اللہ تعالیٰ کی عبادت اور تقویٰ ” تمہارے لیے بہتر ہے۔“ یعنی عبادت اور تقویٰ﴿ خَيْرٌ لَّكُمْ﴾کو اختیار کرنا ان کو ترک کرنے سے بہتر ہے۔ یہ اسم تفضیل کے ایسے باب میں سے ہے جس کے دوسری طرف کچھ نہیں ہوتا، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کا تقویٰ ترک کرنے میں کسی طرح بھی کوئی بھلائی نہیں۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت اور تقویٰ صرف اس لئے لوگوں کیلئے بہتر ہے کہ دنیا و آخرت میں اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کے تقویٰ کی وجہ سے ہے۔﴿ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ﴾ ” اگر تم اس کا علم رکھتے ہو۔“ العنكبوت
17 پس تمام امور میں خوب غور کرو اور دیکھو کہ ان میں سے کون سا امر ترجیح کے لائق ہے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت اور تقویٰ کا حکم دیا ہے اس لئے ان کو بتوں کی عبادت سے روکا ہے اور ان کے نقص اور عبودیت کے لئے ان کے عدم استحقاق کو بیان کرتے ہوئے فرمایا :﴿ إِنَّمَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللّٰـهِ أَوْثَانًا وَتَخْلُقُونَ إِفْكًا﴾ تم اللہ کو چھوڑ کر بتوں کو پوجتے ہو اور جھوٹ گھڑتے ہو۔“ تم خود اپنے ہاتھوں سے گھڑ کر ان بتوں کو تخلیق کرتے ہو پھر تم ان کے معبودوں والے نام رکھتے ہو اور پھر تم ان کی عبادت اور تمسک کے لئے جھوٹے احکام گھڑتے ہو۔﴿إِنَّ الَّذِينَ تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللّٰـهِ﴾” بے شک جن کو تم اللہ کے سواپوجتے ہو۔ وہ ناقص ہیں ان میں کوئی بھی ایسی صفت نہیں ہے جو ان کی عبادت کی مقتضی ہو۔ ﴿ لَا يَمْلِكُونَ لَكُمْ رِزْقًا﴾” وہ تمہیں رزق دینے کا اختیار نہیں رکھتے۔“ گویایوں کہا گیا ہے کہ ہم پر واضح ہوچکا ہے کہ یہ بت گھڑے ہوئے اور ناقص ہیں جو کسی نفع و نقصان کے مالک ہیں نہ موت وحیات کا اختیار رکھتے ہیں اور نہ دوبارہ اٹھانے ہی کا پس جس ذات کے یہ اوصاف ہوں وہ ذرہ بھر عبادت کی مستحق نہیں۔ قلوب ایسے معبود کے طالب ہوتے ہیں جن کی وہ عبادت کریں اور ان سے اپنی حوائج کا سوال کریں پس ان کے جواب میں اس ہستی کی عبادت کی ترغیب دی گئی ہے جو عبادت کی مستحق ہے۔﴿ فَابْتَغُوا عِندَ اللّٰـهِ الرِّزْقَ﴾ پس اللہ ہی کے ہاں رزق طلب کرو۔ کیونکہ وہی رزق میسر اور مقدر کرتا ہے اور وہی اس شخص کی دعا قبول کرتا ہے جو اپنے دینی اور دنیاوی مصالح کے لئے اس سے دعا کرتا ہے۔﴿ وَاعْبُدُوهُ﴾ اور اسی کی عبادت کرو“ جس کا کوئی شریک نہیں کیونکہ وہ کامل نفع ونقصان دینے والا اور تدبیر کائنات میں متفرد ہے۔﴿ وَاشْكُرُوا لَهُ﴾ اور اسی کا شکر کرو“۔ کیونکہ جتنی بھی تمہیں نعمتیں حاصل ہوئی ہیں یا تمام مخلوق کو حاصل ہو رہی ہیں صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں اور جو بھی مصیبت ان سے دورہوتی ہے ان کو دور کرنے والا وہی ہے ۔﴿ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ”﴾ ’’تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔“ تب وہ تمہیں تمہارے اعمال کی جزادے گا اور جو کچھ تم چھپاتے اور ظاہر کرتے رہے ہو اس کے بارے میں تمہیں آگاہ کرے گا پس تم شرک کی حالت میں اس کی خدمت میں حاضر ہونے سے بچو اور ان امور میں رغبت رکھو جو تمہیں اللہ تعالیٰ کے قریب کرتے ہیں اور جب تم اس کے پاس حاضر ہوگے تو وہ تمہیں ان پر ثواب عطا کرے گا۔ العنكبوت
18 العنكبوت
19 ﴿ أَوَلَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللّٰـهُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ﴾” کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ اللہ کس طرح خلقت کو پہلی بار پیدا کرتا ہے پھر اس کو دوبارہ پیدا کرے گا۔‘‘ یعنی قیامت کے روز اس کا اعادہ کرے گا۔ بے شک مخلوق کا اعادہ کرنا تو اللہ تعالیٰ کے لئے بہت آسان ہے یہ آیت کریمہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی مانند ہے: ﴿ وَهُوَ الَّذِي يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ ﴾ ’’وہی ہے جو تخلیق کی ابتدا کرتا ہے پھر وہ اس کا اعادہ کرے گا اور ایسا کرنا اس کے لئے زیادہ آسان ہے۔ “ العنكبوت
20 ﴿ قُلْ ﴾”آپ ان سے کہہ دیجیے !“کہ اگر انہیں ابتدائے تخلیق میں کوئی شک وشبہ ہے، تو ﴿ سِيرُوا فِي الْأَرْضِ ﴾’’آپ زمین میں چلو پھرو“ اپنے قلب وبدن کے ساتھ ﴿ فَانظُرُوا كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ﴾” پھر غور کرو کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے کا ئنات کی ابتدا کی“ تم دیکھو گے کہ انسانوں کے گروہ تھوڑا تھوڑا کر کے وجود میں آتا رہے ہیں تم دیکھو گے کہ درخت اور نباتات وقتاً فوقتًا جنم لے رہے ہیں تم بادلوں اور ہواؤں کو باؤ گے کہ وہ لگاتار اپنی تجدید کے مراحل میں رہتے ہیں بلکہ تمام مخلوق دائمی طور پر ابتدائے تخلیق اور اعادۂ تخلیق کے دائرے میں گردش کر رہی ہے ان کی موت صغریٰ یعنی نیند کے وقت ان پر غور کرو کہ رات اپنی تاریکیوں کے ساتھ ان کو ڈھانپ لیتی ہے تب تمام حرکات ساکن اور تمام آوازیں منقطع ہوجاتی ہیں۔ اپنے بستروں اور ٹھکانوں میں تمام مخلوق کی حالت یوں ہوتی ہے جیسے وہ مردہ ہوں۔ رات بھر وہ اس حالت میں رہتے ہیں حتیٰ کہ جب صبح نمودار ہوتی ہے تو وہ اپنی نیند سے بیدار اور اپنی اس عارضی موت کے بعد دوبارہ زندہ کئے جاتے ہیں اور وہ یہ کہتے ہوئے اٹھتے ہیں:(( الحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَحْيَانَا بَعْدَ مَا أَمَاتَنَا وَإِلَيْهِ النُّشُورُ))” تعریف ہے اللہ کی جس نے ہمیں مارنے کے بعد زندہ کیا اور اسی کی طرف قبر سے اٹھ کر جانا ہے۔ “ بنا بریں اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا :﴿ ثُمَّ اللّٰـهُ ﴾” پھر اللہ ہی، یعنی اس اعادہ تخلیق کے بعد ﴿ يُنشِئُ النَّشْأَةَ الْآخِرَةَ ﴾’’دوسری نئی پیدائش کرے گا۔“ یہ ایسی زندگی ہے جس میں موت ہے نہ نیند اس زندگی کو جنت یا جہنم میں خلود اور دوام حاصل ہوگا۔﴿ إِنَّ اللّٰـهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ﴾ ” بے شک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔“ اللہ تعالیٰ کی قدرت کسی چیز میں عاجز نہیں جس طرح وہ تخلیق کی ابتدا پر قادر ہے اسی طرح تخلیق کے اعادہ پر اس کا قادر ہونا زیادہ اولیٰ اور زیادہ لائق ہے۔ العنكبوت
21 ﴿ يُعَذِّبُ مَن يَشَاءُ وَيَرْحَمُ مَن يَشَاءُ﴾ وہ جسے چاہے عذاب دے اور جس پر چاہے رحم کرے۔“ یعنی حکم جزائی میں وہ متفرد ہے۔ یعنی وہ اکیلا ہے جو اطاعت کرنے والوں کو ثواب عطا کرتا ہے انہیں اپنی وسیع رحمت کے سائے میں لیتا ہے اور نافرمانوں کو عذاب دیتا ہے۔﴿ وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ﴾ ” اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے۔“ یعنی تم اس گھر کی طرف لوٹو گے جہاں تم پر اس کے عذاب یا رحمت کے احکام جاری ہوں گے۔ اس لئے اس دنیا میں نیکیوں کا اکتساب کرلو جو اس کی رحمت کا سبب ہیں اور اس کی نافرمانیوں سے دور رہو جو اس کے عذاب کا باعث ہیں۔ العنكبوت
22 ﴿ وَمَا أَنتُم بِمُعْجِزِينَ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ ﴾ اور تم اس کو زمین میں عاجز کرسکتے ہو نہ آسمان میں۔“ یعنی اے جھٹلانے والے لوگو جو گناہوں کے ارتکاب کی جسارت کرتے ہو! یہ نہ سمجھو کہ اللہ تعالیٰ تم سے غافل ہے یا تم زمین و آسمان میں اللہ تعالیٰ کو عاجز کرسکوگے۔ تمہاری قدرت واختیار تمہیں دھوکے میں نہ ڈالے۔ تمہارے نفس نے جن امورکومزین کر کے اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نجات کے بارے میں تمہیں فریب میں مبتلا کر رکھا ہے وہ تمہیں دھوکے میں نہ رکھیں۔ کائنات کے تمام گوشوں میں تم اللہ تعالیٰ کو عاجز نہ کرسکو گے۔﴿ وَمَا لَكُم مِّن دُونِ اللّٰـهِ مِن وَلِيٍّ﴾” اور نہ اللہ تعالیٰ کے سوا تمہارا کوئی دوست ہے۔“ جو تمہارے سرپرستی کرے اور تمہیں تمہارے دینی اور دنیاوی مصالح حاصل ہوں۔﴿ وَلَا نَصِيرٍ﴾” اور نہ کوئی مددگار“ جو تمہاری مدد کرے اور تمہاری تکالیف کو دور کرے۔ العنكبوت
23 اللہ تبارک وتعالیٰ ان لوگوں کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے جس سے بھلائی زائل ہوگئی اور ان کو شر حاصل ہوا۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ اس کے رسولوں اور ان کی لائی ہوئی کتابوں کا انکار کیا اور اللہ تعالیٰ سے ملاقات کو جھٹلایا ان کے پاس دنیا کے سوا کچھ نہیں اسی لئے انہوں نے شرک اور معاصی کا ارتکاب کیا کیونکہ ان کے دلوں میں کوئی ایسی چیز نہیں جو انہیں ان گناہوں کے انجام سے ڈرائے اس لئے فرمایا :﴿ أُولَـٰئِكَ يَئِسُوا مِن رَّحْمَتِي﴾” یہ لوگ میرے رحمت سے ناامید ہوگئے۔“ یعنی ان کے پاس کوئی ایسا سبب نہ ہوگا جس کے ذریعے سے وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے بہرہ ورہوں ورنہ اگر انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت کی امید ہوتی تو اس رحمت کے حصول کے لئے عمل کرتے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہونا بڑے بڑے ممنوعات میں سے ہے اور اس کی دو اقسام ہیں : (1) کفار کا اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہو کر ان تمام اسباب کو ترک کردینا جو اللہ تعالیٰ کے قریب کرتے ہیں۔ (2) گناہ گاروں کا اپنے گناہوں اور جرائم کی کثرت کے سبب اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہونا جو انہیں وحشت میں مبتلا کرکے ان کے قلوب پر حاوی ہوجاتے ہیں اور یوں ان کے قلوب میں مایوسی جنم لیتی ہے۔﴿ وَأُولَـٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ﴾ ” اور ان کے لئے درد ناک عذاب ہے۔“ یعنی تکلیف دہ اور دل دوز، گویا کہ یہ آیات حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اپنی قوم کے ساتھ کلام اور ان کی قوم کا آپ کی بات رد کرنے کے درمیان بطور جملہ معترضہ آئی ہیں۔ و اللہ اعلم۔ العنكبوت
24 یعنی جب ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قوم کو اپنے رب کی طرف بلایا تو آپ کی قوم نے آپ کی دعوت پر لبیک کہی نہ آپ کی خیر خواہی کی اور نہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کی بعثت کی نعمت کی رؤیت کو اپنا راہنما ہی بنایا۔ ان کا جواب تو بدترین جواب تھا۔﴿ قَالُوا اقْتُلُوهُ أَوْ حَرِّقُوهُ﴾ ’’انہوں نے کہا اسے مارڈالو یا جلا دو۔“ یعنی اسے بدترین طریقے سے قتل کرو۔ وہ قدرت رکھنے والے اصحاب اقتدار لوگ تھے چنانچہ انہوں نے ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈال دیا ﴿ فَأَنجَاهُ اللّٰـهُ﴾ پس اللہ تعالیٰ نے آپ کو بچا لیا آگ سے﴿ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ﴾”بے شک اس میں ایمان دار لوگوں کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں۔‘‘ پس وہ اہل ایمان اور انبیاء ورسل کی تعلیمات کی صحت ان کی نیکی اور ان کی خیر خواہی اور انبیاء ورسل کے مخالفین و معارضین کے موقف کے بطلان کو خوب جانتے تھے۔ گویا رسولوں کے مخالفین ان کی تکذیب کی ایک دوسرے کو وصیت کیا کرتے اور ایک دوسرے کو ترغیب دیا کرتے تھے۔ العنكبوت
25 ﴿ وَقَالَ﴾ا برہیم علیہ السلام نے ان کے ساتھ خیر خواہی کی وجہ سے فرمایا :﴿ إِنَّمَا اتَّخَذْتُم مِّن دُونِ اللّٰـهِ أَوْثَانًا مَّوَدَّةَ بَيْنِكُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ﴾” تم جو اللہ کو چھوڑ کر بتوں کو لیے بیٹھے ہو صرف دنیا میں باہم دوستی کے لیے۔“ اس کی غایت و انتہا بس دنیا میں دوستی اور محبت ہے جو عنقریب ختم ہوجائے گی۔ ﴿ ثُمَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكْفُرُ بَعْضُكُم بِبَعْضٍ وَيَلْعَنُ بَعْضُكُم بَعْضًا﴾” پھر قیامت کے دن تم ایک دوسرے کی دوستی کا انکار کرو گے اور ایک دوسرے پر لعنت بھیجو گے۔“ تمام عابد اور معبود ایک دوسرے سے براءت کا اظہار کریں گے۔ ﴿ وَإِذَا حُشِرَ النَّاسُ كَانُوا لَهُمْ أَعْدَاءً وَكَانُوا بِعِبَادَتِهِمْ كَافِرِينَ ﴾ (الاحقاف : 46؍6) ” اور جب لوگوں کو جمع کیا جائے گا تو یہ ان کے دشمن ہوجائیں گے اور ان کی پرستش سے صاف انکار کر جائیں گے۔“ تب تم ایسی ہستیوں سے کیونکر تعلق رکھتے ہو جو عنقریب اپنے عبادت گزاروں سے بیزاری کا اظہار کریں گی۔ ﴿ وَّ﴾ ” اور“ بے شک یعنی عابدوں اور معبودں، سب کا ٹھکانا ﴿ النَّارُ ﴾ ” جہنم ہوگا“ اور کوئی انہیں اللہ کے عذاب سے بچا سکے گا نہ ان سے اس کے عقاب کو دور کرسکے گا۔ العنكبوت
26 ابراہیم علیہ السلام اپنی قوم کو دعوت دیتے رہے اور ان کی قوم اپنے عناد پر جمی رہی۔ سوائے لوط علیہ السلام کے جو ابراہیم علیہ السلام کی دعوت پر ایمان لے آئے اللہ تعالیٰ نے لوط علیہ السلام کو نبوت سے سرفراز فرما کر ان کی قوم کی طرف مبعوث فرمایا۔ جس کا ذکر عنقریب آئے گا۔ ﴿ وَقَالَ ﴾ جب ابراہیم علیہ السلام نے دیکھا کہ ان کی دعوت کچھ فائدہ نہیں دے رہی تو کہنے لگے ﴿ إِنِّي مُهَاجِرٌ إِلَىٰ رَبِّي ﴾ ” میں اپنے رب کی طرف ہجرت کرنے والا ہوں۔” یعنی وہ برے خطہ ارض کو چھوڑ کر بابرکت سر زمین کی طرف نکل گئے.... اس سے مراد ملک شام ہے ﴿ إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ﴾ ” بے شک وہ بڑاہی غالب ہے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ جو قوت کا مالک ہے تمہیں ہدایت دینے پر قادر ہے لیکن وہ حکمت والا ہے اور اس کی حکمت ایسا کرنے کی متقضی نہیں۔ جب ابراہیم علیہ السلام اپنی قوم کو اسی حال میں چھوڑ کر چلے گئے تو اللہ تعالیٰ نے یہ ذکر نہیں فرمایا کہ اس نے ان کو ہلاک کردیا تھا بلکہ صرف یہ ذکر فرمایا کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کی قوم پر مچھروں کا دروازہ کھول دیا۔ وہ ان کا خون پی گئے، گوشت کھا گئے اور ان کے آخری آدمی تک کو ہلاک کر ڈالا اس بارے میں حتمی رائے قائم کرنے کے لئے دلیل پر توقف کرتا چاہیے جو کہ موجود نہیں ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے عذاب کے ذریعے سے ان کو تہس نہس کیا ہوتا تو ضرور اس کا ذکر فرماتا جیسے دیگر جھٹلانے والی امتوں کی ہلاکت کا ذکر فرمایا ہے۔ مگر کیا اس قصہ کا یہ راز تو نہیں کہ حضرت خلیل علیہ السلام مخلوق میں سب سے زیادہ رحیم و شفیق، سب سے زیادہ افضل، سب سے زیادہ حلیم اور سب سے زیادہ جلیل القدر لوگوں میں سے تھے۔ آپ نے کبھی اپنی قوم کے لئے بد دعا نہیں کی جیسے دیگر بعض انبیائے کرام نے بد دعا کی اور نہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے سبب آپ کی قوم پر عذاب نازل فرمایا.... اس موقف پر یہ واقعہ بھی دلالت کرتا ہے کہ جب فرشتے قوم لوط کو ہلاک کرنے کے لئے آپ کے پاس آئے تو آپ نے قوم لوط کی مدافعت کے لئے ان فرشتوں سے جھگڑا کیا حالانہ وہ آپ کی قوم نہ تھی۔ اصل صورت حال کو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔ العنكبوت
27 ﴿ وَوَهَبْنَا لَهُ إِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ ﴾ ” اور ہم نے ان کو اسحاق اور یعقوب (علیہما السلام) دئیے۔“ یعنی آپ کے ملک شام کی طرف ہجرت کر جانے کے بعد ﴿ وَجَعَلْنَا فِي ذُرِّيَّتِهِ النُّبُوَّةَ وَالْكِتَابَ ﴾ ” اور کردی ہم نے ان کی اولاد میں نبوت اور کتاب۔“ آپ کے بعد جو بھی نبی مبعوث ہوا وہ آپ کی اولاد سے تھا اور جو بھی کتاب نازل ہوئی وہ آپ کی اولاد پر نازل ہوئی حتیٰ کہ انبیاء کا سلسلہ نبی کریم حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے سے ختم کردیا گیا۔ یہ اعلیٰ ترین مناقب و مفاخر ہیں کہ ہدایت و رحمت، سعادت و فلاح اور کامیابی کا مواد آپ کی ذریت میں ہو، نیز اہل ایمان اور صالحین آپ کی اولاد کے ہاتھوں پر ایمان لائے اور انہوں نے آپ کی ذریت کے ذریعے سے ہدایت پائی۔ ﴿ وَآتَيْنَاهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيَا ﴾ ” اور ہم نے ان کو دنیا میں بھی ان کا صلہ عنایت کیا۔“ یعنی ہم نے آپ کو نہایت خوبصورت بیوی عطا کی جو حسن و جمال میں تمام عورتوں پر فوقیت رکھتی تھی، ہم نے آپ کو وسیع رزق اور اولاد سے سرفراز کیا جن سے آپ کی آنکھیں ٹھنڈی ہوئیں اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنی معرفت ،محبت وانابت سے نوازا۔﴿ وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ﴾”اور بے شک وہ آخرت میں بھی نیک لوگوں میں ہوں گے۔“ بلکہ آپ اور حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم علی الاطلاق تمام مخلوق میں سب زیادہ صالح اور سب سے زیادہ بلند منزلت تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے لئے دنیا و آخرت کی سعادت کو جمع کردیا تھا۔ العنكبوت
28 گزشتہ سطور میں گزر چکا ہے کہ حضرت لوط علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام پر ایمان لا کر ہدایت یافتہ لوگوں میں شامل ہوئے۔ مفسرین بیان کرتے ہیں کہ حضرت لوط علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ذریت میں سے نہیں بلکہ وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھتیجے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد : ﴿ وَجَعَلْنَا فِي ذُرِّيَّتِهِ النُّبُوَّةَ وَالْكِتَابَ ﴾ گرچہ عام ہے مگر حضرت لوط علیہ السلام کا نبی ہونا حالانکہ وہ آپ کی اولاد میں سے نہ تھے اس آیت کے خلاف نہیں ہے کیونکہ آیت کریمہ حضرت خلیل علیہ السلام کی مدح و ثنا کے سیاق میں آئی ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے آگاہ فرمایا ہے لوط علیہ السلام ابراہیم علیہ السلام کے ہاتھ پر ایمان لائے تھے اور جس شخص نے آپ کے ہاتھ پر ہدایت پائی وہ ہادی کی فضیلت کی طرف نسبت کی بنا پر آپ کی اولاد میں سے ہدایت پانے والے سے زیادہ کامل ہے۔ واللہ اعلم۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے لوط علیہ السلام کو ان کی قوم میں مبعوث فرمایا ان میں شرک کی بیماری کے ساتھ ساتھ مردوں کے ساتھ بدکاری، راہ زنی اور مجالس میں فواحش و منکرات کے ارتکاب جیسے برے کام بھی جمع تھے۔ العنكبوت
29 لوط علیہ السلام نے ان کو ان فواحش سے روکا اور ان پر ان فواحش کی قباحتیں واضح کیں اور ان کی پاداش میں نازل ہونے والے عذاب کے بارے میں آگاہ فرمایا مگر انہوں نے اس بات کی طرف کوئی توجہ دی نہ نصیحت پکڑی۔ ﴿ فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهِ إِلَّا أَن قَالُوا ائْتِنَا بِعَذَابِ اللّٰـهِ إِن كُنتَ مِنَ الصَّادِقِينَ ﴾ ” پس ان کی قوم کا اس کے سوا کوئی جواب نہ تھا کہ لے آ اللہ کا عذاب اگر تو سچوں میں سے ہے۔“ ان کا نبی ان سے مایوس ہوگیا اور اسے یقین ہوگیا کہ اس کی قوم عذاب کی مستحق ہے ان کے بہت زیادہ کھٹلانے کی وجہ سے حضرت لوب بے قرار ہوگئے آپ نے ان کے لئےبد دعا کی۔ العنكبوت
30 ﴿ قَالَ رَبِّ انصُرْنِي عَلَى الْقَوْمِ الْمُفْسِدِينَ ﴾ ” انھوں (لوط علیہ السلام) نے کہا، اے میرے رب ! ان مفسد لوگوں کے مقابلے میں میری مدد فرما۔“ پس اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا قبول کرلی اور ان کی قوم کو ہلاک کرنے کے لئے فرشتے بھیجے۔ العنكبوت
31 العنكبوت
32 لوط علیہ السلام کے پاس جانے سے قبل یہ فرشتے ابراہیم علیہ السلام کے پاس سے گزرے انہوں نے آپ کو اسحاق کی اور اس کے بعد یعقوب کی خوشخبری دی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان سے پوچھا کہ ان کا کہاں کا ارادہ ہے انہوں نے کہا کہ وہ قوم لوط کو ہلاک کرنے کے لئے آئے ہیں۔ فرشتوں نے جواب دیا ﴿ لَنُنَجِّيَنَّهُ وَأَهْلَهُ إِلَّا امْرَأَتَهُ كَانَتْ مِنَ الْغَابِرِينَ ﴾ “ ہم ان کو اور ان کے گھر والوں کو بچا لیں گے بجزان کی بیوی کے وہ پیچھے ہنے والوں میں ہوگی۔“ العنكبوت
33 پھر وہ وہاں سے چلے گئے اور لوط علیہ السلام کے پاس آئے۔ ان کا آنا لوط علیہ السلام کو بہت ناگوار گزرا اور بہت تنگدل ہوئے کیونکہ آپ ان کو پہچان نہ پائے تھے وہ سمجھتے تھے کہ وہ مہمان اور مسافر ہیں اس لئے وہ ان کے بارے میں اپنی قوم کے رویے سے خائف تھے تو فرشتوں نے آپ سے کہا: ﴿ لَا تَخَفْ وَلَا تَحْزَنْ ﴾ ” خوف کیجئے نہ رنج کیجئے۔“ اور انہوں لوط علیہ السلام کو بتایا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں ﴿ إِنَّا مُنَجُّوكَ وَأَهْلَكَ إِلَّا امْرَأَتَكَ كَانَتْ مِنَ الْغَابِرِينَ إِنَّا مُنزِلُونَ عَلَىٰ أَهْلِ هَـٰذِهِ الْقَرْيَةِ رِجْزًا مِّنَ السَّمَاءِ بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ ﴾ ” ہم آپ کو اور آپ کے گھر والوں کو بچا لیں گے بجز آپ کی بیوی کے کہ وہ پیچھے رہنے والوں میں ہوگی۔ بے شک ہم اس بستی کے رہنے والوں پر آسمان سے عذاب نازل کرنے والے ہیں کیونکہ یہ بدکاری کر رہے تھے۔“ فرشتوں نے لوط علیہ السلام سے کہا کہ وہ اپنے گھر والوں کو لے کر راتوں رات نکل جائیں۔ پس جب صبح ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے ان کے گھروں کو ان پر الٹ دیا اور اوپر والا حصہ نیچے کردیا اور ان پر پے درپے کھنگر کے پتھر برسائے جنہوں نے ان کو ہلاک کر کے نیست ونا بود کردیا، لہٰذا وہ کہانیاں اور عبرت کا نشان بن کر رہ گئے۔ العنكبوت
34 العنكبوت
35 ﴿ وَلَقَد تَّرَكْنَا مِنْهَا آيَةً بَيِّنَةً لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ ﴾ یعنی ہم نے دیا قوم لوط کو عقل مند لوگوں کے لئے واضح آثار اور ان کے دلوں کے لئے عبرت بنا دیا پس وہ ان آثار سے منتفع ہوتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَإِنَّكُمْ لَتَمُرُّونَ عَلَيْهِم مُّصْبِحِينَ وَبِاللَّيْلِ أَفَلَا تَعْقِلُونَ ﴾ (الصٰفٰت : 37؍137۔ 138) ” تم دن رات ان کے اجڑے ہوئے گھروں پر گزرتے ہو کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے؟“ العنكبوت
36 ﴿ وَ ﴾“ اور یعنی ہم نے مبعوث کیا : ﴿ إِلَىٰ مَدْيَنَ ﴾ ” اہل مدین کی طرف“ جو ایک مشہور و معروف قبیلہ تھا ﴿ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا ﴾ ” ان کے نسبی بھائی شعیب کو“ جنہوں نے ان کو اکیلے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے، آخرت پر ایمان رکھنے، اللہ تعالیٰ پر امیدیں رکھنے اور صرف اسی کے لئے عمل کرنے کا حکم دیا اور ان کو زمین میں فساد پھیلانے ناپ تول میں کمی کرنے اور ڈاکہ زنی سے روکا مگر انہوں نے ان کو جھوٹا سمجھا تو اللہ تعالیٰ کے عذاب نے ان کو آلیا: ﴿ فَأَصْبَحُوا فِي دَارِهِمْ جَاثِمِينَ ﴾ ” پس وہ اپنے گھر میں پڑے کے پڑے رہ گئے۔ “ العنكبوت
37 العنكبوت
38 اور ہم نے عاد وثمود کے ساتھ بھی یہی کچھ کیا آپ کو ان کا قصہ معلوم ہے۔ اگر تم ان کے گھروں اور ان کے آثار کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرو جن کو وہ چھوڑ گئے ہیں تو تم پر کچھ حقیقت واضح ہوجائے گی۔ ان کے رسول ان کے پاس واضح دالائل لے کر آئے جو بصیرت کے لئے مفید تھے مگر انہوں نے ان کو جھٹلایا اور ان کے ساتھ جھگڑا کیا۔ ﴿ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ أَعْمَالَهُمْ ﴾ ” اور شیطان نے ان کے اعمال کو ان کے سامنے آراستہ کر دیا‘‘ حتیٰ کہ وہ سمجھنے لگے کہ یہ اعمال ان اعمال سے افضل ہیں جنھیں انبیاء لے کر آئے ہیں۔ قارون، فرعون اور ہامان کا یہی رویہ تھا جب اللہ تعالیٰ نے موسیٰ بن عمران علیہ السلام کو واضح دلائل اور روشن براہین کے ساتھ مبعوث کیا تو انہوں نے ان دلائل کے سامنے سر تسلیم خم نہ کیا بلکہ وہ زمین پر اللہ تعالیٰ کے بندوں کے ساتھ تکبر سے پیش آئے اور انہیں ذلیل کیا اور حق کو تکبر کے ساتھ ٹھکرا دیا مگر جب ان پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہوا تو وہ اس سے بچنے پر قادر نہ تھے۔ العنكبوت
39 ﴿ وَمَا كَانُوا سَابِقِينَ ﴾ وہ اللہ سے بھاگ کر کہیں جا نہ سکے اور انہیں اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کرنا پڑا۔ العنكبوت
40 ﴿ فَكُلًّا ﴾ ” پس سب کو۔“ یعنی انبیاء کی تکذیب کرنے والی ان تمام قوموں کو ﴿ أَخَذْنَا بِذَنبِهِ﴾ ہم نے ان کے گناہ کی مقدار اور اس گناہ سے مناسبت والی سزا کے ذریعے سے پکڑ لیا۔ ﴿ فَمِنْهُم مَّنْ أَرْسَلْنَا عَلَيْهِ حَاصِبًا ﴾ ” پس ان میں کچھ تو ایسے تھے جن پر ہم نے پتھروں کا مینہ برسایا۔“ یعنی ہم نے ان پر ایسا عذاب نازل کیا جس میں ان کو پتھر مار کر ہلاک کیا جیسے قوم عاد اللہ تعالیٰ نے اس پر تباہ کن آندھی بھیجی اور ﴿سَخَّرَهَا عَلَيْهِمْ سَبْعَ لَيَالٍ وَثَمَانِيَةَ أَيَّامٍ حُسُومًا فَتَرَى الْقَوْمَ فِيهَا صَرْعَىٰ كَأَنَّهُمْ أَعْجَازُ نَخْلٍ خَاوِيَةٍ ﴾ (الحاقۃ:69؍7) ” اس ہوا کو سات رات اور آٹھ دن تک لگاتار چلائے رکھا تو تو ان نافرمان لوگوں کو اس میں اس طرح مرے پڑے ہوئے دیکھتا ہے جیسے کھجوروں کے کھوکھلے تنے ہوں۔ “ ﴿ وَمِنْهُم مَّنْ أَخَذَتْهُ الصَّيْحَةُ ﴾ ” اور کچھ ایسے تھے جن کو چنگھاڑنے آپکڑا‘‘ جیسے صالح صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قوم ﴿ وَمِنْهُم مَّنْ خَسَفْنَا بِهِ الْأَرْضَ ﴾ ” اور کچھ ایسے تھے جن کو ہم نے زمین میں دھنسادیا۔‘‘ جیسے قارون ﴿ وَمِنْهُم مَّنْ أَغْرَقْنَا ﴾ ” اور کچھ ایسے تھے جن کو ہم نے غرق کردیا۔“ جیسے فرعون، ہامان اور ان کے لشکر ﴿ وَمَا كَانَ اللّٰـهُ ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ کے لئے مناسب اور اس کے لائق نہیں کہ وہ اپنے کمال عدل اور مخلوق سے کامل بے نیازی کی بناء پر بندوں پر ظلم کرتا ﴿ وَلَـٰكِن كَانُوا أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ ﴾ ” لیکن وہ اپنے ہی نفوس پر ظلم کرتے تھے۔“ انہوں نے اپنے نفوس کو ان کے حقوق سے محروم کردیا۔ کیونکہ نفوس اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے پیدا کئے گئے ہیں۔ ان مشرکین نے ان کو ایسے کاموں میں استعمال کیا جن کے لئے وہ پیدا نہیں کئے گئے انہوں نے ان کو شہوات میں مشغول کر کے سخت نقصان پہنچایا جبکہ وہ اس گمان باطل میں مبتلا رہے کہ وہ ان کو فائدہ پہنچا رہے ہیں۔ العنكبوت
41 یہ مثال، اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس شخص کے لئے بیان کی ہے جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسری ہستیوں کی عبادت بھی کرتا ہے اور اس کا مقصد ان سے عزت، قوت اور منفعت کا حصول ہے حالانہ حقیقت اس کے مقصود کے بالکل برعکس ہے۔ اس شخص کی مثال اس مکڑی کی سی ہے جس نے جالے کا گھر بنایا ہوتا کہ گرمی سردی اور دیگر آفات سے محفوظ رہے۔ ﴿ وَإِنَّ أَوْهَنَ الْبُيُوتِ ﴾ مگر سب سے کمزور گھر ﴿ لَبَيْتُ الْعَنكَبُوتِ﴾ ” مکڑی کا گھر ہوتا ہے‘‘ مکڑی کا شمار کمزور حیوانات میں ہوتا ہے اور اس کا گھر تو سب سے کمزور گھر ہے وہ گھر بنا کر اس میں کمزوری کے سوا کچھ اضافہ نہیں کرتی۔ اسی طرح مشرکین نے جو اللہ تعالیٰ کے سوا دوسرے سر پرست بنا رکھی ہیں وہ ہر لحاظ سے محتاج اور عاجز ہیں یہ لوگ غیر اللہ کی اس لئے عبادت کرتے ہیں تاکہ ان کے ذریعے سے عزت اور فتح و نصرت حاصل کریں مگر وہ اپنی کمزوری اور بے بسی ہی میں اضافہ کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنے بہت سے مصالح کو ان پر بھروسہ کرتے ہوئے ان پر چھوڑ دیا اور ان سے الگ ہوگئے کہ عنقریب ان کے معبود ذمہ داری اٹھالیں گے تو ان کی معبودوں نے ان کو چھوڑ دیا۔ پس انہیں ان سے کوئی فائدہ اور کوئی ادنیٰ سی مدد بھی حاصل نہیں ہوسکی۔ اگر انہیں اپنے حال کے بارے میں حقیقی علم ہوتا اور انہیں ان ہستیوں کی بے بسی کا حال بھی معلوم ہوتا تو وہ انہیں کبھی معبود نہ بناتے ان سے براءت کا اظہار کرتے اور رب قادر و رحیم کو اپنا والی و مددگار بناتے۔ بندہ جب اس قادر و رحیم کو اپنا سر پرست بنا کر اس پر بھروسہ کرتا ہے تو وہ اس کے دین و دنیا کے لئے کافی ہوجاتا ہے۔ اس کے قلب و بدن اور حال و اعمال میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے مشرکین کے معبودان باطل کی کمزوری بیان کرنے کے بعد اس سے زیادہ بلیغ اسلوب کی طرف ارتقاء کیا، فرمایا کہ ان معبودان کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں بلکہ یہ تو مجرد نام ہیں جو انہوں نے گھڑ لئے ہیں اور محض وہم و گمان ہے جس کو انہوں نے عقیدہ بنا لیا ہے۔ العنكبوت
42 تحقیق کے وقت ایک عقل مند شخص پر اس کا بطلان واضح ہوجائے گا بنابریں فرمایا : ﴿ نَّ اللّٰـهَ يَعْلَمُ مَا يَدْعُونَ مِن دُونِهِ مِن شَيْءٍ ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ جانتا ہے.... اور وہ غائب و موجود کا علم رکھنے والا ہے.... کہ وہ اللہ تعالیٰ کے سوا جس چیز کو پکارتے ہیں ان کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں ان کا کوئی وجود ہے نہ وہ حقیقت میں الٰہ ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿ إِنْ هِيَ إِلَّا أَسْمَاءٌ سَمَّيْتُمُوهَا أَنتُمْ وَآبَاؤُكُم مَّا أَنزَلَ اللّٰـهُ بِهَا مِن سُلْطَانٍ ﴾ (النجم : 53؍23) ” یہ صرف نام ہیں جن کو تم نے اور تمہارے آباء و اجداد نے گھڑ لیا ہے جس پر اللہ نے کوئی سند نہیں اتاری۔“ اور فرمایا : ﴿ وَمَا يَتَّبِعُ الَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللّٰـهِ شُرَكَاءَ إِن يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِنْ هُمْ إِلَّا يَخْرُصُونَ ﴾ (یونس : 10؍66) ”اور وہ لوگ جو اللہ کے سوا کچھ خود ساختہ شریکوں کو پکارتے ہیں وہ صرف وہم و گمان کے پیرو ہیں اور وہ محض قیاس آرائیاں کر رہے ہیں۔ “ ﴿ وَهُوَ الْعَزِيزُ ﴾ جو تمام قوت کا مالک اور جو تمام مخلوق پر غالب ہے ﴿ الْحَكِيمُ ﴾ جو تمام چیزوں کو ان کے لائق مقام پر رکھتا ہے جس نے ہر چیز کو بہترین تخلیق سے نوازا اور اس نے جو حکم دیا بہترین حکم دیا۔ العنكبوت
43 ﴿ وَتِلْكَ الْأَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ ﴾ ” اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے لیے بیان کرتے ہیں۔‘‘ اللہ تبارک وتعالیٰ نے یہ مثالیں لوگوں کے فائدے اور ان کی تعلیم کی خاطر بیان کی ہیں کیونکہ ضرب الامثال علوم کو توضیح کے ساتھ بیان کرنے کا طریقہ ہے۔ ضرب الامثال کے ذریعے سے امور عقلیہ کو امورحسیہ کے قریب لایا جاتا ہے اور مثالوں کے ذریعے سے معانی مطلوبہ واضح ہوجاتے ہیں۔ ﴿ وَمَا يَعْقِلُهَا ﴾ مگر اس میں غور و فکر کے بعد اس میں وہی لوگ فہم حاصل کرتے ہیں اور پھر اپنے قلب میں عقل کے ساتھ وہی لوگ اس کی تطبیق کرتے ہیں،﴿ إِلَّا الْعَالِمُونَ ﴾ جو حقیقی اہل علم ہیں اور علم ان کے قلب کی گہرائیوں میں جاگزیں ہے۔ یہ ضرب الامثال کی کی مدح و توصیف ہے نیز ان میں تدبر کرنے اور ان کو سمجھنے کی ترغیب اور جو کوئی ان میں سمجھ پیدا کرتا ہے اس کی مدح و ثنا ہے اور اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ضرب الا مثال استعمال کرنے والا شخص اہل علم میں سے ہے اور نیز جو ان کو نہیں سمجھتا وہ اہل علم میں شمار نہیں ہوتا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جو امثال بیان کی ہیں وہ بڑے بڑے امور مطالب عالیہ اور مسائل جلیلہ میں بیان کی ہیں اہل علم جانتے ہیں کہ ضرب الامثال دیگر اسالیب بیان سے زیادہ اہم ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے خود ان کو در خور اعتناء قرار دیا ہے اور اپنےبندوں کو ترغیب دی ہے کہ وہ ان میں غور و فکر کریں اور ان کی معرفت حاصل کرنے کی پوری کوشش کریں۔ رہا وہ شخص جو ضرب لامثال کی اہمیت کے باوجو ان کو نہیں سمجھتا تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اہل علم میں سے نہیں ہے کیونکہ جب وہ نہایت اہم مسائل کی معرفت نہیں رکھتا تو غیر اہم مسائل میں اس کی عدم معرفت زیادہ اولیٰ ہے بنابریں اللہ تمارک و تعالیٰ نے زیادہ تر اصول دین وغیرہ میں ضرب الامثال استعمال کی ہیں۔ العنكبوت
44 یہ اللہ تبارک وتعالیٰ ہی ہے کہ جس نے آسمانوں کو ان کی بلندیوں، ان کی کشادگی، ان کی خوبصورتی اور ان کے اندر سورج چاند دیگر سیار گان اور فرشتوں کی موجودگی کے باوجود اکیلے تخلیق کیا ہے اور وہی ہے جو زمین اور اس کے پہاڑوں، سمندروں، صحراؤں، بیابانوں اور درختوں کی تخلیق میں متفرد ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان تمام چیزوں کو حق کے ساتھ پیدا کیا ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے ان تمام چیزوں کو عبث بے کار اور بے فائدہ پیدا نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو صرف اس لئے تخلیق فرمایا ہے کہ اس کا حکم اور شریعت نافذ ہو اور اس کے بندوں پر اس کی نعمت کا اتمام ہو تا کہ بندے اس کی حکمت اس کے غلبہ اور اس کی تدبیر کائنات کا مشاہدہ کریں جو اس حقیقت کی کی طرف ان کی راہنمائی کرتی ہے کہ وہ اکیلا ان کا معبود، محبوب اور الٰہ ہے۔ ﴿ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لِّلْمُؤْمِنِينَ ﴾ بے شک اس میں اہل ایمان کے لئے بہت سے مطالب ایمانیہ کی طرف راہنمائی کے لئے نشانیاں ہیں جب بندہء مومن ان میں تدبر کرتا ہے تو ان نشانیوں کو عیاں دیکھتا ہے۔ العنكبوت
45 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی وحی و تنزیل یعنی اس کتاب عظیم کی تلاوت کا حکم دیتا ہے۔ یہاں اس کتاب عظیم کی تلاوت کا معنی یہ ہے کہ اس کی اتباع کی جائے، اس کے احکام کی تعمیل اور اس کے نواہی سے اجتناب کیا جائے، اس کی ہدایت کو راہ نما بنایا جائے، اس کی خبر کی تصدیق، اس کے معانی میں تدبر اور اس کے الفاظ کی تلاوت کی جائے۔ تب اس کے الفاظ کی تلاوت، معنی ہی کا جز شمار ہوگی۔ جب تلاوت کا معنی مذکورہ بالا امور کو شامل ہے تو معلوم ہوا کہ مکمل اقامت دین تلاوت کتاب میں داخل ہے۔ اس صورت میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد : ﴿ وَأَقِمِ الصَّلَاةَ ﴾ ” اور نماز قائم کرو۔“ عام طور پر عطف خاص کے باب میں سے ہے اور اس کی وجہ نماز کی فضیلت، اس کا شرف اور اس کے اچھے اثرات ہیں۔ ﴿ إِنَّ الصَّلَاةَتَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ ﴾ ” بے شک نماز فحشاء اور منکر سے روکتی ہے۔“ ﴿الْفَحْشَاء﴾ سے مراد ہر وہ بڑا گناہ ہے جس کی قباحت مسلم اور نفس میں اس کی چاہت ہو۔ ﴿ الْمُنكَرِ ﴾ سے مراد ہر وہ گناہ ہے جس کو عقل و فطرت برا سمجھے۔ نماز کا فواحش و منکرات سے روکنے کا پہلو یہ ہے کہ بندۂ مومن جو نماز کو قائم کرتا ہے اور خشوع و خضوع کے ساتھ اس کے ارکان و شرائط کو پورا کرتا ہے، اس کا دل روشن اور پاک ہوجاتا ہے، اس کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے، نیکیوں میں رغبت بڑھ جاتی ہے اور برائیوں کی طرف رغبت کم یا بالکل معدوم ہوجاتی ہے۔ اس طریقے سے نماز پر دوام اور اس کی محافظت ضرور فواحش و منکرات سے روکتی ہے۔ پس فواحش و منکرات سے روکنا نماز کا سب سے بڑا مقصد اور اس کا سب سے بڑا ثمرہ ہے۔ نماز کو قائم کرنے میں ایک اور مقصد بھی ہے جو پہلے مقصد سے عظیم تر ہے اور وہ ہے نماز کا اللہ تعالیٰ کے قلبی، لسانی اور بدنی ذکر پر مشتمل ہونا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے اور بہترین عبادت جو مخلوق کی طرف سے پیش کی جاتی ہے وہ نماز ہے، نیز نماز کے اندر تمام جوارح کی عبودیت شامل ہوتی ہے جو کسی اور عبادت میں نہیں ہوتی، بنا بریں فرمایا ﴿ وَلَذِكْرُ اللّٰـهِ أَكْبَرُ ﴾ ” اور اللہ کا ذکر بڑا ہے۔“ اس میں دوسرا احتمال یہ ہے کہ چونکہ اللہ تعالیٰ نے نماز قائم کرنے کا حکم دیا اور اس کی مدح کی، اس لیے آگاہ فرمایا کہ نماز کے باہر اللہ تعالیٰ کا ذکر نماز سے زیادہ فضیلت رکھتا ہے، جیسا کہ جمہور مفسرین کا قول ہے، مگر پہلا معنی اولیٰ ہے کیونکہ نماز اس ذکر سے بہتر ہے جو نماز سے باہر ہو کیونکہ نماز بذات خود سب سے بڑا ذکر ہے۔ ﴿ وَاللّٰـهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُونَ ﴾ اور تم جو نیکی یا برائی کرتے ہو اللہ تعالیٰ اسے جانتا ہے، وہ تمہیں اس کی پوری پوری جزا دے گا۔ العنكبوت
46 اللہ تبارک و تعالیٰ اہل کتاب سے ایسی بحث کرنے سے روکتا ہے جو بصیرت کی بنیاد پر اور کسی مسلمہ قاعدے کے مطابق نہ ہو، نیز اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو حکم دیا ہے کہ وہ جب بھی اہل کتاب سے بحث کریں تو احسن انداز، حسن اخلاق اور نرم کلامی سے ان کے ساتھ بحث کریں اور دعوت اسلام بہترین طریقے سے پیش کریں اور باطل کو قریب ترین ذریعے سے رد کریں۔ اس بحث کا مقصد محض جھگڑنا اور مدمقابل پر غلبہ حاصل کرنا نہ ہو بلکہ اس کا مقصد حق کا بیان اور مخلوق کی ہدایت ہو۔ اہل کتاب میں سے ایسے آدمی کے سوا جس نے اپنے اس ارادے اور حالت کا اظہار کرکے ظلم کا ارتکاب کیا کہ اس کے بحث کرنے کا مقصد وضاحت حق نہیں بلکہ وہ تو صرف غلبہ حاصل کرنا چاہتا ہے تو ایسے شخص کے ساتھ بحث کرنے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ اس سے بحث کرنے کا مقصد ضائع ہوجائے گا۔ ﴿ وَقُولُوا آمَنَّا بِالَّذِي أُنزِلَ إِلَيْنَا وَأُنزِلَ إِلَيْكُمْ وَإِلَـٰهُنَا وَإِلَـٰهُكُمْ وَاحِدٌ ﴾ ” اور کہہ دو کہ جو (کتاب) ہم پر اتری اور جو (کتابیں) تم پر اتریں ہم سب پر ایمان رکھتے ہیں اور ہمارا اور تمہارا معبود ایک ہی ہے۔“ یعنی اہل کتاب کے ساتھ تمہاری بحث اور مناظرے کی بنیاد اس کتاب پر ہونی چاہیے جو تم پر نازل ہوئی ہے اور جو ان پر نازل ہوئی ہے، نیز تمہارے رسول اور ان کے رسول پر ایمان اور اللہ تعالیٰ کے واحد ہونے پر ایمان اس بحث و مناظرے کی اساس ہو۔ ان کے ساتھ اس طریقے سے بحث کریں جس سے کتب الٰہیہ اور انبیاء و مرسلین میں جرح و قدح لازم نہ آتی ہوجیسا کہ مناظرہ وہ بحث کے وقت جہلاء کا وتیرہ ہے۔ جہلاء اپنے مدمقابل کے حق اور باطل، ہر بات میں جرح و قدح کرتے ہیں۔ یہ طریقۂ بحث ظلم، واجب کو نظرانداز کرنا اور آداب مناظرہ کی حدود سے تجاوز ہے کیونکہ واجب یہ ہے کہ مخالف کے باطل نظریات کو رد کیا جائے اور اس کی حق باتوں کو قبول کیا جائے۔ اپنے موقف کو حق ثابت کرنے کے لیے مخالف کی حق بات کو کبھی رد نہ کیا جائے خواہ وہ کافر ہی کیوں نہ ہو، نیز اہل کتاب کے ساتھ اس نہج پر مناظرہ کرنے سے ان پر قرآن اور قرآن کے لانے والے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اقرار لازم آتا ہے کیونکہ جب وہ ان اصول دینیہ پر بحث کرے گا جن پر تمام انبیاء و رسل اور کتب الٰہیہ متفق ہیں، مناظرہ کرنے والے دونوں گروہوں کے نزدیک وہ مسلمہ اور اس کے حقائق ثابت شدہ ہیں، نیز تمام کتب سابقہ اور انبیاء و مرسلین قرآن اور نبی مصطفی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تائید کرتے ہیں۔۔۔ یہ کتب الٰہیہ ان حقائق کو واضح کرتی ہیں، ان پر دلالت کرتی ہیں اور انہی کے بارے میں آگاہ کرتی ہیں۔۔۔ تو اس پر تمام کتابوں اور تمام رسولوں کی تصدیق لازم آئے گی اور یہ اسلام کے خصائص میں سے ہے۔ یہ کہنا کہ ہم فلاں کتاب کی بجائے فلاں کتاب کی دلیل کو تسلیم کرتے ہیں، یہی حق ہے جس پر کتب سابقہ دلالت کرتی ہیں تو یہ ظلم اور خواہشات نفس کی پیروی ہے۔ ان کا یہ قول کتب الٰہیہ کی تکذیب ہے کیونکہ اگر وہ قرآن کی دلیل کی تکذیب کرتا ہے، جو گزشتہ کتب سماویہ کی تصدیق کرتا ہے، تو یہ ایسے ہی ہے جیسے وہ ان تمام کتب سماویہ کی تکذیب کرتا ہے جن پر ایمان لانے کا وہ دعویدار ہے، نیز ہر وہ طریقہ جس سے کسی بھی نبی کی نبوت ثابت ہوتی ہے تو اسی طریقے سے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت بہتر طور پر ثابت ہوتی ہے۔ ہر وہ شبہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت میں جرح و قدح کا باعث ہے اس جیسا یا اس سے بھی بڑا شبہ دیگر انبیاء کی نبوت میں جرح و قدح کا موجب بن سکتا ہے۔ اگر دیگر انبیاء کی نبوت میں اس شبہ کا بطلان ثابت کیا جاسکتا ہے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت میں اس قسم کے شبہات کا بطلان بدرجہ اولیٰ ثابت کیا جاسکتا ہے۔ ﴿ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ ﴾ ” اور ہم اسی کے فرماں بردار ہیں۔“ یعنی ہم اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتے ہیں اور اس کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہیں۔ پس جو کوئی اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتا ہے، اسے معبود بناتا ہے، اس کی تمام کتابوں اور رسولوں پر ایمان لاتا ہے، اس کی اور اس کے رسولوں کی اطاعت کرتا ہے تو وہ سعادت مند ہے اور جو کوئی اس راستے سے انحراف کرتا ہے وہ بدبخت ہے۔ العنكبوت
47 ﴿ وَكَذَٰلِكَ أَنزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ ﴾ ” اور اسی طرح ہم نے آپ کی طرف اتاری کتاب“ یعنی اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم نے آپ پر یہ کتاب کریم نازل کی جو ہر بڑی خبر کو کھول کھول کر بیان کرتی ہے جو ہر خلق حسن اور ہر امر کامل کی طرف دعوت دیتی ہے، جو تمام کتب سابقہ کی تصدیق کرتی ہے جن کے بارے میں گزشتہ انبیاء نے خبر دی ہے۔ ﴿ فَالَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ ﴾ ” پس جن لوگوں کو ہم نے کتاب عطا کی ہے“ انہوں نے اسے اس طرح پہچان لیا ہے جیسا کہ پہچاننے کا حق ہے اور ان کے ہاں کسی حسد نے مداخلت کی ہے نہ خواہشات نفس نے۔ ﴿ يُؤْمِنُونَ بِهِ ﴾ ” وہ اس پر ایمان لے آتے ہیں۔“ کیونکہ انہیں اس کے برحق اور سچے ہونے کا یقین ہوگیا ہے، اس لیے کہ انہی کی کتابوں میں ایسی باتیں ہیں جو قرآن کے موافق ہیں اور بشارتیں ہیں اور ایسے امور ہیں جن کے ذریعے سے وہ حسن و قبح اور صدق و کذب میں امتیاز کرتے ہیں۔ ﴿ وَمِنْ هَـٰؤُلَاءِ ﴾ ” اور ان لوگوں میں سے۔“ جو موجود ہیں ﴿ مَن يُؤْمِنُ بِهِ ﴾ ” ایسے بھی ہیں جو ایمان لاتے ہیں اس کے ساتھ۔“ یعنی جو اس پر رغبت اور خوف کی بنا پر نہیں بلکہ بصیرت کی بنا پر ایمان لاتے ہیں ﴿ وَمَا يَجْحَدُ بِآيَاتِنَا إِلَّا الْكَافِرُونَ ﴾ ” اور صرف کفار ہی ہماری آیتوں کا انکار کرتے ہیں“ جن کی فطرت میں انکار حق اور عناد رچا بسا ہوا ہے۔ اس حصر کا اطلاق ان لوگوں پر ہوتا ہے جنہوں نے اس کا انکار کیا یعنی ان میں سے کسی شخص کا مقصد متابعت حق نہیں۔ ورنہ جس شخص کا مقصد صحیح ہے تو وہ لازمی طور پر ایمان لاتا ہے کیونکہ یہ واضح دلائل پر مشتمل ہے اور ان دلائل کو ہر وہ شخص سمجھ سکتا ہے جو عقل سے بہرہ ور ہے، جو اسے توجہ سے سنتا ہے اور اس کی صداقت پر گواہ بھی ہے۔ العنكبوت
48 اس عظیم کتاب کی صداقت پر یہ چیز بھی دلالت کرتی ہے کہ اسے وہ نبی امین لے آیا ہے جس کی صداقت اور امانت کا اس کی پوری قوم اعتراف کرتی ہے، جس کے پورے معمولات اور تمام احوال کو اس کی قوم اچھی طرح جانتی ہے وہ اپنے ہاتھ سے لکھ نہیں سکتا بلکہ وہ تو لکھا ہوا پڑھ نہیں سکتا۔ اس صورتحال میں ایک کتاب پیش کرنا سب سے بڑی اور قطعی دلیل ہے، جس میں کوئی شک نہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے جو غالب اور قابل ستائش ہے، بنا بریں فرمایا : ﴿ وَمَا كُنتَ تَتْلُو ﴾ یعنی آپ پڑھ نہیں سکتے تھے ﴿ مِن قَبْلِهِ مِن كِتَابٍ وَلَا تَخُطُّهُ بِيَمِينِكَ إِذًا ﴾ ” اس سے پہلے کوئی کتاب اور نہ اسے اپنے ہاتھ سے لکھ ہی سکتے تھے، اگر ایسا ہوتا۔“ یعنی اگر آپ کا یہ حال ہوتا کہ آپ لکھ پڑھ سکتے تھے ﴿ لَّارْتَابَ الْمُبْطِلُونَ ﴾ ” تو اہل باطل ضرور شک کرتے“ اور کہتے کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمام چیزیں پچھلی کتابوں سے پڑھی ہیں یا وہاں سے نقل کی ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کے قلب پر ایک جلیل القدر کتاب نازل فرمائی۔ اس جیسی کتاب لانے یا اس جیسی ایک سورت ہی بنا لانے کے لیے بڑے بڑے فصیح و بلیغ اور جھگڑالو دشمنوں کو مقابلے کی دعوت دی گئی مگر وہ بالکل عاجز آگئے بلکہ اس کی فصاحت و بلاغت کو دیکھ کر انہوں نے اس کا مقابلہ کرنے کا خیال بھی دل سے نکال دیا کیونکہ کسی بشر کا کلام اس کا مقابلہ کر سکتا ہے نہ اس کی برابری، اس لیے فرمایا: العنكبوت
49 ﴿ بَلْ ﴾ ” بلکہ“ یہ قرآن کریم ﴿ آيَاتٌ بَيِّنَاتٌ ﴾ ” واضح آیات ہیں“ نہ کہ مخفی ﴿ فِي صُدُورِ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ ﴾ ” ان لوگوں کے سینوں میں جو علم دیے گئے ہیں۔“ یہ لوگ تمام مخلوق کے سردار، ان کے زیادہ عقل و خرد رکھنے والے اور کامل لوگ ہیں۔ جب ان آیات بینات نے اس قسم کے اصحاب خرد کے سینوں کو منور کر رکھا ہے تو دوسروں پر تو بدرجہ اولیٰ حجت ہیں اور دوسرے لوگ انکار کرکے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے اور یہ انکار ظلم کے سوا کچھ نہیں، بنا بریں فرمایا : ﴿ وَمَا يَجْحَدُ بِآيَاتِنَا إِلَّا الظَّالِمُونَ ﴾ ” اور ہماری آیات کا انکار صرف ظالم لوگ کرتے ہیں۔“ یعنی ان آیات کا انکار ایک جاہل شخص ہی کرسکتا ہے جو علم کے بغیر بحث کرتا ہے اور اہل علم اور ان لوگوں کی اقتدا نہیں کرسکتا جو اس کی حقیقت کی معرفت رکھتے ہیں، یا ان آیات کا انکار وہ لوگ کرتے ہیں جو حق کو جان کر اس سے عناد رکھتے ہیں اور اس کی صداقت کو پہچان کر اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ العنكبوت
50 جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ کتاب عظیم لے کر آئے تو ان ظالموں نے اعتراض کیا اور معینہ معجزات کے نزول کا مطالبہ کیا جیسا کہ ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ قَالُوا لَن نُّؤْمِنَ لَكَ حَتَّىٰ تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الْأَرْضِ يَنبُوعً ﴾ (بنی اسرائیل : 17؍90) ” اور انہوں نے کہا ہم تجھ پر ایمان نہیں لائیں گے جب تک کہ تو زمین کو پھاڑ کر ہمارے لیے پانی کا ایک چشمہ جاری نہ کردے۔“ معجزات و آیات کا تعین ان کے بس کی بات ہے نہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اختیار میں ہے یہ سب اللہ تعالیٰ کی تدابیر ہیں اور کسی کے اختیار میں کچھ نہیں، اس لیے فرمایا : ﴿ قُلْ إِنَّمَا الْآيَاتُ عِندَ اللّٰـهِ ﴾ ” کہہ دیجیے ! معجزات تو اللہ ہی کے پاس ہیں۔“ لہٰذا اگر وہ چاہے تو وہ یہ آیات نازل کردے اور نہ چاہے تو روک دے۔ ﴿ وَإِنَّمَا أَنَا نَذِيرٌ مُّبِينٌ ﴾ ” اور میں تو صرف کھلا خبردار کرنے والا ہوں“ اس سے زیادہ میرا کوئی مرتبہ نہیں۔ ﴿ وَالَّذِينَ آمَنُوا بِالْبَاطِلِ وَكَفَرُوا بِاللّٰـهِ أُولَـٰئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ ﴾ ” اور جن لوگوں نے باطل کو مانا اور اللہ کا انکار کیا، وہی نقصان اٹھانے والے ہیں۔“ کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں اور روز قیامت پر ایمان نہ لاکر خسارے میں رہے اور چونکہ ان سے دائمی نعمتیں چھوٹ گئیں اور حق کے مقابلے میں باطل حاصل ہوا اور نعمتوں کے مقابلے میں الم ناک عذاب، اسی لیے وہ قیامت کے روز، اپنے اور اپنے گھر والوں کے بارے میں گھاٹے میں رہیں گے۔ العنكبوت
51 مقصد تو باطل سے حق کو واضح کرنا ہے۔ جب کسی بھی طریقے سے مقصد حاصل ہوگیا تو معین معجزات کا مطالبہ کرنا ظلم و جور، اللہ تعالیٰ اور حق کے ساتھ تکبر اور عناد ہے، بلکہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان آیات و معجزات کو نازل کرنے پر قادر ہوتے اور ان کے دلوں میں یہ بات ہوتی کہ وہ ان معجزات کے بغیر حق کو نہیں مانیں گے تو یہ حقیقی ایمان نہیں بلکہ ایک ایسی چیز ہے جو ان کی خواہشات نفس کے مطابق ہے اس لیے وہ ایمان لے آئے۔ وہ اس لیے ایمان نہیں لائے کہ وہ حق ہے بلکہ اس لیے ایمان لائے ہیں کہ ان کا معجزے کا مطالبہ پورا ہوگیا۔ فرض کیا اگر ایسا ہی ہو تو معجزات نازل کرنے کا کون سا فائدہ ہے؟ چونکہ مقصد تو حق بیان کرنا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کا طریقہ ذکر کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ أَوَلَمْ يَكْفِهِمْ ﴾ ” کیا ان کے لیے یہ کافی نہیں؟“ یعنی کیا انہیں آپ کی صداقت اور آپ کی لائی ہوئی کتاب کی صداقت کا یقین کافی نہیں؟ ﴿ أَنَّا أَنزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ يُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ ﴾ ” کہ بلاشبہ ہم نے آپ پر کتاب نازل کی جو ان کو پڑھ کر سنائی جاتی ہے۔“ یہ مختصر اور جامع کلام ہے جو واضح آیات اور بہت سے روشن دلائل پر مشتمل ہے۔ جیسا کہ گزشتہ سطور میں گزر چکا ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ان پڑھ ہونے کے باوجود مجرد قرآن کا پیش کرنا ہی آپ کی صداقت کی بہت بڑی دلیل ہے اس پر مستزاد اس کا انہیں مقابلہ کرنے کا چیلنج دینا اور ان کا مقابلہ کرنے میں بے بس ہونا دوسری بڑی دلیل ہے، پھر علانیہ ان کے سامنے اس کا پڑھا جانا، اس کا غالب و ظاہر ہونا اور یہ دعویٰ کیا جانا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایسے حالات میں اس کو دلائل کے ذریعے سے غالب کرنا، جبکہ آپ کے انصار و اعوان بہت کم اور مخالفین اور دشمن بہت زیادہ تھے، تو ان حالات میں بھی آپ کا اس کو نہ چھپانا اور آپ کا اپنے عزم و ارادے سے باز نہ آنا بلکہ برسر عام شہروں اور بستیوں میں پکار پکار کر کہنا کہ یہ میرے رب کا کلام ہے۔۔۔ آپ کی صداقت کا بین ثبوت ہے۔ کیا کوئی اس کے ساتھ معارضہ کرسکتا ہے، یا اس سے مقابلہ کرنے کی بات کرسکتا ہے؟ پھر گزشتہ کتابوں پر اس کی نگہبانی کرنا، صحیح باتوں کی تصدیق کرنا، تحریف اور تغیر و تبدل کی نفی کرنا اور پھر اس کا اپنے اوامر و نواہی میں راہ راست کی طرف راہنمائی کرنا، اس کے حق ہونے کی دلیل ہے۔ اس نے کسی ایسی چیز کا حکم نہیں دیا جس کے بارے میں عقل یہ کہتی ہو کہ کاش اس نے یہ حکم نہ دیا ہوتا اور کسی ایسی چیز سے نہیں روکا جس کے بارے میں عقل یہ کہتی ہو کہ کاش اس نے اس چیز سے نہ روکا ہوتا بلکہ یہ کتاب اصحاب بصیرت اور خرد مندوں کے نزدیک عدل و میزان کے عین مطابق ہے۔ پھر اس کے ارشادات، اس کی ہدایت و رہنمائی اور اس کے احکام تمام حالات و زماں کے لیے جاری و ساری ہیں، نیز تمام امور کی اصلاح اسی سے ممکن ہے۔۔۔۔ یہ تمام چیزیں اس شخص کے لیے کافی ہیں جو حق کی تصدیق چاہتا ہے اور حق کا متلاشی ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو کفایت عطا نہیں کرتا، جس کے لیے قرآن کافی نہ ہو اور ایسے شخص کو شفا سے نہیں نوازتا جس کے لیے قرآن شافی نہ ہو۔ جو کوئی قرآن سے رہنمائی حاصل کرتا ہے اور اسے اپنے لیے کافی سمجھتا ہے تو یہ اس کے لیے رحمت اور بھلائی ہے، اس لیے فرمایا : ﴿ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَرَحْمَةً وَذِكْرَىٰ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ ﴾ ” بے شک مومنوں کے لیے اس میں نصیحت اور رحمت ہے۔“ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ عظیم کتاب علم کثیر، لامحدود بھلائی، تزکیۂ قلب و روح، تطہیر عقائد، تکمیل اخلاق، فتوحات الٰہیہ اور اسرار ربانیہ پر مشتمل ہے۔ العنكبوت
52 ﴿ قُلْ كَفَىٰ بِاللّٰـهِ بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ شَهِيدًا ﴾ ” کہہ دیجیے کہ میرے اور تمہارے درمیان اللہ ہی گواہ کافی ہے۔“ اس لیے میں نے اسے گواہ بنایا ہے اگر میں جھوٹا ہوں تو مجھ پر اللہ کا عبرتناک عذاب نازل ہو اگر اللہ تعالیٰ میری تائید اور مدد کرتا اور میرے لیے میرے تمام معاملات آسان کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ جلیل القدر شہادت تمہارے لیے کافی ہونی چاہیے اور اگر تمہارے دلوں میں یہ بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کی شہادت۔۔۔ جسے تم نے سنا ہے نہ دیکھا ہے۔۔۔ دلیل کے لیے کافی نہیں تو اللہ تعالیٰ ﴿ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ﴾ ”آسمانوں اور زمین کی ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔“ میرا حال، تمہارا حال اور میری باتیں اس کے جملہ علم میں شامل ہیں۔ اگر میں نے اس پر جھوٹ گھڑا ہے، حالانکہ وہ اس کا علم رکھتا ہے اور مجھے سزا دینے کی قدرت رکھتا ہے، تو یہ اس کے علم، قدرت اور حکمت میں قادح ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿ وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيلِ لَأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ ﴾ (الحاقۃ: 69؍44۔ 46) ” اور اگر اس نے ہم پر کوئی جھوٹ باندھا ہوتا تو ہم اس کو دائیں ہاتھ سے پکڑلیتے اور پھر اس کی رگ جاں کاٹ دیتے۔ “ ﴿وَالَّذِينَ آمَنُوا بِالْبَاطِلِ وَكَفَرُوا بِاللَّـهِ أُولَـٰئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ ﴾ ’’اور جن لوگوں نے باطل کو مانا اوراور اللہ کا انکار کیا، وہی نقصان اٹھانے والے ہیں۔‘‘ کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں اور روز قیامت پر ایمان نہ لا کر خسارے میں رہے اور چونکہ ان سے دائمی نعمتیں چھوٹ گئیں اور حق کے مقابلے میں باطل حاصل ہوا اور نعمتوں کے مقابلے میں الم ناک عذاب، اسی لیے وہ قیامت کےروز، اپنے اور اپنے گھر والوں کے بارے میں گھاٹے میں رہیں گے۔ العنكبوت
53 اللہ تبارک و تعالیٰ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور قرآن کی تکذیب کرنے والے جہلا کی جہالت کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے، نیز یہ کہ وہ عذاب کے لیے جلدی مچاتے اور تکذیب میں اضافہ کرتے ہوئے کہتے ہیں : ﴿مَتَىٰ هٰذَا الْوَعْدُ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ﴾ (الملک : 67؍25) ”یہ وعدہ کب ہے اگر تم سچے ہو۔“ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿وَلَوْلَا أَجَلٌ مُّسَمًّى﴾ اگر اس عذاب کے لیے ایک مدت مقرر نہ کردی گئی ہوتی ﴿لَّجَاءَهُمُ الْعَذَابُ﴾ ” تو ان پر عذاب آچکا ہوتا۔“ یعنی ان پر ہمیں عاجز اور بے بس سمجھنے اور حق کی تکذیب کرنے کی بنا پر عذاب نازل ہوجاتا۔ اگر ہم ان کو ان کی جہالت کی بنا پر پکڑتے تو ان کی باتیں انہیں فوراً عذاب میں مبتلا کرنے کا باعث بن جاتیں، بایں ہمہ اس کے وقت نزول کو دور نہ سمجھیں کیونکہ یہ عذاب عنقریب ان کو پہنچے گا ﴿بَغْتَةً وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ﴾ ” اچانک اور ان کو معلوم بھی نہیں ہوگا۔“ لہٰذا ایسے ہی ہوا جیسے اللہ تعالیٰ نے خبر دی تھی۔ جب وہ اتراتے اور تکبر کرتے ہوئے میدان ” بدر“ میں اترے تو وہ سمجھتے تھے کہ وہ اپنا مقصد حاصل کرنے کی قدرت رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو ذلیل و رسوا کیا، ان کے بڑے بڑے سردار قتل ہوگئے اور تمام شریر لوگوں کا استیصال ہوگیا اور (مکہ میں)کوئی گھرانہ ایسا نہ بچا جسے یہ مصیبت نہ پہنچی ہو۔ العنكبوت
54 ان پر اس طرح عذاب آیا کہ ان کو وہم و گمان اور شعور تک نہ تھا۔۔۔ تاہم اگر ان پر دنیاوی عذاب نازل نہیں ہوا تو اخروی عذاب ان کے سامنے ہے جس سے کوئی شخص نہیں بچ سکے گا خواہ دنیا میں اس پر عذاب نازل ہوا ہو یا اسے مہلت دے دی گئی ہو۔ ﴿وَإِنَّ جَهَنَّمَ لَمُحِيطَةٌ بِالْكَافِرِينَ﴾ ” اور بے شک جہنم کافروں کو گھیرنے والی ہے۔“ العنكبوت
55 جہنم کا عذاب ان سے دور ہوگا نہ اسے ان سے ہٹایا جاسکے گا۔ جہنم کا عذاب انہیں ہر طرح سے گھیر لے گا جیسے ان کے گناہوں، ان کی برائیوں اور ان کے کفر نے انہیں گھیر رکھا ہے۔ یہ عذاب بہت سخت عذاب ہوگا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿يَوْمَ يَغْشَاهُمُ الْعَذَابُ مِن فَوْقِهِمْ وَمِن تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ وَيَقُولُ ذُوقُوا مَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ﴾ ” جس دن ان کو عذاب ڈھانپ لے گا، ان کے اوپر اور ان کے قدموں کے نیچے سے اور اللہ کہے گا، چکھو مزا اس کا جو تم کرتے تھے۔“ کیونکہ تمہارے اعمال تمہارے لیے عذاب بن گئے جس طرح تمہارا کفر اور تمہارے گناہ بے شمار تھے اسی طرح تمہارے لیے عذاب بھی لامحدود ہوگا۔ العنكبوت
56 اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ آمَنُوا ﴾ ” اے میرے بندو جو ایمان لائے ہو !“ اور جنہوں نے میرے رسول کی تصدیق کی ہے ﴿إِنَّ أَرْضِي وَاسِعَةٌ فَإِيَّايَ فَاعْبُدُونِ﴾ ” میری زمین فراخ ہے، پس تم میری ہی عبادت کرو۔“ یعنی جب کسی سرزمین میں تمہارے لیے اپنے رب کی عبادت کرنا ممکن نہ رہے تو اس کو چھوڑ کر کسی اور سرزمین میں چلے جاؤ جہاں تم اکیلے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرسکو۔ العنكبوت
57 اللہ تعالیٰ کی عبادت کی جگہیں بہت کشادہ ہیں۔ تمہارا معبود ایک ہے اور موت تمہیں آکر رہے گی پھر تمہیں اپنے رب کی طرف لوٹنا ہے۔ العنكبوت
58 وہ اس شخص کو بہترین جزا سے نوازے گا جس نے ایمان اور عمل صالح کو اکٹھا کیا، وہ انہیں رفیع الشان بالا خانوں اور خوبصورت منازل میں ٹھہرائے گا وہاں وہ تمام چیزیں جمع ہوں گی جسے نفس چاہتے اور آنکھیں لذت حاصل کرتی ہیں اور ان منازل میں تم ہمیشہ رہو گے۔ ﴿نِعْمَ ﴾ نعمتوں بھری جنت کے اندر یہ منازل بہترین ﴿ أَجْرُ الْعَامِلِينَ ﴾ ” اجر ہے عمل کرنے والوں کا“ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے۔ العنكبوت
59 ﴿الَّذِينَ صَبَرُوا﴾ ” جنہوں نے صبر کیا“ اللہ تعالیٰ کی عبادت پر ﴿وَعَلَىٰ رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ﴾ ” اور وہ اس معاملے میں اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں۔“ عبودیت الٰہی پر ان کا صبر اس بارے میں سخت جدوجہد اور شیطان کے خلاف بہت بڑی جنگ کا تقاضا کرتا ہے، جو اس عبادت میں خلل ڈالنے کے لیے ان کو دعوت دیتا رہتا ہے۔ ان کا توکل، اللہ تعالیٰ پر ان کے بہت زیادہ اعتماد کا مقتضی ہے نیز اللہ تعالیٰ پر ان کا حسن ظن اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ وہ ان کے اعمال کو متحقق کرکے پایۂ تکمیل کو پہنچائے گا جن کا انہوں نے عزم کیا ہے۔ ہرچند کہ توکل، صبر کے اندر داخل ہے تاہم یہاں اس کو الگ بیان کیا ہے کیونکہ بندہ ہر فعل کے کرنے اور ترک کرنے میں، جن کا انہیں حکم دیا گیا ہے، توکل کا محتاج ہے اور کسی کام کو ترک کرنا یا اسے پایہ تکمیل تک پہنچانا توکل علی اللہ کے بغیر اتمام پذیر نہیں ہوتا۔ العنكبوت
60 اللہ تبارک و تعالیٰ نے تمام مخلوقات، خواہ وہ عاجز ہوں یا طاقت ور، سب کے رزق کا ذمہ لیا ہے۔ ﴿مِّن دَابَّةٍ﴾ روئے زمین پر کتنے ہی کمزور اعضا اور کمزور عقل والے چوپائے ہیں ﴿ لَّا تَحْمِلُ رِزْقَهَا ﴾ ” جو اپنا رزق نہیں اٹھائے پھرتے“ اور نہ وہ ذخیرہ کرتے ہیں بلکہ ان کے پاس رزق کے لیے کوئی چیز ہوتی ہی نہیں، مگر اللہ تبارک و تعالیٰ انہیں وقت پر رزق مہیا کرتا ہے۔ ﴿اللّٰـهُ يَرْزُقُهَا وَإِيَّاكُمْ﴾ ” اللہ ہی ان کو رزق دیتا ہے اور تم کو بھی۔“ تم سب اللہ تعالیٰ کی کفالت میں ہو جو تمہارے رزق کا اسی طرح انتظام کرتا ہے جس طرح اس نے تمہاری تخلیق اور تدبیر کی ہے۔ ﴿ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ ﴾ ” اور وہ سننے والا جاننے والا ہے۔“ اس پر کوئی چیز مخفی نہیں۔ کوئی جاندار عدم رزق کی بنا پر ہلاک نہیں ہوتا کہ وہ اللہ تعالیٰ سے چھپا رہ گیا اور اسے رزق مہیا نہ ہوسکا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿وَمَا مِن دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللّٰـهِ رِزْقُهَا وَيَعْلَمُ مُسْتَقَرَّهَا وَمُسْتَوْدَعَهَا كُلٌّ فِي كِتَابٍ مُّبِينٍ﴾ (ھود : ١١؍6) ” اور زمین پر چلنے والا کوئی جان دار ایسا نہیں جس کے رزق کی کفالت اللہ کے ذمہ نہ ہو وہ جانتا ہے کہ کہاں اس کا ٹھکانا ہے اور کہاں اسے سونپا جانا ہے ہر چیز ایک واضح کتاب میں درج ہے۔ “ العنكبوت
61 ان آیات کریمہ میں مشرکین کے خلاف، جو توحید الوہیت اور توحید عبادت کی تکذیب کرتے ہیں۔۔۔ توحید ربوبیت کے ذریعے سے، جس کا وہ اقرار کرتے ہیں۔۔۔ الزامی استدلال کیا گیا ہے۔ آپ ان سے پوچھیں کہ زمین اور آسمان کو کس نے پیدا کیا ہے؟ کون ہے جو آسمان سے پانی برساتا ہے پھر اس کے ذریعے سے زمین کے مرنے کے بعد اس کو زندگی عطا کرتا ہے اور کون ہے جس کے ہاتھ میں تمام کائنات کی تدبیر ہے؟ ﴿ لَيَقُولُنَّ اللّـهُ﴾ تو وہ جواب دیں گے کہ اکیلے اللہ کے ہاتھ میں ہے اور وہ ان تمام امور میں بتوں اور خود ساختہ معبودوں کی، جن کی وہ عبادت کرتے ہیں، بے بسی کا اعتراف کریں گے۔ ان کے جھوٹ اور بہتان طرازی پر تعجب کیجیے کہ وہ خود ساختہ معبودوں کی عاجزی اور بے بسی کا اقرار کرتے ہیں کہ وہ کسی چیز کی تدبیر کرنے کے مستحق نہیں بایں ہمہ وہ ان کی عبادت کی طرف مائل ہیں۔ آپ ان کو لوگوں کی اس فہرست میں لکھ دیجیے جن میں عقل معدوم ہے، جو بے وقوف اور ضعیف العقل ہیں۔ کیا آپ کسی اور شخص سے زیادہ کم عقل اور بے بصیرت پائیں گے جو اپنی حاجت روائی کے لیے کسی پتھر کے بت یا قبر کے پاس آتا ہے حالانکہ اسے علم ہے کہ وہ نفع دے سکتے ہیں نہ نقصان؟ جو تخلیق پر قادر ہیں نہ رزق رسانی پر؟ پھر ان کے لیے عبادت کو خالص کرتے ہیں اور انہیں اپنے رب کا شریک بنا دیتے ہیں جو خالق و رزاق اور نفع و نقصان کا مالک ہے۔ العنكبوت
62 العنكبوت
63 آپ کہہ دیجیے کہ ہر قسم کی حمد و ستائش اللہ تعالیٰ کے لیے ہے جس نے ہدایت اور گمراہی کو کھول کھول کر بیان کردیا اور مشرکین کے موقف کا بطلان واضح کردیا تاکہ اہل ایمان اس سے بچے رہیں۔ آپ کہہ دیجیے کہ ہر قسم کی حمد و ستائش کا مستحق صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے جس نے عالم علوی اور عالم سفلی کو تخلیق فرمایا، جو ان کی تدبیر کرتا ہے، جو ان کو رزق بہم پہنچاتا ہے، جسے چاہتا ہے رزق میں کشادگی عطا کرتا ہے اور جس پر چاہتا ہے رزق کو تنگ کردیتا ہے یہ اس کی حکمت پر مبنی ہے کیونکہ اسے علم ہے کہ اس کے بندوں کے لیے درست اور مناسب کیا ہے۔ العنكبوت
64 اللہ تبارک و تعالیٰ دنیا و آخرت کے احوال کی خبر دیتا ہے اور اس ضمن میں دنیا سے بے رغبتی رکھنے کی ترغیب اور آخرت کا شوق پیدا کرتا ہے، اس لیے فرمایا : ﴿وَمَا هَـٰذِهِ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا﴾ ” اور نہیں ہے یہ دنیا کی زندگی“ یعنی اس دنیاوی زندگی کی حقیقت ﴿إِلَّا لَهْوٌ وَلَعِبٌ﴾ ” مگر کھیل کود۔“ جس کی بنا پر دل غافل اور بدن کھیل میں مشغول ہوجاتے ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کو زیب و زینت اور ان لذات و شہوات سے لبریز کردیا ہے جو دلوں کو کھینچ لیتی ہیں، آنکھوں کو خوبصورت نظر آتی ہیں اور نفوس باطلہ کو فرحت عطا کرتی ہیں۔ پھر دنیا کی یہ زینت و زیبائش جلد ہی زائل ہو کر ختم ہوجائے گی اور اس دنیا سے محبت کرنے والے کو ندامت اور خسارے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ رہا آخرت کا گھر تو وہی ﴿الْحَيَوَانُ﴾ حقیقی زندگی ہے، یعنی آخرت کی زندگی درحقیقت کامل زندگی ہے جس کے لوازم میں سے ہے کہ آخرت کے لوگوں کے بدن نہایت طاقتور اور ان کے قویٰ نہایت سخت ہوں، کیونکہ وہ ایسے ابدان اور قویٰ ہوں گے جو آخرت کی زندگی کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔ اس زندگی میں ہر وہ چیز موجود ہو گی جو اس زندگی کی تکمیل کے لیے ضروری ہے اور جس سے لذت پوری ہوتی ہے مثلاً دلوں کو تازگی اور فرحت بخشنے والی چیزیں اور جسموں کی خواہشات کی تکمیل کے لیے ماکولات، مشروبات اور پاک بدن بیویاں وغیرہ ہوں گی جن کو کسی آنکھ نے دیکھا ہے نہ کسی کان نے سنا ہے اور نہ کسی بشر کے خیال میں کبھی ان کا گزر ہوا ہے۔ ﴿ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ ﴾ ” اگر وہ جانتے ہوتے“ تو وہ کبھی دنیا کو آخرت پر ترجیح نہ دیتے اور اگر انہیں عقل ہوتی تو آخرت کی کامل زندگی کو چھوڑ کر لہو و لعب کی زندگی کی طرف مائل نہ ہوتے۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ جنہیں علم ہے انہیں آخرت کو دنیا پر ترجیح دینی چاہئے کیونکہ انہیں دونوں جہانوں کی حالت معلوم ہے۔ العنكبوت
65 پھر اللہ تعالیٰ نے مشرکین کے خلاف الزامی دلیل دیتے ہوئے فرمایا کہ جب وہ سمندر میں کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو موجوں کے تلاطم اور انتہائی شدت کے وقت ہلاکت کے خوف سے اپنے خود ساختہ معبودوں کو پکارنا چھوڑ دیتے ہیں اور خالص اللہ تعالیٰ کو پکارنے لگتے ہیں جو ایک ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں۔ جب یہ شدت اور مصیبت ختم ہوجاتی ہے اور اللہ تعالیٰ، جس کو انہوں نے اخلاص کے ساتھ پکارا تھا، ان کو بچا کر ساحل پر لے آتا ہے تو وہ ان ہستیوں کو اللہ تعالیٰ کا شریک بنا دیتے ہیں جنہوں نے ان کو طوفانوں کی مصیبت سے نجات دی نہ ان سے مشقت کو دور کیا۔ وہ سختی اور نرمی، تنگی اور آسانی دونوں حالتوں میں خالص اللہ تعالیٰ کو کیوں نہیں پکارتے تاکہ وہ حقیقی مومنین کے زمرے میں شامل ہو کر اللہ تعالیٰ کے ثواب کے مستحق بن سکیں اور اس کے عذاب سے بچ سکیں؟ مگر سمندر سے نجات کی نعمت کے بعد ان کا شرک کرنا ہماری عنایات کے مقابلے میں کفر اور ہماری نعمت کے مقابلے میں برائی کا ارتکاب ہے تو وہ اس دنیا سے خوب فائدہ اٹھالیں جیسے چوپائے فائدہ اٹھاتے ہیں جن کا مطمح نظر بطن و فرج کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ العنكبوت
66 ﴿فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ ﴾ ” عنقریب ان کو معلوم ہوجائے گا۔“ جب وہ اس دنیا سے آخرت کی طرف منتقل ہوں گے اس وقت انہیں معلوم ہوگا کہ شدت غم اور دردناک عذاب کیا ہے۔ العنكبوت
67 پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے امن والے حرم کا احسان جتلایا ہے کہ اہل حرم امن اور کشادہ رزق سے مستفید ہوتے ہیں جبکہ ان کے اردگرد لوگوں کو اچک لیا جاتا ہے اور وہ خوف زدہ رہتے ہیں، تو یہ اس ہستی کی عبادت کیوں نہیں کرتے جس نے بھوک اور قحط میں کھانا کھلایا اور خوف اور بدامنی میں امن مہیا کیا؟ ﴿أَفَبِالْبَاطِلِ يُؤْمِنُونَ﴾ ” کیا یہ لوگ باطل پر اعتقاد رکھتے ہیں۔“ اس سے مراد ان کا شرک اور دیگر باطل اقوال و افعال ہیں۔ ﴿وَبِنِعْمَةِ اللّٰـهِ يَكْفُرُونَ﴾ ” اور اللہ کی نعمت کی ناشکری کرتے ہیں“ ان کی عقل و دانش کہاں چلی گئی کہ وہ گمراہی کو ہدایت پر، باطل کو حق پر اور بدبختی کو خوش بختی پر ترجیح دے رہے ہیں؟ وہ مخلوق میں سب سے بڑھ کر ظالم ہیں۔ العنكبوت
68 ﴿وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَىٰ عَلَى اللّٰـهِ كَذِبًا ﴾ ” اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہے جس نے اللہ پر جھوٹ باندھا؟“ اور اپنی گمراہی اور باطل کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کردیا۔ ﴿أَوْ كَذَّبَ بِالْحَقِّ لَمَّا جَاءَهُ ﴾ ” یا اس نے حق کو جھٹلا دیا جب وہ اس کے پاس آیا“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے سے۔ مگر اس ظالم اور معاند حق کے سامنے جہنم ہے ﴿أَلَيْسَ فِي جَهَنَّمَ مَثْوًى لِّلْكَافِرِينَ﴾ ” کیا کافروں کا ٹھکانا جہنم میں نہیں ہے؟“ اس جہنم کے ذریعے سے ان سے حق وصول کیا جائے گا، انہیں رسوا کیا جائے گا اور جہنم ان کا دائمی ٹھکانا ہوگا، جہاں سے وہ کبھی نہیں نکلیں گے۔ العنكبوت
69 ﴿وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا﴾ ” اور جن لوگوں نے ہمارے لیے کوشش کی۔“ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ کے راستے میں ہجرت کی، اپنے دشمنوں کے خلاف جہاد کیا اور اللہ تعالیٰ کی رضا کی اتباع کرنے کی بھرپور کوشش کی ﴿لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا﴾ ” ہم ان کو ضرور اپنے راستے دکھا دیں گے۔“ یعنی ہم ان کو ان راستوں پر گامزن کردیتے ہیں جو ہم تک پہنچتے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ نیکوکار ہیں۔ ﴿وَإِنَّ اللّٰـهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ ﴾ اور اللہ تعالیٰ اپنی مدد، نصرت اور ہدایت کے ذریعے سے نیکوکاروں کے ساتھ ہے۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ لوگوں میں سے سب سے زیادہ صحیح بات کی موافقت کرنے کے حق دار اہل جہاد ہیں۔ اس آیت کریمہ سے یہ بھی مستفاد ہوتا ہے کہ جو کوئی اللہ تعالیٰ کے احکام کی احسن طریقے سے تعمیل کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی مدد فرماتا ہے اور ہدایت کے اسباب کو اس کے لیے آسان کردیتا ہے۔ اس آیت کریمہ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ جو کوئی شرعی علم کی طلب میں جدوجہد کرتا ہے اسے اپنے مطلوب و مقصود اور ان امور الٰہیہ کے حصول میں اللہ تعالیٰ کی معاونت اور راہنمائی حاصل ہوتی ہے جو اس کے مدارک اجتہاد سے باہر ہیں اور امور علم اس کے لیے آسان ہوجاتے ہیں کیونکہ شرعی علم طلب کرنا جہاد فی سبیل اللہ کے زمرے میں آتا ہے، بلکہ یہ جہاد کی دو اقسام میں سے ایک ہے جسے صرف خاص لوگ ہی قائم کرتے ہیں۔۔۔ اور وہ ہے منافقین و کفر کے خلاف قولی اور لسانی جہاد۔ امور دین کی تعلیم کے لیے جدوجہد کرنا اور مخالفین حق، خواہ وہ مسلمان ہی کیوں نہ ہوں، کے اعتراضات کا جواب دینا بھی جہاد ہے۔ العنكبوت
0 الروم
1 الم الروم
2 اس زمانے میں ایران اور روم دنیا کی سب سے بڑی سلطنتیں تھیں ان دونوں کے درمیان اکثر جنگیں ہوتی رہتی تھیں جیسا کہ ہم پلہ سلطنتوں کے مابین اس قسم کی لڑائیاں ہوتی رہتی ہیں۔ ایرانی مشرک تھے اور آگ کی پوجا کرتے تھے۔ رومی اہل کتاب تھے اور اپنے آپ کو تورات اور انجیل کی طرف منسوب کرتے تھے۔ اہل فارس کی نسبت رومی مسلمانوں کے زیادہ قریب تھے، اس لیے مسلمان چاہتے تھے کہ رومی ایرانیوں پر فتح حاصل کریں چونکہ مشرکین مکہ اور اہل فارس شرک میں مشترک تھے اس لیے مشرکین مکہ رومیوں پر اہل فارس کی فتح چاہتے تھے۔ ایرانیوں کو رومیوں کے خلاف جنگی کامیابیاں حاصل ہوئیں لیکن انہیں مکمل فتح حاصل نہ ہوئی بلکہ ایران سے ملحق بعض رومی علاقے ایرانیوں کے قبضہ میں آگئے اس پر مشرکین مکہ نے خوشیاں منائیں اور مسلمان اس فتح پر بہت رنجیدہ ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو آگاہ کیا بلکہ ان کے ساتھ وعدہ کیا کہ عنقریب رومی اہل فارس پر فتح حاصل کریں گے۔ الروم
3 الروم
4 ﴿ فِي بِضْعِ سِنِينَ﴾ ” چند سالوں میں۔“ تقریباً آٹھ نو سال کی مدت میں جو دس سال سے زیادہ اور تین سال سے کم نہ ہوگی۔ یہ رومیوں پر ایرانیوں کی فتح اور پھر ایرانیوں پر رومیوں کا غلبہ سب اللہ تعالیٰ کی مشیت اور اس کی قضا و قدر پر مبنی ہے۔ بنا بریں فرمایا : ﴿لِلّٰـهِ الْأَمْرُ مِن قَبْلُ وَمِن بَعْدُ﴾ ’’اس (شکست) سے پہلے بھی اللہ ہی کا حکم چلتا تھا اور بعد میں بھی اسی کا چلے گا۔“ یعنی غلبہ اور فتح و نصرت مجرد وجود اسباب پر منحصر نہیں ہوتے بلکہ ان کے لیے قضا و قدر کا مقرون ہونا ضروری ہے ﴿وَيَوْمَئِذٍ ﴾ ” اور اس روز“ یعنی جس روز رومیوں کو ایرانیوں کے خلاف فتح حاصل ہوگی اور وہ ان پر غالب آئیں گے ﴿ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ بِنَصْرِ اللّٰـهِ يَنصُرُ مَن يَشَاءُ﴾ ” اہل ایمان خوش ہو رہے ہوں گے اللہ کی مدد سے۔ وہ جسے چاہتا ہے مدد دیتا ہے۔“ یعنی اہل ایمان ایرانیوں کے خلاف رومیوں کی فتح پر خوش ہو رہے ہوں گے۔۔۔ اگرچہ دونوں قومیں کافر تھیں تاہم کچھ برائیاں بعض دیگر برائیوں سے کم تر ہوتی ہیں۔۔۔ اور اس روز مشرکین سوگ منا رہے ہوں گے۔ ﴿وَهُوَ الْعَزِيزُ﴾ ” اور وہ غالب ہے۔“ یعنی اللہ وہ ہستی ہے جو عزت و غلبہ کی مالک ہے جس کی بنا پر وہ تمام مخلوقات پر غالب ہے۔“ یعنی اللہ وہ ہستی ہے جو عزت و غلبہ کی مالک ہے جس کی بنا پر وہ تمام مخلوقات پر غالب ہے۔ اللہ جسے چاہتا ہے اقتدار عطا کرتا ہے اور جس سے چاہتا ہے اقتدار چھین لیتا ہے، جسے چاہتا ہے عزت سے سرفراز کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلیل کردیتا ہے۔ ﴿ الرَّحِيمُ﴾ اپنے مومن بندوں پر بہت زیادہ رحم کرنے والا ہے، کیونکہ اس نے ان کے لیے بے حد و حساب اسباب فراہم کیے جو ان کو سعادت مند بناتے اور فتح و نصرت سے ہم کنار کرتے ہیں۔ الروم
5 الروم
6 ﴿وَعْدَ اللّٰـهِ لَا يُخْلِفُ اللّٰـهُ وَعْدَهُ ﴾ ” یہ اللہ کا وعدہ ہے، اللہ اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا۔“ پس تم اس وعدے پر یقین رکھو، اسے حتمی سمجھو اور جان لو کہ یہ وعدہ ضرور پورا ہوگا۔ جب یہ آیات کریمہ نازل ہوئیں، جن میں اس وعدے کا ذکر ہے، تو اس وعدے کی مسلمانوں نے تصدیق کی مگر مشرکین نے اس کو نہ مانا حتیٰ کہ بعض مسلمانوں اور بعض کفار نے اس پر شرط لگالی اور کچھ سالوں کی مدت مقرر کرلی۔ جب وہ مدت آئی جو اللہ تعالیٰ نے مقرر کر رکھی تھی تو رومیوں کو ایرانیوں کے خلاف فتوحات حاصل ہونے لگیں۔ رومیوں نے ایرانی افواج کو ان تمام علاقوں سے نکال باہر کیا جو انہوں نے رومیوں سے چھینے تھے اور یوں اللہ تعالیٰ کا وعدہ پورا ہوگیا۔ اس کا تعلق امور غیبیہ سے ہے جن کے وقوع سے قبل اللہ تعالیٰ نے ان کے متعلق پیش گوئی کے طور پر آگاہ فرما دیا تھا اور یہ پیش گوئی انہی مسلمانوں اور کافروں کے دور میں وقوع پذیر ہوئی جن کے دور میں یہ پیش گوئی کی گئی تھی ﴿وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ﴾ ” لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے“ کہ اللہ تعالیٰ کا کیا ہوا وعدہ حق ہے۔ بنا بریں ان میں ایک ایسا گروہ بھی موجود ہے جو اللہ کے وعدے کو سچ نہیں مانتا اور اس کی آیتوں کو جھٹلاتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو علم نہیں رکھتے یعنی جو اشیاء کے اسرار نہاں اور ان کے عواقب کو نہیں جانتے۔ الروم
7 ﴿يَعْلَمُونَ ظَاهِرًا مِّنَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا﴾ ” وہ تو صرف دنیاوی زندگی کے ظاہر کو دیکھ سکتے ہیں۔“ یہ لوگ صرف اسباب پر نظر رکھتے ہیں۔ وہ ان واقعات کے وقوع پذیر ہونے پر حتمی یقین رکھتے ہیں جن کے اسباب ان کی رائے کے مطابق پورے ہوچکے ہوں اور اگر انہوں نے ان اسباب کا مشاہدہ نہ کیا ہو جو ان واقعات کے وقوع کا تقاضا کرتے ہیں تو وہ ان کے عدم وقوع پر پورا یقین رکھتے ہیں۔ پس یہ لوگ اسباب کے ساتھ ٹھہرے ہوئے ہیں ان کی نظر مسبب الاسباب پر نہیں جو ان اسباب میں تصرف کی پوری قدرت رکھتا ہے۔ ﴿وَهُمْ عَنِ الْآخِرَةِ هُمْ غَافِلُونَ﴾ ” اور وہ آخرت سے غافل ہیں۔“ ان کے دل، ان کی خواہشات اور ان کے ارادے، دنیا اور دنیا کی شہوات اور اس کے چند ٹکڑوں پر مرتکز ہیں۔ ان کے ارادے اور خواہشات اس دنیا کے لیے کام کرتے ہیں، اسی کے لیے کوشاں اسی کی طرف متوجہ اور آخرت سے غافل ہیں۔ ان کے سامنے کوئی جنت نہیں جس کا انہیں اشتیاق ہو، ان کے سامنے کوئی جہنم نہیں جس کا انہیں خوف ہو اور نہ اللہ تعالیٰ کے حضور جواب دہی کے لیے کھڑے ہونے کا تصور ہے، جس سے یہ ڈر کر کانپ اٹھتے ہوں۔ یہ بدبختی کی علامت اور آخرت سے غفلت کا عنوان ہے۔ تعجب کی بات ہے کہ اس گروہ کے لوگ اس ظاہری دنیا میں ذہانت اور فطانت کے اس درجے تک پہنچے ہوئے ہیں جس سے عقل حیران اور دہشت زدہ ہوجاتی ہے۔ ان کے ہاتھوں برقی اور جوہری عجائبات ظاہر ہوئے، انہوں نے بری، بحری اور فضائی سواریاں ایجاد کیں، وہ اپنی عقل کی مدد سے سب پر فوقیت لے گئے اور اپنی عقل کے ذریعے سے لوگوں کو حیران کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں وہ قدرت عطا کی جس کے سامنے دیگر لوگ عاجز تھے۔ پس انہوں نے دوسروں کو نہایت حقارت کی نظر سے دیکھا حالانکہ وہ خود اپنے دین کے معاملے میں سب سے زیادہ کند ذہن، اپنی آخرت کے بارے میں سب سے زیادہ غافل اور اپنی عاقبت کے بارے میں سب سے کم علم رکھتے ہیں۔ اہل بصیرت کی رائے ہے کہ وہ اپنی جہالت میں پاگل، اپنی گمراہی میں سرگرداں اور اپنے باطل میں مارے مارے پھرتے ہیں۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کو فراموش کردیا جس پر اللہ تعالیٰ نے ان کو بھلا دیا۔ درحقیقت یہ لوگ نافرمان ہیں۔ اگر وہ ان صلاحیتوں پر غور کریں جن سے اللہ تعالیٰ نے ان کو بہرہ ور کیا ہے اور اس ظاہری دنیا میں انہیں دقیق افکار سے نوازا، پھر غور کریں کہ انہوں نے اپنے آپ کو عقل عالی سے محروم کیا، تو انہیں معلوم ہوجائے گا کہ تمام معاملہ اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہے، اس کے بندوں میں اسی کا حکم جاری ہے اور یہ سب اس کی توفیق یا عدم توفیق کا معاملہ ہے تو وہ اپنے رب سے ڈرنے لگیں اور اس سے دعا کریں کہ وہ ان کی عقل اور ایمان کی تکمیل کرے جو اس نے ان کو عطا کی ہے حتیٰ کہ وہ اس کے پاس پہنچ جائیں اور اس کے جوار میں نازل ہوجائیں۔ اگر یہ صلاحیتیں ایمان کے ساتھ مقرون ہوتیں اور ان کی بنیاد ایمان پر اٹھائی گئی ہوتی تو ترقی کے ساتھ ساتھ پاک صاف زندگی اس کا ثمرہ ہوتی مگر چونکہ ان کی بہت سی صلاحیتیں الحاد پر مبنی ہیں اس لیے ان کا نتیجہ تباہی کے سوا کچھ نہیں۔ الروم
8 کیا اللہ تعالیٰ کے رسولوں اور اس کی ملاقات کو جھٹلانے والوں نے کبھی غور نہیں کیا ﴿ فِي أَنفُسِهِم﴾ ” اپنے آپ پر؟“ کیونکہ خود ان کی ذات میں نشانیاں ہیں جن کے ذریعے سے وہ اس حقیقت کی معرفت حاصل کرسکتے ہیں کہ وہ ہستی جو انہیں عدم سے وجود میں لائی وہ عنقریب اس کا اعادہ کرے گی، وہ ہستی جس نے انہیں نطفہ، جمے ہوئے خون اور گوشت کی بوٹی کے مراحل سے گزار کر آدمی بنایا، پھر اس میں روح پھونکی، پھر اسے بچہ بنایا، اس بچے سے اسے جوان بنایا، پھر اسے بڑھاپے میں منتقل کیا اور پھر اسے انتہائی بڑھاپے کی طرف لے گیا۔ اس ہستی کے شایان شان نہیں کہ وہ ان کو مہمل اور بے کار چھوڑ دے کہ انہیں کسی چیز کا حکم دیا جائے نہ کسی چیز سے روکا جائے اور انہیں نیکی پر ثواب دیا جائے نہ بدی پر سزا دی جائے۔ ﴿مَّا خَلَقَ اللّٰـهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا إِلَّا بِالْحَقِّ﴾ ” اللہ نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے سب کو حق کے ساتھ پیدا کیا“ تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون اچھے عمل کرتا ہے۔ ﴿ وَأَجَلٍ مُّسَمًّى ﴾ ” اور وہ وقت مقرر تک۔“ یعنی زمین و آسمان کی مدت اس وقت تک ہے جب تک کہ دنیا کی مدت ختم ہو کر قیامت قائم نہیں ہوجاتی، تب یہ زمین و آسمان بدل کر کوئی اور ہی آسمان و زمین بن جائیں گے۔ ﴿وَإِنَّ كَثِيرًا مِّنَ النَّاسِ بِلِقَاءِ رَبِّهِمْ لَكَافِرُونَ﴾ ” اور وہ بلاشبہ بہت سے لوگ اپنے رب سے ملنے کے قائل ہی نہیں۔“ اسی لیے انہوں نے اللہ تعالیٰ سے ملاقات کی تیاری کی نہ انہوں نے ان رسولوں کی تصدیق کی جنہوں نے قیامت کے قائم ہونے کی خبر دی تھی۔ ان کے اس کفر پر کوئی دلیل نہیں بلکہ اس کے برعکس قطعی دلائل قیامت اور جزا و سزا کے اثبات پر دلالت کرتے ہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے انہیں تنبیہ کی کہ وہ زمین میں چل پھر کر دیکھیں اور ان لوگوں کے انجام پر غور کریں جنہوں نے رسولوں کو جھٹلایا اور ان کے حکم کی مخالفت کی۔ وہ ان سے زیادہ طاقتور تھے اور ان سے زیادہ شان دار آثار چھوڑ گئے، مثلاً انہوں نے محلات اور کارخانے بنائے، باغات اور کھیتیاں اگائیں اور نہریں کھودیں۔ مگر جب انہوں نے اپنے رسولوں کی، جو حق پر اور اپنی دعوت کی صحت پر واضح دلائل لے کر آئے تھے، تکذیب کی تو ان کی قوت ان کے کسی کام آئی نہ ان آثار نے انہیں کوئی فائدہ دیا۔۔۔ کیونکہ جب وہ ان کے آثار دیکھیں گے تو وہ دیکھیں گے کہ وہ قومیں ہلاک ہو کر صفحۂ ہستی سے مٹ گئیں، ان کے مسکن غیر آباد پڑے ہیں اور وہ مسلسل مخلوق کی مذمت کا نشانہ ہیں۔ یہ تو اس دنیا کی سزا ہے جو اخروی عذاب کی تمہید ہے۔ ان ہلاک شدہ قوموں کو ہلاک کرکے اللہ تعالیٰ نے ان پر ظلم نہیں کیا بلکہ انہوں نے خود اپنے آپ پر ظلم کیا اور اپنی ہلاکت کے اسباب مہیا کیے۔ الروم
9 الروم
10 ﴿ثُمَّ كَانَ عَاقِبَةَ الَّذِينَ أَسَاءُوا السُّوأَىٰ﴾ ” اور پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا۔“ یعنی بہت قبیح اور بری حالت ہوئی اور یہ چیز ان کے لیے عذاب کی داعی بن گئی کہ ﴿كَذَّبُوا بِآيَاتِ اللّٰـهِ وَكَانُوا بِهَا يَسْتَهْزِئُونَ ﴾ ” انہوں نے اللہ کی آیتوں کو جھٹلایا اور ان کا مذاق اڑایا۔“ یہ ان کی برائیوں اور گناہوں کی سزا ہے، پھر یہ تمسخر اور تکذیب ان کے لیے سب سے بڑی سزا کا سبب بنے گی۔ الروم
11 اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ وہ مخلوقات کی ابتدا کرنے میں تنہا ہے اور وہی ان کی تخلیق کا اعادہ کرے گا۔ پھر اس اعادۂ تخلیق کے بعد تمام مخلوقات اسی کی طرف لوٹیں گی تاکہ وہ ان کو ان کے اعمال کی جزا و سزا دے، اسی لیے اس نے پہلے بدکاروں کی بدی کی سزا کا ذکر کیا پھر نیکو کاروں کی نیکی کی جزا کا ذکر فرمایا۔ یعنی مشرکین اپنے ان خود ساختہ معبودوں سے بے زاری کا اظہار کریں گے جن کو انہوں نے اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرا رکھا تھا اور معبود اپنے پجاریوں سے بیزاری کا اظہار کرتے ہوئے کہیں گے : ﴿ تَبَرَّأْنَا إِلَيْكَ مَا كَانُوا إِيَّانَا يَعْبُدُونَ﴾ (القصص : 63؍28)”(اے اللہ !) ہم تیرے سامنے برأت کا اظہار کرتے ہیں کہ یہ ہماری عبادت نہیں کیا کرتے تھے۔“ وہ اپنے آپ پر لعنت بھیجیں گے اور اللہ کی رحمت سے دور ہوجائیں گے۔ اس روز اہل خیر اور اہل شر علیحدہ علیحدہ کھڑے ہوں گے جس طرح دنیا میں ان کے اعمال علیحدہ علیحدہ تھے۔ الروم
12 ﴿ وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ﴾ ” اور جس دن قیامت برپا ہوگی“ اور لوگ رب العالمین کے حضور حاضر ہوں گے اور قیامت کو عیاں طور پر دیکھ لیں گے تو اس روز ﴿يُبْلِسُ الْمُجْرِمُونَ ﴾ ” گناہ گار ناامید ہوجائیں گے۔“ یعنی وہ ہر بھلائی سے مایوس ہوجائیں گے اور اس کی وجہ یہ ہوگی کہ ان لوگوں نے اس روز کے لیے جرائم کے سوا کچی آگے نہیں بھیجا ہوگا۔ جرائم سے مراد کفر، شرک اور دیگر بڑے بڑے گناہ ہیں۔ الروم
13 چونکہ انہوں نے ایسے اعمال آگے روانہ کیے تھے جو عذاب کے موجب تھے اور ان کے پاس کوئی بھی ایسا عمل نہ تھا جو ثواب کا موجب ہوتا، اس لیے وہ اعمال خیر کے اعتبار سے مفلس ہوں گے اور سخت مایوس ہوں گے۔ ان کی تمام افترا پردازیاں گم ہوجائیں گی، ان کے خود ساختہ معبود ان کو کوئی فائدہ دے سکیں گے نہ ان کی کوئی سفارش کرسکے گا۔ بنا بریں فرمایا : ﴿وَلَمْ يَكُن لَّهُم مِّن شُرَكَائِهِمْ ﴾ ” اور نہیں ہوگا ان کے لیے ان کے شریکوں میں سے کوئی بھی“ جن کی وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ عبادت کیا کرتے تھے ﴿شُفَعَاءُ وَكَانُوا بِشُرَكَائِهِمْ كَافِرِينَ﴾ ”سفارشی اور وہ اپنے شریکوں کا انکار کردیں گے۔“ الروم
14 الروم
15 ﴿فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ﴾ یعنی جو لوگ اپنے دل سے ایمان لائے اور اعمال صالحہ کے ذریعے سے اس ایمان کی تصدیق کی ﴿فَهُمْ فِي رَوْضَةٍ ﴾ ” وہ تو باغ میں“ جس میں ہر قسم کے درخت، پودے اور تمام دل پسند چیزیں ہوں گی ﴿ يُحْبَرُونَ ﴾ ” وہ خوش ہوں گے۔“ یعنی ان کو خوش رکھا جائے گا اور نعمتوں سے نوازا جائے گا مثلاً نہایت لذیذ ماکولات و مشروبات، خوبصورت حوریں، خدام، خدمت گار لڑکے، طرب انگیز آوازیں، سرور انگیز نغمے، خوبصورت و خوش کن مناظر، بہترین خوشبوئیں، فرحت و سرور اور لذت و نعمت وغیرہ جن کے اوصاف بیان کرنے کی کوئی شخص قدرت نہیں رکھتا۔ الروم
16 ﴿وَأَمَّا الَّذِينَ كَفَرُوا﴾ ” اور وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا“ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا انکار کیا، ان کے مقابلے میں کفر کیا ﴿وَكَذَّبُوا بِآيَاتِنَا﴾ ” اور ہماری (ان) آیتوں کو جھٹلایا“ جنہیں ہمارے رسول لے کر آئے تھے ﴿فَأُولَـٰئِكَ فِي الْعَذَابِ مُحْضَرُونَ ﴾ ” تو وہ لوگ عذاب میں ڈالے جائیں گے۔“ جہنم ان کو ہر طرف سے گھیر لے گی، دردناک عذاب ان کے دلوں تک پہنچ جائے گا، ابلتا ہوا پانی ان کے چہروں کو بھون ڈالے گا اور ان کی انتڑیوں کو کاٹ کر رکھ دے گا۔ دونوں گروہوں کے درمیان کتنا فرق ہے؟ نعمتوں سے سرفراز اور عذاب میں مبتلا دونوں گروہوں کے مابین کہاں برابری ہے؟ الروم
17 یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے اس حقیقت کی خبر ہے کہ وہ ہر برائی اور ہر نقص سے پاک اور منزہ ہے نیز وہ اس سے بھی منزہ اور پاک ہے کہ مخلوق میں سے کوئی اس کا مثیل ہو۔ اس نے اپنے بندوں کو حکم دیا کہ وہ صبح و شام، عشاء اور ظہر کے وقت اس کی تسبیح بیان کریں۔ یہ پانچ اوقات، پانچ نمازوں کے اوقات ہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو حکم دیا ہے کہ وہ ان اوقات میں اس کی حمد و تسبیح بیان کریں۔ اس میں فرائض و واجبات بھی داخل ہیں جیسے نماز پنجگانہ اور مستحبات بھی شامل ہیں جیسے صبح و شام اور فرض نمازوں کے بعد اذکار و تسبیحات اور فرض نمازوں کے ساتھ والے نوافل )سنن موکدہ وغیرہ(کیونکہ یہ اوقات، جن کو اللہ تعالیٰ نے فرائض کی ادائیگی کے طور پر اپنے بندوں کے لیے منتخب کیا ہے، افضل ترین اوقات ہیں، اس لیے ان اوقات میں تسبیح و تحمید اور عبادات، دیگر اوقات کی نسبت زیادہ فضیلت کی حامل ہیں بلکہ ان اوقات میں عبادات، اگرچہ وہ ” سبحان اللہ“ کے ورد پر مشتمل نہ بھی ہوں )وہ تسبیح و تحمید کے زمرے میں آئیں گی( کیونکہ عبادت کے اندر اخلاص عملی طور پر اللہ تعالیٰ کی اس بات سے تنز یہ ہے عبادت میں اس کا کوئی شریک ہو یا جس اخلاص اور انابت کا اللہ تعالیٰ مستحق ہے اس کی مخلوق میں سے کوئی ہستی مستحق ہو۔ الروم
18 الروم
19 ﴿يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ﴾ ” وہی زندہ کو مردہ سے نکالتا ہے۔“ جیسے زندہ نباتات مردہ زمین سے، خوشہ بیج کے دانے سے، درخت گٹھلی سے، چوزہ انڈے سے اور مومن کافر سے نکلتا ہے۔ ﴿وَيُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ﴾ ” اور وہی مردہ کو زندہ سے نکالتا ہے۔“ متذکرہ بالا چیزوں کے برعکس ﴿وَيُحْيِي الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ﴾ اللہ تعالیٰ زمین پر بارش برساتا ہے جبکہ زمین خشک اور بنجر پڑی ہوتی ہے۔ جب اللہ تعالیٰ اس پر بارش برساتا ہے تو وہ لہلہا اٹھتی، پھول جاتی اور ہر قسم کی خوش منظر نباتات اگاتی ہے۔ ﴿ وَكَذٰلِكَ تُخْرَجُونَ ﴾ ” اور اسی طرح تمہیں بھی نکالا جائے گا“ تمہاری قبروں سے۔ یہ قطعی اور بہت بڑی دلیل و برہان ہے کہ وہ ہستی جس نے زمین کو اس کے بنجر ہوجانے کے بعد زندگی عطا کی، وہ مردوں کو زندہ کرے گی۔ عقل کے لحاظ سے دونوں امور کے مابین کوئی فرق نہیں، ایک چیز کے مشاہدے کے بعد دوسرے کے بعید ہونے کا کوئی موجب نہیں۔ الروم
20 یہاں سے وہ متعدد آیات شروع ہوتی ہیں جو الوہیت میں اللہ تعالیٰ کے یکتا ہونے، اس کی عظمت کے کمال، اس کی مشیت کے نفوذ، اس کی قوت و اقتدار، اس کی صنعت کے جمال اور اس کی بے پایاں رحمت و احسان پر دلالت کرتی ہیں۔ ﴿ وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَكُم مِّن تُرَابٍ﴾ ” اور اسی کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا۔“ یہ تھی نسل انسانی کے جد امجد، حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق ﴿ ثُمَّ إِذَا أَنتُم بَشَرٌ تَنتَشِرُونَ ﴾ ” پھر اب تم انسان ہو کر جابجا پھیل رہے ہو۔“ اور اس نے تمہیں زمین کے تمام گوشوں اور کناروں تک پھیلایا۔ اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ جس ہستی نے تمہیں اس اصل سے تخلیق کیا اور پھر تمہیں زمین کے کناروں تک پھیلایا، وہی ہستی رب معبود، قابل ستائش بادشاہ کائنات، نہایت مہربان اور محبت کرنے والا پروردگار ہے جو تمہیں موت کے بعد دوبارہ اٹھائے گا۔ الروم
21 ﴿ وَمِنْ آيَاتِهِ﴾ اور اس کی نشانیوں میں سے ایک نشانی، جو اس کے بندوں پر اس کی رحمت، اس کی عنایت، اس کی عظیم حکمت اور اس کے علم محیط پر دلالت کرتی ہے، یہ ہے ﴿أَنْ خَلَقَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجًا ﴾ ” کہ اس نے تمہاری جنس ہی سے تمہارے جوڑے بنائے“ جو تم سے مشابہت رکھتے ہیں اور تم ان سے مشابہت رکھتے ہو۔ ﴿لِّتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُم مَّوَدَّةً وَرَحْمَةً﴾ ” تاکہ ان کی طرف آرام حاصل کرو اور تمہارے درمیان محبت اور مہربانی پیدا کردی“ نکاح و ازدواج پر مرتب ہونے والے اسباب کے ذریعے سے جو محبت و مودت کے موجب ہیں۔ بیوی سے لذت تمتع، وجود اولاد کی منفعت، اولاد کی تربیت اور سکون حاصل ہوتا ہے۔ جس طرح شوہر اور بیوی کے درمیان محبت اور مودت ہوتی ہے غالب حالات میں آپ کبھی دو افراد کے درمیان اتنی محبت اور مودت نہیں پائیں گے ﴿إِنَّ فِي ذٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ﴾ ” بے شک جو لوگ غور و فکر کرتے ہیں ان کے لیے ان باتوں میں نشانیاں ہیں۔“ وہ اپنی عقل کو استعمال کرکے اللہ تعالیٰ کی آیات میں غور و فکر کرتے ہیں اور وہ استدلال کے ذریعے سے ایک چیز سے دوسری چیز تک پہنچ جاتے ہیں۔ الروم
22 اہل علم وہ لوگ ہیں جو مقام عبرت کو سمجھتے ہیں اور آیات الٰہی میں تدبر کرتے ہیں۔ اس بارے میں بہت سی آیات وارد ہوئی ہیں۔ اللہ کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان کے اندر موجود ہے اسے پیدا کرنا ہے۔ یہ تخلیق اللہ تعالیٰ کی عظمت سلطان اور اس کے کامل اقتدار پر دلالت کرتی ہے جو ان بڑی بڑی مخلوقات کو وجود میں لایا، نیز یہ تخلیق اللہ کی کامل حکمت پر دلالت کرتی ہے کیونکہ ان مخلوقات کی تخلیق میں کمال درجے کی مہارت اور وسعت علم پائی جاتی ہے کیونکہ خالق کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی مخلوق کے بارے میں پورا علم رکھتا ہو۔ ﴿أَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ ﴾ )الملک : 67؍14( ” بھلا جس نے پیدا کیا ہے وہ بے علم ہوسکتا ہے؟“ نیز یہ تخلیق اللہ تعالیٰ کی عمومی رحمت اور اس کے فضل و کرم پر دلالت کرتی ہے کیونکہ ان کی تخلیق میں منافع جلیلہ ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ارادے کا مالک ہے وہ جو چاہتا ہے خصوصیات کی بنا پر اس کو منتخب کرلیتا ہے۔ وہ اکیلا اس بات کا مستحق ہے کہ اس کی عبادت کی جائے اور اس کو ایک مانا جائے چونکہ وہ تخلیق میں یکتا ہے اس لیے وہ مستحق ہے کہ وہ عبادت میں بھی یکتا ہو۔ یہ تمام عقلی دلائل ہیں، اللہ تعالیٰ نے عقل انسانی کو ان کی طرف توجہ دلائی ہے اور انہیں ان میں غور و فکر کرنے اور عبرت حاصل کرنے کا حکم دیا ہے۔ ﴿وَ﴾ ” اور“ اسی طرح ﴿اخْتِلَافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوَانِكُمْ﴾ ” تمہاری زبانوں اور رنگوں کا جدا جدا ہونا۔“ بھی نشانی ہے جو تمہاری کثرت اور ایک دوسرے سے جدا ہونے کی بنا پر ہے حالانکہ تمہاری اصل ایک اور حروف کے مخارج ایک ہیں۔ بایں ہمہ آپ دو آوازیں بھی ایسی نہیں پائیں گے جو ہر لحاظ سے ایک جیسی ہوں نہ دو رنگ ایسے پائیں گے جو ہر لحاظ سے مشابہت رکھتے ہوں آپ دونوں کے درمیان ضرور فرق پائیں گے جس کے ذریعے سے ان کے مابین امتیاز کیا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ اور مشیت نافذہ پر دلالت کرتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں پر عنایت اور رحمت ہے کہ اس نے ان کے درمیان زبانوں اور رنگوں کا اختلاف پیدا کیا تاکہ ان میں تشابہ واقع نہ ہو جس کی بنا پر اضطراب پیدا ہوجائے اور بہت سے مقاصد و مطالب فوت ہوجائیں۔ الروم
23 یعنی آیات و معانی کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہوئے تدبر و تفکر کے ساتھ سننے والوں کے لیے اس میں نشانیاں ہیں۔ یہ آیت کریمہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی رحمت پر دلالت کرتی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَمِن رَّحْمَتِهِ جَعَلَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ لِتَسْكُنُوا فِيهِ وَلِتَبْتَغُوا مِن فَضْلِهِ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ﴾ (القصص : 28؍73) ” اور یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہی ہے کہ اس نے تمہارے لیے رات اور دن بنائے تاکہ تم رات کے وقت سکون حاصل کرو اور دن میں اس کا فضل تلاش کرو اور شاید کہ تم اللہ کا شکر ادا کرو۔“ نیز یہ آیت کریمہ اس کی کامل حکمت پر دلالت کرتی ہے کیونکہ اس کی حکمت کا تقاضا ہے کہ لوگ کسی وقت سکون حاصل کریں تاکہ وہ آرام کرسکیں اور کسی وقت اپنے دینی اور دنیاوی مصالح کے لیے زمین پر پھیل جائیں اور یہ مصالح اس وقت تک پورے نہیں ہوتے جب تک کہ رات اور دن ایک دوسرے کا تعاقب کرتے ہوئے نہ آئیں۔ جس اکیلی ہستی نے رات اور دن کو ایک دوسرے کے پیچھے لگایا ہے وہی اکیلی ہستی عبادت کی مستحق ہے۔ الروم
24 یہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے کہ وہ تم پر بارش برساتا ہے جس سے زمین اور بندوں میں زندگی کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ بارش برسانے سے قبل وہ تمہیں اس کے مقدمات کا مشاہدہ کراتا ہے، مثلاً بجلی کی چمک اور بجلی کی کڑک، جس سے امید وابستہ ہوتی ہے اور اس سے خوف بھی آتا ہے۔ ﴿ إِنَّ فِي ذٰلِكَ لَآيَاتٍ﴾ ” بلاشبہ اس میں ضرور نشانیاں ہیں“ جو اس کے بے پایاں احسان، لامحدود علم، کامل مہارت اور عظیم حکمت پر دلالت کرتی ہیں، نیز اس پر بھی دلالت کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ مردوں کو زندہ کرے گا جس طرح اس نے زمین کو اس کے مر جانے کے بعد زندگی بخشی ﴿لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ ﴾ ” ان لوگوں کے لیے جو عقل رکھتے ہیں“ وہ جو کچھ سنتے اور دیکھتے ہیں اس عقل کے ذریعے سے اسے سمجھنے اور یاد رکھنے کی کوشش کرتے ہیں پھر اس عقل کے ذریعے سے ان امور پر استدلال کرتے ہیں جن پر ان نشانیوں کو دلیل بنایا ہے۔ الروم
25 اس کی نشانیوں میں سے ایک بہت بڑی نشانی یہ ہے کہ آسمان اور زمین اس کے حکم سے قائم، ثابت اور ٹھہرے ہوئے ہیں وہ دونوں متزلزل ہوتے ہیں نہ آسمان زمین پر گرتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی عظیم قدرت ہے کہ اس نے آسمانوں اور زمین کو گرنے سے روک رکھا ہے۔ وہ اس پر قادر ہے کہ جب وہ مخلوق کو پکارے تو تمام مخلوق زمین سے نکل کھڑی ہو۔ ﴿لَخَلْقُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ أَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ﴾ (المؤمن : 40؍57) ” آسمانوں اور زمین کی تخلیق انسانوں کی تخلیق سے یقیناً زیادہ بڑا کام ہے۔ “ الروم
26 ﴿وَلَهُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ﴾ ” اور اسی کے لیے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے۔“ ہر چیز اس کی مخلوق اور مملوک ہے، وہ اپنی مخلوق میں کسی کی منازعت و معارضت اور کسی کے تعاون کے بغیر تصرف کرتا ہے، تمام مخلوق اس کے جلال کے سامنے فروتن اور اس کے کمال کے سامنے سرافگندہ ہے۔ الروم
27 ﴿وَهُوَ الَّذِي يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ وَهُوَ﴾ ” اور وہی تو ہے جو خلقت کو پہلی بار پیدا کرتا ہے، پھر اسے دوبارہ پیدا کرے گا اور یہ“ یعنی تمام مخلوق کی موت کے بعد ان کی تخلیق کا اعادہ کرنا ﴿أَهْوَنُ عَلَيْهِ ﴾ ” اس کے لیے زیادہ آسان ہے۔“ انہیں پہلی مرتبہ پیدا کرنے سے۔ یہ ذہن اور عقل کی نسبت سے ہے کہ جب وہ تخلیق کی ابتدا کرنے پر قادر ہے، جس کا تمہیں خود بھی اقرار ہے، تو تخلیق کے اعادہ پر قدرت آسان تر اور زیادہ اولیٰ ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے بڑی بڑی نشانیوں کا ذکر کرنے کے بعد، جن سے عبرت حاصل کرنے والے عبرت حاصل کرتے ہیں، اہل ایمان نصیحت پکڑتے ہیں اور ہدایت یافتہ لوگ اس سے بصیرت حاصل کرتے ہیں۔۔۔ بہت عظیم معاملے اور بہت بڑے مقصد کا تذکرہ کیا : ﴿وَلَهُ الْمَثَلُ الْأَعْلَىٰ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ﴾ ” اور آسمانوں اور زمین میں اسی کی بہترین اور اعلیٰ صفت ہے۔“ اس سے مراد ہر صفت کمال ہے اور اس کمال سے اللہ تعالیٰ کے مخلص بندوں کے دلوں میں محبت، انابت کامل، ذکر جلیل اور ان کی عبادت میں کمال مراد ہے۔ یہاں (اَلْمَثَلُ الْاَعْلٰی) سے مراد اس کے بلند ترین وصف اور اس پر مترتب ہونے والے آثار ہیں۔ اس لیے اہل علم اللہ تبارک و تعالیٰ کے بارے میں قیاس اولیٰ استعمال کرتے ہیں۔ وہ کہا کرتے ہیں کہ مخلوقات کی ہر صفت کمال سے متصف ہونے کا، ان کو پیدا کرنے والا اللہ زیادہ مستحق ہے، اسی طرح سے کہ کوئی اس کا اس صفت میں شریک نہیں ہوتا۔ ہر وہ نقص، جس سے مخلوق اپنے آپ کو بچاتی ہے خالق کا اس وصف سے منزہ ہونا اولیٰ و انسب ہے۔ ﴿وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ﴾ وہ غلبۂ کامل اور بے پایاں حکمت کا مالک ہے اس نے اپنے غلبے کی بنا پر مخلوقات کو وجود بخشا اور مامورات کو ظاہر کیا اور اپنی حکمت کی بنا پر اپنی بنائی چیزوں کو مہارت سے بنایا، ان کے اندر اپنی شرع کو بہترین طریقے سے مشروع کیا۔ الروم
28 اللہ تبارک و تعالیٰ نے شرک کی قباحت اور برائی واضح کرنے کے لیے تمہارے اپنے نفوس سے مثال دی ہے جس کو سمجھنے کے لیے سفر کرنے اور سواریاں کسنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ﴿هَل لَّكُم مِّن مَّا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُم مِّن شُرَكَاءَ فِي مَا رَزَقْنَاكُمْ﴾ ” کیا تمہارے غلاموں اور لونڈیوں میں سے کوئی ایسا ہے جسے تم اپنے رزق میں شریک کرسکو“ جن کے بارے میں تمہارا خیال ہو کہ وہ تمہارے برابر ہیں ﴿تَخَافُونَهُمْ كَخِيفَتِكُمْ أَنفُسَكُمْ﴾ ” تم ان سے اس طرح ڈرتے ہو جس طرح اپنوں سے ڈرتے ہو؟“ یعنی جس طرح حقیقی آزاد شریک اور اس کی تقسیم سے خوف آتا ہے کہ کہیں وہ تمام مال اپنے لیے مختص نہ کرلے۔ معاملہ ایسے نہیں کیونکہ تمہارے غلاموں میں سے کوئی غلام تمہارے اس رزق میں شریک نہیں بن سکتا جو اللہ تعالیٰ نے تمہیں عطا کیا ہے۔۔۔ حالانکہ تم نے ان کو پیدا کیا ہے نہ تم ان کو رزق دیتے ہو، نیز وہ بھی تمہاری طرح مملوک ہیں۔۔۔ پھر کیونکر تم اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو اس کا شریک بنانے پر راضی ہوتے ہو اور اس کو عبادت میں اللہ تعالیٰ کے ہم مرتبہ اور اس کے برابر قرار دیتے ہو، حالانکہ تم اپنے غلاموں کو اپنے برابر قرار دینے پر راضی نہیں ہو۔ یہ سب سے زیادہ عجیب چیز ہے اور جو کوئی اللہ تعالیٰ کا شریک قرار دیتا ہے اس کی سفاہت و حماقت پر سب سے بڑی دلیل ہے، نیز اس نے جس چیز کو معبود بنایا ہے وہ باطل اور کمزور ہے وہ اللہ تعالیٰ کے برابر نہیں ہوسکتی اور نہ وہ کسی قسم کی عبادت کی مستحق ہے۔ ﴿كَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْآيَاتِ﴾ ” ہم اسی طرح آیات کھول کھول کر بیان کرتے ہیں“ مثالوں کے ذریعے سے ﴿لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ ﴾ ” ان لوگوں کے لیے جو عقل رکھتے ہیں۔“ جو حقائق میں غور کرکے ان کی معرفت حاصل کرتے ہیں۔ رہا وہ شخص جو عقل سے کام نہیں لیتا اگر اس کے سامنے آیات کو کھول کھول کر بیان کردیا جائے اور دلائل کو واضح کردیا جائے تو اس کے پاس اتنی عقل ہی نہیں کہ اس کے ذریعے سے بات کی توضیح و تبیین کو سمجھ سکے۔۔۔ عقل مند لوگوں ہی کے سامنے کلام پیش کیا جاتا ہے اور انہیں خطاب کیا جاتا ہے۔ الروم
29 جب اس مثال سے یہ بات واضح ہوگئی کہ جو شخص کسی کو اللہ تعالیٰ کا شریک بناتا ہے، پھر اس کی عبادت کرتا ہے اور اپنے معاملات میں اس پر بھروسہ کرتا ہے، تو وہ حق پر نہیں تو وہ کون سی چیز ہے جو انہیں ایک امر باطل پر اقدام کے لیے آمادہ کرتی ہے جس کا بطلان اس کے لیے واضح اور اس کی دلیل ظاہر ہوچکی ہے؟ یقیناً ان کی خواہشات نفس ان کے اس اقدام کی موجب ہیں، اس لیے فرمایا : ﴿بَلِ اتَّبَعَ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَهْوَاءَهُم بِغَيْرِ عِلْمٍ﴾ ” مگر جو ظالم ہیں وہ بے سمجھے اپنی خواہشوں کے پیچھے چلتے ہیں۔“ ان کے ناقص نفس، جن کا نقص ان امور میں ظاہر ہوچکا ہے جن کا تعلق خواہشات نفس سے ہے، ایسی بات چاہتے ہیں جس کو عقل اور فطرت نے فاسد قرار دے کر رد کردیا ہے۔ ان کے پاس کوئی ایسی دلیل و برہان نہیں جو اس کی طرف ان کی رہنمائی کرتی ہو۔ ﴿فَمَن يَهْدِي مَنْ أَضَلَّ اللّٰـهُ﴾ ” پس جسے اللہ گمراہ کردے اسے کون ہدایت دے سکتا ہے؟“ یعنی ان کی عدم ہدایت پر تعجب نہ کرو۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو ان کے ظلم کی پاداش میں گمراہ کردیا ہے اور جسے اللہ تعالیٰ گمراہ کردے اس کی ہدایت کا کوئی راستہ نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کے اقتدار میں کوئی اس کا مدمقابل ہے نہ کوئی مخالف۔ ﴿وَمَا لَهُم مِّن نَّاصِرِينَ﴾ جب وہ عذاب کے مستحق قرار دے دیئے جائیں گے تو کوئی ان کا مددگار نہ ہوگا جو ان کی مدد کرسکے اور ان کے تمام اسباب منقطع ہوجائیں گے۔ الروم
30 اللہ تبارک و تعالیٰ تمام احوال میں اخلاص اور اقامت دین کا حکم دیتا ہے، لہٰذا فرمایا : ﴿فَأَقِمْ وَجْهَكَ﴾ اپنے آپ کو دین کی طرف متوجہ رکھیے اور اس سے مراد اسلام، ایمان اور احسان ہے، یعنی اپنے قلب و قصد اور بدن کے ساتھ ظاہری شرائع کو قائم کیجیے، مثلاً نماز، زکوٰۃ، روزہ اور حج وغیرہ اور اس کے ساتھ ساتھ باطنی شرائع پر عمل کیجیے، مثلاً: اللہ تعالیٰ سے محبت، اس سے خوف، اس پر امید اور اس کی طرف انابت وغیرہ۔ ظاہری اور باطنی شرائع میں احسان یہ ہے کہ تو اللہ تعالیٰ کی اس طرح عبادت کرے کہ گویا تو اسے دیکھ رہا ہے، اگر یہ کیفیت پیدا نہ ہوسکے تو اس طرح اس کی عبادت کرے کہ اللہ تجھے دیکھ رہا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ” چہرے کو قائم رکھنے“ کا خاص طور پر ذکر کیا ہے کیونکہ قلب کی توجہ، چہرے کی توجہ کی پیروی کرتی ہے اور ان دونوں امور پر بدن کی سعی مترتب ہوتی ہے اسی لیے فرمایا : ﴿حَنِيفًا﴾ یعنی ہر طرف سے منہ پھیر کر صرف اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ رکھتے ہوئے۔ یہ چیز جس کا ہم نے آپ کو حکم دیا ہے وہ ﴿فِطْرَتَ اللّٰـهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا﴾ ” اللہ کی فطرت ہے جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی عقول میں فطرت کے محاسن اور غیر فطرت کے قبائح ودیعت کردیے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے شریعت کے تمام ظاہری اور باطنی احکام کی طرف تمام مخلوق کے دلوں میں میلان رکھ دیا ہے تو درحقیقت اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں حق کی محبت اور حق کو ترجیح دینے کو ودیعت کردیا اور یہی فطرت کی حقیقت ہے۔ جو کوئی اس اصول سے باہر ہے تو اس کا سبب کوئی عارضہ ہے جو اس کی فطرت کو لاحق ہے جس نے اسے فاسد کرکے رکھ دیا ہے جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ﴿كُلُّ مَوْلُودٍ يُولَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ فَأَبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ أَوْ يُنَصِّرَانِهِ أَوْ يُمَجِّسَانِهِ ﴾ [صحیح البخاری، باب قوله: ﴿ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ۔۔۔۔۔۔۔﴾(السجدة:32؍17) حدیث :4779 وصحیح مسلم، الجنة وصفة نعیمھا وأھلھا، باب صفة الجنة، حدیث:2824)” ہر بچہ فطرت پر پیدا کیا جاتا ہے پس اس کے ماں باپ اسے یہودی بنا دیتے ہیں یا نصرانی یا مجوسی۔ “ ﴿لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللّٰـهِ﴾ ” اللہ کی تخلیق میں تغیر و تبدل نہیں ہوسکتا۔“ کوئی ایسی ہستی نہیں جو اللہ تعالیٰ کی تخلیق کو تبدیل کرسکے اور اس کو ایسی وضع پر تبدیل کردے جو اللہ تعالیٰ کی تخلیق کردہ وضع سے مختلف ہے ﴿ذٰلِكَ﴾ ” یہ“ جس کا ہم نے آپ کو حکم دیا ہے ﴿الدِّينُ الْقَيِّمُ﴾ ” سیدھا دین ہے“ یعنی سیدھا راستہ ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے عزت و تکریم کے گھر تک پہنچاتا ہے جو کوئی ہر طرف سے توجہ ہٹاکر دین میں یکسو ہوتا ہے وہ اپنے تمام شرائع اور تمام طریقوں میں صراط مستقیم پر گامزن ہے۔ ﴿وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ﴾ ” لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔“ اس لیے وہ دین کی معرفت حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتے اگر انہیں دین کی معرفت حاصل ہو ہی جائے تو اس پر عمل پیرا نہیں ہوتے۔ الروم
31 ﴿مُنِيبِينَ إِلَيْهِ وَاتَّقُوهُ﴾ ” اسی کی طرف رجوع کیے رہو اور اس سے ڈرتے رہو۔“ یہ جملہ ” دین کی طرف توجہ رکھنے“ کی تفسیر ہے کیونکہ (انابت) ” رجوع کرنا“ سے مراد، قلب کا رجوع کرنا اور اس کے تمام داعیوں کا اللہ تعالیٰ کی رضا کی طرف کھنچنا ہے۔ یہ اس بات کو مستلزم ہے کہ بدن قلب کے تقاضوں کے مطابق کام کرتا ہے اور اس یہ چیز ظاہری اور باطنی عبادت کو شامل ہے اور اس کی اس وقت تک تکمیل نہیں ہوتی جب تک ظاہری اور باطنی گناہوں کو ترک نہ کیا جائے۔ بنا بریں فرمایا : ﴿وَاتَّقُوهُ﴾ ” اس سے ڈرتے رہو۔“ یہ تمام مامورات کی تعمیل اور تمام منہیات سے اجتناب کو شامل ہے۔ مامورات میں نماز کا خاص طور پر ذکر کیا۔ کیونکہ نماز انابت اور تقویٰ کی طرف بلاتی ہے جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَأَقِمِ الصَّلَاةَ إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ﴾ (العنکبوت : 29؍45)” نماز قائم کر، بے شک نماز فحش اور برے کاموں سے روکتی ہے۔“ گویا یہ تقویٰ پر اعانت ہے، پھر فرمایا : ﴿ وَلَذِكْرُ اللّٰـهِ أَكْبَرُ ﴾ (العنکبوت : 29؍45)” اور اللہ کا ذکر اس سے بڑھ کر ہے۔“ اور یہ انابت کی ترغیب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے منہیات میں سے ایسی برائی کا خصوصی طور پر ذکر کیا ہے جو تمام برائیوں کی جڑ ہے اور جس کے ہوتے ہوئے کوئی عمل قبول نہیں ہوتا اور وہ ہے شرک، فرمایا : ﴿ وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِينَ﴾ ” اور مشرکوں میں نہ ہونا۔“ کیونکہ شرک، انابت کی ضد ہے اور انابت کی روح ہر لحاظ سے اخلاص ہے۔ الروم
32 پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے مشرکین کی حالت کی قباحت بیان کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ مِنَ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ﴾ ” جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کرلیا“ حالانکہ دین ایک ہے اور وہ ہے اکیلے اللہ تعالیٰ کے لیے دین کو خالص کرنا اور ان مشرکین نے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا ان میں سے کچھ پتھروں اور بتوں کی عبادت کرنے لگے، کچھ سورج اور چاند کو پوجنے لگے، ان میں سے کچھ نے اولیاء و صالحین کی عبادت کو وتیرہ بنالیا اور ان میں سے کچھ یہودی اور کچھ نصرانی ہیں اس لیے فرمایا : ﴿ وَكَانُوا شِيَعًا﴾ ” اور وہ فرقے فرقے ہوگئے۔“ یعنی ہر فرقے نے اپنے باطل نظریات کی نصرت و تائید کے لیے تعصب پر مبنی اپنا الگ گروہ بنالیا اور دوسروں سے دشمنی اور محاربت شروع کردی۔ ﴿ كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ﴾ ” سب فرقے اس سے جو ان کے پاس ہے“ انبیاء و مرسلین کے علوم کے مخالفت کرنے والے علوم میں سے وہ ﴿فَرِحُونَ ﴾ ان پر بہت خوش ہیں اور اپنے بارے میں فیصلہ کرتے ہیں کہ وہ حق پر ہیں اور ان کے علاوہ دیگر لوگ باطل پر ہیں۔ یہ آیت کریمہ تشتت اور تفرقہ بازی کے ضمن میں مسلمانوں کے لیے تنبیہ ہے کہ ہر فریق جو اپنے حق اور باطل نظریات کے بارے میں تعصب رکھتا ہے وہ تفرقہ بازی میں مشرکین سے مشابہت رکھتا ہے۔ مگر اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ دین ایک ہے، رسول ایک ہے اور معبود ایک ہے اور اکثر دینی امور کے بارے میں اہل علم اور ائمہ کرام کا اجماع واقع ہوچکا ہے اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے نہایت مربوط طریقے سے اخوت ایمانی قائم کردی ہے تب کیا بات ہے کہ ان تمام متفقہ اصولوں اور اخوت ایمانی کو باطل قرار دے کر انتہائی خفیف فروعی اور اختلافی مسائل کی بنا پر مسلمانوں کے درمیان افتراق اور دشمنی پیدا کی جاتی ہے۔ وہ ایک دوسرے کو گمراہ قرار دیتے ہوئے اپنے آپ کو دوسرے مسلمانوں سے علیحدہ سمجھتے ہیں۔ کیا یہ صورتحال شیطان کی طرف سے بڑا فساد اور اس کا سب سے بڑا مقصد نہیں جس کے ذریعے سے وہ مسلمانوں کو اپنے فریب میں مبتلا کرتا ہے؟ کیا مسلمانوں کو ایک کلمہ پر جمع کرنا، ان کے درمیان ان اختلافات کا خاتمہ کرنا جو باطل اصولوں پر مبنی ہیں، اللہ کے راستے میں سب سے بڑا جہاد اور افضل ترین عمل نہیں ہے جو اللہ تعالیٰ کے قریب کرتا ہے؟ اللہ تبارک و تعالیٰ نے انابت کا حکم دیا ہے، اور یہ انابت، انابت اختیاری ہے جو عسرت و خوشحالی، فراخی اور تنگی ہر حال میں اختیار کی جاتی ہے پھر انابت اضطراری کا ذکر کیا جو انسان میں صرف اس وقت ہوتی ہے جب وہ تنگی اور تکلیف میں مبتلا ہوتا ہے۔ جب تنگی زائل ہوجاتی ہے تو وہ انابت کو بھی پیٹھ پیچھے پھینک دیتا ہے، لہٰذا اس قسم کی انابت فائدہ مند نہیں ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : الروم
33 ﴿ وَإِذَا مَسَّ النَّاسَ ضُرٌّ ﴾ ” اور جب لوگوں کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے۔“ یعنی مرض یا ہلاکت کا خوف وغیرہ ﴿ دَعَوْا رَبَّهُم مُّنِيبِينَ إِلَيْهِ ﴾ ”تو اپنے رب کی طرف رجوع کرتے ہوئے اسے پکارتے ہیں۔“ اور اس حال میں وہ اپنے اس شرک کو فراموش کردیتے ہیں جو وہ کیا کرتے تھے کیونکہ انہیں علم ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی ایسی ہستی نہیں جو ان کی تکلیف کو دور کرسکے۔ ﴿ ثُمَّ إِذَا أَذَاقَهُم مِّنْهُ رَحْمَةً﴾ ” پھر جب وہ ان کو اپنی رحمت کا مزہ چکھاتا ہے۔“ یعنی ان کو ان کی بیماری سے شفایاب اور ہلاکت کے خوف سے نجات دیتا ہے ﴿ إِذَا فَرِيقٌ مِّنْهُم﴾ تو ان میں سے ایک فریق اس انابت کو ترک کرتے ہوئے جو اس سے صادر ہوئی تھی، ایسی ہستیوں کو اللہ تعالیٰ کا شریک بنا دیتا ہے جو ان کی خوش بختی اور بدبختی، ان کے فقر اور غنا پر کوئی اختیار نہیں رکھتیں۔ یہ سب کچھ ان احسانات و عنایات کی ناشکری ہے جن سے اللہ تعالیٰ نے ان کو نوازا، شدت اور تکلیف سے ان کو بچایا اور مشقت کو ان سے دور کیا، تب انہوں نے اس نعمت جلیلہ کو اپنے تمام احوال میں شکر اور دائمی اخلاص کے ساتھ کیوں قبول نہ کیا؟ الروم
34 الروم
35 ﴿ أَمْ أَنزَلْنَا عَلَيْهِمْ سُلْطَانًا﴾ ” کیا ہم نے ان پر کوئی ایسی دلیل نازل کی ہے“ یعنی کوئی ظاہری دلیل ﴿ فَهُوَ ﴾ ” کہ وہ“ دلیل ﴿ يَتَكَلَّمُ بِمَا كَانُوا بِهِ يُشْرِكُونَ ﴾ ” ان کو اللہ کے ساتھ شرک کرنا بتاتی ہے۔“ اور انہیں کہتی ہے کہ اپنے شرک پر قائم رہو، اپنے شک پر جمے رہو، تمہارا موقف حق ہے اور جس چیز کی طرف تمہیں انبیاء و مرسلین دعوت دیتے ہیں وہ باطل ہے۔ کیا کوئی ایسی دلیل تمہارے پاس موجود ہے جو شرک کو سختی کے ساتھ پکڑے رکھنے کی موجب ہے؟ یا اس کے برعکس تمام عقلی و نقلی دلائل، تمام کتب الٰہیہ، تمام انبیاء و مرسلین اور بڑے بڑے لوگ شرک سے نہایت شدت کے ساتھ روکتے ہیں اور ان تمام راستوں پر چلنے سے باز رکھتے ہیں جن کی منزل شرک ہے اور ایسے شخص کی عقل و دین کے فساد کا حکم لگاتے ہیں جو شرک کا ارتکاب کرتا ہے؟ پس ان مشرکین کا شرک، جس پر کوئی دلیل اور برہان نہیں، محض خواہشات نفس کی پیروی اور شیطانی وسوسے ہیں۔ الروم
36 اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ نرمی اور سختی کے حالات میں اکثر لوگوں کی فطرت یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ صحت، فراخی اور نصرت وغیرہ کے ذریعے سے انہیں اپنی رحمت کا مزا چکھاتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی نعمت پر اس کا شکر ادا کرتے ہوئے فرحت کا اظہار نہیں کرتے بلکہ تکبر کے ساتھ اتراتے ہوئے خوش ہوتے ہیں ﴿ وَإِن تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ﴾ ” اور اگر انہیں کوئی تکلیف پہنچے“ یعنی اگر ان کا حال ایسا ہوتا ہے جس سے ان کو تکلیف پہنچتی ہو ﴿ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ ﴾ ” ان کے عملوں کے سبب جو ان کے ہاتھوں نے آگے بھیجے“ یعنی اپنے کرتوتوں کے باعث ﴿إِذَا هُمْ يَقْنَطُونَ﴾ ” تو ناامید ہوجاتے ہیں۔“ یعنی فقر اور بیماری وغیرہ کے دور ہونے کے بارے میں مایوس ہوجاتے ہیں۔ یہ مایوسی ان کی جہالت اور عدم معرفت کے باعث ہے۔ الروم
37 ﴿ أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّ اللّٰـهَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن يَشَاءُ وَيَقْدِرُ﴾ ” کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ اللہ ہی جس کے لیے چاہتا ہے رزق فراخ کردیتا ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے تنگ کردیتا ہے؟“ یہ جان لینے کے بعد کہ خیر اور شر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، رزق میں تنگی اور فراخی بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقدر ہے مایوسی کا کوئی مقام نہیں۔ اے عقل مند شخص ! مجرد اسباب پر نظر نہ رکھ بلکہ مسبب الاسباب کی طرف دیکھ، اس لیے فرمایا : ﴿ إِنَّ فِي ذٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ﴾ ” بے شک اس میں ان لوگوں کے لیے جو ایمان لاتے ہیں نشانیاں ہیں۔“ کیونکہ یہی لوگ ہیں جو رزق میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے، اس کی مشیت کے مطابق، عطا کردہ کشادگی اور تنگی سے عبرت حاصل کرتے ہیں۔ اس کے ذریعے سے انہیں اللہ تعالیٰ کی حکمت، اس کی رحمت، اس کے جود و کرم اور رزق کی تمام ضروریات میں دل کے اللہ تعالیٰ سے سوال کرنے کی طرف میلان کی معرفت حاصل ہوتی ہے۔ الروم
38 اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ اپنے قرابت دار کو اس کی قرابت اور ضرورت کے مطابق اس کا حق ادا کرو جو شارع نے واجب قرار دیا ہے یا اس کی ترغیب دی ہے مثلاً نفقات واجبہ اور صدقات کی ادائیگی کرنا، ہدیہ دینا، نیک سلوک کرنا، سلام کرنا، عزت و تکریم کرنا، دوسرے کی لغزش کو معاف کرنا اور اس کی بدکلامی پر رواداری سے کام لینا۔ اسی طرح مسکین کو، جسے فقر و فاقہ نے لاچار کردیا ہو، اتنا عطا کرنا جس سے اس کے کھانے پینے اور لباس کی ضرورت پوری ہوجائے۔ ﴿ وَابْنَ السَّبِيلِ﴾ وہ غریب الوطن مسافر جس کا زاد راہ ختم ہوگیا ہو، اپنے شہر سے دور ہو جس کے بارے میں گمان ہو کہ وہ انتہائی ضرورت مند ہوگا اس کے پاس مال ہے نہ ہاتھ میں کوئی کسب جس کے ذریعے سے وہ دوران سفر اپنی ضروریات کا انتظام کرسکتا ہو، برعکس اس شخص کے جو اپنے شہر میں رہتا ہے اگر اس کے پاس مال نہ ہو تو غالب حالات میں اس کے بارے میں یہ گمان ہوتا ہے کہ وہ کسی صنعت و حرفت کا کام کرتا ہوگا جس سے اس کی ضرورت پوری ہوجاتی ہوگی۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ میں مسکین اور مسافر کا (الگ الگ) حصہ رکھا ہے۔ ﴿ ذٰلِكَ﴾ ” یہ“ یعنی قرابت داروں، مساکین اور مسافروں کو عطا کرنا ﴿ خَيْرٌ لِّلَّذِينَ يُرِيدُونَ ﴾ ” ان لوگوں کے لیے بہتر ہے جو چاہتے ہیں“ اس عمل کے ذریعے سے ﴿ وَجْهَ اللّٰـهِ﴾ ” اللہ کا چہرہ“ یعنی بے شمار بھلائی اور ثواب کثیر، کیونکہ یہ بہترین اعمال ہیں، ان کا فائدہ دوسروں تک پہنچتا ہے بشرطیکہ موقع و محل کے مطابق اور اخلاص سے مقرون ہوں۔ اگر اس سے اللہ تعالیٰ کی رضا مقصود نہ ہو تو عطا کرنے والے کے لیے کوئی بھلائی نہیں خواہ اس شخص کو اس سے کتنا ہی فائدہ کیوں نہ پہنچا ہو جسے عطا کیا گیا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿ لَّا خَيْرَ فِي كَثِيرٍ مِّن نَّجْوَاهُمْ إِلَّا مَنْ أَمَرَ بِصَدَقَةٍ أَوْ مَعْرُوفٍ أَوْ إِصْلَاحٍ بَيْنَ النَّاسِ﴾ (النساء : 4؍114) ” ان لوگوں کے بہت سے مشوروں میں کوئی بھلائی نہیں، سوائے اس کے کہ صدقہ کا حکم دیا ہو یا نیکی کا یا لوگوں کے درمیان صلح کروائی ہو۔ “ اس آیت کریمہ کا مفہوم یہ ہے کہ ان کاموں میں بھلائی ہے کیونکہ ان کا فائدہ دوسروں تک پہنچتا ہے، مگر جو کوئی اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لیے یہ کام کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ عنقریب اسے اجر عظیم عطا کرے گا۔ فرمایا : ﴿ وَأُولَـٰئِكَ﴾ یعنی وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر یہ اعمال بجا لاتے ہیں ﴿ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ﴾ ” وہی فلاح پانے والے ہیں۔“ جو اللہ تعالیٰ کے ثواب سے فیض یاب اور اس کے عذاب سے نجات یافتہ ہیں۔ الروم
39 اللہ تبارک و تعالیٰ نے انفاق فی سبیل اللہ وغیرہ، ان اعمال کا ذکر فرمایا جن کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کی رضا مقصود ہے پھر ان اعمال کا ذکر کیا جو دنیاوی مقاصد کے تحت کیے جاتے ہیں، چنانچہ فرمایا : ﴿ وَمَا آتَيْتُم مِّن رِّبًا لِّيَرْبُوَ فِي أَمْوَالِ النَّاسِ﴾ ” اور جو تم سود دیتے ہو کہ لوگوں کے مالوں میں افزائش ہو۔“ یعنی اپنی ضروریات سے زائد مال، جو تم عطا کرتے ہو اور اس سے تمہارا مقصد یہ ہوتا ہے کہ تمہارے مال میں اضافہ ہوجائے۔ تم انہی لوگوں کو مال عطا کرتے ہو جن سے تمہیں عطا کردہ مال سے زیادہ معاوضے کی امید ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں اس عمل کے اجر میں اضافہ نہیں ہوتا کیونکہ اس میں اخلاص کی شرط معدوم ہے۔ اس قسم کے اعمال کے زمرے میں وہ اعمال آتے ہیں جو لوگوں کے ہاں عزت و جاہ اور ریا کے لیے کیے جائیں۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں ان اعمال کے اجر میں اضافہ نہیں ہوتا۔ ﴿ وَمَا آتَيْتُم مِّن زَكَاةٍ ﴾ ”اور جو کچھ تم زکوٰۃ دیتے ہو۔“ وہ مال تمہیں اخلاق رذیلہ سے پاک کرتا ہے اور زکوٰۃ کے ذریعے سے تمہارے مال کو بخل سے پاک کرتا ہے اور حاجت مند کی حاجت پوری کرنے کی بنا پر اس میں اضافہ کرتا ہے۔ ﴿ تُرِيدُونَ ﴾ ” تم چاہتے ہو“ زکوٰۃ کی ادائیگی سے ﴿ وَجْهَ اللّٰـهِ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُضْعِفُونَ﴾” اللہ کا چہرہ، تو وہی لوگ اپنے مال کو دگنا چوگنا کر رہے ہیں۔“ اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کا خرچ کیا ہوا مال کئی گنا ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس مال کو ان کے لیے بڑھاتا رہتا ہے حتیٰ کہ وہ بہت زیادہ ہوجاتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد : ﴿ وَمَا آتَيْتُم مِّن زَكَاةٍ﴾ دلالت کرتا ہے وہ صدقہ، جس کا دینے والا اضطرار سے دوچار ہو، یا صدقہ دینے والے کے ذمہ قرض ہو جو اس نے ادا نہیں کیا اور اس کی بجائے صدقے کو مقدم رکھا تو اس زکوٰۃ پر بندے کو اس کا اجر نہیں ملے گا اور اس کا یہ تصرف شرعاً مردود ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿ الَّذِي يُؤْتِي مَالَهُ يَتَزَكَّىٰ﴾ (اللیل : 93؍18) ” جو پاک ہونے کے لیے اللہ کے راستے میں اپنا مال عطا کرتا ہے۔“ مجرد مال عطا کرنا بھلائی نہیں جب تک کہ وہ وصف مذکور کے ساتھ نہ ہو یعنی عطا کرنے والے کا مقصد پاک ہونا ہو۔ الروم
40 اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ تمہاری تخلیق، تمہیں رزق عطا کرنے، تمہیں مارنے اور تمہیں زندہ کرنے میں اللہ تعالیٰ یکتا ہے اور یہ خود ساختہ الٰہ، جن کو مشرکین نے اللہ تعالیٰ کے شریک قرار دے رکھا ہے ان افعال میں کوئی بھی شریک نہیں۔ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ، جو ان امور میں یکتا ہے، ایسی ہستیوں کو شریک ٹھہراتے ہیں، جو کسی طرح بھی ان امور میں تصرف کی قدرت نہیں رکھتیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ان کے شرک سے بالاتر، پاک اور منزہ ہے اور ان کے شرک سے اللہ تعالیٰ کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا اور اس کا وبال انہی پر ہے۔ الروم
41 بحر و بر میں فساد برپا ہوگیا، یعنی ان کی معیشت میں فساد اور اس میں کمی، ان کی معیشت پر آفات کا نزول اور خود ان کے اندر امراض اور وباؤں کا پھیلنا، یہ سب کچھ ان کے کرتوتوں کی پاداش اور فطری طور پر فاسد اور فساد برپا کرنے والے اعمال کے سبب سے ہے۔ یہ مذکور عذاب اس لیے ہے ﴿ لِيُذِيقَهُم بَعْضَ الَّذِي عَمِلُوا﴾ ” تاکہ وہ ان کو ان کے بعض اعمال کا مزہ چکھائے۔“ یعنی وہ جان لیں کہ اللہ تعالیٰ ہی اعمال کی جزا دینے والا ہے۔ اس نے انہیں دنیا ہی میں ان کے اعمال کی جزا کا ایک نمونہ دکھا دیا۔ ﴿ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ﴾ ” شاید کہ وہ ﴿اپنے ان اعمال سے باز آجائیں“ جن کی وجہ سے فساد برپا ہوا ہے۔ اس طرح ان کے احوال درست اور ان کے معاملات سیدھے ہوجائیں۔ پاک ہے وہ ذات جس نے اپنی آزمائش کے ذریعے سے انعام کیا اور اپنے عذاب کے ذریعے سے احسان کیا ورنہ اگر وہ ان کے تمام کرتوتوں کی سزا کا مزا چکھاتا تو روئے زمین پر ایک بھی جاندار نہ چھوڑتا۔ الروم
42 زمین میں چلنے پھرنے کے حکم میں، بدنی سیر اور قلبی سیر دونوں شامل ہیں۔ قلبی سیر کا مقصد گزرے ہوئے لوگوں کے انجام پر غور و فکر ہے۔ ﴿ كَانَ أَكْثَرُهُم مُّشْرِكِينَ﴾ ” ان میں زیادہ تر مشرک ہی تھے۔“ تم ان کے انجام کو بدترین انجام پاؤ گے۔ عذاب نے ان کی جڑ کاٹ کر رکھ دی اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی طرف سے مذمت، لعنت اور لگاتار رسوائی ان کا پیچھا کرتی رہی۔ پس تم بھی ان جیسے اعمال سے بچو کہیں ایسا نہ ہو کہ تم پر بھی وہی عذاب نازل ہوجائے جو ان پر نازل ہوا تھا کیونکہ اللہ تعالیٰ کا عدل اور اس کی حکمت ہر زمان و مکان میں جاری ہے۔ الروم
43 اپنے دل، چہرے اور بدن کو سیدھے اور مستقیم دین کو قائم رکھنے پر متوجہ رکھیے، کوشش اور جدوجہد سے اللہ تعالیٰ کے اوامر و نواہی کو نافذ کیجیے اور دین کے ظاہری اور باطنی تمام وظائف ادا کیجیے۔ اپنے زمانے، اپنی زندگی اور اپنے شباب میں جلدی سے نیک عمل کرلیجیے ﴿ مِن قَبْلِ أَن يَأْتِيَ يَوْمٌ لَّا مَرَدَّ لَهُ مِنَ اللّٰـهِ﴾ ” اس دن سے پہلے جو اللہ کی طرف سے آکر رہے گا اور رک نہیں سکے گا۔“ اس سے مراد روز قیامت ہے اور جب وہ دن آجائے گا تو اسے روکنا ممکن نہ ہوگا۔ عمل کرنے والوں کو مہلت نہ دی جائے گی کہ اپنے عمل کو نئے سرے سے سرانجام دیں بلکہ وہ اعمال سے فارغ ہوچکے اب تو عمل کرنے والوں کی جزا کے سوا کچھ باقی نہیں بچا۔ ﴿ يَوْمَئِذٍ يَصَّدَّعُونَ ﴾ اس دن لوگ بکھر جائیں گے اور الگ الگ حاضر ہوں گے تاکہ ان کو ان کے اعمال دکھائے جائیں۔ الروم
44 ﴿ مَن كَفَرَ﴾ ” جس نے کفر کیا“ ان میں سے ﴿ فَعَلَيْهِ كُفْرُهُ﴾ ” تو اس کے کفر کا ضرر اسی کو ہے۔“ یعنی اس کی سزا صرف اسی کی ذات کو ملے گی اور کوئی کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا ﴿ وَمَنْ عَمِلَ صَالِحًا﴾ ” اور جس نے نیک عمل کیے۔“ یعنی جو کوئی اللہ تعالیٰ اور بندوں کے حقوق واجبہ و مستحبہ ادا کرتا ہے۔ ﴿ فَلِأَنفُسِهِمْ﴾ ” تو وہ اپنے ہی لیے“ نہ کہ کسی دوسرے کے لیے ﴿ يَمْهَدُونَ﴾ یہ اعمال صالحہ تیار کر رہے ہیں، اپنی ہی آخرت کو آباد کر رہے ہیں، جنت کے بالا خانوں اور منازل کے حصول کے لیے اپنے آپ کو تیار کر رہے ہیں۔ الروم
45 بایں ہمہ ان کی جزا ان کے اعمال پر منحصر نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ اپنے بے پایاں فضل اور لامحدود کرم کی بنا پر ان کو اتنی جزا دے گا جہاں تک ان کے اعمال کی رسائی ہی نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ ان سے محبت کرتا ہے اور جب وہ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو اسے اپنے بے پایاں احسانات، عنایات فاخرہ، ظاہری اور باطنی نعمتوں سے سرفراز فرماتا ہے۔ اس کے برعکس، چونکہ اللہ کفار سے ناراض ہے اس لیے وہ ان کو سزا دیتا ہے اور عذاب میں مبتلا کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان پر اپنی عنایت نہیں کرے گا جیسے اس نے اپنے محبوب بندوں پر کی، اس لیے فرمایا : ﴿إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْكَافِرِينَ﴾ ” بلاشبہ اللہ تعالیٰ کافروں کو پسند نہیں کرتا۔ “ الروم
46 یہ ان دلائل کا بیان ہے جو اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کی حقیقت پر دلالت کرتے ہیں کہ وہ مردوں کو زندہ کرے گا اس لیے کہ اللہ تعالیٰ ہی الٰہ معبود اور بادشاہ محمود ہے۔ ان دلائل میں سے ایک ﴿ أَن يُرْسِلَ الرِّيَاحَ ﴾ بارش سے پہلے اس کا ہواؤں کو بھیجنا ہے۔ ﴿ مُبَشِّرَاتٍ﴾ جو بادلوں کو اٹھا کر خوشخبری دیتی ہیں، پھر بادلوں کو اکٹھا کرتی ہیں اور بارش کے برسنے سے پہلے نفس خوش ہوتے ہیں۔ ﴿ وَلِيُذِيقَكُم مِّن رَّحْمَتِهِ﴾ ” اور تاکہ وہ تمہیں اپنی رحمت کا مزہ چکھائے۔“ وہ تم پر بارش برساتا ہے، جس سے زمین اور بندوں میں زندگی کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ تم اس کی رحمت کا مزا چکھتے ہو اور وہ تمہیں معلوم ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہی بندوں کو ان کا رزق فراہم کرتی ہے، لہٰذا تم ان اعمال صالحہ کی کثرت کے مشتاق ہوجاؤ جو اس کی رحمت کے خزانے کھول دیں۔ ﴿ وَلِتَجْرِيَ الْفُلْكُ﴾ ” اور تاکہ کشتیاں چلیں“ سمندر کے اندر ﴿بِأَمْرِهِ ﴾ اس کے حکم قدری سے ﴿ وَلِتَبْتَغُوا مِن فَضْلِهِ﴾ اور اپنی معاش اور مصالح میں تصرف کے ذریعے سے اللہ کا فضل تلاش کرو۔ ﴿وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ﴾ ” اور شاید کہ تم شکر ادا کرو“ اس ہستی کا جس نے تمہارے لیے یہ اسباب مہیا کیے اور تمہارے لیے رزق کے ذرائع پیدا کئے۔ نعمتوں سے مقصود یہ ہے کہ ان کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا جائے تاکہ اللہ تعالیٰ تمہیں اور زیادہ نعمتوں سے سرفراز کرے اور ان نعمتوں کو تمہارے پاس باقی رکھے۔ رہا نعمتوں کے مقابلے میں کفر اور معاصی کا ارتکاب کرنا تو یہ اس شخص کا حال ہے جو اللہ تعالیٰ کی نعمت کو کفر سے بدل دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی عنایات کے بدلے ناشکری کرتا ہے۔ اس کے اس رویے سے نعمتیں اس شخص سے کسی دوسرے شخص کی طرف منتقل ہوجاتی ہیں۔ الروم
47 ﴿ وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ ﴾ ” اور تحقیق ہم نے آپ سے پہلے بھیجے“ یعنی گزشتہ امتوں میں ﴿ رُسُلًا إِلَىٰ قَوْمِهِمْ﴾ ” رسول ان کی قوم کی طرف۔“ یعنی جب ان قوموں نے توحید کا انکار کیا اور حق کی تکذیب کی تو ان کے رسول ان کے پاس آئے جو ان کو توحید اور اخلاص کی دعوت دیتے تھے، حق کی تصدیق اور ان کے کفر اور ضلالت کا ابطال کرتے تھے۔ وہ اپنے اس موقف پر واضح دلائل لے کر آئے، مگر وہ ایمان لائے نہ انہوں نے اپنی گمراہی کو ترک کیا ﴿ فَانتَقَمْنَا مِنَ الَّذِينَ أَجْرَمُوا﴾ ” پس ہم نے ان لوگوں سے انتقام لیا جنہوں نے جرم کا ارتکاب کیا“ اور انبیا کی پیروی کرنے والے اہل ایمان کی مدد کی ﴿ وَكَانَ حَقًّا عَلَيْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِينَ ﴾ ” اور مومنوں کی مدد ہم پر لازم تھی۔“ یعنی اہل ایمان کی نصرت ہم نے خود اپنے آپ پر واجب کی، اہل ایمان کی نصرت کو جملہ متعین حقوق میں شامل کیا اور ان کے ساتھ اس نصرت کا وعدہ کیا۔ پس اس کا واقع ہونا ضروری ہے۔ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تکذیب کرنے والو ! اگر تم تکذیب کی روش پر قائم رہے تو تم پر عذاب نازل ہوگا اور ہم تمہارے خلاف محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فتح و نصرت سے سرفراز کریں گے۔ الروم
48 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی قدرت کاملہ اور نعمت تامہ کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ ﴿ يُرْسِلُ الرِّيَاحَ فَتُثِيرُ سَحَابًا﴾ ” وہ ہواؤں کو چلاتا ہے تو وہ بادل کو اٹھاتی ہیں“ زمین سے ﴿ فَيَبْسُطُهُ فِي السَّمَاءِ ﴾ پھر اللہ تعالیٰ ان بادلوں کو آسمان میں پھیلا دیتا ہے ﴿ كَيْفَ يَشَاءُ﴾ جس حالت میں چاہتا ہے ﴿ وَيَجْعَلُهُ ﴾ ” اور اس کو کردیتا ہے“ یعنی اس لمبے چوڑے بادل کو ﴿ كِسَفًا ﴾ ایک گہرا بادل بنا دیتا ہے جو ایک دوسرے کے اوپر جما ہوا ہوتا ہے۔ ﴿ فَتَرَى الْوَدْقَ يَخْرُجُ مِنْ خِلَالِهِ ﴾ پھر تم اس بادل میں سے چھوٹے چھوٹے قطرے گرتے دیکھتے ہو۔ بارش کے یہ قطرے بیک وقت نہیں گرتے، تاکہ ایسا نہ ہو کہ یہ قطرے جس پر گریں اسے خراب کردیں۔ ﴿ فَإِذَا أَصَابَ بِهِ﴾ ” پھر جب اسے برسا دیتا ہے“ یعنی اس بارش کو ﴿ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ إِذَا هُمْ يَسْتَبْشِرُونَ ﴾ ” اپنے بندوں میں سے جن پر چاہتا ہے، تو وہ خوش ہوجاتے ہیں۔“ وہ بارش برسنے پر ایک دوسرے کو خوشخبری دیتے ہیں کیونکہ وہ بارش کے سخت ضرورت مند تھے۔ الروم
49 ﴿ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلِ أَن يُنَزَّلَ عَلَيْهِم مِّن قَبْلِهِ لَمُبْلِسِينَ ﴾ وہ اس سے پہلے بارش میں تاخیر ہونے کی وجہ سے سخت مایوس تھے۔ جب اس حالت میں بارش برستی ہے تو یہ ان کے لیے انتہائی خوشی کا موقع بن جاتا ہے۔ الروم
50 ﴿ فَانظُرْ إِلَىٰ آثَارِ رَحْمَتِ اللّٰـهِ كَيْفَ يُحْيِي الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا﴾ ” اب اللہ کی اس رحمت کے نتائج پر غور کیجیے کہ وہ کیسے زمین کو مردہ ہونے کے بعد زندہ کرتا ہے۔“ زمین لہلہانے لگتی ہے اور وہ قسم قسم کی خوبصورت نباتات اگاتی ہے۔ ﴿ إِنَّ ذٰلِكَ﴾ وہ ہستی جو زمین کے مردہ ہوجانے کے بعد اسے زندہ کرتی ہے ﴿ لَمُحْيِي الْمَوْتَىٰ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ﴾ ” مردوں کو زندہ کرنے والی ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔“ اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کبھی کسی چیز سے قاصر نہیں رہی اگرچہ اس کی قدرت مخلوق کی عقل و فہم سے باریک تر ہوتی ہے۔ ان کی عقل اس کی قدرت کے کرشموں سے حیران ہوجاتی ہے۔ الروم
51 اللہ تبارک و تعالیٰ مخلوق کا حال بیان کرتا ہے کہ لوگ اللہ تعالیٰ کی بے پایاں رحمت کے سایہ کناں ہونے، زمین کے مر جانے کے بعد اس کے زندہ ہونے پر بہت خوش ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ اس بارش کے بعد اگنے والی نباتات اور ان کی کھیتیوں پر نقصان دہ اور انہیں تلف کردینے والی ہوا بھیج دے ﴿ فَرَأَوْهُ مُصْفَرًّا﴾ ” لہٰذا وہ اس )کھیتی( کو زرد پڑتا دیکھیں“ جو تلف ہونے کی حالت کو پہنچ چکی ہے ﴿ لَّظَلُّوا مِن بَعْدِهِ يَكْفُرُونَ﴾ ” تو وہ اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی ناشکری کرنے لگ جائیں گے“ اور اس کی گزشتہ نعمتوں کو بھول جائیں گے۔ ان لوگوں کو وعظ و نصیحت اور زجر و توبیخ کوئی فائدہ نہیں دیتی۔ الروم
52 ﴿ فَإِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَىٰ وَلَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَاءَ﴾ ” بلاشبہ آپ مردوں کو اپنی پکار سنا سکتے ہیں نہ بہروں کو“ خاص طور پر اس وقت ﴿ إِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِينَ﴾ ” جب یہ پیٹھ پھیر کر جا رہے ہوں“ تب تو آپ ان کو بدرجہ اولیٰ نہیں سنا سکتے کیونکہ ان کے اندر اطاعت اور نفع بخش سماعت کے موانع بہت زیادہ ہیں جس طرح آواز حسی کے سننے سے بہت سے موانع ہوتے ہیں۔ الروم
53 ﴿ وَمَا أَنتَ بِهَادِ الْعُمْيِ عَن ضَلَالَتِهِمْ﴾ ” اور نہ آپ اندھوں کو ان کی گمراہی سے نکال کر ہدایت دے سکتے ہیں“ کیونکہ اندھے اپنے اندھے پن کے باعث دیکھ سکتے ہیں نہ ان میں دیکھنے کی صلاحیت ہی ہے ﴿ إِلَّا مَن يُؤْمِنُ بِآيَاتِنَا فَهُم مُّسْلِمُونَ﴾ ” آپ صرف انہیں سنا سکتے ہیں جو ہماری آیات پر ایمان رکھتے ہیں اور وہ سر تسلیم خم کرتے ہیں۔“ یعنی ہدایت کا سنوارنا صرف انہی لوگوں کو فائدہ دے سکتا ہے جو ہماری آیتوں پر ایمان لاتے، ہمارے احکام کی تعمیل کرتے اور ہمارے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہیں کیونکہ ان کے اندر وعظ و نصیحت کو قبول کرنے کا قوی داعیہ موجود ہے اور وہ ہے ہر آیت پر ایمان لانے اور مقدور بھر اللہ تعالیٰ کے احکام کو نافذ کرنے کے لیے مستعد رہنا۔ الروم
54 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے وسعت علم، عظمت اقتدار اور کمال حکمت کو بیان کرتا ہے کہ اس نے انسان کو کمزوری سے پیدا کیا اور وہ اس کی تخلیق کے ابتدائی مراحل ہیں یعنی اس نطفے سے جما ہوا خون بنایا پھر گوشت کا لوتھڑا بنایا اور پھر رحم کے اندر زندہ انسان بنایا پھر اس کو ماں کے پیٹ سے پیدا کیا۔ جب وہ سن طفولیت میں ہوتا ہے تو انتہائی ضعیف اور اس میں قوت و قدرت معدوم ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی قوت میں اضافہ کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ جوانی کو پہنچ جاتا ہے، اس کی قوت اور اس کے ظاہری و باطنی قویٰ مکمل ہوجاتے ہیں۔ پھر اس مرحلے سے کمزوری اور بڑھاپے کی طرف لوٹتا ہے۔ ﴿ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ﴾ وہ اپنی حکمت کے مطابق جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے کہ بندہ اپنے ضعف کا مشاہدہ کرے۔ اس کی قوت دو قسم کی کمزوریوں سے گھری ہوئی ہے اور فی نفسہ اس کے پاس نقص کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ اسے طاقت عطا نہ کرے تو اسے طاقت حاصل ہوسکتی ہے نہ قدرت اور اگر اس کی قوت میں اضافہ ہی ہوتا چلا جائے تو وہ بغاوت اور سرکشی میں بڑھتا چلاجائے گا۔ بندوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کا کمال قدرت دائمی ہے وہ اپنی قدرت سے جو چاہتا ہے تخلیق کرتا ہے، اپنی قدرت سے تمام امور کی تدبیر کرتا ہے اسے تھکن لاحق ہوتی ہے نہ کمزوری اور نہ کسی طرح اس میں کمی واقع ہوتی ہے۔ الروم
55 اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کے بارے میں آگاہ فرما رہا ہے کہ وہ بہت جلد آنے والا ہے اور جب قیامت قائم ہوگی تو ﴿يُقْسِمُ الْمُجْرِمُونَ ﴾ ”مجرم اللہ کی قسمیں اٹھا اٹھا کر کہیں گے“ کہ بلاشبہ وہ ﴿ مَا لَبِثُوا ﴾ ” نہیں رہے تھے“ دنیا میں ﴿ غَيْرَ سَاعَةٍ﴾ ” سوائے ایک گھڑی کے“ وہ یہ عذر اس لیے پیش کریں گے کہ شاید دنیا کی مدت کو کم کہنا انہیں کوئی فائدہ دے۔ چونکہ ان کی یہ بات جھوٹ پر مبنی ہے اور اس میں کوئی حقیقت نہیں لہٰذا اللہ تعالیٰ فرمائے گا : ﴿ كَذٰلِكَ كَانُوا يُؤْفَكُونَ﴾ ” وہ اسی طرح غلط اندازے لگایا کرتے تھے۔“ یعنی وہ دنیا کے اندر بھی ہمیشہ حقائق کو چھوڑ کر کذب بیان کرتے رہے اور جھوٹ گھڑتے رہے، دنیا کے اندر انہوں نے حق کی تکذیب کی جسے انبیائے کرام لے کر آئے تھے اور آخرت میں وہ امر محسوس، یعنی دنیا کے اندر طویل مدت تک رہنے کا انکار کریں گے۔ یہ ان کا بدترین خلق ہے اور بندہ اسی عادت اور ہیئت پر اٹھایا جائے گا جس پر وہ مرے گا۔ الروم
56 ﴿ وَقَالَ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ وَالْإِيمَانَ﴾ ” اور جن لوگوں کو علم اور ایمان دیا گیا تھا وہ کہیں گے۔“ یعنی جن لوگوں پر اللہ تعالیٰ نے ان دو چیزوں کے ساتھ احسان کیا اور حق کا علم اور وہ ایمان جو حق کی ترجیح کو مستلزم ہے ان کا وصف بن گیا۔ جب انہوں نے حق کو جان لیا اور حق کو ترجیح دی تو لازم ہے کہ ان کا قول واقع اور ان کے احوال کے مطابق ہو، بنا بریں وہ حق بات کہیں گے : ﴿ لَقَدْ لَبِثْتُمْ فِي كِتَابِ اللّٰـهِ﴾ ” تم اللہ کی کتاب کے مطابق رہے ہو۔“ یعنی اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر کے مطابق، جو اس نے اپنے حکم میں تمہارے لیے مقرر کردی تھی ﴿ إِلَىٰ يَوْمِ الْبَعْثِ﴾ ” قیامت تک“ یعنی تمہیں اس قدر عمر دی گئی تھی کہ جس میں نصیحت حاصل کرنے والا نصیحت حاصل کرسکتا تھا، تدبر کرنے والا اس میں تدبر کرسکتا تھا اور عبرت پکڑنے والا اس میں عبرت پکڑسکتا تھا حتیٰ کہ قیامت آگئی اور تم اس حال کو پہنچ گئے۔ ﴿ فَهـٰذَا يَوْمُ الْبَعْثِ وَلَـٰكِنَّكُمْ كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ﴾ ” پس یہ یوم قیامت ہے، لیکن تم )اسے حق( نہیں جانتے۔“ اس لیے تم نے اس کا انکار کیا، تم نے دنیا میں ایک مدت تک کے لیے اپنے قیام کا انکار کیا جس میں توبہ اور انابت تمہارے بس میں تھی، مگر جہالت اور اس کے آثار، یعنی تکذیب تمہارا شعار اور خسارہ تمہارا اوڑھنا بچھونا بن گیا۔ الروم
57 ﴿ فَيَوْمَئِذٍ لَّا يَنفَعُ الَّذِينَ ظَلَمُوا مَعْذِرَتُهُمْ﴾ ” یقیناً اس دن ظالمو کو ان کی معذرت کچھ فائدہ نہیں دے گی“ یعنی اگر وہ جھوٹ بولتے ہوئے یہ سمجھیں کہ ان پر حجت قائم نہیں ہوئی یا ایمان لانا ان کے بس میں نہ تھا تو اہل علم و ایمان کی گواہی بلکہ خود ان کی اپنی کھالوں، ان کے ہاتھوں اور پاؤں کی گواہی سے ان کو جھٹلا دیا جائے گا۔ اگر وہ معذرت کی اجازت چاہیں کہ ان کو اب واپس لوٹا دیا جائے تو وہ ایسا کام ہرگز نہیں کریں گے جس سے انہیں روکا گیا ہے۔۔۔ تو ان کی معذرت قبول نہ کی جائے گی۔ ﴿ وَلَا هُمْ يُسْتَعْتَبُونَ﴾ ” اور نہ ان سے توبہ قبول کی جائے گی“ یعنی وہ ہمیشہ زیر عتاب رہیں گے۔ الروم
58 ﴿ وَلَقَدْ ضَرَبْنَا﴾ ” اور ہم نے بیان کی“ اپنی عنایت، رحمت، لطف و کرم اور حسن تعلیم کی بنا پر ﴿ لِلنَّاسِ فِي هٰذَا الْقُرْآنِ مِن كُلِّ مَثَلٍ﴾ ”لوگوں کے لیے اس قرآن میں ہر قسم کی مثال“ جس سے حقائق واضح ہوتے ہیں، تمام امور کی معرفت حاصل ہوتی ہے اور حجت تمام ہوتی ہے۔ یہ اصول ان تمام مثالوں میں عام ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے امور معقولہ کو امور محسوسہ کے قریب لانے کے لیے بیان کیا ہے۔ ان امور کے بارے میں جو ابھی واقع ہوں گے خبر دینے اور ان کی حقیقت واضح کرنے کے لیے ضرب الامثال کا اسلوب بہت اہم ہے حتیٰ کہ یوں لگتا ہے جیسے یہ خبر واقع ہوچکی ہے۔ اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے کہ قیامت کے روز مجرموں کی حالت کیا ہوگی۔ وہ شدت غم میں مبتلا ہوں گے اور ان سے کسی قسم کا عذر قبول نہیں کیا جائے گا۔ ظالم کفار واضح حق کے بارے میں عناد رکھنے سے باز نہ آئے۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَلَئِن جِئْتَهُم بِآيَةٍ ﴾ ”اور اگر آپ ان کے پاس کوئی بھی نشانی لے آئیں“ جو آپ کی دعوت کی صحت پر دلالت کرتی ہو۔ ﴿ لَّيَقُولَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ أَنتُمْ إِلَّا مُبْطِلُونَ﴾ ” تو کافر لوگ یہی کہیں گے کہ تم تو جعل سازی کرتے ہو۔“ یعنی وہ حق کے بارے میں کہتے تھے کہ یہ باطل ہے۔ یہ ان کے کفر اور اللہ تعالیٰ کی جناب میں جسارت کے باعث تھا نیز اس کا سبب یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی اور وہ اپنی جہالت میں دور تک نکل گئے۔ الروم
59 ﴿ كَذٰلِكَ يَطْبَعُ اللّٰـهُ عَلَىٰ قُلُوبِ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ﴾ ” اسی طرح اللہ ان لوگوں کے دلوں پر مہر لگا دیتا ہے جو علم نہیں رکھتے۔“ اس لیے ان کے دلوں میں کوئی بھلائی داخل ہوسکتی ہے نہ وہ اشیاء کی حقیقت کا ادراک کرسکتے ہیں بلکہ اس کے برعکس انہیں حق باطل اور باطل حق دکھائی دیتا ہے۔ الروم
60 ﴿ فَاصْبِرْ﴾ ” پس صبر کیجیے !“ اپنی دعوت الی اللہ اور جس چیز کا آپ کو حکم دیا گیا ہے اس پر ثابت قدم رہیے۔ اگر آپ ان کے اندر روگردانی اور اعراض دیکھتے ہیں تو یہ چیز آپ کو اپنی دعوت سے نہ روک دے۔ ﴿ إِنَّ وَعْدَ اللّٰـهِ حَقٌّ﴾ ” یقیناً اللہ کا وعدہ سچا ہے“ اس میں کوئی شک نہیں۔ یہ چیز صبر میں مدد دیتی ہے کیونکہ جب بندے کو معلوم ہوجاتا ہے کہ اس کا عمل رائیگاں نہیں جائے گا بلکہ اس کا اجر اسے کامل طور پر مل جائے گا، تو اسے اس راستے میں جو تکالیف اور مصائب پہنچتے ہیں وہ اسے معمولی نظر آتے ہیں، اس کے لیے ہر مشکل آسان ہوجاتی ہے اور اسے ہر بڑا اور زیادہ عمل کم نظر آتا ہے۔ ﴿ وَلَا يَسْتَخِفَّنَّكَ الَّذِينَ لَا يُوقِنُونَ﴾ یعنی وہ لوگ آپ کو ہرگز ہلکا نہ پائیں جن کا ایمان کمزور اور یقین بہت کم ہے، بنا بریں ان کی عقل بہت خفیف اور ان میں صبر بہت کم ہے۔ پس یہ لوگ آپ کو ہرگز کمزور نہ پائیں آپ ان سے بچتے رہیں اور ان کی پروا نہ کریں ورنہ وہ آپ کو بہت کمزور اور ہلکا سمجھیں گے اور آپ کو اوامر و نواہی میں عدم ثبات پر محمول کریں گے۔ اس بارے میں نفس ان کی معاونت کرتا ہے اور مشابہت اور موافقت تلاش کرتا ہے۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ ہر مومن جو صاحب یقین ہو اور پختہ عقل رکھتا ہو اس کے لیے صبر کرنا بہت آسان ہے اور ہر کمزور یقین اور کمزور عقل شخص کم صبر والا ہوتا ہے۔ پہلی صورت گویا مغز کی مانند ہے اور دوسری صورت چھلکے کی سی ہے۔ واللہ المستعان۔ الروم
0 لقمان
1 الم لقمان
2 اللہ تعالیٰ ان ﴿ آيَاتُ الْكِتَابِ الْحَكِيمِ﴾ ” حکمت والی کتاب کی آیات“ کی تعظیم کے لیے ان کی طرف، اشارہ کرتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی محکم آیات ہیں جو ایک حکمت والی اور باخبر ہستی سے صادر ہوئی ہیں۔ ان آیات کے محکم ہونے سے مندرجہ ذیل امور مراد ہیں : (1) یہ آیات نہایت واضح، جلیل ترین اور فصیح ترین الفاظ میں آئی ہیں جو نہایت جلیل القدر اور بہترین معانی پر دلالت کرتے ہیں۔ (2) یہ آیات تغیر و تبدل، کمی بیشی اور تحریف سے محفوظ ہیں۔ (3) ان آیات میں گزشتہ زمانے اور آنے والے زمانے کے واقعات اور امور غیبیہ کے بارے میں خبریں دی گئی ہیں۔ وہ واقعات کے مطابق اور واقعات ان کے مطابق ہیں۔ کتب الٰہیہ میں سے کسی کتاب اور گزشتہ انبیاء میں سے کسی نبی نے ان اخبار کی مخالفت نہیں کی۔ اب تک کوئی علمی، حسی یا عقلی تحقیق ان امور کے متناقض نہیں، جن پر یہ آیات دلالت کرتی ہیں۔ (4) ان آیات نے جس چیز کا بھی حکم دیا ہے وہ خالص یا راجح مصلحت پر مبنی ہوتی ہے اور جن امور سے روکا ہے وہ واضح یا راجح مفاسد پر مبنی ہوتے ہیں۔ بہت سے معاملات کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے حکم دینے کے ساتھ ساتھ ان کی حکمت اور ان کے فوائد کا بھی ذکر کیا ہے اسی طرح کسی چیز سے منع کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے ضرر اور مفاسد سے آگاہ کیا ہے۔ (5)قرآن کریم کی آیات میں ترغیب و ترہیب اور مواعظ بلیغہ اس انداز میں جمع ہیں کہ نیک نفس لوگ، اس کے ذریعے سے اعتدال اختیار کرتے ہیں، اس کو اپنا فیصل بناتے ہیں اور نہایت جزم و احتیاط کے ساتھ اس پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔ (6)آپ دیکھیں گے کہ اس کی آیات، اس کے قصص اور احکامات وغیرہ میں تکرار پایا جاتا ہے، مگر ان کے مضامین میں اتفاق ہے اور ان میں کوئی تناقض اور کوئی اختلاف نہیں۔ صاحب بصیرت جتنا زیادہ اس کے اندر تدبر اور غور و فکر کرتا ہے اس کی آیات و احکام میں توافق و تطابق کو دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے، اس کو یقین ہوجاتا ہے، جس میں شک و ریب کا کوئی شائبہ نہیں، کہ یہ قرآن حکمت والی اور قابل تعریف ہستی کی طرف سے ہے۔ وہ حکمت سے لبریز ہے، وہ تمام اخلاق کریمہ کی طرف دعوت دیتا ہے اور برے اخلاق سے روکتا ہے، مگر اکثر لوگ اس کی رہنمائی سے محروم ہیں اس پر ایمان لانے اور عمل کرنے سے روگردانی کرتے ہیں۔ البتہ وہ لوگ روگردانی نہیں کرتے جن کو اللہ تعالیٰ نے توفیق سے سرفراز کرکے روگردانی سے بچایا۔ وہ اپنے رب کی عبادت میں احسان سے کام لیتے ہیں اور اس کے بندوں کے ساتھ بھی حسن سلوک سے پیش آتے ہیں۔ لقمان
3 وہ نماز کی پابندی کرتے ہیں، جو اخلاص، اللہ تعالیٰ سے مناجات، قلب و زبان اور جوارح کے تعبد عام کو شامل ہے اور باقی اعمال میں معاون ہے، نیز زکوٰۃ کا بھی تذکرہ فرمایا کہ اسے ادا کرنے والا تمام صفات رذیلہ سے پاک ہوجاتا ہے۔ وہ زکوٰۃ کے ذریعے سے اپنے مسلمان بھائی کو نفع پہنچاتا ہے، اس کی ضرورت پوری کرتا ہے۔ زکوٰۃ سے یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ بندۂ مومن اللہ تعالیٰ کی محبت کو مال کی محبت پر ترجیح دیتا ہے۔ وہ اپنے محبوب مال کو اس کی خاطر خرچ کرتا ہے جو اسے اپنے مال سے کہیں زیادہ محبوب ہے۔۔۔ اور وہ ہے اللہ تعالیٰ کی رضا۔ لقمان
4 پس یہ قرآن انہی کے لیے ﴿ هُدًى﴾ ” ہدایت ہے“ راہ راست کی طرف ان کی رہنمائی کرتا ہے اور جہنم کے راستوں سے انہیں بچاتا ہے ﴿وَرَحْمَةً ﴾ اور محسنین کے لیے رحمت ہے۔ اس کے ذریعے سے انہیں دنیا و آخرت کی سعادت، خیر کثیر، ثواب جزیل اور فرحت حاصل ہوتی ہے اور گمراہی و بدبختی ان سے دور ہوجاتی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان ” محسنین“ کا وصف بیان فرمایا کہ وہ علم کامل یعنی یقین محکم رکھتے ہیں جو عمل اور اللہ تعالیٰ کے عذاب کے خوف کا موجب ہے اس لیے وہ اس کی نافرمانیوں کو ترک کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو عمل سے موصوف کیا ہے اور عمل کے ضمن میں دو بہترین اعمال کا ذکر فرمایا۔ لقمان
5 ﴿ أُولَـٰئِكَ﴾ یہ نیکوکار لوگ جو علم کامل اور عمل کے جامع ہیں ﴿ عَلَىٰ هُدًى ﴾ ” ہدایت پر ہیں“ جو بہت عظیم ہے جیسا کہ ” ہدایت“ کو نکرہ استعمال کرنے سے مستفاد ہوتا ہے۔ ﴿ مِّن رَّبِّهِمْ﴾ ” اپنے رب کی طرف سے۔“ جو اپنی نعمتوں کے ذریعے سے ان پر اپنی ربوبیت کا فیضان کرتا اور ان سے تکلیف دہ امور کو دور کرتا رہتا ہے۔ یہ ہدایت، جس سے اللہ تعالیٰ نے ان کو سرفراز فرمایا ہے، اس خاص ربوبیت سے ہے جو اس نے اپنے اولیا پر کی ہے اور یہ ربوبیت کی بہترین قسم ہے۔ ﴿ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ﴾ ” اور یہی لوگ فلاح سے بہرہ ور ہیں“ جنہوں نے اپنے رب کی رضا، اس کے دنیاوی اور اخروی ثواب کو پالیا اور اس کی ناراضی اور اس کے عذاب سے بچ گئے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ فلاح کے راستے پر گامزن ہوئے، جس کے سوا فلاح کا کوئی اور راستہ نہیں۔ جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان سعادت مند لوگوں کا ذکر کیا جنہوں نے قرآن مجید کے ذریعے سے ہدایت حاصل کی، تو اس کے بعد، ایسے لوگوں کا ذکر فرمایا جو قرآن سے روگردانی کرتے ہیں اور اس کی طرف توجہ نہیں کرتے۔ ان کو اس کی سخت سزا دی جائے گی، اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے قرآن کے بدلے ہر باطل قول اختیار کرکے، بہترین قول اور احسن الحدیث کو چھوڑ دیا اور اس کے بدلے قبیح ترین اور انتہائی گھٹیا اقوال کو اختیار کیا، اسی لیے فرمایا : لقمان
6 ﴿وَمِنَ النَّاسِ مَن﴾ ” اور لوگوں میں سے جو“ اللہ تعالیٰ کی تائید سے محروم ہے اور اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے حال پر چھوڑ دیا ہے ﴿ يَشْتَرِي﴾ ” خریدتا ہے“ یعنی جو اختیار کرتا ہے اور لوگوں کو اس میں خرچ کرنے کی ترغیب دیتا ہے ﴿ لَهْوَ الْحَدِيثِ﴾ ” لغو باتیں“ یعنی دلوں کو غافل کرنے اور ان کو جلیل القدر مقاصد سے روکنے والے قصے کہانیاں۔ اس آیت کریمہ میں ہر محرم کلام، ہر قسم کی لغویات، ہر قسم کے باطل ہذیانی اقوال جو کفر و فسوق اور عصیان کی ترغیب دیتے ہیں، ان لوگوں کے نظریات جو حق کو ٹھکراتے ہیں اور باطل دلائل کے ساتھ حق کو نیچا دکھانے کے لیے جھگڑتے ہیں، غیبت، چغلی، جھوٹ، سب و شتم، شیطانی گانا بجانا اور غفلت میں مبتلا کرنے والے قصے کہانیاں، جن کا دین و دنیا میں کوئی فائدہ نہیں، داخل ہیں۔ لوگوں کی یہ صنف ہدایت کی باتوں کو چھوڑ کر کھیل تماشوں پر مشتمل قصے کہانیاں خریدتی ہے۔ ﴿لِيُضِلَّ﴾ تاکہ لوگوں کو گمراہ کرے ﴿عَن سَبِيلِ اللّٰـهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ﴾ ” بغیر علم کے اللہ کی راہ سے“ یعنی اپنے فعل میں خود گمراہی کا راستہ اختیار کرکے دوسروں کو گمراہ کرتا ہے۔ اس کا گمراہ کرنے کا عمل خود اس کی اپنی گمراہی سے جنم لیتا ہے۔ اس کا اس لہو الحدیث سے گمراہ کرنے سے مراد فائدہ مند بات، عمل نافع، حق مبین اور صراط مستقیم سے روکنا ہے اور یہ سب کچھ اس وقت تک اس کے لیے تکمیل نہیں پاتا جب تک کہ وہ ہدایت اور حق میں (جسے اللہ تعالیٰ کی آیات لے کر آئی ہیں) جرح و قدح نہیں کرتا اور اللہ کی آیات کا مذاق نہیں اڑاتا یعنی وہ اللہ تعالیٰ کی آیات اور ان کو لانے والے کا تمسخر اڑاتا ہے۔ جب ایسے شخص میں باطل کی مدح، اس کی ترغیب، حق میں جرح و قدح، حق اور اہل حق کے ساتھ استہزاء و تمسخر اکٹھے ہوجاتے ہیں تو وہ بے علم آدمی کو گمراہ کرتا ہے اور اسے ایسی بات بیان کرکے دھوکا دیتا ہے، جس میں گمراہ شخص امتیاز کرسکتا ہے نہ اس کی حقیقت معلوم کرسکتا ہے ﴿ أُولَـٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِينٌ﴾ ” ان کے لیے رسوا کن عذاب ہے“ اس کا سبب یہ ہے کہ وہ گمراہ ہوئے، انہوں نے اللہ تعالیٰ کی آیتوں کے ساتھ استہزا کیا اور واضح حق کی تکذیب کی۔ لقمان
7 اس لیے فرمایا: ﴿وَإِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِ آيَاتُنَا﴾ ”جب اس کے سامنے ہماری آیتیں پڑھی جاتی ہیں“ تاکہ وہ ان پر ایمان لائے اور ان کی اطاعت کرے ﴿وَلَّىٰ مُسْتَكْبِرًا﴾ تو وہ اس طرح پیٹھ پھیر جاتا ہے جیسے ان آیات سے تکبر کرنے اور ان کو ٹھکرانے والا پیٹھ پھیرتا ہے۔ یہ آیات اس کے دل میں داخل ہوتی ہیں نہ اس پر کچھ اثر کرتی ہیں بلکہ وہ ان کو پیٹھ کرکے چل دیتا ہے ﴿كَأَن لَّمْ يَسْمَعْهَا﴾ ” جیسے اس نے ان کو سنا ہی نہ ہو“ بلکہ ﴿كَأَنَّ فِي أُذُنَيْهِ وَقْرًا﴾ ” گویا اس کے کانوں میں گرانی ہو“ اور آواز اس کے کانوں تک پہنچ ہی نہ سکتی ہو، لہٰذا اس کے لیے ہدایت کی کوئی راہ نہیں۔ ﴿فَبَشِّرْهُ﴾ ” پس اس کو بشارت دے دیجئے۔“ یعنی اسے ایسی بشارت دیں جو اس کے قلب کو حزن و غم سے لبریز کردے اور اس کے چہرے پر بدحالی، اندھیرا اور گرد و غبار چھا جائیں۔ ﴿بِعَذَابٍ أَلِيمٍ ﴾ ” دردناک عذاب کی“ جو قلب و بدن کے لیے بہت دردناک ہے جس کا اندازہ کیا جاسکتا ہے نہ اس کو جانا جاسکتا ہے۔ لقمان
8 یہ تو تھی اہل شر کی بشارت اور کتنی بری تھی یہ بشارت۔ رہی اہل خیر کی بشارت تو اس کے بارے میں فرمایا : ﴿إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ﴾ ” بے شک جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کیے۔“ یعنی جنہوں نے عبادت باطن کو ایمان کے ساتھ اور عبادت ظاہر کو اسلام اور عمل صالح کے ساتھ جمع کیا ﴿ لَهُمْ جَنَّاتُ النَّعِيمِ ﴾ ” ان کے لیے نعمت کے باغ ہیں۔“ انہوں نے جو نیک اعمال پیش کیے ان پر خوش خبری اور جو نیک اعمال پیچھے چھوڑے ان پر مہمان نوازی کے طور پر۔ لقمان
9 ﴿خَالِدِينَ فِيهَا﴾ وہ ان نعمتوں بھری جنتوں میں، جو جسد و روح کے لیے نعمت ہیں، ہمیشہ رہیں گے۔ ﴿وَعْدَ اللّٰـهِ حَقًّا﴾ ” اللہ کا وعدہ سچا ہے۔“ جس کی خلاف ورزی اور جس میں تغیر و تبدیل ممکن نہیں ﴿وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ﴾ وہ کامل غلبے اور کامل حکمت کا مالک ہے یہ اس کا غلبہ اور حکمت ہے کہ اس نے جسے توفیق سے نوازنا چاہا نواز دیا، جسے اس کے حال پر چھوڑ کر اس سے الگ ہونا چاہا الگ ہوگیا اور یہ سب کچھ ان کے بارے میں اس کے علم اور اس کی حکمت پر مبنی ہے۔ لقمان
10 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں کے سامنے اپنی قدرت کے کچھ آثار، اپنی حکمت کی کچھ انوکھی چیزیں اور اپنی رحمت کے آثار میں سے کچھ نعمتوں کے بارے میں بیان فرماتا ہے : ﴿ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ﴾ اس نے ساتوں آسمانوں کو ان کی عظمت، ان کی وسعت، ان کی کثافت اور ان کی ہولناک بلندیوں کے ساتھ پیدا کیا ﴿ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا﴾ ان کو سہارا دینے کے لیے کوئی ستون نہیں۔ اگر کوئی ستون ہوتا تو ضرور نظر آتا۔ آسمان صرف اللہ تعالیٰ کی قدرت ہی سے ٹھہرے ہوئے ہیں۔ ﴿وَأَلْقَىٰ فِي الْأَرْضِ رَوَاسِيَ﴾ ” اور زمین پر پہاڑ رکھ دیے۔“ یعنی بڑے بڑے پہاڑ، جن کو زمین کے کناروں اور گوشوں میں گاڑ دیا تاکہ زمین ﴿تَمِيدَ بِكُمْ﴾ ” تمہیں لے کر ڈھلک نہ جائے۔“ اگر یہ مضبوطی سے گاڑے ہوئے پہاڑ نہ ہوتے تو زمین ڈھلک جاتی اور اپنے بسنے والوں کے ساتھ استقرار نہ پکڑتی۔ ﴿وَبَثَّ فِيهَا مِن كُلِّ دَابَّةٍ﴾ اس وسیع زمین میں تمام اصناف کے حیوانات پھیلائے جو انسانوں کے مصالح و منافع کے لیے مسخر ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ نے زمین کے اندر حیوانات پھیلائے تو اسے معلوم تھا کہ ان حیوانات کے زندہ رہنے کے لیے رزق بہت ضروری ہے اس لیے اس نے آسمان سے بابرکت پانی نازل کیا۔ ﴿فَأَنبَتْنَا فِيهَا مِن كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ﴾ ” اور زمین میں ہر قسم کے نفیس جوڑے اگا دیے۔“ یعنی خوش منظر، نفع مند نباتات جن میں زمین کے اندر پھیلے ہوئے حیوانات چرتے ہیں اور ان کے نیچے تمام حیوانات سکون حاصل کرتے ہیں۔ لقمان
11 ﴿هٰذَا ﴾ ” یہ“ یعنی عالم علوی اور عالم سفلی کی تمام مخلوق، جمادات و حیوانات اور تمام مخلوقات کے لیے رزق رسانی ﴿خَلْقُ اللّٰـهِ ﴾ ” اللہ کی تخلیق ہے“ جو وحدہ لاشریک ہے، جس کا سب اقرار کرتے ہیں حتیٰ کہ اے مشرکو ! تم بھی اقرار کرتے ہو۔ ﴿فَأَرُونِي مَاذَا خَلَقَ الَّذِينَ مِن دُونِهِ﴾ ” پس مجھے دکھاؤ کہ اللہ کے سوا جو معبود (خود ساختہ شریک) ہیں انہوں نے کیا پیدا کیا ہے؟“ یعنی جن کو تم نے اللہ تعالیٰ کا شریک بنا رکھا ہے، جن کو تم اپنی حاجتوں میں پکارتے ہو اور ان کی عبادت کرتے ہو۔ پس اس سے لازم آتا ہے کہ ان کی بھی کوئی تخلیق ہوجیسی اللہ تعالیٰ کی تخلیق ہے، ان کے یہ خود ساختہ معبود بھی رزق عطا کرتے ہوں جیسے اللہ تعالیٰ رزق رسانی کرتا ہے۔ اگر تمہارے خود ساختہ معبودوں نے ان میں سے کوئی کام کیا ہے تو مجھے بھی دکھاؤ تاکہ تمہارا ان کے بارے میں یہ دعویٰ ثابت ہو کہ وہ عبادت کے مستحق ہیں۔ یہ ظاہر ہے کہ وہ کوئی ایسی چیز نہیں دکھا سکتے جو ان باطل معبودوں کی تخلیق ہو کیونکہ مذکورہ تمام اشیاء کے بارے میں وہ اقرار کرچکے ہیں کہ وہ اللہ وحدہ کی تخلیق کردہ ہیں اور ان اشیاء کے علاوہ وہاں کوئی چیز موجود ہی نہیں۔ لہٰذا وہ کسی ایسی چیز کو ثابت کرنے سے عاجز ہیں جو عبادت کی مستحق ہو۔ ان کا ان خود ساختہ معبودوں کی عبادت کرنا کسی علم اور بصیرت پر مبنی نہیں بلکہ جہالت اور گمراہی کی بنا پر ہے، اس لیے فرمایا : ﴿بَلِ الظَّالِمُونَ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ﴾ ” بلکہ یہ ظالم صریح گمراہی میں ہیں۔“ یعنی جو بالکل صاف، ظاہر اور واضح ہے کیونکہ وہ ایسی ہستیوں کی عبادت کرتے ہیں جو کسی نفع کی مالک ہیں نہ نقصان کی، جن کے قبضۂ قدرت میں زندگی ہے نہ موت اور نہ وہ مرنے کے بعد دوبارہ اٹھانے پر قادر ہیں۔۔۔ اور ان لوگوں نے اپنے خالق اور رازق کے لیے اخلاص کو چھوڑ دیا جو تمام امور کا مالک ہے۔ لقمان
12 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے صاحب فضیلت بندے لقمان پر اپنے احسان و عنایت کا ذکر کرتا ہے کہ اس نے اسے حکمت سے نوازا اور وہ حق اور اس (اللہ) کی حکمت کا علم ہے۔ یہ احکام کے علم، ان کے اسرار نہاں اور ان کے اندر موجود دانائی کی معرفت کا نام ہے۔ کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ ایک انسان صاحب علم ہوتا ہے، مگر حکمت سے تہی دامن ہوتا ہے۔ رہی حکمت، تو یہ علم کو مستلزم ہے بلکہ علم کو بھی مستلزم ہے بنا بریں حکمت کی علم نافع اور عمل صالح سے تفسیر کی جاتی ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے جناب لقمان پر اپنی بڑی نوازش کی تو ان کو اپنی عطا و بخشش پر شکر کرنے کا حکم دیا تاکہ اللہ تعالیٰ ان کو برکت دے اور ان کے لیے اپنے فضل و کرم میں اضافہ کرے، نیز آگاہ فرمایا کہ شکر کی منفعت شکر کرنے والوں ہی کی طرف لوٹتی ہے اور جو کوئی شکر ادا نہیں کرتا تو اس کا وبال اسی پر پڑتا ہے، جو کوئی اس کے حکم کی مخالفت کرتا ہے اس کے بارے میں فیصلہ کرنے میں وہ بے نیاز اور قابل ستائش ہے۔ اللہ تعالیٰ کی بے نیازی اس کی ذات کا لازمہ ہے، اس کا اپنی صفات کمال اور اپنے خوبصورت کاموں میں قابل ستائش ہونا اس کی ذات کا لازمہ ہے۔ اس کے ان دونوں اوصاف میں سے ہر وصف، صفت کمال ہے اور دونوں اوصاف کا مجتمع ہونا گویا کمال کے اندر کمال کا اضافہ ہے۔ لقمان
13 اس بارے میں اصحاب تفسیر میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ آیا جناب لقمان نبی تھے یا اللہ تعالیٰ کے ایک نیک بندے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں اس سے زیادہ کچھ ذکر نہیں کیا کہ اس نے ان کو حکمت سے نوازا تھا۔ انہوں نے اپنے بیٹے کو جو نصیحت کی تھی ان میں کچھ ایسی چیزوں کا ذکر فرمایا جو ان کی حکمت پر دلالت کرتی ہیں۔ انہوں نے حکمت کے بڑے بڑے قواعد اور اصولوں کا ذکر کیا: ﴿وَإِذْ قَالَ لُقْمَانُ لِابْنِهِ وَهُوَ يَعِظُهُ﴾ ”اور جب لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا“ یا انہوں نے اپنے بیٹے کو ایک بات کہی جس کے ذریعے سے انہوں نے اسے امر و نہی کی نصیحت کی جو ترغیب و ترہیب سے مقرون تھی۔ پس انہوں نے اپنے بیٹے کو اخلاص کا حکم دیا، اسے شرک سے منع کیا اور ممانعت کا سبب بیان کیا، چنانچہ فرمایا : ﴿إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ﴾ ” یقیناً شرک ظلم عظیم ہے“ اور اس کے ظلم عظیم ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس شخص سے بڑھ کر کوئی برا نہیں جو مٹی سے بنی ہوئی مخلوق کو کائنات کے مالک کے مساوی قرار دیتا ہے، وہ اس ناچیز کو جو کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتی اس ہستی کے برابر سمجھتا ہے جو تمام اختیارات کی مالک ہے۔ جو ناقص اور ہر لحاظ سے محتاج ہستی کو رب کامل کے برابر مانتا ہے جو ہر لحاظ سے بے نیاز ہے، وہ ایسی ہستی کو جس کے پاس اتنا بھی اختیار نہیں کہ وہ ذرہ بھر بھی کسی کو نعمت عطا کرسکے ایسی ہستی کے مساوی قرار دیتا ہے کہ مخلوق کے دین و دنیا، آخرت اور ان کے قلب و بدن میں جو بھی نعمت ہے وہ اسی کی طرف سے ہے اور اس ہستی کے سوا کوئی تکلیف دور نہیں کرسکتا۔ کیا اس سے بھی بڑا کوئی ظلم ہے؟ کیا اس سے بڑا کوئی ظلم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جسے اپنی عبادت اور توحید کے لیے پیدا کیا وہ اپنے شرف کے حامل نفیس کو خسیس ترین مرتبے تک گرا دیتا ہے اور اس سے ایسی چیز کی عبادت کراتا ہے جو کچھ بھی نہیں؟ پس وہ اپنے آپ پر بہت بڑا ظلم کرتا ہے۔ لقمان
14 جب اللہ تعالیٰ نے اپنے حق کو قائم کرنے یعنی شرک کو ترک کرنے کا حکم دیا جس کا لازمہ قیام توحید ہے، تو پھر والدین کے حقوق ادا کرنے کا حکم دیا، چنانچہ فرمایا: ﴿وَوَصَّيْنَا الْإِنسَانَ﴾ ” اور ہم نے انسان کو تاکید کی ہے۔“ یعنی ہم نے اس سے عہد لیا اور اس عہد کو وصیت بنا دیا کہ ہم عنقریب اس سے پوچھیں گے کہ آیا اس نے اس وصیت کو پورا کیا؟ اور کیا اس نے اس وصیت کی حفاظت کی ہے یا نہیں؟ ہم نے اسے ﴿ بِوَالِدَيْهِ﴾ ” اس کے والدین کے بارے میں“ وصیت کی اور اس سے کہا : ﴿اشْكُرْ لِي﴾ میری عبودیت کے قیام اور میرے حقوق کی ادائیگی کے ذریعے سے میرا شکر ادا کر اور میری نعمتوں کو میری نافرمانی میں استعمال نہ کر۔ ﴿وَلِوَالِدَيْكَ﴾ اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک، یعنی نرم و لطیف قول، فعل جمیل، ان کے سامنے تواضع و انکسار، ان کے اکرام و اجلال، ان کی ذمہ داریوں کو اٹھانے، ان کے ساتھ قول و فعل اور ہر لحاظ سے برے سلوک سے اجتناب کرنے کے ذریعے سے ان کا شکر ادا کر۔ ہم نے اسے یہ وصیت کرنے کے بعد آگاہ کیا ﴿إِلَيَّ الْمَصِيرُ ﴾ کہ اے انسان ! عنقریب تجھے اس ہستی کی طرف لوٹنا ہے جس نے تجھے وصیت کرکے ان حقوق کی ادائیگی کا مکلف بنایا ہے۔ وہ ہستی تجھ سے پوچھے گی : ” کیا تو نے اس وصیت کو پورا کیا کہ وہ تجھے اس پر ثواب عطا کرے یا تو نے اس وصیت کو ضائع کردیا تاکہ تجھے بدترین سزا دے؟“ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس کے بعد اس سبب کا ذکر فرمایا جو ماں کے ساتھ حسن سلوک کا موجب ہے، لہٰذا فرمایا : ﴿حَمَلَتْهُ أُمُّهُ وَهْنًا عَلَىٰ وَهْنٍ﴾ ” اس کی ماں نے تکلیف پر تکلیف برداشت کرکے اسے (پیٹ میں) اٹھائے رکھا۔“ یعنی نہایت مشقت کے ساتھ اس کو پیٹ میں اٹھائے رکھا۔ وہ استقرار نطفہ ہی سے مشقتوں کا سامنا کرتی رہتی ہے، مثلاً بعض چیزوں کے کھانے کو جی چاہنا، بیماری، کمزوری، حمل کا بوجھ، حالت میں تغیر اور پھر وضع حمل کے وقت سخت تکلیف کا سامنا کرنا ﴿وَفِصَالُهُ فِي عَامَيْنِ﴾ ” اور دو سال میں اس کا دودھ چھڑانا۔“ یعنی وہ اپنی ماں کی پرورش، کفالت اور رضاعت کا محتاج ہوتا ہے۔ کیا اس ہستی کے ساتھ حسن سلوک نہ کیا جائے جو شدید محبت کے ساتھ اپنے بچے کی خاطر یہ سختیاں برداشت کرتی ہے اور اس کے بیٹے کو اس کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید اور وصیت نہ کی جائے؟ لقمان
15 ﴿ وَإِن جَاهَدَاكَ﴾ اگر تیرے والدین کوشش کریں ﴿ عَلَىٰ أَن تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا﴾ ” اس چیز کی کہ تو میرے ساتھ کسی ایسی چیز کو شریک بنائے جس کا تجھے کچھ بھی علم نہیں تو پھر ان کی اطاعت نہ کر۔“ تو یہ نہ سمجھ کہ شرک کے بارے میں ان کی اطاعت کرنا بھی ان کے ساتھ حسن سلوک کے زمرے میں آتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا حق ہر ایک کے حقوق پر مقدم ہے۔ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (( لا طَاعةَ لِمَخلوقٍ في مَعْصِيِةِ الخَالِقِ))” خالق کی نافرمانی میں کسی مخلوق کی اطاعت جائز نہیں۔ “ [المعجم الكبير للطبراني: 18؍ 170، ح: 381 و شرح السنة للبغوي:10؍ 44] یہاں (ایک قابل غور نکتہ ہے) اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا : (وَإِن جَاهَدَاكَ عَلَىٰ أَن تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا)” اور اگر وہ دونوں تجھ پر اس بات کا دباؤ ڈالیں کہ تو میرے ساتھ اسے شریک کرے جس کا تجھے علم نہ ہو تو ان کی نافرمانی اور ان سے بدسلوکی کر“ بلکہ فرمایا : ﴿فَلَا تُطِعْهُمَا﴾ یعنی تو شرک میں ان کی اطاعت نہ کر۔ باقی رہا ان کے ساتھ نیک سلوک کرنا تو اس پر قائم رہ، اس لیے فرمایا : ﴿وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا ﴾ ”اور دنیا (کے معاملات) میں ان کے ساتھ بھلائی کے ساتھ رہ۔“ یعنی ان کے ساتھ نیکی اور حسن سلوک کے ساتھ پیش آ اور اگر وہ حالت کفر و عصیان پر ہیں تو پھر ان کی پیروی نہ کر ﴿وَاتَّبِعْ سَبِيلَ مَنْ أَنَابَ إِلَيَّ﴾ ” اور اس شخص کی راہ کی اتباع کر جس نے میری طرف رجوع کیا ہے۔“ یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لاتے ہیں، اپنے رب کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہیں اور اس کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ ان کے راستے کی پیروی یہ ہے کہ انابت الی اللہ میں ان کے مسلک پر چلا جائے۔ انابت سے مراد یہ ہے کہ قلب کے محرکات اور ارادوں کا اللہ تعالیٰ کی مرضی کی طرف مائل ہونا اور اس کے قریب ہونا، پھر بدن کا ان ارادوں کی پیروی کرنا۔ ﴿ ثُمَّ إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ ﴾ ” پھر میری طرف تمہارا لوٹنا ہے۔“ اطاعت گزارنا، نافرمان اور صاحب انابت سب میری طرف لوٹیں گے ﴿ فَأُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ﴾ ” تو تم جو کام کرتے ہو میں ان کے بارے میں تمہیں آگاہ کروں گا۔“ اللہ تعالیٰ سے ان کا کوئی عمل چھپا ہوا نہیں۔ لقمان
16 ﴿يَا بُنَيَّ إِنَّهَا إِن تَكُ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ﴾ ” اے میرے بیٹے ! بلاشبہ اگر کوئی عمل رائی کے دانے کے برابر ہو“ جو سب سے چھوٹی اور حقیر ترین چیز ہے ﴿ فَتَكُن فِي صَخْرَةٍ ﴾ ٍ” اور وہ کسی پتھر کے اندر ہو۔“ یعنی چٹان کے درمیان ﴿أَوْ فِي السَّمَاوَاتِ أَوْ فِي الْأَرْضِ ﴾ ” یا آسمان یا زمین کے اندر ہو“ یعنی زمین و آسمان کی کسی بھی جہت میں ہو ﴿يَأْتِ بِهَا اللّٰـهُ﴾ اللہ تعالیٰ اپنے علم وسیع، خبر تام اور قدرت کامل کے ذریعے سے اسے لے آئے گا، اس لیے فرمایا : ﴿ إِنَّ اللّٰـهَ لَطِيفٌ خَبِيرٌ ﴾ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے علم اور اپنی خبر میں بہت باریک بین ہے حتیٰ کہ وہ باطن امور اور اسرار نہاں، بیابانوں اور سمندروں میں چھپی ہوئی چیزوں کی بھی خبر رکھتا ہے۔ اس آیت کریمہ سے جہاں تک ممکن ہو اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں رکھنے اور اس کی اطاعت کرنے کی ترغیب اور قبیح امور سے، خواہ کم ہوں یا زیادہ، ترہیب مقصود ہے۔ لقمان
17 .﴿ يَا بُنَيَّ أَقِمِ الصَّلَاةَ﴾” اے بیٹے! نماز کی پابندی کر۔“ آپ نے اسے نماز کی ترغیب دی اور نماز کو اس لیے مختص کیا کہ یہ سب سے بڑی بدنی عبادت ہے۔ ﴿وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنكَرِ ﴾ ” اور نیک کاموں کا حکم دے اور برے کاموں سے منع کر۔“ یہ حکم اوامر و نواہی کی معرفت کو مستلزم ہے تاکہ معروف کا حکم دیا جائے اور نواہی سے روکا جائے، نیز یہ ایسے امر کا حکم ہے جس کے بغیر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی تکمیل ممکن نہیں، مثلاً نرمی اور صبر وغیرہ۔ اگلے جملے میں صراحت کے ساتھ فرمایا : ﴿وَاصْبِرْ عَلَىٰ مَا أَصَابَكَ﴾ ” اور اس تکلیف پر صبر کر جو تجھے پہنچے۔ “ یہ آیات کریمہ اس بات پر دال ہیں کہ نیکی پر عمل کرکے اور برائی کو ترک کرکے خود اپنی ذات کی تکمیل کی جائے پھر نیکی کا حکم دے کر اور برائی سے روک کر دوسروں کی تکمیل کی جائے۔ چونکہ یہ حقیقت اچھی طرح معلوم ہے کہ جب بندہ نیکی کا حکم دے گا اور برائی سے روکے گا تو لامحالہ اسے آزمائش کا سامنا کرنا پڑے گا نیز اس راستے میں نفس کو مشقت بھی اٹھانا پڑتی ہے اس لیے اس کو اس پر صبر کرنے کا حکم دیا گیا ہے، لہٰذا فرمایا : ﴿ وَاصْبِرْ عَلَىٰ مَا أَصَابَكَ إِنَّ ذٰلِكَ ﴾ ” اور جو مصیبت تم پر آجائے صبر کرنا، بے شک یہ بات“ جس کی لقمان نے اپنے بیٹے کو وصیت کی ہے ﴿مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ﴾ ایسے امور میں سے ہے جن کا عزم کے ساتھ اہتمام کیا جاتا ہے اور صرف اولولعزم لوگوں کو اس کی توفیق عطا ہوتی ہے۔ لقمان
18 ﴿ وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ﴾ ” تو اپنے آپ کو بڑا سمجھتے ہوئے تکبر کے ساتھ، لوگوں سے منہ نہ پھیر“ ﴿وَلَا تَمْشِ فِي الْأَرْضِ مَرَحًا﴾ اور انعام کرنے والی ہستی کو فراموش کرکے، اس کی نعمتوں پر فخر کرتے ہوئے خود پسندی کے ساتھ اتراتا ہوا زمین پر مت چل ﴿إِنَّ اللّٰـهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ﴾ ” یقیناً اللہ کسی، خود پسند سے محبت نہیں کرتا“ جو اپنے آپ میں، اپنی ہیئت میں تکبر کرتا ہے۔ ﴿ فَخُورٍ ﴾ یعنی جو اپنی باتوں میں فخر کا اظہار کرتا ہے۔ لقمان
19 ﴿وَاقْصِدْ فِي مَشْيِكَ﴾ ” اپنے چلنے میں میانہ روی اختیار کر۔“ تکبر اور اتراہٹ کی چال چل نہ بناوٹ کی، بلکہ تواضع اور انکسار کے ساتھ چل۔ ﴿وَاغْضُضْ مِن صَوْتِكَ﴾ اللہ تعالیٰ کے حضور لوگوں کے ساتھ ادب کے طور پر اپنی آواز کو دھیما رکھ۔ ﴿إِنَّ أَنكَرَ الْأَصْوَاتِ﴾ یعنی بدترین اور قبیح ترین آواز ﴿لَصَوْتُ الْحَمِيرِ﴾ ” گدھوں کی آواز ہے۔“ اگر بہت زیادہ بلند آواز میں کوئی مصلحت ہوتی تو اللہ تعالیٰ اس کو گدھے کے ساتھ مختص نہ کرتا جس کی خساست اور کم عقلی مسلم ہے۔ یہ وصیتیں، جو جناب لقمان نے اپنے بیٹے سے کی ہیں، حکمت کی بڑی بڑی باتوں کی جامع ہیں اور ان باتوں کو بھی مستلزم ہیں جو یہاں مذکور نہیں۔ ہر وصیت کے ساتھ ایک داعیہ موجود ہے جو امر کی صورت میں اس پر عمل کی دعوت دیتا ہے اور اگر معاملہ نہی کا ہے تو اس پر عمل سے روکتا ہے اور یہ چیز ہماری اس تفسیر پر دلالت کرتی ہے جو ہم نے ” حکمت“ کے ضمن میں بیان کی ہے کہ یہ احکام، ان کی حکمتوں اور ان کی مناسبات کا نام ہے۔ لقمان نے اپنے بیٹے کو دین کی بنیاد یعنی توحید کا حکم دیا اور شرک سے منع کیا اور ترک شرک کے موجبات کو بیان کیا۔ جناب لقمان نے اپنے بیٹے کو والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا اور ان کے ساتھ حسن سلوک کے موجبات کو بھی واضح کیا، پھر اسے حکم دیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے اور ساتھ ساتھ اپنے والدین کا بھی شکر گزار ہو، پھر واضح کیا کہ ان کے ساتھ حسن سلوک اور ان کے حکم کی اطاعت کی حدود وہاں تک ہیں جہاں تک وہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا حکم نہیں دیتے۔ بایں ہمہ ان کے ساتھ مخالفت اور عدم شفقت کا رویہ نہ رکھے، بلکہ ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئے۔ جب وہ اسے شرک پر مجبور کریں تو وہ ان کی اطاعت نہ کرے مگر اس صورت میں بھی ان کے ساتھ حسن سلوک کو ترک نہ کرے۔ جناب لقمان نے اپنے بیٹے کو اللہ تعالیٰ کے مراقبے کا حکم دیا اور اسے خوف دلایا کہ اسے اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہونا ہے۔ ہر چھوٹی بڑی نیکی اور بدی اس کے حضور پیش ہوگی۔ جناب لقمان نے اپنے بیٹے کو تکبر سے روکا، اسے تواضع اور انکسار کا حکم دیا، اسے خوشی میں اترانے اور اکڑنے سے منع کیا، اسے اپنی حرکات اور آواز میں سکون اور دھیما پن اختیار کرنے کا حکم دیا اور ان کے متضاد امور سے روکا، اسے ترغیب دی کہ وہ لوگوں کو نیکی کا حکم دے اور برائی سے روکے نیز نماز قائم کرنے اور صبر کرنے کا حکم دیا، جن کی مدد سے ہر کام آسان ہوجاتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ﴾ (البقرۃ:2؍45) ” اور صبر اور نماز سے مدد لیا کرو۔ “ جس شخص نے ان باتوں کی وصیت کی ہو وہ اس امر کا حق دار ہے کہ وہ حکمت و دانائی کے لیے مخصوص اور مشہور ہو، اس لیے یہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر احسان ہے کہ اس نے ان کے سامنے اس کی حکمت کا ذکر کیا جو ان کے لیے اچھا نمونہ بن سکے۔ لقمان
20 اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اپنی نعمتیں یاد دلاتا ہے اور انہیں ان نعمتوں پر شکر کرنے، ان کا مشاہدہ کرنے اور ان سے عدم غفلت کا حکم دیتا ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿أَلَمْ تَرَوْا ﴾ کیا تم نے مشاہدہ نہیں کیا؟ کیا تم نے اپنی ظاہری اور دل کی آنکھ سے دیکھنے کی کوشش نہیں کی؟ ﴿أَنَّ اللّٰـهَ سَخَّرَ لَكُم مَّا فِي السَّمَاوَاتِ﴾ ” بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے )سورج، چاند اور ستاروں میں سے( جو کچھ آسمان میں ہے اسے تمہارے لیے مسخر کردیا ہے۔“ یہ سب بندوں کے فائدے کے لیے مسخر ہیں۔ ﴿وَمَا فِي الْأَرْضِ﴾ ” اور جو کچھ زمین میں ہے۔“ یعنی تمام حیوانات، درخت، کھیتیاں، دریا اور معدنیات وغیرہ کو تمہارے لیے مسخر کردیا ہے جیسا کہ فرمایا : ﴿هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُم مَّا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا﴾ )البقرۃ: 2؍29( ” وہی تو ہے جس نے زمین کی سب چیزیں تمہارے لیے پیدا کیں۔“ ﴿وَأَسْبَغَ عَلَيْكُمْ﴾ اور جس نے تمہیں دین و دنیا کی نعمتوں، بہت سی منفعتوں کے حصول اور مضرتوں سے دور ہونے جیسی وافر ظاہری اور باطنی نعمتوں سے ڈھانپ لیا ہے ان میں سے بعض کو ہم جانتے ہیں اور بعض کو نہیں جانتے۔ تمہارا وظیفہ یہ ہونا چاہیے کہ تم منعم کی محبت کے ساتھ اور اس کے سامنے سرافگندہ ہو کر ان نعمتوں پر شکر کا اظہار کرو، ان نعمتوں کو اس کی اطاعت میں صرف کرو اور ان نعمتوں سے اس کی نافرمانی پر مدد نہ لو۔ ﴿وَ﴾ ” اور“ ان نعمتوں کے پے درپے عطا ہونے کے باوجود ﴿مِنَ النَّاسِ مَن﴾ ” لوگوں میں ایسا آدمی بھی ہے جو“ ان نعمتوں پر اللہ کا شکر ادا نہیں کرتا بلکہ ان نعمتوں پر ناشکری کرتا ہے۔ اس ہستی کا انکار کرتا ہے جس نے اسے ان نعمتوں سے نوازا اور اس نے اس کے اس حق کو تسلیم نہ کیا جس کے لیے اس نے کتابیں نازل کیں اور اپنے رسول بھیجے۔ ﴿ يُجَادِلُ فِي اللّٰـهِ ﴾ اور اس نے باطل دلائل کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے معاملے میں جھگڑنا شروع کیا تاکہ حق کو نیچا دکھائے اور اس دعوت کو جسے رسول لے کر آیا ہے، یعنی اللہ وحدہ کی عبادت کی دعوت کو ٹھکرا دے اور یہ جھگڑنے والا شخص ﴿ بِغَيْرِ عِلْمٍ ﴾ کسی علم اور کسی بصیرت کے بغیر جھگڑتا ہے۔ پس اس کا جھگڑا کسی علمی بنیاد پر مبنی نہیں ہے کہ اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے اور اس کے ساتھ بات چیت میں نرمی کی جائے ﴿ وَلَا هُدًى ﴾ اور نہ کسی ہدایت پر مبنی ہے، جس کی بنا پر ہدایت یافتہ لوگوں کی پیروی کی جاتی ہے ﴿ وَلَا كِتَابٍ مُّنِيرٍ ﴾ اور نہ اس کا مجادلہ کسی روشن اور حق کو واضح کرنے والی کسی کتاب پر مبنی ہے۔ پس اس کا مجادلہ کسی معقول یا منقول دلیل پر مبنی ہے نہ ہدایت یافتہ لوگوں کی اقتدا پر مبنی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے بارے میں اس کی بحث و جدال تو صرف اپنے ان آباء و اجداد کی تقلید پر مبنی ہے جو کسی طرح بھی راہ راست پر نہ تھے، بلکہ خود گمراہ اور گمراہ کنندہ تھے۔ لقمان
21 ﴿ إِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنزَلَ اللّٰـهُ ﴾ ” اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جو اللہ نے نازل کیا ہے اس کی اتباع کرو۔“ یعنی جو کچھ اس نے رسولوں کے ذریعے سے نازل فرمایا ہے کیونکہ یہی حق ہے اور ان کے سامنے اسکے ظاہری دلائل بیان کیے ہیں ﴿ قَالُوا ﴾ تو وہ اس کی مخالفت کرتے ہوئے کہتے ہیں : ﴿ بَلْ نَتَّبِعُ مَا وَجَدْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا ﴾ ” بلکہ ہم تو اسی کی پیروی کریں گے جس پر اپنے باپ دادا کو پایا۔“ یعنی ہم کسی کی خاطر، خواہ وہ کوئی بھی ہو، ان عقائد و نظریات کو نہیں چھوڑ سکتے جن پر ہمارے باپ دادا عمل پیرا تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کا اور ان کے باپ دادا کا رد کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ أَوَلَوْ كَانَ الشَّيْطَانُ يَدْعُوهُمْ إِلَىٰ عَذَابِ السَّعِيرِ ﴾ ” خواہ شیطان ان کو دوزخ کے عذاب کی طرف بلاتا ہو۔“ یعنی ان کے آباء و اجداد نے شیطان کی آواز پر لبیک کہا اور اس کے پیچھے چل پڑے اور یوں وہ شیطان کے چیلوں میں شامل ہوگئے اور ان پر حیرت و تردد نے غلبہ پالیا۔ کیا یہ چیز اس بات کی موجب ہے کہ ان کی پیروی کی جائے اور ان کے طریقے پر چلا جائے یا یہ چیز ان کو ان کے آباء و اجداد کے لیے شیطان کی دعوت کسی محبت اور مودت کی بنا پر نہیں بلکہ یہ تو ان کے ساتھ عداوت اور فریب ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اس کے پیروکار اس کے دشمن ہیں جن پر قابو پانے میں وہ کامیاب ہوا ہے۔ جب لوگ اس کی دعوت کو قبول کرکے جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ کے مستحق بنتے ہیں تو اس کی آنکھیں ٹھنڈی ہوتی ہیں۔ لقمان
22 ﴿ وَمَن يُسْلِمْ وَجْهَهُ إِلَى اللّٰـهِ ﴾ جو کوئی اللہ تعالیٰ کے سامنے سرنگوں ہوتا ہے اور اس کے لیے دین کو خالص کرتے ہوئے شریعت پر عمل پیرا ہوتا ہے ﴿ وَهُوَ مُحْسِنٌ ﴾ تو وہ اسلام میں محسن ہے کیونکہ اس کا عمل شرعی ہے اور وہ اس میں رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع کرتا ہے، یا اس کا معنی یہ ہے کہ جو کوئی عبادات کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کے سامنے سر تسلیم خم کرتا ہے اور وہ اپنی عبادات کو احسان کے درجہ تک لے جاتا ہے یعنی وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرتا ہے گویا کہ وہ اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہا ہے اور اگر یہ کیفیت پیدا نہیں کرسکتا تو وہ اس طرح عبادت کرتا ہے گویا کہ اللہ تعالیٰ اسے دیکھ رہا ہے۔ اس کا یہ معنی بھی ہوسکتا ہے کہ جو کوئی اللہ تعالیٰ کے حقوق قائم کرکے اس کے سامنے سر تسلیم خم کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے بندوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آتا ہے اور ان کے حقوق ادا کرتا ہے۔۔۔ تینوں معانی میں تلازم پایا جاتا ہے اور ان کے درمیان کوئی فرق نہیں سوائے اس پہلو سے کہ دونوں لفظوں کے مورد میں اختلاف ہے ورنہ قبول کرنے اور تکمیل کے لحاظ سے، تمام معانی، دین کے تمام قوانین اور اصولوں کو قائم کرنے پر متفق ہیں۔ جو کوئی ان امور پر عمل پیرا ہوا تو ﴿ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَىٰ ﴾ ” اس نے مضبوط سہارے کو تھام لیا۔“ یعنی جس نے وہ سہارا تھام لیا جو بھروسے کے قابل تھا، وہ نجات پا گیا اور ہلاکت سے بچ گیا اور ہر بھلائی سے بہرہ ور ہوا اور جس نے اللہ تعالیٰ کے سامنے سر تسلیم خم نہ کیا یا اس نے ” احسان“ سے کام نہ لیا تو اس نے بھروسے کے قابل سہارے کو نہ تھاما اور جب اس نے اس قابل اعتماد سہارے کو نہ تھاما تو وہاں ہلاکت کے سوا کچھ بھی نہیں۔ ﴿ وَإِلَى اللّٰـهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ ﴾ اور تمام معاملات کا مرجع و منتہا اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ وہ اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ کرے گا۔ وہ ان کے اعمال کے تقاضوں اور ان کے انجام کے مطابق ان کو جزا و سزا دے گا، لہٰذا اس کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ لقمان
23 ﴿ وَمَن كَفَرَ فَلَا يَحْزُنكَ كُفْرُهُ ﴾ ” اور جو کفر کرے تو اس کا کفر تمہیں غمگین نہ کردے“ کیونکہ آپ کے ذمہ توحید اور تبلیغ کا جو فرض تھا وہ آپ نے ادا کردیا اگر کوئی راہ راست اختیار نہیں کرتا، (تو نہ سہی) اللہ تعالیٰ کے ہاں آپ اجر کے مستحق ہوگئے، لہٰذا ان کے راہ راست اختیار نہ کرنے پر آپ کے لیے حزن و غم کا کوئی مقام نہیں کیونکہ ان کے اندر کوئی بھلائی ہوتی تو اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت سے نواز دیتا۔ آپ اس بات پر بھی غم زدہ نہ ہوں کہ انہوں نے آپ کے ساتھ عداوت کی جسارت کی اور آپ کے خلاف اعلان جنگ کیا، وہ اپنی گمراہی اور کفر پر جمے رہے نیز آپ کو اس بارے میں بھی غم زدہ ہونے کی ضرورت نہیں کہ ان پر اس دنیا ہی میں عذاب بھیج دیا گیا۔ ﴿ إِلَيْنَا مَرْجِعُهُمْ فَنُنَبِّئُهُم بِمَا عَمِلُوا ﴾ ” ان کو ہماری طرف لوٹ کر آنا ہے، پھر جو کام وہ کیا کرتے تھے ہم ان کو بتا دیں گے۔“ ہم انہیں ان کے کفر، عداوت، اللہ کی روشنی کو بجھانے کے لیے ان کی بھاگ دوڑ کرنے اور اس کے رسولوں کو اذیت پہنچانے کے بارے میں آگاہ کریں گے۔ ﴿ إِنَّ اللّٰـهَ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ ﴾ ” بے شک اللہ تعالیٰ سینے کے اسرار نہاں کو بھی جانتا ہے“ جن کے بارے میں کبھی کسی نے بات نہیں کی تب ان معاملات کو کیسے نہیں جانے گا جو ظاہر اور سب کے سامنے ہیں؟ لقمان
24 ﴿ نُمَتِّعُهُمْ قَلِيلًا﴾ ” ہم انہیں تھوڑا سا فائدہ اٹھانے کی مہلت دیتے ہیں“ اس دنیا میں تاکہ وہ اپنے گناہوں میں اضافہ کرلیں اور یوں ان کے عذاب میں اضافہ ہوجائے۔ ﴿ ثُمَّ نَضْطَرُّهُمْ ﴾ ” پھر ہم انہیں جبرا کھینچ لائیں گے“ ﴿ إِلَىٰ عَذَابٍ غَلِيظٍ ﴾ ” ایک سخت عذاب کی طرف۔“ یعنی وہ عذاب اپنی سختی، بہت بڑا ہونے، اپنی قباحت، اپنی الم ناکی اور اپنی شدت میں انتہا کو پہنچا ہوا ہے۔ لقمان
25 اگر آپ حق کو جھٹلانے والے ان مشرکین سے پوچھیں ﴿ مَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ ﴾ ” آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا؟“ تو انہیں معلوم ہوجاتا کہ ان کے بتوں نے کچھ بھی پیدا نہیں کیا اور وہ بول اٹھتے کہ اللہ اکیلے نے زمین اور آسمانوں کو پیدا کیا ہے ﴿ قُلِ ﴾ ان کو الزامی جواب دیتے اور ان کے اس اقرار کو ان کے انکار کے خلاف حجت بناتے ہوئے کہہ دیجیے ! ﴿ الْحَمْدُ لِلّٰـهِ ﴾ ” ہر قسم کی تعریف اللہ کے لیے ہے“ جس نے نور کو واضح کردیا اور خود تمہاری ہی طرف سے دلیل کو ظاہر کردیا۔ اگر وہ جانتے ہوتے تو انہیں یقین ہوتا کہ وہ ہستی جو کائنات کی تخلیق و تدبیر میں متفرد ہے وہ استحقاق عبادت اور توحید میں بھی متفرد ہے لیکن ﴿ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ ﴾ ” ان میں اکثر نہیں جانتے۔“ اسی لیے انہوں نے دوسروں کو اس کا شریک ٹھہرایا، بصیرت کی بنا پر نہیں بلکہ حیرت اور شک کی بنا پر وہ اپنے مذہب کے تناقض پر راضی ہوگئے۔ لقمان
26 پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی وسعت اوصاف کے نمونے کے طور پر ان دو آیتوں کا ذکر فرمایا تاکہ وہ اپنے بندوں کو اپنی معرفت، محبت اور دین میں اخلاص کی دعوت دے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اپنی عمومی ملکیت کا ذکر کیا کہ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ بھی ہے۔۔۔ یہ تمام عالم علوی اور عالم سفلی کو شامل ہے۔۔۔ سب اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہے۔ وہ احکام کو نی و قدری، احکام دینی و امری اور احکام جزای کے ذریعے سے ان میں تصرف کرتا ہے۔ پس تمام مخلوق اس کی مملوک ہے جو اس کے دست تدبیر کے تحت مسخر ہے اور وہ کسی چیز کی مالک نہیں۔ وہ بے حد بے نیاز ہے وہ کسی چیز کا محتاج نہیں جس کی مخلوق محتاج ہوتی ہے۔ ﴿ مَا أُرِيدُ مِنْهُم مِّن رِّزْقٍ وَمَا أُرِيدُ أَن يُطْعِمُونِ ﴾ (الذّٰریٰت : 51؍57) ” میں ان سے رزق طلب نہیں کرتا اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھانا کھلائیں۔“ نیز انبیاء، صدیقین، شہدا اور صالحین کے اعمال اللہ تعالیٰ کو کوئی فائدہ نہیں دیتے۔ ان کے اعمال کا فائدہ صرف انہی کو پہنچتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سے اور ان کے اعمال سے بے نیاز ہے۔ یہ اس کی بے نیازی ہے کہ اس نے انہیں ان کی دنیا و آخرت میں بے نیاز بنا دیا اور ان کے لیے وہ کافی ہوگیا۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی وسعت حمد کے بارے میں آگاہ فرمایا کہ اس کی حمد و ثنا اس کی ذات کا لازمہ ہے وہ ہر لحاظ ہی سے قابل تعریف ہے۔ وہ اپنی ذات میں اور اپنی صفات میں قابل تعریف ہے۔ اس کی صفات میں سے ہر صفت کامل ترین حمد و ثنا کی مستحق ہے کیونکہ یہ عظمت و کمال پر مبنی صفات ہیں۔ اس کے تمام افعال اور اس کی تمام تخلیقات قابل تعریف اور اس کے تمام اوامر و نواہی قابل ستائش ہیں وہ تمام فیصلے اور احکام جو اس نے دنیا و آخرت میں اپنے بندوں پر اور بندوں کے درمیان نافذ کیے ہیں، ان پر وہ قابل حمد و ستائش ہے۔ لقمان
27 اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام کی وسعت اور اپنے قول کی عظمت کو ایسی شرح کے ساتھ بیان کیا جو دل کی گہرائیوں تک اتر جاتی ہے، جس سے عقل و خرد حیرت کے سمندر میں ڈوب جاتے ہیں اور عقل مند اور اصحاب بصیرت اس کی معرفت میں سیاحت کرتے ہیں، چنانچہ فرمایا : ﴿ وَلَوْ أَنَّمَا فِي الْأَرْضِ مِن شَجَرَةٍ أَقْلَامٌ ﴾ ” اور اگر یوں ہو کہ زمین میں جتنے درخت ہیں (سب کے سب) قلم ہوں۔“ جن کے ساتھ لکھا جائے ﴿وَالْبَحْرُ يَمُدُّهُ مِن بَعْدِهِ سَبْعَةُ أَبْحُرٍ ﴾ ” اور سمندر روشنائی ہو اور اس کے بعد سات سمندر اور“ روشنائی بن جائیں جن سے لکھنے میں مدد لی جائے تو قلم ٹوٹ جائیں گے اور یہ روشنائی ختم ہوجائے گی لیکن ﴿ كَلِمَاتُ اللّٰـهِ ﴾ اللہ تعالیٰ کی باتیں لکھنے سے کبھی ختم نہ ہوں گی۔ یہ مبالغہ نہیں ہے، جس میں کوئی حقیقت نہیں ہوتی، بلکہ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ عقل انسانی اللہ کی بعض صفات کا احاطہ کرنے سے قاصر ہے اور وہ جانتا ہے کہ بندوں کے لیے اس کی معرفت سب سے بڑی نعمت ہے جس سے اس نے انہیں سرفراز کیا ہے اور سب سے بڑی منقبت ہے جو انہیں حاصل ہوئی ہے جس کا کامل طور پر ادراک ممکن نہیں، مگر جس چیز کا کامل ادراک ممکن نہ ہو اس کو کامل طور پر ترک نہیں کیا جاسکتا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان میں سے بعض صفات کی طرف اس طرح توجہ دلائی ہے جس سے ان کے قلب منور ہوتے ہیں اور انہیں شرح صدر حاصل ہوتی ہے وہ اس منزل تک پہنچنے کے لیے جس پر وہ نہیں پہنچے، اس چیز سے راہنمائی لیتے ہیں جس تک وہ پہنچ چکے ہیں اور وہ اسی طرح کہتے ہیں جیسے ان میں سے بہترین انسان اور اپنے رب کی سب سے زیادہ معرفت رکھنے والی ہستی نے کہا : (( لَانُحْصِی [اصل لفظ ((لاَاُحْصِی)) ہے اور یہ مولف رحمۃ اللہ علیہ کی سبقت قلم ہے۔] ثَنَاءً عَلَیْکَ أَنْتَ کَمَا أَثْنَیْتَ عَلیٰ نَفْسِکَ )) [صحیح مسلم ،الصلاۃ، باب مایقال فی الرکوع والسجود؟،ح:486]” ہم تیری ثناء بیان نہیں کرسکتے، تو ایسے ہی ہے جیسے تو نے خود اپنی ثناء بیان کی۔“ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ معاملہ اس سے جلیل تر اور عظیم تر ہے۔ یہ تمثیل ان معانی کو قریب کرنے کے باب میں سے ہے جہاں تک پہنچنے کی ذہن اور فہم طاقت نہیں رکھتا۔ ورنہ اگر درختوں کو کئی گنا کرلیا جائے اور سمندروں کو بھی کئی گنا کرکے ان کی روشنائی بنا لی جائے تب بھی ان کے ختم ہونے کا تو تصور کیا جاسکتا ہے کیونکہ یہ مخلوق ہیں۔۔۔ رہا اللہ تبارک و تعالیٰ کا کلام، تو اس کے ختم ہونے کا تصور نہیں کیا جاسکتا بلکہ عقلی اور نقلی دلیل دلالت کرتی ہے کہ اس کا کلام ختم ہوتا ہے نہ اس کی کوئی انتہا ہے۔ اللہ تعالیٰ اور اس کی صفات کے سوا باقی ہر چیز کی انتہا ہے۔ ﴿ وَأَنَّ إِلَىٰ رَبِّكَ الْمُنتَهَىٰ ﴾ (النجم : 53؍42) ” اور تیرے رب ہی کے پاس پہنچنا ہے۔ “ جب عقل اللہ تعالیٰ کی ” اولیت“ اور ” آخریت“ کا تصور کرے تو، ذہن گزرے ہوئے زمانوں کو فرض کرے۔ وہ ازمان گزشتہ کا جتنا بھی اندازہ لگائے گا تو اللہ تبارک و تعالیٰ اس سے بھی پہلے ہے جس کا کوئی منتہیٰ نہیں۔ اسی طرح عقل و ذہن میں آنے والے زمانوں کے بارے میں خواہ کتنا ہی اندازہ کرلیں اور قلب و زبان کے ذریعے سے اس کی مدد بھی لے لیں، اللہ تعالیٰ ان کے ان اندازوں سے بھی زیادہ متاخر ہے جس کی کوئی انتہا نہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے تمام اوقات میں فیصلہ کرتا ہے، کلام کرتا ہے، وہ جیسے چاہتا ہے اور جب چاہتا ہے اپنا قول و فعل صادر کرتا ہے اسے اپنے اقوال و افعال سے کوئی چیز مانع نہیں۔ جب عقل نے اس حقیقت کا تصور کرلیا تو معلوم ہوا کہ یہ مثال جو اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام کے ضمن میں بیان کی ہے صرف اس لیے ہے کہ بندوں کو اس کا تھوڑا سا ادراک ہوجائے ورنہ اللہ تعالیٰ کا کلام اس سے عظیم تر اور جلیل تر ہے۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی عزت کے جلال اور کمال حکمت کا ذکر کیا۔ فرمایا ﴿إِنَّ اللّٰـهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ  ﴾ ” بے شک اللہ غالب حکمت والا ہے۔“ یعنی تمام عزت و غلبے کا وہی مالک ہے، تمام عالم علوی اور عالم سفلی میں جو بھی قوت پائی جاتی ہے وہ اسی کی طرف سے ہے، وہی ہے جس کی توفیق کے بغیر گناہ سے بچنے کی ہمت ہے نہ نیکی کرنے کی طاقت ہے۔ وہ اپنے غلبے کے ذریعے سے تمام مخلوق پر غالب ہے، ان میں تصرف اور ان کی تدبیر کرتا ہے۔ اس نے اپنی حکمت سے تمام مخلوق کو پیدا کیا۔ اس کی تخلیق سے اس کی غرض و غایت اور مقصد بھی حکمت ہی ہے۔ اسی طرح امر و نہی بھی اس کی حکمت ہی سے وجود میں آئے ہیں، اور ان کو وجود میں لانے کی غایت مقصود بھی حکمت ہی ہے۔ پس وہ اپنے خلق و امر میں حکمت والا ہے۔ لقمان
28 پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی عظیم اور کامل قدرت کا ذکر فرمایا جس کا عقل تصور تک نہیں کرسکتی۔ پس فرمایا : ﴿ مَّا خَلْقُكُمْ وَلَا بَعْثُكُمْ إِلَّا كَنَفْسٍ وَاحِدَةٍ ﴾ ” تم سب کو پیدا کرنا اور پھر دوبارہ اٹھانا تو بس ایسا ہے جیسے ایک متنفس کو (پیدا کرنا اور اٹھانا) “ اور یہ ایسی چیز ہے جو عقل کو حیران کردیتی ہے۔ تمام مخلوق کی تخلیق۔۔۔ ان کی کثرت کے باوجود اور ان کی موت کے بعد ان کے بکھر جانے کے باوجود ان کو ایک لمحہ میں دوبارہ زندہ کرنا۔۔۔ ایسے ہی ہے جیسے اس نے صرف ایک نفس کو پیدا کیا ہو۔ اس لیے مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیے جانے اور پھر اعمال کی جزا دینے کو بعید سمجھنا اللہ تعالیٰ کی عظمت، قوت اور قدرت کے بارے میں جہالت کے سوا کچھ نہیں۔ پھر ذکر فرمایا کہ وہ تمام مسموعات کو سنتا اور تمام مرئیات کو دیکھتا ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿ إِنَّ اللّٰـهَ سَمِيعٌ بَصِيرٌ ﴾ ” بے شک اللہ تعالیٰ سب کچھ سننے اور دیکھنے والا ہے۔ “ لقمان
29 اس آیت کریمہ میں بھی اللہ تعالیٰ کے اپنے تصرف و تدبیر میں متفرد ہونے، رات کو دن میں داخل کرنے اور دن کو رات میں داخل کرنے میں اپنی قدرت و اختیار کا ذکر کیا گیا ہے۔ جب دن اور رات میں سے کوئی داخل ہوتا ہے تو دوسرا چلا جاتا ہے۔ وہ سورج اور چاند کو مسخر کرنے میں بھی متفرد ہے۔ سورج اور چاند اس کی تدبیر اور نظام کے تحت چل رہے ہیں۔ جب سے اللہ تعالیٰ نے ان کو پیدا کیا ہے، ان میں خلل واقع نہیں ہوا۔۔۔ تاکہ ان کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ دین و دنیا سے متعلق اپنے بندوں کے مصالح و منافع کو پورا کرے، جس سے اس کے بندے عبرت حاصل کرتے اور فائدہ حاصل کرتے ہیں۔ ﴿ كُلٌّ ﴾ ” ہر ایک“ یعنی سورج اور چاند دونوں ﴿ يَجْرِي إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى ﴾ ایک مدت مقرر تک چلے جا رہے ہیں۔ جب یہ مدت پوری ہوجائے گی تو ان کی گردش ختم اور ان کی قوت معطل ہوجائے گی اور یہ قیامت کا دن ہوگا جب سورج اور چاند سیاہ اور بے نور کردیے جائیں گے۔ دنیا کے گھر کی انتہا اور آخرت کے گھر کی ابتدا ہوجائے گی۔ ﴿ وَأَنَّ اللّٰـهَ بِمَا تَعْمَلُونَ ﴾ اور تم جو نیکی اور بدی کرتے ہو اللہ تعالیٰ اس سے ﴿ خَبِيرٌ ﴾ ” باخبر ہے۔“ اس سے کوئی چیز چھپی ہوئی نہیں ہے۔ وہ عنقریب تمہیں ان اعمال پر جزا و سزا دے گا۔ وہ اطاعت کرنے والوں کو ثواب سے نوازے گا اور نافرمانوں کو سزا دے گا۔ لقمان
30 ﴿ ذٰلِكَ ﴾ ” یہ“ جو اللہ تعالیٰ نے تمہارے سامنے اپنی عظمت اور اپنی صفت کو بیان کیا ہے ﴿ بِأَنَّ اللّٰـهَ هُوَ الْحَقُّ ﴾ اس کا سبب یہ ہے کہ وہ اپنی ذات و صفات میں حق ہے، اس کا دین حق ہے، اس کے رسول حق ہیں، اس کا وعدہ حق ہے، اس کی وعید حق ہے اور اس کی عبادت حق ہے۔ ﴿ وَأَنَّ مَا يَدْعُونَ مِن دُونِهِ الْبَاطِلُ ﴾ اور جن کو یہ اللہ کے سوا پکارتے ہیں، سب اپنی ذات و صفات میں باطل ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ ان کی امداد نہ کرے تو ان کی بقا ممکن نہیں۔ جب یہ خود باطل ہیں تو ان کی عبادت سب سے بڑا باطل ہے۔ ﴿ وَأَنَّ اللّٰـهَ هُوَ الْعَلِيُّ ﴾ ” اور بے شک اللہ تعالیٰ (بذاتہ) بلند ہے“ وہ تمام مخلوقات سے اوپر ہے۔ اس کی صفات اس سے بلند تر ہیں کہ ان پر مخلوق کی صفات کو قیاس کیا جائے۔ وہ مخلوق کے اوپر اور ان پر غالب ہے۔ ﴿ الْكَبِيرُ ﴾ وہ اپنی ذات و صفات میں کبریائی کا مالک ہے اور زمین اور آسمان کی تمام مخلوق کے دل اس کی کبریائی سے لبریز ہیں۔ لقمان
31 کیا تو نے اللہ تعالیٰ کی قدرت، اس کی رحمت اور اپنے بندوں پر اس کی عنایت کے آثار نہیں دیکھے؟ اس نے سمندر کو مسخر کیا جس میں اس کے حکم قدری اور اس کے لطف و احسان سے کشتیاں چلتی ہیں۔ ﴿ لِيُرِيَكُم مِّنْ آيَاتِهِ ﴾ ” تاکہ وہ تم کو اپنی نشانیاں دکھائے۔“ ان نشانیوں میں نفع اور عبرت ہے۔ ﴿ إِنَّ فِي ذٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُورٍ ﴾ ”بے شک اس میں ہر صبر کرنے والے اور شکر کرنے والے کے لیے نشانیاں ہیں۔“ پس یہ وہ لوگ ہیں جو آیات الٰہی سے فائدہ اٹھاتے ہیں، وہ ہر تکلیف پر صبر کرتے ہیں اور خوشی پر شکر کرتے ہیں۔ وہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کو چھوڑ کر اس کی اطاعت پر صبر کرتے ہیں۔ وہ اس کی قضا و قدر پر صبر کرتے اور اس کی دینی اور دنیاوی نعمتوں پر اس کا شکر کرتے ہیں۔ لقمان
32 اللہ تعالیٰ لوگوں کا حال بیان کرتا ہے کہ جب لوگ سمندر میں سفر کرتے ہیں اور سمندر کی موجیں چھتری کی مانند ان پر چھا جاتی ہیں تب وہ اللہ کے لیے عبادت کو خالص کرتے ہوئے صرف اسی کو پکارتے ہیں۔ ﴿ فَلَمَّا نَجَّاهُمْ إِلَى الْبَرِّ ﴾ ” پھر جب وہ ان کو نجات دے کر خشکی پر لے آتا ہے۔“ تو وہ دو گروہوں میں منقسم ہوجاتے ہیں: ان میں سے ایک گروہ کے لوگ درمیانی راہ پر چلنے والے ہیں، یعنی کامل طریقے سے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا نہیں کرتے بلکہ وہ گناہوں کا ارتکاب کرکے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں اور ایک گروہ اللہ تعالیٰ کی ناشکری کرکے اس کی نعمت کا انکار کرتا ہے۔ بنا بریں فرمایا : ﴿ وَمَا يَجْحَدُ بِآيَاتِنَا إِلَّا كُلُّ خَتَّارٍ﴾ ” اور ہماری آیتوں کا وہی انکار کرتے ہیں جو عہد شکن ہیں۔“ ان کی بدعہدی یہ ہے کہ انہوں نے اپنے رب سے عہد کیا تھا کہ اگر اس نے سمندر اور اس کی سختیوں سے انہیں نجات دی تو وہ اس کے شکرگزار بندے بنیں گے۔ اس فریق نے بدعہدی کی اپنے عہد کو پورا نہ کیا اور اس پر مستزاد یہ کہ ﴿كَفُورٍ﴾ وہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے سخت ناشکرے ہیں۔ جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے ان سختیوں سے نجات دی ہو کیا اس کے لیے اس کا شکر ادا کرنے کے سوا کچھ اور لائق ہے؟ لقمان
33 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے تقویٰ کا حکم دیتا ہے۔ تقویٰ سے مراد اس کے حکم کی تعمیل کرنا اور منہیات کو ترک کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے سخت دن کے خوف کی طرف ان کی توجہ مبذول کرواتا ہے۔ جس روز ہر شخص کو اپنے سوا کسی کا ہوش نہیں ہوگا پس ﴿ لَّا يَجْزِي وَالِدٌ عَن وَلَدِهِ وَلَا مَوْلُودٌ هُوَ جَازٍ عَن وَالِدِهِ شَيْئًا ﴾ ” نہ تو باپ اپنے بیٹے کے کچھ کام آئے گا نہ بیٹا اپنے باپ کے کچھ کام آسکے گا۔“ یعنی وہ اس کی نیکیوں میں اضافہ کرسکے گا نہ اس کے گناہوں میں کوئی کمی کرسکے گا۔ ہر بندے کا عمل پورا ہوچکا ہوگا اور اس پر اس کی جزا و سزا بھی متحقق ہوچکی ہوگی۔ تو اس ہولناک دن کی طرف دیکھ، جو بندے کو قوت عطا کرکے اس کے لیے تقویٰ کو آسان کرتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں پر رحمت ہے کہ وہ انہیں تقویٰ کا حکم دیتا ہے جس کے اندر ان کی سعادت ہے اور اس پر ان کے ساتھ ثواب کا وعدہ کرتا ہے، انہیں عذاب سے ڈراتا ہے، انہیں مواعظ اور (قیامت کے) خوفناک مقامات سے ڈرا کر، برائیوں سے روکتا ہے۔۔۔ اے جہانوں کے رب ! تیری ہی ستائش ہے۔ ﴿ إِنَّ وَعْدَ اللّٰـهِ حَقٌّ ﴾ ” بے شک اللہ کا وعدہ سچا ہے۔“ پس اللہ کے وعدے میں شک نہ کرو اور ایسے کام نہ کرو جو اس وعدے کو سچا نہ ماننے والوں کے ہوتے ہیں، بنا بریں فرمایا : ﴿ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا ﴾ یعنی دنیا کی زیب و زینت، اس کی چکا چوند اور اس کے فتنے تمہیں دھوکے میں نہ ڈال دیں ﴿وَلَا يَغُرَّنَّكُم بِاللَّـهِ الْغَرُورُ﴾ ” اور فریب دینے والا تمہیں اللہ کے بارے میں کسی طرح کا فریب نہ دے“ یعنی شیطان ہر وقت انسان کو فریب میں مبتلا رکھتا ہے اور کسی وقت بھی اس سے غافل نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر حق ہے اور اس نے ان کے ساتھ وعدہ کر رکھا ہے کہ وہ انہیں ان کے اعمال کی جزا دے گا، نیز کیا انہوں نے اس کا حق پورا کیا ہے یا اس بارے میں انہوں نے کوتاہی کی ہے؟ یہ ایسا معاملہ ہے جس کا اہتمام واجب ہے۔ بندۂ مومن کو چاہیے کہ وہ اسے اپنا نصب العین اور زندگی کا سرمایہ بنائے رکھے جس کے لیے کوشش کی جاتی ہے۔ اس راستے کی سب سے بڑی آفت فتنے میں مبتلا کرنے والی دنیا ہے اور سب سے بڑا راہزن شیطان ہے جو وسوسے ڈالتا اور گمراہ کرتا ہے، اس لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے بندوں کو دنیا اور شیطان کے فریب میں مبتلا ہونے سے روکا ہے۔ ﴿ يَعِدُهُمْ وَيُمَنِّيهِمْ وَمَا يَعِدُهُمُ الشَّيْطَانُ إِلَّا غُرُورًا ﴾ (النساء : 4؍120) ” شیطان ان سے وعدہ کرتا ہے، ان کو آرزوئیں دلاتا ہے اور شیطان کا وعدہ دھوکے کے سوا کچھ نہیں۔ “ لقمان
34 یہ امر متحقق ہے کہ علم الٰہی نے غیب و شاہد اور ظاہر و باطن ہر چیز کا احاطہ کر رکھا ہے اور کبھی کبھی بہت سے امور غیبیہ کے بارے میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو مطلع کردیتا ہے۔ اس آیت کریمہ میں مذکور پانچ چیزیں ایسی ہیں جن کا علم کسی کو بھی نہیں دیا گیا، عام لوگ تو کیا ان امور کو کوئی نبی مرسل جانتا ہے نہ کوئی مقرب فرشتہ، لہٰذا فرمایا : ﴿ إِنَّ اللّٰـهَ عِندَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ ﴾ صرف اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ قیامت کی گھڑی کب آئے گی۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ يَسْأَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ أَيَّانَ مُرْسَاهَا ۖ قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِندَ رَبِّي ۖ لَا يُجَلِّيهَا لِوَقْتِهَا إِلَّا هُوَ ۚ ثَقُلَتْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ لَا تَأْتِيكُمْ إِلَّا بَغْتَةً ﴾ (الاعراف : 7؍871) ” وہ آپ سے پوچھتے ہیں کہ آخر قیامت کی گھڑی کب آئے گی، کہہ دیجیے اس کا علم صرف میرے رب کے پاس ہے وہی اسے اس کے وقت پر ظاہر کرے گا، آسمانوں اور زمین میں بڑا بھاری حادثہ ہوگا اور وہ تم پر اچانک ہی آجائے گی۔ “ ﴿ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ ﴾ وہ اکیلا ہی ہے جو بارش برساتا ہے اور وہی اس کے برسنے کا وقت جانتا ہے۔ ﴿ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِ ﴾ پس رحموں کے اندر جو کچھ ہے اس نے تخلیق کیا ہے اور اس کے متعلق وہی جانتا ہے کہ آیا وہ نر ہے یا مادہ، اس لیے اس پر مقرر کردہ فرشتہ اللہ تعالیٰ سے عرض کرتا ہے لڑکا یا لڑکی؟ پس اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے فیصلہ کرتا ہے۔ ﴿ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا ﴾ ” اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کام کرے گا۔“ یعنی دین اور دنیا کی کمائی میں سے ﴿ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ ﴾ ”اور کوئی متنفس نہیں جانتا کہ کس سرزمین میں اسے موت آئے گی۔“ بلکہ یہ تمام علم صرف اللہ تعالیٰ ہی سے مختص ہے۔ ان مذکورہ چیزوں کا علم مخصوص کرنے کے بعد بیان فرمایا کہ اس کا علم تمام چیزوں کا احاطہ کیے ہوئے ہے، اس لیے فرمایا : ﴿ إِنَّ اللّٰـهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ ﴾ بے شک اللہ تعالیٰ تمام ظاہری و باطنی امور، تمام چھپی ہوئی اور تمام اسرار نہاں سے باخبر اور ان کو جانتا ہے۔ یہ اس کی حکمت کاملہ ہے کہ اس نے پانچ چیزوں کا علم بندوں سے چھپا رکھا ہے کیونکہ اس کے اندر ان کے مصالح پنہاں ہیں۔ صاحب تدبر پر یہ چیز مخفی نہیں۔ لقمان
0 السجدة
1 الم السجدة
2 اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ یہ کتاب کریم رب کائنات کی طرف سے نازل کردہ ہے جس نے اپنی نعمت کے ذریعے سے اپنے بندوں کی تربیت کی ہے۔ سب سے بڑی چیز جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر اپنی ربوبیت کا فیضان کیا ہے، یہی کتاب کریم ہے۔ ان میں ہر وہ چیز موجود ہے، جو ان کے احوال کو درست اور ان کے اخلاق کی تکمیل کرتی ہے۔ اس کتاب میں کوئی شک و شبہ نہیں، بایں ہمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تکذیب کرنے والے ظالم کہتے ہیں کہ اس کتاب کو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی طرف سے گھڑ لیا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے کلام کے انکار کی سب سے بڑی جسارت اور محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سب سے بڑے جھوٹ کا بہتان لگانا ہے، نیز یہ بہتان لگانا ہے کہ مخلوق بھی خالق کے کلام جیسا کلام تخلیق کرنے پر قادر ہے۔ السجدة
3 مذکورہ بالا باتوں میں سے ہر ایک بات بہت بڑا جرم ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے قول ” اس کو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے گھڑا ہے۔“ کی تردید کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ بَلْ هُوَ الْحَقُّ ﴾ ” بلکہ یہ حق ہے“ جس کے سامنے سے باطل آسکتا ہے نہ پیچھے سے۔ یہ کتاب کریم قابل تعریف اور دانا ہستی کی طرف سے نازل کردہ ہے ﴿ مِن رَّبِّكَ ﴾ ” آپ کے رب کی طرف سے۔“ جس نے اسے اپنے بندوں پر رحمت کے طور پر نازل کیا ہے ﴿لِتُنذِرَ قَوْمًا مَّا أَتَاهُم مِّن نَّذِيرٍ مِّن قَبْلِكَ﴾ ” تاکہ آپ ان لوگوں کو ڈرائیں جن کے پاس آپ سے پہلے ڈرانے متنبہ کرنے والا نہیں آیا۔“ یعنی رسول کے بھیجے جانے اور کتاب کے نازل کیے جانے کی انہیں سخت ضرورت ہے کیونکہ ان کے پاس کوئی ڈرانے والا نہیں آیا۔۔۔ بلکہ یہ لوگ اپنی جہالت میں سرگرداں اور اپنی گمراہی کے اندھیروں میں مارے مارے پھرتے ہیں، لہٰذا ہم نے آپ پر کتاب نازل کی ﴿ لَعَلَّهُمْ يَهْتَدُونَ ﴾ شاید کہ یہ گمراہی کو چھوڑ کر راہ راست پر گامزن ہوں اور اس طرح حق کو پہچان کر اس کو ترجیح دیں۔ یہ تمام امور جن کا اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے، ان کی تکذیب کے متناقض ہیں۔ یہ تمام امور ان سے ایمان اور تصدیق کامل کا تقاضا کرتے ہیں کیونکہ یہ ﴿ مِن رَّبِّ الْعَالَمِينَ ﴾ ” رب کائنات کی طرف سے ہے“ اور یقیناً یہ ﴿ الْحَقُّ ﴾ ” حق ہے“ اور حق ہر حال میں قابل قبول ہوتا ہے۔ ﴿ لَا رَيْبَ فِيهِ ﴾ ” اس میں کسی بھی پہلو سے کوئی شک نہیں“ اس میں کوئی ایسی چیز نہیں جو شک و ریب کی موجب ہو۔ یہ کتاب کریم کوئی ایسی خبر بیان نہیں کرتی جو واقع کے غیر مطابق ہو اور نہ اس میں کوئی ایسی چیز ہی ہے جس کے معانی میں کوئی اشتباہ ہو یا وہ مخفی ہوں نیز وہ رسالت کے سخت ضرورت مند تھے اور اس کتاب کریم میں ہر قسم کی بھلائی اور نیکی کا راستہ دکھایا گیا ہے۔ السجدة
4 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی قدرت کاملہ کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے : ﴿ اللّٰـهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ﴾ ” وہ جس نے آسمانوں اور زمین کو اور ان کے مابین چیزوں کو چھ دن میں پیدا کیا۔“ ان میں سے پہلا دن اتوار اور آخری دن جمعہ تھا، حالانکہ وہ ان آسمانوں اور زمین کو ایک لمحہ میں پیدا کرنے کی قدرت رکھتا ہے، مگر اللہ تعالیٰ بہت مہربانی کرنے والا اور حکمت والا ہے۔ ﴿ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ ﴾ ” پھر وہ عرش پر مستوی ہوا۔“ جو کہ تمام مخلوقات کی چھت ہے۔ یہ عرش پہ مستوی ہونے کی کیفیت ایسی ہے جو اس کے جلال کے لائق ہے۔ ﴿ مَا لَكُم مِّن دُونِهِ مِن وَلِيٍّ ﴾ ” اس کے سوا تمہارا کوئی دوست نہیں“ جو تمہارے معاملات میں تمہاری سرپرستی کرے ﴿ وَلَا شَفِيعٍ ﴾ ” اور نہ سفارش کرنے والا۔“ یعنی اگر تمہیں سزا ملے تو وہ تمہاری سفارش کرے ﴿ أَفَلَا تَتَذَكَّرُونَ ﴾ ” کیا تم نصیحت نہیں پکڑتے“ کہ تمہیں علم ہو کہ زمین و آسمان کا پیدا کرنے والا، جو عرش عظیم پر مستوی ہے، جو تمہاری تدبیر اور تمہاری سرپرستی میں یکتا ہے اور تمام تر شفاعت کا وہی مالک ہے، اس لیے عبادت کی تمام انواع کا وہی مستحق ہے۔ السجدة
5 ﴿ يُدَبِّرُ الْأَمْرَ ﴾ امر کونی و قدری اور امر دینی و شرعی کی تمام تدابیر وہ اکیلاہی کرتا ہے اور تمام تدابیر قادر مطلق بادشاہ کی طرف سے نازل ہوتی ہیں ﴿ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ ﴾ ” آسمان سے زمین کی طرف۔“ پس وہ ان تدابیر کے ذریعے سے کسی کو سعادت مند بناتا ہے اور کسی کو بدبختی کے گڑھے میں دھکیل دیتا ہے، کسی کو دولت مند بنا دیتا ہے اور کسی کے نصیب میں فقر و فاقہ لکھ دیتا ہے، کسی کو عزت سے نوازتا ہے اور کسی کو ذلت دیتا ہے، کسی کو اکرام و تکریم سے بہرہ مند کرتا ہے اور کسی کے دامن میں رسوائی ڈال دیتا ہے، کچھ قوموں کو رفعت اور عروج سے سرفراز کرتا ہے اور کچھ قوموں کو زوال کی پستیوں میں گرا دیتا ہے اور وہی آسمانوں سے رزق نازل کرتا ہے۔ ﴿ ثُمَّ يَعْرُجُ إِلَيْهِ ﴾ ” پھر وہ اس کی طرف چڑھ جاتا ہے۔“ یعنی امر اس کی طرف سے نازل ہوتا ہے اور اسی کی طرف چڑھ جاتا ہے ﴿ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ أَلْفَ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّونَ ﴾ ” ایک روز میں جس کا اندازہ تمہارے شمار کے مطابق ہزار برس ہوگا۔“ یعنی یہ امر عروج کرکے، ایک لمحہ میں اس کے پاس پہنچ جاتا ہے۔ السجدة
6 ﴿ ذٰلِكَ ﴾ ” وہ“ یعنی جس نے بڑی بڑی مخلوقات کو پیدا کیا، جو عرش عظیم پر مستوی ہے اور اکیلا ہی اپنی مملکت کی تدبیر کرتا ہے ﴿ عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ ﴾ ” پوشیدہ اور ظاہر کا جاننے والا، غالب، رحم کرنے والا ہے۔“ پس اس نے اپنی وسعت علم، اپنے کامل غلبے اور اپنی بے پایاں رحمت کی بنا پر ان مخلوقات کو وجود بخشا اور ان میں بے شمار فائدے ودیعت کیے اور ان کی تدبیر کرنا اس کے لیے مشکل نہیں۔ السجدة
7 ﴿ الَّذِي أَحْسَنَ كُلَّ شَيْءٍ خَلَقَهُ ﴾ تمام مخلوق کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے پیدا کیا، اسے بہترین تخلیق عطا کی۔ اس نے ہر مخلوق کو ایسی تخلیق عطا کی جو اس کے لائق اور اس کے ماحول کے موافق ہے اور یہ عام ہے، پھر اللہ تعالیٰ نے انسان کے فضل و شرف کی بنا پر اس کی تخلیق کا خصوصی طور پر ذکر کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ وَبَدَأَ خَلْقَ الْإِنسَانِ مِن طِينٍ ﴾ ” اور انسان کی پیدائش کو مٹی سے شروع کیا۔“ یہ ابتدا ابوالبشر حضرت آدم (علیہ السلام) کی تخلیق سے ہوئی۔ السجدة
8 ﴿ ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَهُ ﴾ ” پھر کیا اس کی نسل کو“ یعنی ذریت آدم کی پیدائش کو ﴿ مِّن مَّاءٍ مَّهِينٍ ﴾ گندے اور کمزور نطفہ سے۔ السجدة
9 ﴿ ثُمَّ سَوَّاهُ ﴾ پھر اس کا گوشت پوست، اس کے اعضا، اس کے اعصاب اور اس کی شریانوں کے نظام کو درست طور پر بنایا، اسے بہترین تخلیق و ہیئت سے سرفراز کیا اس کے ہر ہر عضو کو ایسے مقام پر رکھا جس کے سوا کوئی اور مقام اس کے لائق نہ تھا۔ ﴿ وَنَفَخَ فِيهِ مِن رُّوحِهِ ﴾ ” اور اس میں اپنی )طرف سے( روح پھونکی۔“ یعنی اللہ تعالیٰ اس کی طرف فرشتہ بھیجتا ہے جو اس کے اندر روح پھونکتا ہے تب وہ جمادات کی شکل سے نکل کر زندگی سے بہرہ ور انسان بن جاتا ہے۔ ﴿ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ ﴾ اور وہ تمہیں آہستہ آہستہ تمام منفعتیں عطا کرتا رہا حتیٰ کہ تمہیں سماعت و بصارت کی مکمل صلاحیتوں سے نواز دیا ﴿ وَالْأَفْئِدَةَ قَلِيلًا مَّا تَشْكُرُونَ ﴾ ” اور دل (بنائے) مگر تم بہت کم شکر کرتے ہو“ اس ہستی کا جس نے تمہیں پیدا کیا اور تمہاری صورت گری کی۔ السجدة
10 قیامت کو بعید سمجھتے ہوئے اس کی تکذیب کرنے والوں نے کہا : ﴿ أَإِذَا ضَلَلْنَا فِي الْأَرْضِ ﴾ جب ہم بوسیدہ اور ریزہ ریزہ ہو کر زمین میں ایسی ایسی جگہوں میں بکھر جائیں گے جن کے بارے میں کچھ علم نہیں ہوگا ﴿ أَإِنَّا لَفِي خَلْقٍ جَدِيدٍ ﴾ تو کیا ہمیں نئے سرے سے پیدا کیا جائے گا۔ ان کے خیال میں یہ بعید ترین چیز ہے اور ایسا خیال کرنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ خالق کائنات کی قدرت کو اپنی قدرت پر قیاس کرتے ہیں اور ان کا یہ کلام تلاش حقیقت کی خاطر نہیں، بلکہ یہ تو ظلم، عناد، اپنے رب کی ملاقات سے انکار اور کفر پر مبنی ہے۔ بنا بریں فرمایا : ﴿ بَلْ هُم بِلِقَاءِ رَبِّهِمْ كَافِرُونَ ﴾ ” بلکہ وہ اپنے رب کی ملاقات سے انکار کرتے ہیں۔“ ان کے کلام ہی سے ان کی غرض و غایت معلوم ہوجاتی ہے ورنہ اگر ان کا مقصد بیان حق ہوتا تو اللہ تعالیٰ ان کے سامنے ایسے قطعی دلائل بیان کرتا جو بصیرت کے لیے اتنے ہی نمایاں ہوتے جتنا بصارت کے لیے سورج۔ ان کے لیے یہی جان لینا کافی ہے کہ ان کو عدم سے وجود میں لایا گیا۔ ابتدا کی نسبت اس کا اعادہ آسان تر ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ مردہ زمین پر بارش برساتا ہے، زمین اپنی موت کے بعد جی اٹھتی ہے اور اپنے اندر بکھرے ہوئے بیجوں کو اگاتی ہے۔ السجدة
11 ﴿ قُلْ يَتَوَفَّاكُم مَّلَكُ الْمَوْتِ الَّذِي وُكِّلَ بِكُمْ ﴾ ” کہہ دیجیے کہ موت کا فرشتہ جو تم پر مقرر کیا گیا ہے وہ تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے۔“ یعنی ارواح کا قبض کرنا جس کے سپرد کیا گیا ہے اور اس کے ساتھ مددگار فرشتے بھی ہیں۔ ﴿ ثُمَّ إِلَىٰ رَبِّكُمْ تُرْجَعُونَ ﴾ ” پھر تم اپنے رب کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔“ پس وہ تمہیں تمہارے اعمال کی جزا دے گا۔ تم نے قیامت کا انکار کیا ہے اس لیے دیکھو اللہ تعالیٰ تمہاری ساتھ کیا کرتا ہے۔ السجدة
12 اللہ تبارک و تعالیٰ نے قیامت کے روز ان کے اپنی طرف لوٹنے کے بارے میں ذکر کرنے کے بعد، اپنے حضور ان کی حاضری کا حال بیان کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ وَلَوْ تَرَىٰ إِذِ الْمُجْرِمُونَ ﴾ ” اور اگر آپ دیکھیں، جب کہ گناہ گار“ جنہوں نے بڑے بڑے گناہوں پر اصرار کیا ﴿نَاكِسُو رُءُوسِهِمْ﴾ خشوع و خضوع اور انکساری کے ساتھ سرنگوں ہوکر، اپنے جرائم کا اقرار کرتے ہوئے، واپس لوٹائے جانے کی درخواست کرکے عرض کریں گے : ﴿ رَبَّنَا أَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا ﴾ ” اے ہمارے رب ! ہم نے دیکھ لیا اور سن لیا۔“ یعنی تمام معاملہ ہمارے سامنے واضح ہوگیا ہم نے اسے عیاں طور پر دیکھ لیا اور ہمارے لیے عین الیقین بن گیا۔ ﴿ فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا إِنَّا مُوقِنُونَ ﴾ ” ہم کو (دنیا میں) واپس بھیج دے تاکہ ہم نیک عمل کریں بلاشبہ ہم یقین کرنے والے ہیں۔“ یعنی جن حقائق کو ہم جھٹلایا کرتے تھے اب ہمیں ان کا یقین آگیا ہے، تو آپ بہت برا معاملہ، ہولناک حالات، خائب و خاسر لوگ اور نامقبول دعائیں دیکھیں گے، کیونکہ مہلت کا وقت تو گزر چکا۔ السجدة
13 اور یہ سب اللہ تعالیٰ کی قضاء و قدر ہے کہ وہ ان کے اور کفر و معاصی کے درمیان سے نکل گیا۔ بنا بریں فرمایا : ﴿ وَلَوْ شِئْنَا لَآتَيْنَا كُلَّ نَفْسٍ هُدَاهَا ﴾ ” اور اگر ہم چاہتے تو ہر نفس کو اس کی ہدایت دے دیتے۔“ یعنی ہم تمام لوگوں کو ہدایت سے نواز کر ہدایت پر جمع کردیتے۔ ہماری مشیت ایسا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے مگر ہماری حکمت یہ نہیں چاہتی کہ تمام لوگ ہدایت پر جمع ہوں، اسی لیے فرمایا : ﴿ وَلَـٰكِنْ حَقَّ الْقَوْلُ مِنِّي ﴾ ” لیکن میری یہ بات بالکل حق ہوچکی ہے۔“ یعنی میرا حکم واجب ہوگیا اور اس طرح ثابت ہوگیا کہ اس میں تغیر کا کوئی گزر نہیں۔ ﴿لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ ﴾ ” کہ میں دوزخ کو جنوں اور انسانوں سے بھردوں گا۔“ یہ وعدہ ضرور پورا ہوگا جس سے کوئی مفر نہیں۔ اس کے اسباب، یعنی کفر و معاصی ضرور متحقق ہوں گے۔ السجدة
14 ﴿ فَذُوقُوا بِمَا نَسِيتُمْ لِقَاءَ يَوْمِكُمْ هٰـذَا ﴾ ” پس چکھو تم (عذاب) اس دن کی ملاقات کو بھول جانے کی وجہ سے۔“ یعنی ان مجرموں سے کہا جائے گا، جن پر ذلت طاری ہوچکی ہوگی اور دنیا کی طرف لوٹائے جانے کی درخواست کر رہے ہوں گے تاکہ اپنے اعمال کی تلافی کرسکیں واپس لوٹنے کا وقت چلا گیا، اب عذاب کے سوا کچھ باقی نہیں، لہٰذا اب تم دردناک عذاب کا مزا چکھو، اس پاداش میں کہ تم نے آج کے دن کی ملاقات کو فراموش کردیا تھا۔ نسیان کی یہ قسم نسیان ترک ہے، یعنی تم نے اللہ تعالیٰ سے منہ پھیرا اور اس کی خاطر عمل کو ترک کردیا گویا کہ تم سمجھتے تھے کہ تمہیں اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہونا ہے نہ اس سے ملاقات کرنی ہے۔ ﴿ إِنَّا نَسِينَاكُمْ ﴾ ” بے شک ہم نے بھی تمہیں بھلا دیا۔“ یعنی ہم نے تمہیں عذاب میں چھوڑ دیا۔ یہ جزا تمہارے عمل کی جنس میں سے ہے۔ جس طرح تم نے بھلائے رکھا اس طرح تمہیں بھی بھلا دیا گیا۔ ﴿ وَذُوقُوا عَذَابَ الْخُلْدِ ﴾ کبھی نہ ختم ہونے والے عذاب کا مزا چکھو کیونکہ جب عذاب کی مدت اور انتہا مقرر ہو تو اس میں کسی حد تک تخفیف کا پہلو پایا جاتا ہے، رہا جہنم کا عذاب۔۔۔ اللہ تعالیٰ اس عذاب سے ہمیں اپنی پناہ میں رکھے۔۔۔ تو اس عذاب میں کوئی راحت ہوگی نہ ان پر یہ عذاب کبھی منقطع ہوگا۔ ﴿ كُنتُمْ تَعْمَلُونَ ﴾ ”تمہارے اعمال کی وجہ سے۔“ یعنی کفر، فسق اور معاصی کی پاداش میں۔ السجدة
15 اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس عذاب کا ذکر کرنے کے بعد، جو اس نے اپنی آیتوں کا انکار کرنے والوں کے لیے تیار کر رکھا ہے، اہل ایمان کا ذکر فرمایا اور ان کے ثواب کا وصف بیان کیا، جو ان کے لیے تیار کیا ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿ إِنَّمَا يُؤْمِنُ بِآيَاتِنَا﴾ یعنی جو ہماری آیتوں پر حقیقی ایمان رکھتے ہیں اور جن میں ایمان کے شواہد پائے جاتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں ﴿ الَّذِينَ إِذَا ذُكِّرُوا﴾ جن کے سامنے جب قرآن کی آیات کی تلاوت کی جاتی ہے، رسولوں کے توسط سے ان کے پاس نصیحتیں آتی ہیں، انہیں یاد دہانی کرائی جاتی ہے تو وہ اسے غور سے سنتے ہیں، ان کو قبول کرکے ان کی اطاعت کرتے ہیں اور ﴿ خَرُّوا سُجَّدًا﴾ اللہ تعالیٰ کی آیتوں کے سامنے فروتنی کرتے ہوئے، ذکر الٰہی کے خضوع اور اس کی معرفت کی فرحت کے ساتھ سجدہ ریز ہوجاتے ہیں ﴿ وَسَبَّحُوا بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُونَ ﴾ ” اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح پڑھتے ہیں اور تکبر سے الگ تھلگ رہتے ہیں۔“ وہ اپنے دلوں میں تکبر رکھتے ہیں نہ بدن سے اس کا اظہار کرتے ہیں کہ جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی آیات پر عمل نہ کریں بلکہ اس کے برعکس وہ آیات الٰہی کے سامنے سرافگندہ ہوجاتے ہیں، ان کو انشراح صدر اور تسلیم و رضا کے ساتھ قبول کرتے ہیں، ان کے ذریعے سے رب رحیم کی رضا حاصل کرتے ہیں اور ان کے ذریعے سے صراط مستقیم پر گامزن ہوتے ہیں۔ السجدة
16 ﴿ تَتَجَافَىٰ جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ﴾ ان کے پہلو نہایت بے قراری سے ان کے آرام دہ بستروں سے علیحدہ رہتے ہیں اور وہ ایسی چیز میں مصروف رہتے ہیں جو ان کے نزدیک ان آرام دہ بستروں سے زیادہ لذیذ اور زیادہ محبوب ہے۔ اس سے مراد رات کے وقت نماز اور اللہ سے مناجات ہے۔ اسی لیے فرمایا : ﴿ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ ﴾ دینی اور دنیاوی مصالح کے حصول اور دینی و دنیاوی نقصانات کو روکنے کے لیے اپنے رب کو پکارتے ہیں ﴿ خَوْفًا وَطَمَعًا ﴾ خوف اور امید دونوں اوصاف کو یکجا کرکے، اس خوف کے ساتھ کہ کہیں ان کے اعمال ٹھکرا نہ دیئے جائیں اور اس امید کے ساتھ کہ ان کے اعمال کو شرف قبولیت حاصل ہوجائے گا، نیز اس خوف سے کہ کہیں وہ اللہ تعالیٰ کے عذاب کی گرفت میں نہ آجائیں اور اس امید کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ انہیں ثواب سے سرفراز فرمائے گا۔ ﴿ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ ﴾ ” اور اس میں سے جو ہم نے انہیں دیا ہے“ خواہ وہ تھوڑا رزق ہو یا زیادہ ﴿ يُنفِقُونَ ﴾ ” خرچ کرتے ہیں۔“ یہاں اللہ تعالیٰ نے خرچ کرنے کو کسی قید سے مقید نہیں کیا اور نہ اس شخص پر کوئی قید لگائی ہے، جس پر خرچ کیا جائے تاکہ آیت کریمہ عموم پر دلالت کرے، لہٰذا اس میں تمام نفقات واجبہ مثلاً زکوٰۃ، کفارات، اہل و عیال اور اقارب وغیرہ پر خرچ کرنا اور نفقات مستحبہ بھلائی کے کاموں میں خرچ کرنا شامل ہے۔ مالی طور پر احسان کرنا مطلقاً نیکی ہے خواہ کسی محتاج کے ساتھ یہ احسان کیا جائے یا کسی مال دار کے ساتھ، اقارب کے ساتھ کیا جائے یا اجنبیوں کے ساتھ، مگر اس احسان کے افادے میں تفاوت کے مطابق اجر میں تفاوت ہوتا ہے۔ السجدة
17 یہ تو ہے ان کا عمل، رہی اس کی جزا، تو فرمایا : ﴿ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ ﴾ یہاں سیاق نفی میں نکرہ کا استعمال ہوا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ اس میں تمام مخلوق کے نفوس شامل ہیں یعنی کوئی نہیں جانتا ﴿ مَّا أُخْفِيَ لَهُم مِّن قُرَّةِ أَعْيُنٍ ﴾ ” کہ ان کے لیے کیسی آنکھوں کی ٹھنڈک چھپا رکھی گئی ہے۔“ یعنی خیر کثیر، بے شمار نعمتیں، فرحت و سرور اور لذتیں۔ جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان پر فرمایا : ” میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے وہ کچھ تیار کر رکھا ہے جسے کسی آنکھ نے دیکھا ہے نہ کسی کان نے سنا ہے اور نہ کسی بشر کے دل میں کبھی اس کا خیال آیا ہے۔“ [صحیح البخاری، باب قوله: ﴿ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ۔۔۔۔﴾(السجدة:32؍17)حدیث:4779 و صحیح مسلم، الجنة وصفة نعیمھا و أھلھا، باب صفة الجنة ،حدیث:2824]جس طرح وہ راتوں کو اٹھ اٹھ کر نماز پڑھتے رہے، اللہ تعالیٰ کو پکارتے رہے، انہوں نے اپنے عمل کو چھپایا پس اللہ تعالیٰ نے ان کو ان کے عمل ہی کی جنس سے جزا عطا کی ہے اس لیے ان کے اجر کو چھپا دیا، اسی لیے فرمایا : ﴿ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴾ ” یہ اعمال کی جزا ہے جو وہ کرتے رہے ہیں۔ “ السجدة
18 اللہ تبارک و تعالیٰ، دو متفاوت اور متباین چیزوں کے درمیان عدم مساوات کے بارے میں عقل انسانی کو متنبہ کرتا ہے، جن کے درمیان عدم مساوات متحقق ہے۔ نیز آگاہ کرتا ہے کہ ان کے درمیان عدم مساوات اس کی حکمت کا تقاضا ہے، اس لیے فرمایا : ﴿ أَفَمَن كَانَ مُؤْمِنًا ﴾ ” کیا وہ جو مومن ہو“ یعنی جس کا قلب نور ایمان سے منور اور اس کے جوارح شریعت کے تابع ہیں، نیز اس کا ایمان اپنے آثار اور ان امور کو ترک کرنے کے موجب کا تقاضا کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا باعث ہیں جن کا وجود ایمان کے لیے ضرر رساں ہے۔ ﴿ كَمَن كَانَ فَاسِقًا﴾ ” اس کی مثل ہے جو فاسق ہے“ جس کا قلب غیر آباد اور ایمان سے خالی ہے اور اس کے اندر کوئی دینی داعیہ موجود نہیں، اس لیے اس کے جوارح جلدی سے ظلم اور جہالت کے موجبات کی وجہ سے ہر قسم کے گناہ اور معصیت میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور وہ اپنے فسق کے سبب سے اپنے رب کی اطاعت سے نکل جاتے ہیں۔ کیا یہ دونوں شخص برابر ہوسکتے ہیں؟ ﴿ لَّا يَسْتَوُونَ ﴾ عقلاً اور شرعاً کبھی برابر نہیں ہوسکتے۔ جس طرح دن اور رات، روشنی اور تاریکی برابر نہیں ہوتے اسی طرح قیامت کے روز مومن اور فاسق کا ثواب بھی برابر نہیں ہوگا۔ السجدة
19 ﴿ أَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ﴾ ” رہے وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے عمل صالح کیے۔“ یعنی جو فرائض اور نوافل ادا کرتے ہیں ﴿ فَلَهُمْ جَنَّاتُ الْمَأْوَىٰ ﴾ ” تو ان کے رہنے کے لیے باغ ہیں۔“ یعنی وہ جنتیں جو لذتوں کا ٹھکانا، خوبصورت چیزوں کا گھر، مسرتوں کا مقام، نفوس اور قلب و روح کے لیے نعمت، ہمیشہ رہنے کی جگہ، بادشاہ معبود کے جوار رحمت، اس کے قرب سے متمتع ہونے، اس کے چہرے کا دیدار کرنے اور اس کا خطاب سننے کا مقام ہیں ﴿ نُزُلاً ﴾ یہ سب نعمتیں ان کی ضیافت اور مہمانی کے لیے ہوں گی ﴿ بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ﴾ ” ان اعمال کی وجہ سے ہے جو وہ کرتے رہے۔“ پس وہ اعمال جن سے اللہ تعالیٰ نے ان کو سرفراز کیا، انہی اعمال نے ان کو ان عالی شان منزلوں تک پہنچایا ہے، جہاں مال و دولت، لشکر، خدام اور اولاد کے ذریعے سے تو کیا جان و روح کو کھپا کر بھی نہیں پہنچا جاسکتا اور نہ ایمان اور عمل صالح کے بغیر کسی دوسری چیز کے ذریعے سے ان منزلوں کے قریب ہی پہنچا جاسکتا ہے۔ السجدة
20 ﴿ أَمَّا الَّذِينَ فَسَقُوا فَمَأْوَاهُمُ النَّارُ ﴾ ” اور رہے وہ لوگ جنہوں نے نافرمانی کی تو ان کے رہنے کے لیے دوزخ ہے۔“ یعنی ان کا دائمی مستقر اور ٹھکانا جہنم ہوگا جہاں ہر نوع کا عذاب اور ہر قسم کی بدبختی جمع ہوگی اور وہ ان سے ایک گھڑی کے لیے بھی علیحدہ نہ ہوگا۔ ﴿ كُلَّمَا أَرَادُوا أَن يَخْرُجُوا مِنْهَا أُعِيدُوا فِيهَا ﴾ عذاب کی انتہائی شدت کی وجہ سے جب کبھی وہ نکلنے کا ارادہ کریں گے، انہیں دوبارہ جہنم میں دھکیل دیا جائے گا، ان سے آرام اور چین رخصت ہوجائے گا اور غم اور رنج و ملال ان پر شدت اختیار کرجائے گا۔ ﴿ وَقِيلَ لَهُمْ ذُوقُوا عَذَابَ النَّارِ الَّذِي كُنتُم بِهِ تُكَذِّبُونَ ﴾ ” اور ان سے کہا جائے گا کہ جس دوزخ کے عذاب کو تم جھوٹ سمجھتے تھے اس کے مزے چکھو۔“ یہ جہنم کا عذاب ہے جہاں ان کا ٹھکانا ہوگا، رہا وہ عذاب جو اس سے پہلے اور اس کا مقدمہ تھا، یعنی عذاب برزخ تو اس کا ان الفاظ میں ذکر فرمایا ہے : السجدة
21 ہم رسول کی تکذیب کرنے والے فاسقوں کو نمونے کے طور پر کم تر عذاب کا مزا چکھائیں گے اور وہ برزخ کا عذاب ہے۔ پس ہم برزخ کے عذاب کا کچھ مزا ان کے مرنے سے پہلے انہیں چکھائیں گے اس سے مراد قتل وغیرہ کا عذاب ہے، جیسے غزوہ بدر میں مشرکین کو قتل کیا گیا یا اس سے مراد موت کے وقت کا عذاب ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں اس کا ذکر آتا ہے : ﴿ وَلَوْ تَرَىٰ إِذِ الظَّالِمُونَ فِي غَمَرَاتِ الْمَوْتِ وَالْمَلَائِكَةُ بَاسِطُو أَيْدِيهِمْ أَخْرِجُوا أَنفُسَكُمُ ۖ الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُونِ﴾ (الانعام : 6؍93) ” اور کاش آپ دیکھتے، جب یہ ظالم موت کی سختیوں میں ہوں گے اور فرشتے عذاب کے لیے ان کی طرف ہاتھ بڑھا رہے ہوں گے، (اور کہہ رہے ہوں گے) نکالو اپنی جانیں، آج تمہیں رسوا کن عذاب کی سزا دی جائے گی۔ “ پھر برزخ میں ان کا یہ کم تر عذاب مکمل ہوجائے گا۔ یہ آیت کریمہ عذاب قبر کے واضح دلائل میں شمار ہوتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿ وَلَنُذِيقَنَّهُم مِّنَ الْعَذَابِ الْأَدْنَىٰ﴾ اور ہم انہیں قریب کے کم تر عذاب میں سے چکھائیں گے یعنی اس عذاب کا کچھ حصہ، لہٰذا یہ چیز دلالت کرتی ہے کہ ” عذاب اکبر“ یعنی جہنم کے عذاب سے پہلے بھی ان کو عذاب ادنیٰ میں مبتلا کیا جائے گا۔ چونکہ عذاب ادنیٰ کا مزا جو انہیں دنیا میں چکھایا جائے گا، بسا اوقات اس سے موت واقع نہیں ہوتی، اس لیے اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ وہ انہیں عذاب ادنیٰ کا مزا اس لیے چکھاتا ہے تاکہ یہ لوگ اس کی طرف رجوع کریں اور اپنے گناہوں سے توبہ کریں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيقَهُم بَعْضَ الَّذِي عَمِلُوا لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ ﴾ )الروم : 30؍41) ”بحر و بر میں فساد برپا ہوگیا لوگوں کے اپنے کرتوتوں کی وجہ سے، تاکہ وہ ان کو مزا چکھائے ان کے بعض اعمال کا، شاید کہ وہ لوٹ آئیں۔ “ السجدة
22 یعنی اس شخص سے بڑھ کر ظالم اور زیادتی کرنے والا کون ہوسکتا ہے جسے اس کے رب کی آیات کے ذریعے سے نصیحت کی گئی ہو جنہیں اس کے رب نے اس کے پاس پہنچایا ہو اور وہ اپنے رسولوں کے ہاتھوں پر اپنی ربوبیت کا فیضان اور اپنی نعمت کی تکمیل کرنا چاہتا ہو۔ وہ آیات اسے اس کے دینی اور دنیاوی مصالح کے بارے میں نصیحت کرتی اور حکم دیتی ہیں، اسے دینی اور دنیاوی ضرر رساں امور سے روکتی ہیں۔ وہ اس بات کا تقاضا کرتی ہیں کہ ان کو ایمان و تسلیم اور شکر و اطاعت کے ساتھ قبول کیا جائے، مگر اس ظالم نے ایسے طریقے سے ان آیات کا استقبال کیا جو ان کے لائق نہ تھا۔ یہ ظالم ان پر ایمان لایا نہ ان کی پیروی کی بلکہ ان سے اعراض کرتے ہوئے ان کو چھوڑ دیا اور ان کو پیٹھ پیچھے پھینک دیا یہ ان مجرموں میں سب سے بڑا مجرم ہے جو سخت سزا کے مستحق ہوتے ہیں، بنا بریں فرمایا : ﴿إِنَّا مِنَ الْمُجْرِمِينَ مُنتَقِمُونَ﴾ ” بے شک ہم گناہ گاروں سے بدلہ لینے والے ہیں۔ “ السجدة
23 اللہ تبارک و تعالیٰ نے جب اپنی ان آیات کا ذکر فرمایا جن کے ذریعے سے اس نے اپنے بندوں کو نصیحت کی، اور وہ قرآن مجید ہے جو اس نے نبی مصطفی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل فرمایا، تو اس بات کا تذکرہ فرمایا کہ یہ قرآن کوئی انوکھی کتاب ہے نہ اس کتاب کو لانے والا رسول کوئی انوکھا رسول ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کتاب دی تھی جو کہ تورات ہے وہ قرآن کی تصدیق کرتی ہے اور قرآن نے اس کی تصدیق کی ہے، دونوں کا حق ایک دوسرے کے مطابق اور موافق ہے اور دونوں کی دلیل ثابت ہے ﴿ فَلَا تَكُن فِي مِرْيَةٍ مِّن لِّقَائِهِ﴾ ” پس آپ اس کے ملنے سے شک میں نہ پڑنا“ کیونکہ حق کے دلائل و براہین ثابت ہوچکے ہیں اس لیے شک و شب ہے کا کوئی مقام نہیں۔ ﴿ وَجَعَلْنَاهُ﴾ ” اور ہم نے اس کو بنایا“ یعنی اس کتاب کو جو ہم نے موسیٰ علیہ السلام کو عطا کی ﴿ هُدًى لِّبَنِي إِسْرَائِيلَ﴾ ” بنی اسرائیل کے لیے ہدایت۔“ یعنی وہ اپنے دین کے اصولوں و فروع میں اس کتاب سے رہنمائی حاصل کرتے تھے۔ اس کی شریعت اور قوانین صرف اسرائیلیوں کے لیے اور اس زمانے کے مطابق تھے۔۔۔ رہا یہ قرآن کریم تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے اسے تمام انسانوں کے لیے ہدایت بنایا ہے کیونکہ یہ اپنے کامل اور عالی شان ہونے کی بنا پر قیامت تک کے لیے تمام مخلوق اور ان کے دینی اور دنیاوی امور میں رہنمائی عطا کرتا ہے۔ ﴿ وَإِنَّهُ فِي أُمِّ الْكِتَابِ لَدَيْنَا لَعَلِيٌّ حَكِيمٌ﴾ )الزخرف : 43؍4) ” اور بے شک یہ لوح محفوظ میں درج ہے جو ہمارے ہاں بہت عالی مرتبہ، حکمت والی کتاب ہے۔ “ السجدة
24 ﴿ وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ ﴾ ” اور ہم نے ان میں سے بنائے“ یعنی بنی اسرائیل میں سے ﴿ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا﴾ ایسے علماء جو شریعت اور ہدایت کے راستوں کا علم رکھتے تھے۔ وہ خود ہدایت یافتہ تھے اور اس ہدایت کے ذریعے سے دوسروں کی رہنمائی کرتے تھے۔ جو کتاب ان کی طرف نازل کی گئی وہ سراسر ہدایت تھی اور اس پر ایمان رکھنے والے دو اقسام میں منقسم تھے : )1( ائمہ، جو اللہ کے حکم سے رہنمائی کرتے تھے۔ )2( جو ان ائمہ سے رہنمائی حاصل کرتے تھے۔ پہلی قسم کے لوگ انبیاء و رسل کے بعد سب سے بلند درجے پر فائز ہیں اور یہ صدیقین کا درجہ ہے۔ یہ بلند درجہ انہیں اس لیے حاصل ہوا کہ انہوں نے تعلیم و تعلم، اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت اور اس کے راستے میں پیش آنے والی اذیتوں پر صبر کیا اور نفوس کو معاصی اور شہوات سے روکا۔ ﴿ وَكَانُوا بِآيَاتِنَا يُوقِنُونَ﴾ اور وہ آیات الٰہی پر ایمان میں درجۂ یقین پر پہنچ چکے تھے۔ یقین سے مراد وہ علم تام ہے جو عمل کا موجب ہے۔ وہ درجۂ یقین پر اس لیے پہنچے کہ انہوں نے صحیح طریقے سے علم حاصل کیا اور ان دلائل کے ذریعے سے مسائل کو اخذ کیا جو یقین کا فائدہ دیتے ہیں۔ وہ مسائل سیکھتے رہے اور کثرت دلائل سے ان پر استدلال کرتے رہے یہاں تک کہ وہ درجۂ یقین پر پہنچ گئے۔ پس صبر اور یقین کے ذریعے سے دین میں امامت کا درجہ حاصل ہوتا ہے۔ السجدة
25 کچھ مسائل ایسے ہیں جن کے بارے میں بنی اسرائیل میں اختلاف واقع ہوا ان میں سے کچھ لوگ صحیح راہ پر تھے اور کچھ عمداً یا غیر ارادری طور پر راہ صواب سے محروم تھے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿ يَفْصِلُ بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ﴾ ” وہ ان کے درمیان ان باتوں میں جن کے متعلق وہ اختلاف کرتے تھے قیامت کے دن فیصلہ کردے گا۔“ اور یہ قرآن بنی اسرائیل کے سامنے کچھ مسائل کا ذکر کرتا ہے جس کی تصدیق قرآن کریم میں موجود ہے، وہی حق ہے، اس کے علاوہ وہ تمام اقوال جو اس کے خلاف ہیں، باطل ہیں۔ السجدة
26 کیا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تکذیب کرنے والے ان کفار پر واضح نہیں ہوا اور انہیں راہ صواب نہیں ملی کہ ﴿ كَمْ أَهْلَكْنَا مِن قَبْلِهِم مِّنَ الْقُرُونِ﴾ ” ہم نے ان سے پہلے بہت سی امتوں کو ہلاک کردیا“ جو ان کی گمراہی کے مسلک پر گامزن تھے۔ ﴿ يَمْشُونَ فِي مَسَاكِنِهِمْ ﴾ ” ان کے مکانوں میں یہ چل پھر رہے ہیں“ اور وہ عیاں طور پر ان کے مساکن کا مشاہدہ کرتے ہیں، مثلاً قوم ہود، قوم صالح اور قوم لوط کے مساکن۔ ﴿ إِنَّ فِي ذٰلِكَ لَآيَاتٍ﴾ ” بے شک اس میں ضرور نشانیاں ہیں“ جن کے ذریعے سے وہ رسولوں کی صداقت اور شرک اور شر پر مبنی اپنے موقف کے بطلان پر استدلال کرسکتے ہیں، نیز جو ان جیسے کرتوت کرے گا اس کے ساتھ بھی وہی کچھ ہوگا جو ان لوگوں کے ساتھ ہوا تھا، نیز وہ اس پر بھی استدلال کرسکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ بندوں کو ان کے اعمال کی جزا دے گا اور حشر کے لیے ان کو دوبارہ زندہ کرے گا۔ ﴿ أَفَلَا يَسْمَعُونَ ﴾ ” کیا وہ سنتے نہیں ہیں۔“ کیا وہ آیات الٰہی کو سن کر یاد نہیں رکھتے کہ ان سے فائدہ اٹھائیں؟ اگر ان کی سماعت صحیح ہوتی اور وہ عقل سلیم سے بہرہ مند ہوتے تو اس حالت پر کبھی بھی قائم نہ رہتے جس میں ہلاکت یقینی ہے۔ السجدة
27 ﴿ أَوَلَمْ يَرَوْا﴾ کیا انہوں نے اپنی کھلی آنکھوں کے ساتھ ہماری نعمت اور ہماری حکمت کاملہ کا مشاہدہ نہیں کیا؟ ﴿ نَسُوقُ الْمَاءَ إِلَى الْأَرْضِ الْجُرُزِ﴾ ” ہم بنجر زمین کی طرف پانی رواں کرتے ہیں۔“ یعنی اس زمین کی طرف جو بے آب و گیاہ ہے اللہ تعالیٰ بارش کو لاتا ہے جو اس سے قبل موجود نہ تھی وہ اس زمین پر بادل برساتا ہے یا دریاؤں سے اسے سیراب کرتا ہے۔ ﴿ فَنُخْرِجُ بِهِ زَرْعًا﴾ پس ہم اس پانی کے ذریعے سے مختلف انواع کی نباتات اگاتے ہیں ﴿ تَأْكُلُ مِنْهُ أَنْعَامُهُمْ﴾ ” جس میں سے ان کے چوپائے کھاتے ہیں۔“ اس سے مراد مویشیوں کا چارہ ہے ﴿ وَأَنفُسُهُمْ﴾ ” اور وہ خود بھی“ اس سے مراد آدمیوں کا کھانا ہے۔ ﴿ أَفَلَا يُبْصِرُونَ﴾ کیا وہ اللہ تعالیٰ کے اس احسان کو دیکھتے نہیں جس کے ذریعے سے اس نے زمین اور بندوں کو زندگی بخشی؟ اگر وہ دیکھتے تو انہیں صاف نظر آتا اور اس بصارت اور بصیرت کے ذریعے سے صراط مستقیم کی طرف رہنمائی حاصل کرتے، مگر ان پر اندھا پن غالب اور غفلت چھائی ہوئی ہے، لہٰذا انہوں نے اس بارے میں عقل مند کی طرح نہیں دیکھا۔ بس انہوں نے اس کو غفلت کی نظر سے اور محض عادت کے طور پر دیکھا، اس لیے انہیں بھلائی کی توفیق نہیں ملی۔ السجدة
28 یعنی مجرم جہالت اور عناد کی بنا پر عذاب میں جلدی مچاتے ہیں جس کا ان کے ساتھ ان کے جھٹلانے کی پاداش میں وعدہ کیا گیا ہے۔ ﴿وَيَقُولُونَ مَتَىٰ هٰـٰذَا الْفَتْحُ﴾ ” اور کہتے ہیں یہ فیصلہ کب ہوگا؟“ جو ہمارے اور تمہاری درمیان فیصلہ کردے اور تمہارے زعم کے مطابق ہمیں عذاب میں مبتلا کردے ﴿ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ﴾ اے رسول ! اگر تم اپنے دعویٰ میں سچے ہو ۔ السجدة
29 ﴿ قُلْ يَوْمَ الْفَتْحِ ﴾ ” کہہ دیجیے کہ فیصلے کے دن“ یعنی جس روز تمہیں عذاب دیا جائے گا تم اس روز سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکو گے۔ اگر تمہیں ایمان حاصل ہوجائے تو تمہیں مہلت کا ملنا ممکن ہے تاکہ جو چیز تمہارے ہاتھ سے نکل چکی ہے تم اس کی تلافی کرلو کیونکہ یقینی طور پر معاملہ ابھی تک تمہارے ہاتھ میں ہے۔ مگر جب فیصلے کا دن آئے گا تو تمام معاملہ ختم ہوجائے گا اور امتحان و ابتلا کا کوئی موقع باقی نہیں رہے گا، اس وقت ﴿ لَا يَنفَعُ الَّذِينَ كَفَرُوا إِيمَانُهُمْ﴾ ” کافروں کو ان کا ایمان لانا کچھ فائدہ نہیں دے گا۔“ کیونکہ اس ایمان کی حیثیت اضطراری ایمان کی سی ہوگی۔ ﴿ وَلَا هُمْ يُنظَرُونَ ﴾ اور نہ ان کو کوئی مہلت دی جائے گی کہ عذاب کو مؤخر کردیا جائے اور یہ اپنے معاملے کو سدھار لیں۔ السجدة
30 ﴿ فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ﴾ ” پس آپ ان سے اعراض کریں۔“ جب ان کا خطاب جہالت کی حدود کو چھونے لگے اور وہ عذاب کے لیے جلدی مچانے لگیں ﴿ وَانتَظِرْ﴾ اور اس عذاب کا انتظار کیجیے جو ان پر نازل ہونے والا ہے کیونکہ یہ عذاب ضرور نازل ہوگا، مگر اس کے لیے ایک وقت مقرر ہے۔ جب وہ وقت آجائے گا تو وہ آگے پیچھے نہیں ہوگا۔ ﴿ إِنَّهُم مُّنتَظِرُونَ ﴾ وہ بھی آپ کے بارے میں شک و شبہ میں پڑے ہوئے ہیں اور برے وقت کے منتظر ہیں حالانکہ اچھا انجام تقویٰ کا ہے۔ السجدة
0 الأحزاب
1 یعنی اے وہ ہستی ! جسے اللہ تبارک و تعالیٰ نے نبوت سے سرفراز فرمایا اور اپنی وحی کے لیے چن لیا اور تمام مخلوق پر فضیلت بخشی، اپنے اوپر اپنے رب کی اس نعمت پر تقویٰ کے ذریعے سے اس کا شکر ادا کیجیے جس کے دوسروں کی نسبت آپ زیادہ مستحق ہیں اور اسے اختیار کرنا دوسروں کی نسبت آپ پر زیادہ فرض ہے۔ اس کے اوامر و نواہی پر عمل کیجیے، اس کے پیغامات کی تبلیغ کیجیے، اس کے بندوں تک اس کی وحی کو پہنچائیے اور تمام مخلوق کی خیر خواہی کیجیے کوئی آپ کو آپ کے مقصد سے ہٹاسکے نہ آپ کی راہ کو کھوٹی کرسکے اور کسی کافر کی اطاعت نہ کیجیے جس نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے عداوت ظاہر کی ہو اور نہ کسی منافق کی اطاعت کیجیے کیونکہ اس نے تکذیب اور کفر کو اپنے باطن میں چھپا رکھا ہے اور ان کے برعکس تصدیق و ایمان کا اظہار کرتا ہے۔ بس یہی لوگ ہیں جو حقیقی دشمن ہیں، لہٰذا بعض معاملات میں جو تقویٰ کے متناقض ہیں ان کی بات نہ مانیے اور ان کی خواہشات نفس کی پیروی نہ کیجیے ورنہ وہ آپ کو راہ صواب سے ہٹا دیں گے۔ الأحزاب
2 ﴿ وَّ﴾ ” اور“ لیکن ﴿ اتَّبِعْ مَا يُوحَىٰ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ ﴾ ” جو آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے وحی کی جاتی ہے اسی کی اتباع کیجیے۔“ کیونکہ یہی ہدایت اور رحمت ہے اس کی پیروی کرکے اپنے رب کے ثواب کی امید رکھیے کیونکہ وہ تمہارے اعمال سے باخبر ہے، وہ تمہیں تمہارے اچھے اور برے اعمال کی اپنے علم کے مطابق جزا دے گا۔ اگر آپ کے دل میں یہ بات ہو کہ آپ نے ان کی گمراہ کن خواہشات نفس کی پیروی نہ کی تو آپ کو ان سے کوئی نقصان پہنچ جائے گا یا مخلوق کی ہدایت میں نقص واقع ہوجائے گا تو اس خیال کو اپنے دل سے نکال پھینکیے اور اللہ پر بھروسہ کیجیے۔ ان کے شر سے سلامتی اور اقامت دین میں جس کا آپ کو حکم دیا گیا ہے، اپنے رب پر اس شخص کی مانند اعتماد کیجیے جو اپنی ذات کے لیے کسی نفع کا مالک ہے نہ نقصان کا، جو موت پر اختیار رکھتا ہے نہ زندگی پر اور نہ مرنے کے بعد زندہ کرسکتا ہے، لہٰذا اس امر کے حصول کے بارے میں ہر حال میں اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کیجیے۔ الأحزاب
3 ﴿ وَكَفَىٰ بِاللّٰـهِ وَكِيلًا﴾ ” اور اللہ کافی کارساز ہے۔“ اس لیے تمام معاملات کو اسی کے سپرد کردیجیے وہ ان کا اس طریقے سے انتظام کرے گا جو بندے کے لیے سب سے زیادہ درست ہوگا، پھر وہ ان مصالح کو اپنے بندوں تک پہنچانے کی پوری قدرت رکھتا ہے جبکہ بندہ ان پر قادر نہیں۔ وہ اپنے بندے پر اس سے بھی کہیں زیادہ رحم کرتا ہے جتنا بندہ خود اپنے آپ پر رحم کرسکتا ہے یا اس پر اس کے والدین رحم کرسکتے ہیں۔ وہ اپنے بندے پر ہر ایک سے زیادہ رحمت والا ہے خصوصاً اپنے خاص بندوں پر، جن پر ہمیشہ سے اس کی ربوبیت اور احسان کا فیضان جاری ہے اور جن کو اپنی ظاہری اور باطنی برکتوں سے سرفراز کیا ہے، خاص طور پر اس نے حکم دیا ہے کہ تمام امور اس کے سپرد کردیئے جائیں، اس نے وعدہ کیا ہے کہ وہ ان کی تدبیر کرے گا۔ تب آپ نہ پوچھیں کہ ہر معاملہ کیسے آسان ہوگا، مشکلات کیسے دور ہوں گی، مصائب کیسے ختم ہوں گے، تکلیفیں کیسے زائل ہوں گی، ضرورتیں اور حاجتیں کیسے پوری ہوں گی، برکتیں کیسے نازل ہوں گی، سزائیں کیسے ختم ہوں گی اور شر کیسے اٹھا لیا جائے گا۔۔۔ یہاں آپ کمزور بندے کو دیکھیں گے جس نے اپنا تمام معاملہ اپنے آقا کے سپرد کردیا، اس کے آقا نے اس کے معاملات کا اس طرح انتظام کیا کہ لوگوں کی ایک جماعت بھی اس کا انتظام نہ کرسکتی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے ایسے معاملات اس کے لیے نہایت آسان کردیئے جو بڑے بڑے طاقتور لوگوں کے لیے بھی نہایت مشکل تھے۔ وباللہ المستعان۔ الأحزاب
4 اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے بندوں پر عتاب کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ ایسے امور میں گفتگو نہ کریں جن کی کوئی حقیقت نہیں اور جن کو اللہ تعالیٰ نے مقرر نہیں فرمایا جیسا کہ وہ کہتے ہیں۔ یہ ان کی اپنی بات ہے جو جھوٹ اور باطل ہے، جس پر شرعی برائیاں مرتب ہوتی ہیں۔ یہ ہر معاملے میں گفتگو کرنے اور کسی چیز کے وقوع و وجود کے بارے میں، جسے اللہ تعالیٰ نے نہ کیا ہو، خبر دینے میں ایک عام قاعدہ ہے، مگر مذکورہ چیزوں کو ان کے کثرت وقوع اور ان کے بیان کرنے کی حاجت کی بنا پر مخصوص کیا ہے، لہٰذا فرمایا : ﴿ مَّا جَعَلَ اللّٰـهُ لِرَجُلٍ مِّن قَلْبَيْنِ فِي جَوْفِهِ﴾ ”اللہ نے کسی آدمی کے پہلو میں دو دل نہیں بنائے۔“ یہ صورت کبھی نہیں پائی جاتی۔ پس کسی کے بارے میں یہ کہنے سے بچو کہ اس کے پہلو میں دو دل ہیں ورنہ تم تخلیق الٰہی کے بارے میں جھوٹ کے مرتکب بنو گے۔ ﴿ وَمَا جَعَلَ أَزْوَاجَكُمُ اللَّائِي تُظَاهِرُونَ مِنْهُنَّ﴾ ” اور )اللہ نے( انہیں بنایا تمہاری عورتوں کو جن سے تم ظہار کرلیتے ہو“ یعنی تم میں سے کسی شخص کا اپنی بیوی سے یہ کہنا ” تو میرے لیے ایسے ہے جیسے میری ماں کی پیٹھ یا، جیسے میری ماں“ تو نہیں بنایا اللہ تعالیٰ نے انہیں ﴿اأُمَّهَاتِكُمْ﴾ ” تمہاری مائیں۔“ تیری ماں تو وہ ہے جس نے تجھے جنم دیا، جو تیرے لیے تمام عورتوں سے بڑھ کر حرمت و تحریم کی حامل ہے اور تیری بیوی تیرے لیے سب سے زیادہ حلال عورت ہے، تب تو دو متناقض امور کو کیسے ایک دوسرے کے مشابہ قرار دے رہا ہے جبکہ یہ ہرگز جائز نہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ الَّذِينَ يُظَاهِرُونَ مِنكُم مِّن نِّسَائِهِم مَّا هُنَّ أُمَّهَاتِهِمْ ۖ إِنْ أُمَّهَاتُهُمْ إِلَّا اللَّائِي وَلَدْنَهُمْ وَإِنَّهُمْ لَيَقُولُونَ مُنكَرًا مِّنَ الْقَوْلِ وَزُورًا﴾ )المجادلۃ: 58؍2( ” تم میں سے جو لوگ اپنی بیویوں کو ماں کہہ دیتے ہیں، وہ اس طرح ان کی مائیں نہیں بن جاتیں ان کی مائیں تو وہی ہیں جنہوں نے ان کو جنم دیا، بلاشبہ وہ ایک جھوٹی اور بری بات کہتے ہیں۔ “ ﴿ وَمَا جَعَلَ أَدْعِيَاءَكُمْ أَبْنَاءَكُمْ ﴾ ” اور تمہارے لے پالکوں کو تمہارے بیٹے نہیں بنایا۔“ ﴿ أَدْعِيَاءَ﴾ دَعِیٌّ کی جمع ہے اور اس لڑکے کو کہتے ہیں جس کے بارے میں کوئی شخص اپنا بیٹا ہونے کا دعویٰ کرے مگر وہ اس کا بیٹا نہ ہو، یا اسے متبنیٰ ہونے کی وجہ سے بیٹا کہ جائے، جیسا کہ ایام جاہلیت اور اسلام کی ابتدا میں یہ رواج موجود تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس رواج کو ختم کرنے کا ارادہ فرمایا، لہٰذا اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے اس رواج کی برائی بیان کی اور واضح کیا کہ یہ باطل اور جھوٹ ہے۔ باطل اور جھوٹ کا اللہ تعالیٰ کی شریعت سے کوئی تعلق ہے نہ اللہ تعالیٰ کے بندے اس سے متصف ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس نے تمہارے منہ بولے بیٹوں کو، جن کو تم بیٹا کہتے ہو یا وہ تمہارا بیٹا ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں تمہارا بیٹا نہیں بنایا۔ حقیقت میں تمہارے بیٹے وہ ہیں جو تم میں سے ہیں اور جن کو تم نے جنم دیا ہے اور رہے دوسرے لوگ جن کے بارے میں تم اپنے بیٹے ہونے کا دعویٰ کرتے ہو تو وہ تمہارے حقیقی بیٹوں کی مانند نہیں ہیں۔ ﴿ ذَٰلِكُمْ﴾ یہ بات جو تم منہ بولے بیٹوں کے بارے میں کہتے ہو کہ یہ فلاں کا بیٹا ہے، اس شخص کے لیے جو اس کے بیٹا ہونے کا دعویٰ کرتا ہے، یا اس کا باپ فلاں ہے ﴿ قَوْلُكُم بِأَفْوَاهِكُمْ ﴾ ” تمہارے منہ کی باتیں ہیں۔“ یعنی یہ ایسی بات ہے کہ جس کی کوئی حقیقت ہے نہ معنی۔ ﴿ وَاللّٰـهُ يَقُولُ الْحَقَّ﴾ ” اور اللہ حق بات کہتا ہے۔“ یعنی جو صداقت اور یقین پر مبنی ہے اس لیے اس نے تمہیں اس کی اتباع کا حکم دیا ہے۔ اس کا قول حق اور اس کی شریعت حق ہے، تمام باطل اقوال و افعال کسی بھی لحاظ سے اس کی طرف منسوب کیے جاسکتے ہیں نہ اس کی ہدایت سے ان کا کوئی تعلق ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ تو صرف صراط مستقیم اور صدق کے طریقوں کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ اگر یہ اس کی مشیت کے مطابق واقع ہوا ہے تو اس کی مشیت اس کائنات میں جو بھی خیر و شر موجود ہے، سب کے لیے عام ہے۔ الأحزاب
5 پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے صراحت کے ساتھ حکم دیا کہ پہلی صورت کو ترک کیا جائے جو قول باطل کو متضمن ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿ ادْعُوهُمْ﴾ ” ان کو پکارو“ یعنی اپنے منہ بولے بیٹوں کو ﴿ لِآبَائِهِمْ﴾ ان کے حقیقی باپوں سے منسوب کرتے ہوئے جنہوں نے ان کو جنم دیا ہے۔ ﴿ هُوَ أَقْسَطُ عِندَ اللّٰـهِ﴾ یہ زیادہ قرین عدل، زیادہ درس اور ہدایت کے زیادہ قریب ہے۔ ﴿ فَإِن لَّمْ تَعْلَمُوا آبَاءَهُمْ﴾ ” پس اگر تم ان کے (حقیقی) باپوں کو نہیں جانتے“ ﴿ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ ﴾ تو وہ اللہ کے دین میں تمہارے بھائی اور تمہارے موالی ہیں۔ تم انہیں اخوت ایمانی اور موالات اسلام کی نسبت سے پکارو۔ جس شخص نے ان کو متبنیٰ بنایا ہے اس کے لیے اس دعویٰ کو ترک کرنا حتمی ہے۔ یہ دعویٰ جائز نہیں۔ رہا ان کو ان کے باپوں کی نسبت سے پکارنا، تو اگر ان کا نام معلوم ہو تو ان کی طرف منسوب کرکے پکارو اور اگر ان کا نام معلوم نہ ہو تو صرف اسی پر اکتفا کرو جو معلوم ہے اور وہ ہے اخوت دینی اور موالات اسلامی۔ یہ نہ سمجھو کہ ان کے باپوں کے ناموں کے بارے میں عدم علم اس بات کے لیے عذر ہے کہ تم ان کو متبنیٰ بنانے والوں کی طرف منسوب کرکے پکارو، کیونکہ اس عذر سے حرمت زائل نہیں ہوسکتی۔ ﴿ وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُم ﴾ ” اور جو بات تم سے غلطی سے ہوگئی ہو اس میں تم پر کوئی گناہ نہیں۔“ یعنی اگر تم میں سے کوئی غلطی سے اس کو کسی شخص کی طرف منسوب کرکے پکارے تو اس پر کوئی مواخذہ نہیں یا ظاہری طور پر اس کے باپ کا نام معلوم ہے اور تم اس کو اسی کی طرف پکارتے ہو حالانکہ وہ باطن میں اس کا باپ نہیں ہے، تب اس میں کوئی حرج نہیں جبکہ یہ غلطی سے ہو۔ ﴿ وَلَـٰكِن﴾ ” مگر“ وہ صرف اس چیز میں تمہارا مواخذہ کرتا ہے ﴿ مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ﴾ ” جس کا تمہارے دلوں نے عمداً ارتکاب کیا ہے۔“ جو تم نے جان بوجھ کر ناجائز بات کہی ہو۔ ﴿ وَكَانَ اللّٰـهُ غَفُورًا رَّحِيمًا﴾ اس نے تمہیں بخش دیا اور تمہیں اپنی رحمت کے سائے میں لے لیا کیونکہ اس نے تمہیں تمہارے سابقہ گناہوں پر سزا نہیں دی، تم نے جو غلطی کی اس پر درگزر کیا اور شرعی احکام بیان کرکے تم پر رحم کیا جن میں تمہارے دین اور دنیا کی اصلاح ہے۔ الأحزاب
6 اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو ایک ایسی خبر بیان کرتا ہے جس کے ذریعے سے وہ رسول مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احوال اور آپ کے مرتبے کو پہچان سکتے ہیں تاکہ وہ اس حال اور مرتبے کے مطابق آپ کے ساتھ معاملہ کریں، اس لیے فرمایا ﴿ النَّبِيُّ أَوْلَىٰ بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنفُسِهِمْ﴾ ” نبی مومنوں پر ان کی جانوں سے بھی زیادہ حق رکھتے ہیں۔“ یعنی انسان کے لیے سب سے زیادہ قریب اور سب سے زیادہ مستحق ہیں۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مومن کے لیے خود اس کی ذات پر بھی مقدم ہیں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی خیر خواہی کرتے ہیں، ان کے ساتھ شفقت و محبت سے پیش آتے ہیں۔ مخلوق میں سب سے بڑھ کر رحیم اور سب سے زیادہ مہربان ہیں۔ ان پر مخلوق میں سب سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا احسان ہے کیونکہ انہیں اگر ذرہ بھر بھلائی حاصل ہوئی ہے یا ان سے کوئی ذرہ بھر برائی دور ہوئی ہے تو آپ کے ہاتھ سے اور آپ کے سبب سے ہوئی ہے۔ اس لیے جب کبھی اس کے نفس کی مراد یا کسی اور شخص کی مراد، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مراد سے متعارض ہو تو اہل ایمان پر واجب ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مراد کو مقدم رکھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قول سے، کسی شخص کے قول کا، خواہ وہ کوئی ہی کیوں نہ ہو، مقابلہ نہ کریں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اپنی جان، مال اور اولاد کو فدا کردیں، آپ کی محبت کو تمام مخلوق کی محبت پر مقدم رکھیں، جب تک کہ آپ بول نہ لیں، ہرگز نہ بولیں، اور آپ سے آگے نہ بڑھیں۔ رسول مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، مومنوں کے باپ ہیں، جیسا کہ بعض صحابہ کرام کی قرأت میں پڑھا گیا ہے، آپ اہل ایمان کی اسی طرح تربیت کرتے ہیں جس طرح باپ اپنی اولاد کی تربیت کرتا ہے۔ اب اس باپ ہونے پر یہ اصول مترتب ہوتا ہے کہ آپ کی ازواج مطہرات اہل ایمان کی مائیں ہوں، یعنی حرمت، احترام اور اکرام کے اعتبار سے۔ گویا یہ زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے قصے کا مقدمہ ہے جو کہ عنقریب آئے گا، زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ اس سے پہلے ” زید بن محمد“ کے نام سے پکارے جاتے تھے۔ حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: ﴿مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ﴾ (الاحزاب : 33؍40) ”محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تم مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں۔“ اللہ تعالیٰ نے آپ کا نسب اور آپ کی طرف انتساب دونوں منقطع کردیئے۔ اس آیت کریمہ میں آگاہ فرما دیا کہ تمام اہل ایمان، رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اولاد ہیں۔ کسی کو کسی پر کوئی اختصاص حاصل نہیں۔ اگرچہ کسی کا منہ بولا بیٹا ہونے کا انتساب منقطع ہوگیا مگر نسب ایمانی منقطع نہیں ہوا اس لیے اسے غم زدہ اور متاسف نہیں ہونا چاہیے۔ اس آیت کریمہ سے یہ مستفاد ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات اہل ایمان کی مائیں ہیں لہٰذا آپ کے بعد وہ کسی کے لیے حلال نہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اس ارشاد میں صراحت فرما دی ہے : ﴿ وَلَا أَن تَنكِحُوا أَزْوَاجَهُ مِن بَعْدِهِ أَبَدًا﴾ (الاحزاب : 33؍53) ” اور نہ تمہارے لیے یہ جائز ہے کہ تم کبھی بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیویوں کے ساتھ نکاح کرو۔ “ ﴿ وَأُولُو الْأَرْحَامِ﴾ یعنی رشتہ دار، خواہ وہ قریب کے رشتہ دار ہوں یا دور کے رشتہ دار۔ ﴿ بَعْضُهُمْ أَوْلَىٰ بِبَعْضٍ فِي كِتَابِ اللّٰـهِ﴾ ” آپس میں کتاب اللہ کی رو سے ایک دوسرے کے زیادہ حق دار ہیں۔“ یعنی اللہ تعالیٰ کے حکم کی رو سے۔ پس وہ ایک دوسرے کے وارث ہوں گے اور وہ ایک دوسرے کے ساتھ بھلائی کریں گے۔ قرابت کا تعلق دوستی اور حلف وغیرہ کے تعلق سے بڑھ کر ہے۔ اس آیت کریمہ سے پہلے، ان اسباب کی بنا پر رشتہ داروں کی بجائے منہ بولے بیٹے وارث بنتے تھے۔ اس آیت کریمہ کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے تو اس توارث کو منقطع کردیا۔ اپنے لطف و کرم اور حکمت کی بنا پر حقیقی اقارب کو وارث بنا دیا کیونکہ اگر معاملہ سابقہ عادت اور رواج کے مطابق چلتا رہتا تو شر اور فساد پھیل جاتا اور قریب کے رشتہ داروں کو وراثت سے محروم کرنے کے لیے حیلہ سازی بکثرت رواج پا جاتی۔ ﴿ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُهَاجِرِينَ﴾ خواہ یہ قریبی رشتہ مومن اور مہاجر ہوں یا غیر مہاجر ہوں، بہرحال رشتہ دار مقدم ہیں۔ یہ آیت کریمہ تمام معاملات میں قریبی رشتہ داروں کی ولایت پر دلیل ہے، مثلاً نکاح اور مال وغیرہ کی ولایت ﴿ إِلَّا أَن تَفْعَلُوا إِلَىٰ أَوْلِيَائِكُم مَّعْرُوفًا﴾ ”مگر یہ کہ تم اپنے دوستوں سے احسان کرنا چاہو۔“ یعنی ان کا کوئی مقرر شدہ حق نہیں ہے یہ صرف تمہارے ارادے پر منحصر ہے۔ اگر تم ان کو نیکی کے طور پر کوئی عطیہ دینا چاہو تو دے دو۔ ﴿ كَانَ ﴾ یہ حکم مذکور ﴿ فِي الْكِتَابِ مَسْطُورًا ﴾ کتاب میں لکھ دیا گیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس کو مقدم کردیا ہے، لہٰذا اس کا نفاذ لازمی ہے۔ الأحزاب
7 اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ اس نے تمام انبیائے کرام سے عام طور پر اور آیت کریمہ میں مذکور پانچ اولوالعزم رسولوں سے خاص طور پر نہایت پختہ اور موکد عہد لیا کہ وہ اللہ کے دین پر اور اس کے راستے میں جہاد پر قائم رہیں گے۔ اقامت دین اور جہاد ایسا راستہ ہے جس پر گزشتہ انبیاء و مرسلین گامزن رہے اور یہ سلسلہ افضل الانبیاء والمرسلین سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر آکر ختم ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو حکم دیا کہ وہ انبیاء کے نقش قدم پر چلیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ انبیائے کرام اور ان کے متبعین سے اس میثاق کے بارے میں پوچھے گا کہ کیا انہوں نے اس عہد کو پورا کیا اور اپنے عہد پر پورے اترے تاکہ انہیں نعمتوں بھری جنت عطا کی جائے؟ یا انہوں نے کفر کیا تاکہ انہیں دردناک عذاب دیا جائے؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿ مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللّٰـهَ عَلَيْهِ﴾ (الاحزاب : 33؍23) ” اہل ایمان میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جنہوں نے اللہ سے کیا ہوا عہد سچ کر دکھایا۔ “ الأحزاب
8 الأحزاب
9 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں کو اپنی نعمت یاد دلا کر انہیں اس پر شکر ادا کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ جب ان کے اوپر سے مشرکین مکہ اور مشرکین حجاز کے لشکر اور نیچے سے کفار نجد کے لشکر ان پر حملہ آور ہوئے اور حملہ آوروں نے آپس میں عہد کر رکھا تھا کہ وہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام کا قلع قمع کرکے دم لیں گے۔ یہ غزوہ احزاب کا واقعہ ہے۔ ان یہودی گروہوں نے بھی ان کی مدد کی جو مدینہ منورہ کے اردگرد رہتے تھے، وہ بھی بڑے بڑے لشکر لے آئے۔ الأحزاب
10 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ منورہ کے اردگرد دفاع کے لیے خندق کھود لی۔ کفار نے مدینہ منورہ کا محاصرہ کرلیا۔ معاملہ بہت سخت ہوگیا، کلیجے منہ کو آگئے اور لوگوں نے جب بہت سخت حالات اور اسباب دیکھے تو بہت سے لوگ طرح طرح کے گمان کرنے لگے۔ ایک طویل مدت تک مدینہ منورہ کا محاصرہ جاری رہا۔ معاملہ ایسے ہی تھا جیسے اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا : ﴿ وَإِذْ زَاغَتِ الْأَبْصَارُ وَبَلَغَتِ الْقُلُوبُ الْحَنَاجِرَ وَتَظُنُّونَ بِاللّٰـهِ الظُّنُونَا﴾ ” اور جب آنکھیں پتھرا گئیں اور دل گلوں تک پہنچ گئے اور تم اللہ کی نسبت طرح طرح کے گمان کرنے لگے۔“ یعنی تم اللہ تعالیٰ کے بارے میں برے برے گمان کرنے لگے کہ اللہ تعالیٰ اپنے دین کی مدد کرے گا نہ اپنے کلمے کی تکمیل کرے گا۔ الأحزاب
11 ﴿ هُنَالِكَ ابْتُلِيَ الْمُؤْمِنُونَ﴾ اس وقت اہل ایمان اس عظیم فتنے کے ذریعے سے آزمائے گئے ﴿ وَزُلْزِلُوا زِلْزَالًا شَدِيدًا ﴾ اور ان کو خوف، قلق اور بھوک کے ذریعے سے ہلا ڈالا گیا تاکہ ان کا ایمان واضح اور ان کے ایقان میں اضافہ ہو۔۔۔ ہر قسم کی ستائش اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہے۔۔۔ ان کے ایمان اور ان کے یقین کی پختگی اس طرح ظاہر ہوئی کہ وہ اولین و آخرین پر فوقیت لے گئے۔ جب غم کی شدت بڑھ گئی اور سختیوں نے گھیر لیا تو ان کا ایمان عین الیقین کے درجے پر پہنچ گیا۔ ﴿ وَلَمَّا رَأَى الْمُؤْمِنُونَ الْأَحْزَابَ قَالُوا هٰـٰذَا مَا وَعَدَنَا اللّٰـهُ وَرَسُولُهُ وَصَدَقَ اللّٰـهُ وَرَسُولُهُ وَمَا زَادَهُمْ إِلَّا إِيمَانًا وَتَسْلِيمًا﴾ (الاحزاب : 33؍22) ” اور جب اہل ایمان نے لشکروں کو دیکھا تو پکار اٹھے کہ یہ تو وہی ہے جس کا وعدہ اللہ اور اس کے رسول نے ہمارے ساتھ کیا تھا، اللہ اور اس کے رسول نے سچ کہا تھا اور اس واقعے نے ان کے ایمان و تسلیم میں اضافہ کردیا۔“ یہاں منافقین کا نفاق بھی ظاہر ہوگیا اور وہ چیز سامنے آگئی جسے وہ چھپایا کرتے تھے۔ الأحزاب
12 یہ منافق کی عادت ہے کہ مصیبت اور امتحان کے وقت اس کا ایمان قائم نہیں رہتا۔ وہ موجودہ حالت میں اپنی کوتاہ عقل سے غور کرتا ہے اور اپنے ناقص گمان کی تصدیق کرتا ہے۔ الأحزاب
13 ﴿ وَإِذْ قَالَت طَّائِفَةٌ مِّنْهُمْ﴾ ” اور جب ان میں سے ایک جماعت کہتی تھی“ یعنی منافقین کی جماعت۔ وہ جزع فزع اور قلت صبر کے بعد ایسے لوگوں میں شامل ہوگئے جن کو ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا۔ انہوں نے خود صبر کیا نہ اپنے شر کی بنا پر لوگوں کو چھوڑا، لہٰذا اس گروہ نے کہا : ﴿ يَا أَهْلَ يَثْرِبَ ﴾ ” اے اہل یثرب !“ اس سے ان کی مراد اہل مدینہ تھے۔ انہوں نے مدینہ منورہ کے نام کو چھوڑ کر وطن کے نام سے ان کو پکارا۔ یہ چیز اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ ان کے دلوں میں دین اور اخوت ایمانی کی کوئی قدر و قیمت نہ تھی۔ جس چیز نے ان کو ایسا کہنے پر آمادہ کیا وہ ان کی طبعی بزدلی تھی۔ ﴿ يَا أَهْلَ يَثْرِبَ لَا مُقَامَ لَكُمْ﴾ ” اے اہل یثرب ! (یہاں) تمہارے لیے ٹھہرنے کا مقام نہیں۔“ یعنی اس جگہ جہاں تم مدینہ سے باہر نکلے ہو۔ ان کا محاذ مدینہ منورہ سے باہر اور خندق کے ایک طرف تھا۔ ﴿ فَارْجِعُوا ﴾ مدینے کی طرف لوٹ جاؤ، لہٰذا یہ گروہ جہاد سے علیحدہ ہو رہا تھا۔ ان پر واضح ہوگیا کہ ان میں دشمن کے ساتھ لڑنے کی طاقت نہیں اور وہ انہیں لڑائی ترک کرنے کا مشورہ دے رہے تھے۔ یہ گروہ بدترین اور سب سے زیادہ نقصان دہ گروہ تھا۔ ان کے علاوہ دوسرا گروہ وہ تھا جس کو بزدلی اور بھوک نے ستا رکھا تھا اور وہ چاہتے تھے کہ وہ صفوں سے کھسک کر چلے جائیں۔ انہوں نے مختلف قسم کے جھوٹے عذر پیش کرنا شروع کردیے۔ یہ وہی لوگ ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَيَسْتَأْذِنُ فَرِيقٌ مِّنْهُمُ النَّبِيَّ يَقُولُونَ إِنَّ بُيُوتَنَا عَوْرَةٌ ﴾ ” اور ان کی جماعت یہ کہہ کر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اجازت مانگنے لگی کہ ہمارے گھر کھلے ہوئے ہیں۔“ یعنی ہمارے گھر خطرے کی زد میں ہیں اور ہمیں ڈر ہے کہ کہیں ہماری عدم موجودگی میں دشمن ہمارے گھروں پر حملہ نہ کردے، اس لیے ہمیں اجازت دیجیے کہ ہم واپس جاکر اپنے گھروں کی حفاظت کریں، حالانکہ وہ اس بارے میں جھوٹے تھے۔ ﴿ وَمَا هِيَ بِعَوْرَةٍ إِن يُرِيدُونَ إِلَّا فِرَارًا ﴾ ” حالانکہ وہ کھلے نہیں تھے وہ تو صرف (جنگ سے) بھاگنا چاہتے ہیں۔“ یعنی ان کا قصد فرار کے سوا کچھ نہیں، مگر انہوں نے اس بات کو فرار کے لیے وسیلہ اور عذر بنالیا۔ ان لوگوں میں ایمان بہت کم ہے اور امتحان کی سختیوں کے وقت ان کے اندر ثابت قدمی اور استقامت نہیں رہتی۔ الأحزاب
14 ﴿ وَلَوْ دُخِلَتْ عَلَيْهِم ﴾ ” اور اگر ان پر داخل کیے جائیں )لشکر( “ مدینہ منورہ میں ﴿ مِّنْ أَقْطَارِهَا ﴾ یعنی شہر کے ہر طرف سے کافر گھس آتے اور اس پر قابض ہوجاتے۔ ﴿ ثُمَّ سُئِلُوا الْفِتْنَةَ ﴾ پھر ان کو فتنے کی طرف بلایا جاتا، یعنی دین سے پھر جانے اور فاتحین اور غالب لشکر کے دین کی طرف لوٹنے کی دعوت دی جاتی ﴿ لَآتَوْهَا ﴾ تو یہ جلدی سے اس فتنے میں پڑجاتے ﴿ وَمَا تَلَبَّثُوا بِهَا إِلَّا يَسِيرًا ﴾ ” اور اس کے لیے بہت کم ٹھہرتے۔“ یعنی دین کے بارے میں ان کے اندر قوت اور سخت جانی نہیں ہے، بلکہ اگر صرف دشمن کا پلڑا بھاری ہوجائے، تو دشمن ان سے جو مطالبہ کرے یہ مان جائیں گے اور ان کے کفر کی موافقت کرنے لگ جائیں گے۔ یہ ان کا حال ہے۔ الأحزاب
15 ﴿ عَاهَدُوا اللّٰـهَ مِن قَبْلُ لَا يُوَلُّونَ الْأَدْبَارَ وَكَانَ عَهْدُ اللّٰـهِ مَسْئُولًا ﴾ ”)حالانکہ( انہوں نے اس سے قبل اللہ سے یہ عہد کیا تھا کہ وہ پیٹھ نہ پھیریں گے اور اللہ سے کیے ہوئے عہد کی باز پرس تو ہو کر ہی رہے گی۔“ عنقریب اللہ ان سے اس عہد کے بارے میں ضرور پوچھے گا، وہ ان کو اس حالت میں پائے گا کہ وہ اللہ کے عہد کو توڑ چکے ہوں گے۔ تب ان کا کیا خیال ہے کہ ان کا رب ان کے ساتھ کیا سلوک کرے گا؟ الأحزاب
16 ﴿ قُل ﴾ ان کے فرار پر ان کو ملامت کرتے اور ان کو خبردار کرتے ہوئے کہ یہ چیز انہیں کچھ فائدہ نہ دے گی کہہ دیجیے : ﴿ لَّن يَنفَعَكُمُ الْفِرَارُ إِن فَرَرْتُم مِّنَ الْمَوْتِ أَوِ الْقَتْلِ ﴾ ” اگر تم موت اور قتل ہونے سے بھاگتے ہو تو تمہارا بھاگنا تمہیں کچھ فائدہ نہ دے گا۔“ پس اگر تم اپنے گھروں میں بھی ہوتے، تو وہ لوگ جن کی تقدیر میں قتل ہونا لکھ دیا گیا ہے اپنی قتل گاہوں پر پہنچ جاتے۔ اسباب اس وقت فائدہ دیتے ہیں جب قضا و قدر ان کی معارض نہ ہو۔ جب تقدیر آجاتی ہے تو تمام اسباب ختم ہوجاتے ہیں اور ہر وسیلہ باطل ہو کر رہ جاتا ہے جن کے بارے میں انسان سمجھتا ہے کہ یہ نجات دیں گے۔ ﴿ وَإِذًا ﴾ یعنی جب تم موت یا قتل سے بچنے کے لیے فرار ہوجاؤ تاکہ تم دنیا میں نعمتوں سے فائدہ اٹھاؤ تو ﴿ لَّا تُمَتَّعُونَ إِلَّا قَلِيلًا ﴾ تم بہت کم فائدہ اٹھا سکو گے جو تمہارے فرار ہونے، اللہ کے حکم کو ترک کرنے اور اپنے آپ کو ابدی فائدے اور سرمدی نعمتوں سے محروم کرنے کے برابر نہیں ہے۔ الأحزاب
17 پھر اللہ تعالیٰ نے واضح فرمایا کہ جب وہ بندے کے ساتھ کسی برائی کا ارادہ کرلے تو اسباب اس کے کسی کام نہیں آتے۔ ﴿ قُلْ مَن ذَا الَّذِي يَعْصِمُكُم ﴾ ” کہہ دیجیے : تمہیں کون بچا سکتا ہے؟“ ﴿ مِّنَ اللّٰـهِ إِنْ أَرَادَ بِكُمْ سُوءًا ﴾ ” اللہ سے اگر وہ تمہارے ساتھ برائی کا ارادہ کرے۔“ ﴿ أَوْ أَرَادَ بِكُمْ رَحْمَةً ﴾ ” یا اگر تم پر مہربانی کرنا چاہے۔“ کیونکہ وہی عطا کرنے والا اور محروم کرنے والا، نقصان دینے والا اور نفع دینے والا ہے اس کے سوا کوئی بھلائی عطا کرسکتا ہے نہ کوئی برائی دور کرسکتا ہے۔ ﴿ وَلَا يَجِدُونَ لَهُم مِّن دُونِ اللّٰـهِ وَلِيًّا ﴾ ” اور یہ لوگ اللہ کے سوا کسی کو اپنا کارساز نہ پائیں گے۔“ جو ان کی سرپرستی کرے اور ان کو منفعت عطا کرے ﴿ وَلَا نَصِيرًا ﴾ ” اور نہ مددگار“ جو ان کی مدد کرکے ان سے ضرر رساں چیزوں کو دور کردے، اس لیے انہیں چاہیے کہ وہ اس ہستی کے سامنے سرتسلیم خم کریں جو ان تمام امور میں متفرد ہے جس کی مشیت پوری اور اس کی قضا و قدر نافذ ہوچکی ہے، اس کی ولایت اور اس کی نصرت کو چھوڑ کر کوئی والی اور کوئی مددگار کام نہیں آسکتا۔ الأحزاب
18 اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان لوگوں کو سخت وعید سنائی ہے جو اپنے ساتھیوں کو جنگ سے پسپائی پر اکساتے ہیں اور جنگ کے کاموں میں رخنہ ڈالتے ہیں، فرمایا : ﴿ قَدْ يَعْلَمُ اللّٰـهُ الْمُعَوِّقِينَ مِنكُمْ ﴾ ” یقیناً اللہ تم میں سے ان لوگوں کو بھی جانتا ہے جو منع کرتے ہیں“ یعنی ان لوگوں کو جہاد پر نکلنے سے روکتے ہیں جو ابھی جہاد کے لیے نہیں نکلے ﴿ وَالْقَائِلِينَ لِإِخْوَانِهِمْ ﴾ اور اپنے ان بھائیوں کو جو جہاد کے لیے نکلے ہوئے ہیں، کہتے ہیں: ﴿ هَلُمَّ إِلَيْنَا ﴾ واپس لوٹ آؤ جیسا کہ ان کا یہ قول گزشتہ سطور میں گزر چکا ہے : ﴿ يَا أَهْلَ يَثْرِبَ لَا مُقَامَ لَكُمْ فَارْجِعُوا ﴾ )الاحزاب : 33؍13( ” اے یثرب کے لوگو ! تمہارے لیے ٹھہرنے کا کوئی مقام نہیں اس لیے واپس لوٹ چلو۔“ ان کا حال یہ ہے کہ وہ لوگوں کو جہاد سے باز رکھنے اور ان کو پسپائی پر اکسانے کے ساتھ ساتھ ﴿ لَا يَأْتُونَ الْبَأْسَ ﴾ خود قتال اور جہاد کے لیے نہیں نکلتے ﴿إِلَّا قَلِيلًا﴾ ” مگر بہت تھوڑے۔“ وہ ایمان اور صبر کے داعیے کے معدوم ہونے کی وجہ سے جہاد سے پیچھے رہ جانے کے سب سے زیادہ حریص ہیں، نیز اس لیے بھی کہ ان کے اندر نفاق ہے اور ایمان معدوم ہے اور نفاق اور عدم ایمان بزدلی کا تقاضا کرتے ہیں۔ الأحزاب
19 ﴿ أَشِحَّةً عَلَيْكُمْ ﴾ ” تمہارے بارے میں بخل کرتے ہیں۔“ یعنی لڑائی کے وقت اپنے بدن کو استعمال کرنے اور جہاد میں اپنا مال خرچ کرنے میں بخل کرتے ہیں۔ پس وہ اپنی جان اور مال کے ذریعے سے اللہ کے راستے میں جہاد نہیں کرتے۔ ﴿ فَإِذَا جَاءَ الْخَوْفُ رَأَيْتَهُمْ يَنظُرُونَ إِلَيْكَ ﴾ ” جب خوف (کا وقت) آیا تو آپ انہیں دیکھتے ہیں کہ وہ آپ کی طرف دیکھ رہے ہیں“ اس آدمی کی طرح جس پر غشی طاری ہو ﴿ مِنَ الْمَوْتِ ﴾ ” موت کی وجہ سے“ یعنی سخت بزدلی کی وجہ سے، جس نے ان کے دلوں کو نکال پھینکا ہے، اس قلق کی بنا پر جس نے ان کو بے سدھ کردیا ہے اور اس قتال سے خوف کے مارے جس پر انہیں مجبور کیا جا رہا ہے اور جسے وہ ناپسند کرتے ہیں۔ ﴿ فَإِذَا ذَهَبَ الْخَوْفُ ﴾ ” پس جب خوف جاتا رہتا ہے“ اور امن و اطمینان کی حالت میں ہوتے ہیں ﴿ سَلَقُوكُم بِأَلْسِنَةٍ ﴾ ” تو تمہارے بارے میں زبان درازی کرتے ہیں۔“ یعنی جب آپ لوگوں سے مخاطب ہوتے ہیں تو آپ سے سخت زبان میں گفتگو کرتے ہیں اور بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں جو صحیح نہیں ہوتے۔ جب آپ ان کی باتیں سنتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ یہ لوگ بہت بہادر اور شجاعت مند ہیں۔ ﴿أَشِحَّةً عَلَى الْخَيْرِ ﴾ ” اور مال میں بخل کرتے ہیں“ جو کہ ان سے مطلوب ہے۔ یہ انسان کا بدترین وصف ہے کہ اسے جو حکم دیا جائے اس کی تعمیل میں بخل سے کام لے، اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے اپنا مال خرچ کرنے میں بخل کرے، اللہ تعالیٰ کے دشمنوں کے خلاف جہاد کرنے اور اللہ کے راستے میں دعوت دینے میں اپنے بدن میں بخل کرے، اپنے جاہ میں بخیل ہو اور اپنے علم، خیر خواہی کرنے اور اپنی رائے میں بخیل ہو۔ ﴿ أُولَـٰئِكَ ﴾ ” یہ لوگ“ جو اس حالت میں بھی ﴿ لَمْ يُؤْمِنُوا ﴾ ” ایمان نہ لائے“ تو ان کے عدم ایمان کے سبب اللہ تعالیٰ نے ان کے اعمال اکارت کردیے ﴿ وَكَانَ ذٰلِكَ عَلَى اللّٰـهِ يَسِيرًا ﴾ ” اور یہ بات اللہ کے لیے بہت آسان ہے۔“ رہے اہل ایمان، تو اللہ تعالیٰ نے ان کو نفس کے بخل سے محفوظ رکھا ہے۔ انہیں اپنی توفیق سے سرفراز فرمایا اس لیے انہیں جس چیز کے خرچ کرنے کا حکم دیا جاتا ہے وہ اسے خرچ کرتے ہیں۔ وہ اللہ کی راہ میں اور اس کے کلمے کو بلند کرنے کی خاطر اپنا بدن خرچ کرتے ہیں، بھلائی کے راستوں میں اپنا مال خرچ کرتے ہیں، اپنی جاہ اور اپنا علم خرچ کرتے ہیں۔ الأحزاب
20 ﴿ يَحْسَبُونَ الْأَحْزَابَ لَمْ يَذْهَبُوا ﴾ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ حملہ آور جتھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے اصحاب کے خلاف جنگ کرنے کے لیے اکٹھے ہو کر آئے ہیں کہ وہ ان کا استیصال کیے بغیر واپس نہیں جائیں گے، مگر ان کی تمنائیں ناکام اور ان کے اندازے غلط ہوگئے۔ ﴿ وَإِن يَأْتِ الْأَحْزَابُ ﴾ اگر دوبارہ حملہ آور دشمن کے جتھے چڑھ دوڑیں ﴿ يَوَدُّوا لَوْ أَنَّهُم بَادُونَ فِي الْأَعْرَابِ يَسْأَلُونَ عَنْ أَنبَائِكُمْ ﴾ یعنی اگر دوسری مرتبہ فوجیں حملہ آور ہوں جیسے اس مرتبہ حملہ آور ہوئی تھیں تو یہ منافقین چاہتے ہیں کہ وہ اس وقت مدینہ کے اندر یا اس کے قرب و جوار میں نہ ہوں بلکہ وہ صحرا میں بدویوں کے ساتھ رہ رہے ہوں اور تمہاری خبر معلوم کر رہے ہوں اور تمہارے بارے میں پوچھ رہے ہوں کہ تم پر کیا گزری؟ پس ہلاکت ہے ان کے لیے اور دوری ہے اللہ تعالیٰ کی رحمت سے۔ وہ ان لوگوں میں سے نہیں جن کی موجودگی بہت اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ ﴿ وَلَوْ كَانُوا فِيكُم مَّا قَاتَلُوا إِلَّا قَلِيلًا ﴾ ” اور اگر وہ تمہارے درمیان ہوں تو بہت کم لڑائی کریں۔“ اس لیے ان کی پروا کرو نہ ان پر افسوس کرو۔ الأحزاب
21 ﴿ لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللّٰـهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ ﴾ ” یقیناً تمہارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں عمدہ نمونہ )موجود( ہے۔“ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بنفس نفیس جنگ میں شریک ہوئے، جنگی معرکوں میں حصہ لیا، آپ صاحب شرف و کمال، بطل جلیل اور صاحب شجاعت و بسالت تھے تب تم ایسے معاملے میں شریک ہونے میں بخل سے کام لیتے ہو جس میں رسول مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بنفس نفیس شریک ہیں۔ لہٰذا اس معاملے میں اور دیگر معاملات میں آپ کی پیروی کرو۔ اس آیت کریمہ سے اہل اصول نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے افعال کے حجت ہونے پر استدلال کیا ہے۔ اصول یہ ہے کہ احکام میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسوہ حجت ہے، جب تک کسی حکم پر دلیل شرعی قائم نہ ہوجائے کہ یہ صرف آپ کے لیے مخصوص ہے۔ اسوہ کی دو اقسام ہیں : اسوۂ حسنہ اور اسوۂ سیئہ۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اسوۂ حسنہ ہے۔ آپ کے اسوہ کی اقتدا کرنے والا اس راستے پر گامزن ہے جو اللہ تعالیٰ کے اکرام و تکریم کے گھر تک پہنچاتا ہے اور وہ ہے صراط مستقیم۔ رہا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سوا کسی دیگر ہستی کا اسوہ، تو اس صورت میں اگر وہ آپ کے اسوہ کے خلاف ہے تو یہ ” اسوۃ سیئہ“ ہے مثلاً جب انبیاء و رسل مشرکین کو اپنے اسوہ کی پیروی کی دعوت دیتے تو وہ جواب میں کہتے : ﴿ إِنَّا وَجَدْنَا آبَاءَنَا عَلَىٰ أُمَّةٍ وَإِنَّا عَلَىٰ آثَارِهِم مُّهْتَدُونَ ﴾(الزخرف : 43؍22) ” بلاشبہ ہم نے اپنے آباء و اجداد کو ایک طریقے پر پایا ہے، ہم انہی کے نقش قدم کی پیروی کر رہے ہیں۔“ اسوۂ حسنہ کی صرف وہی لوگ پیروی کرتے ہیں جن کو اس کی توفیق بخشی گئی ہے، جو اللہ تعالیٰ کی ملاقات اور یوم آخرت کی امید رکھتے ہیں کیونکہ ان کا سرمایۂ ایمان، اللہ تعالیٰ کا خوف، اس کے ثواب کی امید اور اس کے عذاب کا ڈر انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہ کی پیروی کرنے پر آمادہ کرتا ہے۔ الأحزاب
22 یہ بیان کرنے کے بعد کہ خوف کے وقت منافقین کی کیا حالت ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کا حال بیان کیا، چنانچہ فرمایا : ﴿ وَلَمَّا رَأَى الْمُؤْمِنُونَ الْأَحْزَابَ ﴾ ” اور جب مومنوں نے لشکروں کو دیکھا“ جو جنگ کے لیے جمع ہوئے اور وہ اپنے اپنے محاذ پر نازل ہوئے تھے تو (مومنوں کا) خوف جاتا رہا۔ ﴿ قَالُوا هٰذَا مَا وَعَدَنَا اللّٰـهُ وَرَسُولُهُ ﴾ ” وہ کہنے لگے یہ وہی ہے جس کا اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے وعدہ کیا تھا۔“ یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے اس ارشاد میں جو وعدہ فرمایا ہے : ﴿ أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَأْتِكُم مَّثَلُ الَّذِينَ خَلَوْا مِن قَبْلِكُم مَّسَّتْهُمُ الْبَأْسَاءُ وَالضَّرَّاءُ وَزُلْزِلُوا حَتَّىٰ يَقُولَ الرَّسُولُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ مَتَىٰ نَصْرُ اللّٰـهِ أَلَا إِنَّ نَصْرَ اللّٰـهِ قَرِيبٌ ﴾ (البقرہ : 2؍214) ” کیا تم نے سمجھ لیا ہے کہ تم جنت میں داخل ہوجاؤ گے حالانکہ تم پر وہ آزمائشیں تو آئی ہی نہیں جو تم سے پہلے لوگوں پر آئی تھیں، ان پر بڑی بڑی سختیاں اور تکلیفیں آئیں اور انہیں ہلا ڈالا گیا حتیٰ کہ رسول اور وہ لوگ جو اس کے ساتھ تھے، پکار اٹھے : اللہ کی مدد کب آئے گی دیکھو اللہ کی مدد بہت قریب ہے۔“ ﴿ وَصَدَقَ اللّٰـهُ وَرَسُولُهُ ﴾ ’’اور اللہ اور اس کے رسول نے سچ فرمایا تھا‘‘ کیونکہ ہم وہ سب کچھ دیکھ چکے ہیں جس کی ہمیں خبر دی گئی تھی﴿ وَمَا زَادَهُمْ﴾ ” اور نہیں زیادہ کیا ان کو“ یعنی اس معاملے نے ﴿ إِلَّا إِيمَانًا ﴾ ” مگر ایمان میں“ یعنی ان کے دلوں میں ایمان زیادہ ہوگیا۔ ﴿ وَتَسْلِيمًا ﴾ ” اور ماننے میں“ یعنی ان کے جوارح میں اللہ تعالیٰ کے حکم کی اطاعت کا اضافہ کیا۔ الأحزاب
23 اللہ تعالیٰ نے جب منافقین کا ذکر فرمایا کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ سے عہد کیا تھا کہ وہ پیٹھ پھیر کر نہیں بھاگیں گے، مگر انہوں نے اس کے عہد کو توڑ دیا، تو اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کا ذکر فرمایا کہ انہوں نے اللہ سے کیا ہوا اپنا عہد پورا کیا، فرمایا ﴿ مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللّٰـهَ عَلَيْهِ ﴾ ” مومنوں میں سے کچھ ایسے لوگ ہیں کہ انہوں نے اللہ سے جو وعدہ کیا تھا اسے سچا کر دکھایا“ یعنی انہوں نے اللہ تعالیٰ سے کیا ہوا وعدہ پورا کردیا، انہوں نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے اپنی جان کی بازی لگا دی اور اپنے نفس کو اطاعت الٰہی کی راہ پر چلایا ﴿ فَمِنْهُم مَّن قَضَىٰ نَحْبَهُ ﴾ ” تو ان میں سے بعض ایسے ہیں جو اپنی باری پوری کرچکے۔“ یعنی اس نے اپنا ارادہ پورا کردیا اور اس پر جو حق تھا وہ ادا کردیا۔ وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں قتل ہوا اور اس کے حق کو ادا کرتے ہوئے اپنی جان اس کے سپرد کردی اور اس حق میں کچھ بھی کمی نہ کی۔ ﴿ وَمِنْهُم مَّن يَنتَظِرُ ﴾ اور کوئی اپنا عہد پورا کرنے کے لیے منتظر ہے، اس کے ذمہ جو عہد تھا وہ اس کو پورا کرنا شروع کرچکا ہے، وہ اس عہد کی تکمیل کی امید رکھتا ہے اور اس کی تکمیل میں کوشاں ہے۔ ﴿ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًا ﴾ ” اور انہوں نے اپنے رویے میں ذرہ بھر تبدیلی نہیں کی“ جیسے دوسرے لوگ بدل گئے، بلکہ وہ اپنے عہد پر قائم ہیں۔ وہ ادھر ادھر توجہ کرتے ہیں نہ بدلتے ہیں۔ درحقیقت یہی لوگ مرد ہیں ان کے سوا دیگر لوگوں کی صورتیں اگرچہ مردوں کی سی ہیں، مگر ان کی صفات مردوں کی صفات سے قاصر ہیں۔ الأحزاب
24 ﴿ لِّيَجْزِيَ اللّٰـهُ الصَّادِقِينَ بِصِدْقِهِمْ﴾ ” تاکہ اللہ سچوں کو ان کی سچائی کا بدلہ دے“ یعنی ان کے اقوال، احوال اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ ان کے معاملے میں ان کے صدق اور ان کے ظاہر و باطن کے یکساں ہونے کے سبب سے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ هـٰذَا يَوْمُ يَنفَعُ الصَّادِقِينَ صِدْقُهُمْ لَهُمْ جَنَّاتٌ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ﴾ (المائدۃ: 5؍119) ” آج وہ دن ہے کہ سچوں کو ان کی سچائی فائدہ دے گی، ان کے لیے جنتیں ہیں، جن کے نیچے نہریں جاری ہیں، جہاں وہ ابدالآباد تک رہیں گے۔“ یعنی ہم نے یہ آزمائشیں، مصائب اور زلزلے اپنے اندازے کے مطابق مقدر کیے تاکہ سچا جھوٹے سے واضح ہوجائے اور اللہ تبارک و تعالیٰ راست بازوں کو ان کی راستی کی جزا دے ﴿ وَيُعَذِّبَ الْمُنَافِقِينَ ﴾ ”اور منافقوں کو عذاب دے“ جن کے دل اور اعمال آزمائشوں کے نازل ہونے پر بدل گئے اور وہ اس عہد کو پورا نہ کرسکے جو انہوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کیا تھا۔ ﴿ إِن شَاءَ ﴾ اگر اللہ تعالیٰ ان کو عذاب دینا چاہے گا، یعنی وہ ان کو ہدایت دینا نہ چاہے گا، بلکہ اسے علم ہے کہ ان کے اندر کوئی بھلائی نہیں اس لیے وہ ان کو توفیق سے نہیں نوازے گا۔ ﴿ أَوْ يَتُوبَ عَلَيْهِمْ ﴾ یعنی وہ ان کو توبہ اور انابت کی توفیق سے نواز دے گا۔ اس کریم کی کرم نوازی پر یہی چیز غالب ہے، اس لیے اس نے آیت کریمہ کو اپنے ان دو اسمائے حسنیٰ پر ختم کیا ہے جو اس کی مغفرت، اس کے فضل و کرم اور احسان پر دلالت کرتے ہیں۔ ﴿ إِنَّ اللّٰـهَ كَانَ غَفُورًا رَّحِيمًا ﴾ ” بے شک اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا نہایت مہربان ہے۔“ اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے جب توبہ کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کو بخش دیتا ہے، خواہ ان کے گناہ کتنے ہی زیادہ کیوں نہ ہوں ﴿ رَّحِيمًا ﴾ وہ ان پر نہایت مہربان ہے، کیونکہ اس نے ان کو توبہ کی توفیق بخشی پھر ان کی توبہ قبول کی پھر ان کے ان گناہوں کی پردہ پوشی کی جن کا انہوں نے ارتکاب کیا تھا۔ الأحزاب
25 ﴿ وَرَدَّ اللّٰـهُ الَّذِينَ كَفَرُوا بِغَيْظِهِمْ لَمْ يَنَالُوا خَيْرًا ﴾ ” اور اللہ تعالیٰ نے کافروں کو غصے میں بھرے ہوئے )نامراد( لوٹا دیا۔ انہوں نے کوئی فائدہ نہ پایا۔“ یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کو خائب و خاسر لوٹا دیا اور انہیں وہ چیز حاصل نہ ہوسکی جس کے وہ سخت حریص تھے، وہ غیظ و غضب سے بھرے ہوئے تھے اور یقینی طور پر اپنے آپ کو فتح پر قادر سمجھتے تھے، اس لیے کہ ان کے پاس وسائل تھے، ان کی بڑی بڑی فوجوں نے ان کو دھوکے میں ڈال دیا، ان کی جتھے بندوں نے ان کو خود پسندی میں مبتلا کردیا تھا انہیں اپنی عددی برتری اور حربی سازوسامان پر بڑا ناز تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر سخت طوفانی ہوا بھیجی جس نے ان کے عسکری مراکز کو تلپٹ کردیا، ان کے خیموں کو اکھاڑ دیا، ان کی ہانڈیوں کو الٹ دیا، ان کے حوصلوں کو توڑ دیا، ان پر رعب طاری کردیا اور وہ انتہائی غیظ و غضب کے ساتھ پسپا ہوگئے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے مومن بندوں کی نصرت تھی۔ ﴿ وَكَفَى اللّٰـهُ الْمُؤْمِنِينَ الْقِتَالَ ﴾ ” اور اللہ مومنوں کو لڑائی کے معاملے میں کافی ہوا۔“ اللہ تعالیٰ نے ان کو عادی اور تقدیری )خرق عادت( اسباب مہیا فرمائے۔ ﴿ وَكَانَ اللّٰـهُ قَوِيًّا عَزِيزًا ﴾ ” اور اللہ بڑی قوت والا )اور( زبردست ہے۔“ جو کوئی اس پر غالب آنے کی کوشش کرتا ہے مغلوب ہو کر رہ جاتا ہے، جو کوئی اس سے مدد مانگتا ہے اسے غلبہ نصیب ہوتا ہے، وہ جس امر کا ارادہ کرتا ہے کوئی اسے عاجز نہیں کرسکتا۔ اگر اللہ تعالیٰ اپنی قوت و عزت سے اہل قوت و عزت کی مدد نہ کرے تو ان کی قوت و عزت انہیں کوئی فائدہ نہیں دے سکتی۔ الأحزاب
26 ﴿ وَأَنزَلَ الَّذِينَ ظَاهَرُوهُم ﴾ ” اور ہم جنہوں نے ان کی مدد کی تھی ان کو اتارا۔“ یعنی وہ لوگ جنہوں نے حملہ آوروں کی مدد کی ﴿ مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ ﴾ ” اہل کتاب میں سے“ یعنی یہودیوں میں سے ﴿ مِن صَيَاصِيهِمْ ﴾ ” ان کے قلعوں سے“ یعنی انہیں سلام کے حکم کے تحت مغلوب کرکے ان کے قلعوں سے نیچے اتارا ﴿ وَقَذَفَ فِي قُلُوبِهِمُ الرُّعْبَ ﴾ ” اور ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا۔“ پس ان میں لڑنے کی قوت باقی نہ رہی اور وہ اطاعت تسلیم کرتے ہوئے سرنگوں ہوگئے۔ ﴿ فَرِيقًا تَقْتُلُونَ ﴾ تم لڑائی کے قابل مردوں کو قتل کر رہے تھے ﴿وَتَأْسِرُونَ فَرِيقًا ﴾ اور ان مردوں کے علاوہ عورتوں اور بچوں کو قیدی بنا رہے تھے۔ الأحزاب
27 ﴿ وَأَوْرَثَكُمْ ﴾ ” اور تمہیں وارث بنایا۔“ یعنی تمہیں غنیمت میں عطا کیا ﴿ أَرْضَهُمْ وَدِيَارَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ وَأَرْضًا لَّمْ تَطَئُوهَا ﴾ ” ان کی زمین، ان کے گھروں اور ان کے اموال اور اس زمین کا جس کو تمہارے قدموں نے روندا نہیں تھا۔“ یعنی ایسی سرزمین جس پر تم اس کے مالکان کے نزدیک اس کی عزت و شرف کی بنا پر چل نہیں سکتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس زمین پر اور اس کے مالکوں پر اختیار عطا کیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کے مالکوں کو بے یارومددگار چھوڑ دیا، تم نے ان کے اموال کو مال غنیمت بنایا، ان کو قتل کیا اور ان میں کچھ کو قیدی بنایا۔ ﴿وَكَانَ اللّٰـهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرًا ﴾ ” اور اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔“ اسے کوئی چیز عاجز نہیں کرسکتی اور اپنی قدرت سے اس نے تمہارے لیے یہ سب کچھ مقدر کیا۔ اہل کتاب کا یہ گروہ، یہودیوں میں سے بنو قریظہ کا قبیلہ تھا، جو مدینے سے باہر تھوڑے سے فاصلے پر آباد تھا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ نے ان کے ساتھ امن اور دفاع کا معاہدہ کیا۔ آپ نے ان کے خلاف جنگ کی نہ انہوں نے آپ سے کوئی لڑائی لڑی اور وہ اپنے دین پر قائم رہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے بارے میں حکمت عملی میں کوئی تبدیلی نہ کی۔ جنگ خندق میں جب ان یہودیوں نے کفار کے لشکروں کو جمع ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حملہ آور ہوتے دیکھا اور انہوں نے یہ بھی دیکھا کہ حملہ آوروں کی تعداد بہت زیادہ اور مسلمانوں کی تعداد بہت کم ہے تو انہوں نے سمجھ لیا کہ کفار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اہل ایمان کا استیصال کردیں گے اور بعض یہودی سرداروں نے دجل و فریب کے ذریعے سے حملہ آوروں کی مدد کی، اس لیے اس معاہدے کو توڑنے کے مرتکب ہوئے جو ان کے درمیان اور مسلمانوں کے درمیان ہوا تھا اور انہوں نے مشرکین کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حملہ کرنے پر اکسایا۔ جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے مشرکین کو ناکام و نامراد لوٹا دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان بدعہد یہودیوں کے خلاف جنگ کے لیے فارغ ہوگئے اور آپ نے ان کے قلعے کا محاصرہ کرلیا تو انہوں نے حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو ثالث تسلیم کرلیا۔ حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ نے ان کے بارے میں فیصلہ کیا کہ ان کے مردوں کو قتل کردیا جائے، ان کی عورتوں اور بچوں کو غلام اور ان کے مال کو مال غنیمت بنالیا جائے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اور اہل ایمان پر اپنی نوازش اور عنایت کی تکمیل کی، ان پر اپنی نعمت پوری کی اور ان کے دشمنوں کو بے یارومددگار چھوڑ کر ان کو قتل کرکے اور ان میں سے بعض کو قیدی بناکر ان کی آنکھوں کو ٹھنڈا کیا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیشہ اپنے مومن بندوں کو اپنے لطف و کرم سے نوازتا رہا ہے۔ الأحزاب
28 رسول اللہ کی ازواج مطہرات نے جمع ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کچھ ایسے مطالبات کیے جن کو ہر وقت پورا نہیں کیا جاسکتا تھا مگر وہ متفق ہو کر اپنا مطالبہ کرتی ہی رہیں۔ یہ چیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بہت شاق گزری۔ حالت یہاں تک پہنچی کہ آپ کو ان کے ساتھ ایک ماہ کے لیے ایلا (زوجہ کے قریب نہ جانے کا عہد) کرنا پڑا۔ اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معاملے کو آسان اور آپ کی زواج مطہرات کے درجات کو بلند کرنا چاہتا تھا اور آپ کی ازواج مطہرات سے ہر اس بات کو دور کرنا چاہتا تھا جو ان کے اجر کو کم کرے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو حکم دیا کہ وہ اپنی ازواج کو (اپنے ساتھ رہنے یا نہ رہنے کا) اختیار دے دیں۔ فرمایا : ﴿ يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ إِن كُنتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا ﴾ ” اے نبی ! اپنی بیویوں سے کہہ دیجیے کہ اگر تم دنیا کی زندگی اور اس کی زینت چاہتی ہو۔“ یعنی اگر دنیا کے سوا تمہارا کوئی مطلب نہیں اور تم دنیا کی زندگی پر راضی اور اس کے فقدان پر ناراض ہو اگر تمہارا یہی حال ہے تو مجھے تمہاری کوئی ضرورت نہیں۔ ﴿ فَتَعَالَيْنَ أُمَتِّعْكُنَّ ﴾ ” تو آؤ میں تمہیں کچھ مال دوں۔“ یعنی میرے پاس جو بھی سروسامان ہے، وہ تمہیں عطا کردوں ﴿ وَأُسَرِّحْكُنَّ ﴾ اور تمہیں الگ کردوں ﴿ سَرَاحًا جَمِيلًا ﴾ یعنی کسی ناراضی اور سب و شتم کے بغیر، بلکہ خوش دلی اور انشراح صدر کے ساتھ، اس سے قبل کہ حالات نامناسب سطح تک پہنچ جائیں تمہیں آزاد کردوں۔ الأحزاب
29 ﴿ وَإِن كُنتُنَّ تُرِدْنَ اللّٰـهَ وَرَسُولَهُ وَالدَّارَ الْآخِرَةَ ﴾ ” اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول اور آخرت کے گھر کی طلب گار ہو۔“ یعنی اگر آخرت کا گھر تمہارا مطلوب و مقصود ہے اور جب تمہیں اللہ، اس کا رسول اور آخرت حاصل ہوجائیں تو تمہیں دنیا کی کشادگی اور تنگی، اس کی آسانی اور سختی کی پروا نہ ہو اور تم اسی پر قناعت کرو جو تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے میسر ہے اور آپ سے ایسا مطالبہ نہ کرو جو آپ پر شاق گزرے ﴿ فَإِنَّ اللّٰـهَ أَعَدَّ لِلْمُحْسِنَاتِ مِنكُنَّ أَجْرًا عَظِيمًا ﴾ ” تو (جان لو) اللہ نے تم میں سے نیکوکار عورتوں کے لیے بہت بڑا اجر تیار کر رکھا ہے۔“ اللہ تعالیٰ نے ان کے وصف احسان پر اجر مرتب کیا ہے کیونکہ اس اجر کا سبب اور موجب یہ نہیں کہ وہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیویاں ہیں بلکہ اس کا موجب یہی وصف ہے۔ احسان کا وصف معدوم ہوتے ہوئے مجرد رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیویاں ہونا کافی نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمام ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کو اختیار دے دیا۔ تمام ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن نے اللہ، اس کے رسول اور آخرت کو اختیار کرلیا، ان میں سے ایک بھی پیچھے نہ رہی۔ اس تخییر سے متعدد فوائد مستفاد ہوتے ہیں۔ (1) اللہ تعالیٰ کا اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے اہتمام کرنا اور اس پر غیرت کا اظہار کرنا، آپ کا ایسے حال میں ہونا کہ آپ کی ازواج مطہرات کے بہت سے دنیاوی مطالبات کا آپ پر شاق گزرنا۔ (2) اس تخییر کے ذریعے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنی ازواج مطہرات کے حقوق کے بوجھ سے سلامت ہونا، اپنے آپ میں آزاد ہونا، اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چاہیں تو عطا کریں اور اگر چاہیں تو محروم رکھیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ مَّا كَانَ عَلَى النَّبِيِّ مِنْ حَرَجٍ فِيمَا فَرَضَ اللّٰـهُ لَهُ ﴾ (الاحزاب : 33؍38) ” نبی پر کسی ایسے کام میں کوئی حرج نہیں جو اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے مقرر کردیا۔ “ (3) اللہ تعالیٰ کے رسول کا ان امور سے منزہ ہونا جو اگر ازواج مطہرات میں ہوتے، مثلاً اللہ اور اس کے رسول پر دنیا کو ترجیح دینا۔۔۔ تو آپ ان کے قریب نہ جاتے۔ (4) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات کا گناہ اور کسی ایسے امر سے تعرض سے سلامت ہونا جو اللہ اور اس کے رسول کی ناراضی کا موجب ہو۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس تخییر کے ذریعے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ان کی ناراضی کو ختم کردیا، جو آپ کی ناراضی کا موجب تھی، آپ کی ناراضی اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا باعث ہے اور اللہ تعالیٰ کی ناراضی عذاب کی موجب ہے۔ (5) ان آیات کریمہ سے، ازواج مطہرات کی رفعت، ان کے درجات کی بلندی اور ان کی عالی ہمتی کا اظہار ہوتا ہے کہ انہوں نے دنیا کے چند ٹکڑوں کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ، اس کے رسول اور آخرت کے گھر کو اپنا مطلوب و مقصود اور اپنی مراد بنایا۔ (6) ازواج مطہرات کا اس اختیار کے ذریعے سے ایک ایسے معاملے کو اختیار کرنے کے لیے تیار ہونا جو جنت کے درجات تک پہنچاتا ہے، نیز اس سے مستفاد ہوتا ہے کہ تمام ازواج مطہرات دنیا و آخرت میں آپ کی بیویاں ہیں۔ (7) اس آیت کریمہ سے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اور آپ کی ازواج مطہرات کے درمیان کامل مناسبت کا اظہار ہوتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کامل ترین ہستی ہیں تو اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا کہ آپ کی ازواج مطہرات بھی کامل اور پاک عورتیں ہوں۔ ﴿وَالطَّيِّبَاتُ لِلطَّيِّبِينَ وَالطَّيِّبُونَ لِلطَّيِّبَاتِ ﴾ (النور : 24؍26)” اور پاک عورتیں پاک مردوں کے لیے اور پاک مرد پاک عورتوں کے لیے ہیں۔ “ (9)یہ تخییر قناعت کی داعی اور اس کی موجب ہے۔ جس سے اطمینان قلب اور انشراح صدر حاصل ہوتا ہے، لالچ اور عدم رضا زائل ہوجاتے ہیں جو قلب کے لیے قلق، اضطراب اور غم کا باعث ہوتے ہیں۔ (9)ازواج مطہرات کا آپ کو اختیار کرنا، ان کے اجر میں کئی گنا اضافے کا سبب ہے، نیز یہ کہ وہ ایک ایسے مرتبے پر فائز ہیں جس میں دنیا کی کوئی عورت شریک نہیں۔ الأحزاب
30 جب ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن نے اللہ، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آخرت کو چن لیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کے کئی گنا اجر کا ذکر فرمایا اور ساتھ ہی یہ بھی ذکر کردیا کہ ان کے گناہوں کی سزا بھی کئی گنا ہوگی تاکہ وہ گناہوں سے بچیں اور اجر پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں اور اگر ان میں سے کوئی فحش کام کا ارتکاب کرے تو اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے دو گنا عذاب مقرر فرمایا ہے۔ الأحزاب
31 ﴿ مَن يَقْنُتْ مِنكُنَّ ﴾ یعنی تم میں جوئی کوئی اطاعت شعار ہوگی ﴿ لِلّٰـهِ وَرَسُولِهِ وَتَعْمَلْ صَالِحًا ﴾ ” اللہ کی اور اس کے رسول کی اور وہ نیک عمل کرے گی۔“ خواہ وہ عمل تھوڑا ہو یا بہت ﴿ نُّؤْتِهَا أَجْرَهَا مَرَّتَيْنِ ﴾ ” ہم اسے دگنا اجر دیں گے“ یعنی وہ اجر جو ہم دوسروں کو عطا کرتے ہیں، ان کو ان سے دوگنا اجر عطا کریں گے ﴿ وَأَعْتَدْنَا لَهَا رِزْقًا كَرِيمًا ﴾ ” اور ہم نے اس کے لئے عزت کی روزی تیار کر رکھی ہے۔“ اس سے مراد جنت ہے، چنانچہ ازواج مطہرات نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی، نیک عمل کئے تو اس سے ان کا اجر و ثواب بھی معلوم ہوگیا۔ الأحزاب
32 ﴿ يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ ﴾ ” اے نبی کی بیویو !“ یہ تمام ازواج مطہرات سے خطاب ہے۔ ﴿ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِّنَ النِّسَاءِ إِنِ اتَّقَيْتُنَّ ﴾ ” تم عام عورتوں کی مانند نہیں ہو، اگر تم اللہ تعالیٰ سے ڈرو“ کیونکہ اس طرح تمہیں تمام عورتوں پر فوقیت حاصل ہوگی اور کوئی عورت تمہارے درجے کو نہیں پہنچ سکے گی۔ پس ازواج رسول نے تقویٰ کی اس کے تمام وسائل اور مقاصد کے ساتھ تکمیل کی، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے تمام حرام وسائل کو منقطع کرنے میں ان کی راہنمائی فرمائی اور فرمایا : ﴿ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ ﴾ ” پس تم نزاکت کے ساتھ بات نہ کرو۔“ یعنی مردوں کے ساتھ مخاطب ہوتے ہوئے یا اس وقت کہ لوگ تمہاری گفتگو سن رہے ہوں اور تم دھیمے لہجے اور رغبت دلانے والی نرم کلامی سے گفتگو کرو تو ہوسکتا ہے کہ تمہاری طرف مائل ہوجائے ﴿ الَّذِي فِي قَلْبِهِ مَرَضٌ ﴾ ” وہ شخص جس کے دل میں روگ ہے۔“ یعنی شہوت زنا کا مرض۔ بے شک ایسا شخص تیار رہتا ہے اور کسی ادنیٰ سے محرک کا منتظر رہتا ہے جو اس کو متحرک کر دے کیونکہ اس کا قلب صحت مند نہیں اور صحتمند قلب میں کسی ایسی چیز کی شہوت نہیں ہوتی جس کو اللہ تعالیٰ نے حرام ٹھہرایا ہو۔ اس کے قلب کے صحت مند اور مرض سے سلامت ہونے کی وجہ سے اسباب گناہ اسے حرام شہوت کے لئے متحرک کرسکتے ہیں نہ اسے اس کی طرف مائل کرسکتے ہیں، بخلاف اس قلب کے جو مریض ہے۔ وہ اس چیز کا متحمل نہیں ہوسکتا جس کا متحمل ایک صحت مند قلب ہوسکتا ہے، وہ اس چیز پر صبر نہیں کرسکتا جس پر ایک صحت مند صبر کرسکتا ہے، لہٰذا اگر ایک ادنی سا سبب بھی اسے حرام کی طرف دعوت دے تو وہ اس کی دعوت پر لبیک کہے گا اور اس کی نافرمانی نہیں کرے گا۔ آیت کریمہ اس بات کی دلیل ہے کہ وسائل کے احکام بھی وہی ہیں جو مقاصد کے احکام ہیں کیونکہ دھیمے لہجے میں بات کرنا اور نرم کلامی، اصل میں مباح ہیں چونکہ اس قسم کی نرم کلامی حرام کردہ امر کے لئے وسیلہ بن سکتی ہے اس لئے اس سے روک دیا گیا، اس لئے عورت کے لئے مناسب یہی ہے کہ وہ مردوں سے مخاطب ہوتے وقت نرم لہجے میں بات نہ کرے۔ چونکہ انہیں نرم لہجے میں بات کرنے سے روکا گیا ہے اس لئے بسا اوقات یہ وہم لاحق ہوسکتا ہے کہ انہیں درشت کلامی کا حکم ہے چنانچہ اس وہم کو اس ارشاد کے ذریعے سے دور کیا گیا ہے : ﴿وَقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوفًا ﴾ ” اور دستور کے مطابق بات کیا کرو۔“ یعنی جس طرح دھیما پن اور نرم کلامی نہیں ہونی چاہئے اسی طرح درشت لہجے اور بداخلاقی پر مشتمل کلام بھی نہیں ہونا چاہئے۔ غور کیجیے کیسے ارشاد فرمایا : ﴿ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ ﴾ ” نزاکت کے ساتھ بات نہ کرو۔“ اور یہ نہیں کہا : فلا تلن بالقول ” بات کرنے میں نرمی نہ کرو۔“ یعنی نرم کلامی سے منع نہیں کیا بلکہ ایسی نرم کلامی ممنوع ہے جس میں مرد کے لئے عورت کی اطاعت اور اس کے انکسار کی جھلک ہو۔ اطاعت مند اور جھکنے والے کے بارے میں کسی قسم کا طمع کیا جاسکتا ہے بخلاف اس شخص کے جو کوئی ایسے نرم لہجے میں بات کرتا ہے، جس میں اطاعت اور جھکاؤ کی جھلک نہیں ہوتی بلکہ اس میں ترفع اور مدمقابل کے لئے سختی ہوتی ہے تو اس شخص کے بارے میں مدمقابل کوئی طمع نہیں کرسکتا،(ورنہ نرمی تو مطلوب ہے) اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نرم مزاجی کی مدح کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰـهِ لِنتَ لَهُمْ ﴾ (آل عمران :3؍159) ” پس اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے آپ ان کے لئے نرم مزاج واقع ہوئے ہیں۔“ حضرت موسیٰ اور ہارون علیہما السلام سے فرمایا : ﴿ اذْهَبَا إِلَىٰ فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغَىٰ فَقُولَا لَهُ قَوْلًا لَّيِّنًا لَّعَلَّهُ يَتَذَكَّرُ أَوْ يَخْشَىٰ ﴾ (طٰہٰ:20؍43۔44)” تم دونوں فرعون کے پاس جاؤ وہ سرکش ہوگیا ہے۔ اس کے ساتھ نرمی سے بات کرنا شاید کہ وہ نصیحت پکڑے یا ڈر جائے۔ “ اللہ تبارک و تعالیٰ کا یہ ارشاد : ﴿ فَيَطْمَعَ الَّذِي فِي قَلْبِهِ مَرَضٌ ﴾ ” تو جس کے دل میں روگ ہے وہ کوئی برا خیال کرے“ اور اس کے ساتھ ساتھ اس کا شرمگاہ کی حفاظت کا حکم دینا، شرمگاہ کی حفاظت کرنے والے مردوں اور عورتوں کی مدح و ثنا اور اس کا زنا کے قریب جانے سے منع کرنا یہ سب کچھ دلالت کرتا ہے کہ بندے کے لئے مناسب یہ ہے کہ جب وہ اپنے نفس کو اس حالت میں دیکھے کہ وہ کسی حرام فعل کو دیکھ کر خوش ہوتا ہے یا کسی محبوب ہستی کا کلام سن کر خوش ہوتا ہے اور اپنے اندر طمع کے داعیے کو حرام کی طرف رخ کرتے ہوئے پاتا ہے تو اسے معلوم ہونا چاہئے کہ یہ مرض ہے۔ وہ اس مرض کو کمزور کرنے، ردی خیالات کا قلع قمع کرنے، اس خطرناک مرض سے نفس کو محفوظ کرنے کی پوری جدوجہد کرے اور اللہ تعالیٰ سے حفاظت اور توفیق کا سوال کرتا رہے۔ یہ بھی شرم گاہ کی حفاظت کے زمرے میں آتا ہے جس کا حکم دیا گیا ہے۔ الأحزاب
33 ﴿ وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ ﴾ اپنے گھروں میں قرار پکڑو یہ تمہارے لئے زیادہ حفاظت اور سلامتی کا مقام ہے ﴿ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَىٰ ﴾ اور بناؤ سنگار کر کے اور خوشبو لگا کر بہت زیادہ اپنے گھروں سے باہر نہ نکلا کرو، جیسا کہ اہل جاہلیت کی عادت تھی جن کے پاس علم تھا نہ دین۔ یہ حکم شر اور اس کے اسباب کو روکنے کے لئے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے عمومی طور پر انہیں تقویٰ اور تقویٰ کی جزئیات کا حکم دینے کے بعد، اسے صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے کیونکہ عورتیں اس کی سب سے زیادہ محتاج ہوتی ہیں۔ اسی طرح اس نے انہیں اطاعت کا حکم دیا، خاص طور پر نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیا جن کی ضرورت ہر شخص کو ہوتی ہے۔ نماز اور زکوٰۃ سب سے بڑی عبادتیں اور جلیل القدر نیکیاں ہیں۔ نماز کے اندر معبود کے لئے اخلاص اور زکوٰۃ میں اللہ تعالیٰ کے بندوں پر احسان ہے۔ پھر ان کو عمومی اطاعت کا حکم دیا، فرمایا : ﴿ وَأَطِعْنَ اللّٰـهَ وَرَسُولَهُ ﴾ ” اور اطاعت کرو اللہ اور اس کے رسول کی۔“ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت میں ہرقسم کا معاملہ داخل ہے، خواہ اس کا حکم وجوب کے طور پر دیا گیا ہو یا استحباب کے طور پر۔ ﴿ إِنَّمَا يُرِيدُ اللّٰـهُ ﴾ ” اللہ تعالیٰ صرف یہ چاہتا ہے“ اللہ تعالیٰ نے تمہیں جن چیزوں کا حکم دیا اور جن امور سے منع کیا، اس کا مقصد صرف یہ ہے ﴿ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ ﴾ کہ وہ تم سے گندگی، شر اور ناپاکی کو دور کر دے ﴿ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا ﴾ ” اے نبی کی گھر والیو! اور تمہیں خوب پاک کردے۔“ یہاں تک کہ تم سب طاہر اور مطہر بن جاؤ۔ پس تم ان اوامرونواہی پر اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کرو اور اس کا شکر ادا کرو، جن کی مصلحتوں کے بارے میں تمہیں آگاہ فرمایا کہ وہ محض تمہارے فائدے کے لئے ہیں، ان اوامرونواہی کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ تمہیں کسی مشقت اور تنگی میں مبتلا کرنا نہیں چاہتا بلکہ وہ تمہارے نفوس کا تزکیہ، تمہارے اخلاق کی تطہیر اور تمہارے اعمال کی اصلاح کرنا چاہتا ہے اور اس طرح تمہارے اجر کو بڑا کرنا مقصود ہے۔ الأحزاب
34 جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے ازواج مطہرات کو عمل کا حکم دیا جو فعل و ترک پر مشتمل ہے تو پھر انہیں علم حاصل کرنے کا حکم دیا اور اس کا طریقہ بیان فرمایا، لہٰذا فرمایا : ﴿ وَاذْكُرْنَ مَا يُتْلَىٰ فِي بُيُوتِكُنَّ مِنْ آيَاتِ اللّـٰهِ وَالْحِكْمَةِ ﴾ ” اور تمہارے گھروں میں جو اللہ کی آیات پڑھی جاتی ہیں اور حکمت کی باتیں سنائی جاتی ہیں ان کو یاد رکھو۔“ یہاں آیات الٰہی سے مراد قرآن، حکمت سے مراد قرآن کے اسرار اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنا ذکر کرنے کا حکم دیا جو تلاوت قرآن کے ذریعے سے لفظی ذکر، اس کے معانی میں غور و فکر، اس کے احکام اور اس کی حکمتوں کے استخراج، اس پر عمل اور اس کی تاویل کے ذکر کو شامل ہے۔ ﴿ إِنَّ اللّٰـهَ كَانَ لَطِيفًا خَبِيرًا ﴾ ”بے شک اللہ تعالیٰ باریک بین، خبردار ہے۔“ اللہ تعالیٰ تمام معاملات کے اسرار نہاں، سینوں کے بھید، آسمانوں اور زمین میں چھپی ہوئی تمام چیزوں اور تمام کھلے چھپے اعمال کی خبر رکھتا ہے۔ اس کا لطف و کرم اور خبر گیری اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ وہ انہیں اخلاص للہ اور اعمال کو چھپانے کی ترغیب دے، نیز تقاضا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو ان اعمال کی جزا دے۔(اَلَّلطِیْفُ) اس ہستی کو کہا جاتا ہے جو اپنے بندے کو ایسے مخفی طریقے سے بھلائی عطا کرتی ہے اور شر سے بچاتی ہے، جس کا اسے شعور تک نہیں ہوتا، وہ اسے طرح رزق عطا کرتی ہے کہ اسے اس کا ادراک تک نہیں ہوتا اور وہ اسے ایسے اسباب دکھاتی ہے جسے نفس ناپسند کرتے ہیں، مگر یہ اسباب اس کے لئے بلند درجات اور اعلیٰ مراتب کے حصول کا ذریعہ ہیں۔ الأحزاب
35 اللہ تبارک و تعالیٰ نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات کے لئے ثواب اور (بفرض محال عدم اطاعت کی صورت میں) عذاب کا ذکر کیا اور یہ بھی واضح کیا کہ ان جیسی کوئی عورت نہیں تو اس کے بعد، ان کے علاوہ دیگر عورتوں کا ذکر کیا۔ چونکہ عورتوں اور مردوں کا ایک ہی حکم ہے اس لئے دونوں کے لئے مشترک بیان کیا، چنانچہ فرمایا : ﴿ إِنَّ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَاتِ ﴾ ” بلاشبہ مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں“ یہ شریعت کے ظاہری احکام کے بارے میں ہے جبکہ وہ اسے قائم کریں۔ ﴿ وَالْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ ﴾ ” اور ایمان لانے والے مرد اور ایمان لانے والی عورتیں۔“ یہ باطنی امور کے بارے میں ہے مثلاً عقائد اور اعمال قلوب وغیرہ ﴿ وَالْقَانِتِينَ ﴾ یعنی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنے والے مرد ﴿ وَالْقَانِتَاتِ ﴾ ” اور اطاعت کرنے والی عورتیں“ ﴿ وَالصَّادِقِينَ ﴾ اور سچ بولنے والے مرد“ اپنے قول و فعل میں ﴿ وَالصَّادِقَاتِ ﴾ ” اور سچ بولنے والی عورتیں“ ﴿ وَالصَّابِرِينَ ﴾ ” اور صبر کرنے والے مرد“ مصائب و آلام پر ﴿وَالصَّابِرَاتِ ﴾ اور صبر کرنے والی عورتیں“ ﴿ وَالْخَاشِعِينَ ﴾ ” اور وہ مرد جو عاجزی کرتے ہیں“ اپنے تمام احوال میں، خاص طور پر عبادات میں اور عبادات میں سے خاص طور پر نمازوں میں ﴿ وَالْخَاشِعَاتِ ﴾ ” اور عاجزی کرنے والی عورتیں۔“ ﴿ وَالْمُتَصَدِّقِينَ ﴾ ” اور وہ مرد جو صدقہ دیتے ہیں“ خواہ یہ صدقہ فرض ہو یا نقل ﴿ وَالْمُتَصَدِّقَاتِ ﴾ ” اور صدقہ دینے والی عورتیں“ ﴿ وَالصَّائِمِينَ ﴾ اور روزہ رکھنے والے مرد“ ﴿ وَالصَّائِمَاتِ ﴾ ” اور روزہ رکھنے والی عورتیں۔“ یہ فرض اور نفل تمام روزوں کو شامل ہے۔ ﴿ وَالْحَافِظِينَ فُرُوجَهُمْ ﴾ زنا اور مقدمات زنا سے اپنی شرم گاہ کی حفاظت کرنے والے مرد ﴿ وَالْحَافِظَاتِ ﴾ ” اور حفاظت کرنے والی عورتیں“ ﴿ وَالذَّاكِرِينَ اللّٰـهَ كَثِيرًا ﴾ اور اپنے اکثر اوقات میں خصوصاً مقررہ اذکار کے اوقات میں مثلاً صبح و شام یا فرض نمازوں کے بعد اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے والے مرد ﴿وَالذَّاكِرَاتِ ﴾ ” اور ذکر کرنے والی عورتیں۔ “ ﴿ أَعَدَّ اللّٰـهُ لَهُم ﴾ ” اللہ نے ان کے لئے تیار کر رکھا ہے۔“ یعنی ان لوگوں کے لئے جو ان صفات جمیلہ اور مناقب جلیلہ سے متصف ہیں۔ یہ امور اعتقادات، اعمال قلوب، اعمال جوارح، اقوال لسان، دوسروں کو نفع پہنچانے، بھلائی کے کام کرنے اور شر کو ترک کرنے پر مشتمل ہیں۔ جو کوئی متذکرہ صدر امور پر عمل پیرا ہوتا ہے وہ ظاہری اور باطنی طور پر تمام دین کو قائم کرتا ہے یعنی وہ اسلام، ایمان اور احسان پر عمل کرتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کے عمل کی یہ جزا دی کہ ان کے گناہوں کو بخش دیا، کیونکہ نیکیاں برائیوں کو ختم کردیتی ہیں ﴿ وَأَجْرًا عَظِيمًا ﴾ اور ان کے لئے بہت بڑا اجر تیار کر رکھا ہے جس کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا۔ اس کا اندازہ صرف وہی کرسکے گا جس کو اللہ تعالیٰ عطا کرے گا۔ وہ ایسی نعمتیں ہوں گی جن کو کسی آنکھ نے دیکھا ہے نہ کسی کان نے سنا ہے اور نہ کسی انسان کے دل میں ان کے خیال کا گزر ہوا ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں بھی ان لوگوں میں شامل کرے۔ الأحزاب
36 جو شخص ایمان سے متصف ہے اس کے لئے اس کے سوا اور کچھ مناسب نہیں کہ وہ فوراً اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضا کی طرف سبقت کرے، ان کی ناراضی سے بچے، ان کے حکم کی تعمیل کرے اور جس کام سے وہ روک دیں، اس سے اجتناب کرے۔ کسی مومن مرد اور مومن عورت کے لائق نہیں کہ ﴿ إِذَا قَضَى اللّٰـهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا ﴾ ” جب اللہ اور اس کا رسول کسی معاملے میں کوئی حتمی فیصلہ کردیں“ اور اس کی تعمیل کو لازم قرار دے دیں تو ﴿ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ ﴾ ” ان کے لئے اس فیصلے پر عمل کا اختیار باقی رہے“ کہ آیا وہ اس کام کو کریں یا نہ کریں؟ بلکہ مومن مرد اور مومن عورتیں جانتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی جانوں سے بڑھ کر عزیز ہیں، اس لئے وہ اپنے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درمیان، اپنی کسی خواہش نفس کو حجاب نہ بنائیں۔ ﴿ وَمَن يَعْصِ اللّٰـهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُّبِينًا ﴾ اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے تو وہ صریح گمراہ ہوگیا۔“ یعنی وہ واضح طور پر گمراہ ہوگیا کیونکہ اس نے صراط مستقیم کو ترک کر کے، جو اللہ تعالیٰ کے اکرام و تکریم کے گھر تک جاتا ہے، دوسرا راستہ اختیار کرلیا جو درد ناک عذاب تک پہنچتا ہے۔ سب سے پہلے اس سبب کا ذکر کیا جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم سے عدم معارضہ کا موجب ہے اور وہ ہے ایمان، پھر اس سے مانع کا ذکر فرمایا اور وہ ہے گمراہی سے ڈرانا، جو عذاب اور سزا پر دلالت کرتا ہے۔ الأحزاب
37 ان آیات کریمہ کا سبب نزول یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کے لئے ایک عام قانون مشروع کرنے کا ارادہ فرمایا کہ منہ بولے بیٹے، تمام وجوہ سے، حقیقی بیٹوں کے حکم میں داخل نہیں ہیں اور ان کی بیویوں کے ساتھ، متنبیٰ بنانے والوں کے نکاح کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ یہ معاملہ ان امور عادیہ میں شمار ہوتا تھا جو کسی بہت بڑے حادثے کے بغیر ختم نہیں ہوسکتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا کہ یہ قانون رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قول و فعل کے ذریعے سے وجود میں آئے اور جب اللہ تبارک و تعالیٰ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے لئے کوئی سبب مقرر کردیتا ہے۔ زید بن حارثہ کو ” زید بن محمد“ کہہ کر پکارا جاتا تھا جنہیں نبی مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا متنبیٰ بنایا تھا۔ ان کو ” زید بن محمد“ کہا جاتا رہا حتیٰ کہ یہ آیت کریمہ نازل ہوئی ﴿ ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ ﴾ (الاحزاب :33؍5) ” ان کو ان کے باپوں کی نسبت سے پکارو۔“ تب ان کو زید بن حارثہ کہا جانے لگا۔ ان کی بیوی زینب بنت جحش رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پھوپھی زاد بہن تھیں۔ آپ کو بذریعہ وحی مطلع کردیا گیا تھا کہ زید نے طلاق دے دینی ہے اور اس کے بعد اس کا نکاح آپ سے کردیا جائے گا۔ اس وحی الٰہی کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ یقین رکھتے تھے کہ زید کے طلاق دینے کے بعد آپ اس سے نکاح کرلیں گے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے مقدر کردیا کہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا اور حضرت زید بن حارث رضی اللہ عنہ کے درمیان کچھ ایسے واقعات ہوئے جن کی بنا پر زید رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر حضرت زینب رضی اللہ عنہ کو طلاق دینے کی اجازت طلب کی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَإِذْ تَقُولُ لِلَّذِي أَنْعَمَ اللّٰـهُ عَلَيْهِ ﴾ ” جب آپ اس شخص سے، جس پر اللہ نے احسان کیا، کہہ رہے تھے“ یعنی اللہ تعالیٰ نے اسے اسلام سے سرفراز فرمایا ﴿ وَأَنْعَمْتَ عَلَيْهِ ﴾ ” اور آپ نے بھی اس پر انعام کیا تھا۔“ یعنی آپ نے اس کو آزادی عطا کر کے اور ارشاد و تعلیم کے ذریعے سے اس پر احسان فرمایا تھا۔ جب زید نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس اپنی بیوی کو طلاق دینے کے بارے میں مشورہ طلب کرنے کی غرض سے حاضر ہوئے تو آپ نے اس کی خیر خواہی کرتے اور اس کو اس کی مصلحت سے آگاہ کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ أَمْسِكْ عَلَيْكَ زَوْجَكَ ﴾ ” اپنی بیوی کو اپنے پاس رہنے دو۔“ یعنی اسے طلاق نہ دے اس کی طرف سے تمہیں جو کوئی تکلیف پہنچی ہے اس پر صبر کر ﴿ وَاتَّقِ اللّٰـهَ ﴾ اپنے عام معاملات میں اور خاص طور پر اپنی بیوی کے معاملے میں اللہ تعالیٰ سے ڈر، کیونکہ تقویٰ صبر پر آمادہ کرتا ہے اور اس کا حکم دیتا ہے۔ ﴿ وَتُخْفِي فِي نَفْسِكَ مَا اللّٰـهُ مُبْدِيهِ ﴾ ” اور آپ اپنے دل میں وہ بات پوشید ہر کھتے تھے جس کو اللہ ظاہر کرنے والا تھا۔“ جو چیز آپ نے اپنے دل میں چھپائی ہوئی تھی وہ یہی تھی جس کی اطلاع آپ کو بذریعہ وحی دی گئی تھی کہ اگر زید رضی اللہ عنہ زینب رضی اللہ عنہا کو طلاق دے دے تو آپ اس سے نکاح کرلیں گے۔ ﴿ وَتَخْشَى النَّاسَ ﴾ ” اور آپ لوگوں سے ڈرتے تھے“ اس چیز کے عدم ظہور کے معاملے میں جو آپ کے دل میں ہے۔ ﴿ وَاللّٰـهُ أَحَقُّ أَن تَخْشَاهُ ﴾ ” حالانکہ اللہ اس کا زیادہ حق دار ہے کہ آپ اس سے ڈریں“ کیونکہ اس کا خوف ہر بھلائی کے عطا ہونے کا سبب اور ہر برائی کے روکنے کا ذریعہ ہے۔ ﴿ فَلَمَّا قَضَىٰ زَيْدٌ مِّنْهَا وَطَرًا ﴾ ” پس جب زید رضی اللہ عنہ نے اس سے اپنی ضرورت پوری کرلی۔“ یعنی جب زید رضی اللہ عنہ نے خوش دلی سے اور حضرت زینب رضی اللہ عنہا میں بے رغبتی کے باعث طلاق دے دی ﴿ زَوَّجْنَٰکَهَا ﴾ ” تو ہم نے اس کا نکاح آپ سے کردیا“ اور ہم نے یہ سب کچھ ایک عظیم فائدے کے لئے کیا ﴿ لِكَيْ لَا يَكُونَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ حَرَجٌ فِي أَزْوَاجِ أَدْعِيَائِهِمْ ﴾ ” تاکہ مومنوں کے لئے ان کے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں کے بارے میں کوئی حرج نہ رہے۔“ یہ دیکھ کر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کی مطلقہ سے نکاح کرلیا ہے جو اس سے قبل آپ کا منہ بولا بیٹا تھا۔ چونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد : ﴿ لِكَيْ لَا يَكُونَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ حَرَجٌ فِي أَزْوَاجِ أَدْعِيَائِهِمْ ﴾ تمام احوال میں عام ہے جب کہ بعض احوال میں ایسا کرنا جائز نہیں ہوتا اور وہ حالت حاجت پوری ہونے سے پہلے کی حالت ہے، لہٰذا اللہ تعالیٰ نے اپنے اس فرمان کے ساتھ اسے مقید کردیا کہ ﴿ إِذَا قَضَوْا مِنْهُنَّ وَطَرًا وَكَانَ أَمْرُ اللّٰـهِ مَفْعُولًا ﴾ ” جب وہ ان سے اپنی ضرورت پوری کرچکیں، اور اللہ کا حکم پورا ہو کر رہنے والا تھا۔“ یعنی اللہ تعالیٰ کا حکم پورا ہو کر رہتا ہے اور اس کے لئے کوئی رکاوٹ اور کوئی مانع نہیں بن سکتا۔ ان آیات کریمہ سے، جو اس واقعے پر مشتمل ہیں، متعدد نکات مستنبط ہوتے ہیں : (1)ان آیات کریمہ میں دو لحاظ سے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کی مدح کی گئی ہے۔ (ا) اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں آپ کا نام ذکر کیا ہے جبکہ آپ کے علاوہ صحابہ میں سے کسی صحابی کا نام قرآن مجید میں مذکور نہیں۔ (ب) اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ اس نے زید رضی اللہ عنہ کو نعمت سے نوازا یعنی اسلام اور ایمان کی نعمت سے سرفراز فرمایا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے گواہی ہے کہ زید رضی اللہ عنہ ظاہری اور باطنی طور پر مسلمان اور مومن تھے ورنہ اس نعمت کو ان کے ساتھ مختص کرنے کی کوئی وجہ نہیں، سوائے اس کے کہ اس سے مراد نعمت خاص ہے۔ (2)جس شخص کو آزاد کیا گیا ہو وہ آزاد کرانے والے کا ممنون نعمت ہے۔ (3) ان آیات کریمہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ منہ بولے بیٹے کی مطلقہ سے نکاح جائز ہے جیسا کہ اس کی تصریح کی گئی ہے۔ (4) ان آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ عملی تعلیم، قولی تعلیم سے زیادہ بلیغ اور مؤثر ہے خاص طور پر جب عملی تعلیم قولی تعلیم سے مقرون ہو تو پھر ” سونے پر سہاگہ‘‘ ہے۔ (5) بندے کے دل میں اپنی بیوی اور لونڈی کے علاوہ کسی اور عورت کی رغبت کا پیدا ہوجانا قابل گرفت نہیں ہے، مگر اس شرط کے ساتھ کہ یہ رغبت یا محبت فعل حرام سے مقرون نہ ہو۔ بندہ اس محبت پر گناہگار نہیں خواہ اس کی یہ آرزو ہی کیوں نہ ہو کہ اگر اس کا شوہر اسے طلاق دے دے تو وہ اس سے نکاح کرے گا، مگر کسی بھی سبب سے ان کے درمیان جدائی ڈالنے کے لئے کوشش نہ کرے۔ (6) ان آیات کریمہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی رسالت کو واضح طریقے سے پہنچا دیا۔ آپ کی طرف جو کچھ بھی وحی کیا گیا وہ سب پہنچا دیا اور کچھ بھی باقی نہیں رکھا حتیٰ کہ وہ حکم بھی پہنچایا جس میں آپ پر عتاب کیا گیا تھا اور یہ چیز دلالت کرتی ہے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں اور وہی بات کہتے ہیں جو آپ کی طرف وحی کی جاتی ہے اور آپ اپنی بڑائی نہیں چاہتے۔ (7) آیت کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ جس سے مشورہ طلب کیا جائے وہ امین ہے، جب بھی کسی معاملے میں اس سے مشورہ طلب کیا جائے تو وہ اپنے علم کے مطابق بہترین مشورہ دے اور مشورہ طلب کرنے والے کے مفاد سے مشورہ طلب کیا جائے تو وہ اپنے علم کے مطابق بہترین مشورہ دے اور مشورہ طلب کرنے والے کے مفاد کو اپنی خواہش نفس اور اپنی غرض پر مقدم رکھے، خواہ اس میں اس کا اپنا خط نفس ہی کیوں نہ ہو۔ (8) جو کوئی اپنی بیوی کو طلاق دینے کے لئے مشورہ طلب کرتا ہے، اس کے لئے بہترین رائے یہ ہے کہ جہاں تک اصلاح احوال ممکن ہو، اس کو اپنی بیوی کو طلاق نہ دینے کا مشورہ دیا جائے کیونکہ بیوی کو اپنے پاس رکھنا، طلاق دینے سے بہتر ہے۔ (9) یہ بات متعین ہے کہ بندہ اللہ تعالیٰ کے خوف کو لوگوں کے خوف پر مقدم رکھے اور اللہ تعالیٰ کا خوف ہی زیادہ لائق اور اولیٰ ہے۔ (10) ان آیات کریمہ سے ام المومنین حضرت زینب بنت حجش رضی اللہ عنہا کی فضیلت کا اظہار ہوتا ہے کیونکہ ان کے نکاح کی اللہ تعالیٰ نے سرپرستی فرمائی جس میں کوئی خطبہ تھا نہ گواہ۔ بنا بریں زینب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دیگر ازواج مطہرات پر فخر کا اظہار کیا کرتی تھیں، فرمایا کرتی تھیں :” تمہارا نکاح تمہارے گھر والوں نے کیا ہے میرا نکاح سات آسمانوں پر اللہ تعالیٰ نے کیا ہے۔“ (صحیح البخاری، التوحيد، باب ﴿و کان عرشہ علی الماء﴾ ح :8420) (11) ان آیات سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اگر عورت شادی شدہ ہو اور اس کا شوہر موجود ہو تو اس کے ساتھ نکاح جائز ہے نہ اس کے اسباب میں کوشش کرنا جائز ہے جب تک اس کا شوہر اس سے اپنی حاجت پوری نہ کرے اور اس کی حاجت اس وقت تک پوری نہیں ہوتی جب تک کہ طلاق کی عدت پوری نہ ہوجائے کیونکہ عورت عدت کے ختم ہونے تک اپنے خاوند کی حفاظت میں ہوتی ہے خواہ کسی بھی پہلو سے ہو۔ الأحزاب
38 یہ ان لوگوں کا جواب ہے جو کثرت ازواج کے ضمن میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر زبان طعن دراز کرتے ہیں جب کہ یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس میں طعن کی کوئی گنجائش نہیں، چنانچہ فرمایا : ﴿كَانَ عَلَى النَّبِيِّ مِنْ حَرَجٍ﴾ ” نبی پر کوئی حرج نہیں ہے“ یعنی کوئی گناہ نہیں ہے ﴿فِيمَا فَرَضَ اللّٰـهُ لَهُ﴾ ” ان چیزوں میں جنہیں اللہ تعالیٰ نے مقرر کیا ہے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ نے آپ کے لئے جو بیویاں مقرر کی ہیں، چونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے لئے کثرت از واج کو اسی طرح مباح کیا ہے جس طرح آپ سے پہلے دیگر انبیاء کے لئے مباح کیا، اس لئے فرمایا : ﴿سُنَّةَ اللّٰـهِ فِي الَّذِينَ خَلَوْا مِن قَبْلُ وَكَانَ أَمْرُ اللّٰـهِ قَدَرًا مَّقْدُورًا﴾ ” جو لوگ پہلے گزر گئے ان میں بھی اللہ کا یہی دستور رہا ہے اور اللہ کا حکم ٹھہر چکا ہے۔“ یعنی اس کا وقوع پذیر ہونا ضروری ہے۔ پھر ذکر فرمایا کہ وہ کون لوگ ہیں جو اس سے پہلے گزر چکے ہیں جن کی یہ عادت اور سنت ہے۔ الأحزاب
39 اور یہ وہ لوگ ہیں ﴿الَّذِينَ يُبَلِّغُونَ رِسَالَاتِ اللّٰـهِ﴾ ” جو اللہ کے پیغام پہنچاتے ہیں۔“ جو بندوں کے سامنے اللہ تعالیٰ کی آیتوں اور اس کے دلائل و براہین کی تلاوت کرتے ہیں اور انہیں اللہ کی طرف دعوت دیتے ہیں۔ ﴿وَيَخْشَوْنَهُ ﴾ وہ صرف اللہ وحدہ لاشریک سے ڈرتے ہیں ﴿ وَلَا يَخْشَوْنَ أَحَدًا﴾’ ’اور وہ (اللہ کے سوا) کسی سے نہیں ڈرتے۔ “ یہ انبیائے معصومین کی سنت میں شامل ہے جنہوں نے اپنا وظیفہ ادا کردیا اور اسے مکمل طور پر قائم کیا اور وہ وظیفہ مخلوق کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینا اور صرف اسی کی خشیت کی ترغیب دینا ہے جو ہر فعل مامور کو بجا لانے اور فعل محظور سے اجتناب کرنے کا تقاضا کرتی ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ اس میں کسی طرح بھی کوئی نقص نہیں۔﴿ وَكَفَىٰ بِاللّٰـهِ حَسِيبًا﴾ یعنی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کا محاسبہ کرنے اور ان کے اعمال کی نگرانی کرنے کے لئے کافی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ نکاح تمام انبیاء و مرسلین کی سنت ہے۔ الأحزاب
40 نہیں ہیں رسول اللہ ﴿مُحَمَّدٌ﴾ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ﴿أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ﴾ ” تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ۔“ اس سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کا انتساب منقطع ہوگیا۔ جب یہ نفی تمام احوال میں عام ہے تو اگر لفظ کو اپنے ظاہری معنوں پر معمول کیا جائے، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نسب کے اعتبار سے کسی کے باپ ہیں نہ کسی منہ بولے بیٹے کے باپ ہیں جب کہ گزشتہ سطور میں یہ بات متحقق ہوچکی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام مومنوں کے باپ ہیں اور آپ کی ازواج مطہرات مومنوں کی مائیں ہیں، اس لئے احتراز فرمایا، تاکہ یہ نوع متذکرہ صدر عموم نہی میں داخل نہ ہو، چنانچہ فرمایا : ﴿وَلَـٰكِن رَّسُولَ اللّٰـهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ﴾ ” بلکہ وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں۔“ یہ آپ کا مرتبہ مطاع و متبوع کا مرتبہ ہے۔ آپ پر ایمان لانے والا آپ کی پیروی کرتا ہے، آپ کی محبت کو ہر کسی کی محبت پر مقدم کرتا ہے۔ آپ اہل ایمان کے خیر خواہ ہیں، اپنی خیر خواہی اور حسن سلوک کی بناء پر گویا آپ ان کے باپ ہیں۔ ﴿وَكَانَ اللّٰـهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا﴾ ” اور اللہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔“ یعنی اس کے علم نے تمام اشیاء کا احاطہ کر رکھا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اپنی رسالت کی ذمہ داری کطے عطا کرے؟ کون اس کے فضل و کرم کا اہل اور کون اہل نہیں ہے؟ الأحزاب
41 اللہ تبارک و تعالیٰ اہل ایمان کو حکم دیتا ہے کہ وہ تہلیل و تحمید اور تسبیح و تکبیر وغیرہ کے ذریعے سے کہ جن میں سے ہر کلمہ تقرب الٰہی کا وسیلہ ہے نہایت کثرت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا ذکر کریں۔ قلیل ترین ذکر یہ ہے کہ انسان صبح شام اور نمازوں کے بعد کے اذکار کا التزام کرے نیز مختلف عوارض اور اسباب کے وقت اللہ تعالیٰ کا ذکر کرے۔ اور مناسب یہی ہے کہ تمام اوقات اور تمام احوال میں اللہ تعالیٰ کے ذکر پر دوام کرے، کیونکہ یہ ایک ایسی عبادت ہے جس کے ذریعے سے عمل کرنے والا آرام کرتے ہوئے بھی سبقت لے جاتا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کی معرفت کی طرف دعوت دیتا ہے، بھلائی پر مددگار ہے اور زبان کو گندی باتوں سے باز رکھتا ہے۔ الأحزاب
42 ﴿وَسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَأَصِيلًا﴾ اور صبح شام اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرو کیونکہ صبح اور شام دونوں فضیلت کے حامل اوقات ہیں اور ان میں عمل کرنا بھی نہایت سہل ہوتا ہے۔ الأحزاب
43 ﴿هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ وَمَلَائِكَتُهُ لِيُخْرِجَكُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ وَكَانَ بِالْمُؤْمِنِينَ رَحِيمًا﴾ ” وہی ہے جو تم پر رحمت نازل فرماتا ہے اور اس کے فرشتے بھی تمہارے لئے دعائے مغفرت کرتے ہیں تاکہ وہ تمہیں اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لے جائے اور اللہ مومنوں پر بہت ہی مہربان ہے۔“ یعنی اہل ایمان پر یہ اس کی بے پایاں رحمت اور لطف و کرم ہے کہ اس نے ان کو اپنی برکت، اپنی مدح و ثنا اور فرشتوں کی دعاؤں سے نوازا جو انہیں گناہوں اور جہالت کے اندھیروں سے نکال کر ایمان، توفیق، علم اور عمل کی روشنی میں لاتی ہیں۔ یہ سب سے بڑی نعمت ہے جس سے اس نے اپنے اطاعت کیش بندوں کو سرفراز فرمایا۔ یہ نعمت ان سے اللہ تعالیٰ کے شکر اور کثرت کے ساتھ اس کے ذکر کا مطالبہ کرتی ہے جس نے ان پر رحم اور لطف و کرم کیا۔ اس کے عرش عظیم کو اٹھانے والے اور اس کے ارگرد موجود افضل ترین فرشتے اپنے رب کی تحمید کے ساتھ اس کی تسبیح بیان کرتے ہیں اور الہ ایمان کے لئے اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرتے ہوئے دعا کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں : ﴿رَبَّنَا وَسِعْتَ كُلَّ شَيْءٍ رَّحْمَةً وَعِلْمًا فَاغْفِرْ لِلَّذِينَ تَابُوا وَاتَّبَعُوا سَبِيلَكَ وَقِهِمْ عَذَابَ الْجَحِيمِ رَبَّنَا وَأَدْخِلْهُمْ جَنَّاتِ عَدْنٍ الَّتِي وَعَدتَّهُمْ وَمَن صَلَحَ مِنْ آبَائِهِمْ وَأَزْوَاجِهِمْ وَذُرِّيَّاتِهِمْ إِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ وَقِهِمُ السَّيِّئَاتِ وَمَن تَقِ السَّيِّئَاتِ يَوْمَئِذٍ فَقَدْ رَحِمْتَهُ وَذٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ ﴾(المؤمن:40؍7۔9) ” اے ہمارے رب ! تو نے اپنی رحمت اور علم کے ساتھ ہر چیز کا احاطہ کر رکھا ہے، پس تو ان لوگوں کو بخش دے جنہوں نے توبہ کی اور تیرے راستے کی پیروی کی اور انہیں جہنم کے عذاب سے بچا لے۔ اے ہمارے رب ! تو داخل کر ان کو ہمیشہ رہنے والی جنتوں میں، جن کا تو نے ان کے ساتھ وعدہ کر رکھا ہے اور ان کے والدین، بیویوں اور اولاد میں سے ان لوگوں کو بھی (ان جنتوں میں داخل کر) جو نیک ہیں۔ بے شک تو غالب اور حکمت والا ہے اور تو ان کو برائیوں سے بچا اور جس کو تو نے اس روز برئایوں سے بچا دیا، تو تو نے اس پر رحم کیا اور یہی بہت بڑی کامیابی ہے۔ “ الأحزاب
44 ان پر اللہ تعالیٰ کی یہ رحمت اور نعمت دنیا میں ہے۔ ان پر آخرت میں جو رحمت ہوگی وہ جلیل ترین رحمت اور افضل ترین ثواب ہے اور یہ ہے اپنے رب کی رضا کے حصول میں فوزیاب ہونا، ان کے رب کی طرف سے سلام، اس کے کلام جلیل کا سماع، اس کے چہرہ مبارک کا دیدار اور بہت بڑے اجر کا حصول جس کو کوئی جان سکتا ہے نہ اس کی حقیقی معرفت حاصل کرسکتا ہے، سوائے ان لوگوں کے جن کو وہ خود عطا کر دے، بنا بریں فرمایا : ﴿تَحِيَّتُهُمْ يَوْمَ يَلْقَوْنَهُ سَلَامٌ وَأَعَدَّ لَهُمْ أَجْرًا كَرِيمًا﴾ ” جس روز وہ اس سے ملیں گے ان کا تحفہ سلام ہوگا اور اس نے ان کے لئے اجر کریم تیار رکھا ہے۔ “ الأحزاب
45 یہ صفات گرامی جن سے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو موصوف کیا ہے، آپ کی رسالت کا مقصود و مطلوب اور اس کی بنیاد ہیں، جن سے آپ کو مختص کیا گیا اور وہ پانچ چیزیں ہیں : (1) ﴿شَاهِدًا ﴾ یعنی آپ کا اپنی امت کے اچھے اور برے اعمال پر گواہ ہونا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ لِّتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا﴾ (البقرۃ : 2؍173) ” تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور رسول تم پر گواہ بنیں۔“ اور فرمایا : ﴿ فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِن كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَىٰ هٰـٰؤُلَاءِ شَهِيدًا﴾ (النساء :4؍41) ” پس کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت سے ایک گواہ کو بلائیں گے اور آپ کو ان لوگوں پر گواہ کے طور پر طلب کریں گے۔ “ (2،3) ﴿مُبَشِّرًا وَنَذِيرًا ﴾ یہ مُبَشَّر اور مُنْذَر کے ذکر کو، نیز جس چیز کی خوش خبری دی جائے اور جس سے ڈرایا جائے اور انذار و تبشیر والے اعمال کے ذکر کو مستلزم ہے۔ پس (اَلْمُبَشَّرُ) ” جس کو خوش خبری دی گئی ہو“ سے مراد اہل ایمان اور اہل تقویٰ لوگ ہیں جنہوں نے ایمان اور عمل صالح کو جمع اور معاصی کو ترک کیا ہے۔ ان کے لئے دنیا ہی میں ہرقسم کے دینی اور دنیاوی ثواب کی بشارت ہے جو ایمان اور تقویٰ پر مترتب ہوتا ہے اور آخرت میں ان کے لئے ہمیشہ رہنے والی نعمتیں ہیں۔ یہ سب کچھ اعمال کی تفاصیل تقویٰ کے خصائل اور ثواب کی اقسا م کے ذکر کو مستلزم ہے۔ (اَلْمُنْذَرُ) سے مراد مجرم، ظالم اور جاہل لوگ ہیں، جن کے لئے اس دنیا میں دینی اور دنیاوی عقوبات کے ذریعے سے ڈرانا ہے جو ظلم اور جہالت پر مترتب ہوتی ہیں اور آخرت میں ہمیشہ رہنے والا درد ناک عذاب ہوگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو کتاب و سنت لائے ہیں یہ جملہ تفاصیل اسی پر مشتمل ہیں۔ (4) ﴿ وَدَاعِيًا إِلَى اللّٰـهِ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس لئے مبعوث فرمایا تاکہ آپ مخلوق کو ان کے رب کی طرف دعوت دیں، ان میں اللہ تعالیٰ کے اکرام و تکریم کا شوق پیدا کریں اور ان کو اس کی عبادت کا حکم دیں جس کے لئے ان کو تخلیق کیا گیا ہے۔ یہ چیز ان امور پر استقامت کا تقاضا کرتی ہے جن کی دعوت دی گئی ہے اور یہ چیز ان کے اپنے رب کی، اس کی صفات مقدسہ کے ذریعے سے معرفت اور جو صفات اس کے جلال کے لائق نہیں ان صفات سے اس کی ذات مقدس کی تنزیہ جیسے امور کی تفاصیل کا تذکرہ ہے جن کی طرف انہیں دعوت دی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے عبودیت کی مختلف انواع، قریب ترین راستے کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینے، ہر حقدار کو اس کا حق عطا کرنے کا ذکر کیا ہے، نیز اس بات کا تذکرہ کیا ہے کہ دعوت الی اللہ اپنے نفس کی تعظیم کے لئے نہ ہو بلکہ خالص اللہ تعالیٰ کے لئے ہوجیسا کہ اس مقام پر بہت سے نفوس کو کبھی کبھی یہ عارضہ لاحق ہوتا ہے اور یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہوتا ہے۔ (٥) ﴿سِرَاجًا مُّنِيرًا﴾ روشن چراغ“ یہ لفظ دلالت کرتا ہے کہ تمام مخلوق بہت بڑی تاریکی میں ڈوبی ہوئی تھی جہاں روشنی کی کوئی کرن نہ تھی جس سے راہنمائی حاصل کی جاسکتی، نہ کوئی علم تھا کہ اس جہالت میں کوئی دلیل مل سکتی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اس نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مبعوث فرمایا۔ آپ کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے تاریکیوں کا پردہ چاک کردیا، آپ کے ذریعے سے جہالتوں کے اندھیروں میں علم کی روشنی پھیلائی اور آپ کے ذریعے سے گمراہوں کو سیدھا راستہ دکھایا۔ پس اہل استقامت کے لئے راستہ واضح ہوگیا اور وہ اس راہنما صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے چل پڑے۔ انہوں نے اس کے ذریعے سے خیر و شر، اہل سعادت اور اہل شقاوت کو پہچان لیا۔ انہوں نے اپنے رب کی معرفت کے لئے اس سے روشنی حاصل کی اور انہوں نے اپنے رب کو اس کے اوصاف حمیدہ، افعال سدیدہ اور احکام رشیدہ کے ذریعے سے پہچان لیا۔ الأحزاب
46 الأحزاب
47 ﴿وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ بِأَنَّ لَهُم مِّنَ اللّٰـهِ فَضْلًا كَبِيرًا﴾ ” آپ مومنوں کو خوش خبری سنا دیجیے کہ ان کے لئے اللہ کے طرف سے بہت بڑا فضل ہے۔“ اس جملے میں ان لوگوں کا ذکر کیا گیا ہے جن کو خوش خبری دی گئی ہے اور وہ اہل ایمان ہیں۔ جب کہیں ایمان کو مفرد طور پر ذکر کیا جائے تو اس میں عمل صالح داخل ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان امور کا بھی ذکر کیا جن کی خوش خبری دی گئی ہے اور وہ ہے اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا اور جلیل القدر فضل، جس کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا مثلاً اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے نصرت، ہدایت، قلوب، گناہوں کی بخشش، تکلیفوں کا دور ہونا، رزق کی کثرت اور ارزنی، خوش کن نعمتوں کا حصول، اپنے رب کی رضا اور اس کے ثواب کے حصول میں کامیابی اور اس کی ناراضی اور اس کے عذاب سے نجات۔ یہ وہ امور ہیں جن کے ذکر سے عمل کرنے والوں کو نشاط حاصل ہوتا ہے، جن سے وہ صراط مستقیم پر گامزن ہونے میں مدد لیتے ہیں۔ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے۔ جیسا کہ یہ بھی اس کی حکمت ہے کہ وہ ترہیب کے مقام پر عقوبتوں کا ذکر کرتا ہے جو ان افعال پر مترتب ہوتی ہیں جن سے ڈرایا گیا ہے تاکہ یہ ترہیب ان امور سے باز رہنے میں مدد دے جن کو اللہ تعالیٰ نے حرام ٹھہرایا ہے۔ الأحزاب
48 لوگوں میں سے ایک گروہ، دعوت الی اللہ کا کام کرنے والے انبیاء و مرسلین اور ان کے متعبین کی راہ روکنے کے لئے ہر وقت مستعد رہتا ہے۔ یہ وہ منافق ہیں جو ایمان کا اظہار کرتے ہیں جب کہ باطن میں درحقیقت کافر اور فاجر ہوتے ہیں اور وہ کفار ہیں جو ظاہر اور باطن میں کافر ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان کی اطاعت کرنے سے روکا ہے اور ان کے برے منصوبوں سے ہوشیار کیا ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿وَلَا تُطِعِ الْكَافِرِينَ وَالْمُنَافِقِينَ﴾ ” اور کافروں اور منافقوں کا کہنا نہ ماننا“ یعنی کسی بھی ایسے معاملے میں ان کی بات نہ مانیں جو اللہ تعالیٰ کے راستے سے روکے۔ یہ بات ان کو اذیت دینے کا تقاضا نہیں کرتی بلکہ حکم یہ ہے کہ آپ ان کی اطاعت نہ کیجیے۔ ﴿وَدَعْ أَذَاهُمْ﴾ ” اور انہیں اذیت پہنچانے کو ترک کردیں“ کیونکہ یہ چیز ان کو قبول اسلام کی طرف بلاتی ہے، آپ کو اور آپ کے گھر والوں کو بہت سی اذیتوں سے بچاتی ہے۔ ﴿وَتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰـهِ﴾ اپنے کام کی تکمیل اور اپنے دشمن کے خذلان میں اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کیجیے۔ ﴿وَكَفَىٰ بِاللّٰـهِ وَكِيلًا﴾ ” اور اللہ ہی کار ساز کافی ہے۔“ بڑے بڑے امور اس کے سپرد کئے جاتے ہیں۔ وہ ان کا انتظام کرتا ہے اور انہیں اپنے بندے کے لئے آسان کردیتا ہے۔ الأحزاب
49 اللہ تبارک و تعالیٰ اہل ایمان کو آگاہ فرماتا ہے کہ جب وہ مومن عورتوں کے ساتھ نکاح کریں، پھر ان کو چھوئے بغیر طلاق دے دیں تو اس صورت میں مطلقہ عورتوں پر کوئی عدت نہیں، مگر اللہ مردوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ اس صورت میں بھی ان کو کچھ متاع دیں جو ان کی اس دل شکنی کا ازالہ کرے جو انہیں طلاق کی وجہ سے لاحق ہوئی ہے، نیز انہیں حکم دیتا ہے کہ وہ کسی مخاصمت، گالی گلوچ اور کسی مطالبہ وغیرہ کے بغیر اچھے طریقے سے ان کو علیحدہ کریں۔ اس آیت مبارکہ سے استدلال کیا جاتا ہے کہ طلاق صرف نکاح کے بعد ہوتی ہے اگر کوئی شخص نکاح سے پہلے اپنی ہونے والی بیوی کو طلاق دے دے یا طلاق کو نکاح پر معلق کر دے، تو یہ طلاق واقع نہیں ہوگی، اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : ﴿إِذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوهُنَّ﴾ ” جب تم مومن عورتوں سے نکاح کرو پھر ان کو طلاق دے دو۔“ یہاں اللہ تعالیٰ نے طلاق کو نکاح کے بعد مقرر فرمایا ہے۔ پس یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ نکاح سے قبل طلاق کا کوئی مقام نہیں، چونکہ طلاق ایک مکمل جدائی اور مکمل تحریم ہے اس لئے نکاح سے قبل واقع نہیں ہوسکتی۔ جب یہ بات ہے تو ظہار یا ایلا وغیرہ کا، جو کہ تحریم ناقص ہے، نکاح سے قبل واقع نہ ہونا تو زیادہ اولیٰ ہے جیسا کہ اہل علم کی صحیح ترین رائے ہے۔ یہ آیت کریمہ طلاق کے جواز پر دلالت کرتی ہے کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اہل ایمان کی طلاق کے بارے میں خبر دی، اس پر ان کو کوئی ملامت کی نہ ان پر کوئی گرفت کی، حالانکہ آیت کریمہ اہل ایمان سے خطاب کے ساتھ صادر ہوئی ہے۔ یہ آیت کریمہ اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ بیوی کو چھوئے بغیر طلاق دی جاسکتی ہے جیسا کہ ایک دوسری آیت میں فرمایا : ﴿لَّا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِن طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ مَا لَمْ تَمَسُّوهُنَّ﴾ (البقرۃ:2؍236) ” تم پر کوئی گناہ نہیں اگر تم اپنی بیویوں کو چھوئے بغیر طلاق دے دو۔ “ یہ آیت کریمہ اس بات پر دلیل ہے کہ اگر عورت کو دخول سے قبل طلاق دے دی جائے تو اس پر مجرد طلاق کی بنا پر عدت واجب نہیں ہوتی، اس کے لئے دوسرا نکاح کرنا جائز ہے، کیونکہ کوئی مانع موجود نہیں ہے۔ اس سے یہ بھی مستفاد ہوتا ہے کہ دخول اور چھونے کے بعد طلاق دینے سے عدت واجب ہوجاتی ہے۔ کیا ” دخول“ اور ” چھونے“ سے مراد و فقط مجامعت ہے۔ جیسا کہ اس پر تو اجماع ہے؟ یا خلوت کا بھی یہی حکم ہے خواہ اس میں مجامعت نہ ہوئی ہوجیسا کہ خلفائے راشدین کا فتویٰ ہے اور یہی صحیح ہے۔ جب بیوی کے ساتھ خلوت حاصل ہوگئی خواہ اس خلوت میں مجامعت ہوئی یا نہ ہوئی مجرد اس خلوت کی بنا پر عدت واجب ہوگی۔ [خلوت کا معتبر قرار دینے کا مذہب جمہور علماء کا ہے اور راجح بھی یہی ہے جیسا کہ مؤلف نے وضاحت کی ہے۔ لیکن اس بات کا خیال رہے کہ خلوت ہوئی اور پھر مشاجرت ہوئی لیکن کسی یقینی ذریعے سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ مجامعت نہیں ہوئی تو عدت نہیں ہوگی۔] اس آیت کریمہ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اگر چھونے سے قبل عورت کو طلاق دے دی جائے، تو خوش حال خاوند پر اس کی حیثیت کے مطابق اور تنگ دست خاوند پر اس کی حیثیت کے مطابق اس مطلقہ بیوی کو ” متاع“ دینا واجب ہے مگر یہ اس صورت میں ہے جب مہر مقرر نہ کیا گیا ہو اور اگر مہر مقرر کردیا گیا ہو اور چھونے سے قبل بیوی کو طلاق دے دی گئی ہو تو نصف مہر کی ادائیگی واجب ہے، تب یہ مہر ” متاع“ کے بدل میں بھی کفایت کرتا ہے۔ اس آیت کریمہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ جو کوئی اپنی بیوی کو دخول سے قبل یا بعد میں طلاق دیتا ہے تو اس کے لئے مناسب یہی ہے کہ وہ نہایت اچھے اور بھلے طریقے سے طلاق دے کہ دونوں ایک دوسرے کی تعریف کریں۔ اگر دونوں ایک دوسرے میں جرح و قدح کریں اور ایک دوسرے میں کیڑے نکالیں تو یہ جدائی ” بھلے طریقے“ سے جدائی نہیں ہے۔ اس آیت کریمہ سے یہ بھی مستنبط ہوتا ہے کہ عدت خاوند کا حق ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد : ﴿ فَمَا لَكُمْ عَلَيْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ﴾” تو ان پر تمہارا کوئی حق عدت نہیں ہے۔“ کا مفہوم مخالف دلالت کرتا ہے کہ اگر خلوت کے بعد طلاق دی ہوتی تو خاوند کے حق میں عورت پر عدت واجب تھی۔ آیت کریمہ اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ اگر مفارقت خاوند کی وفات کے باعث ہو تو وہ مطلق طور پر عدت گزارے گی۔ جیسا کہ آیت کریمہ ﴿ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوهُنَّ﴾ ” پھر تم ان کو طلاق دو۔“ سے ظاہر ہوتا ہے۔ اس آیت کریمہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ اس بیوی کے علاوہ جس کے ساتھ خلوت نہ ہوئی ہو، دیگر بیویوں پر عدت واجب ہے، خواہ ان کے درمیان خاوند کی موت کی وجہ سے مفارقت ہوئی ہو یا اس کی زندگی میں کسی وجہ سے مفارقت ہوئی ہو۔ الأحزاب
50 اللہ تعالیٰ اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)پر اپنے احسانات کا ذکر کرتا ہے کہ اس نے آپ پر کچھ ایسی چیزیں حلال ٹھہرائیں جو مومنوں کے لئے بھی حلال ہیں اور کچھ چیزیں ایسی بھی حلال ٹھہرائیں جو صرف آپ کے لئے مختص ہیں، چنانچہ فرمایا : ﴿ يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَحْلَلْنَا لَكَ أَزْوَاجَكَ اللَّاتِي آتَيْتَ أُجُورَهُنَّ﴾ ” اے نبی ! ہم نے تیرے لئے تیری وہ بیویاں حلال کردی ہیں جنہیں تو ان کا اجر دے چکا ہے۔“ یعنی آپ نے جن بیویوں کو مہر عطا کردیا ہے۔ یہ ان امور میں شمار ہوتا ہے جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور دیگر اہل ایمان کے درمیان مشترک ہیں، کیونکہ اہل ایمان کے لئے بھی ان کی وہی بیویاں مباح ہیں جن کو انہوں نے حق مہر ادا کردیا ہے۔ ﴿ وَ﴾ ” اور“ اسی طرح ہم نے آپ کے لئے مباح کردیں ﴿ مَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ﴾ وہ لونڈیاں جو آپ کی ملکیت ہیں۔ ﴿ مِمَّا أَفَاءَ اللّٰـهُ عَلَيْكَ﴾ ” ان لونڈیوں میں سے جو اللہ نے تمہیں مال غنیمت سے عطا کی ہیں۔“ یعنی کفار کے مال غنیمت میں جو غلام یا آزاد عورتیں ہاتھ لگیں اور ان عورتوں کے خواہ خاوند ہوں یا نہوں وہ مباح ہیں۔ یہ بھی نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اہل ایمان کے درمیان مشترک ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد مشترک ہے : ﴿وَبَنَاتِ عَمِّكَ وَبَنَاتِ عَمَّاتِكَ وَبَنَاتِ خَالِكَ وَبَنَاتِ خَالَاتِكَ﴾ ”اور تمہارے چچوں کی بیٹیاں اور تمہاری پھپوپھیوں کی بیٹیاں اور تمہارے ماموؤں کی بیٹیاں اور تمہاری خالاؤں کی بیٹیاں۔“ اس میں قریب اور دور کے چچا، پھوپھی، ماموں اور خالہ، سب شامل ہیں۔ یہ مباح عورتوں کا حصر ہے۔ اس سے مفہوم مخالف یہ اخذ کیا گیا کہ ان اقارب کے علاوہ دیگر اقارب مباح نہیں ہیں جیسا کہ سورۃ النساء میں گزر چکا ہے۔ پس مذکورہ بالا ان چار رشتہ دار عورتوں کے سوا کوئی رشتہ دار عورت مباح نہیں خواہ وہ فروع میں سے ہوں یا اصول میں سے۔ باپ اور ماں کی فروع میں سے خواہ کتنا ہی نیچے چلے جائیں اور ان سے اوپر کی فروع اپنے صلب کی بنا پر، اس لئے کہ وہ مباح نہیں۔ ﴿ اللَّاتِي هَاجَرْنَ﴾ ” جو آپ کے ساتھ وطن چھوڑ کر آئی ہیں۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے مذکورہ بالا عورتوں کی حلت اس قید سے مقید ہے۔ اس آیت کریمہ کی تقسیم میں منقول دو میں سے یہی قول قرین صواب ہے۔ آپ کے سوا دیگر اہل ایمان کے لئے یہ قید صحیح نہیں۔ ﴿ وَ” اور“ ہم نے آپ کے لئے حلال کردیا ﴿ امْرَأَةً مُّؤْمِنَةً إِن وَهَبَتْ نَفْسَهَا لِلنَّبِيِّ﴾ ” اس مومن عورت کو بھی جو اپنا نفس نبی کو ہبہ کر دے“ اس کے اپنا نفسہ ہبہ کردینے ہی سے ﴿ إِنْ أَرَادَ النَّبِيُّ أَن يَسْتَنكِحَهَا ﴾ ” اگر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی اس سے نکاح کرنا چاہیں“ یہ آپ کے ارادے اور رغبت پر منحصر ہے۔ ﴿ خَالِصَةً لَّكَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ﴾ ” یہ خاص آپ ہی کے لئے ہے مومنوں کے لئے نہیں۔“ یعنی یہ ہبہ کی اباحت دیگر مومنوں کے لئے جائز نہیں کہ وہ کسی ایسی عورت کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوں جو اپنے آپ کو ان کے لئے ہبہ کردیتی ہے۔ ﴿ قَدْ عَلِمْنَا مَا فَرَضْنَا عَلَيْهِمْ فِي أَزْوَاجِهِمْ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ﴾ یعنی ہم خوب جانتے ہیں کہ اہل ایمان پر کیا واجب ہے، ان کے لئے بیویوں اور لونڈیوں میں سے کیا حلال ہے اور کیا حلال نہیں ہے اور اس حلت و حرمت کے بارے میں ہم نے ان کو آگاہ بھی کردیا ہے اور ان کے فرائض بھی واضح کردیئے ہیں۔ اس آیت کریمہ میں جو احکامات دوسرے لوگوں کے مخالف ہیں وہ آپ کے لئے خاص ہیں کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ نے صرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مخاطب کیا ہے۔ فرمایا : ﴿ يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَحْلَلْنَا لَكَ﴾ ” اے نبی ! ہم نے آپ کے لئے حلال کی ہیں“ نیز فرمایا : ﴿خَالِصَةً لَّكَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ﴾ یعنی اے نبی ! ہم نے آپ کے لئے ایسی چیزیں مباح کی ہیں جو دوسروں کے لئے مباح نہیں کیں اور آپ کو جو وسعت عطا کی ہے وہ دوسروں کو عطا نہیں کی ﴿ لِكَيْلَا يَكُونَ عَلَيْكَ حَرَجٌ﴾ ” تاکہ آپ پر کسی طرح کی تنگی نہ رہے۔“ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ پر عنایت خاص ہے۔ ﴿ وَكَانَ اللّٰـهُ غَفُورًا رَّحِيمًا﴾ ” اور اللہ معاف کرنے والا، رحم کرنے والا ہے۔“ یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیشہ سے مغفرت اور رحمت کی صفات سے متصف ہے۔ وہ اپنے بندوں پر اپنی حکمت اور انکی طرف سے عمل کے اسباب کے مطابق، اپنی مغفرت و رحمت اور اپنا جو دو احسان نازل کرتا ہے۔ الأحزاب
51 نیز یہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر رحمت اور آپ کے لئے وسعت ہے کہ آپ کو اپنی ازواج مطہرات کی باریوں کی تقسیم کے ترک کرنے کو مباح فرمایا۔ اگر آپ ان کی باریاں مقرر کرتے ہیں تو یہ آپ کی نوازش ہے۔ اس کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی اواج مطہرات کے درمیان ہر چیز تقسیم کر رکھی تھی۔ آپ فرمایا کرتے تھے :” اے اللہ ! یہ میری تقسیم ہے جو میرے بس میں ہے اور جو میرے بس میں نہیں (اے اللہ !) اس پر مجھے ملامت نہ کرنا۔“ [سنن ابی داؤد، النکاح، باب فی القسم بین النساء، ج 2134 امام البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کے مرسل ہونے کو راجح قرار دیتے ہوئے اسے ضعیف کہا ہے لیکن اس کا پہلا جملہ (یقسم بیننا فیعدل) دوسری حسن حدیث سے ثابت ہے اور دوسرا اپنے معنی و مفہوم کے لحاظ سے درست ہے۔ جبکہ حماد بن سلمہ نے اس حدیث کو موصولاً بیان کیا ہے۔ مزید تفصیل کے لئے دیکھیں الارواء 7؍81حدیث نمبر 2018 ] یہاں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿تُرْجِي مَن تَشَاءُ مِنْهُنَّ﴾ اپنی ازواج مطہرات میں سے جس کو چاہیں الگ رکھیں، اس کو اپنے پاس بلائیں نہ اس کے پاس رات بسر کریں۔ ﴿وَتُؤْوِي إِلَيْكَ مَن تَشَاءُ﴾ اور جس کو چاہیں اپنے پاس بلائیں اور اس کے ہاں رات بسر کریں۔ ﴿وَ﴾ ” اور“ اس کے باوجود یہ امر متعین نہیں ﴿مَنِ ابْتَغَيْتَ﴾ جس کو چاہو اپنے پاس بلا لو ﴿فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكَ﴾ ” تو آپ پر کوئی مضائقہ نہیں۔“ معنی یہ ہے کہ آپ کو مکمل اختیار ہے۔ بہت سے مفسرین کی رائے یہ ہے کہ یہ حکم ان عورتوں کے بارے میں خاص ہے جو اپنے آپ کو ہبہ کریں کہ آپ کو اختیار ہے جسے چاہیں الگ رکھیں اور جسے چاہیں بلا کر اپنے پاس رکھیں، یعنی اگر آپ چاہیں تو اس عورت کو قبول کرلیں جس نے خود کو آپ کے لئے ہبہ کردیا اور اگر آپ چاہیں تو قبول نہ کریں۔ واللہ اعلم پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس کی حکمت واضح کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ذٰلِكَ﴾ ” یہ“ یعنی یہ وسعت، تمام معاملے کا آپ کے اختیار میں ہونا اور اس معاملے میں آپ کا ان عورتوں پر کوئی عنایت اور نوازش کرنا ﴿أَدْنَىٰ أَن تَقَرَّ أَعْيُنُهُنَّ وَلَا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِمَا آتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَّ﴾ ” اس میں اس بات کی زیادہ توقع ہے کہ ان کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں اور وہ غم ناک نہ ہوں اور آپ جو کچھ ان کو دیں اسے لے کر وہ سب خوش رہیں“ کیونکہ انہیں علم ہوگا کہ آپ نے کسی واجب کو ترک کیا ہے نہ کسی واجب حق کی ادائیگی میں کوتاہی کی ہے۔ ﴿ وَاللّٰـهُ يَعْلَمُ مَا فِي قُلُوبِكُمْ﴾ ” اور جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے اسے اللہ جانتا ہے۔“ حقوق واجبہ و مستحبہ کی ادائیگی اور حقوق میں مزاحمت کے وقت دلوں میں جو خیال گزرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے خوب جانتا ہے۔ اس لئے اے اللہ کے رسول ! آپ کے لئے یہ وسعت مشروع کی گئی ہے تاکہ آپ کی ازواج کا دل مطمئن رہے۔ ﴿وَكَانَ اللّٰـهُ عَلِيمًا حَلِيمًا﴾ اور اللہ تعالیٰ وسیع علم اور کثیر حلم والا ہے۔ یہ اس کا علم ہی ہے کہ اس نے تمہارے لئے وہ چیز مشروع کی ہے جو تمہارے معاملات کے لئے درست اور تمہارے اجر میں اضافہ کرنے کی باعث ہے اور یہ اس کا حلم ہے کہ تم سے جو کو تاہیاں صادر ہوئیں اور تمہارے دلوں نے جس برائی پر اصرار کیا، اس نے اس پر تمہاری گرفت نہیں فرمائی۔ الأحزاب
52 یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات کی قدر دانی ہے اور اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے اپنے بندوں کے اعمال کا قدر دان ہے۔۔۔ کہ اس نے ان کو اپنے سایہ رحمت میں لے لیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو انھی پر اقتصار و انحصار کرنے کا حکم دیا کیونکہ انہوں نے اللہ کے رسول اور آخرت کو چنا تھا، چنانچہ فرمایا : ﴿ لَّا يَحِلُّ لَكَ النِّسَاءُ مِن بَعْدُ ﴾ ” ان کے سوا اور عورتیں آپ کے لئے جائز نہیں۔“ یعنی ان موجودہ ازواج مطہرات کے بعد ﴿وَلَا أَن تَبَدَّلَ بِهِنَّ مِنْ أَزْوَاجٍ﴾ ” اور نہ یہ کہ آپ ان بیویوں کو چھوڑ کر اور بیویاں کرلیں۔“ یعنی ان میں سے کسی کو طلاق دے کر، اس کی جگہ کسی اور کو نکاح میں نہ لائیں۔ اس آیت کریمہ کی بنا پر وہ طلاق اور سوکنوں سے محفوظ و مامون ہوگئیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں فیصلہ فرما دیا کہ وہ دنیا و آخرت میں آپ کی بیویاں ہیں۔ آپ اور ان کے درمیان کبھی جدائی نہ ہوگی۔ ﴿وَلَوْ أَعْجَبَكَ حُسْنُهُنَّ﴾ ” خواہ ان (کے علاوہ کسی اور) کا حسن آپ کو کتنا ہی اچھا کیوں نہ لگے“ وہ آپ کے لیے حلال نہیں ﴿إِلَّا مَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ﴾ یعنی سوائے لونڈیوں کے جو آپ کی ملکیت میں آجائیں، وہ آپ کے لئے حلال ہیں کیونکہ لونڈیاں، بیویوں کی ناپسندیگی میں، بیویوں کو نقصان پہنچانے میں، بیویوں کے مقام پر نہیں۔ ﴿وَكَانَ اللّٰـهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ رَّقِيبًا﴾ یعنی اللہ تعالیٰ تمام امور کا نگہبان ہے اور ان تمام امور کو جانتا ہے جو اس کی طرف لوٹتے ہیں۔ وہ کامل ترین نظام اور بہترین احکام کے ساتھ ان کی تدبیر کرتا ہے۔ الأحزاب
53 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھروں میں داخل ہوتے وقت آپ کے آداب کا خیال رکھا کریں، لہٰذا فرمایا : ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلَّا أَن يُؤْذَنَ لَكُمْ إِلَىٰ طَعَامٍ﴾ یعنی کھانے کے لئے داخلے کی اجازت کے بغیر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر میں داخل نہ ہوا کرو اور نہ تم ﴿نَاظِرِينَ إِنٰهُ﴾ کھانا تیار ہونے اور اس کے پکنے کا انتظار کیا کرو اور کھانے سے فارغ ہونے کے بعد لوٹنے میں تاخیر نہ کیا کرو۔ اس کا معنی یہ ہے کہ تم دو شرائط کے ساتھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھروں میں داخل ہوا کرو : (1) داخل ہونے کی اجازت ملنے کے بعد (2) تمہارا آپ کے گھر میں بیٹھنا ضرورت کے مطابق ہو۔ اسی لئے فرمایا : ﴿وَلَـٰكِنْ إِذَا دُعِيتُمْ فَادْخُلُوا فَإِذَا طَعِمْتُمْ فَانتَشِرُوا وَلَا مُسْتَأْنِسِينَ لِحَدِيثٍ﴾ ” لیکن جب تمہیں دعوت دی جائے تو جاؤ اور جب کھانا کھا چکو تو چل دو اور باتوں میں جی لگا کر نہ بیٹھو۔“ یعنی کھانے سے پہلے یا بعد میں باتیں کرنے نہ لگ جاؤ۔ پھر اس ممانعت کی حکمت اور فائدہ بیان کرتے ہوئے فرمایا : ﴿إِنَّ ذَٰلِكُمْ﴾ یعنی ضرورت سے زیادہ تمہارا وہاں انتظار کرنا ﴿كَانَ يُؤْذِي النَّبِيَّ﴾ ” نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تکلیف دیتا ہے‘‘ یعنی وہاں تمہارا بیٹھ کر آپ کو اپنے کام کاج اور دیگر معاملات سے روکے رکھنا، آپ پر شاق گزرتا ہے اس سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تکلیف ہوتی ہے۔ ﴿فَيَسْتَحْيِي مِنكُمْ﴾ یعنی وہ شرم کی وجہ سے تمہیں یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہاں سے چلے جاؤ۔ جیسا کہ عادت جا ریہ ہے کہ لوگ۔۔۔ خاص طور پر شرفاء اور باوقار لوگ۔۔۔ لوگوں کو اپنے گھروں سے نکالتے ہوئے شرماتے ہیں ﴿وَ﴾ ” اور“ لیکن ﴿اللّٰـهُ لَا يَسْتَحْيِي مِنَ الْحَقِّ﴾ ” اللہ تعالیٰ حق سے نہیں شرماتا۔“ شرعی معاملے میں اگر یہ تو ہم لاحق ہو کہ اس کے ترک کرنے میں ادب اور حیا ہے، تو کامل حزم و احتیاط یہ ہے کہ شریعت کی پیروی کی جائے اور یہ یقین رکھا جائے کہ جو چیز شریعت کے خلاف ہے اس میں کوئی ادب نہیں۔ اللہ تعالیٰ تمہیں ایسا حکم دینے سے نہیں شرماتا جس میں تمہارے لئے بھلائی اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے نرمی ہو خواہ یہ حکم کیسا ہی کیوں نہ ہو۔ یہ تو تھے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھروں میں داخل ہونے کے آداب اور رہے آپ کی ازواج مطہرات سے مخاطب ہونے کے آداب، تو اس میں دو امور ہیں کہ آیا ازواج مطہرات سے مخاطب ہونے کی کوئی حقیقی ضرورت ہے یا نہیں؟ اگر بات چیت کرنے کی کوئی حقیقی ضرورت نہیں تو اس کو ترک کرنا ہی ادب ہے۔ اگر کوئی حقیقی ضرورت لاحق ہے، جیسے ان سے کوئی چیز، مثلاً گھر کے برتن وغیرہ طلب کرنا، تو یہ چیزیں ان سے طلب کی جائیں ﴿مِن وَرَاءِ حِجَابٍ﴾ ” پردہ کے پیچھے سے،“ یعنی تمہارے درمیان اور اوزاج مطہرات کے درمیان ایک پردہ حائل ہو، جو نظر پڑنے سے بچائے کیونکہ دیکھنے کی ضرورت نہیں تو معلوم ہوا ازواج مطہرات کو دیکھنا ہر حال میں ممنوع ہے اور ان سے ہم کلام ہونے میں تفصیل ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے ذکر فرما دیا ہے۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ذَٰلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ﴾ ” یہ تمہارے اور انکے دلوں کے لئے بہت پاکیزگی کی بات ہے“ کیونکہ یہ طریقہ کسی قسم کے شہبے سے بعید تر ہے اور انسان شر کی طرف دعوت دینے والے اسباب سے جتنا دور رہے گا تو یہ چیز اس کے قلب کے لئے اتنی ہی زیادہ سلامتی اور پاکیزگی کا باعث ہوگی۔ بنا بریں اللہ تبارک و تعالیٰ نے تمام شرعی امور کی کثرت سے تفاصیل بیان کی ہیں، نیز یہ بھی واضح کیا ہے کہ برائی کے تمام وسائل، اسباب اور مقدمات ممنوع ہیں اور ہر طریقے سے ان سے دور رہنا مشروع ہے، پھر ایک جامع بات اور ایک عام قاعدہ کلیہ بیان کرتے ہوئے فرمایا : ﴿مَا كَانَ لَكُمْ﴾ اے مومنو ! تمہارے لائق ہے نہ یہ مستحسن ہے، بلکہ یہ قبیح ترین بات ہے ﴿أَن تُؤْذُوا رَسُولَ اللّٰـهِ﴾ ” کہ تم رسول اللہ کو تکلیف پہنچاؤ۔“ یعنی قول و فعل اور ان سے متعلق تمام امور کے ذریعے سے اذیت پہنچاؤ۔ ﴿وَلَا أَن تَنكِحُوا أَزْوَاجَهُ مِن بَعْدِهِ أَبَدًا﴾ ” اور نہ (تمہارے لئے یہ حلال ہے کہ) آپ کے بعد کسی وقت بھی آپ کی بیویوں سے نکاح کرو۔“ یہی چیز ان جملہ امور میں داخل ہے جن سے آپ کو اذیت پہنچتی ہے۔ بے شک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تعظیم اور رفعت و اکرام کے مقام کے حامل ہیں آپ کے بعد آپ کی ازواج مطہرات سے نکاح کرنا، اس مقام کے منافی ہے، نیز ازواج مطہرات، دنیا و آخرت میں آپ کی بیویاں ہیں، زوجیت کا یہ رشتہ آپ کی وفات کے بعد بھی باقی ہے اس لئے وہ آپ کی امت میں سے کسی کے لئے جائز نہیں۔ ﴿ إِنَّ ذَٰلِكُمْ كَانَ عِندَ اللّٰـهِ عَظِيمًا﴾ ” یہ اللہ کے نزدیک بہت بڑا (گناہ کا کام) ہے۔“ امت مسلمہ نے اس حکم کی تعمیل کی اور ان امور سے اجتناب کیا جن سے اللہ تبارک و تعالیٰ نے روکا تھا۔ وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ وَ الشُّکْرُ الأحزاب
54 پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿إِن تُبْدُوا شَيْئًا﴾ یعنی اگر تم کسی چیز کو ظاہر کرو ﴿ أَوْ تُخْفُوهُ فَإِنَّ اللّٰـهَ كَانَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا﴾” یا اس کو تم چھپاؤ، تو اللہ ہر چیز کو جاننے والا ہے۔“ یعنی جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے اور جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو اللہ تعالیٰ اسے خوب جانتا ہے اور وہ تمہیں خوب جانتا ہے اور وہ تمہیں اس کی جزا دے گا۔ الأحزاب
55 جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ ازاج مطہرات سے اگر کوئی چیز طلب کی جائے تو پردے کے پیچھے سے طلب کی جائے تو لفظ عام استعمال کیا جس کا اطلاق سب پر ہوتا ہے، اس لئے ضرورت محسوس ہوئی کہ اس حکم میں سے ان محرم اقارب کو مستثنیٰ قرار دیا جائے جو یہاں مذکور ہیں کہ جن سے پر وہ نہ کرنے میں ﴿لَّا جُنَاحَ عَلَيْهِنَّ﴾ ” ان پر کوئی حرج نہیں۔“ اللہ تبارک و تعالیٰ نے چچاؤں اور ماموؤں کا ذکر نہیں کیا کیونکہ جب خالاؤں اور پھوپھیوں پر بھتیجوں اور بھانجوں سے پردہ کرنا واجب نہیں تو چچا اور ماموں سے پردہ کرنا بدرجہ اولیٰ واجب نہیں، نیز ایک دوسری آیت کا منطوق، جس میں نہایت صراحت کے ساتھ چچا اور ماموں کا ذکر ہے، اس آیت کریمہ کے مفہوم مخالف پر مقدم ہے۔ ﴿ وَلَا نِسَائِهِنَّ ﴾ یعنی عورتوں پر دوسری عورتوں سے پردہ نہ کرنے پر کوئی گناہ نہیں ہے۔ یعنی وہ عورتیں جو دین میں ان کی ہم جنس ہیں، تو آیت کریمہ کے اس جملے کی رو سے کافر عورتیں نکل جاتی ہیں۔ اس میں یہ احتمال بھی ہوسکتا ہے کہ اس سے مراد جنس عورت ہے، تب معنی یہ ہوگا کہ عورت عورت سے پردہ نہ کرے۔ ﴿وَلَا مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ﴾ ” اور نہ ان میں کوئی گناہ ہے جن کی وہ مالک ہیں۔“ یہ حکم اس وقت تک ہے جب تک غلام پورے کا پورا ان کی غلامی میں ہے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ نے ازواج مطہرات سے حرج اور مضائقہ کو دور کردیا ہے، اس لئے اس بارے میں اور دیگر امور میں التزام تقویٰ کی شرط عائد کی ہے، نیز یہ کہ اس میں کسی حرمت شرعی کا ارتکاب نہ ہو، چنانچہ فرمایا : ﴿وَاتَّقِينَ اللّٰـهَ﴾ یعنی اپنے تمام احوال میں تقویٰ کو کام میں لاؤ۔ ﴿إِنَّ اللّٰـهَ كَانَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدًا ﴾ ” اللہ تعالیٰ یقیناً ہر چیز پر گواہ ہے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے تمام ظاہری و باطنی اعمال کو دیکھ رہا ہے، ان کے تمام اقوال کو سن رہا ہے اور ان کی تمام حرکات کا مشاہدہ کر رہا ہے، پھر اللہ تعالیٰ ان کو ان کے تمام اعمال کی پوری پوری جزا دے گا۔ الأحزاب
56 ان آیات کریمہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کمال، اللہ تعالیٰ اور مخلوق کے ہاں آپ کے بلند درجات، آپ کی بلند قدر و منزلت اور آپ کے ذکر رفیع کی طرف اشارہ ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿إِنَّ اللّٰـهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ﴾ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے فرشتوں اور ملا اعلیٰ کے سامنے اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدح و ثنا بیان کرتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ آپ سے بہت محبت کرتا ہے۔ تمام فرشتے آپ کی مدح و ثنا کرتے ہیں اور نہایت عاجزی سے اللہ تعالیٰ سے آپ کے لئے رحمت کی دعا کرتے ہیں۔ ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا﴾ یعنی اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتوں کی اقتدا میں، آپ کے بعض حقوق کی جزا کے طور پر، اپنے ایمان کی تکمیل کے لئے، آپ کی تعظیم کی خاطر، آپ سے محبت اور آپ کے اکرام و تکریم کے اظہار کے لئے، اپنی نیکیوں میں اضافہ کرنے اور اپنی برائیوں کے کفارہ کے لئے اے مومنو ! تم بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام بھیجا کرو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود کی بہتر شکل وہ ہے جو آپ نے اپنے صحابہ کرام کو سکھائی ہے۔ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ((اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ)) [ صحیح البخاری، کتاب احادیث الانبیاء، باب :10، حدیث 3370 ] درود و سلام کا یہ حکم، تمام اوقات میں مشروع ہے اور بہت سے اہل علم نے اسے نماز کے اندر واجب قرار دیا ہے۔ الأحزاب
57 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم اور آپ پر صلوۃ و سلام کا حکم دینے کے بعد، آپ کو اذیت پہنچانے سے منع کیا اور جو آپ کو اذیت پہنچائے اس کو سخت عذاب کی وعید سنائی ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿ إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللّٰـهَ وَرَسُولَهُ﴾ ” بے شک وہ لوگ جو ایذا پہنچاتے ہیں اللہ کو اور اس کے رسول کو“ یہ آیت کریمہ ہرقسم کی قولی و فعلی اذیت سب وشتم، آپ کی تنقیص، آپ کے دین کی تنقیص اور ہر ایسا کام جس سے آپ کو اذیت پہنچے، سب کو شامل ہے۔ ﴿لَعَنَهُمُ اللّٰـهُ فِي الدُّنْيَا﴾ ” ان پر دنیا میں اللہ کی پھٹکار ہے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ نے انہیں رحمت سے دور کر کے دھتکار دیا ہے۔ دنیا کے اندر ان پر لعنت یہ ہے کہ شاتم رسول کی حتمی سزا قتل ہے۔ ﴿وَالْآخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِينًا ﴾ ” اور آخرت میں بھی اور ان کے لئے اللہ نے انتہائی رسوا کن عذاب تیار کیا ہے۔“ اس اذیت رسانی کی جزا کے طور پر ایذا دینے والے کو درد ناک عذاب دیا جائے گا۔ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تکلیف پہنچانا کسی عام آدمی کو تکلیف پہنچانے کی مانند نہیں ہے کیونکہ بندہ اس وقت تک اللہ تعالیٰ پر ایمان نہیں لا سکتا جب تک کہ وہ اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان نہ لائے۔ آپ کی تعظیم کرنا لوازم ایمان میں شامل ہے اور یہ چیز اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ آپ کسی اور کی مانند نہیں۔ الأحزاب
58 اہل ایمان کو بھی اذیت پہنچانا بہت بڑی برائی ہے اور اس کا گناہ بھی بہت بڑا ہے اس لئے اس ایذا رسانی کے بارے میں فرمایا : ﴿وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ بِغَيْرِ مَا اكْتَسَبُوا﴾ ” اور جو لوگ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو ایسے کام کی وجہ سے ایذا دیں جو انہوں نے نہ کیا۔“ یعنی ان کے کسی ایسے جرم کے بغیر، جو ان کو اذیت دینے کا موجب ہو ﴿ فَقَدِ احْتَمَلُوا ﴾ تو ایذا دینے والوں نے اپنی پیٹھ پر اٹھایا ﴿ بُهْتَانًا﴾ ” بہت بڑا بہتان“ کیونکہ انہوں نے کسی سبب کے بغیر اہل ایمان کو اذیت پہنچائی ﴿وَإِثْمًا مُّبِينًا﴾ ” اور واضح گناہ (کا بوجھ اٹھایا) ‘‘ کیونکہ انہوں نے اہل ایمان پر زیادتی کی اور انہوں نے اس حرمت کی ہتک کی جس کے احترام کا اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم دیا تھا، اس لئے عام اہل ایمان کو سب و شتم کرنا، ان کے احوال اور مرتبے کے مطابق، موجب تعزیر ہے۔ صحابہ کرام کو سب و شتم کرنے والے کے لئے اس سے بڑھ کر تعزیر ہے۔ اہل علم اور متدین حضرات کو سب وشتم کرنے والا عام لوگوں کو سب و شتم کرنے والے سے بڑھ کر تعزیر اور سزا کا مستحق ہے۔ الأحزاب
59 اس آیت کریمہ کو ” آیت حجاب“ سے موسوم کیا گیا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم دیا کہ وہ تمام عورتوں کو عمومی طور پر پردے کا حکم دیں اور اس کی ابتدا اپنی ازواج مطہرات اور اپنی بیٹیوں سے کریں کیونکہ دوسروں کی نسبت، ان کے لئے یہ حکم زیادہ مؤکد ہے، نیز کسی معاملے میں دوسروں کو حکم دینے والے کے لئے مناسب یہی ہے کہ وہ اپنے گھر سے ابتدا کرے جیسا کہ فرمایا : ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا﴾(التحریم :66؍6) ” اے مومنو ! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کی آگ سے بچاؤ۔“ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ ﴿يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَابِيبِهِنَّ﴾ ” وہ اپنی چادریں اوڑھ کر گھونگٹ نکال لیا کریں۔“ (جِلبْاَب) وہ کپڑا ہے جو عام لباس کے اوپر اوڑھ لیا جاتا ہے مثلاً دوپٹا، اوڑھنی اور چادر وغیرہ، یعنی چادر وغیرہ سے اپنے چہروں اور سینوں کو ڈھانپ لیا کریں، پھر اللہ تعالیٰ نے اس کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ذٰلِكَ أَدْنَىٰ أَن يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ﴾ ” یہ امر ان کے لئے موجب شناخت ہوگا تو کوئی ان کو ایذا نہیں دے گا۔“ آیت کریمہ کا یہ جملہ عدم حجاب کی صورت میں وجود اذیت پر دلالت کرتا ہے کیونکہ اگر وہ پردہ نہیں کریں گی تو بسا اوقات ان کے بارے میں کوئی شخص اس وہم میں مبتلا ہوسکتا ہے کہ یہ پاک باز عورتیں نہیں ہیں اور کوئی بدکردار شخص، جس کے دل میں مرض ہے، آگے بڑھ کر تعرض کر کے ان کو تکلیف پہنچا سکتا ہے۔ ان کی اہانت بھی ہوسکتی ہے۔ شرارت پسند شخص ان کو لونڈیاں سمجھتے ہوئے ان کے ساتھ برا سلوک کرسکتا ہے، اس لئے حجاب بدطینت لوگوں کی لالچ بھری نظروں سے بچاتا ہے۔ ﴿وَكَانَ اللّٰـهُ غَفُورًا رَّحِيمًا ﴾ ” اور اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا، رحم کرنے والا ہے۔“ اس نے تمہارے گزشتہ گناہ بخش دیئے اور تم پر رحم فرمایا کہ اس نے تمہارے لئے احکام بیان فرمائے، حلال اور حرام کو واضح کیا۔ یہ عورتوں کی جہت سے برائی کا سدباب ہے۔ رہا شریر لوگوں کے شرکا سدباب، تو اللہ تعالیٰ نے ان کو وعید سناتے ہوئے فرمایا : الأحزاب
60 ﴿لَّئِن لَّمْ يَنتَهِ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ﴾ ” اگر باز نہ آئیں وہ لوگ جو منافق ہیں اور جن کے دلوں میں مرض ہے“ یعنی شک اور شہوت کا مرض ﴿ وَالْمُرْجِفُونَ فِي الْمَدِينَةِ ﴾ ” اور جو مدینے میں جھوٹی خبریں اڑایا کرتے ہیں۔“ یعنی وہ لوگ جو اپنے دشمنوں کو ڈراتے، اپنی کثرت و قوت اور مسلمانوں کی کمزوری کا ذکر کرتے پھرتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس عمل کا ذکر نہیں فرمایا جس کے بارے میں ان کو تنبیہ کی گئی ہے کہ وہ اس سے باز آجائیں تاکہ یہ اپنے عموم کے ساتھ ان تمام برائیوں سے رک جائیں جن پر انہیں ان کے نفس اکساتے، وسوسہ پیدا کرتے اور شرک کی طرف انہیں دعوت دیتے رہتے ہیں، مثلاً: اسلام اور اہل اسلام پر سب و شتم کرنا، مسلمانوں کے بارے میں بری افواہیں پھیلانا، ان کی قوتوں کو کمزور کرنے کی کوشش کرنا، مومن خواتین کے ساتھ برائی اور فحش رویے سے پیش آنا اور دیگر گناہ جو ان جیسے بدکردار لوگوں سے صادر ہوتے ہیں۔ ﴿لَنُغْرِيَنَّكَ بِهِمْ﴾ ہم آپ کو انہیں سزا دینے اور ان کے خلاف لڑنے کا حکم دیں گے اور آپ کو ان پر تسلط اور غلبہ عطا کریں گے۔ اگر ہم نے یہ کام کیا تو ان میں آپ کا مقابلہ کرنے اور آپ سے بچنے کی قوت اور طاقت نہ ہوگی۔ اس لئے فرمایا : ﴿ثُمَّ لَا يُجَاوِرُونَكَ فِيهَا إِلَّا قَلِيلًا﴾ یعنی وہ مدینہ منورہ میں بہت کم آپ کے ساتھ رہ سکیں گے، آپ ان کو قتل کردیں گے یا شہر بدر کردیں گے۔ الأحزاب
61 آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ ان شرپسندوں کو، جن کے مسلمانوں کے اندر قیام سے مسلمانوں کو ضرر کا اندیشہ ہو، شہر بدر کیا جاسکتا ہے، اس طریقے سے بہتر طور پر برائی کا سدباب ہوسکتا ہے اور برائی سے دور رہا جاسکتا ہے۔ ﴿ مَّلْعُونِينَ ۖ أَيْنَمَا ثُقِفُوا أُخِذُوا وَقُتِّلُوا تَقْتِيلً ﴾ ’’ان پر پھٹکار برسائی گئی ہے، جہاں بھی وہ مل جائیں پکڑے جائیں اور ان کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے جائیں۔‘‘ یعنی جہاں کہیں بھی پائے جائیں گے اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دور ہوں گے انہیں امن حاصل ہوگا نہ قرار، انہیں ہمیشہ قتل، قید اور عقوبتوں کا دھڑکا لگا رہے گا۔ الأحزاب
62 ﴿ سُنَّةَ اللّٰـهِ فِي الَّذِينَ خَلَوْا مِن قَبْلُ ﴾ ” جو لوگ پہلے گزر چکے ہیں ان کے بارے میں بھی اللہ کی یہی سنت رہی ہے۔“ یعنی جو نافرمانی میں بڑھتا چلا جاتا ہے، ایذا رسانی کی جسارت کرتا ہے اور اس سے باز نہیں آتا، اسے سخت سزا دی جاتی ہے ﴿وَلَن تَجِدَ لِسُنَّةِ اللّٰـهِ تَبْدِيلًا﴾ ” اور البتہ آپ اللہ کی سنت میں کوئی تغیر و تبدل نہیں پائیں گے۔“ بلکہ اللہ تعالیٰ کی سنت کو اسباب اور اس کے مسببات کے ساتھ جاری و ساری پائیں گے۔ الأحزاب
63 لوگ جلدی مچاتے ہوئے آپ سے قیامت کی گھڑی کے بارے میں پوچھتے ہیں اور ان میں سے بعض تکذیب کے طور پر اور خبر دینے والے کو اس بارے میں عاجز سمجھتے ہوئے پوچھتے ہیں تو ﴿قُلْ﴾ ” آپ کہہ دیجیے“ ان سے: ﴿إِنَّمَا عِلْمُهَا عِندَ اللّٰـهِ﴾ اسے اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا، اس لئے مجھے یا کسی اور کو اس کے بارے میں کوئی علم نہیں۔ بایں ہمہ تم اسے زیادہ دور نہ سمجھو۔ ﴿وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّ السَّاعَةَ تَكُونُ قَرِيبًا﴾ ” اور آپ کو کیا معلوم ہے شاید قیامت قریب ہی آگئی ہو“ یعنی قیامت کی گھڑی کے مجرد قریب یا بعید ہونے میں کوئی فائدہ یا نتیجہ نہیں، حقیقی نتیجہ تو خسارہ یا نفع اور بدبختی یا خوش بختی ہے، نیز آیا بندہ عذاب کا مستحق ہے یا ثواب کا؟ اور ان امور کے بارے میں تمہیں میں خبر دیتا ہوں اور میں بتاتا ہوں کہ ان کا مستحق کون ہے؟ لہٰذا آپ نے عذاب کے مستحق لوگوں کا وصف بیان کیا اور اس عذاب کا وصف بیان کیا جس میں ان کو مبتلا کیا جائے گا کیونکہ یہ وصف مذکور آخرت کی تکذیب کرنے والوں پر منطبق ہوتا ہے۔ الأحزاب
64 ﴿نَّ اللّٰـهَ لَعَنَ الْكَافِرِينَ﴾ ” بے شک اللہ تعالیٰ نے کافروں پر لعنت کی ہے۔“ یعنی جن کی عادت اور فطرت اللہ تعالیٰ، اس کے رسول اور جسے لے کر وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئے ہیں اس کا کفر اور انکار کرنا ہے انہیں اللہ تعالیٰ نے دنیا و آخرت میں اپنی رحمت سے دور کردیا اور سزا کے لئے یہی کافی ہے ﴿وَأَعَدَّ لَهُمْ سَعِيرًا ﴾ ” اور تیار کی ہے ان کے لئے بھڑکتی ہوئی آگ۔“ الأحزاب
65 یعنی ان کے لئے آگ بھڑکائی جائے گی جس میں ان کے جسم جلیں گے، آگ ان کے دلوں تک پہنچ جائے گی وہ اس سخت عذاب میں ہمیشہ رہیں گے۔ وہ اس عذاب سے کبھی نکل سکیں گے نہ عذاب میں کبھی کمی آئے گی اور ﴿ لَّا يَجِدُونَ﴾ ” وہ نہیں پائیں گے“ اپنے لئے ﴿وَلِيًّا ﴾ ”کوئی دوست“ جو ان کو وہ کچھ دے سکے جو وہ طلب کریں ﴿وَلَا نَصِيرًا﴾ ” اور نہ کوئی مددگار“ جو ان سے عذاب کو دور کرسکے بلکہ تمام مددگار ان کو چھوڑ جائیں گے اور بھڑکتی ہوئی آگ کا سخت عذاب انہیں گھیر لے گا۔ الأحزاب
66 اس لئے فرمایا : ﴿يَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوهُهُمْ فِي النَّارِ﴾ ” جس دن ان کے منہ آگ میں الٹائے جائیں گے۔“ پس وہ آگ کی شدید حرارت کا مزا چکھیں گے، آگ کا عذاب ان پر بھڑک اٹھے گا۔ وہ اپنے گزشتہ اعمال پر حسرت کا اظہار کریں گے۔ ﴿يَقُولُونَ يَا لَيْتَنَا أَطَعْنَا اللّٰـهَ وَأَطَعْنَا الرَّسُولَا﴾ ” وہ کہیں گے کہ کاش ہم نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی ہوتی“ اور یوں ہم اس عذاب سے بچ جاتے اور اطاعت مندوں کی طرح ہم بھی ثواب جزیل کے مستحق ٹھہرتے۔ مگر یہ ان کی ایسی آرزو ہے جس کا وقت گزر چکا۔ جس کا اب حسرت، ندامت، غم اور الم کے سوا کوئی فائدہ نہیں۔ الأحزاب
67 ﴿ وَقَالُوا رَبَّنَا إِنَّا أَطَعْنَا سَادَتَنَا وَكُبَرَاءَنَا﴾ ” اور کہیں گے : اے ہمارے رب ! ہم نے اپنے سرداروں اور بڑے لوگوں کا کہا مانا“ اور ہم نے گمراہی میں ان کی تقلید کی ﴿فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا﴾ ” تو انہوں نے ہمیں راستے سے بھٹکا دیا۔“ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَيَوْمَ يَعَضُّ الظَّالِمُ عَلَىٰ يَدَيْهِ يَقُولُ يَا لَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِيلًا يَا وَيْلَتَىٰ لَيْتَنِي لَمْ أَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِيلًا لَّقَدْ أَضَلَّنِي عَنِ الذِّكْرِ بَعْدَ إِذْ جَاءَنِي وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِلْإِنسَانِ خَذُولًا﴾ ” اور ظالم اس روز اپنے ہاتھوں پر کاٹے گا اور کہے گا، کاش میں نے رسول کا راستہ اختیار کیا ہوتا۔ ہائے میری ہلاکت ! کاش میں نے فلاں کو دوست نہ بنایا ہوتا اس نے مجھے نصیحت کے بارے میں گمراہ کردیا جب وہ میرے پاس آئی۔ “ الأحزاب
68 جب انہیں معلوم ہوجائے گا کہ وہ اور ان کے سردار عذاب کے مستحق ہیں تو وہ ان کو عذاب میں دیکھنا چاہیں گے جنہوں نے ان کو گمراہ کیا، چنانچہ وہ کہیں گے : ﴿رَبَّنَا آتِهِمْ ضِعْفَيْنِ مِنَ الْعَذَابِ وَالْعَنْهُمْ لَعْنًا كَبِيرًا ﴾ ” اے ہمارے رب ! ان کو دگنا عذاب دے اور ان پر بڑی لعنت کر۔“ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ ہر ایک کے لئے دوہرا عذاب ہے تم سب کفر اور معاصی میں ایک دوسرے کے ساتھ شریک تھے، لہٰذا عذاب میں بھی تم ایک دوسرے کے ساتھ شریک ہو گے اگرچہ تمہارے جرم میں تفاوت کے مطابق تمہارے عذاب میں بھی تفاوت ہوگا۔ الأحزاب
69 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو متنبہ کرتا ہے کہ وہ اپنے رسول محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جو معزز، نہایت نرم دل اور رحیم ہیں، اذیت نہ پہنچائیں۔ ان پر جو آپ کے لئے اکرام و احترام واجب ہے وہ اس کے برعکس رویے سے پیش نہ آئیں اور ان لوگوں کی مشابہت اختیار نہ کرلیں جنہوں نے کلیم الرحمٰن حضرت موسیٰ بن عمران علیہ السلام کو اذیت پہنچائی مگر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو ان کی تکلیف وہ باتوں سے برأت دی اور ان کی برأت کو ان کے سامنے ظاہر کردیا، حالانکہ موسیٰ علیہ السلام تہمت اور اذیت کے لائق نہ تھے۔ وہ تو اللہ تعالیٰ کے ہاں نہایت با آبرو، اس کے مقرب بندے، اس کے خاص رسول اور اس کے مخلص بندوں میں شمار ہوتے ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے جن فضائل سے سرفراز فرمایا وہ فضائل بھی ان کو اذیت رسانی سے نہ روک سکے اور ان کو ناپسندیدہ حرکات سے باز نہ رکھ سکے اس لئے اے مومنو ! تم ان کی مشابہت اختیار کرنے سے بچو۔ یہ اذیت جس کی طرف قرآن مجید میں اشارہ کیا گیا ہے، حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں بنی اسرائیل کی بد زبانی ہے۔ جب انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دیکھا کہ یہ نہایت با حیا ہیں اور اپنے ستر کا بہت خیال رکھتے ہیں تو انہوں نے مشہور کردیا کہ وہ صرف اس لئے ستر چھپاتے ہیں کہ ان کے خصیے (فوطے) متورم ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی بنائی ہوئی باتوں سے آپ کی برأت کرنا چاہی، چنانچہ ایک روز حضرت موسیٰ علیہ السلام نے غسل کیا اور اپنے کپڑے ایک پتھر پر رکھ دیے۔ پتھر کپڑے لے کر فرار ہونے لگا حضرت موسیٰ علیہ السلام (اسی عریاں حالت میں) پتھر کے پیچھے بھاگے اور بنی اسرائیل کی مجالس کے پاس سے گزرے تو انہوں نے دیکھ لیا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بہترین تخلیق سے سرفراز فرمایا ہے۔ آپ سے ان کا بہتان زائل ہوگیا۔ [صحیح البخاری، الغسل، باب من اغتسل عریاناً وجدہ فی خلوۃ، ح :278] الأحزاب
70 اللہ تبارک و تعالیٰ اہل ایمان کو حکم دیتا ہے کہ وہ کھلے چھپے، اپنے تمام احوال میں تقویٰ کا التزام کریں اور درست بات کہنے پر خاص طور پر زور دیا ہے (اَلْقَولُ السَّدِیْد)اس قول کو کہتے ہیں جو صحیح اور حق کے موافق یا اس کے قریب تر ہو، مثلاً قراءت قرآن، ذکر الٰہی، نیکی کا حکم دینا، برائی سے روکنا، علم کا سیکھنا، پھر اس کی تعلیم دینا، علمی مسائل میں حق و صواب کے حصول کی حرص، ہر اس راستے پر گامزن ہونے کی کوشش کرنا جو حق تک پہنچتا ہو اور وہ وسیلہ اختیار کرنا جو حق کے حصول میں مددگار ہو۔ لوگوں کے ساتھ بات چیت کرنے میں نرم اور لطیف کلام بھی قول سدید کے زمرے میں آتا ہے، کوئی ایسی بات کہنا جو خیر خواہی کو متضمن ہو، یا کسی درست تر امر کا مشورہ دینا یہ سب قول سدید میں داخل ہیں۔ الأحزاب
71 پھر اللہ تعالیٰ نے ان امور کا ذکر فرمایا جو تقویٰ اور قول سدید پر مترتب ہوتے ہیں، لہٰذا فرمایا : ﴿ يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ﴾ ” اللہ تعالیٰ تمہارے کام سنوار دے گا۔“ یعنی تقویٰ اعمال کی اصلاح کا سبب اور ان کی قبولیت کا ذریعہ ہے کیونکہ تقویٰ کے استعمال ہی سے اعمال اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قبولیت کا شرف پاتے ہیں، جیسا کہ فرمایا : ﴿إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللّٰـهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ﴾ (المائدۃ :5؍27) ” اللہ تعالیٰ صرف متقین ہی کا عمل قبول فرماتا ہے۔ “ تقویٰ کے وجود سے انسان کو عمل صالح کی توفیق عطا ہوتی ہے، تقویٰ ہی کی بنا پر اللہ تعالیٰ اعمال کی اصلاح کرتا ہے اور ان کے ثواب کی مفاسد سے حفاظت کرتا ہے اور ثواب کو کئی گنا زیادہ کرتا ہے اسی طرح تقویٰ اور قول سدید میں خلل اور فساد اعمال، ان کی عدم قبولیت اور ان کے اثرات مترتب نہ ہونے کا سبب بنتا ہے۔ ﴿وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ﴾ ” اور اللہ تعالیٰ تمہارے گناہوں کو بخش دے گا“ جو تمہاری ہلاکت کا سبب ہیں۔ تقویٰ ہی سے تمام معاملات درست اور تمام برائیوں سے بچا جاسکتا ہے۔ بنا بریں فرمایا : ﴿ وَمَن يُطِعِ اللّٰـهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا ﴾ ” اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا تو وہ بہت بڑی مراد پائے گا۔ “ الأحزاب
72 اللہ تبارک و تعالیٰ اس امانت کی عظمت بیان کرتا ہے جو اس نے مکلفین کے سپرد کی۔ اس امانت سے مراد اللہ تعالیٰ کے اوامر کے سامنے سرافگندہ ہونا اور کھلے چھپے تمام احوال میں محارم سے اجتناب کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس امانت کو بڑی بڑی مخلوقات، آسمان، زمین اور پہاڑوں وغیرہ کے سامنے پیش کر کے اسے قبول کرنے یا نہ کرنے کا اختیار دیا کہ اگر تم اسے قائم کرو گے اور اس کا جو حق ہے وہ ادا کرو گے تو تمہارے لئے ثواب ہے اور اگر تم اس کو قائم کرسکے نہ اسے ادا کرسکے تو تمہیں عذاب ملے گا۔ ﴿ فَأَبَيْنَ أَن يَحْمِلْنَهَا وَأَشْفَقْنَ مِنْهَا﴾ یعنی انہوں نے اس خوف سے اس امانت کا بار اٹھانے سے انکار کردیا کہ وہ اس امانت کو قائم نہیں رکھ سکیں گے۔ ان کا یہ انکار اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے طور پر تھا نہ اس کے ثواب میں بے رغبتی کے سبب سے تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس امانت کو اسی شرط کے ساتھ، انسا ن کے سامنے پیش کیا تو اس نے اسے قبول کر کے اس کا بار اٹھا لیا اور اس نے اپنی جہالت اور ظلم کے باوصف اس بھاری ذمہ داری کو قبول کرلیا۔ لوگ اس امانت کو قائم رکھنے اور قائم نہ رکھنے کے لحاظ سے تین اقسام میں منقسم ہیں : (1)منافقین : جو ظاہری طور پر اس امانت کو قائم رکھتے ہیں اور باطن میں اس کو ضائع کرتے ہیں۔ (2)مشرکین : جنہوں نے ظاہری اور باطنی طور پر اس امانت کو ضائع کردیا ہے۔ (3) مومنین : جنہوں نے ظاہری اور باطنی ہر لحاظ سے اس امانت کو قائم کر رکھا ہے۔ الأحزاب
73 اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان تینوں اقسام کے لوگوں کے اعمال اور ان کے ثواب و عقاب کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : ﴿لِّيُعَذِّبَ اللّٰـهُ الْمُنَافِقِينَ وَالْمُنَافِقَاتِ وَالْمُشْرِكِينَ وَالْمُشْرِكَاتِ وَيَتُوبَ اللّٰـهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَكَانَ اللّٰـهُ غَفُورًا رَّحِيمًا﴾ ” تاکہ اللہ منافق مردوں اور منافق عورتوں اور مشرک مردوں اور مشرک عورتوں کو عذاب دے اور اللہ مومن مردوں اور مومن عورتوں پر مہربانی کرے اور اللہ تو بخشنے والا مہربان ہے۔“ ہر قسم کی ستائش اللہ تعالیٰ کے لئے ہے جس نے اس آیت مبارکہ کو ان دو اسمائے حسنیٰ پر ختم کیا جو اللہ تعالیٰ کی کامل مغفرت، بے پایاں رحمت اور لامحدود جود و کرم پر دلالت کرتے ہیں۔ بایں ہمہ ان میں سے بہت سے لوگوں کے بارے میں فیصلہ ہوچکا ہے کہ وہ اپنے نفاق اور شرک کے باعث اس مغفرت اور رحمت کے مستحق نہیں۔ الأحزاب
0 سبأ
1 حمد سے مراد، صفات حمیدہ اور افعال حسنہ کے ذریعہ سے، ثنا بیان کرنا ہے، لہٰذا ہر قسم کی حمد اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہے کیونکہ وہ اپنے اوصاف کی بنا پر مستحق حمد ہے، اس کے تمام اوصاف، اوصاف کمال ہیں۔ وہ اپنے افعال پر مستحق حمد ہے کیونکہ اس کے افعال، اس کے فضل پر مبنی ہیں جس پر اس کی حمد اور اس کا شکر کیا جاتا ہے اور اس کے عدل پر مبنی ہیں جس کی بنا پر اس کی تعریف کی جاتی ہے اور اسمیں اس کی حکمت کا اعتراف کیا جاتا ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے خود اپنی حمد اس بنا پر بیان کی ہے کہ ﴿ لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ﴾ ” زمین اور آسمانوں میں جو کچھ بھی ہے اسی کا ہے“ یعنی ہر چیز اسی کی ملکیت اور اسی کی غلام ہے وہ اپنی حمد و ثنا کی بنا پر ان میں تصرف کرتا ہے۔ ﴿وَلَهُ الْحَمْدُ فِي الْآخِرَةِ ﴾ ” اور آخرت میں بھی اسی کی تعریف ہے“ اس لئے کہ آخرت میں اس اور تمام مخلوق اس کے فیصلے، اس کے کامل عدل و انصاف اور اس میں اس کی حکمت کو دیکھیں گے تو وہ سب اس پر اس کی حمد و ثنا بیان کریں گے حتی کہ ان جہنمیوں کے دل بھی، جن کو عذاب دیا جائے گا، اللہ تعالیٰ کی حمد سے لبریز ہوں گے، نیز ان کو اعتراف ہوگا کہ یہ عذب ان کے اعمال کی جزا ہے اور اللہ تعالیٰ ان کو عذاب دینے کے فیصلے میں عادل ہے۔ رہا جنت میں اللہ تعالیٰ کی حمد کا ظہور، تو اس بارے میں نہایت تواتر سے اخبار وارد ہوئی ہیں، دلائل سمعی اور دلائل عقلی ان کی موافقت کرتے ہیں کیونکہ جنتی لوگ جنت میں، اللہ تعالیٰ کی لگاتار نعمتوں، بے شمار خیر و برکت اور اس کی بے پایاں نوازشات کا مشاہدہ کریں گے۔اہل جنت کے دل میں کوئی آرزو اور کوئی ارادہ باقی نہیں رہے گا جسے اللہ تعالیٰ نے پورا نہ کردیا ہو اور ان کی خواہش اور آرزو سے بڑھ کر عطا نہ کیا ہو، بلکہ انہیں اتنی زیادہ بھلائی عطا ہوگی کہ ان کی خواہش اور آرزوئیں وہاں پہنچ ہی نہیں سکتیں اور ان کے دل میں ان کا تصور تک نہیں آسکتا۔ اس حال میں ان کی حمد و ثنا کیسی ہوگی، درآنحالیکہ جنت میں وہ تمام عوارض و قواطع مضمحل ہوجائیں گے جو اللہ تعالیٰ کی معرفت، اس کی محبت اور اس کی حمد و ثنا کو منقطع کرتے ہیں۔ اہل ایمان کے لئے یہ حال ہر نعمت سے بڑھ کر محبوب اور ہر لذت سے بڑھ کر لذیذ ہوگا، اس لئے جب وہ اللہ تعالیٰ کا دیدار کریں گے اور اس کے خطاب کے وقت اس کے کلام سے محظوظ ہوں گے تو وہ ہر نعمت کو بھلا دیں گے وہ جنت میں ذکر الٰہی میں مشغول رہیں گے اور جنت میں ان کے لئے ذکر کی وہ حیثیت ہوگی جیسے زندگی کے لئے ہر وقت سانس کی حیثیت ہے۔ جب آپ اس کے ساتھ اس چیز کو شامل کر دیکھیں کہ اہل جنت، ہر وقت جنت کے اندر اپنے رب کی عظمت، اس کے جلال و جمال اور اس کے لامحدود کمال کا نظارہ کریں گے، تو یہ چیز اللہ تعالیٰ کامل حمد و ثنا کی موجب ہے۔ ﴿وَهُوَ الْحَكِيمُ﴾ وہ اپنے اقتدار و تدبیر اور اپنے امرونہی میں حکمت والا ہے۔ ﴿الْخَبِيرُ ﴾ وہ تمام امور کے اسرار نہاں کی خبر رکھتا ہے۔ سبأ
2 لہٰذا اپنے علم کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرمایا ﴿ يَعْلَمُ مَا يَلِجُ فِي الْأَرْضِ﴾ ” جو کچھ زمین میں داخل ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اسے جانتا ہے“ یعنی بارش، نباتات کے بیج اور حیوانات وغیرہ ﴿وَمَا يَخْرُجُ مِنْهَا﴾ ” اور جو کچھ اس میں سے نکلتا ہے۔“ یعنی مختلف اقسام کی نباتات اور مختلف انواع کے حیوانات وغیرہ ﴿وَمَا يَنزِلُ مِنَ السَّمَاءِ﴾ ” اور جو کچھ اترتا ہے آسمان سے“ یعنی آسمان سے جو فرشتے نازل ہوتے ہیں، رزق نازل ہوتا ہے اور تقدیر اترتی ہے۔ ﴿وَمَا يَعْرُجُ فِيهَا ﴾ یعنی آسمان کی طرف جو فرشتے اور ارواح وغیرہ بلند ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ ان سب کو بخوبی جانتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوقات کے اندر اپنی حکمت اور ان کے احوال کے بارے میں اپنے علم کا ذکر کرنے کے بعد اپنی بخشش اور مخلوقات کے لئے اپنی بے پایاں رحمت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : ﴿وَهُوَ الرَّحِيمُ الْغَفُورُ ﴾ ” وہ رحم کرنے والا، معاف کرنے والا ہے۔“ یعنی رحمت اور مغفرت جس کا وصف ہے اس کے بندے رحمت اور مغفرت کے تقاضوں کو جس قدر پورا کرتے ہیں، اس کے مطابق ہر وقت اس کی رحمت اور مغفرت کے آثار نازل ہوتے رہتے ہیں۔ سبأ
3 جب اللہ تعالیٰ نے اپنی عظمت بیان کی جس کے ساتھ اس نے اپنے آپ کو موصوف کیا ہے اور یہ چیز اس کی تعظیم و تقدیس اور اس پر ایمان کی موجب ہے تو ذکر فرمایا کہ لوگوں میں ایک گروہ ایسا بھی ہے جس نے اپنے رب کی قدر کی نہ اس کی تعظیم کی جیسا کہ اس کا حق ہے، بلکہ اس کے برعکس انہوں نے اس کے ساتھ کفر کیا اور اس کی مردوں کو دوبارہ زندہ کرنے کی قدرت کا اور قیامت کی گھڑی کا انکار کیا اور اس کے بارے میں اس کے رسولوں اور ان کی دعوت کی مخالفت کی، لہٰذا فرمایا : ﴿ وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا﴾ یعنی جنہوں نے اللہ تعالیٰ، اس کے رسولوں اور ان کی دعوت کا انکار کیا، انہوں نے اپنے کفر کی بنا پر کہا : ﴿لَا تَأْتِينَا السَّاعَةُ﴾ ” ہم پر قیامت نہیں آئے گی۔“ یہاں اس دنیا کی زندگی اس کے سوا کچھ نہیں کہ یہاں ہم زندہ رہتے ہیں اور پھر مر جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم دیا کہ وہ ان کے اس نظریے کی تردید اور اس کا ابطال کریں اور تاکید ان کو قسم کھا کر بتائیں کہ قیامت برحق ہے اور وہ ضرو رآئے گی۔ اللہ تعالیٰ نے ایک ایسی دلیل کے ذریعے سے استدلال کیا ہے کہ جو کوئی اس دلیل کا اقرار کرتا ہے وہ ضرور موت کے بعد زندگی ہونے کا اقرار کرے گا اور وہ ہے اللہ تعالیٰ کا لامحدود علم، چنانچہ فرمایا : ﴿عَالِمِ الْغَيْبِ ﴾ یعنی وہ ان تمام امور کا علم رکھتا ہے جو ہماری آنکھوں سے اوجھل اور ہمارے احاطہ علم میں نہیں ہیں، تب وہ ان امور کا علم کیونکر نہیں رکھتا جو ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں؟ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے علم کے بارے میں تاکید کے طور پر ارشاد فرمایا : ﴿ لَا يَعْزُبُ عَنْهُ﴾ یعنی اس کے علم سے کوئی چیز غائب نہیں ﴿مِثْقَالُ ذَرَّةٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ﴾ زمین و آسمان کی تمام اشیا اپنی ذات و اجزا سمیت، حتیٰ کہ ان کا چھوٹے سے چھوٹا جز بھی اللہ تعالیٰ کے علم سے اوجھل نہیں۔ ﴿وَلَا أَصْغَرُ مِن ذٰلِكَ وَلَا أَكْبَرُ إِلَّا فِي كِتَابٍ مُّبِينٍ﴾ ” اور نہیں کوئی چیز اس سے چھوٹی اور نہ اس سے بڑی مگر وہ کتاب واضح میں درج ہے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ کے علم نے اس کا احاطہ کر رکھا ہے، اس کا قلم اس پر چل چکا ہے اور وہ کتاب مبین یعنی لوح محفوظ میں درج ہوچکی ہے۔ اس لئے وہ ہستی جس سے ذرہ بھر یا اس سے بھی چھوٹی چیز کسی بھی وقت چھپی ہوئی نہیں ہے اور وہ ہستی جانتی ہے کہ زمین میں موت کے ذریعے سے کتنے افراد کی کمی واقع ہو رہی ہے اور کتنے زندہ باقی ہیں اور وہ ان کی موت کے بعد انہیں دوبارہ زندہ کرنے پر بالا ولیٰ قادر ہے۔ اس کا مردوں کو دوبارہ زندہ کرنا، اس کے علم محیط سے زیادہ تعجب خیز نہیں ہے۔ سبأ
4 پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے موت کے بعد زندگی کا مقصد بیان کرتے ہوئے فرمایا : ﴿لِّيَجْزِيَ الَّذِينَ آمَنُوا ﴾ ” تاکہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جزا دے جو ایمان لائے“ اپنے دلوں سے اور انہوں نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں کی پوری طرح تصدیق کی۔ ﴿وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ﴾ ” اور انہوں نے نیک عمل کیے، اپنے ایمان کی تصدیق کے لئے ﴿أُولَـٰئِكَ لَهُم مَّغْفِرَةٌ﴾ انہی لوگوں کے لئے ان کے ایمان اور اعمال صالحہ کے سبب سے بخشش ہے ان کے ایمان اور اعمال کے باعث ان سے ہر برائی اور تمام عذاب دور ہوجائیں گے۔ ﴿وَرِزْقٌ كَرِيمٌ﴾ ” اور عزت کی روزی“ ان کے احسان کے سبب سے انہیں ان کا ہر مطلوب و مقصود حاصل ہوگا اور ان کی ہر آرزو پوری ہوگی۔ ﴿وَالَّذِينَ سَعَوْا فِي آيَاتِنَا مُعَاجِزِينَ ﴾ ” اور جنہوں نے ہماری آیات کو نیچا دکھانے کی کوشش کی۔“ یعنی وہ لوگ جنہوں نے ہماری آیتوں کا انکار کرنے اور ان کو لانے والے انبیاء و مرسلین اور ان کو نازل کرنے والے کو نیچا دکھانے کے لئے زور لگایا جیسے انہوں نے مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کرنے کو نیچا دکھانے کے لئے پوری کوشش کی۔ سبأ
5 ﴿ أُولَـٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مِّن رِّجْزٍ أَلِيمٌ﴾ ان کے لئے ان کے دل و جان کو سخت تکلیف دینے والا عذاب ہوگا۔ سبأ
6 جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے منکرین قیامت کے انکار کا اور ان کی اس رائے کا تذکرہ فرمایا کہ جو کچھ رسول پر نازل ہوا ہے حق نہیں ہے، تو اس کے اپنے مومن بندوں کا حال بیان کیا ہے جو اہل علم ہیں اور ان کا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جو کتاب نازل کی ہے اور جن اخبار پر یہ کتاب مشتمل ہے، وہ برحق ہیں، یعنی حق صرف اسی کے اندر ہے اور جو چیز اس کتاب کی مخالف اور اس سے متناقض ہے وہ باطل ہے کیونکہ وہ علم کے درجہ یقین پر پہنچ چکے ہیں ﴿وَ﴾ ” اور“ وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے اوامرونواہی کے ذریعے سے ﴿يَهْدِي إِلَىٰ صِرَاطِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ ﴾ ” اس ہستی کی راہ دکھاتا ہے جو غالب اور لائق حمد و ثنا ہے۔“ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ انہیں بہت سے پہلوؤں سے اس کی دی ہوئی خبروں کی صداقت کا یقین جازم ہے۔ * اپنے علم کی جہت سے، خبر دینے والے کی داقت کا یقین ہے۔ * انہیں اس جہت سے بھی اس کی صداقت کا یقین ہے کہ یہ کتاب امور واقع اور کتب سابقہ کی موافقت کرتی ہے۔ * اس پہلو سے بھی ان کے ہاں یہ کتاب حق ہے کہ وہ اس کی دی ہوئی خبروں کے وقوع کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرتے ہیں۔ * اس جہت سے بھی انہیں اس کتاب کی صداقت کا یقین ہے کہ وہ آفاق میں اور خود اپنے نفوس میں ایسی نشانیوں کا مشاہدہ کرتے ہیں جو اس کے حق ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔ * اس جہت سے بھی انہیں اس کتاب کے حق پر مبنی ہونے کا یقین ہے کہ آفاق و انفس کی نشانیاں ان امور کی موافقت کرتی ہیں جن پر اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات دلالت کرتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کے اوامرو نواہی کے بارے میں وہ سمجھتے ہیں کہ وہ ایسے راستے پر گامزن کرتے ہیں، جو بالکل سیدھا ہے اور وہ کام کی ہر اس صفت کو متضمن ہے جو تزکیہ نفس اور اجر میں اضافے کا باعث ہے، جو عامل اور اس کے علاوہ دیگر لوگوں کو صدق و اخلاص، والدین کے ساتھ حسن سلوک، اقارب کے ساتھ صلہ رحمی اور مخلوقات پر احسان کرنے کا فائدہ پہنچاتی ہے اور ہر بری صفت سے روکتی ہے جو نفس کو گندہ کرتی ہے، اجر کا اکارت کرتی ہے، گناہ اور بوجھ کی موجب ہے مثلاً شرک، زنا، سود اور جان، مال اور عزت و ناموس پر ظلم وغیرہ۔ یہ اہل علم کی منقبت، ان کی فضیلت اور ان کی امتیازی علامت ہے نیز اس بات کی بھی علامت ہے کہ جب بھی بندے کا علم زیادہ ہوگا، رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی لائی ہوئی خبروں کی تصدیق کرتا ہوں گا، اللہ تعالیٰ کے اوامرونواہی کی حکمتوں کی جتنی زیادہ معرفت رکھنے والا ہوگا اتنا ہی زیادہ وہ ان اہل علم کے زمرے میں شمار ہوگا جن کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی لائی ہوئی باتوں پر حجت قرار دیا ہے، جنہیں اللہ تعالیٰ نے مکذبین و معاندین حق کے خلاف حجت کے طور پر پیش کیا ہے جیسا کہ اس آیت کریمہ اور بعض دیگر آیات میں اس کی طرف اشارہ ہے۔ سبأ
7 ﴿وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا ﴾ یعنی کفار تکیذب اور استہزاء کے طور پر اور دوبارہ زندگی کو نامکن قرار دیتے ہوئے ایک دوسرے سے کہتے ہیں : ﴿هَلْ نَدُلُّكُمْ عَلَىٰ رَجُلٍ يُنَبِّئُكُمْ إِذَا مُزِّقْتُمْ كُلَّ مُمَزَّقٍ إِنَّكُمْ لَفِي خَلْقٍ جَدِيدٍ ﴾ ” کیا ہم تمہاری راہنمائی ایسے شخص کی طرف کریں جو تمہیں یہ خبر پہنچا رہا ہے کہ جب تم بالکل ہی ریزہ ریزہ ہوجاؤ گے تو تم پھر سے ایک نئی پیدائش میں آؤ گے۔“ ان کی مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ وہ آپ کے بارے میں کہتے ہیں کہ آپ ایک ایسے شخص ہیں جو ایک انوکھی چیز پیش کر رہے ہیں۔ ان کی نظر میں آپ ان کے لئے تفریح کا ایک ذریعہ ہیں اور ایک عجیب شے ہیں جن کا وہ مذاق اڑاتے ہیں اور تعجب کرتے ہیں کہ آپ کیسے یہ بات کہتے ہیں: ”جب تم بوسیدہ ہو کر ریزہ ریزہ ہوجاؤ گے تمہارا جوڑ جوڑ الگ ہوجائے گا اور تمہارے اعضا بکھر کر نیست و نابود ہوجائیں گے پھر تمہیں دوبارہ زندہ کیا جائے گا؟“ سبأ
8 یہ شخص جو بات کہتا ہے کہ ﴿أَفْتَرَىٰ عَلَى اللّٰـهِ كَذِبًا﴾ اس نے اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنے کی جرأت کی ہے ﴿ أَم بِهِ جِنَّةٌ﴾ ” یا اسے جنون ہے؟“ اور یہ اس سے کوئی بعید بھی نہیں کیونکہ جنون کی کئی قسمیں ہیں۔ وہ یہ سب کچھ ظلم اور عناد کی وجہ سے کہتے تھے، حالانکہ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ آپ مخلوق میں سب سے سچے اور سب سے عقل مند انسان ہیں۔ ان کا علم بس یہی ہے کہ انہوں نے آپ سے عداوت شروع کی اور بار بار عداوت کا اظہار کیا اور انہوں نے لوگوں کو آپ سے دور رکھنے کے لئے اپنی جان اور مال خرچ کردیا۔ گندے ذہن کے لوگو ! اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جھوٹے یا پاگل ہوتے تو یہ مناسب ہی نہ تھا کہ تم ان کی بات پر دھیان دیتے یا تم ان کی دعوت کو درخور اعتنا سمجھتے کیونکہ ایک عقل مند شخص کے لائق نہیں کہ وہ ایک پاگل شخص کی طرف التفات کرے یا اس کی بات کو کوئی اہمیت دے۔ اگر تمہارے دل میں عناد نہ ہوتا اور تمہارا رویہ ظلم پر مبنی نہ ہوتا تو تم آگے بڑھ کر آپ کی دعوت کو قبول کرتے اور آپ کی آواز پر لبیک کہتے، مگر حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ ایمان نہیں لاتے، نشانیاں اور ڈراوے ان کے کسی کام نہیں آتے۔ بنا بریں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿بَلِ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ﴾ ” بلکہ بات یہ ہے کہ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے۔“ ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جنہوں نے مذکورہ بالا بات کہی تھی ﴿فِي الْعَذَابِ وَالضَّلَالِ الْبَعِيدِ﴾ وہ بہت بڑی بدبختی اور دور کی گمراہی میں مبتلا ہیں اور منزل صواب کے ذرا بھی قریب نہیں۔ کون سی بدبختی اور گمراہی ہے جو اللہ تعالیٰ کے اس چیز پر قادر ہونے کے انکار سے بڑھ کر ہو کہ اللہ تعالیٰ دوبارہ زندہ کرے گا اور کون سی بدبختی اور گمراہی ان کی رسولوں کی تکذیب، ان کے ساتھ استہزا اور ان کے اس دعوے سے بڑھ کر ہو کہ وہ (کافر) جو کچھ کہتے ہیں وہ حق ہے۔ پس وہ حق کو باطل اور باطل وضلالت کو حق اور ہدایت سمجھتے ہیں۔ سبأ
9 پھر اللہ تعالیٰ نے ایک عقلی دلیل کی طرف ان کی توجہ مبذول کی ہے جو موت کے بعد زندگی کے بعید نہ ہونے پر دلالت کرتی ہے۔ اگر وہ اپنے آگے پیچھے زمین اور آسمان کی طرف دیکھیں تو انہیں اللہ تعالیٰ کی قدرت کے ایسے مناظر نظر آئیں گے جو عقل کو حیران کردیتے ہیں، وہ اس کی عظمت کے ایسے مظاہر دیکھیں گے جو بڑے بڑے علماء کو حواس باختہ کردیتے ہیں اور انہیں معلوم ہوجائے گا کہ زمین و آسمان کی تخلیق، ان کی عظمت اور زمین و آسمان کے اندر موجود مخلوقات کی تخلیق قبروں میں مردوں کو دوبارہ زندہ کرنے سے زیادہ عظیم ہے۔ پس کس چیز نے ان کو اس پر آمادہ کیا ہے کہ وہ موت کے بعد زندگی کی تکذیب کرتے رہیں حالانکہ وہ اس سے مشکل تر چیز کی تصدیق کرتے ہیں۔ ہاں ! موت کے بعد زندگی اب تک خبر غیبی ہے جس کا انہوں نے مشاہدہ نہیں کیا اس لئے انہوں نے اس کی تکذیب کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿إِن نَّشَأْ نَخْسِفْ بِهِمُ الْأَرْضَ أَوْ نُسْقِطْ عَلَيْهِمْ كِسَفًا مِّنَ السَّمَاءِ﴾ ”اگر ہم چاہیں تو ان کو زمین میں دھنسا دیں یا ان پر آسمان کے ٹکڑے گرا دیں۔“ یعنی عذاب کا کوئی ٹکڑا کیونکہ زمین اور آسمان ہمارے دست تدبیر کے تحت ہیں۔ اگر ہم ان کو حکم دیں تو وہ حکم عدولی نہیں کرسکتے، لہٰذا تم اپنی تکذیب پر مصر رہنے سے باز آجاؤ ورنہ ہم تمہیں سخت سزا دیں گے۔ ﴿إِنَّ فِي ذٰلِكَ﴾ یعنی زمین و آسمان اور ان میں موجود تمام مخلوقات کی تخلیق میں ﴿لَآيَةً لِّكُلِّ عَبْدٍ مُّنِيبٍ﴾ ”البتہ نشانی ہے ہر اس بندے کے لئے جو اپنے رب کی طرف رجوع کرتا ہے“ اس کی اطاعت کرتا ہے اور اسے پورا یقین ہے کہ وہ انسانوں کی موت کے بعد ان کو دوبارہ زندہ کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔ بندہ مومن جس قدر اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرے گا، اسی قدر زیادہ وہ آیات الٰہی سے مستفید ہوگا کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے والا اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتا ہے، اس کا ارادہ اور ہمت بھی اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ بندہ ہر معاملے میں اسی کی طرف رجوع کرتا ہے اور وہ اپنے رب کے قریب ہوجاتا ہے اور اپنے رب کی رضا میں مشغولیت کے سوا اس کا کوئی ارادہ نہیں ہوتا۔ مخلوقات پر اس کی نظر بے فائدہ اور غفلت کی نظر نہیں ہوتی بلکہ فکر و عبرت کی نظر ہوتی ہے۔ سبأ
10 ہم نے اپنے بندے اور رسول داؤد علیہ السلام پر احسان کیا اور ہم نے انہیں علم نافع اور عمل صالح میں فضیلت بخشی اور انہیں دینی اور دنیاوی نعمتوں سے سرفراز فرمایا۔ یہ آپ پر اللہ تعالیٰ کی خاص نعمت ہے کہ اس نے پہاڑوں، حیوانات اور پرندوں کو حکم دیا کہ وہ داؤد علیہ السلام کی حمد و تسبیح کی آواز کے ساتھ اپنی آواز ملائیں۔ یہ ایسی نعمت ہے جو آپ کے خصائص میں شمار ہوتی ہے اور یہ خصوصیت آپ سے پہلے کسی کو عطا کی گئی نہ آپ کے بعد۔ یہ آواز آپ کو اور دوسرے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی تسبیح پر آمادہ کرتی تھی۔ جب وہ دیکھتے کہ یہ جمادات، پہاڑ اور حیوانات حضرت داؤد علیہ السلام کی آواز کا جواب دیتے ہوئے اپنے رب کی تسبیح و تکبیر اور تمجید و تحمید کرتے ہیں تو یہ چیز ان کو اللہ تعالیٰ کے ذکر پر آمادہ کرتی۔ بہت سے علماء کہتے ہیں کہ یہ نعمت داؤد علیہ السلام کی آواز کی طرب خیزی تھی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو نہایت خوبصورت آواز سے سرفراز فرمایا تھا اور انہیں اس میدان میں سب پر فوقیت حاصل تھی۔ جب آپ تسبیح و تہلیل اور تمجید و تحمید میں اپنی طرب انگیز آواز بلند کرتے تو جن و انس، پرندے اور پہاڑ آپ کی آواز پر جھوم اٹھتے اور اپنے رب کی تحمید و تسبیح بیان کرنے لگتے۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی نعمت تھی کہ آپ کی آواز پر طرب میں آ کر تسبیح و تحمید بیان کرنے والے جمادات و حیوانات کی تسبیح کا اجر بھی آپ کو حاصل ہوتا تھا کیونکہ آپ ان کی تسبیح و تحمید کا سبب تھے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ بھی آپ پر فضل و کرم تھا کہ اس نے لوہے کو آپ کے لئے نرم کردیا تاکہ آپ زر ہیں تیار کیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو زرہ کی صنعت کی تعلیم دی اور زرہ کے حلقوں کو اندازے پر رکھنا سکھایا یعنی آپ اندازے کے ساتھ زرہ کا حلقہ بناتے تھے پھر ان کو ایک دوسرے میں داخل کردیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿وَعَلَّمْنَاهُ صَنْعَةَ لَبُوسٍ لَّكُمْ لِتُحْصِنَكُم مِّن بَأْسِكُمْ فَهَلْ أَنتُمْ شَاكِرُونَ﴾ (الانبیاء: 21؍80) ” اور ہم نے تمہارے لئے ان کو زرہ بنانا سکھا دیا تاکہ یہ زر ہیں تمہیں ایک دوسرے کی ضرب سے محفوظ رکھیں، تو پھر کیا تم شکر گزار ہو گے؟“ سبأ
11 حضرت داؤد علیہ السلام اور آل داؤد علیہ السلام پر اپنے احسان کا ذکر کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کو شکر کرنے کا حکم دیا، نیز انہیں یہ حکم بھی دیا کہ وہ نیک عمل کریں اور اپنے عمل کی اصلاح اور مفسدات سے اس کو محفوظ رکھنے کے لئے اللہ تعالیٰ سے ڈریں کیونکہ وہ ان اعمال کو دیکھتا ہے، ان کی اطلاع رکھتا ہے اور کوئی چیز اس سے چھپی ہوئی نہیں۔ سبأ
12 اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام پر اپنا فضل و کرم بیان کرنے کے بعد ان کے فرزند حضرت سلیمان علیہ السلام پر اپنے فضل و کرم کا ذکر فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے ہوا کو آپ کے لئے مسخر کردیا جو آپ کے حکم پر چلتی تھی سلیمان علیہ السلام پر اپنے فضل و کرم کا ذکر فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے ہوا کو آپ کے لئے مسخر کردیا جو آپ کے حکم پر چلتی تھی جو آپ کو اور آپ کی افواج کو اٹھائے پھرتی تھی اور بہت دور کی مسافتیں بہت کم مدت میں طے کرتی تھی۔ دو ماہ کی مسافت ایک دن میں طے کرلیتی تھی۔ فرمایا : ﴿غُدُوُّهَا شَهْرٌ ﴾ ” اس کی صبح کی منزل ایک مہینے کی ہوتی تھی۔“ دن کی ابتدا سے لے کر زوال تک ﴿وَرَوَاحُهَا شَهْرٌ﴾ ” اور اس کی شام کی منزل ایک مہینے کی ہوتی تھی۔“ یعنی زوال آفتاب سے لے کر دن کے آخر تک ﴿وَأَسَلْنَا لَهُ عَيْنَ الْقِطْرِ﴾ اور ہم نے حضرت سلیما ن علیہ السلام کے لئے تانبے کا چشمہ مسخر کردیا اور اس تانبے سے مختلف اقسام کی اشیا اور برتن بنانے کے اسباب کو ان کے لئے آسان کردیا۔ نیز اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان علیہ السلام کے لیے شیاطین اور جنوں کو مسخر کردیا وہ آپ کی حکم عدولی کی طاقت نہ رکھتے تھے۔ فرمایا ﴿وَمَن يَزِغْ مِنْهُمْ عَنْ أَمْرِنَا نُذِقْهُ مِنْ عَذَابِ السَّعِيرِ﴾ ” اور جو کوئی ان میں سے ہمارے حکم سے پھرے گا، ہم اس کو جہنم کی آگ کا مزہ چکھائیں گے۔“ سبأ
13 یہ شیاطین اور جن وہ تمام کام کرتے تھے جس کا حضرت سلیمان علیہ السلام ان کو حکم دیتے تھے ﴿مِن مَّحَارِيبَ﴾ ” قلعے“ اس سے مراد ہر ایسی تعمیر ہے جس کے ذریعے سے عمارتوں کو مضبوط کیا جاتا ہے۔ گویا اس میں بڑی بڑی عمارتوں کا ذکر ہے ﴿ وَتَمَاثِيلَ﴾ ” اور مجسمے“ یعنی حیوانات و جمادات کی تماثیل بنانا ان کی اس صنعت میں مہارت، قدرت اور ان کا سلیمان علیہ السلام کے لئے کام کرنا ہے۔ ﴿وَجِفَانٍ كَالْجَوَابِ﴾ ” اور لگن جیسے تالاب“ وہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے لئے بڑے بڑے حوض بناتے تھے، جن میں کھانا ڈالا جاتا تھا کیونکہ حضرت سلیمان علیہ السلام ایسی چیزوں کی ضرورت مند تھے جن کے دوسرے لوگ محتاج نہ تھے اور وہ ان کے لئے بڑی دیگیں بناتے تھے جو بڑی ہونے کی وجہ سے اپنی جگہ سے نہ ہٹتی تھیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان پر اپنی نوازشات کا ذکر کرنے کے بعد انہیں ان نوازشات پر شکر کرنے کا حکم دیا۔ چنانچہ فرمایا : ﴿اعْمَلُوا آلَ دَاوُودَ﴾ ” اے آل داؤد ! نیک عمل کرو۔“ اس سے مراد داؤد ان کی اولاد اور اہل و عیال ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کا احسان ان سب پر تھا اور ان بہت سے فوائد سے سبھی مستفید ہوتے تھے۔ ﴿ شُكْرًا ﴾ یعنی اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو جو اللہ تعالیٰ نے تمہیں عطا کیا ہے۔ ﴿وَقَلِيلٌ مِّنْ عِبَادِيَ الشَّكُورُ﴾ اکثر لوگ، اللہ تعالیٰ نے ان کو جو نعمتیں عطا کی ہیں اور ان سے جو تکالیف دور کی ہیں اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا نہیں کرتے۔” شکر“ سے مراد ہے اللہ تعالیٰ کی نعمت کا دل سے اعتراف کرنا، اپنے آپ کو اس کا محتاج سمجھتے ہوئے اس نعمت کو قبول کرنا، اس کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں صرف کرنا اور اس کی نافرمانی میں صرف کرنے سے گریز کرنا۔ سبأ
14 شیاطین اور جن حضرت سلیمان علیہ السلام کے لئے عمارتیں تعمیر کرتے رہے۔ انہوں نے انسانوں کو بہکایا اور ان پر ظاہر کیا کہ وہ غیب کا علم جانتے ہیں اور چھپی ہوئی چیزوں کی اطلاع رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا کہ وہ بندوں پر ان کا جھوٹ واضح کرے، لہٰذا وہ اپنا کام کر رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان علیہ السلام علیہ السلام کی وفات کا فیصلہ کردیا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام اپنے عصا کا سہارا لئے کھڑے تھے (اور اسی حالت میں وفات پا گئے) تو جن جب وہاں سے گزرتے تو دیکھتے کہ وہ سہارا لئے کھڑے ہیں۔ وہ انہیں زندہ سمجھتے ہوئے ان سے ڈرتے رہے۔ ایک قول کے مطابق جن سال بھر اسی طرح کام کرتے رہے حتیٰ کہ دیمک نے ان کا عصا کھانا شروع کردیا یہاں تک کہ عصا بالکل ختم ہو کر گرگیا اور اس کے ساتھ حضرت سلیمان علیہ السلام کا جسد بھی زمین پر آرہا۔ یہ دیکھ کر شیاطین آزاد ہو کر بھاگ گئے اس طرح انسانوں پر واضح ہوگیا ﴿أَن لَّوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ الْغَيْبَ مَا لَبِثُوا فِي الْعَذَابِ الْمُهِينِ﴾ ” کہ اگر جنوں کے پاس علم غیب ہوتا تو وہ اس رسوا کن عذاب میں مبتلا نہ رہتے“ یعنی اس انتہائی سخت کام میں مصروف نہ رہتے۔ اگر ان کے پاس غیب کا علم ہوتا تو انہیں حضرت سلیمان علیہ السلام کے وفات پا جانے کا علم ہوتا، جو ان کی سب سے بڑی خواہش تھی تاکہ اس مشقت سے نجات پائیں۔ سبأ
15 ” سبا“ ایک معروف قبیلہ تھا جو یمن کے قریب ترین علاقوں میں آباد تھا۔ وہ ایک شہر میں آباد تھے جسے ” مَأرِب“ کہا جاتا تھا۔ تمام بندوں پر عموماً اور عربوں پر خصوصاً اللہ تعالیٰ کا لطف و کرم اور اس کی بے پایاں نعمتیں ہیں کہ اس نے قرآن مجید میں ان ہلاک شدہ قوموں کے بارے میں خبر دی ہے جن پر عذاب نازل کیا گیا، جو ان کے پڑوس میں آباد تھیں، جہاں ان کے آثار کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے اور لوگ ان کے واقعات کو ایک دوسرے سے نقل کرتے چلے آرہے ہیں اتکہ اس طرح ان کے واقعات کے ذریعے سے قرآن کی تصدیق ہوا اور یہ چیز نصیحت کے قریب تر ہو۔ ﴿لَقَدْ كَانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ﴾ ” سبا کے لئے تھی ان کے مسکنوں میں“ یعنی ان کے مساکن جہاں وہ آباد تھے ﴿ آيَةٌ ﴾ ” ایک نشانی“ اور وہ نشانی یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو بے شمار نعمتوں سے نوازا اور بہت سی تکالیف کو ان سے دور کیا اور یہ چیز اس بات کی مقتضی تھی کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے اور اس کا شکر ادا کرتے پھر اللہ تعالیٰ نے اس نشانی کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا : ﴿جَنَّتَانِ عَن يَمِينٍ وَشِمَالٍ﴾ ”ان کے دائیں بائیں دو باغات تھے۔“ ان کے پاس ایک وادی تھی جہاں بہت کثرت سے سیلاب آتے تھے انہوں نے اس پانی کا ذخیرہ کرنے کے لئے ایک بہت مضبوط بند تعمیر کیا۔ چنانچہ سیلاب کا پانی آکر اس وادی میں جمع ہوجاتا پھر وہ اس وادی کے دائیں بائیں لگائے ہوئے اپنے باغات کو اس پانی سے سیراب کرتے یہ دو عظیم باغ ان کے لئے اتنا پھل پیدا کرتے جو ان کی معیشت کے لئے کافی ہوتا۔ اس سے انہیں بہت مسرت حاصل ہوتی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو کئی پہلوؤں سے اپنی ان بے شمار نعمتوں کا شکر ادا کرنے کا حکم دیا : (1) یہ دونوں باغ ان کو ان کی خوراک کا بہت بڑا حصہ فراہم کرتے تھے۔ (2) اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کے علاقے کو، اس کی نہایت خوشگوار آب و ہوا، اس کے مضر صحت نہ ہونے اور رزق کے ذرائع کی فراوانی کی بنا پر بہت خوبصورت بنایا۔ (3) اللہ تعالیٰ نے ان سے وعدہ فرمایا تھا کہ اگر وہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کو بخش دے گا اور ان پر رحم فرمائے گا، اس لئے فرمایا : ﴿بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ﴾ ” پاکیزہ شہر ہے اور بخشنے والا رب ہے۔ “ (4) اللہ تعالیٰ نے جب دیکھا کہ وہ اپنی تجارت اور اپنے مکاسب میں ارض مبارک کے محتاج ہیں۔۔۔ سلف میں سے ایک سے زائد اہل علم کے مطابق ارض مبارک سے ” صنعاء“ کی بستیاں مراد ہیں اور بعض کی رائے ہے کہ اس سے مراد ارض شام ہے۔۔۔ تو ان کو ایسے ذرائع اور اسباب مہیا کردیئے جن کے ذریعے سے ان بستیوں تک پہنچنا ان کے لئے انتہائی آسان ہوگیا۔ انہیں دوران سفر امن اور عدم خوف حاصل ہوا، ان کے درمیان اور ارض مبارک کے درمیان بستیاں اور آبادیاں تھیں، بنا بریں انہیں زادراہ کا بوجھ اٹھانے کی مشقت نہیں اٹھانا پڑتی تھی۔ سبأ
16 سبأ
17 سبأ
18 اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَجَعَلْنَا بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الْقُرَى الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا قُرًى ظَاهِرَةً وَقَدَّرْنَا فِيهَا السَّيْرَ﴾ ” اور ہم نے ان کے اور ان بستیوں کے درمیان جن میں ہم نے برکت دی تھی، دیہات بنائے تھے جو سامنے نظر آتے تھے اور ان میں آمد و رفت کا اندازہ مقرر کردیا تھا۔“ یعنی ایک مقرر راستہ جسے وہ پہچانتے تھے اسی پر چلتے تھے اور یہ راستہ چھوڑ کر ادھر ادھر نہ ہوتے تھے۔ ﴿ لَيَالِيَ وَأَيَّامًا آمِنِينَ﴾ وہ ان میں راتوں اور دنوں کو نہایت اطمینان کے ساتھ، کسی خوف کے بغیر سفر کرتے تھے۔ یہ ان پر اللہ تعالیٰ کی کامل نعمت تھی کہ اس نے ان کو خوف سے مامون رکھا۔ پس انہوں نے نعمتیں عطا کرنے والے منعم حقیقی اور اس کی عبادت سے منہ موڑ لیا۔ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمت پر اترانے لگے اور اس سے اکتاگئے۔ یہاں تک کہ وہ تمنا کرنے لگے کہ ان کی بستیوں کے درمیان کا سفر، جو نہایت آسان ہے، کاش ! وہ دور ہوجائے۔ سبأ
19 ﴿وَظَلَمُوا أَنفُسَهُمْ ﴾ اور اللہ تعالیٰ اور اس کی نعمتوں کا انکار کر کے انہوں نے اپنے آپ پر ظلم کیا۔ اللہ تعالیٰ نے اسی نعمت کے ذریعے سے، جس نے انہیں سرکش بنا دیا تھا، ان کو سزا دی کہ ان کے اس بند کو توڑ دینے والا منہ زور سیلاب بھیجا جس نے ان کے اس بند کو توڑ کر ان کے باغات کو تباہ کردیا۔ ان کے پھل دار درختوں والے یہ باغات جھاڑ جھنکار میں بدل گئے، لہٰذا فرمایا : ﴿ وَبَدَّلْنَاهُم بِجَنَّتَيْهِمْ جَنَّتَيْنِ ذَوَاتَيْ أُكُلٍ﴾ ” اور ہم نے ان کو ان کے دو باغوں کے بدلے دو ایسے باغ دیے جن کے میوے“ یعنی بہت تھوڑا پھل جو ان کے کسی کام نہیں آسکتا تھا ﴿خَمْطٍ وَأَثْلٍ وَشَيْءٍ مِّن سِدْرٍ قَلِيلٍ﴾ ” بد مزہ تھے اور جن میں کچھ تو جھاؤ تھا اور تھوڑی سی بیریاں۔“ یہ سب معروف درخت ہیں۔ یہ سزا ان کے عمل کی جنس سے تھی یعنی جس طرح انہوں نے شکر حسن کو کفر قبیح میں بدل ڈالا سی طرح ان کی وہ نعمتیں بدل دی گئیں جن کا گزشتہ سطور میں ذکر کیا گیا ہے، اس لئے فرمایا : ﴿ذٰلِكَ جَزَيْنَاهُم بِمَا كَفَرُوا وَهَلْ نُجَازِي إِلَّا الْكَفُورَ﴾” یہ ہم نے انہیں ان کی ناشکری کی سزا دی اور ہم ناشکرے ہی کو سزا دیا کرتے ہیں۔“ یعنی ہم جزا کے طور پر عذاب۔۔۔ جیسا کہ سیاق کلام سے ظاہر ہے۔۔۔ اس شخص کے سوا کسی اور کو نہیں دیتے جس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کیا ہو اور اس کی عطا کردہ نعمت پر اتراتا رہا ہو۔ جب ان پر اللہ تعالیٰ کا عذاب ٹوٹ پڑا تو وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو کر بکھر گئے جبکہ اس سے پہلے وہ اکٹھے تھے۔ ہم نے ان کو قصے کہانیاں بنا کر رکھ دیا۔ لوگ ان کے بارے میں دن رات گفتگو کرتے ہیں۔ وہ پراگندگی میں ضرب المثل بن گئے اور ان کی مثال دی جانے لگی، چنانچہ کہا جاتا ہے :(تَفَرَّقُوا اَیْدِیْ سَبأً) ” وہ ایسے بکھر گئے جیسے قوم سبا بکھر گئی تھی۔“ ہر شخص ان کے قصے بیان کرتا تھا، مگر عبرت سے صرف وہی لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿إِنَّ فِي ذٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُورٍ ﴾ ” بلا شبہ اس میں ہر صبر کرنے والے اور شکر گزار بندے کے لئے نشانیاں ہیں۔“ ناپسندیدہ امور اور سختیوں پر صبر کرنے والا، جو ان کو صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر برداشت کرتا ہے، ان پر ناراضی کا اظہار نہیں کرتا بلکہ ان پر صبر کرتا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی نعمت کا اقرار اور اعتراف کر کے اس پر اس کا شکر ادا کرتا ہے، منعم کی حمد و ثنا بیان کرتا ہے اور اس نعمت کو اس کی اطاعت میں صرف کرتا ہے۔ جب ان کا قصہ سنا جاتا ہے کہ ان کے کرتوت کیا تھے اور ان کے ساتھ کیا گیا تو معلوم ہوجاتا ہے کہ ان کو یہ سزا اس بنا پر دی گئی کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی نعمت کی ناسپاسی کی تھی، نیز یہ اس پر بھی دلیل ہے کہ جو کوئی اس قسم کا رویہ اختیار کرے گا اس کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا جائے گا۔ (1) یہ آیات کریمہ دلالت کرتی ہیں کہ ’’شکر“ اللہ تعالیٰ کی نعمت کی حفاظت اور اسی کی ناراضی کو دور کرتا ہے۔ (٢) یہ آیات کریمہ دلالت کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے رسول اپنی خبر میں سچے ہیں۔ (٣) ان آیات سے مستفاد ہوتا ہے کہ جزا حق ہے جیسا کہ اس کا نمونہ دنیا میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے ذکر فرمایا کہ سبا ایسی قوم ہے جس کی وجہ سے شیطان نے اپنا یہ دعویٰ سچ کر دکھایا جیسا کہ اس نے کہا تھا : ﴿قَالَ فَبِعِزَّتِكَ لَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ إِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ﴾ تیری عزت کی قسم ! میں ان سب کو بدر راہ کر کے رہوں گا، سوائے تیرے مخلص بندوں کے۔ “ یہ شیطان کا گمان تھا جو یقین پر مبنی نہ تھا کیونکہ شیاطن غیب کا علم جانتا ہے نہ اس کے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی خبر ہی آئی تھی کہ وہ ان سب کو بد راہ کرے گا سوائے ان مستثنیٰ لوگوں کے۔ پس یہ لوگ اور ان جیسے دیگر لوگ، جن کے بارے میں شیطان کا گمان سچا ثابت ہوا، اس نے ان کو اپنے راستے پر چلنے کی دعوت دی اور ان کو بہکایا﴿فَاتَّبَعُوهُ إِلَّا فَرِيقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ﴾ ” تو مومنوں کی ایک جماعت کے سوا وہ اس کے پیچھے چل پڑے۔“ یعنی جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی نعمت کی ناشکری نہیں کی تو یہ لوگ ابلیس کے گمان میں داخل نہیں ہیں۔ یہ بھی احتمال ہے کہ قوم سبا کا قصہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد پر ختم ہوگیا ہو: ﴿إِنَّ فِي ذٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُورٍ﴾ اور پھر اس آیت کر یمہ سے دوبارہ کلام کی ابتدا کی ہو ﴿وَلَقَدْ صَدَّقَ عَلَيْهِمْ﴾ ” اور تحقیق شیطان نے ان کے بارے میں (اپنا گمان) سچ کر دکھایا“ یعنی تمام انسانوں کی جنس کے بارے میں تب یہ آیت کریمہ، ان تمام لوگوں کے بارے میں عام ہے جنہوں نے شیطان کی پیروی کی۔ سبأ
20 سبأ
21 پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَمَا كَانَ لَهُ ﴾ ” اور نہیں ہے اس کو“ یعنی ابلیس کو ﴿عَلَيْهِم مِّن سُلْطَانٍ ﴾ ” ان پر کوئی غلبہ۔“ یعنی شیطان کو کوئی تسلط اور غلبہ حاصل ہے نہ وہ کسی کو اپنے ارادے کے مطابق عمل کرنے پر مجبور کرسکتا ہے لیکن یہ تو اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے جو شیطان کے تسلط اور بنی آدم کو گمراہ کرنے میں اس کی فریب کاری کا تقاضا کرتی ہے۔ ﴿ لِنَعْلَمَ مَن يُؤْمِنُ بِالْآخِرَةِ مِمَّنْ هُوَ مِنْهَا فِي شَكٍّ﴾ ” تاکہ ہم معلوم کرلیں کہ کون آخرت پر ایمان لاتا ہے اور کون اس بارے میں شک میں پڑا ہوا ہے۔“ تاکہ امتحان کا بازار گرم رہے، سچے اور جھوٹے میں امتیاز واقع ہوجائے، وہ شخص پہچانا جائے جس کا ایمان صحیح ہے جو امتحان، آزمائش اور شیطانی شبہات کے وقت ثابت قدم رہا اور وہ شخص بھی پہچان لیا جائے جس کا ایمان صحیح نہیں جو ادنیٰ سے شبہ ہے پر متزلزل ہوجاتا ہے اور اس سے متضاد تھوڑی سی دعوت پر اپنے موقف سے ہٹ جاتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اسے امتحان کا ذریعہ بنایا ہے جس سے وہ اپنے بندوں کو آزماتا ہے اور پاک لوگوں میں سے ناپاک کو ظاہر کردیتا ہے ﴿وَرَبُّكَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ حَفِيظٌ﴾ ” اور آپ کا رب ہر چیز پر محافظ ہے۔“ وہ بندوں کی حفاظت کرتا ہے، ان کے اعمال اور اعمال کی جزا کو محفوظ رکھتا ہے، لہٰذا اللہ تعالیٰ ان کو ان کے اعمال کی پوری جزا دے گا۔ سبأ
22 ﴿قُلِ﴾ اے رسول ! جو لوگ مخلوق کو اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہراتے ہیں جو کسی کو کوئی نفع نقصان نہیں دے سکتی انہیں خود ساختہ معبودوں کا عجز اور ان کی عبادت کا بطلان واضح کرتے ہوئے کہہ دیجیے : ﴿ادْعُوا الَّذِينَ زَعَمْتُم مِّن دُونِ اللّٰـهِ﴾ یعنی جنہیں تم اللہ تعالیٰ کا شریک سمجھتے ہو، اگر تمہارا پکارنا کوئی فائدہ دے سکتا ہے، تو انہیں پکار دیکھو۔ ان کی بے بسی اور تمہاری پکار کا جواب دینے پر عدم قدرت کے اسباب ہر لحاظ سے بہت زیادہ اور واضح ہیں۔ بلاشبہ وہ کسی ادنیٰ سی چیز کے بھی مالک نہیں ہیں۔ ﴿لَا يَمْلِكُونَ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ﴾ ” وہ زمین و آسمان میں ذرہ بھر چیز کے بھی مالک نہیں ہیں“ یعنی وہ مستقل طور پر کسی چیز کے مالک ہیں نہ کسی چیز کی ملکیت میں اشتراک رکھتے ہیں، بنا بریں فرمایا : ﴿وَمَا لَهُمْ﴾ ” اور ان کے لئے نہیں ہے“ یعنی جن کو تم نے معبود سمجھ رکھا ہے ﴿ فِيهِمَا﴾ آسمانوں اور زمین میں ﴿مِن شِرْكٍ﴾ ” کوئی شراکت“ یعنی خواہ وہ قلیل ہو یا کثیر، ان کا اس میں کوئی بھی حصہ نہیں ہے۔ پس وہ کسی چیز کے مالک ہیں نہ ملکیت میں ان کا کوئی حصہ ہے۔ باقی رہی یہ بات کہ ان کے اللہ تعالیٰ کی الوہیت اور ملکیت میں شریک نہ ہونے کے باوجود ان کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ وہ مالک کے اعوان و انصار اور اس کے وزراء، لہٰذا ان کو پکارنا نفع مند ہے، کیونکہ بادشاہ ان کا محتاج ہوتا ہے اور وہ اپنے متعلقین کی حاجتیں پوری کرتے ہیں۔ پس اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس مرتبہ و مقام کی بھی نفی فرما دی، چنانچہ فرمایا : ﴿ وَمَا لَهُ﴾ ” اور نہیں ہے اس کے لئے“ یعنی اللہ تعالیٰ واحد قہار کے لئے ﴿ مِنْهُم ﴾ ان خود ساختہ معبودوں میں سے ﴿ مِّن ظَهِيرٍ﴾ کوئی معاون اور وزیر، جو کاروبار، اقتدار اور تدبیر مملکت میں اس کی مدد کرے۔ سبأ
23 باقی رہی شفاعت تو اللہ تعالیٰ نے اس کی بھی نفی فرما دی، فرمایا : ﴿وَلَا تَنفَعُ الشَّفَاعَةُ عِندَهُ إِلَّا لِمَنْ أَذِنَ لَهُ﴾ ” اور اس کے ہاں سفارش فائدہ نہیں دے گی مگر اس کے لئے جس کے بارے میں وہ اجازت بخشے۔“ یہ وہ تعلقات اور تمام امیدوں کو منقطع کردیا اور ان کے بطلان کو اچھی طرح واضح کر کے شرک کی جڑ کاٹ کر رکھ دی۔ چونکہ مشرک غیر اللہ کی عبادت صرف اس لئے کرتا ہے کہ اسے غیر اللہ سے کسی نفع کی امید ہوتی ہے اور یہی امید شرک کی موجب ہوتی ہے تو جب یہ معلوم ہوجائے کہ وہ ہستی، جسے یہ اللہ کے سوا پکارتا ہے، کسی نفع و نقصان کی مالک ہے نہ مالک کی ملکیت میں شریک ہے، نہ اس کی معاون اور مددگار ہے اور نہ وہ مالک کی اجازت کے بغیر کسی کی سفارش کرسکتی ہے تو اس کا یہ پکارنا اور اس کی یہ عبادت عقل کے مطابق گمراہی اور شرع کے مطابق باطل ہے۔ اس کے برعکس مشرک کو اس سے جو چیز حاصل ہوتی ہے وہ اس کے مقصود مطلوب کے بالکل الٹ ہوتی ہے۔ مشرک ان خود ساختہ معبودوں کے ذریعے سے نفع چاہتا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ نے اس نفع کا بطلان اور اس کا معدوم ہونا واضح کردیا ہے اور بعض دیگر آیات میں ان خود ساختہ معبودوں کی عبادت کرنے والے کے لئے ان کے ضرر کو بیان کردیا ہے۔ یہ بھی واضح کردیا ہے کہ قیامت کے روز یہ ایک دوسرے کا انکار کریں گے ایک دوسرے پر لعنت بھیجیں گے اور ان کا ٹھکانا جہنم ہوگا۔ فرمایا : ﴿وَإِذَا حُشِرَ النَّاسُ كَانُوا لَهُمْ أَعْدَاءً وَكَانُوا بِعِبَادَتِهِمْ كَافِرِينَ ﴾ (الاحقاف :46؍6) ’’اور جب تمام لوگوں کو جمع کیا جائے گا تو وہ اپنی عبادت کرنے والوں کے دشمن ہوں گے اور ان کی عبادت کا انکار کریں گے۔“ بڑی عجیب بات ہے کہ مشرک آدمی تکبر و استکبار کی وجہ سے رسولوں کی اطاعت اس گمان سے نہیں کرتا کہ وہ بشر ہیں اور اس کا حال یہ ہے کہ وہ شجر و حجر کو پکارتا ہے اور ان کے سامنے سجدہ ریز ہوتا ہے، محض تکبر کی بنا پر رحمان کے لئے اخلاص نہیں رکھتا مگر اپنے بدترین دشمن شیطان کی اطاعت کرتے ہوئے ان ہستیوں کی عبادت پر راضی ہوجاتا ہے جن کا نقصان اس کے نفع سے زیادہ قریب ہے۔ ﴿حَتَّىٰ إِذَا فُزِّعَ عَن قُلُوبِهِمْ قَالُوا مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ قَالُوا الْحَقَّ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ﴾ ” حتیٰ کہ جب ان کے دلوں سے گھبراہٹ دور کردی جاتی ہے تو پوچھتے ہیں تمہارے پروردگار نے کیا فرمایا؟ تو وہ جواب دیتے ہیں کہ حق فرمایا اور وہ بلند و بالا اور بہت بڑا ہے۔“ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں یہ احتمال موجود ہے کہ اس مقام پر ضمیر مشرکین کی طرف لوٹتی ہو کیونکہ آیت کریمہ میں لفظاً وہی مذکور ہیں اور ضمائر کے بارے میں قاعدہ بھی یہی ہے کہ یہ اپنے قریب ترین مذکور کی طرف لوٹتی ہیں تب اس صورت میں معنی یہ ہوگا کہ قیامت کے روز جب مشرکین کی گھبراہٹ دور ہوگی اور انہیں ہوش آئے گا تو ان سے دنیا میں ان کے احوال کے بارے میں سوال کیا جائے گا، حق لانے والے رسولوں کی تکذیب کے بارے میں ان سے پوچھا جائے گا تو وہ اقرار کریں گے کہ کفر اور شرک پر مبنی ان کا موقف باطل تھا اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا اور انبیاء و مرسلین نے اس کے بارے میں خبر دی تھی وہی حق تھا۔ تو اس سے پہلے جو کچھ وہ چھپایا کرتے تھے سب ان کے سامنے ظاہر ہوجائے گا اور انہیں معلوم ہوجائے گا کہ حق تو اللہ تعالیٰ کے لئے ہے اور وہ اپنے گناہوں کا اعتراف کریں گے۔ ﴿وَهُوَ الْعَلِيُّ﴾ وہ بذات تمام مخلوقات کے اوپر ہے، وہ ان پر غالب ہے اور وہ اپنی عظیم اور جلیل القادر صفات کی بنا پر عالی قدر ہے۔ ﴿الْكَبِيرُ﴾ وہ اپنی ذات و صفات میں بہت بڑا ہے۔ یہ اس کی بلندی ہے کہ اس کا حکم سب پر غالب ہے نفوس اس کے سامنے سر تسلیم خم کئے ہوئے ہیں حتیٰ کہ مشرکین و متکبرین کے نفوس بھی سرافگندہ ہیں۔ یہ معنی زیادہ واضح ہے اور یہی وہ معنی ہے جس پر سیاق کلام دلالت کرتا ہے۔ اس آیت کریمہ میں یہ احتمال بھی ہوسکتا ہے کہ ضمیر ملائکہ کی طرف لوٹتی ہو، یعنی جب اللہ تعالیٰ وحی کے ذریعے سے کلام فرماتے ہیں اور فرشتے اسے سنتے ہیں تو وہ غش کھا کر سجدے میں گر جاتے ہیں، پھر سب سے پہلے جبریل سر اٹھاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ جو ارادہ فرماتے ہیں اس کے بارے میں ان سے وحی کے ذریعے سے کلام کرتے ہیں۔ جب فرشتوں کی مدہوشی دور اور ان کی گھبراہٹ زائل ہوجاتی ہے تو وہ کلام الٰہی کے بارے میں ایک دوسرے سے سوال کرتے ہیں جس کی بنا پر ان پر غشی طاری ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے کیا ارشاد فرمایا ہے؟ وہ ایک دوسرے سے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حق ارشاد فرمایا : یہ بات وہ یا تو اجمالی طور پر کہتے ہیں کیونکہ انہیں علم ہے کہ اللہ تعالیٰ حق کے سوا کچھ نہیں کہتے یا وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فلاں فلاں بات ارشاد فرمائی ہے۔ یہ اس کلام کی وجہ سے کہتے ہیں جو انہوں نے اس سے سنا ہے اور یہ سب حق ہے۔ تب اس احتمال کے مطابق معنی یہ ہوگا کہ مشرکین جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ ان خود ساختہ معبودوں کی عبادت کی جن کے عجز اور نقص کے بارے میں ہم آپ کو بتا چکے ہیں کہ وہ کسی بھی لحاظ سے کسی کو کوئی نفع نہیں دے سکتے تو ان کفار نے رب عظیم کی عبادت میں اخلاص سے کیسے انحراف کیا، جو بلند اور بہت بڑا ہے جس کی عظمت و جلال کا یہ حال ہے کہ بڑے بڑے مکرم اور مقرب فرشتے، اس کا کلام سن کر خشوع و خضوع کی بنا پر غش کھا کر گر پڑتے ہیں اور اقرار کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ حق کے سوا کچھ نہیں کہتا۔ ان مشرکین کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ تکبر سے اس ہستی کی عبادت سے انکار کرتے ہیں جس کی عظمت، اقتدار، تسلط اور شان کا یہ حال ہے۔ پس اللہ تبارک و تعالیٰ مشرکین کے شرک اور ان کے کذب و بہتان طرازی سے بلند و بالا ہے۔ سبأ
24 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے نبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرماتا ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرتے ہیں ان سے ان کے شرک کی صحت کی دلیل طلب کرتے ہوئے کہہ دیجیے !﴿ مَن يَرْزُقُكُم مِّنَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ﴾ ” آسمانوں اور زمین سے تمہیں رزق کون فراہم کرتا ہے؟“ تو وہ لازمی طور پر اقرار کریں گے کہ اللہ تعالیٰ انہیں رزق مہیا کرتا ہے اگر وہ اس حقیقت کا اقرار نہ کریں تو ﴿قُلِ اللّٰـهُ﴾ ” کہہ دیجیے کہ اللہ تعالیٰ رزق عطا کرتا ہے۔ “ آپ ایک بھی ایسا شخص نہ پائیں گے جو اس بات کو رد کرسکے۔ جب یہ حقیقت واضح ہوگئی کہ اکیلا اللہ تعالیٰ ہی ہے جو زمین و آسمان سے تمہیں رزق عطا کرتا ہے، وہ تمہارے لئے آسمان سے بارش برساتا ہے، وہ تمہارے لئے نباتات اگاتا ہے، وہ تمہارے لئے دریاؤں کو جاری کرتا ہے، وہ درختوں پر تمہارے لئے پھل اگاتا ہے، اس نے تمام حیوانات کو تمہارے رزق اور تمہاری دیگر منفعتوں کے لئے تخلیق فرمایا۔ پھر تم اس کے ساتھ ان ہستیوں کی کیوں عبادت کرتے ہو جو تمہیں رزق عطا کرسکتی ہیں نہ کوئی نفع پہنچا سکتی ہیں؟ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿وَإِنَّا أَوْ إِيَّاكُمْ لَعَلَىٰ هُدًى أَوْ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ ﴾ یعنی ہم دونوں گروہوں میں سے ایک گروہ ہدایت پر یا واضح گمراہی میں غرق ہے۔ یہ بات وہی شخص کہہ سکتا ہے جس پر حق ظاہر اور صواب واضح ہو، جسے اپنے موقف کے حق ہونے اور اپنے مخالف کے موقف کے بطلان کا یقین ہو۔ ہم نے وہ تمام دلائل واضح کردیئے ہیں جو ہم پیش کرتے ہیں اور جو تم پیش کرتے ہو۔ جن سے کسی شک کے بغیر یقینی علم حاصل ہوجاتا ہے کہ ہم میں سے حق پر کون ہے اور باطل پر کون ؟ کون ہدایت یافتہ ہے اور کون گمراہ ؟ حتی کہ اس کے بعد تعیین ایسے ہوجاتی ہے جس میں کوئی فائدہ نہیں۔ اگر آپ اس شخص کے درمیان۔۔۔ جو اس اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف دعوت دیتا ہے جس نے تمام مخلوقات کو پیدا کیا، جو ان میں ہر قسم کا تصرف کرتا ہے، جو ہر قسم کی نعمت عطا کرتا ہے، جس نے ان کو رزق مہیا کیا، ان تک ہر قسم کی نعمت پہنچائی، ان سے ہر برائی کو دور کیا۔ تمام حمد و ثنا اسی کے لئے ہے، تمام فرشتے اور ان سے کم تر مخلوق اس کی ہیبت کے سامنے سرنگوں ہیں اور اس کی عظمت کے سامنے ذلت کا اظہار کرتے ہیں، تمام سفارشی اس سے خائف ہیں، ان میں سے کوئی شخص اس کی اجازت کے بغیر سفارش نہیں کرسکتا جو اپنی ذات میں اور اپنے اوصاف وا فعال میں بہت بلند اور بہت بڑا ہے، جو ہر قسم کے کمال، جلال اور جمال کا مالک ہے، جو ہر قسم کی مجد اور حمد و ثنا کا مستحق ہے، وہ اس ہستی کے تقرب کے حصول کی دعوت دیتا ہے جس کی یہ شان ہے، اس کے لئے اخلاص عمل کا حکم دیتا ہے، اس کے سوا دیگر ہستیوں کی عبادت سے روکتا ہے۔۔۔ اور اس شخص کے درمیان موازنہ کریں جو خود ساختہ معبودوں، بتوں اور قبروں کے تقرب کے حصول کی کوشش کرتا ہے، جو کوئی چیز پیدا کرسکتے ہیں نہ رزق دے سکتے ہیں، وہ خود اپنی ذات کے لئے کسی نفع و نقصان، موت و حیات اور مرنے کے بعد دوبارہ زندگی کا کوئی اختیار رکھتے ہیں نہ اپنے عبادت گزاروں کے لئے، بلکہ یہ تو جمادات اور پتھر ہیں جو عقل رکھتے ہیں نہ اپنے عبادت گزاروں کی پکار کو سنتے ہیں، اگر سن بھی لیں تو ان کو جواب نہیں دے سکتے۔ قیامت کے روز یہ ان کے شرک کا انکار اور ان سے بیزاری کا اظہار کریں گے، ایک دوسرے پر لعنت بھیجیں گے۔ اللہ تعالیٰ کی بادشاہی میں ان کا کوئی حصہ ہے نہ شراکت اور نہ وہ اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر ان کی سفارش کرسکتے ہیں۔ یہ شخص اس ہستی کو پکارتا ہے، جس کا مذکورہ بالا وصف ہے، امکان بھر اس کا تقرب حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے، اس شخص کے ساتھ عداوت رکھتا اور اس کے ساتھ جنگ کرتا ہے جو دین میں اخلاص کا حامل ہے اور وہ اللہ کے رسولوں کی تکذیب کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے لئے اخلاص کی دعوت دیتے ہیں۔۔۔ تو آپ پر واضح ہوجائے گا کہ فریقین میں سے کون ہدایت یافتہ اور کون گمراہ ہے، کون نیک بخت اور کون بدبخت ہے۔ اس بات کی حاجت نہیں کہ اس کو بیان کرنے کے لئے آپ کی کوئی مدد کرے کیونکہ زبان حال زبان مقال سے زیادہ واضح اور زیادہ فصیح ہے۔ سبأ
25 ﴿قُل﴾ ” کہہ دیجیے :“ انہیں ﴿لَّا تُسْأَلُونَ عَمَّا أَجْرَمْنَا وَلَا نُسْأَلُ عَمَّا تَعْمَلُونَ﴾ یعنی ہم میں سے اور تم میں سے ہر شخص کا اپنا اپنا عمل ہے۔ ہمارے جرائم اور گناہوں کے بارے میں تم سے نہیں پوچھا جائے گا اور نہ تمہارے اعمال کے بارے میں ہم سے سوال کیا جائے گا۔ ہمارا اور تمہارا مقصد صرف طلب حق اور انصاف کے راستے پر چلنا ہونا چاہئے اور چھوڑو اس بات کو کہ ہم کیا کرتے ہیں، نیز یہ بات تمہارے لئے اتباع حق سے مانع نہیں ہونی چاہئے کیونکہ دنیا کے احکام ظواہر پر جاری ہوتے ہیں، ان میں حق کی پیروی کی جاتی ہے اور باطل سے اجتناب کیا جاتا ہے۔ رہے اعمال، تو ان کے فیصلے کے لئے آخرت کا گھر ہے، ان کے بارے میں احکم الحاکمین اور سب سے زیادہ عادل ہستی فیصلہ کرے گی۔ سبأ
26 بنا بریں فرمایا : ﴿ قُلْ يَجْمَعُ بَيْنَنَا رَبُّنَا ثُمَّ يَفْتَحُ بَيْنَنَا ﴾ ” کہہ دیجیے کہ ہمارا رب ہمیں جمع کرے گا پھر ہمارے درمیان)حق و انصاف کے ساتھ( فیصلے کرے گا۔“ یعنی اللہ تعالیٰ ہمارے درمیان ایسا فیصلہ کرے گا جس سے سچے اور جھوٹے، ثواب کے مستحق اور عذاب کے مستحق لوگوں کے درمیان امتیاز واضح ہوجائے گا اور وہ سب سے اچھا فیصلہ کرنے والا ہے۔ سبأ
27 ﴿قُلْ﴾ اے رسول ! آپ اور وہ، جو آپ کا قائم مقام ہو، ان سے کہہ دیں : ﴿أَرُونِيَ الَّذِينَ أَلْحَقْتُم بِهِ شُرَكَاءَ﴾ ” مجھے وہ لوگ تو دکھاؤ جن کو تم نے اس کا شریک بنا کر اس کے ساتھ ملا رکھا ہے۔“ یعنی مجھے دکھاؤ وہ کہاں ہیں؟ ان کی معرفت کا کیا طریقہ ہے؟ وہ زمین میں ہیں یا آسمان میں؟ کیونکہ غیب اور شہادت کو جاننے والی ہستی نے ہمیں آگاہ فرمایا ہے کہ اس کائنات میں اس کا کوئی شریک نہیں۔ ﴿وَيَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللّٰـهِ مَا لَا يَضُرُّهُمْ وَلَا يَنفَعُهُمْ وَيَقُولُونَ هَـٰؤُلَاءِ شُفَعَاؤُنَا عِندَ اللّٰـهِ ۚ قُلْ أَتُنَبِّئُونَ اللّٰـهَ بِمَا لَا يَعْلَمُ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَىٰ عَمَّا يُشْرِكُونَ﴾ ( یونس:10؍18)” اور یہ لوگ اللہ کے سوا ان کی عبادت کر رہے ہیں جو ان کو نقصان پہنچا سکتے ہیں نہ نفع اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے ہاں ہمارے سفارشی ہیں، آپ کہہ دیجیے تم اللہ کو جتاتے ہو جو اس کو معلوم نہیں آسمانوں میں اور نہ زمین میں وہ ایسی باتوں سے پاک اور بالاتر ہے جو یہ شرک کرتے ہیں۔ “﴿وَمَا يَتَّبِعُ الَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللّٰـهِ شُرَكَاءَ إِن يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِنْ هُمْ إِلَّا يَخْرُصُونَ﴾(یونس:10؍66)” اور جو یہ لوگ اللہ کے سوا خود ساختہ شریکوں کو پکارتے ہیں، یہ محض وہم و گمان کی پیروی کرتے ہیں اور محض اندازے لگاتے ہیں۔ “ اسی طرح اللہ تعالیٰ کی خاص مخلوق، یعنی انبیاء و مرسلین کے علم میں بھی کوئی اللہ تعالیٰ کا شریک نہیں ہے، تو اے مشرکو ! مجھے دکھاؤ جن کو تم نے اپنے زعم باطل کے مطابق اللہ تعالیٰ کے ﴿ شُرَكَاءَ﴾ ” شریک“ ٹھہرا دیا ہے۔ یہ ایسا سوال ہے جس کا جواب ان سے ممکن نہیں، اس لئے فرمایا : ﴿ كَلَّا﴾ ” ہرگز نہیں“ یعنی اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک، کوئی ہمسر اور کوئی مدمقابل نہیں۔ ﴿بَلْ هُوَ اللّٰـهُ﴾ ” بلکہ وہ اللہ ہے“ جس کے سوا کوئی الوہیت اور عبادت کا مستحق نہیں۔ ﴿الْعَزِيزُ ﴾ جو ہر چیز پر غالب ہے، اس کے سوا ہر چیز مقہور اور اس کے دست تدبیر کے تحت مسخر ہے۔ ﴿ الْحَكِيمُ﴾ ” حکمت والا ہے“ اس نے جو چیز بھی تخلیق کی نہایت مہارت سے تخلیق کی۔ اس نے جو شریعت بنائی، بہترین شریعت بنائی۔ اگر اس کی شریعت میں صرف یہی حکمت پنہاں ہوتی کہ اس نے اپنی توحید اور اخلاص فی الدین کا حکم دیا، اسی کو پسند فرمایا اور اسی کو نجات کی راہ قرار دیا ہے، اس نے شرک اور اللہ تعالیٰ کے ہمسر بنانے سے روکا اور اس کو ہلاکت اور بدبختی کا راستہ قرار دیا ہے۔۔۔ تو اس کے کمال حکمت کے اثبات کے لئے یہی دلیل کافی ہے۔۔۔ تب اس شریعت کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں جس کے تمام اوامرو نواہی حکمت پر مشتمل ہیں؟ سبأ
28 اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ اس نے اپنے رسول محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو صرف اس لئے مبعوث فرمایا کہ تمام لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے ثواب کی خوش خبری دے اور انہیں ان اعمال سے آگاہ کرے جو اس ثواب کے موجب ہیں اور انہیں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرائے اور انہیں ان اعمال سے آگاہ کرے جو اس عذاب کے موجب ہیں اور آپ کا اس معاملے میں کوئی اختیار نہیں۔ اہل تکذیب اور اہل عناد آپ سے جن معجزوں کا مطالبہ کرتے ہیں وہ آپ کے فرائض میں شامل نہیں ہیں بلکہ وہ سب اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں۔ ﴿ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ ﴾ ” لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔“ یعنی ان کے پاس صحیح علم نہیں ہے، بلکہ یہ لوگ یا تو جاہل ہیں یا عناد رکھتے ہیں اور اپنے علم کے مطابق عمل نہیں کرتے، تب ان کا حال یہ ہے کہ گویا ان کے پاس علم ہی نہیں۔ جن کے پاس علم نہ ہو، ان کا رسول سے معجزے کا مطالبہ پورا نہ ہونا، رسول کی دعوت کو ٹھکرانے کا موجب ہوتا ہے۔ انہوں نے جن چیزوں کا مطالبہ کیا تھا ان میں سے ایک عذاب کے جلد آنے کا مطالبہ تھا جس سے انہیں ڈرایا گیا تھا۔ سبأ
29 فرمایا : ﴿وَيَقُولُونَ مَتَىٰ هَـٰذَا الْوَعْدُ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ﴾ ” اور کہتے ہیں، اگر تم سچے ہو تو یہ وعدہ کب وقوع پذیر ہوگا؟“ یہ مطالبہ ان کی طرف سے محض ظلم تھا کیونکہ رسول کی صداقت اور اس وعدے کے پورا ہونے کے وقت سے آگاہ کرنے میں کون سا تلازم ہے؟ کیا یہ حق کو ٹھکرانے اور حماقت و سفاہت کے سوا کچھ اور ہے؟ کیا دنیا کے کسی معاملے میں ڈرانے والا کوئی شخص اگر ایسے لوگوں کے پاس آئے جو اس کی صداقت اور خیر خواہی کو جانتے ہیں اور ان کا ایک دشمن بھی ہے جو ان پر حملہ کرنے کے لئے تیار اور اس کے لئے موقع کا متلاشی ہے، تو یہ شخص ان لوگوں کے پاس آکر کہتا ہے :” میں تمہارے دشمن کو اس حال میں چھوڑ کر آیا ہوں کہ وہ روانہ ہوچکا ہے وہ تمہیں نیست و نابود کرنا چاہتا ہے۔“ اگر ان میں سے بعض لوگ کہیں :” اگر تو سچا ہے تو ہمیں بتا کہ کس وقت وہ ہمارے پاس پہنچے گا اور اس وقت وہ کہاں ہے؟“ کیا یہ سوال کرنے والا شخص عقل مند شمار کیا جائے گا یا اس پر سفاہت اور پاگل پن کا حکم لگایا جائے گا؟ خبر دینے والا سچا یا جھوٹا ہوسکتا ہے، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دشمن کا ارادہ کسی اور طرف کا ہو، یہ بھی ممکن ہے کہ دشمن اپنا ارادہ ترک کر دے اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ کسی مضبوط قلعے میں ہوں جہاں وہ اس دشمن سے اپنی مدافعت کرسکتے ہوں، تب وہ اس شخص کو کیوں کر جھٹلا سکتے ہیں جو مخلوق میں سب سے زیادہ سچ بولنے والا ہے، جو اپنی خبر میں ہر غلطی سے پاک ہے، جو اس آنے والے یقینی عذاب کے بارے میں اپنی خواہش نفس سے کچھ نہیں کہتا، اس عذاب سے بچنے کے لئے کوئی پناہ گاہ ہے نہ اس سے بچانے والا کوئی مددگار ہے۔ کیا اس شخص کی خبر کو محض اس لئے رد کرنا کہ اس نے عذاب کے وقوع کا وقت نہیں بتایا، سب سے بڑی حماقت نہیں ! سبأ
30 ﴿قُل ﴾ ” کہہ دیجیے :“ ان کو اس عذاب کے وقوع کی خبر دیتے ہوئے جس میں کوئی شک نہیں ﴿لَّكُم مِّيعَادُ يَوْمٍ لَّا تَسْتَأْخِرُونَ عَنْهُ سَاعَةً وَلَا تَسْتَقْدِمُونَ ﴾ ” تم سے ایک دن کا وعدہ ہے جس سے ایک گھڑی پیچھے رہو گے نہ آگے بڑھو گے۔“ تو اس دن سے ڈرو اور اس کے لئے تیار کرو۔ سبأ
31 اللہ تبارک و تعالیٰ نے ذکر فرمایا کہ عذاب کے لئے جلدی مچانے والوں کے لئے عذاب کا جو وعدہ کیا گیا ہے اپنے وقت پر اس کا پورا ہونا ضروری ہے۔ یہاں فرمایا کہ اگر آپ اس روز ان کا حال دیکھیں، جب یہ اپنے رب کے حضور کھڑے ہوں گے، سردار اور کفر وضلالت میں ان کی پیروی کرنے والے اکٹھے کھڑے ہوں گے، تو آپ کو بہت بڑا اور انتہائی ہولناک معاملہ نظر آئے گا اور آپ دیکھیں گے کہ وہ کیسے ایک دوسرے کی بات کو رد کرتے ہیں: ﴿يَقُولُ الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا﴾ ” وہ لوگ جو کمزور کئے گئے تھے وہ کہیں گے“ یعنی متبعین ﴿لِلَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا ﴾ ” ان سے جنہوں نے تکبر کیا۔“ اس سے مراد قائدین کفر ہیں ﴿لَوْلَا أَنتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِينَ﴾ ” اگر تم نہ ہوتے تو ہم ضرور مومن ہوتے۔“ مگر تم ہمارے اور ایمان کے درمیان حائل ہوگئے، تم نے کفر کو ہمارے سامنے مزین کیا اور تمہاری پیروی میں ہم نے کفر کو اختیار کیا۔ ایسا کہنے میں ان کا مقصود یہ ہوگا کہ ان کی بجائے عذاب ان سرداروں کو دیا جائے۔ سبأ
32 ﴿قَالَ الَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا لِلَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا ﴾ ” جنہوں نے تکبر کیا وہ کمزور بنائے ہوئے لوگوں سے کہیں گے، یہ سردار استفہامی انداز میں ان کو خبر دیں گے کہ سب اس عذاب کو بھگتیں گے۔ ﴿أَنَحْنُ صَدَدْنَاكُمْ عَنِ الْهُدَىٰ بَعْدَ إِذْ جَاءَكُم﴾ ” کیا ہم نے تمہیں ہدایت آجانے کے بعد اس سے روکا تھا؟“ یعنی کیا ہم نے تمہیں اپنی قوت اور غلبے کی وجہ سے ایمان لانے سے روکا تھا؟ ﴿بَلْ كُنتُم مُّجْرِمِينَ﴾ ”بلکہ تم مجرم تھے۔“ یعنی تم مقہور و مغلوب نہ تھے، تم سے جبراً کفر کا ارتکاب نہیں کرایا گیا تھا بلکہ تم نے اپنے اختیار سے جرم کا ارتکاب کیا تھا۔ اگرچہ ہم نے تمہارے سامنے کفر کو مزید کیا تھا، تاہم تم پر ہمیں کوئی تسلط اور اختیار تو حاصل نہ تھا۔ سبأ
33 ﴿وَقَالَ الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا لِلَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا بَلْ مَكْرُ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ إِذْ تَأْمُرُونَنَا أَن نَّكْفُرَ بِاللّٰـهِ وَنَجْعَلَ لَهُ أَندَادًا﴾’’ور کمزور لوگ تکبر کرنے والے لوگوں سے کہیں گے : بلکہ تم رات دن مکر و فریب کرتے رہتے تھے جس وقت تم ہمیں حکم دیتے تھے کہ ہم اللہ تعالیٰ کا انکار کریں اور اس کے لئے شریک ٹھہرائیں۔“ یعنی تم نے جو دن رات سازشیں کیں اور تم نے ہمارے ساتھ مکر و فریب کیا اور اس مکرو فریب سے ہم پر گمراہی کو مسلط کیا، تم ہمارے سامنے کفر کو مزین کیا کرتے تھے پھر اس کی طرف دعوت دیا کرتے تھے۔ تم اس کے بارے میں دعویٰ کیا کرتے تھے کہ یہ حق ہے اور حق میں جرح و قدح کر کے اس کی قدر گھٹایا کرتے تھے اور بزعم خود حق کو باطل قرار دیا کرتے تھے۔ تم ہمارے خلاف سازشوں کے جال بنتے رہے یہاں تک کہ تم نے ہمیں گمراہ کر کے فتنے میں مبتلا کردیا۔ آپس میں ان کی یہ گفتگو اس کے سوا انہیں کوئی فائدہ نہ دے گی کہ وہ ایک دوسے سے بے زاری اور سخت ندامت کا اظہار کریں گے، اس لئے فرمایا : ﴿وَأَسَرُّوا النَّدَامَةَ لَمَّا رَأَوُا الْعَذَابَ﴾ ” اور جب وہ عذاب کو دیکھیں گے تو دل میں پشیمان ہوں گے۔“ یعنی اس حجت کا تار و پود بکھر جائے گا جس کے ذریعے سے وہ ایک دوسرے پر حجت قائم کرتے تھے کہ وہ عذاب سے بچ جائیں گے اور وہ جان لیں گے کہ وہ ظالم ہیں اور عذاب کے مستحق ہیں۔ ان میں سے ہر مجرم بے حد پشیمان ہوگا اور وہ تمنا کرے گا کہ کاش وہ حق پر ہوتا اور اس نے باطل کو چھوڑ دیا ہوتا جس نے اسے اس عذاب میں مبتلا کیا ہے۔ اپنے جرائم کا اقرار کرلینے کی فضیحت کا خوف ان پر چھا جائے گا۔ قیامت کے بعض موقعوں پر اور جہنم میں داخل ہوتے وقت، وہ با آواز بلند اپنی ندامت کا اظہار کریں گے: ﴿ وَيَوْمَ يَعَضُّ الظَّالِمُ عَلَىٰ يَدَيْهِ يَقُولُ يَا لَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِيلًا يَا وَيْلَتَىٰ لَيْتَنِي لَمْ أَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِيلًا﴾ (الفرقان:25؍27۔28)” اور ظالم اس روز اپنے ہاتھوں پر کاٹے گا اور کہے گا کاش ! میں نے رسول کا راستہ اختیار کیا ہوتا۔ ہائے میری ہلاکت ! کاش میں نے فلاں کو دوست نہ بنایا ہوتا۔“ ﴿وَقَالُوا لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ أَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا فِي أَصْحَابِ السَّعِيرِ فَاعْتَرَفُوا بِذَنبِهِمْ فَسُحْقًا لِّأَصْحَابِ السَّعِيرِ ﴾ (الملک:67؍10۔11)” وہ کہیں گے اگر ہم سنتے یا سمجھتے ہوتے تو ہم اصحاب جہنم میں شامل نہ ہوتے، وہ اپنے گناہ کا اعتراف کریں گے۔ پس جہنمی اللہ کی رحمت سے دور ہیں۔ “ ﴿وَجَعَلْنَا الْأَغْلَالَ فِي أَعْنَاقِ الَّذِينَ كَفَرُوا﴾ ” اور ہم کافروں کی گردنوں میں طوق ڈال دیں گے۔“ یعنی ان کو بیڑیاں پہنائی جائیں گی جیسے اس قیدی کو پہنا دی جاتی ہیں جس کی قید میں اہانت مقصود ہوتی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿إِذِ الْأَغْلَالُ فِي أَعْنَاقِهِمْ وَالسَّلَاسِلُ يُسْحَبُونَ فِي الْحَمِيمِ ثُمَّ فِي النَّارِ يُسْجَرُونَ ﴾)(المؤمن:40؍71۔72) ” جب طوق اور زنجیریں ان کی گردنوں میں پہنا دی جائیں گی، پھر انہیں کھولتے ہوئے پانی میں گھسیٹا جائے گا، پھر ان کو جہنم کی آگ میں جھونک دیا جائے گا۔“ ﴿هَلْ يُجْزَوْنَ﴾ یہ عذاب اور یہ سزا جو انہیں دی گئی ہے اور یہ بوجھل طوق جو انہیں پہنائے گئے ہیں ﴿إِلَّا مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ﴾ صرف ان اعمال کی پاداش میں ہے جن کا وہ کفر، فسق اور نافرمانی کر کے ارتکاب کیا کرتے تھے۔ سبأ
34 اللہ تبارک و تعالیٰ گزشتہ قوموں کا حال بیان کرتا ہے جنہوں نے اپنے رسولوں کو جھٹلایا۔ ان کا حال بھی انھی لوگوں جیسا تھا جنہوں نے اپنے رسول محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تکذیب کی، نیز آگاہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے جب کبھی کسی بستی میں کوئی رسول مبعوث فرمایا تو اس بستی کے کھاتے پیتے لوگوں نے اس کا انکار کیا، انہوں نے نعمتوں پر تکبر اور فخر کیا۔ سبأ
35 ﴿وَقَالُوا نَحْنُ أَكْثَرُ أَمْوَالًا وَأَوْلَادًا ﴾ ” اور انہوں نے کہا کہ ہم زیادہ مال اور اولاد والے ہیں“ یعنی ان لوگوں سے جنہوں نے حق کی اتباع کی۔ ﴿وَمَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِينَ ﴾ ” اور ہم عذاب دئیے جانے والوں میں سے نہیں ہیں۔“ یعنی اول تو ہمیں دوبارہ زندہ نہیں کیا جائے گا۔ اگر ہمیں دوبارہ زندہ کیا بھی گیا تو وہ ہستی جس نے ہمیں اس دنیا میں مال اور اولاد سے نوازا ہے، وہ ہمیں آخرت میں اس سے بھی زیادہ مال اور اولاد سے نوازے گی۔ اور ہمیں عذاب نہ دے گی۔ سبأ
36 اللہ تبارک و تعالیٰ نے جواب میں فرمایا کہ رزق کی کشادگی اور تنگی تمہارے دعوے کی دلیل نہیں کیونکہ رزق اللہ تعالیٰ کی مشیت کے تحت عطا ہوتا ہے۔ اگر وہ چاہے تو اپنے بندے کے لئے رزق کو کشادہ کردیتا ہے اور اگر چاہے تو تنگ کردیتا ہے۔ مال اور اولاد اللہ تعالیٰ کے قریب نہیں کرتے اور جو چیز اللہ کے قریب کرتی ہے وہ ہے انبیاء و مرسلین کی دعوت پر ایمان اور عمل صالح جو ایمان کے لوازم میں شمار ہوتا ہے۔ یہی لوگ ہیں جن کے لئے اللہ تعالیٰ کے ہاں کئی گنا اجر ہے جنہیں ایک نیکی کا اجر دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک، بلکہ اس سے بھی بہت زیادہ عطا ہوتا ہے جسے اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ سبأ
37 ﴿وَهُمْ فِي الْغُرُفَاتِ آمِنُونَ﴾ یعنی وہ بہت ہی بلند مرتبہ منازل میں، ہر قسم کے تکدر اور ناخوشگواری سے محفوظ اطمینان سے رہیں گے، انہیں وہاں مختلف قسم کی لذات اور دل پسند چیزیں عطا ہوں گی اور انہیں وہاں سے نکلنے کا خوف ہوگا نہ کوئی حزن و غم۔ سبأ
38 رہے وہ لوگ جو ہمیں اور ہمارے رسولوں کو عاجز اور بے بس بنانے اور ان کو جھٹلانے کے لئے بھاگ دوڑ کرتے ہیں تو ﴿أُولَـٰئِكَ فِي الْعَذَابِ مُحْضَرُونَ﴾ ” وہ عذاب میں حاضر کئے جائیں گے۔“ جہنم کے فرشتے انہیں جہنم میں دھکیل دیں گے اور انہیں جن ہستیوں پر بھروسہ تھا وہ انہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکیں گی۔ سبأ
39 اللہ تبارک و تعالیٰ نے پھر اعادہ فرمایا : ﴿يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَيَقْدِرُ لَهُ﴾ ” وہ اپنے بندوں میں سے جس کے لئے چاہتا ہے روزی فراخ کردیتا ہے اور (جس کے لئے چاہتا ہے) تنگ کردیتا ہے۔“ تاکہ اس پر اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد مترتب ہو : ﴿وَمَا أَنفَقْتُم مِّن شَيْءٍ﴾ ” اور تم جو چیز خرچ کرو گے۔“ خواہ وہ نفقہ واجبہ ہو یا نفقہ مستحبہ، اسے کسی قریبی رشتہ دار، پڑوسی، مسکین، اور یتیم پر خرچ کیا گیا ہو یا کسی اور پر ﴿فَهُوَ يُخْلِفُهُ﴾ ” تو اللہ تعالیٰ اس کی جگہ تمہیں اور رزق عطا کردیتا ہے۔“ اس لئے اس وہم میں مبتلا نہ ہوں کہ خرچ کرنے سے رزق میں کمی واقع ہوجائے گی، بلکہ اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے کہ وہ اس کی جگہ اور رزق عطا کرے گا، وہ جسے چاہتا ہے رزق میں کشادگی عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے نپا تلا رزق دیتا ہے۔ ﴿وَهُوَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ﴾ ” اور وہ سب سے بہتر رزق دینے والا ہے۔“ اس لئے اسی سے رزق طلب کرو اور ان اسباب رزق کو بڑھاؤ جن کا اللہ تعالیٰ نے تمہیں حکم دیا ہے۔ سبأ
40 ﴿وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ جَمِيعًا ﴾ ” اور وہ جس دن ان سب کو جمع کرے گا۔“ یعنی اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر غیر اللہ یعنی فرشتوں وغیرہ کی عبادت کرنے والے مشرکین اور ان کے معبودوں کو اکٹھا کرے گا۔ ﴿ثُمَّ يَقُولُ لِلْمَلَائِكَةِ﴾ ” پھر اللہ تعالیٰ فرشتوں سے پوچھے گا“ مشرکین کو زجر و توبیخ کرتے ہوئے ﴿أَهَـٰؤُلَاءِ إِيَّاكُمْ كَانُوا يَعْبُدُونَ﴾ ” کیا یہ لوگ تمہاری عبادت کیا کرتے تھے“ اور وہ جواب میں ان مشرکین کی عبادت سے بیزاری کا اظہار کریں گے۔ سبأ
41 ﴿قَالُوا سُبْحَانَكَ﴾ ” وہ کہیں گے : تو پاک ہے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ کی اس چیز سے تنزیہ و تقدیس کرتے ہوئے کہ اس کا کوئی شریک یا ہمسر ہو، کہیں گے : ﴿ أَنتَ وَلِيُّنَا مِن دُونِهِم﴾ ” ہمارا سرپرست اور والی تو ہی ہے نہ کہ یہ مشرک۔“ ہم تو خود تیری سرپرستی کے محتاج اور ضرورت مند ہیں ہم دوسروں کو اپنی عبادت کی دعوت کیسے دے سکتے ہیں؟ یا یہ بات کیسے درست ہوسکتی ہے کہ ہم تیرے سوا دوسروں کو اپنا سرپرست اور شریک بنائیں؟ بلکہ یہ مشرکین ﴿كَانُوا يَعْبُدُونَ الْجِنَّ﴾ ” جنوں کی عبادت کیا کرتے تھے۔“ شیاطین انہیں حکم دیتے تھے کہ وہ ہماری اور دیگر خود ساختہ معبودوں کی عبادت کریں اور یہ ان کے حکم کی اطاعت کرتے تھے۔ ان کی اطاعت ہی درحقیقت ان کی عبادت تھی کیونکہ اطاعت، عبادت ہی کا دوسرا نام ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ان تمام لوگوں کو مخاطب کر کے فرمایا جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسری ہستیوں کو بھی معبود بنا رکھا تھا : ﴿أَلَمْ أَعْهَدْ إِلَيْكُمْ يَا بَنِي آدَمَ أَن لَّا تَعْبُدُوا الشَّيْطَانَ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ وَأَنِ اعْبُدُونِي هَـٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِيمٌ﴾(یٰس :36؍60۔61) ”اے بنی آدم ! کیا میں نے تمہیں حکم نہیں دیا تھا کہ شیطان کی عبادت نہ کرنا، بے شک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے اور میری ہی عبادت کرنا یہی سیدھا راستہ ہے۔“ ﴿أَكْثَرُهُم بِهِم مُّؤْمِنُونَ﴾ ” ان میں سے اکثر لوگ ان پر ایمان لاتے تھے“ جنوں کو سچا جانتے اور ان کی اطاعت کرتے ہیں کیونکہ ایمان ایسی تصدیق کا نام ہے جو اطاعت کی موجب ہو۔ سبأ
42 جب فرشتے ان کے شرک اور عبادت سے بیزاری کا اعلان کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان سے مخاطب ہو کر فرمائے گا : ﴿فَالْيَوْمَ لَا يَمْلِكُ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ نَّفْعًا وَلَا ضَرًّا﴾ ” پس آج تم میں سے کوئی کسی کو نفع اور نقصان پہنچانے کا اختیار نہیں رکھتا۔“ تمہارے درمیان تمام تعلقات منقطع ہوگئے ہیں اور تم ایک دوسرے سے کٹ گئے ہو۔ ﴿وَنَقُولُ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا﴾ یعنی جنہوں نے کفر اور معاصی کا ارتکاب کر کے ظلم کیا، ہم انہیں جہنم میں داخل کرنے کے بعد ان سے کہیں گے: ﴿ذُوقُوا عَذَابَ النَّارِ الَّتِي كُنتُم بِهَا تُكَذِّبُونَ﴾ ” دوزخ کے عذاب کا مزہ چکھو جس کو تم جھٹلاتے تھے۔“ آج تم نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا اور تم اپنی تکذیب کی پاداش میں اس جہنم میں داخل ہوچکے، نیز اس کی وجہ یہ ہے کہ تم نے ان اسباب سے اجتناب نہ کیا جو جہنم میں داخلے کے موجب تھے۔ سبأ
43 اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرما رہا ہے کہ اس وقت مشرکین کی کیا حالت ہوتی تھی جب ان کے سامنے واضح آیات تلاوت کی جاتی تھیں اور ایسے قطعی براہین و دلائل پیش کیے جاتے تھے جو ہر بھلائی پر دلالت کرتے اور ہر برائی سے روکتے تھے۔ یہ آیات اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت تھی جس سے اللہ تعالیٰ نے ان کو نوازا تھا۔ اللہ تعالیٰ کا احسان اور اس کی عنایت تھی جو ان کے دروازے تک پہنچی اور اس بات کی موجب تھی کہ ایمان و تصدیق اور اطاعت و تسلیم کے ساتھ اس کو قبول کیا جاتا۔ مگر ان کا حال یہ تھا کہ انہوں نے اس مناسب رویے سے متضاد رویے کے ساتھ ان کا سامنا کیا۔ وہ ان انبیاء کی تکذیب کیا کرتے تھے جو ان کے پاس آئے تھے اور کہا کرتے تھے : ﴿مَا هَـٰذَا إِلَّا رَجُلٌ يُرِيدُ أَن يَصُدَّكُمْ عَمَّا كَانَ يَعْبُدُ آبَاؤُكُمْ ﴾ ” یہ ایک ایسا شخص ہے جو چاہتا ہے کہ جن چیزوں کی تمہارے باپ دادا عبادت کیا کرتے تھے ان سے تم کو روک دے۔“ یعنی جب وہ تمہیں اللہ تعالیٰ کے لئے اخلاص کا حکم دیا کرتا تھا تو اس وقت اس کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ تم اپنے باپ دادا کی عادات کو ترک کر دو، جن کی تم تعظیم اور ان کی پیروی کرتے ہو۔ پس انہوں نے گمراہوں کے کہنے پر حق کو ٹھکرا دیا اور اس کو ٹھکراتے وقت انہوں نے کوئی دلیل اور برہان پیش کی نہ کوئی شبہ وارد کیا اور یہ کون سا شبہ ہے کہ جب رسول بعض گمراہ لوگوں کو اتباع حق کی دعوت دیں تو یہ لوگ دعویٰ کریں کہ گزشتہ زمانے میں ان کے بھائی بند بھی، جن کے یہ پیروکار ہیں، اسی طریقہ پر کار بند تھے؟ اگر آپ ان کی اس سفاہت، حماقت اور گمراہ لوگوں کے کہنے کی وجہ سے ان کے حق کو ٹھکرانے پر غور کریں تو آپ دیکھیں گے کہ ان کی حماقت کے ڈانڈے مشرکوں، دہریوں، فلسفیوں، صابیوں، ملحدوں اور اللہ تعالیٰ کے دین سے نکل بھاگنے والوں کے گمراہ نظریات سے جا ملتے ہیں۔ قیامت تک ہر شخص کے لئے یہی اسوہ رہے گا جو حق کو ٹھکراتا ہے۔ انہوں نے اپنے آباء و اجداد کے افعال کو دلیل بنا کر انبیاء و مرسلین کی دعوت کو ٹھکرایا اور اس کے بعد حق کو مطعون کیا ﴿وَقَالُوا مَا هَـٰذَا إِلَّا إِفْكٌ مُّفْتَرًى ﴾ ” اور انہوں نے کہا کہ یہ قرآن صرف اور صرف گھڑا ہوا جھوٹ ہے۔“ یعنی یہ اس شخص کا گھڑا ہوا جھوٹ ہے جو اسے لے کر آیا ہے ﴿وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِلْحَقِّ لَمَّا جَاءَهُمْ إِنْ هَـٰذَا إِلَّا سِحْرٌ مُّبِينٌ ﴾ ” اور ان کافروں کے پاس جب حق آگیا تو انہوں نے کہا کہ یہ تو صریح جادو ہے۔“ یعنی یہ کھلا جادو ہے جو ہر ایک پر ظاہر ہے۔ وہ یہ بات حق کی تکذیب اور بے عقل لوگوں کو فریب میں مبتلا کرنے کے لئے کہتے تھے۔ جب وہ تمام اعتراضات واضح ہوگئے جن کی بنیاد پر وہ حق کو ٹھکراتے تھے کہ ان کا دلیل ہونا تو کجا ان کی بنیاد پر تو شبہ بھی نہیں کیا جاسکتا، تو ذکر فرمایا کہ کوئی شخص ان کی تائید میں دلیل لانے کی کوشش کرے تو ان کے پاس کوئی دلیل نہیں جس پر اعتماد کیا جا سکے۔ سبأ
44 ﴿وَمَا آتَيْنَاهُم مِّن كُتُبٍ يَدْرُسُونَهَا﴾ ” اور ہم نے نہ تو انہیں کتابیں دیں جن کو یہ پڑھتے ہیں۔“ کہ وہ کتاب ان کے لئے کوئی دلیل ہوتی ﴿وَمَا أَرْسَلْنَا إِلَيْهِمْ قَبْلَكَ مِن نَّذِيرٍ﴾ ” اور نہ آپ سے پہلے ہم نے ان کے پاس کوئی ڈرانے والا بھیجا ہے“ کہ ان کے پاس اس کے اقوال و احوال ہوں جن کی بنیاد پر یہ آپ کی دعوت کو ٹھکرا رہے ہوں۔ ان کے پاس علم ہے نہ علم کا کوئی نشان۔ سبأ
45 پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے انہیں ان سے پہلے انبیاء کی تکذیب کرنے والی قوموں کے انجام سے ڈراتے ہوئے فرمایا : ﴿وَكَذَّبَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَمَا بَلَغُوا﴾ ” اور جو لوگ ان سے پہلے گزرے تھے انہوں نے (حق کو) جھٹلایا تھا اور یہ لوگ نہیں پہنچے“ یعنی یہ مخاطبین نہیں پہنچتے ﴿مِعْشَارَ مَا آتَيْنَاهُمْ فَكَذَّبُوا ﴾ ” اس ساز و سامان کے عشر عشیر کو بھی جو ہم نے ان (پہلے لوگوں) کو عطا کیا تھا تو انہوں نے جھٹلایا“ یعنی ان سے پہلے امتوں نے ﴿رُسُلِي فَكَيْفَ كَانَ نَكِيرِ﴾ ” میرے رسولوں کو تو پھر میرا عذاب کیسا ہوا؟“ یعنی میری ان پر گرفت اور میرا ان پر عذاب کیسا تھا؟ ہم اس سے قبل بتا چکے ہیں کہ گزشتہ قوموں کو کیا سزائیں دی گئیں ان میں سے کچھ قوموں کو اللہ نے سمندر میں غرق کردیا، کچھ لوگوں کو سخت طوفانی ہوا کے ذریعے سے ہلاک کر ڈالا، کچھ قوموں کو ایک سخت چنگھاڑ کے ذریعے سے اور کچھ کو زلزلے کے ذریعے سے ہلاک کیا اور کچھ قوموں کو زمین میں دھنسا دیا اور بعض قوموں پر ہوا کے ذریعے سے آسمان سے پتھر برسائے۔ انبیاء و رسل کی تکذیب کرنے والے لوگو! تکذیب پر جمے رہنے سے بچو، ورنہ تم بھی اللہ تعالیٰ کی گرفت میں آجاؤ گے جیسے تم سے پہلے لوگ اللہ تعالیٰ کی گرفت میں آئے تھے اور تم پر بھی ویسے ہی عذاب نازل ہوجائے گا جیسے تم سے پہلی قوموں پر عذاب نازل ہوا تھا۔ سبأ
46 ﴿قُلْ﴾ اے رسول ! ان مکذبین و معاندین، تکذیب حق میں بھاگ دوڑ کرنے اور حق لانے والے کے بارے میں جرح وقدح کے در پے رہنے والوں سے کہہ دیجیے: ﴿إِنَّمَا أَعِظُكُم بِوَاحِدَةٍ﴾ ” میں تمہیں صرف ایک بات کی وصیت کرتا ہوں“ تمہیں اس کا مشورہ دیتا ہوں اور اس بارے میں تمہارے ساتھ خیر خواہی کرتاہوں۔ یہی انصاف پر مبنی طریقہ ہے، میں تمہیں یہ نہیں کہتا کہ تم میری بات مانو نہ یہ کہتا ہوں کہ تم بغیر کسی موجب کے اپنی بات چھوڑ دو، میں تم لوگوں سے صرف یہ کہتا ہوں: ﴿أَن تَقُومُوا لِلَّـهِ مَثْنَىٰ وَفُرَادَىٰ﴾ ” کہ تم اللہ کے لئے دو دو اور اکیلے اکیلے کھڑے ہوجاؤ۔“ یعنی ہمت، نشاط، اتباع صواب کے قصد اور اللہ تعالیٰ کے لئے اخلاص کے ساتھ، تحقیق و جستجو کی خاطر اکٹھے ہو کر اور اکیلے اکیلے کھڑے ہوجاؤ اور تم میں سے ہر شخص اپنے آپ کو مخاطب کرے۔ تم اکیلے اکیلے اور دو دو کھڑے ہو کر اپنی عقل و فکر کو استعمال کرو، اپنے رسول کے احوال میں غور و فکر کرو کہ کیا وہ مجنون ہے؟ کیا اس کے کلام اور ہئیت و اوصاف میں مجانین کی صفات پائی جاتی ہیں؟ یا وہ سچا نبی ہے اور آنے والے سخت عذاب کے ضرر سے تمہیں ڈراتا ہے؟ اگر وہ اس نصیحت کو قبول کر کے اس پر عمل کریں، تو دوسروں سے زیادہ ان پر واضح ہوجائے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجنون نہیں ہیں، اس لئے کہ آپ کی ہئیت مجانین کی ہئیت کی مانند نہیں ہے۔ اس کے برعکس آپ کی ہئیت بہترین، آپ کی حرکات و سکنات جلیل ترین، ادب، سکینت، تواضع اور وقار کے اعتبار سے آپ کی تخلیق کامل ترین تھی۔ یہ صفات جلیلہ کسی نہایت عقل مند اور باوقار شخص ہی میں ہوسکتی ہیں۔ پھر وہ آپ کے فصیح و بلیغ کلام، آپ کے خوبصورت الفاظ اور آپ کے ان کلمات پر غور کریں جو دلوں کو امن و امان سے لبریز کردیتے ہیں، نفوس کا تزکیہ اور قلوب کی تطہیر کرتے ہیں، جو انسان کو مکارم اخلاق اور اچھی عادات کو اختیار کرنے پر آمادہ کرتے ہیں اور اس کے برعکس برے اخلاق اور رذیل عادات سے روکتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب گفتگو فرماتے ہیں تو ہیبت، جلال اور تعظیم کی بنا پر آنکھیں دیکھتی رہ جاتی ہیں۔ کیا یہ تمام چیزیں مجانین کی بکواس اور ان کی اخلاق سے گری ہوئی حرکتوں اور ان کے اس کلام سے مشابہت رکھتی ہیں، جو ان کے احوال سے مطابقت رکھتا ہے؟ ہر وہ شخص جو آپ کے احوال میں غور و فکر کرتا ہے اور یہ معلوم کرنے کا قصد رکھتا ہے کہ آیا آپ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں یا نہیں،، خواہ وہ اکیلا غور و فکر کرے یا کسی اور کے ساتھ مل کر، وہ یقین جازم کے ساتھ اس نتیجے پر پہنچے گا کہ آپ اللہ تعالیٰ کے رسول برحق اور نبی صادق ہیں، خاص طور پر یہ مخاطبین، کیونکہ آپ ان کے ساتھ رہتے ہیں اور یہ لوگ آپ کو شروع سے لے کر آخر تک اچھی طرح جانتے ہیں۔ البتہ ایک اور مانع ہوسکتا ہے جو نفوس کو داعی حق کی آواز پر لبیک کہنے سے روکتا ہے اور وہ مانع یہ ہے کہ داعی، اپنی آواز پر لبیک کہنے والوں سے، اپنی دعوت کی اجرت کے طور پر مال اینٹھ لیتا ہو، اس لئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس قسم کے ہتھکنڈوں سے اپنے رسول کی برأت بیان کرتے ہوئے فرمایا : سبأ
47 ﴿ قُلْ مَا سَأَلْتُكُم مِّنْ أَجْرٍ﴾ ” کہہ دیجیے میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا۔“ یعنی تمہارے حق کی اتباع کرنے پر ﴿فَهُوَ لَكُمْ﴾ یعنی میں تمہیں گواہ کر کے کہتا ہوں کہ بفرض محال، اگر دعوت حق کی کوئی اجرت ہے، تو وہ اجرت تمہارے لئے ہے۔ ﴿إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللّٰـهِ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ﴾ ” میرا اجر اللہ ہی کے ذمے ہے اور وہ ہر چیز پر گواہ ہے۔“ یعنی اس کا علم اس چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے جس کی طرف میں تمہیں دعوت دیتا ہوں۔ اگر میں جھوٹا ہوتا تو وہ عذاب کے ذریعے سے میری گرفت کرتا، نیز وہ تمہارے اعمال کو بھی دیکھتا ہے، وہ ان کو محفوظ رکھے گا اور تمہیں ان اعمال کی جزا دے گا۔ سبأ
48 اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان دلائل و براہین کا ذکر کرنے کے بعد، جو حق کی صحت اور باطل کے بطلان پر دلالت کرتے ہیں، آگاہ فرمایا کہ یہ اس کی سنت اور عادت ہے۔ ﴿ يَقْذِفُ بِالْحَقِّ﴾ ” اللہ تعالیٰ حق کے ذریعے سے چوٹ لگاتے ہیں“ باطل پر جو اس کا سر توڑ دیتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ نیست و نابود ہوجاتا ہے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ نے اس مقام پر حق کو واضح اور اہل تکذیب کے اعتراضات کو رد کردیا ہے، جو عبرت حاصل کرنے والوں کے لئے عبرت اور غور و فکر کرنے والوں کے لئے نشانی ہے تو آپ نے دیکھا کہ اہل تکذیب کے اقوال کیسے مضمحل ہوگئے، ان کا جھوٹ اور عناد کیسے عیاں ہوگیا، حق روشن ہو کر ظاہر ہوگیا اور باطل کا قلع قمع ہوگیا اور اس کا سبب یہ ہے کہ اس کو ﴿عَلَّامُ الْغُيُوبِ﴾ ” سب سے زیادہ چھپی ہوئی باتوں کو جاننے والے“ نے بیان کیا ہے جو دلوں میں پیدا ہونے والے وسوسوں اور شبہات کو جانتا ہے، جو ان دلائل کو بھی جانتا ہے جو ان شبہات کے مقابلے میں جنم لیتے ہیں اور ان کو رد کرتے ہیں۔ سبأ
49 لہٰذا وہ اپنے بندوں کو ان دلائل کا علم عطا کر کے ان کو ان کے سامنے خوب واضح کردیتا ہے، اس نے فرمایا : ﴿قُلْ جَاءَ الْحَقُّ﴾ ” کہہ دیجیے : حق آگیا ہے“ یعنی وہ ظاہر، واضح اور سورج کی مانند روشن ہوگیا اور اس کی دلیل غالب آگئی ہے۔ ﴿وَمَا يُبْدِئُ ا لْبَاطِلُ وَمَا يُعِيدُ ﴾ ” اور باطل نہ تو پہلی بار پیدا کرسکتا ہے نہ دوبارہ پیدا کرے گا۔“ یعنی اس کے ہتھکنڈے مضمحل ہو کر باطل اور اس کے دلائل سرنگوں ہوگئے۔ باطل( یعنی کوئی خود ساختہ معبود )کسی کو پیدا کرسکتا ہے نہ مرنے کے بعد زندگی کا اعادہ کرسکتا ہے۔ جب حق واضح ہوگیا، جس کی طرف رسول مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعوت دی تھی اور آپ کو جھٹلانے والے آپ پر گمراہی کا بہتان لگاتے تھے، تو آپ نے ان کو حق سے آگاہ کر کے حق کو ان کے سامنے واضح کردیا اور ان پر ثابت کردیا کہ وہ حق کا مقابلہ کرنے سے عاجز ہیں۔ آپ نے ان کو یہ بھی بتا دیا کہ ان کا آپ کو گمراہ کہنا حق کو کوئی نقصان دے سکتا ہے نہ دعوت حق کسی کے روکے رکتی ہے۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (مَعَاذَ اللہِ) گمراہ ہیں، حالانکہ آپ اس سے پاک اور منزہ ہیں، تاہم اگر بحث میں برسبیل تنزل تمہاری بات کو صحیح مان لیں۔ تو آپ کی گمراہی آپ کے لئے ہے یعنی آپ کی گمراہی کا تعلق صرف آپ کے ساتھ ہے، دوسروں پر اس کا کوئی اثر نہیں۔ سبأ
50 ﴿وَإِنِ اهْتَدَيْتُ﴾ ” اور اگر میں راہ راست پر ہوں“ تو یہ میرے نفس اور میری قوت و اختیار کا کارنامہ نہیں۔ میری ہدایات کا سبب تو صرف یہ ہے کہ ﴿ يُوحِي إِلَيَّ رَبِّي﴾ ” میرا رب میری طرف وحی بھیجتا ہے“ اور وہی میری ہدایت کا منبع ہے اور میرے سوا دیگر لوگوں کی ہدایت کا سرچشمہ بھی وہی ہے۔ بے شک میرا رب ﴿سَمِيعٌ﴾ ” سنتا ہے“ تمام باتوں اور تمام آوازوں کو اور ﴿ قَرِيبٌ﴾ ” قریب ہے“ ہر اس شخص کے جوا سے پکارتا ہے، اس سے مانگتا ہے اور اس کی عبادت کرتا ہے۔ سبأ
51 اللہ تبارک فرماتا ہے : ﴿ وَلَوْ تَرَىٰ﴾ ” اور اگر آپ دیکھیں“ اے رسول ! اور وہ جو آپ کے قائم مقام ہے، ان جھٹلانے والوں کا حال ﴿ إِذْ فَزِعُوا ﴾ ” جب وہ گھبرائے ہوئے ہوں گے“ عذاب اور ان چیزوں کو دیکھ کر جن کے بارے میں انبیاء و رسل نے خبر دی تھی اور انہوں نے ان چیزوں کو جھٹلایا تھا تو آپ ایک انتہائی ہولناک منظر، نہایت بری حالت اور بہت بڑی سختی ملاحظہ فرمائیں گے اور یہ اس وقت ہوگا جب ان کے لئے عذاب کا فیصلہ کردیا جائے گا تو ان کے لئے بھاگنے کی کوئی جگہ ہوگی نہ وہ بچ ہی سکیں گے ﴿وَأُخِذُوا مِن مَّكَانٍ قَرِيبٍ﴾ ” اور وہ قریب ہی سے پکڑ لئے جائیں گے۔“ یعنی وہ عذاب کی جگہ سے زیادہ دور نہ ہوں گے کہ ان کو پکڑ لیا جائے گا اور جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ سبأ
52 ﴿وَقَالُوا﴾ ” اور وہ پکار اٹھیں گے“ اسی حالت میں، کہ ﴿آمَنَّا﴾ ” ہم ایمان لائے“ اللہ تعالیٰ پر اور ان امور کی تصدیق کی جن کو ہم جھٹلایا کرتے تھے۔ ﴿وَ﴾ ” اور“ لیکن ﴿أَنَّىٰ لَهُمُ التَّنَاوُشُ﴾ ” اب انہیں (حصول ایمان) کہاں سے میسر ہوگا“ ﴿مِن مَّكَانٍ بَعِيدٍ﴾ ” اتنے دور کے مقام سے“ اب ان کے درمیان اور ان کے ایمان کے درمیان بڑے فاصلے حائل ہوگئے ہیں اور اس حال میں ایمان محال ہوگیا ہے۔ اگر یہ لوگ بروقت ایمان لائے ہوتے تو ان کا ایمان مقبول تھا۔ سبأ
53 لیکن ﴿كَفَرُوا بِهِ مِن قَبْلُ وَيَقْذِفُونَ﴾ ” اس سے پہلے تو انہوں نے اس سے کفر کیا تھا اور وہ پھینکتے تھے (تیر تکے)”﴿ بِالْغَيْبِ مِن مَّكَانٍ بَعِيدٍ﴾ ” دور دراز سے بن دیکھے ہی“ اپنے باطل اندازوں کے ذریعے سے تاکہ اس طرح وہ حق کو سرنگوں کریں۔ مگر وہ ایسا کرنے میں کامیاب نہیں ہوں گے جس طرح بہت دور سے تیر اندازی کرنے والے کا تیر صحیح نشانے پر نہیں پڑ سکتا اسی طرح یہ بہت محال ہے کہ باطل حق کو مغلوب کرسکے یا اس کو روک سکے۔ حق کی غفلت کے وقت باطل ایک مرتبہ حملہ آور ہوتا ہے مگر جب حق سامنے آ کر باطل کا مقابلہ کرتا ہے تو وہ اس کا قلع قمع کردیتا ہے۔ سبأ
54 ﴿وَحِيلَ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ مَا يَشْتَهُونَ﴾ یعنی ان کے درمیان اور ان کی لذات و شہوات، مال و اولاد، ان کی فوجوں اور خدام و حشم کے درمیان رکاوٹیں حائل کردی جائیں گی۔ وہ اکیلے اکیلے اپنے اعمال کے ساتھ اسی طرح حاضر ہوں گے جس طرح انہیں اکیلے پیدا کیا گیا تھا اور جن چیزوں کے وہ مالک تھے انہیں اپنے پیچھے چھوڑ آئیں گے۔ ﴿كَمَا فُعِلَ بِأَشْيَاعِهِم﴾ ” جیسے ان جیسوں کے ساتھ کیا گیا تھا“ گزشتہ قوموں میں سے۔ جب ان پر ہلاکت خیز عذاب نازل ہوا تو ان کے اور ان کی دل پسند چیزوں کے درمیان رکاوٹیں حائل کردی گئیں۔ ﴿إِنَّهُمْ كَانُوا فِي شَكٍّ مُّرِيبٍ﴾ ” بے شک وہ بھی الجھن میں ڈالنے والے شک میں پڑے ہوئے تھے۔“ جو انہیں بدگمانی اور دلی قلق میں مبتلا کرتا تھا، اس لئے وہ ایمان نہ لائے اور جب ان سے توبہ کے لئے کہا گیا تو انہوں نے توبہ نہ کی۔ سبأ
0 فاطر
1 اللہ تبارک و تعالیٰ خو داپنی ذات مقدس کی مدح و ثنا کرتا ہے کہ اس نے زمین و آسمان اور ان کے اندر موجود تمام مخلوق کو پیدا کیا ہے۔ یہ اس کے کمال قدرت، وسعت، اقتدار، بے پایاں رحمت، انوکھی حکمت اور احاطہ علم کی دلیل ہے۔ تخلیق کائنات کا ذکر کرنے کے بعد اس چیز کا تذکرہ کیا کہ بے شک وہی ﴿جَاعِلِ الْمَلَائِكَةِ رُسُلًا﴾ ” فرشتوں کو قاصد بنانے والا ہے“ اس نے اپنے حکم قدری کی تدبیر اور اپنے حکم دینی کی تبلیغ کے لئے اپنے اور اپنی مخلوق کے درمیان واسطے کے لئے، فرشتوں کو پیغام رساں بنایا۔ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو پیغام رساں بنانے کا ذکر فرمایا اور ان میں سے کسی کو مستثنی نہیں کیا، یہ ان کی اپنے رب کے لئے کامل اطاعت اور اس کے حکم کے سامنے ان کے سرتسلیم خم کرنے کی دلیل ہے جیسا کہ فرمایا : ﴿لَّا يَعْصُونَ اللّٰـهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ﴾ (التحریم:66؍6) ” وہ اللہ کی حکم عدولی نہیں کرتے اور وہی کرتے ہیں جو ان کو حکم دیا جاتا ہے۔ “ چونکہ فرشتے اللہ تعالیٰ کے حکم سے، کائنات کی تدبیر کرتے ہیں اور تدبیر کائنات کا معاملہ اللہ نے ان کے سپرد کر رکھا ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کی قوت اور ان کی سرعت رفتار کا ذکر کیا، نیز آگاہ فرمایا کہ اس نے ان فرشتوں کو ﴿ أُولِي أَجْنِحَةٍ﴾ ” پروں والے“ بنایا ہے، جن کے ذریعے سے یہ فرشتے پرواز کرتے ہیں تاکہ نہایت سرعت سے اللہ تعالیٰ کے احکام کو نافذ کرسکیں۔ ﴿مَّثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ ﴾ اللہ تعالیٰ کی حکمت کے مطابق ان فرشتوں کے دو دو، تین تین اور چار چار پر ہیں ﴿يَزِيدُ فِي الْخَلْقِ مَا يَشَاءُ﴾ ” وہ مخلوق میں جو چاہے اضافہ کرتا ہے“ یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو تخلیق کی بعض صفات مثلاً قوت میں، حسن میں، اعضا میں، حسن آواز اور لذت ترنم میں ایک دوسرے پر فضیلت اور اضافہ بخشا ہے۔ ﴿ إِنَّ اللّٰـهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ﴾ ” بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے“ اللہ تعالیٰ جس پر چاہتا ہے اپنی قدرت کو نافذ کرتا ہے، اس کی قدرت کے سامنے کسی چیز کو دم مارنے کی مجال نہیں۔ مخلوقات میں ایک دوسرے پر تخلیق میں اضافہ بھی اس کی قدرت کے تحت ہے۔ فاطر
2 پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے تدبیر کائنات، عطا کرنے اور محروم کرنے میں وہی اکیلا اختیار کا مالک ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿مَّا يَفْتَحِ اللّٰـهُ لِلنَّاسِ مِن رَّحْمَةٍ فَلَا مُمْسِكَ لَهَا وَمَا يُمْسِكْ ﴾ ” اللہ تعالیٰ اپنی رحمت لوگوں کے لئے کھول دے تو کوئی اسے بند کرنے والا نہیں اور جسے وہ بند کر دے۔“ یعنی اگر وہ ان کو اپنی رحمت سے محروم کر دے ﴿ فَلَا مُرْسِلَ لَهُ مِن بَعْدِهِ﴾ ” تو اس کے بعد کوئی اسے کھولنے والا نہیں“ اس لئے یہ چیز اللہ تعالیٰ سے تعلق جوڑنے اور ہر لحاظ سے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کا محتاج سمجھنے کی موجب ہے، نیز یہ اس چیز کی بھی موجب ہے کہ صرف اسی کو پکارا جائے، صرف اسی سے ڈرا جائے اور صرف اسی سے امید رکھی جائے۔ ﴿وَهُوَ الْعَزِيزُ﴾ اور وہ تمام چیزوں پر غالب ہے ﴿الْحَكِيمُ ﴾ ” حکمت والا ہے۔“ یعنی وہ ہر چیز کو اس کے مناسب حال منزل و مقام پر نازل کرتا ہے۔ فاطر
3 اللہ تبارک و تعالیٰ تمام لوگوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ اس کی نعمت کو یاد کریں جس سے ان کو نوازا گیا ہے۔ یہ یاد کرنا دل میں اللہ کی نعمت کا اعتراف کرتے ہوئے اس کو یاد رکھنے، زبان سے اس کی حمد و ثنا کرنے اور جوارح سے اس کی اطاعت کرنے کو شامل ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی نعمت کو یاد کرنا، اس کے شکر کی دعوت دیتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ نے بڑی بڑی نعمتوں کی طرف اشارہ فرمایا اوہ وہ پیدا کرنا اور رزق عطا کرنا ہیں۔ فرمایا : ﴿هَلْ مِنْ خَالِقٍ غَيْرُ اللّٰـهِ يَرْزُقُكُم مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ﴾ ” کیا اللہ کے سوا کوئی اور خلاق ہے جو تم کو آسمان و زمین سے رزق دے؟“ چونکہ یہ معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی پیدا کرتا ہے نہ رزق عطا کرتا ہے اس لئے اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ یہ چیز اس کی الوہیت اور عبودیت پر دلیل ہے، بنا بریں فرمایا : ﴿لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ فَأَنَّىٰ تُؤْفَكُونَ﴾ ” اس کے سوا کوئی معبود نہیں پس تم کہاں بہکے پھرتے ہو۔“ یعنی خالق و رازق کی عبادت کو چھوڑ کر، مخلوق کی عبادت کرتے ہو، جو خود رزق کی محتاج ہے۔ فاطر
4 ﴿وَإِن يُكَذِّبُوكَ ﴾ ”(اے رسول !) اور اگر یہ لوگ آپ کی تکذیب کرتے ہیں“ تو آپ سے پہلے گزرے ہوئے انبیاء و مرسلین میں آپ کے لئے نمونہ ہے ﴿ فَقَدْ كُذِّبَتْ رُسُلٌ مِّن قَبْلِكَ﴾ ” یقیناً آپ سے پہلے بہت سے رسول جھٹلائے گئے۔“ تو جھٹلانے والوں کو ہلاک کردیا گیا اور اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں اور ان کے پیرو کاروں کو بچا لیا۔ ﴿وَإِلَى اللّٰـهِ تُرْجَعُ الْأُمُورُ﴾ ” تمام معاملات اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹائے جاتے ہیں۔ “ فاطر
5 ﴿ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ وَعْدَ اللّٰـهِ﴾ ” اے لوگو ! بے شک اللہ کا وعدہ“ یعنی مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کرنے اور اعمال کی جزا و سزا کا وعدہ ﴿حَقٌّ﴾ ” حق ہے۔“ اس میں شک و شبہ اور کوئی تردد نہیں، اس پر تمام دلائل نقلیہ اور براہین عقلیہ دلالت کرتے ہیں۔ جب اس کا وعدہ سچا ہے تو اس کے لئے تیاری کرو اپنے اچھے اوقات میں نیک اعمال کی طرف سبقت کرو اور کوئی راہزن تمہاری راہ کھوٹی نہ کرنے پائے۔ ﴿فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا ﴾ ” لہٰذا دنیاوی زندگی تمہیں دھوکے میں مبتلا نہ کر دے“ اپنی لذات و شہوات اور اپنے نفسانی مطالبات کے ذریعے سے تمہیں ان مقاصد سے غافل نہ کر دے جن کے لئے تمہیں تخلیق کیا گیا ہے۔ ﴿وَلَا يَغُرَّنَّكُم بِاللّٰـهِ الْغَرُورُ﴾ ” اور نہ فریب دینے والا تمہیں فریب دے۔“ فاطر
6 جو کہ ﴿ الشَّيْطَانَ﴾ ” شیطان ہے“ وہ حقیقت میں تمہارا دشمن ہے ﴿ فَاتَّخِذُوهُ عَدُوًّا﴾ ” لہٰذا تم بھی اسے دشمن جان‘‘ یعنی تمہاری طرف سے اس کے لئے دشمنی ہونی چاہئے۔ اس کے ساتھ جنگ میں کسی بھی وقت ڈھیلے نہ پڑو۔ وہ تمہیں دیکھتا ہے، تم اسے نہیں دیکھ سکتے، وہ ہمیشہ تمہاری گھات میں رہتا ہے۔ ﴿إِنَّمَا يَدْعُو حِزْبَهُ لِيَكُونُوا مِنْ أَصْحَابِ السَّعِيرِ﴾ ” بلا شبہ وہ اپنے گروہ کو بلاتا ہے تاکہ وہ دوزخ والوں میں ہوں۔“ یہی اس کی غرض و غایت اور مطلوب و مقصود ہے کہ اس کی اتباع کرنے والوں کی سخت عذاب کے ذریعے سے رسوائی ہو۔ فاطر
7 پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ لوگ شیطان کی اطاعت اور عدم اطاعت سے دو گروہوں میں منقسم ہیں، پھر ہر گروہ کی سزا و جزا کا تذکرہ کیا، فرمایا : ﴿الَّذِينَ كَفَرُوا ﴾ یعنی وہ لوگ جنہوں نے رسولوں کی دعوت اور ان چیزوں کا انکار کیا جن پر کتبہ الٰہیہ دلالت کرتی تھیں ﴿لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ﴾ ان کے لئے جہنم کی آگ میں سخت عذاب ہے۔ یہ عذاب اپنی ذات و صفات کے اعتبار سے نہایت سخت عذاب ہوگا جہاں وہ ابدالآباد تک رہیں گے۔ ﴿وَالَّذِينَ آمَنُوا﴾ اور جو اپنے دل سے ان امور پر ایمان لائے جن پر ایمان لانے کی اللہ تعالیٰ نے دعوت دی ہے۔ ﴿وَعَمِلُوا ﴾ پھر انہوں نے اس ایمان کے تقاضوں کے مطابق عمل کئے ﴿ الصَّالِحَاتِ لَهُم مَّغْفِرَةٌ ﴾ ” نیک تو ان کے لئے (ان کے گناہوں کی) مغفرت ہے۔“ اس مغفرت کی بنا پر ان سے ہر قسم کا شر اور برائی دور ہوجائے گی۔ ﴿وَأَجْرٌ كَبِيرٌ﴾ ” اور بڑا اجر ہے“ جس کے ذریعے سے انہیں اپنا مطلوب و مقصو حاصل ہوگا۔ فاطر
8 ﴿أَفَمَن زُيِّنَ لَهُ﴾ ” کیا پس جس شخص کو مزین کر کے دکھائے جائیں“ اس کے برے اعمال، شیطان نے اس کے برے عمل کو آراستہ کر کے اس کی نگاہ میں خوبصورت بنا دیا ہو ﴿فَرَآهُ حَسَنًا﴾ ” اور وہ ان کو اچھا سمجھنے لگا ہو۔“ یعنی کیا یہ اس شخص کی مانند ہے جس کی اللہ تعالیٰ نے راہ راست اور دین قویم کی طرف راہنمائی فرمائی ہے؟ کیا یہ دونوں برابر ہوسکتے ہیں؟ پہلا شخص وہ ہے جو بد عمل ہے، جو حق کو باطل اور باطل کو حق سمجھتا ہے اور دوسرا شخص وہ ہے جو نیک کام کرتا ہے، جو حق کو حق اور باطل کو باطل سمجھتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ ہدایت اور گمراہی صرف اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ ﴿فَإِنَّ اللّٰـهَ يُضِلُّ مَن يَشَاءُ وَيَهْدِي مَن يَشَاءُ فَلَا تَذْهَبْ نَفْسُكَ عَلَيْهِمْ﴾ ” بلا شبہ اللہ جسے چاہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہے راہ راست دکھاتا ہے، لہٰذا آپ اپنے آپ کو ان کے بارے میں ہلکان نہ کریں“ یعنی ان گمراہ لوگوں کے بارے میں جن کے برے اعمال ان کے لئے آراستہ ہوگئے اور شیطان نے ان کو حق سے روک دیا۔ (حسرت) یعنی گمراہ لوگوں پر حسرت و غم سے آپ اپنے آپ کو ہلاک نہ کریں۔ ان کو ہدایت دینا آپ کی ذمہ داری نہیں ہے آپ کا فرض تو صرف پہنچا دینا ہے اور اللہ تعالیٰ ہی ان کو ان کے اعمال کی جزا دے گا۔ ﴿إِنَّ اللّٰـهَ عَلِيمٌ بِمَا يَصْنَعُونَ﴾ ” یہ لوگ جو کچھ کرتے ہیں بے شک اللہ اس سے واقف ہے۔‘‘ فاطر
9 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے کمال اقتدار اور وسعت سخاوت کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ ہی ہے ﴿ أَرْسَلَ الرِّيَاحَ فَتُثِيرُ سَحَابًا فَسُقْنَاهُ إِلَىٰ بَلَدٍ مَّيِّتٍ﴾ ” جو ہواؤں کو بھیجتا ہے تو وہ بادل اٹھاتی ہیں پھر ہم اسے مردہ زمین کی طرف لے چلتے ہیں۔“ پس اللہ تعالیٰ اس مردہ زمین پر بارش برساتا ہے ﴿ فَأَحْيَيْنَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا﴾ ” پھر ہم اس زمین کے مردہ ہوجانے کے بعد اسے زندہ کردیتے ہیں۔“ تو مردہ زمین اور بندے زندگی حاصل کرتے ہیں، حیوانات کو رزق ملتا ہے، اس سرسبز زمین پر وہ چرتے پھرتے ہیں۔ ﴿كَذٰلِكَ﴾ ”اسی طرح“ جس نے زمین کو اس کے مردہ ہوجانے کے بعد اسے زندگی بخشی وہ مردوں کے بوسیدہ اور ریزہ ریزہ ہوجانے کے بعد انہیں ان کی قبروں سے دوبارہ زندہ کر کے اٹھائے گا، پھر ان پر اپنی رحمت کے بادل بھیجے گا، جیسے وہ مردہ زمین پر اپنی رحمت کی بارش برساتا ہے۔ پس وہ بارش ان کے بوسیدہ اجسام پر بر سے گی، تمام اجسام اور ارواح اپنی اپنی قبروں سے اٹھ کھڑے ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہوں گے تاکہ وہ ان کے درمیان فیصلہ کرے اور وہ عدل پر مبنی فیصلہ کرے گا۔ فاطر
10 یعنی اے وہ شخص جو عزت کا طلب گار ہے، عزت اس ہستی سے مانگ جس کے ہاتھ میں عزت ہے، بے شک عزت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے، جو اس کی اطاعت کے بغیر حاصل نہیں ہوتی، نیز فرمایا : ﴿ إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ﴾ ” اس کی طرف پاک کلمات بلند ہوتے ہیں“ مثلاً قراءت قرآن، تسبیح اور تہلیل و تحمید وغیرہ۔ ہر کلام جو اچھا اور پاک ہوتا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی طرف بلند ہوتا ہے، اس کے حضور پیش کیا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ صاحب کلام کی ملا اعلیٰ میں مدح و ثنا کرتا ہے۔ ﴿وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ﴾ ” اور نیک عمل“ یعنی اعمال قلوب اور اعمال جوارح ﴿يَرْفَعُهُ﴾ ” اس کو بلند کرتا ہے۔“ یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ کلمات طیبہ کی مانند عمل صالح کو بھی اپنی طرف بلند کرتا ہے۔ بعض اہل علم کہتے ہیں کہ اس سے مراد ہے ” کلمات طیبہ کو عمل صالح بلند کرتا ہے“ تب پاک کلمات، بندے کے نیک اعمال کے مطابق بلند ہوتے ہیں، نیک اعمال ہی بندے کے پاک کلمات کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلند کرتے ہیں۔ اگر بندے کے پاس کوئی عمل صالح نہ ہو تو اس کی کوئی بات اللہ تعالیٰ کی طرف بلند نہیں ہوتی۔ یہ بندے کے اعمال ہی میں جو اللہ تعالیٰ کی طرف بلند ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ صاحب اعمال کو بلند درجات اور عزت عطا کرتا ہے۔ باقی رہی برائیاں، تو اس کا معاملہ اس کے برعکس ہے۔ برے اعمال کا ارتکاب کرنے والا اپنے اعمال کے ذریعے سے بلند ہونا چاہتا ہے، وہ سازشیں کرتا اور چالیں چلتا ہے، مگر اس کے تمام مکر و فریب اسی پر الٹ جاتے ہیں اسے رسوائی اور پستی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ بنابریں فرمایا : ﴿وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ وَالَّذِينَ يَمْكُرُونَ السَّيِّئَاتِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ ﴾ ” اور نیک عمل اسے بلند کرتے ہیں اور جو لوگ بری بری تدبیریں کرتے ہیں ان کے لئے شدید عذاب ہے“ اور اس عذاب میں اسے بے انتہا رسوا کیا جائے گا۔ ﴿وَمَكْرُ أُولَـٰئِكَ هُوَ يَبُورُ ﴾ یعنی ان کی فریب کاریوں کا تار و پود بوسیدہ ہو کر بکھر جائے گا اور ان کی فریب کاریاں اور سازشیں انہیں کوئی فائدہ نہ دیں گی کیونکہ یہ باطل کے لئے باطل پر مبنی چالیں ہیں۔ فاطر
11 اللہ تبارک و تعالیٰ آدمی کی تخلیق یعنی مٹی سے لے کر نطفے اور بعد کے مراحل میں اس کے منتقل ہونے کا تذکرہ فرماتا ہے۔ ﴿ ثُمَّ جَعَلَكُمْ أَزْوَاجًا﴾ ” پھر تمہیں جوڑے جوڑے بنا دیا۔“ یعنی اللہ تعالیٰ تمہیں ایک مرحلے سے دوسرے مرحلے میں منتقل کرتا رہا حتیٰ کہ تم مرد اور عورت نکاح کے مرحلے میں داخل ہوگئے۔ یہاں نکاح اور ازدواج سے مراد اولاد اور ذریت ہے۔ نکاح اگرچہ حصول اولاد کا سبب ہے، تاہم یہ اللہ تعالیٰ کی قضا وقدر اور اس کے علم سے مقرون ہے۔ ﴿وَمَا تَحْمِلُ مِنْ أُنثَىٰ وَلَا تَضَعُ إِلَّا بِعِلْمِهِ﴾ ” اور جو بھی مادہ حاملہ ہوتی ہے یا بچہ جنتی ہے تو اللہ کو اس کا علم ہوتا ہے۔“ اسی طرح آدمی کی تخلیق کے مختلف ادوار اللہ تعالیٰ کے علم اور اس کے قضا و قدر سے مقرون ہیں۔ ﴿وَمَا يُعَمَّرُ مِن مُّعَمَّرٍ وَلَا يُنقَصُ مِنْ عُمُرِهِ ﴾ ” اور نہ کسی بڑی عمر والے کو عمر زیادہ دی جاتی ہے نہ کسی کی عمر کم کی جاتی ہے۔“ یعنی جس شخص کو طویل عمر عطا کی گئی ہو تو اس کی عمر میں کمی نہیں کی جاتی ﴿ إِلَّا ﴾ ” مگر“ وہ اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے یا کسی ایسے انسان کی عمر میں جو کمی کی گئی ہو جو اس کی طوالت کے در پے رہتا اگر وہ کوتاہ عمری کے اسباب کو اختیار نہ کرتا، مثلاً زنا، والدین کی نافرمانی اور قطع رحمی وغیرہ، جن کے بارے میں ذکر کیا گیا ہے کہ وہ عمر کے کم ہونے کے اسباب ہیں اور معنی یہ ہے کہ عمر کا طویل یا کم ہونا، کسی سبب کی بنا پر ہو یا کسی سبب کے بغیر سب اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے ﴿ فِي كِتَابٍ ﴾ ” ایک کتاب میں“ درج کر رکھا ہے۔ بندے کے تمام ایام حیات اور اس کے تمام اوقات میں اس کے ساتھ جو کچھ گزرتا ہے، سب اس کتاب میں درج ہے۔ ﴿إِنَّ ذٰلِكَ عَلَى اللّٰـهِ يَسِيرٌ﴾ ” بلا شبہ یہ اللہ کے لئے نہایت آسان ہے۔“ یعنی ان بے شمار معلومات اور اس بارے میں کتاب کا احاطہ بہت آسان ہے۔ یہ تین دلائل جو موت کے بعد والی زندگی پر دلالت کرتے ہیں، سب عقلی دلائل ہیں، جن کی طرف اللہ تعالیٰ نے ان آیات کریمہ میں اشارہ کیا ہے۔ (1) زمین کے مردہ ہوجانے کے بعد اس کو زندہ کرنا۔ (2) وہ ہستی جس نے زمین کو حیات نو بخشی، وہ مردوں کو بھی زندہ کرے گی۔ (3) انسان کا ایک مرحلے سے دوسرے مرحلے میں منتقل ہونا۔ وہ اللہ جو اسے وجود میں لایا، جس نے ایک مرحلے سے دوسرے مرحلے میں اور ایک حال سے دوسرے حال میں منتقل کیا یہاں تک کہ اس مقام پر پہنچ گیا جو اس کے لئے مقدر تھا، اس اللہ کے لئے اس کی زندگی کا اعادہ کرنا اور دوسری تخلیق عطا کرنا آسان تر ہے۔ اس کے علم نے تمام عالم علوی اور عالم سفلی کا، ہر چھوٹی یا بڑی چیز کا جو دلوں میں چھپی ہوئی ہے، ان بچوں کا جو ماؤں کے پیٹ میں ہیں اور عمروں کے زیادہ ہونے یا کم ہونے کا احاطہ کر کھا ہے اور یہ سب کچھ ایک کتاب میں درج ہے۔ پس وہ اللہ جس کے لئے یہ سب کچھ اتنا آسان ہے اس کے لئے مردوں کو دوبارہ زندگی بخشنا آسان سے آسان تر ہے۔ نہایت ہی بابرکت ہے وہ ذات جس کی بھلائیاں ان گنت ہیں۔ اس نے اپنے بندوں کے لئے ان تمام امور کی طرف اشارہ کیا ہے جس میں ان کی معاش و معاد کی بھلائی ہے۔ فاطر
12 یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی قدرت، اس کی حکمت اور اس کی بے پایاں رحمت کا بیان ہے کہ اس نے عالم ارضی کے لئے پانی کے مختلف ذخیرے تخلیق فرمائے اور ان کو ایک سا نہیں بنایا کیونکہ مصلحت تقاضا کرتی ہے کہ دریاؤں کا پانی میٹھا، پیاس بجھانے والا اور پینے میں خوشگوار ہو، تاکہ اسے پینے والے، باغوں اور کھیتوں کو سیراب کرنے والے اپنے کام میں لائیں اور سمندروں کا پانی نمکین اور سخت کھاری ہو، تاکہ ان سمندروں کے اندر مرنے والے حیوانات کی بدبو سے ہوا خراب نہ ہو کیونکہ سمندر کا پانی چلتا نہیں بلکہ ساکن ہوتا ہے تاکہ اس کا کھاری پن اسے تغیر سے بچائے رکھے اور اس کے حیوانات خوبصورت اور زیادہ لذیذ ہوں، بنا بریں فرمایا : ﴿وَمِن كُلٍّ﴾ یعنی کھاری پانی اور میٹھے پانی کے ذخیرے میں سے ﴿تَأْكُلُونَ لَحْمًا طَرِيًّا﴾ ” تم تازہ گوشت کھاتے ہو۔“ اس سے مراد مچھلی ہے، جس کا شکار سمندر میں بہت آسان ہے۔ ﴿وَتَسْتَخْرِجُونَ حِلْيَةً تَلْبَسُونَهَا ﴾ ” اور زیور نکالتے ہو جسے تم پہنتے ہو۔“ یعنی موتی اور مونگے وغیرہ، جو سمندر میں پائے جاتے ہیں۔ یہ بندوں کے لئے عظیم مصالح ہیں۔ سمندر کے فوائد اور مصالح میں سے ایک فائدہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے کشتیوں کے لئے مسخر کیا۔ تم انہیں دیکھتے ہو کہ وہ سمندر کا سینہ چیرتے ہوئے ایک ملک سے دوسرے ملک تک اور ایک جگہ سے دوسری جگہ تک چلتی ہیں، مسافر ان کشتیوں اور جہازوں پر بھاری بوجھ اور اپنا سامان تجارت لادتے ہیں۔ تو اس طرح انہیں اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے بہت سے فوائد حاصل ہوتے ہیں، اس لئے فرمایا : ﴿ لِتَبْتَغُوا مِن فَضْلِهِ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ﴾ ” اور تاکہ تم اس کا فضل (معاش) تلاش کرو اور تاکہ تم شکر کرو۔ “ فاطر
13 ان جملہ نعمتوں میں سے ایک نعمت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے جب ان میں سے کوئی ایک آتا ہے تو دوسرا چلا جاتا ہے کبھی ایک میں کمی واقع ہوجاتی ہے تو دوسرے میں اضافہ اور کبھی دونوں برابر ہوتے ہیں۔ اس سے بندوں کے اجسام، ان کے حیوانات، ان کے باغات اور ان کی کھیتیوں کے مصالح پورے ہوتے ہیں۔ اسی طرح سورج اور چاند کی تسخیر میں روشنی اور نور، حرکت اور سکون کے مصالح حاصل ہوتے ہیں، سورج کی روشنی میں بندے اللہ تعالیٰ کا فضل تلاش کرنے کے لئے پھیل جاتے ہیں۔ سورج کی روشنی میں پھل پکتے ہیں اور دیگر ضروری فوائد حاصل ہوتے ہیں جن کے فقدان سے لوگوں کو ضرر پہنچتا ہے۔ ﴿كُلٌّ يَجْرِي لِأَجَلٍ مُّسَمًّى﴾ ” اور ہر ایک وقت مقرر تک چل رہا ہے۔“ یعنی چاند اور سورج دونوں اپنے اپنے مدار میں چل رہے ہیں اور اس وقت تک چلتے رہیں گے جب تک اللہ تعالیٰ کی مشیت ہوگی۔ جب وقت مقررہ آجائے گا اور دنیا کی مدت پوری ہونے کا وقت قریب آ پہنچے گا تو ان کی طاقت سلب کرلی جائے گی، چاند بے نور ہوجائے گا، سورج کو روشنی سے محروم کردیا جائے گا اور ستارے بکھر جائیں گے۔ ان عظیم مخلوقات میں جو عبرتیں اللہ تعالیٰ کے کمال اور احسان پر دلالت کرتی ہیں، ان کو بیان کرنے کے بعد فرمایا : ﴿ذَٰلِكُمُ اللّٰـهُ رَبُّكُمْ لَهُ الْمُلْكُ﴾ ”یہ ہے اللہ، تمہارا رب، اسی کے لئے بادشاہی ہے۔“ یعنی وہ ہستی جو ان بڑی بڑی مخلوقات کی تخلیق اور تسخیر میں متفرد ہے وہی رب، الٰہ اور مستحق عبادت ہے، جو تمام اقدار کا مالک ہے۔ ﴿وَالَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِهِ ﴾ ” اور اس کے سوا جنہیں تم پکارتے ہو۔“ یعنی تم جن بتوں اور خود ساختہ معبودوں کو پوجتے ہو ﴿ مَا يَمْلِكُونَ مِن قِطْمِيرٍ ﴾ وہ قلیل یا کثیر کسی چیز کے مالک نہیں حتی کہ وہ اس معمولی چھلکے کے بھی مالک نہیں جو کھجور کی گٹھلی کے اوپر ہوتا ہے جو حقیر ترین چیز ہے۔ یہ ان کی )الوہیت کی( نفی اور اس کے عموم کی تصریح ہے۔ ان خود ساختہ معبودوں کو کیسے پکارا جاسکتا ہے حالانکہ وہ زمین و آسمان کی بادشاہی میں کسی چیز کے بھی مالک نہیں؟ فاطر
14 اس کے ساتھ ساتھ ﴿إِن تَدْعُوهُمْ ﴾ ” اگر تم ان کو پکارو“ تو وہ تمہاری پکار نہیں سنتے کیونکہ وہ پتھر ہیں یا مرے ہوئے انسان یا فرشتے جو ہر وقت اپنے رب کی اطاعت میں مشغول رہتے ہیں۔ ﴿ وَلَوْ سَمِعُوا ﴾ بفرض محال اگر وہ سن بھی لیں۔ ﴿مَا اسْتَجَابُوا لَكُمْ﴾ ” تو تمہاری بات قبول نہیں کریں گے۔“ کیونکہ وہ کسی چیز کا اختیار رکھتے ہیں نہ ان میں سے اکثر ان لوگوں کی عبادت پر راضی ہی ہیں جو ان کی عبادت کرتے ہیں بنا بریں فرمایا : ﴿وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكْفُرُونَ بِشِرْكِكُمْ﴾ ” اور قیامت کے دن وہ تمہارے شرک کا انکار کریں گے“ یعنی ان کے خود ساختہ معبود ان سے بیزاری کا اظہار کرتے ہوئے کہیں گے : ﴿قَالُوا سُبْحَانَكَ أَنتَ وَلِيُّنَا مِن دُونِهِم﴾ )سبا :34؍41( ” تو پاک ہے، تو ہی ہمارا دوست ہے نہ کہ یہ۔“ ﴿وَلَا يُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِيرٍ ﴾ یعنی آپ کو آگاہ کرنے والی کوئی ایسی ہستی نہیں ہے جو اللہ، علیم و خبیر سے زیاہ سچی ہو۔ پس آپ کو قطعی طور پر یقین ہونا چاہئے کہ یہ معاملہ جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا ہے ایک عینی مشاہدہ ہے، اس لئے آپ کو اس بارے میں قطعی کوئی شک و شبہ نہیں ہونا چاہئے۔ یہ آیات کریمہ روشن اور واضح دلائل پر مشتمل ہیں، جو اس حقیقت پر دلالت کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی معبود برحق ہے جس کے سوا کوئی ہستی ذرہ بھر عبادت کی مستحق نہیں۔ اس کے سواہر ہستی کی عبادت باطل اور باطل سے متعلق ہے اور وہ اپنی عبادت کرنے والے کو کوئی فائدہ نہیں دیتی۔ فاطر
15 اللہ تبارک وتعالیٰ تمام لوگوں سے مخاطب ہے، انہیں ان کے احوال و اوصاف سے آگاہ فرماتا ہے کہ وہ ہر لحاظ سے اللہ تعالیٰ کے محتاج ہیں : (1) وہ وجود میں آنے کے لئے اس کے محتاج ہیں اگر اللہ تعالیٰ ان کو جود میں نہ لائے تو وہ وجود میں نہیں آسکتے۔ (2) وہ اپنے مختلف قویٰ اعضاء اور جوارح کے حصول میں اس کے محتاج ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ ان کو یہ قوی عطا نہ کرے تو کسی کام کے لئے ان میں کوئی استعداد نہیں۔ (3) وہ خوراک، رزق اور دیگر ظاہری و باطنی نعمتوں کے حصول میں اسی کے محتاج ہیں۔ اگر اس کا فضل و کرم نہ ہو اور اگر وہ ان امور کے حصول میں آسانی پیدا نہ کرے تو وہ رزق اور دیگر نعمتیں حاصل نہیں کرسکتے۔ (4) وہ اپنے مصائب و تکالیف، کرب و غم اور شدائد کو دور کرنے میں اللہ تعالیٰ کے محتاج ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ ان کی مصیبتوں اور کرب و غم کو دور اور انکی عسرت کا ازالہ نہ کرے تو وہ ہمیشہ ہمیشہ مصائب و شدائد میں گھرے رہیں۔ (5) وہ اپنی مختلف انواع کی تربیت و تدبیر میں اللہ تعالیٰ کے محتاج ہیں۔ (6) وہ اسے الٰہ بنانے، اس سے محبت کرنے، اس کو معبود بنانے اور خالص اسی کی عبادت کرنے میں اس کے محتاج ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ ان کو ان امور کی توفیق عطا نہ کرے تو یہ ہلاک ہوجائیں، ان کی ارواح، قلوب اور احوال فاسد ہوجائیں۔ (7) وہ ان چیزوں کے علم کے حصول میں جنہیں وہ نہیں جانتے اور ان کی اصلاح کرنے والے عمل کے حصول میں اللہ تعالیٰ کے محتاج ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ ان کو علم عطا نہ کرے تو وہ کبھی بھی علم سے بہرہ ور نہ ہوسکیں اور اگر اللہ تعالیٰ ان کو عمل کی توفیق سے نہ نوازے تو وہ کبھی نیکی نہ کرسکیں۔۔۔ وہ ہر لحاظ اور ہر اعتبار سے بالذات اللہ تعالیٰ کے محتاج ہیں خواہ انہیں اپنی کسی حاجت کا شعور ہو یا نہ ہو۔ مگر لوگوں میں سے توفیق سے بہرہ ور وہی ہے جو دینی اور دنیاوی امور سے متعلق اپنے تمام احوال میں (اللہ تعالیٰ کے سامنے) اپنے فقر و احتیاج کا مشاہدہ کرتا ہے، جو اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنی عاجزی اور فروتنی کا اظہار کرتا ہے اور وہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا رہتا ہے کہ وہ اسے ایک لمحہ کے لئے بھی اس کے نفس کے حوالے نہ کرے، اس کے تمام امور میں اس کی مدد فرمائے اور وہ اس آیت کے معنی کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھتا ہے۔ ایسا شخص اپنے اس رب اور معبود کی کامل اعانت کا مستحق ہے جو ماں کے اپنے بچوں پر مہربانی ہونے سے کہیں بڑھ کر اس پر مہربان اور رحیم ہے۔ ﴿وَاللّٰـهُ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ وہ ہستی ہے جو ہر لحاظ سے غنائے کامل کی مالک ہے۔ وہ ان چیزوں میں سے کسی چیز کی محتاج نہیں جن کی مخلوق محتاج اور ضرورت مند ہوتی ہے کیونکہ اس کی صفات تمام تر صفات کمال اور جلال ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا غنائے تام ہے کہ اس نے اپنی مخلوق کو دنیا و آخرت میں غنا سے نوازا ہے۔ ﴿الْحَمِيدُ﴾ وہ اپنی ذات اور اپنے ناموں میں قابل حمد و ستائش ہے کیونکہ اس کے تمام نام اچھے، اس کے تمام اوصاف عالی شان اور اس کے تمام افعال سراسر فضل و احسان، عدل و حکمت اور رحمت پر مبنی ہیں۔ وہ اپنے اوامرونواہی میں قابل تعریف ہے کیونکہ وہ اپنی صفات، فضل و اکرام اور جزا و سزا میں عدل و انصاف کی وجہ سے قابل تعریف ہے۔ وہ اپنے غنا میں قابل تعریف ہے اور وہ اپنی حمد و ثنا سے مستغنی اور بے نیاز ہے۔ فاطر
16 ﴿ إِن يَشَأْ يُذْهِبْكُمْ وَيَأْتِ بِخَلْقٍ جَدِيدٍ﴾ اس سے یہ مراد بھی ہوسکتی ہے کہ اے لوگو ! اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو تمہیں لے جائے اور تمہاری جگہ دوسرے لوگوں کو لے آئے جو تم سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے والے ہوں۔ یہ ان کے لئے ہلاکت کی وعید اور اس حقیقت کا اظہار ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مشیت ایسا کرنے سے قاصر نہیں۔ اس میں موت کے بعد زندگی کے اثبات کا احتمال بھی ہے، نیز اس حقیقت کا بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مشیت ہر چیز پر نافذ ہے۔ اس کی مشیت اس چیز پر بھی قادر ہے کہ تمہارے مرنے کے بعد تمہیں دوبارہ نئے سرے سے زندہ کرے، مگر اس زندگی کے لئے ایک وقت ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقدر ہے، اس وقت مقرر سے تقدیم ہوگی نہ تاخیر۔ فاطر
17 ﴿وَمَا ذٰلِكَ عَلَى اللّٰـهِ بِعَزِيزٍ ﴾ ” اور یہ اللہ کو کچھ مشکل نہیں۔“ یعنی کوئی چیز اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت سے باہر نہیں اور کوئی ہستی اسے عاجز نہیں کرسکتی۔ اس کے بعد آنے والی آیت کریمہ آخری معنی پر دلالت کرتی ہے، یعنی ﴿وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ﴾ قیامت کے دن ہر شخص کو اس کے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا اور کوئی شخص کسی دوسرے شخص کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ فاطر
18 ﴿وَإِن تَدْعُ مُثْقَلَةٌ﴾ اگر کوئی نفس جس نے اپنے گناہوں کا بوجھ اٹھایا ہوا ہوگا اور وہ کسی سے بوجھ اٹھانے کے لئے التماس کرے گا ﴿ لَا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَىٰ﴾ ” تو کوئی شخص بھی خواہ اس کا رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو اس کا بوجھ نہیں اٹھائے گا“ کیونکہ آخرت کے احوال دنیا کے احوال کی مانند نہیں ہیں جہاں دوست، دوست کی مدد کرتا ہے، بلکہ قیامت کے روز تو بندہ تمنا کرے گا کہ اس کا کسی کے ذمے حق ہو، خواہ اس کے والدین اور اقارب کے ذمے ہی کیوں نہ ہو۔ ﴿إِنَّمَا تُنذِرُ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُم بِالْغَيْبِ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ﴾ ” آپ تو صرف انہی لوگوں کو نصیحت کرسکتے ہیں جو بن دیکھتے اپنے رب سے ڈرتے اور نماز قائم کرتے ہیں۔“ یعنی یہی وہ لوگ ہیں جو انذار کو قبول کرتے ہیں اور اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جو کھلے چھپے اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جو نماز کو اس کی تمام حدودود شر ائط، ارکان و واجبات اور پورے خشوع کے ساتھ قائم کرتے ہیں کیونکہ خشیت الٰہی بندے سے اس عمل کا تقاضا کرتی ہے جس کے ضیاع پر سزا کا خوف ہو اور ایسے عمل سے دور رہنے کا تقاضا کرتی ہے جس کے ارتکاب پر عذاب کا خوف ہو۔ نماز بھلائی کی طرف بلاتی ہے اور فواحش اور برے کاموں سے روکتی ہے۔ ﴿وَمَن تَزَكَّىٰ فَإِنَّمَا يَتَزَكَّىٰ لِنَفْسِهِ﴾ یعنی جس کسی نے اپنے نفس کو عیوب مثلاً ریا، تکبر، جھوٹ، دھوکہ، مکر و فریب، نفاق اور دیگر اخلاق رذیلہ سے پاک کیا اور اپنے آپ کو اخلاق حسنہ سے آراستہ کیا مثلاً صدق، اخلاص، تواضع و انکسار، بندوں کی خیر خواہی اور دل کو بغض، حسد، کینے اور دیگر اخلاق رذیلہ سے پاک رکھا، تو اس کے تزکیہ نفس کا فائدہ اسی کو حاصل ہوگا۔ اس کے عمل میں سے کوئی چیز ضائع نہیں ہوگی۔ ﴿ وَإِلَى اللّٰـهِ الْمَصِيرُ ﴾ ” اور اللہ ہی کی طرف لوٹنا ہے۔“ پس وہ تمام خلائق کو ان کے اعمال کی جزا دے گا اور ان کے اعمال کا حساب لے گا اور کوئی چھوٹا یا بڑا عمل شمار کئے بغیر نہیں چھوڑے گا۔ فاطر
19 اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ حکمت الٰہی اور اس نے اپنے بندوں کو فطرت عطا کی ہے، ان کے لحاظ سے اضداد برابر نہیں ہوتیں، فرمایا: ﴿وَمَا يَسْتَوِي الْأَعْمَىٰ﴾ ” اور نہیں ہے برابر اندھا“ جس کی بینائی نہیں۔ ﴿وَالْبَصِيرُ وَلَا الظُّلُمَاتُ وَلَا النُّورُ وَلَا الظِّلُّ وَلَا الْحَرُورُ وَمَا يَسْتَوِي الْأَحْيَاءُ وَلَا الْأَمْوَاتُ﴾ ” اور دیکھنے والا، نہ اندھیرے اور روشنی، نہ سایہ اور دھوپ (برابر ہیں) اور نہ زندے اور مردے یکساں ہوتے ہیں۔“ جیسا کہ تمہارے نزدیک بھی یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت اور کسی شک و شبہ ہے سے پاک ہے کہ مذکورہ بالا تمام چیزیں برابر نہیں ہیں، تب تمہیں یہ حقیقت بھی معلوم ہونی چاہئے کہ معنوی طور پر متضاد اشیا میں عدم مساوات زیادہ اولیٰ ہے۔ پس مومن اور کافر برابر نہیں ہیں، نہ ہدایت یافتہ اور گمراہ برابر ہیں، نہ عالم اور جاہل برابر ہیں، نہ اہل جنت اور اہل جہنم برابر ہیں، نہ زندہ دل اور مردہ دل برابر ہیں۔ ان مذکورہ اشیا کے درمیان اتنا فرق اور اس قدر تفاوت ہے جسے اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ جب تمام اشیا کے مراتب معلوم ہوگئے اور ان کے درمیان امتیاز واقع ہوگیا اور وہ اشیا اپنی اضداد میں سے واضح ہوگئیں جن کے حصول کے لئے کوشش کرنی چاہیے ، تو ایک دور اندیش اور عقل مند شخص کو اپنے لئے وہی چیز منتخب کرنی چاہئے جو بہتر اور ترجیح دیئے جانے کی مستحق ہے۔ فاطر
20 فاطر
21 فاطر
22 ﴿ إِنَّ اللّٰـهَ يُسْمِعُ مَن يَشَاءُ﴾ ”بے شک اللہ جس کو چاہتا ہے سنوا دیتا ہے۔“ یعنی جسے چاہتا ہے فہم و قبول کی سماعت عطا کرتا ہے کیونکہ وہی راہ دکھانے والا اور توفیق عطا کرنے والا ہے۔ ﴿وَمَا أَنتَ بِمُسْمِعٍ مَّن فِي الْقُبُورِ﴾ ” اور آپ ان کو جو قبروں میں پڑے ہیں نہیں سنا سکتے۔“ یعنی جن کے دل مردہ ہوچکے ہیں آپ ان کو نہیں سنا سکتے، جس طرح آپ کا قبر کے مردوں کو بلانا ان کو کوئی فائدہ نہیں دیتا، اسی طرح اعراض کرنے والے معاند کو بھی آپ کو بلانا کوئی فائدہ نہیں دے گا۔ آپ کا کام صرف ڈرانا اور ان تک اس حکم کو پہنچا دینا ہے جس کے ساتھ آپ کو بھیجا گیا ہے، خواہ وہ اس کو قبول کریں یا نہ کریں۔ فاطر
23 فاطر
24 ﴿بَشِيرًا ﴾ آپ کو ان لوگوں کے لئے دنیاوی اور اخروی ثواب کی خوش خبری سنانے والا بنا کر بھیجا گیا ہے جو آپ کی اطاعت کریں۔ ﴿وَنَذِيرًا﴾ اور ان لوگوں کے لئے دنیاوی اور اخروی عذاب سے ڈرانے والا بنا کر بھیجا گیا ہے جو آپ کی نافرمانی کریں اور آپ کوئی نئے رسول تو نہیں ہیں۔ نہیں ہے ﴿ مِّنْ أُمَّةٍ﴾ ” کوئی بھی امت“ سابقہ امتوں اور گزشتہ ادوار میں سے ﴿ إِلَّا خَلَا فِيهَا نَذِيرٌ﴾ ” مگر اس میں ڈرانے والا آیا ہے“ تاکہ ان پر اللہ تعالیٰ کی حجت قائم ہو۔ ﴿لِّيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَن بَيِّنَةٍ وَيَحْيَىٰ مَنْ حَيَّ عَن بَيِّنَةٍ﴾ (الانفال :8؍42) ”تاکہ جو ہلاک ہو وہ دلیل سے ہلاک ہو اور جو زندہ رہے وہ دلیل سے زندہ رہے۔ “ فاطر
25 اے رسول ! اگر یہ مشرکین آپ کو جھٹلاتے ہیں تو آپ کوئی پہلے رسول نہیں ہیں جس کو جھٹلایا گیا ہو ﴿فَقَدْ كَذَّبَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ جَاءَتْهُمْ رُسُلُهُم بِالْبَيِّنَاتِ﴾’’پس جو لوگ ان سے پہلے تھے وہ بھی تکذیب کرچکے ہیں۔ ان کے پاس ان کے رسول نشانیاں لے کر آئے۔“ ان کے رسول واضح دلائل کے ساتھ آئے جوحق اور ان رسولوں کی خبر کی صداقت پر دلالت کرتے تھے ﴿ وَبِالزُّبُرِ﴾ یعنی لکھی ہوئی کتابوں کے ساتھ آئے جن میں بہت سے احکام جمع تھے ﴿وَبِالْكِتَابِ الْمُنِيرِ ﴾ ” اور روشن کتاب“ یعنی جو اپنی سچی خبروں اور عدل پر مبنی نہ تھا بلکہ اس کا سبب محض ان کا ظلم اور عناد تھا۔ فاطر
26 ﴿ثُمَّ أَخَذْتُ الَّذِينَ كَفَرُوا﴾ ” پھر میں نے (مختلف انواع کے عذاب کے ذریعےسے)ان کو پکڑا جنہوں نے کفر کیا تھا۔“ ﴿فَكَيْفَ كَانَ نَكِيرِ﴾ ” پس میرا عذاب کیسا سخت تھا“ ان پر؟ ان کے لئے نہایت سخت سزا تھی۔ اس لئے تم رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تکذیب سے بچو ورنہ تم پر بھی وہی درد ناک اور رسوا کن عذاب نازل ہوجائے گا جو گزشتہ قوموں پر نازل ہوا تھا۔ فاطر
27 اللہ تبارک و تعالیٰ ذکر فرماتا ہے کہ اس نے کائنات میں متضاد اشیاء کو تخلیق کیا جن کی اصل اور مادہ ایک ہے، مگر اس کے باوجود ان میں فرق اور تفاوت ہے جو معروف اور سب پر عیاں ہے تاکہ بندے اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ اور حکمت تامہ پر استدلال کریں، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آسمان سے پانی برسایا اور اس کے ذریعے سے مختلف اقسام کے پھل پیدا کئے اور مختلف انواع کی نباتات اگائیں، دیکھنے والے ان کا مشاہدہ کرتے ہیں حالانکہ ان کو سیراب کرنے والا پانی ایک اور ان کو اگانے والی زمین ایک ہے۔ اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کو زمین کے لئے میخیں بنایا، آپ دیکھیں کہ پہاڑ گویا ایک دوسرے سے ملے ہوئے بلکہ وہ ایک ہی پہاڑ نظر آئیں گے، ان پہاڑوں کے رنگ مختلف ہیں، ان کے اندر سفید، زرد، سرخ اور گہرے سیاہ رنگ کی دھاریاں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں، چوپایوں اور مویشیوں کو پیدا کیا ان کو مختلف رنگ، اوصاف، آوازیں او مختلف صورتیں عطا کیں جو آنکھوں کے سامنے عیاں ہیں اور دیکھنے والے ان کا مشاہدہ کرسکتے ہیں ان تمام چیزوں کی اصل اور ان کا مادہ ایک ہے۔ ان کے درمیان تفاوت اللہ کی مشیت پر عقلی دلیل ہے، جس نے ہر ایک کو مخصوص رنگ اور وصف سے مختص کیا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت پر دلیل ہے کہ اس نے ان کو وجود بخشا، یہ اس کی حکمت اور رحمت ہے کہ ان کو اس اختلاف اور تفاوت سے نوازا۔ اس تفاوت میں بے شمار فوائد اور منافع پنہاں ہیں جو معلوم ہیں۔ اس تفاوت کے سبب سے راستوں کی معرفت حاصل ہوتی ہے اور لوگ ایک دوسرے کو پہچانتے ہیں۔ نیز یہ اللہ تعالیٰ کے وسعت علم کی دلیل ہے، نیز اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ مردوں کو دوبارہ زندہ کرے گا، مگر غافل شخص ان تمام اشیاء کو غفلت کی نظر سے دیکھتا ہے ان چیزوں کو دیکھ کر اسے نصیحت حاصل نہیں ہوتی ان چیزوں سے صرف وہی لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں اور اپنے فکر راست کی بنا پر ان میں پنہاں اللہ تعالیٰ کی حکمت کو جانتے ہیں، بنا بریں فرمایا : ﴿ إِنَّمَا يَخْشَى اللّٰـهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ﴾ ” حقیقت یہ ہے کہ اللہ سے تو اس کے وہی بندے ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں۔“ جو شخص سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی معرفت رکھتا ہے وہ سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے۔ خشیت الٰہی اسے گناہوں سے باز رہنے اور اللہ تعالیٰ سے ملاقات کی تیاری کرنے کی موجب بنتی ہے۔ فاطر
28 یہ آیت کریمہ علم کی فضیلت کی دلیل ہے کیونکہ علم انسان کو خشیت الٰہی کی طرف دعوت دیتا ہے۔ خشیت الٰہی کے حامل لوگ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اکرام و تکریم کے اہل ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿ رَّضِيَ اللّٰـهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ ذٰلِكَ لِمَنْ خَشِيَ رَبَّهُ﴾ (البینۃ:8؍98)” اللہ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اللہ سے راضی ہوگئے یہ اس کے لئے ہے جو اپنے رب سے ڈر گیا۔“ ﴿إِنَّ اللّٰـهَ عَزِيزٌ﴾ ”بے شک اللہ تعالیٰ(کامل) غلبے کا مالک ہے“ یہ اس کا غلبہ ہی ہے کہ اس نے متضاد انواع و اقسام کی مخلوقات کو پیدا کیا۔ ﴿ غَفُورٌ﴾ ” بخشنے والا ہے“ توبہ کرنے والوں کے گناہوں کو۔ فاطر
29 ﴿إِنَّ الَّذِينَ يَتْلُونَ كِتَابَ اللّٰـهِ﴾ ” بے شک جو لوگ اللہ کی کتاب پڑھتے ہیں۔“ یعنی اس کے اوامر میں اس کی اطاعت کرتے ہیں، اس کے نواحی کو ترک کرتے ہیں، اس کی دی ہوئی خبروں کی تصدیق کر کے انہیں اپنا عقیدہ بناتے ہیں اور ان اقوال کو پسند نہیں کرتے جو اس کی مخالفت کرتے ہیں وہ اس کے معانی میں غو رو خوض اور ان کے فہم کے حصول کی خاطر اس کے الفاظ کی تلاوت کرتے ہیں۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے کتاب اللہ کی تلاوت کے عموم کو بیان کرنے کے بعد نماز کو مخصوص فرمایا، جو دین کا ستون، مسلمانوں کے لئے روشنی، ایمان کی میزان اور دعویٰ اسلام کی صداقت کی علامت ہے نیز اقارب، مساکین اور یتیموں پر زکوۃ، کفارات، نذر اور صدقات کے مال کو خرچ کرنے کو مخصوص فرمایا۔ ﴿سِرًّا وَعَلَانِيَةً﴾ ” کھلے چھپے“ تمام اوقات میں۔ ﴿يَرْجُونَ﴾ اس کے ذریعے سے وہ امید کرتے ہیں ﴿تِجَارَةً لَّن تَبُورَ﴾ ایسی تجارت کی، جو کبھی کساد کا شکار ہوگی نہ فساد کا، بلکہ وہ سب سے بڑی، عالی شان اور افضل ترین تجارت ہے۔ آگاہ رہو کہ وہ تجارت ان کے رب کی رضا، اس کے بے پایاں ثواب کا حصول، اس کی ناراضی اور عذاب سے نجات ہے۔ اس آیت کریمہ میں ان اہل ایمان کے اعمال میں اخلاص کی طرف اشارہ ہے نیز اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ ان اعمال میں ان کے مقاصد برے اور نیت فاسد نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا کہ وہ جس چیز کی امید کرتے تھے وہ ان کو حاصل ہوگئی۔ فاطر
30 ﴿ لِيُوَفِّيَهُمْ أُجُورَهُمْ﴾ ” تاکہ وہ دے ان کو ان کا پورا پورا اجر“ یعنی ان کے اعمال کی قلت و کثرت ان کے حسن و قبح کے اعتبار سے ان کا اجر ﴿وَیَزیْدَھُمْ مِنْ فَضْلِہِ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ ان کو ان کے اجر سے بڑھ کر نوازے گا۔ ﴿ إِنَّهُ غَفُورٌ شَكُورٌ﴾ ” بے شک وہ بخشنے والا قدر دان ہے۔“ اللہ تعالیٰ ان کے گناہوں کو بخش دے گا اور ان کی تھوڑی سی نیکی کو بھی قبولیت کا شرف بخشے گا۔ فاطر
31 اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ کتاب جو اس نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف وحی کی ﴿هُوَ الْحَقُّ﴾ ” وہ حق ہے“ کیونکہ وہ جن امور پر مشتمل ہے وہ حق ہیں اور اس نے حق کے تمام اصولوں کا احاطہ کر رکھا ہے۔ گویا تمام حق صرف اسی کتاب کے اندر ہے، اس لئے تمہارے دلوں میں حق کے بارے میں کوئی تنگی نہ آئے اور تم حق سے تنگ آؤ نہ اسے ہیچ سمجھو۔ جب یہ کتاب حق ہے تو اس سے لازم آتا ہے کہ وہ تمام مسائل الٰہیہ اور امور غیبیہ جن پر یہ کتاب دلالت کرتی ہے واقع کے مطابق ہوں، لہٰذا یہ جائز نہیں کہ اس سے کوئی ایسی مراد لی جائے جو اس کے ظاہر اور اس چیز کے خلاف ہو جس پر اس کا ظاہر دلالت کرتا ہے۔ ﴿مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ﴾ یعنی گزشتہ کتابوں اور رسولوں کی تصدیق کرتی ہے کیونکہ ان کتابوں اور رسولوں نے اس کتاب کے بارے میں پیش گوئی کی تھی اس لئے جب یہ کتاب آگئی تو اس سے ان کی صداقت ظاہر ہوگئی اور چونکہ گزشتہ کتابوں نے اس کتاب کے بارے میں پیشین گوئی کرتے ہوئے خوش خبری دی اور یہ اس پیشین گوئی کی تصدیق کرتی ہے، اس لئے کسی کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ کتب سابقہ پر ایمان لائے اور قرآن کا انکار کرے کیونکہ اس کا قرآن کو نہ ماننا، ان کتابوں پر اس کے ایمان کی نفی کرتا ہے کیونکہ ان کی جملہ خبروں میں سے ایک خبر قرآن کے بارے میں بھی ہے، نیز ان کی خبریں قرآن کی دی ہوئی خبروں کے مطابق ہیں۔ ﴿إِنَّ اللّٰـهَ بِعِبَادِهِ لَخَبِيرٌ بَصِيرٌ ﴾ ” بے شک اللہ اپنے بندوں سے خبر دار اور دیکھنے والا ہے۔“ اس لئے وہ ہر قوم اور ہر فرد کو وہی کچھ عطا کرتا ہے جو اس کے احوال کے لائق ہے۔ سابقہ شریعتیں اپنے اپنے وقت اور اپنے اپنے زمانے کے لائق تھیں، اس لئے اللہ تعالیٰ رسول کے بعد رسول بھیجتا رہا یہاں تک کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سلسلہ رسالت کو ختم کردیا۔ پس حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ شریعت لے کر تشریف لائے جو قیامت تک کے لئے مخلوق کے تمام مصالح کے مطابق ہے اور ہر وقت ہر بھلائی کی ضامن ہے۔ فاطر
32 چونکہ یہ امت کامل ترین عقل، بہترین افکار، نرم ترین قلوب اور پاک ترین نفوس کی حامل ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے اسے دین اسلام اور دین اسلام کو اس کے لئے چن لیا، اس لئے فرمایا : ﴿ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْكِتَابَ الَّذِينَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا﴾ ” پھر ہم نے ان لوگوں کو کتاب کا وارث ٹھہرایا جن کو اپنے بندوں میں سے چن لیا۔“ اور ان لوگوں سے مراد امت محمدیہ ہے۔ ﴿فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهِ﴾ ” پس کچھ تو ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں“ ایسے گناہوں کے ارتکاب سے جو کفر سے کم تر ہیں ﴿وَمِنْهُم مُّقْتَصِدٌ ﴾ ” اور کچھ میانہ رو ہیں۔“ یعنی وہ لوگ جو محرمات کو ترک کرتے ہوئے صرف واجبات پر اکتفا کرتے ہیں۔ ﴿وَمِنْهُمْ سَابِقٌ بِالْخَيْرَاتِ﴾ کچھ نیکیوں میں سبقت اور جدوجہد کرنے والے ہیں اور یہ لوگ ہیں جو فرائض ادا کرتے ہیں، نہایت کثرت سے نوافل کا اہتمام کرتے ہیں اور محرمات و مکروہات کو ترک کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی اس کتاب کی وراثت کے لئے ان تمام لوگوں کو چن لیا ہے، اگرچہ ان کے مراتب میں تفاوت اور ان کے احوال میں فرق ہے۔ ان میں سے ہر ایک کے لئے اس وراثت میں حصہ ہے حتیٰ کہ اس کے لئے بھی اس وراثت میں حصہ ہے جس نے گناہوں کا ارتکاب کر کے اپنے آپ پر ظلم کیا کیونکہ اس کے پاس اصل ایمان، علوم ایمان اور اعمال میں سے جو کچھ ہے وہ کتاب کی وراثت ہے۔ کتاب کی وراثت سے مراد، اس کا علم، اس پر عمل، اس کے الفاظ کا پڑھنا اور اس کے معانی کا استنباط ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد : ﴿بِإِذْنِ اللّٰـهِ﴾ نیکیوں کی طرف سبقت کرنے والے کی طرف راجع ہے تاکہ وہ اپنے عمل کے بارے میں کسی دھوکے میں مبتلا نہ ہوجائے کیونکہ اس نے نیکیوں کی طرف سبقت صرف اللہ تعالیٰ کی توفیق اور اس کی مدد سے کی ہے، لہٰذا اس کو چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے جس نعمت سے نوازا ہے وہ اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے۔ ﴿ذٰلِكَ هُوَ الْفَضْلُ الْكَبِيرُ ﴾ یعنی ان لوگوں کے لئے، جنہیں اللہ تعالیٰ نے چن لیا ہے، اس جلیل القدر کتاب کی وراثت بہت بڑا فضل ہے جس کے سامنے تمام نعمتیں ہیچ ہیں۔ مطلق طور پر سب سے زیادہ جلیل القدر نعمت اور سب سے بڑا افضل اس عظیم کتاب کی وراثت ہے۔ فاطر
33 پھر اللہ تبارک تعالیٰ نے ان لوگوں کے اجر کا ذکر فرمایا جن کو اس نے وراثت عطا کی ہے چنانچہ فرمایا : ﴿جَنَّاتُ عَدْنٍ يَدْخُلُونَهَا ﴾ ” وہ ہمیشہ رہنے والے باغات میں داخل ہوں گے۔“ یعنی وہ ایسے باغات ہوں گے جو درختوں، گہرے سایوں، خوبصورت پھلواریوں، اچھلتی ہوئی ندیوں، عالی شان محلات اور آراستہ کئے ہوئے گھروں پر مشتمل ہوں گے، جو ہمیشہ رہیں گے اور کبھی زائل نہیں ہوں گے۔ وہاں ایک ایسی خوبصورت زندگی ہوگی جو کبھی ختم نہ ہوگی ﴿ عَدْنٍ ﴾ سے مراد ” اقامت“ )قیام کرنا( ہے تو﴿ جَنَّاتُ عَدْنٍ ﴾ کا معنی باغات اقامت ہے۔ باغات کی اقامت کی طرف اضافت کی وجہ یہ ہے کہ دائمی اقامت اور ہمیشگی ان باغات اور ان کے رہنے والوں کا وصف ہے۔ ﴿ يُحَلَّوْنَ فِيهَا مِنْ أَسَاوِرَ مِن ذَهَبٍ ﴾ ” وہاں انہیں سونے کے کنگن پہنائے جائیں گے۔“ یہ وہ زیور ہے جو ہاتھوں میں پہنا جاتا ہے۔ وہ جس طرح چاہیں گے انہیں پہنیں گے اور یہ زیور انہیں دیگر تمام زیوروں سے زیادہ خوبصورت دکھائی دے گا۔ جنت میں زیور پہننے میں مرد اور عورتیں برابر ہوں گے۔ ﴿ وَ ﴾ ” اور“ وہ جنت میں پہنائے جائیں گے ﴿ لُؤْلُؤًا ﴾ ” موتی“ جو ان کے لباس اور جسم پر آراستہ ہوں گے۔ ﴿ وَلِبَاسُهُمْ فِيهَا حَرِيرٌ ﴾ ” اور وہاں ان کا لباس ریشم ہوگا“ یعنی باریک اور موٹا سبز ریشم ۔ فاطر
34 ﴿ وَ ﴾ ” اور“ جب ان پر نعمتوں کا اتمام اور لذتوں کی تکمیل ہوجائے گی تو ﴿ قَالُوا الْحَمْدُ لِلَّـهِ الَّذِي أَذْهَبَ عَنَّا الْحَزَنَ ﴾ ” وہ کہیں گے ہر قسم کی تعریف اللہ کے لئے ہے جس نے ہم سے غم دور کردیا۔“ یہ ہرقسم کے حزن و غم کو شامل ہے، لہٰذا انہیں حسن و جمال اور جسم میں کسی نقص کی بنا پر کوئی حزن و غم پیش آئے گا نہ ماکولات و مشروبات اور لذات میں کمی کی وجہ سے اور نہ جنت میں عدم دوام ہی کی وجہ سے کوئی غم لاحق ہوگا۔ اہل جنت ایسی نعمتوں میں رہیں گے جن سے بڑھ کر اور کوئی چیز نہ ہوگی اور ابدالآباد تک ان نعمتوں میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ ﴿ إِنَّ رَبَّنَا لَغَفُورٌ ﴾ ” بے شک ہمارا رب بخشنے والا ہے۔“ کیونکہ اس نے ہماری تمام لغزشوں کو بخش دیا ہے ﴿ شَكُورٌ ﴾ ” قدر دان ہے“ کیونکہ اس نے ہماری نیکیوں کو قبول فرما کر ہماری نیکیوں کی قدر کی، ان نیکیوں میں کئی گنا اضافہ کیا اور ہمیں اپنے فضل سے ہمارے اعمال اور ہماری امیدوں سے بڑھ کر بہرہ ور کیا۔ پس انہوں نے اللہ تعالیٰ کی مغفرت کے ذریعے سے ہر مکروہ امر سے نجات پائی۔ اس کے فضل و کرم اور اس کی قدر دانی کی بنا پر جنت میں ہر مرغوب و محبوب چیز حاصل کی۔ فاطر
35 ﴿ الَّذِي أَحَلَّنَا ﴾ ” جس نے ہمیں اتارا“ یعنی اس نے ہمیں جنت میں عبوری اور عارضی طور پر نازل نہیں فرمایا بلکہ مستقل طور پر نازل فرمایا ﴿دَارَ الْمُقَامَةِ ﴾ ” ہمیشگی کے گھر میں“ جہاں دائمی قیام ہے، جہاں بے شمار بھلائیوں، کبھی نہ ختم ہونے والی مسرتوں اور کسی قسم کے تکدر کے عدم وجود کی وجہ سے قیام کی خواہش کی جاتی ہے اور اس کا ہمیں جنتوں میں نازل کرنا ﴿ مِن فَضْلِهِ ﴾ ہمارے اعمال کے سبب سے نہیں بلکہ اس کے فضل و کرم سے ہمیں جنت عطا ہوئی ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم نہ ہوتا تو ہم کبھی اس مقام پر نہ پہنچ سکتے۔ ﴿ لَا يَمَسُّنَا فِيهَا نَصَبٌ وَلَا يَمَسُّنَا فِيهَا لُغُوبٌ ﴾ ” یہاں ہم کوئی رنج پہنچے گا نہ تھکان“ یعنی بدن، قلب اور دیگر قویٰ میں کثرت تمتع کی وجہ سے کوئی تھکاوٹ نہ ہوگی۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ آخرت میں اہل جنت کے بدن کو کامل زندگی عطا کرے گا اور انہیں دائمی طور پر راحت کے اسباب مہیا کرے گا۔ ان کے یہ اوصاف ہوں گے کہ ان کو کوئی کمزوری لاحق ہوگی نہ تھکن اور نہ کسی قسم کا حزن و غم۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ جنت میں نیند نہیں آئے گی کیونکہ نیند تو صرف تھکن دور کرنے اور راحت حاصل کرنے کے لئے ہوتی ہے۔۔۔ اور اہل جنت کو تو تھکن لاحق نہیں ہوگی۔۔۔ اور نیند گویا ایک چھوٹی موت ہے اور اہل جنت کو کبھی موت نہیں آئے گی۔۔۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے ہمیں اہل جنت میں شامل کرے (آمین) فاطر
36 اللہ تبارک و تعالیٰ نے اہل جنت اور ان کو عطا کی جانے والی نعمتوں کا حال بیان کرنے کے بعد اہل جہنم اور ان کو دیئے جانے والے عذاب کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ وَالَّذِينَ كَفَرُوا ﴾ جنہوں نے آیات الٰہی کا جو رسول لے کر آئے تھے اور اپنے رب سے ملاقات کا انکار کیا۔ ﴿لَهُمْ نَارُ جَهَنَّمَ ﴾ ” ان کے لئے جہنم کی آگ ہے“ جہاں انہیں نہایت سخت عذاب میں مبتلا کیا جائے گا۔ ﴿ لَا يُقْضَىٰ عَلَيْهِمْ ﴾ ” نہ تو ان کا قصہ پاک کیا جائے گا“ موت کے ساتھ ﴿ فَيَمُوتُوا ﴾ ” کہ وہ مر جائیں“ اور آرام پالیں ﴿ وَلَا يُخَفَّفُ عَنْهُم مِّنْ عَذَابِهَا ﴾ ” اور نہ ان کا عذاب ہی ان سے کم کیا جائے گا۔“ پس ہر وقت اور ہر آن ان کے عذاب میں دائمی شدت رہے گی۔ ﴿ كَذٰلِكَ نَجْزِي كُلَّ كَفُورٍ وَهُمْ يَصْطَرِخُونَ فِيهَا ﴾ ” ہم ہر کافر کو ایسی ہی سزا دیتے ہیں اور وہ لوگ اس میں چلائیں گے“ یعنی وہ جہنم میں چیخ و پکار کریں گے مدد کو پکاریں گے: فاطر
37 اور کہیں گے: ﴿ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا غَيْرَ الَّذِي كُنَّا نَعْمَلُ ﴾ ” ہمارے رب ہم کو نکال لے )اب( ہم نیک عمل کیا کریں گے برخلاف ان کاموں کے جو ہم کیا کرتے تھے۔“ پس وہ اپنے گناہوں کا اعتراف کریں گے اور انہیں معلوم ہوجائے گا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں انصاف کیا ہے۔ وہ واپس لوٹنے کی خواہش کریں گے مگر اب وقت گزر گیا۔ ان سے کہا جائے گا: ﴿ أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم مَّا﴾ یعنی کیا ہم نے تمہیں ایک طویل عمر عطا نہیں کی تھی؟ ﴿ يَتَذَكَّرُ فِيهِ مَن تَذَكَّرَ ﴾ جو کوئی اس طویل عرصہ میں نصیحت پکڑنا چاہتا وہ نصیحت پکڑ سکتا تھا۔ ہم نے تمہیں دنیا میں اسباب دنیا سے بہرہ ور کیا، تمہیں رزق عطا کیا، تمہارے لئے اسباب راحت مہیا کئے، تمہیں لمبی عمر عطا کی، تمہارے سامنے پے در پے اپنی نشانیاں ظاہر کیں اور تمہارے پاس ڈرانے والے بھیجے اور تمہیں سختی اور نرمی کے ذریعے سے آزمایا گیا تاکہ تم ہماری طرف رجوع کرو اور ہماری طرف لوٹو۔ مگر تمہیں کسی نصیحت اور انذار نے کوئی فائدہ نہ دیا۔ ہم نے تم سے عذاب کو مؤخر کردیا حتیٰ کہ تمہیں دی گئی مہلت پوری ہوگئی تمہاری عمریں اپنے اتمام کو پہنچیں، تم بدترین احوال کے ساتھ، دارالعمل سے نکل کر دارلجزا میں منتقل ہوچکے ہو۔ اب تم دنیا میں واپس لوٹنے کی درخواست کر رہے ہو۔ یہ بہت بعید ہے۔ اب عمل کا وقت گزر چکا، اب تو رحیم و رحمان کی ناراضی کا سامنا کرنا ہوگا، تم پر جہنم کی آگ بھڑکے گی اور اہل جنت نے تمہیں بھلا دیا۔ اب ہمیشہ کے لئے تم جہنم میں رہو اور ذلت اور رسوائی کے ساتھ عذاب بھگتو، اس لئے فرمایا : ﴿فَذُوقُوا فَمَا لِلظَّالِمِينَ مِن نَّصِيرٍ ﴾ ” پس اب چکھو، ظالموں کا کوئی مددگار نہیں۔“ جو ان کی مدد کرسکے اور ان کو اس عذاب سے نکال سکے یا اس عذاب میں تخفیف کرسکے۔ فاطر
38 اللہ تعالیٰ نے اہل جنت اور اہل جہنم کی جزا اور سزا اور ان کے اعمال کا ذکر کرنے کے بعد اپنی وسعت علم سے آگاہ فرمایا، نیز وہ آسمانوں اور زمین کے غیب سے مطلع ہے۔ ان امور غیبیہ کا علم رکھتا ہے جو مخلوق کے علم اور اس کی نظروں سے اوجھل ہیں وہ تمام بھیدوں کو جانتا ہے۔ سینوں میں جو اچھی یا بری باتیں چھپی ہوئی ہیں سب اس کے علم میں ہیں۔ وہ ہر ایک کو اس کے استحقاق کے مطابق جزا دے گا اور ہر ایک کے ساتھ اس کی قدر و منزلت کے مطابق سلوک کرے گا۔ فاطر
39 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی حکمت کاملہ اور بندوں پر اپنی رحمت سے آگاہ فرماتا ہے کہ اس نے اپنی قضا وقدر سے ان کو زمین کے اندر ایک دوسرے کا جانشین بنایا اور ہر قوم میں ڈرانے والے مبعوث کئے تاکہ وہ دیکھے کہ ان کے اعمال کیسے ہیں۔ جس نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں کی دعوت کا انکار کیا تو اس کے کفر اور گناہ کی سزا اسی کو ملے گی کوئی دوسرا اس کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ کافر اپنے کفر سے اپنے رب کی ناراضی اور غضب میں اضافہ کرتا ہے۔ رب کریم کی ناراضی سے بڑھ کر اور کون سی سزا ہوسکتی ہے؟ ﴿ وَلَا يَزِيدُ الْكَافِرِينَ كُفْرُهُمْ إِلَّا خَسَارًا ﴾ ” اور کافروں کو ان کا کفر نقصان ہی میں زیادہ کرتا ہے۔“ یعنی وہ اپنی ذات، اپنے گھر والوں، اپنے اعمال اور جنت میں اپنی منازل کے بارے میں گھاٹے میں رہیں گے۔ کفار ہمیشہ بدترین بدبختی، گھاٹے، اللہ تعالیٰ کے ہاں رسوائی اور اس کی مخلوق کے ہاں محرومیوں میں مبتلا رہیں گے۔ فاطر
40 اللہ تبارک و تعالیٰ مشرکین کے خود ساختہ معبودوں کی بے بسی، ان کے نقص اور ہر لحاظ سے ان کے شرک کے بطلان کو واضح کرتے ہوئے فرماتا ہے : ﴿ قُلْ ﴾ یعنی اے رسول ! ان سے کہہ دیجیے : ﴿ أَرَأَيْتُمْ ﴾ مجھے اپنے شریکوں کے بارے میں آگاہ کرو ﴿ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللّٰـهِ ﴾ ” جنہیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو“ کیا وہ دعا اور عبادت کے مستحق ہیں؟ ﴿ أَرُونِي مَاذَا خَلَقُوا مِنَ الْأَرْضِ ﴾ ” مجھے دکھاؤ انہوں نے زمین سے کون سی چیز پیدا کی ہے؟“ آیا انہوں نے سمندروں کو پیدا کیا ہے یا پہاڑوں کو؟ انہوں نے حیوانات کو پیدا کیا ہے یا جمادات کو؟ وہ اس حقیقت کا اقرار کریں گے کہ ان تمام چیزوں کا خلاق صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ کیا تمہارے خود ساختہ شریکوں کے لئے ﴿ فِي السَّمَاوَاتِ ﴾ آسمانوں کی تخلیق و تدبیر میں کوئی حصہ ہے؟ وہ یہی جواب دیں گے کہ تخلیق و تدبیر کائنات میں ان کا کوئی حصہ نہیں۔۔۔ جب ان خود ساختہ معبودوں نے کوئی چیز پیدا کی ہے نہ خالق کی تخلیق میں یہ شریک ہیں تو پھر تم ان کی بے بسی کا اقرار کرنے کے باوجود ان کو کیوں پکارتے اور ان کی کیوں عبادت کرتے ہو؟ پس ان کی عبادت کے جواز کی دلیل ختم ہوگئی اور ان کی عبادت کا بطلان ثابت ہوگیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی عبادت کے جواز کی سمعی دلیل کا ذکر کرتے ہوئے اس کا بھی ابطال فرمایا : ﴿ أَمْ آتَيْنَاهُمْ كِتَابًا ﴾ ” کیا ہم نے انہیں کوئی کتاب دی ہے“ جو ان کے شرک کو جائز قرار دیتی ہو یا انہیں شرک اور بتوں کی عبادت کا حکم دیتی ہو ﴿ فَهُمْ ﴾ لہٰذا وہ اپنے شرک کے بارے میں ﴿ عَلَىٰ بَيِّنَتٍ ﴾ کسی دلیل پر ہوں یعنی اس نازل شدہ کتاب میں کوئی ایسی چیز ہو جو شرک کے جواز اور اس کے صحیح ہونے کو ثابت کرتی ہو؟ معاملہ ایسے نہیں ہے کیونکہ قرآن کریم سے پہلے ان پر کوئی کتاب نازل کی گئی ہے نہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قبل ان کی طرف کوئی رسول ہی مبعوث کیا گیا ہے۔ اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ ان پر کوئی کتاب نازل کی گئی ہے اور ان کی طرف کوئی رسول مبعوث کیا گیا ہے جس نے ان کے زعم کے مطابق، انہیں شرک کا حکم دیا ہے، تب بھی ہمیں قطعی یقین ہے کہ یہ جھوٹ کہتے ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿ وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ إِلَّا نُوحِي إِلَيْهِ أَنَّهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُونِ ﴾ (الانبیاء :21؍25)” اور ہم نے آپ سے پہلے جو بھی رسول بھیجا ہم نے اس کی طرف یہی وحی کی کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں، لہٰذا صرف میری عبادت کرو۔“ لہذٰا تمام انبیاء و مرسلین اور تمام آسمانی کتابیں اس امر پر متفق ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے دین میں اخلاص کا حکم دیا ہے۔ ﴿ وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاءَ ﴾(البینۃ :5؍98) ” اور انہیں صرف یہی حکم دیا گیا تھا کہ وہ یکسو ہو کر اور دین کو صرف اللہ کے لئے خالص کرتے ہوئے اس کی عبادت کریں۔ “ اگر یہ کہا جائے کہ جب عقلی اور نقلی دلائل شرک کے بطلان پر دلالت کرتے ہیں تب وہ کون سی چیز ہے جو مشرکین کو شرک پر آمادہ کرتی ہے حالانکہ ان کے اندر عقل مند اور ذہین و فطین لوگ بھی ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس کے جواب میں فرمایا : ﴿بَلْ إِن يَعِدُ الظَّالِمُونَ بَعْضُهُم بَعْضًا إِلَّا غُرُورًا﴾ ” بلکہ یہ ظالم ایک دوسرے سے نرے دھوکے کی باتوں کا وعدہ کرتے ہیں“ یعنی یہ وہ مسلک ہے جس پر گامزن ہونے والے لوگوں کے پاس کوئی دلیل نہیں، محض ایک دوسرے کو اس کی تلقین کرتے ہیں، ایک دوسرے کی باتوں کو آراستہ کرتے ہیں، متاخرین گمراہ متقدمین کی اقتدا کرتے ہیں، یہ جھوٹی آرزوئیں ہیں جو شیاطین انہیں دلاتے ہیں اور ان کے برے اعمال ان کے سامنے سجاتے ہیں۔ یہ برے اعمال ان کے قلوب میں جڑ پکڑ لیتے ہیں اور ان کی صفت بن جاتے ہیں تب ان کو زائل اور ختم کرنا مشکل ہوجاتا ہے اور کفر اور شرک پر جمے رہنے سے وہ نتائج حاصل ہوتے ہیں جو سامنے ہیں۔ فاطر
41 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے کمال قدرت، بے پایاں رحمت اور وسعت حلم و مغفرت کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے، نیز یہ کہ اس نے آسمانوں اور زمین کو ٹل جانے سے روک رکھا ہے، اگر وہ ٹل جائیں تو اس کی مخلوق میں سے کوئی ہستی ایسی نہیں جو انہیں روک سکے۔ ان کی طاقت اور ان کے قویٰ ان کے بارے میں عاجز آجائیں لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ کیا کہ زمین و آسمان ویسے ہی رہیں جیسے وجود میں لائے گئے تاکہ مخلوق کو استقرار، فائدہ اور عبرت حاصل ہو، نیز وہ اللہ تعالیٰ کی عظمت سلطان، قوت اور قدرت کو جان لیں اور ان کے دل اللہ کے جلال و تعظیم اور محبت و تکریم سے لبریز ہوں اور تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے گناہ گاروں کو مہلت عطا ہونے اور نافرمانوں کو سزا دینے میں عدم عجلت کی بنا پر جان لیں کہ وہ کامل حلم و حکمت کا مالک ہے حالانکہ اگر اللہ تعالیٰ آسمان کو حکم دے تو ان پر پتھروں کی بارش برسا دے اور اگر اللہ تعالیٰ زمین کو حکم دے تو وہ ان کو نگل جائے۔ مگر اللہ تعالیٰ کی بے پایاں مغفرت اور اس کا حلم و کرم ان پر سایہ کناں ہے ﴿إِنَّهُ كَانَ حَلِيمًا غَفُورًا﴾ ” بے شک وہ بہت بردبار معاف کرنے والا ہے۔ “ فاطر
42 اے اللہ کے رسول ! آپ کی تکذیب کرنے والے یہ لوگ پکی قسمیں کھاتے تھے کہ ﴿ لَئِن جَاءَهُمْ نَذِيرٌ لَّيَكُونُنَّ أَهْدَىٰ مِنْ إِحْدَى الْأُمَمِ﴾ ” اگر ان کے پاس کوئی ڈرانے والا آئے تو وہ ہر ایک امت سے بڑھ کر ہدایت یافتہ ہوں گے۔“ یعنی وہ یہود و نصاریٰ(اہل کتاب)سے زیادہ ہدایت یافتہ ہوں گے مگر انہوں نے اپنی قسموں اور عہد کو پورا نہ کیا ﴿فَلَمَّا جَاءَهُمْ نَذِيرٌ﴾ ” چنانچہ جب ڈرانے والا ان کے پاس آگیا“ تو ان امتوں میں سے کسی بھی امت سے زیادہ ہدایت یافتہ نہ ہوئے بلکہ وہ اپنی گمراہی پر جمے رہے بلکہ ﴿ مَّا زَادَهُمْ ﴾ ” نہیں زیادہ کیا ان کو“ اس گمراہی نے ﴿ إِلَّا نُفُورًا ﴾ ” مگر نفرت ہی میں“ ان کے اس روئیے نے ان کی گمراہی، بغاوت اور عناد کو اور بڑھا دیا۔ ان کا یہ قسمیں اٹھانا کسی اچھے مقصد اور طلب حق کے لئے نہ تھا۔ اگر ایسا ہوتا تو ان کو ضرور اس کی توفیق عطا کردی جاتی لیکن ان کا قسمیں اٹھانا تو مخلوق اور حق کے مقابلے میں زمین پر تکبر کرنے اور اپنی بات میں مکرو فریب کرنے سے صادر ہوا تھا۔ ان کا مقصد محض فریب کاری تھا اور یہ ظاہر کرنا تھا کہ وہ توا اہل حق اور حق کے متلاشی ہیں تو سادہ لوح لوگ ان کے فریب میں مبتلا ہو کر ان کے پیچھے چل پڑے۔ فاطر
43 ﴿وَلَا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ﴾ ” اور نہیں پڑتا وبال بری چال کا“ جس کا مقصد برا مقصد اور جس کا انجام برا اور باطل ہے ﴿إِلَّا بِأَهْلِهِ ﴾ ” مگر بری چال چلنے والوں ہی پر“ ان کا مکر و فریب انھی کی طرف لوٹے گا۔ اللہ تعالیٰ نے ان باتوں اور ان قسموں کے بارے میں اپنے بندوں کے سامنے واضح کردیا ہے کہ وہ جھوٹے اور فریب کار ہیں، چنانچہ اس سے ان کی رسوائی واضح، ان کی فضیحت نمایاں اور ان کا برا مقصد ظاہر ہوگیا۔ ان کا مکرو فریب ان ہی کی طرف لوٹ گیا، اللہ تعالیٰ نے ان کے مکرو فریب کو ان کے سینوں کی طرف لوٹا دیا۔ ان کے لئے کوئی حیلہ باقی نہ رہا سوائے اس کے کہ ان پر وہ عذاب نازل ہوجائے جو ان سے پہلے لوگوں کے لئے اللہ تعالیٰ کی سنت رہی ہے۔ جس میں کوئی تغیر و تبدیل نہیں جو کوئی ظلم، عناد اور مخلوق کے ساتھ تکبر کے راستے پر گامزن ہوگا وہ اللہ تعالیٰ کے غضب کو دعوت دے گا اور اس کی نعمتوں سے محروم ہوجائے گا، لہٰذا ان قوموں کے ساتھ جو کچھ ہوا، ان کو اس پر نظر رکھنی چاہئے۔ فاطر
44 اللہ تعالیٰ لوگوں کو ترغیب دیتا ہے کہ محض غفلت کے ساتھ نہیں بلکہ عبرت حاصل کرنے کے لئے اپنے قلب و بدن کے ساتھ زمین میں چلیں پھریں اور دیکھیں کہ ان سے پہلے گزری ہوئی قوموں کا کیا انجام ہوا جنہوں نے رسولوں کی تکذیب کی، جو ان سے زیادہ مال اور اولاد رکھنے والے اور ان سے زیادہ طاقتور تھے، جنہوں نے ان سے زیادہ زمین کو آباد کیا۔ جب ان پر اللہ کا عذاب نازل ہوا تو ان کی قوت نے انہیں کوئی فائدہ نہ دیا اور اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں ان کا مال اور اولاد کسی کام نہ آئے اور اللہ تعالیٰ کی قدتر اور مشیت ان میں نافذ ہو کر رہی۔ ﴿مَا كَانَ اللّٰـهُ لِيُعْجِزَهُ مِن شَيْءٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ﴾ ” اور اللہ ایسا نہیں کہ آسمانوں اور زمین میں کوئی چیز اسے عاجز کرسکے“ کیونکہ اللہ تعالیٰ کامل علم اور کامل قدرت کا مالک ہے۔ ﴿إِنَّهُ كَانَ عَلِيمًا قَدِيرًا ﴾’ دبے شک وہ جاننے والا قدرت رکھنے والا ہے۔ “ فاطر
45 پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے کامل حلم اور گناہ گاروں اور ارباب جرائم کو دی ہوئی ڈھیل کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : ﴿وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللّٰـهُ النَّاسَ بِمَا كَسَبُوا ﴾ ” اور لوگوں نے جو گناہ کئے اگر اللہ تعالیٰ ان پر ان کا مواخذہ کرتا“ ﴿مَا تَرَكَ عَلَىٰ ظَهْرِهَا مِن دَابَّةٍ﴾ ” تو روئے زمین پر ایک جان دار کو بھی نہ چھوڑتا“ یعنی اللہ تعالیٰ ان کو پوری سزا دیتا اور اس سزا کی سختی کا یہ حال ہوتا کہ غیر مکلف حیوانات بھی اس سے نہ بچتے ﴿وَلَـٰكِن﴾ مگر اللہ تعالیٰ ان کو مہلت دیتا ہے مہمل نہیں چھوڑتا ﴿يُؤَخِّرُهُمْ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ فَإِنَّ اللّٰـهَ كَانَ بِعِبَادِهِ بَصِيرًا﴾ ” اللہ تعالیٰ ان کو ایک وقت مقررہ تک مہلت دے رہا ہے پھر جب ان کا وقت آجائے گا تو بے شک اللہ اپنے بندوں کو دیکھ رہا ہے۔“ یقیناً اللہ اپنے عمل کے مطابق ان کے اچھے اور برے اعمال کی جزا دے گا۔ فاطر
0 يس
1 يس
2 یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے قرآن حکیم کی قسم ہے، جس کا وصف حکمت ہے اور حکمت سے مراد ہے ہر چیز کو اس کے اپنے مقام پر رکھنا اور امرونہی کو اس مقام پر رکھنا جو ان کے لائق ہے اور خیر و شر کی جزا کو اس مقام پر رکھنا جو ان کے لائق ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کے تمام احکام شرعی اور جزائی بے انتہا حکمت پر مبنی ہیں۔ اس قرآن کی حکمت یہ ہے کہ اس نے ” حکم“ اور ” حکمت“ کے تذکرے کو یکجا کردیا۔ پس اللہ تعالیٰ عقول انسانی کو ان مناسبات اور اوصاف سے متنبہ کرتا ہے جو ترتیب حکم کا تقاضا کرتی ہیں۔ يس
3 ﴿إِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ﴾ ” بے شک آپ رسولوں میں سے ہیں۔“ یہ ہے وہ حقیقت جس پر اللہ تعالیٰ نے قسم کھائی اور وہ ہے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت۔ اے محمد ! (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ جملہ انبیاء و مرسلین میں شامل ہیں آپ کوئی انوکھے رسول تو نہیں ہیں، نیز آپ وہی دینی اصول لے کر مبعوث ہوئے ہیں جو دیگر انبیاء نے پیش کئے تھے۔ جو کوئی انبیاء و مرسلین کے احوال و اوصاف پر غور کرتا ہے تو اسے انبیاء و مرسلین اور عام لوگوں کے درمیان فرق معلوم ہوجاتا ہے اور اسے اس حقیقت کی معرفت بھی حاصل ہوجاتی ہے کہ آپ تمام رسولوں میں اعلیٰ و افضل مقام رکھتے ہیں کیونکہ آپ صفات کا ملہ اور اخلاق فاضلہ کے حامل ہیں۔ جس چیز کی قسم کھائی گئی ہے، یعنی قرآن حکیم اور جس کے بارے میں قسم کھائی گئی ہے یعنی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت، ان کے مابین جو اتصال ہے وہ مخفی نہیں۔ اگر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت پر اس قرآن حکیم کے سوا کوئی دوسری دلیل اور شہادت نہ بھی ہوتی تب بھی قرآن حکیم آپ کی رسالت پر دلیل اور شہادت کے لئے کافی ہے، بلکہ قرآن عظیم آپ کی رسالت پر ہمیشہ رہنے والی قوی ترین دلیل ہے۔ قرآن حکیم کی حقانیت کے تمام دلائل دراصل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کے دلائل ہیں۔ يس
4 پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے رسول مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سب سے بڑا وصف بیان فرمایا جو آپ کی رسالت پر دلالت کرتا ہے کہ آپ ﴿عَلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ ﴾ ” سیدھے راستے پر گامزن ہیں“ جو معتدل ہے اور اللہ تعالیٰ اور اس کے اکرام و تکریم کے گھر تک پہنچاتا ہے۔ یہ راہ راست ایسے اعمال صالحہ پر مشتمل ہے جو قلب و بدن اور دنیا و آخرت کی اصلاح کرتے ہیں، جو اخلاق فاضلہ، تزکیہ نفس، تطہیر قلب اور اجر میں اضافے کے حامل ہیں۔ یہی سیدھا راستہ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے لائے ہوئے دین کا وصف ہے۔ قرآن حکیم کی جلالت شان پر غور کیجیے کہ اس نے افضل ترین قسم اور جلیل ترین مقسم علیہ کو کیسے یکجا کردیا۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی خبر ہی کافی ہے، مگر اللہ تعالیٰ نے اس مقام پر اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کی حقانیت پر واضح دلائل اور روشن براہین قائم کئے ہیں۔ اس راستے پر چلنے کے لئے ہم کچھ لطیف نکات کی طرف اشارہ کرچکے ہیں۔ يس
5 یہ صراط مستقیم ﴿تَنزِيلَ الْعَزِيزِ الرَّحِيمِ﴾ وہ راستہ ہے جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب نازل فرمائی اور اسے اپنے بندوں کے لئے لاحہ عمل کے طور پر نازل فرمایا جو انہیں اللہ تعالیٰ تک پہنچاتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنی قدرت کا ملہ سے تغیر و تبدل سے محفوظ فرمایا، اس کے ذریعے سے اپنے بندوں کو اپنی بے پایاں رحمت کے سائے میں لے لیا جو انہیں اس کے داررحمت میں پہنچاتی ہے۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ کو اپنے دو کریم ناموں ( الْعَزِيزِ ) اور (الرَّحِيمِ) پر ختم فرمایا۔ يس
6 اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کی رسالت پر قرآن حکیم کی قسم کھانے کے بعد، اس پر دلائل قائم کئے اور ذکر فرمایا کہ ان کی طرف رسول مبعوث کئے جانے کی سخت ضرورت تھی، ارشاد فرمایا : ﴿ لِتُنذِرَ قَوْمًا مَّا أُنذِرَ آبَاؤُهُمْ فَهُمْ غَافِلُونَ ﴾ ” تاکہ آپ ایسے لوگوں کو ڈرائیں جن کے باپ دادے نہیں ڈرائے گئے، لہٰذا وہ غافل ہیں۔“ اس سے مراد وہ ” امی“ عرب ہیں جن میں کتابیں نازل ہوئی تھیں نہ رسول مبعوث ہوئے تھے گمراہی ان پر چھا گئی تھی، جہالت نے ان کو اندھا کردیا تھا اور وہ اپنے اوپر اور اپنی بے وقوفی پر جگ ہنسائی کا باعث بنے ہوئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انھی میں سے ان کی طرف ایک رسول مبعوث فرمایا، تاکہ ان کو پاک کرے اور ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دے جبکہ وہ اس سے پہلے صریح گمراہی میں مبتلا تھے اور تاکہ وہ ”اُمی“ عربوں اور ان کے بعد آنے والے ہر امی کو گمراہی کے انجام سے ڈرائے۔ يس
7 نیز اللہ تعالیٰ اہل کتاب کو ان کتابوں کی یاد دہانی کراتا ہے۔ جو ان کے پاس ہیں۔ یہ کتاب حکیم تمام لوگوں کے لئے عام طور پر اور عربوں کے لئے خاص طور پر نعمت ہے مگر یہ لوگ جن کو برے انجام سے ڈرانے کے لئے آپ کو مبعوث کیا گیا ہے، آپ کی دعوت اور انذار کے بعد وہ دو گروہوں میں منقسم ہوگئے ہیں۔ پہلی قسم ان لوگوں کی ہے جنہوں نے آپ کی دعوت کو رد کردیا اور آپ کے انذار کو قبول نہ کیا، یہ وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ لَقَدْ حَقَّ الْقَوْلُ عَلَىٰ أَكْثَرِهِمْ فَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ ﴾ یعنی ان میں اللہ تعالیٰ کی قضاء قدر اور اس کی مشیت نافذ ہوگئی کہ وہ اپنے کفر و شرک پر جمے رہیں گے۔ ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان حق ثابت ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے سامنے حق پیش کیا، مگر انہوں نے حق کو ٹھکرا دیا تب اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ سزا دی کہ ان کے دلوں پر مہر لگا دی۔ يس
8 اللہ تعالیٰ نے ان موانع کا ذکر فرمایا جن کی وجہ سے ایمان ان کے دلوں تک نہ پہنچ سکا، چنانچہ فرمایا : ﴿ إِنَّا جَعَلْنَا فِي أَعْنَاقِهِمْ أَغْلَالًا فَهِيَ إِلَى الْأَذْقَانِ ﴾ ” بے شک ہم نے ان کی گردنوں میں طوق ڈال دیئے ہیں۔“ (اَغْلَالٌ) (غِلٌّ) کی جمع ہے یعنی وہ طوق جو گردن میں ڈالا جاتا ہے اور یہ گردن کے لئے ایسے ہی ہے جیسے پاؤں کے لئے بیڑی اور ان کی گردن میں پڑے ہوئے یہ طوق بہت بڑے ہوں گے۔ یہ طوق ان کی ٹھوڑیوں تک ہوں گے جس کی وجہ سے ان کے سر اوپر کو اٹھے ہوئے ہوں گے۔ ﴿ فَهُم مُّقْمَحُونَ ﴾ پس وہ ان طوقوں کی سختی کی وجہ سے اپنے سر اوپر کو اٹھائے ہوئے ہیں اور ان کو جھکا نہیں سکتے۔ يس
9 ﴿ وَجَعَلْنَا مِن بَيْنِ أَيْدِيهِمْ سَدًّا وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدًّا ﴾ ” اور ہم نے ان کے آگے اور پیچھے ایک رکاوٹ کھڑی کردی ہے“ جو ان کے ایمان لانے سے مانع ہے۔﴿ فَهُمْ لَا يُبْصِرُونَ ﴾ ” پس وہ نہ دیکھ سکتے۔“ جہالت اور شقاوت نے انہیں ہر جانب سے گھیر رکھا ہے اس لئے انذار انہیں کوئی فائدہ نہ دے گا۔ يس
10 ﴿ وَسَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ ﴾ اور آپ انہیں نصیحت کریں یا نہ کریں، ان کے لئے برابر ہے۔ وہ ایمان نہیں لائیں گے۔“ وہ شخص کیسے ایمان لا سکتا ہے جس کے دل پر مہر لگا دی گئی ہو جو حق کو باطل اور باطل کو حق سمجھتا ہو۔ يس
11 دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جنہوں نے انذار کو قبول کرلیا ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ إِنَّمَا تُنذِرُ ﴾ یعنی آپ کا انذار اور آپ کی نصیحت صرف اسی شخص کو فائدہ دے گی ﴿ مَنِ اتَّبَعَ الذِّكْرَ ﴾ ” جس نے نصیحت کی پیروی کی۔“ جو اتباع حق کا قصد رکھتا ہے ﴿ وَخَشِيَ الرَّحْمَـٰنَ بِالْغَيْبِ ﴾ ” اور رحمٰن سے بن دیکھے ڈرے“ جو ان دو اوصاف سے متصف ہے یعنی طلب حق میں قصد حسن اور خشت الٰہی تو یہی وہ لوگ ہیں جو آپ کی رسالت سے فیض یاب اور آپ کی تعلیم سے تزکیہ نفس کرسکتے ہیں، جسے ان دوامور کی توفیق بخش دی گئی ﴿ فَبَشِّرْهُ بِمَغْفِرَةٍ ﴾ تو اسے اس کے گناہوں کی بخشش کی خوش خبری دے دیجیے ﴿ وَأَجْرٍ كَرِيمٍ ﴾ اور اس کے نیک اعمال اور اچھی نیت کے باوقار اجر کی خوش خبری دے دیجیے۔ يس
12 ﴿ إِنَّا نَحْنُ نُحْيِي الْمَوْتَىٰ ﴾ یعنی ہم انہیں، ان کے مرجانے کے بعد، دوبارہ زندہ کریں گے تاکہ ہم انہیں ان کے اعمال کا بدلہ دیں۔ ﴿ وَنَكْتُبُ مَا قَدَّمُوا ﴾ ” اور ہم لکھتے ہیں وہ اعمال جن کو وہ آگے بھیجتے ہیں“ اچھے اور برے اعمال میں سے۔ اس سے مراد وہ اعمال ہیں جو وہ اپنی زندگی کے دوران کرتے رہے ہیں۔ ﴿ وَآثَارَهُمْ ﴾ اس سے مراد وہ آثار خیر اور آثار شر ہیں جنہیں وہ اپنی زندگی میں اور مرنے کے بعد وجود میں لانے کا سبب بنے۔ ان اعمال نے ان کے اقوال، افعال اور احوال سے جنم لیا۔ بھلائی کا ہر وہ کام آثار خیر میں شمار ہوتا ہے جو بندے کے علم، اس کی تعلیم، خیر خواہی، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرنے کے سبب سے وجود میں آتا ہے یا وہ علم جسے وہ اپنے متعلمین میں ودیعت کرتا ہے یا اس کی تحریر کے سبب سے وجود میں آتا ہے جس سے اس کی زندگی میں یا اس کے مرنے کے بعد فائدہ اٹھایا جاتا ہے یا کوئی نیک عمل جسے بندہ سرانجام دیتا ہے مثلاً نماز، صدقہ، یا کوئی بھلی بات جس کی دوسرے لوگ پیروی کریں، یا کسی مسجد کی تعمیر، یا کسی ایسی جگہ کی تعمیر جس سے لوگ استفادہ کرتے ہوں یا اس قسم کے دیگر کام، یہ سب آثار خیر میں شمار ہوتے ہیں جن کو اس کے لئے لکھ لیا جاتا ہے اور اسی طرح آثار شر ہیں، جن کولکھ لیا جاتا ہے۔ بنا بریں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (( مَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةً حَسَنَةً فَلَهُ أَجْرُهَا وَأَجْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا بَعْدَهُ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْءٌ وَمَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةً سَيِّئَةً كَانَ عَلَيْهِ وِزْرُهَا وَوِزْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْ بَعْدِهِ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أَوْزَارِهِمْ شَيْءٌ)) [ صحیح مسلم، الزکاۃ، باب الحث علی الصدقۃ۔۔۔، ح :1017]” جس نے دین اسلام میں کوئی اچھا طریقہ جاری کیا تو اس کا اجر اسے عطا ہو گا اور اس کے بعد جو کوئی بھی اس پر عمل کرے گا اس کا اجر بھی ان کے اجروں میں کمی کرنے کے بغیر اسے ملے گا۔ جس کسی نے دین اسلام میں کسی برائی کو رواج دیا اس کا گناہ اس کو ملے گا اور ان لوگوں کا گناہ بھی اس کی گردن پر ہوگا جو اس کے بعد اس پر عمل کریں گے جب کہ ان کے گناہوں میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔ “ اس مقام پر اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینے اور ہر طریقے اور ذریعے سے اس کی طرف جانے والے راستے کی نشاندہی کرنے کی عظمت واضح ہوجاتی ہے۔ برائی کی طرف دعوت دینے اور اس کو رائج کرنے والا سب سے گھٹیا مخلوق، سب سے بڑا مجرم اور سب سے زیادہ گناہوں کا بوجھ اٹھانے والا ہے۔ ﴿وَكُلَّ شَيْءٍ﴾ ” اور ہر چیز کو“ یعنی اعمال اور نیتوں وغیرہ کو ﴿أَحْصَيْنَاهُ فِي إِمَامٍ مُّبِينٍ ﴾ ” ہم نے ایک واضح کتاب میں درج کر رکھا ہے“ اس سے مراد (اُمُّ الکُتُب) ہے وہ تمام کتابیں، جو فرشتوں کے ہاتھوں میں ہیں، اسی کی طرف لوٹتی ہیں اور وہ لوح محفوظ ہے۔ يس
13 آپ کی رسالت کی تکذیب کرنے اور آپ کی دعوت کو ٹھکرا دینے والوں کے سامنے آپ یہ مثال بیان کردیجیے، جس سے یہ لوگ عبرت حاصل کریں۔ اگر یہ غور کریں تو یہ مثال ان کے لئے نصیحت ہوگی۔ یہ ان بستی والوں کی مثال ہے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے رسولوں کو جھٹلایا اور اللہ تعالیٰ نے ان پر عذاب نازل کیا۔ اگر بستی کے تعین میں کوئی فائدہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ ضرور اس کا تعین فرما دیتا، لہٰذا بستی کے نام کے تعین کے در پے ہونا تکلف اور بلاعلم کلام کے زمرے میں آتا ہے۔ جو کوئی اس قسم کے معاملے میں بلاعلم گفتگو کرتا ہے تو آپ دیکھیں گے کہ اس کی گفتگو بے تکی ہوتی ہے اور وہ اختلاف میں مبتلا ہے جس کو دوام نہیں۔ اس سے آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ علم صحیح کا طریق حقائق کے سامنے سر تسلیم خم کرنا اور ان امور میں تعرض کو ترک کرنا ہے جن کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس طریقے سے نفس پاک ہوتا ہے اور علم میں اضافہ ہوتا ہے، جبکہ جاہل سمجھتا ہے کہ عمل میں اضافہ ان اقوال کے بیان کرنے سے ہے جن کی کوئی دلیل نہیں اور ان اقوال کو بیان کرنے سے ذہن کو تشویش میں مبتلا کرنے اور اسے مشکوک امور کا عادی بنانے کے سوا کوئی فائدہ نہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس بستی کو مخاطبین کے لئے مثال قرار دیا۔ ﴿إِذْ جَاءَهَا الْمُرْسَلُونَ﴾ ”جب ان یک پاس رسول آپ ہے۔“ اس بستی میں اللہ تعالیٰ کے رسول مبعوث ہوئے جو انہیں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے اور دین کو صرف اسی کے لئے خلاص کرنے کا حکم دیتے تھے اور انہیں شرک اور معاصی سے منع کرتے تھے۔ يس
14 ﴿إِذْ أَرْسَلْنَا إِلَيْهِمُ اثْنَيْنِ فَكَذَّبُوهُمَا فَعَزَّزْنَا بِثَالِثٍ ﴾ ” جب ہم نے ان کے پاس دو کو بھیجا تو ان لوگوں نے دونوں کو جھٹلایا پھر ہم نے تیسرے سے (ان کی) تائید کی“ یعنی ہم نے تیسرے کے ذریعے سے ان دونوں کو قوت عطا کی چنانچہ ان پر اللہ تعالیٰ کی عنایت خاص اور حجت کے طور پر پے در پے رسول بھیجنے سے ان کی تعداد تین ہوگئی ﴿فَقَالُوا﴾ تو رسولوں نے ان سے کہا : ﴿إِنَّا إِلَيْكُم مُّرْسَلُونَ﴾ ” بلا شبہ ہم تمہاری طرف رسول ہو کر آئے ہیں۔“ اور انہوں نے رسولوں کو ایسا جواب دیا جو انبیاء و مرسلین کی دعوت کو ٹھکرانے والوں کے ہاں مشہور ہے۔ يس
15 ﴿ قَالُوا مَا أَنتُمْ إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا ﴾” انہوں نے کہا : تم تو محض ہماری طرح کے آدمی ہو۔“ یعنی کس بنا پر تمہیں ہم پر فضیلت اور خصوصیت حاصل ہے۔ دیگر رسولوں نے بھی اپنی امتوں سے کہا تھا : ﴿ إِن نَّحْنُ إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ وَلَـٰكِنَّ اللّٰـهَ يَمُنُّ عَلَىٰ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ﴾ (ابراہیم:14؍11) ” ہم تمہاری ہی طرح بشر ہیں مگر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے احسان کرتا ہے۔ “ ﴿وَمَا أَنزَلَ الرَّحْمَـٰنُ مِن شَيْءٍ ﴾ ” اور رحمان نے کوئی چیز نازل نہیں کی۔“ یعنی انہوں نے رسالت کی عمومیت کا انکار کیا، پھر انہوں نے اپنے رسولوں سے مخاطب ہو کر ان کا انکار کرتے ہوئے کہا : ﴿إِنْ أَنتُمْ إِلَّا تَكْذِبُونَ ﴾ ” تم تو جھوٹ بولتے ہو۔ “ يس
16 ان تینوں رسولوں نے جواب دیا : ﴿قَالُوا رَبُّنَا يَعْلَمُ إِنَّا إِلَيْكُمْ لَمُرْسَلُونَ﴾ ” ہمارا رب جانتا ہے کہ یقیناً ہم تمہاری طرف بھیجے گئے ہیں“ اور اگر ہم جھوٹے ہوتے تو اللہ تعالیٰ ہمیں سرعام رسوا کردیتا اور ہمیں فوراً سزا دے دیتا۔ يس
17 ﴿وَمَا عَلَيْنَا إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ﴾ ” اور ہمارے ذمے تو صاف صاف پہنچا دینا ہے۔“ یعنی ایسا پہنچا دینا جس سے ان تمام امور کی توضیح ہوجائے جن کا بیان کرنا مطلوب ہے۔ اس کے سوا جو کچھ ہے وہ یا تو معجزات کا یا جلدی عذاب کا مطالبہ ہے، جو ہمارے اختیار میں نہیں۔ ہماری ذمہ داری تو واضح طور پر پہنچا دینا ہے جو ہم نے پوری کردی ہے۔ ہم نے اللہ تعالیٰ کی آیات کو کھول کھول کر تمہارے سامنے بیان کردیا ہے اگر تم نے راہ راست اختیار کرلی تو یہ تمہارا ہی نصیب ہے اور اگر تم گمراہ رہے تو ہمارے اختیار میں کچھ نہیں۔ يس
18 بستی والوں نے اپنے رسولوں سے کہا : ﴿إِنَّا تَطَيَّرْنَا بِكُمْ﴾’’بے شک ہم تم کو منحوس سمجھتے ہیں۔“ یعنی ہم سمجھتے ہیں کہ تمہارے آنے اور ہمارے پاس جلیل ترین نعمت لے کر آئے۔۔۔ جس سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو نوازتا ہے، ان کو وہ بلند ترین اکرام عطا کرے جو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو عطا کرتا ہے اور وہ سب سے زیادہ اسی چیز کے ضرورت مند ہوں۔۔۔ یہ کہا جائے کہ وہ شے لے کر آیا ہے جس نے ان کے شر میں اضافہ کردیا اور وہ اس کو نحوست خیال کریں۔ یہ لوگ صرف اور صرف خذلان اور عدم توفیق کی وجہ سے اپنے ساتھی کے ساتھ ایسا سلوک کرتے ہیں جو دشمن کے ساتھ بھی نہیں کیا جاتا۔ پھر انہوں نے اپنے رسولوں کو دھمکی دیتے ہوئے کہا : ﴿ لَئِن لَّمْ تَنتَهُوا لَنَرْجُمَنَّكُمْ﴾ ”اگر تم باز نہ آئے تو ہم تمہیں رجم کردیں گے۔“ یعنی ہم تمہیں پتھر مار مار کر ہلاک کردیں گے جو ہلاکت کی بدترین شکل ہے ﴿وَلَيَمَسَّنَّكُم مِّنَّا عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴾ ” اور تمہیں ہماری طرف سے سخت تکلیف پہنچے گی۔“ يس
19 ان کے رسولوں نے ان سے کہا: ﴿قَالُوا طَائِرُكُم مَّعَكُمْ﴾ ” تمہاری فال بد تو تمہارے ساتھ ہے“ اور اس سے مراد ان کا شرک اور برائی ہے جو عذاب کے واقع ہونے اور نعمت کے اٹھا لئے جانے کا تقاضا کرتے ہیں۔ ﴿ أَئِن ذُكِّرْتُم﴾ ” کیا اس لئے کہ تمہیں نصیحت کی گئی؟“ یعنی ہم نے تمہیں اس چیز کی یاد دہانی کرائی جس میں تمہاری بھلائی اور تمہارا فائدہ تھا اور اس کے مقابلے میں تم نے یہ کچھ کہا : ﴿بَلْ أَنتُمْ قَوْمٌ مُّسْرِفُونَ﴾ ” بلکہ تم اپنی بات میں حد سے تجاوز کرنے والے ہو۔“ ان کو دعوت دینے سے ان کے تکبر اور نفرت میں اضافے کے سوا کچھ فائدہ نہ ہوا۔ يس
20 ﴿وَجَاءَ مِنْ أَقْصَى الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعَىٰ﴾ ” ار شہر کے پر لے کنارے سے ایک آدمی دوڑتا ہوا آیا۔“ یعنی جب اس نے رسولوں کی دعوت سنی تو وہ اپنی قوم کی خیر خواہی کے لئے دوڑتا ہوا آیا اور خود اس دعوت پر ایمان لے آیا۔ اسے معلوم ہوا کہ اس کی قوم نے رسولوں کو کیا جواب دیا تھا : پس اس نے اپنی قوم سے کہا : ﴿ يَا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ﴾ اس نے اپنی قوم کو رسولوں کی اتباع کا حکم دیا، ان کی خیر خواہی کی اور رسولوں کی رسالت کی شہادت دی۔ پھر اس نے اپنی شہادت اور دعوت کی تائید کا ذکر کرتے ہوئے کہا : ﴿اتَّبِعُوا مَن لَّا يَسْأَلُكُمْ أَجْرًا ﴾ یعنی اس شخص کی اتباع کرو جو تمہاری خیر خواہی کرتا ہے، جو تمہارے لئے بھلائی لاتا ہے۔ وہ تم سے اس خیر خواہی اور راہنمائی پر تمہارے مال کا مطالبہ کرتا ہے نہ کوئی اجر چاہتا ہے اور جس کا یہ وصف ہو وہ قابل اتباع ہوتا ہے۔ يس
21 باقی رہا یہ اعتراض کہ جو کسی اجرت کے بغیر دعوت دیتا ہے، ہوسکتا ہے وہ حق پر نہ ہو، اس لئے اس اعتراض کو رد کرنے کے لئے فرمایا:﴿وَهُم مُّهْتَدُونَ﴾ ” اور وہ ہدایت یافتہ ہیں۔“ کیونکہ وہ صرف اسی چیز کی طرف دعوت دیتے ہیں جس کے اچھا ہونے پر عقل صحیح گواہی دیتی ہے اور صرف اسی چیز سے روکتے ہیں جس کے (قبیح) ہونے پر عقل صحیح گواہی دیتی ہے۔ شاید اس شخص کی قوم نے اس کی نصیحت قوبل نہ کی بلکہ الٹا وہ اسے رسولوں کی اتباع اور اخلاص پر ملامت کرنے لگے۔ يس
22 اس شخص نے کہا : ﴿وَمَا لِيَ لَا أَعْبُدُ الَّذِي فَطَرَنِي وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ﴾ یعنی میرے لئے اس ہستی کی عبادت کرنے سے جو عبادت کی مستحق ہے، کو ن سی چیز مانع ہے کیونکہ اس نے مجھے وجود بخشا، اس نے مجھے پیدا کیا، اس نے مجھے رزق بخشا اور تمام مخلوق کو آخر کار اسی کی طرف لوٹنا ہے۔ پھر وہ ان کو ان کے اعمال کی جزا و سزا دے گا، جس کے ہاتھ میں تخلیق اور رزق ہے، جو دنیا و آخرت میں اپنے بندے کے درمیان فیصلوں کا اختیار رکھتا ہے، وہی اس بات کا مستحق ہے کہ اس کی عبادت کی جائے اور ان ہستیوں کو چھوڑ کر صرف اسی کی ثنا و تمجید کی جائے جن کے اختیار میں کوئی نفع ہے نہ نقصان، وہ کسی کو عطا کرسکتی ہیں نہ محروم کرسکتی ہیں، جن کی قدرت میں زندگی ہے نہ موت اور نہ وہ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کرسکتی ہیں۔ يس
23 اس لئے اس نے کہا : ﴿أَأَتَّخِذُ مِن دُونِهِ آلِهَةً إِن يُرِدْنِ الرَّحْمَـٰنُ بِضُرٍّ لَّا تُغْنِ عَنِّي شَفَاعَتُهُمْ﴾ ” اور کیا میں اس کو چھوڑ کر اوروں کو معبود بناؤں، اگر اللہ میرے حق میں نقصان کا ارادہ فرمائے تو ان کی سفارش مجھے فائدہ نہ دے سکے گی“ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کی اجازت کے بغیر کوئی سفارش نہ کرسکے گا، لہٰذا ان کی سفارش میرے کسی کام نہ آئے گی اور نہ وہ مجھے اس ضرر سے بچا سکتے ہیں جو اللہ تعالیٰ مجھے پہنچانا چاہے۔ يس
24 ﴿إِنِّي إِذًا﴾ ” بے شک میں اس وقت“ یعنی اگر میں نے ان معبودوں کی عبادت کی جن کے یہ اوصاف ہیں تو ﴿ لَّفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ﴾ ” صریح گمراہی میں ہوں۔“ اس کے اس تمام کلام میں ان کی خیر خواہی، رسولوں کی رسالت کی گواہی اور رسولوں کی خبر پر صرف اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کے تعین کے ذریعے سے ہدایت کو اختیار کرنا جمع ہے، نیز اس میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کے دلائل، غیر اللہ کی عبادت کا بطلان، اس کے دلائل و براہین، غیر اللہ کی عبادت کرنے والوں کی گمراہی کی خبر اور قتل کے خوف کے باوجود اس مرد صالح کے ایمان کے اعلان کا ذکر ہے۔ يس
25 اس شخص نے کہا : ﴿ إِنِّي آمَنتُ بِرَبِّكُمْ فَاسْمَعُونِ﴾ ” میں تمہارے رب پر ایمان لے آیا، لہٰذا میری بات سنو۔“ جب اس کی قوم نے یہ اعلان اور اس کی گفتگو سنی تو اسے قتل کردیا۔ يس
26 ﴿قِيلَ﴾ اس شخص سے اسی وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے کہا گیا : ﴿ادْخُلِ الْجَنَّةَ﴾ ” جنت میں داخل ہوجا“ اس نے اپنی توحید پرستی اور اخلاص فی الدین کی بنا پر اللہ تعالیٰ کے ہاں حاصل ہونے والے اکرام و تکریم کی خبر دیتے ہوئے اور اپنے مرنے کے بعد بھی اسی طرح اپنی قوم کی خیر خواہی کرتے ہوئے، جس طرح وہ اپنی زندگی میں کیا کرتا تھا، کہا ﴿يَا لَيْتَ قَوْمِي يَعْلَمُونَ بِمَا غَفَرَ لِي رَبِّي﴾ کاش میری قوم کو معلوم ہو کہ کن امور کی بنا پر میرے رب نے مجھے بخش دیا اور مختلف انواع کی عقوبات کو مجھ سے دور کردیا۔ ﴿وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ﴾ اور مختلف انواع کی مسرتوں اور ثواب کے ذریعے سے مجھے اکرام بخشا۔ اگر ان تمام امور کا علم میری قوم کے دلوں تک پہنچ جائے تو وہ کبھی بھی اپنے شرک پر قائم نہ رہے۔ يس
27 يس
28 اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس کی قوم کے عذاب کے بارے میں فرمایا : ﴿وَمَا أَنزَلْنَا عَلَىٰ قَوْمِهِ مِن بَعْدِهِ مِن جُندٍ مِّنَ السَّمَاءِ ﴾ ” اور ہم نے اس کے بعد اس کی قوم پر آسمان سے کوئی لشکر نہیں اتارا۔“ یعنی ہم ان کو عذاب دینے کے لئے کسی تکلف کے محتاج نہیں کہ ہمیں ان کو ہلاک اور تلف کرنے کے لئے آسمان سے فوج اتارنی پڑے ﴿وَمَا كُنَّا مُنزِلِينَ﴾ ” اور نہ ہم اتارنے والے ہی تھے۔“ کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے اقتدار کی عظمت اور بنی آدم کی شدت ضعف کی بنا پر اللہ تعالیٰ کو آسمان سے فوج اتارنے کی ضرورت نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ادنیٰ سا عذاب بھی ان کے لئے کافی ہے۔ يس
29 ﴿ إِن كَانَتْ﴾ یعنی نہیں تھی ان کی سزا اور عذاب ﴿ إِلَّا صَيْحَةً وَاحِدَةً﴾ ” مگر ایک چیخ ہی“ یعنی وہ ایک آواز تھی جس کے ذریعے سے بعض فرشتوں نے کلام کیا تھا ﴿ فَإِذَا هُمْ خَامِدُونَ﴾ ” تو وہ اچانک بجھ کر رہ گئے۔“ ان کے دل ان کے سینوں میں پارہ پارہ ہوگئے۔ وہ اس چنگھاڑ کی آواز سے گھبرا اٹھے اور بے جان ہوگئے۔ اس تکبر کے بعد ان کی کوئی آواز تھی نہ ان کے اندر کوئی حرکت تھی۔ اشرف المخلوقات کے مقابلے میں ظلم، تکبر، جبر اور ان کے ساتھ بدکلامی کے بعد اب ان میں زندگی کے آثار تک نہ تھے۔ يس
30 اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر رحمت کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا : ﴿يَا حَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِمَا يَأْتِيهِم مِّن رَّسُولٍ إِلَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ﴾ ”بندوں پر افسوس ہے کہ ان کے پاس جو بھی رسول آتا یہ اس کے ساتھ مذاق کرتے تھے۔“ یعنی ان کی بدبختی کتنی بڑی، ان کا عناد کتنا طویل اور ان کی جہالت کتنی شدید ہے کہ وہ ایسی قبیح صفت سے متصف ہیں جو ہر بدبختی، ہر عذاب اور ہر سزا کا سبب ہے۔ يس
31 اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : کیا انہوں نے انبیاء و رسل کی تکذیب کرنے والی گزشتہ قوموں کو دیکھ کر عبرت نہیں پکڑی، جن کو اللہ تعالیٰ نے ہلاک کر ڈالا، ان پر عذاب کا کوڑا برسایا اور وہ سب ہلاک اور برباد ہوگئیں۔ ان میں سے کوئی دنیا میں لوٹ کر آیا ہے نہ آئے گا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ تمام لوگوں کو نئے سرے سے تخلیق بخشے گا، ان کے مرنے کے بعد انہیں دوبارہ زندہ کرے گا اور پھر انہیں اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر کیا جائے گا تاکہ اللہ تعالیٰ ان کے درمیان عدل کے ساتھ فیصلہ کرے جس میں وہ ذرہ بھر ظلم نہ کرے گا۔ ﴿وَإِن تَكُ حَسَنَةً يُضَاعِفْهَا وَيُؤْتِ مِن لَّدُنْهُ أَجْرًا عَظِيمًا ﴾ (النساء :4؍40) ” اگر نیکی ہوگی تو اللہ اس کو کئی گنا کر دے گا اور اپنی طرف سے بہت بڑا اجر عطا کرے گا۔“ يس
32 يس
33 ﴿وَآيَةٌ لَّهُمُ﴾ ” ان کے لئے ایک نشانی ہے۔“ یعنی مرنے کے بعد دوبارہ زندہ اٹھائے جانے، حشر و نشر، حساب کتاب کے لئے اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑا ہونے اور ان اعمال کی جزا و سزا پر دلیل ہے﴿ الْأَرْضُ الْمَيْتَةُ ﴾ ” مردہ زمین“ جس پر اللہ تعالیٰ نے پانی برسا یا اور اس کے مردہ ہوجانے کے بعد اسے دوبارہ زندگی عطا کی۔ ﴿ وَأَخْرَجْنَا مِنْهَا حَبًّا فَمِنْهُ يَأْكُلُونَ﴾ ” یعنی ہم نے اس زمین میں سے ان تمام زرعی اصناف کو اگایا جن کو لوگ خوراک کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور ان اصناف کو بھی جن کو ان کے مویشی کھاتے ہیں ۔ يس
34 ﴿وَجَعَلْنَا فِيهَا﴾ یعنی ہم نے اس مردہ زمین میں اگائے ﴿جَنَّاتٍ﴾ باغات جن میں بے شمار درخت ہیں، خاص طور پر کھجور اور انگور، جن کے درخت بہترین درخت ہیں ﴿ وَفَجَّرْنَا فِيهَا﴾ اور ہم نے اس میں جاری کئے یعنی زمین میں ﴿مِنَ الْعُيُونِ﴾ ” چشمے“ يس
35 ہم نے زمین کے اندر یہ درخت، یعنی کھجور اور انگور اگائے ﴿ لِيَأْكُلُوا مِن ثَمَرِهِ ﴾ تاکہ یہ انہیں بطور خوراک، پھل، سالن اور لذت استعمال کریں ﴿وَ﴾ حالانکہ ان پھلوں کو ﴿مَا عَمِلَتْهُ أَيْدِيهِمْ ﴾ ” ان کے ہاتھوں نے تخلیق نہیں کیا۔“ ان میں سے ان کی کوئی صنعت کاری ہے نہ ان کی کسی کاری گری کا عمل دخل، یہ تو اللہ، احکم الحاکمین اور خیر الرازقین کی تخلیق کا کمال ہے، نیز ان پھلوں کو آگ پر پکائے جانے کی ضرورت ہی نہیں۔ ان پھلوں کو درختوں سے توڑ کر اسی وقت اور اسی حال میں کھایا جاسکتا ہے ﴿أَفَلَا يَشْكُرُونَ﴾ جس ہستی نے ان تک یہ نعمتیں پہنچائیں، جس نے اپنے بے پایاں فضل و کرم کی بنا پر ان کو ایسے امور سے نوازا جن میں ان کے دین و دنیا کی بھلائی ہے، تو یہ اس ہستی کا شکر کیوں نہیں کرتے؟ کیا وہ ہستی جس نے زمین کے مرنے کے بعد اسے زندہ کیا، اس میں کھیتیاں اور درخت اگائے، ان میں نہایت لذیذ اقسام کے پھل ودیعت کئے، ان پھلوں کو ان درختوں کی شاخوں پر نمایاں کیا اور خشک زمین پر پانی کے چشمے جاری کئے۔۔۔ مردوں کو زندہ کرنے پر قادر نہیں؟ کیوں نہیں؟ وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ يس
36 ﴿سُبْحَانَ الَّذِي خَلَقَ الْأَزْوَاجَ كُلَّهَا﴾ ” پاک ہے وہ ذات جس نے اس (زمین) کی ہر چیز کے جوڑے بنائے۔“ یعنی تمام اصناف کو تخلیق فرمایا ﴿مِمَّا تُنبِتُ الْأَرْضُ﴾ ” زمین کی نباتات سے“ اس نے زمین میں ایسی ایسی اصناف تخلیق فرمائیں جن کو شمار کرنا بہت مشکل ہے ﴿وَمِنْ أَنفُسِهِمْ ﴾ یعنی خود ان کو مرد اور عورت کی اصناف میں پیدا کیا، ان کی تخلیق، فطرت اور ان کے اوصاف ظاہری و باطنی میں تفاوت پیدا کیا۔ ﴿ وَمِمَّا لَا يَعْلَمُونَ ﴾ اور ان مخلوقات کی اصناف کو پیدا کیا جو ہمارے علم کی گرفت سے باہر ہیں اور وہ مخلوقات جو اس کے بعد پیدا ہی نہیں کی گئیں اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات اس سے پاک ہے کہ اس کا کوئی شریک، مددگار، معاون، وزیر، بیوی، یا کوئی بیٹا ہو، وہ اس سے پاک ہے کہ اس کی صفات کمال اور نعوت جلال میں اس کا ہم سر، مثیل یا کوئی مشابہت کرنے والا ہو یا اسے کوئی اپنے ارادے سے باز رکھ سکے۔ يس
37 ﴿وَآيَةٌ لَّهُمُ﴾ ” اور ان کے لئے ایک نشانی“ یعنی اللہ تعالیٰ کی مشیت کے نفاذ، اس کی قدرت کے کمال، مردوں کو اس کے دوبارہ زندہ کرنے پر ایک دلیل ﴿اللَّيْلُ نَسْلَخُ مِنْهُ النَّهَارَ﴾ ” رات ہے جس سے ہم دن کو کھینچ دیتے ہیں۔“ یعنی ہم نے اس کی عظیم روشنی کو زائل کر کے، جس نے روئے زمین کو منور کر رکھا تھا، تاریکی سے بدل ڈالا، جسے ہم اس کے وقت پر نازل کرتے ہیں ﴿فَإِذَا هُم مُّظْلِمُونَ﴾ ” پس وہ اندھیروں میں ڈوب جاتے ہیں۔“ اسی طرح ہم تاریکی کو زائل کرتے ہیں، جس نے ان کو ڈھانپ رکھا تھا۔ پس ہم سورج کو طلوع کرتے ہیں، جس سے تمام زمین اپنے کناروں تک روشن ہوجاتی ہے اور مخلوق اپنے رزق کی تلاش اور اپنے مصالح کے حصول کے لئے روئے زمین پر پھیل جاتی ہے۔ يس
38 بنا بریں فرمایا : ﴿وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَّهَا﴾ سورج دائمی طور پر اپنے ٹھکانے کی طرف رواں دواں ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے مقرر فرایا ہے۔ وہ اس سے تجاوز کرتا ہے نہ کوتاہی اور نہ وہ اپنے آپ پر تصرف کا اختیار رکھتا ہے اور نہ وہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کے سامنے دم مار سکتا ہے۔ ﴿ ذٰلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ﴾ ” یہ غالب ہستی کا اندازہ ہے۔‘‘ جس نے اپنے غلبہ و عزت کی بنا پر اتنی بڑی بڑی مخلوقات کی کامل ترین طریقے سے تدبیر اور بہترین طریقے سے انتظام کیا ﴿الْعَلِيمِ﴾ ” جاننے والا ہے۔“ جس نے اپنے علم کی بنا پر اپنے بندوں کے لئے ان کے دین و دنیا میں مصالح مقرر فرمائے۔ يس
39 ﴿وَالْقَمَرَ قَدَّرْنَاهُ مَنَازِلَ﴾ اور ہم نے چاند کی بھی منزلیں مقرر کردیں۔“ وہ ہر رات ایک منزل میں نازل ہوتا اور کم ہوتا رہتا ہے ﴿ حَتَّىٰ ﴾ یہاں تک کہ وہ بہت چھوٹا ہوجاتا ہے اور لوٹ کر ہوجاتا ہے ﴿ كَالْعُرْجُونِ الْقَدِيمِ﴾ ” پرانی ٹہنی کی طرح“ یعنی کھجور کی سوکھی شاخ کے مانند جو قدامت کی وجہ سے چٹختی ہے، اس کا حجم چھوٹا ہوجاتا ہے اور وہ ٹیڑھی ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد چاند تھوڑا تھوڑا بڑھتا رہتا ہے حتیٰ کہ اس کی روشنی مکمل ہوجاتی ہے۔ ﴿ وَكُلٌّ﴾ ” اور ہر ایک“ یعنی سورج، چاند، رات اور دن کے لئے اللہ تعالیٰ نے اندازہ مقرر فرما دیا ہے، کوئی اس سے تجاوز نہیں کرسکتا۔ ہر ایک کے لئے وقت مقرر ہے۔ جب ایک وجود میں آتا ہے تو دوسرا معدوم ہوجاتا ہے۔ يس
40 بنا بریں فرمایا : ﴿لَا الشَّمْسُ يَنبَغِي لَهَا أَن تُدْرِكَ الْقَمَرَ ﴾ ” سورج کی یہ مجال نہیں کہ وہ چاند کو جا پکڑے“ یعنی اس کی بادشاہی میں، جو رات ہے، لہٰذا یہ ممکن نہیں کہ سورج رات کے وقت موجود ہے۔ ﴿ وَلَا اللَّيْلُ سَابِقُ النَّهَارِ﴾ ” اور رات دن سے آگے نہیں بڑھ سکتی“ کہ وہ دن کی بادشاہت ختم ہونے سے پہلے اس میں داخل ہوجائے۔ ﴿وَكُلٌّ﴾ ” اور ہر ایک“ یعنی سورج، چاند اور ستارے ﴿فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ﴾ ” سب ایک ایک فلک میں تیر رہے ہیں“ یعنی وہ دائمی طور پر اپنے راستے پر آجا رہے ہیں۔ یہ سب کچھ خالق کائنات اور اس کے اوصاف کی عظمت کی ناقابل تردید دلیل اور برہان ہے خاص طور پر اللہ تعالیٰ کی صفت قدرت، حکمت اور اس موضوع کے متعلق علم کے اثبات کی دلیل ہے۔ يس
41 نیز یہ اس امر کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی اکیلا معبود برحق ہے کیونکہ وہی اکیلا نعمتیں عطا کرتا ہے اور مصائب و شدائد کو دور کرتا ہے اور اس کی جملہ نعمتوں میں ایک نعمت یہ ہے کہ ﴿أَنَّا حَمَلْنَا ذُرِّيَّتَهُمْ ﴾ ” ہم نے ان کی اولاد کو سوار کیا۔“ بہت سے مفسرین کی رائے ہے کہ اس سے مراد ان کے آباء و اجداد ہیں ۔ يس
42 ﴿وَخَلَقْنَا لَهُم﴾ ” اور ہم نے ان کے لئے پیدا کیں۔“ یعنی موجود اور آنے والے لوگوں کے لئے ﴿مِّن مِّثْلِهِ﴾ ” ویسی ہی“ اس کشتی جیسی یعنی اس کی جنس میں سے ﴿ مَا يَرْكَبُونَ﴾ ” جس پر یہ سواری کرتے ہیں۔“ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کے آباؤ اجداد پر اپنی نعمت کا ذکر فرمایا کہ اس نے ان کو کشتی میں سوار کرایا۔ ان پر نعمت کا فیضان گویا اولاد پر نعمت کا فیضان ہے۔ تفسیر کے اعتبار سے یہ مقام میرے لئے مشکل ترین مقام ہے کیونکہ بہت سے مفسرین نے اس رائے کا اظہار کیا ہے کہ یہاں ” ذریت“ سے مراد آباؤ اجداد ہیں، مگر قرآن کریم میں ذریت کا آباؤ اجداد پر اطلاق کہیں نہیں آتا، بلکہ یہ مفہوم لینے میں ابہام اور کلام کو اس کے موضوع سے ہٹانا ہے جس کا رب العالمین کا کلام انکار کرتا ہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ کا ارادہ اپنے بندوں کے سامنے ایضاح و بیان ہے۔ یہاں ایک اور احتمال بھی ہے جو اس سے بہتر ہے اور یہ ہے کہ یہاں ” ذریت“ سے مراد جنس ہے یعنی اس سے مراد وہ خود ہیں، کیونکہ وہی آدم کی ذریت ہیں، مگر یہ معنی اللہ تعالیٰ کے اس قول کے متناقض ہیں۔ ﴿وَخَلَقْنَا لَهُم مِّن مِّثْلِهِ مَا يَرْكَبُونَ﴾ ” اور ان کے لئے اسی جیسی اور چیزیں پیدا کیں جن پر یہ سوار ہوجاتے ہیں۔‘‘ اگر اس سے مراد یہ ہو کہ ہم نے اس کشتی جیسی کشتی تخلیق کی، یعنی ان مخاطبین کے لئے جو مختلف انواع کی کشتیوں پر سوار ہوتے ہیں۔۔۔ تو یہ معنی کا تکرار ہے، قرآن کریم کی فصاحت اس سے انکار کرتی ہے اور اگر اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد ﴿وَخَلَقْنَا لَهُم مِّن مِّثْلِهِ مَا يَرْكَبُونَ﴾ سے اونٹ مراد لئے جائیں جو صحرا کے جہاز ہیں تو معنی نہایت درست اور واضح ہیں۔۔۔ البتہ اس معنیٰ کے مطابق بھی کلام میں تشویش باقی رہ جاتی ہے، کیونکہ اگر یہ معنی مراد ہوتے تو اللہ یوں ارشاد فرماتا: ( أَنَّا حَمَلْنَا ذُرِّيَّتَهُمْ فِي الْفُلْكِ الْمَشْحُونِ وَخَلَقْنَا لَهُم مِّن مِّثْلِهِ مَا يَرْكَبُونَ) ” اور ان کے لئے نشانی یہ ہے کہ ہم نے انہیں بھری ہوئی کشتی میں سوار کیا اور ان کے لئے اسی جیسی دوسری چیزیں پیدا کیں جن پر وہ سوار ہوتے ہیں۔“ رہا پہلی آیت کریمہ میں یہ فرمانا کہ ہم نے ان کی اولاد کو سوار کیا اور دوسری آیت کریمہ میں یہ فرمانا کہ ہم نے انہیں سوار کیا، تو اس سے معنی واضح نہیں ہوتے۔ سوائے اس کے کہ یہ کہا جائے کہ ضمیر (ذُرِّیَة) کی طرف لوٹتی ہو اور حقیقت حال کو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔ جب میں یہاں تک لکھ چکا تو مجھ پر ایک مطلب ظاہر ہوا جو اللہ تعالیٰ کی مراد سے بعید نہیں، جو کوئی کتاب اللہ کے جلال اور ہر لحاظ سے حال، ماضی اور مستقبل کے امور کے لئے اس کے بیان کامل کی معرفت رکھتا ہے، نیز وہ یہ بھی جانتا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ وہ معنی ذکر کرتا ہے جو اپنے احوال میں کامل ترین معنی ہوں۔ کشتی اللہ تعالیٰ کی ایک نشانی اور اس کے بندوں کے لئے اس کی نعمت ہے۔ جب سے اللہ تعالیٰ نے بندوں کو کشتی کی نعمت اور اس کی تعلیم سے نوازا ہے اس وقت سے لے کر روز قیامت اور قرآن کے مخاطبین کے زمانے تک، ہر زمانے میں کشتی موجود رہی ہے۔ جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسانوں کو قرآن کے ذریعے سے مخاطب کیا اور کشتی کا حال بیان کیا تو اس وقت اللہ تعالیٰ کو علم تھا کہ ان مخاطبین کے زمانے کے بعد ایسی ایسی کشتیاں ایجاد ہوں گی جو اللہ تعالیٰ کی عظیم نشانیاں ہوں گی اور اللہ تعالیٰ ان کو بحری، بادبانی اور بھاپ سے چلنے والی، فضا میں پرندوں کے مانند تیرنے والی کشتیوں اور خشکی پر چلنے والی سواریوں کی صنعت کی تعلیم دے گا اور یہ عظیم نشانی صرف ان کی ذریت کے زمانے ہی میں پائی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ نے کتاب کریم میں اپنی نشانیوں کی تمام انواع میں سے اعلیٰ ترین نشانی کی طرف اشارہ کیا ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿وَآيَةٌ لَّهُمْ أَنَّا حَمَلْنَا ذُرِّيَّتَهُمْ فِي الْفُلْكِ الْمَشْحُونِ ﴾ ” اور ان کے لئے ایک نشانی یہ ہے کہ ہم نے ان کی اولاد کو بھری ہوئی کشتی میں سوار کیا۔“ یعنی سواریوں اور سامان سے بھری ہوئی۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کو ان سواریوں پر سوار کرایا اور ان اسباب کے ذریعے سے ان کو ڈوبنے سے بچایا جو اس نے انہیں سکھائے تھے۔ يس
43 بنا بریں اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمت کی طرف توجہ دلائی کہ اس نے ان کو غرق کرنے کی قدرت رکھنے کے باوجود ڈوبنے سے بچایا، چنانچہ فرمایا : ﴿وَإِن نَّشَأْ نُغْرِقْهُمْ فَلَا صَرِيخَ لَهُمْ﴾ ” اور اگر ہم چاہیں تو انہیں غرق کردیں پھر ان کا کوئی فریاد رس نہ ہو۔“ یعنی کوئی ہستی ایسی نہیں جو اس مصیبت میں چیخ و پکار سن کر ان کی مدد کرسکے اور ان کی مصیبت کو دور کر سکے۔ ﴿وَلَا هُمْ يُنقَذُونَ﴾ ” اور نہ وہ کسی طرح بچائے جا سکیں گے“ اس مصیبت سے جس میں وہ مبتلا ہیں۔ يس
44 ﴿إِلَّا رَحْمَةً مِّنَّا وَمَتَاعًا إِلَىٰ حِينٍ﴾ ” مگر یہ ہماری رحمت اور ایک مدت تک کے فائدے ہیں۔“ یعنی ہم نے ان پر لطف و کرم کرنے اور ایک مدت تک ان کو متمتع کرنے کی بنا پر ان کو ڈبویا نہیں، شاید ! وہ ہماری طرف رجوع کریں یا اپنی کوتاہیوں کی تلافی کریں۔ يس
45 ﴿وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّقُوا مَا بَيْنَ أَيْدِيكُمْ وَمَا خَلْفَكُمْ ﴾ ” اور جب ان سے کہا گیا کہ جو تمہارے پیچھے ہے اور جو تمہارے آگے ہے اس سے ڈرو“ یعنی برزخ اور قیامت کے احوال اور دنیاوی سزاؤں سے اپنا بچاؤ کرو ﴿لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ﴾ ” شاید ! تم پر رحم کیا جائے۔“ تو انہوں نے اللہ تعالیٰ کے اس حکم سے روگردانی کی اگرچہ ان کے پاس ہر قسم کی نشانی آئی، مگر انہوں نے اس کی کوئی پروانہ کی۔ يس
46 اس لئے فرمایا : ﴿وَمَا تَأْتِيهِم مِّنْ آيَةٍ مِّنْ آيَاتِ رَبِّهِمْ إِلَّا كَانُوا عَنْهَا مُعْرِضِينَ﴾ ”” ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے جو بھی نشانی آتی یہ اس سے منہ پھیر لیتے ہیں۔“ آیات کی، ان کے رب کی طرف اضافت ان آیات کے کامل اور واضح ہونے کی دلیل ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی آیات سے زیادہ کوئی چیز واضح نہیں۔ اپنے بندوں کے لئے اللہ تعالیٰ کی جملہ تربیت میں سے ایک چیز یہ ہے کہ اس نے اپنی آیات اپنے بندوں تک پہنچائیں جن کے ذریعے سے وہ ان امور میں رہنمائی حاصل کرتے ہیں جو ان کے لئے دین و دنیا میں فائدہ مند ہیں۔ يس
47 ﴿ وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ أَنفِقُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّٰـهُ﴾ ” اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے میں سے کچھ دو“ یعنی اس رزق سے خرچ کرو جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے تم پر احسان کیا ہے، اگر وہ چاہتا تو وہ اسے تم سے طلب کرلیتا ﴿قَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِلَّذِينَ آمَنُوا ﴾ ”کافروں نے مومنوں سے کہا“ یعنی کفار نے حق کی مخالفت اور مشیت کو حجت بناتے ہوئے کہا : ﴿ أَنُطْعِمُ مَن لَّوْ يَشَاءُ اللّٰـهُ أَطْعَمَهُ إِنْ أَنتُمْ﴾ (” اے مومنو !) کیا ہم ان لوگوں کو کھانا کھلائیں، جن کو اگر اللہ کھلانا چاہتا تو کھلا دیتا۔ نہیں ہو تم“ ﴿إِلَّا فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ ﴾ ” مگر کھلی گمراہی میں“ کیونکہ تم ہمیں اس بات کا حکم دے رہے ہو۔ ان کا یہ قول ان کی جہالت یا تجاہل پر دلالت کرتا ہے، کیونکہ مشیت الٰہی کسی نافرمان کی نافرمانی کے لئے ہرگز دلیل نہیں۔ ہرچند کہ اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے وہی ہوتا ہے اور جو نہیں چاہتا وہ نہیں ہوسکتا، تاہم اس نے اپنے بندوں کو اختیار عطا کیا ہے اور انہیں قوت سے نوازا ہے جس کے ذریعے سے وہ اوامر کی تعمیل اور نواہی سے اجتناب کرسکتے ہیں۔ اگر وہ کسی ایسی چیز کو ترک کرتے ہیں جس کی تعمیل کا انہیں حکم دیا گیا ہے تو وہ اپنے اختیار سے ترک کرتے ہیں اور ان پر کوئی جبر نہیں ہوتا۔ يس
48 ﴿وَيَقُولُونَ ﴾ ” وہ تکذیب کرتے اور عذاب کے لئے جلدی مچاتے ہوئے کہتے ہیں ﴿مَتَىٰ هَـٰذَا الْوَعْدُ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ﴾ ” یہ وعدہ کب پورا ہوگا اگر تم سچے ہو۔ “ يس
49 اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ قیامت کو دور نہ سمجھیں، وہ بہت قریب ہے۔ ﴿مَا يَنظُرُونَ إِلَّا صَيْحَةً وَاحِدَةً ﴾ ” وہ صرف ایک سخت چیخ کا انتظار کر رہے ہیں“ اور وہ صور پھونکنے کی آواز ہوگی ﴿تَأْخُذُهُمْ﴾ یعنی صور کی چنگھاڑا نہیں آ لے گی ﴿وَهُمْ يَخِصِّمُونَ﴾ ” جبکہ وہ جھگڑ رہے ہوں گے۔“ اور وہ اس آواز کے بارے میں غافل ہوں گے۔ ان کے آپس میں جھگڑے کی حالت میں، جو کہ اکثر غفلت کے وقت ہوتا ہے، ان کے دل میں اس کے بارے میں خیال بھی نہ گزرا ہوگا۔ جب وہ چنگھاڑ ان کی غفلت کے وقت ان کو آلے گی تو اس وقت ان کو کوئی مہلت نہ دی جائے گی ۔ يس
50 ﴿فَلَا يَسْتَطِيعُونَ تَوْصِيَةً﴾ وہ تھوڑی یا زیادہ کسی قسم کی وصیت نہ کرسکیں گے۔ ﴿وَلَا إِلَىٰ أَهْلِهِمْ يَرْجِعُونَ ﴾ ” اور نہ وہ اپنے گھروں کو لوٹ ہی سکیں گے۔ “ يس
51 صور کی پہلی آواز گھبراہٹ اور موت کی آواز ہوگی اور یہ دوسری آواز مردوں کے زندہ ہونے اور اٹھنے کے لئے ہوگی۔ جب دوبارہ صور پھونکا جائے گا توہ اپنی قبروں سے نکل کر جلدی سے اپنے رب کے حضور حاضر ہوں گے اور وہ کسی قسم کی تاخیر اور دیر نہ کرسکیں گے۔ اس حال میں، رسولوں کی تکذیب کرنے والے بہت غم زدہ ہوں گے۔ وہ حسرت اور ندامت کا اظہار کرتے ہوئے کہیں گے : يس
52 ﴿يَا وَيْلَنَا مَن بَعَثَنَا مِن مَّرْقَدِنَا﴾ ” ہائے افسوس ! ہمیں ہماری خواب گاہوں سے کس نے اٹھایا؟“ یعنی ہمیں ہماری قبروں میں نیند سے کس نے اٹھایا؟ بعض احادیث میں وارد ہے کہ اہل قبور صور پھونکے جانے سے تھوڑی دیر پہلے تک سو رہے ہوں گے۔ ان کو جواب دیا جائے گا : ﴿هَـٰذَا مَا وَعَدَ الرَّحْمَـٰنُ وَصَدَقَ الْمُرْسَلُونَ﴾ یعنی یہی وہ قیامت ہے جس کا تمہارے ساتھ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں نے وعدہ کیا تھا۔ تمہاری آنکھوں کے سامنے ان کی صداقت ظاہر ہوگئی۔ اس مقام پر آپ یہ خیال نہ کریں کہ اللہ تعالیٰ کی صفت” رحمٰن“ کا ذکر محض اس کے وعدے کی خبر کے لئے کیا گیا ہے۔ اس کا ذکر تو صرف اس بات سے آگاہ کرنے کے لئے کیا گیا ہے کہ وہ اس روز اللہ تعالیٰ کی رحمت کے ایسے مظاہر دیکھیں گے جو کبھی ان کے خیال میں بھی نہ گزرے ہوں گے اور حساب لگانے والوں نے بھی حساب نہ لگایا ہوگا، مثلاً فرمایا : ﴿الْمُلْكُ يَوْمَئِذٍ الْحَقُّ لِلرَّحْمَـٰنِ﴾ (الفرقان:25؍26) ” اس دن حقیقی اقتدار صرف رحمٰن کا ہوگا“ اور فرمایا : ﴿وَخَشَعَتِ الْأَصْوَاتُ لِلرَّحْمَـٰنِ﴾(طهٰ:20؍108) ” اور رحمٰن کے آگے آوازیں دب جائیں گی۔“ اور اس طرح کے دیگر مقامات جہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے صفاتی نام ” رحمٰن“ کا ذکر فرمایا ہے۔ يس
53 ﴿إِن كَانَتْ﴾ ” نہیں ہوگا“ اہل قبور کا اپنی قبروں سے اٹھنا ﴿إِلَّا صَيْحَةً وَاحِدَةً﴾ ” مگر ایک ہی زور کی چنگھاڑ“ اسرافیل صور پھونکیں گے اور تمام مردے جی اٹھیں گے ﴿فَإِذَا هُمْ جَمِيعٌ لَّدَيْنَا مُحْضَرُونَ﴾ اولین و آخرین اور جن و انس سب ہمارے سامنے حاضر کئے جائیں گے تاکہ ان کے اعمال کا حساب لیا جائے۔ يس
54 ﴿فَالْيَوْمَ لَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْئًا﴾ ” پس اس روز کسی شخص پر کچھ بھی ظلم نہیں کیا جائے گا۔“ یعنی ان کی نیکیوں میں کوئی کمی کی جائے گی نہ ان کی برائیوں میں اضافہ ﴿وَلَا تُجْزَوْنَ إِلَّا مَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ﴾ یعنی جس خیر و شر کا تم ارتکاب کرو گے صرف اسی کی تمہیں جزا اور سزا ملے گی۔ پس جس نے بھلائی پائی وہ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کرے جسے اس کے علاوہ کچھ اور ملا تو اسے صرف اپنے آپ کو ملامت کرنی چاہئے۔ يس
55 جب اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرما دیا کہ ہر شخص کو صرف اس کے اعمال کی جزا ملے گی تو دونوں فریقوں کی جزا اور سزا کا ذکر بھی کیا۔ پہلے اہل جنت کی جزا کا ذکر کرتے ہوئے آگاہ فرمایا کہ اہل جنت اس روز ﴿فِي شُغُلٍ فَاكِهُونَ﴾ ” لطف اٹھانے میں مشغول ہوں گے“ یعنی ایسے مشاغل میں مشغول ہوں گے جن سے نفس کو لطف اور لذت محسوس ہوگی، ہر ایسی چیز میں مشغول ہوں گے جو نفس چاہیں گے، آنکھیں جس سے لذت حاصل کریں گی اور تمنا کرنے والے تمنا کریں گے۔ ان نعمتوں میں خوبصورت دو شیزاؤں سے ملاقات شامل ہے۔ يس
56 جیسا کہ فرمایا : ﴿ هُمْ وَأَزْوَاجُهُمْ﴾ ” وہ اور ان کی بیویاں“ خوبصورت آنکھوں والی جو خوبصورت چہروں اور خوبصورت بدنوں والی ہونے کے ساتھ ساتھ خوب سیرت بھی ہوں گی ﴿فِي ظِلَالٍ عَلَى الْأَرَائِكِ مُتَّكِئُونَ ﴾ ” سایوں میں مسہریوں پہ ہوں گے“ یعنی وہ ایسی مسندوں پر بیٹھیں گے جو خوبصورت لباس سے مزین ہوں گی۔ ﴿مُتَّكِئُونَ﴾ مسند پر تکیہ لگائے ہوئے ہوں گے ان کا تکیہ لگانا، کمال راحت، طمانیت اور لذت پر دلالت کرتا ہے۔ يس
57 ﴿لَهُمْ فِيهَا فَاكِهَةٌ ﴾ اس میں ان کے لئے تمام قسم کے لذیذ پھل اور میوے بکثرت ہوں گے، مثلا انگور، انجیر اور انار وغیرہ ﴿وَلَهُم مَّا يَدَّعُونَ﴾ یعنی جو کچھ بھی وہ طلب کریں گے اور تمنا کریں گے، پا لیں گے۔ يس
58 نیز ان کو ﴿سَلَامٌ ﴾ ” سلام“ حاصل ہوگا ﴿ مِّن رَّبٍّ رَّحِيمٍ ﴾“ مہربان رب کی طرف سے۔“ اس آیت کریمہ میں دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ اہل جنت کے ساتھ کلام فرمائے گا اور ان پر اس کا سلام ہوگا اور اللہ نے اسے اپنے ارشاد ﴿ قَوْلًا﴾ کے ذریعے سے مؤکد کیا اور جب رب رحیم کی طرف سے ان کو سلام بھیجا جائے گا تو انہیں ہر لحاظ سے مکمل سلامتی حاصل ہوگی۔ انہیں سلام کہا جائے گا جس سے بڑھ کر کوئی سلام نہیں اور اس جیسی کوئی نعمت نہیں۔ آپ کا کیا خیال ہے بادشاہوں کے بادشاہ، رب عظیم اور رؤف و رحیم کی طرف سے اکرام و تکریم کے گھر میں رہنے والے ان لوگوں کو بھیجا گیا سلام کیسا ہوگا، جن پر اس کی رضا سایہ کناں اور جن سے ناراضی ہمیشہ کے لئے دور ہے؟ اگر اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے موت مقدر کی ہوتی یا فرحت و سرور کی وجہ سے حرکت قلب کا بند ہوجانا مقرر کیا ہوتا تو وہ خوشی سے ضرور مر جاتے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ ہمارا رب ہمیں ان نعمتوں سے محروم نہیں کرے گا اور ہمیں اپنے چہرہ اقدس کا دیدار کرائے گا۔ يس
59 اللہ تبارک و تعالیٰ نے اہل تقویٰ کی جزا کا ذکر کرنے کے بعد مجرموں کی سزا بیان کی ہے۔ ﴿ وَ﴾ ” اور“ ان کو قیامت کے ورز کہا جائے گا :﴿امْتَازُوا الْيَوْمَ أَيُّهَا الْمُجْرِمُونَ﴾ اے مجرمو ! تم اہل ایمان سے الگ ہوجاؤ۔ یہ حکم اس لئے ہوگا تاکہ اللہ تعالیٰ انہیں جہنم میں داخل کرنے سے قبل برسر عام زجر و توبیخ کرے اور ان سے کہے : يس
60 ﴿ أَلَمْ أَعْهَدْ إِلَيْكُمْ﴾ یعنی کیا میں نے اپنے رسولوں کے ذریعے سے تمہیں حکم نہیں دیا تھا اور تمہیں وصیت نہیں کی تھی اور تم سے یہ نہیں کہا تھا : ﴿يَا بَنِي آدَمَ أَن لَّا تَعْبُدُوا الشَّيْطَانَ ﴾ ” اے آدم کی اولاد ! شیطان کی عبادت نہ کرنا۔“ یعنی اس کی اطاعت نہ کرو، یہ زجر و توبیخ ہے اور اس میں ہر قسم کے کفر و معصیت پر زجر و توبیخ داخل ہے، کیونکہ کفر و معاصی کی تمام اقسام شیطان کی اطاعت اور اس کی عبادت کے زمرے میں آتی ہیں۔ ﴿ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ﴾ ” بے شک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔“ پس میں نے تمہیں اس سے انتہائی حد تک بچنے کی ہدایت کی، تمہیں اس کی اطاعت سے ڈرایا اور وہ تمہیں جس چیز کی دعوت دیتا ہے میں نے تمہیں اس سے خبردار کیا تھا۔ يس
61 ﴿وَ﴾ ” اور“ میں نے تمہیں حکم دیا تھا : ﴿أَنِ اعْبُدُونِي﴾ کہ میرے اوامر کی تعمیل کرتے اور میری نافرمانی سے بچتے ہوئے میری عبادت کرو ﴿هَـٰذَا﴾ یعنی میری عبادت، میری اطاعت اور شیطانی کی نافرمانی کرنا ﴿ صِرَاطٌ مُّسْتَقِيمٌ﴾ ” سیدھا راستہ ہے۔“ پس صراط مستقیم کے علوم و اعمال انھی مذکورہ و امور کی طرف راجع ہیں۔ يس
62 تم نے میرے عہد کی حفاظت کی نہ میری وصیت پر عمل کیا، بلکہ تم نے اپنے دشمن یعنی شیطان سے دوستی رکھی، لہٰذا ﴿ أَضَلَّ مِنكُمْ جِبِلًّا كَثِيرًا﴾ اس نے تم میں سے بہت زیادہ مخلوق کو گمراہ کیا ﴿أَفَلَمْ تَكُونُوا تَعْقِلُونَ﴾ یعنی کیا تم میں عقل نہیں جو تمہیں تمہارے رب اور حقیقی سرپرست کے ساتھ موالات رکھنے کا حکم دے اور تمہیں تمہارے بدترین دشمن کو اپنا دوست اور سرپرست بنانے سے روکے۔ اگر تمہاری عقل صحیح ہوتی تو تم ہرگز ایسا نہ کرتے۔ يس
63 اب جبکہ تم نے شیطا ن کی اطاعت کی، رحمٰن کے ساتھ عداوت کی، اس کے ساتھ ملاقات کو جھٹلایا، قیامت یعنی دار جزا میں آوارد ہوئے اور تم عذاب کے مستحق ٹھہرے تو ﴿هَـٰذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي كُنتُمْ تُوعَدُونَ﴾ ” یہ ہے وہ جہنم جس کا تم وعدہ دیے جاتے تھے“ اور تم جھٹلایا کرتے تھے۔ اب اس کو تم اپنی آنکھوں کے ساتھ دیکھو، یہاں دل دہل جائیں گے، آنکھیں پھرجائیں گی اور بہت بڑی گھبراہٹ کا وقت ہوگا۔ پھر اس کی تکمیل یوں ہوگی کہ انہیں جہنم میں ڈال دیئے جانے کا حکم ہوگا اور ان سے کہا جائے گا : يس
64 ﴿ اصْلَوْهَا الْيَوْمَ بِمَا كُنتُمْ تَكْفُرُونَ ﴾ ” اپنے کفر کا بدلہ پانے کے لئے جہنم میں داخل ہوجاؤ۔“ جہاں آگ تمہیں جلائے گی، آگ کی حرارت تمہیں گھیر لے گی، آیات الٰہی کے انکار اور اللہ تعالیٰ کے رسولوں تک تکذیب کے سبب سے آگ تمہارے جسم کے ہر حصے کو جلائے گی۔ يس
65 اللہ تبارک و تعالیٰ نے بدبختی کے اس گھر میں ان کے بدترین احوال کو بیان کرتے ہوئے فرمایا : ﴿الْيَوْمَ نَخْتِمُ عَلَىٰ أَفْوَاهِهِمْ﴾ ” آج ہم ان کے مونہوں پر مہر لگا دیں گے۔“ یعنی ہم ان کو گونگا بنا دیں گے، پس وہ بول نہ سکیں گے، کفر اور تکذیب پر مبنی اپنے اعمال کا انکار کرنے پر قادر نہیں ہوں گے ﴿وَتُكَلِّمُنَا أَيْدِيهِمْ وَتَشْهَدُ أَرْجُلُهُم بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ﴾ ” اور جو کچھ یہ کرتے رہے تھے ان کے ہاتھ ہم سے بیان کردیں گے اور ان کے پاؤں گواہی دیں گے۔“ یعنی ان کے اعضا ان کے خلاف ان کے اعمال کی گواہی دیں گے اور وہ ہستی انہیں قوت گویائی عطا کرے گی جس نے ہر چیز کو قوت گویائی عطا کی ہے۔ يس
66 ﴿ وَلَوْ نَشَاءُ لَطَمَسْنَا عَلَىٰ أَعْيُنِهِمْ﴾ ” یعنی ہم اگر چاہیں تو ان کی بینائی سلب کرلیں جس طرح ہم نے ان کی گویائی سلب کرلی ﴿فَاسْتَبَقُوا الصِّرَاطَ﴾ یعنی سیدھے راستے کی طرف سبقت کرو، کیونکہ جنت تک پہنچنے کا صرف یہی راستہ ہے ﴿فَأَنَّىٰ يُبْصِرُونَ﴾ ” تو وہ کہاں سے دیکھ سکیں گے“ کیونکہ ان کی آنکھوں کی بینائی سلب کرلی گئی ہے۔ يس
67 ﴿ وَلَوْ نَشَاءُ لَمَسَخْنَاهُمْ عَلَىٰ مَكَانَتِهِمْ﴾ ” اور اگر ہم چاہیں تو ان کی جگہ پر ان کی صورتیں بدل دیں۔“ یعنی ہم ان کی حرکت سلب کرلیں ﴿فَمَا اسْتَطَاعُوا مُضِيًّا﴾ ” تو وہ چل پھر نہ سکیں“ یعنی آگ کی جانب ﴿وَلَا يَرْجِعُونَ ﴾ اور نہ آگ سے دور رہنے کے لئے پیچھے لوٹ سکیں۔ معنی یہ ہے کہ ان کفار کے لئے عذاب ثابت ہوگیا لہٰذا ان کو ضرور عذاب دیا جائے گا اور اس مقام پر جہنم کے سوا کچھ نہیں جو سامنے ہے اور اس پر بچھے ہوئے پل کو عبور کئے بغیر نجات کا کوئی راستہ نہیں اور اہل ایمان کے سوا اس پل کو کوئی عبور نہیں کرسکے گا۔ اہل ایمان اپنے ایمان کی روشنی میں پل کو عبور کریں گے۔ رہے یہ کفار تو اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کے لئے نجات کا کوئی وعدہ نہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ ان کی بینائی کو سلب کرلے اور ان کی حرکت کو باقی رکھے تب اگر یہ راستے کی طرف بڑھیں تو اس تک پہنچ نہیں پائیں گے اور اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو ان کی حرکت کو بھی سلب کرلے تب یہ آگے بڑھ سکیں گے نہ پیچھے لوٹ سکیں گے۔ مقصد یہ ہے کہ کفار پل صراط کو عبور کرسکیں گے نہ انہیں جہنم سے نجات حاصل ہوگی۔ يس
68 ﴿وَمَن نُّعَمِّرْهُ ﴾ ” اور ہم جس کو بڑی عمر دیتے ہیں۔“ یعنی بنی آدم میں سے ﴿نُنَكِّسْهُ فِي الْخَلْقِ﴾ یعنی وہ اسی حالت کی طرف لوٹ آتا ہے جس سے ابتدا کی تھی یعنی، ضعف عقل اور ضعف قوت کی طرف ﴿أَفَلَا يَعْقِلُونَ ﴾ ” کیا وہ سمجھتے نہیں۔“ آدمی ہر لحاظ سے ناقص ہے پس انہیں چاہئے کہ وہ اپنی قوت اور عقل کا تدارک کریں اور انہیں اپنے رب کی اطاعت میں استعمال کریں۔ يس
69 مشرکین نبی مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر شاعر ہونے کا بہتان لگایا کرتے تھے نیز یہ کہ جو کچھ آپ پیش کر رہے ہیں وہ شاعری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شاعری سے منزہ قرار دیتے ہوئے فرمایا: ﴿وَمَا عَلَّمْنَاهُ الشِّعْرَ وَمَا يَنبَغِي لَهُ﴾ ” یعنی آپ کے لئے مناسب نہیں ہے کہ آپ شاعری کریں‘‘ یعنی آپ کا شاعر ہونا جنس محال میں سے ہے آپ تو ہدایت یافتہ ہیں جبکہ شعرا گمراہ ہوتے ہیں اور گمراہ لوگ ہی ان شعرا کی پیروی کرتے ہیں، نیز اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تمام شبہات کو دور کردیا جن کا یہ گمراہ لوگ سہارا لیا کرتے ہیں، چنانچہ اس شبہے کو بھی ختم کردیا کہ آپ لکھ سکتے ہیں یا پڑھ سکتے ہیں اور آگاہ فرماتا ہے اس نے آپ کو شاعری نہیں سکھائی اور نہ شاعری آپ کے شایان شان ہے ﴿إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرٌ وَقُرْآنٌ مُّبِينٌ﴾ یعنی یہ چیز جو محمد رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لے کر آئے ہیں ” ذکر“ ہے جس سے عقل مند لوگ تمام دینی مطالب میں راہنمائی حاصل کرتے ہیں، وہ تمام دینی مطالب پر کامل ترین طریقے سے مشتمل ہے اور وہ عقلوں کو اس چیز کی یاد دہانی کرواتا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اچھے کام کر کے حکم اور برے کام سے ممانعت کے طور پر انسانی فطرت میں ودیعت کردیا ہے۔ ﴿وَقُرْآنٌ مُّبِينٌ﴾ ” اور واضح قرآن ہے“ یعنی جن امور کی تبیین مطلوب ہے ان سب کو بیان کرتا ہے۔ یہاں اس لیے معمول کو حذف کردیا تاکہ وہ اس حقیقت پر دلالت کرے کہ وہ پورے حق کو اور باطل کے بطلان کو اجمالی اور تفصیلی کے ذریعے سے بیان کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اسی طرح نازل فرمایا۔ يس
70 ﴿لِّيُنذِرَ مَن كَانَ حَيًّا﴾ ’’تاکہ اس شخص کو، جو زندہ ہو، متنبہ کرے۔“ یعنی جو شخص دل زندہ رکھتا ہے وہی اس قرآن کے لائق ہے، اسی شخص کے علم و عمل میں اضافہ ہوتا ہے۔ قرآن اس کے دل کے لئے وہی حیثیت رکھتا ہے جو نہایت عمدہ اور زرخیز زمین کے لئے بارش کی حیثیت ہوتی ہے ﴿ وَيَحِقَّ الْقَوْلُ عَلَى الْكَافِرِينَ﴾ ” اور کافروں پر بات پوری ہوجائے“ کیونکہ ان پر حجت الٰہی قائم ہوگئی اور ان کی حجت منقطع ہوگئی اور ان کے پاس ایک ادنیٰ سا عذر اور شبہ باقی نہیں رہا جس کا وہ سہارا لے سکیں۔ يس
71 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ اس بارے میں غور کریں کہ اس نے مویشیوں کو ان کے لئے مسخر کردیا اور ان کو ان مویشیوں کا مالک بنایا، ان مویشیوں کے اندر ان کے لئے بے شمار فوائد رکھے، چنانچہ وہ ان پر سواری کرتے ہیں، ان پر بوجھ لادتے ہیں، ان کے ذریعے سے اپنے سامان کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتے ہیں، ان کا گوشت کھاتے ہیں، ان سے گرمی حاصل کرتے ہیں، ان کی اون، ان کی پشم اور ان کے بالوں میں ایک مدت تک ان کے لئے اثاثہ اور فائدہ ہے، نیز ان مویشیوں میں ان کے لئے زینت و جمال اور دیگر فوائد ہیں جس کا روزمرہ مشاہدہ ہوتا ہے۔ يس
72 يس
73 ﴿أَفَلَا يَشْكُرُونَ ﴾ ” کیا یہ لوگ شکر ادا نہیں کرتے“ اس اللہ تعالیٰ کا جس نے ان کو ان نعمتوں سے نوازا ہے؟ تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کو خالص کریں اور وہ ان نعمتوں سے اس طرح فائدہ نہ اٹھائیں کہ وہ عبرت اور غور و فکر سے خالی ہو۔ يس
74 یہ مشرکین کے خود ساختہ معبودوں کے بطلان کا بیان ہے جن کو انہوں نے اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرا رکھا ہے اور ان سے مدد اور سفارش کی امید رکھتے ہیں، حالانکہ وہ انتہائی عاجز ہیں يس
75 ﴿لَا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَهُمْ﴾ ” نہ وہ ان کی مدد کرسکتے ہیں“ اور نہ خود اپنی مدد پر قادر ہیں۔ جب وہ اپنی مدد نہیں کرسکتے تو وہ ان کی مدد کیسے کرسکتے ہیں۔ مدد کرنا دو امور سے مشروط ہے استطاعت اور ارادہ جب کوئی مدد کرنے کی استطاعت رکھتا ہو تو ایک چیز باقی رہ جاتی ہے کہ آیا وہ اپنے عبادت گزار بندے کی مدد کرنا چاہتا بھی ہے یا نہیں۔ استطاعت کی نفی سے دونوں امور کی نفی ہوجاتی ہے ﴿وَهُمْ لَهُمْ جُندٌ مُّحْضَرُونَ﴾ یعنی وہ ان کے حاضر باش لشکر ہوں گے۔ وہ سب عذاب میں ڈالے جائیں گے اور ایک دوسرے سے برأت کا اظہار کریں گے۔ انہوں نے دنیا میں ان خود ساختہ معبودوں کی عبادت سے برأت کا اظہار کر کے اپنی عبادت کو اس ہستی کے لئے خالص کیوں نہیں کیا جس کے ہاتھ میں نفع و نقصان ہے، عطا کرنا اور محروم کرنا اسی کے اختیار میں ہے اور وہی والی اور مددگار ہے۔ يس
76 اے رسول ! جھٹلانے والوں کی باتیں آپ کو غم زدہ نہ کریں۔ یہاں ’’باتوں“ سے مراد وہ باتیں ہے جن پر سیاق آیت دلالت کرتا ہے، یعنی ہر وہ بات جو رسول اور اس کی لائی ہوئی کتاب میں عیب لگاتی ہو۔ یعنی آپ کا دل ان کے غم میں مشغول نہ ہو ﴿إِنَّا نَعْلَمُ مَا يُسِرُّونَ وَمَا يُعْلِنُونَ﴾ ” یہ جو کچھ چھپاتے اور جو کچھ ظاہر کرتے ہیں ہم سب جانتے ہیں“ اس لئے ہم ان کو اپنے علم کے مطابق جزا اور سزا دیں گے ان کی باتیں آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتیں۔ يس
77 ان آیات کریمہ میں، منکرین قیامت کے شبہات اور ان کے مکمل، بہترین اور واضح جواب کا ذکر کیا گیا ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿أَوَلَمْ يَرَ الْإِنسَانُ﴾ کیا قیامت کا منکر اور اس میں شک کرنے والا انسان اس معاملے پر غور نہیں کرتا جو اسے قیامت کے وقوع کے بارے میں یقین کامل عطا کرے اور وہ معاملہ اس کی تخلیق کی ابتدا ہے ﴿مِن نُّطْفَةٍ﴾ ” نطفے سے“ پھر آہستہ آہستہ مختلف مراحل میں منتقل ہوتا ہے حتیٰ کہ بڑا ہو کر جو ان ہوجاتا ہے اور اس کی عقل کا مل اور درست ہوجاتی ہے ﴿فَإِذَا هُوَ خَصِيمٌ مُّبِينٌ ﴾’’’تو یکایک وہ صریح جھگڑا لو بن بیٹھتا ہے۔“ اس کے بعد کہ اللہ تعالیٰ نے نطفے سے اس کی تخلیق کی ابتد اکی۔ اسے ان دو حالتوں کے تفاوت پر غور کرنا چاہئے اور اسے معلوم ہونا چاہئے کہ وہ ہستی جو اسے عدم سے وجود میں لائی ہے زیادہ قدرت رکھتی ہے کہ اس کے مرنے اور ریزہ ریزہ ہو کر بکھر جانے کے بعد اسے دوبارہ زندہ کرے۔ يس
78 ﴿وَ ضَرَبَ لَنَا مَثَلاً﴾ ’’اور اس نے ہمارے لیے مثال بیان کی۔‘‘ كسی کے لیے مناسب نہیں کہ وہ اس قسم کی مثال بیان کرے اور وہ ہے خالق کی قدرت کا مخلوق کی قدرت کے ساتھ قیاس کرنا، نیز یہ قیاس کرنا کہ جو چیز مخلوق کی قدرت سے بعید ہےوہ خالق کی قدرت سے بھی بعید ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس مثال کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا: ﴿قَالَ﴾یعنی اس انسان نے کہا: ﴿مَنْ يُحْيِ العِظَامَ وَ هِيَ رَمِيْمٌ﴾یعنی کیا کوئی ایسی ہستی ہے جو ان ہڈیوں کو زندہ کرے گی؟ یہ استفہام انکاری ہے یعنی کوئی ہستی ایسی نہیں ہے جو ان ہڈیوں کے بوسیدہ اور معدوم ہو جانے کے بعد ان کو دوبارہ زندہ کر سکے۔ شبہ اور مثال کا یہی پہلو ہے کہ یہ معاملہ بشر کی قدرت سے بہت بعید ہے۔ یہ قول جو انسان سے صادر ہوا ہے اس کی غفلت پر مبنی ہے، نیز وہ اپنی تخلیق کی ابتدا کو بھول گیا ہے۔ اگر وہ اپنی تخلیق غور کرتا کہ کیسے اس کو پیدا کیا گیا جبکہ وہ کوئی قابل ذکر چیز نہ تھا تو وہ اعادہ تخلیق کو عیاں پاتا اور یہ مثال بیان نہ کرتا۔ يس
79 اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسان کے اعادہ تخلیق کے محال ہونے کے شبہے کا کافی اور شافی جواب دیتے ہوئے فرمایا : ﴿قُلْ يُحْيِيهَا الَّذِي أَنشَأَهَا أَوَّلَ مَرَّةٍ ﴾ ” کہہ دیجیے کہ ان کو وہی زندہ کرے گا جس نے انہیں پہلی بار پیدا کیا تھا“ یعنی وہ مجرد اپنے تصور ہی سے کسی شبہے کے بغیر، یقینی طور پر معلوم کرسکتا ہے کہ وہ ہستی جس نے اسے پہلی مرتبہ وجود بخشا، وہ دوسری مرتبہ اس کے اعادے پر قادر ہے۔ جب تصور کرنے والا تصور کرتا ہے تو اسے اللہ تعالیٰ کی قدرت کے سامنے یہ اعادہ تخلیق بہت معمولی نظر آتا ہے۔ ﴿وَهُوَ بِكُلِّ خَلْقٍ عَلِيمٌ ﴾ ” اور وہ سب قسم کا پیدا کرنا جانتا ہے۔ “ یہ اللہ تعالیٰ کی صفات عالیہ میں سے دوسری دلیل ہے۔ اللہ تعالیٰ کا علم اس کی تمام مخلوقات کا، ان کے تمام احوال کا، تمام اوقات میں احاطہ کئے ہوئے ہے۔ وہ خوب جانتا ہے کہ مردوں کے اجسا دخا کی میں سے کیا چیز کم ہو رہی ہے اور کیا چیز باقی ہے۔ وہ غائب اور شاہد ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔ جب بندہ اللہ تعالیٰ کے اس عظیم علم کا اقرار کرلیتا ہے تو اسے معلوم ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت تو مردوں کو ان کی قبروں سے دوبارہ زندہ کرنے سے زیادہ عظیم اور زیادہ جلیل ہے۔ يس
80 پھر اللہ تعالیٰ نے تیسری دلیل کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : ﴿الَّذِي جَعَلَ لَكُم مِّنَ الشَّجَرِ الْأَخْضَرِ نَارًا فَإِذَا أَنتُم مِّنْهُ تُوقِدُونَ﴾ جب وہ سرسبز درخت سے، جو مکمل طور پر گیلا ہوتا ہے، خشک آگ نکال سکتا ہے، حالانکہ ان دونوں میں سخت تضاد اور تخالف ہے، تو وہ اسی طرح مردوں کو ان کی قبروں سے دوبارہ زندہ کرسکتا ہے۔ يس
81 پھر اللہ تعالیٰ نے چوتھی دلیل بیان کرتے ہوئے فرمایا : ﴿أَوَلَيْسَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ ﴾ یعنی کیا جس ہستی نے آسمانوں اور زمین کی وسعت اور عظمت کے باوجود، ان کو تخلیق فرمایا ﴿بِقَادِرٍ عَلَىٰ أَن يَخْلُقَ مِثْلَهُم﴾ وہ ان کو بعینہ دوبارہ پیدا کرنے پر قادر نہیں؟ ﴿بَلَىٰ ﴾ ” کیوں نہیں“ وہ ان کو دوبارہ وجود بخشنے پر قادر ہے، کیونکہ آسمانوں اور زمین کی تخلیق انسان کی تخلیق سے زیادہ مشکل اور زیادہ بڑی ہے ﴿وَهُوَ الْخَلَّاقُ الْعَلِيمُ﴾ یہ پانچویں دلیل خاص ہے کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ پیدا کرنے والا ہے تمام مخلوقات کو، خواہ پہلے گزر چکی ہوں یا آنے والی، چھوٹی ہوں یا بڑی، سب کی سب اللہ تعالیٰ کی تخلیق اور قدرت کے آثار ہیں۔ جب وہ کسی مخلوق کو پیدا کرنا چاہتا ہے تو وہ اس کی نافرمانی نہیں کرسکتی۔ مردوں کو دوبارہ زندگی عطا کرنا اس کی تخلیق کے آثار کا ایک حصہ ہے۔ يس
82 اس لیے فرمایا : ﴿ إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْئًا ﴾ ” بلا شبہ اس کی شان یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے۔“ ﴿ شَيْئًا ﴾ شرط کے سیاق میں نکرہ ہے، اس لئے ہر چیز کو شامل ہے ﴿ أَن يَقُولَ لَهُ كُن فَيَكُونُ ﴾ ” تو اس سے فرما دیتا ہے کہ ہوجا، تو وہ ہوجاتی ہے۔“ یعنی وہ کس رکاوٹ کے بغیر اسی وقت ہوجاتی ہے۔ يس
83 ﴿فَسُبْحَانَ الَّذِي بِيَدِهِ مَلَكُوتُ كُلِّ شَيْءٍ﴾ یہ چھٹی دلیل ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا مالک ہے۔ عالم علوی اور عالم سفلی کی تمام چیزیں اس کی ملکیت اور اس کے غلام ہیں، وہ اس کے دست تدبیر کے تحت مسخر ہیں، وہ ان کے اندر اپنے احکام کوفی وقدری، احکام شرعی اور احکام جزائی کے ذریعے سے تصرف کرتا ہے۔ ان کی موت کے بعد انہیں دوبارہ زندہ کرے گا تاکہ وہ اپنی ملکیت کامل سے ان پر اپنا حکم جزائی نافذ کرے۔ بنا بریں فرمایا : ﴿وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ ﴾ کسی شک و شبہ کے بغیر، تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے، کیونکہ قطعی اور واضح دلائل و براہین نہایت تواتر کے ساتھ اس پر دلالت کرتے ہیں۔ نہایت ہی بابرکت ہے وہ ذات جس نے اپنے کلام کو ہدایت، شفا اور نور بنایا۔ يس
0 الصافات
1 یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے اپنی الوہیت وربوبیت پر مکرم فرشتوں کی قسم ہے، اس حال میں کہ وہ اس کی عبادت میں مشغول اور اس کے حکم سے کائنات کی تدبیر میں مصروف ہیں، چنانچہ فرمایا : ﴿وَالصَّافَّاتِ صَفًّا ﴾ ” قسم ہے صف باندھنے والوں کی“ یعنی اپنے رب کی خدمت میں اور اس سے مراد فرشتے ہیں چونکہ یہ فرشتے اپنے رب کی الوہیت کا اظہار کرتے ہیں، اس کی عبودیت میں مشغول رہتے ہیں اور ایک لمحے کے لئے اس کی نافرمانی نہیں کرتے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنی الوہیت پر ان کی قسم کھائی ہے۔ الصافات
2 ﴿فَالزَّاجِرَاتِ زَجْرًا﴾ ’’پھر ڈاٹنے والوں کی جھڑک کر۔‘‘ یہ وہ فرشتے ہیں جو اللہ کے حکم سے بادلوں وغیرہ کو ڈانٹتے ہیں۔ الصافات
3 ﴿فَالتّٰلِيَاتِ ذِكْرًا﴾ ” پھر ذکر اللہ کی تلاوت کرنے والوں کی۔“ اس سے مراد وہ فرشتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے کلام کی تلاوت کرتے ہیں۔ الصافات
4 ﴿إِنَّ إِلَـٰهَكُمْ لَوَاحِدٌ﴾ ” یقیناً تم سب کا معبود ایک ہی ہے۔“ الوہیت میں اس کا کوئی شریک نہیں، اس لئے خالص اسی سے محبت کرو، صرف اسی سے ڈرو، صرف اسی کو اپنی امیدوں کا محور بناؤ اور عبادات کی تمام اقسام صرف اسی کے لئے مختص کرو۔ الصافات
5 ﴿رَّبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا وَرَبُّ الْمَشَارِقِ﴾ ” جو آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان میں ہے، سب کا مالک ہے اور سورج کے طلوع ہونے کے مقامات کا بھی۔“ یعنی اللہ تعالیٰ ان مخلوقات کا خالق، رازق اور ان کی تدبیر کرنے والا ہے۔ پس جس طرح کوئی ہستی اس کی ربوبیت میں شریک نہیں، اسی طرح اس کی الوہیت میں بھی شریک نہیں۔ اکثر اوقات اللہ تعالیٰ نے توحید الوہیت کو توحید ربوبیت کے ساتھ مقرون بیان فرمایا ہے کیونکہ توحید ربوبیت توحید الوہیت پر دلالت کرتی ہے۔ مشرکین بھی توحید ربوبیت کا اقرار کرتے ہیں، اس لئے اللہ تبارک و تعالیٰ اسی چیز کو دلیل بناتا ہے جس کا وہ خود اقرار کرتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے مشرق کا خاص طور پر ذکر فرمایا، کیونکہ یہ مغرب پر دلالت کرتا ہے یا اس کی وجہ یہ ہے کہ تمام ستارے مشرق سے طلوع ہوتے ہیں جیسا کہ اس کا ذکر آگے آرہا ہے، اس لئے فرمایا : الصافات
6 ﴿إِنَّا زَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِزِينَةٍ الْكَوَاكِبِ وَحِفْظًا مِّن كُلِّ شَيْطَانٍ مَّارِدٍلَّا يَسَّمَّعُونَ إِلَى الْمَلَإِ الْأَعْلَىٰ ﴾ ” ہم نے آسمان دنیا کو ستاروں کی زینت سے آراستہ کیا اور اسے ہر سرکش شیطان سے محفوظ بنا دیا۔ وہ عالم بالا کے فرشتوں کی باتیں سن ہی نہیں سکتے۔“ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان دو عظیم فائدوں کے لئے ستاروں کا ذکر فرمایا ہے۔ (1) آسمانوں کی زینت کے لئے : اگر ستارے نہ ہوتے تو آسمان میں کوئی روشنی نہ ہوتی اور آسمان میں تاریکی چھائی رہتی۔ اللہ تعالیٰ نے آسمان کو ستاروں سے مزین کیا تاکہ وہ اپنے کناروں تک منور رہے اور وہ خوبصورت دکھائی دے اور بحر و بر کی تاریکیوں میں ان کے ذریعے سے راستہ تلاش کیا جائے، نیز اس سے دیگر فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ (2) تمام سرکش شیاطین سے حفاظت کے لئے : جو اپنی سرکشی کی بنا پر ملا اعلیٰ کی سن گن لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ (ملا اَعلیٰ) سے مراد اللہ تعالیٰ کے مقرب فرشتے ہیں۔ الصافات
7 الصافات
8 جب وہ مقرب فرشتوں سے سن گن لینے کی کوشش کرتے ہیں تو ان کو شہاب ثاقب مارے جاتے ہیں۔ ﴿مِن كُلِّ جَانِبٍ﴾ یعنی ہر جانب سے انہیں دھتکارا جاتا ہے اور مقرب فرشتوں کی باتیں سننے سے ان کو دور رکھا جاتا ہے۔ الصافات
9 ﴿وَلَهُمْ عَذَابٌ وَاصِبٌ ﴾ اور اپنے رب کی اطاعت سے سرکشی کی بنا پر ان کے لئے دائمی عذاب تیار کیا گیا ہے۔ الصافات
10 اگر اللہ تعالیٰ نے استثنانہ کیا ہوتا تو یہ آیت اس بات کی دلیل تھی کہ وہ کچھ بھی سن گن لینے پر قادر نہیں، مگر اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿إِلَّا مَنْ خَطِفَ الْخَطْفَةَ ﴾ یعنی سوائے ان سرکش شیاطین کے، جو کوئی ایک آدھ بات سن لینے اور چوری کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں ﴿فَأَتْبَعَهُ شِهَابٌ ثَاقِبٌ﴾ تو اپنے اولیاء تک پہنچنے سے پہلے پہلے شہاب ثاقب انہیں جا لیتا ہے اور آسمان کی خبر منقطع ہوجاتی ہے اور کبھی کبھی شہاب ثاقب کے پہنچنے سے قبل وہ اپنے اولیا کو خبر جا پہنچاتے ہیں تو وہ اس میں سو جھوٹ اپنی طرف سے شامل کرتے ہیں اور اس ایک بات کے سبب جو انہوں نے آسمان سے سنی تھی، اس جھوٹ کو رائج کرتے ہیں۔ الصافات
11 اللہ تعالیٰ نے ان عظیم مخلوقات کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا: ﴿فَاسْتَفْتِهِمْ﴾ اپنے مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے کے انکار کرنے والوں سے پوچھیے ﴿ أَهُمْ أَشَدُّ خَلْقًا﴾ ” کیا ان کا پیدا کرنا مشکل ہے۔“ یعنی ان کی موت کے بعد دوبارہ انہیں زندہ کرنا مشکل اور مشقت والا ہے ﴿ أَم مَّنْ خَلَقْنَا﴾ یا ان مخلوقات کو وجود میں لانا مشکل ہے جن کو ہم نے تخلیق کیا۔ انہیں اقرار کرناپڑے گا کہ آسمانوں اور زمین کی تخلیق، لوگوں کی تخلیق سے زیادہ مشکل ہے۔ تب ان پر حیات بعد الموت کا اقرار لازم آئے گا بلکہ اگر وہ اپنے آپ پر غور کریں تو انہیں معلوم ہوجائے گا کہ چکنی مٹی سے ان کی تخلیق کی ابتدا، موت کے بعد ان کو دوبارہ پیدا کرنے سے زیادہ مشکل ہے، اس لئے فرمایا ﴿إِنَّا خَلَقْنَاهُم مِّن طِينٍ لَّازِبٍ ﴾ ” ہم نے انہیں چپکتے ہوئے گارے سے پیدا کیا۔“ یعنی طاقتور اور سخت مٹی سے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَإٍ مَّسْنُونٍ﴾( الحجر:15؍26) ” ہم نے انسان کو سڑے ہوئے گارے کی کھنکھناتی مٹی سے پیدا کیا۔ “ الصافات
12 ﴿ بَلْ عَجِبْتَ﴾ اے رسول ! یا اے انسان ! آپ کو ان لوگوں کی تکذیب پر تعجب ہے جو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے کو جھٹلاتے ہیں، حالانکہ آپ ان کو بڑی بڑی نشانیاں دکھا چکے ہیں اور ان کے سامنے واضح دلائل پیش کرچکے ہیں۔ حیات بعد الموت ایک حقیقت اور تعجب کا مقام ہے اور یہ ایسی چیز ہے جس کا انکار ممکن نہیں ﴿وَ﴾ ان کے انکار سے زیادہ تعجب والی اور بلیغ بات یہ ہے کہ ﴿یَسْخَرُونَ﴾ ” وہ تمسخر اڑاتے ہیں“ اس شخص کا جو حیات بعد الموت کی خبر لایا ہے۔ انہوں نے صرف حق کے انکار ہی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ انہوں نے حق کے ساتھ تمسخر کا اضافہ کیا۔ الصافات
13 ﴿وَ﴾” اور“ یہ بھی انتہائی تعجب خیز بات ہے کہ ﴿إِذَا ذُكِّرُوا﴾ ” جب انہیں (اس چیز) کی یاددہانی کرائی جاتی ہ‘‘ جسے وہ اپنی عقل و فطرت میں پہچانتے ہیں اور ان کی توجہ اس طرف مبذول کرائی جاتی ہے ﴿ لَا يَذْكُرُونَ﴾ ” تو وہ توجہ نہیں کرتے۔“ اگر یہ جہالت ہے تو یہ ان کی کند ذہنی کی سب سے بڑی دلیل ہے کیونکہ ان کو ایک ایسی چیز کی یاد دہانی کرائی گئی ہے۔ جو ان کی فطرت میں راسخ ہے اور عقل اسے جانتی ہے اور اس میں کوئی اشکال نہیں اور اگر یہ تجاہل اور عناد کی بنا پر ہے تو یہ عجیب تر ہے۔ الصافات
14 نیز یہ بھی تعجب خیز ہے کہ جب ان کے سامنے ایسے دلائل بیان کئے جاتے ہیں اور ایسی نشانیوں کے ذریعے سے یاد دہانی کروائی جاتی ہے جن کے سامنے بڑے بڑے عقل مند لوگوں کی گردنیں جھک جاتی ہیں تو یہ لوگ ان دلائل اور نشانیوں کا تمسخر اڑاتے ہیں اور ان پر تعجب کا اظہار کرتے ہیں۔ الصافات
15 جب ان کے پاس حق آگیا تو حق کے بارے میں ان کا یہ قول بھی تعجب خیز ہے : ﴿إِنْ هَـٰذَا إِلَّا سِحْرٌ مُّبِينٌ﴾ ” یہ تو محض جادو ہے“ الصافات
16 پس انہوں نے اعلیٰ ترین اور جلیل ترین چیز کو خسیس اور حقیر ترین چیز کے مرتبے پر گردانا، نیز ان کی یہ بات بھی نہایت تعجب خیز ہے کہ انہوں نے زمین اور آسمانوں کے رب کی قدرت کو ہر لحاظ سے ناقص آدمی کی قدرت پر قیاس کرلیا، چنانچہ حیات بعدالموت کو بعید سمجھ کر اس کا انکار کرتے ہوئے کہتے ہیں : ﴿أَإِذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا وَعِظَامًا أَإِنَّا لَمَبْعُوثُونَ أَوَآبَاؤُنَا الْأَوَّلُونَ﴾ ” کیا جب ہم مر کر مٹی اور ہڈیوں کا پنجر بن چکے ہوں گے اس وقت ہمیں دوبارہ زندہ کر کے اٹھا کھڑا کیا جائے گا؟ کیا ہمارے پہلے آباؤ اجداد کو بھی دوبارہ زندہ کیا جائے گا؟“ الصافات
17 الصافات
18 جب ان کی غرض وغایت کی یہ انتہا ہے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم دیا کہ وہ ان کو ایسا جواب دیں جو ان کی ترہیب پر مشتمل ہو، چنانچہ فرمایا ﴿قُلْ نَعَمْ﴾ ” کہہ دیجیے : ہاں !“ تمہیں اور تمہارے آباؤ اجداد کو دوبارہ زندہ کر کے اٹھا کھڑا کیا جائے گا ﴿وَأَنتُمْ دَاخِرُونَ﴾ اور تم اس وقت نہایت ذلیل اور بے بس ہو گے، اللہ تعالیٰ کی قدرت کے لئے دشوار ہو گے نہ اس کی نافرمانی کرسکو گے۔ الصافات
19 ﴿فَإِنَّمَا هِيَ زَجْرَةٌ وَاحِدَةٌ﴾ ” وہ تو صرف ایک زور کی آواز ہوگی۔“ یعنی اسرافیل صور پھونکے گا ﴿ فَإِذَا هُمْ﴾ ” تو یکایک وہ“ اپنی قبروں سے اٹھا کھڑے کئے جائیں گے ﴿ يَنظُرُونَ ﴾ ” اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہوں گے۔“ جس طرح ابتدا میں تخلیق کیا گیا تھا، اسی طرح ان کو ان کے تمام اجزا سمیت، ننگے پاؤں، عریاں اور غیر مختون کھڑا کیا جائے گا۔ اس حالت میں وہ سخت ندامت کا اظہار کریں گے، انہیں سخت رسوائی اور خسارے کا سامنا ہوگا۔ الصافات
20 اس وقت وہ اپنی ہلاکت اور موت کو پکاریں گے ﴿قَالُوا يَا وَيْلَنَا هَـٰذَا يَوْمُ الدِّينِ﴾ ” اور کہیں گے : ہائے افسوس ! یہی جزا کا دن ہے۔“ یعنی یہ اعمال کی جزا کے لئے یوم حساب ہے۔ وہ ان تمام چیزوں کا اقرار کریں گے جن کا وہ دنیا میں مذاق اڑایا کرتے تھے۔ ان سے کہا جائے گا: الصافات
21 ﴿ هَـٰذَا يَوْمُ الْفَصْلِ﴾ یعنی یہ رب اور بندے کے درمیان کے حقوق کے بارے میں اور بندوں کے درمیان ان کے آپس کے حقوق کے بارے میں فیصلے کا دن ہے۔ الصافات
22 جب قیامت کے روز وہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں حاضر کئے جائیں گے اور اس چیز کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے جس کی وہ تکذیب کیا کرتے اور اس کا تمسخر اڑایا کرتے تھے، تو ان کو جہنم میں داخل کرنے کا حکم دیا جائے گا، جس کو وہ جھٹلایا کرتے تھے۔ ان کے بارے میں کہا جائے گا : ﴿ احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا﴾ ” جو لوگ ظلم کرتے تھے انہیں جمع کرو۔“ یعنی جنہوں نے کفر، شرک اور معاصی کا ارتکاب کر کے اپنے آپ پر ظلم کیا ﴿وَأَزْوَاجَهُمْ﴾ ” اور ان کے ہم جنسوں کو“ یعنی جن کا عمل ان کے عمل کی جنس سے ہے، ہر شخص کو اس شخص کے ساتھ شامل کردیا جائے گا جو عمل میں اس کا ہم جنس تھا۔ ﴿وَمَا كَانُوا يَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللّٰـهِ ﴾ ” اور جن کی و وہ اللہ کے سوا عبادت کیا کرتے تھے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر جن بتوں اور خود ساختہ ہم سروں کی عبادت کیا کرتے تھے اور جن کو انہوں نے معبود بنا رکھا تھا، جمع کیا جائے گا۔ کہا جائے گا کہ ان سب کو اکٹھا کرو ۔ الصافات
23 ﴿فَاهْدُوهُمْ إِلَىٰ صِرَاطِ الْجَحِيمِ ﴾ اور سختی کے ساتھ ان کو ہانک کر جہنم میں لے جاؤ۔ الصافات
24 ﴿وَ﴾ ” اور“ جب ان کو جہنم میں ڈال دیے جانے کا معاملہ متعین ہوجائے گا اور انہیں بھی معلوم ہوجائے گا کہ وہ جہنم میں جانے والوں میں شامل ہیں تو کہا جائے گا : ﴿قِفُوهُمْ﴾ ” ان کو ٹھہراؤ!“ یعنی جہنم میں ڈالنے سے پہلے ﴿إِنَّهُم مَّسْئُولُونَ﴾ وہ دنیا میں جو افترا پردازی کیا کرتے تھے، اس کے بارے میں ان سے سوال کیا جائے گا تاکہ ان کا جھوٹ اور رسوائی سرعام ظاہر ہوجائے۔ ان سے کہا جائے گا : الصافات
25 ﴿مَا لَكُمْ لَا تَنَاصَرُونَ﴾ یعنی آج تمہارے ساتھ کیا ہوا؟ تم پر یہ کیا مصیبت آن پڑی کہ تم ایک دوسرے کی مدد نہیں کرسکتے، حالانکہ تم تو دنیا میں اس زعم باطل میں مبتلا تھے کہ تمہارے معبود تم سے عذاب کو دور کردیں گے، تمہاری مدد کریں گے یا اللہ کے ہاں تمہاری سفارش کریں گے؟ تو گویا وہ اس سوال کا جواب نہیں دیں گے کیونکہ ان پر ذلت اور بے چارگی چھائی ہوئی ہوگی اور وہ اپنے آپ کو جہنم کے عذاب کے حوالے کر رہے ہوں گے، وہ ڈرے ہوئے اور مایوس ہوں گے اور بول نہیں سکیں گے۔ الصافات
26 اس لئے فرمایا ﴿ بَلْ هُمُ الْيَوْمَ مُسْتَسْلِمُونَ﴾ ” بلکہ وہ (سب کے سب) آج فرماں بردار بن گئے۔ “ الصافات
27 جب مشرکین، ان کی مشرک بیویوں اور ان کے معبودوں کو اکٹھا کر کے جہنم کے راستوں پر ہانک دیا جائے گا، پھر ان کو روک کر ان سے سوال کیا جائے گا، مگر وہ جواب نہ دے سکیں گے تو وہ آپس میں ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہوں گے خود اپنی گمراہی اور دوسروں کو گمراہ کرنے پر ایک دوسرے کو ملامت کریں گے۔ الصافات
28 متبعین اپنے رؤسا سے کہیں گے : ﴿إِنَّكُمْ كُنتُمْ تَأْتُونَنَا عَنِ الْيَمِينِ﴾ ” تمہیں ہمارے پاس دائیں طرف سے آتے تھے۔“ یعنی تم نے قوت اور جبر کے ساتھ ہمیں گمراہ کیا، اگر تم نہ ہوتے تو ہم ایمان لے آتے۔ الصافات
29 ﴿قَالُوا﴾ سردار ان کو جواب دیں گے : ﴿بَل لَّمْ تَكُونُوا مُؤْمِنِينَ﴾ ” بلکہ تم خود ایمان والے نہیں تھے۔“ جس طرح ہم مشرک تھے اسی طرح تم بھی شرک کرتے رہے۔ تمہیں ہم پر کون سی فضیلت حاصل ہے جو ہمیں ملامت کرنے کی موجب ہو۔ الصافات
30 ﴿وَ﴾ ” اور“ حالت یہ ہے کہ ﴿مَا كَانَ لَنَا عَلَيْكُم مِّن سُلْطَانٍ﴾ ” ہمیں تم سے کفر کا ارتکاب کرانے کی کوئی قوت اور اختیار حاصل نہ تھا ﴿بَلْ كُنتُمْ قَوْمًا طَاغِينَ ﴾ ” بلکہ تم سرکش لوگ تھے“ اور حدود سے تجاوز کرنے والے لوگ تھے۔ الصافات
31 ﴿فَحَقَّ عَلَيْنَا﴾ ” پس ہم پر واجب ہوگیا“ یعنی تم پر اور ہم پر کہ ﴿إِنَّا لَذَائِقُونَ﴾’’یقیناً ہم چکھیں گے“ عذاب۔ یعنی ہم پر ہمارے رب کی قضاء و قدر حق ثابت ہوئی۔ ہم اور تم سب عذاب کا مزا چکھیں گے اور سب مل کر سزا بھگتیں گے۔ الصافات
32 بنا بریں ﴿ فَأَغْوَيْنَاكُمْ إِنَّا كُنَّا غَاوِينَ﴾ ” پس ہم نے تم کو گمراہ کیا اور ہم خود بھی گمراہ تھے۔“ یعنی ہم نے تمہیں اس راستے کی طرف بلایا جس پر ہم گامزن تھے، یعنی گمراہی کے راستے کی طرف، تم نے ہماری آواز پر لبیک کہی، اس لئے تم ہمیں ملامت کا نشانہ بنانے کے بجائے اپنے آپ کو ملامت کرو۔ الصافات
33 اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿فَإِنَّهُمْ يَوْمَئِذٍ﴾’’پس وہ اس روز“ یعنی قیامت کے روز ﴿ فِي الْعَذَابِ مُشْتَرِكُونَ ﴾ ” عذاب میں ایک دوسرے کے شریک ہوں گے۔“ اگرچہ جرم کے مطابق، عذاب کی مقدار میں فرق ہوگا۔ وہ جہنم کا عذاب بھگتنے میں اسی طرح شریک ہوں گے جس طرح وہ دنیا میں کفر کرنے میں ایک دوسرے کے شریک تھے۔ الصافات
34 ﴿إِنَّا كَذٰلِكَ نَفْعَلُ بِالْمُجْرِمِينَ﴾ ” بے شک ہم مجرموں کو اسی طرح سزا دیا کرتے ہیں۔“ پھر اس بات کا تذکرہ کیا کہ ان کے جرائم تمام حدیں پھلانگ گئے تھے، اس لئے فرمایا: الصافات
35 ﴿ إِنَّهُمْ كَانُوا إِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا اللّٰـهُ﴾ ”بے شک یہ وہ لوگ ہیں کہ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔“ انہیں اس کلمے کی طرف بلایا جاتا اور انہیں اللہ کے علاوہ دوسرے معبودوں کو چھوڑنے کا کہا جاتا تو ﴿يَسْتَكْبِرُونَ﴾ وہ اس دعوت اور اس کو پیش کرنے والے کے ساتھ تکبر سے پیش آتے تھے۔ الصافات
36 ﴿ وَيَقُولُونَ﴾ اور اس کلمہ حق کی مخالفت کرتے ہوئے کہتے تھے : ﴿أَئِنَّا لَتَارِكُو آلِهَتِنَا﴾ ” کیا ہم اپنے معبودوں کو چھوڑ دیں“ جن کی ہم اور ہمارے آباؤ اجداد عبادت کرتے رہے ہیں ﴿لِشَاعِرٍ مَّجْنُونٍ﴾ ” ایک مجنون شاعر کی وجہ سے۔“ اس سے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مراد لیتے تھے۔۔۔ اللہ ان کا برا کرے۔۔۔ انہوں نے صرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روگردانی اور مجرد آپ کی تکذیب ہی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اس پر مستزاد یہ کہ انہوں نے آپ پر بدترین حکم لگایا جو سب سے بڑے ظلم پر مبنی ہے۔ انہوں نے آپ کو مجنون شاعر قرار دیا، حالانکہ انہیں خوب علم تھا کہ آپ شاعری جانتے ہیں نہ شعرا سے کوئی واسطہ رکھتے ہیں اور نہ ان کی طرح شاعری کے کبھی اوصاف بیان کئے ہیں اور انہیں یہ بھی علم ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سب سے زیادہ عقل مند اور سب سے زیادہ عظیم رائے کے حامل ہیں۔ الصافات
37 بنابریں اللہ تعالیٰ نے ان کے قول کی تردید کرتے ہوئے فرمایا : ﴿بَلْ جَاءَ﴾ ” بلکہ وہ آئے“ یعنی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ﴿ بِالْحَقِّ﴾ ”حق کے ساتھ“ یعنی آپ کی تشریف آوری حق ہے اور جو شریعت اور کتاب آپ لے کر آئے وہ بھی حق ہے ﴿وَصَدَّقَ الْمُرْسَلِينَ ﴾ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری سے رسولوں کی تصدیق ہوتی ہے۔ اگر آپ تشریف نہ لاتے تو رسولوں کی تصدیق نہ ہوتی۔ پس آپ گزشتہ تمام انبیاء و مرسلین کا معجزہ ہیں، کیونکہ تمام انبیاء و مرسلین نے آپ کے آنے کی بشارت دی۔ اللہ تعالیٰ نے ان سے عہد لیا کہ اگر آپ ان کے زمانے میں مبعوث ہوئے تو وہ ضرور آپ پر ایمان لائیں گے اور آپ کی مدد کریں گے اور تمام انبیاء و مرسلین نے اپنی اپنی امتوں سے بھی یہی عہد لیا۔ آپ کے ظہور کے ساتھ گزشتہ انبیاء کی صداقت ظاہر ہوگئی اور ان لوگوں کا کذب واضح ہوگیا جنہوں نے انبیاء کی مخالفت کی تھی۔ اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ آپ تشریف نہیں لائے۔۔۔ درآنحالیکہ کہ انبیاء و مرسلین آپ کی خبر دے چکے ہیں۔۔۔ تو یہ چیز انبیاء کی صداقت میں قادح ہوتی۔ آپ نے اس اعتبار سے بھی انبیاء و مرسلین کی تصدیق کی ہے کہ آپ وہی کچھ لے کر مبعوث ہوئے جس کے ساتھ دیگر انبیاء مبعوث ہوئے، آپ نے بھی اسی چیز کی طرف دعوت دی جس کی طرف دیگر انبیاء دعوت دیتے چلے آئے ہیں۔ آپ ان کی رسالت پر ایمان لائے، ان کی رسالت و نبوت اور ان کی شریعت کی صداقت کی خبر دی۔ الصافات
38 چونکہ گزشتہ آیات میں ان کا قول : ﴿إِنَّا لَذَائِقُونَ﴾ ” بے شک ہم چکھیں گے“ گزر چکا ہے اور اس قول میں صدق اور کذب دونوں کا احتمال موجود ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے ایسے فیصلہ کن قول سے آگاہ فرمایا جس میں صدق اور یقین کے سوا کوئی احتمال نہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے سچی خبر ہے۔ فرمایا: ﴿إِنَّكُمْ لَذَائِقُو الْعَذَابِ الْأَلِيمِ﴾ ” بے شک تم درد ناک عذاب کا مزا چکھنے والے ہو۔“ یعنی سخت درد ناک عذاب۔ الصافات
39 ﴿وَمَا تُجْزَوْنَ﴾ ” اور تمہیں جزا نہیں دی گئی۔“ یعنی درد ناک عذاب کا مزا چکھانے میں ﴿إِلَّا مَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ﴾ ” مگر اسی کی جو تم کرتے تھے۔“ ہم نے تم پر ظلم نہیں کیا بلکہ تمہارے ساتھ انصاف کیا ہے۔ چونکہ اس خطاب کے الفاظ عام ہیں اور مراد مشرکین ہیں، اس لئے اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو مستثنیٰ کرتے ہوئے فرمایا : الصافات
40 ﴿ إِلَّا عِبَادَ اللّٰـهِ الْمُخْلَصِينَ﴾ ” مگر اللہ تعالیٰ کے خالص برگزیدہ بندے“ بے شک وہ درد ناک عذاب کا مزا نہیں چکھیں گے کیونکہ انہوں نے اپنے اعمال کو اللہ تعالیٰ کے لئے خالص کیا۔ پس اللہ تعالیٰ نے بھی ان کو اپنے لیے خالص کرلیا ان کو اپنی رحمت کے لئے مختص کیا اور انہیں اپنے لطف و کرم سے نوازا۔ الصافات
41 ﴿أُولَـٰئِكَ لَهُمْ رِزْقٌ مَّعْلُومٌ﴾ ” یہی لوگ ہیں جن کے لئے رزق معلوم ہے۔‘‘ یعنی یہ غیر مجہول رزق ہوگا۔ یہ رزق بہت عظیم اور جلیل القدر ہوگا، جس کے معاملے سے جاہل رہا جاسکتا ہے نہ اس کی کنہ کو پہنچا جاسکتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ نے اس کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا : الصافات
42 ﴿فَوَاكِهُ﴾ یعنی تمام اقسام کے پھل ہوں گے، جن سے نفس لذت حاصل کریں گے، جو اپنے رنگ اور ذائقے میں نہایت مزے دار ہوں گے ﴿ وَهُم مُّكْرَمُونَ ﴾ یعنی ان کی اہانت کی جائے گی نہ ان سے حقارت سے پیش آیا جائے گا بلکہ ان کی عزت، تعظیم اور توقیر کی جائے گی۔ وہ ایک دوسرے کی تکریم کریں گے، مکرم فرشتے ان کی تکریم کریں گے، وہ جنت کے ہر دروازے سے داخل ہوں گے اور بہترین ثواب کے ذریعے سے ان کو خوش آمدید کہا جائے گا۔ سب سے معزز اور باوقار ہستی انہیں اکرام بخشے گی اور انہیں انواع و اقسام کی تکریم سے نوازے گی جس میں قلب و روح اور بدن کے لئے نعمت ہوگی۔ الصافات
43 ﴿فِي جَنَّاتِ النَّعِيمِ﴾ ” نعمت کے باغوں میں“ یعنی وہ جنتیں جو نعمت اور سرور سے متصف ہیں، کیونکہ ان جنتوں میں ایسی ایسی نعمتیں جمع ہیں جو کسی آنکھ نے دیکھی ہیں نہ کسی کان نے سنی ہیں اور نہ کسی بشر کے حاشیہ میں ان کا گزر ہوا ہے۔ وہ خلل انداز ہونے والے ہر قسم کے تکدر سے سلامت ہوں گے۔ ان کے رب کے ہاں ان کی سب سے بڑی تکریم یہ ہوگی کہ وہ ایک دوسرے کا اکرام کریں گے۔ الصافات
44 بے شک وہ ﴿سُرُرٍ ﴾ ” تختوں“ پر ہوں گے۔ یہ بلند بیٹھنے کی جگہیں ہوں گی جو خوبصورت اور منقش کپڑوں سے آراستہ کی گئی ہوں گی، اہل ایمان راحت، اطمینان اور فرحت کے ساتھ وہاں تکیے لگا کر بیٹھیں گے ﴿مُّتَقَابِلِينَ﴾ ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہوں گے۔“ ان کے دل ہر قسم کی کدورت سے پاک ہوں گے ان کی آپس کی محبت پاک ہوگی اور وہ اس اجتماع پر آپس میں خوش ہوں گے کیونکہ چہروں کا ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہونا، دلوں کے ایک دوسرے کے سامنے ہونے اور ایک دوسرے کا ادب کرنے پر دلالت کرتا ہے۔ وہ ایک دوسرے سے پیٹھ پھیریں گے نہ پہلو تہی کریں گے بلکہ وہاں کامل ادب اور سرور ہوگا جس پر چہروں کا ایک دوسرے کے سامنے ہونا دلالت کرتا ہے۔ الصافات
45 ﴿يُطَافُ عَلَيْهِم بِكَأْسٍ مِّن مَّعِينٍ﴾ چاق چوبند اور مستعد لڑکے ان کی خدمت میں خوبصورت جاموں میں مشک کے ساتھ مہر شدہ لذیذ مشروبات لئے آجا رہے ہوں گے، یہ جام، شراب کے ہوں گے۔ یہ شراب ہر لحاظ سے دنیا کی شراب سے مختلف ہوگی۔ الصافات
46 اس کا رنگ ﴿بَيْضَاءَ ﴾ ” سفید‘‘ اور بہترین رنگ ہوگا، اس کے ذائقے میں ﴿لَذَّةٍ لِّلشَّارِبِينَ﴾ ” پینے والوں کے لئے لذت ہوگی۔“ اہل جنت پیتے وقت اور پینے کے بعد لذت محسوس کریں گے۔ الصافات
47 یہ شراب ہر قسم کے برے اثرات سے پاک ہوگی اس سے ان کی عقل خراب ہو گی نہ مال خراب ہوگا اور اس سے سر چکرائے گا نہ طبیعت مکدر ہوگی۔ الصافات
48 اللہ تبارک و تعالیٰ نے اہل جنت کے مطعومات و مشروبات، ان کی مجالس، دیگر عام نعمتوں اور ان کی تفاصیل کا ذکر فرمایا جو اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿جَنَّاتِ النَّعِيمِ﴾ کے عموم کے تحت آتی ہیں۔ ان کی تفصیل اس لئے بیان فرمائی تاکہ نفوس کو ان کا علم حاصل ہو اور ان کے اندر ان نعمتوں کا اشتیاق پیدا ہو۔ اس کے بعد ان کی بیویوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا :﴿ وَعِندَهُمْ قَاصِرَاتُ الطَّرْفِ عِينٌ﴾ ” اور ان کے پاس عورتیں ہوں گی جو نیچی نگاہوں والی اور موٹی آنکھوں والی ہوں گی۔“ یعنی اہل جنت کے پاس ان کے قریبی محلات میں خوبصورت حوریں ہوں گی، جو کامل اوصاف کی حامل اور نظریں جھکائے ہوئے ہوں گی۔ بیویاں یا تو اپنی عفت اور اپنے شوہر کے حسن و جمال اور اس کے کمال کی وجہ سے کسی اور طرف نہ دیکھیں گی اس لئے کہ جنت میں ان کے شوہر کے سوا ان کا کوئی اور مطلوب ہوگا نہ کسی اور میں رغبت رکھیں گی۔۔۔ یا ان کے شوہروں کی نگاہیں صرف انہی پر مرتکز ہوں گی۔ یہ چیز ان کے کامل اور بے انتہا حسن و جمال پر دلالت کرتی ہے جو اس بات کی موجب ہیں کہ ان کے شوہروں کی نگاہیں انھی پر مرتکز رہیں، نیز نگاہوں کا ان پر مرکوز ہونا، نفس کے صرف انھی پر اقتصار کرنے اور ان کے ساتھ محبت پر دلالت کرتا ہے۔ آیت کریمہ میں ان دونوں معنوں کا احتمال ہے اور دونوں صحیح ہیں۔ دونوں معنی جنت میں مردوں اور عورتوں کے حسن و جمال اور ان کی ایسی باہمی محبت پر دلالت کرتے ہیں جس میں غیر کی محبت کا شائبہ نہیں ہوتا۔ یہ اہل جنت کی عفت کی دلیل ہے، نیز اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ اہل جنت میں باہمی بغض اور حسد نہیں ہوگا کیونکہ اس کے تمام اسباب ختم کردیئے جائیں گے۔ الصافات
49 ﴿ عِينٌ ﴾ یعنی وہ خوبصورت آنکھوں اور خوبصورت نگاہوں والی ہوں گی ﴿ كَأَنَّهُنَّ﴾ ” گویا کہ وہ“ یعنی حوریں ﴿بَيْضٌ مَّكْنُونٌ ﴾ ” چھپائے ہوئے انڈے ہیں“ یہ تشبیہ ان کے حسن، ان کے رنگ کی بے انتہا خوبصورتی اور اس کی تازگی کی بنا پر دی گئی ہے، اس میں کسی قسم کی کدورت اور میلا پن نہ ہوگا۔ الصافات
50 اس آیت کی تفسیر اگلی آیت کے ساتھ ملاحظہ کیجئے۔ الصافات
51 اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کو عطا کی جانے والی نعمتوں، کامل مسرتوں، ماکولات و مشروبات، خوبصورت بیویوں اور خوش نما مجالس کا ذکر کرنے کے بعد ان میں آپس کی بات چیت اور ایک دوسرے کو ماضی کے واقعات وا حوال سنانے کا ذکر کیا، نیز یہ کہ وہ ایک دوسرے سے بات چیت کرتے رہیں گے حتیٰ کہ ان میں سے ایک شخص کہے گا : ﴿ إِنِّي كَانَ لِي قَرِينٌ﴾ ” دنیا میں میرا ایک ساتھی تھا“ جو قیامت کا منکر تھا اور مجھے اس بات پر ملامت کیا کرتا تھا کہ میں قیامت پر ایمان رکھتا ہوں۔ الصافات
52 الصافات
53 اور ﴿قَالَ﴾ ” وہ کہا کرتا تھا“ مجھ سے : ﴿ أَإِنَّكَ لَمِنَ الْمُصَدِّقِينَ أَإِذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا وَعِظَامًا أَإِنَّا لَمَدِينُونَ ﴾ یعنی کیا ہمیں ہمارے اعمال کی جزاو سزا دی جائے گی؟ یعنی تم اس امر محال کی کیسے تصدیق کرتے ہو جو انتہائی تعجب خیز معاملہ ہے؟ جب ہم مرنے کے بعد بکھر جائیں گے، مٹی ہوجائیں گے اور ہڈیوں کا پنجر بن جائیں گے، کیا اس وقت بھی ہمارا حساب کتاب ہوگا اور ہمیں ہمارے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا؟ صاحب جنت اپنے برادران جنت سے کہے گا ” یہ ہے میرا قصہ اور یہ ہے میرا اور میرے ساتھی کا معاملہ‘‘ میں ایمان پر قائم رہا اور روز قیامت کی تصدیق کرتا رہا اور وہ کفر و انکار پر جما رہا اور قیامت کو جھٹلاتا رہا، یہاں تک کہ موت نے ہمیں آلیا، پھر اس کے بعد ہمیں زندہ کیا گیا، پھر ان نعمتوں تک پہنچا جو تم دیکھ رہے ہو جن کے بارے میں رسولوں نے خبر دی تھی اور مجھے اس میں ذرہ بھر شک نہیں کہ میرا ساتھی عذاب میں مبتلا ہے۔ الصافات
54 ﴿ قَالَ هَلْ أَنتُم مُّطَّلِعُونَ﴾ ” کیا تم اسے دیکھنا چاہتے ہو“ تاکہ ہم اسے دیکھ لیں اور ہم جس نعمت و سرور میں ہیں اس میں اضافہ ہو اور یہ آنکھوں دیکھی حقیقت بن جائے۔ اہل جنت کے احوال، ان کے ایک دوسرے سے خوش ہونے اور ایک دوسرے کی موافقت سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اس کی دعوت کو قبول کرلیں گے اور وہ اس کے ساتھ اس کے کافر ہم نشین کا حال دیکھنے جائیں گے ﴿فَاطَّلَعَ﴾ یعنی وہ اپنے ساتھی اور ہم نشین کو دیکھے گا۔ الصافات
55 ﴿فِي سَوَاءِ الْجَحِيمِ ﴾ جہنم کے عین وسط میں اور عذاب نے اس کو گھیر رکھا ہوگا ﴿وَلَوْلَا نِعْمَةُ رَبِّي﴾ ” اور اگر میرے رب نے اسلام پر ثابت قدمی کی نعمت سے نہ نوازا ہوتا‘‘ ﴿ لَكُنتُ مِنَ الْمُحْضَرِينَ﴾ ” تو میں بھی(تمہارے ساتھ عذاب میں) حاضر کئے گئے لوگوں میں سے ہوتا۔ “ الصافات
56 ﴿ قَالَ﴾ یعنی یہ صاحب جنت اس کافر ہم نشین کو ملامت اور اللہ کا شکر کرتے ہوئے کہ اس نے اسے اس کافر کے فریب سے بچایا۔۔۔ کہے گا: ﴿ تَاللّٰـهِ إِن كِدتَّ لَتُرْدِينِ﴾ اللہ کی قسم ! تو نے تو مجھے اپنے مزعومہ شبہات کا شکار کر کے ہلاک ہی کر ڈالا تھا الصافات
57 ﴿كِدْتَ لَتُرْدِيْنِ﴾اللہ کی قسم! تو نے تو مجھے اپنے مزعومہ شبہات کا شکار کر کے ہلاک کر ہی ڈالا تھا الصافات
58 ﴿ وَ لَوْ لَا نِعْمَةُ رَبِّيْ﴾اور اگر میرے رب نے اسلام پر ثابت قدمی کی نعمت سے نہ نوازا ہوتا﴿لَكُنْتُ مِنَ الْمُحْضَرِيْنَ﴾’’تو میں بھی (تمھارے ساتھ عذاب میں) حاضر کیے گئے لوگوں میں سے ہوتا۔‘‘ الصافات
59 ﴿أَفَمَا نَحْنُ بِمَيِّتِينَ إِلَّا مَوْتَتَنَا الْأُولَىٰ وَمَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِينَ﴾ ” کیا ہم (آئندہ بھی)نہیں مریں گے؟ ہاں (جو) پہلی بار مرناتھا (سو مر چکے)اور ہمیں عذاب بھی نہیں ہوگا۔“ یعنی مومن اس کافر سے نعمت کے بارے میں جو خلود جنت اور جہنم کے عذاب سے نجات کی صورت میں حاصل ہوئی ہے، پوچھے گا۔ یہ استفہام اثبات اور تقریر کے معنی میں ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿ فَأَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ يَتَسَاءَلُونَ﴾ میں معمول کا حذف ہونا اور مقام لذت و سرور ہونا دلالت کرتا ہے کہ وہ ہر اس چیز کے بارے میں ایک دوسرے سے پوچھیں گے جس کے ذکر سے انہیں لذت حاصل ہوتی ہے اور ان مسائل کے بارے میں سوال کریں گے جن میں نزاع اور اشکال واقع ہوا ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ اہل علم کو علمی مسائل میں ایک دوسرے سے سوال کر کے تحقیق و بحث کے ذریعے سے جو لذت حاصل ہوتی ہے، وہ اس لذت پر فوقیت رکھتی ہے جو دنیاوی باتوں سے حاصل ہوتی ہے، اس لئے ان کو بحث و تحقیق کے ان مسائل سے بہرہ و افر نصیب ہوگا اور جنت میں ان پر ایسے ایسے حقائق کا انکشاف ہوگا جن کی تعبیر ممکن نہیں۔ الصافات
60 اللہ تبارک و تعالیٰ نے جنت کی نعمتوں کا ذکر کرنے اور ان کو متذکرہ بالا اوصاف سے موصوف کرنے کے بعد، ان کی مدح فرمائی ہے اور اہل علم میں اس جنت کا شوق ابھارا اور اس کے حصول کے لئے ان کو عمل پر آمادہ کیا ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿إِنَّ هَـٰذَا لَهُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ﴾ ” بے شک یہ البتہ بہت بڑی کامیابی ہے۔“ جس کے ذریعے سے ہر وہ بھلائی حاصل ہوتی ہے جسے نفوس چاہتے ہیں اور ہر چیز دور ہوتی ہے جس کو نفوس ناپسند کرتے ہیں۔ کیا اس سے بڑھ کر کوئی اور کامیابی مطلوب ہوسکتی ہے؟ یا یہ سب سے بڑا مطلوب و مقصود ہے جہاں رب ارض و سما کی رضا نازل ہوتی ہے، جہاں اہل ایمان اس کے قرب سے فرحت، اس کی معرفت سے لذت، اس کے دیدار سے مسرت اور اس سے ہم کلام ہو کر طرب و راحت حاصل کریں گے۔ الصافات
61 ﴿لِمِثْلِ هَـٰذَا فَلْيَعْمَلِ الْعَامِلُونَ﴾ ” ایسی ہی کامیابی کے لئے عمل کرنے والوں کو عمل کرنا چاہئے۔“ یہی مطلوب و مقصود سب سے زیادہ مستحق ہے کہ اس کے لئے زندگی کے بہترین سانس صرف کئے جائیں اور سب سے زیادہ اس لائق ہے کہ عقل مند اصحاب معرفت اس کے لئے جدوجہد کریں۔ نہایت افسوس اور حسرت کا مقام ہے کہ دور اندیش آدمی کے اوقات میں کوئی ایسا وقت گزرے جس میں وہ ایسے عمل میں مشغول نہ ہو جو اسے اس منزل مقصود تک پہنچاتا ہے، تب اس کا کیا حال ہے جو اپنے گناہوں کے ذریعے سے ہلاکت کے گڑھے میں گرتا ہے۔ الصافات
62 ﴿ أَذٰلِكَ خَيْرٌ﴾ اہل جنت کو عطا کی جانے والی نعمتیں بہترین ہیں جن کا ہم نے وصف بیان کیا ہے، یا جہنم میں دیئے جانے والے عذاب کی وہ تمام اصناف؟ کون سا کھانا اچھا ہے؟ جنت میں جس کھانے کا ذکر کیا گیا ہے وہ بہتر ہے ﴿ أَمْ﴾ ” یا“ جہنمیوں کا کھانا؟ اور وہ ﴿شَجَرَةُ الزَّقُّومِ إِنَّا جَعَلْنَاهَا فِتْنَةً ﴾ ” زقوم کا درخت ہے ہم نے اسے ” فتنہ“ بنا رکھا ہے“ یعنی عذاب اور سزا ۔﴿لِّلظَّالِمِينَ﴾ ” واسطے ظالموں کے“ یعنی جنہوں نے کفر اور معاصی کا ارتکاب کر کے اپنے آپ پر ظلم کیا۔ الصافات
63 الصافات
64 ﴿إِنَّهَا شَجَرَةٌ تَخْرُجُ فِي أَصْلِ الْجَحِيمِ﴾ ” بے شک وہ ایک درخت ہے کہ جہنم کی جڑ سے نکلتا ہے۔“ جہنم کا عین وسط اس کا مخرج ہے اور اس کے نکلنے کی جگہ بدترین جگہ ہے۔ پودا اگنے کی بدترین جگہ پودے کی خساست اور اس کے بدترین اوصاف پر دلالت کرتی ہے، بنا بریں اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس جگہ کا ذکر کر کے جہاں یہ پودا اگتا ہے اور اس کے پھل کا وصف بیان کر کے ہمیں اس کی برائی سے آگاہ فرمایا ہے۔ الصافات
65 بے شک اس کا پھل ﴿ رُءُوسُ الشَّيَاطِينِ﴾ ” شیطانوں کے سر“ کے مانند ہے۔ پس اس کے ذائقے کے بارے میں مت پوچھ کہ یہ جہنمیوں کے پیٹ میں جا کر کیا کرے گا۔ وہ اس سے بچ سکیں گے نہ جان چھڑا سکیں گے۔ الصافات
66 اس لئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿فَإِنَّهُمْ لَآكِلُونَ مِنْهَا فَمَالِئُونَ مِنْهَا الْبُطُونَ﴾ ” پس وہ اسی سے کھائیں گے اور اسی سے پیٹ بھریں گے۔“ یہ اہل جہنم کا کھانا ہے اور کتنا بدترین کھانا ہے۔ الصافات
67 پھر اللہ تعالیٰ نے ان کے مشروب کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا :﴿ ثُمَّ إِنَّ لَهُمْ عَلَيْهَا﴾ ’’پھر بلاشبہ ان کے لئے ہوگا اس کے بعد“ یعنی اس بدترین کھانے کے بعد ﴿ لَشَوْبًا مِّنْ حَمِيمٍ﴾ گرم پانی، جس کی حرارت انتہا کو پہنچی ہوئی ہوگی جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ﴿وَإِن يَسْتَغِيثُوا يُغَاثُوا بِمَاءٍ كَالْمُهْلِ يَشْوِي الْوُجُوهَ بِئْسَ الشَّرَابُ وَسَاءَتْ مُرْتَفَقًا﴾ (الکہف:18؍29) ” اور اگر وہ پانی طلب کریں گے تو ان کو ایسا پانی پلایا جائے گا جو تلچھٹ جیسا ہوگا جو ان کے منہ کو بھون کر رکھ دے گا۔ یہ بدترین مشروب اور نہایت بری آرام گاہ ہے۔“ اور جیسا کہ فرمایا کہ : ﴿وَسُقُوا مَاءً حَمِيمًا فَقَطَّعَ أَمْعَاءَهُمْ﴾(محمد:47؍15) ” اور ان کو کھولتا ہوا پانی پلایا جائے گا جو ان کی انتڑیوں کو کاٹ ڈالے گا۔“ الصافات
68 ﴿ثُمَّ إِنَّ مَرْجِعَهُمْ﴾ ” پھر ان کا لوٹنا“ یعنی ان کی منزل اور ٹھکانا ﴿لَإِلَى الْجَحِيمِ ﴾ ” جہنم کی طرف ہوگا“ تاکہ وہ اس کے شدید عذاب اور سخت ترین حرارت کا مزا چکھیں جس سے بڑھ کر کوئی بدبختی نہیں۔ الصافات
69 گویا یہ کہا گیا کہ کس چیز نے ان لوگوں کو جہنم میں پہنچایا؟ تو فرمایا : ﴿إِنَّهُمْ أَلْفَوْا﴾ یعنی انہوں نے پایا ﴿آبَاءَهُمْ ضَالِّينَ فَهُمْ عَلَىٰ آثَارِهِمْ يُهْرَعُونَ﴾ ” اپنے باپ دادا کو بہکا ہوا، پس وہ انہی کے پیچھے دوڑے چلے جاتے ہیں۔“ یعنی گمراہی میں تیزی سے دوڑے چلے جا رہے تھے۔ انہوں نے اس طرف التفات نہ کیا جس طرف انبیاء و مرسلین نے ان کو بلایا، نہ انہوں نے اس چیز کی طرف توجہ کی جس سے کتب الٰہیہ نے ان کو ڈرایا اور نہ انہوں نے خیر خواہی کرنے والوں کی خیر خواہی کو درخوراعتنا سمجھا بلکہ اس کے برعکس انہوں نے یہ کہتے ہوئے ان کی مخالفت کی : ﴿إِنَّا وَجَدْنَا آبَاءَنَا عَلَىٰ أُمَّةٍ وَإِنَّا عَلَىٰ آثَارِهِم مُّقْتَدُونَ ﴾(الزخرف:43؍23) ” بے شک ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک طریقے پر پایا اور ہم انھی کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔“ الصافات
70 الصافات
71 ﴿ وَلَقَدْ ضَلَّ قَبْلَهُمْ ﴾ ” اور ان سے پیشتر بھی گمراہ ہوگئے“ یعنی ان مخاطبین سے پہلے ﴿أَكْثَرُ الْأَوَّلِينَ ﴾ ” بہت سے پہلے“ یعنی ان میں سے بہت کم لوگ تھے جو ایمان لائے اور انہوں نے راہ راست اختیار کی۔ الصافات
72 ﴿وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا فِيهِم مُّنذِرِينَ﴾ ” اور ہم نے ان میں متنبہ کرنے والے بھیجے۔“ جو ان کو ان کی بے راہ روی اور گمراہی سے ڈراتے تھے۔ الصافات
73 ﴿فَانظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُنذَرِينَ﴾ ” پس دیکھ لو کہ جن کو متنبہ کیا گیا تھا ان کا انجام کیا ہوا؟“ ان کا انجام ہلاکت، رسوائی اور فضیحت کے سوا کچھ نہ تھا۔ الصافات
74 اس لئے ان مشرکین کو اپنی گمراہی پر جمے رہنے سے بچنا چاہئے، ورنہ انھیں بھی اس عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا جس کا سامنا ان لوگوں کو کرنا پڑا۔ چونکہ جن لوگوں کو ڈرایا گیا تھا، وہ سب کے سب گمراہ نہ تھے، ان میں کچھ ایسے بھی تھے جو اہل ایمان تھے، جن کا دین اللہ تعالیٰ کے لئے خالص تھا، اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو عذاب اور ہلاکت سے مستثنیٰ کرتے ہوئے فرمایا : ﴿إِلَّا عِبَادَ اللّٰـهِ الْمُخْلَصِينَ ﴾ ” سوائے اللہ کے برگزیدہ بندوں کے“ یعنی جن کو اللہ تعالیٰ نے اخلاص کا حامل بنایا اور ان کو ان کے اخلاص کے سبب سے، اپنی رحمت کے لئے مختص کیا۔ تب ان کا انجام قابل ستائش ہوا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے جھٹلانے والی قوموں کے انجام کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : الصافات
75 اللہ تعالیٰ اپنے بندے اور اولین رسول، حضرت نوح علیہ السلام کے بارے میں آگاہ کرتا ہے کہ وہ ایک طویل عرصے تک اپنی قوم کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دیتے رہے، مگر ان کی دعوت نے اس سے زیادہ کچھ نہ کیا کہ لوگ اس دعوت سے دور بھاگتے رہے۔ تب حضرت نوح علیہ السلام نے اپنے رب کو پکارتے ہوئے دعا کی : ﴿رَّبِّ لَا تَذَرْ عَلَى الْأَرْضِ مِنَ الْكَافِرِينَ دَيَّارًا ﴾(نوح:71؍26) ” اے میرے رب ! زمین پر کوئی کافر بستا نہ چھوڑ“ اور فرمایا ﴿رَبِّ انصُرْنِي بِمَا كَذَّبُونِ﴾ (المؤمنون:23؍26)” اے میرے رب ! ان کے جھٹلانے پر تو میری مدد فرما۔ “ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کی دعا قبول فرمائی اور اپنی مدح و ثنا بیان کرتے ہوئے فرمایا : ﴿فَلَنِعْمَ الْمُجِيبُونَ﴾ ہم پکارنے والے کی پکار اور اس کی آہ و زاری کو سنتے ہیں اور خوب جواب دیتے ہیں، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے نوح کی دعا قبول فرمائی۔ یہ قبولیت نوح کی درخواست سے مطابقت رکھتی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے نوح اور آپ کے گھر والوں کو اس کرب عظیم سے نجات دی اور تمام کفار کو سیلاب میں غرق کردیا۔ آپ کی نسل اور اولاد کو تسلسل سے باقی رکھا، چنانچہ تمام انسان حضرت نوح علیہ السلام کی نسل سے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قیامت تک کے لئے آپ کو دائمی ثنائے حسن سے سرفراز فرمایا، کیونکہ آپ نے نہایت احسن طریقے سے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی اور مخلوق کے ساتھ احسان کیا اور محسنین کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی یہی سنت ہے۔ اللہ تعالیٰ محسنین کے احسان کے مطابق دنیا میں ان کی ثنائے حسن کو پھیلاتا ہے۔ الصافات
76 الصافات
77 الصافات
78 الصافات
79 الصافات
80 الصافات
81 اللہ تعالیٰ کا ارشاد : ﴿ إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِينَ ﴾’’بلا شبہ وہ ہمارے مومن بندوں میں سے تھے۔“ دلالت کرتا ہے کہ ایمان بندوں کے لئے بلند ترین منزل ہے، جو تمام شرائع اور اس کے اصول و فروع پر مشتمل ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص بندوں کی، ان کے ایمان کی بنا پر مدح وثناء کی ہے۔ الصافات
82 الصافات
83 یعنی نوح اور ان لوگوں کے گروہ میں، جو نبوت و رسالت، دعوت الی اللہ اور قبولیت دعا میں آپ کے طریقے پر ہیں، ابراہیم خلیل اللہ بھی شامل ہیں ۔ الصافات
84 ﴿إِذْ جَاءَ رَبَّهُ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ﴾ ” جب کہ وہ اپنے رب کے ہاں صاف دل لے کر آئے“ شرک، شبہات و شہوات سے جو تصور حق اور اس پر عمل کرنے سے مانع ہیں۔ جب بندہ مومن کا قلب ہر برائی سے پاک اور سلامت ہوگا، تو اسے ہر قسم کی بھلائی حاصل ہوگی۔ بندہ مومن کا سلیم القلب ہونا یہ کہ اس کا دل مخلوق کو دھوکہ دینے، ان سے حسد کرنے اور اس قسم کے دیگر برے اخلاق سے سلامت اور محفوظ رہے۔ الصافات
85 اس لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے محض اللہ کے مخلوق کی خیر خواہی کی اور اپنے باپ اور اپنی قوم سے اس کی ابتد اکی، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿إِذْ قَالَ لِأَبِيهِ وَقَوْمِهِ مَاذَا تَعْبُدُونَ﴾ ” جب انہوں نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا کہ تم کن چیزوں کو پوجتے ہو؟“ یہ استفہام انکاری ہے اور مقصد ان پر حجت قائم کرنا ہے۔ الصافات
86 ﴿أَئِفْكًا آلِهَةً دُونَ اللَّـهِ تُرِيدُونَ ﴾یعنی کیا تم الله تعالیٰ کے سوا جھوٹے معبودوں کی عبادت کرتے ہو، جو معبود ہیں نہ عبادت کے مستحق ہیں۔ رب کائنات کے بارے میں تمہارا کیا گمان ہے کہ جب تم اس کے ساتھ دوسروں کی عبادت کرتے ہو، تو وہ تمہارے ساتھ کیا سلوک کرے گا؟ یہ تمہارے اپنے شرک پر قائم رہنے کی وجہ سے سزا کی وعید ہے۔ بھلا رب العالمین کے بارے میں تمھیں کسی نقص کا گمان ہے کہ تم نے اس کے ہم سر اور شریک بنا ڈالے۔ الصافات
87 حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان کے بتوں کو توڑنے کا ارادہ فرمایا، چنانچہ جب وہ اپنی کسی عید کے لئے باہر نکلے تو ان مشرکین کی غفلت کی بنا پر ابراہیم علیہ السلام کو اپنے ارادے کو عملی جامہ پہنانے کا موقع ہاتھ آگیا۔ آپ بھی ان کے ساتھ باہر نکلے ﴿فَنَظَرَ نَظْرَةً فِي النُّجُومِ فَقَالَ إِنِّي سَقِيمٌ ﴾ ” تب انہوں نے ستاروں کی طرف ایک نظر کی اور کہا میں تو بیمار ہوں۔“ صحیح حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :” حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کبھی جھوٹ نہیں بولا، سوائے تین موقعوں کے، ایک موقع پر فرمایا : ﴿إِنِّي سَقِيمٌ ﴾ ”میں بیمار ہوں“ دوسرے موقع پر فرمایا : ﴿قَالَ بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هَـٰذَا﴾ ” بلکہ بتوں کے ساتھ یہ سلوک ان کے بڑے نے کیا ہے۔“ اور تیسرے موقع پر اپنی بیوی کے بارے میں فرمایا :” یہ میری بہن ہے۔“ [صحیح البخاری، احادیث الانبیاء، باب و اتخذ اللّٰہ ابراہیم خلیلا۔۔۔، ح : -3358و صحیح مسلم، الفضائل، باب فی فضائل ابراہیم خلیل عليه السلام، ح :2371] الصافات
88 الصافات
89 الصافات
90 ابراہیم علیہ السلام کا مقصد یہ تھا کہ وہ پیچھے رہ کر ان کے خود ساختہ معبودوں کو توڑنے کے منصوبوں کی تکمیل کریں گے ﴿فَتَوَلَّوْا عَنْهُ مُدْبِرِينَ﴾ ” تو وہ ان سے پیٹھ پھیر کر لوٹ گئے۔“ الصافات
91 پس ابراہیم کو موقع ملگ یا ﴿فَرَاغَ إِلَىٰ آلِهَتِهِمْ﴾ یعنی ابراہیم علیہ السلام جلدی سے اور چپکے سے ان کے معبودوں یعنی بتوں کے پاس گئے ﴿فَقَالَ﴾ اور تمسخر کے ساتھ ان سے کہا : ﴿أَلَا تَأْكُلُونَ مَا لَكُمْ لَا تَنطِقُونَ﴾ ” تم کھاتے کیوں نہیں؟ تمہیں کیا ہوا؟ تم بولتے کیوں نہیں؟“ وہ ہستی عبادت کے لائق کیسے ہوسکتی ہے جو حیوانات سے بھی کم تر ہو، حیوانات تو کھا پی اور بول بھی لیتے ہیں، یہ تو پتھر ہیں، کھاپی سکتے ہیں نہ بول سکتے ہیں۔ الصافات
92 الصافات
93 ﴿فَرَاغَ عَلَيْهِمْ ضَرْبًا بِالْيَمِينِ﴾ ” پھر ان کو اپنے ہاتھ سے مارنا شروع کیا۔“ یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے نہایت قوت و نشاط کے ساتھ ان بتوں کو توڑنا شروع کیا، حتیٰ کہ تمام بتوں کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا، سوائے ان میں سے ایک بڑے بت کے، شاید کہ وہ اس کی طرف رجوع کریں۔ الصافات
94 ﴿فَأَقْبَلُوا إِلَيْهِ يَزِفُّونَ﴾ یعنی وہ لوگ بھاگے بھاگے آپ کے پاس آئے تاکہ آپ کو اس حرکت کا مزا چکھائیں۔ تحقیق کے بعد کہنے لگے ﴿مَن فَعَلَ هَـٰذَا بِآلِهَتِنَا إِنَّهُ لَمِنَ الظَّالِمِينَ﴾ ” ہمارے ان معبودوں کے ساتھ یہ معاملہ کس نے کیا ہے؟ وہ کوئی بڑا ہی ظالم شخص ہے۔“ ان سے کہا گیا : ﴿سَمِعْنَاَفَتیً یَّذْکُرُھُمْ یُقَالُ لَہٗ اِبْرَاھِیْمُ﴾ (الانبیاء :21؍57)” ایک نوجوان کو، جس کا نام ابراہیم ہے، ان کا تذکرہ کرتے ہوئے سنا ہے۔“ وہ کہتا تھا : ﴿وَتَاللّٰـهِ لَأَكِيدَنَّ أَصْنَامَكُم بَعْدَ أَن تُوَلُّوا مُدْبِرِينَ﴾ ” اللہ کی قسم ! میں تمہاری عدم موجودگی میں، تمہارے بتوں کی خوب خبر لوں گا۔“ چنانچہ انہوں نے ابراہیم علیہ السلام کو زجر و توبیخ اور ملامت کی۔ آپ نے فرمایا : ﴿ بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هَـٰذَا فَاسْأَلُوهُمْ إِن كَانُوا يَنطِقُونَ فَرَجَعُوا إِلَىٰ أَنفُسِهِمْ فَقَالُوا إِنَّكُمْ أَنتُمُ الظَّالِمُونَ ثُمَّ نُكِسُوا عَلَىٰ رُءُوسِهِمْ لَقَدْ عَلِمْتَ مَا هَـٰؤُلَاءِ يَنطِقُونَ قَالَ أَفَتَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللّٰـهِ مَا لَا يَنفَعُكُمْ شَيْئًا وَلَا يَضُرُّكُمْ﴾(الانبیاء :21؍63۔66) ” بلکہ یہ سب کچھ ان کے اس بڑے بت نے کیا ہے، اگر یہ بول سکتے ہیں تو انھی سے پوچھ لو۔ انہوں نے اپنے دل میں غور کیا اوربولے: بے شک تم ظالم ہو، پھر وہ پلٹ گئے اور کہنے لگے : تو اچھی طرح جانتا ہے کہ یہ بولتے نہیں۔ ابراہیم نے کہا : تب کیا تم اللہ کو چھوڑ کر ان ہستیوں کی عبادت کرتے ہو جو کچھ نفع پہنچا سکتے ہیں نہ نقصان؟“ الصافات
95 ﴿قَالَ﴾ اس مقام پر ابراہیم نے فرمایا : ﴿ أَتَعْبُدُونَ مَا تَنْحِتُونَ ﴾ ” یعنی کیا تم انہیں پوجتے ہو جنہیں تم خود اپنے ہاتھوں سے بناتے اور تراشتے ہو؟ تم ان چیزوں کو کیسے پوجتے ہو جن کو تم نے خود اپنے ہاتھوں سے گھڑا ہے اور اللہ تعالیٰ کے لئے اخلاص کو چھوڑ دیتے ہو؟ الصافات
96 الصافات
97 جس نے ﴿خَلَقَكُمْ وَمَا تَعْمَلُونَ قَالُوا ابْنُوا لَهُ بُنْيَانًا﴾ ”تم کو اور جو تم کرتے ہو اس کو پیدا کیا۔ انہوں نے کہا : اس کے لئے ایک عمارت بناؤ۔“ یعنی اس کے لئے ایک بلند جگہ بناؤ اور وہاں آگ بھڑکاؤ﴿فَأَلْقُوهُ فِي الْجَحِيمِ﴾ ” اور اسے اس الاؤ میں پھینک دو۔“ یہ ہمارے معبودوں کو توڑنے کی سزا ہے۔ الصافات
98 ﴿فَأَرَادُوا بِهِ كَيْدًا﴾ انہوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بدترین طریقے سے قتل کرنے کا منصوبہ بنایا ﴿فَجَعَلْنَاهُمُ الْأَسْفَلِينَ ﴾ ” تو ہم نے انھی کو نیچا دکھا دیا۔“ اللہ تعالیٰ نے ان کی سازش کو ناکام بنا دیا اور آگ کو حضرت ابراہیم کے لئے سلامتی کے ساتھ ٹھنڈا کردیا۔ الصافات
99 ﴿وَ﴾ ” اور“ جب انہوں نے ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ یہ سلوک کیا اور ابراہیم علیہ السلام نے ان پر حجت قائم کر کے ان کا عذر دور کردیا تو ﴿قَالَ إِنِّي ذَاهِبٌ إِلَىٰ رَبِّي﴾ ” فرمایا کہ میں تو اپنے رب کے پاس جانے والا ہوں۔“ یعنی میں اپنے رب کی طرف ہجرت کر کے بابرکت زمین، یعنی سر زمین شام کی طرف جانے والا ہوں۔ ﴿سَيَهْدِينِ﴾ وہ میری اس چیز کی طرف راہنمائی فرمائے گا، جس میں میرے لئے دین و دنیا کی بھلائی ہو۔ ایک اور آیت کریمہ میں فرمایا: ﴿وَأَعْتَزِلُكُمْ وَمَا تَدْعُونَ مِن دُونِ اللّٰـهِ وَأَدْعُو رَبِّي عَسَىٰ أَلَّا أَكُونَ بِدُعَاءِ رَبِّي شَقِيًّا﴾ (مریم:19؍48) ” میں تم لوگوں سے علیحدہ ہوتا ہوں اور ان ہستیوں سے بھی، جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو اور اپنے رب کو پکاروں گا۔ ہوسکتا ہے کہ میں اپنے رب کو پکار کرنا مراد نہ ہوں۔ “ الصافات
100 ﴿رَبِّ هَبْ لِي ﴾ ” اے میرے رب مجھے عطا کر“ بیٹا جو ﴿مِنَ الصَّالِحِينَ﴾ ” نیک لوگوں میں سے ہو“ آپ نے یہ دعا اس وقت فرمائی جب آپ کو اپنی قوم سے بھلائی کی کوئی امید نہ رہی اور آپ اپنی قوم کے ایمان لانے سے مایوس ہوگئے۔ آپ نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ وہ انھیں ایک نیک لڑکا عطا کرے جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ آپ کو آپ کی زندگی اور آپ کی وفات کے بعد کوئی فائدہ دے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا قبول کرتے ہوئے فرمایا : الصافات
101 ﴿فَبَشَّرْنَاهُ بِغُلَامٍ حَلِيمٍ ﴾ ” تو ہم نے اسے ایک بردبار بچے کی بشارت دی۔“ بلاشک اس سے مراد اسماعیل علیہ السلام ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس بشارت کے بعد ہی اسحاق علیہ السلام کی بشارت بھی دی ہے نیز اللہ تعالیٰ نے ایک مقام پر اسحاق علیہ السلام کے بارے میں اس طرح خوش خبری سنائی ہے : ﴿فَبَشَّرْنَاهَا بِإِسْحَاقَ وَمِن وَرَاءِ إِسْحَاقَ يَعْقُوبَ ﴾(ھود:11؍71) ” ہم نے اسے اسحاق کی خوش خبری دی اور اسحاق کے بعد یعقوب کی۔“ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اسحاق ذبیح نہ تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اسماعیل علیہ السلام کو حلم سے موصوف کیا ہے، جو صبر، حسن خلق، وسیع القلبی اور قصور واروں سے عفو و در گزر کو متضمن ہے۔ الصافات
102 ﴿فَلَمَّا بَلَغَ﴾ ” پس جب پہنچا“ لڑکا ﴿ مَعَهُ السَّعْيَ﴾ یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ چلنے پھرنے کی عمر کو پہنچ گیا اور اس کی اتنی عمر ہوگئی، جب وہ غالب طور پر اپنے والدین کو بہت محبوب ہوتا ہے، اس کی دیکھ بھال کی مشقت کم اور اس کی منفعت شروع ہوچکی ہوتی ہے تو آپ نے اس سے کہا ﴿إِنِّي أَرَىٰ فِي الْمَنَامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ ﴾ یعنی میں نے خواب میں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ مجھے حکم دے رہا ہے کہ میں تجھے ذبح کروں اور انبیاء کا خواب وحی ہوتا ہے۔ ﴿فَانظُرْ مَاذَا تَرَىٰ ﴾ ” پس تم سوچو کہ تمہارا کیا خیال ہے؟“ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے حکم کا نفاذ لازمی امر ہے۔ ﴿قَالَ﴾ اسماعیل علیہ السلام نے اپنے باپ کی اطاعت، ثواب کی امید کرتے ہوئے نہایت صبر کے ساتھ اپنے رب کی رضا پر راضی ہو کر کہا : ﴿يَا أَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ﴾ ابا جان ! اللہ تعالیٰ نے آپ کو جس کام کا حکم دیا ہے اسے کر گزریئے ﴿ سَتَجِدُنِي إِن شَاءَ اللّٰـهُ مِنَ الصَّابِرِينَ﴾ ”اگر اللہ نے چاہا تو عنقریب آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔“ حضرت اسماعیل علیہ السلام نے اپنے والد محترم کو آگاہ کیا کہ وہ اپنے نفس کو صبر پر مجبور کریں گے اور اسے اللہ تعالیٰ کی مشیت سے مقرون کیا کیونکہ اللہ تعالیٰ کی مشیت کے بغیر کوئی چیز وجود میں نہیں آسکتی۔ الصافات
103 ﴿فَلَمَّا أَسْلَمَا ﴾ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کردیا، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے رب کی اطاعت میں اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہوئے اپنے جگر گوشے کو ذبح کرنے کا پختہ ارادہ کرلیا اور بیٹے نے اپنے آپ کو صبر پر مجبور کیا تو اس پر اپنے رب کی اطاعت اور اپنے والد کی رضا جوئی آسان ہوگئی۔ ﴿ وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ﴾ یعنی ابراہیم علیہ السلام نے اسماعیل علیہ السلام کو پیشانی کے بل گرا دیا تاکہ ذبح کرنے کے لئے ان کو لٹائیں۔ اسماعیل علیہ السلام اوندھے منہ لیٹ گئے تاکہ ذبح کے وقت ابراہیم علیہ السلام ان کے چہرے کو نہ دیکھ سکیں۔ الصافات
104 ﴿وَنَادَيْنَاهُ﴾ یعنی اس انتہائی اضطرابی کیفیت اور دہشت ناک حالت میں، ہم نے ابراہیم علیہ السلام کو آواز دی ﴿أَن يَا إِبْرَاهِيمُ قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْيَا﴾ ” اے ابراہیم ! تم نے خواب کو سچا کر دکھایا۔“ یعنی آپ نے وہ کچھ کر دکھایا جس کا آپ کو حکم دیا گیا تھا۔ آپ نے اس حکم کی تعمیل پر اپنے نفس کو آمادہ کیا، آپ نے اس حکم کی تعمیل کے لئے تمام اسباب اختیار کر لئے تھے، صرف حضرت اسماعیل علیہ السلام کے گلے پر چھری چلانا باقی رہ گیا تھا۔ الصافات
105 ﴿ إِنَّا كَذٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ﴾ ” بلاشبہ ہم نیکو کاروں کو ایسا ہی بدلہ دیا کرتے ہیں“ جو ہماری عبادت میں احسان کے مرتبے پر فائز ہیں اور اپنی خواہشات پر ہماری رضا کو مقدم رکھتے ہیں۔ الصافات
106 ﴿إِنَّ هَـٰذَا﴾ ” بے شک یہ بات“ جس کے ذریعے سے ہم نے ابراہیم کا امتحان لیا ﴿لَهُوَ الْبَلَاءُ الْمُبِينُ﴾ ” البتہ وہ ایک واضح آزمائش تھی“ اس کے ذریعے سے ابراہیم علیہ السلام کا اخلاص، اپنے رب کے لئے آپ کی کامل محبت اور آپ کی دوستی عیاں ہوگئی۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اسماعیل علیہ السلام عطا فرمائے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت اسماعیل علیہ السلام سے بے پناہ محبت کرتے تھے، وہ خود رحمٰن کے خلیل تھے اور خُلَّت محبت کا اعلیٰ ترین مرتبہ ہے۔ ایک ایسا منصب ہے جو مشارکت کو قبول نہیں کرتا اور تقاضا کرتا ہے کہ قلب کے تمام اجزا محبوب سے وابستہ رہیں۔ چونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قلب کے کسی گوشے میں، آپ کے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کی محبت جاگزیں تھی، اس لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کی محبت کو پاک صاف کرنے اور خُلَّت کی آزمائش کا ارادہ فرمایا۔ پس اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس ہستی کو قربان کردینے کا حکم دیا جو آپ کے رب کی محبت سے مزاحم تھی۔ الصافات
107 جب ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی محبت کو خواہشات نفس پر مقدم رکھتے ہوئے، اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کا عزم کرلیا تو قلب سے وہ داعیہ زائل ہوگیا جو اللہ تعالیٰ کی محبت سے مزاحم تھا۔ اب بیٹے کو ذبح کرنے میں کوئی فائدہ باقی نہ رہا، اس لئے فرمایا : ﴿إِنَّ هَـٰذَا لَهُوَ الْبَلَاءُ الْمُبِينُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ﴾ ” بلا شبہ یہ صریح آزمائش تھی اور ہم نے ایک بڑی قربانی کا ان کو فدیہ دیا۔“ یعنی اسماعیل علیہ السلام کے بدلے میں ایک عظیم قربانی عطا ہوئی جس کو ابراہیم علیہ السلام نے ذبح فرمایا۔ یہ قربانی اس لحاظ سے عظیم تھی کہ اس کو اسماعیل علیہ السلام کے فدیے میں قربان کیا گیا اور اس لحاظ سے بھی عظیم ہے کہ یہ جلیل القادر عبادات میں شمار ہوتی ہے، نیز یہ اس لحاظ سے بھی عظمت کی حامل ہے کہ اس کو قیامت تک کے لئے سنت قرار دے دیا گیا ہے۔ الصافات
108 ﴿وَتَرَكْنَا عَلَيْهِ فِي الْآخِرِينَ سَلَامٌ عَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ﴾ یعنی ہم نے قربانی کو، حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سچی مدح و ثنا کے لئے، آنے والے لوگوں میں اسی طرح باقی رکھا جس طرح گزرے ہوئے لوگوں میں جاری تھی۔ ابراہیم علیہ السلام کو جب بھی یاد کیا جاتا ہے تو انہیں محبت، تعظیم اور ثنائے حسن کے ساتھ یاد کیا جاتا ہے۔ الصافات
109 ﴿سَلَامٌ عَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ﴾ یعنی اللہ کی طرف سے ابراہیم علیہ السلام پر سلام ہے، جیسے اس آیت کریمہ میں فرمایا : ﴿قُلِ الْحَمْدُ لِلّٰـهِ وَسَلَامٌ عَلَىٰ عِبَادِهِ الَّذِينَ اصْطَفَىٰ﴾ ” اے نبی ! کہہ دیجیے، ہرقسم کی ستائش اللہ کے لئے ہے اور سلام ہے اس کے ان بندوں پر جنہیں اس نے چن لیا۔ “ الصافات
110 ﴿كَذٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ﴾ ” ہم نیکوکاروں کو اسی طرح جزا دیتے ہیں۔“ جو اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مرتبہ احسان پر فائز اور اس کی مخلوق کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آتے ہیں، ہم ان سے سختیاں دور کردیتے ہیں اور انہیں اچھی عاقبت اور ثنائے حسن سے سرفراز کرتے ہیں۔ الصافات
111 ﴿إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِينَ ﴾ ” بلا شبہ وہ ہمارے مومن بندوں میں سے تھے۔“ حضرت ابراہیم علیہ السلام ان چیزوں پر ایمان رکھتے تھے جن پر ایمان رکھنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا تھا۔ ان کے ایمان نے انہیں درجہ یقین پر پہنچا دیا تھا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَكَذٰلِكَ نُرِي إِبْرَاهِيمَ مَلَكُوتَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلِيَكُونَ مِنَ الْمُوقِنِينَ﴾(الانعام:6؍75) ” اور اسی طرح ہم ابراہیم کو آسمانوں اور زمین کا نظام دکھاتے تھے تاکہ وہ یقین کرنے والوں میں سے ہوجائیں۔“ الصافات
112 ﴿وَبَشَّرْنَاهُ بِإِسْحَاقَ نَبِيًّا مِّنَ الصَّالِحِينَ﴾ ” اور ہم نے ان کو اسحاق کی بشارت بھی دی کہ وہ نبی اور نیکوکاروں میں سے ہوں گے۔“ یہ دوسری خوش خبری ہے جو حضرت اسحاق علیہ السلام کے بارے میں دی گئی جن کے بعد حضرت یعقوب علیہ السلام کی خوش خبری دی گئی۔ پس آپ کو اسحاق علیہ السلام کے وجود، ان کی بقاء، ان کی ذریت کے وجود، ان کے نبی اور صالح ہونے کی بشارت دی گئی ہے اور یہ متعدد بشارتیں ہیں۔ الصافات
113 ﴿ وَبَارَكْنَا عَلَيْهِ وَعَلَىٰ إِسْحَاقَ﴾ یعنی ہم نے ان دونوں پر برکت نازل فرمائی۔ یہاں برکت سے مراد نمو، ان کے علم و عمل اور ان کی اولاد میں اضافہ ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان دونوں کی نسل سے تین عظیم امتوں کو پیدا کیا، قوم عرب کو اسماعیل علیہ السلام کی نسل سے، قوم اسرائیل اور اہل روم کو اسحاق کی نسل سے پیدا کیا۔ ﴿وَمِن ذُرِّيَّتِهِمَا مُحْسِنٌ وَظَالِمٌ لِّنَفْسِهِ مُبِينٌ﴾ یعنی ان دونوں کی نسل میں نیک لوگ بھی تھے اور بد بھی، عدل و انصاف پر چلنے والے لوگ بھی تھے اور ظالم بھی، جن کا ظلم، ان کے کفر و شرک کے ذریعے سے عیاں ہوا۔ آیت کریمہ کا یہ ٹکڑا شاید دفع ایہام کے زمرے میں آتا ہے، چونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد : ﴿وَبَارَكْنَا عَلَيْهِ وَعَلَىٰ إِسْحَاقَ﴾ تقاضا کرتا ہے کہ برکت دونوں کی اولاد میں ہو اور کامل ترین برکت یہ ہے کہ ان کی تمام ذریت محسنین و صالحین پر مشتمل ہو، لہٰذا اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ ان کی اولاد میں محسن بھی ہوں گے اور ظالم بھی۔ واللہ اعلم الصافات
114 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے دو بندوں اور رسولوں یعنی عمران کے بیٹوں حضرت موسیٰ اور حضرت ہاورن علیہما السلام کا ذکر فرماتا ہے کہ اس نے ان دونوں کو نبوت، رسالت اور دعوت الی اللہ کے منصب پر سرفراز فرمایا، ان کو اور ان کی قوم کو ان کےدشمن فرعون سے نجات دی، ان کے دشمن کو ان کی نظروں کے سامنے سمندر میں غرق کر کے ان کی مدد فرمائی اور ان پر حق و باطل کو واضح کرنے والی کتاب یعنی تو رات نازل کی جو شرعی احکامات، مواعظ اور ہر چیز کی تفصیل پر مشتمل تھی۔ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کی صراط مستقیم کی طرف راہنمائی فرمائی، انہیں دین عطا کیا جو ایسے احکامات و قوانین پر مشتمل تھا، جو اللہ تک پہنچاتے تھے، اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو اس راستے پر گامزن کر کے ان پر احسان فرمایا۔ : ﴿وَتَرَكْنَا عَلَيْهِمَا فِي الْآخِرِينَ سَلَامٌ عَلَىٰ مُوسَىٰ وَهَارُونَ ﴾ ” یعنی انکے بعد آنے والوں میں ان کی مدح، ثنائے حسن اور سلام کو باقی رکھا۔ ان کے اپنے زمانے کے لوگوں میں، ان کی مدح و ثناء کا موجود ہونا زیادہ اولیٰ ہے: ﴿ إِنَّا كَذٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ إِنَّهُمَا مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِينَ ﴾ ” بے شک ہم نیکو کار لوگوں کو اسی طرح بدلہ دیتے ہیں۔ بے شک وہ دونوں ہمارے مومن بندوں میں شمار ہوتے ہیں۔“ الصافات
115 الصافات
116 الصافات
117 الصافات
118 الصافات
119 الصافات
120 الصافات
121 الصافات
122 الصافات
123 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندے اور رسول حضرت الیاس علیہ السلام کی مدح کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ اس نے انھیں نبوت، رسالت اور دعوت الی اللہ کے منصب پر سرفراز فرمایا۔ حضرت الیاس علیہ السلام نے اپنی قوم کو تقویٰ اور صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حکم دیا، انہیں ”بعل“ کے بت کی عبادت کرنے اور اللہ تعالیٰ کی عبادت چھوڑنے سے روکا، جس نے انہیں بہترین طریقے سے تخلیق فرمایا، بہترین طریقے سے ان کی تربیت کی اور انہیں ظاہری اور باطنی نعمتوں سے بہرہ مند کیا۔ جس کی یہ شان ہو، تم اس اللہ کی عبادت کو چھوڑ کر، اس بات کی عبادت کیسے کرتے ہو جو کسی نقصان کی قدرت رکھتا ہے نہ نفع کی، جو کچھ پیدا کرسکتا ہے نہ کسی کو رزق عطا کرسکتا ہے بلکہ اس کی حالت تو یہ ہے کہ وہ کھا سکتا ہے نہ بول سکتا ہے، کیا اس کی عبادت کرنا سب سے بڑی گمراہی اور سب سے بڑی حماقت نہیں۔ الصافات
124 الصافات
125 الصافات
126 الصافات
127 ﴿فَكَذَّبُوهُ ﴾ انہوں نے حضرت الیاس علیہ السلام کی دعوت کو جھٹلایا اور ان کی اطاعت نہ کی، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کو و عید سناتے ہوئے فرمایا: ﴿فَإِنَّهُمْ لَمُحْضَرُونَ﴾ یعنی قیامت کے روز انہیں عذاب میں ڈالا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں ان کے لئے دنیاوی عذاب کا ذکر نہیں فرمایا۔ الصافات
128 ﴿إِلَّا عِبَادَ اللّٰـهِ الْمُخْلَصِينَ﴾ جن کو اللہ تعالیٰ نے اخلاص اور اپنے نبی کی اطاعت سے بہرہ ور کیا، ان کو عذاب میں مبتلا نہیں کیا جائے گا، ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بہت بڑے ثواب سے نوازا جائے گا۔ الصافات
129 ﴿وَتَرَكْنَا عَلَيْهِ﴾ یعنی الیاس علیہ السلام کے لئے چھوڑ دیا ﴿ فِي الْآخِرِينَ ﴾ یعنی آنے والے لوگوں میں ان کے لئے ثنائے حسن کو باقی رکھا۔ الصافات
130 ﴿سَلَامٌ عَلَىٰ إِلْ يَاسِينَ﴾ اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کی طرف سے الیاس پر سلام ہے۔ الصافات
131 ﴿إِنَّا كَذٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِينَ﴾ پس اللہ تعالیٰ نے الیاس کی اسی طرح مدح و ثنا بیان کی جس طرح دیگر انبیاء و مرسلین کو مدح و ثنا سے نوازا۔ الصافات
132 یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندے اور رسول حضرت لوط علیہ السلام کی مدح و ثنا ہے کہ اس نے آپ کو نبوت، رسالت اور دعوت الی اللہ کے منصب پر سرفراز فرمایا، نیز یہ کہ آپ نے اپنی قوم کو شرک اور فواحش سے روکا، جب وہ شرک اور فواحش سے باز نہ آئے تو اللہ تعالیٰ نے حضرت لوط علیہ السلام اور ان کے گھر والوں کو ان بداعمال لوگوں سے بچا لیا اور وہ راتوں رات نکل گئے۔ الصافات
133 الصافات
134 الصافات
135 ﴿إِلَّا عَجُوزًا فِي الْغَابِرِينَ﴾ سو ائے ایک بڑھیا کے، جو عذاب کی لپیٹ میں آنے والوں کے ساتھ شامل تھی۔ یہ لوط علیہ السلام کی بیوی تھی اور آپ کے دین پر تھی۔ الصافات
136 الصافات
137 ﴿وَإِنَّكُمْ لَتَمُرُّونَ عَلَيْهِم ﴾ یعنی قوم لوط کی بستیوں پر سے تمہارا گزر ہوتا ہے ﴿مُّصْبِحِينَ وَبِاللَّيْلِ﴾ ” دن کو بھی اور رات کو بھی۔“ یعنی ان اقوام میں، نہایت کثرت سے تم وہاں سے گزرتے ہو، ان بستیوں کے بارے میں کوئی شک نہیں۔ الصافات
138 ﴿أَفَلَا تَعْقِلُونَ ﴾ کیا تم آیات کو سمجھتے نہیں؟ اور کیا تم ان اعمال سے رکتے نہیں جو ہلاکت کے موجب ہیں۔ الصافات
139 یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے، اپنے بندے اور یونس بن مَتّیٰ کی مدح و ثنا ہے، جیسا کہ اس نے آپ کے بھائی دیگر انبیاء و مرسلین کو نبوت، رسالت اور دعوت الی اللہ کے ذریعے سے مدح و ثنا سے نوازا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں ذکر فرمایا کہ اس نے حضرت یونس علیہ السلام کو دنیاوی عقوبت میں مبتلا کیا، پھر آپ کے ایمان اور اعمال صالحہ کے سبب سے آپ کو اس عذاب سے نجات دی۔ الصافات
140 ﴿إِذْ أَبَقَ ﴾ ” جب بھاگے“ یعنی اپنے رب سے ناراض ہو کر یہ سمجھتے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو مچھلی کے پیٹ میں محبوس کرنے کی قدرت نہیں رکھتا کشتی میں فرار ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ سے ناراضی کا سبب بتایا ہے نہ اس گناہ ہی کا ذکر فرمایا جس کا آپ نے ارتکاب کیا کیونکہ اس کے تذکرے میں ہمارے لئے کوئی فائدہ نہیں۔ ہمیں صرف اسی چیز میں فائدہ ہے جس کا ذکر کیا گیا کہ حضرت یونس علیہ السلام سے گناہ سر زد ہوا اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو آپ کے رسول ہونے کے باوجود سزا دی۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کرب سے نجات دی، آپ سے ملامت کو دور کردیا اور آپ کے لئے وہ امور مقتدر کیے جو آپ کی اصلاح کا سبب تھے۔ جب آپ بھاگ کر ﴿إِلَى الْفُلْكِ الْمَشْحُونِ﴾ مسافروں اور سامان سے بھری ہوئی کشتی میں جا سوار ہوئے۔ کشتی پہلے ہی کھچا کھچ بھری ہوئی تھی جب آپ سوار ہوئے تو کشتی بوجھل ہوگئی۔ انہیں حاجت محسوس ہوئی کہ وہ سواریوں میں سے کسی سواری کو سمندر میں پھینک دیں مگر یوں لگتا ہے کہ کسی کو سمندر میں پھینکنے کے لئے اس کی کوئی امتیازی علامت نہ تھی، اس لئے انہوں نے قرعہ اندازی کی کہ جس کے نام قرعہ نکلے گا اسے سمندر میں پھینک دیا جائے گا یہ کشتی والوں کا انصاف پر مبنی فیصلہ تھا۔ الصافات
141 اللہ تعالیٰ جس کام کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے لئے اسباب فراہم کردیتا ہے۔ جب کشتی والوں نے قرعہ اندازی کی تو حضرت یونس علیہ السلام کے نام قرعہ نکل آیا ﴿ فَكَانَ مِنَ الْمُدْحَضِينَ﴾ یعنی حضرت یونس علیہ السلام قرعہ اندازی میں مغلوب ہوگئے اور ان کو سمندر میں ڈال دیا گیا۔ الصافات
142 ﴿فَالْتَقَمَهُ الْحُوتُ وَهُوَ مُلِيمٌ ﴾ ” پس مچھلی نے انہیں نگل لیا اور وہ“ ﴿ مُلِيمٌ﴾ ” ملامت کرنے والے تھے“ یعنی انہوں نے ایسے فعل کا ارتکاب کیا تھا جس پر ملامت کی جاتی ہے اور وہ ہے آپ کا اپنے رب سے ناراض ہونا۔ الصافات
143 ﴿فَلَوْلَا أَنَّهُ كَانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ ﴾ یعنی مچھلی کے پیٹ میں جانے سے پہلے اگر حضرت یونس علیہ السلام نے اپنے رب کی نہایت کثرت سے عبادت اور تسبیح و تحمید نہ کی ہوتی اور مچھلی کا لقمہ بن جانے کے بعد، نہایت کثرت سے یہ نہ کہا ہوتا : ﴿ لَّا إِلَـٰهَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنتُ مِنَ الظَّالِمِينَ ﴾ (الانبیاء :21؍87)” تیرے سوا کوئی لائق عبادت نہیں، تو پاک ہے، بے شک میں ظالموں میں سے ہوں۔“ الصافات
144 ﴿لَلَبِثَ فِي بَطْنِهِ إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ﴾ ” تو لوگوں کے اٹھائے جانے کے دن تک اس کے پیٹ ہی میں رہتا“ یعنی مچھلی کا پیٹ یو نس علیہ السلام کی قبر ہوتا، مگر آپ کی عبادت الٰہی اور تسبیح کے باعث اللہ تعالیٰ نے آپ کو مچھلی کے پیٹ سے نجات دی اور اہل ایمان جب کبھی کسی مصیبت میں مبتلا ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اسی طرح انہیں نجات دیتا ہے۔ الصافات
145 ﴿فَنَبَذْنَاهُ بِالْعَرَاءِ﴾ یعنی مچھلی نے حضرت یونس علیہ السلام کو ایک چٹیل زمین پر نکال پھینکا (اَلْعَرَاءِ ) سے مراد وہ زمین ہے جو ہر لحاظ سے خالی ہو، بسا اوقات وہاں درخت بھی نہیں ہوتے۔ ﴿وَهُوَ سَقِيمٌ﴾ مچھلی کے پیٹ میں محبوس رہنے کی بنا پر آپ بیمار ہوگئے تھے حتیٰ کہ آپ کی یہ حالت ہوگئی تھی جیسے انڈے سے نکلا ہوا بے بال چوزہ ہو۔ الصافات
146 ﴿وَأَنبَتْنَا عَلَيْهِ شَجَرَةً مِّن يَقْطِينٍ ﴾ ” اور ہم نے ان پر کدو کی بیل اگائی“ جس نے آپ کو اپنے گھنے سائے تلے لے لیا کیونکہ اس کا سایہ ٹھنڈا ہوتا ہے اور اس پر مکھیاں نہیں بیٹھتیں۔ یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا لطف و کرم تھا۔ ایک اور پہلو سے بھی آپ پر اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا لطف و کرم اور ایک عظیم احسان ہوا۔ الصافات
147 ﴿ وَأَرْسَلْنَاهُ إِلَىٰ مِائَةِ أَلْفٍ ﴾ ” اور ہم نے مبعوث کیا ان کو ایک لاکھ کی طرف لوگوں میں سے‘‘ ﴿ أَوْ يَزِيدُونَ﴾ ” یا ان سے زیادہ کی طرف“ معنی یہ ہے کہ اگر یہ لوگ ایک لاکھ سے زیادہ نہیں تو کم بھی نہ تھے۔ الصافات
148 حضرت یونس علیہ السلام نے ان کو اللہ کی طرف دعوت دی ﴿فَآمَنُوا﴾ ” تو وہ ایمان لائے۔“ چنانچہ ان کا ایمان لانا بھی حضرت یونس علیہ السلام کے اعمال نامے میں لکھا گیا کیونکہ وہی ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینے والے تھے۔ ﴿فَمَتَّعْنَاهُمْ إِلَىٰ حِينٍ﴾ ” پس ہم نے انہیں ایک مدت تک فائدہ پہنچایا۔“ اللہ تعالیٰ نے ان سے عذاب کو: ﴿فَلَوْلَا كَانَتْ قَرْيَةٌ آمَنَتْ فَنَفَعَهَا إِيمَانُهَا إِلَّا قَوْمَ يُونُسَ لَمَّا آمَنُوا كَشَفْنَا عَنْهُمْ عَذَابَ الْخِزْيِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَمَتَّعْنَاهُمْ إِلَىٰ حِينٍ﴾ (یونس:10؍98)” کیا کوئی ایسی بستی ہے، جو (عذاب دیکھ کر) ایمان لائی اور انکے ایمان نے ان کو کوئی فائدہ دیا ہو، یونس علیہ السلام کی قوم کے سوا۔ وہ لوگ ایمان لے آئے تو ہم نے دنیا کی زندگی میں ان سے رسوا کن عذاب ٹال دیا اور ایک وقت تک ہم نے ان کو دنیا سے بہرہ مند ہونے دیا۔ “ الصافات
149 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے نبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے : ﴿فَاسْتَفْتِهِمْ﴾ یعنی غیر اللہ کو اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرانے والوں سے پوچھیے، جو فرشتوں کی عبادت کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں، انہوں نے شرکت کے ساتھ ساتھ، اللہ تعالیٰ کو ایسی صفات سے موصوف کیا جو اس کی جلالت شان کے لائق نہیں۔ ﴿أَلِرَبِّكَ الْبَنَاتُ وَلَهُمُ الْبَنُونَ ﴾ ” کیا آپ کے رب کی بیٹیاں ہیں اور ان کے بیٹے ہیں؟“ یہ نہایت ہی ظالمانہ تقسیم اور جور پر مبنی قول ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی اولاد بنائی اور دونوں اقسام میں کمتر قسم اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کی، یعنی اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں بنا دیں، حالانکہ وہ خود اپنے لیے بیٹیوں پر اضی نہیں ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک دوسری آیت کریمہ میں فرمایا : ﴿ وَيَجْعَلُونَ لِلّٰـهِ الْبَنَاتِ سُبْحَانَهُ وَلَهُم مَّا يَشْتَهُونَ﴾(النحل:16؍57) ” اور وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے لئے بیٹیاں مقرر کرتے ہیں اور خود اپنے لئے وہ مقرر کرتے ہیں جو وہ چاہتے ہیں۔“ نیز اس لحاظ سے انہوں نے فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی بٹیاں قرار دے دیا۔ الصافات
150 اللہ تبارک و تعالیٰ ان کی دروغ گوئی کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے: ﴿ أَمْ خَلَقْنَا الْمَلَائِكَةَ إِنَاثًا وَهُمْ شَاهِدُونَ ﴾ ” کیا ہم نے فرشتوں کو عورتیں بنایا اور وہ (اس وقت) موجود تھے؟‘‘ یعنی کیا وہ ان کی تخلیق کے گواہ ہیں؟ ایسا نہیں ہے، وہ فرشتوں کی تخلیق کو دیکھ نہیں رہے تھے، لہٰذا یہ اس امر کی دلیل ہے کہ ان کا قول بلا علم اور اللہ تعالیٰ پر بہتان ہے، الصافات
151 بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ أَلَا إِنَّهُم مِّنْ إِفْكِهِمْ﴾ ” آگاہ رہو ! یہ لوگ صرف افترا پردازی سے‘‘ یعنی واضح جھوٹ کی بنا پر : ﴿ لَيَقُولُونَ وَلَدَ اللّٰـهُ وَإِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ﴾ ” کہتے ہیں کہ اللہ کی اولاد ہے، جبکہ بلاشک یہ جھوٹے ہیں۔“ الصافات
152 الصافات
153 ﴿أَصْطَفَى﴾ ” کیا اس نے ترجیح دی ہے“ یعنی اس نے چنا ہے ﴿ الْبَنَاتِ عَلَى الْبَنِينَ مَا لَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُونَ﴾” بیٹوں کے بجائے بیٹیوں کو تم (ظلم و جور پر مبنی) کیسا فیصلہ کرتے ہو؟“ الصافات
154 الصافات
155 ﴿ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ﴾ کیا تم نصیحت حاصل کر کے اس باطل اور ظلم کے حامل قول کو سمجھتے نہیں؟ اگر تم نے نصیحت پکڑی ہوتی تو ہرگز ایسی بات نہ کہتے۔ الصافات
156 ﴿ أَمْ لَكُمْ سُلْطَانٌ مُّبِينٌ ﴾ ” کیا تمہارے پاس کوئی واضح دلیل ہے؟“ یعنی کتاب یا رسول کی کوئی واضح حجت ہے؟ یہ سب کچھ خلاف واقعہ ہے، اس لئے فرمایا : الصافات
157 ﴿فَأْتُوا بِكِتَابِكُمْ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ﴾ ” اگر تم سچے ہو تو اپنی کتاب پیش کرو۔“ کیونکہ جو کوئی ایسی بات کہتا ہے جس پر کوئی شرعی دلیل قائم نہ کرسکے، وہ جان بوجھ کر جھوٹ بولتا ہے یا بلا دلیل اللہ تعالیٰ کی طرف کوئی بات منسوب کرتا ہے۔ الصافات
158 یعنی ان مشرکین نے اللہ تعالیٰ اور جنات کے درمیان بھی نسبی تعلق جوڑ دیا ہے۔ ان کا زعم باطل ہے کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی بیٹاں ہیں اور بڑے بڑے سردار جن ان کی مائیں ہیں، حالانکہ جنات بھی جانتے ہیں کہ وہ جزا و سزا کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہوں گے۔ وہ اللہ تعالیٰ کے عاجز اور فروتر بندے ہیں۔ اگر ان کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان کوئی نسبی رشتہ ہوتا تو ان کی یہ حالت نہ ہوتی۔ الصافات
159 ﴿ سُبْحَانَ اللّٰـهِ﴾ ان کا رب بادشاہ عظیم اور حلیم کامل ان تمام اوصاف سے منزہ اور پاک ہے جو مشرکین اس کے بارے میں بیان کر رہے ہیں، جو ان کے کفر و شرک نے اس کے متعلق واجب ٹھہرایا ہے۔ الصافات
160 ﴿ إِلَّا عِبَادَ اللّٰـهِ الْمُخْلَصِينَ ﴾ اللہ تعالیٰ کے مخلص بندوں نے اسے جن اوصاف سے موصوف کیا اللہ تعالیٰ نے ان اوصاف سے اپنے آپ کو منزہ نہیں کہا کیونکہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی ذات کو صرف انھی اوصاف سے موصوف کیا ہے جو اس کے جلال کے لائق ہیں اور بایں وجہ وہ مخلص بندے ہیں۔ الصافات
161 اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے : اے مشرکو ! تم اور تمہارے خود ساختہ الٰہ کسی کو فتنے میں مبتلا کرنے یا گمراہ کرنے کی قدرت نہیں رکھتے، سوائے ان لوگوں کے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فیصلہ نافذ ہوگیا۔ یہاں کسی کو گمراہ کرنے کے بارے میں، ان کا اور ان کے معبودوں کا عجز اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کا ملہ کو بیان کرنا مقصود ہے۔۔۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے مخلص اور فلاح یافتہ بندوں کو راہ راست سے ہٹانے کی امید نہ رکھو۔ الصافات
162 الصافات
163 الصافات
164 یہ فرشتوں کے بارے میں کفار کی بہتان طرازی سے برأت کا بیان ہے، نیز یہ کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں اور لمحہ بھر کے لئے اس کی نافرمانی نہیں کرسکتے۔ اللہ تعالیٰ نے ان میں سے ہر ایک کو مقام اور کسی تدبیر کی ذمے داری سونپی ہے وہ اس سے تجاوز کرسکتے ہیں نہ انہیں کسی چیز کا کوئی اختیار ہے: ﴿وَإِنَّا لَنَحْنُ الصَّافُّونَ ﴾ یعنی ہم اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور خدمت میں صف آرا ہوتے ہیں۔ الصافات
165 الصافات
166 ﴿وَإِنَّا لَنَحْنُ الْمُسَبِّحُونَ﴾ ” اور بے شک ہم پاکی بیان کرتے ہیں“ اللہ تعالیٰ کی ہر ایسے وصف سے جو اس کی کبریائی کے لائق نہیں۔ بایں ہمہ ان کو اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرانا کیسے درست ہوسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان مشرکین کے بہتان سے بلند و بالا تر ہے۔ الصافات
167 اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ یہ مشرکین اس تمنا کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر ہمارے پاس بھی کتابیں آتیں جیسے پہلے لوگوں پر کتابیں آئی تھیں تو ہم خالص اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے، بلکہ ہم حقیقی مخلص ہوتے۔ وہ اس بارے میں جھوٹ بولتے ہیں ان کے پاس سب سے افضل کتاب آئی، مگر انہوں نے اس کو ماننے سے انکار کردیا، لہٰذا معلوم ہوا کہ وہ حق کے مقابلے میں تکبر کا رویہ رکھے ہوئے ہیں۔ الصافات
168 الصافات
169 الصافات
170 ﴿فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ﴾ عنقریب جب ان پر عذاب واقع ہوگا تو انہیں معلوم ہوجائے گا۔ وہ یہ نہ سمجھیں کہ وہ دنیا میں غالب ہی رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ کردیا ہے جس کو کوئی رد کرسکتا ہے نہ اس کی مخالفت کرسکتا ہے۔۔۔ کہ اس کی بندگی کرنے والے رسول اور اس کی فلاح یافتہ فوج ہی غالب رہے گی، ان کو ان کے رب کی طرف سے فتح ونصرت حاصل ہوگی تب وہ نصرت الٰہی سے اس کے دین کو قائم کرنے کی قدرت رکھیں گے۔ یہ ان لوگوں کے لئے ایک عظیم بشارت ہے جو اللہ تعالیٰ کے لشکر میں شامل ہیں، جو اس لشکر کی صفات سے متصف ہیں، جن کے احوال درست ہیں، جو ان لوگوں سے جہاد کرتے ہیں جن سے جہاد کرنے کا ان کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ غالب اور فتح یاب رہیں گے۔ الصافات
171 الصافات
172 الصافات
173 الصافات
174 الصافات
175 پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو حکم دیا کہ وہ اہل عناد سے جنہوں نے حق کو قبول نہیں کیا، گریز کریں، نیز فرمایا کہ اب ان پر نازل ہونے والے عذاب کا صرف انتظار باقی ہے، بنا بریں فرمایا : ﴿وَأَبْصِرْهُمْ فَسَوْفَ يُبْصِرُونَ﴾’’پس آپ انہیں دیکھتے رہیے اور وہ بھی عنقریب دیکھ لیں گے“ کہ کس پر عذاب نازل ہوتا ہے۔ ان پر یہ عذاب بہت جلد نازل ہوگا۔ الصافات
176 الصافات
177 ﴿فَإِذَا نَزَلَ بِسَاحَتِهِمْ﴾ ” جب وہ ان کے میدان میں اترے گا۔“ یعنی جب ان پر عذاب نازل ہوگا اور ان کے قریب ہوگا : ﴿فَسَاءَ صَبَاحُ الْمُنذَرِينَ ﴾ ” تو جن کو ڈر سنا دیا گیا تھا تو ان کے لئے برادن ہوگا“ کیونکہ یہ صبح ان کے لئے شر، عقوبت اور استیصال لے کر آئے گی۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دوبارہ حکم دیا ہے کہ وہ ان مشرکین سے گریز کریں اور مشرکین کو وقوع عذاب کی وعید سنائی۔ الصافات
178 الصافات
179 الصافات
180 چونکہ اس سورۃ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے مشرکین کے بہت سے اقوال کا ذکر کیا ہے۔ جن کے ساتھ یہ مشرکین اللہ تعالیٰ کو موصوف کرتے ہیں، اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنی تنزیہ بیان کرتے ہوئے فرمایا : ﴿سُبْحَانَ رَبِّكَ ﴾ ” آپ کا رب پاک ہے“ یعنی منزہ اور بلند و بالا ہے ﴿رَبِّ الْعِزَّةِ ﴾ وہ ہر چیز پر غالب ہے، ہر برائی سے بالا و بلند تر ہے جس سے یہ مشرکین اسے موصوف کرتے ہیں۔ ﴿وَسَلَامٌ عَلَى الْمُرْسَلِينَ﴾ اور سلام ہے رسولوں پر کیونکہ وہ گناہوں اور تمام آفات سے سلامت ہیں اور جن اوصاف سے مشرکین نے زمین اور آسمانوں کے خلاق کو موصوف کیا ہے ان سے سلامت ہیں۔ ﴿وَالْحَمْدُ لِلّٰـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ﴾ الف اور لام استغراق کے لئے ہے۔ پس حمدو ستائش کی تمام اقسام صرف اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں، یعنی تمام صفات کا ملہ و عظیمہ، وہ تمام افعال جن کے ذریعے سیاس نے اس کائنات کی تربیت کی، ان کو لامحدود نعمتوں سے نوازا، ان سے بہت سی مصیبتوں کو دور کیا اور اس نے ان کی تمام حرکات و سکنات اور ان کے تمام احوال میں ان کی تدبیر کی وہ سب کے سب اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہیں۔ وہ ہر نقص سے پاک اور ہر کمال کی بنا پر قابل تعریف ہے۔ وہ اپنے بندوں کے نزدیک محبوب اور سزا وار تعظیم ہے۔ اس کے رسول ہر گناہ سے محفوظ ہیں اور جو کوئی ان انبیاء و رسل کی اتباع کرتا ہے وہ دنیا و آخرت میں سلامتی کا مستحق ہے اور ان کے دشمنوں کے لئے دنیا و آخرت میں ہلاکت ہے۔ الصافات
181 الصافات
182 الصافات
0 ص
1 یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے قرآن کے حال اور قرآن کو جھٹلانے والوں کے حال کا بیان ہے جو انہوں نے قرآن اور قرآن لانے والے کے ساتھ روا رکھا۔ فرمایا : ﴿ص وَالْقُرْآنِ ذِي الذِّكْرِ﴾ ” ص، قسم ہے قرآن کی جو سراسر نصیحت ہے۔“ یعنی جو قدر عظیم اور شرف کا حامل ہے، جو بندوں کو ہر اس چیز کی یاد دہانی کراتا ہے جس کے وہ محتاج ہیں، مثلاً اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات اور افعال کا علم، احکام شرعیہ کا علم اور قیامت اور جزا و سزا کا علم۔ قرآن انہیں ان کے دین کے اصول و فروع کا علم عطا کرتا ہے۔ جس چیز پر قسم کھائی گئی ہے یہاں اس کو ذکر کرنے کی حاجت نہیں، کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ جس کی قسم کھائی گئی ہے اور جس پر قسم کھائی گئی ہے دونوں ایک ہی چیز کے نام ہیں اور وہ ہے قرآن، جو اس وصف جلیل سے موصوف ہے۔ جب قرآن اس وصف سے موصوف ہے تو معلوم ہوا کہ بندوں کے لئے اس کی ضرورت ہر ضرورت سے بڑھ کر ہے اور بندوں پر فرض ہے کہ وہ ایمان اور تصدیق کے ساتھ اس کو قبول کریں۔ اس سے ان امور کا استباط کریں جن سے نصیحت حاصل کی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جس کو ہدایت سے نوازا، اس کو اس کی طرف راہ دکھا دی۔ ص
2 کفار نے قرآن اور اس ہستی کا انکار کردیا جس کے ہاں قرآن نازل کیا گیا۔ اسے ان کی طرف سے ﴿ عِزَّةٍ وَشِقَاقٍ﴾ ” غرور، مخالفت“ تکبر، عدم ایمان اور ضد کا سامنا کرنا پڑا، یعنی انہوں نے اس کو رد کرنے، اس کا ابطال کرنے اور اس کو لانے والے میں جرح و قدح کرنے کے لئے اس کی مخالفت اور مخاصمت پر کمر باندھ رکھی ہے۔ ص
3 اللہ تعالیٰ نے ان کو گزشتہ قوموں کے مانند ہلاک کرنے کی وعید سنائی ہے جنہوں نے رسولوں کی تکذیب کی تھی، جب ان کی ہلاکت کا وقت آپہنچا تو چیخ و پکار کرنے اور عذاب کو ٹالنے کی التجائیں کرنے لگے، لیکن ﴿لَاتَ حِينَ مَنَاصٍ﴾ ” وہ رہائی کا وقت نہیں تھا۔“ یعنی یہ وقت اس عذاب سے گلو خلاصی اور اس کو دور کرنے کا وقت نہیں تھا۔ پس ان لوگوں کو اپنے تکبر اور ضد پر جمے رہنے سے بچنا چاہئے، ورنہ ان پر بھی وہی عذاب نازل ہوگا جو گزشتہ قوموں پر نازل ہوا تھا۔ ص
4 ﴿وَعَجِبُوا أَن جَاءَهُم مُّنذِرٌ مِّنْهُمْ﴾ یعنی ان جھٹلانے والوں کو ایسے معاملے پر تعجب ہے، جو مقام تعجب نہیں کہ ان کے پاس انھی میں سے ایک ڈرانے والا آیا تاکہ وہ اس سے علم حاصل کرسکیں اور اسے پہچان لیں جیسے کہ پہچاننے کا حق ہے اور چونکہ وہ ڈرانے والا انھی کی قوم میں سے ہے، اس کا اتباع کرنے میں ان کی قومی نخوت آڑے نہیں آئے گی۔ یہ تو ایسی چیز ہے جس پر شکر کرنا اور اس ڈرانے والی ہستی کا اتباع کرنا فرض تھا۔ مگر ان کا رویہ اس کے برعکس تھا۔ انہوں نے انکار کرنے والے پر تعجب کا اظہار کیا اور اپنے کفر و ظلم کی بنا پر کہا : ﴿ هَـٰذَا سَاحِرٌ كَذَّابٌ ﴾ ” یہ جادو گر اور نہایت جھوٹا شخص ہے“ ص
5 ان کے نزدیک اس کا گناہ صرف یہ ہے کہ بلا شبہ ﴿أَجَعَلَ الْآلِهَةَ إِلَـٰهًا وَاحِدًا﴾ ” اس نے اتنے معبودوں کی جگہ ایک ہی معبود بنا دیا۔“ یعنی یہ شخص اللہ تعالیٰ کے شریک اور ہم سر بنانے سے کیونکر روکتا ہے اور اکیلے اللہ تعالیٰ کی عبادت میں اخلاص کا حکم دیتا ہے۔ ﴿ إِنَّ هَـٰذَا﴾ ” یقیناً یہ“ جسے وہ لے کر آیا ہے ﴿لَشَيْءٌ عُجَابٌ﴾ ” البتہ بڑی عجیب چیز ہے۔“ یعنی انکے نزدیک یہ چیز اپنے بطلان اور فساد کی بنا پر تعجب کا تقاضا کرتی ہے۔ ص
6 ﴿ وَانطَلَقَ الْمَلَأُ مِنْهُمْ﴾ یعنی شرفائے قوم، جن کی بات مانی جاتی تھی، اپنی قوم کو شرک پر جمے رہنے پر آمادہ کرتے ہوئے اور یہ کہتے ہوئے نکلے: ﴿أَنِ امْشُوا وَاصْبِرُوا عَلَىٰ آلِهَتِكُمْ﴾ یعنی اپنے معبودوں کی عبادت پر ڈٹے رہنے کی کوشش کرو، کوئی تمہیں ان کی عبادت سے روک نہ دے ﴿إِنَّ هَـٰذَا﴾ یہ جو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بتوں کی عبادت سے روکتے ہیں ﴿ لَشَيْءٌ يُرَادُ ﴾ ” یہ وہ چیز ہے جو مقصود ہے۔“ یعنی اس بارے میں اس کا مقصد اور نیت درست نہیں۔ یہ شبہ احمقوں کے ذہن ہی میں جگہ پاسکتا ہے۔ اگر کوئی شخص کسی حق یا باطل چیز کی طرف دعوت دیتا ہے تو اس کی نیت میں جرح و قدح کرتے ہوئے اس کو رد نہیں کیا جاسکتا۔ اس کی نیت اور اس کا عمل اسی کے لئے ہے۔ اس کی دعوت کو صرف ان دلائل و براہین کے ذریعے سے رد کیا جاسکتا ہے جو اس کا فساد واضح کر کے اس کا ابطال کرسکیں اور ان کا مقصد تو صرف یہ بتانا تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صرف اس لئے دعوت دیتے ہیں کہ وہ تمہارے سردار، تمہارے بڑے اور تمہارے قائد بن جائیں۔ ص
7 ﴿مَا سَمِعْنَا بِهَـٰذَا ﴾ یہ بات جو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہتے ہیں اور وہ دین، جس کی طرف یہ دعوت دیتے ہیں، اس کے بارے میں ہم نے نہیں سنا ﴿ فِي الْمِلَّةِ الْآخِرَةِ ﴾ ” پچھلے مذہب میں۔“ یعنی قریب کے زمانے کی کسی ملت کے بارے میں سنا ہے نہ ہم نے اپنے آباء و اجداد کو اس پر عمل کرتے پایا ہے اور نہ انہوں نے اپنے آباء و اجداد کو اس پر عمل کرتے دیکھا ہے۔ آپ اسی راستے پر چلتے رہو جس پر تمہارے آباء و اجداد چلتے رہے ہیں۔ وہی حق ہے اور جس کی طرف محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دعوت دیتے ہیں وہ جھوٹ اور افترا پردازی کے سوا کچھ نہیں۔ یہ بھی اسی قسم کا شبہ ہے جس کا ذکر پہلے آچکا ہے، کیونکہ انہوں نے ایک ایسی چیز کی بنا پر حق کو ٹھکرا دیا جو ایک نہایت ادنیٰ سی بات کو ٹھکرانے کے لئے بھی حجت اور دلیل نہیں بن سکتی، یعنی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت، ان کے گمراہ آباء و اجداد کے قول کی مخالف ہے۔ ان کے آباؤ و اجداد کے قول میں کون سی ایسی دلیل ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت کے بطلان پر دلالت کرتی ہو۔ ص
8 ﴿أَأُنزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ مِن بَيْنِنَا﴾ ” کیا ہم سب میں سے اسی پر نصیحت (کتاب) اتری ہے؟“ یعنی اسے ہم پر کون سی فضیلت حاصل ہے کہ ہمیں چھوڑ کر، اس پر وحی نازل ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ اسے وحی کے لئے مختص کرتا ہے؟ یہ بھی باطل شبہ ہے۔ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت کو رد کرنے کے لئے کون سی دلیل ہے؟ کیا تمام انبیاء و رسل کے یہی اوصاف نہ تھے کہ اللہ انہیں رسالت سے سرفراز فرماتا اور مخلوق کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینے کا حکم دیتا تھا۔ چونکہ ان سے صادر ہونے والے یہ تمام اقوال، کسی لحاظ سے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی لائی ہوئی دعوت کو رد کرنے کے لئے درست نہیں، اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ یہ اقوال کہاں سے صادر ہوئے ہیں اور بے شک وہ ﴿ فِي شَكٍّ مِّن ذِكْرِي﴾ ” میری نصیحت (کتاب) کے بارے میں شک میں ہیں۔“ ان کے پاس کوئی علم اور دلیل نہیں۔ جب وہ شک میں مبتلا ہو کر اس پر راضی ہوگئے، ان کے پاس واضح اور صریح حق آگیا اور وہ اپنے شک پر قائم رہے، تب انہوں نے کسی دلیل کی بنیاد پر نہیں بلکہ حق کو ٹھکرانے کے لئے یہ تمام باتیں کہیں۔ ان کی یہ تمام باتیں بہتان طرازی کے زمرے میں آتی ہیں۔ ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ جو کوئی ان اوصاف کا حامل ہو اور وہ شک و عناد کی بنا پر باتیں کرے تو اس کا قول قابل قبول ہے نہ حق میں ذرہ بھر قادح ہے، بلکہ وہ تو ایسا شخص ہے جو محض اپنی اس بات کے سبب سے مذمت اور ملامت کا مستحق ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو عذاب کی وعید سناتے ہوئے فرمایا: ﴿ بَل لَّمَّا يَذُوقُوا عَذَابِ ﴾ ” انہوں نے ابھی تک میرے عذاب کا مزا نہیں چکھا۔“ انہیں ایسی باتیں کہنے کی اس لئے جرأت ہوئی ہے کہ وہ دنیا میں مزے اڑا رہے ہیں، ان پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل نہیں ہوا۔ اگر انہوں نے اللہ تعالیٰ کے عذاب کا مزا چکھا ہوتا تو وہ ایسی باتیں کہنے کی کبھی جرأت نہ کرتے۔ ص
9 ﴿أَمْ عِندَهُمْ خَزَائِنُ رَحْمَةِ رَبِّكَ الْعَزِيزِ الْوَهَّابِ﴾ ” کیا ان کے پاس تیرے زبردست فیاض رب کی رحمت کے خزانے ہیں“ کہ وہ جس کو چاہیں عطا کریں اور جس کو چاہیں اس رحمت سے محروم کردیں؟ کیونکہ ان کا قول ہے : ﴿ أَأُنزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ مِن بَيْنِنَا ﴾ ” کیا ہم میں سے صرف یہی شخص ہے، جس پر ذکر نازل کردیا گیا“ یعنی یہ اللہ کا فضل اور اس کی رحمت ہے جو ان کے قبضہ قدرت میں نہیں ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ پر قرآن کے نزول کے معاملے میں سختی کرسکیں۔ ص
10 ﴿أَمْ لَهُم مُّلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا ﴾ ’’یا آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان میں ہے ان پر ان کی حکومت ہے“ کہ جو چاہیں اسے پورا کرنے کی قدرت رکھتے ہیں: ﴿فَلْيَرْتَقُوا فِي الْأَسْبَابِ﴾ ” تب وہ ان راستوں پر چڑھ دیکھیں“ جو انہیں آسمان تک لے جائیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والی رحمت سے محروم کردیں۔ ص
11 یہ مشرکین کیسی باتیں کرتے ہیں، حالانکہ یہ اللہ تعالیٰ کی کمزور ترین مخلوق ہیں؟ کیا ان کا مقصد گروہ بندی، باطل کی مدد کے لئے ایک دوسرے سے تعاون کرنا اور حق کو چھوڑنا ہے؟ فی الواقع یہی ان کا مقصود و مطلوب ہے، مگر ان کا یہ مقصد کبھی پورا نہیں ہوگا، ان کی کوششیں رائیگاں جائیں گی اور ان کے لشکر کو شکست فاش ہوگی۔ بنا بریں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿جُندٌ مَّا هُنَالِكَ مَهْزُومٌ مِّنَ الْأَحْزَابِ﴾ ” یہ بھی یہاں کے شکست خوردہ بڑے بڑے لشکروں میں سے ایک معمولی سا لشکر ہے۔ “ ص
12 اللہ تبارک و تعالیٰ ان مشرکین کو ڈراتا ہے کہ کہیں ان کے ساتھ بھی وہی سلوک نہ کیا جائے جو ان سے پہلے گزری ہوئی قوموں کے ساتھ کیا گیا جو ان سے زیادہ قوت والی اور باطل پر ان سے زیادہ کمر بستہ تھیں : ﴿قَوْمُ نُوحٍ وَعَادٌ﴾ ” قوم نوح اور عاد“ جو کہ حضرت ہود علیہ السلام کی قوم تھی : ﴿ وَفِرْعَوْنُ ذُو الْأَوْتَادِ﴾ ” اور میخوں والا فرعون“ یعنی جو عظیم فوج اور ہولناک قوت کا مالک تھا۔ ص
13 ﴿وَثَمُودُ﴾ ” اور ثمود“ صالح کی قوم ﴿وَقَوْمُ لُوطٍ وَأَصْحَابُ الْأَيْكَةِ﴾ ” اور قوم لوط اور اصحاب ایکہ‘‘ یعنی گھنے درختوں اور باغات کی مالک قوم، اس سے مراد، حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم ہے۔ ﴿أُولَـٰئِكَ الْأَحْزَابُ ﴾ جنہوں نے اپنی طاقت، افرادی قوت اور دنیاوی ساز و سامان کو حق کو نیچا دکھانے کے لئے جمع کیا، مگر یہ سب کچھ ان کے کسی کام نہ آیا۔ ص
14 ’’نہیں تھا کوئی گروہ‘‘ ان میں سے ﴿إِلَّا كَذَّبَ الرُّسُلَ فَحَقَّ ﴾ ” مگر انہوں نے رسولوں کو جھٹلایا تو ثابت ہوگیا“ ان پر ﴿ عِقَابِ﴾ ” عذاب میرا“ یعنی اللہ تعالیٰ کا۔ وہ کون سی چیز ہے جو انہیں پاک اور طاہر رکھ سکتی ہے کہ ان پر وہ عذاب نازل نہ ہو جو گزشتہ قوموں پر نازل ہوا۔ پس یہ لوگ انتظار کریں : ص
15 ﴿صَيْحَةً وَاحِدَةً مَّا لَهَا مِن فَوَاقٍ﴾ ” صرف ایک زور کی آواز کا جس میں کوئی وقفہ نہیں ہوگا۔‘‘ یعنی اب اس عذاب کو روکنا اور اس کا واپس ہونا ممکن نہیں۔ اگر یہ اپنے شرک اور انھی اعمال پر قائم رہے تو یہ چنگھاڑ انہیں ہلاک کر کے ان کا استیصال کر ڈالے گی۔ ص
16 یہ جھٹلانے والے اپنی جہالت اور حق کے ساتھ عناد کی بنا پر عذاب کے لئے جلدی مچاتے ہوئے کہتے ہیں : ﴿رَبَّنَا عَجِّل لَّنَا قِطَّنَا﴾ یعنی ہمارے حصے کا عذاب ہمیں جلدی دے دے ﴿قَبْلَ يَوْمِ الْحِسَابِ ﴾ ” حساب کے دن سے پہلے“ وہ اپنے اس قول سے باز نہیں آتے۔ اے محمد ! یہ کفار سمجھتے ہیں کہ اگر آپ سچے ہیں تو آپ کی سچائی کی علامت یہ ہے کہ آپ ان پر عذاب لے آئیں۔ ص
17 اس لئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرمایا : ﴿اصْبِرْ عَلَىٰ مَا يَقُولُونَ﴾ ” یہ جو کچھ کہتے ہیں اس پر صبر کیجیے“ جس طرح آپ سے پہلے انبیاء و مرسلین نے صبر کیا۔ ان کی باتیں حق کو کوئی نقصان پہنچا سکتی ہیں نہ آپ کو۔ وہ صرف اپنے آپ کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ ص
18 چونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو صبر کرنے کا حکم دیا ہے، اس لیے آپ کو تلقین فرمائی کہ آپ اللہ وحدہ کی عبادت اور اس کے عبادت گزار بندوں کے احوال کو یاد کر کے صبر پر مدد لیں، جیسا کہ ایک دوسری آیت میں فرمایا : ﴿فَاصْبِرْ عَلَىٰ مَا يَقُولُونَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبِهَا﴾ (طٰهٰ:20؍130)” جو یہ کہتے ہیں اس پر صبر کیجیے اور طلوع آفتاب اور غروب آفتاب سے پہلے ، اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کیجیے۔“ سب سے بڑے عبادت گزار انبیاء میں سے اللہ کے نبی حضرت داؤد علیہ السلام ہیں وہ﴿ ذَا الْأَيْدِ ﴾ ” صاحب قوت تھے“ جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے اپنے قلب و بدن میں عظیم طاقت رکھتے تھے۔﴿ إِنَّهُ أَوَّابٌ﴾ یعنی وہ تمام امور میں انابت، محبت، تعبد، خوف، امید، کثرت گریہ زاری اور کثرت دعا کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف بہت زیادہ رجوع کرنے والے تھے۔ اگر عبادت میں کوئی خلل واقع ہوجاتا تو اس خلل کو دور کر کے سچی توبہ کے ساتھ اس کی طرف رجوع کرنے والے تھے۔ یہ ان کی اپنے رب کی طرف انابت اور اس کی عبادت ہی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے ساتھ پہاڑوں کو مسخر کردیا جو آپ کی معیت میں اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح بیان کرتے تھے ﴿بِالْعَشِيِّ وَالْإِشْرَاقِ﴾ صبح اور شام کو۔ ص
19 ﴿وَ﴾ ” تابع کردیا ﴿الطَّيْرَ مَحْشُورَةً﴾ پرندوں کو بھی وہ آپ کے پاس جمع کردیئے گئے ﴿كُلٌّ﴾ سب کے سب“ پہاڑ اور پرندے اللہ تعالیٰ کے لئے ﴿ لَّهُ أَوَّابٌ ﴾ ” مطیع تھے“ اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی اطاعت کرتے ہوئے : ﴿يَا جِبَالُ أَوِّبِي مَعَهُ وَالطَّيْرَ﴾(سبا:34؍1) ” اے پہاڑو! تم اس (داؤد) کے ساتھ تسبیح بیان کرو اور ہم نے پرندوں کو بھی یہی حکم دیا۔“ یہ آپ پر اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے آپ کو عبادت کی توفیق سے نوازا، پھر اللہ تعالیٰ نے آپ پر اپنی اس نوازش کا ذکر فرمایا کہ اس نے آپ کو عظیم مملکت اور اقتدار عطا کیا۔ ص
20 چنانچہ فرمایا : ﴿وَشَدَدْنَا مُلْكَهُ ﴾ ” اور ہم نے ان کی بادشاہی کو استحکام بخشا۔‘‘ آپ کو جو اسباب، افرادی قوت اور دنیاوی ساز و سامان عطا کیا اس کے ذریعے سے ہم نے ان کی مملکت کو طاقت ور بنایا، پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام پر اپنے اس احسان کا ذکر فرمایا کہ اس نے آپ کو علم عطا کیا، چنانچہ فرمایا : ﴿وَآتَيْنَاهُ الْحِكْمَةَ ﴾ یعنی ہم نے آپ کو نبوت، حکمت اور علم عظیم سے سرفراز کیا: ﴿ وَفَصْلَ الْخِطَابِ﴾ ”اور بات کا فیصلہ (سکھایا) “ یعنی لوگوں کے باہمی جھگڑوں میں فیصلہ کن بات کہنے کا ملکہ بخشا تھا۔ ص
21 اللہ تبارک و تعالیٰ نے ذکر فرمایا کہ اس نے اپنے نبی حضرت داؤد علیہ السلام کو فیصلہ کن خطاب کی صلاحیت سے نوازا اور وہ فیصلہ کرنے میں مصروف تھے، نیز اس معاملے میں ان کی طرف لوگ قصد کرتے تھے، پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان دو اشخاص کے بارے میں خبر دی جو ایک جھگڑا لے کر ان کے پاس حاضر ہوئے۔ اس جھگڑے کو اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام کے لئے آزمائش اور ایک ایسی لغزش سے نصیحت بنایا جو حضرت داؤد علیہ السلام سے واقع ہوئی تھی۔ پس اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام کی توبہ قبول کر کے بخش دیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے سامنے یہ قضیہ پیش کیا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرمایا : ﴿وَهَلْ أَتَاكَ نَبَأُ الْخَصْمِ﴾ ” اور کیا تمہارے پاس ان جھگڑنے والوں کی خبر آئی ہے۔“ یہ بڑی ہی تعجب انگیز خبر ہے ﴿اإِذْ تَسَوَّرُوا ﴾ ” جب وہ دیوار پھاند کر آئے تھے“ حضرت داؤد علیہ السلام کے پاس ﴿الْمِحْرَابَ ﴾ ’’محراب میں۔“ یعنی اجازت طلب کئے بغیر آپ کی عبادت کرنے کی جگہ میں دروازے کے علاوہ دوسرے راستے سے داخل ہوئے۔ ص
22 جب وہ اس طریقے سے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ گھبرا گئے اور ان سے ڈر گئے، انھوں نے آپ سے کہا کہ ہم ﴿خَصْمَانِ﴾ ’’دو جھگڑا کرنے والے ہیں‘‘ اس لیے ڈریے مت ﴿بَغَىٰ بَعْضُنَا عَلَىٰ بَعْضٍ﴾ ’’ہم میں سے ایک نے دوسرے پر زیادتی کا ارتکاب کیا ہے‘‘ ظلم کرتے ہوئے ﴿فَاحْكُم بَيْنَنَا بِالْحَقِّ﴾ لہٰذا ہمارے درمیان عدل کے ساتھ فیصلہ کیجئے اور کسی ایک طرف مائل نہ ہوں ﴿لَا تُشْطِطْ وَاهْدِنَا إِلَىٰ سَوَاءِ الصِّرَاطِ﴾ ’’اور بے انصافی نہ کیجیے اور سیدھے راستے کی طرف ہماری راہنمائی کیجئے۔‘‘ اس پورے واقعے سے مقصود یہ ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام کو معلوم ہو گیا تھا کہ ان دو اشخاص کا مقصد واضح اور صریح حق ہے۔ جب یہ معاملہ ہوا اور وہ حضرت داؤد علیہ السلام کے سامنے حق کے ساتھ قصہ بیان کرتے ہیں تو اللہ کے نبی داؤد علیہ السلام نے ان کے وعظ و نصیحت سے تنگی محسوس کی نہ آپ نے ان کو ملامت کی۔ ص
23 ان میں سے ایک نے کہا: ﴿إِنَّ هَـٰذَا أَخِي ﴾ ” بے شک یہ میرا بھائی“ یعنی اس نے دین، نسب یا دوستی کی اخوت کا ذکر کیا جو تقاضا کرتی ہے کہ زیادتی نہ کی جائے۔ اس بھائی سے زیادتی کا صادر ہونا غیر کی زیادتی سے بڑھ کر تکلیف دہ ہے ﴿ لَهُ تِسْعٌ وَتِسْعُونَ نَعْجَةً ﴾ ” اس کی ننانوے دنبیاں ہیں“ اور یہ خیر کثیر ہے اور اس چیز پر قناعت کی موجب ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس کو عطا کی ہے ﴿وَلِيَ نَعْجَةٌ وَاحِدَةٌ﴾ ” اور میرے پاس ایک دنبی ہے“ یہ اس میں بھی طمع رکھتا ہے۔ ﴿فَقَالَ أَكْفِلْنِيهَا ﴾ اس کے بارے میں یہ کہتا ہے کہ میری خاطر اسے چھوڑ دے اور اسے میری کفالت میں دے دے ﴿وَعَزَّنِي فِي الْخِطَابِ ﴾ اور اس نے بات چیت میں مجھے دبا لیا ہے حتیٰ کہ وہ میری دنبی کو حاصل کرنے ہی والا ہے۔ ص
24 جب داؤد علیہ السلام نے اس کی بات سنی۔۔۔ فریقین کی باتوں کے سیاق و سباق سے معلوم ہوتا تھا کہ فی الواقع ایسا ہوا ہے، اس لئے حضرت داؤد علیہ السلام نے ضرورت نہ سمجھی کہ دوسرافریق بات کرے، لہٰذا اعتراض کرنے والے کے لئے اس قسم کے اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام نے فریق ثانی کا موقف سننے سے پہلے فیصلہ کیوں کیا؟۔۔۔ تو فرمایا : ﴿ لَقَدْ ظَلَمَكَ بِسُؤَالِ نَعْجَتِكَ إِلَىٰ نِعَاجِهِ﴾ ” یہ جو تیری دنبی مانگتا ہے کہ اپنی دنبیوں میں ملا لے، بے شک تجھ پر ظلم کرتا ہے۔“ اکثر ساتھ اور مل جل کر رہنے والوں کی یہی عادت ہے، بنا بریں فرمایا : ﴿وَإِنَّ كَثِيرًا مِّنَ الْخُلَطَاءِ لَيَبْغِي بَعْضُهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ ﴾ ” اور اکثر شریک ایک دوسرے پر زیادتی ہی کیا کرتے ہیں۔“ کیونکہ ظلم کرنا نفوس کا وصف ہے : ﴿إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ﴾ ” سوائے ان کے جو ایمان لائے اور انہوں نے عمل صالح کیے۔“ کیونکہ انہیں ایمان اور عمل صالح کی معیت حاصل ہوتی ہے جو انہیں ظلم سے باز رکھتے ہیں ﴿وَقَلِيلٌ مَّا هُمْ﴾ ” اور ایسے لوگ بہت کم ہوتے ہیں“ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿وَقَلِيلٌ مِّنْ عِبَادِيَ الشَّكُورُ﴾’’اور میرے بندوں میں کم لوگ ہی شکر گزار ہوتے ہیں۔ “ ﴿وَظَنَّ دَاوُودُ ﴾ جب حضرت داؤد علیہ السلام نے ان دونوں کے درمیان فیصلہ کیا تو آپ سمجھ گئے کہ ﴿أَنَّمَا فَتَنَّاهُ ﴾ ہم نے حضرت داؤد علیہ السلام کی آزمائش کے لئے یہ مقدمہ بنا کر انکے سامنے پیش کیا ہے۔ ﴿فَاسْتَغْفَرَ رَبَّهُ﴾ جب آپ سے لغزش سر زد ہوئی تو آپ نے اپنے رب سے بخشش طلب کی ﴿وَخَرَّ رَاكِعًا ﴾ ” اور جھک کر گرپڑے۔“ یعنی سجدے میں گر پڑے ﴿وَأَنَابَ ﴾ اور سچی توبہ اور عبادت کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کیا۔ ص
25 ﴿فَغَفَرْنَا لَهُ ذٰلِكَ﴾“ پس ہم نے معاف کردی یہ لغزش“ جو آپ سے صادر ہوئی تھی اور مختلف انواع کی کرامات کے ذریعے سے آپ کو اکرام سے سرفراز کیا، فرمایا : ﴿وَإِنَّ لَهُ عِندَنَا لَزُلْفَىٰ﴾ ” اور بلا شبہ ہمارے ہاں اس کے لئے خاص مرتبہ ہے“ یعنی بہت بلند مرتبہ، جو کہ ہمارا قرب ﴿وَحُسْنَ مَآبٍ ﴾ ” اور اچھا انجام ہے۔ “ حضرت داؤد علیہ السلام سے جو لغزش سرزد ہوئی، اللہ تعالیٰ نے اس کا ذکر نہیں فرمایا کیونکہ اس کی کوئی حاجت نہیں، اس لئے اس بارے میں تعرض کرنا محض تکلف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو واقعہ بیان فرمایا ہے صرف اسی میں فائدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے لطف و کرم سے نوازا، آپ کی توبہ اور انابت کو قبول کیا، آپ کا مرتبہ بلند ہوا لہٰذا توبہ کے بعد آپ کو پہلے سے بہتر مرتبہ حاصل ہوا۔ ص
26 ﴿يَا دَاوُودُ إِنَّا جَعَلْنَاكَ خَلِيفَةً فِي الْأَرْضِ﴾ ” اے داؤد ! ہم نے آپ کو زمین میں خلیفہ بنایا“ تاکہ آپ دنیا میں دینی اور دنیاوی احکام نافذ کرسکیں: ﴿فَاحْكُم بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ﴾ ” لہٰذا لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلے کیجیے“ یعنی عدل و انصاف کے ساتھ اور یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک واجب کا علم اور واقعے کا علم نہ ہو اور حق کو نافذ کرنے کی قدرت نہ ہو۔ ﴿وَلَا تَتَّبِعِ الْهَوَىٰ﴾ ” اور خواہشات نفس کی پیروی نہ کیجیے۔“ ایسا نہ ہو کہ آپ کا دل کسی کی طرف اس کی قرابت، دوستی یا محبت یا فریق مخالف سے ناراضی کے باعث مائل ہوجائے ﴿ فَيُضِلَّكَ ﴾ ” پس وہ (خواہش نفس) آپ کو گمراہ کر دے“ ﴿عَن سَبِيلِ اللّٰـهِ ﴾ ” اللہ کی راہ سے“ اور آپ کو صراط مستقیم سے دور کر دے۔ ﴿ إِنَّ الَّذِينَ يَضِلُّونَ عَن سَبِيلِ اللّٰـهِ﴾ ” بلا شبہ وہ لوگ جو اللہ کے راستے سے گمراہ ہوجاتے ہیں۔“ خاص طور پر وہ لوگ جو دانستہ طور پر اس کا ارتکاب کرتے ہیں: ﴿لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ بِمَا نَسُوا يَوْمَ الْحِسَابِ﴾ ” ان کے لئے یوم جزا سے غافل رہنے کی وجہ سے، سخت عذاب ہے۔“ اگر وہ اسے یاد رکھتے اور ان کے دل میں اس کا خوف ہوتا تو فتنے میں مبتلا کرنے والی خواہشات نفس کبھی بھی انہیں ظلم اور نا انصافی کی طرف مائل نہ کرسکتیں۔ ص
27 اللہ تبارک و تعالیٰ آسمانوں اور زمین کی تخلیق کی حکمت کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے، نیز یہ کہ اس نے زمین و آسمان کو باطل، یعنی بغیر کسی فائدے اور مصلحت کے کھیل تماشے کے طور پر عبث پیدا نہیں کیا: ﴿ ذٰلِكَ ظَنُّ الَّذِينَ كَفَرُوا﴾ ” یہ ان لوگوں کا گمان ہے جنہوں نے کفر کیا ہے“ اپنے رب کے ساتھ کہ وہ اپنے رب کے بارے میں ایسا گمان رکھتے ہیں جو اس کے جلال کے لائق نہیں۔ ﴿فَوَيْلٌ لِّلَّذِينَ كَفَرُوا مِنَ النَّارِ﴾ ” پس کافروں کے لئے آگ کی ہلاکت ہے۔“ یہ آگ ہے جو ان سے حق حاصل کرے گی اور انہیں پوری طرح عذاب میں مبتلا کرے گی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو حق کے ساتھ اور حق کی خاطر تخلیق فرمایا ہے، ان کو اس لئے تخلیق فرمایا تاکہ بندوں کو معلوم ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ کا مل علم، کامل قدرت اور لامحدود قوت کا مالک ہے اور وہی اکیلا معبود ہے اور وہ معبود نہیں ہیں جو زمین و آسمان میں ایک ذرہ بھی تخلیق نہیں کرسکتے۔ حیات بعد الموت حق ہے اور قیامت کے روز اللہ نیکوکاروں اور بدکاروں کے درمیان فیصلہ فرمائے گا۔ ص
28 کوئی جاہل شخص اللہ تعالیٰ کی حکمت کے بارے میں یہ گمان نہ کرے کہ وہ اپنے فیصلے میں نیک اور بد کے ساتھ مساوی سلوک کرے گا، اس لئے فرمایا : ﴿أَمْ نَجْعَلُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ كَالْمُفْسِدِينَ فِي الْأَرْضِ أَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقِينَ كَالْفُجَّارِ﴾ ” کیا ہم انہیں جو ایمان لائے ہیں ان کی طرح بنا دیں جو زمین میں فساد کرتے ہیں یا ہم متقین اور بدکاروں کو یکساں کردیں؟“ یعنی ایسا کرنا ہماری حکمت اور ہمارے حکم کے شایاں نہیں۔ ص
29 ﴿كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ إِلَيْكَ مُبَارَكٌ﴾ ” یہ کتاب جو ہم نے تم پر نازل کی ہے بابرکت ہے۔“ جو خیر کثیر اور علم بسیط کی حامل ہے۔ اس کے اندر ہدایت، ہر بیماری کی شفا اور نور ہے جس سے گمراہی کی تاریکیوں میں روشنی حاصل کی جاتی ہے۔ اس کے اندر ہر وہ حکم موجود ہے، جس کے مکلفین محتاج ہیں اور اس کے اندر ہر مطلوب کے لئے قطعی دلائل موجود ہیں۔ جب سے اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو تخلیق فرمایا ہے اس وقت سے لے کر اس کتاب سے زیادہ کوئی جلیل القدر کتاب نہیں آئی۔ ﴿لِّيَدَّبَّرُوا آيَاتِهِ ﴾ یعنی اس کتاب جلیل کو نازل کرنے کی حکمت یہ ہے کہ لوگ اس کی آیات میں تدبر کریں، اس کے علم کا استنباط کریں اور اس کے اسرار و حکم میں غور و فکر کریں۔ یہ آیت کریمہ قرآن کریم میں تدبر کرنے کی ترغیب دیتی ہے اور اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ قرآن کریم میں تدبر اور غور و فکر کرنا سب سے افضل عمل ہے، نیز یہ اس کی دلیل ہے کہ وہ قراءت جو تدبر و تفکر پر مشتمل ہو اس تلاوت سے کہیں افضل ہے جو بہت تیزی سے کی جا رہی ہو، مگر اس سے متذکرہ بالا مقصد حاصل نہ ہو رہا ہو۔ ﴿وَلِيَتَذَكَّرَ أُولُو الْأَلْبَابِ﴾ تاکہ عقل صحیح کے حاملین اس میں غور و فکر کر کے ہر علم اور ہر مطلوب حاصل کریں۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ہر انسان کو اپنی عقل کے مطابق اس عظیم کتاب سے نصیحت حاصل ہوتی ہے۔ ص
30 اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام کی مدح و ثنا بیان کرنے، ان کے ساتھ اور ان کی طرف سے جو کچھ پیش آیا اس کا ذکر کرنے کے بعد، ان کے بیٹے سلیمان علیہ السلام کی مدح و ثنا بیان کی، چنانچہ فرمایا : ﴿وَوَهَبْنَا لِدَاوُودَ سُلَيْمَانَ﴾ یعنی ہم نے داؤد علیہ السلام کو سلیمان علیہ السلام عطا کر کے ان کی آنکھیں ٹھنڈی کیں ﴿ نِعْمَ الْعَبْدُ﴾ سلیمان (علیہ السلام) بہترین بندے تھے“ کیونکہ وہ ان تمام اوصاف سے متصف تھے جو مدح و ثنا کے موجب ہیں۔ ﴿إِنَّهُ أَوَّابٌ﴾ یعنی وہ اپنے تمام احوال میں، تعبد، انابت، محبت، ذکر و دعا، آہ و زاری، اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کی کوشش کرنے اور اس کی رضا کو ہر چیز پر مقدم رکھنے میں اللہ تعالیٰ ہی کی طرف نہایت کثرت سے رجوع کرنے والے تھے۔ ص
31 بنا بریں جب ان کی خدمت میں خوب تربیت یافتہ، تیز رفتار گھوڑے پڑش کئے گئے، جن کا وصف یہ تھا کہ جب وہ کھڑے ہوتے تو ایک پاؤں زمین سے اٹھائے رکھتے۔ ان کو پیش کئے جانے کا منظر نہایت ہی خوبصورت، خوش کن اور تعجب انگیز تھا، خاص طور پر ان لوگوں کے لئے جنہیں ان گھوڑوں کی ضرورت تھی، مثلاً بادشاہ وغیرہ۔ سلیمان علیہ السلام کی خدمت میں یہ گھوڑے پیش ہوتے رہے حتیٰ کہ سورج چھپ گیا اور گھوڑوں کی محبت اور ان میں مصروفیت نے آپ کو عصر کی نماز اور ذکر الٰہی سے غافل کردیا۔ ص
32 سلیمان علیہ السلام نے اس کوتاہی پر جو ان سے ہوئی اظہار ندامت کرتے ہوئے، جس چیز نے آپ کو ذکر الٰہی سے غافل کیا اس کی وجہ سے اللہ کا تقرب حاصل کرتے ہوئے اور محبت الٰہی کو غیر اللہ کی محبت پر مقدم کرتے ہوئے فرمایا : ﴿إِنِّي أَحْبَبْتُ حُبَّ الْخَيْرِ﴾ یہاں (أَحْبَبْتُ) (آثَرْتُ) کے معنی کو متضمن ہے یعنی میں نے ” خیر“ کی محبت کو ترجیح دی ہے۔” خیر“ کے معنی عام طور پر ” مال“ لئے جاتے ہیں۔ مگر اس مقام پر متذکرہ بالا گھوڑے مراد ہیں : ﴿عَن ذِكْرِ رَبِّي حَتَّىٰ تَوَارَتْ بِالْحِجَابِ﴾ ” اپنے رب کی یاد سے حتی ٰکہ )سورج( پردے میں چھپ گیا۔“ ص
33 سلیمان علیہ السلام نے فرمایا ﴿رُدُّوهَا عَلَيَّ﴾ ” ان کو میرے پاس واپس لاؤ۔“ حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس گھوڑے واپس لائے گئے۔ ﴿فَطَفِقَ مَسْحًا بِالسُّوقِ وَالْأَعْنَاقِ ﴾ تو سلیمان علیہ السلام نے تلوار کے ساتھ ان کی ٹانگیں اور گردنیں کاٹنا شروع کردیں۔ ص
34 اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَلَقَدْ فَتَنَّا سُلَيْمَانَ ﴾ یعنی ہم نے حضرت سلیمان علیہ السلام سے ان کا اقتدار لے کر اس خلل کے سبب سے ان کو آزمایا، جس کا طبیعت بشری تقاضا کرتی ہے: ﴿وَأَلْقَيْنَا عَلَىٰ كُرْسِيِّهِ جَسَدًا﴾ ” اور ان کی کرسی پر ایک جسد ڈال دیا۔“ یعنی اللہ تعالیٰ نے قضا و قدر کے ذریعے سے مقدر کردیا کہ ایک شیطان سلیمان علیہ السلام کی کرسی پر آپ کی آزمائش کے عرصے کے دوران میں بیٹھے اور آپ کی سلطنت میں تصرف کرے۔ [فاضل مفسر رحمہ اللہ کا یہ بیان اسرائیلی روایات ہی سے ماخوذ ہے جن سے مفسر نے اپنی پوری تفسیر میں بجا طور پر اجتناب کیا ہے۔ پتا نہیں فاضل مؤلف نے یہاں اس پر اعتماد کر کے کیوں یہ بات لکھ دی ہے۔ یہ آزمائش کیا تھی؟ کرسی پر ڈالا گیا جسم کس چیز کا تھا؟ اور اس کا مطلب کیا ہے؟ اس کی کوئی تفصیل قرآن کریم یا حدیث میں نہیں ملتی۔ اس لئے امام ابن کثیر وغیرہ کی رائے میں اس پر خاموشی ہی بہتر ہے۔ (ص۔ ی) ] ﴿ ثُمَّ أَنَابَ ﴾ پھر سلیمان علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کیا اور توبہ کی۔ ص
35 ﴿ قَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِي وَهَبْ لِي مُلْكًا لَّا يَنبَغِي لِأَحَدٍ مِّن بَعْدِي إِنَّكَ أَنتَ الْوَهَّابُ﴾ ” کہنے لگے اے میرے رب ! مجھے بخش دے اور مجھ کو ایسی بادشاہی عطا فرما کہ میرے بعد کسی کو شایاں نہ ہو۔ بے شک تو بڑا عطا فرمانے والا ہے۔“ ص
36 اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا قبول فرما کر آپ کو بخش دیا اور آپ کی سلطنت آپ کو واپس کردی اور اقتدار اور سلطنت میں مزید اضافہ کردیا۔ آپ کے بعد اتنا زیادہ اقتدار کسی اور کو عطا نہیں کیا۔ ص
37 شیاطین آپ کے لیے مسخر کردیے گئے، آپ جو کچھ چاہتے وہ تعمیر کرتے تھے، وہ آپ کے حکم پر سمندر میں غوطہ خوری کرتے اور سمندر کی تہہ سے موتی نکال کر لاتے۔ ص
38 ان میں جو کوئی آپ کی نافرمانی کرتا آپ اسے زنجیروں میں جکڑ کر قید کردیتے۔ ص
39 ہم نے سلیمان علیہ السلام سے کہا ﴿ هَـٰذَا عَطَاؤُنَا ﴾ ” یہ ہمارا عطیہ ہے“ اس سے آنکھیں ٹھنڈی کیجیے۔ ﴿ فَامْنُنْ﴾ جسے چاہیں عطا کریں۔ ﴿ أَوْ أَمْسِكْ ﴾ اور جسے چاہیں عطا نہ کریں۔ ﴿ بِغَيْرِ حِسَابٍ﴾ اس بارے میں آپ پر کوئی حرج ہے نہ آپ سے کوئی حساب لیا جائے گا، کیونکہ اللہ تعالیٰ حضرت سلیمان علیہ السلام کے کامل عدل اور بہترین فیصلوں کے بارے میں خوب جانتا تھا۔ ص
40 آپ یہ نہ خیال کیجیے کہ یہ تمام نعمتیں سلیمان علیہ السلام کو صرف دنیا ہی میں حاصل تھیں، آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہیں، بلکہ آخرت میں بھی ان کو خیر کثیر سے نوازا جائے گا۔اس لیے فرمایا : ﴿ وَإِنَّ لَهُ عِندَنَا لَزُلْفَىٰ وَحُسْنَ مَآبٍ﴾ ” اور بے شک ان کے لیے ہمارے ہاں قریب اور عمدہ مقام ہے۔“ یعنی وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں مقربین اور مکرمین کے زمرے میں شمار ہوتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے مختلف انواع کی کرامات سے سرفراز فرمایا۔ فوائد حضرت داود اور سلیمان علیہ السلام کے قصے سے مندرجہ ذیل فوائد اور حکمتیں مستفاد ہوتی ہیں : 1۔ اللہ تعالیٰ اپنے نبی محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے آپ سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کی خبریں بیان فرماتا ہے تاکہ وہ آپ کی ہمت بندھاتا رہے اور آپ کو اطمینان قلب حاصل ہو۔ اللہ تعالیٰ ان کی عبادت، ان کے صبر کی شدت اور ان کی انابت کا ذکر فرماتا ہے تاکہ آپ میں آگے بڑھنے اور اللہ تعالیٰ کے قرب کے حصول کا شوق اور اپنی قوم کی اذیت رسانی پر صبر کا جذبہ پیدا ہو۔ بنا بریں اس مقام پر جب اللہ تعالیٰ نے آپ کی قوم کی اذیت رسانی، آپ کے اور آپ کی دعوت کے بارے میں ان کی بد کلامی کا ذکر کیا تو آپ کو صبر کرنے کا حکم دیا اور ساتھ ہی تلقین کی کہ آپ اس کے بندے داؤد علیہ السلام کو یاد کر کے اس سے تسلی حاصل کریں۔ 2۔ اللہ تعالیٰ اپنی اطاعت میں استعمال ہونے والی قوت قلب اور قوت بدن کو پسند کرتا ہے اور اس کی مدح کرتا ہے، کیونکہ قوت کے ذریعے سے اطاعت الٰہی کے آثار، اس کی خوبی اور اس کی جو کثرت حاصل ہوتی ہے وہ کمزوری اور عدم قوت سے حاصل نہیں ہوتی، نیز آیات کریمہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ بندے کو چاہیے کہ وہ اسباب قوت کے حصول کی کوشش کرتا رہے اور نفس کو کمزور کرنے والی بے کاری اور سستی کی طرف مائل ہونے سے بچے۔ ٣۔ تمام امور میں اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنا اللہ تعالیٰ کے انبیاء اور اس کی خاص مخلوق کا وصف ہے، اقتدا کرنے والوں کو چاہیے کہ ان کی اقتدا کریں اور اہل سلوک ان کی راہ پر گامزن ہوں۔ ﴿ أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ هَدَى اللّٰـهُ فَبِهُدَاهُمُ اقْتَدِهْ﴾ )الانعام : 6؍90) ” یہی لوگ ہیں جن کو اللہ نے ہدایت سے سرفراز فرمایا، لہٰذا ان کی ہدایت کی پیروی کیجیے۔ “ 4۔ ان آیات کریمہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی داؤد علیہ السلام کو بہت خوبصورت آواز سے نوازا تھا جس کے سبب سے ٹھوس پہاڑ اور پرندے جھوم اٹھتے تھے۔ جب آپ صبح و شام اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتے تو پرندے اور پہاڑ بھی آپ کے ساتھ تسبیح بیان کرتے۔ 5۔ اللہ تعالیٰ کی اپنے بندے پر سب سے بڑی نعمت یہ ہے کہ وہ اسے علم نافع عطا کرے، اسے دانائی اور لوگوں کے درمیان فیصلہ کرنے کی صلاحیت سے سرفراز کرے، جیسا کہ اس نے اپنے بندے حضرت داود علیہ السلام کو ان صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ 6۔ جب کبھی اللہ تعالیٰ کے چنے ہوئے بندوں اور اس کے انبیاء ورسل سے کوئی خلل واقع ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ انھیں آزمائش اور ابتلا میں مبتلا کرتا ہے جس سے یہ خلل زائل ہوجاتا ہے اور وہ پہلے حال سے بھی زیادہ کامل حال کی طرف لوٹ آتے ہیں جیسا کہ حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام کو آزمائش پیش آئی۔ 7۔ انبیاء و مرسلین اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانے میں خطا سے پاک اور معصوم ہوتے ہیں، کیونکہ اس وصف کے بغیر رسالت کا مقصد حاصل نہیں ہوسکتا، لیکن کبھی کبھی طبیعت بشری کے تقاضوں کی بنا پر کسی معصیت کا اتکاب ہوجاتا ہے، مگر اللہ تعالیٰ اپنے لطف و کرم سے فوراً اس کا تدارک کردیتا ہے۔ 8۔ آیات سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام اپنے غالب احوال میں، اپنے رب کی عبادت کے لیے اپنے محراب میں گوشہ نشین رہتے تھے، اسی لیے دونوں جھگڑنے والے اشخاص کو دیوار پھاند کر محراب میں آنا پڑا، کیونکہ حضرت داؤد علیہ السلام جب اپنے محراب میں چلے جاتے تو کوئی ان کے پاس نہ جاسکتا تھا۔ آپ کے پاس لوگوں کے بکثرت مقدمات آنے کے باوجود اپنا تمام وقت لوگوں کے لیے صرف نہیں کرتے تھے بلکہ انھوں نے اپنے لیے کچھ وقت مقرر کیا ہوا تھا جس میں خلوت نشیں ہو کر اپنے رب کی عبادت سے اپنی آنکھوں کو ٹھنڈا کرتے تھے۔ یہ عبادت تمام امور میں اخلاص کے لیے ان کی مدد کرتی تھی۔ 9۔ حضرت داؤد علیہ السلام کے قصے سے مستنبط ہوتا ہے کہ حکام کے پاس حاضر ہونے میں ادب کو استعمال میں لایا جائے، کیونکہ مذکورہ بالا دونوں اشخاص جب اپنا جھگڑا لے کر حضرت داؤدعلیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے تو عام دروازے اور اس راستے سے آپ کے پاس نہیں گئے جو عام طور پر استعمال میں آتا تھا، اس لیے حضرت داؤد علیہ السلام ان کو دیکھ کر گھبرا گئے۔ یہ چیز آپ پر نہایت گراں گزری، ان کے خیال میں یہ صورت حال آپ کے لائق نہ تھی۔ 10۔ جھگڑے کے کسی فریق کی طرف سوئے ادبی اور اس کا نا گوار رویہ حاکم کو حق کے مطابق فیصلہ کرنے سے نہ روکے۔ 11۔ ان آیات مبارکہ سے حضرت داؤد علیہ السلام کے کمال حلم کا اظہار ہوتا ہے، کیونکہ جب مذکورہ بالا دونوں شخص آپ کی اجازت طلب کیے بغیر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے..... حالانکہ آپ وقت کے بادشاہ تھے..... تو آپ ان سے ناراض ہوئے نہ ان کو جھڑکا اور نہ انھیں کوئی زجرو تو بیخ ہی کی۔ 12۔ آیات کریمہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ مظلوم کے لیے ظالم کو اس قسم کے الفاظ سے مخاطب کرنا جائز ہے۔” تو نے مجھ پر ظلم کیا“” اے ظالم !“” اے مجھ پر زیادتی کرنے والے !“ وغیرہ اس کی دلیل یہ ہے کہ انھوں نے کہا تھا ﴿ خَصْمَانِ بَغَىٰ بَعْضُنَا عَلَىٰ بَعْضٍ﴾ (ص:38؍22) ”ہم مقدمے کے دو فریق ہیں جن میں سے ایک نے دوسرے پر زیادتی کی۔ “ 13۔ کوئی آدمی خواہ وہ کتنا ہی جلیل القدر اور صاحب علم کیوں نہ ہو، جب کوئی شخص خیر خواہی کرتے ہوئے اس کو نصیحت کرے تو اسے ناراض ہونا چاہیے نہ یہ نصیحت اس کو ناگوار گزرنی چاہیے، بلکہ شکر گزاری کے ساتھ اسے قبول کرلینا چاہیے، کیونکہ مقدمے کے فریقین نے حضرت داؤد علیہ السلام کو نصیحت کی تو آپ نے برا مانا نہ ناراض ہوئے اور نہ اس چیز نے آپ کو راہ حق سے ہٹایا، بلکہ آپ نے صریح حق کے ساتھ فیصلہ کیا۔ 15۔ اس قصے سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ عزیز و اقارب اور دوستوں کا باہمی اختلاط، دنیاوی اور مالی تعلقات کی کثرت ان کے درمیان عداوت اور ایک دوسرے پر زیادتی کی موجب بنتی ہے، نیز یہ کہ اس قسم کی صورت حال سے صرف تقوٰی اور ایمان و عمل پر صبر ہی کے ذریعے سے بچا جاسکتا ہے اور یہی چیز لوگوں میں سب سے کم پائی جاتی ہے۔ 15۔ ان آیات کریمہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ استغفار اور عبادت، خاص طور پر نماز گناہوں کو مٹا دیتی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤدعلیہ السلام کی لغزش کی بخشش کو آپ کے استغفار اور سجود پر مترتب فرمایا۔ 16۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے بندوں حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام کو اکرام و تکریم، اپنے قرب اور بہترین ثواب سے سرفراز فرمایا۔ ان کے بارے میں یہ نہ سمجھا جائے کہ ان کے ساتھ جو کچھ پیش آیا، اس کی بنا پر اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کے درجے میں کوئی کمی واقع ہوگئی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا اپنے مخلص بندوں پر کامل لطف و کرم ہے کہ جب وہ ان کی لغزشوں کو بخش دیتا ہے اور ان کے گناہوں کے اثرات کو زائل کردیتا ہے تو ان پر مترتب ہونے والے تمام آثار کو بھی زائل کردیتا ہے یہاں تک کہ ان اثرات کو بھی مٹا دیتا ہے جو مخلوق کے دلوں میں واقع ہوتے ہیں، کیونکہ جب مخلوق کو ان کے گناہ کا علم ہوتا ہے تو ان کے دلوں میں ان کا درجہ کم ہوجاتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ مخلوق کے دلوں میں اس اثر کو زائل کردیتا ہے اور کریم و غفار کے لیے ایسا کرنا کوئی مشکل امر نہیں۔ 17۔ لوگوں کے درمیان فیصلے کرنا ایک دینی منصب ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں اور خاص بندوں کو مقرر فرمایا ہے، جسے یہ ذمہ داری سونپی جائے اسے حق کے ساتھ اور خواہشات نفس سے الگ ہو کر فیصلہ کرنا چاہیے۔ حق کے ساتھ فیصلے کرنا امور شرعیہ کے علم، محکوم بہ مقدمے کی صورت کے علم اور اس کو حکم شرعی میں داخل کرنے کی کیفیت کے علم کا تقاضا کرتا ہے، لہٰذا جو شخص ان میں سے کسی ایک کے علم سے بے بہرہ ہے وہ فیصلہ کرنے کے منصب کا اہل نہیں۔ اسے فیصلہ کرنے کے لیے آگے نہیں بڑھنا چاہیے۔ 18۔ حاکم کو چاہیے کہ وہ خواہش نفس سے بچے اور اس سے کنارہ کش رہے، کیونکہ نفس خوہشات سے خالی نہیں ہوتا، بلکہ وہ اپنے نفس سے مجاہدہ کرے تاکہ حق ہی اس کا مقصود و مطلوب ہو۔ فیصلہ کرتے وقت مقدمے کے فریقین میں سے کسی کے لیے محبت یا کسی کے لیے ناراضی دل سے نکال دے۔ 19۔ حضرت سلیمان علیہ السلام حضرت داؤد علیہ السلام کے فضائل ہی میں سے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا حضرت داؤد علیہ السلام پر احسان تھا کہ اس نے آپ کو سلیمان علیہ السلام سے نوازا۔ اللہ تعالیٰ کی اپنے بندے پر سب سے بڑی نعمت یہ ہے کہ وہ اسے صالح اولاو عطا کرے اور اگر اولاد عالم فاضل ہو تو یہ نور علی نور ہے۔ 20۔ ان آیات کریمہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت سلیمان علیہ السلام کی مدح و ثنا ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿ نِّعْمَ الْعَبْدُ إِنَّهُ أَوَّابٌ﴾ ” بہت اچھا بندہ اور نہایت کثرت سے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے والا ہے۔ “ 21۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندوں کے لیے خیر کثیر اور ان پر احسان ہے کہ وہ انھیں صالح اعمال اور مکارم اخلاق کی توفیق سے سرفراز کرتا ہے، پھر ان اخلاق و اعمال کی بنا پر ان کی مدح و ثنا کرتا ہے، حالانکہ وہ خود ہی عطا کرنے والا ہے۔ 22۔ ان آیات کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام اللہ تعالیٰ کی محبت کو ہر چیز کی محبت پر ترجیح دیتے تھے۔ 23۔ ان آیات سے یہ مستفاد ہوتا ہے کہ ہر وہ چیز جو بندۂ مومن کو اللہ تعالیٰ سے غافل کر کے اپنے اندر مشغول کرلے وہ مذموم اور منحوس ہے۔ بندۂ مومن کو چاہیے کہ وہ اس سے علیحدہ ہوجائے اور اس چیز کی طرف توجہ دے جو اس کے لیے زیادہ فائدہ مند ہے۔ 24۔ ان آیات کریمہ سے یہ مشہور قاعدہ مستفاد ہوتا ہے کہ ” جو شخص اللہ تعالیٰ کے لیے کوئی چیز ترک کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے اس سے بہتر عوض عطا کرتا ہے“ چنانچہ سلیمان علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی محبت کو مقدم رکھتے ہوئے، سدھائے ہوئے تیز رفتار گھوڑوں کو ذبح کردیا، جو نفوس کو بہت محبوب ہوتے ہیں، تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس سے بہتر عوض عطا کیا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے نرم رفتار ہوا کو مسخر کردیا، جو آپ کے حکم سے اسی سمت میں جس کا آپ قصدو ارادہ کرتے، صبح کے وقت ایک مہینے کی راہ تک اور شام کے وقت ایک مہینے کی راہ تک چلتی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے شیاطین کو مسخر کردیا جو ایسے کام کر سکتے تھے جنھیں کرنے پر انسان قادر نہ تھے۔ 25۔ سلیمان علیہ السلام ایک بادشاہ اور نبی تھے دو اپنی من مرضی کرسکتے تھے، لیکن انھوں نے عدل و انصاف کے سوا کسی چیز کا ارادہ نہ کیا۔ نبی عبد کا ارادہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے تابع ہوتا ہے اس کا ہر فعل و ترک صرف اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ہوتا ہے، جیسا کہ ہمارے نبی محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حال تھا اور یہ کامل ترین حال ہے۔ ص
41 ﴿ وَاذْكُرْ ﴾ ” اور یاد کرو“ یعنی نصیحت والی اس کتاب عظیم کے اندر ﴿ عَبْدَنَا أَيُّوبَ ﴾ ” ہمارے بندے ایوب کا“ بہترین پیرائے میں ذکر کیجیے اور احسن طریقے سے ان کی مدح و ثنا کیجیے۔ جب انھیں تکلیف اور مصیبت پہنچی تو انھوں نے اس تکلیف پر صبر کیا اور غیر کے سامنے اپنے رب کا شکوہ کیا نہ اس کے سوا کسی اور کا سہارا لیا ﴿ إِذْ نَادَىٰ رَبَّهُ﴾ جب ایوب علیہ السلام نے غیر اللہ کے پاس نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کے پاس شکوہ کرتے اور اس سے دعا کرتے ہوئے اسی کو پکارا اور عرض کیا : اے میرے رب : ﴿ أَنِّي مَسَّنِيَ الشَّيْطَانُ بِنُصْبٍ وَعَذَابٍ ﴾ یعنی شیطان نے مجھے مشقت انگیز اور نہایت تکلیف دہ عذاب میں ڈال دیا ہے۔ شیطان کو آپ کے جسد پر تسلط حاصل ہوگیا، اس نے پھونک ماری تو جسم پر پھوڑے بن گئے، پھر ان سے پیپ بہنے لگی اور اس کے بعد معاملہ بہت سخت ہوگیا اور اسی طرح ان کا مال اور ان کے اہل و عیال بھی ہلاک ہوگئے۔ ص
42 ان سے کہا گیا ﴿ ارْكُضْ بِرِجْلِكَ﴾ یعنی اپنی ایڑی زمین پر ماریں۔ آپ کے لیے ایک چشمہ زمین سے پھوٹ پڑے گا، اس چشمے کا پانی پیجیے اور اس سے غسل کیجیے۔ آپ کی بیماری اور تکلیف دور ہوجائے گی۔ آپ نے ایسا ہی کیا تو آپ کی بیماری دور ہوگئی اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو شفا بخش دی۔ ص
43 ﴿ وَوَهَبْنَا لَهُ أَهْلَهُ ﴾ ” اور ہم نے نھیں ان کے اہل و عیال عطا کردیے۔“ کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اہل و عیال کو زندہ کردیا تھا۔ ﴿وَمِثْلَهُم مَّعَهُمْ ﴾ اور دنیا میں اتنے ہی اور عطا کردیے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو بہت زیادہ مال سے بہرہ مند کر کے نہایت مال دار کردیا ﴿رَحْمَةً مِّنَّا﴾ یعنی ہماری طرف سے ہمارے بندے ایوب پر رحمت تھی، کیونکہ انھوں نے صبر کیا اور ہم نے ان کو اپنی رحمت سے دنیاوی اور اخروی ثواب سے بہرہ مند کیا۔ ﴿ وَذِكْرَىٰ لِأُولِي الْأَلْبَابِ﴾ تاکہ عقل مند لوگ حضرت ایوب علیہ السلام کی حالت سے نصیحت اور عبرت پکڑیں اور انھیں معلوم ہوجائے کہ جو کوئی مصیبت میں صبر کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے دنیاوی اور اخروی ثواب سے نوازتا ہے اور جب وہ دعا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی دعا قبول کرتا ہے۔ ص
44 اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت ایوب علیہ السلام کو حکم دیا۔ ﴿ وَخُذْ بِيَدِكَ ضِغْثًا﴾ ” اور اپنے ہاتھ میں جھاڑو لو۔“ یعنی درخت کی باریک شاخوں کا گٹھا ﴿ فَاضْرِب بِّهِ وَلَا تَحْنَثْ﴾ ” اور اس سے مارو اور قسم نہ توڑو۔ “ مفسرین کہتے ہیں کہ ایوب علیہ السلام بیماری اور تکلیف کے دوران میں کسی معاملے میں اپنی بیوی سے ناراض ہوگئے تھے، اس پر آپ نے قسم کھائی تھی کہ وہ اپنی بیوی کو سوکوڑے ماریں گے۔ ان کی بیوی، انتہائی نیک اور آپ کے ساتھ بھلائی کرنے والی خاتون تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس خاتون پر اور حضرت ایوب علیہ السلام پر رحم فرمایا اور فتوٰی دیا کہ وہ درخت کی باریک سو شاخوں کا گٹھا لے کر اس سے ایک ہی دفعہ ماریں، ان کی قسم پوری ہوجائے گی۔ ﴿ إِنَّا وَجَدْنَاهُ صَابِرًا ﴾ یعنی ہم نے آپ کو بہت بڑی بیماری اور تکلیف کے ذریعے سے آزمایا اور آپ نے اللہ تعالیٰ کی خاطر صبر کیا۔ ﴿ نِّعْمَ الْعَبْدُ﴾ ” وہ بہترین بندے تھے“ جنھوں نے خوشی اور مصیبت، خوش حالی اور بدحالی میں عبودیت کے مراتب کی تکمیل کی ﴿ إِنَّهُ أَوَّابٌ﴾ یعنی آپ اپنے دینی اور دنیاوی مطالب میں اللہ تعالیٰ کی طرف بہت زیادہ رجوع کرنے والے، اپنے رب کا بہت زیادہ ذکر کرنے والے، اس کو بہت زیادہ پکارنے والے، اس سے محبت اور اس کی عبادت کرنے والے تھے۔ ص
45 اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿ وَاذْكُرْ عِبَادَنَا﴾ ” ہمارے اور بندوں کا ذکر کیجیے“ جنھوں نے خالص ہماری عبادت کی اور ہمیں اچھی طرح یاد کیا ﴿ إِبْرَاهِيمَ﴾ ” ابرہیم“ خلیل اللہ ﴿ وَ﴾ ” اور“ ان کے بیٹے ﴿ إِسْحَاقَ وَ﴾ ” اسحاق اور“ ان (ابراہیم) کے پوتے ﴿ يَعْقُوبَ أُولِي الْأَيْدِي﴾ ” یعقوب یہ سب قوت والے تھے۔“ یعنی جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے قوت رکھتے تھے۔ ﴿ وَالْأَبْصَارِ ﴾ اور اللہ تعالیٰ کے دین میں بصیرت سے بہرہ مند تھے۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان سب کو علم نافع اور عمل صالح سے موصوف کیا۔ ص
46 ﴿ إِنَّا أَخْلَصْنَاهُم بِخَالِصَةٍ﴾ ” بے شک ہم نے نھیں ایک امتیازی بات کے ساتھ خاص کیا۔“ یعنی بہت بڑی خالص صفت کیساتھ جو کہ ﴿ذِكْرَى الدَّارِ ﴾ ” آخرت کی یاد ہے“ یعنی ہم نے آخرت کی یاد ان کے دلوں میں جاگزیں کردی، عمل صالح کو ان کے وقت کا مصرف، اخلاص اور مراقبے کو ان کا دائمی وصف بنا دیا۔ ہم نے ان کو اس طرح آخرت کی یاد بنا دیا کہ نصیحت پکڑنے والا ان کے احوال سے نصیحت اور عبرت حاصل کرنے والا عبرت کرتا ہے اور یہ بہترین طریقے سے اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے ہیں۔ ص
47 ﴿ وَإِنَّهُمْ عِندَنَا لَمِنَ الْمُصْطَفَيْنَ ﴾اور یقیناً وہ ہمارے نزدیک منتخب لوگوں میں سےہیں،جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی بہترین مخلوق میں سے چن لیا۔ ﴿ الْأَخْيَارِ﴾” بہترین لوگ ہیں“ یعنی وہ لوگ اخلاق کریمہ اور صالح کے حامل ہیں۔ ص
48 یعنی ان انبیائے کرام کو احسن طریقے سے یاد کیجیے اور بہترین طریقے سے ان کی مدح و ثنا کیجیے، کیونکہ یہ سب بہترین لوگ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے مخلوق میں سے چن لیا، ان کو کامل ترین احوال، بہترین اعمال و اخلاق، قابل تعریف اوصاف اور درست خصائل کا حامل بنایا۔ ص
49 ﴿هَـٰذَا ﴾ ” یہ“ یعنی انبیاء و مرسلین اور ان کے اوصاف کا تذکرہ تو ﴿ ذِكْرٌ﴾ ” نصیحت ہے‘‘ اس نصیحت کرنے والے قرآن کریم میں تاکہ ان کے احوال سے نصیحت حاصل کرنے والے نصیحت حاصل کریں، اقتدا کرنے والے ان کے اوصاف حمیدہ کی پیروی کے مشتاق ہوں اور ان اوصاف زکیّہ اور ثنائے حسن کی معرفت حاصل ہو، جن سے اللہ تعالیٰ نے ان کو سرفراز فرمایا۔ یہ بھی ذکر کی ایک قسم ہے، یعنی اہل خیر کا تذکرہ اہل خیر اور اہل شرکی جز او سزا کا تذکرہ بھی ذکر ہی کی ایک قسم ہے، اس لیے فرمایا : ﴿وَإِنَّ لِلْمُتَّقِينَ﴾ یعنی ان تمام مومنین اور مومنات کے لیے جو اپنے رب کے حکم کی تعمیل اور نواہی سے اجتناب کے ذریعے سے تقوی اختیار کرتے ہیں ﴿لَحُسْنَ مَآبٍ﴾ بہترین ٹھکانا اور خوب ترین مرجع ہے، پھر اللہ تعالیٰ نے اس بہترین ٹھکانے کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرمایا : ص
50 ﴿ جَنَّاتِ عَدْنٍ﴾ یعنی ہمیشہ سر سبز و شاداب رہنے والے باغات، جن کے کمال اور جن کی نعمتوں کے باعث یہاں کے رہنے والے ان کو کبھی بدلنا نہیں چاہیں گے۔ وہ وہاں سے خود نکلیں گے نہ ان کو نکالا جائے گا۔ ﴿مُّفَتَّحَةً لَّهُمُ الْأَبْوَابُ ﴾ یعنی ان کی خاطر جنت کی منازل و مساکن کے دروازے کھلے رکھے جائیں گے، ان کو خود دروازے کھلوانے کی حاجت نہیں ہوگی، بلکہ ان کی خدمت کی جائے گی۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہاں مکمل امن و امان ہوگا۔ جنت عدن میں کوئی ایسی خطرے کی بات نہ ہوگی جو دروازے بند رکھنے کی موجب ہو۔ ص
51 ﴿مُتَّكِئِينَ فِيهَا﴾ وہ سجائی ہوئی نشست گاہوں اور آراستہ کیے ہوئے تختوں پر ٹیک لگا کر بیٹھیں گے ﴿يَدْعُونَ فِيهَا﴾ یعنی وہ اپنے خدام کو حکم دیں گے ﴿بِفَاكِهَةٍ كَثِيرَةٍ وَشَرَابٍ ﴾ کہ وہ ان کی خدمت میں بکثرت پھل اور مشروبات پیش کریں، جن کو ان کے نفس پسند کریں گے اور ان کی آنکھیں لذت حاصل کریں گی۔ یہ چیز دلالت کرتی ہے کہ وہاں ان کو کامل نعمت، کامل راحت و طمانیت اور کامل لذت حاصل ہوگی۔ ص
52 ﴿ وَعِندَهُمْ ﴾ ” ان کے پاس“ گوری چٹی موٹی آنکھوں والی بیویاں ہوں گی۔ ﴿قَاصِرَاتُ الطَّرْفِ﴾ یعنی دونوں میاں بیوی آپس میں ایک دوسرے کے حسن و جمال اور ایک دوسرے کے ساتھ محبت کے باعث نظریں جھکائے ہوئے ہوں گے۔ وہ دونوں میاں بیوی کسی اور طرف نظر اٹھا کر نہیں دیکھیں گے، وہ اپنے ساتھی کو بدلنا چاہیں گے نہ اس کے عوض کچھ اور چاہیں گے۔ ﴿أَتْرَابٌ ﴾ یعنی وہ میاں بیوی ہم عمر ہوں گے۔ وہ جوانی کے بہترین دور اور انتہائی لذت انگیز عمر میں ہوں گے۔ ص
53 ﴿هَـٰذَا مَا تُوعَدُونَ﴾ ”(اے تقوٰی شعار لوگو !) یہ وہ چیزیں ہیں جن کا تمھارے ساتھ وعدہ کیا گیا تھا“ ﴿ لِيَوْمِ الْحِسَابِ﴾ ” حساب کے دن کے لیے۔ یہ تمھارے نیک اعمال کی جزا ہے۔ ص
54 ﴿ إِنَّ هَـٰذَا لَرِزْقُنَا ﴾ ” یقیناً یہ ہمارا رزق ہے۔‘‘ جو ہم نے اہل جنت کو عطا کیا ہے۔ ﴿مَا لَهُ مِن نَّفَادٍ ﴾ یہ رزق کبھی منقطع نہ ہوگا بلکہ وہ دائمی ہوگا اور ہر آن اس میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ یہ سب کچھ رب کریم کے لیے کوئی بڑا کام نہیں جو رؤف و رحیم، محسن و جواد، واسع و غنی، قابل تعریف، لطف عظیم کا حامل، نہایت مہربان بادشاہ، با اختیار، جلیل القدر، جمیل الشان، احسان کرنے والا، بے پناہ فضل اور متواتر کرم کا مالک ہے۔ وہ ایسی ہستی ہے جس کی نعمتوں کی شمار کیا جاسکتا ہے نہ اس کے کسی احسان کا احاطہ کیا جاسکتا ہے۔ ص
55 ﴿ هَـٰذَا﴾ ” یہ“ جزا جس کا ہم نے وصف بیان کیا ہے اہل تقوٰی کے لیے ہے۔ ﴿وَإِنَّ لِلطَّاغِينَ﴾ یعنی کفر و معاصی میں حد سے بڑھے ہوئے لوگوں کے لیے ﴿لَشَرَّ مَآبٍ﴾ بدترین ٹھکانا اور لوٹنے کی جگہ ہے۔ ص
56 پھر اللہ تعالیٰ نے اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ جَهَنَّمَ﴾ ” جہنم ہے“ جس میں ہر قسم کا عذاب جمع کردیا گیا ہے، جس کی حرارت بہت شدید اور اس کی ٹھنڈک انتہا کو پہنچی ہوئی ہوگی۔ ﴿يَصْلَوْنَهَا ﴾ جہاں ان کو عذاب میں مبتلا کیا جائے گا۔ یہ عذاب انھیں ہر طرف سے گھیر لے گا ان کے نیچے بھی آگ ہوگی اور اوپر سے بھی آگ برے گی۔ ﴿فَبِئْسَ الْمِهَادُ﴾ بدترین مسکن اور ٹھکانا ہوگا جو ان کے لیے تیار کیا گیا ہوگا۔ ص
57 ﴿ هَـٰذَا﴾ یہ بدترین ٹھکانا، یہ سخت عذاب، یہ فضیحت ور سوائی اور یہ سزا ﴿فَلْيَذُوقُوهُ حَمِيمٌ ﴾ پس اسے چکھو، کھولتا ہوا پانی ہوگا، جو سخت گرم ہوگا جسے جہنمی پئیں گے جو ان کی انتڑیوں کو کاٹ ڈالے گا۔ ﴿وَغَسَّاقٌ﴾ یہ بدترین پینے کی چیز ہوگی جو پیپ اور خون پر مشتمل ہوگی جو بہت کڑوی اور انتہائی بدبودار ہوگی۔ ص
58 ﴿وَآخَرُ مِن شَكْلِهِ﴾ یعنی اس کی ایک اور قسم ﴿أَزْوَاجٌ﴾ یعنی عذاب کی متعدد انواع و اقسام ہوں گی جن میں ان کو مبتلا کیا جائے گا اور اس عذاب کے ذریعے سے ان کو رسوا کیا جائے گا۔ ص
59 جب وہ جہنم میں داخل ہوں گے تو ایک دوسرے کو سب و شتم کرتے ہوئے کہیں گے : ﴿هَـٰذَا فَوْجٌ مُّقْتَحِمٌ مَّعَكُمْ﴾ ” یہ ایک فوج ہے جو تمہارے ساتھ گھسی چلی آ رہی ہے“ آگ میں ﴿لَا مَرْحَبًا بِهِمْ إِنَّهُمْ صَالُو النَّارِ﴾ ” ان کے لئے کوئی خیر مقدم نہیں ہے۔ بے شک یہ دوزخ میں جانے والے ہیں“ ص
60 ﴿قَالُوا﴾ وہ گھسے چلے آنے والے لوگ کہیں گے : ﴿بَلْ أَنتُمْ لَا مَرْحَبًا بِكُمْ أَنتُمْ قَدَّمْتُمُوهُ لَنَا ﴾ ” بلکہ تم ہی ہو، تمہارا خیر مقدم نہ ہو، تم ہی تو لائے تھے اسے“ یعنی عذاب کو ﴿لَنَا﴾ ” ہمارے پاس“ کیونکہ تم نے ہمیں دعوت دی، ہمیں فتنے میں مبتلا کرکے گمراہ کیا اور تم ہی ہمارے لئے اس عذاب کا سبب بنے ہو۔ ﴿ فَبِئْسَ الْقَرَارُ ﴾ اب ہم سب کے لئے یہ بدترین ٹھکانا ہے۔ ص
61 پھر وہ ان گمراہ کنندہ لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے درخواست کریں گے اور ﴿قَالُوا رَبَّنَا مَن قَدَّمَ لَنَا هَـٰذَا فَزِدْهُ عَذَابًا ضِعْفًا فِي النَّارِ﴾ ” کہیں گے : اے ہمارے رب ! جو اس کو ہمارے سامنے لایا ہے، اسے دوزخ میں دگنا عذاب دینا“ ایک دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿قَالَ لِكُلٍّ ضِعْفٌ وَلَـٰكِن لَّا تَعْلَمُونَ ﴾ (الاعراف : 8؍37) ”(اس وقت) اللہ فرمائے گا : سب کے لئے دگنا عذاب ہے، مگر تم جانتے نہیں۔ “ ص
62 ﴿وَقَالُوا ﴾ اور وہ جہنم کے اندر کہیں گے ﴿ مَا لَنَا لَا نَرَىٰ رِجَالًا كُنَّا نَعُدُّهُم مِّنَ الْأَشْرَارِ﴾ یعنی ہمیں کیا ہوگیا ہے، جن کے بارے میں ہم سمجھتے تھے کہ یہ برے لوگ ہیں اور جہنم کے عذاب کے مستحق ہیں وہ آج ہمیں نظر نہیں آرہے؟ مراد اہل ایمان ہیں، جہنمی ان کو جہنم میں تلاش کریں گے۔ اللہ تعالیٰ ان کا برا کرے، کیا وہ ان کو جہنم میں نظر آئیں گے؟ ص
63 ﴿أَتَّخَذْنَاهُمْ سِخْرِيًّا أَمْ زَاغَتْ عَنْهُمُ الْأَبْصَارُ﴾ ” کیا ہم نے ان سے مذاق کیا تھا یا ہماری آنکھیں پھر گئی ہیں“ یعنی ان کا ہمیں نظر نہ آنا دواسباب میں سے ایک سبب پر مبنی ہے یا تو ہم ان کو اشرارشمار کرنے میں غلطی پر تھے، حالانکہ وہ اچھے لوگ تھے۔ تب ان کے بارے میں ہماری باتیں تمسخر و استہزا کے زمرے میں آئیں گی۔ حقیقت فی الواقع یہی ہے، جیسا کہ جہنمیوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿إِنَّهُ كَانَ فَرِيقٌ مِّنْ عِبَادِي يَقُولُونَ رَبَّنَا آمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا وَأَنتَ خَيْرُ الرَّاحِمِينَ فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا حَتَّىٰ أَنسَوْكُمْ ذِكْرِي وَكُنتُم مِّنْهُمْ تَضْحَكُونَ﴾ (المومنون : 23؍109۔ 110) ”بے شک میرے بندوں میں سے کچھ لوگ جب یہ کہتے : اے ہمارے رب ! ہم ایمان لے آئے، لہٰذا ہمیں بخش دے، ہم پر رحم فرما اور تو سب سے اچھا رحم فرمانے والا ہے، تو تم نے ان کا تمسخر اڑایا اور انہیں نشانۂ تضحیک بنایا کرتے تھے۔ “ دوسری بات یہ بھی ہوسکتی ہے کہ شاید وہ ہمارے ساتھ عذاب میں مبتلا ہوں مگر وہ ہماری نظروں سے اوجھل رہ گئے ہوں۔ ایک احتمال یہ ہے کہ ان کا اہل ایمان کے بارے میں یہ موقف، دنیا میں ان کے دلوں میں جڑ پکڑ کر عقائد میں ڈھل گیا تھا، انہوں نے اہل ایمان کے بارے میں نہایت کثرت سے جہنمی ہونے کا حکم لگایا، وہ ان کے دلوں میں بیٹھ گیا تھا اور ان کے دل اسی رنگ میں رنگے گئے تھے۔ اسی حال میں انہوں نے متذکرہ بالا الفاظ کہے۔ یہ احتمال بھی ہوسکتا ہے کہ ان کا کلام، خلاف واقعہ اور ملمع سازی کے زمرے میں آتا ہے، جیسا کہ وہ دنیا میں ملمع سازی کیا کرتے تھے، حتی کہ انہوں نے جہنم میں بھی ملمع سازی کی، اسی لئے اہل اعراف اہل جہنم سے کہیں گے۔ ﴿ أَهَـٰؤُلَاءِ الَّذِينَ أَقْسَمْتُمْ لَا يَنَالُهُمُ اللّٰـهُ بِرَحْمَةٍ ۚ ادْخُلُوا الْجَنَّةَ لَا خَوْفٌ عَلَيْكُمْ وَلَا أَنتُمْ تَحْزَنُونَ ﴾ (الاعراف : 7؍49) ” کیا یہ وہی لوگ نہیں جن کے بارے میں تم لوگ قسمیں کھا کھا کر کہا کرتے تھے کہ اللہ ان کو اپنی رحمت سے بہرہ مند نہیں کرے گا۔ (ان کو یوں حکم ہوگا کہ) تم جنت میں داخل ہوجاؤ، تم پر کوئی خوف ہے نہ تم غمگین ہو گے۔ “ ص
64 اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی دی ہوئی خبر کی تاکید کے طور پر فرمایا اور وہ سب سے زیادہ سچ کہنے والا ہے۔ ﴿إِنَّ ذٰلِكَ﴾ ” بے شک یہ“ جس کا میں نے تمہارے سامنے ذکر کیا ہے ﴿لَحَقٌّ﴾ ” حق ہے“ اور اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ یہ ﴿تَخَاصُمُ أَهْلِ النَّارِ ﴾ ”اہل جہنم کا ایک دوسرے کے ساتھ جھگڑا اور تنازعہ ہے۔‘‘ ص
65 ﴿ قُلْ﴾ اے رسول ! اگر یہ جھٹلانے والے لوگ آپ سے ایسی چیز کا مطالبہ کرتے ہیں جو آپ کے اختیار میں نہیں، تو ان سے کہہ دیجئے! ﴿إِنَّمَا أَنَا مُنذِرٌ﴾ ” میں تو صرف متنبہ کرنے والا ہوں۔‘‘ میرے پاس جو کچھ ہے یہ اس کی انتہا ہے۔ رہا تمہارا مطالبہ، تو یہ اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے، مگر میں تمہیں نیکی کا حکم دیتا ہوں، برائی سے روکتا ہوں، میں تمہیں خیر کی ترغیب دیتا ہوں اور شر سے ہٹاتا ہوں، لہٰذا جو کوئی ہدایت کی راہ اختیار کرتا ہے تو یہ اس کے اپنے لئے ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو اس کا وبال اسی پر ہے۔ ﴿وَمَا مِنْ إِلَـٰهٍ إِلَّا اللّٰـهُ﴾ یعنی اللہ کے سوا کوئی ایسی ہستی نہیں، جس کی عبادت کی جائے اور وہ عبادت کی مستحق ہو۔ ﴿الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ﴾ ” وہ واحد وقہار ہے۔‘‘ ص
66 اس قطعی دلیل و برہان کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کی الوہیت کا اثبات ہے کہ وہ ہر چیز پر غالب ہے، کیونکہ غلبہ وحدت کو مستلزم ہے، لہٰذا کبھی بھی یہ ممکن نہیں کہ دو ہستیاں مساوی طور پر غالب ہوں۔ پس وہ ہستی جو تمام کائنات پر غالب و قاہر ہے، وہ ایک ہی ہے۔ اس کی کوئی نظیر نہیں، وہی اس بات کی مستحق ہے کہ صرف اسی کی عبادت کی جائے، جیسا کہ وہ اکیلی غالب ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے توحید ربوبیت کی دلیل کے ذریعے سے اس کو محقق کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا﴾ ” وہ آسمانوں اور زمین اور جو ان کے درمیان ہے، سب کا رب ہے“ یعنی وہ کائنات کو پیدا کرنے والا، اس کی پرورش کرنے والا اور تمام انواع تدبیر کے ذریعے سے اس کائنات کی تدبیر کرنے والا ہے۔ ﴿ الْعَزِيزُ﴾ وہ ایسی قوت کا مالک ہے جس کے ذریعے سے اس نے بڑی بڑی مخلوقات کو پیدا کیا۔ ﴿االْغَفَّارُ﴾ جو کوئی توبہ کرکے گناہوں سے باز آجاتا ہے وہ اس کے چھوٹے بڑے تمام گناہوں کو بخش دیتا ہے۔ پس یہی وہ ہستی ہے جو ہر اس ہستی کے سوا عبادت اور محبت کئے جانے کی مستحق ہے۔۔۔ جو پیدا کرسکتی ہے نہ رزق دے سکتی ہے، جو نقصان پہنچا سکتی ہے نہ نفع، جسے کسی چیز کا کچھ بھی اختیار نہیں، جس کے پاس قوت اقتدار ہے نہ اس کے قبضہء قدرت میں گناہوں کی بخشش ہے۔ ص
67 ﴿قُلْ﴾ آپ ان کو ڈراتے ہوئے کہہ دیجئے ﴿ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ﴾ یعنی میں نے تمہیں حیات بعدالموت، حشر و نشر اور اعمال کی جزا اور سزا کے بارے میں جو خبر دی ہے، وہ بہت بڑی خبر ہے اور اس بات کی پوری پوری مستحق ہے کہ اس کے معاملے کو بہت اہم سمجھا جائے اور اس بارے میں غفلت کو جگہ نہ دی جائے۔ ص
68 مگر صورت حال یہ ہے کہ ﴿أَنتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ﴾ ” تم اس سے اعراض کرتے ہو۔‘‘ گویا تمہیں حساب و کتاب اور ثواب و عذاب کا سامنا کرنا ہی نہیں۔ اگر تمہیں میری بات میں کوئی شک اور میری خبر میں کوئی شبہ ہے تو میں تمہیں کچھ ایسی خبریں دیتا ہوں جن کا مجھے کچھ علم تھا نہ میں نے ان کو کسی کتاب میں پڑھا۔ میری خبریں کسی کمی بیشی کے بغیر صحیح ثابت ہوئی ہیں، یہ میری صداقت اور جو کچھ میں تمہارے سامنے پیش کرتا ہوں، اس کی صحت پر سب سے بڑی اور سب سے واضح دلیل ہے۔ ص
69 اس لئے فرمایا: ﴿مَا كَانَ لِيَ مِنْ عِلْمٍ بِالْمَلَإِ الْأَعْلَىٰ﴾ ” مجھے ان بلند قدر فرشتوں (کی بات چیت) کا کچھ بھی علم نہیں“﴿إِذْ يَخْتَصِمُونَ ﴾ ”جب وہ جھگڑتے تھے۔‘‘ یعنی اگر اللہ تعالیٰ مجھے باخبر نہ کرے اور میری طرف وحی نہ کرے تو مجھے بلند قدر فرشتوں کے بارے میں کچھ علم نہیں ہوسکتا۔ ص
70 بنابریں فرمایا : ﴿إِن يُوحَىٰ إِلَيَّ إِلَّا أَنَّمَا أَنَا نَذِيرٌ مُّبِينٌ﴾ ” میری طرف تو یہی وحی کی جاتی ہے کہ میں واضح طور پر نذیر ہوں۔‘‘ یعنی واضح طور پر ڈرانے والا ہوں۔ حضرت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زیادہ واضح اور بلیغ کوئی ڈرانے والا نہیں ہے۔ پھر بلند قدر فرشتوں کے درمیان جھگڑے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : ص
71 ﴿ إِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ﴾ ” جب آپ کے رب نے فرشتوں کو (خبر دیتے ہوئے) فرمایا :“ ﴿إِنِّي خَالِقٌ بَشَرًا مِّن طِينٍ﴾ ” میں مٹی سے انسان بنانے والا ہوں۔‘‘ یعنی اس کا مادہ مٹی سے تیار ہوا ہے۔ ص
72 ﴿ فَإِذَا سَوَّيْتُهُ﴾ جب میں اس کے جسم کو نک سک سے درست کردوں اور وہ مکمل ہوجائے ﴿وَنَفَخْتُ فِيهِ مِن رُّوحِي فَقَعُوا لَهُ سَاجِدِينَ﴾ ” اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم سب اس کے سامنے سجدے میں گر پڑنا۔‘‘ جب آدم علیہ السلام کی تخلیق کی تکمیل ہوئی اور روح پھونک دی گئی تو فرشتوں نے اللہ کے حکم کی تعمیل اور آدم علیہ السلام کی تکریم کرتے ہوئے اپنے آپ کو آدم کے سامنے سجدہ کرنے کے لئے آمادہ کیا۔ ص
73 جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کے بدن و روح کی تخلیق مکمل کردی تو اللہ نے آدم علیہ السلام اور فرشتوں کا امتحان لیا اور اس طرح فرشتوں پر حضرت آدم علیہ السلام کی فضیلت ظاہر ہوگئی، تب اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کریں تو سجدہ کیا ﴿كُلُّهُمْ أَجْمَعُونَ إِلَّا إِبْلِيسَ﴾ ” ان سب نے سوائے ابلیس کے“ اس نے سجدہ نہ کیا۔ ص
74 ﴿ اسْتَكْبَرَ﴾ اس نے نہایت غرور سے اپنے رب کا حکم ٹھکرا دیا اور حضرت آدم علیہ السلام کے سامنے تکبر کا اظہار کیا ﴿ وَكَانَ مِنَ الْكَافِرِينَ ﴾ ” اور وہ کافروں میں سے تھا۔‘‘ اللہ تعالیٰ کے علم میں ابلیس کافر تھا۔ ص
75 ﴿قَالَ﴾ اللہ تعالیٰ نے زجرو توبیخ اور عتاب کرتے ہوئے فرمایا : ﴿مَا مَنَعَكَ أَن تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِيَدَيَّ﴾ ”)اے ابلیس !( جس شخص کو میں نے اپنے ہاتھوں سے بنایا اسے سجدہ کرنے سے تجھے کس چیز نے منع کیا۔‘‘ یعنی جسے میں نے شرف و تکریم سے سرفراز فرمایا اور اسے اس خصوصیت سے مختص کیا جس کی بناء پر اسے تمام مخلوق میں خصوصیت حاصل ہے۔ یہ چیز اس کے سامنے عدم تکبیر کا تقاضا کرتی ہے ﴿أَسْتَكْبَرْتَ﴾ کیا تو نے تکبر کی بنا پر سجدہ نہیں کیا ﴿أَمْ كُنتَ مِنَ الْعَالِينَ ﴾ ’’یا تو بڑے بلند درجے والوں میں سے ہے؟“ ص
76 ﴿قَالَ﴾ ابلیس نے اپنے رب کی مخالفت کرتے اور نقض وارد کرتے ہوئے کہا: ﴿أَنَا خَيْرٌ مِّنْهُ خَلَقْتَنِي مِن نَّارٍ وَخَلَقْتَهُ مِن طِينٍ﴾ ” میں اس سے بہتر ہوں، تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے پیدا کیا۔‘‘ ابلیس سمجھتا تھا کہ آگ کا عنصر مٹی کے عنصر سے بہتر ہے۔ یہ فاسد قیاس ہے، کیونکہ آگ کا عنصر شر، فساد، تکبر، طیش اور خفت کا مادہ ہے اور مٹی کا عنصر وقار، تواضع اور مختلف انواع کے شجر و نباتات کا مادہ ہے، مٹی آگ پر غالب ہے اسے بجھا دیتی ہے۔ آگ کسی ایسے مادے کی محتاج ہے جو اس کو قائم رکھے اور مٹی بنفسہ قائم ہے۔ یہ تھا کفار کے شیخ کا قیاس جس کی بنیاد پر اس نے اللہ تعالیٰ کے بالمشافہ حکم کی خلاف ورزی کی۔ اس قیاس کا بطلان اور فساد بالکل واضح ہے۔ جب ان کے استاد کے قیاس کا یہ حال ہے تو شاگردوں کا کیا حال ہوگا جو اپنے باطل قیاسات کے ذریعے سے حق کی مخالفت کرتے ہیں، ان کے قیاسات، اس قیاس کی نسبت زیادہ باطل ہیں۔ ص
77 ﴿قَالَ﴾ اللہ تعالیٰ نے اس سے فرمایا : ﴿ فَاخْرُجْ مِنْهَا ﴾ یعنی عزت و تکریم کے اس مقام، آسمان سے نکل جا ﴿فَإِنَّكَ رَجِيمٌ﴾ ” بے شک تو مردود ہے“ یعنی دھتکارا ہوا ہے۔ ص
78 ﴿ وَإِنَّ عَلَيْكَ لَعْنَتِي﴾ ” اور تجھ پر میری لعنت ہے“ یعنی میری یہ پھٹکار اور اپنی رحمت سے تجھے دور کرنا ﴿إِلَىٰ يَوْمِ الدِّينِ ﴾ ” قیامت کے دن تک ہے“ یعنی دائمی اور ابدالآباد تک ہے۔ ص
79 ﴿قَالَ رَبِّ فَأَنظِرْنِي إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ ﴾ ” اس نے کہا، میرے رب ! مجھے اس روز تک کہ لوگ اٹھائے جائیں مہلت دے۔“ چونکہ اسے آدم علیہ السلام اور ان کی اولاد سے شدید عداوت تھی اس لئے اس نے یہ درخواست کی تاکہ وہ ان لوگوں کو بدراہ کرسکے جن کے لئے بدراہ ہونا اللہ تعالیٰ نے مقدر کردیا ہے۔ ص
80 ﴿ قَالَ﴾ اپنی حکمت کے تقاضے کے مطابق اللہ تعالیٰ نے ابلیس کی درخواست قبول کرتے ہوئے فرمایا :﴿ فَإِنَّكَ مِنَ الْمُنظَرِينَ إِلَىٰ يَوْمِ الْوَقْتِ الْمَعْلُومِ﴾ ”تجھ کو مہلت دی جاتی ہے، اس روز تک جس کا وقت مقرر ہے۔‘‘ جب ذریت آدم پوری ہوجائے گی تو امتحان بھی پایۂ تکمیل کو پہنچ جائے گا۔ ص
81 ص
82 جب ابلیس کو معلوم ہوگیا کہ اسے مہلت دے دی گئی ہے تو اس نے اپنے خبث باطن کی بناء پر اپنے رب، آدم اور اولاد آدم کے ساتھ اپنی شدید عداوت کو ظاہر کردیا اور کہنے لگا : ﴿فَبِعِزَّتِكَ لَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ﴾ اس میں ایک احتمال یہ ہے کہ (باء) قسم کے لئے ہو یعنی ابلیس نے اللہ تعالیٰ کی عزت و جلال کی قسم کھا کر اعلان کیا کہ وہ تمام اولاد آدم کو گمراہ کرکے رہے گا۔ ص
83 ﴿إِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ﴾ ” ان لوگوں کے سوا جن کو تو نے خاص کرلیا ہے۔‘‘ ابلیس کو معلوم تھا کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو اس کے مکروفریب سے بچا لے گا۔ اس میں یہ بھی احتمال ہے کہ (باء) استعانت کے لئے ہو۔ چونکہ ابلیس کو معلوم ہے کہ وہ ہر لحاظ سے عاجز اور بے بس ہے اور اللہ تعالیٰ کی مشیت کے بغیر کسی کو گمراہ نہیں کرسکتا، تو اس نے اولاد آدم کو گمراہ کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی عزت سے مدد چاہی، حالانکہ وہ اللہ تعالیٰ کا حقیقی دشمن ہے۔۔۔ اے ہمارے رب ! ہم تیرے انتہائی عاجز اور قصور وار بندے ہیں ہم تیری ہر نعمت کا اقرار کرتے ہیں، ہم اس ہستی کی اولاد ہیں جس کو تو نے عزت و شرف اور اکرام و تکریم سے سرفراز فرمایا۔ ہم تیری عظیم عزت و قدرت اور تمام مخلوق کے لئے تیری بے پایاں رحمت کے ذریعے سے تجھ سے مدد مانگتے ہیں، جو ہم پر بھی سایہ کناں ہے جس کے ذریعے سے تو نے ہم سے اپنی ناراضی کو دور فرمایا ہے، ہمیں شیطان کی محاربت و عداوت، اس کے شر اور شرک سے سلامت رہنے میں ہماری مدد فرما۔ اے ہمارے رب ! ہم تجھ پر حسن ظن رکھتے ہیں کہ تو ہماری دعا قبول فرمائے گا ہم تیرے اس وعدے پر یقین رکھتے ہیں جس میں تو نے فرمایا تھا :﴿ وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ﴾ (عافر : 40؍60) ” اور تمہارے رب نے کہا، مجھے پکارو میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا۔‘‘ اے ہمارے رب ! ہم نے تیرے حکم کے مطابق تجھ کو پکارا ہے پس جیسا کہ تو نے ہمارے ساتھ وعدہ کیا ہے ہماری دعا کو قبول فرما۔ ﴿إِنَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِيعَادَ﴾( آل عمران : 3؍194) ” بے شک تو اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔‘‘ ص
84 ﴿قَالَ﴾ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: ﴿فَالْحَقُّ وَالْحَقَّ أَقُولُ﴾ ” سچ ( ہے) اور میں بھی سچ کہتا ہوں۔‘‘ یعنی حق میرا وصف اور حق میرا قول ہے۔ ص
85 ﴿لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنكَ وَمِمَّن تَبِعَكَ مِنْهُمْ أَجْمَعِينَ ﴾ ” کہ میں تجھ سے اور ان سے جو تیری پیروی کریں گے سب سے جہنم کو بھردوں گا۔‘‘ ص
86 پس جب رسول نے لوگوں سے بیان کردیا اور ان کے سامنے راہ واضح کردی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں فرمایا : ﴿قُلْ مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ﴾ ” کہہ دیجئے ! میں نہیں مطالبہ کرتا تم سے اس پر“ یعنی تمہیں اللہ کی طرف بلانے پر ﴿مِنْ أَجْرٍ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ ﴾ ” کوئی بدلہ اور نہ میں تکلف کرنے والا ہوں“ کہ میں ایسی چیز کا دعویٰ کروں جس کا مجھے اختیار ہے نہ میں کسی ایسی بات کی ٹوہ ہی میں رہتا ہوں جس کا مجھے علم نہیں۔ میں تو صرف اسی چیز کی پیروی کرتا ہوں جو میری طرف وحی کی گئی ہے۔ ص
87 ﴿ إِنْ هُوَ﴾ یعنی یہ وحی اور یہ قرآن ﴿إِلَّا ذِكْرٌ لِّلْعَالَمِينَ ﴾ ” جہان والوں کے لئے نصیحت ہے۔‘‘ اس سے وہ نصیحت حاصل کرتے ہیں جو ان کے دینی اور دنیاوی مصالح میں فائدہ دیتی ہے اور تب یہ قرآن تمام جہانوں کیلئے شرف اور رفعت کا حامل اور معاندین حق کے خلاف حجت ہے۔ یہ عظیم سورت حکمت سے لبریز نصیحت اور عظیم خبر پر مشتمل ہے۔ ان لوگوں کے خلاف برہان اور حجت قائم کرتی ہے جو قران کو جھٹلا کر اس کی مخالفت کرتے ہیں اور قرآن لانے والے کی تکذیب کرتے ہیں۔ یہ سورت اللہ تعالیٰ کے مخلص بندوں کے بارے میں آگاہ کرتی ہے، نیز یہ سورۃ مبارکہ تقویٰ شعار بندوں اور سرکش لوگوں کی جزا و سزا کے تذکرہ پر مشتمل ہے۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے اس کی ابتداء میں قسم اٹھاتے ہوئے فرمایا کہ یہ یاددہانی پر مشتمل ہے اور اس کے اختتام پر فرمایا کہ یہ تمام جہانوں کے لئے یاددہانی ہے۔ پھر اس سورت کے اندر بھی اکثر مقامات پر اس یاددہانی کا ذکر کیا ہے۔ مثلاً فرمایا ﴿ وَاذْكُرْ عَبْدَنَا﴾ ” اور یاد کرو ہمارے بندے کو“ ﴿وَاذْكُرْ عِبَادَنَا﴾ ” اور یاد کرو ہمارے بندوں کو“ ﴿ رَحْمَةً مِّنَّا وَذِكْرَىٰ ﴾ ” یہ رحمت ہے ہماری طرف سے اور نصیحت ہے“ ﴿هَـٰذَا ذِکْرٌ﴾ ” یہ نصیحت ہے۔‘‘ وغیرہ۔ اے اللہ ہم اس میں سے جس چیزکو نہیں جانتے اس کا علم عطا کر اور ہم جس چیز کو اپنی غفلت یا ترک کرنے کے باعث بھول جائیں، تو ہمیں اس کی یاددہانی کرا۔ ص
88 ﴿وَلَتَعْلَمُنَّ نَبَأَهُ﴾ ” اور تم اس کی خبر جان لو گے۔‘‘ یعنی جو اس نے خبر دی ہے ﴿بَعْدَ حِينٍ﴾ ” ایک وقت کے بعد“ اور یہ وہ وقت ہوگا جب ان پر عذاب واقع ہوگا اور تمام اسباب منقطع ہوجائیں گے۔ ص
0 الزمر
1 اللہ تبارک و تعالیٰ قرآن کی عظمت اور اس ہستی کے جلال کے بارے میں آگاہ کرتا ہے جس نے اس قرآن کے ذریعے سے کلام کیا اور جس کی طرف سے یہ قرآن نازل ہوا، نیز اللہ تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ یہ قرآن، اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کیا گیا ہے جو غالب اور حکمت والا ہے۔ مخلوق کے لئے الوہیت اس کا وصف ہے، کیونکہ وہ عظمت و کمال اور عزت و غلبہ کا مالک ہے جس کی بناء پر وہ تمام مخلوق پر غالب اور ہر چیز اس کی مطیع اور اس کے سامنے سرافگندہ ہے۔ اس کی تخلیق و امر حکمت پر مبنی ہے۔ قرآن اس ہستی کی طرف سے نازل ہوا ہے جس کا یہ وصف ہے، کلام متکلم کا وصف ہے اور وصف ہمیشہ اپنے موصوف کے تابع ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سی کامل ہے، اس کا کوئی مثیل و نظیر نہیں، اسی طرح اس کا کلام بھی ہر لحاظ سے کامل اور بے مثال و بے نظیر ہے۔ یہ ایک وصف ہی اللہ تعالیٰ کے مرتبے پر دلالت کرنے کے لئے کافی ہے، مگر بایں ہمہ، اللہ تعالیٰ نے جس ہستی پر اسے نازل فرمایا ہے اس کے ذریعے سے اس کے کمال کو بیان فرمایا اور وہ ہستی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات بابرکات ہے جو تمام مخلوق میں سب سے زیادہ شرف کی حامل ہے۔ تب معلوم ہوا کہ یہ کتاب اپنی دعوت سمیت، تمام کتابوں میں سب سے زیادہ شرف کی حامل ہے اور یہ سراسر حق ہے۔ پس قرآن حق کے ساتھ نازل ہوا جو اپنی سچی خبروں اور عدل و انصاف پر مبنی احکام پر مشتمل ہے تاکہ مخلوق کو گمراہی کی تارکیوں سے نکال کر ہدایت کی روشنی میں لائے اور یہ کتاب اپنی اخبار صادقہ اور اپنے احکام عادلہ کے بارے میں حق پر مشتمل نازل ہوئی۔ الزمر
2 یہ کتاب تمام مطالب علمیہ میں سے جس چیز پر دلالت کرتی ہے، وہ سب سے بڑا حق ہے اور حق کے بعد گمراہی کے سوا کیا باقی رہ جاتا ہے۔ چونکہ یہ قرآن حق کی طرف سے نازل کیا گیا ہے، مخلوق کی ہدایت کے لئے حق پر مشتمل ہے اور تمام مخلوق میں سب سے زیادہ شرف کی حامل ہستی پر نازل کیا گیا ہے، اس لئے یہ نعمت بہت عظیم اور جلیل القدر ہے، اس کا شکر ادا کرنا فرض ہے اور اس کا شکریہ ہے کہ دین کو صرف اللہ تعالیٰ کے لئے خالص کیا جائے، بنا بریں فرمایا ﴿ فَاعْبُدِ اللّٰـهَ مُخْلِصًا لَّهُ الدِّينَ﴾ اپنے تمام دین یعنی ظاہری اور باطنی اعمال شریعت، (اسلام، ایمان اور احسان) کو اللہ تعالیٰ کے لئے خالص کیجئے۔ ان تمام امور میں صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کو مدنظر رکھیے اور اس کے سوا آپ کا کوئی اور مقصد نہ ہو۔ الزمر
3 ﴿أَلَا لِلَّـهِ الدِّينُ الْخَالِصُ ﴾ آیت کریمہ کا یہ ٹکڑا اخلاص کے حکم کو متحقق کرتا ہے اور اس حقیقت کو بیان کرتا ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے تمام تر کمال کا مالک ہے اور اس نے اپنے بندوں کو ہر لحاط سے اپنے فضل و کرم سے نوازا ہے اسی طرح ہر قسم کے شک و شبہے سے پاک دین خالص بھی اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہے۔ یہی وہ دین ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے لئے پسند فرمایا اور مخلوق میں سے چنے ہوئے بندوں کے لئے منتخب فرمایا اور اسی کو اختیار کرنے کا اپنے بندوں کو حکم دیا، کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی محبت، اس سے خوف، اس پر امید، اس کی طرف انابت کے ذریعے سے بندوں کے مطالب کے حصول میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کو متضمن ہے۔ یہی وہ دین ہے جو قلوب کی اصلاح کرکے ان کو پاک کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی کسی بھی قسم کی عبادت میں شرک کرنا کچھ بھی نہیں کرسکتا۔ اللہ تعالیٰ شرک سے بری الذمہ ہے اور اللہ تعالیٰ کا شرک سے کوئی تعلق نہیں اور وہ شریکوں سے، سب سے زیادہ بے نیا زہے۔ شرک قلب و روح اور دنیا و آخرت کو فاسد کرتا ہے اور نفوس کو بدبختی کی انتہا تک پہنچا دیتا ہے، اس لئے جہاں اللہ تعالیٰ نے توحید اور اخلاص کا حکم دیا ہے، وہاں شرک سے بھی روکا ہے اور ان لوگوں کی مذمت کی خبر دی ہے جنہوں نے شرک کا ارتکاب کیا، چنانچہ فرمایا : ﴿وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ﴾ یعنی جو لوگ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر ان خود ساختہ معبودوں کی عبادت کرتے ہیں ان کو پکارتے ہیں اور انہیں اپنا والی و مددگار بناتے ہیں وہ اپنا عذر بیان کرتے ہوئے کہا ہیں۔ ﴿مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللّٰـهِ زُلْفَىٰ﴾ ” ہم انہیں صرف اس لئے پوجتے ہیں کہ وہ ہم کو اللہ کا مقرب بنا دیں۔‘‘ یعنی وہ اللہ تعالیٰ کے حضور ہماری حاجتیں پیش کریں اور اس کے ہاں ہماری سفارش کریں۔ ورنہ درحقیقت ہمیں معلوم ہے کہ یہ کوئی چیز پیدا کرسکتے ہیں نہ رزق دے سکتے ہیں اور نہ انہیں کسی قسم کا کچھ اختیار ہی حاصل ہے۔ یعنی ان مشرکین نے اخلاص کو چھوڑ دیا جس کو اختیار کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا تھا اور اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ سب سے بڑی چیز، یعنی شرک کا ارتکاب کیا اور اس ہستی کو دنیاوی بادشاہوں پر قیاس کیا جس کی نظیر کوئی چیز نہیں، جو عظیم بادشاہ ہے۔ وہ اپنی فاسد عقل اور سقیم رائے کی وجہ سے سمجھتے ہیں کہ جس طرح بادشاہوں کی خدمت میں ان کے مقربین، سفارشیوں اور وزیروں کے بغیر حاضر نہیں ہوا جاسکتا جو رعایا کی ضروریات اور حاجتیں ان بادشاہوں تک پہنچاتے ہیں، رعایا کے لئے بادشاہوں سے رحم طلب کرتے ہیں ان بادشاہوں کے پاس رعایا کے معاملات پیش کرتے ہیں۔۔۔ اللہ تعالیٰ بھی ان بادشاہوں کے مانند ہے۔ یہ فاسد ترین قیاس ہے، کیونکہ عقل و نقل اور فطرت کے مطابق خالق اور مخلوق کے درمیان عظیم فرق ہونے کے باوجود یہ قیاس خالق اور مخلوق میں مساوات کو متضمن ہے۔ بادشاہ براہ راست رعایا کے احوال نہیں جانتے، اس لئے انہیں اپنے اور عایا کے درمیان واسطے کی ضرورت ہوتی ہے، رعایا کو ایسے لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے جو بادشاہوں تک ان کے حالات پہنچائیں۔ بسا اوقات ان بادشاہوں کے دلوں میں ضرورت مند کے لئے کوئی رحم نہیں ہوتا تب رعایا سفارش کرنے والوں اور وزراء وغیرہ کی ضرورت محسوس کرتے ہیں اور ان سے ڈرتے ہیں۔ یہ لوگ بادشاہوں کے ہاں ان کے لئے مراعات کے حصول اور ان کی دل جوئی کے لئے واسطہ بننے والے سفارشیوں کی ضروریات پوری کرتے ہیں۔ بسا اوقات رعایا خود محتاج اور مفلس ہوتی ہے اس لئے وہ محتاجی کے ڈر سے ان کی خاطر و مدارات نہیں کرسکتی۔ جہاں تک رب تعالیٰ کا معاملہ ہے تو وہ ایسی ہستی ہے جس کے علم نے تمام امور کے ظاہر اور باطن کا احاطہ کررکھا ہے، وہ کسی ایسی ہستی کا محتاج نہیں جو اسے اس کے بندوں اور اس کی رعایا کے احوال سے آگاہ کرے، وہ سب سے بڑا رحم کرنے والا اور سب سے بڑھ کر سخی ہے، وہ مخلوق میں سے کسی ہستی کا محتاج نہیں جو اسے بندوں پر رحم کرنے پر آمادہ کرے، بلکہ رب تعالیٰ اپنے بندوں پر اس سے بھی زیادہ رحم کرتا ہے جتنا وہ خود اپنے آپ پر یا ان کے والدین ان پر رحم کرتے ہیں۔ وہ انہیں ترغیب دیتا ہے کہ وہ ایسے اسباب اختیار کریں جن کی بنا پر وہ اس کی رحمت کو حاصل کرلیں وہ ان کی بھلائی چاہتا ہے جو وہ خود بھی اپنے لئے نہیں چاہتے۔ اللہ تعالیٰ غنی ہے جو کامل غنائے مطلق کا مالک ہے۔ وہ ایسی ہستی ہے کہ اگر اول سے لے کر آخر تک تمام مخلوق ایک میدان میں اکٹھی ہوجائے اور وہ اس سے اپنی اپنی ضرورت اور تمنا کے مطابق سوال کریں تو وہ سب کو عطا کرے گی۔ وہ اس کی غنا میں سے ذرہ بھر کمی کرسکتے ہیں نہ اس کے خزانوں میں، مگر اتنی سی کہ جو سمندر میں سوئی ڈبونے سے اس کے پانی میں کمی واقع ہوتی ہے۔ پھر تمام سفارشی اس سے ڈرتے ہیں، ان میں سے کوئی بھی اس کی اجازت کے بغیر سفارش نہیں کرسکتا۔ تمام تر سفارش کا صرف وہی مالک ہے۔ اس فرق سے مشرکین کی جہالت، حماقت اور اللہ کے حضور ان کی جسارت ظاہر ہوتی ہے اور اس سے یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ شرک کے مرتکب کے لئے عدم مغفرت میں کیا حکمت ہے اس کی حکمت یہ ہے کہ شرک اللہ تعالیٰ کی ذات میں جرح و قدح کو متضمن ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے فریقین، یعنی مخلص مومنوں اور مشرقین کے درمیان فیصلہ کرتے ہوئے فرمایا۔۔۔ اور اس میں مشرکین کے لئے تہدید بھی ہے ﴿إِنَّ اللّٰـهَ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ فِي مَا هُمْ فِيهِ يَخْتَلِفُونَ﴾ ” بے شک جن باتوں میں یہ اختلاف کرتے ہیں، اللہ ان میں ان کا فیصلہ کر دے گا“ اور اللہ تعالیٰ کا فیصلہ معلوم ہے جو یہ ہے کہ مخلص اہل ایمان، نعمتوں بھری جنت میں ہوں گے اور جس کسی نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کیا، اللہ تعالیٰ نے اس پر جنت حرام کردی اور اس کا ٹھکانا جہنم ہے۔ ﴿ إِنَّ اللّٰٓـهَ لَا يَهْدِي ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ راہ راست پر گامزن ہونے کی توفیق عطا نہیں کرتا ﴿مَنْ هُوَ كَاذِبٌ كَفَّارٌ ﴾ ” اس شخص کو جو جھوٹا اور ناشکرا ہو، یعنی جس کا وصف کذب اور کفر ہے، اس کے پاس اللہ تعالیٰ کی نشانیاں اور نصیحتیں آتی ہیں، مگر اس کے برے اوصاف دور نہیں ہوتے، اللہ تعالیٰ اسے بڑے بڑے معجزات دکھاتا ہے مگر یہ ان کا انکار کردیتا ہے ان کے ساتھ کفر کرتا ہے اور جھوٹ بولتا ہے۔ پس ان حالات میں ایسے شخص کے لئے ہدایت کیسے ہوسکتی ہے جس نے اپنے لئے ہدایت کا دروازہ بند کردیا ہو اور انجام کے طور پر اللہ تعالیٰ نے اسکے دل پر مہر لگا دی، لہٰذا وہ ایمان نہیں لائے گا۔ الزمر
4 ﴿لَّوْ أَرَادَ اللّٰـهُ أَن يَتَّخِذَ وَلَدًا﴾ ” اگر اللہ تعالیٰ کسی کو اپنا بیٹا بنانا چاہتا“ جیسا کہ بعض بے وقوف لوگوں کا خیال ہے﴿ لَّاصْطَفَىٰ مِمَّا يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ﴾ تو وہ اپنی مخلوق میں سے جسے چاہتا چن کر اپنے لیے مختص کرلیتا اور اسے اپنا بیٹا بنا لیتا اور اسے بیوی کی ضرورت نہ ہوتی ۔﴿سُبْحَانَهُ﴾مگر اللہ تبارک و تعالیٰ ان تمام باتوں سے پاک اور منزہ ہے جن کا یہ کفار اللہ تعالیٰ کے بارے میں گمان کرتے ہیں اور ملحدین اس کی طرف منسوب کرتے ہیں﴿ هُوَ اللّٰـهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ﴾یعنی اللہ تعالیٰ اپنی ذات، اپنے اسماء و صفات اور اپنے افعال میں ایک ہے لہٰذا اس بارے میں اللہ تعالیٰ کا کوئی شبیہ ہے نہ مثیل۔ اگر اللہ تعالیٰ کا کوئی بیٹا ہوتا تو وہ اپنی و حدت میں اس کا شبیہ ہونے کا مقتضی ہوتا کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کا حصہ اور اس کا جز ہوتا۔ وہ تمام عالم علوی اور عالم سفلی پر غالب ہے۔ اگر اس کا کوئی بیٹا ہوتا تو وہ مقہور و مغلوب نہ ہوتا اور اپنے باپ کے خلاف جرأت اور گستاخی کرنے والا ہوتا۔ اللہ تعالیٰ کی وحدت اور اس کا قہر لازم وملزوم ہیں۔ صرف ایک ہستی ہی غا لب اور قا ہر ہوسکتی ہے اس لیے چیزہر لحاظ سے شر اکت کی نفی کرتی ہے۔ الزمر
5 اللہ تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ بے شک اس نے ﴿خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ﴾زمین و آسمان کو حکمت اور مصلحت کے ساتھ پیدا کیا ہے تاکہ وہ بندوں پر اپنے امر و نہی کے ضابطے نا فذ کرے اور ان کو ثواب وعقاب عطا کرے۔ ﴿يُكَوِّرُ اللَّيْلَ عَلَى النَّهَارِ وَيُكَوِّرُ النَّهَارَ عَلَى اللَّيْلِ﴾یعنی وہ رات اور دن دو نوں کو ایک دوسرے میں داخل کرتا ہے وہ دن اور رات دونوں کو اپنے اپنے مقام پر رکھتا ہے دن اور رات کبھی یکجا نہیں ہوتے بلکہ جب ان میں سے ایک آتا ہے تو دوسرا علیحدہ ہوجاتا ہے۔﴿ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ﴾اور اللہ تعالیٰ نے سورج اور چاند کو انتہائی منظم طور پر اور ایک خا ص رفتار کے ساتھ مسخر کر رکھا ہے۔﴿ كُلٌّ﴾یعنی چاند اور سورج﴿ يَجْرِي﴾یعنی اللہ تعالیٰ کی تسخیر کے مطا بق چلتے ہیں﴿ لِأَجَلٍ مُّسَمًّى﴾ ایک و قت مقررہ تک یعنی ان دو نوں کو ایک مدت مقر رہ تک کے لیے مسخر کر رکھا ہے یعنی اس دنیا کے خاتمے اور اس کے تباہ ہونے تک اللہ تعالیٰ اس دنیا میں موجود ہر چیز کو چاند اور سورج تباہ کر دے گا پھر وہ مخلوق کو دوبارہ پیدا کرے گا تاکہ وہ اپنے اپنے ٹھکانے یعنی جنت اور جہنم میں ر ہیں ۔﴿أَلَا هُوَ الْعَزِيزُ﴾وہ ہر چیز پر غا لب اور قا ہر ہے کوئی چیز اس کی نافرمانی نہیں کرسکتی۔ اس نے اپنی قوت عا لیہ سے اس عظیم کا ئنات کو و جود بخشا اور اس کو مسخر کیا جو اس کے حکم کے تحت چل رہی ہے۔﴿ الْغَفَّارُ ﴾وہ اپنے تو بہ شعار بندوں کے گنا ہوں کو بخش دیتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:﴿ وَإِنِّي لَغَفَّارٌ لِّمَن تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اهْتَدَىٰ﴾ (طٰهٰ: 20؍82)اور جو کوئی توبہ کرے ایمان لا کر نیک عمل کرے اور راہ راست اختیا ر کرے تو میں اسے بخش دیتا ہوں یعنی میں اس شخص کو بھی بخش دیتا ہوں جو اللہ تعالیٰ کی عظیم نشانیوں کو دیکھنے اور شرک کرنے کے بعد ایمان لے آئے ۔ الزمر
6 ﴿خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ﴾یہ اللہ تعالیٰ کا اعلان ہے کہ تمھاری کثرت اور زمین کے دور دراز گوشوں میں پھیل جا نے کے باوجود اصل حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمھیں ایک ہی جان سے پیدا کیا ہے۔﴿ ثُمَّ جَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا ﴾پھر اس کا جوڑا بنایا تاکہ وہ اس کے پاس سکون حا صل کرے اور اس سے اللہ تعالیٰ کی نعمت کا اتمام ہو۔﴿وَأَنزَلَ لَكُم مِّنَ الْأَنْعَامِ ﴾ اور اسی نے تمھارے لیے چوپایوں میں سے یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنی تقد یر سے تخلیق فرمایا جو آسمان سے نازل ہوتی ہے یہ تم پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے ﴿ثَمَانِيَةَ أَزْوَاجٍ﴾آٹھ جوڑے اس سے مراد وہ مویشی ہیں جن کا سورۃ لأنعام میں ذکر آیا ہے: ﴿ثَمَانِيَةَ أَزْوَاجٍ مِّنَ الضَّأْنِ اثْنَيْنِ وَمِنَ الْمَعْزِ اثْنَيْنِ﴾(الأنعام:6؍143)یہ چو پائے آٹھ قسم کے ہیں دو بھیڑوں میں سے اور دو بکریوں میں سے ﴿وَمِنَ الْإِبِلِ اثْنَيْنِ وَمِنَ الْبَقَرِ اثْنَيْنِ﴾(الأنعام:6؍143)اور دو اونٹوں میں سے اور دو گایوں میں سے متذکرہ بالا مویشیوں کے علاوہ بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے مصا لح کے لیے بہت سے مو یشی تخلیق فرمائے ہیں مگر مذ کورہ مویشیوں میں فوائد کی کثرت اس کے مصالح کی عمومیت اور ان کے شرف کی بنا پر خاص طور پر ان کا ذکر کیا ہے نیز اس لیے بھی کہ یہ بعض امور کے لیے مخصو ص ہیں جن کے لیے کوئی دوسرا مویشی مخصوص نہیں ہے مثلاً قربانی ہدی عقیقہ ان میں زکوٰۃ کا وا جب ہونا اور دیت کی ادائیگی کے لیے ان کا مختص ہونا۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے جد امجد اور ہماری ماں حضرت حوا علیہ اسلام کی تخلیق کا ذکر کرنے کے بعد ہماری تخلیق کی ابتدا کا ذ کر کرتے ہوئے ہو۔﴿يَخْلُقُكُمْ فِي بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ خَلْقًا مِّن بَعْدِ خَلْقٍ﴾اللہ تعالیٰ تمھیں تمھاری ماوں کے پیٹوں میں ایک مرحلے کے بعد دو سرے مر حلے میں تخلیق کرتا چلا تا تا ہے اور تمھاری یہ حا لت ہوتی ہے کہ کسی مخلوق کا ہاتھ تمھیں چھو سکتا ہے نہ کوئی آنکھ تمھیں دیکھ سکتی ہے۔ اس تنگ جگہ پر اللہ تعالیٰ نے تمھاری پرورش کی ہے﴿ فِي ظُلُمَاتٍ ثَلَاثٍ﴾ تین اندھیروں میں یعنی پیٹ کا اند ھیرا رحم کا اند ھیرا اور اس جھلی کا اند ھیرا جس میں بچہ لیٹا ہوتا ہے۔﴿ ذَٰلِكُمُ﴾وہ ہستی جس نے آسما نوں اور زمین کو پیدا کیا سورج اور چاند کو مسخر کیا جس نے تمھیں پیدا کیا اور تمھارے لیے مو یشی اور نعمتیں پیدا کیں۔﴿ اللّٰـهُ رَبُّكُمْ﴾وہ اللہ تمھارا معبود حقیقی ہے جس نے تمھاری پرورش کی اور تمھاری تدبیر کی۔ جس طرح وہ تمھیں پیدا کرنے اور تمھاری پر ورش کرنے میں اکیلا ہے اور اس کا کوئی شر یک نہیں اسی طرح اپنی الو ہیت میں بھی اکیلا ہے اس کا کوئی شر یک نہیں۔﴿ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ فَأَنَّىٰ تُصْرَفُونَ﴾اس کے سوا کوئی معبود نہیں پھر تم کہاں پھرے جاتے ہو ؟ اس تو ضیح کے بعد اس استحقاق کو بیان ہونا کہ ان بتوں کی عبادت کی بجائے اللہ تعالیٰ کے لیے عبادت کو خا لص کیا جائے جو کسی چیز کی تدبیر کرتے ہیں نہ انھیں کوئی اختیار ہے۔ الزمر
7 ﴿إِن تَكْفُرُوا فَإِنَّ اللّٰـهَ غَنِيٌّ عَنكُمْ﴾اگر نا شکری کرو گے تو اللہ تم سے بے نیاز ہے۔ جس طرح تمھاری اطا عت اسے کوئی فا ئدہ نہیں پہنچا سکتی اسی طرح تمھارا کفر اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا بلکہ تمھارے لیے اس کا امر و نہی تم پر اس کا محض فضل و احسان ہے ﴿ وَلَا يَرْضَىٰ لِعِبَادِهِ الْكُفْرَ﴾اور وہ اپنے بندوں کے لیے نا شکری پسند نہیں کرتا کیونکہ ان پر اس کا کا مل احسان ہے اسے معلوم ہے کہ کفر ان کو ایسی بدبختی میں مبتلا کر دے گا کہ اس کے بعد انھیں کبھی خوش بختی نصیب نہ ہوگی نیز اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے اور یہی وہ غرض و غا یت ہے جس کے لیے اللہ تعالیٰ مخلوق کو پیدا کیا اس لیے اللہ تعالیٰ اس بات کو پسند نہیں کر تاکہ بندے اس مخلوق کو پکا ریں جس کو اس مقصد کے لیے تخلیق نہیں کیا گیا ﴿ وَإِن تَشْكُرُوا﴾اور تم اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کے لیے دین میں اخلا ص اختیار کر کے اس کا شکر ادا کرو ﴿يَرْضَهُ لَكُمْ﴾تو وہ اس کو تمھارے لیے پسند کرتا ہے کیونکہ تم پر اس کی بے پا یاں رحمت سا یہ کناں ہے وہ تم پر احسان کو پسند کرتا ہے اور اس فعل کو بجا لا رہے ہو جس کے لیے تمھیں پیدا کیا گیا ہے ۔تمھارے شرک سے اسے کوئی نقصان پہنچ سکتا ہے نہ تمھارے اعمال اور تمھاری توحید سے اسے کوئی فا ئدہ۔ تم میں سے ہر شخص کا اچھا بر اعمل اسی کے لیے ہے۔﴿وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ﴾ اور کوئی بو جھ اٹھا نے والا کسی دو سرے کا بو جھ نہیں اٹھائے گا۔﴿ ثُمَّ إِلَىٰ رَبِّكُم مَّرْجِعُكُمْ﴾ پھر تم کو اپنے رب کی طرف لو ٹنا ہے یعنی قیا مت کے روز ﴿فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ﴾وہ تمھیں تمھارے اعمال کے بارے میں آگاہ کرے گا جن کا اس کے علم نے احا طہ کر رکھا ہے جن پر اس کا قلم جاری ہوچکا ہے جنھیں معزز محا فظین نے صحیفوں میں د رج کر رکھا ہے اور جن پر تمھارے جوارح تمھارے خلاف گو اہی دیں گے اور وہ تم میں سے ہر ایک کو اس کے استحقاق کے مطا بق جزا دے گا۔ ﴿إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ ﴾اللہ تعالیٰ سینوں کے اندر پنہاں نیکی اور برائی کے اوصاف کو خوب جانتا ہے اس آیت کر یمہ کا مقصود کا مل عدل وا نصاف پر مبنی جزا و سزا کے بارے میں خبر دینا ہے۔ الزمر
8 اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے بندے پر اپنے فضل وکرم اور اپنے احسان اور بندے کی ناشکری کا ذکر کرتا ہے۔ بندے کو جب مرض اور فقر وفاقہ وغیرہ کی کوئی تکلیف پہنچتی ہے یا وہ سمندر وغیرہ میں گھر جاتا ہے اور اسے معلوم ہوتا ہے کہ اس صورت حال میں اسے اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں بچا سکتا تو نہایت عاجزی اور انابت کے ساتھ اسے پکارتا ہے اور اس مصیبت کو دور کرنے میں گڑگڑا کر اس سے مدد طلب کرتا ہے۔﴿ثُمَّ إِذَا خَوَّلَهُ نِعْمَةً مِّنْهُ﴾” پھر جب اللہ تعالیٰ اسے نعمت سے نواز دیتا ہے“ اور اس سے مصیبت اور تکلیف کو دور کردیتا ہے تو وہ اس تکلیف اور مصیبت کو بھول جاتا ہے جس میں اللہ تعالیٰ کو پکارتا تھا اور اس طرح گزرتا ہے گویا اس پر کبھی کوئی مصیبت نازل ہی نہیں ہوئی اور یوں اپنے شرک پر جمارہتا ہے۔ اور اللہ کا شریک بنانے لگتا ہے تاکہ (لوگوں کو) اس کے راستے سے گمراہ کرے۔ یعنی خود اپنے نفس کو بھی گمراہ کرے اور دوسروں کو بھی گمراہ کرے، کیونکہ دوسروں کو گمراہ کرنا گمراہ ہونے کا ہی ایک شعبہ ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے لازم پر دلالت کرنے کے لئے ملزوم کا ذکر کیا ہے۔ ﴿قُلْ﴾ ” کہہ دیجیے !“ اس سرکش انسان سے جس نے اللہ کی نعمت کو کفر سے بدل ڈالا ﴿تَمَتَّعْ بِكُفْرِكَ قَلِيلًا إِنَّكَ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ﴾ ”اپنے کفر کا تھوڑا سا فائدہ اٹھا لے یقیناً تو جہنمیوں میں سے ہے۔“ جب تیرا انجام جہنم ہے تو یہ نعمتیں جن سے تو فائدہ اٹھا رہا ہے تیرے کسی کام نہ آئیں گی۔ ﴿ أَفَرَأَيْتَ إِن مَّتَّعْنَاهُمْ سِنِينَ ثُمَّ جَاءَهُم مَّا كَانُوا يُوعَدُونَ مَا أَغْنَىٰ عَنْهُم مَّا كَانُوا يُمَتَّعُونَ﴾ ) (الشعراء:26؍205۔207)” کیا آپ نے دیکھا کہ اگر ہم انہیں مہلت دے کر برسوں فائدہ اٹھانے دیں، پھر ان کے پاس وہ چیز آجائے جس کا انہیں وعدہ دیا جا رہا تھا تو یہ سامان زیست جو انہیں عطا کیا گیا ہے، ان کے کسی کام نہ آئے گا۔‘‘ الزمر
9 یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی اطاعت کرنے والے اور نافرمانی کرنے والے کے درمیان اور عالم اور جاہل کے مابین مقابلہ ہے، نیز اس کا شمار ایسے امور میں ہوتا ہے جن کا تضاد عقل انسانی میں راسخ اور ان کے درمیان تفاوت یقینی طور پر معلوم ہے۔ پس اپنے رب کی اطاعت سے روگرداں اور خواہشات کی پیروی کرنے والا اس شخص کے مانند نہیں ہوسکتا ہے جو افضل اوقات یعنی رات کے اوقات میں بہترین عبادت، یعنی نماز کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور فرمانبرداری کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے بہترین اعمال کو کثرت کے ساتھ بجا لانے کے وصف سے موصوف کیا، پھر اسے خوف اور امید کی صفات سے موصوف کیا، نیز ذکر فرمایا کہ خوف ان گناہوں کے بارے میں آخرت کے عذاب سے تعلق رکھتا ہے، جو اس سے سر زد ہوچکے ہیں اور امید کا تعلق اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے ظاہری اور باطنی عمل سے موصوف فرمایا۔ ﴿قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ﴾ ” کہہ دیجیے کیا وہ برابر ہوسکتے ہیں جو جانتے ہیں“ جو اپنے رب، اس کے دین شرعی، دین جزائی اور دین کے اسرار اور حکمتوں کا علم رکھتے ہیں ﴿وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ﴾ اور جو ان مذکور امور کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے؟ یہ دونوں قسم کے لوگ کبھی برابر نہیں ہوتے جس طرح رات اور دن، روشنی اور اندھیرا اور آگ اور پانی برابر نہیں ہوتے۔ ﴿إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ﴾ جب نصیحت کی جاتی ہے تو صرف وہی لوگ نصیحت پکڑتے ہیں ﴿أُولُو الْأَلْبَابِ﴾ جو صاف ستھری اور تیز عقل کے مالک ہیں۔ پس یہی لوگ اعلیٰ کو ادنیٰ پر مقدم رکھتے ہیں، چنانچہ یہ لوگ علم کو جہالت پر اور اللہ کی اطاعت کو اس کی مخالفت پر ترجیح دیتے ہیں کیونکہ ان کی عقل ان کو عواقب میں غور و فکر کرنے کی دعوت دیتی ہے۔ اس کے برعکس بے عقل شخص اپنی خواہش نفس کو اپنا معبود بنا لیتا ہے۔ الزمر
10 اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اشرف المخلوقات یعنی اہل ایمان کو دینی امور میں سے سب سے بہتر چیز تقویٰ کا حکم دیتے ہوئے کہہ دیجیے اور ان کے سامنے اس سبب کا بھی ذکر کیجیے جو تقویٰ کا موجب ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کی ربوبیت اور اس کی نعمتوں کا اقرار، جو ان سے تقویٰ اختیار کرنے کا تقاضا کرتی ہیں اور ان میں سے ایک نعمت یہ ہے کہ اس نے ان کو ایمان کی دولت سے سرفراز فرمایا، جو تقویٰ کا موجب ہے۔ یہ اسی طرح ہے جیسے آپ کسی سخی شخص سے کہیں ” اے سخی ! صدقہ کر“ اور کسی بہادر شخص سے کہیں ” اے بہادر ! لڑائی کر“ پھر اللہ تعالیٰ نے ثواب کا ذکر فرمایا جو دنیا میں ان کے اندر نشاط پیدا کرتا ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هَـٰذِهِ الدُّنْيَا﴾ ” جنہوں نے اس دنیا میں نیکی کی“ اپنے رب کی عبادت کے ذریعے سے تو ان کے لئے ﴿حَسَنَةٌ﴾ ” بھلائی“ لامحدود رزق، نفس مطمئنہ اور انشراح قلب ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً﴾ (النحل :16؍97) ” جو کوئی بھی نیک عمل کرے گا خواہ وہ مرد ہو یا عورت اور وہ مومن بھی ہو، ہم اسے نہایت پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے۔ “ ﴿وَأَرْضُ اللّٰـهِ وَاسِعَةٌ﴾ ” اور اللہ کی زمین وسیع ہے۔“ یعنی اگر تمہیں زمین کے کسی خطے میں اللہ تعالیٰ کی عبادت سے روک دیا جائے تو زمین کے کسی دوسرے خطے کی طرف ہجرت کر جاؤ جہاں تم اپنے رب کی عبادت کرسکو اور جہاں تمہارے لئے اقامت دین ممکن ہو۔ جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هَـٰذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةٌ﴾ اور چونکہ یہ نص عام ہے، لہٰذا اس مقام پر بعض لوگوں کے لئے یہ کہنے کی مجال تھی کہ جو شخص بھی نیک کام کرے گا اس کے لئے دنیا میں بھلائی ہے، تو اس شخص کا کیا حال ہے جو کسی خطہ زمین میں ایمان لایا بایں ہمہ وہ مظلوم اور محکوم و مجبور ہے اور وہ اس بھلائی سے محروم ہے؟ اس لئے اس گمان کا جواب ان الفاظ میں فرمایا : ﴿وَأَرْضُ اللّٰـهِ وَاسِعَةٌ﴾ ” اور اللہ کی زمین بڑی فراخ ہے۔“ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بشارت ہے۔ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی اس بشارت کو ان الفاظ میں منصوص فرمایا :” میری امت میں سے ایک گروہ ہمیشہ حق پر قائم رہے گا، کسی کا ان سے علیحدہ ہونا اور مخالفت کرنا انہیں کوئی نقصان نہ دے سکے گا یہاں تک کہ اللہ کا حکم آ پہنچے گا اور یہ گروہ حق اسی نہج پر ہوگا۔“ [صحیح البخاری، التوحید، باب قول اللہ تعالیٰ ﴿انما قولنا لشئی إذا أردنٰه﴾ ح :7460 و صحیح مسلم، الجھاد باب قولہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لانزال طائفۃ من أمتی۔۔۔ ح :1920] یہ آیت کریمہ اسی طرف اشارہ کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ اس کی زمین بہت کشادہ ہے اس لئے جب کبھی بھی کسی جگہ تمہیں اللہ تعالیٰ کی عبادت سے روک دیا جائے تو تم کسی دوسری جگہ ہجرت کر جاؤ۔ ہر زمان و مکان میں یہ حکم عام ہے۔ تب لازم ٹھہرا کہ ہر ہجرت کرنے والے مومن کے لئے مسلمانوں کے اندر کوئی ٹھکانا ہو جہاں وہ پناہ لے سکے اور ایک جگہ ہو جہاں وہ اپنے دین کو قائم کرسکے۔ ﴿إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُم بِغَيْرِ حِسَابٍ﴾ ” جو صبر کرنے والے ہیں، انہیں بے شمار ثواب ملے گا۔“ یہ آیت کریمہ صبر کی تمام انواع کے لئے عام ہے، مثلاً اللہ تعالیٰ کی تکلیف دہ قضا و قدر پر اس طرح صبر کرنا کہ اس میں ناراضی کا شائبہ نہ ہو، گناہ اور معاصی کے مقابلے میں صبر کرتے ہوئے ان کے ارتکاب سے بچنا، اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر صبر کرتے ہوئے اس پر قائم رہنا۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے صبر شعار لوگوں کے لئے بے حساب اجر کا وعدہ کیا ہے۔ یعنی کسی حد، تعداد اور مقدار کے بغیر یہ صبر کی فضیلت ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کا موقع و محل ہے اور بلاشبہ یہ ہر معاملے میں متعین ہے۔ الزمر
11 ﴿قُلْ﴾ اے رسول ! لوگوں سے کہہ دیجیے: ﴿ إِنِّي أُمِرْتُ أَنْ أَعْبُدَ اللّٰـهَ مُخْلِصًا لَّهُ الدِّينَ﴾ ” بلاشبہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں دین کو اللہ کے لئے خالص کرتے ہوئے، اس کی عبادت کروں“ جیسا کہ اس سورۃ مبارکہ کی ابتدا میں فرمایا : ﴿فَاعْبُدِ اللّٰـهَ مُخْلِصًا لَّهُ الدِّينَ﴾(الزمر:39؍2) ” پس آپ اللہ کے لئے دین کو خالص کرتے ہوئے اس کی عبادت کرو۔“ الزمر
12 ﴿وَأُمِرْتُ لِأَنْ أَكُونَ أَوَّلَ الْمُسْلِمِينَ﴾ ” اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ سب سے پہلے میں خود مسلمان بنوں“ کیونکہ میں مخلوق کے لئے داعی اور ان کے رب کی طرف ان کی راہنمائی کرنے والا ہوں، یہ چیز اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ جس کام کا حکم دیا جائے میں تمام لوگوں سے پہلے اس حکم کی تعمیل کروں اور سب سے پہلے میں اس کے سامنے سرتسلیم خم کروں۔ اس حکم کو بجا لانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اور ان لوگوں پر لازم ہے جو آپ کے اتباع کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ظاہری اعمال میں اسلام پر عمل کرنا اور ظاہری اور باطنی اعمال میں اللہ کے لئے اخلاص کو مدنظر رکھنا واجب ہے۔ الزمر
13 ﴿قُلْ إِنِّي أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي﴾ ” کہہ دیجیے کہ اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو مجھے اندیشہ ہے“ یعنی اخلاص اور اسلام کے بارے میں میرے رب نے مجھے حکم دیا ہے ﴿عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ ﴾ ” بڑے دن کے عذاب کا“ جس نے شرک کا ارتکاب کیا وہ اس عذاب میں ہمیشہ رہے گا اور جس نے گناہ کیا اسے اس عذاب کے ذریعے سے سزا دی جائے گی۔ الزمر
14 ﴿قُلِ اللّٰـهَ أَعْبُدُ مُخْلِصًا لَّهُ دِينِي فَاعْبُدُوا مَا شِئْتُم مِّن دُونِهِ﴾ ” کہہ دیجیے ! میں تو اپنے دین کو اللہ کے لئے خالص کر کے صرف اسی کی عبادت کرتا ہوں۔ تم اسے چھوڑ کر جس کی چاہو عبادت کرتے رہو“ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے دوسرے مقام پر فرمایا : ﴿قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ لَا أَعْبُدُ مَا تَعْبُدُونَ وَلَا أَنتُمْ عَابِدُونَ مَا أَعْبُدُ وَلَا أَنَا عَابِدٌ مَّا عَبَدتُّمْ وَلَا أَنتُمْ عَابِدُونَ مَا أَعْبُدُ لَكُمْ دِينُكُمْ وَلِيَ دِينِ﴾ (الکافرون:109؍1۔6) ” کہہ دیجیے اے کافرو ! جن کی تم عبادت کرتے ہو میں ان کی عبادت نہیں کرتا، نہ تم اس ہستی کی عبادت کرتے ہو جس کی میں عبادت کرتا ہوں، نہ میں ان ہستیوں کی عبادت کرسکتا ہوں، جن کی تم عبادت کرتے ہو اور نہ تم اس ہستی ہی کی عبادت کرتے ہو جس کی عبادت میں کرتا ہوں، تمہارا دین تمہارے لئے اور میرا دین میرے لئے ہے۔ “ الزمر
15 ﴿قُلْ إِنَّ الْخَاسِرِينَ ﴾ ” کہہ دیجیے کہ نقصان اٹھانے والے“ درحقیقت وہ لوگ ہیں۔ ﴿الَّذِينَ خَسِرُوا أَنفُسَهُمْ ﴾ ” جنہوں نے اپنے آپ کو خسارے میں ڈالا اور اپنے آپ کو ثواب سے محروم کیا اور اس سبب سے وہ بدترین عذاب کے مستحق ٹھہرے ﴿وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ﴾ ” اور اپنے گھر والوں کو قیامت کے دن“ ان کے درمیان اور گھر والوں کے درمیان جدائی ڈال دی جائے گی۔ شدید حزن و غم انھیں آ گھیرے گا اور وہ بہت بڑے گھاٹے میں پڑجائیں گے۔ ﴿ أَلَا ذٰلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِينُ﴾ ” خبر دار ! یہی صریح خسارہ ہے۔“ اس جیسا اور کوئی خسارہ نہیں اور یہ دائمی خسارہ ہے جس کے بعد کوئی نفع نہیں، بلکہ اس کے بعد سلامتی ہی نہیں۔ الزمر
16 پھر اللہ تعالیٰ نے اس بدتر بدبختی کا ذکر فرمایا جس میں یہ لوگ مبتلا ہوں گے چنانچہ فرمایا : ﴿لَهُم مِّن فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِّنَ النَّارِ﴾ ” ان کے اوپر آگ کے سائبان ہوں گے۔“ یعنی بادل کے مانند عذاب کے بڑے بڑے ٹکڑے ہوں گے۔ ﴿ وَمِن تَحْتِهِمْ ظُلَلٌ﴾ ” اور ان کے نیچے بھی (آگ کے) سائبان ہوں گے“ ﴿ذٰلِكَ﴾ یعنی جہنمیوں کے عذاب کا یہ وصف جو ہم نے بیان کیا ہے ایک ایسا کوڑا ہے جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اپنی رحمت کے سائے کی طرف ہانکتا ہے۔ ﴿يُخَوِّفُ اللّٰـهُ بِهِ عِبَادَهُ يَا عِبَادِ فَاتَّقُونِ ﴾ ” اللہ اس عذاب کے ذریعے سے اپنے بندوں کو ڈراتا ہے، لہٰذا اے میرے بندو ! مجھ سے ڈرتے رہو۔“ یعنی اللہ تعالیٰ نے جہنمیوں کے لئے جو عذاب تیار کر رکھا ہے، یہ اس کے بندوں کو تقویٰ کی طرف بلاتا ہے اور ان امور پر زجر و توبیخ ہے جو عذاب کے موجب ہیں۔ پاک ہے وہ ذات جو ہر چیز میں اپنے بندوں پر رحم کرتی ہے، جس نے اپنے (اللہ)تک پہنچانے والے راستوں کو ان کے لئے نہایت سہل بنایا، ان پر گامزن ہونے کے لئے ان کو آمادہ کیا اور ہر ایسے طریقے سے ان کو ترغیب دی جن کے ذریعے سے نفوس انسانی میں شوق پیدا ہوتا ہے اور اس سے قلب کو اطمینان حاصل ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے سوا دیگر اعمال سے ڈرایا ہے اور ان کے سامنے ان اسباب کا بھی ذکر کیا ہے جو انہیں ان اعمال کو ترک کرنے سے روکتے ہیں۔ الزمر
17 اللہ تبارک و تعالیٰ مجرمین کا حال بیان کرنے کے بعد اپنی طرف رجوع کرنے والے بندوں کا حال بیان کرتے اور ان کے لئے ثواب کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے : ﴿وَالَّذِينَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوتَ أَن يَعْبُدُوهَا ﴾ ” اور وہ لوگ جو طاغوت کی عبادت کرنے سے بچتے رہے۔“ اس مقام پر طاغوت سے مراد، غیر اللہ کی عبادت ہے یعنی جنہوں نے غیر اللہ کی عبادت سے اجتناب کیا۔ یہ حکیم و علیم کی طرف سے بہترین احتراز ہے، کیونکہ مدح تو صرف اسی شخص کو پہنچتی ہے جو ان کی عبادت سے بچتا ہے ﴿وَأَنَابُوا إِلَى اللّٰـهِ﴾ اور وہ لوگ اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اخلاص دین کے ذریعے سے اس کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ ان کی فطرت کے داعیے بتوں کی عبادت کو چھوڑ کرلیتے ہیں۔ ﴿ لَهُمُ الْبُشْرَىٰ﴾ ” ان کے لئے ایسی خوش خبری ہے“ جس کا اندازہ صرف وہی لوگ کرسکتے اور صرف وہی لوگ اس سے واقف ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اس خوش خبری سے سرفراز فرمایا ہے۔ اس میں دنیا کے اندر وہ بشارت بھی شامل ہے جو بندہ مومن کو ثنائے حسن، سچے خوابوں اور عنایت ربانی کی صورت میں حاصل ہوتی ہے۔ انہیں اس بشارت کے اندر صاف دکھائی دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں اپنے بندوں کا اکرام چاہتا ہے۔ ان کے لئے موت کے وقت، قبر کے اندر اور قیامت کے روز خوش خبری ہے اور ان کے لئے اخرت بشارت وہ ہے جو رب کریم ان کو اپنی دائمی رضا، اپنے فضل و احسان اور جنت کے اندر امان کی صورت میں دے گا۔ جب اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ ان مومن بندوں کے لئے خوش خبری ہے تو اس نے اپنے نبی کو حکم دیا کہ وہ ان کو خوش خبری دے دیں اور وہ وصف بھی ذکر کردیا جس کی بنا پر وہ بشارت کے مستحق قرار پائے ہیں۔ ﴿بَشِّرْ عِبَادِ الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ﴾ ” پس میرے بندوں کو خوش خبری سنا دو، جو بات کو سنتے ہیں“ یہاں (الْقَوْلَ) ہر قسم کی بات کو شامل ہے۔ وہ بات کو سنتے ہیں تاکہ وہ امتیاز کرسکیں کہ کس بات کو ترجیح دی جائے اور کس بات سے اجتناب کیا جائے۔ یہ ان کا حزم و احتیاط اور عقل مندی ہے کہ وہ اس میں سے بہترین بات کی پیروی کرتے ہیں۔ بہترین کلام علی الاطلاق اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کلام ہے۔ جیسا کہ آگے چل کر اسی سورۃ مبارکہ میں فرمایا : ﴿اللَّـهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتَابًا مُّتَشَابِهًا﴾(الزمر:39؍23) ” اللہ نےبہترین کلام نازل کیا ہے ایک ایسی کتاب کی صورت میں جو ایک دوسرے کے مشابہ ہے۔ “ اس آیت کریمہ میں یہ نکتہ پنہاں ہے کہ جب ان ممدوح لوگوں کا یہ وصف بیان کیا گیا ہے کہ وہ بات کو غور سے سنتے ہیں اور اس میں سے بہترین قول کا اتباع کرتے ہیں، تو گویا یہ کہا گیا ہے کہ آیا کوئی ایسا طریقہ ہے جس کے ذریعے سے بہترین کلام کی معرفت حاصل ہو؟ تاکہ ہم بھی عقل مندوں کی صفات سے متصف ہوجائیں اور جو کوئی اس صفت سے متصف ہو تو ہمیں پتا چل جائے کہ یہ عقلمندوں میں سے ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہاں ! بہترین کلام وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے اس ارشاد کے ذریعے سے منصوص فرمایا : ﴿اللَّـهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتَابًا مُّتَشَابِهًا﴾(الزمر :39؍23) ” اللہ نے بہترین کلام نازل کیا ہے ایک ایسی کتاب کی صورت میں جو ایک دوسرے کے مشابہ ہے۔ “ الزمر
18 ﴿الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ ۚ أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ هَدَاهُمُ اللّٰـهُ ﴾ ” وہ لوگ جو بات کو توجہ سے سنتے ہیں پھر اس کے بہترین پہلو کا اتباع کرتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جنہیں اللہ نے ہدایت بخشی ہے، یعنی بہترین اخلاق و اعمال کی طرف ﴿وَأُولَـٰئِكَ هُمْ أُولُو الْأَلْبَابِ﴾ ” اور یہی لوگ عقلمند ہیں۔“ یعنی پاک عقل کے مالک ہیں۔ یہ ان کی عقل مندی اور ان کا حزم و احتیاط ہے کہ انہوں نے قول حسن اور غیر حسن کو پہچان لیا اور پھر اس قول کو ترجیح دی جس کو ترجیح دی جانی چاہئے تھی اور یہ عقل مندی کی علامت ہے، بلکہ عقل مندی کے لئے اس کے علاوہ کوئی اور علامت نہیں ہے، کیونکہ وہ شخص جو قول حسن اور غیر حسن میں امتیاز نہیں کرسکتا، ان لوگوں کے زمرے میں نہیں آتا جو عقل صحیح کے مالک ہیں یا وہ اچھی اور بری بات کے درمیان امتیاز تو کرسکتا ہے لیکن جب شہوت نفس عقل پر غالب آجاتی ہے اور عقل شہوت کی محض تابع ہوجاتی ہے تو وہ بہترین کلام کی تعظیم نہیں کرتا تب وہ ناقص العقل قرار پاتا ہے۔ الزمر
19 یعنی وہ شخص جس کے گمراہی، عناد اور کفر پر جمے رہنے کے باعث، اس پر عذاب کا حکم واجب ہوگیا، تو اس کی ہدایت کے لئے آپ کے پاس کوئی چارہ ہے نہ آپ اس شخص کو کسی صورت میں آگ سے بچا سکتے ہیں جو آگ میں گر چکا ہو۔ ہر قسم کا غنا اور فوز و فلاح صرف تقویٰ شعار لوگوں کے لئے ہے جن کے لئے اکرام و تکریم اور مختلف اقسام کی نعمتیں تیار کی گئی ہیں جن کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا۔ الزمر
20 ﴿لَهُمْ غُرَفٌ ﴾ یعنی ان کے لئے آراستہ کئے گئے بالا خانے ہیں، جن کی خوبصورتی، حسن اور صفائی کی بنا پر ان کے اندر صاف دیکھا جا سکے گا اور وہ اپنی بلندی کی وجہ سے یوں نظر آئیں گے جیسے مشرقی یا مغربی افق میں غروب ہونے والا ستارہ، بنا بریں فرمایا : ﴿مِّن فَوْقِهَا غُرَفٌ﴾ یعنی یہ بالا خانے ایک دوسرے کے اوپر ﴿مَّبْنِيَّةٌ﴾ سونے چاندی کی اینٹوں سے تعمیر کئے گئے ہوں گے جن کو آپس میں جوڑنے کے لئے مشک کا گارا بنایا گیا ہوگا۔ ﴿تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ﴾ ” جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی“ جن کا پانی نہایت تیزی سے رواں ہوگا۔ یہ نہریں جنت کے خوبصورت باغات اور اس کے پاکیزہ درختوں کو سیراب کریں گی جن سے نہایت لذیذ قسم کے پھل اور پکے ہوئے میوے پیدا ہوں گے۔ ﴿وَعْدَ اللّٰـهِ لَا يُخْلِفُ اللّٰـهُ الْمِيعَادَ﴾ ”یہ اللہ کا وعدہ ہے اور اللہ اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔‘‘ اس نے پرہیز گار لوگوں سے اس ثواب کا وعدہ کر رکھا ہے۔ یہ وعدہ ضرور پورا ہوگا، لہٰذا چاہئے کہ وہ تقویٰ کے تمام خصائل کو پورا کریں تاکہ ان کو پورا پورا اجر عطا کیا جائے۔ الزمر
21 اللہ تعالیٰ عقل مندوں کو یاد دلاتا ہے کہ اس نے آسمان سے پانی برسایا، اس پانی کو زمین کے اندر چشموں کی صورت میں رواں دواں کیا، یعنی اس پانی کو چشموں میں محفوظ کیا جہاں سے یہ پانی نہایت آسانی اور سہولت سے نکالا جاتا ہے۔ ﴿ثُمَّ يُخْرِجُ بِهِ زَرْعًا مُّخْتَلِفًا أَلْوَانُهُ﴾ ” پھر اللہ تعالیٰ اس پانی کے ذریعے سے مختلف قسم کے غلہ جات نکالتا ہے“ مثلاً گیہوں، مکئی، جو اور چاول پیدا کرتا ہے۔ ﴿ ثُمَّ يَهِيجُ﴾ پھر یہ کھیتیاں پوری طرح پک کر یا کسی آفت کی وجہ سے خشک ہوجاتی ہیں ﴿فَتَرَاهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَجْعَلُهُ حُطَامًا ﴾ ” تو تم اسے زرد دیکھتے ہو۔ پھر وہ اسے چورا چورا کردیتا ہے۔“ ﴿إِنَّ فِي ذٰلِكَ لَذِكْرَىٰ لِأُولِي الْأَلْبَابِ ﴾ ” بلا شبہ عقل مندوں کے لئے البتہ اس میں نصیحت ہے۔“ وہ ان کھیتوں کے ذریعے سے اپنے رب کی عنایات اور بندوں پر اس کی بے پایاں رحمت کو یاد کرتے ہیں کہ اس نے ان کے لئے اس پانی کے حصول کو آسان بنایا اور ان کے مصالح کے مطابق اس پانی کو زمین کے خزانوں میں جمع کیا۔ اس طرح وہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کو یاد کرتے ہیں کہ وہ مردوں کو اسی طرح زندہ کرے گا جس طرح اس نے زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کیا ہے۔ وہ یہ بھی یاد کرتے ہیں کہ ان تمام افعال کو سرانجام دینے والی ہستی ہی درحقیقت عبادت کی مستحق ہے۔ اے اللہ ! ہمیں بھی ان عقلمندوں میں شامل فرما، جن کا تو نے نام بلند کیا، انہیں عقل سے بہرہ مند کر کے راہ راست پر گامزن کیا اور ان کے سامنے اپنی عظیم کتاب کے اسرار اور اپنی آیات سے پردہ اٹھایا جن اسرار کی معرفت ان کے سوا کسی اور کو حاصل نہ ہوسکی، بے شک تو ہی عطا کرنے والا ہے۔ الزمر
22 کیا وہ شخص جس کا سینہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کے لئے کھول دیا ہو اور اس میں اللہ تعالیٰ کے احکام کو قبول کرنے اور ان پر عمل پیرا ہونے کے لئے وسعت ہو اور وہ اسلام کے معاملے میں انشراح صدر اور آنکھوں کی ٹھنڈک کے ساتھ بصیرت کی راہ پر گامزن ہو۔۔۔ اور اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿ فَهُوَ عَلَىٰ نُورٍ مِّن رَّبِّهِ ﴾ ” پس وہ اپنے رب کی طرف سے روشنی پر ہو۔“ سے یہی مراد ہے۔۔۔ اس شخص کی مانند ہوسکتا ہے جو ان مذکورہ اوصاف سے محروم ہے؟ اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے ﴿فَوَيْلٌ لِّلْقَاسِيَةِ قُلُوبُهُم مِّن ذِكْرِ اللّٰـهِ﴾ ” پس ہلاکت ہے ان کے لئے جن کے دل اللہ کی یاد سے سخت ہو رہے ہیں۔“ یعنی ان کے سخت دل اس کی کتاب کو سمجھنے کے لئے نرم ہوتے ہیں نہ اس کی آیات سے نصیحت پکڑتے ہیں اور نہ اس کے ذکر سے اطمینان ہی حاصل کرتے ہیں بلکہ اس کے برعکس وہ اپنے رب سے روگردانی کر کے غیر کی طرف التفات کرتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جن کے لئے شدید ہلاکت اور بہت بڑی برائی ہے۔ ﴿ أُولَـٰئِكَ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ﴾ ” یہی لوگ صریح گمراہی میں ہیں۔“ اس شخص کی گمراہی سے بڑھ کر کون سی گمراہی ہے جو اپنے والی اور سرپرست سے منہ موڑتا ہے جس کی طرف التفات میں ہر قسم کی سعادت ہے، جس کا دل اللہ تعالیٰ کے ذکر کے بارے میں پتھر کے مانند سخت ہے اور وہ اس چیز کی طرف متوجہ ہے جو اس کے لئے نقصان دہ ہے۔ الزمر
23 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی کتاب کے بارے میں، جسے اس نے نازل فرمایا خبر دیتا ہے کہ یہ کتاب علی الاطلاق ﴿أَحْسَنَ الْحَدِيثِ﴾ ” بہترین کلام ہے۔“ پس بہتر کلام اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور اللہ تعالیٰ کے کلام سے نازل کی گئی کتابوں میں بہترین کتاب یہ قرآن کریم ہے۔ جب قرآن کریم بہترین کتاب ہے تب معلوم ہوا کہ اس کے الفاظ فصیح ترین اور واضح ترین اور اس کے معانی جلیل ترین ہیں، کیونکہ یہ اپنے الفاظ اور معانی میں بہترین کلام ہے۔ اپنے حسن تالیف اور ہر لحاظ سے عدم اختلاف کے اعتبار سے اس کے تمام اجزا ایک دوسرے سے مشا بہت رکھتے ہیں حتیٰ کہ اگر کوئی اس میں غور و فکر کرے تو اسے اس میں ایسی مہارت اس کے معانی میں ایسی گہرائی نظر آئے گی جو دیکھنے وا لوں کو حیران کردیتی ہے اور اسے یقین ہوجاتا ہے کہ یہ (بے عیب) کلام حکمت اور علم وا لی ہستی کے سوا کسی اور سے صادر نہیں ہوسکتا۔ اس مقام پر تشا بہ سے یہی مراد ہے ۔ رہا اللہ تعالیٰ کا ارشاد﴿هُوَ الَّذِي أَنزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُّحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ﴾(آل عمران:3؍7) وہ اللہ ہی ہے جس نے آپ پر یہ کتاب نازل فرمائی اس میں محکم آیات بھی ہیں جو کتاب کی اصل بنیاد ہیں اور بعض دوسری متشابہات ہیں تو اس سے مراد وہ آیات کر یمہ ہیں جو بہت سے لوگوں کے فہم سے پو شیدہ اور مشتبہ ہوتی ہیں۔ یہ اشتبا ہ اس و قت تک زائل نہیں ہوتا جب تک کہ اس کو آیات محکمات کی طرف نہ لو ٹا یا جائے اس لیے فرمایا: ﴿مِنْهُ آيَاتٌ مُّحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ﴾ (آل عمران:3؍7) اس میں محکم آیات بھی ہیں جو کتاب کی اصل بنیاد ہیں اور بعض دوسری متشابہات ہیں۔ اس آیت کر یمہ میں بعض آیات میں تشا بہ قرار دیا گیا ہے اور یہاں تمام آیات کو متشا بہ کہا ہے یعنی حسن میں مشا بہ ہیں کیونکہ ارشاد فرمایا :﴿ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ﴾ نہایت اچھی باتیں اس سے مراد تمام آیات اور سورتیں ہیں جو ایک دوسری سے مشابہت رکھتی ہیں۔ جیسا کہ گز شتہ سطور میں ہم ذکر کرچکے ہیں۔ ﴿ مَّثَانِيَ﴾ دہرائی جاتی ہیں۔ یعنی اس بہترین کلام میں قصص واحکام وعد و وعید اہل خیر کے اوصاف اور اہل شر کے اعمال کو بار بار دہرایا جاتا ہے نیز اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات کا بار بار ذکر کیا جاتا ہے۔ یہ اس کلام کا حسن و جلال ہے چونکہ اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ مخلوق اس کلام کے معانی کی محتاج ہے جو دلوں کو پاک اور اخلاق کی تکمیل کرتے ہیں اس لیے اس نے ان معانی کو دلوں کے لیے وہی حیثیت دی ہے جو درختوں اور پودوں کے لیے پانی کی ہے، جس طرح درخت اور پودے عدم سیر ابی کے با عث نا قص بلکہ بسا اوقات تلف ہوجاتے ہیں اور پو دوں کو جتنا زیادہ بار بار سیر اب کیا جائے گا اتنے ہی وہ خوبصورت ہوں گے اور اتنا ہی زیادہ پھل لائیں گے اسی طرح دل بھی کلام اللہ کے معانی کے تکرار کے ہمیشہ محتاج رہتے ہیں۔ اگر تمام قرآن میں ایک معنی اس کے سامنے ایک ہی مر تبہ بیان کیا جائے تو معنی اس کی گہرائی میں جا گزیں ہوگا نہ اس سے مطلو بہ نتائج ہی حا صل ہوں گے۔ بنا بریں میں اپنی تفسیر میں قرآن مجید کے اسلوب کی اقتدا میں اسی مسلک کریم پر گامزن ہوں اس لیے آپ کسی بھی مقام پر کوئی حو الہ نہیں پائیں گے بلکہ آپ ہر مقام پر گزشتہ صفحات میں اس سے ملتے جلتے مقام کی تفسیر کی رعا یت رکھے بغیر اس کی مکمل تفسیر پائیں گے اگرچہ بعض مقامات پر نسبتاً زیادہ بسط و شرح سے کام لیا گیا اور اس میں فوائد دیے گئے ہیں۔ قرآن مجید کی تلاوت کرنے والے اور اس کے معانی میں غور و فکر کرنے والے کے لیے بھی یہی مناسب ہے کہ وہ قرآن مجید کے تمام مقامات میں تدبر کو ترک نہ کرے کیونکہ اس سبب سے اسے خیر کثیر اور بہت زیادہ فائدہ حا صل ہوگا۔ چونکہ قرآن عظم اس عظمت و جلال کے ساتھ ہدایت یافتہ اور عقل مند لوگوں کے دلوں پر بہت اثر کرتا ہے اس لیےفرمایا: ﴿تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُودُ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ﴾ ’’جو لوگ اپنے رب سے ڈرتے ہیں اس (قرآن) سے اس کے بدن کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ کیونکہ اس کے اندر بے قرار کردینے اولی تخویف وتر ہیب ہے: ﴿ ثُمَّ تَلِينُ جُلُودُهُمْ وَقُلُوبُهُمْ إِلَىٰ ذِكْرِ اللّٰـهِ﴾پھر اس کے بدن اور دل نرم ہو کر اللہ کی یاد کی طرف متو جہ ہوجاتے ہیں۔ یعنی امید اور تر غیب کے ذکر کے وقت۔ یہ ذکر کبھی تو ان کو بھلائی کے عمل کی تر غیب د یتا ہے اور کبھی برائی کے عمل سے ڈراتا ہے۔ ﴿ذٰلِكَ﴾یہ یعنی ان کے اندر تاثیر قرآن کا اللہ تعالیٰ نے جو ذکر کیا ہے﴿ هُدَى اللّٰـهِ﴾ اللہ کی ہد ایت ہے یعنی اس کے بندوں کے لیے اس کی طرف سے ہدایت ہے اور ان پر اس کے جملہ فضل وا حسان میں سے ہے۔﴿ يَهْدِي بِهِ﴾ اللہ تعالیٰ اس تا ثیر قرآن کے ذر یعے سے ہد ایت دیتا ہے۔﴿ مَن يَشَاءُ﴾”جسے چاہتا ہے “اپنے بندوں میں سے، اس میں ایک احتمال یہ بھی ہے کہ﴿ذٰلِكَ﴾ سے مر اد قرآن ہو یعنی وہ قرآن جس کا و صف ہم نے تمھارے سا منے بیان کیا ہے﴿ هُدَى اللّٰـهِ﴾ اللہ کی ہد ایت ہے یعنی اللہ تعالیٰ تک پہنچے کے لیے اس کے راستے کے سوا کوئی راستہ نہیں ﴿يَهْدِي بِهِ مَن يَشَاءُ﴾وہ اس سے جس کو چاہتا ہے ہد ایت عطا کرتا ہے، یعنی جو اچھا مقصد رکھتے ہوں جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:﴿ يَهْدِي بِهِ اللّٰـهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهُ سُبُلَ السَّلَامِ﴾ (المائدۃ:5؍16)اللہ اس کتاب کے ذر یعے سے ان لوگوں کو سلا متی کا راستہ د کھا تا ہے جو اس کی رضا کے طا لب ہیں اور جسے اللہ گمر اہ کر دے اسے کوئی ہد ایت دینے و لا نہیں۔ ﴿وَمَن يُضْلِلِ اللّٰـهُ فَمَا لَهُ مِنْ هَادٍ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ کی تو فیق کے سوا کوئی را ستہ نہیں جو اللہ تعالیٰ تک پہنچا تا ہو کتاب اللہ پر تو جہ مر کوز کرنے کی تو فیق بھی اسی سے ملتی ہے پس اگر اللہ کی تو فیق نصیب نہ ہو تور اہ ر است پر چلنے کا کوئی طر یقہ نہیں تب وا ضح گمر اہی اور رسوا کن بد بختی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ الزمر
24 کیا یہ شخص جس کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت اور اپنے اکرام و تکریم کے گھر پہنچانے والے راستے پر گامزن ہونے کی توفیق سے بہرہ مند کیا ہے اور وہ شخص برابر ہوسکتے ہیں، جو اپنی گمراہی پر جما ہوا اور دائمی عناد میں سرگرداں ہے یہاں تک کہ قیامت آ پہنچے اور بڑا عذاب اسے گھیر لے اور اپنے چہرے کو اس عذاب سے بچانے کی ناکام کوشش کرے؟ چہرہ تمام اعضا میں سب سے زیادہ شرف کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ ادنیٰ سا عذاب اس پر بہت زیادہ اثر کرتا ہے۔ وہ اپنے چہرے کو بہت برے عذاب سے بچانے کی کوشش کرے گا، لیکن اس کے ہاتھ اور پاؤں جکڑے ہوئے ہوں گے۔ ﴿وَقِيلَ لِلظَّالِمِينَ﴾ کفر اور معاصی کے ذریعے سے اپنے آپ پر ظلم کرنے والوں سے زجر و توبیخ کے طور پر کہا جائے گا: ﴿ ذُوقُوا مَا كُنتُمْ تَكْسِبُونَ ﴾ ” اپنے کرتوتوں کا مزا چکھو۔ “ الزمر
25 ﴿كَذَّبَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ﴾ گزشتہ قوموں نے بھی اپنے انبیاء کی تکذیب کی جس طرح ان لوگوں نے تکذیب کی ﴿فَأَتَاهُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَيْثُ لَا يَشْعُرُونَ﴾ ” تو ان پر ایسی جگہ سے عذاب آگیا کہ انہیں خبر ہی نہ تھی۔“ ان پر یہ عذاب ان کی غفلت کے اوقات میں، یاد دن کے وقت یا اس وقت آنازل ہوا جب وہ دوپہر کے وقت آرام کر رہے تھے۔ الزمر
26 ﴿فَأَذَاقَهُمُ اللّٰـهُ﴾ ” پس اللہ نے انہیں چکھایا۔“ یعنی اس عذاب کے ذریعے سے ﴿الْخِزْيَ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا﴾ دنیا میں رسوائی کا مزا چکھایا، چنانچہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کی مخلوق کے ہاں رسوا ہوگئے۔ ﴿ وَلَعَذَابُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ﴾ ” اور آخرت کا عذاب تو بہت بڑا ہے، کاش ! وہ جان لیتے۔“ اس لئے ان لوگوں کو اپ کی تکذیب پر جمے رہنے سے بچنا چاہئے، ورنہ ان پر بھی وہی عذاب نازل ہوگا جو گزشتہ قوموں پر نازل ہوا تھا۔ الزمر
27 اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس نے قرآن کریم میں تمام مثالیں بیان کی ہیں۔ اہل خیر کی مثالیں، اہل شر کی مثالیں اور توحید و شرک کی مثالیں، نیز ہر وہ مثال بیان کی ہے جو اشیا کے حقائق اور ان کی حکمتوں کو ذہن کے قریب لاتی ہے ﴿ لَّعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ﴾ ” تاکہ وہ نصیحت پکڑیں“ جب ہم ان پر حق واضح کریں اور اس کو جان لینے کے بعد ان پر عمل کریں۔ الزمر
28 ﴿قُرْآنًا عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ﴾ ” یعنی ہم نے اس قرآن عظیم کو عربی میں واضح الفاظ اور آسان معانی والا بنایا ہے، خاص طور پر اہل عرب کے لئے بہت سہل ہے ﴿ غَيْرَ ذِي عِوَجٍ ﴾ یعنی کسی بھی لحاظ سے اس میں کوئی خلل اور کوئی نقص نہیں ہے، نہ اس کے الفاظ میں اور نہ اس کے معانی میں۔ یہ وصف اس کے کمال اعتدال اور کمال استقامت کو مستلزم ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿الْحَمْدُ لِلَّـهِ الَّذِي أَنزَلَ عَلَىٰ عَبْدِهِ الْكِتَابَ وَلَمْ يَجْعَل لَّهُ عِوَجًا﴾(الکہف:18؍1) ” ہر قسم کی ستائش اللہ تعالیٰ کے لئے ہے جس نے اپنے بندے پر کتاب نازل کی جس میں کوئی کجی نہ رکھی، ٹھیک ٹھیک کہنے والی کتاب۔“ ﴿ لَّعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ﴾ ” شاید کہ وہ اللہ تعالیٰ سے ڈریں“ کیونکہ ہم نے ان کے لئے اس عربی قرآن ِمستقیم کے ذریعے سے، جس میں اللہ تعالیٰ نے ہر مثال بیان کی ہے۔۔۔ علمی اور عملی تقویٰ کی راہ استوار کردی ہے۔ الزمر
29 پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے شرک اور توحید کی تفہیم کے لئے مثال بیان کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ضَرَبَ اللّٰـهُ مَثَلًا رَّجُلًا﴾ ” اللہ ایک آدمی کی مثال بیان فرماتا ہے۔“ یعنی غلام کی ﴿فِيهِ شُرَكَاءُ مُتَشَاكِسُونَ ﴾ ایک دوسرے کی مخالفت کرنے والے بہت سے لوگ اس غلام کی ملکیت میں شریک ہیں جو کسی حالت میں کسی بھی معاملے پر متفق نہیں ہوتے کہ اس کے لئے آرام کرنا ممکن ہوسکے بلکہ وہ ایک دوسرے سے اختلاف کرتے اور جھگڑتے ہیں۔ ہر ایک شریک کا اپنا اپنا مفاد ہے جسے وہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔ تمہارے خیال میں، ان اختلاف کرنے والے اور جھگڑنے والے شرکا کے مابین، اس غلام کی کیا حالت ہوگی؟ ﴿وَرَجُلًا سَلَمًا لِّرَجُلٍ﴾ اور ایک آدمی جو خالص صرف ایک شخص کی ملکیت میں ہے۔ وہ اپنے آقا کے مقاصد کو پہچانتا ہے اور اسے کامل راحت حاصل ہے ﴿هَلْ يَسْتَوِيَانِ﴾ ” کیا یہ دونوں شخص برابر ہوسکتے ہیں۔“ ﴿مَثَلًا﴾ ” اس حالت میں“ یہ دونوں شخص کبھی برابر نہیں ہوسکتے۔ مشرک کی یہی حالت ہے اس میں ایک دوسرے سے اختلاف رکھنے والی بہت سی ہستیاں شریک ہیں۔ وہ کبھی اس کو پکارتا ہے اور کبھی اس کو پکارتا ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ اسے قرار آتا ہے نہ کسی مقام پر اسے اطمینان حاصل ہوتا ہے۔ اس کے برعکس موحد اپنے رب کے لئے مخلص ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو غیر کی شرکت سے پاک رکھا ہے اس لئے وہ کامل راحت اور کامل اطمینان میں ہوتا ہے۔ ﴿هَلْ يَسْتَوِيَانِ مَثَلًا الْحَمْدُ لِلَّـهِ﴾ ” کیا دونوں کی حالت مساوی ہوسکتی ہے؟ تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں“ یعنی باطل میں سے حق کو واضح کرنے اور ان جہلا کو سیدھی راہ دکھانے پر اللہ تعالیٰ کی ستائش ہے۔ ﴿بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ﴾ ” لیکن اکثر لوگ یہ بات نہیں جانتے۔“ الزمر
30 ﴿إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُم مَّيِّتُونَ﴾ ” اے نبی ! بلا شبہ آپ کو مرنا ہے اور یہ بھی مرنے والے ہیں“ یعنی تم میں سے ہر ایک کو مرنا ہے۔ ﴿وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّن قَبْلِكَ الْخُلْدَ أَفَإِن مِّتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ﴾ (الانبیاء :21؍34)” دائمی زندگی، ہم نے آپ سے پہلے بھی کسی بشر کے لئے نہیں رکھی اگر آپ کو موت آگئی تو کیا یہ لوگ ہمیشہ زندہ رہیں گے؟“ الزمر
31 ﴿ثُمَّ إِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عِندَ رَبِّكُمْ تَخْتَصِمُونَ﴾ یعنی قیامت کے روز ان امور کے بارے میں تم اپنے رب کے پاس جھگڑو گے جو تمہارے درمیان متنازع ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنے عدل و انصاف پر مبنی حکم کے ذریعے سے تمہارے درمیان فیصلہ کر دے گا اور ہر ایک کو اس کے عمل کی جزا دے گا۔ ﴿أَحْصَاهُ اللّٰـهُ وَنَسُوهُ﴾ (المجادلة :58؍6)” جسے اللہ تعالیٰ نے شمار کر رکھا ہے اور یہ لوگ اسے بھلا بیٹھے ہیں۔ “ الزمر
32 اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ڈراتے اور خبردار کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ اس شخص سے بڑھ کر کوئی ظالم نہیں ﴿مِمَّن كَذَبَ عَلَى اللّٰـهِ ﴾ ” جس نے اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھا“ یا تو کسی ایسی چیز کو اس کی طرف منسوب کیا جو اس کے جلال کے لائق نہیں یا اس نے نبوت کا دعویٰ کیا یا اللہ تعالیٰ کے بارے میں خبر دی کہ وہ یوں کہتا ہے یا یوں خبر دیتا ہے یا اس طرح کا حکم دیتا ہے، جبکہ اس نے جھوٹ کہا ہے۔ اگر کسی نے جہالت کی بنا پر ایسی بات کہی ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے تحت آتا ہے : ﴿ وَأَن تَقُولُوا عَلَى اللّٰـهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ ﴾(الاعراف:7؍33) ” اور اللہ تعالیٰ نے تم پر حرام ٹھہرا دیا یہ کہ تم اللہ کے بارے میں کوئی ایسی بات کہو جسے تم نہیں جانتے۔“ ورنہ یہ بدترین بات ہے۔ ﴿وَكَذَّبَ بِالصِّدْقِ إِذْ جَاءَهُ﴾ یعنی اس شخص سے بڑھ کر کوئی ظالم نہیں جس کے پاس حق آیا، واضح دلائل جس کی تائید کرتے تھے مگر اس نے حق کی تکذیب کی۔ اس کی تکذیب بہت بڑا ظلم ہے کیونکہ حق واضح ہوجانے کے بعد اس نے حق کو رد کیا۔ اگر اس نے اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنے اور حق کی تکذیب کو جمع کیا تو یہ ظلم در ظلم ہے۔ ﴿أَلَيْسَ فِي جَهَنَّمَ مَثْوًى لِّلْكَافِرِينَ﴾ ” کیا جہنم میں کافروں کا ٹھکانا نہیں؟“ جہنم کے عذاب میں مبتلا کر کے ان سے بدلہ لیا جائے گا اور ہر ظالم اور کافر سے اللہ تعالیٰ کا حق وصول کیا جائے گا۔ ﴿إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ﴾ (لقمٰن :31؍13) ” بے شک شرک بہت بڑا ظلم ہے۔ “ الزمر
33 اللہ تبارک و تعالیٰ نے جھوٹے اور جھٹلانے والے کا جرم اور اس کی سزا کا ذکر کرنے کے بعد، صاحب صدق اور حق کی تصدیق کرنے والے اور اس کے ثواب کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : ﴿وَالَّذِي جَاءَ بِالصِّدْقِ﴾ ” اور جو شخص سچی بات لے کر آئے۔“ یعنی جو اپنے قول و عمل میں صدق کا حامل ہے۔ اس آیت کریمہ میں انبیاء اور ان کے متبعین داخل ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی ہوئی خبروں اور احکام کی تصدیق کی اور خصائل صدق کو اپنایا۔ ﴿وَصَدَّقَ بِهِ﴾ یعنی صدق (حق بات) کی تصدیق کی۔ انسان کبھی کبھی صاحب صدق تو ہوتا ہے، مگر وہ صدق کی تصدیق نہیں کرتا اس کا سبب کبھی تو اس کا متکبر ہونا ہوتا ہے اور کبھی اس کا سبب وہ حقارت ہوتی ہے جو صدق لانے والے کے لئے اپنے اندر رکھتا ہے، اس لئے مدح میں صدق اور تصدیق دونوں لازم ہیں۔ پس اس کا صدق اس کے علم اور عدل پر دلالت کرتا ہے اور اس کی تصدیق اس کے تواضع اور عدم تکبر پر دلالت کرتی ہے۔ ﴿أُولَـٰئِكَ﴾ یعنی وہ لوگ جنہیں ان دونوں امور کو جمع کرنے کی توفیق سے نوازا گیا ﴿ هُمُ الْمُتَّقُونَ﴾ ” وہی متقی ہیں“ کیونکہ تقویٰ کے تمام خصائل و اوصاف صدق اور تصدیق حق کی طرف لوٹتے ہیں۔ الزمر
34 ﴿لَهُم مَّا يَشَاءُونَ عِندَ رَبِّهِمْ﴾ ” وہ جو چاہیں گے ان کے لئے ان کے رب کے پاس ہے۔“ ان کے لئے ان کے رب کے پاس ایسا ثواب ہے جسے کسی آنکھ نے دیکھا ہے نہ کسی کان نے سنا ہے اور نہ کسی بشر کے حاشیہ خیال میں اس کا کبھی گزر ہوا ہے۔ لذات و خواہشات میں سے جس چیز کا بھی ارادہ کریں گے وہ ان کو حاصل ہوگی اور ان کو مہیا کردی جائے گی۔ ﴿ ذٰلِكَ جَزَاءُ الْمُحْسِنِينَ﴾ ” نیکو کاروں کا یہی صلہ ہے۔“ یہ وہ لوگ ہیں جو اس کیفیت میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں گویا کہ وہ اسے دیکھ رہے ہیں اگر ان میں یہ کیفیت نہ ہو تو انہیں یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں دیکھ رہا ہے۔ ﴿الْمُحْسِنِينَ ﴾ سے مراد وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے بندوں کے ساتھ بھلائی کرتے ہیں۔ الزمر
35 ﴿ لِيُكَفِّرَ اللّٰـهُ عَنْهُمْ أَسْوَأَ الَّذِي عَمِلُوا وَيَجْزِيَهُمْ أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ الَّذِي كَانُوا يَعْمَلُونَ﴾ ” تاکہ اللہ ان سے برائیوں کو جو انہوں نے کیں دور کرے اور نیک کاموں کا جو وہ کرتے رہے بہتر بدلہ دے۔“ انسانی عمل کے تین احوال ہیں : اول : بدترین عمل۔ دوم : بہترین عمل۔ سوم : نہ برا نہ اچھا۔ یہ آخری قسم مباحات کے زمرے میں آتی ہے، جن پر کوئی ثواب و عقاب مترتب نہیں ہوتا۔ بدترین اعمال سب معاصی اور نافرمانیاں اور بہترین اعمال سب نیکیاں ہیں۔ اس تفصیل سے آیت کریمہ کا معنی واضح ہوجاتا ہے۔ فرمایا ﴿لِيُكَفِّرَ اللّٰـهُ عَنْهُمْ أَسْوَأَ الَّذِي عَمِلُوا﴾ یعنی ان کے تقویٰ اور احسان کے سبب سے ان کے صغیرہ گناہوں کو مٹا دے گا۔ ﴿وَيَجْزِيَهُمْ أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ الَّذِي كَانُوا يَعْمَلُونَ﴾ یعنی ان کی نیکیوں اور تقویٰ کے سبب سے ان کو ان کی تمام نیکیوں کا اجر ملے گا۔ ﴿ إِنَّ اللّٰـهَ لَا يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ وَإِن تَكُ حَسَنَةً يُضَاعِفْهَا وَيُؤْتِ مِن لَّدُنْهُ أَجْرًا عَظِيمًا﴾ (النساء :4؍40) ” اللہ کسی پر ذرہ بھر ظلم نہیں کرتا۔ اگر نیکی ہو تو وہ اسے دوگنا کردیتا ہے اور اسے اپنی طرف سے بہت بڑا اجر عطا کرتا ہے۔ “ الزمر
36 ﴿أَلَيْسَ اللّٰـهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ﴾ ” کیا اللہ اپنے بندے کے لئے کافی نہیں ہے۔“ یعنی کیا یہ اللہ کا اپنے اس بندے پر جو دو کرم اور اس کی عنایت نہیں جو اس کی عبودیت پر قائم ہے، اس کے اوامر کی تعمیل اور اس کے نواہی سے اجتناب کرتا ہے۔ خاص طور پر وہ بندہ جو تمام مخلوق میں عبودیت کے کامل ترین مرتبے پر فائز ہے، یعنی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے تمام دینی اور دنیاوی امور میں ان کے لئے کافی ہوگا اور جو کوئی آپ کے ساتھ برائی کا ارادہ کرے گا اللہ تعالیٰ اس سے آپ کی مدافعت کرے گا۔ ﴿وَيُخَوِّفُونَكَ بِالَّذِينَ مِن دُونِهِ﴾ یعنی وہ آپ کو بتوں اورخود ساختہ معبودوں سے ڈراتے ہیں کہ آپ پر ان کی مار پڑےگی،یہ ان کی گمراہی ہے۔﴿ وَمَن يُضْلِلِ اللّٰـهُ فَمَا لَهُ مِنْ هَادٍوَمَن يَهْدِ اللّٰـهُ فَمَا لَهُ مِن مُّضِلٍّ﴾ ” اور اللہ جسے گمراہی میں مبتلا کر دے تو کوئی اسے راستہ نہیں دکھا سکتا اور جس کو اللہ ہدایت دے اسے کوئی گمراہ کرنے والا نہیں“ کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جس کے ہاتھ میں ہدایت اور گمراہی ہے۔ وہ جو چاہتا ہے وہی ہوتا ہے جو نہیں چاہتا وہ کبھی بھی نہیں ہوسکتا۔ الزمر
37 ﴿أَلَيْسَ اللّٰـهُ بِعَزِيزٍ﴾ ” کیا اللہ غالب نہیں؟“ یعنی وہ کامل قہر اور غلبے کا مالک ہے جس کے ذریعے سے وہ ہر چیز پر غالب ہے اسی غلبہ و قہر کی بنا پر وہ اپنے بندے کے لئے کافی ہے اور اس سے ان کی سازشوں اور مکر و فریب کو دور کرتا ہے۔ ﴿ذِي انتِقَامٍ﴾ جو کوئی اس کی نافرمانی کرتا ہے وہ اس سے انتقام لیتا ہے، اس لئے ان تمام امور سے بچو جو اس کی ناراضی کے موجب ہیں۔ الزمر
38 یعنی اگر آپ ان گمراہ لوگوں سے پوچھیں، جو آپ کو اللہ کے سوا خود ساختہ معبودوں سے ڈراتے ہیں جبکہ آپ نے ان کے خلاف انہی کے نفسوں سے دلیل قائم کی ہے اور ان سے کہیں: ﴿مَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ﴾ ” آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا؟“ تو یہ مشرکین اس بات کو ثابت کرنے سے قاصر رہیں گے کہ ان کی تخلیق میں ان کے معبودوں کا کچھ حصہ ہے۔ ﴿لَيَقُولُنَّ اللّٰـهُ﴾ وہ ضرور کہیں گے کہ اس کائنات کو اکیلے اللہ تعالیٰ نے تخلیق فرمایا۔ ﴿قُلْ ﴾ اللہ تعالیٰ کی قدرت واضح ہونے کے بعد ان کے معبودوں کی بے بسی ثابت کرتے ہوئے کہہ دیجیے : ﴿ أَفَرَأَيْتُم﴾ مجھے بتاؤ ﴿مَّا تَدْعُونَ مِن دُونِ اللّٰـهِ إِنْ أَرَادَنِيَ اللّٰـهُ بِضُرٍّ﴾ ” جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو اگر اللہ مجھے (کسی بھی قسم کا) نقصان دینا چاہے“ ﴿هَلْ هُنَّ كَاشِفَاتُ ضُرِّهِ﴾ ” کیا وہ اس کی تکلیف کو دور کرسکتے ہیں۔“ یعنی اللہ تعالیٰ کے پہنچائے ہوئے ضرر کا مکمل ازالہ یا ایک حال سے دوسرے حال میں منتقل کر کے اس ضرر میں کوئی تخفیف کرسکتے ہیں؟ ﴿أَوْ أَرَادَنِي بِرَحْمَةٍ﴾ یا وہ میرے ساتھ رحمت و فضل کا معاملہ کرنا چاہے جس کے ذریعے سے وہ مجھے کوئی دینی یا دنیاوی منفعت عطا کرے ﴿هَلْ هُنَّ مُمْسِكَاتُ رَحْمَتِهِ ﴾ کیا وہ خود ساختہ معبود اس رحمت کو مجھ تک پہنچنے سے روک سکتے ہیں؟ یقیناً وہ یہی جواب دیں گے کہ ان کے معبود کسی نقصان کو دور کرسکتے ہیں نہ اللہ کی رحمت کو روک سکتے ہیں۔ قطعی دلیل کے واضح ہوجانے کے بعد کہ اللہ تعالیٰ اکیلا ہی معبود برحق ہے وہی تمام کائنات کا خالق ہے، نفع و نقصان صرف اسی کے قبضہ قدرت میں ہے اس کے سوا دیگر معبود ان باطل ہر لحاظ سے کچھ پیدا کرنے اور کوئی نقصان پہنچانے سے عاجز ہیں۔ آپ اللہ تعالیٰ کی کفایت کے حصول اور ان مشرکین کے مکر و فریب سے بچنے کی دعا کرتے ہوئے کہہ دیجیے : ﴿حَسْبِيَ اللّٰـهُ عَلَيْهِ يَتَوَكَّلُ الْمُتَوَكِّلُونَ﴾ یعنی اپنے مصالح کے حصول اور دفع ضرر کے لئے بھرواس کرنے والے اسی پر بھرواس کرتے ہیں۔ وہ ہستی جو اکیلی کفایت کی مالک ہے، میرے لئے کافی ہے وہ میرے اہم اور غیر اہم امور میں مجھے کفایت کرے گی۔ الزمر
39 ﴿ قُلْ ﴾ ”(اے رسول ! ان سے) کہہ دیجیے : ﴿يَا قَوْمِ اعْمَلُوا عَلَىٰ مَكَانَتِكُمْ﴾ ” اے میری قوم ! تم اپنی جگہ عمل کئے جاؤ“ یعنی تم اسی حالت میں عمل کرتے رہو جس پر تم اپنے لئے راضی ہو، یعنی ان ہستیوں کی عبادت کرتے رہو جو عبادت کی مستحق ہیں نہ انہیں کسی چیز کا کوئی اختیار ہے۔ ﴿ إِنِّي عَامِلٌ﴾ اور میں تمہیں اکیلے اللہ تعالیٰ کے لئے دین کو خالص کرنے کی دعوت دیتا رہوں گا۔ ﴿فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ﴾ ” تمہیں عنقریب معلوم ہوجائے گا“ کہ کس کا انجام اچھا ہے۔ الزمر
40 ﴿مَن يَأْتِيهِ عَذَابٌ يُخْزِيهِ﴾ ” اور کس پر ایسا عذاب آتا ہے جو اسے رسوا کر دے گا؟“ یعنی دنیا میں ﴿وَيَحِلُّ عَلَيْهِ﴾ ” اور نازل ہوگا اس پر“ یعنی آخرت میں ﴿عَذَابٌ مُّقِيمٌ﴾ ” ہمیشہ کا عذاب۔“ آخرت میں اس کو ہمیشہ قائم رہنے والے عذاب میں ڈالا جائے گا، یہ عذاب اس سے ہٹایا جائے گا نہ یہ ختم ہوگا۔ یہ مشرکین کے لئے سخت تہدید ہے۔ انہیں بھی معلوم ہے کہ وہ دائمی عذاب کے مستحق ہیں، مگر ظلم اور عناد ان کے اور ان کے ایمان کے درمیان حائل ہوگیا ہے۔ الزمر
41 اللہ تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ اس نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کتاب نازل فرمائی جو اپنی خبر اور اپنے اوامرونواہی میں حق پر مشتمل ہے، جو ہدایت کی اصل بنیاد اور ہر اس شخص کے لئے پیغام ہے جو اللہ تعالیٰ کے پاس اور اس کے اکرام و تکریم کے گھر پہنچنا چاہتا ہے، نیز اس کتاب کے ذریعے سے تمام جہانوں پر اللہ تعالیٰ کی حجت قائم ہوگئی ہے۔ ﴿فَمَنِ اهْتَدَىٰ﴾ پس جس نے اس کی روشنی سے راہنمائی حاصل کی اور اس کے احکامات کی پیروی کی ﴿ فَلِنَفْسِهِ﴾ تو اس کا فائدہ اسی کی طرف لوٹے گا ﴿وَمَن ضَلَّ ﴾ اور جو ہدایت کے واضح ہوجانے کے بعد بھی گمراہ ہوا ﴿فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا﴾ ” تو وہ اپنا ہی نقصان کرتا ہے“ اور وہ اللہ تعالیٰ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا ﴿وَمَا أَنتَ عَلَيْهِم بِوَكِيلٍ ﴾ ” اور آپ ان پر نگران نہیں ہیں“ کہ آپ ان کے اعمال پر نگاہ رکھیں، ان پر ان کا محاسبہ کریں اور جس کام پر چاہیں ان کو مجبور کریں۔ آپ تو صرف پہنچا دینے والے ہیں اور آپ وہ چیز ان تک پہنچا دیتے ہیں جسے پہنچا دینے کا آپ کو حکم دیا جاتا ہے۔ الزمر
42 اللہ تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ وہ اکیلا ہی بندوں پر، ان کی نیند اور بیداری میں، ان کی زندگی اور موت میں تصرف کرتا ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿اللَّـهُ يَتَوَفَّى الْأَنفُسَ حِينَ مَوْتِهَا﴾ ” اللہ لوگوں کے مرنے کے وقت ان کی روحیں قبض کرلیتا ہے۔“ یہ وفات کبریٰ، موت ہے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ خبر دینا کہ وہ وفات دیتا ہے اور فعل کی اپنی طرف اضافت کرنا، اس بات کے منافی نہیں کہ اس نے اس کام کے لئے ایک فرشتہ اور اس کے کچھ اعوان و مددگار مقرر کر رکھے ہیں۔ جیسا کہ فرمایا : ﴿قُلْ يَتَوَفَّاكُم مَّلَكُ الْمَوْتِ الَّذِي وُكِّلَ بِكُمْ ثُمَّ إِلَىٰ رَبِّكُمْ تُرْجَعُونَ﴾(السجدۃ:32؍11) ” کہہ دیجیے کہ موت کا فرشتہ تمہیں وفات دیتا ہے جو تمہارے لئے مقرر کیا گیا ہے“ نیز فرمایا : ﴿حَتَّىٰ إِذَا جَاءَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا وَهُمْ لَا يُفَرِّطُونَ﴾ (الانعام:6؍61)” حتیٰ کہ جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آجاتا ہے تو ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے اس کی روح قبض کرلیتے ہیں اور وہ کوتاہی نہیں کرتے۔“ اللہ تعالیٰ نے تمام امور کی اضافت اس اعتبار سے اپنی طرف کی ہے کہ وہی خلاق اور تدبیر کرنے والا ہے اور ان امور کو اس اعتبار سے ان کے اسباب کی طرف مضاف کرتا ہے کہ اس کی سنت اور حکمت ہے کہ اس نے ہر کام کا کوئی سبب مقرر فرمایا ہے۔ ﴿وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا﴾ ” اور اس جان کو بھی (عارضی وفات دیتا ہے) جو اپنی نیند میں نہیں مرتی۔“ اور یہ موت صغریٰ ہے یعنی وہ اس نفس کو روک رکھتا ہے جو نیند کے دوران حقیقی موت سے ہم کنار نہیں ہوتا ﴿فَيُمْسِكُ﴾ پھر ان دونفسوں میں سے اس نفس کو روک رکھتا ہے ﴿الَّتِي قَضَىٰ عَلَيْهَا الْمَوْتَ﴾ ” جس کے بارے موت کا فیصلہ کردیتا ہے۔“ اس سے مراد وہ نفس ہے جس پر حقیقی موت وارد ہوتی ہے یا نیند کے دوران اس پر موت آتی ہے۔ ﴿وَيُرْسِلُ الْأُخْرَىٰ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى﴾ ” اور دوسرے نفس کو ایک مقررہ وقت تک کے لئے چھوڑ دیتا ہے“ یعنی اس کے رزق اور مدت کی تکمیل تک کے لئے ﴿إِنَّ فِي ذٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ ﴾ ” بے شک اس میں ان لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں جو (اس کے کامل اقتدار، مرنے کے بعد اس کی دوبارہ زندہ کرنے کی قدرت پر) غور و فکر کرتے ہیں۔ “ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ روح اور نفس ایک جسم ہے اور بنفسہٖ قائم ہے۔ اس کا جوہر بدن کے جوہر سے مختلف ہے۔ یہ بھی مخلوق ہے، اللہ تعالیٰ کے دست تدبیر کے تحت ہے، وفات دینے، روک لینے اور چھوڑ دینے میں اللہ تعالیٰ کا اس پر تصرف ہے۔ زندوں کی اور مردوں کی ارواح عالم برزخ، میں ایک دوسرے سے ملاقات کرتی ہیں وہ اکٹھی ہو کر آپس میں باتیں کرتی ہیں، پس اللہ زندوں کی ارواح کو چھوڑ دیتا ہے اور مردوں کی روحوں کو روک لیتا ہے۔ الزمر
43 اللہ تعالیٰ ان لوگوں پر سخت نکیر کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر دوسروں کو سفارشی بناتے ہیں، ان کی محبت میں گرفتار ہوجاتے ہیں، ان سے مانگتے ہیں اور ان کی عبادت کرتے ہیں۔ ﴿قُلْ ﴾ ان کی جہالت اور ان کے خود اساختہ معبودوں کے عبادت کے مستحق نہ ہونے کو واضح کرتے ہوئے کہہ دیجیے : ﴿أَوَلَوْ كَانُوا﴾ ” خواہ وہ“ یعنی جن کو تم نے اپنا سفارشی بنا رکھا ہے ﴿لَا يَمْلِكُونَ شَيْئًا﴾ زمین اور آسمان میں چھوٹی یا بڑی، کسی ذرہ بھر چیز کے بھی مالک نہ ہوں بلکہ ﴿وَلَا يَعْقِلُونَ﴾ ان میں عقل ہی نہیں کہ وہ مدح کے مستحق ہوں کیونکہ یہ جمادات، پتھر، درخت بت یا مرے ہوئے لوگ ہیں۔ کیا اس شخص میں بس نے اپن کو اپنا معبود بنایا ہے، کوئی عقل ہے؟ یا وہ دنیا کا گمراہ ترین، جاہل ترین اور سب سے بڑا ظالم ہے؟ الزمر
44 ﴿قُل﴾ آپ ان مشرکین سے کہہ دیجیے : ﴿لِّلَّـهِ الشَّفَاعَةُ جَمِيعًا﴾ ” سفارش تو سب اللہ ہی کے اختیار میں ہے“ کیونکہ تمام معاملات اللہ تعالیٰ ہی کے اختیار میں ہیں۔ ہر سفارش کرنے والا اللہ سے ڈرتا ہے۔ کسی کی مجال نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کیپ اس، اس کی اجازت کے بغیر کسی کی سفارش کرسکے اور جب اللہ تعالیٰ اپنے بندے پر رحم کرنا چاہتا ہے تو معزعز سفارشی کو اپنے ہاں سفارش کرنے کی اجازت عطا کردیتا ہے۔ یہ اس کی طرف سے ان دونوں پر رحمت ہے، پھر اللہ تعالیٰ نے متحقق فرمایا کہ شفاعت تمام تراسی کا اختیار ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿ لَّهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ﴾ ” آسمانوں اور زمین کی حکومت اسی کے لئے ہے“ یعنی ان میں ذوات، افعال اور صفات جو کچھ بھی ہیں سب اللہ تعالیٰ کی ملکیت میں ہیں، لہٰذا واجب ہے کہ سفارش اسی سے طلب کی جائے جو اس کا مالک ہے اور اسی کے لئے عبادات کو خالص کیا جائے ﴿ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ﴾ ” پھر تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔“ اور وہ صاحب اخلاص کو ثواب جزیل عطا کرے گا اور جس نے شرک کیا اسے درد ناک عذاب میں مبتلا کرے گا۔ الزمر
45 اللہ تبارک و تعالیٰ مشرکین کے حال اور ان کے شرک کے تقاضوں کا ذکر کرتا ہے۔ ﴿وَإِذَا ذُكِرَ اللّٰـهُ وَحْدَهُ ﴾ ” جب اکیلے اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے“ یعنی جب اس کی توحید کا ذکر کیا جاتا ہے، دین کو صرف اسی کے لئے خالص کر کے عمل کرنے اور اس کے سوا دیگر معبودوں کو چھوڑنے کے لئے کہا جاتا ہے جن کی وہ عبادت کرتے ہیں، تو وہ منقبض ہوجاتے ہیں، نفرت کرتے ہیں اور شدید ناگواری کا اظہار کرتے ہیں۔ ﴿وَإِذَا ذُكِرَ الَّذِينَ مِن دُونِهِ﴾ اور جب اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر بتوں اور خود ساختہ معبودوں کا ذکر کیا جاتا ہے اور دعوت دینے والا ان کی عبادت اور ان کی مدح کی دعوت دیتا ہے ﴿إِذَا هُمْ يَسْتَبْشِرُونَ﴾ تو وہ اپنے معبودوں کا ذکر سن کر فرحت اور خوشی سے کھل اٹھتے ہیں کیونکہ شرک ان کی خواہشات نفس کے موافق ہے ان کی یہ حالت بدترین حالت ہے مگر ان سے روز جزا تک کے لئے مہلت کا وعدہ کیا گیا ہے، اس لئے اس دن ان سے حق وصول کیا جائے گا اور اس دن دیکھا جائے گا کہ آیا ان کے معبود ان کو کوئی فائدہ دے سکتے ہیں جن کی یہ لوگ عبادت کیا کرتے ہیں؟ الزمر
46 اسی لئے فرمایا : ﴿ قُلِ اللّٰهُمَّ فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ﴾ یعنی کہہ دیجیے : اے اللہ ! زمین و آسمان کو پیدا کرنے اور ان کی تدبیر کرنے والے ﴿عَالِمَ الْغَيْبِ ﴾ اور ان تمام امور کو جاننے والے جو ہماری آنکھوں اور ہمارے علم سے غائب ہیں ﴿وَالشَّهَادَةِ﴾ اور جن کا ہم مشاہدہ کرتے ہیں ﴿أَنتَ تَحْكُمُ بَيْنَ عِبَادِكَ فِي مَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ﴾ ” تو ہی اپنے بندوں میں ان باتوں کا جن میں وہ اختلاف کرتے ہیں، فیصلہ کرے گا۔“ سب سے بڑا اختلاف موحد و مخلص بندوں، جو کہتے ہیں کہ ان کا موقف حق ہے اور آخرت میں صرف انہی کے لئے بھلائی ہے، اور مشرکین کے درمیان ہے جنہوں نے تجھے چھوڑ کر بتوں اور دوسروں ہستیوں کو اپنا معبود بنا لیا اور ان ہستیوں کو تیرے برابر ٹھہرایا جو کسی طرح بھی برابر نہیں ہیں۔ وہ تجھے انتہائی حد تک ناقص قرار دیتے ہیں جب ان کے خود ساختہ معبودوں کا ذکر ہوتا ہے تو خوشی سے کھل اٹھتے ہیں اور جب تیرا ذکر ہوتا ہے تو وہ نہایت کراہت سے منقبض ہوجاتے ہیں بایں ہمہ ان کو زعم ہے کہ وہ حق پر ہیں اور دوسرے باطل پر ہیں اور وہ آخرت میں بھلائی سے بہرہ مند ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا وَالصَّابِئِينَ وَالنَّصَارَىٰ وَالْمَجُوسَ وَالَّذِينَ أَشْرَكُوا إِنَّ اللّٰـهَ يَفْصِلُ بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّ اللّٰـهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ ﴾ (الحج:22؍17) ” بے شک وہ لوگ جو ایمان لائے اور جو یہودی، عیسائی، صابی اور مجوسی ہیں اور وہ لوگ جنہوں نے شرک کیا، قیامت کے روز اللہ تعالیٰ ان سب کے درمیان فیصلہ کرے گا۔ بے شک اللہ ہر چیز کو دیکھ رہا ہے۔ “ اس کے بعد آگے چل کر اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنے فیصلے سے آگاہ کرتے ہوئے فرمایا : ﴿هَـٰذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِي رَبِّهِمْ فَالَّذِينَ كَفَرُوا قُطِّعَتْ لَهُمْ ثِيَابٌ مِّن نَّارٍ يُصَبُّ مِن فَوْقِ رُءُوسِهِمُ الْحَمِيمُ يُصْهَرُ بِهِ مَا فِي بُطُونِهِمْ وَالْجُلُودُ وَلَهُم مَّقَامِعُ مِنْ حَدِيدٍ كُلَّمَا أَرَادُوا أَن يَخْرُجُوا مِنْهَا مِنْ غَمٍّ أُعِيدُوا فِيهَا وَذُوقُوا عَذَابَ الْحَرِيقِ إِنَّ اللّٰـهَ يُدْخِلُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ يُحَلَّوْنَ فِيهَا مِنْ أَسَاوِرَ مِن ذَهَبٍ وَلُؤْلُؤًا وَلِبَاسُهُمْ فِيهَا حَرِيرٌ ﴾ (الحج:22؍19۔23)” یہ جھگڑے کے دو فریق ہیں جنہوں نے اپنے رب کے بارے میں جھگڑا کیا۔ پس ان میں سے جن لوگوں نے کفر کیا ان کو آگ کے کپڑے پہنائے جائیں گے اور ان کے سروں پر کھولتا ہوا پانی انڈیا جائے گا جس سے ان کی کھالیں اور پیٹ کے اندر تک کے حصے گل جائیں گے اور ان کے لئے لوہے کے گرز ہوں گے جب بھی وہ غم کے مارے جہنم سے نکلنا چاہیں گے تو اسی میں لوٹا دیئے جائیں گے ( اور انہیں کہا جائے گا) اب جلا دینے والے عذاب کا مزا چکھو۔ بے شک وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے اللہ تعالیٰ ان کو ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی۔ انہیں اس میں سونے کے کنگن اور موتی پہنائے جائیں گے اور وہاں ان کے لباس ریشم کے ہوں گے۔ “ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُم بِظُلْمٍ أُولَـٰئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُم مُّهْتَدُونَ﴾(الانعام:6؍82) ” وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان کو ظلم کے ساتھ آلودہ نہ کیا، وہی وہ لوگ ہیں جن کے لئے (مکمل) امن ہے اور وہی راہ راست پر ہیں۔“ اور فرمایا ﴿إِنَّهُ مَن يُشْرِكْ بِاللَّـهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰـهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَاهُ النَّارُ﴾(المائدۃ:5؍72) ” جس نے اللہ کے ساتھ شرک کیا تو بلاشبہ اس پر اللہ نے جنت حرام کردی اور اس کا ٹھکانا جہنم ہے۔ “ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ کے عموم تخلیق، عموم علم اور بندوں کے درمیان عموم حکم کا بیان ہے تمام مخلوقات اس کی قدرت سے پیدا ہوئی ہیں۔ اس کا علم ہر شے کو محیط ہے اور دلالت کرتا ہے کہ وہ اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ کرے گا اور انہیں دوبارہ زندہ کرے گا۔ بندوں کے اچھے برے اعمال اور ان کی جزا و سزا اور اس کی تخلیق اس کے علم پر دلالت کرتی ہے۔ ﴿أَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ﴾ (ملک :67؍14)” کیا وہ نہیں جانتا جس نے (انہیں) پیدا کیا ہے؟“ الزمر
47 اللہ تعالیٰ نے یہ ذکر کرنے کے بعد کہ وہ اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ کرے گا، مشرکین کے قول اور اس کی قباحت کا ذکر کیا۔ گویانفوس اس انتظار میں ہیں کہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ کیا سلوک کرے گا۔ اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ ان کے لئے ﴿سُوءِ الْعَذَابِ﴾ سخت ترین اور بدترین عذاب ہے جس طرح وہ سخت ترین اور بدترین کفر کی باتیں کیا کرتے تھے۔ فرض کیا زمین کا تمام سونا، چاندی، جواہرات، اس کے تمام حیوانات، اس کے تمام درخت اور کھیتیاں، اس کے تمام برتن اور اثاثے اور اتنا ہی سب کچھ اور ان کی ملکیت ہو اور قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچنے اور اس سے نجات حاصل کرنے کے لئے خرچ کریں تو ان سے قبول نہیں کیا جائے گا۔ ان میں سے کچھ بھی اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچانے کے لئے کام نہیں آسکے گا۔ ﴿يَوْمَ لَا يَنفَعُ مَالٌ وَلَا بَنُونَ إِلَّا مَنْ أَتَى اللّٰـهَ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ ﴾(الشعراء: 26؍88۔87) ” اس روز مال فائدہ دے گا نہ بیٹے، سوائے اس کے جو قلب سلیم کے ساتھ اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔“ ﴿وَبَدَا لَهُم مِّنَ اللّٰـهِ مَا لَمْ يَكُونُوا يَحْتَسِبُونَ﴾ ” اور ان پر اللہ کی طرف سے وہ امر ظاہر ہوجائے گا جس کا انہیں خیال بھی نہ تھا۔“ یعنی اس بہت بڑی ناراضی کا تو انہیں گمان تک نہ تھا وہ تو اپنے بارے میں اس کے برعکس فیصلے کرتے رہے تھے۔ الزمر
48 ﴿وَبَدَا لَهُمْ سَيِّئَاتُ مَا كَسَبُوا﴾ یعنی ان کے کرتوتوں کے سبب ان پر وہ امور ظاہر ہوں گے جو ان کو بہت برے لگیں گے ﴿وَحَاقَ بِهِم مَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ﴾ اور وہ عذاب اور وعید جن کا یہ تمسخر اڑایا کرتے تھے وہ ان پر آنا نازل ہوگیا۔ الزمر
49 اللہ تعالیٰ انسان کے حال اور اس کی فطرت کے بارے میں آگاہ کرتا ہے کہ جب اسے کوئی بیماری، شدت یا تکلیف پہنچتی ہے ﴿دَعَانَا﴾ تو وہ اس نازل ہونے والی مصیبت کو دور کرنے کے لئے گڑا گڑا کر ہمیں پکارتا ہے۔ ﴿ ثُمَّ إِذَا خَوَّلْنَاهُ نِعْمَةً مِّنَّا ﴾ ” پھر جب ہم اسے اپنی نعمت عطا کردیتے ہیں“ یعنی جب ہم اس کی تکلیف کو دور اور اس کی مشقت کو زائل کردیتے ہیں تو وہ اپنے رب کی نا سپاسی اور اس کے احاسن کا اعتراف کرنے سے انکار ہے اور ﴿قَالَ إِنَّمَا أُوتِيتُهُ عَلَىٰ عِلْمٍ﴾ ” کہتا ہے : مجھے تو یہ سب کچھ علم کے سبب دیا گیا ہے“ یعنی اللہ کی طرف سے علم کی بنا پر حاصل ہوا ہے اور میں اس کا اہل اور اس کا مستحق ہوں کیونکہ میں اس کے ہاں بہت برگزیدہ ہوں یا اس کا معنی یہ ہے کہ یہ سب کچھ مجھے مختلف طریقوں سے حاصل کئے گئے میرے علم کے سبب سے مجھے عطا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿بَلْ هِيَ فِتْنَةٌ﴾ ” بلکہ یہ ایک فتنہ ہے“ جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی آزمائش کرتا ہے تاکہ وہ دیکھے کہ کون اس کا شکر گزار رہے اور کون اس کی ناشکری کرتا ہے۔ ﴿وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ﴾ ” لیکن ان میں سے اکثر نہیں جانتے“ اس لئے وہ فتنہ اور آزمائش کو اللہ تعالیٰ کی نوازش سمجھتے ہیں۔ ان کے سامنے خالص بھلائی اس چیز کے ساتھ مشتبہ ہوجاتی ہے جو بھلائی یا برائی کا سبب ہے۔ الزمر
50 اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿قَدْ قَالَهَا الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ﴾ یعنی ان سے پہلے لوگ بھی یہی کہتے تھے، یعنی ان کا یہ مقولہ ﴿إِنَّمَا أُوتِيتُهُ عَلَىٰ عِلْمٍ﴾ اہل تکذیب کے ہاں ہمیشہ سے متوارث چلا آرہا ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کی نعمت کا اقرار کرتے ہیں نہ اس کا کوئی حق سمجھتے ہیں۔ گزشتہ لوگوں کی یہی عادت رہی یہاں تک کہ ان کو ہلاک کردیا گیا۔ ﴿فَمَا أَغْنَىٰ عَنْهُم مَّا كَانُوا يَكْسِبُونَ﴾ چنانچہ جب ان کو اللہ تعالیٰ کے عذاب نے پکڑا تو ان کی کمائی ان کے کسی کام نہ آئی۔ الزمر
51 ﴿فَأَصَابَهُمْ سَيِّئَاتُ مَا كَسَبُوا ﴾ ” ان پر ان کے اعمال کے وبال پڑگئے“ اس مقام پر (سَيِّئَات) سے مراد ” عقوبات“ ہیں کیونکہ یہ عقوبات ہی انسان کے لئے تکلیف دہ اور اس کو غم زدہ کرتی ہیں ﴿وَالَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْ هَـٰؤُلَاءِ سَيُصِيبُهُمْ سَيِّئَاتُ مَا كَسَبُوا﴾ ” اور جو لوگ ان میں سے ظلم کرتے رہے ہیں عنقریب ان پر ان کے عملوں کے وبال پڑیں گے۔“ پس یہ لوگ نہ تو گزشتہ لوگوں سے بہتر ہیں اور نہ ان کو کوئی برأت نامہ ہی لکھ کردیا گیا ہے۔ الزمر
52 اللہ تبارک و تعالیٰ نے ذکر فرمایا کہ یہ لوگ اپنے مال کی وجہ سے فریب میں مبتلا ہوگئے ہیں اور اپنی جہالت کی بنا پر سمجھتے ہیں کہ مال اپنے مالک کے حسن حال پر دلالت کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو خبردار کرتے ہوئے فرمایا کہ اس کا رزق اس بات پر دلالت نہیں کرتا کیونکہ بے شک اللہ تعالیٰ ﴿يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن يَشَاءُ﴾ اپنے بندوں میں سے، خواہ وہ نیک ہوں یا بد، جس کے لئے چاہتا ہے رزق کو کشادہ کردیتا ہے ﴿وَيَقْدِرُ﴾ اور جس کو چاہتا ہے نپا تلا دیتا ہے، یعنی وہ اپنے بندوں میں سے خواہ وہ نیک ہوں یا بد جس کا چاہے اس کا رزق تنگ کردیتا ہے اس کا رزق تمام مخلوق میں مشترک ہے مگر ایمان اور عمل صالح صرف ان لوگوں کے لئے مختص کرتا ہے جو مخلوق میں بہترین لوگ ہوتے ہیں۔ ﴿إِنَّ فِي ذٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ﴾ ” بے شک اس میں بھی ان کے لئے نشانیاں ہیں جو ایمان لاتے ہیں۔“ یعنی رزق کی کشادگی اور تنگی میں اہل ایمان کے لئے نشانیاں ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ رزق کی تنگی اور کشادگی کا مرجع محض اللہ تعالیٰ کی حکمت اور رحمت ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے حال کو خوب جانتا ہے۔ کبھی کبھی اپنے بندوں پر لطف و کرم کی وجہ سے بھی ان پر رزق تنگ کردیتا ہے کیونکہ اگر وہ ان کا رزق کشادہ کر دے تو وہ زمین میں سرکشی کرتے ہیں اور رزق کی اس تنگی میں اللہ تعالیٰ ان کے دین کی اصلاح کی رعایت رکھتا ہے جو انکی سعادت اور فلاح کی بنیاد ہے۔ واللہ اعلم الزمر
53 اللہ تعالیٰ اپنے حد سے بڑھ جانے والے، یعنی بہت زیادہ گناہوں کا ارتکاب کرنے والے، بندوں کو آگاہ کرتا ہے کہ اس کا فضل و کرم بہت وسیع ہے نیز انہیں اپنی طرف رجوع کرنے پر آمادہ کرتا ہے، اس سے قبل کہ رجوع کرنا ان کے لئے ممکن نہ رہے، چنانچہ : ﴿قُلْ ﴾ اے رسول اور جو کوئی دعوت دین میں آپ کا قائم مقام ہو ! اپنے رب کی طرف سے بندوں کو آگاہ کرتے ہوئے کہہ دیجیے : ﴿ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ﴾ ” اے میرے بندو ! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے“ یعنی جنہوں نے گناہوں کا ارتکاب کر کے اور علام الغیوب کی ناراضی کے امور میں کوشاں ہو کر اپنے آپ پر زیادتی کی ﴿لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللّٰـهِ﴾ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہ ہوجاؤ کہ اپنے آپ کو ہلاک کر ڈالو اور کہنے لگو کہ ہمارے گناہ بہت زیادہ اور ہمارے عیوب بہت بڑھ گئے اب ایسا کوئی طریقہ نہیں جس سے وہ گناہ زائل ہوجائیں پھر اس بنا پر اللہ تعالیٰ کی نافرمانی پر مصر رہو اور اس طرح رحمٰن کی ناراضی مول لیتے رہو۔ اپنے رب کو اس کے ان اسما سے پہچانو جو اس کے جودو کرم پر دلالت کرتے ہیں اور جان رکھو کہ بے شک اللہ تعالیٰ ﴿ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا ﴾ ” سارے ہی گناہ معاف کردیتا ہے۔“ اللہ تعالیٰ شرک، قتل، زنا، سود خوری اور ظلم وغیرہ تمام چھوٹے بڑے گناہوں کو بخش دیتا ہے۔ ﴿إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ ﴾ ” واقعی وہ بڑی بخشش بڑی رحمت والا ہے“ یعنی مغفرت اور رحمت دونوں اللہ تعالیٰ کے لازم اور ذاتی اوصاف ہیں جو اس کی ذات سے کبھی جدا ہوتے ہیں نہ ان کے آثار ہی زائل ہوتے ہیں جو تمام کائنات میں جاری و اسری اور تمام موجودات پر سایہ کناں ہیں۔ دن رات اس کے ہاتھوں کی سخاوت جاری ہے، کھلے اور چھپے وہ اپنے بندوں کو اپنی لگاتار نعمتوں سے نوازتا رہتا ہے۔ عطا کرنا اسے محروم کرنے سے زیادہ پسند ہے اور اس کی رحمت اس کے غضب پر غالب اور اس پر سبقت لے گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی مغفرت اور رحمت کے حصول کے کچھ اسباب ہی، بندہ اگر ان اسباب کو اختیار نہیں کرتا تو وہ اپنے آپ پر عظیم ترین اور جلیل ترین رحمت و مغفرت کا دروازہ بند کرلیتا ہے، بلکہ خالص توبہ کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع، دعا، اس کے سامنے عاجزی و انکساری اور اظہار تعبد کے سوا کوئی سبب نہیں۔ پس اس جلیل القدر سبب اور اس عظیم راستے کی طرف بڑھو۔ الزمر
54 بنا بریں اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف انابت میں جلدی کرن کا حکم دیتے ہوئے فرمایا : ﴿وَأَنِيبُوا إِلَىٰ رَبِّكُمْ ﴾ ” اور اپنے رب کی طرف رجوع کرو۔“ یعنی اپنے دل سے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرو ﴿وَأَسْلِمُوا لَهُ﴾ اور اپنے جوارح کے ساتھ اس کے سامنے سر تسلیم خم کر دو۔ اگر ” انابت“ کو مفرد بیان کیا گیا ہو تو اس میں اعمال جوارح بھی داخل ہوتے ہیں اور اگر ” انابت“ کو دوسرے امور کے ساتھ بیان کیا گیا ہوجیاس کہ اس مقام پر کیا گیا ہے تو اس کا معنی وہی ہوتا ہے جو ہم نے بیان کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد : ﴿ إِلَىٰ رَبِّكُمْ وَأَسْلِمُوا لَهُ ﴾ اخلاص پر دلالت کرتا ہے کیونکہ اخلاص کے بغیر ظاہری اور باطنی اعمال کوئی فائدہ نہیں دیتے۔ ﴿مِن قَبْلِ أَن يَأْتِيَكُمُ الْعَذَابُ ﴾ ” اس سے پہلے کہ تم پر عذاب آواقع ہو“ اور اسے روکا نہ جا سکے گا ﴿ثُمَّ لَا تُنصَرُونَ ﴾ پھر اس عذاب کے مقابلے میں تمہاری مدد کرنے والا کوئی نہ ہوگا۔ الزمر
55 گویا کہ پوچھا گیا کہ ” انابت“ اور ” اسلام“ کیا ہیں، ان کی جزئیات و اعمال کیا ہیں؟ تو اللہ تعالیٰ نے جواب میں فرمایا : ﴿وَاتَّبِعُوا أَحْسَنَ مَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُم﴾ ” اور پیروی کرو ان بہترین باتوں کی جو نازل کی گئیں تمہاری طرف تمہارے پروردگار کی طرف۔“ یعنی باطنی اعمال کو بجا لاؤ جن کا تمہیں حکم دیا گیا ہے مثلاً محبت الٰہی، خشیت الٰہی، خوف الٰہی، اللہ پر امید، اس کے بندوں کی خیر خواہی، ان کے لئے ہمیشہ بھلائی چاہنا اور ان امور سے متضاد امور سے اجتناب اور ظاہری اعمال بجا لانا مثلاً نماز قائم کرنا، زکوٰۃ ادا کرنا، حج کرنا، صدقہ دینا اور بھلائی کے مختلف کام کرنا جن کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اور یہی بہترین کام ہیں جن کو ہمارے رب نے ہماری طرف نازل فرمایا ہے، لہٰذا ان امور میں اپنے رب کے احکام کی تعمیل کرنے والا ” منیب“ اور ” مسلم“ ہے۔ ﴿مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِيَكُمُ الْعَذَابُ بَغْتَةً وَأَنتُمْ لَا تَشْعُرُونَ﴾ ” اس سے پہلے کہ تم پر اچانک عذاب آجائے اور تمہیں خبر بھی نہ ہو۔“ یہ سب کچھ جلدی کرنے اور فرصت سے فائدہ اٹھانے کی ترغیب ہے۔ الزمر
56 پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو ڈراتے ( اور ان کی خیر خواہی کرتے) ہوئے فرمایا : ﴿أَن ﴾ کہ وہ اپنی غفلت پر نہ جمے رہیں یہاں تک کہ وہ دن آجائے جس دن انہیں نادم ہونا پڑے اور اس دن ندامت کسی کام نہیں آئے گی۔ اور ﴿تَقُولَ نَفْسٌ يَا حَسْرَتَىٰ عَلَىٰ مَا فَرَّطتُ فِي جَنبِ اللّٰـهِ﴾ ”کوئی نفس کہے : اس تقصیر پر افسوس ہے جو میں نے اللہ کے حق میں کی۔“ ﴿ وَإِن كُنتُ﴾’’بے شک میں تو تھا“ دنیا میں ﴿ لَمِنَ السَّاخِرِينَ ﴾ ” مذاق اڑانے والوں میں سے“ یعنی وہ دنیا میں جزا و سزا کا تمسخر اڑایا کرتا تھا، یہاں تک کہ میں نے اسے عیاں(آنکھوں سے) دیکھ لیا۔ الزمر
57 ﴿أَوْ تَقُولَ لَوْ أَنَّ اللّٰـهَ هَدَانِي لَكُنتُ مِنَ الْمُتَّقِينَ﴾ ” یا یوں کہے کہ اگر للہ مجھے ہدایت دیتا تو میں پرہیز گاروں میں سے ہوتا۔“ اس مقام پر (لَوْ) تمنا کے معنی میں ہے، یعنی کاش اللہ تعالیٰ نے مجھے ہدایت عطا کی ہوتی تو میں بھی پرہیز گار بن جاتا اور عذاب سے بچ جاتا اور ثواب کا مستحق بن جاتا۔ یہاں (لو) شرطیہ نہیں ہے اگر یہاں )لو( شرطیہ ہوتا تو ان کو اپنی گمراہی کے لئے قضا و قدر کی حجت ہاتھ آجاتی اور یہ باطل حجت ہے اور قیامت کے روز ہر باطل حجت مضمحل اور کمزور ہوجائے گی۔ الزمر
58 ﴿أَوْ تَقُولَ حِينَ تَرَى الْعَذَابَ﴾ ” یا جب عذاب دیکھ لے تو کہنے لگے۔“ جب اسے عذاب کے وارد ہونے کا یقین ہوجائے گا تو وہ کہے گا ﴿لَوْ أَنَّ لِي كَرَّةً﴾ یعنی اگر ایک بار اور مجھے دنیا میں واپس بھیجا جائے تو میں ہوجاؤں گا ﴿مِنَ الْمُحْسِنِينَ ﴾ نیک عمل کرنے والوں میں سے۔ الزمر
59 اللہ تبارک و تعالیٰ فرمائے گا کہ اس کا دنیا میں دوبارہ بھیجا جانا ممکن ہے نہ مفید، یہ تو محض باطل آرزو ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں کیونکہ انسان کو دنیا میں دوبارہ نہیں بھیجا جائے گا اگر اسے دنیا میں بھیج بھی دیا جائے تو پہلے بیان اور احکامات کے بعد اب کوئی نیا بیان اور حکم نہیں آئے گا۔ ﴿بَلَىٰ قَدْ جَاءَتْكَ آيَاتِي﴾ ” کیوں نہیں میری آیتیں تیرے پاس پہنچ گئی تھیں“ جو حق پر دلالت کرتی تھیں، ایسی دلالت کہ اس میں کوئی شک نہیں رہ جاتا تھا۔ ﴿ فَكَذَّبْتَ بِهَا وَاسْتَكْبَرْتَ﴾ ” تو نے ان کو جھٹلایا اور تکبر کیا“ اور تکبر کی بنا پر تو نے ان کی اتباع نہیں کی ﴿وَكُنتَ مِنَ الْكَافِرِينَ﴾ ” اور تو کافر بن گیا۔“ اس لئے دنیا کی طرف لوٹائے جانے کا مطالبہ عبث ہے۔ ﴿وَلَوْ رُدُّوا لَعَادُوا لِمَا نُهُوا عَنْهُ وَإِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ ﴾ (الانعام:6؍28)” اگر انہیں پھر دنیا کی زندگی کی طرف واپس بھیجا جائے تو پھر وہی سب کچھ کریں گے جس سے ان کو روکا گیا تھا اور بے شک وہ جھوٹے ہیں۔ “ الزمر
60 جن لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے بارے میں افترا پردازی کی، اللہ تعالیٰ ان کی رسوائی بیان کرتا ہے کہ قیامت کے روز ان کے چہرے سیاہ تاریک رات کے مانند سیاہ ہوں گے ان کے سیاہ چہروں سے اہل موقف انہیں پہچانیں گے اور روشن صبح کی مانند حق صاف واضح ہوگا۔ جس طرح انہوں نے دنیا کے اندر حق کے چہرے کو جھوٹ کے ساتھ سیاہ کردیا تھا، اللہ تعالیٰ نے ان کے چہروں کو بھی سیاہ کردیا۔ یہ سزا ان کے عمل کی جنس ہی سے ہے۔ ان کے چہرے سیاہ ہوں گے اور ان کے لئے جہنم کا نہایت سخت عذاب ہوگا، اس لئے فرمایا : ﴿أَلَيْسَ فِي جَهَنَّمَ مَثْوًى لِّلْمُتَكَبِّرِينَ﴾ کیا جو لوگ حق اور اپنے رب کی عبادت کے بارے میں تکبر کا رویہ رکھتے تھے اور اس پر بہتان طرازی کرتے تھے ان کا ٹھکانا دوزخ میں نہیں ہے۔ اللہ کی قسم ! بلاشبہ جہنم میں شدید عذاب، بے انتہا رسوائی اور اللہ تعالیٰ کی سخت ناراضی ہوگی۔ جہاں متکبرین کو پوری طرح عذاب دیا جائے گا اور ان سے حق وصول کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرانا، اس کا بیٹا اور بری قرار دینا، اس کی طرف سے کوئی ایسی خبر دینا جو اس کے جلال کے لائق نہ ہو، نبوت کا دعویٰ کرنا اس کی شریعت میں ایسی بات کہنا جو اس نے نہ کہی ہو اور دعویٰ کرنا کہ اسے اللہ تعالیٰ نے مشروع کیا ہے، یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ کے زمرے میں آتا ہے۔ الزمر
61 متکبرین کا حال بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اہل تقویٰ کا حال بیان کیا ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿ وَيُنَجِّي اللّٰـهُ الَّذِينَ اتَّقَوْا بِمَفَازَتِهِمْ﴾ ” اور جو پرہیز گار ہیں ان کی کامیابی کے سبب اللہ ان کو نجات دے گا۔“ کیونکہ ان کے پاس آلہ نجات، یعنی تقویٰ ہوگا جو ہر شدت اور ہولناکی کے وقت بچاؤ کا ذریعہ ہے۔ ﴿ لَا يَمَسُّهُمُ السُّوءُ ﴾ یعنی تکلیف دہ عذاب انہیں چھوئے گا نہیں۔ ﴿وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ﴾ ” اور وہ غمگین نہیں ہوں گے۔“ پس اللہ تعالیٰ نے ان سے عذاب اور خوف کی نفی کردی اور یہ امن کی انتہا ہے۔ ان کے لئے مکمل امن ہوگا اور یہ امن ان کے ساتھ رہے گا یہاں تک کہ وہ سلامتی کے گھر، یعنی جنت میں داخل ہوجائیں گے تب وہ ہر تکلیف اور ہر برائی سے محفوظ و مامون ہوں گے اور ان پر نعمتوں کی تازگی چھا جائے گی اور وہ پکار اٹھیں گے۔ ﴿الْحَمْدُ لِلَّـهِ الَّذِي أَذْهَبَ عَنَّا الْحَزَنَ إِنَّ رَبَّنَا لَغَفُورٌ شَكُورٌ﴾(فاطر:35؍34) ” ہر قسم کی تعریف ہے اس ذات کے لئے جس نے ہم سے حزن و غم کو دور کیا بلا شبہ ہمارا رب بخشنے والا، قدر دان ہے۔ “ الزمر
62 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی عظمت و کمال کے متعلق آگاہ فرماتا ہے جو اس شخص کے لئے خسارے کا باعث ہے جس نے اس کا انکار کیا، چنانچہ فرمایا: ﴿ اللّٰـهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ﴾ ” یہ عبارت اور اس قسم کی دیگر عبارات، قرآن کریم میں بکثرت ملتی ہیں، جو اس حقیقت پر دلالت کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ(اور اس کے اسماء و صفات) کے سوا ہر چیز مخلوق ہے۔ اس آیت کریمہ میں ہر اس شخص کے نظریے کا رد ہے جو مخلوق کے قدیم ہونے کا قائل ہے، مثلاً فلاسفہ کہتے ہیں کہ یہ آسمان اور زمین قدیم ہیں۔ اس طرح ان لوگوں کے قول اور دیگر باطل نظریات کا بھی رد ہے جو روح کو قدیم مانتے ہیں۔ اہل باطل کے ان باطل نظریات کو مان لینے سے خالق کا اپنی تخلیق سے معطل ہونا لازم آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا کلام مخلوق نہیں کیونکہ کلام متکلم کی صفت ہے اور اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے اسماء و صفات کے ساتھ ہمیشہ سے موجود ہے، اس سے پہلے کچھ بھی موجود نہ تھا۔ معتزلہ نے اس آیت کریمہ اور اس قسم کی دیگر آیات سے یہ استدلال کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کلام مخلوق ہے۔ یہ ان کی سب سے بڑی جہالت ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے اسماء و صفات سمیت قدیم ہے، اس کی صفات نئی پیدا ہوئی ہیں نہ اس سے کسی صفت کا تعطل ہوا ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے بارے میں خود خبر دی ہے کہ اس نے عالم علوی اور عالم سفلی کو پیدا کیا اور وہ ہر چیز پر وکیل ہے اورو کالت کامل میں وکیل کے لئے لازم ہے کہ وہ جس چیز کی وکالت کر رہا ہے اسے اس کا پورا علم ہو اور وہ اس کی تمام تفاصیل کا احاطہ کئے ہوئے ہو، جس چیز پر وہ وکیل ہے، اس میں تصرف کرنے کی پوری قدرت رکھتا ہو، اس کی حفاظت کرسکتا ہو، تصرف کے تمام پہلوؤں کی حکمت اور معرفت رکھتا ہو کہ بہترین طریقے سے اس میں تصرف اور اس کی تدبیر کرسکے۔ مذکورہ بالا تمام امور کے بغیر وکالت کی تکمیل ممکن نہیں۔ ان امور میں جتنا نقص واقع ہوگا اس کی وکالت بھی اتنی ہی ناقص ہوگی۔ یہ چیز متحقق اور معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی صفات میں سے ہر صفت میں ہرقسم کے نقص سے منزہ ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کا یہ خبر دینا کہ وہ ہر چیز پر وکیل ہے دلالت کرتا ہے کہ اس کا علم ہر چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے، وہ ہر چیز کی تدبیر پر کامل قدرت اور کامل حکمت رکھتا ہے جس کے ذریعے سے اس نے تمام اشیاء کو اپنے اپنے مقام پر رکھا ہے۔ الزمر
63 ﴿ لَّهُ مَقَالِيدُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ﴾ ” آسمانوں اور زمین کی کنجیاں اسی کے پاس ہیں۔“ یعنی علم اور تدبیر کے لحاظ سے زمین و آسمان کی کنجیاں اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہیں اس لئے ﴿مَّا يَفْتَحِ اللّٰـهُ لِلنَّاسِ مِن رَّحْمَةٍ فَلَا مُمْسِكَ لَهَا وَمَا يُمْسِكْ فَلَا مُرْسِلَ لَهُ مِن بَعْدِهِ ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ﴾(فاطر:35؍2) ” اللہ اپنے بندوں کے لئے اپنی رحمت کا جو دروازہ کھول دے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور اگر وہ اپنی رحمت کو روک لے تو اس کے بعد اسے کوئی کھول نہیں سکتا اور وہ غالب حکمت والا ہے۔ “ جب اللہ تعالیٰ کی عظمت واضح ہوگئی جو اس امر کا تقاضا کرتی ہے کہ بندوں کے دل اللہ تعالیٰ کے اجلاس و اکرام سے لبریز ہوں تو اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کا حال بیان کیا جن کا معاملہ اس کے برعکس ہے۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی قدر نہ کی جس طرح قدر کرنے کا حق ہے۔ فرمایا :﴿وَالَّذِينَ كَفَرُوا بِآيَاتِ اللّٰـهِ﴾ ” اور جنہوں نے آیات الٰہی کا انکار کیا“ جو حق، یقین اور صراط مستقیم کی طرف راہنمائی کرتی ہیں ﴿أُولَـٰئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ﴾ ” یہی لوگ ہیں خسارہ پانے والے۔“ یعنی اس چیز کے بارے میں خسارے میں رہے جس سے قلوب کی اصلاح ہوتی ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کے لئے اخلاص۔ جس سے زبانوں کی اصلاح ہوتی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول ہوتی ہیں اور جس سے جوارح کی اصلاح ہوتی ہے اور وہ اللہ کی اطاعت کرتے ہیں اور اس کے بدلے انہوں نے ہر وہ چیز لے لی جو قلوب و ابدان کو فاسد کرتی ہے، وہ نعمتوں بھری جنت سے محروم رہے اور اس کے بدلے انہوں نے درد ناک عذاب لے لیا۔ الزمر
64 ﴿قُلْ ﴾ اے رسول ! ان جہلا سے، جو آپ کو غیر اللہ کی عبادت کی دعوت دیتے ہیں، کہہ دیجیے : ﴿أَفَغَيْرَ اللّٰـهِ تَأْمُرُونِّي أَعْبُدُ أَيُّهَا الْجَاهِلُونَ﴾ ” اے جاہلو ! کیا تم مجھے یہ کہتے ہو کہ میں اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت کروں۔“ یہ معاملہ تمہاری جہالت کی بنا پر صادر ہوا ہے ورنہ اگر تمہیں اس بات کا علم ہوتا کہ اللہ تعالیٰ ہر اعتبار سے کامل ہے وہی نعمتیں عطا کرتا ہے اور وہی عبادت کا مستحق ہے اور وہ ہستیاں عبادت کی مستحق نہیں جو ہر لحاظ سے ناقص ہیں، جو نفع دے سکتی ہیں نہ نقصان، تب تم مجھے ان کی عبادت کا کیوں حکم دیتے ہو؟ الزمر
65 شرک اعمال کو ساقط اور احوال کو فاسد کردیتا ہے، بنا بریں فرمایا : ﴿وَلَقَدْ أُوحِيَ إِلَيْكَ وَإِلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكَ ﴾ ” اور (اے نبی !) آپ کی طرف اور ان کی طرف جو تم سے پہلے ہوچکے ہیں یہ وحی کی گئی“ یعنی تمام انبیائے کرام کی طرف ﴿لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ﴾ ” اگر تم نے شرک کیا تو تمہارے سارے عمل برباد ہوجائیں گے۔“ یہ مفرد مضاف ہے جو تمام اعمال کو متضمن ہے۔ سابقہ جمیع انبیائے کرام کی نبوتوں میں یہ حکم تھا کہ شرک تمام اعمال کو ضائع کردیتا ہے جیسا کہ سورۃ الانعام میں اللہ تعالیٰ نے بہت سے انبیاء کا ذکر کرنے کے بعد ان کے بارے میں فرمایا : ﴿ ذٰلِكَ هُدَى اللّٰـهِ يَهْدِي بِهِ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَلَوْ أَشْرَكُوا لَحَبِطَ عَنْهُم مَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ﴾ (الانعام:6؍88)” یہ ہے اللہ کی ہدایت، وہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اس طرح کی ہدایت دے دیتا ہے اور اگر یہ لوگ (انبیائے کرام) شرک کرتے ہوتے تو ان کا سارا کیا دھرا ضائع ہوجاتا ۔“ ﴿وَلَتَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ﴾ ” اور آپ (دین اور آخرت کے بارے میں) خسارے میں پڑجائیں گے۔“ پس معلوم ہوا کہ شرک سے تمام اعمال اکارت ہوجاتے ہیں اور بندہ عذاب اور سزا کا مستحق بن جاتا ہے۔ الزمر
66 پھر فرمایا : ﴿بَلِ اللّٰـهَ فَاعْبُدْ﴾ ” بلکہ آپ اللہ ہی کی عبادت کیجیے۔“ اللہ تعالیٰ نے جب جہلا کے بارے میں آگاہ فرمایا کہ وہ آپ کو شرک کا حکم دیتے ہیں اور یہ خبر بھی دی کہ شرک بہت قبیح جرم ہے تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اخلاص کا حکم دیا اور فرمایا : ﴿بَلِ اللّٰـهَ فَاعْبُدْ﴾ یعنی اللہ وحدہ لاشریک کے لئے اپنی عبادت کو خالص کیجیے ﴿وَكُن مِّنَ الشَّاكِرِينَ ﴾ اور اللہ تعالیٰ کی توفیق پر اس کا شکر ادا کیجیے۔ جس طرح دنیاوی نعمتوں، مثلاً جسمانی صحت و عافیت اور حصول رزق وغیرہ پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا جاتا ہے اسی طرح دینی نعمتوں، مثلاً توفیق اخلاص اور تقویٰ وغیرہ پر بھی اس کا شکر ادا کیا جاتا اور اس کی حمد و ثناء کی جاتی ہے، بلکہ دینی نعمتیں ہی حقیقی نعمتیں ہیں اور یہ تدبر کرنا کہ یہ تمام نعمتیں اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ہیں اور ان پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا واجب ہے کیونکہ یہ انسان کو غرور اور خودپسندی کی آفت سے محفوظ رکھتا ہے۔ بہت سے عمل کرنے والے اپنی جہالت کے باعث غرور میں مبتلا ہوجاتے ہیں ورنہ اگر بندہ حقیقت حال کی معرفت حاصل کرلے تو اللہ تعالیٰ کی کسی نعمت پر غرور میں مبتلا نہ ہو جو زیادہ سے زیادہ شکر کی مستحق ہے۔ الزمر
67 اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان مشرکین نے اپنے رب کی قدر اور تعظیم نہیں کی جیسا کہ اس کی قدر و تعظیم کا حق ہے بلکہ اس کے برعکس انہوں نے ایسے افعال سر انجام دیے جو اس کی تعظیم سے متناقض ہیں، مثلاً ایسی ہستیوں کو اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرانا جو اپنے اوصاف و افعال میں ناقص ہیں۔ ان کے اوصاف ہر لحاظ سے ناقص ہیں اور ان کے افعال ایسے ہیں کہ وہ کسی کو نفع دے سکتی ہیں نہ نقصان، وہ کسی کو عطا کرسکتی ہیں نہ محروم، وہ کسی چیز کا کوئی اختیار نہیں رکھتیں۔ پس انہوں نے اس ناقص مخلوق کو، خالق کائنات، رب عظیم کے برابر ٹھہرا دیا جس کی عظمت باہرہ اور قدرت قاہرہ یہ ہے کہ قیامت کے روز، تمام زمین رحمٰن کی مٹھی میں ہوگی اور ساتوں آسمان اپنی وسعتوں اور عظمتوں کے باوجود اس کے دائیں ہاتھ پر لپٹے ہوئے ہوں گے۔ اس شخص نے اللہ تعالیٰ کی تعظیم نہیں کی جیسا کہ اس کی تعظیم کرنے کا حق ہے جس نے دوسری ہستیوں کو اس کے مساوی ٹھہرا دیا۔ جس نے یہ کام کیا اس سے بھی بڑھ کر کوئی ظالم ہے؟ ﴿سُبْحَانَهُ وَتَعَالَىٰ عَمَّا يُشْرِكُونَ﴾ اللہ تعالیٰ ان کے شرک سے منزہ، پاک اور بہت بلند ہے۔ الزمر
68 اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو اپنی عظمت کا خوف دلانے کے بعد، قیامت کے احوال کے ذریعے سے انہیں ڈرایا اور انہیں ترغیب و ترہیب دی، چنانچہ فرمایا : ﴿وَنُفِخَ فِي الصُّورِ ﴾ ” اور صور پھونکا جائے گا۔“ یہ بہت بڑا سینگ ہے جس کی عظمت اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی شخص نہیں جانتا یا صرف اس شخص کو علم ہے جسے اللہ تعالیٰ نے مطلع کردیا ہو، اس صور میں اسرافیل علیہ السلام جو اللہ تعالیٰ کے مقرب اور اس کا عرش اٹھانے والے فرشتوں میں ہیں۔ پھونک ماریں گے﴿فَصَعِقَ ﴾ تو بے ہوش ہوجائیں گے یا مر جائیں گے۔ اس بارے میں یہ دونوں قول منقول ہیں۔ ﴿ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَمَن فِي الْأَرْضِ﴾ ” جو بھی آسمانوں اور زمین میں ہیں۔“ یعنی زمین اور آسمانوں کی تمام مخلوق جب صور پھونکنے کی آواز سنے گی تو اس کی شدت اور ان احوال کے بارے میں علم ہونے کے باعث گھبرا اٹھے گی، جن کا یہ آواز مقدمہ ہے۔ ﴿ إِلَّا مَن شَاءَ اللّٰـهُ﴾ ” مگر جسے اللہ (بچانا) چاہے۔“ یعنی ان لوگوں کے سوا جن کو اللہ تعالیٰ مضبوط اور ثابت قدم رکھے، مثلاً شہد اور بعض دیگر لوگ، ان پر بے ہوشی طاری نہیں ہوگی یہ پہلی پھونک نَفْخَۃُ الصَّعْقْ اور نَفْخَۃُ الْفَزَعْ ہے۔ ﴿ثُمَّ نُفِخَ فِيهِ ﴾ ” پھر اس میں (ایک اور)پھونک ماری جائے گی۔“ یہ نَفْخَۃُ الْبَعْثْ ہے ﴿فَإِذَا هُمْ قِيَامٌ يَنظُرُونَ﴾ ” تو وہ فوراً اٹھ کر دیکھنے لگیں گے۔“ یعنی وہ حساب و کتاب کے لئے اپنی قبروں میں سے اٹھ کھڑے ہوں گے، جبکہ ان کی تخلیقِ اجساد اور تخلیق ارواح مکمل ہوچکی گی۔ ان کی آنکھیں اوپر کو اٹھی ہوئی ہوں گی ﴿ يَنظُرُونَ ﴾ ’’وہ دیکھ رہے ہوں گے“ کہ اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ کیا کرتا ہے۔ الزمر
69 ﴿ وَأَشْرَقَتِ الْأَرْضُ بِنُورِ رَبِّهَا ﴾ ” اور زمین اپنے رب کے نور سے چمک اٹھے گی“ اس سے معلوم ہوا کہ موجودہ تمام روشنیاں قیامت کے روز مضمحل ہو کر ختم ہوجائیں گی اور حقیقت میں ایسا ہی ہوگا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ (قیامت کے روز) سورج بے نور ہوجائے گا، چاند کی روشنی ختم ہوجائے گی، ستارے بکھر جائیں گے اور لوگ تاریکی میں ڈوب جائیں گے، تب اس وقت زمین اپنے رب کے نور سے چمک اٹھے گی جب وہ تجلی فرمائے گا اور بندوں کے درمیان فیصلہ کرنے کے لئے نازل ہوگا۔ اس دن اللہ تعالیٰ تمام مخلوق کو ایسی قوت اور ایسی تخلیق عطا کرے گا جس کی بنا پر وہ اللہ تعالیٰ کی تجلی کو برداشت کرنے کی قوت سے سرفراز ہوں گے، اللہ تعالیٰ کا نور ان کو جلا نہیں ڈالے گا، اس دن ان کے لئے اللہ تعالیٰ کا دیدار کرنا ممکن ہوگا ورنہ اللہ تعالیٰ کا نور اس قدر عظیم ہے کہ اگر وہ اپنے چہرے سے پردہ ہٹا دے تو جہاں تک اس کی نگاہ پہنچے اس کے چہرے کا نور تمام مخلوق کو جلا کر راکھ کر ڈالے۔ ﴿وَوُضِعَ الْكِتَابُ﴾ ” اور (اعمال کی) کتاب رکھ دی جائے گی۔“ یعنی اعمال نامہ کھول کر پھیلا دیا جائے گا تاکہ بندہ اپنی نیکیوں اور گناہوں کو پڑھ لے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَوُضِعَ الْكِتَابُ فَتَرَى الْمُجْرِمِينَ مُشْفِقِينَ مِمَّا فِيهِ وَيَقُولُونَ يَا وَيْلَتَنَا مَالِ هَـٰذَا الْكِتَابِ لَا يُغَادِرُ صَغِيرَةً وَلَا كَبِيرَةً إِلَّا أَحْصَاهَا وَوَجَدُوا مَا عَمِلُوا حَاضِرًا وَلَا يَظْلِمُ رَبُّكَ أَحَدًا ﴾ (الکہف:18؍49)” اور اعمال نامہ رکھ دیا جائے گا تو آپ مجرموں کو دیکھیں گے کہ وہ اپنے اعمال نامے کے مندرجات سے ڈر رہے ہوں گے اور کہیں گے ہائے ہماری ہلاکت ! یہ کیسی کتاب ہے کہ ہمارا کوئی چھوٹا بڑا عمل ایسا نہیں جو اس نے درج نہ کیا ہو۔ وہ اپنے تمام اعمال کو اپنے سامنے موجود پائیں گے اور آپ کا رب کسی پر ظلم نہیں کرے گا۔“ اور عمل کرنے والے سے مکمل عدل و انصاف کے ساتھ کہا جائے گا۔ ﴿ اقْرَأْ كِتَابَكَ كَفَىٰ بِنَفْسِكَ الْيَوْمَ عَلَيْكَ حَسِيبًا ﴾ (بنی اسرائیل: 17؍14)” اپنی کتاب (اعمال) پڑھ، آج اپنا حاسب لینے کے لئے تو خود ہی کافی ہے۔ “ ﴿ وَجِيءَ بِالنَّبِيِّينَ ﴾ ” اور نبیوں کو لایا جائے گا“ تاکہ ان سے تبلیغ اور ان کی امتوں کے رویے کے بارے میں سوال کیا جائے اور یہ ان پر گواہی دیں ﴿ وَالشُّهَدَاءِ﴾ ” اور گواہ“ یعنی فرشتے، زمین اور انسان کے اعضا گواہی دیں گے ﴿ وَقُضِيَ بَيْنَهُم بِالْحَقِّ ﴾ ” اور ان کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کیا جائے گا۔“ یعنی پورے عدل اور کامل انصاف کے ساتھ فیصلہ کیا جائے گا کیونکہ یہ حساب ایسی ہستی کی طرف سے کیا جائے گا جو ذرہ بھر ظلم نہیں کرتی اس کا علم ہر چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے اور اس کی کتاب، یعنی لوح محفوظ ان کے تمام اعمال پر مشتمل ہے۔ کراماً کاتبین اپنے رب کی نافرمانی نہیں کرتے، بندے جو عمل بھی کرتے ہیں یہ ان کے اعمال ناموں میں درج کرلیتے ہیں۔ عادل ترین گواہ اس فیصلے میں گواہی دیں گے اور فیصلہ وہ ہستی کرے گی جو اعمال کی مقدار اور ان کے ثواب و عقاب کے استحقاق کی مقدار کو خوب جانتی ہے۔ فیصلہ ہوگا اور تمام مخلوق اس کا اقرار کرے گی۔ تمام مخلوق اللہ تعالیٰ کی حمد اور اس کے عدل کا اعتراف کرے گی۔ وہ اس کی عظمت، اس کے علم و حکمت، اور اس کی رحمت کا اس طرح اعتراف کریں گے کہ دل میں کبھی اس کا خیال گزرا ہوگا نہ ان کی زبانوں نے کبھی اس کی تعبیر کی ہوگی۔ الزمر
70 اس لئے فرمایا : ﴿ وَوُفِّيَتْ كُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ وَهُوَ أَعْلَمُ بِمَا يَفْعَلُونَ ﴾ ” جس شخص نے جو عمل کیا اس کو اس کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور جو کچھ یہ کرتے ہیں اس کو سب کی خبر ہے۔ “ الزمر
71 اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے بندوں کے درمیان فیصلے کا ذکر فرمایا جن کو اس نے تخلیق، رزق اور تدبیر میں اکٹھا کیا، دنیا کے اندر وہ سب اکٹھے رہے، قیامت کے روز بھی اکٹھے ہوں گے مگر ان کی جزا کے وقت ان کے درمیان اسی طرح تفریق کردی جائے گی جس طرح انہوں نے دنیا میں ایمان اور کفر، تقویٰ اور فسق و فجور کے اعتبار سے ان کے درمیان فرق تھا، چنانچہ فرمایا : ﴿ وَسِيقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَىٰ جَهَنَّمَ ﴾ ” اور جن لوگوں نے کفر کیا انہیں جہنم کی طرف ہانکا جائے گا۔“ یعنی کافروں کو نہایت سختی سے جہنم کی طرف ہانکا جائے گا۔ انتہائی سخت فرشتے کوڑوں سے مارتے ہوئے، بہت برے قید خانے، بدترین جگہ، یعنی جہنم کی طرف لے جائیں گے۔ جہاں ہر قسم کا عذاب جمع ہوگا اور ہر قسم کی بدبختی موجود ہوگی۔ جہاں ہر سرور زائل ہوجائے گا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ يَوْمَ يُدَعُّونَ إِلَىٰ نَارِ جَهَنَّمَ دَعًّا ﴾(الطور:52؍13) ” جس روز انہیں آتش جہنم کی طرف دھکیل دھکیل کرلے جایا جائے گا۔“ یعنی ان کو دھکے دے کر جہنم میں پھینکا جائے گا کیونکہ وہ جہنم میں داخل ہونے سے مزاحمت کریں گے، ان کو جہنم کی طرف ہانکا جائے گا۔ ﴿ زُمَرًا ﴾ متفرق جماعتوں کی صورت میں۔ ہر گروہ اس گروہ کے ساتھ ہوگا جس کے ساتھ اس کے اعمال مناسبت رکھتے ہوں گے اور جن کے کرتوت ایک دوسرے کے مشابہ ہوں گے۔ وہ ایک دوسرے کو لعنت ملامت اور ایک دوسرے سے برأت اور بیزاری کا اظہار کریں گے۔ ﴿ حَتَّىٰ إِذَا جَاءُوهَا ﴾ یعنی جب جہنم کے قریب پہنچیں گے ﴿فُتِحَتْ ﴾ ” کھول دیئے جائیں گے“ ان کے لئے یعنی ان کی خاطر ﴿ أَبْوَابُهَا ﴾ ” اس کے دروازے“ ان کی آمد اور مہمانی کرتے ہوئے جہنم کے دروازے کھولے جائیں گے۔ ﴿ وَقَالَ لَهُمْ خَزَنَتُهَا ﴾ جہنم کے داروغے ابدی بدبختی اور سرمدی عذاب کی بشارت دیں گے اور ان اعمال پر، جن کے سبب سے وہ اس بدترین جگہ پر پہنچے، انہیں زجر و توبیخ کرتے ہوئے کہیں گے : ﴿ أَلَمْ يَأْتِكُمْ رُسُلٌ مِّنكُمْ ﴾ ” کیا تمہارے پاس تم ہی میں سے رسول نہیں آئے تھے۔“ یعنی تمہاری جنس میں سے، جنہیں تم پہچانتے اور ان کی صداقت کو خوب جانتے تھے اور تم ان سے ہدایت حاصل کرسکتے تھے؟ ﴿ يَتْلُونَ عَلَيْكُمْ آيَاتِ رَبِّكُمْ﴾ ” وہ تم کو تمہارے رب کی آیتیں پڑھ کر سناتے تھے“ جن آیات کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے ان انبیاء و مرسلین کو مبعوث فرمایا تھا جو روشن ترین دلائل و براہین کے ذریعے سے حق الیقین پر دلالت کرتی تھیں۔ ﴿ وَيُنذِرُونَكُمْ لِقَاءَ يَوْمِكُمْ هَـٰذَا ﴾ ” اور وہ تمہیں ان دن کے پس آنے (ملاقات) سے ڈراتے تھے۔“ اور یہ چیز اس دن کے ڈر کو مدنظر رکھتے ہوئے تمہارے ان رسولوں کی اتباع اور اس دن کے عذاب سے بچنے کی موجب تھی، مگر تمہارا حال اس مطلوبہ حال کے بالکل برعکس تھا۔ ﴿ قَالُوا ﴾ وہ اپنے گناہوں اور اللہ تعالیٰ کی حجت قائم ہونے کا اعتراف و اقرار کرتے ہوئے کہیں گے: ﴿ بَلَىٰ ﴾ کیوں نہیں ! ہمارے پاس ہمارے رب کے رسول واضح دلائل اور نشانیوں کے ساتھ آئے، انہوں نے ان نشانیوں کو ہمارے سامنے پوری طرح واضح کردیا تھا اور انہوں نے ہمیں آج کے دن سے ڈرایا تھا ﴿وَلَـٰكِنْ حَقَّتْ كَلِمَةُ الْعَذَابِ عَلَى الْكَافِرِينَ ﴾ ” لیکن عذاب کا حکم (وعدہ) کافروں پر ثابت ہو کر رہا۔“ یعنی ان کے کفر کے سبب سے ان پر عذاب واجب ہوگیا۔ یہ عذاب ہر اس شخص کے لئے ہے جو اللہ تعالیٰ کی آیات کا انکار کرتا ہے اور اس چیز کو جھٹلاتا ہے جسے لے کر انبیاء و رسل مبعوث ہوئے۔ پس یہ کفار اپنے گناہوں اور اللہ تعالیٰ کی حجت کے قائم ہونے کا اعتراف کریں گے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے جہنم کے بارے میں فرمایا : ﴿ وَفُتِحَتْ أَبْوَابُهَا ﴾ اور جنت کے بارے میں فرمایا : ﴿ وَفُتِحَتْ ﴾ یعنی واؤ کے ساتھ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اہل جہنم کے وہاں مجرد پہنچنے پر جہنم کے دروازے کھول دیئے جائیں گے، انہیں انتظار کی مہلت نہیں دی جائے گی، جہنم کے دروازے ان کے پہنچنے پر اور ان کے سامنے اس لئے کھلیں گے کہ اس کی حرارت بہت زیادہ اور اس کا عذاب انتہائی شدید ہوگا۔ رہی جنت، تو یہ بہت ہی عالی مرتبہ مقام ہے، جہاں ہر شخص نہیں پہنچ سکتا۔ صرف وہی شخص جنت تک پہنچ سکتا ہے جو ان وسائل کو اختیار کرتا ہے جو جنت تک پہنچاتے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ وہ جنت میں داخل ہونے کے لئے اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ قابل تکریم ہستی کی سفارش کے محتاج ہوں گے۔ مجرد وہاں پہنچنے پر ان کے لئے جنت کے دروازے نہیں کھول دیئے جائیں گے بلکہ وہ جناب نبی مصطفی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سفارش کرائیں گے، آپ اہل ایمان کی سفارش کریں گے اور اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سفارش کو قبول فرمائے گا۔ یہ آیات کریمہ دلالت کرتی ہیں کہ جہنم اور جنت کے دروازے ہوں گے، جو کھولے اور بند کئے جا سکیں گے۔ اور ہر دروازے پر داروغہ مقرر ہوگا۔ یہ خالص گھر میں جہاں صرف وہی شخص داخل ہوسکے گا جو ان کا مستحق ہوگا بخلاف عام گھروں اور جگہوں کے، جہاں ہر کوئی داخل ہوسکتا ہے۔ الزمر
72 ﴿وَقِیْلَ﴾ انہیں ذلیل و رسوا کرتے ہوئے کہا جائے گا : ﴿ ادْخُلُوا أَبْوَابَ جَهَنَّمَ ﴾ ” دوزخ کے دروازوں میں داخل ہوجاؤ۔“ ہر گر وہ اس دروازے سے جہنم میں داخل ہوگا جو اس کے مناسب اور موافق حال ہوگا۔ ﴿ خَالِدِينَ فِيهَا ﴾ وہ وہاں ابد الا آباد تک رہیں گے۔ وہ وہاں سے کبھی کوچ نہیں کریں گے، ایک گھڑی کے لئے بھی ان سے عذاب دور کیا جائے گا نہ ان کو مہلت ہی دی جائے گی۔ ﴿ فَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِينَ ﴾ ” پس تکبر کرنے والوں کا برا ٹھکانا ہے۔“ یعنی جہنم ان کا ٹھکانا ہے جو بہت ہی برا ٹھکانا ہے۔ یہ سب کچھ اس پاداش میں ہے کہ وہ حق کے مقابلے میں تکبر کیا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے عمل کی جزا ان کے عمل کی جنس سے دی ہے، اہانت، ذلت اور رسوائی ان کی سزا ہے۔ الزمر
73 پھر اہل جنت کے بارے میں فرمایا : ﴿ وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ ﴾ ” اور جو لوگ اپنے رب سے ڈرتے رہے تھے انہیں لے جایا جائے گا“ متقین کو اللہ تعالیٰ کی توحید، ان کے عمل اور اطاعت کے سبب سے نہایت اعزاز و اکرام کے ساتھ وفدوں کی صورت میں ﴿ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَرًا ﴾ ” جنت کی طرف گروہ در گروہ“ وہ خوش و خرم جنت میں جائیں گے۔ ہر جماعت ایسی جماعت کی معیت میں جنت میں داخل ہوگی جس کے ساتھ وہ عمل میں مشابہت رکھتی ہوگی۔ ﴿ حَتَّىٰ إِذَا جَاءُوهَا ﴾ ” یہاں تک کہ جب وہ اس کے پاس پہنچ جائیں گے“ یعنی جب یہ لوگ کشادہ اور خوبصورت جنتوں میں پہنچیں گے، باد نسیم کے جھونکے ان کا استقبال کریں گے، یہ نعمتیں اور جنتیں ہمیشہ رہیں گی۔ ﴿ وَفُتِحَتْ ﴾ ” اور کھول دیے جائیں گے“ ان کے لئے ﴿ أَبْوَابُهَا ﴾ ” اس کے دروازے“ سب سے زیادہ باعزت مخلوق کے لئے، عزت و اکرام کے ساتھ جنت کے دروازے کھول دیئے جائیں گے تاکہ جنت میں ان کی عزت و تکریم ہو ﴿ وَقَالَ لَهُمْ خَزَنَتُهَا ﴾ ” اور جنت کے دربان ان کو خوش آمدید کہتے ہوئے کہیں گے ﴿ سَلَامٌ عَلَيْكُمْ ﴾ ” تم پر سلامتی ہو“ تم ہر آفت اور برے حال سے سلامت اور محفوظ ہو ﴿ طِبْتُمْ ﴾ تمہارے دل اللہ تعالیٰ کی معرفت، اس کی محبت اور اس کی خشیت کے باعث، تمہاری زبانیں اس کے ذکر اور تمہارے جوارح اس کی اطاعت کے باعث اچھے رہے، لہٰذا اپنی اچھائی کے سبب سے ﴿ فَادْخُلُوهَا خَالِدِينَ ﴾ ” اس جنگ میں ہمیشہ کے لئے داخل ہوجاؤ۔“ یہ پاک اور طیب گھر ہے اور طیبین کے سوا کسی کے لائق نہیں۔ الزمر
74 ﴿ وَقَالُوا ﴾ وہ جنت میں داخل ہو کر، اپنے اپنے ٹھکانے پر پہنچ کر، اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور اس کے ہدایت عطا کرنے پر، اس کی حمد و ثنا بیان کرتے ہوئے کہیں گے : ﴿ الْحَمْدُ لِلَّـهِ الَّذِي صَدَقَنَا وَعْدَهُ ﴾ ” اس اللہ کا شکر ہے جس نے ہمارے ساتھ اپنا وعدہ سچا کر دکھایا“ یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کی زبانوں پر ہمارے ساتھ وعدہ کیا تھا کہ اگر ہم ایمان لے آئے اور نیک عمل کئے تو وہ ہمیں جنت عطا کرے گا۔ پس اس نے اپنا وعدہ ایفا کر کے ہماری آرزو پوری کردی ﴿ وَأَوْرَثَنَا الْأَرْضَ ﴾ ” اور ہمیں زمین کا وارث بنایا“ یعنی جنت کی زمین کا ﴿ نَتَبَوَّأُ مِنَ الْجَنَّةِ حَيْثُ نَشَاءُ ﴾ یعنی ہم جنت میں جس جگہ بھی چاہیں ٹھہر سکتے ہیں اور اس کی نعمتوں سے جو چیز بھی چاہیں لے سکتے ہیں۔ ہمارے لئے کوئی چیز ممنوع نہیں جس کا ارادہ کریں ﴿ فَنِعْمَ أَجْرُ الْعَامِلِينَ ﴾ ” پس (نیک) عمل کرنے والوں کا بدلہ بھی کیا خوب ہے۔“ جنہوں نے ختم ہوجانے والی نہایت قلیل سی مدت میں اپنے رب کی اطاعت کے لئے کوشش کی اور اس کے بدلے انہوں نے خیر عظیم حاصل کی جو ہمیشہ باقی رہنے والی ہے۔ یہ ہے وہ گھر جو حقیقی مدح کا مستحق ہے جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو سرفراز فرمائے گا، جوادو کریم اللہ نے ان کے لئے جنت کے گھر کی مہمانی کو پسند فرمایا ہے، اللہ نے اس گھر کو نہایت بلند اور خوبصورت بنایا ہے۔ اس میں اپنے ہاتھوں سے انواع و اقسام کے درخت اور پودے لگائے ہیں۔ اسے اپنی رحمت و تکریم سے لبریز کیا ہے جس کے ادنیٰ حصے سے غم زدہ کو فرحت حاصل ہوگی اور تمام تکدر ختم ہو کر صفا کی تکمیل ہوجائے گی۔ الزمر
75 ﴿ وَتَرَى الْمَلَائِكَةَ ﴾ ” اے دیکھنے والے ! تو اس عظیم دن، فرشتوں کو دیکھے گا“ کہ ﴿ حَافِّينَ مِنْ حَوْلِ الْعَرْشِ ﴾ وہ اللہ تعالیٰ کے جلال کے سامنے سرافگندہ، اس کے جمال میں مستغرق ہو کر اور اس کے کمال کا اعتراف کرتے ہوئے اس کے عرش کے اردگرد اس کی خدمت میں جمع ہوں گے۔ ﴿ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ ﴾ یعنی وہ اپنے رب کی ہر اس وصف سے تنزیہ و تقدیس کریں گے جو اس کے جلال کے لائق نہیں، جو مشرکین نے اس کی طرف منسوب کئے ہیں یا نہیں کئے۔ ﴿ وَقُضِيَ بَيْنَهُم ﴾ یعنی اولین و آخرین تمام مخلوق کے درمیان فیصلہ کردیا جائے گا ﴿ بِالْحَقِّ ﴾ ” حق کے ساتھ“ جس میں کوئی اشتباہ ہوگا نہ وہ شخص انکار کرسکے گا جس کے ذمہ یہ حق ہوگا۔ ﴿ وَقِيلَ الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ﴾ ” اور کہا جائے گا ہر طرح کی حمد و تعریف اللہ ہی کو سزا وار ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے۔“ یہاں قائل کا ذکر نہیں کیا گیا تاکہ اس بات کی دلیل ہو کہ تمام مخلوق اہل جنت اور اہل جہنم کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے فیصلے میں اس کی حکمت پر اس کی حمد بیان کرے گی، یعنی فضل و احسان کی حمد اور عدل و حکمت کی حمد۔ الزمر
0 سورۃ مؤمن غافر
1 حٰم غافر
2 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی کتاب عظیم کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے صادر ہوئی اور اس کی طرف سے نازل کی گئی ہے۔ جو اپنے کمال اور اپنے افعال میں انفرادیت کی بنا پر عبادت کا مستحق ہے۔ ﴿ الْعَزِيزِ ﴾ جو اپنے غلبہ کی بنا پر تمام مخلوق پر غالب ہے۔ ﴿الْعَلِيمِ ﴾ وہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔ غافر
3 ﴿ غَافِرِ الذَّنبِ ﴾ ” وہ گناہ بخش دینے والا“ گناہ گاروں کے﴿ وَقَابِلِ التَّوْبِ ﴾ توبہ کرنے والوں کی ” توبہ قبول کرنے والا“ ﴿شَدِيدِ الْعِقَابِ ﴾ جو گناہوں کا ارتکاب کریں اور ان گناہوں سے توبہ نہ کریں ان کو سخت سزا دینے والا ہے ﴿ ذِي الطَّوْلِ ﴾ ” فضل و احسان کا مالک ہے“ یعنی ایسا فضل و احسان جو سب کو شامل ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے کمال کو متحقق کردیا اور یہ کمال اس حقیقت کا موجب ہے کہ وہ اکیلا ہی معبود ہو جس کے لئے تمام اعمال خالص کئے جائیں، تو فرمایا : ﴿ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ إِلَيْهِ الْمَصِيرُ ﴾ ” اس کے سوا کوئی معبود نہیں، اسی کی طرف لوٹنا ہے۔ “ ان اوصاف حمیدہ سے موصوف اللہ تعالیٰ کی طرف سے قرآن مجید کے نازل ہونے کے ذکر کی مناسبت یہ ہے کہ یہ اوصاف ان تمام معانی کو مستلزم ہیں جن پر یہ مشتمل ہے کیونکہ قرآن کریم یا تو اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات اور افعال کے بارے میں خبر دیتا ہے جو کہ اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات اور افعال ہیں یا گزشتہ زمانوں اور آنے والے واقعات کی خبر دیتا ہے اور یہ علیم کی طرف سے اپنے بندوں کی تعلیم ہے یا وہ اپنی عظیم نعمتوں اور جسمانی احسانات اور ان احسانات تک پہنچانے والے اوامر کی خبر ہے اور اس پر اللہ تعالیٰ کا ارشاد: ﴿ ذِي الطَّوْلِ ﴾ دلالت کرتا ہے، یا اللہ تعالیٰ کی شدید ناراضی اور ان معاصی کے بارے میں خبر ہے جو اس ناراضی کے موجب ہیں اس پر اللہ تعالیٰ کا فرمان : ﴿ شَدِيدِ الْعِقَابِ ﴾ دلالت کرتا ہے، یا اس قرآن عظیم میں گناہگاروں کو توبہ، انابت اور استغفار کی دعوت دی گئی ہے اور اس پر اللہ تعالیٰ کا ارشاد : ﴿غَافِرِ الذَّنبِ وَقَابِلِ التَّوْبِ شَدِيدِ الْعِقَابِ ﴾ دلالت کرتا ہے، یا اس میں اس حقیقت سے آگاہ کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی اکیلا معبود برحق ہے، اس پر عقلی و نقلی دلائل دیئے گئے ہیں اور اس مضمون کو بہت تاکید کے ساتھ بیان کیا گیا ہے، نیز قرآن کریم میں غیر اللہ کی عبادت سے روکا گیا ہے، اس کے فساد پر عقلی و نقلی دلائل قائم کئے گئے ہیں اور غیر اللہ کی عبادت سے ڈرایا گیا ہے اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا قول : ﴿ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ ﴾ ہے، یا اس میں اللہ تعالیٰ کے حکم جزائی، یعنی بھلائی کرنے والوں کے ثواب اور نافرمانوں کی سزا کے بارے میں خبر دی گئی ہے اور یہ حکم جزائی عدل پر مبنی ہے اور اس پر اللہ تعالیٰ کا ارشاد : ﴿ إِلَيْهِ الْمَصِيرُ ﴾ دلالت کرتا ہے۔ یہ تمام عالی شان مطالب و معانی ہیں جن پر قرآن مشتمل ہے۔ غافر
4 اللہ تبارک و تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ ﴿ مَا يُجَادِلُ فِي آيَاتِ اللّٰـهِ إِلَّا الَّذِينَ كَفَرُوا ﴾ ” اللہ کی آیتوں میں وہی لوگ جھگڑتے ہیں جو کافر ہیں۔“ یہاں مجادلہ سے مراد ہے، آیات الٰہی کو رد کرنا اور باطل کے ذریعے سے ان کا مقابلہ کرنے کے لئے جھگڑا کرنا اور یہ کفار کا کام ہے، رہے اہل ایمان تو وہ حق کے سامنے سرتسلیم خم کردیتے ہیں تاکہ اس کے ذریعے سے باطل کو نیچا دکھائیں۔ انسان کے لئے مناسب نہیں کہ وہ اپنے دنیاوی احوال سے دھوکہ کھائے اور یہ سمجھنے لگے کہ اللہ تعالیٰ کا دنیا میں اس کو اپنی نعمتوں سے نوازنا، اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی محبت کی دلیل ہے اور وہ حق ہے۔ بنا بریں ارشاد فرمایا : ﴿ فَلَا يَغْرُرْكَ تَقَلُّبُهُمْ فِي الْبِلَادِ ﴾ ” ان کا )دنیا کے(شہروں میں چلنا پھرنا آپ کو کسی دھوکے میں نہ ڈال دے۔“ یعنی مختلف انواع کی تجارت اور کاروبار کے سلسلے میں ان کا ملکوں میں آنا جانا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دھوکے میں مبتلا نہ کر دے، بلکہ بندے پر واجب یہ ہے کہ وہ لوگوں سے حق کے ساتھ عبرت حاصل کرے، حقائق شرعیہ کو دیکھے، ان کی کسوٹی پر لوگوں کو پرکھے، لوگوں کی کسوٹی پر حق کو نہ پرکھے جیسے ان لوگوں کا وتیرہ ہے جو علم و عقل سے محروم ہیں۔ غافر
5 پھر اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو ڈرایا ہے جو آیات الٰہی کے ابطال کے لئے جھگڑتے اور بحث مباحثہ کرتے ہیں۔ جیسا کہ اس سے پہلے گمراہ قومیں کیا کرتی تھیں، مثلاً ﴿ قَوْمُ نُوحٍ ﴾ ” قوم نوح“ اور قوم عاد ﴿ وَالْأَحْزَابُ مِن بَعْدِهِمْ ﴾ ” اور ان کے بعد کی دوسری جماعتوں نے )بھی جھٹلایا(‘‘ جو حق کو نیچا دکھانے اور باطل کی مدد کرنے کے لئے جمع ہوگئے ﴿ وَ ﴾ ” اور“ ان کا یہ حال ہوگیا اور وہ اس بات پر اکٹھے ہوگئے کہ ﴿هَمَّتْ كُلُّ أُمَّةٍ ﴾ ” ہر گروہ نے ارادہ کرلیا“ مختلف گروہوں میں سے ﴿ بِرَسُولِهِمْ لِيَأْخُذُوهُ ﴾ ” کہ وہ اپنے رسول کو گرفتار کرلیں۔“ یعنی اس کو قتل کردیں یہ انبیاء و مرسلین کے خلاف، جو اہل خیر کے قائد تھے، بدترین ہتھکنڈا تھا، جو صریح حق پر تھے جس میں کوئی شک و شبہ نہ تھا۔ انہوں نے انبیاء کو قتل کرنے کا ارادہ کیا۔ کیا اس بغاوت، گمراہی اور بدبختی کے بعد اس عذاب عظیم کے سوا کچھ رہ جاتا ہے جس میں سے یہ کبھی نہ نکلیں گے؟ بنابریں ان کے لئے دنیاوی اور اخروی عذاب کے بارے میں فرمایا : ﴿ فَأَخَذْتُهُمْ ﴾ ” پھر میں نے انہیں پکڑ لیا“ یعنی ان کو تکذیب حق اور حق کے خلاف اکٹھے ہونے کے سبب سے اپنی گرفت میں لے لیا ﴿ فَكَيْفَ كَانَ عِقَابِ ﴾ ” پھر )دیکھ لو( ہماری سزا کیسی سخت تھی۔“ یہ سخت ترین اور بدترین عذاب تھا یہ ایک زور دار آواز تھی، پتھروں کو اڑاتی ہوئی طوفانی ہوا تھی، یا اللہ تعالیٰ نے زمین کو حکم دیا کہ ان کو اپنی گرفت میں لے لے یا سمندر کو حکم دیا کہ ان کو غرق کر دے، تب یہ مردہ پڑے کے پڑے رہ گئے۔ غافر
6 ﴿ وَكَذٰلِكَ حَقَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ عَلَى الَّذِينَ كَفَرُوا ﴾ ” اسی طرح کافروں کے بارے میں بھی تمہارے رب کی بات پوری ہوچکی ہے۔“ جیسا کہ ان لوگوں پر اللہ تعالیٰ کی بات سچ ثابت ہوئی تھی، اسی طرح ان پر گمراہی ثابت ہوگئی جس کے سبب سے وہ عذاب کے مستحق ہوگئے، اس لئے فرمایا : ﴿ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ النَّارِ ﴾ ” بلاشبہ وہ دوزخی ہیں۔ “ غافر
7 اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں پر اپنے کامل لطف و کرم اور ان اسباب کا ذکر کرتا ہے جو اس نے ان کی سعادت کے لئے مقرر فرمائے ہیں۔ یہ اسباب ان کی قدرت سے باہر تھے، مثلاً ان کے لئے ملائکہ مقربین کا استغفار کرنا اور ان کے دین و آخرت کی بھلائی کے لئے دعا کرنا۔ اس ضمن میں عرش الٰہی اٹھانے والے فرشتوں اور جو اس کے اردگرد ہیں ان کے شرف کی خبر ہے۔ اسی طرح اپنے رب کے قریب رہنے والے فرشتوں، ان کی عبادت کی کثرت، اللہ کے بندوں کے لئے ان کی خیر خواہی کا ذکر کیا گیا ہے۔ انہیں معلوم ہے کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کو پسند ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿ الَّذِينَ يَحْمِلُونَ الْعَرْشَ ﴾ ” جو عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں۔“ یعنی رحمٰن کا عرش، جو تمام مخلوقات کی چھت ہے۔ جو تمام مخلوقات میں سب سے بڑا، سب سے وسیع، سب سے خوبصورت اور اللہ تعالیٰ کے سب سے زیادہ قریب ہے، جو زمین و آسمان اور کرسی پر چھایا ہوا ہے۔ ان فرشتوں کو اللہ تعالیٰ نے عرش اٹھانے پر مقرر کیا ہوا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ سب سے بڑے اور سب سے طاقتور فرشتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ان فرشتوں کو اپنا عرش اٹھانے کے لئے چن لینا، ذکر میں ان کو مقدم رکھنا اور ان کو اپنے قرب سے سرفراز کرنا دلالت کرتا ہے کہ یہ سب سے افضل فرشتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿ وَيَحْمِلُ عَرْشَ رَبِّكَ فَوْقَهُمْ يَوْمَئِذٍ ثَمَانِيَةٌ ﴾) الحآقۃ:69؍17) ” اور اس روز تیرے رب کے عرش کو آٹھ فرشتے اپنے اوپر اٹھائے ہوں گے۔ “ ﴿وَمَنْ حَوْلَهُ﴾ ” اور جو اس کے اردگرد ہیں“ یعنی قدر و منزلت اور فضیلت میں اللہ تعالیٰ کے مقرب فرشتے ﴿ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ﴾ ” وہ اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح بیان کرتے ہیں۔“ یہ ان فرشتوں کی، ان کی کثرت عبادت، خاص طور پر تسبیح و تحمید، کی بنا پر مدح ہے۔ تسبیح و تحمید میں تمام عبادات داخل ہیں کیونکہ تمام عبادات کے ذریعے سے اس طرح اللہ تعالیٰ کی تنزیہ کی جاتی ہے کہ بندہ اپنی عبادات کو غیر اللہ سے ہٹا کر صرف اللہ تعالیٰ کے لئے خاص کرتا ہے، نیز یہ عبادات اللہ تعالیٰ کی حمد ہیں بلکہ حمد ہی درحقیقت اللہ تعالیٰ کی عبادت ہے۔ رہا بندے کا قول ﴿سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِہِ﴾ تو یہ بھی اسی میں داخل ہے اور جملہ عبادات میں شامل ہے۔ ﴿وَيَسْتَغْفِرُونَ لِلَّذِينَ آمَنُوا﴾ ” اور وہ مومنوں کے لئے مغفرت طلب کرتے رہتے ہیں۔“ یہ ایمان کے جملہ فوائد اور اس کے فضائل میں سے ہے کہ فرشتے جو اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہیں اور گناہوں سے پاک ہیں، اہل ایمان کے لئے مغفرت کی دعا کرتے ہیں، لہٰذا بندہ مومن اپنے ایمان کے سبب سے اس عظیم فضیلت کو حاصل کرتا ہے۔ چونکہ مغفرت کے لئے کچھ اسباب ہیں جن کے بغیر اس کی تکمیل نہیں ہوتی اور یہ اسباب اس خیال سے بالکل مختلف ہیں جو بہت سے اذہان میں آتا ہے کہ مغفرت طلب کرنے کی غرض و غایت مجرد گناہوں کی بخشش ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے فرشتوں کی دعائے مغفرت اور ان امور کا ذکر فرمایا جن کے بغیر دعائے مغفرت کی تکمیل نہیں ہوتی، چنانچہ فرمایا : ﴿رَبَّنَا وَسِعْتَ كُلَّ شَيْءٍ رَّحْمَةً وَعِلْمًا﴾ ”اے ہمارے رب ! تیری رحمت اور علم ہر چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔“ تیرے علم نے ہر چیز کا احاطہ کر رکھا ہے، تجھ سے کوئی چیز چھپی ہوئی نہیں۔ زمین میں کوئی ذرہ بھر چیز تیرے علم سے اوجھل ہے نہ آسمان میں اور کوئی چھوٹی چیز تجھ سے چھپی ہوئی ہے نہ کوئی بڑی چیز۔ تیری رحمت ہر چیز پر سایہ کناں ہے علوی اور سفلی تمام کائنات اللہ تعالیٰ کی رحمت سے لبریز اور اس کی رحمت تمام کائنات پر چھائی ہوئی ہے۔ اس کی تمام مخلوق اس رحمت سے بہرہ مند ہوتی ہے۔ ﴿فَاغْفِرْ لِلَّذِينَ تَابُوا ﴾ ” پس جن لوگوں نے توبہ کی انہیں بخش دے“ یعنی جنہوں نے شرک اور معاصی سے توبہ کی ﴿وَاتَّبَعُوا سَبِيلَكَ﴾ ” اور جو تیرے راستے پر گامزن ہوئے“ تیرے رسولوں کی اتباع کی، تیری توحید اور تیری اطاعت کے ذریعے سے ﴿وَقِهِمْ عَذَابَ الْجَحِيمِ ﴾ ” اور ان کو دوزخ کے عذاب سے بچا لے“ یعنی (اے اللہ !) ان کو عذاب سے اور اس کے اسباب سے بچا۔ غافر
8 ﴿رَبَّنَا وَأَدْخِلْهُمْ جَنَّاتِ عَدْنٍ الَّتِي وَعَدتَّهُمْ﴾ ” اے ہمارے رب ! ان کو ہمیشہ رہنے کی بہشتوں میں داخل فرما جن کا تو نے ان سے وعدہ فرمایا“ یعنی جن کا تو نے اپنے رسولوں کی زبان پر وعدہ کیا ﴿وَمَن صَلَحَ ﴾ ” اور جو صالح ہوں“ یعنی جو ایمان اور عمل صالح کے ذریعے سے درست ہوں ﴿مِنْ آبَائِهِمْ وَأَزْوَاجِهِمْ﴾ ” ان کے آباؤ اجداد اور ان کی بیویوں میں سے“ یعنی ان کی بیویوں، عورتوں کے شوہروں، ان کے دوستوں اور رفقا میں سے ﴿وَذُرِّيَّاتِهِمْ﴾ ” اور ان کی اولاد میں سے“ ﴿إِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ﴾ بے شک تو ہر چیز پر غالب ہے، تیری عزت کی قسم ! تو ان کے گناہ بخش دیتا ہے، ان کی تکلیف دور کردیتا ہے اور انہیں ہر بھلائی تک پہنچا دیتا ہے۔ ﴿الْحَكِيمُ﴾ ” حکمت والا ہے۔“ ” حکیم“ اس کو کہتے ہیں جو تمام اشیاء کو ان کے لائق حال مقام پر رکھتا ہے۔ اے ہمارے رب ! ہم تجھ سے کسی ایسی چیز کا سوال نہیں کرتے جو تیری حکمت کے تقاضوں کے خلاف ہے۔ بلکہ تیری حکمت، جس کی تو نے اپنے رسولوں کی زبان پر خبر دی ہے اور تیرا افضل جس چیز کا تقاضا کرتا ہے وہ یہ ہے کہ تو اہل ایمان کو بخش دے۔ غافر
9 ﴿وَقِهِمُ السَّيِّئَاتِ﴾ ” اور انہیں برائیوں سے بچا لے“ یعنی تو ان کو برے اعمال اور ان کی جزا سے دور رکھ کیونکہ یہ انسان کو بہت تکلیف دیتے ہیں۔ ﴿وَمَن تَقِ السَّيِّئَاتِ يَوْمَئِذٍ﴾ ” اور جس کو تو اس دن عذابوں سے بچا لے گا“ یعنی قیامت کے روز ﴿ فَقَدْ رَحِمْتَهُ ﴾ ” تو بے شک تو نے اس پر رحمت کی“ کیونکہ تیری رحمت تیرے بندوں پر ہمیشہ سایہ کناں رہی ہے، بندوں کے گناہ اور ان کی برائیاں ہی انہیں اس رحمت سے محروم کرتے ہیں۔ جس کو تو نے برائیوں سے بچا لیا اسے تو نے نیکیوں کی توفیق اور ان کی جزائے حسن سے بہرہ مند کیا۔ ﴿وَذٰلِكَ﴾ ” اور یہ“ یعنی منہیات کا دور ہونا، برائیوں سے بچانا اور محبوب و مرغوب کا حاصل ہونا اللہ تعالیٰ کی رحمت ہی کے سبب سے ہے۔ ﴿هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ﴾ ” یہی بڑی کامیابی ہے۔“ اس جیسی کوئی اور کامیابی نہیں اور مقابلہ کرنے والوں کے لئے اس سے بڑھ کر کوئی چیز اچھی نہیں ہے۔ فرشتوں کی یہ دعا اس حقیقت کو متضمن ہے کہ فرشتے اپنے رب کی کامل معرفت سے سرفراز ہیں وہ اپنی دعا میں اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنٰی کو وسیلہ بناتے ہیں۔ اللہ اپنے بندوں کی طرف سے اپنے اسما کو وسیلہ بنانے اور جو دعا مانگی جا رہی ہو اس کی مناسبت سے اسمائے الٰہی کو وسیلہ بنانے کو پسند کرتا ہے۔ بندوں کی دعا اللہ تعالیٰ کی رحمت کے حصول اور نفوس بشری کے تقاضوں کے اثرات کے ازالے کے لئے ہوتی ہے، جن کے نقص اور ان کے تقاضوں کو اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے، لہٰذا جب وہ ان معاصی اور ان کے مبادی و اسباب کا تقاضا کرتے ہیں جن کا اللہ تعالیٰ کے علم نے احاطہ کر رکھا ہے تو فرشتوں نے اللہ تعالیٰ کی صفات ” رَحِیْمٌ“ اور ” عَلِیْمٗ“ کو وسیلہ دعا بنایا ہے۔ اس کی ربوبیت عامہ اور ربوبیت خاصہ کا اقرار ان کے اللہ تعالیٰ کے متعلق کمال ادب کو متضمن ہے، نیز اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ان کے اختیار میں کچھ نہیں یہ تو ان کی اپنے رب کے سامنے دعا ہے جو ہر لحاظ سے ایک محتاج ہستی سے صادر ہوتی ہے، جو کسی بھی حال کو اپنا وسیلہ نہیں بنا سکتی۔ یہ صرف اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کا کرم و احسان ہے۔ اپنے رب کے ساتھ ان کی موافقت، ان اعمال، یعنی عبادات سے محبت کو متضمن ہے جن کو وہ پسند کرتا ہے، جسے وہ قائم کرتے ہیں اور محبت کرنے والوں کی جدوجہد کی طرح جدوجہد کرتے ہیں، وہ ہیں اہل ایمان۔ اللہ تعالیٰ اپنی تمام مخلوق میں سے انہی سے محبت کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ تمام مکلّف مخلوق کو ناپسند کرتا ہے مگر ان میں سے اہل ایمان کو پسند کرتا ہے۔ فرشتوں کی اہل ایمان کی ساتھ محبت ہے کہ وہ ان کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں، ان کے احوال کی اصلاح کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ کسی شخص کے لئے دعا کرنا، اس بات کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ دعا کرنے والا اس شخص سے محبت کرتا ہے کیونکہ انسان صرف اسی کے لئے دعا مانگتا ہے جس سے وہ محبت کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا اپنے ارشاد : ﴿وَيَسْتَغْفِرُونَ لِلَّذِينَ آمَنُوا﴾ کے بعد فرشتوں کی دعا کی تفصیل اور شرح بیان کرنا کتاب اللہ میں تدبیر کی کیفیت کی طرف لطیف اشارے کو متضمن ہے، نیز یہ اس بات کو بھی متضمن ہے کہ تدبر کرنے والا صرف مفرد لفظ کے معنی پر اقتصار نہ کرے، بلکہ اس کے لئے مناسب ہے کہ وہ لفظ کے معنی پر خوب تدبر اور غور و فکر کرے۔ جب اچھی طرح معنی کا فہم حاصل کرلے اپنی عقل سے اس معاملے میں غور کرے، ان طریقوں پر غور کرے جو اس منزل تک پہنچاتے ہیں اور جن کے بغیر یہ ناتمام ہے اور جن پر تمام دار و مدار ہے۔ اس کو یقین قطعی ہوجائے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی مراد ہے، جیسا کہ اسے یقین ہے کہ وہ معنی خاص اللہ تعالیٰ کی مراد ہے جس پر یہ لفظ دلالت کرتا ہے۔ وہ چیز جو اس کے لئے اس یقین کی موجب ہے کہ یہی معنی اللہ تعالیٰ کی مراد ہے، دو امور ہیں : 1۔ معرفت اور اس بات کا یقین کہ یہ معنی کے توابع میں سے ہے اور مراد الٰہی اسی پر موقوف ہے۔ 2۔ اس حقیقت کا علم رکھنا کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کو جاننے والا ہے اور اللہ تعالیٰ ہی نے اپنے بندوں کو حکم دیا ہے کہ وہ اس کی کتاب میں تدبر و تفکر کریں۔ اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ ان معانی سے کیا لازم آتا ہے۔ اسی نے خبر دی ہے کہ اس کی کتاب سراسر ہدایت، نور اور ہر چیز کو کھول کھول کر بیان کرنے والی ہے، یہ فصیح ترین اور ایضاح کے اعتبار سے جلیل ترین کلام ہے۔ اس سے بندہ مومن توفیق الٰہی کے مطابق علم عظیم اور خیر کثیر سے بہرہ ور ہوتا ہے۔ ہماری اس تفسیر میں بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں نوازا ہے۔ کبھی کبھی بعض آیات میں صحیح الفکر مگر غور و تدبر سے محروم شخص پر اس کا ماخذ مخفی رہتا ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ سے سوال کرتے ہیں کہ وہ ہم پر اپنی رحمت کے خزانے کھول دے جو ہمارے احوال اور تمام مسلمانوں کے احوال کی اصلاح کا سبب بنیں۔ ہمارے پاس اس کے سوا کچھ بھی نہیں کہ ہم اس کی نگاہ کرم کے منتظر ہیں، اس کے احسان کو وسیلہ بناتے ہیں، جس سے ہر آن اور ہر لحظہ بہرہ مند رہتے ہیں۔ ہم اس سے اس کے فضل کا سوال کرتے ہیں، یقیناً ہمارے نفس کی برائی ہی اللہ تعالیٰ کی رحمت کے راستے کی رکاوٹ ہے۔ اللہ تعالیٰ نہایت کریم اور عطا کرنے والا ہے جس نے ہمیں اسباب اور ان کے مسببات عطا کئے ہیں۔ یہ آیت کریمہ اس بات کو متضمن ہے کہ مومن کے ساتھ رہنے والے اشخاص، مثلاً بیوی، اولاد اور دوست بھی اس کی صحبت کے باعث سعادت سے بہرہ ور ہوتے ہیں۔ مومن کی صحبت ان کے لئے ایسی بھلائی کے حصول کا سبب بنتی ہے جو اس کے عمل اور اسباب عمل سے خارج ہے، جیسا کہ فرشتے اہل ایمان اور ان کے نیک والدین، ان کی نیک بیویوں اور ان کی نیک اولاد کے لئے دعا کرتے ہیں اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اہل ایمان کے ماں باپ، بیویوں اور اولاد میں اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿وَمَن صَلَحَ ﴾ کے مطابق ” صلاحیت“ کا وجود لازم ہے تب اس صورت میں، ان کے لئے فرشتوں کی یہ دعا، ان کے عمل ہی کا نتیجہ ہے۔ واللہ اعلم غافر
10 اللہ تبارک و تعالیٰ اس فضیحت و رسوائی کا ذکر کرتا ہے جس کا کفار کو سامنا کرنا ہوگا، نیز ان کی دنیا میں دوبارہ بھیجے جانے کی درخواست کے رد ہونے اور ان پر زجر و توبیخ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے : ﴿إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا ﴾ ” بے شک جن لوگوں نے کفر کیا۔“ اللہ تعالیٰ نے اسے مطلق بیان کیا ہے تاکہ یہ کفر کی تمام انواع کو شامل ہو، مثلاً اللہ تعالیٰ، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں اور روز آخرت کا انکار وغیرہ۔ جب یہ لوگ جہنم میں داخل ہوں گے تو اقرار کریں گے کہ وہ اپنے گناہوں کے باعث جہنم کے مستحق ہیں۔ وہ اپنے آپ پر شدید غیظ و غضب کا اظہار کریں گے۔ تب اس وقت ان کو پکار کر کہا جائے گا : ﴿لَمَقْتُ اللّٰـهِ﴾ یعنی تم پر اللہ تعالیٰ کی ناراضی ﴿إِذْ تُدْعَوْنَ إِلَى الْإِيمَانِ فَتَكْفُرُونَ ﴾ یعنی جب تمہیں اللہ تعالیٰ کے رسولوں اور ان کے متبعین نے ایمان کی دعوت دی، تمہارے سامنے دلائل و براہین بیان کئے جن سے حق واضح ہوگیا، مگر تم نے کفر کو اپنائے رکھا اور ایمان سے منہ موڑ لیا، جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے تمہیں تخلیق فرمایا تھا اور تم اللہ تعالیٰ کی وسیع رحمت کے سائے سے نکل گئے تو اللہ تعالیٰ تم پر غصے اور ناراض ہوگیا تو یہ ناراضی ﴿أَكْبَرُ مِن مَّقْتِكُمْ أَنفُسَكُمْ﴾ ” تمہاری اپنی ناراضی سے کہیں زیادہ ہے۔“ یعنی اس کریم ہستی کی یہ ناراضی ہمیشہ تم پر نازل رہی حتیٰ کہ تم اس حالت کو پہنچ گئے۔ آج تم پر اللہ تعالیٰ کا غیظ و غضب اور اس کا عذاب نازل ہوگا جب کہ اہل ایمان اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے ثواب سے سرفراز ہوں گے۔ غافر
11 تب وہ واپس لوٹائے جانے کی تمنا کریں گے اور ﴿قَالُوا رَبَّنَا أَمَتَّنَا اثْنَتَيْنِ﴾ ” کہیں گے اے ہمارے رب تو نے ہمیں دو مرتبہ موت دی۔“ ایک قول کے مطابق اس سے مراد پہلی موت اور دو مرتبہ صور پھونکنے کے درمیان کی موت ہے یا اس سے مراد ان کے وجود میں لائے جانے سے پہلے عدم محض اور وجود میں لائے جانے کے بعد کی موت ہے۔ ﴿وَأَحْيَيْتَنَا اثْنَتَيْنِ ﴾ ” اور دو مرتبہ تو نے ہمیں زندہ کیا۔“ یعنی دنیا کی زندگی اور آخرت کی زندگی ﴿فَاعْتَرَفْنَا بِذُنُوبِنَا فَهَلْ إِلَىٰ خُرُوجٍ مِّن سَبِيلٍ ﴾ ” پس ہمیں اپنے گناہوں کا اقرار ہے تو کیا نکلنے کی کوئی سبیل ہے؟“ یعنی وہ نہایت حسرت سے یہ التجا کریں گے مگر اس کا کوئی فائدہ نہ ہوگا انہیں اسباب نجات اختیار نہ کرنے پر سخت زجر و توبیخ کی جائے گی۔ غافر
12 ان سے کہا جائے گا : ﴿ ذَٰلِكُم بِأَنَّهُ إِذَا دُعِيَ اللّٰـهُ وَحْدَهُ﴾ ” یہ اس سبب سے کہ جب اکیلے اللہ کو پکارا جاتا تھا۔“ جب اللہ تعالیٰ کی توحید، اس کے لئے اخلاص عمل کے لئے بلایا جاتا اور شرک سے روکا جاتا تھا ﴿كَفَرْتُمْ﴾ ” تو تم انکار کرتے تھے۔“ تمہارے دل اس سے ناگواری محسوس کرتے اور تم اس سے سخت نفرت کرتے تھے ﴿وَإِن يُشْرَكْ بِهِ تُؤْمِنُوا ﴾ ” اور اگر اس کے ساتھ شریک ٹھہرایا جاتا تو تم مان لیتے تھے۔“ تمہارے اس رویے نے تمہیں اس منزل پر پہنچایا۔ تم ایمان لانے سے انکار کرتے اور کفر پر ایمان لاتے رہے۔ تم اس طرز عمل پر راضی رہے جو دنیا و آخرت میں فاسد اور شرکا باعث تھا اور اس طرز عمل کو برا سمجھتے رہے جس میں دنیا و آخرت کی بھلائی اور اصلاح تھی۔ تم بدبختی، ذلت اور اللہ تعالیٰ کی ناراضی کے اسباب کو ترجیح دیتے رہے اور فوز و فلاح اور کامیابی کے اسباب سے منہ موڑتے رہے۔ ﴿ وَإِن يَرَوْا سَبِيلَ الرُّشْدِ لَا يَتَّخِذُوهُ سَبِيلًا وَإِن يَرَوْا سَبِيلَ الْغَيِّ يَتَّخِذُوهُ سَبِيلً﴾ (الاعراف :7؍146) ” اور اگر وہ سیدھا راستہ دیکھیں تو اسے اختیار نہ کریں گے اور اگر ان کو گمراہی کا راستہ نظر آجائے تو اس پر چل پڑیں گے۔ “ ﴿فَالْحُكْمُ لِلَّـهِ الْعَلِيِّ الْكَبِيرِ﴾ ” تو )آج( فیصلہ اللہ کے ہاتھ ہے جو عالی مقام )اور سب سے( بڑا ہے۔“ )اَلْعَلِی( سے مراد وہ ہستی ہے جو علو ذات، علو قدر اور علو قہر، یعنی ہر لحاظ سے مطلق بلندی کی مالک ہے۔ اس کے علو قدر میں سے اس کا کمال عدل ہے کہ وہ تمام اشیا کو اپنے اپنے مقام پر رکھتا ہے۔ وہ تقویٰ شعار لوگوں اور فاسق و فاجر لوگوں کو مساوی قرار نہیں دیتا (اَلْکَبِیرُ) جو اپنے اسماء و صفات اور افعال میں کبریا اور عظمت و مجد کا مالک ہے جو ہر آفت، ہر عیب اور ہر نقص سے پاک ہے۔ جب فیصلے کا اختیار صرف اللہ تعالیٰ کو ہے اور تمہارے لئے اللہ تعالیٰ نے جہنم میں دائمی خلود کا فیصلہ کیا ہے تو اس کے فیصلے میں کوئی تغیر و تبدل نہیں ہوسکتا۔ غافر
13 اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر اپنی عظیم نعمتوں کا ذکر کرتا ہے کہ اس نے باطل میں سے حق کو واضح کیا، وہ اپنے بندوں کو آیات نفسیہ، آیات آفاقیہ اور آیات قرآنیہ کا مشاہدہ کراتا ہے جو ہر مطلوب و مقصود پر اس طرح دلالت کرتی ہیں کہ ان میں غور و فکر کرنے والے کے لئے معرفت حقائق میں ادنیٰ سا بھی شک نہیں رہتا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں پر سب سے بڑی نعمت ہے کہ اس نے حق کو مشتبہ رکھا ہے نہ صواب کو مشکوک، بلکہ اللہ تعالیٰ نے دلائل کو متنوع طریقوں سے بیان اور آیات کو واضح کیا تاکہ جو ہلاک ہو وہ دلیل کے ساتھ ہلاک ہو اور جو زندہ رہے وہ دلیل کے ساتھ زندہ رہے۔ مسائل جتنے اہم اور بڑے ہوں گے، ان کے دلائل اتنے ہی زیادہ اور آسان ہوں گے۔ آپ توحید میں غور کیجیے، توحید کا مسئلہ بڑے مسائل میں شمار ہوتا ہے، بلکہ یہ سب سے بڑا مسئلہ ہے، اس لئے اس کے عقلی اور نقلی دلائل بہت زیادہ اور متنوع ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے تمثیلیں بیان کی ہیں اور بہت کثرت سے استدلال کیا ہے۔ غافر
14 اس لئے اس مقام پر توحید کے جملہ دلائل کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ فَادْعُوا اللّٰـهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ﴾ ” پس اللہ کی عبادت کو خالص کر کے اسی کو پکارو۔“ جب اس نے ذکر فرمایا کہ وہ اپنے بندوں کو اپنی نشانیاں دکھاتاہے، تو ایک بڑی نشانی کی طرف اشارہ کیا چنانچہ فرمایا : ﴿وَيُنَزِّلُ لَكُم مِّنَ السَّمَاءِ رِزْقًا﴾ ” اور وہ آسمان سے تمہارے لئے رزق اتارتا ہے۔“ یعنی وہ آسمان سے بارش نازل کرتا ہے، جس سے تمہیں رزق دیا جاتا ہے، جس سے تم اور تمہارے مویشی زندگی بسر کرتے ہیں۔ یہ چیز دلالت کرتی ہے کہ تمام نعمتیں اسی کی طرف سے ہیں۔ دینی نعمتیں بھی اسی کی طرف سے ہیں اس سے مراد دینی مسائل، ان کے دلائل اور ان پر عمل ہے اور دنیاوی نعمتیں بھی اسی کی طرف سے ہیں، مثلاً وہ تمام نعمتیں جو بارش سے وجود میں آتی ہیں، بارش سے زمین اور بندوں کو زندگی عطا ہوتی ہے اور یہ چیز قطعی طور پر دلالت کرتی ہے کہ وہ اکیلا ہی معبود برحق ہے جس کے لئے خالص دین متعین ہے جیسا کہ وہ اکیلا ہی منعم حقیقی ہے ﴿وَمَا يَتَذَكَّرُ﴾ جب اللہ تعالیٰ ان آیات کے ذریعے سے نصیحت کرتا ہے تو اس سے نہیں نصیحت حاصل کرتا ﴿إِلَّا مَن يُنِيبُ﴾ مگر وہی شخص جو اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کی محبت، اس کی خشیت، اس کی اطاعت اور اس کے سامنے عاجزی اور فروتنی اختیار کرتا ہے۔ پس یہی وہ شخص ہے جو آیات الٰہی سے فائدہ اٹھاتا ہے اور یہ آیات اس کے حق میں رحمت بن جاتی ہیں اور ان آیات سے اسی کی بصیرت میں اضافہ ہوتا ہے۔ چونکہ آیات الٰہی کا ثمرہ تذکر ہے اور تذکر اللہ تعالیٰ کے اخلاص کا موجب ہے، اس لئے الخاص کے حکم کو ” فا“ کے ذریعے سے اس پر مرتب فرمایا جو سببیت پر دلالت کرتی ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿ فَادْعُوا اللّٰـهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ ﴾ یہ دعائے عبادت اور دعائے مسئلہ، دونوں کو شامل ہے۔ اخلاص کا معنی ہے تمام عبادات واجبہ و مستحبہ، حقوق اللہ اور حقوق العباد میں قصد کو اللہ تعالیٰ کے لئے خاص کرنا، یعنی وہ تمام امور، جن پر تم دین کے طور پر عمل کرتے ہو اور جن کو تم اللہ تعالیٰ کے تقرب کا ذریعہ بناتے ہو، ان میں اللہ تعالیٰ کے لئے اخلاص سے کام لو۔ ﴿وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ﴾ ” خواہ یہ کفار کے لئے ناگوار ہی کیوں نہ ہو“ اس لئے تم ان میں ان کی پروا نہ کرو۔ یہ چیز تمہیں تمہارے دین سے نہ پھیر دے، کسی ملامت کرنے والے کی ملامت تمہیں اللہ کے راستے سے روک نہ دے کیونکہ کفار اخلاص کو بہت ناپسند کرتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿وَإِذَا ذُكِرَ اللّٰـهُ وَحْدَهُ اشْمَأَزَّتْ قُلُوبُ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ وَإِذَا ذُكِرَ الَّذِينَ مِن دُونِهِ إِذَا هُمْ يَسْتَبْشِرُونَ﴾(الزمر:39؍45) ” جب اکیلے اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان لوگوں کے دل کراہت سے تنگ ہوجاتے ہیں جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور جب اللہ کے سوا خود ساختہ معبودوں کا نام لیا جاتا ہے تو یہ خوش ہوجاتے ہیں۔ “ غافر
15 پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے جلال و کمال کا ذکر فرمایا جو عبادت میں اخلاص کا تقاضا کرتا ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿رَفِيعُ الدَّرَجَاتِ ذُو الْعَرْشِ﴾ ” وہ درجات عالی کا مالک اور صاحب عرش ہے۔“ یعنی وہ بلند اور اعلیٰ ہے جو عرش پر مستوی ہے، عرش اس کے لئے مختص ہے، اس کے درجات بہت بلند ہیں وہ ان کی وجہ سے مخلوقات سے علیحدہ ہے اور ان کے ساتھ اس کا مرتبہ بلند ہے۔ اس کے اوصاف جلیل القدر ہیں اور اس کی ذات اس سے بلند تر ہے کہ اس کا قرب حاصل کیا جائے سوائے پاک اور طاہر و مطہر علم کے ذریعے سے اور وہ ہے اخلاص جو مخلص مومنین کے درجات کو بلند کرتا ہے، اللہ تعالیٰ کے قریب کرتا ہے اور تمام مخلوق پر فوقیت عطا کرتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر رسالت اور وحی کی نعمت کا ذکر کرتا ہے، فرمایا : ﴿يُلْقِي الرُّوحَ﴾ ” وہ نازل کرتا ہے روح۔“ یعنی وحی، جو قلب و روح کے لئے وہی حیثیت رکھتی ہے جو اجساد کے لئے ارواح کی ہے۔ جیسے روح کے بغیر بدن زندہ ہوتا ہے نہ زندہ رہ سکتا ہے اسی طرح روح اور قلب، روح وحی کے بغیر درست رہ سکتے ہیں نہ فلاح سے بہرہ مند ہوسکتے ہیں۔ ﴿يُلْقِي الرُّوحَ مِنْ أَمْرِهِ﴾ ” اپنے حکم سے وحی بھیجتا ہے“ جس میں بندوں کی منفعت اور مصلحت ہے ﴿عَلَىٰ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ ﴾ ” اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے۔“ اس سے اللہ تعالیٰ کے رسول مراد ہیں جنہیں اس نے فضیلت بخشی اور انہیں اپنی وحی اور بندوں کو دعوت دینے کے لئے مختص فرمایا۔ انبیاء و مرسلین مبعوث کرنے کا فائدہ بندوں کے لئے، ان کے دین، دنیا اور آخرت میں سعادت کا حصول اور ان کے دین، دنیا اور آخرت میں بدبختی کو دور کرنا ہے، بنا بریں فرمایا : ﴿ لِيُنذِرَ﴾ تاکہ ان لوگوں کو ڈرائے جن کی طرف وحی بھیجی گئی ہے ﴿ يَوْمَ التَّلَاقِ﴾ ” ملاقات کے دن سے“ یعنی وہ اس کے ذریعے سے اپنے بندوں کو ملاقات کے دن سے ڈرائے اور انہیں ان اسباب کو تیار کرنے کے لئے آمادہ کرے جو ان کو اس صورت حال سے نجات دیتے ہیں جس میں وہ گھرے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس دن کو ( يَوْمَ التَّلَاقِ) کے نام سے موسوم کیا ہے کیونکہ اس دن خلاق اور مخلوق کی ملاقات ہوگی، مخلوق ایک دوسرے سے ملاقات کرے گی اور عمل کرنے والے اپنے اعمال اور ان کی جزا کاسامنا کریں گے۔ غافر
16 ﴿يَوْمَ هُم بَارِزُونَ﴾’’جس روز سب لوگ ظاہر ہوجائیں گے۔“ یعنی جس روز یہ زمین پر ظاہر ہوں گے اور ایک ہی میدان میں جمع ہوں گے، جس میں کوئی نشیب و فراز نہ ہوگا، پکارنے والا ان کو اپنی آواز سنا سکے گا اور نگاہ سب تک پہنچ سکے گی۔ ﴿لَا يَخْفَىٰ عَلَى اللّٰـهِ مِنْهُمْ شَيْءٌ﴾ ” ان کی کوئی بات اللہ سے چھپی نہ رہے گی۔“ یعنی ان کی ذات چھپ سکے گی نہ ان کے اعمال اور نہ ان اعمال کی جزا ہی اللہ تعالیٰ سے چھپی ہوئی ہوگی۔ ﴿لِّمَنِ الْمُلْكُ الْيَوْمَ ﴾ ” آج بادشاہی کس کی ہے؟“ یعنی اس عظیم دن کا کون مالک ہے؟ جس نے اولین و آخرین، آسمانوں اور زمین کی مخلوق کو جمع کیا ہے، آج اقتدار میں خود ساختہ شراکت ختم اور تمام اسباب منقطع ہوگئے اور کچھ باقی نہیں رہا سوائے اچھے برے اعمال کے ﴿لِلَّـهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ﴾ ” اللہ اکیلے کے لئے جو سب پر غالب ہے۔“ یعنی آج اقتدار کی مالک وہ ذات بابرکات ہے جو اپنی ذات، اسماء و صفات اور افعال میں منفرد ہے اور کسی بھی لحاظ سے اس کا کوئی شریک نہیں۔ ﴿الْقَهَّار﴾ تمام مخلوقات پر غالب و قاہر ہے، تمام مخلوقات اس کی مطیع، اس کے سامنے عاجز ہے خاص طور پر اس دن لوگوں کے سر اس حی و قیوم ہستی کے سامنے جھک جائیں گے اور اس روز اس کی اجازت کے بغیر کوئی کلام نہیں کرسکے گا۔ غافر
17 ﴿الْيَوْمَ تُجْزَىٰ كُلُّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ﴾ ” آج ہر نفس کو، جو اس نے کمایا، اس کی جزا دی جائے گی۔“ یعنی اس نے دنیا کے اندر، تھوڑی یا بہت، جو بھی نیکی اور بدی کا اکتساب کیا ہے، آج اس کی جزا دی جائے گی۔ ﴿ لَا ظُلْمَ الْيَوْمَ ﴾ ” آج کسی پر ظلم نہیں ہوگا۔“ آج کسی نفس پر، برائیوں میں اضافہ کر کے یا اس کی نیکیوں میں کمی کر کے، ظلم نہیں کیا جائے گا۔ ﴿إِنَّ اللّٰـهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ﴾ ” بلا شبہ اللہ حساب لینے میں بہت تیز ہے۔“ یعنی اس دن کو دور نہ سمجھو یہ دن ضرور آنے والا ہے اور ہر آنے والی چیز قریب ہی ہوتی ہے، نیز وہ قیامت کے روز اپنے بندوں کا بہت جلد حساب لے گا کیونکہ اس کا علم ہر چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے اور وہ قدرت کا ملہ کا مالک ہے۔ غافر
18 اللہ تعالیٰ اپنے نبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرماتا ہے: ﴿وَأَنذِرْهُمْ يَوْمَ الْآزِفَةِ﴾ ”) اے نبی !( انہیں )قریب( آ پہنچنے والے دن سے ڈرائیے“ یعنی انہیں قیامت کے دن سے ڈرائیے جو بہت قریب ہے، اس کے احوال اور اس کے زلزلوں کے پہنچنے کا وقت ہوگیا ہے ﴿إِذِ الْقُلُوبُ لَدَى الْحَنَاجِرِ﴾ ” جب کہ دل گلوں تک آرہے ہوں گے۔“ یعنی ان کے دل ہوا ہوجائیں گے۔ خوف اور کرب سے دل گلے میں اٹک جائیں گے اور آنکھیں اوپر کی جانب اٹھی کی اٹھی رہ جائیں گی ﴿کَاظِمِينَ﴾ وہ کلام نہیں کرسکیں گے سوائے اس شخص کے، جسے رحمٰن اجازت دے اور وہ درست بات کہے گا۔ وہ دلوں میں چھپے ہوئے خوف اور دہشت کو زبان پر نہیں لائیں گے۔ ﴿مَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ حَمِيمٍ﴾ اور ظالموں کا کوئی قریبی اور ساتھی نہیں ہوگا ﴿ وَلَا شَفِيعٍ يُطَاعُ﴾ ” اور نہ کوئی ایسا سفارشی ہوگا جس کی بات مانی جائے“ کیونکہ اگر سفارشیوں کی سفارش کو فرض کر بھی لیا جائے تب بھی یہ سفارشی شرک کے ذریعے سے اپنے آپ پر ظلم کرنے والوں کی سفارش نہیں کریں گے۔ اگر یہ سفارش کریں بھی تو اللہ تعالیٰ ان کی سفارش پر راضی ہوگا نہ اس کو قبول کرے گا۔ غافر
19 ﴿يَعْلَمُ خَائِنَةَ الْأَعْيُنِ ﴾ ” وہ آنکھوں کی خیانت کو جانتا ہے۔“ یہ وہ نظر ہے جسے بندہ اپنے ہم نشین اور ساتھی سے چھپاتا ہے اور یہ چوری کی نظر ہے۔ ﴿وَمَا تُخْفِي الصُّدُورُ﴾ ” اور ان مخفی باتوں کو بھی جو سینوں نے چھپا رکھی ہیں۔“ یعنی وہ امور جنہیں بندہ دوسروں پر ظاہر نہیں کرتا اللہ تعالیٰ سینوں میں چھپے ہوئے ان بھیدوں کو بھی جانتا ہے۔ ظاہری امور سے آگاہ ہونا تو زیادہ اولیٰ ہے۔ غافر
20 ﴿وَاللَّـهُ يَقْضِي بِالْحَقِّ﴾ ”اور اللہ حق کے ساتھ فیصلہ کرتا ہے“ کیونکہ اس کا قول حق ہے، اس کا حکم شرعی حق ہے اور اس کا حکم جزائی بھی حق ہے۔ اس کا علم محیط ہے، اس نے ہر چیز کو لکھ رکھا ہے اور اس کے پاس ہر چیز محفوظ ہے۔ وہ ظلم، نقص اور تمام عیوب سے پاک ہے۔ وہی ہے جو اپنی قضاء و قدر کے مطابق فیصلہ کرتا ہے، جب وہ کوئی چیز چاہتا ہے تو وہ ہوجاتی ہے، جب نہیں چاہتا تو نہیں ہوتی۔ وہ دنیا میں اپنے مومن اور کافر بندوں کے درمیان فیصلہ کرتا ہے اور فتح و نصرت کے ذریعے سے اپنے اولیا اور محبوب بندوں کی مدد کرتا ہے۔ ﴿وَالَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِهِ ﴾ ” اور جن کو یہ اس )اللہ( کے سوا پکارتے ہیں“ یہ ان تمام ہستیوں کو شامل ہے جن کی اللہ تعالیٰ کے سوا عبادت کی جاتی ہے۔ ﴿ لَا يَقْضُونَ بِشَيْءٍ ﴾ ” وہ کسی چیز کا فیصلہ نہیں کرسکتے۔“ کیونکہ وہ عاجز اور بے بس ہیں ان میں بھلائی کا ارادہ معدوم اور وہ اس کے فعل کی استطاعت سے محروم ہیں۔ ﴿ إِنَّ اللّٰـهَ هُوَ السَّمِيعُ﴾ اللہ تعالیٰ ہی تمام آوازوں کو، اختلاف زبان اور اختلاف حاجات کے باوجود سنتا ہے۔ ﴿الْبَصِيرُ ﴾ ” وہ دیکھنے والا ہے۔“ جو کچھ تھا اور جو کچھ ہے، جو کچھ نظر آتا ہے اور جو کچھ نظر نہیں آتا، جسے بندے جانتے ہیں اور جسے بندے نہیں جانتے، سب اس کی نظر میں ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان دو آیات کریمہ کی ابتدا میں فرمایا تھا: ﴿وَأَنذِرْهُمْ يَوْمَ الْآزِفَةِ﴾ ” ان کو فریب آنے والے دن )قیامت(ڈرائیے۔“ پھر اس کے یہ اوصاف بیان فرمائے جو اس عظیم دن کے لئے تیاری کا تقاضا کرتے ہیں کیونکہ یہ ترغیب و ترہیب پر مشتمل ہیں۔ غافر
21 اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿أَوَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ﴾ ” کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں؟“ یعنی انہوں نے اپنے قلوب و ابدان کے ساتھ، گزشتہ قوموں کے آثار میں غور و فکر کرنے اور ان سے عبرت حاصل کرنے کے لئے چل پھر کر نہیں دیکھا؟ ﴿فَيَنظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ كَانُوا مِن قَبْلِهِمْ﴾ ” تاکہ وہ دیکھتے کہ جو لوگ ان سے پہلے تھے ان کا انجام کیا ہوا؟“ یعنی جو ان سے پہلے انبیاء و رسل کی تکذیب کرنے والے تھے۔ وہ دیکھیں گے کہ ان کا بدترین انجام ہو اور وہ تباہ و برباد کردیئے گئے اور انہیں فضیحت اور رسوائی کاسامنا کرناپڑا، حالانکہ ﴿ كَانُوا ﴾ وہ ان لوگوں سے زیادہ طاقتور تھے، یعنی وہ تعداد، ساز و سامان اور جسمانی طور پر بہت طاقتور تھے۔ ﴿ وَ﴾ ” اور“ بہت زیادہ تھے﴿آثَارًا فِي الْأَرْضِ﴾ ” زمین میں )چھوڑے ہوئے) آثار کے لحاظ سے“ یعنی عمارات اور باغات وغیرہ کے لحاظ سے انہوں نے بہت زبردست آثار زمین میں چھوڑے۔ آثار کی قوت آثار چھوڑنے والے کی قوت اور اس کی شان و شوکت پر دلالت کرتی ہے۔ غافر
22 ﴿فَأَخَذَهُمُ اللّٰـهُ﴾ ” پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں پکڑ لیا“ اپنے عذاب کے ساتھ ﴿بِذُنُوبِهِمْ﴾ ” ان کے گناہوں کی وجہ سے“ جبکہ انہوں نے ان گناہوں پر اصرار کیا اور ان پر جمے رہے ﴿إِنَّهُ قَوِيٌّ شَدِيدُ الْعِقَابِ ﴾ ” بے شک وہ صاحب قوت اور سخت عذاب دینے والا ہے۔“ اللہ تبارک و تعالیٰ کی قوت کے سامنے ان کی قوت کسی کام نہ آئی بلکہ قوم عاد، سب سے طاقتور قوم تھی، جو کہا کرتے تھے ﴿ مَنْ أَشَدُّ مِنَّا قُوَّةً ﴾ (حم السجدۃ:41؍15) ”ہم سے زیادہ طاقتور کون ہے؟‘‘ اللہ تعالیٰ نے ان پر ہوا بھیجی جس نے ان کے قویٰ مضحمل کردیئے اور ان کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے رسولوں کی تکذیب کرنے والوں کے احوال کا نمونہ بیان فرمایا، یعنی فرعون اور اس کے لشکروں کی مثال، چنانچہ فرمایا : غافر
23 ﴿وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا﴾ ” بلا شبہ ہم نے بھیجا“ یعنی ان جیسے مکذبین کی طرف ﴿مُوسَىٰ ﴾ موسیٰ بن عمران علیہ السلام کو ﴿بِآيَاتِنَا ﴾ ” اپنی (بڑی بڑی) نشانیوں کے ساتھ“ جو موسیٰ علیہ السلام کی دعوت کی حقیقت اور مشرکین کے موقف کے بطلان پر قطعی طور پر دلالت کرتی تھیں ۔ ﴿وَسُلْطَانٍ مُّبِينٍ﴾ یعنی ایک واضح حجت کے ساتھ جو دلوں پر مسلط ہو کر ان کو سرنگوں کردیتی ہے، مثلاً سانپ اور عصا اور اس قسم کے دیگر معجزات جن کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کی مدد فرمائی اور ان کے لئے حق کی دعوت کو آسان بنایا۔ غافر
24 اور جن کی طرف بھیجا گیا وہ تھے ﴿فِرْعَوْنَ وَهَامَانَ ﴾ فرعون، اس کا وزیر ہامان ﴿وَقَارُونَ ﴾ ” اور قارون“ قارون موسیٰ علیہ السلام کی قوم سے تعلق رکھتا تھا مگر اس نے اپنے مال و دولت کی وجہ سے اپنی قوم سے بغاوت کی۔ ان سب لوگوں نے نہایت سختی سے آپ کی دعوت کو رد کردیا۔ ﴿فَقَالُوا سَاحِرٌ كَذَّابٌ﴾ ” تو انہوں نے کہا : یہ تو جادو گر ہے جھوٹا۔ “ غافر
25 ﴿فَلَمَّا جَاءَهُم بِالْحَقِّ مِنْ عِندِنَا ﴾ ” پس جب وہ ہماری طرف سے حق لے کر ان کے پاس آئے“ اور اللہ تعالیٰ نے بڑے بڑے معجزات کے ذریعے سے حضرت موسیٰ کی تائید فرمائی جو مکمل اطاعت کے موجب تھے، مگر انہوں نے اطاعت نہ کی۔ انہوں نے مجرد ترک اطاعت اور روگردانی کرتے ہوئے ان کے انکار اور باطل کے ذریعے سے ان کی مخالفت ہی پر اکتفا نہ کیا بلکہ ان کی جرأت کا یہ حال تھا کہ کہنے لگے : ﴿اقْتُلُوا أَبْنَاءَ الَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ وَاسْتَحْيُوا نِسَاءَهُمْ وَمَا كَيْدُ الْكَافِرِينَ ﴾ ” جو اس کے ساتھ ایمان لائے ہیں ان کے بیٹوں کو قتل کردو اور ان کی بیٹیوں کو زندہ رہنے دو اور نہیں ہے کافروں کی چال“ وہ یہ سازش کرنے ہی والے تھے اور وہ سمجھتے تھے کہ اگر وہ ان کے بیٹوں کو قتل کردیں گے تو یہ طاقتور نہیں ہوسکیں گے اور یہ ان کی غلامی میں مطیع بن کر رہیں گے لہٰذا نہ ہوئی ان کی چال ﴿إِلَّا فِي ضَلَالٍ﴾ ” مگر ناکام“ کیونکہ ان کا مقصد پورا نہیں ہوا تھا بلکہ انکے مقاصد کے برعکس نتیجہ حاصل ہوا اور اللہ تعالیٰ نے ان کو ہلاک کردیا اور تباہ و برباد کردیا۔ قاعدہ : اس نکتے پر غور کیجیے جو کتاب اللہ میں کثرت سے پیش آتا ہے، جب آیات کریمہ کا سیاق کسی معین قصے یا معین چیز میں ہو اور اللہ تعالیٰ اس معین قصے پر کوئی حکم لگانا چاہتا ہو تو وہ اس حکم کو اس قصے کے ساتھ مختص کر کے ذکر نہیں فرماتا بلکہ اسے اس کے وصف عام پر معلق کرتا ہے تاکہ یہ حکم عام ہو اور اس میں وہ صورت بھی شامل ہو جس کے لئے کلام لایا گیا ہے اور اس معین قصے کے ساتھ حکم کے اختصاص کی بنا پر پیدا ہونے والا وہم ختم ہوجائے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے (وَمَا کْیدَھُمْ اِلّاَ فِی ضَلَالٍ) نہیں کہا بلکہ فرمایا : ﴿وَمَا كَيْدُ الْكَافِرِينَ إِلَّا فِي ضَلَالٍ﴾ غافر
26 ﴿ وَقَالَ فِرْعَوْنُ ﴾ فرعون نے نہایت تکبر کے ساتھ اور اپنی قوم کے بے وقوفوں کو فریب میں مبتلا کرتے ہوئے کہا : ﴿ ذَرُونِي أَقْتُلْ مُوسَىٰ وَلْيَدْعُ رَبَّهُ ﴾ ” مجھے چھوڑ دو کہ میں موسیٰ کو قتل کر دوں اور اسے چاہئے کہ وہ اپنے رب کو بلا لے۔“ فرعون سمجھتا تھا۔۔۔ اللہ تعالیٰ اس کا برا کرے۔۔۔ اگر اسے اپنی قوم کی دل جوئی مقصود نہ ہوتی تو وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو قتل کرا دیتا اور فرعون یہ بھی سمجھتا تھا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا اپنے رب سے دعا کرنا اسے اپنے ارادے پر عمل کرنے سے باز نہیں رکھ سکتا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس سبب کا ذکر فرمایا جس کی بنا پر فرعون نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو قتل کرنے کا ارادہ کیا تھا اس نے اپنی قوم کی خیر خواہی اور زمین پر ازالہ شر کے لئے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قتل کا ارادہ کیا تھا، چنانچہ اس نے کہا : ﴿ إِنِّي أَخَافُ أَن يُبَدِّلَ دِينَكُمْ ﴾ ”مجھے ڈر ہے کہ کہیں وہ تمہارے دین کو نہ بدل دے۔“ جس پر تم چل رہے ہو ﴿ أَوْ أَن يُظْهِرَ فِي الْأَرْضِ الْفَسَادَ ﴾ ” یا وہ ملک میں فسادد نہ پیدا کردے۔“ یہ بہت ہی تعجب اخیز امر ہے کہ ایک بدترین انسان لوگوں کی خیر خواہی کے لئے ان کو مخلوق میں سے بہترین ہستی کی اتباع سے روکے۔ یہ درحقیقت باطل کو فریب کاری کے خوبصورت پردے میں چھپانا ہے۔ یہ کام صرف وہی عقل سر انجام دے سکتی ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ فَاسْتَخَفَّ قَوْمَهُ فَأَطَاعُوهُ إِنَّهُمْ كَانُوا قَوْمًا فَاسِقِينَ ﴾ (الزخرف :43؍54) ” فرعون نے اپنی قوم کو ہلکا (بے وقوف) جانا اور انہوں نے بھی اس کی اطاعت کی، وہ درحقیقت فاسقوں کا گروہ تھا۔ “ غافر
27 ﴿ وَقَالَ مُوسَىٰ﴾” موسیٰ نے کہا :“ جب فرعون نے یہ بڑ ہانکی، جس کا موجب اس کی سرکشی تھی اور سرکشی پر مبنی یہ بات کہنے میں فرعون نے اپنی قوت و اقتدار سے مدد لی تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے رب سے مدد طلب کرتے ہوئے کہا : ﴿ إِنِّي عُذْتُ بِرَبِّي وَرَبِّكُم ﴾ ” میں اپنے اور تمہارے رب کی پناہ لے چکا ہوں۔“ یعنی میں اس کی ربوبیت کی پناہ مانگتا ہوں، جس کے ذریعے سے میرے رب نے تمام امور کی تدبیر کی ہے ﴿ مِّن كُلِّ مُتَكَبِّرٍ لَّا يُؤْمِنُ بِيَوْمِ الْحِسَابِ ﴾ ” ہر متکبر سے جو حساب کے دن پر ایمان نہیں لاتا۔“ یعنی جس کا تکبر اور یوم حساب پر عدم ایمان، اسے شر اور فساد پر آمادہ کرتا ہے۔ اس عموم میں فرعون اور اس کے ہم صفات دیگر افراد داخل ہیں جیسا کہ قریب ہی گزشتہ سطور میں یہ قاعدہ گزر چکا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اپنے لطف و کرم سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو یوم حساب کے منکر ہر متکبر سے محفوظ و مامون رکھا اور آپ کو ایسے اسباب مہیا فرمائے جن کی بنا پر فرعون اور اس کے درباریوں کا شر آپ کا کچھ نہ بگاڑ سکا۔ ان جملہ اسباب میں سے وہ صاحب ایمان شخص بھی ہے جو آل فرعون سے تعلق رکھتا تھا بلکہ کاروبار مملکت میں شامل تھا۔ لازماً اس کی بات سنی جاتی ہوگی خاص طور پر جب وہ ان سے موافقت کا اظہار کرتا تھا اور اپنے ایمان کو چھپائے ہوئے تھا کیونکہ اس صورت میں عام طور پر وہ اس کی رعایت رکھتے تھے اگر وہ ظاہر میں ان کی موافقت نہ کرتا تو وہ یہ رعایت نہ رکھتے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آپ کے چچا ابو طالب کے ذریعے سے قریش سے محفوظ رکھا۔ ابو طالب ان کے نزدیک ایک بڑا سردار تھا ان کے دین ہی کی موافقت کرتا تھا۔ اگر وہ مسلمان ہوتا تو وہ آپ کی اس طرح حفاظت نہ کرسکتا۔ غافر
28 اس توفیق یافتہ، عقل مند اور دانا مومن نے اپنی قوم کے فعل کی قباحت واضح کرتے ہوئے کہا : ﴿ أَتَقْتُلُونَ رَجُلًا أَن يَقُولَ رَبِّيَ اللّٰـهُ ﴾ ” کیا تم ایسے آدمی کو قتل کرتے ہو جو کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے۔“ یعنی تم اس کے قتل کو کیونکر جائز سمجھتے ہو اس کا گناہ صرف یہی ہے کہ وہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے اور اس کا قول دلائل سے خالی بھی نہیں، اس لئے صاحب ایمان نے کہا : ﴿ وَقَدْ جَاءَكُم بِالْبَيِّنَاتِ مِن رَّبِّكُمْ ﴾ ”اور وہ تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف نشانیاں بھی لے کر آیا ہے“ کیونکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معجزات اتنے مشہور ہوگئے کہ چھوٹے بڑے سب جانتے تھے، اس لئے یہ چیز حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قتل کی موجب نہیں بن سکتی۔ تم نے اسے سے پہلے جب حضرت موسیٰ علیہ السلام تمہارے پاس حق لے کر آئے، اس کا دلیل کے ذریعے سے ابطال کیوں نہیں کیا کہ دلیل کا مقابلہ دلیل سے کیا ہوتا، پھر اس کے بعد غور کرتے کہ آیا اس پر دلیل میں غالب آنے کے بعد، اس کو قتل کرنا جائز ہے یا نہیں؟ اب جبکہ حجت اور دلیل میں وہ تمہیں نیچا دکھا چکا ہے۔ تمہارے درمیان اور اس کے قتل کے جواز کے درمیان بہت فاصلہ حائل ہے جسے طے نہیں کیا جاسکتا، ان سے عقل کی بات کہی جو ہر حال میں ہر عقل مند کو مطمئن کردیتی ہے۔ ﴿ وَإِن يَكُ كَاذِبًا فَعَلَيْهِ كَذِبُهُ وَإِن يَكُ صَادِقًا يُصِبْكُم بَعْضُ الَّذِي يَعِدُكُمْ ﴾ ” اگر وہ جھوٹا ہوگا تو اس کے جھوٹ کا ضرر اسی کو ہوگا اور اگر سچا ہوگا تو اس عذاب کا بعض حصہ تم پر واقع ہو کر رہے گا، جس کا وہ تم سے وعدہ کرتا ہے۔“ یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام کا معاملہ دو امور میں سے کسی ایک پر معلق ہے یا تو وہ اپنے دعوے میں جھوٹے ہیں یا وہ اپنے دعوے میں سچے ہیں۔ اگر وہ اپنے دعوے میں جھوٹے ہیں تو ان کے جھوٹ کا وبال انہی پر ہے اور اس کا ضرر بھی انہی کے ساتھ مختص ہے تمہیں اس سے کوئی ضرر نہیں پہنچے گا کیونکہ تم نے اس دعوے کی تصدیق نہیں کی اور اگر وہ اپنے دعوے میں سچے ہیں اور انہوں نے تمہارے سامنے اپنی صداقت کے دلائل بھی پیش کئے ہیں اور تمہیں وعید بھی سنائی ہے کہ اگر تم نے ان کی دعوت کو قبول نہ کیا تو اللہ تمہیں اس دنیا میں عذاب دے گا اور آخرت میں بھی تمہیں جہنم میں داخل کرے گا، لہٰذا ان کی وعید کے مطابق تم دنیا میں بھی اس عذاب کا ضرور سامنا کرو گے۔ یہ اس صاحب ایمان شخص اور اس کی طرف سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی مدافعت کا نہایت لطیف پیرا یہ ہے کہ اس نے ان لوگوں کو ایسا جواب دیا جو ان کے لئے کسی تشویش کا باعث نہ تھا۔ پس اس نے معاملے کا دار و مدار ان مذکورہ دو حالتوں پر رکھا اور دونوں لحاظ سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا قتل ان کی سفاہت اور جہالت تھی۔ پھر وہ صاحب ایمان شخص اس بارے میں، ایک ایسے معاملے کی طرف منتقل ہوا جو اس سے بہتر اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے حق کے قریب ہونے کو زیادہ واضح کرتا ہے، چنانچہ اس نے کہا : ﴿ إِنَّ اللّٰـهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ كَذَّابٌ ﴾ ” بے شک اللہ اس شخص کو ہدایت نہیں دیتا جو حد سے بڑھا ہوا ہو“ یعنی جو حق کو ترک اور باطل کی طرف متوجہ ہو کر تمام حدیں پھلانگ جاتا ہے۔ ﴿ كَذَّابٌ ﴾ ” جھوٹا ہو۔“ جو حدود سے تجاوز پر مبنی اپنے موقف کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرتا ہے۔ ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ راہ صواب نہیں دکھاتا، نہ اس کے مدلول میں اور نہ اس کی دلیل میں اور نہ اسے راہ راست کی توفیق ہی سے بہرہ مند کرتا ہے۔ تم نے دیکھ لیا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے حق کی طرف دعوت دی ہے اور اللہ تعالیٰ نے ان کی راہنمائی کی اور انہوں نے عقلی دلائل و براہین اور آسمانی معجزات کے ذریعے سے اس حق کو واضح کردیا۔ جسے یہ راستہ مل جائے، ممکن نہیں کہ وہ حد سے تجاوز کرنے والا اور کذاب ہو، یہ اس کے کامل علم و عقل اور اس کی معرفت الٰہی کی دلیل ہے۔ غافر
29 پھر اس صاحب ایمان نے اپنی قوم کی خیر خواہی کرتے ہوئے ان کو آخرت کے عذاب سے ڈرایا اور انہیں ظاہری اقتدار کے دھوکے میں مبتلا ہونے سے روکا، اس نے کہا : ﴿ يَا قَوْمِ لَكُمُ الْمُلْكُ الْيَوْمَ ﴾ ” اے میری قوم ! آج تمہاری بادشاہت ہے،“ یعنی دنیا کے اندر ﴿ ظَاهِرِينَ فِي الْأَرْضِ ﴾ ” تم ہی اپنی سر زمین میں غالب ہو“ تم اپنی رعیت پر غالب ہو اور ان پر جو حکم چاہتے ہونا فذ کرتے ہو۔ فرض کیا تمہیں یہ اقتدار پوری طرح حاصل ہوجاتا ہے، حالانکہ تمہارا یہ اقتدار مکمل نہ ہوگا ﴿ فَمَن يَنصُرُنَا مِن بَأْسِ اللّٰـهِ ﴾ ” تو ہمیں اللہ کے عذاب سے کون بچائے گا۔“ ﴿ إِن جَاءَنَا ﴾ ” اگر وہ (عذاب) ہمارے پاس آجائے۔ “ یہ اس مومن شخص کی طرف سے دعوت کا نہایت حسین اسلوب ہے کیونکہ اس نے معاملے کو اپنے اور ان کے درمیان مشترک رکھا۔ اس کا قول تھا۔ ﴿ فَمَن يَنصُرُنَا ﴾ اور ﴿ إِن جَاءَنَا ﴾ تاکہ ان کو باور کرا سکے کہ وہ ان کا اسی طرح خیر خواہ ہے جس طرح وہ خود اپنی ذات کا خیر خواہ ہے اور ان کے لئے بھی وہی کچھ پسند کرتا ہے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔ ﴿ قَالَ فِرْعَوْنُ ﴾ اس بارے میں فرعون نے اس مرد مومن کی مخالفت اور اپنی قوم کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اتباع سے بچانے کے لئے ان کو فریب میں مبتلا کرتے ہوئے کہا : ﴿ مَا أُرِيكُمْ إِلَّا مَا أَرَىٰ وَمَا أَهْدِيكُمْ إِلَّا سَبِيلَ الرَّشَادِ ﴾ ” وہ اپنے قول : ﴿ مَا أُرِيكُمْ إِلَّا مَا أَرَىٰ﴾ ” میں تمہیں وہی بات سمجھاتا ہوں جو مجھے سوجھی ہے“ میں بالکل سچا ہے مگر اسے کیا بات سوجھی ہے؟ اسے یہ بات سوجھی ہے کہ وہ اپنی قوم کو ہلکا (بے وقوف) سمجھے اور وہ اس کی پیروی کریں تاکہ اس کی ریاست قائم رہے۔ وہ جانتا تھا کہ حق اس کے ساتھ نہیں ہے بلکہ حق حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہے، اسے اس بات کا یقین تھا بایں ہمہ اس نے حق کا انکار کردیا۔ البتہ اس نے اپنے اس قول میں جھوٹ بولا ﴿ وَمَا أَهْدِيكُمْ إِلَّا سَبِيلَ الرَّشَادِ ﴾ ” اور میں تو تمہیں صرف ہدایت کی راہ دکھاتا ہوں۔“ یہ حق کو بدل ڈالنا ہے۔ اگر فرعون نے اپنی قوم کو صرف اتنا سا حکم دیا ہوتا کہ وہ اس کے کفر اور گمراہی میں اس کی اتباع کریں تو یہ برائی کم تر ہوتی، مگر اس نے تو اپنی قوم کو اپنی اتباع کا حکم دیا اور اس پر مستز اد یہ کہ اسے یہ بھی زعم تھا کہ اتباع حق کی اتباع ہے اور حق کی اتباع کو گمراہی خیال کرتا تھا۔ غافر
30 ﴿ وَقَالَ الَّذِي آمَنَ ﴾ ” وہ شخص جو ایمان لایا تھا کہنے لگا“ یعنی اپنی قوم سے مایوس ہوئے بغیر مسلسل دعوت دیتے ہوئے۔۔۔۔۔۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینے والوں کی عادت ہے، وہ لوگوں کو اپنے رب کی طرف دعوت دیتے رہتے ہیں، کوئی روکنے والا انہیں روک سکتا ہے نہ کوئی سرکش انہیں بار بار دعوت دینے سے باز رکھ سکتا ہے۔۔۔۔۔۔ ان سے کہا : ﴿ يَا قَوْمِ إِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُم مِّثْلَ يَوْمِ الْأَحْزَابِ ﴾ ” اے میری قوم ! مجھے تمہاری نسبت خوف ہے کہ تم پر دوسری امتوں کی طرح کے (برے) دن کا عذاب نہ آجائے۔“ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے انبیاء کی تکذیب کی اور اکٹھے ہو کر انبیاء کی مخالفت کی۔ غافر
31 پھر اس نے واضح کرتے ہوئے کہا : ﴿ مِثْلَ دَأْبِ قَوْمِ نُوحٍ وَعَادٍ وَثَمُودَ وَالَّذِينَ مِن بَعْدِهِمْ ﴾ ” قوم نوح، عاد اور ثمود اور جو لوگ ان کے بعد ہوئے ہیں ان کے حال کی طرح۔“ یعنی جیسا کہ کفر اور تکذیب میں ان قوموں کی عادت تھی اور ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا طریقہ یہ تھا کہ آخرت کے عذاب سے پہلے دنیا ہی میں ان پر عذاب نازل کیا۔ ﴿ وَمَا اللّٰـهُ يُرِيدُ ظُلْمًا لِّلْعِبَادِ ﴾ ” اور اللہ تعالیٰ بندوں پر ظلم نہیں چاہتا“ کہ ان کو کسی گناہ اور جرم کے بغیر عذاب دے دے۔ غافر
32 اس نے ان کو دنیاوی عذاب سے ڈرنے کے بعد اخروی عقوبت سے ڈراتے ہوئے کہا : ﴿ وَيَا قَوْمِ إِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ يَوْمَ التَّنَادِ ﴾ ” اے میری قوم ! مجھے تمہاری نسبت پکار (قیامت) کے دن کا خوف ہے۔“ یعنی قیامت کے دن کا جب اہل جنت اہل جہنم کو پکاریں گے: ﴿ أَن قَدْ وَجَدْنَا مَا وَعَدَنَا رَبُّنَا حَقًّا فَهَلْ وَجَدتُّم مَّا وَعَدَ رَبُّكُمْ حَقًّا قَالُوا نَعَمْ فَأَذَّنَ مُؤَذِّنٌ بَيْنَهُمْ أَن لَّعْنَةُ اللّٰـهِ عَلَى الظَّالِمِينَ الَّذِينَ يَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللّٰـهِ وَيَبْغُونَهَا عِوَجًا وَهُم بِالْآخِرَةِ كَافِرُونَ ﴾(الاعراف:7؍44) ” ہم نے تو ان وعدوں کو سچاپایا جو ہم سے ہمارے رب نے کئے تھے، کیا تم سے تمہارے رب نے جو وعدے کئے تھے تم نے بھی انہیں سچاپایا؟ وہ کہیں گے ہاں ! پھر ان کے درمیان ایک پکارنے والا پکارے گا کہ ظالموں پر اللہ کی لعنت ہو جو لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکتے اور اس میں جی پیدا کرنا چاہتے تھے اور وہ آخرت کے (بھی) منکر تھے۔“ اور اہل جہنم اہل جنت کو پکاریں گے : ﴿ وَنَادَىٰ أَصْحَابُ النَّارِ أَصْحَابَ الْجَنَّةِ أَنْ أَفِيضُوا عَلَيْنَا مِنَ الْمَاءِ أَوْ مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّٰـهُ قَالُوا إِنَّ اللّٰـهَ حَرَّمَهُمَا عَلَى الْكَافِرِينَ ﴾(الاعراف:7؍50) ” اور جہنمی اہل جنت کو پکاریں گے کہ تھوڑا سا پانی ہماری طرف بھی بہا دو، یا اس رزق میں سے ہمیں بھی کچھ دے دو، جو اللہ تعالیٰ نے تمہیں عطا کیا ہے۔ اہل جنت جواب دیں گے کہ اللہ نے یہ دونوں چیزیں کافروں پر حرام کردی ہیں۔“ اور جب اہل جہنم، داروغہ جہنم (مالک) کو پکاریں گے تو وہ انہیں جواب دے گا : ﴿ إِنَّكُم مَّاكِثُونَ﴾ (الزخرف:43؍77) ” تم جہنم میں رہو گے۔“ اور جب اہل جہنم اپنے رب کو پکاریں گے : ﴿ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْهَا فَإِنْ عُدْنَا فَإِنَّا ظَالِمُونَ﴾(المؤمنون:23؍107) ” اے ہمارے رب ! ہمیں اس جہنم سے نکال اگر ہم دوبارہ نافرمانی کریں تو بے شک ہم ظالم ہیں۔“ اللہ تعالیٰ انہیں جواب دے گا : ﴿اخْسَئُوا فِيهَا وَلَا تُكَلِّمُونِ﴾(المؤمنون:23؍107) ” دفع ہوجاؤ اور پڑے رہو اسی جہنم میں اور میرے ساتھ بات نہ کرو۔“ اور جب مشرکین سے کہا جائے گا: ﴿ ادْعُوا شُرَكَاءَكُمْ فَدَعَوْهُمْ فَلَمْ يَسْتَجِيبُوا لَهُمْ ﴾(القصص:28؍64) ”اپنے خود ساختہ شریکوں کو پکارو ! وہ انہیں پکاریں گے، مگر وہ ان کو کوئی جواب نہ دیں گے۔ “ غافر
33 پس اس مرد مومن نے ان کو اس ہولناک دن سے ڈرایا اور اسے اس پر بڑی تکلیف ہوئی کہ وہ اس کے باوجود اپنے شرک پر جمع ہوئے ہیں، بنا بریں اس نے کہا : ﴿يَوْمَ تُوَلُّونَ مُدْبِرِينَ﴾ ” جس دن تم پیٹھ پھیر کر بھاگے بھاگے پھرو گے“ یعنی جب تمہیں جہنم کی طرف لے جایا جائے گا ﴿مَا لَكُم مِّنَ اللّٰـهِ مِنْ عَاصِمٍ﴾ ” تو تمہیں اللہ کے سوا کوئی بچانے والا نہ ہوگا۔“ یعنی تم خود اپنی طاقت سے اللہ تعالیٰ کے عذاب کو دور کرسکو گے نہ اللہ کے سوا کوئی تمہاری مدد کر سکے گا۔ ﴿يَوْمَ تُبْلَى السَّرَائِرُ فَمَا لَهُ مِن قُوَّةٍ وَلَا نَاصِرٍ ﴾(الطارق:86؍9۔10) ” اور جسے اللہ گمراہ کر دے اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں“ ﴿وَمَن يُضْلِلِ اللّٰـهُ فَمَا لَهُ مِنْ هَادٍ﴾” اور جسے اللہ گمراہ کر دے اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں“ کیونکہ ہدایت صرف اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ جب اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے بارے میں یہ جانتے ہوئے کہ وہ اپنی خباثت کی وجہ سے ہدایت کے لائق نہیں، ہدایت سے محروم کر دے، تو اس کے لئے ہدایت کا کوئی راستہ نہیں۔ غافر
34 ﴿وَلَقَدْ جَاءَكُمْ يُوسُفُ مِنْ قَبْلُ﴾ ” اور یوسف (علیہ السلام) بھی تمہارے پاس آئے۔“یعنی یوسف بن یعقوب ﴿مِن قَبْلُ﴾ یعنی موسیٰ علیہ السلام کی تشریف آوری سے پہلے یوسف علیہ السلام اپنی صداقت پر واضح دلائل لے کر آئے اور تمہیں اپنے اکیلے رب کی عبادت کرنے کا حکم دیا ﴿فَمَا زِلْتُمْ فِي شَكٍّ مِّمَّا جَاءَكُم بِهِ﴾ ” تو وہ جو لائے تھے اس کے بارے میں تم ہمیشہ شک میں رہے۔“ یعنی حضرت یوسف علیہ السلام کی زندگی میں ﴿حَتَّىٰ إِذَا هَلَكَ﴾ ” حتیٰ کہ جب وہ فوت ہوگئے۔“ تو تمہارے شک اور شرک میں مزید اضافہ ہوگیا اور ﴿قُلْتُمْ لَن يَبْعَثَ اللّٰـهُ مِن بَعْدِهِ رَسُولًا﴾ ” تم نے کہا کہ اس کے بعد اللہ کوئی پیغمبر نہیں بھیجے گا۔“ یعنی اللہ تعالیٰ کے بارے میں تمہارا گمان باطل تھا اور تمہارا اندازہ قطعاً اس کی شان کے لائق نہ تھا کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو بے کار نہیں چھوڑتا کہ ان کو نیکی کا حکم دے نہ برائی سے منع کرے، بلکہ ان کی طرف اپنے رسول مبعوث کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے بارے میں یہ گمان کرنا کہ وہ رسول مبعوث نہیں کرتا گمراہی پر مبنی نظریہ ہے، اس لئے فرمایا : ﴿كَذٰلِكَ يُضِلُّ اللّٰـهُ مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ مُّرْتَابٌ﴾ ” اسی طرح اللہ اس شخص کو گمراہ کردیتا ہے جو حد سے نکل جانے والا اور شک کرنے والا ہو۔“ یہ ہے ان کا وہ حقیقی وصف جس سے انہوں نے محض ظلم اور تکبر کی بنا پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو موصوف کیا۔ وہ حق سے تجاوز کر کے گمراہی میں مبتلا ہونے کے باعث حد سے گزرے ہوئے اور انتہائی جھوٹے لوگ تھے کیونکہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی طرف جھوٹ منسوب کیا اور اس کے رسول کو جھٹلایا، چنانچہ جھوٹ اور حد سے تجاوز کرنا جس کا وصف لاینفک ہو اللہ تعالیٰ اسے ہدایت سے نوازتا ہے نہ بھلائی کی توفیق سے بہرہ مند کرتا ہے کیونکہ جب حق اس کے پاس پہنچا تو اس نے حق کو پہچان لینے کے بعد بھی ٹھکرا دیا۔ پس اس کی جزا یہ ہے کہ اللہ اس سے ہدایت روک لیتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿ فَلَمَّا زَاغُوا أَزَاغَ اللّٰـهُ قُلُوبَهُمْ﴾(الصف:61؍5) ” جب ان لوگوں نے کج روی اختیار کی تو اللہ نے ان کے دلوں کو ٹیڑھا کردیا۔“ نیز فرمایا : ﴿وَنُقَلِّبُ أَفْئِدَتَهُمْ وَأَبْصَارَهُمْ كَمَا لَمْ يُؤْمِنُوا بِهِ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَنَذَرُهُمْ فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ﴾(الانعام:6؍110) ” ہم ان کے دل ونگاہ کو اسی طرح پھیر دیتے ہیں جس طرح وہ پہلی مرتبہ اس پر ایمان نہیں لائے تھے اور ہم ان کو ان کی سرکشی میں سرگرداں چھوڑ دیتے ہیں۔“ اور فرمایا : ﴿وَاللَّـهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ﴾ ” اور اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ “ غافر
35 پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے حد سے گزرنے والے شکی شخص کا وصف بیان کرتے ہوئے فرمایا : ﴿الَّذِينَ يُجَادِلُونَ فِي آيَاتِ اللّٰـهِ﴾ ” جو لوگ اللہ کی آیات میں جھگڑتے ہیں“ جن آیات کی وجہ سے حق اور باطل میں امتیاز ہوا اور ظاہر و باہر ہونے کی بنا پر ایسے تھیں جیسے نگاہ کے لئے سورج۔ وہ ان آیات کے روشن اور واضح ہونے کے باوجود ان کے بارے میں جھگڑتے ہیں تاکہ ان کا ابطال کرسکیں۔ ﴿بِغَيْرِ سُلْطَانٍ أَتَاهُمْ﴾ ” بغیر اس کے کہ ان کے پاس کوئی سند (دلیل) آئی ہو۔“ یعنی بغیر کسی حجت و برہان کے۔ یہ ہر اس شخص کا وصف لازم ہے جو اللہ تعالیٰ کی آیات کے بارے میں جھگڑتا ہے کیونکہ دلیل کے ساتھ جھگڑنا ممکن نہیں کوئی چیز حق کا سامنا نہیں کرسکتی اور یہ ممکن نہیں کہ وہ دلیل شرعی یا دلیل عقلی حق کے معارض ہو۔ ﴿ كَبُرَ ﴾ یہ قول بڑی ناراضی والا ہے جو باطل کے ذریعے سے حق کو ٹھکرانے کو متضمن ہے ﴿مَقْتًا عِندَ اللّٰـهِ وَعِندَ الَّذِينَ آمَنُوا﴾ ”(سخت) ناپسندیدہ ہے یہ رویہ اللہ کے نزدیک اور ایمان والوں کے نزدیک“ اللہ تعالیٰ ایسی بات کہنے والے پر سخت ناراض ہوتے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کے خاص بندے ہیں اس لئے ان کی ناراضی اس شخص کی قباحت اور برائی کی دلیل ہے جس پر یہ ناراض ہوں۔ ﴿كَذٰلِكَ﴾ یعنی اس طرح جیسے آل فرعون کے دلوں پر مہر لگا دی گئی ﴿يَطْبَعُ اللّٰـهُ عَلَىٰ كُلِّ قَلْبِ مُتَكَبِّرٍ جَبَّارٍ﴾ ” اللہ ہر متکبر سرکش کے دل پر مہر لگا دیتا ہے“ جو حق کو ٹھکرا کر اپنے رویے میں تکبر کا اظہار کرتا ہے، اور اللہ کی مخلوق کے ساتھ حقارت سے پیش آ کر تکبر کا مظاہرہ کرتا ہے اور اپنے ظلم اور تعدی کی کثرت کی بنا پر جابروں کے زمرے میں شمار ہوتا ہے۔ غافر
36 ﴿قَالَ فِرْعَوْنُ﴾ فرعون نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی مخالفت اور آپ کی اللہ رب العالمین، جو عرش پر مستوی اور مخلوق سے بلند ہے، کے اقرار کی طرف دعوت کی تکذیب کرتے ہوئے کہا : ﴿يَا هَامَانُ ابْنِ لِي صَرْحًا ﴾ ” اے ہامان ! میرے لئے ایک بلند عمارت تعمیر کراؤ“ یعنی ایک بہت عظیم الشان اور بہت بلند عمارت بناؤ کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ میں دیکھ لوں۔ غافر
37 ﴿إِلَىٰ إِلَـٰهِ مُوسَىٰ وَإِنِّي لَأَظُنُّهُ كَاذِبًا﴾ ” موسیٰ کے معبود کو اور میں تو اسے جھوٹا سمجھتا ہوں۔“ میں موسیٰ کو اس کے اس دعوت میں جھوٹا سمجھتا ہوں کہ ہمارا کوئی رب ہے اور وہ آسمانوں کے اوپر ہے مگر وہ چاہتا تھا کہ فرعون احتیاط سے کام لے کر معاملے کی خود خبر لے اللہ تعالیٰ نے اس سبب کا ذکر کرتے ہوئے، جس نے فرعون کو ایسا کرنے پر آمادہ کیا تھا فرمایا : ﴿وَكَذٰلِكَ زُيِّنَ لِفِرْعَوْنَ سُوءُ عَمَلِهِ﴾ ” اور اسی طرح فرعون کے لئے اس کا برا عمل مزین کردیا گیا۔“ شیطان اس کی بد اعمالی کو سجاتا رہا، اس برے عمل کی طرف اسے دعوت دیتا رہا۔ اس عمل کو خوبصورت اور نیک عمل بنا کر اس کے سامنے پیش کرتا رہا حتیٰ کہ وہ اسے اچھا عمل سمجھنے لگا اور اس نے لوگوں کو اس کی طرف دعوت دی اور اپنے اس عمل کے بارے میں اس طرح مناظرہ کرنے لگا جس طرح حق پرست مناظرہ کرتے ہیں، حالانکہ وہ سب سے بڑا مفسد تھا۔ ﴿وَصُدَّ عَنِ السَّبِيلِ﴾ ” اور راہ راست سے روک دیا گیا“ اس باطل کے سبب سے، جو اس کے سامنے مزین کیا گیا تھا، راہ حق سے روکا گیا۔ ﴿وَمَا كَيْدُ فِرْعَوْنَ﴾ ” اور نہیں تھا مکر فرعون کا“ جس کے ذریعے سے اس نے حق کے خلاف سازش کی اور اس کے ذریعے سے لوگوں پر ظاہر کیا کہ اس کا موقف حق اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کا موقف باطل ہے۔ ﴿إِلَّا فِي تَبَابٍ﴾ ” مگر تباہی کا۔“ یعنی خسارے اور ہلاکت کا شکار ہوگا اور یہ سازش فرعون کو دنیا و آخرت میں بدبختی کے سوا کچھ فائدہ نہ دے گی۔ غافر
38 ﴿وَقَالَ الَّذِي آمَنَ﴾ اس صاحب ایمان نے اپنی قوم کو دوبارہ نصیحت کرتے ہوئے کہا : ﴿يَا قَوْمِ اتَّبِعُونِ أَهْدِكُمْ سَبِيلَ الرَّشَادِ﴾ ” اے میری قوم ! میری اتباع کرو، میں تمہیں بھلائی کا راستہ دکھاؤں گا۔“ ہدایت کا راستہ وہ نہیں جو فرعون کہتا ہے کیونکہ وہ صرف گمراہی اور فساد کی راہ دکھاتا ہے۔ غافر
39 ﴿يَا قَوْمِ إِنَّمَا هَـٰذِهِ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا مَتَاعٌ﴾ ” اے میری قوم ! یہ دنیا کی زندگی تو بس چند یوم کا فائدہ ہے۔“ دنیا کی زندگی ایک متاع ہے جس کی نعمتوں سے بہت کم فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے، پھر یہ متاع مضمحل ہو کر منقطع ہوجائے گی، اس لئے یہ متاع دنیا تمہیں ان مقاصد کے بارے میں دھوکے اور فریب میں نہ ڈال دے جن کے لئے تمہیں پیدا کیا گیا ہے۔ ﴿وَإِنَّ الْآخِرَةَ هِيَ دَارُ الْقَرَارِ﴾ ” اور ہمیشہ رہنے کا گھر تو آخرت ہی ہے۔“ جو اقامت گاہ اور سکون و استقرار کا گھر ہے تمہیں چاہئے کہ تم آخرت کو ترجیح دو اور ایسے عمل کرو جو تمہیں آخرت میں سعادت سے ہم کنار کریں۔ غافر
40 ﴿مَنْ عَمِلَ سَيِّئَةً ﴾ ” جو شخص برائے کرے گا“ جس نے شرک، فسق یا معصیت کا ارتکاب کیا ﴿فَلَا يُجْزَىٰ إِلَّا مِثْلَهَا﴾ ” اسے ویسا ہی بدلہ ملے گا۔“ یعنی اللہ تعالیٰ اسے صرف اسی کی سزا دے گا جو اس نے برائی کی ہے اور اسی قدر اس کو عذاب دے گا جس قدر اس نے برائی کی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں برائی کا بدلہ برائی ہے۔ ﴿ وَمَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ﴾ ” اور جو نیک کام کرے گا مرد ہو یا عورت“ یعنی اعمال قلوب، اعمال جوارح اور اقوال لاسن میں سے ﴿وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَـٰئِكَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ يُرْزَقُونَ فِيهَا بِغَيْرِ حِسَابٍ ﴾ ” اور وہ مومن ہو، تو ایسے لوگ بہشت میں داخل ہوں گے، وہاں انہیں بے حساب رزق دیا جائے گا۔“ یعنی ان کو بلا حد و حساب اجر عطا کیا جائے گا، بلکہ اللہ تعالیٰ انہیں اتنا اجر عطا کرے گا کہ ان کے اعمال وہاں تک پہنچ ہی نہیں سکتے۔ غافر
41 اس مرد مومن نے کہا : ﴿وَيَا قَوْمِ مَا لِي أَدْعُوكُمْ إِلَى النَّجَاةِ ﴾“” اور اے میری قوم ! میرا کیا حال ہے کہ میں تو تمہیں نجات کی طرف بلاتا ہوں۔“ یعنی اس بات کے ذریعے سے جو میں نے تم سے کہی ہے۔ ﴿وَتَدْعُونَنِي إِلَى النَّارِ ﴾ اور تم اللہ کے نبی موسیٰ علیہ السلام کی اتباع ترک کر کے مجھے آگ کی طرف بلا رہے ہو۔ ﴿ وَتَدْعُونَنِي إِلَى النَّارِ ﴾ اور تم اللہ کے نبی موسیٰ کی اتباع ترک کر کے مجھے آگ کی طرف بلا رہے ہو۔ غافر
42 پھر اس کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا : ﴿تَدْعُونَنِي لِأَكْفُرَ بِاللَّـهِ وَأُشْرِكَ بِهِ مَا لَيْسَ لِي بِهِ عِلْمٌ﴾ ” تم مجھے اس بات کی دعوت دیتے ہو کہ میں اللہ کے ساتھ کفر کروں اور اس کے ساتھ اس کو شریک کروں جس کی میرے پاس کوئی دلیل نہیں۔“ یعنی جس کے بارے میں مجھے علم نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے سوا عبادت کا مستحق ہے اور اللہ تعالیٰ کے بارے میں بلا علم بات کہنا سب سے بڑا اور انتہائی گھناؤنا گناہ ہے۔ ﴿وَأَنَا أَدْعُوكُمْ إِلَى الْعَزِيزِ﴾ ” جبکہ میں تمہیں غالب (اللہ) کی طرف بلاتا ہوں“ جو تمام طاقت کا مالک ہے اور غیر اللہ اور غیر اللہ کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں۔ ﴿الْغَفَّارِ﴾ ” بہت زیادہ بخشنے والا ہے“ جب بندے اپنی جانوں پر زیادتی کر کے اللہ تعالیٰ کی ناراضی مول لینے کی جرأت کرتے ہیں پھر وہ توبہ کر کے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کی برائیوں اور گناہوں کو مٹا ڈالتا ہے اور اس کے نتیجے میں ملنے والی دنیاوی اور آخروی سزا کو ہٹا دیتا ہے۔ غافر
43 ﴿لَا جَرَمَ ﴾ یقیناً ﴿أَنَّمَا تَدْعُونَنِي إِلَيْهِ لَيْسَ لَهُ دَعْوَةٌ فِي الدُّنْيَا وَلَا فِي الْآخِرَةِ﴾ ” جس کی طرف تم مجھے بلاتے ہو اس کے لئے نہ دنیا میں کوئی دعوت (پکارا جانا) ہے اور نہ آخرت میں‘‘ یعنی جس ہستی کی طرف تم مجھے دعوت دے رہے ہو وہ اس کی مستحق نہیں کہ اس کی طرف دعوت دی جائے یا دنیا آ خرت میں اس کی پناہ لینے کی ترغیب دی جائے کیونکہ وہ عاجز و ناقص ہستی ہے، جو کسی کو نفع و نقصان پہنچائے، زندگی اور موت اور مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کرنے پر قادر نہیں۔ ﴿وَأَنَّ مَرَدَّنَا إِلَى اللّٰـهِ﴾ ” اور ہمیں اللہ کی طرف لوٹنا ہے“ اور وہ ہر عمل کرنے والے کو اس کے عمل کی جزا دے گا۔ ﴿ وَأَنَّ الْمُسْرِفِينَ هُمْ أَصْحَابُ النَّارِ﴾ ” اور بے شک زیادتی کرنے والے جہنمی ہیں۔“ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کے حضور کفر اور معاصی کے ارتکاب کی جاسرت کر کے اپنے آپ پر زیادتی کی۔ غافر
44 جب اس شخص نے ان کی خیر خواہی کی اور ان کو برے انجام سے ڈرایا اور انہوں نے اس کی اطاعت کی نہ اس کی بات مانی، تو اس نے ان سے کہا : ﴿فَسَتَذْكُرُونَ مَا أَقُولُ لَكُمْ﴾ ” جو کچھ میں تمہیں کہہ رہا ہوں عنقریب تم اسے یاد کرو گے۔“ یعنی تم میری اس خیر خواہی کو یاد کرو گے اور اس خیر خواہی کو قبول نہ کرنے کا انجام خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لو گے جب تم پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہوگا اور تم اللہ تعالیٰ کے بے پایاں ثواب سے محروم کردیئے جاؤ گے۔ ﴿وَأُفَوِّضُ أَمْرِي إِلَى اللّٰـهِ﴾ ” اور میں تو اپنا معاملہ اللہ ہی کے سپرد کرتا ہوں۔“ یعنی میں اللہ کی پناہ لیتا ہوں اور اپنے تمام امور اسی پر چھوڑتا ہوں۔ میں اپنے مصالح میں اور اس ضرر کو دور کرنے میں، جو تمہاری طرف سے یا کسی اور کی طرف سے لاحق ہوسکتا ہے، اللہ پر بھروسا کرتا ہوں۔ ﴿ إِنَّ اللّٰـهَ بَصِيرٌ بِالْعِبَادِ ﴾ ” یقیناً اللہ اپنے بندوں کو دیکھنے والا ہے۔“ وہ ان کے تمام احوال کو اور جس چیز کے وہ مستحق ہیں خوب جانتا ہے۔ وہ میرے حال اور میری کمزوری کو بھی جانتا ہے۔ وہ تم سے میری حفاظت کرے گا اور تمہارے شر کے مقابلے میں میرے لئے کافی ہوگا۔ تم اس کے ارادے اور اس کی مشیت کے بغیر کوئی تصرف نہیں کرسکتے۔ اگر وہ تمہیں مجھ پر مسلط کر دے تو اس میں بھی اس کی کوئی حکمت ہوگی اور یہ بھی اس کے ارادے اور مشیت سے صادر ہوگا۔ غافر
45 ﴿فَوَقَاهُ اللّٰـهُ سَيِّئَاتِ مَا مَكَرُوا ﴾ ” پس اللہ نے اسے ان کی تدبیروں کے شر سے محفوظ رکھ لیا۔“ قوت والے اللہ نے اس توفیق یافتہ مرد مومن کو فرعون اور آل فرعون کی سازشوں سے بچا لیا جو انہوں نے اس کو ہلاک کرنے کے لئے کی تھیں کیونکہ اس نے ان کے سامنے ایسے امور کا اظہار کیا تھا جو انہیں ناپسند تھے، ان کے سامنے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ پوری موافقت کا اظہار کیا اور ان کے سامنے وہی دعوت پیش کی جو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پیش کی تھی۔ یہ ایک ایسا معاملہ تھا جسے وہ برداشت نہیں کرسکتے تھے اس وقت طاقت اور اقتدار ان کے پاس تھا اور اس نے ان کو سخت غضب ناک کردیا تھا، چنانچہ انہوں نے اس کو ہلاک کرنے کا منصوبہ بنایا مگر اللہ تعالیٰ نے اس کو ان کے مکرو فریب سے محفوظ رکھا، ان کی سازشیں اور منصوبے انہی پر الٹ گئے۔ ﴿وَحَاقَ بِآلِ فِرْعَوْنَ سُوءُ الْعَذَابِ ﴾ ” اور آل فرعون کو برے عذاب نے آ گھیرا۔“ اللہ تعالیٰ نے ایک ہی عذاب میں ان کے آخری شخص تک کو سمندر میں غرق کردیا۔ غافر
46 اور برزخ میں ﴿النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَعَشِيًّا وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ﴾ ” وہ صبح و شام آگ کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں اور جس روز قیامت برپا ہوگی (تو کہا جائے گا) آل فرعون کو سخت عذاب میں داخل کر دو۔“ یہ وہ سزائیں ہیں جواللہ کے رسولوں کوجھٹلانے اوراس کےاحکام سے عناد رکھنے والوں کو دی جائیں گی۔ غافر
47 اللہ تبارک و تعالیٰ اہل جہنم کے جھگڑنے، ایک دوسرے پر عتاب کرنے اور جہنم کے داروغے سے مدد مانگنے اور اس کے بے فائدہ ہونے کے بارے میں آگاہ کرتا ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿وَإِذْ يَتَحَاجُّونَ فِي النَّارِ﴾ ” اور جب وہ دو زخ میں باہم جھگڑیں گے۔“ یعنی پیروکار یہ حجت پیش کریں گے کہ ان کے قائدین نے ان کو گمراہ کیا اور قائدین اپنے پیروں کاروں سے بیزاری اور برأت کا اظہار کریں گے۔ ﴿فَيَقُولُ الضُّعَفَاءُ﴾ ” پس کمزور کہیں گے“ یعنی پیروکار کار ﴿لِلَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا ﴾ ان قائدین سے جنہوں نے حق کے خلاف تکبر کیا اور جنہوں نے ان کو اس موقف کی طرف بلایا جو ان کے تکبر کا باعث تھا۔ ﴿إِنَّا كُنَّا لَكُمْ تَبَعًا﴾ ” ہم تمہارے تابع تھے۔“ تم نے ہم کو گمراہ کیا اور ہمارے سامنے شرک اور شر کو مزین کیا ﴿فَهَلْ أَنتُم مُّغْنُونَ عَنَّا نَصِيبًا مِّنَ النَّارِ ﴾ ” تو کیا تم دوزخ کے عذاب کا کچھ حصہ ہم سے دور کرسکتے ہو؟“ خواہ وہ کتنا ہی قلیل ہو۔ غافر
48 ﴿قَالَ الَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا ﴾ ” بڑے آدمی کہیں گے۔“ یعنی اپنی بے بسی اور سب پر حکم الٰہی کے نفاذ کا ذکر کرتے ہوئے کہیں گے : ﴿إِنَّا كُلٌّ فِيهَا إِنَّ اللّٰـهَ قَدْ حَكَمَ بَيْنَ الْعِبَادِ ﴾ ” ہم سب اس (دوزخ) میں ہیں، بے شک اللہ بندوں کے درمیان فیصلہ کرچکا۔“ یعنی ہر ایک کے لئے عذاب کا ایک حصہ ہے جس میں اضافہ یا کمی نہیں ہوگی اور حکیم نے جو فیصلہ کیا ہے اس میں کوئی تغیر و تبدل نہیں ہوگا۔ غافر
49 ﴿ وَقَالَ الَّذِينَ فِي النَّارِ﴾ ” اور جو لوگ آگ میں ہوں گے وہ کہیں گے۔“ یعنی وہ تکبر کرنے والے اور کمزور لوگ جو آگ میں ڈالے گئے تھے ﴿لِخَزَنَةِ جَهَنَّمَ ادْعُوا رَبَّكُمْ يُخَفِّفْ عَنَّا يَوْمًا مِّنَ الْعَذَابِ ﴾ ” راحت حاصل ہو۔ غافر
50 ﴿قَالُوا ﴾ تو جہنم کے داروغے ان کو زجر و توبیخ کرتے ہوئے اور ان پر واضح کرتے ہوئے کہ سفارش اور چیخ و پکار ان کو کوئی فائدہ نہ دے گی یہ کہیں : ﴿ أَوَلَمْ تَكُ تَأْتِيكُمْ رُسُلُكُم بِالْبَيِّنَاتِ﴾ ” کیا تمہارے پاس تمہارے رسول نشانیاں لے کر نہیں آئے تھے؟“ جن دلائل سے تم پر حق اور صراط مستقیم واضح ہوتا اور تمہیں یہ معلوم ہوتا کہ کون سی چیز تمہیں اللہ کے قریب کرتی ہے اور کون سی چیز اللہ سے دور کرتی ہے۔ ﴿ قَالُوا بَلَىٰ ﴾ ” وہ کہیں گے : کیوں نہیں !“ اللہ تعالیٰ کے رسول دلائل و معجزات کے ساتھ ہماری طرف معبوث ہوئے اور ہم پر اللہ تعالیٰ کی حجت قائم ہوگئی مگر ہم نے اپنے آپ پر ظلم کیا اور حق کے واضح ہوجانے کے بعد بھی اس سے عناد رکھا۔ ﴿قَالُوا ﴾ جہنم کے داروغے جہنمیوں سے، ان کی پکار اور سفارش سے بیزار ہو کر کہیں گے : ﴿فَادْعُوا ﴾ تم اللہ کو پکارو، مگر کیا یہ پکار تمہیں کوئی فائدہ دے گی؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : ﴿وَمَا دُعَاءُ الْكَافِرِينَ إِلَّا فِي ضَلَالٍ﴾ یعنی ان کی دعا اور پکار ا کارت جائے گی کیونکہ کفر تمام اعمال کو ساقط کردیتا ہے اور دعا کی قبولیت کی راہ میں حائل ہوجاتا ہے۔ غافر
51 جب اللہ تعالیٰ نے آل فرعون کے لئے دنیا، برزخ اور قیامت کے روز کے عذاب کا ذکر فرمایا اور اہل جہنم کے، جو اس کے رسولوں سے عناد رکھتے اور ان کے خلاف جنگ کرتے تھے، برے حال کا ذکر کیا، تو فرمایا : ﴿إِنَّا لَنَنصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا﴾ ” ہم یقیناً اپنے رسولوں کی اور ان کی جو ایمان لائے دنیا کی زندگی میں بھی مدد کرتے ہیں۔“ یعنی ہم دنیا میں دلیل، برہان اور نصرت کے ذریعے سے اپنے رسولوں کی مدد کرتے ہیں ﴿ وَيَوْمَ يَقُومُ الْأَشْهَادُ﴾ ” اور اس دن بھی )مدد کریں گے( جب گواہ کھڑے ہوں گے۔“ آخرت میں ان کے حق میں فیصلے کے ذریعے سے ان کی مدد کریں گے، ان کے متبعین کو ثواب سے نوازیں گے اور ان لوگوں کو سخت عذاب دیں گے جنہوں نے اپنے رسولوں کے خلاف جنگ کی۔ غافر
52 ﴿يَوْمَ لَا يَنفَعُ الظَّالِمِينَ مَعْذِرَتُهُمْ﴾ ”)جب وہ معذرت کریں گے تو( ظالموں کی معذرت اس دن انہیں کوئی فائدہ نہ دے گی۔“ ﴿وَلَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ﴾ ” اور ان کے لئے لعنت ہے اور ان کے لئے برا گھر ہے۔“ یعنی بہت برا گھر جو وہاں داخل ہونے والوں کو بہت تکلیف دے گا۔ غافر
53 موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کے مابین جو کچھ واقع ہوا نیز فرعون اور اس کے لشکروں کا جو انجام ہوا اللہ تعالیٰ نے اس کا ذکر فرمایا، پھر وہ حکم عام بیان کیا جو اس کو اور تمام جہنمیوں کو شامل ہے، پھر اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا کہ اس نے موسیٰ علیہ السلام کو ﴿الْهُدَىٰ﴾ ہدایت سے سرفراز فرمایا، یعنی آیات اور علم سے نوازا جن سے راہنمائی حاصل کرنے والے راہنمائی حاصل کرتے ہیں ﴿ وَأَوْرَثْنَا بَنِي إِسْرَائِيلَ الْكِتَابَ ﴾ ”اور ہم نے بنی اسرائیل کو اس کتاب کا وارث بنایا“ غافر
54 یعنی ہم نے نسل در نسل ان کو کتاب کا وارث بنایا اور اس سے مراد تورات ہے۔ یہ کتاب ہدایت پر مشتمل ہے اور ہدایت سے مراد احکام شرعیہ کا علم ہے اور اس کے اندر بھلائی کی یاد دہانی، اس کی ترغیب اور برائی سے ترہیب و تخویف ہے اور یہ چیز ہر ایک کو عطا نہیں ہوتی بلکہ یہ صرف ﴿ لِأُولِي الْأَلْبَابِ﴾ عقل مندوں کو نصیب ہوتی ہے۔ غافر
55 ﴿فَاصْبِرْ ﴾ ”)اے رسول !( صبر کیجیے“ جس طرح آپ سے پہلے اولوالعزم پیغمبروں نے صبر کیا تھا۔ ﴿ إِنَّ وَعْدَ اللّٰـهِ حَقٌّ﴾ ” بے شک اللہ کا وعدہ حق ہے۔“ یعنی اللہ کے وعدے میں کوئی شک و شبہ ہے نہ اس میں کسی جھوٹ کا شائبہ جس کی بنا پر صبر کرنا آپ کے لئے مشکل ہو، یہ تو خالص حق اور ہدایت ہے جس کے لئے صبر کرنے والے صبر کرتے ہیں اور اہل بصیرت اس سے تمسک کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پس اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿ إِنَّ وَعْدَ اللّٰـهِ حَقٌّ﴾ ان اسباب کے زمرے میں آتا ہے جو بندے کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے اور اللہ تعالیٰ کے ہاں ناپسندیدہ امور سے رکنے پر آمادہ کرتا ہے۔ ﴿وَاسْتَغْفِرْ لِذَنبِكَ﴾ ” اور اپنے گناہوں کی معافی مانگیں۔“ یعنی جو آپ کے لئے فوز و فلاح اور سعادت کے حصول سے مانع ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے آپ کو صبر کرنے کا حکم دیا جو محبوب و مرغوب کے حصول کا ذریعہ ہے اور مغفرت طلب کرنے کا حکم دیا جو مکر وہ کو دور کرنے کا ذریعہ ہے، نیز اللہ تعالیٰ کی حمد کے ساتھ تسبیح بیان کرنے کا حکم دیا خاص طور پر ﴿بِالْعَشِيِّ وَالْإِبْكَارِ﴾ ” صبح اور شام کو“ جو بہترین اوقات ہیں اور یہی اوقات واجب اور مستحب اور اذکار وظائف کے اوقات ہیں کیونکہ ان اوقات میں تمام امور کی تعمیل میں مدد لیتی ہے۔ غافر
56 اللہ تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ وہ لوگ جو باطل کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کی آیات کا ابطال کرنے کے لئے کسی دلیل اور حجت کے بغیر جھگڑتے ہیں، ان کا یہ جلال، حق اور اس کے لانے والے کے بارے میں، ان کے سینوں میں موجود تکبر کی وجہ سے صادر ہوتا ہے۔ وہ اپنے باطل نظریات کے ذریعے سے حق پر غالب آنا چاہتے ہیں اور یہی ان کا مقصد اور یہی ان کی مراد ہے مگر ان کا یہ مقصد کبھی حاصل ہوگا نہ ان کی یہ مراد کبھی پوری ہوگی۔ یہ صریح نص اور واضح بشارت ہے کہ جو کوئی حق کے خلاف بحث و جدال کرتا ہے وہ مغلوب ہوتا ہے اور جو حق کے خلاف تکبر کا رویہ رکھتا ہے وہ نہایت ذلیل و خوار ہوتا ہے۔ ﴿ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰـهِ ﴾ ” لہٰذا آپ )ان کی شرارتوں سے( اللہ کی پناہ مانگیے“ یعنی اللہ کی پناہ طلب کریں۔ یہاں یہ ذکر نہیں فرمایا کہ آپ کس چیز سے پناہ طلب کریں؟ درحقیقت اس سے عموم مراد ہے، یعنی کبر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کریں جو حق کے مقابلے میں تکبر کا موجب ہے، شیاطین جن و انس سے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کریں اور ہر قسم کے شر سے اللہ کی پناہ طلب کریں۔ ﴿ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ ﴾ وہ تمام آوازوں کو ان کے اختلاف کے باوجود سنتا ہے ﴿الْبَصِيرُ ﴾ تمام مرئیات، خواہ وہ کسی بھی زمان و مکان میں ہوں، اس کی نظر میں ہیں۔ غافر
57 اللہ تبارک و تعالیٰ ایسی دلیل بیان کرتا ہے جو عقلاً ثابت ہے۔ آسمانوں اور زمین کی تخلیق ان کی عظمت و وسعت کے ساتھ، انسانوں کی تخلیق سے زیادہ بڑا کرشمہ ہے کیونکہ انسان کی تخلیق آسمانوں اور زمین کی تخلیق کی نسبت بہت معمولی ہے۔ پس وہ ہستی جس نے اتنے بڑے بڑے اجرام فلکی کو نہایت مہارت سے تخلیق کیا ہے اس کا لوگوں کو ان کے مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کرنا، زیادہ اولیٰ ہے۔ یہ عقل مند کے لئے حیات بعد الموت پر قطعی اور عقلی دلیل ہے، جو حیات بعد الموت کے بارے میں کسی شک و شبہ کو قبول نہیں کرتی، جس کے وقوع کی انبیاء و مرسلین نے خبر دی ہے، مگر ہر شخص اس میں غور و فکر نہیں کرسکتا۔ بنا بریں فرمایا : ﴿وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ ﴾ ” لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے“ اس لئے وہ اس سے عبرت حاصل کرتے ہیں نہ اس کی پروا کرتے ہیں۔ غافر
58 ﴿وَمَا يَسْتَوِي الْأَعْمَىٰ وَالْبَصِيرُ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَلَا الْمُسِيءُ﴾ ” اور اندھا اور آنکھوں والا برابر نہیں ہوسکتا اور اسی طرح جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل )بھی( کئے وہ اور بدکار برابر نہیں ہوسکتے۔“ یعنی جس طرح بینا اور نابینا برابر نہیں ہوسکتے اسی طرح اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے والے نیک لوگ اور وہ لوگ برابر نہیں ہوسکتے جو تکبر سے اپنے رب کی عبادت نہیں کرتے، اس کی نافرمانی کا ارتکاب کرتے ہیں اور اس کی ناراضی کے موجب کاموں میں دوڑ دھوپ کرتے ہیں۔ ﴿ قَلِيلًا مَّا تَتَذَكَّرُونَ ﴾ ” تم کم ہی نصیحت پکڑتے وہ“ ورنہ اگر تم معاملات کے مراتب، خیر و شر کے مقامات اور نیکو کاروں اور فاسقوں کے مابین فرق سے نصیحت پکڑتے اور تم اس کا عزم و ارادہ کرتے تو تم ضرر رساں پر نفع رساں کو، گمراہی پر ہدایت کو اور فانی دنیا پر ہمیشہ رہنے والی سعادت کو ترجیح دیتے۔ غافر
59 ﴿إِنَّ السَّاعَةَ لَآتِيَةٌ لَّا رَيْبَ فِيهَا﴾ ” بلاشبہ قیامت آنے والی ہے، اس میں کوئی شک نہیں۔“ اس کے بارے میں انبیاء و مرسلین خبر دے چکے اور وہ سب سے زیادہ سچے لوگ ہیں اور اس کے بارے میں تمام کتب الٰہیہ نے بھی خبر دی ہے، جن کی دی ہوئی تمام خبریں صدق کے بلند ترین درجے کی حامل ہیں، جن کی شہادت، شواہد مرئیہ اور آیات افقیہ دیتے ہیں۔ ﴿وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يُؤْمِنُونَ﴾ ” لیکن اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے۔“ ان مذکورہ بالا امور کے بارے میں جو کامل تصدیق اور اطاعت کے موجب ہیں، اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے۔ غافر
60 یہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر لطف و کرم اور اس کی عظیم نعمت ہے کہ اس نے انہیں اس چیز کی طرف دعوت دی جس میں ان کے دین و دنیا کی بھلائی ہے اور انہیں حکم دیا کہ وہ اس سے دعا کریں۔۔۔ یعنی دعائے عبادت اور دعائے مسئلہ۔۔۔ اور ان سے وعدہ فرمایا کہ وہ ان کی دعا قبول فرمائے گا اور ان متکبرین کو وعید سنائی ہے جو تکبر کی بنا پر اس کی عبادت سے منہ موڑتے ہیں، چنانچہ فرمایا ﴿ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ﴾ ” جو لوگ میری عبادت )دعا( سے تکبر کرتے ہیں عنقریب وہ جہنم میں ذلیل ہو کر داخل ہوں گے۔“ یعنی ان کے تکبر کی پاداش میں ان کے لئے عذاب اور رسوائی کو اکٹھا کردیا جائے گا۔ غافر
61 آیات کریمہ میں غور و فکر کیجیے، جو اللہ تعالیٰ کے بے پایاں رحمت، اس کے لامحدود و فضل و کرم، اس کے لئے و جوب شکر، اس کی قدرت کاملہ، اس کی عظیم طاقت، اس کے وسیع اقتدار، تمام اشیا کو اس کے تخلیق کرنے، اس کی حیات کاملہ اور اس کی تمام صفات کاملہ اور افعال حسنہ سے موصوف ہونے کی بنا پر ہر قسم کی حمد و ثنا سے متصف ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔ یہ آیات کریمہ اس کی کامل ربوبیت اور اس ربوبیت میں اس کے متفرد ہونے پر دلالت کرتی ہیں، نیز اس عالم علوی اور عالم سفلی کی تمام تدابیر، ماضی، حال اور مستقبل کے اوقات اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی ہستی کو کوئی قدرت و اختیار نہیں۔ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی معبود حقیقی ہے اس کے سوا جس طرح کوئی ہستی ربوبیت کی مستحق نہیں اسی طرح عبودیت کی بھی مستحق نہیں۔ یہ حقیقت اس امر کا موجب ہے کہ دل اللہ تعالیٰ کی معرفت، اس کی محبت، اس کے خوف اور اس پر امید سے لبریز ہوں۔ یہ دو امور ہیں جن کی خاطر اللہ تعالیٰ نے تمام کائنات کو تخلیق فرمایا اور وہ ہیں معرفت الٰہی اور عبادت الٰہی یہی دو امور ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے مقصد قرار دیا ہے یہی دو امور ہر قسم کی بھلائی، خیر و فلاح، دینی اور دنیاوی سعادت کی منزل تک پہنچاتے ہیں، یہی دو امور اللہ کریم کی طرف سے پانے بندوں کے لئے بہترین عطیہ ہیں اور یہی دو امور علی الاطلاق لذیذ ترین چیزیں ہیں۔ اگر بندہ ان دو چیزوں سے محروم ہوجائے تو وہ ہر خیر سے محروم ہو کر ہر شر میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمارے دلوں کو اپنی معرفت اور محبت سے لبریز کر دے، ہماری باطنی اور ظاہری تمام حرکات صرف اس کی رضا کے لئے اور صرف اسی کے حکم کے تابع ہوں، کوئی سوال اس کے لئے پورا کرنا مشکل ہے نہ اس کی کوئی عطا اسے لاچار کرسکتی ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿اللّٰـهُ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ اللَّيْلَ﴾ “ اللہ وہ ذات ہے جس نے تمہارے لئے رات بنائی“ یعنی اللہ تعالیٰ نے تمہاری خاطر رات کو سیاہ بنایا ﴿لِتَسْكُنُوا فِيهِ﴾ ” تاکہ تم اس میں آرام کرسکو“ تاکہ تم اپنی حرکات سے سکون پاؤ۔ اگر یہ حرکات دائمی ہوتیں تو تمہیں نقصان پہنچتا۔ سکون کے حصول کے لئے تم اپنے بستروں میں پناہ لیتے ہو، اللہ تعالیٰ تم پر نیند طاری کردیتا ہے جس سے انسان کا قلب و بدن آرام پاتے ہیں۔ نیند انسانی ضروریات کا حصہ ہے انسان اس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا اور رات کے وقت ہر حبیب اپنے حبیب کے پاس آرام کرتا ہے، فکر مجتمع ہوتی ہے اور مشاغل کم ہوجاتے ہیں۔ ﴿وَ﴾ ” اور“ بنایا اللہ تعالیٰ نے ﴿النَّهَارَ مُبْصِرًا﴾ ” دن کو کھلانے والا“ یعنی روشنی والا جو اپنے مدار میں رواں دواں سورج کی روشنی سے روشن ہوتا ہے اور تم اپنے بستروں سے اٹھ کر اپنے روز مرہ کے دینی اور دنیاوی امور میں مشغول ہوجاتے ہو، کوئی ذکر اور قراءت قرآن میں مشغول ہے، کوئی نماز پڑھ رہا ہے، کوئی طلب علم میں مصروف ہے اور کوئی خرید و فروخت اور کاروبار کر رہا ہے کوئی معمار ہے تو کوئی لوہار سب اپنے کام اور صنعت میں مصروف ہیں۔ کوئی بری یا بحری سفر کر رہا ہے، کوئی کھیتی باڑی کے کاموں میں لگ گیا ہے تو کوئی اپنے جانوروں اور مویشیوں کے بندوبست میں مصروف ہے۔ ﴿ إِنَّ اللّٰـهَ لَذُو فَضْلٍ﴾ ” بے شک اللہ فضل والا ہے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ عظیم فضل و کرم کا مالک ہے جیسا کہ اس )فَضْل) کی تنکیر دلالت کرتی ہے۔ ﴿عَلَى النَّاسِ ﴾ ” تمام لوگوں پر۔“ اللہ تعالیٰ نے ان کو ان مذکورہ اور دیگر نعمتوں سے نوازا اور ان سے مصائب کو دور کیا اور یہ چیز ان پر کامل شکر اور کامل ذکر کو واجب کرتی ہے۔ ﴿وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَشْكُرُونَ ﴾ مگر اکثر لوگ اپنے ظلم اور جہالت کی بنا پر اللہ تعالیٰ کا شکر نہیں کرتے جیسا کہ فرمایا : ﴿وَقَلِيلٌ مِّنْ عِبَادِيَ الشَّكُورُ ﴾(السبا:34؍13) “” اور میرے بندوں میں کم ہی لوگ شکر گزار ہوتے ہیں“ جو اپنے رب کی نعمت کا اقرار کر کے اس کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہوں، اس سے محبت کرتے ہوں، ان نعمتوں کو اپنے آقا کی رضا کے مطابق استعمال کرتے ہو۔ ﴿ذَٰلِكُمُ﴾ ” یہ ہے“ وہ ہستی جس نے ان تمام امور کی تدبیر کی ہے اور تمہیں ان نعمتوں سے بہرہ ور کیا ہے۔ ﴿ اللّٰـهُ رَبُّكُمْ ﴾ ” اللہ تمہارا رب ہے“ ﴿فَتَبَارَكَ اللّٰـهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ ﴾ ” پس تمام جہانوں کا پروردگار اللہ بہت ہی بابرکت ہے“ جس کی بھلائی اور احسانات بہت زیادہ ہیں جو تمام جہانوں کی اپنی نعمتوں کے ذریعے سے تربیت کرتا ہے۔ غافر
62 ﴿ ذَٰلِكُمُ﴾’’یہ ہے“ جس نے یہ سب کچھ کیا ﴿اللّٰـهُ رَبُّكُمْ ﴾ ” اللہ تمہار ارب“ جو اپنی الوہیت اور ربوبیت میں منفرد ہے اور ان نعمتوں میں اس کا منفرد ہونا اس کی ربوبیت میں سے ہے اور ان نعمتوں پر شکر کا واجب کرنا اس کی الوہیت میں سے ہے۔ ﴿خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ﴾ ” ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے۔“ یہ اس کی ربوبیت کا اثبات ہے۔ ﴿لَّا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ﴾ ” اس کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں۔“ یہ جملہ اس بات کو متحقق کرتا ہے کہ وہ اکیلا ہی عبودیت کا مستحق ہے اس کا کوئی شریک نہیں، پھر نہایت صراحت کے ساتھ اپنی عبادت کا حکم دیتے ہوئے فرمایا : ﴿فَأَنَّىٰ تُؤْفَكُونَ﴾ ” پھر تم کدھر بہکے جا رہے ہو۔“ یعنی تم اس اکیلے اللہ کی عبادت سے کیونکر گریز کر رہے ہو، حالانکہ اس نے تم پر دلیل کو واضح اور تمہارے سامنے راہ راست کو روشن کردیا ہے؟ غافر
63 ﴿كَذٰلِكَ يُؤْفَكُ الَّذِينَ كَانُوا بِآيَاتِ اللّٰـهِ يَجْحَدُونَ﴾ ” اسی طرح وہ لوگ (بھی) بہکائے جاتے رہے ہیں جو اللہ کی آیات سے انکار کیا کرتے تھے۔“ یہ ان کے آیات الٰہی کے انکار اور اللہ تعالیٰ کے رسولوں پر ان کے ظلم و تعدی کی سزا ہے کہ ان کو توحید و اخلاص سے پھیر دیا گیا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَإِذَا مَا أُنزِلَتْ سُورَةٌ نَّظَرَ بَعْضُهُمْ إِلَىٰ بَعْضٍ هَلْ يَرَاكُم مِّنْ أَحَدٍ ثُمَّ انصَرَفُوا صَرَفَ اللّٰـهُ قُلُوبَهُم بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَفْقَهُونَ﴾ (التوبة:9؍127)” اور جب کوئی سورت نازل ہوتی ہے تو وہ ایک دوسرے کی طرف دیکھتے ہیں کہ آیا تمہیں کسی نے دیکھا تو نہیں، پھر وہ لوٹ جاتے ہیں، اللہ نے بھی ان کے دلوں کو پھیر دیا کیونکہ یہ نا سمجھ لوگ ہیں۔ “ غافر
64 ﴿اللّٰـهُ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ قَرَارًا﴾ ” اللہ ہی ہے جس نے تمہارے لئے زمین کو جائے قرار بنایا“ یعنی اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے زمین کو ساکن بنایا اور زمین ہی سے تمہیں تمہارے تمام مصالح مہیا کیے۔ تم زمین پر کھیتی باڑی کرتے ہو، باغات لگاتے ہو، اس پر عمارتیں تعمیر کرتے ہو، اس کے اندر سفر اور اقامت کرتے ہو۔ ﴿ وَالسَّمَاءَ بِنَاءً ﴾ اور آسمان کو چھت“ یعنی آسمان کو زمین کے لئے بمنزلہ چھت بنایا جس کے نیچے تم چلتے پھرتے ہو، اس کی روشنیوں اور علامات سے فائدہ اٹھاتے ہو جن کے ذریعے سے بحرو بر کی تاریکیوں میں راہنمائی حاصل کی جاتی ہے۔ ﴿وَصَوَّرَكُمْ فَأَحْسَنَ صُوَرَكُمْ﴾ ” اس نے تمہاری شکل بنائی اور تمہاری شکلوں کو خوبصورت بنایا۔“ پس تمام جانداروں میں بنی آدم سے بڑھ کر کوئی خوبصورت نہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ ﴾(التین:95؍4) ” ہم نے انسان کو بہت اچھی صورت میں پیدا کیا ہے۔“ اگر آپ انسان کی خوبصورتی جانچنا اور اللہ عزوجل کی حکمت کی معرفت چاہتے ہیں تو انسان کے عضو پر غور کریں کیا آپ کو کوئی ایسا عضو نظر آتا ہے، جو جس کام کے لائق ہے، اس کے علاوہ کسی اور جگہ موجود ہو؟ پھر آپ اس میلان پر غور کیجیے جو دلوں میں ایک دوسرے کے لئے ہوتا ہے کیا آپ کو یہ میلان آدمیوں کے سوا دوسرے جانداروں میں ملے گا؟ آپ اس بات پر غور کریں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل، ایمان، محبت اور معرفت سے مختص کیا ہے جو بہترین اخلاق میں خوبصورت ترین صورت سے مناسبت رکھتے ہیں۔ ﴿وَرَزَقَكُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ﴾ ” اور تمہیں پاکیزہ چیزیں عطا کیں۔“ یہ ہر قسم کی پاک ماکولات، مشروبات، منکوحات، ملبوسات، مسموعات اور مناظر وغیرہ کو شامل ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے مہیا کر رکھا ہے اور ان کے حصول کے اسباب کو آسان بنایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو ناپاک چیزوں سے روکا ہے جو ان مذکورہ طیبات کی متضاد ہیں جو قلب و بدن اور دین کو نقصان دیتی ہیں۔ غافر
65 ﴿هُوَ الْحَيُّ﴾ وہی زندہ ہے جو حیات کامل کا مالک ہے۔ یہ حیات صفات ذاتیہ کو ملتزم ہے جس کے بغیر حیات مکمل نہیں ہوتی، مثلاً سمع، بصر، قدرت، علم، کلام اور دیگر صفات کمال اور نعوت جلال۔ ﴿لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ ﴾ ” اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔“ یعنی اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ ﴿فَادْعُوهُ﴾ ” پس تم اسی کو پکارو۔“ یہ دعائے عبادت اور دعائے مسئلہ دونوں کو شامل ہے۔ ﴿مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ﴾ ” اسی کے لئے دین کو خالص کرتے ہوئے۔“ یعنی اپنی ہر عبادت، ہر دعا اور ہر عمل میں اللہ تعالیٰ کی رضا کو مدنظر رکھو کیونکہ اخلاص ہی وہ عمل ہے جس کا حکم ہر عبادت میں دیا گیا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللّٰـهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاءَ﴾(البینة:98؍5) ” اور ان کو صرف یہی حکم دیا گیا تھا کہ وہ یکسو ہو کر دین کو صرف اللہ کی لئے خالص کرتے ہوئے اس کی عبادت کریں۔“ ﴿الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ﴾ ” ہر طرح کی تعریف اللہ رب العالمین ہی کے لئے ہے۔“ یعنی تمام قولی محامد اور مدح و ثنا، مثلاً مخلوق کا اس کا ذکر کرتے ہوئے کلام کرنا اور فعلی محامد اور مدح و ثنا جیسے اس کی عبادت کرنا۔ سب اللہ واحد کے لئے ہیں، جس کا کوئی شریک نہیں کیونکہ وہ اپنے اوصاف و افعال اور مکمل نعمتیں عطا کرنے میں کامل ہے۔ غافر
66 اللہ تبارک و تعالیٰ نے صرف اپنے لئے عبادت کو خالص کرنے کا حکم دیا اور اس کے دلائل و براہین بیان فرمانے کے بعد نہایت صراحت کے ساتھ غیر اللہ کی عبادت سے روکا، چنانچہ فرمایا : ﴿قُلْ﴾ اے نبی ! کہہ دیجیے : ﴿إِنِّي نُهِيتُ أَنْ أَعْبُدَ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللّٰـهِ﴾ ” بے شک مجھے منع کیا گیا ہے کہ میں ان کی عبادت کروں جنہیں تم اللہ کو چھوڑ کر پکارتے ہو۔“ مجھے تمام اصنام، بتوں اور ہر اس چیز کی عبادت سے روکا گیا ہے جن کی اللہ کے سوا عبادت کی جاتی ہے۔ مجھے اپنے موقف پر ذرہ بھر شک نہیں، بلکہ مجھے اس کی حقانیت پر بصیرت کے ساتھ پورا یقین ہے، اس لئے فرمایا ﴿لَمَّا جَاءَنِيَ الْبَيِّنَاتُ مِن رَّبِّي وَأُمِرْتُ أَنْ أُسْلِمَ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ﴾ ” جبکہ میرے رب کی طرف سے میرے پاس واضح دلائل بھی آچکے ہیں اور مجھے حکم ملا ہے کہ میں اللہ رب العالمین کا فرمانبردار بن کر رہوں۔“ مجھے اپنے دل، زبان اور جوارح کے ساتھ خالق کائنات کے سامنے سرافگندہ ہونے کا حکم دیا گیا ہے کہ یہ تمام اعضا اللہ تعالیٰ کی اطاعت کریں اور اس کے احکام کے سامنے سر تسلیم خم کریں۔ یہ علی الاطلاق سب سے بڑا ” حکم“ ہے۔ اسی طرح غیر اللہ کی عبادت سے ” نہی“ علی الاطلاق سب سے بڑی ممانعت ہے۔ غافر
67 پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس توحید کو اس دلیل کے ساتھ ثابت کیا ہے کہ وہ تمہارا خالق ہے اور اس نے تمہیں مختلف مراحل میں تخلیق کیا۔ جس طرح اس اکیلے نے تمہیں پیدا کیا ہے اسی طرح تم صرف اسی کی عبادت کرو۔ چنانچہ فرمایا : ﴿هُوَ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن تُرَابٍ﴾ ” وہی تو ہے جس نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا“ یعنی اس نے تمہارے جد امجد حضرت آدم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مٹی سے تخلیق فرمایا ﴿ ثُمَّ مِن نُّطْفَةٍ﴾ ” پھر نطفہ سے“ یہ تمام نوع انسانی کی ماں کے پیٹ کے اندر تخلیق کی ابتدا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے صرف ابتدا کا ذکر کر کے باقی تمام مراحل کی طرف اشارہ کیا ہے، یعنی نطفے سے خون کا لوتھڑا بننا پھر بوٹی بننا پھر ہڈیوں کا تخلیق پانا اور آخر میں روح کا پھونکا جانا۔ ﴿ثُمَّ يُخْرِجُكُمْ طِفْلًا﴾ ” پھر تمہیں بچے کی صورت میں نکالتا ہے۔“ اس طرح تم تخلیق الٰہی میں ایک مرحلے سے دوسرے مرحلے میں منتقل ہوتے ہو، یہاں تک کہ تم عقل و بدن کی پوری قوت کو پہنچ جاؤ اور تمہارے ظاہری و باطنی قویٰ مکمل ہوجائیں۔ ﴿ثُمَّ لِتَكُونُوا شُيُوخًا وَمِنكُم مَّن يُتَوَفَّىٰ مِن قَبْلُ﴾ ” پھر تم بوڑھے ہوجاتے ہو اور کوئی تم میں سے اس سے پہلے ہی فوت ہوجاتا ہے۔“ یعنی بالغ ہونے سے پہلے ﴿وَلِتَبْلُغُوا﴾ ” تاکہ تم پہنچ جاؤ“ ان مقررہ مراحل کے ذریعے سے ایک مدت مقررہ تک جہاں تمہاری عمر ختم ہوجاتی ہے۔ ﴿وَلَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ﴾ ” اور تاکہ تم عقل سے کام لو۔“ شاید کہ تم اپنے احوال کو سمجھو اور تمہیں معلوم ہو کہ تمہیں ان مراحل میں سے گزارنے والی ہستی کامل قدرت کی مالک ہے۔ وہی ہے جس کے سوا کوئی اور ہستی عبادت کے لائق نہیں اور تم ہر لحاظ سے ناقص ہو۔ ﴿ هُوَ الَّذِي يُحْيِي وَيُمِيتُ﴾ ” وہی تو ہے جو زندہ کرتا اور مارتا ہے“ یعنی صرف وہی اکیلا ہے جو زندہ کرتا اور موت سے ہم کنار کرتا ہے، کوئی نفس، کسی سبب سے یا کسی سبب کے بغیر، اس کے حکم کے بغیر مر نہیں سکتا۔ ﴿وَمَا يُعَمَّرُ مِن مُّعَمَّرٍ وَلَا يُنقَصُ مِنْ عُمُرِهِ إِلَّا فِي كِتَابٍ إِنَّ ذَٰلِكَ عَلَى اللّٰـهِ يَسِيرٌ﴾ (فاطر:35؍11)” اور کسی عمر والے کو عمر عطا نہیں کی جاتی اور نہ اس کی عمر میں کوئی کمی کی جاتی ہے، مگر یہ سب کچھ ایک کتاب میں درج ہوتا ہے اور بے شک یہ اللہ کے لئے بہت آسان ہے۔ “ غافر
68 ﴿فَإِذَا قَضَىٰ أَمْرًا ﴾ ” پھر جب کوئی کام کرنا چاہتا ہے۔“ خواہ یہ کام چھوٹا ہو یا بڑا ﴿فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُن فَيَكُونُ ﴾ ” تو اس سے کہہ دیتا ہے کہ ہوجا تو وہ ہوجاتا ہے۔“ اس حکم کو رد یا اس سے گریز یا انکار نہیں کیا جاسکتا۔ غافر
69 ﴿أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يُجَادِلُونَ فِي آيَاتِ اللّٰـهِ﴾ ” کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو اللہ کی آیات میں جھگڑتے ہیں۔“ کیا آپ کو ان لوگوں کی مذموم حالت پر تعجب نہیں جو اللہ تعالیٰ کی واضح آیات کے بارے میں جھگڑا کرتے ہیں۔ ﴿أَنَّىٰ يُصْرَفُونَ﴾ ” کہاں سے وہ (حق سے) پھیرے جا رہے ہیں؟“ یعنی ان آیات سے کیسے منہ موڑ رہے ہیں؟ اس کامل تو ضیح وتبین کے باوجود وہ کدھر جا رہے ہیں؟ کیا ان کے پاس ایسے دلائل ہیں جو اللہ تعالیٰ کی آیات سے متعارض ہوں؟ اللہ کی قسم ! ہرگز نہیں۔ یا وہ ایسے شبہات پاتے ہیں جو ان کی خواہشات کے موافق ہیں اور وہ اپنے باطل نظریات کی تائید میں ان شبہات کو لے کر چڑھ دوڑتے ہیں؟ بدترین ہے وہ چیز جو انہوں نے اپنے لئے اختیار کی اور کتاب اللہ اور رسولوں کی تکذیب کے بدلے حاصل کی جو رسول مخلوق میں سب سے افضل، سب سے سچے اور سب سے زیادہ خرد مند ہیں۔ غافر
70 بھڑکتی ہوئی آگ کے سوا ان تکذیب کرنے والوں کے لئے کوئی جزا نہیں، اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کو جہنم کی آگ کی وعید سناتے ہوئے فرمایا : ﴿فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ إِذِ الْأَغْلَالُ فِي أَعْنَاقِهِمْ﴾ ” وہ عنقریب جان لیں گے جب کہ ان کی گردنوں میں طوق ہوں گے۔“ جس کی وجہ سے وہ حرکت نہیں کرسکیں گے۔ غافر
71 ﴿وَالسَّلَاسِلُ ﴾ ” اور زنجیریں (ہوں گی) “ جن کے ساتھ ان کو اور ان کے شیاطین کو جکڑ دیا جائے گا۔ ﴿يُسْحَبُونَ فِي الْحَمِيمِ﴾ یعنی سخت کھولتے ہوئے پانی میں ان کو گھسیٹا جائے گا۔ غافر
72 ﴿ ثُمَّ فِي النَّارِ يُسْجَرُونَ﴾ ” پھر وہ آگ میں جھونک دیئے جائیں گے۔“ ان کے لئے بڑے شعلے بھڑکائے جائیں گے اور ان کے اندر ان کو ڈالا جائے گا پھر ان کے شرک اور کذب پر ان کی زجر و توبیخ کی جائے گی اور ان سے کہا جائے گا غافر
73 ﴿ أَيْنَ مَا كُنتُمْ تُشْرِكُونَ مِن دُونِ اللّٰـهِ﴾ ” کہاں ہیں وہ جن کو تم اللہ کے سوا اللہ کے شریک بناتے تھے۔“ کیا انہوں نے تمہیں کوئی فائدہ دیا یا انہوں نے تم سے عذاب کو دور کردیا ؟ ﴿قَالُوا ضَلُّوا عَنَّا﴾ ” وہ کہیں گے وہ تو ہم سے بھول گئے ہیں“ یعنی وہ ہم سے دور ہوگئے اگر وہ موجود بھی ہوتے تب بھی ہمیں کوئی فائدہ نہ پہنچا سکتے۔ پھر وہ انکار کرتے ہوئے کہیں گے : ﴿بَل لَّمْ نَكُن نَّدْعُو مِن قَبْلُ شَيْئًا﴾ ” بلکہ ہم تو پہلے کسی چیز کو نہیں پکارتے تھے۔“ اس میں اس کا احتمال ہے کہ ان کے اس انکار سے مراد یہ ہو کہ وہ سمجھتے ہوں کہ یہ انکار ان کے کام آئے گا اور ان کو فائدہ دے گا۔ دوسرا احتمال یہ ہے، اور یہی زیادہ قوی ہے، کہ ان کی مراد، اپنے خود ساختہ معبودوں کی الوہیت کے بطلان کا اقرار ہو، نیز اس حقیقت کا اقرار ہو کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک نہیں اور انہوں نے ہستی کی عبادت کر کے گمراہی اور خطا کا ارتکاب کیا جس میں الوہیت معدوم ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد دلالت کرتا ہے ﴿كَذٰلِكَ يُضِلُّ اللّٰـهُ الْكَافِرِينَ﴾ ” اسی طرح اللہ کافروں کو گمراہ کرتا ہے۔“ یعنی اس گمراہ کے مانند جس میں یہ دنیا میں مبتلا تھے۔ یہ گمراہی سب پر واضح تھی، حتی کہ خود ان پر بھی واضح تھی، جس کے بطلان کا اقرار یہ لوگ قیامت کے روز کریں گے، قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کے ارشاد : ﴿وَمَا يَتَّبِعُ الَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللّٰـهِ شُرَكَاءَ إِن يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ﴾(یونس:10؍66) ” اور جو لوگ اللہ کے سوا خودساختہ شریکوں کو پکارتے ہیں وہ محض وہم و گمان کی پیروی کرتے ہیں۔“ کا معنی بھی واضح ہوجائے گا اور اس پر اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد دلالت کرتا ہے : ﴿ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكْفُرُونَ بِشِرْكِكُمْ ﴾ (فاطر:35؍14)” اور قیامت کے روز وہ تمہارے شرک کا انکار کریں گے۔“ اور یہ ارشاد بھی دلالت کرتا ہے : ﴿وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّن يَدْعُو مِن دُونِ اللّٰـهِ مَن لَّا يَسْتَجِيبُ لَهُ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ﴾ (الاحقاف :46؍5)” اور اس شخص سے بڑھ کر کون گمراہ ہوسکتا ہے جو اللہ کے سوا ایسی ہستیوں کو پکارتا ہے جو قیامت تک ان کی پکار کا جواب نہیں دے سکتیں۔ “ غافر
74 غافر
75 اہل جہنم سے کہا جائے گا : ﴿ذَٰلِكُم﴾ یہ عذاب جو تمہارے لئے مقرر کیا گیا ہے۔ ﴿بِمَا كُنتُمْ تَفْرَحُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَبِمَا كُنتُمْ تَمْرَحُونَ ﴾ ” اس وجہ سے کہ تم زمین میں ناحق اتراتے تھے اور اس وجہ سے (بھی) کہ تم اکڑتے تھے۔“ یعنی یہ اس باطل کے سبب سے ہے جس پر تم بہت خوش ہوتے تھے اور ان علوم کے باعث ہے جن کے ذریعے سے تم انبیاء و مرسلین کے علوم کی مخالفت کیا کرتے تھے اور تم بغاوت، ظلم، تعدی اور عصیان کی بنا پر اللہ تعالیٰ کے بندوں کے ساتھ تکبر سے پیش آیا کرتے تھے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اس سورۃ مبارکہ کے آخر میں فرمایا : ﴿فَلَمَّا جَاءَتْهُمْ رُسُلُهُم بِالْبَيِّنَاتِ فَرِحُوا بِمَا عِندَهُم مِّنَ الْعِلْمِ﴾(المؤمن:40؍83)” جب ان کے پاس ان کے رسول واضح دلائل لے کر آئے یہ اپنے اسی علم پر خوش رہے جو ان کے پاس تھا۔“ اور جیسا کہ قارون کی قوم نے اس سے کہا تھا : ﴿لَا تَفْرَحْ إِنَّ اللّٰـهَ لَا يُحِبُّ الْفَرِحِينَ﴾(القصص:28؍76)” خوشی سے مت اترا، اللہ خوشی سے اترانے والوں کو پسند نہیں کرتا۔“ یہ مذموم خوشی ہے جو عذاب کی موجب ہے۔ اس کے برعکس اس فرحت کے بارے میں جو قابل مدح ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿قُلْ بِفَضْلِ اللّٰـهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَٰلِكَ فَلْيَفْرَحُوا﴾(یونس: 10؍58) ” کہہ دیجیے ! یہ اللہ کا فضل اور اس کی رحمت ہے (کہ اس نے یہ کتاب نازل فرمائی) اس پر انہیں خوش ہونا چاہئے۔“ یہ وہ فرحت ہے جو علم نافع اور عمل صالح سے حاصل ہوتی ہے۔ غافر
76 ﴿ادْخُلُوا أَبْوَابَ جَهَنَّمَ﴾ ” جہنم کے دروازوں میں سے داخل ہوجاؤ۔“ ہر ایک کو اس کے عمل کے مطابق جہنم کے طبقات میں سے ایک طبقے میں داخل کردیا جائے گا۔ ﴿خَالِدِينَ فِيهَا﴾ ” اس میں تم ہمیشہ رہو گے۔“ وہ کبھی بھی وہاں سے نہ نکلیں گے۔“ ﴿فَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِينَ﴾ ” وہ ایسا ٹھکانا ہوگا جہاں ان کو محبوس کر کے ذلیل و رسوا کیا جائے گا اور عذاب دیا جائے گا اور جہاں کبھی انہیں سخت گرمی میں اور کبھی سخت سردی میں داخل کیا جائے گا۔ غافر
77 ﴿ فَاصْبِرْ ﴾ اے رسول ! آپ کو دعوت دینے پر اپنی قوم کی طرف سے جو تکالیف پہنچی ہیں اس پر صبر کیجیے اور اپنے صبر پر اپنے ایمان سے مدد لیجیے : ﴿إِنَّ وَعْدَ اللّٰـهِ حَقٌّ﴾ ” بے شک اللہ کا وعدہ حق ہے۔“ وہ اپنے دین کی مدد اور اپنے کلمے کو غالب کرے گا اور اپنے رسولوں کو دنیا و آخرت میں اپنی نصرت سے نوازے گا، نیز دنیا و آخرت میں اپنے دشمنوں پر عذاب کے وقوع سے بھی صبر میں مدد لیجیے، اس لئے فرمایا : ﴿فَإِمَّا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِي نَعِدُهُمْ﴾ یعنی اگر ہم نے دنیا ہی میں ان کے عذاب کا کچھ حصہ آپ کو دکھا دیا جس کا ہم ان سے وعدہ کرتے ہیں ﴿أَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ﴾ ” یا ان کو سزا دینے سے پہلے آپ کو اپنے پاس بلا لیا ﴿ فَإِلَيْنَا يُرْجَعُونَ﴾ ” تو ان کو ہماری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے۔“ تو پھر ہم ان کو ان کے کرتوتوں کی سزا دیں گے۔ ﴿وَلَا تَحْسَبَنَّ اللّٰـهَ غَافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ ﴾ ” اور ظالم جو کچھ کرتے ہیں آپ اللہ کو اس سے ہرگز غافل نہ سمجھیں۔ “ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کے برادر انبیاء و مرسلین کا ذکر کر کے آپ کو تسلی دی ہے۔ غافر
78 یعنی آپ سے پہلے بھی ہم نے بہت سے رسول ان کی قوموں کی طرف مبعوث فرمائے۔ جو انہیں توحید کی دعوت دیتے تھے اور ان کی ایذا رسانی پر صبر کرتے تھے۔ ﴿مِنْهُم مَّن قَصَصْنَا عَلَيْكَ﴾ جن میں سے کچھ کے بارے میں ہم نے آپ کو خبر دی ﴿وَمِنْهُم مَّن لَّمْ نَقْصُصْ عَلَيْكَ ﴾ ” اور کچھ ایسے ہیں جن کے حالات ہم نے آپ پر بیان نہیں کئے۔“ تمام انبیاء اور رسول اللہ تعالیٰ کے دست تدبیر کے تحت ہیں انکے اپنے ہاتھ میں کوئی اختیار نہیں۔ تمام رسولوں میں سے کسی کے اختیار میں نہیں ﴿ أَن يَأْتِيَ بِآيَةٍ﴾ ” کہ وہ کوئی نشانی، معجزہ لائے۔“ یعنی ان رسولوں کے اختیار میں نہیں کہ وہ سمعی یا عقلی نشانی لا سکیں۔ ﴿إِلَّا بِإِذْنِ اللّٰـهِ﴾ مگر اللہ کی مشیت اور اس کے حکم سے، اس لئے رسولوں سے معجزات دکھانے کا مطالبہ کرنا، ظلم، تعنت اور تکذیب ہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ایسی آیات کے ذریعے سے ان کی تائید کی ہے جو ان کی صداقت اور ان کی دعوت پر دلالت کرتی ہیں۔ ﴿فَإِذَا جَاءَ أَمْرُ اللّٰـهِ﴾ ” پس جب اللہ تعالیٰ کا حکم رسولوں اور ان کے دشمنوں کے مابین فیصلہ کردیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے فتح آجاتی ہے ﴿ قُضِيَ بِالْحَقِّ ﴾ ” تو ان کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کردیا جاتا ہے جو صحیح موقع پر واقع ہوتا ہے انبیاء و مرسلین اور ان کے پیروکاروں کی نجات اور معذبین کی ہلاکت کے ذریعے سے صواب کی تائید کرتا ہے۔ بنابریں فرمایا ﴿وَخَسِرَ هُنَالِكَ﴾ ” اور وہی نقصان میں پڑگئے۔“ یعنی مذکورہ فیصلے کے وقت ﴿ الْمُبْطِلُونَ ﴾ ” غلط کار لوگ“ یعنی وہ لوگ جن کا وصف باطل ہے، وہ جو بھی علم و عمل پیش کرتے ہیں سب باطل ہے، ان کی غرض و غایت اور مقاصد سب باطل پر مبنی ہیں، اس لئے ان مخاطبین کو اپنے باطل نظریات پر جمے رہنے سے ڈرنا چاہئے ورنہ یہ لوگ بھی خسارے میں پڑجائیں گے جیسے وہ لوگ خسارے میں پڑے تھے۔ بے شک ان حضرات میں کوئی بھلائی ہے نہ ان کے لئے کتابوں میں نجات لکھی گئی ہے۔ غافر
79 اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر اپنے احسانات کا ذکر کرتا ہے کہ اس نے ان کے لئے چوپائے پیدا کئے جن پر ان کے مفادات کا دار و مدار ہے۔ ان میں سے کچھ مویشیوں کو وہ سواری اور نقل و حمل کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ کچھ چوپایوں کا گوشت کھاتے اور ان کا دودھ پیتے ہیں۔ کچھ مویشیوں کی اون سے گرمی حاصل کرتے ہیں۔ ان کے بالوں، پشم اور اون سے آلات اور استعمال کا سامان بناتے ہیں اور ان سے دیگر فوائد حاصل کرتے ہیں۔ غافر
80 ﴿وَلِتَبْلُغُوا عَلَيْهَا حَاجَةً فِي صُدُورِكُمْ﴾ ” اور تاکہ تم ان پر سوار ہو کر اپنی حاجت و ضرورت کو پہنچو جو تمہارے سینوں میں ہے۔“ یعنی تم ان دور دراز ملکوں میں پہنچ سکو جہاں پہنچنے کی اپنے دلوں میں ضرورت محسوس کرتے ہو اور تاکہ ان کے باعث ان کے مالکوں کو فروخت و سرور حاصل ہو۔ ﴿وَعَلَيْهَا وَعَلَى الْفُلْكِ تُحْمَلُونَ﴾ ” اور ان پر اور کشتیوں پر تم سوار کئے جاتے ہو۔“ یعنی تم زمینی سواریوں پر سواری کرتے ہو اور کشتیاں تمہیں سمندر میں اٹھائے پھرتی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے مسخر کردیا اور تمہارے لئے ایسے چوپائے مہیا کردیے جن کے بغیر تمہاری یہ سواریاں مکمل نہیں ہوتیں۔ غافر
81 ﴿وَيُرِيكُمْ آيَاتِهِ﴾ ” اور وہ تمہیں اپنی نشانیاں دکھاتا ہے“ جو اس کی وحدانیت اور اس کے اسماء و صفات پر دلالت کرتی ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت ہے کہ اس نے اپنے بندوں کو آفاق و انفس میں اپنی آیات کا مشاہدہ کرایا، بڑی بڑی نعمتوں سے بہرہ مند کیا اور ان نعمتوں کو شمار کیا تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کو پہچان لیں، اس کا شکر ادا کریں اور اس کا ذکر کریں۔ ﴿فَأَيَّ آيَاتِ اللّٰـهِ تُنكِرُونَ﴾ ” پھر تم اللہ کی کن کن نشانیوں کا انکار کرو گے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ کی کون کون سی آیات ہیں جن کا تم اعتراف نہیں کرتے؟ تمہارے نزدیک بھی یہ ثابت شدہ حقیقت ہے کہ تمام آیات اور تمام نعمتیں اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہیں، تب انکار کی کوئی گنجائش اور روگردانی کا کوئی موقع باقی نہیں۔ بلکہ یہ آیات اور نعمتیں عقل مندوں پر واجب ٹھہراتی ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے اور اس کی طرف متوجہ ہونے میں اپنی پوری کوشش صرف کریں۔ غافر
82 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے رسول کی تکذیب کرنے والوں کو اس بات پر ابھارتا ہے کہ وہ اپنے قلب و بدن کے ساتھ زمین پر چل پھر کر دیکھیں اور اہل علم سے سوال کریں۔ ﴿فَيَنظُرُوا ﴾ ” پس وہ دیکھیں“ غفلت اور بے پروائی کی نظر سے نہ دیکھیں بلکہ فکر و استدلال کی نظر سے دیکھیں۔ ﴿كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ﴾ ” کیسا انجام ہوا ان لوگوں کا جو ان سے پہلے تھے؟“ یعنی قوم عاد و شمود جیسی گزشتہ قوموں کا کیا انجام ہوا؟ جو ان سے قوت میں زیادہ، مال میں کثرت اور زمین میں آثار، یعنی مضبوط محلات، خوب صورت باغات اور بے شمار کھیتیاں چھوڑنے کے لحاظ سے بڑے تھے۔ ﴿فَمَا أَغْنَىٰ عَنْهُم مَّا كَانُوا يَكْسِبُونَ ﴾ ” تو ان کی کمائی نے انہیں کوئی فائدہ نہ دیا۔“ جب اللہ تعالیٰ کا حکم آ پہنچا تو ان کی قوت ان کے کسی کام آئی نہ وہ اپنے مالوں کا فدیہ دے سکے اور نہ وہ اپنے قلعوں کے ذریعے ہی سے بچ سکے۔ غافر
83 پھر اللہ تعالیٰ نے ان کے جرم عظیم کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : ﴿فَلَمَّا جَاءَتْهُمْ رُسُلُهُم بِالْبَيِّنَاتِ ﴾ ” جب ان کے رسول ان کے پاس معجزات لے کر آئے۔“ یعنی کتب الٰہیہ، بڑے بڑے معجزات اور وہ علم نافع لے کر مبعوث ہوئے جو ہدایت اور گمراہی، حق اور باطل میں امتیاز کرتا ہے ﴿ فَرِحُوا بِمَا عِندَهُم مِّنَ الْعِلْمِ ﴾ ” تو وہ اسی علم پر نازاں رہے جو ان کے پاس تھا۔ یہی وہ انبیاء و رسل کے دین سے متناقض اور باطل علمی نظریات ہی میں مگن رہے اور یہ معلوم ہے کہ ان کا اس کا نام نہاد علم پر خوش ہونا، اس علم پر انکی رضا اور اس کے ساتھ تمسک اور حق کے ساتھ ان کی شدید عداوت پر دلالت کرتا ہے جسے لے کر رسول مبعوث ہوئے ہیں۔ انہوں نے اپنے باطل نظریات کو حق قرار دیا اور یہ ان تمام علوم کے لئے عام ہے جن کے ذریعے سے انبیاء و رسل کے لائے ہوئے علم کی مخالفت کی جاتی ہے۔ ان کے ان علوم میں داخل ہونے کے سب سے زیادہ مستحق علوم فلسفہ اور منطق یونان ہیں جن کے ذریعے سے قرآن کی بہت سی آیات کو رد کیا جاتا ہے، دلوں میں قرآن کی قدر کم کی جاتی ہے۔ قرآن کے قطعی اور یقینی دلائل کو لفظی دلائل قرار دیا جاتا ہے جو یقین کا فائدہ نہیں دیتے اور ان دلائل پر اہل سفاہت اور اہل باطل کی عقل کو مقدم رکھا جاتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی آیات میں سب سے بڑا الحاد، ان کی مخالفت اور معارضت ہے۔ وَاللہُ الْمُسْتَعَانْ۔ ﴿ وَحَاقَ بِهِم﴾ ” اور انہیں گھیر لیا“ ﴿مَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِؤُنَ﴾ اس عذاب نے جس کا وہ تمسخر اڑایا کرتے تھے۔ غافر
84 ﴿فَلَمَّا رَأَوْا بَأْسَنَا﴾ ” جب وہ ہمارا عذاب دیکھ چکے“ تو اقرار کرنے لگے، تب ان کا اقرار ان کو کوئی فائدہ نہ دے گا۔﴿قَالُوا آمَنَّا بِاللّٰـهِ وَحْدَهُ وَكَفَرْنَا بِمَا كُنَّا بِهِ مُشْرِكِينَ﴾” وہ کہنے لگے : ہم اللہ واحد پر ایمان لائے اور جس چیز کو اس کے ساتھ شریک بناتے تھے اس کا انکار کرتے ہیں۔“ یعنی جن بتوں اور خود ساختہ معبودوں کو اللہ تعالیٰ کا شریک بنایا کرتے تھے، اس کا انکار کرتے ہیں اور ہم ہر اس علم و عمل سے برأت کا اظہار کرتے ہیں جو رسولوں کا مخالف ہے۔ غافر
85 ﴿فَلَمْ يَكُ يَنفَعُهُمْ إِيمَانُهُمْ لَمَّا رَأَوْا بَأْسَنَا ﴾ ” جب انہوں نے ہمارا عذاب دیکھ لیا تو ان کے ایمان نے انہیں کچھ فائدہ نہ دیا۔“ یعنی اس حال میں ان کا ایمان انہیں کوئی فائدہ نہیں دے گا جب وہ ہمارا عذاب دیکھ لیں گے ﴿سُنَّتَ اللّٰـهِ﴾ ” یہ اللہ تعالیٰ کی سنت اور عادت ہے‘‘ ﴿الَّتِي قَدْ خَلَتْ فِي عِبَادِهِ﴾ ” جو اس کے بندوں میں چلی آتی ہے۔“ یعنی ان جھٹلانے والوں کے بارے میں، جو اس وقت ایمان لاتے ہیں جب ان پر اللہ کا عذاب نازل ہوتا ہے۔ ان کا ایمان صحیح ہے نہ ان کو عذاب سے نجات دلا سکتا ہے۔ یہ اضطراری اور مشاہدے کا ایمان ہے۔ وہ ایمان جو صاحب ایمان کو نجات دیتا ہے، اختیاری ایمان ہے، جو قرائن عذاب کے وجود سے پہلے پہلے، ایمان بالغیب ہے۔ ﴿وَخَسِرَ هُنَالِكَ﴾ ”اور خسارے میں پڑجاتے ہیں ایسے وقت میں“ جب ہم ہلاکت اور عذاب کا مزا چکھاتے ہیں ﴿الْكَافِرُونَ﴾ ” کافر لوگ“ جو اپنے دین، دنیا اور آخرت کا انکار کرتے ہیں۔ آخرت کے گھر میں مجرد خسارہ ہی نہیں ہوگا بلکہ ایک ایسا خسارہ ہو گا کہ وہ نہایت شدید دائمی اور ابدی عذاب کے اندر، بدبختی میں گھرا ہوا ہوگا۔ غافر
0 سورۃ فصلت فصلت
1 فصلت
2 اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو آگاہ فرماتا ہے کہ یہ کتاب جلیل اور قرآن جمیل ﴿تَنزِيلٌ ﴾ ” اتارا گیا ہے“ یعنی صادر ہوا ہے ﴿مِّنَ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ ﴾ ” رحمان و رحیم کی طرف سے“ جس کی رحمت ہر چیز پر سایہ کناں ہے، جس کی سب سے بڑی اور سب سے جلیل القدر نعمت یہ ہے کہ اس نے یہ کتاب نازل کی جس سے علم و ہدایت، نور و شفا، رحمت اور خیر کثیر حاصل ہوتی ہے اور یہ دنیا و آخرت میں سعادت کی راہ ہے، پھر اللہ نے اس کتاب جلیل کی پوری طرح مدح و ثنا بیان کی۔ فصلت
3 چنانچہ فرمایا : ﴿فُصِّلَتْ آيَاتُهُ﴾ ” جس کی آیتیں کھول کھول کر بیان کی گئی ہیں۔“ ہر چیز کی تمام انواع کو علیحدہ علیحدہ تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اور یہ چیز بیان کامل، ہر چیز کے درمیان تفریق اور حقائق کے مابین امتیاز کو مستلزم ہے۔ ﴿قُرْآنًا عَرَبِيًّا﴾ ” یعنی فصیح عرب میں، جو کامل ترین زبان ہے۔ اس کی آیات کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے اور اس کتاب کو قرآن عربی بنایا گیا ہے۔ ﴿ لِّقَوْمٍ يَعْلَمُونَ﴾ ” علم رکھنے والوں کے لئے۔“ یعنی (یہ قرآن) اس لئے نازل کیا گیا ہے تاکہ علم رکھنے والے لوگوں پر جس طرح اس کے الفاظ واضح ہیں، اس کے معانی بھی واضح ہوں اور ان کے سامنے ہدایت اور گمراہی نمایاں ہو کر ایک دوسرے سے ممیز ہوجائیں۔ رہے جہلا جن کو ہدایت گمراہی میں اور بیان اندھے پن میں اضافہ کرتا ہے، تو ان لوگوں کے لئے یہ کلام نہیں لایا گیا۔ ﴿سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ﴾(البقرۃ:2؍6) ” ان کے لئے برابر ہے، خواہ آپ ان کو برے انجام سے ڈرائیں یا نہ ڈرائیں وہ ایمان نہیں لائیں گے۔ “ فصلت
4 ﴿ بَشِيرًا وَنَذِيرًا﴾ ” یعنی دنیاوی اور آخروی ثواب کی خوشخبری سنانے والا اور دنیاوی اور آخروی عذاب سے ڈرانے والا۔ پھر تبشیر و انداز کی تفصیل کا ذکر کیا اور ان اسباب و اوصاف کا ذکر کیا جن کے ذریعے سے تبشیر و انداز حاصل ہوتے ہیں۔ یہ اس کتاب کے وہ اوصاف ہیں جو اس بات کے موجب ہیں کہ اسے قبول کیا جائے، اس کے سامنے سر اطاعت خم کیا جائے، اس پر ایمان لایا جائے اور اس پر عمل کیا جائے۔ مگر اکثر لوگوں نے اس طرح روگردانی کی ہے جس طرح متکبرین کا وتیرہ ہے۔ ﴿فَهُمْ لَا يَسْمَعُونَ﴾ ” اور وہ اسے قبول کرنے کے ارادے سے نہیں سنتے اگرچہ وہ اس طرح ضرور سنتے ہیں جس سے ان پر شرعی حجت قائم ہوجائے۔ فصلت
5 ﴿ وَقَالُوا﴾ یعنی اس کتاب کریم سے روگردانی کرنے والے، اس سے اپنے عدم انتفاع اور اس تک پہنچانے والے دروازوں کے بند ہونے کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں: ﴿قُلُوبُنَا فِي أَكِنَّةٍ ﴾ ” ہمارے دل پردوں میں ہیں۔“ یعنی پردوں میں ڈھانپے ہوئے ہیں۔ ﴿مِّمَّا تَدْعُونَا إِلَيْهِ وَفِي آذَانِنَا وَقْرٌ ﴾ ” اس چیز سے جس چیز کی طرف تم ہمیں دعوت دیتے ہو اور اس سے ہمارے کانوں میں بوجھ ہے۔“ یعنی ہمارے کانوں میں گرانی ہے پس ہم سن نہیں سکتے۔ ﴿وَمِن بَيْنِنَا وَبَيْنِكَ حِجَابٌ ﴾ ” اور ہمارے اور تمہارے درمیان پردہ ہے“ اس لئے ہم تجھے دیکھ نہیں سکتے۔ ان کا مقصد صرف ہر لحاظ سے اس کتاب عظیم سے اعراض کا اظہار تھا، انہوں نے اس کتاب سے اپنے بغض اور اپنے باطل موقف سے رضامندی کا اظہار کیا، اس لئے انہوں نے کہا : ﴿فَاعْمَلْ إِنَّنَا عَامِلُونَ﴾ ” پس تو اپنا کام کئے جا، ہم اپنا کام کرنے والے ہیں۔“ یعنی جیسے اپنے دین پر عمل کرنا تم پسند کرتے ہو ویسے ہی ہم بھی اپنے دین پر پوری رضا مندی کے ساتھ عمل پیرا ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے سب سے بڑی محرومی ہے کہ وہ ہدایت کو چھوڑ کر گمراہی پر راضی ہوگئے، ایمان کے بدلے کفر کو اختیار کیا اور دنیا کے بدلے آخرت کو بیچ دیا۔ فصلت
6 ﴿قُلْ﴾ اے نبی ! ان سے کہہ دیجیے : ﴿إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوحَىٰ﴾ ” میں تو تمہارے جیاس ہی ایک انسان ہوں، میری طرف وحی کی جاتی ہے۔“ یعنی میرا وصف اور میرا وظیفہ یہ ہے کہ میں تمہارے جیاس بشر ہوں، میرے ہاتھ میں کوئی اختیار نہیں اور نہ میرے اختیار میں وہ عذاب ہے جس کے لئے تم جلدی مچا رہے ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اس وحی کے ذریعے سے مجھے تم پر فضیلت عطا کی، اس کے ذریعے سے مجھے تم سے ممتاز کیا اور اس کے لئے مجھے مختص کیا، جو وحی اس نے میرے طرف بھیجی، مجھے اس کی اتباع اور تمہیں اس کی طرف دعوت دینے کا حکم دیا۔ ﴿فَاسْتَقِيمُوا إِلَيْهِ ﴾ ” لہٰذا سیدھے اس طرف متوجہ رہو‘ یعنی میں جن امور کے بارے میں تمہیں خبر دے رہا ہوں ان کی تصدیق، اوامر کی اتباع اور نواہی سے اجتناب کر کے، اس راستے پر گامزن ہوجاؤ جو اللہ تعالیٰ تک پہنچاتا ہے۔ یہ حقیقت استقامت ہے اور پھر اس پر قائم رہو۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد : ﴿إِلَيْهِ﴾ میں اخلاص کی طرف اشارہ ہے، یعنی عمل کرنے والے کو چاہئے کہ وہ اپنے عمل کا مقصد اللہ تعالیٰ اور اس کے اکرام و تکریم کے گھر تک پہنچنا قرار دے، اس طرح اس کا عمل خالص، صالح اور نفع مند ہوگا اور اخلاص کی عدم موجودگی سے اس کا عمل باطل ہوجائے گا اور چونکہ بندہ، خواہ وہ استقامت کا کتنا ہی حریص کیوں نہ ہو، مامورات میں تقصیر منہیات کے ارتکاب کی بنا پر خلل کا شکار ہوجاتا ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے بندوں کو استغفار کی دوا کے استعمال کا حکم دیا ہے، جوتوبہ کو متضمن ہے، لہٰذا فرمایا : ﴿وَاسْتَغْفِرُوهُ﴾ ” اور اس سے مغفرت طلب کرو۔“ پھر ترک استقامت پر اللہ تعالیٰ نے وعید سنائی، چنانچہ فرمایا : ﴿وَوَيْلٌ لِّلْمُشْرِكِينَ الَّذِينَ لَا يُؤْتُونَ الزَّكَاةَ ﴾ ” مشرکین کے لئے ہلاکت ہے جو زکوٰۃ نہیں دیتے۔“ یعنی جو اللہ کو چھوڑ کر ان ہستیوں کی عبادت کرتے ہیں جو کسی کو نفع و نقصان دینے کا اختیار رکھتی ہیں نہ موت و حیات کا اور نہ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کرنے کا۔ انہوں نے اپنے آپ کو گندگی میں دھنسا لیا ہے اور وہ اپنے رب کی توحید اور اخلاص کے ذریعے سے اپنے آپ کو پاک نہیں کرتے، وہ نماز پڑھتے ہیں نہ زکوٰۃ دیتے ہیں اور وہ توحید اور نماز کے ذریعے سے اپنے رب کے لئے اخلاص رکھتے ہیں نہ زکوٰۃ کے ذریعے سے مخلوق کو نفع پہنچاتے ہیں۔ ﴿وَهُم بِالْآخِرَةِ هُمْ كَافِرُونَ﴾ ” اور وہ آخرت کے بھی منکر ہیں۔“ یعنی وہ حیات بعد الموت پر ایمان رکھتے ہیں نہ جنت اور جہنم پر، اس لئے جب ان کے دلوں سے خوف زائل ہوگیا تو انہوں نے ایسے ایسے کام کئے ہیں جو آخرت میں انہیں سخت نقصان دیں گے۔ فصلت
7 فصلت
8 اللہ تبارک و تعالیٰ نے کفار کا ذکر کرنے کے بعد اہل ایمان کے اوصاف اور ان کی جزا کا ذکر فرمایا : ﴿إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا﴾ ” بے شک وہ لوگ جو ایمان لائے“ یعنی اس کتاب پر اور ان امور پر ایمان لائے جن پر کتاب مشتمل ہے اور ان اعمال صالحہ کے ذریعے سے اپنے ایمان کی تصدیق کی جو اخلاص للہ اور متابعت رسول کے جامع ہیں۔ ﴿ لَهُمْ أَجْرٌ غَيْرُ مَمْنُونٍ﴾ ” ان کے لئے ختم نہ ہونے والا اجر ہے۔“ یعنی ان کے لئے اجر عظیم ہے جو کبھی منقطع ہوگا نہ ختم ہوگا بلکہ وہ ہمیشہ رہے گا اور ہر گھڑی بڑھتیا ہی چلا جائے گا۔ یہ اجر ہر قسم کی لذات و مشتہیات پر مشتمل ہوگا۔ فصلت
9 اللہ تبارک و تعالیٰ تعجب کے ساتھ کفار کے کفر کا انکار کرتا ہے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے ہر سر گھڑ رکھے ہیں اور ان کو اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرایا ہوا ہے، ان کی عبادت کرتے ہیں، انہیں رب عظیم اور مالک کریم کے برابر گردانتے ہیں، جس نے اتنی بڑی زمین کو صرف دو دن میں پیدا کیا، پھر دو دن میں اس کو ہموار کیا، اس کے اندر بڑے بڑے پہاڑ رکھ دیے جو اسے مٹنے، ہلنے اور عدم استقرار سے روکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی تخلیق کی تکمیل کی، پھر پھیلا کر ہموار کیا، اس میں سے خوراک اور اس کی توابعات نکالیں۔ فصلت
10 ﴿ فِي أَرْبَعَةِ أَيَّامٍ سَوَاءً لِّلسَّائِلِينَ﴾ ” چار دن میں، سوال کرنے والوں کے لئے یکساں ہے۔“ یہ اس بارے میں سوال کرنے والوں کے لئے ٹھیک ٹھیک جواب ہے۔ تجھے یہ خبر ایک خبردار ہستی کے سوا کوئی نہیں دے سکتا ہے اور یہ ایسی سچی خبر ہے جس میں کوئی کمی ہے نہ بیشی۔ فصلت
11 ﴿ثُمَّ﴾ یعنی زمین کی تخلیق کے بعد ﴿اسْتَوَىٰ ﴾ قصد کیا ﴿ إِلَى السَّمَاءِ﴾ آسمان کی تخلیق کا ﴿وَهِيَ دُخَانٌ﴾ ” اور وہ دھواں تھا“ جو پانی کی سطح پر اٹھ رہا تھا۔ ﴿فَقَالَ لَهَا﴾ ” پس آسمان سے کہا“ چونکہ اس میں اختصاص کا وہم تھا اس لئے اس پر اپنے اس فرمان کا عطف ڈالا : ﴿وَلِلْأَرْضِ ائْتِيَا طَوْعًا أَوْ كَرْهًا﴾ ” اور زمین سے کہ دونوں آؤ! خوشی سے یا ناخوشی سے۔“ یعنی میرے حکم کی طوعاً یا کرہاً تعمیل کرو یہ نافذ ہو کر رہے گا۔ ﴿قَالَتَا أَتَيْنَا طَائِعِينَ﴾’’دونوں نے کہا ہم خوشی سے آتے ہیں۔“ ہمارا ارادہ تیرے ارادے کی مخالفت نہیں کرسکتا۔ فصلت
12 ﴿فَقَضَاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ فِي يَوْمَيْنِ﴾ ” پھر دو دن میں سات آسمان بنائے۔“ پس آسمانوں اور زمین کی تخلیق چھ دنوں میں مکمل ہوگئی۔ پہلا دن اتوار اور آخری دن جمعہ تھا، حالانکہ اللہ تعالیٰ کی مشیت اور قدرت تمام کائنات کو ایک لمحے میں تخلیق کرنے کی صلاحیت رکھتی تھی مگر وہ قدرت رکھنے کے ساتھ ساتھ رفق اور حکمت والا بھی ہے یہ اس کی حکمت اور رفق ہی ہے کہ اس نے اس کائنات کی تخلیق اس مقرر مدت میں کی۔ معلوم ہونا چاہئے کہ اس آیت کریمہ اور سورۃ النازعات کی آیت ﴿وَالْأَرْضَ بَعْدَ ذَٰلِكَ دَحَاهَا ﴾ (النّٰزعٰت:79؍31۔32)” اور اس کے بعد زمین کو پھیلا دیا۔“ میں بظاہر تعارض دکھائی دیتا ہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ کی کتاب میں کوئی تعارض ہے نہ اختلاف۔ سلف میں بہت سے اہل علم نے اس کا جواب دیا ہے کہ زمین کی تخلیق اور اس کی صورت گری آسمانوں کی تخلیق سے متقدم ہے، جیسا کہ یہاں ذکر کیا گیا ہے اور زمین کو پھیلانا کہ ﴿أَخْرَجَ مِنْهَا مَاءَهَا وَمَرْعَاهَا وَالْجِبَالَ أَرْسَاهَا﴾ (النّٰزعٰت:79؍30)” اس نے اس میں سے اس کا پانی جاری کیا اور چارہ اگایا، پھر اس پر پہاڑوں کا بوجھ رکھ دیا۔“ آسمانوں کی تخلیق سے متاخر ہے جیسا کہ سورۃ النازعات میں آتا ہے، اس لئے فرمایا: ﴿وَالْأَرْضَ بَعْدَ ذَٰلِكَ دَحَاهَا أَخْرَجَ مِنْهَا مَاءَهَا وَمَرْعَاهَا وَالْجِبَالَ أَرْسَاهَا ﴾(النّٰزعٰت:79؍30۔32) ” اور اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں کہا: (وَالْأَرْضَ بَعْدَ ذَٰلِكَ خَلَقَھَا) ﴿وَأَوْحَىٰ فِي كُلِّ سَمَاءٍ أَمْرَهَا ﴾ ” اور ہر آسمان کی طرف اس کے کام کا حکم بھیجا۔“ یعنی ہر آسمان کے لائق امروتد بیروحی کی جو احکم الحاکمین کی حکمت کا تقاضا تھا۔ ﴿وَزَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيحَ﴾ ” اور ہم نے آسمان دنیا کو چراغوں کے ذریعے سے مزین کیا۔“ اس سے مراد ستارے ہیں جن سے روشنی اور راہنمائی حاصل ہوتی ہے اور ظاہری طور پر یہ ستارے آسمان کی زینت اور خوبصورت ہیں ﴿وَحِفْظًا﴾ اور باطنی طور پر شیاطین سے حفاظت کے لئے ان کو شہاب ثاقب بنایا ہے تاکہ وہ آسمانوں سے سن گن نہ لے سکیں۔ ﴿ ذَٰلِكَ﴾ ” یہ“ یعنی زمین، آسمانوں اور ان میں جو کچھ ہے، سب کا یہ مذکورہ انتظام ﴿ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ﴾ ” منصوبہ ہے ایک زبردست ہستی کا جو علیم بھی ہے۔“ یعنی زبردست ہستی کا مقرر کردہ انداز ہے جو اپنی قوت اور غلبے کی بنا پر تمام اشیا پر غالب ہے اور ان کی تدبیر کر رہی ہے اور اس نے اپنی قوت اور غلبے سے تمام مخلوقات کو تخلیق کیا۔ ﴿ الْعَلِيمِ﴾ جس کے علم نے غائب اور شاہد، تمام مخلوقات کا اپنے علم کے ساتھ احاطہ کر رکھا ہے۔ پس مشرکین کا اس رب عظیم اور واحد قہار کے لئے اخلاص کو ترک کردینا، جس کے سامنے تمام مخلوق سرافگندہ ہے اور تمام کائنات پر اس کی قدرت نافذ ہے، سب سے زیادہ تعجب انگیز چیز ہے۔ پھر خودساختہ معبود بنانا اور ان کو اللہ تعالیٰ کے برابر قرار دینا، حالانکہ وہ اپنے اوصاف و افعال میں ناقص ہیں، اس سے بھی عجیب تر ہے۔ اگر یہ اپنی روگردانی پر جمے رہے تو دنیاوی اور آخروی عذاب کے سوا ان کا کوئی علاج نہیں، اس لئے ان کو ڈراتے ہوئے فرمایا : فصلت
13 یعنی اگر یہ مکذبین اس کے باوجود بھی اعراض کریں، حالانکہ ان کے سامنے قرآن کے اوصاف حمیدہ اور رب عظیم کی صفات جلیلہ بیان کی جا چکی ہے ﴿فَقُلْ أَنذَرْتُكُمْ صَاعِقَةً﴾ تو کہہ دیجئے: میں تمہیں ایسی کڑک سے ڈراتا ہوں“ جو کہ عذاب ہے وہ تمہاری جڑ کاٹ کر رکھ دے ﴿مِّثْلَ صَاعِقَةِ عَادٍ وَثَمُودَ﴾ ” جیسی کڑک قوم عاد اور ثمود پر گری تھی۔‘‘ عاد اور ثمودیہ دو معروف قبیلے تھے، ان پر ٹوٹنے والے عذاب نے ان کو ملیا میٹ کرکے رکھ دیا تھا اور انہیں سخت سزا دی گئی، یہ سب کچھ ان کے ظلم اور کفر کے باعث تھا۔ فصلت
14 ﴿إِذْ جَاءَتْهُمُ الرُّسُلُ مِن بَيْنِ أَيْدِيهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ﴾ ” جب ان کے پاس رسول ان کے آگے سے اور پیچھے سے آئے۔‘‘ یعنی یکے بعد دیگرے لگاتار رسول آئے، ان تمام رسولوں کی دعوت ایک تھی ﴿أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا اللّٰـهَ﴾ ” کہ اللہ کی سوا کسی کی عبادت نہ کرو“ یعنی وہ اللہ تعالیٰ کے لئے اخلاص کا حکم دیتے تھے اور شرک سے روکتے تھے، مگر انہوں نے انبیائے کرام کی دعوت کو رد کرتے ہوئے ان کی تکذیب کی اور کہنے لگے : ﴿لَوْ شَاءَ رَبُّنَا لَأَنزَلَ مَلَائِكَةً﴾ ” اگر ہمارا رب چاہتا تو فرشتے اتار دیتا۔‘‘ رہے تم، تو تم ہماری ہی طرح بشر ہو ﴿ فَإِنَّا بِمَا أُرْسِلْتُم بِهِ كَافِرُونَ﴾ ” پس تم جو دے کر بھیجے گئے ہو ہم اس کو نہیں مانتے۔‘‘ یہ شبہ تمام کافر قوموں میں نسل در نسل متوارث چلا آرہا ہے اور یہ انتہائی کمزور شبہ ہے کیونکہ رسالت کے لئے یہ شرط نہیں کہ جس کو رسول بنا کر بھیجا جا رہا ہو وہ فرشتہ ہو۔ رسالت کی شرط صرف یہ ہے کہ رسول ایسی چیز پیش کرے جو اس کی صداقت کی دلیل ہو، لہٰذا اگر وہ کرسکتے ہوں تو ان کو چاہیے کہ وہ عقلی اور شرعی دلائل کی بنیاد پر جرح و قدح کریں، لیکن وہ ایسا نہیں کرسکیں گے۔ فصلت
15 یہ ان مذکورہ بالا دو قوموں، یعنی عادوثمود کا مفصل قصہ ہے۔ فرمایا : ﴿فَأَمَّا عَادٌ﴾ قوم عاد اپنے کفر، آیات الٰہی اور انبیاء و مرسلین کی تکذیب کے ساتھ ساتھ زمین پر تکبر کے ساتھ رہتے تھے۔ اپنے اردگرد بندگان الٰہی پر قہر اور ظلم و ستم کے پہاڑ توڑتے تھے، ان کی قوت نے ان کو فریب میں مبتلا کر رکھا تھا ﴿وَقَالُوا مَنْ أَشَدُّ مِنَّا قُوَّةً﴾ ” اور وہ کہتے تھے : بھلا ہم سے زیادہ طاقتور کون ہے؟“ اللہ تعالیٰ نے ان کو ایسا جواب دیا جسے ہر شخص جانتا ہے۔ ﴿أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّ اللّٰـهَ الَّذِي خَلَقَهُمْ هُوَ أَشَدُّ مِنْهُمْ قُوَّةً﴾ ” کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ اللہ جس نے ان کو پیدا کیا، وہ ان سے قوت میں بہت بڑھ کر ہے۔‘‘ اگر اللہ تعالیٰ ان کو تخلیق نہ کرتا تو وہ کبھی وجود میں نہ آسکتے اگر وہ اپنے اس حال پر صحیح طریقے سے غور کرتے تو کبھی اپنی طاقت کے فریب میں مبتلا نہ ہوتے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو ایسی سزا دی جو ان کی اس قوت سے عین مناسبت رکھتی تھی جس کی وجہ سے وہ مغرور تھے۔ فصلت
16 ﴿فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِيحًا صَرْصَرًا ﴾ یعنی ہم نے ان پر انتہائی سخت طوفانی آندھی بھیجی جس میں بجلی کی کڑک کی مانند سخت ہولناک آواز تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اس طوفانی ہوا کو ان پر ﴿سَبْعَ لَيَالٍ وَثَمَانِيَةَ أَيَّامٍ حُسُومًا فَتَرَى الْقَوْمَ فِيهَا صَرْعَىٰ كَأَنَّهُمْ أَعْجَازُ نَخْلٍ خَاوِيَةٍ﴾ (الحاقہ : 69؍7) ” لگاتارسات رات اور آٹھ دن تک چلائے رکھا، اس ہوا میں تو ان لوگوں کو اس طرح پچھاڑے ہوئے دیکھتا گویا وہ کھجوروں کے خالی تنے ہیں۔‘‘ ﴿نَّحِسَاتٍ﴾ یعنی یہ دن ان کے لئے منحوس تھے۔ اس ہوا نے ان کو ہلاک کرکے تباہ و برباد کردیا اور ان کی یہ حالت ہوگئی کہ ان کے اجڑے ہوئے گھروں کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا تھا۔ ﴿لِّنُذِيقَهُمْ عَذَابَ الْخِزْيِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ﴾ ” تاکہ ہم انہیں دنیا کی زندگی ہی میں رسوائی کا عذاب چکھائیں۔‘‘ اس عذاب کی وجہ سے انہوں نے مخلوق میں فضیحت اور رسوائی کا سامنا کیا۔ ﴿وَلَعَذَابُ الْآخِرَةِ أَخْزَىٰ وَهُمْ لَا يُنصَرُونَ﴾ ” اور آخرت کا عذاب تو بہت ہی ذلیل کرنے والا ہے اور ان کی مدد نہیں کی جائے گی۔‘‘ کوئی ان سے اللہ تعالیٰ کے عذاب کو روک سکے گا نہ وہ اپنے آپ کو کوئی فائدہ پہنچا سکیں گے۔ فصلت
17 ﴿وَأَمَّا ثَمُودُ﴾ اور رہے ثمود تو یہ ایک معروف قبیلہ ہے جو حجر اور اس کے اردگرد کے علاقے میں آباد تھا۔ جن کی طرف اللہ تعالیٰ نے حضرت صالح علیہ السلام کو رسول بنا کر بھیجا جو ان کو ان کے رب کی توحید کی دعوت دیتے تھے اور ان کو شرک سے روکتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو معجزے کے طور پر اونٹنی عطا کی، جس کے لئے پانی پینے کا ایک دن مقرر تھا۔ ثمود کے لوگ ایک دن اس اونٹنی کا دودھ پیتے تھے اور ایک دن پانی پیتے تھے اور اس پر انہیں کچھ خرچ نہیں کرنا پڑتا تھا بلکہ اونٹنی اللہ کی زمین پر چر کر گزارہ کرتی تھی، اس لئے ثمود کے بارے میں فرمایا : ﴿وَأَمَّا ثَمُودُ فَهَدَيْنَاهُمْ﴾ ” جو ثمود تھے، ہم نے انہیں سیدھا راستہ دکھایا۔‘‘ یہاں ہدایت سے مراد ہدایت بیان ہے۔ ہرچند کہ ہلاکت کا شکار ہونے والی تمام امتوں پر اللہ تعالیٰ کی حجت قائم ہوئی اور راہ راست ان کے سامنے واضح کردی گئی، مگر اللہ تعالیٰ نے ثمود کے لئے ہدایت کا ذکر اس لئے کیا، کیونکہ ان کو بہت بڑا معجزہ عطا کیا گیا تھا۔ اس معجزے کو ان کے بچوں، بوڑھوں، مردوں اور عورتوں سب نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا، اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے ہدایت اور بیان کا خاص طور پر ذکر فرمایا، مگر انہوں نے اپنے شر اور ظلم کی وجہ سے ہدایت، یعنی علم و ایمان کی بجائے، اندھے پن، یعنی کفر اور گمراہی کو پسند کیا تو جو کچھ وہ کمایا کرتے تھے اس کی وجہ سے انہیں عذاب نے پکڑ لیا اور ان پر اللہ تعالیٰ کا ظلم نہ تھا۔ فصلت
18 ﴿وَنَجَّيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ﴾ ” اور ہم نے ان لوگوں کو بچا لیا جو ایمان لائے اور (نافرمانی سے) بچتے رہے“ یعنی اللہ تعالیٰ نے حضرت صالح علیہ السلام اور ان کی اتباع کرنے والے ان مومنین کو نجات دی جو شرک اور معاصی سے بچتے رہے۔ فصلت
19 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے دشمنوں کے بارے میں خبر دیتا ہے، جنہوں نے اس کے ساتھ اور اس کی آیات کے ساتھ کفر کیا، اس کے رسولوں کی تکذیب اور ان کے خلاف جنگ کی کہ قیامت کے روز ان کا کتنا برا حال ہوگا۔ ان کو اکٹھا کیا جائے گا ﴿إِلَى النَّارِ فَهُمْ يُوزَعُونَ ﴾ ” آگ کی طرف، پس وہ روکے جائیں گے۔‘‘ ان کے پہلے شخص کو آخری شخص کے آنے تک روکے رکھا جائے گا اور آخری شخص پہلے شخص کی پیروی کرے گا، پھر نہایت سختی کے ساتھ جہنم کی طرف ہانکا جائے گا۔ وہ جہنم سے بچ نہیں سکیں گے۔ وہ اپنی مدد خود کرسکیں گے نہ ان کی مدد کی جا سکے گی۔ فصلت
20 ﴿حَتَّىٰ إِذَا مَا جَاءُوهَا ﴾ یعنی جب وہ سب جہنم میں وارد ہوں گے اور اپنی بداعمالیوں کا انکار کرنے کا ارادہ کریں گے ﴿ شَهِدَ عَلَيْهِمْ سَمْعُهُمْ وَأَبْصَارُهُمْ وَجُلُودُهُم﴾ ” تو ان کے کان، ان کی آنکھیں اور ان کے چمڑے ان کے خلاف شہادت دیں گے۔‘‘ یہ خصوص کے بعد عموم ہے۔ ﴿بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ﴾ ” ان اعمال کی جو وہ کرتے رہے۔‘‘ یعنی ان کا ہر ہر عضو ان کے خلاف گواہی دے گا۔ ان کا ہر ہر عضو یہ کہے گا : ” میں نے فلاں فلاں دن فلاں فلاں گناہ کیا تھا۔‘‘ پھر ان تین اعضا کا خاص طور پر ذکر کیا کیونکہ اکثر گناہوں کا ارتکاب یہی تین اعضا کرتے ہیں، یا انہی کے سبب سے اکثر گناہوں کا ارتکاب ہوتا ہے۔ جب یہ اعضا ان کے خلاف گواہی دیں گے تو یہ ان اعضا پر سخت ناراض ہوں گے۔ فصلت
21 ﴿وَقَالُوا لِجُلُودِهِمْ﴾ ” اور وہ اپنے چمڑوں سے کہیں گے“: یہ آیت کریمہ اس امر کی دلیل ہے کہ ہر عضو کی طرف سے گواہی واقع ہوگی جیسا کہ ہم ذکر کرچکے ہیں۔ ﴿لِمَ شَهِدتُّمْ عَلَيْنَا ﴾ ” تم نے ہمارے خلاف کیوں گواہی دی؟“ حالانکہ ہم تمہارا دفاع کیا کرتے تھے ﴿قَالُوا أَنطَقَنَا اللّٰـهُ الَّذِي أَنطَقَ كُلَّ شَيْءٍ﴾ ” تو وہ جواب دیں گے کہ ہمیں اس اللہ نے قوت گویائی بخشی جس نے ہر چیز کو بولنے کی طاقت بخشی۔“ لہٰذا گواہی دینے سے انکار کرنا ہمارے لئے ممکن نہیں، اس کی مشیت کے سامنے کسی چیز کو دم مارنے کی مجال نہیں۔ ﴿وَهُوَ خَلَقَكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ﴾’’اور اس نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا“ جس طرح اس نے تمہاری ذات و اجسام کو تخلیق فرمایا اسی طرح تمہاری صفات کو بھی تخلیق فرمایا اور گویائی بھی انہی صفات میں سے ایک صفت ہے۔ ﴿ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ ﴾ ” اور تم (آخرت میں) اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔‘‘ پھر وہ تمہیں تمہارے اعمال کی جزا دے گا۔ اس میں یہ احتمال ہے کہ اس سے مراد تخلیق اول کے ذریعے سے مرنے کے بعد زندہ کئے جانے پر استدلال ہو۔ جیسا کہ قرآن کریم کا طریقہ ہے۔ فصلت
22 ﴿وَمَا كُنتُمْ تَسْتَتِرُونَ أَن يَشْهَدَ عَلَيْكُمْ سَمْعُكُمْ وَلَا أَبْصَارُكُمْ وَلَا جُلُودُكُمْ﴾ ” اور (گناہ کرتے وقت) تم اس بات کے خوف سے تو پردہ نہیں کرتے تھے کہ تمہارے کان اور تمہاری آنکھیں اور تمہارے چمڑے تمہارے خلاف شہادت دیں گے۔“ یعنی تم اپنے اعضا کی گواہی سے اپنے آپ کو چھپا سکتے ہو نہ اس سے بچ سکتے ہو۔ ﴿ وَلَـٰكِن ظَنَنتُمْ﴾ ” لیکن تم یہ سمجھتے رہے“ گناہوں کا ارتکاب کر کے ﴿أَنَّ اللّٰـهَ لَا يَعْلَمُ كَثِيرًا مِّمَّا تَعْمَلُونَ﴾ ” بے شک اللہ کو تمہارے بہت سے عملوں کی خبر ہی نہیں۔“ اسی لئے تم سے یہ گناہ صادر ہوئے۔ فصلت
23 ان کا یہ گمان ان کی ہلاکت اور بدبختی کا سبب بنا، اس لئے فرمایا : ﴿وَذَٰلِكُمْ ظَنُّكُمُ الَّذِي ظَنَنتُم بِرَبِّكُمْ﴾ ” تمہارا یہی گمان جو تم نے اپنے رب کے متعلق کر رکھا تھا‘ یعنی تم نے اپنے رب کے بارے میں براگمان کیا جو اس کے جلال کے لائق نہ تھا۔ ﴿ أَرْدَاكُمْ﴾ ” وہی تمہیں لے ڈوبا۔“ یعنی اس نے تمہیں ہلاک کردیا۔ ﴿فَأَصْبَحْتُم مِّنَ الْخَاسِرِينَ﴾ ” لہٰذا تم خسارہ پانے والوں میں ہوگئے۔ تم نے اپنے اعمال کے سبب سے، جن کا موجب اپنے رب کے بارے میں تمہارا براگمان تھا، اپنے آپ کو، اپنے گھر والوں اور اپنے دین کو خسارے میں ڈالا۔ بنا بریں تم عذاب اور بدبختی کے مستحق ٹھہرے اور تمہارے لئے عذاب جہنم میں دائمی خلود واجب ہوا۔ یہ عذاب ایک گھڑی کے لئے بھی تم سے علیحدہ نہ ہوگا۔ فصلت
24 ﴿فَإِن يَصْبِرُوا فَالنَّارُ مَثْوًى لَّهُمْ﴾ ” اب اگر یہ صبر کریں (یا نہ کریں)ان کا ٹھکانا دوزخ ہی ہے۔“ اس پر کسی بھی حالت میں صبر نہیں ہوگا۔ اگر کسی حال میں صبر کا امکان فرض کرلیا جائے تاہم آگ کے سامنے صبر کرنا ممکن نہیں اور اس آگ پر صبر کرنا کیسے ممکن ہو سکتا ہے جس کی حرارت بے انتہا شدید ہے، اس کی حرارت دنیا کی آگ کی حرارت سے ستر گنا زیادہ ہے۔ اس کا پانی شدید گرم ہوگا، اس کی پیپ بے انتہا بدبو دار ہوگی، جہنم کے ٹھنڈے طبقے کی ٹھنڈک کئی گنا زیادہ ہوگی، اس کی زنجیریں، طوق اور گرز بہت بڑے ہوں گے۔ اس کے داروغے نہایت درشت مزاج ہوں گے اور ان کے دلوں سے ہرقسم کا رحم نکل چکا ہوگا اور آخری چیز یہ کہ جبار کی سخت ناراضی ہوگی، چنانچہ جب وہ اسے مدد کے لئے پکاریں گے تو وہ فرمائے گا : ﴿قَالَ اخْسَئُوا فِيهَا وَلَا تُكَلِّمُونِ ﴾(المؤمنون:23؍108) ” دفع ہوجاؤ، اسی میں پڑے رہو اور میرے ساتھ کلام نہ کرو۔ “ ﴿وَإِن يَسْتَعْتِبُوا﴾ ” اگر وہ توبہ کرنا چاہیں“ یعنی اگر وہ عتاب الٰہی کا ازالہ چاہتے ہوئے درخواست کریں گے کہ انہیں دنیا میں دوبارہ بھیجا جائے تاکہ وہ نئے سرے سے عمل کر کے اللہ تعالیٰ کی ناراض کو دور کرسکیں ﴿فَمَا هُم مِّنَ الْمُعْتَبِينَ﴾ ” تو ان کی توبہ قبول نہ کی جائے گی۔“ کیونکہ اس کا وقت گزر چکا ہوگا۔ اس گزرے ہوئے عرصے کے دوران ان کو غور و فکر کا موقع دیا گیا اور ان کے پاس برے انجام سے خبردار کرنے والے بھی آئے۔ ان کی حجت منقطع ہوگئی، نیز ان کی عتاب دور کرنے کی التجا بھی محض جھوٹ ہے۔ ﴿وَلَوْ رُدُّوا لَعَادُوا لِمَا نُهُوا عَنْهُ وَإِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ﴾(الانعام:6؍28) ” اگر ان کو لوٹا بھی دیا گیا تو یہ دوبارہ وہی کام کریں گے جن سے ان کو روکا گیا اور بے شک یہ جھوٹے ہیں۔ “ فصلت
25 یعنی ہم نے حق کا انکار کرنے والے ان ظالموں کے لئے ﴿قُرَنَاءَ ﴾ ” ہم نشین“ شیاطین کو ساتھی مقرر کردیا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿أَلَمْ تَرَ أَنَّا أَرْسَلْنَا الشَّيَاطِينَ عَلَى الْكَافِرِينَ تَؤُزُّهُمْ أَزًّا﴾(مریم:19؍83) ” کیا آپ دیکھتے نہیں ہم کفار کی طرف شیاطین کو بھیجتے ہیں جو انہیں برائی پر آمادہ کرتے رہتے ہیں۔‘‘ یعنی وہ انہیں گناہ کا ارتکاب کرنے کے لئے بے قرار رکھتے ہیں اور ان کو بہکاتے رہتے ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ان شیاطین نے مزین کردیا ﴿ لَهُم مَّا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ﴾ ” ان کے لئے جو ان کے آگے تھا اور جو ان کے پیچھے تھا، پس ان شیاطین نے دنیا اور اس کی خوبصورتی کو ان کی آنکھوں کے سامنے مزین کردیا اور انہیں اس کی لذات و شہوات محرمہ کے حوالے کردیا، یہاں تک کہ وہ فتنے میں مبتلا ہوگئے اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا اقدام کیا اور جیسے چاہا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں کے خلاف جنگ کی راہ چل نکلے اور انہوں نے آخرت کو ان سے دور کردیا اور اس کی یاد کو فراموش کرا دیا۔ بسا اوقات آخرت کے وقوع کے بارے میں ان کے دلوں میں شبہات پیدا کئے جس سے ان کے دلوں سے آخرت کا خوف چلا گیا اور وہ ان کو لے کر کفر، بدعات اور معاصی کی راہوں پر گامزن ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ کا ان مکذبین حق پر شیاطین کو مسلط کرنا، ان کی اللہ تعالیٰ کے ذکر، اس کی آیات سے روگردانی اور ان کے انکار حق کے سبب سے ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَمَن يَعْشُ عَن ذِكْرِ الرَّحْمَـٰنِ نُقَيِّضْ لَهُ شَيْطَانًا فَهُوَ لَهُ قَرِينٌ وَإِنَّهُمْ لَيَصُدُّونَهُمْ عَنِ السَّبِيلِ وَيَحْسَبُونَ أَنَّهُم مُّهْتَدُونَ﴾ (الزخرف:43؍36۔37)” اور جو شخص رحمان کے ذکر سے غفلت برتتا ہے تو ہم اس پر ایک شیطان مقرر کردیتے ہیں جو اس کا ساتھی ہوتا ہے۔ یہ شیاطین انہیں راہ راست پر چلنے سے روک دیتے ہیں جبکہ وہ یہی سمجھتے ہیں کہ بے شک وہ راہ راست پر چل رہے ہیں۔“ ﴿ وَحَقَّ عَلَيْهِمُ الْقَوْلُ ﴾ ” اور ان پر حکم الٰہی ثابت ہوگیا“ یعنی اللہ تعالیٰ کا قول ان پر واجب ہوگیا اور اس کی قضا و قدر کا فیصلہ، عذاب کے ساتھ ان پر نازل ہوگیا۔ ﴿فِي أُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِم مِّنَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ إِنَّهُمْ كَانُوا خَاسِرِينَ﴾ ” جنوں اور انسانوں کی جماعتوں میں جو ان سے پہلے گزر چکیں (جن پر بھی اللہ کا وعدہ پورا ہوا) کہ بے شک یہ نقصان اٹھانے والے ہیں۔“ جو اپنے دین اور آخرت کے بارے میں گھاٹے میں پڑگئے اور جو شخص گھاٹے میں پڑجائے تو اسے ذلت اور عذاب کا سامنا کرناپڑتا ہے۔ فصلت
26 اللہ تبارک و تعالیٰ قرآن کے بارے میں کفار کی روگردانی اور اس روگردانی کے ضمن میں ان کی ایک دوسرے کو وصیت سے آگاہ فرماتا ہے : ﴿وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَا تَسْمَعُوا لِهَـٰذَا الْقُرْآنِ﴾ ” اور کافر (ایک دوسرے سے) کہتے ہیں : اس قرآن کو نہ سنو“ یعنی اس قرآن کو سننے سے گریز کرو، اس کی طرف کوئی التفات کرو نہ اس کے لانے والے کی بات کی طرف کوئی توجہ دو۔ اگر تمہیں اس کے سننے کا کبھی اتفاق ہو یا اس کے احکام سننے کی دعوت دی جائے تو اس کی مخالفت کرو۔ ﴿وَالْغَوْا فِيهِ ﴾ ”(جب پڑھا جائے تو) خوب شو مچاؤ“ یعنی ایسی باتیں کرو جن کا کوئی فائدہ نہ ہو بلکہ الٹا نقصان ہو۔ جہاں تک تمہارے بس میں ہو کسی کو اپنے ساتھ، قرآن کی بات کرنے اور اس کے الفاظ یا اس کے معانی کی تلاوت کی اجازت نہ دو۔ اس قرآن مجید سے اعراض کے بارے میں یہ ان کی زبان حال اور زبان مقال ہے۔ ﴿ لَعَلَّكُمْ ﴾ ” تاکہ تم“ اگر تم نے یہ سب کچھ کیا ﴿تَغْلِبُونَ﴾ ” تم غالب رہو“ یہ دشمنوں کی طرف سے گواہی ہے اور واضح ترین حق وہ ہوتا ہے جس کی گواہی خود دشمن دیں کیونکہ انہوں نے اس شخص پر، جو حق لے کر آیا، اپنے غلبے کا حکم صرف اعراض اور روگردانی کے حال میں ایک دوسرے کو روگردانی کی وصیت کی صورت میں لگایا۔ ان کے کلام کا مفہوم یہ ہے کہ اگر وہ اس کی تلاوت میں خلل نہ ڈالیں اور اسے غور سے سنیں تو وہ کبھی غالب نہیں آسکتے کیونکہ حق ہمیشہ غالب رہتا ہے کبھی مغلوب نہیں ہوسکتا۔ اس حقیقت کو اصحاب حق اور اعدائے حق سب جانتے ہیں۔ چونکہ یہ سب کچھ ان کے ظلم اور عناد کے باعث تھا، اس لئے ان کی ہدایت کی توقع باقی نہیں رہی اب ان کے لئے عذاب اور سزا باقی رہ گئی تھی۔ فصلت
27 بنا بریں فرمایا : ﴿فَلَنُذِيقَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا عَذَابًا شَدِيدًا وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَسْوَأَ الَّذِي كَانُوا يَعْمَلُونَ﴾ ” پس ہم بھی کافروں کو سخت عذاب کا مزہ چکھائیں گے اور ان کے برے عملوں کی، جو وہ کرتے تھے، سزا دیں گے۔“ اس سے مراد کفر اور معاصی ہے اور یہ ان کے بدترین اعمال ہیں۔ یہ عذاب کی سزا ان کے شرک کی جزا ہے۔ ﴿وَلَا يَظْلِمُ رَبُّكَ أَحَدًا ﴾ (الکھف:18؍49)” اور آپ کا رب کسی پر ظلم نہیں کرتا۔“ فصلت
28 ﴿ذَٰلِكَ جَزَاءُ أَعْدَاءِ اللّٰـهِ ﴾ ” اللہ کے دشمنوں کی یہی سزا ہے“ جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ جنگ کی اور اللہ تعالیٰ کے اولیاء کے ساتھ جنگ کی ان کی جزا، ان کے کفر، تکذیب، مجادلہ اور جنگ کے سبب سے ﴿النَّارُ لَهُمْ فِيهَا دَارُ الْخُلْدِ ﴾ ” جہنم کی آگ ہے جس میں ان کا ہمیشگی کا گھر ہے۔“ یعنی وہ جہنم میں ہمیشہ رہیں گے گھڑی بھر کے لئے ان سے عذاب دور ہوگا نہ ان کی مدد ہی کی جائے گی۔ ﴿جَزَاءً بِمَا كَانُوا بِآيَاتِنَا يَجْحَدُونَ﴾ ” یہ اس بات کی سزا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی آیات کا انکار کرتے تھے۔“ کیونکہ یہ نہایت واضح آیات اور قطعی دلائل ہیں جو یقین کا فائدہ دیتے ہیں، لہٰذا ان کا انکار کرنا سب سے بڑا عناد اور سب سے بڑا ظلم ہے۔ فصلت
29 ﴿وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا﴾ ” اور کافروں نے کہا :“ اس سے مراد متبعین ہیں اور اس کی دلیل بعد میں آنے والا کلام ہے، یعنی یہ کفار ان لوگوں پر سخت غصے کی وجہ سے یہ بات کہیں گے جنہوں نے ان کو گمراہ کیا : ﴿رَبَّنَا أَرِنَا اللَّذَيْنِ أَضَلَّانَا مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ﴾ ” اے ہمارے رب ! ہمیں جنوں اور انسانوں میں سے وہ لوگ دکھلا دے جنہوں نے ہمیں گمراہ کیا تھا۔“ یعنی جن و انس کی دونوں اصناف، جنہوں نے گمراہی اور عذاب کی طرف ہمیں دعوت دی اور اس راہ میں ہماری قیادت کی، وہ ہمیں دکھا۔ ﴿نَجْعَلْهُمَا تَحْتَ أَقْدَامِنَا لِيَكُونَا مِنَ الْأَسْفَلِينَ ﴾ ” ہم انہیں اپنے پاؤں تلے روند ڈالیں، تاکہ وہ سب سے زیادہ ذلیل و خوار لوگوں میں شمار ہوں۔“ انہوں نے ہمیں گمراہ کیا، ہمیں فتنے میں مبتلا کیا اور ہمیں جہنم میں ڈالنے کا سبب بنے۔ اس آیت کریمہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ جہنمی ایک دوسرے کے خلاف سخت بغض رکھیں گے اور ایک دوسرے سے بیزاری کا اظہار کریں گے۔ فصلت
30 اللہ تعالیٰ اپنے اولیاء کا ذکر فرماتا ہے اور اس ضمن میں اہل ایمان میں نشاط پیدا کرتا اور انہیں ان کی اقتدا کرنے کی ترغیب دیتا ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللّٰـهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا ﴾ ” بے شک جن لوگوں نے کہا ہمارا رب اللہ ہے پھر وہ اس پر ڈٹ گئے“ یعنی جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کا اعتراف کر کے اس کا اعلان کیا، اللہ تعالیٰ کی ربوبیت پر راضی ہوئے، اس کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کردیا پھر علم و عمل کے اعتبار سے راہ راست پر استقامت کے ساتھ گامزن ہوئے ان کے لئے دنیا و آخرت میں خوشخبری ہے۔ ﴿تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ﴾ ” ان پر (نہایت عزت و اکرام والے) فرشتے نازل ہوتے ہیں“ یعنی ان کا نزول بتکرار رہتا ہے۔ وہ ان کے پاس حاضرہو کر خوشخبری دیتے ہیں ﴿أَلَّا تَخَافُوا ﴾ ” نہ ڈرو“ یعنی اس معاملے پر خوف نہ کھاؤ جو مستقبل میں تمہیں پیش آنے والا ہے ﴿ وَلَا تَحْزَنُوا ﴾ ” اور نہ غمگین رہو“ یعنی جو کچھ گزر چکا ہے اس پر غم نہ کھاؤ۔ گویا ماضی اور مستقبل میں ان سے کسی بھی ناگوار امر کی نفی کردی گئی ہے۔ ﴿وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنتُمْ تُوعَدُونَ﴾ ” اور تمہیں اس جنت کی بشارت ہو جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے۔“ یہ جنت تمہارے لئے واجب ہوگئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا وعدہ تو پورا ہو کر رہے گا۔ فصلت
31 وہ ثابت قدمی کے لئے ان کی ہمت بڑھاتے اور ان کو خوشخبری دیتے ہوئے یہ بھی کہیں گے : ﴿نَحْنُ أَوْلِيَاؤُكُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ﴾ ” ہم تمہارے دوست ہیں دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں۔“ وہ دنیا کے اندر انہیں بھلائی کی ترغیب دیتے ہیں اور بھلائی کو ان کے سامنے مزین کرتے ہیں۔ وہ ان کو برائی سے ڈراتے ہیں اور ان کے دلوں میں برائی کو قبیح بنا کر پیش کرتے ہیں۔ ان کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرتے ہیں اور مصائب اور مقامات خوف میں ان کو ثابت قدم رکھتے ہیں۔ خاص طور پر موت کی سختیوں، قبر کی تاریکیوں، قیامت کے روز پل صراط کے ہولناک منظر کے وقت ان کی ہمت بڑھاتے ہیں اور جنت کے اندر ان سے کہیں گے ﴿سَلَامٌ عَلَيْكُم بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ﴾(الرعد:13؍24) ” تم پر سلامتی ہے، دنیا میں تمہارے صبر کے سبب سے، کیا ہی اچھا ہے آخرت کا گھر !“ نیز وہ ان سے یہ بھی کہیں گے : ﴿وَلَكُمْ فِيهَا﴾ ” اور اس میں تمہارے لئے، یعنی جنت کے اندر ﴿مَا تَشْتَهِي أَنفُسُكُمْ﴾ ” جو چیز تمہارے نفس چاہیں گے“ وہ تیار اور مہیا ہوگی۔ ﴿ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَّعُونَ﴾ اور تمہارے لیے ہوگا جو کچھ تم طلب کرو گے۔‘‘ یعنی لذات وشہوات میں سے جس چیز کا تم ارادہ کرو گے تمہیں حاصل ہوگی۔ ان لذات کو کسی آنکھ نے دیکھا ہے نہ کسی کان نے سنا ہے اور نہ کسی بشر کے قلب میں اس کا خیال گزرا ہے۔ فصلت
32 ﴿نُزُلًا﴾یہ بے پایاں ثواب اور ہمیشہ رہنے والی نعمت، مہمانی اور ضیافت ہے ﴿ مِّنْ غَفُورٍ﴾” بخش دینے والی ہستی کہ طرف سے۔‘‘ جس نے تمہارے گناہوں کو بخش دیا ہے۔﴿ رَّحِيمٍ﴾ بہت ہی رحم رنے والی ہستی کی طرف سے۔“ جس نے تمھیں نیکیوں کی توفیق دی پھر ان نیکیوں کو قبول فرمایا۔ اس نے اپنی مغفرت سے برائی کو تم سے دور کیا اور اپنی رحمت سے تمھارا مطلوب عطا کیا۔ فصلت
33 یہ استفہام متحقق اور ثابت شدہ نفی کے معنوں میں ہے، یعنی کسی کا قول اچھا نہیں۔﴿ مِّمَّن دَعَا إِلَى اللّٰـهِ ﴾یعنی کسی کا کلام طریقہ اور حال اس شخص سے بڑھ کر اچھا نہیں ” جس نے اللہ کی طرف بلایا، جو جہلا کو تعلیم کے ذریعے سے غافلین اور اعراض کرنے والوں کو وعظ نصیحت کے ذریعے سے اور اہل باطل کو بحث وجدال کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دیتا ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کی تمام انواع کی عبادت کا حکم اور اس کی ترغیب دیتا ہے اور جیسے بھی ممکن ہو اس عبادت کی تحسین کرتا ہے اور ہر اس چیز پر زجروتوبیخ کرتا ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے روکا ہو اور ہر اس طریقے سے اس کی قباحت بیان کرتا ہے جو اس کے ترک کرنے کا موجب ہے۔ خاص طور پر یہ دعوت اصول دین اسلام اس کی تحسین اور اس کے دشمنوں کے ساتھ احسن طریقے سے مباحثہ ومجادلہ کی دعوت اس دعوت کے متضاد امور مثلا کفروشرک سے ممانعت امربالمعروف اور نہی عن المنکر پر مشتمل ہے۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی تفاصیل اس کے لامحدود جودواحسان اس کی کامل رحمت، اس کے اوصاف کمال اور نعوت جلال کے ذکر کے ذریعے سے اس کے بندوں میں اس کی محبت پیدا کرنا اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینا ہے۔ کتاب اللہ اور سنت رسول سے علم وہدایت کے حصول کی ترغیب اور ہر طریقے سے اس پر آمادہ کرنا دعوت الی اللہ کے زمرے میں آتا ہے۔ مکارم اخلاق کی ترغیب، تمام مخلوق کے ساتھ بھلائی کرنا، برائی کرنے والے کے ساتھ بھلائی سے پیش آنا صلہ رحمی اور والدین کے ساتھ حسن سلوک سب دعوت الی اللہ کا حصہ ہے۔ مختلف مواقع، حوادث اور مصائب پر حالات کی مناسبت سے عام لوگوں کو وعظ ونصیحت کرنا دعوت الی اللہ میں شمار ہوتا ہے۔ الغرض ہر بھلائی کی ترغیب اور ہر برائی سے ترہیب دعوت الی اللہ میں شامل ہے۔ پھر فرمایا : ﴿وَعَمِلَ صَالِحًا﴾اور نیک عمل کیے“ یعنی لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینے کے ساتھ ساتھ خود بھی اللہ تعالیٰ کے حکم کی اطاعت کرنے ہوئے اپنے رب کو راضی کرنے کے لیے عمل صالح کرتا ہو۔﴿وَقَالَ إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ﴾ ” اور کہے کہ میں ان لوگوں میں سے ہوں جو اللہ تعالیٰ کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہیں“ یعنی جو اس کے حکموں کے تابع اور اس کی راہ پر گامزن ہیں اور یہ تمام ترصد یقین کا مرتبہ ہے جو اپنی تکمیل اور دوسروں کی تکمیل کے لیے عمل پیرا رہتے ہیں۔ انھیں انبیاء ومرسلین کی مکمل وراثت حاصل ہوئی ہے۔ اسی طرح گمراہی کے راستے پر چلنے والے گمراہ داعیوں کا قول بدترین قول ہے۔ ان دو متباین مراتب کے درمیان جس میں ایک اعلیٰ علبیین کا مرتبہ اور دوسرا اسفل الاسفلین کا مرتبہ ہے اتنے مراتب ہیں جن کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ ہر مرتبہ لوگوں سے معمور ہے ۔﴿وَلِكُلٍّ دَرَجَاتٌ مِّمَّا عَمِلُوا وَمَا رَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا يَعْمَلُونَ﴾(الانعام:6؍132)” اور ہر شخص کے لیے اس کے عمل کے مطابق درجہ ہے اور آپ کا رب ان اعمال سے بے خبر نہیں جو لوگ کرتے ہیں۔ “ فصلت
34 ﴿ وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ ﴾” نیکی اور بدی یکساں نہیں ہوسکتیں“ یعنی نیکی اور اطاعت کا فعل جو اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر سرانجام دیا گیا اور بدی اور گناہ کا فعل جس میں اللہ تعالیٰ کی ناراضی ہو کبھی برابر نہیں ہوسکتے مخلوق کے ساتھ حسن سلوک اور مخلوق کے ساتھ برا سلوک دونوں برابر نہیں ہوسکتے اپنی ذات میں برابر ہوسکتے ہیں نہ اپنے اوصاف میں اور نہ اپنی جزا میں۔ فرمایا ﴿هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ﴾(الرحمٰن:55؍60)” نیکی کا بدلہ نیکی کے سوا کچھ نہیں۔ “ پھر اللہ تبارک وتعالیٰ نے احسان خاص کا ذکر فرمایا جس کا بڑا مقام ہے اور وہ ہے اس شخص کے ساتھ احسان کرنا جس نے آپ کے ساتھ برا سلوک کیا اس لیے فرمایا ﴿ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ﴾” آپ( بدی کا) اسی بات سے دفاع کیجیے جو اچھی ہو“ یعنی جب کبھی لوگوں میں سے کوئی شخص آپ کے ساتھ براسلوک کرے، خاص طور پر وہ شخص جس کا آپ پر بہت بڑا حق ہے مثلاً عزیز و اقارب اور دوست احباب وغیرہ۔ یہ برا سلوک قول کے ذریعے سے ہو یا فعل کے ذریعے سے اس کا مقابلہ ہمیشہ حسن سلوک سے کریں۔ اگر اس نے آپ سے قطع رحمی کی ہے تو آپ اس سے صلہ رحمی کریں اگر وہ آپ پر ظلم کرے آپ اس کو معاف کریں۔ اگر وہ آپ کے بارے میں آپ کی موجودگی یا غیر موجودگی میں کوئی بات کہے تو آپ اس کا مقابلہ نہ کریں بلکہ اس کو معاف کردیں اور اس کے ساتھ انتہائی نرمی سے بات کریں۔ اگر وہ آپ سے بول چال چھوڑ دے تو آپ اس سے اچھی طرح بات کریں اور اسے کثرت سے سلام کریں۔ جب آپ اس کی برائی کے بدلے حسن سلوک سے پیش آئیں گے تو آپ کو عظیم فائدہ حاصل ہوگا ۔﴿فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ﴾’’کہ جس میں اور تم میں دشمنی تھی گویا وہ تمھارا گرم جوش دوست ہے۔“ یعنی گویا کہ وہ قریبی اور انتہائی مشفق ہے۔ فصلت
35 ﴿وَمَا يُلَقَّاهَا﴾ اور نہیں نصیب ہوتی یہ (صفت) “ یعنی اس خصلت حمیدہ کی توفیق نہیں دی جاتی ہے۔﴿ إِلَّا الَّذِينَ صَبَرُوا﴾” مگر ان لوگوں کو جو صبر کرتے ہیں“ جو اپنے نفس کو ان امور کا پابند بناتے ہیں جنھیں ان کے نفس ناپسند کرتے ہیں اور انھیں ایسے امور پر عمل کرنے پر مجبور کرتے ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے۔ نفس انسانی کی جبلت ہے کہ وہ برائی کا مقابلہ برائی اور عدم عفو سے کرتا ہے تب وہ احسان کیوں کرسکتا ہے؟ جب انسان اپنے نفس کو صبر کا پابند بنا لیتا ہے اور اپنے رب کی اطاعت کرتا ہے اور اس کے بے پایاں ثواب کو جانتا ہے اور اسے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ براسلوک کرنے والے کے ساتھ اسی جیسا سلوک کرنا اسے کچھ فائدہ نہیں دے گا اور عداوت صرف شدت ہی میں اضافے کا باعث ہوگی اور یہ بھی علم ہے کہ براسلوک کرنے والے کے ساتھ حسن سلوک کرنے سے اس کی قدرومنزلت کم نہیں ہوگی بلکہ جو اللہ تعالیٰ کے لیے تواضع اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے رفعت عطا کرتا ہے تب معاملہ اس کے لیے آسان ہوجاتا ہے اور وہ اس فعل کو سر انجام دیتے ہوئے لذت محسوس کرتا ہے۔ ﴿وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا ذُو حَظٍّ عَظِيمٍ ﴾” اور یہ مقام انہی لوگوں کو نصیب ہوتا ہے جو بڑے صاحب نصیب ہیں۔“ یہ خاص لوگوں کی خصلت ہے جس کے ذریعے سے بندے کو دنیا وہ آخرت میں رفعت عطا ہوتی ہے اور یہ مکارم اخلاق میں سب سے بڑی خصلت ہے۔ فصلت
36 اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا کہ انسان کو اپنے دشمن انسان کے ساتھ کیسے پیش آنا چاہیے یعنی اسے اس کی برائی کے مقابلے میں حسن سلوک سے پیش آنا چاہیے۔ اس کے بعد ذکر فرمایا کہ انسان شیطان کو جو اس کا دشمن ہے کیسے دور ہٹائے؟ اور وہ اس طرح کہ بندہ شیطان کےشرسے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرے،چنانچہ فرمایا : ﴿وَإِمَّا يَنزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطَانِ نَزْغٌ ﴾’’اگر تمہیں شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ پیدا ہو۔‘‘ یعنی آپ کسی بھی وقت شیطان کی طرف سے کوئی اکساہٹ محسوس کریں یعنی شیطان کا وسوسہ اس کا شرکو آراستہ کرنا اور خیر کو بدنما بنا کر پیش کرنا یا اس کے کسی حکم کی اطاعت کا خدشہ محسوس کریں ﴿فَاسْتَعِذْ بِاللّٰـهِ﴾” تو اللہ کی پناہ مانگیے“ یعنی اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنی احتیاج کا اظہار کرتے ہوئے اس سے سوال کریں کہ وہ آپ کو پناہ دے اور آپ کو شیطان سے محفوظ رکھے۔﴿إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ ﴾ کیونکہ وہ آپ کی بات اور عاجزانہ دعا کو سنتا ہے وہ آپ کے حال کو جانتا ہے اور اسے یہ بھی معلوم ہے کہ آپ اس کی حمایت وحفاظت کی ضرورت مند ہیں۔ فصلت
37 پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا﴿مِنْ آيَاتِهِ﴾ اس کے نشانیوں میں سے جو اس کے کمال قدرت نفوذ مشیت لامحدودقوت اور بندوں پر بے پایاں رحمت پر دلالت کرتی ہیں نیز اس حقیقت پر دلالت کرتی ہیں کہ وہ اللہ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں﴿ اللَّيْلُ وَالنَّهَارُ﴾دن اور رات ہیں۔ دن اپنی روشنی کی منفعت کی بنا پر نشانی ہے کہ لوگ دن کی روشنی میں اپنے کام کاج کے لیے پھرتے ہیں۔ رات اپنی تاریکی کی منفعت کی بنا پر نشانی ہے کہ مخلوق رات کی تاریکی میں آرام کرتی ہے ۔﴿وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ ﴾اور سورج اور چاند ہیں۔ جن کے بغیر بندوں کی معاش ان کے ابدان اور ان کے حیوانات کے ابدان درست نہیں رہتے۔ سورج اور چاند کے ساتھ مخلوق کے بے شمار مصالح وابستہ ہیں۔ ﴿لَا تَسْجُدُوا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ’﴾’’تم سورج کو سجدہ کرونہ چاند کو“ کیونکہ یہ دونوں تو مخلوق اور اللہ تعالیٰ کے دست تدبیر کے تحت مسخر ہیں۔﴿وَاسْجُدُوا لِلَّـهِ الَّذِي خَلَقَهُنَّ﴾ ’’اور اللہ کو سجدہ کر جس نے ان سب چیزوں کو پیدا کیا ہے۔“ یعنی اسی اکیلے کی عبادت کرو کیونکہ وہی خالق عظیم ہے اور اس کے سوا تمام مخلوقات کی عبادت چھوڑ دو، خواہ وہ کتنی ہی بڑی ور ان کے فوائد کتنے ہی زیادہ کیوں نہ ہوں کیونکہ یہ مصالح اور فوائدان کے خالق کی طرف سے ودیعت کیے گئے ہیں جو نہایت بابرکت اور بلند ہے﴿ إِن كُنتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُون﴾ اگر تم اسی کی عبادت کرتے ہو۔ پس اسی کے لیے اپنی عبادت کو خاص کرو۔ اور اسی کے لیے اپنے دین کو خالص کرو۔ فصلت
38 ﴿فَإِنِ اسْتَكْبَرُوا﴾ اگر وہ تکبر و ستکبار کی بنا پر اللہ تعالیٰ کی عبادت نہ کریں اور اللہ تعالیٰ کی آیات وبراہین کے سامنے سرتسلیم خم نہ کریں تو وہ اللہ تعالیٰ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے، اللہ ان سے بے نیاز ہے۔ اللہ تعالیٰ کے کچھ مکرم بندے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو جو حکم دیتا ہے وہ اس کی نافرمانی نہیں کرتے اور ان کو جو حکم دیا جاتا ہے وہ اس کی تعمیل کرتے ہیں اس لیے فرمایا: ﴿ فَالَّذِينَ عِندَ رَبِّكَ ﴾’’پس جو تیرے رب کے پاس ہیں یعنی مقرب فرشتے“﴿يُسَبِّحُونَ لَهُ بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَهُمْ لَا يَسْأَمُونَ ﴾وہ دن رات اس کی تسبیح بیان کرتے ہیں اور وہ تھکتے نہیں۔‘‘ یعنی وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت سے اکتاتے نہیں کیونکہ وہ نہایت طاقتور ہوتے ہیں۔ ان کے اندر عبادت کا داعیہ بھی نہایت قوی ہوتا ہے۔ فصلت
39 ﴿وَمِنْ آيَاتِهِ ﴾ اور اس کی نشانیوں میں سے جو اس کے کمال قدرت ملکیت و تدبیر کائنات اور وحدانیت میں متفروہونے پر دلالت کرتی ہیں ایک نشانی یہ ہے﴿ أَنَّكَ تَرَى الْأَرْضَ خَاشِعَةً﴾کہ بے شک تو زمین کو دبی ہوئی دیکھتا ہے یعنی اس کے اندر کوئی نباتات نہیں ہوتی﴿فَإِذَا أَنزَلْنَا عَلَيْهَا الْمَاءَ﴾ ” پس جب ہم اس پر پانی اتارتے ہیں۔“ یعنی بارش برساتے ہیں ﴿اهْتَزَّتْ﴾’’تو وہ شاداب ہوجاتی ہے“ یعنی نباتات کے ساتھ لہلہا اٹھتی ہے۔﴿وَرَبَتْ﴾ ” اور ابھرنے لگتی ہے‘‘ یعنی وہ ہر قسم کی خوش منظر نباتات اگاتی ہے جس سے تمام بندوں اور زمین کی زندگی ہوتی ہے ۔﴿ إِنَّ الَّذِي أَحْيَاهَا﴾بے شک جس نے اس (زمین) کو زندہ کیا جس نے اس کے مر جانے اور بنجر ہوجانے کے بعد اس کو زندہ کیا ﴿لَمُحْيِي الْمَوْتَىٰ﴾وہ قبروں سے مردوں کو بھی قیامت کے روز زندہ کرے گا۔ ﴿إِنَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ﴾’’بے شک وہ ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘ جس طرح اس کی قدرت زمین کے مردہ اور بنجر ہوجانے کے بعد اس کو زندہ کرنے سے عاجز نہیں اسی طرح وہ مردوں کو زندہ کرنے میں بھی بے بس نہیں۔ فصلت
40 اللہ تعالیٰ کی آیات میں الحاد سے مراد ہے کہ ان کو کسی بھی لحاظ سے حق وصواب سے ہٹادینا۔ یا تو ان آیات الہٰی کا انکار کردینا اور ان آیات کو لانے والے رسول کی تکذیب کرنا یا ان آیات الٰہی کو ان کے حقیقی معانی سے ہٹا کر ایسے معانی کا اثبات کرنا جو اللہ تعالیٰ کی مراد نہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے الحاد کرنے والوں کو وعید سنائی ہے کہ اس پر کوئی چیز مخفی نہیں اسے اس کے ظاہر وباطن کی اطلاع ہے اور وہ عنقریب اسے اس کے الحاد کی سزادے گا۔ بنا بریں فرمایا :﴿ أَفَمَن يُلْقَىٰ فِي النَّارِ﴾” کیا جو شخص آگ میں ڈالا جائے گا“ مثلاً اللہ تعالیٰ کی آیات میں الحاد کرنے والا﴿خَيْرٌ أَم مَّن يَأْتِي آمِنًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ﴾ وہ بہتر ہے یا وہ جو قیامت کے دن امن وامان سے آئے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کےعذاب سے محفوظ ومامون اور اس کے ثواب کا مستحق ہے؟ اور یہ بدیہی طور پر معلوم ہے کہ یہی شخص بہتر ہے۔ جب باطل سے حق واضح ہوگیا اور اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نجات دینے والا راستہ ہلاکت کی گھاٹیوں میں پہنچانے والے راستے سے الگ ہوگیا تو فرمایا: ﴿اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ ﴾” تم جو چاہو کرلو۔‘‘ چاہو تو ہدایت کا راستہ اختیار کرلو جو رضائے الٰہی اور جنت کی منزل کو جاتا ہے اور چاہو تو گمراہی کے راستے کو اختیار کرلو جو اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور بدبختی کی منزل پر جا کر ختم ہوتا ہے: ﴿إِنَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ﴾” بے شک جو کچھ تم کرتے ہو وہ اس کو دیکھ رہا ہے‘‘ اس لیے وہ تمہارے احوال واعمال کے مطابق جزادے گا۔ جیساکہ فرمایا : ﴿وَقُلِ الْحَقُّ مِن رَّبِّكُمْ فَمَن شَاءَ فَلْيُؤْمِن وَمَن شَاءَ فَلْيَكْفُرْ﴾(الکہف:18؍29)’’اور کہ دیجیے حق تمہارے رب کی طرف سے ہے جس کا جی چاہے ایمان لے آئے اور جس کا جی چاہے کفر کا رویہ اختیار کرے۔‘‘ فصلت
41 پھر فرمایا :﴿ إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِالذِّكْرِ﴾ ”بلاشبہ وہ لوگ جنھوں نے انکار کیا ذکر (قرآن کریم)کا‘‘ یعنی جو لوگ قرآن کریم کا انکار کرتے ہیں جو بندوں کو ان کےدینی، دنیاوی اور اخروی مصالح کی یاددہانی کراتا ہے اور جو اس کی اتباع کرے اس کا مرتبہ بلند کرتا ہے: ﴿لَمَّا جَاءَهُمْ﴾ ’’جب کہ وہ ان کے پاس آیا۔“ یعنی افضل اور کامل ترین ہستی کے ذریعے سے ان کے رب کی طرف سے نعمت کے طور پر آیا۔ ﴿وَ﴾اور حال یہ ہے کہ ﴿إِنَّهُ لَكِتَابٌ﴾” بے شک وہ ایک کتاب ہے‘‘ جو اوصاف کمال کی جامع ہے ﴿ عَزِيزٌ﴾” زبردست“ یعنی ہر قسم کے ارادہ تحریف اور برائی سے محفوظ و مامون ہے۔ فصلت
42 ﴿ لَّا يَأْتِيهِ الْبَاطِلُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهِ ﴾اسی لیے فرمایا ” اس پر جھوٹ کا دخل آگے سے ہوسکتا ہے نہ پیچھے سے۔“ یعنی شیاطین جن وانس میں سے کوئی شیطان، چوری یا دخل اندازی یا کمی بیشی کے ارداے سے اس کے قریب نہیں آسکتا۔ یہ اپنی تنزیل میں محفوظ اور اس کے الفاظ ومعانی ہر تحریف سے مامون ومصئون ہیں۔ جس ہستی نے اسے نازل کیا ہے اس نے اس کی حفاظت کا ذمہ اٹھا یا ہے اور فرمایا :﴿إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ ﴾(الحجر:15؍9)’’بے شک ہم نے ” ذکر“ (یعنی قر آن) کو نازل کیا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔‘‘ ﴿ تَنزِيلٌ مِّنْ حَكِيمٍ حَمِيدٍ ﴾یعنی اس ہستی کی طرف سے نازل کردہ ہے جو اپنے خلق و امر میں حکمت والی ہے جو ہر چیز کو اس کے مناسب حال مقام پر رکھتی ہے۔﴿ حَمِيدٍ ﴾’’قابل تعریف ہے‘‘جو اپنی صفات کمال، نعوت جلال اور اپنے عدل واحسان پر قابل تعریف ہے، بنابریں اس کی کتاب تمام تر حکمت، تحصیل مصالح و منافع اور دفع مفاسد کی تکمیل پر مشتمل ہے جن پر وہ ہستی قابل تعریف ہے۔ فصلت
43 ﴿ مَّا يُقَالُ لَكَ ﴾” نہیں کہا جاتا ہے آپ سے‘‘ رسول ! یہ اقوال جو آپ کی تکذیب کرنے والوں اور آپ سے عنادرکھنے والوں کی زبان سے صادر ہو رہے ہیں۔ ﴿ إِلَّا مَا قَدْ قِيلَ لِلرُّسُلِ مِن قَبْلِكَ ﴾’’مگر وہی جو آپ سے پہلے رسولوں سے کہا گیا“ یعنی یہ اقوال ان اقوال کی جنس سے ہیں جو آپ سے پہلے رسولوں سے کہے گئے بلکہ بسا اوقات انھوں نے ایک جیسی بات کہی مثلا انبیاء و مرسلین کی تکذیب کرنے والی امتوں نے خالص اللہ اور اس اکیلے کی عبادت کی طرف دعوت پر تعجب کا اظہار کیا اور ہر ممکن طریقے سے اس دعوت کو رد کیا۔ وہ بھی کہتے تھے: ﴿ مَا أَنتُمْ إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا ﴾(یٰس:36؍15)’’تم ہماری ہی طرح بشرہو۔‘‘ اسی طرح ان کا اپنے رسولوں سے معجزات کا مطالبہ کرنا جن کا دکھانا ان پر لازم نہ تھا اور اسی قسم کے دیگر الٖفاظ جو اہل تکذیب کی زبان سے صادر ہوئے۔ چونکہ کفر میں ان کے دل ایک دوسرے سے مشا بہت رکھتے ہیں اس لیے ان کے اقوال بھی ایک دوسرے سے مشابہ ہیں۔ تمام انبیاء و مرسلین نے کفار کی ایذارسانی اور ان کی تکذیب پر صبر کیا اس لیے آپ بھی صبر کیجئے جس طرح آپ سے قبل انبیاء ومر سلین نے صبرکیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے کفار کا توبہ اور اسباب مغفرت کی طرف آنے کی دعوت دی اور انھیں اپنی گمراہی پر جمے رہنے سے ڈرایا چنانچہ فرمایا :﴿ إِنَّ رَبَّكَ لَذُو مَغْفِرَةٍ﴾ ” بے شک آپ کا رب معاف کردینے والا بھی ہے“ یعنی تیرا رب عظیم مغفرت کا مالک ہے جو اس شخص کے ہر گناہ کو مٹا دیتا ہے جو توبہ کر کے گناہ سے رک جاتا ہے۔ ﴿ وَذُو عِقَابٍ أَلِيمٍ ﴾ ”اور درد ناک سزا دینے والا بھی ہے۔“ اس شخص کے لئے درد ناک عذاب ہے جو تکبر کرتے ہوئے گناہ پر اصرار کرتا ہے۔ فصلت
44 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے فضل و کرم کا ذکر کرتا ہے کہ اس نے اپنی کتاب رسول عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر، آپ کی قوم کی زبان، عربی میں نازل کی تاکہ اس سے ان پر راہ ہدایت واضح ہوجائے۔ اس کتاب کریم کا یہ وصف زیادہ اعتنا کا موجب ہے اور اس امر کا تقاضا کرتا ہے کہ سرتسلیم خم کر کے اسے قبول کیا جائے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے اس کتاب عظیم کو کسی عجمی زبان میں بھیجا ہوتا تو اس کی تکذیب کرنے والے کہتے: ﴿ لَوْلَا فُصِّلَتْ آيَاتُهُ ﴾ اس کی آیات کو واضح کیوں نہ کیا گیا، اس کی تفسیر کیوں نہ بیا ن کی گئی ﴿ أَأَعْجَمِيٌّ وَعَرَبِيٌّ ﴾ ” یہ کیا بات ہے کہ کتاب عجمی زبان میں اور مخاطب عربی؟“ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عربی ہیں اور کتاب عجمی ہو؟ یہ نہیں ہوسکتا۔ اللہ تعالیٰ نے اسی لئے اپنی کتاب سے ہر امر کی نفی کردی جس میں اہل باطل کے لئے کوئی شبہ ہوسکتا ہے اور اسے ایسے اوصاف سے موصوف فرمایا جو ان پر اطاعت کو واجب ٹھہراتا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ اہل ایمان جن کو اللہ تعالیٰ نے توفیق سے نوازا ہے اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور بلند درجے پاتے ہیں اور دیگر لوگوں کے احوال اس کے برعکس ہوتے ہیں۔ بنا بریں فرمایا : ﴿ هُوَ لِلَّذِينَ آمَنُوا هُدًى وَشِفَاءٌ ﴾” کہہ دیجیے کہ جو ایمان لاتے ہیں، ان کے لئے یہ ہدایت اور شفا ہے۔“ یعنی یہ کتاب انہیں رشد و ہدایت اور راہ راست دکھاتی ہے اور انہیں علوم نافعہ کی تعلیم دیتی ہے جس سے ہدایت کامل حاصل ہوتی ہے۔ اس کتاب عظیم میں ان کے جسمانی اور روحانی امراض کی شفا ہے کیونکہ کتاب، برے اخلاق اور برے اعمال پر ان کی زجر و توبیخ کرتی ہے اور انہیں ایسی خالص توبہ پر آمادہ کرتی ہے جو گناہوں کو دھوکر قلوب کو شفا بخشتی ہے۔ ﴿ وَالَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ ﴾ ” اور وہ لوگ جو ایمان نہیں لاتے“ قرآن پر ﴿ فِي آذَانِهِمْ وَقْرٌ ﴾ ” ان کے کانوں میں بوجھ ہے۔“ یعنی وہ اس کو سننے سے محروم اور اس سے روگردانی کا شکار ہیں۔ ﴿ وَهُوَ عَلَيْهِمْ عَمًى ﴾ ” یہ ان کے حق میں اندھا پن ہے“ جس کی وجہ سے انہیں رشد و ہدایت نظر آتی ہے نہ راہ راست ملتی ہے۔ یہ کتاب ان کی گمراہی میں اضافہ کرتی ہے کیونکہ جب یہ لوگ حق کو ٹھکرا دیتے ہیں تو ان کے اندھے پن میں اضافہ ہوجاتا ہے اور ان پر ایک اور تہہ چڑھ جاتی ہے۔ ﴿ أُولَـٰئِكَ يُنَادَوْنَ مِن مَّكَانٍ بَعِيدٍ ﴾ ” یہ وہ ہیں جنہیں دور جگہ سے آواز دی جاتی ہے۔“ یعنی جنہیں ایمان کے لئے پکارا اور اس کی طرف بلایا جا رہا ہو اور وہ جواب نہ دے سکتے ہوں ایسے لوگ اس شخص کی مانند ہیں جسے بہت دور سے پکارا جا رہا ہو، جسے پکارنے والے کی آواز سنتی ہو نہ وہ جواب دے سکتا ہو۔ مقصد یہ ہے کہ وہ لوگ جو قرآن پر ایمان نہیں لاتے وہ اس کی راہنمائی اور اس کی روشنی سے مستفید ہوسکتے ہیں نہ انہیں اس عظیم کتاب سے کوئی بھلائی حاصل ہوسکتی ہے کیونکہ انہوں نے اپنے اعراض اور کفر کے سبب سے خود اپنے آپ پر ہدایت کے دروازے بند کر لئے ہیں۔ فصلت
45 اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿ وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ ﴾ ” اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام)کو بھی کتاب عطا کی تھی“ جس طرح آپ کو کتاب عطا کی ہے۔ لوگوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا جو آپ کے ساتھ کر رہے ہیں۔ پس لوگوں نے اس کتاب کے بارے میں اختلاف کیا۔ ان میں سے کچھ لوگ اس کتاب پر ایمان لے آئے، انہوں نے اس سے راہنمائی حاصل کی اور اس سے مستفید ہوئے اور کچھ لوگوں نے اس کتاب کی تکذیب کی اور اس سے مستفید نہ ہوسکے۔ اگر اللہ تعالیٰ اپنے حلم اور سابقہ فیصلے کی بنا پر ان پر عذاب کو ایک مدت مقررہ تک مؤخر نہ کرتا، جس سے یہ عذاب آگے پیچھے نہیں ہوسکتا : ﴿ لَقُضِيَ بَيْنَهُمْ ﴾ ” تو ان کے درمیان فیصلہ ہوچکا ہوتا“ جس سے اہل ایمان اور کفار کے درمیان فرق واضح ہوجاتا اور کافروں کو اسی حال میں ہلاک کردیا جاتا کیونکہ ان کی ہلاکت کا سبب پورا ہوچکا تھا: ﴿ وَإِنَّهُمْ لَفِي شَكٍّ مِّنْهُ مُرِيبٍ ﴾ ” اور یہ اس (قرآن) کے بارے میں شک میں مبتلا ہیں۔“ شک نے ان کو اس مقام پر پہنچا دیا ہے، جہاں وہ متزلزل ہوگئے ہیں، اس لئے انہوں نے اس کی تکذیب کی اور اس کا انکار کیا۔ فصلت
46 ﴿ مَّنْ عَمِلَ صَالِحًا ﴾ ” جس نے نیک کام کئے۔“ عمل صالح سے مراد وہ عمل ہے جس کا اللہ اور اس کے رسول نے حکم دیا ہو۔ ﴿ فَلِنَفْسِهِ ﴾ تو دنیا و آخرت میں اس کا ثواب اور فائدہ اسی کے لئے ہے ﴿ وَمَنْ أَسَاءَ فَعَلَيْهَا ﴾ ” جس نے برے کام کئے ان کا ضرر اسی کو ہوگا۔“ دنیا و آخرت میں اس کا نقصان اور عذاب بھی وہی بھگتے گا۔ اس آیت کریمہ میں فعل خیر اور ترک شرک کی ترغیب دی گئی ہے، نیز اس میں ذکر کیا گیا ہے کہ اصحاب اعمال اپنے نیک اعمال سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور برے اعمال سے ان کو ضرر پہنچتا ہے، نیز یہ کہ کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ ﴿ وَمَا رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِيدِ ﴾ ” اور آپ کا رب بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں۔“ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا کہ ان پر ان کی برائیوں سے بڑھ کر عذاب مسلط کر دے۔ فصلت
47 یہ اللہ تعالیٰ کے وسیع علم کا ذکر ہے۔ نیز یہ ان امور کا ذکر ہے جن کا علم صرف اللہ تعالیٰ سے مختص ہے جنہیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا، اسی لئے فرمایا : ﴿ إِلَيْهِ يُرَدُّ عِلْمُ السَّاعَةِ ﴾ ” قیامت کا علم اسی کی طرف لوٹایا جاتا ہے۔“ یعنی تمام مخلوق کا علم اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹتا ہے۔ تمام انبیاء و مرسلین اور فرشتے وغیرہ اس بارے میں اپنے عجز اور بے بسی کا اقرار کرتے ہیں۔ ﴿ وَمَا تَخْرُجُ مِن ثَمَرَاتٍ مِّنْ أَكْمَامِهَا ﴾ ” اور نہ تو پھل گابھوں سے نکلتے ہیں۔“ یعنی ان شگوفوں میں سے جن سے وہ عموماً نکلتے ہیں۔ یہ تمام درختوں کے پھل کو شامل ہے جو شہروں میں یا جنگلوں میں اگتے ہیں۔ کسی درخت پر جو پھل بھی لگتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو تفصیلی طور پر جانتا ہے۔ ﴿ وَمَا تَحْمِلُ مِنْ أُنثَىٰ ﴾ ” اور نہیں حاملہ ہوتی کوئی مادہ۔“ بنی آدم اور تمام حیوانات میں سے حاملہ جو حمل اٹھاتی ہے اللہ تعالیٰ اسے جانتا ہے۔ ﴿ وَلَا تَضَعُ ﴾ ” اور کوئی حاملہ بچہ نہیں جنتی“ ﴿ إِلَّا بِعِلْمِهِ ﴾ ” مگر اس کے علم سے۔“ مشرکین نے ان ہستیوں کو کیسے اللہ تعالیٰ کے برابر ٹھہرا دیا جو سن سکتی ہیں نہ دیکھ سکتی ہیں؟ ﴿ وَيَوْمَ يُنَادِيهِمْ ﴾ اللہ تعالیٰ قیامت کے روز مشرکین کو زجر و توبیخ کے طور پر اور ان کے جھوٹ کو ظاہر کرتے ہوئے پکارے گا اور فرمائے گا : ﴿ أَيْنَ شُرَكَائ ِي ﴾ ” میرے شریک کہاں ہیں؟“ جن کو تم میرا شریک سمجھتے تھے، ان کی عبادت کرتے تھے، ان کی بنا پر تم جھگڑتے اور رسولوں سے عداوت رکھتے تھے ﴿ قَالُوا ﴾ وہ اپنے خود ساختہ معبودوں کی الوہیت اور ان کی شرکت کے بطلان کا اقرار کرتے ہوئے کہیں گے : ﴿ آذَنَّاكَ مَا مِنَّا مِن شَهِيدٍ ﴾ ” ہم آپ سے کہہ چکے کہ (آج) ہم میں سے کوئی (ایسی) گواہی دینے والا نہیں۔“ یعنی اے ہمارے رب ہم تیرے سامنے اقرار کرتے ہیں، تو گواہ رہنا کہ ہم میں سے کوئی بھی ان معبودان باطل کی الوہیت اور شرکت کی گواہی نہیں دیتا۔ اب ہم سب ان کی عبادت کے بطلان کا اقرار اور ان سے برأت کا اعلان کرتے ہیں۔ فصلت
48 اس لئے فرمایا : ﴿ وَضَلَّ عَنْهُم مَّا كَانُوا يَدْعُونَ ﴾ ” اور گم ہوجائیں گے ان سے وہ جن کو وہ پکارا کرتے تھے۔“ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر، یعنی ان کے وہ تمام عقائد اور اعمال اکارت جائیں گے جن کے اندر انہوں نے غیر اللہ کی عبادت کرتے ہوئے عمریں گزاریں۔ وہ سمجھتے تھے کہ ان کے یہ خود ساختہ معبود انہیں کوئی فائدہ دیں گے، ان سے عذاب دور کریں گے اور اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کے سفارشی ہوں گے۔ ان کی تمام کوششیں رائیگاں جائیں گی، ان کا گمان جھوٹا ثابت ہوگا اور ان کے خود ساختہ شریک ان کے کسی کام نہ آسکیں گے۔ ﴿ وَظَنُّوا ﴾ اور اس حال میں انہیں یقین آجائے گا ﴿ مَا لَهُم مِّن مَّحِيصٍ ﴾ کہ کوئی ان کو بچانے والا ہے نہ مدد کو پہنچنے والا اور نہ ان کو کوئی جائے پناہ ہی ملے گی۔ یہ ہے اس شخص کا انجام جس نے شرک کا ارتکاب کیا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر واضح کردیا ہے کہ وہ شرک سے بچیں۔ فصلت
49 اس آیت کریمہ میں انسان کی فطرت و طبیعت کا بیان ہے کہ وہ خیر پر صبر کرسکتا ہے نہ شر پر، سوائے اس شخص کے جس کو اللہ تعالیٰ اس حالت سے نکال کر حالت کمال میں منتقل کر دے۔ فرمایا : ﴿ لَّا يَسْأَمُ الْإِنسَانُ مِن دُعَاءِ الْخَيْرِ ﴾ یعنی انسان اللہ تعالیٰ سے اپنی فوز و فلاح، مال، اولاد اور دیگر دنیاوی مطالب و مقاصد کے لئے دعا کرتے ہوئے کبھی نہیں اکتاتا اور اس پر ہمیشہ عمل پیرا رہتا ہے۔ وہ قلیل یا کثیر کسی چیز پر قناعت نہیں کرتا، اگر اسے دنیا کی ہر چیز مل جائے تب بھی وہ مزید دنیا طلب کرتا رہے گا۔ ﴿ وَإِن مَّسَّهُ الشَّرُّ ﴾ ” اور اگر اس کو کوئی تکلیف پہنچے۔“ یعنی بیماری، فقر اور مختلف مصائب وغیرہ اسے لاحق ہوں ﴿ فَيَئُوسٌ قَنُوطٌ ﴾ تو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس اور ناامید ہوجاتا ہے اور سمجھنے لگتا ہے کہ یہ مصیبت اسے ہلاک کر ڈالے گی اور ایسے اسباب اختیار کرنے کی فکر کرتا ہے جنہیں اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا۔ اس رویے سے وہ لوگ مستثنیٰ ہیں جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کئے، ان لوگوں کو اگر بھلائی، نعمت اور کوئی محبوب چیز عطا ہوتی ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں اور وہ اس چیز سے بھی ڈرتے ہیں کہ یہ نعمتیں کہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے استدراج اور مہلت نہ ہوں۔ اگر انہیں اپنی جان، مال اور اولاد میں کوئی مصیبت پہنچتی ہے، تو صبر کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ کے فضل کی امید رکھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رحمت سے کبھی مایوس نہیں ہوتے۔ فصلت
50 پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَلَئِنْ أَذَقْنَاهُ ﴾ ” اور اگر ہم اسے چکھاتے ہیں۔“ یعنی وہ شخص جو بھلائی کی دعا سے اکتاتا نہیں اور اگر سے کوئی تکلیف پہنچے تو مایوس ہوجاتا ہے۔ ﴿ رَحْمَةً مِّنَّا ﴾ ” اپنی طرف سے رحمت“ یعنی اس برائی کے بعد جو اسے پہنچی ہے، یعنی اللہ تعالیٰ اسے مرض سے شفا دیتا ہے یا اس کا فقر دور کر کے غنی بنا دیتا ہے۔ تو وہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا نہیں کرتا بلکہ وہ بغاوت اور سرکشی کا رویہ اختیار کرتا ہے اور کہتا ہے : ﴿ هَـٰذَا لِي ﴾ یعنی یہ مجھے عطا ہوا ہے کیونکہ میں اس کا اہل اور مستحق ہوں۔ ﴿ وَمَا أَظُنُّ السَّاعَةَ قَائِمَةً ﴾ ” اور میں نہیں خیال کرتا کہ قیامت برپا ہوگی۔“ یہ اس کی طرف سے انکار قیامت ہے اور اللہ تعالیٰ کی اس نعمت اور رحمت کی ناسپاسی ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوئی۔ ﴿ وَلَئِن رُّجِعْتُ إِلَىٰ رَبِّي إِنَّ لِي عِندَهُ لَلْحُسْنَ ﴾ فرض کیا اگر قیامت کی گھڑی آ ہی جائے اور مجھے اپنے رب کی طرف لوٹایا جائے تو میرے لئے اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی بھلائی ہے۔ جس طرح دنیا میں مجھے نعمتوں سے نوازا گیا ہے اسی طرح آخرت میں بھی مجھے نعمتوں سے بہرہ مند کیا جائے گا۔ یہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں سب سے بڑی جسارت اور بلاعلم قول ہے، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اس کو وعید سناتے ہوئے فرمایا : ﴿فَلَنُنَبِّئَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِمَا عَمِلُوا وَلَنُذِيقَنَّهُم مِّنْ عَذَابٍ غَلِيظٍ ﴾ ” پس کافر جو عمل کرتے ہیں وہ ہم انہیں ضرور بتائیں گے اور انہیں سخت عذاب کا مزہ چکھائیں گے۔‘‘ فصلت
51 ﴿ وَإِذَا أَنْعَمْنَا عَلَى الْإِنسَانِ ﴾“ یعنی جب ہم انسان کو صحت اور رزق وغیرہ کی نعمت سے بہرہ ور کرتے ہیں ﴿ أَعْرَضَ ﴾ تو وہ اپنے رب اور اس کی شکرگزاری سے روگردانی کرتاہے ۔ ﴿ وَنَأَىٰ بِجَانِبِهِ ﴾تکبر اور خود پسندی کی بناء پر کنارہ کش ہوجاتا ہے۔ ﴿ وَإِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ ﴾ ” اور اگر اسے برائی پہنچتی ہے۔“ یعنی اگر مرض اور فقر اسے آلیتا ہے ﴿ فَذُو دُعَاءٍ عَرِيضٍ ﴾ تو عدم صبر کی بنا پر بہت دعائیں کرتا ہے، پس کوئی بھی تنگی میں صبر کرتا ہے نہ فراخی میں شکر، سوائے اس شخص کے جس کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت سے نوازا ہو۔ فصلت
52 ﴿ قُلْ ﴾ قرآن کی تکذیب اور کفران نعمت میں جلدی کرنے والوں سے کہہ دیجیے: ﴿ أَرَأَيْتُمْ إِن كَانَ ﴾ ” مجھے بتایئے اگر یہ ہو !“ یعنی یہ قرآن ﴿ مِنْ عِندِ اللّٰـهِ ﴾ بغیر کسی شک و شبہ کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ﴿ ثُمَّ كَفَرْتُم بِهِ مَنْ أَضَلُّ مِمَّنْ هُوَ فِي شِقَاقٍ بَعِيدٍ ﴾ ” پھر تم اس سے انکار کرو تو اس سے بڑھ کر کون گمراہ ہے جو اس (قرآن) کی مخالفت میں دور تک نکل گیا ہو؟“ یعنی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مخالفت اور عناد میں کیونکہ حق تم پر واضح ہوچکا ہے اس کے باوجود تم نے اس سے منہ موڑا تم نے حق کو نہیں بلکہ باطل اور جہالت کو اختیار کیا ہے۔ تب تم لوگوں میں سے سب سے زیادہ گمراہ اور سب سے بڑھ کر ظالم ہو۔ اگر تمہیں اس کی حقیقت اور صحت میں کوئی شک ہے تو اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی نشانیاں دکھائے گا اور دلائل قائم کرے گا، مثلاً: آسمان اور زمین کی نشانیاں اور ایسے بڑے بڑے حوادث دکھائے گا جنہیں اللہ تعالیٰ وجود میں لاتا ہے جو صاحب بصیرت کے لئے حق پر دلالت کرتے ہیں۔ فصلت
53 ﴿ وَفِي أَنفُسِهِمْ ﴾ ” اور خود ان کے نفسوں میں بھی۔“ ایسی نشانیاں ہیں جو اس کی تعجب خیز کاریگری اور اس کی لامحدود قدرت میں سے ہیں، نیز الہ تکذیب پر عذاب اور عبرتناک سزاؤں کے نزول اور اہل ایمان کی نصرت میں ان کے لئے دلائل ہیں۔ ﴿ حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَهُمْ ﴾ ” حتیٰ کہ ان پر واضح ہوجائے گا۔“ ان آیات سے جن میں شک کی کوئی گنجائش نہیں ﴿ أَنَّهُ الْحَقُّ ﴾ ” بلا شبہ وہ حق ہے۔ “ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اپنی نشانیاں دکھاتا ہے جس سے حق واضح ہوجاتا ہے مگر اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے ایمان کی توفیق سے نواز دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے اپنے حال پر چھوڑ کر اس سے الگ ہوجاتا ہے۔ ﴿ أَوَلَمْ يَكْفِ بِرَبِّكَ أَنَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ ﴾ ” کیا یہ بات کافی نہیں کہ آپ کا رب ہر شے پر گواہ ہے؟“ یعنی کیا ان کے لئے اس حقیقت پر اللہ تعالیٰ کی شہادت کافی نہیں کہ قرآن حق ہے اور اس کو پیش کرنے والی ہستی سچی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کی صداقت کی گواہی دی ہے اور وہ سب سے اچھا گواہ ہے اللہ تعالیٰ نے اس ہستی کی تائید فرمائی اور نصرت سے نوازا جو اس شخص کیلئے شہادت قولی کو متضمن ہے جو اس میں شک کرتا ہے۔ فصلت
54 ﴿ أَلَاإ ِنَّهُمْ فِي مِرْيَةٍ مِّن لِّقَاءِ رَبِّهِمْ ﴾ ” آگاہ رہو ! یہ لوگ اپنے رب کی ملاقات سے شک میں ہیں۔“ یعنی وہ حیات بعد الموت اور قیامت کے بارے میں شک کرتے ہیں، ان کے نزدیک دنیا کی زندگی کے سوا اور کوئی زندگی نہیں، اس لئے وہ آخرت کے لئے کوئی کام کرتے ہیں نہ آخرت کی طرف التفات کرتے ہیں۔ ﴿ أَلَا إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُّحِيطٌ ﴾ آگاہ ہو ! بے شک اس نے اپنے علم، قدرت اور غلبے سے ہر چیز کا احاطہ کر رکھا ہے۔ فصلت
0 الشورى
1 حٰم الشورى
2 عسق الشورى
3 اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ اس نے یہ قرآن عظیم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف وحی کیا ہے جس طرح آپ سے پہلے انبیاء و مرسلین کی طرف وحی کی۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کا ذکر ہے کہ اس نے گزشتہ زمانوں میں اور بعد میں آنے والے زمانوں میں کتابیں نازل کیں اور انبیاء و رسل مبعوث کئے، نیز یہ کہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوئی انوکھے رسول نہیں، آپ کا طریقہ وہی ہے جوپہلے انبیاء و مرسلین کا طریقہ تھا۔ آپ کے احوال گزشتہ انبیاء کے احوال سے مناسبت رکھتے ہیں۔ جو دعوت آپ لے کر آئے ہیں وہ گزشتہ انبیاء کی دعوت سے مشابہت رکھتی ہے کیونکہ ان کی دعوت اور آپ کی دعوت سب حق اور سچ ہے اور یہ کتابیں اس ہستی کی طرف سے نازل کی گئی ہیں جو الوہیت، غلبہ عظیم اور حکمت بالغہ سے موصوف ہے، تمام عالم علوی اور عالم سفلی اس کی ملکیت اور اس کی تدبیر قدری اور تدبیر شرعی کے تحت ہیں۔ الشورى
4 ﴿ الْعَلِيُّ ﴾ وہ اپنی ذات، اپنی قدرت اور اپنے قہر و غلبہ کے ساتھ بلند ہے ﴿ الْعَظِيمُ ﴾ ” وہ عظمت والا ہے۔“ الشورى
5 جس کی عظمت شان سے﴿ تَكَادُ السَّمَاوَاتُ يَتَفَطَّرْنَ مِن فَوْقِهِنَّ ﴾ ” قریب ہے کہ آسمان اپنے اوپر سے پھٹ پڑیں۔“ باوجود اپنی عظمت اور مضبوطی کے ﴿ وَالْمَلَائِكَةُ ﴾ اور مکرم و مقرب فرشتے اس کی عظمت کے سامنے سرنگوں، اس کے غلبہ کے سامنے عاجز اور اس کی ربوبیت کے سامنے مطیع اور فروتن ہیں۔ ﴿ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ ﴾ ” وہ اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے ہیں۔“ یعنی وہ اس کی تعظیم اور ہر نقص سے اس کی تنزیہ کرتے ہیں اور ہر صفت کمال سے اسے متصف قرار دیتے ہیں۔ ﴿ وَيَسْتَغْفِرُونَ لِمَن فِي الْأَرْضِ ﴾ ” اور جو زمین میں ہیں ان کے لئے وہ مغفرت طلب کرتے ہیں۔“ ان سے جو ایسی باتیں صادر ہوتی ہیں جو ان کے رب کی عظمت اور کبریائی کے لائق نہیں، اس پر ان کے لئے بخشش مانگتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ﴿ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ ﴾ ” اللہ ہی بڑا بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔“ اگر اس کی مغفرت اور رحمت نہ ہوتی تو مخلوق پر فوراً عذاب بھیج دیتا جو ان کی جڑ کاٹ کر رکھ دیتا ہے۔ اس امر کا ذکر کرنے کے بعد کہ اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء و مرسلین کی طرف عام طور پر اور نبی مصطفی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر خاص طور پر وحی بھیجی، ان اوصاف سے اپنے آپ کو موصوف کرنے میں، اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ اس قرآن کریم میں ایسے دلائل و براہین ہیں جو اللہ تعالیٰ کے کمال، اس کے ان اسمائے عظیم سے اپنے آپ کو موصوف کرنے پر دلالت کرتے ہیں جو اس بات کے موجب ہیں کہ قلوب اللہ تعالیٰ کی معرفت، اس کی محبت، اس کی تعظیم اور اس کے جلال و اکرام سے لبریز ہوں، اپنی تمام ظاہری اور باطنی عبودیت کے ساتھ اس کی طرف متوجہ ہوں۔ الشورى
6 اللہ تعالیٰ کے ہم سربنانا جن کے ہاتھ میں کوئی نفع و نقصان نہیں، سب سے بڑا ظلم اور قبیح ترین قول ہے۔ یہ خود ساختہ ہم سرو معبود محض مخلوق ہیں اور اپنے تمام احوال میں اللہ تعالیٰ کے محتاج ہیں۔ بنا بریں اس کے بعد فرمایا : ﴿ وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ ﴾ ” اور جنہوں نے اس کے سوا کار ساز بنا رکھے ہیں۔“ وہ ان کی اس طرح عبادت اور اطاعت کرتے ہیں جس طرح وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور عبادت کرتے ہیں۔ یہ خود ساختہ معبود حقیقت میں والی اور مددگار نہیں ہیں، ان مشرکین نے محض باطل کو اختیار کر رکھا ہے۔ ﴿ اللّٰـهُ حَفِيظٌ عَلَيْهِمْ ﴾ ” اللہ ان پر نگران ہے۔“ وہ ان کے اعمال کو (ان کے نامہ اعمال میں) محفوظ کرتا ہے، سو وہ ان کے اچھے برے اعمال کی جزا دے گا۔ ﴿ وَمَا أَنتَ عَلَيْهِم بِوَكِيلٍ ﴾ ” اور آپ ان کے ذمہ دار نہیں۔“ کہ آپ سے ان کے اعمال کے بارے میں پوچھا جائے۔ آپ تو صرف پہنچا دینے والے ہیں اور آپ نے اپنا فرض پورا کردیا ہے۔ الشورى
7 پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور لوگوں پر اپنے احسان کا ذکر فرمایا کہ اس نے نازل کیا ہے۔ ﴿ قُرْآنًا عَرَبِيًّا ﴾ ” عربی قرآن۔“ جو اپنے الفاظ و معانی میں واضح ہے۔ ﴿ لِّتُنذِرَ أُمَّ الْقُرَىٰ﴾” تاکہ آپ اہل مکہ کو ڈرائیں۔“ اس سے مکہ مکرمہ ہی مراد ہے۔ ﴿وَمَنْ حَوْلَهَا ﴾ اور جو مکہ مکرمہ کے اردگرد عرب بستیاں ہیں اور پھر یہ ڈرانا تمام مخلوق کو شامل ہوجاتا ہے۔ ﴿ وَتُنذِرَ ﴾ تاکہ آپ لوگوں کو ڈرائیں ﴿ يَوْمَ الْجَمْعِ ﴾ اس دن سے جس میں اللہ تعالیٰ اولین و آخرین کو جمع کرے گا اور انہیں آگاہ کیجیے کہ ﴿ لَا رَيْبَ فِيهِ ﴾ اس دن کے آنے میں کوئی شک نہیں اور اس دن تمام مخلوق دو گروہوں میں تقسیم ہوگی۔ ﴿ فَرِيقٌ فِي الْجَنَّةِ ﴾ ” ایک گروہ جنت میں ہوگا۔“ یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اور انہوں نے انبباء و مرسلین کی تصدیق کی ﴿وَ فَرِیْقٌ فِیْ السَّعِیْرِ﴾ ” اور ایک گروہ آگ میں ہوگا۔“ یہ لوگ کفار اور اہل تکذیب کی تمام اصناف پر مشتمل ہیں۔ الشورى
8 ﴿ وَ ﴾ ” اور“ بایں ہمہ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو بنا دیتا تمام لوگوں کو ﴿ أُمَّةً وَاحِدَةً ﴾ ” ایک امت“ جو راہ ہدایت پر چلتی کیونکہ وہ قادر مطلق ہے، کسی چیز کو اس کے سامنے دم مارنے کی مجال نہیں مگر اس نے ارادہ کیا کہ وہ اپنی مخلوق کے خاص بندوں میں سے جسے چاہے اپنی رحمت کے سایہ میں لے لے۔ رہے ظالم لوگ جن سے کوئی نیکی نہیں ہوتی تو وہ اس کی رحمت سے محروم رہیں گے۔ ﴿ مَا لَهُم ﴾ ” نہیں ہے ان کے لئے۔“ اللہ کے سوا ﴿مِّن وَلِيٍّ ﴾ ” کوئی کار ساز۔“ جو ان کی مدد کرسکے اور اس طرح ان کو اپنا محبوب و مرغوب مقصد حاصل ہوسکے۔ ﴿ وَلَا نَصِيرٍ ﴾ ” اور نہ کوئی مددگار ہوگا۔“ جو ان سے کسی تکلیف دہ امر کو دور کرسکے۔ الشورى
9 ﴿ أَمِ اتَّخَذُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ ﴾ ” کیا ان لوگوں نے اللہ کے سوا دوسروں کو کار ساز بنا رکھا ہے؟“ جو ان کی عبادت کے ذریعے سے ان کو اپنا مددگار بناتے ہیں، وہ قبیح ترین غلطی کا ارتکاب کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہی والی و مددگار ہے، اس کے بندے اس کی عبادت و اطاعت اور ہر ممکن وسیلہ تقرب کے ذریعے سے اس کو اپنا سرپرست بناتے ہیں اور اللہ تعالیٰ بالعموم تمام بندوں کا اپنی تدبیر اور ان پر قدرت کے نفاذ کے ذریعے سے سرپرست بناتے ہیں اور اللہ تعالیٰ بالعموم تمام بندوں کا اپنی تدبیر اور ان پر قدرت کے نفاذ کے ذریعے سے سرپرست ہے اور خاص طور پر اپنے مومن بندوں کی اس طرح سرپرستی فرماتا ہے کہ ان کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لاتا ہے، اپنے لطف و کرم سے ان کی تربیت کرتا اور تمام امور میں ان پر اپنی اعانت کا فیضان کرتا ہے۔ ﴿وَهُوَ يُحْيِي الْمَوْتَىٰ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ﴾ ” اور وہی مردے زندہ کرے گا اور وہی ہر چیز پر قادر ہے۔“ یعنی زندگی و موت اور نفوذ مشیت و قدرت میں وہی تصرف کرتا ہے اور وہی اکیلا عبادت کا مستحق ہے، اس کا کوئی شریک نہیں۔ الشورى
10 ﴿ وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِيهِ مِن شَيْءٍ ﴾ ” اور جن باتوں میں تم آپس میں اختلاف رکھتے ہو۔“ یعنی اپنے دین کے اصول و فروع میں اگر تم ایک دوسرے سے متفق نہ ہو۔ ﴿ فَحُكْمُهُ إِلَى اللّٰـهِ ﴾ تو اسے اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت کی طرف لوٹایا جائے وہ دونوں جو فیصلہ کریں وہی حق ہے اور جو ان دونوں کے خلاف ہو وہ باطل ہے۔ ﴿ ذَٰلِكُمُ اللّٰـهُ رَبِّي ﴾’’یہی اللہ میرا رب ہے۔“ جس طرح اللہ تعالیٰ کائنات کا رب، خالق، رازق اور مدبر ہے، اسی طرح وہ اپنے بندوں کے درمیان ان کے تمام امور میں اپنی شریعت کے مطابق فیصلہ کرتا ہے۔ آیت کریمہ کا مفہوم مخالف یہ ہے کہ کسی امر پر اتفاق امت حجت قطعی ہے کیونکہ جن امور میں ہمارے درمیان اختلاف نہ ہو اسے اللہ تعالیٰ کے حکم کی طرف لوٹانے کا حکم نہیں دیا۔ تب معلوم ہوا کہ جس چیز پر ہم اتفاق کریں تو امت کا اتفاق اس کے حق ہونے کی دلیل کے لئے کافی ہے کیونکہ امت مجموعی طور پر معصوم عن الخطا ہے، اس لئے یہ لازمی امر ہے کہ کسی مسئلہ پر امت کا اتفاق کتاب و سنت کے موافق ہو۔ ﴿ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ ﴾ ” میں نے اسی پر بھروسا کیا۔“ جلب منفعت، دفع مضرت اور اپنی حاجت کے پورا ہونے کے بارے میں پورے وثوق کے ساتھ اسی پر اعتماد کرتا ہوں ﴿ وَإِلَيْهِ أُنِيبُ ﴾ اور میں اپنے دل و جان سے اس کی طرف اور اس کی عبادت و اطاعت کی طرف متوجہ ہوتا ہوں۔ یہ دو ایسے اصول ہیں جن کا اللہ تعالیٰ اپنی کتاب عظیم میں نہایت کثرت سے ذکر فرماتا ہے کیونکہ ان دونوں کے جمع ہونے سے بندہ مومن کو کمال حاصل ہوتا ہے اور ان دونوں کے نہ ہونے یا ان میں سے کسی ایک سے محروم ہونے سے بندہ مومن کمال سے محروم ہوجاتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ﴾ (الفاتحۃ:1؍4)” ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد کے طلب گار ہیں۔“ اور فرمایا : ﴿ فَاعْبُدْهُ وَتَوَكَّلْ عَلَيْهِ ﴾(ھود :11؍123) ” اس کی عبادت کیجیے اور اس پر بھروسا کیجیے۔ “ الشورى
11 ﴿ فَاطِرُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ اپنی قدرت، مشیت اور حکمت سے آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے والا ہے۔ ﴿ جَعَلَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجًا ﴾ ” اسی نے تمہارے لئے تمہاری ہی جنس سے جوڑے بنائے۔“ تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرسکو، تمہاری نسل بڑھ سکے اور تمہیں فائدہ حاصل ہو۔ ﴿ وَمِنَ الْأَنْعَامِ أَزْوَاجًا ﴾ ” اور چوپایوں کے بھی جوڑے بنائے۔“ یعنی تمام اصناف سے نر اور مادہ دونوں اقسام بنائیں تاکہ ان کی نسل باقی رہ کر بڑھتی رہے اور تمہاری بہت سی ضرورتیں پوری ہوں۔ اس لئے اس کو ” لام“ کے ذریعے متعدی بنایا ہے جو تعلیل پر دلالت کرتا ہے یعنی اس نے یہ جوڑے تمہارے لئے اور تم پر اپنی نعمت کی تکمیل کے لئے بنائے ہیں، اس لئے فرمایا : ﴿ يَذْرَؤُكُمْ فِيهِ ﴾ یعنی وہ تمہیں پھیلاتا اور بڑھاتا ہے اور تمہارے مویشیوں کو بھی بڑھاتا ہے، اس طریقے سے کہ اس نے تمہارے لئے تم میں سے تمہارے جوڑے بنائے اور تمہارے لئے تمہارے مویشیوں کے جوڑے بنائے۔ ﴿ لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ ﴾ ” کوئی چیز اس کے مشابہ نہیں۔“ یعنی اس کی مخلوقات میں سے کوئی چیز اس کی ذات میں، اس کے اسماء میں، اس کی صفات میں اور اس کے افعال میں مشابہت رکھتی ہے نہ مماثلت کیونکہ اس کے تمام اسماء اسمائے حسنیٰ ہیں اور اس کی تمام صفات کمال و عظمت ہیں۔ اس نے اپنے افعال کے ذریعے سے اتنی بڑی کائنات کو بغیر کسی مددگار کے وجود بخشا۔ پس اس جیسی کوئی چیز نہیں کیونکہ وہ ہر لحاظ سے اپنے کمال میں واحد اور متفرد ہے۔ ﴿ وَهُوَ السَّمِيعُ ﴾ ” اور وہ خوب سننے والا ہے۔“ یعنی مخلوقات کی مختلف زبانوں اور متنوع حاجات کے باوجود وہ سب کی آوازیں سنتا ہے۔ ﴿ الْبَصِيرُ ﴾ ” خوب دیکھنے والا ہے۔“ وہ سیاہ رات میں ٹھوس پتھر پر سیاہ چیونٹی کے رینگنے کو بھی دیکھتا ہے۔ وہ چھوٹے سے چھوٹے حیوان کے جسم میں سرایت کرتی ہوئی خوراک اور درخت کی باریک سے باریک ٹہنی میں سرایت کرتے ہوئے پانی کو بھی دیکھتا ہے۔ یہ آیت کریمہ صفات کے اثبات اور مخلوقات سے مماثلت کی نفی کے بارے میں اہل سنت و الجماعت کے مذاہب پر دلالت کرتی ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کے ارشاد : ﴿ لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ ﴾ میں مُشَبِّھۃ ” اہل تشبیہ“ کا رد ہے اور ﴿ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ ﴾ میں مُعَطِّلَۃ ” صفات الٰہی کا انکار کرنے والوں“ کا رد ہے۔ الشورى
12 ﴿ لَهُ مَقَالِيدُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ﴾ ” اس کے پاس آسمانوں اور زمین کی چابیاں ہیں“ آسمانوں اور زمین کے اقتدار کا وہی مالک ہے اور اسی کے ہاتھ میں رحمت و رزق اور ظاہری و باطنی نعمتوں کی کنجیاں ہیں۔ تمام مخلوق ہر حال میں جلب مصالح اور دفع ضرر کے لئے اللہ تعالیٰ کی محتاج ہے۔ کسی کے ہاتھ میں کوئی اختیار نہیں، اللہ تعالیٰ ہی عطا کرتا ہے اور محروم کرتا ہے۔ اسی کے ہاتھ میں نفع و نقصان ہے، بندوں کے پاس جو بھی نعمت ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ ہے اور اس کے سوا کوئی ہستی شر کو دور نہیں کرسکتی، فرمایا : ﴿ مَّا يَفْتَحِ اللّٰـهُ لِلنَّاسِ مِن رَّحْمَةٍ فَلَا مُمْسِكَ لَهَا وَمَا يُمْسِكْ فَلَا مُرْسِلَ لَهُ مِن بَعْدِهِ ﴾(فاطر:35؍2)’’اللہ لوگوں پر جس رحمت کو کھول دے، اسے کوئی بند کرنے والا نہیں اور جسے وہ بند کر دے، اس کے بعد اسے کوئی بھیجنے (کھولنے) والا نہیں۔ “ ﴿ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن يَشَاءُ ﴾ وہ اصناف رزق میں سے جس کے لئے چاہتا ہے جو چاہتا ہے کشادہ رزق عطا کرتا ہے ﴿ وَيَقْدِرُ ﴾ جس کے لئے چاہتا ہے اس کا رزق تنگ کردیتا ہے یہاں تک کہ اسے صرف بقدر حاجت رزق عطا کرتا ہے اور حاجت سے زیادہ عطا نہیں کرتا۔ یہ سب کچھ اس کے علم و حکمت کے تابع ہے، اس لئے فرمایا : ﴿ إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ ﴾ ” وہ اپنے بندوں کے احوال کو خوب جانتا ہے۔“ ہر شخص کو وہی کچھ عطا کرتا ہے جو اس کی مشیت تقاضا کرتی ہے اور جو اس کی حکمت کے لائق ہے۔ الشورى
13 یہ اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت ہے جس سے اس نے اپنے بندوں کو سرفراز فرمایا۔ اس نے ان کے لئے دین اسلام پسند کیا جو تمام ادیان میں سب سے افضل اور سب سے پاک دین ہے۔ دین اسلام کو اللہ تعالیٰ نے اپنے چنے ہوئے بندوں کے لئے مشروع کیا بلکہ اللہ تعالیٰ نے چنے ہوئے بندوں میں سے بھی خاص بندوں کے لئے اس دین کو مشروع کیا اور وہ اولوالعزم انبیاء و مرسلین ہیں جن کا اس آیت کریمہ میں ذکر فرمایا جو ہر لحاظ سے تمام مخلوق میں سب سے کامل اور جن کا درجہ سب سے بلند ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو دین ان کے لئے مشروع فرمایا، ضروری ہے کہ وہ مقدس ہستیوں کے مناسب حال اور ان کے کمال کے موافق ہو بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو ان کے دین کو قائم کرنے کے سبب سے کمال سے سرفراز فرمایا اور اپنے لئے چن لیا۔ اگر دین اسلام نہ ہوتا تو تمام مخلوق میں کوئی بھی بلندی پر نہ پہنچ سکتا۔ اسلام سعادت کی روح اور کمال کی بنیاد ہے۔ اسلام وہی ہے جو اس کتاب کریم میں دیا گیا ہے اور جس کی طرف یہ کتاب دعوت دیتی ہے، یعنی توحید، اعمال صالحہ، مکارم اخلاق اور آداب وغیرہ۔ ﴿ أَنْ أَقِيمُوا الدِّينَ ﴾ یعنی اس نے تمہیں حکم دیا ہے کہ تم دین کے تمام اصول و فروع کو قائم کرو۔ ان کو خود اپنی ذات پر نافذ کرو، پھر دوسروں پر نافذ کرنے کے لئے جدوجہد کرو۔ نیکی اور تقویٰ پر تعاون کرو، گناہ اور زیادتی پر تعاون نہ کرو۔ ﴿ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِيهِ ﴾ ” اور اس میں پھوٹ نہ ڈالنا۔“ تاکہ تم دین کے اصول و فروغ پر متفق رہو، اس امر پر پوری توجہ رکھو کہ کہیں مسائل تم میں تفرقہ ڈال کر تمہیں گروہ درگروہ تقسیم نہ کردیں اور یوں تم ایک دوسرے کے دشمن بن جاؤ باوجود یکہ تمہارا دین ایک ہے۔ دین پر اجتماع اور عدم تفرقہ میں وہ اجتماعات عامہ بھی شامل ہیں جن کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے، مثلاً حج، عیدین، جمعہ، نماز پنجگانہ اور جہاد وغیرہ یہ ایسی عبادات ہیں جو اجتماع اور عدم تفرق کے بغیر مکمل نہیں ہوتیں۔ ﴿ كَبُرَ عَلَى الْمُشْرِكِينَ مَا تَدْعُوهُمْ إِلَيْهِ ﴾ یعنی جب آپ ان کو اللہ تعالیٰ کے لئے اخلاص کی دعوت دیتے ہیں تو یہ بات ان پر بے انتہا شاق گزرتی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ وَإِذَا ذُكِرَ اللّٰـهُ وَحْدَهُ اشْمَأَزَّتْ قُلُوبُ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ وَإِذَا ذُكِرَ الَّذِينَ مِن دُونِهِ إِذَا هُمْ يَسْتَبْشِرُونَ ﴾(الزمر:39؍45) ” اور جب اکیلے اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان لوگوں کے دل کڑھنے لگتے ہیں جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور جب اللہ کے سوا دوسروں کا ذکر کیا جاتا ہے تو کیا خوش ہوجاتے ہیں۔“ جیسا کہ مشرکین کہتے تھے: ﴿ أَجَعَلَ الْآلِهَةَ إِلَـٰهًا وَاحِدًا إِنَّ هَـٰذَا لَشَيْءٌ عُجَابٌ ﴾(ص:38؍5) ” کیا اس نے ان سارے معبودوں کی بجائے ایک ہی معبود بنا دیا، یہ تو بڑی ہی عجیب بات ہے۔“ ﴿ اللّٰـهُ يَجْتَبِي إِلَيْهِ مَن يَشَاءُ ﴾ ” اللہ جس کو چاہتا ہے اپنی بارگاہ میں برگزیدہ بنا لیتا ہے۔“ اللہ اپنی مخلوق میں ان لوگوں کو اپنے لئے منتخب کرتا ہے جن کے بارے میں وہ جانتا ہے کہ وہ اس کی رسالت، اس کی ولایت اور اس کی نعمت کے لئے زیادہ موزوں ہیں۔ اس طرح اس نے اس امت کا انتخاب کیا اور اسے تمام امتوں پر فضیلت سے نوازا اور اس کے لئے بہترین دین چنا۔ ﴿ وَيَهْدِي إِلَيْهِ مَن يُنِيبُ ﴾ ” اور جو اس کی طرف رجوع کرے وہ اسے اپنی طرف راستہ دکھاتا ہے۔“ بندے کی طرف سے یہ ایسا سبب ہے جس کے ذریعے سے وہ ہدایت الٰہی کی منزل تک پہنچتا ہے، اپنے رب کی طرف انابت، دلی محرکات کا اس کی طرف کھینچنا اور اپنے رب کی رضا کو اپنا مقصد بنانا یہ تمام اسباب طلب ہدایت کے حصول کو آسان بناتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ يَهْدِي بِهِ اللّٰـهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهُ سُبُلَ السَّلَامِ ﴾(المائدۃ:5؍16) ” اس کتاب کے ذریعے سے اللہ ان لوگوں کو سلامتی کی راہیں دکھاتا ہے جو اس کی رضا چاہتے ہیں۔ “ اس آیت کریمہ میں فرمایا : ﴿ يَهْدِي إِلَيْهِ مَن يُنِيبُ ﴾ اور فرمایا : ﴿ وَاتَّبِعْ سَبِيلَ مَنْ أَنَابَ إِلَيَّ ﴾ (لقمٰن :31؍5) اور چلو اس شخص کے طریق پر جو ہماری طرف رجوع کئے ہوئے ہو۔“ اور اس کے ساتھ ساتھ ہمیں صحابہ کرام کے حالات معلوم ہیں اور ان کی شدت انابت بھی جو اس بات کی دلیل ہے کہ ان کا قول اور خاص طور پر خلفائے راشدین کا قول حجت ہے۔ رَضِی َ اللّٰہُ عَنْھُمْ أَجْمَعِیْنَ الشورى
14 اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اپنے دین پر مجتمع رہنے کا حکم دیا اور تفرقہ سے منع کیا، اس کے بعد انہیں خبردار کیا کہ وہ اس بات پر غرور نہ کریں کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر کتاب نازل فرمائی کیونکہ اہل کتاب نے کتاب نازل ہونے کے بعد جو اجتماع و اتحاد کی موجب تھی، ایک دوسرے سے اختلاف کیا، لہٰذا ان کا عمل کتاب اللہ کے حکم کے خلاف تھا اور یہ سب کچھ ان کی طرف سے بغاوت اور عدوان کی وجہ سے صادر ہوا کیونکہ انہوں نے آپس میں بغض، کینہ اور حسد کا رویہ رکھا جس سے ان کے درمیان عداوت پیدا ہوئی اور اس طرح اختلاف پیدا ہوا۔ اے مسلمانو! ان جیسا رویہ اختیار کرنے سے بچو۔ ﴿ وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِن رَّبِّكَ ﴾ ” اور اگر تمہارے رب کی طرف سے ایک وقت مقرر تک کے لئے فیصلہ نہ ٹھہر چکا ہوتا۔“ یعنی فیصلہ کن عذاب کو ایک مدت مقررہ تک مؤخر کردینے کا فیصلہ ﴿ لَّقُضِيَ بَيْنَهُمْ ﴾ ” تو ان میں فیصلہ کردیا جاتا۔“ مگر اللہ کی حکمت اور اس کا حکم اس تاخیر کے متقاضی تھے۔ ﴿ وَإِنَّ الَّذِينَ أُورِثُوا الْكِتَابَ مِن بَعْدِهِمْ ﴾ ” اور جو لوگ ان کے بعد کتاب کے وارث ہوئے۔“ یعنی علم سے انتساب رکھنے والے لوگ جو ان کے وارث ہوئے اور ان کے جانشین ٹھہرے۔ ﴿ لَفِي شَكٍّ مِّنْهُ مُرِيبٍ ﴾ بہت زیادہ شک و اشتباہ میں مبتلا ہیں جس کی وجہ سے ان میں اختلاف واقع ہوگیا۔ جہاں ان کے اسلاف نے بغاوت اور عناد کے سبب سے ایک دوسرے کے ساتھ اختلاف کیا وہاں اخلاف نے بھی شک و ریب کی بنا پر اختلاف کیا۔ اختلاف مذموم میں سب لوگ شریک تھے۔ الشورى
15 ﴿ فَلِذَٰلِكَ فَادْعُ ﴾ یعنی اس دین قویم اور صراط مستقیم کی طرف اپنی امت کو دعوت دیجیے جس کی خاطر اللہ تعالیٰ نے کتابیں نازل فرمائیں اور رسول مبعوث کئے اور انہیں اس کی ترغیب دیجیے اور اس کی خاطر ان لوگوں سے جہاد کیجیے جو اس کو قبول نہیں کرتے۔ ﴿ وَاسْتَقِمْ ﴾ ” اور خود بھی استقامت اختیار کیجیے“ ﴿ كَمَا أُمِرْتَ ﴾ ” جیسا کہ آپ کو حکم دیا گیا ہے۔“ استقامت سے مراد اللہ تعالیٰ کے حکم کی موافقت ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنی تکمیل کے لئے استقامت کے التزام اور دوسروں کی تکمیل کے لیے اس کی طرف دعوت دینے کا حکم دیا، نیز یہ معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیئے گئے حکم کا اطلاق امت پر بھی ہوتا ہے مگر اس شرط کے ساتھ کہ یہ حکم صرف آپ کے ساتھ مخصوص نہ ہو۔ ﴿ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ ﴾ یعنی دین سے منحرف لوگوں، یعنی کفار و منافقین کی خواہشات کی پیروی نہ کیجیے یہ اتباع یا تو ان کے دین کے کسی حصے کی اتباع کے ذریعے سے یا اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت کو ترک کرنے یا استقامت کو ترک کرنے سے واقع ہوتی ہے۔ اگر آپ نے علم کے آجانے کے بعد بھی ان کی خواہشات کی پیروی کی تو آپ کا شمار ظالموں میں ہوگا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے ارشاد میں وَلَا تَتَّبِعْ دِينَهُمْ نہیں کہا کیونکہ حقیقت میں ان کا دین جس کو اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے مشروع فرمایا ہے وہی دین ہے جو تمام انبیاء و مرسلین کا دین ہے مگر ان کے متبعین نے اس دین کی پیروی نہ کی بلکہ وہ اپنی خواہشات کے پیچھے لگ گئے اور پانے دین کو کھیل تماشا بنا لیا۔ ﴿قُلْ ﴾ ان کے مناظرہ اور بحث کرنے پر کہہ دیجیے : ﴿ آمَنتُ بِمَا أَنزَلَ اللّٰـهُ مِن كِتَابٍ ﴾ ” جو کتاب اللہ نے نازل کی ہے میں اس پر ایمان رکھتا ہوں۔“ یعنی ان کے ساتھ آپ کا بحث و مناظرہ، اس عظیم اصول پر مبنی ہونا چاہئے جو اسلام کے شرف و جلال پر دلالت کرتا ہے اور تمام ادیان پر اس کے نگران ہونے کا۔ اور یہ اہل کتاب جس دین پر چلنے کے دعویدار ہیں، وہ بھی اسلام کا ایک جزو ہے۔ اس آیت کریمہ میں اس بات کی طرف راہنمائی کی گئی ہے کہ اگر اہل کتاب بعض کتابوں اور بعض رسولوں پر ایمان لا کر اور دیگر کا انکار کر کے مناظرہ کریں تو یہ قابل قبول نہیں کیونکہ جس کتاب کی طرف یہ لوگ دعوت دیتے ہیں اور جس رسول کی طرف یہ اپنے آپ کو منسوب کرتے ہیں، اس کی صداقت کی شرط یہ ہے کہ وہ اس قرآن کی اور اس کو لانے والے کی تصدیق کرتا ہو، پس ہماری کتاب اور ہمارا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں حکم دیتے ہیں کہ ہم حضرت موسیٰ، حضرت عیسیٰ علیہما السلام، تورات اور انجیل پر ایمان لائیں جن کی قرآن مجید نے تصدیق کی ہے، ان کے بارے میں یہ بھی خبر دی ہے کہ وہ قرآن کی تصدیق اور اس کی صحت کا اقرار کرتی ہیں۔ مجرد تورات و انجیل اور حضرت موسیٰ و حضرت عیسیٰ علیہما السلام جو ہمارے اوصاف بیان کرتے ہیں نہ ہماری کتاب کی موافقت کرتے ہیں تو ان پر ایمان لانے کا اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم نہیں دیا۔ ﴿ وَأُمِرْتُ لِأَعْدِلَ بَيْنَكُمُ ﴾ ” اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمہارے درمیان انصاف کروں۔“ یعنی ان امور میں فیصلہ کرتے وقت جن میں تم آپس میں اختلاف کرتے ہو۔ اے اہل کتاب ! تمہاری عداوت اور میرے خلاف تمہارا بغض مجھے تمہارے درمیان انصاف کرنے سے روک سکتا ہے نہ اہل کتاب وغیرہ میں مختلف اقوال کے قائلین کے درمیان فیصلے میں عدل سے باز رکھ سکتا ہے اور نہ ان کے ساتھ جو حق ہے اسے قبول کرنے اور ان کے باطل کو رد کرنے سے روک سکتا ہے۔ ﴿ اللّٰـهُ رَبُّنَا وَرَبُّكُمْ ﴾ ” اللہ ہی ہمارا اور تمہارا رب ہے۔“ یعنی وہ سب کا رب ہے تم ہم سے زیادہ اس کے مستحق نہیں ہو۔ ﴿ لَنَا أَعْمَالُنَا وَلَكُمْ أَعْمَالُكُمْ ﴾ ” ہمارے اچھے برے اعمال ہمارے لئے ہیں اور تمہارے اچھے برے اعمال تمہارے لئے ہیں۔“ ﴿ لَا حُجَّةَ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ ﴾ ” ہمارے اور تمہارے درمیان کوئی جھگڑا نہیں۔“ حقائق کے عیاں ہوجانے، باطل میں سے حق اور گمراہی میں سے ہدایت کے واضح ہوجانے کے بعد حجت بازی کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی کیونکہ بحث و مباحثہ کا مقصد محض حق اور باطل کو واضح کرنا ہوتا ہے تاکہ ہدایت یافتہ شخص اس سے راہنمائی حاصل کرے اور گمراہ پر حجت قائم ہوجائے۔ اس سے مراد یہ نہیں کہ اہل کتاب مباحثہ نہیں کرتے اور یہ مراد ہو بھی کیسے سکتی ہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿ وَلَا تُجَادِلُوا أَهْلَ الْكِتَابِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ ﴾ (العنکبوت :29؍46) ” اور اہل کتاب کے ساتھ بحث و مباحثہ نہ کرو مگر احسن طریقے سے۔“ اس سے مراد وہی ہے جو ہم نے ذکر کردی ہے۔ ﴿ اللّٰـهُ يَجْمَعُ بَيْنَنَا وَإِلَيْهِ الْمَصِيرُ ﴾ یعنی قیامت کے روز اللہ تعالیٰ ہمیں جمع کرے گا پھر وہ ہر شخص کو اس کے اعمال کی جزا دے گا۔ اس وقت واضح ہوجائے گا کہ سچا کون ہے اور جھوٹا کون ! الشورى
16 یہ آیت اللہ تعالیٰ کے ارشاد : ﴿ لَا حُجَّةَ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ ﴾ (الشوری ٰ:42؍15) کا بیان ہے۔ چنانچہ یہاں آگاہ فرمایا : ﴿ وَالَّذِينَ يُحَاجُّونَ فِي اللّٰـهِ ﴾ ” جو لوگ اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہیں۔“ یعنی باطل دلائل اور متناقض شبہات کے ذریعے سے۔ ﴿ مِن بَعْدِ مَا اسْتُجِيبَ لَهُ ﴾ ”اس (اللہ یک ذات) کے تسلیم کئے جانے کے بعد“ یعنی اس کے بعد کہ جب عقل سے بہرہ مند لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی دعوت پر لبیک کہا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کے سامنے قطعی دلائل اور روشن براہین بیان کردیئے تھے تو وہ لوگ جو حق کے واضح ہوجانے کے بعد حق کے ساتھ مجادلہ کرتے ہیں ﴿ حُجَّتُهُمْ دَاحِضَةٌ ﴾ ان کی حجت باطل اور ناقابل قبول ہے۔ ﴿ عِندَ رَبِّهِمْ ﴾ ” ان کے رب کے نزدیک۔“ کیونکہ یہ ایسے امور پر مشتمل ہے جو حق کے خلاف ہیں اور جو چیز حق کے خلاف ہو وہ باطل ہوتی ہے۔ ﴿ وَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ ﴾ ان کی نافرمانی، اللہ تعالیٰ کے دلائل و براہین سے روگردانی اور ان کو جھٹلانے کے سبب سے، ان پر اللہ تعالیٰ کا غضب ہے۔ ﴿ وَلَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ ﴾ ” اور ان کے لئے شدید عذاب ہے۔“ یہ سخت عذاب اللہ تعالیٰ کے غضب کا نتیجہ ہے اور یہ ہر اس شخص کی سزا ہے جو باطل دلائل سے حق کے خلاف جھگڑتا ہے۔ الشورى
17 یہ واضح کرنے کے بعد کہ اللہ تعالیٰ کے دلائل واضح اور روشن ہیں، کیونکہ ہر وہ شخص ان کو قبول کرتا ہے جس میں کچھ بھی بھلائی ہے، ان دلائل کا قاعدہ اور اصول بیان کیا بلکہ تمام دلائل کا جو اس نے بندوں کو عطا کئے ہیں، لہٰذا فرمایا : ﴿ اللّٰـهُ الَّذِي أَنزَلَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ وَالْمِيزَانَ﴾ ” اللہ ہی تو ہے جس نے سچائی کے ساتھ کتاب نازل فرمائی اور میزان“ کتاب سے مراد قرآن عظیم ہے جو حق کے ساتھ نازل ہوا اور یہ حق، صدق اور یقین پر مشتمل ہے۔ تمام مطالب الٰہیہ اور عقائد دینیہ کے بارے میں وہ روشن نشانیوں اور واضح دلائل پر مشتمل ہے یہ کتاب عظیم بہترین مسائل اور واضح ترین دلائل لے کر آئی ہے۔ میزان سے مراد قیاس صحیح اور عقل راجح کے ذریعے سے عدل و تعبیر ہے۔ چنانچہ تمام عقلی دلائل، یعنی آفاق اور انفس میں موجود نشانیاں، شرعی تعبیرات، مناسبات، علتیں، احکام اور حکمتیں، میزان میں داخل ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے نازل فرما کر بندوں کے سامنے پیش کیا ہے کہ وہ اس کے ذریعے سے ان امور کا وزن کریں جن کا اللہ تعالیٰ نے اثبات کیا ہے یا جن کی اس نے نفی کی ہے اور ان امور کو پہچانیں جن کی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں نے خبر دی ہے اور ان امور کو پہنچانیں جو کتاب اور میزان پر پورے نہیں اترتے اور جن کے بارے میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ وہ حجت، برہان یا دلیل یا اس قسم کی کوئی تعبیر ہیں کیونکہ یہ سب باطل اور متناقض ہیں ان کے اصول فاسد اور ان کی بنیاد اور ان کے فروع منہدم ہوگئے۔ اس میزان کے ذریعے سے مسائل کی خبر اور اس کی ماخذ کی معرفت حاصل ہوتی ہے، اس کے ذریعے سے دلائل راجحہ اور دلائل مرجوحہ کے درمیان امتیاز اور اس کے ذریعے سے دلائل اور شبہات کے درمیان فرق کیا جاتا ہے۔ رہا وہ شخص جو آراستہ عبارات، ملمع شدہ خوبصورت الفاظ کے فریب میں مبتلا ہو کر معنی مراد میں بصیرت حاصل نہیں کرتا تو وہ اس شان کے لوگوں میں شامل ہے نہ اس میدان کا شہسوار ہے، پس اس کی موافقت اور مخالفت برابر ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے قیامت کے لئے جلدی مچانے والوں اور اس کا انکار کرنے والوں کو ڈراتے ہوئے فرمایا : ﴿ وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّ السَّاعَةَ قَرِيبٌ﴾ ” اور تم کو کیا معلوم شاید قیامت قریب ہی آ پہنچی ہو۔“ یعنی اس کے دور ہونے کا علم ہے نہ یہ معلوم ہے کہ وہ کب قائم ہوگی؟ پس اس کا وقوع ہر وقت متوقع ہے اور اس کے واقع ہونے کی آواز بہت خوفناک ہوگی۔ الشورى
18 ﴿ يَسْتَعْجِلُ بِهَا الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِهَا ﴾’’اس کی جلدی انہیں پڑی ہے جو اسے نہیں مانتے۔“ یعنی منکرین حق عناد اور تکذیب کے طور پر اور اپنے رب کو قیامت قائم کرنے سے عاجز سمجھتے ہوئے قیامت کے لئے جلدی مچاتے ہیں۔ ﴿ وَالَّذِينَ آمَنُوا مُشْفِقُونَ مِنْهَا ﴾ ” اور اہل ایمان اس سے ڈرتے ہیں۔“ یعنی ان کے ڈرنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ اس پر ایمان رکھتے ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ قیامت کے روز اعمال کی جزا و سزا دی جائے گی اور وہ اپنے رب کی معرفت کی بنا پر ڈرتے ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کے اعمال نجات کے حصول میں مدد نہ کرسکیں، بنا بریں فرمایا : ﴿ وَيَعْلَمُونَ أَنَّهَا الْحَقُّ ﴾ ” اور وہ جانتے ہیں کہ بلاشبہ یہ حق ہے۔“ جس میں کوئی جھگڑا ہے نہ شک۔ ﴿ أَلَا إِنَّ الَّذِينَ يُمَارُونَ فِي السَّاعَةِ ﴾ ” آگاہ رہو۔ ! بلاشبہ جو لوگ قیامت کے بارے میں جھگڑتے ہیں۔“ یعنی قیامت میں شک کرنے کے علاوہ، قیامت کے بارے میں انبیاء اور ان کے پیروکاروں سے جھگڑا کرتے ہیں، پس وہ دور کی مخالفت میں ہیں، یعنی صواب و درستی کے قریب نہیں ہیں بلکہ حق سے انتہائی دور معاندانہ اور مخاصمانہ رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔ اس شخص سے بڑھ کر حق سے کون دور ہوسکتا ہے جس نے آخرت کے گھر کو جھٹلایا جو حقیقی گھر ہے جو دائمی طور پر باقی رہنے اور خلود سرمدی کے لئے پیدا کیا گیا ہے اور وہ دارلجزا ہے جہاں اللہ تعالیٰ اپنے فضل و عدل کو ظاہر کرے گا۔ دنیا کے گھر کی اس دائمی گھر سے بس اتنی سی نسبت ہے جیسے کوئی مسافر درخت کے سائے تلے آرام کرے پھر اس سایہ دار درخت کو چھوڑ کر کوچ کر جائے، یہ تو عبوری گھر اور گزر گاہ ہے ہمیشہ رہنے کا ٹھکانہ نہیں۔ چونکہ انہوں نے اس دار فانی کو دیکھا اور اس کا مشاہدہ کیا ہے اس لئے انہوں نے اس کی تصدیق کی اور آخرت کے گھر کو جھٹلایا جس کے بارے میں کتب الٰہیہ میں تواتر کے ساتھ اخبار وارد ہوئی ہیں اور انبیائے کرام اور ان کے پیروکاروں نے آگاہ کیا جو عقل میں سب سے زیادہ کامل، علم میں سب زیادہ وسعت کے حامل اور سب سے زیادہ فہم و فطانت رکھنے والے نفوس قدسیہ ہیں۔ الشورى
19 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں کو اپنے لطف و کرم سے آگاہ فرماتا ہے تاکہ وہ اسے پہچانیں، اس سے محبت کریں اور اس کے فضل و کرم کے حصول کے در پے رہیں۔ لطف اللہ تعالیٰ کے اوصاف میں سے ایک وصف ہے جس سے مراد وہ ہستی ہے جو دل کی باتوں اور چھپے ہوئے بھیدوں کو بھی جانتی ہے جو اپنے بندوں کو، خاص طور پر اہل ایمان کو، اس مقام تک پہنچاتی ہے جس کے بارے میں انہیں کوئی علم ہوتا ہے نہ گمان۔ یہ بندہ مومن پر اس کا لطف و کرم ہے کہ اس نے بھلائی کے اسباب مہیا کر کے اسے بھلائی کی راہ دکھائی، جس کا اس کے دل میں خیال تک نہیں آتا، اس کی فطرت میں موجود یہ اسباب محبت حق اور اس کی اطاعت کی طرف بلاتے ہیں، نیز یہ کہ اس نے اپنے مکرم فرشتوں کو الہام کیا کہ وہ اس کے مومن بندوں کو ثابت قدم رکھیں، انہیں بھلائی کی ترغیب دیں، ان کے دلوں میں حق کو مزین کریں تاکہ یہ تزیین حق اتباع حق کی دعوت دے۔ یہ اس کا لطف و کرم ہے کہ اس نے اہل ایمان کو اجتماعی عبادات کا حکم دیا جن کے ذریعے سے ان کے عزائم میں قوت آتی ہے، ان کی ہمتیں بیدار ہوتی ہیں، بھلائی میں رغبت پیدا ہوتی ہے، بھلائی میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے اور ایک دوسرے کی پیروی کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا لطف و کرم ہے کہ اس نے اپنے بندے کو ہر سبب مہیا کیا جو اسے معاصی سے باز رکھتا ہے اور اس کے اور معاصی کے درمیان حائل ہوجاتا ہے حتیٰ کہ اگر اللہ تعالیٰ کو معلوم ہوجاتا ہے کہ دنیا، مال و متاع اور ریاست وغیرہ جس کی خاطر دنیا دار ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں، اس کے بندے کو اس کی اطاعت سے دور کردیں گی یا اس میں غفلت پیدا کردیں گی یا اسے معصیت پر ابھاریں گی تو وہ اس دنیا کو اس سے دور ہٹا دیتا ہے، اس لئے فرمایا : ﴿ يَرْزُقُ مَن يَشَاءُ ﴾ اپنی حکمت کے تقاضے اور اپنے لطف و کرم کے مطابق جسے چاہتا ہے رزق سے بہرہ مند کرتا ہے ﴿ وَهُوَ الْقَوِيُّ الْعَزِيزُ ﴾ ” اور وہ بہت قوت والا، نہایت غالب ہے۔“ وہ تمام قوت کا مالک ہے اس کی مدد کے بغیر مخلوق میں کسی کے پاس کوئی قوت و اختیار نہیں اسی کے سامنے کائنات سرنگوں ہے۔ الشورى
20 پھر فرمایا : ﴿ مَن كَانَ يُرِيدُ حَرْثَ الْآخِرَةِ ﴾ ” جو آخرت کی کھیتی کا طلب گار ہو۔“ یعنی جو کوئی آخرت کا اجر و ثواب چاہتے ہوئے اس پر ایمان لاتا ہے، اس کی تصدیق کرتا ہے اور اس کے حصول کے لئے پوری طرح کوشاں رہتا ہے ﴿ نَزِدْ لَهُ فِي حَرْثِهِ ﴾ ” ہم اس کی کھیتی میں اضافہ کردیتے ہیں۔“ یعنی ہم اس کے عمل اور اس کے جزا کو کئی گنا کردیتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿ وَمَنْ أَرَادَ الْآخِرَةَ وَسَعَىٰ لَهَا سَعْيَهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَـٰئِكَ كَانَ سَعْيُهُم مَّشْكُورًا ﴾(بنی اسرائیل:17؍19) ” اور جو کوئی آخرت کا گھر چاہے اور اس کے لئے کوشش کرے جیسا کہ کوشش کا حق ہے اور وہ مومن بھی ہو تو ایسے ہی لوگوں کی کوشش کی قدر کی جائے گی۔“ اس کے باوجود دنیا میں سے اس کے لئے مقرر کیا گیا حصہ اسے ضرور ملے گا۔ ﴿ وَمَن كَانَ يُرِيدُ حَرْثَ الدُّنْيَا ﴾ ” اور جو دنیا کی کھیتی چاہتا ہے۔“ یعنی دنیا ہی اس کا مطلوب و مقصود ہو، آخرت کے لئے کچھ بھی آگے نہ بھیجے، اسے آخرت کے ثواب کی امید ہے نہ اس کے عذاب کا ڈر ﴿ نُؤْتِهِ مِنْهَا ﴾ تو ہم اسے دنیا میں سے اس کا حصہ عطا کرتے ہیں جو اس کے لئے مقرر ہے۔ ﴿ وَمَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِن نَّصِيبٍ ﴾ ” اور اس کے لئے آخرت میں کچھ حصہ نہیں ہوگا۔“ اس پر جنت حرام کردی گئی اور وہ جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ کا مستحق ٹھہرا۔ یہ آیت کریمہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی نظیر ہے ﴿ مَن كَانَ يُرِيدُ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا نُوَفِّ إِلَيْهِمْ أَعْمَالَهُمْ فِيهَا وَهُمْ فِيهَا لَا يُبْخَسُونَ أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُوَحَبِطَ مَا صَنَعُوا فِيهَا وَبَاطِلٌ مَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴾(ھود:11؍16،15) ” جو لوگ اس دنیا کی زندگی اور اس کی زینت کے طلب گار ہیں ہم انہیں ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ اسی دنیا میں عطا کردیتے ہیں اور اس میں ان کو کوئی گھاٹا نہیں دیا جاتا۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں سوائے آپ کے اور کچھ نہیں اور جو کچھ انہوں نے دنیا میں کیا تھا وہ سب اکارت ہے اور جو کچھ وہ کرتے تھے، سب برباد ہونے والا ہے۔ “ الشورى
21 اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ مشرکین نے اللہ تعالیٰ کے شریک بنا لئے جن کے ساتھ وہ دوستی رکھتے ہیں اور وہ کفر کے داعی انسانی شیاطین کے ساتھ کفر اور اعمال کفر میں شریک ہیں ﴿ شَرَعُوا لَهُم مِّنَ الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَن بِهِ اللّٰـهُ ﴾ ” انہوں نے ان کے لئے ایسا دین مقرر کیا ہے جس کا اللہ نے انہیں حکم نہیں دیا۔“ یعنی شرک اور بدعات کو رواج دیا، اپنی خواہشات نفس کے تقاضے کے مطابق اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ چیزوں کو حرام ٹھہرایا اور اس کی محرمات کو حلال قرار دیا، حالانکہ دین وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ دین قرار دے تاکہ لوگ اسے دین بنائیں اور اس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کریں۔ اس بارے میں اصول یہ ہے کہ ہر شخص کے لئے کسی ایسی چیز کو شریعت قرار دینا ممنوع ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی طرف سے نہ آئی ہو، تب ان فساق کو شریعت سازی کا کیوں کر اختیار دیا جاسکتا ہے جو کفار کے کفر میں شریک ہیں ! ﴿ وَلَوْلَا كَلِمَةُ الْفَصْلِ لَقُضِيَ بَيْنَهُمْ ﴾ ” اور اگر پہلے سے طے شدہ بات نہ ہوتی تو ان کے درمیان ضرور فیصلہ کیا جا چکا ہوتا۔“ یعنی اگر مدت مقرر نہ کردی گئی ہو تو جسے اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے سے اختلاف رکھنے والے تمام گروہوں کے درمیان فیصلہ کن قرار دیا ہے، نیز یہ کہ وہ ان تمام لوگوں کو اس مدت تک مہلت دے گا تو اللہ تعالیٰ اسی وقت حق پرست کی سعادت اور باطل پرست کی ہلاکت کا فیصلہ کردیتا کیونکہ ہلاکت کا تقاضا موجود ہے مگر ان لوگوں کو اور ہر ظالم کو آخرت میں درد ناک عذاب کا سامنا کرنا ہے۔ الشورى
22 اس روز ﴿ تَرَى الظَّالِمِينَ ﴾ ” تم ظالموں کو دیکھو گے۔“ جنہوں نے کفر اور معاصی کے ذریعے سے اپنے آپ پر ظلم کیا۔ ﴿ مُشْفِقِينَ ﴾ یعنی ڈر رہے ہوں گے ﴿ مِمَّا كَسَبُوا ﴾ ” اس (انجام) سے جو انہوں نے (اپنے اعمال سے) کمایا۔“ کہ انہیں اپنی بد اعمالیوں کی سزا ملے گی۔ چونکہ ڈرنے والے کے ساتھ کبھی تو وہ چیز پیش آجاتی ہے جس سے ڈرتا ہے اور کبھی وہ چیز پیش نہیں آتی اس لئے آگاہ فرمایا کہ وہ ﴿ وَاقِعٌ بِهِمْ﴾ عذاب ان پر ضرور واقع ہوگا جس سے وہ ڈرتے ہیں کیونکہ انہوں نے اس کامل سبب کو اختیار کیا ہے جو عذاب کا موجب ہے اور اس موجب عذاب کا کوئی معارض بھی نہیں، مثلاً، توبہ وغیرہ، مزید برآں وہ ایسے مقام پر پہنچ چکے ہیں جہاں مہلت کا وقت گزر گیا ہے۔ ﴿ وَالَّذِينَ آمَنُوا ﴾ اور وہ لوگ جو اپنے دل سے اللہ تعالیٰ، اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے اور اس کا اظہار کیا ﴿ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ﴾ ” اور عمل کئے نیک“ اس میں اعمال قلوب، اعمال جوارح، اعمال واجبہ اور اعمال مستحبہ سب شامل ہیں لہٰذا یہ لوگ ﴿ فِي رَوْضَاتِ الْجَنَّاتِ ﴾ ” بہشتوں کے باغات میں ہوں گے۔“ یعنی وہ ان باغات میں ہوں گے جو جنت کی طرف مضاف (منسوب) ہیں اور مضاف، مضاف الیہ کے مطابق ہوتا ہے۔ مت پوچھئے ! ان خوبصورت باغات کی خوبصورتی، ان میں اچھل اچھل کر بہتی ہوئی ندیاں، بیلوں سے ڈھکے ہوئے درختوں کے جھنڈ، حسین مناظر، پھلوں سے لدے ہوئے درخت، چہچہاتے ہوئے پرندے، طرب انگیز آوازیں، تمام دوستوں سے ملاقاتیں اور اس ہم نشینی سے حاصل ہونے والا بہرۂ کامل کیسا ہوگا؟ وہ ایسے باغات ہوں گے کہ دور دور تک حسن ہی حسن ہوگا، ان باغات کے رہنے والوں میں ان باغات کی لذتوں کی چاہت اور اشتیاق میں اضافہ ہوگا۔ ﴿ لَهُم مَّا يَشَاءُونَ ﴾ یعنی ان باغات میں وہ جس چیز کا ارادہ کریں گے وہ فوراً انہیں حاصل ہوگی اور جب بھی طلب کریں گے حاضر کردی جائے گی جسے کسی آنکھ نے دیکھا ہے نہ کسی کان نے سنا ہے اور نہ کسی بشر کے طائر خیال میں اس کا گزر ہوا ہے۔ ﴿ ذَٰلِكَ هُوَ الْفَضْلُ الْكَبِيرُ ﴾ ” یہی ہے بہت بڑا فضل۔“ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول میں کامیابی اور اس کے اکرام و تکریم کے گھر میں اس کے تقرب کی نعمت سے بہرہ مند ہونے سے بڑھ کر بھی کوئی فضل ہے؟ الشورى
23 ﴿ ذَٰلِكَ الَّذِي يُبَشِّرُ اللّٰـهُ عِبَادَهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ﴾ ” یہی وہ ہے جس کی اللہ اپنے بندوں کو، جو ایمان لاتے ہیں اور نیک عمل کرتے ہیں، بشارت دیتا ہے۔“ یہ عظیم خوشخبری جو بلاشبہ علی الاطلاق سب سے بڑی خوشخبری ہے، جس سے رحمان و رحیم نے مخلوق میں سے بہترین ہستی کے ذریعے سے، ایمان اور عمل صالح کے حاملین کو سرفراز فرمایا ہے۔ یہ جلیل ترین غایت مقصود ہے اور اس مقصد تک پہنچانے والا وسیلہ افضل ترین وسیلہ ہے۔ ﴿ قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ ﴾ ” آپ کہہ دیجیے ! میں اس پر تم سے کوئی سوال نہیں کرتا۔“ یعنی تمہیں یہ قرآن پہنچانے اور تمہیں اس کے احکام کی طرف دعوت دینے پر ﴿ أَجْرًا ﴾ ” اجرکا“ میں تم سے تمہارا مال لینا چاہتا ہوں نہ تمہارا سردار بننا چاہتا ہوں اور نہ میری کوئی اور ہی غرض ہے ﴿ إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَىٰ ﴾ ” مگر قرابت داری کی محبت“ ایک احتمال یہ ہے کہ اس سے مراد ہو کہ میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا، سوائے ایک اجر کے، وہ تمہارے ہی لئے ہے، اس کا فائدہ بھی تمہیں ہی پہنچتا ہے، یعنی تم مجھ سے رشتہ داری کی وجہ سے محبت کرو اور یہ مودت، ایمان کی مودت سے زائد چیز ہے کیونکہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان کی مودت اور اللہ تعالیٰ کی محبت کے بعد رسول کی محبت کو تمام محبتوں پر مقدم رکھنا ہر مسلمان پر فرض ہے اور ان سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ ایمان کی محبت سے زائد قرابت داری کی بنا پر اس سے محبت کرو کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قریب ترین رشتہ داروں تک اپنی دعوت پہنچائی حتیٰ کہ کہا جاتا ہے کہ قریش کے گھرانوں میں کوئی گھرانہ ایسا نہ تھا جس کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رشتہ داری نہ ہو۔ دوسرا احتمال یہ ہے کہ اس سے مراد اللہ تعالیٰ کے ساتھ سچی مودت و محبت ہو اور یہ ایسی محبت ہے جس کی مصاحبت میں تقرب الٰہی اور توسل ہوتے ہیں جن کی بنیاد اطاعت ہے جو اس مودت و محبت کی صحت و صداقت کی دلیل ہے، اسی لئے فرمایا : ﴿ إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَىٰ ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف تقرب حاصل کرنے کے لئے۔ دونوں اقوال کے مطابق، یہ استثناء اس بات کی دلیل ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تم سے اس پر کسی اجر کا مطالبہ نہیں کرتے، سوائے اس چیز کے کہ جس کا فائدہ خود تمہی کی طرف لوٹتا ہے۔ یہ کسی بھی طرح کوئی اجر نہیں بلکہ یہ تو ان کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے اجر ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿ وَمَا نَقَمُوا مِنْهُمْ إِلَّا أَن يُؤْمِنُوا بِاللّٰـهِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ ﴾ (البروج :85؍8) ” اور وہ اہل ایمان سے صرف اس وجہ سے ناراض ہیں کہ وہ اللہ پر ایمان لائے جو زبردست، نہایت قابل تعریف ہے“ اور جیسے کسی کا یہ کہنا : تمہارے نزدیک فلاں شخص کا بس یہی گناہ ہے کہ وہ تمہارے ساتھ بھلائی کرنے والا ہے۔ ﴿ وَمَن يَقْتَرِفْ حَسَنَةً ﴾ ” اور جو کوئی نیکی کا کام کرے گا۔“ یعنی نماز، روزہ اور حج پر کار بند رہتا ہے اور مخلوق کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آتا ہے۔ ﴿ نَّزِدْ لَهُ فِيهَا حُسْنًا ﴾ ” ہم اس کے لئے اس میں بھلائی بڑھا دیں گے۔“ اللہ تعالیٰ اس کے سینے کو کھول دیتا ہے، اس کے معاملے کو آسان کردیتا ہے اور یہ نیکی کسی دوسرے نیک عمل کی توفیق کا ذریعہ بن جاتی ہے اور اس ذریعے سے مومن کے اعمال صالحہ میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اور مخلوق کے نزدیک اس کا مرتبہ بلند ہوجاتا ہے اور وہ دنیاوی اور اخروی ثواب سے بہرہ مند ہوتا ہے۔ ﴿ إِنَّ اللّٰـهَ غَفُورٌ شَكُورٌ ﴾ ” بے شک اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا، بہت قدر دان ہے“ وہ توبہ کرنے پر تمام بڑے بڑے گناہوں کو بخش دیتا ہے، خواہ وہ کتنے ہی زیادہ کیوں نہ ہوں۔ وہ تھوڑے سے عمل پر بہت زیادہ اجر عطا کر کے اس عمل کی قدر دانی کرتا ہے، پس وہ اپنی مغفرت کے ذریعے سے گناہوں کو بخش دیتا ہے اور عیبوں کو چھپاتا ہے اور اپنی قدر دانی کی بنا پر نیکیوں کو قبول کر کے ان میں کئی گنا اضافہ کرتا ہے۔ الشورى
24 کیا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جھٹلانے والے یہ لوگ اپنی جسارت کذب بیانی کی بنا پر کہتے ہیں : ﴿ افْتَرَىٰ عَلَى اللّٰـهِ كَذِبًا ﴾ ” اس رسول نے اللہ پر جھوٹ باندھ لیا ہے؟“ پس انہوں نے آپ پر بدترین اور قبیح ترین بہتان لگایا، وہ یہ کہ آپ نے نبوت کا دعویٰ کر کے اور اسے اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کر کے، اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھا ہے جبکہ آپ اس سے بری ہیں، حالانکہ وہ آپ کی صداقت اور امانت کو خوب جانتے ہیں، وہ اس صریح جھوٹ کی کیوں کر جرأت کر رہے ہیں؟ بلکہ اس ذریعے سے وہ اللہ تعالیٰ کی جناب میں جسارت کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی ذات میں جرح و قدح ہے کہ اس نے آپ کے لئے اس عظیم دعوت کو ممکن بنایا جو ان کے زعم کے موجب زمین کے اندر سب سے بڑے فساد کو متضمن ہے۔ جہاں اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس صراحت کے ساتھ نبوت کا دعویٰ کرنے اور اس کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرنے کا اختیار بخشا، مزید برآں، وہ ظاہری معجزات، بڑے بڑے دلائل، فتح مبین اور آپ کی مخالفت کرنے والوں پر غلبہ عطا کر کے آپ کی تائید کرتا ہے۔ درآں حالیہ اللہ تعالیٰ اس دعوت کو اس کی جڑ اور بنیاد سے ختم کرنے پر قادر ہے۔ وہ اس طرح کہ اللہ تعالیٰ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قلب پر مہر لگا دے تاکہ اس کے اندر کوئی بھلائی داخل نہ ہو، جب آپ کے قلب پر مہر لگا دی جائے گی تو تمام معاملہ ختم ہوجائے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو کچھ لے کر آئے ہیں اس کی صحت پر یہ قطعی دلیل اور آپ کے نبوت کے دعویٰ پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے قوی ترین شہادت ہے، اس سے عظیم اور اس سے بڑی کوئی اور شہادت نہیں مل سکتی۔ بنا بریں یہ اس کی حکمت، رحمت اور سنت جاریہ ہے کہ وہ باطل کو مٹا دیتا ہے۔ اگرچہ بعض اوقات اسے غلبہ حاصل ہوتا ہے مگر انجام کار باطل نیست و نابود ہوتا ہے۔ ﴿ وَيُحِقُّ الْحَقَّ بِكَلِمَاتِهِ ﴾ وہ اپنے سچے وعدہ اور احکام تکوینی کے ذریعے سے حق کو حق کر دکھاتا ہے جس میں کوئی تغیر و تبدل نہیں، نیز اپنے ان کلمات دینیہ کے ذریعے سے بھی حق کو حق کر دکھاتا ہے جو ان احکام حق کو ثابت کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے مشروع کئے ہیں اور انہیں قلوب میں جاگزیں کرتے ہیں اور خرد مندوں کو بصیرت سے بہرہ مند کرتے ہیں حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ کا حق کو حق ثابت کرنا یہ ہے کہ وہ حق کا مقابلہ کرنے کے لئے باطل کو مقرر کردیتا ہے۔ جب باطل حق کا مقابلہ کرتا ہے تو حق اپنے دلائل و براہین کے ساتھ باطل پر حملہ آور ہوتا ہے، تب نور حق اور اس کی ہدایت ظاہر ہوتے ہیں جس سے باطل مضمحل ہو کر نیست و نابود ہوجاتا ہے اور ہر ایک پر باطل کا بطلان واضح اور ہر ایک کے لئے حق پوری طرح ظاہر ہوجاتا ہے۔ ﴿ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ ﴾ یعنی جو کچھ دلوں میں ہے اور جن اچھے برے اوصاف سے دل متصف ہیں اور جو کچھ وہ چھپاتے ہیں اور اسے ظاہر نہیں کرتے، اللہ تعالیٰ سب جانتا ہے۔ الشورى
25 یہ اللہ تعالیٰ کے کمال فضل و کرم، اس کی وسعت جود اور اس کے لطف کامل کا بیان ہے کہ وہ اپنے بندوں سے صادر ہونے والی توبہ کو قبول کرتا ہے جب وہ گناہوں کو ترک کر کے ان پر نادم ہوتے ہیں اور ان گناہوں کا اعادہ نہ کرنے کا عزم کرلیتے ہیں۔ جب وہ اس توبہ میں خالص اللہ تعالیٰ کی رضا کا قصد رکھتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اس توبہ کو قبول کرتا ہے جبکہ یہ گناہ ہلاکت اور دنیاوی و آخروی عذاب کا سبب بن چکے تھے۔ ﴿ وَيَعْفُوا عَنِ السَّيِّئَاتِ ﴾ اللہ تعالیٰ برائیوں کو مٹا دیتا ہے، ان کے برے اثرات اور عقوبات کو بھی ختم کردیتا ہے جن کا تقاضا یہ برائیاں کرتی ہیں اور توبہ کرنے والا اللہ تعالیٰ کے نزدیک دوبارہ اچھے لوگوں کے زمرے میں شمار ہونے لگتا ہے، گویا کہ اس نے کبھی کوئی برا کا کام کیا ہی نہیں تھا۔ اللہ تعالیٰ اس سے محبت کرتا ہے اور اسے ایسے اعمال کی توفیق بخشتا ہے جو اس کا قرب عطا کرتے ہیں۔ چونکہ توبہ عظیم اعمال میں شمار ہوتی ہے جو کبھی تو کامل صدق و اخلاص کی بنا پر کامل ہوتی ہے اور کبھی صدق و اخلاق میں کمی کے سبب سے ناقص ہوتی ہے اور کبھی توبہ فاسد ہوتی ہے جب توبہ کا مقصد کوئی دنیاوی غرض ہو اور توبہ کا محل قلب ہے جس کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا، اس لئے اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ کو اس ارشاد پر ختم فرمایا : ﴿ وَيَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ ﴾ ” اور تم جو عمل کرتے ہو وہ جانتا ہے۔ “ الشورى
26 اللہ تبارک و تعالیٰ نے تمام بندوں کو اپنی طرف انابت کی اور تقصیر پر توبہ کرنے کی دعوت دی ہے۔ پس بندے اس دعوت کو قبول کرنے کے لحاظ سے دو اقسام میں منقسم ہیں : (1) پہلی قسم ان لوگوں کی ہے جنہوں نے اس دعوت کو قبول کیا، اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں ان کا وصف بیان فرمایا ہے : ﴿ وَيَسْتَجِيبُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ﴾ یعنی ان کا رب انہیں جس چیز کی طرف بلاتا ہے وہ اس کی پکار کا جواب دیتے ہیں، اس کی اطاعت کرتے ہیں اور اس کی دعوت پر لبیک کہتے ہیں کیونکہ ان کے اعمال اور عمل صالح انہیں ایسا کرنے پر آمادہ کرتے ہیں۔ جب وہ اللہ تعالیٰ کی پکار پر لبیک کہتے ہیں تو وہ ان کی قدر کرتا ہے، وہ بہت بخشنے والا اور نہایت قدر دان ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے عمل کے لئے ان کی توفیق و نشاط میں اضافہ کرتا ہے، ان کے اعمال جس ثواب اور فوز عظیم کے مستحق ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں اس سے کئی گنا زیادہ اجر عطا کرتا ہے۔ (2) رہے وہ جو اللہ کی دعوت کو قبول نہیں کرتے اور وہ معاندین حق اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں کا انکار کرنے والے ہیں۔ ﴿ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ ﴾ ان کے لئے دنیا و آخرت میں سخت عذاب ہے۔ الشورى
27 پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر اپنے لطف و کرم کا ذکر فرمایا کہ وہ اپنے بندوں پر دنیا کو اتنا زیادہ فراخ نہیں کرتا جس سے ان کے دین کو نقصان پہنچے، چنانچہ فرمایا : ﴿ وَلَوْ بَسَطَ اللّٰـهُ الرِّزْقَ لِعِبَادِهِ لَبَغَوْا فِي الْأَرْضِ ﴾ ” اور اگر اللہ اپنے بندوں کے لئے رزق میں فراخی کردیتا تو وہ زمین میں فساد کرنے لگتے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے غافل ہو کر شہوات دنیا سے تمتع میں مصروف ہوجاتے اور دنیا انہیں ان کی خواہشات نفس میں مغشول کردیتی، خواہ وہ معصیت اور ظلم ہی کیوں نہ ہوتے۔ ﴿ وَلَـٰكِن يُنَزِّلُ بِقَدَرٍ مَّا يَشَاءُ ﴾ ” لیکن وہ اپنے اندازے سے جو چیز چاہتا ہے نازل کرتا ہے۔“ یعنی اپنے لطف و کرم اور حکمت کے تقاضے کے مطابق ﴿ إِنَّهُ بِعِبَادِهِ خَبِيرٌ بَصِيرٌ ﴾ ” یقیناً وہ اپنے بندوں سے باخبر، خوب دیکھنے والا ہے۔“ جیسا کہ ایک اثر میں مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :” میرے کچھ بندے ایسے بھی ہیں جن کے ایمان کی اصلاح صرف غناہی کرتا ہے اگر میں انہیں فقر و فاقہ میں مبتلا کر دوں تو یہ فقر و فاقہ انہیں فاسد کر کے رکھ دے گا اور میرے کچھ بندے ایسے بھی ہیں جن کے ایمان کی اصلاح فقر کے سوا کوئی اور چیز نہیں کرتی اگر میں انہیں غنا عطا کر دوں تو وہ ان کے ایمان کو خراب کر دے اور میرے بندوں میں سے کچھ بندے ایسے بھی ہیں جن کے ایمان کی اصلاح، صحت کے سوا کسی چیز سے نہیں ہوتی اگر میں انہیں بیمار کر دوں تو وہ انہیں فاسد کر کے رکھ دے اور میرے کچھ بندے ایسے بھی ہیں جن کے ایمان کی اصلاح صرف مرض سے ہوتی ہے اگر میں انہیں عافیت سے نواز دوں تو یہ عافیت ان کے ایمان کو فاسد کر دے۔ بندوں کے دلوں میں جو کچھ ہے، میں اس کے بارے میں اپنے علم کے مطابق بندوں کے امور کی تدبیر کرتا ہوں۔ بے شک میں خبر رکھنے والا اور دیکھنے والا ہوں۔“ [العلل المتناھیۃ فی الاحادیث الواھیۃ، الإیمان، باب تدبیر الخلق بما یصلح الإیمان، حدیث :27 اس حدیث کی سند ضعیف ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کہا ہے لیکن اس کا معنی و مفہوم درست ہے۔ (فتح الباری، 11؍415) ] الشورى
28 ﴿وَهُوَ الَّذِي يُنَزِّلُ الْغَيْثَ﴾ یعنی وہی موسلادھار بارش برساتا ہے جس کے ذریعے سے وہ زمین اور بندوں کی مدد کرتا ہے ﴿ مِن بَعْدِ مَا قَنَطُوا﴾ ” اس کے بعد کہ وہ مایوس ہوچکے ہوتے ہیں۔“ ایک مدت سے ان سے بارش منقطع ہوچکی ہوتی ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ اب بارش نہیں ہوگی اور یوں وہ مایوس ہو کر قحط سالی کے لئے کوئی کام کرتے ہیں، پس اللہ تعالیٰ بارش برسا دیتا ہے ﴿يَنشُرُ ﴾ وہ اس بارش کے ذریعے سے پھیلاتا ہے ﴿رَحْمَتَهُ﴾ ” اپنی رحمت کو“ انسانوں اور چوپایوں کی خوراک کا سامان پیدا کر کے اور انسانوں کے نزدیک یہ بارش بہت اچھے موقع پر برستی ہے، اس موقع پر وہ خوش ہوتے اور فرحت کا اظہار کرتے ہیں۔ ﴿ وَهُوَ الْوَلِيُّ﴾ ” اور وہی کار ساز ہے۔“ جو مختلف تدابیر کے ساتھ اپنے بندوں کی سرپرستی اور ان کے دینی اور دنیاوی مصالح کا انتظام کرتا ہے۔ ﴿ الْحَمِيدُ ﴾ وہ سرپرستی اور تدبیر و انتظام میں قابل ستائش ہے اور کمال کا مالک ہونے اور مخلوق کو جو مختلف نعمتیں اس نے بہم پہنچائی ہیں اس پر وہ قابل ستائش ہے۔ الشورى
29 ﴿ وَمِنْ آيَاتِهِ﴾ ” اور اس کی نشانیوں میں سے ہے۔“ یعنی اس کی عظیم قدرت کہ جس میں مردوں کو زندہ کرنا بھی ہے، کے جملہ دلائل میں سے ایک دلیل ہے ﴿خَلْقُ﴾ ” پیدائش“ ان ﴿السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ﴾ ” آسمانوں اور زمین کی۔“ ان کی عظمت اور وسعت کے ساتھ، وہ اللہ کی قدرت اور وسعت سلطنت پر دلالت کرتی ہے اور ان کی تخلیق میں جو مہارت اور مضبوطی ہے وہ اس کی حکمت پر اور ان کے اندر جو منافع اور مصالح رکھے گئے ہیں وہ اس کی رحمت کی دلیل ہیں اور یہ سب کچھ دلالت کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر قسم کی عبادت کا مستحق ہے اور اس کے سوا ہر ہستی کی الوہیت باطل ہے۔ ﴿ مِن دَابَّةٍ ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ ہی نے آسمانوں اور زمین میں جانداروں کی اصناف پھیلائیں اور ان کو اپنے بندوں کے لئے منافع اور مصالح قرار دیا۔ ﴿وَهُوَ عَلَىٰ جَمْعِهِمْ﴾ یعنی وہ تمام مخلوق کو ان کے مرنے کے بعد قیامت کے لئے جمع کرنے پر ﴿ إِذَا يَشَاءُ قَدِيرٌ ﴾ ” جب وہ چاہے خوب قادر ہے۔“ پس اس کی قدرت اور مشیت ایسا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس کا وقوع، خبر صادق کے وجود پر موقوف ہے اور ہمیں معلوم ہے کہ انبیاء و مرسلین اور ان کی کتابوں کی طرف سے اس کی وقوع کی خبر نہایت تواتر کے ساتھ دی گئی ہے۔ الشورى
30 اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ بندوں کو ان کے ابدان، اموال، اولاد اور ان کی محبوب اور عزیز چیزوں میں جو بھی کوئی مصیبت پہنچتی ہے اس کا سبب ان کے ہاتھوں سے کمائی ہوئی برائیاں ہیں اور وہ برائیاں، جو اللہ تعالیٰ معاف کردیتا ہے، اس سے بھی زیادہ ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا ہے، بندے خود اپنے آپ پر ظلم کے مرتکب ہوتے ہیں۔ ﴿وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللّٰـهُ النَّاسَ بِمَا كَسَبُوا مَا تَرَكَ عَلَىٰ ظَهْرِهَا مِن دَابَّةٍ﴾ (فاطر:35؍45)” اور اگر اللہ لوگوں کو ان کے کرتوتوں پر پکڑتا تو روئے زمین پر کسی جان دار کو نہ چھوڑتا۔ “ الشورى
31 اللہ تعالیٰ کی طرف سے عقوبات کو مؤخر کرنا کسی بھول کی بنا پر ہے نہ عجز کی بنا پر ﴿وَمَا أَنتُم بِمُعْجِزِينَ فِي الْأَرْضِ﴾ ” اور تم زمین میں (اسے عاجز) نہیں کرسکتے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ کو تم پر جو قدرت حاصل ہے اس بارے میں تم اللہ تعالیٰ کو عاجز نہیں پاؤ گے بلکہ تم زمین کے اندر بے بس اور عاجز ہو۔ اللہ تم پر جو حکم نافذ کرتا ہے تم اسے روکنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ ﴿وَمَا لَكُم مِّن دُونِ اللّٰـهِ مِن وَلِيٍّ ﴾ ” اور اللہ کے سوا تمہارا کوئی دوست نہیں۔“ جو تمہاری سرپرستی کرے اور تمہیں فوائد عطا کرے ﴿وَلَا نَصِيرٍ ﴾ ” اور نہ مددگار۔“ جو تم سے ضرر رساں چیزوں کو دور کرے۔ الشورى
32 یعنی اپنے بندوں پر رحمت اور عنایت کے جملہ دلائل میں سے ایک دلیل ﴿ الْجَوَارِ فِي الْبَحْرِ﴾ ” سمندر میں جہاز“ کشتیاں، دخانی اور بادبانی جہاز ہیں جو اپنی بڑی جسامت کی بنا پر ﴿ كَالْأَعْلَامِ﴾ بڑے بڑے پہاڑ دکھائی دیتے ہیں جن کے لئے اللہ تعالیٰ نے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کو مسخر کردیا اور متلاطم موجوں سے ان کی حفاظت کی، یہ کشتیاں انہیں اور ان کے سامان تجارت کو دور دور ملکوں اور شہروں تک لے جاتی ہیں اور ان کے لئے ایسے اسباب مہیا کئے جو ان کو ان ملکوں اور شہروں تک جانے میں مدد دیتے ہیں۔ الشورى
33 پھر اللہ تعالیٰ نے ان اسباب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : ﴿إِن يَشَأْ يُسْكِنِ الرِّيحَ﴾ ” اگر وہ (اللہ) چاہے تو ہوا کو ٹھہرا دے۔“ جس کو اللہ تعالیٰ نے ان کشتیوں کے چلنے کا سبب بنایا ہے ﴿فَيَظْلَلْنَ ﴾ ” اور وہ رہ جائیں۔“ یعنی مختلف انواع کی کشتیاں ﴿ رَوَاكِدَ﴾ سطح سمندر پر ٹھہر جائیں آگے بڑھیں نہ پیچھے ہٹیں۔ یہ چیز دخانی کشتیوں کے متناقض نہیں ہے کیونکہ دخانی کشتیوں کے چلنے کے لئے ہوا کا موجود ہونا شرط ہے، اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو ان کشتیوں کو، ان پر سوار ہونے کے کرتوتوں کے سبب سے تباہ کر دے، یعنی سمندر میں غرق کر کے تلف کردے مگر وہ حلم سے کام لیتا ہے اور بہت سے گناہوں کو معاف کردیتا ہے۔ ﴿إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُورٍ﴾ ” بے شک صبر شکر کرنے والوں کے لئے اس میں نشانیاں ہیں۔‘‘ یعنی جو ان امور پر بہت صبر کرنے والا ہے جن کو اس کا نفس ناپسند کرتا ہے اور اس پر یہ امور شاق گزرتے ہیں۔ وہ اپنے نفس کو اس مشقت اور اطاعت پر مجبور کرتا ہے، معصیت کے داعی کو اور مصیبت کے وقت نفس کو اللہ تعالیٰ پر ناراضی سے روکتا ہے۔ ﴿شَكُورٍ﴾ نعمتوں اور آسودہ حالی میں شکر ادا کرتا ہے، وہ اپنے رب کی نعمتوں کا اعتراف کرتے ہوئے اس کے سامنے سرنگوں ہوتا ہے اور نعمتوں کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق صرف کرتا ہے۔ پس یہی وہ شخص ہے جو آیات الٰہی سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ رہا وہ شخص جو صبر سے بہرہ ور ہے نہ وہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر شکر کرتا ہے تو یہ شخص یا تو آیات الٰہی سے روگردانی کرنے والا ہے یا ان سے عناد رکھنے والا ہے اور وہ آیات الٰہی سے مستفید نہیں ہوسکتا۔ الشورى
34 الشورى
35 پھر فرمایا : ﴿وَيَعْلَمَ الَّذِينَ يُجَادِلُونَ فِي آيَاتِنَا ﴾ ” اور جان لیں وہ لوگ جو ہماری آیتوں کے بارے میں جھگڑتے ہیں۔“ کہ اپنے باطل نظریہ کے ذریعے انہیں جھٹلاتے ہیں۔ ﴿مَا لَهُم مِّن مَّحِيصٍ﴾ اس عذاب سے انہیں کوئی بچا نہیں سکے گا جو ان پر نازل ہوگا۔ الشورى
36 اس آیت کریمہ میں دنیا کو ترک کرنے اور آخرت کو اختیار کرنے کی ترغیب اور ان اعمال کا ذکر ہے جو آخرت کی منزل تک پہنچاتے ہیں، لہٰذا فرمایا :﴿ فَمَا أُوتِيتُم مِّن شَيْءٍ﴾ ” پس جو کہ تمہیں دیا گیا ہے۔“ یعنی اقتدار، ریاست، سرداری، مال، بیٹے اور بدنی صحت و عافیت وغیرہ ﴿فَمَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا﴾ ” پس یہ دنیا کی زندگی کا فائدہ ہے۔“ یعنی منقطع ہونے والی لذت ہے ﴿وَمَا عِندَ اللّٰـهِ﴾ ” اور جو اللہ کے پاس ہے۔“ بے پایاں ثواب، جلیل القدر اور دائمی نعمتوں میں سے وہ ﴿ خَيْرٌ﴾ لذات دنیا سے بہتر ہے، اخروی نعمتوں اور دنیاوی لذتوں کے مابین کوئی نسبت ہی نہیں۔ ﴿وَأَبْقَىٰ﴾ ” اور زیادہ پائیدار ہے۔“ کیونکہ یہ ایسی نعمتیں ہیں کہ ان میں کوئی تکدر ہے نہ یہ ختم ہونے والی ہیں اور نہ یہ کہیں اور منتقل ہوں گی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کا ذکر فرمایا جن کو اس ثواب سے بہرہ مند کیا جائے گا، فرمایا : ﴿لِلَّذِينَ آمَنُوا وَعَلَىٰ رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ ﴾ یعنی جنہوں نے ایمان صحیح جو ظاہری اور باطنی ایمان کے اعمال کو مستلزم ہے اور توکل کو جمع کرلیا ہے جو ہر عمل کا آلہ ہے، لہٰذا ہر عمل جس کی مصاحبت میں توکل نہ ہو غیر مکمل ہے۔ جس چیز کو بندہ پسند کرتا ہے اسے حاصل کرنے اور جسے ناپسند کرتا ہے اسے دور کرنے میں قلب کے اللہ تعالیٰ پر پورے وثوق کے ساتھ بھروسا کرنے کا نام توکل ہے۔ الشورى
37 ﴿وَالَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبَائِرَ الْإِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ﴾ ” اور جو بڑے بڑے گناہوں اور بے حیائی کی باتوں سے اجتناب کرتے ہیں۔“ کبائر اور فواحش، دونوں کے گناہ کبیرہ ہونے کے باوجود فرق یہ ہے کہ فواحش وہ بڑے بڑے گناہ ہیں جن کے لئے نفس انسانی میں داعیہ موجود ہوتا ہے مثلاً : زنا وغیرہ اور کبائر وہ گناہ ہیں جن کے لئے نفس میں داعیہ موجود نہیں ہوتا۔ یہ مفہوم دونوں کے اکٹھا استعمال کے وقت ہے اور رہا ان کا انفرادی وجود تو وہ سب کبائر میں داخل ہیں۔ ﴿ وَإِذَا مَا غَضِبُوا هُمْ يَغْفِرُونَ﴾ ” اور جب وہ غصے میں آتے ہیں تو معاف کردیتے ہیں۔“ یعنی انہوں نے مکارم اخلاق اور محاسن عادات سے اپنے آپ کو آراستہ کر رکھا ہے، حلم ان کی فطرت اور حسن خلق ان کی طبیعت بن گیا ہے حتیٰ کہ جب کبھی کوئی شخص کسی قول یا فعل کے ذریعے سے انہیں ناراض کردیتا ہے تو وہ اپنے غصے کو پی جاتے ہیں اور اس پر عمل نہیں کرتے بلکہ قصور بخش دیتے ہیں اور اس کے مقابلے میں حسن سلوک اور عفو و درگزر سے کام لیتے ہیں۔ پس اس عفو و درگزر پر خود ان کی ذات میں اور دوسروں میں بہت سے مصالح مترتب اور بہت سے مفاسد دور ہوتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا الَّذِينَ صَبَرُوا وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا ذُو حَظٍّ عَظِيمٍ ﴾ (حٰم السجدۃ:41؍34۔35)” برائی کو نیکی کے ذریعے سے دور کیجیے، آپ دیکھیں گے کہ وہ شخص بھی جس کی آپ کے ساتھ دشمنی ہے، جگری دوست بن جائے گا، اس وصف سے صرف وہی لوگ بہرہ مند ہوتے ہیں جو صبر کرتے ہیں اور یہ وصف صرف انہیں لوگوں کو عطا ہوتا ہے جو بڑے نصیبے والے ہیں۔ “ الشورى
38 ﴿وَالَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّهِمْ ﴾ ” اور جو اپنے رب کا فرمان قبول کرتے ہیں۔“ یعنی جو اس کی اطاعت کرتے ہیں، اس کی دعوت پر لبیک کہتے ہیں، اللہ تعالیٰ کی رضا کا مطمح نظر اور اس کے قرب کا حصول ان کی غرض و غایت بن جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی دعوت کا جواب دینے سے مراد ہے، نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ ادا کرنا، اس لئے ان کا استجابت پر عطف کیا ہے، یہ خاص پر عام کے عطف کے باب میں سے ہے جو اس کے فضل و شرف کی دلیل ہے۔ اس لئے فرمایا : ﴿ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ﴾ یعنی اس کے ظاہر و باطن اور فرائض و نوافل کو قائم کرتے ہیں۔ ﴿وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ﴾ ” اور ہم نے جو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔“ یعنی نفقات واجبہ، مثلاً: زکوٰۃ اور اقارب پر خرچ کرنا وغیرہ اور نفقات مستحبہ مثلاً، عام مخلوق پر صدقہ کرنا۔ ﴿ وَأَمْرُهُمْ﴾ ان کے دینی اور دنیاوی معاملات ﴿شُورَىٰ بَيْنَهُمْ﴾ ” باہم مشورے سے طے پاتے ہیں۔“ یعنی متروکہ امور میں ان میں سے کوئی بھی اپنی رائے کو مسلط نہیں کرتا۔ یہ وصف ان کی اجتماعیت، آپس کی الفت، مودت اور محبت ہی کا حصہ ہے۔ ان کی کمال عقل ہے کہ جب وہ کسی ایسے کام کا ارادہ کرتے ہیں جس میں غور و فکر کی ضرورت ہو تو وہ اکٹھے ہو کر اس کے بارے میں بحث و تمحیص اور آپس میں مشورہ کرتے ہیں، جب ان پر مصلحت واضح ہوجاتی ہے تو اسے جلدی سے قبول کرلیتے ہیں جیسے غزوہ، جہاد، امارت یا قضا وغیرہ کے لئے عمال مقرر کرنے میں مشورہ کرنا اور دینی مسائل میں بحث و تحقیق کرنا کیونکہ یہ اعمال مشترکہ امور میں شامل ہوتے ہیں تاکہ صحیح رائے واضح ہوجائے جسے اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے۔ یہ بھی اسی آیت کریمہ کے تحت آتا ہے۔ الشورى
39 ﴿وَالَّذِينَ إِذَا أَصَابَهُمُ االْبَغْيُ ﴾ ” اور وہ ایسے ہیں کہ جب ان پر ظلم و تعدی ہو۔“ یعنی ان کے دشمنوں کی طرف سے ان پر کوئی زیادہ کی جاتی ہے۔ ﴿هُمْ يَنتَصِرُونَ﴾ ” وہ بدلہ لیتے ہیں۔“ اپنی قوت و طاقت کی بنا پر ان سے بدلہ لیتے ہیں، وہ کمزور اور بدلہ لینے سے عاجز نہیں ہیں۔ پس اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کو ایمان، اللہ پر توکل، کبائر و فواحش سے اجتناب جس سے صغیرہ گناہ مٹ جاتے ہیں، مکمل اطاعت، اپنے رب کی دعوت کو قبول کرنے، نماز قائم کرنے، نیکی کے راستوں میں خرچ کرنے، اپنے معاملات میں باہم مشورہ کرنے، دشمن کے خلاف قوت استعمال کرنے اور اس سے مقابلہ کرنے سے متصف کیا ہے۔ وہ ان خصائل کمال کے جامع ہیں اور یوں ان سے کمتر افعال کے صدور اور مرقومہ بالا خصائل کے اضداد کی نفی لازم آتی ہے۔ الشورى
40 اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے عقوبات کے مراتب بیان کئے ہیں، عقوبات کے تین مراتب ہیں : عدل، فضل اور ظلم۔ (1) کسی کمی بیشی کے بغیر، برائی کے بدلے میں اس جیسی برائی، مرتبہ عدل ہے۔ پس جان کے بدلے جان ہے، عضو کے بدلے اس جیسا عضو اور مال کی ضمان اسی جیسا مال ہے۔ (2) برائی کرنے والے کو معاف کر کے اصلاح کرنا مرتبہ فضل ہے، اس لئے فرمایا : ﴿ فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللّٰـهِ ﴾ ” پس جو کوئی درگزر کرے اور اصلاح کرے تو اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے۔“ اللہ تعالیٰ اسے اجر عظیم اور ثواب جزیل عطا کرے گا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے درگزر کرنے میں اصلاح کی شرط دلالت کرتی ہے کہ اگر مجرم عضو کے لائق نہ ہو اور مصلحت شرعیہ اس کو سزا دینے کا تقاضا کرتی ہو تو اس صورت میں وہ عفو پر مامور نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا معاف کرنے والے کو اجر عطا کرنا، کفر پر آمادہ کرتا ہے، نیز اس بات کی ترغیب دیتا ہے کہ وہ مخلوق کے ساتھ وہ معاملہ کرے جو وہ اپنے بارے میں چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ کرے تو جیسا کہ وہ پسند کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے معاف کردے، لہٰذا اسے بھی چاہئے کہ وہ لوگوں کو معاف کر دے اور جیسا کہ وہ چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ نرمی کرے، تب اسے بھی چاہئے کہ وہ لوگوں کے ساتھ نرمی کرے کیونکہ جزا عمل کی جنس سے ہوتی ہے۔ (3) رہا مرتبہ ظلم تو اس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے اس ارشاد میں ذکر فرمایا ہے : ﴿إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ ﴾ ” یقیناً وہ ظلم کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔“ جو دوسروں پر زیادتی کرنے میں ابتدا کرتے ہیں یا جرم کرنے والے سے اس کے جرم سے بڑھ کر بدلہ لیتے ہیں تو یہ زیادتی ظلم ہے۔ الشورى
41 ﴿وَلَمَنِ انتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِهِ﴾ جو ظلم کے وقوع کے بعد ظلم کرنے والے سے بدلہ لیتا ہے ﴿فَأُولَـٰئِكَ مَا عَلَيْهِم مِّن سَبِيلٍ﴾ تو یہی وہ لوگ ہیں جن پر بدلہ لینے میں کوئی گناہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد : ﴿ وَالَّذِينَ إِذَا أَصَابَهُمُ الْبَغْيُ﴾ اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ﴿وَلَمَنِ انتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِهِ﴾ دلالت کرتے ہیں کہ ظلم و زیادتی کے وقوع کے بعد بدلہ لینا ضروری ہے۔ رہا کسی پر ظلم اور زیادتی کا ارادہ کرنا جبکہ ابھی اس سے ظلم و زیادتی واقع نہیں ہوئی تو اسے وہ سزا تو نہیں دی جائے گی جو جرم کے ارتکاب پر دی جاتی ہے، البتہ اس کو تادیبی سزا ضرور دی جائے گی جو اسے اس قول و فعل سے باز رکھ سکے جو اس سے صادر ہوا ہے۔ الشورى
42 ﴿إِنَّمَا السَّبِيلُ﴾ یعنی عقوبت شرعیہ کی حجت تو صرف انہی لوگوں پر قائم ہوگی ﴿عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ وَيَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ﴾ ” جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور ملک میں ناحق فساد پھیلاتے ہیں۔“ یہ آیت لوگوں کے خون، مال اور ناموس کے بارے میں ظلم و زیادتی کو شامل ہے۔ ﴿أُولَـٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴾ یعنی ان کے ظلم و زیادتی کے مطابق ان کے قلوب و ابدان کو سخت تکلیف دینے والا عذاب ہوگا۔ الشورى
43 ﴿ وَلَمَن صَبَرَ ﴾ ” اور جو صبرے کرے۔“ یعنی مخلوق کی طرف سے جو تکلیف اسے پہنچتی ہے اس پر صبر کرتا ہے ﴿ وَغَفَرَ﴾ یعنی ان سے جو جرم ہوا، مسامحت کرتے ہوئے ان کو بخش دیتا ہے ﴿إِنَّ ذَٰلِكَ لَمِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ﴾ یعنی یہ چیز ایسے امور میں شمار ہوتی ہے جس کی اللہ تعالیٰ نے ترغیب دی، اس پر تاکید فرمائی اور آگاہ فرمایا کہ یہ صرف انہی لوگوں کو عطا ہوتی ہے جو صبر سے بہرہ مند اور بڑے نصیبے والے ہیں اور یہ ان امور میں سے ہے جن کی توفیق بڑے عزم و ہمت اور عقل و بصیرت والوں کو حاصل ہوتی ہے۔ نفس کے لئے قول یا فعل سے انتقام نہ لینا انتہائی باعث مشقت ہے اور اذیت پر صبر کرنا، اس سے درگزر کرنا اس کو بخشش دینا اور اس کے مقابلے میں حسن سلوک سے پیش آنا تو بہت ہی پر مشقت کام ہے مگر یہ اس شخص کے لئے آسان ہے جس کے لئے اللہ تعالیٰ آسان کر دے اور وہ بھی اس وصف سے متصف ہونے کے لئے اپنے نفس سے جہاد کرے اور اس بارے میں اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرے۔ پھر بندہ جب اذیت برداشت کرنے کی حلاوت چکھ لیتا ہے اور اس کے آثار دیکھ لیتا ہے تو اسے شرح صدر، کشادہ دلی اور ذوق و شوق سے قبول کرتاہے۔ الشورى
44 اللہ تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ وہ ہدایت عطا کرنے اور اصلاح کرنے میں تنہا ہے۔ ﴿وَمَن يُضْلِلِ اللّٰـهُ﴾ جسے اللہ تعالیٰ اس کے ظلم کے سبب سے گمراہ کر دے ﴿فَمَا لَهُ مِن وَلِيٍّ مِّن بَعْدِهِ ﴾ ” تو اس کے بعد اس کا کوئی دوست نہیں۔“ جو اس کے معاملے کی سرپرستی کرے اور اس کی راہنمائی کرے۔ ﴿وَتَرَى الظَّالِمِينَ لَمَّا رَأَوُا الْعَذَابَ﴾ اور تم ظالموں کو دیکھو گے کہ جب وہ عذاب کا بہت ہی برا، بہت مشکل اور نہایت قبیح منظر دیکھیں گے تو وہ بہت زیادہ ندامت اور اپنے گزشتہ کرتوتوں پر افسوس کا اظہار کریں گے۔ ﴿ يَقُولُونَ هَلْ إِلَىٰ مَرَدٍّ مِّن سَبِيلٍ﴾ اور کہیں گے : کیا دنیا میں دوبارہ جانے کا کوئی طریقہ یا کوئی حیلہ ہے تاکہ ہم ان کاموں سے مختلف کام کریں جو ہم پہلے کیا کرتے تھے؟ ان کی یہ درخواست ایک امر محال کے لئے ہوگی جس کا پورا ہونا ممکن نہیں۔ الشورى
45 ﴿وَتَرَاهُمْ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا ﴾ ” اور تم ان کو دیکھو گے کہ وہ دوزخ (کی آگ) کے سامنے لائے جائیں گے۔“ ﴿خَاشِعِينَ مِنَ الذُّلِّ ﴾ یعنی آپ ان کے اجسام کو اس ذلت کی وجہ سے عاجز اور بے بس دیکھیں گے جو ان کے دلوں میں جاگزیں ہے ﴿يَنظُرُونَ مِن طَرْفٍ خَفِيٍّ ﴾ یعنی وہ جہنم کو اس کی ہیبت اور خوف کی وجہ سے چوری چوری ترچھی نظر سے دیکھیں گے۔ ﴿وَقَالَ الَّذِينَ آمَنُوا﴾ جب مخلوق کا انجام ظاہر ہوجائے گا اور اہل صدق دوسرے لوگوں سے ممتاز ہوجائیں گے تو اہل ایمان کہیں گے : ﴿ إِنَّ الْخَاسِرِينَ﴾ حقیقت میں خسارے والے وہ لوگ ہیں ﴿الَّذِينَ خَسِرُوا أَنفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ﴾” جنہوں نے قیامت کے دن اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو خسارے میں ڈالا۔“ کیونکہ انہوں نے اپنے آپ کو بے پایاں ثواب سے محروم کرلیا اور درد ناک عذاب کو حاصل کیا۔ ان کے اور ان کے گھر والوں کے درمیان جدائی ڈال دی جائے گی اور وہ ان کے ساتھ کبھی اکٹھے نہ ہوں گے۔ ﴿أَلَا إِنَّ الظَّالِمِينَ﴾ ” آگاہ رہو ! بیشک ظالم ہی۔“ یعنی جنہوں نے کفر اور معاصی کے ذریعے سے اپنے آپ پر ظلم کیا ﴿ فِي عَذَابٍ مُّقِيمٍ ﴾ ”ہمیشگی کے عذاب میں رہیں گے۔“ یعنی وہ درد ناک عذاب کے عین وسط میں ڈوبے ہوئے ہوں گے۔ وہ وہاں سے کبھی نکل سکیں گے نہ ان سے عذاب منقطع ہوگا اور وہ اس عذاب کے اندر سخت مایوس ہوں گے۔ الشورى
46 ﴿وَمَا كَانَ لَهُم مِّنْ أَوْلِيَاءَ يَنصُرُونَهُم مِّن دُونِ اللّٰـهِ﴾ ” اور اللہ کے سوا ان کے کوئی دوست نہیں ہوں گے جو ان کی مدد کرسکیں۔“ جیسا کہ وہ دنیا میں اپنے آپ کو امیدیں دلایا کرتے تھے، پس قیامت کے روز ان پر اور دوسرے لوگوں پر عیاں ہوجائے گا کہ وہ اسباب جن کے ساتھ انہوں نے بڑی امیدیں وابستہ کر رکھی تھیں، منقطع ہوگئے اور جب ان پر اللہ کا عذاب ٹوٹ پڑے گا تو وہ ان سے ہٹایا نہ جا سکے گا۔ ﴿وَمَن يُضْلِلِ اللّٰـهُ فَمَا لَهُ مِن سَبِيلٍ﴾ ” اور جسے اللہ گمراہ کر دے، اس کے لئے کوئی راستہ نہیں۔“ کوئی ایسا طریقہ نہیں جس کے ذریعے سے وہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت کو حاصل کرسکے۔ یہ لوگ اس وقت گمراہ ہوئے جب یہ سمجھتے تھے کہ ان خود ساختہ شریکوں میں نفع پہنچانے اور نقصان کو دور کرنے کی طاقت ہے، تب ان کی گمراہی واضح ہوجائے گی۔ الشورى
47 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ اس کی دعوت پر لبیک کہیں، وہ جس چیز کا حکم دے اس کی تعمیل کریں اور جس چیز سے روکے اس سے اجتناب کریں اس کو ٹالنے کی بجائے اس پر جلدی سے عمل کریں قیامت کے دن کے آنے سے پہلے کہ جب وہ آئے گا تو اس کو روکا جا سکے گا نہ کسی رہ جانے والی چیز کا تدارک ہوسکے گا۔ اس دن بندے کے پاس کوئی پناہ گاہ نہ ہوگی جہاں وہ پناہ لے کر اپنے رب سے بچ سکے اور اس سے بھاگ سکے بلکہ فرشتے تمام خلائق کو پیچھے سے گھیرے ہوئے ہوں گے اور انہیں پکار کر کہا جائے گا : ﴿يَا مَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ إِنِ اسْتَطَعْتُمْ أَن تَنفُذُوا مِنْ أَقْطَارِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ فَانفُذُوا ۚ لَا تَنفُذُونَ إِلَّا بِسُلْطَانٍ ﴾(الرحمٰن :55؍33) ” اے جن و انس کے گروہ ! اگر تم آسمانوں اور زمین کے کناروں سے نکل جانے کی طاقت رکھتے ہو تو پھر نکل جاؤ، تم نکل نہیں سکتے مگر طاقت کے ساتھ۔“ اس روز بندہ اپنے کئے ہوئے جرائم کا انکار نہیں کرسکے گا بلکہ اگر وہ انکار کرے گا تو اس کے اعضا اس کے خلاف گواہی دیں گے۔ اس آیت اور اس نوع کی دیگر آیات کریمہ میں جھوٹی امیدوں کی مذمت کی گئی ہے اور ہر وہ عمل جو بندے کو پیش آسکتا ہے، فرصت کو غنیمت جانتے ہوئے اس سے فائدہ اٹھانے کا حکم دیا گیا ہے کیونکہ تاخیر میں بہت سی آفتیں ہیں۔ الشورى
48 ﴿فَإِنْ أَعْرَضُوا ﴾ بیان کامل کے بعد اگر یہ لوگ اس چیز سے منہ موڑیں جو آپ نے پیش کی ﴿فَمَا أَرْسَلْنَاكَ عَلَيْهِمْ حَفِيظًا﴾ ” تو ہم نے آپ کو ان پر نگہبان بنا کر نہیں بھیجا۔“ کہ آپ ان کے اعمال کی نگرانی کریں اور آپ سے ان کے اعمال کے بارے میں پوچھا جائے۔ ﴿إِنْ عَلَيْكَ إِلَّا الْبَلَاغُ﴾ ” آپ کے ذمے صرف پہنچا دینا ہے۔“ جب آپ نے اپنی ذمہ داری کو پورا کردیا تو اللہ تعالیٰ پر آپ کا اجرواجب ٹھہرا، خواہ وہ آپ کی دعوت کو قبول کریں یا روگردانی کریں، ان کا حساب اللہ کے ذمہ ہے جس نے ان کے چھوٹے بڑے اور ظاہری، باطنی اعمال کو محفوظ کر رکھا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے انسان کی حالت بیان کی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ اسے اپنی رحمت کا مزا چکھاتا ہے، یعنی اسے جسمانی صحت، رزق کی فراوانی اور عزت و جاہ عطا کرتا ہے تو ﴿فَرِحَ بِهَا﴾ ” وہ اس سے خوش ہوجاتا ہے۔“ یعنی وہ اس طرح خوش ہوتا ہے کہ اس کی خوشی انہی چیزوں پر مرتکز ہو کر رہ جاتی ہے، اس سے آگے نہیں بڑھتی۔ اس کے اس رویئے سے ان چیزوں پر اس کی طمانیت اور منعم حقیقی سے روگردانی لازم آتی ہے۔ ﴿وَإِن تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ﴾ ” اگر انہیں کوئی برائی پہنچتی ہے۔“ یعنی کوئی مرض یا فقر و غیرہ لاحق ہوتا ہے ﴿بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ فَإِنَّ الْإِنسَانَ كَفُورٌ﴾ ” ان اعمال کے سبب جوا نہوں نے کئے تو انسان بہت ہی ناشکرا ہے۔“ یعنی اس کی فطرت میں سابقہ نعمت کی ناشکری اور اسے جو تکلیف پہنچتی ہے اس پر اللہ تعالیٰ سے ناراضی رچی بسی ہوئی ہے۔ الشورى
49 اس آیت کریمہ میں اللہ، تعالیٰ کے لامحدود اقتدار، اپنی مخلوق اور اپنی ملکیت میں اپنی مشیت کے مطابق تصرف کے نفاذ اور تمام امور کی تدبیر کا ذکر ہے۔ اللہ تعالیٰ کی عمومی تدبیر اسباب سے پیدا شدہ ان اشیاء کو بھی شامل ہے جنہیں بندے اختیار کرتے ہیں، پس نکاح اولاد کے لئے ایک سبب ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ انہیں جو چاہتا ہے اولاد عطا کرتا ہے، مخلوق میں کسی کو بیٹیاں عطا کرتا ہے، کسی کو بیٹے عطا کرتا ہے، کسی کو بیٹے بیٹیاں دونوں عطا کرتا ہے۔ الشورى
50 کسی کو بانجھ رکھتا اور ان کے ہاں اولاد پیدا نہیں ہوتی۔ ﴿إِنَّهُ عَلِيمٌ﴾ بے شک وہ ہر چیز کا علم اور ﴿ قَدِيرٌ ﴾ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے، وہ اپنے علم اور مہارت کے ذریعے سے تمام اشیاء میں اور اپنی قدرت کے ذریعے سے تمام مخلوقات میں تصرف کرتا ہے۔ الشورى
51 چونکہ اللہ تعالیٰ کے رسولوں کی تکذیب اور اللہ تعالیٰ کا انکار کرنے والے تکبر اور سرکشی کی بنا پر کہتے تھے : ﴿لَوْلَا يُكَلِّمُنَا اللّٰـهُ أَوْ تَأْتِينَا آيَةٌ﴾ (البقرۃ: 2؍118) ” ہمارے ساتھ اللہ کلام کیوں نہیں کرتا یا ہمارے پاس کوئی نشانی کیوں نہیں آتی؟“ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ کے ذریعے سے ان کا رد کیا اور واضح فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمام جہانوں میں سے صرف اپنے خاص بندوں، یعنی رسولوں سے کلام کرتا ہے اور وہ بھی ذیل کی صورتوں میں سے کسی ایک صورت میں۔ (1) یا تو وہ ان کے ساتھ وحی کے ذریعے سے کلام کرتا ہے اور وہ اس طرح کہ فرشتہ بھیجے بغیر اور بالمشافہ مخاطب ہوئے بغیر اللہ تعالیٰ اپنے رسول کے قلب پر وحی کا القا کرتا ہے۔ (2) ﴿أَوْ ﴾ یا اس کے ساتھ بالمشافہ کلام کرتا ہے مگر ﴿ مِن وَرَاءِ حِجَابٍ﴾ پردے کے پیچھے سے، جیسا کہ حضرت موسیٰ بن عمران علیہ السلام کو شرف کلام حاصل ہوا۔ (3) ﴿ أَوْ ﴾ یا اللہ تعالیٰ فرشتے کے توسط سے کلام کرتا ہے پس ﴿ يُرْسِلَ رَسُولًا ﴾ ” وہ کسی پیغام رساں کو بھیجتا ہے۔ ” مثلاً: حضرت جبرئیل علیہ لاسلام کو یا فرشتوں میں سے کسی دوسرے فرشتے کو ﴿ فَيُوحِيَ بِإِذْنِهِ ﴾ اور وہ فرشتہ مجرد اپنی خواہش سے نہیں بلکہ اپنے رب کے حکم سے وحی القا کرتا ہے۔ ﴿ إِنَّهُ ﴾ ” بے شک وہ“ اللہ تعالیٰ اپنے اوصاف میں بہت بلند اور افعال میں بہت عظیم ہے، وہ ہر چیز پر غالب ہے اور تمام مخلوق اس کی مطیع ہے۔ ﴿ حَكِيمٌ ﴾ وہ تمام مخلوقات اور شرائع میں سے ہر چیز کو اس کے لائق مقام پر رکھنے میں حکمت والا ہے۔ الشورى
52 ﴿ وَكَذٰلِكَ ﴾ ” اور اسی طرح“ جب ہم نے آپ سے پہلے انبیاء و مرسلین کی طرف وحی بھیجی تو ﴿ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ رُوحًا مِّنْ أَمْرِنَا ﴾ ” ہم نے اپنے حکم سے آپ کی طرف روح بھیجی۔“ اور وہ روح یہ قرآن کریم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کو روح کے نام سے موسوم کیا کیونکہ روح سے جسم زندہ ہوتا ہے اور قرآن سے قلب و روح زندہ ہوتے ہیں۔ قرآن سے دین و دنیا کے مصالح کو زندگی ملتی ہے کیونکہ اس میں خیر کثیر اور بے پایاں علم ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اپنے اہل ایمان بندوں پر ان کی طرف سے کسی سبب کے بغیر محض احسان ہے۔ بنا بریں فرمایا : ﴿ مَا كُنتَ تَدْرِي ﴾ ” آپ نہیں جانتے تھے۔“ یعنی آپ پر قرآن نازل ہونے سے پہلے ﴿ مَا الْكِتَابُ وَلَا الْإِيمَانُ ﴾ ” کتاب کو نہ ایمان کو۔“ یعنی آپ کے پاس کتب سابقہ کی خبروں کا علم تھا نہ شرائع الٰہیہ پر ایمان و عمل کا علم بلکہ آپ تو ان پڑھ تھے، لکھ سکتے تھے نہ پڑھ سکتے تھے، لہٰذا آپ کے پاس یہ کتاب آئی۔ ﴿ جَعَلْنَاهُ نُورًا نَّهْدِي بِهِ مَن نَّشَاءُ مِنْ عِبَادِنَا ﴾ ” ہم نے اسے نور اور ہدایت بنایا ہے کہ ہم اس کے ذریعے سے اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں ہدایت دیتے ہیں۔“ جس سے ہمارے بندے کفر و بدعت کی تاریکیوں اور ہلاک کردینے والی خواہشات میں، روشنی حاصل کرتے ہیں، اس کتاب کے ذریعے سے حقائق کو پہچانتے ہیں اور اس کتاب سے راہنمائی حاصل کر کے صراط مستقیم پر گامزن ہوتے ہیں۔ ﴿ وَإِنَّكَ لَتَهْدِي إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ ﴾ یعنی آپ ان کے سامنے صراط مستقیم واضح کرتے ہیں، صراط مستقیم کی ترغیب دیتے اور اس کے متضاد راستوں پر چلنے سے روکتے اور ان سے ڈراتے ہیں، پھر اللہ تعالیٰ نے صراط مستقیم کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا : الشورى
53 ﴿ صِرَاطِ اللّٰـهِ الَّذِي لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ﴾ یعنی یہ وہ راستہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے مقرر فرمایا اور انہیں آگاہ کیا کہ یہ راستہ اس کے پاس اور اس کے عزت و تکریم کے گھر تک پہنچاتا ہے۔ ﴿ أَلَا إِلَى اللّٰـهِ تَصِيرُ الْأُمُورُ ﴾ یعنی تمام اچھے برے معاملات اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹتے ہیں وہ ہر ایک کو اس کے عمل کی جزا دے گا۔ اگر اچھا عمل ہوگا تو اچھی جزا ہوگی او اگر برا عمل ہوگا تو بری جزا ہوگی۔ الشورى
0 سورة زحرف الزخرف
1 حٰم الزخرف
2 یہ قرآن عظیم کی قرآن عظیم پر قسم ہے، اللہ تعالیٰ نے کتاب مبین کی علی الاطلاق قسم کھائی اور متعلق کو ذکر نہیں فرمایا تاکہ یہ اس حقیت پر دلالت کرے کہ یہ دین، دنیا اور آخرت کی ہر اس چیز کو بیان کر کے واضح کرتی ہے جس کی بندوں کو حاجت ہے۔ الزخرف
3 ﴿ إِنَّا جَعَلْنَاهُ قُرْآنًا عَرَبِيًّا ﴾ ”بے شک ہم نے اس کو قرآن عربی بنایا ہے۔“ یہ وہ چیز ہے جس پر قسم کھائی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے سب سے فصیح، سب سے واضح اور سب سے زیادہ زور بیان والی زبان میں نازل فرمایا اور یہ اس کا بیان ہے اور اس میں پنہاں حکمت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ لَّعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ ﴾ ” شاید کہ تم اس کے الفاظ و معانی کو ان کے آسان اور اذہان کے قریب ہونے کی بنا پر سمجھ سکو۔ الزخرف
4 ﴿ وَإِنَّهُ ﴾ یعنی یہ کتاب ﴿ لَدَيْنَا ﴾ ”)لوح محفوظ میں( ہمارے پاس ہے۔“ یعنی ملا اعلیٰ میں بلند ترین اور افضل ترین مرتبے میں ہے ﴿ لَعَلِيٌّ حَكِيمٌ ﴾ یعنی وہ بہت زیادہ قدر و شرف اور بلند مقام کی حامل ہے۔ یہ کتاب جن اوامرونواہی اور اخبار پر مشتمل ہے، ان میں حکمت رکھی گئی ہے۔ اس میں کوئی حکم ایسا نہیں جو حکمت، عدل اور میزان کے خلاف ہو۔ الزخرف
5 پھر اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ اس کی حکمت اور اس کا فضل تقاضا کرتے ہیں کہ وہ اپنے بندوں کو مہمل اور آزادانہ چھوڑے، ان کی طرف رسول بھیجے اور ان پر کتاب نازل کرے، خواہ وہ حد سے گزرنے والے ظالم ہی کیوں نہ ہوں، اس لئے فرمایا : ﴿ أَفَنَضْرِبُ عَنكُمُ الذِّكْرَ صَفْحًا ﴾ یعنی کیا ہم تم لوگوں سے تمہارے اعراض اور عدم اطاعت کی بنا پر منہ موڑ کر تمہاری طرف نصیحت نازل کرنا چھوڑ دیں؟ نہیں بلکہ ہم تم پر کتاب نازل کریں گے جس میں تمہارے لئے ہر چیز واضح کریں گے۔ اگر تم ایمان لائے اور راہ راست پر چلے تو یہ تمہیں عطا کی گئی توفیق ہے ورنہ تم پر حجت قائم ہوجائے گی اور تمہارا معاملہ تمہارے سامنے واضح ہوجائے گا۔ الزخرف
6 اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ مخلوق میں ہماری سنت یہ ہے کہ ہم انہیں مہمل اور بیکار نہیں چھوڑتے، پس کتنے ہی ﴿ أَرْسَلْنَا مِن نَّبِيٍّ فِي الْأَوَّلِينَ ﴾ ” نبی ہم نے پہلے لوگوں میں بھیجے۔“ جو انہیں اللہ واحد کی عبادت کا حکم دیتے تھے جس کا کوئی شریک نہیں۔ تمام قوموں میں تکذیب ہمیشہ سے موجود رہی ہے۔ الزخرف
7 ﴿ وَمَا يَأْتِيهِم مِّن نَّبِيٍّ إِلَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ ﴾ ان کے پاس جو بھی نبی آیا وہ اس کی دعوت کا انکار اور حق کے مقابلے میں تکبر کا اظہار کرتے ہوئے اس کا تمسخر اڑاتے تھے۔ الزخرف
8 ﴿ فَأَهْلَكْنَا أَشَدَّ ﴾ ” پس ہم نے انہیں ہلاک کیا جو سخت تھے۔“ ان لوگوں سے ﴿ بَطْشًا ﴾ ” قوت میں۔“ یعنی زمین کے اندر قوت، افعال اور آثار کے لحاظ سے ﴿ وَمَضَىٰ مَثَلُ الْأَوَّلِينَ ﴾ یعنی ان لوگوں کی امثال وخبار گزر چکی ہیں اور ان میں سے بہت سی مثالیں ہم تمہارے سامنے بیان کرچکے ہیں جن میں سامان عبرت اور تکذیب پر زجر و توبیخ ہے۔ الزخرف
9 اللہ تبارک و تعالیٰ مشرکین کے بارے میں فرماتا ہے: ﴿ وَلَئِن سَأَلْتَهُم مَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ لَيَقُولُنَّ ﴾ ”)اگر(آپ ان سے پوچھیں کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا؟ تو یقیناً وہ کہیں گے۔“ ان کو اللہ وحدہ لاشریک نے پیدا کیا جو غالب ہے جس کے غلبہ کے سامنے اولین و آخرین تمام مخلوقات اپنے ظاہر و باطن کے ساتھ سرنگوں ہے۔ جب وہ اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں تو وہ اللہ کا بیٹا، اس کی بیوی اور اس کے شریک کیسے ٹھہراتے ہیں؟ اور ان ہستیوں کو اس کا شریک کیوں کر قرار دیتے ہیں جو پیدا کرسکتی ہیں نہ رزق عطا کرسکتی ہیں اور نہ زندگی اور موت ان کے اختیار میں ہے؟ الزخرف
10 ﴿ وَجَعَلَ لَكُمْ فِيهَا سُبُلًا ﴾ ” اور اس میں تمہارے لئے راستے بنا دیے۔“ یعنی ایک دوسرے کے ساتھ ملے ہوئے پہاڑی سلسلوں کے درمیان گزر گاہیں بنائیں جہاں سے گزر کر تم ان پہاڑوں کے پاس واقع ممالک کو جاتے ہو ﴿ لَّعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ ﴾ تاکہ تم ان راستوں پر سفر کے دوران راہ پاؤ اور گم نہ ہوجاؤ اور تاکہ تم اس سے عبرت اور نصیحت حاصل کرو۔ الزخرف
11 پھر اللہ تعالیٰ نے ان دلائل کا بھی ذکر کیا جو اس کی کامل نعمت و اقتدار پر دلالت کرتے ہیں، زمین کی اشیاء کو دلیل بنایا جو اس نے اپنے بندوں کے لئے پیدا کیں، اس زمین کو بندوں کے لئے ٹھکانا بنایا جہاں وہ ہر اس چیز پر متمکن ہیں جو وہ چاہتے ہیں۔ ﴿ وَالَّذِي نَزَّلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً بِقَدَرٍ ﴾ ” اور وہ ذات جس نے آسمان سے پانی اتارا اندازے کے ساتھ۔“ وہ اس پانی میں کمی بیشی نہیں کرتا، نیز پانی ضرورت کے مطابق ہوتا ہے، یہ پانی کم نہیں ہوتا کہ فائدہ مفقود ہوجائے اور نہ اتنا زیادہ ہوتا ہے جس سے انسانوں اور زمین کو نقصان پہنچے بلکہ اللہ تعالیٰ اس پانی کے ذریعے سے اپنے بندوں کی مدد کرتا ہے اور اس کے ذریعے سے زمین کو سختی سے بچاتا ہے، اس لئے فرمایا : ﴿ فَأَنشَرْنَا بِهِ بَلْدَةً مَّيْتًا ﴾ یعنی ہم نے زمین کو اس کے بنجر ہوجانے کے بعد زندہ کیا۔ ﴿ كَذٰلِكَ تُخْرَجُونَ ﴾ یعنی جس طرح اللہ تعالیٰ نے پانی کے ذریعے سے بنجر اور مردہ زمین کو زندہ کیا اسی طرح جب تم اپنے برزخ کے مرحلے کو پورا کرلو گے، تو وہ تمہیں زندہ کرے گا اور تمہارے اعمال کی جزا دے گا۔ الزخرف
12 ﴿ وَالَّذِي خَلَقَ الْأَزْوَاجَ كُلَّهَا ﴾ ” اور وہ ذات جس نے تمام چیزوں کے جوڑے پیدا کئے۔“ یعنی وہ تمام اصناف جو زمین سے اگتی ہیں، خود ان کی ذات میں سے اور ان تمام اشیاء میں سے جن کا انہیں علم نہیں، مثلاً: رات دن، گرمی سردی اور مذکر مؤنث وغیرہ میں سے۔ ﴿ وَجَعَلَ لَكُم مِّنَ الْفُلْكِ ﴾ ” اور تمہارے لئے کشتیاں بنائیں۔“ یعنی تمام بادبانی اور دخانی کشتیاں جن پر تم سوار ہوتے ہو ﴿ وَالْأَنْعَامِ مَا تَرْكَبُونَ لِتَسْتَوُوا عَلَىٰ ظُهُورِهِ ﴾ ” اور چوپائے بھی جن پر تم سوار ہوتے ہوتا کہ تم ان کی پیٹھ پر چڑھ بیٹھو۔“ اور یہ آیت کشتیوں کی پشت اور مویشیوں کی پیٹھ کو شامل ہے، یعنی تاکہ تم ان سواریوں کی پیٹھ پر استقرار پکڑو۔ الزخرف
13 ﴿ ثُمَّ تَذْكُرُوا نِعْمَةَ رَبِّكُمْ إِذَا اسْتَوَيْتُمْ عَلَيْهِ ﴾ پھر جب تم ان پر ٹھیک طرح سے بیٹھ جاؤ اس نعمت کا اعتراف کرتے ہوئے اس ہستی کا ذکر کرو جس نے ان کو تمہارے لئے مسخر کیا ہے۔ بنا بریں فرمایا : ﴿ وَتَقُولُوا سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَـٰذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ ﴾اور کہو، اگر اللہ تعالیٰ نے ان کشتیوں اور مویشیوں کو ہمارے لئے مسخر نہ کیا ہوتا تو ہم ان کو مسخر کرنے کی طاقت اور قدرت نہیں رکھتے تھے یہ محض اللہ تعالیٰ کا لطف و کرم ہے کہ اس نے ان سواریوں کو ہمارے لئے مسخر کیا اور ان کے اسباب مہیا کئے۔ اس سے یہ بیان کرنا مقصود ہے کہ وہ رب جو مذکورہ اوصاف سے متصف ہے جس نے بندوں پر ان نعمتوں کا فیضان کیا ہے وہی اس چیز کا مستحق ہے کہ اس کی عبادت کی جائے، اس کی نماز پڑھی جائے اور اس کے حضور سجدہ ریز ہوا جائے۔ الزخرف
14 الزخرف
15 اللہ تبارک و تعالیٰ مشرکین کے قول کی قباحت بیان کرتا ہے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کا بیٹا قرار دے رکھا ہے، حالانکہ وہ اکیلا اور بے نیاز ہے جس کی کوئی بیوی ہے نہ بیٹا اور نہ کوئی اس کا ہمسر ہے اور یہ متعدد وجوہ سے باطل ہے۔ (1) اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوق اس کے بندے ہیں اور بندگی اولاد ہونے کے منافی ہے۔ (2) بیٹا اپنے والد کا جز ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ تمام مخلوقات سے علیحدہ ہے وہ اپنی صفات کمال اور نعوت جلال میں تمام مخلوق سے الگ ہے جبکہ بیٹا والد کا جز ہوتا ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ کا بیٹا ہونا محال ہے۔ (3) کفار سمجھتے ہیں کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں، حالانکہ یہ حقیقت اچھی طرح معلوم ہے کہ بیٹیاں کمزور ترین صنف ہے اور یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تو بیٹیاں ہوں اور ان کو وہ بیٹے عطا کرے اور ان کے ذریعے سے ان کو فضیلت عطا کرے۔ اس صورت میں تو مخلوق کا اللہ تعالیٰ سے افضل ہونا لازم آتا ہے اور اللہ اس سے بالا و بلند تر ہے۔ الزخرف
16 الزخرف
17 (4) وہ صنف جس کو انہوں نے اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا ہے، یعنی بیٹیاں تو یہ کمزور ترین اور خود ان کے نزدیک سب سے زیادہ ناپسندیدہ صنف ہے حتیٰ کہ ان کی کراہت کا یہ حال ہے۔ ﴿ وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُهُم بِمَا ضَرَبَ لِلرَّحْمَـٰنِ مَثَلًا ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا ﴾ ” ان میں سے جب کسی کو بیٹی کی دلادت کی، جسے وہ رحمان کی طرف منسوب کرتا ہے، خوشخبری سنائی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ پڑجاتا ہے۔“ یعنی سخت ناپسندیدگی اور ناراضی کے باعث اس کے چہرے پر سیاہی چھا جاتی ہے۔ ایسی چیز کو اللہ تعالیٰ کے لئے کیوں کر مقرر کرتے ہیں جسے وہ خود ناپسند کرتے ہیں؟ الزخرف
18 (5) عورت اپنے وصف، اپنی منطق اور اپنے بیان کے اعتبار سے ناقص ہے بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ أَوَمَن يُنَشَّأُ فِي الْحِلْيَةِ ﴾ ” کیا وہ جو زیور میں پرورش پائے۔“ یعنی اپنے حسن و جمال میں کمی کی وجہ سے آرائش کرتی ہے اور ایک امر خارج سے خوبصورتی پیدا کرنے کی کوشش کرتی ہے ﴿ وَهُوَ فِي الْخِصَامِ ﴾ اور بحث اور جھگڑے کے وقت جو اس چیز کا موجب ہوتا ہے کہ وہ اپنی بات کو واضح کرسکے۔ ﴿ غَيْرُ مُبِينٍ ﴾ تو وہ اپنی بات کو واضح اور اپنے مافی الضمیر کو کھول کر بیان نہیں کرسکتی تو یہ مشرکین اسے اللہ تعالیٰ کی طرف کیونکر منسوب کرتے ہیں؟ الزخرف
19 (6) انہوں نے فرشتوں کو جو رحمٰن کے بندے ہیں، عورتیں قرار دے دیا۔ پس اس طرح انہوں نے اللہ تعالیٰ کے مقرب بندوں کے بارے میں جسارت کی، انہوں نے ان کو بندگی اور اطاعت کے مرتبے سے اٹھا کر اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کی بعض صفات میں مشارکت کے مرتبے پر فائز کردیا۔ پھر ان کو مذکر کے مرتبے سے نیچے مؤنث کے مرتبے پر لے آئے، پس پاک ہے وہ ذات ہے جس نے ان لوگوں کے تناقض کو ظاہر کردیا جنہوں نے اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھا اور اس کے رسولوں کے ساتھ عناد رکھا۔ (7) اللہ تعالیٰ نے اس حقیقت کے ذریعے سے ان کے دعوے کا رد کیا کہ وہ اس وقت موجود نہیں تھے جب اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو تخلیق فرمایا، پس وہ کسی ایسے معاملے میں کیسے بات کرتے ہیں جس کے بارے میں سب کو معلوم ہے کہ اس ضمن میں ان کے پاس کوئی علم نہیں۔ ان سے اس شہادت کے بارے میں ضرور پوچھا جائے گا، اس شہادت کو ان پر لازم کردیا جائے گا اور اس پر ان کو سزا دی جائے گی۔ الزخرف
20 ﴿ وَقَالُوا لَوْ شَاءَ الرَّحْمَـٰنُ مَا عَبَدْنَاهُم ﴾ ” اور کہتے ہیں اگر رحمان چاہتا تو ہم ان کی عبادت نہ کرتے۔“ فرشتوں کی عبادت کرنے کے لئے انہوں نے اللہ تعالیٰ کی مشیت کو دلیل بنایا۔ مشرکین ہمیشہ سے اللہ تعالیٰ کی مشیت کو دلیل بناتے چلے آئے ہیں۔ یہ عقلی اور شرعی طور پر فی نفسہ باطل دلیل ہے۔ کوئی عقلمند شخص تقدیر کی دلیل کو قبول نہیں کرسکتا۔ اگر وہ کسی حالت میں اس راہ پر گامزن ہوتا ہے تو اس پر ثابت قدم نہیں رہ سکتا۔ رہا شرعی طور پر مشیت الٰہی کو دلیل بنانا تو اللہ تعالیٰ نے مشیت کی دلیل کو باطل ٹھہرا دیا ہے۔ مشرکین اور رسولوں کی تکذیب کرنے والوں کے سوا کسی نے مشیت الٰہی کو دلیل نہیں بنایا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر حجت قائم کردی ہے۔ اب بندوں کے لئے کوئی حجت باقی نہیں رہی۔ بنا بریں فرمایا : ﴿ مَّا لَهُم بِذَٰلِكَ مِنْ عِلْمٍ إِنْ هُمْ إِلَّا يَخْرُصُونَ ﴾ ” ان کو اس کا کچھ علم نہیں وہ محض اٹکل پچو سے کام لیتے ہیں۔“ جس کی کوئی دلیل نہیں ہے اور وہ شب کو اونٹنی کی مانند ٹیڑھی چال چلتے ہیں۔ الزخرف
21 ﴿ أَمْ آتَيْنَاهُمْ كِتَابًا مِّن قَبْلِهِ فَهُم بِهِ مُسْتَمْسِكُونَ ﴾ ” کیا ہم نے ان کو اس سے پہلے کوئی کتاب دی ہے کہ یہ اس سے سند پکڑتے ہیں؟“ یعنی جو ان کے افعال کی صحت اور اقوال کی صداقت کے بارے میں خبر دیتی ہو مگر معاملہ ایسا نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے اور آپ کے سوا اور کوئی ڈرانے والا ان کے پاس نہیں آیا۔ جب عقل و نقل سے دونوں امور کی نفی ثابت ہوگئی، تب وہاں باطل کے سوا کچھ باقی نہیں رہا۔ الزخرف
22 ہاں، ایک شبہ باقی ہے جو کمزور ترین شبہ ہے اور وہ ہے اپنے گھراور آباء و اجداد کی تقلید جس کی وجہ سے یہ کافر اللہ کے رسولوں کی دعوت ٹھکراتے رہے ہیں۔ اس لئے فرمایا : ﴿ بَلْ قَالُوا إِنَّا وَجَدْنَا آبَاءَنَا عَلَىٰ أُمَّةٍ ﴾ ” بلکہ کہنے لگے کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک راستے پر پایا ہے۔“ یعنی ایک دین اور ملت پر ﴿ وَإِنَّا عَلَىٰ آثَارِهِم مُّهْتَدُونَ ﴾ ” اور ہم انہی کے قدم بقدم چل رہے ہیں۔“ اس لیے ہم اس چیز کی پیروی نہیں کریں گے جو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لے کر آئے ہیں۔ الزخرف
23 ﴿ وَكَذٰلِكَ مَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ فِي قَرْيَةٍ مِّن نَّذِيرٍ إِلَّا قَالَ مُتْرَفُوهَا ﴾ ” اور اسی طرح ہم نے تم سے پہلے کسی بستی میں کوئی ہدایت دینے والا نہیں بھیجا مگر وہاں کے خوشحال لوگوں نے کہا۔“ یعنی بستی کے وہ لوگ جو نعمتوں سے نوازے گئے تھے اور وہ اشراف جن کو دنیا نے سرکش اور مال و دولت نے مغرور بنا دیا تھا اور وہ حق کے مقابلے میں تکبر کا رویہ رکھے ہوئے تھے : ﴿ إِنَّا وَجَدْنَا آبَاءَنَا عَلَىٰ أُمَّةٍ وَإِنَّا عَلَىٰ آثَارِهِم مُّقْتَدُونَ ﴾ ” ہم نے اپنے باپ دادا کو اسی ایک طریقے پر پایا ہے اور ہم انہی کے نقش قدم کی اقتدار کر رہے ہیں۔“ پس ان لوگوں کا یہ رویہ کوئی نئی چیز ہے نہ یہ پہلے لوگ ہی ہیں جنہوں نے یہ بات کہی ہو۔ ان گمراہ مشرکین کا اپنے آباء واجداد کی تقلید کو دلیل بنانے کا مقصد حق اور ہدایت کی اتباع نہیں بلکہ یہ تو محض تعصب ہے جس کا مقصد اپنے باطل موقف کی تائید و نصرت ہے۔ بنا بریں ہر رسول نے، ایسے لوگوں سے جنہوں نے اس باطل شبہ کی بنا پر اس کی مخالفت کی، کہا ہے۔ الزخرف
24 ﴿ أَوَلَوْ جِئْتُكُم بِأَهْدَىٰ مِمَّا وَجَدتُّمْ عَلَيْهِ آبَاءَكُمْ ﴾ ” اگرچہ میں تمہارے پاس ایسا دین لاؤں کہ جس راستے پر تم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے وہ اس سے کہیں سیدھا راستہ دکھاتا ہے۔“ یعنی کیا تم ہدایت کی خاطر میری پیروی کرو گے؟ ﴿ قَالُوا إِنَّا بِمَا أُرْسِلْتُم بِهِ كَافِرُونَ ﴾ ”انہوں نے کہا : جو (دین) تم دے کر بھیجے گئے ہو ہم تو اس کا انکار کرتے ہیں۔“ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا ارادہ حق اور ہدایت کی اتباع نہ تھا۔ ان کا مقصد تو صرف باطل اور خواہشات نفس کی پیروی تھا۔ الزخرف
25 ﴿ فَانتَقَمْنَا مِنْهُمْ ﴾ پس اس باطل شبے کی بنیاد پر ان کے حق کی تکذیب کرنے اور اس کو ٹھکرانے کا ہم نے ان سے انتقام لیا۔ ﴿ فَانظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ ﴾ ” تو دیکھ لو کہ جھٹلانے والوں کا انجام کیسا ہوا؟“ پس ان لوگوں کو اپنی تکذیب پر جمے رہنے سے بچنا چاہئے، کہیں ایسا نہ ہو کہ ان پر بھی وہی عذاب نازل ہوجائے جو ان پر نازل ہوا تھا۔ الزخرف
26 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ملت کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے جن سے یہ مشرکین اور اہل کتاب اپنے آپ کو منسوب کرتے ہیں، ان میں سے ہر ایک اس زعم باطل میں مبتلا ہے کہ وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے طریقے پر چل رہا ہے، پس اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دین کے بارے میں جو ان کی ذریت کو وراثت میں ملا ہے خبر دی ہے، لہٰذا فرمایا : ﴿ وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ لِأَبِيهِ وَقَوْمِهِ ﴾ ” اور جب ابراہیم نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا۔“ جنہوں نے اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر کچھ دوسرے معبود بنا لئے تھے، وہ ان کی عبادت کرتے تھے اور ان کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ ﴿ إِنَّنِي بَرَاءٌ مِّمَّا تَعْبُدُونَ ﴾ ” جن چیزوں کی تم عبادت کرتے ہو، بلاشبہ میں ان سے بیزار ہوں۔“ یعنی میں اس خود ساختہ معبود سے جس کی تم عبادت کرتے ہو، سخت نفرت کرتا ہوں اور اس کی عبادت کرنے والوں سے عداوت رکھتا ہوں اور ان سے دور رہتا ہوں۔ الزخرف
27 ﴿ إِلَّا الَّذِي فَطَرَنِي ﴾ ” ہاں جس نے مجھے پیدا کیا“ پس میں اسی کو اپنا سرپرست بناتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ وہ حق کے علم و عمل کے راستے میں میری راہنمائی فرمائے گا اور جس طرح اس نے مجھے پیدا کیا اور ان امور کے ذریعے سے میری تدبیر کی جو میری بدن اور میری دنیا کے لئے درست ہیں اسی طرح ﴿ سَيَهْدِينِ ﴾ وہ ان امور میں بھی میری راہنمائی فرمائے گا جو میرے دین اور میری آخرت کے لئے درست ہیں۔ الزخرف
28 ﴿ وَجَعَلَهَا ﴾ ” اور اس کو کیا۔“ یعنی اس خصلت حمیدہ کو جو تمام خصائل کی اساس ہے اور وہ ہے، صرف اللہ تعالیٰ کے لئے اپنی عبادت کو خالص کرنا اور غیر اللہ کی عبادت سے برأت اور بیزاری کا اظہار کرنا ﴿ كَلِمَةً بَاقِيَةً فِي عَقِبِهِ ﴾ ” باقی رہنے والی بات اس کے پیچھے آنے والوں میں۔“ یعنی آپ کی ذریت میں ﴿ لَعَلَّهُمْ ﴾ تاکہ وہ اس کی طرف ﴿ يَرْجِعُونَ ﴾ ” رجوع کریں۔“ کیونکہ اس کلمے کا آپ کی طرف منسوب ہونا شہرت رکھتا ہے، نیز اس بنا پر کہ آپ نے اپنی اولاد کو اس کلمہ اخلاص کی وصیت کی اور آپ کی اولاد میں سے بعض جیسے اسحاق اور یعقوب علیہما السلام نے بعض دوسرے نسبی بیٹوں کو اسی کلمہ اخلاص کی وصیت کی۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَمَن يَرْغَبُ عَن مِّلَّةِ إِبْرَاهِيمَ إِلَّا مَن سَفِهَ نَفْسَهُ ۚ وَلَقَدِ اصْطَفَيْنَاهُ فِي الدُّنْيَا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ إِذْ قَالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قَالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ وَوَصَّىٰ بِهَا إِبْرَاهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ يَا بَنِيَّ إِنَّ اللّٰـهَ اصْطَفَىٰ لَكُمُ الدِّينَ فَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ أَمْ كُنتُمْ شُهَدَاءَ إِذْ حَضَرَ يَعْقُوبَ الْمَوْتُ إِذْ قَالَ لِبَنِيهِ مَا تَعْبُدُونَ مِن بَعْدِي قَالُوا نَعْبُدُ إِلَـٰهَكَ وَإِلَـٰهَ آبَائِكَ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ إِلَـٰهًا وَاحِدًا وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ ﴾ (البقرۃ:2؍130۔133)’’اور ملت ابراہیم سے کون روگردانی کرسکتا ہے۔ سوائے اس کے جس نے اپنے آپ کو بے وقوفی میں مبتلا کر رکھا ہو۔ بے شک ہم نے ابراہیم(علیہ السلام) کو دنیا میں چن لیا اور آخرت میں بھی وہ صالح لوگوں سے ہوں گے۔ جب اس کے رب نے اس سے فرمایا : فرمانبردار بن جاؤ تو اس نے (فوراً) کہا میں جہانوں کے رب کا فرمانبردار ہوں۔ ابراہیم اور یعقوب (علیہما السلام)نے اپنے بیٹوں کو اسی کی وصیت کی کہ اے میرے بیٹو ! اللہ نے تمہارے لئے یہی دین پسند کیا ہے، لہٰذا تم مرتے دم تک مسلمان ہی رہنا۔ کیا تم اس وقت موجود تھے جب یعقوب (علیہ السلام)پر موت کا وقت آیا؟ تو (اس وقت) انہوں نے اپنے بیٹوں سے پوچھا : میرے بعد تم کس کی عبادت کرو گے؟ انہوں نے جواب دیا، ہم اس ایک الٰہ کی بندگی کریں گے جو آپ کا اور آپ کے آباؤ اجداد ابراہیم، اسماعیل اور اسحاق (علیہم السلام) کا الٰہ ہے اور ہم اسی کی فرمانبردا رہیں گے۔“ یہ کلمہ اخلاص حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں ہمیشہ موجود رہا ہے، یہاں تک کہ خوشحالی اور سرکشی ان پر غالب آگئی۔ الزخرف
29 اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ بَلْ مَتَّعْتُ هَـٰؤُلَاءِ وَآبَاءَهُمْ ﴾ میں نے ان کو اور ان کے آباؤ واجداد کو مختلف انواع کی شہوات سے متمتع ہونے دیا یہاں تک کہ یہی شہوات ان کا مطمح نظر اور ان کا مقصد بن گئیں، ان کے دلوں میں ان شہوات کی محبت پھلتی پھولتی رہی حتیٰ کہ ان کی صفات اور بنیادی عقائد بن گئیں۔ ﴿ حَتَّىٰ جَاءَهُمُ الْحَقُّ ﴾ ”حتیٰ کہ ان کے پاس حق پہنچ گیا۔“ جس میں کوئی شک ہے نہ شبہ ﴿ وَرَسُولٌ مُّبِينٌ ﴾’’اور صاف صاف سنانے والا رسول۔“ یعنی آپ کی رسالت واضح تھی آپ کے اخلاق و معجزات سے آپ کی رسالت پر واضح اور نمایاں دلائل قائم ہوئے جو آپ لے کر مبعوث ہوئے اور انبیاء و مرسلین نے آپ کی تصدیق کی اور خود آپ کی دعوت سے بھی آپ کی رسالت پر دلائل قائم ہوتے ہیں۔ الزخرف
30 ﴿ وَلَمَّا جَاءَهُمُ الْحَقُّ ﴾ ” اور جب ان کے پاس حق پہنچ گیا۔“ جو اس شخص پر جس میں ادنیٰ سادین اور عقل ہے واجب ٹھہراتا ہے کہ وہ اس کو قبول کرے اور اس کے سامنے سرتسلیم خم کرے۔ ﴿ قَالُوا هَـٰذَا سِحْرٌ وَإِنَّا بِهِ كَافِرُونَ ﴾ ” انہوں نے کہا کہ یہ جادو ہے اور ہم اس کو نہیں مانتے۔“ اور یہ سب سے بڑا عناد اور سب سے بڑی مخالفت ہے۔ پھر انہوں نے مجرد افکار اور روگردانی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ انہوں نے حق کو جھٹلایا۔ پس وہ اس وقت تک راضی نہ ہوئے جب تک کہ انہوں نے اس میں جرح و قدح نہ کی اور اسے جادو قرار نہ دے دیا جسے بدترین لوگ اور سب سے بڑے افترا پرداز ہی پیش کرتے ہیں اور جس چیز نے ان کو اس رویے پر ابھارا وہ ہے ان کی سرکشی اور اللہ تعالیٰ کا ان کو اور ان کے آباؤ کو سامان زیسنت سے نوازتا ہے۔ الزخرف
31 ﴿ وَقَالُوا ﴾ یعنی انہوں نے اپنی عقل فاسد کے مطابق اللہ تعالیٰ پر اعتراض کرتے ہوئے کہا : ﴿ لَوْلَا نُزِّلَ هَـٰذَا الْقُرْآنُ عَلَىٰ رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْيَتَيْنِ عَظِيمٍ ﴾ ” یہ قرآن ان دونوں بستیوں میں سے کسی بڑے آدمی پر نازل کیوں نہ کیا گیا؟“ جو مکہ اور طائف کے لوگوں کے ہاں معظم اور معزز ہوتا اور وہ شخص ہوتا جو ان کے ہاں سردار شمار ہوتا ہے، مثلاً: ولید بن مغیرہ وغیرہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے فرمایا: الزخرف
32 ﴿ أَهُمْ يَقْسِمُونَ رَحْمَتَ رَبِّكَ ﴾ یعنی کیا وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے خزانچی ہیں اور ان کے ہاتھ میں اس کی رحمت کی تدبیر ہے کہ جس کو چاہیں نبوت اور رسالت عطا کردیں اور جس کو چاہیں اس سے محروم کردیں؟ ﴿ نَحْنُ قَسَمْنَا بَيْنَهُم مَّعِيشَتَهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَرَفَعْنَا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ ﴾ ” ہم نے ان میں سے ان کی معیشت کو دنیا کی زندگی میں تقسیم کیا اور ایک کے دوسرے پر درجے بلند کئے“ یعنی اس دنیاوی زندگی میں ﴿ وَ ﴾ ” اور“ حال یہ ہے کہ ﴿ وَرَحْمَتُ رَبِّكَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَ ﴾ ” آپ کے رب کی رحمت اس (دنیا)سے بہتر ہے جو یہ اکٹھی کر رہے ہیں۔ “ جب بندوں کی معیشت اور ان کا دنیاوی رزق اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے، وہی اسے اپنے بندوں کے درمیان تقسیم کرتا ہے، اپنی حکمت کے تقاضے کے مطابق جس کو چاہتا ہے اس کے رزق کو کشادہ کردیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے اس کے رزق کو تنگ کردیتا ہے تو اس کی رحمت دینی جس میں سب سے اعلیٰ و افضل چیز نبوت اور رسالت ہے، اس بات کی زیادہ مستحق ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہو۔ پس اللہ تعالیٰ زیادہ جانتا ہے کہ وہ اپنی رسالت سے کسے سرفراز فرمائے۔ پس معلوم ہوا کہ کفار کا اعتراض لغو اور ساقط ہے۔ تمام دینی اور دنیاوی معاملات کی تدبیر اکیلے اللہ تعالیٰ ہی کے دست قدرت میں ہے۔ یہ ان کے اعتراض کی غلطی پر توجہ دلانا ہے جو ان کے اختیار میں نہیں، یہ تو محض ان کا ظلم اور حق کو ٹھکرانا ہے۔ رہا ان کا یہ کہنا ﴿ لَوْلَا نُزِّلَ هَـٰذَا الْقُرْآنُ عَلَىٰ رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْيَتَيْنِ عَظِيمٍ ﴾ ” اگر وہ لوگوں کے حقائق اور انسانی صفات کی معرفت رکھتے جن کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ اور مخلوق کے ہاں انسان کی بلند قدر و منزلت اور عظمت کا انداز ہ کیاجاتا ہے تو انہیں معلوم ہوجاتا کہ حضرت محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں میں عظیم ترین قدر و منزلت کے حامل، فخر میں سب سے اعلیٰ، عقل میں سب سے کامل، علم میں سب سے بڑھ کر، رائے اور عزم و حزم میں جلیل ترین، اخلاق میں بہترین، آپ کی رحمت کا دامن وسیع ترین، سب سے زیادہ شفقت رکھنے والے، سب سے زیادہ ہدایت یافتہ اور سب سے زیادہ متقی ہیں۔ آپ دائرہ کمال کے مرکز اور انسانی اوصاف کی انتہائی بلندیوں پر فائز ہیں، آگاہ رہو ! کہ علی الاطلاق آپ ہی مرد کائنات ہیں۔ اس بات کو آپ کے دوست اور دشمن سب جانتے ہیں، پس یہ مشرکین آپ پر کسی شخص کو کیوں کر فضیلت دے رہے ہیں جس میں ذرہ بھر یہ کمالات نہیں؟ اور اس کے جرم و حماقت کی انتہا یہ ہے کہ اس نے صنم، پتھر اور درخت کو اپنا معبود بنا لیا ہے،اس کی عبادت کرتا ہے، مصائب و حاجات میں اس کو پکارتا اور اس کا قرب حاصل کرتا ہے جو اس کو کوئی نقصان پہنچا سکتا ہے نہ نفع، وہ کچھ عطا کرسکتا ہے نہ کسی چیز سے محروم کرسکتا ہے وہ سرا سر اپنے مالک (عابد) پر بوجھ ہے اور کسی ایسے شخص کا محتاج ہے جو اس کے مصالح کی دیکھ بھال کرے۔ کیا یہ بیوقوفوں اور پاگلوں کا فعل نہیں؟ ایسے شخص کو کیوں کر عظیم قرار دیا جاسکتا ہے؟ یا خاتم المرسلین اور بنی آدم کے سردار حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کیوں کر فضیلت دی جاتی ہے؟ لیکن وہ لوگ جنہوں نے کفر کا رویہ اختیار کیا ہوا ہے سمجھتے ہی نہیں۔ اس آیت کریمہ میں بندوں کی ایک دوسرے پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ فضیلت میں پنہاں اس کی حکمت کی طرف اشارہ ہے ﴿لِّيَتَّخِذَ بَعْضُهُم بَعْضًا سُخْرِيًّا ﴾ ” تاکہ ایک دوسرے سے خدمت لے۔“ یعنی تاکہ وہ کاموں اور صنعت و حرفت میں ایک دوسرے سے خدمت لیں، اگر مال کے لحاظ سے تمام لوگ برابر ہوتے تو وہ ایک دوسرے کے محتاج نہ رہتے اور اس طرح ان کے بہت سے مصالح اور منافع معطل ہو کر رہ جاتے۔ اس آیت کریمہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ دینی نعمت دنیاوی نعمت سے بہتر ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک دوسری آیت میں فرمایا: ﴿ قُلْ بِفَضْلِ اللّٰـهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَٰلِكَ فَلْيَفْرَحُوا هُوَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَ ﴾(یونس:10؍58) ” کہہ دیجیے کہ یہ اللہ کا فضل و کرم اور اس کی رحمت ہے، اسی پر ان کو خوش ہونا چاہئے یہ ان چیزوں سے بہتر ہے جن کو یہ جمع کرتے ہیں۔ “ الزخرف
33 اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ اس کے نزدیک دنیا کی کوئی حیثیت نہیں، اگر اپنے بندوں پر اس کا لطف و کرم اور اس کی رحمت نہ ہوتی جس کے سامنے ہر چیز ہیچ ہے تو ان لوگوں پر جنہوں نے کفر کیا، دنیا کو بہت زیادہ کشادہ کردیتا اور بنا دیتا:﴿ لِبُيُوتِهِمْ سُقُفًا مِّن فِضَّةٍ وَمَعَارِجَ ﴾ ان کے گھروں کی چھتیں چاندی کی اور سیڑھیاں بھی چاندی کی ﴿ عَلَيْهَا يَظْهَرُونَ ﴾ جس کے ذریعے سے وہ اپنی چھتوں پر چڑھتے ہیں۔ الزخرف
34 ﴿ وَلِبُيُوتِهِمْ أَبْوَابًا وَسُرُرًا عَلَيْهَا يَتَّكِئُونَ ﴾ اور ان کے گھروں کے دروازے اور تخت، جن پر وہ تکیہ لگا کر بیٹھتے ہیں، سب چاندی کے ہوتے اور اللہ تعالیٰ ان کے لئے بنا دیتا۔ الزخرف
35 ﴿ زُخْرُفًا ﴾ سونا“ یعنی مختلف انواع کی خوبصورتی کے ذریعے سے ان کی دنیا کو آراستہ کردیتا اور انہیں وہ سب کچھ عطا کردیتا جو وہ چاہتے۔ مگر بندوں پر اللہ تعالیٰ کی بے پایاں رحمت نے ایسا کرنے سے روک دیا کہ کہیں وہ دنیا کی محبت کے باعث کفر اور کثرت معاصی میں ایک دوسرے پر سبقت نہ کرنے لگیں۔ اس آیت کریمہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ بندوں کے مصالح کی خاطر، ان کو عام طور پر یا خاص طور پر بعض دنیاوی امور سے محروم رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا مچھر کے ایک پر کے برابر بھی وزن نہیں رکھتی۔ مذکورہ بالا تمام چیزیں دنیاوی زندگی کی متاع ہیں جو تکدر کی حامل اور فانی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک آخرت ان لوگوں کے لئے بہتر ہے جو اللہ تعالیٰ کے اوامر کی تعمیل اور اس کے نواہی سے اجتناب کے ذریعے سے تقویٰ اختیار کرتے ہیں کیونکہ آخرت کی نعمتیں ہر لحاظ سے کامل ہیں۔ جنت میں ہر وہ چیز مہیا ہوگی جسے نفس چاہتے ہیں، آنکھیں لذت حاصل کرتی ہیں اور وہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ دونوں گھروں کے درمیان کتنا بڑا فرق ہے ! الزخرف
36 جو کوئی اللہ تعالیٰ کے ذکر سے روگردانی کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لئے سخت سزا کی خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے: ﴿ وَمَن يَعْشُ ﴾ یعنی جو منہ موڑتا ہے ﴿ عَن ذِكْرِ الرَّحْمَـٰنِ ﴾ ” رحمان کے ذکر سے“ جو قرآن عظیم ہے جو سب سے بڑی رحمت ہے جس کے ذریعے سے اللہ رحمان نے اپنے بندوں پر رحم کیا ہے جو کوئی اس کو قبول کرے وہ بہترین عطیے کو قبول کرتا ہے اور وہ سب سے بڑے مطلوب و مقصود کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے اور جو کوئی اس رحمت سے روگردانی کرتے ہوئے اسے ٹھکرا دے، وہ، خائب و خاسر ہوتا ہے، اس کے بعد وہ ہمیشہ کے لئے سعادت سے محروم ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس پر ایک سرکش شیطان مسلط کردیتا ہے جو اس کے ساتھ رہتا ہے، وہ اس کے ساتھ جھوٹے وعدے کرتا ہے، اسے امیدیں دلاتا ہے اور اسے گناہوں پر ابھارتا ہے۔ الزخرف
37 ﴿ وَإِنَّهُمْ لَيَصُدُّونَهُمْ عَنِ السَّبِيلِ ﴾ یعنی وہ انہیں صراط مستقیم اور دین قویم سے روکتے ہیں ﴿ وَيَحْسَبُونَ أَنَّهُم مُّهْتَدُونَ ﴾ شیطا ن کے باطل کو مزین کرنے، اسے خوبصورت بنا کر پیش کرنے اور اپنے اعراض کے باعث وہ اپنے آپ کو ہدایت یافتہ سمجھتے ہیں۔ پس دونوں برائیاں اکٹھی ہوگئیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ آیاس شخص کے لئے کوئی عذر ہے جو اپنے آپ کو ہدایت یافتہ سمجھتا ہے، حالانکہ وہ ہدایت یافتہ نہیں ہے؟ تو اس کا جواب ہے کہ اس شخص اور اس قسم کے دیگر لوگوں کے لئے کوئی عذر نہیں جن کی جہالت کا مصدر اللہ تعالیٰ کے ذکر سے روگردانی ہے، باوجودیکہ وہ ہدایت حاصل کرنے کی قدرت رکھتے ہیں۔ انہوں نے قدرت رکھنے کے باوجود ہدایت سے منہ موڑا اور باطل کی طرف راغب ہوئے، اس لئے یہ گناہ ان کا گناہ اور یہ جرم ان کا جرم ہے۔ الزخرف
38 اللہ تعالیٰ کے ذکر سے روگردانی کرنے والے کا، اپنے ساتھی کی معیت میں یہ حال تو دنیا کے اندر ہے اور وہ گمراہی، بدراہی اور حقائق کو بدلنے کا جرم ہے۔ رہا اس کا وہ حال جب وہ اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہوگا تو وہ بدترین حال ہوگا، ندامت، حسرت اور حزن و غم کا حال ہوگا جو اس کی مصیبت کی تلافی کرسکے گا نہ اس کے ساتھی سے نجات دلا سکے گا، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ حَتَّىٰ إِذَا جَاءَنَا قَالَ يَا لَيْتَ بَيْنِي وَبَيْنَكَ بُعْدَ الْمَشْرِقَيْنِ فَبِئْسَ الْقَرِينُ ﴾ ” حتیٰ کہ جب وہ ہمارے پاس آئے گا تو کہے گا : اے کاش ! مجھ میں اور تجھ میں مشرق و مغرب کا فاصلہ ہوتا، پس تو برا ساتھی ہے۔“ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿ وَيَوْمَ يَعَضُّ الظَّالِمُ عَلَىٰ يَدَيْهِ يَقُولُ يَا لَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِيلًا يَا وَيْلَتَىٰ لَيْتَنِي لَمْ أَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِيلًا لَّقَدْ أَضَلَّنِي عَنِ الذِّكْرِ بَعْدَ إِذْ جَاءَنِي َكَانَ الشَّيْطَانُ لِلْإِنسَانِ خَذُولًا﴾ (الفرقان:25؍27۔29) ”اور اس روز جب ظالم اپنے ہاتھوں پر کاٹے گا اور حسرت سے کہے گا : کاش ! میں نے رسول کے ساتھ راستہ اختیار کیا ہوتا۔ ہائے میری ہلاکت ! کاش ! میں نے فلاں کو دوست نہ بنایا ہوتا، ذکر(یعنی قرآن) کے آجانے کے بعد، اس نے مجھے گمراہ کر ڈالا اور شیطان تو انسان کو چھوڑ کر الگ ہوجاتا ہے۔ “ الزخرف
39 ﴿ وَلَن يَنفَعَكُمُ الْيَوْمَ إِذ ظَّلَمْتُمْ أَنَّكُمْ فِي الْعَذَابِ مُشْتَرِكُونَ ﴾ ” قیامت کے روز تمہارا اپنے ساتھیوں اور دوستوں کے ساتھ عذاب میں اشتراک تمہارے کسی کام نہ آئے گا، چونکہ تم ظلم میں ایک دوسرے کے ساتھی تھے اس لئے اس عذاب میں بھی ایک دوسرے کے ساتھی ہو۔ مصیبت میں تسلی بھی تمہارے کوئی کام نہ آئے گی۔ کیونکہ جب دنیا میں مصیبت واقع ہوتی ہے اور مصیبت زدگان اس میں مشترک ہوجاتے ہیں اور ساتھی بن جاتے ہیں تو ان کی مصیبت قدرے ہلکی ہوجاتی ہے اور وہ ایک دوسرے کو تسلی دیتے ہیں۔ آخرت کی مصیبت میں تو ہر قسم کی عقوبت جمع ہوگی، اس میں ادنیٰ سی راحت بھی نہ ہوگی۔ یہاں تک کہ یہ دنیاوی راحت بھی نہ ہوگی اے ہمارے رب! ہم تجھ سے عافیت کا سوال کرتے ہیں تو ہمیں اپنی رحمت سے راحت عطا کرنا۔ الزخرف
40 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اہل تکذیب کے ایمان نہ لانے اور آپ کی دعوت کو قبول نہ کرنے پر تسلی دیتے ہوئے فرماتا ہے، نیز واضح فرماتا ہے کہ ان میں کوئی بھلائی ہے نہ پاکیزگی جو انہیں ہدایت کی طرف بلائے۔ ﴿ أَفَأَنتَ تُسْمِعُ الصُّمَّ ﴾ ” کیا آپ بہرے کو سنا سکتے ہیں۔“ جو سنتے نہیں ﴿ أَوْ تَهْدِي الْعُمْيَ ﴾ ” یا اندھے کو راستہ دکھا سکتے ہیں؟“ جو دیکھتے نہیں یا کیا آپ اس شخص کی راہنمائی کرسکتے ہیں: ﴿وَمَن كَانَ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ ﴾ ” جو واضح گمراہی میں مبتلا ہے؟‘‘ کیونکہ وہ اپنی گمراہی اور اس کے بارے میں اپنی پسندیدگی کو خوب جانتا ہے۔ پس جس طرح بہرہ آوازوں کو نہیں سن سکتا اور اندھا دیکھ نہیں سکتا اسی طرح گمراہ شخص جو واضح گمراہی میں مبتلا ہے، ہدایت نہیں پا سکتا۔ الزخرف
41 قرآن سے ان کی روگردانی کی بنا پر ان کی فطرت اور عقل فاسد ہوگئی اور انہوں نے عقائد فاسدہ گھڑ لئے اور ان میں صفات خبیثہ پیدا ہوگئیں جو انہیں ایمان لانے سے روکتی ہیں اور ان کے اور ہدایت کے درمیان حائل ہیں اور ان کی تباہی میں اضافے کی موجب ہیں۔ اب ان لوگوں کے لئے عذاب اور سزا کے سوا کچھ باقی نہیں اور یہ عذاب انہیں دنیا ہی میں دے دیا جائے گا یا آخرت میں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ فَإِمَّا نَذْهَبَنَّ بِكَ فَإِنَّا مِنْهُم مُّنتَقِمُونَ ﴾ یعنی ہم نے ان کے ساتھ جس عذاب کا وعدہ کیا ہے، آپ کو وہ عذاب دکھانے سے پہلے اگر آپ کو اٹھا لیں تو ہماری سچی خبر کی بنا پر آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ ہم ان سے انتقام لیں گے۔ الزخرف
42 ﴿ أَوْ نُرِيَنَّكَ الَّذِي وَعَدْنَاهُمْ ﴾ ” یا تمہیں دکھا دیں (وہ عذاب) جس کا ہم نے ان سے وعدہ کیا ہے۔“ ﴿ فَإِنَّا عَلَيْهِم مُّقْتَدِرُونَ ﴾ ” پس بے شک ہم ان پر قابو رکھتے ہیں۔“ مگر اس عذاب کی تعجیل و تاخیر اللہ تعالیٰ کی حکمت کے تقاضے پر موقوف ہے۔ الزخرف
43 یہ ہے آپ کا حال اور ان مکذبین کا حال، پس آپ ﴿ فَاسْتَمْسِكْ بِالَّذِي أُوحِيَ إِلَيْكَ ﴾ اپنے افعال میں اس چیز کو مضبوطی سے تھامے رکھیں جو آپ کی طرف وحی کی گئی ہے اور ان صفات سے متصف ہوں جن سے متصف ہونے کا آپ کو یہ وحی حکم دیتی ہے۔ اس کی طرف دعوت دیں، اس کو اپنی ذات اور دوسرے پر نافذ کرنے کی خواہش رکھیں۔ ﴿ إِنَّكَ عَلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ ﴾ بے شک آپ سیدھے راستے پر ہیں، جو اللہ تعالیٰ اور اس کے اکرام و تکریم کے گھر تک پہنچاتا ہے اور یہ وہ چیز ہے جو آپ پر اس سے تمسک کرنے اور اس سے راہنمائی حاصل کرنے کو اور زیادہ واجب کرتی ہے۔ جب آپ جانتے ہیں کہ یہ حق، عدل اور سچائی ہے تو آپ اسی اصل اصیل پر قائم رہیں جبکہ دوسرے لوگوں نے شرک، اوہام اور ظلم وجور کو بنیاد بنا رکھا ہے۔ الزخرف
44 ﴿ وَإِنَّهُ ﴾ یعنی یہ قرآن کریم ﴿ لَذِكْرٌ لَّكَ وَلِقَوْمِكَ ﴾ ” تمہارے لئے اور تمہاری قوم کے لئے ذکر (نصیحت) ہے۔“ تم لوگوں کے لئے فخر، منقبت جلیلہ اور ایسی نعمت ہے جس کا اندازہ کیا جاسکتا ہے نہ اس کے وصف کی معرفت حاصل کی جاسکتی ہے، نیز یہ قرآن تمہارے سامنے اس دنیوی اور آخروی بھلائی کو بیان کرتا ہے جس پر یہ مشتمل ہے اور تمہیں اس کی ترغیب دیتا ہے اور تمہیں برائی کے بارے میں بتاتا اور اس سے ڈراتا ہے ﴿ وَسَوْفَ تُسْأَلُونَ ﴾ ” اور عنقریب تم سے پوچھا جائے گا۔“ اس کے بارے میں کہ آیا تم نے اس کو قائم کر کے رفعت حاصل کی اور اس سے فائدہ اٹھایا، یا تم نے اس کو قائم نہیں کیا تو یہ تمہارے خلاف حجت ہوا اور تمہاری طرف سے اس نعمت کی ناسپاسی گردانی جائے؟ الزخرف
45 ﴿ وَاسْأَلْ مَنْ أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رُّسُلِنَا أَجَعَلْنَا مِن دُونِ الرَّحْمَـٰنِ آلِهَةً يُعْبَدُونَ ﴾ ” اور ہمارے ان نبیوں سے پوچھو ! جنہیں ہم نے آپ سے پہلے بھیجا تھا، کیا ہم نے سوائے رحمٰن کے اور معبود مقرر کئے تھے کہ ان کی عبادت کی جائے؟“ یہاں تک کہ وہ الٰہ مشرکین کے لئے ایک قسم کی حجت بن جاتے جس میں وہ انبیاء و مرسلین میں سے کسی کی اتباع کرتے۔ اگر آپ ان سے پوچھیں اور انبیاء و مرسلین کے احوال کی خبر دریافت کریں تو آپ ایک بھی ایسا رسول نہیں پائیں گے جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور ہستی کو معبود بنا لینے کی دعوت دیتا ہو، آپ دیکھیں گے اول سے لے کر آخر تک تمام انبیاء اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کی طرف دعوت دیتے ہیں، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللّٰـهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ ﴾ (النحل:16؍36) ” اور ہم نے ہر قوم میں ایک رسول مبعوث کیا جو انہیں دعوت دیتا تھا کہ تم اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے بچو۔“ ہر رسول نے، جس کو اللہ تعالیٰ نے مبعوث فرمایا، اپنی قوم سے یہی کہا کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔ یہ چیز دلالت کرتی ہے کہ مشرکین کے پاس اپنے شرک پر کوئی دلیل نہیں، عقل صحیح کی رو سے نہ رسولوں کی تعلیمات میں سے نقل صحیح کی رو سے۔ الزخرف
46 جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَاسْأَلْ مَنْ أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رُّسُلِنَا أَجَعَلْنَا مِن دُونِ الرَّحْمَـٰنِ آلِهَةً يُعْبَدُونَ ﴾(الزخرف:43؍45) تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی دعوت کا ذکر فرمایا جو انبیاء و مرسلین کی دعوت میں سب سے زیادہ شہرت رکھتی ہے، نیز اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اس کا سب سے زیادہ ذکر کیا ہے، پس اللہ تعالیٰ نے فرعون کے ساتھ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا حال بیان کیا، فرمایا : ﴿ وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مُوسَىٰ بِآيَاتِنَا ﴾ ” اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام)کو نشانیاں دے کر بھیجا۔“ جو قطعی طور پر دلالت کرتی ہیں کہ جو چیز حضرت موسیٰ علیہ السلام لے کر آئے ہیں وہ صحیح ہے، مثلاً عصا، سانپ، ٹڈی دل بھیجنا، جوئیں پڑنا اور دیگر تمام آیات اور معجزات وغیرہ ﴿إِلَىٰ فِرْعَوْنَ وَمَلَئِهِ فَقَالَ إِنِّي رَسُولُ رَبِّ الْعَالَمِينَ ﴾ ” فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف، تو اس نے کہا : میں رب العالمین کی طرف سے رسول ہوں۔“ سو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان کو اپنے رب کے اقرار کی دعوت دی اور انہیں غیر اللہ کی عبادت سے روکا۔ الزخرف
47 ﴿ فَلَمَّا جَاءَهُم بِآيَاتِنَا إِذَا هُم مِّنْهَا يَضْحَكُونَ ﴾ ’’پس جب وہ ان کے پاس ہماری نشانیاں لے کر آئے تو وہ نشانیوں سے مذاق کرنے لگے۔“ یعنی انہوں نے ان آیات کا انکار کر کے ان کو ٹھکرا دیا اور ظلم و تکبر سے ان کا تمسخر اڑایا۔ الزخرف
48 یہ سب کچھ آیات اور نشانیوں میں کسی کمی اور ان میں عدم وضاحت کی وجہ سے نہ تھا۔ اس لئے فرمایا : ﴿ وَمَا نُرِيهِم مِّنْ آيَةٍ إِلَّا هِيَ أَكْبَرُ مِنْ أُخْتِهَا﴾ ”اور ہم انہیں جو نشانی دکھاتے تو وہ دوسری سے بڑھ چڑھ کر ہوتی۔“ یعنی بعد والی نشانیاں گزشتہ نشانیوں سے بڑی تھیں۔ ﴿وَأَخَذْنَاهُم بِالْعَذَابِ ﴾ ” اور ہم نے انہیں عذاب میں پکڑا۔“ مثلاً: ٹڈی دل، جوئیں، مینڈک اور خون جیسی مفصل نشانیوں کے ساتھ ہم نے ان کو پکڑا۔ ﴿ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ ﴾ شاید کہ وہ اسلام کی طرف لوٹیں اور اس کی اطاعت کریں تاکہ ان کا شرک اور شر زائل ہو۔ الزخرف
49 ﴿ وَقَالُوا ﴾ یعنی ان پر عذاب نازل ہوتا تو کہتے : ﴿ يَا أَيُّهَ السَّاحِرُ ﴾ ” اے جادوگر !“ اس سے ان کی مراد موسیٰ علیہ السلام تھے ان کا یہ طرز خطاب یا تو استہزاء و تمسخر کے باب سے تھا یا یہ خطاب ان کے ہاں مدح تھا۔ پس انہوں نے عاجز آ کر موسیٰ علیہ السلام کو ایسے خطاب کے ساتھ مخاطب کیا جس کے ساتھ وہ ایسے لوگوں کو خطاب کرتے تھے جن کو وہ اہل علم سمجھتے تھے۔ یعنی جادوگروں کو پس وہ کہنے لگے : ﴿ يَا أَيُّهَ السَّاحِرُ ادْعُ لَنَا رَبَّكَ بِمَا عَهِدَ عِندَكَ ﴾ ” اے جادوگر ! اس عہد کے مطابق جو تیرے رب نے تجھ سے کر رکھا ہے اس سے دعا کر۔“ یعنی جس چیز کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے تجھے خصوصیت بخشی اور فضائل و مناقب عطا کئے اس کے ذریعے سے دعا کر کہ اللہ ہم سے عذاب کو دور کر دے۔ ﴿ إِنَّنَا لَمُهْتَدُونَ ﴾ اگر اللہ نے ہم سے عذاب کو ہٹا دیا تو ہم راہ راست اختیار کرلیں گے۔ الزخرف
50 ﴿ فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْهُمُ الْعَذَابَ إِذَا هُمْ يَنكُثُونَ ﴾ ” پس جب ہم نے ان سے عذاب دور کردیا تو انہوں نے قول و قرار توڑ دیا۔“ یعنی انہوں نے جو عہد کیا تھا اسے پورا نہ کیا بلکہ عہد کو توڑ ڈالا اور اپنے کفر پر جمے رہے۔ ان کا یہ رویہ اللہ تعالیٰ کے اس اس ارشاد کے مانند ہے : ﴿فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمُ الطُّوفَانَ وَالْجَرَادَ وَالْقُمَّلَ وَالضَّفَادِعَ وَالدَّمَ آيَاتٍ مُّفَصَّلَاتٍ فَاسْتَكْبَرُوا وَكَانُوا قَوْمًا مُّجْرِمِينَ وَلَمَّا وَقَعَ عَلَيْهِمُ الرِّجْزُ قَالُوا يَا مُوسَى ادْعُ لَنَا رَبَّكَ بِمَا عَهِدَ عِندَكَ لَئِن كَشَفْتَ عَنَّا الرِّجْزَ لَنُؤْمِنَنَّ لَكَ وَلَنُرْسِلَنَّ مَعَكَ بَنِي إِسْرَائِيلَ فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْهُمُ الرِّجْزَ إِلَىٰ أَجَلٍ هُم بَالِغُوهُ إِذَا هُمْ يَنكُثُونَ ﴾(الاعراف:7؍133۔135) ” پس ہم نے ان پر طوفان بھیجا، ان پر ٹڈی دل، جوئیں، مینڈک بھیجے اور ان پر خون برسایا یہ سب الگ الگ نشانیاں دکھائیں مگر انہوں نے تکبر کیا اور وہ مجرم لوگ تھے اور جب کبھی ان پر عذاب نازل ہوتا تو کہتے : اے موسیٰ ! تجھ سے تیرے رب نے وعدہ کیا ہے اس بنا پر ہمارے لئے دعا مانگ اگر تو ہم سے عذاب ہٹا دے تو ہم تجھ پر ایمان لے آئیں گے اور تیرے ساتھ بنی اسرائیل کو بھیج دیں گے۔ جب ہم نے ان سے عذاب کو ایک وقت مقررہ تک کے لئے جس کو وہ پہنچنے والے تھے، ٹال دیا تو وہ اپنے عہد سے پھر گئے۔ “ الزخرف
51 ﴿ وَنَادَىٰ فِرْعَوْنُ فِي قَوْمِهِ قَالَ ﴾ ” اور فرعون نے اپنی قوم کو پکار کر کہا :“ یعنی اپنے باطل موقف کی بنا پر تکبر کا اظہار کرتے ہوئے کہا، اس کے اقتدار نے اس کو فریب میں مبتلا کردیا تھا اور اس کے مال اور لشکروں نے اس کو سرکش بنا دیا تھا۔ ﴿ يَا قَوْمِ أَلَيْسَ لِي مُلْكُ مِصْرَ ﴾ یعنی اے میری قوم ! کیا میں ملک مصر کا مالک اور اس میں تصرف کرنے والا نہیں؟ ﴿ وَهَـٰذِهِ الْأَنْهَارُ تَجْرِي مِن تَحْتِي ﴾ ” اور یہ نہیں میرے نیچے چلتی ہیں۔“ یعنی یہ نہریں جو دریائے نیل میں سے نکل کر محلات اور باغات میں سے ہو کر بہہ رہی ہیں۔ ﴿ أَفَلَا تُبْصِرُونَ ﴾ کیا تم اس وسیع و عریض سلطنت کو دیکھتے نہیں؟ یہ اس کی بے انتہا جہالت کے سبب سے تھا کیونکہ اس نے اوصاف حمیدہ اور افعال سدیدہ کی بجائے ایسے معاملے پر فخر کا اظہار کیا جو اس کی ذات سے خارج تھا۔ الزخرف
52 ﴿ أَمْ أَنَا خَيْرٌ مِّنْ هَـٰذَا الَّذِي هُوَ مَهِينٌ ﴾ اللہ تعالیٰ اس کا برا کرے حقیر سے اس کی مراد رحمان کے کلیم اور بلند مرتبہ ہستی حضرت موسیٰ بن عمران علیہ السلام تھے۔ یعنی میں غالب اور قوت والا ہوں اور موسیٰ علیہ السلام نہایت ذلیل اور حقیر تب ہم میں سے کون بہتر ہے؟ ﴿ وَ ﴾ ”اور“ بایں ہمہ ﴿ لَا يَكَادُ يُبِينُ ﴾ موسیٰ اپنے مافی الضمیر کا گفتگو کے ذریعے سے اظہار نہیں کرسکتا کیونکہ وہ فصیح اللسان نہیں ہے۔ مگر یہ کوئی عیب نہیں، جبکہ آپ اپنے مافی الضمیر کو واضح کرسکتے تھے اگرچہ بولنا ان کے لئے بوجھل تھا۔ الزخرف
53 پھر فرعون نے کہا : ﴿ فَلَوْلَا أُلْقِيَ عَلَيْهِ أَسْوِرَةٌ مِّن ذَهَبٍ ﴾ ” پس اس پر سونے کے کنگن کیوں نہیں آپڑے۔“ کہ اس کی یہ حالت ہوتی کہ وہ کنگن اور زیور سے آراستہ ہوتا ﴿ أَوْ جَاءَ مَعَهُ الْمَلَائِكَةُ مُقْتَرِنِينَ ﴾ یا فرشتے اس کے پکارنے پر، اس کی مدد کرتے اور اس کی بات کی تائید کرتے۔ الزخرف
54 ﴿ فَاسْتَخَفَّ قَوْمَهُ فَأَطَاعُوهُ ﴾’’پس بے وقوف بنایا اس نے اپنی قوم کو اور وہ اس کے کہنے میں آگ گئے۔“ یعنی فرعون نے اپنی قوم کے لوگوں کی عقل کو حقیر جانا اور یوں اس نے ان کے سامنے ان شبہات کا اظہار کیا جن کا کوئی فائدہ اور ان کی کوئی حقیقت نہیں، یہ شبہات حق پر دلالت کرتے تھے نہ باطل پر۔ یہ صرف کم عقل لوگوں کو متاثر کرسکتے تھے۔ مصر پر فرعون کے اقتدار اور اس کے محلات میں نہروں کے بہنے میں اس کے برحق ہونے کی کون سی دلیل ہے؟ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زبان کی ثقالت، ان کے متبعین کی قلت اور ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے سونے کے کنگنوں سے آراستوں نہ کرنے میں ان کی دعوت کے بطلان کی کون سی دلیل ہے؟ مگر حقیقت یہ ہے کہ فرعون کو ایسے لوگوں سے واسطہ پڑا تھا جو معقولات سے بے بہرہ تھے، فرعون حق یا باطل جو کچھ بھی کہتا تھا وہ بے چون و چراں اسے مان لیتے تھے۔ ﴿ فَاسْتَخَفَّ قَوْمَهُ فَأَطَاعُوهُ ﴾ ” درحقیقت وہ تھے ہی فاسق لوگ۔“ پس ان کے فسق کے سبب سے ان پر فرعون کو مسلط کردیا گیا جو ان کے سامنے شرک اور شر کو مزین کرتا تھا۔ الزخرف
55 ﴿ فَلَمَّا آسَفُونَا ﴾ یعنی جب انہوں نے اپنی بد اعمالیوں کے ذریعے سے ہمیں ناراض کردیا تو ﴿ انتَقَمْنَا مِنْهُمْ فَأَغْرَقْنَاهُمْ أَجْمَعِينَ فَجَعَلْنَاهُمْ سَلَفًا وَمَثَلًا لِّلْآخِرِينَ ﴾ ” ہم نے ان سے انتقام لیا اور ان سب کو غرق کردیا اور ان کو گئے گزرے کردیا اور پچھلوں کے لئے عبرت بنا دیا۔“ تاکہ ان کے احوال سے عبرت حاصل کرنے والے عبرت اور نصیحت حاصل کرنے والے نصیحت حاصل کریں۔ الزخرف
56 الزخرف
57 اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿ وَلَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْيَمَ مَثَلًا﴾ ” اور جب مریم کے بیٹے کی مثال بیان کی گئی۔“ یعنی جب ابن مریم علیہ السلام کی عبادت سے منع کیا گیا اور اس کی عبادت کو بتوں کی عبادت قرار دیا گیا۔ ﴿إِذَا قَوْمُكَ﴾ ” تو آپ کی قوم کے لوگ“ جو آپ کو جھٹلانے والے ہیں ﴿ مِنْهُ ﴾ یعنی اس ضرب المثل کی وجہ سے ﴿يَصِدُّونَ ﴾ آپ کے ساتھ جھگڑا کرتے ہیں، چیختے چلاتے اور سمجھتے ہیں کہ انہوں نے دلیل کے ذریعے سے غلبہ حاصل کرلیا ہے۔ الزخرف
58 ﴿وَقَالُوا أَآلِهَتُنَا خَيْرٌ أَمْ هُوَ ﴾ ” اور کہنے لگے کیا ہمارے معبود بہتر ہیں یا یہ ؟“ یعنی عیسیٰ علیہ السلام، کیونکہ تمام خود ساختہ معبودوں کی عبادت سے منع کیا گیا ہے اور ان سب کو جن کی یہ عبادت کرتے ہیں، وعید میں شامل کیا گیا ہے۔ نیز اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد بھی نازل ہوا ہے : ﴿إِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللّٰـهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ أَنتُمْ لَهَا وَارِدُونَ﴾(الانبیاء :21؍98) ” بے شک تم اور جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو، سب جہنم کا ایندھن ہو اور تم سب اس میں داخل ہو کر رہو گے۔“ ان کی اس بے موقع دلیل کی توجیہ یہ ہے وہ کہتے ہیں کہ اے محمد! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمہارے نزدیک یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے ان مقرب بندوں میں سے ہیں جن کا انجام بہت اچھا ہے، پھر تو نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ہمارے معبودوں کو ان کی عبادت کی ممانعت میں برابر کیوں کر قرار دے دیا؟ اگر تیری دلیل باطل نہ ہوتی تو اس میں کوئی تناقض نہ ہوتا اور تو نے یہ کیوں کہا : ﴿إِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللّٰـهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ أَنتُمْ لَهَا وَارِدُونَ﴾(الانبیاء :21؍98) ” ان کے زعم کے مطابق یہ حکم عیسیٰ علیہ السلام اور تمام بتوں کو شامل ہے، تب کیا یہ تناقص نہیں؟ اور دلیل کا تناقض دلیل کے بطلان پر دلالت کرتا ہے۔ یہ بعید ترین دلیل ہے جس کے ذریعے سے لوگ اس شبہے کو ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس پر یہ خوشی کا اظہار کرتے ہوئے شور مچا رہے ہیں اور ایک دوسرے کو خوشخبری دے رہے ہیں، حالانکہ شبہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ کمزور ترین اور باطل ترین شبہ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح علیہ السلام کی عبادت کی ممانعت اور بتوں کی عبادت کی ممانعت کو مساوی قرار دیا ہے اور چونکہ عبادت اللہ تعالقٰ کا حق ہے، مخلوق میں سے اللہ تعالیٰ کے مقرب فرشتے، انبیاء و مرسلین اور دیگر کوئی ہستی عبادت کی مستحق نہیں، اس لئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی عبادت کی ممانعت اور دیگر خود ساختہ معبودوں کی عبادت کی ممانعت کے مساوی ہونے میں کون سا شبہ ہے؟ الزخرف
59 اس مقام پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی فضیلت اور آپ کا اللہ تعالیٰ کے ہاں مقرب ہونا اس بات کی دلیل نہیں کہ آپ کی عبادت اور بتوں کی عبادت کی حرمت میں کوئی فرق ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیثیت تو وہی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿إِنْ هُوَ إِلَّا عَبْدٌ أَنْعَمْنَا عَلَيْهِ﴾ ” وہ تو ہمارا یک بندہ ہے جس پر ہم نے انعام کیا ہے۔“ یعنی ہم نے انہیں نبوت و حکمت اور علم و عمل کی نعمت سے سرفراز فرمایا۔ ﴿وَجَعَلْنَاهُ مَثَلًا لِّبَنِي إِسْرَائِيلَ﴾ ” اور ہم نے بنی اسرائیل کے لئے انہیں ایک نمونہ بنا دیا۔“ ان کے ذریعے سے بنی اسرائیل نے اس حقیقت کی معرفت حاصل کی کہ اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو باپ کے بغیر بھی وجود میں لانے کی قدرت رکھتا ہے۔ رہا اللہ تعالیٰ کا ارشاد : ﴿إِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللّٰـهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ أَنتُمْ لَهَا وَارِدُونَ﴾(الانبیاء :21؍98)” تو اس کا جواب تین طرح سے دیا جاتا ہے: اول : ﴿ إِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللّٰـهِ ﴾ میں ﴿َمَا﴾ غیر ذی عقل کے لئے استعمال ہوا ہے، اس میں حضرت مسیح علیہ السلام داخل نہیں ہیں۔ ثانی : یہ خطاب مکہ اور اس کے اردگرد رہنے والے مشرکین سے ہے جو بتوں کی عبادت کیا کرتے تھے۔ ثالث : اس آیت کریمہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿إِنَّ الَّذِينَ سَبَقَتْ لَهُم مِّنَّا الْحُسْنَىٰ أُولَـٰئِكَ عَنْهَا مُبْعَدُونَ﴾ (الانبیاء :21؍101) ” بے شک وہ لوگ جن کے لئے پہلے ہی سے ہماری طرف سے بھلائی کا فیصلہ ہوچکا ہے، وہ اس جہنم سے دور رکھے جائیں گے۔“ بلا شبہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام انبیاء و مرسلین اور اولیاء اللہ اس آیت کریمہ میں داخل ہیں۔ الزخرف
60 اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَلَوْ نَشَاءُ لَجَعَلْنَا مِنكُم مَّلَائِكَةً فِي الْأَرْضِ يَخْلُفُونَ﴾ ” یعنی اگر ہم چاہتے تو تمہاری جگہ فرشتوں کو مقرر کردیتے جو زمین میں تمہاری جانشینی کرتے اور زمین میں رہتے حتیٰ کہ ہم فرشتوں کو ان کی طرف رسول بنا کر بھیجتے۔ اے نوع بشری! تم یہ طاقت نہیں رکھتے کہ فرشتوں کو رسول بنا کر تمہاری طرف مبعوث کیا جائے۔ پس یہ اللہ تعالیٰ کی تم پر رحمت ہے کہ اس نے تمہاری ہی جنس سے تمہاری طرف رسول بنا کر بھیجا جس سے سیکھنے کی تم طاقت رکھتے ہو۔ الزخرف
61 ﴿وَإِنَّهُ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَةِ﴾ ” اور بے شک وہ قیامت کی نشانی ہیں۔“ یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا وجود قیامت کی دلیل ہے۔ وہ ہستی جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بغیر باپ کے وجود میں لانے پر قادر ہے، وہ مردوں کو ان کی قبروں میں سے دوبارہ زندہ کرنے کی قدرت بھی رکھتی ہے یا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آخری زمانے میں نازل ہوں گے اور ان کا نزول قیامت کی علامات میں سے ایک علامت ہے۔ ﴿فَلَا تَمْتَرُنَّ بِهَا﴾ یعنی قیامت کے قائم ہونے کے بارے میں شک نہ کرو، اس کے بارے میں شک کرنا کفر ہے ﴿وَاتَّبِعُونِ﴾ اور جو میں نے تمہیں حکم دیا ہے اس کی تعمیل کرو اور جس سے روکا ہے اس سے اجتناب کرو۔ ﴿هَـٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِيمٌ﴾ ”یہی سیدھا راستہ ہے۔“ جو اللہ تعالیٰ تک پہنچاتا ہے۔ الزخرف
62 ﴿وَلَا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطَانُ﴾ اور شیطان تمہیں اس چیز سے نہ روک دے جس کا اللہ تعالیٰ نے تمہیں حکم دیا ہے، بے شک شیطان ﴿ لَكُمْ عَدُوٌّ﴾ ” تمہارا دشمن ہے۔“ وہ تمہیں گمراہ کرنے پر حریص ہے اور اس بارے میں وہ پوری جدوجہد کر رہا ہے۔ الزخرف
63 ﴿وَلَمَّا جَاءَ عِيسَىٰ بِالْبَيِّنَاتِ ﴾ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام وہ دلائل لے کر آئے جو ان کی نبوت کی صداقت اور ان کی دعوت کے صحیح ہونے پر دلالت کرتے تھے، مثلاً مردوں کو زندہ کرنا، مادر زاد اندھے اور برص زدہ کو شفایاب کرنا اور دیگر معجزات ﴿قَالَ ﴾ تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل سے فرمایا : ﴿قَدْ جِئْتُكُم بِالْحِكْمَةِ﴾ میں تمہارے پاس نبوت اور ان امور کا علم لے کر آیا ہوں جس کا علم تمہیں ہونا چاہئے اور اس طریقے سے ہونا چاہئے جو مناسب ہے۔ ﴿وَلِأُبَيِّنَ لَكُم بَعْضَ الَّذِي تَخْتَلِفُونَ فِيهِ﴾ یعنی تاکہ میں تمہارے سامنے تمہارے اختلافات میں راہ صواب اور جواب واضح کر دوں اور اس طرح تمہارے شکوک و شبہات زائل ہوجائیں۔ پس حضرت عیسیٰ علیہ السلام شریعت موسوی اور احکام تورات کی تکمیل کے لئے تشریف لائے، آپ بعض آسانیاں لے کر آئے جو آپ کی اطاعت اور آپ کی دعوت کو قبول کرنے کی موجب تھیں۔ ﴿فَاتَّقُوا اللّٰـهَ وَأَطِيعُونِ﴾ ” پس اللہ سے ڈر و اور میری اطاعت کرو۔“ یعنی اکیلے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو جس کا کوئی شریک نہیں، اس کے اوامر کی تعمیل اور اس اور اس کے نواہی سے اجتناب کرو، مجھ پر ایمان لاؤ، میری تصدیق اور میری اطاعت کرو۔ الزخرف
64 ﴿إِنَّ اللّٰـهَ هُوَ رَبِّي وَرَبُّكُمْ فَاعْبُدُوهُ هَـٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِيمٌ ﴾ ” یقیناً اللہ میرا رب بھی ہے اور تمہارا بھی، لہٰذا اسی کی عبادت کرو، یہی صراط مستقیم ہے۔“ اس آیت کریمہ میں توحید ربوبیت کا اقرار ہے، اللہ تعالیٰ مختلف انواع کی ظاہری اور باطنی نعمتوں کے ذریعے سے تمام مخلوق کی تربیت کرتا ہے، نیز توحید عبودیت کا اقرار ہے، یعنی اکیلے اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے جس کا کوئی شریک نہیں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف سے خبر دی گئی ہے کہ وہ بھی اللہ کے بندوں میں سے ایک بندے ہیں۔” وہ اللہ تعالیٰ کا بیٹا یا تین میں سے تیسرا۔“ نہیں ہیں جیسا کہ نصاریٰ کا خیال ہے اور یہ بھی خبر دی گئی ہے کہ یہی راستہ سیدھا راستہ ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کی جنت تک پہنچاتا ہے۔ الزخرف
65 جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام یہ دعوت لے کر ان کے پاس آئے ﴿فَاخْتَلَفَ الْأَحْزَابُ﴾ تو آپ کی تکذیب پر گروہ بندی کرنے والوں نے اختلاف کیا ﴿مِن بَيْنِهِمْ﴾ ” آپس میں۔“ ان میں سے ہر گروہ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں باطل بات کہی اور جو کچھ آپ لے کر آئے تھے اسے رد کردیا، سوائے مومنین کے جن کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت سے سرفراز فرمایا جنہوں نے رسالت کی گواہی دی اور ہر اس چیز کی تصدیق کی جو آپ لے کر آئے تھے اور کہا کہ عیسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے بندے اور رسول ہیں۔ ﴿فَوَيْلٌ لِّلَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْ عَذَابِ يَوْمٍ أَلِيمٍ ﴾ ” تو ظالموں کے لئے ہلاکت ہے، درد ناک عذاب والے دن سے۔“ ظالموں کو کتنا شدید حزن و غم ہوگا۔ اس روز انہیں کتنے بڑے خسارے کا سامنا کرنا پڑے گا ! الزخرف
66 اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے : یہ تکذیب کرنے والے کس چیز کا انتظار کر رہے ہیں؟ اور کیا وہ توقع رکھتے ہیں ﴿إِلَّا السَّاعَةَ أَن تَأْتِيَهُم بَغْتَةً وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ﴾” قیامت ان پر اچانک آ موجود ہو اور ان کو خبر بھی نہ ہو؟“ یعنی جب قیامت کی گھڑی آجائے گی تو ان لوگوں کے احوال کے بارے میں مت پوچھو جنہوں نے قیامت کی تکذیب کی، اس کا اور اس کے بارے میں آگاہ کرنے والے کا مذاق اڑایا۔ الزخرف
67 ﴿الْأَخِلَّاءُ يَوْمَئِذٍ﴾ یعنی کفر، تکذیب اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی پر ایک دوسرے کے ساتھ دوستی رکھنے والے قیامت کے دن ﴿ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ﴾ ” ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے۔“ کیونکہ دنیا میں ان کی دوستی اور محبت غیر اللہ کی خاطر تھی تو قیامت کے دن یہ دوستی، دشمنی میں بدل جائے گی۔ ﴿إِلَّا الْمُتَّقِينَ﴾ سوائے ان لوگوں کی دوستی کے جو شرک اور معاصی سے بچتے رہے۔ پس ان کی محبت دائمی اور متصل ہوگی کیونکہ جس ہستی کی خاطر انہوں نے محبت کی اس کو دوام ہے جنت میں ان کا دوام اور خلو وجود جنت کی نعمتوں کے دوام، ان میں اضافے اور عدم انقطاع کو متضمن ہے۔ الزخرف
68 الزخرف
69 الزخرف
70 الزخرف
71 الزخرف
72 الزخرف
73 ﴿وَتِلْكَ الْجَنَّةُ﴾ وہ جنت جو کامل ترین اوصاف سے موصوف ہے ﴿الَّتِي أُورِثْتُمُوهَا بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ﴾ ” جس کے تم مالک بنا دیئے گئے وہ تمہارے اعمال کا صلہ ہے۔“ یعنی جو اللہ تعالیٰ نے تمہیں تمہارے اعمال کے بدلے میں عطا کی ہے، اپنے فضل و کرم سے اس کو اعمال کی جزا قرار دیا اور اس نے اپنی رحمت سے اس میں ہر چیز عطا کردی۔ ﴿ لَكُمْ فِيهَا فَاكِهَةٌ كَثِيرَةٌ ﴾ ” وہاں تمہارے لئے بہت سے پھل ہیں۔“ جیسا کہ ایک اور آیت کریمہ میں فرمایا : ﴿فِيهِمَا مِن كُلِّ فَاكِهَةٍ زَوْجَانِ﴾(الرحمٰن :55؍52) ” ان جنتوں میں تمام پھل دو دو اقسام کے ہوں گے۔“ ﴿مِّنْهَا تَأْكُلُونَ﴾ یعنی تم ان مزے دار میووں اور لذیذ پھلوں کو چن چن کر کھاؤ گے۔ جنت کی نعمتوں کا ذکر کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے جہنم کے عذاب کا ذکر فرمایا۔ الزخرف
74 ﴿إِنَّ الْمُجْرِمِينَ﴾ جنہوں نے کفر اور تکذیب کے جرم کا ارتکاب کیا ﴿فِي عَذَابِ جَهَنَّمَ﴾ وہ جہنم کے عذاب میں مبتلا ہوں گے، عذاب انہیں ہر جانب سے گھیر لے گا۔ ﴿ خَالِدُونَ﴾ وہ عذاب میں ہمیشہ رہیں گے اور کبھی اس عذاب سے باہر نہیں نکلیں گے۔ الزخرف
75 ﴿ لَا يُفَتَّرُ عَنْهُمْ ﴾ ایک گھڑی کے لئے بھی انہیں عذاب سے چھٹکارا نہیں ملے گا، نہ تو عذاب ختم ہوگا اور نہ ہی اس میں نرمی ہوگی۔ ﴿وَهُمْ فِيهِ مُبْلِسُونَ ﴾ یعنی وہ ہر بھلائی سے مایوس اور ہر خوشی سے ناامید ہوں گے۔ وہ اپنے رب کو پکاریں گے: ﴿رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْهَا فَإِنْ عُدْنَا فَإِنَّا ظَالِمُونَ قَالَ اخْسَئُوا فِيهَا وَلَا تُكَلِّمُونِ﴾(المؤمنون:23؍107، 108) ” اے ہمارے رب ہمیں جہنم سے نکال لے، اگر ہم نے دوبارہ گناہ کئے تو ہم ظالم ہوں گے، اللہ تعالیٰ فرمائے گا، اسی میں ذلیل و خوار ہو کر پڑے رہو اور مجھ سے کلام نہ کرو۔“ یہ عذاب عظیم ان کی بد اعمالیوں کا نتیجہ اور اس ظلم کی پاداش ہے جو انہوں نے اپنے آپ پر کیا۔ اللہ تعالیٰ ان پر ظلم نہیں کرتا اور نہ وہ کسی کو گناہ اور جرم کے بغیر سزا ہی دیتا ہے۔ الزخرف
76 الزخرف
77 ﴿وَنَادَوْا﴾ ” اور وہ پکاریں گے۔“ درآں حالیکہ وہ آگ میں ہوں گے، شاید کہ انہیں کوئی آرام ملے۔ ﴿يَا مَالِكُ لِيَقْضِ عَلَيْنَا رَبُّكَ﴾ ” اے مالک ! تمہارا رب ہمارا کام تمام کر دے۔“ یعنی تیرا رب ہمیں موت دے دے تاکہ ہم عذاب سے آرام پائیں کیونکہ ہم شدید غم اور سخت عذاب میں مبتلا ہیں، ہم اس عذاب پر صبر کرسکتے ہیں نہ ہم میں اسے برداشت کرنے کی قوت ہے۔ ﴿قَالَ﴾ جب وہ جہنم کے داروغے ”مالک“ سے التماس کریں گے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرے کہ وہ انہیں موت عطا کر دے تو مالک جواب دے گا: ﴿إِنَّكُم مَّاكِثُونَ﴾ تم جہنم ہی میں رہو گے اور اس میں سے کبھی نہیں نکلو گے۔ انہیں ان کا مقصد حاصل نہیں ہوگا بلکہ انہیں ان کے مقصد کے بالکل الٹ جواب دیا جائے گا اور ان کے غم میں اور اضافہ ہوجائے گا۔ الزخرف
78 پھر اللہ تبارک و تعالیٰ ان کے افعال بد پر زجر و توبیخ کرتے ہوئے فرمائے گا: ﴿ لَقَدْ جِئْنَاكُم بِالْحَقِّ﴾ ” بلاشبہ ہم تمہارے پاس حق لے کر آئے۔“ جو اس بات کا موجب تھا کہ تم اس کی اتباع کرتے اور اگر تم نے حق کی اتباع کی ہوتی تو فوز و سعادت سے بہرہ مند ہوتے ﴿وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَكُمْ لِلْحَقِّ كَارِهُونَ﴾ ” لیکن تم میں سے اکثر حق کو ناپسند کرتے رہے۔“ بنابریں تم ایسی بدبختی کا شکار ہوگئے کہ اس کے بعد کوئی سعادت نہیں۔ الزخرف
79 اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کیا حق کی تکذیب کرنے والوں اور اس عناد رکھنے والوں نے کوئی تدبیر کی ہے؟ ﴿أَمْرًا﴾ یعنی انہوں نے حق کے خلاف سازش کی اور حق لانے والے کے خلاف چال چلی ہے تاکہ وہ ملمع سازی سے باطل کو مزین کر کے اور دلچسپ بنا کر حق کو سرنگوں کریں۔ ﴿ فَإِنَّا مُبْرِمُونَ﴾ یعنی ہم بھی ایک بات کو محکم بنا رہے ہیں اور ایسی تدبیر کر رہے ہیں جو ان کی تدبیر پر غالب ہے اور اس کو توڑ کر باطل کر کے رکھ دے گی اور وہ اس طرح ہے کہ اللہ تعالیٰ حق کو ثابت کرنے اور باطل کے ابطال کے لئے اسباب اور دلائل مقرر کردیتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْبَاطِلِ فَيَدْمَغُهُ﴾(الانبیاء :21؍18) ” بلکہ ہم حق کو باطل پردے مارتے ہیں تو حق باطل کا سر توڑ ڈالتا ہے۔ “ الزخرف
80 ﴿ أَمْ يَحْسَبُونَ﴾ کیا وہ اپنی جہالت اور ظلم کی بنا پر سمجھتے ہیں کہ ﴿أَنَّا لَا نَسْمَعُ سِرَّهُمْ ﴾ ہم اس بھید کو جسے وہ اپنی زبان پر نہیں لائے بلکہ ابھی وہ ان کے دلوں میں چھپا ہوا ہے سنتے نہیں۔ ﴿ وَنَجْوَاهُم﴾ اور ان کی خفیہ بات چیت کو جو وہ سرگوشیوں میں کرتے ہیں؟ بنابریں وہ معاضی کا ارتکاب کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ان معاصی پر کوئی متابعت نہیں اور نہ ان باتوں کی سزا ہی ملے گی جو چھپی ہوئی ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کی تردید کرتے ہوئے فرمایا : ﴿بَلَىٰ﴾ ” ہاں ہاں !“ ہم ان کے بھید اور ان کی سرگوشیوں کو جانتے ہیں ﴿وَرُسُلُنَا﴾ ” اور ہمارے قاصد“ یعنی باتکریم فرشتے ﴿لَدَيْهِمْ يَكْتُبُونَ﴾ ان کے تمام اعمال کو لکھتے ہیں اور ان اعمال کو محفوظ رکھیں گے اور جب یہ لوگ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کے حضور ہوں گے تو وہ ان تمام اعمال کو موجود پائیں گے جو انہوں نے کئے تھے اور تیرا رب کسی پر ظلم نہیں کرے گا۔ الزخرف
81 اے رسول مکرم ! ان لوگوں سے کہہ دیجیے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کا بیٹا قرار دے رکھا ہے، حالانکہ وہ اکیلا اور بے نیاز ہے جس نے کوئی بیوی بنائی نہ بیٹا اور نہ اس کا کوئی ہم سر ہی ہے ﴿قُلْ إِن كَانَ لِلرَّحْمَـٰنِ وَلَدٌ فَأَنَا أَوَّلُ الْعَابِدِينَ ﴾ ” کہہ دیجیے : اگر رحمٰن کے اولاد ہوتی تو میں سب سے پہلے عبادت کرنے والا ہوتا۔“ اس بیٹے کی کیونکہ بیٹا اپنے باپ کا جزو ہوتا ہے میں تمام مخلوق میں ان تمام اوامر پر عمل کرنے میں سب سے آگے ہوں جو اللہ تعالیٰ کو محبوب ہیں مگر(تم دیکھ رہے ہو کہ) میں اس کا انکار کرنے والا پہلا شخص ہوں اور اس کی نفی کرنے میں سب سے زیادہ سخت ہوں، پس اس سے اس مشرکانہ قول کا بطلان ثابت ہوگیا۔ جو لوگ انبیائے کرام کے احوال کو جانتے ہیں اور انہیں یہ معلوم ہے کہ انبیاء کامل ترین مخلوق ہیں، ہر بھلائی پر عمل کرنے اور اس کی تکمیل کے لئے وہ پیش پیش رہتے ہیں اور ہر برائی کو ترک کرنے، اس کا انکار کرنے اور اس سے دور رہنے میں، سب سے آگے ہیں تو ایسے لوگوں کے نزدیک یہ ایک بہت بڑی دلیل ہے۔ پس اگر رحمان کا کوئی بیٹا ہوتا تو محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو سب سے افضل رسول ہیں، وہ شخص ہوتے جو اس کی عبادت کرتے اور اس کی عبادت کرنے میں مشرکین آپ پر کبھی سبقت نہ لے جاسکتے۔ آیت کریمہ میں اس معنی کا احتمال ہے کہ اگر اللہ رحمان کی کوئی اولاد ہوتی تو میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والا اولین شخص ہوتا اور اللہ تعالیٰ کے لئے میری عبادت یہ ہے کہ اس نے جس چیز کا اثبات کیا ہے میں اس کا اثبات کرتا ہوں اور جس چیز کی اس نے نفی کی ہے میں اس کی نفی کرتا ہوں، پس یہ قولی و اعتقادی عبادت ہے۔ اس سے لازم آتا ہے کہ اگر یہ بات حق ہوتی تو میں پہلا شخص ہوتا جو اس کا اثبات کرتا، لہٰذا اس سے اور عقل و نقل کے اعتبار سے مشرکین کے دعوے کا بطلان اور فساد معلوم ہوگیا۔ الزخرف
82 ﴿سُبْحَانَ رَبِّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ رَبِّ الْعَرْشِ عَمَّا يَصِفُونَ﴾ ” یہ جو کچھ بیان کرتے ہیں، آسمانوں اور زمین کا رب )اور( عرش عظیم کا رب اس سے پاک ہے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ شریک، معاون و مددگار اور اولاد وغیرہ ان تمام چیزوں سے پاک اور منزہ ہے جو مشرکین اس کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ الزخرف
83 ﴿فَذَرْهُمْ يَخُوضُوا وَيَلْعَبُوا﴾ ” پس آپ انہیں چھوڑ دیں کہ وہ بے ہودہ کھیل کود میں لگے رہیں۔“ یعنی یہ باطل میں مبتلا ہو کر محال امور سے کھیلتے ہیں، ان کے علوم ضرر رساں ہیں ان میں کوئی نفع نہیں، وہ ایسے علوم میں بحث کرتے اور ان میں مشغول ہوتے ہیں جن کے ذریعے سے یہ لوگ حق اور دعوت کی مخالفت کرتے ہیں جو انبیاء و مرسلین لے کر آئے ہیں۔ ان کے اعمال محض لہو و لعب ہیں جو نفوس کا تزکیہ کرتے ہیں نہ ان سے معارف حاصل ہوتے ہیں۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے انہیں اس انجام کی وعید سنائی ہے جس کا قیامت کے روز انہیں سامنا کرنا ہے۔ چنانچہ فرمایا : ﴿حَتَّىٰ يُلَاقُوا يَوْمَهُمُ الَّذِي يُوعَدُونَ ﴾ ” حتیٰ کہ جس دن کا ان سے وعدہ کیا جاتا وہ اس کو دیکھ لیں۔“ تب انہیں معلوم ہوگا کہ انہیں اس میں کیا حاصل ہوا کہ وہ دائمی بدبختی اور ہمیشہ رہنے والے عذاب میں پھنس گئے ہیں۔ الزخرف
84 اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ آسمانوں اور زمین میں وہ اکیلا ہی معبود ہے پس آسمان کی تمام مخلوق اور زمین پر بسنے والے اہل ایمان اس کی عبادت و تعظیم کرتے ہیں، اس کے جلال کے سامنے سرنگوں اور اس کے کمال کے محتاج ہیں۔ ﴿تُسَبِّحُ لَهُ السَّمَاوَاتُ السَّبْعُ وَالْأَرْضُ وَمَن فِيهِنَّ وَإِن مِّن شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ ﴾(بنی اسرائیل:17؍44) ” ساتوں آسمان، زمین اور ان کے اندر جو بھی ہے، سب اس کی تسبیح بیان کرتے ہیں اور ہر چیز اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح بیان کر رہی ہے۔“ اور فرمایا : ﴿وَلِلَّـهِ يَسْجُدُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ طَوْعًا وَكَرْهًا﴾ ” اور آسمانوں اور زمین اور زمین کے تمام باسی چاہتے اور نہ چاہتے ہوئے اللہ ہی کے لئے سجدہ کرتے ہیں۔ “ اللہ تعالیٰ ہی معبود ہے، تمام مخلوق جس کی خوشی اور ناخوشی سے عبادت کرتی ہے۔ یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے اس قول کے مانند ہے۔ ﴿وَهُوَ اللّٰـهُ فِي السَّمَاوَاتِ وَفِي الْأَرْضِ﴾(الانعام:6؍3) ” یعنی اس کی الوہیت اور محبت آسمانوں اور زمین میں ہے اور وہ خود تمام مخلوق سے جدا اپنے عرش پر ہے، وہ اپنے جلال میں یکتا اور اپنے کمال کے ساتھ بزرگی کا مالک ہے ﴿وَهُوَ الْحَكِيمُ ﴾ ” اور وہ حکمت والا ہے۔“ جس نے اپنی مخلوق کو نہایت محکم طور پر تخلیق کیا اور اپنی شریعت کو نہایت مہارت سے وضع کیا۔ اس نے جو چیز بھی پیدا کی کسی حکمت ہی کی بنا پر پیدا کی، اس کا حکم کونی وقدری، حکم شرعی اور حکم جزائی تمام تر حکمت پر مشتمل ہے۔ ﴿ الْعَلِيمُ ﴾ وہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے، وہ ہر بھید اور مخفی معاملے کو جانتا ہے عالم علوی اور عالم سفلی میں چھوٹی یا بڑی ذرہ بھر چیز بھی اس کی نظر سے اوجھل نہیں۔ الزخرف
85 ﴿وَتَبَارَكَ الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا﴾ ” اور بابرکت ہے وہ ذات جس کی آسمانوں، زمین اور جو ان کے درمیان موجود ہے، سب پر حکومت ہے۔“ )تَبَارَك( کا معنی ہے کہ وہ بہت بلند اور بہت بڑا ہے، اس کی بھلائیاں بے شمار، اس کی صفات لا محدود اور اس کی سلطنت بہت عظیم ہے، بنا بریں فرمایا کہ اس کا اقتدار آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان ہر چیز پر حاوی ہے، اس کا علم بہت وسیع ہے اور وہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے حتیٰ کہ تمام امور غیب کا وہ اکیلا ہی علم رکھتا ہے جن کا علم کوئی نبی مرسل کوئی مقرب فرشتہ اور مخلوق میں سے کوئی ہستی نہیں رکھتی، اس لئے فرمایا : ﴿وَعِندَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ﴾ یہاں افادہ حصر کے لئے ظرف کو مقدم رکھا ہے، یعنی اس کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ قیامت کی گھڑی کب آئے گی؟ اس کا کامل اقتدار اور اس کی وسعت یہ ہے کہ وہ دنیا و آخرت کا مالک ہے۔ اس لئے فرمایا : ﴿وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ﴾ ” اور تم)آخرت میں( اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔“ اور وہ تمہارے درمیان عدل کے ساتھ فیصلہ کرے گا۔ الزخرف
86 یہ اس کا کامل اقتدار ہے کہ اس کی مخلوق میں سے کسی چیز کا کوئی ہستی کوئی اختیار نہیں رکھتی اور اس کی اجازت کے بغیر اس کے ہاں کوئی کسی قسم کی سفارش نہیں کرسکے گا، پس فرمایا : ﴿وَلَا يَمْلِكُ الَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِهِ الشَّفَاعَةَ﴾ ” یعنی انبیاء فرشتوں اور دیگر لوگوں میں سے ایسی تمام ہستیاں جنہیں اللہ کے سوا پکارا جاتا ہے، وہ سفارش کا اختیار نہیں رکھتیں، وہ اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر سفارش نہیں کرسکیں گی اور صرف اسی کے حق میں سفارش کرسکیں گے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ راضی ہوگا۔ بنابریں فرمایا : ﴿إِلَّا مَن شَهِدَ بِالْحَقِّ﴾ یعنی جس نے دل سے حق کا اقرار کرتے ہوئے اور جس امر کی شہادت دی جا رہی ہے اس کا علم رکھتے ہوئے زبان سے حق کی شہادت دی اور اس شرط کے ساتھ کہ یہ شہادت حق کے ساتھ شہادت ہو اور وہ ہے اللہ تعالیٰ کے لئے اس کی وحدانیت کی شہادت اس کے رسولوں کے لئے ان کی نبوت و رسالت کی شہادت اور دین کے اصول پر فروع، اس کے حقائق اور شرائع کی شہادت جنہیں لے کر وہ مبعوث ہوئے ہیں۔ پس یہی لوگ ہیں جن کے بارے میں سفارش کرنے والوں کی سفارش فائدہ دے گی اور یہی لوگ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نجات پائیں گے اور اس کا ثواب حاصل کریں گے۔ الزخرف
87 پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَلَئِن سَأَلْتَهُم مَّنْ خَلَقَهُمْ لَيَقُولُنَّ اللّٰـهُ ﴾ یعنی اگر آپ مشرکین سے توحید ربوبیت کے بارے میں پوچھیں کہ اس کائنات کا خالق کون ہے تو وہ اقرار کریں گے کہ اللہ واحد جس کا کوئی شریک نہیں، اس کائنات کا خالق ہے۔ ﴿ فَأَنَّىٰ يُؤْفَكُونَ﴾ یعنی تب اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس اکیلے کے لئے اخلاص سے کہاں منہ موڑے جا رہے ہیں۔ پس ان کا توحید ربوبیت کا اقرار، ان پر توحید الوہیت کے اقرار کو لازم ٹھہراتا ہے اور یہ شرک کے بطلان کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ الزخرف
88 ﴿وَقِيلِهِ يَا رَبِّ إِنَّ هَـٰؤُلَاءِ قَوْمٌ لَّا يُؤْمِنُونَ﴾ ” اور پیغمبر کا یہ کہنا کہ اے میرے رب! یقیناً یہ ایسے لوگ ہیں کہ ایمان نہیں لاتے۔“ یہ آیت کریمہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد: ﴿وَعِندَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ ﴾ ” اور اس کے پاس قیامت کا علم ہے۔“ پر معطوف ہے، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آپ کی قوم کی طرف سے آپ کی تکذیب کے وقت، اپنے رب کے پاس شکوہ کرتے ہوئے نہایت حزن و غم اور اپنی قوم کے عدم ایمان پر نہایت حسرت کے ساتھ دعا کرنے پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا۔ اللہ تعالیٰ اس حال کا علم رکھتا ہے اور ان کو فوراً سزا دینے پر قادر ہے مگر وہ نہایت برد بار ہے وہ اپنے بندوں کو مہلت اور ڈھیل دیتا ہے۔ الزخرف
89 اس لئے فرمایا : ﴿فَاصْفَحْ عَنْهُمْ وَقُلْ سَلَامٌ﴾ ان کی طرف سے آپ کو جوقولی اور فعلی اذیت پہنچتی ہے اس پر ان سے درگزر کیجیے اور ان کو معاف کردیجیے۔ آپ کی طرف سے ان کے لئے سلام ہی ہونا چاہئے جس کے ذریعے سے عقل مند اور اہل بصیرت جاہلوں کا مقابلہ کرتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کے بارے میں فرمایا : ﴿ وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ﴾ (الفرقان :25؍63) ” جب ان سے جہلاء مخاطب ہوتے ہیں۔“ یعنی ایسا خطاب جو ان کی جہالت کے تقاضے پر مبنی ہوتا ہے۔ ﴿قَالُوا سَلَامًا﴾(الفرقان:25؍63) ” تو ان کو کہہ دیتے ہیں ” تمہیں سلام ہو۔ “ پس رسول مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب کے حکم کی تعمیل کی اور آپ کی قوم نے آپ کو جو اذیتیں دیں ان کا عفو و درگزر کے ساتھ سامنا کیا اور آپ ان کے ساتھ صرف حسن سلوک اور حسن کلام سے پیش آئے۔ پس اللہ تعالیٰ کے درود و سلام ہوں اس مقدس ہستی پر جسے اللہ تعالیٰ نے خلق عظیم سے مختص فرمایا اور اس کے ذریعے سے زمین و آسمان کے رہنے والوں کو فضیلت بخشی اور آپ اس خلق عظیم کے ذریعے سے ستاروں سے زیادہ بلندیوں پر پہنچ گئے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ﴾ تو عنقریب انہیں اپنے گناہوں اور جرائم کا انجام معلوم ہوجائے گا۔ الزخرف
0 سورة دخان الدخان
1 حٰم الدخان
2 یہ قرآن پر قرآن ہی کی قسم ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے کتاب مبین کی قسم کھائی جو ہر اس چیز کے لئے ہے جس کے بیان کی حاجت ہے۔ بے شک وہ اتاری گئی ہے۔ الدخان
3 ﴿فِي لَيْلَةٍ مُّبَارَكَةٍ ﴾ یعنی خیر کثیر اور برکت والی رات میں، اس سے مراد لیلۃ القدر ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ یقیناً اللہ تبارک و تعالیٰ نے بہترین کلام کو سب راتوں اور دنوں سے افضل رات میں مخلوق میں سے افضل ہستی پر معززین اہل عرب کی زبان میں نازل فرمایا تاکہ اس کے ذریعے سے ان لوگوں کو ڈرائے جنہیں جہالت نے اندھا کر رکھا ہے اور بدبختی ان پر غالب آچکی ہے۔ پس وہ اس کے نور سے روشنی حاصل کریں، اس کی ہدایت کو اختیار کریں اور اس کے پیچھے چلیں، اس طرح انہیں دنیا و آخرت کی بھلائی حاصل ہوگی۔ اس لئے فرمایا: ﴿إِنَّا كُنَّا مُنذِرِينَ فِيهَا﴾ ” بے شک ہم لوگوں کو متنبہ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ اس )فضیلت والی( رات میں۔“ جس میں قرآن نازل ہوا۔ الدخان
4 ﴿يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ﴾ ” ہر حکمت والے کام کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔“ یعنی ہر حکم کا فیصلہ کیا جاتا اور ممیز کیا جاتا ہے، ہر کونی وقدری اور شرعی حکم کو جس کا اللہ تعالیٰ فیصلہ فرماتا ہے لکھ لیا جاتا ہے۔ یہ کتاب اور تفریق و امتیاز جو لیلتہ القدر کو ہوتی ہے، ان کتابات )لکھائیوں( میں سے ایک ہے جسے لکھا جاتا اور ممیز کیا جاتا ہے۔ وہ اولین کتاب کے مطابق ہوتی ہے جس میں اللہ تعالیٰ مخلوقات کی تقدیر، ان کا وقت مقرر، ان کا رزق، ان کے اعمال اور ان کے اموال وغیرہ درج کردیتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرشتے مقرر کردیئے ہیں کہ جو بندے پر گزرے گا وہ لکھ دیتے ہیں اور جب بندہ ماں کے پیٹ سے باہر دنیا میں قدم رکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر کراماً کاتبین مقرر کردیتا ہے جو اس کے اعمال لکھتے رہتے ہیں۔ الدخان
5 اللہ تعالیٰ لیلۃ القدر کو سال بھر میں پیش آنے والے واقعات کو مقدر کردیتا ہے۔ یہ سب اس کے کمال علم، کمال حکمت، اس کی بہترین حفاظت اور اپنی مخلوق کے ساتھ کامل اعتنا کی بنا پر ہے۔ ﴿أَمْرًا مِّنْ عِندِنَا﴾ یعنی حکمت سے لبریز یہ حکم ہماری طرف سے صادر ہوتا ہے۔ ﴿إِنَّا كُنَّا مُرْسِلِينَ﴾ ہم رسول بھیجتے ہیں اور کتابیں نازل کرتے ہیں۔ یہ رسول اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچاتے اور اس کی تقدیر سے باخبر کرتے ہیں۔ الدخان
6 ﴿رَحْمَةً مِّن رَّبِّكَ﴾ یعنی رسول بھیجنا اور کتابیں نازل کرنا آپ کے رب کی رحمت کی بنا پر ہے۔ ان کتابوں میں افضل ترین کتاب قرآن کریم ہے جو بندوں کے رب کی طرف سے بندوں پر رحمت کی بنا پر ہے۔ ان کتابوں میں افضل ترین کتاب قرآن کریم ہے جو بندوں کے رب کی طرف سے بندوں پر رحمت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندوں پر اس سے بڑھ کر کوئی اور رحمت نہیں کہ وہ کتابوں اور رسولوں کے ذریعے سے انہیں ہدایت سے نوازتا ہے۔ دنیا و آخرت کی جس بھلائی سے بھی وہ بہرہ مند ہیں اس کا سبب اللہ تعالیٰ کی رحمت ہی ہے۔ ﴿إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ ﴾ یعنی وہ تمام آوازوں کو سنتا ہے اور تمام ظاہری اور باطنی امور کو جانتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو علم ہے کہ بندوں کو اس کے رسولوں اور اس کی کتابوں کی ضرورت ہے۔ پس اس نے ان پر رحم کرتے ہوئے احسان فرمایا۔ اللہ تعالیٰ ہی حمد و ستائش اور احسان کا مالک ہے۔ الدخان
7 ﴿رَبِّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا ﴾ ” جو آسمانوں اور زمین کا رب ہے اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے۔“ یعنی وہ آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے، ان کی تدبیر کرنے اور اپنی مشیت کے مطابق ان میں تصرف کرنے والا ہے۔ ﴿إِن كُنتُم مُّوقِنِينَ﴾ اگر تم اس کے بارے میں ایسا علم رکھتے ہو جو یقین کا فائدہ دیتا ہے۔ پس جان لو کہ مخلوقات کا رب ہی ان کا معبود برحق ہے۔ الدخان
8 اس لئے فرمایا : ﴿لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ ﴿ يُحْيِي وَيُمِيتُ ﴾ وہ اکیلا ہی زندگی عطا کرتا اور موت دیتا ہے۔ وہ تمہارے مرنے کے بعد تمہیں اکٹھا کرے گا اور تمہارے اعمال کی جزا و سزا دے گا۔ اگر اعمال اچھے ہوئے تو اچھی جزا ہوگی اور اگر اعمال برے ہوئے تو بری جزا ہوگی ﴿رَبُّكُمْ وَرَبُّ آبَائِكُمُ الْأَوَّلِينَ﴾ یعنی وہ اولین و آخرین کا رب، نعمتوں کے ذریعے سے ان کی تربیت کرنے والا اور ان سے سختیوں کو دور کرنے والا ہے۔ الدخان
9 اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی ربوبیت اور الوہیت کا اثبات کرنے کے بعد جو کہ علم کامل کا موجب ہے اور شک کو دور کرتا ہے، فرمایا کہ کفار اس توضیح و تبین کے باوجود ﴿فِي شَكٍّ يَلْعَبُونَ ﴾ یعنی شکوک و شبہات میں مبتلا ہو کر ان مقاصد سے غافل ہیں جن کے لئے انہیں تخلیق کیا گیا ہے اور لہو و لعب میں مشغول ہیں جو انہیں نقصان کے سوا کچھ نہیں دیتے۔ الدخان
10 ﴿ فَارْتَقِبْ﴾ یعنی ان پر عذاب نازل ہونے کا انتظار کیجیے، یہ عذاب بہت قریب ہے اور اس کا وقت آ پہنچا ہے ﴿يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُّبِينٍ يَغْشَى النَّاسَ﴾ ” جس دن آسمان صریح دھواں لائے گا جو لوگوں پر چھا جائے گا۔“ یہ دھواں سب کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا اور ان سے کہا جائے گا۔ الدخان
11 ﴿هَـٰذَا عَذَابٌ أَلِيمٌ﴾ یہ بہت درد ناک عذاب ہے۔ الدخان
12 الدخان
13 اہل تفسیر میں اس بارے میں اختلاف ہے کہ اس دھوئیں سے کیا مراد ہے، ایک قول یہ ہے کہ یہ وہ دھواں ہے کہ جب مجرم جہنم کی آگ کے قریب پہنچیں گے تو یہ انہیں اپنی لپیٹ میں لے لے گا اور ان کو اندھا کر دے گا، نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو قیامت کے روز جہنم کے عذاب کی وعید سنائی ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم دیا ہے کہ وہ ان کے ساتھ اس دن کا انتظار کریں۔ اس تقسیم کی اس بات سے تائید ہوتی ہے کہ قرآن کا طریقہ یہ ہے کہ وہ قیامت کے روز کے بارے میں کفار کو وعید سناتا ہے اور اس روز کے عذاب سے انہیں ڈراتا ہے۔ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مومنین کو تسلی دیتے ہوئے ان کو تکلیفیں پہنچانے والے کفار کے بارے میں انتظار کا حکم دیتا ہے، نیز اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں فرمایا : ﴿أَنَّىٰ لَهُمُ الذِّكْرَىٰ وَقَدْ جَاءَهُمْ رَسُولٌ مُّبِينٌ﴾ ” اس وقت ان کو نصیحت کہاں مفید ہوگی جب کہ ان کے پاس واضح رسول پہنچ چکے۔“ یہ ارشاد کفار کو قیامت کے روز اس وقت سنایا جائے گا، جب وہ دنیا میں دوبارہ بھیجے جانے کی درخواست کریں گے لہٰذا ان سے کہا جائے گا کہ دنیا میں لوٹ جانے کا وقت گزر چکا ہے۔ اس کی تفسیر میں دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد وہ عذاب ہے جو کفار قریش پر اس وقت نازل ہوا جب انہوں نے ایمان لانے سے انکار کردیا اور حق کے مقابلے میں تکبر کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے لئے بد دعا فرمائی ))اللَّهُمَّ اجْعَلْهَا عَلَيْهِمْ سِنِينَ كَسِنِي يُوسُفَ(( ” اے اللہ ! ان پر قحط سالی فرما جیسا کہ حضرت یوسف کے زمانے میں قحط کے سال تھے۔“ [صحیح البخاری، الادب، باب تسمیۃ الولید، حدیث :620 و صحیح مسلم، صفات المنافقین، باب الدخان، حدیث 2898 )پس اللہ تعالیٰ نے ان پر بہت بڑا قحط بھیجا یہاں تک کہ وہ مردار اور ہڈیاں کھانے پر مجبور ہوگئے اور ان کی یہ حالت ہوگئی کہ انہیں آسمان اور زمین کے درمیان دھواں سا نظر آتا تھا، حالانکہ دھواں نہیں تھا۔ یہ کیفیت بھوک کی شدت کی وجہ سے تھی۔ تب اس تفسیر کے مطابق اللہ تعالیٰ کے ارشاد : ﴿ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ ﴾ سے مراد یہ ہے کہ جو وہ مشاہدہ کریں گے وہ ان کی بصارت کی نسبت سے ہوگا وہ حقیقت میں دھواں نہیں ہوگا۔ ان پر یہی حالت طاری رہی یہاں تک کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے رحم کی بھیک مانگتے ہوئے درخواست کی کہ وہ ان کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ ان کی بصارت کی نسبت سے ہوگا وہ حقیقت میں دھواں نہیں ہوگا۔ ان پر یہی حالت طاری رہی یہاں تک کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے رحم کی بھیک مانگتے ہوئے درخواست کی کہ وہ ان کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ ان سے اس قحط کو دور کر دے پس اللہ تعالیٰ نے اس قحط کو ہٹا دیا۔ الدخان
14 الدخان
15 تب اس تفسیر کے مطابق اللہ تعالیٰ کے ارشاد : ﴿ إِنَّا كَاشِفُو الْعَذَابِ قَلِيلًا إِنَّكُمْ عَائِدُونَ﴾ ” ہم تھوڑے دنوں کے لئے عذاب ٹال دیتے ہیں مگر تم پھر (کفر کی طرف) لوٹ آتے ہو۔“ میں اس بات کی خبر کہ اللہ تعالیٰ عنقریب تم سے اس عذاب کو ہٹا دے گا اور یہ ان کے تکبر اور تکذیب کے رویہ کو دوبارہ اختیار کرنے پر سخت وعید ہے، نیز اس عذاب کے وقوع کی پیش گوئی ہے۔ پس یہ عذاب واقع ہوا اور اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ وہ عنقریب انہیں ایک زبردست عذاب کی گرفت میں لے گا اور (بعض) اہل علم کا خیال ہے کہ اس سے مراد جنگ بدر ہے۔ یہ قول بظاہر محل نظر ہے۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ یہ قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے کہ آخری زمانے میں ایک دھواں لوگوں کو اپنی گرفت میں لے لے گا اور وہ سانس نہیں لے سکیں گے مگر اہل ایمان کو دھواں بس عام دھوئیں کی طرح تکلیف دے گا۔ پہلا قول صحیح تفسیر ہے۔ آیات کریمہ ﴿فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُّبِينٍ يَغْشَى النَّاسَ هَـٰذَا عَذَابٌ أَلِيمٌ رَّبَّنَا اكْشِفْ عَنَّا الْعَذَابَ إِنَّا مُؤْمِنُونَ أَنَّىٰ لَهُمُ الذِّكْرَىٰ وَقَدْ جَاءَهُمْ رَسُولٌ مُّبِينٌ ثُمَّ تَوَلَّوْا عَنْهُ وَقَالُوا مُعَلَّمٌ مَّجْنُونٌ﴾ ” میں اس امر کا بھی احتمال موجود ہے کہ یہ سب کچھ قیامت کے روز واقع ہوگا۔ اور رہا اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ﴿ إِنَّا كَاشِفُو الْعَذَابِ قَلِيلًا ۚ إِنَّكُمْ عَائِدُونَ يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرَىٰ إِنَّا مُنتَقِمُونَ ﴾ ” تو یہ ان واقعات کی طرف اشارہ ہے جو قریش کو پیش آئے۔ جیسا کہ گزشتہ سطور میں گزر چکا ہے۔ جب ان آیات کریمہ کو ان دونوں معنی معنی پر محمول کیا جائے تو آپ آیات کے الفاظ میں کوئی ایسی چیز نہیں پائیں گے جو اس سے مانع ہو بلکہ آپ ان کے الفاظ کو ان معانی کے پوری طرح مطابق پائیں گے، میرے نزدیک یہی معنی ظاہر اور راجح ہے۔ وَاللہ اَعْلَمُ الدخان
16 الدخان
17 رسول مصطفی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تکذیب کرنے والوں کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا کہ گزشتہ زمانوں میں بھی جھٹلانے والے موجود تھے اور ان کا قصہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ذکر فرمایا، نیز اس عذاب کا ذکر فرمایا جو اللہ تعالیٰ نے ان پر نازل کیا تاکہ جھٹلانے والے اپنے اس رویے سے باز آجائیں فرمایا : ﴿وَلَقَدْ فَتَنَّا قَبْلَهُمْ قَوْمَ فِرْعَوْنَ ﴾ ” یعنی ہم نے اپنے رسول کریم حضرت موسیٰ بن عمر ان علیہ السلام کو ان کی طرف مبعوث کر کے انہیں آزمایا جن میں بھلائی اور مکارم اخلاق بدرجہ اتم موجود تھے جو کسی اور میں موجود نہ تھے۔ الدخان
18 ﴿أَنْ أَدُّوا إِلَيَّ عِبَادَ اللّٰـهِ﴾ یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون اور اس کے سرداروں سے کہا ” اللہ کے بندوں کو میرے حوالے کردو۔“ اس سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی مراد بنی اسرائیل تھے، یعنی بنی اسرائیل کو میرے ساتھ بھیج دو اور اپنے بدترین عذاب سے انہیں رہائی دے دو، کیونکہ بنی اسرائیل میرا قبیلہ ہے اور اپنے زمانے میں یہ افضل ترین لوگ ہیں۔ تم نے ان کو ناحق غلام بنا کر ان پر ظلم روا رکھا ہے۔ ان کو آزادی دے دو تاکہ یہ اپنے رب کی عبادت کریں۔ ﴿إِنِّي لَكُمْ رَسُولٌ أَمِينٌ ﴾ میں رب کائنات کی طرف سے رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں اور جو پیغام میرے ذریعے سے بھیجا گیا ہے میں اس پر امین ہوں، میں اس میں سے تم سے کچھ نہیں چھپاتا، میں اس میں کچھ اضافہ کرتا ہوں نہ اس میں کمی کرتا ہوں اور یہ چیز کامل اطاعت کی موجب ہے۔ الدخان
19 ﴿وَأَن لَّا تَعْلُوا عَلَى اللّٰـهِ﴾ ” اور اللہ کے مقابلے میں سرکشی نہ کرو۔“ تکبر و استکبار سے اللہ تعالیٰ کی عبادت سے اپنے آپ کو بلند نہ سمجھو اور اللہ تعالیٰ کے بندوں کے ساتھ تکبر سے پیش نہ آؤ۔ ﴿إِنِّي آتِيكُم بِسُلْطَانٍ مُّبِينٍ﴾ ” بے شک میں تمہارے پاس ایک واضح دلیل لے کر آیا ہوں۔“ اس سے مراد وہ بڑے بڑے معجزات اور وہ زبردست اور ناقابل تردید دلائل ہیں جو حضرت موسیٰ علیہ السلام لے کر تشریف لائے۔ الدخان
20 انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تکذیب کی اور ان کو قتل کرنے کا ارادہ کیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان کے شر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ لیتے ہوئے کہا: ﴿وَإِنِّي عُذْتُ بِرَبِّي وَرَبِّكُمْ أَن تَرْجُمُونِ یعنی میں اس بات سے اپنے اور تمہارے رب کی پناہ مانگتا ہوں کہ تم بدترین طریقے، یعنی رجم کے ذریعے سے مجھے قتل کرو۔ الدخان
21 ﴿وَإِن لَّمْ تُؤْمِنُوا لِي فَاعْتَزِلُونِ ﴾ ” اور اگر تم مجھ پر ایمان نہیں لاتے تو مجھ سے الگ رہو۔“ یعنی تمہارے لئے تین راستے ہیں : )1( مجھ پر ایمان لے آؤ اور یہی تم سے میرا مطلوب و مقصود ہے۔ )2( اگر مجھے تم سے یہ مقصد حاصل نہیں ہوتا تو مجھے میرے حال پر چھوڑ دو، تم میری مخالفت کرو نہ میری تائید کرو مجھ سے اپنے شر کو دور رکھو۔ )3( پس ان کفار سے پہلا اور دوسرا مقصد حاصل نہ ہوا بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کی جناب میں سرکشی ہی کرتے رہے اور اس کے نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے خلاف جنگ نہ چھوڑی اور نہ ان کی قوم بنی اسرائیل کو ان کے ساتھ روانہ کیا۔ الدخان
22 ﴿فَدَعَا رَبَّهُ أَنَّ هَـٰؤُلَاءِ قَوْمٌ مُّجْرِمُونَ﴾ ” انہوں نے اپنے رب سے دعا کی کہ یہ مجرم لوگ ہیں۔“ انہوں نے ایسے جرم کا ارتکاب کیا ہے جو فوری سزا کا موجب ہے۔ پس حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی قوم کا حال بیان کیا اور زبان حال کے ذریعے سے یہ دعا کی جو کہ زبان مقال سے زیادہ بلیغ ہے جیسا کہ خود اپنے لیے )زبان مقال سے( یہ دعا کی تھی: ﴿رَبِّ إِنِّي لِمَا أَنزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ﴾ (القصص:28؍24)” اے میرے رب ! جو بھلائی تو مجھ پر نازل کرے میں اس کا محتاج ہوں۔“ الدخان
23 اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حکم دیا کہ وہ اس کے بندوں کو لے کر راتوں رات نکل جائیں اور یہ بھی بتا دیا کہ فرعون اور اس کی قوم ان کا پیچھا کرے گی۔ الدخان
24 ﴿وَاتْرُكِ الْبَحْرَ رَهْوًا﴾ ” سمندر کو اس کے حال پر کھلا (ساکن)چھوڑ دے۔“ یہ واقعہ اس طرح ہے کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق بنی اسرائیل کو لے کر رات کے وقت نکل پڑے اور فرعون نے ان کا تعاقب کیا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حکم دیا کہ وہ سمندر پر اپنا عصا ماریں، انہوں نے سمندر پر اپنا عصا مارا تو سمندر میں بارہ راستے بن گئے اور سمندر كا پانی ان راستوں کے مابین پہاڑوں کے مانند کھڑا ہو گیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم سمندر میں سے گزر گئی۔ جب بنی اسرائیل سمندر سے باہر نکل آئے تو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حکم دیا کہ وہ سمندر کو اسی طرح اس کے حال پر چھوڑ دیں، تاکہ فرعون اور اس کے لشکر ان راستوں میں داخل ہوجائیں۔ ﴿إِنَّهُمْ جُندٌ مُّغْرَقُونَ ﴾ ” یقیناً وہ ایسا لشکر ہے جو غرق دیا جائے گا۔ “ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم مکمل طور پر سمندر سے باہر نکل آئی اور فرعون کے لشکر سب کے سب سمندر میں داخل ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے سمندر کو حکم دیا کہ وہ اپنی موجوں کے ذریعے سے ان کو اپنی لپیٹ میں لے لے۔ وہ آخری آدمی تک سب غرق ہوگئے اور دنیاوی مال و متاع چھوڑ گئے اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو اس کا وارث بنا دیا جو ان کے غلام بن کر رہ رہے تھے۔ الدخان
25 بنابریں فرمایا : ﴿كَمْ تَرَكُوا مِن جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ وَزُرُوعٍ وَمَقَامٍ كَرِيمٍ وَنَعْمَةٍ كَانُوا فِيهَا فَاكِهِينَ كَذَٰلِكَ وَأَوْرَثْنَاهَا﴾ ” وہ بہت سے باغ اور چشمے چھوڑ گئے اور کھیتیاں اور عمدہ و نفیس مکان اور آرائش کے سامان جن میں وہ مزے سے رہتے تھے، یہ بات اسی طرح ہے اور ہم نے اس کا وارث بنایا۔“ یعنی اس مذکورہ نعمت کا ﴿قَوْمًا آخَرِينَ﴾ ” دوسرے لوگوں کو“ ایک دوسری آیت کریمہ میں آتا ہے : ﴿كَذَٰلِكَ وَأَوْرَثْنَاهَا بَنِي إِسْرَائِيلَ﴾ (الشعراء :26؍59) ” اسی طرح ہم نے بنی اسرائیل کو ان چیزوں کا وارث بنا دیا۔“ الدخان
26 الدخان
27 الدخان
28 الدخان
29 ﴿فَمَا بَكَتْ عَلَيْهِمُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ﴾ جب اللہ تعالیٰ نے ان کو ہلاک کر کے نیست و نابود کردیا تو ان پر آسمان رویا نہ زمین، یعنی ان کے لئے کسی نے حزن و غم کا اظہار کیا نہ ان کی جدائی پر کسی کو افسوس ہوا بلکہ ان کی ہلاکت اور بربادی پر سب خوش ہوئے حتیٰ کہ زمین و آسمان نے بھی مسرت کا اظہار کیا کیونکہ انہوں نے اپنے پیچھے ایسے کرتوت چھوڑے ہیں جو ان کے چہروں کو سیاہ کرتے ہیں اور ان پر لعنت اور لوگوں کی ناراضی کا موجب ہیں۔ ﴿وَمَا كَانُوا مُنظَرِينَ﴾ یعنی عذاب کو ٹال کر ان کو مہلت نہ دی گئی بلکہ اسی وقت ان کو نیست و نابود کردیا گیا۔ الدخان
30 پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر اپنے احسان کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ وَلَقَدْ نَجَّيْنَا بَنِي إِسْرَائِيلَ مِنَ الْعَذَابِ الْمُهِينِ ﴾ ” اور ہم نے بنی اسرائیل کو ذلت کے عذاب سے نجات دی۔“ جس میں وہ مبتلا تھے۔ الدخان
31 ﴿مِن فِرْعَوْنَ﴾ ” فرعون سے۔“ جبکہ فرعون ان کے بیٹوں کو ذبح کرتا تھا اور ان کی بیٹیوں کو چھوڑ دیتا تھا۔ ﴿إِنَّهُ كَانَ عَالِيًا﴾ بلا شبہ وہ زمین میں ناحق تکبر کرتا تھا۔ ﴿ مِّنَ الْمُسْرِفِينَ﴾ وہ اللہ تعالیٰ کی حدود سے تجاوز کرنے والوں اور اس کے محارم کے ارتکاب کی جسارت کرنے والوں میں سے تھا۔ الدخان
32 ﴿وَلَقَدِ اخْتَرْنَاهُمْ﴾ اور ہم نے انہیں پاک صاف کر کے چن لیا۔ ﴿عَلَىٰ عِلْمٍ﴾ ان کے متعلق اپنے علم کی بنا پر اور اس فضیلت کے لئے ان کے استحقاق کی بنا پر ﴿ععَلَى الْعَالَمِينَ﴾ اپنے زمانے، اپنے سے پہلے اور بعد کے زمانے کے تمام لوگوں پر یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ امت محمدیہ کو لے آیا اور اس کو تمام جہانوں پر فضیلت دی، اسے بہترین امت قرار دیا جو تمام دنیا کی راہنمائی کے لئے کھڑی کی گئی اور اللہ تعالیٰ نے ان پر وہ احسانات کئے جو دوسروں پر نہ کئے۔ الدخان
33 ﴿وَآتَيْنَاهُم﴾ اور ہم نے بنی اسرائل کو عطا کئے ﴿مِّنَ الْآيَاتِ﴾ بڑے واضح معجزات اور ظاہری نشانیاں ﴿ مَا فِيهِ بَلَاءٌ مُّبِينٌ ﴾ ” جن میں صاف اور صریح آزمائش تھی۔“ یہ ہماری طرف سے ان پر بہت بڑا احسان اور ان کے نبی موسیٰ علیہ السلام جو کچھ ان کے پاس لے کر آئے ہیں اس پر ایک دلیل ہے۔ الدخان
34 اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے : ﴿ إِنَّ هَـٰؤُلَاءِ﴾ بے شک یہ جھٹلانے والے لوگ، مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے اور قیامت کو بہت بعید سمجھتے ہوئے کہتے ہیں: الدخان
35 ﴿إِنْ هِيَ إِلَّا مَوْتَتُنَا الْأُولَىٰ وَمَا نَحْنُ بِمُنشَرِينَ ﴾ ” یہ ہماری بس پہلی بار کی موت ہے اور ہم دوبارہ اٹھائے نہیں جائیں گے۔“ یعنی یہ ہماری صرف دنیا ہی کی زندگی ہے، مرنے کے بعد دوبارہ اٹھایا جائے گا نہ جنت اور جہنم کا کوئی وجود ہے۔ پھر انہوں نے اللہ تعالیٰ کی جناب میں گستاخی کرتے ہوئے اور اسے عاجز سمجھتے ہوئے کہا : الدخان
36 ﴿فَأْتُوا بِآبَائِنَا إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ﴾ ” پس اگر تم سچے ہو تو ہمارے باپ دادا کو زندہ کر لاؤ۔“ یہ عناد پسند جہلاء کا مطالبہ تھا جو بہت دور کی کوڑی لائے تھے۔ بھلا! رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت اور ان جہلاء کے آباء و اجداد کو زندہ کر کے ان کے سامنے لانے میں کون سا تلازم ہے؟ آپ کی دعوت کی صداقت پر آیات و دلائل ہر لحاظ سے نہایت تواتر سے دلالت کرتے ہیں۔ الدخان
37 اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿ أَهُمْ خَيْرٌ﴾ ” کیا یہ بہتر ہیں؟“ یعنی یہ مخاطبین ﴿أَمْ قَوْمُ تُبَّعٍ وَالَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ۚ أَهْلَكْنَاهُمْ ۖ إِنَّهُمْ كَانُوا مُجْرِمِينَ﴾ ” یا قوم تبع اور وہ لوگ جو ان سے پہلے ہوچکے۔ ہم نے انہیں ہلاک کردیا بے شک وہ مجرم تھے۔“ پس یہ لوگ قوم تبع وغیرہ سے بہتر نہیں، یہ بھی جرم کے ارتکاب میں ان کے شریک ہیں۔ پس یہ بھی اس ہلاکت کی توقع رکھیں جو ان کے جرم شریک بھائیوں پر واقع ہوئی تھی۔ الدخان
38 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی قدرت کاملہ اور حکمت تامہ کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے کہ اس نے آسمانوں اور زمین کو کھیل تماشے کے طور پر، عبث اور بے فائدہ پیدا نہیں کیا، نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو حق کے ساتھ پیدا کیا، ان کا پیدا کرنا ہی حق ہے اور ان کی پیدائش حق ہی پر مشتمل ہے، اللہ تعالیٰ نے ان کو اس لئے وجود بخشا ہے تاکہ وہ اللہ واحد کی عبادت کریں تاکہ وہ اپنے بندوں کو حکم دے اور منع کرے، ان کو ثواب عطا کرے اور سزا دے۔ الدخان
39 ﴿وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ﴾ ” لیکن ان سب میں سے اکثر نہیں جانتے۔“ اس لئے انہوں نے آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں کبھی غور و فکر نہیں کیا۔ الدخان
40 ﴿إِنَّ يَوْمَ الْفَصْلِ ﴾ ” بے شک فیصلے کا دن“ اس سے مراد قیامت کا دن ہے جب اللہ اولین و آخرین اور اختلاف کرنے والوں کے درمیان فیصلہ کرے گا۔ ﴿مِيقَاتُهُمْ أَجْمَعِينَ ﴾ یعنی تمام خلائق کے لئے ایک وقت مقرر ہے اس وقت میں اللہ تعالیٰ سب کو جمع کرے گا، ان کو اور ان کے اعمال کو اپنے سامنے حاضر کرے گا اور ان کو ان کے اعمال کی جزا و سزا دے گا۔ الدخان
41 اس دن کوئی رشتہ دار اپنے کسی رشتہ دار کے کام آئے گا نہ کوئی دوست کسی دوست کے کام آئے گا۔ ﴿وَلَا هُمْ يُنصَرُونَ ﴾ ” اور نہ انہیں کہیں سے کوئی مدد ملے گی۔“ نہ ان کو اللہ کے عذاب سے بچایا جا سکے گا کیونکہ مخلوق میں سے کوئی ہستی کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتی۔ الدخان
42 ﴿إِلَّا مَن رَّحِمَ اللّٰـهُ إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ ﴾ ” مگر جس پر اللہ مہربانی کرے، وہ تو غالب، مہربان ہے۔“ پس یہی لوگ ہوں گے جو فائدہ اٹھائیں گے اور اللہ تعالیٰ کی رحمت سے بلند مرتبہ پر فائز ہوں گے جس کو انہوں نے دنیا کے اندر مراتب کے حصول کا سبب اور اس کے لئے پوری کوشش کی، پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: الدخان
43 جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے قیامت کا ذکر فرمایا، نیز یہ بھی واضح فرمایا کہ اس دن اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ کرے گا تو اس کے بعد فرمایا کہ بندے دو گروہوں میں تقسیم ہوں گے، ان میں سے ایک فریق جنت میں جائے گا اور ایک گروہ جہنم میں اور جہنم میں جانے والے وہ لوگ ہیں جنہوں نے کفر اور معاصی کا ارتکاب کیا اور ﴿إِنَّ﴾ ” بے شک“ ان کا کھانا ﴿ شَجَرَتَ الزَّقُّومِ﴾ ” زقوم کا درخت ہوگا۔“ الدخان
44 الدخان
45 جو بدترین اور سب سے گندا درخت ہے۔ اس درخت کا ذائقہ ﴿ كَالْمُهْلِ ﴾ بدبو دار پیپ کے مانند ہے جس کی بو اور ذائقہ انتہائی گندا اور وہ سخت گرم ہوگا۔ وہ ان کے پیٹوں میں اس طرح جوش کھائے گا ﴿ كَغَلْيِ الْحَمِيمِ﴾ ” جس طرح کھولتا ہوا پانی جوش کھاتا ہے۔ “ الدخان
46 الدخان
47 الدخان
48 الدخان
49 عذاب میں گرفتار مجرم سے کہا جائے گا : ﴿ذُقْ﴾ اس درد ناک عذاب اور بدترین سزا کا مزا چکھ ﴿ إِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْكَرِيمُ﴾ ” تو اپنے آپ کو بڑا معزز اور شریف سمجھتا تھا۔“ یعنی تو اپنے زعم کے مطابق بہت زبردست اور طاقتور تھا اور سمجھتا تھا کہ تو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچ جائے گا اور تو اللہ تعالیٰ کے ہاں اپنے آپ کو بہت باعزت سمجھتے ہوئے خیال کرتا تھا کہ وہ تجھے عذاب میں مبتلا نہیں کرے گا۔ آج تجھ پر واضح ہوگیا کہ تو انتہائی ذلیل و رسوا ہے۔ الدخان
50 ﴿إِنَّ هَـٰذَا﴾ بے شک یہ عذاب عظیم وہ ہے ﴿مَا كُنتُم بِهِ تَمْتَرُونَ ﴾ جس کے بارے میں تم شک کیا کرتے تھے، اب تمہیں اس کے بارے میں حق الیقین حاصل ہوگیا۔ الدخان
51 یہ تقویٰ شعار لوگوں کی جزا ہے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور اس کے عذاب سے ڈر کر گناہوں کو ترک کیا اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی۔ جب ان سے اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور اس کے عذاب کی نفی ہوگئی تو ان کے لئے اللہ تعالیٰ کی رضا ثابت ہوگئی، نیز ثواب عظیم کے طور پر انہیں بے شمار درختوں کے گھنے سائے، پھل اور چشمے عطا ہوں گے، ان درختوں کے نیچے سے نہریں بہتی ہوں گی جن کو اہل ایمان نعمتوں بھری جنت میں اپنے لئے نکال لیں گے۔ الدخان
52 الدخان
53 اللہ تعالیٰ نے جنت کی اضافت نعمتوں کی طرف کی ہے کیونکہ وہ جنت جن چیزوں پر مشتمل ہے وہ سب نعمتیں ہیں جو ہر لحاظ سے کامل ہیں اور کسی طرح بھی ان میں کوئی رکاوٹ اور کسی قسم کا کوئی تکدر نہ ہوگا۔ جنت کے اندر ان کے لئے سبز ریشم اور اطلس کے لباس ہوں گے، یعنی ان کے من پسند دبیز اور باریک ریشم کے لباس ہوں گے۔ ﴿مُّتَقَابِلِينَ﴾ یعنی مکمل راحت، اطمینان، محبت، حسن معاشرت اور بہترین آداب کے ساتھ، ان کے دل اور چہرے ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہوں گے۔ الدخان
54 ﴿كَذَٰلِكَ﴾ یہ نعمت تامہ اور سرور کامل اسی طرح ہوں گے۔ ﴿وَزَوَّجْنَاهُم بِحُورٍ عِينٍ ﴾ اور حسین و جمیل عورتوں کے ساتھ ہم ان کا نکاح کریں گے، جن کے حسن کی وجہ سے نگاہیں حیرت زدہ، ان کے جمال کو دیکھ کر عقل مبہوت اور ان کے کمال کو دیکھ کر خرد فریفتہ ہوجائے گی۔ ﴿عِينٍ ﴾ یعنی وہ بڑی بڑی اور خوبصورت آنکھوں والی ہوں گی۔ الدخان
55 ﴿يَدْعُونَ فِيهَا﴾ ” وہ اس میں منگوائیں گے۔“ یعنی جنت کے اندر ﴿بِكُلِّ فَاكِهَةٍ َ﴾ ” ہر قسم کا پھل۔“ جن میں سے بعض کا تو دنیا میں نام ہے اور بعض کا دنیا میں نام ہے نہ نظیر ہے۔ وہ جب کبھی بھی انواع و اقسام کے پھل اور میوے طلب کریں گے ان کے سامنے بغیر کسی مشقت اور تکلیف کے حاضر کردیئے جائیں گے۔ ﴿آمِنِين﴾ وہ ان پھلوں کے ختم ہونے اور ان کے کسی ضرر کے خوف سے مامون، ہر قسم کے تکدر سے پاک اور جنت سے نکالے جانے اور موت سے محفوظ ہوں گے۔ الدخان
56 ﴿لَا يَذُوقُونَ فِيهَا الْمَوْتَ إِلَّا الْمَوْتَةَ الْأُولَىٰ ﴾ ” وہ وہیں پہلی موت کے علاوہ کسی موت کا ذائقہ نہیں چکھیں گے۔“ جنت میں بالکل موت نہیں آئے گی، اگر جنت میں کوئی موت اس آیت کریمہ سے مستثنیٰ ہوتی تو اللہ تعالیٰ پہلی موت کو جو دنیا کی موت ہے، مستثنیٰ قرار نہ دیتا۔ پس جنت میں ان کے لئے ہر محبوب و مطلوب کی تکمیل ہوگی۔ ﴿وَوَقَاهُمْ عَذَابَ الْجَحِيمِ فَضْلًا مِّن رَّبِّكَ ﴾ ” اور اللہ انہیں جہنم کے عذاب سے بچا لے گا، یہ آپ کے رب کا فضل ہوگا۔“ یعنی نعمتوں کا حاصل ہونا اور عذاب کا دور ہونا اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہوگا کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی نے ان کو اعمال صالحہ کی توفیق سے نوازا جن کی بنا پر وہ آخرت کی بھائی سے سرفراز ہوئے، نیز اللہ تعالیٰ نے ان کو وہ کچھ عطا کیا جو ان کے اعمال کی پہنچ سے باہر تھا۔ الدخان
57 ﴿ذَٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ﴾ ” یہی بہت بڑی کامیابی ہے۔“ اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی جنت سے بہرہ مند ہونے اور اس کی ناراضی اور عذاب سے سلامت رہنے سے بڑھ کر کون سی کامیابی ہوسکتی ہے؟ الدخان
58 ﴿فَإِنَّمَا يَسَّرْنَاهُ﴾ ” پس ہم نے اس )قرآن( کو آسان بنایا۔“ ﴿بِلِسَانِكَ﴾ ” آپ کی زبان میں۔“ یعنی ہم نے اسے آپ کی زبان کے ذریعے سے سہل بنایا جو علی الاطلاق فصیح ترین اور جلیل ترین زبان ہے، اس کے الفاظ اور معانی نہایت آسان ہیں۔ ﴿لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ﴾ ” شاید کہ وہ نصیحت حاصل کریں۔“ کہ وہ ان فوائد پر غور کریں اور جس کام میں ان کا نفع ہے وہ کرلیں اور جس میں ضرر ہے وہ ترک کردیں۔ الدخان
59 ﴿فَارْتَقِبْ﴾ اللہ تعالیٰ نے آپ کے ساتھ جس بھلائی اور نصرت کا وعدہ کیا ہے اس کا انتظار کیجیے۔ ﴿إِنَّهُم مُّرْتَقِبُونَ﴾ وہ بھی اس عذاب کے منتظر ہیں جو ان پر نازل ہونے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دونوں قسم کے انتظار میں فرق کیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دنیا اور آخرت کی بھلائی کا انتظار کرتے ہیں اور اس کے برعکس کفار دنیا و آخرت کے شرکا انتظار کرتے ہیں۔ الدخان
0 سورة الجاثية الجاثية
1 حٰم الجاثية
2 اللہ تبارک و تعالیٰ ایک ایسی خبر دیتا ہے جو قرآن کی تعظیم اور اس کے اہتمام کو متضمن ہے۔ نیز اللہ تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ یہ کتاب ﴿تَنزِيلُ﴾ ” نازل کی گئی ہے۔“ ﴿مِنَ اللّٰـهِ﴾ ” اللہ کی طرف سے۔“ جو معبود ہے کیونکہ وہ صفات کمال سے متصف ہے صرف وہی ہے جو نعمتیں عطا کرتا ہے جو غلبہ کامل اور حکمت تامہ کا مالک ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے آیات افقیہ و نفسیہ کا ذکر کر کے اس کی تائید فرمائی۔ یعنی آسمانوں اور زمین کی تخلیق کا ذکر فرمایا، نیز زمین کے اندر جو چوپائے پھیلائے، آسمان اور زمین میں جو منفعتیں ودیعت کیں، آسمان سے جو پانی نازل کیا جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ زمین اور اپنے بندوں کو زندگی بخشتا ہے، تائید کے لئے ان کا ذکر فرمایا۔ یہ سب اس قرآن عظیم کی صداقت اور ان حکمتوں اور احکام کی صحت کی کھلی نشانیاں اور ان پر واضح دلائل ہیں، نیز یہ اس پر بھی دلالت کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کمال کا مالک ہے، نیز یہ قیامت اور حشر و نشر پر دلالت کرتی ہیں۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی آیات سے انتفاع اور عدم انتفاع کی نسبت سے لوگوں کو دو اقسام میں تقسیم کیا ہے : پہلی قسم کے لوگ وہ ہیں جو ان آیات پر غور و فکر کرتے ہیں اور ان سے استدلال کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں اور یوم آخرت پر کامل ایمان رکھتے ہیں جس نے ان کو درجہ یقین پر پہنچا دیا ہے۔ اس ایمان نے ان کی عقلوں کو پاک کردیا اور یوں ان کے معارف، ان کی خرد اور ان کے ایمان میں اضافہ ہوا۔ دوسری قسم کے لوگ وہ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی آیات سنتے ہیں جن سے ان پر حجت قائم ہوجاتی ہے، پھر وہ تکبر اور استکبار کرتے ہیں اور ان آیات سے منہ پھیر لیتے ہیں، گویا کہ انہوں نے ان آیات کو سنا ہی نہیں کیونکہ ان آیات نے ان کے قلب کا تزکیہ کیا ہے نہ ان کو پاک کیا ہے بلکہ ان آیات کے بارے میں ان کے تکبر کے باعث ان کی سرکشی میں اضافہ ہوا ہے۔ الجاثية
3 الجاثية
4 الجاثية
5 الجاثية
6 الجاثية
7 جب انہیں اللہ تعالیٰ کی آیات کے بارے میں کچھ علم ہوتا ہے تو ان کا تمسخر اڑاتے ہیں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کو ہلاکت کی وعید سناتے ہوئے فرمایا: ﴿وَيْلٌ لِّكُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ﴾ ” ہر جھوٹے، گناہ گار کے لئے ہلاکت ہے۔“ یعنی وہ جو اپنے قول میں سخت جھوٹا اور اپنے فعل میں سخت گناہگار ہے۔ الجاثية
8 الجاثية
9 الجاثية
10 نیز آگاہ فرمایا کہ ان لوگوں کے درد ناک عذاب ہے اور یہ کہ ﴿مِّن وَرَائِهِمْ جَهَنَّمُ﴾ ” ان کے پیچھے جہنم ہے۔“ جو ان کو سخت عذاب دینے کے لئے کافی ہے ﴿وَ﴾ ” اور“ بے شک وہ ﴿لَا يُغْنِي عَنْهُم مَّا كَسَبُوا شَيْئًا ﴾ مال جو وہ کماتے ہیں ان کے کسی کام نہ آئے۔ ﴿وَلَا مَا اتَّخَذُوا مِن دُونِ اللّٰـهِ أَوْلِيَاءَ﴾ اور نہ وہ کام آئیں گے، اللہ کے سوا جن کو انہوں نے کار ساز بنا رکھا تھا جن سے یہ لوگ مدد طلب کرتے تھے۔ پس یہ کار ساز ان کو چھوڑ دیں گے، اگر وہ کوئی نفع پہنچا سکتے ہوتے تو وہ خود سب سے زیادہ اس کے محتاج تھے۔ الجاثية
11 اللہ تعالیٰ نے جب اپنی قرآنی اور کھلی آیات بیان کردیں اور یہ بھی بیان کردیا کہ لوگوں کی اس بارے میں دو قسمیں ہیں تو اس کے بعد خبر دی کہ یہ قرآن جو ان مطالب عالیہ پر مشتمل ہے، وہی ہدایت ہے، فرمایا : ﴿هَـٰذَا هُدًى﴾ ” یہ )قرآن( ہدایت ہے۔“ اور یہ سارے قرآن کا عمومی وصف ہے کہ وہ اپنی صفات مقدسہ اور افعال حمیدہ کے ساتھ اللہ کی معرفت کی رہنمائی کرتا ہے اور اس کے رسولوں، اس کے اولیاء اور اعداء اور ان کے اوصاف کی معرفت کی رہنمائی کرتا ہے اور یہ قرآن نیک اعمال کی معرفت عطا کرتا ہے اور ان کی طرف دعوت دیتا ہے، برے اعمال کو بیان کرتا ہے اور ان سے روکتا ہے۔ قرآن اعمال کی جزا و سزا کو بیان کرتا ہے، جزائے دنیوی اور جزائے اخروی کو واضح کرتا ہے۔ پس ہدایت کے متلاشی لوگوں نے قرآن کے ذریعے سے ہدایت پائی اور یوں وہ فلاح اور سعادت سے بہرہ مند ہوئے۔ ﴿وَالَّذِينَ كَفَرُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ﴾ ” اور جو اپنے رب کی آیات کے منکر ہیں۔“ یعنی اللہ تعالیٰ کی واضح اور قطعی آیات کا انکار کرتے ہیں جن کا انکار صرف وہی لوگ کرسکتے ہیں جو سخت ظالم ہوں اور ان کی سرکشی کئی گنا ہو تو ﴿لَهُمْ عَذَابٌ مِّن رِّجْزٍ أَلِيمٌ ﴾ ” ان کے لئے سخت قسم کا درد ناک عذاب ہے۔ “ الجاثية
12 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں پر اپنے فضل و احسان کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے کہ اس نے اپنے حکم سے آسانی پیدا کر کے جہازوں اور کشتیوں کو چلانے کے لئے سمندر کو مسخر کیا۔ ﴿لِتَبْتَغُوا مِن فَضْلِهِ﴾ تاکہ تم مختلف قسم کی تجارتوں اور مکاسب کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کا فضل تلاش کرسکو۔ ﴿ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ﴾ ” اور تاکہ تم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو۔“ اور جب تم اس کا شکر ادا کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہیں اور زیادہ نعمتیں عطا کرے گا اور تمہاری شکر گزاری پر بہت بڑے اجر سے نوازے گا۔ الجاثية
13 ﴿وَسَخَّرَ لَكُم مَّا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِّنْهُ﴾ ” اور جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے، سب کو تمہارے لئے مسخر کردیا۔“ یعنی اپنے فضل و احسان سے۔ یہ آیت کریمہ آسمانوں اور زمین کے تمام اجسام اور ہر اس چیز کو شامل ہے جو اللہ تعالیٰ نے ان کے اندر ودیعت کی ہے، مثلاً سورج، چاند، کواکب، ستارے، سیارے، حیوانات کی مختلف انواع، درختوں اور پھلوں کی مختلف اصناف، معدنیات کی اقسام اور یدگر چیزیں جن کے اندر بنی آدم کے مصالح اور ان کی ضروریات ہیں۔ یہ چیز اس بات کو واجب ٹھہراتی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے میں پوری کوشش کریں اور اپنے فکر کو اس کی آیات اور حکمتوں میں تدبیر کرنے میں صرف کریں۔ بنابریں فرمایا : ﴿إِنَّ فِي ذٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ ﴾ ” بے شک اس میں غور و فکر کرنے والوں کے لئے نشانیاں ہیں۔“ ان آیات میں سے اس کائنات کی تخلیق، اس کی تدبیر اور اس کی تسخیر ہے جو اللہ تعالیٰ کی مشیت کے نفوذ اور اس کی قدرت کے کمال پر دلالت کرتی ہے۔ اس کائنات میں پائی جانے والی مضبوطی، مہارت، انوکھی صنعت اور حسن تخلیق اس کی حکمت کاملہ اور اس کے علم کی دلیل ہے۔ اس کائنات کی وسعتیں اور اس کی عظمت و کثرت اللہ کے وسیع اقتدار و سلطنت پر دلالت کرتی ہیں۔ اس کائنات میں تخصیصات اور متضاد اشیاء کا وجود، اس حقیقت پر دلالت کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ اس کائنات میں موجود دینی اور دنیاوی منافع و مصالح اس کی بے پایاں رحمت، لامحدود و فضل و احسان اور اس کے گوناگوں لطف و کرم پر دلالت کرتے ہیں اور ان میں سے ہر چیز اس حقیقت پر دلالت کرتی ہے کہ وہ یکتا ہے اور وہی ایک معبود ہے جس کے سوا کوئی اس چیز کا مستحق نہیں کہ اس کی عبادت کی جائے، اس سے محبت کی جائے اور اس کے سامنے تذلل کا اظہار کیا جائے، نیز ہر چیز اس پر بھی دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے رسول جو کچھ لے کر آئے ہیں، سب صداقت پر مبنی ہے۔ یہ واضح عقلی دلائل ہیں جو کسی قسم کے شک و ریب کا شائبہ قول نہیں کرتے۔ الجاثية
14 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ حسن اخلاق سے کام لیں اور ان مشرکین کی ایذا رسانی پر صبر کریں جو ایام الٰہی کی امید نہیں رکھتے، یعنی جو اللہ تعالیٰ کے ثواب کے امیدوار ہیں نہ گناہگاروں کے بارے میں سنت الٰہی سے خائف ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر قوم کو اس کی کمائی کا بدلہ دیتا ہے، پس اے مومنوں کے گروہ ! اللہ تعالیٰ تمہارے ایمان، تمہارے درگزر اور تمہارے صبر کی جزا کے طور پر تمہیں ثواب جزیل سے بہرہ مند کرے گا۔ الجاثية
15 اگر کفار و مشرکین اپنی تکذیب پر جمے رہے تو تم پر پر وہ رسوا کن سخت عذاب نازل نہیں ہوگا جو ان پر نازل ہوگا۔ بنا بریں فرمایا : ﴿مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهِ وَمَنْ أَسَاءَ فَعَلَيْهَا ثُمَّ إِلَىٰ رَبِّكُمْ تُرْجَعُونَ﴾ ” جو کوئی نیک عمل کرتا ہے وہ اپنے لئے کرتا ہے اور جو کوئی برا عمل کرتا ہے تو وہی اس کا خمیازہ بھگتے گا، پھر تم سب اپنے رب کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔“ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا : الجاثية
16 ہم نے بنی اسرائیل کو ایسی ایسی نعمتیں عطا کیں جو دوسروں کو حاصل نہ تھیں۔ ہم نے انہیں ﴿الْكِتَابَ﴾ یعنی تو رات و انجیل سے سرفراز کیا اور ﴿الْحُكْمَ ﴾ ہم نے انہیں لوگوں کے درمیان فیصلہ کرنے کی قوت اور ﴿النُّبُوَّةَ﴾ ” نبوت“ عطا کی۔ نبوت کی وجہ سے وہ دنیا میں ممتاز ہوئے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سب سے زیادہ بنی اسرائیل کے گھرانے میں نبوت رہی۔ ﴿وَرَزَقْنَاهُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ﴾ اور ہم نے انہیں ماکولات، مشروبات اور ملبوسات میں سے پاکیزہ چیزوں سے نوازا اور ان پر من و سلویٰ نازل کیا۔ ﴿وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ﴾ اور ان نعمتوں کے ذریعے سے ہم نے انہیں تمام خلائق پر فضیلت دی۔ اس عموم لفظی سے امت محمد یہ خارج ہے کیونکہ امت محمد یہ بہترین امت ہے جو لوگوں کے لئے بنائی گئی ہے۔ آیت کریمہ کا سیاق دلالت کرتا ہے کہ اس سے امت مسلمہ کے سوا دیگر امتوں پر فضیلت مراد ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ اس نے بنی اسرائیل پر احسان کیا اور انہیں دیگر قوموں سے ممیز کیا۔ الجاثية
17 نیز وہ فضائل جن کی بنا پر بنی اسرائیل کو فوقیت حاصل تھی، مثلاً: کتاب کا عطا کیا جانا، حکومت اور نبوت وغیرہ جیسے دیگر اوصاف تو وہ اس امت کو بھی حاصل ہیں اس کے علاوہ اس امت کے بہت سے فضائل ان پر مستزاد ہیں۔ پھر بنی اسرائیل کی شریعت امت محمدیہ کی شریعت کا ایک جز ہے، یہ کتاب عظیم گزشتہ تمام کتابوں پر نگہبان ہے اور محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گزشتہ تمام رسولوں کی تصدیق کرنے والے ہیں۔ ﴿وَآتَيْنَاهُم﴾ اور ہم نے بنی اسرائیل کو عطا کیے ﴿ بَيِّنَاتٍ ﴾ ” دلائل“ جو حق کو باطل سے واضح کرتے ہیں ﴿مِّنَ الْأَمْرِ﴾ یعنی امر قدری سے جو اللہ تعالیٰ نے ان تک پہنچایا ہے۔ یہ آیات وہ معجزات ہیں جن کا انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ذریعے سے مشاہدہ کیا، یہ ان سے تقاضا کرتی ہیں کہ وہ بہترین طریقے سے ان کو قائم رکھیں، حق پر مجتمع رہیں جس کو اللہ تعالیٰ نے ان کے سامنے واضح کیا ہے مگر انہوں نے اس کے برعکس حق کے ساتھ اس سے متضاد معاملہ کیا جو ان پر واجب تھا۔ پس جس معاملے میں ان کو مجتمع رہنے کا حکم دیا گیا تھا اس میں انہوں نے اختلاف کیا۔ اس لئے فرمایا : ﴿فَمَا اخْتَلَفُوا إِلَّا مِن بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْعِلْمُ ﴾ ” پس انہوں نے جو اختلاف کیا تو علم آجانے کے بعد )آپس کی ضد سے( کیا۔“ یعنی وہ علم جو عدم اختلاف کا موجب تھا صرف ایک دوسرے پر ظلم اور زیادتی نے انہیں اس اختلاف پر آمادہ کیا۔ ﴿إِنَّ رَبَّكَ يَقْضِي بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ﴾ ” جن باتوں میں یہ اختلاف کرتے تھے قیامت کے دن آپ کا رب ان کے درمیان فیصلہ کرے گا۔“ پس وہ حق شعاروں کو ان لوگوں سے علیحدہ کر دے گا جنہوں نے باطل کو اختیار کیا اور جن کو خواہش نفس نے اختلاف پر آمادہ کیا۔ الجاثية
18 یعنی ہم نے آپ کے لئے ایک شریعت کامل کو مشروع کیا جو ہمارے حکم شرعی سے، ہر بھلائی کی طرف بلاتی ہے اور ہر برائی سے روکتی ہے۔ ﴿فَاتَّبِعْهَا﴾ ” پس اس کی اتباع کرو۔“ کیونکہ اس کی اتباع میں ابدی سعادت، صلاح اور فلاح ہے۔ ﴿وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ﴾ ” اور ان لوگوں کی خواہشات کی پیروی نہ کریں جو علم نہیں رکھتے۔“ یعنی وہ لوگ جن کی خواہشات علم کے تابع ہیں نہ علم کی پیروی کرتی ہیں۔ ہر وہ شخص جس کی خواہش اور ارادہ شریعت رسول کے خلاف ہے تو اس کی خواہشات ان لوگوں کی خواہشات کے زمرے میں آتی ہیں جو علم سے بے بہرہ ہیں۔ الجاثية
19 ﴿إِنَّهُمْ لَن يُغْنُوا عَنكَ مِنَ اللّٰـهِ شَيْئًا ﴾ یعنی اگر تو ان کی خواہشات نفس کی پیروی کرے تو یہ اللہ تعالیٰ کے ہاں تجھے کوئی فائدہ نہ دے سکیں گے کہ تجھے کوئی بھلائی حاصل ہو یا تجھ سے کوئی برائی دور ہو۔ تیرے لئے درست نہیں کہ تو ان کی موافقت کرے اور ان سے موالات رکھے کیونکہ آپ اور وہ ایک دوسرے سے علیحدہ ہیں اور وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ ﴿وَاللّٰـهُ وَلِيُّ الْمُتَّقِينَ﴾ ” اور اللہ متقیوں کا درست ہے۔“ اللہ تعالیٰ متقین کو ان کے تقویٰ اور نیک عمل کے سبب سے اندھیروں سے نکال کر روشنی میں لاتا ہے۔ الجاثية
20 ﴿ هَـٰذَا ﴾ یعنی یہ قرآن کریم اور ذکر حکیم ﴿بَصَائِرُ لِلنَّاسِ﴾ ” بصیرتیں ہیں لوگوں کے لئے۔“ یعنی اس کے ذریعے سے لوگوں کو تمام امور میں بصیرت حاصل ہوتی ہے اور اہل ایمان اس سے فائدہ حاصل کرتے ہیں اور یہ قرآن ہدایت اور رحمت ہے ﴿ لِّقَوْمٍ يُوقِنُونَ﴾ ” یقین رکھنے والوں کے لئے“ پس وہ اس کے ذریعے سے دین کے اصول و فروع میں صراط مستقیم کی طرف راہنمائی حاصل کرتے ہیں اور وہ دنیا و آخرت میں بھلائی، مسرت اور سعادت سے بہرہ مند ہوتے ہیں اور یہ رحمت ہے، پس اس سے ان کے نفس پاک ہوتے ہیں، اس سے ان کی عقل میں اضافہ ہوتا ہے اور اس سے ان کا ایمان و یقین بڑھتا ہے اور اس پر حجت قائم ہوتی ہے، جو گمراہی پر اصرار کرتا اور عناد سے کام لیتا ہے۔ الجاثية
21 کیا کثرت سے گناہوں کا ارتکاب کرنے والے گناہ گار لوگوں اور اپنے رب کے حقوق میں کوتاہی کرنے والے سمجھتے ہیں ﴿أَن نَّجْعَلَهُمْ كَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ﴾ ” کہ ہم ان کو ان جیسا کردیں گے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے۔“ یعنی انہوں نے اپنے رب کے حقوق قائم کئے، اسے ناراض کرنے سے اجتناب کیا اور ہمیشہ اس کی رضا کو اپنی خواہشات نفس پر ترجیح دیتے ہیں، یعنی کیا وہ سمجھتے ہیں کہ ﴿ سَوَاءً ﴾ وہ دنیا و آخرت میں مساوی ہوں گے؟ ان کا اندازہ اور ان کا یہ گمان بہت برا ہے اور بہت برا ہے وہ فیصلہ جو انہوں نے کیا ہے کیونکہ یہ ایک ایسا فیصلہ ہے جو احکم الحاکمین، سب سے بڑھ کر عادل ہستی کی حکمت کے خلاف، عقل سلیم اور فطرت مستقیم کے متناقض اور ان اصولوں کے متضاد ہے جنہیں لے کرکتابیں نازل ہوئیں اور جن کے بارے میں انبیاء و مرسلین نے آگاہ کیا۔ فی الواقع قطعی فیصلہ یہ ہے کہ اہل ایمان جو نیک عمل کرتے ہیں ان میں سے ہر ایک کے لئے اس کی نیکی کے مطابق نصرت، فلاح، سعادت اور دنیا و آخرت کا ثواب ہے اور برائیوں کا ارتکاب کرنے والوں کے لئے دنیا و آخرت میں اللہ تعالیٰ کی سخت ناراضی، رسوائی، عذاب اور بدبختی ہے۔ الجاثية
22 یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو حکمت کے ساتھ تخلیق فرمایا تاکہ اسی اکیلے کی عبادت کی جائے جس کا کوئی شریک نہیں، پھر اللہ تعالیٰ ان لوگوں کا محاسبہ کرے گا جن کو اس نے اپنی عبادت کا حکم دیا اور انہیں ظاہری اور باطنی نعمتوں سے نوازا کہ آیا وہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے اس کے احکام کی تعمیل کرتے ہیں یا کفر کا رویہ اختیار کر کے کفار کی سزا کے مستحق بنتے ہیں؟ الجاثية
23 اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿أَفَرَأَيْتَ﴾ کیا آپ نے اس گمراہ شخص کو دیکھا؟ ﴿مَنِ اتَّخَذَ إِلَـٰهَهُ هَوَاهُ﴾ ” جس نے اپنی خواہش نفس کو معبود بنا لیا۔“ جس راستے پر چاہا چلتا رہا، خواہ اس راستے پر چلنے کو اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے یا اس کو سخت ناپسند کرتا ہے۔ ﴿وَأَضَلَّهُ اللّٰـهُ عَلَىٰ عِلْمٍ﴾ اللہ تعالیٰ نے یہ جانتے ہوئے اسے گمراہی میں پھینک دیا کہ وہ ہدایت کے لائق نہیں اور نہ ہدایت کے ذریعے سے وہ پاک ہی ہوسکتا ہے۔ ﴿وَخَتَمَ عَلَىٰ سَمْعِهِ﴾ ” اور اس کے کانوں پر مہر لگا دی۔“ اس لئے وہ کوئی ایسی چیز نہیں سن سکتا جو اس کے لئے فائدہ مند ہو ﴿وَقَلْبِهِ﴾ ” اور اس کے دل پر“ پس وہ بھلائی کو یاد نہیں رکھ سکتا ﴿وَجَعَلَ عَلَىٰ بَصَرِهِ غِشَاوَةً﴾ ” اور اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا۔“ جو اسے حق دیکھنے سے روکتا ہے ﴿فَمَن يَهْدِيهِ مِن بَعْدِ اللّٰـهِ ﴾ ” پس کون ہے جو اس کو اللہ کے بعد ہدایت دے؟“ اس حال میں کہ اللہ تعالیٰ نے اس پر ہدایت کے دروازے بند کردیئے اور گمراہی کے دروازے کھول دیئے، کوئی شخص اس کو ہدایت سے بہرہ مند نہیں کرسکتا۔ اللہ تعالیٰ نے اس پر ظلم نہیں کیا بلکہ اس نے خود اپنے آپ پر ظلم کیا، اس نے ایسے اسباب اختیار کئے جو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مانع تھے۔ ﴿أَفَلَا تَذَكَّرُونَ﴾ ” کیا تم )اس چیز سے( نصیحت نہیں پکڑتے۔“ جو تمہیں فائدہ دے اور تم اسے اختیار کرتے اور جو چیز تمہیں نقصان دے تم اس سے اجتناب کرتے۔ الجاثية
24 ﴿ وَقَالُوا﴾ یعنی منکرین آخرت کہتے ہیں : ﴿مَا هِيَ إِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوتُ وَنَحْيَا وَمَا يُهْلِكُنَا إِلَّا الدَّهْرُ﴾ ” یہ تو سب صرف عادات ہیں اور گردش لیل و نہار کے ساتھ جاری ہیں کچھ لوگ مر جاتے ہیں اور کچھ لوگ جنم لیتے ہیں جو کوئی مر جاتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹ کر نہیں جاتا اور نہ اس کو اس کے عمل کی جزا و سزا ہی دی جائے گی۔ ان کا یہ قول بغیر کسی علم کے صادر ہوا ہے۔ ﴿إِنْ هُمْ إِلَّا يَظُنُّونَ﴾ پس انہوں نے معاد کا انکار کیا اور کسی دلیل و برہان کے بغیر سچے رسولوں کی تکذیب کی۔ یہ محض وہم و گمان اور ایسے استبعادات ہیں جو حقیقت سے خالی ہیں۔ الجاثية
25 بنا بریں فرمایا : ﴿وَإِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا بَيِّنَاتٍ مَّا كَانَ حُجَّتَهُمْ إِلَّا أَن قَالُوا ائْتُوا بِآبَائِنَا إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ﴾ ” اور جب ان پر ہماری واضح آیات پڑھی جاتی ہیں تو اس کے سوا ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ہوتی کہ وہ کہہ دیتے ہیں: اگر تم سچے ہو تو ہمارے آباؤ اجداد کو اٹھا لاؤ۔“ یہ ان کی طرف سے اللہ تعالیٰ کی جناب میں گستاخی ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ سے یہ مطالبہ کیا اور اس زعم باطل میں مبتلا ہوئے کہ اللہ تعالیٰ کے رسولوں کی صداقت اس بات پر موقوف ہے کہ ان کے آباؤ و اجداد کو زندہ کر کے ان کے سامنے لایا جائے۔ انبیاء و رسل ان کے پاس کوئی بھی نشانی لے آئیں وہ ہرگز نہیں مانیں گے جب تک کہ رسول ان کا وہ مطالبہ پورا نہیں کرتے جو انہوں نے پیش کیا ہے۔ الجاثية
26 وہ اپنے قول میں سخت جھوٹے ہیں ان کا مقصد بیان حق نہیں بلکہ صرف رسولوں کی دعوت کو ٹھکرانا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿قُلِ اللّٰـهُ يُحْيِيكُمْ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يَجْمَعُكُمْ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ لَا رَيْبَ فِيهِ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ ﴾ ” کہہ دیجیے : اللہ ہی تم کو زندہ کرتا، پھر تم کو مارتا ہے پھر تم کو قیامت کے دن جمع کرے گا جس میں کوئی شک نہیں لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔“ اگر یوم آخرت کا علم ان کے دل کی گہرائیوں تک پہنچا ہوتا تو وہ ضرور اس کے لئے تیاری کرتے اور نیک عمل کرتے۔ الجاثية
27 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی بادشاہی کی وسعت اور تمام اوقات میں تصرف اور تدبیر میں اپنے اکیلے ہونے کے بارے میں آگاہ کرتا ہے، نیز خبر دیتا ہے : ﴿يَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ﴾ ” جس روز قیامت برپا ہوگی۔“ اور تمام مخلوق قیامت کے میدان میں جمع ہوگی تو باطل پرستوں کو جنہوں نے حق کو نیچا دکھانے کے لئے باطل کو اختیار کیا، خسارہ حاصل ہوگا۔ ان کے اعمال ضائع ہوں گے کیونکہ وہ باطل سے تعلق رکھتے ہیں۔ قیامت کے دن جب تمام حقائق عیاں ہوں گے تو اس دن ان کے اعمال باطل اور مضمحل ہوجائیں گے، ان کا اجر و ثواب ختم ہوجائے گا اور انہیں درد ناک عذاب ہوگا۔ الجاثية
28 پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے قیامت کے دن کی شدت اور اس کی ہولناکی کا ذکر فرمایا تاکہ لوگوں کو اس سے ڈرائے اور لوگ اس کے لئے تیاری کریں، چنانچہ فرمایا : ﴿ وَتَرَىٰ﴾ اے اس دن کو دیکھنے والے ! تو دیکھے گا کہ ﴿كُلَّ أُمَّةٍ جَاثِيَةً ﴾ ہر امت خوف اور دہشت سے گھٹنوں کے بل گری ہوئی مالک رحمان کے فیصلے کی منتظر ہے۔ ﴿كُلُّ أُمَّةٍ تُدْعَىٰ إِلَىٰ كِتَابِهَا ﴾ ” ہر گروہ کو اس کے اعمال نامے کی طرف بلایا جائے گا۔“ یعنی ہر امت کو اس کے نبی کی شریعت کی طرف بلایا جائے گا جسے لے کر وہ اللہ کی طرف سے مبعوث ہوا تھا کہ آیا انہوں نے اس شریعت کو قائم کیا تھا کہ ان کو ثواب اور نجات حاصل ہو یا انہوں نے اسے ضائع کردیا، تب ان کو خسارہ حاصل ہو؟ تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی امت کو شریعت موسی، حضرت عیسیٰ کی امت کو شریعت عیسیٰ اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کو شریعت محمدی کی طرف بلایا جائے گا۔ اسی طرح دیگر تمام امتوں کو ان کی اپنی اپنی شریعت کی طرف بلایا جائے گا جس کے وہ مکلف تھے۔ آیت کریمہ سے ایک تو اسی معنی کا احتمال ہے اور یہ معنی فی نفسہ صحیح ہے جس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔ اس آیت کریمہ میں ایک اور معنی کا احتمال بھی ہے کہ اللہ کے ارشاد : ﴿ كُلُّ أُمَّةٍ تُدْعَىٰ إِلَىٰ كِتَابِهَا﴾ سے مراد یہ ہو کہ ہر امت کو اس کے نامہ اعمال اور خیر و شر کی طرف سے جو ان کے نامہ اعمال میں درج کیا گیا تھا، بلایا جائے گا اور ہر شخص کو اس کے عمل کی جزا و سزا دی جائے گی۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهِ وَمَنْ أَسَاءَ فَعَلَيْهَا ﴾(الجاثیة:45؍15) ” جو کوئی نیک عمل کرے گا تو اپنے ہی لئے کرے گا اور جو کوئی برائی کا ارتکاب کرے گا تو اس کا وبال بھی اسی پر پڑے گا۔“ یہ احتمال بھی موجود ہے کہ آیت کریمہ سے دونوں معنی مراد ہوں اور اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد اس پر دلیل ہے : الجاثية
29 ﴿هَـٰذَا كِتَابُنَا يَنطِقُ عَلَيْكُم بِالْحَقِّ﴾ ” یہ ہماری تحریر ہے جو تمہارے اوپر ٹھیک ٹھیک گواہی دے رہی ہے۔“ یعنی ہماری یہ کتاب جو آپ پر نازل کی ہے وہ تمہارے درمیان حق اور انصاف سے فیصلہ کرتی ہے۔ ﴿إِنَّا كُنَّا نَسْتَنسِخُ مَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ﴾ ” بے شک جو کچھ تم کرتے تھے ہم لکھواتے جاتے تھے۔‘‘ اس سے مراد نامہ اعمال ہے۔ الجاثية
30 اس لئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے تفصیل سے بیان کیا ہے کہ وہ دونوں گروہوں کے ساتھ کیا سلوک کرے گا لہٰذا فرمایا : ﴿ فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ﴾ جو لوگ صحیح طور پر ایمان لائے اور اعمال صالح، یعنی واجبات اور مستحبات پر عمل کے ذریعے سے اپنے ایمان کی تصدیق کی ﴿فَيُدْخِلُهُمْ رَبُّهُمْ فِي رَحْمَتِهِ﴾ ” پس ان کو ان کا رب اپنی رحمت میں داخل کرے گا۔“ جس کا مقام جنت ہے اور اس میں ہمیشہ رہنے والی نعمتیں اور تکدر سے پاک زندگی ہے۔ ﴿ ذٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْمُبِينُ ﴾ یہی واضح کامیابی، نجات، نفع اور فلاح ہے جو بندے کو جب حاصل ہو تو اسے ہر بھلائی حاصل ہوجاتی ہے اور اس سے ہر برائی دور ہوجاتی ہے۔ الجاثية
31 ﴿ وَأَمَّا الَّذِينَ كَفَرُوا ﴾ اور جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کیا تو انہیں اجر و توبیخ کے طور پر کہا جائے گا : ﴿ أَفَلَمْ تَكُنْ آيَاتِي تُتْلَىٰ عَلَيْكُمْ﴾ ” کیا تم کو ہماری آیتیں پڑھ کر نہیں سنائی جاتی تھیں؟“ ان آیات نے ان امور کی طرف راہنمائی کی جن میں تمہاری بھلائی تھی اور ان امور سے روکا جن میں تمہارے لئے ضرر تھا، یہ سب سے بڑی نعمت تھی جو تم تک پہنچی اگر تم نے ان کی موافقت کی ہوتی لیکن تم نے تکبر کے ساتھ ان سے روگردانی کی اور ان کا انکار کیا، پس اس طرح تم نے سب سے بڑے جرم کا ارتکاب کیا، لہٰذا آج تمہیں تمہارے کرتوتوں کی سزا دی جائے گی۔ الجاثية
32 نیز انہیں زجر و توبیخ کرتے ہوئے یہ بھی کہا جائے گا : ﴿ وَإِذَا قِيلَ إِنَّ وَعْدَ اللّٰـهِ حَقٌّ وَالسَّاعَةُ لَا رَيْبَ فِيهَا ﴾ ” اور جب کہا جاتا تھا کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے اور قیامت میں کوئی شک نہیں تو تم کہتے تھے۔“ اس کا انکار کرتے ہوئے: ﴿ مَّا نَدْرِي مَا السَّاعَةُ إِن نَّظُنُّ إِلَّا ظَنًّا وَمَا نَحْنُ بِمُسْتَيْقِنِينَ ﴾ ” ہمیں نہیں معلوم کہ قیامت کی گھڑی کیا ہوتی ہے، بس ہمیں تو صرف ایک گمان سا ہے اور ہمیں اس پر یقین نہیں ہے۔“ یہ تو تھا ان کا دنیا میں حال اور قیامت کے احوال کے وہ منکر تھے اور جو حیات بعد الموت کی خبر لایا انہوں نے اس کے قول کو ٹھکرا دیا تھا۔ الجاثية
33 اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَبَدَا لَهُمْ سَيِّئَاتُ مَا عَمِلُوا ﴾ یعنی قیامت کے دن ان کے سامنے ان کے اعمال کی سزا ظاہر ہوگی۔ ﴿ وَحَاقَ بِهِم ﴾ اور نازل ہوگا ان پر ﴿ مَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ ﴾ ” جس کا وہ مذاق اڑایا کرتے تھے۔“ یعنی ان پر وہ عذاب نازل ہوگا جس کے واقع ہونے اور اس کے وقوع کی خبر دینے والے کا وہ تمسخر اڑایا کرتے تھے۔ الجاثية
34 ﴿ وَقِيلَ الْيَوْمَ نَنسَاكُمْ ﴾ ” اور کہا جائے گا آج ہم تمہیں بھلا دیں گے۔“ یعنی ہم تمہیں عذاب میں چھوڑ دیں گے۔ ﴿ كَمَا نَسِيتُمْ لِقَاءَ يَوْمِكُمْ هَـٰذَا ﴾ ” جس طرح تم نے اس دن کی ملاقات کو بھلا رکھا تھا۔“ کیونکہ جزا عمل کی جنس میں سے ہوتی ہے۔ ﴿ وَمَأْوَاكُمُ النَّارُ ﴾ یعنی جہنم تمہارا ٹھکانا اور ٹھہرنے کی جگہ ہے۔ ﴿ وَمَا لَكُم مِّن نَّاصِرِينَ ﴾ ” اور تمہارا کوئی مددگار نہیں۔“ جو اللہ تعالیٰ کے عذاب کے مقابلے میں تمہاری مدد کرسکے اور تم سے اللہ تعالیٰ کے عذاب کو ہٹا سکے۔ الجاثية
35 ﴿ ذَٰلِكُم ﴾ یہ عذاب جس میں تم مبتلا ہو اس سبب سے ہے کہ ﴿ اتَّخَذْتُمْ آيَاتِ اللّٰـهِ هُزُوًا ﴾ ” تم نے آیات الٰہی کا تمسخر اڑایا۔“ حالانکہ یہ جدوجہد کی موجب تھیں، نیز اس امر کی موجب تھیں کہ ان کو مسرت، خوش دلی اور فرحت سے قبول کیا جاتا ہے۔﴿ وَغَرَّتْكُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا﴾ اور دنیا نے اپنی چکا چوند اور اپنی لذات و شہوات کے ذریعے سے تمہیں دھوکے میں ڈال دیا، پس تم اس سے مطمئن ہوگئے، اس کے لئے عمل کرتے رہے اور ہمیشہ باقی رہنے والے گھر کے لئے عمل کو چھوڑ بیٹھے۔ ﴿ فَالْيَوْمَ لَا يُخْرَجُونَ مِنْهَا وَلَا هُمْ يُسْتَعْتَبُونَ ﴾ ”پس آج وہ اس (دوزخ) سے نکالے جائیں گے نہ ان کی توبہ قبول کی جائے گی۔“ یعنی انہیں مہلت دی جائے گی نہ انہیں دنیا کی طرف لوٹایا جائے گا کہ وہ نیک عمل کرلیں۔ الجاثية
36 ﴿ فَلِلَّـهِ الْحَمْدُ ﴾ ” پس اللہ ہی کے لئے ہر قسم کی حمد ہے۔“ جیسی کہ اس کے جلال اور اس کی عظمت سلطان کے لائق ہے۔ ﴿ رَبِّ السَّمَاوَاتِ وَرَبِّ الْأَرْضِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ﴾ ” جو آسمانوں اور زمین کا اور سارے جہانوں کا رب ہے۔“ یعنی تمام مخلوقات کی ربوبیت کے بارے میں وہ لائق حمد و ثناء ہے کہ اس نے ان کو تخلیق کیا ان کی تربیت کی اور انہیں ظاہری اور باطنی نعمتوں سے نوازا۔ الجاثية
37 ﴿ لَهُ الْكِبْرِيَاءُ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ﴾ ” اور آسمانوں اور زمین میں اسی کے لئے بڑائی ہے۔“ یعنی وہی جلال، عظمت اور مجد کا مالک ہے۔ پس حمد میں صفات کمال کے ذریعے سے اللہ کی ثنا، اس کی محبت اور اس کا اکرام ہے اور کبریائی میں اس کی عظمت اور اس کا جلال ہے۔ عبادت دو ارکان پر مبنی ہے اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کے سامنے اظہار تدلل اور یہ دونوں چیزیں اللہ تعالیٰ کی حمد، اس کے جلال اور اس کی کبریائی کے علم سے پیدا ہوتی ہیں۔ ﴿ وَهُوَ الْعَزِيزُ ﴾ اور وہ ہر چیز پر غالب ہے ﴿ الْحَكِيمُ ﴾ ” حکمت والا ہے۔“ جس نے تمام اشیاء کو اپنے اپنے مقام پر رکھا ہے۔ اس نے جو چیز بھی مشروع کی وہ حکمت کے تحت مشروع کی ہے اور جو چیز بھی پیدا کی وہ فائدے اور منفعت کے لئے پیدا کی ہے۔ الجاثية
0 سورة الاحقاف الأحقاف
1 حٰم الأحقاف
2 یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنی کتاب عزیز کی ثنا اور تعظیم ہے اور اس ضمن میں بندوں کے لئے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ وہ اس کتاب کی روشنی سے راہ نمائی حاصل کریں، اس کی آیات میں تدبر کریں اور اس کے خزانوں کا استخراج کریں۔ جب اللہ تعالیٰ نے اس کتاب کو نازل کرنے کے بارے میں فرمایا، جو امرو نہی کو متضمن ہے، تو آسمانوں اور زمین کی تخلیق کا بھی ذکر فرمایا، اس نے خلق و امر کو جمع کردیا۔ ﴿ أَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ ﴾ )اعراف :7؍54) یاد رکھو ! اسی نے تخلیق کیا ہے تو حکم بھی اسی کا ہے۔“ جیسا کہ فرمایا : ﴿ اللّٰـهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ يَتَنَزَّلُ الْأَمْرُ بَيْنَهُنَّ ﴾ (الطلاق : 65؍12) ” اللہ وہ ہے جس نے سات آسمان بنائے اور اسی کے مثل زمینیں بھی، اس کا حکم ان کے درمیان اترتا رہتا ہے۔“ اور جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ يُنَزِّلُ الْمَلَائِكَةَ بِالرُّوحِ مِنْ أَمْرِهِ عَلَىٰ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ أَنْ أَنذِرُوا أَنَّهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا أَنَا فَاتَّقُونِ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ ﴾ (النحل : 16؍2،3) ” اللہ ہی فرشتوں کو اپنی وحی دے کر اپنے حکم سے اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اتارتا ہے کہ تم لوگوں کو( اس بات سے) آگاہ کردو کہ بلاشبہ میرے سو اور کوئی معبود نہیں، لہٰذا تم مجھ سے ڈرو۔ اسی نے آسمانوں اور زمین کو حق کے ساتھ پیدا کیا۔“ تو اللہ تعالیٰ ہی نے مکلفین کو پیدا کیا، ان کے مساکن بنائے، ان کے لئے آسمانوں اور زمین کی ہر چیز کو مسخر کردیا، پھر ان کی طرف رسول بھیجے، ان پر اپنی کتابیں نازل کیں، انہیں نیکی کا حکم دیا اور بدی سے روکا، انہیں خبردار کیا کہ یہ دنیا عمل کا گھر اور اہل عمل کیلئے گزرگاہ ہے، یہ دنیا اقامت کی جگہ نہیں کہ اس کے رہنے والے یہاں سے کوچ نہیں کریں گے، وہ عنقریب یہاں سے جائے قرار اور ہمیشہ رہنے والے دائمی ٹھکانے اور اقامت گاہ میں منتقل ہوں گے۔ وہ اس گھر میں اپنے اعمال کی، جو وہ دنیا کرتے رہے ہیں، کامل اور وافر جزا پائیں گے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس گھر کے اثبات کے لئے دلائل قائم کئے اور نمونے کے طور پر اسی دنیا میں بندوں کو ثواب و عقاب کا مزا چکھایا تاکہ امر محبوب کی طلب اور جس امر سے ڈرایا گیا ہے اس سے دور بھاگنے کا داعیہ زیادہ شدت سے پیدا ہو۔ الأحقاف
3 بنابریں فرمایا : ﴿ مَا خَلَقْنَا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا إِلَّا بِالْحَقِّ ﴾ ” ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے، برحق پیدا کیا ہے، یعنی ہم نے آسمانوں اور زمین کو عبث اور بے کار پیدا نہیں کیا بلکہ اس لئے پیدا کیا ہے تاکہ بندے ان کے خالق کی عظمت کو پہنچانیں اور اس کے کمال پر ان سے استدلال کریں اور تاکہ بندے جان لیں کہ وہ ہستی جس نے ان کو پیدا کیا ہے، وہ بندوں کو جزا و سزا کے لئے ان کے مرنے کے بعد دوبارہ پیدا کرنے پر قادر ہے، نیز آسمانوں اور زمین کی تخلیق اور ان کی بقا کا وقت ﴿ أَجَلٍ مُّسَمًّى ﴾ ” ایک مدت مقررہ تک“ معین ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے اس حقیقت سے آگاہ فرمایا۔۔۔ اور وہ سب سے زیادہ سچی بات کہنے والا ہے۔۔۔ اس پر دلائل قائم کیے اور راہ حق کو روشن کردیا، تو اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتادیا کہ مخلوق میں سے ایک گروہ نے حق سے روگردانی کی اور انبیاء و رسل کی دعوت کو ٹھکرایا۔ فرمایا : ﴿وَالَّذِينَ كَفَرُوا عَمَّا أُنذِرُوا مُعْرِضُونَ ﴾ ” اور کافروں کی جس چیز کی نصیحت کی جاتی ہے، وہ اس سے اعراض کرلیتے ہیں“ اور رہے اہل ایمان، تو انہیں جب حقیقت حال کا علم ہوا تو انہوں نے اپنے رب کی نصیحتوں کو قبول کرکے ان کے سامنے سرِ تسلیم خم کردیا اور اطاعت و تعظیم کے ساتھ ان کا سامنا کیا، لہٰذا وہ ہر بھلائی حاصل کرنے اور ہر برائی کو دور کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ الأحقاف
4 ﴿ قُلْ ﴾ یعنی ان لوگوں سے کہہ دیجئے جنہوں نے بتوں اور خود ساختہ معبودوں کو اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرایا، جو کوئی نفع دے سکتے ہیں نہ نقصان، جن کے اختیار میں زندگی ہے نہ موت اور نہ وہ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کرکے اٹھانے کی قدرت ہی رکھتے ہیں۔ ان کے معبودوں کی بے بسی بیان کرتے ہوئے، نیز یہ کہ وہ عبادت کے ذرہ بھر بھی مستحق نہیں، ان سے کہہ دیجئے۔ ﴿ أَرُونِي مَاذَا خَلَقُوا مِنَ الْأَرْضِ أَمْ لَهُمْ شِرْكٌ فِي السَّمَاوَاتِ ﴾ ” مجھے دکھاؤ کہ انہوں نے زمین میں کون سی چیز پیدا کی ہے یا آسمانوں میں ان کی شرکت ہے؟“ کیا انہوں نے اجرام فلکی میں کچھ پیدا کیا، انہوں نے پہاڑ پیدا کیے یا دریا جاری کئے؟ کیا انہوں نے روئے زمین پر حیوانات پھیلائے یا درخت اگائے؟ اور کیا انہوں نے تمام چیزوں کی تخلیق میں معاونت کی ہے؟ دوسروں کی تخلیق تو کجا، خود اپنے اقرار کے مطابق وہ اپنے بارے میں بھی کسی چیز پر قادر نہیں ہیں، پس یہ اس حقیقت پر قطعی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا ہر ہستی کی عبادت باطل ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کے پاس نقلی دلیل کے عدم و جود کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ ائْتُونِي بِكِتَابٍ مِّن قَبْلِ هَـٰذَا ﴾ ” اس سے پہلے کی کوئی کتاب میرے پاس لاؤ۔“ یعنی کوئی ایسی کتاب جو شرک کی دعوت دیتی ہو۔ ﴿ أَوْ أَثَارَةٍ مِّنْ عِلْمٍ ﴾ یا رسولوں کی طرف سے کوئی موروث علم ہو جو ان عقائد کا حکم دیتا ہو۔۔۔ اور یہ بات معلوم ہے کہ وہ انبیاء و رسل سے منقول کوئی دلیل لانے سے عاجز ہیں بلکہ ہم جزم و یقین کے ساتھ کہتے ہیں کہ تمام انبیاء و مرسلین نے اپنے رب کی توحید کی دعوت دی ہے اور اس کے ساتھ شرک کرنے سے روکا ہے اور یہی وہ سب سے بڑی چیز ہے جو ان کے علم میں منقول ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللّٰـهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ ﴾ (النحل : 16؍36) ” اور بلاشبہ ہم نے ہر قوم میں ایک رسول بھیجا، جو ان کو حکم دیتا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور طاغوت کی بندگی سے بچو۔“ ہر رسول نے اپنی قوم سے کہا : ﴿ اعْبُدُوا اللّٰـهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَـٰهٍ غَيْرُهُ ﴾ (الاعراف :7؍59)” اللہ کی عبادت کرو، تمہارا اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ “ الأحقاف
5 پس معلوم ہوا کہ شرک کے بارے میں مشرکین کی بحث و جدال کسی برہان اور دلیل پر مبنی نہیں، ان کا اعتماد جھوٹے نظریات، گھٹیا آراء اور فاسد عقل پر ہے۔ ان کے احوال کا استقراء اور ان کے علوم و اعمال کا تتبع ان نظریات کے فاسد ہونے پر دلالت کرتا ہے، نیز ان لوگوں کے احوال پر غور کرنے سے بھی ان کا بطلان ثابت ہوتا ہے جنہوں نے طاغوت کی عبادت میں اپنی عمریں گنوادیں۔ کیا طاغوت نے دنیا یا آخرت میں انہیں کوئی فائدہ دیا؟ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّن يَدْعُو مِن دُونِ اللّٰـهِ مَن لَّا يَسْتَجِيبُ لَهُ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ ﴾ ” اور اس شخص سے بڑھ کر کون گمراہ ہوسکتا ہے جو اللہ کے سوا کسی ایسی ذات کو پکارے جو قیامت تک اس جواب نہ دے سکے۔“ یعنی جتنی مدت اس کا دنیا میں قیام ہے وہ اس سے ذرہ بھر فائدہ نہیں اٹھا سکتا ﴿ وَهُمْ عَن دُعَائِهِمْ غَافِلُونَ ﴾ ” اور وہ ان کی پکار سے غافل ہیں۔“ وہ ان کی کوئی دعا سن سکتے ہیں نہ ان کی کسی پکار کا جواب دے سکتے ہیں۔ یہ ان کا دنیا میں حال ہے اور قیامت کے روز وہ تمہارے شرک کا انکار کریں گے۔ الأحقاف
6 ﴿ وَإِذَا حُشِرَ النَّاسُ كَانُوا لَهُمْ أَعْدَاءً ﴾ ” اور جب لوگ جمع کیے جائیں گے تو وہ ان کے دشمن ہوں گے۔“ وہ ایک دوسرے پر لعنت بھجیں گے اور ایک دوسرے سے بیزاری کا اظہار کریں گے﴿ وَكَانُوا بِعِبَادَتِهِمْ كَافِرِينَ ﴾ ” اور وہ ان کی عبادت کا انکار کردیں گے۔ “ الأحقاف
7 اور جب ان جھٹلانے والوں کے سامنے تلاوت کی جاتی ہیں ﴿ آيَاتُنَا بَيِّنَاتٍ ﴾ ” ہماری واضح آیات“ اور وہ اس طرح واقع ہوتی ہیں کہ ان کے واقع ہونے اور حق ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں کیا جاسکتا، یہ آیات انہیں کوئی فاہدہ نہیں دیتیں بلکہ ان کے ذریعے سے ان پر حجت قائم ہوتی ہے۔ وہ اپنی بہتان طرازی اور افترا پردازی کی بنا پر کہتے ہیں ﴿ لِلْحَقِّ لَمَّا جَاءَهُمْ هَـٰذَا سِحْرٌ مُّبِينٌ ﴾ ” حق کے بارے میں جب حق ان کے پاس آیا کہ یہ تو کھلا جادو ہے“ یعنی ظاہر جادو ہے جس میں کوئی شک وشبہ نہیں ان کا یہ قول قلب حقائق کے زمرے میں آتا ہے، جو ضعیف العقل لوگوں میں رواج پاسکتا ہے ورنہ حق، جسے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لے کر مبعوث ہوئے ہیں اور جادو کے مابین بہت بڑا تفاوت اور منافات ہے جو زمین و آسمان کے تفاوت سے بڑھ کر ہے۔ وہ حق جو غالب ہے اور افلاک کی بلندیوں پر پہنچا ہوا ہے، جس کی روشنی سورج کی روشنی سے بڑھ کر ہے، جس کی حقانیت پر دلائل آفاق اور دلائلِ نفس دلالت کرتے ہیں، جس کے سامنے اصحاب بصیرت اور خرد مند لوگ سرنگوں ہیں اور اس کا اقرار کرتے ہیں، اسے باطل پر کیسے قیاس کیا جاسکتا ہے؟ جو جادو ہے، جو ظالم، گمراہ، خبیث النفس اور خبیث العمل شخص کے سوا کسی اور سے صادر نہیں ہوسکتا۔ پس جادو ایسے ہی شخص کے لئے مناسب اور اس کے موافق حال ہوتا ہے۔ کیا یہ باطل کے سوا کچھ اور ہے؟ الأحقاف
8 ﴿ أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ ﴾ یعنی کیا وہ کہتے ہیں کہ اس قرآن کو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود اپنی طرف سے گھڑ لیا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہے۔ ﴿ قُلْ ﴾ ان سے کہہ دیجئے : ﴿ إِنِ افْتَرَيْتُهُ ﴾ ” اگر میں نے اسے بنایا ہے۔“ تو اللہ مجھ پر قدرت رکھتا ہے اور جس کام میں تم مشغول ہو اسے بھی خوب جانتا ہے۔ اس نے مجھے اس افتراپردازی کی سزا کیوں کر نہ دی جس کو تم میری طرف منسوب کرتے ہو؟ پس کیا ﴿ تَمْلِكُونَ لِي مِنَ اللّٰـهِ شَيْئًا ﴾ اگر للہ تعالیٰ مجھے کسی ضرر میں مبتلا کرنے یا رحمت سے نوازنے کا ارادہ کرے تو تم اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں میرے لئے کسی بھی چیز کا اختیار رکھتے ہو؟ ﴿ هُوَ أَعْلَمُ بِمَا تُفِيضُونَ فِيهِ كَفَىٰ بِهِ شَهِيدًا بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ ﴾ ” وہ اس گفتگو کو خوب جانتا ہے جو تم اس کے بارے میں کرتے ہو، وہی میرے اور تمہارے درمیان گواہ کافی ہے۔“ پس اگر میں نے اللہ تعالیٰ پر جھوٹ گھڑا ہوتا تو مجھے اپنی گرفت میں لے کر ایسی سزا دیتا جسے ہر کوئی دیکھتا، کیونکہ اگر میں نے اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھا ہوتا تو یہ سب سے بڑی افترا پردازی ہوتی۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کو، حق کے بارے میں ان کے عناد اور مخاصمت کے باوجود توبہ کی طرف بلایا اور فرمایا : ﴿ وَهُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ﴾ ” اور وہ بخشنے والا مہربان ہے“ یعنی توبہ کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوجاؤ، اپنے گناہوں کو چھوڑو، اللہ تعالیٰ تمہارے گناہ بخش دے گا، تم پر رحم فرمائے گا، تمہیں بھلائی کی توفیق سے نوازے گا اور تمہیں بہت بڑا اجر عطا کرے گا۔ الأحقاف
9 ﴿ مَا كُنتُ بِدْعًا مِّنَ الرُّسُلِ ﴾ یعنی میں کوئی پہلا رسول نہیں جو تمہارے پاس آیا ہوں کہ تم میری رسالت کو عجیب و غریب پاؤ اور میری دعوت کا انکار کرو، مجھ سے پہلے بھی انبیاء و رسل آچکے ہیں، میری دعوت اور ان کی دعوت میں موافقت ہے پھر تم کسی بنا پر میری رسالت کا انکار کر رہے ہو۔ ﴿ وَمَا أَدْرِي مَا يُفْعَلُ بِي وَلَا بِكُمْ ﴾ ” اور میں نہیں جانتا کہ میرے ساتھ اور تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا؟‘‘ یعنی میں تو صرف ایک بشر ہوں، میرے اختیار میں کچھ بھی نہیں، میرے اور تمہارے بارے میں صرف اللہ تعالیٰ ہی تصرف کرتا ہے، مجھ پر اور تم پر وہی اپنے فیصلے نافذ کرتا ہے۔ میں اپنی طرف سے کچھ پیش نہیں کرتا ﴿ وَمَا أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُّبِينٌ ﴾ ” اور میں تو صرف علی الاعلان ڈرانے والا ہوں۔“ لہٰذا اگر تم میری رسالت کو مانتے ہوئے میری دعوت کو قبول کرلو تو یہ دنیا اور آخرت میں تمہاری خوش نصیبی اور تمہارا بہرۂ وافر ہے اور اگر تم اس دعوت کو ٹھکرادو تو تمہارا حساب اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے، میں نے تو تمہیں برے انجام سے خبردار کردیا ہے اور جس نے خبردار کردیا وہ برئ الذمہ ہے۔ الأحقاف
10 ﴿ قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِن كَانَ مِنْ عِندِ اللّٰـهِ وَكَفَرْتُم بِهِ وَشَهِدَ شَاهِدٌ مِّن بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَىٰ مِثْلِهِ فَآمَنَ وَاسْتَكْبَرْتُمْ ﴾ یعنی مجھے بتاؤ اگر یہ قرآن اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہو اور اہل کتاب میں سے ان توفیق یافتہ لوگوں نے بھی اس کی صحت کی شہادت دی ہو، جن کے پاس حق ہے اور وہ پہنچانتے ہیں کہ یہ بھی حق ہے، پس وہ اس پر ایمان لے آئے اور ہدایت یافتہ ہوئے، تو انبیائے کرام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خبر اور ان کے متبعین کی خبر میں مطابقت ہوگئی۔ اے جاہل اور کم عقل لوگو ! تم نے تکبر سے کام لیا۔ کیا یہ (تمہارا رویہ) سب سے بڑے ظلم اور شدید ترین کفر کے سوا کچھ اور ہے؟ ﴿ إِنَّ اللّٰـهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ ﴾ ” بے شک اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔“ اور یہ ظلم ہے کہ حق قبول کرنے پر قدرت رکھنے کے باوجود تکبر سے اسے ٹھکرا دیا جائے۔ الأحقاف
11 حق کا انکار کرنے والے، اس سے عناد رکھنے والے اور اس کی دعوت کو ٹھکرانے والے کفار کہتے ہیں : ﴿ لَوْ كَانَ خَيْرًا مَّا سَبَقُونَا إِلَيْهِ ﴾ ” اگر یہ بہتر ہوتا تو یہ اس کی طرف ہم سے سبقت نہ لے جاتے۔“ یعنی مومنین ہم پر سبقت نہ لے جاسکتے، ہم اس بھلائی کی طرف سب سے پہلے آگے بڑھنے والے اور اس کی طرف سب سے زیادہ سبقت کرنے والے ہوتے۔ ان کا یہ قول ایک لحاظ سے باطل ہے۔۔۔ کون سی دلیل اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ حق کی علامت یہ ہے کہ اہل تکذیب اہل ایمان پر سبقت لے جائیں؟ کیا وہ زیادہ پاک نفس اور عقل و خرد میں زیادہ کامل ہیں؟ کیا ہدایت ان کے ہاتھ میں ہے؟ مگر یہ کلام جو ان سے صادر ہوا، جسے وہ اپنی طرف منسوب کرتے ہیں اس شخص کے کلام کی مانند ہے جو کسی چیز پر قدرت نہ رکھتا ہو اور وہ اس چیز کی مذمت کرنا شروع کر دے۔ اسی لئے فرمایا : ﴿ وَإِذْ لَمْ يَهْتَدُوا بِهِ فَسَيَقُولُونَ هَـٰذَا إِفْكٌ قَدِيمٌ ﴾ ” اور جب وہ اس سے ہدایت یاب نہ ہوئے تو اب کہتے ہیں کہ یہ پرانا جھوٹ ہے۔“ یہی وہ سبب ہے جس کی بنا پر انہوں نے اس قرآن سے راہ نمائی حاصل نہ کی اور یوں وہ عظیم ترین نوازشات اور جلیل ترین عطیات سے محروم ہوگئے۔ اسے جھوٹ کہہ کر اس میں جرح و قدح کی، حالانکہ یہ حق ہے جس میں کوئی شک و شبہ نہیں۔ الأحقاف
12 یہ قرآن ان کتب سماویہ کی موافقت بھی کرتا ہے جو اس سے قبل نازل ہوچکی ہیں، خاص طور پر تورات کی جو قرآن کریم کے بعد افضل ترین کتاب ہے۔ ﴿ إِمَامًا وَرَحْمَةً ﴾ ” جو راہنما اور رحمت ہے۔“ یعنی بنی اسرائیل اس کتاب کی پیروی کرتے ہیں اور اس سے راہ نمائی حاصل کرتے ہیں اور انہیں دنیا و آخرت کی بھلائی حاصل ہوتی ہے۔ ﴿ وَهَـٰذَا ﴾ یعنی یہ قرآن ﴿ كِتَابٌ مُّصَدِّقٌ ﴾ گزشتہ کتابوں کی تصدیق کرنے والا ہے، ان کی صداقت کی گواہی دیتا ہے اور ان کی موافقت کرکے ان کی تصدیق کرتا ہے ﴿ لِّسَانًا عَرَبِيًّا ﴾ اللہ تعالیٰ نے اس کو عربی زبان میں اتارا تاکہ اس کو اخذ کرنا سہل اور اس سے نصیحت حاصل کرنا آسان ہو ﴿ لِّيُنذِرَ الَّذِينَ ظَلَمُوا ﴾ تاکہ یہ ان لوگوں کو برے انجام سے خبردار کرے جنہوں نے کفر، فسق اور نافرمانی کا ارتکاب کرکے اپنے آپ پر ظلم کیا۔ اگر وہ اپنے ظلم پر جمے رہیں تو ان کو دردناک عذاب سے ڈرائے اور اپنے خالق کی عبادت میں احسان کرنے اور مخلوق کو نفع پہنچانے والوں کے لئے، دنیا وآخرت میں ثواب جزیل کی خوشخبری دے اور ان اعمال کا ذکر کرے جن سے ڈرایا گیا ہے اور ان اعمال کا ذکر کرے جن پر خوشخبری دی گئی ہے۔ الأحقاف
13 یعنی وہ لوگ جو اپنے رب کا اقرار کرتے ہیں اس کی وحدانیت کی گواہی دیتے ہیں، اس کی اطاعت کا التزام کرتے ہیں، اس پر ہمیشہ قائم رہتے ہیں اور ﴿ا اسْتَقَامُوا ﴾ عمر بھر استقامت سے کام لیتے ہیں ﴿ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ ﴾ تو آنے والے کسی شر سے ان کے لئے خوف نہیں ﴿ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ﴾ اور نہ انہیں اس چیز پر حزن و غم ہے جو وہ پیچھے چھوڑ آئے ہیں۔ الأحقاف
14 ﴿ أُولَـٰئِكَ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ ﴾ یعنی وہ اہل جنت اور اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں جہاں سے وہ منتقل ہونا چاہیں گے نہ اس کو بدلنا چاہیں گے ﴿خَالِدِينَ فِيهَا جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴾ ” ہمیشہ اس میں رہیں گے، یہ اس کا بدلہ ہے جو وہ کیا کرتے تھے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ پر ایمان جو ان اعمال صالحہ کا مقتضی تھا جن پر یہ ہمیشہ قائم رہے۔ الأحقاف
15 یہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر لطف و کرم اور والدین کی قدرو توقیر ہے کہ اس نے اولاد کو حکم دیا اور ان کو اس امر کا پابند کیا کہ وہ نرم وملائم بات، مال و نفقہ اور دیگر طریقوں سے اپنے والدین کے ساتھ اچھا سلوک کریں، پھر اس کے سبب موجب کی طرف اشارہ کیا، پھر اس مرحلے کا ذکر فرمایا جس میں ماں اپنے بچے کو اپنے بیٹ میں اٹھائے پھرتی ہے، اس حمل کے دوران میں تکالیف برداشت کرتی ہے، پھر ولادت کے وقت بہت بڑی مشقت کا سامنا کرتی ہے، پھر رضاعت اور پرورش کی تکلیف اٹھاتی ہے۔ مذکورہ مشقت تھوڑی سے مدت، گھڑی دو گھڑی کے لئے نہیں بلکہ وہ طویل مدت ہے جس کا عرصہ ﴿ ثَلَاثُونَ شَهْرًا ﴾ ” تیس مہینے ہے۔“ جن میں سے غالب طور پر نو ماہ کے لگ بھگ حمل اور باقی مہینے رضاعت کے لئے ہیں۔ اس آیت کریمہ کو اللہ تعالیٰ کے ارشاد: ﴿ وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ أَوْلَادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ ﴾ (البقرۃ: 2؍233) ” اور مائیں اپنی اولاد کو کامل دو سال دودھ پلائیں۔“ کے ساتھ ملا کر استدلال کیا جاتا ہے کہ حمل کی کم سے کم مدت چھ ماہ ہے، کیونکہ رضاعت کی مدت کو، جو کہ دو سال ہے، تیس مہینوں میں سے نکال دیا جائے تو حمل کی مدت چھ ماہ بچتی ہے۔ ﴿ حَتَّىٰ إِذَا بَلَغَ أَشُدَّهُ ﴾ یعنی جب وہ اپنی قوت و شباب کی انتہا اور اپنی عقل کے کمال کو پہنچ جاتا ہے ﴿ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً قَالَ رَبِّ أَوْزِعْنِي ﴾ ” اور چالیس برس کو پہنچ جاتا ہے تو کہتا ہے کہ اے میرے رب ! مجھے توفیق دے۔“ یعنی اے میرے رب مجھے الہام کر اور مجھے توفیق عطا کر ﴿أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَىٰ وَالِدَيَّ ﴾ ” کہ تو نے جو احسان مجھ پر اور میرے والدین پر کیے ہیں ان کا شکر گزار ہوں۔“ یعنی دین اور دنیا کی نعمتیں اور اس کا شکر کرنا یہ ہے کہ ان نعمتوں کو، منعم کی اطاعت میں صرف کیا جائے اور اس کے مقابلے میں ان نعمتوں کی شکرگزاری سے عجز کے اعتراف اور ان نعمتوں پر اللہ تعالیٰ کی حمدو ثنا میں کوشاں رہا جائے۔ والدین کو نعمتوں سے نوازا جانا، ان کی اولاد کو ان نعمتوں سے نوازا جانا ہے کیونکہ ان نعمتوں اور ان کے اسباب و آثار کا اولاد تک پہنچنا لازم امر ہے، خاص طور پر دین کی نعمت، کیونکہ علم و عمل کے ذریعے سے والدین کا نیک ہونا اولاد کے نیک ہونے کا سب سے بڑا سبب ہے۔ ﴿ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاهُ ﴾ ” اور ایسے نیک کام کروں جن سے تو راضی ہو“ وہ اس طرح کہ وہ ان اعمال کا جامع ہو جو اسے نیک بناتے ہیں اور ان اعمال سے پاک ہو جو اسے خراب کرتے ہیں، یہی وہ اعمال ہیں جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہیں اور جن کو اللہ تعالیٰ قبول فرما کر ان پر ثواب عطا کرتا ہے۔ ﴿ وَأَصْلِحْ لِي فِي ذُرِّيَّتِي ﴾ ” اور تو میری اولاد کو بھی صالح بنا“ جب اس نے اپنے لئے نیکی کی دعا کی تو اس نے اپنی اولاد کے لئے بھی دعا کی کہ اللہ تعالیٰ ان کے احوال کو درست فرما دے۔ نیز ذکر فرمایا کہ اولاد کی نیکی کا فائدہ والدین کی طرف لوٹتا ہے۔ جیسا کہ فرمایا : ﴿وَأَصْلِحْ لِي ﴾ ” اور میرے لئے اصلاح کردے۔ “ ﴿ إِنِّي تُبْتُ إِلَيْكَ ﴾ میں گناہ اور معاصی سے تیرے پاس توبہ کرتا ہوں اور تیری اطاعت کی طرف لوٹتا ہوں ﴿ وَإِنِّي مِنَ الْمُسْلِمِينَ ﴾ ” اور بے شک میں تیرے مطیع بندوں میں سے ہوں۔ “ الأحقاف
16 ﴿ أُولَـٰئِكَ ﴾ وہ لوگ جن کے یہ اوصاف بیان کئے گئے ہیں ﴿ الَّذِينَ نَتَقَبَّلُ عَنْهُمْ أَحْسَنَ مَا عَمِلُوا ﴾ ” یہی وہ ہیں جن کے نیک اعمال ہم قبول کریں گے۔“ اس سے مراد نیکیاں ہیں کیونکہ وہ اس کے علاوہ بھی نیک عمل کرتے ہیں۔ ﴿ وَنَتَجَاوَزُ عَن سَيِّئَاتِهِمْ فِي أَصْحَابِ الْجَنَّةِ﴾ ” اور ان کے گناہوں سے تجاوز فرمائیں گے (یہی) اہل جنت میں ہوں گے۔“ یعنی جملہ اہل جنت کے ساتھ، سو ان کو بھلائی اور مطلوب و محبوب حاصل ہوگا، شر اور ناپسندیدہ امور زائل ہوجائیں گے ﴿ وَعْدَ الصِّدْقِ الَّذِي كَانُوا يُوعَدُونَ ﴾ یعنی یہ وعدہ جو ہم نے ان کے ساتھ کیا تھا، سب سے زیادہ سچی ہستی کا وعدہ ہے، جو کبھی وعدے کے خلاف نہیں کرتی۔ الأحقاف
17 اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس صالح شخص کا حال بیان کرنے کے بعد جو اپنے والدین کے ساتھ نیک سلوک کرتا ہے، اس شخص کا حال بیان کیا ہے جو اپنے والدین کا نافرمان ہے، نیز ذکر فرمایا کہ یہ بدترین حال ہے۔ لہٰذا فرمایا : ﴿ وَالَّذِي قَالَ لِوَالِدَيْهِ ﴾ ” اور جس نے اپنے والدین سے کہا۔“ یعنی جب انہوں نے اس کو اللہ تعالیٰ اور آخرت پر ایمان لانے کی دعوت دی اور اسے بداعمالیوں کی سزا سے ڈرایا اور یہ عظیم ترین احسان ہے جو والدین کی طرف سے اپنی اولاد کے لئے صادر ہوتا ہے کہ وہ انہیں ایسے امور کی طرف دعوت دیتے ہیں جن میں ابدی سعادت اور سرمدی فلاح ہے مگر وہ بدترین طریقے سے اپنے والدین کے ساتھ پیش آیا، اس نے کہا : ﴿ أُفٍّ لَّكُمَا ﴾ یعنی ہلاکت ہو تمہارے لئے اور اس دعوت کے لئے جسے تم پیش کرتے ہو، پھر اس نے اپنے انکار اور اس امر کا ذکر کیا جسے وہ محال سمجھتا تھا اور کہا : ﴿ أَتَعِدَانِنِي أَنْ أُخْرَجَ ﴾ کیا تم مجھے یہ بتاتے ہو کہ قیامت کے روز مجھے میری قبر سے نکالا جائے گا ﴿ وَقَدْ خَلَتِ الْقُرُونُ مِن قَبْلِي ﴾ ” حالانکہ بہت سے لوگ مجھ سے پہلے گزر چکے ہیں“ جو تکذیب اور کفر کی راہ پر گامزن تھے، جو ہر کافر، جاہل اور معاند حق کے راہ نما اور مقتدیٰ تھے۔ ﴿ وَهُمَا ﴾ یعنی اس کے والدین ﴿ يَسْتَغِيثَانِ ﴾ اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرتے ہوئے کہتے تھے : ﴿ وَيْلَكَ آمِنْ ﴾ ” تیرا برا ہو ! ایمان لے آ“ یعنی وہ اس کی ہدایت کے لئے انتہائی جدو جہد اور پوری کوشش کر رہے تھے حتی کہ، اس کے ایمان کی سخت حرص کی وجہ سے وہ اللہ تعالیٰ سے اس طرح مدد مانگ رہے تھے جیسے ڈوبتا ہوا شخص مدد کے لئے پکارتا ہے۔ وہ اس طرح اللہ تعالیٰ سے سوال کر رہے تھے جیسے کوئی اچھو لگا ہوا شخص سوال کرتا ہے۔ وہ اپنے بیٹے کو ملامت کرتے تھے، اس کے لئے سخت درمند تھے اور اس کے سامنے حق بیان کرتے ہوئے کہہ رہے تھے ﴿ إِنَّ وَعْدَ اللّٰـهِ حَقٌّ ﴾ ” بے شک اللہ کا وعدہ سچا ہے۔“ پھر اس پر دلائل قائم کر رہے تھے، مگر ان کا بیٹا تھا کہ اس میں سرکشی، نفرت اور حق کے بارے میں تکبر اور جرح و قدح میں اضافہ ہی ہو رہا تھا ﴿ فَيَقُولُ مَا هَـٰذَا إِلَّا أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ ﴾ یعنی وہ جواب میں کہتا تھا یہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ گزشتہ کتابوں میں سے نقل کردہ کہانیاں ہیں، یہ اللہ کی طرف سے نہیں ہیں اور نہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول پر ان کو وحی کیا ہے، حالانکہ ہر شخص جانتا ہے کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُمی ہیں جو لکھ سکتے ہیں نہ پڑھ سکتے ہیں اور نہ آپ نے کسی سے تعلیم حاصل کی ہے، آپ تعلیم حاصل کرتے بھی کہاں سے؟ اور مخلوق اس جیسا قرآن کہاں سے لاتی، خواہ سب لوگ ایک دوسرے کے مددگار ہی کیوں نہ ہوتے؟ الأحقاف
18 ﴿ أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ ﴾ یعنی اس مذموم حالت کے حاملین ﴿ حَقَّ عَلَيْهِمُ الْقَوْلُ ﴾ ان پر کلمۂ عذاب واجب ہوگیا ﴿ فِي أُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِم مِّنَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ ﴾ ” وہ ان جنات اور انسانوں کے گروہ کے ساتھ شامل ہوں گے جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں“ یعنی ان جملہ قوموں میں جو کفر اور تکذیب پر جمی رہیں عنقریب وہ اپنے کرتوتوں کے سمندر میں غرق ہوں گے۔ ﴿ إِنَّهُمْ كَانُوا خَاسِرِينَ ﴾ ” یقیناً وہ نقصان پانے والے تھے۔“ اور خسران انسان کے راس المال کے ضائع ہونے کا نام ہے۔ جب راس المال ہی مفقود ہو تو منافع سے محرومی تو بدرجہ اولیٰ ہے۔ پس وہ ایمان سے محروم ہوگئے ہیں انہیں کوئی نعمت حاصل ہوئی نہ وہ جہنم کے عذاب سے بچ سکے۔ الأحقاف
19 ﴿ وَلِكُلٍّ ﴾ یعنی اہل خیر اور اہل شر میں سے ہر ایک ﴿ دَرَجَاتٌ مِّمَّا عَمِلُوا ﴾ خیر اور شر کے مطابق اپنے اپنے مرتبہ پر اور اپنے اپنے اعمال کی مقدار کے مطابق آخرت میں اپنے درجہ پر ہوگا۔ بنابریں فرمایا : ﴿ وَلِيُوَفِّيَهُمْ أَعْمَالَهُمْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ ﴾ ” اور ان کو ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔“ یعنی ان کی برائیوں میں کوئی اضافہ کیا جائے گا نہ ان کی نیکیوں میں کوئی کمی کی جائے گی۔ الأحقاف
20 اللہ تبارک و تعالیٰ کفار کا حال بیان کرتا ہے، جب ان کو جہنم کے سامنے پیش کیا جائے گا اور زجرو تو بیخ کرتے ہوئے ان سے کہا جائے گا : ﴿ أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُمْ فِي حَيَاتِكُمُ الدُّنْيَا ﴾ ” تم اپنی دنیا کی زندگی میں لذتیں حاصل کرچکے۔“ کیونکہ تم دنیا پر مطمئن ہوگئے، اس کی لذتوں کے دھوکے میں مبتلا ہوگئے، اس کی شہوات کو پسند کرلیا اور اس کی طیبات نے تمہیں آخرت کی کوششوں سے غافل کردیا ﴿ وَاسْتَمْتَعْتُم بِهَا ﴾ ” اور ان سے متمتع ہوچکے۔“ جیسے چراگاہ میں چرنے کے لئے چھوڑے ہوئے مویشی فائدہ اٹھاتے ہیں اور وہی تمہاری آخرت میں سے تمہارا حصہ ہے ﴿ فَالْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُونِ ﴾ یعنی آج تمہیں سخت عذاب دیا جائے گا جو تمہیں رسوا کرکے رکھ دے گا اور یہ اس سبب سے ہے جو تم اللہ پر ناحق بات کہا کرتے تھے، یعنی گمراہی کی طرف لے جانے والے جس راستے پر تم گامزن تھے تم اسے اللہ تعالیٰ اور اس کے حکم کی طرف منسوب کرتے تھے، حالانکہ تم اس بارے میں جھوٹے تھے۔ ﴿ وَبِمَا كُنتُمْ تَفْسُقُونَ ﴾ یعنی تم تکبر کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے دائرہ سے نکل گئے تھے۔ پس انہوں نے قول باطل، عمل باطل، اللہ تعالیٰ پر اس کی رضا کے بارے میں جھوٹ، حق کے بارے میں قدح اور حق کے بارے میں تکبر کو جمع کیا، اس لئے ان کو سخت سزا دی گئی۔ الأحقاف
21 ﴿ وَاذْكُرْ ﴾ یعنی ثنائے جمیل کے ساتھ ذکر کر ﴿ أَخَا عَادٍ ﴾ ” قوم عاد کے بھائی کا“ اس سے مراد ہود علیہ السلام ہیں کیونکہ ان کا شمار ان مرسلین کرام میں ہوتا ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کی طرف دعوت اور اس کی طرف مخلوق کی راہ نمائی کی وجہ سے فضیلت دی ﴿ا إِذْ أَنذَرَ قَوْمَهُ ﴾ ” جب انہوں نے اپنی قوم کو ڈرایا۔“ اور وہ تھے قوم عاد ﴿بِالْاَحْقَافِ﴾ یعنی ان کے وہ گھر جو وادی احقاف میں معروف ہیں۔ (الاحقاف)سے مراد ریت کے بڑے بڑے ٹیلے ہیں جو ارض یمن میں واقع ہیں۔ ﴿ وَقَدْ خَلَتِ النُّذُرُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ ﴾ ” اور یقیناً اس سے پہلے بھی ڈرانے والے گزر چکے ہیں اور اس کے بعد بھی ” یعنی حضرت ہود علیہ السلام ان میں سے کوئی انوکھے نبی نہ تھے اور نہ گزشتہ انبیاء کی مخالفت کرنے والے تھے۔ ان سے پہلے بھی بہت سے ہدایت کرنے والے گزرے ہیں۔ حضرت ہود علیہ السلام نے ان کو یہ کہتے ہوئے ڈرایا : ﴿ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا اللّٰـهَ إِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ ﴾ یعنی ان کو اللہ کی عبادت حکم کا دیا جو راست گوئی اور قابل ستائش عمل کی جامع ہے، انہیں شرک اور خدا سازی سے منع کیا اور انہیں اس بات سے ڈرایا کہ اگر انہوں نے ان کی اطاعت نہ کی تو ان پر سخت عذاب نازل ہوگا، مگر اس دعوت نے ان کو کوئی فائدہ نہ دیا۔ الأحقاف
22 ﴿ قَالُوا أَجِئْتَنَا لِتَأْفِكَنَا عَنْ آلِهَتِنَا ﴾ یعنی تیرے سامنے کوئی مقصد ہے نہ تیرے پاس حق ہے، سوائے اس کے کہ تو ہمارے معبودوں کے ساتھ حسد رکھتا ہے اور تو ہمیں، ہمارے معبودوں سے پھیرنا چاہتا ہے ﴿ فَأْتِنَا بِمَا تَعِدُنَا إِن كُنتَ مِنَ الصَّادِقِينَ ﴾ ” پس اگر تم سچے ہو تو جس چیز سے ہمیں ڈراتے ہو وہ ہم پر لے آؤ۔“ یہ جہالت اور عناد کی انتہا ہے۔ الأحقاف
23 ﴿ قَالَ إِنَّمَا الْعِلْمُ عِندَ اللّٰـهِ ﴾ ” انہوں نے کہا، اس کا علم تو اللہ کے پاس ہے۔“ پس وہی ہے جس کے ہاتھ میں تمام امور کی زمام اختیار اور جس کے قبضہ قدرت میں تمام معاملات کی کنجیاں ہیں اور اگر وہ چاہے تو وہی تم پر عذاب بھیج سکتا ہے ﴿ وَأُبَلِّغُكُم مَّا أُرْسِلْتُ بِهِ ﴾ ” اور میں تو جو پیغام دے کر بھیجا گیا ہوں وہ تمہیں پہنچا رہا ہوں“ یعنی واضح طور پر پہنچا دینے کے سوا مجھ پر کوئی اور ذمہ داری نہیں ﴿ وَلَـٰكِنِّي أَرَاكُمْ قَوْمًا تَجْهَلُونَ ﴾ ” لیکن میں تمہیں دیکھتا ہوں کہ تم جاہل قوم ہو۔“ اسی وجہ سے تمہاری طرف سے اس جرأت کا ارتکاب ہوا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان پر عذاب نازل فرمایا۔ وہ عذاب ایک ایسی ہوا کی شکل میں تھا جس نے ان کو ہلاک اور تباہ و برباد کر کے رکھ دیا۔ الأحقاف
24 ﴿ فَلَمَّا رَأَوْهُ ﴾ جب انہوں نے اس عذاب کو دیکھا جو ﴿ عَارِضًا مُّسْتَقْبِلَ أَوْدِيَتِهِمْ ﴾ بادل کی طرح پھیلتے ہوئے ان کی وادیوں کی طرف بڑھ رہا تھا جہاں سیلاب کا پانی بہتا تھا، جہاں سے وہ اپنے کھیتوں کو سیراب کرتے تھے اور ان وادیوں کے کنوؤں اور تالابوں سے پانی پیتے تھے۔ ﴿ قَالُوا ﴾ (تو) انہوں نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا : ﴿ هَـٰذَا عَارِضٌ مُّمْطِرُنَا ﴾ یہ بادل ہے جو ہم پر برسے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ بَلْ هُوَ مَا اسْتَعْجَلْتُم بِهِ ﴾ بلکہ یہ وہ عذاب ہے جسے تم نے خود اپنے لئے چنا ہے کہ تم نے کہا تھا : ﴿ فَأْتِنَا بِمَا تَعِدُنَا إِن كُنتَ مِنَ الصَّادِقِينَ ﴾ ” ہمارے پاس وہ عذاب لے آ جس کا تو ہم سے وعدہ کرتا ہے، اگر تو سچا ہے۔“ ﴿ رِيحٌ فِيهَا عَذَابٌ أَلِيمٌ تُدَمِّرُ كُلَّ شَيْءٍ ﴾ ” یہ ایک ایسی ہوا ہے جس کے اندر درد ناک عذاب ہے جو ہر چیز کو ہلاک کردے گی۔“ یعنی یہ ہوا جس چیز پر سے گزرتی اپنی شدت اور نحوست کی وجہ سے اسے تباہ و برباد کرکے رکھ دیتی۔ پس اللہ تعالیٰ نے اسے ان پر مسلط رکھا ﴿ سَبْعَ لَيَالٍ وَثَمَانِيَةَ أَيَّامٍ حُسُومًا فَتَرَى الْقَوْمَ فِيهَا صَرْعَىٰ كَأَنَّهُمْ أَعْجَازُ نَخْلٍ خَاوِيَةٍ ﴾(الحاقۃ: 69؍7) ” لگا تار سات راتیں اور آٹھ دن (آپ وہاں ہوتے) تو اس ہوا میں لوگوں کو پچھاڑے اور مرے ہوئے دیکھتے جیسے کھجوروں کے کھوکھلے تنے ہوتے ہیں“ الأحقاف
25 ﴿ بِأَمْرِ رَبِّهَا ﴾ یعنی اپنے رب کے حكم اور اس کی مشیت سے﴿ أَصْبَحُوا لَا يُرَىٰ إِلَّا مَسَاكِنُهُمْ ﴾’’وہ ایسے ہوگئے کہ ان کے مکانات کے سوا اور کچھ دکھائی نہ دیتا تھا۔“ اس ہوا نے ان کے مویشیوں، ان کے مال و متاع اور خود ان کو نیست و نابود کردیا۔ ﴿ كَذَٰلِكَ نَجْزِي الْقَوْمَ الْمُجْرِمِينَ ﴾ ” ہم مجرموں کو اسی طرح بدلہ دیتے ہیں۔“ ان کے جرم اور ظلم کے سبب سے۔ اس کے باوجود کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو بڑی بڑی نعمتوں سے نوازا، انہوں نے اس کا شکر ادا کیا نہ اس کا ذکر، اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : الأحقاف
26 ﴿ وَلَقَدْ مَكَّنَّاهُمْ فِيمَا إِن مَّكَّنَّاكُمْ فِيهِ ﴾ ” اور ہم نے ان کو ایسی قدرت سے نوازا جو کہ تمہیں نہیں عطا کی۔“ یعنی ہم نے انہیں زمین میں اقتدار و اختیار عطا کیا، وہ زمین کی نعمتیں استعمال کرتے اور اس کی شہوات سے متمتع ہوتے تھے، ہم نے انہیں ایک عمر تک آباد رکھا اس عرصے کے دوران نصیحت حاصل کرنے والے نے نصیحت حاصل کی اور ہدایت یافتہ نے ہدایت پائی۔ اے مخاطبین ! ہم نے قوم عاد کو بھی اسی طرح اقتدار واختیار عطا کیا تھا جیسے تمہیں عطا کیا ہے، اس لئے یہ نہ سمجھو کہ ہم نے تم کو جو اقتدار عطا کیا ہے وہ صرف تمہارے ساتھ مخصوص ہے اور یہ اقتدار تم سے اللہ تعالیٰ کے عذاب کو دور کردے گا۔ بلکہ دوسروں کو تم سے بڑھ کر اقتدار حاصل تھا، مگر اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں ان کے مال، اولاد اور لشکر کسی کام نہ آئے۔ ﴿ وَجَعَلْنَا لَهُمْ سَمْعًا وَأَبْصَارًا وَأَفْئِدَةً ﴾ ” اور ہم نے انہیں کان، آنکھیں اور دل دیے۔“ یعنی ان کی سماعت، ان کی بصارت اور ان کے اذہان میں کسی قسم کی کمی نہ تھی کہ یہ کہا جاتا کہ انہوں نے کم علمی اور علم پر قدرت نہ رکھنے اور عقل میں کسی خلل کی وجہ سے حق کو ترک کیا۔۔۔ مگر توفیق اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ ﴿ فَمَا أَغْنَىٰ عَنْهُمْ سَمْعُهُمْ وَلَا أَبْصَارُهُمْ وَلَا أَفْئِدَتُهُم مِّن شَيْءٍ ﴾ ” پس ان کے کان، ان کی آنکھیں اور ان کے دل کچھ کام نہ آئے۔“ یعنی تھوڑا یا بہت، کسی کام نہ آئے کیونکہ ﴿ يَجْحَدُونَ بِآيَاتِ اللّٰـهِ ﴾ ” وہ اللہ تعالیٰ کی آیات کا انکار کرتے تھے“ جو اللہ تعالیٰ کی توحید اور اکیلے عبادت کا مستحق ہونے پر دلالت کرتی تھیں۔ ﴿ وَحَاقَ بِهِم مَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ ﴾ یعنی ان پر وہ عذاب نازل ہوا، جس کے وقوع کا وہ انکار اور انبیاء و مرسلین کے ساتھ استہزا کیا کرتے تھے جو ان کو اس عذاب سے ڈراتے تھے۔ الأحقاف
27 اللہ تبارک و تعالیٰ عرب کے مشرکین اور دیگر مشرکین کو ڈراتا ہے کہ اس نے انبیاء کی تکذیب کرنے والی ان قوموں کو تباہ و برباد کردیا جو ان مشرکین کے ارد گرد آباد تھیں بلکہ ان میں سے بہت سی قومیں تو جزیرۃ العرب میں آباد تھیں، مثلاً عاد اور ثمود وغیرہ، اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنی نشانیاں دکھائیں یعنی انہیں ہر نوع کی نشانیاں پیش کیں۔ ﴿ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ ﴾ شاید کہ وہ اپنے کفر اور تکذیب کے رویے سے باز آجائیں۔ جب وہ ایمان نہ لائے تو اللہ تعالیٰ نے ان کو اس طرح پکڑا جس طرح زبردست اور قدرت رکھنے والی ہستی پکڑتی ہے، ان کے ان خداؤں نے ان کو کوئی فائدہ نہ دیا جن کو وہ اللہ کے بغیر پکارا کرتے تھے۔ الأحقاف
28 اس لئے یہاں فرمایا : ﴿ فَلَوْلَا نَصَرَهُمُ الَّذِينَ اتَّخَذُوا مِن دُونِ اللّٰـهِ قُرْبَانًا آلِهَةً ﴾ ” لہٰذا ان لوگوں نے جن کو انہوں نے اللہ تعالیٰ کے سوا تقرب کا ذریعہ بنایا تھا ان کی مدد کیوں نہ کی۔“ یعنی ان کی جو ان کا تقرب حاصل کرتے اور ان سے فائدہ کی امید پر ان کی عبادت کرتے تھے ﴿ بَلْ ضَلُّوا عَنْهُمْ ﴾ بلکہ ان کے معبودوں نے ان کی پکار کا کوئی جواب دیا نہ عذاب کو ان سے دور کرسکے۔ ﴿ وَذَٰلِكَ إِفْكُهُمْ وَمَا كَانُوا يَفْتَرُونَ ﴾ یعنی وہ جھوٹ گھڑا کرتے تھے، جس کی بنا پر وہ سمجھتے تھے کہ وہ حق پر ہیں اور ان کے اعمال ان کو فائدہ دیں گے، مگر وہ اعمال بے کار اور باطل ہوگئے۔ الأحقاف
29 اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تمام مخلوق، یعنی انسانوں اور جنوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا ہے، اس لئے تمام مخلوق کو نبوت و رسالت کی تبلیغ ضروری ہے۔ انسانوں کو دعوت دینا اور ان کو برے انجام سے ڈرانا تو آپ کے لئے ممکن ہے۔ رہے جنات تو اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے ان کو آپ کی طرف پھیر دیا، اللہ تعالیٰ نے بھیجی ﴿ نَفَرًا مِّنَ الْجِنِّ يَسْتَمِعُونَ الْقُرْآنَ فَلَمَّا حَضَرُوهُ قَالُوا أَنصِتُوا ﴾ آپ کی طرف ” جنات کی ایک جماعت تاکہ وہ قرآن سنیں جب وہ آپ کے پاس پہنچے تو کہنے لگے خاموش ہوجاؤ“ یعنی انہوں نے ایک دوسرے کو خاموش رہنے کی تلقین کی۔ ﴿ فَلَمَّا قُضِيَ ﴾ ” جب قرآن پڑھا جا چکا “ اور انہوں نے اس کو یاد کرلیا اور قرآن نے ان پر اثر کیا ﴿ وَلَّوْا إِلَىٰ قَوْمِهِم مُّنذِرِينَ ﴾ تو اپنی قوم کی خیر خواہی کرنے اور ان پر حجت قائم کرنے کے لئے ان کے پاس گئے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدد کرنے اور جنات میں آپ کی دعوت کو پھیلانے کے لئے جنات کو مقرر فرمایا۔ الأحقاف
30 ﴿ قَالُوا يَا قَوْمَنَا إِنَّا سَمِعْنَا كِتَابًا أُنزِلَ مِن بَعْدِ مُوسَىٰ ﴾ ” انہوں نے کہا : اے قوم ! ہم نے ایک کتاب سنی ہے، جو موسیٰ (علیہ السلام)کے بعد نازل ہوئی ہے۔“ یہاں انجیل کا ذکر اس لئے نہیں کیا گیا کیونکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی کتاب انجیل کے لئے اصل اور بنی اسرائیل کے لئے احکام شریعت کی بنیاد ہے۔ انجیل تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی کتاب کی تکمیل اور بعض احکام میں ترمیم کرتی ہے۔ ﴿ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ يَهْدِي ﴾ ” اپنے سے پہلے کی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے اور راہنمائی کرتی ہے۔“ یعنی یہ کتاب جو ہم نے سنی ہے ﴿ إِلَى الْحَقِّ ﴾ ’ ’ حق کی طرف“حق سے مراد ہے،ہرمطلوب اور ہرخبر میں راہ صواب۔ ﴿ وَإِلَىٰ طَرِيقٍ مُّسْتَقِيمٍ ﴾”اورسیدھے راستے کی طرف“ راہ نمائی کرتی ہے جواللہ تعالیٰ اور اس کی جنت تک پہنچاتا ہے ۔ مثلاً اللہ تعالیٰ کے بارے میں علم، نیز اس کے احکام دینی اور احکام جزا کاعلم ۔ الأحقاف
31 جب وہ قرآن کی مدح و توصیف اور اس کا مقام و مرتبہ بیان کرچکے تو انہوں نے اپنی قوم کو اس پر ایمان لانے کی دعوت دی، انہوں نے کہا ﴿قَوْمَنَا أَجِيبُوا دَاعِيَ اللّٰـهِ ﴾ ” اے ہماری قوم ! اللہ کی طرف دعوت دینے والے کی بات قبول کرو۔“ یعنی جو صرف اپنے رب کی طرف دعوت دیتا ہے وہ اپنی کسی غرض اور کسی لالچ کے لئے تمہیں دعوت نہیں دیتا وہ تو تمہیں صرف تمہارے رب کی طرف بلاتا ہے تاکہ تمہارا رب تمہیں ثواب عطا کرے اور تم سے ہر برائی اور شر کو دور کردے، اس لئے انہوں نے کہا : ﴿ يَغْفِرْ لَكُم مِّن ذُنُوبِكُمْ وَيُجِرْكُم مِّنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ ﴾ ” اللہ تمہارے گناہ بخش دے گا اور تمہیں دردناک عذاب سے پناہ میں رکھے گا۔“ جب اس نے انہیں دردناک عذاب سے نجات دے دی تو اس کے بعد نعمتوں کے سوا اور کچھ بھی نہیں اور یہ اس شخص کے لئے جزا ہے جو اللہ تعالیٰ کے داعی کے دعوت پر لبیک کہتا ہے۔ الأحقاف
32 ﴿ وَمَن لَّا يُجِبْ دَاعِيَ اللّٰـهِ فَلَيْسَ بِمُعْجِزٍ فِي الْأَرْضِ ﴾ ” اور جو اللہ کی طرف دعوت دینے والے کی بات قبول نہیں کرے گا تو وہ زمین میں اللہ کو عاجز نہیں کرسکے گا۔“ کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے، کوئی بھاگنے والا اس سے بھاگ سکتا ہے نہ کوئی مقابلہ کرنے والا اس پر غالب آسکتا ہے۔ ﴿ وَلَيْسَ لَهُ مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءُ أُولَـٰئِكَ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ ﴾ ” اور نہ اللہ کے سوا اور اس کے مددگار ہوں گے۔ یہی لوگ کھلی گمراہی میں ہیں۔“ اس شخص کی گمراہی سے بڑھ کر کون سی گمراہی ہوسکتی ہے، جسے انبیاء و رسل علیہ السلام نے دعوت دی، جس کے پاس وہ برے انجام سے ڈرانے والے واضح دلائل اور متواتر براہین لے کر پہنچے مگر اس نے روگردانی اور تکبر کا مظاہرہ کیا۔ الأحقاف
33 یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مرنے کے بعد اعادۂ حیات پر ایسے امر کے ذریعے سے استدلال ہے جو اس سے زیادہ بلیغ ہے، یعنی وہ ہستی جس نے آسمانوں اور زمین کی عظمت ان کی وسعت اور ان کی تخلیق میں مہارت کے بعد باوصف، کسی مشقت کے بغیر ان کو تخلیق کیا اور ان کو تخلیق کرتے ہوئے وہ تھکی نہیں، تو تمہارے مرنے کے بعد تمہاری زندگی کا اعادہ اسے کیسے عاجز کرسکتا ہے، حالانکہ وہ ہر چیز قادر ہے؟ الأحقاف
34 جہنم کے سامنے پیش کیے جانے پر، جس کو وہ جھٹلایا کرتے تھے، کفار کی جو حالت ہوگئی اللہ تعالیٰ اس کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے، نیز یہ کہ ان کو زجرو توبیخ کی جائے گی اور ان سے کہا جائے گا : ﴿ أَلَيْسَ هَـٰذَا بِالْحَقِّ ﴾ ” کیا یہ حق نہیں ہے؟“ جبکہ تم اس جہنم میں پہنچ چکے ہو اور اس کا واضح مشاہدہ بھی کرچکے ہو ﴿ قَالُوا بَلَىٰ وَرَبِّنَا ﴾ ” تو وہ کہیں گے : کیوں نہیں ہمارے رب !“ پس وہ اپنے گناہ کا اعتراف کریں گے اور ان کا جھوٹ واضح ہوجائے گا۔ ﴿ قَالَ فَذُوقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنتُمْ تَكْفُرُونَ ﴾ ” اللہ فرمائے گا : اب اپنے کفر کے بدلے عذاب کا مزہ چکھو“ یعنی ہمیشہ چمٹے رہنے والے عذاب کا مزا چکھو، جس طرح کفر تمہاری دائمی اور لازمی صفت تھی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم دیا کہ وہ آپ کو جھٹلانے والوں اور آپ سے عداوت رکھنے والوں کی ایذارسانی پر صبر کریں اور ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دیتے رہیں نیز یہ کہ وہ اولوالعزم انبیاء و رسل کی پیروی کریں جو تمام مخلوق کے سردار، عزائم کے مالک اور بلند ہمت تھے، جن کا صبر بہت عظیم اور جن کا یقین کامل تھا۔ پس تمام مخلوق میں وہی سب سے زیادہ مستحق ہیں کہ ان کو نمونہ بنایا جائے ان کے آثار کی پیروی کی جائے اور ان کی روشنی سے راہنمائی حاصل کی جائے۔ چنانچہ رسول مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے ایسا صبر کیا کہ آپ سے پہلے کسی نبی نے ایسا صبر نہیں کیا۔ آپ کے تمام دشمنوں نے آپ پر مصیبتوں کے پہاڑ توڑ دیے، ان سب نے اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت کا راستہ روکا، محاربت اور عداوت میں ان سے جو کچھ ممکن تھا انہوں نے کہا۔۔۔ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کے احکام کو بیان کرتے رہے، اللہ تعالیٰ کے دشمنوں کے خلاف جہاد کرتے رہے اور جو اذیتیں آپ کو پہنچتیں ان پر صبر کرتے رہے۔۔۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو زمین پر اقتدار سے سرفراز فرمایا، اس نے آپ کے دین کو تمام ادیان پر اور آپ کی امت کو تمام امتوں پر غالب کردیا۔۔۔ صَلَّی اللہُ عَلیَهِ وَسَلَّمَ تَسْلِیْماً۔ الأحقاف
35 ﴿ وَلَا تَسْتَعْجِل لَّهُمْ ﴾ یعنی عذاب کے لئے جلدی مچانے والے اہل تکذیب کے لئے جلدی نہ کیجئے یہ سب ان کی جہالت اور حماقت کے سبب سے ہے، وہ اپنی جہالت کی بنا پر آپ کو ہلکا اور حقیر نہ سمجھیں۔ ان کا جلدی مچانا آپ کو اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ آپ ان کے لئے بددعا کریں، کیونکہ ہر آنے والی چیز قریب ہوتی ہے۔ ﴿ كَأَنَّهُمْ يَوْمَ يَرَوْنَ مَا يُوعَدُونَ لَمْ يَلْبَثُوا ﴾ ” جس دن یہ اس چیز کو دیکھیں گے جس کا ان سے وعدہ کیا جاتا ہے تو (خیال کریں گے) گویا وہ نہیں رہے۔“ یعنی دنیا کے اندر ﴿ إِلَّا سَاعَةً مِّن نَّهَارٍ ﴾ ” مگر گھڑی بھر دن کی“ نہایت قلیل مدت کے لئے ان کا متمتع ہونا آپ کو غم زدہ نہ کرے۔ بالآخر انہیں سخت عذاب کا سامنا کرنا ہے۔ ﴿ بَلَاغٌ ﴾ یہ دنیا، اس کی متاع اور اس کی لذات و شہوات، تھوڑے وقت کے لئے ہیں اور ختم ہونے والی ہیں۔ اور یہ قرآن عظیم جو ہم نے پوری طرح تمہارے سامنے بیان کردیا ہے، تمہارے لئے کافی اور آخرت کے لئے زادراہ ہے، کتنا اچھا ہے یہ زاد راہ ! یہ ایسا زاد راہ ہے جو نعمتوں بھری جنت تک پہنچاتا اور درد ناک عذاب سے بچاتا ہے، یہ افضل ترین زادراہ ہے جسے مخلوق اپنے ساتھ لیتی ہے اور یہ جلیل ترین نعمت ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے ان کو نوازا ہے۔ ﴿ فَهَلْ يُهْلَكُ ﴾ ” وہی ہلاک ہوں گے۔“ یعنی عقوبات کے ذریعے سے ﴿ إِلَّا الْقَوْمُ الْفَاسِقُونَ ﴾ جن کے اندر کوئی بھلائی نہیں، وہ اپنے رب کی اطاعت کے دائرے سے نکل گئے اور انہوں نے اس حق کو قبول نہ کیا جو ان کے پاس رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لے کر آئے تھے، ان کی کوتاہی کے باوجود اللہ تعالیٰ نے ان کا عذر قبول کیا، ان کو برے انجام سے ڈرایا، مگر وہ اپنے کفر اور تکذیب پر جمے رہے۔ ہم اللہ تعالیٰ سے سوال کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اس رویے سے بچائے۔ الأحقاف
0 سورة محمد محمد
1 یہ آیات کریمہ اہل ایمان کے ثواب، نافرمانوں کے عذاب، اس کے سبب اور مخلوق کو اس سے عبرت حاصل کرنے کے ذکر پر مشتمل ہیں، چنانچہ فرمایا : ﴿ الَّذِينَ كَفَرُوا وَصَدُّوا عَن سَبِيلِ اللّٰـهِ ﴾ یہ رؤسائے کفر اور ائمہ ضلالت ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ اور اس کی آیات کا انکار کیا ہے اور اللہ تعالیٰ کے راستے یعنی انبیاء و رسل اور ان کی دعوت سے اپنے آپ کو اور دوسروں کو روک رکھا ہے۔ ﴿ أَضَلَّ أَعْمَالَهُمْ ﴾ یہی لوگ ہیں جن کے اعمال کو اللہ تعالیٰ نے باطل کردیا اور اس سبب سے ان کو بدبختی میں مبتلا کردیا۔ یہ ان کے اعمال کو شامل ہے جو یہ لوگ اس لئے کرتے تھے تاکہ حق اور اولیاء اللہ کے خلاف سازشیں کریں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے فریب اور سازشوں کو ان کے سینوں ہی میں دبا دیا اور وہ اپنے مقصد کو نہ پاسکے اور ان کے وہ اعمال جن پر وہ ثواب کی امید رکھتے تھے، اللہ تعالیٰ ان کو اکارت کردے گا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ انہوں نے باطل کی پیروی کی اور اس سے مراد ہر وہ غایت مطلوب ہے، جس سے اللہ تعالیٰ کی رضا مقصود نہ ہو، مثلاً: بتوں اور خود ساختہ معبودوں کی عبادت۔ چونکہ باطل کی مدد کے لئے کیے گئے تمام اعمال باطل ہوتے ہیں اس لئے ان کے لئے کیے گئے، تمام اعمال اکارت ہیں۔ محمد
2 ﴿ وَ ﴾ ” اور“ لیکن ﴿ الَّذِينَ آمَنُوا ﴾ وہ لوگ جو اس چیز پر ایمان لائے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء و رسل پر عموماً نازل کی اور جو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر خصوصاً نازل کی۔ ﴿ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ﴾ اور انہوں نے اللہ تعالیٰ اور بندوں کے حقوق واجبہ و مستحبہ کو ادا کرتے ہوئے نیک اعمال کیے ﴿ كَفَّرَ ﴾ ” مٹا دے گا“ اللہ تعالیٰ ﴿ عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ ﴾ ان کے چھوٹے اور بڑے گناہوں کو۔ جب ان کے گناہ مٹا دئیے گئے تو انہوں نے دنیا اور آخرت کے عذاب سے نجات پائی۔ ﴿ وَأَصْلَحَ بَالَهُمْ ﴾ او اللہ تعالیٰ ان کے دین و دنیا، ان کے قلوب اور ان کے اعمال کی اصلاح کرے گا، ان کے ثواب کو نشونما دے کر اس کی اصلاح کرے گا، نیز اللہ تعالیٰ ان کے تمام احوال کی اصلاح کرے گا۔ محمد
3 اس کا سبب یہ ہے کہ ﴿ اتَّبَعُوا الْحَقَّ ﴾ ” انہوں نے حق کی اتباع کی“ جو صدق و یقین ہے اور جس پر یہ قرآن عظیم مشتمل ہے ﴿ مِن رَّبِّهِمْ ﴾ جو ان کے رب کی طرف سے صادر ہوا ہے جس نے اپنی نعمتوں سے ان کی تربیت کی اور اپنے لطف و کرم سے ان کی تدبیر کی، پس اللہ تعالیٰ نے حق کے ذریعے سے ان کی تربیت کی، انہوں نے حق کی اتباع کی، تب ان کے تمام امور درست ہوگئے۔ چونکہ ان کا منتہائے مقصود حق سے متعلق ہے، جو ہمیشہ باقی رہنے والے اللہ کی طرف منسوب اور حق مبین ہے، اس لئے یہ وسیلہ درست اور باقی رہنے والا اور اس کا ثواب بھی باقی رہنے والا ہے۔ ﴿ كَذَٰلِكَ يَضْرِبُ اللّٰـهُ لِلنَّاسِ أَمْثَالَهُمْ ﴾ اللہ تعالیٰ نے ان کے سامنے اہل خیر اور اہل شر کو کھول کھول کر بیان کردیا اور ان میں سے ہر ایک کے اوصاف بیان کردئیے جن کے ذریعے سے ان کو پہنچانا جاتا ہے اور ان کے ذریعے سے ان میں امتیاز کیا جاتا ہے ﴿ لِّيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَن بَيِّنَةٍ وَيَحْيَىٰ مَنْ حَيَّ عَن بَيِّنَةٍ ﴾ )الانفال : 8؍42( ” تاکہ جسے ہلاک ہونا ہے وہ واضح دلیل کے ساتھ ہلاک ہو اور جو زندہ رہے وہ واضح دلیل کے ساتھ زندہ رہے۔ “ محمد
4 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں کی ان امور کی طرف راہ نمائی کرتے ہوئے، جن میں ان کی بھلائی اور ان کے دشمنوں کے مقابلے میں نصرت ہے، ارشاد فرماتا ہے : ﴿ فَإِذَا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا ﴾ جب جنگ اور قتال میں تمہارا کفار سے سامنا ہو تو ان کے خلاف بہادری سے لڑو اور ان کی گردنیں مار و یہاں تک کہ ان کو اچھی طرح کچل دو اور جب تم ان کی طاقت کو توڑ چکو اور تم سمجھو کہ ان کو قیدی بنانا زیادہ بہتر ہے ﴿فَشُدُّوا الْوَثَاقَ ﴾ تو انہیں مضبوطی سے باندھ لو۔ یہ ان کو قیدی بنانے کے لئے احتیاط ہے تاکہ وہ بھاگ نہ جائیں۔ جب ان کو مضبوطی سے باندھ دیا جائے گا تو مسلمان ان کی طرف سے جنگ اور ان کے شر سے محفوظ ہوجائیں گے۔ جب وہ تمہاری قید میں آجائیں، تو تمہیں اختیار ہے کہ تم ان پر احسان کرتے ہوئے مال اور فدیہ لئے بغیر چھوڑ دو یا ان سے فدیے لے لو یعنی تم ان کو وقت تک آزادنہ کرو جب تک کہ وہ اپنا فدیہ ادا نہ کریں یا ان کے ساتھی فدیہ میں کچھ مال ادا نہ کریں یا اس کے بدلے میں کسی مسلمان قیدی کو جو ان کی قید میں ہو، آزاد نہ کریں۔ یہ حکم دائمی ہے ﴿ حَتَّىٰ تَضَعَ الْحَرْبُ أَوْزَارَهَا ﴾ حتیٰ کہ جنگ باقی نہ رہے اور تمہارے درمیان صلح اور امن قائم ہوجائے کیونکہ ہر مقام کے لئے ایک قول اور ہر صورت حال کے لئے ایک حکم ہے۔ گزشتہ صورت حال اس وقت تھی جب جنگ اور قتال کی حالت تھی۔ جب کسی وقت، کسی سبب کی بنا پر جنگ اور قتال نہ ہو تو قتل اور قیدی بنانے کا فعل بھی نہ ہوگا۔ ﴿ ذٰلِكَ ﴾ یعنی یہ حکم مذکور کفار کے ذریعے سے اہل ایمان کی آزمائش، ان کے درمیان گردش ایام اور ایک دوسرے کے خلاف فتح حاصل کرنے کے بارے میں ہے ﴿ وَلَوْ يَشَاءُ اللّٰـهُ لَانتَصَرَ مِنْهُمْ ﴾ ” اور اگر اللہ چاہتا تو ان سے انتقام لے لیتا۔“ کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے، وہ اس بات پر قدرت رکھتا ہے کہ کسی ایک ہی موقع پر کفار سے انتقال نہ لے تاکہ مسلمانوں کے ہاتھوں ان کی اصل ہی ختم نہ ہوجائے۔ ﴿وَلَـٰكِن لِّيَبْلُوَ بَعْضَكُم بِبَعْضٍ ﴾ ” لیکن اس نے چاہا کہ ایک دوسرے کے ذریعے سے تمہاری آزمائش کرے“ تاکہ جہاد کا بازار گرم رہے اور بندوں کے احوال کھلتے رہیں، سچے اور جھوٹے میں امتیاز ہوتا رہے، جو کوئی ایمان لائے وہ علی وجہ البصیرت ایمان لائے، وہ مسلمانوں کے غلبے سے مطیع ہو کر ایمان نہ لائے، کیونکہ یہ تو بہت ہی کمزور ایمان ہے اور ایسا ایمان رکھنے والا شخص امتحان اور آزمائش کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ ﴿ وَالَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللّٰـهِ ﴾ ” اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے گئے“ ان کے لئے ثواب جزیل اور اجر جمیل ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ان لوگوں کے خلاف لڑتے ہیں جن کے خلاف ان کو لڑنے کا حکم دیا گیا ہے، تاکہ اللہ تعالیٰ کا کلمہ بلند ہو۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے اعمال کو باطل اور ضائع نہیں کرے گابلکہ اللہ تعالیٰ ان کے اعمال قبول فرما کر ان کو بڑھائے گا۔ دنیا و آخرت میں ان کے اعمال کے نتائج ظاہر ہوں گے۔ محمد
5 ﴿ سَيَهْدِيهِمْ ﴾ اللہ تعالیٰ ان کو اس راستے کی طرف چلنے کی توفیق عطا کرے گا جو جنت کی طرف جاتا ہے۔ ﴿ وَيُصْلِحُ بَالَهُمْ ﴾ اللہ تعالیٰ ان کے احوال اور معاملات کی اصلاح کرے گا، ان کا ثواب درست اور کامل ہوگا، جس میں کسی بھی لحاظ سے کوئی تنگی ہوگی نہ تکدر۔ محمد
6 ﴿ وَيُدْخِلُهُمُ الْجَنَّةَ عَرَّفَهَا لَهُمْ ﴾ اور انہیں اس جنت میں داخل کرے گا جس سے انہیں شناسا کردیا ہے۔ یعنی اولاً ان کے سامنے جنت کے اوصاف اور اس جنت تک پہنچنے کے اعمال بیان کرنے کے ساتھ ساتھ ان میں اس کا شوق پیدا کرکے اس سے متعارف اور واقف کرایا اور ان جملہ اعمال میں اللہ کے راستے میں شہادت بھی شامل ہے اور اللہ تعالیٰ نے ان اعمال کو بجا لانے کی توفیق عطا کی اور ان میں رغبت پیدا کی۔ پھر جب وہ جنت میں داخل ہوں گے تو اللہ تعالیٰ ان کو ان کی منازل، ان کے اندر موجود نعمتوں اور ہر قسم کے تکدر سے پاک زندگی سے متعارف کرائے گا۔ محمد
7 یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اہل ایمان کے لئے حکم ہے کہ وہ اقامت دین، اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت اور اس کے دشمنوں کے ساتھ جہاد کے ذریعے سے اس کی مدد کریں اور ان تمام امور میں صرف اللہ تعالیٰ کی رضا مقصود ہو۔ جب وہ یہ تمام کام کرلیں گے تو اللہ تعالیٰ ان کی مدد کرے گا اور ان کو ثابت قدمی عطا کرے گا، یعنی اللہ تعالیٰ طمانیت اور ثبات کے ذریعے سے ان کے دلوں کو مضبوط کرے گا، ان کے اجساد کو ان امور کو برداشت کرنے کی قوت عطا فرمائے گا اور ان کے دشمنوں کے خلاف ان کی مدد فرمائے گا۔ محمد
8 یہ ایک کریم اور وعدے کی سچی ہستی کا وعدہ ہے کہ جو کوئی اپنے قول و فعل سے اس کی مدد کرے گا تو وہ بھی اپنے دوست کی مدد کرے گا اور اسے فتح و نصرت کے اسباب یعنی ثابت قدمی وغیرہ عطا کرے گا۔ رہے وہ لوگ جنہوں نے اپنے رب کا انکار کیا اور باطل کی مدد کی تو ان کے لئے ہلاکت ہے، کیونکہ وہ الٹے پاؤں رسوائی کی راہ پر چل رہے ہیں۔ ﴿ وَأَضَلَّ أَعْمَالَهُمْ ﴾ اور اللہ تعالیٰ ان کے ان اعمال کو باطل کردے گا جن کے ذریعے سے وہ حق کے خلاف سازشیں کیا کرتے تھے۔ ان کا مکرو فریب انہی پر الٹ جائے گا، اور ان کے اعمال باطل ہوجائیں گے جن کے بارے میں انہیں زعم تھا کہ یہ اعمال انہوں نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے کیے ہیں۔ محمد
9 کفار کو گمراہ کرنے اور ان کے لئے ہلاکت کے مقدر ہونے کا سبب یہ ہے کہ ﴿ كَرِهُوا مَا أَنزَلَ اللّٰـهُ ﴾ کہ انہیں قرآن سخت ناپسند تھا جو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا، جسے اللہ تعالیٰ نے بندوں کی بھلائی اور ان کی فلاح کے لئے نازل فرمایا، مگر انہوں نے اسے قبول نہ کیا، بلکہ اسے ناپسند کیا اور اس کے ساتھ بغض رکھا ﴿ فَأَحْبَطَ أَعْمَالَهُمْ ﴾ ” تو اللہ نے ان کے اعمال اکارت کردیے۔ “ محمد
10 رسولِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کرنے والے یہ لوگ زمین میں چلتے پھرتے کیوں نہیں؟ ﴿ فَيَنظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ﴾ ” تاکہ دیکھتے کہ جو لوگ ان سے پہلے تھے ان کا انجام کیسا ہوا؟“ پس وہ ان کے انجام کو بدترین انجام پائیں گے اور اپنے دائیں بائیں جدھر بھی دیکھیں گے وہ پہلے گزرے ہوئے لوگوں کو پائیں گے کہ وہ ہلاک ہوگئے، ان کے کفر اور تکذیب انبیاء نے ان کی جڑ کاٹ کر رکھ دی، ان کا نام و نشان مٹ گیا، اللہ تعالیٰ نے نہ صرف ان کے اموال اور گھر بار کو تباہ و برباد کردیا بلکہ ان کے اعمال اور ان کی سازشوں کا تاروپود بکھیر دیا۔ ہر زمان و مکان میں کافروں کا اسی قسم کا برا انجام ہوتا ہے اور انہیں بری سزائیں ملتی ہیں۔ رہے اہل ایمان، توا للہ تعالیٰ ان کو عذاب سے نجات دیتا ہے اور انہیں بے پایاں ثواب عطا کرتا ہے۔ محمد
11 ﴿ ذٰلِكَ بِأَنَّ اللّٰـهَ مَوْلَى الَّذِينَ آمَنُوا ﴾ ” اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اہل ایمان کا والی و مددگار ہے۔“ اس نے اپنی رحمت سے ان کی سرپرستی کی، انہیں اندھیروں سے نکال کر روشنی میں لایا اور ان کی جزا اور فتح و نصرت کی ذمہ داری لی۔ ﴿ وَأَنَّ الْكَافِرِينَ ﴾ یعنی وہ لوگ جنہوں نے اللہ تعالیٰ کا انکار کرکے اللہ تعالیٰ کی سرپرستی کے تعلق کو قطع کردیا اور اپنے آپ پر اس کی رحمے کے دوازے بند کرلیے۔ ﴿ لَا مَوْلَىٰ لَهُمْ ﴾ ان کا کوئی والی مددگار نہیں ہے جو سلامتی کے راستوں کی طرف ان کی راہ نمائی کرے، انہیں اللہ تعالیٰ کے عذاب اور اس کی سزا سے بچائے بلکہ ان کے سرپرست تو طاغوت ہیں جو انہیں روشنی سے نکال کر اندھیروں میں لے آتے ہیں۔ یہی لوگ جہنمی ہیں اور ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ محمد
12 اس بات کا ذکر کرنے کے بعد کہ اللہ تعالیٰ اہل ایمان کا سر پرست ہے یہ بھی بیان فرمایا کہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ انہیں جنت میں داخل کرے گا، جہاں نہریں بہتی ہوں گی جو خوبصورت باغات، ہر قسم کے تروتازہ پھل اور میوے دار درختوں کو سیراب کریں گی۔ چونکہ کفار کے بارے میں ذکر فرمایا کہ ان کا کوئی والی و مددگار نہیں، اس لئے فرمایا کہ ان کو ان کے نفس کے حوالے کردیا گیا ہے۔ بنابریں وہ مروت کی صفات سے متصف ہوسکے نہ انسانی صفات سے بلکہ وہ نچلی سطح پر گر کر چوپایوں کی مانند ہوگئے ہیں جو عقل سے محروم ہوتے ہیں اور ان میں کوئی فضیلت نہیں ہوتی۔ ان کا سب سے بڑا مقصد صرف دنیا کی لذات و شہوات متمتع ہونا ہے۔ اس لیے آپ دیکھیں گے کہ ان کی ظاہری و باطنی حرکات انہی لذات و شہوات کے دائرہ میں ہوتی ہیں اور ان امور کے لئے نہیں ہوتیں جن میں خیر اور سعادت ہوتی ہے۔ بنابریں ان کا ٹھکانا جہنم ہوگا، یعنی جہنم کے اندر ان کے لئے گھر تیار کیا گیا ہوگا۔ جہاں ان کے عذاب میں کبھی انقطاع واقع نہیں ہوگا۔ محمد
13 تکذیب کرنے والوں کی بستیوں میں سے کتنی ہیں جو اموال واولاد، اعوان و انصار اور عمارات و آلات کے لحاظ سے آپ کی بستی سے زیادہ طاقتور تھیں ﴿ أَهْلَكْنَاهُمْ ﴾ جب انہوں نے ہمارے رسولوں کو جھٹلایا تو ہم نے ان کو ہلاک کرڈالا، ان کو وعظ و نصیحت نے کوئی فائدہ دیا نہ ہم نے ان کا کوئی مددگار پایا اور نہ ان کی قوت اور طاقت اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں کوئی کام آسکی۔ تب آپ کی بستی والے ان کمزور لوگوں کا کیا حال ہے، جب انہوں نے آپ کو آپ کے وطن سے نکال دیا، آپ کی تکذیب کی، آپ سے عداوت رکھی حالانکہ آپ افضل المرسلین اور خیر الاولین والآخرین ہیں؟ اگر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت اور ہر کافر اور منکر حق پر نرمی کرنے کے ساتھ مبعوث نہ کیا ہوتا، تو کیا یہ لوگ ہلاکت اور سزا کے دوسروں سے زیادہ مستحق نہیں؟ محمد
14 یعنی وہ شخص جو اپنے امور دین میں علم و عمل کے اعتبار سے بصیرت سے بہرہ ور ہے، علم حق سے سرفراز اور اس کی اتباع کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اہل حق کے ساتھ جو وعدہ کر رکھا ہے، اس پر اسے پورا یقین ہے کہ کیا ایسے شخص کے برابر ہوسکتا ہے جو دل کا اندھا ہے، جس نے حق کو چھوڑ کر اسے گم کرلیا اور اللہ تعالیٰ کی راہ نمائی کے بغیر اپنی خواہشات نفس کی پیروی کی۔ بایں ہمہ وہ اس زعم میں مبتلا ہے کہ وہ حق پر ہے؟ دونوں فریقوں کے درمیان کتنا فرق اور دونوں گروہوں، یعنی اہل حق اور اہل باطل کے درمیان کتنا تفاوت ہے؟ محمد
15 یعنی جنت جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے ان بندوں کے لئے تیار کیا جو اس کی ناراضی سے ڈر گئے اور اس کی رضا کی پیروی کی، اس کی مثال یعنی اس کی صفت اور اس کا وصف جمیل یہ ہے ﴿ فِيهَا أَنْهَارٌ مِّن مَّاءٍ غَيْرِ آسِنٍ ﴾ اس میں ایسے پانی کی نہریں ہیں جو کسی مضر صحت امر، بدبو، حرارت اور گدلے پن کی وجہ سے متغیر نہ ہوگا بلکہ وہ صاف ترین اور شیریں ترین پانی ہوگا، اس کی خوشبو بہترین اور پینے میں نہایت لذیذ ہوگا۔ ﴿وَأَنْهَارٌ مِّن لَّبَنٍ لَّمْ يَتَغَيَّرْ طَعْمُهُ ﴾ ” اور دودھ کی نہریں ہیں جن کا مزہ نہیں بدلتا“ یعنی خراب اور کھٹا ہوجانے کے باعث اس کا ذائقہ متغیر نہ ہوا ہوگا۔ ﴿ وَأَنْهَارٌ مِّنْ خَمْرٍ لَّذَّةٍ لِّلشَّارِبِينَ ﴾ ” اور شراب کی نہریں ہیں جن میں پینے والوں کے لئے بڑی لذت ہے“ یعنی اس شراب سے بہت زیادہ لذت حاصل ہوگی، دنیا کی شراب کی مانند نہیں کہ جس کا ذائقہ نہایت ناخوشگوار ہوتا ہے، جو سر کرچکرا دیتی ہے اور عقل کو خراب کردیتی ہے ﴿ وَأَنْهَارٌ مِّنْ عَسَلٍ مُّصَفًّى ﴾ ” اور نہریں ہیں شہد کی جو بہت صاف ہے۔“ یعنی یہ شہد موم اور دیگر ہر قسم کے میل کچیل سے پاک ہوگا۔ ﴿ وَلَهُمْ فِيهَا مِن كُلِّ الثَّمَرَاتِ ﴾ جنت میں کھجور، انگور، سیب، انار، لیموں، انجیر اور ان کے علاوہ دیگر بہت سے پھل ہوں گے جن کی دنیا میں کوئی نظیر نہیں ہے، تو یہ تمام محبوب و مطلوب چیزیں انہیں حاصل ہوں گے۔ پھر فرمایا : ﴿ وَمَغْفِرَةٌ مِّن رَّبِّهِمْ ﴾ ” اور ان کے رب کی طرف سے مغفرت ہے۔“ جس سے وہ امور زائل ہوجائیں گے جو ڈرانے والے ہیں۔ پس یہ لوگ بہتر ہیں یا وہ شخص جو ہمیشہ آگ میں رہے گا جس کی حرارت نہایت شدید ہوگی اور اس کا عذاب کئی گنا ہوگا ﴿ وَسُقُوا ﴾ ” اور انہیں پلایا جائے گا۔“ یعنی جہنم میں ﴿ مَاءً حَمِيمًا ﴾ سخت کھولتا ہوا پانی ﴿ فَقَطَّعَ أَمْعَاءَهُمْ ﴾ ” جو ان کی انتڑیوں کو کاٹ ڈالے گا۔“ پس پاک ہے وہ ذات جس نے دونوں گھروں یعنی جنت اور جہنم، دونوں قسم کی جزاؤں، دونوں قسم کے عمل کرنے والوں اور دونوں قسم کے اعمال میں تفاوت رکھا۔ محمد
16 اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ منافقین میں ایسے لوگ بھی ہیں ﴿ مَّن يَسْتَمِعُ إِلَيْكَ ﴾ کہ جو کچھ آپ کہتے ہیں اسے سنتے ہیں، قبول کرنے اور اس کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنے کی غرض سے نہیں، بلکہ اس طرح سنتے ہیں کہ ان کے دل اس سے روگرداں ہوتے ہیں۔ بنابریں فرمایا : ﴿حَتَّىٰ إِذَا خَرَجُوا مِنْ عِندِكَ قَالُوا لِلَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ ﴾ ” یہاں تک کہ جب آپ کے پاس سے نکل کر جاتے ہیں، تو جن لوگوں کو علم دیا گیا ہے، ان سے کہتے ہیں۔“ جو کچھ آپ نے کہا اور جو کچھ انہوں نے سنا جس میں انہیں کوئی رغبت نہ تھی، اس کے بارے میں استفہام کے انداز میں کہتے ہیں: ﴿ مَاذَا قَالَ آنِفًا ﴾ یعنی ابھی ابھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کیا کہا؟ یہ ان کا انتہائی مذموم رویہ ہے، کیونکہ اگر وہ بھلائی کے خواہش مندہوتے تو آپ کی بات غور سے سنتے، ان کے دل اس بات کو محفوظ کرلیتے، ان کے جوارح اس کی اطاعت میں سرنگوں ہوتے، مگر ان کا حال تو اس کے برعکس تھا، اس لئے فرمایا : ﴿ أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ طَبَعَ اللّٰـهُ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی، ان کے لئے بھلائی کے تمام دروازے بند کردیے، کیونکہ انہوں نے اپنی خواہشات نفس کی پیروی کی جن میں وہ محض باطل کی خواہش رکھتے تھے۔ محمد
17 پھر اللہ تعالیٰ نے ہدایت یافتہ لوگوں کا حال بیان کیا۔ فرمایا : ﴿ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا ﴾ وہ لوگ جنہوں نے ایمان، اطاعت اور اللہ تعالیٰ کی رضا کی اتباع کے ذریعے سے ہدایت پائی ﴿ زَادَهُمْ هُدًى ﴾ اللہ تعالیٰ نے ان کی قدر اور توقیر کے لئے ان کی ہدایت میں اضافہ کردیا ﴿ وَآتَاهُمْ تَقْوَاهُمْ﴾ ” اور انہیں ان کی پرہیز گاری عطا فرمائی“ یعنی انہیں خیر کی توفیق بخشی اور شر سے ان کی حفاظت کی۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے دو قسم کی جزا کا ذکر کیا ہے یعنی علم نافع اور عمل صالح۔ محمد
18 کیا یہ اہل تکذیب منتظر ہیں﴿ إِلَّا السَّاعَةَ أَن تَأْتِيَهُم بَغْتَةً ﴾ کہ قیامت کی گھڑی اچانک ان کے پاس آئے، اور انہیں شعور بھی نہ ہو ﴿ فَقَدْ جَاءَ أَشْرَاطُهَا ﴾ یعنی قیامت کی وہ علامت آچکی ہیں جو اس کے قریب آجانے پر دلالت کرتی ہیں۔﴿ فَأَنَّىٰ لَهُمْ إِذَا جَاءَتْهُمْ ذِكْرَاهُمْ﴾ جب قیامت کی گھڑی آجائے گی، ان کی مدت مقررہ اختتام کو پہنچ جائے گی تو ان کا نصیحت پکڑنا اور اللہ تعالیٰ کی رضا کا طلب گار ہونا کس کام آئے گا؟ یہ سب کچھ ان کے ہاتھ سے نکل گیا، نصیحت پکڑنے کا وقت گزر گیا، انہوں نے وہ عمر گزار لی جس کے اندر نصیحت پکڑی جاسکتی تھی حالانکہ ان کے پاس برے انجام سے ڈرانے والا بھی آیا۔ اس آیت کریمہ میں اس بات کی ترغیب ہے کہ موت کے اچانک آجانے سے پہلے پہلے اس کی تیاری کرلینی چاہیے، کیونکہ انسان کی موت ہی اس کے لئے قیامت کی گھڑی ہے۔ محمد
19 علم میں اقرار قلب اور اس معنی کی معرفت، جو علم اسے طلب کرتا ہے، لازمی امر ہے اور علم کی تکمیل یہ ہے کہ اس کے تقاضے کے مطابع عمل کیا جائے اور یہ علم جس کے حصول کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی توحید کا علم ہے اور ہر انسان پر فرض عین ہے اور کسی پر بھی، خواہ وہ کوئی بھی ہو، ساقط نہیں ہوتا بلکہ ہر ایک کے لئے اس کا حصول ضروری ہے۔ اس علم کے حصول کا طریق کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں، چند امور پر مبنی ہے : (1) سب سے بڑا امر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات اور افعال میں تدبر کیا جائے جو اس کے کمال اور اس کی عظمت و جلال پر دلالت کرتے ہیں کیونکہ اسماء و صفات میں تدبر و عبادت میں کوشش صرف کرنے اور رب کامل کے لئے تعبد کا موجب ہوتا ہے جو ہر قسم کی حمدو مجد اور جلال و جمال کا مالک ہے۔ (2) اس حقیقت کا علم کہ اللہ تعالیٰ تخلیق و تدبیر میں متفرد ہے، اس کے ذریعے سے اس بات کا علم حاصل ہوگا کہ وہ الوہیت میں میں بھی متفرد ہے۔ (3) اس امر کا علم کہ ظاہری اور باطنی، دینی اور دنیاوی نعمتیں عطا کرنے میں وہ متفرد ہے۔ یہ علم دل کے اللہ کے ساتھ تعلق رکھنے، اس سے محبت کرنے، اس اکیلے کی عبادت کرنے کا موجب بنتا ہے جس کا کوئی شریک نہیں۔ (4) ہم یہ جو دیکھتے اور سنتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے اولیاء کے لئے، جو اس کی توحید کو قائم کرتے ہیں، فتح و نصرت اور دنیاوی نعمتیں ہیں اور اس کے دشمن مشرکین کے لئے سزا اور عذاب ہے۔۔۔ یہ چیز اس علم کے حصول کی طرف دعوت دیتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک ہے اور تمام تر عبادت کا وہی مستحق ہے۔ (5) ان بتوں اور خود ساختہ ہم سروں کے اوصاف کی معرفت، جن کی اللہ تعالیٰ کے ساتھ عبادت کی جاتی ہے اور انہیں معبود بنا لیا گیا ہے، کہ یہ ہر لحاظ سے ناقص اور بالذات محتاج ہیں، یہ خود اپنے لئے اور اپنے عبادت گزاروں کے لئے کسی نفع و نقصان کا اختیار نہیں رکھتے، ان کے اختیار میں زندگی ہے نہ موت اور نہ یہ دوبارہ زندگی ہی عطا کرسکتے ہیں، یہ ان لوگوں کی کوئی مدد نہیں کرسکتے جو ان کی عبادت کرتے ہیں، بھلائی عطاکرنے اور شر کو دور کرنے میں ان کے ذرہ بھر کام نہیں آ سکتے جیونکہ ان اوصاف کا علم، اس حقیقت کے علم کا موجب ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی ہستی عبادت کی مستحق نہیں، نیز یہ علم اللہ کے ماسوا کی الوہیت کے بطلان کا موجب ہے۔ (6) حقیقت توحید پر اللہ تعالیٰ کی تمام کتابیں اتفاق کرتی ہیں۔ (7) اللہ تعالیٰ کے خاص بندے، جو اخلاق، عقل، رائے، صواب اور علم کے اعتبار سے اس کی مخلوق میں سب سے زیادہ کامل ہیں، یعنی انبیاء و مرسلین اور علمائے ربانی، اس حقیقت کی گواہی دیتے ہیں۔ (8) اللہ تبارک و تعالیٰ نے جو دلائل افقیہ اور نفسیہ قائم کیے ہیں، جو توحید الٰہی پر سب سے بڑی دلیل ہیں، اپنی زبان سے حال سے پکار پکار کر اس کی باریک کاریگری، اس کی عجیب وغریب حکمتوں اور اس کی انوکھی تخلیق کا اعلان کرتے ہیں۔ یہ وہ طریقے ہیں، جن کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو کثرت سے اس امر کی دعوت دی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں، ان کو اپنی کتاب میں نمایاں طور پر بیان کیا ہے اور بار بار ان کا اعادہ کیا ہے۔ ان میں سے بعض پر غوروفکر کرنے سے بندے کو علم اور یقین حاصل ہونا ایک لازمی امر ہے، تب بندے کو کیوں کر علم اور یقین حاصل نہ ہوگا جب دلائل ہر جانب سے مجتمع اور متفق ہو کر توحید پر دلالت کرتے ہوں۔ یہاں بندۂ مومن کے دل میں توحید پر ایمان اور اس کا عل راسخ ہو کر پہاڑوں کی مانند بن جاتے ہیں، شبہات و خیالات انہیں متزلزل نہیں کرسکتے اور باطل اور شبہات کے بار بار وارد ہونے سے ان کی نشونما اور ان کے کمال میں اضافہ ہی ہوتا ہے۔ اگر آپ اس عظیم دلیل اور بہت بڑے معاملے کو دیکھیں۔۔۔ اور وہ ہے قرآن عظیم میں تدبر اور اس کی آیات میں غوروفکر۔۔۔ تو یہ علم توحید تک پہنچنے کے لئے بہت بڑا دروازہ ہے، اس کے ذریعے سے توحید کی وہ تفاصیل حاصل ہوتی ہیں جو کسی دوسرے طریقے سے حاصل نہیں ہوسکتیں۔ ﴿ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنبِكَ ﴾ اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہ کی بخشش طلب کیجئے، یعنی توبہ، مغفرت کی دعا، گناہوں کو مٹا دینے والی نیکیوں اور گناہوں اور جرائم کو ترک کرکے مغفرت کے اسباب پر عمل کیجئے۔ ﴿ وَ ﴾ ” اور“ اسی طرح بخشش طلب کیجئے ﴿ َلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ ﴾ ’’مومن مردوں اور مومن عورتوں کے لئے۔“ کیونکہ وہ اپنے ایمان کے سبب سے ہر مسلمان مرد اور عورت پر حق رکھتے ہیں اور ان کے جملہ حقوق میں یہ چیز بھی شامل ہے کہ ان کے لئے دعا کی جائے اور ان کے گناہوں کی بخشش مانگی جائے۔ جب آپ ان کے لئے استغفار پر مامور ہیں، جو ان سے گناہوں اور ان کی سزا کے ازالے کو متضمن ہے، تب اس کے لوازم میں سے ہے کہ ان کی خیر خواہی کی جائے، ان کے لئے بھلائی کو پسند کریں جو اپنے لئے پسند کرتے ہیں، ان کے لئے برائی کو ناپسند کریں جو اپنے لئے ناپسند کرتے ہیں، انہیں ان کاموں کا حکم دیں جن میں ان کے لئے بھلائی ہے اور ان کاموں سے روکیں جن سے ان کو ضرور پہنچتا ہے، ان کی کوتاہیوں اور عیبوں کو معاف کردیں، ان کے ساتھ اس طرح اکٹھے رہنے کی خواہش رکھیں جس سے ان کے دل اکٹھے رہیں اور ان کے درمیان کینہ اور بغض زائل ہو جو عدوات اور ایسی مخالفت کا سبب بنتا ہے جس سے ان کے گناہ اور معاصی زیادہ ہوجاتے ہیں۔ ﴿ وَاللّٰـهُ يَعْلَمُ مُتَقَلَّبَكُمْ ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ حرکات و تصرفات اور تمہاری آمدروفت کو خوب جانتا ہے۔ ﴿ وَمَثْوَاكُمْ ﴾ اور تمہاری رہائش کی جگہ کو بھی جانتا ہے۔ جہاں تم ٹھہرتے ہو۔ وہ تمہاری حرکات و سکنات کو جانتا ہے وہ تمہیں اس کی پوری پوری جزا دے گا۔ محمد
20 اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿ وَيَقُولُ الَّذِينَ آمَنُوا ﴾ وہ لوگ جو ایمان لائے مشکل کاموں کے لئے جلدی مچاتے ہوئے کہتے ہیں : ﴿ لَوْلَا نُزِّلَتْ سُورَةٌ ﴾ ” کوئی سورت کیوں نازل نہیں ہوتی۔“ یعنی جس میں قتال کا حکم دیا گیا ہو ﴿ فَإِذَا أُنزِلَتْ سُورَةٌ مُّحْكَمَةٌ ﴾ ” پس جب کوئی محکم سورت نازل ہوتی ہے۔“ یعنی اس کے عمل کا لازم ٹھہرایا گیا ہو ﴿ وَذُكِرَ فِيهَا الْقِتَالُ ﴾ ” اور اس میں جہاد کا ذکر ہو۔“ جو کہ نفس پر سب سے زیادہ گراں ہوتا ہے۔ تو جن کا ایمان کمزور تھا وہ اس پر ثابت قدم نہ رہے، اس لئے فرمایا : ﴿ رَأَيْتَ الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ يَنظُرُونَ إِلَيْكَ نَظَرَ الْمَغْشِيِّ عَلَيْهِ مِنَ الْمَوْتِ ﴾ ” جن لوگوں کے دلوں میں مرض ہے، تم نے ان کو دیکھا کہ وہ تمہاری طرف اس طرح دیکھتے ہیں، جس طرح کسی پر موت کی بے ہوشی طاری ہو رہی ہے۔“ ان کے قتال کو ناپسند کرنے اور اس کی شدت کے باعث۔ یہ آیت کریمہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی مانند ہے : ﴿ أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ قِيلَ لَهُمْ كُفُّوا أَيْدِيَكُمْ وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ فَلَمَّا كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقِتَالُ إِذَا فَرِيقٌ مِّنْهُمْ يَخْشَوْنَ النَّاسَ كَخَشْيَةِ اللّٰـهِ أَوْ أَشَدَّ خَشْيَةً ﴾ (النساء : 4؍77)’’کیا آپ نے ان لوگوں کو دیکھا، جن سے کہا گیا، اپنے ہاتھوں کو روک لو، نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو، پس جب ان پر قتال فرض کیا گیا تو ان میں سے ایک گروہ کا یہ حال ہے کہ لوگوں سے اس طرح ڈر رہے ہیں جس طرح اللہ سے ڈرنا چاہیے یا اس سے بھی زیادہ۔“ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس چیز کی طرف بلایا جو ان کے حال کے زیادہ لائق ہے۔ ﴿ فَأَوْلَىٰ لَهُمْ طَاعَةٌ وَقَوْلٌ مَّعْرُوفٌ ﴾ یعنی ان کے لئے بہتر ہے کہ وہ موجودہ حکم ہی کی تعمیل کریں جو ان پر واجب کیا گیا ہے، اسی پر اپنے ارادوں کو جمع رکھیں اور یہ مطالبہ نہ کریں کہ ان کے لئے ایسا حکم مشروع کیا جائے جس کی تعمیل ان پر شاق گزرے اور انہیں اللہ تعالیٰ کی عنایت کردہ عفو و عافیت پر خوش ہونا چاہیے۔ محمد
21 ﴿ فَإِذَا عَزَمَ الْأَمْرُ ﴾ ” پس جب بات پختہ ہوگئی۔“ یعنی جب کوئی سخت اور واجب معاملہ آگیا تو اس حال میں اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرکے اور اس کی اطاعت میں پوری کوشش کے ذریعے سے، اس کے ساتھ صدق کا معاملہ رکھتے ﴿ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ ﴾ تو یہ حال ان کے پہلے حال سے بہتر ہوتا، اور اس کی مندرجہ ذیل وجوہ ہیں : (1) بندہ ہر لحاظ سے ناقص و ناتمام ہے، اسے کوئی قدرت حاصل نہیں، سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ اس کی مدد فرمائے، لہٰذا وہ اس سے زیادہ طلب نہ کرے جس کے کنارے پر وہ کھڑا ہوا ہے۔ (2) جب اس کا نفس مستقبل کی فکر میں لگ جاتا ہے، تو وہ حاضر اور مستقبل کے کام پر عمل کرنے میں کمزوری دکھاتا ہے۔ رہی موجودہ صورت حال، تو ارادہ اور ہمت، اس سے نکل کر دوسری طرف (مستقبل کی امیدوں میں) منتقل ہوجاتے ہیں اور عمل ارادے کے تابع ہوتا ہے اور رہا مستقبل تو اس کے آتے آتے ہمت جواب دے جاتی ہے تو اسے کسی کام کی توفیق اور مدد حاصل نہیں ہوتی۔ تب اس کے خلاف مدد نہیں کی جاتی۔ (3) وہ بندہ جو وقت موجود میں، عمل کرنے میں اپنی سستی اور کاہلی کے باوجود مستقبل سے امیدیں وابستہ کرتا ہے، وہ اس سست اور کوتاہ اندیش آدمی کی طرح ہے جسے مستقبل میں پیش آنے والے امور پر قدرت رکھنے کا قطعی یقین ہے۔ اس کے لائق یہی ہے کہ وہ اسے چھوڑ کر الگ ہوجائے اور جس امر کا ارادہ کیا ہے اور نفس کو اس پر آمادہ کرلیا ہے اسے نہ کرے۔ مناسب ہے کہ بندہ اپنے ارادے، اپنی فکر اور اپنی نشاط کو وقت موجود پر مجتمع کرے اور اپنی قدرت اور طاقت کے مطابق اپنے وظیفے کو ادا کرے۔ پھر جب بھی کوئی وقت آئے تو نشاط کو وقت موجود اور مجتمع بلند ارادے کے ساتھ کسی تفرقہ کے بغیر اپنے رب سے مدد طلب کرتے ہوئے اس کا استقبال کرے۔ پس یہ شخص اپنے تمام امور میں توفیق اور درسی عطا کیے جانے کا مستحق ہے۔ محمد
22 پھر اللہ تعالیٰ اس شخص کا ذکر فرماتا ہے جو اپنے رب کی اطاعت سے منہ توڑتا ہے، خیر کی طرف آنے کی بجائے شر کی طرف بھاگتا ہے۔ لہٰذا فرمایا : ﴿ فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِن تَوَلَّيْتُمْ أَن تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ وَتُقَطِّعُوا أَرْحَامَكُمْ ﴾ ” اور تم سے یہ بھی بعید نہیں کہ اگر تم کو حکومت مل جائے تو تم زمین میں فساد برپا کردو اور رشتے ناتے توڑ ڈالو“ یعنی یہ دو امور ہیں یا تو اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر التزام ور اس کے اوامر کے سامنے سرتسلیم خم کرنا، پس وہاں بھلائی، ہدایت اور فلاح ہے یا اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے روگردانی اور اس سے اعراض کرنا، تب اس صورت حال میں فساد فی الارض، معصیت پر عمل اور قطع رحمی کے سوا کچھ نہیں۔ محمد
23 ﴿ أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ ﴾ جنہوں نے زمین میں فساد پھیلایا اور قطع رحمی کی ﴿ لَعَنَهُمُ اللّٰـهُ ﴾ وہ یوں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنی رحمت سے دور کردیا اور وہ اللہ تعالیٰ کی ناراضی کے قریب ہوگئے۔ ﴿ فَأَصَمَّهُمْ وَأَعْمَىٰ أَبْصَارَهُمْ ﴾ اللہ تعالیٰ نے ان کا یہ حال کردیا کہ وہ ایسے بات سنتے ہیں نہ دیکھتے ہیں جو انہیں فائدہ دے۔ پس ان کے کان ہیں جس سے ان پر حجت قائم ہوتی ہے۔ وہ آنکھیں رکھتے ہیں مگر وہ ان آنکھوں سے عبرتوں اور آیات کو دیکھتے ہیں نہ دلائل و براہین کی طرف التفات کرتے ہیں۔ محمد
24 کتاب اللہ سے روگردانی کرنے والے یہ لوگ کتاب اللہ میں تدبر اور غوروفکر کیوں نہیں کرتے، جیسا کہ غورو فکر کرنے کا حق ہے اگر انہوں نے اس میں اچھی طرح تدبر کیا ہوتا تو یہ ہر بھلائی کی طرف ان کی راہ نمائی کرتی، انہیں ہر برائی سے بچاتی، ان کے دلوں کو ایمان سے اور ان کی عقلوں کو ایقان سے لبریرز کردیتی، وہ انہیں بلند مقاصد اور انمول عطیات تک پہنچاتی، ان کے سامنے وہ راستہ روشن کردیتی جو انہیں اللہ تعالیٰ اور اس کی جنت تک پہنچاتا ہے نیز اس جنت کی تکمیل کرنے والے امور پر اور اس کو فاسد کرنے والے امور پر دلالت کرتی، انہیں وہ راستہ بھی دکھاتی جو اللہ تعالیٰ کے عذاب کی طرف جاتا ہے اور یہ بھی بتاتی کہ کس چیز کے ذریعے سے اس سے بچا جائے۔ وہ انہیں ان کے رب، اس کے اسماء و صفات اور اس کے احسان کی معرفت عطا کرتی، ان میں بے پایاں ثواب حاصل کرنے کا شوق پیدا کرتی اور انہیں دردناک عذاب سے ڈراتی۔ ﴿ أَمْ عَلَىٰ قُلُوبٍ أَقْفَالُهَا ﴾ ” یا ان کے دلوں پر تالے لگ گئے ہیں۔“ یعنی دلوں میں روگردانی، غفلت اور اعتراضات کوٹ کوٹ کر بھر دئیے گئے پھر ان کو بند کر کے ان پر تالے لگادئیے پس ان میں بھلائی کبھی داخل نہیں ہوگی، فی الواقع ان کا یہی حال ہے۔ محمد
25 اللہ تبارک و تعالیٰ ان مرتدین کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے جو ہدایت اور ایمان کو چھوڑ کر الٹ پاؤں کفر اور گمراہی کی طرف لوٹ گئے، ان کا کفر کی طرف واپس لوٹنا کسی دلیل اور برہان کی بنا پر نہیں، بلکہ ان کے دشمن کے ان کو گمراہ کرنے، اس کی تزئین اور اس کی ترغیب کی بنا پر ہے ﴿ يَعِدُهُمْ وَيُمَنِّيهِمْ وَمَا يَعِدُهُمُ الشَّيْطَانُ إِلَّا غُرُورًا ﴾ (النساء : 4؍120) ” شیطان ان سے وعدے کرتا ہے اور انہیں امید دلاتا ہے مگر شیطان کے وعدے دھوکے اور فریب کے سواکچھ نہیں۔“ اور اس کا سبب یہ ہے کہ ان کے سامنے راہ ہدایت واضح ہوچکی ہے مگر انہوں نے اس سے منہ موڑ کر اسے چھوڑ دیا ۔ محمد
26 ﴿ قَالُوا لِلَّذِينَ كَرِهُوا مَا نَزَّلَ اللّٰـهُ ﴾ ” انہوں نے ان لوگوں سے کہا جنہوں نے اللہ کی نازل کردہ وحی کو برا سمجھا‘‘ جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عداوت رکھتے ہیں۔ ﴿ سَنُطِيعُكُمْ فِي بَعْضِ الْأَمْرِ ﴾ ” ہم بعض کاموں میں تمہاری اطاعت کریں گے۔“ یعنی جو ان کی خواہشات نفس کے موافق ہیں پس اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کی گمراہی کی پاداش میں اور ان کے ایسے رویے پر قائم رہنے، جو انہیں ابدی بدبختی اور سرمدی عذاب کی طرف لے جاتا ہے، کے سبب ان کو سزا دی۔ ﴿ وَاللّٰـهُ يَعْلَمُ إِسْرَارَهُمْ ﴾ ” اور اللہ ان کے راز جانتا ہے۔“ اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان کی فضیحت کی اور اسے اپنے مومن بندوں کے سامنے بیان کیا، تاکہ وہ فریب میں مبتلا نہ رہیں۔ محمد
27 ﴿ فَكَيْفَ ﴾ ” پس کیسا“ ان کا برا حال اور ان کا بدترین نظارہ آپ دیکھیں گے ﴿ إِذَا تَوَفَّتْهُمُ الْمَلَائِكَةُ ﴾ ” جب فرشتے انہیں فوت کریں گے۔“ جو ان کی روح قبض کرنے کے لئے مقرر کئے گئے ہیں ﴿ يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبَارَهُمْ ﴾ ” وہ )سخت گرزوں سے ( ان کے چہروں اور پیٹھوں پر مار رہے ہوں گے۔ “ محمد
28 ﴿ ذٰلِكَ ﴾ یہ عذاب، جس کے وہ مستحق ٹھہرے اور اس میں انہیں ڈالا گیا اس سبب سے ہے ﴿ بِأَنَّهُمُ اتَّبَعُوا مَا أَسْخَطَ اللّٰـهَ ﴾ کہ انہوں نے ہر کفر و فسق اور گناہ کی پیروی کرکے اللہ کو ناراض کیا ﴿ وَكَرِهُوا رِضْوَانَهُ ﴾ ” اور اس کی رضا مندی کو انہوں نے ناپسند کیا۔“ پس انہیں ایسے امور میں رغبت نہ تھی جو ان کے لئے اللہ تعالیٰ کے تقرب کا ذریعہ بنتے ہیں اور نہ ایسے اعمال میں رغبت تھی جو انہیں اللہ تعالیٰ کے قریب کرتے ہیں۔ ﴿ فَأَحْبَطَ أَعْمَالَهُمْ ﴾ سو اللہ تعالیٰ نے ان کے اعمال کو باطل اور اکارت کردیا، یہ اس شخص کے معاملے کے برعکس ہے جو ان امور کی اتباع کرتا ہے جن کو اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی ناراضی کو ناپسند کرتا ہے، عنقریب اللہ تعالیٰ اس کی برائیوں کو مٹا دے گا اور اس کے لئے اپنے اجرو ثواب کو کئی گنا کردے گا۔ محمد
29 اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ ﴾ ” کیا وہ لوگ جن کے دلوں میں مرض ہے انہوں نے خیال کیا ہے۔“ یعنی وہ جن کے دلوں میں کوئی ایسا شبہ یا خواہش ہے جو قلب کو صحت اور اعتدال کی حالت سے خارج کردیتا ہے کہ ان کے دلوں میں اسلام اور اہل اسلام کے لئے جو کینہ اور عداوت ہے اللہ اسے ظاہر نہیں کرے گا؟ یہ ایسا گمان ہے جو اللہ تعالیٰ کی حکمت کے لائق نہیں اور یہ ضروری ہے کہ وہ جھوٹے میں سے سچے کو واضح کرے اور یہ چیز آزمائش اور امتحان سے ثابت ہوتی ہے۔ جو کوئی اس امتحان میں پورا اترا اور اس کا ایمان ثابت رہا وہی حقیق مومن ہے اور جس کو اس امتحان و ابتلاء نے الٹے پاؤں پھیر دیا اور اس نے اس پر صبر نہ کیا اور جب اس پر امتحان آیا تو اس نے جزع فزع کیا اور اس کا ایمان کمزور ہوگیا۔ اس کے دل میں جو بغض اور کینہ تھا ظاہر ہوگیا اور یوں اس کا نفاق ظاہر ہوگیا۔ یہ حکمت الٰہیہ کا تقاضا ہے۔ محمد
30 اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَلَوْ نَشَاءُ لَأَرَيْنَاكَهُمْ فَلَعَرَفْتَهُم بِسِيمَاهُمْ ﴾ ” اور اگر ہم چاہتے تو وہ لوگ تم کو دکھا بھی دیتے اور آپ انہیں ان کے چہروں ہی سے پہچان لیتے۔“ یعنی ان کی ان علامات کے ذریعے سے آپ ان کو پہچان لیں گے جو گویا ان کے چہروں پر مرقوم ہیں ﴿ وَلَتَعْرِفَنَّهُمْ فِي لَحْنِ الْقَوْلِ ﴾ ” اور یقیناً آپ انہیں ان کی بات کے انداز سے پہچان لیں گے۔“ یعنی یہ ایک لازمی امر ہے کہ ان کے دلوں میں جو کچھ ہے وہ ظاہر اور ان کی زبان کی لغزش سے واضح ہو کر رہے گا کیونکہ زبان دل کی نقیب ہوتی ہے جو خیر اور شردل میں ہوتا ہے اسے زبان ظاہر کردیتی ہے ﴿ وَاللّٰـهُ يَعْلَمُ أَعْمَالَكُمْ ﴾ ” اور اللہ تمہارے اعمال سے واقف ہے۔“ پس وہ تمہیں اس کی جزا دے گا۔ محمد
31 پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے سب بڑے امتحان کا ذکر فرماتا ہے جس کے ذریعے سے وہ اپنے بندوں کو آزماتا ہے اور وہ ہے جہاد فی سبیل اللہ۔ چنانچہ فرمایا : ﴿ وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ ﴾ یعنی ہم تمہارے ایمان اور صبر کا امتحان لیں گے ﴿ حَتَّىٰ نَعْلَمَ الْمُجَاهِدِينَ مِنكُمْ وَالصَّابِرِينَ وَنَبْلُوَ أَخْبَارَكُمْ ﴾ ” تاکہ جو تم میں لڑائی کرنے والے اور ثابت قدم رہنے والے ہیں ہم ان کو معلوم کرلیں۔“ پس جو کوئی اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کرتا ہے، اس کے دین کی مدد اور اس کے کلمہ کو بلند کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرتا ہے، وہی حقیقی مومن ہے اور جو کوئی اس بارے میں سستی اور تن آسانی سے کام لیتا ہے، تو اس کے ایمان میں نقص ہے۔ محمد
32 یہ آیت کریمہ ان لوگوں کے لئے نہایت سخت وعید ہے جن میں ہر قسم کا شر جمع ہے مثلاً اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر، مخلوق کو اللہ تعالیٰ کے راستے سے روکنا، جو اللہ تعالیٰ نے اپنے تک پہنچانے کے لئے مقرر کیا ہوا ہے۔ ﴿ وَشَاقُّوا الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْهُدَىٰ ﴾ اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ عناد رکھا جہالت، گمراہی اور ضلالت کی وجہ سے نہیں بلکہ جان بوجھ کر عناد کی وجہ سے ہدایت کے واضح ہوجانے کے بعد آپ کی مخالفت کی ﴿ لَن يَضُرُّوا اللّٰـهَ شَيْئًا ﴾ ” اور وہ اللہ تعالیٰ کو کوئی ضرر نہیں پہنچاسکتے۔“ پس اس سے اللہ تعالیٰ کے اقتدار میں کوئی کمی واقع نہیں ہوگی۔ ﴿ وَسَيُحْبِطُ أَعْمَالَهُمْ ﴾ اور اللہ تعالیٰ ان کی کوششوں کو رائیگاں کر دے گا جو وہ باطل کی مدد کے لئے کر رہے ہیں، یعنی ان کو ناکامی اور خسارے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا اور ان کے وہ اعمال جن پر انہیں ثواب کی امیدیں ہیں، قبولیت کی شرائط کے عدم و جود کی بنا پر قبول نہ کیے جائیں گے۔ محمد
33 اللہ تبارک و تعالیٰ اہل ایمان کو ایسی بات کا حکم دیتا ہے جس کے ذریعے سے انہیں دینی اور دنیاوی سعادت حاصل اور اس کی تکمیل ہوتی ہے اور وہ ہے دین کے اصول و فروع اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت۔ اور اطاعت سے مراد ہے اللہ تعالیٰ کے اوامر کی اخلاص اور کامل متابعت کے ساتھ مامور بہ طریقے سے تعمیل کرنا اور نواہی سے اجتناب کرنا۔ اللہ تعالیٰ کے فرمان : ﴿ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ ﴾ ” اور اپنے اعمال کو برباد نہ کرو۔“ میں نہیں عمل کو بجا لانے کے بعد اس کو فاسد کرنے والے امور کے ذریعے سے اس کے باطل کرنے کو شامل ہے، مثلاً نیکی کرنے کے بعد احسان جتلانا، تکبر، فخر اور شہرت کی خواہش کرنا وغیرہ، نیز ایسے گناہوں کا ارتکاب جو نیک اعمال کو مضمحل کرکے ان کے اجرو ثواب کو ضائع کردیتے ہیں۔ نیز یہ نہی عمل کے وقوع کے وقت، اس کو فاسد کرنے کو بھی شامل ہے، مثلاً عمل کو مکمل کیے بغیر چھوڑ دینا یا کسی ایسے امر کا ارتکاب کرنا جو اس عمل کی مفسدات میں شمار ہوتا ہے۔ پس نماز، روزہ اور حج کو باطل کرنے والے امور اسی زمرے میں آتے ہیں اور ان سے روکا گیا ہے۔ اس آیت کریمہ سے فقہاءبغیر کسی موجب کے فرض کو منطقع کرنے کی تحریم اور نفل کو منقطع کرنے کی کراہت پر استدلال کرتے ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ نے اعمال کو باطل کرنے سے روکا ہے تو اس نے گویا اعمال کی اصلاح، اس کی تکمیل و اتمام اور ان کو اس طرح بجا لانے کا حکم دیا ہے جو علم و عمل کے اعتبار سے درست ہو۔ محمد
34 یہ آیت کریمہ اور جو سورۃ البقرۃ میں وارد ہوئی ہے یعنی ﴿وَمَن يَرْتَدِدْ مِنكُمْ عَن دِينِهِ فَيَمُتْ وَهُوَ كَافِرٌ فَأُولَـٰئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ﴾ (البقرۃ: 2؍217) ” اور تم میں سے جو کوئی اپنے دین سے پھرجائے اور کفر کی حالت میں مرجائے، پس ان لوگوں کے اعمال دنیا وآخرت میں اکارت جائیں گے۔“ یہ دونوں آیات ہر اس نص مطلق کو، جس میں کفر کی بنا پر اعمال کے اکارت جانے کا ذکر کیا گیا ہے، مقید کرتی ہیں۔ پس یہ حکم اس پر موت کے ساتھ مقید ہے۔ یہاں فرمایا : ﴿إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا﴾ بے شک وہ لوگ جنہوں نے اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں اور روز آخرت کا انکار کیا ﴿وَصَدُّوا﴾ اور مخلوق کو روکا ﴿عَن سَبِيلِ اللّٰـهِ﴾ ” اللہ کی راہ سے“ انہیں راہ حق سے دور کرنے، باطل کی طرف دعوت دینے اور باطل کو مزین کرنے کے ذریعے سے ﴿ثُمَّ مَاتُوا وَهُمْ كُفَّارٌ﴾ ” پھر کافر ہی مرگئے۔“ اور انہوں نے کفر سے توبہ نہ کی ﴿فَلَن يَغْفِرَ اللّٰـهُ لَهُمْ﴾ تو اللہ تعالیٰ انہیں کسی سفارش وغیرہ کے ذریعے سے نہ بخشے گا۔ ان کے لئے عذاب واجب ہوچکا، وہ ثواب سے محروم ہوگئے اور جہنم میں ان کا ہمیشہ رہنا لازم ہوگیا ان پر رحیم و غفار کی رحمت کے تمام دروازے بند ہوگئے۔ آیت کریمہ کا مفہوم مخالف یہ ہے کہ اگر وہ اپنی موت سے پہلے توبہ کرلیں تو بے شک اللہ تعالیٰ انہیں بخش دے گا، ان پر رحم کرکے جنت میں داخل کردے گا خواہ انہوں نے اپنی عمریں کفر، اللہ کے راستے سے لوگوں کو روکنے اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں کیوں نہ گزاری ہوں۔ پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندوں پر اپنی رحمت کے دروازے کھول دیے، اس نے کسی شخص پر، جب تک وہ زندہ ہے اور توبہ کرنے پر قادر ہے، اپنی رحمت کے دروازوں کو بند نہیں کیا۔۔۔ اور پاک ہے وہ ذات جو نہایت حلم والی ہے، جو گناہ گاروں کو سزا دینے میں جلدی نہیں کرتی، بلکہ ان کو معاف کرتی ہے اور انہیں رزق عطا کرتی ہے، گویا انہوں نے کبھی اس کی نافرمانی کی ہی نہیں، حالانکہ وہ ہستی ان پر پوری قدرت رکھتی ہے۔ محمد
35 اس کے بعد اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿ فَلَا تَهِنُوا﴾ یعنی اپنے دشمن کے ساتھ قتال کرنے میں کمزوری نہ دکھاؤ اور تم پر خوف غالب نہ آئے، بلکہ صبر کرو اور ثابت قدم رہو اپنے رب کی رضا، اسلام کی خیر خواہی اور شیطان کو ناراض کرنے کے لئے اپنے نفس کو قتال اور جانفشانی پر آمادہ کرو اور محض آرام حاصل کرنے کے لئے تم دشمن کو امن اور صلح کی دعوت نہ دو۔ ﴿وَ﴾ ” اور“ حالانکہ ﴿ أَنتُمُ الْأَعْلَوْنَ وَاللَّـهُ مَعَكُمْ وَلَن يَتِرَكُمْ﴾ ” تم ہی غالب رہو گے اور اللہ تمہارے ساتھ ہے اور وہ کمی نہیں کرے گا ” ﴿أَعْمَالَكُمْ﴾ ” تمہارے اعمال میں۔ “ یہ تین امور، ان میں سے ہر ایک صبر اور عدم ضعف کا تقاضا کرتا ہے۔ (1) ان کا غالب آنا، یعنی ان کے لئے فتح و نصرت کے وافر اسباب مہیا کردئیے گئے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے ساتھ سچا وعدہ کیا گیا ہے۔ انسان صرف اس وقت کمزور ہوتا ہے جب وہ مخالفین کی نسبت کمتر تعداد، سازوسامان اور داخلی اور خارجی قوت کے اعتبار سے ان کی نسبت کمزور ہو۔ (2) اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ ہے، کیونکہ وہ مومن ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنی نصرت اور تائید کے ذریعے سے اہل ایمان کے ساتھ ہے۔ یہ چیز ان کے دلوں کو طاقت اور قوت عطا کرنے اور دشمن کے خلاف اقدام کرنے کی موجب ہے۔ (3) اللہ تعالیٰ ان کے اعمال میں کچھ کمی نہیں کرے گا بلکہ انہیں پورا پورا اجر عطا کرے گا اور اپنے فضل سے ان کو اور زیادہ عطا کرے گا۔ خاص طور پر جہاد کی عبادت میں، کیونکہ جہاد میں خرچ کیے ہوئے مال کا اجر سات سو گنا بلکہ اس سے بھی زیادہ ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ ذٰلِكَ بِأَنَّهُمْ لَا يُصِيبُهُمْ ظَمَأٌ وَلَا نَصَبٌ وَلَا مَخْمَصَةٌ فِي سَبِيلِ اللّٰـهِ وَلَا يَطَئُونَ مَوْطِئًا يَغِيظُ الْكُفَّارَ وَلَا يَنَالُونَ مِنْ عَدُوٍّ نَّيْلًا إِلَّا كُتِبَ لَهُم بِهِ عَمَلٌ صَالِحٌ إِنَّ اللّٰـهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ وَلَا يُنفِقُونَ نَفَقَةً صَغِيرَةً وَلَا كَبِيرَةً وَلَا يَقْطَعُونَ وَادِيًا إِلَّا كُتِبَ لَهُمْ لِيَجْزِيَهُمُ اللّٰـهُ أَحْسَنَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴾ (التوبۃ: 9؍120۔ 121) ” یہ اس سبب سے ہے کہ انہیں اللہ کے راستے میں جو بھی تکلیف پہنچتی ہے، پیاس، تھکاوٹ یا بھوک کی تکلیف، یا وہ ایسی جگہ چلتے ہیں جس سے کفار کو غصہ آئے، یا دشمنوں سے کچھ حاصل کرتے ہیں تو اس کے بدلے ان کے لئے ایک نیک عمل لکھ لیا جاتا ہے۔ بے شک ا للہ تعالیٰ نیکی کرنے والوں کے اجر کو ضائع نہیں کرتا اور جو تھوڑا یا بہت خرچ کرتے ہیں، یا کوئی وادی طے کرتے ہیں تو سب کچھ ان کے لئے لکھ لیا جاتا ہے تاکہ اللہ ان کو ان کے اعمال کی بہترین جزا دے۔ “ جب انسان کو اس حقیقت کی معرفت حاصل ہوجاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے عمل اور جہاد کے اجر کو ضائع نہیں کرے گا تو یہ چیز اس کے لئے نشاط اور ان امور میں کوشش کرنے کی موجب بنتی ہے جن پر اجرو ثواب مترتب ہوتے ہیں۔ تب کیسی کیفیت ہوگی اگر یہ تینوں مذکورہ امور مجمتع ہوں؟ بلاشبہ یہ چیز نشاط کامل کی موجب ہے یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندوں کے لئے ترغیب اور ایسے امور کے لئے ان میں نشاط اور قوت پیدا کرنا ہے جن میں ان کی بھلائی اور فلاح ہے۔ محمد
36 یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندوں کو اس دنیا کی حقیقت سے آگاہ کرتے ہوئے، کہ دنیا محض لہو و لعب ہے یعنی بدن کے لئے لعب اور قلوب کے لئے لہو، اس میں زہد کی ترغیب ہے۔ پس بندہ اپنے مال و متاع، اولاد، اپنی زیب و زینت، اپنی بیویوں، ماکو لات و مشروبات سے حصول لذت، اپنے مساکن و مجالس، مناظر اور ریاست میں مگن ہو کر غافل اور ہر بے فائدہ عمل میں کھیلتا رہتا ہے بلکہ وہ بے کاری، غفلت اور گناہوں کے دائرے میں گھرا رہتا ہے، یہاں تک کہ اپنی دنیا کی زندگی کو مکمل کرلیتا ہے اور اس کی اجل آجاتی ہے۔ جب یہ تمام چیزیں منہ موڑ کر بندے سے جدا ہوجاتی ہیں اور بندے کو ان سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا، بلکہ اس کا خسارہ اور محرومی واضح ہوجاتی ہے اور اس کا عذاب آموجود ہوتا ہے تو یہ چیز خردمند شخص کے لئے، دنیا میں زہد، عدمِ رغبت اور اس کے معاملے میں اہتمام کی موجب ہے۔ وہ کام جو ہر چیز سے زیادہ اہتمام کے لائق ہے اس کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَإِن تُؤْمِنُوا وَتَتَّقُوا ﴾ ” اور اگر تم ایمان لاؤ اور تقویٰ اختیار کرو۔“ یعنی تم اللہ تعالیٰ اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں اور روز آخرت پر ایمان لاؤ اور تقویٰ پر قائم رہو جو ایمان کے لوازم اور اس کے تقاضوں میں سے ہے اور تقویٰ سے مراد ہے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کو ترک کرتے ہوئے، دائمی طور پر اس کی رضا کے مطابق عمل کرنا۔ تو یہ عمل بندے کو فائدہ دیتا ہے اور یہی وہ عمل ہے جو اس لائق ہے کہ اس میں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر رغبت کر جائے اور اس کی طلب میں اپنے عزم وارادے اور اپنی جدوجہد کو صرف کیا جائے اور یہی چیز اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں سے، ان پر رحمت اور لطف و کرم کی بنا پر مطلوب و مقصود ہے، تاکہ انہیں بے پایاں ثواب عطا کرے۔ بنا بریں فرمایا : ﴿وَإِن تُؤْمِنُوا وَتَتَّقُوا يُؤْتِكُمْ أُجُورَكُمْ وَلَا يَسْأَلْكُمْ أَمْوَالَكُمْ﴾ ” اور اگر تم ایمان لاؤ گے اور تقویٰ اختیار کرو گے تو وہ تمہیں تمہارا اجر دے گا اور تم سے تمہارا مال طلب نہیں کرے گا۔“ یعنی اللہ تعالیٰ تمہیں کوئی ایسی تکلیف نہیں دینا چاہتا جو تمہارے لئے مشقت اور مشکل کا باعث ہو، مثلاً وہ تم سے مال لے کر تمہیں مال کے بغیر نہیں چھوڑنا چاہتا یا تمہیں کسی ایسے نقصان سے دور چار نہیں کرنا چاہتا جس سے تمہیں ضرور پہنچے۔ محمد
37 اس لئے فرمایا : ﴿ يَسْأَلْكُمُوهَا فَيُحْفِكُمْ تَبْخَلُوا وَيُخْرِجْ أَضْغَانَكُمْ﴾ یعنی جب وہ تم سے اس چیز کا مطالبہ کرے جس کو خرچ کرنا تم ناپسند کرتے ہو تو وہ دلوں میں چھپے ہوئے کینے اور بدنیتی کو ظاہر کردے گا اور اس کی دلیل یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ تم سے تمہارے اموال طلب کرے اور تمہارے تمام مال کا سوال کر کے تمہیں تنگ کرے تو تم اس کی تعمیل نہ کرو گے اور یہ کہ محمد
38 ﴿تُدْعَوْنَ لِتُنفِقُوا فِي سَبِيلِ اللّٰـهِ﴾ تمہیں اس طریقے سے اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کی دعوت دی جاتی ہے، جس میں تمہاری دینی اور دنیاوی مصلحت ہے۔ ﴿فَمِنكُم مَّن يَبْخَلُ﴾ ” پس تم میں سے جو شخص بخل کرے۔“ تب تمہارا کیا حال ہو، اگر اللہ تعالیٰ تم سے، کسی ایسے معاملے میں خرچ کرنے کے لئے تمہارے مال کا سوال کرے، جہاں خرچ کرنے میں تمہیں کوئی فوری فائدہ نظر نہ آتا ہو، تو تمہارا اس معاملے میں بخل سے باز رہنا زیادہ اولیٰ ہے۔ پھر فرمایا : ﴿وَمَن يَبْخَلْ فَإِنَّمَا يَبْخَلُ عَن نَّفْسِهِ﴾ ” اور جو شخص بخل کرتا ہے وہ اپنے آپ سے بخل کرتا ہے۔“ کیونکہ اس نے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے ثواب سے محروم کرلیا اور اس سے خیر کثیر فوت ہوگئی۔ وہ انفاق فی سبیل اللہ کو ترک کرکے اللہ تعالیٰ کو کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتا بے شک اللہ تعالیٰ ﴿و الْغَنِيُّ وَأَنتُمُ الْفُقَرَاءُ﴾ بے نیاز ہے اور تم اپنے تمام اوقات اور تمام معاملات میں اللہ تعالیٰ کے محتاج ہو۔ ﴿ وَإِن تَتَوَلَّوْا﴾ یعنی اگر تم ایمان باللہ اور ان امور پر عمل کرنے سے منہ موڑ لو جن کا اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے ﴿يَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ ثُمَّ لَا يَكُونُوا أَمْثَالَكُم ﴾ ” تو وہ تمہاری جگہ اور لوگوں کو لے آئے گا اور وہ تمہاری طرح کے نہیں ہوں گے۔“ یعنی وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے روگردانی میں تمہاری مانند نہیں ہوں گے، بلکہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کی اطاعت کرنے والے، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے محبت کرنے والے ہوں گے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَن يَرْتَدَّ مِنكُمْ عَن دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللّٰـهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ﴾ (المائدۃ: 5؍54) ” اے ایمان لانے والو ! اگر تم میں سے کوئی اپنے دین سے پھر جاتا ہے تو عنقریب اللہ ایسے لوگوں کو لے آئے گا جن سے اللہ تعالیٰ محبت کرے گا اور وہ اس سے محبت کریں گے۔ “ محمد
0 الفتح
1 اس فتح مذکور سے مراد صلح حدیبیہ ہے۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب مشرکین مکہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو روکا جبکہ آپ عمرہ کرنے کے لئے مکہ مکرمہ آئے۔ یہ ایک طویل قصہ ہے، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مشرکین کے ساتھ دس سال تک جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کرلیا، اس شرط پر کہ آپ آئندہ سال عمرہ کریں گے۔ جو کوئی قریش کے معاہدے میں داخل ہو کر حلیف بننا چاہے ایسا کرسکتا ہے اور جو کوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد میں داخل ہو کر آپ کا حلیف بننا چاہے وہ ایسا کرسکتا ہے۔ اس کا سبب یہ تھا کہ جب لوگ ایک دوسرے سے مامون ہوں گے تو دعوت دین کا دائرہ وسیع ہوگا، سرزمین کے طول و عرض مومن جہاں کہیں بھی ہوگا، وہ دین کی دعوت دے سکے گا جو شخص حقیقت اسلام سے واقفیت حاصل کرنا چاہتا ہے اس کے لئے واقفیت حاصل کرنا ممکن ہوجائے گا۔ اس مدت کے دوران لوگ فوج در فوج اللہ تعالیٰ کے دین میں داخل ہوئے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس صلح کو ” فتح“ کے نام سے موسوم کرکے اس کو ” فتح مبین“ کی صفت سے موصوف کیا، یعنی واضح فتح۔ کیونکہ مشرکین کے شہروں کو فتح کرنے کا مقصد اللہ تعالیٰ کے دین کا اعزاز اور مسلمانوں کی نصرت ہے اور یہ مقصد اس فتح سے حاصل ہوگیا، اس فتح پر اللہ تعالیٰ نے متعدد امور مرتب فرمائے۔ الفتح
2 ﴿لِّيَغْفِرَ لَكَ اللّٰـهُ مَا تَقَدَّمَ مِن ذَنبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ ﴾ ” تاکہ اللہ آپ کے اگلے پچھلے گناہ بخشش دے۔“ واللہ اعلم۔۔۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اس کے باعث بہت سی نیکیاں حاصل ہوئیں، لوگ دین میں بہت کثرت سے داخل ہوئے، نیز اس بنا پر کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ شرائط برداشت کیں جن پر اولوالعزم رسولوں کے سوا کوئی صبر نہیں کرسکتا۔ یہ چیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عظیم ترین مناقب اور کرامات میں شمار ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے گلے پچھلے گناہ بخش دیے۔ ﴿وَيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكَ﴾ اور تاکہ آپ کے دین کو اعزاز عطا کرکے، آپ کو آپ کے دشمنوں کے خلاف فتح و نصرت سے بہرہ مند کرکے اور آپ کے کلمہ کو وسعت بخش کر آپ پر اپنی نعمت کا تمام کرے۔ ﴿ وَيَهْدِيَكَ صِرَاطًا مُّسْتَقِيمًا﴾ ” اور آپ کو سیدھے راستے پر چلائے۔“ تاکہ آپ سعادت ابدی اور فلاح سرمدی حاصل کرسکیں۔ الفتح
3 ﴿وَيَنصُرَكَ اللّٰـهُ نَصْرًا عَزِيزًا﴾ ” اور اللہ آپ کی زبردست مدد کرے۔“ یعنی انتہائی قوی مدد، جس میں اسلام کمزورنہ ہو، بلکہ اسے مکمل فتح و نصرت حاصل ہو، اللہ تعالیٰ کفار کا قلع قمع کرے، ان کو ذلیل اور کمزور کرکے ان میں کمی کرے، مسلمانوں کو زیادہ کرے، ان کی تعداد کو بڑھائے اور ان کے اموال میں اضافہ کرے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان پر مرتب ہونے والی اس فتح کے آثار کا ذکر فرمایا : الفتح
4 اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو اس احسان سے آگاہ فرمایا ہے کہ اس نے ان کے دلوں میں سکینت نازل کی۔ سکینت سے مراد وہ سکون، اطمینان اور ثبات ہے جو مضطرب کردینے والے مصائب و محن اور ایسے مشکل امور کے وقت بندۂ مومن کو حاصل ہوتا ہے، جو دلوں کو تشویش میں مبتلا کرتے ہیں، عقل کو سوچنے سمجھنے کی قوت سے عاری اور نفس کو کمزور کردیتے ہیں۔ پس اس صورت حال میں یہ اللہ کی طرف سے اپنے بندے کیلئے نعمت ہے کہ وہ اس کو ثابت قدم رکھتا ہے، اس کے قلب کو مضبوط کرتا ہے تاکہ وہ ان مصائب کا سامنا کرسکے اور اس حال میں بھی وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کو قائم کرنے کے لئے مستعد رہے، اس سے اس کے ایمان میں اضافہ اور اس کے ایقان کی تکمیل ہو۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مشرکوں کے مابین، صلح کی یہ شرائط طے ہوئیں، جو صحابہ کرام کے لئے بظاہر ذلت آمیز اور ان کے مرتبے سے فروتر تھیں، تو ان شرائط پر ان کے نفوس صبر کرنے کی قوت نہیں پار ہے تھے۔ جب انہوں نے ان شرائط کو صبر کے ساتھ قبول کرلیا اور اپنے نفوس کو ان کی قبولیت پر آمادہ کرلیا تو ان کے ایمان میں اضافہ ہوا۔ فرمایا : ﴿وَلِلَّـهِ جُنُودُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ﴾ یعنی زمین و آسمان کے تمام لشکر اس کی ملکیت اور اس کے دست تدبیر اور قہر کے تحت ہیں، اس لئے مشرکین یہ نہ سمجھیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے دین اور نبی کی مدد نہیں کرے گا، مگر اللہ تعالیٰ علم اور حکمت والا ہے، بنا بریں اس کی حکمت تقاضا کرتی ہے کہ لوگوں کے درمیان گردشِ ایام ہوتی رہے اور اہل ایمان کیلئے فتح و نصرت کسی دوسرے موقع تک مؤخر رہے۔ الفتح
5 ﴿لِّيُدْخِلَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَيُكَفِّرَ عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ ﴾ ” تاکہ وہ مومن مردوں اور مومن عورتوں کی بہشتوں میں، جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، داخل کرے، جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور تاکہ ان سے ان کے گناہوں کو دور کردے۔“ یہ سب سے بڑی چیز ہے جو اہل ایمان کو حاصل ہوتی ہے یعنی دخول جنت کے ذریعے سے انہیں اپنا مطلوب و مقصود حاصل ہوتا ہے اور گناہوں کو مٹا دینے کے ذریعے سے وہ چیز زائل ہوتی ہے جس کا انہیں خوف تھا۔ ﴿وَكَانَ ذٰلِكَ ﴾ یہ مذکورہ جزا جو مومنوں کو عطا ہوگی ﴿عِندَ اللّٰـهِ فَوْزًا عَظِيمًا﴾ ” اللہ کے ہاں بڑی کامیابی ہے۔“ یہ ہے وہ فعل جو اللہ تعالیٰ اس فتح مبین میں اہل ایمان کے بارے میں سر انجام دے گا۔ الفتح
6 رہے منافق مرد اور منافق عورتیں، مشرک مرد اور مشرک عورتیں، تو اللہ تعالیٰ ان کو اس فتح مبین کے ذریعے سے عذاب دے گا، انہیں ایسے ایسے امور دکھائے گا جو ان کے لئے نہایت تکلیف دہ ہوں گے، چونکہ مشرکین کا مقصد یہ تھا کہ مومنین بے یارومدگار رہ جائیں۔ وہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں یہ برا گمان رکھتے ہیں کہ وہ اپنے دین کی مدد کرے گا نہ اپنے کلمہ کو بلند کرے گا اور اہل باطل کو اہل حق پر غلبہ عطا کرے گا۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کے گمان کو الٹ دیا اور دنیا ہی میں ان پر برا وقت آگیا۔ ﴿وَغَضِبَ اللّٰـهُ عَلَيْهِمْ﴾ اور ان کے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ عداوت رکھنے کے سبب سے اللہ تعالیٰ ان پر سخت ناراض ہے ﴿وَلَعَنَهُمْ ﴾ ” اور ان پر لعنت کی“ یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنی رحمت سے دور کردیا ہے ﴿وَأَعَدَّ لَهُمْ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًا﴾ ” اور ان کے لئے جہنم تیار کر رکھی ہے جو بدترین ٹھکانا ہے۔ “ الفتح
7 اللہ تبارک و تعالیٰ نے بتکرار آگاہ فرمایا ہے کہ آسمان اور زمین اور ان کے اندر موجود لشکر، اسی کی ملکیت ہیں، تاکہ بندے اس حقیقت کو جان لیں کہ وہی عزت عطا کرنے والا اور وہی ذلت سے دو چار کرنے والا ہے۔ وہ عنقریب اپنے ان لشکروں کو فتح و نصرت سے ہم کنار کرے گا جو اس کی طرف منسوب ہیں جیسا کہ فرمایا : ﴿وَإِنَّ جُندَنَا لَهُمُ الْغَالِبُونَ ﴾ (الصفت : 37؍173) ” اور بلاشبہ ہمارا لشکر ہی غالب آکر رہے گا۔“ ﴿وَكَانَ اللّٰـهُ عَزِيزًا ﴾ اور اللہ تعالیٰ طاقت ور، زبردست اور ہر چیز پر غلبہ رکھتا ہے۔ وہ اپنی قوت اور غلبہ کے باوجود، اپنی تخلیق و تدبیر میں حکمت والا ہے، وہ اپنی حکمت اور مہارت کے مطابق فعل سرانجام دیتا ہے۔ الفتح
8 ﴿ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ﴾ اے رسول کریم ! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم نے آپ کو بھیجا ﴿شَاهِدًا﴾ ’’گواہ بنا کر،، یعنی آپ کی امت جو نیکی یا بدی کرتی ہے، ہم نے آپ کو اس پر گواہ بنا کر بھیجا نیز تمام حق اور باطل مقالات اور مسائل پر، اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور ہر لحاظ سے اس کے اپنے کمال میں منفرد ہونے پر آپ کو گواہ بنا کر مبعوث کیا۔ ﴿وَمُبَشِّرًا﴾ جس کسی نے آپ کی اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی، اس کے لئے دنیاوی، دینی اور اخروی ثواب کی خوشخبری سنانے والا بنا کر بھیجا اور جس نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی، اس کو دنیاوی اور اخروی عذاب سے ڈرانے والا بنا کر مبعوث کیا۔ تبشیر اور انذار یہ ہے کہ ان اعمال و اخلاق کو بیان کیا جائے جن پر خوشخبری دی جاتی ہے اور جن کے انجام سے ڈرایا جاتا ہے، چنانچہ آپ خیر وشر، سعادت و شقاوت اور حق و باطل کو کھول کھول کر بیان کردینے والے ہیں۔ الفتح
9 اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس پر اپنا یہ ارشاد مرتب فرمایا : ﴿ لِّتُؤْمِنُوا بِاللَّـهِ وَرَسُولِهِ ﴾ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تمہیں دعوت اور ان امور کی تعلیم دینے کے سبب سے ہم نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا جن میں تمہارا فائدہ ہے، تاکہ تم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ جو تمام امور میں ان دونوں کی اطاعت کو مستلزم ہے۔ ﴿وَتُعَزِّرُوهُ وَتُوَقِّرُوهُ﴾ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ادب کرو، آپ کی توقیر و تعظیم کرو، آپ کو مرتبے میں بڑا تسلیم کرو اور آپ کے حقوق کو ادا کرو جیسا کہ تمہاری گردنوں پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بڑا احسان ہے۔ ﴿ وَتُسَبِّحُوهُ﴾ اور اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرو ﴿ بُكْرَةً وَأَصِيلًا ﴾ صبح و شام۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے وہ حق بیان کیا ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے درمیان مشترک ہے، یعنی ان دونوں پر ایمان۔ ایک حق وہ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مختص ہے اور وہ ہے آپ کی تعظیم و توقیر اور ایک حق وہ ہے جو صرف اللہ تعالیٰ سے مختص ہے اور وہ ہے نماز وغیرہ کے ذریعے سے اس کی تسبیح و تقدیس۔ الفتح
10 یہ بیعت، جس کی طرف اللہ تبارک و تعالیٰ نے اشارہ فرمایا ہے ” بیعت رضوان“ ہے، اس میں صحابہ کرام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی تھی کہ وہ آپ کو چھوڑ کر فرار نہیں ہوں گے۔ یہ ایک خاص معاہدہ ہے جس کے لوازم میں سے ہے کہ وہ آپ کو چھوڑ کر فرار نہ ہوں، خواہ بہت ہی تھوڑے لوگ کیوں نہ باقی رہ جائیں اور خواہ ایسی صورت حال میں ہوں جہاں فرار ہونا جائز ہوتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا ہے کہ جو لوگ آپ سے بیعت کر رہے ہیں، حقیقت امر یہ ہے کہ وہ ﴿ يُبَايِعُونَ اللّٰـهَ﴾ اللہ تعالیٰ کے ساتھ معاہدہ کر رہے ہیں، حتیٰ کہ یہ اس کی شدت تاکید ہے کہ فرمایا : ﴿يَدُ اللّٰـهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ﴾ ” اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہے۔“ گویا کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ بیعت کی ہے اور اس بیعت میں انہوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ مصافحہ کیا ہے۔ یہ سب کچھ زیادہ تاکید، تقویت اور ان کو اس بیعت کے پورا کرنے پر آمادہ کرنے کے لئے فرمایا، بنابریں فرمایا : ﴿ فَمَن نَّكَثَ﴾ ” پس جو بیعت کو توڑے“ یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ جو معاہدہ کیا تھا اسے پورا نہ کرے ﴿فَإِنَّمَا يَنكُثُ عَلَىٰ نَفْسِهِ﴾ ” تو بے شک عہد توڑنے کا نقصان اسی کو ہے۔“ کیونکہ اس کا وبال اسی کی طرف لوٹے گا اور اس کی سزا اسی کو ملے گی۔ ﴿وَمَنْ أَوْفَىٰ بِمَا عَاهَدَ عَلَيْهُ اللّٰـهَ﴾ ” اور جو اس بات کو، جس کا اس نے اللہ سے عہد کیا ہے، پورا کرے۔“ یعنی اس معاہدے پر کامل طور پر عمل کرے ﴿فَسَيُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا﴾ ” تو وہ اسے عنقریب اجر عظیم دے گا۔“ اس اجر کی عظمت اور قدر کو صرف وہی جان سکتا ہے جسے اللہ تعالیٰ یہ اجر عطا کرے گا۔ الفتح
11 اللہ تبارک و تعالیٰ نے ضعیف الایمان بدویوں کی مذمت بیان کی ہے جو جہاد فی سبیل اللہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چھوڑ کر پیچھے بیٹھ رہے، ان کے دلوں میں مرض اور اللہ تعالیٰ کے بارے میں بدگمانی تھی۔ نیز وہ یہ بھی سمجھتے تھے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس معذرت کرلیں گے کہ ان کے مال اور اہل و عیال کی مصروفیات نے ان کو اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کے لئے نکلنے سے روکے رکھا اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے درخواست کرلیں گے کہ آپ ان کے لئے استغفار کریں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿يَقُولُونَ بِأَلْسِنَتِهِم مَّا لَيْسَ فِي قُلُوبِهِمْ﴾ ” یہ اپنی زبانوں سے وہ بات کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے استغفار کی درخواست کرنا، ان کی ندامت اور اپنے گناہ کے اقرار پر دلالت کرتا ہے نیز اس امر کے اعتراف پر دلالت کرتا ہے کہ وہ جہاد سے پیچھے رہ گئے تھے، جس کے لئے توبہ و استغفار کی ضرورت ہے۔ الفتح
12 پس اگر ان کے دلوں میں یہی بات ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا استغفار ان کے لئے فائدہ مند ہوتا کیونکہ انہوں نے توبہ کرکے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کیا ہے مگر ان کے دلوں میں تو یہ مرض ہے کہ وہ جہاد چھوڑ کر اس لئے گھر بیٹھ رہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں برا گمان رکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں: ﴿أَن لَّن يَنقَلِبَ الرَّسُولُ وَالْمُؤْمِنُونَ إِلَىٰ أَهْلِيهِمْ أَبَدًا﴾ ” کہ رسول اور مومن اپنے اہل و عیال میں کبھی لوٹ کر نہیں آئیں گے۔“ یعنی ان کو قتل کرکے نیست و نابود کردیا جائے گا اور یہ برا گمان ان کے دلوں میں پرورش پاتا رہا، وہ اس پر مطمئن رہے حتیٰ کہ ان کے دلوں میں یہ بدگمانی مستحکم ہوگئی، اور اس کا سبب دو امور ہیں : (1) وہ ﴿ قَوْمًا بُورًا﴾ ہلاک ہونے والے لوگ ہیں، ان میں کوئی بھلائی نہیں، اگر ان میں کسی قسم کی بھلائی ہوتی تو ان کے دلوں میں بدگمانی نہ ہوتی۔ اللہ تعالیٰ کے وعدے، دین کے لئے اس کی نصرت اور کلمۃ اللہ کو بلند کرنے کے بارے میں ان کا ایمان اور یقین کمزور ہے۔ الفتح
13 (2) دوسرا سبب اللہ تعالیٰ کے وعدے، اس کے اپنے دین کی مدد کرنے اور اپنے کلمے کو بلند کرنے پر ان کے ایمان اور یقین کا کمزور ہونا ہے، اسی لئے فرمایا : ﴿وَمَن لَّمْ يُؤْمِن بِاللَّـهِ وَرَسُولِهِ﴾ ” اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول پر ایمان نہ لائے“ یعنی وہ کافر اور عذاب کا مستحق ہے ﴿ فَإِنَّا أَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ سَعِيرًا﴾ تو ہم نے کفار کے لئے بھڑکتی ہوئی آگ تیار کر رکھی ہے۔ الفتح
14 یعنی اللہ تعالیٰ اکیلا ہی آسمانوں اور زمین کے اقتدار کا مالک ہے وہ جیسے چاہتا ہے، آسمانوں اور زمین میں اپنے احکام قدری، احکام شرعی اور احکام جزائی نافذ کرتا ہے، اس لئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے حکم جزائی کا ذکر فرمایا جو احکام شرعی پر مترتب ہوتا ہے۔ چنانچہ فرمایا : ﴿ يَغْفِرُ لِمَن يَشَاءُ﴾ ” وہ جسے چاہے بخش دے“ اور یہ وہ شخص ہے جس نے اللہ کے حکم کی اطاعت کی۔ ﴿وَيُعَذِّبُ مَن يَشَاءُ ﴾ ” اور وہ جسے چاہے عذاب دے“ اور یہ وہ شخص ہے جس نے اللہ تعالیٰ کے حکم کو ہیچ جانا۔ ﴿وَكَانَ اللّٰـهُ غَفُورًا رَّحِيمًا﴾ ” اور اللہ معاف کرنے والا نہایت مہربان ہے۔“ اس کا وصف لازم ہے جس کی بنا پر مغفرت اور رحمت کبھی اس سے جدا نہیں ہوتے۔ وہ ہر وقت گناہ گاروں کے گناہ بخشتا ہے، خطا کاروں کی خطاؤں سے درگزر کرتا ہے اور توبہ کرنے والوں کو توبہ قبول کرتا ہے۔ اس کی بے پایاں بھلائی رات دن نازل ہوتی رہتی ہے۔ الفتح
15 جب اللہ تعالیٰ نے جہاد سے جی چرا کر پیچھے بیٹھ رہنے والوں کا ذکر کرتے ہوئے ان کی مذمت کی، تو یہ بھی ذکر فرمایا کہ ان کی دنیاوی سزا یہ ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے اصحاب کرام، ایسی غنیمتیں حاصل کرنے لئے آگے بڑھیں گے، جس میں جنگ نہیں ہوگی، تو یہ لوگ ان سے صحبت اور مشارکت کی درخواست کریں گے۔ وہ کہیں گے۔ ﴿ذَرُونَا نَتَّبِعْكُمْ يُرِيدُونَ ﴾ ” ہمیں بھی اجازت دیں کہ ہم آپ کے ساتھ چلیں، وہ چاہتے ہیں“ اس سے ﴿أَن يُبَدِّلُوا كَلَامَ اللّٰـهِ ﴾ ” کہ وہ اللہ کے کلام کو بدل دیں۔“ کیونکہ اس نے ان کو سزا دینے کا فیصلہ کیا ہے اور ان غنائم کو شرعاً اور قدر اً صحابہ کرام یعنی اہل ایمان سے مختص کیا ہے۔ ﴿قُل﴾ ان سے کہہ دیجئے ﴿لَّن تَتَّبِعُونَا كَذَٰلِكُمْ قَالَ اللّٰـهُ مِن قَبْلُ﴾ ” تم ہرگز ہمارے ساتھ نہیں چل سکتے، اسی طرح اللہ نے پہلے فرما دیا ہے۔“ تمہیں اس جرم کی پاداش میں جس کا ارتکاب تم نے اپنے آپ پر کیا، غنائم سے محروم کیا جاتا ہے، نیز اس جرم کی پاداش میں کہ تم نے پہلے مرتبہ جہاد کو ترک کیا۔ ﴿فَسَيَقُولُونَ﴾ تو وہ اس بات کا جواب دیتے ہوئے، جس کی بنا پر انہیں جنگ کے لئے نکلنے سے منع کیا گیا ہے، کہیں گے : ﴿بَلْ تَحْسُدُونَنَا﴾ یعنی تم مال غنیمت کے بارے میں ہمارے ساتھ حسد کرتے ہو۔ اس مقام پر یہ ان کا منتہائے علم ہے، اگر انہوں نے رشدو فہم سے کام لیا ہوتا تو انہیں معلوم ہوتا کہ ان کی محرومی کا سبب، ان کی نافرمانی ہے، گناہوں کی کچھ دنیاوی اور کچھ دینی سزا ہوتی ہے اسی لئے فرمایا : ﴿بَلْ كَانُوا لَا يَفْقَهُونَ إِلَّا قَلِيلًا﴾ ” بلکہ یہ بہت کم سمجھتے ہیں۔ “ الفتح
16 اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے کہ اعراب (عرب دیہاتیوں) میں سے پیچھے بیٹھ رہنے والے، جہاد سے جی چراتے ہیں اور کسی عذر کے بغیر معذرت پیش کرتے ہیں اور وہ صرف ان کے ساتھ جہاد پر نکلنے کی درخواست کرتے ہیں، جب کہ جنگ اور قتال نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے ان کا امتحان لیتے ہوئے فرمایا : ﴿قُل لِّلْمُخَلَّفِينَ مِنَ الْأَعْرَابِ سَتُدْعَوْنَ إِلَىٰ قَوْمٍ أُولِي بَأْسٍ شَدِيدٍ﴾ یعنی عنقریب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کے قائم مقام خلفائے راشدین اور دیگر ائمہ تمہیں جہاد کی طرف بلائیں گے اور وہ لوگ جن سے جہاد کے لئے تمہیں دعوت دی جائے گی، وہ اہل فارس، اہل روم اور ان جیسی بعض دیگر قومیں ہوں گی۔﴿ تُقَاتِلُونَهُمْ أَوْ يُسْلِمُونَ﴾ یعنی تم ان کے خلاف جنگ کرو گے یا وہ مسلمان ہوجائیں گے۔ فی الواقع معاملہ یہی ہے کہ جب مسلمانوں کی ان قوموں کے ساتھ جنگ ہوئی، جنگ کے حالات میں جب تک ان میں شدت اور قوت رہی تو اس صورت میں انہوں نے جزیہ دینا قبول نہیں کیا، بلکہ یا تو انہوں نے اسلام قبول کرلیا یا وہ اپنے مذہب پر رہتے ہوئے جنگ کرتے رہے، جب مسلمانوں نے جنگ میں ان کو بے بس کردیا اور وہ کمزور ہو کر مطیع ہوگئے اور ان کی قوت جاتی رہی تو ان کی حالت یہ ہوگئی کہ وہ یا تو مسلمان ہوگئے یا جزیہ ادا کرنے لگے ﴿فَإِن تُطِيعُوا﴾ یعنی اگر ان لوگوں کے خلاف جہاد کی دعوت دینے والے کی اطاعت کرو۔ ﴿يُؤْتِكُمُ اللّٰـهُ أَجْرًا حَسَنًا﴾ ” تو اللہ تمہیں اچھا اجر دے گا۔“ یہ وہ اجر و ثواب ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ کے راستے میں جہاد پر مرتب فرمایا ہے۔ ﴿وَإِن تَتَوَلَّوْا كَمَا تَوَلَّيْتُم مِّن قَبْلُ﴾ ” اور اگر تم منہ پھیر لو جیسے پہلی مرتبہ پھیرا تھا۔“ یعنی ان لوگوں سے جہاد کرنے سے منہ موڑ لو جن کے خلاف جہاد کرنے کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمہیں دعوت دی ہے۔ ﴿يُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا أَلِيمًا ﴾ ” تو وہ تمہیں درد ناک عذاب دے گا۔“ اس آیت کریمہ میں خلفائے راشدین کی، جو طاقت ور قوموں کے خلاف جہاد کرنے کی دعوت دیتے رہے، فضیلت بیان ہوئی ہے نیز یہ کہ جہاد میں ان کی اطاعت واجب ہے۔ الفتح
17 پھر اللہ تعالیٰ نے عذروں کا ذکر فرمایا جن کی بنا پر جہاد میں نکلنے سے معذور ہوتا ہے۔ لہٰذا فرمایا : ﴿لَّيْسَ عَلَى الْأَعْمَىٰ حَرَجٌ وَلَا عَلَى الْأَعْرَجِ حَرَجٌ وَلَا عَلَى الْمَرِيضِ حَرَجٌ ﴾ ” نہ تو اندھے پر گناہ ہے نہ لنگڑے پر گناہ ہے اور نہ مریض پر گناہ ہے۔“ یعنی اپنے عذر کی بنا پر، جو جہاد پر نکلنے سے مانع ہے، جہاد سے پیچھے رہ جائیں، تو ان پر کوئی حرج نہیں۔ ﴿وَمَن يُطِعِ اللّٰـهَ وَرَسُولَهُ ﴾ ” اور جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا۔“ یعنی ان کے اوامر کی تعمیل کرنے اور ان کے نواہی سے اجتناب کرنے میں۔ ﴿ يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ﴾ ” اللہ اس کو بہشتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں۔“ ان جنتوں میں ہر وہ چیز ہوگی، نفس جس کی خواہش کریں گے اور آنکھوں کو جن سے لذت حاصل ہوگی۔ ﴿وَمَن يَتَوَلَّ﴾ اور جو کوئی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت سے منہ موڑ لے ﴿يُعَذِّبْهُ عَذَابًا أَلِيمًا﴾ تو اللہ تعالیٰ اسے دردناک عذاب دے گا۔ سعادت تمام تر اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں اور شقاوت اس کی نافرمانی اور مخالفت میں ہے۔ الفتح
18 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے فضل و کرم، اپنی رحمت اور اہل ایمان پر اپنی رضا کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے، جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست مبارک پر ایسی بیعت کر رہے تھے جس نے ان کو سرخرو کردیا اور وہ اس بیعت کے ذریعے سے دنیا اور آخرت کی سعادت سے بہرہ مند ہوئے۔ یہ بیعت جسے اہل ایمان پر اللہ تعالیٰ کے راضی ہونے کی وجہ سے ” بیعت رضوان“ کہا جاتا ہے اور سے ” بیعت اہل شجرہ“ بھی کہتے ہیں، اس کا سبب یہ ہے کہ حدیبیہ کے روز، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کے سلسلے میں آپ اور مشرکین مکہ کے درمیان بات چیت شروع ہوئی، کہ آپ کسی کے ساتھ جنگ لڑنے نہیں آئے، بلکہ آپ بیت اللہ کی زیارت اور اس کی تعظیم کے لئے آئے ہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو اس سلسلے میں مکہ مکرمہ بھیجا۔ آپ کے پاس ایک غیر مصدقہ خبر پہنچی کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو مشرکین مکہ نے قتل کردیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ساتھ آئے ہوئے مومنین کو جمع کیا، جو تقریباً پندرہ سو افراد تھے، انہوں نے ایک درخت کے نیچے آپ کے ہاتھ پر مشرکین کے خلاف قتال کی بیعت کی کہ وہ مرتے دم تک فرار نہیں ہوں گے۔ تو اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ وہ مومنوں سے راضی ہوگیا، درآنحالیکہ یہ بیعت سب سے بڑی نیکی اور جلیل ترین ذریعہ تقرب ہے۔ ﴿ فَعَلِمَ مَا فِي قُلُوبِهِمْ﴾ ان کے دلوں میں جو ایمان ہے اللہ تعالیٰ کو اس کا علم ہے ﴿فَأَنزَلَ السَّكِينَةَ عَلَيْهِمْ ﴾ تو ان کے دلوں میں جو کچھ ہے، اس کی قدردانی کے لئے ان پر سکینت نازل فرمائی اور ان کی ہدایت میں اضافہ کیا۔ ان شرائط کی وجہ سے، جو مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر صلح کے لئے عائد کی تھیں، مومنوں کے دلوں میں سخت غم اور بے چینی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر سکنیت نازل فرمائی جس نے ان کو ثبات اور اطمینان عطا کیا۔ ﴿ وَأَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِيبًا﴾ ” اور انہیں جلد فتح عنایت کی۔“ اس سے مراد فتح خیبر ہے جس میں اہل حدیبیہ کے سوا اور کوئی شریک نہیں ہوا، چنانچہ ان کے لئے جزا اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور رضا کی تعمیل کی قدرومنزلت کے طور پر ان کو فتح خیبر اور اس کے اموال غنیمت سے مختص کیا گیا۔ الفتح
19 ﴿وَمَغَانِمَ كَثِيرَةً يَأْخُذُونَهَا وَكَانَ اللّٰـهُ عَزِيزًا حَكِيمًا﴾ ” اور بہت سے اموال غنیمت بھی وہ حاصل کریں گے، اور اللہ غالب حکم والا ہے۔“ یعنی طاقت اور قدرت کا وہی مالک ہے، جس کی بنا پر وہ تمام اشیاء پر غالب ہے، اگر وہ چاہے تو ہر اس معرکے میں، جو کفار اور مسلمانوں کے درمیان برپا ہوتا ہے، کفار سے انتقام لے سکتا ہے، مگر وہ حکمت والا ہے وہ ان کو ایک دوسرے کے ذریعے سے آزماتا ہے اور مومن کا کافر کے ذریعے سے امتحان لیتا ہے۔ الفتح
20 ﴿وَعَدَكُمُ اللّٰـهُ مَغَانِمَ كَثِيرَةً تَأْخُذُونَهَا ﴾ ” اللہ نے تم سے اور بھی بہت سی غنیمتوں کا وعدہ کیا ہے کہ جنہیں تم حاصل کرو گے۔“ یہ ان تمام غنائم کو شامل ہے جو قیامت کے روز تک مسلمانوں کو حاصل ہوں گی ﴿فَعَجَّلَ لَكُمْ هَـٰذِهِ ﴾ ” اس نے اس غنیمت کی تمہارے لئے جلدی فرمائی۔،، یعنی غزوہ خیبر کا مال غنیمت، پس تم صرف اسے ہی غنیمت نہ سمجھو بلکہ اس کے علاوہ اور بھی اموال غنیمت ہوں گے جو اس کے بعد تمہیں حاصل ہوں گے۔ ﴿وَ﴾ ” اور“ اللہ تعالیٰ کی حمدو ثنا بیان کرو جب ﴿كَفَّ أَيْدِيَ النَّاسِ﴾ ” اس نے ان لوگوں کے ہاتھ روک دیے،، جو تمہارے ساتھ جنگ کرنے کی قدرت اور اس کی خواہش رکھتے تھے ﴿عَنكُمْ ﴾ ” تم سے“ یہ ایک نعمت اور تمہارے لئے تخفیف ہے ﴿وَلِتَكُونَ﴾ یعنی یہ مال غنیمت ﴿آيَةً لِّلْمُؤْمِنِينَ﴾ ” اہل ایمان کے لئے نشانی ہے“ جس کے ذریعے سے وہ اللہ تعالیٰ کی سچی بھلائی، اس کے وعدہ حق اور اہل ایمان کے لئے ثواب پر استدلال کرتے ہیں، جس نے اس غنیمت کو مقدر کیا ہے وہ اور بھی اموال غنیمت مقدر کرے گا۔ ﴿وَيَهْدِيَكُمْ﴾ اور ان اسباب کے ذریعے سے تمہاری راہ نمائی کرے گا جو اس نے تمہارے لئے مقدر کیے ہیں ﴿صِرَاطًا مُّسْتَقِيمًا﴾ علم، ایمان اور عمل کے سیدھے راستوں میں سے۔ الفتح
21 ﴿ وَأُخْرَىٰ ﴾ اور اللہ تعالیٰ نے دوسرے غنائم کا بھی تمہارے ساتھ وعدہ کیا ہے ﴿ لَمْ تَقْدِرُوا عَلَيْهَا﴾ ” جس پر تم ابھی قادر نہیں ہوئے“ یعنی اس خطاب کے وقت۔ ﴿قَدْ أَحَاطَ اللّٰـهُ بِهَا ﴾ ” بے شک اللہ ہی نے ان کو گھیر رکھا ہے۔“ اللہ تعالیٰ ان غنائم پر قادر ہے، وہ اس کے دست تدبیر کے تحت اور اس کی ملکیت میں ہیں، اس نے تمہارے ساتھ غنائم کا وعدہ کیا ہے پس اس وعدے کا پورا ہونا لازمی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کامل اقتدار کا مالک ہے۔ بنا بریں فرمایا : ﴿وَكَانَ اللّٰـهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرًا﴾ ” اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ “ الفتح
22 یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے مومن بندوں کے لئے خوشخبری ہے کہ وہ ان کو ان کے دشمن کفار کے خلاف فتح و نصرت عطا کرے گا، اگر ان کفار نے ان کا مقابلہ کیا اور ان کے ساتھ جنگ کی ﴿لَوَلَّوُا الْأَدْبَارَ ثُمَّ لَا يَجِدُونَ وَلِيًّا ﴾ ” تو وہ پیٹھ پھر کر بھاگ جائیں گے پھر وہ کوئی دوست نہ پائیں گے۔“ جو ان کی سرپرستی کرے ﴿وَلَا نَصِيرًا ﴾ ” اور نہ مددگار“ جو ان کی مدد کرے اور تمہارے خلاف لڑائی میں ان کی اعانت کرے، بلکہ وہ اپنے حال پر تنہا اور مغلوب چھوڑ دئیے جائیں گے۔ گزشتہ قوموں میں بھی اللہ تعالیٰ کی یہی سنت رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی کے لشکر غالب آتے ہیں۔ الفتح
23 ﴿وَلَن تَجِدَ لِسُنَّةِ اللّٰـهِ تَبْدِيلًا﴾ ” اور آپ سنتِ الٰہی میں کوئی تبدیل نہیں پائیں گے۔ “ الفتح
24 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے اس احسان کا ذکر کرتے ہوئے کہ اس نے ان کو کفار کے شر اور ان کے قتال سے عافیت میں رکھا، فرماتا ہے : ﴿وَهُوَ الَّذِي كَفَّ أَيْدِيَهُمْ ﴾ ” اور وہی تو ہے جس نے ان کے ہاتھوں کو روکا۔“ یعنی اہل مکہ کے ﴿عَنكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ عَنْهُم بِبَطْنِ مَكَّةَ مِن بَعْدِ أَنْ أَظْفَرَكُمْ عَلَيْهِمْ﴾ “ تم سے اور تمہارے ہاتھوں کو ان سے ان پر تمہیں فتح دینے کے بعد۔“ یعنی اس کے بعد کہ تمہیں ان پر قدرت حاصل ہوگئی اور وہ کسی عہد اور معاہدے کے بغیر تمہاری ولایت اور سرپرستی میں آگئے اور وہ تقریباً اسی (٨٠) آدمی تھے، جو مسلمانوں پر حملہ آور ہوئے تاکہ بے خبری میں ان کو آلیں مگر انہوں نے مسلمانوں کو باخبر اور چاق و چوبند پایا، مسلمانوں نے ان کو گرفتار کر کے چھوڑ دیا یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مومنوں پر رحمت تھی کہ انہوں نے ان کو قتل نہ کیا۔ ﴿وَكَانَ اللّٰـهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرًا﴾ ” اور اللہ ہر چیز کو، جو تم عمل کرتے ہو، دیکھتا ہے۔“ پس وہ ہر عمل کرنے والے کو اس کے عمل کی جزا دے گا۔ اے مومنو ! اللہ تعالیٰ اپنی بہترین تدبیر کے ذریعے سے تمہاری راہنمائی کرتا ہے۔ الفتح
25 پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان امور کا ذکر فرمایا ہے جو مشرکین کے خلاف قتال کا باعث ہیں اور وہ ہیں اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ ان کا کفر کرنا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے اہل ایمان ساتھیوں کو بیت اللہ کی زیارت کرنے، اس کی تعظیم کرنے اور حج و عمرہ کے لئے آنے سے روکنا۔ انہی لوگوں نے ﴿ وَالْهَدْيَ مَعْكُوفًا﴾ قربانی کے جانوروں کو روکا ﴿أَن يَبْلُغَ مَحِلَّهُ﴾ ” کہ وہ اپنی قربانی کی جگہ پہنچ جائیں۔“ اس سے مراد مکہ مکرمہ میں ذبح کی جگہ ہے، جہاں قربانیوں کو ذبح کیا جاتا ہے۔ پس انہوں نے ظلم اور تعدی کی بنا پر ان قربانیوں کو اس مقام پر پہنچنے سے روک دیا، یہ تمام امور ان کے خلاف قتال کے داعی اور موجب ہیں۔ لیکن وہاں ایک اور مانع بھی ہے اور وہ ہے مشرکین کے اندر اہل ایمان مرد اور عورتوں کا موجود ہونا، ان کی موجودگی کا محل و مقام ممیز نہ تھا جہاں ان کو نقصان پہنچ جانے کا امکان تھا۔ اگر یہ مومن مرد اور مومن عورتیں نہ ہوتیں، جن کو مسلمان نہ جانتے تھے ﴿أَن تَطَئُوهُمْ﴾ یعنی ان کو لاعلمی میں روند ڈالنے کا خدشہ نہ ہوتا ﴿فَتُصِيبَكُم مِّنْهُم مَّعَرَّةٌ بِغَيْرِ عِلْمٍ﴾ ” تم کو ان کی طرف سے بے خبری میں نقصان پہنچ سکتا تھا۔“ (اَلْمَعَرَّۃُ) سے مراد وہ تکلیف اور نقصان ہے، جو کفار کے ساتھ قتال کے دوران ان اہل ایمان کو بے خبری میں پہنچ سکتا تھا اور اخروی فائدہ یہ ہے کہ اللہ اپنی رحمت میں جسے چاہے داخل کرلے، اللہ تعالیٰ ان کو کفر کے بعد ایمان سے اور گمراہی کے بعد ہدایت سے نوازتا ہے، پس اس سبب سے اللہ تعالیٰ تمہیں ان کے ساتھ قتال کرنے سے روکتا ہے۔ ﴿لَوْ تَزَيَّلُوا﴾ اگر وہ کفار سے الگ ہوجاتے ﴿لَعَذَّبْنَا الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا﴾ ” تو جو ان میں کافر تھے ہم انہیں دردناک عذاب دیتے۔“ وہ اس طرح کہ ہم تمہارے لئے ان سے جنگ کو مباح کردیتے، تمہیں ان کے خلاف لڑنے کی اجازت دے دیتے اور تمہیں ان کے خلاف نصرت سے نوازتے۔ الفتح
26 اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿إِذْ جَعَلَ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي قُلُوبِهِمُ الْحَمِيَّةَ حَمِيَّةَ الْجَاهِلِيَّةِ﴾ ” جب کہ ان کافروں نے اپنے دلوں میں عار کو جگہ دی اور عار بھی جاہلیت کی“ کیونکہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معاہدے کی دستاویز سے (بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ) کو نکال دیا، نیز انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مومنین کو اس سال مکہ مکرمہ میں داخل ہونے سے روک دیا تاکہ لوگ یہ نہ کہیں کہ مسلمان قریش پر غالب آکر مکہ میں داخل ہوئے ہیں۔ یہ اور اس قسم کے تمام امور، جاہلیت کے امور ہیں جو ان کے دلوں میں موجود تھے اور بے شمار گناہوں کے موجب بنے رہے۔ ﴿فَأَنزَلَ اللّٰـهُ سَكِينَتَهُ عَلَىٰ رَسُولِهِ وَعَلَى الْمُؤْمِنِينَ﴾ ” تو اللہ نے اپنے رسول اور مومنوں پر اپنی سکینت نازل فرمائی۔“ اس لئے کفار کے برتاؤ کے مقابلہ میں، ان پر غضب و غصہ غالب نہ آیا، بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم پر انہوں نے صبر کیا اور ان شرائط کا التزام کیا، جن میں اللہ تعالیٰ کی حرمات کی تعظیم تھی، خواہ وہ کچھ بھی تھیں اور انہوں نے باتیں بنانے والوں کی کوئی پروا کی نہ ملامت کرنے والوں کی ملامت کو خاطر میں لائے۔ ﴿وَأَلْزَمَهُمْ كَلِمَةَ التَّقْوَىٰ﴾ ” اور ان کو تقویٰ کی بات پر قائم رکھا۔“ اس سے مراد کلمہ (لَاَ إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ) اور اس کے حقوق ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو لازم ٹھہرایا کہ کلمہ اور اس کے حقوق کو ادا کریں۔ پس اہل ایمان نے ان حقوق کا التزام کرکے ان کو قائم کیا۔ ﴿ وَكَانُوا أَحَقَّ بِهَا﴾ اور وہ اس چیز کے، دوسروں کی نسبت زیادہ مستحق تھے۔ ﴿وَ﴾ ” اور“ تھے وہ ﴿أَهْلَهَا ﴾ ” اس کے اہل“ جو اپنے آپ کو اس کا اہل جانتے تھے کیونکہ ان کے پاس جو کچھ تھا اور ان کے دلوں میں جو بھلائی تھی اللہ تعالیٰ جانتا تھا۔ بنا بریں فرمایا : ﴿وَكَانَ اللّٰـهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا﴾ ” اور اللہ ہر چیز کو خوب جانتا ہے۔ “ الفتح
27 اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿لَّقَدْ صَدَقَ اللّٰـهُ رَسُولَهُ الرُّؤْيَا بِالْحَقِّ ﴾ ” یقیناً اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو سچا خواب دکھایا۔“ اس کی تفصیل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ منورہ میں ایک خواب دیکھا اور آپ نے اپنے اصحاب کرام کو اس خواب سے آگاہ فرمایا کہ وہ عنقریب مکہ میں داخل ہو کر بیت اللہ کا طواف کریں گے۔ جب حدیبیہ کے دن ان کے درمیان صلح ہوئی اور اہل ایمان مکہ میں داخل ہوئے بغیر واپس لوٹے تو اس بارے میں ان سے بہت سی باتیں صادر ہوئیں حتیٰ کہ انہوں نے ان باتوں کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے بھی اظہار کیا چنانچہ انہوں نے آپ سے عرض کیا : کیا آپ نے ہمیں یہ خبر نہیں دی تھی کہ ہم بیت اللہ کی زیارت کے لئے آئیں گے اور طواف کریں گے؟ آپ نے جواب میں فرمایا :” کیا میں نے تمہیں یہ خبر دی تھی کہ ہم اسی سال بیت اللہ کی زیارت اور طواف سے بہرہ مند ہوں گے؟” انہوں نے جواب دیا ” نہیں“ تو آپ نے فرمایا : ” تم عنقریب بیت اللہ کی زیارت کے لئے جاؤ گے اور اس کا طواف کرو گے۔ “ [صحیح البخاری، الشروط، باب الشروط فی الجھاد و المصالحة ۔۔۔حدیث:2732،2731)] یہاں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿لَّقَدْ صَدَقَ اللّٰـهُ رَسُولَهُ الرُّؤْيَا بِالْحَقِّ ﴾ یعنی اس خواب کا پورا اور سچا ہونا لازمی امر ہے اور اس تعبیر میں جرح و قدح نہیں کی جاسکتی ﴿لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ إِن شَاءَ اللّٰـهُ آمِنِينَ مُحَلِّقِينَ رُءُوسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ﴾ یعنی تم اس حال میں مسجد حرام میں داخل ہوگے جو اس محرم گھر کی تعظیم کا تقاضا کرتا ہے کہ تم سرمنڈا کر یا بالوں کو ترشوا کر مناسک کو ادا کر رہے ہوگے اور ان کی تکمیل کر رہے ہوگے اور تمہیں کوئی خوف نہ ہوگا۔ ﴿فَعَلِمَ﴾ اسے تمام مصالح اور منافع معلوم ہیں ﴿مَا لَمْ تَعْلَمُوا فَجَعَلَ مِن دُونِ ذٰلِكَ﴾ ” جو تمہیں معلوم نہیں، پس اس نے کی اس سے پہلے“ یعنی ان اوصاف کے ساتھ داخل ہونے سے پہلے ﴿فَتْحًا قَرِيبًا﴾ ” نزدیک کی فتح“ چونکہ یہ ایسا واقعہ ہے جس سے بعض اہل ایمان کے دلوں میں تشویش پیدا ہوئی اور ان کی نظروں سے اس کی حکمت اوجھل ہوگئی اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کی حکمت اور منفعت بیان فرمائی۔ یہی صورت تمام احکام شرعیہ کی ہے، تمام احکام شرعیہ ہدایت اور رحمت پر مبنی ہیں۔ الفتح
28 اللہ تعالیٰ نے ایک حکم عام کے ذریعے سے آگاہ کرتے ہوئے فرمایا : ﴿هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَىٰ ﴾ ” وہی تو ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت دے کر بھیجا۔“ جو کہ علم نافع ہے، جو گمراہی میں راہ راست دکھاتا ہے اور خیر وشر کے تمام راستے واضح کردیتا ہے ﴿ وَدِينِ الْحَقِّ﴾ اور ایسے دین کے ساتھ بھیجا جو حق سے موصوف ہے اور اس سے مراد عدل، احسان اور رحمت ہے، نیز اس سے مراد ہر وہ عمل ہے جو دلوں کو پاک، نفوس کی تطہیر، اخلاق کی تربیت اور اقدار کو بلند کرتا ہے ﴿لِيُظْهِرَهُ﴾ تاکہ اس دین کو غالب کرے، جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے آپ کو مبعوث فرمایا ہے ﴿عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ﴾ ” تمام ادیان پر“ یعنی حجت و برہان کے ذریعے سے اور یہ دین تمام ادیان کو شمشیر و سناں کے ذریعے سے مطیع ہونے کی دعوت دے۔ الفتح
29 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے صحابہ، جو مہاجرین و انصار میں سے ہیں، ان کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے کہ وہ کامل ترین صفات اور جلیل ترین احوال کے حامل ہیں اور وہ ﴿ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ ﴾ کفار کے ساتھ بہت سخت ہیں، فتح و نصرت میں جدو جہد اور اس بارے میں پوری کوشش کرنے والے ہیں۔ وہ کفار کے ساتھ صرف درشتی اور سختی سے پیش آتے ہیں۔ اسی لئے ان کے دشمن ان کے سامنے ذلیل ہوگئے، ان کی طاقت ٹوٹ گئی اور مسلمان ان پر غالب آگئے۔ ﴿رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ﴾ یعنی صحابہ آپس میں محبت کرنے والے، ایک دوسرے پر مہربانی کرنے والے اور ایک دوسرے کے ساتھ شفقت اور عاطفت کے ساتھ پیش آنے والے ہیں۔ وہ جسد واحد کی مانند ہیں ان میں سے ہر کوئی اپنے بھائی کے لئے وہی پسند کرتا ہے، جو اپنے لئے پسند کرتا ہے۔ یہ ہے ان کا مخلوق کے ساتھ معاملہ۔ رہا خالق کے ساتھ ان کا معاملہ، تو ﴿تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا ﴾ ” تم ان کو رکوع اور سجدے کی حالت میں دیکھو گے۔” یعنی ان کا وصف کثرت نماز ہے جس کے جلیل ترین ارکان رکوع اور سجود ہیں ﴿ يَبْتَغُونَ﴾ وہ اس عبادت کے ذریعے سے طلب گار ہیں ﴿ فَضْلًا مِّنَ اللّٰـهِ وَرِضْوَانًا﴾ ” اللہ کے فضل اور اس کی رضا مندی کے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ کی رضا تک پہنچنا اور اس کا ثواب حاصل کرنا ان کا مطلوب و مقصود ہے۔ ﴿سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِم مِّنْ أَثَرِ السُّجُودِ ﴾ حسن عبادات اور اس کی کثرت نے ان کے چہروں پر اثر کیا ہے حتیٰ کہ وہ منور ہوگئے ہیں، چونکہ نماز کے نور سے ان کے باطن روشن ہیں، لہذا جلال سے ان کے ظاہر منور ہیں ﴿ذٰلِكَ﴾ یہ مذکورہ احوال ﴿مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ﴾ یعنی ان کا یہ وصف جس سے اللہ تعالیٰ نے ان کو موصوف کیا ہے، تو رات کریم میں اسی طرح ذکر کیا گیا ہے۔ انجیل میں ان کو ایک اور وصف سے موصوف کیا گیا ہے کہ وہ اپنے کمال اور باہم تعاون میں ﴿كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَآزَرَهُ﴾ ” گویا ایک کھیتی ہے جس نے اپنی سوئی نکالی، پھر اس کو مضبوط کیا۔“ یعنی اس نے اپنی جڑ سے شاخیں نکالیں پھر ان کو استوار و ثبات میں مضبوط کیا۔ ﴿ فَاسْتَغْلَظَ﴾ پس یہ کھیتی طاقت ور اور مضبوط ہوگئی۔ ﴿فَاسْتَوَىٰ عَلَىٰ سُوقِهِ﴾ ” پھر قوت کے ساتھ کھڑی ہوگئی اپنے تنے پر“ (سُوْق) جمع ہے ساق کی، یعنی اپنی جڑوں پر کھڑی ہوگئی۔ مراد یہ ہے کہ یہ کھیتی مضبوط اور قوی ہوگئی اور اس کے تنے کھڑے ہوگئے۔ ﴿يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ ﴾ جو اپنے کامل طور پر سیدھا کھڑا ہونے اور اپنے حسن اعتدال کی بنا پر کاشتکاروں کو بھلی لگتی ہے۔ اسی طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مخلوق کو نفع پہنچانے اور لوگوں کا ان کی طرف ضرورت مند ہونے کی وجہ سے، کھیتی کی مانند ہیں۔ ان کی قوت ایمان اور قوت عمل پودے کی رگوں اور اس کے تنوں کی مانند ہے۔ وہ کم عمر صحابۂ کرام رضوان اللہ اجمعین اور جن کا اسلام متاخر تھا، جنہوں نے بزرگ صحابہ کرام کی پیروی کی، ان کے ہاتھ مضبوط کیے، اقامت دین اور دعوت دین میں ان کی مثال اس کھیتی کی مانند ہے جس نے اپنی جڑوں سے سوئے نکالے، پھر اس کو مضبوط کیا پھر وہ موٹی ہوگئی۔ بنابریں فرمایا : ﴿ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ﴾ ” تاکہ ان کی وجہ سے اللہ کافروں کو چڑائے“ جب کفار ان کے اجتماع اور دشمنان دین پر ان کی سختی کو دیکھتے ہیں نیز جب وہ دست بدست لڑائی اور جنگی معرکوں میں ان کی بہادری کو دیکھتے ہیں، تو یہ چیز ان کے دل کو جلاتی ہے۔ ﴿وَعَدَ اللّٰـهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا ﴾ پس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جنہوں نے ایمان اور عمل صالح کو جمع کیا، اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے مغفرت، جس کا لازمہ دنیا وآخرت میں ہر قسم کے شر سے حفاظت ہے اور دنیا و آخرت کے اندر اجر عظیم کو جمع کیا۔ صلح حدیبیہ کے واقعات ہم صلح حدیبیہ کے واقعات پوری تفصیل کے ساتھ بیان کرتے ہیں جیسا کہ امام شمس الدین ابن قیم رحمہ اللہ نے ” زاد المعاد(زادالمعاد:3؍286۔296)میں بیان کیے ہیں کیونکہ ان واقعات سے اس سورۃ مبارکہ کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے ابن قیم رحمہ اللہ نے اس سورۃ مبارکہ کے اسر اور و معانی پر بھی بحث کی ہے۔ چنانچہ انہوں نے فرمایا : نافع رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ صلح حدیبیہ کا واقعہ ذی قعد ٦ ھ میں پیش آیا اور یہی صحیح ہے۔ امام زہری، قتادہ، موسیٰ بن عقبہ اور محمد بن اسحاق رحمہم الله وغیرہ کی بھی یہی رائے ہے۔ ہشام بن عروہ رحمہ اللہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ماہ رمضان میں حدیبیہ کی طرف روانہ ہوئے اور صلح حدیبیہ کا واقعہ شوال میں پیش آیا مگر یہ وہم ہے رمضان میں تو مکہ فتح ہوا تھا۔ ابو الا سود عروہ بن زبیر رحمہ اللہ سے روایت کرتے ہیں کہ صحیح یہی ہے کہ صلح حدیبیہ ذی قعد میں ہوئی تھی۔ صحیحین میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چار عمرے کیے، جو سب کے سب ذی قعد میں تھے۔ ان میں عمرہ حدیبیہ بھی ذکر کیا، آپ کے ساتھ پندرہ سو نفوس تھے۔ صحیحین میں حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے بھی اسی طرح مروی ہے۔ صحیحین میں حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے بھی اسی طرح مروی ہے۔ صحیحین ہی میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ چودہ سو نفوس تھے۔ صحیحین میں عبد اللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں کہ ہم تیرہ سو افراد تھے۔ قتادہ رحمہ اللہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے سعید بن مسیب رحمہ اللہ سے پوچھا کہ کتنے لوگوں کی جماعت تھی جو بیعت رضوان میں شریک ہوئی؟ انہوں نے جواب دیا ” پندرہ سو افراد تھے“ میں نے عرض کیا ” حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ وہ چودہ سو افراد تھے“ سعید بن مسیب رحمہ اللہ نے فرمایا :” اللہ ان پر رحم فرمائے، انہیں وہم ہوا ہے، انہی نے مجھے بتایا ہے کہ وہ پندرہ سو افراد تھے۔ “ میں(ابن قیم) کہتا ہوں :” حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے دونوں قول صحت کے ساتھ مروی ہیں اور ان سے یہ بھی مروی ہے کہ حدیبیہ والے سال ستر اونٹ قربان کیے، ایک اونٹ سات آدمیوں کی طرف سے ذبح کیا گیا۔ ان سے پوچھا گیا ” آپ کتنے افراد تھے؟“ حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا :” سوار اور پیدل دونوں ملا کر چودہ سو نفوس تھے“ یعنی ان کے سوار اور پیادے۔ میلان قلب بھی زیادہ اسی طرف ہے، براء بن عازب، معقل بن یسار اور سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہم سے بھی صحیح تر روایت کے مطابق یہی تعداد ہے اور مسیب بن حزن رضی اللہ عنہ کا بھی ایک قول یہی ہے۔ شعبہ رحمہ اللہ قتادہ رحمہ اللہ سے، قتادۃ سعید بن مسیب رحمہ اللہ سے اور وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ درخت کے نیچے (بیعت کرنے والے) چودہ سو افراد تھے۔ جس نے یہ کہا کہ وہ کل سات سو افراد تھے اس نے واضح طور پر غلطی کی ہے۔ سات سو افراد کہنے والے حضرات کا عذر یہ ہے کہ صحابہ کرام نے اس روز ستر اونٹ ذبح کیے تھے اونٹ کی قربانی کے بارے میں آتا ہے کہ اونٹ کی قربانی سات یا دس افراد کی طرف سے کافی ہے۔ مگر یہ بھی اس قائل کے دعویٰ پر دلالت نہیں کرتی کیونکہ راوی نے تصریح کی ہے کہ اس غزوہ میں ایک اونٹ سات افراد کی طرف سے ذبح کیا گیا تھا۔ اگر قربانی کے ستر اونٹ سب کی طرف سے ہوتے تو کل چار سونوے افراد ہوتے۔ راوی مکمل حدیث اسی طرح بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ وہ کل چودہ سو نفوس تھے۔ فصل جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ذی الحلیفہ پہنچے تو آپ نے قربانیوں کو ہار پہنائے اور علامتیں لگائیں اور عمرے کا احرام باندھا اور اپنے آگے بنو خزاعہ میں سے ایک جاسوس بھیجا جو قریش کے حالات کے بارے میں آگاہ کرے۔ جب آپ عسفان کے قریب پہنچے تو آپ کے جاسوس نے آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا ” میں کعب بن لوی کو اس حال میں چھوڑ کر آیا ہوں کہ انہوں نے آپ کے مقابلے کے لیے، مختلف قبیلوں سے لوگوں کو جمع کر رکھا ہے وہ سب جمع ہو کر آپ سے ضرور لڑیں گے اور بیت اللہ کی زیارت سے آپ کو روکیں گے۔ رسول مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اصحاب کرام رضی اللہ عنہم سے مشورہ کیا کہ آیا ہم ان قبائل کے پسماندگان پر حملہ کردیں جو قریش کی مدد کے لئے جمع ہوئے ہیں اور ان کو قیدی بنالیں، اگر وہ پھر بیٹھے رہے تو بدلہ لئے بغیر غم زدہ بیٹھے رہیں گے اور اگر وہ بچ نکلے تو وہ ایسی گردن ہیں جس کو اللہ تعالیٰ نے کاٹ دیا ہے۔۔۔ یا تمہارا خیال ہے کہ ہم بیت اللہ کا قصد جاری رکھیں، جو کوئی ہمیں روکنے کی کوشش کرے تو ہم اس سے جنگ کریں؟ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا :” اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں، ہم عمرہ کرنے کے لئے آئے ہیں، ہم کسی کے خلاف لڑنے کے لئے نہیں آئے۔ تاہم جو کوئی ہمارے اور بیت اللہ کے درمیان حائل ہوا ہم اس سے ضرور لڑیں گے۔ “ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ” تو پھر کوچ کرو“! پس صحابہ کرام نے کوچ کیا، ابھی وہ راستے ہی میں تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :” خالد بن ولید قریش کے گھڑ سواروں کے ساتھ غمیم کے مقام پر پڑاؤ کیے ہوئے ہے اس لئے پہلو بچا کروائیں جانب کا راستہ اختیار کرو“ اللہ کی قسم ! خالد بن ولید کو صحابہ کرام کے نکل جانے کا پتہ تک نہ چلا، یہاں تک مسلمانوں کے لشکر کی گرد ان تک پہنچی تو مسلمانوں کی آمد کا ان کو علم ہوا تو وہ فوراً وقریش کو آگاہ کرنے کے لئے روانہ ہوا۔ اس دوران میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چلتے رہے یہاں تک کہ آپ اس گھاٹی میں پہنچ گئے۔ جہاں سے ہو کر مکہ کی طرف اترتے ہیں، تو آپ کی سواری بیٹھ گئی۔ صحابہ نے کہا : (حَلْ حَلْ) مگر اونٹنی بیٹھی رہی۔ صحابہ نے کہا : ” قصواء تھک کر بیٹھ گئی“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :” قصواء تھک کر نہیں بیٹھی اور نہ یہ اس کی عادت ہے بلکہ اس کو اس ہستی نے روک دیا ہے جس نے ہاتھ کو روکا تھا۔“ پھر فرمایا :” اس ذات کی قسم ! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ قریش مجھ سے جس چیز کا سوال کریں، جس میں انہوں نے اللہ تعالیٰ کی حرام ٹھہرائی ہوئی چیزوں کی حرمت کا لحاظ رکھا ہو، میں ان کو وہ چیز ضرور عطا کردوں گا۔“ پھر آپ نے اونٹنی کو جھڑکا، وہ فوراً جست لگا کر اٹھ کھڑی ہوئی، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس گھاٹی سے ایک طرف سے ہٹ کر روانہ ہوئے۔ یہاں تک کہ حدیبیہ کے کنویں کے پاس اتر پڑے جس میں بہت ہی تھوڑا پانی تھا۔ لوگ تھوڑا تھوڑا پانی لیتے رہے یہاں تک کہ انہوں نے پانی ختم کردیا۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس پیاس کی شکایت کی۔ آپ نے اپنے ترکش سے ایک تیر نکالا اور صحابہ سے کہا، کہ وہ اس تیر کو اس کنویں میں ڈال دیں۔ راوی کہتا ہے: اللہ کی قسم ! اور لشکر اس کنویں سے سیراب ہوتا رہا یہاں تک کہ انہوں نے وہاں سے کوچ کیا۔ قریش آپ کی روانگی کا سن کر بہت گھبرائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے اصحاب کرام میں سے کسی شخص کو ایلچی بنا کر بھیجنا چاہتے تھے چنانچہ آپ نے عمر رضی اللہ عنہ کو بلایا تاکہ ان کو قریش کی طرف بھیجیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا :” یا رسول اللہ ! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اگر مکہ میں مجھے کوئی تکلیف پہنچائی گئی تو بنو کعب بن لوی میں ایک بھی ایسا شخص نہیں جو میری خاطر ناراض ہو، اس لئے آپ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو بھیجئے، وہاں ان کا بہت بڑا قبیلہ ہے اور جو آپ چاہتے ہیں وہ آپ کا پیغام پہنچا دیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو بلایا اور ان کو سفیر بنا کر قریش کی طرف بھیجا اور فرمایا کہ قریش کو کہہ دو کہ ہم لڑنے کے لئے نہیں آئے، ہم تو عمرہ کے لئے آئے ہیں اور انہیں اسلام کی دعوت دو نیز آپ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ مکہ مکرمہ میں جو مومن مرد اور عورتیں ہیں وہ ان کے پاس بھی جائیں اور ان کو فتح کی خوشخبری دیں۔ نیز ان کو بتائیں کہ اللہ تعالیٰ عنقریب مکہ میں اپنے دین کو غالب کرے گا حتیٰ کہ یہاں ایمان کو چھپایا نہیں جائے گا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ روانہ ہوئے، بَلْدَحْ کے مقام پر ان کا گزر قریش کے پاس سے ہوا۔ قریش نے پوچھا ” عثمان ! کہاں کا ارادہ ہے؟“ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا :” مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھیجا ہے تاکہ میں تمہیں اللہ اور اسلام کی طرف دعوت دوں اور ہم تمہیں آگاہ کرتے ہیں کہ ہم لڑنے کے لئے نہیں آئے بلکہ عمرہ کرنے کے لئے آئے ہیں۔“ انہوں نے کہا ” تم نے جو کہا، ہم نے سن لیا، اب جاؤ اپنا کام کرو“ ابان بن سعید اٹھا، اس نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو مرحبا کہا، اپنے گھوڑے پر زین رکھی، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو گھوڑے پر سوار کرایا اور ان کو پناہ دی، ابان بن سعید حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو اپنے ساتھ بٹھا کر مکہ آیا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے واپس لوٹنے سے پہلے مسلمانوں نے کہا :” عثمان رضی اللہ عنہ ہم سے پہلے بیت اللہ پہنچ کر طواف کریں گے۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :” میرا خیال ہے وہ اس حالت میں کہ ہم یہاں محصور ہیں، بیت اللہ کا طواف نہیں کریں گے۔“ صحابہ نے عرض کیا : ” یا رسول اللہ ! وہ بیت اللہ پہنچ گئے ہیں، انہیں کون سی چیز بیت اللہ کے طواف سے روک سکتی ہے؟“ آپ نے فرمایا : ” عثمان کے بارے میں میرا یہ گمان ہے کہ وہ کعبہ کا طواف اس وقت تک نہیں کریں گے جب تک ان کے ساتھ ہم نہ کریں۔ “ مسلمان صلح کے معاملے میں مشرکین کے ساتھ گھل مل گئے۔ فریقین میں سے کسی شخص نے دوسرے فریق کے کسی آدمی کو پتھرمارا، بس معرکہ برپا ہوگیا فریقین نے ایک دوسرے پر تیر چلانے اور پتھر پھینکنے شروع کردیے دونوں فریق چلائے اور ہر فریق اپنے اپنے آدمیوں کے فعل پر مجبور تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل کی افواہ پہنچی تو آپ نے بیعت کے لئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو طلب فرمایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم درخت کے سائے میں تشریف فرما تھے مسلمان آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اس بات پر بیعت کی کہ وہ آپ کو چھوڑ کر نہیں بھاگیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا دست مبارک پکڑا اور فرمایا :” یہ عثمان (رضی اللہ عنہ) کی طرف سے بیعت ہے۔ “ جب عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا :” میرے بارے میں تم نے بہت ہی برا گمان رکھا، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! اگر سال بھر بھی میں مکہ مکرمہ میں رہوں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حدیبیہ کے مقام پر فروکش ہوں، تو میں اس وقت تک بیت اللہ کا طواف نہیں کروں گا جب تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم طواف نہ کرلیں۔ قریش نے مجھے بیت اللہ کا طواف کرنے کی دعوت دی تھی میں نے انکار کردیا۔“ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہ نے کہا :” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کے بارے میں ہم سے زیادہ علم رکھتے ہیں اور ہم سے زیادہ اچھا گمان رکھتے ہیں۔ “ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے درخت کے نیچے بیعت کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دست مبارک تھامے رکھا اور جد بن قیس کے سوا تمام مسلمانوں نے آپ کے دست مبارک پر بیعت کی اور حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ آپ پر سے درخت کی ٹہنیاں اٹھائے رہے۔ ابو سنان اسدی رضی اللہ عنہ پہلے شخص تھے جنہوں نے آپ کے دست مبارک پر بیعت کی سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ نے تین مرتبہ آپ کے ہاتھ پر بیعت کی، ایک دفعہ ابتدا میں، پھر درمیان میں اور ایک دفعہ آخر میں۔ بیعت کا سلسلہ اسی طرح جاری تھا کہ بدیل بن ورقاء خزاعی بنو خزاعہ کے چند آدمیوں کے ساتھ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا، تہامہ کی پوری وادی میں صرف خزاعی آپ کے خیر خواہ تھے، بدیل نے کہا :” میں بنو کعب بن لؤی اور عامر بن لؤی کو اس حال میں چھوڑ کر آرہا ہوں کہ وہ حدیبیہ کے چشموں پر اترے ہوئے ہیں اور ان کے ساتھ دودھ دینے والی اونٹنیاں بھی ہیں، وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ لڑیں گے اور آپ کو بیت اللہ جانے سے روکیں گے۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :” ہم کسی کے ساتھ لڑنے کے لئے نہیں آئے، ہم تو صرف عمرہ کرنے کے لئے آئے ہیں۔ جنگ نے قریش کو کمزور کردیا ہے اور ان کو نقصان پہنچایا ہے، اس صورت میں اگر وہ چاہیں تو میں ایک مدت کے لئے ان کے ساتھ صلح کرلوں گا، وہ میرے اور دوسرے لوگوں کے درمیان سے ہٹ جائیں، اگر وہ چاہیں تو اس دین میں داخل ہوجائیں جس میں لوگ داخل ہوئے ہیں، ورنہ آرام سے بیٹھیں اور اگر انہیں جنگ کے سوا کچھ منظور نہیں تو قسم ہے مجھے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری زندگی ہے۔ میں اپنے اس دین پر ان سے ضرور لڑوں گا یہاں تک کہ میری گردن تن سے جدا ہوجائے، یا اللہ تعالیٰ اپنے دین کو نافذ کردے۔ “ بدیل نے عرض کیا :” میں آپ کی بات قریش تک پہنچا دوں گا۔“ بدیل چلا گیا حتیٰ کہ وہ قریش کے پاس پہنچا اور ان سے کہنے لگا :” میں اس شخص کے پاس سے ہو کر آیا ہوں، میں نے اسے ایک بات کہتے سنا ہے۔ اگر آپ لوگ چاہیں تو میں وہ بات آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں۔ “ قریش کے بیوقوف لوگوں نے کہا :” ہمیں کوئی ضرورت نہیں کہ تم ہمیں کچھ سناؤ“ مگر ان میں سے اصحاب رائے نے کہا :” ہاں بتاؤ تم نے اس سے کیا سنا ہے؟“ بدیل نے کہا :” میں نے اس کو یہ کچھ کہتے سنا ہے۔ “ عروہ بن مسعود ثقفی نے کہا :” اس شخص نے تمہارے سامنے ایک اچھی بات پیش کی ہے، اس کو قبول کرلو اور مجھے اس کے پاس جانے دو“ قریش نے کہا :” ہاں تم اس کے پاس جاؤ۔ “ عروہ بن مسعود ثقفی آپ کے ساتھ مذاکرات کرنے کی غرض سے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عروہ بن مسعود سے بھی وہی بات کہی جو بدیل سے کہی تھی۔ اس پر عروہ بن مسعود نے کہا ” اے محمد ! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا تم قوم ہی کی جڑ کاٹو گے، کیا تم نے کسی عرب کے بارے میں سنا ہے کہ اس نے تم سے پہلے اپنی قوم کو نیست و نابود کیا ہو؟ اگر کوئی دوسری بات ہوئی تو اللہ کی قسم ! میں کچھ ایسے چہرے اور اس طرح کے لوگ دیکھ رہا ہوں جو تجھے چھوڑ کر بھاگ جائیں گے۔ “ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا :” تو لات کی شرم گاہ چوستارہ، کیا ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چھوڑ کر بھاگ جائیں گے؟“ عروہ بن مسعود نے پوچھا :” یہ کون ہے؟“ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا :” میں ابوبکر ہوں۔“ عروہ بن مسعود نے کہا : ”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! اگر تیرا مجھ پر ایک احسان نہ ہوتا جس کا بدلہ میں ابھی تک نہیں اتار سکا تو میں تجھے اس کا جواب دیتا۔ “ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بات چیت شروع کی۔ جب وہ بات کرتا تو آپ کی ریش مبارک کو چھوتا، حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ آپ کے سر پر کھڑے ہوئے تھے، ان کے ہاتھ میں تلوار تھی اور سر پر خود پہن رکھا تھا۔ جب بھی عروہ بن مسعود اپنا ہاتھ آپ کی ریش مبارک کی طرف بڑھاتا، تو مغیرہ رضی اللہ عنہ اپنی تلوار کا نعل اس کے ہاتھ پر مارتے اور کہتے :” اپنے ہاتھ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ریش مبارک سے دور رکھو۔ “ عروہ بن مسعود نے اپنا سراٹھا کر پوچھا :” یہ کون ہے؟“ مغیرہ رضی اللہ عنہ نے کہا :” میں مغیرہ بن شعبہ ہوں۔“ عروہ بن مسعود نے کہا :” ے بے وفا شخص ! کیا میں تیری بے وفائی کے انتقام کی کوشش میں نہیں ہوں؟“ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ ایام جاہلیت میں کچھ لوگوں کے ساتھ مصاحبت رکھتے تھے، پس مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں کو قتل کردیا ان کا مال لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اسلام لے آئے۔ آپ نے فرمایا :” میں تمہارا اسلام لانا تو قبول کرتا ہوں، لیکن مال کے ساتھ میرا کوئی تعلق نہیں۔ “ پھر عروہ بن مسعود دیر تک اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھتا رہا، اللہ کی قسم ! جب کبھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تھوک پھینکا تو کسی نہ کسی شخص نے اسے اپنے ہاتھ پر لیا اور اسے اپنے جسم اور چہرے پر مل لیا آپ کوئی حکم دیتے تو صحابہ اس کی تعمیل کے لئے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے تھے، جب آپ وضو فرماتے تو صحابہ آپ کے وضو کے مستعمل پانی پر گویا لڑتے تھے، جب آپ گفتگو فرماتے تو صحابہ کرام آپ کے پاس اپنی آوازوں کو پست کرلیتے تھے، آپ کی تعظیم کی وجہ سے وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف نظریں اٹھا کر نہیں دیکھتے تھے۔ عروہ بن مسعود اپنے ساتھیوں میں واپس آیا اور ان سے کہنے لگا :” اے لوگو ! میں کسریٰ، قیصر اور نجاشی جیسے بادشاہوں کے درباروں میں گیا ہوں، میں نے کوئی ایسا بادشاہ نہیں دیکھا جس کے مصاحبین اس کی اتنی تعظیم کرتے ہوں جتنی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب ان کی تعظیم کرتے ہیں۔ اللہ کی قسم ! محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب بھی تھوک پھینکتے تو کوئی نہ کوئی شخص اپنے ہاتھ پر لے کر اپنے جسم اور چہرے پر مل لیتا تھا۔ جب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوئی حکم دیتے تو ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر تعمیل کی کوشش کرتے، جب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وضو کرتے تو وضو کے مستعمل پانی کے حصول کے لئے ایک دوسرے سے جھگڑتے تھے۔ جب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گفتگو کرتے تو لوگ اپنی آوازوں کو پست کرلیتے وہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعظیم کے طور پر ان کی طرف نظریں اٹھا کر نہیں دیکھتے تھے۔ بے شک انہوں نے ایک نہایت اچھی بات تمہارے سامنے پیش کی ہے اور اس پر زور دیا ہے کہ تم اسے قبول کرلو۔ “ بنو کنانہ میں سے ایک شخص نے کہا :” مجھے اس کے پاس جانے دو۔“ قریش نے کہا ” تم اس کے پاس جاؤ۔“ جب یہ شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :” یہ فلاں شخص ہے اور اس کا تعلق ایسی قوم سے ہے جو قربانی کے جانوروں کا بہت احترام کرتے ہیں، تم قربانی کے جانور اس کے پاس لے کر آؤ، پس لوگ قربانی کے جانور اس کے پاس لے کر آئے اور تلبیہ کہتے ہوئے اس کا استقبال کیا۔ جب اس نے یہ صورت حال دیکھی تو کہنے لگا :” سبحان اللہ ! ان لوگوں کو بیت اللہ سے روکنا مناسب نہیں۔“ پھر وہ اپنے لوگوں کی طرف واپس آیا اور ان سے کہا :” میں نے قربانی کے جانوروں کو دیکھا ہے کہ ان کو ہار پہنائے گئے ہیں اور ان کا اشعار کیا گیا ہے میری رائے ہے کہ ان کو بیت اللہ سے نہ روکا جائے۔ “ پھر مکرز بن حفص کھڑا ہوا اور اس نے کہا :” مجھے اجازت دو کہ میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جاؤں“ جب مکرز ان کے پاس آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :” یہ مکرز بن حفص ہے اور یہ فاسق و فاجر شخص ہے۔“ مکرز بن حفص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے گفتگو شروع کی۔ ابھی وہ گفتگو کر ہی رہا تھا کہ سہیل بن عمرو آگیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ نے تمہارا معاملہ آسان فرمادیا۔ “ سہیل بن عمرو نے کہا :” آپ ہمارے اور اپنے درمیان صلح کا معاہدہ لکھ دیجئے“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کاتب کو بلایا اور اس سے فرمایا :” لکھو (بِسْمِ اللہِ الرّحْمٰنِ الرَّحِیْم) “۔ سہیل بن عمرو نے کہا :” رہا رحمٰن، تو اللہ کی قسم ! ہم نہیں جانتے کہ رحمن کیا ہے؟ بلکہ لکھو (بِاِسْمِکََ اللّٰھُمَّ) جیسا کہ تو لکھا کرتا تھا۔ “ مسلمانوں نے کہا :” اللہ کی قسم ! ہم تو ( بِسْمِ اللہِ الرّحْمٰنِ الرَّحِیْم ) ہی لکھیں گے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (بِاِسْمِکََ اللّٰھُمَّ) ہی لکھ دو،، پھر فرمایا :” لکھو، یہ وہ تحریر ہے، جس پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صلح کی۔“ اس پر سہیل بن عمرو نے اعتراض کیا ” اگر ہم اعتراف کرتے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں تو ہم آپ کو بیت اللہ کی زیارت سے روکتے نہ آپ کے خلاف جنگ کرتے۔ بلکہ ” محمد بن عبد اللہ“ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :” بے شک میں اللہ کا رسول ہوں اگرچہ تم نے میری تکذیب کی ہے، تاہم ” محمد بن عبد اللہ۔ “ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ” اس بات پر صلح ہے کہ تم بیت اللہ اور ہمارے درمیان سے ہٹ جاؤ گے اور ہم طواف کریں گے۔ “ سہیل بن عمرو نے کہا :” اللہ کی قسم ! ایسا نہیں ہوگا، کہیں عرب یہ نہ کہیں کہ ہمیں مجبور کردیا گیا، البتہ آپ آئندہ سال طواف کریں۔“ پس یہی لکھ دیا گیا۔ سہیل بن عمرو نے کہا :” یہ اس بات پر صلح نامہ ہے کہ اگر ہمارا کوئی شخص (بھاگ کر) تمہارے پاس آجائے تو تم اسے واپس کردو گے خواہ وہ تمہارے دین ہی پر کیوں نہ ہو۔ “ مسلمانوں نے کہا :” سبحان اللہ ! جو شخص مسلمان ہو کر آیا ہو اسے کیسے مشرکین کے پاس واپس بھیج دیا جائے گا،، ابھی وہ یہ گفتگو کر ہی رہے تھے کہ ابو جندل بن سہیل رضی اللہ عنہ اپنی بیڑیوں میں بڑی مشکل سے چلتے ہوئے، نشیب مکہ سے نکلے اور اپنے آپ کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے درمیان ڈال دیا، سہیل بن عمرو نے کہا :” اے محمد ! (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ پہلی شرط ہے جس پر میں نے تمہارے ساتھ صلح کی ہے، ابو جندل کو واپس کردو۔“ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” ابھی ہم نے تحریر ختم نہیں کی۔“ سہیل بن عمرو نے کہا :”اللہ کی قسم ! اگر یہ بات ہے تو میں تمہارے ساتھ کسی بات پر کبھی بھی صلح نہیں کروں گا۔“ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)نے فرمایا :’’مجھے اس کی اجازت دے دو۔ “ سہیل بن عمرو نے کہا :” میں ہرگز اس کی اجازت نہیں دوں گا۔ “ آپ نے فرمایا :” کیوں نہیں ! اجازت دے دو۔ “ سہیل بن عمرو نے کہا :” میں اجازت نہیں دوں گا۔ “ مکرز نے کہا :” میں اجازت دیتا ہوں۔ “ ابو جندل رضی اللہ عنہ نے کہا :” اے مسلمانو ! کیا مجھے مشرکین کے پاس واپس بھیج دیا جائے گا درآنحالیکہ میں مسلمان ہو کر تمہارے پاس آیا ہوں، کیا تم دیکھ نہیں رہے کہ مجھے کن مصائب کا سامنا کرنا پڑا ہے؟“۔۔۔ حضرت ابو جندل رضی اللہ عنہ کو اللہ کے راستے میں سخت عذاب سے دو چار کیا گیا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں جب سے مسلمان ہوا ہوں مجھے اسلام کی حقانیت پر، اس دن کے سوا، کبھی شک نہیں ہوا، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا : ” یا رسول اللہ ! کیا آپ اللہ کے نبی نہیں ہیں؟“ آپ نے فرمایا :” کیوں نہیں !“ میں نے عرض کیا :” کیا ہم حق پر اور ہمارا دشمن باطل پر نہیں؟“ آپ نے فرمایا :” کیوں نہیں۔ “ میں نے عرض کیا :” میں اللہ کا رسول ہوں، وہی میرا مددگار ہے، میں اس کی نافرمانی نہیں کروں گا۔ “ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :” کیا میں نے تمہیں یہ خبر دی تھی کہ تم اسی سال آکر بیت اللہ کا طواف کرو گے؟“ میں نے عرض کیا :” نہیں“۔ آپ نے فرمایا :” تم ضرور بیت اللہ کی زیارت اور طواف کروگے۔ “ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : اس کے بعد میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور ان سے بھی وہی کچھ کہا جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا تھا اور انہوں نے بھی وہی جواب دیا جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دیا تھا اور مزید کہا :” مرتے دم تک ان کے امرو نہی کی اطاعت کی، اللہ کی قسم ! وہ حق پر ہیں“ حضرت عمر فرماتے ہیں :” میں نے اس سوال جواب کی گستاخی کی تلافی کے لئے کفارے کے طور پر بہت اعمال کئے۔ “ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صلح نامہ کی تحریر سے فارغ ہوئے تو فرمایا :” اٹھو قربانی کرو اور اپنا سر منڈاؤ۔“ اللہ کی قسم ! کوئی شخص نہ اٹھا حتیٰ کہ آپ نے تین مرتبہ کہا۔ جب ان میں سے کوئی آدمی نہ اٹھا تو آپ اٹھ کرام سلمہ رضی اللہ عنہ کے خیمہ میں چلے گئے، جو کچھ لوگوں کی طرف سے پیش آیا تھا حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے کہہ سنایا۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا :” یا رسول اللہ ! کیا آپ واقعی یہی چاہتے ہیں؟ اگر یہ بات ہے تو آپ باہر تشریف لے جائیے اور اس وقت تک کسی سے بات نہ کیجئے جب تک کہ آپ اپنی قربانی کو ذبح نہ کرلیں، پھر حجام کو بلائیے اور وہ آپ کا سرمونڈ دے۔“ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہوئے اور باہر نکل گئے، آپ نے کسی سے گفتگو نہ فرمائی، جب تک کہ یہ سب کچھ نہ کرلیا۔ آپ نے اپنے قربانی کے جانور ذبح کیے پھر حجام کو بلوایا، اس نے آپ کا سر مونڈا۔ جب صحابہ کرام نے یہ دیکھا تو وہ اٹھے اور انہوں نے بھی قربانی کے جانور ذبح کیے اور ایک دوسرے کا سر مونڈنے لگے۔ پھر ازدحام کی وجہ سے ایسے لگتا تھا کہ کہیں وہ ایک دوسرے کو قتل نہ کردیں۔ پھر مومن خواتین آئیں پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائی : ﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا جَاءَكُمُ الْمُؤْمِنَاتُ مُهَاجِرَاتٍ فَامْتَحِنُوهُنَّ اللّٰـهُ أَعْلَمُ بِإِيمَانِهِنَّ فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِنَاتٍ فَلَا تَرْجِعُوهُنَّ إِلَى الْكُفَّارِ لَا هُنَّ حِلٌّ لَّهُمْ وَلَا هُمْ يَحِلُّونَ لَهُنَّ وَآتُوهُم مَّا أَنفَقُوا وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ أَن تَنكِحُوهُنَّ إِذَا آتَيْتُمُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ وَلَا تُمْسِكُوا بِعِصَمِ الْكَوَافِرِ ﴾ (الممتحنة: 60؍10) ” اے ایمان والو ! جب تمہارے پاس مومن عورتیں آئیں تو ان کو آزما لیا کرو، ان کے ایمان کو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ اگر تمہیں معلوم ہوجائے کہ وہ مومن ہیں تو انہیں کفار کی طرف مت لوٹاؤ۔ وہ ان کفار کے لئے حلال نہ کفار ان کے لئے حلال ہیں اور انہوں نے جو کچھ ان پر خرچ کیا ہے انہیں دے دو، اور تم پر کوئی حرج نہیں اگر تم ان کے ساتھ مہر مقرر کرنے کے بعد نکاح کرلو اور کافر عورتوں کو اپنے پاس نہ رکھو۔ “ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس روز اپنی دو بیویوں کو طلاق دی تھی جو شرک کی حالت میں ان کے پاس تھیں۔ ان میں سے ایک کے ساتھ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے (اس وقت تک وہ ایمان نہیں لائے تھے) اور دوسری کے ساتھ صفوان بن امیہ نے نکاح کرلیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم واپس مدینہ لوٹ آئے، واپسی پر اللہ تعالیٰ نے آپ پر سورۃ فتح نازل فرمائی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا :” یا رسول اللہ ! کیا یہ فتح ہے؟“ آپ نے فرمایا :” ہاں !“ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : ” یا رسول اللہ ! آپ کو مبارک ہو، ہمارے لئے کیا حکم ہے؟“ پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں ﴿ هُوَ الَّذِي أَنزَلَ السَّكِينَةَ فِي قُلُوبِ الْمُؤْمِنِينَ ﴾ (الفتح :48؍4) الفتح
0 سورة الحجرات الحجرات
1 یہ آیت کریمہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ادب، نیز آپ کی تعظیم، احترام اور اکرام و تکریم کو متضمن ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کو ان امور کا حکم دیا ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان کے متقاضی ہیں، مثلاً اللہ تعالیٰ کے اوامر کی تعمیل اور اس کے نواہی سے اجتناب۔ نیزیہ کہ وہ اپنے تمام معاملات میں اللہ تعالیٰ کے اوامر کے مطابق چلیں اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کی اتباع کریں، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آگے نہ بڑھیں، اس وقت تک کوئی بات نہ کریں جب تک کہ اللہ کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بات نہ کرے، وہ کسی کام کا حکم نہ دیں جب تک کہ اللہ کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حکم نہ دے۔ پس اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہی حقیقی ادب ہے جو فرض ہے۔ یہی ادب بندے کی سعادت اور فلاح کا عنوان ہے، چنانچہ اس کے حصول میں ناکامی، سعادت ابدی اور نعیم سرمدی کے حصول میں ناکامی ہے۔ اس آیت کریمہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قول پر کسی اور کے قول کو مقدم رکھنے کی ممانعت ہے کیونکہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت مبارکہ واضح ہو کر سامنے آجائے تو اس کی اتباع کرنا اور اس کو کسی اور قول اور رائے پر، خواہ وہ کوئی بھی ہو، مقدم رکھنا واجب ہے۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے تقویٰ کا عمومی حکم دیا ہے۔ اور تقویٰ کا معنی طلق بن حبیب کے قول کے مطابق، یہ ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کے ثواب کے عطا ہونے کی امید رکھتے ہوئے اس کے نور کی روشنی میں اس کی اطاعت کریں اور اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرتے ہوئے اس کے نور کی روشنی میں اس کی معصیت کو ترک کردیں۔ ﴿ إِنَّ اللّٰـهَ سَمِيعٌ ﴾ بے شک اللہ تعالیٰ تمام اوقات اور تمام مخفی مقامات وجہات میں تمام آوازوں کو سنتا ہے ﴿ عَلِيمٌ ﴾ بے شک اللہ تعالیٰ تمام ظواہر اور بواطن، گزرے ہوئے اور آنے والے امور، تمام واجبات مستحیلات اور ممکنات کا علم رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے آگے بڑھنے کی ممانعت اور تقویٰ کا حکم دینے کے بعد، ان دو اسمائے کریمہ کا ذکر کرنے میں، ان مذکورہ اوامر حسنہ اور آداب مستحسنہ کی تعمیل کی ترغیب اور ان کی عدم تعمیل کی صورت میں ترہیب ہے۔ الحجرات
2 پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ ﴾ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مخاطب ہونے میں آپ کا ادب ہے یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مخاطب ہونے والے کو چاہیے کہ وہ اپنی آواز کو آپ سے بلند کرے نہ اونچی آواز میں آپ سے گفتگو کرے، بلکہ اپنے لہجے کو پست رکھے، آپ سے نہایت ادب و ملائمت، تعظیم و تکریم اور جلال و عظمت کے ساتھ بات کرے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان میں سے کسی فرد جیسے نہیں ہیں، اس لئے آپ سے مخاطب ہونے میں آپ کے امتیاز کا خاص خیال رکھیں۔ جیسا کہ آپ اپنی امت پر اپنے حقوق، آپ پر ایمان اور آپ کے ساتھ محبت کے واجب ہونے میں امتیاز رکھتے ہیں، جس کے بغیر ایمان کی تکمیل نہیں ہوتی۔ کیونکہ ان آداب کا لحاط نہ رکھنے سے ڈر ہے کہ کہیں بندے کا عمل اکارت نہ جائے اور اسے شعور تک نہ ہو، جس طرح آپ کا ادب کرنا حصول ثواب اور قبولیت اعمال کا سبب ہے۔ الحجرات
3 پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان لوگوں کی مدح فرمائی ہے، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں اپنی آوازوں کو پست رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو تقویٰ کے لئے چن لیا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو آزمایا اور ان کا امتحان لیا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کے دل تقویٰ کے لئے درست پائے، پھر اس نے ان کے ساتھ ان کے گناہوں کی بخشش کا وعدہ کیا جو ہر قسم کے شر اور ناپسندیدہ امر کے زائل ہونے اور اجر عظیم کے حصول کو متضمن ہے، جس کے وصف کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا اور اسی میں ہر محبوب چیز کا حصول ہے۔ اس آیت کریمہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ امرو نہی اور مصائب و محن کے ذریعے سے دلوں کو آزماتا ہے پس جو کوئی اللہ تعالیٰ کے اوامر کا التزام کرتا ہے، اس کی رضا کی اتباع کرتا ہے، اس کی تعمیل کے لئے جلدی سے آگے بڑھتا ہے، اسے اپنی خواہشات نفس پر مقدم رکھتا ہے تو وہ تقویٰ کے لئے پاک صاف ہے اور اس کا قلب صحیح اور درست ہے اور جو کوئی ایسا نہیں ہوتا تو معلوم ہوا کہ وہ تقویٰ کے قابل نہیں۔ الحجرات
4 یہ آیت کریمہ، اعراب (یعنی عرب دیہاتیوں) میں سے، چند لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے جفا سے موصوف کیا ہے۔ وہ اس لائق ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی حدود کو نہ جانیں جو اس نے اپنے رسول پر نازل فرمائے ہیں۔ یہ عرب دیہاتی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں وفد بن کر آئے اور انہوں نے آپ کو اپنے گھر میں اپنی ازواج مطہرات کے پاس پایا تو انہوں نے ادب کو ملحوظ نہ رکھا اور آپ کے باہر تشریف لانے تک انتظار نہ کرسکے اور پکارنا شروع کردیا ” اے محمد ! اے محمد ! (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے پاس آؤ“۔۔۔ پس اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کی عدم عقل کی بنا پر مذمت کی ہے کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے رسول کے ساتھ ادب و احترام کو نہ سمجھ سکے۔ جیسا کہ ادب کا استعمال عقل مندی میں شمار ہوتا ہے، بندے کا بادب ہونا اس کی عقل کا عنوان ہے۔ الحجرات
5 اللہ بندے کی بھلائی چاہتا ہے۔ بنابریں فرمایا : ﴿ وَلَوْ أَنَّهُمْ صَبَرُوا حَتَّىٰ تَخْرُجَ إِلَيْهِمْ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ وَاللَّـهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴾ ” اور اگر وہ صبر کرتے حتیٰ کہ آپ خودنکل کر ان کے پاس آتے، تو یہ ان کے لئے بہتر تھا، اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔،، یعنی بندوں سے جو گناہ صادر ہوتے ہیں اور ان سے ادب میں جو خلل واقع ہوتا ہے اللہ تعالیٰ ان کو بخشنے والا ہے، وہ ان پر بہت مہربان ہے کہ وہ ان کو ان کے گناہوں کی پاداش میں فوراً عذاب میں مبتلا نہیں کرتا۔ الحجرات
6 یہ بھی ان آداب میں شامل ہے جن پر عقل مند لوگ عمل پیرا ہیں کہ جب ان کے پاس کوئی فاسق شخص خبر لے کر آئے تو وہ اس کی خبر کی تحقیق کرلیا کریں اور تحقیق کے بغیر اس پر عمل نہ کریں، کیونکہ اس میں بہت بڑے خطرے اور گناہ میں پڑنے کا اندیشہ ہے، کیونکہ جب فاسق و فاجر شخص کی خبر کو صادق اور عادل شخص کی خبر کے طور پر لیا جائے، اور اس کے موجب اور تقاضے کے مطابق حکم لگایا جائے، تو اس خبر کے سبب سے ناحق جان و مال کا اتلاف ہوگا جو ندامت کا باعث ہوگا۔ فاسق و فاجر کی دی ہوئی خبر سننے کے بعد اس کی تحقیق و تیبین واجب ہے۔ اگر دلائل اور قرائن اس کی صداقت پر دلالت کرتے ہوں تو اس پر عمل کیا جائے اور اس کی تصدیق کی جائے اور اگر دلائل و قرائن اس کے کذب پر دلالت کریں تو اس کو جھوٹ سمجھا جائے اور اس پر عمل نہ کیا جائے۔ اس آیت کریمہ میں دلیل ہے کہ صادق و عادل کی خبر مقبول، کاذب کی خبر مردود اور فاسق کی خبر میں توقف ہے۔ بنا بریں سلف نے خوارج کی بہت سی روایات کو قبول کیا ہے، جو صداقت میں معروف تھے، اگرچہ وہ فاسق تھے۔ الحجرات
7 تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمہارے اندر موجود ہیں وہ ایسے رسول ہیں، جو صاحب کرم، نیک طینت اور راہ راست دکھانے والے ہیں، جو تمہاری بھلائی چاہتے ہیں اور تمہارے خیر خواہ ہیں جبکہ تم اپنے لئے شر اور ضرر چاہتے ہو، جس پر رسول تمہاری موافقت نہیں کرسکتے۔ اگر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہت سے معاملات میں تمہاری اطاعت کرنے لگے تو تم مشقت میں پر جاؤ گے اور ہلاکت میں مبتلا ہوجاؤ گے۔ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمہیں رشدو ہدایت کی راہ دکھاتے ہیں، اللہ تعالیٰ تمہارے لئے ایمان کو محبوب بناتا ہے، اور اسے تمہارے دلوں میں مزین کرتا ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے تمہارے دلوں میں حق کی محبت اور اس کی ترجیح و دیعت کی ہے، اس نے حق پر جو شواہد اور دلائل قائم کیے ہیں، جو اس کی صحت پر دلالت کرتے ہیں اور قلوب اور فطرت اس کی قبولیت کی طرف راہ نمائی کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ انابت کی جو توفیق عطا کرتا ہے۔۔۔ وہ ان کے ذریعے سے تمہارے دلوں میں ایمان کو مزین کرتا ہے۔ اس نے تمہارے دلوں میں شر سے جو نفرت ودیعت کی ہے، تمہارے دلوں میں شر کی تعمیل کا جوارادہ معدوم ہے، اس نے شر کے فساد اور اس کی مضرت پر جو شواہد اور دلائل قائم کیے ہیں، تمہارے دلوں اور فطرت کے اندر شر کی جو عدم قبولیت ودیعت کی ہے اور دلوں کے اندر اللہ تعالیٰ نے شر کے لئے جو کراہت پیدا کی ہے۔۔۔ وہ ان کے ذریعے سے تمہارے دلوں کے لئے کفر و فسق یعنی چھوٹے بڑے گناہ کو ناپسندیدہ بناتا ہے۔ ﴿ أُولَـٰئِكَ ﴾ یعنی وہ لوگ جن کے دلوں میں اللہ تعالیٰ نے ایمان مزین کردیا اور اسے ان کا محبو بنادیا اور ان کو کفر، گناہ اور معصیت سے بیزار کردیا ﴿ هُمُ الرَّاشِدُونَ ﴾ ”وہی راہ ہدایت پر ہیں۔“ یعنی جن کے علوم و اعمال درست ہوگئے اور وہ دین قویم اور صراط مستقیم پر کاربند ہوگئے۔ الحجرات
8 ان کے بر عکس اور ان کی ضد وہ لوگ ہیں جن کے لئے کفر، فسق اور عصیان کو پسندیدہ اور ایمان کو ناپسندیدہ بنا دیا گیا ہے۔ یہ گناہ ان کا اپنا گناہ ہے کیونکہ جب انہوں نے فسق کا ارتکاب کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی اور جب ﴿ زَاغُوا أَزَاغَ اللّٰـهُ قُلُوبَهُمْ ﴾ (الصف : 61؍5) ” وہ کج رو ہوگئے تو اللہ نے ان کے دلوں کو ٹیڑھا کردیا۔“ چونکہ جب حق پہلی مرتبہ ان کے پاس آیا تو وہ اس پر ایمان نہ لائے اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو پلٹ دیا۔ ﴿ فَضْلًا مِّنَ اللّٰـهِ وَنِعْمَةً ﴾ یعنی یہ بھلائی جو انہیں حاصل ہے، ان پر اللہ تعالیٰ ہی کا فضل واحسان ہے، اس میں ان کی اپنی وقت و اختیار کو کوئی دخل نہیں۔ ﴿ وَاللّٰـهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ ﴾ اور اللہ تعالیٰ اس شخص کو جانتا ہے جو اس نعمت کی قدر کرتا ہے۔ پس وہ اسے اس نعمت کی توفیق سے نواز دیتا ہے اور اس شخص کو بھی جانتا ہے جو اس نعمت کی قدر نہیں کرتا اور یہ نعمت اس کے لائق نہیں ہوتی۔ پس وہ اپنے فضل و کرم کو اس مقام پر رکھتا ہے جہاں اس کی حکمت تقاضا کرتی ہے۔ الحجرات
9 یہ آیت کریمہ، اہل ایمان کو ایک دوسرے پر زیادتی کرنے اور ایک دوسرے سے لڑائی کرنے سے روکنے کو متضمن ہے، نیز یہ کہ جب اہل ایمان میں سے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو دیگر اہل ایمان پر واجب ہے کہ وہ ان دو گروہوں کے درمیان پڑ کر، جس کے ذریعے سے ان کے مابین صلح ہوجائے اور ان کے درمیان اصلاح کے ذریعے سے، اس بہت بڑے شرکی تلافی کریں اور وہ ذرائع اختیار کریں جو صلح پر منتج ہوتے ہوں۔ اگر وہ دونوں گروہ باہم صلح کرلیں تو بہت اچھی بات ہے ﴿ فَإِن بَغَتْ إِحْدَاهُمَا عَلَى الْأُخْرَىٰ فَقَاتِلُوا الَّتِي تَبْغِي حَتَّىٰ تَفِيءَ إِلَىٰ أَمْرِ اللّٰـهِ ﴾ ”اور اگر ایک فریق دوسرے پر زیادتی کرے تو زیادتی کرنے والے سے لڑو، حتیٰ کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف رجوع کرلے۔“ یعنی اس حد کی طرف لوٹ آئیں جو اللہ تعالیٰ نے مقرر کی ہے یعنی فعل خیر اور ترک شر اور سب سے بڑا شر آپس میں لڑنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان : ﴿ فَإِن فَاءَتْ فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا بِالْعَدْلِ ﴾ ” پس جب وہ رجوع کرلے تو ان کے درمیان عدل کے ساتھ صلح کرا دو۔“ صلح اور صلح میں عدل و انصاف کا حکم ہے، کیونکہ کبھی کبھار صلح تو ہوتی ہے مگر عدل و انصاف پر نہیں بلکہ ظلم اور کسی ایک فریق پر زیادتی پر مبنی ہوتی ہے، اس لئے یہ وہ صلح نہیں جس کا حکم دیا گیا ہے لہٰذا لازم ہے کہ فریقین میں سے کسی کی کسی قرابت یا وطن یا دیگر اغراض و مقاصد کے حوالے سے رعایت نہ رکھی جائے جو عدل و انصاف سے انحراف کے موجب بنتے ہیں۔ ﴿ وَأَقْسِطُوا إِنَّ اللّٰـهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ ﴾ ” اور عدل کرو بے شک اللہ تعالیٰ عدل کرنے والوں کو پسند کرتا ہے“ جو لوگوں کے درمیان اپنے فیصلوں اور ان تمام ذمہ داریوں میں، جن پر ان کو متعین کیا جاتا ہے، انصاف سے کام لیتے ہیں حتیٰ کہ اس میں وہ عدل و انصاف بھی داخل ہے جو انسان اپنے اہل وعیال کے حقوق کی ادائیگی کے بارے میں کرتا ہے۔ ایک صحیح حدیث میں وارد ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :” انصاف کرنے والے اللہ کے ہاں نور کے منبروں پر فائز ہوں گے یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے فیصلوں میں، اپنے اہل و عیال میں اور منصبی ذمہ داریوں میں انصاف کرتے ہیں۔ “ [صحیح مسلم، الأمارۃ، باب فضیلة الأمیر العادل۔۔۔حدیث:1827] الحجرات
10 ﴿ إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ ﴾ ” بے شک سارے مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔“ یہ ایک ایسا رشتہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے مومنین کے درمیان قائم کیا ہے، زمین کے مشرق یا مغرب میں کوئی بھی شخص جو اللہ تعالیٰ اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں اور روز قیامت پر ایمان رکھتا ہے وہ مومنوں کا بھائی ہے۔ یہ ایسی اخوت ہے جو اس بات کی موجب ہے کہ مومن اپنے بھائی کے لئے وہی کچھ پسند کریں جو اپنے لئے پسند کرتے ہیں، اور وہ چیز اس کے لئے ناپسند کریں جسے وہ اپنے لئے ناپسند کرتے ہیں۔ بنابریں رسول مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی اخوت ایمان کی بنا پر حکم دیتے ہوئے فرمایا :” باہم حسد نہ کرو، مال کی خریدو فروخت میں ایک دوسرے سے بڑھ کر بولی نہ دو، ایک دوسرے سے ناراض نہ ہو، ایک دوسرے سے پیٹھ نہ پھیرو، تم میں سے کوئی کسی کی بیع پر بیع نہ کرے اور اللہ کے بندو ! بھائی بھائی بن جاؤ، مومن، مومن کا بھائی ہے، وہ اس پر ظلم کرتا ہے نہ اسے بے یارومددگار چھوڑتا ہے اور نہ اسے حقیر سمجھتا ہے۔ “ [صحیح البخاری، النکاح، باب لایخطب علی خطبةأخیه۔۔۔حدیث :1543 مختصراً أو صحیح مسلم، البروالصلة، باب تحریم ظلم المسلم ۔۔۔حدیث :2564] صحیحین میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مروی ہے آپ نے فرمایا:” مومن مومن کے لئے عمارت کی مانند ہے جو ایک دوسرے کو مضبوط کرتے ہیں۔“ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہاتھ کی انگلیوں کو ایک دوسری میں ڈال کر دکھایا۔ [صحیح البخاری،الأدب ،باب تعاون المؤمنین بعضھم بعضاً،حدیث:6026صحیح مسلم ،البروالصلة،باب تراحم المؤمنین۔۔۔حدیث2585] اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا کہ تمام مومنین ایک دوسرے کے حقوق کو ادا کریں اور ایک دوسرے سے ایسا سلوک کریں جس سے باہمی الفت، محبت اور باہمی میل جول پیدا ہوتا ہے۔ یہ سب کچھ ایک دوسرے کے حقوق کی تائید ہے۔ اہل ایمان کے حقوق میں سے ایک حق یہ ہے کہ جب وہ آپس میں کسی ایسی لڑائی میں مبتلا ہوجائیں جو دلوں میں تفرقہ، باہم ناراضی اور ایک دوسرے سے پیٹھ پھیرنے کی موجب ہو تو اہل ایمان اپنے بھائیوں کے درمیان صلح کرانے کی کوشش کریں تاکہ ان کی باہمی دشمنی ختم ہوجائے۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے عمومی تقویٰ کا حکم دیا اور قیام تقویٰ اور مومنوں کے حقوق کی ادائیگی پر رحمت کو مترتب فرمایا۔ چنانچہ فرمایا : ﴿لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ ﴾ ” تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔“ اور جب اللہ تعالیٰ کی رحمت حاصل ہوجاتی ہے تو دنیا و آخرت کی ہر بھلائی حاصل ہوجاتی ہے۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ اہل ایمان کے حقوق کی عدم ادائیگی اللہ تعالیٰ کی رحمت کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ ان دو آیات کریمہ میں مذکورہ بالا فوائد کے علاوہ بھی بعض فوائد ہیں : (1) اہل ایمان کا ایک دوسرے کے ساتھ لڑنا، اخوت ایمانی کے منافی ہے، اس لئے یہ سب سے بڑا گناہ ہے۔ (2) ایمان اور اخوت ایمانی، آپس کی لڑائی کے باوجود زائل نہیں ہوتے جیسے دوسرے کبیرہ گناہوں سے ایمان زائل نہیں ہوتا، جو شرک سے کم تر ہوں۔ یہ اہل سنت والجماعت کا مذہب ہے۔ (3) یہ آیات کریمہ دلالت کرتی ہیں کہ مومنوں کے درمیان عدل و انصاف کے ساتھ صلح کرانا واجب ہے۔ (4) یہ آیات کریمہ دلالت کرتی ہیں کہ باغیوں کے خلاف لڑنا واجب ہے جب تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی طرف نہ لوٹ آئیں۔ (5)نیز یہ آیات کریمہ اس پر بھی دلالت کرتی ہیں کہ اگر باغی غیر اللہ کے حکم کی طرف رجوع کریں یعنی وہ اس طرح رجوع کریں جس پر قائم رہنا اور اس کا التزام جائز نہ ہو، تو غیر اللہ کے حکم کی طرف رجوع کرنا جائز نہیں۔ (6) یہ آیات کریمہ دلالت کرتی ہیں کہ باغیوں کے اموال معصوم ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کے بغاوت پر جمے رہنے کی بنا پر، ان کے اموال کی بجائے خاص طور پر ان کے خون کو مباح قرار دیا ہے۔ الحجرات
11 یہ بھی مومنون کے باہمی حقوق میں شمار ہوتا ہے کہ ﴿ لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِّن قَوْمٍ ﴾ ” کوئی قوم کسی قوم سے تمسخر نہ کرے۔“ یعنی کسی قسم کی گفتگو اور قول و فعل کے ذریعے سے تمسخر نہ اڑائے جو مسلمان بھائی کی تحقیر پر دلالت کرتے ہوں۔ بے شک یہ تمسخر حرام ہے اور کسی طرح جائز نہیں، نیز یہ چیز تمسخر اڑانے والے کی خود پسندی پر دلیل ہے۔ ہوسکتا ہے جس کا تمسخر اڑایا جارہا ہے وہ تمسخر اڑانے والے سے بہتر ہو اور غالب طور پر یہی ہوتا ہے کیونکہ تمسخر صرف اسی شخص سے صادر ہوتا ہے جس کا قلب اخلاق بد سے لبریز ہو، جو ہر قسم کے اخلاق مذمومہ سے آراستہ اور اخلاق کریمہ سے بالکل خالی ہو۔ بنا بریں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :” کسی شخص کے لئے اتنی ہی برائی کافی ہے کہ وہ اپنے بھائی کو حقیر جانے۔ “ [صحیح مسلم، البروالصلة، باب تحریم ظلم المسلم ......حدیث:2564] پھر فرمایا : ﴿ وَلَا تَلْمِزُوا أَنفُسَكُمْ ﴾ یعنی تم میں سے کوئی ایک دوسرے کی عیب چینی نہ کرے۔ (اَللَّمْزُ)قول کے ذریعے سے عیب چینی کرنا (اَلْھَمْزُ) فعل کے ذریعے سے عیب چینی کرنا۔ یہ دونوں امور ممنوع اور حرام ہیں جن پر جہنم کی آگ کی وعید سنائی گئی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَيْلٌ لِّكُلِّ هُمَزَةٍ لُّمَزَةٍ ﴾ (الھمزۃ: 104؍1) ” ہلاکت ہے ہر طعن آمیز اشارے کرنے والے عیب جو کے لئے۔“ مسلمان بھائی کو مانند ہوں، نیز جب وہ کسی دوسرے کی عیب چینی کرے تو یہ چیز اس بات کی موجب ہوگی کہ دوسرا اس کی عیب چینی کرے، لہٰذا وہی اس عیب چینی کا سبب بنے گا۔ ﴿ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ ﴾ یعنی تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو کسی ایسے لقب سے ملقب نہ کرے جس سے پکارا جانا وہ ناپسند کرتا ہے اور یہی (تنَاَبُزْ) ” ایک دوسرے کو برالقب دینا“ ہے۔ رہے غیر مذموم القاب، تو وہ اس حکم میں داخل نہیں ہیں۔ ﴿ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْإِيمَانِ ﴾ ” ایمان لانے کے بعد برانام رکھنا گناہ ہے۔“ یعنی کتنی بری ہے وہ چیز جو تم نے ایمان اور شریعت پر عمل کے بدلے حاصل کی ہے جو کہ اللہ تعالیٰ کے اوامرو نواہی سے اعراض کے ذریعے سے فسق و عصیان کے نام کی مقتضی ہے جو کہ تنابزبالا لقاب ہے۔ ﴿ وَمَن لَّمْ يَتُبْ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ ﴾ ” اور جو توبہ نہ کریں تو وہی ظالم ہیں۔“ اور یہی چیز بندے پر واجب ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرے اور اپنے مسلمان بھائی سے اس کے حق کو حلال کرا کے، اس کے لئے استغفار کرکے، اور اس کی جو مذمت کی گئی ہے اس کے مقابلے میں اس کی مدح وستائش کرکے اس کا حق ادا کرے ﴿ وَمَن لَّمْ يَتُبْ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ ﴾ ” اور جس نے توبہ نہیں کی، تو وہی لوگ ظالم ہیں۔،، لوگوں کی دو اقسام ہیں : )1( اپنی جان پر ظلم کرنے والا وہ شخص جو توبہ نہیں کرتا۔ )2( توبہ کرکے فوزوفلاح سے بہرہ مند ہونے والا۔ ان دو اقسام کے سوا اور کوئی قسم نہیں۔ الحجرات
12 اللہ تبارک و تعالیٰ نے اہل ایمان کے بارے میں بدگمانی سے روکا ہے، اس لئے کہ ﴿ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ ﴾ ” بے شک بعض گمان گناہ ہیں۔“ اس سے مراد وہ ظن و گمان ہے جو حقیقت اور قرینے سے خالی ہے مثلاً وہ بدگمانی جس کے ساتھ بہت سے اقوال بد اور افعال بد مقرون ہوتے ہیں۔ کیونکہ دل کے اندر بدگمانی کے جڑ پکڑ لینے سے بدگمانی کرنے والا شخص صرف بدگمانی پر اکتفاء نہیں کرتا بلکہ وہ اس کے بارے میں باتیں اور ایسے کام کرتا رہتا ہے جس کا کرنا مناسب نہیں، نیز یہ چیز مسلمان کے بارے میں بدگمانی، اس کے ساتھ بغض و عداوت کو متضمن ہے جس کے برعکس معاملے کا حکم دیا گیا ہے۔ ﴿ وَلَا تَجَسَّسُوا ﴾ یعنی مسلمانوں کے پوشیدہ معاملات کی ٹوہ لگاؤ نہ ان کا پیچھا کرو۔ مسلمان کو اس کے اپنے حال پر چھوڑدو اور اس کی ان لغزشوں کو نظر انداز کردو جن کی اگر تفتیش کی جائے تو نامناسب امور ظاہر ہوں۔ ﴿ وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضًا ﴾ ” اور ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو۔“ غیبت کا معنی یہ ہے، جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :” تو اپنے بھائی کی کسی ایک خامی کا ذکر کرے جس کے ظاہر کرنے کو وہ ناپسند کرتا ہو۔۔۔ خواہ وہ خامی اس کے اندر موجود ہو۔ “ [صحیح المسلم، البروالصلة، باب تحریم الغیبة۔۔۔حدیث:2589] پھر اللہ تعالیٰ نے غیبت سے نفرت دلانے کے لئے مثال دیتے ہوئے فرمایا : ﴿ أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَن يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ ﴾ ” کیا تم میں سے کوئی اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا پسند کرتا ہے؟ پس اس سے تم نفرت کرو گے۔“ اللہ تعالیٰ نے غیبت کرنے کو مردہ بھائی کے گوشت کھانے سے تشبیہ دی ہے، جو نفوس انسانی کے لئے انتہائی ناپسندیدہ چیز ہے۔ پس جس طرح تم اپنے بھائی، خاص طور پر بے جان اور مردہ بھائی کا گوشت کھانا ناپسند کرتے ہو اسی طرح تمہیں اس کی غیبت کرنا اور زندہ حالت میں اس کا گوشت کھانے کو ناپسند کرنا چاہیے۔ ﴿ وَاتَّقُوا اللّٰـهَ إِنَّ اللّٰـهَ تَوَّابٌ رَّحِيمٌ ﴾ ” اور اللہ تعالیٰ سے ڈرو بے شک اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرنے والا نہایت مہربان ہے۔“ (تواب) وہ ہستی ہے جو اپنے بندے کو توبہ کا حکم دے کر اسے توبہ کی توفیق سے نوازتی ہے، پھر اس کی توبہ قبول کرکے اس کی طرف متوجہ ہوتی ہے، وہ اپنے بندوں پر بہت مہربان ہے کہ اس نے ان کو اس چیز کی طرف بلایا جو ان کے لئے فائدہ مند ہے اور ان کی توبہ کو قبول فرمایا۔ اس آیت کریمہ میں غیبت سے نہایت سختی سے ڈرایا گیا ہے، نیز یہ کہ غیبت کبیرہ گناہوں میں شمار ہوتی ہے کیونکہ اسے مردہ بھائی کا گوشت کھانے سے تشبیہ دی گئی ہے اور یہ کبیرہ گناہ ہے۔ الحجرات
13 اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ اس نے بنی آدم کو ایک ہی اصل اور ایک ہی جنس سے پیدا کیا ہے تمام بنی آدم کو مرد اور عورت سے پیدا کیا۔ تمام بنی آدم، حضرت آدم اور حوا علیہما السلام کی طرف لوٹتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کی نسل میں سے بے شمار مردوں اور عورتوں کو پھیلایا، پھر ان کو قبیلوں اور گروہوں میں تقسیم کیا، یعنی چھوٹے بڑے قبیلوں میں تاکہ وہ ایک دوسرے کی پہچان رکھیں کیونکہ اگر ہر شخص اپنی انفرادی حیثیت کو قائم رکھے تو وہ تعارف حاصل نہیں ہوسکتا جس پر ایک دوسرے کی مدد، باہمی تعاون، باہمی توارث اور عزیز واقارب کے حقوق کا قیام مرتب ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو قوموں اور قبیلوں میں اس لئے تقسیم کیا ہے تاکہ وہ امور حاصل ہوسکیں جو باہمی تعارف اور الحاق نسب پر موقوف ہیں۔ مگر عزت کا معیار تقویٰ ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک لوگوں میں سب سے زیادہ باعزت وہ ہے جو سب سے زیادہ تقویٰ شعار ہے اور یہ وہ شخص ہے جو سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے والا اور گناہوں سے رکنے والا ہے۔ وہ شخص سب سے زیادہ عزت والا نہیں جس کا کنبہ قبیلہ سب سے بڑا اور سب سے زیادہ بلند حسب و نسب رکھتا ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ علیم و خبیر ہے وہ جانتا ہے کہ ان میں کون ظاہر اور باطن میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے اور کون اللہ تعالیٰ سے اپنے ظاہر میں ڈرتا ہے نہ باطن میں۔ پس اللہ تعالیٰ ہر ایک کو ایسی جزا دے گا جس کا وہ مستحق ہے۔ یہ آیت کریمہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ حسب و نسب کی معرفت مطلوب اور مشروع ہے کیونکہ اسی کی خاطر اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے قوم اور قبیلے بنائے۔ الحجرات
14 اللہ تبارک و تعالیٰ بعض ان عرب دیہاتیوں کے قول کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد میں کسی بصیرت کے بغیر اسلام میں داخل ہوئے اور ان امور کو قائم نہ کیا جن کا قیام واجب اور جن کے قیام کا تقاضا ایمان کرتا ہے اور اس کے باوجود انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا ” ہم ایمان لائے“ یعنی کامل ایمان جو تمام امور کو پورا کرتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم دیا کہ وہ ان کے اس قول کی تردید کردیں، چنانچہ فرمایا : ﴿ قُل لَّمْ تُؤْمِنُوا ﴾ یعنی کہہ دیجئے : تم اپنے لئے ظاہری اور باطنی طور پر کامل مقام ایمان کا دعویٰ نہ کرو ﴿ وَلَـٰكِن قُولُوا أَسْلَمْنَا ﴾ ” لیکن کہو ہم اسلام لائے۔“ یعنی ہم اسلام میں داخل ہوگئے اور اسی پر اکتفا کرو۔ ﴿ وَ ﴾ ” اور“ اس کا سبب یہ ہے کہ ﴿ وَلَمَّا يَدْخُلِ الْإِيمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ ﴾ تم نے تو محض کسی خوف یا کسی امید وغیرہ کی بنا پر اسلام قبول کیا ہے، جو تمہارے ایمان کا سبب ہے، اس لئے ایمان کی بشاشت ابھی تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوئی۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد : ﴿ وَلَمَّا يَدْخُلِ الْإِيمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ﴾ سے مراد ہے کہ جب تم سے یہ کلام صادر ہوا اس وقت تک تمہارے دلوں میں ایمان داخل نہیں ہوا تھا، اس آیت کریمہ میں ان کے بعد کے احوال کی طرف اشارہ ہے کیونکہ ان میں سے بہت سے لوگ ایسے بھی تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے حقیقی ایمان سے بہرہ مند اور جہاد فی سبیل اللہ کی فضیلت سے سرفراز فرمایا۔ ﴿ وَإِن تُطِيعُوا اللّٰـهَ وَرَسُولَهُ ﴾ اور اگر تم کسی فعلِ خیر اور اجتناب شر کے ذریعے سے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہو ﴿ لَا يَلِتْكُم مِّنْ أَعْمَالِكُمْ شَيْئًا﴾ تو وہ تمہارے اعمال میں ذرہ بھر کمی نہیں کرے گا بلکہ تمہارے اعمال کا پورا پورا بدلہ دے گا اور تم اپنا کوئی چھوٹا یا بڑا عمل غیر موجود نہیں پاؤ گے۔ ﴿ إِنَّ اللّٰـهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴾ یقیناً اللہ تعالیٰ اس شخص کے گناہ بخش دیتا ہے جو توبہ کرکے اس کی طرف رجوع کرتا ہے اور وہ اس پر نہایت مہربان ہے کہ اس نے اس کی توبہ قبول کی۔ الحجرات
15 ﴿ إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ ﴾ یعنی حقیقی مومن ﴿ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّـهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوا وَجَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللّٰـهِ ﴾ وہ ہیں جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول پر ایمان اور اللہ کے راستے میں جہاد کو یکجا کیا اور جس نے کفار کے ساتھ جہاد کیا تو یہ چیز دلالت کرتی ہے کہ اس کے دل میں کامل ایمان ہے کیونکہ جو کوئی اسلام، ایمان اور اللہ تعالیٰ کے دین کو قائم کرنے کے لئے دوسروں سے جہاد کرتا ہے تو اس کا اپنے نفس کے ساتھ جہاد کرنا زیادہ اولیٰ ہے۔ نیز اس لئے بھی کہ جو کوئی جہاد کی قوت نہیں پاتا تو یہ اس کے ایمان کی کمزوری کی دلیل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایمان کے لئے عدم شک و ریب کی شرط عائد کی ہے کیونکہ ایمان نافع سے مراد ہے اس معامے میں قطعی یقین سے بہرہ ور ہونا، جس پر اللہ تعالیٰ نے ایمان رکھنے کا حکم دیا ہے، جس میں کسی لحاظ سے بھی شک و شبہ کا شائبہ نہ ہو۔ ﴿ أُولَـٰئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ ﴾ ” یہی لوگ سچے ہیں“ یعنی جنہوں نے اعمال جمیلہ کے ذریعے سے اپنے ایمان کی تصدیق کی، کیونکہ ہر معاملے میں صدق ایک بڑا دعویٰ ہے، جس میں صاحب صدق کسی دلیل و برہان کا محتاج ہوتا ہے اور ایمان کا دعویٰ تو سب سے بڑا دعویٰ ہے جس پر بندے کی سعادت، ابدی کامیابی اور سرمدی فلاح کا دارومدار ہے۔ پس جو کوئی ایمان کا دعویٰ کرتا ہے اور اس کے واجبات و لوازم کو قائم کرتا ہے۔ وہی حقیقی اور سچا مومن ہے۔ اور جو کوئی ایسا نہیں تو وہ اپنے دعوے میں سچا نہیں اور اس کے اس دعوائے ایمان کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ ایمان دل کے اندر ہے جسے اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اس لئے ایمان کا اثبات کرنا یا اس کی نفی کرنا، گویا دل میں جو کچھ ہے اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کو آگاہ کرنا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی جناب میں بے ادبی اور بدظنی ہے۔ الحجرات
16 ﴿ قُلْ أَتُعَلِّمُونَ اللّٰـهَ بِدِينِكُمْ وَاللَّـهُ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَاللَّـهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ ﴾ ” کہہ دیجئے : کیا تم اللہ تعالیٰ کو اپنی دین داری سے آگاہ کر رہے ہو حالانکہ اللہ تعالیٰ ہر اس چیز سے جو آسمانوں میں اور زمین میں ہے بخوبی آگاہ ہے اور اللہ ہر چیز کو جاننے والا ہے۔“ یہ تمام اشیاء کو شامل ہے اور دل کے اندر جو ایمان اور کفر، نیکی اور بدی ہوتی ہے وہ بھی اسی میں داخل ہے اور اللہ تعالیٰ یہ سب کچھ جانتا ہے اور وہ اس کی جزا دے گا۔ اگر اچھا عمل ہوتا تو اچھی جزا ہوگی اور برا عمل ہوگا تو بری جزا ہوگی۔ یہ اس شخص کا حال ہے جو ایمان کا دعویٰ کرتا ہے حالانکہ اس میں ایمان نہیں ہوتا۔ یہ دعویٰ یا تو اللہ تعالیٰ کو آگاہ کرنے کے لئے ہے درآنحالیکہ اللہ تعالیٰ ہر چیز سے آگاہ ہے یا اس کلام کا مقصد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر احسان کا اظہار ہے کہ انہوں نے جو کچھ کیا ہے اس میں ان کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کو اس کا دنیاوی فائدہ حاصل ہوا ہے۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے ایسے معاملے سے اپنے آپ کو آراستہ کرنا ہے جس سے آراستہ نہیں ہوا جاسکتا اور ایسے معاملے پر فخر کرنا ہے جو قابل فخر نہیں، کیونکہ احسان اور نوازش کا مالک تو اللہ تعالیٰ ہے۔ الحجرات
17 اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کو تخلیق کیا اور رزق عطا کیا، ان کو ظاہری اور باطنی نعمتوں سے نوازا۔ پس یہ اس کی عنایت اور احسان ہے کہ اس نے اسلام کی طرف ان کی راہ نمائی کی اور یہ اس کا احسان ہے کہ اس ایمان سے ان کو سرفراز فرمایا جو ہر چیز سے افضل ہے۔ اس لئے فرمایا : ﴿يَمُنُّونَ عَلَيْكَ أَنْ أَسْلَمُوا قُل لَّا تَمُنُّوا عَلَيَّ إِسْلَامَكُم ۖ بَلِ اللّٰـهُ يَمُنُّ عَلَيْكُمْ أَنْ هَدَاكُمْ لِلْإِيمَانِ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ﴾ ” اپنے مسلمان ہونے کا آپ پر احسان جتاتے ہیں، آپ کہہ دیجئے کہ اپنے مسلمان ہونے کا احسان مجھ پر نہ رکھو، بلکہ دراصل اللہ کا تم پر احسان ہے کہ اس نے تمہیں ایمان کی ہدایت کی، اگر تم راست گو ہو۔“ الحجرات
18 ﴿ إِنَّ اللّٰـهَ يَعْلَمُ غَيْبَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ﴾ اللہ تعالیٰ ان تمام امور کو جانتا ہے جو کائنات کے اندر چھپے ہوئے اور مخلوق سے مخفی ہیں، جو سمندروں کی موجوں میں، بیابانوں کی سختیوں میں، رات کے اندھیروں میں اور دن کی روشنیوں میں ہیں۔ وہ بارش کے قطروں، ریگزاروں کے ذروں، سینوں کے بھیدوں اور تمام چھپے ہوئے امور کو جانتا ہے۔ فرمایا : ﴿ وَمَا تَسْقُطُ مِن وَرَقَةٍ إِلَّا يَعْلَمُهَا وَلَا حَبَّةٍ فِي ظُلُمَاتِ الْأَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَلَا يَابِسٍ إِلَّا فِي كِتَابٍ مُّبِينٍ ﴾ (الانعام : 6؍59) ” اور کوئی پتا نہیں گرتا مگر اللہ اسے جانتا ہے، زمین کی تاریکیوں میں پڑا ہوا ایک دانہ بھی اللہ کے علم میں ہے خشک یا تر کوئی ایسی چیز نہیں جو ایک بیان کرنے والی کتاب کے اندر درج نہ ہو۔ “ ﴿ وَاللَّـهُ بَصِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ ﴾ ” اور اللہ ان اعمال کو دیکھتا ہے جن کا تم ارتکاب کرتے ہو۔“ وہ تمہارے اعمال کو شمار کرتا ہے وہ تمہیں پورے پورے لوٹائے گا اور اپنی بے پایاں رحمت اور حکمت بالغہ کے تقاضوں کے مطابق تمہیں ان اعمال کی جزا دے گا۔ الحجرات
0 سورة ق ق
1 اللہ تبارک و تعالیٰ قرآن مجید کی قسم کھا تا ہے، یعنی اس کے معانی بہت وسیع، عظیم اور اس کے پہلو بے شمار ہیں، اس کی برکات بے پایاں اور اس کی عنایات بہت زیادہ ہیں۔ (مَجْد) کا معنی ہے اوصاف کی وسعت اور ان کی عظمت۔ (مَجْد) سے موصوف ہونے کا سب سے زیادہ مستحق کلام اللہ یعنی قرآن ہے جو اولین وآخرین کے علوم پر مشتمل ہے، جس کی فصاحت کامل ترین، جس کے الفاظ عمدہ ترین اور جس کے معانی عام اور حسین ترین ہیں۔ یہ اوصاف اس کی کامل اتباع، اس کی فوری اطاعت اور اللہ تعالیٰ کے اس احسان پر شکر کے موجب ہیں۔ ق
2 مگر اکثر لوگ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی قدر نہیں کرتے بنا بریں فرمایا : ﴿بَلْ عَجِبُوا﴾ یعنی رسول مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جھٹلانے والے تعجب کرتے ہیں ﴿أَن جَاءَهُم مُّنذِرٌ مِّنْهُمْ﴾ ” کہ ان کے پاس انہی میں سے ایک متنبہ کرنے والا آیا“ جو انہیں ایسے امور کے بارے میں متنبہ کرتا ہے جو انہیں نقصان دیتے ہیں اور وہ انہیں ایسے امور کا حکم دیتا ہے جوا نہیں فائدہ دیتے ہیں اور وہ خود ان کی جنس سے ہے جس سے علم حاصل کرنا، اس کے احوال اور اس کی صداقت کے بارے میں معرفت حاصل کرنا ممکن ہے۔ لہٰذا انہوں نے ایک ایسے امر پر تعجب کیا جس پر تعجب کرنا ان کے لئے مناسب نہیں بلکہ اس پر تعجب کرنے والی عقل پر تعجب کرنا چاہیے۔ ﴿فَقَالَ الْكَافِرُونَ﴾ ” کافر کہنے لگے۔“ جس نے ان کو اس تعجب پر آمادہ کیا ہے وہ ان کی ذہانت اور عقل کی کمی نہیں بلکہ ان کا کفر اور تکذیب ہے۔ ﴿هـٰذَا شَيْءٌ عَجِيبٌ ﴾ یہ بڑی انوکھی چیز ہے۔ ان کا اس کو انوکھا اور نادر سمجھنا دو امور میں سے کسی ایک پر مبنی ہے۔ (1) یا تو وہ اپنے تعجب اور اسے انوکھا سمجھنے میں سچے ہیں، تب یہ چیز ان کی جہالت اور کم عقلی پر دلالت کرتی ہے، اس پاگل اور مجنون شخص کی مانند، جو عقل مند شخص کے کلام پر تعجب کرتا ہے، اس بزدل شخص کی مانند جو شہسوار کے شہسواروں کے ساتھ بھڑ جانے پر تعجب کرتا ہے اور اس کنجوس کی مانند جو سخی لوگوں کی سخاوت پر تعجب کرتا ہے، جس کا یہ حال ہو، اس کے تعجب کرنے سے کون سا نقصان ہے؟ کیا اس کا تعجب اس کی بہت زیادہ جہالت اور اس کے ظلم کی دلیل نہیں؟ (2) یا ان کا تعجب اس لحاظ سے ہے کہ وہ اس بارے میں اپنی غلطی کو جانتے ہیں، تب یہ سب سے بڑا اور بدترین ظلم ہے۔ ق
3 پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کے تعجب کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرمایا : ﴿أَإِذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا ذٰلِكَ رَجْعٌ بَعِيدٌ ﴾ ” بھلا جب ہم مرگئے اور مٹی ہوگئے (تو کیا پھر زندہ ہوں گے) یہ زندہ ہونا بعید ہے۔“ انہوں نے اس ہستی کی قدرت کو، جو ہر چیز پر قادر اور ہر لحاظ سے کامل ہے، محتاج بندے کی قدرت پر قیاس کیا ہے جو ہر لحاظ سے عاجز ہے اور جاہل کو، جسے کسی چیز کا علم نہیں، اس ہستی پر قیاس کیا ہے جو ہر چیز کا علم رکھتی ہے اور برزخ میں قیام کی مدت کے دوران، زمین ان کے اجساد میں جو کمی کرتی ہے، وہ اسے بھی جانتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی کتاب میں درج کر رکھا ہے یعنی جو کچھ ان کی زندگی اور موت میں ان کے ساتھ وقوع پذیر ہوگا، اس کے بارے میں یہ کتاب ہر قسم کے تغیر و تبدل سے محفوظ ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے کامل اور وسیع علم کے ذریعے سے، جس کا اس کے سوا اور کوئی احاطہ نہیں کرسکتا، اس کی مردوں کو زندہ کرنے کی قدرت پر استدلال ہے۔ ق
4 ق
5 ﴿ بَلْ﴾ ” بلکہ“ ان کا وہ کلام جو ان سے صادر ہوا ہے، محض اس حق کے ساتھ ان کا عناد اور تکذیب ہے جو صدق کی بلند ترین نوع ہے۔ ﴿ لَمَّا جَاءَهُمْ فَهُمْ فِي أَمْرٍ مَّرِيجٍ﴾ ” جب وہ ان کے پاس آیا تو وہ ایک الجھاؤ میں پڑگئے۔“ یعنی وہ ایک مختلف اور مشتبہ معاملے میں پڑے ہوئے ہیں، کسی چیز پر انہیں ثبات حاصل ہے نہ قرار۔ کبھی تو آپ کے بارے میں الزام تراشی کرتے ہوئے کہتے ہیں :” تو جادوگر ہے“ کبھی کہتے ہیں :” تو پاگل ہے“ اور کبھی کہتے ہیں :” تو شاعر ہے“ اسی طرح انہوں نے قرآن کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا، ہر کسی نے اپنی فاسد رائے کے تقاضے کے مطابق اس میں کلام کیا۔ اسی طرح ہر وہ شخص جس نے حق کی تکذیب کی، ہر کسی نے اپنی فاسد رائے کے تقاضے کے مطابق اس میں کلام کیا۔ اسی طرح ہر وہ شخص جس نے حق کی تکذیب کی، وہ مشتبہ معاملے میں پڑا ہوا ہے، اسے کوئی راہ سجھائی دیتی ہے نہ قرار آتا ہے، اس لئے تو اس کے معاملات کو باہم متناقض اور افک و بہتان پر مبنی پائے گا۔ جو کوئی حق کی اتباع اور اس کی تصدیق کرتا ہے، اس کا معاملہ درست اور اعتدال کی راہ پر ہوتا ہے، اس کا فعل اس کے قول کی تصدیق کرتا ہے۔ ق
6 اللہ تبارک و تعالیٰ نے اہل تکذیب کا حال اور ان کے قابل مذمت افعال کا ذکر کرنے کے بعد، انہیں آیات آفاقیہ میں غوروفکر کرنے کی دعوت دی ہے تاکہ عبرت حاصل کریں اور ان امور پر استدلال کریں جن کے لئے ان کو دلیل بنایا ہے، فرمایا : ﴿أَفَلَمْ يَنظُرُوا إِلَى السَّمَاءِ فَوْقَهُمْ﴾ ” کیا انہوں نے اپنے اوپر آسمان کی طرف نہیں دیکھا؟“ یعنی غوروفکر کی یہ نظر کسی مشقت اور سامان سفر باندھنے کی محتاج نہیں بلکہ بہت آسان ہے۔ وہ دیکھیں ﴿كَيْفَ بَنَيْنَاهَا ﴾ کہ ہم نے اسے کیسے ایک گنبد بنایا، جو اپنے کناروں پر برابر اور مضبوط بنیاد رکھتا ہے، جسے ان ستاروں سے آراستہ کیا گیا ہے جو پیچھے ہٹ جاتے ہیں اور چلتے چلتے غائب ہوجاتے ہیں، جو ایک افق سے دوسرے افق تک اپنے حسن اور ملاحت میں انتہا کو پہنچا ہوا ہے، تو اس میں کوئی سوراخ دیکھے گا نہ شگاف اور نہ تجھے اس میں کوئی خلل نظر آئے گا۔ اللہ تعالیٰ نے اسے اہل زمین کے لئے چھت بنایا ہے اور اس کے اندر ان کے لئے ضروری مصالح ودیعت کیے ہیں۔ ق
7 ﴿وَ﴾ ” اور“ طرف ﴿ الْأَرْضَ﴾ ” زمین کی“ دیکھیں کہ کیسے ﴿ مَدَدْنَاهَا﴾ ” ہم نے اسے کشادہ بنایا ہے؟“ حتیٰ کہ ہر حیوان کے لئے سکون و قرار اور اس کے تمام مصالح اور استعداد کو ممکن بنایا اور اس پر پہاڑوں کا بوجھ رکھ دیا کہ وہ نہ ہلے اور ٹھہری رہے ﴿وَأَنبَتْنَا فِيهَا مِن كُلِّ زَوْجٍ بَهِيجٍ ﴾ انسانوں اور جانوروں کی خوارک اور ان کے فائدے کے لئے نباتات کی اصناف میں سے ہر صنف اگائی، جو دیکھنے والوں کو بھلی لگتی اور خوش کرتی ہے اور اس کا نظارہ کرنے والے کی آنکھ ٹھنڈی ہوتی ہے اور ان فوائد میں سے ان باغات کا خاص طور پر ذکر کیا جو لذیذ پھلوں پر مشتمل ہوتے ہیں، مثلاً انگور، انار، لیموں اور سیب وغیرہ اور دیگر پھلوں کی تمام اقسام، نیز کھجور کے لمبے لمبے درخت، جن کا فائدہ بھی بہت طویل اور دیرپا ہوتا ہے، جو آسمان میں اتنے بلند ہوجاتے ہیں کہ بہت سے درخت اس بلندی تک نہیں پہنچ سکتے۔ وہ تہ بہ تہ گابھے میں سے گچھوں کی صورت میں ایسا پھل نکالتے ہیں جو بندوں کے لئے رزق، خوراک، سالن اور میوہ ہے۔ جسے وہ کھاتے ہیں اور اپنے اور اپنے مویشیوں کے لئے ذخیرہ کرتے ہیں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ اس بارش اور ان عوامل کے ذریعے سے، جس کے نتیجے میں روئے زمین پر دریا بہتے ہیں اور اس کے نیچے ﴿حَبَّ الْحَصِيدِ﴾ کھیتی کا اناج ہوتا ہے، یعنی وہ کھیتی جسے پکنے پر کاٹا جاتا ہے، مثلاً گیہوں، جو، مکئی، چاول اور باجرہ وغیرہ۔ ق
8 کیونکہ ان اشیاء میں غوروفکر کرنے میں ﴿تَبْصِرَةً﴾ ” ہدایت ہے“ جس کے ذریعے سے بندہ جہالت کے اندھے پن میں بصیرت حاصل کرتا ہے ﴿وَذِكْرَىٰ﴾ ” اور یاد دہانی ہے“ جس سے بندہ نصیحت حاصل کرتا ہے جو دین ودنیا میں اسے فائدہ دیتی ہے اور اس کے ذریعے سے وہ ان امور میں نصیحت حاصل کرتا ہے، جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خبر دی ہے اور اس سے ہر شخص بہرہ مند نہیں ہوتا بلکہ ﴿ لِكُلِّ عَبْدٍ مُّنِيبٍ ﴾ صرف وہی بندہ بہرہ مند ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے والا، محبت اور خوف ورجا کے ساتھ اس کی طرف توجہ کرنے والا اور اس کے داعی کی آواز پر لبیک کہنے والا ہے۔ رہا وہ شخص جو اس نصیحت کو جھٹلاتا اور اس سے روگردانی کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی نشانیاں اور تنبیہ کرنے والے اسے کوئی فائدہ نہیں دیتے۔ اس آیت کا حاصل یہ ہے کہ اس زمین پر جو بڑی بڑی مخلوق، قوت اور شدت کا وجود ملتا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کی دلیل ہے اور اس میں جو حسن، مہارت، نادر صنعت کاری اور بے مثال تخلیق پائی جاتی ہے وہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا اور ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔ اس کے اندر بندوں کے لئے جو فوائد اور مصالح پنہاں ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی بے پایاں رحمت ہے جو ہر چیز پر وسیع اور اس کے جودو کرم کی دلیل ہے، جو ہر زندہ کے لئے عام اور سب کو شامل ہے۔ اس کے اندر جو بڑی بڑی مخلوق اور بے مثال نظام ہے وہ اس حقیقت پر دلالت کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی واحد، یکتا اور بے نیاز ہے، جس کی کوئی بیوی ہے نہ بیٹا اور نہ اس کا کوئی ہم سر ہی ہے۔ یہ وہ ہستی ہے جس کے سوا کوئی عبادت تذلل، اور محبت کے لائق نہیں۔ زمین کے مردہ ہوجانے کے بعد جو اسے زندگی عطا ہوتی ہے وہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ مردوں کو زندہ کرے گا تاکہ ان کو ان کے اعمال کا بدلہ دے۔ ق
9 ق
10 ق
11 اس لئے فرمایا : ﴿وَأَحْيَيْنَا بِهِ بَلْدَةً مَّيْتًا كَذٰلِكَ الْخُرُوجُ ﴾ ” اور ہم نے اس (پانی)کے ذریعے سے مردہ شہر کو زندہ کیا بس اسی طرح (قیامت کے دن) نکل پڑنا ہے۔ “ اللہ تعالیٰ نے ان کو سماوی اور ارضی آیات کے ذریعے سے نصیحت کرنے کے بعد قوموں کو گرفت میں لینے والے عذاب سے ڈرایا کہ وہ تکذیب کے رویے پر جمے نہ رہیں، ورنہ ان پر بھی وہی عذاب ٹوٹ پڑے گا جو ان کے تکذیب کرنے والے بھائیوں پر ٹوٹ پڑا تھا۔ فرمایا : ق
12 یعنی ان سے پہلے گزری ہوئی قوموں نے بھی اپنے انبیائے عظام اور مرسلین کرام کو جھٹلایا، جیسے نوح علیہ السلام کو ان کی قوم نے جھٹلایا، ثمود نے حضرت صالح علیہ السلام کی تکذیب کی، عاد نے ہود علیہ السلام کو جھٹلایا، لوط کی قوم نے لوط علیہ السلام کو اور اصحاب ایکہ نے شعیب علیہ السلام کو جھوٹا سمجھا۔ زمانہ اسلام سے قبل یمن کے ہر بادشاہ کو (تُبَّعْ) کہا جاتا تھا، چنانچہ تبع کی قوم نے اپنے رسول کی تکذیب کی جسے اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف مبعوث کیا تھا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے ہمیں آگاہ نہیں فرمایا کہ وہ رسول کون تھا اور اسے کس (تُبَّعْ) کے زمانے میں مبعوث کیا گیا؟ کیونکہ۔۔۔ واللہ اعلم۔۔۔ وہ رسول عربوں میں مشہور اور معروف تھا اور عرب میں پیش آنے والے واقعات ان سے چھپے ہوئے نہ تھے، خاص طور پر اس قسم کے عظیم حادثے سے وہ بے خبر نہیں رہ سکتے تھے۔ پس ان تمام قوموں نے ان رسولوں کو جھٹلایا جن کو اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف مبعوث کیا تھا۔ پس اس پاداش میں ان کے لئے اللہ تعالیٰ کی وعید اور اس کی سزا واجب ہوگئی۔ ق
13 ق
14 ق
15 حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جھٹلانے والو ! تم ان گزری ہوئی قوموں سے بہتر ہو نہ گزرے ہوئے رسول تمہارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بہتر ہیں، اس لئے ان کے جرم سے بچو ایسا نہ ہو کہ تم پر بھی وہی عذاب نازل ہوجائے جو ان قوموں پرنازل ہوا تھا۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے تخلیق اول یعنی ابتدائی پیدائش کے ذریعے سے آخرت کی تخلیق پر استدلال کیا۔ پس جس طرح اللہ تعالیٰ ان کو عدم کے بعد وجود میں لایا اسی طرح وہ ان کے مرنے اور ان کے مٹی ہوجانے کے بعد انہیں دوبارہ زندگی عطا کرے گا۔ اس لئے فرمایا : ﴿أَفَعَيِينَا ﴾ کیا ہم بے بس ہوگئے اور ہماری قدرت کمزور پڑگئی ﴿بِالْخَلْقِ الْأَوَّلِ﴾ ” پہلی بار پیدا کرکے۔“ معاملہ ایسا نہیں ہے، ہم ایسا کرنے سے عاجز ہیں نہ بے بس اور انہیں اس بارے میں کوئی شک بھی نہیں، وہ تو تخلیق جدید کے بارے میں شک میں پڑے ہوئے ہیں اور اس کا معاملہ ان پر ملتبس ہو کر رہ گیا ہے، حالانکہ یہ التباس کا مقام نہیں کیونکہ اعادہ ابتدا سے زیادہ سہل ہوتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَهُوَ الَّذِي يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ﴾(الروم : 30؍27) ” وہی ہے جو تخلیق کیا ابتدا کرتا ہے پھر وہ اس کا اعادہ کرے گا اور اس کے لئے آسان تر ہے۔ “ ق
16 اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ انسان کی جنس مرد اور عورت کو پیدا کرنے میں وہ تنہا ہے۔ وہ انسان کے تمام احوال کو، جنہیں وہ چھپاتا ہے اور اس کا نفس اسے وسوسے میں مبتلا کرتا ہے، خوب جانتا ہے اور وہ ﴿أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ﴾ ” اس کی رگ جاں سے بھی زیادہ اس کے قریب ہے۔“ جو انسان کے سب سے زیادہ قریب والی رگ ہے۔ اس سے مراد وہ رگ ہے جس نے سینے کے گڑھے کا احاطہ کر رکھا ہے۔ یہ چیز انسان کو اپنے خالق کے مراقبے کی دعوت دیتی ہے، جو اس کے ضمیر اور اس کے باطن سے مطلع ہے اور اس کے تمام احوال میں اس کے قریب رگ ہے۔ اس لئے انسان کو چاہیے کہ ایسے کام کے ارتکاب سے حیا کرے جس کام سے اللہ نے اس کو روکا ہے، اس لئے کہ اللہ اس کو دیکھتا ہے، اور جس کام کا اللہ نے حکم دیا ہے اسے ترک نہ کرے۔ ق
17 اسی طرح اس کے لئے مناسب یہی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے فرشتوں ” کراماً کاتبین“ کا لحاظ رکھے، ان کی عزت و توقیر کرے، وہ کسی ایسے قول و فعل سے بچے جو اس کی طرف سے لکھ لیا جائے جس سے رب کائنات راضی نہ ہو۔ اسی لئے فرمایا : ﴿ إِذْ يَتَلَقَّى الْمُتَلَقِّيَانِ ﴾ ” جب دو لکھنے والے لکھ لیتے ہیں۔“ یعنی بندے کے تمام اعمال درج کر رہے ہیں ﴿عَنِ الْيَمِينِ ﴾ دائیں جانب کا فرشتہ نیکیاں لکھتا ہے اور دوسرا فرشتہ ﴿عَنِ الشِّمَالِ﴾ بائیں جانب سے برائیاں لکھتا ہے اور ان میں سے ہر ایک ﴿قَعِيدٌ ﴾ یہ کام کرنے کے لئے بیٹھا ہوا اور اپنے اس عمل کے لئے مستعد ہے، جس کے لئے اسے مقرر کیا گیا ہے یعنی اس کام میں لگا ہوا ہے۔ ق
18 ﴿مَّا يَلْفِظُ مِن قَوْلٍ﴾ وہ خیر یا شرکا جو بھی لفظ بولتا ہے ﴿إِلَّا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ﴾ تو ایک نگران موجود ہوتا ہے جو اس کے پاس ہر حال میں موجود رہتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَإِنَّ عَلَيْكُمْ لَحَافِظِينَ كِرَامًا كَاتِبِينَ يَعْلَمُونَ مَا تَفْعَلُونَ﴾ (الانفطار : 82؍10۔ 12) ” اور بے شک تم پر نگہبان مقرر ہیں، بلند مرتبہ کاتب، جو کچھ تم کرتے ہو وہ سب جانتے ہیں۔ “ ق
19 ﴿وَجَاءَتْ﴾ ” اور آئی“ یعنی اس غافل اور آیات الٰہی کی تکذیب کرنے والے کے پاس ﴿ سَكْرَةُ الْمَوْتِ بِالْحَقِّ﴾ ” موت کی بے ہوشی حق کے ساتھ“ جس سے لوٹنا اور بچنا ممکن نہیں۔ ﴿ذٰلِكَ مَا كُنتَ مِنْهُ تَحِيدُ﴾ یہ وہی چیز ہے جس سے پیچھے ہٹتے اور اس سے دور بھاگتے تھے۔ ق
20 ﴿ وَنُفِخَ فِي الصُّورِ ذٰلِكَ يَوْمُ الْوَعِيدِ﴾ ” اور صور میں پھونکا جائے گا، یہی وعید کا دن ہے۔“ یہ وہ دن ہے جس دن ظالموں کو عذاب دیا جائے گا، جس کا اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ وعدہ کیا تھا اور مومنوں کو ثواب عطا کیا جائے گا جس کا اس نے ان کے ساتھ وعدہ کیا تھا۔ ق
21 ﴿ وَجَاءَتْ كُلُّ نَفْسٍ مَّعَهَا سَائِقٌ ﴾ ” اور ہر شخص آئے گا، ایک اس کے ساتھ چلانے والا ہوگا۔“ جو اسے قیامت کے میدان کی طرف ہانک کرلے جائے گا یہ اس سے بچ کر پیچھے نہیں رہ سکے گا ﴿وَشَهِيدٌ ﴾ ” اور ایک گواہ ہوگا“ جو اس کے اچھے برے اعمال کی گواہی دے گا۔ یہ چیز اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندوں کی طرف اعتناء اور اس کی طرف سے ان کے اعمال کی حفاظت اور نہایت عدل و انصاف سے اس کو جزا و سزا دینے پر دلالت کرتی ہے۔ یہ وہ چیز ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ بندہ اس کا اہتمام کرے۔ ق
22 مگر اکثر لوگ غفلت میں ڈوبے ہوئے ہیں، اس لئے فرمایا : ﴿لَّقَدْ كُنتَ فِي غَفْلَةٍ مِّنْ هَـٰذَا﴾ ” اس سے تو غافل ہو رہا تھا۔“ یہ بات قیامت کے روز روگردانی کرنے والے اور انبیاء ورسل کو جھٹلانے والے کو زجرو توبیخ، ملامت اور عتاب کے طور پر کہی جائے گی، یعنی تو اس دن کو جھٹلایا کرتا تھا اور اس دن کے لئے عمل نہ کرتا تھا، پس اب ﴿فَكَشَفْنَا عَنكَ غِطَاءَكَ﴾ ” ہم نے تجھ سے پردہ ہٹا دیا“ جس نے تیرے دل کو ڈھانپ رکھا تھا جس کی بنا پر تو کثرت سے سوتا تھا اور اپنی روگردانی پر جما ہوا تھا۔ ﴿ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ ﴾ ” پس آج تیری نگاہ تیز ہے۔“ وہ مختلف قسم کے عذاب اور سزاؤں کو دیکھے گا جو اسے ڈرا رہی ہوں گی اور گھبراہٹ میں مبتلا کر رہی ہونگی۔ یا یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندے سے خطاب ہے، کیونکہ دنیا میں وہ ان فرائض سے غافل تھا جن کے لئے اس کو تخلیق کیا گیا تھا مگر قیامت کے روز وہ بیدار ہوگا، اس کی غفلت دور ہوجائے گی اور یہ سب ایسے وقت میں ہوگا جب کوتاہی کا تدارک اور ناکامی کی تلافی ممکن نہ ہوگی۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس عظیم دن کو اہل تکذیب کے ساتھ سلوک کے ذکر کے ذریعے سے بندوں کے لئے تخویف اور ترہیب ہے۔ ق
23 اللہ تعالیٰ کا فرمانا ہے : ﴿وَقَالَ قَرِينُهُ﴾ اس جھٹلانے اور روگردانی کرنے والے کا فرشتوں میں سے وہ ساتھی، جس کو اللہ تعالیٰ نے اس کی اور اس کے اعمال کی حفاظت کے لئے مقرر کیا ہے، قیامت کے روز اس کے سامنے موجود ہوگا اور اس کے اعمال کو اس کے سامنے پیش کرے گا اور کہے گا : ﴿ھٰـٰذَا مَا لَدَيَّ عَتِيدٌ ﴾ ” یہ (اعمال نامہ) میرے پاس حاضر ہے۔“ یعنی میں نے وہ سب کچھ پیش کردیا ہے جس کی حفاظت اور اس کے عمل کو محفوظ رکھنے پر مجھے مقرر کیا گیا تھا پس اب اس کے عمل کی جزا دی جائے گی۔ جو کوئی جہنم کا مستحق ہوگا اسے کہا جائے گا : ق
24 ﴿أَلْقِيَا فِي جَهَنَّمَ كُلَّ كَفَّارٍ عَنِيدٍ﴾ ” ہر ناشکرے، سرکش کو جہنم میں ڈال دو۔“ یعنی جو بہت زیادہ کفر کرنے والا، آیات الٰہی سے عنادر کھنے والا، بہت کثرت سے گناہوں کا ارتکاب کرنے والا اور اللہ تعالیٰ کے محارم اور معاصی میں جسارت کرنے والا ہے۔ ق
25 ﴿ مَّنَّاعٍ لِّلْخَيْرِ﴾ ” بھلائی سے روکنے والا۔“ اس کے پاس جو بھلائی موجود ہے وہ اسے روکتا ہے، جس میں سے سب سے بڑی بھلائی اللہ تعالیٰ اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں پر ایمان ہے اور وہ اپنے مال اور بدن کے فائدے کو (لوگوں تک پہنچنے سے) روکتا ہے ﴿ مُعْتَدٍ﴾ اللہ تعالیٰ کے بندوں پر زیادتی کرنے والا اور اس کی حدود سے تجاوز کرنے والا ہے ﴿مُّرِيبٍ﴾ اللہ تعالیٰ کے وعدے اور وعید میں شک کرنے والا ہے۔ اس میں کوئی ایمان ہے نہ احسان، بلکہ اس کا وصف کفر و عدوان، شک و ریب، بخل اور رحمٰن کو چھوڑ کر خود ساختہ معبودوں کی عبادت کرنا ہے، بنابریں فرمایا : ق
26 ﴿ الَّذِي جَعَلَ مَعَ اللّٰـهِ إِلَـٰهًا آخَرَ﴾ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسرے معبودوں کی بھی عبادت کرتا ہے جو کسی نفع و نقصان، زندگی اور موت اور مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کرنے کا کوئی اختیار نہیں رکھتے۔ ﴿فَأَلْقِيَاهُ﴾ اس کے دونوں ساتھی فرشتو ! اس کو ڈال دو ﴿ فِي الْعَذَابِ الشَّدِيدِ﴾ ” سخت عذاب میں۔“ جو سب سے بڑا، سب سے سخت اور سب سے برا عذاب ہے۔ ق
27 ﴿ قَالَ قَرِينُهُ ﴾ اس کا شیطان ساتھی اس سے بری الذمہ ہوتے ہوئے اور اس کے گناہ کا اسی کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے کہے گا : ﴿رَبَّنَا مَا أَطْغَيْتُهُ﴾ ” اے ہمارے رب ! میں نے اسے سرکش نہیں بنایا“ کیونکہ مجھے اس پر کوئی اختیار تھا نہ میرے پاس کوئی دلیل و برہان تھی بلکہ یہ خود ہی انتہائی گمراہی میں تھا، وہ خود ہی اپنے اختیار سے گمراہ ہو کر حق سے دور ہوگیا۔ جیسا کہ ایک اور آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَقَالَ الشَّيْطَانُ لَمَّا قُضِيَ الْأَمْرُ إِنَّ اللّٰـهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَوَعَدتُّكُمْ فَأَخْلَفْتُكُمْ ﴾(ابراہیم : 18؍22)” اور جب فیصلہ ہوجائے گا تو شیطان کہے گا : بے شک اللہ نے تمہارے ساتھ سچا وعدہ کیا اور میں نے جو وعدہ تمہارے ساتھ کیا میں نے اس کی خلاف ورزی کی“ میرا تم پر کوئی دباؤ تو تھا ہی نہیں، میں نے تمہیں پکارا اور تم نے میری مان لی۔ پس تم مجھے الزام نہ لگاؤ بلکہ خود اپنے تئیں ملامت کرو نہ میں تمہارا فریاد رس اور نہ تم میری فریاد کو پہنچنے والے ہو میں تو سرے سے مانتا ہی نہیں کہ تم مجھے اس سے پہلے اللہ کا شریک مانتے رہے، یقیناً ظالموں کے لئے دردناک عذاب ہے۔ ق
28 اللہ تبارک و تعالیٰ ان کی آپس کی خصوصیت کا جواب دیتے ہوئے فرمائے گا : ﴿ لَا تَخْتَصِمُوا لَدَيَّ﴾ ” میرے پاس نہ جھگڑو“ یعنی میرے پاس تمہارے آپس میں جھگڑے کا فائدہ نہیں۔ ﴿وَ﴾ حالانکہ ﴿وَقَدْ قَدَّمْتُ إِلَيْكُم بِالْوَعِيدِ﴾ ” میں تمہارے پاس وعید بھیج چکا تھا۔“ یعنی میرے رسول کھلی نشانیاں، واضح دلائل اور روشن براہین لے کر تمہارے پاس آئے، تم پر میری حجت قائم اور تمہاری حجت منقطع ہوگئی تم نے اپنے گزشتہ اعمال میرے سامنے پیشے کیے جن کی جزا واجب ہے۔ ق
29 ﴿مَا يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَّ ﴾ ” میرے ہاں بات بدلا نہیں کرتی۔“ یعنی یہ ممکن نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ فرمایا اور جو خبر دی ہے، اس کی خلاف ورزی کرے کیونکہ اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر کوئی ہستی اپنے قول اور اپنی بات میں سچی نہیں ﴿وَمَا أَنَا بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِيدِ﴾ ” اور میں بندوں پر ظلم نہیں کرتا“ بلکہ وہ اچھا اور برا جو عمل کرتے ہیں اسی کی جزا و سزا دیتا ہوں، ان کی برائیوں میں اضافہ کیا جاتا ہے نہ ان کی نیکیوں میں کمی کی جاتی ہے۔ ق
30 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں کو ڈراتے ہوئے فرماتا ہے : ﴿يَوْمَ نَقُولُ لِجَهَنَّمَ هَلِ امْتَلَأْتِ﴾ ” اس دن ہم جہنم سے پوچھیں گے، کیا تو بھر گئی ہے؟“ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد، جہنم میں ڈالے گئے لوگوں کی کثرت کی وجہ سے ہوگا ﴿وَتَقُولُ هَلْ مِن مَّزِيدٍ﴾ ” وہ کہے گی کچھ اور بھی ہے؟“ یعنی جہنم اپنے رب کی خاطر ناراضی اور کفار پر غیظ و غضب کی وجہ سے اپنے اندر مجرموں کے اضافے کا مطالبہ کرتی رہے گی، جبکہ اللہ تعالیٰ نے جہنم کو بھرنے کا وعدہ کر رکھا ہے۔ جیسا کہ فرمایا : ﴿لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ ﴾ (السجدۃ: 32؍13) ” میں جہنم کو جنات اور انسانوں سے ضرور بھروں گا۔“ حتیٰ کہ اللہ رب العزت اپنا قدم کریم، جو تشبیہ سے پاک ہے، جہنم میں رکھ دے گا۔جہنم کی لپٹیں ایک دوسرے کی طرف سمٹ جائیں گے، جہنم پکار اٹھے گی، بس کافی ہے، میں بھر چکی ہوں۔ ق
31 ﴿ وَأُزْلِفَتِ الْجَنَّةُ﴾ جنت کو قریب کردیا جائے گا ﴿لِلْمُتَّقِينَ غَيْرَ بَعِيدٍ ﴾ ” پرہیز گاروں کے لئے، دو رنہ ہوگی“ جہاں اس کا مشاہدہ کیا جاسکے گا، اس کی دائمی نعمتوں اور مسرتوں کو دیکھا جاسکے گا۔ جنت کو صرف ان لوگوں کے قریب کیا جائے گا جو اپنے رب سے ڈر کر شرک اکبر اور شرکِ اصغر سے اجتناب کرتے ہیں نیز اپنے رب کے احکام کی تعمیل اور اس کی اطاعت کرتے ہیں۔ انہیں مبارک بادی کے طور پر کہا جائے گا ۔ ق
32 ﴿هٰذَا مَا تُوعَدُونَ لِكُلِّ أَوَّابٍ حَفِيظٍ﴾ ” یہی وہ چیز ہے، جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا، ہر رجوع کرنے والے اور حفاظت کرنے والے سے۔“ یعنی یہ جنت، اور اس میں جو کچھ موجود ہے، جس کی نفوس انسانی خواہش رکھتے ہیں، جس سے آنکھیں لذت حاصل کرتی ہیں، جس کا ہراس شخص کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے جو اپنے تمام اوقات میں اللہ تعالیٰ کے ذکر، اس کے ساتھ محبت، اس سے استعانت، اس سے دعا اور اس کے خوف اور اس سے امید کے ذریعے سے، اس کی طرف بہت کثرت سے رجوع کرتا ہے۔ ﴿حَفِيظٍ﴾ اخلاص اور تکمیل کے ساتھ کامل ترین طریقے سے اللہ کے اوامر کی تعمیل کرتا ہے نیز اس کی حدود کی حفاظت کرتا ہے۔ ق
33 ﴿مَّنْ خَشِيَ الرَّحْمَـٰنَ﴾ اپنے رب کی پوری معرفت اور اس کی رحمت کی امید رکھتے ہوئے اس سے ڈرتا ہے، اپنی حالت غیب یعنی جب وہ لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہوتا ہے، تو خشیت الٰہی کا التزام کرتا ہے اور یہی حقیقی خشیت ہے۔ رہی وہ خشیت جس کا اظہار لوگوں کی نظروں کے سامنے اور ان کی موجودگی میں کیا جائے تو اس میں کبھی کبھی ریا اور شہرت کی خواہش کا شائبہ آجاتا ہے۔ یہ حقیقی خشیت پر دلالت نہیں کرتی۔ فائدہ مند خشیت تو صرف وہی ہے جو کھلے اور چھپے ہر حال میں ہو۔ ﴿وَجَاءَ بِقَلْبٍ مُّنِيبٍ﴾ ” اور رجوع کرنے والا دل لے کر آیا۔“ یعنی اس کا وصف اپنے آقا کی طرف رجوع ہو اور اس کے تمام داعیے اپنے آقا کی رضا میں جذب ہوگئے ہوں۔ ان نیک اور پرہیز گارلوگوں سے کہا جائے گا: ق
34 ﴿ادْخُلُوهَا بِسَلَامٍ﴾ اس طرح اس جنت میں داخل ہوجاؤ کہ یہ داخلہ ہر قسم کی آفات اور شر سے سلامتی سے مقرون اور تمام ناپسندیدہ امور سے مامون ہے۔ ان کو عطا کی گئی نعمتیں منقطع ہوں گی نہ ان میں کوئی بدمزگی آئے گی۔ ﴿ذٰلِكَ يَوْمُ الْخُلُودِ﴾ ” یہ ہمیشہ رہنے کا دن ہے۔“ جسے کبھی زوال آئے گا نہ موت اور نہ کسی قسم کا کوئی تکدر ہوگا۔ ق
35 ﴿لَهُم مَّا يَشَاءُونَ فِيهَا﴾ انہیں وہاں ہر وہ چیز حاصل ہوگی، جس سے ان کی چاہت وابستہ ہوگی۔ اس سے بڑھ کر ﴿ مَزِيدٌ﴾ ’’اور بھی زیادہ ہے“ یعنی ثواب، جسے رحمٰن اور رحیم ان کے لئے بڑھاتا رہے گا، جسے کسی آنکھ نے دیکھا ہے نہ کسی کان نے سنا ہے اور نہ کسی بشر کے دل میں کبھی اس کا گزر ہوا ہے۔۔۔ سب سے بڑا، سب سے جلیل اور سب سے افضل ثواب اللہ تعالیٰ کے چہرہ انور کا دیدار، اس کے کلام کی سماعت اور اس کے قرب کی نعمت ہوگی۔ ہم اللہ تعالیٰ سے سوال کرتے ہیں کہ وہ ہمیں بھی انہی لوگوں میں شامل کردے۔ ق
36 اللہ تبارک و تعالیٰ مشرکین کو، جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جھٹلاتے ہیں، ڈراتے ہوئے فرماتا ہے : ﴿وَكَمْ أَهْلَكْنَا قَبْلَهُم مِّن قَرْنٍ﴾ ” ہم نے ان سے پہلے کئی امتیں ہلاک کر ڈالیں۔“ یعنی بہت سی قوموں کو ہلاک کیا ﴿ هُمْ أَشَدُّ﴾ ” وہ زیادہ تھے“ ان لوگوں سے ﴿بَطْشًا﴾ ” قوت میں۔“ یعنی زمین میں، قوت اور آثار میں ان سے بڑھ کر تھے، بنابریں فرمایا : ﴿فَنَقَّبُوا فِي الْبِلَادِ﴾ ” پس انہوں نے شہروں کا گشت کیا۔“ یعنی انہوں نے نہایت مضبوط قلعے اور بلند عمارتیں تعمیر کیں، باغات لگائے، نہریں نکالیں، کھیت اگائے، زمین کو آباد کیا اور ہلاک ہوگئے۔ جب انہوں نے اللہ تعالیٰ کے رسولوں کو جھٹلایا اور اس کی آیات کا انکار کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کو دردناک سزا اور سخت عذاب کے ذریعے سے گرفت میں لے لیا ﴿هَلْ مِن مَّحِيصٍ﴾ ” کیا کہیں بھاگنے کی جگہ ہے؟“ یعنی جب اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہوتا ہے، اس وقت ان کے لئے کوئی بھاگنے کی جگہ ہوتی ہے نہ کوئی بچانے والا ہوتا ہے۔ پس ان کی قوت ان کا مال اور ان کی اولاد ان کے کسی کام نہ آسکی۔ ق
37 ﴿إِنَّ فِي ذٰلِكَ لَذِكْرَىٰ لِمَن كَانَ لَهُ قَلْبٌ﴾ ” بے شک جو شخص دل رکھتا ہے اس کے لئے اس میں نصیحت ہے۔“ یعنی ایک عظیم، زندہ، ذہین اور پاک دل، یہ دل، جب آیاتا الٰہی میں سے کوئی آیت اس پر گزرتی ہے، تو اس سے نصیحت حاصل کرکے فائدہ اٹھاتا ہے اور بلند مقام پر فائز ہوتا ہے اور اسی طرح جو کوئی کان لگا کر آیات الٰہی کو اس طرح غور سے سنتا ہے جس سے رشد و ہدایت حاصل ہوتی ہے اور اس کا قلب ﴿شَهِيدٌ﴾ ” حاضر ہوتا ہے“ تو وہ بھی تذکر، نصیحت، شفاء اور ہدایت سے بہرہ مند ہوتا ہے۔ رہا روگردانی کرنے والا شخص جو آیات الٰہی کو غور سے نہیں سنتا تو اس شخص کو آیات الٰہی کوئی فائدہ نہیں دیتیں، کیونکہ اس کے پاس قبولیت کا مادہ نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ کی حکمت اس شخص کی ہدایت کا تقاجا نہیں کرتی جس کا یہ وصف ہو۔ ق
38 یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے اپنی قدرت عظیم اور مشیت نافذہ کے بارے میں خبر ہے، جن کے ذریعے سے اس نے سب سے بڑی مخلوق کو وجود بخشا۔ ﴿ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ﴾ ” آسمانوں اور زمین اور جو ان کے درمیان ہے، چھ دن میں (پیدا کیا)۔“ پہلا دن اتوار تھا اور آخری یعنی چھٹا دن جمعہ تھا، اس کو کسی مشقت کا سامنا کرنا پڑا نہ تھکن کا اور اسے کوئی لاغری لاحق ہوئی نہ لاچاری۔ پس وہ اللہ، جو زمین و آسمان کو، ان کے اتنے بڑے ہونے کے باوجود وجود میں لایا، اس کا مردوں کو زندہ کرنے پر قادر ہونا زیادہ اولیٰ اور زیادہ لائق ہے۔ ق
39 ﴿ فَاصْبِرْ عَلَىٰ مَا يَقُولُونَ﴾ ” پس جو کچھ یہ کہتے ہیں، اس پر صبر کیجئے۔“ وہ آپ کی مذمت کرتے ہیں اور آپ جو کتاب لے کر آئے ہیں اس کی تکذیب کرتے ہیں، آپ ان کو نظر انداز کرکے اپنے رب کی اطاعت کیجئے۔ ق
40 اور صبح، شام اور رات کے اوقات میں اور نمازوں کے بعد اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کیجئے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ذکر نفس کو تسلی دیتا، اس کو سکون عطا کرتا اور صبر کو آسان بناتا ہے۔ ق
41 ﴿وَاسْتَمِعْ ﴾ اپنے دل کے ساتھ پکارنے والے کی پکار کو غور سے سن اور اس سے مراد حضرت اسرافیل علیہ السلام ہیں، یعنی جب اسرافیل علیہ السلام صور میں پھونکیں گے ﴿ مِن مَّكَانٍ قَرِيبٍ﴾ ” نزدیک کی جگہ سے۔“ یعنی کسی ایسی جگہ سے جو مخلوق کے قریب ہے۔ ق
42 ﴿يَوْمَ يَسْمَعُونَ الصَّيْحَةَ﴾ جس روز تمام خلائق ہول ناک اور خوف ناک چیخ کی آواز سنیں گے ﴿بِالْحَقِّ﴾ جس میں کوئی شک ہے نہ شبہ ﴿ذٰلِكَ يَوْمُ الْخُرُوجِ ﴾ وہ قبروں سے نکلنے کا دن ہوتا۔ اس روز اکیلا اللہ تعالیٰ ہی ہر چیز پر قادر ہوگا، اسی لئے فرمایا : ق
43 ﴿إِنَّا نَحْنُ نُحْيِي وَنُمِيتُ وَإِلَيْنَا الْمَصِيرُ يَوْمَ تَشَقَّقُ الْأَرْضُ عَنْهُمْ﴾ ” بے شکم ہم ہی تو زندہ کرتے اور مارتے ہیں اور ہمارے پاس ہی لوٹ کر آنا ہے۔ جس روز ان سے زمین پھٹ جائے گی“ یعنی مردوں سے ﴿ سِرَاعًا﴾ وہ پکارنے والے کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے تیزی سے حشر کے میدان کی طرف آئیں گے۔ ﴿ذٰلِكَ حَشْرٌ عَلَيْنَا يَسِيرٌ﴾ ” یہ جمع کرنا ہمیں آسان ہے۔” یعنی اللہ تعالیٰ کے لئے نہایت آسان ہے، جس میں کوئی تکان ہے نہ کلفت۔ ق
44 ﴿إِنَّا نَحْنُ نُحْيِي وَنُمِيتُ وَإِلَيْنَا الْمَصِيرُ يَوْمَ تَشَقَّقُ الْأَرْضُ عَنْهُمْ﴾ ” بے شکم ہم ہی تو زندہ کرتے اور مارتے ہیں اور ہمارے پاس ہی لوٹ کر آنا ہے۔ جس روز ان سے زمین پھٹ جائے گی“ یعنی مردوں سے ﴿ سِرَاعًا﴾ وہ پکارنے والے کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے تیزی سے حشر کے میدان کی طرف آئیں گے۔ ﴿ذٰلِكَ حَشْرٌ عَلَيْنَا يَسِيرٌ﴾ ”یہ جمع کرنا ہمیں آسان ہے۔” یعنی اللہ تعالیٰ کے لئے نہایت آسان ہے، جس میں کوئی تکان ہے نہ کلفت۔ ق
45 ﴿نَّحْنُ أَعْلَمُ بِمَا يَقُولُونَ﴾ ہم جانتے ہیں جو وہ آپ کو تکلیف دہ باتیں کہتے ہیں، جن سے آپ غم زدہ ہوتے ہیں۔ جب ہم یہ سب کچھ جانتے ہیں تب آپ کو معلوم ہوگیا کہ ہم آپ پر کیسی عنایت رکھتے ہیں، آپ کے معاملات کو کیسے آسان بناتے ہیں اور آپ کو آپ کے دشمنوں کے خلاف کیسے مدد سے نوازتے ہیں۔ پس آپ کے دل کو خوش اور آپ کے نفس کو مطمئن ہونا چاہیے اور تاکہ آپ کو معلوم ہو کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اس سے زیادہ رحمت و رافت رکھتے ہیں جو آپ خود اپنے آپ پر رکھتے ہیں۔ اس لئے آپ کے لئے اللہ تعالیٰ کے وعدے کے انتظار اور اولوالعزم رسولوں کی سیرت کے ذریعے سے تسلی حاصل کرنے کے سوا کوئی چارہ کار باقی نہ رہے۔ ﴿وَمَا أَنتَ عَلَيْهِم بِجَبَّارٍ﴾ آپ کو ان پر مسلط نہیں کیا گیا ﴿إِنَّمَا أَنتَ مُنذِرٌ وَلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ﴾ (الرعد : 13؍7) ” آپ تو صرف متنبہ کرنے والے ہیں اور ہر ایک قوم کے لئے ایک راہ نما ہوتا ہے۔“ بنا بریں فرمایا : ﴿فَذَكِّرْ بِالْقُرْآنِ مَن يَخَافُ وَعِيدِ﴾ یہاں تذکیر سے مراد وہ نصیحت ہے جو عقل و فطرت میں راسخ ہے یعنی نیکی سے محبت کرنا، اس کو ترجیح دینا اور اس پر عمل کرنا نیز بدی کو ناپسند کرنا اور اس سے دور رہنا اس تذکیر سے وہی لوگ نصیحت پکڑتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی وعید سے ڈرتے ہیں اور رہے وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کی وعید سے خائف ہیں نہ اس پر ایمان رکھتے ہیں تو ان کو نصیحت کرنے کا فائدہ یہ ہے کہ ان پر حجت قائم ہوتی ہے، تاکہ وہ یہ نہ کہیں : ﴿ مَا جَاءَنَا مِن بَشِيرٍ وَلَا نَذِيرٍ﴾ (المائدۃ: 5؍19)” ہمارے پاس کوئی خوش خبری دینے والا آیا نہ متنبہ کرنے والا۔ “ ق
0 سورة الذاريات الذاريات
1 یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے، جو اپنے قول میں سچا ہے، ان عظیم مخلوقات کی قسم ہے جن کے اندر اس نے بہت مصالح اور منافع مقرر کر رکھے ہیں، جن کو اس امر کی دلیل بنایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا ہے، نیز یہ کہ قیامت کا دن، جزا و سزا اور اعمال کے محاسبے کا دن ہے، جو لامحالہ آنے والا ہے، جسے آنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ پس جب ایک عظیم سچی ہستی اس کی خبر دے، اس پر قسم کھائے اور اس پر دلائل و براہین قائم کرے تو جھٹلانے والے اسے جھٹلا سکتے ہیں نہ عمل کرنے والے اس سے روگردانی کرسکتے ہیں۔ (الذَّارِيَاتِ) یہ وہ ہوائیں ہیں جو اڑا کر بکھیر دیتی ہیں ﴿ذَرْوًا﴾ اپنی نرمی، اپنے لطف، اپنی قوت اور زور سے چلتی ہیں۔ الذاريات
2 ﴿ فَالْحَامِلَاتِ وِقْرًا ﴾ اس سے مراد بادل ہے جو بہت زیادہ پانی لئے ہوتا ہے، جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ انسانوں اور زمین کو فائدہ عطا کرتا ہے۔ الذاريات
3 ﴿ فَالْجَارِيَاتِ يُسْرًا﴾ وہ ستارے جو نہایت آسانی اور سہولت کے ساتھ چلتے رہتے ہیں، جن سے آسمان مزین ہوتے ہیں، جن کی مدد سے بحرو وبر کی تاریکیوں میں راہ تلاش کی جاتی ہے اور ان کے ذریعے سے فائدے اٹھائے جاتے ہیں۔ الذاريات
4 ﴿فَالْمُقَسِّمَاتِ أَمْرًا ﴾ اس سے مراد وہ فرشتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس کے اوامرو تدبیر کو نافذ کرتے ہیں۔ ان میں سے ہر فرشتے کو اللہ تعالیٰ نے دنیا وآخرت کے امور میں سے کسی امر کی تدبیر پر مقرر کر رکھا ہے اس لئے جو حدود مقرر کردی گئی ہیں، وہ ان سے تجاوز کرسکتا ہے نہ ان میں کچھ کمی کرسکتا ہے۔ الذاريات
5 الذاريات
6 الذاريات
7 خوبصورت راستوں والے آسمان کی قسم ! یہ راستے ریگزاروں کے راستوں اور چشموں کے پانی سے، جب ان کو نسیم سحر نے چھیڑا ہو، مشابہت رکھتے ہیں۔ الذاريات
8 ﴿إِنَّكُمْ﴾ محمد کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جھٹلانے والو ! بے شک تم ﴿لَفِي قَوْلٍ مُّخْتَلِفٍ﴾ ” مختلف قول میں ہو۔“ یعنی تم میں سے کوئی کہتا ہے کہ یہ جادوگر ہے، کوئی کہتا ہے کہ یہ کاہن ہے اور کوئی کہتا ہے کہ یہ مجنون ہے اور دیگر مختلف قسم کے اقوال جو ان کی حیرت، شک اور اس امر پر دلالت کرتے ہیں کہ ان کا موقف باطل ہے۔ الذاريات
9 ﴿ يُؤْفَكُ عَنْهُ مَنْ أُفِكَ﴾ پس اس سے وہی پھرتا ہے جو ایمان سے پھرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے یقینی دلائل و براہین سے منہ موڑتا ہے۔ ان کے قول میں اختلاف اس کے فاسد اور باطل ہونے پر دلالت کرتا ہے جس طرح حق، جسے رسول مصطفی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لے کر آئے ہیں، متفق علیہ ہے، اس کا ایک حصہ دوسرے کی تصدیق کرتا ہے، اس میں کوئی تناقض ہے نہ کسی قسم کا اختلاف اور یہ چیز اس کے صحیح ہونے کی دلیل ہے نیز یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ ﴿وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللّٰـهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا﴾ (النساء : 4؍82) ” اور اگر یہ قرآن غیر اللہ کی طرف سے ہوتا تو وہ اس میں بہت زیادہ اختلاف پاتے۔ “ الذاريات
10 اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿قُتِلَ الْخَرَّاصُونَ ﴾ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو ہلاک کرے، جنہوں نے اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھا، اس کی آیات کا انکار کیا اور باطل میں مشغول ہوئے تاکہ اس کے ذریعے سے حق کو نیچا دکھائیں، یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف ایسی باتیں منسوب کرتے ہیں جس کا وہ علم نہیں رکھتے۔ الذاريات
11 ﴿الَّذِينَ هُمْ فِي غَمْرَةٍ﴾ ” جو بے خبری میں ہیں۔“ یعنی وہ کفر، جہالت اور ضلالت کی موجوں میں گھرے ہوئے ہیں۔ ﴿سَاهُونَ﴾ ” اور بھولے ہوئے ہیں۔ “ الذاريات
12 ﴿يَسْأَلُونَ﴾ وہ شک اور تکذیب کے طور پر پوچھتے ہیں: ان کو کب دوبارہ اٹھایا جائے گا؟ انہوں نے یہ سوال حیات بعد الموت کو بعید سمجھتے ہوئے کیا تھا۔ ان کے حال اور برے ٹھکانے کے بارے میں مت پوچھ۔ الذاريات
13 ﴿يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ﴾ ” ہاں یہ وہ دن ہے کہ یہ آگ پر الٹے سیدھے پڑیں گے“ یعنی جس دن انہیں ان کے خبث باطن اور خبث ظاہر کے سبب سے عذاب دیا جائے گا اور ان سے کہا جائے گا : الذاريات
14 ﴿ ذُوقُوا فِتْنَتَكُمْ﴾ آگ اور عذاب کا مزا چکھو یہ اس فتنے کے اثرات ہیں جس میں وہ مبتلا ہوئے، جس نے انہیں کفر اور گمراہی میں دھکیل دیا تھا۔ ﴿ هَـٰذَا﴾ یہ عذاب جس میں تم ڈال دیے گئے ہو ﴿ الَّذِي كُنتُم بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ﴾ ’’وہی ہے جس کے لئے تم جلدی مچایا کرتے تھے۔“ پس اب مختلف انواع کی عقوبتوں، سزاؤں، زنجیروں، بیڑیوں، اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور عذاب کا مزہ چکھو۔ الذاريات
15 اللہ تبارک و تعالیٰ متقین کے ثواب اور ان کے ان اعمال کا ذکر فرماتا ہے جن کے باعث انہیں یہ ثواب حاصل ہوا۔ ﴿ إِنَّ الْمُتَّقِينَ﴾ یعنی وہ لوگ جن کا شعار تقویٰ اور ان کا اوڑھنا بچھونا اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے ﴿ فِي جَنَّاتٍ﴾ ان باغات میں ہوں گے جو مختلف انواع کے درختوں اور میوں پر مشتمل ہوں گے، جن کی نظیر اس دنیا میں ملتی ہے اور ایسے بھی ہوں گے جن کی نظیر اس دنیا میں نہیں ملتی۔ ان جیسا میوہ آنکھوں نے کبھی دیکھا ہوگا نہ کانوں نے سنا ہوگا اور نہ بندوں کے تصور میں کبھی آیا ہوگا۔ ﴿وَعُيُونٍ﴾ وہ بہتے ہوئے چشموں میں ہوں گے، ان چشموں سے ان باغات کو سیراب کیا جائے گا اور اللہ کے بندے ان چشموں سے پانی پئیں گے اور ان سے (چھوٹی چھوٹی) نہریں نکالیں گے۔ یہ ان کی اپنے رب کی عبادت میں ” احسان“ کو شامل ہے یعنی وہ اپنے رب کی عبادت اس طرح کرتے تھے کہ وہ اسے دیکھ رہے ہیں، اگر وہ اسے دیکھنے کی کیفیت پیدا نہ کرسکتے تو یہ کیفیت لئے ہوئے ہوتے تھے کہ ان کا رب انہیں دیکھ رہا ہے۔ نیز یہ اللہ تعالیٰ کے بندوں پر بھی احسان کو شامل ہے یعنی اللہ تعالیٰ کے بندوں کو اپنے مال، علم، جاہ، خیر خواہی، امر بالمعروف، نہی عن المنکر، نیکی اور بھلائی کے مختلف طریقوں سے فائدہ پہنچانا اور ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا۔ حتیٰ کہ اس میں، نرم کلام، غلاموں، بہائم، مملوکہ اور غیر مملوکہ کے ساتھ حسن سلوک بھی داخل ہے۔ الذاريات
16 ﴿آخِذِينَ مَا آتَاهُمْ رَبُّهُمْ﴾ ” ان کا رب انہیں جو کچھ دے گا وہ اسے لے لیں گے۔“ اس میں اس معنیٰ کا احتمال ہے کہ اہل جنت کا آقا، ان کی نعمتوں کے بارے میں تمام آرزوئیں پوری کرے گا اور وہ اپنے آقا سے راضی ہو کر یہ نعمتیں قبول کریں گے، اس سے ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں گی، ان کے نفوس خوش ہوں گے، وہ ان کو بدلنا چاہیں گے نہ اس سے منتقل ہونے کی خواہش کریں گے۔ (جنت میں) ہر شخص کو اتنی نعمتیں عطا ہوں گی کہ وہ اس سے زیادہ طلب نہیں کرے گا۔ اس میں یہ احتمال بھی ہے کہ متقین کا یہ وصف دنیا کے اندر ہو یعنی اللہ تعالیٰ دنیا کے اندر جو اوامرونواہی ان کو عطا کرتا ہے وہ نہایت خوش دلی، انشراح صدر کے ساتھ، اس کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہوئے اور بہترین طریقے سے ان پر عمل کرتے ہوئے انہیں قبول کرتے ہیں اور جن امور سے اللہ تعالیٰ نے ان کرروکا ہے وہ اس سے پوری طرح رک جاتے ہیں۔ پس جن کو اللہ نے اوامر ونواہی عطا کیے ہیں، یہ سب سے بڑا عطیہ ہے اور اس کا حق یہ ہے کہ اس کو اللہ تعالیٰ کا شکرادا کرتے ہوئے، اطاعت کے جذبے کے ساتھ قبول کیا جائے۔ پہلا معنی سیاق کلام کے ساتھ زیادہ مطابقت رکھتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے (آگے چل کر) ان الفاظ میں دنیا کے اندر ان کے وصف اور ان کے اعمال کا ذکر کیا ہے۔ ﴿إِنَّهُمْ كَانُوا قَبْلَ ذٰلِكَ﴾ یعنی اس وقت سے پہلے، جب انہیں جنت کی نعمتیں حاصل ہوں گی ﴿ مُحْسِنِينَ﴾ ” وہ نیکوکار تھے۔ “ الذاريات
17 خالق کی عبادت میں احسان کی بہترین نوع، تہجد کی نماز ہے جو اخلاص اور قلب ولسان کی موافقت پر دلالت کرتی ہے۔ اس لئے فرمایا : ﴿كَانُوا﴾ یعنی نیکوکار ﴿قَلِيلًا مِّنَ اللَّيْلِ مَا يَهْجَعُونَ﴾ ان کی راتوں کی نیند بہت کم ہوتی تھی۔ رات کے اکثر حصے میں نماز قراءت، دعا، اور آہ وزاری کے ذریعے سے اپنے رب کے حضور جھکے رہتے تھے۔ الذاريات
18 ﴿وَبِالْأَسْحَارِ ﴾ طلوع فجر سے تھوڑا سا پہلے ﴿هُمْ يَسْتَغْفِرُونَ ﴾ وہ اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتے تھے۔ وہ اپنی نماز کو طلوع سحر کے وقت تک لمبا کرتے تھے۔ پھر قیام اللیل کے بعد بیٹھ کر اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی بخشش طلب کرتے تھے۔ سحر کے وقت استغفار میں ایسی فضیلت اور خاصیت ہے جو کسی اور وقت استغفار کرنے میں نہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان و اطاعت کے وصف میں فرمایا : ﴿وَالْمُسْتَغْفِرِينَ بِالْأَسْحَارِ﴾ (اٰل عمران : 3؍17)” اور اوقات سحر میں استغفار کرنے والے۔ “ الذاريات
19 ﴿وَفِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ﴾ ان کے اموال میں حق واجب اور حق مستحب ہے ﴿لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ﴾ یعنی ان محتاجوں کے لئے جو لوگوں سے سوال کرتے ہیں اور ان محتاجوں کے لئے جو لوگوں سے سوال نہیں کرتے۔ الذاريات
20 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں کو تفکر و تدبر اور عبرت حاصل کرنے کی دعوت دیتے ہوئے فرماتا ہے : ﴿ وَفِي الْأَرْضِ آيَاتٌ لِّلْمُوقِنِينَ﴾ ”اور یقین کرنے والوں کے لئے زمین میں نشانیاں ہیں۔“ یہ آیت کریمہ زمین اور اس کی موجودات کو شامل ہے مثلاً پہاڑ، سمندر، دریا، درخت اور نباتات، جو غوروفکر کرنے والے اور اس کے معانی میں تدبر کرنے والے کو اپنے خالق کی عظمت، اس کی وسیع طاقت، اس کے احسان عام اور ظاہر و باطن پر اس کے علم کے محیط ہونے کی طرف راہ نمائی کرتی ہیں۔ اسی طرح خود بندے کی ذات میں بے شمار عبرتیں، حکمتیں اور رحمتیں پنہاں ہیں جو اس حقیقت پر دلالت کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ ایک اور بے نیاز ہے، اس نے مخلوق کو بے کار اور بے فائدہ پیدا نہیں کیا۔ الذاريات
21 الذاريات
22 ﴿وَفِي السَّمَاءِ رِزْقُكُمْ ﴾ ” اور آسمانوں میں تمہارا رزق ہے۔“ یعنی تمہارے رزق کا مادہ مثلاً بارش، رزق دینی اور رزق دنیاوی کی مختلف مقدار ﴿وَمَا تُوعَدُونَ ﴾ یعنی دنیا و آخرت میں جزا و سزا کا جو وعدہ کیا گیا ہے، یہ جزا و سزا دیگر تقدیروں کی طرح اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوتی ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے آیت الٰہی کو بیان کرکے ان پر اس طرح متنبہ فرمایا جس سے عقل مند اور ذہین شخص تنبہ حاصل کرتا ہے تو اس نے قسم کھائی کہ اس کا وعدہ اور اس کی جزا و سزا حق ہیں۔ تب ظاہر اور واضح ترین چیز سے اس کو تشبیہ دی اور وہ نطق ہے۔ الذاريات
23 چنانچہ فرمایا : ﴿فَوَرَبِّ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ إِنَّهُ لَحَقٌّ مِّثْلَ مَا أَنَّكُمْ تَنطِقُونَ﴾ ” پس آسمانوں اور زمین کے رب کی قسم ! یہ اسی طرح حق ہے جس طرح تم باتیں کرتے ہو“ جس طرح تمہیں اپنے نطق لسان میں کوئی شک نہیں اسی طرح تمہیں قیامت اور جزا و سزا میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے۔ الذاريات
24 اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ هَلْ أَتَاكَ﴾ کیا آپ کے پاس نہیں پہنچی ﴿حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْرَاهِيمَ الْمُكْرَمِينَ﴾ ” ابراہیم کے معزز مہمانوں کی بات۔“ اور ان کی عجیب وغریب خبر، یہ ان فرشتوں کی طرف اشارہ ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کو ہلاک کرنے کے لئے بھیجا تھا اور انہیں حکم دیا تھا کہ وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس سے ہو کر جائیں چنانچہ وہ مہمانوں کی شکل میں ان کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ الذاريات
25 ﴿ إِذْ دَخَلُوا عَلَيْهِ فَقَالُوا سَلَامًا قَالَ﴾ ” جب وہ ان کے پاس آئے تو انہوں نے سلام کیا تو انہوں نے کہا :“ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان کو سلام کا جواب دیتے ہوئے کہا : ﴿ سَلَامٌ ﴾ یعنی تم پر بھی سلام ہو ﴿قَوْمٌ مُّنكَرُونَ﴾ تم اجنبی لوگ ہو، میں چاہتا ہوں کہ تم مجھے اپنا تعارف کراؤ، آپ کو ان کا تعارف اس کے بعد ہی ہوا اسی لئے وہ چپکے چپکے جلدی سے گھر گئے تاکہ ان کی خدمت میں ضیافت کا سامان پیش کریں۔ الذاريات
26 ﴿فَجَاءَ بِعِجْلٍ سَمِينٍ فَقَرَّبَهُ إِلَيْهِمْ ﴾ اور خوب موٹا )بھنا ہوا( بچھڑا لے آئے اور ان کے سامنے کھانے کے لئے پیش کیا الذاريات
27 ﴿قَالَ أَلَا تَأْكُلُونَ فَأَوْجَسَ مِنْهُمْ خِيفَةً ﴾ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا : تم کیوں نہیں کھاتے؟ اور جب ابراہیم علیہ السلام نے دیکھا کہ ان کے ہاتھ کھانے کی طرف نہیں بڑھ رہے تو آپ کو ان سے خوف محسوس ہوا۔ الذاريات
28 ﴿ قَالُوا لَا تَخَفْ﴾ ” انہوں نے کہا : خوف نہ کیجئے۔“ وہ جس مقصد کے لئے آئے تھے انہوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اس سے آگاہ کیا ﴿وَبَشَّرُوهُ بِغُلَامٍ عَلِيمٍ﴾ ” اور انہیں ایک دانش مند لڑکے کی خوش خبری دی۔“ اس سے مراد اسحاق علیہ السلام ہیں۔ پس حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بیوی )حضرت سارہ( نے یہ خوشخبری سنی۔ الذاريات
29 ﴿ فَأَقْبَلَتِ ﴾ تو وہ فرحان و شاداں )ان کی طرف( متوجہ ہوئیں ﴿فِي صَرَّةٍ ﴾ چیخ مار کر ﴿فَصَكَّتْ وَجْهَهَا﴾ ” اور انہوں نے )تعجب سے( اپنے چہرے پر ہاتھ مارا۔“ یہ اس نوع کی کیفیت ہے جو خوشی اور مسرت کے ایسے اقوال و افعال کے وقت طاری ہوجایا کرتی ہے جو طبعیت اور عادت کے خلاف ہوا کرتے ہیں ﴿وَقَالَتْ عَجُوزٌ عَقِيمٌ﴾ اور کہا مجھے بیٹا کیوں کرہوسکتا ہے، میں تو ایک بڑھیا ہوں اور ایسی عمر کو پہنچ گئی ہوں جس عمر میں عورتیں بچوں کو جنم نہیں دیتیں، مزید برآں میں تو بانجھ بھی ہوں اور میرا رحم بچوں کو جنم دینے کے قابل نہیں۔ پس یہاں دو اسباب ہیں، دونوں ہی بچے کی ولادت دے مانع ہیں۔ سورۃ ہود میں حضرت سارہ نے ایک تیسرے مانع کا بھی ذکر کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ وَهٰذَا بَعْلِي شَيْخًا إِنَّ هٰذَا لَشَيْءٌ عَجِيبٌ﴾ )ھود : 11؍82( ” میرا یہ شوہر بھی بہت بوڑھا ہے، یہ تو بڑی عجیب بات ہے۔ “ الذاريات
30 ﴿قَالُوا كَذَٰلِكِ قَالَ رَبُّكِ﴾ ” فرشتوں نے کہا : (ہاں) تیرے پروردگار نے اسی طرح کہا ہے۔“ یعنی یہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جس نے اس کو مقدر کرکے اس کا فیصلہ فرمایا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کی قدرت کے بارے میں کوئی تعجب نہیں ہونا چاہیے۔ ﴿إِنَّهُ هُوَ الْحَكِيمُ الْعَلِيمُ﴾ ” بے شک وہ حکمت والا اور جاننے والا ہے“ یعنی وہ ہستی جو تمام اشیاء کو ان کے محل و مقام پر رکھتی ہے، وہ اپنے علم سے ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ اس لئے اس کی حکمت کے سامنے سر تسلیم خم کرو اور اس کی نعمت کا شکرا دا کرو۔ الذاريات
31 ﴿قَالَ ﴾ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان سے پوچھا ﴿فَمَا خَطْبُکُمْ اَیُّہَا الْمُرْسَلُوْنَ﴾ اے رسولو! تمہارا کیا معاملہ ہے اور تم کیا چاہتے ہو؟ کیونکہ حضرت ابراہیم سمجھ گئے تھے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے کسی اہم معاملے کے لیے بھیجا ہے۔ الذاريات
32 ﴿قَالُوْٓا اِنَّآ اُرْسِلْنَآ اِلٰی قَوْمٍ مُّجْـرِمِیْنَ﴾ انہوں نے کہا ہمیں مجرم قوم کی طرف بھیجا گیا ہے۔ اور اس سے مراد قوم لوط ہے انہوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کے جرم کا ارتکاب کیا تھا، اپنے رسولوں کو جھٹلایا اور ایسی بدکاری کا ارتکاب کیا جس کا ارتکاب دنیا میں ان سے پہلے کسی نے نہیں کیا تھا۔ الذاريات
33 ﴿لِنُرْسِلَ عَلَیْہِمْ حِجَارَۃً مِّنْ طِیْنٍ۔ مُّسَوَّمَۃً عِنْدَ رَبِّکَ لِلْمُسْرِفِیْنَ﴾ تاکہ ہم ان پر مٹی کے پتھر برسائیں جو حد سے بڑھنے والوں کے لیے آپ کے رب کے ہاں نشان زدہ ہیں۔ یعنی ہر پتھر پر اس شخص کا نام لکھا ہوا تھا جس کو اس پتھر کا شکار ہونا تھا۔ کیونکہ وہ گناہ میں بڑھ گئے اور تمام حدود پھلانگ گئے تھے چنانچہ حضرت ابراہیم قوم لوط کے بارے میں ان سے جھگڑنے لگے۔ شاید اللہ تعالیٰ ان سے عذاب کو ہٹا دے چنانچہ ان سے کہا گیا: ﴿ يَا إِبْرَاهِيمُ أَعْرِضْ عَنْ هـٰذَا إِنَّهُ قَدْ جَاءَ أَمْرُ رَبِّكَ وَإِنَّهُمْ آتِيهِمْ عَذَابٌ غَيْرُ مَرْدُودٍ﴾( ھود :11؍76) اے ابراہیم اس بات کو جانے دو، تیرے رب کا حکم آگیا ہے اور ان پر وہ عذاب ٹوٹ پڑنے والا ہے جو کبھی نہیں ٹل سکتا۔ الذاريات
34 الذاريات
35 ﴿فَاَخْرَجْنَا مَنْ کَانَ فِیْہَا مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ۔ فَمَا وَجَدْنَا فِیْہَا غَیْرَ بَیْتٍ مِّنَ الْمُسْلِمِیْنَ﴾ پس وہاں جتنے مومن تھے، ہم نے انہیں نکال لیا اور اس میں ایک گھر کے سوا مسلمانوں کا کوئی گھر نہ پایا۔ یہ حضرت لوط علیہ السلام کے گھرانے کے لوگ تھے سوائے ان کی بیوی کے وہ ہلاک ہونے والوں میں شامل تھی۔ الذاريات
36 الذاريات
37 ﴿وَتَرَکْنَا فِیْہَآ اٰیَۃً لِّلَّذِیْنَ یَخَافُوْنَ الْعَذَابَ الْاَلِیْمَ﴾ اور ہم نے ان کے بارے میں لوگوں کے لیے نشانی چھوڑ دی جو دردناک عذاب سے ڈرتے ہیں۔ اس سے وہ عبرت حاصل کرتے ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سخت عذاب دینے والا ہے اور اس کے رسول سچے ہیں جن کی تصدیق کی گئی ہے۔ اس قصے سے حاصل شدہ بعض فوائد 1۔ اللہ تبارک وتعالی کے اپنے بندوں کے سامنے نیک اور بد لوگوں کے واقعات بیان کرنے میں یہ حکمت پوشیدہ ہے کہ بندے ان سے عبرت حاصل کریں اور تاکہ معلوم ہوجائے کہ ان کے احوال نے انہیں کہاں پہنچا دیا۔ 2۔ اس قصے میں ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی فضیلت کی طرف اشارہ ہے اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے قصے کی ابتدا کی جو اس قصے کی اہمیت کی دلیل ہے اور اس کی طرف اللہ تعالیٰ کی خصوصی توجہ کا اظہار ہوتا ہے۔ 3۔ یہ قصہ ضیافت کی مشروعیت پر دلالت کرتا ہے نیز اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مہمانوں کی خاطر تواضع کرنا ابراہیم علیہ السلام کی عادت تھی اللہ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی امت کو حکم دیا کہ وہ ملت ابراہیم کی اتباع کریں اور اس مقام پر اللہ نے اس قصے کی مدح وثنا کے سیاق میں بیان کیا ہے۔ 4۔ اس واقعہ میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ قول وفعل اور اکرام وتکریم کے مختلف طریقوں سے مہمان کی عزت وتکریم کی جائے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مہمانوں کا یہ وصف بیان فرمایا کہ وہ قابل تکریم تھے یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام ان کی عزت وتکریم کی۔ اللہ تعالیٰ نے بھی بیان فرمایا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے قول فعل سے کس طرح ان کی مہمان نوازی کی نیز یہ بھی بیان فرمایا کہ وہ مہمان اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی اکرام وتکریم سے بہرہ مند تھے۔ 5۔ اس واقعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کا گھر رات کے وقت آنے والے مسافروں اور مہمانوں کاٹھکانا تھا کیونکہ وہ اجازت طلب کیے بغیر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے گھر میں داخل ہوئے اور سلام میں پہل کرنے میں ادب کا طریقہ استعمال کیا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی کامل ترین سلام کے ساتھ ان کو جواب دیا کیونکہ جملہ اسمیہ اثبات اور استمرار پر دلالت کرتا ہے۔ 6۔ یہ قصہ دلالت کرتا ہے کہ انسان کے پاس جو کوئی آتا ہے یا اسے ملتا ہے تو اس سے تعارف حاصل کرنا مشروع ہے کیونکہ اس میں بہت سے فوائد ہیں۔ 7۔ یہ واقعہ بات چیت میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے آداب اور آپ کے لطف وکرم پر دلالت کرتا ہے آپ نے (اپنے مہمانوں سے) فرمایا تھا: ﴿قَوْمٌ مُّنكَرُونَ﴾(الذاریات:51؍25 )’’تم اجنبی لوگ ہو۔،، اور یہ نہیں فرمایا کہ "أَنْکَرْتُکُم"’’میں تمہیں نہیں پہچانتا،، اور دونوں جملوں میں جو فرق ہے وہ مخفی نہیں۔ 8۔ یہ واقعہ مہمان نوازی میں جلدی کرنے پر دلالت کرتا ہے کیونکہ بہترین نیکی وہ ہے جس پر جلدی سے عمل کیا جائے اس لیے ابراہیم علیہ السلام نے مہمانوں کے سامنے ضیافت پیش کرنے میں عجلت کی۔ 9۔ اس واقعہ سے ثابت ہوتا ہے کہ ایسا ذبیحہ کھانا جو کسی اور کے لیے تیار کیا گیا ہو اسے مہمان کی خدمت میں پیش کرنے میں اس کی ذرہ بھر اہانت نہیں بلکہ اس کی عزت وتکریم ہے جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کیا تھا اور اللہ تبارک وتعالی نے خبر دی ہے کہ وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مکرم مہمان تھے۔ 10۔ اللہ تبارک وتعالی نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بکثرت رزق سے نوازرکھا تھا اور یہ رزق ان کے پاس گھر میں ہر وقت موجود رہتا تھا انہیں بازار سے لانے کی ضرورت ہوتی تھی نہ پڑوسیوں سے مانگنے کی۔ 11۔ اس واقعہ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بنفس نفیس مہمانوں کی خدمت کی، حالانکہ آپ اللہ تعالیٰ کے خلیل اور مہمان نوازوں کے سردار تھے۔ 12۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مہمانوں کو اسی جگہ ضیافت پیش کی جہاں وہ موجود تھے کسی اور جگہ ضیافت کے لیے انہیں نہیں بلایا کہ آئیے تشریف لائیے کیونکہ مہمان کو اس کی جگہ کھانا پیش کرنے میں مہمان کے لیے زیادہ آسانی اور بہتر ہے۔ 13۔ اس واقعہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ مہمان کے ساتھ نرم کلامی اور ملاطفت سے پیش آنا چاہیے خاص طور پر کھانا پیش کرتے وقت کیونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے نہایت نرمی سے اپنے مہمانوں کی خدمت میں کھاناپیش کیا تھا ﴿أَلَا تَأْكُلُونَ﴾( الذاریات :51؍27) ’’آپ تناول کیوں نہیں کرتے؟،، اور یہ نہیں کہا تھا کُلُوا ’’کھانا کھالو،، بلکہ آپ نے اس قسم کے الفاظ استعمال فرمائے جن میں درخواست اور التماس کا مفہوم پایا جاتا ہے چنانچہ فرمایا ﴿أَلَا تَأْكُلُونَ﴾(الذاریات :51؍27) ’’آپ کھانا تناول کیوں نہیں کرتے؟،، چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پیروی کرنے والے کو چاہیے کہ وہ بہترین الفاظ استعمال کرے جو مہمان کے لیے مناسب اور لائق حال ہوں مثلاً آپ کا مہمانوں سے کہنا کیا آپ کھانا تناول نہیں کریں گے ؟ ہمیں شرف بخشئے اور ہم پر عنایت کیجئے اور اس قسم کے دیگر الفاظ۔ 14۔ اس واقعہ سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی بھی سبب کی بنا پر کسی سے خوفزدہ ہوجائے تو خوف زدہ کرنے والے کافرض ہے کہ وہ اس کے خوف کو زائل کرنے کی کوشش کرے اور اس کے سامنے ایسی باتوں کا ذکر کرے جس سے اس کا خوف دور ہو اور وہ پرسکون ہوجائے۔ جیسا کہ فرشتوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کہا تھا جب وہ ان سے خوفزدہ ہوگئے تھے۔ ﴿لَا تَخَفْ﴾ (الذاریات:51؍28) ’’ڈرئیے مت!،، اور انہوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو وہ خوش کن خبر سنائی۔ 15۔ یہ قصہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زوجہ محترمہ کی بے انتہا مسرت وفرحت پر دلالت کرتا ہے حتیٰ کہ انہوں نے خوشی میں چلا کر بے ساختگی سے اپنا چہرہ پیٹ ڈالا۔ 16۔ اس قصہ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور آپ کی زوجہ محترمہ کو ایک علم رکھنے والے بیٹے کی بشارت سے نوازا۔ الذاريات
38 ﴿وَفِیْ مُوْسٰٓی﴾ یعنی اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جو واضح آیات اور ظاہری معجزات کے ساتھ مبعوث فرمایا اس میں ان لوگوں کے لیے نشانی ہے جو دردناک عذاب سے ڈرتے ہیں۔ چنانچہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام واضح معجزہ لے کر آئے تو فرعون نے منہ موڑ لیا۔ ﴿بِرُكْنِهِ﴾ ’’اپنے لشکر کے ساتھ،، یعنی انہوں نے حق سے روگردانی کی اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف التفات نہ کیا بلکہ انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام میں جرح وقدح کی اور کہنے لگے ﴿سَاحِرٌ أَوْ مَجْنُونٌ ﴾یعنی موسیٰ میں ان دوچیزوں میں سے ایک چیز ضرور ہے جو چیز موسیٰ پیش کررہا ہے وہ جادو اور شعبدہ بازی ہے یہ حق نہیں ہے یا موسیٰ مجنون ہے، اس سے جو کچھ صادر ہوتا ہے اسے اس کے فاتر العقل ہونے کی وجہ سے اخذ نہ کیا جائے، حالانکہ انہیں پوری طرح علم تھا خاص طور پر فرعون جانتا تھا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سچے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿وَجَحَدُوا بِهَا وَاسْتَيْقَنَتْهَا أَنفُسُهُمْ ظُلْمًا وَعُلُوًّا﴾(النمل :27؍14) ’’اور انہوں نے ظلم اور تکبر سے آیات الٰہی کا انکار کردیا، حالانکہ ان کے دل تو ان کو تسلیم کرچکے تھے،، اور حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون سے فرمایا: ﴿ لَقَدْ عَلِمْتَ مَا أَنزَلَ هَـٰؤُلَاءِ إِلَّا رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ بَصَائِرَ﴾( بنی اسرائیل :17؍102)’’تجھے علم ہوچکا ہے کہ ان بصیرت افروز نشانیوں کو آسمانوں اور زمین کے رب کے سوا کسی نے نازل نہیں کیا۔،، الذاريات
39 الذاريات
40 ﴿فَاَخَذْنٰہُ وَجُنُوْدَہٗ فَنَبَذْنٰہُمْ فِی الْیَمِّ وَہُوَ مُلِیْمٌ﴾ ’’پس ہم نے اسے اور اس کے لاؤ لشکر کو پکڑ لیا اور ان کو دریا میں پھینک دیا اور وہ قابل ملامت (کام کرنے والا)تھا۔،، یعنی وہ گناہ گار حد سے تجاوز کرنے والا اور اللہ تعالیٰ کی جناب میں سرکشی کرنے والا تھا پس غالب اور مقتدر ہستی نے اسے اپنی گرفت میں لے لیا۔ الذاريات
41 ﴿وَفِیْ عَادٍ﴾ ’’اور عاد میں بھی۔،، نشان عبرت ہے جو ایک معروف قبیلہ تھا ﴿ اِذْ اَرْسَلْنَا عَلَیْہِمُ الرِّیْحَ الْعَقِیْمَ﴾ جب انہوں نے اپنے نبی ہود علیہ السلام کو جھٹلایا تو ہم نے ان پر نامبارک ہوا بھیجی جو خیر سے خالی تھی۔ الذاريات
42 ﴿مَا تَذَرُ مِنْ شَیْءٍ اَتَتْ عَلَیْہِ اِلَّا جَعَلَتْہُ کَالرَّمِیْمِ﴾ ’’وہ جس پر سے بھی گزرتی تو وہ اسے ریزہ ریزہ کیے بغیر نہیں چھوڑتی،، یعنی ریزہ ریزہ کی ہوئی بوسیدہ چیز کے مانند۔ اس سے معلوم ہوا کہ وہ ہستی جس نے قوم عاد کو ان کی قوت اور طاقت کے باوجود ہلاک کرڈالا، کامل قوت واقتدار کی مالک ہے جسے کوئی چیز عاجز نہیں کرسکتی وہ نافرمانی کرنے والوں سے انتقام لے سکتی ہے۔ الذاريات
43 ﴿وَفِیْ ثَمُوْدَ﴾ ’’اور ثمود میں بھی۔،، ایک عظیم الشان عبرت ہے جب اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف حضرت صالح علیہ السلام کو مبعوث فرمایا تو انہوں نے آپ کو جھٹلایا اور آپ کے ساتھ عناد کا رویہ رکھا، اللہ تعالیٰ نے آپ کی طرف واضح معجزے کے طور پر اونٹنی بھیجی مگر ان کی سرکشی اور نفرت اور بڑھ گئی۔ ﴿اِذْ قِیْلَ لَہُمْ تَمَتَّعُوْا حَتّٰی حِیْنٍ۔ فَعَتَوْا عَنْ اَمْرِ رَبِّہِمْ فَاَخَذَتْہُمُ الصّٰعِقَۃُ﴾ چنانچہ انہیں کہا گیا کہ ایک وقت تک فائدہ اٹھا لو تو انہوں نے اپنے رب کے حکم سے سرکشی کی تو ان کو کڑک نے آپکڑا۔ یعنی ہلاک کردینے والی ایک بہت بڑی کڑک نے آلیا ﴿ وَهُمْ يَنظُرُونَ﴾ اور وہ اپنی اس سزا کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔ الذاريات
44 الذاريات
45 ﴿فَمَا اسْتَطَاعُوْا مِنْ قِیَامٍ﴾ ’’پس وہ اٹھنے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے۔،، جس کے ذریعے سے وہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نجات حاصل کرتے ﴿ وَمَا كَانُوا مُنتَصِرِينَ﴾ اور نہ وہ اپنے لیے کوئی مدد ہی حاصل کرسکے۔ الذاريات
46 یعنی اللہ تعالیٰ نے قوم نوح کے ساتھ بھی یہی کہا جب انہوں نے حضرت نوح علیہ السلام کو جھٹلایا اور اللہ تعالیٰ کے حکم کی نافرمانی کی۔ اللہ نے ان پر آسمان اور زمین سے بے پناہ سیلاب بھیجا جس نے ان کے آخری آدمی تک کو غرق کردیا اور کافروں کا ایک بھی بستا ہوا گھر باقی نہ چھوڑا۔ یہ ان لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی عادت اور سنت ہے جو اس کی نافرمانی کرتے ہیں۔ الذاريات
47 اللہ تبارک وتعالی اپنی عظیم قدرت کو بیان فرماتے ہیں ﴿وَالسَّمَاءَ بَنَيْنَاهَا﴾ یعنی ہم نے آسمان کو تخلیق کیا اور نہایت مہارت سے بنایا اور اسے زمین اور اس کی موجودات کے لیے چھت بنایا۔ ﴿بِأَيْدٍ﴾ قوت سے۔ یعنی عظیم قدرت وقوت کے ساتھ۔ ﴿وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ ﴾ اور ہم اس کو اس کے کناروں اور گوشوں تک وسعت دیتے ہیں۔ نیز ہم اپنے بندوں کے لیے بھی رزق کو وسیع کرتے ہیں بیابانوں کے چٹیل میدانوں میں، سمندروں کی سرکش موجوں میں اور عالم علوی اور عالم سفلی میں ان کے کناروں تک کوئی جاندار ایسا نہیں جس کو اللہ تعالیٰ نے اتنا رزق بہم نہ پہنچایا جو اس کے لیے کافی ہو اور اللہ تعالیٰ نے اس کو ایسے احسان سے نہ نوازا ہوا جو اسے بے نیاز کرتا ہو۔ پس پاک ہے وہ ذات جس کا جو دو کرم تمام مخلوقات کے لیے عام ہے اور نہایت بابرکت ہے وہ ہستی جس کی بے پایاں رحمت تمام جانداروں پر سایہ کناں ہے۔ الذاريات
48 ﴿وَالْاَرْضَ فَرَشْنٰہَا﴾ یعنی ہم نے زمین کو مخلوق کے لیے فرش بنایا ہے تاکہ وہ ان تمام امور پر متمکن ہوں جو ان کے مصالح سے تعلق رکھتے ہیں۔ مثلاً گھربنانا۔ باغات لگانا، کھیتی باڑی کرنا، بیٹھنا اور ان راستوں پر چلنا جو ان کو ان کے مقصد تک پہنچاتے ہیں اور چونکہ فرش کبھی تو ہر لحاظ سے انتفاع کے قابل ہوتا ہے اور کبھی کسی لحاظ سے قابل انتفاع نہیں ہوتا، اس لیے اللہ تعالیٰ آگاہ فرمایا ہے کہ اس نے مکمل طور پر بہترین طریقے سے ہموار کیا ہے اور اس بنا پر اپنی حمدوثنا بیان کرتے ہوئے فرمایا ﴿فَنِعْمَ الْمَاهِدُونَ ﴾ ’’پس کیا خوب بچھانے والے ہیں۔،، جس نے اپنی حکمت اور رحمت کے تقاضے کے مطابق زمین کو ہموار کیا۔ الذاريات
49 ﴿وَمِنْ کُلِّ شَیْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَیْنِ﴾ یعنی حیوانات کی ہر نوع میں نر اور مادہ دو اصناف پیدا کیں۔ ﴿لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ﴾ شاید کہ تم ان نعمتوں کی بدولت جو اللہ تعالیٰ نے ہر مخلوق کے جوڑے بنا کر تم پر کیں غوروفکر کرو اور اس کی حکمت یہ ہے کہ اس نے جوڑوں کی تخلیق کو تمام حیوانات کی انواع کی بقا کا سبب بنایا تاکہ تم ان کی افزائش ان کی خدمت اور ان کی تربیت کا انتظام کرو جس سے مختلف منافع حاصل ہوتے۔ الذاريات
50 ﴿فَفِرُّوْٓا اِلَی اللّٰہِ ﴾ ’’لہٰذا تم اللہ کی طرف دوڑو۔،، چونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو اپنی ان آیات میں غوروفکر کرنے کی دعوت دی ہے جو خشیت الٰہی اور انابت الی اللہ کی موجب ہیں اس لیے اس چیز کا حکم دیا جو اس غوروفکر کی مقصود ومطلوب ہے اور وہ ہے اللہ تعالیٰ کی طرف فرار ہونا، یعنی جو چیز ظاہری اور باطنی لحاظ سے اللہ کو ناپسند ہے اسے چھوڑ کر اس چیز کی طرف فرار ہونا جو ظاہری اور باطنی لحاظ سے اللہ تعالیٰ کو پسند ہے، جہالت سے فرار ہو کر علم کی طرف آنا۔ کفر سے بھاگ کر ایمان کی طرف آنا، اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے فرار ہو کر اس کی اطاعت کی طرف آنا اور غفلت کو چھوڑ کر ذکرالٰہی کی طرف آنا۔ پس جس نے ان امور کو مکمل کیا اس نے دین کی تکمیل کرلی، اس سے خوف زائل ہوگیا اور اسے اس کی منزل مراد اور مطلوب ومقصود حاصل ہوگیا اللہ نے اپنی طرف اس رجوع کو فرار کے نام سے موسوم کیا کیونکہ غیر اللہ کی طرف رجوع میں خوف اور ناپسندیدہ امور کی بہت سیانواع پنہاں ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع میں انواع واقسام کے پسندیدہ امور، امن مسرت، سعادت اور فوزوفلاح پوشیدہ ہیں۔ پس بندہ اللہ تعالیٰ کی قضا وقدر سے بھاگ کر اس کی قضا وقدر کی طرف آئے اور ہر وہ ہستی جس سے آپ ڈرتے ہیں اس سے بھاگ کر اللہ کی پناہ لیں کیونکہ اس خوف کی مقدار کے مطابق ہی اللہ تعالیٰ کی طرف فرار ہوگا۔ ﴿اِنِّیْ لَکُمْ مِّنْہُ نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ﴾ یعنی میں واضح طور پر اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرانے والا ہوں۔ الذاريات
51 ﴿وَلَا تَجْعَلُوْا مَعَ اللّٰہِ اِلٰــہًا اٰخَرَ﴾ اور اللہ کے علاوہ کوئی دوسرا الٰہ نہ بناؤ۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف فرار میں شمار ہوتا ہے بلکہ یہی اس کی طرف حقیقی فرار ہے کہ بندہ غیر اللہ کو معبود بنانے کو، یعنی بتوں ،اللہ تعالیٰ کے خود ساختہ ہمسروں اور قبروں وغیرہ کو جن کی اللہ کے سوا عبادت کی جاتی ہے۔ چھوڑ کر اپنے رب کے لیے اپنی عبادت، اپنے خوف ورجا، دعا اور انابت کو خالص کرے۔ الذاريات
52 اللہ تبارک وتعالی اپنے رسول کو مشرکین کی تکذیب کے مقابلے میں تسلی دیتا ہے جو اللہ اور اس کے رسول کی تکذیب کرتے ہیں اس کے بارے میں مختلف بری باتیں کرتے ہیں جن سے وہ منزہ اور پاک ہے ایسی باتیں کہنا ہمیشہ سے ان مجرموں اور رسولوں کو جھٹلانے والوں کی عادت رہی ہے اللہ نے کوئی ایسا رسول مبعوث نہیں فرمایا جس پر اس کی قوم نے جادوگر اور مجنون ہونے کا بہتان نہ لگایا ہوا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ اقوال جو ان کے اولین وآخرین سے صادر ہوئے ہیں کیا یہ ایسے اقوال نہیں جن کی انہوں نے ایک دوسرے کو وصیت اور ایک دوسرے کو تلقین کی ہے؟ پس اس سبب سے ان کا ان اقوال پر اتفاق کرلینا کچھ بعید نہیں۔ ﴿بَلْ هُمْ قَوْمٌ طَاغُونَ ﴾ بلکہ وہ سرکش لوگ ہیں ان کے دل اور اعمال کفر اور سرکشی کے سبب سے باہم مشابہت رکھتے ہیں۔ پس ان کی سرکشی سے جنم لینے والے ان کے اقوال بھی باہم مشابہت رکھتے ہیں اور فی الواقع ایسا ہی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَقَالَ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ لَوْلَا يُكَلِّمُنَا اللّٰـهُ أَوْ تَأْتِينَا آيَةٌ كَذٰلِكَ قَالَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِم مِّثْلَ قَوْلِهِمْ تَشَابَهَتْ قُلُوبُهُمْ ﴾( البقرة:2؍118) ’’اور وہ لوگ جو کچھ نہیں جانتے کہتے ہیں اللہ ہم سے ہم کلام کیوں نہیں ہوتا ہمارے پاس کوئی نشانی کیوں نہیں آتی اسی طرح ان سے پہلے لوگ ان جیسی باتیں کیا کرتے تھے ان کے دل ایک دوسرے سے مشابہت رکھتے ہیں۔،، اور اسی طرح اہل ایمان کے دل چونکہ اطاعت حق اور اس کی طلب اور کوشش میں باہم مشابہ ہیں اس لیے وہ اپنے رسولوں پر ایمان، ان کی تعظیم توقیر اور ان کے مرتبے کے لائق خطاب کے ذریعے سے مخاطب ہونے میں جلدی کرتے ہیں۔ الذاريات
53 الذاريات
54 ﴿فَتَوَلَّ عَنْہُمْ﴾ یعنی آپ ان کی پرواہ کیجئے نہ ان کا کوئی مواخذہ کیجئے۔ اپنے معاملات پر توجہ مرکوز رکھیے۔ ﴿فَمَآ اَنْتَ بِمَلُوْمٍ﴾ ان کے گناہ پر آپ کو کوئی ملامت نہیں۔ آپ کے ذمے تو صرف پہنچا دینا ہے جو ذمہ داری آپ کے سپرد کردی گئی تھی وہ آپ نے پوری کردی ہے اور جو پیغام دے کر آپ کو بھیجا گیا تھا وہ آپ نے پہنچا دیا ہے۔ الذاريات
55 ﴿ وَّذَکِّرْ فَاِنَّ الذِّکْرٰی تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِیْنَ﴾ ’’اور نصیحت کیجئے بلاشبہ نصیحت مومنوں کو فائدہ دیتی ہے،، اور تذکیر کی دو اقسام ہیں: 1۔ ایسے امور کے ذریعے سے تذکیر جن کی تفصیل کی معرفت حاصل نہیں، البتہ وہ فطرت اور عقل کے ذریعے سے مجمل طور پر معروف ہیں کیونکہ اللہ تبارک وتعالی نے عقل میں خیر سے محبت اور خیر کو ترجیح دینا، شر کو ناپسند کرنا اور اس سے دور بھاگنا ودیعت کردیا ہے اور اللہ تعالیٰ کی شریعت اس کے موافق ہے پس شریعت کا ہر امرونہی، تذکیر ہے، تذکیر کامل یہ ہے کہ مامورات شریعت میں بھلائی، حسن اور انسانی مصالح پوشیدہ ہیں ان کا ذکر کیا جائے اور منہیات میں جو نقصانات پنہاں ہیں ان کا ذکر کیا جائے۔ 2۔ تذکیر کی دوسری قسم ان امور کے ذریعے سے تذکیر ہے جو اہل ایمان کو معلوم ہیں۔ مگر غفلت اور مدہوشی نے انہیں ڈھانپ رکھا ہے، ان کو ان امور کی یاد دہانی کرائی جاتی ہے ان کے سامنے ان باتوں کو مکرر بیان کیا جاتا ہے۔ تاکہ یہ باتیں ان کے ذہن میں راسخ ہوجائیں ان کو تنبیہ کی جاتی ہے اور جن باتوں کی انہیں یاد دہانی ہوئی ہے ان پر عمل پیرا ہوں نیز یہ کہ ان میں نشاط اور ہمت پیدا ہو جو ان کے لیے فائدے اور بلندی کی موجب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ نصیحت اور تذکیر مومنوں کو فائدہ دیتی ہے کیونکہ ان کے پاس جو سرمایہ ایمان، خشیت الٰہی، انابت الی اللہ اور اتباع رسول ہے یہ تمام اوصاف اس بات کے موجب ہیں کہ تذکیر ان کو فائدہ دے اور نصیحت ان کے دل میں اتر جائے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿فَذَكِّرْ إِن نَّفَعَتِ الذِّكْرَىٰ سَيَذَّكَّرُ مَن يَخْشَىٰ وَيَتَجَنَّبُهَا الْأَشْقَى ﴾(الاعلیٰ:87؍9۔11) ’’(اے نبی!) آپ نصیحت کرتے رہیے اگر نصیحت نفع سے جو خشیت سے بہرور رہے، وہ ضرور نصیحت پکڑے گا اور بدبختی کا مارا ہوا اس سے پہلوتہی کرے گا۔،، جس میں ایمان کی رمق ہے نہ نصیحت قبول کرنے کی استعداد اس کو تذکیر اور نصیحت کوئی فائدہ نہیں دیتی وہ اس شور زدہ زمین کے مانند ہے جس کو بارش سے کوئی فائدہ نہیں پہنچتا، اس قسم کے لوگوں کے پاس اگر تمام نشانیاں بھی آجائیں تو وہ پھر بھی اس وقت تک ایمان نہیں لائیں گے جب تک وہ دردناک عذاب نہ دیکھ لیں۔ الذاريات
56 وہ مقصد جس کی خاطر اللہ تعالیٰ نے جنات اور انسانوں کو تخلیق فرمایا، تمام انبیاء ورسل کو مبعوث کیا جو لوگوں کو اس مقصد کی طرف بلاتے رہے وہ اللہ کی عبادت ہے جو اس کی معرفت، اس کی محبت، اس کی طرف انابت اور ماسوا سے منہ موڑ کر صرف اسی کی طرف توجہ کرنے کو متضمن ہے اور یہ چیز اللہ کی معرفت سے وابستہ ہے بلکہ بندے میں اپنے رب کی معرفت جتنی زیادہ ہوگی اس کی عبادت اتنی ہی کامل ہوگی یہ وہ مقصد ہے جس کی خاطر اللہ نے مکلفین کو پیدا کیا، اللہ تعالیٰ نے ان کو اس لیے پیدا نہیں کیا کہ ان سے کوئی ضرورت تھی۔ الذاريات
57 ﴿مَآ اُرِیْدُ مِنْہُمْ مِّنْ رِّزْقٍ وَّمَآ اُرِیْدُ اَنْ یُّطْعِمُوْنِ﴾ ’’میں ان سے کوئی رزق نہیں چاہتا اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھلائیں۔،، یعنی اللہ تعالیٰ اس سے بہت بلند ہے کہ وہ کسی بھی لحاظ سے کسی کا محتاج ہو۔ تمام مخلوق اپنی حوائج و مطالب ضروریہ اور غیرضروریہ میں اس کی محتاج ہے اسی لیے فرمایا: ﴿إِنَّ اللّٰـهَ هُوَ الرَّزَّاقُ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ رزق کثیر کا مالک ہے زمین و آسمان میں کوئی جاندار ایسا نہیں جس کارزق اللہ تعالیٰ کے ذمے نہ ہو وہ اس کاٹھکانہ بھی جانتا ہے اور اس جگہ کو بھی جانتا ہے جہاں اس کو سونپا جانا ہے۔ ﴿ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِينُ﴾ یعنی وہ تمام قوت اور قدرت کا مالک ہے جس نے اس قدرت کے ذریعے سے عالم علوی اور عالم سفلی کے بڑے بڑے اجسام کو وجود بخشا، اس قدرت کے ذریعے سے وہ ظاہر وباطن میں تصرف کرتا ہے اور اس کی مشیت تمام مخلوق پر نافذ ہے۔ اللہ تعالیٰ جو کچھ چاہتا ہے وہ ہوتا ہے اور جو نہیں چاہتا وہ نہیں ہوتا کوئی بھاگنے والا اسے بے بس کرسکتا ہے نہ کوئی اس کے تسلط سے باہر نکل سکتا ہے یہ اس کی قوت کا کرشمہ ہے کہ اس نے تمام کائنات کو بہم رزق پہنچایا۔ یہ اس کی قدرت وقوت ہے کہ وہ مردوں کو دوبارہ زندگی بخشے گا جبکہ بوسیدگی نے ان کو ریزہ ریزہ کردیا ہوگا ہوائیں ان کے ذرات کو اڑا کر بکھیر چکی ہوں گی پرندے اور درندے انہیں نگل چکے ہوں گے اور وہ چٹیل بیابانوں اور سمندر میں بکھر چکے ہوں گے۔ ان میں سے کوئی ایک بھی اس سے بچ نہیں سکے گا۔ ان کے اجساد کو جو زمین کم کر رہی ہے وہ اسے خوب جانتا ہے پاک ہے وہ ذات جو قوت والی اور طاقت ور ہے۔ الذاريات
58 الذاريات
59 وہ لوگ جنہوں نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کرکے ظلم کا ارتکاب کیا ان کے لیے عذاب اور سزا ہے ﴿ذَنُوبًا ﴾ یعنی ان کے لیے بھی اسی طرح حصہ ہے جس طرح ان کے ساتھی اہل ظلم اور اہل تکذیب کے ساتھ کیا گیا۔ ﴿فَلَا يَسْتَعْجِلُونِ﴾ اس لیے وہ عذاب کے لیے جلدی نہ مچائیں کیونکہ قوموں کے بارے میں سنت الٰہی ایک ہی ہے چنانچہ ہر جھٹلانے والا شخص جو اپنی تکذیب پر جما ہوا ہے جو توبہ کرتا ہے نہ اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے اس پر عذاب ضرور واقع ہوگا خواہ کچھ مدت کے لیے موخر ہوجائے۔ الذاريات
60 بنابریں اللہ تعالیٰ نے ان کو قیامت کی وعید سنائی ہے، چنانچہ فرمایا: ﴿فَوَیْلٌ لِّـلَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ یَّوْمِہِمُ الَّذِیْ یُوْعَدُوْنَ﴾ ’’پس کافروں کے لیے اس دن ہلاکت ہے جس دن کا ان سے وعدہ کیا جاتا ہے۔،، اس سے مراد قیامت کا دن ہے جس میں ان کو مختلف قسم کے عذاب، سزاؤں، بیڑیوں کی وعید سنائی گئی ہے ان کا کوئی مددگار ہوگا نہ کوئی ان کو اللہ کے عذاب سے بچانے والا ہوگا۔ ہم اس عذاب سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔ الذاريات
0 سورة طور الطور
1 اللہ تبارک وتعالیٰ جلیل القدر حکمتوں پر مشتمل عظیم امور کے ساتھ حیات بعد الموت اور متقین اور مکذبین کی جزا وسزا پر قسم کھاتا ہے پس اللہ نے کوہ طور کی قسم کھائی، طور وہ پہاڑ ہے جہاں اللہ نے حضرت موسیٰ بن عمران علیہ السلام سے ہم کلام ہوا اور اس نے ان کی طرف وحی بھیجی اور ان پر احکام شریعت نازل فرمائے۔ یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور آپ کی امت پر اللہ کا احسان ہے جو اللہ تعالیٰ کی عظیم نشانیاں اور اس کی نعمتیں ہیں۔ بندے جن کو شمار کرسکتے ہیں نہ ان کی قیمت کا اندازہ کرسکتے ہیں۔ الطور
2 ﴿وَکِتٰبٍ مَّسْطُوْرٍ﴾ ’’اور ایک کتاب کی (قسم) جو لکھی ہوئی ہے۔،، اس میں یہ احتمال بھی ہے کہ اس سے مراد لوح محفوظ ہو، جس میں اللہ تعالیٰ نے ہر چیز لکھ رکھی ہے اور یہ احتمال بھی ہے کہ اس سے مراد قرآن کریم ہو جو سب سے افضل کتاب ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اس طرح نازل کیا ہے کہ وہ اولین وآخرین کی خبروں اور سابقین ولاحقین کے علوم پر مشتمل ہے۔ الطور
3 ﴿فِیْ رَقٍّ مَّنْشُوْرٍ﴾ یعنی اوراق میں لکھا گیا ہے جو بالکل ظاہر ہے، مخفی نہیں ہے اور اس کا حال ہر خرد مند اور صاحب بصیرت سے چھپا ہوا نہیں ہے۔ الطور
4 ﴿وَّالْبَیْتِ الْمَعْمُوْرِ﴾ ’’اور بیت معمور کی (قسم)۔،، یہ وہ گھر ہے جو ساتویں آسمان سے اوپر واقع ہے جو ہر وقت اللہ کے مکرم فرشتوں سے آباد رہتا ہے اس میں ہر روز ستر ہزار فرشتے داخل ہو کر اپنے رب کی عبادت کرتے ہیں پھر قیامت تک دوبارہ ان کی باری نہیں آئے گی کہا جاتا ہے کہ بیت المعمور، سے مراد بیتاللہ ہے جو ہر وقت طواف کرنے والوں، نماز پڑھنے والوں، ذکر کرنے والوں اور حج وعمرہ کے لیے آنے والوں سے آباد رہتا ہے جیسا کہ اللہ نے اپنے اس ارشاد میں قسم کھائی ہے ﴿وَهٰذَا الْبَلَدِ الْأَمِينِ﴾(التین :95؍3)’’اور اس امن والے شہر کی قسم،، وہ گھر جوروئے زمین کے تمام گھروں سے افضل ہے، لوگ حج اور عمرہ کے لیے اس کا قصد کرتے ہیں جو اسلام کے ارکان میں سے ایک رکن ہے اور اس کی ان عظیم بنیادوں میں سے ہے جن کے بغیر اسلام مکمل نہی ہوتا یہ وہ گھر ہے جس کو حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے تعمیر کیا جس کو اللہ نے لوگوں کے جمع ہونے اور امن کی جگہ مقرر فرمایا یہ اس بات کا مستحق ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی قسم کھائے اور اس کی عظمت کو بیان فرمائے جو اس گھر کے اور اس کی حرمت کے لائق ہے۔ الطور
5 ﴿وَالسَّقْفِ الْمَرْفُوْعِ﴾ ’’اور اونچی چھت (کی قسم)۔،، یعنی آسمان کی جس کو اللہ نے مخلوقات کے لیے چھت اور زمین کے لیے آبادی کی بنیاد بنایا، زمین کی خوش نمائیاں آسمان سے مدد لیتی ہیں، آسمان کی علامات اور روشنیوں سے راہ نمائی حاصل کی جاتی ہے اللہ آسمان سے بارش، رحمت اور انواع واقسام کے رزق نازل کرتا ہے۔ الطور
6 ﴿وَالْبَحْرِ الْمَسْجُوْرِ﴾ یعنی پانی سے لبریز سمندر کی قسم۔ اللہ نے اسے پانی سے لبریز کردیا اور ساتھ ہی ساتھ اسے بہہ کر روئے زمین پر پھیل جانے سے روک دیا، حالانکہ پانی کی فطرت یہ ہے کہ وہ زمین کو ڈھانپ لیتا ہے مگر اللہ کی حکمت تقاضا کرتی ہے کہ یہ پانی کو ادھر ادھر جانے روک دے تاکہ روئے زمین پر مختلف حیوانات زندہ رہ سکیں یہ بھی کہا جاتا ہے ﴿ الْمَسْجُوْرِ ﴾ سے مراد وہ سمندر ہے جس میں قیامت کے دن آگ بھڑکائی جائے گی، اس کے شعلے بھڑک رہے ہوں گے اور وہ اپنی کشادگی کے باوجود عذاب کی مختلف اصناف سے بھرا ہوا ہوگا۔ الطور
7 یہ اشیا جن کی اللہ نے قسم کھائی ہے دلالت کرتی ہیں یہ اللہ کی نشانیاں، اس کی توحید کے دلائل اور اس کی قدرت اور حیات بعدالموت کے براہین ہیں۔ بنابریں فرمایا ﴿اِنَّ عَذَابَ رَبِّکَ لَوَاقِعٌ﴾ یعنی تیرے رب کے عذاب کا واقع ہونا لازمی ہے اللہ اپنے قول اور وعدے کے خلاف نہیں کرتا۔ الطور
8 ﴿مَّا لَہٗ مِنْ دَافِعٍ﴾ ’’اسے کوئی روکنے والا نہیں۔،، یعنی کوئی ایسی ہستی نہ ہوگی جو اسے دور ہٹا سکے اور نہ کوئی ایسا مانع ہوگا جو اسے روک سکے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کا کوئی مقابلہ کرسکتا ہے نہ کوئی بھاگ کر اس سے بچ سکتا ہے۔ الطور
9 پھر اللہ تبارک وتعالی نے اس دن کا وصف بیان فرمایا جس میں یہ عذاب واقع ہوگا، چنانچہ فرمایا: ﴿یَّوْمَ تَمُوْرُ السَّمَاءُ مَوْرًا﴾’’جس دن آسمان تیز تیز حرکت کرنے لگے گا،، یعنی گھومے گا اور مضطرب ہوگا۔ بے قراری اور عدم سکون کی وجہ سے دائمی طور پر متحرک رہے گا۔ الطور
10 ﴿وَّتَسِیْرُ الْجِبَالُ سَیْرًا﴾ یعنی پہاڑ اپنی جگہوں سے ہل جائیں گے اور بادل کے مانند چلیں گے اور وہ ایسے رنگ برنگے ہوجائیں گے جیسے دھنکی ہوئی رنگ برنگی اون۔ اس کے بعد یہ پہاڑ بکھر جائیں گے یہاں تک کہ وہ غبار بن جائیں گے یہ سب کچھ قیامت کے دن کی ہولناکیوں کی وجہ سے ہوگا۔ تب بے چارے کمزور آدمی کا کیا حال ہوگا؟ الطور
11 ﴿فَوَیْلٌ یَّوْمَیِٕذٍ لِّلْمُکَذِّبِیْنَ ﴾’’پس اس دن جھٹلانے والوں کے لیے خرابی ہے۔،، الویل ہر قسم کی عقوبت، حزن وغم، عذاب اور خوف کے لیے ایک جامع کلمہ ہے، پھر اللہ تعالیٰ نے ان جھٹلانے والوں کا وصف بیان فرمایا جو اس ویل کے مستحق ہیں۔ چنانچہ ارشاد فرمایا: ﴿ الَّذِينَ هُمْ فِي خَوْضٍ يَلْعَبُونَ ﴾’’جو اپنی بے ہودہ گوئی میں اچھل کود کررہے ہیں،، یعنی وہ باطل میں گھس کو اس سے کھیل رہے ہیں پس ان کے تمام علوم اور ان کی تمام ضرر رساں علمی تحقیقات تکذیب حق اور تصدیق باطل کو متضمن ہیں ان کے تمام اعمال جہلا، سفہاء اور لہو ولعب میں مشغول لوگوں کے اعمال ہیں۔ بخلاف ان اعمال کے جن پر اہل تصدیق اور اہل ایمان کاربند ہیں، یعنی علوم نافعہ اور اعمال صالحہ۔ الطور
12 الطور
13 ﴿یَوْمَ یُدَعُّوْنَ اِلٰی نَارِ جَہَنَّمَ دَعًّا﴾ یعنی جہنم کی آگ کی طرف دھکیلے جائیں گے اور نہایت درشتی سے انہیں ہانکا جائے گا انہیں چہروں کے بل گھسیٹا جائے گا اور زجر وتوبیخ اور ملامت کے طور پر انہیں کہا جائے گا: ﴿ هَـٰذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنتُم بِهَا تُكَذِّبُونَ ﴾ ’’یہی وہ آگ ہے جسے تم جھوٹ سمجھتے تھے،، آج دائمی عذاب کا مزہ چکھو جس کا اندازہ کیا جاسکتا ہے نہ اس کا وصف بیان ہوسکتا ہے۔ الطور
14 الطور
15 ﴿اَفَسِحْرٌ ھٰذَآ اَمْ اَنْتُمْ لَا تُبْصِرُوْنَ ﴾’’کیا پھر یہ جادو ہے؟ یا تم دیکھتے ہی نہیں؟،، اس میں یہ احتمال ہے کہ اشارہ جہنم اور عذاب کی طرف ہوجیسا کہ آیات کا سیاق دلالت کرتا ہے یعنی جب وہ عذاب کو دیکھ لیں گے تو جھڑکنے کے انداز دیکھ نہیں سکتے یعنی تمہارے اندر کوئی بصیرت تھی نہ تم علم رکھتے تھے بلکہ تم اس معاملے میں بالکل جاہل تھے اور تم پر حجت قائم نہ ہوئی تھی اور جواب دونوں امور کی نفی ہے۔ رہا اس کا جادو ہونا تو تم پر یہ حقیقت پوری طرح واضح تھی کہ یہ سب سے بڑا حق اور سب سے بڑی سچائی ہے جو ہر لحاظ سے جادو کے منافی ہے۔ رہا ان کا (دنیا کے اندر) بصیرت سے محروم ہونا تو معاملہ اس کے برعکس ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ان پر اللہ تعالیٰ کی حجت قائم ہوئی، انبیا ومرسلین نے ان کو ایمان کی طرف دعوت دی، ان پر دلائل وبراہین قائم کیے جنہوں نے اسے سب سے بڑی، سب سے واضح، جلیل القدر اور ثابت شدہ حقیقت بنادیا۔ یہ بھی احتمال ہے ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿ أَفَسِحْرٌ هٰذَا أَمْ أَنتُمْ لَا تُبْصِرُونَ ﴾ میں اشارہ اس حق مبین اور صراط مستقیم کی طرف ہو جسے لے کر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مبعوث ہوئے کیا کوئی ایسا شخص جو عقل سے بہرہ مند ہے اس کے بارے میں یہ کہنے کا تصور کرسکتا ہے یہ جادو ہے حالانکہ یہ عظیم ترین اور جلیل ترین حق ہے مگر وہ بصیرت سے محروم ہونے کی وجہ سے ایسی باتیں کررہے ہیں۔ الطور
16 ﴿اِصْلَوْہَا﴾ یعنی اس آگ میں اس طرح داخل ہوجاؤ کہ یہ تمہیں گھیر لے تمہارے بدنوں کو پوری طرح اپنی گرفت میں لے لے اور تمہارے دلوں تک جا پہنچے ﴿فَاصْبِرُوْٓا اَوْ لَا تَصْبِرُوْا سَوَاءٌ عَلَیْکُمْ ﴾ پس تم صبر کرو یا نہ کرو تمہارے لیے یکساں ہے۔ یعنی جہنم کے اندر صبر تمہیں کوئی فائدہ نہیں دے گا تم ایک دوسرے کو تسلی دے سکو گے نہ تمہارے عذاب میں تخفیف کی جائے گی۔ یہ عذاب ان امور میں سے نہیں جن پر بندہ صبر کرتا ہے تو ان کی مشقت کم اور ان کی شدت زائل ہوجاتی ہے ان کے ساتھ یہ سب کچھ ان کے گندے اعمال اور ان کے کرتوتوں کی وجہ سے ہوگا بنا بریں فرمایا:﴿ اِنَّمَا تُجْزَوْنَ مَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ﴾ ’’بے شک تمہیں اسی چیز کا بدلہ دیا جاتا ہے جو تم کرتے رہے۔،، الطور
17 اللہ تبارک وتعالی نے اہل تکذیب کی سزا کا ذکر کرنے کے بعد اہل تقویٰ کی نعمتوں کا ذکر فرمایا تاکہ ترغیب و ترہیب کو اکٹھا کردے اور دل خوف ورجا کے درمیان رہیں، چنانچہ فرمایا ﴿ إِنَّ الْمُتَّقِينَ ﴾ جنہوں نے اپنے رب کے لیے تقویٰ کو اپنا شعار بنایا جو اس کے اوامر کی تعمیل اور اس کی نواہی سے کنارہ کشی کرکے اس کی ناراضی اور اس کے عذاب سے بچتے رہے۔ ﴿ فِي جَنَّاتٍ ﴾ وہ باغات میں ہوں گے ان باغات کی روشوں کو گھنے درختوں نے ڈھانپ رکھا ہوگا، ان میں اچھلتی کودتی ندیاں ہوں گی، چار دیواری سے گھرے ہوئے محل اور آراستہ کیے ہوئے گھر ہوں گے۔ ﴿ وَنَعِيمٍ ﴾ ’’اور نعمتوں میں ہوں گے۔،، یہ قلب کی نعمت اور روح وبدن کی نعمت کو شامل ہے۔ الطور
18 ﴿فٰکِہِیْنَ بِمَآ اٰتٰیہُمْ رَبُّہُمْ ﴾ یعنی ان کا رب ان کو جس نعمت سے نوازے گا اس سے خوش ہوتے ہوئے نہایت فرحت وسرور کے ساتھ اس سے متمتع ہوتے ہوئے اس سے لطف واندوز ہوں گے ایسی نعمت جس کا وصف ممکن نہیں اور نہ کوئی نفس یہ جانتا ہے کہ ان کے لیے اللہ تعالیٰ نے کیا آنکھوں کی ٹھنڈک چھپارکھی ہے پس ان کو ان کی پسندیدہ چیزیں عطا کرے گا اور ناپسندیدہ چیزوں سے بچائے گا کیونکہ انہوں نے وہ کام کیے جو ان کے رب کو پسند تھے اور ان کاموں سے اجتناب کیا جن سے وہ ناراض ہوتا ہے۔ الطور
19 ﴿کُلُوْا وَاشْرَبُوْا﴾ یعنی ہر قسم کے لذیذ کھانے اور مشروبات جو تمہارا دل چاہتا کھاؤ پیو ﴿هَنِيئًا﴾یعنی مزے سے بہت و سرور اور فرحت ومسرت کے ساتھ ﴿ بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ ﴾ یعنی تمہیں جو کچھ حاصل ہوا ہے تمہارے نیک اعمال اور اچھے اقوال کے باعث حاصل ہوا ہے۔ الطور
20 ﴿مُتَّکِــــِٕیْنَ عَلٰی سُرُرٍ مَّصْفُوْفَۃٍ﴾’’وہ برابر بچھے ہوئے شاندار تختوں پر تکیے لگائے ہوئے ہوں گے،، الاتکاء سے مراد ہے راحت اور قرار کے ساتھ جم کر بیٹھنا۔ السرر سے مراد وہ تخت ہیں جو قیمتی پارچہ جات اور خوبصورت بچھونوں سے آراستہ کیے گئے ہوں۔ اللہ تعالیٰ کا تختوں کا وصف بیان کرنا کہ وہ صف درصف بچھائے گئے ہوں گے ان کی کثرت، حسن تنظیم، اہل جنت کے اجتماع، ان کی مسرت، ان کے حسن معاشرت اور باہم ملاطفت پر دلالت کرتا ہے۔ جب ان کے لیے قلب اور بدن وروح کی ایسی ایسی نعمتیں یکجا ہوجائیں گے، یعنی لذیذ ماکولات، مشروبات اور حسین اور دلکش مجالس جن کا گزر کبھی تصور وخیال میں بھی نہ ہوگا تو عورتوں کے ساتھ تمتع کے سوا کچھ باقی نہ رہے گا جن کے بغیر مسرت کی تکمیل نہیں ہوتی پس اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ ان کے لیے ایسی بیویاں ہوں گی جو اپنے اوصاف، تخلیق اور اخلاق کے اعتبار سے کامل ترین عورتیں ہوں گی۔ اس لیے فرمایا: ﴿ وَزَوَّجْنَاهُم بِحُورٍ عِينٍ ﴾’’اور بڑی بڑی آنکھوں والی حوروں سے ہم ان کا عقد کریں گے،، اس سے مراد وہ عورتیں ہیں جن میں ظاہری حسن وجمال اور اخلاق فاضلہ جمع ہیں جو اپنے حسن وجمال سے دیکھنے والوں کو متحیر کردیتی ہیں اور لوگوں کی عقل سلب کرلیتی ہیں اور دل وصال کی چاہت میں ان کی طرف اڑ کر جاتے ہیں۔ العین سے مراد ملیح اور خوبصورت آنکھوں والی عورتیں جن کی آنکھوں کی سفیدی اور سیاہی نہایت صاف اور واضح ہو۔ الطور
21 یہ اہل جنت کی نعمتوں کی تکمیل ہے کہ اللہ تعالیٰ، اہل جنت کے ساتھ ان کی اس اولاد کو بھی لے جائے گا جنہوں نے ایمان لانے میں ان کی پیروی کی، یعنی وہ اس ایمان کی بنا پر ان کے ساتھ جاملیں گے جو ان کے آبا اجداد سے صادر ہو اور اولاد نے بھی ایمان کے ساتھ ان کی اتباع کی، اگر اولاد نے اپنے ایمان کے ساتھ جو خود ان سے صادر ہوا، اپنے آباؤ اجداد کی اتباع کی تو ان کے اپنے آبا کے ساتھ لاحق ہونا زیادہ اولیٰ ہے۔ ان مذکورہ بالا لوگوں کو اللہ تعالیٰ جنت میں ان کے آبا و اجداد کے ساتھ ان کے مقامات میں ملائے گا اگرچہ وہ ان مقامات پر نہ جاسکیں گے۔ یہ الحاق ان کے آبا اجداد کے لیے جزا اور ان کے ثواب میں اضافے کے طور پر ہوگا، اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ آباؤ اجداد کے اعمال میں کوئی کمی واقع نہیں کرے گا۔ الطور
22 چونکہ کسی کویہ توہم لاحق ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اہل جہنم کے ساتھ بھی یہی کرے گا، ان کی اولاد کوان کے ساتھ ملائے گا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایاکہ جنت اورجہنم کےا حکام ایک جیسے نہیں ہیں ۔جہنم دارعدل ہے اور ساتھ اللہ تعالیٰ کا عدل یہ ہے کہ وہ کسی کوگناہ کے بغیر سز انہیں دیتا،اس لیے فرمایا:﴿ كُلُّ امْرِئٍ بِمَا كَسَبَ رَهِينٌ﴾ یعنی ہر شخص اپنے عمل ہی کا گروی ہے،کوئی جان کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا نہ کسی پر کسی دوسرے کا گناہ ڈالاجائے گا۔ ﴿وَاَمْدَدْنٰہُمْ﴾ یعنی ہم اپنے بے پایاں فضل وکرم سے اہل جنت کو اور زیادہ نعمتیں عطا کریں گے اور رزق عام سے بہر مند کریں گے۔ ﴿ بِفَاكِهَةٍ ﴾ یعنی انگور، انار، سیب اور نہایت لذیذ پھلوں کی مختلف اصناف سے نوازیں گے جو اس پر مستزاد ہوں گے جسے وہ عام خوراک کے طور پر استعمال کریں گے ﴿ وَلَحْمٍ مِّمَّا يَشْتَهُونَ ﴾ اور پرندوں وغیرہ کے ہر قسم کے گوشت جو وہ طلب کریں گے اور جو ان کے دل چاہے گا۔ الطور
23 ﴿یَتَنَازَعُوْنَ فِیْہَا کَاْسًا﴾ رحیق اور شراب کے جاموں کا دور چلے گا وہ آپس میں ایک دوسرے سے جام لے رہے ہوں گے اور ہمیشہ رہنے والے لڑکے پیالے اور صراحیاں لیے ان کے درمیان خدمت کے لیے گھوم رہے ہوں گے۔ ﴿ لَّا لَغْوٌ فِیْہَا وَلَا تَاْثِیْمٌ﴾ یعنی جنت میں کوئی لغو بات نہ ہوگی وہ بات جس میں کوئی فائدہ نہیں اور نہ اس میں کوئی گناہ کی بات ہوگی اور اس سے مراد وہ بات ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور گناہ کا کوئی پہلو ہو۔ جب کلام لغو اور کلام معصیت دونوں کی نفی ہوگئی تو اس تیسری چیز کا اثبات ہوگیا یعنی ان کا کلام لغو امور سے سلامت اور طیب وطاہر ہوگا جو نفوس کو مسرت اور دلوں کو فرحت بخشے گا وہ بہترین طریقے سے ایک دوسرے کے ساتھ رہیں گے اور ایک دوسرے کے ساتھ ان کی دوستی پاکیزہ ترین دوستی ہوگی انہیں اپنے رب کی طرف سے صرف وہی باتیں سننے کو ملیں گے جو ان کی آنکھوں کو ٹھنڈا کریں گی اور یہ چیز اللہ کے ان پر راضی ہونے اور ان سے محبت کرنے پر دلالت کرتی ہے۔ الطور
24 ﴿وَیَطُوْفُ عَلَیْہِمْ غِلْمَانٌ لَّہُمْ﴾ یعنی نوجوان خدام ان کے آس پاس پھریں گے۔ ﴿کَاَنَّہُمْ لُؤْلُؤٌ مَّکْنُوْنٌ﴾ اپنے حسن اور خوب صورتی کی بنا پر گویا وہ چھپائے ہوئے موتی ہیں وہ ان کی خدمت اور ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ان کے پاس آجا رہے ہوں گے یہ چیز ان کے لیے بے پایاں نعمتوں اور کامل راحت پر دلالت کرتی ہے۔ الطور
25 ﴿وَاَقْبَلَ بَعْضُہُمْ عَلٰی بَعْضٍ یَّتَسَا ءَلُوْنَ﴾ ’’اور وہ آپس میں ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہو کر سوال کریں گے‘‘ یعنی دنیا کے معاملات اور اس کے احوال کے بارے میں ﴿ قَالُوا ﴾ یعنی وہ اس چیز کا ذکر کرتے ہوئے جس نے انہیں خوشی اور مسرت کے احوال تک پہنچایا ہے کہیں گے ﴿ إِنَّا كُنَّا قَبْلُ ﴾ بلاشبہ اس سے پہلے ہم یعنی دنیا کے گھر میں ﴿ فِي أَهْلِنَا مُشْفِقِينَ ﴾ ’’اپنے اہل وعیال میں (اللہ سے) ڈرا کرتے تھے۔‘‘ یعنی ہم نے اس کے خوف کی وجہ سے گناہوں کو چھوڑ دیا اور اس بنا پر عیوب کو درست کرلیا۔ ﴿ فَمَنَّ اللّٰـهُ عَلَيْنَا ﴾ تو اللہ نے ہدایت اور توفیق کے ساتھ ہم پر احسان فرمایا ﴿ وَوَقَانَا عَذَابَ السَّمُومِ ﴾ اور گرم عذاب سے جس کی حرارت بہت سخت ہوگی ہمیں بچایا۔ الطور
26 ﴿وَاَقْبَلَ بَعْضُہُمْ عَلٰی بَعْضٍ یَّتَسَا ءَلُوْنَ﴾ ’’اور وہ آپس میں ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہو کر سوال کریں گے‘‘ یعنی دنیا کے معاملات اور اس کے احوال کے بارے میں ﴿ قَالُوا ﴾ یعنی وہ اس چیز کا ذکر کرتے ہوئے جس نے انہیں خوشی اور مسرت کے احوال تک پہنچایا ہے کہیں گے ﴿ إِنَّا كُنَّا قَبْلُ ﴾ بلاشبہ اس سے پہلے ہم یعنی دنیا کے گھر میں ﴿ فِي أَهْلِنَا مُشْفِقِينَ ﴾ ’’اپنے اہل وعیال میں (اللہ سے) ڈرا کرتے تھے۔‘‘ یعنی ہم نے اس کے خوف کی وجہ سے گناہوں کو چھوڑ دیا اور اس بنا پر عیوب کو درست کرلیا۔ الطور
27 ﴿ فَمَنَّ اللّٰـهُ عَلَيْنَا ﴾ تو اللہ نے ہدایت اور توفیق کے ساتھ ہم پر احسان فرمایا ﴿ وَوَقَانَا عَذَابَ السَّمُومِ ﴾ اور گرم عذاب سے جس کی حرارت بہت سخت ہوگی ہمیں بچایا۔ الطور
28 ﴿اِنَّا کُنَّا مِنْ قَبْلُ نَدْعُوْہُ ﴾ بے شک اس سے پہلے ہم اس سے دعائیں کیا کرتے تھے کہ وہ ہمیں عذاب سموم سے بچائے اور نعمتوں بھری جنت میں پہنچائے۔ یہ جملہ دعائے عبادت اور دعائے مسئلہ دونوں کو شامل ہے۔ یعنی ہم مختلف عبادات کے ذریعے سے اس کا تقرب حاصل کرنے کی کوشش کرتے اور تمام اوقات میں اس کو پکارتے تھے ﴿اِنَّہٗ ہُوَ الْبَرُّ الرَّحِیْمُ﴾ پس ہم پر اس کا احسان اور رحمت ہے کہ اس نے ہمیں اپنی رضا اور جنت سے بہرور کیا اور اپنی ناراضی اور جہنم کے عذاب سے بچایا۔ الطور
29 اللہ تبارک وتعالی اپنے رسول کو حکم دیتا ہے کہ وہ تمام لوگوں کو مسلمانوں اور کفار کو نصیحت کریں تاکہ ظالموں پر اللہ کی حجت قائم ہوجائے اور توفیق یافتہ لوگ آپ کی تذکیر کے ذریعے سے راہ راست پا لیں، نیز یہ کہ آپ مشرکین اہل تکذیب کی باتوں اور ان کی ایذا رسانی کو خاطر میں نہ لائیں اور ان کی ان باتوں کی پروانہ کریں جن کے ذریعے سے وہ لوگوں کو آپ کی اتباع سے روکتے ہیں حالانکہ وہ خوب جانتے ہیں کہ آپ ان باتوں سے لوگوں میں سب سے زیادہ دور ہیں بنا بریں اللہ تعالیٰ نے ہر اس نقص کی نفی کردی جسے وہ آپ کی طرف منسوب کرتے تھے اس لیے فرمایا ﴿ فَمَا أَنتَ بِنِعْمَتِ رَبِّكَ ﴾ یعنی نہیں ہیں آپ اپنے رب کے لطف وکرم سے ﴿ بِكَاهِنٍ ﴾ ’’کاہن‘‘ جس کے پاس جنوں کا سردار آتا ہے اور اس کے پاس غیب کی خبر لاتا ہے اور وہ اس میں جھوٹ خود اپنی طرف سے شامل کردیتا ہے۔ ﴿ وَلَا مَجْنُونٍ ﴾ ’’اور نہ آپ فاتر العقل ہیں‘‘ بلکہ آپ عقل میں تمام لوگوں سے زیادہ کامل، شیاطین سے سب سے زیادہ دور، صداقت میں سب سے بڑے تمام لوگوں میں سب سے زیادہ جلیل القدر اور سب سے زیادہ کامل ہیں۔ الطور
30 اور کبھی کبھی ﴿یَقُوْلُوْنَ﴾ وہ آپ کے بارے میں کہتے ہیں کہ بلاشبہ وہ ﴿شَاعِرٌ﴾ ’’شاعر ہے۔‘‘ شعر کہتا ہے اور اس کے پاس جو چیز آتی ہے وہ شاعری ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ وَمَا عَلَّمْنَاهُ الشِّعْرَ وَمَا يَنبَغِي لَهُ ﴾ (یٰس :36؍69)’’ہم نے اسے شاعری سکھائی ہے نہ شاعری اس کے لائق ہے۔‘‘ ﴿ نَّتَرَبَّصُ بِهِ رَيْبَ الْمَنُونِ ﴾ یعنی ہم اس کی موت کا انتظار کررہے ہیں پس اس کا معاملہ ختم ہوجائے گا اور ہم اس سے نجات حاصل کرکے راحت پالیں گے۔ الطور
31 ﴿قُلْ﴾ آپ اس حماقت آمیز بات کے جواب میں ان سے کہہ دیجئے ﴿ تَرَبَّصُوا ﴾ یعنی تم میرے مرنے کا انتظار کرو ﴿فَاِنِّیْ مَعَکُمْ مِّنَ الْمُتَرَبِّصِیْنَ﴾ ’’پس میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرنے والوں میں سے ہوں۔‘‘ ہم تمہارے بارے میں اس انتظار میں ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے یا ہمارے ہاتھوں تمہیں عذاب میں مبتلا کرے۔ الطور
32 ﴿اَمْ تَاْمُرُہُمْ اَحْلَامُہُمْ بِھٰذَآ اَمْ ہُمْ قَوْمٌ طَاغُوْنَ﴾ ’’کیا ان کی عقلیں انہیں یہی سکھاتی ہیں یا یہ لوگ ہی سرکش ہیں؟‘‘ یعنی کیا ان کا آپ کو یہ جھٹلانا اور ان کی یہ باتیں جو وہ (آپ کے بارے میں) کرتے ہیں ان کی عقل وخرد سے صادر ہوئی ہیں؟ کتنی بری ہے ان کی عقل و خرد جس کے یہ نتائج اور یہ ثمرات ہیں کیونکہ ان کی عقلوں ہی نے تو مخلوق میں سے زیادہ کامل العقل کو مجنون اور سب سے بڑی صداقت اور سب سے بڑے حق کو جھوٹ اور باطل قرار دیا، ایسی فاسد عقلوں سے تو مجاننین بھی منزہ ہیں۔ یا اس پر جس چیز نے ان کو آمادہ کیا ہے وہ ان کا ظلم اور سرکشی ہے؟ اور فی الواقع ظلم اور سرکشی ہی اس کا سبب ہے۔ پس سرکشی ایک ایسی چیز ہے جس کی کوئی حد نہیں جہاں آکر وہ رک جائے۔ ایک سرکش اور حدود سے تجاوز کرنے والے شخص سے کسی بھی قول وفعل کا صدور ہونا کوئی انوکھی بات نہیں۔ الطور
33 ﴿اَمْ یَقُوْلُوْنَ تَـقَوَّلَہٗ ﴾ کیا وہ کہتے ہیں کہ محمد نے خود ہی یہ قرآن گھڑ لیا ہے اور اسے خود اپنی طرف سے کہا ہے ﴿ بَل لَّا يُؤْمِنُونَ ﴾ ’’بلکہ وہ ایمان نہیں لاتے۔‘‘ پس اگر وہ ایمان لائے ہوتے تو وہ اس طرح کی باتیں نہ کہتے جو انہوں نے کہی ہیں۔ الطور
34 ﴿فَلْیَاْتُوْا بِحَدِیْثٍ مِّثْلِہٖٓ اِنْ کَانُوْا صٰدِقِیْنَ﴾ یعنی اگر تم اس بات میں سچے ہو کہ اسے محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) نے تصنیف کیا ہے تو تم نہایت فصیح عرب اور بڑے بلیغ لوگ ہو اور اللہ تعالیٰ نے تمہیں مقابلے کی دعوت بھی دی ہوئی ہے کہ تم اس جیسا کلام بنالاؤ تاکہ تمہاری مخالفت کی صداقت ثابت ہو ورنہ تم قرآن کی صداقت کو تسلیم کرلو اور اگر تم تمام انسان اور جنات اکٹھے ہوجاؤ گے تب بھی تم اس کا معارضہ کرسکتے ہو نہ اس جیسا کلام بنا کر لاسکتے ہو۔ تب اس وقت تمہارا معاملہ دو امور میں سے ایک ہے یا تو اس کو تسلیم کرتے ہو اور اس کی ہدایت کی پیروی کرتے ہو یا تم عناد رکھتے ہوئے باطل کی اتباع کرتے ہو۔ الطور
35 ﴿اَمْ خُلِقُوْا مِنْ غَیْرِ شَیْءٍ اَمْ ہُمُ الْخٰلِقُوْنَ﴾ ’’کیا یہ کسی کے پیدا کیے بغیر ہی پیدا ہوگئے ہیں یا یہ خوداپنے آپ کو پیدا کرنے والے ہیں؟‘‘ یہ ان کے سامنے ایک ایسی چیز کے ذریعے سے استدلال ہے جس میں حق کو تسلیم کیے بغیر ان کے لیے کوئی چارہ کار نہیں یا اس سے ان کا عقل ودین کے موجبات سے نکلنا ثابت ہوجائے گا۔ اس کی توضیح یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی توحید کا انکار کرتے ہیں اور نبیاء ورسل کو جھٹلاتے ہیں اور یہ اس حقیقت کے انکار کو مستلزم ہے کہ اللہ نے ان کو پیدا کیا ہے شریعت کے ساتھ ساتھ عقل میں بھی یہ چیز متحقق ہے کہ ان کی تخلیق تین امور میں سے کسی ایک سے خالی نہیں: 1۔ ان کو کسی چیز کے بغیر پیدا کیا گیا ہے یعنی ان کا کوئی خالق نہیں جس نے ان کو تخلیق کیا ہو بلکہ وہ کسی ایجاد اور موجد کے بغیر وجود میں آئے ہیں اور یہ عین محال ہے۔ 2۔ انہوں نے خود اپنے آپ کو تخلیق کیا ہے اور یہ بھی محال ہے کیونکہ اس بات کا تصور نہیں کیا جاسکتا کہ کوئی اپنے آپ کو بذات خود وجود بخشے۔ 3۔ جب مذکورہ بالادونوں امور باطل ہوگئے اور ان کا محال ہونا ثابت ہوگیا تو تیسری بات متعین ہوگئی کہ یہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جس نے ان کو تخلیق کیا۔ جب یہ بات متعین ہوگئی تو معلوم ہوا کہ اکیلا اللہ تعالیٰ ہی معبود ہے جس کے سوا کسی اور ہستی کی عبادت مناسب ہے نہ درست۔ الطور
36 ﴿اَمْ خَلَقُوا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ﴾ ’’یا انہوں نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے؟‘‘ یہ ایسا استفہام ہے جو نفی کے اثبات پر دلالت کرتا ہے یعنی انہوں نے آسمانوں اور زمین کو پیدا نہیں کیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے شریک بن جائیں یہ حقیقت بالکل واضح ہے لیکن تکذیب کرنے والے ﴿لَّا يُوقِنُونَ ﴾ یقین نہ کرنے والے لوگ ہیں۔ یعنی یہ جھٹلانے والے علم کامل سے محروم ہیں جو ان کے لیے دلائل شرعی وعقلی سے استفادے کاموجب ہوتا ہے۔ الطور
37 ﴿اَمْ عِنْدَہُمْ خَزَایِٕنُ رَبِّکَ اَمْ ہُمُ الْمُصَیْطِرُوْنَ﴾ یعنی کیا ان جھٹلانے والوں کے پاس تیرے رب کی رحمت کے خزانے ہیں کہ جسے چاہیں عطا کریں اور جسے چاہیں محروم کردیں؟ اس لیے انہوں نے اللہ تعالیٰ کو اپنے بندے اور رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت سے سرفراز کرنے سے روک دیا ہے گویا کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے خزانے ان کے سپرد کردیے گئے ہیں، حالانکہ وہ اس حقیر اور ذلیل تر ہیں کہ یہ کام ان کے سپرد کیا جائے ان کے ہاتھ میں تو خود اپنی ذات کے لیے نفع ونقصان، زندگی اور موت اور مرنے کے بعد زندہ ہونا نہیں ہے۔ ﴿ أَهُمْ يَقْسِمُونَ رَحْمَتَ رَبِّكَ نَحْنُ قَسَمْنَا بَيْنَهُم مَّعِيشَتَهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا )الزخرف :43؍32)’’کیا یہ لوگ آپ کے رب کی رحمت کو بانٹتے ہیں؟ دنیاوی زندگی میں تم ہی نے ان کے درمیان ان کی روزی کو تقسیم کیا ہے‘‘ ﴿ أَمْ هُمُ الْمُصَيْطِرُونَ ﴾ کیا وہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق اور اس کے اقتدار پر قہر اور غلبہ سے مسلط ہیں؟ مگر معاملہ ایسا نہیں ہے بلکہ وہ تو عاجز اور محتاج ہیں۔ الطور
38 ﴿اَمْ لَہُمْ سُلَّمٌ یَّسْتَمِعُوْنَ فِیْہِ﴾ ’’کیا ان کے پاس کوئی سیڑھی ہے جس پر چڑھ کر آسمان کی باتیں سن آتے ہیں‘‘ یعنی کیا انہیں غیب کا علم ہے اور وہ ملأ اعلیٰ کی باتیں سنتے ہیں اور ایسے امور کے بارے میں خبریں دیتے ہیں جنہیں ان کے سوا کوئی نہیں جانتا ﴿ فَلْيَأْتِ مُسْتَمِعُهُم ﴾ ’’پھر چاہیے کہ ان کا سننے والا لائے۔‘‘ یعنی ملأ اعلیٰ کی باتیں سننے کا دعوے دار ﴿ بِسُلْطَانٍ مُّبِينٍ ﴾ ’’کوئی صریح دلیل۔‘‘ اور یہ دلیل اس کے پاس کہاں سے آسکتی ہے اللہ تعالیٰ ہی غیب اور موجود کا علم رکھتا ہے وہ کسی غیب کو ظاہر نہیں کرتا سوائے کسی رسول کے جس پر وہ غیب کو ظاہر کرنے پر راضی ہو وہ اپنے علم میں سے جو چاہتا ہے اس کے بارے میں اس رسول کو آگاہ کرتا ہے جبکہ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم رسولوں میں سے سب سے افضل سب سے زیادہ علم رکھنے والے اور ان کے امام ہیں۔ آپ اللہ تعالیٰ کی توحید اس کے وعدے اور وعید وغیرہ کے بارے میں سچی خبریں دینے والے ہیں اور آپ کی تکذیب کرنے والے جہالت، ضلالت، گمراہی، اور عناد میں مبتلا ہیں تب دونوں خبر دینے والوں میں سے کون زیادہ مستحق ہے کہ اس کی خبر قبول کی جائے، خاص طور پر جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن امور کی خبر دی ہے ان پر دلائل و براہین قائم ہیں اور جو اس بات کے موجب ہیں کہ یہ عین الیقین، حقیقت اور کامل ترین صداقت ہے ان کا اپنے دعوے (نبیا کے جھوٹے ہونے) پر دلیل قائم کرنا تو کجا، وہ اس میں کوئی شبہ تک نہیں پیدا کرسکتے۔ الطور
39 ﴿اَمْ لَہُ الْبَنٰتُ﴾ ’’کیا اس (اللہ) کے لیے بیٹیاں ہیں؟‘‘ جیسا کہ تم سمجھتے ہو ﴿وَلَکُمُ الْبَنُوْنَ﴾ ’’اور تمہارے لیے بیٹے۔‘‘ پس تم قابل احتراز امور کو جمع کررہے ہو، یعنی تمہارا اللہ تعالیٰ کی اولاد قرار دینا ناقص ترین صنف کو اس کی طرف منسوب کرنا، رب کائنات کی اس تنقیص کے بعد بھی کوئی غایت وانتہا ہے۔ الطور
40 ﴿اَمْ تَسْـَٔــلُہُمْ﴾ اے رسول کیا آپ ان سے مانگتے ہیں ﴿اَجْرًا﴾ تبلیغ رسالت پر اجر ﴿ فَہُمْ مِّنْ مَّغْرَمٍ مُّثْقَلُوْنَ﴾ ’’کہ وہ اس کے تاوان سے بوجھل ہورہے ہیں‘‘ مگر معاملہ ایسا نہیں ہے آپ تو ان کو کسی معاوضے کے بغیر علم سکھانے کے خواہش مند ہیں، آپ تو اپنی رسالت قبول کرنے، آپ کے حکم اور آپ کی دعوت پر لبیک کہنے پر بہت زیادہ مال خرچ کرتے ہیں آپ زکوٰۃ میں سے تالیف قلب کے لیے مال عطا کرتے ہیں تاکہ ان کے دلوں میں علم و ایمان جاگزیں ہوجائے۔ الطور
41 ﴿اَمْ عِنْدَہُمُ الْغَیْبُ فَہُمْ یَکْتُبُوْنَ﴾ یا غیب میں سے جو کچھ انہیں معلوم ہوتا ہے اسے لکھ لیتے ہیں، انہیں ان امور کی اطلاع ہوتی ہے جن کی اطلاع رسول اللہ کو نہیں ہوتی پس وہ اپنے علم غیب کے ذریعے سے آپ کا مقابلہ کرتے ہیں اور آپ سے عنادر کھتے ہیں ؟ حالانکہ یہ اچھی طرح معلوم ہے کہ یہ ان پڑھ جاہل اور گمراہ لوگ ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسی ہستی ہیں جن کے پاس دوسروں کی نسبت سب سے زیادہ علم ہے اور اللہ تعالیٰ نے جتنا آپ کو غیب کے علم سے آگاہ فرمایا اتنا اپنی مخلوق میں سے کسی کو عطا نہیں کیا۔ یہ سب ان کے قول کے فاسد ہونے پر عقلی اور نقلی طریقے سے الزامی دلیل ہے نیز نہایت احسن، نہایت واضح اور اعتراض سے محفوظ طریقے سے اس قول کے بطلان کی تصویر پیش کرتا ہے۔ الطور
42 ﴿اَمْ یُرِیْدُوْنَ کَیْدًا﴾ کیا وہ آپ اور آپ کی لائی ہوئی کتاب میں جرح وقدح کرکے﴿ کَیْدًا﴾ کوئی سازش کرنا چاہتے ہیں جس کے ذریعے سے وہ آپ کے دین اور آپ کے کام کو فاسد کرنا چاہتے ہیں؟ ﴿ فَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا ہُمُ الْمَکِیْدُوْنَ﴾ ’’تو جن لوگوں نے کفر کیا ہے وہی فریب خوردہ ہیں۔‘‘ یعنی ان کی سازش ان کے سینوں ہی میں رہے گی اور اس کا نقصان انہی کی طرف لوٹے گا اور اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ ایسا ہی کیا۔ کوئی ایسی چال جو کفار کی قدرت واختیار میں تھی انہوں نے باقی نہ رکھی جس پر عمل نہ کیا ہو مگر اللہ تعالیٰ نے ان کے مقابلے میں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فتح ونصرت سے سرفراز فرمایا اپنے دین کو غالب فرمایا، ان کو بے یارومددگار تنہا چھوڑا اور ان سے انتقام لیا۔ الطور
43 ﴿اَمْ لَہُمْ اِلٰہٌ غَیْرُ اللّٰہِ ﴾ یعنی کیا ا للہ کے سوا ان کا کوئی معبود ہے جسے پکارا جائے اس سے کسی نفع کی امید رکھی جائے اور اس کے ضرر سے ڈرا جائے؟ ﴿سُبْحٰنَ اللّٰہِ عَمَّا یُشْرِکُوْنَ﴾’’اللہ پاک ہے ان سے جن کو وہ شریک ٹھہراتے ہیں‘‘ اقتدار میں اس کا کوئی شریک نہیں نہ وحدانیت اور عبودیت میں۔ یہی وہ مقصد ہے جس کی خاطر یہ کلام لایا گیا ہے اور وہ قطعی دلائل کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کے سوا ہر ہستی کی عبادت کا بطلان اور اس کے فاسد ہونے کا بیان۔ جس موقف پر مشرکین قائم ہیں وہ باطل ہے وہ ہستی جس کی عبادت کی جانی چاہیے جس کے لیے نماز پڑھنی چاہیے جس کے سامنے سجدہ ریز ہونا چاہیے دعا یعنی دعائے عبادت اور دعائے مسئلہ کو اسی کے لیے خالص کرنا چاہیے وہ اللہ تعالیٰ معبود حقیقی کو ہستی ہے جو اسما وصفات میں کامل، بے شمار نعوت حسنہ اور افعال جمیلہ کا مالک، صاحب جلال واکرام، قوت وغلبے کا مالک جس کو مغلوب کرنے کا ارادہ بھی نہیں کیا جاسکتا جو اکیلا، یکتا، متفرد، بے نیاز، بہت بڑا، قابل حمد وثنا اور مالک مجد وجلال ہے۔ الطور
44 اللہ تبارک وتعالی ان آیات میں فرماتا ہے کہ مشرکین جو واضح حق کو جھٹلاتے ہیں انہوں نے حق کے مقابلے میں سرکشی اختیار کی اور باطل پر نہایت سختی سے جم گئے ہیں نیز بیان فرمایا کہ اگر حق کے اثبات کے لیے ہر قسم کی دلیل قائم کردی جائے تو پھر بھی وہ اس کی اتباع نہیں کریں گے بلہ اس کی مخالفت کرتے رہیں گے اور اس سے عناد رکھیں گے ﴿وَاِنْ یَّرَوْا کِسْفًا مِّنَ السَّمَاءِ سَاقِـطًا﴾ یعنی اگر وہ بہت بڑی نشانیوں میں سے آسمان کاٹکڑا عذاب بن کر گرتا دیکھیں گے ﴿ یَّقُوْلُوْا سَحَابٌ مَّرْکُوْمٌ﴾ تو کہیں گے یہ تو عام عادت کے مطابق گہرا بادل ہے یعنی وہ جن آیات الٰہی کا مشاہدہ کریں گے ان کی پروا کریں گے نہ ان سے عبرت حاصل کریں گے عذاب اور سخت سزا کے سوا ان لوگوں کا کوئی علاج نہیں۔ اس لیے فرمایا: ﴿فَذَرْہُمْ حَتّٰی یُلٰقُوْا یَوْمَہُمُ الَّذِیْ فِیْہِ یُصْعَقُوْنَ﴾ ’’پس ان کو چھوڑ دو یہاں تک کہ وہ دن جس میں وہ بے ہوش ہوجائیں گے سامنے آجائے۔‘‘ اس سے مراد قیامت کا دن ہے جس میں ان پر عذاب نازل ہوگا جس کی مقدار کا اندازہ کیا جاسکتا ہے نہ اس کا وصف بیان کیا جاسکتا ہے۔ الطور
45 الطور
46 ﴿یَوْمَ لَا یُغْنِیْ عَنْہُمْ کَیْدُہُمْ شَیْــــًٔا﴾ ’’جس دن ان کی چالیں کم یا زیادہ کچھ کام نہ آئیں گی۔‘‘ اگرچہ دنیا کے اندر انہوں نے سازشیں کیں اور ان کے ذریعے سے قلیل سے زمانے تک زندگی گزاری، قیامت کے دن ان کی سازشوں کا تارو پود بکھر جائے گا ان کی دوڑ دھوپ رائیگاں جائے گی اور وہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچ نہ سکیں گے ﴿ وَلَا هُمْ يُنصَرُونَ ﴾ ’’اور نہ ان کی مدد ہی کی جائے گی۔‘‘ الطور
47 اللہ تبارک وتعالی نے یہ ذکر کرنے کے بعد کہ قیامت کے روز ظالموں کے لیے عذاب ہے آگاہ فرمایا کہ قیامت کے روز عذاب سے پہلے بھی ان کے لیے عذاب ہے اور یہ عذاب قتل کیے جانے قیدی بنائے جانے، اپنے گھروں سے نکالے جانے، قبر اور برزخ کو شامل ہے۔ ﴿وَلٰکِنَّ اَکْثَرَہُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ﴾ ’’لیکن اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔‘‘ یعنی اسی لیے ایسے کاموں پر جمے ہوئے ہیں جو عذاب اور سخت سزا کے موجب ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ نے اہل تکذیب کے اقوال کے بطلان پر دلائل وبراہین بیان کردیے تو اپنے رسول کو حکم دیا کہ وہ ان مشرکین کی کچھ بھی پرواہ نہ کریں اور اپنے رب کے حکم قدری وشرعی کا استقامت کے ساتھ التزام کرتے ہوئے اس پر صبر کریں نیز اللہ تعالیٰ نے آپ کے ساتھ وعدہ فرمایا کہ وہ آپ کے لیے کافی ہے۔ الطور
48 فرمایا ﴿ فَاِنَّکَ بِاَعْیُنِنَا﴾ یعنی آپ ہمارے سامنے ہماری حفاظت میں ہیں اور آپ کا معاملہ ہمارے زیر عنایت ہے اور آپ کو حکم دیا کہ صبر، ذکر الٰہی اور عبادت سے مدد لیں، چنانچہ فرمایا: ﴿ وَسَبِّــحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ حِیْنَ تَـقُوْمُ﴾ ’’اور (اے نبی!) جب آپ کھڑے ہوں تو اپنے رب کی تعریف کے ساتھ تسبیح کیجئے۔‘‘ اس آیت کریمہ میں رات کے قیام کا حکم ہے یا اس سے مراد یہ ہے کہ جب آپ نماز پنجگانہ کے لیے کھڑے ہوں اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے: ﴿ وَمِنَ اللَّيْلِ فَسَبِّحْهُ وَإِدْبَارَ النُّجُومِ ﴾ ’’اور (کچھ حصہ) رات میں بھی پس آپ اس کی تسبیح کیجئے اور ستاروں کے غروب ہونے کے بعد بھی۔‘‘ یعنی رات کے آخری حصے میں اور اس میں فجر کی نماز بھی داخل ہے۔ الطور
49 الطور
0 سورة النجم النجم
1 اللہ تبارک وتعالیٰ ستارے کے ٹوٹنے کی، یعنی رات کے آخری حصے میں جب رات کے جانے اور دن کے آنے کا وقت ہوتا ہے اس وقت افق میں ستارے کے گرنے کی قسم کھاتا ہے کیونکہ اس میں بڑی بڑی نشانیاں ہیں جو اس امر کی موجب ہیں کہ اس کی قسم کھائی جائے اور صحیح معنی یہ ہے کہ ’’النجم‘‘ ستارہ اسم جنس ہے جو تمام ستاروں کو شامل ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو وحی لے کر آئے ہیں، اس کی صحت پر اللہ نے ستاروں کی قسم کھائی ہے کیونکہ وحی الٰہی اور ستاروں کے مابین ایک عجیب مناسبت ہے اللہ نے ستاروں کو آسمان کی زینت بنایا اسی طرح اللہ نے وحی اور اس کے آثار کو زمین کے لیے زینت بنایا پس اگر انبیائے کرام کی طرف سے موروث علم نہ ہوتا تو لوگ گمراہی کے تیرہ وتار اندھیروں میں بھٹک رہے ہوتے جو شب تاریک کے اندھیروں سے بھی گہرے ہوتے ہیں۔ جس امر پر قسم کھائی گئی ہے وہ ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے علم میں ضلالت اور اپنے قصد میں گمراہی سے منزہ اور پاک ہونا اور اس سے یہ لازم آتا ہے کہ آپ اپنے علم میں راست رو، راہ راست کی طرف رہنمائی کرنے والے حسن قصد رکھنے والے اور مخلوق کی خیرخواہی کرنے والے ہیں۔ اس کے برعکس فساد علم اور سوء قصد کاراستہ وہ ہے جس پر گمراہ لوگ گامزن ہیں۔ النجم
2 اور فرمایا ﴿صَاحِبُکُمْ﴾ ’’تمہارا ساتھی۔‘‘ تاکہ اللہ تبارک وتعالیٰ تمہارے ساتھی کے ان اوصاف کی طرف اشارہ کرے جن کا وہ آپ کے اندر موجود ہونے کا اعتراف کرتے ہیں، مثلاً: صدق اور ہدایت، نیز یہ کہ آپ کا معاملہ ان پر مخفی نہیں ہے۔ النجم
3 ﴿وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰی﴾ یعنی آپ کا کلام خواہش نفس سے صادر نہیں ہوتا۔ النجم
4 ﴿اِنْ ہُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰی﴾ یعنی آپ صرف اس چیز کی پیروی کرتے ہیں جو آپ کی طرف وحی کی جاتی ہے، یعنی ہدایت اور اپنے اور دیگر لوگوں کے بارے میں تقویٰ۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ سنت بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بھیجی ہوئی وحی ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَأَنزَلَ اللّٰـهُ عَلَيْكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ ﴾( النساء:4؍ 113)’’اور اللہ تعالیٰ نے آپ پر کتاب اور حکمت نازل کی۔‘‘ نیز یہ اس بات کی بھی دلیل ہے آپ اللہ اور اس کی شریعت کے بارے میں خبر دینے میں معصوم ہیں کیونکہ آپ کا کلام کسی خواہش نفسانی سے صادر نہیں ہوتا یہ تو وحی الٰہی ہے جو آپ کی طرف بھیجی جاتی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معلم کا ذکر فرمایا اور وہ ہیں جبریل علیہ السلام جو مکرم فرشتوں میں سب سے افضل، سب سے قوی اور سب سے کامل ہیں، چنانچہ فرمایا: ﴿ عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوَىٰ ﴾ یعنی جبریل علیہ السلام جو نہایت طاقتور اور ظاہری و باطنی قوٰی کے مالک ہیں، اس وحی کو لے کر رسول مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئے حضرت جبریل علیہ السلام اس حکم کو نافذ کرنے میں جس کو نافذ کرنے کا اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا، بہت طاقتور ہیں اس وحی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچانے، اس کو شیاطین کے اچک لینے سے بچانے اور اس کے اندر ان کی دخل اندازی سے حفاظت کرنے میں یہ قوی ہیں یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنی وحی کی حفاظت ہے کہ اس نے اس وحی کو ایسے پیغامبر فرشتے کے ساتھ بھیجا جو نہایت طاقتور اور امانت دار ہے۔ النجم
5 النجم
6 ﴿ذُوْ مِرَّۃٍ فَاسْتَوٰی﴾ یعنی وہ قوت خلق حسن ظاہری اور باطنی جمال کا حامل ہے پھر وہ اپنی اصلی صورت میں سیدھے کھڑے ہوگئے یعنی جبریل علیہ السلام النجم
7 ﴿وَہُوَ بِالْاُفُقِ الْاَعْلٰی﴾ ’’جبکہ وہ اونچے کنارے پر تھے‘‘ یعنی آسمان کے افق پر جو زمین سے بلند تر ہوتا ہے، اس کا شمار ان ارواح علویہ میں ہوتا ہے جنہیں شیاطین حاصل کرسکتے ہیں نہ ان تک پہنچنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ النجم
8 ﴿ثُمَّ دَنَا ﴾ پھر جبریل علیہ السلام وحی پہنچانے کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہوئے اور اتر آئے۔ افق اعلیٰ سے آپ کے قریب ہوئے ۔﴿ فَتَدَلّٰی﴾اور اترآئے“افق اعلیٰ سے آپ کے قریب النجم
9 ﴿فَکَانَ﴾ ہوگیا جبریل علیہ السلام کا آپ سے قرب ﴿قَابَ قَوْسَیْنِ ﴾ دو کمانوں کے فاصلے پر ﴿ اَوْ اَدْنٰی﴾اور یا دو کمانوں کے فاصلے سے بھی قریب تر۔ یہ اس امر کی دلیل ہے کہ حضرت جبریل علیہ السلام پیغام لے کر کامل طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بالمشافہ ملے۔ نیز اس پر بھی دلیل ہے کہ آپ کے اور جبریل علیہ السلام کے درمیان کوئی واسطہ نہ تھا۔ النجم
10 ﴿فَاَوْحٰٓی ﴾ پس اللہ تعالیٰ نے جبریل علیہ السلام کے توسط سے وحی کی﴿ اِلٰی عَبْدِہٖ ﴾اپنے بندے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف﴿ مَآ اَوْحٰی﴾’’جو وحی کی گئی۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے آپ کی طرف عظیم شریعت اور درست خبریں وحی کیں۔ النجم
11 ﴿مَا کَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰی﴾ ’’اس رسول نے جو کچھ دیکھا اس کے دل نے (اس کے متعلق) جھوٹ نہیں بولا۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے آپ کی طرف جو وحی بھیجی اس پر آپ کا قلب مبارک، آپ کی رؤیت، آپ کی سماعت اور آپ کی بصارت متفق تھے، یہ اس وحی کے کامل ہونے کی دلیل ہے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کی طرف بھیجی، نیز یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وحی کو اس طرح حاصل کیا کہ اس میں کوئی شک شبہ نہ تھا۔ آپ کی آنکھ مبارک نے جو کچھ دیکھا آپ کے قلب مقدس نے اس کو نہیں جھٹلایا اور نہ اس میں کوئی شک ہی کیا۔ اس میں یہ احتمال بھی ہے کہ اس سے مراد وہ بڑی بڑی آیات الٰہی ہوں جو اس رات آپ کو دکھائی گئیں جس رات آپ کو آسمانوں پر لے جایا گیا، آپ کو اپنے قلب مبارک اور رؤیت کے ساتھ اس کے حق ہونے کا یقین تھا آیت کریمہ کی یہی تفسیر صحیح ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس سے مراد معراج کی رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے رب کے دیدار اور اس کے ساتھ ہم کلام ہونا ہے اسے بہت سے علمائے کرام نے اختیار کیا ہے پھر وہ اسی بنیاد پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے دنیا میں دیدار الٰہی کو ثابت کرتے ہیں مگر پہلا قول صحیح ہے کہ اس سے مراد جبریل علیہ السلام ہیں۔ جیسا کہ آیات کریمہ کا سیاق دلالت کرتا ہے نیز یہ اس امر کی بھی دلیل ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبریل علیہ السلام کو اپنی اصلی شکل میں دو مرتبہ دیکھا ایک مرتبہ آسمان دنیا کے نیچے افق اعلیٰ میں، جیسا کہ گزشتہ سطور میں گزر چکا ہے اور دوسری دفعہ ساتویں آسمان کے اوپر جس رات آپ کو سیر کروائی گئی۔ النجم
12 النجم
13 ﴿وَلَقَدْ رَاٰہُ نَزْلَۃً اُخْرٰی﴾ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبریل علیہ السلام کو دوسری دفعہ اپنی طرف اترتے ہوئے دیکھا۔ ﴿ عِندَ سِدْرَةِ الْمُنتَهَىٰ ﴾ ’’سدرۃ المنتہیٰ کے پاس۔‘‘ سدرۃ المنتہیٰ ساتویں آسمان پر بیری کا بہت بڑا درخت ہے اور اسے سدرۃ المنتہیٰ اس لیے کہا جاتا ہے کہ زمین سے جو چیز اوپر کی طرف عروج کرتی ہے اس کے پاس آکر رک جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق سے جو وحی وغیرہ نازل ہوتی ہے یہاں آکر ٹھہر جاتی ہے یا اس بنا پر سدرۃ المنتہیٰ کہا جاتا ہے کہ یہ مخلوقات کے علم کی انتہائی حد ہے، نیز اس نام سے موسوم کیے جانے کی ایک وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ یہ آسمانوں اور زمین کے اوپر واقع ہے اور سدرۃ المنتہیٰ اس کی بلندی کی انتہا ہے اس کے علاوہ بھی کوئی سبب ہوسکتا ہے۔ واللہ اعلم۔ النجم
14 النجم
15 چنانچہ اس مقام پر جو پاک خوبصورت اور بلند مرتبہ ارواح کا مقام ہے جہاں شیطان اور دیگر ارواح خبیثہ نہیں ٹھہر سکتیں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جبریل علیہ السلام کو دیکھا۔ ﴿عِنْدَہَا﴾ یعنی اس درخت کے پاس ﴿جَنَّۃُ الْمَاْوٰی﴾ یعنی وہ جنت میں ہر نعمت جمع ہے یہ ایسا مقام ہے جو منتہائے آرزو ہے جس کی طرف ارادے راغب رہتے ہیں جہاں چاہتیں جا کر ٹھہرتی ہیں اور یہ اس امر کی دلیل ہے کہ جنت بلندترین مقام ہے اور ساتویں آسمان پر واقع ہے۔ النجم
16 ﴿اِذْ یَغْشَی السِّدْرَۃَ مَا یَغْشٰی﴾ ’’اس وقت سدرہ پر چھا رہا تھا جو کچھ چھا رہا تھا۔‘‘ یعنی امر الٰہی سے ایک عظیم چیز نے اسے ڈھانپ رکھا تھا جس کا وصف اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ النجم
17 ﴿مَا زَاغَ الْبَصَرُ﴾ یعنی نگاہ اپنے مقصود سے ہٹ کردائیں بائیں نہیں ہوئی۔ ﴿وَمَا طَغٰی﴾ اور نہ نگاہ نے اپنے مقصود سے تجاوز ہی کیا یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کمال ادب ہے کہ آپ اس مقام پر کھڑے رہے جہاں اللہ نے آپ کو کھڑا کیا، آپ اس مقام سے پیچھے ہٹے نہ اس سے تجاوز کیا اور نہ ادھر ادھر انحراف ہی کیا۔ یہ کامل ترین ادب ہے جس میں آپ اولین وآخرین پر فوقیت لے گئے۔ مندرجہ ذیل امور میں سے ایک پر عمل کرنے سے کمال ادب میں خلل واقع ہوتا ہے: *بندہ ان امور پر قائم نہ رہے جس کا اسے حکم دیا گیا ہے۔ *اس میں کوتاہی کرے۔ *اس میں افراط سے کام لے۔ *اس پر قائم رہتے ہوئے دائیں بائیں التفات کرے۔ مذکورہ تمام امور میں سے ایک بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اندر موجود نہ تھا۔ النجم
18 ﴿لَقَدْ رَاٰی مِنْ اٰیٰتِ رَبِّہِ الْکُبْرٰی﴾ ’’انہوں نے اپنے رب کی کچھ بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں۔‘‘ یعنی جنت، جہنم اور دیگر آیات الٰہی جن کا آپ نے معراج کی رات مشاہدہ کیا۔ النجم
19 اللہ تبارک وتعالی نے اس ہدایت اور دین حق جس کے ساتھ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مبعوث ہوئے تھے نیز عبادت الٰہی اور توحید الٰہی کا ذکر کرنے کے بعد اس مسلک کے بطلان کا ذکر فرمایا جس پر مشرکین گامزن تھے یعنی ایسی ہستیوں کی عبادت جو اوصاف کمال سے محروم ہیں جو کوئی نفع دے سکتی ہیں نہ نقصان۔ یہ معانی سے خالی محض نام ہیں جن کو مشرکین اور ان کے جاہل اور گمراہ آباؤ اجداد نے گھڑ لیا ہے انہوں نے ان کے لیے اسمائے باطلہ ایجاد کیے جن کی وہ مستحق نہ تھیں پس انہوں نے خود اپنے آپ کو اور دیگر گمراہ لوگوں کو فریب میں مبتلا کیا۔ جن معبودوں کا یہ حال ہو وہ عبادت کا ذرہ بھر استحقاق نہیں رکھتے یہ خود ساختہ ہمسر جن کو انہوں نے ان ناموں سے موسوم کیا ہے اور اس زعم باطل میں مبتلا ہیں کہ یہ نام ان اوصاف سے مشتق ہیں جن سے یہ متصف ہیں۔ چنانچہ انہوں نے اللہ کے ناموں اور الحاد اور شرک کی جسارت کرتے ہوئے لات اور الٰہ سے مشتق کرکے موسوم کیا جوعبادت کا مستحق ہے، عزیز سے عزّٰی اور منان سے منات کو مشتق کیا۔ یہ تمام نام معانی سے خالی ہیں، چنانچہ ہر وہ شخص جو ادنیٰ سے عقل سے بہرہ مند ہے وہ ان نام نہاد معبودوں کے اندر ان اوصاف کے بطلان کا علم رکھتا ہے۔ النجم
20 النجم
21 ﴿اَلَکُمُ الذَّکَرُ وَلَہُ الْاُنْثٰی﴾ یعنی کیا تم اللہ کے لیے بزعم خود بیٹیاں قرار دیتے ہو اور اپنے لیے بیٹے؟ النجم
22 ﴿تِلْکَ اِذًا قِسْمَۃٌ ضِیْزٰی﴾ تب تو یہ بہت ہی ظالمانہ تقسیم ہے اس تقسیم سے بڑھ کر کون ساظلم ہوسکتا ہے جو خالق پر بندہ مخلوق کی فضیلت کو مقتضی ہو، اللہ تعالیٰ ان کی باتوں سے بہت بلند ہے۔ النجم
23 ﴿اِنْ ہِیَ اِلَّآ اَسْمَاءٌ سَمَّیْتُمُوْہَآ اَنْتُمْ وَاٰبَا ؤُکُمْ مَّآ اَنْزَلَ اللّٰہُ بِہَا مِنْ سُلْطٰنٍ ﴾ ’’یہ تو صرف چند نام ہی ہیں جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے گھڑ لیے ہیں اللہ نے تو ان کی کوئی سند نہیں اتاری‘‘ یعنی تمہارے مذہب کے صحیح ہونے پر تمہارے پاس کوئی دلیل وبرہان نہیں۔ ہر وہ امر جس پر اللہ نے دلیل نازل نہ کی ہو، باطل اور فاسد ہوتا ہے اسے دین نہیں بنایا جاسکتا۔ درحقیقت وہ کسی دلیل وبرہان کی پیروی نہیں کرتے کہ انہیں اپنے مذہب کے صحیح ہونے کا یقین ہو۔ محض گمان فاسد، جہالت، خواہشات نفس پر مبنی مشرکانہ عقائد اور خواہشات نفس کے موافق بدعات ان کے نظریات کی دلیل ہیں، حالانکہ علم وہدایت کے فقدان کی وجہ سے وہم وگمان کے سوا کوئی ایسا موجب نہیں جو اس کا تقاضا کرتا ہو اس لیے فرمایا: ﴿ وَلَقَدْ جَاءَهُم مِّن رَّبِّهِمُ الْهُدَىٰ ﴾ ’’اور البتہ یقینا ًان کے رب کی طرف سے ان کے پاس ہدایت آچکی ہے‘‘ جو توحید ونبوت اور ان تمام امور میں ان کی رہنمائی کرتی ہے بندے جن کے محتاج ہیں، پس ان تمام امور کو اللہ نے کامل ترین، واضح ترین اور مضبوط ترین دلائل کے ساتھ بیان کیا ہے اس پر دلائل وبراہین قائم کیے ہیں جو ان کے لیے اور دیگر لوگوں کے لیے اتباع کے موجب ہیں اس بیان وبرہان کے بعد کسی کے لیے کوئی حجت اور عذر باقی نہیں رہا۔ النجم
24 جب ان کے مذہب کی غرض وغایت محض ظن وگمان کی پیروی، اس کی انتہا شقاوت ابدی اور عذاب سرمدی ہے تو ان کا اس حال پر باقی رہنا سب سے بڑی سفاہت اور سب سے بڑا ظلم ہے بایں ہمہ وہ اپنی آرزؤوں میں گم اور خود فریبی میں مبتلا ہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس شخص کی بات کا انکار کیا ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ اس کی آرزوئیں پوری ہوں گی حالانکہ وہ اس بارے میں جھوٹا ہے، چنانچہ فرمایا: ﴿اَمْ لِلْاِنْسَانِ مَا تَمَــنّٰی۔ فَلِلّٰہِ الْاٰخِرَۃُ وَالْاُوْلٰی﴾ ’’کیا انسان جس چیز کی آرزو کرتا ہے وہ اسے ضرور ملتی ہے؟ چنانچہ آخرت اور دنیا تو اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔‘‘ پس وہ جس کو چاہتا ہے عطا کرتا ہے اور جس کو چاہتا ہے محروم کردیتا ہے لہذا امر الٰہی ان کی آرزوؤں کے تابع ہے نہ ان کی خواہشات کے موافق۔ النجم
25 النجم
26 جو لوگ فرشتوں اور دیگر ہستیوں کی عبادت کرتے ہیں اور اس زعم میں مبتلا ہیں کہ یہ ہستیاں قیامت کے روز ان کی شفاعت کریں گی اللہ ان پر نکیر کرتے ہوئے فرماتا ہے: ﴿وَکَمْ مِّنْ مَّلَکٍ فِی السَّمٰوٰتِ﴾ یعنی آسمانوں میں کتنے ہی اللہ تعالیٰ کے مقرب اور مکرم فرشتے ہیں ﴿ لَا تُغْـنِیْ شَفَاعَتُہُمْ شَـیْــــًٔا﴾ ’’جن کی شفاعت کچھ کام نہ آئے گی‘‘ یعنی جو کوئی اس شفاعت کا دعویٰ کرتا ہے اور اس سے امید وابستہ کرتا ہے یہ شفاعت اس کے کسی کام نہیں آئے گی:﴿اِلَّا مِنْ بَعْدِ اَنْ یَّاْذَنَ اللّٰہُ لِمَنْ یَّشَاءُ وَیَرْضٰی﴾ ’’مگر بعدازاں کہ اللہ اجازت دے جس کے لیے چاہے اور پسند کرے۔‘‘ شفاعت کے لیے دو شرائط کا مجتمع ہونا ضروری ہے: 1۔ شفاعت کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی اجازت کا ہونا۔ 2۔ جس کی شفاعت کی جارہی ہو اس کے حق میں اللہ کی رضامندی کا ہونا۔ یہ امر متحقق ہے کہ اللہ تعالیٰ صرف وہی عمل قبول کرتا ہے جو خالص اللہ کی رضا کے لیے اور صاحب شریعت کے طریقے کے موافق ہو چنانچہ مشرکین شفاعت کرنے والوں کی شفاعت سے بہرہ مند نہیں ہوسکیں گے کیونکہ انہوں نے خود ہی اپنے اوپر سب سے رحیم ہستی کی رحمت کے دروازے بند کرلیے ہیں۔ النجم
27 اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنے والے، انبیا ومرسلین کو جھٹلانے والے جو اللہ پر عدم ایمان کے سبب سے آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ایسے اقوال وافعال کی جسارت کرتے ہیں جو اللہ اور اس کے رسول کی دشمنی پر مبنی ہیں مثلاً وہ کہتے ہیں: فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں۔ پس انہوں نے اللہ کو ولادت سے منزہ قرار دیا نہ انہوں نے فرشتوں کا اکرام کیا اور نہ انہوں نے ان کو مؤنث سے بالاتر سمجھا۔ حالانکہ انہیں اس بارے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے علم حاصل ہے نہ اس کے رسول کی طرف سے اور نہ عقل اور فطرت ہی اس پر دلالت کرتی ہیں۔ بلکہ علم تو ان کے قول کے تناقض پر دلالت کرتا ہے، نیز اس حقیقت پر دلالت کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اولاد اور بیوی سے منزہ ہے کیونکہ وہ اکیلا اور یکتا، متفرد اور بے نیاز ہے اس نے کسی کو جنم دیا ہے نہ وہ جنم دیا گیا ہے اور نہ کوئی اس کا ہم سر ہی ہے۔ فرشتے اللہ تعالیٰ کے مقرب اور مکرم بندے ہیں جو اس کی خدمت پر قائم ہیں ﴿ لَّا يَعْصُونَ اللّٰـهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ ﴾ (التحریم :66؍6)’’اللہ ان کو جو حکم دیتا ہے وہ اس کی نافرمانی نہیں کرتے اور وہی کچھ کرتے ہیں جس کا انہیں حکم دیا جاتا ہے۔‘‘ مشرکین اس بارے میں بدترین قول کی پیروی کررہے ہیں اور وہ ہے محض ظن وگمان جو حق کے مقابلے میں کوئی فائدہ نہیں دیتا کیونکہ حق کے لیے ایسے یقین کا وجود ضروری ہے جو نہایت روشن دلائل وبراہین سے مستفاد ہو چونکہ ان مشرکین کی عادت یہ ہے کہ انہیں اتباع حق سے کوئی غرض نہیں ان کی غرض وغایت اور ان کا مقصد تو خواہشات نفس کی پیروی ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو حکم دیا کہ وہ اس شخص سے منہ موڑ لیں جو اللہ کے ذکر جو کہ حکمت سے لبریز ہے اور قرآن عظیم سے اعراض کرتا ہے۔ پس اس نے گویا علوم نافعہ سے منہ موڑا وہ دنیا کی زندگی کے سوا کچھ نہیں چاہتا۔ پس یہ اس کے ارادے کی انتہا ہے یہ چیز معلوم اور متحقق ہے کہ بندہ صرف اسی چیز کے لیے عمل کرتا ہے جس کا وہ ارادہ کرتا ہے پس ان لوگوں کی کوشش اور دوڑ دھوپ دنیا اور اس کی لذت وشہوات تک محدود ہے یہ لذات اور شہوات جیسے بھی حاصل ہوتی ہیں یہ انہیں حاصل کرتے ہیں اور جس راستے سے بھی ان کا حصول آسان ہو یہ اس کی طرف لپکتے ہیں۔ النجم
28 النجم
29 النجم
30 ﴿ذٰلِکَ مَبْلَغُہُمْ مِّنَ الْعِلْمِ ﴾ ان کے علم کی یہی غایت اور انتہا ہے۔ رہے آخرت پر ایمان رکھنے اور اس کی تصدیق کرنے والے عقل مند اور خرد مند لوگ تو ان کی ہمت اور ارادہ آخرت پر مرتکز رہتا ہے۔ ان کے علوم سب سے افضل اور سب سے جلیل القدر علوم ہیں یہ علوم کتاب اللہ اور سنت رسول سے ماخوذ ہیں اللہ بہتر جانتا ہے کہ کون ہدایت کا مستحق ہے پس وہ اسے ہدایت سے نواز دیتا ہے اور کون ہدایت کا مستحق نہیں ہے اسے اس کے نفس کے حوالے کردیتا ہے اور اس سے الگ ہوجاتا ہے پس وہ اللہ کی راہ سے بھٹک جاتا ہے۔ بنا بریں فرمایا: ﴿اِنَّ رَبَّکَ ہُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِیْلِہٖ وَہُوَ اَعْلَمُ بِمَنِ اہْتَدٰی﴾ ’’بے شک آپ کا رب اس شخص کو خوب جانتا ہے جو اس کے راستے سے بھٹک گیا اور وہی اس شخص سے بھی خوب واقف ہے جو اس کے راستے پر چلا۔‘‘ چنانچہ وہ اپنے فضل وکرم کو اس محل ومقام پر رکھتا ہے جو اس کے لائق ہے۔ النجم
31 اللہ تبارک وتعالی آگاہ فرماتا ہے کہ وہ اقتدار کا مالک ہے دنیا وآخرت اسی اکیلے کی ملکیت ہے دنیا وآخرت میں جو کچھ ہے وہ صرف اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہے وہ ان میں اس طرح تصرف کرتا ہے جیسے عظیم بادشاہ اپنے غلاموں میں تصرف کرتا ہے وہ ان پر اپنی قضا وقدر نافذ کرتا ہے ان پر شرعی احکام جاری کرتا ہے انہیں حکم دیتا ہے انہیں منع کرتا ہے اپنے اوامر ونواہی پر انہیں جزا وسزا دیتا ہے پس اطاعت گزار کو ثواب عطا کرتا ہے اور نافرمان کو عذاب دیتا ہے۔ ﴿ لِیَجْزِیَ الَّذِیْنَ اَسَاءُوْا بِمَا عَمِلُوْا﴾ تاکہ وہ لوگ جنہوں نے کفر اور اس سے کم تر گناہوں اور اعمال شر کا ارتکاب کیا انہیں جزا کے طور پر بدترین سزا دے۔ ﴿ وَیَجْزِیَ الَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا بِالْحُسْنٰی﴾ اور ان کو جزا سے سرفراز فرمائے جنہوں نے اللہ کی عبادت میں احسان سے کام لیا اور اللہ کی مخلوق کو مختلف فوائد پہنچا کر اس کے ساتھ اچھا سلوک کیا۔ ﴿ بِالْحُسْنٰی ﴾’’اچھائی کے ساتھ‘‘ یعنی ان کو دنیا وآخرت میں اچھی جزا سے سرفراز فرمائے۔ سب سے بڑی اور سب سے جلیل القدر ان کے رب کی رضا جنت اور اس کی نعمتوں سے فوزیابی ہے۔ النجم
32 پھر اللہ تبارک وتعالی نے ان محسنین کا وصف بیان کرتے ہوئے فرمایا: ﴿اَلَّذِیْنَ یَجْتَنِبُوْنَ کَبٰیِٕرَ الْاِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ﴾’’جو لوگ کبیرہ گناہوں اور بے حیائی کے کاموں سے بچتے ہیں‘‘ یعنی ان واجبات پر عمل کرتے ہیں جن کا اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم دیا ہے جن کا ترک کرنا کبائر میں شمار ہوتا ہے اور وہ بڑے بڑے محرمات کو ترک کرتے ہیں۔ مثلاً: زنا، شراب نوشی، سودخوری، قتل ناحق، اور دیگر بڑے بڑے گناہ۔ ﴿اِلَّا اللَّمَمَ﴾ ’’الّا یہ کہ کوئی صغیرہ گناہ (سرزد) ہو۔‘‘ اس سے مراد ایسے چھوٹے چھوٹے گناہ ہیں جن پر بندہ مصر نہیں ہوتا یا بار بار ان گناہوں کا ارتکاب نہیں کرتا۔ ان صغیرہ گناہوں کا مجرد اور ارتکاب بندے کو محسنین کے زمرے سے نہیں نکالتا۔ یہ چھوٹے چھوٹے گناہ واجبات پر عمل کرنے اور محرمات کو چھوڑنے سے اللہ کی مغفرت کے تحت داخل ہوجاتے ہیں جو ہر چیز پر سایہ کناں ہے۔ اس لیے فرمایا: ﴿اِنَّ رَبَّکَ وَاسِعُ الْمَغْفِرَۃِ ﴾ ’’بے شک آپ کارب بڑی وسیع مغفرت والا ہے‘‘ پس اگر اللہ تعالیٰ کی مغفرت نہ ہوتی تو تمام شہر اور بندے تباہ ہوجاتے، اگر اس کا عفو وحلم نہ ہوتا تو آسمان زمین پر آ گرتا اور روئے زمین پر کسی جان دار کو نہ چھوڑتا۔ بنابریں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’پانچوں نمازیں جمعہ سے جمعہ تک اور رمضان سے رمضان تک ان کے درمیان ہونے والے تمام صغیرہ گناہوں کا کفارہ ہیں، اگر کبائر سے اجتناب کیا جائے۔‘‘ [صحيح مسلم، الطهارة، باب الصلوات الخمس والجمعة إلي الجمعة......، حديث: 233] ﴿ہُوَ اَعْلَمُ بِکُمْ اِذْ اَنْشَاَکُمْ مِّنَ الْاَرْضِ وَاِذْ اَنْتُمْ اَجِنَّۃٌ فِیْ بُطُوْنِ اُمَّہٰتِکُمْ ﴾ ’’وہ تمہیں اس وقت سے بخوبی جانتا ہے جب اس نے تمہیں زمین سے پیدا کیا اور جب تم اپنے ماؤں کے پیٹوں میں بچے تھے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ تمہارے احوال سے اور تمہاری جبلتوں کو، جو اس نے پیدا کی ہیں، خوب جانتا ہے۔ اللہ نے تمہیں جو حکم دیا ہے ان میں سے بہت سے احکام کی تعمیل تمہاری کمزوری اور سستی کو، محرمات کے ارتکاب پر آمادہ کرنے والے دواعی کی کثرت کو، ان محرمات کی طرف راغب کرنے والے جذبات کو اور محرمات کے ارتکاب کی راہ میں حائل ہونے والے موانع کے عدم وجود کو زیادہ جانتا ہے۔ تمہارے اندر کمزوری موجود ہے جس کا مشاہدہ اس وقت ہوا جب اللہ نے تمہیں زمین سے نکالا اور جب تم اپنی ماؤں کے پیٹوں میں تھے اور یہ کمزوری تمہارے اندر ہمیشہ موجود رہی۔ اللہ نے تمہیں ایک چیز کا حکم دیا اگرچہ اس کی تعمیل کے لیے اس نے تمہارے اندر قوت رکھی مگر پھر بھی کمزوری تمہارے اندر ہی موجود رہی۔ پس اس بناء پر اللہ تمہارے ان احوال کا علم رکھتا ہے۔ حکمت الٰہی اور جود ربانی کے لیے مناسب یہی ہے کہ وہ اپنی رحمت ومغفرت اپنے عفو و درگزر اور اپنے احسان سے ڈھانپ لے اور تم سے تمام جرائم اور گناہوں کو دور کردے خاص طور پر جب کہ ہر وقت بندے کا مقصد اپنے رب کی رضا کا حصول ہو ہر آن ایسے اعمال کی کوشش کرنا جو اس کے قریب کرتے ہیں اور ایسے گناہوں سے فرار ہونا جو اس کے آقا کی ناراضی کا باعث بنتے ہیں پھر اس سے لغزش صادر ہوجائے تو بلا شبہ اللہ تعالیٰ سب سے بڑا کریم اور سب سے بڑا جواد ہے وہ اپنے بندوں پر اس سے زیادہ رحیم ہے جتنی ماں اپنے بچے پر ہوتی ہے۔ پس اس قسم کے شخص کے لیے ضروری ہے وہ اپنے رب کی مغفرت کے قریب رہے اور یہ کہ اللہ تعالیٰ اس کے تمام احوال میں اس کی دعائیں قبول کرے۔ بنا بریں فرمایا: ﴿ فَلَا تُزَکُّوْٓا اَنْفُسَکُمْ ﴾ ’’لہٰذا تم اپنے آپ کی پاکیزگی بیان نہ کرو۔‘‘ یعنی مدح کے حصول کی خواہش کی بنا پر لوگوں کو اپنے نفس کی طہارت کی خبر نہ دیتے پھرو۔ ﴿ہُوَ اَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقٰی﴾ ’’وہ اسے بھی خوب جانتا ہے جس نے تقویٰ اختیار کیا۔‘‘ تقوے کا مقام دل ہے، اللہ تعالیٰ اس سے مطلع ہے۔ دل کے اندر جو نیکی بدی یا تقویٰ موجود ہے اللہ تعالیٰ اس کی جزا دے گا رہے لوگ تو وہ اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں تمہارے کسی کام نہیں آسکتے۔ النجم
33 اللہ تبارک وتعالی فرماتا ہے ﴿اَفَرَءَیْتَ﴾ کیا آپ نے اس شخص کا حال دیکھا ہے جسے اپنے رب کی عبادت اور توحید کا حکم دیا گیا تھا مگر اس نے اس سے منہ موڑا اور اعراض کیا اگر اس کا نفس قلیل سے عمل پر آمادہ ہوا بھی تو اس پر قائم نہ رہا بلکہ اس نے بخل سے کام لیا اور اپنے ہاتھ کو روک لیا کیونکہ احسان اس کی عادت اور فطرت نہیں۔ اس کی فطرت تو اللہ کی اطاعت سے روگردانی اور نیکی پر عدم ثبات ہے۔ بایں ہمہ وہ اپنے نفس کو پاک گردانتا ہے اور اسے وہ منزلت عطا کرتا ہے جو اللہ نے عطا نہیں کی۔ النجم
34 النجم
35 ﴿اَعِنْدَہٗ عِلْمُ الْغَیْبِ فَہُوَ یَرٰی﴾ ’’کیا اس کے پاس علم غیب ہے کہ وہ دیکھ رہا ہے غیب کو‘‘ اور اس کے بارے میں خبر دیتا ہے؟ یا وہ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ گھڑتا ہے یا وہ دونوں باتوں کو جمع کرنے کی جسارت کرتا ہے، یعنی برائی اور طہارت نفس کے دعوے کو۔ اور فی الواقع ایسا ہی ہے کیونکہ اسے علم ہے کہ اس کے پاس غیب کا کچھ بھی علم نہیں اور اگر یہ فرض کرلیاجائے کہ اسے غیب دانی کا دعویٰ ہے تو علم غیب کے متعلق قطعی اور یقینی خبریں جو نبی معصوم کی طرف سے دی گئی ہی اس کے قول کے تناقض پر دلالت کرتی ہیں اور یہ اس کے قول کے بطلان کی دلیل ہے۔ النجم
36 ﴿اَمْ لَمْ یُنَبَّاْ﴾ کیا اس مدعی کو وہ خبریں نہیں پہنچیں ﴿بِمَا فِیْ صُحُفِ مُوْسٰی۔ وَاِبْرٰہِیْمَ الَّذِیْ وَفّیٰٓ﴾ ’’جو موسیٰ اور وفادار ابراہیم (علیہما السلام) کے صحیفوں میں ہیں؟‘‘ یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام ان تمام آزمائشوں میں پورے اترے جن میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو آزمایا اور جن احکام شریعت اور دین کے جن اصول وفروع کا آپ کو حکم دیا، آپ نے اس کی تعمیل کی۔ النجم
37 النجم
38 ان صحیفوں میں بہت سے احکام درج تھے جن میں سے سب سے اہم وہ ہیں جن کا اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں ذکر فرمایا: ﴿اَلَّا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰی۔ وَاَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰی﴾ یعنی ہر عمل کرنے والے کا اچھا برا عمل اسی کے لیے ہے۔ کسی دوسرے کے عمل اور کوشش میں سے اس کے لیے کچھ بھی نہیں اور نہ کوئی کسی اور کے گناہ کا بوجھ اٹھائےگا۔ ﴿وَ اَنَّ سَعْيَهُ سَوْفَ يُرٰي﴾یعنی آخرت میں اسے اس کی کوشش دکھائی جائے گی اور وہ اپنی نیکی اور برائی میں تمیز کر سکے گا۔ ﴿ثُمَّ يُجْزَاهُ الْجَزَاءَ الْأَوْفَ﴾’’پھر اسے پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔‘‘ یعنی تمام اعمال کی کامل جزا۔ خالص نیک عمل کے لیے اچھی جزا ہو گی، خالص برے عمل کے لیے بری جزا ہو گی اور ملے جلے اعمال کی جزا ان کےمطابق ہو گی۔ یہ ایسی جزا ہو گی کہ تمام مخلوق اس کے عدل و احسان کا اقرار اور اس پر اس کی حمد و ثنابیان کرے گی حتیٰ کہ جہنمی جہنم میں داخل ہو رہے ہوں گے مگر ان کے دل اپنے رب کی حمد و ثنا، اس کی کامل حکمت کے اقرار اور اپنے آپ پر سخت ناراضی سے لبریز ہوں گے، نیز وہ اس بات پر ناراض ہوں گے کہ انھوں نے اپنے آپ کو بدترین جگہ پر وارد کیا۔ النجم
39 ﴿وَاَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰی﴾ اللہ تبارک وتعالی کے اس ارشاد سے استدلال کیا گیا ہے کسی شخص کا زندوں اور مردوں کے لیے ہدیہ کرنا، ان کے لیے کوئی مفید نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَاَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰی﴾ ’’اور انسان کے لیے وہی کچھ ہے جس کی اس نے سعی کی۔‘‘ چنانچہ کسی شخص کی سعی اور اس کے عمل کا کسی اور کو پہنچنا اس آیت کے منافی ہے۔ مگر یہ استدلال محل نظر ہے، کیونکہ آیت کریمہ تو صرف یہ دلالت کرتی ہے کہ انسان کے لیے صرف وہی ہے جس کے لیے اس نے خود کوشش کی اور یہ حق ہے۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں مگر اس میں کوئی ایسی چیز نہیں جو اس بات پر بھی دلالت کرتی ہو کہ وہ غیر کی سعی سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔ جب کہ غیر نے اپنی سعی اور عمل کو اسے ہدیہ کے طور پر پیش کیا ہوجیسے انسان صرف اسی مال کا مالک ہے جو اس کی ملکیت اور اس کے قبضہ میں ہو مگر اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ کسی ایسی چیز کا مالک نہیں ہوسکتا جو غیر نے اپنے مال میں سے جس کا وہ مالک ہے اسے ہبہ کی ہو۔ النجم
40 النجم
41 النجم
42 ﴿وَاَنَّ اِلٰی رَبِّکَ الْمُنْتَہٰی﴾ یعنی تمام معاملات کو تیرے رب کے پاس پہنچنا ہے۔ تمام اشیا اور تمام مخلوقات دوبارہ زندہ ہو کر اس کی طرف لوٹیں گی۔ ہر حال میں منتہیٰ اللہ کی طرف ہے۔ علم کی انتہا پر اللہ تعالیٰ کے حکم، رحمت اور تمام کمالات کی انتہا اللہ تعالیٰ ہے۔ النجم
43 ﴿وَاَنَّہٗ ہُوَ اَضْحَکَ وَاَبْکٰی﴾ یعنی وہی ہے جو ہنسنے اور رونے کے اسباب وجود میں لاتا ہے، یہ اسباب خیر، شر، فرحت، مسرت اور حزن وغم پر مشتمل ہیں اور ہنسانے اور رلانے کے اندر اللہ تعالیٰ کی حکمت بالغہ پوشیدہ ہے۔ النجم
44 ﴿وَاَنَّہٗ ہُوَ اَمَاتَ وَاَحْیَا﴾ یعنی وجود میں لانے اور معدوم کرنے میں متفرد اور یکتا ہے جس نے مخلوق کو وجود بخشا ان کو اوامر ونواہی عطا کیے وہی ان کو ان کے مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کرے گا اور دنیا کے اندر انہوں نے جو عمل کیے ہوں گے وہ انہیں ان اعمال کی جزا دے گا۔ النجم
45 ﴿وَاَنَّہٗ خَلَقَ الزَّوْجَیْنِ﴾ ’’اور بلاشبہ اسی نے جوڑے بنائے۔‘‘ پھر ان جوڑوں کی تفسیر بیان فرمائی۔ ﴿ الذَّکَرَ وَالْاُنْثٰی﴾ ’’نر اور مادہ۔‘‘ یہ اسم جنس ہے جو تمام حیوانات، ناطق اور غیر ناطق جانوروں سب کو شامل ہے، وہ ان کو پیدا کرنے میں منفرد ہے۔ النجم
46 ﴿مِنْ نُّطْفَۃٍ اِذَا تُمْنٰی﴾ ’’نطفے سے جبکہ وہ (رحم میں) ڈالا جاتا ہے۔‘‘ یہ اس کی قدرت کاملہ اور اس کے عظیم غلبہ میں متفرد ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ اس نے تمام چھوٹے بڑے حیوانات کو حقیر پانی کے نہایت کمزور قطرے سے وجود بخشا، پھر ان کو نشوونما دے کر مکمل کیا، حتیٰ کہ وہ اس مقام پر پہنچے جہاں پہنچے ہوئے ہیں۔ ان حیوانات میں سے آدمی یا تو بلند ترین مقام پر اعلیٰ علیین میں پہنچ جاتا ہے یا وہ ادنیٰ ترین احوال، پست ترین مقامات کی طرف لوٹ جاتا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ابتدائے وجود کے ذریعے اعادہ وجود پر استدلال کیا ہے۔ چنانچہ فرمایا: ﴿ وَأَنَّ عَلَيْهِ النَّشْأَةَ الْأُخْرَىٰ ﴾ ’’اور بلاشبہ اسی کے ذمے دوبارہ پیدا کرنا ہے۔‘‘ پس اللہ تعالیٰ بندوں کو ان کی قبروں میں سے دوبارہ زندہ کرے گا، ان کو یوم موعود میں اکٹھا کرے گا اور ان کو نیکوں اور برائیوں کی جزا دے گا۔ النجم
47 النجم
48 ﴿وَاَنَّہٗ ہُوَ اَغْنٰی وَاَقْنٰی﴾ ’’اور بے شک وہی غنی کرتا ہے اور وہی دولت دیتا ہے۔‘‘ وہ بندوں کو ان کے معاشی معاملات، یعنی تجارت اور صنعت وحرفت کے مختلف پیشوں میں آسانی پیدا کرکے مال دار بناتا ہے۔ ﴿ وَاَقْنٰی ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ بندوں کو مال کی تمام انواع عطا کرتا ہے جس سے وہ مال دار بن کر بہت سے اموال کے مالک بن جاتے ہیں۔ یہ اللہ کی نعمت ہے کہ اس نے بندوں کو آگاہ فرمایا کہ تمام نعمتیں اسی کی طرف سے ہیں اور یہ چیز بندوں پر واجب ٹھہراتی ہے کہ وہ اس کا شکر ادا کریں اور اسی اکیلے کی عبادت کریں جس کا کوئی شریک نہیں۔ النجم
49 ﴿وَاَنَّہٗ ہُوَ رَبُّ الشِّعْرٰی﴾’’اور یقیناً وہی شعرٰی (ستارے) کا رب ہے۔‘‘ اور وہ مشہور ستارہ ’’شعرٰی عبود‘‘ ہے جو ’’مرزم‘‘ کے نام سے موسوم ہے اگرچہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا رب ہے تاہم شعرٰی کا ذکر خاص طور پر اس لیے کیا کہ کیونکہ جاہلیت کے زمانہ میں اس کی عبادت کی جاتی تھی۔ پس اللہ تبارک و تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ وہ اشیا جن کی مشرکین عبادت کرتے ہیں مربوب، مدبر اور مخلوق ہیں اس لیے اللہ تعالیٰ کے ساتھ ان کو کیسے معبود قرار دیا جاسکتا ہے۔ النجم
50 ﴿وَاَنَّہٗٓ اَہْلَکَ عَادَا الْاُوْلٰی﴾ ’’اور بلاشبہ اسی نے عاد اولیٰ کو ہلاک کیا۔‘‘ اس سے مراد حضرت ہود علیہ السلام کی قوم ہے جب انہوں نے حضرت ہودعلیہ السلام کی تکذیب کی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں سخت ترین اور سرکش طوفان کے ذریعے سے ہلاک کرڈالا۔ النجم
51 ﴿وَثَمُوْدَا﴾ ’’اور ثمود کو (ہلاک کیا)۔‘‘ یہ حضرت صالح علیہ السلام کی قوم تھی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت صالح علیہ السلام کو ثمود کی طرف مبعوث کیا مگر انہوں نے آپ کو جھٹلایا۔ اللہ نے معجزے کے طور پر ان کی طرف اونٹنی بھیجی مگر انہوں نے اس کو ہلاک کرڈالا اور حضرت صالح علیہ السلام کو جھٹلایا پس اس کی پاداش میں اللہ نے ان کو تباہ و برباد کردیا۔ ﴿ فَمَا أَبْقَىٰ ﴾ اور ان میں سے ایک کو بھی باقی نہ رکھا بلکہ ان کے آخری آدمی تک کو ہلاک کردیا۔ النجم
52 ﴿وَقَوْمَ نُوْحٍ مِّنْ قَبْلُ اِنَّہُمْ کَانُوْا ہُمْ اَظْلَمَ وَاَطْغٰی﴾ ’’اور ان سے پہلے قوم نوح کو بھی، کچھ شک نہیں کہ وہ لوگ نہایت ظالم اور بڑے ہی سرکش تھے۔‘‘ حضرت نوح علیہ السلام کی قوم ان قوموں سے زیادہ ظالم اور سرکش تھی پس اللہ نے ان کو غرق کر کے ہلاک کر ڈالا۔ النجم
53 ﴿وَالْمُؤْتَفِکَۃَ﴾ ’’اور الٹی ہوئی بستی کو (بھی)۔‘‘ اس سے مراد اس میں آباد حضرت لوط علیہ السلام کی قوم ہے ﴿ أَهْوَىٰ ﴾’’اس نے دے ٹپکا۔‘‘ یعنی ان پر اللہ تعالیٰ نے ایسا عذاب بھیجا جو دنیا میں کسی پر نہیں بھیجا، اللہ نے ان کی بستیوں کو تلپٹ کردیا اور ان پر کھنگر کے پتھروں کی بارش برسائی۔ النجم
54 بنا بریں فرمایا: ﴿فَغَشّٰـیہَا مَا غَشّٰی﴾ ان پر انتہائی دردناک اور بدترین عذاب چھا گیا، یعنی عذاب ایک بڑی چیز تھی جس کا وصف بیان کرنا ممکن نہیں۔ النجم
55 ﴿فَبِاَیِّ اٰلَاءِ رَبِّکَ تَتَـمَارٰی﴾ پھر اے انسان تو اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں میں شک کرے گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی نعمتیں بالکل ظاہر ہیں جو کسی بھی لحاظ سے شک کے قابل نہیں پس بندوں کو جو بھی نعمت عطا ہوئی وہ صرف اللہ ہی کی طرف سے عطا کردہ ہے اس کے سوا کوئی مصائب کو دور نہیں کرسکتا۔ النجم
56 ﴿ھٰذَا نَذِیْرٌ مِّنَ النُّذُرِ الْاُوْلٰی﴾ یہ (رسول) تو پہلے ڈرانے والوں میں سے ایک ڈرانے والا ہے۔ یعنی یہ قریشی، ہاشمی رسول محمد بن عبداللہ کوئی انوکھے رسول نہیں ہیں بلککہ آپ سے پہلے بھی رسول گزرے ہیں جنہوں نے اسی چیز کی طرف دعوت دی تھی جس کی طرف آپ نے دعوت دی ہے تب آپ کی رسالت کا کس وجہ سے انکار کیا جاسکتا ہے اور کون سی دلیل ہے جس کی بنیاد پر آپ کی رسالت کو باطل ٹھہرایا جاسکتا ہے ؟ کیا آپ کے اخلاق تمام انبیائ ومرسلین کرام کے اخلاق سے اعلی وارفع نہیں ہیں؟ کیا آپ ہر بھلائی کی طرف دعوت نہیں دیتے اور ہر برائی سے نہیں روکتے؟ کیا آپ قرآن کریم لے کر تشریف نہیں لائے جس کے آگے سے باطل آسکتا ہے نہ پیچھے سے، جو حکمت والی قابل حمد وستائش ہستی کی طرف سے اتارا ہوا ہے ؟ آپ سے پہلے جن لوگوں نے انبیائے کرام کو جھٹلایا اللہ نے ان کو ہلاک نہیں کیا۔ تب سیدالمرسلین امام المتقین اور قائد الغر المحجلین حضرت محمد کی تکذیب کرنے والوں پر عذاب نازل ہونے سے کیا چیز مانع ہے؟ النجم
57 ﴿اَزِفَتِ الْاٰزِفَۃُ﴾ یعنی قیامت قریب آگئی ہے اس کا وقت آن پہنچا ہے اور اس کی علامات واضح ہوگئیں۔ النجم
58 ﴿لَیْسَ لَہَا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ کَاشِفَۃٌ﴾ یعنی جب قیامت آجائے گی اور ان پر عذاب موعود ٹوٹ پڑے گا تو اسے اللہ کے سوا کوئی دور نہیں کرسکے گا۔ النجم
59 پھر اللہ تبارک وتعالی نے حضر محمد کریم کی نبوت کا انکار کرنے والوں اور قرآن کو جھٹلانے والوں کو وعید سنائی چنانچہ فرمایا ﴿اَفَمِنْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ تَعْجَبُوْنَ﴾ یعنی کیا تم اس کلام پر جو بہترین اور افضل واشرف کلام ہے تعجب کرتے ہو اور اسے امور عادیہ اور حقائق معروفہ کے خلاف قرار دیتے ہو؟ یہ ان کی جہالت، گمراہی اور عناد ہے ورنہ یہ تو ایسا کلام ہے کہ جب وہ بیان کیا جاتا ہے تو سراسر صدق ہے جب وہ بات کہتا ہے تو وہ حق کو باطل سے جدا کرنے والا قول ہے۔ بے ہودہ بات نہیں ہے یہ قرآن عظیم ہے جسے اگر پہاڑ پر اتارا جاتا تو آپ دیکھتے کہ وہ خوف اور ڈر سے ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتا۔ جو اصلاح کی طلب رکھنے والوں کی رائے، عقل، راست بازی، ثابت قدمی اور ایمان وایقان میں اضافہ کرتا ہے یہ کوئی تعجب کی بات نہیں بلکہ تعجب تو اس شخص کی عقل، سفاہت اور گمراہی پر ہونا چاہیے جو اس قرآن پر تعجب کرتا ہے۔ النجم
60 ﴿وَتَضْحَکُوْنَ وَلَا تَبْکُوْنَ﴾ ’’اور تم ہنستے ہو اور روتے نہیں۔‘‘ یعنی تم اس کی تضحیک کرنے اور تمسخر اڑانے میں جلدی کررہے ہو، حالانکہ چاہیے تو یہ تھا کہ اس کے اوامر ونواہی کو سن کر اس کے وعدہ وعید پر توجہ دے کر اور اس کی سچی اور اچھی خبروں کی طرف التفات کرکے نفوس اس سے متاثر ہوتے، دل نرم پڑتے اور آنکھیں روپڑتیں۔ النجم
61 ﴿وَاَنْتُمْ سٰمِدُوْنَ﴾ ’’اور تم غفلت میں پڑ رہے ہو۔‘‘ یعنی تم اس سے اور اس پر تدبر کرنے سے غافل ہو یہ غفلت تمہاری قلت عقل اور تمہارے دین کی کھوٹ پر دلالت کرتی ہے اگر تم نے اللہ کی عبادت کی ہوتی اور اپنے تمام احوال میں اس کی رضا کے طلب گار رہے ہوتے تو تمہیں یہ بدلہ نہ ملتا جسے عقل مند لوگ ناپسند کرتے ہیں۔ النجم
62 ﴿فَاسْجُدُوْا لِلّٰہِ وَاعْبُدُوْا﴾’’اب تم اللہ کے حضور سجدہ کرو اور اسی کی عبادت کرو۔‘‘ اللہ تعالیٰ کے لیے خاص طور پر سجدے کا حکم دینا اس کی فضیلت پر دلالت کرتا ہے نیز یہ کہ سجدہ عبادت کا سرنہاں اور اس کالب لباب ہے اس کی روح خشوع وخضوع ہے۔ حالت سجدہ بندے کا وہ عظیم ترین حال ہے جس میں بندے پر خضوع طاری ہوتا ہے، بندے کا قلب وبدن دونوں خضوع کی حالت میں ہوتے ہیں، بندہ اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنا بلند ترین عضو اس حقیر زمین پر رکھ دیتا ہے جو قدموں کے روندنے کا مقام ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے عمومی طور پر عبادت کا حکم دیا جو ان تمام اعمال اور اقوال ظاہرہ وباطنہ کو شامل ہے جن کو اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے اور ان سے راضی ہوتا ہے۔ النجم
0 سورةالقمر القمر
1 اللہ تبارک وتعالی آگاہ فرماتا ہے کہ وہ گھڑی یعنی قیامت قریب آگئی ہے اس کی آمد کا وقت ہو گیا، بایں ہمہ اس کو جھٹلانے والے جھٹلاتے چلے جارہے ہیں اور اس کے نزول کے لیے تیار نہیں۔ اللہ ان کو بڑی بڑی نشانیاں دکھاتا ہے جو اس کے وقوع پر دلالت کرتی ہیں ان جیسی نشانیاں لانا انسان کے بس میں نہیں۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ لے کر مبعوث ہوئے ہیں، اس کی صداقت پر دلالت کرنے والا سب سے بڑا معجزہ یہ ہے کہ جب آپ کی تکذیب کرنے والوں نے آپ سے مطالبہ کیا کہ آپ کوئی ایسا خارق عادت معجزہ دکھائیں جو قرآن کی صحت اور آپ کی صداقت پر دلالت کرے تو آپ نے اللہ کے حکم سے چاند کی طرف اشارہ کردیا چنانچہ چاند اللہ کے حکم سے دوٹکڑے ہوگیا۔ ایک ٹکڑا جبل ابی قبیس پر اور دوسرا ٹکڑا جبل قعیقعان پر چلا گیا۔ مشرکین اور دیگر لوگ اس عظیم معجزے کا مشاہدہ کررہے تھے جو عالم علوی میں وقوع پذیر ہوا جس میں مخلوق ملمع سازی کی قدرت رکھتی ہے نہ تخیل کی شعبدہ بازی کرسکتی ہے چنانچہ انہوں نے ایک ایسے معجزے کا مشاہدہ کیا جو اس سے قبل انہوں نے کبھی نہیں دیکھا بلکہ انہوں نے کبھی سنا بھی نہیں تھا کہ آپ سے پہلے گزرے انبیاء ومرسلین کے ہاتھوں پر اس جیسا معجزہ ظاہرہوا ہو وہ اس معجزے کو دیکھ کر مغلوب ہوگئے مگر ایمان ان کے دلوں میں داخل نہ ہوا اور اللہ تعالیٰ نے ان کی بھلائی چاہی۔ انہوں نے اپنی بہتان طرازی اور سرکشی میں پناہ لی اور کہنے لگے: محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) نے ہم پر جادو کردیا، مگر اس کی علامت یہ تھی کہ تم کسی ایسے شخص سے پوچھو جو سفر پر تمہارے پاس آیا ہے اگر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تم پر جادو کرنے کی طاقت رکھتے تو وہ اس شخص پر جادو نہیں کرسکتے جس نے تمہاری طرح چاند کے دوٹکڑے ہونے کا مشاہدہ نہیں کیا، چنانچہ انہوں نے اس شخص سے شق قمر کے بارے میں پوچھا جو سفر پر آئے تھے انہوں نے بھی شق قمر کے وقوع کے بارے میں خبر دی۔ اس پر انہوں نے کہا: ﴿سِحْرٌ مُّسْتَمِرٌّ﴾ ’’یہ ایک ہمیشہ کا جادو ہے‘‘ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)نے ہم پر بھی جادو کردیا اور دوسروں پر بھی۔ یہ ایسا بہتان ہے جو صرف انہی لوگوں میں رواج پاسکتا ہے جو مخلوق میں سب سے زیادہ بے وقوف، ہدایت اور عقل کے راستے سے سب سے زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں۔ یہ ان کی طرف سے صرف اسی ایک معجزے کا انکار نہیں بلکہ ان کے پاس جو بھی معجزہ آتا ہے تو یہ اس کی تکذیب کرنے اور اس کو ٹھکرانے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ اس لیے فرمایا: ﴿وَاِنْ یَّرَوْا اٰیَۃً یُّعْرِضُوْا﴾ ’’اور اگر وہ مشرک کوئی معجزہ دیکھتے ہیں تو منہ موڑ لیتے ہیں‘‘ یہاں ضمیر کو شق قمر کی طرف نہیں لوٹایا اور یوں نہیں کہا کہ وان یروھا ’’اور اگر وہ اسے دیکھتے ہیں‘‘ بلکہ کہا: ﴿وَاِنْ یَّرَوْا اٰیَۃً یُّعْرِضُوْا﴾ پس حق اور ہدایت کی اتباع کرنا ان کا مقصد نہیں۔ ان کا مقصد تو خواہشات نفس کی پیروی ہے، اس لیے فرمایا: ﴿وَکَذَّبُوْا وَاتَّبَعُوْٓا اَہْوَاءَہُمْ﴾ ’’اور انہوں نے اسے جھٹلایا اور اپنی خواہشات کی اتباع کی۔‘‘ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ فَإِن لَّمْ يَسْتَجِيبُوا لَكَ فَاعْلَمْ أَنَّمَا يَتَّبِعُونَ أَهْوَاءَهُمْ﴾ (القصص:28؍50) ’’پھر اگر وہ آپ کی بات کو قبول نہ کریں تو جان لیجئے کہ وہ صرف اپنی خواہشات کے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔‘‘ اگر ان کا مقصد ہدایت کی پیروی کرنا ہوتا تو وہ ضرور ایمان لے آتے اور حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے ہاتھ پر انہیں براہین وبینات اور قطعی دلائل کا مشاہدہ کرایا ہے جو تمام مطالب الٰہیہ اور مقاصد شرعیہ پر دلالت کرتی ہیں۔ القمر
2 القمر
3 ﴿وَکُلُّ اَمْرٍ مُّسْتَقِرٌّ﴾ اور ہر کام کا وقت مقرر ہے۔ یعنی اب تک معاملہ اپنی غایت ومنتہیٰ تک نہیں پہنچا، عنقریب معاملہ اپنے انجام کو پہنچے گا۔ تب تصدیق کرنے والے نعمتوں بھری جنتوں، اللہ تعالیٰ کی مغفرت اور اس کی رضا کے سائے میں چلیں گے اور جھٹلانے والے اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور اس کے عذاب میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ القمر
4 اللہ تبارک وتعالیٰ نے یہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ان کا مقصد نہ اتباع ہدایت۔ ﴿وَلَقَدْ جَاءَہُمْ مِّنَ الْاَنْبَاءِ ﴾ ’’اور یقیناً ان کے پاس ایسی خبریں پہنچ چکی ہیں‘‘ یعنی سابقہ اور موجودہ خبریں اور معجزات ظاہرہ﴿مَا فِيْهِ مُزْدَجَرٌ﴾ ’’جن میں تنبیہ ونصیحت ہے۔‘‘ یعنی ایک ایسا امر ہے جو ان کی گمراہی پر زجر وتوبیخ کرتا ہے۔ القمر
5 ﴿حِکْمَۃٌ بَالِغَۃٌ﴾ یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت بالغہ ہے تاکہ تمام جہانوں پر اللہ تعالیٰ کی حجت قائم ہوجائے اور رسولوں کے مبعوث کیے جانے کے بعد کسی کے لیے اللہ تعالیٰ پر کوئی حجت باقی نہ رہے۔ ﴿فَمَا تُغْنِ النُّذُرُ﴾ ’’پھرمحض ڈرانا فائدہ مند نہیں ہوا۔‘‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿لَا يُؤْمِنُونَ وَلَوْ جَاءَتْهُمْ كُلُّ آيَةٍ حَتَّىٰ يَرَوُا الْعَذَابَ الْأَلِيمَ ( یونس :10؍96۔97) ’’وہ ایمان نہیں لائیں گے خواہ ان کے پاس ہر قسم کی نشانی آجائے حتی کہ وہ دردناک عذاب دیکھ لیں۔‘‘ القمر
6 اللہ تبارک وتعالی رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے کہ یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ اہل تکذیب کی ہدایت کا اب کوئی حیلہ نہیں ان کے اندر روگردانی کے سوا کچھ باقی نہیں رہا، تو فرمایا:﴿فَتَوَلَّ عَنْہُمْ﴾ ’’چنانچہ (اے نبی!) آپ بھی ان سے اعراض کریں۔‘‘ آپ ان کے لیے ایک بہت بڑے دن اور ایک بہت بڑی گھبراہٹ اور خوف کا انتظار کیجئے۔ یہ دن وہ ہوگا جب ﴿ يَدْعُ الدَّاعِ ﴾ ’’پکارنے والا پکارے گا۔‘‘ یعنی حضرت اسرافیل علیہ السلام ﴿ إِلَىٰ شَيْءٍ نُّكُرٍ ﴾ یعنی ایک بہت ہی برے معاملے کی طرف، طبیعت جس کا انکار کرے گی۔ تو نے اس سے برا اور اس سے بڑھ کر دردناک منظر نہیں دیکھا ہوگا پس اسرافیل صور پھونکیں گے تو تمام مردے اپنی قبروں سے اٹھ کر قیامت کے (میدان) میں کھڑے ہوں گے۔ القمر
7 ﴿خُشَّعًا اَبْصَارُہُمْ﴾ ’’ان کی نگاہیں جھکی ہوں گی۔‘‘ یعنی اس دہشت اور گھبراہٹ کے باعث جو ان کے دلوں میں پہنچ کر ان کو عاجز اور کمزور کردے گی اور اس بنا پر ان کی نگاہیں پست ہوجائیں گی۔ ﴿يَخْرُجُوْنَ مِنَ الْاَجْدَاثِ ﴾ وہ قبروں سے یوں نکلیں گے﴿ كَأَنَّهُمْ ﴾جیسے کہ وہ۔ اپنی کثرت اور بے ترتیب ہونے کی وجہ سے﴿ جَرَادٌ مُّنتَشِرٌ ﴾’’منتشر ٹڈی دل ہوں۔‘‘ یعنی وہ زمین میں پھیلے ہوئے اور بہت زیادہ ہوں گے۔ القمر
8 ﴿مُّہْطِعِیْنَ اِلَی الدَّاعِ ﴾ ’’درآں حالیکہ وہ بلانے والے کی طرف دوڑ رہے ہوں گے‘‘ یعنی پکارنے والے کی پکار کا جلدی سے جواب دیتے ہوئے۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ پکارنے والا انہیں پکارے گا اور قیامت کے میدان میں حاضر ہونے کا حکم دے گا وہ اس کی پکار پر لبیک کہیں گے اور جلدی سے تعمیل کریں گے۔ ﴿ یَقُوْلُ الْکٰفِرُوْنَ﴾ یعنی وہ کفر جن کے سامنے ان کا عذاب موجود ہوگا کہیں گے: ﴿ ھٰذَا یَوْمٌ عَسِرٌ﴾ ’’یہ بڑا سخت دن ہے‘‘ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ عَلَى الْكَافِرِينَ غَيْرُ يَسِيرٍ ﴾( المدثر :74؍10) ’’کافروں پر وہ دن آسان نہ ہوگا۔‘‘ اس کا مفہوم مخالف یہ ہے کہ وہ دن مومنوں پر بہت آسان ہوگا۔ القمر
9 جب اللہ تبارک وتعالی نے ان لوگوں کا حال بیان فرمایا جنہوں نے اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلایا، نیز یہ بھی ذکر فرمایا کہ معجزات ان کو کوئی فائدہ دیں گے اور نہ ان کے کسی کام آئیں گے تو انہیں متنبہ کیا اور گزری ہوئی قوموں کی سزاؤں سے ڈرایا جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے رسولوں کو جھٹلایا تھا کہ اللہ نے کیسے ان کو ہلاک کردیا اور ان پر عذاب نازل کیا، چنانچہ قوم نوح کا ذکر کیا۔ حضرت نوح علیہ السلام نے ان کو اللہ تعالیٰ کی توحید اور اسی اکیلے کی عبادت کا حکم دیا مگر انہوں نے شرک کو ترک نہ کیا اور کہنے لگے: ﴿وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَلَا سُوَاعًا وَلَا يَغُوثَ وَيَعُوقَ وَنَسْرًا ﴾( نوح :71؍23) ’’تم اپنے معبودوں کو نہ چھوڑو اور نہ چھوڑو تم ودّ کو سوا کو اور نہ یغوث، یعوق اور نسر کو۔‘‘ حضرت نوح علیہ السلام انہیں شب روز اور کھلے چھپے اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دیتے رہے مگر ان میں عناد، سرکشی اور اپنے نبی میں جرح قدح کے سوا کسی چیز کا اضافہ نہ ہوا۔ بنابریں یہاں فرمایا: ﴿فَکَذَّبُوْا عَبْدَنَا وَقَالُوْا مَجْنُوْنٌ﴾ ’’چنانچہ انہوں نے ہمارے بندے کو جھٹلایا اور کہا یہ تو دیوانہ ہے۔‘‘ ان کے زعم باطل کے مطابق ان کے آبا ؤو اجداد جس شرک اور گمراہی کے راستے پر گامزن تھے اسی پر عقل دلالت کرتی ہے اور حضرت نوح علیہ السلام جو چیز پیش کررہے ہیں وہ جہالت او گمراہی ہے جو پاگلوں ہی سے صادر ہوسکتی ہے۔ انہوں نے اس ضمن میں جھوٹ بولا اور ان حقائق کو بدل ڈالا جو عقلاً اور شرعاً ثابت شدہ تھے، کیونکہ حضرت نوح علیہ السلام جو کچھ لے کر آئے وہ ثابت شدہ حق تھا جو راست رو اور روشن عقل کی رشد وہدایت اور روشنی کی طرف راہ نمائی کرتا تھا اور ان کا موقف محض جہالت اور واضح گمراہی تھا۔ فرمایا: ﴿ وَازْدُجِرَ ﴾ یعنی ان کی قوم نے ان کو زجر وتوبیخ کی اور برا بھلا کہا کیونکہ آپ نے ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دی تھی۔ آپ کی قوم نے، اللہ تعالیٰ ان کا برا کرے، آپ پر ایمان نہ لانے اور آپ کی تکذیب کرنے ہی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ انہوں نے اپنے مقدور بھر آپ کو اذیتیں بھی دیں تمام انبیا ومرسلین کے دشمنوں کا اپنے نبیوں کے ساتھ یہی وتیرہ رہا ہے۔ القمر
10 تب اس موقع پر حضرت نوح علیہ السلام نے اپنے رب کو پکارا اور کہا: ﴿اَنِّیْ مَغْلُوْبٌ﴾ ’’بے شک میں کمزور ہوں۔‘‘ ان سے انتقام لینے کی مجھ میں قدرت نہیں کیونکہ حضرت نوح علیہ السلام کی قوم میں بہت تھوڑے سے اور چند لوگ ایمان لائے جن میں اپنی قوم کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہ تھی۔ ﴿ فَانتَصِرْ ﴾ اے اللہ! میری طرف سے بدلہ لے۔ ایک دوسری آیت میں حضرت نوح علیہ السلام نے دعامانگی: ﴿ رَّبِّ لَا تَذَرْ عَلَى الْأَرْضِ مِنَ الْكَافِرِينَ دَيَّارًا ﴾( نوح :71؍26)’’اے میرے رب! کسی کافر کو زمین پر آباد نہ رہنے دے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کی دعا قبول فرمالی اور حضرت نوح علیہ السلام کی طرف سے ان کی قوم سے بدلہ لیا۔ القمر
11 فرمایا: ﴿فَفَتَحْنَآ اَبْوَابَ السَّمَاءِ بِمَاءٍ مُّنْہَمِر﴾ چنانچہ ہم نے زور سے برسنے والے پانی کے ساتھ آسمان کے دہانے کھول دیے۔ القمر
12 ﴿ وَّفَجَّــرْنَا الْاَرْضَ عُیُوْنًا﴾ ’’اور ہم نے زمین سے چشمے جاری کردیے‘‘ بس آسمان نے اتنا پانی برسایا جو خارق عادت تھا تمام روئے زمین پر پانی کے چشمے پھوٹ پڑے حتیٰ کہ تنور سے بھی چشمہ پھوٹ پڑا۔ جہاں عادتاً چشمے کا ہونا تو کجا، پانی بھی نہیں ہوسکتا کیونکہ تنور آگ کی جگہ ہے ﴿ فَالْتَقَى الْمَاءُ ﴾ تو (آسمان اور زمین کا) پانی مل گیا ﴿ عَلَىٰ أَمْرٍ ﴾ایک ایسے امر پر جو اللہ کی طرف سے ﴿ قَدْ قُدِرَ ﴾بے شک طے تھا یعنی جسے اللہ تعالیٰ نے ازل میں لکھ رکھا تھا اور ان سرکش ظالموں کو سزا دینے کے لیے مقدر کررکھا تھا۔ القمر
13 ﴿وَحَمَلْنٰہُ عَلٰی ذَاتِ اَلْوَاحٍ وَّدُسُرٍ﴾ یعنی ہم نے اپنے بندے نوح کو کشتی پر سوار کرا کر (اس طوفان سے) نجات دی جو لکڑی کے تختوں اور میخوں سے تیار کی گئی تھی یعنی میخوں کے ذریعے سے تختوں کو جوڑا اور تسموں سے باندھا گیا تھا۔ القمر
14 ﴿تَجْرِیْ بِاَعْیُنِنَا ﴾ یعنی یہ کشتی حضرت نوح علیہ السلام کے ساتھ اور ان لوگوں کے ساتھ جو آپ پر ایمان لائے تھے اور دیگر مخلوقات کی ان اصناف کے ساتھ پانی پر چل رہی تھی۔ جن کو حضرت نوح علیہ السلام نے اپنے ساتھ اس میں سوار کیا تھا یہ اللہ کی نگرانی میں ڈوبنے سے اس کی حفاظت اور اس کی خاص دیکھ بھال کے تحت پانی پر رواں دواں تھی اور وہ بہت اچھا حفاظت کرنے والا اور بہت اچھا کارساز ہے۔ ﴿جَزَاءً لِّمَنْ کَانَ کُفِرَ﴾ یعنی ہم نے نوح کو غرق عام سے بچایا۔ اس جزا کے طور پر آپ کی قوم نے آپ کو جھٹلا دیا اور آپ کا انکار کیا مگر آپ ان کو دعوت دینے اور اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کرنے پر ڈٹے رہے، کوئی آپ کو اپنے مقصد سے ہٹا سکا نہ آپ کاراستہ روک سکا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک دوسری آیت میں فرمایا: ﴿ قِيلَ يَا نُوحُ اهْبِطْ بِسَلَامٍ مِّنَّا وَبَرَكَاتٍ عَلَيْكَ وَعَلَىٰ أُمَمٍ مِّمَّن مَّعَكَ وَأُمَمٌ سَنُمَتِّعُهُمْ ثُمَّ يَمَسُّهُم مِّنَّا عَذَابٌ أَلِيمٌ﴾( ھود:11؍48) ’’کہا گیا اے نوح! اتر تو ہماری طرف سلامتی اور برکتوں کے ساتھ جو تجھ پر اور ان قوموں پر (نازل کی گئی ہیں) جو آپ کے ساتھ ہیں، اور کچھ دوسری قومیں ہیں جن کو ہم دنیا میں کچھ فائدہ دیں گے پھر انہیں ہماری طرف سے دردناک عذاب پہنچے گا۔‘‘ اس آیت کریمہ میں یہ احتمال بھی ہے کہ اس سے مراد یہ ہو کہ ہم نے نوح کی قوم کو ہلاک کیا اور ہم نے ان کو عذاب اور رسوائی میں ڈالا، ان کے کفر اور عناد کی جزا کے طور پر۔ یہ معنی اس شخص کی قراءت پر مبنی ہے جس نے کَفَرَ کے کاف کو زبر کے ساتھ پڑھا ہے۔ القمر
15 ﴿وَلَقَدْ تَّرَکْنٰہَآ اٰیَۃً فَہَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ﴾ یعنی ہم نے قوم نوح کے ساتھ نوح علیہ السلام کے قصے کو ایک نشانی کےطور پر چھوڑا جس سے نصیحت حاصل کرنے والے اس بات کی نصیحت حاصل کرتے کہ جو کوئی رسولوں کی نافرمانی کرتا ہے اور ان کے ساتھ عناد رکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے ایک عام اور سخت عذاب کے ذریعے سے ہلاک کرڈالتا ہے۔ ﴿ تَّرَکْنٰہَآ ﴾ کی ضمیر کشتی اور اس کی جنس کی طرف لوٹتی ہے اس لیے کہ کشتی کی صنعت کی تعلیم اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول حضرت نوح علیہ السلام کو دی، پھر اسی صنعت اور اس کی جنس کو لوگوں کو باقی رکھا تاکہ یہ اللہ کی اپنی مخلوق پر رحمت اور عنایت، اس کی کامل قدرت اور انوکھی صنعت پر دلالت کرے۔ ﴿فَہَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ ﴾ پس کیا کوئی نصیحت حاصل کرنے والا اور اپنے فکر وذہن کو ان کے سامنے ڈال دینے والا ہے، بے شک یہ نشانیاں نہایت واضح اور بہت آسان ہیں۔ القمر
16 ﴿فَکَیْفَ کَانَ عَذَابِیْ وَنُذُرِ﴾ پس اے مخاطب! تو نے اللہ تعالیٰ کے دردناک عذاب اور اس کی اس تنبیہ کو کیسا دیکھا جو کسی کے لیے کوئی حجت نہیں چھوڑتی؟ القمر
17 ﴿وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّکْرِ فَہَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ﴾ ہم نے اس قرآن کے الفاظ کو یاد کرنے، ان کو ادا کرنے اور اس کے معانی کو علم وفہم کی خاطر نہایت آسان اور سہل بنایا، کیونکہ قرآن لفظ کے اعتبار سے اچھا، معنی کے اعتبار سے سب سے سچا اور تفسیر کے اعتبار سے سب سے واضح کلام ہے۔ جو کوئی قرآن کریم پر اپنی توجہ مرکوز کرتا ہے اللہ اس کے مطلوب ومقصود کو حد درجہ آسان اور سہل کردیتا ہے۔ اَلذِّکْرحلال وحرام کے احکام، امر وانہی، جزا اور سزا کے احکام، مواعظ، عبرت انگیز واقعات، عقائد نافعہ اور اخبار صادقہ کو شامل ہے بنابریں قرآن کریم کا علم، حفظ اور تفسیر کے اعتبار سے بہت آسان اور علی الاطلاق جلیل علم ہے۔ قرآن کا علم بہت نفع مند علم ہے۔ بندہ مومن جب اسے طلب کرتا ہے تو اس کی مدد کی جاتی ہے۔ اس آیت کریمہ کی تفسیر میں سلف میں سے کسی کا قول ہے: کیا کوئی طالب علم ایسا ہے جس کی اس بارے میں مدد کی جائے اسی لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن کی طرف توجہ مبذول کرنے اور اس سے نصیحت حاصل کرنے کی دعوت دیتے ہوئے فرمایا: ﴿فَہَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ﴾ ’’ہے کوئی نصیحت پکڑنے والا۔‘‘ القمر
18 عاد یمن کا ایک معروف قبیلہ ہے جن کی طرف اللہ تعالیٰ نے حضرت ہود علیہ السلام کو مبعوث فرمایا جو انہیں توحید اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کی دعوت دیتے تھے مگر انہوں نے حضرت ہود علیہ السلام کو جھٹلایا، پس اللہ نے ان پر ﴿ رِيحًا صَرْصَرًا ﴾ سخت طوفانی ہوا بھیجی ﴿فِي يَوْمِ نَحْسٍ﴾’’منحوس دن میں۔‘‘ جس کا عذاب بہت سخت اور ان کے لیے بہت بدبختی والا تھا۔ ﴿ مُّسْتَمِرٍّ ﴾ جو ان پر مسلسل سات رات اور آٹھ دنوں تک انہیں فنا کرنے کے لیے چلتی رہی۔ القمر
19 القمر
20 ﴿ تَنزِعُ النَّاسَ ﴾ وہ اپنی شدت کی وجہ سے لوگوں کو بیخ کنی کررہی تھی انہیں آسمان کی طرف اٹھا کر زمین پر دے مارتی تھی اور یوں انہیں ہلاک کرڈالتی تھی اور ان کی یہ حالت ہوگئی تھی ﴿ کَاَنَّہُمْ اَعْجَازُ نَخْلٍ مُّنْقَعِرٍ﴾ ’’گویا کہ وہ جڑ سے اکھڑے ہوئے کھجور کے تنے ہیں۔‘‘ یعنی ان کی ہلاکت کے بعد ان کی لاشیں ایسے دکھائی دے رہی تھیں جیسے گری ہوئی کھجور کے تنے جنہیں سخت ہوا نے جڑ سے اکھاڑ دیا ہو اور وہ زمین پر گری پڑی ہوں جب مخلوق اللہ کے حکم کی نافرمانی کرتی ہے تو وہ اس کے ہاں کتنی حقیر ہوجاتی ہے۔ القمر
21 ﴿فَکَیْفَ کَانَ عَذَابِیْ وَنُذُرِ﴾ ’’پھر میرا عذاب اور میرا ڈر اوا کیسا تھا؟‘‘ اللہ کی قسم! دردناک عذاب اور تنبیہ تھی جس نے کسی کے لیے اللہ تعالیٰ پر کوئی حجت باقی نہ رہنے دی۔ القمر
22 ﴿ وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّکْرِ فَہَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ﴾ ’’اور یقیناً ہم نے قرآن کو سمجھنے کے لیے آسان کردیا پس کوئی ہے کہ سوچے سمجھے؟‘‘ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر رحمت اور عنایت کی بنا پر اس فقرے کو بتکرار بیان کیا اور انہیں اس امر کی طرف بلایا جو ان کی دنیا اور آخرت کی اصلاح کرتا ہے۔ القمر
23 ﴿کَذَّبَتْ ثَمُوْدُ بِالنُّذُرِ﴾ ’’ثمود نے جھٹلایا۔‘‘ اس آیت میں ثمود سے مراد معروف قبیلہ ہے جو حِجر کے علاقے میں آباد تھا جب ان کے نبی حضرت صالح علیہ السلام نے ان کو صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف بلایا جس کا کوئی شریک نہیں اور مخالفت کی صورت میں انہیں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرایا۔ انہوں نے حضرت صالح علیہ السلام کو جھٹلایا اور استکبار کا مظاہرہ کیا اور تکبر سے ڈینگیں مارتے ہوئے کہا: ﴿أَبَشَرًا مِّنَّا وَاحِدًا نَّتَّبِعُهُ ﴾ ’’بھلا ایک ایسا آدمی جو ہم ہی میں سے ہے ہم اس کی پیروی کریں؟‘‘ یعنی ہم ایک بشر کی اتباع کیسے کرسکتے ہیں جو فرشتہ نہیں جو ہم میں سے ہے جو ہمارے علاوہ ان لوگوں میں سے بھی نہیں جو لوگوں کے نزدیک ہم سے افضل ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ اکیلا ہی تو ہے۔ ﴿ إِنَّا إِذًا ﴾ یعنی اگر ہم نے اس حالت میں اس کی اتباع کی ﴿اِنَّآ اِذًا لَّفِیْ ضَلٰلٍ وَّسُعُرٍ﴾ تو تب ہم گمراہی اور دیوانگی میں ہوں گے۔ یہ کلام ان کی گمراہی اور بدبختی کے سبب سے صادر ہوا کیونکہ انہوں نے محض تکبر کی بنا پر ایک ایسے رسول کی اتباع سے انکار کردیا جو ان کی جنس میں سے تھا مگر انہیں شجر وحجر اور بتوں کے پجاری بنتے ہوئے غیرت نہ آئی۔ القمر
24 القمر
25 ﴿ءَاُلْقِیَ الذِّکْرُ عَلَیْہِ مِنْ بَیْنِنَا﴾ ’’کیا ہمارے سب کے درمیان سے صرف اسی پر وحی اتاری گئی ہے؟‘‘ یعنی اللہ ہم میں سے اس کو کس بنا پر خصوصیت عطا کرتا ہے اور اس پر ذکر نازل کرتا ہے؟ اس میں کون سی ایسی خوبی ہے جس کی بنا پر ہم میں سے صرف اسے ہی یہ خصوصیت عطا کی ہے؟ یہ وہ اعتراض ہے جو اہل تکذیب ہمیشہ سے اللہ تعالیٰ پر کرتے چلے آئے ہیں اسی کی بنیاد پر انبیاء ومرسلین کی دعوت پر حملہ آور ہوتے رہے اور اس کورد کرتے رہے اللہ نے اس شبہ کا جواب رسولوں کے اس قول کے ذریعے سے دیا جو انہوں نے امتوں سے کہا تھا۔ ﴿قَالَتْ لَهُمْ رُسُلُهُمْ إِن نَّحْنُ إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ وَلَـٰكِنَّ اللّٰـهَ يَمُنُّ عَلَىٰ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ ﴾(ابراہیم:14؍11) ’’ان کے رسولوں نے ان سے کہا کہ واقعی ہم محض تم جیسے بشر ہی ہیں لیکن اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے اس پر احسان کرتا ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے رسولوں کو ایسے اوصاف، اخلاق اور کمالات سے نوازا ہوتا ہے جن کی بنا پر وہ اپنے رب کی رسالت اور اس کی وحی کے اختصاس کی صلاحیت رکھتے ہیں یہ اللہ کی رحمت اور حکمت ہے کہ رسول نوع بشری میں سے ہیں۔ اگر رسول فرشتوں میں سے ہوتے تو انسان کا ان سے استفادہ کرنا ممکن نہ ہوتا۔ اگر فرشتوں کو رسول بنایا ہوتا تو جھٹلانے والوں پر فوراً عذاب نازل ہوجاتا۔ قوم ثمود سے اپنے نبی کے بارے میں صادر ہونے والے اس کلام کا مقصد صرف حضرت صالح علیہ السلام کو جھٹلانا تھا اس لیے انہوں نے آپ پر ظالمانہ حکم لگائے، چنانچہ انہوں نے کہا: ﴿ بَلْ ہُوَ کَذَّابٌ اَشِرٌ﴾ ’’بلکہ وہ تو سخت جھوٹا اور شر کا حامل ہے‘‘ اللہ ان کا برا کرے، ان کی آرزوئیں کس قدر بے وقوفی پر مبنی ہیں اور وہ سچے خیر خواہوں کے مقابلے میں ان کو برے خطابات سے مخاطب کرنے میں کتنے ظالم اور کتنے سخت ہیں۔ جب ان کی سرکشی حد سے بڑھ گئی تو ضروری تھا کہ اللہ ان کو سزا دے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اونٹنی بھیجی جو ان کے لیے اللہ کی سب سے بڑی نعمت تھی جو اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی تھی اور اس کی نعمتوں میں سے ایک نعمت تھی وہ اس کا دودھ دوہتے تھے جو ان سب کے لیے کافی ہوتا تھا۔ ﴿فِتْنَةً لَّهُمْ﴾ یعنی اللہ کی طرف سے یہ اونٹنی ان کی آزمائش اور امتحان کے طور پر تھی۔ القمر
26 القمر
27 ﴿فَارْتَقِبْہُمْ وَاصْطَبِرْ﴾ پس ان کو دعوت دینے پر ڈٹے رہیے اور منتظر رہے کہ ان پر کیا عذاب نازل ہوتا ہے یا اس بات کے منتظر رہیے کہ آیا وہ ایمان لاتے ہیں یا کفر پر ڈٹے رہتے ہیں۔ القمر
28 ﴿وَنَبِّئْہُمْ اَنَّ الْمَاءَ قِسْمَۃٌ بَیْنَہُمْ ﴾ یعنی ان کو آگاہ کردیجئے کہ پانی ان کے درمیان تقسیم ہوگا یعنی ان کا پانی پینے کا چشمہ اب ان کے اور اونٹنی کے درمیان تقسیم ہوگا ایک دن اونٹنی پانی پیے گی اور ایک دن ان کے پانی پینے کے لیے ہے۔ ﴿کُلُّ شِرْبٍ مُّحْتَضَرٌ﴾ ’’ہر ایک( اپنی) باری پر حاضر ہوگا۔‘‘ یعنی اس روز صرف وہی پانی پر آئے گا جس کی باری ہوگی اور جس کی باری نہ ہوگی اس کے لیے پانی پر آنے کی ممانعت ہوگی۔ القمر
29 ﴿فَنَادَوْا صَاحِبَهُمْ ﴾ ’’پھر انہوں نے اپنے ایک ساتھی کو بلایا۔‘‘ جواونٹنی کو ہلاک کرنے میں براہ راست ملوث تھا جو اپنے قبیلے کا سب سے بدبخت شخص تھا۔ ﴿فَتَعَاطٰی﴾ تو قوم ثمود نے اس کو اونٹنی ہلاک کرنے کا جو حکم دیا تھا اس نے اس کی اتباع کی۔﴿ فَعَقَرَ﴾چنانچہ اس نے اس کو قتل کرڈلا۔ القمر
30 ﴿فَکَیْفَ کَانَ عَذَابِیْ وَنُذُرِ ﴾ ’’پھر دیکھو میرا عذاب اور میرا ڈر کیسا تھا‘‘ یعنی یہ سخت ترین عذاب تھا اللہ نے ایک سخت چنگھاڑ کے اور زلزلہ بھیجا جس نے ان کے آخری آدمی تک کو ہلاک کرڈالا اور اللہ نے حضرت صالح علیہ السلام اور ان لوگوں کو بچا لیا جو آپ پر ایمان لائے تھے۔ القمر
31 القمر
32 القمر
33 ﴿کَذَّبَتْ قَوْمُ لُوْطٍ ﴾ جب حضرت لوط علیہ السلام نے اپنی قوم کو اللہ وحدہ لاشریک لہ کی عبادت کی طرف بلایا اور انہیں شرک اور فحش کام سے روکا جو دنیا میں ان سے پہلے کسی نے نہیں کیا تو انہوں نے حضرت لوط علیہ السلام کی تکذیب کی۔ پس انہوں نے آپ کو جھٹلایا اور اپنے شرک اور فواحش پر جمے رہے، حتیٰ کہ وہ فرشتے جو خوبصورت مہمانوں کی شکل میں آئے تھے ان کی آمد کے بارے میں جب حضرت لوط علیہ السلام کی قوم نے سنا توجلدی سے آئے اور وہ ان مہمانوں کے ساتھ بدکاری کرنا چاہتے تھے۔ اللہ ان پر لعنت کرے اور ان کا برا کرے وہ ان مہمانوں کے بارے میں آپ کو فریب دینا چاہتے تھے۔ اللہ نے جبریل علیہ السلام کو حکم دیا انہوں نے ان کو اندھا کرڈالا، ان کے نبی نے ان کو اللہ کی گرفت اور سزا دے ڈرایا۔ ﴿فَتَمَارَوْا بِالنُّذُرِ﴾’’تو انہوں نے ڈرواے میں شک کیا۔‘‘ القمر
34 القمر
35 القمر
36 القمر
37 القمر
38 ﴿وَلَقَدْ صَبَّحَہُمْ بُکْرَۃً عَذَابٌ مُّسْتَقِرٌّ﴾ ’’اور یقیناً صبح سویرے ہی اٹل عذاب نے انہیں ہلاک کردیا۔‘‘ اللہ نے ان کی بستیوں کو تلپٹ کرکے نچلے کو الٹ کر اوپر کردیا اور اس کے بعد ان پر لگاتار کھنگر کے پتھر برسائے جو تیرے رب کے ہاں، حد سے گزرنے والوں کے لیے نشان زدہ تھے۔ اللہ نے حضرت لوط علیہ السلام اور ان کے گھروالوں کو، ان کی اپنے رب کی شکر گزاری اور اسی اکیلے عبادت کرنے کی جزا کے طور پر بہت بڑی معصومیت سے نجات دی۔ القمر
39 القمر
40 القمر
41 ﴿وَلَقَدْ جَاءَ اٰلَ فِرْعَوْنَ النُّذُرُ﴾ اور بلاشبہ فرعون اور اس کی قوم کے پاس (بھی) ڈرانے والے آئے۔ اللہ نے ان کے پاس واضح دلائل اور بڑے بڑے معجزات کے ساتھ کلیم اللہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بھیجا، آپ کی تائید کی، ان کو بڑے بڑے عبرت ناک واقعات کا مشاہدہ کرایا جن کا مشاہدہ ان کے سوا کسی اور کو نہیں کرایا۔ مگر انہوں نے اللہ کی تمام نشانیوں کو جھٹلادیا، تب اللہ نے ان کو ایک غالب اور قدرت رکھنے والی ہستی کے مانند عذاب کی گرفت میں لے لیا، پس فرعون اور اس کے لشکروں کو سمندر میں غرق کردیا۔ ان واقعات کو ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ان لوگوں کو ڈرایا جائے جو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلاتے ہیں۔ بنابریں فرمایا: ﴿اَکُفَّارُکُمْ خَیْرٌ مِّنْ اُولٰیِٕکُمْ﴾’’(اے اہل عرب!) کیا تمہارے کافر ان کافروں سے بہتر ہیں؟‘‘ یعنی کیا یہ لوگ جنہوں نے افضل المرسلین محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کی ہے، ان جھٹلانے والوں سے بہتر ہیں جن کی ہلاکت اور ان پر گزرنے والے حالات کا اللہ نے ذکر فرمایا ہے؟ اگر یہ لوگ ان لوگوں سے بہتر ہیں تو ممکن ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچ جائیں اور ان پر عذاب نازل نہ ہوجوان شریر لوگوں پر نازل ہوا تھا مگر معاملہ یوں نہیں کیونکہ اگر یہ لوگ ان لوگوں سے بڑھ کر شرپسند نہیں تو ان سے اچھے بھی نہیں۔ القمر
42 القمر
43 ﴿ اَمْ لَکُمْ بَرَاءَۃٌ فِی الزُّبُرِ﴾ ’’یا تمہارے لیے (سابقہ )صحیفوں میں کوئی نجات لکھی ہوئی ہے؟‘‘ یعنی کیا اللہ نے ان کتابوں میں تمہارے ساتھ کوئی عہد اور میثاق کررکھا ہے جو گزشتہ انبیاء پر نازل ہوئی ہیں جن کی بنا پر تم یہ اعتقاد رکھتے ہو کہ تم اللہ کے وعدے اور اس کی خبر کی وجہ سے عذاب سے بچ جاؤ گے ؟ مگر یہ غیر واقع چیز ہے بلکہ یہ عقلاً اور شرعاً غیر ممکن امر ہے کہ ان کتب الٰہیہ میں ان کی برأت لکھ دی گئی ہو جو عدل وحکمت کو متضمن ہیں۔ یہ حکمت کے منافی ہے کہ ان جیسے معاندین حق کو نجات حاصل ہو جنہوں نے افضل الانبیا سید المرسلین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو اللہ کے ہاں تمام انبیا سے بڑھ کر ہیں صاحب تکریم ہیں جھٹلایا پس اب اس کے سوا کچھ نہیں کہ ان کے پاس کوئی قوت ہو جس سے وہ مدد حاصل کریں، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ وہ کہتے ہیں: ﴿ نَحْنُ جَمِیْعٌ مُّنْتَــصِرٌ﴾ ’’ہم غلبہ پانے والی جماعت ہیں۔‘‘ اللہ تعالیٰ ان کی کمزوری کو بیان کرتے ہوئے اور اس حقیقت سے آگاہ کرتے ہوئے کہ وہ ہزیمت اٹھائیں گے، فرماتا ہے: ﴿سَیُہْزَمُ الْجَمْعُ وَیُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ ﴾’’عنقریب وہ جماعت شکست کھائے گی اور وہ پیٹھ پھیر کر بھاگیں گے۔‘‘ اللہ کا یہ ارشاد اسی طرح واقع ہوا ہے جس طرح اللہ نے خبر دی تھی پس اس نے ان کی بہت بڑی جماعت کو غزوہ بدر کے روز زبردست ہزیمت سے دوچار کیا ان کے بڑے بڑے بہادر اور ان کے سر کردہ سردار قتل ہو کر ذلیل خوار ہوئے۔ اللہ نے اپنے دین اپنے نبی اور اہل ایمان پر مشتمل اپنے گروہ کو فتح ونصرت سے سرفراز فرمایا۔ بایں ہمہ ان کے لیے ایک وقت مقرر ہے جب اللہ تعالیٰ ان کے اولین وآخرین جو دنیا میں مصائب میں مبتلا رہے اور جن کو دنیا کی لذتوں سے بہرور کیا گیا سب کو اکٹھا کرے گا۔ اس لیے فرمایا: ﴿بَلِ السَّاعَۃُ مَوْعِدُہُمْ﴾ ’’بلکہ ان کے وعدے کا وقت قیامت ہے۔‘‘ اس وقت ان کو جزا دی جائے گی اور نہایت عدل وانصاف کے ساتھ ان سے حق لیا جائے گا۔ ﴿ وَالسَّاعَۃُ اَدْہٰی وَاَمَرُّ﴾ ’’اور قیامت کی گھڑی بہت بڑی آفت اور تلخ چیز ہے‘‘ یعنی بہت آفت زدہ، مشقت آمیز اور ہر اس چیز سے بڑھ کر ہے جس کا گمان کیا جاسکتا ہے یا وہ تصور میں آسکتی ہے۔ القمر
44 القمر
45 القمر
46 القمر
47 ﴿اِنَّ الْمُجْرِمِیْنَ﴾ یعنی وہ لوگ جنہوں نے نہایت کثرت سے جرائم کا ارتکاب کیا۔ اس سے مراد بڑے بڑے گناہ، یعنی شرک اور معاصی وغیرہ ہیں۔ ﴿فِیْ ضَلٰلٍ وَّسُعُرٍ﴾ ’’وہ گمراہی اور دیوانگی میں پڑے ہیں۔‘‘ یعنی وہ دنیا میں گمراہ تھے، وہ علم کی گمراہی اور عمل کی گمراہی میں مبتلا تھے۔ وہ قیامت کے روز دردناک عذاب میں مبتلا ہوں گے، ان پر آگ بھڑکائی جائے گی، آگ ان کے جسموں میں شعلہ زن ہوگی یہاں تک کہ ان کے دلوں تک پہنچ جائے گی۔ القمر
48 ﴿یَوْمَ یُسْحَبُوْنَ فِی النَّارِ عَلٰی وُجُوْہِہِمْ ﴾ ’’جس دن انہیں چہروں کے بل آگ میں گھسیٹا جائے گا۔‘‘ چہرہ جو تمام اعضا میں سب سے زیادہ شرف کا حامل ہے۔ اس کا درد دیگر تمام اعضا سے بڑھ کر ہے پس انہیں اس عذاب کے ذریعے سے ذلیل و رسوا کیا جائے گا اور ان سے کہا جائے گا: ﴿ذُوْقُوْا مَسَّ سَقَرَ﴾ ’’تم جہنم کے عذاب کی تکلیف چکھو۔‘‘ یعنی آگ، اس کے غم، اس کے غیظ وغضب اور اس کے شعلوں (کے عذاب) کو چکھو۔ القمر
49 ﴿اِنَّا کُلَّ شَیْءٍ خَلَقْنٰہُ بِقَدَرٍ﴾ ’’بے شک ہم نے ہر چیز کو مقرر اندازے کے مطابق پیدا کیا۔‘‘ یہ آیت کریمہ تمام مخلوقات، تمام علوی اور سفلی کائنات کو شامل ہے، تمام کائنات کو اللہ تعالیٰ اکیلے نے پیدا کیا، اللہ کے سوا کوئی ان کا خالق نہیں اور نہ اس کی تخلیق میں کسی کی کوئی شراکت ہی ہے۔ اس نے اس کائنات کو ایسی قضاوقدر کے ساتھ پیدا کیا، جس کے بارے میں اس کا علم سبقت کر گیا، اس کی مقدار، وقت اور اس کے تمام اوصاف کو اس کے قلم نے درج کرلیا۔ یہ سب کچھ اللہ کے لیے بہت آسان تھے۔ اسی لیے فرمایا: ﴿وَمَآ اَمْرُنَآ اِلَّا وَاحِدَۃٌ کَلَمْحٍ بِالْبَصَرِ﴾ ’’اور ہمارا حکم تو آنکھ جھپکنے کی طرح ایک بات ہی ہوتی ہے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اس سے کہتا ہے ہوجا۔ تو وہ چیز آنکھ جھپکنے کے مانند، بغیر کسی رکاوٹ اور بغیر کسی صعوبت کے اس طرح ہوجاتی ہے جیسا کہ اس نے ارادہ کیا تھا۔ القمر
50 القمر
51 ﴿وَلَقَدْ اَہْلَکْنَآ اَشْیَاعَکُمْ﴾ ’’اور یقیناً ہم تم سے پہلے تمہارے ہم مذہبوں کو ہلاک کرچکے ہیں۔‘‘ یعنی گزشتہ قوموں میں سے جنہوں نے ویسے ہی عمل کیے تھے جیسے تم نے کیے ہیں انہوں نے بھی اپنے رسولوں کی تکذیب کی جیسے تم نے تکذیب کی۔ ﴿ فَہَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ﴾ یعنی ہے کوئی نصیحت پکڑنے والا جو یہ جانتا ہو کہ اولین وآخرین میں اللہ تعالیٰ کی ایک ہی سنت رہی ہے اللہ کی حکمت کے تقاضے کے مطابق ان شرپسند لوگوں کی ہلاکت ضروری تھی، کیونکہ یہ شرپسند لوگ بھی انہی کے مانند ہیں دونوں فریقوں کے درمیان کوئی فرق نہیں۔ القمر
52 ﴿وَکُلُّ شَیْءٍ فَعَلُوْہُ فِی الزُّبُرِ﴾ یعنی وہ جو بھی کوئی نیکی اور بدی کا فعل سرانجام دیتے ہیں وہ ان کے صحیفہ تقدیر میں لکھا ہوا ہوتا ہے۔ القمر
53 ﴿وَکُلُّ صَغِیْرٍ وَّکَبِیْرٍ مُّسْـتَـطَرٌ﴾ یعنی ہر چھوٹا بڑا عمل لکھا ہوا ہوتا ہے اور قضا وقدر کی حقیقت یہ ہے کہ تمام اشیا کے بارے میں اللہ تعالیٰ جانتا ہے اور اس نے اپنے پاس ہر چیز کو لوح محفوظ میں درج کررکھا ہے اللہ جو چاہتا ہے وہی ہوتا ہے اور جو وہ نہیں چاہتا وہ نہیں ہوتا۔ انسان کو جو مصیبت پہنچنی ہے وہ ٹل نہیں سکتی اور جو مصیبت نہیں پہنچنی ہوتی وہ پہنچ نہیں سکتی۔ القمر
54 ﴿اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ﴾ یعنی تعمیل اور اوامر اور ترک نواہی کے ذریعے سے اللہ سے ڈرنے والے وہ لوگ جو شرک، کبیرہ اور صغیرہ گناہوں سے بچتے ہیں ﴿فِیْ جَنّٰتٍ وَّنَہَرٍ﴾ وہ نعمتوں بھری جنتوں میں ہوں گے جس میں ایسی ایسی نعمتیں ہوں گی جو کسی آنکھ نے دیکھی ہیں نہ کسی کان نے سنی ہیں اور نہ کسی آدمی کے حاشیۂ خیال ہی میں ان کا گزر ہوا ہے یعنی ان جنتوں میں پکے ہوئے پھلوں سے لدے ہوئے درخت، بہتی ہوئی نہریں، بلند وبالامحلات، خوبصورت آرام گاہیں، نہایت لذیذ ماکولات ومشروبات، حسین وجمیل حوریں، خوبصورت باغات، جزاوسزا سے نوازنے والے بادشاہ کی رضا اور اس کے قرب کے حصول میں کامیابی، یہ سب کچھ ہوگا۔ القمر
55 ﴿فِیْ مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِیْکٍ مُّقْتَدِرٍ﴾ ’’حقیقی عزت کی جگہ ہر طرح کی قدرت رکھنے والے بادشاہ کی بارگاہ میں۔‘‘ اس کے بعد مت پوچھیے کہ ان کارب اپنی طرف سے کیسی کیسی عزت، تکریم اور جودوکرم سے نوازے گا اور ان پر اپنے بے پایاں احسانات اور نوازشات میں اضافہ کرتا چلاجائے گا۔ اللہ ہمیں بھی ان لوگوں میں شامل کرے، ہمارے دامن میں جو برائیاں ہیں ان کی بنا پر ہمیں ان بھلائیوں سے محروم نہ کرے جو اس کے سایہ رحمت میں ہیں۔ (آمین) القمر
0 سورة رحمٰن الرحمن
1 اس سورة کریمہ کا افتتاح اللہ کے اسم مبارک ﴿االرَّحْمَـٰنُ﴾ سے ہوا ہے جو اس کی بے پایاں رحمت، عمومی احسان، بے شمار بھلائیوں اور وسیع فضل وکرم پر دلالت کرتا ہے، پھرا للہ تعالیٰ نے ان امور کا ذکر فرمایا جو اس کی رحمت اور اس کے آثار، یعنی دینی، دنیاوی اور اخروی نعمتوں پر دلالت کرتے ہیں جن کو اللہ نے اپنے بندوں تک پہنچایا۔ اپنی نعمتوں کی ہرجنس اور نوح کو بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ دونوں جماعتوں یعنی جن وانس کو تنبیہ کرتا ہے کہ وہ اس کا شکر ادا کریں، چنانچہ فرماتا ہے: ﴿ فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ﴾’’پھر تم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟‘‘ الرحمن
2 پس اللہ نے ذکر فرمایا: ﴿عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ﴾ یعنی اس نے اپنے بندوں کو قرآن کے الفاظ ومعانی کی تعلیم دی اور اس کے الفاظ کو بندوں پر آسان کردیا۔ یہ اس کی سب سے بڑی عنایت اور رحمت ہے جو بندوں پر سایہ کناں ہے کہ اس نے ان پر بہترین الفاظ میں اور واضح ترین معانی کے ساتھ عربی زبان میں قرآن نازل کیا جوہر بھلائی پر مشتمل اور ہر برائی سے روکتا ہے۔ الرحمن
3 ﴿خَلَقَ الْاِنْسَانَ﴾ انسان کو بہترین صورت میں، کامل اعضا اور پورے اجزا کے ساتھ نہایت محکم بنیاد پر تخلیق فرمایا، باری تعالیٰ نے انسان کو پوری مہارت کے ساتھ بنایا اور اسے تمام حیوانات پر امتیاز بخشا۔ الرحمن
4 ﴿عَلَّمَہُ الْبَیَانَ﴾ یعنی اسے ما فی الضمیر کو بیان کرنا سکھایا اور یہ تعلیم نطقی اور تعلیم خطی دونوں کو شامل ہے۔ مافی الضمیر کا بیان جس کی بنا پر آدمی کو اللہ تعالیٰ نے دیگر مخلوقات پر امتیاز بخشا، اس کا شمار اللہ کی سب سے بڑی جلیل ترین نعمتوں میں ہوتا ہے۔ الرحمن
5 ﴿اَلشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْـبَانٍ﴾ ’’سورج اور چاند ایک حساب سے چلتے ہیں۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے سورج اور چاند کو پیدا کیا، ان کو مسخر کیا جو بندوں پر رحمت اور ان کے ساتھ عنایت کے طور پر ایک متعین حساب اور مقرر انداز سے چل رہے ہیں نیز اس لیے کہ اللہ ان کے ذریعے سے بندوں کے مصالح کا انتظام کرتا ہے تاکہ بندے ماہ وسال کی گنتی اور حساب کی معرفت حاصل کرلیں۔ الرحمن
6 ﴿وَّالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ یَسْجُدٰنِ﴾ آسمان کے ستارے اور زمین کے درخت سب اپنے رب کو پہچانتے ہیں، اس کو سجدہ کرتے ہیں، اس کی اطاعت کرتے ہیں، اس کے سامنے سرنگوں ہوتے ہیں اور اس کے احکام کی تعمیل کرتے ہیں۔ اللہ نے اپنے بندوں کے مصالح اور منافع کے لیے ان کو مسخر کررکھا ہے۔ الرحمن
7 ﴿وَالسَّمَاءَ رَفَعَہَا ﴾ یعنی ارضی مخلوقات کے لیے آسمان کی چھت کو بلند کیا۔﴿ وَوَضَعَ الْمِیْزَانَ﴾ اور اللہ نے ترازو وضع کیا، یعنی بندوں کے درمیان اقوال وافعال میں عدل جاری کیا اس سے مراد صرف معروف میزان ہی نہیں بلکہ وہ، جیسا کہ ہم ذکر کرچکے ہیں، معروف میزان، ناپ تول، جس کے ذریعے سے اشیا اور دیگر مقداروں کو ناپا جاتا ہے۔ دیگر پیمانے جن کے ذریعے سے مجہولات کو منضبط کیا جاتا ہے اس میں وہ حقائق بھی داخل ہیں جن کے ذریعے سے مخلوقت میں فرق کیا جاتا ہے اور ان کے ذریعے سے ان کے درمیان عدل قائم کیا جاتا ہے اس لیے فرمایا: ﴿اَلَّا تَطْغَوْا فِی الْمِیْزَانِ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ نے میزان نازل فرمائی تاکہ تم حقوق اور دیگر معاملات میں حد سے تجاوز نہ کرو۔ اگر معاملہ تمہاری عقل اور آراء کی طرف لوٹتا توایسا خلل واقع ہوتا جسے اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے اور آسمان، زمین اور ان کے رہنے والے فساد کا شکار ہوجاتے ہیں۔ الرحمن
8 الرحمن
9 ﴿وَاَقِیْمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ﴾ ’’اور تم وزن انصاف سے کرو۔‘‘ یعنی جہاں تک تمہاری قدرت، طاقت اور تمہارے امکان میں ہے وزن کو انصاف کے ساتھ قائم رکھو۔ ﴿ وَلَا تُخْسِرُوا الْمِیْزَانَ﴾ یعنی اسے کم نہ کرو کہ اس کی ضد پر عمل کرنے لگو۔ اس سے مراد ظلم وجور اور سرکشی ہے۔ الرحمن
10 ﴿وَالْاَرْضَ وَضَعَہَا﴾ یعنی اللہ نے زمین کو اس کی کثافتوں، اس کے اسقرار اور اس کے اوصاف واحوال سمیت بنایا۔ ﴿لِلْاَنَامِ﴾ مخلوق کے لیے، تاکہ وہ زمین کو ٹھکانہ بنائے، زمین ان کے لیے ہموار فرش کا کام دے، یہ اس پرعمارتیں تعمیر کریں، زمین پر کھیتی باڑی کریں، باغات لگائیں، کنویں کھودیں، اس کے راستوں پر چلیں، اس کی معدنیات اور ان تمام چیزوں سے فائدہ اٹھائیں جن کی انہیں حاجت اور ضرورت ہو، پھر اللہ تعالیٰ نے خوراک کی ضروری اشیا کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ﴿فِیْہَا فَاکِہَۃٌ ۽﴾ ’’اس میں لذیذ پھل ہیں۔ ‘‘ اس سے مراد وہ تمام درخت ہیں جو پھل پیدا کرتے ہیں جنہیں بندے مزے سے کھاتے ہیں: مثلا، انگور، انجیر، انار، اور سیب وغیرہ۔ ﴿ وَّالنَّخْلُ ذَاتُ الْاَکْمَامِ﴾ ’’اور کھجور کے درخت ہیں جن کے شگوفے غلافوں میں لپٹے ہوتے ہیں۔‘‘ یعنی غلاف والی کھجوریں جو گچھے سے پھوٹتی ہیں جو تھوڑی تھوڑی کرکے نکلتی ہیں یہاں تک کہ مکمل ہوجاتی ہیں، تب وہ خوراک بن جاتی ہیں جس کو کھایا جاتا ہے، اس کو ذخیرہ کیا جاتا ہے، مقیم اور مسافر اس کو توشہ بناتے ہیں۔ کھجور بہترین پھلوں میں سے نہایت لذیذ پھل ہے۔ الرحمن
11 الرحمن
12 ﴿وَالْحَبُّ ذُو الْعَصْفِ﴾ ’’اور بھوسے والے دانے )اناج(۔ ‘‘ یعنی نال دار اناج جسے گاہا جاتا ہے، پھر مویشیوں وغیرہ کے لیے اس کے بھوسے سے استفادہ کیا جاتا ہے۔ اس میں گیہوں، جو، مکئی، چاول اور چنا وغیرہ داخل ہیں﴿ وَالرَّیْحَانُ﴾ ’’اور خوشبودار پھول ہیں۔‘‘ اس میں یہ احتمال بھی ہے کہ اس سے رزق کی تمام اقسام مراد ہوں جس کو آدمی کھاتے ہیں، تب یہ خاص پر عطف عام کے باب میں شمار ہوگا اور اس کے معنی یہ ہوں گے کہ اللہ نے اپنے بندوں کو عمومی اور خصوصی خوراک اور رزق سے نوازا ہے۔ یہ احتمال بھی ہے کہ اس سے مراد معروف ریحان ہو۔ اللہ تعالیٰ نے مختلف انواع کی خوش کن اور فاخرہ خوشبوؤں کو زمین میں سے مہیا کرکے ان سے اپنے بندوں کو نوازا ہے جو روح کو مسرت عطا کرتی ہیں اور ان سے نفوس میں انشراح پیدا ہوتا ہے۔ الرحمن
13 چونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی بہت سی نعمتوں کا ذکر فرمایا جن کا آنکھوں اور بصیرت کے ذریعے سے مشاہدہ کیا جاسکتا ہے اور خطاب دونوں گروہوں کو یعنی جنات اور انسانوں کے لیے ہے اس لیے اپنی نعمتوں کو متحقق کرتے ہوئے فرمایا: ﴿فَبِاَیِّ اٰلَاءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ﴾’’یعنی )اے جن وانس( پھر تم اللہ کی کون کون سی دینی اور دنیاوی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے۔‘‘ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت کریمہ جنات کے سامنے تلاوت فرمائی تو ان کا کیا ہی خوبصورت جواب تھا۔ جب بھی آپ ﴿فَبِاَیِّ اٰلَاءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ﴾ پڑھتے تو وہ جواب میں کہتے لَا بِشَيْءٍ مِنْ نِعَمِكَ رَبَّنَا نُكَذِّبُ فَلَكَ الْحَمْدُ’’اے ہمارے رب! ہم تیری کسی نعمت کو نہیں جھٹلاتے‘‘ چنانچہ تو ہی ہر قسم کی حمدوثنا کا مستحق ہے۔[جامع الترمذی، تفسیر القرآن، باب ومن سورۃ الرحمٰن، حدیث:3291] اسی طرح بندہ مومن کو چاہیے کہ جب اس کے سامنے اللہ کی نعمتوں اور اس کے احسانات کی آیات تلاوت کی جائیں تو ان کا اقرار کرے، ان نعمتوں پر اللہ کاشکر ادا کرے اور اس کی حمدوثنا بیان کرے۔ الرحمن
14 یہ اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں پر نعمت ہے کہ اس نے انہیں اپنی قدرت اور کاری گری کے آثار دکھائے کہ ﴿خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ کَالْفَخَّارِ﴾ انسان کے جد امجد حضرت آدم علیہ السلام کو گیلی مٹی سے پیدا کیا، جس کے نم کو مہارت کے ساتھ محکم کیا گیا تھا یہاں تک کہ وہ خشک ہوگئی اور اس میں آگ پر پکائے گئے ٹھیکرے کی آواز مانند کھنکھنانے کی آواز پیدا ہوگئی۔ الرحمن
15 ﴿وَخَلَقَ الْجَانَّ﴾ اور جنات کے باپ ابلیس لعین کو پیدا کیا ﴿مِنْ مَّارِجٍ مِّنْ نَّارٍ﴾ آگ کے صاف شعلے سے یا اس سے مراد وہ شعلہ ہے جس کے ساتھ دھواں ملا ہوا ہو۔ یہ آیت کریمہ انسان کے عنصر کے شرف پر دلالت کرتی ہے جسے گارے اور مٹی سے پیدا کیا گیا ہے جو وقار، ثقل اور منافع کا محل ہے، بخلاف جنات کے عنصر، یعنی آگ کے جو خفت، طیش، شر اور فساد کا محل ہے جب اللہ نے دونوں گروہوں کی تخلیق اور ان کا مادہ تخلیق بیان فرمایا، یہ ان پر اللہ تعالیٰ کا احسان تھا، تو ارشاد فرمایا: ﴿فَبِاَیِّ اٰلَاءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ﴾ ’’(اے جن وانس!) پھر تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟‘‘ الرحمن
16 الرحمن
17 یعنی اللہ تعالیٰ ہر اس چیز کارب ہے جس پر سورج چاند اور روشن ستارے طلوع وغروب ہوتے ہیں اور وہ سب کچھ جس کے اندر چاند اور سورج ہیں تو وہ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت اور اس کے دست تدبیر کے تحت ہیں۔ اللہ نے یہاں مشرق اور مغرب کو سورج کے گرمیوں اور سردیوں کے مقامات طلوع وغروب کے مختلف ہونے کے اعتبار سے تثنیہ ذکر کیا ہے۔ واللّٰہ اعلم الرحمن
18 الرحمن
19 یہاں بحرین سے مراد ہے: میٹھے پانی کا سمندر اور نمکین پانی کا سمندر جو آپس میں مل جاتے ہیں۔ (دریا کا) میٹھا پانی نمکین سمندر میں گرتا ہے، پھر دونوں قسم کے پانی ایک دوسرے سے مل جاتے ہیں مگر اللہ نے ان دونوں کے درمیان زمین کو ایک رکاوٹ بنارکھا ہے ایک پانی دوسرے پانی پر سرکشی نہیں کرتا اور یوں دونوں پانیوں کی منفعت حاصل ہوتی ہے لوگ میٹھے پانی کو خود پیتے ہیں اور اس سے اپنے باغات اور کھیتی باڑی کو سیراب کرتے ہیں، کھاری پانی فضا کو پاک صاف کرتا ہے، اس میں وہیل، مچھلیاں، موتی اور گھونگے پیدا ہوتے ہیں اور یہ کشتیوں اور دیگر بحری سواریوں کے لیے مستقر اور مسخر ہوتا ہے۔ الرحمن
20 الرحمن
21 الرحمن
22 الرحمن
23 الرحمن
24 یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے سمندروں میں چلنے والی کشتیوں کو مسخر کیا جو اللہ کے حکم سے سمندر کے سینے کو چیرتی چلی جاتی ہیں جن کو آدمیوں نے بنایا ہے جو اپنی عظمت کی وجہ سے بڑے بڑے پہاڑوں کے مانند دکھائی دیتی ہیں لوگ ان کشتیوں پر سواری کرتے ہیں اور ان پر اپنا سامان تجارت اور دیگر اشیا لادتے ہیں جن کی وہ ضرورت اور حاجت محسوس کرتے ہیں آسمانوں اور زمین کی حفاظت کرنے والی ہستی ان کشتیوں کی حفاظت کرتی ہے یہ اللہ تعالیٰ کی جلیل القدر نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے۔ بنابریں فرمایا: ﴿فَبِاَیِّ اٰلَاءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ﴾ ’’(اے جن وانس!) پھر تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے۔‘‘ الرحمن
25 یعنی زمین کی ہر چیز انسان، جنات، جانور اور تمام مخلوقات فنا اور ہلاک ہوجائیں گے اور وہ زندہ ہستی باقی رہ جائے گی جو کبھی نہیں مرے گی۔ الرحمن
26 ﴿ ذُو الْجَلٰلِ وَالْاِکْرَامِ﴾ جو عظمت اور کبریائی کی مالک ہے جو مجد اور بزرگی کی مالک ہے جس کی بنا پر اس کی تعظیم اور عزت کی جاتی ہے اور اس کے جلال کے سامنے سرتسلیم خم کیا جاتا ہے الاکرام سے مراد بے پایاں فضل اور جود ہے جس کے ذریعے سے اللہ اپنے اولیا خواص کو مختلف انواع کے اکرام کے ذریعے سے تکریم بخشتا ہے جس کی بنا پر اس کے اولیا خواص اس کی تکریم کرتے اس کے جلال کا اقرار کرتے ہیں اس کی تعظیم کرتے ہیں اس سے محبت کرتے ہی اس کی طرف رجوع کرتے ہیں اور اس کی عبادت کرتے ہیں۔ الرحمن
27 پھر فرمایا: ﴿ فَبِاَیِّ اٰلَاءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ﴾ (اے جن وانس) پھر تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے۔ الرحمن
28 الرحمن
29 یعنی اللہ تعالیٰ بذاتہ تمام مخلوقات سے بے نیاز ہے وہ بے پایاں جودو کرم کا مالک ہے۔ تمام مخلوق اس کی محتاج ہے، وہ اس سے اپنی حوائج کے متعلق اپنے حال وقال کے ذریعے سے سوال کرتے ہیں۔ وہ لمحہ بھر بلکہ اس سے بھی کم وقت کے لیے اس سے بے نیاز نہیں رہ سکتے اور اللہ تعالیٰ ﴿کُلَّ یَوْمٍ ہُوَ فِیْ شَاْنٍ﴾ ’’ہر روز (ہر وقت) ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔‘‘ یعنی وہ محتاج کو غنی کرتا ہے ٹوٹے ہوئے کو جوڑتا ہے کسی قوم کو عطا کرتا ہے کسی کو محروم کرتا ہے وہ موت دیتا اور زندگی عطا کرتا ہے، وہی کسی کو جھکاتا اور کسی کو بلند کرتا ہے، کوئی کام اسے کسی دوسرے کام سے غافل نہیں کرتا، مسائل اسے کسی غلطی میں مبتلا نہیں کرسکتے، مانگنے والوں کا اصرار کے ساتھ مانگنا اور سوال کرنے والوں کالمبا چوڑا سوال اسے زچ نہیں کرسکتا۔ پاک ہے وہ ذات جو فضل وکرم کی مالک اور بے حد وحساب عطا کرنے والی ہے، جس کی نوازشیں زمین اور آسمان والوں سب کے لیے عام ہیں اس کالطف وکرم ہر آن اور ہر لحظہ تمام مخلوق پر سایہ فگن ہے، نہایت بلند ہے وہ ہستی جس کو گناہ گاروں کا گناہ اور اس سے اور اس کے کرم سے ناواقف فقرا کا استغنا عطا کرنے سے روک نہیں سکتا۔ یہ تمام معاملات جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ وہ ہر روز کام میں ہوتا ہے وہ تقادیر اور تدابیر ہیں، جن کو اس نے ازل میں مقدر کردیا، اللہ تبارک تعالیٰ ان کو ان اوقات میں جن کا تقاضا اس کی حکمت کرتی ہے، نافذ کرتا رہتا ہے، یہ اس کے احکام دینی ہیں جو اوامر ونواہی پر مشتمل ہیں اور یہ اس کے احکام کونی وقدری ہیں جن کو وہ اپنے بندوں پر اس وقت تک جاری کرتا رہے گا جب تک کہ ان کا قیام اس دنیا میں ہے۔ جب یہ مخلوقات تمام ہوجائے گی اور اللہ تعالیٰ سب کو فنا کردے گا اور وہ چاہے گا کہ ان پر کوئی احکام جزائی نافذ کرے، انہیں اپنے عدل وفضل اور بے پایاں احسانات کا مشاہدہ کرائے جن کے ذریعے سے وہ اسے پہچانتے ہیں، اس کی توحید بیان کرتے ہیں وہ مکلفین کو امتحان وابتلا کے گھر سے ہمیشہ کی زندگی والے گھر میں منتقل کرے گا، تب وہ ان احکام کو نافذ کرنے کے لیے فارغ ہوگا جن کی تنفیذ کا وقت آپہنچا ہے۔ اللہ کا درج ذیل ارشاد اسی بات پر دلالت کرتا ہے: الرحمن
30 الرحمن
31 الرحمن
32 الرحمن
33 جب اللہ تعالیٰ لوگوں کو قیامت کے روز جمع کرے گا تو انہیں ان کی کمزوری وبے بسی اور اپنی کامل طاقت اپنی مشیت اور قدرت کی تنفیذ سے آگاہ کرے گا اور ان کی بے بسی کو ظاہر کرتے ہوئے فرمائے گا: ﴿یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ اِنِ اسْتَطَعْتُمْ اَنْ تَنْفُذُوْا مِنْ اَقْـطَارِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ﴾ یعنی اے جنوں اور انسانوں کی جماعت! اگر تمہیں کوئی راستہ اور کوئی سوراخ ملتا ہے جہاں سے تم اللہ کی بادشاہی اور اس کی سلطنت سے نکل بھاگو ﴿فَانْفُذُوْا لَا تَنْفُذُوْنَ اِلَّا بِسُلْطٰنٍ﴾ تو تم نکل بھاگوا لیکن تم قوت، طاقت اور کامل قدرت کے بغیر اللہ تعالیٰ کی سلطنت سے باہر نہیں نکل سکتے۔ یہ قوت انہیں کہاں سے حاصل ہو حالانکہ وہ خود اپنے آپ کو کوئی نفع یا نقصان پہنچانے کا اختیار رکھتے ہیں نہ زندگی اور موت کانہ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کرنے پر قادر ہیں۔ اس مقام پر اللہ کی اجازت کے بغیر کوئی شخص کلام نہیں کرسکے گا اور مدہم سی آوازوں کے سوا تم کچھ نہیں سن سکو گے۔ اس مقام پر بھی بادشاہ اور غلام، سردار اور رعایا، یا غنی اور محتاج سب برابر ہوں گے پھر اللہ تعالیٰ نے ان چیزوں کا ذکر فرمایا جو اس دن ان کے لیے تیار کی گئی ہوں گی۔ الرحمن
34 الرحمن
35 یعنی تم پر آگ کے صاف شعلے چھوڑے جائیں گے۔ ﴿وَّنُحَاسٌ﴾ ’’اور دھواں۔‘‘ اور یہ ایسے شعلے ہوں گے کہ ان میں دھواں ملا ہوا ہوگا۔ معنی یہ ہے کہ یہ دونوں قبیح چیزیں تم پر چھوڑ دی جائیں گی جو تمہیں گھیر لیں گی پس تم خود مدد کرسکو گے نہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اور تمہاری مدد کرسکے گا۔ چونکہ اپنے بندوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی تخویف اس کی طرف سے ان کے لیے ایک نعمت اور ایک کوڑا ہے جو انہیں بلند ترین مقاصد اور بہترین مواہب کے حصول کے لیے رواں دواں رکھتا ہے۔ اس لیے اپنے احسان کا ذکر فرماتے ہوئے کہا: ﴿فَبِاَیِّ اٰلَاءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ﴾ ’’پھر (اے جن وانس!) تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟‘‘ الرحمن
36 الرحمن
37 ﴿فَاِذَا انْشَقَّتِ السَّمَاءُ﴾ یعنی جب قیامت کے روز ہولناکیوں، شدت غم اور خوف کی وجہ سے آسمان پھٹ جائے گا، سورج اور چاند بے نور ہوجائیں گے اور ستارے بکھر جائیں گے ﴿ فَكَانَتْ ﴾ ’’تو وہ ہوجائے گا شدت خوف اور گھبراہٹ کی وجہ سے ﴿وَرْدَۃً کَالدِّہَانِ﴾ ’’سرخ چمڑے کی طرح سرخی مائل۔‘‘ یعنی تانبے اور پگھلے ہوئے سیسے وغیرہ کی طرح ہوجائے گا۔ الرحمن
38 الرحمن
39 یعنی جو کچھ ان کے ساتھ واقع ہوا ہے اس کے بارے میں معلوم کرنے کے لیے ان سے سوال نہیں کیا جائے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ غائب اور شاہد، ماضی اور مستقبل، ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ بندوں کے احوال کے بارے میں اپنے علم کے مطابق ان کو جزا دے۔ اللہ تعالیٰ نے قیامت کے روز اہل خیر اور اہل شر کی کچھ علامات مقرر کررکھی ہیں جن کے ذریعے سے وہ پہچانے جائیں گے جیسا کہ اللہ کا قول ہے: ﴿ يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوهٌ ﴾(آل عمران:3؍106) ’’اس روز کچھ چہرے سفید ہوں گے اور کچھ چہرے سیاہ۔‘‘ الرحمن
40 الرحمن
41 یعنی مجرموں کو ان کی پیشانیوں کے بالوں سے اور ان کے پاؤں سے پکڑ کر جہنم کے اندر پھینک دیا جائے گا اور جہنم کی طرف انہیں گھسیٹ کرلے جایا جائے گا اور اللہ تعالیٰ ان سے محض زجر وتوبیخ اور جو کچھ ان کے ساتھ واقع ہو اس کے تحقق کے لیے سوال کرے گا حالانکہ ان کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کے بارے میں وہ ان سے بہتر جانتا ہے مگر اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ مخلوق پر اس کی حجت بالغہ اور حکمت جلیلہ ظاہر ہوجائے۔ الرحمن
42 الرحمن
43 جنہوں نے وعدہ وعید کو جھٹلایا، جب ان پر جہنم کی آگ بھڑکے گی تو ان سے کہا جائے گا: ﴿ہٰذِہٖ جَہَنَّمُ الَّتِیْ یُکَذِّبُ بِہَا الْمُجْرِمُوْنَ﴾ ’’یہی وہ جہنم ہے جسے گناہ گار جھٹلاتے تھے۔‘‘ پس ان کی تکذیب ان کو رسوا کرے گی اور اب وہ اس کے عذاب، اس کی سزا، اس کی بھڑکتی ہوئی آگ اور اس کی بیڑیوں کا مزا چکھیں گے یہ ان کے لیے ان کی تکذیب کی جزا ہے۔ الرحمن
44 ﴿یَطُوْفُوْنَ بَیْنَہَا﴾ ’’وہ جہنم کے درمیان گھو میں گے۔‘‘ یعنی جہنم اور اس کے شعلوں کے طبقوں میں گھومتے پھریں گے۔ ﴿وَبَیْنَ حَمِیْمٍ اٰنٍ﴾ اور وہ سخت کھولتے ہوئے پانی کے درمیان بھی گھو میں گے، جس کی حرارت انتہا کو پہنچی ہوئی ہوگی اور زمہریر جس کی ٹھنڈک بہت شدید ہوگی۔ ﴿فَبِاَیِّ اٰلَاءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ﴾ ’’پھر (اے جن وانس!) تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟‘‘ الرحمن
45 الرحمن
46 جب اللہ تعالیٰ نے یہ ذکر فرمایا کہ وہ مجرموں کے ساتھ کیا سلوک کرے گا تو اللہ سے ڈرنے والے تقوی شعار لوگوں کی جزا کا بھی ذکر فرمایا: یعنی اس شخص کے لیے جو اپنے رب اور اس کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈر گیا، اس نے نواہی کو ترک کردیا اور جس کام کا اسے حکم دیا گیا اس کی تعمیل کی دو جنتیں ہیں جن کے برتن، زیورات اور عمارتیں اور ان میں موجود تمام چیزیں سونے کی ہوں گی۔ ایک جنت ان کو اس امر کی جزا کے طور پر عطا کی جائے گی کہ انہوں نے منہیات کو ترک کردیا اور دوسری جنت نیکیوں کی جزا ہوگی۔ ان دونوں جنتوں کا ایک وصف یہ ہے کہ ﴿ذَوَاتَآ اَفْنَانٍ﴾ ’’ان دونوں میں بہت سی شاخیں ہیں۔‘‘ [﴿اَفْنَان ﴾فَنَن کی جمع ہے بمعنی شاخ یا فَنّ کی جمع ہےبمعنی نعمتیں] یعنی ان جنتوں میں انواع واقسام کی ظاہری اور باطنی نعمتیں ہوں گی جو کسی آنکھ نے دیکھی ہیں نہ کسی کان نے سنی ہیں اور نہ کسی کے خیال میں آئی ہیں ان جنتوں میں بے شمار خوبصورت درخت ہوں گے جن کی نرم ونازل ڈالیوں پر بے شمار پکے ہوئے لذیذ پھل ہوں گے۔ الرحمن
47 الرحمن
48 الرحمن
49 الرحمن
50 ان جنتوں کے اندر ﴿ عَیْنٰنِ تَجْرِیٰنِ﴾ ’’دو چشمے بہہ رہے ہوں گے‘‘ وہ ان چشموں سے جہاں چاہیں گے اور ارادہ کریں گے نہریں نکال کرلے جائیں گے۔ الرحمن
51 الرحمن
52 ﴿فِیْہِمَا مِنْ کُلِّ فَاکِہَۃٍ ﴾ ان میں پھلوں کی تمام اصناف میں سے ﴿ زَوْجٰنِ ﴾ دو دو انواع ہوں گی، ہر ایک کی اپنی اپنی لذت اور اپنا اپنا رنگ ہوگا اور جو دوسری نوع میں نہ ہوگا۔ الرحمن
53 الرحمن
54 ﴿مُتَّکِــــِٕیْنَ عَلٰی فُرُشٍ بَطَایِٕنُہَا مِنْ اِسْتَبْرَقٍ ﴾ ’’وہ ایسی مسندوں پر تکیے لگائے(بیٹھے) ہوں گے جن کے استر دبیز ریشم کے ہوں گے۔‘‘ یہ اہل جنت کے بچھونوں اور ان بچھونوں پر ان کے بیٹھنے کا وصف ہے، نیز یہ کہ وہ تکیے لگائے ان بچھونوں پر بیٹھیں گے، یعنی ان کا بیٹھنا تمکنت، قرار اور راحت کا بیٹھنا ہوگا، جیسے بادشاہ تختوں پر بیٹھتے ہیں ان بچھونوں کا وصف اور حسن اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا حتی کہ ان کے نیچے والے حصے جو زمین کے ساتھ لگے ہوئے ہوتے ہیں، استبرق کے ہوں گے جو ریشم کی خوبصورت ترین اور اعلیٰ ترین قسم ہے تب ان بچھونوں کے ظاہری حصے جن پر بیٹھا جاتا ہے ان کی خوبصورتی کیسی ہوگی؟ ﴿وَجَنَا الْجَنَّـتَیْنِ دَانٍ﴾ ’’اور ان دونوں جنتوں کے پھل قریب ہی ہوں گے۔‘‘ اَلْجَنٰی سے مراد ہے پوری طرح پکا ہوا پھل، یعنی ان دو جنتوں کے پھل تناول کے لیے بہت قریب ہوں گے، کھڑا ہوا، بیٹھا ہوا حتی کہ لیٹا ہوا شخص اسے آسانی سے حاصل کرسکے گا۔ الرحمن
55 الرحمن
56 ﴿فِیْہِنَّ قٰصِرٰتُ الطَّرْفِ ﴾ ’’ان میں نیچی نگاہیں والی (حوریں) ہوگی۔‘‘ یعنی ان کی نگاہیں، اپنے حسن و جمال اور اپنے شوہروں کے ساتھ کامل محبت کی بنا پر صرف انہی پر لگی ہوئی ہوں گی، اسی طرح ان کے شوہروں کی نگاہیں بھی ان کے حسن وجمال، ان کے وصل کی لذت اور ان کے ساتھ شدید محبت کی بنا پر صرف انہیں پر جمی ہوں گی۔ ﴿ لَمْ یَطْمِثْہُنَّ اِنْسٌ قَبْلَہُمْ وَلَا جَانٌّ﴾ یعنی ان سے پہلے انہیں جن وانس میں سے کسی نے حاصل نہ کیا ہوگا۔ بلکہ شوہر کی پیاری دوشیزائیں ہوں گی جو حسن اطاعت، حسن وجمال اور نازواد کی وجہ سے اپنے شوہروں کو بہت محبوب ہوں گی۔ الرحمن
57 الرحمن
58 ﴿کَاَنَّہُنَّ الْیَاقُوْتُ وَالْمَرْجَانُ﴾ ’’گویا وہ یاقوت اور مرجان ہیں‘‘ یہ ان کی صفائی، ان کے حسن وجمال اور ان کی خوبصورتی کی وجہ سے کہا گیا ہے۔ الرحمن
59 الرحمن
60 ﴿ہَلْ جَزَاءُ الْاِحْسَانِ اِلَّا الْاِحْسَانُ﴾ ’’احسان کی جزا احسان ہی ہے۔‘‘ یعنی کیا اس شخص کی جزا جس نے بہترین طریقے سے اپنے رب کی عبادت کی اور اس کے بندوں کو فائدہ پہنچایا اس کے سوا کچھ اور ہوسکتی ہے کہ ثواب جزیل، فوز کبیر، نعمتیں اور تکدر سے سلامت زندگی عطا کرکے اس کے ساتھ حسن سلوک کیا جائے؟ پس یہ دو بلند مرتبہ جنتیں مقربین کے لیے ہیں۔ الرحمن
61 الرحمن
62 ﴿وَمِنْ دُوْنِہِمَا جَنَّتٰنِ﴾ ’’اور ان دو کے علاوہ دو اور جنتیں ہیں۔‘‘ یہ جنتیں چاندی سے تعمیر کی گئی ہوں گی ان کے برتن، زیورات اور ان کے اندر موجود دیگر چیزیں چاندی سے بنی ہوں گی اور یہ سب کچھ اصحاب یمین کے لیے ہوگا یہ جنتیں﴿ مُدْهَامَّتَانِ﴾گہری سبز ہونے اور اپنی سیرابی کی وجہ سے سیاہ نظر آئیں گی۔ الرحمن
63 الرحمن
64 الرحمن
65 الرحمن
66 ﴿فِیْہِمَا عَیْنٰنِ نَضَّاخَتٰنِ﴾ ’’ان میں دو ابلنے والے چشمے ہیں۔‘‘ یعنی فوارے۔ الرحمن
67 الرحمن
68 ﴿فِیْہِمَا فَاکِہَۃٌ وَّنَخْلٌ وَّرُمَّانٌ﴾ ان جنتوں میں تمام اقسام کے پھل ہوں گے، خاص طور پر کھجور اور انار جن کے اندر بے شمار فوائد ہیں۔ الرحمن
69 الرحمن
70 ﴿فِیْہِنَّ ﴾ یعنی جنت کے ان تمام باغات میں﴿ خَیْرٰتٌ حِسَانٌ﴾ بہترین اخلاق اور خوبصورت چہروں والی عورتیں ہوں گی پس وہ ظاہری اور باطنی جمال، حسن خلقت اور حسن اخلاق کی جامع ہوں گی۔ الرحمن
71 الرحمن
72 یعنی وہ حوریں موتیوں کے خیموں میں مستور ہوں گی جنہوں نے اپنے آپ کو اپنے شوہروں کے لیے تیار کررکھا ہوگا۔ ان کا خیموں میں مستور ہونا،ان کے جنت کے باغات میں نکلنے کے منافی نہیں،جیسا کہ باپردہ شہزادیوں کی عادت ہے۔ الرحمن
73 الرحمن
74 ان دونوں جنتوں کے اصحاب کا تکیہ سبز ریشم پر لگا ہوا ہوگا،یہ وہ بچھونے ہیں جو بیٹھنے کی بلند جگہوں کے نیچے ہوں گے جو ان بیٹھنے کی جگہوں سے زائد ہوں گے،ان کے بیٹھنے کی جگہ کے پیچھے ،اس کی خوبصورتی اور خوبصورت منظر میں اضافے کے لیے پردے لٹک رہے ہوں گے۔ الرحمن
75 الرحمن
76 ﴿ وَّعَبْقَرِیٍّ حِسَانٍ﴾ اَلْعَبْقَرِی ہر اس بُنے ہوئے کپڑے وغیرہ کو کہتے ہیں جسے نہایت خوبصورت طریقے سے بنایا گیا ہو،بنابریں ایک ایسے حسن کے ذریعے سے اس کا وصف بیان کیا گیا ہے جو حسن صنعت اور حسن منظر اور ملائمت لمس کو شامل ہے ۔یہ دونوں جنتیں ان پہلی جنتوں سے کم تر ہیں ۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اس ارشاد کے ذریعے سے منصوص فرمایا ہے :﴿وَمِن دُونِهِمَا جَنَّتَانِ﴾( الرحمٰن: 55؍62) ’’ا ور ان سے کمتر درجے کی دو جنتیں ہوں گی۔ ‘‘اور پہلی دو جنتوں کو متعدد اوصاف سے موصوف کیا ہے اور دوسری جنتوں کو ان اوصاف سے موصوف نہیں کیا ۔پہلی دو جنتوں کے بارے میں فرمایا :﴿فِيهِمَا عَيْنَانِ تَجْرِيَانِ﴾(الرحمٰن:55؍50) ’’ان میں دو چشمے جاری ہیں۔ ‘‘اور آخری دو جنتوں کے بارے میں فرمایا :﴿ فِيهِمَا عَيْنَانِ نَضَّاخَتَانِ ﴾(الرحمٰن:55؍66) ’’ان میں دو چشمے ابل رہے ہیں ۔ ‘‘اور یہ ایک معلوم امر ہے کہ جاری چشموں اور ابلنے والے چشموں کے درمیان فرق ہے۔ پہلی جنتوں کے بارے میں فرمایا :﴿ ذَوَاتَا أَفْنَانٍ ﴾(الرحمٰن:55؍48) ’’دونوں جنتیں شاخوں والی ہیں ۔ ‘‘اور آخرالذکر جنتوں کے بارے میں یہ الفاظ ارشاد نہیں فرمائے ۔ اول الذکر جنتوں کے بارے میں فرمایا :﴿فِيهِمَا مِن كُلِّ فَاكِهَةٍ زَوْجَانِ﴾( الرحمٰن:55؍56) ’’ان جنتوں میں ہر قسم کے پھلوں کی دو دو قسمیں ہوں گی ۔ ‘‘اور آخر الذکر کے بارے میں فرمایا: ﴿فِيهِمَا فَاكِهَةٌ وَنَخْلٌ وَرُمَّانٌ﴾( الرحمٰن: 55؍68) ’’ان دونوں میں پھل ،کھجور اور انار ہوں گے ۔ ‘‘ان دونوں بیان کردہ اوصاف کے درمیان جو تفاوت ہے وہ معلوم ہے۔ اول الذکر جنتوں کے بارے میں فرمایا: ﴿مُتَّكِئِينَ عَلَىٰ فُرُشٍ بَطَائِنُهَا مِنْ إِسْتَبْرَقٍ ۚ وَجَنَا الْجَنَّتَيْنِ دَانٍ﴾ ( الرحمٰن: 55؍54) ’’جنتی ایسی مسندوں پر تکیہ لگائے ہوئے ہوں گے جن کے استر دبیز ریشم کے ہوں گے اور ان دونوں جنتوں کے پھل بالکل قریب ہی ہوں گے۔‘‘اور آخر الذکر کے بارے میں یہ الفاظ ذکر نہیں کیے بلکہ فرمایا :﴿مُتَّکِــــِٕیْنَ عَلٰی رَفْرَفٍ خُضْرٍ وَّعَبْقَرِیٍّ حِسَانٍ﴾ ’ ’ان (جنتوں میں) سبز قالینوں اور عمدہ بچھونوں پر تکیے لگائے ہوئے ہوں گے ۔ ‘‘اول الذکر جنتوں کی عورتوں کے اوصاف کے بارے میں فرمایا :﴿فِيهِنَّ قَاصِرَاتُ الطَّرْفِ لَمْ يَطْمِثْهُنَّ إِنسٌ قَبْلَهُمْ وَلَا جَانٌّ﴾ (الرحمٰن :55؍56)’’وہاں نیچی نگاہ والی (حوریں) ہیں جنہیں ان سے پہلے کسی جن وانس نے ہاتھ نہیں لگایا ۔ ‘‘اور آخرالذکر کے بارے میں فرمایا: ﴿حُورٌ مَّقْصُورَاتٌ فِي الْخِيَامِ﴾ (الرحمٰن:55؍72) ’’حوریں جو خیموں میں محفوظ ہوں گی ۔ ‘‘ان دونوں کے درمیان جو تفاوت ہے وہ بھی معلوم ہے۔ اول الذکر جنت کے بارے میں فرمایا :﴿هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ﴾ (الرحمٰن:55؍60) ’’احسان کا بدلہ احسان کے سوا کیا ہے؟‘‘یہ چیز دلالت کرتی ہے کہ یہ جنتیں محسنین کی جزا ہیں ۔ آخرالذکر جنتوں کے بارے میں یہ نہیں کہا ،یا نیز اول الذکر جنتوں کی مجرد تقدیم ہی ان کی فضیلت پر دلالت کرتی ہے۔ مذکورہ بالا وجوہات کی بنا پر اول الذکر جنتوں کی آخر الذکر جنتوں پر فضیلت کی معرفت حاصل ہوتی ہے،نیز معلوم ہوتا ہے کہ اول الذکر جنتیں مقربین یعنی انبیا ء،صدیقین اور اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں میں سے خواص کے لیے تیار کی گئی ہیں اور آخر الذکر جنتیں تمام اہل ایمان کے لیے تیار کی گئی ہیں۔ ان مذکورہ تمام جنتوں میں ایسی ایسی نعمتیں ہوں گی جو کسی آنکھ نے دیکھی ہیں نہ کسی کان نے سنی ہیں اور نہ کسی بشر کے دل میں کبھی ان کا تصور آیا ہے۔ان جنتوں میں ایسی ایسی نعمتیں ہوں گی جن کی نفس خواہش کریں گے اور آنکھیں لذت حاصل کریں گی۔ان جنتوں کے رہنے والے انتہائی راحت،رضا، طمانینت اور بہترین مقام میں رہیں گے حتی کہ ہر شخص دوسرے کو اس سے بہتر حال اور ان نعمتوں سے اعلیٰ نعمتوں میں نہیں سمجھے گا جن میں وہ خود ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے بے پایاں فضل واحسان کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا: الرحمن
77 الرحمن
78 یعنی اس کی بھلائی بہت بڑی اور بہت زیادہ ہے وہ بہت بڑے جلال،کامل بزرگی اور اپنے اولیا ءکے لیے اکرام وتکریم کا مالک ہے۔ الرحمن
0 الواقعة
1 اللہ تبارک وتعالیٰ اس واقعہ کے حال کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے جس کا واقع ہونا لازمی ہے ،اس واقعہ سے مراد قیامت ہے۔ الواقعة
2 ﴿لَیْسَ لِوَقْعَتِہَا کَاذِبَۃٌ﴾ ’’اس کے واقع ہونے کے وقت کوئی بھی جھٹلانے والا نہ ہوگا۔ ‘‘یعنی اس میں شک نہیں کیونکہ بکثرت عقلی وسمعی دلائل اس کی تائید کرتے ہیں اور حکمت الٰہی اس پر دلالت کرتی ہے۔ الواقعة
3 ﴿خَافِضَۃٌ رَّافِعَۃٌ﴾ ’’وہ پست کرنے والی اور بلند کرنے والی ہوگی۔ ‘‘ یعنی یہ واقعہ کچھ لوگوں کو اسفل السافلین کی پستیوں تک گرانے والا ہے اور کچھ کو اعلیٰ علیین کی بلندیوں پر پہنچائے گا یا اس کا معنی یہ ہے کہ اس کی آواز دھیمی ہوگی کہ قریب کے لوگوں ہی کو سنائی دے گی اور اس کی آواز اتنی بلند ہوگی کہ دور دور تک سنائی دے گی۔ الواقعة
4 ﴿اِذَا رُجَّتِ الْاَرْضُ رَجًّا﴾ یعنی جب زمین کو حرکت دی جائے گی اور وہ لرزنے لگے گی۔ الواقعة
5 ﴿وَّبُسَّتِ الْجِبَالُ بَسًّا﴾ اور پہاڑٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہوجائیں گے۔ الواقعة
6 ﴿فَکَانَتْ ہَبَھاءً مُّنْبَثًّا﴾ ’’پھروہ مثل پراگندہ غبار کے ہوجائیں گے۔ ‘‘ زمین کی حالت یہ ہوجائےگی کہ اس پر کوئی پہاڑ رہے گا نہ کوئی اونچی جگہ ،بس ہموار اور چٹیل میدان ہوگا اور اس میں کوئی نشیب وفراز نظر نہیں آئے گا۔ الواقعة
7 ﴿وَّکُنْتُمْ اَزْوَاجًا ثَلٰثَۃً﴾ ’’اور (اے مخلوقات!) تم تین جماعتیں ہوجاؤ گے۔ ‘‘یعنی تم اپنے اچھے برے اعمال کے مطابق تین گروہوں میں تقسیم ہوجاؤ گے پھر اللہ تعالیٰ نے ان تین گروہوں کے احوال کی تفصیل بیان فرمائی ہے۔ الواقعة
8 چنانچہ فرمایا :﴿فَاَصْحٰبُ الْمَیْمَنَۃِ ڏ مَآ اَصْحٰبُ الْمَیْمَنَۃِ﴾ ’’پس دائیں (ہاتھ )والے کیا (خوب ) ہیں دائیں (ہاتھ )والے!‘‘ یہ آیت ان کی شان کی عظمت اور ان کے احوال کی برتری کو ظاہر کرتی ہے۔ الواقعة
9 ﴿وَاَصْحٰبُ الْمَشْـَٔــمَۃِ ﴾ ’’اور بائیں (ہاتھ )والے ‘‘یعنی بائیں جانب کا گروہ ﴿ مَآ اَصْحٰبُ الْمَشْــَٔــمَۃِ﴾ ’’کیا (حقیر )ہیں بائیں (ہاتھ )والے؟‘‘ یہ آیت کریمہ اس گروہ کے احوال کی ہولناکیوں کو ظاہر کرتی ہے۔ الواقعة
10 ﴿وَالسّٰبِقُوْنَ السّٰبِقُوْنَ ڌاُولٰیِٕکَ الْمُقَرَّبُوْنَ ﴾ ’’اور سبقت لے جانے والے تو سبقت لے جانے والے ہی ہیں ۔یہی لوگ مقرب ہیں ۔‘‘ یعنی جو دنیا میں نیکیوں کی طرف سبقت کرتے تھے، وہی آخرت میں جنت میں داخل ہونے کے لیے جنت کی طرف سبقت کریں گے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو جنت کے اندر اعلیٰ علیین میں بلند منازل پر مقربین کے وصف سے موصوف ہوں گے،اس سے بلند تر کوئی منزل نہیں۔ الواقعة
11 الواقعة
12 الواقعة
13 یہ مذکورہ لوگ ﴿ثُـلَّۃٌ مِّنَ الْاَوَّلِیْنَ﴾ اس امت اور دیگر امتوں کے متقدمین میں سے بہت سے لوگوں کی جماعت ہوگی۔ الواقعة
14 یہ آیت کریمہ فی الجملہ اس امت کے اولین کی آخرین پر فضیلت پر دلالت کرتی ہے کیونکہ آخرین کی نسبت اولین میں مقربین زیادہ ہیں۔ الواقعة
15 اور مقربین اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سے خاص لوگ ہیں جو ﴿عَلٰی سُرُرٍ مَّوْضُوْنَۃٍ﴾ ’’سونے کے تاروں سے بُنی ہوئی چارپائیوں پر ہوں گے ۔‘‘جو سونے،چاندی،موتیوں،جواہرات اور دیگر زیورات اور سامان آرائش سے آراستہ ہوں گی ۔ان چیزوں کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ الواقعة
16 ﴿مُّتَّکِـــِٕیْنَ عَلَیْہَا﴾ یعنی وہ ان تختوں پر نہایت تمکنت،اطمینان،راحت اور سکون کے ساتھ بیٹھیں گے ﴿مُتَقٰبِلِیْنَ﴾ ’’آمنے سامنے۔‘‘ ان کے دلوں کی صفائی،حسن ادب اور باہمی محبت کی بنا پر ،ان میں سے ہر ایک کا چہرہ اپنے ساتھی کی طرف ہوگا۔ الواقعة
17 ﴿یَــطُوْفُ عَلَیْہِمْ وِلْدَانٌ مُّخَلَّدُوْنَ﴾ یعنی اہل جنت کی خدمت اور ان کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کم عمر لڑکے گھوم پھر رہے ہوں گے جو حسن وجمال میں انتہا کو پہنچے ہوئے ہوں گے۔ ﴿كَأَنَّهُمْ لُؤْلُؤٌ مَّكْنُونٌ﴾( الطور :52؍24) ’’گویا کہ وہ چھپا کررکھے گئے موتی ہیں۔‘‘ ان تک کوئی ایسی چیز نہیں پہنچ سکتی جو ان کو متغیر کردے۔ وہ ہمیشہ باقی رہنے کے لیے پیدا کیے گئے ہیں،وہ بوڑھے ہوں گے نہ بدلیں گے اور نہ ان کی عمر ہی بڑھے گی۔ وہ ان کے مشروبات کے برتن لے کر ان میں گھو میں پھریں گے۔ الواقعة
18 ﴿بِاَکْوَابٍ﴾ یعنی ایسے پیالوں کے ساتھ جن کے دستے نہیں ہوتے ﴿ وَّاَبَارِیْقَ ڏ﴾ اور ایسی صراحیوں کے ساتھ جن کے دستے ہوتے ہیں ﴿وَکَاْسٍ مِّنْ مَّعِیْنٍ﴾ اور شراب کے چھلکتے جام لیے ہوئےجو پینے میں نہایت لذیذ ہوگی مگر اس میں نشے کی آفت نہیں ہوگی۔ الواقعة
19 ﴿لَّا یُصَدَّعُوْنَ عَنْہَا﴾ یہ شراب ان کو سردرد میں مبتلا نہیں کرے گی جس طرح دنیا کی شراب پینے والے کوسردرد میں مبتلا کرتی ہے۔ ﴿وَلَا یُنْزِفُوْنَ﴾ یہ شراب پینے سے ان کی عقل زائل ہوگی نہ ہوش وحواس ساتھ چھوڑیں گے جیسا کہ دنیا کی شراب سے ہوتا ہے۔ اس کا حاصل یہ ہے کہ جنت کے اندر جو نعمتیں مہیا ہوں گی ان کی جنس دنیا میں موجود ہے،البتہ جنت کے اندر کوئی خرابی پیدا کرنے والی چیز نہ ہوگی جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿فِيهَا أَنْهَارٌ مِّن مَّاءٍ غَيْرِ آسِنٍ وَأَنْهَارٌ مِّن لَّبَنٍ لَّمْ يَتَغَيَّرْ طَعْمُهُ وَأَنْهَارٌ مِّنْ خَمْرٍ لَّذَّةٍ لِّلشَّارِبِينَ وَأَنْهَارٌ مِّنْ عَسَلٍ مُّصَفًّى ﴾( محمد:47؍15) ’’اس میں (ایسے )پانی کی نہریں ہیں جو بدلنے والا نہیں اور ایسے دودھ کی نہریں ہیں جس کا ذائقہ (کبھی )تبدیل نہ ہوا ہوگا،اور ایسی شراب کی نہریں ہیں جو پینے والوں کو لذت دے گی اور صاف شفاف شہدکی نہریں ہیں ۔‘‘اللہ تعالیٰ نے یہاں شراب جنت کا ذکر کیا ہے، پھر اس سے ہر خرابی کی نفی کردی جو دنیا کی شراب میں پائی جاتی ہے۔ الواقعة
20 یعنی جو لذیذ اور خوش ذائقہ میوے وہ منتخب کریں گے یا ان کی آنکھوں کو بھلے لگیں گے اور ان کے دل ان کو کھانا چاہیں گے وہ کامل ترین اور بہتر صورت میں ان کو حاصل ہوں گے۔ الواقعة
21 یعنی پرندوں کی تمام اصناف کا گوشت جووہ چاہیں گے اور جس قسم کا گوشت وہ چاہیں گے، انہیں مہیا ہوگا۔ اگر وہ بھنا ہوگوشت چاہیں گے تو وہ ملے گا ،اور اگر وہ پکا ہوا گوشت یا اس کے علاوہ کسی اور قسم کا گوشت چاہیں گے تو وہ بھی مہیا ہوگا۔ الواقعة
22 یعنی ان کے لیے بڑی بڑی آنکھوں والی گوری چٹی عورتیں ہوں گی ۔اَلحَورًاءاس عورت کو کہا جاتا ہے جس کی آنکھیں سرمگیں ہوں اور ان میں ملاحت اور حسن وجمال ہو۔ اَلعَین بڑی بڑی حسین آنکھوں والی عورتوں کو کہا جاتاہے ۔عورت کی آنکھوں کا حسن،اس کے حسن وجمال کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ الواقعة
23 ﴿كَأَمْثَالِ اللُّؤْلُؤِ الْمَكْنُونِ﴾ گویا کہ وہ تازہ ،صاف اور خوبصورت موتی ہوں جو آنکھوں،ہوااورسورج سے چھپا ہوا ہو، جس کارنگ بہترین رنگ ہوتا ہے ،اس میں کسی بھی لحاظ سے کوئی عیب نہیں ہوتا۔ اس طرح بڑی بڑی خوبصورت آنکھوں والی حوریں ہوں گی،جن میں کسی بھی لحاظ سے کوئی عیب نہ ہوگا بلکہ وہ کامل اوصاف اور بہترین صفات کی مالک ہوں گی ۔آپ ان اوصاف میں جتنا بھی غور کریں گے،آپ ایسی چیز پائیں گے جو دل کو خوش کرے گی اور دیکھنے والے کو اچھی لگے گی۔ الواقعة
24 یہ نعمتیں جو ان کے لیے تیار کی گئی ہیں ﴿جَزَاءً بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ﴾ ’’ان اعمال کی جزا ہے جو وہ کیا کرتے تھے۔ ‘‘جس طرح ان سے اچھے اعمال صادر ہوئے ہیں ،اسی طرح اللہ تعالیٰ ان کو اچھی جزا عطا کرے گا ان کو فوزعظیم اور بے شمار نعمتوں سے سرفراز کرے گا۔ الواقعة
25 یعنی ان نعمتوں بھری جنتوں میں کوئی ایسی بات نہیں سنیں گے جو لغو ہوجس میں کوئی فائدہ نہ ہو اور نہ کوئی ایسی بات سنیں گے جس کو کہنے والے گناہ گار ہوں۔ الواقعة
26 یعنی سوائے اچھی بات کے کوئی بات نہیں سنیں گے کیونکہ یہ پاک لوگوں کا گھر ہوگا ،اس میں صرف پاک چیزیں ہوں گی ۔یہ آیات کریمہ دلالت کرتی ہیں کہ اہل جنت ایک دوسرے سے مخاطب ہونے میں حسن ادب سے کام لیں گے ،ان کا کلام بہترین کلام اور دلوں کو خوش کرنے والا ہوگا، ہر قسم کی لغویات اور گناہ سے پاک ہوگا ،ہم اللہ تعالیٰ سے اس کے فضل کا سوال کرتے ہیں کہ وہ ہمیں بھی اہل جنت میں شامل کرے۔ الواقعة
27 پھر اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ اس نے اصحاب یمین کے لیے کیا کچھ تیار کررکھا ہے،چنانچہ فرمایا: ﴿وَاَصْحٰبُ الْیَمِیْنِ ڏ مَآ اَصْحٰبُ الْیَمِیْنِ﴾ ’’اور داہنے( ہاتھ )والے کیا (ہی اچھے) ہیں داہنے (ہاتھ )والے۔ ‘‘ یعنی وہ عظیم الشان لوگ اور بڑے احوال کے مالک ہیں۔ الواقعة
28 یعنی بیری کے کانٹے اور ردی قسم کی ضرر رساں شاخیں تراش دی گئی ہوں گی اور ان کی جگہ نہایت لذیذ پھل لگا دیے جائیں گے۔ گہراسایہ اور راحت جسم،بیری کے درخت کے خواص میں شگمار ہوتے ہیں۔ الواقعة
29 ﴿وَّطَلْحٍ﴾ معروف درخت ہے،یہ بہت بڑا درخت ہوتا ہے جو صحراؤں میں اگتا ہے ،اس کی شاخیں لذیذ اور مزیدار پھل سے لدی ہوئی ہوتی ہیں۔ الواقعة
30 الواقعة
31 یعنی بہت سے چشموں اور بہتی ہوئی ندیوں کا بہتا اور اچھلتا ہوا پانی ہے۔ الواقعة
32 یعنی یہ پھل دنیا کے پھلوں کے مانند نہیں ہوں گے جو کسی وقت ختم ہوجاتے ہیں اور ان کو تلاش کرنے والوں کے لیے ان کا حصول مشکل ہوجاتا ہے بلکہ یہ ہمیشہ کے لیے موجود رہیں گے،ان کو بہت قریب سے چنا جاسکے گا،بندہ مومن ہر حال میں ان کو حاصل کرسکے گا۔ الواقعة
33 الواقعة
34 یعنی ان بچھونوں کو بہت بلند تختوں سے بھی بلند کیا گیا ہوگا ۔یہ بچھونے ریشم،سونے،موتیوں اور ایسی ایسی چیزوں سے بنے ہوئے ہوں گے جن کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ الواقعة
35 یعنی ہم نے اہل جنت کی عورتوں کو ایسی تخلیق پر پیدا کیا ہے جو دنیا کی تخلیق سے مختلف ہے ،یہ ایک ایسی کامل تخلیق ہے جس کو فنا نہیں۔ الواقعة
36 ہم جنت کی تمام چھوٹی بڑی عورتوں کی دو شیزائیں بنا دیں گے ۔اس کا عموم خوبصورت آنکھوں والی حوروں اور دنیا کی عورتوں کو شامل ہے اور یہ وصف،یعنی دوشیزگی‘ تمام احوال میں ان کا وصف لازم ہے جس طرح ان کا ﴿عُرُبًا اَتْرَابًا﴾ ’’محبت والیاں اور ہم عمر ہونا‘‘۔ ہر حال میں وصف لازم ہے۔ اَلعُرُوب اس عورت کو کہا جاتا ہے جو اپنے حسن ہیبت،اپنی ناز وادا ،اپنے جمال اور اپنی محبت کی وجہ سے شوہر کو بہت محبوب ہو‘ یہی وہ عورت ہے کہ جب وہ بات کرتی ہے تو عقلوں کو غلام بنالیتی ہے اور سننے والا چاہتا ہے کہ اس کی بات کبھی ختم نہ ہو،خاص طور پر جب کہ وہ اس نرم اور مترنم آوازوں میں طربیہ نغمے گا رہی ہوں گی جب اس کا شوہر اس کے ادب، اس کی ہیبت اور اس کے ناز وادا کی طرف دیکھتا ہے تو اس کا دل فرحت وسرور سے لبریز ہوجاتا ہے،جب وہ اس جگہ سے کسی اور جگہ منتقل ہوجاتی ہے تو وہ جگہ اس کی خوشبو اور نور سے لبریز ہوجاتی ہے، اس میں جماع کے وقت ناز وادا بھی داخل ہے ۔ اور اَلاَترَاب ان عورتوں کو کہا جاتا ہے جو ایک ہی عمر میں ہوں، یعنی تینتیس سال کی عمر میں ہوں گی جس کے بارے میں زیادہ سے زیادہ تمنا کی جاتی ہے اور یہ جوانی کی کامل ترین عمر کی انتہا ہے۔ پس ان کی بیویاں ان کو بہت محبوب،ہم عمر،اتفاق اور الفت کرنے والی، راضی رہنے والی ہوں گی اور ان کے شوہر ان پر راضی ہوں گے بلکہ وہ دلوں کی فرحت، آنکھوں کی ٹھنڈک اور نگاہوں کی روشنی ہوں گی۔ الواقعة
37 الواقعة
38 یعنی (وہ بیویاں) اصحاب یمین کے لیے تیار اور ان کو مہیا کی جائیں گی۔ الواقعة
39 لوگوں کی یہ قسم،یعنی اصحاب یمین، اولین میں سے بہت سی تعداد اور آخرین میں سے بھی بہت سی تعداد پر مشتمل ہوگی۔ الواقعة
40 الواقعة
41 اصحاب شمال سے مراد،اہل جہنم اور ان کے منحوس اعمال ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے عذاب کا ذکر فرمایا ہے جس کے وہ مستحق ہوں گے ،چنانچہ آگاہ فرمایا کہ وہ ﴿فِیْ سَمُوْمٍ﴾ ’’باد سموم میں ہوں گے۔ ‘‘یعنی جہنم کی آگ کی حرارت سے گرم کی ہوئی ہوا جو ان کی سانسوں کو پکڑ لے گی اور سخت اضطراب میں مبتلا کردے گی ﴿وَحَمِيمٍ﴾ یعنی سخت کھولتے ہوئے پانی میں ہوں گے جو ان کی انتڑیوں کو کاٹ کررکھ دے گا۔ الواقعة
42 الواقعة
43 ﴿وَّظِلٍّ مِّنْ یَّحْمُوْمٍ﴾ ’’اور سیاہ ترین دھویں کے سائے میں ہوں گے۔‘‘ یعنی آگ کے شعلوں میں ہوں گے جن کے ساتھ دھواں ملا ہوا ہوگا۔ الواقعة
44 ﴿لَّا بَارِدٍ وَّلَا کَرِیْمٍ﴾ یعنی اس میں ٹھنڈک ہوگی نہ وہ خوش گوار ہوگا مقصد یہ ہے کہ وہاں ہم وغم اور حزن وشر ہوگا جس میں کوئی بھلائی نہ ہوگی کیونکہ ضد کی نفی سے اس کی ضد کا اثبات ہوتاہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کے اعمال کا ذکر فرمایا جنہوں نے ان کو اس انجام تک پہنچایا۔چنانچہ فرمایا :﴿اِنَّہُمْ کَانُوْا قَبْلَ ذٰلِکَ مُتْرَفِیْنَ﴾ یعنی وہ ایسے لوگ تھے کہ ان کی دنیا نے ان کو غافل کردیا،انہوں نے دنیا کے لیے کام کیا،دنیا کی آسائشوں میں مگن رہے، دنیا سے فائدہ اٹھاتے رہے اور دنیا کی مہت ہی نے ان کو اپنے عمل درست کرنے سے غافل رکھا۔پس یہی وہ خوش حالی ہے جس کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان کی مذمت کی ہے۔ الواقعة
45 الواقعة
46 ﴿ وَکَانُوْا یُصِرُّوْنَ عَلَی الْحِنْثِ الْعَظِیْمِ﴾ یعنی وہ بڑے بڑے گناہوں کا ارتکاب کرتے تھے اور ان سے توبہ کرتے تھے نہ انہیں ان گناہوں پر ندامت ہی ہوتی تھی بلکہ وہ ایسے کاموں پر مصر رہتے تھے جن سے ان کا آقا ناراض تھا۔ پس انہوں نے اپنے آقا کے سامنے بڑے بڑے گناہ پیش کیے جن کی بخشش نہ تھی ۔وہ موت کے بعد دوبارہ زندہ کیے جانے کا انکار کرتے تھے اور اس کے وقوع کو بہت بعید سمجھتے ہوئے کہتے تھے ﴿اَیِٕذَا مِتْنَا وَکُنَّا تُرَابًا وَّعِظَامًا ءَاِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ۔ اَوَاٰبَاؤُنَا الْاَوَّلُوْنَ ؀﴾’’کیا جب ہم مرجائیں گے اور مٹی اور ہڈیاں ہوجائیں گے تو کیا ہم پھر دوبارہ کھڑے کیے جائیں گے ؟اور کیا ہمارے اگلے باپ دادا بھی؟‘‘ اللہ تعالیٰ نے ان کی بات کا جواب اور ان کے قول کی تردید کرتے ہوئے فرمایا: الواقعة
47 الواقعة
48 الواقعة
49 یعنی گزری ہوئی اور آئندہ آنے والی تمام مخلوق کو اللہ تعالیٰ دوبارہ زندہ کرے گا اور انہیں ایک مقرر دن میں اکٹھا کرے گا جو اللہ نے تمام مخلوقت کے ختم ہوجانے پر،ان کو ان کے اعمال کی جزا وسزا دینے کے ارادے سے جو انہوں نے دنیا میں کیے تھے ان کو اکٹھا کرنے کے لیے مقرر کررکھا ہے۔ الواقعة
50 الواقعة
51 ﴿ثُمَّ اِنَّکُمْ اَیُّہَا الضَّالُّوْنَ ﴾ پھر بے شک تم ہدایت کے راستے سے بھٹک کر ہلاکت کے راستے پر چلنے والو! ﴿ الْمُکَذِّبُوْنَ ﴾رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور اس حق کو جو آپ لے کر آئے ہیں اور وعدہ وعید کو جھٹلانے والو! ﴿لَاٰکِلُوْنَ مِنْ شَجَرٍ مِّنْ زَقُّوْمٍ﴾ ’’تم تھوہر کے درخت سے ضرور کھاؤ گے۔ ‘‘یہ قبیح ترین اور خسیس ترین درخت ہے جس کی بدبو انتہائی گندی اور اس کا منظر انتہائی برا ہے۔ الواقعة
52 الواقعة
53 ﴿فَمَالِــــُٔـوْنَ مِنْہَا الْبُطُوْنَ﴾ ’’اس سے تم اپنے پیٹوں کو بھرو گے۔‘‘ وہ چیز جو انہیں اس درخت کو کھانے پر مجبور کرے گی، حالانکہ یہ بہت ہی گندا درخت ہوگا، بے انتہا بھوک ہوگی جو ان کے کلیجوں کو جلائے جارہی ہوگی ،قریب ہوگا کہ اس بھوک سے ان کا دل ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے یہ وہ کھانا ہے جس سے وہ اپنی بھوک کو مٹائیں گے جو ان کو موٹا کرے گا نہ ان کی بھوک مٹا سکے گا۔ الواقعة
54 ﴿فَشٰرِبُوْنَ عَلَیْہِ مِنَ الْحَمِیْمِ۔ فَشٰرِبُوْنَ شُرْبَ الْہِیْمِ﴾ رہا ان کا مشروب تو وہ بدترین مشروب ہے، وہ اس (تھوہر کے )کھانے کے بعد کھولتا ہوا پانی پئیں گے جو ان کے پیٹوں میں جوش مارے گا ،وہ اسے پیاسے اونٹ کی طرح پئیں گے جس کی پیاس انتہائی شدید ہو ۔ الواقعة
55 ﴿ الْہِیْمِ ﴾ سے مراد ایک بیماری ہے جو اونٹوں کو لاحق ہوتی ہے ،اس بیماری کی وجہ سے پانی پینے سے اونٹ کی پیاس نہیں بجھتی۔ الواقعة
56 ﴿ھٰذَا ﴾ یعنی یہ کھانا اور پینا ﴿ نُزُلُہُمْ ﴾ان کی ضیافت ہوگی﴿ یَوْمَ الدِّیْنِ ﴾’’قیامت کے دن۔‘‘ اور یہ وہ ضیافت ہے جسے انہوں نے اپنے لیے آگے بھیجا تھا اور جسے انہوں نے اللہ کی اس ضیافت پر ترجیح دی جو اس نے اپنے اولیاء کے لیے تیار کررکھی تھی۔ فرمایا ﴿ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ كَانَتْ لَهُمْ جَنَّاتُ الْفِرْدَوْسِ نُزُلًا خَالِدِينَ فِيهَا لَا يَبْغُونَ عَنْهَا حِوَلًا ﴾ (الکھف:18؍107۔108)’’بے شک جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک کام کیے ،مہمانی کے طور پر ان کے لیے جنت الفردوس ہے ،اس میں وہ ہمیشہ رہیں گے ‘وہاں سے وہ نقل مکانی کرنا نہیں چاہیں گے۔‘‘ الواقعة
57 پھر اللہ تعالیٰ نے حیات بعد الموت پر عقلی دلیل دیتے ہوئے فرمایا :﴿نَحْنُ خَلَقْنٰکُمْ فَلَوْلَا تُصَدِّقُوْنَ﴾ ’’ہم ہی نے تمہیں پیدا کیا ،پھر تم دوبارہ (جی اٹھنے کی) تصدیق کیوں نہیں کرتے۔ ‘‘یعنی ہم نے کسی عاجزی اور تھکاوٹ کے بغیر تمہیں وجود بخشا ،اس کے بعد کہ تم کوئی قابل ذکر چیز نہ تھے ،کیا اس کام پر قدرت رکھنے والا‘ مردوں کو زندہ کرنے پر قادر نہیں؟ کیوں نہیں !وہ ہر چیز پر قادر ہے ۔بنا بریں ان کے حیات بعد الموت کی تصدیق نہ کرنے پر ،ان کو زجر وتوبیخ کی ہے، حالانکہ وہ ایسے ایسے امور کا مشاہدہ کرتے ہیں جو اس سے زیادہ بڑے اور زیادہ بلیغ ہیں۔ الواقعة
58 یعنی کیا تم نے منی کے ذریعے سے اپنی تخلیق کی ابتدا پر غور کیا جو تم (اپنی بیویوں کے رحموں میں) ٹپکاتے ہو ؟کیا اس منی اور اس سے جو کچھ پیدا ہوتا ہے،اس کے خالق تم ہو یا اس کا خالق اللہ تعالیٰ ہے جس نے تم میں، یعنی مرد اور عورت میں شہوت پیدا کی ہے اور اس کے لیے دونوں میں سے ہر ایک کی راہ نمائی فرمائی۔ میاں بیوی کے درمیان محبت پیدا کی ،ان کے د رمیان مودت اور رحمت کا تعلق قائم کیا جو تناسل کا سبب ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے تخلیق اول کے ذریعے سے تخلیق ثانی پر استدلال کیا ہے، چنانچہ فرمایا ﴿وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ النَّشْاَۃَ الْاُوْلٰی فَلَوْلَا تَذَکَّرُوْنَ﴾ ’’اور تمہیں یقینی طور پر پہلی دفعہ کی پیدائش معلوم ہی ہے ،پھر کیوں تم عبرت حاصل نہیں کرتے؟‘‘ بے شک تمہاری تخلیق کی ابتدا پر قدرت رکھنے والی ہستی ،تمہیں دوبارہ پیدا کرنے پر قدرت رکھتی ہے۔ الواقعة
59 الواقعة
60 الواقعة
61 الواقعة
62 الواقعة
63 یہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے اپنے بندوں پر احسان ہے جس کے ذریعے سے وہ انہیں اپنی توحید،اپنی عبادت اور اپنی طرف رجوع کی دعوت دیتا ہے کہ اس نے ان کے لیے کھیتی باڑی اور باغات کو میسر کرکے انہیں نعمتوں سے نوازا ہے۔ اس کھیتی باڑی اور باغات سے خوراک،رزق اور پھل مہیا ہوتے ہیں جو ان کی ضرورت،حاجات اور ان کے مصالح میں شمار ہوتے ہیں ۔ان کا شکر ادا کرنا اور ان کا حق ادا کرنا تو کجا، وہ ان نعمتوں کو شمار تک نہیں کرسکتے۔ پس فرمایا ﴿ءَاَنْتُمْ تَزْرَعُوْنَہٗٓ اَمْ نَحْنُ الزّٰرِعُوْنَ﴾ یعنی کیا تم نے اس کو اگا کر زمین سے نکالا ہے؟ کیا تم نے اس کی نشونما دی ہے؟ کیا تم ہو جنہوں نے اس کے خوشوں اور اس کے پھل کو نکالا، یہاں تک کہ وہ تیار شکل میں اناج اور پکا ہوا پھل بن گیا ؟ یا یہ اللہ تعالیٰ کی ہستی ہے جو یہ سب کچھ سرانجام دینے میں متفرد ہے اور اسی نے تمہیں ان نعمتوں سے نوازا ہے ؟ تمہارے فعل کی غایت اور انتہا تو بس یہ ہے کہ تم زمین میں ہل چلاتے اور اسے پھاڑ دیتے ہو اور پھر اس میں بیج ڈال دیتے ہو‘ تمہیں کوئی علم نہیں کہ اس کے بعد کیا ہوتا ہے اور اس سے زیادہ پر تمہیں کوئی قدرت واختیار نہیں ،اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے ان کو آگاہ فرمایا کہ کھیتی خطرات کی زد میں رہتی ہے اگر اللہ تعالیٰ اس کی حفاظت کرکے، تمہاری گزران اور ایک مدت مقررہ تک استعمال کے لیے اسے باقی نہ رکھ(تا تو یہ کھیتی کبھی محفوظ نہ رہتی۔) الواقعة
64 الواقعة
65 ﴿لَوْ نَشَاءُ لَجَعَلْنٰہُ﴾ ’’اور اگر ہم چاہتے تو اسے کردیتے۔ ‘‘یعنی یہ کاشت کی گئی کھیتی اور اس کے اندر موجود پھل کو ﴿ حُطَامًا ﴾ ریزہ ریزہ کیا گیا چورا،جس میں کسی قسم کا کوئی فائدہ ہے نہ یہ رزق کا کام دیتا ہے ﴿فَظَلْتُمْیعنی اس کے چورا اور بھس بنائے جانے کے سبب سے ،اس کے بعد کہ تم نے اس میں بہت مشقت اٹھائی اور بہت زیادہ اخراجات برداشت کیے ،پھر تم ہوجاتے ﴿ تَفَكَّهُونَ ﴾ ندامت اٹھانے والے اور اس مصیبت پر حسرت زدہ ہونے والے جو تم پر نازل ہوئی، تمہاری ساری فرحت ،مسرت اور لذت زائل ہوجاتی اور تم کہہ اٹھتے: ﴿ إِنَّا لَمُغْرَمُونَ ﴾ ’’کہ بلا شبہ ہم پر چٹی ڈال دی گئی۔‘‘ یعنی ہم نے نقصان اٹھایا، ہم پر ایسی مصیبت نازل ہوئی جس نے ہمیں ہلاک کرڈالا، پھر اس کے بعد تمہیں معلوم ہوتا کہ یہ مصیبت تم پر کہاں سے آئی اور کس سبب سے یہ آفت تم پر آن پڑی ؟ پھر تم کہتے :﴿بَلْ نَحْنُ مَحْرُوْمُوْنَ﴾ ’’بلکہ ہم تو بالکل محروم ہی رہ گئے۔ ‘‘پس اللہ تعالیٰ کی حمد وستائش بیان کر وکہ اس نے تمہارے لیے کھیتی اگائی ،اسے باقی رکھا۔ اسے تمہارے لیے پایہ تکمیل کو پہنچایا ،اس پر کوئی آفت نہ بھیجی جس کی وجہ سے تم اس کے فائدے اور اس کی بھلائی سے محروم ہوجاتے۔ الواقعة
66 الواقعة
67 الواقعة
68 جب اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا کہ اس نے اپنے بندوں کو طعام کی نعمت سے نوازا ہے تو اس نے اس خوشگوار شیریں پانی کی نعمت کا بھی ذکر فرمایا جسے وہ پیتے ہیں، اگر اللہ تعالیٰ نے اس کو حاصل کرنا آسان اور سہل نہ بنایا ہوتا تو اس کے حصول کا تمہارے پاس کوئی راستہ نہ تھا۔ وہی ہے جس نے بادل میں سے اس کو نازل کیا ۔اللہ تعالیٰ ہی بارش نازل کرتا ہے ۔پھر روئے زمین پر اور زمین کے نیچے، اس پانی سے بہتے ہوئے دریا اور ابلتے ہوئے چشمے بن جاتے ہیں ۔یہ اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے کہ اس نے اسے خوشگوار شیریں بنایا جسے لوگ مزے سے پیتے ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو اسے کھاری اور کڑوا بنا دیتا جس سے فائدہ نہ اٹھایا جاسکتا ۔﴿ فَلَوْلَا تَشْكُرُونَ ﴾ پس تم ان نعمتوں پر اللہ تعالیٰ کا شکر کیوں نہیں ادا کرتے جو اس نے تمہیں عطا کی ہیں؟ الواقعة
69 الواقعة
70 الواقعة
71 یہ ایک ایسی نعمت ہے جو ضروریات زندگی میں داخل ہے جس سے مخلوق مستغنی نہیں رہ سکتی کیونکہ لوگ اپنے بہت سے امور اور حوائج میں اس کے محتاج ہیں ،پس اللہ تعالیٰ نے ان کے سامنے آگ کی نعمت کو متحقق کیا ہے جس کو اس نے درختوں کے اندر وجود بخشا، مخلوق میں یہ قدرت نہ تھی کہ وہ اسکے درخت کو پیدا کرتے ۔یہ تو اللہ تعالیٰ ہی ہے جس نے سرسبز درخت سے آگ کو پیدا کیا، تب یکایک یہ بندوں کی ضرورت کے مطابق جل اٹھتی ہے ،جب وہ اپنی ضرورت سے فرغ ہوجاتے ہیں تو اسے بجھا دیتے ہیں۔ الواقعة
72 الواقعة
73 ﴿نَحْنُ جَعَلْنٰہَا تَذْکِرَۃً﴾ یعنی ہم نے اس کو بندوں کے لیے ان کے رب کی نعمت اور جہنم کی آگ کی یاد دہانی بنایا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے نافرمان لوگوں کے لیے تیار کیا ہے، یہ (یاد دہانی )ایک کوڑا ہے جو اس کے بندوں کو نعمتوں بھری جنت کی طرف ہانکتا ہے۔ ﴿وَّمَتَاعًا لِّلْمُقْوِیْنَ﴾ یعنی فائدہ اٹھانے والوں یا مسافروں کے لیے کچھ سامان زیست بنایا۔ اللہ تعالیٰ نے مسافروں کو اس لیے مخصوص فرمایا کہ کیونکہ مسافر کے لیے اس کا فائدہ دوسروں کی نسبت زیادہ ہے اور شاید اس کا سبب یہ بھی ہو کہ دنیا تمام تر مسافر خانہ ہے ۔پس اس آگ کو اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں مسافروں کے لیے سامان زیست اور آخرت کے دائمی گھر کی یاد دہانی بنایا ہے۔ الواقعة
74 جب اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی نعمتوں کو بیان فرمایا جو بندوں کی طرف سے اس کی حمدوثنا ،اس کے شکر اور اس کی عبادت کی موجب ہیں تو اس نے اپنی تسبیح وتحمید کا حکم دیا۔ چنانچہ فرمایا :﴿فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّکَ الْعَظِیْمِ ﴾ یعنی اپنے رب عظیم کی تنزیہ بیان کیجئے۔ جو اسما ءوصفات میں کامل اور بے پایاں احسانات اور بھلائیوں کا مالک ہے۔ اپنے دل، زبان اور جوارح کے ساتھ اس کی حمد وستائش بیان کیجئے کیونکہ وہ اس کا اہل اور اس بات کا مستحق ہے کہ اس کا شکر ادا کیا جائے ،اس کی ناشکری نہ کی جائے ، اس کو یاد رکھا جائے اس کوفراموش نہ کیا جائے اور اس کی اطاعت کی جائے، نافرمانی نہ کی جائے۔ الواقعة
75 اللہ تبارک وتعالیٰ نے ستاروں کی اور ان کی منازل، یعنی ان کے غروب کے مقامات اور ان کے سقوط کی جگہ کی قسم کھائی ہے۔ علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ نے ان حوادثات کی قسم کھائی ہے جو ان اوقات میں واقع ہوتے ہیں اور جو اس کی عظمت ،اس کی کبریائی اور اس کی توحید پر دلالت کرتے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے جس چیز کی قسم کھائی ہے ،اس کی عظمت بیان کرتے ہوئے فرمایا: ﴿وَاِنَّہٗ لَقَسَمٌ لَّوْ تَعْلَمُوْنَ عَظِیْمٌ﴾ اور یہ قسم صرف اس لیے عظمت کی حامل ہے کہ ستاروں ، ان کی رفتار اور ان کے غروب کے مقامات میں ان کے سقوط کی جگہوں میں بہت سی نشانیاں اور عبرتیں ہیں جن کا احاطہ کرنا ممکن نہیں۔ جس امر پر قسم کھائی گئی ہے، وہ ہے قرآن کا اثبات، نیز یہ کہ قرآن حق ہے جس میں کوئی شک ہے نہ شبہ۔ یہ کریم ہے ،یعنی بہت زیادہ بھلائی اور بہت زیادہ علم والا ہے ،ہر بھلائی اور ہر علم اللہ تعالیٰ کی کتاب سے مستفاد اور مستنبط ہوتا ہے۔ الواقعة
76 الواقعة
77 الواقعة
78 ﴿فِیْ کِتٰبٍ مَّکْنُوْنٍ﴾ ’’ کتاب محفوظ میں ہے۔‘‘ یعنی مخلوق کی آنکھوں سے مستور ہے۔ یہ کتاب مکنون لوح محفوظ ہے، یعنی یہ قرآن لوح محفوظ لکھا ہوا ہے ،اللہ تعالیٰ اور ملا اعلیٰ میں فرشتوں کے ہاں قابل عظمت ہے۔ یہ احتمال بھی ہے کہ اس سے مرادوہ کتاب ہو جو ان فرشتوں کے ہاتھوں میں ہوتی تھی جنہیں اللہ تعالیٰ اپنی وحی اور رسالت کے لیے نازل کرتا ہے اور مراد یہ ہے کہ یہ کتاب شیاطین سے مستور ہے شیاطین کو اس میں تغیر وتبدل، کمی بیشی اور چوری کرنے کی قدرت حاصل نہیں۔ الواقعة
79 ﴿لَّا یَمَسُّہٗٓ اِلَّا الْمُطَہَّرُوْنَ﴾ ’’اسے صرف پاک (فرشتے) ہی چھوتے ہیں۔‘‘ یعنی قرآن کریم کو صرف ملائکہ کرام ہی چھوتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے تمام آفات، گناہوں اور عیوب سے پاک کیا ہے۔ جب قرآن کو پاک ہستیوں کے سوا کوئی نہیں چھوتا اور ناپاک اور شیاطین اس کو چھو نہیں سکتے تو آیت کریمہ تنبیہا اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ پاک شخص کے سوا کسی کے لیے قرآن کو چھونا جائز نہیں۔ الواقعة
80 ﴿تَنْزِیْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ﴾ یہ قرآن جو ان صفات جلیلہ سے موصوف ہے ،رب کائنات کی طرف سے نازل کردہ ہے جو دینی اور دنیاوی نعمتوں کے ذریعے سے اپنے بندوں کی تربیت کرتا ہے ،وہ جلیل ترین چیز جس کے ذریعے سے اس نے اپنے بندوں کی تربیت کی، اس قرآن کو نازل کرنا ہے جو دونوں جہانوں کے مصالح پر مشتمل ہے،جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر ایسا رحم فرمایا ہے کہ وہ اس کاشکر ادا نہیں کرسکتے۔ ان پر واجب ہے کہ وہ اس قرآن کو قائم کریں، برسرعام اس کا اعلان کریں ،اس کی طرف لوگوں کو دعوت دیں اور اس کو کھلم کھلا بیان کریں۔ بنابریں فرمایا :﴿اَفَبِھٰذَا الْحَدِیْثِ اَنْتُمْ مُّدْہِنُوْنَ﴾’’پھر تم اس کلام (قرآن)سے بے پروائی کرتے ہو ؟یعنی کیا تم اس کتاب عظیم اور ذکرحکیم کو مخلوق کے خوف ،ان کی عار اور ان کی زبانوں کے ڈر سے چھپاتے ہو؟ ایسا کرنا مناسب ہے نہ لائق شان ہے۔ لائق شان اور مناسب تو یہ ہے کہ اس بات میں مداہنت کی جائے جس کے بارے میں انسان کو وثوق حاصل نہ ہو۔ رہا قرآن کریم تو یہ ایسا حق ہے جب بھی کوئی مقابلہ کرنے والا اس قرآن کے ذریعے سے مقابلہ کرتا ہے تو یہی غالب آتا ہے اور کوئی بھی حملہ آور اگر اس قرآن کے ساتھ حملہ کرتا ہے تو یہ اپنے مدمقابل کے مقابلے میں کامیاب رہتا ہے ۔قرآن ایک ایسی چیز ہے جس کے بارے میں مداہنت کی جائے نہ اسے چھپایاجائے بلکہ برسرعام اس کا اعلان کیا جائے۔ الواقعة
81 الواقعة
82 ﴿وَتَجْعَلُوْنَ رِزْقَکُمْ اَنَّکُمْ تُکَذِّبُوْنَ﴾ ’’اور اپنے حصے میں یہی لیتے ہو کہ تم جھٹلاتے پھرو۔‘‘ یعنی تم اللہ تعالیٰ کے احسان وعنایت کا مقابلہ وظیفہ تکذیب ور اس کی نعمت کی ناسپاسی کے ذریعے سے کرتے ہو اور کہتے ہوں فلاں ستارے کے طلوع ہونے کی وجہ سے ہم پر بارش ہوئی، اور تم نعمت کو ان ہستیوں کی طرف منسوب کرتے ہو جنہوں نے یہ نعمتیں عطا نہیں کیں۔ پس تم نے اللہ تعالیٰ کاشکر کیوں ادا نہ کیا کہ اسی نے تم پر یہ بارش برسائی ہے تاکہ وہ تمہیں اور زیادہ اپنے فضل وکرم سے سرفراز کرےکیونکہ کفر وتکذیب نعمتوں کو اٹھا لینے اور اللہ تعالیٰ کی ناراضی کے نازل ہونے کے اسباب ہیں۔ الواقعة
83 ﴿فَلَوْلَآ اِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُوْمَ، وَاَنْتُمْ حِیْـنَیِٕذٍ تَنْظُرُوْنَ وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْکُمْ وَلٰکِنْ لَّا تُبْصِرُوْنَ ﴾ یعنی جب روح حلق تک پہنچتی ہے اور تم اس حالت میں موت کے آنے کا منظر دیکھ رہے ہوتے ہو، حالانکہ ہم اپنے علم اور اپنے فرشتوں کے ذریعے سے، مرنے والے کے تم سے زیادہ قریب ہوتے ہیں مگر تم دیکھ نہیں سکتے۔ الواقعة
84 الواقعة
85 الواقعة
86 ﴿فَلَوْلَآ اِنْ کُنْتُمْ غَیْرَ مَدِیْنِیْنَ تَرْجِعُونَهَا ﴾ ’’پس اگر تم کسی کے زیرفرمان نہیں ، توکیوں نہیں اس روح کو پھیر لیتے۔‘‘ یعنی بھلا جب تم اس زعم باطل میں مبتلا ہو کہ تمہیں دوبارہ زندہ کیا جائے گا نہ تمہارا حساب کتاب کرکے تمہیں جزا وسزا دی جائے گی تو تم روح کو بدن میں واپس کیوں نہیں لے آتے﴿ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ﴾’’اگرتم سچے ہو؟“ حالانکہ تم اقرارکرتے ہو کہ تم اس روح کو بدن میں لانے سے عاجز ہو، تب تمہیں یا تو اس حق کا اقرار کرنا ہوگا جو محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم لے کرآئے ہیں یا تم عناد رکھو گے، پس تمہارا حال اور تمہارا برا انجام معلوم ہے۔ الواقعة
87 الواقعة
88 اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس سورۃ مبارکہ کے اوائل میں ،قیامت کے دن تین گروہوں، یعنی مقربین، اصحاب یمین، اور مکذبین کے احوال کا ذکر فرمایا ،پھر اس کے آخر میں ان کے ان احوال کا ذکر فرمایا جب موت کا وقت آپہنچے گا ۔چنانچہ فرمایا :﴿فَاَمَّآ اِنْ کَانَ مِنَ الْمُقَرَّبِیْنَ﴾ اگر مرنے والا اللہ تعالیٰ کے مقرب بندوں میں سے ہوگا ۔اور یہ وہ لوگ ہوں گے جو واجبات ومستحبات کی ادائیگی اور محرمات ومکروہات اور بے فائدہ مباحات سے اجتناب کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کے تقرب کے حصول میں کوشاں رہے ہوں گے۔ الواقعة
89 ﴿فَرَوْحٌ ﴾ تب ان کے لیے راحت واطمینان، فرحت وسرور اور قلب روح کی نعمتیں ہوں گی۔ ﴿ وَّرَیْحَانٌ ﴾ یہ ایسی لذت بدنی کے لیے ایک جامع لفظ ہے جو مختلف انواع کے ماکولات ومشروبات پر مشتمل ہو ۔کہا جاتا ہے کہ ریحان سے مراد معروف خوشبو ہے، تب یہ کسی چیز کی نوع کے ذریعے سے اس کی جنس عام کی تعبیر کے باب میں سے ہے۔ ﴿وَّجَنَّتُ نَعِیْمٍ﴾ ’’اور نعمتوں والی جنت ہے‘‘۔ جو دونوں امور کی جامع ہوگی، اس میں ایسی ایسی نعمتیں ہوں گی جو کسی آنکھ نے دیکھی ہیں نہ کسی کان نے سنی ہیں اور نہ کسی بشر کے تصور میں ان کا گزر ہوا ہے۔مقربین کی موت کے قرب کے وقت ،ان کو ان نعمتوں کی بشارت دی جاتی ہے جس کی بنا پر فرحت اور سرور سے ان کی ارواح اڑنے لگتی ہیں جیسا کہ اللہ کا فرمان ہے :﴿ إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللّٰـهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنتُمْ تُوعَدُونَ نَحْنُ أَوْلِيَاؤُكُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِي أَنفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَّعُونَ نُزُلًا مِّنْ غَفُورٍ رَّحِيمٍ ﴾(حٰم سجدہ :41؍30۔32) ’’بے شک وہ لوگ جنہوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے ،پھر اس پر قائم رہے ،ان پر فرشتے نازل ہوں گے اور کہیں گے کہ تم ڈرو نہ غم کھاؤ ،اور جنت کی خوش خبری سے خوش ہوجاؤ جس کا تمہارے ساتھ وعدہ کیا گیا تھا۔ دنیا کی زندگی میں بھی ہم تمہارے دوست تھے اور آخرت (کی زندگی )میں بھی (ہم تمہارے دوست ہوں گے) اس جنت میں تمہارے لیے ہر وہ چیز ہوگی، جس کی تمہارے دل خواہش کریں گے اور اس میں تمہیں ہر وہ چیز ملے گی جو تم طلب کرو گے۔ یہ سب کچھ رب غفورو رحیم کی طرف سے مہمانی کے طور پر ہوگا۔‘‘ اللہ تبارک و تعالیٰ کے ارشاد: ﴿ لَهُمُ الْبُشْرَىٰ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ ﴾( یونس :10؍64) ’’انکے لیے دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں خوش خبری ہے ۔‘‘کی تفسیر یہ بیان کی گئی ہے کہ یہ مذکورہ بشارت ،دنیا کی زندگی کی بشارت ہے۔ الواقعة
90 ﴿وَاَمَّآ اِنْ کَانَ مِنْ اَصْحٰبِ الْیَمِیْنِ﴾ ’’اور اگر وہ داہنے ہاتھ والوں میں سے ہے۔‘‘ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے واجبات کو ادا کیا اور محرمات کو ترک کیا، اگرچہ ان سے بعض ایسے حقوق کے بارے میں کوتاہی سرزد ہوئی جن سے ان کے ایمان اور توحید میں خلل واقع نہیں ہوا۔﴿ فَ﴾ تو ان میں سے ہر کسی سے کہا جائے گا :﴿سَلٰمٌ لَّکَ مِنْ اَصْحٰبِ الْیَمِیْنِ﴾ تمہارے اصحاب یمین بھائیوں کی طرف سے تمہیں سلامتی حاصل ہے یعنی جب وہ ان کے پاس پہنچے گا اور ان سے ملاقات کرے گا تو وہ اسے سلام اور خوش آمدید کہیں گے ۔یا اس سے کہا جائے گا کہ دنیا کی آفات، مصائب اور عذاب سے تم سلامت ہو کیونکہ تم اصحاب یمین میں سے ہو جو ہلاک کرنے والے گناہوں سے بچتے رہے ہیں۔ الواقعة
91 الواقعة
92 ﴿وَاَمَّآ اِنْ کَانَ مِنَ الْمُکَذِّبِیْنَ الضَّالِّیْنَ﴾ ’’اور لیکن اگر وہ تکذیب کرنے والے گمراہوں میں سے ہوا۔‘‘ یعنی وہ لوگ جنہوں نے حق کو جھٹلایا اور ہدایت کے راستے سے بھٹک گئے۔ الواقعة
93 ﴿فَنُزُلٌ مِّنْ حَمِیْمٍ وَّتَصْلِیَۃُ جَحِــیْمٍ ﴾تو جس روز وہ اپنے رب کی خدمت میں حاضر ہوں گے، اس روز ان کی ضیافت یہ ہوگی کہ ان کو جہنم کی آگ میں جھونک دیا جائے گا جو ان کو گھیرے گی اور ان کے دلوں تک پہنچ جائے گی اور جب وہ پیاس کی شدت سے پانی مانگیں گے ﴿ يُغَاثُوا بِمَاءٍ كَالْمُهْلِ يَشْوِي الْوُجُوهَ ۚ بِئْسَ الشَّرَابُ وَسَاءَتْ مُرْتَفَقًا ﴾( الکھف :18؍29) ’’تو انہیں ایسا کھولتا ہوا پانی دیا جائے گا جو پگھلے ہوئے تانبے کے مانند گرم ہوگا جو ان کے چہروں کو بھون ڈالے گا ،ان کا مشروب کتنابرا اور ان کی آرام گاہ کتنی بری ہوگی۔‘‘ الواقعة
94 الواقعة
95 ﴿اِنَّ ھٰذَا﴾ یہ سب کچھ جس کا اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے ،مثلا بندوں کے اچھے برے اعمال کی جزا وسزا، اور اس کی تفاصیل ﴿ لَہُوَ حَقُّ الْیَقِیْنِ﴾ ’’بلاشبہ یہی (مذکور )حق الیقین ہے۔‘‘ یعنی اس میں کوئی شک وشبہ نہیں۔ بلکہ یہ ثابت شدہ حق ہے جس کا وقوع لازمی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے سامنے اس پر قطعی دلائل پیش کیے ہیں اور اس کی حیثیت خرد مندوں کے نزدیک ایسے ہے گویا کہ وہ اس کا ذائقہ چکھ رہے ہوں اور اس کی حقیقت کا مشاہدہ کررہے ہوں۔ پس انہوں نے اس امر پر اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا بیان کی کہ اس نے ان کو اس عظیم نعمت اور اتنی بڑی عنایت سے مختص کیا۔ بنابریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّکَ الْعَظِیْمِ﴾ ’’لہذا تو اپنے عظیم الشان پروردگار کی تسبیح کر۔ ‘‘پس پاک ہے ہمارا رب عظیم، منزہ اور بہت بلند وبرتر ان باتوں سے جو منکرین حق (اس کے بارے میں) کرتے ہیں۔ الواقعة
96 الواقعة
0 الحديد
1 اللہ تبارک وتعالیٰ اپنی عظمت و جلال اور اپنی لا محدود قوت کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے کہ آسمانوں اور زمین کی تمام موجودات، حیوانات ناطقہ اور جمادات وغیرہ ،اپنے رب کی حمد و ستائش کے ساتھ، اس کی تسبیح بیان کر رہے ہیں اور ان اوصاف سے اسے منزہ قرار دے رہے ہیں جو اس کے جلال کے لائق نہیں، نیز یہ کہ تمام موجودات اپنے رب کی مطیع اور اس کے غلبے کے سامنے سرنگوں ہے۔ ان موجودات میں اس کی حکمت کے آثار ظاہر ہوئے ہیں۔ بنا بریں فرمایا ﴿وَہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ ﴾’’اور وہ زبردست باحکمت ہے۔‘‘ اس آیت کریمہ میں اس حقیقت کو بیان کیا گیا ہے کہ عالم علوی اور عالم سفلی کی تمام مخلوقات اپنے تمام احوال میں ہر لحاظ سے اپنے رب کی محتاج ہیں، اس کے لامحدود غلبہ و قہر نے تمام اشیاء کو مغلوب و مقہور کر رکھا ہے اور اس کی حکمت عامہ اس کے خلق و امر میں جاری و ساری ہے۔ الحديد
2 پھر اللہ تعالیٰ نے لا محدود اقتدار کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ لَہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۚ یُـحْیٖ وَیُمِیْتُ ’’آسمانوں اور زمین کی بادشاہت اسی کی ہے، وہی زندگی دیتا ہے اور موت بھی۔ ‘‘یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ تمام مخلوقات کا خالق، رازق اور اپنی قدرت کے ساتھ ان کی تدبیر کرنے والا ہے۔﴿ وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ ﴾’’اور وہ ہر چیز پر کامل قدرت رکھنے والا ہے۔‘‘ الحديد
3 ﴿ہُوَ الْاَوَّلُ ﴾جس سے پہلے کوئی چیز نہ تھی۔ ﴿وَالْاٰخِرُ ’’جس کے بعد کوئی چیز نہ ہوگی‘‘﴿ وَالظَّاہِرُ ﴾جس کے اوپر کوئی چیز نہیں۔ ﴿وَالْبَاطِنُ ﴾جس سے پرے کوئی چیز نہیں۔﴿ وَہُوَ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ﴾ اس کے علم نے تمام ظواہر و بواطن، تمام بھیدوں، مخفی چیزوں اور تمام متقدم اور متاخر امور کا احاطہ کر رکھا ہے۔ الحديد
4 ﴿ہُوَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِیْ سِـتَّۃِ اَیَّامٍ﴾ ’’اور وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا۔‘‘ پہلا دن اتوار تھا اور آخری دن جمعہ تھا۔﴿ ثُمَّ اسْـتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ﴾’’پھر عرش پر مستوی ہوا۔ ‘‘تمام مخلوقات کے اوپر، وہ استوا جو اس کے جلال کے لائق ہے۔ ﴿ یَعْلَمُ مَا یَـلِجُ فِی الْاَرْضِ ﴾اناج کا دانہ، حیوان اور بارش وغیرہ جو کچھ بھی زمین میں داخل ہوتا ہے، وہ اسے جانتا ہے۔۔﴿ وَمَا یَخْــرُجُ مِنْہَا ﴾نباتات، درخت اور حیوانات میں سے جو اس سے نکلتے ہیں ،وہ انہیں جانتا ہے۔ ﴿وَمَا یَنْزِلُ مِنَ السَّمَاء﴾ِ آسمان سے جو فرشتے، تقدیریں اور رزق نازل ہوتے ہیں۔﴿ وَمَا یَعْرُجُ فِیْہَا﴾ فرشتے، ارواح، دعائیں اور اعمال وغیرہ میں سے جو آسمان کی طرف چڑھتے ہیں، سب اللہ تعالیٰ کے احاطہ علم میں ہے۔﴿ وَہُوَ مَعَکُمْ اَیْنَ مَا کُنْتُمْ ﴾’’اور وہ تمہارے ساتھ ہے جہاں بھی تم ہو۔‘‘ یہ آیت کریمہ اللہ کے اس ارشاد کے مانند ہے۔ ﴿ مَا يَكُونُ مِن نَّجْوَىٰ ثَلَاثَةٍ إِلَّا هُوَ رَابِعُهُمْ وَلَا خَمْسَةٍ إِلَّا هُوَ سَادِسُهُمْ وَلَا أَدْنَىٰ مِن ذَٰلِكَ وَلَا أَكْثَرَ إِلَّا هُوَ مَعَهُمْ أَيْنَ مَا كَانُوا ﴾(المجادلۃ: 58؍7) ’’تین آدمی کوئی سرگوشی کرتے ہیں تو چوتھا وہ ہوتا ہے، پانچ آدمی سرگوشی کرتے ہیں تو چھٹا وہ ہوتا ہے نہ اس سے کم نہ اس سے زیادہ مگر وہ ان کے ساتھ ہوتا ہے، جہاں کہیں بھی وہ ہوں۔‘‘اور یہ معیت، علم اور اطلاع کی معیت ہے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اعمال کی جزا و سزا کا وعدہ کیا ہے، فرمایا:﴿ وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ ﴾یعنی اللہ تعالیٰ ان تمام اعمال کو دیکھتا ہے جو تم سے صادر ہوتے ہیں اور یہ اچھے برے اعمال جو اس کی طرف لوٹتے ہیں ،وہ تمہیں ان کی جزا دے گا اور ان کو تمہارے لیے محفوظ رکھے گا۔ الحديد
5 ﴿لَہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ﴾ ملکیت، تخلیق اور عبدیت کے اعتبار سے آسمانوں اور زمین کی ہر چیز اسی کی ہے، وہ اپنے اوامر کونی و قدری اور اوامر شرعی جو حکمت ربانی کے مطابق جاری و ساری ہیں، کے ذریعے سے ان میں جو چاہتا ہے تصرف کرتا ہے۔۔﴿ وَاِلَی اللّٰہِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ ﴾تمام اعمال اور عمل کرنے والے اللہ تعالیٰ ہی کی طرف لوٹائے جائیں گے۔ بندے اس کے سامنے پیش کیے جائیں گے، پس وہ پاک اور ناپاک کو علیحدہ علیحدہ کر دے گا، وہ نیکوکار کو اس کی نیکی کا اور بدکار کو اس کی بدی کا بدلہ دے گا۔ الحديد
6 ﴿یُوْلِجُ الَّیْلَ فِی النَّہَارِ وَیُوْلِجُ النَّہَارَ فِی الَّیْلِ﴾ یعنی رات دن پر چھا جاتی ہے اور اپنی تاریکی کے ساتھ اس کو ڈھانپ لیتی ہے اور انسان آرام کرتے ہیں۔پھر دن رات پر چھا جاتا ہے ،تب زمین پر چھائی ہوئی تمام تاریکی زائل ہوجاتی ہے، تمام کون و مکان روشن ہوجاتے ہیں۔ تب بندے بھی متحرک ہوجاتے ہیں اور اپنے مصالح اور معاش کے انتظامات میں لگ جاتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کرتا رہتا ہے، ان دونوں کے درمیان، اضافے اور کمی ،طول اور قصر کو ادل بدل کرتا رہتا ہے حتی کہ اس سے موسم جنم لیتے ہیں اور زمانوں کا حساب درست رہتا ہے اور بہت سے مصالح حاصل ہوتے ہیں، بہت بابرکت ہے اللہ جو تمام کائنات کا رب ہے جو بہت بلند، فضل و کرم کا مالک اور جواد ہے جس نے اپنے بندوں کو ظاہری اور باطنی نعمتوں سے سرفراز فرمایا۔ ﴿وَہُوَ عَلِیْمٌ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ﴾ یعنی جو کچھ تمام کائنات (والوں) کے سینوں میں ہے ،اللہ تعالیٰ اسے جانتا ہے جس کے بارے میں اسے علم ہے کہ وہ ہدایت کا اہل ہے، اسے ہدایت سے نواز دیتا ہے اور جس کے بارے میں اسے علم ہے کہ وہ ہدایت کا اہل نہیں، اس سے اس کے حال پر چھوڑ دیتا ہے۔ الحديد
7 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں کو ،اللہ اور اس کے رسول پر اور جو کچھ یہ رسول لے کر آئے ہیں اس پر ایمان لانے اور اللہ کے راستے میں وہ مال خرچ کرنے کا حکم دیتا ہے جو اس نے ان کے اختیار میں دیا ہے اور اس پر ان کو خلیفہ بنایا ہے تاکہ وہ دیکھے کہ وہ کیسے عمل کرتے ہیں، پھر جب اس نے یہ حکم دیا تو اس نے ان کے سامنے اللہ کے راستے میں مال خرچ کرنے کے ثواب کا ذکر کر کے ان کو مال خرچ کرنے کی ترغیب دی اور اس پر آمادہ کیا، چنانچہ فرمایا : ﴿فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَاَنْفَقُوْا﴾ یعنی جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول پر ایمان اور انفاق فی سبیل اللہ کو جمع کیا ﴿لَہُمْ اَجْرٌ کَبِیْرٌ﴾ ’’ان کے لیے بہت بڑا اجر ہے۔ ‘‘اس میں سے عظیم ترین اور جلیل ترین اجر اپنے رب کی رضا، اللہ تعالیٰ کا اکرام و تکریم والا گھر اور اس کے اندر ہمیشہ رہنے والی نعمتیں ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے مومنین اور مجاہدین کے لیے تیار کر رکھا ہے۔ الحديد
8 پھر اللہ تعالیٰ نے اس سبب کا ذکر فرمایا جو انہیں ایمان کی دعوت دیتا ہے اور عدم مانع کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : ﴿وَمَا لَکُمْ لَا تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالرَّسُوْلُ یَدْعُوْکُمْ لِتُؤْمِنُوْا بِرَبِّکُمْ وَقَدْ اَخَذَ مِیْثَاقَکُمْ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ﴾ یعنی وہ کون سی چیز ہے جو تمہیں ایمان لانے سے روکتی ہے، حالانکہ رسول مصطفیٰ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو سب سے افضل رسول اور سب سے اچھے داعی ہیں، اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دیتے ہیں۔ یہ چیز اس بات کی موجب ہے کہ اس دعوت کو قبول کرنے اور حق کی آواز پر لبیک کہنے کے لیے جلدی سے آگے بڑھا جائے جسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم لے کر تشریف لائے ہیں۔ اللہ تعالیٰ تم سے ایمان لانے کا عہد اور میثاق لے چکا ہے، اگر تم مومن ہو تو تمہیں یہ کام کرنا چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کا تم پر لطف و کرم اور اس کی عنایت ہے کہ اس نے صرف رسول کی دعوت پر اکتفا نہیں کیا جو تمام کائنات میں سب سے زیادہ شرف کے حامل ہیں بلکہ معجزات کے ذریعے سے اس رسول کی تائید کی اور جو کچھ یہ رسول لے کر آئے، اس کی صداقت پر تمہارے سامنے واضح دلائل پیش کیے۔ اس لیے فرمایا: الحديد
9 ﴿ہُوَ الَّذِیْ یُنَزِّلُ عَلٰی عَبْدِہٖٓ اٰیٰتٍ بَیِّنٰتٍ﴾ ’’وہ اللہ ہی ہے جو اپنے بندے پر واضح آیتیں اتارتا ہے یعنی ایسی ظاہری نشانیاں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے ہیں ،اس کی صداقت پر عقل مندوں کی راہنمائی کرتی ہیں، نیز یہ اس بات کی دلیل ہیں کہ یہی حق الیقین ہے۔ ‘‘﴿لِّیُخْرِجَکُمْ﴾ ’’تاکہ وہ تمہیں نکالے۔‘‘ تمہاری طرف رسول مبعوث کر کے اور اس کتاب و حکمت کے ذریعے سے جو اس نے اس رسول کے ہاتھ پر اتاری۔ ﴿مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ﴾ ’’اندھیروں سے اجالے کی طرف۔‘‘ یعنی تمہیں جہالت اور کفر کی تاریکیوں سے نکال کر علم و ایمان کی روشنی میں لائے۔ یہ تم پر اس کی رحمت و رافت ہے کہ وہ اپنے بندوں پر اس سے بھی زیادہ رحیم ہے جتنی ماں اپنے بچے پر رحیم ہے۔ ﴿وَاِنَّ اللّٰہَ بِکُمْ لَرَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ﴾ ’’اور اللہ تعالیٰ تم پر بہت شفقت کرنے والا( اور )نہایت رحم کرنے والا ہے۔‘‘ الحديد
10 ﴿وَمَا لَکُمْ اَلَّا تُنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَلِلّٰہِ مِیْرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ﴾ یعنی وہ کون سی چیز ہے جس نے تمہیں انفاق فی سبیل اللہ سے روکا ہے ،اور (سَبِیْلِ اللہِ)سے مراد تمام تر بھلائی کے راستے ہیں اور تم پر واجب کیا ہے، کہ تم بخل کرو۔ ﴿وَ﴾ حالانکہ کوئی چیز تمہاری ملکیت میں نہیں ہے بلکہ ﴿لِلّٰہِ مِیْرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ﴾ ’’آسمان اور زمین اللہ تعالیٰ ہی کی میراث ہیں۔‘‘ پس تمام اموال تمہارے ہاتھوں سے نکل جائیں گے یا تم انہیں چھوڑ کر چلے جاؤ گے ،پھر یہ ملکیت اس کے حقیقی مالک، اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف لوٹ جائے گی۔ پس جب تک یہ اموال تمہارے ہاتھ میں ہیں، اللہ کے راستے میں خرچ کر کے فائدہ اٹھاؤ اور فرصت کو غنیمت سمجھو۔ پھر اللہ تعالیٰ نے احوال اور حکمت الہیہ کے مطابق، اعمال کی ایک دوسرے پر فضیلت کا ذکر کیا، چنانچہ فرمایا: ﴿لَا یَسْتَوِیْ مِنْکُمْ مَّنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقٰتَلَ اُولٰیِٕکَ اَعْظَمُ دَرَجَۃً مِّنَ الَّذِیْنَ اَنْفَقُوْا مِنْ بَعْدُ وَقٰتَلُوْا﴾ ’’تم میں سے جن لوگوں نے فتح سے پہلے اللہ کے راستے میں خرچ کیا اور قتال کیا وہ برابر نہیں بلکہ ان کے درجے ان لوگوں سے بہت بڑے ہیں جنہوں نے فتح کے بعد خیراتیں دیں اور جہاد کیا۔‘‘ یہاں فتح سے مراد فتح حدیبیہ ہے، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قریش کے درمیان صلح کا معاہدہ ہوا جو درحقیقت سب سے بڑی فتح تھی ،اس صلح کے دوران میں اسلام کی نشرو اشاعت ہوئی، مسلمانوں اور کفار کے درمیان میل جول ہوا اور کسی مخالفت کے بغیر دین کی دعوت دی گئی۔ اس عرصے میں لوگ اللہ تعالیٰ کے دین میں فوج در فوج داخل ہوئے اور اسلام کو عزت و غلبہ حاصل ہوا۔ اس فتح سے قبل مسلمان دین کی دعوت نہیں دے سکتے تھے سوائے ان علاقوں کے، جہاں کے رہنے والوں نے اسلام قبول کرلیا تھا، جیسے مدینہ منورہ اور اس کے تابع علاقے۔ اہل مکہ میں سے جن لوگوں نے اسلام قبول کیا تھا انہیں ایذائیں برداشت کرنا پڑتی تھیں اور انہیں سخت خوف کا سامنا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جس کسی نے فتح سے قبل اسلام قبول کر کے اللہ کی راہ میں جہاد کیا ،اس کا اجر و ثواب اور درجہ اس شخص کے درجے سے زیادہ بڑا ہے جس نے فتح کے بعد اسلام قبول کر کے جہاد کیا اور اللہ کے راستے میں خرچ کیا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کی حکمت کا تقاضا بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سابقین اولین اور فضلائے صحابہ کی غالب اکثریت نے فتح سے قبل اسلام قبول کیا۔ چونکہ بعض معاملات کے درمیان فضیلت دینے سے کبھی کبھی مفضول میں نقص اور قدح متوہم ہوتے ہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس سے احتراز کرتے ہوئے فرمایا : ﴿وَکُلًّا وَّعَدَ اللّٰہُ الْحُسْنٰی﴾ یعنی وہ لوگ جو فتح سے پہلے اور اس کے بعد اسلام لائے، جہاد کیا اور اللہ کی راہ میں خرچ کیا ،اللہ تعالیٰ نے ان سب کے لیے جنت کا وعدہ کر رکھا ہے۔ ﴿وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ﴾ ’’اور جو کچھ تم کر رہے ہو اس سے اللہ خبردار ہے۔‘‘ چنانچہ وہ تم میں سے ہر ایک کو اس کے عمل کا بدلہ دے گا۔ الحديد
11 پھر اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے راستے میں مال خرچ کرنے کی ترغیب دی ہے کیونکہ جہاد کا تمام تر دارومدار انفاق فی سبیل اللہ اور جہاد کی تیاری میں مال خرچ کرنے پر ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا﴾ ’’کون ہے جو اللہ کو قرض حسنہ دے۔‘‘ اس سے مراد پاک اور طیب مال ہے جسے خالص اللہ تعالیٰ کے لیے ،اس کی رضا کے مطابق ،حلال اور طیب مال میں سے نہایت خوش دلی کے ساتھ خرچ کیا جائے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہے کہ اس نے اس انفاق کو ’’قرض ‘‘ کے نام سے موسوم کیا ہے، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ مال اسی کا مال اور یہ بندے اسی کے بندے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس مال کو کئی گنا کردینے کا وعدہ کیا ہے وہ فضل و کرم کا مالک اور بہت زیادہ دادو دہش والا ہے۔اس انفاق کے کئی گنا ہونے کا محل و مقام روز قیامت ہے، اس روز ہر انسان پر اپنا فقر و احتیاج واضح ہوجائے گا، اس روز وہ قلیل ترین جزائے حسن کا بھی محتاج ہوگا، اس لیے فرمایا: الحديد
12 اللہ تعالیٰ ایمان کی فضیلت اور قیامت کے روز اہل ایمان کی فرحت و مسرت کو بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے : ﴿یَوْمَ تَرَی الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ یَسْعٰی نُوْرُہُمْ بَیْنَ اَیْدِیْہِمْ وَبِاَیْمَانِہِمْ﴾ ’’اس دن آپ ایمان والوں اور ایمان والیوں کو دیکھیں گے کہ ان کا نور ان کے آگے اور ان کے دائیں دوڑتا ہوگا۔ ‘‘ یعنی جب قیامت کا دن ہوگا سورج کو لپیٹ دیا جائے گا، چاند کو بے نور کردیا جائے گا، تمام لوگ اندھیرے میں ہوں گے اور جہنم کے اوپر پل صراط نصب کردیا جائے گا، تب تو مومنین اور مومنات کو دیکھے گا کہ ان کی روشنی ان کے آگے اور ان کے دائیں چل رہی ہوگی اور وہ اس نہایت مشکل اور ہولناک مقام پر ،اپنے ایمان اور روشنی کے ساتھ جارہے ہوں گے، ہر شخص کو اپنے اپنے ایمان کی مقدار کے مطابق روشنی حاصل ہوگی۔ اس مقام پر ان کو سب سے بڑی خوشخبری دی جائے گی، پس ان سے کہا جائے گا : ﴿بُشْرٰیکُمُ الْیَوْمَ جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْہَا ذٰلِکَ ہُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ﴾ ’’تم کو بشارت ہو کہ آج تمہارے لیے باغات ہیں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں تم ان میں ہمیشہ رہو گے۔ یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ ‘‘ اللہ اللہ ! یہ خوشخبری ان کے دلوں کے لیے کتنی شیریں اور ان کے نفوس کے لیے کتنی لذیذ ہوگی، جہاں انہیں ہر مطلوب و محبوب چیز حاصل ہوگی اور وہ ہر شر اور ڈرانے والے امر سے نجات پائیں گے۔ الحديد
13 جب منافقین دیکھیں گے کہ اہل ایمان روشنی میں چلے جارہے ہیں اور خود ان کی روشنی بجھ گئی ہے اور وہ اندھیروں میں حیران و پریشان باقی رہ گئے ہیں تو اہل ایمان سے کہیں گے : ﴿انْظُرُوْنَا نَقْتَبِسْ مِنْ نُّوْرِکُمْ﴾ یعنی ٹھہرو !تاکہ ہم تمہاری روشنی سے کچھ روشنی لے کر اس کے اندر چل سکیں اور اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچ جائیں، تو ﴿قِیْلَ﴾ ان سے کہا جائے گا : ﴿ارْجِعُوْا وَرَاءَکُمْ فَالْتَمِسُوْا نُوْرًا﴾ ’’پیچھے لوٹ جاؤ اور روشنی تلاش کرو۔‘‘ یعنی اگر ایسا کرنا ممکن ہے، حالانکہ یہ ممکن نہ ہوگا بلکہ یہ بالکل محال ہوگا۔ ﴿فَضُرِبَ بَیْنَہُمْ﴾ ’’تب حائل کردی جائے گی ان کے درمیان۔ ‘‘ یعنی مومنین اور منافقین کے درمیان ﴿بِسُوْرٍ﴾ ناقابل عبور دیوار اور ایک محفوظ رکاوٹ بنا دی جائے گی۔ ﴿لَّہٗ بَابٌ بَاطِنُہٗ فِیْہِ الرَّحْمَۃُ﴾ ’’جس کا ایک دروازہ ہوگا جو اس کی اندرونی جانب ہے اس میں تو رحمت ہے۔‘‘ اور یہ وہ حصہ ہے جو مومنین کی طرف ہوگا۔ ﴿وَظَاہِرُہٗ مِنْ قِبَلِہِ الْعَذَابُ﴾ ’’اور جو اس کی بیرونی جانب ہے اس طرف عذاب ہے۔‘‘ اور یہ وہ حصہ ہے جو منافقین کی طرف ہوگا۔ الحديد
14 منافقین اہل ایمان کو پکاریں گے اور رحم کی درخواست کرتے ہوئے نہایت عاجزی سے کہیں گے : ﴿اَلَمْ نَکُنْ مَّعَکُمْ﴾ کیا دنیا میں لاَ اٖلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کہنے میں ہم تمہارے ساتھ نہ تھے، ہم بھی نمازیں پڑھتے تھے، روزے رکھتے تھے، جہاد کرتے تھے اور تمہارے عمل کرتے تھے؟ ﴿قَالُوْا بَلٰی﴾ مومنین جواب دیں گے : کیوں نہیں ! تم دنیا میں ہمارے ساتھ تھے اور ظاہر میں ہمارے جیسے اعمال بھی بجا لاتے تھے مگر تمہارے اعمال ایمان، سچی اور صالح نیت سے خالی تھے بلکہ ﴿فَتَنْتُمْ اَنْفُسَکُمْ وَتَرَبَّصْتُمْ وَارْتَبْتُمْ﴾’’تم نے خود اپنے آپ کو فتنے میں ڈال لیا تھا، اور تم نے (اہل ایمان کی بابت گردش زمانہ کا)انتظار کیا اور شک کرتے رہے۔‘‘ یعنی تم نے اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی خبر میں شک کیا جو شک کو قبول نہیں کرتی۔ ﴿وَغَرَّتْکُمُ الْاَمَانِیُّ﴾ یعنی جھوٹی تمناؤں نے تمہیں دھوکے میں رکھا، تم تمنا کرتے تھے کہ تم بھی مومنین کے مقام پر پہنچ جاؤ گے اور حال تمہارا یہ تھا کہ تم دولت یقین سے تہی دامن تھے۔ ﴿حَتّٰی جَاءَ اَمْرُ اللّٰہِ﴾ حتی کہ موت نے تمہیں آلیا اور تمہاری وہی مذموم حالت تھی۔ ﴿وَغَرَّکُمْ بِاللّٰہِ الْغَرُوْرُ﴾ ’’تمہیں اللہ کے بارے میں دھوکہ دینے والے نے دھوکے ہی میں رکھا۔‘‘ اس سے مراد شیطان ہے جس نے کفر اور شک کو تمہارے سامنے آراستہ کردیا، تم اس پر بڑے مطمئن تھے، تم نے اس کے وعدے پر بھروسا کیا اور اس کی دی ہوئی خبر کی تصدیق کی۔ الحديد
15 ﴿فَالْیَوْمَ لَا یُؤْخَذُ مِنْکُمْ فِدْیَۃٌ وَّلَا مِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا﴾ ’’لہذا آج تم سے فدیہ قبول کیا جائے گا نہ کافروں سے۔ ‘‘ اگرچہ تم زمین بھر سونا، نیز اتنا ہی مزید اپنے فدیے میں ادا کرو تو تم سے یہ فدیہ قبول نہیں کیا جائے گا۔ ﴿مَاْوٰیکُمُ النَّارُ﴾ یعنی جہنم تمہارا ٹھکانا ہے۔ ﴿ہِیَ مَوْلٰیکُمْ﴾ یہ جہنم تمہارا والی ہوگا اور تمہیں اپنے پاس رکھے گا۔ ﴿وَبِئْسَ الْمَصِیْرُ﴾ اور جہنم بہت برا ٹھکانا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : ﴿ وَأَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِينُهُ فَأُمُّهُ هَاوِيَةٌ وَمَا أَدْرَاكَ مَا هِيَهْ نَارٌ حَامِيَةٌ ﴾ (القارعۃ :101؍8۔11) ’’اور جن کے اعمال کے وزن ہلکے نکلیں گے تو ان کا ٹھکانا ہاویہ ہے ،اور کیا جانیں کہ یہ ہاویہ کیا ہے، یہ دہکتی ہوئی آگ ہے۔‘‘ الحديد
16 جب اللہ تعالیٰ نے یہ ذکر فرمایا کہ آخرت میں مومنین اور مومنات ،منافقین اور منافقات کا کیا حال ہوگا، یہ چیز دلوں کو اپنے رب کے خوف و خشوع اور اس کی عظمت کے سامنے عجز و انکسار کی دعوت دیتی ہے، تب اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان پر ان کے دلوں میں خشوع اور انکسار نہ ہونے کی بنا پر عتاب فرمایا ہے۔ چنانچہ فرمایا : ﴿اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُہُمْ لِذِکْرِ اللّٰہِ وَمَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ﴾ یعنی کیا ابھی مومنوں کے لیے وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل نرم ہوں اور اللہ تعالیٰ کے ذکر سے ڈر جائیں ۔اس سے مراد قرآن ہے۔ اور اس کے اوامر و نواہی اور جو حق نازل ہوا ہے جسے محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم لے کر تشریف لائے ہیں ،اس سے ڈر جائیں اور اس کے سامنے سر خم کردیں۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کے لیے اور اس کتاب و حکمت کے لیے جو اس نے نازل فرمائی ہے، خشوع و خضوع کی ترغیب ہے، نیز اس امر کی ترغیب دلائی گئی ہے کہ اہل ایمان مواعظ الٰہیہ اور احکام شرعیہ سے نصیحت حاصل کریں اور ہر وقت اپنے نفس کا محاسبہ کرتے رہیں۔ ﴿وَلَا یَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلُ فَطَالَ عَلَیْہِمُ الْاَمَدُ﴾ یعنی ان لوگوں کے مانند نہ ہوجائیں جن پر اللہ تعالیٰ نے کتاب نازل کی جو خشوع قلب اور کامل اطاعت و تسلیم کی موجب تھی ،پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے نہ دائمی طور پر اس پر قائم رہے بلکہ زمانے گزر گئے اور ان کی غفلت جڑ پکڑ گئی، ان کا ایمان کمزور اور ایقان زائل ہوگیا۔ ﴿فَقَسَتْ قُلُوْبُہُمْ وَکَثِیْرٌ مِّنْہُمْ فٰسِقُوْنَ﴾’’پس ان کے دل سخت ہوگئے اور ان میں سے اکثر نافرمان ہیں۔‘‘ پس دل ہر وقت اس امر کے محتاج ہیں کہ وہ اس کتاب سے نصیحت حاصل کرتے رہیں جو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی ہے اور حکمت کی گفتگو کرتے رہیں، اس کتاب سے غفلت نہ برتی جائے کیونکہ یہ چیز دل کی سختی اور آنکھ کے جمود کا سبب بنتی ہے۔ الحديد
17 ﴿اِعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ یُـحْیِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا قَدْ بَیَّنَّا لَکُمُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ﴾ ’’یقین مانو کہ اللہ ہی زمین کو اس کی موت کے بعد زندہ کردیتا ہے۔ یقینا ہم نے تو تمہارے لیے اپنی آیتیں بیان کردیں تاکہ تم سمجھو۔‘‘ کیونکہ آیات الہٰی مطالبہ الہٰیہ کی طرف عقل کی راہ نمائی کرتی ہیں۔ وہ ہستی جس نے زمین کے مرنے کے بعد اسے حیات نو بخشی، اس پر قادر ہے کہ وہ مردوں کو دوبارہ زندگی عطا کرے اور پھر ان کو ان کے اعمال کی جزا دے۔ پس وہ ہستی جس نے زمین کے مردہ ہوجانے کے بعد، بارش کے پانی کے ذریعے سے اسے دوبارہ زندہ کیا، وہ مردہ دلوں کو اس حق کے ذریعے سے زندگی بخشنے کی قدرت رکھتی ہے جو اس نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ جو کوئی آیات الہی سے راہنمائی حاصل کرتا ہے نہ اللہ تعالیٰ کی شریعت کے سامنے سر تسلیم خم کرتا ہے، وہ عقل سے بے بہرہ ہے۔ الحديد
18 ﴿اِنَّ الْمُصَّدِّقِیْنَ وَالْمُصَّدِّقٰتِ﴾ یعنی وہ مرد اور عورتیں جو نہایت کثرت سے صدقہ دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے خرچ کرتے ہیں۔ ﴿وَاَقْرَضُوا اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا﴾ ’’اور اللہ کو اچھا قرض دیتے ہیں۔ ‘‘ یعنی وہ بھلائی کے راستوں میں اپنا مال پیش کرتے ہیں جو ان کے رب کے ہاں ان کے لیے ذخیرہ بن جاتا ہے۔ ﴿یُّضٰعَفُ لَہُمْ﴾’’ان کو دو چند اجر دیا جائے گا۔‘‘ ایک نیکی کا اجرو ثواب دس سے لے کر سات سو گنا اور اس سے بھی کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔ ﴿وَلَہُمْ اَجْرٌ کَرِیْمٌ﴾ ’’اور ان کے لیے اجر کریم ہے۔ ‘‘ یہ وہ اجر ہے جو اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے جنت میں تیار کر رکھا ہے جسے نفس نہیں جانتے۔ الحديد
19 ﴿وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَرُسُلِہٖٓ﴾ ’’اور وہ لوگ جو اللہ پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے۔‘‘ اہل سنت کے نزدیک ایمان جس پر قرآن و سنت دلالت کرتے ہیں، وہ ہے قلب و لسان کا قول اور قلب و لسان او جوارح کا عمل، تب یہ چیز دین کے تمام ظاہری و باطنی شرائع کو شامل ہے۔ پس جنہوں نے ان تمام امور کو جمع کرلیا وہ صدیق ہیں جن کا مرتبہ عام مومنوں سے اوپر اور انبیاء سے نیچے ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کے ارشاد : ﴿وَالشُّہَدَاءُ عِنْدَ رَبِّہِمْ لَہُمْ اَجْرُہُمْ وَنُوْرُہُمْ﴾ ’’اور شہید ہیں، ان کے رب کے ہاں ان کے لیے ان کا اجر ہوگا اور ان کی روشنی۔‘‘ کا معنی وہی ہے جیسا کہ صحیح حدیث میں وارد ہوا ہے:’’جنت کے سو درجے ہیں اور ہر دو درجوں کے درمیان اتنا فرق ہے جتنا زمین اور آسمان کے درمیان ہے، اللہ تعالیٰ نے ان کو مجاہدین فی سبیل اللہ کے لیے تیار کر رکھا ہے۔‘‘ ۔(صحیح البخاری‘الجھاد والسیر‘باب درجات المجاھدین فی سبیل الله،‘حدیث:2790) اور یہ چیز ان کے انتہائی بلند مرتبہ ،ان کی رفعت اور اللہ تعالیٰ سے ان کے قرب کا تقاضا کرتی ہے۔ ﴿وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَکَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَآ اُولٰیِٕکَ اَصْحٰبُ الْجَحِیْمِ﴾ ’’اور جو لوگ کفر کرتے ہیں اور ہماری آیتوں کو جھٹلاتے ہیں وہ جہنمی ہیں۔‘‘ ان آیات کریمہ نے مخلوق کی تمام اصناف، یعنی صدقہ کرنے والوں، صدیقین، شہداءاور اہل جہنم کے تذکرے کو یکجا کردیا ہے۔ پس صدقہ کرنے والے وہ لوگ ہیں جن کے اعمال کا بڑا حصہ مخلوق کے ساتھ حسن سلوک اور ممکن حد تک ان کو فائدہ پہنچانے، خاص طور پر ان کو اللہ کے راستے میں مال کے ذریعے سے فائدہ پہنچانے پر مشتمل ہے۔ صدیق وہ لوگ ہیں جنہوں نے ایمان ،عمل صالح ،علم نافع اور یقین صادق کے مراتب کو مکمل کرلیا۔ شہید وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے کلمے کو غالب کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کیا، اپنے جان و مال کو خرچ کیا اور قتل ہوگئے۔ اہل جہنم وہ کفار ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی آیات کو جھٹلایا۔ مذکورہ بالا اقسام کے علاوہ ایک قسم باقی رہ گئی ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے سورۃ فاطر میں کیا ہے اور وہ ہیں مقتصدین جنہوں نے واجبات کو ادا کیا، محرمات کو ترک کیا، البتہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کے بارے میں ان سے کچھ تقصیر واقع ہوئی۔ اگرچہ ان میں سے بعض کو ان کے بعض افعال کے سبب سے سزا ملے گی، تاہم مآل کار وہ جنت میں جائیں گے۔ الحديد
20 اللہ تبارک وتعالیٰ دنیا اور ان امور کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے جن پر دنیا کا دارومدار ہے، نیز دنیا اور دنیا والوں کی غایت و انتہا بیان فرماتا ہے ۔دنیا بس لہو ولعب ہے جس کے ساتھ بدن کھیلتے ہیں اور اس کی وجہ سے قلب غافل ہوتے ہیں۔ جو کچھ دنیا میں موجود ہے اور ابنائے دنیا سے جو کچھ واقع ہوتا ہے وہ اس کا مصداق ہے۔ آپ ابنائے دنیا کو پائیں گے کہ انہوں نے اپنی عمر کے اوقات کو غفلت قلب میں صرف کیا اور وہ ذکر الہٰی اور آئندہ پیش آنے والے وعد و وعید سے غافل رہے، آپ اہل بیدار اور آخرت کے لیے عمل کرنے والوں کو ان کے برعکس دیکھیں گے کیونکہ ان کے دل اللہ تعالیٰ کے ذکر، اس کی معرفت اور اس کی محبت سے معمور ہیں۔ وہ اپنے اوقات کو اللہ تعالیٰ کے قریب کرنے والے ایسے اعمال میں صرف کرتے ہیں جن کا فائدہ ان کو پہنچتا ہے اور دوسروں کو بھی پہنچتا ہے۔ اور فرمایا : ﴿وَّزِیْنَۃٌ﴾ یعنی لباس، مشروبات، سواریوں، گھروں، محلات اور دنیاوی جاہ وغیرہ کے ذریعے سے اپنے آپ کو آراستہ کرنا ہے۔ ﴿وَّتَفَاخُرٌ بَیْنَکُمْ﴾ ’’اور آپس میں فخر کرنا ہے۔‘‘ یعنی ان چیزوں کو رکھنے کے لیے ہر شخص دوسرے پر فخر کا اظہار کرنا چاہتا ہےاور وہ چاہتا ہے کہ ان امور میں وہی غالب رہے اور ان احوال میں بس اسی کو شہرت حاصل رہے۔ ﴿وَتَکَاثُرٌ فِی الْاَمْوَالِ وَالْاَوْلَادِ﴾ یعنی ہر ایک یہی چاہتا ہے کہ وہ مال اور اولاد میں دوسروں سے بڑھ کر ہو۔ دنیا سے محبت کرنے والے اور اس پر مطمئن رہنے والے اس کا مصداق ہیں۔ اس کے برعکس وہ شخص جو دنیا اور اس کی حقیقت کو جانتا ہے، وہ اسے مستقل ٹھکانا نہیں بناتا بلکہ اسے گزرگاہ خیال کرتا ہے، وہ ایسے اعمال میں سبقت حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے جو اسے اللہ تعالیٰ کے قریب کرتے ہیں اور ایسے وسائل اختیار کرتا ہے جو اسے اللہ تعالیٰ کے اکرام و تکریم کے گھر تک پہنچاتے ہیں۔ جب وہ کسی ایسے شخص کو دیکھتا ہے جو اس کے ساتھ دنیا، مال و متاع اور اولاد کی کثرت میں مقابلہ کرتا ہے تو یہ اعمال صالحہ میں اس کا مقابلہ کرتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس دنیائے فانی کے لیے بارش کی مثال دی ہے، جو زمین پر برستی ہے اور اس کی نباتات کو سیراب کرتی ہے جس سے لوگ اور مویشی اپنی خوراک حاصل کرتے ہیں، یہاں تک کہ جب زمین پوری طرح لہلہانے لگتی ہے اور اس کی نباتات کفار کو بھلی لگتی ہیں جن کی نظر وہمت صرف دنیا ہی پر مرکوز ہوتی ہے تو اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا حکم آجاتا ہے جو انہیں ہلاک کردیتا ہے۔ یہ نباتات خشک ہو کر اپنی پہلی حالت کی طرف لوٹ جاتی ہیں، گویا کہ وہاں کبھی ہریالی اگی تھی نہ وہاں کبھی کوئی خوبصورت منظر ہی دیکھا گیا تھا، یہی حال اس دنیا کا ہے، یہ اپنے چاہنے والے کے لیے نہایت خوش نما اور خوبصورت ہوتی ہے وہ جب بھی اس دنیا سے اپنا مطلوب حاصل کرنا چاہتا ہے، حاصل کرلیتا ہے، اور جب بھی وہ کسی دنیاوی معاملے کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو اس کے دروازوں کو کھلا ہوا پاتا ہے۔ جب تقدیر نے اس کو آلیا اور اس سے وہ سب کچھ چھین لیا جو اس کے ہاتھ میں تھا اور اس پر سے اس کے تسلط کو زائل کردیا، یا اسے خوشنما دنیا سے دور کردیا تو وہ اس دنیا سے خالی ہاتھ روانہ ہوا اور کفن کے سوا اس کے پاس کوئی زادراہ نہ تھا، پس ہلاکت ہے اس شخص کے لیے جس کی آرزو کی انتہا یہ دنیا ہے اور اسی کے لیے اس کے اعمال اور اس کی بھاگ دوڑ تھی۔ رہا وہ عمل جو آخرت کے لیے کیا جاتا ہے تو یہ وہی عمل ہے جو فائدہ دیتا ہے اور عمل کرنے والے کے لیے ذخیرہ کردیا جاتا ہے اور ہمیشہ بندے کے ساتھ رہتا ہے۔ بنا بریں فرمایا : ﴿وَفِی الْاٰخِرَۃِ عَذَابٌ شَدِیْدٌ ۙ وَّمَغْفِرَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ وَرِضْوَانٌ﴾ ’’اور آخرت میں سخت عذاب اور اللہ کی مغفرت اور رضا مندی ہے۔ ‘‘ یعنی آخرت کا حال ان دو امور سے خالی نہیں۔ اولا تو اس شخص کے لیے جہنم کی آگ میں سخت عذاب، جہنم کی بیڑیاں اور زنجیریں اور اس کی ہولناکیاں ہوں گی جس کی غایت مقصود اور منتہائے مطلوب محض دنیا ہے۔ پس وہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی جسارت کرتا ہے، آیات الہٰی کو جھٹلاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناسپاسی کرتا ہے۔ ثانیا : یا اس شخص کے لیے گناہوں کی بخشش، عقوبتوں کا ازالہ اور دار رضوان میں اللہ تعالیٰ کی رضا ہوگی، یہ سب اس شخص کے لیے ہے جس نے دنیا کی حقیقت کو پہچان لیا اور آخرت کے لیے بھرپور کوشش کی۔ یہ سب کچھ دنیا میں زہد اور آخرت میں رغبت کی دعوت دیتا ہے ،اس لیے فرمایا : ﴿وَمَا الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَآ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ﴾ ’’اور دنیا کی زندگی تو محض متاع فریب ہے۔ ‘‘ یعنی یہ صرف ایسی متاع ہے جس سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے اور اس سے ضرورتیں پوری کی جاتی ہیں، اس کی وجہ سے فریب میں صرف وہی لوگ مبتلا ہوتے اور اس پر مطمئن رہتے ہیں جو ضعیف العقل ہیں اور جن کو اللہ تعالیٰ کے بارے میں شیطان نے دھوکے میں ڈال رکھا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو مغفرت ،رضا اور جنت کی طرف مسابقت کا حکم دیا ہے اور یہ چیز مغفرت کے اسباب کے لیے کوشش کرنے، یعنی خالص توبہ اور نفع مند استغفار کرنے، گناہ اور گناہ کے اسباب سے دور رہنے ہی سے ممکن ہے، نیز عمل صالح کے ذریعے سے اللہ کی رضا کی طرف سبقت اور ان امور پر دوام کی حرص کرنے سے ممکن ہے جن پر اللہ تعالیٰ راضی ہے، یعنی خالق کی عبادت میں احسان اور مخلوق کو ہر لحاظ سے فائدہ پہنچا کر ان کے ساتھ حسن سلوک کے ذریعے ہی سے یہ چیز حاصل کی جاسکتی ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان اعمال کا ذکر فرمایا جو اس کے موجب ہیں۔ چنانچہ فرمایا : الحديد
21 ﴿وَجَنَّۃٍ عَرْضُہَا کَعَرْضِ السَّمَاءِ وَالْاَرْضِ اُعِدَّتْ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَرُسُلِہٖ﴾ ’’اور جنت جس کا عرض آسمان اور زمین کے عرض کا سا ہے، جو ان لوگوں کے لیے تیار کی گئی ہے جو اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لائے ہیں۔‘‘ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں پر ایمان میں دین کے تمام اصول و فروع داخل ہیں۔ ﴿ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَاءُ﴾ یعنی ہم نے تمہارے سامنے جو کچھ بیان کیا ہے اور جنت تک پہنچانے والے طریقوں اور جہنم میں گرانے والے جن راستوں کی نشاندہی کی ہے، وہ سب اللہ کا فضل ہے۔ نیز اللہ تعالیٰ کا اجر عظیم اور ثواب جمیل، اس کا اپنے بندوں پر سب سے بڑا احسان اور فضل و کرم ہے۔ ﴿وَاللّٰہُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ﴾ ’’اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔‘‘ جس کی ثنا کوئی شمار نہیں کرسکتا بلکہ وہ اسی طرح ہے جس طرح اس نے خود اپنی ثنا بیان کی۔ اس کے بندوں میں سے جو کوئی اس کی ثنا بیان کرتا ہے وہ اس سے کہیں بڑھ کر ہے۔ الحديد
22 اللہ تبارک وتعالیٰ اپنی قضا و قدر کی عمومیت کے بارے میں خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے : ﴿مَآ اَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَۃٍ فِی الْاَرْضِ وَلَا فِیْٓ اَنْفُسِکُمْ﴾ یہ آیت کریمہ خیر و شر پر مبنی ان تمام مصائب کو شامل ہے جو مخلوق پر نازل ہوتی ہیں۔ ہر چھوٹی بڑی تقدیر لوح محفوظ میں درج ہے۔ یہ ایک بہت بڑا معاملہ ہے ،عقل جس کا احاطہ نہیں کرسکتی اور اس مقام پر بڑے بڑے خرد مند ہکے بکے رہ جاتے ہیں مگر یہ اللہ تعالیٰ کے لیے بہت آسان ہے۔ الحديد
23 ﴿لِّکَیْلَا تَاْسَوْا عَلٰی مَا فَاتَکُمْ وَلَا تَفْرَحُوْا بِمَآ اٰتٰیکُمْ﴾ اس آیت میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے بندوں کو اس کے بارے میں آگاہ فرمایا ہے تاکہ ان کے سامنے یہ قاعدہ متحقق ہوجائے اور ان پر جو خیر و شر نازل ہوتا ہے اس کی بنا اس قاعدہ پر رکھیں۔ پس جس چیز کو ان کے دل چاہتے تھے اور اس کا اشتیاق رکھتے تھے، اس کے فوت ہونے پر مایوس اور غمگین نہ ہوں گے کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ یہ سب کچھ لوح محفوظ میں درج تھا جس کا نافذ اور واقع ہونا ایک لازمی امر تھا اور اس نوشتے کو روکنے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ ان کو عطا کیا ہے وہ اس پر تکبر اور اتراہٹ کے ساتھ فرحت کا اظہار نہ کریں گے کیونکہ انہیں علم ہے کہ انہیں جو کچھ حاصل ہوا ہے انہیں اپنی قوت اور طاقت سے حاصل نہیں ہوا بلکہ یہ سب کچھ تو انہیں اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور اس کے احسان کے ذریعے سے حاصل ہوا ہے۔ لہٰذا ان کو چاہیے کہ وہ اس ہستی کے شکر میں مشغول رہیں جس نے نعمتیں عطا کیں اور زحمتوں کو دور کیا۔ بنا بریں فرمایا : ﴿وَاللّٰہُ لَا یُحِبُّ کُلَّ مُخْتَالٍ فَخُـــوْرِ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ درشت خو، خود پسند اور متکبر کو پسند نہیں کرتا جو فخر کرتا اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو خود اپنی طرف منسوب کرتا ہے اور اسے یہ نعمتیں سرکشی اور غفلت میں مبتلا کرتی ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : ﴿ ثُمَّ إِذَا خَوَّلْنَاهُ نِعْمَةً مِّنَّا قَالَ إِنَّمَا أُوتِيتُهُ عَلَىٰ عِلْمٍ بَلْ هِيَ فِتْنَةٌ ﴾ (الزمر : 39؍49)’’پھر جب ہم اسے اپنی طرف سے نعمتوں سے نواز دیتے ہیں تو کہتا ہے کہ یہ تو مجھے میرے علم و دانش کی وجہ سے عطا کیا گیا ہے۔ (ایسی بات نہیں)بلکہ یہ تو ایک آزمائش ہے۔‘‘ الحديد
24 ﴿الَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ وَیَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ﴾ ’’جو لوگ خود بخل کرتے ہیں اور لوگوں کو بھی بخل کا حکم دیتے ہیں ۔‘‘ یعنی دونوں مذموم کاموں کو اکٹھا کرلیتے ہیں جن میں سے ہر ایک شر کے لیے کافی ہے۔ ایک تو بخل ہے جس سے مراد حقوق واجبہ کی ادائیگی سے باز رہنا ہے اور دوسرا وہ لوگوں کو بخل کا حکم دیتے ہیں۔ انہوں نے بخل ہی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ انہوں نے دیگر لوگوں کو بھی بخل کا حکم دیا اور اپنے قول و فعل سے انہیں مذموم صفت کو اختیار کرنے کی ترغیب دی۔ اور یہ ان کا اپنے رب کی اطاعت سے اعراض کرنا اور منہ موڑنا ہے۔ ﴿وَمَنْ یَّتَوَلَّ﴾ ور جو کوئی اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے منہ موڑتا ہے تو وہ صرف اپنے آپ کو نقصان پہنچاتا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کو کچھ نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ ﴿فَاِنَّ اللّٰہَ ہُوَ الْغَنِیُّ الْحَمِیْدُ﴾ ’’بیشک اللہ تعالیٰ بے نیاز اور سزوار حمد و ثنا ہے۔‘‘ جس کا غنا اس کی ذات کے لوازمات میں سے ہے جو آسمانوں اور زمین کے اقتدار کا مالک ہے اور جس نے اپنے بندوں کو غنی اور مال دار بنایا۔ ﴿الْحَمِیْدُ﴾ وہ ہستی ہے جس کا ہر نام اچھا، ہر وصف کامل، اور ہر فعل خوبصورت ہے ،وہ اس بات کا مستحق ہے کہ اس کی حمد و ثنا بیان کی جائے اور اس کی تعظیم کی جائے۔ الحديد
25 اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ﴾’’یقینا ہم نے اپنے رسولوں کو کھلی دلیلیں دے کر بھیجا ۔‘‘ اس سے مراد وہ دلائل ،شواہد اور علامات ہیں جو اس چیز کی صداقت اور حقیقت پر دلالت کرتی ہیں جسے انبیائے کرام لے کر آئے ہیں۔ ﴿وَاَنْزَلْنَا مَعَہُمُ الْکِتٰبَ﴾ ’’اور ہم نے ان پر کتاب اتاری۔‘‘ (اَلْکِتٰبَ) اسم جنس ہے جو ان تمام کتابوں کو شامل ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے مخلوق کی ہدایت اور ان امور کی طرف راہنمائی کے لیے نازل فرمایا ہے جو ان کے دین و دنیا میں فائدہ مند ہیں۔ ﴿وَالْمِیْزَانَ﴾ ’’اور میزان۔‘‘ اور وہ اقوال و افعال میں عدل کا نام ہے۔ وہ دین جو تمام رسول لے کر آئے وہ اوامر و نواہی اور مخلوق کے تمام معاملات، تمام جرائم، حدود، قصاص اور وراثت کے معاملات وغیرہ میں، سراسر عدل و انصاف پر مبنی ہے۔ اور یہ اس لیے ﴿لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ﴾ تاکہ لوگ اللہ تعالیٰ کے دین کو قائم کر کے اور اپنے مصالح کے حصول کی خاطر جن کو شمار کرنا ممکن نہیں، عدل و انصاف پر قائم رہیں، یہ آیت کریمہ اس بات کی دلیل ہے کہ تمام انبیاء ورسل، شریعت کے قاعدے پر متفق ہیں اور وہ ہے عدل کو قائم کرنا اگرچہ زمان و احوال کے مطابق عدل کی صورتیں مختلف ہیں۔ ﴿وَاَنْزَلْنَا الْحَدِیْدَ فِیْہِ بَاْسٌ شَدِیْدٌ﴾ ’’اور ہم نے لوہا پیدا کیا، اس میں سخت ہیبت و قوت ہے، یعنی آلات حرب، مثلا ہر قسم کا اسلحہ اور ذرہ بکتر وغیرہ۔ ﴿وَّمَنَافِعُ لِلنَّاسِ﴾ ’’اور لوگوں کے لیے منافع ہیں۔‘‘ یہ وہ منافع ہیں جن کا مشاہدہ مختلف انواع کی صنعت و حرفت، مختلف اقسام کے برتنوں اور زرعی آلات میں کیا جاسکتا ہے، یہاں تک کہ کم ہی کوئی ایسی چیز پائی جاتی ہوگی جو لوہے کی محتاج نہ ہو﴿وَلِیَعْلَمَ اللّٰہُ مَنْ یَّنْصُرُہٗ وَرُسُلَہٗ بِالْغَیْبِ﴾ ’’تاکہ اللہ اسے جان لے جو بن دیکھے اس کی اور اس کے رسول کی مدد کرتا ہے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے کتاب اور لوہا اس لیے نازل فرمایا کہ وہ اس کے ذریعے سے آزمائش کا بازار گرم کرے تاکہ واضح ہوجائے کہ کون اس حالت غیب میں اللہ اور اس کے رسولوں کی مدد کرتے ہیں جس میں وہ ایمان فائدہ دیتا ہے جو مشاہدہ سے قبل ہو، مشاہدہ کے اندر ایمان کے وجود کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ تب تو ایمان ضروری اور اضطراری ہوگا۔ ﴿اِنَّ اللّٰہَ قَوِیٌّ عَزِیْزٌ﴾ ’’بیشک اللہ تعالیٰ قوی اور زبردست ہے۔‘‘ یعنی اسے کوئی عاجز کرسکتا ہے نہ کوئی بھاگنے والا اس سے بچ کر کہیں جاسکتا ہے۔ یہ اس کی قوت اور غلبے کا نشان ہے کہ اس نے لوہا نازل کیا جس سے بڑے بڑے طاقتور آلات بنتے ہیں۔ یہ اس کی طاقت اور غلبہ ہی ہے کہ وہ اپنے دشمنوں سے انتقام لینے کی قدرت رکھتا ہے مگر وہ اپنے دشمنوں کے ذریعے سے اپنے اولیا کو آزماتا ہے تاکہ وہ جان لے کہ کون بن د یکھے اس کی مدد کرتا ہے۔ اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے کتاب اور لوہے کو اکٹھا بیان کیا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ ان دونوں چیزوں کے ذریعے سے اپنے دین کو نصرت عطا کرتا ہے اور وہ اپنے کلمے کو کتاب کے ذریعے سے جس میں حجت و برہان ہے اور سیف ناصر کے ذریعے سے ،اللہ کے حکم کے ساتھ بلند کرتا ہے، دونوں عدل و انصاف قائم کرتی ہیں جس کے ذریعے سے باری تعالیٰ کی حکمت، اس کے کمال اور اس کی شریعت کے کمال پر استدلال کیا جاتا ہے جس کو اس نے اپنے رسولوں کی زبان پر مشروع فرمایا۔ جب اللہ تعالیٰ نے جملہ انبیائے کرام کی نبوت کا عمومی ذکر فرمایا تو ان میں سے دو خاص نبیوں، یعنی حضرت نوح، اور ابراہیم علیہما السلام کا ذکر بھی فرمایا جن کی اولاد میں اللہ تعالیٰ نے نبوت اور کتاب کو جاری کیا، چنانچہ فرمایا : الحديد
26 ﴿وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا وَّاِبْرٰہِیْمَ وَجَعَلْنَا فِیْ ذُرِّیَّـتِہِمَا النُّبُوَّۃَ وَالْکِتٰبَ﴾ ’’بیشک ہم نے نوح اور ابراہیم کو بھیجا اور ہم نے ان دونوں کی اولاد میں نبوت اور کتاب جاری رکھی۔ ‘‘ یعنی تمام انبیائے متقدمین و متأخرین حضرت نوح اور ابراہیم علیہما السلام کی اولاد میں سے ہیں۔ اسی طرح تمام کتابیں انہی دو انبیائے کرام کی اولاد پر نازل ہوئیں﴿فَمِنْہُمْ﴾ یعنی ان لوگوں میں سے جن کی طرف ہم نے رسول مبعوث کیے، بعض لوگ ﴿ مُّهْتَدٍ ﴾ ان انبیا کی دعوت کے ذریعے سے ہدایت یافتہ ،ان کے احکام کی اطاعت کرنے والے اور ان کی ہدایت سے راہنمائی حاصل کرنے والے ہوئے۔ ﴿وَکَثِیْرٌ مِّنْہُمْ فٰسِقُوْنَ﴾ اور ان میں سے اکثر لوگ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں کی اطاعت سے خارج ہوئے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : ﴿ وَمَا أَكْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِينَ ﴾ (یوسف :12؍103) ”اور اکثر لوگ، خواہ آپ کتنی ہی خواہش کریں ایمان لانے والے نہیں۔“ الحديد
27 ﴿ثُمَّ قَفَّیْنَا﴾ پھر ہم نے بھیجے ﴿عَلٰٓی اٰثَارِہِمْ بِرُسُلِنَا وَقَفَّیْنَا بِعِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ﴾ ”ان کے پیچھے لگاتار اپنے رسول اورہم نے ان سب کے پیچھے عیسیٰ بن مریم کو بھیجا۔“ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا خاص طور پر اس لیے ذکر کیا ہے کیونکہ سیاق آیات نصارٰی کے بارے میں ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اتباع کا دعوٰی کرتے ہیں۔ ﴿وَاٰتَیْنٰہُ الْاِنْجِیْلَ﴾ ”اور ہم نے ان کو انجیل دی۔“ جو اللہ تعالیٰ کی فضیلت والی کتابوں میں سے ہے۔ ﴿وَجَعَلْنَا فِیْ قُلُوْبِ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُ رَاْفَۃً وَّرَحْمَۃً﴾ ا”ور ڈال دی ہم نے ان کے پیروکاروں کے دلوں میں شفقت اور مہربانی۔“جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿ لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِينَ آمَنُوا الْيَهُودَ وَالَّذِينَ أَشْرَكُوا وَلَتَجِدَنَّ أَقْرَبَهُم مَّوَدَّةً لِّلَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ قَالُوا إِنَّا نَصَارَىٰ ذَٰلِكَ بِأَنَّ مِنْهُمْ قِسِّيسِينَ وَرُهْبَانًا وَأَنَّهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُونَ ﴾ (المائدۃ:5؍82)”آپ پائیں گے کہ مومنوں کے ساتھ سب سے زیادہ دشمنی رکھنے والے یہودی اور مشرک ہیں اور مودت و محبت کے اعتبار سے آپ مومنوں کے سب سے زیادہ قریب ان لوگوں کو پائیں گے جو کہتے ہیں کہ ہم نصرانی ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ ان میں عالم بھی ہیں اور راہب بھی اور (اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ) وہ تکبر نہیں کرتے۔“ اسی لیے جب نصرانی عیسیٰ علیہ السلام کی شریعت پر قائم تھے تو دوسروں کی نسبت زیادہ نرم دل تھے۔ ﴿وَرَہْبَانِیَّۃَ ابْتَدَعُوْہَا﴾ ”اور رہبانیت کو انہوں نے ازخود ایجاد کرلیا۔“ رہبانیت سے مراد عبادت ہے۔پس انہوں نے اپنی طرف سے ایک عبادت ایجاد کرلی اور اپنے لیے اسے وظیفہ بنا لیا اور انہوں نے مختلف لوازم کا التزام کیا جن کو اللہ تعالیٰ نے ان پر فرض نہیں کیا تھا بلکہ انہوں نے خود اپنی طرف سے اپنے آپ پر لازم ٹھہرایا تھا اس سے ان کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا تھا۔ مگر بایں ہمہ ﴿فَمَا رَعَوْہَا حَقَّ رِعَایَــتِہَا﴾ یعنی وہ اس پر قائم رہ سکے نہ اس کے حقوق ہی ادا کرسکے، پس وہ دو اعتبار سے قصور کے مرتکب ہوئے۔ اول : اس عبادت کو ایجاد کرنے کے اعتبار سے۔ ثانی : اس اعتبار سے کہ انہوں نے اپنے آپ پر جس چیز کو فرض کیا تھا اس پر قائم نہ رہ سکے، یہ حال ان کے غالب احوال میں سے تھا اور ان میں سے کچھ ایسے لوگ بھی تھے جو اللہ تعالیٰ کے حکم پر استقامت کے ساتھ قائم تھے اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿فَاٰتَیْنَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْہُمْ اَجْرَہُمْ﴾ یعنی وہ لوگ جو حضرت عیسیٰ پر ایمان لانے کے ساتھ ساتھ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی ایمان لائے اللہ تعالیٰ نے ہر ایک کو اس کے ایمان کے مطابق اجر عطا کیا ہے ﴿وَکَثِیْرٌ مِّنْہُمْ فٰسِقُوْنَ﴾ ”اور ان میں سے زیادہ تر لوگ نافرمان ہیں۔“ الحديد
28 اس آیت کریمہ میں یہ احتمال ہے کہ یہ خطاب ان اہل کتاب سے ہو جو حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام پر ایمان لائے۔ اللہ تعالیٰ ان کو حکم دیتا ہے کہ وہ اپنے ایمان کے تقاضے پر عمل کریں۔ اس کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے ڈریں، اس کی نافرمانی کو چھوڑ دیں اور اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائیں۔ اگر وہ یہ کام کریں گے تو اللہ تعالیٰ انہیں عطا کرے گا : ﴿کِفْلَیْنِ مِنْ رَّحْمَتِہٖ﴾ ”اپنی رحمت سے دوگنا اجر۔“ یعنی ان کے اجر کے دو حصے ہیں: ایک حصہ ان کے سابق رسولوں پر ایمان لانے کے بدلے میں اور دوسرا حصہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کے بدلے میں۔ دوسرا احتمال یہ ہے کہ یہ حکم عام ہے اور اس میں اہل کتاب اور غیر اہل کتاب سب داخل ہیں اور یہی ظاہر ہے، نیز اس لیے بھی کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ایمان اور تقوٰی کا حکم دیا ہے جس میں دین کا تمام ظاہر و باطن اور اصول و فروع داخل ہے اور اگر وہ اس عظیم حکم کی تعمیل کریں گے۔ ﴿ کِفْلَیْنِ مِنْ رَّحْمَتِہ ﴾تو اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے انہیں دوگنا اجر عطا کرے گا جس کی مقدار اور وصف اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اس سے مراد یا تو ایمان لانے پر اجر اور تقوٰی اختیار کرنے پر اجر ہے یا اوامر کی تعمیل پر اجر اور نواہی سے اجتناب کرنے پر اجر ہے یا تثنیہ سے مراد یکے بعد دیگرے عطائے ثواب میں تکرار ہے۔ ﴿وَیَجْعَلْ لَّکُمْ نُوْرًا تَمْشُوْنَ بِہٖ﴾ یعنی وہ تمہیں علم، ہدایت اور روشنی عطا کرے گا جس کی مدد سے تم جہالت کی تاریکیوں میں چل پھر سکو گے اور وہ تمہارے گناہوں کو بخش دے گا۔ ﴿ وَاللّٰـهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ ﴾ اس ثواب کی یہ کثرت، فضل عظیم کے مالک کے فضل کے سامنے مستبعد نہیں جس کا فضل و کرم تمام آسمانوں اور زمین والوں پر سایہ کناں ہے، لمحہ بھر یا اس سے بھی کم وقت کے لیے مخلوق سے اس کا فضل و کرم جدا نہیں ہوتا۔ الحديد
29 ﴿لِّئَلَّا یَعْلَمَ اَہْلُ الْکِتٰبِ اَلَّا یَــقْدِرُوْنَ عَلٰی شَیْءٍ مِّنْ فَضْلِ اللّٰہِ﴾ یعنی ہم نے تمہارے سامنے بیان کردیا ہے کہ اس شخص کو ہم اپنے فضل و احسان سے نوازتے ہیں جو عمومی ایمان سے بہرور ہوتا ہے، تقوٰی اختیار کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے رسول پر ایمان لاتا ہے۔ یہ وضاحت ہم نے اس لیے کی ہے تاکہ اہل کتاب کو یہ علم ہوجائے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے فضل پر کوئی اختیار نہیں رکھتے۔ یعنی وہ اپنی خواہشات نفس اور عقول فاسدہ کے مطابق اللہ تعالیٰ کو اس کے فضل سے روک نہیں سکتے، وہ کہتے ہیں۔ ﴿ لَن يَدْخُلَ الْجَنَّةَ إِلَّا مَن كَانَ هُودًا أَوْ نَصَارَىٰ ﴾ (بقرۃ:2؍111) ”جنت میں داخل نہیں ہوگا سوائے یہودی اور نصرانی کے۔“ اور وہ اللہ کے بارے میں فاسد آرزوئیں رکھتے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والوں اور اللہ تعالیٰ کے لیے تقوٰی اختیار کرنے والوں کو آگاہ فرمایا ہے کہ اہل کتاب کے علی الرغم ان کے لیے دوگنی رحمت ،نور اور مغفرت ہے تاکہ انہیں معلوم ہوجائے ﴿وَاَنَّ الْفَضْلَ بِیَدِ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَاءُ﴾ ”کہ فضل اللہ کے ہاتھ میں ہے جس کو چاہتا ہے عطا کرتا ہے۔“ جس کے بارے میں اس کی حکمت تقاضا کرتی ہے کہ اسے اپنا فضل عطا کرے۔ ﴿وَاللّٰہُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ﴾ وہ فضل عظیم کا مالک ہے جس کی مقدار کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا۔ الحديد
0 المجادلة
1 یہ آیات کریمہ انصار میں سے ایک شخص کے بارے میں نازل ہوئیں، جب اس نے اپنی بیوی کو طویل مصاحبت اور اولاد ہونے کے بعد اپنے آپ پر حرام قرار دے لی،ا تو اس کی بیوی نے اللہ تعالیٰ کے پاس شکایت کی اور اس کے خلاف مقدمہ لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی ۔وہ ایک بوڑھا شخص تھا ۔اس خاتون نے اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنے حال اور اس شخص کے حال کے بارے میں شکوہ کیا اور بار بار کیا اور جرأت کے ساتھ اس کا اعادہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿قَدْ سَمِعَ اللّٰہُ قَوْلَ الَّتِیْ تُجَادِلُکَ فِیْ زَوْجِہَا وَتَشْـتَکِیْٓ اِلَی اللّٰہِ وَاللّٰہُ یَسْمَعُ تَحَاوُرَکُمَا ﴾(”اے پیغمبر!) جو عورت آپ سے اپنے شوہر کے بارے میں بحث وجدال کرتی اور اللہ سے شکایت کرتی تھی ،اللہ نے اس کی التجا سن لی اور اللہ تم دونوں کی بات چیت کو سن رہا تھا۔“ ﴿ اِنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌ﴾ بے شک اللہ تعالیٰ تمام اوقات میں مخلوق کی مختلف حاجتوں کے باوجود تمام آوازوں کو سننے والا ہے ﴿بَصِیْرٌ﴾ جو اندھیری رات میں سیاہ پتھر پر رینگتی ہوئی سیاہ چیونٹی کو بھی دیکھتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی کامل سمع وبصرکی خبر ہے ،نیز تمام چھوٹے بڑے امور پر اس کے سمع وبصر کے احاطہ کی خبر ہے۔ اس ضمن میں یہ بھی اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس عورت کی شکایت اور مصیبت کا ازالہ کرے گا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے عمومی طور پر اس عورت اور دیگر عورتوں کے بارے میں حکم بیان فرمایا۔ المجادلة
2 چنانچہ فرمایا: ﴿اَلَّذِیْنَ یُظٰہِرُوْنَ مِنْکُمْ مِّنْ نِّسَایِٕـہِمْ مَّا ہُنَّ اُمَّہٰتِہِمْ اِنْ اُمَّہٰتُہُمْ اِلَّا اللَّائِي وَلَدْنَہُمْ ﴾”جو لوگ تم میں سے اپنی عورتوں سے ”ظہار“ کرلیتے ہیں ، وہ ان کی مائیں نہیں) ہوجاتیں( ان کی مائیں تو وہی ہیں جنہوں نے ان کو جنا۔“ بیوی کے ساتھ ظہار یہ ہے کہ شوہر اپنی بیوی سے کہے:” تو میرے لیے ایسے ہے جیسے میری ماں کی پیٹھ۔“ یا ماں کے علاوہ دیگر محارم کا ذکر کرے یا یہ کہ:” تو مجھ پر حرام ہے۔“ عربوں کے ہاں اس موقع پر الظَّہر” پیٹھ“ کا لفظ بولا جاتا تھا۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اس کو ”ظہار“ سے موسوم کیا ہے، چنانچہ فرمایا :﴿اَلَّذِیْنَ یُظٰہِرُوْنَ مِنْکُمْ مِّنْ نِّسَایِٕــہِمْ مَّا ہُنَّ اُمَّہٰتِہِمْ﴾ یعنی وہ ایسی بات کیوں کر کہتے ہیں جس کے بارے میں انہیں معلوم ہے کہ اس کی کوئی حقیقت نہیں اور وہ اپنی بیویوں کو ان ماؤں سے تشبیہ دیتے ہیں جنہوں نے ان کو جنم دیا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ظہار کے معاملے کو بہت بڑا اور نہایت قبیح قرار دیا ہے ،چنانچہ فرمایا :﴿ وَاِنَّہُمْ لَیَقُوْلُوْنَ مُنْکَرًا مِّنَ الْقَوْلِ وَزُوْرًا ﴾ یعنی وہ نہایت بری اور جھوٹی بات کہہ رہے ہیں۔ ﴿ وَاِنَّ اللّٰہَ لَعَفُوٌّ غَفُوْرٌ﴾ یعنی اس سے جو کچھ مخالفت صادر ہوئی پھر اس نے خالص توبہ کے ذریعے سے اس کا تدارک کیا تو اللہ تعالیٰ اس کو معاف کرنے اور بخش دینے والا ہے۔ المجادلة
3 ﴿وَالَّذِیْنَ یُظٰہِرُوْنَ مِنْ نِّسَایِٕہِمْ ثُمَّ یَعُوْدُوْنَ لِمَا قَالُوْا﴾ ”اور جو اپنی بیویوں سے ظہار کربیٹھیں، پھر انہوں نے جو کہا اس سے رجوع کرلیں۔“ رجوع کرنے کے معنی میں اہل علم اختلاف کرتے ہیں، چنانچہ بعض کہتے کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ جس عورت کے ساتھ ظہار کیا ہے اس کے ساتھ جماع کا عزم کیا جائے، مجرد عزم ہی سے ظہار کرنے والے پر مذکورہ کفارہ واجب ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کفارے کے بارے میں ذکر فرمایا کہ یہ کفارہ (اس بیوی کو) چھونے سے قبل ہے اور یہ مجرد عزم ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ اس کے معنی حقیقی جماع کے ہیں اور اس کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ثُمَّ یَعُوْدُوْنَ لِمَا قَالُوْا﴾ ”پھر وہ اپنی بات سے رجوع کرلیں۔“ اور جو بات انہوں نے کہی وہ جماع (کوحرام کرنا)ہے ۔اور دونوں قولوں میں سے ہر ایک کے مطابق جب بھی رجوع کیا جائے گا توبیوی کو اپنے اوپر حرام کرلینے کا کفارہ ہوگا ۔﴿فَتَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ﴾ ”تو ایک غلام آزاد کرنا ہے۔“ لیکن وہ مومن ہوجیسا کہ دوسری آیت میں کہا گیا ہ۔، مرد ہو یا عورت بشرطیکہ وہ غلام یا لونڈی ان عیوب سے سلامت ہو جو کام کرنے میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ ﴿ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّـتَـمَاسَّا ﴾ ”پہلے اس کے کہ وہ دونوں ہم بستری کریں۔“ یعنی شوہر پر لازم ہے کہ جب تک کہ وہ غلام آزاد کرکے کفارہ ادا نہ کرے اپنی اس بیوی سے جماع نہ کرے جس سے اس نے ظہار کیا ہے ﴿ ذَٰلِكُمْ ﴾ یعنی یہ حکم جو ہم نے تمہارے لیے بیان کیا ہے ﴿ تُوعَظُونَ بِهِ ﴾ ”اس کے ذریعے سے تم نصیحت کیے جاتے ہو۔“ یعنی وہ تمہارے سامنے ترہیب سے مقرون اپنا حکم بیان کرتا ہے کیونکہ وعظ کا معنی ترغیب وترہیب کے ساتھ حکم کا ذکر کرنا ہے، پس جو شخص ظہار کا ارادہ کرتا ہے پھر جب اسے یاد آتا ہے کہ غلام آزاد کرنا پڑے گا تو اس سے رک جاتا ہے۔ ﴿ وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ﴾ ”اور اللہ ٰ تمہارےعملوں سے پوری طرح باخبر ہے۔ “لہذا وہ ہر عمل کرنے والے کو اس کے عمل کی جزا وسزا دے گا۔ المجادلة
4 ﴿ فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ﴾ پس جو آزاد کرنے کے لیے غلام نہ پائے یا اس کے پاس غلام کی قیمت موجود نہ ہو تو اس کے ذمے ﴿ فَصِیَامُ شَہْرَیْنِ مُتَتَابِعَیْنِ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّتَمَـاسَّا فَمَنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ﴾ تو مجامعت سے پہلے متواتر دو مہینے کے روزے ہیں اور جوروزے رکھنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو ﴿ فَإِطْعَامُ سِتِّينَ مِسْكِينًا ﴾ ”تو اس پر ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے۔ “یا تو وہ اپنے شہر میں مروّج خوراک میں سے انہیں کھانا کھلائے جو ان کے لیے کافی ہوجیسا کہ یہ بہت سے مفسرین کا قول ہے یا وہ ایک مسکین کو ایک مد گیہوں یا گیہوں کے علاوہ کسی دیگر جنس سے، جو صدقہ فطر میں کفایت کرتی ہو ،نصف صاع عطا کرے جیسا کہ مفسرین کے ایک دوسرے گروہ کی رائے ہے۔ یہ حکم جو ہم نے تمہارے سامنے بیان کیا ہے اور اسے واضح کیا ہے ﴿ لِتُؤْمِنُوا بِاللّٰـهِ وَرَسُولِهِ ﴾ ”تاکہ تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لے آؤ۔“ اور یہ ایمان اس حکم اور دیگر احکام کے التزام اور اس پر عمل کرنے ہی سے ممکن ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے احکام کا التزام اور ان پر عمل کرنا ایمان ہے بلکہ یہ احکام اور ان پر عمل ہی درحقیقت مقصود ومطلوب ہیں، ان سے ایمان میں اضافہ اور اس کی تکمیل ہوتی ہے اور یہ نشوونما پاتا ہے۔ ﴿ وَتِلْكَ حُدُودُ اللّٰـهِ ﴾ ”اور یہ اللہ کی حدود ہیں۔“ جو ان میں واقع ہونے سے روکتی ہیں ،اس لیے واجب ہے کہ ان حدود سے تجاوز کیا جائے نہ ان سے قاصر (پیچھے) رہا جائے ﴿ وَلِلْكَافِرِينَ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴾ ”اور کافروں کے لیے دردناک عذاب ہے۔“ ان آیات کریمہ میں متعدد احکام بیان کیے گئے ہیں: ١۔ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر لطف وکرم اور عنایت ہے کہ اس نے مصیبت زدہ عورت کی شکایت کا ذکر کرکے اس کی مصیبت کا ازالہ کیا بلکہ اس نے اپنے حکم عام کے ذریعے سے ہراس شخص کی مصیبت کا ازالہ کیا جو اس قسم کی مصیبت اور آزمائش میں مبتلا ہے۔ ٢۔ ظہار بیوی کو حرام ٹھہرا لینے کے ساتھ مختص ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿ مِن نِّسَائِهِمْ ﴾”اپنی عورتوں سے۔“ اگر وہ اپنی لونڈی کو اپنے آپ پر حرام ٹھہراتا ہے تو یہ ظہار شمار نہ ہوگا بلکہ یہ طیبات کی تحریم کی جنس سے ہے، مثلا :کھانے پینے کو حرام ٹھہرا لینا۔ اس میں صرف قسم کا کفارہ واجب ہے۔ ٣۔ کسی عورت سے نکاح کرنے سے پہلے اس سے ظہار درست نہیں کیونکہ ظہار کے وقت وہ اس کی بیویوں میں داخل نہیں ہے جیسا کہ نکاح سے قبل مرد کسی عورت کو خواہ طلاق دے دے یا اس کو معلق کردے اس کو طلاق نہیں ہوسکتی۔ ٤۔ ظہارحرام ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسے منکر کہا ہے۔ ٥۔ ان آیات کریمہ میں اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کی حکمت کی طرف اشارہ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ مَّا هُنَّ أُمَّهَاتِهِمْ ﴾ ”وہ ان کی مائیں نہیں ہیں۔ “ ٦۔ ان آیات کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ مرد کے لیے مکروہ ہے کہ وہ اپنی بیوی کو اپنے محارم کے نام سے پکارے، مثلا: اے میری ماں! اے میری بہن! وغیرہ کیونکہ یہ بات محرمات سے مشابہت رکھتی ہے۔ ٧۔ کفارہ مجرد ظہار سے واجب نہیں ہوتا بلکہ سابقہ دونوں اقوال کے اختلاف معنی کے مطابق، ظہار کرنے والے کے ”رجوع کرنے “پر کفارہ واجب ہوتا ہے۔ ٨۔ کفارے میں چھوٹے یابڑے غلام کو اور مرد یا عورت کو آزاد کرنے سے کفارہ ادا ہوجاتا ہے کیونکہ آیت میں مطلق غلام کو آزاد کرنے کا حکم ہے۔ ٩۔ آیت کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر کفارے میں غلام آزاد کرنا یا روزے رکھنا ہے تو جماع سے قبل کفارہ ادا کرنا واجب ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اسے مقید ذکر کیا ہے، بخلاف مسکینوں کو کھانا کھلانے کے کیونکہ مسکینوں کو کھانا کھلانے کے دوران میں جماع جائز ہے۔ ١٠۔ جماع سے قبل کفارے کے واجب ہونے میں شاید حکمت یہ ہے کہ اس سے کفارے کی ادائیگی میں زیادہ ترغیب ملتی ہے کیونکہ جب ظہار کرنے والے میں جماع کا اشتیاق پیدا ہوتا ہے اور اسے معلوم ہے کہ کفارہ ادا کیے بغیر جماع ممکن نہیں تو کفارہ ادا کرنے میں جلدی کرتا ہے۔ ١١۔ ان آیات کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا واجب ہے۔ ظہار کا ارتکاب کرنے والا اگر ساٹھ مسکینوں کااکٹھا کھانا کسی ایک مسکین یا ایک سے زائد مسکینوں کو، جو تعداد میں ساٹھ سے کم ہوں، دے دے تو یہ جائز نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ فَإِطْعَامُ سِتِّينَ مِسْكِينًا ﴾” تو اس پر ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے۔“ المجادلة
5 اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت اور نافرمانی ان کے ساتھ دشمنی کے زمرے میں آتی ہے، خاص طور پر امور قبیحہ میں، مثلا :اللہ اور اس کے رسول کا انکار کرکے دشمنی کرنا اور اولیاء اللہ سے عداوت رکھنا۔فرمایا :﴿کُبِتُوْا کَـمَا کُبِتَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ﴾ یعنی پوری پوری جزا کے طور پر ان کو ذلیل ورسوا کیا گیا جیسا کہ ان سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کو ذلیل ورسوا کیا گیا تھا ۔اللہ تعالیٰ کے خلاف ان کے پاس کوئی حجت نہیں کیونکہ مخلوق پر اللہ تعالیٰ کی حجت بالغہ قائم ہوچکی ہے ۔اللہ تعالیٰ نے واضح دلائل اور براہین نازل فرمائے جو حقائق کو بیان اور مقاصد کو واضح کرتے ہیں، پس جس کسی نے ان کی اتباع کی اور ان پر عمل پیرا ہوا وہی ہدایت یافتہ اور فائز المرام ہے۔ ﴿ وَلِلْكَافِرِينَ ﴾ یعنی ان آیات وبراہین کا انکار کرنے والوں کے لیے ﴿ عَذَابٌ مُهِينٌ ایسا عذاب ہے جو انہیں ذلیل ورسوا کرے گا، چنانچہ جس طرح انہوں نے آیات الٰہی کے مقابلے میں تکبر کیا اسی طرح اللہ تعالیٰ بھی ان کو ذلیل ورسوا کرے گا۔ المجادلة
6 یعنی جس روز اللہ تعالیٰ مخلوق کو دوبارہ زندہ کرے گا ﴿جَمِیْعًا﴾ ”سب کو“تو وہ اپنی قبروں سے تیزی سے نکل کھڑے ہوں گے، پھر وہ انہیں ان کے اعمال کی جزا دے گا ﴿ فَیُنَبِّئُہُمْ بِمَا عَمِلُوْا﴾ چنانچہ انہوں نے جو اچھے برے اعمال کیے ہوں گے اللہ تعالیٰ انہیں ان کے اعمال سے آگاہ کرے گا ،کیونکہ اسے ان تمام اعمال کا علم ہے اور ﴿أَحْصَاهُ اللَّهُ﴾ اللہ تعالیٰ نے ان اعمال کو لوح محفوظ میں درج کررکھا ہے اور حفاظت پر مامور ملائکہ کرام کو حکم دے رکھا ہے کہ وہ ان اعمال کو درج کرتے رہیں ۔﴿وَ﴾ ”اور“ عمل کرنے والوں کی حالت یہ ہے کہ ﴿ نَسُوهُ ﴾ انہوں نے اپنے اعمال کو فراموش کردیا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو شمار کررکھا ہے ۔﴿وَاللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ شَہِیْدٌ﴾ اللہ تعالیٰ تمام ظاہری باتوں، تمام اسرار نہاں اور تمام چھپی ہوئی چیزوں کو دیکھتا ہے۔ المجادلة
7 بنا بریں اس نے اپنے لامحدود علم کے بارے میں خبر دی ہے ،نیز آگاہ فرمایا کہ اس کا علم آسمانوں اور زمین کی ہر چھوٹی بڑی چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔وہ ایسی ہستی ہے کہ ﴿ مَا یَکُوْنُ مِنْ نَّجْوٰی ثَلٰثَۃٍ اِلَّا ہُوَ رَابِعُہُمْ وَلَا خَمْسَۃٍ اِلَّا ہُوَ سَادِسُہُمْ وَلَآ اَدْنٰی مِنْ ذٰلِکَ وَلَآ اَکْثَرَ اِلَّا ہُوَ مَعَہُمْ اَیْنَ مَا کَانُوْا ﴾ ”کسی بھی جگہ تین اشخاص کی سرگوشی نہیں ہوتی مگر چوتھا وہ ہوتا ہے، نہ کہیں پانچ اشخاص کی سرگوشی ہوتی ہے مگر چھٹا وہ ہوتا ہے ،نہ اس سے کم نہ اس سے زیادہ اشخاص سرگوشی کرتے ہیں مگر وہ ان کے ساتھ ہوتا ہے جہاں کہیں بھی وہ ہوں۔“ اس معیت سے مراد معیت علم اور ان کی سرگوشیوں اور ان کے اسرار کا احاطہ ہے۔اسی لیے فرمایا :﴿اِنَّ اللّٰہَ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ﴾” بلاشبہ اللہ ہر چیز کو جاننے والا ہے۔“ المجادلة
8 (النَّجْوٰی) دو یا دو سے زیادہ آدمیوں کا آپس میں سرگوشی کرنا ہے۔ کبھی سرگوشی بھلائی کے معاملے میں ہوتی ہے اور کبھی برائی کے معاملے میں ہوتی ہے، چنانچہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اہل ایمان کو حکم دیا ہے کہ وہ نیکی کے معاملے میں سرگوشی کیا کریں۔ (اَلْبِرُّ) نیکی اور اطاعت کے ہر کام اور حقوق اللہ اور حقوق العباد کے قیام کے لیے ایک جامع نام ہے۔ ( اَلتَّقْوٰی) تمام محارم اور گناہ کے کاموں کو ترک کردینے کے لیے جامع نام ہے ۔پس بندہ مومن اس حکم الہی کے سامنے سرتسلیم خم کردیتا ہے، اس لیے آپ اسے صرف اسی چیز کے بارے میں سرگوشی کرتے ہوئے پائیں گے جو اللہ تعالی کے قریب اور اس کی ناراضی سے دور کرتی ہے۔ (اَلفَاجِرْ) اس شخص کو کہتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے حکم کو ہیچ اور حقیر سمجھتا ہے، جو گناہ، ظلم اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کے لیے سرگوشی کرتا ہے جیسے منافقین جن کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ یہی حال اور وتیرہ تھا۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَاِذَا جَاءُوْکَ حَیَّوْکَ بِمَا لَمْ یُحَیِّکَ بِہِ اللّٰہُ ﴾ ”اور جب وہ آپ کے پاس آتے ہیں تو آپ کو اس کلمے سے سلام کرتے ہیں جس کے ساتھ اللہ نے آپکو سلام نہیں کیا۔“ یعنی آپ کو سلام کرنے میں سوء ادبی کا مظاہرہ کرتے ہیں ﴿وَیَقُوْلُوْنَ فِیْٓ اَنْفُسِہِمْ﴾ یعنی وہ اپنے دل میں ایک قول کو چھپاتے ہیں جس کا ذکر غیب وشہادت کا علم رکھنے والی ہستی نے کیا ہے اور وہ ان کا یہ قول ہے: ﴿ لَوْلَا یُعَذِّبُنَا اللّٰہُ بِمَا نَقُوْلُ ﴾ ”اللہ ہمیں اس پر جو ہم کہتے ہیں سزا کیوں نہیں دیتا۔“ اور مطلب اس کا یہ ہے کہ وہ اس کو حقیر اور ہیچ سمجھتے ہیں اور ان پر جلدی عذاب نہ آنے سے وہ یہ استدلال کرتے ہیں کہ وہ جو کچھ کہتے ہیں باطل نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ وہ (مجرموں کو) مہلت دیتا ہے، مہمل نہیں چھوڑتا۔ ﴿حَسْبُہُمْ جَہَنَّمُ یَصْلَوْنَہَا فَبِئْسَ الْمَصِیْرُ﴾ یعنی ان کے لیے جہنم کافی ہے جس میں ان کے لیے ہر قسم کا عذاب اور بدبختی جمع ہے۔ جہنم ان کو گھیر لے گا اور جہنم میں ان کو عذاب دیا جائے گا۔ ﴿ فَبِئْسَ الْمَصِيرُ ﴾ ”پس وہ بہت بری لوٹنے کی جگہ ہے۔ “یہ لوگ جن کا (ان آیات کریمہ میں )ذکر کیا گیا ہے یا تو منافقین میں سے کچھ ایسے لوگ تھے جو ایمان ظاہر کرتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس خطاب کے ذریعے سے مخاطب ہوتے تھے جس سے وہ یہ ظاہر کرتے تھے کہ اس خطاب سے ان کا ارادہ بھلائی ہے ،حالانکہ وہ اس بارے میں جھوٹے تھے، یا اہل کتاب میں سے وہ لوگ تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کرتے ہوئے کہا کرتے تھے (السَّامُ عَلَیْکَ یَا مُحَمَّدْ!) اور وہ اس سے موت مراد لیتے تھے۔ المجادلة
9 المجادلة
10 اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے: ﴿اِنَّمَا النَّجْوٰی﴾ یعنی مومنوں کے دشمن ان کے بارے میں سازش، دھوکے اور بری خواہشات کی جو سرگوشیاں کرتے ہیں﴿مِنَ الشَّیْطٰنِ﴾ یہ شیطان کی طرف سے ہیں جس کی چل بہت کمزور اورمکر غیر مفید ہے۔ ﴿ لِیَحْزُنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا﴾ ”تاکہ وہ ایمان والوں کو غم زدہ کرے۔ “اور اس مکروفریب سے اس کا مقصود بھی یہی ہے۔ ﴿وَلَیْسَ بِضَارِّہِمْ شَـیْـــــًٔا اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰہِ﴾ ”اور اللہ کے حکم کے بغیر ان سے انہیں کچھ نقصان نہیں پہنچ سکتا۔“ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ایمان کے ساتھ کفایت اور دشمن کے خلاف فتح ونصرت کا وعدہ کر رکھا ہے اور یہ بھی فرمایا ہے: ﴿ وَلَا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِ ﴾( فاطر:35؍43)”اور بری چال کا وبال چال چلنے والے ہی پر پڑتا ہے۔“ پس اللہ تعالیٰ ،اس کے رسول اور اہل ایمان کے دشمن جب کبھی (اہل ایمان کے خلاف )سازش کرتے ہیں تو اس کا ضرر ان ہی کی طرف لوٹتا ہے،اہل ایمان کو کوئی ضرر نہیں پہنچتا سوائے کسی ایسے ضرر کے جسے اللہ تعالیٰ نے ان کی تقدیر میں لکھ رکھا ہے۔ ﴿ وَعَلَی اللّٰہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ﴾ یعنی مومن اسی پر اعتماد کریں اور اس کے وعدے پر بھروسا کریں کیونکہ جو کوئی اللہ تعالیٰ پر بھروسا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ دشمنوں کی سازشیوں کے مقابلے میں، نیز اس کے دین ودنیا کے لیے کافی ہوجاتا ہے۔ المجادلة
11 یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندوں کے لیے ادب کی تعلیم ہے کہ جب وہ کسی مجلس میں اکٹھے ہوتے ہیں تو ان میں سے کچھ لوگ یا آنے والے دیگر لوگ مجلس میں کشادگی کی ضرورت محسوس کرتے ہیں ،لہذا یہ آداب مجلس کا حصہ ہے کہ وہ اس مقصد کے حصول کی خاطر مجلس میں کشادگی پیدا کریں۔ یہ چیز کشادگی کرنے والے کو کوئی نقصان نہیں دیتی، لہذا اس کو ضرر لاحق ہوئے بغیر اس کے بھائی کا مقصد حاصل ہوجاتا ہے ،اور جزا عمل کی جنس میں سے ہوتی ہے، اس لیے جو کوئی اپنے بھائی کے لیے کشادگی پیدا کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے لیے کشادگی پیدا کردیتا ہے، جو کوئی اپنے بھائی کے لیے وسعت پیدا کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے لیے وسعت پیدا کرتا ہے۔ ﴿وَاِذَا قِیْلَ انْشُزُوْا﴾ جب کسی ضرورت کے تحت یہ کہا جائے کہ اٹھ جاؤ اور اپنی مجالس کو چھوڑ دو ﴿ فَانشُزُوا ﴾ تو اس مصلحت کے حصول کی خاطر فورا اٹھ جایا کرو کیونکہ اس قسم کے معاملات کالحاظ رکھنا علم اور ایمان کا حصہ ہے ۔اللہ تعالیٰ اہل علم و ایمان کے، ان کے علم و ایمان کے مطابق، درجات بلند کرتا ہے۔ ﴿ وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ﴾ ”اور اللہ تعالیٰ ہر اس عمل سے جو تم کرتے ہو خوب خبردار ہے۔“ پس وہ ہر عمل کرنے والے کو ان کے عمل کی جزا دے گا، اگر اچھا عمل ہوگا تو اچھی جزا ہوگی اور اگر برا عمل ہوگا تو بری جزا ہوگی۔ اس آیت کریمہ میں علم کی فضیلت کا اثبات ہے، نیز یہ کہ علم کی زینت اور اس کا ثمرہ، اس کے آداب کو اختیار کرنا اور اس کے تقاضے کے مطابق عمل کرنا ہے۔ المجادلة
12 اللہ تبارک وتعالیٰ اہل ایمان کی تادیب وتعلیم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کے لیے انکو حکم دیتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سرگوشی کرنے سے پہلے صدقہ دیا کریں کیونکہ یہ تعظیم اہل ایمان کے لیے بہتر اور زیادہ پاکیز ہ ہے یعنی ایسا کرنے سے تمہاری بھلائی اور اجر میں اضافہ ہوگا، نیز ہر قسم کی گندگی سے طہارت حاصل ہوگی۔ بے فائدہ سرگوشی کے ذریعے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ادب واحترام کو ترک کرنا بھی اسی گندگی میں شمار ہوتا ہے کیونکہ جب اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سرگوشی کرنے سے قبل صدقہ کرنے کا حکم دیا تو یہ چیز اس شخص کی پرکھ کے لیے میزان بن گئی جو علم اور بھلائی کا خواہش مند ہے تو وہ صدقے کی پرواہ نہیں کرے گا ۔جسے بھلائی کی حرص ہے نہ رغبت کی، اس کا مقصد محض کثرت کلام ہے تو اس طرح وہ ایسے امر سے باز رہے گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر شاق گزرتا ہے، نیز یہ حکم اس شخص کے لیے جو صدقہ دے سکتا ہے۔ جس کے پاس صدقہ دینے کے لیے کچھ نہیں تو اللہ تعالیٰ نے اس معاملے میں اس کو تنگی میں مبتلا نہیں کیا بلکہ اس کو معاف کردیا اور اس سے نرمی سے کام لیا۔ اور اس شخص کے لیے صدقہ پیش کیے بغیر، جو اس کی قدرت میں نہیں، سرگوشی کرنا مباح ٹھہرا دیا۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کے خوف اور ہر سرگوشی کے وقت ان پر صدقات کی مشقت کو ملاحظہ فرمایا تو ان پر معاملے کو آسان کردیا اور سرگوشی کرنے سے قبل صدقہ ترک کرنے پر مواخذہ نہیں فرمایا ،البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم اور آپ کا احترام باقی رکھا اس کو منسوخ نہیں فرمایا کیونکہ سرگوشی سے قبل صدقہ مشروع لغیرہ کے باب سے ہے فی نفسہ مقصود نہیں،۔اصل مقصد تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ادب اور اکرام ہے۔ المجادلة
13 اور اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ حکم دیا کہ وہ ان بڑے بڑے احکام کی تعمیل کریں جو فی نفسہ مقصود ہیں ،چنانچہ فرمایا :﴿ فَاِذْ لَمْ تَفْعَلُوْا﴾ ”چنانچہ جب تم نے یہ نہ کیا۔“ یعنی صدقہ پیش کرنا تمہارے لیے آسان نہیں تھا اور نہ یہ کافی ہی تھا کیونکہ کسی کام کا بندے پر آسان ہونا شرط نہیں ہے ۔اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے اس ارشاد کے ذریعے سے مقید فرمایا :﴿وَتَابَ اللّٰہُ عَلَیْکُمْ﴾ یعنی اس نے صدقہ کرنا تم پر معاف کردیا۔ ﴿فَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ﴾ پس تم نماز کو اس کے تمام ارکان وشرائط اور اس کی تمام حدود ولوازم کے ساتھ قائم کرو۔ ﴿وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَ﴾ اور مستحق لوگوں کو زکوۃ ادا کرو جو تمہارے مال میں سے تم پر فرض ہے ۔یہی دو عبادات بدنی اور مالی عبادات کی بنیاد ہیں۔ جو کوئی ان عبادات کو شرعی طریقے سے قائم کرتا ہے ،وہی اللہ تعالیٰ کے حقوق اور بندوں کے حقوق کو قائم کرتا ہے ،بنابریں فرمایا :﴿وَأَطِيعُوا اللّٰـهَ وَرَسُولَهُ﴾”اور اللہ اس کے رسول کی اطاعت کرو۔ “یہ تمام امور کو شامل ہے۔ پس اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے احکام کے سامنے سرتسلیم خم کرکے ،ان کے نواہی سے اجتناب کرکے ان کی دی ہوئی خبر کی تصدیق کرکے اور شریعت کی حدود پر رک کر ان کی اطاعت کرنا سب اس میں داخل ہے۔ اس سے عبرت حاصل کرنا اخلاص اور احسان پر مبنی ہے۔ اسی لیے فرمایا:﴿ وَاللّٰہُ خَبِیْرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ﴾ ان کے اعمال کسی طرح بھی صادر ہوں اللہ تعالیٰ ان کو خوب جانتا ہے ،پس انہوں نے جو کچھ اپنے سینوں میں چھپا رکھا ہے ،اللہ تعالیٰ اس کو جانتے ہوئے اپنے علم کے مطابق ان کو جزا دے گا۔ المجادلة
14 اللہ تبارک وتعالیٰ نے منافقین کے احوال کی شناعت وقباحت کے بارے میں آگاہ فرمایا ہے جو یہود ونصارٰی اور دیگر کفار سے دوستی اور موالات رکھتے ہیں ،جن پر اللہ تعالیٰ سخت ناراض ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی لعنت کے مستحق ٹھہرے ہیں، نیز اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ وہ اہل ایمان میں سے ہیں نہ کفار میں سے بلکہ ﴿مُّذَبْذَبِينَ بَيْنَ ذَٰلِكَ لَا إِلَىٰ هَـٰؤُلَاءِ﴾( النساء :4؍143) ”وہ ایمان اور کفر کے درمیان تذبذب کی حالت میں ہیں ،نہ پورے مومنین کی طرف ہیں نہ پورے کفار کی طرف۔“ پس وہ ظاہر وباطن میں مومن نہیں ہیں کیونکہ ان کا باطن کفار کے ساتھ ہے اور نہ وہ ظاہر وباطن میں کفار ہی کے ساتھ ہیں کیونکہ ان کا ظاہر اہل ایمان کے ساتھ ہے ۔یہ ہے ان کا وصف جو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے۔ ان کا حال یہ ہے کہ وہ جھوٹی قسمیں کھاتے ہیں :وہ قسم اٹھاتے ہیں کہ وہ مومن ہیں، حالانکہ وہ مومن نہیں ہیں ۔ان جھوٹے، فاجر وخائن لوگوں کی سزا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے اس قدر سخت عذاب تیار کررکھا ہے جس کا اندازہ کیا جاسکتا ہے نہ اس کا وصف معلوم کیا جاسکتا ہے۔ بہت ہی برے ہیں وہ اعمال جو ان سے صادر ہوتے ہیں، وہ ایسے اعمال بجالاتے ہیں جن پر اللہ تعالیٰ ناراض ہوتا ہے اور ان پر عذاب اور لعنت واجب ٹھہراتا ہے۔ المجادلة
15 المجادلة
16 ﴿اِتَّخَذُوْٓا اَیْمَانَہُمْ جُنَّۃً﴾ یعنی وہ اپنی قسموں کو ڈھال بنا کر اللہ تعالیٰ، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اہل ایمان کی ملامت سے بچتے ہیں۔ اسی سبب سے ﴿فَصَدُّوا ﴾ وہ روکتے ہیں اپنے آپ کو اور دوسروں کو ﴿عَن سَبِيلِ اللّٰـهِ ﴾ اللہ تعالیٰ کے راستے سے اور یہ وہ راستہ ہے کہ جو کوئی اس پر گامزن ہوتا ہے تو یہ راستہ اسے جنت میں لے جاتا ہے اور جو کوئی اس راستے سے منہ موڑتا ہے تو اس کے لیے صرف وہ راستہ رہ جاتا ہے جو اسے جہنم میں گراتا ہے۔ ﴿فَلَہُمْ عَذَابٌ مُّہِیْنٌ﴾ ”چنانچہ ان کے لیے رسوا کن عذاب ہے۔“ کیونکہ جب وہ تکبر کی وجہ سے اللہ تعالیٰ پر ایمان نہ لائے اور انہوں نے اس کی آیات کے سامنے سرتسلیم خم نہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کو دائمی عذاب کے ذریعے سے ذلیل ورسوا کیا، جو گھڑی بھر کے لیے بھی ان سے علیحدہ ہوگا نہ ان کو مہلت ہی دی جائے گی۔ المجادلة
17 ﴿لَنْ تُغْنِیَ عَنْہُمْ اَمْوَالُہُمْ وَلَآ اَوْلَادُہُمْ مِّنَ اللّٰہِ شَیْـــــًٔا ﴾ ”ان کے مال اور ان کی اولاد اللہ کے ہاں ہرگز کچھ کام نہ آئیں گی ۔“یعنی وہ ان سے عذاب کو ہٹا سکیں گےنہ ثواب کا کچھ حصہ ان کے لیے حاصل کرسکیں گے۔﴿اُولٰیِٕکَ اَصْحٰبُ النَّارِ ﴾ وہ آگ کے عذاب میں مبتلا رہنے والے ہیں جو کبھی عذاب سے باہر نہ نکلیں گے اور ﴿ ہُمْ فِیْہَا خٰلِدُوْنَ﴾ ”وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔“ جو کوئی جس چیز پر ساری زندگی بسر کرتا ہے ،اسی پر مرتا ہے۔ جیسے منافقین دنیا کے اندر اہل ایمان کے ساتھ دھوکا کرتے ہیں اور قسمیں اٹھا اٹھا کر ان سے کہتے ہیں کہ وہ مومن ہیں تو جب قیامت قائم ہوگی اور اللہ تعالیٰ سب کو زندہ کرکے اٹھائیں گے تو جس طرح مومنوں کے لیے قسمیں اٹھایا کرتے تھے اسی طرح اللہ تعالیٰ کے لیے بھی قسمیں اٹھائیں گے وہ اپنے اس حلف کے بارے میں سمجھیں گے کہ وہ کسی چیز پر قائم ہیں کیونکہ ان کا کفر ونفاق اور ان کے باطل عقائد ان کے اذہان میں آہستہ آہستہ راسخ ہوتے رہے، یہاں تک کہ ان عقائد نے ان کو دھوکے میں مبتلا کردیا اور وہ سمجھنے لگے کہ وہ معتد بہ موقف پر ہیں جس پر ثواب کا دارومدار ہے ،حالانکہ وہ ایسا سمجھنے میں جھوٹے ہیں اور یہ معلوم ہے کہ غائب اور موجود کا علم رکھنے والی ہستی کے سامنے جھوٹ نہیں چل سکتا۔ یہ ان پر شیطان کا غلبہ ہے جس نے ان پر قابو پارکھا ہے، اس نے ان کے سامنے ان کے اعمال آراستہ کردیے اور ان کو اللہ تعالیٰ کا ذکر فراموش کرادیا۔ وہ ان کا کھلا دشمن ہے اور ان کے ساتھ صرف برائی چاہتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿إِنَّمَا يَدْعُو حِزْبَهُ لِيَكُونُوا مِنْ أَصْحَابِ السَّعِيرِ﴾(فاطر :35؍6)” بس وہ تو اپنے گروہ کے لوگوں کو اپنی راہ پر اس لیے بلاتا ہے تاکہ وہ جہنم والوں میں شامل ہوجائے۔“ المجادلة
18 المجادلة
19 ﴿اُولٰیِٕکَ حِزْبُ الشَّیْطٰنِ اَلَآ اِنَّ حِزْبَ الشَّیْطٰنِ ہُمُ الْخٰسِرُوْنَ﴾ ”یہ شیطان کی پارٹی ہے، سن لو!شیطان ہی کی پارٹی نقصان اٹھانے والی ہے ۔“یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے دین ودنیا، اپنے اہل وعیال اور گھر بار کے بارے میں خسارے میں پڑگئے۔ المجادلة
20 یہ وعدہ اور وعید ہے۔ وعید اس شخص کے لیے ہے جو کفر ومعاصی کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ساتھ دشمنی کرتا ہے کہ وہ بے یارومددگار اور ذلیل ورسوا ہے ،اس کا انجام اچھا ہے نہ اس کی مدد کی جائے گی ۔وعدہ اس شخص کے لیے ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں پر ایمان لاتا ہے اور جو کچھ انبیا ومرسلین لے کرآئے ہیں ان کی اتباع کرتا ہے، پس وہ اللہ کے گروہ میں شامل ہوگیا جو فلاح یاب لوگوں پر مشتمل ہے ۔ان کے لیے فتح ونصرت اور دنیا وآخرت میں غلبہ ہے۔ یہ ایسا وعدہ ہے جس کی خلاف ورزی کی جائے گی نہ اس میں تغیر وتبدل کیا جائے گا کیونکہ یہ ایسی ہستی کا وعدہ ہے جو سچی ، نہایت طاقت ور اور غالب ہستی ہے ،وہ ہستی جو چاہتی ہے وہ چیز اسے عاجز اور بے بس نہیں کرسکتی۔ المجادلة
21 المجادلة
22 اے نبی !آپ اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھنے والوں کو اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرنے والوں سے محبت رکھتے ہوئے ہرگز نہ پائیں گے ۔یعنی یہ دونوں رویے ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتے۔ بندہ اس وقت تک اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھنے والا نہیں بن سکتا جب تک کہ وہ ایمان کے تقاضوں اور اس کے لوازم پر عمل نہیں کرتا ۔ایمان کو قائم کرنے والے کے ساتھ محبت اور موالات رکھنا یہ ہے کہ اس شخص کے ساتھ بغض اور عداوت رکھی جائے جو ایمان کو قائم نہیں کرتا ،خواہ وہ لوگوں میں سے سب سے زیادہ اس کے قریب ہی کیوں نہ ہو۔یہ ہے وہ حقیقی ایمان، جس کا پھل ملتا ہے اور جس سےمقصود حاصل ہوتا ہے ۔اس وصف کے حامل وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ تعالیٰ نے ایمان لکھ دیا ہے ،یعنی اس کو راسخ اور ثابت کردیا ہے اور ان کے دلوں میں شجر ایمان کو اگا دیا ہے جو کبھی متزلزل ہوسکتا ہے نہ شکوک وشبہات اس پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کو اللہ نے اپنی طرف سے روح کے ذریعے سے طاقت وربنایا ہےیعنی اپنی وحی، اپنی معرفت، مددالٰہی اور اپنے احسان ربانی کے ذریعے سے تائید کی۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے لیے دنیا میں حیات طیبہ ہے اور آخرت میں ان کے لیے نعمتوں بھری جنتیں ہیں جہاں ہر وہ چیز ہوگی جو دل چاہیں گے، جس سے آنکھیں لذت اندوز ہوں گی اور اسے پسند کریں گی ،ان کے لیے ایک سب سے بڑی اور افضل ترین نعمت ہوگی اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ ان پر اپنی رضامندی نازل فرمائے گا اور ان سے کبھی ناراض نہیں ہوگا ۔اللہ تعالیٰ ان کو جو اکرام وتکریم کی مختلف انواع سے نوازے گا ،ان کو جو وافر ثواب عطا کرے گا ،جو بے پایاں عنایات سے بہرہ مند اور ان کے درجات بلند کرے گا ،وہ اس پر اپنے رب سے راضی ہوں گے، وہ اس طرح کہ ان کے مولا نے جو کچھ ان کو عطا کیا ہوگا ،اس کی کوئی انتہا ان کو نظر نہیں آئے گی ۔ رہا وہ شخص جو اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان لانے کا زعم رکھتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ اللہ تعالیٰ کے دشمنوں کے ساتھ مودت وموالات بھی رکھتا ہے اور ایسے لوگوں سے محبت کرتا ہے جنہوں نے ایمان کو پس پشت ڈال رکھا ہے، تو یہ ایمان کا محض خالی خولی دعوٰی ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں کیونکہ ہر دعوے کے لیے کسی دلیل کا ہونا لازمی ہے جو اس کی تصدیق کرے ،پس مجرد دعوٰی کسی کام نہیں آتا اور ایسا دعوٰی کرنے والے کی تصدیق نہیں کی جاتی۔ المجادلة
0 اس سورۃ مبارکہ کو ”سورۃ بنی نضیر “کے نام سے بھی موسوم کیا جاتا ہے ۔بنو نضیر یہودیوں کا ایک بڑا قبیلہ تھا جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت مدینہ کے مضافات میں آباد تھا۔ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے اور آپ نے مدینہ کی طرف ہجرت کی تو انہوں نے جملہ یہود کے ساتھ آپ کی نبوت کا انکار کردیا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کے ان قبائل کے ساتھ معاہدہ کرلیا جو مدینہ منورہ میں آپ کے پڑوس میں آباد تھے ۔غزوہ بدر کے تقریبا چھ ماہ بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس گئے اور ان سے گفتگو کی وہ (معاہدے کے مطابق) ان کلابیوں کی دیت کے بارے میں آپ کی مدد کریں جن کو عمرو بن امیہ ضمری نے قتل کیا تھا۔ انہوں نے کہا :”اے ابوالقاسم! ہم آپ کی مدد کریں گے آپ یہاں بیٹھیں یہاں تک کہ ہم آپ کے لیے دیت اکٹھی کردیں ،چنانچہ وہ تنہائی میں ایک دوسرے سے ملے اور شیطان نے ان کے لیے اس بدبختی کو آسان بنادیا جو ان کے لیے لکھ دی گئی تھی ،چنانچہ انہوں نے آپ کے قتل کی سازش کی اور آپ کے بارے میں کہنے لگے:” تم میں سے کون ہے جو اس چکی کو اٹھا کر چھت پر جائے اور اسے آپ کے سر پر دے مارے جس سے آپ کا سر کچلا جائے؟ “ ان میں سے بدبخت ترین شخص عمرو بن جحاش نے کہا :”یہ کام میں کروں گا۔“ سلام بن مشکم نے ان سے کہا :”یہ کام نہ کرو، اللہ کی قسم !تمہارے ارادے سے اسے ضرور آگاہ کردیا جائے گا اور یہ اس معاہدے کی بھی خلاف ورزی ہےجو ہمارے اور اس کے درمیان ہوا ہے۔“ انہوں نے جو سازش کی تھی اس کے بارے میں آپ پر فورا وحی نازل ہوگئی آپ جلدی سے وہاں سے اٹھ گئے اور مدینہ کارخ کیا اور آپ کے صحابہ بھی (جو ساتھ گئے تھے) آپ سے مل گئے اور عرض کیا :”آپ وہاں سے اٹھ آئے ہیں اور ہمیں خبر بھی نہ ہوئی۔“ آپ نے انہیں اس سازش کے بارے میں آگاہ فرمایا جو یہودیوں نے آپ کے خلاف کی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کو پیغام بھیجوایا کہ ”مدینہ سے نکل جاؤ اور اس میں مت رہو، میں تمہیں دس دن کی مہلت دیتا ہوں، اس کے بعد میں نے جس کسی کو مدینہ میں پایا ،اس کی گردن مار دوں گا۔ “بنونضیر مدینہ منورہ میں کچھ دن ٹھہرے اور (وہاں سے نکلنے کی )تیاری کرتے رہے، عبداللہ بن ابی ابن سلول منافق نے ان کو پیغام بھجوایا :”اپنے گھروں سے مت نکلو ،میرے ساتھ دو ہزار آدمی ہیں جو تمہارے ساتھ تمہارے قلعے میں داخل ہوں گے اور تمہاری خاطر اپنی جان دیں گے اور بنو قریظہ اور بنو غطفان میں سے تمہارے حلیف بھی تمہاری مدد کریں گے۔ “بنو نضیر کا سردار حی بن اخطب ،عبداللہ بن ابی کے کہنے میں آگیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہلا بھیجا :”ہم اپنے گھروں سے نہیں نکلیں گے جو چاہو کرلو۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نعرہ تکبیر بلند کیا اور یہود کی طرف روانہ ہوگئے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جھنڈا اٹھا رکھا تھا ۔یہودی اپنے قلعوں میں مقیم ہو کر پتھر اور تیر پھینکنے لگے ،بنوقریظہ ان سے الگ ہوگئے، عبداللہ بن ابی اور بنوغطفان میں سے ان کے حلیفوں نے بھی ان سے خیانت کی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا محاصرہ کرلیا ،ان کے کھجوروں کے باغات کاٹ کر نذر آتش کردیے ۔بنونضیر نے پیغام بھیجا کہ ہم مدینہ سے نکل جائیں گے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر یہ شرط عائد کی کہ وہ اپنی اولاد کو لے کر نکل جائیں اور اسلحہ کے سوا وہ سب کچھ لے جائیں جو ان کے اونٹ اٹھاسکتے ہیں ۔اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے مال اور اسلحہ کو اپنے قبضے میں لے لیا۔ بنو نضیر کے اموال خالص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مہارت اور مسلمانوں کے مصالح کے لیے تھے۔ آپ نے اس مال میں سے خمس نہیں نکالا تھا کیونکہ یہ مال اللہ تعالیٰ نے آپ کو دلوایا تھا ۔مسلمانوں نے گھوڑوں اور اونٹوں کے ساتھ ان پر چڑھائی نہیں کی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو نضیر کو خیبر کی طرف جلاوطن کردیا ،ان میں ان کا سردار حی بن اخطب بھی شامل تھا اور ان کی اراضی اور گھروں پر قبضہ کرلیا،نیز ان کے اسلحہ کو بھی قبضہ میں لے لیا ،اسلحہ میں پچاس زرہیں، پچاس خود اور تین سو چالیس تلواریں ہاتھ لگیں۔ یہ ہے بنونضیر کے قصے کا ماحصل جیسا کہ اہل سیرت نے اسے بیان کیا ہے۔ الحشر
1 اللہ تبارک وتعالی نے اس خبر کے ساتھ اس سورۃ مبارکہ کا افتتاح کیا ہے کہ آسمانوں اور زمین کی ہر چیز اپنے رب کی حمد وثنا کے ساتھ اس کی تسبیح بیان کررہی ہے اور اس وصف سے اس کو منزہ قرار دے رہی ہے جو اس کے جلال کے لائق نہیں اور وہ اس کی عبادت کررہی ہے اور اس کی عظمت کے سامنے سرنگوں ہے کیونکہ وہ غلبے والا ہے اور ہر چیز پر غالب ہے۔ کوئی چیز اس سے بچ سکتی ہے نہ کوئی ہستی اس کی نافرمانی کرسکتی ہے ۔وہ اپنی تخلیق اور امر میں حکمت رکھنے والا ہے ،وہ کوئی چیز عبث پیدا کرتا ہے نہ کوئی ایسا امر مشروع کرتا ہے جس میں کوئی مصلحت نہ ہو اور نہ کوئی ایسا فعل سرانجام دیتا ہے جو اس کی حکمت کے تقاضے کے مطابق نہ ہو۔ یہ اس کی حکمت ہے کہ جب اہل کتاب میں سے بنو نضیر نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بدعہدی کی تو اس نے ان کے مقابلے میں اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کی۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کو ان کے گھروں اور وطن سے نکال دیا، جن وہ محبت کرتے تھے ،ان کا اپنے گھروں اور وطن سے نکالا جانا اولین جلا وطنی ہے جو اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں خیبر کی طرف مقدر ٹھہرائی۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ اس جلاوطنی کے علاوہ بھی ان کو جلاوطنی کا سامنا کرنا پڑے گا اور یہ وہ جلاوطنی ہے جو خیبر سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں واقع ہوئی ،پھر حضرت عمررضی اللہ عنہ نے (اپنے عہد خلافت میں) بقیہ تمام یہودیوں کو خیبر سے نکال دیا۔ الحشر
2 اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :﴿مَا ظَنَنْتُمْ﴾ اے مسلمانو ! تمہارے خیال میں بھی نہ تھا ﴿اَنْ یَّخْرُجُوْا﴾ کہ وہ اپنے گھروں سے نکل جائیں گے کیونکہ ان کے گھر محفوظ اور مصئون تھے اور وہ ان میں عزت اور غلبے کے ساتھ رہتے تھے ﴿وَظَنُّوْٓا اَنَّہُمْ مَّانِعَتُہُمْ حُصُوْنُہُمْ مِّنَ اللّٰہِ﴾ ”اور وہ گمان کررہے تھے کہ ان کے قلعے انہیں اللہ سے بچالیں گے ۔“انہیں ان قلعوں پر بہت غرور تھا، ان قلعوں نے ان کو دھوکے میں مبتلا کررکھا تھا اور وہ سمجھتے تھے کہ ان قلعوں کی وجہ سے ان تک پہنچا جاسکتا ہے اور نہ ان پر کوئی قابو پاسکتا ہے۔ اس کے ماوراء اللہ تعالیٰ نے ایک ایسا امر مقدر کردیا جس سے انہیں ان کی محفوظ پناہ گاہیں بچاسکیں نہ قلعے اور نہ قوت اور مدافعت ہی کام آسکی ہے۔ اس لیے فرمایا :﴿فَاَتٰیہُمُ اللّٰہُ مِنْ حَیْثُ لَمْ یَحْتَسِبُوْا ۤ﴾ ”پس اللہ نے انہیں وہاں سے آلیا جہاں سے انہیں گمان بھی نہیں تھا۔“ یعنی اس طریقے اور اس راستے سے جس کے بارے میں انہیں وہم وگمان بھی نہ تھا کہ یہاں سے ان کو آلیا جائے گا اور وہ یہ بات تھی ﴿ وَقَذَفَ فِیْ قُلُوْبِہِمُ الرُّعْبَ﴾ کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا ۔اس سے مراد شدید خوف ہے جو اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی سپاہ ہے، جس کے سامنے تعداد اور سازو سامان کوئی فائدہ دیتا ہے نہ طاقت اور بہادری کوئی کام آتی ہے۔ وہ معاملہ جس کے بارے میں وہ سمجھتے تھے کہ اگر کوئی خلل واقع ہوا تو اس راستے سے داخل ہوگا اور وہ ان کے قلعے تھے جہاں داخل ہو کر وہ اپنے آپ کو محفوظ سمجھنے لگے اور ان قلعوں پر ان کے دل مطمئن تھے۔ جو کوئی غیر اللہ پر بھروسا کرتا ہے وہ بے یارو مددگار چھوڑ دیا جاتا ہے اور جو کوئی غیر اللہ کا سہارا لیتا ہے تو یہ اس کے لیے وبال بن جاتا ہے، چنانچہ ان کے پاس ایک آسمانی معاملہ آیا اور ان کے دلوں میں نازل ہوا جو صبر وثبات اور بزدلی وکمزوری کا محل ومقام ہوتے ہیں ۔چنانچہ اس نے ان کی قوت اور بہادری کو زائل کردیا اور اس کی جگہ کمزوری اور بزدلی دے دی تھی جس کو دور کرنے کے لیے ان کے پاس کوئی حیلہ نہ تھا اور یہ چیز ان کے خلاف (مسلمانوں کی )مددگار بن گئی۔ بنابریں فرمایا :﴿یُخْرِبُوْنَ بُیُوْتَہُمْ بِاَیْدِیْہِمْ وَاَیْدِی الْمُؤْمِنِیْنَ ۤ﴾ اور وہ یہ کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس شرط پر مصالحت کی کہ ان کے اونٹ جو کچھ اٹھائیں سب ان کا ہے ۔اس بنا بر پر انہوں نے خود اپنے ہاتھوں سے اپنے گھروں کی چھتوں کو اکھاڑ ڈالا جو انہیں بہت اچھی لگتی تھیں اور اپنی سرکشی کی بنا پر اپنے گھروں کے برباد کرنے اور اپنے قلعوں کے منہدم کرنے پر مسلمانوں کو مسلط کردیا تو یہ وہی ہیں جنہوں نے خود اپنے خلاف جرم کیا اور ان قلعوں اور گھروں کو برباد کرنے میں مددگار بنے۔ ﴿ فَاعْتَبِرُوْا یٰٓاُولِی الْاَبْصَارِ﴾ پس اے اہل بصیرت یعنی معاملات کی گہرائی میں اتر جانے والی بصیرت اور کامل عقل والو !عبرت حاصل کرو کیونکہ اس واقعے میں عبرت ہے، اس سے ان معاندین حق کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے سلوک کی معرفت حاصل ہوتی ہے جو اپنی خواہشات نفس کے پیچھے چلتے ہیں ،جن کی عزت نے انہیں کوئی فائدہ دیا نہ طاقت انہیں بچا سکی، جب ان کے پاس اللہ تعالیٰ کا حکم آگیا اور ان کے گناہوں کی پاداش میں عذاب آ پہنچا ،تو ان کے قلعے ان کی حفاظت نہ کرسکے، لہٰذا اعتبار الفاظ کے عموم کا ہوتا ہے نہ کہ اسباب کے خصوص کا، چنانچہ یہ آیت کریمہ عبرت حاصل کرنے کے حکم پر دلالت کرتی ہے اور وہ ہے نظیر کے ذریعے سے اس کے نظیر سے عبرت حاصل کرنا اور کسی چیز کو اس چیز پر قیاس کرنا جو اس سے مشابہت رکھتی ہے ،اسی عبرت سے عقل کی تکمیل اور بصیرت روشن ہوتی ہے، ایمان میں اضافہ اور حقیقی فہم حاصل ہوتا ہے۔ الحشر
3 پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے آگاہ فرمایا ہے کہ ان یہودیوں کو وہ پوری سزا نہیں ملی جس کے وہ مستحق تھے ۔اللہ تعالیٰ نے ان کی سزا میں تخفیف کردی ہے ﴿وَلَوْلَآ اَنْ کَتَبَ اللّٰہُ عَلَیْہِمُ الْجَلَاءَ﴾ اور اگر اللہ نے ان پر جلاوطنی نہ لکھی ہوتی، جس کا انہیں سامنا کرنا پڑا اور جس کا ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے اپنی ایسی قضا وقدر کے ذریعے سے فیصلہ کیا جس میں کوئی تغیر وتبدل نہیں ہوتا ،تو دنیا کے اندر انکی سزا اور عذاب کا معاملہ اور ہوتا اگرچہ وہ دنیا کے اندر سخت عذاب سے بچ گئے ،تاہم آخرت میں ان کے لیے جہنم کا عذاب ہے، جس کی سختی کا علم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کے لیے ممکن نہیں، لہٰذا کبھی بھی ان کے خواب وخیال میں یہ بات نہ آئے کہ ان کی سزا پوری ہوگئی ،انہوں نے بھگت لی اور اس سزا میں سے کچھ باقی نہیں بچا۔ پس وہ عذاب جوا للہ تعالیٰ نے ان کے لیے آخرت میں تیار کررکھا ہے وہ زیادہ بڑا اور زیادہ مصیبت کا حامل ہے۔ الحشر
4 ﴿ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ شَاقُّوا اللّٰہَ﴾ اس کا سبب یہ ہے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کی ،ان کے ساتھ دشمنی کی، ان کے خلاف جنگ کی اور ان کی نافرمانی میں بھاگ دوڑ کی ۔(ان کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے) یہ ان لوگوں کے بارے میں عادت اور سنت الٰہی ہے جو اللہ تعالیٰ کی مخالفت کرتے ہیں۔ ﴿وَمَنْ یُّشَاقِّ اللّٰہَ فَاِنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ﴾ ”اور جو کوئی اللہ کی مخالفت کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ سخت سزا دینے والا ہے۔“ جب بنونضیر نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کو کھجوروں کے درخت اور دیگر درخت کاٹنے پر ملامت کی اور اس زعم کا اظہار کیا کہ یہ فساد ہے اور اس بنا پر انہوں نے مسلمانوں کو نشانہ طعن بنایا، تب اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ اگر مسلمانوں نے کھجور کے درخت کاٹے ہیں تو ان کو کاٹنا اور اگر ان کو باقی رکھا ہے، تو ان کو باقی رکھنا۔ ﴿فَبِإِذْنِ اللّٰـهِ ﴾ یہ اللہ کے اذن اور حکم سے ہے ﴿ وَلِیُخْزِیَ الْفٰسِقِیْنَ﴾ ”اور تاکہ وہ فاسقوں کو رسوا کرے۔“ کیونکہ اسی نے ان کے کھجوروں کے باغات کاٹنے اور جلانے کا تمہیں اختیار دیا تاکہ یہ سب کچھ ان کے لیے سزا اور دنیا کے اندر ان کی ذلت اور رسوائی کا باعث ہو جس سے ان کی پوری بے بسی ظاہر ہو، جس کی وجہ سے وہ کھجوروں کے باغات بھی نہ بچا سکے جو ان کی قوت اور طاقت کا سبب تھے۔ (اَللِّینَةُ) صحیح اور راجح ترین احتمال کے مطابق ہر قسم کے کھجور کے درختوں کو شامل ہے۔ الحشر
5 الحشر
6 یہ ہے بنونضیر کا حال، نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو دنیا کے اندر کیسے سزا دی؟ پھر اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان لوگوں کا ذکر کیا جن کی طرف بنونضیر کا مال ومتاع منتقل ہوا، چنانچہ فرمایا: ﴿وَمَآ اَفَاءَ اللّٰہُ عَلٰی رَسُوْلِہٖ مِنْہُمْ﴾ ”اور جو مال اللہ نے اپنے رسول کو ان سے دلایا۔“ یعنی اس بستی کے لوگوں سے، اس سے مرادبنونضیر کے لوگ ہیں۔ ﴿فَمَآ اَوْجَفْتُمْ عَلَیْہِ مِنْ خَیْلٍ وَّلَا رِکَابٍ﴾ یعنی تم نے گھوڑے دوڑائے ہیں نہ لشکر اکٹھے کیے ہیں، یعنی تمہیں لشکر جمع کرنے کی مشقت نہیں اٹھانا پڑی اور نہ تمہارے مویشیوں ہی کو مشقت کا سامنا کرنا پڑا، بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان (یہودیوں )کے دلوں میں رعب ڈال دیا اور وہ تمہارے سامنے درگزر اور عفو کی درخواست کرتے ہوئے حاضر ہوئے۔ اس لیے فرمایا :﴿وَّلٰکِنَّ اللّٰہَ یُسَلِّــطُ رُسُلَہٗ عَلٰی مَنْ یَّشَاءُ وَاللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ﴾ ”لیکن اللہ اپنے رسولوں کو جس پر چاہتا ہے غلبہ دیتا ہے اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔“اور اس کی قدرت کاملہ یہ ہے کہ کوئی بچنے والا اس سے بچ سکتا ہے نہ قوت والا اس کے مقابلے میں غالب آسکتا ہے۔ الحشر
7 فقہاء کی اصطلاح میں فے سے مراد وہ مال ہے جو حق کےساتھ کفار سے کسی جنگ کے بغیر حاصل کیا جائے،مثلا:وہ مال جسے کفار مسلمانوں کے خوف کی بنا پر چھوڑ کر فرار ہوگئے ۔اس کو فےاس لیے کہا گیا ہے کہ یہ کفار کی طرف سے،جو اس مال کے مستحق نہ تھے،مسلمانوں کی طرف لوٹا ہے،جو اس پر زیادہ حق رکھتے تھے۔ مال فے کا حکم۔ فے کا حکم یہ ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں ذکر فرمایا :﴿مَآ اَفَاءَ اللّٰہُ عَلٰی رَسُوْلِہٖ مِنْ اَہْلِ الْقُرٰی﴾ ”جو مال اللہ نے بستی والوں سے اپنے رسول کو دلوایا ہے۔“ عمومی طور پر ،خواہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ ہو یا آپ کے بعد آپ کی امت میں سے اس شخص کا زمانہ ہو جو امارت کے منصب پر فائز ہو ﴿فَلِلّٰہِ وَ لِلرَّسُوْلِ وَ لِذِی الْقُرْبٰی وَالْیَـتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنِ وَابْنِ السَّبِیْلِ ﴾ ”تو وہ اللہ کے لیے ، اللہ کے رسول کے لیے اور (رسول کے )رشتے داروں، یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے۔“ یہ آیت کریمہ اس آیت کریمہ کی نظیر ہے جو سورۃ انفال میں مذکور ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُم مِّن شَيْءٍ فَأَنَّ لِلَّـهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ ﴾( الانفال: 8؍41) ”اور جان رکھو! جو چیز تم غنیمت کے طور پر کفار سے حاصل کرو اس میں سے پانچواں حصہ اللہ کے لیے ہے اور رسول کے لیے اور (اس کے) قرابت داروں، یتیموں ، مساکین اور مسافروں کے لیے ہے۔ “فے کا مال پانچ اصناف میں تقسیم ہوتا ہے: ١۔ پانچ حصوں میں سے ایک حصہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہے جو مسلمانوں کے مصالح عامہ میں صرف ہوتا ہے۔ ٢۔ دوسرا حصہ ذوی القربیٰ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتے داروں) کے لئے ہے اور ذوی القربی سے مراد بنو ہاشم اور بنو عبدالمطلب ہیں ،جہاں کہیں بھی ہوں، ان کے مردوں عورتوں میں برابر تقسیم کیا جائے گا۔ بنوعبد المطلب خمس وغیرہ کے پانچویں حصے میں بنو ہاشم کے ساتھ شریک ہوں گے بقیہ بنو عبد مناف شریک نہیں ہوں گے کیونکہ جب قریش نے بنو ہاشم سے مقاطعت اور عداوت کا معاہدہ کیا تو بنو عبدالمطلب بنو ہاشم کے ساتھ شریک تھے اور دوسروں کے برعکس انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کی ۔اس لئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو عبدالمطلب کے بارے میں فرمایا :”وہ جاہلیت اور اسلام میں کبھی مجھ سے الگ نہیں ہوئے۔“(مسنداحمد:4؍81واصله فی صحیح البخاری،فرض الخمس ،باب ومن الدلیل علی ان الخمس للإمام،حدیث :3140) ٣۔ تیسرا حصہ محتاج یتیموں کے لیے ہے ۔یتیم وہ ہے جس کے باپ کا سایہ سر سے اٹھ گیا ہو اور وہ ابھی بالغ نہ ہوا ہو۔ ٤۔ چوتھا حصہ مساکین کے لیے ہے۔ ٥۔ اور پانچواں (آخری) حصہ مسافروں کے لیے ہے ۔اس سے مراد وہ غریب الوطن لوگ ہیں جو اپنے وطن سے کٹ کر رہ گئے ہوں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے یہ حصے اس لئے مقرر فرمائے اور فے کو صرف انہی معین لوگوں میں محصور کردیا ﴿کَیْ لَا یَکُوْنَ دُوْلَۃً بَیْنَ الْاَغْنِیَاءِ مِنْکُمْ ﴾ ”تاکہ وہ( مال) تم میں سے دولت مند لوگوں کے ہاتھوں ہی میں گردش نہ کرتا رہے ۔“اور ان کے سوا عاجز اور بے بس لوگوں کو کچھ حاصل نہ ہو۔ اس میں اس قدر فساد ہے جسے اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کی شریعت کی اتباع میں اتنی زیادہ مصلحتیں ہیں جو شمار سے باہر ہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ایک قاعدہ کلیہ اور ایک عام اصول مقرر فرمایا :﴿وَمَآ اٰتٰیکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ ۤ وَمَا نَہٰیکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْا ﴾ ”رسول جو تمہیں دے ،وہ لے لو اور جس سے وہ تمہیں روک دے ،اس سے رک جاؤ۔ “یہ آیت کریمہ، دین کے اصول فروع اس کے ظاہر وباطن سب کو شامل ہے، نیز یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ لے کرآئے ہیں، اس سے تمسک کرنا اور اس کی اتباع کرنا بندوں پر فرض ہے اور اس کی مخالفت کرنا جائز نہیں، نیز اس آیت کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ کسی چیز کے حکم پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نص، اللہ تعالیٰ کی نص کے مانند ہے اور اس کو ترک کرنے میں کسی کے لیے کوئی رخصت اور عذر نہیں اور کسی کے قول کو آپ کے قول پر مقدم رکھنا جائز نہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے تقوے کا حکم دیا جس سے دنیا وآخرت میں قلب وروح معمور ہوتی ہے ،تقوے ہی میں دائمی سعادت اور فوز عظیم ہے، تقوٰی کو ضائع کرنے میں ابدی بدبختی اور سرمدی عذاب ہے، چنانچہ فرمایا :﴿وَاتَّقُوا اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ﴾ ”اور اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔ “جو کوئی تقوے کو ترک کرکے، خواہشات نفس کی پیروی کو ترجیح دیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو سخت عذاب دینے والا ہے۔ الحشر
8 پھر اللہ تبارک وتعالیٰ نے فے کے مال کو جن لوگوں کے لیے مقرر فرمایا ،اس کے موجب اور اس میں حکمت کا ذکر فرمایا ،نیز بیان فرمایا کہ یہی لوگ اعانت کے مستحق ہیں اور اس بات کے مستحق ہیں کہ ان کے لئے فے میں سے حصہ مقرر کیا جائے اور یہ ان مہاجرین کے مابین ہے جنہوں نے اللہ تعالیٰ میں رغبت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کی خاطر، اپنے محبوب ومالوف گھر بار، وطن، دوستوں اور احباب کو چھوڑ دیا۔ یہی لوگ سچے ہیں جنہوں نے اپنے ایمان کے تقاضے کے مطابق عمل کیا ،اعمال صالحہ اور مشقت آمیز عبادت کے ذریعے سے اپنے ایمان کی تصدیق کی بخلاف ان لوگوں کے جنہوں نے ایمان کا دعویٰ کیا مگر ہجرت اور جہاد وغیرہ عبادات کے ذریعے سے اپنے ایمان کی تصدیق نہ کی، نیز انصار، یعنی اوس اور خزرج کے مابین ہے۔ جو اپنی خوشی ،محبت اور اختیار سے ایمان لائے۔ جب عرب کے تمام شہر دارلحرب ،شرک اور شرکا گڑھ تھے تب انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پناہ دی، سرخ وسیاہ سے آپ کی حفاظت کی، دار ہجرت و ایمان میں اقامت کی یہاں تک کہ دار ہجرت ایک ایسا مرجع بن گیا جس کی طرف مومنین رخ کرتے تھے، جہاں مہاجرین پناہ لیتے اور اس کی چراگاہوں میں مسلمان سکونت اختیار کرتے۔ الحشر
9 پس دین کی مدد کرنے والے انصار کے پاس پناہ لیتے رہے ،یہاں تک کہ اسلام پھیل گیا ،اس نے طاقت پکڑ لی اور اس میں آہستہ آہستہ اضافہ ہوتا گیا حتی کہ مسلمانوں نے علم و ایمان اور قرآن کے ذریعے سے دلوں کو اور شمشیر وسناں کے ذریعے سے شہروں کو فتح کرلیا جن کے جملہ اوصاف جمیلہ یہ ہیں: ﴿یُحِبُّوْنَ مَنْ ہَاجَرَ اِلَیْہِمْ﴾ ”وہ اپنی طرف ہجرت کرکے آنے والوں سے محبت کرتے ہیں۔“ یہ اس وجہ سے ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتے ہیں، اس کے احباب سے محبت کرتے ہیں اور ان لوگوں سے محبت کرتے ہیں جو اس کے دین کی مدد کرتے ہیں۔ ﴿ وَلَا یَجِدُوْنَ فِیْ صُدُوْرِہِمْ حَاجَۃً مِّمَّآ اُوْتُوْا﴾ ”اور وہ اپنے دلوں میں اس( مال )کی کوئی حاجت نہیں پاتے جو ان (مہاجرین)کو دیا جائے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے مہاجرین کو جو کچھ عطا کیا ہے اور ان کو جن فضائل ومناقب سے مختص کیا، جن کے وہ اہل ہیں ،وہ ان پر حسد نہیں کرتے۔ یہ آیت کریمہ انکے سینے کی سلامتی ،ان میں بغض، کینہ اور حسد کے عدم وجود پر دلالت کرتی ہے ،نیز یہ آیت کریمہ اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ مہاجرین، انصار سے افضل ہیں اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے ذکر کو مقدم رکھا ہے، نیز آگاہ فرمایا کہ مہاجرین کو جو کچھ عطا کیا گیا انصار اس کے بارے میں اپنے دلوں میں کوئی حسد محسوس نہیں کرتے ۔یہ آیت کریمہ یہ بھی دلالت کرتی ہے کہ اللہ نے مہاجرین کو وہ فضائل عطا کیے جو انصار اور دیگر لوگوں کو عطا نہیں کیے کیونکہ انہوں نے نصرت دین اور ہجرت کو جمع کیا۔ ﴿وَیُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓی اَنْفُسِہِمْ وَلَوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌ﴾ ”اور اپنی ذات پر( ان کو )ترجیح دیتے ہیں اگرچہ خود انہیں سخت ضرورت ہو۔“ یعنی انصار کے اوصاف میں سے ایک وصف ایثار ہے، جس کی بنا پر وہ دوسروں پر فوقیت رکھتے ہیں اور ان سے ممتاز ہیں اور یہ کامل ترین جو دو سخا ہے اور نفس کے محبوب اموال وغیرہ میں ایثار کرنا اور ان اموال کے خود حاجت مند بلکہ ضرورت مند اور بھوکے ہونے کے باوجود دوسرے پر خرچ کرنا، یہ وصف اخلاق زکیہ، اللہ تعالیٰ سے محبت، پھر شہوات نفس اور اس کی لذات پر اللہ کی محبت کو مقدم رکھنے ہی سے حاصل ہوسکتا ہے۔ جملہ واقعات میں اس انصاری کا قصہ بھی بیان کیا جاتا ہے جس کے سبب سے یہ آیت کریمہ نازل ہوئی ہے جب اس نے خود کھانے اور اپنے گھروالوں کو کھلانے پر اپنے مہمان کو ترجیح دی اور تمام گھروالوں اور بچوں نے رات بھوکے بسر کی۔ (اِیثَار‬) ”ترجیح دینا“ (اثرۃ) ”خود غرضی“ کی ضد ہے ایثار قابل تعریف وصف ہے اور خود غرضی مذموم ہے کیونکہ یہ بخل اور حرص کے خصائل کے زمرے میں آتی ہے اور جسے ایثار عطا کیا گیا اسے نفس کے بخل وحرص سے بچا لیا گیا ﴿ وَمَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَاُولٰیِٕکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ﴾ ”اور جو کوئی اپنے نفس کی حرص سے بچالیا گیا تو وہی لوگ فلاح یاب ہیں۔“ اور نفس کے حرص سے بچنے میں ایسے تمام امور میں حرص سے بچنا شامل ہے جن کا حکم دیا گیا ہے ،جب بندہ نفس کے حرص سے بچ گیا ،تو اس کے نفس کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام آسان لگتے ہیں وہ خوشی سے سرتسلیم خم کرتے ہوئے انشراح صدر کے ساتھ ان کی تعمیل کرتا ہے، اور نفس کے لیے ان تمام امور کو ترک کرنا سہل ہوجاتا ہے جن سے اللہ تعالیٰ نے روکا ہے ،خواہ یہ نفس کے محبوب امور ہی کیوں نہ ہوں اور نفس اس کی طرف بلاتا اور ان کی طرف رغبت کیوں نہ دلاتا ہو۔ اس شخص کے نفس کے لیے اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر اللہ تعالیٰ کے راستے میں مال خرچ کرنا آسان ہوجاتا ہے اور اسی سے فوزوفلاح حاصل ہوتی ہے، برعکس اس شخص کے جو نفس کے بخل وحرص سے بچا ہوا نہیں بلکہ بھلائی کے بارے میں حرص کی بیماری میں مبتلا ہے اور یہ حرص شر کی جڑ اور اس کی بنیاد ہے۔ پس اہل ایمان کی یہ دو فضیلت والی پاک اصناف ہیں اور وہ صحابہ کرام اور ائمہ اعلام ہیں جنہوں نے سابقیت کے اوصاف، فضائل اور مناقب کو جمع کرلیا ان کے بعد کسی نے ان سے سبقت نہیں کی، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھلائی میں پہلے لوگوں کو جالیا اور اس طرح وہ مومنوں کے سربراہ ،مسلمانوں کے سردار اور اہل تقوٰی کے قائدین بن گئے ۔ان کے بعد آنے والوں کے لیے یہی فضیلت کافی ہے کہ وہ ان کے نقش قدم پر چلیں اور ان کے طریق کو راہ نما بنائیں ،اس لیے بعد میں آنے والوں میں سے جو کوئی ان کو راہ نما بناتا ہے اس کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ اگلی آیت میں فرمایا: الحشر
10 ﴿وَالَّذِیْنَ جَاءُوْ مِنْ بَعْدِہِمْ﴾ یعنی جو (اہل ایمان )مہاجرین وانصار کے بعد آئے ﴿ یَقُوْلُوْنَ﴾ وہ اپنی اور تمام مومنین کی خیرخواہی کے لیے کہتے ہیں :﴿ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ﴾ ”اے ہمارے پروردگار !ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لاچکے ہیں ۔“یہ دعا تمام گزرے ہوئے اہل ایمان، صحابہ ،ان سے پہلے اور ان کے بعد آنے والے تمام اہل ایمان کو شامل ہے۔ یہ ایمان کی فضیلت ہے کہ اہل ایمان ایک دوسرے سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور ایمان میں مشارکت کے سبب سے ایک دوسرے کے لیے دعا کرتے ہیں ۔ایمان مومنین کے درمیان اخوت کا تقاضا کرتا ہے جس کی فروع میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ ایک دوسرے کے لیے دعا کریں اور ایک دوسرے سے محبت کریں ،اس لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس دعا میں قلب سے کینے کی نفی کا ذکر فرمایا جو قلیل وکثیر ہر قسم کے کینے کو شامل ہے۔ جب کینے کی نفی ہوگئی تو اس کی ضد ثابت ہوگئی اور وہ ہے اہل ایمان کے مابین محبت وموالات اور خیرخواہی وغیرہ جو اہل ایمان کے حقوق شمار ہوتے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بعد آنے والوں کو ایمان کے وصف سے موصوف کیا ہے کیونکہ ان کا قول: ﴿سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ﴾ ایمان میں ان کی مشارکت پر دلالت کرتا ہے، نیز اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ عقائد ،ایمان اور اس کے اصول میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی پیروی کرنے والے ہیں اور وہ اہل سنت والجماعت ہیں کیونکہ یہ وصف تام صرف انہی پر صادق آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو گناہوں کے اقرار اور پھر ان گناہوں سے استغفار کے ساتھ موصوف کیا ہے نیز یہ کہ وہ ایک دوسرے کے لیے استغفار کرتے ہیں اور مومن بھائیوں کے خلاف کینہ اور حسد کو ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں ،کیونکہ ان کا اس چیز کی دعا کرنا، ان امور کو مستلزم ہے جن کا ہم نے ذکر کیا ہے اور ان کے ایک دوسرے سے محبت کرنے کو مستلزم ہے اور اس امر کو بھی مستلزم ہے کہ ان میں سے ہر ایک اپنے بھائی کے لیے وہی کچھ پسند کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے ،اس کی موجودگی اور عدم موجودگی میں ،اس کی زندگی میں اور اس کے مرنے کے بعد اس کی خیرخواہی کرے۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ یہ سب کچھ اہل ایمان کے ایک دوسرے پر جملہ حقوق ہیں، پھر انہوں نے اپنی دعا کو اللہ کے دو اسمائے کریمہ پر ختم کیا جو اللہ تعالیٰ کے کمال رحمت اور شدت رأفت واحسان پر دلالت کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کے جملہ احسانات میں سے بلکہ ان میں سے سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ اس نے ان کو اپنے حقوق اور اپنے بندوں کے حقوق قائم کرنے کی توفیق سے بہرہ ور کیا۔ یہ تین اوصناف کے لوگ اسی امت کے لوگ ہیں جو فے کے مستحق ہیں جس کا مصرف اسلام کے مصالح کی طرف راجع ہے اور وہی لوگ اس کی اہلیت رکھتے ہیں جو اس کے اہل ہیں اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے ہمیں بھی ان میں شامل کرے۔ الحشر
11 پھر اللہ تبارک وتعالیٰ نے منافقین کے احوال پر تعجب کا اظہار کیا جنہوں نے اپنے اہل کتاب بھائیوں کو اپنی مدد اور اہل ایمان کے خلاف موالات کالالچ دیا تھا ،وہ ان سے کہہ رہے تھے: ﴿لَیِٕنْ اُخْرِجْتُمْ لَنَخْرُجَنَّ مَعَکُمْ وَلَا نُطِیْعُ فِیْکُمْ اَحَدًا اَبَدًا ﴾ ”اگر تم نکال دیے گئے تو ہم بھی تمہارے ساتھ ہی نکلیں گے اور تمہارے بارے میں کبھی کسی کا کہنا نہیں مانیں گے ۔“یعنی تمہاری نصرت ومدد کے بارے میں جو کوئی ہمیں برا بھلا کہے گا یاڈرائے گا، ہم تمہاری عدم نصرت میں اس کی اطاعت نہیں کریں گے ﴿وَّاِنْ قُوْتِلْتُمْ لَنَنْصُرَنَّکُمْ وَاللّٰہُ یَشْہَدُ اِنَّہُمْ لَکٰذِبُوْنَ﴾ ”اور اگر تم سے جنگ ہوئی تو یقینا ہم تمہاری مدد کریں گے اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ وہ جھوٹے ہیں۔“ یعنی وہ اس وعدے میں جھوٹے ہیں جس کے ذریعے سے انہوں نے اپنے بھائیوں کو دھوکے میں مبتلا کیا ۔ان کے اس جھوٹے وعدے کو زیادہ اہمیت نہ دیں کیونکہ جھوٹ ان کا وصف، فریب ور دھوکہ ان کے ساتھی، نفاق اور بزدلی ان کے دوست ہیں الحشر
12 بنابریں اللہ تعالیٰ نے اپنے اس ارشاد کے ذریعے سے ان کی تکذیب کی ہےجس ارشاد کو ویسے ہی پایا گیا جیسے اللہ نے اس کی خبر دی تھی ۔پھر اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا :﴿لَیِٕنْ اُخْرِجُوْا﴾ یعنی اگر ان کو جلاوطن کرنے کے لیے ان کے گھروں سے نکالا جائے ﴿لَا یَخْرُجُوْنَ مَعَہُمْ ﴾ تو اپنے وطن کی محبت، قتال پر ان کے عدم صبر اور اپنے وعدے کے عدم ایفا کی بنا پر وہ ان کے ساتھ ہرگز نہیں نکلیں گے ۔﴿وَلَیِٕنْ قُوْتِلُوْا لَا یَنْصُرُوْنَہُمْ ﴾ ”اور اگر ان سے لڑائی ہوئی تو وہ ان کی مدد نہیں کریں گے۔“ بلکہ ان پر بزدلی غالب آجائے گی، کمزوری قبضہ کرے گی اور اپنے بھائیوں کو بے یارومددگار چھوڑ دیں گے جو ان کے سب سے زیادہ محتاج ہوں گے۔ ﴿وَلَیِٕنْ نَّصَرُوْہُمْ ﴾ اور فرض کیا اگر انہوں نے ان کی مدد کی﴿ لَیُوَلُّنَّ الْاَدْبَارَ ثُمَّ لَا یُنْصَرُوْنَ﴾ تو وہ قتال اور ان کی مدد سے پیٹھ پھیر لیں گے اور انہیں اللہ کی طرف سے بھی مدد حاصل نہیں ہوگی۔ الحشر
13 اے مومنو !وہ سبب جس نے ان کو اس امر پر آمادہ کیا ہے، یہ ہے کہ ﴿ اَشَدُّ رَہْبَۃً فِیْ صُدُوْرِہِمْ مِّنَ اللّٰہِ ﴾”تمہاری ہیبت ان کے دلوں میں اللہ کی ہیبت سے بڑھ کر ہے۔ “اس لیے جتنا وہ اللہ سے ڈرتے ہیں اس سے بڑھ کر وہ تم سے ڈرتے ہیں، پس انہوں نے مخلوق کے خوف کو، جو خود اپنے لیے کسی نفع ونقصان کا اختیار نہیں رکھتی ،خالق کے خوف پر مقدم رکھا ہے ﴿ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ قَوْمٌ لَّا یَفْقَہُوْنَ﴾ ”یہ اس لیے کہ یہ بے سمجھ لوگ ہیں ۔“یعنی وہ امور کے مراتب کو نہیں سمجھتے۔ وہ اشیا کے حقائق کو معرفت رکھتے ہیں نہ وہ انجام کا تصور کرسکتے ہیں۔ کامل ترین سمجھ اور تفقہ یہ ہے کہ خالق کے خوف، اس پر امید اور اس کی محبت کو غیر کے خوف، امید اور محبت پر مقدم رکھا جائے، غیر کا خوف، امید اور محبت خالق کے خوف، امید اور محبت کے تابع ہو۔ الحشر
14 ﴿لَا یُقَاتِلُوْنَکُمْ جَمِیْعًا﴾ ”وہ سب مل کر بھی تم سے نہیں لڑ سکیں گے۔“ یعنی اجتماعی حالت میں وہ تم سے قتال نہیں کریں گے۔ ﴿اِلَّا فِیْ قُرًی مُّحَصَّنَۃٍ اَوْ مِنْ وَّرَاءِ جُدُرٍ ﴾ ”مگر ایسی بستیوں میں جو قلعہ بند ہیں یا دیواروں کی اوٹ سے۔“ یعنی وہ تمہارے خلاف لڑائی میں ثابت قدم رہ سکتے ہیں نہ اس پر عزم کا مظاہرہ کرسکتے ہیں مگر صرف اس صورت میں جب وہ بستیوں میں قلعہ بند ہر کر لڑ رہے ہوں یا دیواروں اور فصیلوں کے پیچھے سے لڑ رہے ہوں ،تب اس صورت میں ان کو اپنی شجاعت کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے قلعوں اور فصیلوں کے سہار بسا اوقات حفاظت حاصل ہوجاتی ہے اور یہ سب سے بڑی مذمت ہے۔ ﴿بَاْسُہُمْ بَیْنَہُمْ شَدِیْدٌ ﴾ ”ان کی آپس میں لڑائی بہت سخت ہوتی ہے ۔“ان کے بدن میں کوئی آفت ہے نہ ان کی قوت میں، آفت تو ان کے ضعف ایمان اور ان کے کلمہ کے عدم اجتماع میں ہے۔ بنا بریں فرمایا :﴿تَحْسَبُہُمْ جَمِیْعًا﴾ جب آپ انہیں مجتمع اور ایک دوسرے کی مدد کرتے دیکھتے ہیں تو انہیں متحد سمجھتے ہیں ﴿وَّقُلُوْبُہُمْ شَتّٰی ﴾ مگر ان کے دل ایک دوسرے کے خلاف بغض رکھنے والے متفرق اور متشت ہیں۔ ﴿ ذَٰلِكَ ﴾ ”یہ بات۔“ جس نے انہیں مذکورہ صفات سے متصف کیا ہے ﴿بِاَنَّہُمْ قَوْمٌ لَّا یَعْقِلُوْنَ﴾ ”اس سبب سے ہے کہ وہ عقل اور خرد نہیں رکھتے۔ “ اگر وہ عقل سے بہرہ ور ہوتے تو فاضل کو مفضول پر ترجیح دیتے اور اپنے لیے ناقص ترین حصے پر راضی نہ ہوتے ،ان میں اتحاد ہوتا اور ان کے دل ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہوتے ،اور یوں وہ ایک دوسرے کی مدد کرتے ،ایک دوسرے کو مضبوط کرتے اور اپنے دینی اور دنیاوی مصالح میں ایک دوسرے کے معاون بنتے ۔اس قسم کے لوگ جن کو اللہ تعالیٰ نے ان کے حال پر چھوڑ دیا ہے اہل کتاب میں سے ہیں، جن سے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر انتقام لیا اور انہیں دنیا کی زندگی کی رسوائی کا مزا چکھایا۔ الحشر
15 ان لوگوں کی مدد کا معدوم ہونا جنہوں نے ان کے ساتھ معاونت کا وعدہ کیا تھا ﴿کَمَثَلِ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ قَرِیْبًا﴾ ”ان کا حال ان لوگ کا سا ہے جو ان سے کچھ ہی پیشتر ہوئے۔“ اس سے مراد وہ قریش ہی،ں جن کے اعمال کو شیطان نے مزین کیا اور کہا: ﴿ لَا غَالِبَ لَكُمُ الْيَوْمَ مِنَ النَّاسِ وَإِنِّي جَارٌ لَّكُمْ فَلَمَّا تَرَاءَتِ الْفِئَتَانِ نَكَصَ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ وَقَالَ إِنِّي بَرِيءٌ مِّنكُمْ إِنِّي أَرَىٰ مَا لَا تَرَوْنَ﴾( الانفال:8؍48) آج لوگوں میں سے کوئی تم پر غالب نہیں آسکتا ،اور میں تمہارا ساتھی ہوں، جب دونوں فوجیں ایک دوسرے کے سامنے آئیں تو الٹے پاؤں بھاگ نکلا اور کہنے لگا: میں تم سے بری الذمہ ہوں، میں وہ کچھ دیکھ رہا ہوں جو تم نہیں دیکھ سکتے۔“ چنانچہ انہوں نے خود اپنے آپ کو فریب دیا اور ان کو فریب دینے والوں نے بھی فریب دیا جو ان کے کام آسکے نہ ان سے عذاب کو دور کرسکے حتی کہ وہ بڑے فخر اور بڑے کرو فر سے ”بدر“ کے مقام پر پہنچ گئے، وہ سمجھتے تھے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مومنوں کو جالیں گے مگر اللہ تعالیٰ نے ان کے مقابلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مومنوں کی مدد کی، چنانچہ ان کے بڑے بڑے سردار قتل کردیے گئے ،ان میں سے کچھ کو قیدی بنا لیا گیا اور کچھ فرار ہوگئے ۔اس طرح ﴿ذَاقُوْا وَبَالَ اَمْرِہِمْ ﴾ انہوں نے اپنے شرک اور بغاوت کے وبال کا مزا چکھ لیا۔ یہ سزا دنیا کے اندر ہے ﴿ وَلَهُمْ ﴾ اور آخرت میں ان کے لیے ﴿ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴾ دردناک عذاب ہے۔ الحشر
16 ان منافقین کی مثال ،جنہوں نے اپنے اہل کتاب بھائیوں کو دھوکے میں مبتلا کر رکھا ہے ﴿کَمَثَلِ الشَّیْطٰنِ اِذْ قَالَ لِلْاِنْسَانِ اکْفُرْ ﴾ ”شیطان کی سی ہے کہ وہ انسان سے کہتا رہتا ہے کہ کافر ہوجا۔“ یعنی شیطان نے انسان کے سامنے کفر کو مزین کرکے خوبصورت بنادیا اور اسے کفر کی طرف دعوت دی۔ جب انسان نے دھوکے میں مبتلا ہو کر کفر کا ارتکاب کیا اسے بدبختی حاصل ہوئی تو شیطان اس کے کسی کام نہ آیا جس نے اسکی سرپرستی کی تھی اور کفر کی طرف دعوت دی تھی بلکہ شیطان نے اس سے برات کا اظہار کیا اور ﴿قَالَ اِنِّیْ بَرِیْءٌ مِّنْکَ اِنِّیْٓ اَخَافُ اللّٰہَ رَبَّ الْعٰلَمِیْنَ﴾ ”کہا کہ میں تجھ سے بری الذمہ ہوں ،میں تو اللہ رب العالمین سے ڈرتا ہوں۔“ یعنی مجھے تجھ سے عذاب کو دور ہٹانے کی کوئی قدرت اور اختیار حاصل نہیں ،میں ذرہ بھر بھلائی کے لیے تیرے کوئی کام نہیں آسکتا۔ الحشر
17 ﴿فَکَانَ عَاقِبَتَہُمَآ﴾ ”پس ان دونوں کا انجام یہ ہوا۔“ یعنی داعی جو کہ شیطان ہے اور مدعو ،جو کہ انسان ہے جبکہ وہ شیطان کی اطاعت کرے ﴿اَنَّہُمَا فِی النَّارِ خَالِدَیْنِ فِیْہَا ﴾ ”دونوں جہنم میں ہوں گے جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے ۔“جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ إِنَّمَا يَدْعُو حِزْبَهُ لِيَكُونُوا مِنْ أَصْحَابِ السَّعِيرِ ﴾( فاطر :35؍6) ”وہ تو اپنے گروہ کو اس لیے دعوت دیتا ہے تاکہ وہ جہنم والوں میں شامل ہوجائیں۔“ ﴿ وَذٰلِکَ جَزٰؤُا الظّٰلِمِیْنَ﴾ ”اور یہی ہے بدلہ ظالموں کا۔“ جنہوں نے ظلم اور کفر میں اشتراک کیا، اگرچہ ان کے لیے عذاب کی شدت مختلف ہوگی۔ شیطان کا اپنے تمام دوستوں کے ساتھ یہی رویہ ہے ۔وہ ان کو دعوت دیتا ہے اور فریب سے انہیں ایسے امور کے قریب لے آتا ہے جو ان کو نقصان پہنچاتے ہیں ۔جب وہ جال میں پھنس جاتےہیں اور ہلاکت کے اسباب انہیں گھیر لیتے ہیں تو ان سے بری الذمہ ہو کر ان سے علیحدہ ہوجاتا ہے۔ ہر قسم کی ملامت ہے اس شخص پر جو اس کی اطاعت کرتا ہے، حالانکہ اللہ نے اس سے بچنے کے لیے کہا ہے ،اس سے ڈرایا ہے اور اس کے اغراض ومقاصد سے خبردار کیا ہے۔ لہٰذا اس کی اطاعت کرنے والاواضح طور پر اللہ تعالیٰ کا نافرمان ہے ،اس کے پاس کوئی عذر نہیں۔ الحشر
18 اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے بندوں کو ان امور کا حکم دیتا ہے، جن کا ایمان موجب ہے اور کھلے چھپے تمام احوال میں التزام تقوٰی کا تقاضا کرتا ہے ۔نیز یہ کہ وہ ان اوامر وحدود کی رعایت رکھیں جن کا اللہ نے انہیں حکم دیا ہے اور اس بات پر غور کریں کہ ان کے فرائض کیا ہیں اور ان کے لیے عنایات کیا ہیں اور انہوں نے کون کون سے اعمال کیے جوا نہیں قیامت کے روز نفع ونقصان دیں گے؟ کیونکہ جب وہ آخرت کو اپنا نصب العین اور اپنے دلوں کا قبلہ بنا لیں گے اور آخرت میں قیام کا اہتمام کریں گے تو وہ کثرت اعمال کی کوشش کریں گے اور جو اس نصب العین تک پہنچاتے ہیں اور ایسے قواطع طریق سے اس کو پاک کرتے ہیں ،جو انہیں سیر وسلوک سے روکتے ہیں یا انہیں باز رکھتے ہیں یا ان کا رخ بدل دیتے ہیں ۔جب انہیں معلوم ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے اعمال کی خبر رکھنے والا ہے، ان کے اعمال اس سے چھپے ہوئے نہیں ہیں، ان کے اعمال اس کے ہاں ضائع ہوتے ہیں نہ بیکار جاتے ہیں تو یہ چیز ان پر جدوجہد کو واجب کرتی ہے۔ یہ آیت کریمہ بندے کے لیے اپنے نفس کا محاسبہ کرنے کی بنیاد پر ہے۔ وہ یہ کہ بندے کو چاہیے کہ وہ اپنے نفس کا معائنہ کرے۔ اگر وہ اپنے اندر کوئی لغزش دیکھے تو اس کو ختم کرکے خالص توبہ کے ذریعے سے ان امور سے منہ موڑکر اس کا تدارک کرے جو اس لغزش کا باعث ہیں ۔اگر وہ اللہ تعالیٰ کے کسی حکم کے بارے میں اپنے آپ میں کوئی کوتاہی دیکھے تو اپنی پوری کوشش صرف کردے، اس کی تکمیل واتمام اور اس کی اچھی طرح تعمیل کے لیے اپنے رب سے مدد مانگے ،اپنی ذات پر اللہ تعالیٰ کی عنایات واحسانات اور اپنی تقصیر کے مابین موازنہ کرے، یہ چیز لامحالہ اس کے لیے حیا کی موجب ہوگی۔ یہ ہر لحاظ سے حرماں نصیبی ہے کہ بندہ اس معاملے میں غافل رہے اور ان لوگوں کے مشابہ ہوجائے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کوفراموش کردیا اور اس کے ذکر سے اور اس کے حق کو ادا کرنے سے غافل ہوگئے۔ وہ اپنے حظوظ نفس اور اس کی شہوات کی طرف متوجہ ہوگئے ۔پس وہ کامیاب ہوئے نہ کوئی فائدہ حاصل کرسکے بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان سے ان کے مصالح کو فراموش کرادیا اور ان کو ان مصالح کے منافع سے غافل کردیا ۔ان کا معاملہ افراط وتفریط کا شکار ہوگیا، تب وہ دنیا وآخرت کے خسارے کی طرف لوٹ گئے اور ایسے نقصان میں پڑگئے کہ جس کا تدارک ممکن ہے نہ اس کی اصلاح کیونکہ وہ نافرمان لوگ ہیں جو اپنے رب کی اطاعت سے نکل کر اس کی نافرمانیوں میں مبتلا ہوگئے۔ پس وہ شخص جو تقوٰی کی حفاظت کرتا ہے اور اس چیز پر نظر رکھتا ہے جو اس نے کل کے لیے آگے بھیجی ہے تو وہ ان لوگوں کے ساتھ ہے، جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام کیا، یعنی نبیوں، صدیقین، شہدا ءاور صالحین کے ساتھ نعمتوں بھری جنت اور تکدر سے پاک زندگی کا مستحق ہوا اور وہ شخص جو اللہ تعالیٰ کے ذکر سے غافل ہوا ،اس نے اس کے حقوق فراموش کردیے پس وہ دنیا میں بدبخت ٹھہرا اور آخرت میں عذاب کا مستحق ہوا ،کیا دونوں برابر ہوسکتے ہیں؟ نہیں! یقینا نہیں! پہلی قسم کے لوگ کامیاب ہیں اور دوسری قسم کے لوگ خسارے میں پڑنے والے ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر حقائق کو واضح کردیا اور اس نے اپنی کتاب عزیز میں اپنے بندوں کو اوامر ونواہی عطا کیے تو یہ چیز اس بات کی موجب تھی کہ وہ اسکی طرف سبقت کرنے میں جلدی کرتے جس کی طرف اللہ تعالیٰ نے ان کو دعوت اور ترغیب دی، خواہ وہ قساوت اور صلابت قلبی میں مضبوط پہاڑوں کی مانند ہی کیوں نہ ہوتے ۔اگر یہ قرآن کسی پہاڑ پر بھی نازل کردیا جاتا تو آپ اسے خشیت الٰہی سے عاجز اور ٹکڑے ٹکڑے ہوا پاتے۔ یعنی اس کا سبب دلوں میں اس کی کمال تاثیر ہے کیونکہ قرآن کے مواعظ علی الاطلاق سب سے بڑے مواعظ ہیں۔ اس کے اوامر ونواہی حکمتوں اور مصالح پر مشتمل ہیں، یہ نفوس کے لیے سب سے زیادہ سہل اور ابدان کے لیے سب سے زیادہ آسان ہیں ،یہ ہر قسم کے تکلف سے خالی ہیں ،ان میں کوئی تناقض ہے نہ اختلاف، ان پر عمل کرنے میں کوئی صعوبت ہے نہ بے راہ روی، یہ اوامر ونواہی ہر زمان ومکان کے لیے درست اور ہر شخص کے لائق ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ وہ لوگوں کے لیے مثالیں بیان کرتا ہے اور اپنے بندوں کے سامنے حرام اور حلال واضح کرتا ہے تاکہ وہ اس کی آیات میں تفکر وتدبر کریں ،کیونکہ آیات الٰہی میں تفکر، بندے کے لیے علم کے خزانوں کے منہ کھول دیتا ہے ،اس کے سامنے خیر اور شر کے راستوں کو واضح کردیتا ہے اور اس کو مکارم اخلاق اور محاسن عادات کی ترغیب دیتا ہے اور برے اخلاق سے اسے روکتا ہے، لہٰذا بندے کے لیے قرآن میں تفکر اور اس کے معانی میں تدبر سے بڑھ کر کوئی چیز فائدہ مند نہیں۔ الحشر
19 الحشر
20 الحشر
21 الحشر
22 یہ آیات کریمہ اللہ تعالیٰ کے بہت سے اسمائے حسنیٰ اور اوصاف عالیہ پر مشتمل اور عظمت شان اور بے مثال برہان کی حامل ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہی معبود ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں کیونکہ وہ عظیم کم،ال سب کو شامل احسان اور تدبیر عام کا مالک ہے ،اس کے سوا ہر معبود باطل ہے اور عبادت کے ذرہ بھر کے مستحق نہیں کیونکہ وہ محتاج، عاجز اور ناقص ہیں، وہ اپنے لیے اور کسی دوسرے کے لیے کچھ بھی اختیار نہیں رکھتے ،پھر اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنا وصف بیان کیا ہے کہ اس کا عموم علم ہر اس چیز کو شامل ہے جو مخلوق کی نظروں سے اوجھل ہے اور جس کا وہ مشاہدہ کرتی ہے ،اس کی رحمت عامہ ہر چیز پر سایہ کناں اور ہر زندہ ہستی تک پہنچتی ہے ،پھر اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی عموم الوہیت اور اس میں متفرد ہونے کا بتکرار ذکر کیا ،نیز یہ کہ وہ تمام ممالک کا مالک ہے ۔عالم علوی اور عالم سفلی اور ان میں رہنے والے سب اللہ تعالیٰ کے مملوک، محتاج اور اس کے دست تدبیر کے تحت ہیں۔ الحشر
23 ﴿ الْقُدُّوْسُ السَّلٰمُ﴾ یعنی وہ مقدس، ہر عیب ونقص سے پاک، معظم اور بزرگی والا ہے کیونکہ صفت ﴿الْقُدُّوسُ﴾ ہر عیب ونقص سے اللہ تعالیٰ کی تنزیہ ،اس کے اوصاف وجلال میں اس کی تعظیم پر دلالت کرتی ہے ﴿الْمُؤْمِنُ﴾ یعنی وہ اپنے انبیا ءو رسل کی اور جو کچھ وہ لے کرآئے ہیں ،اس کی براہین قاطعہ اور واضح دلائل کے ساتھ تصدیق کرتا ہے(اور انہیں اپنی حفاظت اور امان میں رکھتا ہے)۔ ﴿االْعَزِيزُ﴾ جس پر غالب آیا جاسکتا ہے نہ اس کے سامنے رکاوٹ بنا جاسکتا ہے بلکہ وہ ہر چیز پر غالب اور ہر چیز اس کے سامنے فروتن وسرافگندہ ہے ﴿الْجَبَّارُ﴾ جو تمام بندوں پر غالب ہے اور تمام مخلوق اس کے سامنے سرتسلیم خم کئے ہوئے ہے، جوٹوٹے ہوئے کو جوڑتا اور محتاج کو بے نیاز کرتا ہے۔ ﴿ الْمُتَكَبِّرُ ﴾ جو عظمت اور کبریائی کا مالک ،ظلم وجوراور تمام عیوب سے منزہ ہے۔ ﴿ سُبْحٰنَ اللّٰہِ عَمَّا یُشْرِکُوْنَ﴾ یہ تنزیہ عام ہے، ہر اس وصف سے جس سے شرک کرنے اور عناد رکھنے والے اس کو موصوف کرتے ہیں۔ الحشر
24 ﴿ہُوَ اللّٰہُ الْخَالِقُ﴾ جو تمام مخلوقات کا خالق ہے﴿ الْبَارِیُٔ ﴾ جو تمام کائنات کو نیست سے ہست )عدم سے وجود( میں لاتا ہے ﴿الْمُصَوِّرُ﴾ وہ تمام صورت رکھنے والوں کی صورت گری کرتا ہے ۔یہ تمام اسمائے حسنیٰ تخلیق وتدبیر اور تقدیر سے متعلق ہیں۔ ان تمام اوصاف میں اللہ تعالیٰ متفرد ہے اور کوئی اس میں شریک نہیں۔ ﴿ لَہُ الْاَسْمَاءُ الْحُسْنٰی ﴾ یعنی اس کے بہت زیادہ نام ہیں جن کو کوئی معلوم کرسکتا ہے نہ شمار کرسکتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اس کے تمام نام اچھے ہیں ،یعنی اس کے تمام نام صفات کمال ہیں بلکہ یہ اسما ءکامل ترین اور عظیم ترین صفات پر دلالت کرتے ہیں ،جن میں کسی بھی لحاظ سے کوئی نقص نہیں ۔ان اسما ء کا حسن ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو پسند کرتا ہے اور وہ اس شخص کو بھی پسند کرتا ہے جو ان اسما ءکو پسند کرتا ہے ۔وہ اپنے بندوں سے اس بات کو پسند کرتا ہے کہ وہ اس کو پکاریں اور ان ناموں کے واسطے سے اس سے سوال کریں۔ یہ اس کا کمال ہے کہ وہ اسمائے حسنیٰ اور صفات علیا کا مالک ہے ،نیز یہ کہ آسمانوں اور زمین میں رہنے والے دائمی طور پر اس کے محتاج ہیں ،اس کی حمد وثنا کے ذریعے سے اس کی تسبیح بیان کرتے ہیں ،اس سے اپنی تمام حوائج کا سوال کرتے ہیں۔ وہ اپنے فضل وکرم سے انہیں وہ سب کچھ عطا کرتا ہے جس کا تقاضا اس کی رحمت اور حکمت کرتی ہے۔ ﴿ وَہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ﴾ یعنی وہ جس چیز کا بھی ارادہ کرتا ہے وہ ہوجاتی ہے اور جو کچھ بھی ہوتا ہے اس کی حکمت اور مصلحت کے تحت ہوتا ہے۔ الحشر
0 الممتحنة
1 بہت سے مفسرین رحمہم اللہ نے ذکر کیا ہے کہ ان آیات کریمہ کا سبب نزول حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کا قصہ ہے ۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ فتح مکہ کیا تو حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ نے مکہ کے مشرکین کو خط لکھا اور انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روانگی کی اطلاع دے دی۔ یہ اطلاع شک اور نفاق کی بنا پر نہ تھی بلکہ اس کا سبب یہ تھا کہ وہ مشرکین پر ایک احسان کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے یہ خط ایک عورت کے ذریعے سے روانہ کردیا ۔اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام معاملے سے آگاہ کردیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کے مکہ پہنچنے سے پہلے پہلے اس کی طرف آدمیوں کو بھیجا اور اس سے وہ خط برآمد کرالیا ۔آپ نے حاطب رضی اللہ عنہ پر ناراضی کا اظہار فرمایا تو حاطب رضی اللہ عنہ نے ایسا عذر پیش کیا جسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول فرمالیا۔ ان آیات کریمہ میں کفارو مشرکین وغیرہ سے موالات اور مودت رکھنے کی سخت ممانعت بیان کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ یہ موالات ومودت ایمان اور ملت ابراہیم علیہ السلام کے منافی اور عقل کے خلاف ہے جو ایسے دشمن سے پوری طرح سے بچنے کو واجب قرار دیتی ہے جو اپنی دشمنی میں جہد وکوشش میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتا اور اپنے دشمن کو نقصان پہنچانے کے لیے کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا﴾ ”اے ایمان والو!“ اپنے ایمان کے تقاضوں کے مطابق عمل کرو ،جو ایمان لائے اس کے ساتھ موالات ومودت رکھو، جو ایمان کے ساتھ عداوت رکھے تم اس کے ساتھ عداوت رکھو ،کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کا دشمن اور اہل ایمان کا دشمن ہے، لہٰذا ﴿لَا تَتَّخِذُوْا عَدُوِّیْ ﴾ نہ بناؤ تم اللہ تعالیٰ کے دشمن کو﴿ وَعَدُوَّکُمْ أَوْلِيَاءَ تُلْقُونَ إِلَيْهِم بِالْمَوَدَّةِ ﴾ ”اور اپنے دشمن کو دوست ،تم اپنی دوستی کے پیغام بھیجتے ہو۔ “یعنی تم ان کی محبت ومودت اور اس کے اسباب کے حصول کی کوشش میں جلدی مچاتے ہو۔ جب مودت حاصل ہوجاتی ہے تو نصرت وموالات اس کے پیچھے آتی ہیں ،تب بندہ ایمان کے دائرے سے نکل کر اہل کفران کے زمرے میں شامل ہوجاتا ہے۔ کافر کو دوست بنانے والا یہ شخص مروت سے بھی محروم ہے، وہ اپنے سب سے بڑے دشمن سے کیوں کر موالات رکھتا ہے جو اس کے بارے میں صرف برائی کا ارادہ رکھتا ہے اور اپنے رب کی کیوں کر مخالفت کرتا ہے جو اس کے بارے میں صرف بھلائی چاہتا ہے، اسے بھلائی کا حکم دیتا ہے اور بھلائی کی ترغیب دیتا ہے؟ مومن کو کفار کے ساتھ عداوت رکھنے کی طرف یہ چیز بھی دعوت دیتی ہے کہ انہوں نے اس حق کو ماننے سے انکار کردیا جو مومنوں کے پاس آیا تھا ۔اس مخالفت اور دشمنی سے بڑھ کر کوئی اور چیز نہیں ،انہوں نے تمہارے اصل دین کا انکار کیا ہے، ان کا گمان ہے کہ تم گمراہ ہو، ہدایت پر نہیں ہو۔ اور ان کا حال یہ ہے کہ انہوں نے حق کا انکار کیا جس میں کوئی شک وشبہ نہیں اور جو کوئی حق کو ٹھکراتا ہے تو یہ امر محال ہے کہ اس کے پاس کوئی دلیل یا حجت پائی جائے جو اس کے قول کی صحت پر دلالت کرتی ہو ،بلکہ حق کا مجرد علم ہی اس شخص کے قول کے بطلان اور فساد پر دلالت کرتا ہے جو حق کو ٹھکراتا ہے۔ یہ ان کی انتہا کو پہنچتی ہوئی عداوت ہے کہ ﴿یُخْرِجُوْنَ الرَّسُوْلَ وَاِیَّاکُمْ﴾ اے مومنو! وہ رسول کو اور تمہیں تمہارے گھروں سے نکالتے ہیں اور تمہیں جلاوطن کرتے ہیں۔ ان کے ہاں اس بارے میں تمہارا اس کے سوا کوئی گناہ نہیں کہ ﴿اَنْ تُؤْمِنُوْا بِاللّٰہِ رَبِّکُمْ ﴾ تم اپنے رب اللہ پر ایمان لائے ہو جس کی عبودیت کو قائم کرنا تمام مخلوق پر فرض ہے کیونکہ اسی نے ان کی پرورش کی اور ان کو ظاہری اور باطنی نعمتوں سے نوازا۔ جب انہوں نے اس کام سے منہ موڑ لیا، جو سب سے بڑا فرض تھا۔ اور تم نے اس کو قائم کیا ،تو وہ تمہارے ساتھ دشمن پر اتر آئے اور اس بنا پر انہوں نے تمہیں تمہارے گھروں سے نکال دیا۔ تب کون سا دین، کون سی مروت اور کون سی عقل بندے کے پاس رہ جاتی ہے اگر پھر بھی وہ کفار کے ساتھ موالات رکھے جن کا ہر زمان ومکان میں یہی وصف رہا ہے؟ ان کو خوف یا کسی طاقت ور مانع کے سوا کسی چیز نے ایسا کرنے سے نہیں روکا۔ ﴿اِنْ کُنْتُمْ خَرَجْتُمْ جِہَادًا فِیْ سَبِیْلِیْ وَابْتِغَاءَ مَرْضَاتِیْ ﴾ یعنی اگر تمہارا گھروں سے نکلنے کا مقصد اللہ تعالیٰ کے کلمے کو بلند کرنے اور اس کی رضامندی کی طلب کے لیے جہاد فی سبیل اللہ ہے ،تو اس کے تقاضے کے مطابق اولیاء اللہ سے موالات اور اس کے دشمنوں سے عداوت رکھو، یہ اس کے راستے میں سب سے بڑا جہاد اور سب سے بڑا وسیلہ ہے جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کرنے والے اس کا تقرب حاصل کرتے ہیں اور اس کے ذریعے سے اس کی رضا کے طلب گار ہوتے ہیں۔ ﴿ تُسِرُّوْنَ اِلَیْہِمْ بِالْمَوَدَّۃِ وَاَنَا اَعْلَمُ بِمَآ اَخْفَیْتُمْ وَمَآ اَعْلَنْتُمْ ﴾ یعنی تم کفار کے ساتھ مودت کو کیسے چھپاتے ہو ،حالانکہ تمہیں علم ہے کہ تم جو کچھ چھپاتے ہو اور جو کچھ ظاہر کرتے ہو اللہ تعالیٰ اسے جانتا ہے۔ تمہارا کفار کے ساتھ مودت وموالات رکھنا اگرچہ اہل ایمان پر چھپا ہوا ہے مگر اللہ تعالیٰ سے چھپا ہوا نہیں ہے۔ وہ عنقریب اپنے بندوں کو ان کے بارے میں اپنے علم کے مطابق نیکی اور بدی کی جزا وسزا دے گا۔ ﴿وَمَنْ یَّفْعَلْہُ مِنْکُمْ﴾ اور جو کوئی کفار سے موالات رکھے اس کے بعد کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس سے منع کیا ہے۔ ﴿ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِیْلِ﴾ ”تو وہ سیدھے راستے سے بھٹک گیا ۔“کیونکہ وہ ایسے راستے پر چل پڑا جو شریعت، عقل اور مروت انسانی کے خلاف ہے۔ الممتحنة
2 پھر اللہ تبارک وتعالیٰ نے اہل ایمان کو کفار کی عداوت پر برانگیختہ کرنے کے لیے کفار کی شدت عداوت کا ذکر کیا ہے ،چنانچہ فرمایا :﴿اِنْ یَّثْقَفُوْکُمْ﴾ یعنی اگر وہ تمہیں پائیں اور تمہیں اذیت پہنچانے کا ان کو موقع ملے ﴿کُوْنُوْا لَکُمْ اَعْدَاءً﴾ تو وہ تمہارے کھلے دشمن ہوجائیں گے۔ ﴿وَّیَبْسُطُوْٓا اِلَیْکُمْ اَیْدِیَہُمْ ﴾ اور قتل اور ضرب لگانے وغیرہ کے لیے تمہاری طرف ہاتھ بڑھائیں گے ۔﴿ وَاَلْسِنَتَہُمْ بِالسُّوْءِ﴾ اور ایسی بات کہیں گے جو تکلیف دہ ہوگی، یعنی گالی وغیرہ۔ ﴿وَوَدُّوْا لَوْ تَکْفُرُوْنَ﴾ ”اور وہ خواہش کریں گے کہ کاش تم کفر کرتے ۔“اور یہی وہ غرض وغایت ہے جو وہ تم سے چاہتے ہیں۔ الممتحنة
3 اگر تم یہ دلیل دیتے ہو اور کہتے ہو کہ ہم قرابت داری اور اموال کی خاطر کفار سے موالات رکھتے ہیں تو ﴿لَنْ تَنْفَعَکُمْ اَرْحَامُکُمْ وَلَآ اَوْلَادُکُمْ﴾ اللہ کے مقابلے میں تمہارے رشتے ناتے اور تمہاری اولاد کچھ کام نہیں آئے گی۔ ﴿ وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ﴾ ”اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اسے دیکھتا ہے۔ “اس لیے اللہ تعالیٰ نے تمہیں کفار کے موالات سے بچنے کے لیے کہا ہے جن کی موالات تمہیں نقصان دے گی۔ الممتحنة
4 اے مومنوں کے گروہ! تمہارے لیے ﴿ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ﴾ اچھا نمونہ اور ایسی راہ نمائی ہے جو تمہیں فائدہ دے گی ﴿ فِیْٓ اِبْرٰہِیْمَ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ ﴾ ”ابراہیم علیہ السلام میں اور ان کے (مومن) رفقاء میں ہے۔“ تمہیں حکم دیا گیا ہے کہ تم یکسو ہو کر ملت ابراہیم کا اتباع کرو۔ ﴿اِذْ قَالُوْا لِقَوْمِہِمْ اِنَّا بُرَءٰؤُا مِنْکُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ﴾ یعنی جب حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے اہل ایمان ساتھیوں نے اپنی مشرک قوم اور ان کے معبودوں سے برات کا اعلان کیا ،جنہیں وہ( مشرک) اللہ کے سوا پوجتے تھے۔ پھر پوری صراحت سے ان کے ساتھ اپنی عداوت کی تصریح کی، چنانچہ انہوں نے کہا: ﴿ کَفَرْنَا بِکُمْ وَبَدَا﴾ ”ہم تمہارا انکار کرتے ہیں اور ظاہر ہوگیا“۔ یعنی پوری طرح ظاہر اور واضح ہوگیا کہ ﴿بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمُ الْعَدَاوَۃُ وَالْبَغْضَاءُ﴾ ہمارے اور تمہارے درمیان دلوں کا بغض اور ابدان کی عداوت، دلوں میں سے مودت زائل ہوگئی اور اس بغض اور عداوت کے لیے کوئی وقت اور حد مقرر نہیں بلکہ یہ عداوت ﴿ أَبَدًا ﴾ اس وقت تک برقرار رہے گی جب تک کہ تم اپنے کفر پر قائم ہو ﴿حَتّٰی تُؤْمِنُوْا بِاللّٰہِ وَحْدَہٗٓ﴾ یعنی جب تم اکیلے اللہ تعالیٰ پر ایمان لے آؤ گے تو عداوت اور بغض زائل ہوجائے گا ،عداوت مودت اور دوستی میں بدل جائے گی، چنانچہ اے مومنو! ایمان ، توحید اور اس کے لوازم ومقتضیات کو قائم کرنے میں ابراہیم علیہ السلام اور ان کے اصحاب میں تمہارے لیے نمونہ ہے ۔ہر چیز میں اسی کو نمونہ بنا کر اکیلے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو﴿ إِلَّا ﴾ سوائے ایک خصلت کے اور وہ ہے ﴿ قَوْلَ اِبْرٰہِیْمَ لِاَبِیْہِ﴾ حضرت ابراہیم کا اپنے مشرک، کافر اور معاند حق باپ آزر کے بارے میں قول، جب آپ نے اپنے باپ کو ایمان اور توحید کی دعوت دی اور اس نے قبول کرنے سے انکار کردیا تو آپ نے اس سے کہا تھا ﴿ لَاَسْتَغْفِرَنَّ لَکَ وَ﴾ میں تیرے لیے مغفرت طلب کروں گا اور حال یہ ہے کہ ﴿مَآ اَمْلِکُ لَکَ مِنَ اللّٰہِ مِنْ شَیْءٍ﴾ ”میں اللہ کے سامنے تمہارے بارے میں کسی چیز کا کچھ اختیار نہیں رکھتا۔“ مگر میں اپنے رب سے دعا کرتا رہوں گا ، ہوسکتا ہے کہ میں اپنے رب سے دعا کرکے محروم نہ رہوں۔ اس حالت میں تم حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اقتدا نہ کرو جس میں انہوں نے اپنے مشرک (باپ )کے لیے دعا کی تھی۔ تمہارے لیے جائز نہیں کہ تم مشرکین کے لیے دعا کرو اور پھر کہو کہ ہم تو ملت ابراہیمی کی پیروی کرنے والے ہیں ۔اللہ تعالیٰ نے اس بارے میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا عذر ان الفاظ میں بیان فرما دیا ہے: ﴿ وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ إِبْرَاهِيمَ لِأَبِيهِ إِلَّا عَن مَّوْعِدَةٍ وَعَدَهَا إِيَّاهُ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ أَنَّهُ عَدُوٌّ لِّلَّـهِ تَبَرَّأَ مِنْهُ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ لَأَوَّاهٌ حَلِيمٌ ﴾(التوبۃ :9؍114) ”اور ابراہیم کا اپنے باپ کے لیے بخشش مانگنا، صرف ایک وعدے کے سبب سے تھا جو وہ اپنے باپ سے کرچکے تھے، پھر جب ان پر واضح ہوگیا کہ وہ تو اللہ کا دشمن ہے تو انہوں نے اس سے برات کا اظہارکر دیا۔ بلاشبہ ابراہیم بہت نرم دل اور بردبار تھے۔ “ تمہارے لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے اصحاب میں نمونہ اس وقت (کے طرز عمل میں )ہے جب انہوں نے اللہ تعالیٰ کو پکارا، اس پر بھروسا کیا ،اس کی طرف رجوع کیا اور اپنے عجز و تقصیر کا اعتراف کیا اور کہا: ﴿ رَّبَّنَا عَلَيْكَ تَوَكَّلْنَا ﴾ ایسے امور کے حصول میں جو ہمیں فائدہ دیتے ہیں اور ایسے امور کو دور کرنے میں جو ہمیں نقصان پہنچاتے ہیں ، اے ہمارے رب! ہم تجھ ہی پر بھروسا کرتے ہیں۔ ﴿ وَإِلَيْكَ أَنَبْنَا ﴾ یعنی ہم تیری اطاعت، اور تیری رضا اور ان تمام امور کی طرف لوٹتے ہیں جو تیرا قرب عطا کرتے ہیں اور نیک اعمال کے ذریعے سے اس قرب کے حصول میں کوشاں ہیں کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ ہم نے تیری طرف لوٹنا ہے ،ہم تیری خدمت میں حاضر ہونے کے لیے تیاری کررہے ہیں اور وہ اعمال سرانجام دے رہے ہیں جو تیرے قریب کرتے ہیں۔ الممتحنة
5 ﴿رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَۃً لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوْا﴾ یعنی اے ہمارے رب! ہمارے گناہوں کے سبب سے تو کفار کو ہم پر مسلط نہ کرنا ،ایسا نہ ہو کہ وہ ہمیں فتنے میں مبتلا کردیں اور ہمیں ان امور ایمان سے روک دیں جن پر عمل کرنے پر ہم قادر ہیں ۔وہ اپنے آپ کو بھی فتنے میں مبتلا کریں گے کیونکہ جب وہ دیکھیں گے کہ انہیں غلبہ حاصل ہے تو سمجھیں گے وہ حق پر ہیں اور ہم باطل پر ہیں اس طرح وہ کفر اور سرکشی میں اور زیادہ بڑھ جائیں گے۔ ﴿وَاغْفِرْ لَنَا﴾ ہم نے جن گناہوں اور برائیوں کا ارتکاب کیا ہے اور مامورات کی تعمیل میں ہم سے جو تقصیر سرزد ہوئی ہے، وہ ہمیں معاف کردے۔ ﴿رَبَّنَا اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ﴾ ”اے ہمارے رب! بے شک تو (ہر چیز پر) غالب ہے۔“ ﴿ الْحَکِیْمُ﴾ جو تمام اشیا کو اپنے اپنے مقام پر رکھتا ہے، لہذا اپنی عزت وغلبے اور اپنی حکمت کے وسیلے سے ہمارے دشمنوں کے مقابلے میں ہماری مدد فرما، ہمارے گناہ بخش دے اور ہمارے عیوب کی اصلاح کر۔ الممتحنة
6 پھر اللہ تبارک وتعالیٰ نے دوبارہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے اصحاب کی پیروی کی ترغیب دی اور فرمایا:﴿لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْہِمْ اُسْوَۃٌ حَسَـنَۃٌ﴾ ”تحقیق تمہارے لیے انہی لوگوں میں ایک اچھا نمونہ ہے۔“ اور ہر شخص کے لیے اس نمونے کی پیروی کرنا آسان نہیں ،یہ صرف اسی شخص کے لیے آسان ہے ﴿لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوا اللّٰہَ وَالْیَوْمَ الْاٰخِرَ ﴾ ”جو اللہ (سے ملنے) اور آخرت کے دن کی امید رکھتا ہو۔ “کیونکہ ایمان اور اجر وثواب کی امید ،بندے کے لیے ہر مشکل کام کو آسان اور ہر کثیر کو اس کے سامنے قلیل کردیتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں اور انبیا ءومرسلین کی اقتدا کی موجب بنتی ہے کیونکہ وہ اپنے آپ کو اس کا بے انتہا محتاج اور ضرورت مند سمجھتا ہے۔ ﴿وَمَنْ یَّتَوَلَّ﴾ جو کوئی اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور انبیا ومرسلین کی اقتدا سے منہ موڑتا ہے، وہ خود اپنے سوا کسی کو نقصان نہیں دیتا اور وہ اللہ تعالیٰ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا ۔﴿فَاِنَّ اللّٰہَ ہُوَ الْغَنِیُّ﴾ ”بے شک اللہ ہی بے پروا ہے۔“ جو ہر لحاظ سے غنائے مطلق کا مالک ہے اور کسی بھی پہلو سے وہ مخلوق میں سے کسی کا محتاج نہیں۔ ﴿الْحَمِیْدُ﴾ وہ اپنی ذات وصفات اور افعال میں قابل ستائش ہے اور ان تمام امور میں اس کی ستائش کی جاتی ہے ۔پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ وہ عداوت جس کے بارے میں اس نے اہل ایمان کا حکم دیا کہ وہ مشرکین کے ساتھ رکھیں ،اور اہل ایمان کو اس وصف سے موصوف کیا کہ جب تک مشرکین اپنے شرک اور کفر پر قائم ہیں ،وہ ان کی دشمنی پر قائم ہیں اور اگر مشرکین دائرہ ایمان میں منتقل ہوجائیں گے تو حکم بھی اپنی علت کے مطابق ہوگا اور مودت ایمانی لوٹ آئے گی۔ الممتحنة
7 پس اے مومنو! تم ان کے ایمان کی طرف لوٹنے سے مایوس نہ ہوجاؤ﴿عَسَی اللّٰہُ اَنْ یَّجْعَلَ بَیْنَکُمْ وَبَیْنَ الَّذِیْنَ عَادَیْتُمْ مِّنْہُمْ مَّوَدَّۃً ﴾ ”عجب نہیں کہ اللہ تم میں اور ان لوگوں میں جن سے تم عداوت کرتے ہو، دوستی پیدا کردے۔ “اور اس کا سبب ان کا ایمان کی طرف لوٹنا ہے ۔﴿وَاللّٰہُ قَدِیْرٌ ﴾ اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ دلوں کو ہدایت سے بہرہ ور کرنا اور ان کو ایک حال سے دوسرے حال میں بدلنا اس کی قدرت کے تحت ہے۔ ﴿وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ﴾ اس کے سامنے کوئی گناہ بڑا نہیں کہ وہ اسے بخش نہ سکے اور کوئی عیب بڑا نہیں کہ وہ اسے ڈھانپ نہ سکے۔ ﴿ قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللّٰـهِ إِنَّ اللّٰـهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ )الزمر:39؍53)”( اے نبی!)“ ان لوگوں سے کہہ دیجئے جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی کہ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا، بے شک اللہ تعالیٰ تمام گناہوں کو بخش دیتا ہے ،وہ بخشنے والا،نہایت مہربان ہے۔ “اس آیت کریمہ میں بعض کفار کے اسلام لانے کی طرف اشارہ اور اس کی بشارت ہے جو اس وقت کافر اور اہل ایمان کے دشمن تھے ۔اور یہ بشارت پوری ہوئی۔ وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ وَالْمِنَّۃُ۔ الممتحنة
8 جب یہ آیات کریمہ، جو کفار کے ساتھ عداوت پر ابھارتی تھیں، نازل ہوئیں تو اہل ایمان نے ان پر عمل کیا ،انہوں نے ان آیات (کے تقاضوں) کو پوری طرح قائم کیا اور بعض مشرک قریبی رشتہ داروں سے تعلق کو گناہ تصور کیا اور سمجھا کہ یہ بھی اس ممانعت میں داخل ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ یہ صلہ رحمی اس موالات ومودت کے دائرے میں نہیں آتی جو حرام ٹھہرائی گئی ہے۔ ﴿لَا یَنْہٰیکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوْکُمْ مِّنْ دِیَارِکُمْ اَنْ تَبَرُّوْہُمْ وَتُقْسِطُوْٓا اِلَیْہِمْ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ تمہیں اپنے مشرک عزیز واقارب وغیرہ سے حسن سلوک، صلہ رحمی اور ان کو معروف طریقے سے انصاف کے ساتھ بدلہ دینے سے نہیں روکتا مگر اس صورت میں کہ انہوں نے دین کے معاملے میں تمہارے ساتھ جنگ کی ہو نہ تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا ہو۔ اس لیے تم پر کوئی گناہ نہیں، اگر تم ان کے ساتھ صلہ رحمی کرتے ہو کیونکہ ان حالات میں صلہ رحمی ممنوع ہے نہ ایسا کرنے میں کوئی تاوان ہی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے کافر والدین کے بارے میں ،جبکہ ان کا بیٹا مسلمان ہو، فرمایا: ﴿ وَإِن جَاهَدَاكَ عَلَىٰ أَن تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا ﴾(لقمان :31؍15)”اگر وہ تجھ پر دباؤ ڈالیں کہ تو میرے ساتھ کسی چیز کو شریک ٹھہرائے جس کے بارے میں تجھے کوئی علم نہیں تو ان کی اطاعت نہ کر، البتہ دنیا میں معروف طریقے سے ان کے ساتھ نیک سلوک کرتا رہ۔“ الممتحنة
9 ﴿اِنَّمَا یَنْہٰیکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیْنَ قٰتَلُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ﴾ ”اللہ تو تمہیں صرف ان لوگوں کی دوستی سے روکتا ہے جنہوں نے تم سے دین کے بارے میں لڑائی کی۔“ یعنی اللہ تعالیٰ کے دین اور اس کے ماننے والوں سے عداوت رکھتے ہوئے تمہارے دین کی وجہ سے ﴿وَاَخْرَجُوْکُمْ مِّنْ دِیَارِکُمْ وَظٰہَرُوْا ﴾ ”اورانہوں نے تمہیں تمہارے گھروں سے نکال دیا اور انہوں نے دوسروں کی مدد کی۔“﴿ عَلٰٓی اِخْرَاجِکُمْ ﴾”تمہیں تمہارے گھروں سے نکالنے میں ۔“اللہ تعالیٰ نے تمہیں روک دیا ﴿ اَنْ تَوَلَّوْہُمْ ﴾اس بات سے کہ قول وفعل میں تم نصرت اور مودت کے ساتھ ان سے دوستی رکھو، رہا تمہارا (اپنے مشرک رشتے داروں کے ساتھ) نیک برتاؤ اور احسان ،جو مشرکین کے ساتھ موالات کے زمرے میں نہ آتا ہو ،تو اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس سے نہیں روکا بلکہ یہ حکم اقارب وغیرہ انسانوں اور دیگر مخلوق کے ساتھ حسن سلوک کے عمومی حکم کے تحت آتا ہے۔ ﴿ وَمَن يَتَوَلَّهُمْ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ﴾ ” اور تم میں سے جولوگ ان سے دوستی کریں گے تو وہ ظالم ہیں ۔“ اوریہ ظلم موالات کےمطابق ہوگا۔اگر کسی نے پوری پوری موالات اور دوستی رکھی ہے تویہ کفر ہے جودائرہ اسلام سےخارج کردیتی ہے۔اس سے نیچے(دوستی) بہت سے مراتب ہیں جن میں بہت سخت اور بعض نرم ہیں۔ الممتحنة
10 صلح حدیبیہ میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین مکہ کے ساتھ اس شرط پر معاہدہ کیا کہ کفار میں سے جو کوئی مسلمان ہو کر مسلمانوں کے پاس آئے تو وہ مشرکین کو واپس کردیا جائے گا۔ یہ عام اور مطلق لفظ تھا جس کے عموم میں مرد اور عورت سب شامل ہیں۔ مردوں کو تو اللہ تعالیٰ نے ایفائے شرط اور معاہدہ صلح کو پورا کرنے کے لیے کفار کی طرف واپس لوٹانے سے اپنے رسول کو منع نہیں کیا، جو سب سے بڑی مصلحت تھی۔ رہی عورتیں، تو چونکہ ان کے واپس لوٹانے میں بہت سے مفاسد تھے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو حکم دیا کہ جب مومن عورتیں ہجرت کرکے ان کے پاس آئیں اور ان کو ان عورتوں کے ایمان کی صداقت میں شک ہو، تو سخت قسم وغیرہ کے ذریعے سے ان کی اچھی طرح جانچ پڑتال کرلیا کریں، تاکہ ان کی صداقت ظاہر ہوجائے ،کیونکہ اس بات کا احتمال ہوسکتا ہے کہ ان کے ایمان میں صداقت نہ ہو ،بلکہ شوہر یا شہر وغیرہ دنیاوی مقاصد کے لیے ہجرت کی ہو، اگر ان میں یہ وصف پایا جائے، تو ایفائے شرط کے لیے کسی خرابی کے حصول کے بغیر ان کا واپس کیا جانا طے شدہ ہے ۔اگر اہل ایمان نے ان کو جانچ لیا اور ان کو سچا پایا ہو یا جانچ پڑتال کے بغیر ہی اہل ایمان کو ان کے مومن ہونے کا علم ہو، تو وہ ان عورتوں کو کفار کی طرف واپس نہ بھیجیں۔ ﴿لَا ہُنَّ حِلٌّ لَّہُمْ وَلَا ہُمْ یَحِلُّوْنَ لَہُنَّ ﴾”یہ (عورتیں)ان (کافروں) کے لیے حلال ہیں نہ وہ(کافر) ان کے لیے۔“ یہ بہت بڑی خرابی ہے، جس کی شارع نے رعایت رکھی ہے ۔شارع نے ایفائے شرط کی بھی رعایت رکھی کہ ان عورتوں کے عوض میں ان کے کفار شوہروں کو وہ مہر اور اس کے توابع وغیرہ واپس لوٹا دیے جائیں جو انہوں نے ان عورتوں پر خرچ کیے ہیں۔ تب مسلمانوں کے لیے ان عورتوں کے ساتھ نکاح کرنے میں کوئی حرج نہیں، خواہ دارالشرک میں ان کے (مشرک) شوہر موجود ہوں مگر اس شرط کے ساتھ کہ وہ ان عورتوں کو مہر اور نان ونفقہ ادا کریں۔ جس طرح مسلمان عورت کافر کے لیے حلال نہیں اسی طرح اہل کتاب کے سوا کافر عورت، جب تک وہ اپنے کفر پر قائم ہے، مسلمان مرد کے لیے حلال نہیں۔ اس لیے فرمایا :﴿ وَلَا تُمْسِکُوْا بِعِصَمِ الْکَوَافِرِ﴾”اور تم کافر عورتوں کی ناموس کو قبضے میں نہ رکھو۔ “جب اللہ تعالیٰ نے کافر عورتوں کی ناموس کو قبضے میں رکھنے سے منع کیا ہے، تب ان کے ساتھ نکاح کی ابتدا تو بدرجہ اولیٰ ممنوع ہے ﴿ وَاسْـَٔــلُوْا مَآ اَنْفَقْتُمْ﴾ اے مومنو! جب تمہاری مرتد بیویاں کفار کی طرف واپس لوٹیں تو ان سے اس مال کا مطالبہ کرو جو تم نے ان پر خرچ کیا ہے۔ جب کفار اپنی ان عورتوں کو عطا کیا ہوا مہر وصول کرسکتے ہیں جو مسلمان ہوگئی ہوں، تو اس کے مقابلے میں مسلمان بھی اس مہر کو وصول کرنے کے مستحق ہیں جو ان کی مرتد بیویوں کے ساتھ کفار کے پاس گیا ہے ۔ اس آیت کریمہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ عورت کا اپنے شوہر کی زوجیت سے نکلنا قیمت رکھتا ہے ،اگر کوئی فاسد کرنے والا عورت کے نکاح کو، رضاعت یاکسی اور سبب کی بنا پر فاسد کردے تو اس کے مہر کی ضمان ہے، یعنی مہر کی ادائیگی ضروری ہے ﴿ ذٰلِکُمْ حُکْمُ اللّٰہِ ﴾ یعنی یہ فیصلہ ،جس کا اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے ،اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے جو اس نے تمہارے سامنے بیان کرکے واضح کیا ہے۔ ﴿ وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ﴾ ”اور اللہ تعالیٰ جاننے والا حکمت والا ہے۔“ لہٰذا اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ کون سے احکام تمہارے لیے درست ہیں، لہٰذا وہ اپنی حکمت اور رحمت کے مطابق اپنے احکام مشروع کرتا ہے۔ الممتحنة
11 ﴿وَاِنْ فَاتَکُمْ شَیْءٌ مِّنْ اَزْوَاجِکُمْ اِلَی الْکُفَّارِ﴾ ”اور اگر تمہاری عورتوں میں سے کوئی عورت تمہارے ہاتھ سے نکل کر کافروں کے پاس چلی جائے ۔“اس سبب سےکہ وہ مرتد ہو کر واپس چلی گئی ہو۔ ﴿ فَعَاقَبْتُمْ فَاٰتُوا الَّذِیْنَ ذَہَبَتْ اَزْوَاجُہُمْ مِّثْلَ مَآ اَنْفَقُوْا ﴾ ”تو تم (مال غنیمت میں سے) ان کو جن کی بیویاں چلی گئی ہیں اتنا مال دے دو جتنا انہوں نے خرچ کیا۔“ جیسا کہ گزشتہ سطور میں گزر چکا ہے کہ جب کفار مسلمانوں سے اس مہر کا بدل وصول کرتے تھے جو ان کی بیویوں کے پاس مسلمانوں کی طرف چلا جاتا تھا ،تو مسلمانوں میں سے کسی کی بیوی کفار کے پاس چلی جائے اور وہ اس سے محروم ہوجائے ،تو مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ غنیمت میں سے اسے اس مال کا بدل عطا کریں جو مہر کی صورت میں اس نے اپنی بیوی پر خرچ کیا تھا۔ ﴿وَاتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیْٓ اَنْتُمْ بِہٖ مُؤْمِنُوْنَ﴾ ”اور تم اللہ سے ڈرو جس پر تم ایمان رکھتے ہو۔“ یعنی اللہ تعالیٰ پر تمہارا ایمان تم سے تقاضا کرتا ہے کہ تم دائمی طور پر تقوٰی کا التزام کرو۔ الممتحنة
12 اس آیت کریمہ میں مذکورہ شرائط” عورتوں کی بیعت“ کے نام سے موسوم ہیں جو ان مشترکہ واجبا ت کی ادئیگی پر بیعت کرتی تھیں، جو تمام اوقات میں مردوں اور عورتوں پر واجب ہیں ۔رہے مرد، تو ان کے احوال ومراتب کے مطابق جو واجبات ان پر لازم آتے اور متعین ہوتے ہیں، ان میں تفاوت ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جو حکم دیتا تھا آپ اس کو بجالاتے تھے، جب عورتیں آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر بیعت کی درخواست کرتیں اور ان مذکورہ شرائط کا التزام کرتیں تو آپ ان سے بیعت لے لیا کرتے تھے۔ آپ ان کے دل جوئی کرتے اور ان امور میں اللہ تعالیٰ سے ان کے لیے بخشش طلب کرتے جن میں ان سے کوتاہی واقع ہوتی اور انہی جملہ مومنین میں ان شرائط کے ساتھ شامل کرتے کہ ﴿ لَّا یُشْرِکْنَ بِاللّٰہِ شَـیْـــــًٔــا﴾ ”وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گی۔“ بلکہ وہ اکیلے اللہ تعالیٰ کو عبادت کا مستحق سمجھیں گی﴿وَلَا یَقْتُلْنَ اَوْلَادَہُنَّ﴾ ”اور وہ اپنی اولاد کو قتل نہیں کریں گی۔“ جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں جاہل عورتوں سے اپنی بیٹیوں کو ”زندہ درگور “کرنا صادر ہوتا تھا۔ ﴿ وَلَا یَزْنِیْنَ﴾ ”اور وہ زنا نہیں کریں گی۔“ جیسا کہ غیر مردوں سے یاری دوستی رکھنے والی عورتوں میں یہ فعل کثرت سے موجود تھا ﴿وَلَا یَاْتِیْنَ بِبُہْتَانٍ یَّفْتَرِیْنَہٗ بَیْنَ اَیْدِیْہِنَّ وَاَرْجُلِہِنَّ﴾”اور کوئی ایسا بہتان نہ لگائیں گی جو خود اپنے ہاتھوں اور پیروں کے سامنے گھڑ لیں۔“ بہتان سے مراد غیر پر پر افترا پردازی ہے، یعنی وہ کسی بھی حالت میں افتراپردازی نہیں کریں گی، خواہ اس کا تعلق خود اپنے اور اپنے شوہر کے ساتھ ہو یا شوہر کے علاوہ دوسرے کے ساتھ ہو۔ ﴿وَلَا یَعْصِیْنَکَ فِیْ مَعْرُوْفٍ﴾ یعنی کسی بھی نیک کام میں، جس کا آپ حکم دیں، وہ آپ کی نافرمانی نہیں کریں گی کیونکہ آپ کا حکم معروف کےمطابق (نیک) ہی ہوگا۔ اس میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ نوحہ کرنے، گریبان چاک کرنے، چہرہ نوچنے اور جاہلیت کی آواز نکالنے کی ممانعت میں آپ کی اطاعت کریں گی۔ ﴿ فَبَايِعْهُنَّ ﴾ جب وہ مذکورہ احکام کی تعمیل کا التزام کریں تو ان سے بیعت لیجئے ﴿ وَاسْتَغْفِرْ لَہُنَّ اللّٰہَ ﴾ اور ان کی دل جمعی کے لیے، ان کی تقصیر کی اللہ تعالیٰ سے بخشش طلب کیجئے۔ ﴿اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ ﴾ یعنی وہ نافرمانوں کو بہت کثرت سے بخشنے والا اور گناہ گار تائبین پر احسان کرنے والا ہے۔ ﴿ رَّحِیْمٌ ﴾اس کی رحمت ہر چیز پر سایہ کناں اور اس کا احسان تمام مخلوقات کو شامل ہے۔ الممتحنة
13 یعنی اے مومنو! اگر تم اپنے رب پر ایمان رکھتے ہو، اس کی رضا کی اتباع کرتے ہو اور اس کی ناراضی سے دور رہتے ہو تو ﴿لَا تَتَوَلَّوْا قَوْمًا غَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ﴾ ”ان لوگوں سے دوستی نہ کرو جن پر اللہ ناراض ہوا ہے۔“اور اللہ تعالیٰ محض ان کے کفر کی وجہ سے ان پر ناراض ہے اور یہ کفر کی تمام اصناف کو شامل ہے۔ ﴿قَدْ یَیِٕسُوْا مِنَ الْاٰخِرَۃِ﴾ ”وہ آخرت سے اس طرح مایوس ہوچکے ہیں۔“یعنی انہیں آخرت کی بھلائی سے محروم کردیا گیا، اس لیے آخرت میں ان کے لیے کوئی حصہ نہ ہوگا۔ اس لیے تم ان کو دوست بنانے سے بچو ورنہ تم بھی ان کے شراور شرک کی موافقت کرنے لگو گے اور اس طرح تم بھی آخرت کی بھلائی سے محروم ہوجاؤ گے جیسے وہ محرم ہوگئے۔ ﴿کَمَا یَیِٕسَ الْکُفَّارُ مِنْ اَصْحٰبِ الْقُبُوْرِ﴾ ”جس طرح کافروں کو مردوں (کے جی اٹھنے )کی امید نہیں۔“ یعنی جب وہ آخرت کے گھر کو جائیں گے وہاں حقیقت امر کا مشاہدہ کریں گے اور انہیں علم الیقین حاصل ہوگا کہ آخرت میں ان کے لیے کوئی حصہ نہیں۔ اس معنی کااحتمال بھی ہے کہ وہ آخرت سے مایوس ہوگئے ہیں ،یعنی انہوں نے آخرت کا انکار اور اس کے ساتھ کفر کیا ہے۔ تب ان سے یہ بات بعید نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ناراضی کے کاموں اور اس کے عذاب کے موجبات کا اقدام کریں اور ان کا آخرت سے مایوس ہونا ایسے ہی ہے جیسے قیامت کا انکار کرنے والے کفار ،دنیا میں اصحاب قبور کے اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹنے سے مایوس ہیں۔ الممتحنة
0 الصف
1 یہ اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اس کے غلبے کا بیان ہے، نیز اس حقیقت کا بیان ہے کہ تمام اشیا ء اس کے سامنے سرافگندہ ہیں اور آسمانوں اور زمین کے تمام رہنے والے اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح بیان کرتے ہیں ،اس کی عبادت کرتے ہیں اور اس سے اپنی حوائج طلب کرتے ہیں۔ ﴿ وَہُوَ الْعَزِیْزُ﴾ ”اور وہ غالب ہے۔“ یعنی اپنے غلبے اور تسلط کے ذریعے سے تمام اشیاء پر قاہر ہے۔ ﴿الْحَکِیْمُ﴾ وہ پنے خلق وامر میں حکمت والا ہے۔ الصف
2 ﴿یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ﴾ اے ایمان والو!تم نیکی کی باتیں کیوں کرتے ہو اور کیوں لوگوں کو اس کی ترغیب دیتے ہو، بسا اوقات اس پر تمہاری تعریف بھی کی جاتی ہے اور حال تمہارا یہ ہے کہ تم خود اس پر عمل پیرا نہیں ہوتے ؟تم لوگوں کو بدی سے روکتے ہو اور بسا اوقات تم خود اپنے آپ کو اس سے پاک قرار دیتے ہو،حالانکہ تم اس بدی میں ملوث اور اس سے متصف ہو؟ کیا یہ مذموم حالت مومنوں کے لائق ہے یا یہ اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے بڑی ناراضی کی بات ہے کہ بندہ ایسی بات کہے جس پر خود عمل نہ کرتا ہو؟ اس لیے نیکی کا حکم دینے والے کے لیے مناسب یہی ہے کہ لوگوں میں سب سے پہلے اس نیکی کی طرف سبقت کرنے والا ہو اور بدی سے روکنے والا لوگوں میں سے سب سے زیادہ اسی بدی سے دور ہو۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿ أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنسَوْنَ أَنفُسَكُمْ وَأَنتُمْ تَتْلُونَ الْكِتَابَ أَفَلَا تَعْقِلُونَ ﴾(البقرۃ:2؍44)”کیا تم لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور خود اپنے آپ کو بھول جاتے ہو باوجودیکہ تم کتاب پڑھتے ہو، کیا تم میں اتنی بھی سمجھ نہیں؟“ حضرت شعیب علیہ السلام نے فرمایا: ﴿ وَمَا أُرِيدُ أَنْ أُخَالِفَكُمْ إِلَىٰ مَا أَنْهَاكُمْ عَنْهُ ﴾(ہود:11؍88) ”اور میں نہیں چاہتا کہ جس کام سے میں تمہیں منع کرتا ہوں ،اسے خود کرنے لگوں۔“ الصف
3 الصف
4 یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندوں کو جہاد فی سبیل اللہ کی ترغیب اور اس بات کی تعلیم ہے کہ انہیں جہاد میں کیا کرنا چاہیے ؟ان کے لیے مناسب ہے کہ وہ جہاد میں ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہو کر صف بندی کریں اور صفوں میں کوئی خلل واقع نہ ہو، صفیں ایک نظم اور ترتیب کے مطابق ہوں ،جس سے مجاہدین کے مابین مساوات اور ایک دوسرے کے لیے قوت اور دشمن پر رعب طاری ہوتا ہوا اور اس سے مجاہدین میں ایک دوسرے کے لیے نشاط پیدا ہوتا ہو بنابریں جب لڑائی کا وقت آجاتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود اپنے اصحاب کرام کی صف بندی کرتے اور ان کو ان کی اپنی اپنی جگہوں پر اس طرح ترتیب دیتے جہاں وہ ایک ودسرے پر بھروسا نہ کریں بلکہ ہر دستہ اپنے مرکز کے ساتھ رابطے کا اہتمام رکھے اور اپنی ذمہ داری کو پورا کرے ،اسی طریق کار سے کام پایہ اتمام کو پہنچتا اور کمال حاصل ہوتا ہے۔ الصف
5 ﴿وَاِذْ قَالَ مُوْسٰی لِقَوْمِہٖ﴾ ”اور (یاد کرو) جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا۔“ یعنی ان کے کرتوت پر زجر وتوبیخ کرتے ہوئے اور انہیں آپ کو اللہ کارسول سمجھنے کے باوجود اذیت پہنچانے سے باز رکھتے ہوئے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا :﴿لِمَ تُؤْذُوْنَنِیْ ﴾ اپنے اقوال وافعال کے ذریعے تم مجھے کیوں اذیت دیتے ہو ؟ ﴿وَقَدْ تَّعْلَمُوْنَ اَنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ ﴾”اور تم جانتے ہو کہ میں تمہاری طرف اللہ کا بھیجا ہوارسول ہوں۔“ رسول کا اکرام وتعظیم ،اس کے احکاماتت کی تعمیل اور اس کے فیصلے کو قبول کرنا رسول کا حق ہے۔ رہا رسول کو اذیت دینا جس کا مخلوق پر اللہ تعالیٰ کے احسان کے بعد سب سے بڑا احسان ہے ،تو یہ سب سے بڑی بے شرمی، جسارت اور صراط مستقیم سے انحراف ہے جسے جان بوجھ کر انہوں نے ترک کردیا ۔اس لیے فرمایا :﴿ فَلَمَّا زَاغُوْٓا ﴾”پس جب انہوں نے کج روی کی“۔ یعنی اپنے ارادے سے حق سے پھر گئے ﴿ اَزَاغَ اللّٰہُ قُلُوْبَہُمْ ﴾ ”تو اللہ نے بھی ان کے دل ٹیڑھے کردیے۔“ یعنی ان کی کجی روی کی سزا کے طور پر جسے انہوں نے اپنے لیے خود چنا اور اس راضی ہوئے، اللہ نے ان کو ہدایت کی توفیق نہ دی اور وہ شر کے سوا کسی چیز کے قابل نہ تھے۔ ﴿وَاللّٰہُ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ﴾ ”اور اللہ فاسق ونافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ “یعنی وہ لوگ کہ فسق جن کا وصف ہے اور وہ ہدایت کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ اس آیت کریمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں کو گمراہ کرنا اس کا ظلم نہیں اور نہ بندوں کی اس پر کوئی حجت ہے، بلکہ اس گمراہی کا سبب وہ خود ہیں کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کو پہچان لینے کے بعد اپنے آپ پر ہدایت کے دروازے خود بند کرلیے تو اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے بدلے کے طور پر سزا دیتے ہوئے اور اپنے عدل کی بنا پر ان کو گمراہی اور کجروی میں مبتلا کرتے ہوئے ان کے دلوں کو بدل ڈالتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿ وَنُقَلِّبُ أَفْئِدَتَهُمْ وَأَبْصَارَهُمْ كَمَا لَمْ يُؤْمِنُوا بِهِ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَنَذَرُهُمْ فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ﴾( الانعام :6؍110) ”اور ہم ان کے دلوں اور ان کی نگاہوں کو بدل ڈالتے ہیں جیسا کہ یہ لوگ اس پر پہلی مرتبہ ایمان نہیں لائے اور ہم ان کو ان کی سرکشی میں سرگرداں چھوڑ دیتے ہیں۔“ الصف
6 اللہ تبارک وتعالیٰ متقدمین بنی اسرائیل کے عناد کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے ،جن کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے دعوت دی اور فرمایا:﴿یٰبَنِیْٓ اِسْرَاءِیْلَ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ﴾ یعنی اے بنی اسرائیل! مجھے اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے تاکہ میں تمہیں بھلائی کی طرف بلاؤں اور برائی سے روکوں، اللہ تعالیٰ نے ظاہری دلائل وبراہین کے ذریعے سے میری تائید فرمائی ہے جو میرے صداقت پر دلالت کرتی ہیں، نیز اس بات پر دلالت کرتی ہیں ﴿مُّصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرٰیۃِ﴾ کہ میں اپنے سے پہلے آنے والی کتاب تورات کی تصدیق کرنے والا ہوں، یعنی میں وہی کچھ لیے کر آیا ہوں جو موسیٰ علیہ السلام تورات اور آسمانی شریعت میں سےلے کر آئے تھے۔ اگر میں نبوت کا ایسا مدعی ہوتا ،جو اپنے دعوائے نبوت میں سچا نہ ہوتا ،تو میں ایسی چیز لاتا جسے انبیا ءومرسلین لے کر نہیں آئے۔ میرا اپنے سے پہلے آنے والی کتاب تورات کی تصدیق کرنا اس بات کی بھی دلیل ہے کہ تورات نے میری بعثت کی خبر اور میرے آنے کی خوش خبری دی ہے اور مجھے تورات کی تصدیق کرنے والا بنا کربھیجا گیا ہے۔ ﴿وَمُبَشِّرًا بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْ بَعْدِی اسْمُہٗٓ اَحْمَدُ﴾ ”اور ایک رسول کی بشارت دینے والا ہوں، جو میرے بعد آئیں گے، جن کا نام احمد ہوگا۔“ اور وہ ہیں محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب الہاشمی صلی اللہ علیہ وسلم پس حضرت عیسیٰ علیہ السلام تمام انبیائے کرام کی طرح سابق گزرے ہوئے نبی کی تصدیق اور بعد میں آنے والے نبی کی بشارت دیتے ہیں ،بخلاف نبوت کے جھوٹے دعوےداروں کے ،جو انبیا ءومرسلین سے سخت منافقت رکھتے ہیں اور اوصاف واخلاق اور امروانہی میں ان کے خلاف ہوتے ہیں۔ ﴿ فَلَمَّا جَاءَہُمْ﴾ پھر جب ان کے پاس محمدصلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہو کر تشریف لے آئے جن کو عیسیٰ علیہ السلام نے بشارت دی تھی ﴿بِالْبَيِّنَاتِ ﴾ واضح دلائل کے ساتھ ،جو اس حقیقت پر دلالت کرتے ہیں کہ آپ ہی وہ ہستی ہیں جن کی بشارت دی گئی ہے اور آپ اللہ تعالیٰ کے برحق رسول ہیں ﴿قَالُوا﴾ تو انہوں نے حق سے عناد رکھتے اور جھٹلاتے ہوئے کہا: ﴿ہٰذَا سِحْــرٌ مُّبِیْنٌ﴾ ”یہ صریح جادو ہے۔ “یہ عجیب ترین بات ہے کہ وہ رسول جس نے اپنی رسالت کو پوری طرح واضح کردیا ہے اور وہ آفتاب نصف النہار سے زیادہ نمایاں ہوگئی ہے، تو اسے جادوگر قرار دیا جائے کہ جس کا جادو واضح ہے ،تو اس سے بڑھ کر کوئی اور خذلان ہے؟ اور اس افترا پردازی سے زیادہ بلیغ کوئی اور افترپردازی ہے؟ جس نے اس حقیقت کی نفی کردی جو آپ کی رسالت سے معلوم ہے اور اس چیز کا اثبات کردیا جس سے آپ لوگوں میں سے سب سے زیادہ دور ہیں۔ الصف
7 ﴿وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ﴾ ”اور اس سے زیادہ ظالم کون ہے جو اللہ پر جھوٹ باندھے۔ “جو یہ بہتان طرازی یا اس کے علاوہ بہتان طرازی کرتا ہے ،حالانکہ اس کے پاس کوئی عذر نہیں اور اس کی حجت منقطع ہوگئی کیونکہ ﴿ یُدْعٰٓی اِلَی الْاِسْلَامِ ﴾ ”وہ اسلام کی طرف بلایا جاتا ہے۔“ اور اس پر اسلام کے دلائل وبراہین واضح ہوگئے ہیں ﴿وَاللّٰـهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ﴾” اور اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔“جو اپنے ظلم پر قائم ہیں جنہیں کوئی نصیحت اپنے ظلم سے باز رکھ سکتی ہے نہ کوئی دلیل وبرہان اس سے ہٹا سکتی ہے، خاص طور پر یہ ظالم لوگ جو حق کے مقابلے میں کھڑے ہوئے ہیں تاکہ اسے ٹھکرا دیں اور باطل کی مدد کریں۔ الصف
8 اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں فرمایا: ﴿یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِــــُٔـوْا نُوْرَ اللّٰہِ بِاَفْوَاہِہِمْ ﴾ ”وہ اپنے مونہوں سے اللہ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں ۔“یعنی ان کی ان فاسد باتوں کی، جو ان سے صادر ہوتی ہیں اور جس کے ذریعے سے وہ حق کو ٹھکرانے کی کوشش کرتے ہیں، کوئی حقیقت نہیں ،بلکہ یہ اس باطل کے بارے میں صاحب بصیرت کی بصیرت میں اضافہ کرتی ہیں جن میں وہ سرگرداں ہیں ﴿ وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ﴾ ”اور اللہ تعالیٰ اپنے نور کو کمال تک پہنچانے والا ہے گو کافر برا مانیں۔ “یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کی نصرت، حق کی تکمیل جس کے ساتھ اس نے اپنے رسول بھیجے اور تمام دنیا میں اپنے نور کو ظاہر کرنے کا ذمہ لیا ہے، خواہ کافروں کو یہ بات ناگواری ہی کیوں نہ گزرے اور اس ناگواری کے سبب سے وہ اپنی پوری کوشش کرلیں جس پر وہ قدرت رکھتے ہوں اور جس کو وہ اللہ تعالیٰ کے نور کو بجھانے کا وسیلہ بنا سکتے ہوں ،پس وہ مغلوب ہی ہوں گے ۔ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو سورج کی روشنی کو بجھانے کے لیے اپنے منہ سے پھونکیں مارے، چنانچہ انہوں نے اپنی مراد پائی نہ ان کی عقل نقص اور جرح وقدح سے سلامت ہے۔ الصف
9 پھر اللہ تبارک وتعالیٰ نے دین اسلام کے حسی اور معنوی غلبے اور فتح و نصرت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا :﴿ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی﴾ ”وہی ہے جس نے اپنا رسول ہدایت کے ساتھ بھیجا۔“ یعنی اس نے اپنا رسول علم نافع اور عمل صالح کے ساتھ مبعوث کیا۔ علم سے مراد وہ علم ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے تکریم والے گھر کی طرف راہنمائی کرتا ہے، جو بہترین اعمال واخلاق سکھاتا ہے اور جو دنیا وآخرت کے تمام مصالح کی طرف راہ نمائی کرتا ہے۔ ﴿ وَدِیْنِ الْحَقِّ﴾”اور دین حق کے ساتھ۔“ یعنی وہ دین جسے اختیار کیا جاتا ہے، جس کے ذریعے سے رب کائنات کی بندگی کی جاتی ہے ،جو سراسر حق اور صدق ہے ،جس میں کوئی نقص ہے نہ اسے کوئی خلل لاحق ہے، جس کے اوامر قلب وروح کی غذا اور جسم کی راحت ہیں اور اس کے نواہی کو ترک کرنا شر اور فساد سے سلامتی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جس ہدایت اور دین حق کے ساتھ مبعوث کیا گیا ہے وہ آپ کی صداقت کی سب سے بڑی دلیل اور برہان ہے اور جب تک دنیاباقی ہے یہ دلیل باقی رہے گی ،خرد مند جتنا زیادہ اس میں غوروفکر کرے گا اتنی ہی اسے فرحت وبصیرت حاصل ہوگی ۔﴿ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ ﴾ تاکہ وہ اس دین کو حجت اور دلیل کے ذریعے سے تمام ادیان پر اور اہل دین کو، جو اس پر قائم ہیں، شمشیر وسناں کے ذریعے سے (باطل قوتوں پر )غالب کردے۔ رہا دین ،تو یہ غلبہ ہر زمانے میں اس کا وصف لازم رہا ہے ،چنانچہ کوئی غالب آنے کی کوشش کرنے والا اس پر غالب آسکتا ہے نہ جھگڑنے والا اس کو زیر کرسکتا ہے۔ دین ہمیشہ فتح مند ہی رہے گا، اسی کو فوقیت اور غلبہ حاصل رہے گا۔ رہے وہ لوگ جو دین اسلام سے انتساب رکھتے ہیں تو جب وہ اس دین کو قائم کریں گے، اس کے نور سے روشنی حاصل کریں، اپنے دینی اور دنیاوی مصالح میں اس کے لائحہ عمل کوراہ نمابنائیں ،تو اس طرح کوئی ان کا مقابلہ نہیں کرسکتا اور ان کا تمام اہل ادیان پر غالب آنا لازمی ہے اور اگر وہ اس دین کو ضائع کردیں اور اس کے ساتھ مجردا نتساب ہی کو کافی سمجھیں ،تو دین ان کو کوئی فائدہ نہیں دے گا اور ان کا دین کو چھوڑ دینا ان پر دشمن کے تسلط کا سبب بنے گا۔ قرون اولیٰ کے مسلمانوں اور متاخرین کے احوال کے اسقراء اور ان میں غوروفکر کے ذریعے سے اس حقیقت کی معرفت حاصل کی جاسکتی ہے۔ الصف
10 یہ ارحم الراحمین کی طرف سے اپنے بندوں کے لیے سب سے بڑی تجارت، جلیل ترین مطلوب اور بلند ترین مرغوب کی طرف راہنمائی، دلالت اور وصیت ہے ،جس کے ذریعے سے المناک عذاب سے نجات اور ہمیشہ رہنے والی نعمت کے حصول میں کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے اور اس کو اللہ تعالیٰ نے اس طریقے سے پیش کیا ہے جو اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ یہ ایک ایسا معاملہ ہے کہ بصارت والا ہر شخص اس میں رغبت رکھتا ہے اور ہر عقل مند اس کی طرف مائل ہوتا ہے ۔گویا کہا گیا ہے کہ وہ کون سی تجارت ہے جس کی یہ قدر ہے؟ الصف
11 پس فرمایا ﴿تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ﴾ ”تم اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ۔ “اور یہ چیز معلوم ہے کہ ایمان کامل ان امور کی تصدیق جازم کا نام ہے جن کی تصدیق کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے، جو اعمال جوارح کو مستلزم ہے، جن میں جلیل ترین عمل جہاد فی سبیل اللہ ہے ۔بنا بریں فرمایا :﴿وَتُجَاہِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِاَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ ﴾ ا”ور اللہ کی راہ میں اپنے مال اور اپنی جانوں سے جہاد کرو۔ “وہ اس طرح کہ تم اپنے نفوس اور جانوں کو دشمنان اسلام کے مقابلے میں خرچ کرو اور اس کا مقصد اللہ تعالیٰ کے دین اور اس کے کلمے کی سربلندی ہو ،اس مطلوب ومقصود کے حصول میں جو مال تمہیں میسر ہے اسے خرچ کرو۔ اگرچہ یہ نفوس کے لیے ناگوار اور ان پر شاق گزرتا ہے مگر یہ ﴿ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ﴾”تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانتے ہو۔“ کیونکہ اس میں دنیاوی بھلائی ہے، یعنی دشمنان اسلام پر فتح ونصرت ہے اور عزت ہے جو ذلت کے منافی ہے وسیع رزق اور انشراح صدر اور اس کی کشادگی ہے۔ الصف
12 اس میں اخروی بھلائی بھی ہے، یعنی اللہ کے ثواب کے حصول اور اس کی سزا سے نجات کے حصول میں کامیابی، چنانچہ فرمایا :﴿یَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ﴾ ”اللہ تعالیٰ تمہارے گناہ معاف فرمادے گا ۔“اور یہ تمام صغیرہ اور کبیرہ گناہوں کو شامل ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ پر ایمان اور جہاد تمام گناہوں کو مٹا دیتے ہیں خواہ کبیر ہی کیوں نہ ہوں۔ ﴿وَیُدْخِلْکُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ﴾ ”اور وہ تمہیں ان جنتوں میں پہنچائے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی ۔“یعنی اس کے مساکن، اس کے محلات ،اس کے بالاخانوں اور اس کے درختوں کے نیچے ایسے پانی کی نہریں بہہ رہی ہوں گی جس میں بونہ ہوگی ،ایسے دودھ کی نہریں جاری ہوں گی جس کا ذائقہ متغیر نہ ہوگا ،ایسی شراب کی نہریں ہوں گی جو پینے والوں کو لذت دے گی اور خالص شہد کی نہریں ہوں گی اور جنت کے اندر ان کے لیے ہر قسم کے پھل ہوں گے۔ ﴿وَمَسٰکِنَ طَیِّبَۃً فِیْ جَنّٰتِ عَدْنٍ﴾ یعنی جنت میں ہر اچھی چیز جمع ہوگی ،بلندی، ارتفاع، عمارتوں کی خوبصورتی اور سجاوٹ، حتی کہ اہل علیین کو دیگر اہل جنت اس طرح دیکھیں گے جیسے مشرقی یا مغربی افق میں چمک دار ستاہ دیکھا جاتا ہے حتی کہ جنت کی( عمارتوں کی )تعمیر کی کچھ اینٹیں سونے کی ہوں گی کچھ چاندی کی ،اس کے خیموں میں موتی اور مرجان جڑے ہوئے ہوں گے ،جنت کے بعض گھر زمرد اور بہترین رنگوں کے جواہرات کے بنے ہوئے ہوں گے ،حتی کہ ان کے صاف وشفاف ہونے کی وجہ سے ان کے اندر سے بیرونی اور باہر سے اندرونی حصہ صاف نظر آئے گا ۔جنت کے اندر خوشبو اور ایسا حسن سلوک ہوگا کہ وصف بیان کرنے والے اس کا وصف بیان کرسکتے ہیں نہ اس کا تصور دنیا میں کسی شخص کے دل میں آیا ہے ۔ان کے لیے ممکن نہیں کہ اسے پاسکیں جب تک کہ اسے دیکھ نہ لیں ،وہ اس کے حسن سے متمتع ہوں گے اور اس سے اپنی آنکھیں ٹھنڈی کریں گے۔ اس حالت میں اگر اللہ تعالیٰ نے اہل جنت کو کامل زندگی عطا نہ کی ہوتی ،جو موت کو قبول نہیں کرتی ،تو ہوسکتا ہے وہ خوشی سے مرجاتے ،البتہ پاک ہے وہ ذات کہ اس کی مخلوق میں سے کوئی ہستی اس کی ثنا بیان نہیں کرسکتی بلکہ وہ ایسے ہی ہے جیسے اس نے خود اپنی ثنا بیان کی ہے، وہ اس حمد وثنا سے بہت بڑھ کر ہے جو اس کی مخلوق میں سے کوئی بیان کرتا ہے۔ بہت بابرکت ہے ،وہ جلیل وجمیل ہستی جس نے نعمتوں کے گھر جنت کو تخلیق فرمایا، اس کو ایسا جلال وجمال عطا کیا جو مخلوق کی عقلوں کو مبہوت اور ان کے دلوں کو جکڑ لیتا ہے ۔بالا وبرتر ہے وہ ذات جو کامل حکمت کی مالک ہے ۔یہ اس کی حکمت ہی ہے کہ اگر بندے جنت اور اس کی نعمتوں کو دیکھ لیں ،تو اس کو حاصل کرنے سے کوئی پیچھے نہ رہے اور انہیں دنیا کی ناخوشگوار اور مکدر زندگی کبھی اچھی نہ لگتی ،جس کی نعمتوں میں درد الم اور جس کی فرحتوں میں رنج وغم کی ملاوٹ ہے۔ اس کو (جنت عدن )اس لیے کہا گیا ہے کہ اہل جنت اس میں ہمیشہ مقیم رہیں گے اور اس سے کبھی نکلیں گے نہ اس سے منتقل ہونا چاہیں ۔گے یہ ثواب جزیل اور اجر جمیل ہی درحقیقت بہت بڑی کامیابی ہے کہ اس جیسی کوئی اور کامیابی نہیں یہ ہے اخروی ثواب۔ رہا اس تجارت کا دنیوی اجر وثواب، تو اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنے اس ارشاد میں ذکر فرمایا ہے: ﴿وَّاُخْرٰی تُحِبُّوْنَہَا ﴾ یعنی تمہیں ایک اور چیز حاصل ہوگی جسے تم پسند کرتے ہو اور وہ ہے ﴿نَصْرٌ مِّنَ اللّٰـهِ﴾ دشمن پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ فتح ونصرت جس سے عزت وفرحت حاصل ہوتی ہے ﴿وَفَتْحٌ قَرِيبٌ ﴾ ”اور جلد فتح یابی۔“ جس سے اسلام کا دائرہ وسیع ہوگا اور وسیع رزق حاصل ہوگا ،یہ مومن مجاہدوں کی جزا ہے۔ رہے وہ مومنین جو جہاد نہیں کررہے۔ جب ان کے علاوہ دوسرے لوگ فریضہ جہادادا کررہے ہوں تو اللہ تعالیٰ نے جہاد میں شریک نہ ہونے والے مومنوں کو بھی اپنے فضل واحسان سے مایوس نہیں کیابلکہ فرمایا :﴿وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ﴾ یعنی مومنوں کو دنیاوی اور اخروی ثواب کی بشارت دے دو، اگرچہ وہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرنے والوں کے درجے کو تو نہیں پہنچ سکتے تاہم ہر شخص کو اس کے ایمان کے مطابق ثواب ملے گا جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :”بلاشبہ جنت میں سودرجات ہیں اور ہر دو درجوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا زمین و آسمان کے درمیان ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے راستے میں جہاد کرنے والوں کے لیے تیار کیا ہے۔“(صحیح البخاری‘الجھاد والسیر‘باب درجات المجاھدین فی سبیل الله‘حدیث:2790 ) الصف
13 الصف
14 پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا :﴿یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْٓا اَنْصَارَ اللّٰہِ﴾”اے ایمان والو! تم اپنے (اقوال وافعال کے ذریعے سے )اللہ کے مددگار بن جاؤ ۔“اور یہ اس طرح ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دین کو قائم کیا جائے ،دوسروں پر اس کے نفاذ کی خواہش رکھی جائے اور جو کوئی دین سے عناد رکھے اور اس کے خلاف جان ومال کے ذریعے سے جنگ کرے اور جو شخص باطل کی اس چیز کے ذریعے سے مدد کرے جس کو اپنے زعم میں علم سمجھتا ہے، حق کی دلیل کا ابطال کرکے، اس پر حجت قائم کرکے اور لوگوں کو اس سے ڈرا کر اس کو ٹھکرائے، تو اس کے خلاف جہاد کیا جائے ۔کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم حاصل کرنا، اس کی ترغیب دینا، نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا ،اللہ کے دین کی مدد کے زمرے میں آتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو ان نیک لوگوں کی پیروی کرنے پر ابھارا جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں، فرمایا :﴿کَمَا قَالَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ لِلْحَوَارِیّٖنَ مَنْ اَنْصَارِیْٓ اِلَی اللّٰہِ ﴾ عیسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے حواریوں کو تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا تھا:”کون ہے جو میری معاونت کرے، اللہ تعالیٰ کے دین کی مدد کے لیے کون ہے جو میرا ساتھ دے ،کون ہے وہ جو اس جگہ داخل ہو جہاں میں داخل ہوں اور کون ہے وہ جو اس جگہ سے نکلے جہاں سے میں نکلوں؟“ حواری آگے بڑھے اور کہنے لگے: ﴿نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰہِ﴾ ”ہم اللہ کے مددگار ہیں۔“ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور آپ کے ساتھ جو حواری تھے، سب نصرت دین کی راہ پر چل پڑے ﴿ فَاٰمَنَتْ طَّایِٕفَۃٌ مِّنْ بَنِیْٓ اِسْرَاءِیْلَ﴾ چنانچہ حضرت عیسیٰ اور آپ کے حواریوں کی دعوت کا سبب سے بنی اسرائیل میں سے ایک گروہ ایمان لے آیا ﴿ وَکَفَرَتْ طَّایِٕفَۃٌ ﴾ ور ان میں سے ایک گروہ نے انکار کردیا اور ان کی دعوت کے سامنے سرتسلیم خم نہ کیا، پس اہل ایمان نے کفار کے ساتھ جہاد کیا ۔﴿ فَاَیَّدْنَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلٰی عَدُوِّہِمْ﴾ یعنی ہم نے اہل ایمان کو ان کے دشمنوں کے مقابلے میں بخشی، ان کو دشمنوں پر فتح ونصرت سے بہرہ مند کیا ﴿ فَاَصْبَحُوْا ظٰہِرِیْنَ﴾ تو وہ ان پر غالب آگئے ۔لہٰذا اے امت محمد !تم بھی اللہ تعالیٰ کے مددگار، اس کے دین کی دعوت دینے والے بن جاؤ، اللہ تعالیٰ تمہاری مدد کرے گا جس طرح اس نے پہلے لوگوں کی مدد کی تھی اور تمہیں تمہارے دشمن پر غالب کرے گا۔ الصف
0 الجمعة
1 یعنی جو کچھ آسمانون میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے ،سب اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتے ہیں ،اس کے حکم کی اطاعت کرتے ہیں ،اس کو معبود مانتے ہیں اور اس کی عبادت کرتے ہیں کیونکہ وہ بادشاہ کامل ہے جس کی عالم علوی اور عالم سفلی پر بادشاہی ہے اور تمام مخلوق اس کی مملوک اور اس کی تدبیر کے تحت ہے۔ ﴿ الْقُدُّوْسِ﴾ عظمت والا، ہر نقص اور ہر آفت سے پاک ہے ﴿الْعَزِیْزِ﴾ تمام اشیا پر غالب ہے۔ ﴿الْحَکِـیْمِ﴾ وہ اپنی تخلیق وامر میں حکمت والا ہے۔ یہ عظیم اوصاف اکیلے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی دعوت دیتے ہیں جس کا کوئی شریک نہیں۔ الجمعة
2 (اُمّییّن) سے مراد عرب وغیرہ کے وہ لوگ ہیں جن کے پاس کوئی (آسمانی )کتاب ہے نہ رسالت کے آثار اور وہ اہل کتاب میں شمار نہیں ہوتے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان پر دوسروں کی نسبت بہت بڑا احسان فرمایا کیونکہ وہ علم اور بھلائی سے بے بہرہ تھے، اس سے پہلے وہ کھلی گمراہی میں مبتلا تھے، شجر وحجر اور بتوں کی پوجا کرتے تھے، شکاری درندوں کے سے اخلاق رکھتے تھے ،طاقت ور کمزور کو کھا جاتا تھا اور وہ انبیائے کرام علیہم السلام کے علوم سے بالکل جاہل تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کے اندر انہی میں سے ایک رسول مبعوث کیا جس کے نسب ،اوصاف جمیلہ اور صداقت کو وہ خوب جانتے تھے ۔اللہ تعالیٰ نے اس رسول پر کتاب نازل کی ﴿ یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ اٰیٰتِہٖ﴾ وہ ان پر اللہ تعالیٰ کی آیات قاطعہ کی تلاوت کرتا تھا جو ایمان ویقین کی موجب ہیں ﴿وَيُزَكِّيهِمْ﴾ اور اخلاق فاضلہ کی تعلیم اور ان کی ترغیب کے ذریعے سے ان کو پاک کرتا تھا اور اخلاق رذیلہ سے ان کو روکتا تھا۔ ﴿وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ ۤ﴾ اور ان کو کتاب وسنت کا علم سکھاتا تھا جو اولین وآخرین کے علم پر مشتمل تھا ،چنانچہ تعلیم وتزکیہ کے بعد وہ مخلوق میں سب سے زیادہ عالم بلکہ علم ودین کے امام ہوگئے وہ سب سے زیادہ کامل اخلاق کے مالک اور لائحہ عمل کے اعتبار سے سب سے اچھے بن گئے ۔انہوں نے خود بھی راہ راست اختیار کی اور دوسروں کو بھی اس پر گامزن کیا، لہذا اس طرح وہ ہدایت یافتہ لوگوں کے امام اور اہل تقوٰی کے قائد بن گئے ۔اللہ تعالیٰ نے اس رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں مبعوث فرماکر ان کو کامل ترین نعمت اور جلیل ترین عطیے سے نوازا۔ الجمعة
3 ﴿وَّاٰخَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِہِمْ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کے علاوہ اہل کتاب میں سے دیگر لوگوں پر بھی احسان فرمایا جو ابھی ایمان نہیں لائے تھے ،یعنی ان لوگوں میں جن تک رسول اللہ کی دعوت پہنچی تھی ۔اس میں اس معنی کا احتمال بھی ہے کہ وہ فضیلت میں ابھی ان تک نہیں پہنچ سکے اور یہ بھی مراد ہوسکتی ہے کہ وہ ان کا زمانہ نہیں پاسکے، بہر حال دونوں احتمالات کے مطابق دونوں معنی صحیح ہیں ۔بلاشبہ وہ لوگ جن کے اندر اللہ تعالیٰ نے اپنا رسول مبعوث کیا ،جنہوں نے اسے دیکھا اور اس کی دعوت کا ساتھ دیا ،ان کو ایسے خصائل اور فضائل حاصل ہیں ،کسی کے لیے ممکن نہیں کہ وہ ان خصائص اور فضائل میں ان تک پہنچ سکے۔ یہ اس کا غلبہ اور حکمت ہے کہ اس نے اپنے بندوں کو مہمل اور بے کار نہیں چھوڑا ،بلکہ ان میں رسول مبعوث فرمائے ،ان کو امر ونہی کا مکلف بنایا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل ہے اور وہ اپنے بندوں میں سے جن کو چاہتا ہے اس فضل سے بہرہ مند کرتا ہے ،ان پر یہ نعمت بدنی عافیت اور رزق کی کشادگی جیسی دنیاوی نعمتوں سے افضل ہے ۔پس دین کی نعمت سے بڑی کوئی نعمت نہیں ،دین کی نعمت فوز وفلاح اور ابدی سعادت کی روح ہے۔ الجمعة
4 الجمعة
5 جب اللہ تعالیٰ نے اس امت پر اپنے احسانات کا ذکر فرمایا جن کے اندر اپنا نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث فرمایا ۔تو ان کے ایسے خصوصی مناقب کا ذکر کیا جن میں کوئی شخص ان تک نہیں پہنچ سکا ،اس سے مراد نبی امی کی امت کے لوگ ہیں، جو اولین وآخرین پر فوقیت لے گئے ، حتی کہ اہل کتاب پر بھی فوقیت لے گئے جو اپنے آپ کو علمائے ربانی اور احبار متقدمین سمجھتے تھے۔ ۔۔۔تو یہ بھی ذکر فرمایا کہ یہودونصارٰی میں سے وہ لوگ جن پر تورات کی ذمہ داری ڈالی گئی تھی اور ان کو حکم تھا کہ وہ تورات کی تعلیم حاصل کریں اور اس پر عمل کریں، انہوں نے اس ذمہ داری کو اٹھایا نہ پورا کیا تو ان کے لیے کوئی فضیلت نہیں اور ان کی مثال اس گدھے کی سی ہے جس کی پیٹھ پر علمی کتابوں کا بوجھ لاد دیا گیا ہو ۔کیا یہ گدھا ان کتابوں سے مستفید ہوسکتا ہے جو اس کی پیٹھ پر لاد دی گئی ہیں؟ کیا اس سبب سے اسے کوئی فضیلت ہوسکتی ہے؟ یا اس کا نصیب تو بس ان کتابوں کو اٹھانا ہے ؟ یہ مثال اہل کتاب کے ان علما ءکی ہے جو تورات کے احکامات پر عمل نہیں کرتے، جن میں جلیل ترین عظیم ترین حکم حضرت محمد مصطفی ٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کا حکم، آپ کی بعثت کی بشارت اور آپ جو قرآن لے کر آئے ہیں اس پر ایمان لانے کا حکم ہے، پس جس کا یہ وصف ہو وہ ناکامی اور خسارے اور اس کے خلاف حجت کے قائم ہونے کے سوا کیا فائدہ حاصل کرسکتا ہے ؟ یہ مثال ان کے احوال کے عین مطابق ہے۔ ﴿ بِئْسَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِ اللّٰہِ﴾ ”جو لوگ اللہ کی آیتوں کی تکذیب کرتے ہیں ان کی مثال بری ہے ۔“یعنی وہ آیات جو ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت اور جو کچھ آپ لائے ہیں اس کی صحت پر دلالت کرتی ہیں۔ ﴿ وَاللّٰہُ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ﴾ ”اور اللہ ظالموں کو ہدایت عطا نہیں کرتا۔“ یعنی جب تک ظلم ان کا وصف اور عناد ان کی صفت ہے ،تب تک اللہ تعالیٰ ان کی ان کے مصالح کی طرف راہ نمائی نہیں کرے گا ۔یہود کا ظلم اور عناد یہ ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ وہ باطل پر ہیں مگر وہ اس زعم میں مبتلا ہیں کہ وہ حق پر ہیں اور تمام لوگوں میں سے صرف وہی اللہ کے دوست ہیں۔ الجمعة
6 بنا بریں اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ آپ ان سے کہہ دیں کہ اگر تم اپنے زعم میں سچے ہو کہ تم حق پر ہو اور اللہ تعالیٰ کے دوست ہو ﴿ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ﴾ ”تو تم موت کی آرزو کرو۔ “اور یہ بڑا خفیف سامعاملہ ہے کیونکہ اگر انہیں یقین ہے کہ وہ حق پر ہیں تو مقابلے کی اس دعوت (موت کی تمنا) پر توقف نہ کرتے جس کو اللہ تعالیٰ نے ان کی صداقت کی دلیل اور موت کی تمنا نہ کرنے کو ان کے کذب کی دلیل قرار دیا ہے۔ الجمعة
7 اس اعلان کے باوجود (جب انہوں نے اس کو قبول نہ کیا اور )ان سے موت کی تمنا واقع نہ ہوئی تو معلوم ہوا کہ وہ اپنے موقف کے بطلان اور اس کے فساد کو جانتے ہیں، اس لیے فرمایا :﴿وَلَا یَتَمَنَّوْنَہٗٓ اَبَدًا بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْہِمْ ﴾ ”اور وہ اس موت کی کبھی آرزو نہ کریں گے بہ سبب اس کے جو ان کے ہاتھوں نے آگے بھیجا۔“ یعنی گناہ اور معاصی جن کی وجہ سے وہ موت سے خائف ہیں۔ ﴿ وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ بِالظّٰلِمِیْنَ﴾ ”اور اللہ ظالموں کو خوب جانتا ہے ۔“لہٰذا ممکن نہیں کہ اس پر ان کے ظلم میں سے کچھ چھپ سکے۔ وہ اگرچہ اپنے کرتوتوں کی وجہ سے موت کی تمنا نہیں کرتے بلکہ موت سے بہت زیادہ بھاگتے ہیں مگر ان کا موت سے بھاگنا ان کو موت سے بچا نہیں سکے گا بلکہ موت ان سے ضرور ملاقات کرے گی جسے اللہ نے اپنے بندوں پر لکھ دیا ہے۔ پھر زندگی کی مدت پوری کرنے اور مرنے کے بعد قیامت کے روز تمام مخلوق کو غیب اور موجود کا علم رکھنے والی ہستی کے سامنے پیش کیا جائے گا وہ انکو ان کے اچھے برے اور قلیل وکثیر اعمال کے بارے میں آگاہ کرے گی۔ الجمعة
8 الجمعة
9 اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کوجمعہ کی نماز میں شریک ہونے اور اس کےلیے جب اذان دی جائے تو اس کی طرف جلدی کرنے اور کوشاں ہونے کا حکم دیا ہے۔ یہاں”سعی“ سے مراد جلدی کرنا، اہتمام کرنا اور جمعہ کی نماز کو سب سے اہم کام قرار دینا ہے، اس سے مراد دوڑنا نہیں جس کو نماز کے لیے جاتے وقت ممنوع کیا گیا ہے ۔فرمایا :﴿وَذَرُوا الْبَیْعَ ﴾ یعنی جب جمعہ کی نماز کے لیے اذان دے دی جائے تو خریدوفروخت چھوڑ دو اور نماز کے لیے چل پڑو۔ ﴿ ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ﴾ کیونکہ جمعہ کی نماز تمہارے خرید وفروخت میں مشغول ہونے سے اور تمہارے فرض نماز کو ضائع کرنے سے بہتر ہے ،جو تمام فرائض سے زیادہ مؤکد ہے۔ ﴿ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ﴾ اگر تم اس حقیقت کو جانتے ہو کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ کے پاس ہے وہ بہتر اور زیادہ باقی رہنے والا ہے اور جو کوئی دنیا کو دین پر ترجیح دیتا ہے وہ حقیقی خسارے میں پڑتا ہے جب کہ وہ سمجھتا یہ ہے کہ وہ نفع حاصل کررہا ہے۔ خریدوفروخت کو چھوڑ دینے کا یہ حکم صرف جمعہ کی نماز کی مدت تک کے لیے ہے۔ الجمعة
10 ﴿فَاِذَا قُضِیَتِ الصَّلٰوۃُ فَانْتَشِرُوْا فِی الْاَرْضِ﴾ ”پس جب نماز ہوچکے تو زمین میں پھیل جاؤ۔“ کام کاج اور تجارت کے لیے، چونکہ تجارت میں مشغول ہونا اللہ تعالیٰ کے ذکر سے غافل ہونے کا مقام ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے ذکر کی کثرت کا حکم دیا ہےتاکہ اس کے ذریعے تلافی ہوجائے ،چنانچہ فرمایا: ﴿وَاذْکُرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا﴾ یعنی اپنے کھڑے ہونے، بیٹھنے اور اپنے لیٹنے کے احوال میں کثرت سے اللہ تعالیٰ کا ذکر کرو۔ ﴿ لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ﴾ ”تاکہ تم فلاح پاؤ۔ “کیونکہ ذکر الٰہی کی کثرت فلاح کا سب سے بڑا سبب ہے۔ الجمعة
11 ﴿وَاِذَا رَاَوْا تِجَارَۃً اَوْ لَہْوَا انْفَضُّوْٓا اِلَیْہَا﴾ جب وہ کوئی سودابکتا یا لہو و لعب دیکھتے ہیں تو اس لہو و لعب یا تجارت کی حرص میں مسجد سے باہر نکل جاتے ہیں اور بھلائی کو چھوڑ دیتے ہیں ﴿وَتَرَکُوْکَ قَایِٕمًا﴾ اور آپ لوگوں کو کھڑے خطاب کرتے رہ جاتے ہیں ۔یہ واقعہ جمعہ کے روز پیش آیا ،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو (جمعہ کا)خطبہ دے رہے تھے کہ مدینہ منورہ میں ایک تجارتی قافلہ آیا۔ جب لوگوں نے مسجد میں قافلے کی آمد کے بارے میں سنا تو وہ مسجد سے نکل گئے اور ایک ایسا معاملے میں عجلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطبہ دیتے چھوڑ دیا، جس کے لیے عجلت میں ادب کو ترک کرنا مناسب نہ تھا ۔﴿قُلْ مَا عِنْدَ اللّٰہِ﴾ ”کہہ دیجئے :جو اللہ کے پاس ہے ۔“یعنی اللہ تعالیٰ کے پاس اس شخص کے لیے، جو بھلائی کا التزام کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی عبادت پر اپنے نفس کو صبر کا خوگر بناتا ہے، جو اجروثواب ہے۔ ﴿خَیْرٌ مِّنَ اللَّہْوِ وَمِنَ التِّجَارَۃِ﴾ وہ لہو ولعب اور اس تجارت سے بہتر ہے جس سے اگرچہ بعض مقاصد حاصل ہوتے ہیں تاہم وہ بہت قلیل، ختم ہونے والے رزق اور آخرت کی بھلائی کو فوت کردینے والے ہیں مگر اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر صبر رزق کو فوت نہیں کرتا کیونکہ اللہ سب سے بہتر رزق دینے والا ہے، چنانچہ جو کوئی اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے وہاں سے رزق عطا کرتا ہے جہاں سے اس کے وہم وگمان میں بھی نہیں ہوتا۔ ان آیات کریمہ سے متعدد فوائد مستفاد ہوتے ہیں: ١۔ اہل ایمان پر جمعہ کی نماز فرض ہے ،اس میں شرکت کے لیے جلدی کرنا ،اس کے لیے کوشش کرنا اور اس کا اہتمام کرنا واجب ہے۔ ٢۔ ان آیات کریمہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ جمع کے دن دو خطبے فرض ہیں اور ان میں حاضر ہونا واجب ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہاں ذکر کی تفسیر دو خطبوں سے کی ہے اور اس کی طرف کوشش کے ساتھ جانے کا حکم دیا ہے۔ ٣۔ اس سورۃ مبارکہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ جمعہ کی اذان کے بعد خریدوفروخت ممنوع اور حرام ہے اور یہ صرف اس وجہ سے تاکہ واجب سے غافل ہو کر خرید وفروخت میں مشغول ہونے سے واجب فوت نہ ہوجائے اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ہر وہ کام جو اصل میں مباح ہو مگر جب اس سے کسی واجب کے فوت ہونے کا اندیشہ ہو تو اس حال میں یہ کام جائز نہیں ہے۔ ٤۔ ان آیات کریمہ میں جمعہ کے دن دونوں خطبوں میں حاضر ہونے کا حکم ہے اور جو حاضر نہیں ہوتا اس کی مذمت مستفاد ہوتی ہے اور دونوں خطبوں میں خاموش رہنا اس کے لوازم میں شمار ہوتا ہے۔ ٥۔ وہ بندہ جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف متوجہ ہوتا ہے، اس کے لیے مناسب ہے کہ وہ نفس کے لہو ولعب ،تجارت اور شہوات میں حاضر ہونے کےدواعی نفس کو وہ بھلائیاں یاد کرائے جو اللہ کے پاس ہیں ،جو اللہ تعالیٰ کی رضا کو اس کی خواہشات پر ترجیح دیتی ہیں۔ الجمعة
0 المنافقون
1 جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے اور یہاں اسلام نہایت کثرت سے پھیل گیا اور اسے غلبہ حاصل ہوا تو اہل مدینہ، یعنی بنواوس اور بنو خزرج میں سے کچھ لوگ اسلام ظاہر کرنے اور باطن میں کفر رکھنے لگے تاکہ ان کا جاہ باقی، ان کی جان محفوط اور ان کا مال سلامت رہے ۔پس اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کے ایسے اوصاف بیان فرمائے ہیں جن کے ذریعے سے وہ پہچانے جاتے ہیں تاکہ لوگ ان سے بچیں اور لوگوں کو ان کے بارے میں بصیرت حاصل ہو، چنانچہ فرمایا :﴿اِذَا جَاءَکَ الْمُنٰفِقُوْنَ قَالُوْا ﴾جب منافق آپ کے پاس آتے ہیں تو جھوٹ بولتے ہوئے کہتے ہیں:﴿ نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللّٰـهِ﴾ ”ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔“ منافقین کی یہ گواہی جھوٹ اور نفاق پر مبنی ہے ،حالانکہ اللہ تعالیٰ کے رسول کی تائید کے لیے ان کی گواہی کی ضرورت ہی نہیں۔ ﴿وَاللّٰہُ یَعْلَمُ اِنَّکَ لَرَسُوْلُہٗ وَاللّٰہُ یَشْہَدُ اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ لَکٰذِبُوْنَ﴾ ”اور اللہ جانتا ہے کہ آپ اس کے رسول ہیں اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ منافق جھوتے ہیں ۔“وہ اپنے قول اور دعوے میں جھوٹے ہیں اور ان کے قول میں کوئی حقیقت نہیں۔ المنافقون
2 ﴿اِتَّخَذُوْٓا اَیْمَانَہُمْ جُنَّۃً﴾ یعنی انہوں نے اپنی قسموں کو ایک ڈھال بنارکھا ہے جس کے ذریعے سے وہ اپنے آپ کو نفاق سے منسوب ہونے سے بچاتے ہیں ۔﴿اِنَّہُمْ سَاءَ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ﴾ پس انہوں نے خود کو بھی اللہ تعالیٰ کے راستے سے روک رکھا ہے اور دوسروں لوگوں کو بھی روکتے ہیں جن پر ان کا حال مخفی ہے ۔﴿اِنَّہُمْ سَاءَ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ﴾ ”کچھ شک نہیں یہ جو کام کرتے ہیں وہ برے ہیں۔“ انہوں نے ایمان ظاہر کیا اور کفر کو چھپایا ،اور اپنے ایمان پر قسمیں کھائیں اور اپنی صداقت کا تأثر دیا۔ المنافقون
3 ﴿ذٰلِکَ﴾ وہ چیز جس نے ان کے سامنے نفاق کو مزین کردیا ﴿ بِاَنَّہُمْ﴾ اس کا سبب یہ ہے کہ وہ ایمان پر ثابت قدم نہیں ہیں بلکہ ﴿ اٰمَنُوْا ثُمَّ کَفَرُوْا فَطُبِعَ عَلٰی قُلُوْبِہِمْ﴾ ”وہ ایمان لائے ،پھر کافر ہوگئے تو ان کے دلوں پر مہر لگادی گئی۔“ کہ بھلائی ان کے دلوں میں کبھی بھی داخل نہیں ہوسکے گی۔ ﴿فَہُمْ لَا یَفْقَہُوْنَ﴾ پس وہ سمجھتے نہیں کہ کون سی چیز انہیں فائدہ دیتی ہے اور وہ یاد نہیں رکھتے کہ کیا چیز ان کے مصالح کے لیے فائدہ مند ہے؟ المنافقون
4 ﴿وَاِذَا رَاَیْتَہُمْ تُعْجِبُکَ اَجْسَامُہُمْ﴾ ”اور جب آپ انہیں دیکھتے ہیں تو ان کے جسم آپ کو اچھے معلوم ہوتے ہیں“۔ یعنی ان کی خوشنمائی اور تروتازگی کی وجہ سے ﴿ وَاِنْ یَّقُوْلُوْا تَسْمَعْ لِقَوْلِہِمْ﴾ یعن آپ ان کے حسن کلام کی وجہ سے ان کی باتوں کو سن کر لذت حاصل کرتے ہیں ۔پس ان کے اقوال اور اجسام بہت اچھے لگتے ہیں مگر ان کے پیچھے اخلاق فاضلہ ہیں نہ اچھا لائحہ عمل، اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ کَاَنَّہُمْ خُشُبٌ مُّسَنَّدَۃٌ ﴾ ”گویا کہ وہ لکڑیاں ہیں جو دیوار سے لگائی گئی ہیں۔“ جن میں کوئی منفعت نہیں ہوتی اور ان سے صرف نقصان کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ ﴿یَحْسَبُوْنَ کُلَّ صَیْحَۃٍ عَلَیْہِمْ ﴾ ”وہ ہر زور کی آواز کو سمجھتے ہیں کہ انہی پر (بلا آئی) ہے۔“ اور یہ ان کی بزدلی ،خوف، دلی کمزوری اور دلوں میں شکوک وشبہات کے سبب سے ہے ۔وہ ڈرتے ہیں کہ کہیں ان باتوں کا پتہ نہ چل جائے ۔یہی لوگ ہیں ﴿ هُمُ الْعَدُوُّ﴾ جو حقیقی دشمن ہیں کیونکہ ظاہر اور پہچانا ہوا دشمن اس دشمن کی نسبت کم نقصان دہ ہے جس کے بارے میں معلوم نہ ہو ،وہ دھوکے باز اور چالاک ہو اور وہ یہ ظاہر کرتا ہو کہ وہ دوست ہے، حالانکہ وہ وہ کھلا دشمن ہے۔ ﴿فَاحْذَرْہُمْ قٰتَلَہُمُ اللّٰہُ اَنّٰی یُؤْفَکُوْنَ﴾”پس آپ ان سے بچیں ،اللہ انہیں ہلاک کرے، یہ کہاں بہکے پھرتے ہیں؟“ دین اسلام کے دلائل واضح جانے اور اس کے کارنامے نمایاں ہوجانے کے بعد بھی دین اسلام کو چھوڑکر کفر کی طرف کیسے مائل ہورہے ہیں جو انہیں خسارے اور بدبختی کے سوا کچھ نہیں دیتا ؟ المنافقون
5 ﴿وَاِذَا قِیْلَ لَہُمْ ﴾ جب ان منافقین سے کہا جاتا ہے ﴿ تَعَالَوْا یَسْتَغْفِرْ لَکُمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﴾آؤ تاکہ رسول تمہارے ان گناہوں کے بارے میں تمہارے لیے استغفار کریں ،جو تم سے صادر ہوئے ہیں تاکہ تمہارے احوال درست اور تمہارے اعمال قبول ہوں مگر وہ نہایت شدت سے ایسا کرنے سے رکے رہے۔ ﴿لَوَّوْا رُءُوْسَہُمْ﴾ ”تو اپنے سرہلادیتے ہیں۔“ رسول سے د عا طلب کرنے سے بچنے کے لیے ۔﴿ وَرَاَیْتَہُمْ یَصُدُّوْنَ﴾ اور آپ انہیں دیکھتے کہ وہ حق کے ساتھ بغض کی وجہ سے حق کو قبول کرنے سے رک جاتے ہیں ﴿ وَہُمْ مُّسْـتَکْبِرُوْنَ﴾ اور وہ سرکشی، عناد اور تکبر کی بنا پر حق کی اتباع نہیں کرتے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مغفرت کی دعا کرانے کے لیے ان کو بلایا جاتا ہے تو ان کی یہ حالت ہوتی ہے( جس کا ذکر گزشتہ سطور میں گزر چکا ہے ۔)اور یہ اللہ تعالیٰ کا اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر لطف وکرم ہے کہ وہ آپ سے مغفرت کی دعا کروانے کے لیے آپ کی خدمت میں حاضر نہیں ہوئے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے لیے مغفرت طلب کریں یا نہ کریں ان پر برابر ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ انہیں کبھی معاف نہیں کرے گا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ نافرمان اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے نکلے ہوئے اور ایمان پر کفر کو ترجیح دینے والے لوگ ہیں، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا استغفار انہیں کوئی فائدہ نہیں دے گا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿ اسْتَغْفِرْ لَهُمْ أَوْ لَا تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ إِن تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً فَلَن يَغْفِرَ اللّٰـهُ لَهُمْ ﴾(التوبۃ :9؍80) ”آپ ان کے لیے استغفار کریں یا ان کے استغفار نہ کریں اگر آپ ان کے لیے ستر بار بھی استغفار کریں اللہ ان کو ہرگز نہیں بخشےگا۔“ ﴿اِنَّ اللّٰہَ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ﴾ ”یقینا للہ تعالیٰ نافرمان لوگوں کو ہدایت سے بہرہ مند نہیں کرتا۔“ المنافقون
6 المنافقون
7 یہ ان کی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کے ساتھ شدت عداوت ہے کہ جب انہوں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اتحاد، ان کی باہمی الفت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا کی طلب میں ان کی جلد بازی کو دیکھا تو اپنے زعم فاسد کے مطابق کہنے لگے: ﴿لَا تُنْفِقُوْا عَلٰی مَنْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ حَتّٰی یَنْفَضُّوْا ﴾ ”تم ان لوگوں پر خرچ نہ کرو جو اللہ کے رسول کے پاس ہیں یہاں تک کہ وہ( خود بخود )بھاگ جائیں۔“ کیونکہ ۔۔۔۔ان کے زعم باطل کے مطابق ۔۔۔۔اگر منافقین کے اموال اور نفقات نہ ہوتے تو مسلمان اللہ تعالیٰ کے دین کی نصرت کے لیے اکٹھے نہ ہوتے۔ بڑی ہی عجیب بات ہے کہ یہ منافقین، جودین کی مدد چھوڑنے اور مسلمانوں کو اذیت دینے کی لوگوں میں سب سے زیادہ خواہش رکھتے ہیں، اس قسم کا دعوی کریں جس کو صرف وہی شخص قبول کرسکتا ہے جس کو حقائق کا علم نہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ان کی بات کو رد کرتے ہوئے فرمایا: ﴿وَلِلّٰہِ خَزَایِٕنُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ﴾ ”اور اللہ ہی کے لیے ہے آسمانوں اور زمین کے خزانے۔“ پس وہ جسے چاہتا ہے رزق عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے رزق سے محروم کردیتا ہے ،جسے چاہتا ہے اس کے لیے رزق کے ذرائع آسان بنا دیتا ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے رزق کے ذرائع بہت مشکل کردیتا ہے ﴿ وَلٰکِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ لَا یَفْقَہُوْنَ﴾ ”لیکن منافق نہیں سمجھتے۔“ اس لیے انہوں نے یہ بات کہی ہے جس کا مضمون یہ ہے کہ رزق کے خزانے ان کے قبضہ قدرت اور ان کی مشیت کے تحت ہیں۔ المنافقون
8 ﴿یَقُوْلُوْنَ لَیِٕنْ رَّجَعْنَآ اِلَی الْمَدِیْنَۃِ لَیُخْرِجَنَّ الْاَعَزُّ مِنْہَا الْاَذَلَّ ﴾ وہ کہتے تھے:” البتہ اگر ہم لوٹ کر مدینہ گئے تو معزز ترین لوگ وہاں سے ذلیل ترین لوگوں کو نکال دیں گے۔“ یہ واقعہ غزوہ مریسیع میں پیش آیا ،جب کچھ مہاجرین اور انصار کے درمیان تلخ کلامی اور شکر رنجی پیدا ہوئی ،اس وقت منافقین کا نفاق سامنے آگیا اور ان کے دلوں میں جو کچھ تھا ظاہر ہوا ۔ان کے سردار عبداللہ بن ابی ابن سلول نے کہا،:”ہماری اور ان کی یعنی مہاجرین کی مثال تو بس ایسے ہے جیسا کہ کسی کا قول ہے:”اپنے کتے کو موٹا کرو تجھے ہی کھائے گا۔ “اور کہنے لگا: ﴿لَئِنْ رَجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْهَا الْأَذَلَّ﴾”اگر ہم لوٹ کر مدینہ پہنچے تو عزت والا ذلیل کو وہاں سے نکال باہر کرے گا۔ “اس کے زعم باطل کے مطابق وہ اور اس کے بھائی دیگر منافقین باعزت لوگ ہیں، اور رسول مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی اتباع کرنے والے ذلیل ہیں ،حالانکہ معاملہ اس منافق کے قول کے برعکس تھا۔ بنابریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿وَلِلّٰہِ الْعِزَّۃُ وَلِرَسُوْلِہٖ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ﴾ ”حالانکہ عزت اللہ کے لیے ،اس کے رسول کے لیے اور مومنوں کے لیے ہے ۔“پس یہی عزت والے ہیں، منافقین اور ان کے بھائی ہی ذلیل ہیں۔ ﴿وَلٰکِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ﴾ ”مگر منافقین اس حقیقت کو نہیں جانتے۔ “اس لیے وہ اپنے باطل موقف کے فریب میں مبتلا ہوکرسمجھتے ہیں کہ وہی عزت والے ہیں۔ المنافقون
9 اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے مومن بندوں کو کثرت کے ساتھ ذکر کرنے کا حکم دیتا ہے کیونکہ اس میں نفع ،فوز وفلاح اور بے شمار بھلائیاں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں مال اور اولاد کی محبت میں مشغول ہو کر اللہ تعالیٰ کے ذکر سے غافل ہونے سے روکا ہے کیونکہ مال اور اولاد کی محبت اکثرت نفوس کی جبلت ہے، اسی لیے وہ مال اور اولاد کی محبت کو اللہ تعالیٰ کی محبت پر ترجیح دیتے ہیں اور اس میں بہت بڑا خسارہ ہے ،اس لیے فرمایا :﴿وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ﴾ جسے اس کے مال اور اولاد اللہ تعالیٰ کے ذکر سے غافل کردیتے ہیں ﴿فَاُولٰیِٕکَ ہُمُ الْخٰسِرُوْنَ﴾ ”تو وہی لوگ خسارہ اٹھانے والے ہیں۔“ ابدی سعادت اور ہمیشہ رہنے والی نعمت کے بارے میں خسارے میں رہنے والے ہیں کیونکہ انہوں نے ہمیشہ رہنے والی چیز پر فانی چیز کو ترجیح دی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿ إِنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ ۚ وَاللّٰـهُ عِندَهُ أَجْرٌ عَظِيمٌ ﴾(التغابن :64؍15) ”بے شک تمہارے مال اور تمہاری اولاد آزمائش ہیں اور اللہ کے پاس بہت بڑا اجر ہے۔“ المنافقون
10 ﴿وَاَنْفِقُوْا مِنْ مَّا رَزَقْنٰکُمْ﴾ ”اور جو کچھ ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں خرچ کرو۔ “اس حکم میں تمام نفقات واجبہ، مثلا: زکوۃ، کفارات، اہل وعیال اور غلاموں وغیرہ کا نان ونفقہ اور تمام نفقات مستحبہ، مثلا :تمام مصالح میں مال خرچ کرنا شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان :﴿ مِنْ مَّا رَزَقْنٰکُمْ﴾ یہ دلالت کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو ایسے نفقے کا مکلف نہیں بنایاجو ان کے لیے نہایت مشکل ہو اور ان پر شاق گزرے بلکہ ان کو اس رزق میں سے کچھ حصہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں نکالنے کا حکم دیا ہے جو اسی نے ان کو عطا اور میسر کیا اور اس کے اسباب مہیا کیے۔ پس انہیں چاہیے کہ وہ اپنے نادار بھائیوں کی مالی مدد کرکے اس ہستی کاشکر ادا کریں جس نے ان کو رزق عطا کیا ہے اور موت سے پہلے پہلے اللہ کے راستے میں خرچ کرلیں۔ موت جب آجائے گی توبندے کے لیے ممکن نہ ہوگا وہ ذرہ بھر بھی بھلائی کرسکے۔ اس لیے فرمایا: ﴿ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَ اَحَدَکُمُ الْمَوْتُ فَیَقُوْلَ﴾ ”اس سے پہلے کہ تم میں سے کسی کو موت آجائے اور پھر وہ کہنے لگے۔“ یعنی اس کوتاہی پر حسرت کا اظہار کرتے ہوئے جو اس وقت واقع ہوئی جب اللہ کے راستے میں خرچ کرنا ممکن تھا اور واپس لوٹا جانے کی التجا کرتے ہوئے ،حالانکہ یہ محال ہوگا (کہے گا:) ﴿ رَبِّ لَوْلَآ اَخَّرْتَنِیْٓ اِلٰٓی اَجَلٍ قَرِیْبٍ ﴾ ”اے میرے رب !تو نے مجھے تھوڑی سی اور مہلت کیوں نہ دی؟ “تاکہ جو میں کوتاہی کی ہے اس کا تدارک کرسکوں۔ ﴿فَاَصَّدَّقَ﴾ پس اپنے مال میں سے صدقہ کروں جس کے ذریعے سے میں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچ جاؤں اور ثواب جزیل کا مستحق ٹھہروں ﴿وَاَکُنْ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ﴾ اور تمام مامورات کو ادا کرکے اور تمام منہیات سے اجتناب کرکے صالحین میں شامل ہوسکوں اور اس میں حج وغیرہ بھی شامل ہے۔ اس التجا اور تمنا کا وقت چلا گیا، جس کا تدارک ممکن نہیں ،بنابریں فرمایا :﴿وَلَنْ یُّؤَخِّرَ اللّٰہُ نَفْسًا اِذَا جَاءَ اَجَلُہَا ﴾ ”اور اللہ ہرگز مہلت نہیں دیتا کسی نفس کو جب اس کی موت کا وقت آجاتا ہے“ جس کا آنا حتمی ہے۔ ﴿ وَاللّٰہُ خَبِیْرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ﴾ یعنی تم جو اچھے یابرے اعمال کرتے ہو اللہ تعالیٰ ان کی خبر رکھتا ہے وہ تمہاری نیتوں اور اعمال کے بارے میں اپنے علم کے مطابق تمہیں تمہارے اچھے برے اعمال کی جزا وسزا دے گا۔ المنافقون
11 المنافقون
0 التغابن
1 یہ آیات کریمہ اللہ تعالیٰ کے عظیم اوصاف کے وسیع حصے پر مشتمل ہیں، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کامل الوہیت ،بے پایاں غنا اور تمام مخلوق کے اس کے سامنے محتاج ہونے کا ذکر فرمایا ہے،نیز ذکر فرمایا کہ زمین اور آسمان کی تمام مخلوق اپنے رب کی حمد وثنا کے ذریعے سے اس کی تسبیح بیان کرتی ہے۔ اقتدار تمام تر اللہ تعالیٰ کا ہے اس کے اقتدار سے کوئی چیز باہر نہیں۔حمدوثنا کا صرف وہی مالک ہے اس کے لیے حمد ہے اس بنا پر کہ وہ صفات کمال کا مالک ہے ،اس کے لیے حمد ہے اس بنا پر کہ اس نے تمام اشیا کو وجود بخشا، اس کے لیے حمد ہے اس بنا پر کہ اس نے احکام شریعت مشروع کیے اور مخلوق کو نعمتیں عطا کیں۔اس کی قدرت سب کو شامل ہے ،موجودات میں سے کوئی چیز اس کی قدرت سے باہر نہیں۔ اس نے ذکر فرمایا کہ اس نے تمام بندوں کو تخلیق کیا، ان میں مومن اور کافر بنائے، پس ان کا ایمان اور کفر تمام اللہ تعالیٰ کی قضا وقدر سے ہے ،یہی اس کی مشیت ہے، اس نے ان کو قدرت اور ا رادہ عطا کیا جس کی بنا پر وہ امر ونہی میں سے جس چیز کا ارادہ کری،ں اس کا اختیار رکھتے ہیں۔ ﴿وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ﴾ ”اور جو کچھ تم کررہے ہو اللہ اسے خوب دیکھ رہا ہے۔“ التغابن
2 التغابن
3 اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسان کی، جو مامورات و منہیات کا مکلف ہے ،تخلیق کا ذکر کرنے کے بعد باقی مخلوقات کا ذکر فرمایا ،چنانچہ فرمایا :﴿خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ﴾ ”اس نے پیدا کیا آسمانوں اور زمین کو۔“ یعنی تمام اجرام ارضی وفلکی اور ان چیزوں کو خوب اچھی طرح تخلیق فرمایا جو ان کے اندر ہیں ﴿ بِالْحَقِّ ﴾ ”حق کے ساتھ۔“ یعنی حکمت کے ساتھ اور اس غرض وغایت کے لیے جو اللہ تعالیٰ کو مقصود و مطلوب ہے۔ ﴿ وَصَوَّرَکُمْ فَاَحْسَنَ صُوَرَکُمْ ﴾ ”اور اس نے تمہاری صورت گری کی اور تمہاری بہترین صورتیں بنائیں۔“ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ ﴾( التین :95؍4) ”ہم نے انسان کو بہترین صورت میں پیدا کیا ہے۔“ پس انسان صورت کے اعتبار سے تمام مخلوقات میں سب سے خوبصورت دلکش دکھائی دیتا ہے۔ ﴿وَاِلَیْہِ الْمَصِیْرُ﴾ یعنی قیامت کے دن اسی کی طرف تمہیں لوٹنا ہے۔ پس وہ تمہیں تمہارے ایمان اور کفر کی جزاوسزا دے گا ،تم سے ان نعمتوں کے بارے میں پوچھے گا جو اس نے تمہیں عطا کیں کہ آیا تم نے ان نعمتوں پر شکر ادا کیا ہے یا نہیں۔ التغابن
4 پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے عموم علم کا ذکر کیا ،چنانچہ فرمایا :﴿یَعْلَمُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ﴾ یعنی وہ ظاہر اور باطن، غیب اور حاضر سب کا علم رکھتا ہے ﴿وَیَعْلَمُ مَا تُسِرُّوْنَ وَمَا تُعْلِنُوْنَ وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ﴾ یعنی جو کچھ تم چھپاتے ہو یا ظاہر کرتے ہو اور جو تمہارے سینوں کے اندر اچھے بھید چھپے ہوئے ہیں یا گندے، نیک نیتیں مستور ہیں یا برے مقاصد، سب اللہ تعالیٰ کے علم میں ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ دلوں کے بھید جانتا ہے تو ایک عقل مند دیدہ ور شخص پر یہ بات متعین ٹھہری کہ وہ اپنے باطن کی اخلاق رذیلہ سے حفاظت کرے اور اخلاق جمیلہ سے متصف ہونے کا حریص ہو اور اس کی کوشش کرے۔ التغابن
5 جب اللہ تعالیٰ نے اپنے کامل اور عظیم اوصاف کا ذکر فرمایا ،جن کے ذریعے سے اس کی معرفت حاصل ہوتی ہے اور اس کی عبادت کی جاتی ہے ،اس کی رضا کے حصول میں کوشش کی جاتی ہے اور اس کی ناراضی سے اجتناب کیا جاتا ہے، تب اس نے آگاہ فرمایا کہ اس نے گزشتہ قوموں اور گزرے ہوئے زمانوں کے ساتھ کیا کیا جن کی خبریں متاخرین بیان کرتے چلے آئے ہیں اور سچے لوگ ان سے آگاہ کرتے رہے ہیں کہ جب ان کے رسول ان کے پاس حق لے کر آئے تو انہوں نے ان کو جھٹلایا اور ان کے ساتھ عناد رکھا ۔پس اللہ تعالیٰ نے انہیں دنیا کے اندر ان کے کرتوتوں کے وبال کا مزا چکھایا اور ان کو دنیا کے اندر رسوا کیا ﴿وَلَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ﴾ اور آخرت میں ان کے لیے نہایت الم ناک عذاب ہے۔ التغابن
6 بنا بریں اللہ تعالیٰ نے اس عقوبت کا سبب بیان کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ذٰلِکَ﴾ یہ سزا اور وبال جو ہم نے ان پر نازل کیا ہے اس سبب سے ہے ﴿بِاَنَّہٗ کَانَتْ تَّاْتِیْہِمْ رُسُلُہُمْ بِالْبَیِّنٰتِ﴾ کہ ان کے رسول ان کے پاس واضح دلائل لے کر آئے جو حق اور باطل پر دلالت کرتے تھے ،مگر انہوں نے ناگواری سے منہ پھیر لیا اور اپنے رسولوں کے ساتھ تکبر سے پیش آئے اور کہنے لگے: ﴿ اَبَشَرٌ یَّہْدُوْنَنَا﴾ ”کیا ایک بشر ہماری راہنمائی کرتا ہے؟ “یعنی انہیں ہم پر کوئی فضیلت حاصل نہیں، تب کس بنا پر اللہ نے ہمیں چھوڑ کر انہیں (نبوت کے لیے) مختص کیا؟ جیسا کہ ایک دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿ قَالَتْ لَهُمْ رُسُلُهُمْ إِن نَّحْنُ إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ وَلَـٰكِنَّ اللّٰـهَ يَمُنُّ عَلَىٰ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ﴾(ابراہیم:14؍11) ”ان کے رسولوں نے ان سے کہا ہم بھی تمہاری مانند بشر ہی ہیں مگر اللہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے نواز دیتا ہے ۔“پس انہوں نے اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم کو انبیائے کرام علیہم السلام سے روک دیا کہ وہ مخلوق کی طرف اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں اور تکبر سے ان کی اطاعت نہ کی۔ اس طرح وہ شجر وحجر کی عبادت میں مبتلا ہوگئے۔ ﴿فَکَفَرُوْا﴾پس انہوں نے اللہ تعالیٰ کا انکار کیا﴿ وَتَوَلَّوْا﴾ اور اس کی اطاعت سے منہ موڑ گئے ﴿ وَّاسْتَغْنَی اللّٰہُ ﴾ اور اللہ تعالیٰ ان سے بے نیاز ہے اور وہ ان کی پروا نہیں کرتا اور ان کی گمراہی اسے کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ ﴿وَاللّٰہُ غَنِیٌّ حَمِیْدٌ﴾ وہ ایسا غنی ہے جو ہر لحاظ سے غنائے کامل اور مطلق کا مالک ہے۔ وہ اپنے اقوال ،افعال اور اوصاف میں قابل تعریف ہے۔ التغابن
7 اللہ تبارک وتعالیٰ کفار کے عناد، اور ان کے زعم باطل اور ان کے کسی علم ،کسی ہدایت اور کسی روشن کتاب کے بغیر قیامت کو جھٹلانے کے متعلق آگاہ کرتا ہے۔ پس اس نے اپنی مخلوق میں سے بہترین ہستی کو حکم دیا کہ وہ اس بات پر اپنے رب کی قسم کھائیں کہ ان کے مرنے کے بعد ان کو دوبارہ زندہ کیا جائے گا ،پھر ان کو ان کے اعمال بد اور ان کی تکذیب حق کی سزا دی جائے گی ﴿وَذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیْرٌ﴾ ”اور یہ اللہ کے لیے آسان ہے۔“ خواہ یہ مخلوق کی نسبت سے بہت مشکل بلکہ ناممکن ہی ہو کیونکہ اگر تمام مخلوق کے قوٰی ایک مردہ چیز کو زندہ کرنے کے لیے اکٹھے ہوجائیں تو وہ اس کو زندہ کرنے پر قادر نہیں۔ رہا اللہ تعالیٰ ،تو وہ جب کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو فرماتا ہے:” ہوجا تو وہ ہوجاتی ہے ۔“اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَصَعِقَ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَمَن فِي الْأَرْضِ إِلَّا مَن شَاءَ اللّٰـهُ ثُمَّ نُفِخَ فِيهِ أُخْرَىٰ فَإِذَا هُمْ قِيَامٌ يَنظُرُونَ﴾( الزمر:39؍68)”اور جب صور پھونکا جائے گا ،تو وہ تمام لوگ جو آسمانوں اور زمین میں ہیں بے ہوش ہوجائیں گے ،سوائے اس کے جسے اللہ (بے ہوش کرنا نہ ) چاہے، پھر اسے دوسری مرتبہ پھونکا جائے گا تو اسی لمحہ سب اٹھ کھڑے ہوں گے اور دیکھ رہے ہوں گے۔“ التغابن
8 چونکہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان لوگوں کے انکار کا ذکر کیا ہے جو قیامت کا انکار کرتے ہیں ،نیز یہ بھی ذکر کیا کہ ان کا یہ انکار اللہ تعالیٰ اور اس کی آیات کے ساتھ ان کے کفر کو موجب ہے ،اس لیے اس نے اس چیز کا حکم دیا جو ہلاکت اور بدبختی سے بچاتی ہے اور وہ ہے اللہ تعالیٰ ،اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس کی کتاب پر ایمان، اللہ تعالیٰ نے اس کتاب کو نور سے موسوم کیا ہے کیونکہ اس کی ضد تاریکی ہے۔ جو احکام، قوانین اور اخبار اس کتاب میں ہیں، جسے اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا ہے روشنی ہیں جس کے ذریعے سے جہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں راہ نمائی حاصل ہوتی ہے اور جس کے ذریعے سے رات کی سیاہ تاریکی میں چلا جاتا ہے ۔کتاب اللہ کی راہ نمائی کے سوا تمام علوم ایسے ہیں جن کے نقصانات ان کے فوائد سے بڑھ کر اور جن کاشر ان کے خیر سے زیادہ ہے بلکہ اس میں کوئی خیر اور کوئی فائدہ ہی نہیں سوائے اس کے جو انبیاءومرسلین کی لائی ہوئی تعلیمات کے موافق ہو ۔اللہ تعالیٰ ، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کی کتاب پر ایمان، عزم کامل ان (احکامات وقوانین )پر یقین صادق، اس تصدیق کے مقتضیٰ، یعنی اوامر کی تعمیل اور نواہی سے اجتناب کا تقاضا کرتے ہیں ۔﴿وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ﴾ ”اور اللہ تمہارے عملوں سے باخبر ہے۔“ پس وہ تمہارے اچھے اور برے اعمال کی جزا دے گا۔ التغابن
9 یعنی اکٹھا ہونے کے دن کو یاد کرو جس دن اللہ تعالیٰ اولین وآخرین کو اکٹھا کرکے ایک بہت ہولناک مقام پر کھڑا کرے گا، پھر وہ ان کو ان کے اعمال کے بارے میں آگاہ کرے گا جو وہ کرتے رہے تھے ،اس وقت خلائق کے درمیان امتیاز اور فرق ظاہر ہوگا ،کچھ لوگ اعلیٰ علیین کے درجے پر فائز ہو کر عالی شان بالاخانوں اور بلند وبالا منازل میں ہوں گے ،جو تمام اقسام کی لذا ت وشہوات پر مشتمل ہوں گی۔ کچھ لوگوں کو اسفل سافلین کے مقام پر گرا دیا جائے گا جو غم وہموم اور سخت حزن و عذاب کا مقام ہوگا ۔یہ ان اعمال کا نتیجہ ہے جو انہوں نے آگے بھیجے تھے اور انہوں نے اپنی زندگی کے دوران میں ان کو پیش کیا تھا ۔بنابریں فرمایا :﴿ذٰلِکَ یَوْمُ التَّغَابُنِ ﴾ ”یہ نقصان اٹھانے کا دن ہے۔“ یعنی اس دن خلائق کے درمیان نقصان اور تفاوت ظاہر ہوگا ۔اس دن اہل ایمان فاسقوں کو نقصان دیں گے اور مجرم جان لیں گے کہ ان کے پلے تو کچھ بھی نہیں وہ تو محض خسارے میں ہیں۔ گویا کہ پوچھا گیا ہے کہ فلاح اور بدبختی ،نعمتیں اور عذاب کس چیز سے حاصل ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ نے اس کے اسباب کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا :﴿وَمَنْ یُّؤْمِنْ بِاللّٰہِ﴾ جو کوئی اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان رکھتا ہے ،ایسا ایمان جو ان تمام امور کو شامل ہو جن پر ایمان لانے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے ﴿وَیَعْمَلْ صَالِحًا﴾ ”اور وہ نیک اعمال کرتا ہے“۔ یعنی فرائض ونوافل، حقوق اللہ اور حقوق العباد کو ادا کرتا ہے۔ ﴿یُدْخِلْہُ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ﴾ ”اللہ سے جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں۔“ ان جنتوں میں ہر وہ چیز ہوگی جس کی نفس خواہش کریں گے ،جس سے آنکھٰں لذت حاصل کریں گی، جس کو ارواح پسند کریں گی، جس کی دل آرزو کریں گے اور وہ ہر مرغوب کیا انتہا ہوگی۔ ﴿ خٰلِدِیْنَ فِیْہَآ اَبَدًا ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ﴾ ”ان جنتوں میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور یہی بڑی کامیابی ہے۔“ التغابن
10 ﴿وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَکَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَآ﴾ یعنی جنہوں نے ان آیات کا کسی شرعی یا عقلی دلیل کے بغیر انکار کیا ،بلکہ ان کے پاس دلائل اور واضح نشانیاں آئیں ،انہوں نے ان دلائل کو جھٹلایا اور جس چیز پر یہ دلالت کرتے تھے اس سے عناد رکھا ۔﴿اُولٰیِٕکَ اَصْحٰبُ النَّارِ خٰلِدِیْنَ فِیْہَا وَبِئْسَ الْمَصِیْرُ﴾ ”وہی اہل دوزخ ہیں، اس میں ہمیشہ رہیں گے اور وہ بری جگہ ہے۔“ کیونکہ اس میں ہرقسم کی مصیبت ،سختی، بدبختی اور عذاب ہوگا۔ التغابن
11 اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے :﴿مَآ اَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَۃٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰہِ ﴾ ”جو مصیبت بھی آتی ہے وہ اللہ ہی کے حکم سے آتی ہے۔“ یہ آیت کریمہ جان ،مال اولاد اور احباب کے مصائب وغیرہ سب کو شامل ہے، چنانچہ بندوں پر نازل ہونے والے تمام مصائب اللہ کی قضا وقدر سے ہیں جس کا اللہ تعالیٰ کو پہلے سے علم ہے، اس پر اس کا قلم جاری ہوچکا، اس پر اس کی مشیت نافذ ہوچکی اور اس کی حکمت نے اس کا تقاضا کیا۔ مگر اصل معاملہ یہ ہے کہ آیا بندے نے اس ذمے داری کو پورا کیا جو اس مقام پر اس پر عائد تھی یا وہ اس کو پورا نہ کرسکا؟ اگر اس نے اس ذمے داری کو پورا کیا تو اس کے لیے دنیا وآخرت میں ثواب جزیل اور اجر جمیل ہے۔ پھر جب وہ اس حقیقت پر ایمان لے آیا کہ یہ مصیبت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، تب اس پر راضی ہوا اور اس کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کردیا ،تو اللہ کے قلب کو ہدیات سے بہرہ مند کردیتا ہے ،پس وہ مطمئن ہوجاتا ہے ،تب وہ مصائب کے وقت گھبراتا نہیں جیسا کہ اس شخص کو وتیرہ ہے جس کے قلب کو اللہ تعالیٰ ہدایت عطا نہیں کرتا مگر مصائب کے وارد ہونے پر اللہ تعالیٰ اسے ثابت قدمی اور موجبات صبر کو قائم کرنے کی توفیق سے نوزتا ہ،ے اس سے اس کو دنیاوی ثواب حاصل ہوتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ،جزا و سزا کے دن کے لیے ثواب کو ذخیرہ کردیا جاتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُم بِغَيْرِ حِسَابٍ﴾(الزمر :39؍10) ”جو صبر کرنے والے ہیں ان کو بے حد وحساب اجر عطا کیا جائے گا۔“ اس سے یہ حقیقت معلوم ہوئی کہ جو کوئی مصائب کے وارد ہونے پر اللہ تعالیٰ پر ایمان نہیں رکھتا اللہ تعالیٰ کی قضا وقدر کالحاظ نہیں کرتا بلکہ محض اسباب کے ساتھ ٹھہر جاتا ہے، تو اسے بے یارومددگار چھوڑ دیا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ اسے اس کے نفس کے حوالے کردیتا ہے۔ جب بندہ نفس پر بھروسا کرتا ہے تو نفس کے پاس چیخ وپکار اور بے صبری کے سوا کچھ نہیں ،یہ وہ فوری سزا ہے جو آخرت کی سزاسے پہلے بندے کو اس دنیا میں اس پاداش میں ملتی ہے کہ اس نے صبر میں کوتاہی کی جو اس پر واجب تھا۔ یہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے متعلق ہے: ﴿وَمَنْ یُّؤْمِنْ بِاللّٰہِ یَہْدِ قَلْبَہٗ ﴾ اور جو کوئی اللہ پر ایمان لائے تو مصائب کے خاص وقت میں بھی اللہ اس کے دل کو ہدایت عطا کرتا ہے ۔رہی وہ چیز جو عموم لفظی کی حیثیت سے اس سے تعلق رکھتی ہے، تو اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ ہر وہ شخص جو ایمان لایا، یعنی ایسا ایمان جو مامور بہ ہے اور وہ ہے اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں ،یوم آخرت اور اچھی بری تقدیر پر ایمان لانا۔ پھر ایمان جن لوازم و واجبات کا تقاضا کرتا ہے، اس کے ایمان نے ان کی تصدیق کی۔ بلاشبہ یہی سبب جس کو بندے نے اختیار کیا ،اس کے اقوال وافعال ،اس کے تمام احوال اور اس کے علم وعمل میں اللہ کی طرف سے اس کے لیے ہدایت کا سب سے بڑا سبب ہے۔ یہ بہترین جزا ہے جو اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو عطا کرتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے خبر دیتے ہوئے فرمایا کہ وہ اہل ایمان کو دنیا اور آخرت کی زندگی میں ثابت قدمی سے بہرہ مند کرتا ہے۔ اصل ثابت قدمی دل کی ثابت قدمی، اس کا صبر اور ہر قسم کے فتنے کے وارد ہونے کے وقت اس کا یقین ہے ۔چنانچہ فرمایا :﴿يُثَبِّتُ اللّٰـهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ﴾(ابراہیم:14؍11) ”اللہ ان لوگوں کو جو ایمان لائے مضبوط بات کے ذریعے سے دنیا اور آخرت کی زندگی میں ثابت قدمی عطا کرتا ہے۔“ پس اہل ایمان کے دل لوگوں میں سب سے زیادہ راہ ہدایت پر ہوتے ہیں اور وہ گھبراہٹ اور خوف کے موقعوں پر سب سے زیادہ ثابت قدم ہوتے ہیں اور اس کا سبب یہ ہے کہ ان کے ساتھ ایمان ہے۔ التغابن
12 اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :﴿وَاَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ ﴾ ”اور تم اللہ کی اطاعت کرو اور (اس کے )رسول کی اطاعت کرو۔“ یعنی ان دونوں کے اوامر کی تعمیل اور ان کے نواہی سے اجتناب میں ان کی اطاعت کرو، کیونکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سعادت کا مدار اور فلاح کا عنوان ہے ﴿ فَاِنْ تَوَلَّیْتُمْ﴾ یعنی اگر تم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے روگردانی کرو ﴿ فَاِنَّمَا عَلٰی رَسُوْلِنَا الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ﴾ ”تو ہمارے رسول پر تو صرف کھول کرپہنچا دینا ہے۔ “یعنی ہمارے رسول پر تو وہی ہے جو اسے دے کر تمہاری طرف بھیجا گیا ہے اور وہ سب کچھ نہایت واضح طور پر تمہیں پہنچا دیتا ہے، جس کے ذریعے سے تم پر حجت قائم ہوتی ہے۔ تمہاری ہدایت اس رسول کے قبضہ قدرت میں ہے نہ تمہارا حساب اس کے اختیار میں۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت اور عدم اطاعت کے بارے میں تمہارا محاسبہ وہ ہستی کرے گی جو غیب اور عیاں کا علم رکھنے والی ہے۔ التغابن
13 ﴿اَللّٰہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ﴾ ”اللہ (وہ ہے کہ) اس کے سوا کوئی معبود (برحق) نہیں۔“ یعنی وہی عبادت اور الوہیت کا مستحق ہے اس کے سوا ہر معبود باطل ہے ﴿ وَعَلَی اللّٰہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ﴾ پس اہل ایمان کو ہر معاملے میں جو بھی انہیں پیش آئے اللہ تعالیٰ پر بھروسا کرنا چاہیے کیونکہ کوئی معاملہ آسان نہیں ہوتا مگر اللہ تعالیٰ کی مدد سے۔ اور اس بارے میں اللہ تعالیٰ پر بھروسا کرنے کے سوا کوئی اور چارہ بھی نہیں۔ اللہ تعالیٰ پر بندے کا اعتماد اس وقت تک کامل نہیں ہوسکتا جب تک بندے کا اپنے رب کے ساتھ حسن ظن نہ ہو اور اس معاملے میں اس کے کافی ہونے کا وثوق نہ ہو جس پر وہ بھروسا کررہا ہے اور بندے کے ایمان کے مطابق اس کے توکل میں قوت اور ضعف ہوتا ہے۔ التغابن
14 یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اہل ایمان کو تنبیہ ہے کہ وہ اپنی بیویوں اور اپنی اولاد سے دھوکہ نہ کھائیں کیونکہ ان میں سے بعض تمہارے دشمن ہیں ۔دشمن وہ ہوتا ہے جو تمہارے خلاف برائی کا ارادہ رکھتا ہے اور تمہارا وظیفہ (ذمے داری) ایسے شخص سے بچنا ہے جس کی یہ صفت ہو۔ بیویوں اور اولاد کی محبت نفس کی جبلت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی ا یسی محبت کے بارے میں نصیحت کی ہے جو ان کے لیے بیوی اور اولاد کے ایسے مطالبات کے سامنے جھکنے کاموجب بنتی ہے جس میں کوئی شرعی ممانعت ہو۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے احکام کی تعمیل اور اس ثواب عظیم کے لیے اس کی رضا کو مقدم رکھنے کی ترغیب دی ہے جو بلند مطالب اور عالی قدر محبت پرمشتمل ہے اور اس امر کی ترغیب دی ہے کہ وہ آخرت کو ختم ہوجانے والی فانی دنیا پر ترجیح دیں۔ چونکہ ایسے امور میں بیویوں اور اولاد کی اطاعت سے روکا گیا ہے اور ان سے بچنے کے لیے کہا گیا ہے جن میں بندے کے لیے ضرر ہے، اس سے بیوی اور اولاد کے بارے میں درشتی اور سختی متوہم ہوتی ہے ،اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان سے بچنے اور ان کے ساتھ عفو ودرگزر کے ساتھ پیش آنے کا حکم دیا ہے ۔اس میں بہت سے مصالح ہیں جن کا احاطہ ممکن نہیں، چنانچہ فرمایا :﴿وَاِنْ تَعْفُوْا وَتَصْفَحُوْا وَتَغْفِرُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ﴾ ”اگر تم معاف کردو اور درگزر کر جاؤ اور بخش دو تو اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔“کیونکہ عمل کی جزا اس کی جنس ہی سے ہوتی ہے، لہٰذا جو کوئی معاف کردے ،اللہ تعالیٰ اس کو معاف کرتا ہے ،جو کوئی درگزر کرے اللہ تعالیٰ اس سے درگزر کرتا ہے، جو کوئی ایسے امر میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ معاملہ کرتا ہے جو اس پسند ہے اس کے بندوں کے ساتھ ایسا معاملہ کرتا ہے جسے وہ پسند کرتے ہیں اور اوہ ان کے لیے فائدہ مند ہے، تو وہ اللہ تعالیٰ تعالیٰ کی محبت اور اس کے بندوں کی محبت کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے اور اس کے معاملے کی حفاظت کی جاتی ہے۔ التغابن
15 التغابن
16 اللہ تعالیٰ تقوے کا حکم دیتا ہے جو اس کے اوامر کے سامنے سرتسلیم خم کرنے اور اس کے نواہی سے اجتناب کرنے کا نام ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس کو استطاعت اور قدرت سے مقید رکھا ہے ۔یہ آیت دلالت کرتی ہے کہ ہر وہ واجب جس کو ادا کرنے سے بندہ عاجز ہو، اس سے ساقط ہوجاتا ہے ۔اگر کچھ امور پر عمل کرنے کی قدرت رکھتا ہے اور کچھ پر قدرت نہیں رکھتا تو وہ انہی امور پر عمل کرے گا جن پر عمل کرنے کی وہ قدرت رکھتا ہے اور جن پر عمل کرنے سے عاجز ہے وہ اس سے ساقط ہوجائیں گے ۔جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(وَإِذَا أَمَرْتُكُمْ بِأَمْرٍ فَأْتُوا مِنْهُ مَا اسْتَطَعْتُمْ)(صحیح البخاری،الاعتصام،باب الاقتداء بسنن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، ‘ح:7288وصحیح مسلم ‘الحج باب فرض الحج مرۃ فی العمر‘ح:1337 ومسنداحمد:2؍428واللفظ له) ”جب میں تمہیں کسی کام کا حکم دوں تو جتنی تم میں استطاعت ہے اس کے مطابق اس پر عمل کرو ۔“اس شرعی قاعدے میں اتنی زیادہ فروع داخل ہیں جن کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿وَاسْمَعُوا﴾ یعنی اللہ تعالیٰ جو تمہیں نصیحت کرتا ہے ور اس نے جو احکام تمہارے لیے مشروع کیے ہیں ان کو سنو، ان کو جان لو اور اللہ تعالیٰ کے سامنے سرتسلیم خم کردو ﴿وَأَطِيعُوا﴾ اور اپنے تمام معاملات میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرو﴿وَأَنفِقُوا ﴾ اور شرعی نفقات واجبہ اور مستحبہ ادا کرو، تمہارا یہ فعل ﴿خَیْرًا لِّاَنْفُسِکُمْ ﴾ دنیا و آخرت میں تمہارے لیے بہتر ہوگا کیونکہ بھلائی تمام تر اللہ تعالیٰ کے اوامر پر عمل کرنے، اس کے نصائح کو قبول کرنے اور اس کی شریعت کے سامنے سرتسلیم خم کرنے میں ہے اور شر تمام تر اس کی مخالفت کرنے میں ہے۔ مگر وہاں ایک اور آفت بھی ہے جو بہت سے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے راستے میں مامور بہ نفقات سے روکتی ہے اور وہ ہے بخل، جو اکثر نفوس کی جبلت ہے ۔نفس مال خرچ کرنے میں بخل کرتے ہیں ،اس کی موجودگی کو پسند کرتے ہیں اور مال کے ہاتھ سے نکلنے کو سخت ناپسند کرتے ہیں۔ ﴿ وَمَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِہٖ﴾ جس شخص کو اللہ نے اس کے نفس کے بخل سے بچالیا، یعنی اس کو مال خرچ کرنے کی توفیق عطا کردی جو اس کے لیے فائدہ مند ہے۔ ﴿فَاُولٰیِٕکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ﴾ ”تو وہ لوگ فلاح پانے والےہیں“ کیونکہ انہوں نے مطلوب کو پالیا اور ڈرائے جانے والے امور سے نجات پائی۔ بلکہ شاید یہ ہر اس امر کو شامل ہے جس کا بندے کو حکم دیا گیا یا اس سے اس کو روکا گیا ہے کیونکہ اگر اس کا نفس بخیل ہے تو اس حکم کی اطاعت نہیں کرے گا جس کا اسے حکم دیا گیاہے اور مامور بہ نفقات کو ہاتھ سے نہیں نکالے گا تو اس نے فلاح نہیں پائی بلکہ دنیا وآخرت میں خسارے میں رہا ۔اگر اس کا نفس سخی ہے ،اللہ تعالیٰ کی شریعت پر انشراح کے ساتھ مطمئن اور اس کی رضا کا طلب گار ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس فعل کے درمیان ،جس کا وہ مکلف کیا گیا ہے ،اس فعل کے علم، اللہ تعالیٰ کی رضامندی کی معرفت اور اس چیز کی بصیرت کے سوا کچھ بھی نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کو راضی کررہا ہے ،اس طریقے سے فلاح پائے گا اور تمام تر کامیابی سے بہرہ مند ہوگا۔ التغابن
17 پھر اللہ تبارک وتعالیٰ نے انفاق کی ترغیب دی ،چنانچہ فرمایا :﴿اِنْ تُقْرِضُوا اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا﴾ ”اگر تم اللہ کو قرض حسنہ دو۔“ اپنی حلال کمائی میں سے ہر طرح سے اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنا جبکہ اس خرچ کرنے سے بندے کا مطلوب ومقصود اللہ کی رضا ہو اور اس کو صحیح مقام پر خرچ کرنا قرض حسنہ ہے۔ ﴿یُّضٰعِفْہُ لَکُمْ﴾ ”تو وہ اسے تمہارے لیے کئی گنا کردے گا۔“ یعنی وہ تمہارے لیے اس کے ثواب کو دس گنا سے لے کر سات سو گنا اور اس سے بھی زیادہ کئی گنا تک کردے گا۔ ﴿وَ اور ثواب کو کئی گنا کرنے کے ساتھ ساتھ﴿يَغْفِرْ لَكُمْ﴾ انفاق فی سبیل اللہ اور صدقہ کرنے کے سبب سے تمہارے گناہوں کو بخش دے گا کیونکہ گناہوں کو صدقات اور نیکیاں مٹاتی ہیں ۔﴿ إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ﴾(ھود:11؍114) ”بے شک نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں۔“ ﴿وَاللّٰہُ شَکُوْرٌ حَلِیْمٌ﴾”اور اللہ نہایت قدردان ،بہت بردبار ہے۔“ جو کوئی اس کی نافرمانی کرتا ہے وہ اسے پکڑنے میں جلدی نہیں کرتا بلکہ اسے مہلت دیتا ہے اسے مہمل نہیں چھوڑتا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللّٰـهُ النَّاسَ بِمَا كَسَبُوا مَا تَرَكَ عَلَىٰ ظَهْرِهَا مِن دَابَّةٍ وَلَـٰكِن يُؤَخِّرُهُمْ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى﴾(فاطر:35؍45﴾ ”اور اگر اللہ لوگوں کو ان کے کرتوتوں کے سبب سے پکڑتا تو روئے زمین پر کسی جان دار کو نہ چھوڑتا مگر وہ انہیں ایک مقررہ مدت کے لیے مہلت دیتا ہے۔ “ ﴿وَاللّٰہُ شَکُوْرٌ﴾ اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے تھورے سے عمل کو بھی قبول کرتا ہے اور اس پر انہیں بہت زیادہ اجر عطا کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس شخص کا قدر دان ہے جو اس کی خاطر مشقتیں، بوجھ اور مختلف انواع کی بھاری تکالیف برداشت کرتا ہے اور جو اللہ تعالیٰ کے لیے کوئی چیز ترک کرتا ہے تو اللہ اسے اس سے بہتر عوض عطا کرتا ہے۔ التغابن
18 ﴿عٰلِمُ الْغَیْبِ وَالشَّہَادَۃِ﴾ ”وہ پوشیدہ اور ظاہر کا علم رکھنے والا ہے۔“یعنی وہ ان لشکروں کا علم رکھتا ہے جو بندوں کی نظروں سے غائب ہیں او روہ ان مخلوقات کا بھی علم رکھتا ہے جن کا وہ مشاہدہ کرتے ہیں ﴿الْعَزِیْزُ﴾ جس کے مقابلے میں کوئی غالب آسکتا ہے نہ رکاوٹ بن سکتا ہے اور وہ تمام اشیا پر غالب ہے۔ ﴿الْحَکِیْمُ﴾ اپنے خلق وامر میں حکمت والا ہے ،جو تمام اشیا کو ان کے اپنے اپنے مقام پر رکھتا ہے۔ التغابن
0 الطلاق
1 اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور اہل ایمان سے مخاطب ہو کر فرماتا ہے: ﴿یٰٓاَیُّہَا النَّبِیُّ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ﴾ ”اے نبی! جب تم اپنی بیویوں کو طلاق دینا چاہو۔“ یعنی طلاق دینے کا ارادہ کرو۔﴿فَ﴾ ”پس“ تم ان کو طلاق دینے کے لیے مشروع وجہ طلاق تلاش کرو، جب طلاق کا سبب مل جائے تو اللہ تعالیٰ کے حکم کی رعایت رکھے بغیر طلاق دینے میں جلدی نہ کرو بلکہ ﴿ طَلِّقُوْہُنَّ لِعِدَّتِہِنَّ﴾ ”انہیں ان کی عدت کے (آغاز )کے وقت میں طلاق دو۔“ یعنی ان کو ان کی عدت کے لیے طلاق دو ،وہ اس طرح کہ شوہر اپنی بیوی کو اس کے طاہر ہونے کی حالت میں، نیز اس طہر میں اس سے مجامعت کیے بغیر طلاق دے، پس یہی وہ طلاق ہے جس میں عدت واضح ہوتی ہے ۔اس کے برعکس اگر اس نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دی تو وہ اس حیض کو شمار نہیں کرے گی جس کے دوران طلاق واقع ہوئی ہے ،تو اس سبب سے اس پر عدت کا عرصہ طویل ہوجائے گا۔ اس طرح اگر اس نے ایسے طہر میں طلاق دی ہو جس میں مجامعت کی گئی ہو تو اس طرح وہ حمل سے مامون نہ ہوگی ،لہٰذا واضح نہ ہوگا کہ وہ کون سی عدت شمار کرے جبکہ اللہ تعالیٰ نے عدت شمار کرنے کا حکم دیا ہے ﴿وَاَحْصُوا الْعِدَّۃَ ﴾ یعنی ایسے حیض کے ذریعے سے شمار کیا جائے اگر بیوی کو حیض آتا ہے تو عدت کو حیض سے ضبط کرنا ہے اور اگر اس کو حیض نہ آتا ہو اور وہ حاملہ بھی نہ ہو تو اس کی عدت مہینوں کے ساتھ شمار کی جائے گی۔ عدت کے شمار کرنے میں اللہ تعالیٰ کے حقوق، طلاق دینے والے شوہر اور بعد میں نکاح کرنے والے شوہر کے حقوق کی ادائیگی بھی ہے، نیز اس میں مطلقہ کے نان ونفقہ وغیرہ کے حق کی ادائیگی ہے۔ پس جب عدت کو ضبط میں لایا جائے گا تو اس (کے حمل یا حیض وغیرہ) کا حال واضح طور پر معلوم ہوگا اور اس عدت پر مرتب ہونے والے حقوق معلوم ہوں گے۔ عدت شمار کرنے کے اس حکم کا رخ شوہر اور بیوی کی طرف ہے اگر بیوی مکلف ہے ورنہ اس کے سرپرست کی طرف ہے۔﴿ وَاتَّقُوا اللّٰہَ رَبَّکُمْ ﴾ یعنی اپنے تمام امور میں تقوٰی اختیار کرو اور مطلقہ بیویوں کے حق کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو ﴿لَا تُخْرِجُوْہُنَّ مِنْ بُیُوْتِہِنَّ﴾ عدت کی مدت کے دوران ان کو ان کے گھروں سے نہ نکالو بلکہ مطلقہ اس گھر میں رہے جس گھر میں شوہر نے اس کو طلاق دی ہے ﴿وَلَا یَخْرُجْنَ﴾ ”اور نہ وہ خود نکلیں۔ “یعنی مطلقہ بیویوں کے لیے ان گھروں سے نکلنا جائز نہیں ہے۔ مطلقہ کو گھر سے نکالنے کی ممانعت کا سبب یہ ہے کہ بیوی کو گھر فراہم کرنا شوہر پر واجب ہے تاکہ وہ اس گھر میں رہ کر عدت پوری کرسکے جو شوہر کے حقوق میں سے ایک حق ہے۔ اور مطلقہ بیوی کے خود گھر سے نکلنے کی ممانعت اس لیے ہے کہ اس کا گھر سے نکلنا شوہر کے حق کو ضائع کرنا اور اس کی عدم حفاظت ہے ۔طلاق یافتہ عورتوں کا خود گھر سے نکلنے یا ان کو نکالے جانے کا حکم عدت کے پورا ہونے تک باقی رہے گا۔ ﴿ اِلَّآ اَنْ یَّاْتِیْنَ بِفَاحِشَۃٍ مُّبَیِّنَۃٍ ﴾ ”مگر یہ کہ وہ صریح بے حیائی کریں ۔“یعنی ان سے کوئی واضح طور پر قبیح فعل سرزد ہو جو ان کو گھر سے نکالنے کاموجب ہوا اور مطلقہ کو گھر سے نہ نکالنے سے گھروالوں کو ضرر پہنچتا ہو، مثلا :فحش اقوال وافعال کے ذریعے سے اذیت وغیرہ۔ اس صورت حال میں مطلقہ کو گھر سے نکال دینا گھروالوں کے لیے جائز ہے کیونکہ وہ خود اپنے آپ کو گھر سے نکالنے کا سبب بنی ہے، حالانکہ گھر میں سکونت کی اجازت دینا مطلقہ کی دل جوئی اور اس کے ساتھ نرمی ہے اور اپنے آپ پر اس ضرر کا سبب وہ خود ہی بنی ہے۔ یہ حکم اس مطلقہ کے لیے ہے جو رجعی طلاق کی عدت گزار رہی ہو۔ رہی وہ مطلقہ جس کی طلاق بائنہ ہو، اس کو سکونت فراہم کرنا واجب نہیں کیونکہ سکونت نان ونفقہ کے تابع ہے اور نان ونفقہ صرف اس مطلقہ کے لیے ہے جسے رجعی طلاق دی گئی ہو اور جس کو طلاق بائنہ دی گئی ہو اس کے لیے نان ونفقہ نہیں ہے۔ ﴿تِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ﴾ ”یہ اللہ کی حدیں ہیں۔ “جن کو اللہ تعالیٰ نےاپنے بندوں کے لیے مقرر کرکے مشروع کیا ہے اور ان حدود کا التزام کرنے اور ان پر ٹھہرنے کا ان کو حکم دیا ہے۔ ﴿ وَمَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰہِ﴾ ”اور جو اللہ کی حدود سے تجاوز کرے۔“ وہ اس طرح کہ وہ ان مقرر کردہ حدود پر نہ ٹھہرے بلکہ ان حدود سے تجاوز یا کوتاہی کرے﴿فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہٗ ﴾ ”تو یقینا اس نے اپنے آپ پر ظلم کیا۔“ یعنی اس نے اپنا حق کم کیا اور اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود کی اتباع میں سے ، جن میں دنیا وآخرت کی اصلاح ہے ،اپنے حصے کو ضائع کیا۔ ﴿لَا تَدْرِیْ لَعَلَّ اللّٰہَ یُحْدِثُ بَعْدَ ذٰلِکَ اَمْرًا﴾ ”تجھے کیا معلوم شاید اللہ اس کے بعد کوئی سبیل پیدا کردے۔ “یعنی اللہ تعالیٰ نے عظیم حکمتوں کی بنا پر طلاق کو مشروع کرکے اس کو عدت کے ذریعے سے محدود کیا ہے ۔ان حکمتوں میں سے چند درج ذیل ہیں: ١۔ عدت کی حکمتوں میں سے ایک حکمت یہ ہے کہ ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ طلاق دینے والے کے دل میں رحمت اور مودت پیدا کردے اور طلاق دینے والا اس سے رجوع کرلے اور نئے سرے سے اس کے ساتھ رہنا سہنا شروع کردے۔ یہ چیز( مطلقہ سے رجوع کرنا)عدت کی مدت کی معرفت ہی سے ممکن ہے۔ ٢۔ ہوسکتا ہے شوہر نے بیوی کی طرف سے کسی سبب کی بنا پر اس کو طلاق دی ہو اور عدت کی مدت میں وہ سبب دور ہوجائے تو وہ اپنی مطلقہ بیوی سے رجوع کرلے کیونکہ طلاق کا سبب ختم ہوگیا ہے۔ ٣۔ ان حکمتوں میں سے ایک حکمت یہ ہے کہ عدت کی مدت کے دوران میں اس خاوند کے حمل سے مطلقہ کے رحم کی برات معلوم ہوجائے گی۔ الطلاق
2 ﴿فَاِذَا بَلَغْنَ اَجَلَہُنَّ﴾ یعنی جب طلاق یافتہ عدت پوری کرنے کے قریب پہنچ جائیں کیونکہ اگر انہوں نے عدت پوری کرلی تو شوہر کے پاس مطلقہ کو روک رکھنے یاجدا کردینے کا اختیار نہیں رہتا۔ ﴿ فَاَمْسِکُوْہُنَّ بِمَعْرُوْفٍ﴾ یعنی ضرر پہنچانے کے لیے یابرائی اور محض محبوس رکھنے کے ارادے سے نہیں بلکہ حسن معاشرت اورصحبت جمیلہ کے طور پر ان کو روک لو،کیونکہ برائی اور محبوس رکھنے کے ارادے سے مطلقہ کو روکے رکھنا جائز نہیں۔ ﴿اَوْ فَارِقُوْہُنَّ بِمَعْرُوْفٍ﴾ ”یا دستور کے مطابق انہیں الگ کردو۔“ یعنی اس طرح سے جدا کرنا کہ اس میں کوئی محذور امر نہ ہو ،باہم گالی گلوچ اور لڑائی جھگڑے کے بغیر اور نہ مطلقہ کے مال میں سے کچھ لینے ہی کے لیے اس پر کوئی سختی ہو۔ ﴿وَّاَشْہِدُوْا ﴾ اور اس کی طلاق اور رجوع پر گواہ بنا لو ﴿ ذَوَیْ عَدْلٍ مِّنْکُمْ ﴾اپنے (مسلمانوں) میں سے دو عادل مردوں کو کیونکہ مذکورہ گواہی میں مخاصمت کا اور ان دونوں کی طرف سے ایسے امور کے کتمان کا سدباب ہے جن کو بیان کرنا لازم ہے۔ ﴿وَاَقِیْمُوا ﴾ اے گواہو! ٹھیک ٹھیک ادا کرو﴿ الشَّہَادَۃَ لِلّٰہِ ﴾”گواہی اللہ کے لیے۔ “یعنی کسی کمی بیشی کے بغیر گواہی کو اسی طرح ادا کرو جس طرح کہ وہ حقیقت میں ہے اور گواہی دینے میں صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کو مدنظر رکھو اور گواہی میں کسی رشتے دار کی، اس کی رشتے داری اور کسی دوست کی ،اس کی محبت کی وجہ سے رعایت نہ رکھو ۔﴿ذٰلِکُمْ ﴾ ”یہ “جو تمہارے سامنے احکام اور حدود بیان کی ہیں ﴿ یُوْعَظُ بِہٖ مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ ﴾”ان باتوں سے اس شخص کو نصیحت کی جاتی ہے جو اللہ پر اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہے ۔“کیونکہ اللہ تعالیٰ اور آخرت پر ایمان صاحب ایمان پر واجب ٹھہراتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے مواعظ سے نصیحت حاصل کرے اور جتنے بھی نیک اعمال ممکن ہیں اپنی آخڑت کے لیے آگے بھیجے۔ اس شخص کے برعکس جس کے دل سے ایمان کوچ کرگیا ،پس اسے کوئی پرواہ نہیں ہوتی کہ اس نے کیا برائی آگے بھیجی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے مواعظ کی تعظیم بھی نہیں کرتا کیونکہ اس کاموجب معدوم ہے۔ چونکہ طلاق کبھی کبھی تنگی، کرب اور غم میں مبتلا کردیتی ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے تقوے کا حکم دیا ہے اور اس شخص کے ساتھ جو طلاق وغیرہ میں تقوے پر مبنی رویہ اختیار کرتا ہے وعدہ کیا ہے کہ وہ اس کے لیے کشادگی اور (رنج وغم سے )نجات کی راہ نکالے گا ، لہٰذا جو کوئی طلاق کا ارادہ کرے تو وہ شرعی طریقے سے طلاق دے۔ اور وہ یہ ہے کہ ایک ہی طلاق دے اور وہ حیض میں نہ ہو ،نہ ایسے طہر میں ہو جس میں اس نے مطلقہ کے ساتھ مجامعت کی ہو ،تو اس کے لیے معاملہ تنگی کا حامل نہیں ہوتا بلکہ اللہ تعالیٰ اس کے لیے فراخی اور وسعت پیدا کرتا ہے،جب اسے طلاق پر ندامت ہوتی ہے تو نکاح کےلیے مطلقہ کی طرف رجوع کرنا ممکن ہوتا ہے ۔ آیت کریمہ اگرچہ طلاق اور رجوع کے سیاق میں ہے مگر اعتبار عموم لفظ کا ہے، پس ہر وہ شخص جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے اور اپنے احوال میں اس کی رضا کا التزام کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ دنیا وآخرت میں اسے ثواب سے بہرہ مند کرتا ہے۔ منجملہ اس کا ثواب یہ ہے کہ وہ ہر قسم کی سختی اور مشقت میں سے اس کے لیے فراخی اور نجات کاراستہ پیدا کرتا ہے جیسا کہ جو کوئی اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے لیے فراخی اور نجات کی راہ نکالتا ہے اور جو کوئی اس سے نہیں ڈرتا وہ بوجھ تلے اور بیڑیوں میں جکڑا ہوا پڑا رہتا ہے جن سے گلوخلاصی اور ان کے ضرر سے نکلنے کی قدرت نہیں رکھتا۔ طلاق کے معاملے میں اس پر غور کیجئے کیونکہ جب بندہ طلاق کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے نہیں ڈرتا بلکہ حرام کردہ طریقے سے طلاق دیتا ہے ،مثلا ایک بارگی تینوں طلاقیں دے دینا وغیرہ، تو اسے ایسی پشمانی ہوگی کہ جس کا تدارک کرنا اور اس سے نجات حاصل کرنا اس کے لیے ممکن نہ ہوگا۔ الطلاق
3 اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿وَّیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ ﴾ اللہ تعالیٰ متقی شخص کے لیے ایسی جگہوں سے رزق پہنچاتا ہے جہاں سے رزق کا آنا اس کے وہم وگمان میں ہوتا ہے نہ اسے اس کا شعور ہوتا ہے۔ ﴿ وَمَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ﴾ جو کوئی اپنے دین اور دنیا کے معاملات میں اللہ تعالیٰ پر توکل کرتا ہے ،یعنی کسی چیز کے حصول میں جو اس کے لیے نفع مند ہو اور کسی چیز کو دور ہٹانے میں جو اس کے لیے ضرر رساں ہو اللہ تعالیٰ پر اعتماد اور اس میں آسانی پیدا کرنے میں اللہ تعالیٰ بھروسا کرتا ہے ﴿ فَهُوَ حَسْبُهُ ﴾ تو وہ اس معاملے میں اس کے لیے کافی ہوجاتا ہے ،جس میں اس نے اس پر بھروسا کیا تھا۔ جب معاملہ غنی، قوی، غالب اور نہایت رحم والی ہستی کی کفالت میں ہے تو وہ ہستی بندے کے ہر چیز سے زیادہ قریب ہے۔ مگر بسا اوقات حکمت الٰہیہ مناسب وقت تک اس کی تاخیر کا تقاضا کرتی ہے۔ بنا بریں فرمایا :﴿اِنَّ اللّٰہَ بَالِغُ اَمْرِہٖ ﴾ ”بے شک اللہ اپنا کام پورا کرکے رہتا ہے۔“ یعنی اس کی قضا وقدر کا نافذ ہونا لازمی امر ہے، لیکن ﴿ قَدْ جَعَلَ اللّٰہُ لِکُلِّ شَیْءٍ قَدْرًا﴾ اس نے ایک وقت اور ایک مقدار مقرر کررکھی ہے جس سے یہ چیز تجاوز کرتی ہے نہ کوتاہی کرتی ہے۔ الطلاق
4 چونکہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے کہ مامور بہ طلاق عورتوں کی عدت کے لیے ہے، اس لیے عدت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا :﴿ وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِن نِّسَائِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ ﴾ وہ عورتیں جنہیں حیض آتا تھا پھر بڑھاپے یاکسی اور وجہ سے حیض آنا بند ہوگیا اور دوبارہ حیض آنے کی امید نہ رہی تو ان کی عدت ﴿ ثَلٰثَۃُ اَشْہُرٍ ﴾ ”تین مہینے ہے۔“ ہر حیض کے مقابلے میں ایک مہینہ مقرر کیا ہے۔ ﴿ وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ ﴾ یعنی چھوٹی لڑکیاں جن کو ابھی حیض نہیں آیا یا وہ بالغ عورتیں جن کو بالکل حیض نہیں آیا ،ان عورتوں کی مانند ہیں جو حیض آنے سے مایوس ہوچکی ہیں ،ان کی عدت بھی تین ماہ ہے ۔رہی وہ عورتیں جن کو حیض آتا ہے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی عدت اپنے اس ارشاد میں بیان فرمائی ہے: ﴿ وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ ﴾( البقرۃ :2؍228)”اور مطلقہ عورتیں اپنے آپ کو تین حیض تک روکے رکھیں۔“ ﴿وَاُولَاتُ الْاَحْمَالِ اَجَلُہُنَّ﴾”اور حمل والی عورتوں کی مقررہ مدت“یعنی ان کی عدت ﴿اَنْ یَّضَعْنَ حَمْلَہُنَّ ﴾ ”وضع حمل تک ہے۔“ یعنی ان کے بطن میں جو ایک یا متعدد بچے ہیں، ان کو وہ جنم دے دیں ،اس صورت میں مہینوں وغیرہ کا اعتبار نہ ہوگا۔ ﴿وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مِنْ اَمْرِہٖ یُسْرًا﴾ یعنی جو تقوی اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لیے تمام امور کو آسان اور ہر مشکل کو سہل کردیتا ہے۔ الطلاق
5 ﴿ذٰلِکَ﴾ ”یہ “حکم جو اللہ تعالیٰ نے تمہارے سامنے بیان کیا ہے۔ ﴿اَمْرُ اللّٰہِ اَنْزَلَہٗٓ اِلَیْکُمْ ﴾ ”اللہ کا حکم ہے جو اس نے تمہاری طرف نازل کیا ہے۔“ تاکہ تم اس پر چلو ،اسے اپنے راہ نما بناؤ ور اس کی تعظیم کرو۔﴿وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يُكَفِّرْ عَنْهُ سَيِّئَاتِهِ وَيُعْظِمْ لَهُ أَجْرًا﴾ ”اور جو اللہ سے ڈرے گا وہ اس سے اس کے گناہ دور کردے گا اور اسے اجر عظیم عطا کرے گا ۔“یعنی محذور اس سے دور اور مطلوب اس کو حاصل ہوگا۔ الطلاق
6 پیچھے گزر چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے طلاق یافتہ عورتوں کو گھروں سے نکالنے سے روکا ہے اور اس مقام پر اس نے طلاق یافتہ عورتوں کو سکونت مہیا کرنے کا حکم دیا ہے اور ان کو معروف طریقے سے سکونت مہیا کرنا مقرر فرمایا اور اس سے مراد ایسا گھر ہے ،جس میں شوہر کی تونگری یا عسرت کے مطابق ان دونوں کے ہم مرتبہ لوگ رہتے ہیں۔ ﴿وَلَا تُضَارُّوْہُنَّ لِتُضَیِّقُوْا عَلَیْہِنَّ ﴾ یعنی ان کی سکونت کے دوران ان کو اپنے قول وفعل کے ذریعے سے، اس غرض سے تکلیف نہ پہنچاؤ کہ وہ عدت پوری ہونے سے پہلے تنگ آکر گھروں سے نکل جائیں، اس صورت میں تم ان کو اپنے گھروں سے نکالنے والے شمار ہو گے۔ آیت کریمہ کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مطلقات کو گھروں سے نکالنے سے روکا ہے اور مطلقات کو بھی گھروں سے نکلنے سے منع کیا ہے، نیز اللہ تعالیٰ نے ان کو اس طرح سکونت فراہم کرنے کا حکم دیا ہے کہ مطلقات کو کوئی ضرر اور مشقت لاحق نہ ہو اور یہ عرف عام کی طرف راجع ہے۔ ﴿وَاِنْ کُنَّ ﴾ ”اور اگر ہوںوہ۔“ یعنی مطلقات﴿ اُولَاتِ حَمْلٍ فَاَنْفِقُوْا عَلَیْہِنَّ حَتّٰی یَضَعْنَ حَمْلَہُنَّ﴾”حمل والیاں ،تو وضع حمل تک ان پر خرچ کرو۔ “اگر طلاق بائنہ ہے تو یہ نان ونفقہ اس حمل کی وجہ سے ہے جو اس کے پیٹ میں ہے اور اگر طلاق رجعی ہے تو یہ نفقہ خود اس کے لیے اور اس کے حمل کے لیے ہے۔ نان ونفقے کی انتہا وضع حمل تک ہے۔ جب وضع حمل ہوجائے توہ اپنے بچوں کو دودھ پلائیں گی یا نہیں پلائیں گی؟ ﴿ فَاِنْ اَرْضَعْنَ لَکُمْ فَاٰتُوْہُنَّ اُجُوْرَہُنَّ ﴾ ”پس اگر وہ بچے کو تمہارے کہنے سے دودھ پلائیں تو ان کو ان کی اجرت دو۔ “یعنی طے شدہ اجرت اگر طے کی گئی ہے ورنہ وہ اجرت ادا کی جائے جو اس کے ہم مرتبہ لوگ ادا کرتے ہیں ﴿ وَاْتَمِرُوْا بَیْنَکُمْ بِمَعْرُوْفٍ ﴾ یعنی میاں بیوی اور دیگر لوگ یک دوسرے کو معروف کا حکم دیں اور معروف سے مراد ہر وہ کام ہے جس میں دنیا وآخرت کی کوئی منفعت اور مصلحت ہو کیونکہ باہم ایک دوسرے کو معروف کی تلقین کرنے میں غفلت برتنے سے ضرر اور شرکا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا ،نیزباہم معروف کا حکم دینے میں نیکی اور تقوے پر تعاون ہے۔ اس مقام پر اس بات کا تذکرہ بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اتمام عدت پر، مفارقت کے وقت شوہر اور بیوی کے درمیان ،خاص طور پر جب ان د ونوں کا مشترکہ بچہ ہو، غالب حالات میں بیوی اور بچے کے نفقے کے بارے میں جدائی کے ساتھ ساتھ تنازعہ اور جھگڑا واقع ہوجاتا ہے ،جدائی عموما بغض اور کینہ سے مقرون ہوتی ہے ،جس سے بہت سی چیزیں متاثر ہوتی ہیں، لہذا دونوں میں سے ہر ایک کو نیکی، حسن معاشرت، عدم مشقت اور عدم منازعت کا حکم دیا جائے اور ان امور میں خیر خواہی کی جائے ﴿ وَاِنْ تَعَاسَرْتُمْ﴾ ”اور اگر تم باہم ضد ( اور نااتفاقی)کرو۔“ یعنی اگر دونوں میاں بیوی اس امر پر متفق نہ ہوں کہ (مطلقہ) بیوی اپنے بچے کو دوھ پلائے ﴿فَسَتُرْضِعُ لَہٗٓ اُخْرٰی﴾ تو اس مطلقہ بیوی کے علاوہ کوئی دوسری عورت بچے کو دودھ پلائے۔ فرمایا: ﴿ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِذَا سَلَّمْتُم مَّا آتَيْتُم بِالْمَعْرُوفِ ﴾(البقرۃ:2؍233) ”اگر تمہارا ارادہ کسی دوسری عورت سے دودھ پلوانے کا ہو ،تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں، جب تم وہ اجرت معروف طریقے سے ادا کردو جو تم نے طے کی تھی۔“ یہ اس صورت میں ہے جب بچہ اپنی ماں کے علاوہ کسی دوسری عورت کا دودھ قبول کرتاہو، اگر بچہ اپنی ماں کے سوا کسی عورت کا دودھ قبول نہیں کرتا ہو،تو اس کی ماں رضاعت کے لیے متعین ہوگی اور ماں پر رضاعت واجب ہوگی اور اگر وہ دودھ پلانے سے انکار کرے تو اس کو دودھ پلانے پر مجبور کیا جائے گا اور اگر دونوں میں اجرت پر اتفاق نہ ہوسکے تو اس کے لیے ہم مرتبہ دودھ پلانے والی کی اجرت ہے ۔یہ حکم اس آیت کریمہ کے معنی سے ماخوذ ہے کیونہ بچہ جب حمل کی مدت کے دوران میں اپنی ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے اور وہ تو باہر نہیں آسکتا، توا للہ تعالیٰ کی طرف سے بچے کے ولی پر نفقہ کی ادائیگی ضروری ہے اور جب بچہ متولد ہوجاتا ہے اور وہ خوراک اپنی ماں سے یا ماں کے علاوہ کسی دوسری عورت سے حاصل کرسکتا ہے، تو اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے دونوں صورتیں مباح کردی ہیں ۔چنانچہ بچہ اگر ایسی حالت میں ہو کہ وہ اپنی ماں کے سوا کہیں سے خوراک نہ لیتا ہوں تو وہ بمنزلہ حمل کے ہے اور اس کی خوراک کے لیے اس کی ماں ہی کو مقرر کیا جائے گا۔ الطلاق
7 پھر اللہ تبارک وتعالیٰ نے شوہر کی حیثیت کے مطابق نفقہ مقرر فرمایا ہے ،چنانچہ فرمایا :﴿لِیُنْفِقْ ذُوْ سَعَۃٍ مِّنْ سَعَتِہٖ ﴾ ”وسعت والے کو اپنی وسعت کے مطابق خرچ کرنا چاہیے۔“ یعنی دولت مند اپنی دولت کے مطابق خرچ کرے وہ اس طرح خرچ نہ کرے جس طرح فقرا خرچ کرتے ہیں ۔﴿ وَمَنْ قُدِرَ عَلَیْہِ رِزْقُہٗ﴾ ”اور جسے کا اس کارزق نپا تلا ملے۔ “یعنی جو تنگ دستی کا شکار ہو ﴿ فَلْیُنْفِقْ مِمَّآ اٰتٰیہُ اللّٰہُ ﴾ ”تو وہ اسی (رزق )میں سے خرچ کرے جو اللہ تعالیٰ نے اس کو عطا کیا ہے۔“ ﴿ لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا مَآ اٰتٰیہَا ﴾ ”اللہ کسی پر اتنی ہی ذمے داری ڈالتا ہے جتنا اس نے اسے دیا۔“ اور یہ چیز اللہ تعالیٰ کی حکمت اور رحمت سے مناسبت رکھتی ہے کہ اس نے ہر ایک کو اس کے حسب حال مکلف کیا ہے ،اللہ تعالیٰ اس کو صرف اتنا ہی مکلف کرتا ہے جتنا اس کو رزق عطا کیا ہے ،اللہ تعالیٰ کسی جان کو نفقے وغیرہ کے ضمن میں اس کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہیں دیتا۔ ﴿سَیَجْعَلُ اللّٰہُ بَعْدَ عُسْرٍ یُّسْرًا﴾ یہ تنگ دست لوگوں کے لیے بشارت ہے کہ عنقریب اللہ تعالیٰ ان سے سختی کو دور کردے گا اور مشقت کو اٹھالے گا کیونکہ ﴿ فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرً﴾(الم نشرح:94؍6،5) ”بلا شبہ ہر تنگی کے ساتھ آسانی ہے ،بلاشبہ ہر تنگی کے ساتھ آسانی ہے۔“ الطلاق
8 اللہ تبارک و تعالیٰ سرکش قوموں اور رسولوں کی تکذیب کرنے والے لوگوں کو ہلاک کرنے کے بارے میں آگاہ فرماتے ہیں کہ جب سخت حساب اور دردناک عذاب کا وقت آیا تو ان کی کثرت اور قوت ان کے کسی کام نہ آئی ور اللہ تعالیٰ نے ان کو عذاب کا مزہ چکھایا جو ان کے اعمال بد کا نتیجہ تھا ۔دنیا کے عذاب کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے آخرت میں سخت عذاب تیار کررکھا ہے ﴿ فَاتَّقُوا اللّٰہَ یٰٓاُولِی الْاَلْبَابِ ﴾ ”لہٰذا ڈرو اللہ سے اے عقل رکھنے والو!“ یعنی ایسی عقل رکھنے والو جو اللہ تعالیٰ کی آیات، اس کی عبرتوں اور اس حقیقت کا ادراک رکھتی ہے کہ اسی ہستی نے گزرے ہوئے زمانے کے لوگوں کو ان کی تکذیب کی پاداش میں ہلاک کیا تو ان کے بعد آنے والے انہی کے مانند ہیں، دونوں گروہوں میں کوئی فرق نہیں۔ الطلاق
9 الطلاق
10 الطلاق
11 پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کا ذکر کیا جو اس کتاب پر ایمان لائے جو اس نے ان پر نازل کی، جو اس نے اپنے رسول محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر اتاری تاکہ وہ مخلوق کو کفر، جہالت اور معصیت کی تاریکیوں سے نکال کر علم و ایمان اور اطاعت کی روشنی میں لائے ،پس کچھ لوگ ایسے ہیں جو اس پر ایمان لے آئے اور ان میں سے کچھ لوگ ایمان نہیں لائے۔ ﴿وَمَنْ یُّؤْمِنْ بِاللّٰہِ وَیَعْمَلْ صَالِحًا﴾ ”اور جو ایمان لائے اللہ پر اور نیک عمل کرے۔ “یعنی واجبات ومستحبات پر عمل کرے ﴿یُّدْخِلْہُ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ﴾ ”اللہ تعالیٰ ان کو ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں ۔“ان جنتوں میں ہمیشہ رہنے والی ایسی ایسی نعمتیں ہوں گی ،جو کسی آنکھ نے دیکھی ہیں نہ کسی کان نے سنی ہیں اور نہ کسی بشر کے دل میں ان کا تصور آیا ہے۔ ﴿ خٰلِدِیْنَ فِیْہَآ اَبَدًا قَدْ اَحْسَنَ اللّٰہُ لَہٗ رِزْقًا﴾ ”وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے ،اللہ نے انہیں خوب رزق دیا ہے۔“ یعنی جو کوئی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان نہ لائے تو یہی لوگ جہنمی ہیں اور وہ جہنم میں ہمیشہ رہیں گے۔ الطلاق
12 پھر اللہ تبارک وتعالیٰ نے خبر دی ہے کہ اس نے تمام آسمانوں اور ان کے رہنے والوں، ساتوں زمینوں اور ان پر بسنے والوں اور ان تمام چیزوں کو پیدا کیا جو ان کے درمیان ہیں اور اس نے اپنا امر نازل فرمایا اور وہ ہیں شرائع اور دینی احکام، جن کو اللہ تعالیٰ نے بندوں کو وعظ ونصیحت کے لیے اپنے رسولوں پر وحی کیا۔ اسی طرح اس نے تکوینی اور قدری احکام نازل فرمائے، جن کے ذریعے سے وہ تمام مخلوق کی تدبیر کرتا ہے ۔یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ بندے کو اس کو پہچانیں اور جان لیں کہ اس کی قدرت تمام اشیا کا احاطہ کیے ہوئے اور اس کا علم تمام اشیا پر محیط ہے۔ جب وہ اس کو اس کے اسمائے حسنیٰ اور اوصاف مقدسہ کے ذریعے سے پہچان لیں گے تو وہ اس کی عبادت کریں گے، اس سے محبت کریں گے اور اس کے حقوق کو ادا کریں گے۔ خلق وامر کا یہی مقصد ہے ،یعنی اللہ تعالیٰ کی معرفت کا حصول اور اس کی عبادت، چنانچہ اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں میں سے، جن کو توفیق سے بہرہ مند کیا گیا ہے، وہ اس مقصد کو پورا کررہے ہیں جبکہ ظالم اور روگردانی کرنے والے لوگ اس سے روگرداں ہیں۔ الطلاق
0 التحريم
1 یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر عتاب ہے ،(یہ عتاب اس وقت فرمایا ہے) جب آپ نے اپنے آپ پر اپنی لونڈی ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا یا شہد کو، ایک معروف واقعے کے مطابق، اپنی بعض ازواج مطہرات کی دل جوئی کے لیے حرام ٹھہرا لیا جس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں :﴿یٰٓاَیُّہَا النَّبِیُّ﴾ اے وہ ہستی جس کو اللہ تعالیٰ نے نبوت، رسالت اور وحی کی نعمت سے سرفراز فرمایا !﴿ لِمَ تُحَرِّمُ مَآ اَحَلَّ اللّٰہُ لَکَ ﴾ آپ ان پاک چیزوں کو کیوں حرام ٹھہراتے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو اور آپ کی امت کو نوازا ہے؟﴿ تَبْتَغِي ﴾ ”آپ چاہتے ہیں۔“ اس تحریم کے ذریعے سے ﴿مَرْضَاتَ اَزْوَاجِکَ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ﴾ ”اپنی بیویوں کی رضامندی اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔“ التحريم
2 یہ اس بات کی تصریح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بخش دیا ،آپ سے ملامت کو رفع کردیا اور آپ پر رحم فرمایا اور آپ سے صادر ہونے والی یہ تحریم تمام امت کے لیے ایک عام حکم کی تشریع کا سبب بن گئی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے تمام قسموں کے لیے عام حکم جاری کرتے ہوئے فرمایا :﴿قَدْ فَرَضَ اللّٰہُ لَکُمْ تَحِلَّۃَ اَیْمَانِکُمْ ﴾ ”اللہ نے تمہارے لیے تمہاری قسمیں کھولنا (توڑنا) فرض کردیا ہے۔ “یعنی اللہ تعالیٰ نے وہ طریقہ مشروع اور مقرر کردیا ہے جس کے ذریعے سے قسم سے، اس کو توڑنے سے پہلے ،نکلاجاسکے اور وہ کفارہ بتلا دیا جس کی ادائیگی قسم توڑنے کے بعد ضروری ہے اور یہ حکم اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں آیا ہے: ﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُحَرِّمُوا طَيِّبَاتِ مَا أَحَلَّ اللّٰـهُ لَكُمْ وَلَا تَعْتَدُواإِنَّ اللّٰـهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ وَكُلُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّٰـهُ حَلَالًا طَيِّبًاوَاتَّقُوا اللّٰـهَ الَّذِي أَنتُم بِهِ مُؤْمِنُونَ لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللّٰـهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَـٰكِن يُؤَاخِذُكُم بِمَا عَقَّدتُّمُ الْأَيْمَانَفَكَفَّارَتُهُ إِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ ذٰلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمَانِكُمْ إِذَا حَلَفْتُمْ ﴾(المائدۃ:5؍87،89) ”اے ایمان والو!تم ان پاک چیزوں کو حرام نہ ٹھہراؤ ،جن کو اللہ تعالیٰ نے حلال قرار دیا ہے اور حد سے نہ بڑھو۔ بے شک اللہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ اور اللہ تعالیٰ نے جو چیزیں تم کو دی ہیں اور ان میں سے حلال پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور اللہ سے ڈرو جس پر تم ایمان رکھتے ہو۔ اللہ تمہاری قسموں میں سے لغو قسم پر تم سے مؤاخذہ نہیں فرماتا لیکن مؤاخذہ اس پر فرماتا ہے کہ تم جن قسموں کو مضبوط کردو ،تو اس کا کفارہ دس مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے جو تم اپنے گھر والوں کو کھلاتے ہو یا ان کو کپڑے پہنانا یا ایک غلام آزاد کرنا ہے، پھر جس کو یہ میسر نہ ہو تو وہ تین دن کے روزے رکھے، جب تم قسم کھاؤ (اور توڑ دو )تو یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے۔“ پس ہر وہ شخص جو کسی حلال طعام، مشروب یا لونڈی کو حرام ٹھہرائے یاکسی فعل یاترک پر اللہ تعالیٰ کی قسم اٹھائے، پھر وہ قسم کو توڑ دے یا توڑنے کا ارادہ کرے تو اس پر یہ مذکورہ کفارے کی ادائیگی واجب ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَاللّٰہُ مَوْلٰیکُمْ ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ تمہارے امور کی سر پرستی کرنے ولا ہے اور تمہارے دین ودنیا کے امور میں تمہاری بہترین طریقے سے تربیت کرنے والا ہے ،جس کے سبب سے تم سے شر دور ہوتا ہے۔ بنابریں اس نے تمہاری قسمیں حلال کرنے کے لیے تمہارے لیے ایک طریقہ مقرر فرمایا تاکہ تم پر جو ذمے داری ہے وہ پوری ہوجائے۔ ﴿وَہُوَ الْعَلِیْمُ الْحَکِیْمُ﴾ جس کے علم نے تمہارے ظواہر اور بواطن کا احاطہ کررکھا ہے اس نے جو کچھ پیدا کیا ہے اس نے حکم دیا ہے، وہ اس میں حکمت کو ملحوظ رکھنے والا ہے اس لیے اس نے تمہارے لیے ایسے احکام مشروع کیے ہیں جن کے بارے میں اسے معلوم ہے کہ وہ تمہارے مصالح کے موافق اور تمہارے احوال کے لیے مناسب ہیں۔ التحريم
3 ﴿وَاِذْ اَسَرَّ النَّبِیُّ اِلٰی بَعْضِ اَزْوَاجِہٖ حَدِیْثًا ﴾ ”اور جب پیغمبر نے اپنی ایک بیوی سے ایک راز کی بات کہی۔“ (تواس نے دوسری کو بتا دی۔) بہت سے مفسرین کا قول ہے کہ یہ ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا ہیں ،ان کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی راز کی بات کہی اور ان سے کہا کہ وہ آگے کسی کو نہ بتائیں ۔انہوں نے یہ بات حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو بتا دی اللہ تعالیٰ نے اس خبر کے بارے میں جو حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے افشا کردی تھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو آگاہ کردیا ،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے حلم اور کرم کی بنا پر اس بات میں سے جو انہوں نے افشا کی تھی کچھ بات حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کو بتادی اور کچھ کے بارے میں اعراض کیا ﴿حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے آپ سے عرض کیا :﴿مَنْ اَنْبَاَکَ ہٰذَا ﴾ یعنی اس خبر سے آپ کو کس نے آگاہ کیا جو ہم نے باہر نہیں نکلی؟ ﴿ قَالَ نَبَّاَنِیَ الْعَلِیْمُ الْخَبِیْرُ﴾ ”آپ نے فرمایا :علیم وخبیر نے مجھے خبر دی ہے۔ “جس پر کوئی چیز مخفی نہیں وہ بھیدوں اور چھپی ہوئی چیزوں کو خوب جانتا ہے ۔ التحريم
4 ﴿اِنْ تَتُوْبَآ اِلَی اللّٰہِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوْبُکُمَا ﴾ خطاب کا رخ دونوں ازواج مطہرات، حضرت عائشہ، اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنہما کی طرف ہے ،جو اس بات کا سبب بنیں کہ آپ نے اپنے آپ پر اس چیز کو حرام ٹھہرایا جو آپ کو پسند تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اس بنا پر دونوں ازواج مطہرات پر عتاب فرمایا ،ان کے سامنے توبہ پیش کی اور انہیں آگاہ فرمایا کہ ان کے دل اس چیز سے منحرف ہوگئے جو ان کے لائق تھی، یعنی ورع اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ادب واحترام، نیز یہ کہ وہ آپ کی مخالفت نہ کریں۔ ﴿ وَاِنْ تَظٰہَرَا عَلَیْہِ﴾ اگر تم دونوں ایسے امر پر باہم تعاون کرو گی جو شاق گزرتا ہے آپ پر اور تمہاری طرف سے رویہ دائم رہا ﴿فَاِنَّ اللّٰہَ ہُوَ مَوْلٰیہُ وَجِبْرِیْلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمَلٰیِٕکَۃُ بَعْدَ ذٰلِکَ ظَہِیْرٌ﴾ ”تو اللہ اور جبرائیل اور نیک کردار مسلمان ان کے حامی ہیں اور ان کے علاوہ فرشتے بھی مددگار ہیں۔ “یہ سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعوان ومددگار ہیں اور جس کے اعوان وانصار یہ لوگ ہوں وہ مددیافتہ ہے اور دوسرے لوگ ،جو آپ کے ساتھ دشمنی کرتے ہیں ،تو یہ بے یارومددگار چھوڑے ہوئے ہیں۔ یہ سید المرسلین رسول مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے بڑی فضیلت اور سب سے بڑا شرف ہے کہ باری تعالیٰ نے اپنی ذات کریمہ اور اپنی مخلوق میں خاص لوگوں کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اعوان وانصار مقرر فرمایا۔ التحريم
5 ان آیات کریمہ میں دونوں ازواج مطہرات کے لیے تنبیہ ہے جو مخفی نہیں ہے ،پھر اللہ تعالیٰ نے دونوں کو ایک ایسی حالت سے ڈرایا ہے جو عورتوں پر بے حد شاق گزرتی ہے اور وہ ہے طلاق، جو ان کے لیے سب سے گراں چیز ہوتی ہے، اس لیے فرمایا :﴿عَسٰی رَبُّہٗٓ اِنْ طَلَّقَکُنَّ اَنْ یُّبْدِلَہٗٓ اَزْوَاجًا خَیْرًا مِّنْکُنَّ﴾ یعنی تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں برتری ظاہر کرنے کی کوشش نہ کرو کیونکہ اگروہ تمہیں طلاق دے دیں تو معاملہ ان پر تنگ نہیں ہوگا اور نہ وہ تمہارے محتاج ہی ہوں گے کیونکہ آپ عنقریب دوسری بیویاں پائیں گے اور اللہ تعالیٰ (تمہارے بدلے میں) آپ کو ایسی بیویاں عطا کردے گاجو دین اور حسن وجمال میں تم سے بہتر ہوں گی۔ یہ ایسی تعلیق کے باب میں سے ہے جس کا وجود نہیں اور نہ اس کا وجود لازم ہے کیونکہ آپ نے ان ازواج مطہرات کو طلاق نہیں دی اور اگر آپ طلاق دے دیتے تو وہی ہوتا جو ان ازواج مطہرات کے بارے میں ذکر فرمایا ہے ،وہ اسلام جو کہ ظاہری شریعت کو قائم کرنے کا نام ہے اور ایمان جو باطنی شریعت عقائد اور اعمال قلوب کو کرنے کا نام ہے، دونوں کو جامع ہوتیں۔ (قنوت )سے مراد دائمی اطاعت اور اطاعت پر استمرار ہے۔ ﴿تٰیِٕبٰتٍ﴾ وہ ان امور سے توبہ کرنے والی ہوں گی جن کو اللہ تعالیٰ ناپسند کرتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کو ایسے امور کو قائم کرنے سے موصوف فرمایا جن کو وہ پسند کرتا ہے اور ان کو ایسے امور سے اجتناب کرنے سے موصوف فرمایا جو اسے ناپسند ہیں ﴿ثَیِّبٰتٍ وَّاَبْکَارًا﴾ یعنی ان میں بعض ثیبہ (بیوہ) ہوں گی اور بعض کنواری تاکہ آپ کو اپنی پسند کے مطابق تنوع حاصل ہو۔ چنانچہ جب ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن نے یہ تخویف اور تادیب سنی تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا جوئی کے لیے جلدی سے آگے بڑھیں، لہٰذا یہ مذکورہ اوصاف ان پر منطبق ہوئے اور وہ مومن عورتوں میں سب سے افضل قرار پائیں ۔اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول کے لیے مکمل احوال اور اعلی امور کا انتخاب کرتا ہے ۔پس جب اللہ تعالیٰ نے مذکورہ خواتین کو اپنے رسول کے حرم کے لیے باقی رکھنا پسند کیا تو اس سے ثابت ہوا کہ وہ تمام عورتوں سے بہتر اور کامل ہیں۔ التحريم
6 یعنی اےوہ لوگو جن کو اللہ تعالیٰ نے ایمان سے نوازا ہے !ایمان کے لوازمات اور اس کی شرائط کا التزام کرو، اس لیے ﴿قُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَاَہْلِیْکُمْ نَارًا﴾ ”اپنے آپ کو اور اپنے گھروالوں کو آگ سے بچاؤ۔“ جو ان برے اوصاف سے متصف ہے۔ نفس کو بچانا یہ ہے کہ اس سے اطاعت کا، اللہ تعالیٰ کے اوامر کا ،اس کے نواہی سے اجتناب کا اور ایسے امور سے توبہ کا التزام کرایاجائے جن سے اللہ تعالیٰ ناراض ہوتا ہے اور جو عذاب کے موجب ہیں ۔اہل وعیال کو بچانا یہ ہے کہ ان کو ادب وعلم سکھایا جائے اور ان کو اللہ تعالیٰ کے احکامت کی تعمیل پر مجبور کیا جائے۔ پس بندہ صرف اسی وقت محفوظ ہوتا ہے جب وہ اپنے بارے میں اور ان لوگوں کے بارے میں ،جو اس کی سرپرستی میں اور اس کے تصرف میں ہوں ،اللہ تعالیٰ کے اوامر کی تعمیل کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آگ کے یہ اوصاف اس لیے بیان کیے ہیں تاکہ بندے اللہ تعالیٰ کے حکم کو حقیر سمجھنے سے ڈریں ،چنانچہ فرمایا :﴿وَّقُوْدُہَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ﴾ ”جہنم کا ایندھن لوگ اور پتھر ہوں گے۔ “جیسا کہ فرمایا :﴿ إِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللّٰـهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ أَنتُمْ لَهَا وَارِدُونَ ﴾ (الانبیا ء:21؍98)” بے شک تم اور تمہارے وہ خود ساختہ معبود جن کی تم اللہ کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہو جہنم کا ایندھن ہیں ،تمہیں جہنم میں وارد ہونا ہے۔“ ﴿ عَلَیْہَا مَلٰیِٕکَۃٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ﴾ ”جس پر سخت دل مضبوط فرشتے مقرر ہیں۔“ ان فرشتوں کے اخلاق بہت درشت ہیں اور ان کا انتقام بہت برا ہوگا، جہنمی ان کی آوازیں سن کر گھبرائیں گے اور ان کو دیکھ کر خوف کھائیں گے ، یہ فرشتے اپنی طاقت وقوت سے جہنمیوں کو رسوا کریں گے اور ان پر اللہ تعالیٰ کے احکامت نافذ کریں گے جس نے ان کے بارے میں عذاب کا حتمی فیصلہ کیا ہے اور سخت سزا ان پر واجب کی ہے۔ ﴿ لَّا یَعْصُوْنَ اللّٰہَ مَآ اَمَرَہُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ﴾ ”اللہ انہیں جو حکم دیتا ہے ،وہ اس کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم انہیں ملتا ہے اسے بجالاتے ہیں۔“ اس میں بھی مکرم فرشتوں کی مدح، اللہ تعالیٰ کے حکم کے سامنے اس کے سرتسلیم خم کرنے اور اللہ تعالیٰ کے ہر حکم پر ان کی اطاعت کا ذکر ہے۔ التحريم
7 یعنی قیامت کے روز ان الفاظ میں جہنمیوں کو زجر وتوبیخ کی جائے گی ،پس ان سے کہا جائے گا :﴿یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَا تَعْتَذِرُوا الْیَوْمَ ﴾ ”اے کافرو!آج عذر مت پیش کرو۔“ یعنی عذر پیش کرنے کا وقت چلا گیا اور اس کا فائدہ ختم ہوگیا ، اب تو اعمال کی جزا وسزا کے سوا کچھ باقی نہیں اور تم نے اللہ تعالیٰ کے انکار، اس کی آیات کی تکذیب اور اس کے رسولوں اور اولیا ءکے ساتھ جنگ کے سوا کچھ آگے نہیں بھیجا۔ التحريم
8 اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں خالص توبہ کا حکم دیا ہے اور اس پر ان کی برائیاں مٹا دینے، جنتوں میں داخل کرنے اور فوز وفلاح کا وعدہ کیا ہے۔ جب قیامت کے دن اہل ایمان اپنے نور ایمان کے ساتھ اور اس کی روشنی میں چل رہے ہوں گے ،اس کی خوشبو اور راحت سے متمتع ہورہے ہوں گے اور اس روشنی کے بجھ جانے پر ڈریں گے جو منافقین کو دی گئی تھی اور اللہ تعالیٰ سے سوال کریں گے اور وہ ان کے نور کو پورا کرے، اللہ تعالیٰ ان کی دعا قبول فرمائے گا ،ان کے پاس جو نور اور یقین ہوگا اس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ انہیں نعمتوں بھری جنتوں اور رب کریم کے جوار میں پہنچائے گا ۔یہ سب خالص توبہ کے آثار ہیں ۔خالص توبہ سے مراد وہ توبہ ہے جو ان تمام گناہوں کو شامل ہو جو بندے نے اللہ تعالیٰ کے حق میں کیے ہیں ،اس توبہ سے اللہ کی رضا اور اس کے قرب کے سوا کچھ مقصود نہ ہو ،پھر بندہ تمام احوال میں اس توبہ پر قائم رہے۔ التحريم
9 اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو کفار اور منافقین کے خلاف جہاد کرنے اور اس بارے میں ان پر سختی کرنے کا حکم دیتا ہے اس میں ان کے ساتھ دلیل کے ذریعے سے جہاد کرنا ان کو اچھی نصیحت کے ساتھ دعوت دینا گمراہی کی مخلتف اقسام پر مبنی ان کے موقف کا بطال کرنا اور جو کوئی اللہ کی دعوت کو قبول کرنے ور اس کے فیصلے کی اطاعت کرنے سے انکار کردے تو اس کے خلاف اسلحہ اور جنگ کے ذریعے سے جہاد کرنا، سب شامل ہے ۔پس ایسے لوگوں کے خلاف جہاد کیا جائے اور ان پر سختی کی جائے۔ رہا جہاد کا پہلا مرتبہ، تو وہ اس ذریعے سے ہو جو بہترین ہے ،پس کفار اور منافقین پر اور ان کے خلاف جہاد پر اللہ تعالیٰ کا اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی جماعت کو لگانا ،دنیا کے اندر ان کے لیے عذاب ہے اور آخرت میں ان کے لیے جہنم کا عذاب ہوگا جو بہت بری جگہ ہے جس کی ہر طرف بدبخت اور خائب وخاسر شخص لوٹے گا۔ التحريم
10 یہ دو مثالیں ہیں جو اللہ تعالیٰ نے مومنوں اور کافروں کے لیے بیان کی ہیں تاکہ ان پر واضح ہوجائے کہ کافر کامومن کے ساتھ اتصال اور مومن کا قرب کافر کو کوئی فائدہ نہیں دے گا اور مومن کا کافر کے ساتھ اتصال ہو،مومن کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتااگر مومن فرائض کو پورا کرتا ہے ۔گویا اس میں ازواج مطہرات کے لیے معصیت سے بچنے کی تنبیہ ہے، نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اتصال ان کو کوئی فائدہ نہیں دے سکتا اگر انہوں نے برائی کی ہے، چنانچہ فرمایا :﴿ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوا امْرَاَتَ نُوْحٍ وَّامْرَاَتَ لُوْطٍ کَانَتَا﴾ ”اللہ نے کافروں کے لیے نوح کی بیوی اور لوط کی بیوی کی مثال بیان فرمائی ہیں ،یہ دونوں تھیں۔ “یعنی دونوں عورتیں ﴿تَحْتَ عَبْدَیْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَیْنِ﴾ ”ہمارے بندوں میں سے دو صالح بندوں کے گھر میں۔“ اور یہ تھے حضرت نوح اور حضرت لوط علیہما السلام ﴿ فَخَانَتَاهُمَا ﴾ ”پس انہوں نے دونوں کی خیانت کی۔“ یعنی دین میں (ان دونوں نے نبیوں کی خیانت کی) دونوں اپنے شوہروں کے دین کے سوا کسی اور دین پر تھیں ۔خیانت سے یہی معنی مراد ہیں اور اس سے نسب اور بستر کی خیانت مراد نہیں ،کیونکہ کسی نبی کی بیوی بدکاری کی مرتکب نہیں ہوئی اور نہ اللہ تعالیٰ نے کسی بدکار عورت کو انبیائے کرام علیہم السلام میں سے کسی کی بیوی ہی بنایاہے۔ ﴿فَلَمْ یُغْنِیَا عَنْہُمَا ﴾”پس نہ کام آئے وہ دونوں۔ “یعنی حضرت نوح اور لوط علیہما السلام اپنی بیویوں کے کچھ کام نہ آئے﴿ مِنَ اللّٰہِ شَیْــــًٔا وَّقِیْلَ ادْخُلَا النَّارَ مَعَ الدّٰخِلِیْنَ﴾ ”اللہ کے مقابلے میں کچھ بھی اور انہیں کہا گیا کہ وہ جہنم میں داخل ہونے والوں کے ساتھ داخل ہوجائیں۔“ التحريم
11 ﴿وَضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوا امْرَاَتَ فِرْعَوْنَ ﴾ ”اور اللہ نے مومنوں کے لیے فرعون کی بیوی کی مثال بیان کی تھی ۔“اور وہ تھیں آسیہ بنت مزاحم رضی اللہ عنہا ﴿اِذْ قَالَتْ رَبِّ ابْنِ لِیْ عِنْدَکَ بَیْتًا فِی الْجَنَّۃِ وَنَجِّــنِیْ مِنْ فِرْعَوْنَ وَعَمَلِہٖ وَنَجِّــنِیْ مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ﴾ ”جب اس نے کہا :اسے میرے رب :میرے لیے اپنے ہاں جنت میں ایک گھر بنا اور مجھے فرعون اور اس کے عمل (شر)سے نجات دے ،اور مجھے ظالم قوم سے نجات دے۔ “اللہ تعالیٰ نے حضرت آسیہ رضی اللہ عنہاکا وصف بیان کیا کہ وہ ایمان رکھتی تھیں، اپنے رب کے سامنے گڑگڑاتی تھیں ،اللہ تعالیٰ سے مطالب جلیلہ کا سوال کرتی تھیں اور وہ ہے جنت میں دخول اور رب کریم کی مجاورت کا سوال ،نیز وہ اللہ تعالیٰ سے یہ بھی دعا کرتی تھیں کہ وہ اسے فرعون کے فتنے، اس کے اعمال بد اور ہر ظالم کے فتنہ سے نجات دے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آسیہ رضی اللہ عنہا کی دعا قبول فرمالی: چنانچہ وہ ایمان کامل اور اس پر ثابت قدمی کے ساتھ زندہ رہیں اور تمام فتنوں سے بچی رہیں۔ بنابریں نبی مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :”مردوں میں سے مرتبہ کمال کو پہنچنے والے لوگ تو بہت ہیں مگر عورتوں میں مریم بنت عمران، آسیہ بنت مزاحم، خدیجہ بن خویلد کے سوا کوئی عورت مرتبہ کمال کو نہیں پہنچی اور عائشہ رضی اللہ عنہاکی تمام عورتوں پر فضیلت ایسے ہے جیسے ثرید کی فضیلت تمام کھانوں پر۔“ التحريم
12 ﴿وَمَرْیَمَ ابْنَتَ عِمْرٰنَ الَّتِیْٓ اَحْصَنَتْ فَرْجَہَا﴾ ”اور عمران کی بیٹی مریم جس نے اپنی شرم گاہ کی حفاظت کی۔“ یعنی انہوں نے اپنی کامل دیانت، عفت اور پاکیزگی کی بنا پر ہر فحش کام سے اپنی شرم گاہ کی حفاظت کی۔ ﴿فَنَفَخْنَا فِیْہِ مِنْ رُّوْحِنَا﴾ ”پس ہم نے اس میں اپنی روح پھونک دی۔“ جبرائیل علیہ السلام نے اس کے کرتے کے گریبان میں پھونک ماری اور ان کی یہ پھونک حضرت مریم تک پہنچی ،چنانچہ اس طرح حضرت مریم علیہا السلام سے رسول کریم اور سید عظیم حضڑت عیسیٰ علیہ السلام متولد ہوئے ﴿وَصَدَّقَتْ بِکَلِمٰتِ رَبِّہَا وَکُتُبِہٖ﴾ ”اور انہوں نے اپنے رب کے کلام اور اس کی کتابوں کی تصدیق کی۔“ یہ حضرت مریم علیہ السلام کو علم اور معرفت سے موصوف کیا گیا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے کلمات کی تصدیق اس کے کلمات دینی اور قدری کی تصدیق کو شامل ہے ،اس کی کتابوں کی تصدیق ان امور کا تقاضا کرتی ہے جن کے ذریعے سے تصدیق حاصل ہوتی ہے اور یہ علم وعمل کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی، بنابریں فرمایا :﴿وَکَانَتْ مِنَ الْقٰنِتِیْنَ﴾ ”اور وہ فرماں برداروں میں سے تھیں۔“ یعنی وہ خشیت اور خشوع کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر مداومت کرنے والوں میں سے تھیں ،یہ ان کے کمال عمل کا وصف ہے کیونکہ وہ صدیقہ تھیں اور صدیقیت کمال علم وعمل کا نام ہے۔ التحريم
0 الملك
1 ﴿ تَبَارَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ ﴾ یعنی وہ ہستی بہت عظمت والی اور بہت بلند ہے ، اس کی بھلائی بہت زیادہ اور اس کا احسان عام ہے۔ یہ اس کی عظمت ہے کہ عالم علوی اور عالم سفلی کا اقتدار اسی کے ہاتھ میں ہے ، وہی ہے جس نے اس کو پیدا کیا ہے، وہ جیسے چاہتا ہے احکام دینی اور احکام قدری میں تصرف کرتا ہے جو اس کی حکمت کے تابع ہوتے ہیں ۔اس کی عظمت اور اس کی قدرت کا کمال ہے جس کی بنا پر وہ ہر چیز پر قادر ہے ،اسی قدرت کے ذریعے سے اس نے بڑی بڑی مخلوقات، مثلا : آسمان اور زمین کو وجود بخشا اور آیت ﴿ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ﴾ ” اس نے موت وحیات کو پیدا کیا“ یعنی اس نے اپنے بندوں کے مقدر کیا کہ وہ ان کو زندگی عطا کرے پھر موت سے ہم کنار کرے ﴿ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا﴾ تاکہ وہ آزمائے کہ تم میں سے کون سب سے زیادہ صاحب اخلاص اور کون سب سے زیادہ راہ صواب پر ہے ۔یہ آزمائش اس طرح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو پیدا کرکے ان کو اس دنیا میں بھیجا، انہیں یہ بھی بتادیا کہ انہیں عنقریب یہاں سے منتقل کیا جائے گا ، ان کو اوامر ونواہی دیے اور اپنے ان اوامر کی معارض شہوات کے ذریعے سے ان کو آزمایا ۔پس جس کسی نے اللہ تعالیٰ کے اوامر کے سامنے سرتسلیم خم کردیا تو اللہ اسے دنیا وآخرت میں بہترین جزادے گا اور جو کوئی شہوات نفس کی طرف مائل ہوا اور اللہ تعالیٰ کے اوامر کو دور پھینک دیا تو اس کے لیے بدترین سزا ہے۔ ﴿ وَهُوَ الْعَزِيزُ﴾ تمام غلبہ اسی کا ہے جس کے ذریعے سے وہ تمام چیزوں پر غالب ہے اور مخلوقات اس کی مطیع ہے ۔ ﴿ الْغَفُورُ﴾ وہ بدکاروں، کوتاہی کرنے والوں اور گناہ گاروں کو بخش دیتا ہے ، خاص طور پر جب وہ توبہ کرکے اس کی طرف رجوع کریں ، وہ ان کے گناہوں کو بخش دیتا ہے ، خواہ وہ آسمان کے کناروں تک پہنچے ہوئے ہوں ،وہ ان کے عیوب کو چھپاتا ہے، خواہ وہ زمین بھر ہوں۔ ﴿ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ طِبَاقًا﴾ یعنی اس نے آسمانوں کو ایک ہی طبق نہیں بنایا بلکہ ان کو ایک دوسرے کے اوپر بنایا، ان کو انتہائی خوبصورتی اور مضبوطی کے ساتھ پیدا کیا ﴿ مَّا تَرَىٰ فِي خَلْقِ الرَّحْمَـٰنِ مِن تَفَاوُتٍ﴾ ” تم رحمٰن کی تخلیق میں کوئی بے ربطی نہیں دیکھو گے“ یعنی خلل اور نقص۔ جب نقص کی ہر لحاط سے نفی ہوگئی تو وہ ہر لحاظ سے خوبصورت، کامل اور متناسب بن گئے، یعنی اپنے رنگ میں، اپنی ہیئت میں، اپنی بلندی میں، اپنے سورج، کواکب، ثوابت اور سیارات میں خوبصورت اور متناسب ہیں ۔ چونکہ ان کا کمال معلوم ہے ،اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو بار بار دیکھنے اور ان کو کناروں میں غور کرنے کا حکم دیا ہے ۔﴿ فَارْجِعِ الْبَصَرَ﴾ عبرت کی نظر سے دیکھنے کے لیے اس پر دوبارہ نگاہ ڈال ﴿ هَلْ تَرَىٰ مِن فُطُورٍ﴾ کیا تجھے کوئی نقص اور خلل نظر آتا ہے؟ ﴿ ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ كَرَّتَيْنِ ﴾۔ ”پھر لوٹا تو نگاہ کو دوبارہ باربار۔“ اس سے مراد کثرت تکرار ہے ﴿ يَنقَلِبْ إِلَيْكَ الْبَصَرُ خَاسِئًا وَهُوَ حَسِيرٌ﴾” نظر (ہربار) تیرے پاس ناکام اور تھک کرلوٹ آئے گی“ یعنی کوئی خلل اور کوئی نقص دیکھنے سے عاجز آکر واپس لوٹے گی اور خواہ وہ خلل دیکھنے کی بے انتہا خواہش رکھتی ہو، پھر اللہ تبارک وتعالیٰ نے نہایت صراحت کے ساتھ آسمانوں کی خوبصورتی کا ذکر کیا، چنانچہ فرمایا: الملك
2 الملك
3 الملك
4 الملك
5 یعنی ہم نے جمال بخشا ﴿ السَّمَاءَ الدُّنْيَا﴾ ” دنیا کے آسمان کو“ جسے تم دیکھ رہے ہو اور جو تمہارے قریب اور متصل ہے ۔﴿ بِمَصَابِيحَ﴾، ”چراغوں کے ساتھ“ اس سے مراد مختلف اقسام کی روشنیاں رکھنے والے ستارے ہیں کیونکہ اگر آسمان میں ستارے نہ ہوتے تو یہ ایک تاریک چھت ہوتی جس میں کوئی حسن وجمال نہ ہو۔ مگر اللہ تعالیٰ نے ان ستاروں کو آسمان کی زینت، حسن وجمال اور راہ نما بنایا جن کے ذریعے سے بحروبر میں راہ نمائی حاصل کی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ خبر کہ اس نے آسمان دنیا کو چراغوں سے مزین کیا، اس امر کے منافی نہیں کہ بہت سے ستارے ساتوں آسمانوں کے اوپر ہوں کیونکہ آسمان شفاف ہوتے ہیں اور اگر آسمان دنیا پر ستارے نہ بھی ہوں تو ساتوں آسمانوں کے ستاروں کے ذریعے سے آسمان دنیا کو زینت حاصل ہوسکتی ہے۔ ﴿ وَجَعَلْنَاهَا﴾ اور بنایا ہم نے چراغوں کو ﴿ رُجُومًا لِّلشَّيَاطِينِ﴾ ”شیطانوں کو مارنے کا آلہ“ جو آسمانوں سے خبر چوری کرنا چاہتے ہیں، پس یہ شہاب ،جنہیں ستاروں سے شیاطین پر پھینکا جاتا ہے، انہیں اللہ تبارک وتعالیٰ نے دنیا کے اندر شیاطین کے لیے تیار کررکھا ہے ۔﴿ وَأَعْتَدْنَا لَهُمْ﴾ اور آخرت میں ان کے لیے تیار کیا ہے ﴿ عَذَابَ السَّعِيرِ﴾ ” بھڑکتی ہوئی آگ کا عذاب“ کیونکہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں سرکشی اختیار کی اور اس کے بندوں کو گمراہ کیا، اس لیے ان کی پیروی کرنے والے کفار انہی کی مانند ہیں، ان کے لیے بھی اللہ تعالیٰ نے جہنم کا عذاب تیار کررکھا ہے، اس لیے فرمایا :﴿ وَلِلَّذِينَ كَفَرُوا بِرَبِّهِمْ عَذَابُ جَهَنَّمَ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ﴾” اور جن لوگوں نے اپنے رب کا انکار کیا، ان کے لیے جہنم کا عذاب ہےاور برا ٹھکانا ہے۔“ وہ ایسا ٹھکانہ ہے کہ وہاں کے لوگوں کو بے رسوا کیا جائے گا۔ ﴿ إِذَا أُلْقُوا فِيهَا ﴾ جب ذلت اور رسوائی کے ساتھ ان کو جہنم کے اندر پھینک دیا جائے گا ﴿ سَمِعُوا لَهَا شَهِيقًا ﴾ تو وہ جہنم کی بہت بلند اور انتہائی کریہہ آواز سنیں گے ﴿ وَهِيَ تَفُورُ ﴾ اور حالت یہ ہوگی کہ جہنم جوش ماررہی ہوگی۔ ﴿ تَكَادُ تَمَيَّزُ مِنَ الْغَيْظِ﴾ ” گویا مارے جوش کے پھٹ پڑے گی۔“ یعنی مجتمع ہونے کے باوجود، یوں لگتا ہے کہ وہ ایک دوسرے سے علیحدہ ہوجائے گی اور کفار پر مارے غیظ وغضب کے پھٹ کر ٹکڑے ہوجائے گی۔“ تم سمجھ سکتے ہو کہ ان کو جہنم میں ڈالاجائے گا تو جہنم ان کے ساتھ کیا کرے گی؟ جہنم کا داروغہ اہل جہنم کو جو زجر وتوبیخ کرے گا، اللہ تعالیٰ نے اس کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا :﴿ كُلَّمَا أُلْقِيَ فِيهَا فَوْجٌ سَأَلَهُمْ خَزَنَتُهَا أَلَمْ يَأْتِكُمْ نَذِيرٌ﴾ ”جب اس میں ان کی کوئی جماعت ڈالی جائے گی تو دوزخ کے داروغے ان سے پوچھیں گے، کیا تمہارے پاس کوئی متنبہ کرنے والا نہیں آیا تھا؟“ یعنی تمہارے اس حال اور تمہارے جہنم کے مستحق ہونے سے یوں لگتا ہے گویا کہ تمہیں اس کے بارے میں آگاہ ہی نہیں کیا گیا اور متنبہ کرنے والوں نے تمہیں کبھی اس سے متنبہ ہی نہیں کیا ۔﴿ قَالُوا بَلَىٰ قَدْ جَاءَنَا نَذِيرٌ فَكَذَّبْنَا وَقُلْنَا مَا نَزَّلَ اللّٰـهُ مِن شَيْءٍ إِنْ أَنتُمْ إِلَّا فِي ضَلَالٍ كَبِيرٍ ﴾” وہ کہیں گے، کیوں نہیں! ضرور ہمارے پاس ڈرانے والا آیا تھا لیکن ہم نے اس کو جھٹلادیا اور کہا کہ اللہ نے توکوئی چیز نازل ہی نہیں کی، تم تو بڑی گمراہی میں پڑے ہوئے ہو۔“ پس انہوں نے نبی کی تکذیب خاص اور اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ ہر چیز کی تکذیب عام کو جمع کردیا اور انہوں نے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ انہوں نے متنبہ کرنے والے رسولوں کو علی الاعلان گمراہ کہا ، حالانکہ وہی تو راہ دکھانے والے اور سیدھی راہ پر ہیں پھر انہوں نے مجرو گمراہی کے فتوے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ان کی ”گمراہی “ کو ”بہت بڑی گمراہی “قرار دیا ،تب کون ساعناد، تکبر اور ظلم اس کے مشابہ ہوسکتا ہے؟ ﴿ وَقَالُوا﴾ رشد وہدایت کے اہل نہ ہونے کا اعتراف کرتے ہوئے کہیں گے: ﴿ لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ أَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا فِي أَصْحَابِ السَّعِيرِ﴾، ” اگر ہم سنتے یا سمجھتے ہوتے، تو دوزخیوں میں نہ ہوتے۔“ پس وہ اپنی ذات سے ہدایت کے تمام راستوں کی نفی کریں گے اور وہ ہیں، اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ اور رسول کی لائی ہوئی کتاب کو سننا اور عقل جو صاحب عقل کو فائدہ دیتی ہے ،جو اسے حقائق اشیا، بھلائی کو ترجیح دینے اور ہراس چیز سے اجتناب کرنے پر ٹھہراتی ہے جس کا انجام قابل مذمت ہو۔ مگر ان کے پاس تو سماعت ہے نہ عقل۔ ان کا یہ رویہ اہل یقین وعرفان اور ارباب صدق و ایمان کے رویے کے برعکس ہے کیونکہ انہوں نے سمعی دلائل سے اپنے ایمان کی تائید کی اور جو کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا اور جو کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لے کرآئے انہوں نے اسے حصول علم، معرفت اور عمل کے لیے سنا ،نیز انہوں نے عقلی دلائل کے ذریعے سے گمراہی میں سے ہدایت، قبیح میں سے حسین اور شر میں سے خیر کی معرفت حاصل کی، وہ اپنے ایمان میں منقول ومعقول کی اقتدا کے مطابق تھے، جس سے اللہ تعالیٰ نے ان کو نوازا تھا ۔ پاک ہے وہ ذات جو بندوں میں سے جسے چاہتی ہے اپنے فضل کے لیے مختص کرتی ہے اور جسے چاہتی ہے اپنے احسان سے بہر ہ مند کرتی ہے اور جو بھلائی کے قابل نہیں ہوتا اسے تنہا چھوڑ دیتی ہے۔ الملك
6 الملك
7 الملك
8 الملك
9 الملك
10 الملك
11 جہنم میں داخل ہونے والوں اور اپنے ظلم وعناد کا اعتراف کرنے والوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے﴿ فَاعْتَرَفُوا بِذَنبِهِمْ فَسُحْقًا لِّأَصْحَابِ السَّعِيرِ﴾ یعنی ان کے لیے رحمت الٰہی سے دوری، خسارہ اور بدبختی ہے ،وہ کتنے بدبخت اور کس قدر ہلاکت میں مبتلا ہیں کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے ثواب کو کھودیا اور جہنم کا ایندھن بنے، جو ان کے ابدان میں بھڑکتی رہے گی اور ان کے دلوں سے لپٹتی رہے گی۔ الملك
12 اللہ تعالیٰ نے بدبخت فاجروں کا ذکر کیا تو سعادت مند نیک لوگوں کا وصف بھی بیان کیا ،چنانچہ فرمایا :﴿ إِنَّ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُم بِالْغَيْبِ ﴾ بے شک وہ لوگ جو اپنے تمام احوال میں اپنے رب سے ڈرتے ہیں حتی کہ وہ اس حالت میں بھی اللہ سے ڈرتے ہیں جس کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا، پس وہ اس کی نافرمانی کا ارتکاب کرتے ہیں نہ اس کے حکم کی تعمیل میں کوتاہی کرتے ہیں جو ان کو دیا گیا ہے ﴿ لَهُم مَّغْفِرَةٌ﴾ ان کے لیے گناہوں کی بخشش ہے ۔ جب اللہ نے ان کے گناہوں کو بخش دیا تو اس نے ان کو ان گناہوں کے شر سے اور جہنم کے عذاب سے بچالیا ۔﴿ وَ﴾”اور“ان کے لیے ﴿ أَجْرٌ كَبِيرٌ﴾ بڑا اجر ہے جو اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے جنت میں تیار کررکھا ،ہے یعنی ہمیشہ رہنے والی نعمتیں، بہت بڑی بادشاہی، پیہم لذتیں، محلات، بالاخانے، خوبصورت حوریں، خدمت گار اور خدمت کرنے والے لڑکے۔ اس سے بھی عظیم تر اور بڑا اجر رحمن کی رضا ہے جو جنت کے رہنے والوں کو حاصل ہوگی۔ الملك
13 یہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے اپنے وسیع علم، بے پایاں لطف وکرم کے بارے میں خبر ہے، چنانچہ فرمایا :﴿ وَأَسِرُّوا قَوْلَكُمْ أَوِ اجْهَرُوا بِهِ﴾ ”اور تم پوشیدہ کہو یا ظاہر“ یعنی اس کے لیے دونوں برابر ہیں، دونوں میں سے کوئی بات اس سے چھپی نہیں رہ سکتی، پس ﴿ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ﴾ وہ سینے میں چھپی ہوئی نیتوں اور ارادوں کو بھی جانتا ہے ، وہ ان اقوال کو کیوں کر نہیں جانتا جن کو سنا جاسکتا ہے اور جن کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے؟ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے علم پر عقلی دلیل سے استدلال کرتے ہوئے فرمایا :﴿ أَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ﴾ یعنی وہ ہستی جس نے مخلوق کو نہایت مہارت سے اور بہترین طریقے سے پیدا کیا وہ سینوں کے بھید کیونکر نہ جانتی ہوگی؟ ﴿ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ﴾ اس کے علم وخبر بہت لطیف ہیں حتیٰ کہ وہ سینے کے بھیدوں، ضمیر کے رازوں، تمام چھپی ہوئی چیزوں، خفیہ امور اور غیوب کو جانتا ہے، وہی ہے جو ﴿ يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفَى ﴾ (طه:20؍7) ”چھپی ہوئی اور پوشیدہ باتوں کو بھی جانتا ہے۔ “ (اللَّطِيفُ) کے معانی میں سے ایک معنی یہ ہیں کہ وہ اپنے بندے اور دوست کے ساتھ نہایت لطف وکرم سے پیش آتا ہے، اس کے ساتھ احسان اور نیکی اس طرح کرتا ہے کہ اسے شعور تک نہیں ہوتا، وہ اسے شر سے ایسے بچاتا ہے جس کا اسے وہم وگمان نہیں ہوتا، وہ اسے ایسے اسباب کے ذریعے سے اعلیٰ مراتب پر فائز کرتا ہے جو بندے کے تصور میں بھی نہیں ہوتے یہاں تک کہ وہ اسے ناگوار حالات کا مزا چکھاتا ہے تاکہ ان کے ذریعے سے اسے جلیل القدر محبوبات اور اعلیٰ مطالب ومقاصد تک پہنچائے۔ الملك
14 الملك
15 یعنی وہی ہے جس نے زمین کو مسخر کردیا اور اسے تمہارا مطیع کردیا تاکہ تم اس میں سے ہر وہ چیز حاصل کرسکو جس سے تمہاری حاجات متعلق ہیں،مثلا: باغات لگانا، عمارتیں تعمیر کرنا، کھیتیاں اگانا اور ایسی شاہراہیں بنانا جو تمہیں دور دراز ملکوں اور شہروں تک پہنچاتی ہیں ﴿ فَامْشُوا فِي مَنَاكِبِهَا﴾ ”پس تم اس کی راہوں میں چلو پھرو “یعنی طلب رزق ومکاسب کے لیے ﴿ وَكُلُوا مِن رِّزْقِهِ وَإِلَيْهِ النُّشُورُ ﴾ ”اور اللہ کے رزق سے کھاؤ اور اسی کی طرف جی اٹھنے کے بعد جانا ہے۔“ یعنی اس گھر سے منتقل ہو کر جسے اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے امتحان گاہ اور ایسا وسیلہ بنایا ہے جس کے ذریعے سے آخرت کے گھر تک پہنچا جاتا ہے، تمہارے مرنے کے بعد تمہیں دوبارہ زندہ کیا جائے گا اور اللہ تعالیٰ کے پاس اکٹھا کیا جائے گا تاکہ وہ تمہیں تمہارے اچھے اور برے اعمال کی جزا وسزا دے۔ الملك
16 یہ اس شخص کے لیے تہدید وعید ہے جو اپنی سرکشی، تعدی اور نافرمانی پر جماہوا ہے جو سزا اور عذاب کے نزول کی موجب ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿ أَأَمِنتُم مَّن فِي السَّمَاءِ﴾ ”کیا تم اس سے جو آسمان میں ہے، نڈر ہو۔“ اس سے مراد اللہ تعالیٰ ہے جو اپنی مخلوق پر بلند ہے ﴿ أَن يَخْسِفَ بِكُمُ الْأَرْضَ فَإِذَا هِيَ تَمُورُ ﴾ ”کہ وہ تم کو زمین میں دھنسا دے اور وہ اس وقت حرکت کرنے لگے“ تمہیں لے کر کانپنے لگے اور تم ہلاک اور تباہ وبرباد ہوجاؤ ۔ ﴿ أَمْ أَمِنتُم مَّن فِي السَّمَاءِ أَن يُرْسِلَ عَلَيْكُمْ حَاصِبًا﴾ ”کیا تم اس سے جو آسمان میں ہے، بے خوف ہو کہ وہ تم پر پتھر برسا دے۔“ یعنی آسمان سے عذاب نازل کرے، تم پر پتھر برسائے اور اللہ تعالیٰ تم سے انتقام لے ﴿ فَسَتَعْلَمُونَ كَيْفَ نَذِيرِ﴾ یعنی تمہیں عنقریب معلوم ہوگا کہ وہ عذاب تم پر کیسے آتا ہے جس کے بارے میں تمہیں رسولوں اور کتابوں نے ڈرایا تھا۔ پس تم یہ نہ سمجھو کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے زمین اور آسمان کے عذاب سے تمہارا محفوظ ومامون ہونا تمہیں کوئی فائدہ دے گا۔ تم عنقریب اپنے کرتوتوں کا انجام ضرور دیکھو گے، خواہ یہ مدت لمبی ہو یاچھوٹی کیونکہ تم سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں نے بھی جھٹلایا جیسے تم نے جھٹلایا ہے تو دیکھ لو کیسے اللہ تعالیٰ نے انہیں اس تکذب سے روکا؟ اللہ تعالیٰ نے آخرت کے عذاب سے پہلے انہیں دنیا میں عذاب کا مزا چکھایا ، اس لیے ڈرو کہ کہیں تم پر بھی وہی عذاب نازل نہ ہوجائے جو ان پر نازل ہوا تھا۔ الملك
17 الملك
18 الملك
19 یہ عتاب ہے اور پرندوں کی حالت پر غور کرنے کی ترغیب ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے مسخر کیا اور پھر ان کے لیے فضا اور ہوا کو مسخر کیا جس میں وہ پرواز کے لیے پر پھیلائے پھر تے ہیں، نیچے اترنے کے لیے اپنے پروں کو اکٹھا کرتے اور فضا میں اپنے ارادے اور ضرورت کے مطابق ادھر ادھر تیرتے پھرتے ہیں۔ ﴿ مَا يُمْسِكُهُنَّ إِلَّا الرَّحْمَـٰنُ﴾ ” انہیں اللہ رحمٰن ہی تھامے ہوئے ہے ۔“پس رحمٰن ہی ہے جس نے ان کے لیے فضائے بسیط کو مسخر کیا اور ان کو ایسی حالت میں پیدا کیا جو پرواز کے لیے مناسب ہے۔ پس جو کوئی پرندوں کی حالت میں غور کرکے عبرت حاصل کرتا ہے تو ان کی یہ حالت اس کے لیے قدرت الٰہی اور عنایت ربانی پر دلالت کرتی ہے، نیز اس حقیقت پر دلالت کرتی ہے کہ وہ ایک ہے جس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ ﴿ إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ بَصِيرٌ﴾ ” بے شک ہر چیز اس کی نگاہ میں ہے“ وہ اپنے بندوں کے لیے ان کے لائق احوال اور اپنی حکمت کے تقاضوں کے مطابق تدبیر کرتا ہے۔ الملك
20 اللہ تعالیٰ اپنے امر سے دور بھاگنے اور حق سے رو گردانی کرنے والے سرکشوں سے فرماتا ہے: ﴿ أَمَّنْ هـٰذَا الَّذِي هُوَ جُندٌ لَّكُمْ يَنصُرُكُم مِّن دُونِ الرَّحْمَـٰنِ ﴾۔ یعنی جب رحمٰن تمہارے ساتھ کوئی برائی کرنے کا ارادہ کرے تو کون سا تمہارا لشکر اس برائی کو تم سے دور کرسکتا ہے؟ یعنی رحمٰن کے سوا تمہارے دشمنوں کے خلاف کون تمہاری مدد کرسکتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی مدد کرنے والا، عزت عطا کرنے والا اور ذلت سے ہم کنار کرنے والا ہے، اور اس کے سوا تمام مخلوق کسی بندے کی مدد کے لیے اکٹھی ہوجائے تو کسی بھی دشمن کے خلاف اسے ذرہ بھر فائدہ نہیں دے سکتی۔ پس کفار کا یہ جان لینے کے بعد کہ رحمٰن کے سوا کوئی ان کی مدد نہیں کرسکتا، اپنے کفر پر جمے رہنا فریب اور حماقت کے سوا کچھ نہیں۔ ﴿ أَمَّنْ هٰذَا الَّذِي يَرْزُقُكُمْ إِنْ أَمْسَكَ رِزْقَهُ ﴾ یعنی رزق تمام تر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے ۔اگر وہ تم سے رزق کو روک لے تو کون تمہارے لیے رزق بھیج سکتا ہے؟ کیونکہ مخلوق تو خود اپنے رزق پر قادر نہیں، دوسروں کو کیسے رزق دے سکتی ہے؟ بندوں کو جو نعمت عطا ہوتی ہے وہ صرف اللہ کی طرف عطا ہوتی ہے ۔پس رزق عطا کرنے والی اور نعمتوں سے بہر ہ ور کرنے والی ہستی ہی اس بات کی مستحق ہے کہ اسی ایک کی عبادت کی جائے۔ مگر کفار ﴿ لَّجُّوا ﴾ جمے ہوئے ہیں ﴿ فِي عُتُوٍّ ﴾ حق کے معاملے میں سختی اور درشتی میں ﴿ وَنُفُورٍ ﴾ ”اور نفرت میں“ یعنی حق سے د ور بھاگتے ہیں ۔ الملك
21 الملك
22 یعنی ان دوشخصوں میں سے کون زیادہ ہدایت کی راہ پر ہے ؟ کیا وہ شخص جو گمراہی میں سرگشتہ پھرتا ہے، اپنے کفر میں غرق ہے اور اس کی سمجھ الٹ گئی ہے اس کے نزدیک حق باطل اور باطل حق بن چکا ہے یا وہ شخص جو حق کا علم رکھنے والا ،حق کو ترجیح دینے والا ،حق پر عمل کرنے والا اور اپنے اقوال وافعال اور تمام احوال میں صراط مستقیم پر گامزن ہے،ان دونوں اشخاص کے احوال پر مجرد ایک نظر ڈالنے سے ہدایت یافتہ اور گمراہ کے درمیان فرق معلوم ہوجائے گا۔ احوال، اقوال سے بڑے گواہ ہیں۔ الملك
23 اللہ تعالیٰ یہ حقیقت بیان کرتے ہوئے کہ وہی اکیلا معبود ہے، اپنے بندوں کو اپنے شکر کی طرف بلاتے ہوئے اور عبادت میں اپنے متفرد ہونے کی طرف دعوت دیتے ہوئے فرماتا ہے :﴿ قُلْ هُوَ الَّذِي أَنشَأَكُمْ﴾ یعنی وہی ہے جو کسی معاون اور مددگار کے بغیر تمہیں عدم سے وجود میں لایا، جب اس نے تمہیں پیدا کیا تو کانوں، آنکھوں اور دلوں کے ساتھ تمہارے وجود کی تکمیل کی جو بدن کے نافع ترین اور کامل ترین جسمانی اعضا ہیں ۔مگر ان نعمتوں کے باوجود ﴿ قَلِيلًا مَّا تَشْكُرُونَ﴾ ” تم کم ہی اللہ تعالیٰ کاشکر ادا کرتے ہو“ تم میں شکر گزار لوگ اور شکر گزاری بہت کم ہے۔ ﴿ قُلْ هُوَ الَّذِي ذَرَأَكُمْ فِي الْأَرْضِ﴾ ”کہہ دیجئے کہ وہی ہے جس نے تم کو زمین میں پھیلایا۔“ یعنی اس نے تمھیں زمین کے چاروں سمت پھیلایا اور اس کے کناروں تک تمہیں آباد کیا، تمہیں امر ونہی کا مکلف کیا، تمہیں نعمتوں سے سرفراز فرمایا جن سے تم فائدہ اٹھاتے ہو،پھر اس کے بعد قیامت کے دن وہ تمہیں اکٹھا کرے گا۔مگر یہ معاندین حق، جزا وسزا کے اس وعدے کا انکار کرتے ہیں ﴿ وَيَقُولُونَ ﴾ اور تکذیب کرتے ہوئے کہتے ہیں : ﴿ مَتَىٰ هـٰذَا الْوَعْدُ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ﴾۔ ”اگر تم سچے ہو تو یہ وعدہ کب پورا ہوگا؟“ انہوں نے انبیاء کی صداقت کی علامت یہ رکھی کہ انہیں قیامت کے دن کی آمد کے وقت کے بارے میں آگاہ کریں، جبکہ یہ ظلم اور عناد ہے۔ پس اس کا علم تو اللہ کے پاس ہے مخلوق میں سے کسی کے پاس نہیں اور نہ اس خبر اور اس کے وقوع کے وقت کی خبر میں کوئی تلازم ہی ہے کیونکہ صداقت اپنے دلائل سے پہچانی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی صحت پر دلائل وبراہین قائم کردیے ہیں ،اس شخص کے لیے ادنی ٰسا شک نہیں رہتا جو توجہ کے ساتھ سنتا ہے۔ الملك
24 الملك
25 الملك
26 الملك
27 کفار کی تکذیب اور اس بنا پر ان کے فریب کا محل ومقام اس وقت تک ہے جب تک کہ وہ اس دنیا میں ہیں ،جب جزاوسزا کا دن ہوگا اور وہ عذاب کو ﴿ زُلْفَةً ﴾ اپنے قریب دیکھیں گے تو یہ انہیں بہت برا لگے گا اور انہیں خوف زدہ کردے گا، ان کے چہرے بدل جائیں گے، ان کی تکذیب پر انہیں زجر وتوبیخ کی جائے گی اور ان سے کہا جائے گا:” یہ وہی ہے جس کی تم تکذیب کرتے تھے۔ آج تم نے اسے عیاں دیکھ لیا ہے اور تمام معاملہ تمہارے سامنے ظاہر ہوگیا ہے، تمہارے تمام اسباب منقطع ہوگئے ہیں اور اب عذاب بھگتنے کے سوا کچھ باقی نہیں۔ “ چونکہ رسول مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جھٹلانے والے جو آپ کی دعوت کو ٹھکراتے تھے، آپ کی ہلاکت اور آپ کے بارے میں گردش زمانہ کے منتظر تھے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا کہ آپ ان سے کہیں کہ اگر تمہاری آرزو پوری ہو بھی جائے اور اللہ تعالیٰ مجھے اور میرے ساتھیوں کو ہلاک کردے تو یہ چیز تمہیں کوئی فائدہ نہیں دے گی، کیونکہ تم نے اللہ تعالیٰ کی آیات کا انکار کیا اور تم عذاب کے مستحق بن گئے۔ پس اب تمہیں دردناک عذاب سے کون بچا سکتا ہے جس کا تم پر واقع ہونا حتمی ہے؟ تب میری ہلاکت کے بارے میں تمہاری مشقت اور حرص غیر مفید ہے اور وہ تمہارے کچھ کام نہیں آئے گی۔ انہوں نے اپنے اس قول کا۔۔۔کہ وہ ہدایت پر ہیں اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گمراہی پر ہیں۔۔ اعادہ کیا، اس کے اظہار میں جرأت دکھائی، اس پر جھگڑا اور لڑائی کی۔ پس اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو حکم دیا کہ وہ اپنے حال اور آپ کی پیروی کرنے والوں کے حال سے آگاہ کردیں جس سے ہر شخص پر ان کی ہدایت اور تقوٰی واضح ہوجائے اور وہ یہ کہنے کا حکم تھا :﴿اٰ آمَنَّا بِهِ وَعَلَيْهِ تَوَكَّلْنَا﴾” ہم اس پر ایمان لائے اور ہم نے اس پر توکل کیا۔“ اور ایمان، باطنی تصدیق اور اعمال باطنہ وظاہرہ کو شامل ہے۔ چونکہ تمام اعمال کا وجود اور ان کا کمال توکل پر موقوف ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے تمام اعمال میں سے توکل کا خاص طور پر ذکر کیا ورنہ توکل، ایمان اور اس کے جملہ لوازم میں داخل ہے جیسا کہ اللہ نے فرمایا: ﴿ وَعَلَى اللّٰـهِ فَتَوَكَّلُوا إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ﴾( المائدۃ:5؍23)”اور اللہ ہی پر بھروسا کرو اگر تم مومن ہو۔“ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان لوگوں کا یہ حال ہے جو آپ کی پیروی کرتے ہیں۔۔۔۔ اور یہ ایسا حال ہے جو فلاح کے لیے متعین ہے اور جس پر سعادت موقوف ہے۔۔۔۔ اور آپ کے دشمنوں کا حال اس کے متضاد ہے، پس ان کے پاس ایمان ہے نہ توکل تب اس سے معلوم ہوگیا کہ کون ہدایت پر ہے اور کون کھلی گمراہی میں مبتلا ہے۔ پھر اللہ تبارک وتعالیٰ نے خبر دی کہ وہ نعمتیں عطا کرنے میں اکیلا اور متفرد ہے، خاص طور پر پانی کی نعمت جس سے اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو پیدا کیا ،چنانچہ فرمایا :﴿ قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِنْ أَصْبَحَ مَاؤُكُمْ غَوْرًا﴾ ” کہو کہ بھلا دیکھو تو اگر تمہارا پانی خشک ہوجائے۔“ یعنی گہرا چلا جائے ﴿ فَمَن يَأْتِيكُم بِمَاءٍ مَّعِينٍ﴾ ” تو کون ہے جو تمہارے لیے شیریں پانی کا چشمہ بہالائے۔“ جس کو تم خود پیتے ہو، اپنے مویشیوں کو پلاتے ہو اور اپنے باغات اور کھیتوں کو سیراب کرتے ہو؟ یہ استفہام بمعنی نفی ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اس پر قادر نہیں۔ الملك
28 الملك
29 الملك
30 الملك
0 القلم
1 اللہ تبارک وتعالیٰ” قلم“ کی قسم کھاتا ہے۔ یہ اسم جنس ہے جو ان تمام اقلام کو شامل ہے جن کے ذریعے سے مختلف علوم کو علوم کو لکھا جاتا ہے اور جن کے ذریعے سے منثور اور منظوم کلام کو احاطہ تحریر میں لایا جاتا ہے اور یہ اس حقیقت پر قسم ہے کہ قلم اور جو اس کے ذریعے سے مختلف انواع کا کلام لکھا جاتا ہے، اللہ تعالیٰ کی عظیم نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے، جو اس امر کی مستحق ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ان عیوب کے بارے میں براءت پر اس کی قسم کھائی جائے جو آپ کے دشمن آپ کی طرف منسوب کرتے ہیں ،یعنی جنون وغیرہ۔ پس آپ کے رب کی نعمت اور احسان سے ان عیوب کی آپ نفی کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو عقل کامل، عمدہ رائے اور فصاحت وبلاغت سے لبریز کلام فیصل سے سرفراز فرمایا ہے جو بہترین کلام ہے جسے قلم لکھتے ہیں اور مخلوقات اسے قلم بند کرتی ہیں اور دنیا کے اندر یہی سعادت ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کی اخروی سعادت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا :﴿ إِنَّ لَكَ لَأَجْرًا﴾ ” آپ کے لیے بہت بڑا اجر ہے ۔ “ جیسا کہ نکرہ سے مسفادہ ہوتا ہے ﴿ غَيْرَ مَمْنُونٍ﴾ یعنی ایسا اجر جو کبھی منقطع نہیں ہوگا بلکہ دائمی اور ہمیشہ رہنے والا ہے۔ اس کا سبب وہ اعمال صالحہ، اخلاق کاملہ اور ہر بھلائی کی طرف وہ راہ نمائی وغیرہ ہے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے صادر ہوئی ہے۔ ﴿ وَإِنَّكَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِيمٍ ﴾۔ ” اور بے شک آپ بڑے )عمدہ( اخلاق پر ہیں۔“ یعنی آپ اس اخلاق کی بنا پر بلند مرتبہ ہیں اور اپنے اس خلق عظیم کی بنا پر فوقیت رکھتے ہیں جس سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو نوازا ہے۔ آپ کے خلق عظیم کا حاصل وہ ہے جس کی تفسیر ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اس شخص کے سامنے بیان فرمائی تھی جس نے آپ کے اخلاق کے بارے میں ان سے پوچھا تھا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: )کَانَ خُلُقُہُ الْقُرآنَ)(صحیح مسلم‘صلاۃ المسافرین‘باب جامع صلاۃ الیل ۔۔حدیث 746ومسندأحمد:6؍91)۔ ” آپ کا خلق قرآن ہی ہے۔“ یہ آپ کے لیے اللہ تعالیٰ کے ان ارشادات کی طرح ہے : ﴿ خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ﴾ (الاعراف:7؍199) ” عفو کا رویہ اختیار کیجیے، نیکی کا حکم دیجئے اور جاہلوں سے کنارہ کیجئے۔“ نیز فرمایا :﴿ فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰـهِ لِنتَ لَهُمْ ﴾ (آل عمران :3؍159) ” اللہ کی مہربانی سے، آپ ان کے لیے نرم خو واقع ہوئے ہیں۔“ اور فرمایا :﴿ لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ﴾ ( التوبۃ :9؍128) ” تمہارے پاس تم ہی میں سے ایک رسول آیا ہے، تمہاری تکلیف اس پر بہت گراں گزرتی ہے، تمہاری بھلائی کا وہ بہت خواہش مند ہے، اہل ایمان پر بہت شفقت کرنے والا اور ان پر نہایت مہربان ہے۔ “ کتنا صحیح مصداق ہیں یہ آیات کریمہ جو آپ کے مکارم اخلاق سے متصف ہونے پر دلالت کرتی ہیں اور وہ آیات کریمہ جو ہر قسم کے خلق جمیل کی ترغیب دیتی ہیں۔ وہ ان اوصاف میں کامل ترین اور جلیل ترین مقام پر فائز تھے اور ان خصائل میں سے ہر خصلت کی بلند چوٹی پر تھے۔ آپ بہت ہی نرم برتاؤ کرنے والے اور نرم خو تھے، لوگوں کے بہت قریب تھے ،جو کوئی آپ کو دعوت دیتا آپ اس کی دعوت قبول کرتے تھے، جو کوئی آپ سے کسی حاجت کا طلب گار ہوتا آپ اس کی حاجت پوری کرتے تھے بلکہ آپ اس کی دل جوئی کرتے تھے۔ اگر آپ کے اصحاب کو آپ سے کام ہوتا، آپ اس کام پر ان کی موافقت کرتے اور اس بارے میں ان کی بات مانتے بشرطیکہ اس میں کوئی ایسی چیز نہ ہو جس سے بچنے کے لیے کہا گیا ہو۔ اگر کسی امر کا عزم فرماتے تو ان کو نظر انداز کرکے ان پر اپنی رائے نہیں تھوپتے تھے بلکہ ان کے ساتھ مشاورت کرکے ان کی رائے لیتے تھے، ان کے اچھے کام کو قبول کرلیتے اور برائی کرنے والے سے درگزر کرتے تھے، کسی ہم نشین کے ساتھ معاشرت کرتے تو کامل ترین اور بہترین طریقے سے معاشرت کرتے ، آپ کبھی اپنی پیشانی پر بل ڈالتے نہ آپ کبھی کوئی سخت بات کہتے، نہ آپ اس سے منہ موڑتے، نہ آپ اس کی زبان کی لغزش پر گرفت کرتے اور نہ اس کی طرف سے کسی سخت رویے پر مؤاخذہ فرماتے بلکہ اس کے ساتھ انتہائی حسن سلوک سے پیش آتے اور اسے انتہائی حد تک برداشت کرتے۔ جب اللہ تبارک وتعالیٰ نے محمد مصطفی ٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بلندترین مقام پر فائز فرمایا اور آپ کے دشمن آپ کی طرف منسوب کرتے تھے کہ آپ مجنون اور دیوانے ہیں تو فرمایا : ﴿ فَسَتُبْصِرُ وَيُبْصِرُونَ بِأَييِّكُمُ الْمَفْتُونُ ﴾ ” پس عنقریب آپ دیکھ لیں گے اور وہ بھی دیکھ لیں گے کہ تم میں سے کون دیوانہ ہے ۔“اور یہ حقیقت واضح ہوگئی کہ آپ لوگوں میں سب سے زیادہ ہدایت یافتہ، اپنے لیے اور دوسروں کے لیے سب سے زیادہ کامل ہیں، نیز یہ بھی واضح ہوگیا کہ آپ کے دشمن، لوگوں میں سب سے زیادہ گمراہ اور سب سے زیادہ شر پسند ہیں۔ یہی لوگ ہیں جنہوں نے اللہ کے بندوں کو فتنے میں ڈالا اور ان کو اللہ تعالیٰ کے راستے سے بھٹکا دیا۔ اس بارے میں اللہ تعالیٰ کا علم کافی ہے، وہی محاسبہ کرنے والا اور جزا دینے والا ہے۔ اور ﴿ هُوَ أَعْلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ ﴾ ” وہ اس کو خوب جانتا ہے جو اس کے راستے سے بھٹک گیا اور ان کو بھی خوب جانتا ہے جو سیدھے راستے پر چل رہے ہیں۔“ اس میں گمراہ لوگوں کے لیے تہدید اور ہدایت یافتہ لوگوں کے لیے وعدہ ہے، نیز اس میں اللہ تعالیٰ کی حکمت کا بیان ہے کہ وہ اس شخص کو ہدایت سے نوازتا ہے جو ہدایت کے لائق ہوتا ہے۔ القلم
2 القلم
3 القلم
4 القلم
5 القلم
6 القلم
7 القلم
8 اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے : ﴿ فَلَا تُطِعِ الْمُكَذِّبِينَ﴾ جنہوں نے آپ کو جھٹلایا اور حق کے ساتھ عناد رکھا یہ لوگ اس قابل نہیں ہیں کہ ان کی اطاعت کی جائے کیونکہ یہ صرف اسی بات کا حکم دیتے ہیں جو ان کی خواہشات نفس کے موافق ہوتی ہے اور یہ باطل کے سوا کچھ نہیں چاہتے۔ پس ان کی اطاعت کرنے والا اس چیز کی طرف بڑھتا ہے جو اس کے لیے نقصان دہ ہے۔ یہ آیت کریمہ ہر جھٹلانے والے اور ہراس اطاعت کے لیے عام ہے جو تکذیب سے جنم لیتی ہے اگرچہ اس کا سیاق ایک خاص معاملے میں ہے اور وہ یہ ہے کہ کفار نے آپ سے مطالبہ کیا تھا کہ آپ ان کے معبودوں اور ان کے دین کے بارے میں خاموش ہوجائیں ،وہ بھی آپ کے بارے میں خاموش رہیں گے، لہذا فرمایا: ﴿وَدُّوا﴾ یعنی مشرکین چاہتے ہیں ﴿لَوْ تُدْهِنُ﴾ کہ آپ ان کے موقف سے موافقت کریں قول کے ذریعے سے یا فعل کے ذریعے سے ، یا جہاں کلام کرنا ضروری ٹھہرتا ہو وہاں خاموش رہیں ﴿ فَيُدْهِنُونَ﴾ ” تو وہ بھی نرم ہوجائیں۔“ مگر آپ نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے حق کو کھلم کھلا بیان کیا اور دین اسلام کا اظہار کیا کیونکہ اس کا کامل اظہار، اس کی ضد کے نقض اور اس کے متناقض نظریات کے عیب کا اظہار ہے۔ القلم
9 القلم
10 ﴿وَلَا تُطِعْ كُلَّ حَلَّافٍ ﴾ ” اور کسی ایسے شخص کی بات نہ ماننا جو بہت قسمیں کھانے والا ہو۔“ کیونکہ اتنی زیادہ قسمیں کھانے والا جھوٹا ہی ہوسکتا ہے، اور آدمی جھوٹا نہیں ہوسکتا جب تک وہ ﴿ مَّهِينٍ ﴾ خسیس النفس اور دانائی سے تہی دست نہ ہو اور اسے بھلائی میں کوئی رغبت نہ ہو بلکہ اس کا ارادہ اس کے خسیس نفس کی شہوات پر مرتکز ہو۔ القلم
11 ﴿ هَمَّازٍ ﴾ یعنی جو لوگوں کی بہت زیادہ عیب چینی کرتا ہے اور غیبت و استہزا کے ذریعے سے طعنہ زنی کرتا ہے ﴿ مَّشَّاءٍ بِنَمِيمٍ ﴾ یعنی لوگوں کے درمیان چغل خوری کرتا پھرتا ہے۔ چغل خوری یہ ہے کہ لوگوں کے درمیان فساد ڈالنے اور عداوت اور بغض پیدا کرنے کی غرض سے ایک کی بات دوسرے تک پہنچائی جائے۔ القلم
12 ﴿ مَّنَّاعٍ لِّلْخَيْرِ ﴾ بھلائی، یعنی نفقات واجبہ، کفارہ اور زکوٰۃ وغیرہ، جس کا قیام اس پر لازم تھا، سے منع کرنے والا ہے ﴿ مُعْتَدٍ ﴾ مخلوق پر زیادتی کرنے والا، لوگوں کی جان ومال اور ان کی ناموس پر ظلم کرنے والا ﴿ أَثِيمٍ ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ کے حقوق سے متعلق بہت زیادہ گناہوں کا ارتکاب کرنے والا۔ القلم
13 ﴿ عُتُلٍّ بَعْدَ ذٰلِكَ ﴾ یعنی درشت خو، بدخلق اور سخت طبیعت رکھنے والا جو حق کے سامنے سرتسلیم خم نہیں کرتا ۔اس کے ساتھ ساتھ وہ ﴿ زَنِيمٍ ﴾ ” بدذات ہے“ یعنی مجہول النسب جس کی کوئی اصل ہے نہ ایسا مادہ کہ جس سے کوئی بھلائی منتج ہوتی ہے بلکہ اس کے اخلاق بدترین اخلاق ہیں۔ اس سے فلاح کی امید نہیں اور اس میں شر کی علامت ہے جس سے وہ پہچانا جاتا ہے۔ ان تمام آیات کریمہ کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر اس شخص کی اطاعت سے روکا ہے جو نہایت کثرت سے قسمیں کھانے والا، سخت جھوٹا، خسیس النفس، نہایت بداخلاق، خاص طور پر وہ ایسے برے اخلاق کا مالک ہے جو خود پسند، مخلوق اور حق کے مقابلے اور حق کے مقابلے میں تکبر و استکبار، غیبت، چغلی اور طعنہ زنی کے ذریعے سے لوگوں سے حقارت کا رویہ رکھنے اور گناہوں کی کثرت کے متضمن ہیں۔ یہ آیات کریمہ۔۔ اگرچہ بعض مشرکین کے بارے میں نازل ہوئیں، مثلا : ولید بن مغیرہ وغیرہ کیونکہ اس کے بارے میں فرمایا: ﴿ أَن كَانَ ذَا مَالٍ وَبَنِينَ إِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِ آيَاتُنَا قَالَ أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ ﴾ کیونکہ اپنے مال اور اولاد کی وجہ سے اس نے سرکشی اختیار کی، حق کے مقابلے میں تکبر واستکبار کا مظاہرہ کیا، جب حق اس کے پاس آیا تو اس نے اسے ٹھکرا دیا اور اسے پہلوں کے قصے کہانیاں قرار دیا جن میں سچ اور جھوٹ دونوں ممکن ہیں۔۔۔ لیکن یہ آیات کریمہ ہر اس شخص کے بارے میں عام ہیں جو اس وصف سے متصف ہو کیونکہ قرآن کریم تمام مخلوق کی ہدایت کے لیے نازل ہوا اور اس میں اولین وآخرین سب داخل ہیں۔ بسا اوقات بعض آیات کسی خاص سبب یاکسی خاص شخص کے بارے میں نازل ہوتی ہیں تاکہ ان سے عام قاعدہ واضح ہوجائے اور عام قضیوں میں داخل جزئیات کی مثالوں کی معرفت حاصل ہوجائے ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس شخص کو وعید سنائی ہے جس سے یہ سب کچھ واقع ہوا جو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ عذاب میں اس کی ناک پر داغ لگائے گا اور اسے ظاہری عذاب میں مبتلا کرے گا ۔ اس کے چہرے پر داغ اور علامت لگی ہوگی جہاں داغ کا لگایا جانا سب سے زیادہ شاق گزرتا ہے۔ القلم
14 القلم
15 القلم
16 القلم
17 اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم نے ان جھٹلانے والوں کو بھلائی کے ساتھ آزمایا ،ہم نے انہیں مہلت دی اور ہم نے ان کی خواہشات نفس کے موافق مال ودولت اور لمبی عمر وغیرہ میں سے جس سے چاہا انہیں نوازا۔ اس کا سبب یہ نہ تھا کہ ہمارے نزدیک ان کی کرامت تھی بلکہ بسا اوقات یہ سب کچھ انہیں استدراج کے طور پر عطا کیا جاتا ہے جس کا انہیں علم تک نہیں ہوتا۔ پس ان کا ان نعمتوں کی وجہ سے دھوکے میں مبتلا ہونا، اس باغ والوں کی فریب خو ردگی کی مانند ہے جو باغ کی ملکیت میں شریک تھے۔ جب درختوں کے پھل لگ گئے اور پھلوں نے رنگ پکڑ لیا اور ان کی برداشت کا وقت آن پہنچا، انہیں یقین تھا کہ باغ کی فصل ان کے ہاتھ میں ہے اور کوئی ایسا مانع نہیں جو باغ کی فصل برداشت کرنے سے روکے، اسل یے ان تمام شرکا نے قسم کھائی اور کسی استثنا )ان شاء اللہ کہنے( کے بغیر حلف اٹھایا کہ وہ فصل کاٹیں گے، یعنی صبح کے وقت اس کے پھل چنیں گے ۔ انہیں اس بات کا ہرگز علم نہ تھا کہ اللہ ان کی گھات میں ہے اور عذاب ان کو پیچھے چھوڑ دے گا اور ان سے آگے بڑھ کر باغ کو جالے گا۔ القلم
18 القلم
19 ﴿ فَطَافَ عَلَيْهَا طَائِفٌ مِّن رَّبِّكَ ﴾۔ ” پس تمہارے رب کی طرف سے اس پر ایک آفت پڑگئی“ یعنی ایک عذاب جو رات کے وقت اس باغ پر نازل ہوا ﴿ وَهُمْ نَائِمُونَ ﴾ ” اور وہ محو خواب تھے۔“ پس اس عذاب نے اسے تباہ وبرباد کردیا۔ القلم
20 ﴿ فَأَصْبَحَتْ كَالصَّرِيمِ ﴾ ” پس وہ ہوگیا جیسے کٹی ہوئی کھیتی“ یعنی اندھیری رات کی مانند، تمام درخت اور پھل ملیا میٹ ہوگئے مگر انہیں نازل ہونے والی اس مصیبت کے بارے میں کچھ علم نہیں تھا، اس لیے جب صبح ہوئی تو انہوں نے ایک دوسرے کو یہ کہتے ہوئے آواز دی۔ القلم
21 القلم
22 ﴿ أَنِ اغْدُوا عَلَىٰ حَرْثِكُمْ إِن كُنتُمْ صَارِمِينَ فَانطَلَقُوا ﴾” اگر تم کو کاٹنا ہے تو اپنی کھیتی پر سویرے ہی جا پہنچو، پس وہ چل پڑے “ باغ کا قصد کر کے ﴿ وَهُمْ يَتَخَافَتُونَ ﴾ اور ان کی حالت یہ تھی کہ وہ آپس میں چپکے چپکے اللہ تعالیٰ کے حق سے ایک دوسرے کو روکتے جارہے تھے اور کہہ رہے تھے : ﴿ لَّا يَدْخُلَنَّهَا الْيَوْمَ عَلَيْكُم مِّسْكِينٌ ﴾ ” آج تمہارے پاس کوئی فقیر نہ آنے پائے ۔ “ یعنی لوگوں کے پھیلنے سے پہلے، صبح صبح گھروں سے نکل پڑو اور اس کے ساتھ ساتھ وہ فقراء اور مساکین کو محروم کرنے کے لیے باہم تلقین کرتے جارہے تھے۔ القلم
23 القلم
24 القلم
25 ﴿ وَغَدَوْا ﴾ انتہائی بری، قساوت اور بے رحمی کی حالت میں انہوں نے صبح کی ﴿ عَلَىٰ حَرْدٍ قَادِرِينَ ﴾ یعنی گویا کہ وہ یہ گمان رکھتے تھے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حق کو روکنے پر قادر ہیں اور انہیں پختہ یقین ہے کہ وہ باغ پر قدرت رکھتے ہیں۔ القلم
26 ﴿ فَلَمَّا رَأَوْهَا ﴾ جب انہوں نے باغ کو اس وصف پردیکھا جس کا اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے کہ وہ کٹی ہوئی کھیتی کی مانند تھا ﴿ قَالُوا ﴾ تو انہوں نے حیرت اور بے قراری سے کہا ﴿ إِنَّا لَضَالُّونَ ﴾ ہم باغ سے بھٹک گئے ہیں، شاید یہ کوئی اور باغ ہو۔ پس جب متحقق ہوگیا کہ یہ وہی باغ ہے اور ان کے عقل وحواس لوٹے تو کہنے لگے : ﴿ بَلْ نَحْنُ مَحْرُومُونَ ﴾ ہم اس باغ سے محروم ہیں ۔اس وقت وہ پہچان گئے کہ یہ سزا ہے۔ ﴿ قَالَ أَوْسَطُهُمْ ﴾ یعنی ان میں سے سب سے زیادہ انصاف پسند اور سب سے اچھا طریقہ رکھنے والے نے کہا : ﴿ أَلَمْ أَقُل لَّكُمْ لَوْلَا تُسَبِّحُونَ﴾ کیا میں نے تمہیں نہیں کہا تھا کہ تم اللہ تعالیٰ کو ان اوصاف سے منزہ کیوں قرار نہیں دیتے جو اس کے لائق نہیں ؟ ان میں سے ایک یہ کہ تمہارا گمان ہے کہ تمہاری قدرت ایک مستقل حیثیت رکھتی ہے، تم نے (اِنْ شَاءَ اللّٰہ) کہہ کر استثنا کیا ہوتا اور اپنی مشیت کو اللہ تعالیٰ کی مشیت کے تابع کیا ہوتا، تو تمہارے ساتھ وہ کچھ نہ ہوتا جو ہوا ہے۔ القلم
27 القلم
28 القلم
29 ﴿ قَالُوا سُبْحَانَ رَبِّنَا إِنَّا كُنَّا ظَالِمِينَ ﴾۔” وہ کہنے لگے کہ ہمارا رب پاک ہے، بے شک ہم ہی قصور وار تھے۔ “ اس کے بعدانہوں نے اپنی کوتاہی کا تدارک کیا مگر اس وقت جب ان کے باغ پر عذاب نازل ہوچکا تھا جو اٹھایا نہیں جاسکتا تھا۔ ہوسکتا ہے ان کی یہ تسبیح، اپنی جانوں پر ظلم کرنے کا اقرار، تخفیف گناہ میں کوئی فائدہ دے اور توبہ بن جائے، اس لیے وہ سخت نادم ہوئے۔ القلم
30 ﴿ فَأَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ يَتَلَاوَمُونَ ﴾ جو کچھ ان سے صادر ہوا اور جو کچھ انہوں نے کیا اس بارے میں ایک دوسرے کو ملامت کرنے لگے۔ القلم
31 ﴿ قَالُوا يَا وَيْلَنَا إِنَّا كُنَّا طَاغِينَ ﴾۔ ”کہنے لگے: ہائے شامت :ہم ہی حد سے بڑھ گئے تھے۔“ یعنی ہم اللہ تعالیٰ کے حق اور اس کے بندوں کے حق کے بارے میں حد سے تجاوز کرنے والے تھے۔ القلم
32 ﴿ عَسَىٰ رَبُّنَا أَن يُبْدِلَنَا خَيْرًا مِّنْهَا إِنَّا إِلَىٰ رَبِّنَا رَاغِبُونَ ﴾۔ پس انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ اللہ تعالیٰ انہیں اس سے بہتر عطا کرے گا اور انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف راغب ہوں گے اور اس دنیا میں اس کے سامنے اصرار کے ساتھ التجائیں کرتے رہیں گے۔ پس اگر وہ ایسے ہی تھے جیسے وہ کہتے تھے تو ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں ان کے حال کو بدل دیا ہوگا کیونکہ جو کوئی صدق دل سے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہے، اس کی طرف راغب ہوتا ہے اور اس کے ساتھ امید وابستہ کرتا ہے تو وہ جو کچھ اللہ تعالیٰ سے مانگتا ہے وہ اسے عطا کرتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے جو کچھ وقوع پذیر ہوا، اسے بیان کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ كَذٰلِكَ الْعَذَابُ ﴾ یعنی اس شخص کے لیے اسی طرح دنیاوی عذاب ہے جو عذاب کے اسباب کو اختیار کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے وہ چیز سلب کرلے جس کی بنیاد پر اس نے سرکشی اور بغاوت کارویہ اپنایا اور دنیا کی زندگی کو ترجیح دی، نیز یہ کہ وہ اس سے وہ چیز زائل کردے جس کا وہ سب سے زیادہ ضرورت مند ہے۔ القلم
33 ﴿ وَلَعَذَابُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ ﴾ دنیا کے عذاب سے آخرت کا عذاب زیادہ بڑا ہے ﴿ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ ﴾، ” کاش انہیں سمجھ ہوتی۔ “کیونکہ جو کوئی اس حقیقت کو جانتا ہے تو یہ علم اسے ہر اس سبب سے باز رکھتا ہے جو عذاب کاموجب اور ثواب سے محروم رکھنے والا ہے۔ القلم
34 اللہ تعالیٰ ان چیزوں کے بارے میں آگاہی فرماتا ہے جو اس نے کفر اور معاصی سے بچنے والوں کے لیے تیار کررکھی ہیں، یعنی مختلف انواع کی نعمتیں اور اکرم الاکرمین کے جوار میں ہر قسم کے تکدر سے پاک زندگی، نیز وہ آگاہ فرماتا ہے کہ اس کی حکمت تقاضا نہیں کرتی کہ وہ اہل تقوٰی، اپنے رب کے فرماں بردار بندوں، اس کے احکام کی تعمیل کرنے والوں اور اس کی مرضی کی اتباع کرنے والوں کو مجرموں کے برابر قرار دے جنہوں نے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی، اس کی آیات اور اس کے رسولوں کے ساتھ کفر اور اس کے اولیاء کے ساتھ محاربت میں مبتلا کررکھا ہے۔ جو کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سب لوگوں کو ثواب میں برقرار دے گا تو اس نے نہایت برا فیصلہ کیا ہے اس کا فیصلہ باطل اور اس کی رائے فاسد ہے۔ اور مجرم جب یہ دعوٰی کرتے ہیں تو ان کے پاس کوئی سند ہے نہ کوئی ایسی کتاب ہے جسے یہ پڑھتے اور اس کی تلاوت کرتے ہوں کہ وہ جنتی ہیں اور انہیں ہر وہ چیز حاصل ہوگی جو وہ منتخب کریں گے اور طلب کریں گے ۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں قیامت تک ان کے لیے اس بات کا کوئی عہد ہے نہ حلف کہ ان کے لیے وہ سب کچھ ہو جس کا وہ فیصلہ کریں اور جو کچھ وہ طلب کرتے ہیں ، اس کے حصول میں ان کے کوئی شریک اور معاون بھی نہیں ہیں۔ اگر ان کے شرکا اور معاون ومددگار ہیں تو ان کولائیں اگر وہ سچے ہیں۔ یہ بات معلوم ہے کہ یہ سب کچھ بہت بعید ہے ۔ ان کے پاس کوئی کتاب ہے نہ نجات کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کے لیے کوئی عہد ہے اور نہ ان کے شریک ہیں جو ان کی مدد کریں، پس معلوم ہوا کہ ان کا دعوٰی باطل اور فاسد ہے۔ القلم
35 القلم
36 القلم
37 القلم
38 القلم
39 القلم
40 ﴿ سَلْهُمْ أَيُّهُم بِذٰلِكَ زَعِيمٌ ﴾۔ یعنی ان سے پوچھو کہ اس دعوٰی کی کون ذمہ داری اٹھاتا ہے جس کا بطلان واضح ہے ۔ کسی کے لیے ممکن نہیں کہ وہ اسے لے کر آگے بڑھے اور نہ وہ اس میں ضامن ہی بن سکتا ہے۔ القلم
41 القلم
42 یعنی جب قیامت کا دن ہوگا اور ایسے ایسے زلزلے اور ہولناکیاں ظاہر ہوں گی جو وہم وگمان میں بھی نہیں آسکتیں، باری تعالیٰ اپنے بندوں کے درمیان فیصلے کرنے اور ان کو جزا وسزا دینے کے لیے تشریف لائے گا، پس وہ اپنی مکرم پنڈلی کو ظاہر کرے گا جس سے کوئی چیز مشابہت نہیں رکھتی، لوگ اللہ تعالیٰ کا جلال اور عظمت دیکھیں گے جس کی تعبیر ممکن نہیں۔ یہی وہ وقت ہوگا جب ان کو سجدے کے لیے کہا جائے گا، مومن اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہوجائیں گے جو (دنیا میں)اپنی مرضی اور اختیار سے سجدہ کیا کرتے تھے۔ منافق اور فاجر سجدہ کرنے کی کوشش کریں گے مگر وہ سجدہ کرنے پر قادر نہیں ہوں گے ، ان کی کمریں ایسی ہوجائیں گی جیسے گائے کے سینگ جو جھک نہ سکیں گے۔ یہ جزا ان کے عمل کی جنس میں سے ہے کیونکہ دنیا کے اندر انہیں سجدے کرنے، توحید اور عبادت کے لیے بلایا جاتا، درآں حالیکہ وہ صحیح سلامت ہوتے تھے اور ان میں کوئی بیماری نہ ہوتی تھی تو وہ تکبر و استکبار سے سجدے سے انکار کردیتے تھے۔ اس دن ان کے حال اور برے انجام کے بارے میں مت پوچھ کیونکہ اس دن اللہ تعالیٰ ان پر سخت ناراض ہوگا، کلمہ عذاب ان پر حق ثابت ہوگا، ان کے تمام اسباب منقطع ہوجائیں گے اور قیامت کے روز ندامت اور اعتذار کوئی فائدہ نہ دیں گے ۔ پس اس آیت میں ایسی چیزوں کا بیان ہے جو قلوب کو گناہوں پر قائم رہنے سے ڈراتی ہیں اور مدت امکان کے اندر تدارک کی موجب ہیں ، لہذا اللہ تعالیٰ نے فرمایا: یعنی چھوڑو مجھے : مجھے قرآن کو جھٹلانے والوں سے سمجھ لینے دو ، ان کی جزا میرے ذمے ہے ،ان کے لیے جلدی نہ مچا، پس ﴿ سَنَسْتَدْرِجُهُم مِّنْ حَيْثُ لَا يَعْلَمُونَ ﴾۔ ” عنقریب ہم انہیں تدریج کیساتھ پکڑیں گے کہ انہیں معلوم بھی نہ ہوگا ۔“ہم انہیں مال اور اولاد کی کثرت سے بہرہ مند کرتے ہیں ،ہم ان کے رزق اور اعمال کو زیادہ کرتے ہیں تاکہ وہ فریب میں مبتلا رہیں اور ایسے کاموں پر جمے رہیں جو ان کو نقصان پہنچائیں گے ۔ یہ ان کے خلاف اللہ تعالیٰ کی چال ہے اور اپنے دشمنوں کے خلاف اللہ تعالیٰ کی چال بہت مضبوط اور طاقت ور ہوتی ہے جو ان کو نقصان پہنچانے اور سزا دینے میں بہت کارگر ہے۔ القلم
43 القلم
44 القلم
45 القلم
46 ﴿ أَمْ تَسْأَلُهُمْ أَجْرًا فَهُم مِّن مَّغْرَمٍ مُّثْقَلُونَ ﴾۔ ان کے آپ سے دوربھاگنے اور آپ کی تصدیق نہ کرنے کا کوئی سبب نہیں جو اس کاموجب ہو کیونکہ آپ تو ان کے مال میں سے کوئی تاوان لیے بغیر، جو ان پر بوجھ ہو، محض ان کے مصالح کی خاطر ان کو تعلیم دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف بلاتے ہیں۔ القلم
47 ﴿ أَمْ عِندَهُمُ الْغَيْبُ فَهُمْ يَكْتُبُونَ ﴾ ان کے پاس غیب کا علم نہیں کہ وہ اس بات کو پاچکے ہوں کہ وہ حق پر ہیں اور اللہ تعالیٰ کے ہاں وہ ثواب سے بہرہ ور ہوں گے، یہ معاملہ جیسا بھی ہے ،ان کا حال تو ایک معاند اور ظالم کا سا ہے ،پس اس کے سوا کچھ باقی نہیں کہ ان کی ایذا رسانیوں پر صبر کیا جائے اور جو کچھ ان سے صادر ہو رہا ہے اس پر تحمل کا مظاہرہ کیا جائے اور ان کو بار بار دعوت دی جائے۔ اس لیے فرمایا : ﴿ فَاصْبِرْ لِحُكْمِ ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ نے شرعا اور قدرا جوفیصلہ کیا ہے اس پر صبر کیجئے ۔ حکم قدری یہ ہے کہ ایذا پر صبر کیا جائے ،اور ناراضی اور بے صبری کے ساتھ ان کا سامنا نہ کیا جائے ،حکم شرعی کو قبول کیا جائے ، اس کے سامنے سرتسلیم خم کیا جائے اور اس کے امر کی اطاعت کی جائے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿ وَلَا تَكُن كَصَاحِبِ الْحُوتِ ﴾ ” اور مچھلی والے کی طرح نہ ہونا“ اور وہ ہیں یونس بن متی علیہ السلام یعنی اس حال میں حضرت یونس علیہ السلام کی مشابہت اختیار نہ کیجئے جو حال مچھلی کے پیٹ میں ان کے محبوس ہونے کا باعث بنا اور وہ ہے اپنی قوم پر ان کا عدم صبر جو آپ سے مطلوب تھا اور اپنے رب سے ناراض ہو کر جانا حتیٰ کہ آپ کشتی میں سوار ہوئے، جب کشتی بوجھل ہوگئی تو کشتی والوں نے آپس میں قرعہ اندازی کی کہ کشتی کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے ان میں سے کسی کو سمندر کے اندر پھینکا جائے۔ پس حضرت یونس علیہ السلام کے نام پر قرعہ پڑا ﴿ فَالْتَقَمَهُ الْحُوتُ وَهُوَ مُلِيمٌ ﴾( الصافات :37؍142) ” پس ان کو مچھلی نے نگل لیا اور وہ قابل ملامت کام کرنے والے تھے۔ “ ﴿ إِذْ نَادَىٰ وَهُوَ مَكْظُومٌ ﴾ یعنی انہوں نے پکارا جبکہ وہ مچھلی کے پیٹ میں تھے اور ان پر دروازہ بند کردیا گیا تھا یا یہ کہ انہوں نے پکارا اور وہ ہم وغم سے لبریز تھے، چنانچہ کہا:﴿ لَّا إِلَـٰهَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنتُ مِنَ الظَّالِمِينَ ﴾( الانبیاء :21؍87) ” تیرے سوا کوئی معبود نہیں ،تو پاک ہے ، بے شک میں ہی ظالموں میں سے ہوں۔ “ اللہ تعالیٰ نے یونس علیہ السلام کی دعا قبول فرمائی، چنانچہ مچھلی نے انہیں، جب کہ وہ بیمار تھے ، چٹیل میدان میں ڈال دیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر کدو کی بیل اگا دی ، اس لیے اللہ تعالیٰ نے یہاں فرمایا : ﴿ لَّوْلَا أَن تَدَارَكَهُ نِعْمَةٌ مِّن رَّبِّهِ لَنُبِذَ بِالْعَرَاءِ ﴾۔ ” اگر اس کے رب کی مہربانی ان کی یاوری نہ کرتی تو وہ چٹیل میدان میں ڈال دیے جاتے۔“ یعنی انہیں چٹیل میدان میں ُپھینک دیا جاتا ( الْعَرَاءِ ) سے مراد(ہر قسم کی نباتات سے) خالی زمین ہے۔ ﴿ وَهُوَ مَذْمُومٌ ﴾۔” اور وہ برے حال میں ہوتے۔“ مگر اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنی رحمت سے ڈھانپ دیا، ان کو اس حال میں پھینک دیا گیا کہ وہ ممدوح تھے اور ان کی یہ حالت پہلی حالت سے بہتر ہوگئی۔ القلم
48 القلم
49 القلم
50 ﴿ فَاجْتَبَاهُ رَبُّهُ ﴾ پس اللہ تعالیٰ نے ان کو منتخب کرلیا اور ان کو ہر کدورت سے پاک کردیا ﴿ فَجَعَلَهُ مِنَ الصَّالِحِينَ ﴾ ” اور ان کو نیکوکاروں میں سے کردیا۔“ یعنی وہ لوگ جن کے اعمال واقوال اور نیت واحوال درست ہیں۔ ہمارے نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے حکم کی اطاعت کی، پس اپنے رب کے فیصلے پر ایسا صبر کیا کہ کائنات میں کوئی شخص صبر کے اس درجے کو نہیں پاسکتا۔ اللہ تعالیٰ نے انجام کار آپ کے لیے متعین کردیا ﴿ وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ ﴾( الاعراف:7؍128)” اور بہتر انجام متقین کے لیے ہے۔“ آپ کے دشمنوں کو اس میں اس چیز کے سوا کچھ حاصل نہ ہوا جو ان کو بری لگتی تھی حتیٰ کہ ان کی بڑی خواہش تھی کہ وہ آپ کو غصے کی نظر سے گھور کر دیکھیں، حسد، کینہ اور غیظ وغضب کی بنا پر آپ کو نظر لگادیں ۔ یہ تھی اذیت فعلی میں ان کی انتہائے قدرت اور اللہ تعالیٰ آپ کا حافظ وناصر تھا۔ رہی اذیت قولی تو جوجی میں آتا تھا اس کے مطابق مختلف باتیں کہتے تھے ۔ کبھی کہتے تھے کہ یہ مجنون ہے کبھی کہتے تھے شاعر ہے اور کبھی کہتے تھے جادوگر ہے ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا :﴿ وَمَا هُوَ إِلَّا ذِكْرٌ لِّلْعَالَمِينَ ﴾ یعنی یہ قرآن عظیم اور ذکر حکیم جہان والوں کے لیے نصیحت کے سوا کچھ نہیں جس کے ذریعے سے وہ اپنے دینی اور دنیاوی مصالح میں نصیحت حاصل کرتے ہیں۔۔ اور ہر قسم کی ستائش اللہ تتعالیٰ کے لیے ہے۔ القلم
51 القلم
52 القلم
0 الحاقة
1 ﴿ الْحَاقَّةُ ﴾ یہ قیامت کے ناموں میں سے ہے، کیونکہ یہ ثابت اور واجب ہے اور مخلوق پر نازل ہوگی، اس میں تمام امور کے حقائق اور سینوں کے بھید ظاہر ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے اس فرمان“ ﴿ الْحَاقَّةُ مَا الْحَاقَّةُ وَمَا أَدْرَاكَ مَا الْحَاقَّةُ ﴾ کے تکرار کے ذریعے سے اس کی عظمت شان اور تفخیم بیان فرمائی ہے۔ اس کی شان بہت عظیم ہے، پھر اللہ تعالیٰ نے اس کے احوال کے نمونے کا ذکر فرمایا جو دنیا میں موجود ہے جس کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ یہ وہ سخت عقوبتیں ہیں جو اللہ تعالیٰ نے سرکش قوموں پر نازل فرمائیں، چنانچہ فرمایا : ﴿ كَذَّبَتْ ثَمُودُ ﴾ثمود ایک مشہور قبیلہ ہے جو حجر کے علاقے میں آباد تھے، اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف اپنے رسول حضرت صالح علیہ السلام کو مبعوث کیا جو ان کو شرک سے روکتے تھے اور ان کو توحید کا حکم دیتے تھے، پس انہوں نے حضرت صالح کی دعوت کو ٹھکرا دیا ، ان کو جھٹلایا اور قیامت کے روز کو جھٹلایا جس کے بارے میں حضرت صالح علیہ السلام نے خبر دی تھی اور وہ یہی کھڑکھڑانے والی ہے جو مخلوق کو اپنی ہولناکیوں سے ہلاک کرڈالے گی۔ اسی طرح عاد اولیٰ کو ہلاک کرڈالا جو حضرموت کے باشندے تھے۔ جب اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف اپنے رسول ہود علیہ السلام کو بھیجا جو انہیں اکیلے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی دعوت دیتے تھے تو انہوں نے حضرت ہود علیہ السلام کی تکذیب کی اور قیامت کے متعلق حضرت ہود علیہ السلام نے جو خبر دی تھی اس کا انکار کیا ۔پس اللہ تعالیٰ نے فوری عذاب کے ذریعے سے دونوں قوموں کو ہلاک کر ڈالا ﴿فَأَمَّا ثَمُودُ فَأُهْلِكُوا بِالطَّاغِيَةِ  ﴾ ” پس ثمود تو کڑک سے ہلاک کردیے گئے ۔“اور وہ ایک زبردست اور انتہائی کرخت چنگھاڑ تھی جس نے ان کے دلوں کو پارہ پارہ کردیا اور ان کی روحیں پرواز کرگئیں اور وہ مردہ پڑے رہ گئے کہ ان کی رہائش گاہوں اور ان کی لاشوں کے سوا کچھ نظر نہیں آتا تھا۔ الحاقة
2 الحاقة
3 الحاقة
4 الحاقة
5 الحاقة
6 ﴿ وَأَمَّا عَادٌ فَأُهْلِكُوا بِرِيحٍ صَرْصَرٍ ﴾ ” اور رہے عاد تو انہیں نہایت تیز آندھی سے ہلاک کردیا گیا ۔“یعنی بہت طاقت ور اور طوفانی ہوا جس کی آواز ، بادل کی کڑک سے زیادہ تھی ﴿ عَاتِيَةٍ ﴾ بہت سے مفسرین کے قول کے مطابق یہ ہوا اپنے داروغوں کے سامنے سرکش تھی۔ دوسرا قول یہ ہے کہ یہ قوم عاد پر نہایت سرکشی کے ساتھ چلتی رہی اور حد سے بڑھ گئی اور یہی قول صحیح ہے۔ الحاقة
7 ﴿ سَخَّرَهَا عَلَيْهِمْ سَبْعَ لَيَالٍ وَثَمَانِيَةَ أَيَّامٍ حُسُومًا ﴾” اس نے اس کو سات رات اور آٹھ دن لگاتار ان پر چلائے رکھا۔“ یعنی یہ ایام نہایت منحوس، برے اور ان کے لیے انتہائی سخت تھے، اس ہوا نے ان کو تباہ وبرباد کرکے ہلاک کرڈالا﴿ فَتَرَى الْقَوْمَ فِيهَا صَرْعَىٰ ﴾ یعنی آپ دیکھتے ہیں کہ وہ لوگ ہلاک ہو کرمردہ پڑے ہیں ﴿ كَأَنَّهُمْ أَعْجَازُ نَخْلٍ خَاوِيَةٍ ﴾۔ یعنی گویا کہ وہ کھجوروں کے کھوکھلے تنے ہیں جن کے سروں کو کاٹ دیا گیا ہے اور وہ ایک دوسرے پر گرے پڑے ہیں۔ الحاقة
8 ﴿ فَهَلْ تَرَىٰ لَهُم مِّن بَاقِيَةٍ ﴾” پس کیا تو ان میں سے کسی کو بھی باقی دیکھتا ہے؟“ یہ استفہام نفی متقرر کے معنی میں ہے۔ الحاقة
9 اسی طرح ان دو سرکش قوموں، عاد وثمود کے علاوہ بھی سرکش اور نافرمان لوگ آئے جیسے فرعون مصر جس کی طرف اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے اور رسول حضرت موسیٰ بن عمران علیہ السلام کو مبعوث کیا اور انہیں واضح نشانیاں دکھائیں جن کی بنا پر انہیں حق کا یقین آگیا مگر انہوں نے ظلم اورتکبر سےانکارکردیااور کفر کارویہ اختیار کیا،اوراس سےپہلے جھٹلانےوالےآئےہیں۔﴿ وَالْمُؤْتَفِكَاتُ﴾”اورالٹی ہوئی بستیوں والے۔“ یعنی حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کی بستیاں،سب گناہ کاکام کرتےتھے﴿ بِالْخَاطِئَةِ﴾ یعنی سرکشی کے افعال کرتےتھے ،اس سے مراد کفر،تکذیب ،ظلم اور عناد ہے، نیزفسق ومعاصی کی دیگراقسام بھی اس میں شامل ہیں ۔ الحاقة
10 ﴿ فَعَصَوْا رَسُولَ رَبِّهِمْ ﴾یہ اسم جنس ہے، یعنی ان تمام قوموں نے اپنے اپنے رسول کو جھٹلایا جو ان کی طرف بھیجا گیا تھا ۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان سب کو پکڑ لیا ﴿ أَخْذَةً رَّابِيَةً ﴾ یعنی حد اور مقدار سے بڑھ کر ان کی گرفت کی جس سے وہ تباہ وبرباد ہوگئے۔ الحاقة
11 منجملہ ان قوموں کے ،نوح علیہ السلام کی قوم بھی تھی جن کو اللہ نے سمندر (کے سیلاب) میں غرق کر ڈالا جب پانی سرکشی کر کے زمین پر پھیل گیا اور بلند مقامات سے بھی بلند ہوگیا۔ حضرت نوح علیہ السلام کی سرکش قوم کے غرق ہونے کے بعد جو مخلوق موجود تھی اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنے احسان کا ذکر فرمایا کہ ان کو سوار کیا ﴿ فِي الْجَارِيَةِ ﴾ ” کشتی میں “جب کہ یہ اپنے باپوں اور ماؤں کی صلب میں تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے طوفان سے نجات دی تھی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا بیان کرو، اس کاشکر کرو جس نے تمہیں اس وقت نجات دی جب اس نے سرکش لوگوں کو ہلاک کرڈالا اور اس کی آیات سے عبرت حاصل کرو جو اس کی توحید پر دلالت کرتی ہیں۔ الحاقة
12 ﴿ لِنَجْعَلَهَا ﴾ ” تاکہ ہم اس کو بنادیں“ یعنی کشتی کو اور اس سے مراد اسم جنس ہے، تمہارے لیے ﴿ تَذْكِرَةً ﴾ ” یادگار“جو تمہیں اولین کشتی کی صنعت اور اس کے قصے کی یاد دلاتی ہے کہ کیسے اللہ تعالیٰ نے اس کشتی پر سوار ان لوگوں کو نجات دی جو ایمان لائے اور اپنے رسول کی اتباع کی اور روئے زمین کے دیگر تمام لوگوں کو ہلاک کرڈالا، کیونکہ اشیاء کی جنس اپنی اصل کی یاد دلاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان : ﴿ وَتَعِيَهَا أُذُنٌ وَاعِيَةٌ ﴾ ”اور یاد رکھنے والے کان اسے یاد رکھیں۔ “یعنی خرد مند لوگ ہی اس کو یاد رکھتے ہیں اور اس سے مقصود کی معرفت اور اس کے ذریعے سے نشانی ومعجزے کی وجہ معلوم کرتے ہیں اور اہل غفلت، کند ذہن اور ذہانت سے محروم لوگوں کا معاملہ اس کے برعکس ہے کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عبرتوں کو یاد نہ رکھنے اور اس کی آیات میں غوروفکر نہ کرنے کے سبب سے آیات الٰہی سے فائدہ اٹھانے سے محروم ہیں۔ الحاقة
13 جب اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہےکہ اس نے اپنے رسولوں کی تکذیب کرنے والوں کے ساتھ کیا کیا، انہیں کیسا بدلہ دیا، دنیا کے اندر ہی ان پر عذاب بھیج دیا اور اپنے رسولوں اور ان کے پیروکاروں کو بچا لیا۔ یہ قیامت کے روز اخروی جزا اور اعمال کے کامل بدلے کا مقدمہ ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے بہت ہولناک واقعات کا ذکر فرمایا ہے جو قیامت سے پہلے وقوع پذیر ہوں گے ان میں سے اولین واقعہ یہ ہوگا کہ اسرافیل ﴿ فِي الصُّورِ ﴾ صور پھونکیں گے جب اجساد مکمل ہوجائیں گے ﴿ نَفْخَةٌ وَاحِدَةٌ ﴾۔ ” ایک دفعہ پھونک ماری جائے گی۔“ پس روحیں نکل آئیں گی اور ہر روح اپنے جسد میں داخل ہوجائے گی، تب تمام لوگ رب کائنات کے سامنے کھڑے ہوجائیں گے۔ الحاقة
14 ﴿ وَحُمِلَتِ الْأَرْضُ وَالْجِبَالُ فَدُكَّتَا دَكَّةً وَاحِدَةً ﴾۔ یعنی پہاڑ ریزہ ریزہ کردیے جائیں گے ، وہ نیست ونابود ہو کر رزق خاک ہوجائیں گے، یعنی ان کو ڈھا کر زمین کے برابر کردیا جائے گا ،چنانچہ تمام زمین ہموار میدان بن جائے گی، آپ اس میں کوئی نشیب وفراز نہیں دیکھیں گے۔ یہ تو زمین اور اس پر رہنے والوں کے ساتھ ہوگا۔ رہا وہ معاملہ جو آسمان کے ساتھ کیا جائے گا تو وہ یہ ہوگا کہ وہ متحرک اور متموج ہو کر پھٹ جائے گا، اس کارنگ متغیر ہوجائے گا اور آسمان اپنی صلابت اور عظیم قوت کے بعد کمزور ہوجائیں گے، اور یہ سب کچھ ایک عظیم امر کی بنا پر ہوگا جوان کو ہلا کر رکھ دے گا اور بہت بڑے تکلیف دہ اور ہولناک معاملے کے سبب سے ہوگا جو ان کو کمزور کردے گا۔ الحاقة
15 الحاقة
16 الحاقة
17 ﴿ وَالْمَلَكُ ﴾ اور مکرم فرشتے ﴿ عَلَىٰ أَرْجَائِهَا ﴾ آسمان کی تمام جوانب اور کناروں پر اپنے رب کے سامنے سرافگندہ اور اس کی عظمت کے سامنے فروتن ہوں گے ﴿ وَيَحْمِلُ عَرْشَ رَبِّكَ فَوْقَهُمْ يَوْمَئِذٍ ثَمَانِيَةٌ ﴾ اور تیرے رب کا عرش آٹھ فرشتے اپنے اوپر اٹھائے ہوئے ہوں گے جوا نتہائی طاقت ور ہوں گے )یہ اس وقت ہوگا( جب رب تعالیٰ اپنے بندوں کے درمیان، اپنے عدل وانصاف اور اپنے فضل وکرم کے ساتھ ،فیصلے کرنے کے لیے آئے گا، اس لیے فرمایا : ﴿ يَوْمَئِذٍ تُعْرَضُونَ ﴾ اس روز تم اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کیے جاؤ گے۔ الحاقة
18 ﴿ لَا تَخْفَىٰ مِنكُمْ خَافِيَةٌ ﴾۔ تمہارے اجساد اور ذوات چھپ سکیں گے نہ تمہارے اعمال اور اوصاف چھپ سکیں گے نہ تمہارے اعمال اور اوصاف چھپ سکیں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ غائب اور موجود سب کا علم رکھتا ہے تمام بندے ننگے پاؤں، ننگے جسم اور غیر مختون حالت میں، ایک ہموار میدان میں جمع کیے جائیں گے، پکارنے والا ان کو اپنی آواز سنا سکے گا اور نگاہ ان سب تک پہنچ سکے گی۔ اس وقت اللہ تعالیٰ انہیں ان کے اعمال کی جزا دے گا اس لیے جزا کی کیفیت کا ذکر کیا۔ الحاقة
19 یہی لوگ اہل سعادت ہوں گے ان کو ان کے اعمال نامے، جن میں ان کے نیک اعمال درج ہوں گے، ان کے امتیاز، ان کی شان اور قدر بلند کرنے کے لیے، ان کے دائیں ہاتھوں میں دیے جائیں گے۔ اس وقت ان میں سے کوئی فرحت وسرور اور اس خواہش کے ساتھ کہ مخلوق پر ظاہر ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے کس قدر اکرام وتکریم سے سرفراز کیا ہے ،تو پکار اٹھے گا:،﴿ هَاؤُمُ اقْرَءُوا كِتَابِيَهْ ﴾۔ یعنی یہ لو میری کتاب اور اسے پڑھو، یہ کتاب جنتوں، اکرام وتکریم، گناہوں کی مغفرت اور عیوب کو ڈھانپنے کی بشارت دیتی ہے اور جس چیز نے مجھے اس مقام پر پہنچایاوہ قیامت اور حساب کتاب پر ایمان ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے مجھے نوازا اور ایسے اعمال کے ذریعے سے قیامت کے دن کے لیے تیاری کی توفیق دی، جو امکان اور استطاعت میں ہیں، اسی لیے فرمایا: ﴿ إِنِّي ظَنَنتُ أَنِّي مُلَاقٍ حِسَابِيَهْ ﴾ ” مجھے یقین تھا کہ مجھے میرا حساب ضرور ملے گا۔ “ یہاں )ظَنّ( یقین کے معنیٰ میں استعمال ہوا ہے۔ الحاقة
20 الحاقة
21 ﴿ فَهُوَ فِي عِيشَةٍ رَّاضِيَةٍ ﴾۔ ” پس وہ ایک دل پسند زندگی میں ہوگا۔“ یعنی جو ان تمام چیزوں پر مشتمل ہوگی جن کی نفس خواہش کریں گے اور آنکھیں لذت حاصل کریں گی، ان کا حال یہ ہوگا کہ وہ اس زندگی سے راضی ہوں گے اور اس کے بدلے کسی اور چیز کو منتخب نہیں کریں گے۔ ﴿ فِي جَنَّةٍ عَالِيَةٍ ﴾ بلند رہائش گاہوں اور بلند محلوں والی جنت میں ہوں گے۔ الحاقة
22 الحاقة
23 ﴿ قُطُوفُهَا دَانِيَةٌ ﴾ اس کے پھل اور مختلف انواع کے میوے بہت قریب ہوں گے۔ اہل جنت کے لیے ان کا حاصل کرنا بہت آسان ہوگا۔ اہل جنت ، کھڑے، بیٹھےاور لیٹے ہوئے ہر حالت میں ان کو حاصل کرسکیں گے ۔ اکرام وتکریم کے طور پر ان سے کہا جائے گا : ﴿ كُلُوا وَاشْرَبُوا ﴾ ہر قسم کالذیذ کھانا اور مزیدار مشروب کھاؤ اور پیو۔ الحاقة
24 ﴿ هَنِيئًا ﴾۔ کسی تکدر اور ناگواری کے بغیر کامل طریقے سے کھاؤ اور پیو۔ یہ جزا تمہیں اس سبب سے حاصل ہوئی ہے ﴿ بِمَا أَسْلَفْتُمْ فِي الْأَيَّامِ الْخَالِيَةِ ﴾ جو تم نے اعمال صالحہ، نماز، روزہ، زکوۃ، حج، مخلوق کے ساتھ حسن سلوک، اللہ تعالیٰ کا ذکر، اس کی طرف انابت کی اور برے اعمال ترک کیے، پس اعمال کو اللہ تعالیٰ نے جنت میں داخل ہونے کا سبب، اس کی نعمتوں کا مادہ اور اس کی سعادت کی بنیاد بنایا ہے۔ الحاقة
25 یہی وہ لوگ ہیں جو بدبخت ہیں جن کو امتیاز، رسوائی، عار اور فضیحت کے طور پر ان کے اعمال نامے بائیں ہاتھ میں دیے جائیں گے جن میں اعمال بددرج ہوں گے ،پس ان میں سے کوئی حزن وغم سے کہے گا: ﴿ يَا لَيْتَنِي لَمْ أُوتَ كِتَابِيَهْ ﴾ ”اے کاش مجھے کتاب نہ دی گئی ہوتی ۔“ کیونکہ یہ کتاب جہنم میں داخلے اور ابدی خسارے کی” خوش خبری “ سناتی ہے۔ الحاقة
26 ﴿ وَلَمْ أَدْرِ مَا حِسَابِيَهْ ﴾ اور کاش میں بھولا بسرا ہوگیا ہوتا، مجھے دوبارہ زندہ کیا جاتا نہ مجھ سے حساب لیا جاتا، اس لیے وہ کہے گا: ﴿ يَا لَيْتَهَا كَانَتِ الْقَاضِيَةَ ﴾ کاش میری موت، ایسی موت ہوتی ہے جس کے بعد مجھے دوبارہ زندہ نہ کیا جاتا۔ الحاقة
27 الحاقة
28 پھر وہ اپنے مال اور سلطنت کی طرف التفات کرے گا تو وہ اس کے لیے وبال ہی وبال ہوں گے ، اس نے اس میں سے کچھ بھی آگے روانہ نہ کیا ،(اب )یہ مال ،خواہ اسے فدیے میں دے دے ، اسے عذاب سے نہیں بچا سکے گا ،پس وہ کہے گا :﴿ مَا أَغْنَىٰ عَنِّي مَالِيَهْ ﴾ یعنی اس مال نے مجھے دنیا میں کوئی فائدہ نہیں دیا کیونکہ میں نے اس میں سے کچھ بھی آگے نہیں بھیجا اور نہ یہ مال آخرت ہی میں میرے کام آیا کیونکہ اس کے نفع مند ہونے کا وقت گزر گیا۔ الحاقة
29 ﴿ هَلَكَ عَنِّي سُلْطَانِيَهْ ﴾ یعنی سلطنت چلی گئی اور مٹ گئی، پس لشکروں نے کوئی فائدہ دیا نہ کثرت اور تعداد نے، سازوسامان کوئی کام آیا نہ جاہ وجلال بلکہ سب کچھ رائیگاں گیا، اس کے سبب سے تمام منافع کھو گئے اور اس کے بدلے میں غم وہموم اور محتاجی نے آ گھیرا۔ الحاقة
30 پس اس وقت اسے عذاب میں ڈال دینے کا حکم دیا جائے گا ،انتہائی سخت اور نہایت درشت خو فرشتوں سے کہا جائے: ﴿ خُذُوهُ فَغُلُّوهُ ﴾ یعنی اس کو پکڑو اور اس کے گلے میں طوق ڈال دو جو اس کا گلا گھونٹ دے۔ الحاقة
31 ﴿ ثُمَّ الْجَحِيمَ صَلُّوهُ ﴾ پھر جہنم کے انگاروں اور اس کے شعلوں پر اسے الٹ پلٹ کرو۔ الحاقة
32 ﴿ ثُمَّ فِي سِلْسِلَةٍ ذَرْعُهَا سَبْعُونَ ذِرَاعًا ﴾ ” پھر زنجیر سے،جس کی ناپ ستر گز ہے “ یعنی انتہائی حرارت میں ،جہنم کی زنجیروں کے ساتھ ﴿ فَاسْلُكُوهُ ﴾ ” اسے جکڑ دو“ یعنی ان زنجیروں میں پرودو ،وہ اس طرح کی زنجیروں کو اس کی دبر میں داخل کرکے منہ کی طرف سے نکالا گیا ہوا اور پھر ان زنجیروں میں لٹکا دیا گیا ہو، پس اسے ہمیشہ یہ انتہائی برا عذاب ملتا رہے گا ۔ یہ بہت برا عذاب اور بہت بری سزا ہے، ہائے اس کے لیے حسرت ہے اس زجر وتوبیخ اور عتاب پر۔ وہ سبب جس نے اسے اس مقام پر پہنچایا یہ ہے کہ ﴿ إِنَّهُ كَانَ لَا يُؤْمِنُ بِاللّٰـهِ الْعَظِيمِ ﴾ وہ اپنے رب کا انکار کرنے والا اور اس کے رسولوں سے عناد رکھنے والا اور رسول جو حق لے کر آئے ہیں اس کو ٹھکرادینے والا تھا۔ الحاقة
33 الحاقة
34 ﴿ وَلَا يَحُضُّ عَلَىٰ طَعَامِ الْمِسْكِينِ ﴾ یعنی اس کے دل میں رحم نہیں تھا کہ اس بنا پر فقرا اور مساکین پر رحم کرتا ۔ وہ اپنے مال میں سے ان کو کھانا کھلاتا نہ دوسروں کو ترغیب دیتا تھا کہ وہ ان کو کھانا کھلائیں کیونکہ اس کا دل ملامت کرنے والے ضمیر سے خالی تھا۔ سعادت اور اس کے مادے کا دارومدار امور پر ہے: اللہ تعالیٰ کے لیے اخلاص جس کی بنیاد ایمان باللہ ہے۔ ٢۔ احسان کی تمام اقسام کے ذریعے سے مخلوق پر احسان کرنا جن میں سے سب سے بڑا احسان محتاجوں کو کھانا کھلاکر ان کی ضرورت پوری کرنا ہے ۔۔۔۔ مگر ان لوگوں کے پاس اخلاص ہے نہ احسان، اس لیے وہ اسی چیز کے مستحق ہیں جس کا استحقاق انہوں نے ثابت کردیا ہے۔ الحاقة
35 ﴿ فَلَيْسَ لَهُ الْيَوْمَ هَاهُنَا ﴾۔” پس نہیں ہے آج یہاں اس کے لیے“ یعنی قیامت کے دن ﴿ حَمِيمٌ ﴾ کوئی قریبی رشتہ دار یا کوئی دوست جو اس کی سفارش کرے تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچ جائے یا اللہ تعالیٰ سے ثواب حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿ وَلَا تَنفَعُ الشَّفَاعَةُ عِندَهُ إِلَّا لِمَنْ أَذِنَ لَهُ﴾( سبا :34؍23) ”اللہ کے ہاں، کسی کے لیے سفارش فائدہ نہ دے گی مگر اس کے لیے جس کے بارے میں خود سفارش کی اجازت دے۔“ نیز فرمایا :﴿ مَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ حَمِيمٍ وَلَا شَفِيعٍ يُطَاعُ ﴾)المومن:40؍18) ” ظالموں کا کوئی جگری دوست ہوگا نہ کوئی سفارش کرنے والا کہ اس کی سفارش قبول کی جائے گی۔“ الحاقة
36 ﴿ وَلَا طَعَامٌ إِلَّا مِنْ غِسْلِينٍ ﴾ ” اور نہ غسلین کے سوا اور ان کا کوئی کھانا ہے۔ “ یہ اہل جہنم کی پیپ ہے جو حرارت، کڑواہٹ، بدبو اور بدذائقہ ہونے میں انتہا کو پہنچی ہوئی ہوگی۔ نہیں کھائیں گے یہ قابل مذمت کھانا ﴿ إِلَّا الْخَاطِئُونَ ﴾ مگر خطاکار ہی جو سیدھے راستے سے ہٹ گئے اور ہر اس راستے پر چل پڑے جو انہیں جہنم تک پہنچاتا ہے، اس لیے وہ دردناک عذاب کے مستحق ٹھہرے۔ الحاقة
37 الحاقة
38 اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان تمام چیزوں کی قسم کھائی ہے جنہیں مخلوق دیکھ سکتی ہے اور جنہیں نہیں دیکھ سکتی، ان میں تمام مخلوق داخل ہے بلکہ اس کا نفس مقدس بھی شامل ہے ۔ یہ قسم رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اور اس قرآن کی صداقت پر کھائی ہے جسے آپ لے کر آئے ہیں، نیز اس بات پر کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے پہنچا دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو کفار کی تمام بہتان طرازیوں سے ۔۔۔۔ مثلا یہ کہ آپ شاعر ہیں یا آپ جادوگر ہیں ۔۔۔۔منزہ قرار دیا ہے ۔ان بہتان طرازیوں پر جس چیز نے ان کو آمادہ کیا ،وہ ہے ان کا عدم ایمان اور عدم تفکر، چنانچہ اگر وہ ایمان لائے ہوتے اور انہوں نے غوروفکر کیا ہوتا تو انہیں معلوم ہوجاتا کہ کیا چیز انہیں فائدہ دیتی ہے اور کیا چیز نقصان دیتی ہے ، اس میں سے ایک چیز یہ بھی ہے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے احوال میں غور کریں، آپ کے اوصاف اور اخلاق کو گہری نظر سے دیکھیں تاکہ ان کو ایسا معاملہ نظر آئے جو سورج کی مانند روشن ہے جو اس حقیقت کی طرف ان کی راہ نمائی کرتا ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کے برحق رسول ہیں اور آپ جو کچھ لے کر آئے ہیں وہ رب کائنات کی طرف سے نازل کردہ ہے اور وہ بشر کا قول نہیں ہوسکتا بلکہ وہ ایسا کلام ہے جو کلام کرنے والے کی عظمت ،اس کے اوصاف کی جلالت ، بندوں کے لیے اس کے کمال تربیت اور بندوں پر اس کے بلند ہونے پر دلالت کرتا ہے ،نیز یہ ان کی طرف سے ایسا گمان ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کی حکمت کے لائق نہیں۔ اگر اس رسول نے اللہ پر کوئی جھوٹ بولا ہوتا ﴿بَعْضَ الْأَقَاوِيلِ﴾ اور بعض جھوتی باتیں بنائی ہوتیں۔ الحاقة
39 الحاقة
40 الحاقة
41 الحاقة
42 الحاقة
43 الحاقة
44 الحاقة
45 ﴿لَأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ﴾” تو ہم اسے دائیں ہاتھ سے پکڑ لیتے اور رگ گردن کاٹ دیتے۔“(وَتِین) وہ رگ ہے جو دل کے قریب ہوتی ہے اگر وہ کٹ جائے تو انسان ہلاک ہوجاتا ہے ۔ اگر یہ فرض کر بھی لیاجائے۔۔۔ حاشا وکلا۔۔۔ کہ آپ نے اللہ تعالیٰ پر جھوٹ گھڑا ہے تو اللہ تعالیٰ آپ کو فورا سزا دیتا اور آپ کو اس طرح پکڑتا جس طرح ایک غالب اور قدرت رکھنے والی ہستی پکڑتی ہے کیونکہ وہ حکمت والا اور ہر چیز پر قادر ہے۔ اس کی حکمت تقاضا کرتی ہے کہ وہ اپنے بارے میں جھوٹ گھڑنے والے کو مہلت نہ دے جو یہ سمجھتا کہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے خون اور اموال اس کےلیے کہ مباح ٹھہرا دیے ہیں جو اس کی مخالفت کریں ،نجات صرف اسی کے لیے اور اس کے پیروکاروں کے لیے ہے اور جو کوئی اس کی مخالفت کرتا ہے اس کے لیے ہلاکت ہے۔ پس جب اللہ تعالیٰ نے معجزات کے ذریعے سے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد فرمائی اور جو کچھ لے کر وہ مبعوث ہوا اس کی صداقت پر واضح نشانیوں کے ساتھ دلائل براہین دیے، اس کے دشمنوں کے خلاف اسے فتح ونصرت سے نوازا گیا اور ان کی پیشانیاں اس کے قبضے میں دے دیں تو یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی رسالت پر سب سے بڑی گواہی ہے۔ الحاقة
46 الحاقة
47 ﴿فَمَا مِنكُم مِّنْ أَحَدٍ عَنْهُ حَاجِزِينَ﴾اگر اللہ تعالیٰ آپ کو ہلاک کرنا چاہے تو آپ خود اس کی ہلاکت سے بچ سکتے ہیں نہ کوئی اس پر قدرت رکھتا ہے کہ وہ آپ کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچا سکے۔ الحاقة
48 ﴿وَإِنَّهُ﴾ بے شک یہ قرآن کریم ﴿ لَتَذْكِرَةٌ لِّلْمُتَّقِينَ﴾”پرہیزگاروں کے لیے نصیحت ہے۔“ وہ اپنے دین ودنیا کے مصالح کے بارے میں اس سے عبرت حاصل کرتے ہیں ۔ پس وہ اس کی معرفت حاصل کرتے ہیں اور اس پر عمل کرتے ہیں ،چنانچہ وہ ان کو عقائد دینیہ، اخلاق حسنہ اور احکام شرعیہ کی یاد دہانی کراتا ہے۔ پس وہ علمائے ربانی، عباد عارفین اور ائمہ مجتہدین بن جاتے ہیں۔ الحاقة
49 ﴿وَإِنَّا لَنَعْلَمُ أَنَّ مِنكُم مُّكَذِّبِينَ﴾” اور ہم جانتے ہیں کہ تم میں سے بعض اسے جھٹلاتے ہیں ۔“ اس میں رسول کو جھٹلانے والے اور تکذیب کرنے والوں کے لیے وعید اور تہدید ہے ، نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ عنقریب ان کو سخت عقوبت کے ذریعے سے سزا دے گا ۔ الحاقة
50 ﴿وَإِنَّهُ لَحَسْرَةٌ عَلَى الْكَافِرِينَ ﴾۔ ” اور یہ کافروں کے لیے حسرت ہے۔“ چونکہ انہوں نے اس کا انکار کیا تھا اس نے ان کے ساتھ جو وعدہ کیا تھا وہ انہوں نے دیکھ لیا، اس لیے وہ حسرت کا اظہار کریں گے کہ انہوں نے اس سے رہنمائی حاصل نہ کی اور اس کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم نہ کیا، پس وہ ثواب سے محروم ہو کر شدید ترین عذاب میں مبتلا ہوگئے اور ان کے تمام اسباب منقطع ہوگئے۔ الحاقة
51 ﴿وَإِنَّهُ لَحَقُّ الْيَقِينِ﴾” اور کچھ شک نہیں کہ یہ برحق ہے۔“ یعنی علم کا اعلیٰ ترین مرتبہ ہے کیونکہ علم کا بلند ترین مرتبہ یقین ہے اور یقین، علم ثابت کو کہا جاتا ہے، جو کبھی متزلزل ہوتا ہے نہ زائل ہوتا ہے، یقین کے تین مراتب ہیں ان میں سے ہر مرتبہ ماقبل مرتبے سے بلند تر ہے: اول۔ علم الیقین وہ علم ہے جو خبر سے مسفاد ہوتا ہے۔ ثانی۔ عین الیقین وہ علم ہے جس کا ادراک حاسہ بصر سے ہوتا ہے۔ ثالث۔ حق الیقین وہ علم جس کا ادراک حاسہ ذوق ولمس سے ہوتا ہے۔ اس قرآن میں حق الیقین کا وصف پایا جاتا ہے کیونکہ اس میں جو علوم مذکور ہیں قطعی دلائل وبراہین سے ان کی تائید ہوتی ہے اور اس میں جو حقائق ہیں اور معارف ایمانی ہیں وہ اسے حاصل ہوتے ہیں جس نے حق الیقین کا ذائقہ چکھا ہے۔ الحاقة
52 ﴿فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّكَ الْعَظِيمِ﴾۔ ” پس تو اپنے رب عظیم کی پاکی بیان کر۔“ یعنی اسے ان اوصاف سے منزہ گردانیں جو اس کے جلال کے لائق نہیں، اس کے اوصاف جلال وجمال اور اوصاف کمال کا ذکر کرکے اس کی تقدیس بیان کریں۔ الحاقة
0 المعارج
1 اللہ تعالیٰ تبارک وتعالیٰ معاندین حق کی جہالت کو اور استہزا کے طور پر ان کے عذاب الٰہی کو مشکل اور اس بارے میں اللہ تعالیٰ کو عاجز سمجھتے ہوئے عذاب کے لیے جلدی مچانے کو بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے:﴿سَأَلَ سَائِلٌ﴾ یعنی دعا کرنے والے نے دعا کی اور نصرت طلب کرنے والے نے نصرت طلب کی ﴿بِعَذَابٍ وَاقِعٍ لِّلْكَافِرِينَ لَيْسَ لَهُ دَافِعٌ﴾” عذاب کی جو واقع ہو کررہے گا کافروں پر۔“ ان کے کفر وعناد کی بنا پر عذاب کے مستحق ہونے کی وجہ سے۔ المعارج
2 ﴿لَيْسَ لَهُ دَافِعٌ مِّنَ اللّٰـهِ ﴾ متکبر اور سرکش مشرکین میں سے جس کسی نے جلد عذاب کی خواہش کی ہے، کوئی اس عذاب کو اس کے نازل ہونے سے قبل روک سکتا ہے نہ اس کے نازل ہونے کے بعد اس کو اٹھا سکتا ہے۔ یہ آیات کریمہ اس وقت نازل ہوئیں جب نضر بن حارث قرشی وغیرہ اہل شرک نے دعا کرتے ہوئے کہا :﴿ اللّٰـهُمَّ إِن كَانَ هَـٰذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِندِكَ فَأَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَاءِ أَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ أَلِيمٍ﴾( الانفال :8؍32)” اے اللہ تعالیٰ! اگر یہ تیری طرف سے حق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا دے یا ہم پر دردناک عذاب لے آ۔“ پس اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر عذاب ضرور واقع ہوگا، یا تو اس دنیا ہی میں جلد ان پر عذاب بھیج دیا جائے گا یا آخرت میں (مبتلا کرنے کے لیے) اس عذاب کو ان سے موخر کیا جائے گا۔ اگر انہوں نے اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کی ہوتی، اس کی عظمت، اس کی وسعت سلطنت اور اس کے اسماء اور صفات کو پہچانا ہوتا تو وہ کبھی جلدی نہ مچاتے بلکہ اس کے سامنے سر تسلیم خم کردیتے اور ادب اختیار کرتے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی عظمت کا ذکر فرمایا جو ان کے اقوال قبیحہ کی ضد ہے۔ المعارج
3 چنانچہ فرمایا :﴿ذِي الْمَعَارِجِ تَعْرُجُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ إِلَيْهِ ﴾۔ یعنی وہ بلندی، جلال اور عظمت کا مالک ہے، تمام مخلوقات کی تدبیر اسی کے ہاتھ میں ہے جس کی طرف اس چیز کے ساتھ فرشتے عروج کرتے ہیں جس کی تدبیر پر انہیں مقرر کیا ہے اور اس کی طرف روح بلند ہوتی ہے۔ یہ اسم جنس ہے جو تمام ارواح کو شامل ہے، خواہ نیک ہوں یابد، اللہ تعالیٰ کی طرف ارواح کا بلند ہونا، وفات کے وقت ہے۔ نیک لوگوں کی ارواح اللہ تعالیٰ کی طرف عروج کرتی ہیں، انہیں ایک آسمان سے دوسرے آسمان کی طرف بلند ہونے کی اجازت دے دی جاتی ہے ، یہاں تک کہ ارواح اس آسمان پر پہنچ جاتی ہیں جس میں اللہ تعالیٰ ان کارب تشریف فرما ہے ، یہ ارواح اللہ تعالیٰ کے حضور تحیہ وسلام پیش کرتی ہیں ، اس کے قرب سے سرفراز ہوتی ہیں اور اس کے قرب سے خوشی اور سرور حاصل کرتی ہیں ، اللہ ٰ تعالیٰ کی طرف سے ان کو ثنا واکرام بھلائی اور بڑائی حاصل ہوتی ہے۔ رہیں فساق وفجار کی ارواح تو وہ عروج کرتی ہیں جب وہ آسمان پر پہنچتی ہیں تو آنے کی اجازت طلب کرتی ہیں مگر ان کو اجازت نہیں دی جاتی اور ان کو زمین کی طرف لوٹا دیا جاتا ہے ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس مسافت کا ذکر فرمایا جس کو طے کرکے فرشتے اور روح اللہ تعالیٰ کی طرف عروج کرتے ہیں، نیز یہ کہ وہ ان اسباب کے ذریعے سے ایک دن میں عروج کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے آسان کیے ہیں اور اوپر چڑھنے میں ان کی لطافت ، خفت اور سرعت رفتار ان کی اعانت کرتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، عام عادی رفتار کے مطابق، یہ مسافت ابتدائے عروج سے لے کر اس حد تک جو ان کے لیے مقرر کی گئی ہے اور ملا اعلیٰ تک، پچاس ہزار برس کے برابر ہے۔ یہ عظیم بادشاہی، یہ وسیع کائنات، علوی، اور سفلی ، اس کی تخلیق اور تدبیر کا انتطام وہی بلند وبرتر کرتا ہے ۔ پس وہ ان کے ظاہری وباطنی احوال کا علم رکھتا ہے ، وہ ان کے ٹھکانے کو جانتا ہے اور اسے اس جگہ کا علم ہے جہاں ان کو سونپا جانا ہے ، اس نے اپنی رحمت ، احسان اور رزق ان تک پہنچایا ہے جو ان سب پر عام اور سب کو شامل ہے ۔ اس نے ان پر حکم قدری، حکم شرعی اور حکم جزائی کو جاری کیا۔ پس شدت ہے ان لوگوں کے لیے جو اس کی عظمت کے بارے میں جہالت کا شکار ہیں اور انہوں نے اس کی اس طرح قدر نہ کی جس طرح قدر کرنے کا حق ہے، پس انہوں نے عجز ثابت کرنے اور امتحان کے طور پر عذاب کے لیے جلدی مچائی۔۔۔۔۔ پاک ہے حلم اور درگزر کرنے والی ہستی جس نے ان کو ڈھیل دیے رکھی مگر ان کو مہمل نہیں چھوڑا ، انہوں نے اس کو اذیت پہنچائی مگر اس نے ان کے بارے میں صبر کیا، ان کو معاف کردیا اور ان کو رزق عطا کیا۔ یہ اس آیت کریمہ کی تفسیر میں ایک احتمال ہے ، پس یہ عروج اور چڑھنا دنیا میں ہے کیونکہ آیت کریمہ کا پہلاسیاق اس پر دلالت کرتا ہے ۔ ایک احتمال یہ ہے کہ یہ قیامت کے دن ہوگا اور اللہ تعالیٰ قیامت کے روز اپنے بندوں پر اپنی عظمت، جلال اور کبریائی ظاہر کرے گا جو اس کی معرفت کی سب سے بڑی دلیل ہے وہ فرشتوں اور ارواح کو تدابیر الٰہیہ اور امور ربانیہ کے ساتھ چڑھتے اترتے مشاہدہ کریں گے یہ اس روز ہوگا جس کا اندازہ اس کی لمبائی اور شدت کی بنا پر پچاس ہزار سال ہوگا لیکن اللہ تعالیٰ مومنوں پر تخفیف فرمائے گا۔ المعارج
4 المعارج
5 اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿ فَاصْبِرْ صَبْرًاجَمِيلًا ﴾۔ اپنی قوم کو دعوت دنیے پر صبر جمیل کیجئے اس میں کوئی تنگ دلی ہو نہ کوئی ملال بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم پر قائم رہیے ، اس کے بندوں کو اس کی توحید کی دعوت دیجئے ، آپ ان میں عدم اطاعت اور عدم رغبت کا جو مشاہدہ کرتے ہیں ، یہ چیز آپ کوانہیں دعوت دینے سے روک نہ دے کیونکہ اس پر صبر کرنے میں خیر کثیر پنہاں ہے۔ المعارج
6 ﴿إِنَّهُمْ يَرَوْنَهُ بَعِيدًا وَنَرَاهُ قَرِيبًا﴾ ” وہ اس (قیامت) کو دور تصور کرتے ہیں اور ہم اسے نزدیک دیکھ رہے ہیں۔ “ آیت میں مذکورہ ضمیر قیامت کے دن کی طرف لوٹتی ہے جس میں عذاب کے بارے میں سوال کرنے والوں کے لیے عذاب ہوگا ، یعنی ان کا حال اس شخص کا سا ہے جو قیامت کا منکر ہے جس پر بدبختی اور اندیشہ غالب ہو حتیٰ کہ اسے وہ چیز بھی دور نظر آئے جو اس کے سامنے ہے ، یعنی مرنے کے بعددوبارہ زندہ ہو کر اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہونا۔ اور اللہ تعالیٰ کو یہ (دن) قریب نظر آتا ہے کیونکہ وہ بہت نرم اور بردبار ہے، سزا دینے میں جلدی نہیں کرتا وہ جانتا ہے کہ جسے آنا ہے وہ آکررہے گا ، پس وہ بہت قریب ہے۔ المعارج
7 المعارج
8 پھر اللہ تعالیٰ نے اس دن کی ہولناکیوں اور ان امور کا ذکر فرمایا جو اس میں واقع ہوں گے، چنانچہ فرمایا : ﴿يَوْمَ﴾ یعنی قیامت کے دن جس میں یہ بڑے برے واقعات وقوع میں آئیں گے ﴿تَكُونُ السَّمَاءُ كَالْمُهْلِ﴾” آسمان ہوجائے گا مہل کی طرح۔ “ اور وہ پگھلا ہوا سیسہ ہے ۔ آسمان کے پھٹ جانے اور بے انتہا ہولناکی کے باعث آسمان پگھلے ہوئے سیسے کی مانند ہوجائے گا۔ المعارج
9 ﴿ وَتَكُونُ الْجِبَالُ كَالْعِهْنِ﴾” اور پہاڑ ہوجائیں گے روئی کی طرح۔“ اور وہ ہے دھنکی ہوئی اون، اس کے بعد اڑتا ہوا غبار بن جائیں گے اور ختم ہوجائیں گے۔ جب ان بڑے بڑے اجرام پر یہ گھبراہٹ اور بے قراری طاری ہوگی تو اس کمزور بندے کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے جس کی کمر کو گناہوں کے بوجھ نے بوجھل کررکھا ہوگا؟ کیا وہ اس لائق نہ ہوگا کہ اس کا دل اکھڑ جائے اس کی عقل وخرد زائل ہوجائے اور وہ ہر ایک سے غافل ہوجائے؟ اس لیے فرمایا۔ المعارج
10 ﴿وَلَا يَسْأَلُ حَمِيمٌ حَمِيمًايُبَصَّرُونَهُمْ ﴾( حَمَیْمٌ) سے مراد قریبی ہے، یعنی قریبی دوست ، وہ اپنے دوست کو دیکھےگا مگر اس کے دل میں اتنی گنجائش نہ ہوگی کہ وہ اس کا حال پوچھ سکے، نہ وہ ان امور کے بارے میں پوچھ سکے گا جو ان کی آپس کی معاشرت اور محبت کے متعلق ہوں گے ، بس اسے اپنے آپ کا غم ہوگا۔ المعارج
11 ﴿يَوَدُّ الْمُجْرِمُ﴾ جس پر عذاب کا استحقاق ثابت ہوچکا ہوگا ، خواہش کرے گا ﴿لَوْ يَفْتَدِي مِنْ عَذَابِ يَوْمِئِذٍ بِبَنِيهِ وَصَاحِبَتِهِ﴾” کہ کسی طرح اس دن کے عذاب کے بدلے میں اپنے بیٹے اور اپنی بیوی دے دے۔“ المعارج
12 ﴿وَأَخِيهِ وَفَصِيلَتِهِ ﴾ ” اور اپنا بھائی اور اپنا خاندان۔“ یعنی اپنی قرابت ﴿ الَّتِي تُؤْوِيهِ ﴾” جس میں وہ رہتا تھا۔ “ یعنی دنیا کے اندر عادت یہ ہوتی ہے کہ وہ باہم ایک دوسرے کی مدد اور ایک دوسرے کی اعانت کرتے ہیں ۔ پس قیامت کے دن کوئی کسی کے کام آئے گا نہ کوئی اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر سفارش ہی کرسکے گا بلکہ اگر عذاب کا مستحق، جو کچھ زمین میں ہے، سب فدیہ میں دے کر عذاب سے بچنا چاہے، تب بھی اسے کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ المعارج
13 المعارج
14 المعارج
15 ﴿كَلَّا﴾ یعنی اب ان کے لیے کوئی حیلہ ہے نہ مدد کا موقع، ان پر تیرے رب کا فیصلہ واجب ہوچکا، رشتے داروں اور دوستوں کا فائدہ بھی جاچکا۔ ﴿إِنَّهَا لَظَىٰ نَزَّاعَةً لِّلشَّوَىٰ﴾ ” وہ آگ ہوگی کھالوں کو ادھیڑ دینے والی “ یعنی ظاہری وباطنی اعضا کو اپنے سخت عذاب کی وجہ سے اکھاڑ دے گی۔ المعارج
16 المعارج
17 ﴿ تَدْعُو ﴾ اپنی طرف بلائے گی ﴿ مَنْ أَدْبَرَ وَتَوَلَّىٰ وَجَمَعَ فَأَوْعَىٰ ﴾ اس کو جس نے اتباع حق سے پیٹھ پھیری، اس سے منہ موڑا اور حق سے کوئی غرض نہ رکھی، مال پہ مال جمع کرتا رہا اور اسے سینت سینت کررکھتا رہا، اس میں سے اللہ کے راستے میں کچھ بھی خرچ نہ کیا جسے خرچ کرکے اپنے آپ سے جہنم کو دور کرتا ۔ پس جہنم ان لوگوں کو اپنی طرف بلاتا ہے اور ان پر شعلہ زن ہونے کے لیے تیار رہتا ہے۔ المعارج
18 المعارج
19 یہ انسان کا وصف ہے جیسا کہ وہ ہے، اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت بیان کی ہے کہ وہ انتہائی بے صبرا ہے، پھر ”بے صبرے“ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا : ﴿إِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ جَزُوعًا ﴾ پس اگر کبھی اس پر فقر یاکسی مرض کا حملہ ہوتا ہے یا مال ومتاع، گھروالوں اور اولاد میں سے کوئی محبوب چلا جاتا ہے تو وہ انتہائی بے صبری کا مظاہرہ کرتا ہے ، اس بارے میں صبر کو استعمال نہیں کرتا اور نہ اللہ تعالیٰ کی قضا پر راضی ہوتا ہے۔ المعارج
20 المعارج
21 ﴿وَإِذَا مَسَّهُ الْخَيْرُ مَنُوعًا﴾”اور جب اسے آسائش پہنچتی ہے تو بخیل بن جاتا ہے ۔“ پس اللہ ٰ تعالیٰ نے جو کچھ اسے عطا کیا ہے اس میں سے اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ نہیں کرتا ، اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور اس کے احسان پر اس کاشکر ادا نہیں کر تا ۔ پس وہ مصیبت اور سختی کے وقت بے صبری کرتا ہے اور فراخی اور خوشحالی کے وقت مال کو اللہ کے راستے میں خرچ کرنے سے روکتا ہے۔ المعارج
22 ﴿ إِلَّا الْمُصَلِّينَ﴾سوائے ان نمازیوں کے جو ان اوصاف سے موصوف ہیں کہ جب ان کو بھلائی حاصل ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے اور اس کے راستے میں وہ مال خرچ کرتے ہیں جس سے اللہ تعالیٰ نے ان کو بہرہ مند کیا ہے۔ جب انہیں کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو صبر کرتے ہیں اور ثواب کی امید رکھتے ہیں۔ المعارج
23 ان کے وصف میں فرمایا : ﴿ الَّذِينَ هُمْ عَلَىٰ صَلَاتِهِمْ دَائِمُونَ ﴾۔ یعنی نماز پر، اس کی تمام شرائط اور اس کی تکمیل کرنے والے دیگر امور کے ساتھ اس کے اوقات میں ہمیشگی کرتے ہیں ۔ وہ اس شخص کی مانند نہیں ہیں جو نماز نہیں پڑھتا یا جو بے وقت پڑھتا ہےیا وہ نماز پڑھتا ہے مگر ناقص طریقے سے۔ المعارج
24 ﴿وَالَّذِينَ فِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَّعْلُومٌ﴾” اور جن کے مال میں حصہ مقرر ہے ۔“ یعنی زکوٰۃ اور صدقات میں سے ﴿لِّلسَّائِلِ﴾” سائل کے لیے۔“ جو سوال کرتا ہے ﴿وَالْمَحْرُومِ﴾” اور محروم کے لیے۔“ یہ وہ مسکین ہے جو لوگوں سے سوال نہیں کرتا کہ لوگ اسے عطا کریں اور نہ اس کے حاجت مند ہونے کا پتا چلتا ہے کہ لوگ اس پر صدقہ کریں۔ المعارج
25 المعارج
26 ﴿وَالَّذِينَ يُصَدِّقُونَ بِيَوْمِ الدِّينِ﴾ یعنی جزا وسزا اور قیامت کے بارے میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں نے جو خبر دی ہے ، اس پر ایمان رکھتے ہیں اور انہیں اس پر یقین ہے ۔ پس وہ آخرت کے لیے تیاری کرتےہیں اور اس کے لیے پوری کوشش کرتے ہیں، قیامت کے دن کی تصدیق سے رسولوں اور ان کتابوں کی ،جن کو لے کر وہ مبعوث ہوئے ہیں ، تصدیق لازم آتی ہے۔ المعارج
27 ﴿وَالَّذِينَ هُم مِّنْ عَذَابِ رَبِّهِم مُّشْفِقُونَ﴾ یعنی اپنے رب کے عذاب سے خائف اور ڈرتے ہیں اس لیے وہ ہر اس کام کو چھوڑ دیتے ہیں جو انہیں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے قریب کرتا ہے۔ المعارج
28 ﴿إِنَّ عَذَابَ رَبِّهِمْ غَيْرُ مَأْمُونٍ﴾” بے شک ان کے رب کا عذاب بے خوف ہونے والی چیز نہیں۔“ یہ وہ عذاب ہے جس سے ڈرا جاتا اور بچا جاتا ہے۔ المعارج
29 ﴿وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ﴾ پس وہ اپنی شرم گاہوں کے ذریعے سے ایسی مجامعت نہیں کرتے جو حرام قرار دی گئی ہو، یعنی زنا، سدو میت (قوم لوط والا عمل)، بیوی کی دبر میں مجامعت اور حالت حیض وغیرہ میں مجامعت سے بچتے ہیں ، نیز وہ اپنی شرم گاہوں کی ان لوگوں کے دیکھنے اور چھونے سے حفاظت کرتے ہیں جن کے لیے دیکھنا اور چھونا جائز نہیں۔ وہ ان تمام وسائل محرمہ کو بھی ترک کردیتے ہیں جو فحش کام کے ارتکاب کی دعوت دیتے ہیں۔ المعارج
30 ﴿ إِلَّا عَلَىٰ أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ﴾” مگر اپنی بیویوں یا لونڈیوں سے۔“ یعنی ان کے پاس جانے میں ﴿فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ ﴾ ” ان پر کوئی ملامت نہیں۔ “ یعنی اس مقام میں جمع کرنے پر، جو کھیتی کا مقام ہے ،ان پر کوئی ملامت نہیں۔ المعارج
31 ﴿فَمَنِ ابْتَغَىٰ وَرَاءَ ذَٰلِكَ﴾ پس جو بیوی اور لونڈی کے علاوہ تلاش کریں ﴿فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْعَادُونَ﴾” تو وہ حد سے نکل جانے والے ہیں۔“ یعنی وہ لوگ جو چیز اللہ تعالیٰ نے حلال ٹھہرائی ہے اس سے تجاوز کرکے اس میں پڑتے ہیں جس کو اللہ تعالیٰ نے حرام ٹھہرایا ہے۔ یہ آیت کریمہ نکاح متعہ (اور مروجہ حلالہ) کی حرمت پر دلالت کرتی ہے کیونکہ یہ زوجہ مقصود ہے نہ لونڈی۔ المعارج
32 ﴿وَالَّذِينَ هُمْ لِأَمَانَاتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رَاعُونَ﴾ یعنی وہ امانتوں اور عہد کی رعایت رکھنے اور حفاظت کرنے والے ہیں، امانتوں کو ادا کرنے اور عہد کو پورا کرنے کی بھر پور کوشش کرتے ہیں ۔ یہ آیت کریمہ ان تمام امانتوں کو شامل ہے جو بندے اور اس کے رب کے درمیان ہیں جیسے وہ پوشیدہ امور جن کا انسان مکلف بنایا گیا ہے اور انہیں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا اور وہ امانتیں جو ان اموال اور اسرار کے بارے میں جو آپس میں بندوں کے مابین ہیں۔ اسی طرح یہ عہد اس عہد کو بھی شامل ہے جو اس نے اللہ تعالیٰ سے کیا ہے اور اس عہد کو بھی شامل ہے جو اس نے مخلوق سے کیا ہے کیونکہ عہد کے بارے میں بندے سے پوچھا جائے گا کہ آیا وہ اس عہد پر قائم رہا اور اسے پورا کیا یااس نے اسے دور پھینک دیا، اس میں خیانت کی اور اس پر قائم نہ رہا؟۔ المعارج
33 ﴿وَالَّذِينَ هُم بِشَهَادَاتِهِمْ قَائِمُونَ﴾ یعنی وہ کسی کمی بیشی اور کچھ چھپائے بغیر صرف اسی بات کی گواہی دیتے ہیں جسے وہ جانتے ہیں ، وہ گواہی میں کسی رشتہ کی رعایت رکھتے ہیں نہ کسی دوست وغیرہ کی۔ ان کے نزدیک، اس گواہی کو قائم کرنے کا مقصد صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ہوتا ہے ، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿وَأَقِيمُوا الشَّهَادَةَ لِلَّـهِ﴾(الطلاق :65؍2)” ا للہ تعالیٰ کے لیے گواہی کو قائم کرو۔“ اور فرمایا :﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلَّـهِ وَلَوْ عَلَىٰ أَنفُسِكُمْ أَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ﴾( النسا ء:4؍135) ” اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! انصاف پر قائم رہنے والے بن جاؤ، اللہ کے لیے گواہی دو، خواہ یہ گواہی خود تمہارے خلاف ، تمہارے والدین اور قریبی رشتہ داروں کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔“ المعارج
34 ﴿وَالَّذِينَ هُمْ عَلَىٰ صَلَاتِهِمْ يُحَافِظُونَ﴾” اور جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں۔“ یعنی بہترین طریقے سے اس پر مداومت کے ذریعے سے اس کی حفاظت کرتے ہیں۔ المعارج
35 ﴿ أُولَـٰئِكَ﴾ یعنی جو لوگ ان صفات سے موصوف ہیں وہ ﴿فِي جَنَّاتٍ مُّكْرَمُونَ﴾ ”جنتوں میں عزت والے ہوں گے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ ان کو اکرام وتکریم اور ہمیشہ رہنے والی نعمتوں سے نوازے گا جن کی ان کے نفس خواہش کریں گے اور ان کی آنکھیں لذت حاصل کریں گی اور وہ ان نعمتوں میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ اس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اہل سعادت وخیر کو اوصاف کاملہ، اخلاق فاضلہ سے موصوف کیا ہے، یعنی عبادت بدنیہ، مثلا نماز اور اس پر مداومت، اعمال قلبیہ، مثلا: خشیت الٰہی جو ہر بھلائی کو دعوت دیتی ہے، عبادت مالیہ، عقائد نافعہ، اخلاق فاضلہ، اللہ تعالیٰ سے معاملہ، اللہ تعالیٰ کی مخلوق سے بہترین معاملہ، یعنی ان کے ساتھ انصاف کرنا، ان کے حقوق اور ان کی امانتوں کی حفاظت کرنا، ایسے افعال سے جو اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہیں، اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرکے عفت کامل اختیار کرنا۔ المعارج
36 اللہ تبارک و تعالیٰ کفار کی فریب خوردگی بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے : ﴿ فَمَالِ الَّذِينَ كَفَرُوا قِبَلَكَ مُهْطِعِينَ﴾” پس ان کافروں کو کیا ہوا ہے کہ تمہاری طرف دوڑے چلے آتے ہیں۔“ یعنی بڑی سرعت سے ﴿عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمَالِ عِزِينَ﴾ ” دائیں بائیں سے گروہ گروہ ہو کر“ یعنی متفرق گروہوں اور مختلف جماعتوں میں ۔ ان میں سے ہر ایک کے پاس جو کچھ ہے وہ اسی پر خوش ہے۔ المعارج
37 المعارج
38 ﴿أَيَطْمَعُ كُلُّ امْرِئٍ مِّنْهُمْ أَن يُدْخَلَ جَنَّةَ نَعِيمٍ﴾ ” کیا ان میں سے ہر شخص یہ توقع رکھتا ہے کہ نعمت کے باغ میں داخل کیا جائے گا ۔“ یعنی کسی سبب کی بنا پر وہ توقع رکھتے ہیں جبکہ ان سب کا حال یہ ہے کہ انہوں نے کفر اور رب کائنات کے انکار کے سوا کچھ آگے نہیں بھیجا ؟ بنا بریں فرمایا : ﴿كَلَّا ﴾ یعنی معاملہ ان کی آرزوں کے مطابق ہوگا نہ وہ اپنی قوت کے ذریعے سے ہر وہ چیز حاصل کرسکیں گے جسے وہ چاہیں گے۔ المعارج
39 ﴿إِنَّا خَلَقْنَاهُم مِّمَّا يَعْلَمُونَ﴾ ” ہم نے انہیں اس چیز سے پیدا کیا ہے جسے وہ جانتے ہیں۔“ یعنی ہم نے انہیں اچھل کر گرنے والے پانی سے بنایا جو پیٹھ اور سینے کے درمیان سے نکلتا ہے۔ پس وہ بہت کمزور ہیں ، وہ خود اپنے کسی نفع ونقصان کے مالک نہیں ، وہ موت پر قادر ہیں نہ زندگی پر اور نہ مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے پر۔ المعارج
40 یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مشارق ومغارب، سورج، چاند اور ستاروں کی قسم ہے کیونکہ ان میں قیامت پر اور ان کی مانند ایسے لوگ لے آنے میں اس کی قدرت پر بڑی بڑی نشانیاں ہیں جو عین انہی کی طرح ہوں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿وَنُنشِئَكُمْ فِي مَا لَا تَعْلَمُونَ﴾( الواقعۃ:56؍61) ” اور ہم تمہیں ایسے جہان میں پیدا کریں جس کو تم نہیں جانتے۔“ المعارج
41 ﴿وَمَا نَحْنُ بِمَسْبُوقِينَ﴾ یعنی اگر ہم کسی کو دوبارہ زندہ کریں تو وہ ہم پر سبقت لے جاسکتا ہے نہ ہم سے آگے بڑھ سکتا ہے اور نہ ہمیں عاجز کرسکتا ہے۔ المعارج
42 جب حیات بعد الممات اور جزا وسزا متحقق ہوگئی اور وہ اپنی تکذیب اور عدم اطاعت پر جم گئے ﴿فَذَرْهُمْ يَخُوضُوا وَيَلْعَبُوا﴾ ” تو آپ ان کو باطل میں پڑے رہنے اور کھیلنے میں چھوڑ دیں۔ “ یعنی باطل اقوال اور فاسد عقائد میں مشغول اپنے دین سے کھیلتے رہیں، کھاتے پیتے اور مزے اڑاتے رہیں ﴿حَتَّىٰ يُلَاقُوا يَوْمَهُمُ الَّذِي يُوعَدُونَ﴾ ”حتیٰ کہ جس دن کا ان سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ اس سے ملاقات کرلیں۔ “ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے عبرت ناک سزا اور وبال تیار کررکھا ہے جو ان کے باطل اقوال وعقائد میں مشغول رہنے کا انجام ہے۔ المعارج
43 پھر اللہ تعالیٰ نے مخلوق کے حال کا ذکر فرمایا جب وہ اس دن کا سامنا کریں گے جس کا ان کے ساتھ وعدہ کیا گیا تھا ، چنانچہ فرمایا : ﴿يَوْمَ يَخْرُجُونَ مِنَ الْأَجْدَاثِ﴾ ” اس دن یہ قبروں سے نکلیں گے “ ﴿سِرَاعًا ﴾ ” دوڑتے ہوئے۔ “ پکارنے والے کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے بڑی سرعت سے اس پکار کی طرف لپکیں گے ﴿كَأَنَّهُمْ إِلَىٰ نُصُبٍ يُوفِضُونَ ﴾” جیسے وہ معین نشان کی طرف دوڑ رہے ہوں۔ “ یعنی گویا کہ وہ ایک نشان کا قصد رکھتے ہیں، وہ اس داعی کی آواز کی نافرمانی کرسکیں گے نہ پکارنے والے کی پکار سے ادھر ادھر التفات کریں گے بلکہ ذلیل ومقہور ہو کر رب کائنات کے سامنے پیش ہوں گے۔ المعارج
44 ﴿خَاشِعَةً أَبْصَارُهُمْ تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ﴾ وہ اس طرح کہ ذلت اور اضطراب ان کے دلوں اور عقلوں پر غالب آجائیں گے، ان کی نگاہیں جھک جائیں گی، تمام حرکات ساکن اور تمام آوازیں منقطع ہوجائیں گی ، پس یہ حال اور یہ انجام اس دن ہوگا ﴿الَّذِي كَانُوا يُوعَدُونَ ﴾ ” جس کا ان کے ساتھ وعدہ کیا گیا تھا“ اور اللہ تعالیٰ کے وعدے کا پورا ہونا لازمی امر ہے۔ المعارج
0 نوح
1 اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس سورۃ مبارکہ میں، حضرت نوح علیہ السلام کے اپنی قوم کے اندر، ایک طویل زمانے تک رہنے، ان کو بار بار دعوت توحید دینے اور شرک سے روکنے کی بنا پر ان کا الگ قصہ بیان کیا ۔ اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ اس نے حضرت نوح علیہ السلام کو قوم پر رحم کرتے ہوئے ، ان کو دردناک عذاب سے متنبہ کرتے ہوئے اور ان کو اپنے کفر پر جمے رہنے سے ڈراتے ہوئے حضرت نوح علیہ السلام کو ان کی طرف مبعوث فرمایا، مبادا اللہ تعالیٰ ان کو ابدی ہلاکت اور سرمدی عذاب میں مبتلا کردے۔ حضرت نوح علیہ السلام نے سرتسلیم خم کردیا اور اللہ تعالیٰ کے حکم کی اطاعت کے لیے آگے بڑھے اور فرمایا: ﴿ يَا قَوْمِ إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُّبِينٌ ﴾ یعنی میں انذار اور تنبیہ کو واضح کرکے کھول کھول کر بیان کرتا ہوں۔ یہ اس لیے کہ آپ نے جس چیز کے ذریعے سے تنبیہ کی اس کو واضح کیا اور جس کے بارے میں تنبیہ کی گئی اس کو واضح کیا اور جس چیز کے ذریعے سے نجات حاصل ہوتی ہے ان سب باتوں کو شافی طور پر بیان کیا۔ نوح
2 نوح
3 حضرت نوح علیہ السلام نے ان کو آگاہ کیا اور اس بارے میں بنیادی چیز کا حکم دیا، چنانچہ فرمایا : ﴿أَنِ اعْبُدُوا اللَّـهَ وَاتَّقُوهُ ﴾” یہ کہ اللہ کی عبادت کرو اور اسی سے ڈرو “ اور وہ اس طرح کی عبادت و توحید میں اللہ تعالیٰ کو یکتا قرار دیا جائے اور شرک کے تمام راستوں اور وسائل سے دور رہا جائے کیونکہ جب وہ اللہ تعالیٰ سے ڈریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کے گناہ بخش دے گا جب وہ ان کے گناہ بخش دے گا تو انہیں عذاب سے نجات حاصل ہوجائے گی اور وہ ثواب سے بہرہ مند ہوں گے۔ نوح
4 ﴿وَيُؤَخِّرْكُمْ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى﴾ یعنی اس دنیا میں تمہیں متمتع کرے گا اور ایک مدت مقررہ تک ہلاکت کو تم سے دور ہٹا دے گا ، یعنی اللہ تعالیٰ کی قضا وقدر سے دنیا میں باقی رہنے کی مقدار ایک محدودوقت تک موخر کردی جائے گی اور یہ متاع ابدی نہیں ہے ، موت کو ضرور آنا ہے ،اس لیے فرمایا : ﴿إِنَّ أَجَلَ اللّٰـهِ إِذَا جَاءَ لَا يُؤَخَّرُ لَوْ كُنتُمْ تَعْلَمُونَ﴾” جب اللہ کا مقرر کیا ہوا وقت آجاتا ہے تو تاخیر نہیں ہوتی، کاش تم جانتے ہوتے۔“ تو تم اللہ تعالیٰ کا انکار کرتے نہ حق کے ساتھ عناد رکھتے۔ پس انہوں نے حضرت نوح علیہ السلام کی دعوت کو قبول کیا نہ ان کے حکم کی اطاعت کی تو حضرت نوح علیہ السلام نے اپنے رب سے شکوہ کرتے ہوئے عرض کیا : ﴿رَبِّ إِنِّي دَعَوْتُ قَوْمِي لَيْلًا وَنَهَارًا فَلَمْ يَزِدْهُمْ دُعَائِي إِلَّا فِرَارًا﴾ ” میرے رب ! میں اپنی قوم کو دن رات بلاتا رہا، لیکن وہ میرے بلانے سے اور زیادہ گریز کرتے رہے۔“ یعنی حق سے نفرت اور اس سے روگردانی میں اضافہ ہی ہوا، پس دعوت کا کوئی فائدہ باقی نہ رہا کیونکہ دعوت کا فائدہ تب ہے کہ دعوت کے تمام مقاصد یا ان سے کچھ مقاصد حاصل ہوں۔ نوح
5 نوح
6 نوح
7 ﴿وَإِنِّي كُلَّمَا دَعَوْتُهُمْ لِتَغْفِرَ لَهُمْ﴾” اور میں نے جب بھی ان کو پکارا تاکہ تو ان کو بخش دے۔“ یعنی اس وجہ سے پکارا کہ وہ اس دعوت کو قبول کریں۔ جب وہ دعوت کو قبول کرلیں گے تو ان کو بخش دیا جائے گا اور اس میں محض ان کی مصلحت ہے مگر وہ اپنے باطل پر مصر اور حق سے دور بھاگتے رہے ﴿جَعَلُوا أَصَابِعَهُمْ فِي آذَانِهِمْ﴾ ” انہوں نے کانوں میں انگلیاں دے لیں۔“ اس ڈر سے کہ کہیں وہ باتیں ان کے کان میں نہ پڑجائیں جو ان سے ، ان کا نبی نوح (علیہ السلام )کہتا ہے۔ ﴿ وَاسْتَغْشَوْا ثِيَابَهُمْ﴾ یعنی حق سے بعد اور بغض کی بنا پر، اپنے آپ کو کپڑوں سے ڈھانپ کر پردہ کرلیا ﴿ وَأَصَرُّوا﴾ اور انہوں نے اپنے کفر اور شر پر اصرار کیا ﴿وَاسْتَكْبَرُوا اسْتِكْبَارًا﴾اورحق کے مقابلے میں تکبر کیا، پس ان کا شر بڑھ گیا اور بھلائی ان سے دور ہوگئی۔﴿ ثُمَّ إِنِّي دَعَوْتُهُمْ جِهَارًا ﴾” پھر میں ان کو کھلے طور پر بلاتا رہا۔“ یعنی میں ان سب کو سنا کر دعوت دیتا رہا۔ نوح
8 نوح
9 ﴿ ثُمَّ إِنِّي أَعْلَنتُ لَهُمْ وَأَسْرَرْتُ لَهُمْ إِسْرَارًا﴾ ” اور ظاہر اور پوشیدہ، ہر طرح سمجھاتا رہا۔ “ یہ سب ان کے ایمان لانے کی حرص اور ان کی خیرخواہی ہے اور ان پر ہر اس طریقے کا استعمال ہے جس کے ذریعے سے مقصد کے حصول کا گمان ہو۔ نوح
10 ﴿فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ ﴾ یعنی میں انہیں کہا کہ تم جن گناہوں کا ارتکاب کررہے ہو، ان کو چھوڑ دو اور اللہ تعالیٰ سے ان گناہوں کی بخشش طلب کرو۔ ﴿إِنَّهُ كَانَ غَفَّارًا﴾۔ جو کوئی توبہ کرکے اس سے بخشش طلب کرتا ہے ، وہ اسے کثرت سے بخشتا ہے ۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کو گناہوں کی بخشش اور اس پر جوثواب مرتب ہوتا ہے اور جو عذاب دور ہوتا ہے ،اس کی ترغیب دی۔ نوح
11 اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کو دنیا کی فوری بھلائی کے ذریعے سے ترغیب دی ،چنانچہ فرمایا : ﴿يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُم مِّدْرَارًا ﴾ یعنی وہ تم پر لگاتار بارش برسائے گا جو وادیوں اور ٹیلوں کو سیراب کردے گی، شہروں اور بندوں کو زندگی عطا کرے گی۔ نوح
12 ﴿وَيُمْدِدْكُم بِأَمْوَالٍ وَبَنِينَ﴾ یعنی اللہ تبارک وتعالیٰ تمہارے اموال میں، جن کے ذریعے سے تم دنیا کی ہر وہ چیز حاصل کرتے ہو، جس کی تمہیں طلب ہوتی ہے اور تمہاری اولاد میں کثرت عطاکرے گا ﴿وَيَجْعَل لَّكُمْ جَنَّاتٍ وَيَجْعَل لَّكُمْ أَنْهَارًا﴾ ” اور تمہارے لیے باغات پیدا کرے گا اور نہریں جاری کردے گا۔ “ یہ دنیا کی لذتوں اور اس کے مطالب کی انتہا ہے۔ نوح
13 ﴿ مَّا لَكُمْ لَا تَرْجُونَ لِلَّـهِ وَقَارًا ﴾ تمہیں کیا ہے، تم اللہ تعالیٰ کی تعظیم کے لیے اس سے خوف نہیں کھاتے اور تمہارے ہاں اللہ تعالیٰ کی کوئی قدر نہیں؟ نوح
14 ﴿وَقَدْ خَلَقَكُمْ أَطْوَارًا ﴾” حالانکہ اس نے تمہیں مختلف اطوار میں پیدا کیا۔“ یعنی ماں کے پیٹ میں تخلیق کے مختلف مراحل میں پیدا کیا، پھر رضاعت، پھر سن طفولیت، پھر سن تمیز اور پھر جوانی میں منتقل کیا، پھر اس مرحلے میں لے گیا جہاں تمام مخلوق پہنچتی ہے۔ پس وہ ہستی جو تخلیق اور بے مثال تدبیر میں منفرد ہے، صرف اسی کے لیے عبادت اور توحید مختص ہے۔ بندوں کی تخلیق کی ابتدا کے ذکر میں معاد کی طرف اشارہ ہے اور وہ ہستی جو انہیں عدم سے وجود میں لائی، ان کے مرنے کے بعد انہیں دوبارہ زندہ کرنے پر قادر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں کی تخلیق سے بھی استدلال کیا ہے جن کی تخلیق انسانوں کی تخلیق سے زیادہ بڑی ہے۔ نوح
15 چنانچہ فرمایا : ﴿ أَلَمْ تَرَوْا كَيْفَ خَلَقَ اللّٰـهُ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ طِبَاقًا ﴾ ” کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے سات آسمان کیسے اوپر تلے بنائے ہیں ۔ “ یعنی ہر آسمان کو دوسرے آسمان کے اوپر پیدا کیا ہے۔ نوح
16 ﴿ وَجَعَلَ الْقَمَرَ فِيهِنَّ نُورًا﴾” اور چاند کو ان میں نور بنایا۔“ یعنی زمین والوں کے لیے ﴿ وَجَعَلَ الشَّمْسَ سِرَاجًا﴾ ” اور سورج کو چراغ بنایا۔“ اس میں ان اشیا کی تخلیق کے بڑے ہونے، نیز سورج اور چاند کے فوائد کی کثرت کی طرف اشارہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کے بے پایاں احسان پر دلالت کرتی ہے ۔ پس وہ عظیم اور رحیم ہستی، مستحق ہے کہ اس کی تعظیم کی جائے، اس سے محبت کی جائے ، اس سے ڈرا جائے اور امید رکھی جائے۔ نوح
17 ﴿وَاللَّـهُ أَنبَتَكُم مِّنَ الْأَرْضِ نَبَاتًا﴾” ا ور اللہ ہی نے تم کو زمین سے پیدا کیا ہے ۔“ جب تمہارے باپ آدم کو زمین سے پیدا کیا اور تم اس کی صلب میں تھے۔ نوح
18 ﴿ثُمَّ يُعِيدُكُمْ فِيهَا﴾ ” پھر تمہیں اسی میں لوٹائے گا ۔“ یعنی موت کے وقت ﴿وَيُخْرِجُكُمْ إِخْرَاجًا ﴾ اور وہ تمہیں حشر ونشر کے لیے زمین سے نکالے گا۔ وہی ہے جو زندگی عطا کرنے، موت دینے اور مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کرنے پر اختیار رکھتا ہے۔ نوح
19 ﴿وَاللَّـهُ جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ بِسَاطًا﴾” اور اللہ ہی نے زمین کو تمہارے لیے فرش بنایا۔ “ یعنی زمین کو استفادے کی خاطر پھیلا کر تیار کردیا ۔ نوح
20 ﴿لِّتَسْلُكُوا مِنْهَا سُبُلًا فِجَاجًا﴾ ” تاکہ اس کے بڑے بڑے کشادہ راستوں میں چلو پھرو۔“ پس اگر اللہ تعالیٰ نے زمین کو پھیلایا نہ ہوتا تو یہ سب کچھ ممکن نہ ہوتا بلکہ زمین پر کھیتی باڑی کرنا، باغ لگانا، زراعت کرنا، عمارتیں تعمیر کرنا اور سکونت اختیار کرنا بھی ممکن نہ ہوتا۔ نوح
21 ﴿قَالَ نُوحٌ ﴾ نوح علیہ السلام نے اپنے رب کے حضور شکوہ کرتے ہوئے عرض کیا کہ ان کے اندر اس کلام اور وعظ ونصیحت نے کوئی فائدہ نہیں دیا ﴿رَّبِّ إِنَّهُمْ عَصَوْنِي ﴾ اے میرے رب ! انہوں نے ان تمام امور میں میری نافرمانی کی ہے جن کا میں نے ان کو حکم دیا ۔ ﴿وَاتَّبَعُوا مَن لَّمْ يَزِدْهُ مَالُهُ وَوَلَدُهُ إِلَّا خَسَارًا﴾ یعنی انہوں نے خیرخواہی کرنے اور بھلائی کی طرف راہ نمائی کرنے والے رسول کی نافرمانی کی اور ان بڑے لوگوں اور اشراف کی پیروی کی جن کو ان کے مال اور اولاد نے خسارے میں ڈالا، یعنی ان کو ہلاکت میں مبتلا کیا اور منافع سے محروم کردیا ، تب اس شخص کا کیا حال ہوگا جس نے ان کی اطاعت کی اور ان کے احکام پر عمل کیا؟ نوح
22 ﴿ وَمَكَرُوا مَكْرًا كُبَّارًا ﴾ یعنی انہوں نے حق کے خلاف عناد میں بہت بڑی چال چلی۔ نوح
23 ﴿وَقَالُوا ﴾ اور انہوں نے شرک کی دعوت دیتے اور اس کو مزین کرتے ہوئے کہا :﴿لَا تَذَرُنَّ آلِهَتَكُمْ﴾ ” اپنے معبودوں کو ہرگز نہ چھوڑنا۔“ انہوں نے ان کو اس شرک کے تعصب کی طرف بلایا جس پر وہ عمل پیرا تھے اور کہا کہ وہ اس دین کو نہ چھوڑیں جس کو ان کے پہلے آباء واجداد نے اختیار کیا ہوا تھا، پھر انہوں نے اپنے معبودوں کا نام لے کر کہا : ﴿وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَلَا سُوَاعًا وَلَا يَغُوثَ وَيَعُوقَ وَنَسْرًا﴾ ” ود، سواع، یغوث، یعوق اور نسر کو کبھی ترک نہ کرنا۔“ یہ نیک لوگوں کے نام ہیں جب وہ فوت ہوگئے تو شیطان نے ان کی قوم کے سامنے یہ مزین کردیا کہ وہ ان نیک لوگوں کے بت بنائیں تاکہ۔۔۔ بزعم خود۔۔ جب وہ ان کو دیکھیں تو ان کو اطاعت میں نشاط حاصل ہو۔ جب طویل زمانہ گزر گیا اور ان کے بعد دوسرے لوگ آئے تو شیطان نے ان سے کہا:” تمہارے اسلاف ان بتوں کی عبادت کیا کرتے تھے، ان کو وسیلہ بنایا کرتے تھے اور ان کے وسیلے سے بارش مانگا کرتے تھے تو انہوں نے ان کی پوجا شروع کردی، اسی لیے ان کے سرداروں نے اپنے پیروکاروں کو نصیحت کی کہ وہ ان بتوں کی عبادت کو نہ چھوڑیں۔ نوح
24 ﴿وَقَدْ أَضَلُّوا كَثِيرًا﴾ یعنی ان بڑوں اور سرداروں نے اپنی دعوت کے ذریعے سے بہت سی مخلوق کو گمراہ کردیا ﴿وَلَا تَزِدِ الظَّالِمِينَ إِلَّا ضَلَالًا ﴾ ” تو تو ان کو اور گمراہ کردے۔“ میرے ان کو حق کی دعوت دینے کے وقت اگر وہ گمراہ ہوتے تو یہ مصلحت تھی مگر ان سرداروں کی دعوت سے ان کی گمراہی میں اضافہ ہی ہوا ہے ، یعنی اب ان کی کامیابی اور اصلاح کا کوئی امکان باقی نہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے دنیاوی اور اخروی عذاب اور عقوبت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : ﴿مِّمَّا خَطِيئَاتِهِمْ أُغْرِقُوا﴾ ” وہ اپنے گناہوں کے سبب غرق کردیے گئے۔“ سمندر کی مانند سیلاب میں غرق کردیے گئے جس نے ان کو گھیر لیا تھا۔ نوح
25 ﴿فَأُدْخِلُوا نَارًا ﴾ ” پس وہ آگ میں ڈال دیے گئے۔“ ان کے اجساد پانی میں چلے گئے اور ارواح آگ کے حوالے کردی گئیں۔ یہ سب کچھ ان کے گناہوں کے سبب سے تھا جن کے بارے میں ان کا نبی نوح علیہ السلام آکر انہیں متنبہ کرتا رہا، ان کے گناہوں کی نحوست اور ان کے برے انجام سے آگاہ کرتا رہا۔ ان کے نبی نے جو کچھ کہا ، انہوں نے اس کو دور پھینک دیا ، یہاں تک کہ ان پر عذاب نازل ہوگیا۔ ﴿فَلَمْ يَجِدُوا لَهُم مِّن دُونِ اللّٰـهِ أَنصَارًا﴾ پس انہیں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی مددگار نہ ملے جو ان کی اس وقت مدد کرتے جب ان پر عذاب نازل ہوا اور نہ کوئی اللہ تعالیٰ کی قضا وقدر ہی کا مقابلہ کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔ نوح
26 ﴿ وَقَالَ نُوحٌ رَّبِّ لَا تَذَرْ عَلَى الْأَرْضِ مِنَ الْكَافِرِينَ دَيَّارًا ﴾” نوح (علیہ السلام )نے دعا کی، میرے رب! کسی کافر کو روئے زمین پر بسا نہ رہنے دے“ جو روئے زمین پر گھومتا پھرتا رہے۔ اور اس کا سبب بھی ذکر کیا۔ نوح
27 چنانچہ فرمایا : ﴿إِنَّكَ إِن تَذَرْهُمْ يُضِلُّوا عِبَادَكَ وَلَا يَلِدُوا إِلَّا فَاجِرًا كَفَّارًا ﴾ ” اگر تو ان کو رہنے دے گا تو تیرے بندوں کو گمراہ کریں گے اور ان سے جو اولاد ہوگی وہ بھی ناشکرگزار ہوگی۔“ یعنی ان کا باقی رہنا، خود ان کے لیے اور دوسروں کے لیے محض فساد کا باعث ہوگا۔ حضرت نوح علیہ السلام نے یہ بات اس لیے کہی تھی کیونکہ ان کے ساتھ کثرت اختلاط اور ان کے اخلاق سے واسطہ ہونے کی بنا پر آپ کو ان کے اعمال کا نتیجہ معلوم تھا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح کی دعا قبول فرما لی۔ پس اللہ نے ان سب کو غرق کردیا اور حضرت نوح علیہ السلام اور ان کے ساتھ جو اہل ایمان تھے ان سب کو بچا لیا۔ نوح
28 ﴿رَبِّ اغْفِرْ لِیْ وَلِوَالِدَیَّ وَلِمَنْ دَخَلَ بَیْتِیَ مُؤْمِنًا﴾ ” اے میرے رب ! مجھے ، میرے ماں باپ کو اور اس کو جو ایمان لاکر میرے گھر میں آئے بخش دے۔“ حضرت نوح علیہ السلام نے (اپنی دعا کے لیے ) مذکورہ لوگوں کو خاص کیا کیونکہ ان کے حق مؤکد اور ان کے ساتھ نیکی مقدم ہے ، پھر اپنی دعا کو عام کرتے ہوئے کہا : ﴿وَّلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ وَلَا تَزِدِ الظّٰلِمِیْنَ اِلَّا تَبَارًا﴾” اور ایمان والے مردوں اور عورتوں کو بھی معاف فرما اور ظالم لوگوں کے لیے اور زیادہ تباہی بڑھا۔“ یعنی ظالموں کے لیے حسرت ، تباہی اور ہلاکت میں اضافہ کر۔ نوح
0 الجن
1 ﴿قُلْ ﴾ اے رسول ! لوگوں سے کہہ دیجئے: ﴿اُوْحِیَ اِلَیَّ اَنَّہُ اسْتَـمَعَ نَفَرٌ مِّنَ الْجِنِّ﴾ ” میرے پاس وحی آئی ہے کہ جنوں کی ایک جماعت نے (اس کتاب کو) سنا۔“ اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنی آیات کے سماع کے لیے اپنے رسول کی طرف متوجہ کیا تاکہ ان پر حجت قائم ہو، ان پر نعمتوں کا اتمام ہو اور وہ اپنی قوم کو متنبہ کرنے والے بن جائیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ وہ ان کا قصہ لوگوں کو سنادیں۔ وہ قصہ یہ ہے کہ جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپس میں کہنے لگ: ” خاموش رہو، پس جب وہ خاموش ہوگئے تو وہ قرآن کے معانی کے فہم سے بہرہ ور ہوئے اور قرآن کے حقائق ان کے دلوں تک پہنچ گئے۔ ﴿ فَقَالُوا إِنَّا سَمِعْنَا قُرْآنًا عَجَبًا ﴾ ” تو انہوں نے کہا: ہم نے ایک عجیب قرآن سنا ہے۔“ یعنی ہم نے نہایت قیمتی اور تعجب خیز کلام اور نہایت بلند مطالب سنے ہیں ۔ الجن
2 ﴿يَهْدِي إِلَى الرُّشْدِ﴾” وہ (قرآن )رشد کی طرف ہدایت کرتا ہے ۔ “ ﴿رُشْدٌ﴾ ہر اس چیز کے لیے جامع نام جو لوگوں کے دین ودنیا کے مصالح کی طرف ان کی راہ نمائی کرے ﴿فَآمَنَّا بِهِ وَلَن نُّشْرِكَ بِرَبِّنَا أَحَدًا﴾ ” تو ہم اس پر ایمان لے آئے اور ہم اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے ۔“ پس انہوں نے ایمان کو ، جس میں اعمال خیر داخل ہیں اور تقوٰی کو، جو ہر قسم کے شر کو ترک کرنے کو متضمن ہے، جمع کرلیا۔ انہوں نے اس کا سبب، جس نے ان کو ایمان اور اس کے توابع کی طرف دعوت دی، قرآن کے ان ارشادات کو قرار دیا جن کا ان کو علم ہوا جو مصالح اور فوائد پر مشتمل اور ضرر سے خالی ہیں۔ یہ اس شخص کے لیے بہت بڑی دلیل اور قطعی حجت ہے جو اس سے روشنی حاصل کرتا ہے اور اس کے طریقے کو رہنما بناتا ہے ۔ یہی وہ ایمان ہے جو نفع مند ہے جو ہر بھلائی سے بہرہ مند کرتا ہے اور جو ہدایت قرآن پر مبنی ہے، برعکس عادی، پیدائشی اور رواجی ایمان کے کیونکہ یہ تقلیدی ایمان ہے جو شبہات کے خطرات اور بے شمار عوارض میں گھرا ہوا ہے۔ الجن
3 ﴿ وَأَنَّهُ تَعَالَىٰ جَدُّ رَبِّنَا ﴾ یعنی ہمارے رب کی عظمت بلند وبالا اور اس کے نام مقدس ہیں ﴿مَا اتَّخَذَ صَاحِبَةً وَلَا وَلَدًا ﴾ ” اس نے کسی کو اپنی بیوی بنایا ہے نہ بیٹا“ پس وہ اللہ تعالیٰ کی بزرگی اور اس کی عظمت سے اس بات کو جان گئے جس سے اس شخص کا ابطال ہوتا ہے جو سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بیوی یا اس کی اولاد ہے کیونکہ وہ ہر صفت کمال میں عظمت وکمال کا مالک ہے جبکہ بیوی اور بیٹا بنانا اس کے منافی ہے کیونکہ یہ کمال غنا کی ضد ہے۔ الجن
4 ﴿وَّاَنَّہٗ کَانَ یَقُوْلُ سَفِیْہُنَا عَلَی اللّٰہِ شَطَطًا﴾ یعنی وہ صواب سے ہٹی ہوئی اور حد سے گذری ہوئی بات کہتا ہے اور صرف اس کی سفاہت اور عقل کی کمزوری نے اسے ایسا کرنے پر آمادہ کیا ہے ، ورنہ اگر وہ سنجیدہ اور مطمئن ہوتا تو اسے معلوم ہوتا کہ کیسے بات کہنی ہے۔ الجن
5 یعنی اس نے پہلے ہم دھوکے میں مبتلا تھے، انسانوں اور جنات میں سے ہمارے سرداروں اور رؤسا نے ہمیں دھوکے میں ڈال رکھا تھا۔ ہمیں ان پر یقین تھا، ہم ان کے بارے میں سمجھتے تھے کہ وہ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولنے کی جرأت نہیں کرتے، اس لیے اس سے قبل ہم ان کے طریقے پر گامزن تھے، آج حق ہم پر واضح ہوچکا ہے ، ہم اس کے راستے پر چل رہے ہیں اور ہم نے اس کے سامنے سر تسلیم خم کردیا ، ہمیں مخلوق میں سے کسی کے ایسے قول کی کوئی پروا نہیں جو ہدایت کے منافی ہو۔ الجن
6 یعنی انسان جنوں کی عبادت کرتے تھے اور خوف اور گھبراہٹ کے موقعوں پر جنات کی پناہ لیتے تھے ۔ پس انسانوں نے جنات کو زیادہ سرکش بنادیا، یعنی جب جنوں نے دیکھا کہ انسان ان کی عبادت کرتے ہیں اور ان کی پناہ طلب کرتے ہیں تو اس چیز نے ان کی سرکشی اور تکبر میں اضافہ کردیا ۔ ایک احتمال یہ بھی ہے کہ ضمیر جنات کی طرف لوٹتی ہو ، یعنی جب جنات نے انسانوں کو دیکھاکہ وہ ان کی پناہ پکڑتے ہیں تو انہوں نے ان کے خوف اور دہشت زدگی میں اور اضافہ کردیا تاکہ وہ ان کو جنات کی پناہ لینے اور ان کے قول سے تمسک کرنے پر مجبور کریں زمانہ جاہلیت میں جب انسان کسی خوف ناک وادی میں پڑاؤ کرتا تو کہتا:” میں اس وادی کے سردار کی، اس کی قوم کے بیوقوفوں سے ، پناہ مانگتا ہوں۔“ الجن
7 یعنی جب انہوں نے حیات بعدالموت کا انکار کردیا تو شرک اور سرکشی اختیار کرنے کی جرأت کی۔ الجن
8 ﴿وَأَنَّا لَمَسْنَا السَّمَاءَ﴾ یعنی جب ہم آسمان پر آئے اور وہاں کے حالات کی خبر لی ﴿فَوَجَدْنٰہَا مُلِئَتْ حَرَسًا شَدِیْدًا﴾ ” تو ہم نے بھرا ہوا پایا اس کو مضبوط چوکیداروں سے۔“ یعنی اس کے کناروں تک پہنچنے اور اس کے قریب آنے سے اس کی حفاظت کی گئی تھی ﴿وَشُهُبًا ﴾ ”اور انگاروں سے۔“ ان انگاروں کو ان جنات پر پھینکا جاتا ہے جو آسمانوں کی سن گن لینے کی کوشش کرتے ہیں ۔ یہ ہماری پہلی عادت کے برعکس ہے کیونکہ پہلے ہمارے لیے آسمان کی خبروں تک رسائی ممکن تھی۔ الجن
9 ﴿وَّاَنَّا کُنَّا نَقْعُدُ مِنْہَا مَقَاعِدَ لِلسَّمْعِ﴾ ” اس سے پہلے ہم سن گن لینے کے لیے آسمانوں کے ٹھکانوں پر بیٹھا کرتے تھے“ ہم اللہ تعالیٰ کی مشیت کے مطابق آسمان کی خبریں حاصل کرلیتے تھے ۔ ﴿فَمَنْ یَّسْتَمِعِ الْاٰنَ یَجِدْ لَہٗ شِہَابًا رَّصَدًا﴾ اب اگر کوئی سن گن لینے کی کوشش کرتا ہے تو شہاب ثاقب کو گھات میں لگے ہوئے پاتا ہے جو اس کو تلف کرنے اور جلا ڈالنے کے لیے تیار ہوتا ہے، یعنی یہ معاملہ بہت عظیم اور اس کی خبر بہت بڑی ہے، انہیں قطعی طور پر یقین ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ نے زمین پر ایک بڑا واقعہ وقوع پذیر کرنے کا ارادہ فرمایا ہے۔ اس لیے انہوں نے کہا: یعنی خیر یا شر میں سے ایک لازمی امر ہے کیونکہ انھوں نے دیکھ لیا کہ ان پر معاملہ بدل چکا ہے جو ان کو اچھا نہ لگا۔ پس انہوں نے اپنی فطانت سے پہچان لیا کہ کوئی معاملہ ہے جو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے اور زمین پر وقوع لانا چاہتا ہے ۔ اس آیت کریمہ میں ان کے ادب کا بیان ہے کیونکہ انہوں نے خیر کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف کی اور ادب کی بنا پر شر کے فاعل کو حذف کردیا۔ الجن
10 الجن
11 ﴿وَّاَنَّا مِنَّا الصّٰلِحُوْنَ وَمِنَّا دُوْنَ ذٰلِکَ ﴾ ” اور یہ کہ کوئی ہم میں سے نیک ہیں اور کوئی طرح کے۔“ یعنی فساق، فجار اور کفار ﴿ کُنَّا طَرَایِٕقَ قِدَدًا﴾ ” ہمارے کئی طرح کے مذہب ہیں۔ “ یعنی مختلف ومتنوع گروہ اور متفرق خواہشات ہیں۔ ہر گروہ کے پاس جو کچھ ہے وہ اسی پر فرحاں وشاداں ہے۔ الجن
12 یعنی اس وقت ہم پر پوری طرح واضح ہوگیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کامل قدرت کا مالک اور ہم کامل طور پر بے بس ہیں ،ہماری پیشانیاں اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں ، ہم زمین میں اللہ تعالیٰ کو عاجز نہیں کرسکتے۔ اگر ہم فرار ہوں تو فرار ہو کر اللہ تعالیٰ کو بے بس نہیں کرسکتے ، ہم نے فرار کے اسباب کے ذریعے سے اس کے دست قدرت سے باہر نکلنے کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ اس سے بھاگ کر اس کے سوا کہیں ٹھکانا اور پناہ گاہ نہیں۔ الجن
13 ﴿وَّاَنَّا لَمَّا سَمِعْنَا الْہُدٰٓی﴾ ” اور جب ہم نے ہدایت ﴿(کی کتاب) سنی “ اور وہ قرآن کریم ہے جو صراط مستقیم کی طرف رہنمائی کرتا ہے ، ہم نے اس کی رشد وہدایت کو پہچان لیا اور اس نے ہمارے دلوں پر اثر کیا ﴿اٰ مَنَّا بِهِ ﴾ ” تو ہم اس پر ایمان لے آئے“ پھر انہوں نے اس بات کا ذکر کیا جو مومن کو ترغیب دیتی ہے ،چنانچہ انہوں نے کہا : ﴿فَمَنْ یُّؤْمِنْ بِرَبِّہٖ فَلَا یَخَافُ بَخْسًا وَّلَا رَہَقًا﴾ یعنی جو کوئی اپنے رب پر سچا ایمان لے آیا ، اسے کسی نقصان سے واسطہ پڑے گا نہ کوئی تکلیف لاحق ہوگی اور جب وہ شر سے محفوظ ہوگیا تو اسے بھلائی حاصل ہوگئی ۔ پس ایمان ایک ایسا سبب ہے جو ہر قسم کی بھلائی کی طرف دعوت دیتا ہے اور ہرقسم کے شر کی نفی کرتا ہے۔ الجن
14 ﴿وَّاَنَّا مِنَّا الْمُسْلِمُوْنَ وَمِنَّا الْقٰسِطُوْنَ﴾ ” اور بے شک ہم میں بعض فرماں بردار ہیں اور بعض (نافرمان)گناہ گار ہیں۔“ یعنی صراط مستقیم سے ہٹنے اور اس کو چھوڑنے والے ﴿ فَمَنْ اَسْلَمَ فَاُولٰیِٕکَ تَحَرَّوْا رَشَدًا﴾ پس جو فرماں بردار ہوئے ۔ انہوں نے رشد وہدایت کاراستہ پا لیا ، جو ان کو جنت اور اس کی نعمتوں تک پہنچاتا ہے۔ الجن
15 یعنی ظالم لوگوں کو اللہ تعالیٰ ان کے ظلم کی پاداش میں جہنم رسید کرے گا اور یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر ظلم نہیں بلکہ یہ ان کے اعمال کا بدلہ ہے۔ الجن
16 یعنی اگر وہ ﴿وَّاَنْ لَّوِ اسْتَــقَامُوْا عَلَی الطَّرِیْقَۃِ﴾ ” سیدھے راستے پر رہتے “﴿لَاَسْقَیْنٰہُمْ مَّاءً غَدَقًا﴾ ” تو ہم انہیں وافر پانی پلاتے۔“ یعنی وہ مزے سے بستے لیکن ان کے ظلم وعدوان نے انہیں اس سے روک دیا۔ الجن
17 ﴿لِّنَفْتِنَہُمْ فِیْہِ﴾ یعنی تاکہ ہم ان کو آزمائیں اور ان کا امتحان لیں تاکہ جھوٹے اور سچے کے درمیان فرق ظاہر ہوجائے ﴿وَمَنْ یُّعْرِضْ عَنْ ذِکْرِ رَبِّہٖ یَسْلُکْہُ عَذَابًا صَعَدًا﴾ یعنی جو کوئی اللہ تعالیٰ کے ذکر۔۔۔ جو کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے۔۔ سے روگردانی کرے، اس کی اتباع کرے نہ اس کی اطاعت کرے بلکہ اس کے بارے میں غافل رہے تو اللہ تعالیٰ اسے سخت عذاب دے گا ، یعنی سختی کی انتہا کو پہنچا ہوا عذاب۔ الجن
18 یعنی مساجد میں دعائے عبادت یا دعائے مسئلہ غرضیکہ کوئی سی بھی دعا اللہ کے سوا کسی سے نہ کی جائے کیونکہ مساجد اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے سب سے بڑا مقام ومحل ہیں جو اللہ تعالیٰ کے لیے اخلاص ، اس کی عظمت کے سامنے خضوع اور اس کے غلبے کے سامنے فروتنی کی بنیاد پر تعمیر کی گئی ہیں۔ الجن
19 ﴿وَّاَنَّہٗ لَمَّا قَامَ عَبْدُ اللّٰہِ یَدْعُوْہُ﴾ یعنی جب اللہ کا بندہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہے، اس کی عبادت کرتا ہے اور قرآن پڑھتا ہے تو قریب ہے کہ جنات اپنی کثرت کے باعث ﴿ عَلَيْهِ لِبَدًا ﴾ اور جو ہدایت آپ لے کر آئے ہیں، اس میں حرص کی بنا پر ، آپ پر ہجوم کریں۔ الجن
20 ﴿قُلْ ﴾ اے رسول ! جس چیز کی طرف آپ دعوت دے رہے ہیں اس کی حقیقت بیان کرتے ہوئے ان سے کہہ دیجئے : ﴿اِنَّمَآ اَدْعُوْا رَبِّیْ وَلَآ اُشْرِکُ بِہٖٓ اَحَدًا﴾ ” بے شک میں اپنے رب کو پکارتا ہوں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا۔“ یعنی میں اللہ تعالیٰ کو ایک مانتا ہوں، اس کا کوئی شریک نہیں، میں اس کے سوا تمام خود ساختہ ہم سروں، بتوں اور ان ہستیوں سے بیزاری کا اظہار کرتا ہوں جن کو مشرکین نے اللہ کے سوا معبود بنا رکھا ہے۔ الجن
21 رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو کہا جا رہا ہے کہ آپ انہیں اس بات کی وضاحت کردیں کہ میں تو ایک بندہ ہوں، معاملے اور تصرف میں مجھے کوئی اختیار نہیں۔ الجن
22 ﴿قُلْ اِنِّیْ لَنْ یُّجِیْرَنِیْ مِنَ اللّٰہِ اَحَدٌ﴾ ” کہہ دیجئے: مجھے ہرگز کوئی اللہ سے نہیں بچاسکتا۔“ یعنی میں کسی سے فریاد رسی نہیں چاہتا جو مجھے اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچائے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو مخلوق میں کامل ترین ہستی ہیں، کسی نقصان اور رشد وہدایت کا اختیار نہیں رکھتے اگر اللہ تعالیٰ آپ کو کوئی تکلیف پہنچانے کا ارادہ کرے تو آپ اپنے آپ کو اس سے بچا نہیں سکتے تو پھر مخلوق میں سے دیگرلوگوں کا اپنے آپ کو بچانے پر قادر نہ ہونا اولیٰ واحری ہے۔ ﴿وَّلَنْ اَجِدَ مِنْ دُوْنِہٖ مُلْتَحَدًا﴾ ” اور اس کے سوا میں کوئی پناہ گاہ اور بچ نکلنے کی جگہ نہیں پاتا۔“ الجن
23 ﴿اِلَّا بَلٰـغًا مِّنَ اللّٰہِ وَرِسٰلٰتِہٖ﴾ مجھے لوگوں پر کوئی خصوصیت حاصل نہیں، سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق تک اپنے پیغام پہنچانے اور ان کو اپنی طرف دعوت دینے کے لیے مجھےمختص کیا ہے اور اسی سے لوگوں پر حجت قائم ہوتی ہے۔ ﴿وَمَنْ یَّعْصِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ فَاِنَّ لَہٗ نَارَ جَہَنَّمَ خٰلِدِیْنَ فِیْہَآ اَبَدًا﴾ ” اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا تو اس کے لیے جہنم کی آگ ہے، ایسے لوگ جس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔“ اس سے مراد معصیت کفریہ ہے جیسا کہ دیگر محکم نصوص اس کو مقید کرتی ہیں ۔ رہی مجرد معصیت تو وہ جہنم میں خلود کی موجب نہیں جیسا کہ قرآن کی آیات اور نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی احادیث دلالت کرتی ہیں ، اس پر امت کے تمام اسلاف اور تمام ائمہ کا اجماع ہے۔ الجن
24 ﴿حَتّیٰٓ اِذَا رَاَوْا مَا یُوْعَدُوْنَ﴾ یعنی جب وہ عیاں طور پر اس کا مشاہدہ کریں گے انہیں یقین آجائے گا کہ وہ ان پر واقع ہونے والا ہے ﴿ فَسَيَعْلَمُونَ ﴾ تب انہیں حقیقت معلوم ہوگی کہ ﴿مَنْ اَضْعَفُ نَاصِرًا وَّاَقَلُّ عَدَدًا﴾ ” مددگار کس کے کمزور ہیں اور شمار کن کا تھوڑا ہے۔ “ جب کوئی دوسرا ان کی مدد کرسکے گا نہ وہ خود اپنی مدد کرسکیں گے اور جب انہیں اکیلے اکیلے اٹھایا جائے گا جیسا کہ وہ پہلی مرتبہ پیدا کیے گئے تھے۔ الجن
25 ﴿ قُلْ﴾ ” کہہ دیجئے:“ اگر وہ آپ سے پوچھیں ﴿ مَتَىٰ هَـٰذَا الْوَعْدُ﴾( یونس:10؍48) ” یہ وعدہ کب پورا ہوگا؟“ تو ان سے کہہ دیجئے : ﴿اِنْ اَدْرِیْٓ اَقَرِیْبٌ مَّا تُوْعَدُوْنَ اَمْ یَجْعَلُ لَہٗ رَبِّیْٓ اَمَدًا﴾ ” میں نہیں جانتا کہ تم سے جو وعدہ کیا جاتا ہے، وہ قریب ہے یا میرے رب نے اس کی مدت دراز کردی ہے؟ “ یعنی وہ اس کی کوئی طویل مدت مقرر کرتا ہے تو اس کا علم اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ الجن
26 مخلوق میں سے کسی پر اپنے غیب کو ظاہر نہیں کرتا بلکہ وہ اکیلا ہی ضمائر، اسرار اور غیوب کا علم رکھتا ہے۔ الجن
27 ﴿اِلَّا مَنِ ارْتَضٰی مِنْ رَّسُوْلٍ﴾ ” مگر جس رسول کو پسند فرمائے۔“ پس اسے صرف اسی غیب سے آگاہ کرتا ہے جس سے آگاہ کرنے کا اس کی حکمت تقاضا کرتی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ رسول دیگر انسانوں کی مانند نہیں ہیں کیونکہ انہیں اللہ تعالیٰ تعالیٰ نے ایک خاص تائید سے نوازا ہے جس سے اس نے اپنی مخلوق میں سے کسی کو نہیں نوازا ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف جو وحی کی اس کی حفاظت بھی کی حتیٰ کہ رسول اس وحی کی حقیقت کو پہنچ گئے ، بغیر اس کے کہ شیاطین اس کے قریب آئیں اور اس میں کمی بیشی کرسکیں ، اسی لیے فرمایا :﴿فَاِنَّہٗ یَسْلُکُ مِنْ بَیْنِ یَدَیْہِ وَمِنْ خَلْفِہٖ رَصَدًا﴾ ” وہ اس کے آگے اور پیچھے نگہبان مقرر کردیتا ہے۔“ یعنی وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس کی حفاظت کرتے ہیں۔ الجن
28 ﴿لِّيَعْلَمَ﴾ تاکہ اسے معلوم ہوجائے ﴿اَنْ قَدْ اَبْلَغُوْا رِسٰلٰتِ رَبِّہِمْ﴾ ” کہ انہوں نے اپنے رب کے پیغام پہنچا دیے ہیں ۔“ ان اسباب کے ذریعے سے جو ان کے لیے اس نے مہیا کیے ﴿وَأَحَاطَ بِمَا لَدَيْهِمْ ﴾ ” اور جو کچھ ان کے پاس ہے اس نے اس کا احاطہ کیا ہے۔“ یعنی جو کچھ ان کے پاس ہے جسے وہ چھپاتے ہیں اور جسے وہ ظاہر کرتے ہیں ۔ ﴿وَاَحْصٰی کُلَّ شَیْءٍ عَدَدًا﴾ ” اور ہر چیز کو اس نے شمار کررکھا ہے۔“ فوائد: یہ سورۃ مبارکہ متعدد فوائد پر مشتمل ہے: ١۔ اس سورت سے جنات کا وجود ثابت ہوتا ہے ، نیز یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ جنات امرونہی کے مکلف ہیں ، ان کو ان کے اعمال کی جزا دی جائے گی جیسا کہ یہ اس سورت میں صریح طور پر مذکور ہے۔ ٢۔ اس سورۃ کریمہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس طرح انسانوں کی طرف مبعوث کیے گئے تھے، اسی طرح جنات کی طرف بھی مبعوث تھے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جنات کی ایک جماعت کو آپ کی طرف بھیجا تاکہ وہ قرآن کو غور سے سنیں جو آپ کی طرف وحی کیا جاتا ہے اور پھر اسے اپنی قوم تک پہنچائیں۔ ٣۔ اس سورہ مبارکہ سے جنات کی ذہانت اور ان کی معرفت حق کا اثبات ہوتا ہے اور جس چیز نے انہیں ایمان لانے پر آمادہ کیا وہ یہ ہے کہ ہدایت قرآن ان پر متحقق ہوگئی، نیز اپنے خطاب میں قرآن کے حسن ادب کی بنا پر (ایمان لانے پر آمادہ ہوئے) ۔ ٤۔ اس سے مستفاد ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر کامل عنایت تھی اور وہ قرآن اس کی حفاظت میں تھا جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لے کر تشریف لائے ۔ پس جب آپ کی نبوت کی بشارتیں شروع ہوئیں ، ستاروں کے ذریعے آسمان محفوظ ہوئے ، شیاطین اپنی اپنی جگہیں چھوڑ کر بھاگ گئے اور گھبرا کر اپنی گھاتوں سے نکل گئے ۔ اس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے اہل زمین پر اس قدر رحم فرمایا جس کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا ۔ ان کے رب نے ان کو رشد وہدایت سے بہرہ ور کرنے کا ارادہ کیا ، پس اس نے ارادہ فرمایا کہ اپنے دین وشریعت اور اپنی معرفت کو زمین پر ظاہر کرے جس سے دلوں کو بہجت وسرور حاصل ہو، خرد مند لوگ خوش ہوں ، شعائر اسلام ظاہر ہوں اور اہل اصنام اور اہل اوثان کا قلع قمع ہو۔ ٥۔ اس سے مستفاد ہوتا ہے کہ جنات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (سے قرآن ) کو سننے اور آپ کے پاس اکٹھے ہونے کی شدید خواہش تھی۔ ٦۔ یہ سورۃ کریمہ توحید کے حکم اور شرک کی ممانعت پر مشتمل ہے ، نیز اس میں مخلوق کی حالت بیان کی گئی ہے کہ ان میں سے کوئی بھی ذرہ بھر عبادت کا مستحق نہیں کیونکہ جب رسول مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم جو مخلوق میں افضل اور کامل ترین ہستی ہیں ، کسی کو نفع اور نقصان پہنچانے کا اختیار نہیں رکھتے بلکہ خود اپنی ذات کو نفع نقصان نہیں پہنچا سکتے تو معلوم ہوا کہ اسی طرح تمام مخلوق بھی کسی کو نفع اور نقصان نہیں پہنچا سکتی ، پس جس مخلوق کا یہ وصف ہو اس کو معبود بنانا خطا اور ظلم ہے۔ ٧۔ اس سورہ مبارکہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ علوم غیب کا علم رکھنے میں اللہ تعالیٰ منفرد ہے مخلوق میں سے کوئی ہستی غیب کا علم نہیں جانتی، سوائے اس کے جس پر اللہ تعالیٰ راضی ہوا اور کسی چیز کا علم عطا کرنے کے لیے اسے مختص کرے۔ الجن
0 المزمل
1 ﴿الْمُزَّمِّلُ﴾ کا معنی بھی ﴿ الْمُدَّثِّرُ﴾ کی طرح کپڑوں میں لپٹنے والا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی رسالت کے ذریعے سے اکرام بخشا اور حضرت جبرائیل علیہ السلام کو آپ کی طرف بھیج کر وحی نازل کرنے کی ابتدا کی تو اس وقت آپ اس وصف سے موصوف ہوئے ۔ آپ نے ایک معاملہ دیکھا کہ اس جیسا معاملہ آپ نے کبھی نہیں دیکھا تھا اور اس پر رسولوں کے سوا کوئی بھی ثابت قدم نہیں رہ سکتا۔ آپ کے پاس جبرائیل علیہ السلام آئے اور کہا: ” پڑھیے“ ! آپ نے فرمایا :”میں پڑھ نہیں سکتا“ جبرائیل علیہ السلام نے آپ کو خوب بھینچا جس سے آپ کو تکلیف ہوئی، جبرائیل آپ کو بار بار پڑھنے کی مشق کرواتے رہے تو بالآ خر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھا ، یہ وحی وتنزیل کا پہلا موقع اور ایک نیا تجربہ تھا ، اس سے آپ پر گھبراہٹ طاری ہوگئی ، آپ اپنے گھروالوں کے پاس تشریف لائے تو آپ پر کپکی طاری تھی ۔ آپ نے فرمایا : ”مجھے چادر اوڑھا دو، مجھے چادر اوڑھا دو۔“ پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو ثبات سے بہرہ ور کیا اور آپ پر پے درپے وحی نازل ہوئی حتیٰ کہ آپ اس مقام پر پہنچ گئے جہاں کوئی رسول نہیں پہنچ سکا۔ (سبحان اللہ تعالیٰ!) وحی کی ابتدا اور اس کی انتہا کے مابین کتنا بڑا تفاوت ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس وصف کے ساتھ مخاطب فرمایا جو آپ میں ابتدا کے وقت پایا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں آپ کو ان عبادات کا حکم دیا جو آپ سے متعلق تھیں، پھر آپ کو اپنی قوم کی اذیت رسانی پر صبر کرنے کا حکم دیا، پھر اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ آپ اس کے حکم کو کھلم کھلا بیان کردیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت کا اعلان کردیں ۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے آپ کو افضل ترین عبادت نماز کو مؤکد ترین اور بہترین اوقات پر ادا کرنے کا حکم دیا اور وہ ہے تہجد کی نماز۔ المزمل
2 یہ آپ پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے کہ اس نے آپ کو تمام رات قیام کرنے کا حکم نہیں دیا بلکہ فرمایا : ﴿قُمِ الَّیْلَ اِلَّا قَلِیْلًا﴾ ” رات کو قیام کیا کرو مگر تھوڑی رات۔“ پھر اس کا اندازہ مقرر کردیا، چنانچہ فرمایا : ﴿نِّصْفَهُ أَوِ انقُصْ مِنْهُ ﴾ نصف رات یا نصف میں سے بھی ﴿قَلِيلًا﴾ کچھ کم کردیجئے، ایک تہائی کے لگ بھگ ہو۔ المزمل
3 المزمل
4 ﴿اَوْ زِدْ عَلَیْہِ﴾ یا نصف سے کچھ زیادہ، یعنی دو تہائی رات کے لگ بھگ ہو۔ ﴿ وَرَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًا﴾ ” اور قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھا کرو۔ “ کیونکہ ترتیل قرآن سے تدبر اور تفکر حاصل ہوتا ہے، اس سے دلوں میں تحریک پیدا ہوتی ہے، اس کی آیات کے ساتھ تعبد حاصل ہوتا ہے اور اس پر عمل کے لیے مکمل استعداد اور آمادگی پیدا ہوتی ہے۔ المزمل
5 کیونکہ فرمایا : ﴿اِنَّا سَنُلْقِیْ عَلَیْکَ قَوْلًا ثَـقِیْلًا﴾ یعنی ہم آپ کی طرف یہ بھاری قرآن وحی کریں گے ، یعنی وہ معانی عظیمہ اور اوصاف جلیلہ کا حامل ہے۔ قرآن، جس کا وصف یہ ہو، اس بات کا مستحق ہے کہ اس کے لیے تیاری کی جائے، اس کو ترتیل کے ساتھ پڑھا جائے اور جن مضامین پر مشتمل ہے ان میں غوروفکر کیا جائے ۔ المزمل
6 پھر اللہ تعالیٰ نے رات کے قیام کے حکم کی حکمت بیان کی ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿اِنَّ نَاشِئَۃَ الَّیْلِ﴾ یعنی رات کو سو کر اٹھنے کے بعد نماز پڑھنا ﴿ہِیَ اَشَدُّ وَطْـاً وَّاَقْوَمُ قِیْلًا﴾ نفس پر قابو پانے کے لیے بہت کارگر اور قرآن کے مقصد کے حصول کے زیادہ قریب ہے۔ قلب ولسان اس سے مطابقت رکھتے ہیں، اس وقت مشاغل کم ہوتے ہیں اور جو کچھ وہ پڑھتا ہے اس کا فہم حاصل ہوتا ہے اور اس کا معاملہ درست ہوجاتا ہے ۔ یہ دن کے اوقات کے برعکس ہے کیونکہ دن کے اوقات میں یہ مقاصد حاصل نہیں ہوسکتے۔ المزمل
7 اسی لیے فرمایا : ﴿اِنَّ لَکَ فِی النَّہَارِ سَبْحًا طَوِیْلًا﴾ ” دن کے وقت آپ کو اور بہت مشاغل ہوتے ہیں۔“ یعنی اپنی حوائج اور معاشی ضروریات کے لیے آپ کو بار بار آنا پڑتا ہے جو قلب کے مشغول ہونے اور مکمل طور پر فارغ نہ ہونے کاموجب بنتا ہے۔ المزمل
8 ﴿وَاذْکُرِ اسْمَ رَبِّکَ﴾ ” اور اپنے رب کے نام کا ذکر کرو ۔“ یہ ذکر کی تمام انواع کو شامل ہے ﴿وَتَبَتَّلْ اِلَیْہِ﴾ ” اور سب سے کٹ کر اللہ کی طرف متوجہ ہوجائیے“ یعنی اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کیجئے کیونکہ اللہ تعالیٰ سے تعلق اور اس کی طرف انابت، قلب کے خلائق سے علیحدہ اور لاتعلق ہونے، اللہ تعالیٰ کی محبت اور ان اوصاف سے متصف ہونے کا نام ہے جو اللہ تعالیٰ کے مقرب بناتے ہیں اور اس کی رضا کے قریب کرتے ہیں۔ المزمل
9 ﴿رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ﴾ یہ اسم جنس ہے جو تمام مشارق ومغارب کو شامل ہے۔ پس اللہ تعالیٰ مشارق ومغارب ،ان کے اندر جوانوار اور عالم علوی اور عالم سفلی کے لیے جو مصالح ہیں، سب کارب، ان کا خالق اور مدبر ہے۔ ﴿اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ﴾ اس بالا وبلندتر ہستی کے سوا کوئی معبود نہیں ، وہ اس بات کا مستحق ہے کہ اس کو محبت وتعظیم اور اجلال وتکریم سے مختص کیا جائے۔ بنا بریں فرمایا : ﴿فَاتَّخِذْہُ وَکِیْلًا﴾ پس اسے اپنے تمام امور کی تدبیر کرنے والا اور محافظ بنا۔ المزمل
10 جب اللہ تعالیٰ نے خصوصی طور پر نماز اور عمومی طور پر ذکر الہٰی کا حکم دیا۔۔۔ جس سے بندہ مومن میں بھاری بوجھ اٹھانے اور مشقت اعمال بجالانے کاملکہ پیدا ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان باتوں پر صبر کرنے کا حکم دیا جو آپ کے معاندین آپ کو کہتے ہیں اور آپ کو اور جو کچھ آپ لے کر آئے ہیں اسے سب وشتم کرتے ہیں ، نیز یہ کہ آپ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق چلتے رہیں کوئی روکنے والا آپ کی راہ کھوٹی کرسکے نہ کوئی آپ کو لوٹا سکے اور یہ کہ آپ بھلے طریقے سے ان سے کنارہ کش ہوجائیں اور یہ کنارہ کشی وہاں ہے جہاں مصلحت کنارہ کشی کا تقاضا کرتی ہے جس میں کوئی اذیت نہ ہو بلکہ ان کی تکلیف دہ باتوں سے اعراض کرتے ہوئے، ان سے کنارہ کشی کا معاملہ کریں، اللہ تعالیٰ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا کہ آپ ان سے اس طریقے سے بحث کریں جو احسن ہو۔ المزمل
11 فرمایا ﴿وَذَرْنِیْ وَالْمُکَذِّبِیْنَ﴾ مجھے اور ان جھٹلانے والوں کو چھوڑ دیجئے، میں ان سے انتقام لوں گا، میں نے اگرچہ ان کو مہلت دی ہے مگر میں ان کو مہمل نہیں چھوڑوں گا۔ ﴿اُولِی النَّعْمَۃِ﴾ یعنی نعمتوں سے بہرہ مند اور دولت مند لوگ جن کو اللہ تعالیٰ نے جب اپنے رزق سے فراخی عطا کی اور اپنے فضل سے ان کو نوازا تو انہوں نے سرکشی کارویہ اختیار کیا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ كَلَّا إِنَّ الْإِنسَانَ لَيَطْغَىٰ أَن رَّآهُ اسْتَغْنَىٰی﴾(العلق:96؍6،7)” ہرگز نہیں، انسان جب اپنے آپ کو بے نیاز دیکھتا ہے تو سرکش ہوجاتا ہے۔“ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو عذاب کی وعید سنائی جو اس کے پاس ہے،چنانچہ فرمایا: المزمل
12 یعنی ہمارے پاس ﴿اَنْکَالًا﴾ سخت عذاب ہے، اسے ہم نے اس شخص کے لیے عبرتناک سزا بنایا ہے جو ان امور پر جما ہوا ہے جن پر اللہ تعالیٰ ناراض ہوتا ہے۔ ﴿وَّجَحِــیْمًا﴾ اور بھڑکتی ہوئی آگ ہے۔ المزمل
13 ﴿وَّطَعَامًا ذَا غُصَّۃٍ﴾ ” اور گلوگیر کھانا۔“ یہ اچھو اس کھانے کی تلخی، بدمزگی، اس کے ذائقے کی کراہت اور اس کی بے انتہا گندی بدبو کی بنا لگے گا۔ ﴿وَّعَذَابًا اَلِـــیْمًا﴾ اور انتہائی دردناک اور تکلیف دہ عذاب ہے۔ المزمل
14 ﴿یَوْمَ تَرْجُفُ الْاَرْضُ وَالْجِبَالُ﴾ جس روز زمین اور پہاڑ بہت بڑے خوف سے کانپ اٹھیں گے ﴿ وَکَانَتِ الْجِبَالُ﴾ اور زمین پر مضبوطی سے جمے ہوئے ٹھوس اور سخت پہاڑ ﴿ کَثِیْبًا مَّہِیْلًا﴾ ریت کے بھر بھرے ٹیلے بن جائیں گے ، یعنی بکھری ہوئی ریت کی مانند، پھر اس کے بعد یہ ریت آہستہ آہستہ پھیل کر اڑتا ہوا غبار بن جائے گی۔ المزمل
15 اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے کہ اس نبی امی وعربی صلی اللہ علیہ وسلم کے بھیجے جانے پر۔۔ جوخوش خبری دینے والا، تنبیہ کرنے والا اور امت پر ان کے اعمال کے ذریعے سے گواہ ہے۔۔۔ اللہ تعالیٰ کی حمد وستائش کرو، اس کا شکر ادا کرو اور اس نعمت جلیلہ کا اعتراف کرو، اپنے رسول کا انکار کرنے اور اس کی نافرمانی کرنے سے بچو، ایسا نہ ہو کہ تم فرعون کی مانند ہوجاؤ، جب اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اس کی طرف مبعوث فرمایا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دی اور اسے توحید کا حکم دیا مگر اس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تصدیق نہ کی بلکہ اس کے برعکس اس نے آپ کی نافرمانی کی۔ پس اللہ تعالیٰ نے اس کو بڑے وبال ، یعنی انتہائی شدت کے ساتھ پکڑ لیا۔ المزمل
16 المزمل
17 یعنی تمہیں قیامت کے دن کیسے نجات حاصل ہوسکتی ہے، وہ ایسا دن ہے جس کا معاملہ نہایت ہولناک اور جس کا خطرہ بہت عظیم ہوگا۔ جو بچوں کو بوڑھا، اور بڑے بڑے جمادات کو پگھلا کر رکھ دے گا، پس (اس کے خوف سے) آسمان پھٹ جائے گا اور ستارے بکھر جائیں گے۔ ﴿ کَانَ وَعْدُہٗ مَفْعُوْلًا﴾ یعنی اس کا وقوع لازمی ہے، کوئی چیز اس کے سامنے حائل نہیں ہوسکتی۔ المزمل
18 المزمل
19 یہ وعظ جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دن کے احوال اور اس کی ہولناکیوں کی خبر دی ہے، ایک یاد دہانی ہے جس سے اہل تقوٰی نصیحت پکڑتے ہیں اور اہل ایمان (برائیوں سے) رک جاتے ہیں۔ ﴿فَمَنْ شَاءَ اتَّخَذَ اِلٰی رَبِّہٖ سَبِیْلًا﴾ ” پس جو چاہے اپنے رب کی طرف راہ اختیار کرے ۔ “ یعنی وہ راستہ جو اسے اس کے رب تک پہنچاتا ہے ۔ وہ راستہ اللہ کی شریعت کی اتباع کے ذریعے سے حاصل ہوتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کو کھول کھول کر بیان کیا اور پوری طرح واضح کردیا ہے۔ اس آیت کریمہ میں اس امر کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بندوں کو ان کے افعال پر قدرت اور اختیار عطا کیا ہے ، ایسے نہیں جیسے ” جبریہ “ کہتے ہیں کہ بندوں کے افعال ان کی مشیت کے بغیر واقع ہوتے ہیں کیونکہ یہ نقل اور عقل دونوں کے خلاف ہے۔ المزمل
20 اس سورہ مبارکہ کی ابتدا میں اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا کہ اس نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ آپ نصف رات، ایک تہائی رات یا دو تہارئی رات قیام کیا کریں اور اصل بات یہ ہے کہ احکام میں آپ اپنی امت کے لیے نمونہ ہیں ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس مقام پر ذکر فرمایا کہ آپ نے اور آپ کے ساتھ اہل ایمان کی ایک جماعت نے اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی تعمیل کی۔چونکہ مامور بہ وقت کا تعین کرنا لوگوں کےلیے بہت مشکل تھا ، اس لیے اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ اس نے ان کے لیے اس میں انتہائی آسانی پیدا کردی ہے ، چنانچہ فرمایا : ﴿وَاللّٰہُ یُقَدِّرُ الَّیْلَ وَالنَّہَارَ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ دن اور رات کی مقدار کو جانتا ہے اور وہ یہ بھی جانتا ہے کہ کتنا وقت گزر گیا ہے اور کتنا باقی ہے۔ ﴿عَلِمَ اَنْ لَّنْ تُحْصُوْہُ﴾ یعنی وہ جانتا ہے اور وہ یہ بھی جانتا ہے کہ کسی کمی بیشی کے بغیر تم اس کی مقدار معلوم نہیں کر سکو گے کیونکہ اس کی مقدار کی معرفت کا حصول، واقفیت اور مزید مشقت کا تقاضا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے تخفیف کردی ہے اور تمہیں صرف اسی چیز کا حکم دیا ہے جو تمہارے لیے آسان ہے ، خواہ وہ مقدار سے زیادہ ہو یاکم۔ ﴿ فَاقْرَءُوْا مَا تَیَسَّرَ مِنَ الْقُرْاٰنِ ﴾ ” لہٰذا پڑھو قرآن میں سے جو آسان ہو۔“ یعنی اس میں سے جس کی تمہیں معرفت حاصل ہے اور جس کی قراءت تم پر شاق نہیں گزرتی۔ بنابریں قیام اللیل کرنے والا نمازی صرف اس وقت نماز پڑھنے پر مامور ہے جب تک اس میں نشاط ہے، جب وہ اکتاہت، کسل مندی یا اونگھ وغیرہ کا شکار ہوجائے تو اسے آرام کرنا چاہیے ،اسے طمانیت اور راحت کے ساتھ نماز پڑھنی چاہیے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے بعض ایسے اسباب ذکر فرمائے جو تخفیف سے مناسبت رکھتے ہیں، چنانچہ فرمایا : ﴿عَلِمَ اَنْ سَیَکُوْنُ مِنْکُمْ مَرْضَى ﴾ ” وہ جانتا ہے تم میں سے بیمار بھی ہوں گے۔ “دو تہائی شب، نصف شب یا ایک تہائی شب کی نماز ان پر شاق گزرے گی، پس مریض اتنی ہی نماز پڑھے جو اس کے لیے آسان ہے، نیز وہ مشقت کی صورت میں کھڑے ہو کر نماز پڑھنے پر بھی مامور نہیں بلکہ اگر نفل نماز پڑھنے میں اس کے لیے مشقت ہے تو وہ اسے چھوڑ دے اور اسے اسی طرح نماز کا اجر ملے گا جس طرح وہ صحت مند ہونے کی حالت میں پڑھتا رہا ہے۔ ﴿وَاٰخَرُوْنَ یَضْرِبُوْنَ فِی الْاَرْضِ یَبْتَغُوْنَ مِنْ فَضْلِ اللّٰہِ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ یہ بھی جانتا ہے کہ تم میں مسافر بھی ہیں جو تجارت کے لیے سفر کرتے ہیں تاکہ وہ مخلوق سے بے نیاز اور ان سے سوال کرنے سے باز رہیں۔ پس مسافر کے احوال سے تخفیف مناسبت رکھتی ہے ، اسی لیے اس میں اس کے لیے فرض نماز میں بھی تخفیف کردی گئی ہے اور اس کے لیے ایک وقت میں دو نمازوں کو جمع کرنا اور چار رکعتوں والی نماز میں قصر کرنا مباح کردیا گیا ہے۔ ﴿وَاٰخَرُوْنَ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ڮ فَاقْرَءُوْا مَا تَیَسَّرَ مِنْہُ﴾ ” اور کچھ لوگ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد بھی کرتے ہیں ، لہٰذا تم باآسانی جتنا قرآن پڑھ سکو پڑھو۔ “ پس اللہ تعالیٰ نے دو تخفیفوں کا ذکر فرمایا ہے ۔ اول وہ تخفیف جو صحت مند اور اپنے گھر میں مقیم شخص کے لیے ہے جو وقت کے تعین کا مکلف ہوئے بغیر اپنی راحت اور نشاط کی رعایت رکھتا ہے بلکہ وہ فضیلت والی نماز کی کوشش کرتا ہے اور یہ رات کے نصف اول کے بعد ایک تہائی رات تک قیام کرنا ہے ۔ دوسری تخفیف مسافر کے لیے ہے ، خواہ یہ سفر تجارت کے لیے ہو یا عبادت، یعنی جہاد اور حج وغیرہ کے لیے ہو ، پس وہ اتنی مقدار کی رعایت رکھ سکتا ہے جو اس کو تکلیف نہ دے۔ پس ہر قسم کی حمد وثنا اللہ کے لیے ہے جس نے امت کے لیے دین میں کوئی تنگی نہیں رکھی بلکہ اس نے اپنی شریعت کو آسان بنایا اور اس نے اپنے بندوں کے احوال، ان کے دین، ابدان اور دنیا کے مصالح کی رعایت رکھی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے دو عبادتوں کا ذکر فرمایا جو ام العبادات اور ان کا ستون ہیں ، یعنی نماز قائم کرنا جس کے بغیر دین درست نہیں رہتا اور زکوٰۃ ادا کرنا جو ایمان کی دلیل ہے اور اس سے حاجت مندوں اور مساکین کے لیے ہمدردی حاصل ہوتی ہے ، لہٰذا فرمایا :﴿وَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ﴾ یعنی نماز کو اس کے ارکان، اس کی حدود، اس کی شرائط اور اس کی تکمیل کرنے والے تمام امور کے ساتھ قائم کرو۔ ﴿وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَ وَاَقْرِضُوا اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا﴾ ” اور زکوٰۃ ادا کرتے رہو اللہ کو قرض حسنہ دیتے رہو۔“ یعنی سچی نیت اور ثبات نفس سے، خالص اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے پاک مال میں سے خرچ کرنا۔ اس میں صدقات واجبہ اور صدقات مستحبہ دونوں داخل ہیں، پھر عام بھلائی اور بھلائی کے کاموں کی ترغیب دی۔ فرمایا : ﴿ وَمَا تُقَدِّمُوْا لِاَنْفُسِکُمْ مِّنْ خَیْرٍ تَجِدُوْہُ عِنْدَ اللّٰہِ ہُوَ خَیْرًا﴾ ”اور جو نیک عمل تم اپنے لیے آگے بھیجو گے، اس کو اللہ کے ہاں بہتر ثواب میں بہت زیادہ پاؤ گے“ ۔ نیکی کا اجر دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک بلکہ بے شمار گنا ملتا ہے۔ معلوم ہونا چاہیے کہ اس دنیا میں کی ہوئی ذرہ بھر بھلائی کے مقابلے میں ہمیشہ رہنے والی نعمتوں کے گھر میں دنیا کی لذتوں سے کئی گنا زیادہ لذتیں اور شہوات ہیں ،اس دنیا میں کوئی کی ہوئی بھلائی اور نیکی، آخرت کے دائمی گھر میں بھلائی اور نیکی کی بنیاد، اس کا بیج، اس کی اصل اور اساس ہے۔ ہائے افسوس ! ان اوقات پر جو غفلت میں گزر گئے اور حسرت ہے ان زمانوں پر جو غیر صالح اعمال میں بیت گئے، ہے کوئی مددگار اس دل کا جس پر اس کے پیدا کرنے والے کی کوئی نصیحت اثر نہیں کرتی اور نہ اس ہستی کی ترغیب کوئی فائدہ دیتی ہے جو اس پر اس سے بھی زیادہ رحم کرتی ہے جتنا وہ خود اپنے آپ پر رحم کرسکتا ہے۔ اے اللہ ! ہر قسم کی حمد وثنا تیرے ہی لیے ہے، تیرے ہی پاس شکایت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد طلب کرتے ہیں۔ (ولا حول ولاقوۃ الابک﴿ وَاسْتَغْفِرُوا اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ﴾ بھلائی اور نیکی کے کاموں کی ترغیب دینے کے بعد، استغفار کا حکم دیا جس میں بہت بڑا فائدہ ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ بندہ ان کاموں میں کوتاہی سے پاک نہیں جن کا اسے حکم دیا گیا ہے یا تو وہ ان کاموں کو سرے سے کرتا ہی نہیں یا انہیں ناقص طریقے سے کرتا ہے، پس اسے استغفار کے ذریعے سے اس کی تلافی کرنے کا حکم دیا گیا ہے کیونکہ بندہ دن رات گناہ کرتا ہے اگر اللہ تعالیٰ اسے اپنی رحمت اور مغفرت سے ڈھانپ نہ لے تو وہ ہلاک ہوجائے گا۔ المزمل
0 المدثر
1 گزشتہ سطور میں گزر چکا ہے کہ ﴿الْمُزَّمِّلُ ﴾ اور ﴿ الْمُدَّثِّرُ ﴾ کا ایک ہی معنی ہے، نیز اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ آپ اللہ تعالیٰ کی عبادات قاصرہ اور متعدیہ میں پوری کوشش کریں۔ وہاں یہ بھی گزرچکا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو عبادات فاضلہ وقاصرہ اور اپنی قوم کی اذیت رسانی پر صبر کرنے کا حکم دیا۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا کہ آپ اپنی نبوت کا اعلان فرمادیں اور کھلم کھلا لوگوں کو تنبیہ کریں۔ المدثر
2 چنانچہ فرمایا ﴿قُمْ﴾ یعنی کوشش اور نشاط کے ساتھ کھڑے ہوں ﴿فَاَنْذِرْ﴾ یعنی لوگوں کو ایسے اقوال وافعال کے ذریعے سے تنبیہ کیجئے جن سے مقصد حاصل ہو ، ان امور کا حال بیان کرکے ڈرایے جن سے متنبہ کرنا مطلوب ہے تاکہ وہ ان کو ان کے ترک کرنے پر زیادہ آمادہ کرے۔ المدثر
3 ﴿وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ﴾ یعنی توحید کے ذریعے سے اس کی عظمت بیان کیجے، اپنے انداز وتنبیہ میں اللہ تعالیٰ کی رضا مقصد بنائیں، نیز اس بات کو مدنظر رکھیں کہ بندے اللہ تعالیٰ کی تعظیم اور اس کی عبادت کریں۔ المدثر
4 ﴿وَثِیَابَکَ فَطَہِّرْ﴾ ” اور اپنے کپڑوں کو پاک رکھیں۔“ اس آیت کریمہ میں یہ احتمال ہے کہ (ثیاب) ”کپڑے“ سے مراد تمام اعمال ہوں اور ان کی تطہیر سے مراد ہے ان کی تخلیص ،ان کے ذریعے سے خیرخواہی، ان کو کامل ترین طریقے پر بجالانا اور ان کو تمام مبطلات، مفسدات اور ان میں نقص پیدا کرنے والے امور، یعنی شرک ،ریا، نفاق، خود پسندی، تکبر، غفلت وغیرہ سے پاک کرنا ہو، جن کے بارے میں بندہ مومن کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنی عبادات میں ان سے اجتناب کرے ۔ اس میں کپڑوں کی نجاست سے تطہیر بھی داخل ہے کیونکہ یہ تطہیر، اعمال کی تطہیر کی تکمیل ہے، خاص طور پر نماز کے اندر جس کے بارے میں بہت سے علما ء کا قول ہے کہ نجاست کو زائل کرنا، نماز کا حق اور اس کی شرائط میں سے ایک شرط ہے ، یعنی طہارت اس کی صحت کی شرائط میں سے ہے۔ یہ بھی احتمال ہے کہ( ثیاب )سے مراد معروف لباس ہو اور آپ کو ان کپڑوں کی تمام اوقات میں تمام نجاستوں سے تطہیر کا حکم دیا گیا ہے ،خاص طور پر نماز میں داخل ہوتے وقت۔ جب آپ ظاہری طہارت پر مامور ہیں کیونکہ ظاہری طہارت، باطنی طہارت کی تکمیل کرتی ہے تو فرمایا: ﴿ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ ﴾ ” اور ناپاکی سے دور رہیں۔ “ ایک احتمال یہ ہے کہ (الرُّجْزَ )سے مرادبت اور مورتی ہوں جن کی اللہ تعالیٰ کے ساتھ عبادت کی جاتی ہے ، پس اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا کہ آپ ان کو ترک کردیں ،ان سے براءت کا اعلان کریں ، نیز ان تمام اقوال وافعال سے بیزار ہوں جو ان کی طرف منسوب ہیں ۔ایک احتمال یہ بھی ہے کہ (الرُّجْزَ)سے مراد تمام اعمال شر اور اقوال شر ہوں، تب آپ کو یہ حکم دیا گیا کہ آپ تمام چھوٹے اور بڑے ، ظاہری اور باطنی گناہ چھوڑ دیں۔ اس حکم میں شرک اور اس سے کم تر تمام گناہ داخل ہیں۔ المدثر
5 المدثر
6 ﴿وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَکْثِرُ﴾ یعنی آپ نے لوگوں پر جو دینی اور دنیاوی احسانات کیے ہیں ،انہیں جتلائیں نہیں کہ اس احسان کے بدلے میں زیادہ حاصل کریں اور ان احسانات کی وجہ سے اپنے آپ کو لوگوں سے افضل سمجھیں بلکہ جب بھی آپ کے لیے ممکن ہو آپ لوگوں پر احسان کریں، پھر ان پر اپنے اس احسان کو بھول جائیے اور اللہ تعالیٰ سے اس کا اجر طلب کیجئے ۔ جس پر آپ نے احسان کیا ہے اسے اور دوسروں کو برابر سطح پر رکھیں۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کا معنی یہ ہے کہ آپ کسی کو کوئی چیز اس لیے عطا نہ کریں کہ آپ کا ارادہ ہو کہ وہ آپ کو اس سے بڑھ کر بدلہ عطا کرے ، تب یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مختص ہے۔ المدثر
7 ﴿وَلِرَبِّکَ فَاصْبِرْ﴾ یعنی اپنے صبر پر اجر کی امید رکھیے اور اس کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا ہو۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کے حکم کی اطاعت کی اور اس کی تعمیل کے لیے آگے بڑھے۔ پس آپ نے لوگوں کو انجام بد سے ڈرایا اور آپ نے ان کے سامنے آیات بینات اور تمام مطالب الٰہیہ کو واضح کیا ۔ اللہ تعالیٰ کی عظمت بیان کی اور مخلوق کو اس کی تعظیم کی طرف بلایا، آپ نے اپنے تمام ظاہری اور باطی اعمال کو ہر قسم کی برائی سے پاک کیا ، آپ نے ہر اس ہستی سے براءت کا اظہار کیا جو اللہ تعالیٰ سے د ور کرتی تھی اور اس کی اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر عبادت کی جاتی تھی، یعنی بتوں، بت پرستوں، اور شرپسندوں سے بیزاری کا اعلان کیا ۔ لوگوں پر اللہ تعالیٰ کے احسان کے بعد آپ کا احسان ہے بغیر اس کے کہ آپ اس پر ان سے کسی جز یا شکرگزاری کا مطالبہ کریں ۔ آپ نے اپنے رب کی خاطر کامل ترین صبر کیا ۔ پس آپ نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر اور اس کی نافرمانی سے اجتناب پر اور اس کی تکلیف دہ قضا وقدر پر صبر کیا ، یہاں تک کہ آپ اولوالعزم انبیا ء ومرسلین پر بھی فوقیت لے گئے۔ صَلَوَاتُ اللہ تعالیٰ وَسَلاَمُہ عَلیَہِ وَعَلَیْھِمْ َاجْمَعِیْنَ۔ المدثر
8 جب مردوں کو قبروں سے کھڑا کرنے اور تمام خلائق کو دوبارہ زندہ کرکے حساب و کتاب کے لیے جمع کرنے کے لیے صور پھونکا جائے گا۔ المدثر
9 ﴿فَذٰلِکَ یَوْمَیِٕذٍ یَّوْمٌ عَسِیْرٌ﴾ تو ہولناکیوں اور سختیوں کی کثرت کی بنا پر وہ دن بڑاہی سخت ہوگا۔ المدثر
10 ﴿عَلَی الْکٰفِرِیْنَ غَیْرُ یَسِیْرٍ﴾ ” کافروں آسان نہ ہوگا۔ “کیونکہ وہ ہر بھلائی سے مایوس ہوچکے ہوں گے اور انہیں اپنی ہلاکت اور تباہی کا یقین ہوجائے گا۔ اس آیت کریمہ کا مفہوم مخالف یہ ہے کہ وہ دن اہل ایمان پر آسان ہوگا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :﴿ يَقُولُ الْكَافِرُونَ هَـٰذَا يَوْمٌ عَسِرٌ ﴾(القمر :54؍8) ”کفار کہیں گے یہ دن بڑاہی سخت ہے۔“ المدثر
11 یہ آیات کریمہ معاند حق اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کھلی جنگ کرنے والے، ولید بن مغیرہ کے بارے میں نازل ہوئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی ایسی مذمت کی ہے کہ ایسی مذمت کسی کی نہیں کی۔ یہ ہر اس شخص کی جزا ہے جو حق کے ساتھ عناد اور دشمنی رکھتا ہے، اس کے لیے دنیا کے اندر رسوائی ہے اور آخرت کا عذاب زیادہ رسوا کن ہے ۔فرمایا :﴿ذَرْنِیْ وَمَنْ خَلَقْتُ وَحِیْدًا﴾ ” مجھے اور اس شخص کو چھوڑ دو جسے میں نے اکیلا پیدا کیا “ یعنی میں اسے اکیلا، کسی مال اور اہل وعیال وغیرہ کے بغیر پیدا کی۔ پس میں اس کی پرورش کرتا رہا اور اسے عطا کرتا رہا۔ المدثر
12 ﴿وَّجَعَلْتُ لَہٗ مَالًا مَّمْدُوْدًا﴾ اور میں نے اسے بہت زیادہ مال دیا۔ المدثر
13 ﴿وَ﴾ ” اور“عطا کیے اسے ﴿بَنِیْنَ﴾ ”بیٹے “ ﴿شُہُوْدًا﴾ جو ہمیشہ اس کے پاس موجود رہتے ہیں ، وہ ان سے متمتع ہوتا ہے ، ان کے کے ذریعے سے اپنی ضرورتیں پوری کرتا ہے اور (دشمنوں کے خلاف) ان سے مدد لیتا ہے۔ المدثر
14 ﴿وَّمَہَّدْتُّ لَہٗ تَمْہِیْدًا﴾ اور میں نے دنیا اور اس کے اسباب پر اسے اختیار دیا ، یہاں تک کہ اس کے تمام مطالب آسان ہوگئے اور اس نے ہر وہ چیز حاصل کرلی جو وہ چاہتا تھا اور جس کی اسے خواہش تھی۔ المدثر
15 ﴿ثُمَّ﴾ پھر ان نعمتوں اور بھلائیوں کے باوجود ﴿یَطْمَعُ اَنْ اَزِیْدَ﴾ “ خواہش رکھتا ہے کہ میں اور زیادہ دوں“ یعنی وہ چاہتا ہے کہ اسے آخرت کی نعمتیں بھی اسی طرح حاصل ہوں جس طرح اسے دنیا کی نعمتیں حاصل ہوئی ہیں۔ المدثر
16 ﴿کَلَّا ﴾ یعنی معاملہ ایسا نہیں جیسا کہ وہ چاہتا ہے بلکہ وہ اس کے مطلوب ومقصود کے برعکس ہوگا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ﴿ اِنَّہٗ کَانَ لِاٰیٰتِنَا عَنِیْدًا﴾ وہ ہماری آیتوں سے عناد رکھتا ہے، اس نے ان آیات کو پہچان کر ان کا انکار کردیا، ان آیات نے اسے حق کی طرف دعوت دی مگر اس نے ان کی اطاعت نہ کی ۔ اس نے صرف ان سے روگردانی کرنے اور منہ موڑنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ان کے خلاف جنگ کی اور ان کے ابطال کے لیے بھاگ دوڑ کی، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کے بارے میں فرمایا : ﴿ إِنَّهُ فَكَّرَ ﴾ یعنی اس نے اپنے دل میں غور کیا ﴿ وَقَدَّرَ ﴾ جس کے بارے میں غور کیا اس کو تجویز کیا تاکہ وہ ایسی بات کہے جس کے ذریعے سے وہ قرآن کا ابطال کرسکے۔ المدثر
17 المدثر
18 المدثر
19 ﴿فَقُتِلَ کَیْفَ قَدَّرَ ثُمَّ قُتِلَ کَیْفَ قَدَّرَ﴾ ” پس وہ مارا جائے اس نے کیسی تجویز کی، پھر وہ مارا جائے اس نے کیسی تجویز کی۔“ کیونکہ اس نے ایسی تجویز سوچی جو اس کی حدود میں نہیں ،اس نے ایسے معاملے میں ہاتھ ڈالا جو اس کی اور اس جیسے دوسرے لوگوں کی پہنچ میں نہیں۔ المدثر
20 المدثر
21 ﴿ثُمَّ نَـظَرَ﴾ پھر اس نے جو کچھ کہا اس میں غور کیا۔ المدثر
22 ﴿ثُمَّ عَبَسَ وَبَسَرَ﴾ پھر اس نے تیوری چڑھائی اور اپنے منہ کو بگاڑا اور حق سے نفرت اور بغض ظاہر کیا۔ المدثر
23 ﴿ثُمَّ اَدْبَرَ﴾ پھر پیٹھ پھیر کر چل دیا ﴿وَاسْتَکْبَرَ﴾ اپنی فکری، عملی اور قولی کوشش کے نتیجے میں تکبر کیا۔ المدثر
24 اور کہا: ﴿ اِنْ ہٰذَآ اِلَّا سِحْرٌ یُّؤْثَرُ اِنْ ہٰذَآ اِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ﴾ یعنی یہ اللہ تعالیٰ کا کلام نہیں بلکہ انسان کا کلام ہے، نیز یہ کسی نیک انسان کا کلام نہیں بلکہ انسانوں میں سے اشرار، فجار، جھوٹے جادوگروں کا کلام ہے۔ ہلاکت ہو اس کے لیے ، راہ صواب سے کتنا دور، خسارے اور نقصان کا کتنا مستحق ہے ! یہ بات ذہنوں میں کیسے گھومتی ہے یاکسی انسان کا ضمیر یہ کیسے تصور کرسکتا ہے کہ سب سے اعلیٰ اور عظیم ترین کلام رب کریم ، صاحب مجد وعظمت کا کلام، ناقص اور محتاج مخلوق کے کلام سے مشابہت رکھتا ہے؟ یا یہ عناد پسند جھوٹا شخص، اللہ تعالیٰ کے کلام کو اس وصف سے موصوف کرنے کی کیوں کر جرات کرتا ہے؟ المدثر
25 المدثر
26 پس یہ سخت عذاب کے سوا کسی چیز کا مستحق نہیں، بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿سَاُصْلِیْہِ سَقَرَوَمَآ اَدْرٰیکَ مَا سَقَرُ لَا تُبْقِیْ وَلَا تَذَرُ﴾ ” ہم عنقریب اس کو” سقر“ میں داخل کریں گے اور تمہیں کیا معلوم کہ”سقر“ کیا ہے؟ (وہ آگ ہے) کہ باقی رکھے گی نہ چھوڑے گی“ یعنی جہنم کوئی ایسی سختی نہیں چھوڑے گی جو عذاب دیے جانے والے کو نہ پہنچے۔ المدثر
27 المدثر
28 المدثر
29 ﴿لَوَّاحَۃٌ لِّلْبَشَرِ﴾، ” چمڑی جھلسا دینے والی ہے۔“ یعنی جہنم ان کو اپنے عذاب میں جھلس ڈالے گی اور اپنی شدید گرمی اور شدید سردی سے انہیں بے چین کردے گی۔ المدثر
30 ﴿ عَلَیْہَا تِسْعَۃَ عَشَرَ﴾ یعنی جہنم پر انیس فرشتے داروغوں کے طور پر متعین ہیں جو نہایت سخت اور درشت خو ہیں، اللہ تعالیٰ ان کو جو حکم دیتا ہے وہ نافرمانی نہیں کرتے ور وہی کرتے ہیں جو ان کو حکم دیا جاتا ہے۔ المدثر
31 ﴿وَمَا جَعَلْنَآ اَصْحٰبَ النَّارِ اِلَّا مَلٰیِٕکَۃً﴾ ” اور ہم نے جہنم کے داروغے فرشتے بنائے ہیں۔“ یہ ان کی سختی اور قوت کی بنا پر ہے۔ ﴿ وَّمَا جَعَلْنَا عِدَّتَہُمْ اِلَّا فِتْنَۃً لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوْا ﴾ ” اور ہم نے ان کی گنتی کافروں کی آزمائش کے لیے کی ہے۔“ اس میں ایک احتمال یہ ہے کہ یہ صرف آخرت میں ان کو عذاب، عقوبت اور جہنم میں ان کو زیادہ سزا دینے کے لیے ہے۔ عذاب کو فتنہ سے موسوم کیا گیا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿ يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ ﴾( الذاریات :51؍13) ” اس دن جب ان کو جہنم میں عذاب دیا جائے گا۔“ دوسرا احتمال یہ ہے کہ ہم نے تمہیں ان کی تعداد کے بارے میں صرف اس لیے بتایا ہے تاکہ ہم جان لیں کہ کون تصدیق کرتا اور کون تکذیب کرتا ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے جو فرمایا ہے وہ اس پر دلالت کرتا ہے۔ ﴿لِیَسْتَیْقِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ وَیَزْدَادَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِیْمَانًا﴾ ” تاکہ اہل کتاب یقین کرلیں اور مومنوں کا ایمان اور زیادہ ہو۔ “ کیونکہ اہل کتاب کے پاس جو کچھ ہے، جب قرآن اس کی مطابقت کرے گا تو حق کے بارے میں ان کے یقین میں اضافہ ہوگا اور جب بھی اللہ تعالیٰ کوئی آیت نازل کرتا ہے تو اہل ایمان اس پر ایمان لاتے ہیں اور اس کی تصدیق کرتے ہیں اور ان کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔ ﴿وَّلَا یَرْتَابَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ وَالْمُؤْمِنُوْنَ﴾” نیز اہل کتاب اور مومن شک نہ کریں۔ “ یعنی تاکہ ان سے شک وریب زائل ہوجائے۔ ان جلیل القدر مقاصد کو خرد مند لوگ ہی درخور اعتنا سمجھتے ہیں ، یعنی یقین میں کوشش، ایمان میں ہر وقت اضافہ، دین کے مسائل میں سے ہر مسئلہ پر ایمان میں اضافہ اور شکوک واوہام کو دور کرنا جو حق کے بارے میں پیش آتے ہیں ۔ پس اللہ تعالیٰ نے جو کچھ اپنے رسول پر نازل کیا ہے ، اسے ان مقاصد جلیلہ کو حاصل کرنے کا ذریعہ، سچے جھوٹے لوگوں کے درمیان امتیاز کی میزان قرار دیا ہے ، بنا بریں فرمایا :﴿ وَلِيَقُولَ الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ ﴾ ” تاکہ وہ لوگ جن کے دلوں میں مرض ہے ، کہیں:“ یعنی شک اور شبہ اور نفاق کا مرض ہے ﴿ وَالْكَافِرُونَ مَاذَا أَرَادَ اللّٰـهُ بِهَـٰذَا مَثَلًا ﴾ ” اور کافر (کہیں ) کہ اس مثال سے اللہ کا مقصود کیا ہے؟ “ وہ یہ بات حیرت، شک اور اللہ تعالیٰ کی آیتوں سے کفر کی وجہ سے کہتے ہیں اور یہ اس شخص کے لیے اللہ کی ہدایت ہے جسے وہ ہدایت سے بہرہ مند کرتا ہے اور اس شخص کے لیے گمراہی ہے جسے وہ گمراہ کرتا ہے، اور اس لیے فرمایا: ﴿ كَذٰلِكَ يُضِلُّ اللّٰـهُ مَن يَشَاءُ وَيَهْدِي مَن يَشَاءُ ﴾ ” اسی طرح اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے ۔“ پس اللہ جس کو ہدایت عطا کردے تو جو کچھ اس نے اپنے رسول پر نازل کیا ، اسے اس کے حق میں رحمت اور اس کے دین و ایمان میں اضافے کا باعث بنا دیتا ہے اور جسے گمراہ کردے تو جو کچھ اس نے اپنے رسول پر نازل کیا ہے اسے اس کے حق میں ظلمت اور اس کے لیے بدبختی اور حیرت کا سبب بنا دیتا ہے۔ واجب ہے کہ جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خبردی ہے اسے اطاعت وتسلیم کے ساتھ قبول کیا جائے۔ فرشتوں وغیرہ میں سے کوئی بھی تمہارے رب کے لشکروں کو نہیں جانتا ﴿ إِلَّا هُوَ ﴾” سوائے اس (اللہ ) کے۔ “ پس جب تم اللہ تعالیٰ کے لشکروں کے بارے میں علم نہیں رکھتے تھے اور علیم وخیبر ہی نے تمہیں ان کے بارے میں آگاہ فرمایا ہے تو تم پر واجب ہے کہ تم اس کی خبر کی کسی شک وریب کے بغیر تصدیق کرو۔ ﴿ وَمَا هِيَ إِلَّا ذِكْرَىٰ لِلْبَشَرِ ﴾ یعنی اس نصیحت اور تذکیر کا مقصد محض عبث اور لہو ولعب نہیں ، اس کا مقصد تو یہ ہے کہ انسان اس سے نصیحت پکڑیں جو چیز ان کو فائدہ دے اس پر عمل کریں اور جو چیز ان کو نقصان دے اسے ترک کردیں۔ المدثر
32 ﴿کَلَّا﴾ یہاں بمعنی )حقَاً( یا بمعنی (ألاَ) استفتاحیہ کے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے چاند اور رات کی قسم کھائی جس وقت وہ پیچھے ہٹے اور دن کی قسم کھائی جس وقت وہ خوب روشن ہو کیونکہ یہ مذکورہ چیزیں اللہ تعالیٰ کی عظیم نشانیوں پر مشتمل ہیں جو اللہ تعالیٰ کی کامل قدرت وحکمت، لامحدود قوت، بے پایاں رحمت ور اس کے احاطہ علم پر دلالت کرتی ہیں۔ جس پر قسم کھائی وہ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : ﴿ إِنَّهَا لَإِحْدَى الْكُبَرِ ﴾ ” کہ وہ (آگ )ایک بہت بڑی (آفت )ہے۔“ یعنی بے شک جہنم کی آگ بہت بڑی مصیبت اور غم میں مبتلا کردینے والا معاملہ ہے۔ پس جب ہم نے تمہیں اس کے بارے میں خبردار کردیا اور تم اس کے بارے میں پوری بصیرت رکھتے ہو، تب تم میں سے جو چاہے آگے بڑھے اور ایسے عمل کرے جو اسے اللہ تعالیٰ اور اس کی رضا کے قریب کرتے ہیں اور اس کے اکرام وتکریم کے گھر تک پہنچاتے ہیں یا وہ اس مقصد سے پیچھے ہٹ جائے جس کے لیے اس کو تخلیق کیا گیا ہے ، جس کو اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے اور اس سے راضی ہے اور نافرمانی کے کام کرے جو جہنم کے قریب کرتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : ﴿ وَقُلِ الْحَقُّ مِن رَّبِّكُمْ فَمَن شَاءَ فَلْيُؤْمِن وَمَن شَاءَ فَلْيَكْفُرْ ﴾ (الکھف :18؍29) ”اور کہہ دیجئے کہ یہ برحق قرآن تمہارے رب کی طرف سے ہے پس جو چاہیے ،ایمان لائے اور جو چاہے انکار کرے۔“ المدثر
33 المدثر
34 المدثر
35 المدثر
36 المدثر
37 المدثر
38 ﴿کُلُّ نَفْسٍ بِمَا کَسَبَتْ﴾ ” ہر شخص اپنے اعمال کے بدلے“ یعنی افعال شر اور اعمال بد کے بدلے ﴿رَہِیْنَۃٌ﴾ ” گروی ہے۔ “ یعنی اپنے اعمال کا گروی اور اپنی کوشش میں بندھا ہوا، اس کی گردن جکڑی ہوئی اور اس کے گلے میں طوق ڈالا ہوا ہے اور اس سبب سے اس نے عذاب کو واجب بنا لیا۔ المدثر
39 ﴿اِلَّآ اَصْحٰبَ الْیَمِیْنِ ﴾ ”سوائے دائیں ہاتھ والوں کے“ کیونکہ وہ (اپنے اعمال کے بدلے) گروی نہیں ہیں بلکہ وہ آزاد، فرحاں اور شاداں ہیں ۔ المدثر
40 ﴿فِیْ جَنّٰتٍ ۺ یَتَسَاءَلُوْنَ۔ عَنِ الْمُجْرِمِیْنَ﴾ یعنی جنت کے اندر ان کو تمام چیزیں حاصل ہوں گی جن کی وہ طلب کریں گے، ان کے لیے کامل راحت واطمینان ہوگا، وہ ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہو کر سوال کریں گے، وہ آپس کی بات چیت میں مجرموں کے بارے میں پوچھیں گے کہ وہ کس حال کو پہنچے ہیں ، کیا انہوں نے وہ کچھ پا لیا جس کا اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ وعدہ کیا تھا؟ المدثر
41 المدثر
42 پھر وہ ایک دوسرے سے کہیں گے کیا تم انہیں جھانک کر دیکھنا چاہتے ہو؟ وہ ان کو جھانک کر دیکھیں گے تو انہیں جہنم کے درمیان اس حال میں پائیں گے کہ انہیں عذاب دیا جا رہا ہوگا تو وہ ان سے کہیں گے : ﴿مَا سَلَکَکُمْ فِیْ سَقَرَ﴾ یعنی کس چیز نے تمہیں جہنم میں ڈالا ہے اور کس گناہ کے سبب سے تم جہنم کے مستحق قرار پائے ہو؟ ﴿قَالُوْا لَمْ نَکُ مِنَ الْمُصَلِّیْنَ۔ وَلَمْ نَکُ نُطْعِمُ الْمِسْکِیْنَ﴾ ” کہیں گے : ہم نماز پڑھتے تھے نہ مسکینوں کو کھانا کھلاتے تھے“ یعنی ہم معبود کے لیے اخلاص اور احسان رکھتے تھے نہ ضرورت مند مخلوق کو فائدہ پہنچاتے تھے۔ المدثر
43 المدثر
44 المدثر
45 ﴿وَکُنَّا نَخُوْضُ مَعَ الْخَایِٕضِیْنَ﴾ ” اور ہم (باطل میں) مشغول ہونے والوں کے ساتھ مشغول ہوتے تھے۔“ یعنی ہم باطل میں پڑے ہوئے تھے اور باطل کے ذریعے سے حق کے خلاف جھگڑتے تھے۔ المدثر
46 ﴿وَکُنَّا نُکَذِّبُ بِیَوْمِ الدِّیْنِ﴾ ” اور ہم یوم جزا کو جھٹلاتے تھے۔ “یہ باطل میں مشغول ہونے کا اثر ہے اور وہ ہے تکذیب حق۔ سب سے بڑے حق میں سے قیامت کا دن ہے جو اعمال کی جزاوسزا، اللہ تعالیٰ کے اقتدار اور تمام مخلوق کے لیے اس کے عدل پر مبنی فیصلے کا محل ہے ۔ ہمارا عمل اسی باطل نہج پر جاری رہا۔ المدثر
47 ﴿حَتّیٰٓ اَتٰینَا الْیَقِیْنُ﴾ یہاں تک کہ ہمیں موت نے آلیا ۔ پس جب وہ کفر کی حالت میں مر گئے تو ان کے لیے حیلے دشوار ہوگئے اور ان کے سامنے امید کا دروازہ بند ہوگیا۔ المدثر
48 ﴿فَمَا تَنْفَعُہُمْ شَفَاعَۃُ الشّٰفِعِیْنَ﴾ ” پس سفارش کرنے والوں کی سفارش انہیں کچھ فائدہ نہیں دے گی۔“ کیونکہ وہ صرف اسی کی سفارش کریں گے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ راضی ہوگا اور یہ ایسے لوگ ہیں جن کے اعمال سے اللہ تعالیٰ راضی نہیں ۔ جب اللہ تعالیٰ نے مخالفین کا انجام واضح کردیا اور یہ بھی بیان کردیا کہ ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا تو موجودہ کفار پر عتاب اور ملاملت کی طرف توجہ دی۔ المدثر
49 چنانچہ فرمایا: ﴿فَمَا لَہُمْ عَنِ التَّذْکِرَۃِ مُعْرِضِیْنَ﴾ ” پس انہیں کیا ہوا ہے کہ وہ نصیحت سے روگرداں ہیں۔“ یعنی نصیحت سے غافل اور اس سے منہ موڑے ہوئے ہیں۔ المدثر
50 ﴿کَاَنَّہُمْ﴾ ” گویا کہ وہ“ اس نصیحت سے اپنی سخت نفرت میں ﴿حُمُرٌ مُّسْتَنْفِرَۃٌ﴾ بدکے ہوئے جنگلی گدھے ہیں جو ایک دوسرے سے بدک گئے ہیں اور اس بنا پر ان کی دوڑ میں تیزی آگئی ہے۔ المدثر
51 ﴿فَرَّتْ مِنْ قَسْوَرَۃٍ﴾ جو کسی شکاری یاکسی تیر انداز سے، جو ان کو نشانے میں لینے کا ارادہ رکھتا ہو یاکسی شیر وغیرہ سے، ڈر کر بھاگے ہیں۔ المدثر
52 اور یہ حق سے سب سے بڑی نفرت ہے، اس نفرت اور عراض کے باوجود وہ بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں ۔ پس ﴿بَلْ یُرِیْدُ کُلُّ امْرِۍ مِّنْہُمْ اَنْ یُّؤْتٰی صُحُفًا مُّنَشَّرَۃً﴾ ” ان میں سے ہر شخص یہ چاہتا ہے کہ اس کے پاس کھلی کتاب آئے۔“ یعنی اس پر آسمان سے نازل ہو، وہ سمجھتا ہے کہ وہ اس صورت میں حق کو تسلیم کرلے گا ، حالانکہ انہوں نے جھوٹ بولا ہے ، ان کے پاس اگر ہر قسم کی نشانی بھی آجائے ، تب بھی وہ اس وقت تک ایمان نہیں لائیں گے جب تک وہ دردناک عذاب نہ دیکھ لیں کیونکہ ان کے پاس واضح دلائل آئے جنہوں نے حق کو بیان کرکے واضع کردیا اگر ان میں کوئی بھلائی ہوتی تو وہ ضرور ایمان لے آتے۔ المدثر
53 اس لیے فرمایا:﴿کَلَّا ﴾ ” ہرگز نہیں “ ہم انہیں وہ چیزعطا نہیں کریں گے جس کا انہوں نے مطالبہ کیا ہے، اس مطالبے سے ان کا مقصد عاجز کرنے کے سوا اور کوئی نہیں۔ ﴿بَلْ لَّا یَخَافُوْنَ الْاٰخِرَۃَ﴾ ” حقیقت یہ ہے کہ وہ آخرت سے نہیں ڈرتے۔ “ پس اگر انہیں آخرت کا خوف ہوتا تو ان سے یہ سب کچھ صادر نہ ہوتا جو صادر ہوا ہے۔ المدثر
54 ﴿کَلَّآ اِنَّہٗ تَذْکِرَۃٌ﴾ ” کچھ شک نہیں کہ یہ نصیحت ہے۔“ ضمیر یا تو اس سورہ مبارکہ کی طرف لوٹتی ہے یا اس نصیحت کی طرف لوٹتی ہے جس پر یہ سورہ مبارکہ مشتمل ہے۔ المدثر
55 ﴿فَمَنْ شَاءَ ذَکَرَہٗ﴾ ” پس جو چاہے اسے یاد رکھے۔ “ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کے سامنے سیدھے راستے کو کھول کر بیان کردیا اور اس کے سامنے دلیل واضح کردی۔ المدثر
56 ﴿وَمَا یَذْکُرُوْنَ اِلَّآ اَنْ یَّشَاءَ اللّٰہُ ﴾ ” اور یاد بھی تب رکھیں گے جب اللہ چاہے گا“ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی مشیت سب پر نافذ ہے ، کوئی قلیل یا کثیر حادث اس کی مشیت سے باہر نہیں۔ اس آیت میں قدریہ کا رد ہے جو بندوں کے افعال کو اللہ تعالیٰ کی مشیت کے تحت داخل نہیں کرتے ، نیز اس میں جبریہ کا بھی رد ہے جن کا زعم ہے کہ بندے کی کوئی مشیت ہے نہ حقیقت میں اس کا کوئی فعل ہے وہ تو اپنے افعال پر مجبور محض ہے ۔ پس اللہ تعالیٰ نے بندوں کے لیے مشیت اور فعل کا اثبات کیا ہے اور یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی مشیت کے تابع ہے۔ ﴿ہُوَ اَہْلُ التَّقْوٰی وَاَہْلُ الْمَغْفِرَۃِ﴾ یعنی وہ اس کا اہل ہے کہ اس سے تقوٰ ی اختیار کیا جائے اور اس کی عبادت کی جائے کیونکہ وہی معبود ہے، عبادت صرف اسی کے لائق ہے وہ اس کا بھی اہل ہے کہ جو کوئی اس سے ڈرے اور اس کی رضا کی اتباع کرے ، وہ اس کو بخش دے۔ المدثر
0 القيامة
1 ﴿لَآ اُقْسِمُ بِیَوْمِ الْقِیٰمَۃِ﴾ ” میں قسم کھاتا ہوں قیامت کے دن کی۔“ (لآ) یہاں نافیہ ہے نہ زائدہ، اسے صرف استفتاح اور مابعد کلام کے اہتمام کے لیے لایا گیا ہے، قسم کے ساتھ کثرت سے اس کولانے کی بنا پر استفتاح کے لیے اس کا استعمال نادر نہیں ہے، اگرچہ اس کو استفتاح کلام کے لیے وضع نہیں کیا گیا۔ اس مقام پر جس چیز کی قسم کھائی گئی ہے ، وہی ہے جس پر قسم کھائی گئی ہے اور وہ ہے مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیا جانا۔ لوگوں کو ان کی قبروں سے زندہ کرکے اٹھایا جائے گا ، پھر (اللہ تعالیٰ کے حضور ) ان کو کھڑا کیا جائے گا اور وہ اپنے بارے میں اللہ تعالیٰ کے فیصلے کا انتظار کریں گے۔ القيامة
2 ﴿وَلَآ اُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَۃِ﴾ ” اور نفس لوامہ کی قسم! “ اس سے مراد تمام نیک اور بد نفوس ہیں۔ نفس کو اس کے کثرت تردد، اسے ملامت کرنے اور اپنے احوال میں سے کسی حال پر بھی اس کے عدم ثبات کی بنا پر (لَوَّامَۃِ) سے موسوم کیا گیا ہے نیز اس بنا پر اس ک(لَوَّامَۃِ) کہا گیا ہے کہ یہ موت کے وقت انسان کو اس کے افعال پر ملامت کرے گا مگر مومن کا نفس اسے دنیا ہی میں اس کو تاہی، تقصیر اور غفلت پر ملامت کرتا ہے جو حقوق میں سے کسی حق کے بارے میں اس سے ہوتی ہے۔ القيامة
3 پس اللہ تعالیٰ نے جزا کی قسم، جزا پر قسم اور مستحق جزا کو جمع کردیا، پھر اس کے ساتھ ساتھ آگاہ فرمایا کہ بعض معاندین قیامت کے دن کو جھٹلاتے ہیں۔ چنانچہ فرمایا : ﴿اَیَحْسَبُ الْاِنْسَانُ اَلَّنْ نَّجْمَعَ عِظَامَہٗ﴾ ” کیا انسان یہ خیال کرتا ہے کہ ہم اس کی ہڈیاں اکٹھی نہیں کریں گے؟“ یعنی مرنے کے بعد جیسا کہ دوسرے مقام پر فرمایا : ﴿قَالَ مَن يُحْيِي الْعِظَامَ وَهِيَ رَمِيمٌ﴾( یٰس:36؍78) ” کہنے لگا : جب ہڈیاں بوسیدہ ہوجائیں گی تو ان کو کون زندگی عطا کرے گا؟ “ پس اپنی جہالت اور عدوان کی بنا پر اس نے اللہ تعالیٰ کے ہڈیوں کی تخلیق پر، جو کہ بدن کا سہارا ہیں ، قادر ہونے کو بہت بعید سمجھا۔ پس اللہ تعالیٰ نے اپنے اس ارشاد کے ذریعے سے اس کا رد کیا : ﴿بَلَىٰ قَادِرِينَ عَلَىٰ أَن نُّسَوِّيَ بَنَانَهُ﴾۔ ”کیوں نہیں ! ہم اس بات پر قادر ہیں کہ اس کی پور پور درست کریں ۔ “ مراد ہے اس کی انگلیوں کی اطراف اور اس کی ہڈیاں اور یہ بدن کے تمام اجزا کی تخلیق کو مستلزم ہے، کیونکہ جب انگلیوں کے اطراف اور پورو جود میں آگئے تو مکمل جسد کی تخلیق ہوگئی۔ اس کا اللہ تعالیٰ کی قدرت کا انکار کرنا کسی دلیل پر منحصر نہیں جو اس پر دلالت کرتی ہو، یہ بات تو اس سے صرف اس بنا پر صادر ہوئی ہے کہ اس کا ارادہ اور قصد قیامت کے دن کو جھٹلانا ہے جو اس کے سامنے ہے ۔ یہاں (فُجُورٌ) کا معنی جان بوجھ کر جھوٹ بولنا ہے پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے قیامت کے احوال کا ذکر کیا۔ القيامة
4 القيامة
5 القيامة
6 القيامة
7 یعنی جب قیامت برپا ہوگی تو عظیم دہشت کی بنا پر نگاہیں اوپر اٹھی ہوئی ہوں گی اور جھپکیں گی نہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ إِنَّمَا يُؤَخِّرُهُمْ لِيَوْمٍ تَشْخَصُ فِيهِ الْأَبْصَارُ مُهْطِعِينَ مُقْنِعِي رُءُوسِهِمْ لَا يَرْتَدُّ إِلَيْهِمْ طَرْفُهُمْ وَأَفْئِدَتُهُمْ هَوَاءٌ﴾( ابراہیم :14؍43،42) ” ان کو تو صرف اس دن تک مہلت دیتا ہے جس دن ( دہشت کے مارے ) آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں گی اور لوگ منہ اٹھائے دوڑ رہے ہوں گے ، ان کی نگاہیں ان کی طرف نہ لوٹ سکیں گی اور (خوف کی وجہ سے) ان کے دل ہوا ہورہے ہوں گے۔“ القيامة
8 ﴿وَخَسَفَ الْقَمَرُ﴾ چاند کی روشنی اور اس کی طاقت زائل ہوجائے گی۔ القيامة
9 ﴿وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ﴾ ” اور سورج اور چاند جمع کردیے جائیں گے۔ “ جب سے اللہ تعالیٰ نے ان کو پیدا کیا ہے ، وہ کبھی اکٹھے نہیں ہوئے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ان کو جمع کرے گا، چاند گہنا جائے گا اور سورج کو بے نور کردیا جائے گا اور ان دونوں کو آگ میں پھینک دیا جائے گا تاکہ بندے دیکھ لیں کہ چاند اور سورج بھی اللہ تعالیٰ کے مسخر ہیں تاکہ جو لوگ ان کی عبادت کرتے تھے وہ دیکھ لیں کہ وہ جھوٹے تھے۔ القيامة
10 ﴿یَقُوْلُ الْاِنْسَانُ یَوْمَیِٕذٍ﴾ ” اس دن انسان کہے گا:“ یعنی جب وہ بے قرار کردینے والے زلزلے دیکھے گا تو پکار اٹھے گا : ﴿اَیْنَ الْمَفَرُّ﴾ ”آج بھاگنے کی جگہ کہاں ہے؟ “ جو مصیبت ہم پر نازل ہوئی ہے ، اس سے گلو خلاصی اور نجات کہاں ہے؟ ﴿كَلَّا لَا وَزَرَ ﴾ ” ہر گز نہیں “ ( وہاں ) کوئی پناہ گاہ نہیں۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے ٹھکانے کے سوا کسی کے لیے کوئی ٹھکانہ نہ ہوگا۔ القيامة
11 القيامة
12 ﴿اِلٰی رَبِّکَ یَوْمَیِٕذِ الْمُسْتَــقَرُّ﴾ اس روز تمام بندوں کا تیرے رب کے پاس ٹھکانہ ہوگا ، کسی کے لیے ممکن نہ ہوگا کہ وہ چھپ سکیں یا اس جگہ سے بھاگ سکے۔ اسے وہاں ضرور ٹھہرایاجائے گا تاکہ اسے اس کے عمل کی جزا وسزا دی جائے، اس لیے فرمایا : ﴿یُنَبَّؤُا الْاِنْسَانُ یَوْمَیِٕذٍ بِمَا قَدَّمَ وَاَخَّرَ﴾ ” اس دن انسان کو بتا دیا جائے گا کہ جو اس نے آگے بھیجا اور پیچھے چھوڑا“ انسان کو اس کے اول وقت اور آخر وقت کے تمام اچھے برے اعمال کے بارے میں اس کو آگاہ کردیا جائے گا اور اس کو ایسی خبر سے آگاہ کیا جائے گا جس کا وہ انکار نہیں کرسکے گا۔ القيامة
13 القيامة
14 ﴿بَلِ الْاِنْسَانُ عَلٰی نَفْسِہٖ بَصِیْرَۃٌ﴾ ” بلکہ انسان آپ اپنا گواہ ہے۔“ یعنی گواہ اور محاسب ہے۔ القيامة
15 ﴿وَّلَوْ اَلْقٰی مَعَاذِیْرَہٗ ﴾” خواہ معذرت پیش کرے۔“ کیونکہ یہ ایسی معذرتیں ہوں گی جو قبول نہ ہوں گی بلکہ وہ اپنے عمل کا اقرار کرے گا اور اس سے اقرار کرایا جائے گا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿اقْرَأْ كِتَابَكَ كَفَىٰ بِنَفْسِكَ الْيَوْمَ عَلَيْكَ حَسِيبًا ﴾(بنی اسرائیل:17؍14)” اپنا اعمال نامہ پڑھ ، آج تو خود ہی اپنا محاسب کافی ہے ۔“ بندہ خواہ اپنے عمل کا انکار یا اپنے عمل پر معذرت پیش کرے، اس کا انکار اور اعتذار اسے کوئی فائدہ نہ دیں گے ، کیونکہ اس کے کان، اس کی آنکھیں اور اس کے تمام جوارح جن کے ذریعے سے وہ عمل کرتا ہے اس کے خلاف گواہی دیں گے ، نیز رضامندی طلب کرنے کا وقت چلا گیا اور اس کا فائدہ ختم ہوگیا۔ ﴿ فَيَوْمَئِذٍ لَّا يَنفَعُ الَّذِينَ ظَلَمُوا مَعْذِرَتُهُمْ وَلَا هُمْ يُسْتَعْتَبُونَ﴾( الروم:30؍57)” اس روز ظالموں کو، ان کی معذرت کوئی فائدہ دے گی نہ ان سے توبہ ہی طلب کی جائے گی۔“ القيامة
16 جب حضرت جبرائیل علیہ السلام وحی لے کر آتے اور تلاوت شروع کرتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (حصول قرآن کی شدید) حرص کی بنا پر ،حضرت جبرائیل علیہ السلام کے فارغ ہونے سے پہلے ہی ، جلدی سے جبرائیل علیہ السلام کی تلاوت کے ساتھ ساتھ تلاوت کرنا شروع کردیتے ، پس اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس سے روک دیا اور فرمایا : ﴿وَلَا تَعْجَلْ بِالْقُرْآنِ مِن قَبْلِ أَن يُقْضَىٰ إِلَيْكَ وَحْيُهُ﴾(طه:20؍114)” اور قرآن جو آپ کی طرف وحی کیا جاتا ہے اس کے پورا ہونے سے پہلے، قرآن پڑھنے میں جلدی نہ کیا کریں۔“ یہاں فرمایا : ﴿لَا تُحَرِّکْ بِہٖ لِسَانَکَ لِتَعْجَلَ بِہٖ﴾ ” وحی کے پڑھنے کے لیے اپنی زبان جلدی نہ چلایا کریں کہ اسے جلد یاد کرلو۔“ پھر اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ کو ضمانت دی کہ آپ ضرور اس کو حفظ کرلیں گے اور اس کو پڑھ سکیں گے ، اللہ تعالیٰ اس کو آپ کے سینے میں جمع کردے گا۔ القيامة
17 چنانچہ فرمایا : ﴿اِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہٗ وَقُرْاٰنَہ ٗ﴾ ” اس کا جمع کرنا اور (آپ کی زبان سے ) پڑھوا دینا ہمارے ذمے ہے ۔“ یعنی آپ کے دل میں حصول قرآن کی جو خواہش ہے ، اس کا داعی، قرآن کے رہ جانے اور اس کے نسیان کا خوف ہے تو اللہ تعالیٰ نے اس کے حفظ کی ضمانت عطا کردی، اس لیے اب ساتھ ساتھ پڑھنے کا کوئی موجب نہیں۔ القيامة
18 ﴿ فَاِذَا قَرَاْنٰہُ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَہٗ﴾ یعنی جبرائیل علیہ السلام قرآن کی قراء ت مکمل کرلیں ، جو آپ کی طرف وحی کیا جاتا ہے، تب اس وقت جبرائیل علیہ السلام نے جو کچھ پڑھا ہوتا ہے اس کی اتباع کیجئے اور قرآن کو پڑھیے۔ القيامة
19 ﴿ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَہٗ﴾ یعنی اس کے معانی کا بیان بھی ہمارے ذمے ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے قرآن کے الفاظ اور معانی ، دونوں کی حفاظت کا وعدہ فرمایا اور یہ حفاظت کا بلند ترین درجہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کے ادب کے لیے اس پر عمل کیا، لہٰذا اس کے بعد جب جبرائیل علیہ السلام آپ کے سامنے قرآن کی تلاوت کرتے تو آپ خاموش رہتے اور جب جبرائیل علیہ السلام قراءت سے فارغ ہوجاتے تو پھر آپ پڑھتے۔ اس آیت کریمہ میں علم حاصل کرنے کے لیے ادب سکھایا گیا ہے کہ معلم نے جس مسئلہ کو شروع کیا ہو، اس سے معلم کے فارغ ہونے سے پہلے طالب علم کو جلدی نہیں کرنی چاہیے ۔ جب وہ اس مسئلہ سے فارغ ہوجائے تو پھر طالب علم کو جو اشکال ہو اس کے بارے میں معلم سے سوال کرے ۔اسی طرح جب کلام کی ابتدا میں کوئی ایسی چیز ہو جس کو رد کرنا واجب ہو یا کوئی ایسی چیز جو مستحسن ہو تو اس کلام سے فارغ ہونے سے قبل اس کو رد یا قبول کرنے میں جلدی نہ کرے تاکہ اس میں جو حق یا باطل ہے وہ اچھی طرح واضح ہوجائے اور اسے اچھی طرح سمجھ لے تاکہ اس میں صواب کے پہلو سے کلام کرسکے۔ ان آیات کریمہ سے یہ بھی مستفاد ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کے سامنے جس طرح قرآن کے الفاظ کو بیان فرمایا ہے، اسی طرح آپ نے اس کے معانی کو بھی ان کے سامنے بیان فرمایا۔ القيامة
20 وہ چیز جو تمہاری غفلت اور اللہ تعالیٰ کے وعظ وتذکیر سے روگردانی کی موجب ہے ، یہ ہے کہ تم ﴿تُحِبُّوْنَ الْعَاجِلَۃَ﴾ ” دنیا کو پسند کرتے ہو“ اور تم اس کو حاصل کرنے اور اس کی لذت وشہوات میں کوشاں رہتے ہو، تم آخرت پر اس کو ترجیح دیتے اور آخرت کے لیے عمل کرنا چھوڑ دیتے ہو کیونکہ دنیا کی نعمتیں اور لذتیں جلد مل جاتی اور انسان جلد مل جانے والی چیز کا گرویدہ ہوتا ہے۔ آخرت کے اندر ہمیشہ رہنے والی جو نعمتیں ہیں، ان میں تاخیر ہے ، اس لیے تم ان سے غافل ہو اور ان کو چھوڑ بیٹھے ہو، گویا کہ تم ان نعمتوں کے لیے پیدا ہی نہیں کیے گئے یہ دنیا کا گھر ہی تمہارا دائمی ٹھکانہ ہے ، جس میں قیمتی عمریں گزاری جا رہی ہیں ،اس دنیا کے لیے رات دن بھاگ دوڑ ہورہی ہے اور اس سے تمہارے سامنے حقیقت بدل گئی اور بہت زیادہ خسارہ حاصل ہوا۔ اگر تم نے دنیا پر آخرت کو ترجیح دی ہوتی اور تم نے ایک صاحب بصیرت اور عقل مند شخص کی طرح انجام پر غور کیا ہوتا تو تم کامیاب ہوتے، ایسا نفع حاصل کرتے جس کے ساتھ خسارہ نہ ہوتا اور تمہیں ایسی فوزوفلاح حاصل ہوتی جس کی مصاحبت میں بدبختی نہیں ہوتی۔ القيامة
21 القيامة
22 پھر اللہ تعالیٰ نے اہل آخرت کے احوال اور ان میں تفاوت کو بیان کرتے ہوئے ان امور کا ذکر کیا ہے جو آخرت کی ترجیح کی طرف دعوت دیتے ہیں ، چنانچہ دنیا پر آخرت کو ترجیح دینے والوں کے بارے میں فرمایا :﴿وُجُوْہٌ یَّوْمَیِٕذٍ نَّاضِرَۃٌ﴾ اس دن کئی چہرے حسین اور خوبصورت ہوں گے، ان کے دلوں کی نعمت، نفوس کی مسرت اور ارواح کی لذت کے باعث ان کے چہروں پر رونق اور نور ہوگا۔ القيامة
23 ﴿اِلٰی رَبِّہَا نَاظِرَۃٌ﴾ ” اپنے رب کی طرف دیکھ رہے ہوں گے۔“ یعنی وہ اپنے اپنے مراتب کے مطابق اپنے رب کا دیدار کریں گے ۔ کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو ہر روز صبح وشام اپنے رب کا دیدار کریں گے اور کچھ لوگ ہر جمعہ ایک مرتبہ دیدار کر پائیں گے ، وہ اللہ تعالیٰ کے کریم چہرے اور اس کے بے پناہ جمال سے، جس کی کوئی مثال نہیں، متمتع ہوں گے ۔ جب وہ اپنے رب کا دیدار کریں گے تو وہ ان تمام نعمتوں کو بھول جائیں گے جو انہیں حاصل ہوں گی ، انہیں اس دیدار سے ایسی لذت اور مسرت حاصل ہوگی جس کی تعبیر ممکن نہیں، ان کے چہرے بارونق ہوں گے اور ان کی خوبصورتی اور جمال میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ ہم اللہ کریم سے سوال کرتے ہیں کہ وہ ہمیں ان لوگوں کی معیت سے سرفراز کرے۔ القيامة
24 پھر اللہ تعالیٰ نے آخرت پر دنیا کو ترجیح دینے والوں کے بارے میں فرمایا : ﴿وَوُجُوْہٌ یَّوْمَیِٕذٍ بَاسِرَۃٌ﴾ ”اس دن کئی چہرے اداس ہوں گے۔ “ یعنی ترش رو، گرد سے اٹے ہوئے، سہمے ہوئے اور ذلیل ہوں گے۔ القيامة
25 ﴿تَظُنُّ اَنْ یُّفْعَلَ بِہَا فَاقِرَۃٌ﴾ ” خیال کریں گے کہ ان پر مصیبت واقع ہونے کو ہے“ یعنی سخت عقوبت اور درد ناک عذاب، اسی وجہ سے ان کے چہرے متغیر اور چیں بہ جبیں ہوں گے۔ القيامة
26 اللہ تبارک وتعالیٰ قریب المرگ شخص کا حال بیان کرکے اپنے بندوں کو نصیحت کرتا ہے ، جب کہ اس کی روح ہنسلی کی ہڈی ( حلق) تک پہنچ جائے گی۔ (اَلتَّرَاِقی) سے مراد وہ ہڈیاں ہیں جنہوں نے سینے کے گڑھے کا احاطہ کر رکھا ہے ، پس اس وقت نہایت شدید درد ہوگا اور انسان ہر وہ سبب اور وسیلہ تلاش کرے گا جس کے بارے میں وہ سمجھتا ہوگا کہ اس سے شفا اور راحت حاصل ہوگی۔ اس لیے فرمایا : ﴿ وَقِيلَ مَنْ رَاقٍ ﴾ یعنی کہا جائے گا کہ کون ہے جو اس پر جھاڑ پھونک کرےَ ؟ کیونکہ اسباب عادیہ پر ان کی امیدیں منقطع ہو کر اسباب الٰہیہ پر لگ گئی ہیں مگر جب قضا وقدر کا فیصلہ آجاتا ہے تو اس کو کوئی نہیں روک سکتا۔ القيامة
27 القيامة
28 ﴿وَّظَنَّ اَنَّہُ الْفِرَاقُ﴾ اور اسے یقین ہوجاتا ہے کہ اب دنیا سے جدائی ہے۔ القيامة
29 ﴿وَالْتَفَّتِ السَّاقُ بِالسَّاقِ﴾ ” اور پنڈلی پنڈلی سے لپٹ جائے گی۔“ یعنی تمام سختیاں جمع ہو کر لپٹ جائیں گی، معاملہ بہت بڑا اور کرب بہت سخت ہوجائے گا، خواہش ہوگی کہ بدن سے روح نکل جائے جو اس سے لپٹی ہوئی ہے اور اس کے ساتھ ہے ۔ پس روح کو اللہ تعالیٰ کے پاس لے جایا جائے گا تاکہ وہ اس کو اس کے اعمال کی جزا دے اور اس کے کرتوتوں کا اقرار کرائے ۔ یہ زجر وتوبیخ جس کا اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے، دلوں کو اس منزل کی طرف سے لے کر چلتی ہے جس میں ان کی نجات ہے اور ان امور سے روکتی ہے جن میں ان کی ہلاکت ہے مگر وہ معاند حق جسے آیات کوئی فائدہ نہیں دیتیں، وہ اپنی گمراہی، کفر اور عناد پر جمارہتا ہے۔ القيامة
30 القيامة
31 ﴿فَلَا صَدَّقَ﴾ ” پس نہ اس نے تصدیق کی۔“ یعنی اللہ تعالیٰ ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں، یوم آخرت اور اچھی بری تقدیر پر ایمان نہ لایا ﴿ وَلَا صَلّٰی وَلَكِنْ كَذَّبَ ﴾ اور نہ اس نے نماز ہی پڑھی بلکہ اس نے حق کی تصدیق کرنے کے بجائے تکذیب کی﴿ وَتَوَلَّى﴾ اور امر ونہی سے روگردانی کی ،یہی وہ شخص ہے جس کا دل مطمئن اور اپنے رب سے بے خوف ہے بلکہ وہ چلا جاتا ہے۔ القيامة
32 القيامة
33 ﴿اِلٰٓی اَہْلِہٖ یَتَمَطّٰی﴾ ” اپنے گھروالوں کی طرف اکڑتا ہوا “ یعنی اس کو کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس کو وعید سنائی ، فرمایا : ﴿أَوْلَىٰ لَكَ فَأَوْلَىٰ ثُمَّ أَوْلَىٰ لَكَ فَأَوْلَىٰ﴾ ” افسوس ہے تجھ پر، پھر افسوس ہے، پھر افسوس ہے تجھ پر، پھر افسوس ہے۔“ یہ وعید کے کلمات ہیں اور تکرار وعید کے لیے ان کو مکرر کہا ہے۔ القيامة
34 القيامة
35 القيامة
36 پھر اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس کی ابتدائی تخلیق کی یاد دلائی، چنانچہ فرمایا : ﴿اَیَحْسَبُ الْاِنْسَانُ اَنْ یُّتْرَکَ سُدًی﴾ یعنی کیا انسان یہ سمجھتا ہے کہ اسے مہمل چھوڑ دیا جائے گا، اسے نیکی کا حکم دیا جائے گا نہ برائی سے روکا جائے گا، اسے ثواب عطا کیا جائے گا نہ عقاب میں مبتلا کیا جائے گا؟ یہ باطل گمان اور اللہ تعالیٰ کے بارے میں سوئے ظن ہے جو اس کی حکمت کے لا ئق نہیں۔ القيامة
37 ﴿اَلَمْ یَکُ نُطْفَۃً مِّنْ مَّنِیٍّ یُّمْـنٰی۔ ثُمَّ کَانَ﴾ ” کیا وہ منی کا قطرہ نہ تھا جو رحم میں ڈالا جاتا ہے، پھر ہوگیا ؟“ یعنی منی کے بعد ﴿ عَلَقَةً﴾ خون کا لوتھڑا ﴿ فَخَلَقَ﴾ پھر اللہ نے اس سے جان دار پیدا کیا اور اسے درست کیا ، یعنی اس کو مہارت سے محکم کرکے بنایا۔ القيامة
38 القيامة
39 ﴿فَجَــعَلَ مِنْہُ الزَّوْجَیْنِ الذَّکَرَ وَالْاُنْثٰی اَلَیْسَ ذٰلِکَ ﴾ ” پھر اس سے نر اور مادہ جوڑے بنائے کیا نہیں وہ ۔“ یعنی وہ جس نے انسان کو پیدا کیا اور اس کو ان مختلف مراحل سے گزارا۔ القيامة
40 ﴿ بِقٰدِرٍ عَلٰٓی اَنْ یُّـحْیِۦ الْمَوْتٰی﴾ ” اس پر قادر کہ وہ مردوں کو زندہ کردے؟ “ کیوں نہیں ! وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ القيامة
0 الإنسان
1 اس سورہ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے انسان کے ابتدائی ، اس کے انتہائی اور اس کے متوسط احوال بیان فرمائے ہیں ، چنانچہ فرمایا کہ اس پر ایک طویل زمانہ گزرا ہے اور ویہ وہ زمانہ ہے جو اس کے وجود میں آنے سے پہلے تھا اور وہ ابھی پردہ عدم میں تھا بلکہ وہ کوئی قابل ذکر چیز نہ تھا ،پھر جب اللہ تعالیٰ نے اس کو پیدا کرنے کا ارادہ فرمایا تو اس کے باپ آدم علیہ السلام کو مٹی سے پیدا کیا ، پھر اس کی نسل کو مسلسل بنایا ﴿ مِن نُّطْفَةٍ أَمْشَاجٍ ﴾ ” نطفہ مخلوط سے“ یعنی حقیر اور گندے پانی سے بنایا ﴿ نَّبْتَلِيهِ ﴾ ہم اس کے ذریعے اس کو آزماتے ہیں تاک ہم جان لیں کہ آیا وہ اپنی پہلی حالت کو چشم بصیرت سے دیکھ اور اس کو سمجھ سکتا ہے یا اس کو بھول جاتا ہے ۔ اور اس کو اس کے نفس نے فریب میں مبتلا کر رکھا ہے؟ پس اللہ تعالیٰ نے اس کو پیدا کیا ،اس کے ظاہری اور باطنی قوٰی، مثلا : کان، آنکھیں اور دیگر اعضا تخلیق کیے، ان قوٰی کو اس کے لیے مکمل کیا ، ان کو صحیح سالم بنایا تاکہ وہ ان قوی کے ذریعے سے اپنے مقاصد کے حصول پر قادر ہو ، پھر اس کی طرف اپنے رسول بھیجے ،ان پر کتابیں نازل کیں اسے وہ راستہ دکھایا جو اس کے پاس پہنچاتا ہے ، اس راستے کو واضح کیا اور اسے اس راستے کی ترغیب دی اور اسے ان نعمتوں کے بارے میں بتایا جو اسے اس کے پاس پہنچنے پر حاصل ہوں گی ۔ پھر اس راستے سے خبردار کیا جو ہلاکت کی منزل تک پہنچاتا ہے، اسے اس راستے سے ڈرایا ، اسے اس بات سے بھی آگاہ کیا کہ جب وہ اس راستے پر چلے گا تو اسے کیا سزا ملے گی اور وہ کس عذاب میں مبتلا ہوگا۔ اللہ تبارک تعالیٰ نے بندوں کو دو اقسام میں تقسیم کیا ہے: اول: اس نعمت پر شکر ادا کرنے والا بندہ جس سے اللہ تعالیٰ نے اس کو بہرہ مند کیا ہے اور اللہ تعالیٰ کے ان حقوق کو ادا کرنے والا جن کی ذمہ داری کا بوجھ اللہ تعالیٰ نے اس پر ڈالا ہے۔ ثانی: نعمتوں کی ناشکری کرنے والا، اللہ تعالیٰ نے اس کو دینی اور دنیاوی نعمتوں سے بہرہ مند کیا مگر اس نے ان نعمتوں کو ٹھکرادیا اور اپنے رب کے ساتھ کفر کیا اور اس راستے پر چل نکلا جو ہلاکت کی گھاٹیوں میں لے جاتا ہے۔ الإنسان
2 الإنسان
3 الإنسان
4 پھر اللہ تعالیٰ نے جزا کے لحاظ سے دونوں فریقوں کا ذکر کیا تو فرمایا : جس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کیا ،اس کے رسولوں کو جھٹلایا اور اس کی نافرمانی کے ارتکاب کی جسارت کی ہم نے اس کے لیے تیار کی ہیں ﴿سَلٰسِلَا﴾ جہنم کی آگ کی زنجیریں جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :﴿ ثُمَّ فِي سِلْسِلَةٍ ذَرْعُهَا سَبْعُونَ ذِرَاعًا فَاسْلُكُوهُ ﴾(الحاقۃ :69؍32) ” پھر اسے اس زنجیر میں جکڑ دو جس کی پیمائش ستر ہاتھ ہے۔“ ﴿وَاَغْلٰلًا﴾ ” اور طوق“جس کے ذریعے سے ان کے ہاتھوں کو ان کی گردنوں کے ساتھ باندھ کر ان سے جکڑ دیا جائے گا۔ ﴿وَّسَعِیْرًا﴾ یعنی ہم نے ان کے لیے بھڑکتی ہوئی آگ تیار کررکھی ہے جو ان کے جسموں کے ساتھ بھڑکے گی اور ان کے بدنوں کو جلاڈالے گی جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : ﴿ كُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُودُهُم بَدَّلْنَاهُمْ جُلُودًا غَيْرَهَا لِيَذُوقُوا الْعَذَابَ﴾ ( النساء :4؍56) ”جب ان کی کھالیں گل جائیں گی تو ہم ان کو ان کے سوا اور کھالوں سے بدل دیں گے تاکہ وہ عذاب کا مزا چکھتے رہیں۔ “ یہ عذاب ان کے لیے دائمی ہوگا اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ الإنسان
5 رہے ﴿الْاَبْرَارَ﴾ ” نیک لوگ“ یہ وہ لوگ ہیں جن کے دل نیک ہیں کیونکہ ان کے اندر اللہ تعالیٰ کی معرفت، اس کی محبت اور اخلاق جمیلہ ہیں۔ پس اس سبب سے ان کے اعمال بھی نیک ہیں انہوں نے ان کو نیک اعمال میں استعمال کیا ہے۔ ﴿یَشْرَبُوْنَ مِنْ کَاْسٍ﴾ ”ایسے جام سے پئیں گے۔“ یعنی شراب سے انتہائی لذیذ مشروب جس میں کافور ملایا گیا ہوگا تاکہ وہ اس مشروب کو ٹھنڈا کرکے اس کی حدت کو توڑ دے۔ یہ کافور انتہائی لذیذ ہوگا ہر قسم کے تکدر اور ملاوٹ سے پاک ہوگا جو دنیا کے کافور میں موجود ہوتی ہے ۔ ہر وہ آفت جو ان اسما میں ہے جن کا اللہ تعالیٰ نے ذکر کیا ہے کہ وہ جنت میں ہوں گے جبکہ اس قسم کے اسما دنیا میں بھی ہیں تو وہ (آفت )آخرت میں نہیں ہوگی جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿ فِي سِدْرٍ مَّخْضُودٍ وَطَلْحٍ مَّنضُودٍ ﴾( الواقعۃ: 56؍28،29) ” وہ بغیر کانٹوں کی بیریوں اور تہ بہ تہ کیلوں میں ہوں گے۔“ فرمایا: ﴿ وَأَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ ﴾( آل عمران :3؍15)” اور جنت میں ان کے لیے پاک بیویاں ہوں گی۔“ اور فرمایا : ﴿ لَهُمْ دَارُ السَّلَامِ عِندَ رَبِّهِمْ ﴾(الانعام :6؍127)” ان کے لیے ان کے رب کے ہاں سلامتی کا گھر ہے۔“ اور فرمایا : ﴿ وَفِيهَا مَا تَشْتَهِيهِ الْأَنفُسُ وَتَلَذُّ الْأَعْيُنُ ﴾( الزخرف :43؍71) ”اور اس میں وہ سب کچھ ہوگا جو دل چاہیں گے اور جس سے آنکھیں لذت حاصل کریں گی۔“ الإنسان
6 ﴿عَیْنًا یَّشْرَبُ بِہَا عِبَادُ اللّٰہِ﴾ ”وہ ایک چشمہ ہے جس سے اللہ کے بندے پئیں گے “ یعنی وہ لذیذ شراب، جو وہ پئیں گے، انہیں اس کے ختم ہونے کا خوف نہیں ہوگا بلکہ اس کا ایسا مادہ ہوگا جو کبھی منقطع نہ ہوگا ، یہ ہمیشہ جاری رہنے اور بہنے والا چشمہ ہوگا۔ اللہ کے بندے جہاں چاہیں گے جیسے چاہیں گے وہاں سے نہریں نکال لے جائیں گے ،اگر وہ چاہیں گے تو ان کو خوبصورت باغات کی طرف موڑ لیں گے یا بارونق باغیچوں کی طرف لے جائیں گے اگر وہ چاہیں گے تو محلات کی جوانب اور آراستہ گھروں کی طرف بہالے جائیں گے یا وہ خوبصورت جہات میں ہے جس جہت میں بھی چاہیں گے ان نہروں کو لے جائیں گے۔ الإنسان
7 اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس سورت کے آغاز میں ان کے جملہ اعمال کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا :﴿یُوْفُوْنَ بِالنَّذْرِ﴾ یعنی وہ جن نذروں اور معاہدوں کو اپنے آپ پر اللہ کے لیے لازم کرلیتے تھے ،انہیں پورا کرتے تھے۔ جب وہ نذر کو پورا کرتے تھے، جو اصل میں ان پر واجب نہیں الا یہ کہ وہ اسے خود اپنے آپ پر واجب کرلیں، تب فرائض اصلیہ کو تو بدرجہ اولیٰ قائم کرتے اور ان کو بجالاتے ہوں گے﴿ وَیَخَافُوْنَ یَوْمًا کَانَ شَرُّہٗ مُسْـتَطِیْرًا﴾ یعنی اس دن کا خوف رکھتے تھے جس کی برائی نہایت سخت اور پھیل جانے والی ہے ۔ پس انہیں خوف تھا کہ اس دن کی برائی کہیں انہیں نہ پہنچ جائے، اس لیے انہوں نے ہر وہ سبب چھوڑ دیا جو اس کاموجب تھا۔ الإنسان
8 ﴿وَیُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ﴾ یعنی وہ اس حال میں ہوتے ہیں کہ جس میں وہ خود مال اور طعام کو پسند کرتے ہیں مگر انہوں نے اللہ تعالیٰ کی محبت کو اپنے نفس کی محبت پر مقدم رکھا اور لوگوں میں سب سے زیادہ مستحق اور سب سے زیادہ حاجت مند کو کھانا کھلانے کی کوشش کرتے ہیں ﴿مِسْکِیْنًا وَّیَـتِـیْمًا وَّاَسِیْرًا﴾ ” مسکینوں، یتیموں اور قیدیوں کو۔“ ان کے کھانا کھلانے اور خرچ کرنے میں صرف اللہ تعالیٰ کی رضا مقصود ہوتی ہے۔ وہ اپنی زبان حال سے کہتے ہیں: ﴿اِنَّمَا نُـطْعِمُکُمْ لِوَجْہِ اللّٰہِ لَا نُرِیْدُ مِنْکُمْ جَزَاءً وَّلَا شُکُوْرًا﴾” ہم تو تمہیں صرف اللہ کی رضا کے لیے کھلاتے ہیں ،ہم تم سے کسی بدلے کے خواست گار ہیں نہ شکرگزاری کے۔“ یعنی کوئی مالی جزا چاہتے ہیں نہ قولی ثنا۔ الإنسان
9 الإنسان
10 ﴿اِنَّا نَخَافُ مِنْ رَّبِّنَا یَوْمًا عَبُوْسًا﴾ ” ہم اپنے پروردگار سے اس دن کا خوف کرتے ہیں جو اداسی والا ہوگا“ یعنی جو نہایت سخت اور شر والا دن ہوگا﴿ قَمْطَرِیْرًا﴾ اور نہایت تنگ دن ہوگا۔ الإنسان
11 ﴿فَوَقٰیہُمُ اللّٰہُ شَرَّ ذٰلِکَ الْیَوْمِ﴾” پس اللہ ان کو اس دن کے شر سے بچالے گا۔“ پس انہیں وہ عظیم گھبراہٹ غم زدہ نہیں کرے گی اور فرشتے ان کا استقبال کرتے ہوئے کہیں گے:” یہ وہ دن ہے جس کا تمہارے ساتھ وعدہ کیا گیا تھا۔“ ﴿ وَلَقّٰیہُمْ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ ان کو اکرام وتکریم سے سرفراز کرے گا ﴿نَضْرَۃً﴾ یعنی ان کے چہروں کو تازگی عطا کرے گا ﴿ وَّسُرُوْرًا﴾ اور ان کے دلوں کو سرور سے لبریز کرے گا۔ پس اللہ تعالیٰ ان کے لیے ظاہری اور باطنی نعمتوں کو اکٹھا کردے گا۔ الإنسان
12 ﴿وَجَزٰیہُمْ بِمَا صَبَرُوْا﴾ یعنی ان کی جزا اس سبب سے ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر صبر کیا اور استطاعت بھر نیک عمل کیے اور اس سبب سے کہ انہوں نے برائیوں سے اجتناب پر صبر کیا اور ان کو چھوڑ دیا اور اس سبب سے بھی کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی تکلیف دہ قضا وقدر پر صبر کیا اس پر ناراضی کا اظہار نہیں کیا ﴿ جَنَّةً ﴾ ”جنت ہے“ جو ہر نعمت کی جامع اور ہر قسم کے تکدر سے سلامت ہے ﴿وَّحَرِیْرًا﴾ ”اور ریشم ہے“ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿ وَلِبَاسُهُمْ فِيهَا حَرِيرٌ ﴾( الحج:22؍23) ”اور جنت میں ان کا لباس ریشمی ہوگا۔“ شاید اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر ریشم کا ذکر اس لیے کیا کہ یہ ان کا ظاہری لباس ہوگا جو صاحب لباس کے حال پر دلالت کرے گا۔ الإنسان
13 ﴿مُّتَّکِــــِٕیْنَ فِیْہَا عَلَی الْاَرَایِٕکِ ﴾ ”وہ تختوں پر ٹیک لگائے بیٹھے ہوں گے۔ “(اَلاِتکِاَء) سے مراد اطمینان، راحت اور آسودگی کی حالت میں ٹیک لگا کر بیٹھنا اور الْاَرَایِٕکِ)وہ تخت ہیں جن پر سجاوٹ والے کپڑے بچھائے گئے ہوں۔ ﴿لَا یَرَوْنَ فِیْہَا﴾ یعنی وہ اس جنت کے اندر نہیں دیکھیں گے۔ ﴿ شَمْسًا ﴾ دھوپ جس کی تپش ان کو نقصان پہنچائے۔﴿ وَّلَا زَمْہَرِیْرًا﴾ ”اور نہ سخت سردی“ یعنی ان کے تمام اوقات گہرے سائے میں گذریں گے جہاں گرمی ہوگی نہ سردی، جہاں ان کے جسم لذت حاصل کریں گے وہاں ان کے جسموں کو گرمی سے تکلیف ہوگی نہ سردی سے۔ الإنسان
14 ﴿وَدَانِیَۃً عَلَیْہِمْ ظِلٰلُہَا وَذُلِّـلَتْ قُـطُوْفُہَا تَذْلِیْلًا﴾ ”اور ان سے ان کے سائے قریب ہوں گے اور میووں کے گچھے جھکے ہوئے لٹک رہے ہوں گے“ یعنی اس کے پھل، اس کے چاہنے والے کے اتنے قریب کردیے جائیں گے کہ وہ ان کو کھڑے بیٹھے یا لیٹے ہوئے بھی حاصل کرسکے گا۔ الإنسان
15 خدمت گار لڑکے اور خدام، اہل جنت کے پاس گھوم پھر رہے ہوں گے ﴿بِاٰنِیَۃٍ مِّنْ فِضَّۃٍ وَّاَکْوَابٍ کَانَتْ قَوَارِیْرَا، قَوَارِیْرَا مِنْ فِضَّۃٍ﴾ ” چاندی کے برتن اور شیشے کے (شفاف) گلاس لیے ہوئے، شیشے بھی چاندی کے ہوں گے۔“ یعنی ان کا مادہ چاندی ہوگا ان کی صفائی شیشے کی سی ہوگی۔ یہ ایک عجیب ترین چیز ہوگی کہ چاندی جو کہ کثیف ہوتی ہے اپنے جوہر کی صفائی اور اچھے معدن کی بنا پر شیشے کے صاف وشفاف ہونے کی مانند صاف وشفاف ہوگی۔ الإنسان
16 ﴿قَدَّرُوْہَا تَقْدِیْرًا﴾ ” جو ٹھیک اندازے کے مطابق بنائے گئے ہیں۔“ یعنی ان مذکورہ برتنوں (کے حجم) کو ان کی سیرابی کی مقدار کے مطابق بنائیں گے ،اس سے کم ہوں گے نہ زیادہ کیونکہ اگر حجم میں زیادہ ہوں تو ان کی لذت کم ہوجائے گی اگر کم ہوں گے تو ان کی سیرابی کے لیے کافی نہیں ہوں گے۔ اس میں یہ احتمال بھی ہے کہ اس سے مراد یہ ہو کہ اہل جنت ان برتنوں کو ایسی مقدار پر بنائیں گے جو ان کی لذات کے موافق ہوگی، وہ برتن ان کے پاس ایسے حجم اور مقدار پر آئیں گے جس کا اندازہ انہوں نے اپنے دلوں میں کیا ہوگا۔ الإنسان
17 ﴿وَیُسْقَوْنَ فِیْہَا﴾ ” وہاں انہیں پلائی جائے گی۔ “ یعنی جنت میں خالص شراب کے بھرے جام ہوں گے ﴿کَانَ مِزَاجُہَا ﴾ جس میں ملاوٹ ہوگی﴿ زَنْجَبِیْلًا﴾” سونٹھ کی۔“ تاکہ اس کا ذائقہ اور خوشبو دونوں خوش گوار بن جائیں۔ الإنسان
18 ﴿عَیْنًا فِیْہَا ﴾ اس جنت میں ایک چشمہ ہے﴿ تُسَمّٰی سَلْسَبِیْلًا﴾ ”جس کا نام سلسبیل ہے۔“ اس کو یہ نام اس کے آسانی کے ساتھ حاصل ہونے، اس کی لذت اور اس کی خوبصورتی کی وجہ سے دیا گیا ہے۔ الإنسان
19 ﴿وَیَطُوْفُ عَلَیْہِمْ﴾ یعنی اہل جنت کے پاس ان کے کھانے، انکے مشروب اور ان کی خدمت کے لیے گھومتے پھرتے ہوں گے ﴿وِلْدَانٌ مُّخَلَّدُوْنَ﴾ ”لڑکے ہمیشہ ایک ہی حالت میں رہنے والے۔“ ان کو جنت میں بقا کے لیے پیدا کیا گیا ہے، ان کی ہیبت بدلے گی نہ وہ بڑے ہوں گے اور وہ انتہائی خوبصورت ہوں گے ﴿اِذَا رَاَیْتَہُمْ﴾ جب تو ان کو اہل جنت کی خدمت میں منتشر ہوئے دیکھے ﴿ حَسِبْتَہُمْ ﴾ تو تو ان کو خوبصورتی کی وجہ سے سمجھے گا ﴿ لُؤْلُؤًا مَّنْثُوْرًا ﴾کہ وہ بکھرے ہوئے موتی ہیں۔ یہ اہل جنت کی لذت کی تکمیل ہے کہ ان کے خدام ،ہمیشہ رہنے والے لڑکے ہوں گے جن کا نظارہ اہل جنت کو خوش کردے گا ،وہ اپنی تابع داری کی بنا پر امن کے ساتھ ان کی آرام گاہ میں وہ چیزیں لے کر آئیں گے جو وہ منگوائیں گے اور جن کی ان کے نفس خواہش کریں گے۔ الإنسان
20 ﴿وَاِذَا رَاَیْتَ ثَمَّ ﴾ یعنی جب تو جنت میں دیکھے کہ اہل جنت کن کامل نعمتوں میں ہیں﴿ رَاَیْتَ نَعِیْمًا وَّمُلْکًا کَبِیْرًا﴾ ”تو نعمتیں ہی نعمتیں اور بہت بڑی سلطنت دیکھے گا۔“ تو ان میں سے ایک کو اس طرح پائے گا کہ اس کے پاس ایسی آرام گاہیں ہوں گی، سجائے اور مزین کیے ہوئے ایسے بالاخانے ہوں گے جن کا وصف بیان کرنا ممکن نہیں ۔اس کے پاس خوبصورت باغات ہوں گے، ایسے پھل ہوں گے جو اس کی پہنچ میں ہوں گے ،لذیذ میوہ جات ہوں گے ،بہتی ہوئی ندیاں اور خوش کن باغیچے ہوں گے۔ سحرانگیز چہچہانے والے پرندے ہوں گے جو دلوں کو متاثر اور نفوس کو خوش کریں گے ۔ اس کے پاس بیویاں ہوں گی جو انتہائی خوبصورت اور خوب سیرت ہوں گی جو ظاہری اور باطنی جمال کی جامع ہوں گی جو نیک اور حسین ہوں گی ،ان کا حسن قلب کو سرور، لذت اور خوشی سے لبریز کردے گا۔ اس کے اردگرد ہمیشہ رہنے والے خدمت گار لڑکے اور دائمی خدام گھوم رہے ہوں گے جس سے راحت اور اطمینان حاصل ہوگا ،لذت عیش کا اتمام اور مسرت کی تکمیل ہوگی۔ پھر اس کے علاوہ اور اس سے بڑھ کر رب رحیم کی رضا، اس کے خطاب کا سماع، اس کے قرب کی لذت ،اسکی رضا کی خوشی اور دائمی زندگی حاصل ہوگی جن نعمتوں میں وہ رہ رہے ہوں گے وہ ہر وقت اور ہر آن بڑھتی ہی رہیں گی۔ پس پاک ہے اللہ تعالیٰ ، اقتدار اور واضح حق کا مالک جس کے خزانے کبھی ختم ہوتے ہیں نہ اس کی بھلائی کم پڑتی ہے جیسے اس کے اوصاف کی کوئی انتہا نہیں ہے اسی طرح اس کی نیکی اور احسان کی کوئی حد نہیں ہے۔ الإنسان
21 ﴿عٰلِیَہُمْ ثِیَابُ سُـنْدُسٍ خُضْرٌ وَّاِسْتَبْرَقٌ ﴾ یعنی ان کو سبز اور دبیز ریشم کے باریک اطلس کے لباس پہنائے جائیں گے ۔یہ دونوں حریر کی بہترین اقسام ہیں۔ ﴿سندس﴾ موٹے اور دبیرز ریشمی کپڑے کو کہتے ہیں اور ﴿ استبرق ﴾ باریک ریشمی کپڑے کو کہا جاتا ہے۔ ﴿ وَّحُلُّوْٓا اَسَاوِرَ مِنْ فِضَّۃٍ ﴾ مردوں اور عورتوں کو ان کے ہاتھوں میں چاندی کے کنگن پہنائے جائیں گے، یہ وعدہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ کررکھا ہے اور اللہ تعالیٰ کا وعدہ پورا ہو کر رہتا ہے کیونکہ اپنے قول اور اپنی بات میں اس سے بڑھ کر کوئی سچا نہیں ﴿ وَسَقٰیہُمْ رَبُّہُمْ شَرَابًا طَہُوْرًا﴾ ” اور انہیں ان کا رب پاک صاف شراب پلائے گا ۔“جس میں کسی بھی لحاظ سے کوئی کدورت نہ ہوگی اور انکے پیٹ میں جو آلائشیں وغیرہ ہوں گی ان کو پاک صاف کردے گی۔ الإنسان
22 ﴿اِنَّ ہٰذَا ﴾ بلاشبہ یہ اجر جزیل اور عطائے جمیل﴿ کَانَ لَکُمْ جَزَاءً ﴾ان اعمال کی جزا ہے جو تم آگے بھیج چکے ہو ﴿ وَّکَانَ سَعْیُکُمْ مَّشْکُوْرًا ﴾” اور تمہاری کوشش کی قدر کی گئی ہے۔“ یعنی تمہاری تھوڑی سی کوشش کے بدلے اللہ تعالیٰ نے تمہیں اتنی نعمتیں عطا کی ہیں جن کا شمار ممکن نہیں۔ الإنسان
23 اللہ تبارک وتعالیٰ نے جنت کی نعمتوں کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا : ﴿اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا عَلَیْکَ الْقُرْاٰنَ تَنْزِیْلًا﴾”بے شک ہم نے آپ پر قرآن آہستہ آہستہ اتارا ہے“ اور اس کے اندر وعدہ وعید اور ہر چیز کا بیان ہے جس کے بندے محتاج ہیں ۔قرآن کریم کے اندر اللہ تعالیٰ کے اوامر و شرائع کو پوری طرح قائم کرنے، ان کے نفاذ کی کوشش کرنے اور اس پر صبر کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ الإنسان
24 بنابریں فرمایا:یعنی اللہ تعالیٰ کے حکم قدری پر صبر کیجئے اور اس پر ناراضی کا اظہارنہ کیجئے اور اس کے حکم دینی پر صبر کیجئے اور اس پر رواں دواں رہیے اور کوئی چیز آپ کی راہ کھوٹی نہ کرسکے۔ ﴿وَلَا تُطِعْ﴾ معاندین حق کی اطاعت نہ کیجئے جو چاہتے ہیں کہ آپ کو راہ حق سے روک دیں ﴿ اٰثِمًا ﴾ یعنی جو گناہ اور معصیت کا ارتکاب کرنے والا ہے اور نہ (اطاعت کریں)﴿ کَفُوْرًا﴾” کفر کرنے والے کی“ کیونکہ کفار، فجار، اور فساق کی اطاعت حتمی طور پر اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہے کیونکہ یہ لوگ صرف اسی چیز کا حکم دیتے ہیں جسے ان کے نفس پسند کرتے ہیں۔ الإنسان
25 چونکہ صبر اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے قیام اور اس کے ذکر کی کثرت میں مدد کرتا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کا حکم دیا ، چنانچہ فرمایا : ﴿وَاذْکُرِ اسْمَ رَبِّکَ بُکْرَۃً وَّاَصِیْلًا﴾ یعنی صبح وشام اپنے رب کا نام لیتے رہو۔ اس میں فرض نمازیں، اس کے توابع نوافل وغیرہ اور ان اوقات میں ذکر ،تسبیح، تہلیل اور تکبیر وغیرہ داخل ہیں۔ الإنسان
26 ﴿ وَمِنَ الَّیْلِ فَاسْجُدْ لَہٗ﴾ ”اور رات کو سجدے کرو“ یعنی اس کے حضور کثرت سے سجدے کیجئے اور یہ چیز کثرت نماز کو متضمن ہے۔ ﴿وَسَبِّحْہُ لَیْلًا طَوِیْلًا﴾ ”اور طویل رات تک اس کی تسبیح بیان کرتے رہو۔“ اس مطلق کی تقیید اس ارشاد کے ذریعے سے گزشتہ صفحات میں گزر چکی ہے۔ ﴿ يَا أَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ قُمِ اللَّيْلَ إِلَّا قَلِيلًا نِّصْفَهُ أَوِ انقُصْ مِنْهُ قَلِيلًا أَوْ زِدْ عَلَيْهِ ﴾( المزمل :73؍1۔4) ”اے کپڑے میں لپٹنے والے، رات کو تھوڑا سا قیام کیجئے، قیام نصف شب کیجئے یا اس سے بھی کچھ کم، یا اس سے کچھ زیادہ۔“ الإنسان
27 ﴿اِنَّ ہٰٓؤُلَاءِ﴾ اے رسول !آپ کو جھٹلانے والے یہ لوگ ،اس کے بعد کہ ان کے سامنے کھول کھول کر آیات بیان کی گئیں ،ان کو ترغیب دی گئی ،ان کو ڈرایا گیا، اس کے باوجود، اس نے ان کو کچھ فائدہ نہیں دیا بلکہ وہ ہمیشہ ترجیح دیتے رہے ﴿ الْعَاجِلَۃَ ﴾ دنیا ہی کو اوراسی پرمطمئن رہے﴿ وَیَذَرُوْنَ ﴾ یعنی وہ عمل چھوڑ دیتے ہیں اور مہمل بن جاتے ہیں ﴿ وَرَاءَہُمْ ﴾یعنی اپنے آگے﴿ یَوْمًا ثَــقِیْلًا ﴾”بھاری دن“ اس سے مراد قیامت کا دن ہے جس کی مقدار تمہارے حساب کے مطابق پچاس ہزار برس ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ يَقُولُ الْكَافِرُونَ هَـٰذَا يَوْمٌ عَسِرٌ ﴾(القمر :54؍8)”کافر کہیں گے یہ بہت ہی مشکل دن ہے۔“ گویا کہ وہ صرف دنیا اور دنیا کے اندر قیام کرنے کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔ الإنسان
28 پھر اللہ تعالیٰ نے ان پر اور ان کی موت کے بعد دوبارہ زندگی پر، عقلی دلیل سے استدلال کیا ہے اور یہ ابتدائے تخلیق کی دلیل ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿نَحْنُ خَلَقْنٰہُمْ﴾ یعنی ہم ان کو عدم سے وجود میں لائے۔ ﴿وَشَدَدْنَآ اَسْرَہُمْ ﴾ یعنی ہم نے ان کی تخلیق کو اعصاب، رگوں، پٹھوں، ظاہری اور باطنی قوٰی کے ذریعے سے محکم کیا، یہاں تک کہ جسم تکمیل کی منزل پر پہنچ گیا اور ہر اس فعل پر قادر ہوگیا جو وہ چاہتا تھا۔ پس وہ ہستی جو انہیں اس حالت پر وجود میں لائی ہے، وہ ان کے مرنے کے بعد ان کو جزا وسزا دینے کے لیے انہیں دوبارہ زندہ کرنے پر قادر ہے اور وہ ہستی جس نے اس دنیا میں ان کو ان مراحل میں سے گزرا ہے ،اس کی شان کے لائق نہیں کہ وہ ان کو بے کار چھوڑ دے، ان کو حکم دیا جائے نہ ان کو روکا جائے، ان کو ثواب عطا کیا جائے نہ عذاب دیا جائے۔ بنا بریں فرمایا : ﴿بَدَّلْنَآ اَمْثَالَہُمْ تَبْدِیْلًا﴾ ” ان کے بدلے انہی کی طرح اور لوگ لے آئیں“ یعنی ہم نے انہیں روز قیامت دوبارہ اٹھنے کے لیے تخلیق کیا ہے، ہم نے ان کے اعیان، ان کے نفوس اور ان کی امثال کا اعادہ کیا۔ الإنسان
29 ﴿اِنَّ ہٰذِہٖ تَذْکِرَۃٌ ﴾ ”یہ ایک نصیحت ہے“ یعنی اس سے مومن نصیحت حاصل کرتا ہے ، اس کے اندر جو تخویف وترغیب ہے ،اس سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ ﴿فَمَنْ شَاءَ اتَّخَذَ اِلٰی رَبِّہٖ سَبِیْلًا﴾ ” پس جو چاہے اپنے رب کی طرف راستہ اختیار کرلے“ یعنی وہ راستہ جو اس کے رب تک پہنچاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حق اور ہدایت کو پوری طرح واضح کردیا اور لوگوں پر حجت قائم کرنے کے لیے ان کو اختیار دے دیا کہ وہ چاہیں تو ہدایت کے راستے پر گامزن ہوں اور اگر چاہیں تو اس سے دور بھاگیں۔ الإنسان
30 ﴿وَمَا تَشَاءُوْنَ اِلَّآ اَنْ یَّشَاءَ اللّٰہُ ﴾ ”اور تم کچھ بھی نہیں چاہ سکتے مگر جو اللہ کو منظور ہو۔ “ بے شک اللہ کی مشیت نافذ ہے۔ ﴿ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیْمًا حَکِیْمًا﴾ ”بے شک اللہ جاننے والا حکمت والا ہے۔ “ ہدایت یاب کی ہدایت اور گمراہ کی گمراہی میں اللہ تعالیٰ کی حکمت پوشیدہ ہے۔ الإنسان
31 ﴿ یُّدْخِلُ مَنْ یَّشَاءُ فِیْ رَحْمَتِہٖ ﴾ ” وہ جس کو چاہتا ہے اپنی رحمت میں داخل کردیتا ہے۔“ پس اسے اپنی عنایت سے مختص کرتا ہے ، اسے سعادت کے اسباب کی توفیق سے نوازتا ہے اور سعادت کے راستوں کی طرف اس کی راہ نمائی کرتا ہے۔ ﴿وَالظّٰلِمِیْنَ﴾ جنہوں نے ہدایت کی بجائے شقاوت کو منتخب کیا ﴿اَعَدَّ لَہُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا﴾ تو ان کے ظلم اور عدوان کی پاداش میں ،ہم نے ان کے لیے دردناک عذاب تیار کررکھا ہے۔ الإنسان
0 المرسلات
1 اللہ تبارک وتعالیٰ نے قیامت کے روز اور اعمال کی جزا وسزا پر فرشتوں کی قسم کھائی ہے ، وہ فرشتے جن کو اللہ تعالیٰ کونی وقدری معاملات، تدبیر کائنات، شرعی معاملات اور اپنے رسولوں پر وحی کے لیے بھیجتا ہے ﴿ عُرْفًا ﴾ (المرسلات )سے حال ہے ، یعنی ان کو محض ناشائستہ اور بے فائدہ کام کے لیے نہیں بھیجا گیا بلکہ ان کو عرف، حکمت اور مصلحت کے ساتھ بھیجا گیا ہے۔ المرسلات
2 ﴿فَالْعٰصِفٰتِ عَصْفًا﴾ اس سے بھی مراد فرشتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ بھیجتا ہے، ان کا وصف یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کو تیز ہوا کی مانند جلدی سے آگے بڑھ کر اخذ کرتے ہیں اور نہایت سرعت سے اس کے احکام کو نافذ کرتے ہیں یا اس سے مراد سخت ہوائیں ہیں جو نہایت تیز چلتی ہیں۔ المرسلات
3 ﴿وَّالنّٰشِرٰتِ نَشْرًا﴾ اس میں ایک احتمال یہ ہے کہ اس سے مراد فرشتے ہوں کہ انہیں جس چیز کے پھیلانے کے انتظام پر مقرر کیا گیا ہے اس کو پھیلاتے ہیں یا اس سے مراد بادل ہے جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ زمین کو سرسبز کرتا ہے اور اس کے مردہ ہوجانے کے بعد اس کو دوبارہ زندگی عطا کرتا ہے۔ المرسلات
4 المرسلات
5 ﴿فَالْمُلْقِیٰتِ ذِکْرًا﴾ اس سے مراد وہ فرشتے ہیں جو افضل ترین احکام کا القا کرتے ہیں ۔ یہ وہ ذکر ہے جس کے ذریعے سے اللہ اپنے بندوں پر رحم کرتا ہے اس میں ان کے سامنے ان کے منافع اور مصالح کا ذکر کرتا ہے اور اسے انبیاء ومرسلین کی طرف بھیجتا ہے۔ المرسلات
6 ﴿عُذْرًا اَوْ نُذْرًا﴾ یعنی لوگوں کا عذر رفع کرنے اور ان کو تنبیہ کرنے کے لیے، تاکہ وہ لوگوں کو خوف کے ان مقامات سے ڈرائیں جو ان کے سامنے ہیں، ان کے عذر منقطع ہوجائیں اور اللہ تعالیٰ پر ان کے لیے کوئی حجت نہ رہے۔ المرسلات
7 ﴿اِنَّمَا تُوْعَدُوْنَ﴾ یعنی مرنے کے بعد زندگی اور اعمال کی جزا وسزا کا جو تمہارے ساتھ وعدہ کیا گیا ہے۔ ﴿ لَوَاقِـعٌ﴾ اس کا وقوع کسی شک وریب کے بغیر حتمی ہے۔ جب قیامت کا دن واقع ہوگا تو کائنات میں تغیرات آئیں گے اور سخت ہولناکیوں کا ظہور ہوگا جس سے دل دہل جائیں گے، کرب بہت زیادہ ہوجائے گا ، ستارے بے نور ہوجائیں گے ، یعنی اپنے مقامات سے زائل ہو کر بکھر جائیں گے ، پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائیں گے اور زمین ایک چٹیل میدان کی طرح ہوجائے گی جس میں تو کوئی نشیب وفراز نہ دیکھے گا۔ یہ وہ دن ہوگا جس دن مقررہ وقت رسولوں کو لایا جائے گا جس وقت کو ان کے اور ان کی امتوں کے درمیان فیصلے کے لیے مقرر کیا گیا ہے ۔اس لیے فرمایا : ﴿ لِأَيِّ يَوْمٍ أُجِّلَتْ ﴾” بھلا تاخیر کس دن کے لیے کی گئی ؟“ یہ استفہام تعظیم، تفخیم اور تہویل (ہول دلانے) کے لیے ہے ،اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے جواب میں فرمایا : ﴿ لِيَوْمِ الْفَصْلِ ﴾ یعنی خلائق میں ایک دوسرے کے درمیان فیصلے کرنے اور ان میں سے ہر ایک سے فردا فردا حساب لینے کے لیے۔ المرسلات
8 المرسلات
9 المرسلات
10 المرسلات
11 المرسلات
12 المرسلات
13 المرسلات
14 المرسلات
15 پھر اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس دن کی تکذیب کرنے والے کو وعید سناتے ہوئے فرمایا : ﴿وَیْلٌ یَّوْمَیِٕذٍ لِّلْمُکَذِّبِیْنَ﴾ ” اس دن جھٹلانے والوں کی خرابی ہے۔“ یعنی انہیں کتنی حسرت ہوگی، ان کا عذاب کتنا سخت اور ان کا ٹھکانا کتنا برا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو آگاہ کیا، ان کے لیے قسم کھائی، مگر انہوں نے اسے سچ نہ جانا۔ اس لیے وہ سخت عذاب کے مستحق ٹھہرے۔ المرسلات
16 کیا ہم نے جھٹلانے والے گزشتہ لوگوں کو ہلاک نہیں کرڈالا، پھر ہم آخر میں آنے والے لوگوں کو ان کے بعد ہلاک کریں گے جو جھٹلائیں گے۔ ہر مجرم کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی سابقہ سنت بھی یہی ہے اور آئندہ سنت الٰہی بھی یہی ہوگی ۔ ان کے لیے سزا حتمی ہے تو تم جو کچھ دیکھتے اور جو کچھ سنتے ہو اس سے عبرت کیوں نہیں پکڑتے؟ المرسلات
17 المرسلات
18 المرسلات
19 ﴿وَیْلٌ یَّوْمَیِٕذٍ لِّلْمُکَذِّبِیْنَ﴾ ” اس دن جھٹلانے والوں کے لیے خرابی ہے۔“ جو واضح اور کھلی نشانیوں، عذاب اور عبرتناک سزاوں کا مشاہدہ کرنے کے بعد بھی جھٹلاتے ہیں۔ المرسلات
20 اے انسانو!کیا ہم نے تمھیں پیدا نہیں کیا ﴿ مِّن مَّاءٍ مَّهِينٍ ﴾ اس پانی سے جو انتہائی حقیر ہے جو پشت اور سینے کے درمیان سے خارج ہوتا ہے؟ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اسے رکھ دیا ﴿ فِي قَرَارٍ مَّكِينٍ ﴾ ایک محفوظ جگہ میں ، اس سے مراد رحم ہے، یہیں نطفہ ٹھہرتا اور نشو ونما پاتا ہے۔ المرسلات
21 المرسلات
22 ﴿اِلٰی قَدَرٍ مَّعْلُوْمٍ﴾ یعنی ایک مقررہ وقت تک ﴿ فَقَدَرْنَا ﴾ یعنی یہ وقت ہم نے مقرر کیا ہے، ان تاریکیوں میں اس جنین کا انتظام ہم نے کیا ، ہم نے اسے نطفے سے خون کے لوتھڑے، پھر بوٹی میں تبدیل کیا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اسے بڑا کیا، اس کے اندر روح پھونکی، ان میں سے کچھ ایسے ہیں جو اس سے پہلے ہی مرجاتے ہیں ۔ ﴿ فَنِعْمَ الْقَادِرُونَ ﴾ ” پس ہم کیا خوب اندازہ کرنے والے ہیں۔ “ اس سے مراد خود اللہ کا نفس مقدس ہے ،کیونکہ اللہ تعالیٰ کا اندازہ اس کی حکمت کے تابع اور حمد وستائش کے موافق ہے۔ المرسلات
23 المرسلات
24 ﴿وَیْلٌ یَّوْمَیِٕذٍ لِّلْمُکَذِّبِیْنَ﴾ اس دن ہلاکت ہے ان جھٹلانے والوں کے لیے جنہوں نے آیات کے واضح ہوجانے اور عبرت ناک چیزیں اور کھلی نشانیاں دیکھنے کے بعد جھٹلایا۔ المرسلات
25 یعنی کیا ہم نے تم پر احسان نہیں کیا اور تمہارے مصالح کے لیے زمین کو مسخر کرکے تم پر انعام نہیں کیا؟ اور اس زمین کو ﴿ كِفَاتًا ﴾ تمہارے لیے سمیٹنے والی نہیں بنایا ﴿ أَحْيَاءً ﴾ ” زندوں کو “گھروں میں ﴿ وَأَمْوَاتًا ﴾ ”اور مردوں کو“ قبروں میں؟ پس جس طرح گھر اور محلات، بندوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی نعمت اور اس کا احسان ہے اسی طرح قبریں بھی ان کے حق میں رحمت اور ان کے لیے ستر ہیں کہ ان کے اجساد درندوں وغیرہ کے لیے کھلے نہیں پڑے رہتے۔ المرسلات
26 المرسلات
27 ﴿وَّجَعَلْنَا فِیْہَا رَوَاسِیَ﴾ یعنی ہم نے ان کے اندر پہاڑ رکھ دیے جو زمین کو ٹھہرائے رکھتے ہیں تاکہ زمین اہل زمین کے ساتھ ڈھلک نہ جائے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اسے مضبوط اور بلند، یعنی طویل وعریض پہاڑوں کے ذریعے سے ٹھہرا دیا ﴿وَّاَسْقَیْنٰکُمْ مَّاءً فُرَاتًا﴾ یعنی ہم نے تمہیں شیریں اور خوش ذائقہ پانی پلایا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ بَلْ نَحْنُ مَحْرُومُونَ أَفَرَأَيْتُمُ الْمَاءَ الَّذِي تَشْرَبُونَ أَأَنتُمْ أَنزَلْتُمُوهُ مِنَ الْمُزْنِ أَمْ نَحْنُ الْمُنزِلُونَ لَوْ نَشَاءُ جَعَلْنَاهُ أُجَاجًا فَلَوْلَا تَشْكُرُونَ أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ ﴾( الواقعۃ:56؍68،70) ” بھلا تم نے دیکھا کہ وہ پانی جو تم پیتے ہو ،کیا تم نے اسے بادل سے برسایا یا ہم اسے برساتے ہیں؟ اور اگر ہم چاہیں تو اسے کڑوا بنادیں ، پھر تم شکر کیوں نہیں کرتے؟“ المرسلات
28 ﴿وَیْلٌ یَّوْمَیِٕذٍ لِّلْمُکَذِّبِیْنَ﴾ ”اس دن ہلاکت ہے جھٹلانے والوں کے لیے ۔“بایں ہمہ کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو نعمتیں دکھلائیں، جن کو عطا کرنے میں وہ متفرد ہے اور ان نعمتوں سے ان کو مختص کیا، انہوں نے ان نعمتوں کے مقابلے میں تکذیب کا رویہ اختیار کیا۔ المرسلات
29 یہ ہلاکت ہے جو جھٹلانے والے مجرموں کے لیے تیاری کی گئی ہے، ان سے قیامت کے دن کہا جائے گا:﴿اِنْــطَلِقُوْٓا اِلٰی مَا کُنْتُمْ بِہٖ تُکَذِّبُوْنَ﴾ ” جس چیز کو تم جھٹلایا کرتے تھے اس کی طرف چلو۔“ پھر اپنے اس ارشاد کے ذریعے سے اس کی تفسیر فرمائی۔ المرسلات
30 ﴿اِنْـطَلِقُوْٓا اِلٰی ظِلٍّ ذِیْ ثَلٰثِ شُعَبٍ﴾ یعنی جہنم کی آگ کے سائے کی طرف جو اپنے درمیان سے تین شاخوں میں متفرق ہوجائے گی، یعنی آگ کے ٹکڑے جو مختلف سمتوں سے باری باری اس پر لپکیں گے اور اس پر اکٹھے ہوجائیں گے۔ المرسلات
31 ﴿لَّا ظَلِیْلٍ﴾ اس سائے میں ٹھنڈک نہ ہوگی، یعنی اس سائے میں راحت ہوگی نہ اطمینان۔ ﴿وَّلَا یُغْنِیْ ﴾ ” نہیں کام آئے گا “ اس سائے میں ٹھہرنا ﴿ مِنَ اللَّہَبِ﴾” شعلے کے مقابلے میں“ بلکہ آگ کا شعلہ اسے دائیں بائیں اور ہر جانب سے گھیر لے گا جیسا کہ اوپر اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ لَهُم مِّن فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِّنَ النَّارِ وَمِن تَحْتِهِمْ ظُلَلٌ ﴾( الزمر :39؍16) ” ان کے اوپر آگ کے سائبان ہوں گے اور ان کے نیچے فرش (آگ کے) ہوں گے۔“ اور فرمایا: ﴿ لَهُم مِّن جَهَنَّمَ مِهَادٌ وَمِن فَوْقِهِمْ غَوَاشٍ وَكَذَٰلِكَ نَجْزِي الظَّالِمِينَ ﴾( الاعراف:7؍41) ” ان کے نیچے جہنم کی آگ کا بچھونا ہوگا اور اوپر سے اوڑھنا بھی جہنم کی آگ کا ہوگا اور ہم ظالموں کو اسی طرح سزا دیتے ہیں۔“ المرسلات
32 پھر اللہ تعالیٰ نے جہنم کے عظیم انگاروں کا ذکر کیا جو جہنم کی بڑائی اس کی برائی اور اس کے برے منظر پر دلالت کرتے ہیں ،چنانچہ فرمایا : ﴿اِنَّہَا تَرْمِیْ بِشَرَرٍ کَالْقَصْرِ۔کَاَنَّہٗ جِمٰلَتٌ صُفْرٌ﴾ ” اس سے چنگاریاں اڑتی ہیں جیسے محل، گویا زرد اونٹ ہیں۔ “ یہ سایہ رنگ کے اونٹ ہیں جن میں ایسے رنگ کی جھلک ہے جو زردی مائل ہے،یہ اس امر کی دلیل ہے کہ جہنم کی آگ، اس کے شعلے، اس کے انگارے اور اس کی چنگاریاں تاریک اور سیاہ رنگ کی ہوں گی، ان کا منظر نہایت کریہہ اور ان کی حرارت انتہائی سخت ہوگی۔ ہم اللہ تعالیٰ سے سوال کرتے ہیں کہ وہ ہمیں جہنم اور ان اعمال سے عافیت عطا کرے وج جہنم کے قریب لے جاتے ہیں۔ المرسلات
33 المرسلات
34 ﴿وَیْلٌ یَّوْمَیِٕذٍ لِّلْمُکَذِّبِیْنَ﴾ ” اس دن ہلاکت ہے جھٹلانے والوں کے لیے۔“ المرسلات
35 اس عظیم دن میں، جو جھٹلانے والوں کے لیے بہت سخت ہے، وہ خوف اور سخت دہشت کی وجہ سے بول نہیں سکیں گے۔ المرسلات
36 ﴿وَلَا یُؤْذَنُ لَہُمْ فَیَعْتَذِرُوْنَ﴾” اور نہ انہیں اجازت دی جائے گی کہ وہ معذرت کرسکیں۔“ اگر وہ معذرت پیش کریں گے تو ان کی معذرت قبول نہیں کی جائے گی۔ ﴿ فَيَوْمَئِذٍ لَّا يَنفَعُ الَّذِينَ ظَلَمُوا مَعْذِرَتُهُمْ وَلَا هُمْ يُسْتَعْتَبُونَ ﴾(الروم :30؍57) ” پس اس روز ظالموں کو ان کی معذرت کوئی فائدہ دے گی نہ ان سے توبہ ہی طلب کی جائے گی۔“ المرسلات
37 المرسلات
38 ﴿ہٰذَا یَوْمُ الْفَصْلِ جَمَعْنٰکُمْ وَالْاَوَّلِیْنَ﴾ ” یہی فیصلے کا دن ہے، ہم نے تم کو اور پہلے لوگوں کو جمع کیا ہے“ تاکہ ہم تمہارے درمیان تفریق کریں اور تمام خلائق کے درمیان فیصلہ کریں۔ المرسلات
39 ﴿فَاِنْ کَانَ لَکُمْ کَیْدٌ﴾ ” اگر تمہارے پاس کوئی تدبیر ہو۔“ جس کے ذریعے سے تم میری بادشاہت سے باہر نکلنے کی قدرت رکھتے ہو اور میرے عذاب سے بچ سکتے ہو﴿فَکِیْدُوْنِ﴾” تو تم میرے خلاف تدبیر کرلو۔ “ یعنی تمہیں ایسا کرنے کی قدرت حاصل ہے نہ طاقت جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿ يَامَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ إِنِ اسْتَطَعْتُمْ أَنْ تَنْفُذُوا مِنْ أَقْطَارِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ فَانْفُذُوا لَا تَنْفُذُونَ إِلَّا بِسُلْطَانٍ﴾ الرحمن۔ ٣٣” اے جن وانس کے گروہ ! اگر تم یہ طاقت رکھتے ہو کہ آسمانوں اور زمین کے کناروں سے نکل جاؤ تو نکل بھاگو ، تم طاقت کے بغیر نہیں نکل سکتے۔“ اس دن ظالموں کے تمام حیلے باطل ہوجائیں گے ، ان کا مکروفریب ختم ہوجائے گا، وہ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ عذاب کے حوالے کردیں گے اور ان کی تکذیب میں ان کا جھوٹ، ان کے سامنے صاف ظاہر ہوجائے گا۔ المرسلات
40 ﴿وَیْلٌ یَّوْمَیِٕذٍ لِّلْمُکَذِّبِیْنَ﴾ ”اس دن ہلاکت ہے جھٹلانے والوں کے لیے۔“ المرسلات
41 چونکہ اللہ تعالیٰ نے اہل تکذیب کے لیے عذاب کا ذکر فرمایا اس لیے محسنین کے لیے ثواب کا بھی تذکرہ کیا، چنانچہ فرمایا: ﴿اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ﴾ ” بے شک پرہیزگار“ یعنی جو اپنے اقوال، افعال اور اعمال میں تکذیب سے بچنے والے اور تصدیق سے متصف ہیں اور وہ واجبات کو ادا کیے اور محرمات کو ترک کیے بغیر متقی نہیں بن سکتے ﴿فِیْ ظِلٰلٍ﴾ متنوع اقسام کے خوبصورت اور خوش منظر کثیر درختوں کے سائے میں ہوں گے ﴿ وَعُيُونٍ ﴾ اور خوش ذائقہ پانی اور شراب وغیرہ کے رواں دواں چشموں میں ہوں گے۔ المرسلات
42 ﴿وَّفَوَاکِہَ مِمَّا یَشْتَہُوْنَ﴾ اور بہترین اور لذیذ ترین میوہ جات، جو وہ چاہیں گے، ان میں ہوں گے۔ان سے کہا جائے گا : ﴿کُلُوْا وَاشْرَبُوْا﴾ کھاؤ پیو، مزے دار مرغوب کھانے اور لذیذ مشروبات پیو۔ المرسلات
43 ﴿ہَنِیْۗــــــًٔـــۢا﴾ یعنی کسی روک ٹوک اور تکدر کے بغیر۔ اس کھانے کی خوشگواری کبھی ختم نہ ہوگی حتیٰ کہ جنت کے مطعومات اور مشروبات ہر آفت اور نقص سے سلامت ہوں گے یہاں تک کہ اہل جنت کو یقین ہوگا کہ یہ طعام و شراب منقطع ہوں گے نہ ختم ہوں گے۔ ﴿بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ﴾ پس تمہارے اعمال ہی وہ سبب ہیں جنہوں نے تمہیں ہمیشہ رہنے والی جنتوں میں پہنچایا۔ اسی طرح ہے ہر وہ شخص جو اللہ تعالیٰ کی عبادت میں احسان سے کام لیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے بندوں پر احسان کرتا ہے۔ المرسلات
44 بنا بریں فرمایا : ﴿اِنَّا کَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ۔ وَیْلٌ یَّوْمَیِٕذٍ لِّلْمُکَذِّبِیْنَ﴾ ” بے شک ہم نیکوکاروں کو ایسا ہی بدلہ دیا کرتے ہیں۔ اس دن جھٹلانے والوں کے لیے ہلاکت ہے۔ “ اگر یہ ہلاکت اور خرابی صرف ان نعمتوں سے محرومی ہی ہوتی تب بھی یہ حزن وغم اور حرماں نصیبی کے لیے کافی ہے۔ المرسلات
45 المرسلات
46 یہ تکذیب کرنے والوں کے لیے تہدید ووعید ہے کہ اگرچہ انہوں نے دنیا میں کھایا پیا اور لذات دنیا سے فائدہ اٹھایا اور عبادات سے غافل رہے مگر وہ مجرم ہیں اور اسی سزا کے مستحق ہیں جس کے مستحق مجرم ہوتے ہیں، لہٰذا عنقریب ان کی لذات منقطع ہوجائیں گی اور تاوان اور نقصان باقی رہ جائیں گے ۔ ان کا ایک جرم یہ ہے کہ جب انہیں نماز ، جو کہ سب سے زیادہ شرف کی حامل عبادت ہے ، کا حکم دیا جاتا اور ان سے کہا جاتا تھا : ﴿ا ارْكَعُوا ﴾” رکوع کرو“ تو حکم کی تعمیل نہیں کرتے تھے ۔ پس کون سا جرم اس سے بڑھ کر اور کون سی تکذیب اس سے زیادہ بڑی ہے؟ المرسلات
47 ﴿وَیْلٌ یَّوْمَیِٕذٍ لِّلْمُکَذِّبِیْنَ﴾ ” اس دن ہلاکت ہے جھٹلانے والوں کے لیے“ ان کی ایک ہلاکت یہ بھی ہے کہ ان پر توفیق کے تمام دروازے بند ہوجائیں گے اور وہ ہر بھلائی سے محروم ہوجائیں گے۔ المرسلات
48 المرسلات
49 المرسلات
50 پس جب انہوں نے اس قرآن کریم کو جھٹلادیا جو علی الاطلاق صدق ویقین کے بلند ترین مرتبے پر ہے ﴿فَبِاَیِّ حَدِیْثٍ بَعْدَہٗ یُؤْمِنُوْنَ﴾ ” تو اس کے بعد وہ کون سی بات پر ایمان لائیں گے؟ “ کیا وہ باطل پر ایمان لائیں گے جو اپنے نام کی مانند ہےجس پر کوئی دلیل تو کجا، کوئی شبہ بھی قائم نہیں ہوتا؟ یا وہ کسی مشرک، کذاب اور کھلے بہتان طراز کے کلام پر ایما لائیں گے؟ پس نور مبین کے بعد گھٹا ٹوپ اندھیروں کے سوا کچھ نہیں رہتا، صدق کے بعد ، جس پر قطعی دلائل و براہین قائم ہوں ، صریح بہتان اور کھلے جھوٹ کے سوا کچھ باقی نہیں بچتا جو صرف اسی شخص کے لائق ہے جس سے یہ مناسبت رکھتا ہے۔ ہلاک ہے ان کے لیے ، وہ کتنے اندھے ہوگئے ہیں ! اور برا ہو ان کا، کس قدر خسارے اور بدبختی کا شکار ہوگئے ہیں! ہم اللہ تعالیٰ سے عفو اور عافیت کا سوال کرتے ہیں ! وہ جواد اور صاحب کرم ہے۔ المرسلات
0 النبأ
1 یعنی اللہ تعالیٰ کی آیات کو جھٹلانے والے کس چیز کے بارے میں پوچھ رہے ہیں؟ پھر اللہ تعالیٰ نے اس چیز کے بارے میں بیان فرمایا جس کے بارے میں وہ پوچھ رہے ہیں،چنانچہ فرمایا : ﴿عَنِ النَّبَاِ الْعَظِیْمِ الَّذِیْ ہُمْ فِیْہِ مُخْـتَلِفُوْنَ﴾ یعنی عظیم خبر کے بارے میں پوچھ رہے ہیں جس میں تکذیب اور مستبعد ہونے کی وجہ سے ان کا نزاع طول پکڑ گیا اور ان کی مخالفت پھیل گئی، حالانکہ وہ ایسی خبر ہے جو شک کو قبول کرتی ہے نہ اس میں کوئی شبہ داخل ہوسکتا ہے، مگر مکذبین کا حال یہ ہے کہ اگر ان کے پاس تمام نشانیاں ہی کیوں نہ آجائیں ، یہ اپنے رب سے ملاقات پر اس وقت تک ایمان نہیں لائیں گے جب تک کہ وہ دردناک عذاب نہ دیکھ لیں ، اس لیے فرمایا : ﴿کَلَّا سَیَعْلَمُوْنَ ثُمَّ کَلَّا سَیَعْلَمُوْنَ﴾ یعنی عنقریب جب ان پر عذاب نازل ہوگا جسے وہ جھٹلایا کرتے تھے تو انہیں معلوم ہوجائے گا ،اس وقت انہیں جہنم کی آگ میں دھکے دے کر ڈالا جائے گا اور ان سے کہا جائے گا : ﴿ هَـٰذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنتُم بِهَا تُكَذِّبُونَ ﴾( الطور :52؍14) ” یہ وہ آگ ہے جسے تم جھٹلایا کرتے تھے۔“ النبأ
2 النبأ
3 النبأ
4 النبأ
5 النبأ
6 پھر اللہ تعالیٰ نے نعمتوں اور ان دلائل کا ذکر کیا ہے جو اس چیز کی صداقت پر دلالت کرتے ہیں جسے رسول لے کر آئے ہیں۔ فرمایا : کیا ہم نے تمہیں بڑی بڑی نعمتوں سے نہیں نوازا؟ پس ہم نے تمہارے لیے بنایا ﴿الْاَرْضَ مِہٰدًا﴾ زمین کو ہموار اور نرم ، یعنی تمہارے لیے اور تمہارے مصالح، مثلا : کھیتی باڑی کرنے، گھر بنانے اور راستے بنانے کے لیے۔ النبأ
7 ﴿وَّالْجِبَالَ اَوْتَادًا﴾ ” اور پہاڑوں کو میخیں۔“ جو زمین کو ٹھہرائے ہوئے ہیں تاکہ وہ تمہیں لے کر متحرک نہ ہوجائے اور ڈھلک نہ جائے۔ النبأ
8 ﴿وَّخَلَقْنٰکُمْ اَزْوَاجًا﴾ یعنی ایک ہی جنس میں سے تمہیں مرد اور عورت بنایا تاکہ ہر ایک دوسرے سے سکون حاصل کرے ، تب مودت اور رحمت وجود میں آئے اور ان دونوں سے اولاد پیدا ہو۔ اس احسان کا ذکر لذت نکاح کو متضمن ہے۔ النبأ
9 ﴿وَّجَعَلْنَا نَوْمَکُمْ سُبَاتًا﴾ یعنی تمہاری نیند کو تمہاری راحت اور تمہارے اشغال کو منقطع کرنے والی بنایا جو اگر بڑھ جائیں تو تمہارے ابدان کو ضرر پہنچاتے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے رات کو یہ خاصیت بنائی کہ وہ لوگوں کو ڈھانپ لیتی ہے تاکہ ان کی ضرر رساں حرکات ٹھہر جائیں اور انہیں نفع مند راحت حاصل ہو۔ النبأ
10 النبأ
11 النبأ
12 ﴿وَّبَنَیْنَا فَوْقَکُمْ سَبْعًا شِدَادًا﴾ یعنی تمہارے اوپر سات آسمان بنائے جو قوت، صلابت اور سختی کی انتہا پر ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے ان کو تھام رکھا ہے اور اللہ تعالیٰ نے ان کو زمین کے لیے چھت بنایا، آسمانوں میں انسانوں کے لیے متعدد فوائد ہیں، اس لیے ان کے منافع میں سورج کا ذکر کیا۔ النبأ
13 چنانچہ فرمایا : ﴿وَّجَعَلْنَا سِرَاجًا وَّہَّاجًا﴾ ” اور ہم نے روشن چراغ بنایا۔“ چراغ کا ذکر کرکے سورج کی روشنی کی نعمت کی طرف اشارہ کیا ہے جو مخلوق کی ضرورت بن گئی ہے۔ وھاج یعنی اس کی حرارت کا ذکر کرکے اس کے اندر پھلوں کو پکانے کی قوت اور دیگر منافع کی طرف اشارہ کیا۔ النبأ
14 ﴿وَّاَنْزَلْنَا مِنَ الْمُعْــصِرٰتِ ﴾ یعنی ہم نے بادل سے اتارا ﴿ مَاءً ثَجَّاجًا﴾ بہت زیادہ پانی۔ النبأ
15 ﴿لِّنُخْرِجَ بِہٖ حَبًّا﴾ ” تاکہ اس کے ذریعے سے اناج پیدا کریں ۔“ مثلا: گیہوں، جو، مکئی اور چاول وغیرہ جسے آدمی کھاتے ہیں ﴿ونباتا﴾ ”اور سبزہ۔“ یہ تمام نباتات کو شامل ہے جسے اللہ تعالیٰ نے ان کے مویشیوں کے لیے خوراک بنایا ہے۔ النبأ
16 ﴿وَّجَنّٰتٍ اَلْفَافًا﴾ اور گھنے باغات، ان کے اندر تمام اقسام کے لذیذ پھل ہیں ، پس وہ ہستی جس نے یہ جلیل القدر نعمتیں عطا کی ہیں جن کی مقدار کا اندازہ کیا جاسکتا ہے نہ انہیں شمار کیا جاسکتا ہے ، تم کیونکر اس کا انکار کرتے ہو اور کیونکر اس خبر کو جھٹلاتے ہو جو اس نے تمہاری موت کے بعد تمہارے دوبارہ اٹھائے جانے اور قیامت کے بارے میں دی ہے؟ النبأ
17 اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے کہ قیامت کے دن کیا ہوگا جس کے بارے میں اہل تکذیب پوچھتے ہیں اور معاندین حق اس کا انکار کرتے ہیں، یہ بہت ہی بڑا دن ہوگا اللہ تعالیٰ نے اس دن کو ﴿ مِيقَاتًا ﴾ مخلوق کے لیے فیصلے کا دن مقرر کیا۔ النبأ
18 ﴿یَّوْمَ یُنْفَخُ فِی الصُّوْرِ فَتَاْتُوْنَ اَفْوَاجًا﴾ ” جس دن صور پھونکا جائے گا تو تم گروہ درگروہ آؤ گے۔“ اس دن بڑی بڑی مصیبتیں اور زلزلے لے آئیں گے جن سے دل دہل جائیں گے اور جنہیں دیکھ کر بچے بھی بوڑھے ہوجائیں گے ۔پہاڑ چل پڑیں گے حتیٰ کہ غبار بن کر بکھر جائیں گے ،آسمان پھٹ جائے گا اور اس میں دروازے بن جائیں گے اور اللہ تعالیٰ خلائق کے درمیان اپنے حکم سے ایسا فیصلہ کرے گا جس میں ظلم نہ ہوگا۔ جہنم کی آگ بھڑکائی جائے گی جس کو اللہ تعالیٰ نے سرکشوں کی گھات میں تیار کررکھا ہے اور اسے ان کے لیے ٹھکانہ اور لوٹنے کی جگہ بنایا ہے ، یہ سرکش لوگ اس میں مدتوں رہیں گے الحقب بہت سے مفسرین کے قول کے مطابق اسی سال کا عرصہ ہے۔ النبأ
19 النبأ
20 النبأ
21 النبأ
22 النبأ
23 النبأ
24 جب وہ جہنم میں وارد ہوں گے ﴿لَا یَذُوْقُوْنَ فِیْہَا بَرْدًا وَّلَا شَرَابًا﴾ ” وہاں ٹھنڈک کا مزہ چکھیں گے نہ پینا نصیب ہوگا۔“ یعنی وہ ایسی کوئی چیز نہیں پائیں گے جو ان کی جلدوں کو ٹھنڈا کرے ان کی پیاس ہی کو دور کرے۔ النبأ
25 ﴿اِلَّا حَمِیْمًا﴾ یعنی وہ کھولتا ہوا گرم پانی ہوگا جو ان کے چہروں کو بھون ڈالے گا اور ان کی آنتوں کو کاٹ ڈالے گا۔ ﴿وَّغَسَّاقًا﴾ اور اہل جہنم کی پیپ ہوگی جو انتہائی بدبودار اور انتہائی بدذائقہ ہوگی۔ وہ ان بدترین عقوبتوں کے اس لیے مستحق ہیں کہ یہ ان کے ان اعمال کا پورا پورا بدلہ ہے جنہوں نے ان کو جہنم میں پہنچایا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر ہرگز ظلم نہیں کیا بلکہ انہوں نے خود ہی اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے۔ النبأ
26 النبأ
27 اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے ان اعمال کا ذکر کیا ہے جن کی بنا پر وہ اس سزا کے مستحق ٹھہرے ہیں ، چنانچہ فرمایا : ﴿اِنَّہُمْ کَانُوْا لَا یَرْجُوْنَ حِسَابًا﴾ یعنی وہ قیامت کے دن پر ایمان نہیں رکھتے تھے اور نہ وہ اس پر یقین ہی رکھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ ان کو اچھے برے اعمال کی جزا دے گا، اس لیے وہ آخرت کی خاطر عمل کو فضول اور مہمل سمجھتے تھے۔ النبأ
28 ﴿وَّکَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا کِذَّابًا﴾ یعنی انہوں نے ہماری آیتوں کی واضح اور صریح طور پر تکذیب کی اور جب ان کے پاس واضح دلائل آئے تو انہوں نے ان کی مخالفت کی۔ النبأ
29 ﴿وَکُلَّ شَیْءٍ﴾ ” اور ہر چیز کو۔“ یعنی ہر تھوڑی یا زیادہ ، اچھی یا بری چیز ﴿ اَحْصَیْنٰہُ کِتٰبًا﴾ ہم نے اسے لوح محفوظ میں ثبت کررکھا ہے ، پس مجرم یہ نہ سمجھ لیں کہ ہم نے ان کو ایسے گناہوں کی سزا دی ہے جو انہوں نے کیے ہی نہیں اور نہ وہ یہ سمجھ لیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے اعمال میں سے کسی عمل کو ضائع کردے گا یا ان میں سے کوئی ذرہ بھر عمل بھول جائے گا۔ جیساکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَوُضِعَ الْكِتَابُ فَتَرَى الْمُجْرِمِينَ مُشْفِقِينَ مِمَّا فِيهِ وَيَقُولُونَ يَا وَيْلَتَنَا مَالِ هَـٰذَا الْكِتَابِ لَا يُغَادِرُ صَغِيرَةً وَلَا كَبِيرَةً إِلَّا أَحْصَاهَا وَوَجَدُوا مَا عَمِلُوا حَاضِرًا وَلَا يَظْلِمُ رَبُّكَ أَحَدًا ا﴾( الکھف:18؍49) ” اور اعمال نامے کو (کھول کر )رکھ دیا جائے گا اور تو مجرموں کو دیکھے گا کہ جو کچھ اس کتاب میں درج ہوگا ، وہ اس سے ڈر رہے ہوں گے اور وہ کہیں گے کہ یہ کیسی کتاب ہے جو کسی چھوٹی بات کو چھوڑتی ہے نہ بڑی بات کو، مگر اس نے اس کو درج کررکھا ہے اور جو اعمال انہوں نے کیے ہیں ، ان سب کو موجود پائیں گے اور تیرا رب کسی پر ظلم نہیں کرے گا۔“ النبأ
30 ﴿فَذُوْقُوْا﴾ ” پس چکھو۔“ اس دردناک عذاب اور دائمی رسوائی کو اے جھٹلانے والو! ﴿فَلَنْ نَّزِیْدَکُمْ اِلَّا عَذَابًا﴾ ” ہم تم پر عذاب ہی بڑھاتے جائیں گے ۔“ پس ہرآن اور ہر وقت ان کا عذاب بڑھتا رہے گا ۔اہل جہنم کے عذاب کی شدت کے بارے میں یہ سخت ترین آیت ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں جہنم سے بچائے۔ النبأ
31 جہاں اللہ تبارک و تعالیٰ نے مجرموں کا حال بیان کیا ، وہاں اہل تقوٰی کے انجام کا ذکر بھی فرمایا : ﴿اِنَّ لِلْمُتَّقِیْنَ مَفَازًا﴾ یعنی جو لوگ اپنے رب کی ناراضی سے ڈر گئے، اس کی اطاعت کا دامن تھام لیا اور اس کی نافرمانی سے باز آگئے ،ان کے لیے کامیابی، نجات اور جہنم سے دوری ہے۔ اس کامیابی میں ان کے لیے ﴿حَدَاۗیِٕقَ﴾ باغ ہیں۔ النبأ
32 ﴿حَدَایِٕقَ﴾ ان باغات کو کہا جاتا ہے جن میں خوبصورت درختوں اور پھلوں کی تمام اقسام جمع ہوں ﴿وَاَعْنَابًا﴾ ” اور انگور ہیں۔ “ان باغات کے بیچوں بیچ ندیاں بہہ رہی ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ نے انگور کے شرف اور ان باغات میں ان کی کثرت کی بنا پر ،ان کا خاص طور پر ذکر کیا۔ ان باغات میں، ان کی چاہت اور طلب کے مطابق بیویاں ہوں گی۔ النبأ
33 ﴿کَوَاعِبَ﴾ اس سے مراد ابھرے ہوئے پستانوں والی کنواری لڑکیاں ہیں جن کے پستان ان کے شباب ، ان کی قوت اور ان کی تازگی کے باعث ڈھیلے نہیں پڑے۔ ﴿ اَتْرَابًا﴾ ” ہم عمر عورتیں۔“ ہم عمر عورتوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ باہم محبت والفت رکھنے والی اور باہم اچھی معاشرت والی ہوتی ہیں، وہ عمر جس میں وہ ہوں گی ، تینتیس سال ہے اور یہ متعدل ترین شباب کی عمر ہے۔ النبأ
34 ﴿وَّکَاْسًا دِہَاقًا﴾ یعنی شراب کے چھلکتے ہوئے جام ہوں گے، پینے والوں کی لذت کے لیے۔ النبأ
35 ﴿لَا یَسْمَعُوْنَ فِیْہَا لَغْوًا ﴾ یعنی وہ ایسا کلام نہیں سنیں گے جس کا کوئی فائدہ نہ ہو ﴿ وَّلَا کِذّٰبًا﴾ ”اور نہ جھوٹ۔“ یعنی گناہ ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ لَا يَسْمَعُونَ فِيهَا لَغْوًا وَلَا تَأْثِيمًا إِلَّا قِيلًا سَلَامًا سَلَامًا ﴾( الواقعۃ:56؍25،26)” وہ جنت میں کوئی بے ہودہ بات سنیں گے نہ گناہ کی بات ، صرف سلام ہی سلام کی بات سنیں گے ۔“ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل واحسان سے ان کو یہ ثواب جزیل عطا کیا ہے۔ النبأ
36 ﴿جَزَاءً مِّنْ رَّبِّکَ﴾ ان کے لیے بدلہ ہے تمہارے رب کی طرف سے ﴿عَطَاءً حِسَابًا﴾ ”یہ انعام کثیر۔ “ یعنی ان کے اعمال کے سبب سے جن کی توفیق سے اللہ تعالیٰ نے ان کو بہرہ مند کیا اور ان اعمال کو اپنی تکریم واکرام تک پہنچنے کا ذریعہ بنایا۔ النبأ
37 یعنی جس نے انہیں یہ عطیات عطا کیے وہ ان کا رب ہے ﴿رَّبِّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ﴾ ” جو آسمانوں اور زمین کارب ہے۔“ جس نے ان کو پیدا کیا اور ان کی تدبیر کی ﴿ الرَّحْمَـٰنِ ﴾ جس کی رحمت ہر چیز پر سایہ کناں ہے۔ پس اس نے ان کی نشوونما کی ،ان پر رحم کیا اور ان کو لطف وکرم سے نوازا حتیٰ کہ انہوں نے بہت کچھ پا لیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دن اپنی عظمت اور اپنی عظیم بادشاہی کا ذکر فرمایا۔ اس روز تمام مخلوق خاموش ہوگئی، کوئی بات نہیں کرے گا ﴿لَا یَمْلِکُوْنَ مِنْہُ خِطَابًا﴾ ”اس سے بات چیت کرنے کا انہیں اختیار نہیں ہوگا۔“ النبأ
38 ﴿اِلَّا مَنْ اَذِنَ لَہُ الرَّحْمٰنُ وَقَالَ صَوَابًا﴾ یعنی کوئی شخص بات نہیں کرسکے گا مگر دو شرطوں کے ساتھ۔ اول :جسے اللہ تعالیٰ بات کی اجازت دے۔ ثانی: اور وہ جو بات کرے وہ ٹھیک ہو۔ النبأ
39 اس لیے کہ ﴿ذٰلِکَ الْیَوْمُ ﴾ ”یہ دن ۔ “ ﴿الْحَقُّ ﴾ ”ہی سچا (دن) ہے۔“ جس میں باطل رائج ہوسکتا ہے نہ جھوٹ فائدہ دے سکتا ہے ۔ یہ وہ دن ہے ﴿ يَقُومُ الرُّوحُ ﴾ ” جس میں روح (الامین )کھڑا ہوگا۔ “ روح سے مراد جبرائیل علیہ السلام ہیں جو تمام فرشتوں میں افضل ہیں۔ ﴿ وَالْمَلَائِكَةُ ﴾ اور تمام فرشتے بھی کھڑے ہوں گے ﴿ صَفًّا ﴾ صف باندھے، اللہ تعالیٰ کے حضور سرافگندہ ہو کر ﴿لایتکلمون﴾ ”وہ کلام نہیں کرسکیں گے۔“ سوائے اس بات کے جس کی اللہ تعالیٰ اجازت دے۔ پس اللہ تعالیٰ نے ترغیب وترہیب اور تبشیر وانداز کے بعد فرمایا : ﴿ فَمَنْ شَاءَ اتَّخَذَ اِلٰی رَبِّہٖ مَاٰبًا﴾ ” پس جو شخص چاہے اپنے رب کے پاس ٹھکانا بنا لے۔“ یعنی عمل اور اچھی بات کرے جو قیامت کے دن اس کی طرف لوٹے گی۔ النبأ
40 ﴿اِنَّآ اَنْذَرْنٰکُمْ عَذَابًا قَرِیْبًا﴾ ”بلاشبہ ہم نے تمہیں عنقریب آنے والے عذاب سے ڈرایا ہے۔“ کیونکہ وہ عذاب قریب آگیا ہے اور جو چیز آرہی ہو وہ قریب ہی ہوتی ہے۔ ﴿یَّوْمَ یَنْظُرُ الْمَرْءُ مَا قَدَّمَتْ یَدٰہُ﴾ ” اس دن آدمی ان )اعمال( کو دیکھ لے گا جو اس نے آگے بھیجے ہوں گے۔“ یعنی یہی وہ چیز ہے جو اسے ہم وفکر میں ڈالے گی اور وہ اس سے گھبرائے گا۔ پس اسے اس دنیا میں دیکھنا چاہیے کہ اس نے دائمی گھر کے لیے کیا آگے بھیجا ہے؟ جیسے اللہ نے فرمایا : ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللّٰـهَ وَلْتَنظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللّٰـهَ إِنَّ اللّٰـهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ﴾(الحشر:59؍18) ” اے ایمان والو !اللہ سے ڈرو ، اور ہر شخص کو دیکھنا چاہیے کہ اس نے کل کے لیے کیا آگے بھیجا ہے ، اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ ہر اس عمل کی خبر رکھتا ہے جو تم کرتے ہو۔“ اگر وہ (اپنے اعمال میں) کوئی بھلائی پائے تو وہ اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا بیان کرے اور اگر بھلائی کے سوا کچھ اور پائے تو وہ صرف اپنے ہی نفس کو ملامت کرے، اسی لیے کفار شدت حسرت وندامت کی وجہ سے موت کی تمنا کریں گے ﴿وَیَقُوْلُ الْکٰفِرُ یٰلَیْتَــنِیْ کُنْتُ تُرٰبًا﴾ ” اور کافر کہے گا ، کاش ! میں مٹی ہوتا۔“ ہم اللہ تعالیٰ سے سوال کرتے ہیں کہ وہ ہمیں کفر اور ہر قسم کے شرسے عافیت عطا کرے۔ بلاشبہ وہ بہت جواد اور نہایت کرم والا ہے۔ النبأ
0 النازعات
1 مکرم فرشتوں اور ان کے افعال کی کھائی ہوئی یہ قسمیں جو اللہ تعالیٰ کے حکم کے سامنے ان کی کامل اطاعت اور اس کو نافذ کرنے میں ان کی سرعت پر دلالت کرتی ہیں۔ اس میں ایک احتمال یہ ہے کہ جس امر پر قسم کھائی گئی ہے وہ جزا اور قیامت ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اس کے بعد قیامت کے احوال بیان کیے گئے ہیں ۔ اس میں دوسرا احتمال یہ ہے کہ جس پر قسم کھائی گئی ہے اور جس کی قسم کھائی ہے وہ دونوں ایک ہوں، نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں پر اس لیے قسم کھائی ہے کہ ان پر ایمان لانا، ایمان کے چھ ارکان میں سے ایک رکن ہے ، نیز یہ کہ یہاں ان کے افعال کا ذکر کرنا اس جزا کو متضمن ہے جس کا انتظام موت کے وقت ، موت سے پہلے یا موت کے بعد فرشتے کرتے ہیں ، اس لیے فرمایا: ﴿وَالنّٰزِعٰتِ غَرْقًا﴾ ” ان کی قسم ! جو ڈوب کر کھینچ لیتے ہیں۔ “ اس سے مراد وہ فرشتے ہیں جو طاقت کے ساتھ روح قبض کرتے ہیں اور روح قبض کرنے میں مبالغہ کرتے ہیں یہاں تک کہ روح نکل جاتی ہے اور اسے اس کے عمل کی جزا دی جاتی ہے۔ النازعات
2 ﴿وَّالنّٰشِطٰتِ نَشْطًا﴾ ” اور ان کی جو آسانی سے کھول دیتے ہیں۔“ اس سے بھی فرشتے مراد ہیں جو ارواح کو قوت اور نشاط کے ساتھ نکالتے ہیں یا اس کے معنی یہ ہیں کہ پھرتی اور تیزی سے روح نکالنے کا معاملہ اہل ایمان کی ارواح کے ساتھ ہے اور ارواح کو کھینچ کر زور سے نکالنا کفار کی ارواح کے ساتھ ہے۔ النازعات
3 ﴿وَّالسّٰبِحٰتِ سَبْحًا﴾ یعنی ہوا کے اندر ادھر ادھر آتے جاتے، اوپر چڑھتے اور نیچے اترتے فرشتوں کی قسم! النازعات
4 ﴿فَالسّٰبِقٰتِ ﴾ دوسروں پر سبقت لے جانے والے﴿ سَبْقًا﴾ ” سبقت لے جانا۔“ پس فرشتے اللہ تعالیٰ کے حکم کی طرف جلدی سے آگے بڑھتے ہیں اور وحی الٰہی کو اللہ تعالیٰ کے رسولوں تک پہنچانے میں شیاطین سے آگے بڑھ جاتے ہیں تاکہ شیاطین اس کو چرا نہ لیں۔ النازعات
5 ﴿فَالْمُدَبِّرٰتِ اَمْرًا﴾ یہ وہ فرشتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے عالم بالا اور عالم سفلی کے بہت سے امور کی تدبیر کے لیے مقرر فرمایا ہے، مثلا: بارشوں، نباتات، ہواؤں، سمندروں، ماؤں کے پیٹوں میں بچوں، حیوانات، جنت اور جہنم وغیرہ کے امور۔ النازعات
6 ﴿یَوْمَ تَرْجُفُ الرَّاجِفَۃُ﴾” جس دن زمین پر بھونچال آئے گا ۔“ اور یہ قیامت کا قائم ہونا ہے۔ النازعات
7 ﴿تَتْبَعُہَا الرَّادِفَۃُ﴾ یعنی ایک اور زلزلہ جو اس کے ساتھ ہی اس کے پیچھے پیچھے آئے گا۔ النازعات
8 ﴿قُلُوْبٌ یَّوْمَیِٕذٍ وَّاجِفَۃٌ﴾ اس دن جو کچھ نظر آئے گا اور سنائی دے گا اس کی شدت کی بنا پر دل دہل جائیں گے۔ النازعات
9 ﴿اَبْصَارُہَا خَاشِعَۃٌ﴾ نگاہیں بہت ذلیل اور حقیر ہوں گی ،ان کے دلوں پر خوف طاری ہوگا ،گھبراہٹ ان کی عقل کو زائل کردے گی ، ان پر تاسف کا غلبہ ہوگا اور حسرت ان پر قبضہ کرلے گی۔ النازعات
10 منکرین قیامت، دنیا کے اندر، استہزا کے طور پر حیات بعد الموت کا انکار کرتے ہوئے کہتے ہیں : ﴿ءَاِنَّا لَمَرْدُوْدُوْنَ فِی الْحَافِرَۃِ﴾ یعنی کیا مرنے کے بعد ہمیں پہلی تخلیق کی طرف لوٹایا جائے گا؟ یہ استفہام انکاری ہے جوا نتہائی تعجب اور اس کو محال سمجھنے پر مبنی ہے، انہوں نے حیات بعد الموت کا انکار کیا ، پھر اس کو بعید سمجھنے میں بڑھتے چلے گئے، پھر اسی پر جم گئے ۔ وہ اس دنیا میں تکذیب کے طور پر کہتے ہیں۔ النازعات
11 ﴿ءَاِذَا کُنَّا عِظَامًا نَّخِرَۃً﴾ یعنی جب ہم بوسیدہ ہڈیاں بن جائیں گے تو کیا اس کے بعد ہمیں دوبارہ زندگی کی طرف لوٹایا جائے گا؟ النازعات
12 ﴿قَالُوْا تِلْکَ اِذًا کَرَّۃٌ خَاسِرَۃٌ﴾ ” کہتے ہیں ، یہ لوٹنا خسارہ ہے۔“ یعنی انہوں نے اللہ تعالیٰ کی قدرت کے بارے میں جہالت اور اس کے حضور جسارت کی بنا پر اس امر کو بعید سمجھا کہ اللہ تعالیٰ انہیں دوبارہ زندہ کر دے گا ، جب وہ بوسیدہ ہڈیاں بن جائیں گے تو کیا انہیں دوبارہ زندگی عطا کی جائے گی؟ اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے اس امر کے بہت آسان ہونے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ فَإِنَّمَا هِيَ زَجْرَةٌ وَاحِدَةٌ ﴾ ” وہ تو صرف ایک ڈانٹ ہوگی۔“ یعنی اس روز صور پھونکا جائے گا، تب تمام خلائق ﴿ بِالسَّاهِرَةِ ﴾ روئے زمین پر کھڑے دیکھ رہے ہوں گے۔ پس اللہ تعالیٰ ان سب کو اکٹھا کرے گا ، ان کے درمیان عدل پر مبنی فیصلے کرے گا اور ان کی جزاوسزا دے گا۔ النازعات
13 النازعات
14 النازعات
15 اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے نبی محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے: ﴿ہَلْ اَتٰکَ حَدِیْثُ مُوْسٰی﴾ یہ ایک عظیم معاملے کے بارے میں استفہام ہے جس کا وقوع متحقق ہوچکا ہے ، یعنی کیا آپ کے پاس حضرت موسیٰ علیہ السلام کا قصہ پہنچا ہے؟ النازعات
16 ﴿اِذْ نَادٰیہُ رَبُّہٗ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًی﴾ ” جب ان کے رب نے انہیں پاک میدان طوٰی میں پکارا۔“ یہ وہ مقام ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام سے کلام کیا ، انہیں رسالت سے سرفراز فرمایا ، انہیں وحی کے ساتھ مبعوث کیا اور انہیں اپنے لیے چن لیا۔ النازعات
17 ﴿اِذْہَبْ اِلٰی فِرْعَوْنَ اِنَّہٗ طَغٰی﴾ ” فرعون کے پاس جاؤ، وہ سرکش ہو رہا ہے۔“ اسے نہایت نرم بات اور پرلطف خطاب کے ذریعے سے اس کی سرکشی، شرک اور نافرمانی سے روکو شاید کہ وہ ﴿ يَتَذَكَّرُ أَوْ يَخْشَىٰ ﴾(طه: 20؍44) ” نصیحت پکڑے یا ڈر جائے۔“ النازعات
18 ﴿ فَقُلْ﴾ اس سے کہہ دیجئے : ﴿ہَلْ لَّکَ اِلٰٓی اَنْ تَـزَکّٰی﴾ کیا تو کوئی خصلت حمیدہ اور اچھی تعریف چاہتا ہے جس میں خرد مند لوگ ایک دوسرے سے مقابلے کی رغبت رکھتے ہیں اور وہ یہ ہےکہ تو اپنے نفس کو پاک کرے اور کفر وطغیان سے اپنی تطہیر کرکے ایمان اور عمل صالح کی طرف آئے؟ النازعات
19 ﴿وَاَہْدِیَکَ اِلٰی رَبِّکَ﴾ یعنی میں اس کی طرف تیری رہن+مائی کروں اور اس کی ناراضی کے مواقع میں سے اس کی رضا کے مواقع واضح کروں ﴿ فَتَخْشَىٰ ﴾ پس جب تجھے صراط مستقیم معلوم ہوجائے تو اللہ سے ڈرجائے۔ جس چیز کی طرف حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کو دعوت دی تھی، فرعون نے اسے قبول کرنے سے انکار کردیا۔ النازعات
20 ﴿فَاَرٰیہُ الْاٰیَۃَ الْکُبْرٰی﴾ ” پس اس نے اس کو بڑی نشانی دکھائی۔“ یعنی بڑی نشانی کی جنس اور یہ ان نشانیوں کے تعدد کے منافی نہیں ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿ فَأَلْقَىٰ عَصَاهُ فَإِذَا هِيَ ثُعْبَانٌ مُّبِينٌ وَنَزَعَ يَدَهُ فَإِذَا هِيَ بَيْضَاءُ لِلنَّاظِرِينَ ﴾(الاعراف:7؍108؍107) ” موسیٰ نے اپنا عصا ڈالا تو وہ یکایک صاف ایک اژدھا بن گیا اور اپنا ہاتھ باہر نکالا تو وہ سب دیکھنے والوں کے لیے روشن چمکتا ہوا ہوگیا۔“ النازعات
21 ﴿ فَکَذَّبَ ﴾ پس اس نے حق کو جھٹلایا﴿ وَعَصٰی﴾ اور حکم کی نافرمانی کی۔ النازعات
22 ﴿ ثُمَّ اَدْبَرَ یَسْعٰی﴾” پھر لوٹ گیا اور تدبیریں کرنے لگا۔ “یعنی حق کا مقابلہ اور اس کے خلاف جنگ میں جدوجہد کرنے لگا۔ النازعات
23 ﴿ فَحَشَرَ﴾ پس اس نے اپنے لشکروں کو جمع کیا ﴿ فَنَادَىٰ فَقَالَ ﴾ اور پکارا اور ان سے کہا : ﴿اَنَا رَبُّکُمُ الْاَعْلٰی﴾ ” میں تمہارا سب سے بڑا رب ہوں۔“ پس جب اس نے ان کو کمزور پایا تو انہوں نے اس کے سامنے سراطاعت خم کردیا اور اس کے باطل کا اقرار کرلیا۔ النازعات
24 النازعات
25 ﴿ فَاَخَذَہُ اللّٰہُ نَکَالَ الْاٰخِرَۃِ وَالْاُوْلٰی﴾ ” پس اللہ نے اس کو دنیا وآخرت کے عذاب میں پکڑ لیا۔“ یعنی اللہ تعالیٰ نے اس کی سزا کو دنیا اور آخرت کے عذاب کے لیے دلیل، تنبیہ اور اس کو بیان کرنے والی بنایا۔ النازعات
26 ﴿اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَعِبْرَۃً لِّمَنْ یَّخْشٰی﴾ ” بے شک اسی میں اس شخص کے لیے عبرت ہے جو ڈرے۔“ کیونکہ جو کوئی اللہ سے ڈرتا ہے وہی آیات الٰہی اور عبرتوں سے مستفید ہوتا ہے، لہٰذا جب وہ فرعون کی سزا پر غور کرے گا تو اسے اس حقیقت کی معرفت حاصل ہوجائے گی کہ جو کوئی تکبر اور نافرمانی کرتا ہے اور مالک اعلیٰ کا مقابلہ کرتا ہے، اسے دنیا وآخرت میں سزا ملتی ہے ۔ جس کسی دل سے خشیت الٰہی رخصت ہوجاتی ہے تو اس کے پاس چاہے ہر قسم کی نشانی کیوں نہ آجائے وہ ایمان نہیں لاتا۔ النازعات
27 اللہ تبارک وتعالی، آخرت کو اور اجساد کے دوبارہ زندہ کرنے کو بعید سمجھنے والوں کے لیے واضح دلیل بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے: ﴿ءَاَنْتُمْ ﴾ اے انسانو ! کیا تمہارا ﴿ اَشَدُّ خَلْقًا اَمِ السَّمَاءُ﴾ ” بنانا زیادہ شدید ہے یا آسمان کا؟ “ جو بڑے بڑے اجرام، طاقت ور مخلوق اور انتہائی بلندیوں والا ہے ﴿بَنٰیہَا﴾ اسے اللہ تعالیٰ نے بنایا ہے۔ النازعات
28 ﴿رَفَعَ سَمْکَہَا﴾ یعنی اس نے اس کی چھت اور صورت کو بلند کیا﴿ فَسَوّٰیہَا﴾ ” پھر اسے برابر کردیا۔“ یعنی اس کو محکم اور مضبوط بنا کر جو عقل کو حیران اور خرد کو گم کردیتا ہے۔ النازعات
29 ﴿وَاَغْطَشَ لَیْلَہَا﴾ یعنی اللہ تعالیٰ رات کو تاریک کرتا ہے تو یہ تاریکی آسمان کے تمام کناروں تک پھیل جاتی ہے اور روئے زمین کو تاریک کردیتی ہے ﴿وَاَخْرَجَ ضُحٰیہَا﴾ یعنی جب اللہ تعالیٰ سورج کو لے کر آتا ہے تو روئے زمین پر عظیم روشنی ظاہر کرتا ہے تو لوگ اپنے دینی اور دنیاوی کاموں کے لیے پھیل جاتے ہیں۔ النازعات
30 ﴿وَالْاَرْضَ بَعْدَ ذٰلِکَ ﴾ یعنی آسمان کی تخلیق کے بعد زمین کو﴿ دَحٰیہَا﴾ ”اس نے بچھا دیا۔ “ یعنی اس کے اندر اس کے منافع ودیعت کردیے۔ النازعات
31 پھر اپنے اس ارشاد سے اس کی تفسیر بیان کی: ﴿اَخْرَجَ مِنْہَا مَاءَہَا وَمَرْعٰیہَا۔ وَالْجِبَالَ اَرْسٰیہَا﴾ ” اسی نے اس میں سےاس کا پانی نکالا اور چارا اگایا اور پہاڑوں کو گاڑ دیا۔ “ یعنی انہیں زمین پر مضبوطی سے جمایا، آسمانوں کی تخلیق کے بعد اللہ تعالیٰ نے زمین کو پھیلا کر ہموار کیا ،جیسے کہ ان آیات کریمہ میں منصوص ہے اور رہی خودزمین کی تخلیق تو یہ آسمان کی تخلیق سے متقدم ہے ،جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ قُلْ أَئِنَّكُمْ لَتَكْفُرُونَ بِالَّذِي خَلَقَ الْأَرْضَ فِي يَوْمَيْنِ وَتَجْعَلُونَ لَهُ أَندَادًا ذَٰلِكَ رَبُّ الْعَالَمِينَ وَجَعَلَ فِيهَا رَوَاسِيَ مِن فَوْقِهَا وَبَارَكَ فِيهَا وَقَدَّرَ فِيهَا أَقْوَاتَهَا فِي أَرْبَعَةِ أَيَّامٍ سَوَاءً لِّلسَّائِلِينَ ثُمَّ اسْتَوَىٰ إِلَى السَّمَاءِ وَهِيَ دُخَانٌ فَقَالَ لَهَا وَلِلْأَرْضِ ائْتِيَا طَوْعًا أَوْ كَرْهًا قَالَتَا أَتَيْنَا طَائِعِينَ فَإِنْ أَعْرَضُوا فَقُلْ أَنذَرْتُكُمْ صَاعِقَةً مِّثْلَ صَاعِقَةِ عَادٍ وَثَمُودَ ﴾( حم السجدۃ:41؍9۔12) ” کہہ دیجئے: کیا تم اس ہستی کا انکار کرتے ہو، جس نے زمین کو دو دن میں پیدا کیا اور تم ہو کہ اس کے ہم سر بناتے ہو ، وہ تمام جہانوں کارب ہے اور اس نے زمین کے اوپر پہاڑ رکھ دیے اور اس کے اندر برکت رکھ دی اور چار دن میں اس کے اندر اس کی غذاؤں کو مقدر کردیا، تمام طلب گاروں کے لیے یکساں طور پر ، پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا جبکہ وہ دھواں تھا ، پس اس نے آسمان سے اور زمین سے کہا ، دونوں آؤ ، خوش دلی سے یا بادل نخواستہ، انہوں نے کہا ہم خوشی سے آتے ہیں ، پس اس نے دو دن میں سات آسمان بنادیے۔“ پس جس نے بڑے بڑے آسمان، ان کی روشنیاں، اجرام فلکی، گرد بھری اور کثیف زمین، اس کے اندر مخلوق کی ضروریات اور ان کی منفعتیں ودیعت کردیں ، وہ ضرور مکلف مخلوق کو دوبارہ زندہ کرے گا اور ان کو ان کے اعمال کی جزا وسزا دے گا ۔ پس جس نے نیکی کی اس کے لیے بھلائی ہے اور جس نے برائی کی وہ صرف اپنے نفس کو ملامت کرے ۔ بنابریں اس کے بعد قیامت کے برپا ہونے کا ذکر کیا اور پھر جزا وسزا کا ذکر کیا۔چنانچہ فرمایا: النازعات
32 النازعات
33 النازعات
34 یعنی جب قیامت کبرٰی اور بہت بڑی سختی، جس کے سامنے ہر سختی ہیچ ہے، آئے گی ، اس وقت باپ اپنے بیٹے سے دوست اپنے دوست سے اور محب اپنے محبوب سے غافل ہوجائے گااور ﴿ يَتَذَكَّرُ الْإِنسَانُ مَا سَعَىٰ ﴾” اس دن انسان اپنے کاموں کو یاد کرے گا۔“ یعنی دنیا کے اندر اس نے اچھے اور برے جو کام کیے تھے ۔پس وہ اپنی نیکیوں میں ذرہ بھر نیکی کے اضافے کی تمنا کرے گا اور اپنی برائیوں میں ذرہ بھر اضافے پر غم زدہ ہو جائے گا۔ تب اسے اپنے اس نفع اور خسارے کی حقیقت معلوم ہوگی جو اس نے دنیا کے اندر کمایا۔ اعمال کے سوا تمام اسباب اور تعلقات منقطع ہوجائیں گے جو وہ دنیا کے اندر رکھتا تھا۔ النازعات
35 النازعات
36 ﴿وَبُرِّزَتِ الْجَحِیْمُ لِمَنْ یَّرٰی﴾ یعنی جہنم کو میدان میں ہر ایک کے سامنے ظاہر کردیا جائے گا ۔ اسے جہنمیوں کے لیے تیار کیا گیا ہے ۔ جہنم ان کو پکڑنے کے لیے تیار اور اپنے رب کے حکم کا منتظر ہوگا۔ النازعات
37 ﴿فَاَمَّا مَنْ طَغٰی﴾ یعنی جس نے حد سے تجاوز کیا، بڑے بڑے گناہوں کے ارتکاب کی جسارت کی اور ان حدود پر اقتصاد نہ کیا جو اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے مقرر کی تھیں۔ النازعات
38 ﴿وَاٰثَرَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا﴾ اور آخرت پر دنیا کی زندگی کو ترجیح دی اور دنیا ہی کے حظوظ وشہوات میں مستغرق رہا اور اسی کے لیے بھاگ دوڑ کی اور اس کا تمام تر وقت دنیا ہی کے لیے رہا اور اس نے آخرت اور اس کے لیے عمل کو فراموش کردیا۔ النازعات
39 ﴿فَاِنَّ الْجَــحِیْمَ ھِیَ الْمَاْوٰی﴾ یعنی جس کا یہ حال ہے ، جہنم اس کا ٹھکانا اور مسکن ہوگا۔ النازعات
40 ﴿وَاَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ﴾ یعنی جو اللہ تعالیٰ کے حضور کھڑا ہونے اور عدل وانصاف پر مبنی اس کی جزا سے ڈر گیا اور اس ڈرنے اس کے دل کو متأثر کیا اور اپنے نفس کو ان خواہشات سے روک لیا جو اسے اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے روکتی ہیں اور اس کی خواہشات اس چیز کے تابع ہوگئیں جو رسول صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے ہیں اور ان خواہشات کے خلاف جدوجہد کی جو بھلائی سے روکتی ہیں۔ النازعات
41 ﴿فَاِنَّ الْجَنَّۃَ﴾” تو بے شک جنت“ جو ہر بھلائی، سرور اور نعمت پر مشتمل ہے ﴿ ھِیَ الْمَاْوٰی﴾ مذکورہ اوصاف کے حامل شخص کو ٹھکانا ہے۔ النازعات
42 قیامت کے جھٹلانے والے اور لغزش کے خواہاں لوگ آپ سے پوچھتے ہیں : ﴿عَنِ السَّاعَۃِ﴾ ”قیامت کے متعلق۔ “ کہ اس کا وقوع اور ﴿اَیَّانَ مُرْسَاهَا﴾ ” اس کا قیام کب ہوگا؟“ النازعات
43 اللہ تعالیٰ نے جواب میں فرمایا:﴿فِیْمَ اَنْتَ مِنْ ذِكْرَاهَا﴾ ” پس تم اس کے ذکر کی فکر میں ہو؟ “ یعنی اس کے ذکر اور اس کی آمد کے وقت کی معرفت حاصل کرنے میں آپ کو اور ان کو کیا فائدہ؟ پس اس کا کوئی نتیجہ نہیں۔ اس لیے کہ قیامت کے وقت کے بارے میں بندوں کو علم میں کوئی دینی مصلحت ہے نہ دنیاوی مصلحت، بلکہ قیامت کے وقت کے اخفا ہی میں مصلحت ہے ،اس لیے اس کے علم کو تمام مخلوق سے مخفی رکھا اور اس کے علم کو صرف اپنے لیے مخصوص رکھا۔ النازعات
44 چنانچہ فرمایا : ﴿اِلٰی رَبِّکَ مُنْتَہٰہَا﴾ یعنی اس کا علم اللہ تعالیٰ پر منتہی ہوتا ہے ، جیسا کہ ایک دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿يَسْأَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ أَيَّانَ مُرْسَاهَا قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِندَ رَبِّي لَا يُجَلِّيهَا لِوَقْتِهَا إِلَّا هُوَ ثَقُلَتْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ لَا تَأْتِيكُمْ إِلَّا بَغْتَةً يَسْأَلُونَكَ كَأَنَّكَ حَفِيٌّ عَنْهَا قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِندَ اللّٰـهِ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ﴾( الاعراف :7؍187) ” یہ لوگ آپ سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ اس کا وقوع کب ہوگا؟ آپ کہہ دیجئے کہ اس کا علم تو میرے رب ہی کے پاس ہے ،اس کو اس کے وقت پر صرف وہی ظاہر کرے گا۔ وہ آسمانوں اور زمین میں بڑا بھاری(حادثہ) ہوگا۔ وہ تم پر محض اچانک آ پڑے گی ۔ وہ آپ سے اس طرح پوچھتے ہیں جیسے گویا آپ اس کی تحقیقات کرچکے ہیں ۔ فرمادیجئے کہ اس کا علم خاص اللہ ہی کے پاس ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔“ النازعات
45 ﴿اِنَّمَآ اَنْتَ مُنْذِرُ مَنْ يَخْشَاهَا﴾ یعنی آپ کی تنبیہ کا فائدہ صرف اسی شخص کو ہوتا ہے جو اس گھڑی کی آمد سے ڈرتا اور اللہ تعالیٰ کے حضور کھڑا ہونے سے خائف ہے ۔ پس یہ وہ لوگ ہیں جن کے لیے سب سے اہم چیز اس کے لیے تیاری اور اس کے لیے عمل ہے۔ جو کوئی قیامت پر ایمان نہیں رکھتا تو وہ اس کی پروا نہیں کرتا اور نہ وہ اس تکلیف میں پڑتا ہے ، کیونکہ یہ ایسا تعنت ہے جو تکذیب اور عناد پر مبنی ہے اور جب سائل اس حال کو پہنچ جائے تو اس کے بارے میں جواب دینا عبث ہے، احکم الحاکمین اس عبث کام سے منزہ ہے۔ النازعات
46 النازعات
0 عبس
1 ان آیات کریمہ کے نزول کا سبب یہ ہے کہ اہل ایمان میں سے ایک نابینا شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آپ سے کچھ پوچھنے اور سیکھنے کے لیے حاضر ہوا ۔ (مکہ مکرمہ کے)دولت مند لوگوں میں سے بھی ایک شخص آپ کی خدمت میں حاضر تھا ، آپ مخلوق کی ہدایت کے بہت حریص تھے ، چنانچہ آپ اس دولت مند شخص کی طرف مائل ہوئے اور اس کی طرف توجہ مبذول کی اور اس نابینا محتاج کی طرف توجہ نہ کی ، اس امید پر کہ وہ دولت مند شخص راہ ہدایت پالے اور اس کا تزکیہ ہوجائے تو اللہ تعالیٰ نے نہایت لطیف پیرائے میں آپ پر ناراضی کا اظہار کیا ،چنانچہ فرمایا : ﴿عَبَسَ﴾ یعنی آپ ترش رو ہوگئے ﴿ وَتَوَلّیٰٓ﴾ اور اپنے جسم کو موڑ لی، اس بنا پر کہ اندھا آپ کے پاس آیا ہے ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس نابینا شخص کی طرف توجہ دینے کا فائدہ بیان فرمایا : ﴿وَمَا یُدْرِیْکَ لَعَلَّہٗ﴾ ”اور تمہیں کیا خبر کہ شاید وہ۔“ یعنی نابیناشخص ﴿یَزَّکّیٰٓ﴾ اخلاق رذیلہ سے پاک اور اخلاق جمیلہ سے متصف ہونا چاہتا ہو؟ عبس
2 عبس
3 عبس
4 ﴿اَوْ یَذَّکَّرُ فَتَنْفَعَہُ الذِّکْرٰی﴾ یا وہ کسی چیز سے نصیحت پکڑتا جو اسے فائدہ دیتی اور وہ اس نصیحت سے نفع حاصل کرتا؟ یہ بہت بڑا فائدہ ہے اور یہی چیز انبیاء ورسل کی بعثت، واعظین کے وعظ اور یاد دہانی کرانے والوں کی تذکیر کا مقصد ہے جو شخص اس چیز کا حاجت مند بن کر خود چل کرآیا ہے ، اس کی طرف آپ کو توجہ دینا زیادہ لائق اور واجب ہے۔ رہا آپ کا اس بے نیاز دولت مند کی ہدایت کے درپے ہونا اور اس سے تعرض کرنا جو بھلائی میں عدم رغبت کی بنا پر سوال کرتا ہے نہ فتوی طلب کرتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ آپ کا اس شخص کو چھوڑ دینا جو اس سے زیادہ اہم ہے آپ کے لیے مناسب نہیں، کیونکہ آپ پر اس کے پاکیزگی اختیار نہ کرنے کا کوئی گناہ نہیں ہے ۔اگر وہ پاک نہیں ہوتا تو آپ اس برے کام کا محاسبہ کرنے والے نہیں ہیں جس کا ارتکاب کرتا ہے ۔ یہ چیز ایک مشہور شرعی قاعدے پر دلالت کرتی ہے ،وہ قاعدہ یہ ہے کہ کسی امر معلوم کو کسی امر موہوم کی خاطر اور کسی مصلحت متحققہ کو کسی مصلحت موہومہ کی خاطر ترک نہ کیا جائے ، نیز مناسب یہ ہے کہ وہ طالب علم جو علم کا حاجت مند اور حصول علم کا حریص ہے اس پر دوسروں کی نسبت زیادہ توجہ دی جائے۔ عبس
5 عبس
6 عبس
7 عبس
8 عبس
9 عبس
10 عبس
11 اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿کَلَّآ اِنَّہَا تَذْکِرَۃٌ﴾ ” دیکھو یہ نصیحت ہے۔ “ یعنی حق بات یہ ہے کہ یہ نصیحت اللہ تعالیٰ کی طرف سے یاد دہانی ہے جس سے اس کے بندے نصیحت کو یاد رکھتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں ہر وہ چیز بیان کردی ہے جس کے بندے حاجت مند ہیں اور اس نے گمراہی میں سے رشد وہدایت کو واضح کردیا ہے۔ عبس
12 جب رشد و ہدایت واضح ہوگئی ﴿فَمَنْ شَاءَ ذَکَرَہٗ﴾ ” تو جو چاہے اس کو یاد رکھے۔ “ یعنی اس پر عمل کرے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿ وَقُلِ الْحَقُّ مِن رَّبِّكُمْ فَمَن شَاءَ فَلْيُؤْمِن وَمَن شَاءَ فَلْيَكْفُرْ﴾( الکھف :18؍29) ”اور کہہ دیجئے حق تمہارے رب کی طرف سے ہے، پس جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے انکار کردے۔“ عبس
13 پھر اللہ تعالیٰ نے اس تذکیر کا محل، اس کی عظمت اور اس کی رفعت قدر کا ذکر کیا ،چنانچہ فرمایا : ﴿فِیْ صُحُفٍ مُّکَرَّمَۃٍ۔ مَّرْفُوْعَۃٍ مُّطَہَّرَۃٍ﴾ ”قابل ادب ورقوں میں جو بلند وبالا( اور) پاک ہیں۔“ یعنی قدرومنزلت میں بلند، تمام آفات سے سلامت اور اس بات سے محفوظ کہ شیاطین کے ہاتھ اس تک پہنچ سکیں یا وہ اسے چراسکیں ، بلکہ یہ ﴿بِاَیْدِیْ سَفَرَۃٍ﴾ ” لکھنے والے کے ہاتھوں میں ہے۔“ اس سے مراد وہ فرشتے ہیں جو اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کے درمیان سفیر ہیں۔ عبس
14 عبس
15 عبس
16 ﴿کِرَامٍ ﴾ یعنی وہ بہت زیادہ خیروبرکت والے ہیں﴿ بَرَرَۃٍ﴾ ان کے دل اور اعمال نیک ہیں ۔ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنی کتاب کی حفاظت کے لیے ہے۔ اس نے بزرگ، طاقتور اور نیک فرشتوں کو رسولوں کے پاس بھیجنے کے لیے سفیر بنایا اور شیاطین کو اس پر کوئی اختیار نہیں دیا۔ عبس
17 یہ چیز اس پر ایمان لانے اور اس کے قبول کرنے کی موجب ہے، لیکن اس کے باوجود انسان نے ناشکری ہی کی، اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿قُتِلَ الْاِنْسَانُ مَآ اَکْفَرَہٗ﴾ ” انسان ہلاک ہوجائے کیسا ناشکرا ہے ؟ “ اس نے اللہ تعالیٰ کی نعمت کی کیسے ناشکری کی؟ حق کے واضح ہوجانے کے بعد بھی اس کے ساتھ کتنا شدید عناد رکھا؟ حالانکہ وہ کمزور ترین چیز ہے ،اللہ تعالیٰ نے اسے ایک حقیر پانی سے پیدا کیا ، پھر اس کی تخلیق کا اندازہ مقرر کیا اور اسے نک سک سے درست کرکے کامل انسان بنایا اور اس کے ظاہری اور باطنی قو ی کو مہارت سے بنایا۔ عبس
18 عبس
19 عبس
20 ﴿ثُمَّ السَّبِیْلَ یَسَّرَہٗ﴾ یعنی اس کے لیے دینی اور دنیاوی اسباب آسان کردیے ، اس کو سیدھا راستہ دکھایا اور اس کو واضح کردیا اور امر ونہی کے ذریعے سے اس کو امتحان میں ڈالا۔ عبس
21 ﴿ثُمَّ اَمَاتَہٗ فَاَقْبَرَہٗ﴾ ” پھر اس کو موت دی، پھر قبر میں دفن کرادیا۔“ یعنی تدفین کے ذریعے سے اس( کے مردہ جسم ) کی تکریم کی ، تمام حیوانات کی طرح اس کے ساتھ سلوک نہیں کیا جن کی لاشیں سطح زمین پر پڑی رہتی ہیں۔ عبس
22 ﴿ثُمَّ اِذَا شَاءَ اَنْشَرَہٗ﴾ پھر اس کی موت کے بعد وہ جب چاہے گا جزاوسزا کے لیے اس کو اٹھا کر کھڑا کرے گا۔ پس انسان کی تدبیر کرنے اور ان کے تصرفات میں اللہ تعالیٰ متفرد ہے ، اس میں کوئی اس کا شریک نہیں ۔ بایں ہمہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے جو حکم دیا ہے وہ اس کی تعمیل نہیں کرتا اور نہ وہ اس فرض ہی کو پورا کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس پر عائد کیا ہے بلکہ اس کے برعکس ، وہ طلب کے تحت ، ہمیشہ کوتاہی کا مرتکب رہتا ہے۔ عبس
23 عبس
24 پھر اللہ تبارک وتعالی ٰ نے انسان کو ہدایت کی ہے کہ وہ اپنے کھانے میں غوروفکر کرے کہ وہ متعدد مراحل میں سے گزرنے کے بعد کس طرح اس کے پاس پہنچا ہے اور کس طرح اللہ تعالیٰ نے اس کھانے کو اس کے لیے آسان بنایا؟ چنانچہ فرمایا : ﴿فَلْیَنْظُرِ الْاِنْسَانُ اِلٰی طَعَامِہٖٓ۔ اَنَّا صَبَبْنَا الْمَاءَ صَبًّا﴾ ” پس انسان کو چاہیے کہ اپنے کھانے کی طرف دیکھے۔ بے شک ہم ہی نے پانی برسایا۔ “ یعنی ہم نے زمین پر بکثرت بارش برسائی۔ عبس
25 عبس
26 ﴿ثُمَّ شَقَقْنَا الْاَرْضَ شَقًّا﴾ پھر نباتات اگانے کے لیے زمین کو پھاڑا ۔ ﴿ فَأَنبَتْنَا فِيهَا﴾ اس میں ہم نے مختلف اصناف اگائیں، یعنی انواع واقسام کے لذیذ کھانے اور مزیدار غذائیں اور ﴿ حَبًّا ﴾ ”دانے۔ “یہ مختلف قسم کے دانوں کی تمام اصناف کو شامل ہے۔ ﴿ وَعِنَبًا وَقَضْبًا ﴾ ” اور انگور اور ترکاری۔“ ﴿ وَزَيْتُونًا وَنَخْلًا ﴾ ” اور زیتون اور کھجور۔ “ ان مذکورہ چار اجناس کو ان کے فوائد اور منافع کی کثرت کی بنا پر مختص کیا ہے۔ عبس
27 عبس
28 عبس
29 عبس
30 ﴿وَّحَدَایِٕقَ غُلْبًا﴾ یعنی باغات جن کے اندر بکثرت گھنے درخت ہیں۔ عبس
31 ﴿وَّفَاکِہَۃً وَّاَبًّا﴾ اَلفَاکِہَۃ ان پھلوں کو کہا جاتا ہے جن کو انسان لذت حاصل کرنے کے لیے کھاتا ہے، مثلا : انجیر، انگور، آڑو اور انار وغیرہ۔ الاب” چارا“ جسے بہائم اور مویشی کھاتے ہیں ،اس لیے فرمایا : ﴿مَّتَاعًا لَّکُمْ وَلِاَنْعَامِکُمْ﴾ ” تمہارے اور تمہارے چوپاؤں کے لیے سامان زندگی ہے ۔“ جن کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کرکے تمہارے لیے مسخر کردیا۔ جو کوئی ان نعمتوں پر غور کرتا ہے تو یہ غوروفکر اس کے لیے اپنے رب کے شکر، اس کی طرف انابت میں جدوجہد کرنے کا، اس کی اطاعت کی طرف آنے اور اس کی اخبار کی تصدیق کرنے کاموجب بنتا ہے۔ عبس
32 عبس
33 یعنی جب قیامت کی چنگھاڑ آئے گی ، جس کے ہول سے کان بہرے ہوجائیں گے ۔ اس روز لوگ قیامت کی ہولناکیاں دیکھیں گے اور انہیں اعمال کی سخت ضرورت ہوگی تو دل دہل جائیں گے۔ عبس
34 ﴿ یَفِرُّ الْمَرْءُ﴾ انسان اس شخص سے بھی بھاگے گا جو اسے سب سے عزیز اور اس کے لیے سب سے زیادہ شفیق ہے ﴿مِنْ اَخِیْہِ۔ وَاُمِّہٖ وَاَبِیْہِ، وَصَاحِبَتِہٖ ﴾ ” اپنے بھائی سے، اپنی ماں سے، اپنے باپ سے اور اپنی بیوی سے۔“﴿ وَبَنِیْہِ﴾ ” اور اپنے بیٹوں سے۔ “ اور اس کا سبب یہ ہے کہ ﴿لِکُلِّ امْرِۍ مِّنْہُمْ یَوْمَیِٕذٍ شَاْنٌ یُّغْنِیْہِ﴾ اسے خود اپنی پڑی ہوگی اور وہ خود اپنے آپ کو چھڑانے کے لیے فکرمند ہوگا اور وہ کسی دوسرے کی طرف التفات نہیں کرسکے گا۔ عبس
35 عبس
36 عبس
37 عبس
38 اس وقت مخلوق دو گروہوں میں منقسم ہوجائے گی : خوش بختوں کا گروہ اور بد بختوں کا گروہ۔ رہے خوش بخت لوگ تو ان کے چہرے اس روز ﴿ مُّسْفِرَۃٌ﴾ ” روشن ہوں گے۔“ یعنی ان کے چہروں پر مسرت اور تروتازگی نمایاں ہوگی ، کیونکہ انہیں اپنی نجات اور نعمتوں سے فیض یاب ہونے کے بارے میں معلوم ہوگیا ہوگا۔ عبس
39 ﴿ضَاحِکَۃٌ مُّسْتَبْشِرَۃٌ وَوُجُوْہٌ ﴾ ” وہ چہرے خنداں وشاداں ہوں گےاور کئی چہرے ۔“ عبس
40 یعنی بدبختوں کے چہرے﴿ یَّوْمَیِٕذٍ عَلَیْہَا غَبَرَۃٌ۔ تَرْہَقُہَا ﴾ اس روز غبار آلود ہوں گے اور اسے ڈھانپ رکھا ہوگا ﴿قَتَرَۃٌ﴾ ” سیاہی نے۔ “ پس یہ چہرے سیاہ اور نہایت تاریک ہوں گے اور ہر بھلائی سے مایوس ہوں گے اور انہیں اپنی بدبختی اور ہلاکت کا علم ہوگیا ہوگا۔ عبس
41 عبس
42 ﴿اُولٰیِٕکَ ﴾ جن کا یہ وصف ہے، یہی وہ لوگ ہیں﴿ ہُمُ الْکَفَرَۃُ الْفَجَرَۃُ﴾ جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی نعمت کی ناشکری کی، اس کی آیتوں کو جھٹلایا اور اس کے محارم کے ارتکاب کی جسارت کی۔ ہم اللہ تعالیٰ سے عفو اور عافیت کے طلب گار ہیں ، وہ بڑا ہی فیاض اور نہایت کرم والا ہے۔ وَالْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ عبس
0 التكوير
1 یعنی جب یہ ہولناک امور ظاہر ہوں گے تو مخلوق جدا جدا ہوجائے گی۔ ہر ایک کو علم ہوجائے گا کہ اس نے اپنی آخرت کے لیے کیا آگے بھیجا ہے اور آخرت میں اس نے کیا بھلائی اور برائی پیش کی ہے ۔ یہ اس وقت ہوگا جب قیامت کے روز سورج بے نور ہوجائے گا، اس کو اکٹھا کرکے لپیٹ دیا جائے گا اور چاند گرہن لگ جائے گا اور دونوں کو آگ میں ڈال دیا جائے گا۔ التكوير
2 ﴿وَاِذَا النُّجُوْمُ انْکَدَرَتْ﴾ ” اور جب تارے بے نور ہوجائیں گے۔ “ یعنی متغیر ہوجائیں گے اور اپنے افلاک سے ٹوٹ کر بکھر جائیں گے۔ التكوير
3 ﴿وَاِذَا الْجِبَالُ سُیِّرَتْ﴾ ” اور جب پہاڑ چلائے جائیں گے۔ “ یعنی ریت کے بھر بھرے ٹیلے بن جائیں گے ، پھر دھنکی ہوئی رنگ دار اون کے مانند بن جائیں گے ، پھر بدل کر اڑتا ہوا غبار بن جائیں گے اور ان کو اپنی جگہوں سے ہٹا دیا جائے گا۔ التكوير
4 ﴿وَاِذَا الْعِشَارُ عُطِّلَتْ﴾ ” اور جب دس ماہ کی حاملہ اونٹنیاں چھوڑ دی جائیں گی ۔“ یعنی جب لوگ اپنے بہترین اموال کو بے کار چھوڑ دیں گے جن کا وہ ہر وقت بہت اہتمام اور دھیان رکھا کرتے تھے ۔ پس ان پر ایسا وقت آئے گا جو ان کو ان اموال سے غافل کردے گا ۔ عشارا ایسی اونٹیوں کو کہا جاتا ہے جن کے پیچھے ان کے بچے ہوتے ہیں ، یہ عربوں کا بہترین مال تصور کیا جاتا ہے جو اس وقت ان کے پاس ہوتا تھا ۔ التكوير
5 اس معنی کے مطابق ہر نفیس مال ﴿وَاِذَا الْوُحُوْشُ حُشِرَتْ﴾ ” اور جب وحشی جانور اکٹھے کیے جائیں گے۔“ یعنی قیامت کے روز جمع کیے جائیں گے تاکہ اللہ تعالیٰ ان میں سے ایک کو دوسرے سے قصاص لے کر دے اور بندے اس کے کمال عدل کا مشاہدہ کریں حتیٰ کہ وہ بے سینگ بکری کو سینگ والی بکری سے قصاص دلائے گا ، پھر اس سے کہا جائے گا کہ مٹی ہوجا۔ التكوير
6 ﴿وَاِذَا الْبِحَارُ سُجِّرَتْ﴾ ” اور جب سمندر بھڑکا دیے جائیں گے ۔“ یعنی ان کو گرم کیا جائے گا اور تنے بڑے ہونے کے باوجود ، وہ آگ بن بھڑک اٹھیں گے۔ التكوير
7 ﴿وَاِذَا النُّفُوْسُ زُوِّجَتْ﴾ ” اور جب روحیں ملا دی جائیں گی ۔ “ یعنی ہر صاحب عمل کو اسی جیسے صاحب عمل کا ساتھی بنا دیا جائے گا۔ پس ابرابر کو ابرار کے ساتھ، فجار کو فجار کے ساتھ جمع کردیا جائے گا، اہل ایمان کو حوروں کے ساتھ جوڑے جوڑے بنا دیا جائے گا اور کفار کو شیاطین کے ساتھ۔ یہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے مانند ہے : ﴿ وَسِيقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَىٰ جَهَنَّمَ زُمَرًا ﴾( الزمر :39؍71) ” اور کفار کو گروہ گروہ بنا کر جہنم کی طرف لے جایا جائے گا۔ “ ﴿ وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَرًا ﴾( الزمر :39؍73) ” اور ان لوگوں کو جو اپنے رب سے ڈرتے رہے، گروہ گروہ بنا کر جنت کی طرف لے جایاجائے گا۔“﴿ احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْوَاجَهُمْ ﴾( الصافات:37؍22)” ان لوگوں کو جنہوں نے ظلم کا ارتکاب کیا اور ان کے ہم جنسوں کو اکٹھا کرو۔“ التكوير
8 ﴿وَإِذَا الْمَوْءُودَةُ سُئِلَتْ ﴾ زمانہ جاہلیت کے جہلاء بیٹیوں کو فقیری کے ڈر سے کسی سبب کے بغیر زندہ دفن کردیا کرتے تھے۔ پس اس زندہ دفن کی گئی لڑکی سے پوچھا جائے گا: ﴿بِاَیِّ ذَنْبٍ قُتِلَتْ﴾ ” کہ وہ کس گناہ کی وجہ سے قتل کی گئی؟ “اور یہ بات معلوم ہے کہ ان بیٹیوں کا کوئی گناہ نہیں تھا مگر اس (کے ذکر ) میں بیٹیوں کے قاتلین کے لیے زجر وتوبیخ اور جھڑکی ہے۔ التكوير
9 التكوير
10 ﴿وَاِذَا الصُّحُفُ ﴾ اور جب وہ اعمال نامے جو عمل کرنے والوں کے اچھے برے اعمال پر مشتمل ہوں گے ﴿ نُشِرَتْ﴾ ان کو الگ الگ کرکے عمل کرنے والوں کو تقسیم کردیا جائے گا۔ پس کسی نے اپنا نامہ اعمال دائیں ہاتھ میں لے رکھا ہوگا اور کسی نے بائیں ہاتھ میں لے رکھا ہوگا یا اپنی پیٹھ پیچھے چھپا رکھا ہوگا۔ التكوير
11 ﴿وَاِذَا السَّمَاءُ کُشِطَتْ﴾ ” اور جب آسمان کی کھال کھینچ لی جائے گی۔“ یعنی آسمان کو زائل کردیا جائے گا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ يَوْمَ تَشَقَّقُ السَّمَاءُ بِالْغَمَامِ ﴾ (الفرقان :25؍25) ” جس روز آسمان بادلوں کے ساتھ پھٹ جائے گا۔“ نیز فرمایا : ﴿ يَوْمَ نَطْوِي السَّمَاءَ كَطَيِّ السِّجِلِّ لِلْكُتُبِ ﴾(الانبیا :21؍104)جس روز ہم آسمانوں کو یوں لپیٹ دیں گے جس طرح اوراق کا دفتر لپیٹ دیتے ہیں۔ اور فرمایا ﴿ وَالْأَرْضُ جَمِيعًا قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَالسَّمَاوَاتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ ﴾( الزمر:39؍67) ”قیامت کے روز تمام زمین اس کی مٹھی میں ہوگی اور آسمان اس کے د ائیں ہاتھ پر لپٹے ہوئے ہوں گے۔ التكوير
12 ﴿وَاِذَا الْجَــحِیْمُ سُعِّرَتْ﴾ جب جہنم میں آگ جلائی جائے گی اور جہنم بھڑک کر اتنا شعلہ زن ہوجائے گا کہ اس سے پہلے کبھی اتنا نہ تھا۔ التكوير
13 ﴿وَاِذَا الْجَنَّۃُ اُزْلِفَتْ﴾ یعنی جنت اہل تقوٰی کے قریب کردی جائے گی۔ التكوير
14 ﴿عَلِمَتْ نَفْسٌ﴾ ” تو ہر نفس جان لے گا“ نَفْسٌ کا لفظ عام ہے، کیونکہ اسے شرط کے سیاق میں (نکرہ ) لایا گیا ہے۔ ﴿مَّآ اَحْضَرَتْ﴾ یعنی وہ اعمال جو اس کے پاس موجود ہوں گے اور جو اس نے آگے بھیجے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَوَجَدُوا مَا عَمِلُوا حَاضِرًا ﴾(الکھف :18؍49) ” اور انہوں نے جو عمل کیے ان کو وہ موجود پائیں گے۔ “ یہ اوصاف جن سے اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دن کو موصوف کیا ہے ، ایسے اوصاف ہیں جن سے دل دہل جاتے ہیں، کرب میں شدت آجاتی ہے ،جسم کانپنے لگتا ہے ، خوف چھا جاتا ہے ، یہ اوصاف خرد مند لوگوں کو اس دن کے لیے تیاری کرنے پر آمادہ کرتے ہیں اور اس کام سے روکتے ہیں جو ملامت کاموجب ہے۔ اسی لیے سلف میں سے کسی کا قول ہے : جو کوئی قیامت کے دن کو اسی طرح دیکھنا چاہے، گویا وہ اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے تو وہ سورۃ تکویر میں تدبر کرے۔ التكوير
15 اللہ تبارک وتعالی ٰنے پیچھے ہٹنے والے ستاروں کی قسم کھائی ﴿بِالْخُنَّسِ﴾ اس سے مراد وہ ستارے ہیں جو مشرق کی جہت میں، کواکب کی عادی رفتار سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں اور ہفت سیارگان یہ ہیں: سورج، چاند، زہرہ، مشتری، مریخ، زحل اور عطارد۔ ان ساتوں سیاروں کا چلنا دو جہتوں میں ہے۔ ایک چلنا مغرب کی جہت میں تمام کواکب اور فلک کے ساتھ اور ایک چلنا اس جہت کے برعکس، مشرق کی جہت میں، یہ چلنا صرف انہی سات سیاروں کے ساتھ مختص ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان ستاروں کے پیچھے ہٹنے کے حال میں، ان کے چلنے اور ان کے چھپ جانے، یعنی دن کے وقت مستور ہونے کے حال کی قسم کھائی ہے اور اس میں یہ احتمال بھی ہے کہ اس سے مراد تمام کواکب اور سیارے وغیرہ ہوں۔ التكوير
16 التكوير
17 ﴿وَالَّیْلِ اِذَا عَسْعَسَ﴾ یعنی رات کی قسم جب وہ جانے لگے اور کہا جاتا ہے کہ اس کے معنی یہ بھی ہیں کہ جب رات آنے لگے۔ التكوير
18 ﴿وَالصُّبْحِ اِذَا تَنَفَّسَ﴾ یعنی صبح جب اس کی علامات ظاہر ہونے لگیں اور روشنی تھوڑی تھوری پھوٹنے لگے، یہاں تک کہ مکمل ہوجائے اور سورج نکل آئے۔ یہ بڑی بڑی نشانیاں جن کی اللہ تعالیٰ نے قسم کھائی ہے ، قرآن کی سند کی قوت ، اس کی جلالت اور ہر شیطان مردود سے اس کی حفاظت کی بنا پر ہے۔ التكوير
19 اس لیے فرمایا : ﴿اِنَّہٗ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ کَرِیْمٍ﴾ ” بے شک یہ معزز فرشتے کا قول ہے۔“ اور وہ ہے جبرائیل علیہ السلام جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے لے کر نازل ہوئے ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿ وَإِنَّهُ لَتَنزِيلُ رَبِّ الْعَالَمِينَ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ عَلَىٰ قَلْبِكَ لِتَكُونَ مِنَ الْمُنذِرِينَ ﴾( الشعراء :26؍192،194)” اور یہ قرآن رب کائنات کی طرف سے نازل کردہ ہے ،اسے روح الامین لے کر نازل ہوئے آپ کے قلب پر تاکہ آپ تنبیہ کرنے والوں میں سے ہوجائیں ۔“ اللہ تعالیٰ نے اسے اس کے اچھے اخلاق اور قابل تعریف خصائل کی وجہ سے ﴿ كَرِيمٍ ﴾ کی صفت سے موصوف کیا ہے ، کیونکہ یہ فرشتوں میں سب سے ا فضل اور اپنے رب کے ہاں سب سے بڑے رتبے کا حامل ہے۔ التكوير
20 ﴿ذِیْ قُوَّۃٍ﴾ اللہ تعالیٰ نے اسے جو حکم دیا ، اس کی تعمیل کی قوت اور طاقت رکھنے والا ہے۔ یہ جبرائیل علیہ السلام کی قوت تھی انہوں نے حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کی بستیوں کو ان پر الٹ کر ان کو ہلاک کر دیا ۔ ﴿ عِنْدَ ذِی الْعَرْشِ﴾ ” عرش والے کے پاس۔“ یعنی جبرائیل علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت مقرب ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کی خاص اور بلند وقدر ومنزلت ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے ان کو مختص کیا ہے ﴿ مَکِیْنٍ﴾ یعنی تمام ملائکہ سے بڑھ کر ان کی قدرومنزلت ہے۔ التكوير
21 ﴿مُّطَاعٍ ثَمَّ﴾ یعنی ملأ اعلیٰ میں جبرائیل علیہ السلام کی اطاعت کی جاتی ہے، ان کے پاس مقرب فرشتوں کی ایک جماعت ہے جن پر ان کا حکم نافذ ہوتا ہے اور ان کی رائے کی اطاعت کی جاتی ہے۔ ﴿ اَمِیْنٍ﴾ یعنی امانت دار ہیں ، ان کو جو حکم دیا جاتا ہے اس کی تعمیل کرتے ہیں اس میں کمی بیشی نہیں کرتے اور جو حدود ان کے لیے مقرر کی گئی ہیں ان سے تجاوز نہیں کرتے۔ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے ہاں قرآن کریم کے شرف پر دلالت کرتا ہے ، کیونکہ اس کے ساتھ ایک عالی مرتبہ فرشتے کو بھیجا جو ان صفات کاملہ سے موصوف ہے ۔ عام عادت یہ ہے کہ بادشاہ کسی عالی مرتبہ ہستی کو اہم ترین مہم اور بلند مرتبہ پیغام ہی کے لیے بھیجا کرتے ہیں۔ التكوير
22 اللہ تبارک وتعالی ٰ نے رسول ملکی کی، جو قرآن لے کر آیا ، فضیلت بیان کرنے کے بعد رسول بشری کی فضیلت کا ذکر کیا ہے ، جس پر قرآن نازل ہوا اور جس کی طرف اس نے لوگوں کو دعوت دی ،چنانچہ فرمایا : ﴿وَمَا صَاحِبُکُمْ﴾ ” اور تمہارے ساتھی نہیں ہیں۔“ اور وہ ہیں محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ﴿بِمَجْنُوْنٍ﴾ ” مجنون۔ “جیسا کہ آپ کی رسالت کو جھٹلانے والے، آپ کے دشمن کہتے ہیں ، آپ کے بارے میں طرح طرح کے جھوٹ گھڑتے ہیں جن کے ذریعے سے وہ اس نور کو بجھا دینا چاہتے ہیں جسے لے کر آپ آئے ہیں ، بلکہ آپ تو عقل میں سب سے زیادہ کامل ، رائے میں سب سے زیادہ صائب اور قول میں سب سے زیادہ سچے ہیں۔ التكوير
23 ﴿وَلَقَدْ رَاٰہُ بِالْاُفُقِ الْمُبِیْنِ﴾ یعنی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جبرائیل علیہ السلام کو دیکھا جب کہ وہ آسمان کے کھلے افق پر تھے ، جو اتنا بلند ہوتا ہے کہ آنکھ کو واضح نظر آتا ہے۔ التكوير
24 ﴿وَمَا ہُوَ عَلَی الْغَیْبِ بِضَنِیْنٍ﴾ ” اور وہ پوشیدہ باتوں کے بتانے میں بخیل نہیں ۔“ یعنی اللہ تعالیٰ نے جو آپ کی طرف وحی کی ہے ، آپ اس کے بارے میں بخیل نہیں ہیں کہ اس میں سے کچھ چھپا لیں، بلکہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) تو آسمان والوں اور زمین والوں کے امین ہیں ، جس نے اپنے رب کی رسالت کو کھلے طور پر پہنچا دیا بلکہ آپ نے رسالت میں سے کسی چیز کو پہنچانے میں مال دار، کسی محتاج، کسی رئیس، کسی رعیت، کسی مرد، کسی عورت، کسی شہری اور کسی دیہاتی سے کبھی بخل سے کام نہیں لیا، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک ان پڑھ اور جاہل امت میں مبعوث کیا۔ جب آپ نے وفات پائی تو یہ لوگ علمائے ربانی اور دانش مندان ذی فراست بن چکے تھے ۔ تمام علوم کی غایت وانتہا یہی لوگ تھے اور دقائق ومفاہیم کے استخراج میں یہی منتہیٰ تھے ، یہ لوگ اساتذہ تھے اور دیگر لوگوں کی انتہا یہ ہے کہ وہ ان کے تلامذہ تھے۔ التكوير
25 ﴿وَمَا ہُوَ بِقَوْلِ شَیْطٰنٍ رَّجِیْمٍ﴾ ” اور یہ شیطان مردود کا کلام نہیں ہے۔“ چونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ان دو مکرم رسولوں کا ذکر کرکے اپنی کتاب کی جلالت اور فضیلت کا ذکر کیا اور ان کی مدح وثنا کی جن کے ذریعے سے یہ کتاب لوگوں کے ہاتھوں تک پہنچی ، اس لیے اس نے اس کتاب سے ہر آفت اور ہر نقص کو دور ہٹا دیا جو اس کی صداقت میں قادح ہوسکتا ہے، بنابریں فرمایا : ﴿وَمَا ہُوَ بِقَوْلِ شَیْطٰنٍ رَّجِیْمٍ﴾ ” اور یہ شیطان مردود کا کلام نہیں ہے ۔“ جو اللہ تعالیٰ اور اس کے قرب سے بہت دور ہے۔ التكوير
26 ﴿فَاَیْنَ تَذْہَبُوْنَ﴾ ” پھر تم کدھر جارہے ہو؟ “ یعنی تمہارے دل میں یہ بات کیسے آئی اور تمہاری عقل کہاں چلی گئی کہ تم نے حق کو جو صداقت کے بلندترین درجے پر ہے، بمنزلہ جھوٹ قرار دے دیا جو سب سے گھٹیا، سب سے رذیل اور سب سے اسفل باطل ہے ، کیا یہ حقائق کو بدلنے کے سوا کچھ اور ہے؟ التكوير
27 ﴿اِنْ ہُوَ اِلَّا ذِکْرٌ لِّلْعٰلَمِیْنَ﴾ ” یہ تو جہان والوں کے لیے نصیحت ہے۔“ یعنی جس کے ذریعے سے وہ اپنے رب، اس کی صفات کمال اور ان صفات کو یاد رکھتے ہیں جن کے ذریعے سے تمام نقائص، رذائل اور امثال سے اس کی تنزیہہ ثابت ہوتی ہے، اور اس کے ذریعے سے وہ اوامر ونواہی اور ان کے حکم کو یاد رکھتے ہیں اور اس کے ذریعے سے احکام قدریہ، احکام شرعیہ اور احکام جزائیہ کو یاد رکھتے ہیں۔ وہ بالجملہ دنیا وآخرت کے مصالح کو یاد رکھتے ہیں اور عمل کے ذریعے سے دنیا اور آخرت کی سعادت کو پالیتے ہیں۔ التكوير
28 ﴿ لِمَنْ شَاءَ مِنْکُمْ اَنْ یَّسْتَــقِیْمَ﴾” اس کے لیے جو تم میں سے سیدھی چال چلنا چاہے۔“ گمراہی میں سے رشد اور ضلالت میں سے ہدایت کے واضح ہوجانے کے بعد ﴿وَمَا تَشَاءُوْنَ اِلَّآ اَنْ یَّشَاءَ اللّٰہُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ﴾ ” اور تم بغیر پروردگار عالم کے چاہے کچھ نہیں چاہ سکتے۔“ پس اس کی مشیت نافذ ہے ، ممکن نہیں کہ اس کی مشیت کی مخالفت کی جاسکے یا اس کو روکا جاسکے۔ اس آیت کریمہ اور اس جیسی دیگر آیات میں، دو فرقوں، یعنی قدریہ اور جبریہ، جو اللہ تعالیٰ کی مشیت کا انکار کرتے ہیں، کارد ہے ۔ جیسا کہ اس کی مثالیں گزرچکی ہیں۔ واللہ اعلم۔ التكوير
29 التكوير
0 الإنفطار
1 یعنی جب آسمان پھٹ کر پراگندہ ہوجائے گا، ستارے بکھر جائیں گے اور ان کا حسن وجمال زائل ہوجائے گا، جب سمندر بہ کر ایک دوسرے سے مل جائیں گے اور ایک ہی سمندر بن جائیں گے ، قبریں شق کرکے اکھاڑ دی جائیں گی اور ان میں سے مردے باہر نکال لیے جائیں گے اور ان کواعمال کی جزا وسزا کی خاطر اللہ تعالیٰ کے حضور کھڑا کرنے کے لیے جمع کیا جائے گا ۔ پس اس وقت پردہ ہٹ جائے گا اور وہ سب کچھ زائل ہوجائے گا جو چھپا ہوا تھا اور ہر نفس جان لے گا کہ اس کے پاس کیا نفع اور خسران ہے ۔ اس وقت جب ظالم دیکھے گا کہ اس کے ہاتھوں نے کیا کمائی آگے بھیجی ہے اور شقاوت ابدی اور عذاب سرمدی کا یقین ہوجائے گا تو وہ ( حسرت اور پشیمانی ) سے اپنے ہاتھوں پر کاٹے گا ۔ اس وقت متقین جنہوں نے صالح اعمال آگے بھیجے ہوں گے عظیم کامیابی، دائمی نعمتوں اور جہنم کے عذاب سے سلامتی سے بہرہ مند ہوں گے۔ الإنفطار
2 الإنفطار
3 الإنفطار
4 الإنفطار
5 الإنفطار
6 اللہ تبارک وتعالی ٰاپنے حق میں تقصیر اور اپنی نافرمانیوں کی جسارت کا ارتکاب کرنے والے انسان پر عتاب کرتے ہوئے فرماتا ہے: ﴿یٰٓاَیُّہَا الْاِنْسَانُ مَا غَرَّکَ بِرَبِّکَ الْکَرِیْمِ﴾ ” اے انسان! تجھے اپنے رب کے بارے میں کس چیز نے دھوکا دیا؟ “ کیا تمہاری طرف سے اس کے حقوق سے استہزا کے طور پر یا اس کے عذاب کی تحقیر کے طور پریا اس کی جزا وسزا پر تمہارے عدم ایمان کی بنا پر ؟ کیا وہ ہستی ﴿الَّذِیْ خَلَقَکَ فَسَوّٰیکَ﴾ جس نے تجھے بہترین صورت میں پیدا کیا ﴿ فَعَدَلَكَ ﴾ اس نے تجھے درست اور متعدل ترکیب پر، حسین ترین شکل اور جمیل ترین ہیت میں پیدا کیا۔ تب کیا تمہارے لیے یہ مناسب ہے کہ تم منعم کی نعمت کی ناشکری اور محسن کے احسان کا انکار کرو؟ بلاشبہ یہ محض تمہاری جہالت، تمہارے ظلم، تمہارے عناد اور تمہاری طرف سے حق کو غصب کرنے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کاشکر ادا کر کہ اس نے تجھے، کتے، گدھے یاکسی اور حیوان کی شکل وصورت عطا نہیں کی۔ الإنفطار
7 الإنفطار
8 اس لیے فرمایا : ﴿فِیْٓ اَیِّ صُوْرَۃٍ مَّا شَاءَ رَکَّبَکَ﴾ ” جس صورت میں چاہا تجھے ترکیب دے دیا۔“ الإنفطار
9 فرمایا : ﴿کَلَّا بَلْ تُکَذِّبُوْنَ بِالدِّیْنِ﴾ یعنی اس وعظ وتذکیر کے باوجود، تم جزا وسزا کی تکذیب پر جمے ہوئے ہو ، حالانکہ تم نے جو اعمال کیے ہیں ان پر ضرور تمہارا محاسبہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے تم پر مکرم فرشتے مقرر کررکھے ہیں جو تمہارے اقوال اور افعال کو لکھتے رہتے ہیں، انہیں ان اقوال و افعال کا علم ہے ، اس میں افعال قلوب، افعال جوارح سب داخل ہیں ۔ پس تمہارے لیے مناسب ہے کہ تم ان کا اکرام واجلال اور احترام کرو۔ الإنفطار
10 الإنفطار
11 الإنفطار
12 الإنفطار
13 ﴿الْاَبْرَارَ﴾ سے مراد وہ لوگ ہیں جوا للہ تعالیٰ کے حقوق اور اس کے بندوں کے حقوق کو قائم کرتے ہیں ، اعمال قلوب اور اعمال جوارح میں نیکی کا التزام کرتے ہیں ۔ پس ان لوگوں کی جزا یہ ہے کہ ان کو اس دنیا میں ، برزخ میں اور آخرت میں، قلب وروح اور بدن کی نعمتیں حاصل ہوں گی۔ الإنفطار
14 ﴿وَاِنَّ الْفُجَّارَ﴾ ” اور بے شک فاجر لوگ۔ “جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے حقوق اور بندوں کے حقوق میں کوتاہی کی، جن کے دل بگڑ گئے، تب ان کے اعمال بھی بگڑ گئے ﴿ لَفِیْ جَحِیْمٍ﴾ وہ اس دنیا میں، برزخ میں اور آخرت میں ، دردناک عذاب میں رہیں گے۔ الإنفطار
15 ﴿ یَّصْلَوْنَہَا﴾ ” وہ اس میں داخل ہوں گے۔“ اور اس کے ذریعے سے انہیں شدید ترین عذاب دیا جائے گا ﴿ یَوْمَ الدِّیْنِ﴾ اعمال کی جزا وسزا کے دن۔ الإنفطار
16 ﴿وَمَا ہُمْ عَنْہَا بِغَایِٕبِیْنَ﴾ اور وہ اس سے چھپ نہیں سکیں گے بلکہ وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے اور اس سے کبھی نہیں نکلیں گے۔ الإنفطار
17 ﴿وَمَآ اَدْرٰیکَ مَا یَوْمُ الدِّیْنِ ثُمَّ مَآ اَدْرٰیکَ مَا یَوْمُ الدِّیْنِ﴾ ” اور تجھے کس چیز نے خبر دی کہ بدلے کا دن کیا ہے؟ پھر (میں کہتا ہوں کہ) تجھے کس چیز نے خبر دی کہ بدلے کا دن کیا ہے؟ “ ان آیات کریمہ میں اس سخت دن کا ہول دلایا گیا ہے جو ذہنوں کو حیرت زندہ کردے گا۔ الإنفطار
18 الإنفطار
19 ﴿یَوْمَ لَا تَمْلِکُ نَفْسٌ لِّنَفْسٍ شَـیْــــًٔا ﴾ اس روز کوئی کسی کے کام نہیں آئے گا، خواہ وہ اس کا قریبی رشتہ دار یا مخلص دوست ہی کیوں نہ ہو۔ ہر ایک کو خود اپنی پڑی ہوگی ،وہ کسی اور کی نجات کا طلب گار نہ ہوگا۔ ﴿وَالْاَمْرُ یَوْمَیِٕذٍ لِّلّٰہِ﴾ اس روز تمام تر حکم اللہ ہی کا ہوگا۔ وہی بندوں کے درمیان فیصلہ کرے گا اور مظلوم کا حق ظالموں سے لے کر دے گا۔ واللہ اعلم الإنفطار
0 المطففين
1 ﴿وَیْلٌ﴾ ” ہلاکت ہے۔“ یہ عذاب اور عقاب کا کلمہ ہے ﴿ لِّـلْمُطَفِّفِیْنَ﴾” ناپ تول میں کمی کرنے والوں کے لیے “ اور اللہ تعالیٰ نے المطففین کی تفسیر بیان فرمائی کہ ﴿الَّذِیْنَ اِذَا اکْتَالُوْا عَلَی النَّاسِ ﴾ یہ وہ لوگ ہیں جب لوگوں سے لیتے ہیں تو ان سے کسی کمی کے بغیر پورالیتے ہیں۔ المطففين
2 المطففين
3 ﴿ وَاِذَا کَالُوْہُمْ اَوْ وَّزَنُوْہُمْ﴾ اور جب لوگوں کو ان کا حق عطا کرتے ہیں جو کسی ناپ تول کی صورت میں ان کے ذمے ہوتا ہے ﴿ یُخْسِرُوْنَ﴾ تو اس میں کمی کرتے ہیں یا تو ناپ کے ناقص پیمانے اور تولنے کی ناقص ترازو کے ذریعے سے یا ناپ تول کے پیمانے کو پوری طرح نہ بھرتے ہوئے کمی کرتے ہیں یا اس کے علاوہ دیگر طریقوں سے کمی کرتے ہیں ۔ یہ لوگوں کے اموال کی چوری اور ان کے ساتھ بے انصافی ہے ۔ جب ان لوگوں کے لیے یہ وعید ہے جو ناپ تول کے ذریعے سے لوگوں کے اموال میں کمی کرتے ہیں تو وہ لوگ اس وعید کے ، ناپ تول میں کمی کرنے والوں سے زیادہ مستحق ہیں جو جبرا لوگوں سے مال چھینتے ہیں یا چوری کرتے ہیں۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ انسان جس طرح لوگوں سے اپنا حق وصول کرتا ہے اسی طرح اس پر فرض ہے کہ وہ اموال ومعاملات میں لوگوں کے حقوق ادا کرے۔ بلکہ اس کے عموم میں دلائل ومقالات بھی شامل ہیں ، کیونکہ جیسے آپس میں مناظرہ کرنے والوں کی عادت ہے کہ ان مٰیں سے ہر ایک اپنی دلیل بیان کرنے کا حریص ہوتا ہے ، اس پر واجب ہے کہ وہ اس دلیل کو بھی بیان کرے جو اس کے مخالف کے علم میں نہیں ہوتی، نیز وہ اپنے مخالف کے دلائل پر بھی اسی طرح غور کرے جس طرح وہ اپنے دلائل پر غور کرتا ہے ۔ اس مقام پر انسان کے انصاف اور اس کے تعصب وظلم ، اس کی تواضع اور تکبر، اس کی عقل اور سفاہت کی معرفت حاصل ہوتی ہے، ہم اللہ تعالیٰ سےہر قسم کی بھلائی کی توفیق کا سوال کرتے ہیں۔ المطففين
4 پھر اللہ تعالیٰ نے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کو وعید سنائی اور ان کے حال اور ان کے اپنے اس طرز عمل پر قائم رہنے پر تعجب کرتے ہوئے فرمایا : ﴿اَلَا یَظُنُّ اُولٰیِٕکَ اَنَّہُمْ مَّبْعُوْثُوْنَ لِیَوْمٍ عَظِیْم یَّوْمَ یَقُوْمُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ﴾ ” کیا انہیں اپنے مرنے کے بعد عظیم دن کے لیے جی اٹھنے کا خیال نہیں “ جس دن سب لوگ رب العالمین کے سامنے کھڑے ہوں گے ۔“ پس جس چیز نے ان کے اندر کم ناپنے تولنے کی جرأت پیدا کی ہے ، وہ ہے آخرت پر ان کا عدم ایمان ورنہ اگر وہ آخرت پر ایمان رکھتے ہوتے اور انہیں اس حقیقت کی معرفت حاصل ہوتی کہ وہ عنقریب اللہ تعالیٰ کے حضور کھڑے ہوں گے اور وہ ان کے اعمال پر ، کم ہوں یا زیادہ ، ان کا محاسبہ کرے گا تو وہ اس کام سے رک جاتے اور اس سے توبہ کرلیتے۔ المطففين
5 المطففين
6 المطففين
7 اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿کَلَّآ اِنَّ کِتٰبَ الْفُجَّارِ﴾ ” ہرگز نہیں ! بدکاروں کے اعمال۔“ یہ آیت کریمہ کفار، منافقین اور فاسقین کے مختلف انواع کے تمام فاجروں کو شامل ہے ﴿ لَفِیْ سِجِّیْنٍ ﴾سجین میں ہیں۔“ پھر اپنے اس ارشاد کے ذریعے سے اس کی تفسیر فرمائی : ﴿ وَمَا أَدْرَاكَ مَا سِجِّينٌ ﴿كِتَابٌ مَّرْقُومٌ ﴾ ” تجھے کس چیز نے بتایا کہ سجین کیا ہے لکھی ہوئی کتاب ہے ۔“ یعنی وہ کتاب جس میں ان کے اعمال خبیثہ مذکور ہیں ۔ السجین سے مراد تنگ جگہ ہے اور سجین، علیین کی ضد ہے جو کہ ابرابر کی کتاب کا محل ومقام ہے ، جیسا کہ اس کا بیان آئندہ صفحات میں آئے گا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سجین ساتویں زمین کا سب سے نچلا حصہ ہے جو کہ معاد میں فجار کا مستقر اور ٹھکانہ ہے۔ المطففين
8 المطففين
9 المطففين
10 ﴿وَیْلٌ یَّوْمَیِٕذٍ لِّلْمُکَذِّبِیْنَ﴾ ” اس دن جھٹلانے والوں کے لیے تباہی ہے۔“ پھر مکذبین کو اس طرح واضح فرمایا : ﴿الَّذِیْنَ یُکَذِّبُوْنَ بِیَوْمِ الدِّیْنِ ﴾ جو یوم جزا کو جھٹلاتے ہیں جس دن اللہ تعالیٰ لوگوں کو ان کے اعمال کا بدلہ دے گا ۔ ﴿وَمَا یُکَذِّبُ بِہٖٓ اِلَّا کُلُّ مُعْتَدٍ ٍ ﴾” اسے صرف وہی جھٹلاتا ہے جو حد سے نکل جاتا ہے ۔“ یعنی اللہ تعالیٰ کے محارم میں تجاوز کرنے والا، حلال کی حدود کو پھلانگ کر حرام میں داخل ہونے والا۔ ﴿أَثِيمٍ ﴾۔ یعنی بہت زیادہ گناہوں کا ارتکاب کرنے والا۔ اس کا ظلم اور سرکشی اسے تکذیب پر آمادہ کرتی ہے اور اس کے لیے تکبر اور حق کو رد کرنے کا موجب بنتی ہے۔ المطففين
11 المطففين
12 المطففين
13 اس لیے فرمایا : ﴿اِذَا تُتْلٰی عَلَیْہِ اٰیٰـتُنَا﴾ ” جب اس کو ہماری آیتیں سنائی جاتی ہیں۔“ جو حق پر اور اس چیز کی صداقت پر دلالت کرتی ہیں جس کو رسول لے کر آئے ہیں تو گناہوں کا ارتکاب کرنے والے نے ان آیات کو جھٹلایا اور ان سے عناد رکھا اور﴿ قَالَ﴾ کہنے لگا یہ تو ﴿اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ﴾ ” پہلے لوگوں کے قصے کہانیاں ہیں ۔“یعنی وہ تکبر اور عناد کی بنا پر کہتا ہے کہ یہ تو متقدمین کے جھوٹے قصے اور گزری ہوئی قوموں کی خبریں ہیں ، یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہیں۔ رہا وہ شخص جو انصاف پسند ہے اور اس کا مقصود بھی واضح حق ہے تو وہ قیامت کے دن کو نہیں جھٹلا سکتا ، کیونکہ اللہ تعالی ٰنے اس پر قطعی دلائل اور براہین قائم کیے ہیں جنہوں نے اسے حق الیقین بنا دیا ہے، ان کے دلوں کی بصیرت کے لیے یہ وہی حیثیت اختیار کر گیا ہے جو ان کی آنکھوں کے لیے سورج کی ہے ۔اس کے برعکس جس کے دل کو اس کے کسب نے زنگ آلود کردیا اور اس کے گناہوں نے اس کو ڈھانپ لیا ، وہ حق سے محجوب ہے ۔ بنا بریں اس کو یہ جزا دی گئی کہ جس طرح اس کا دل آیات الہٰی سے محجوب ہے، اسی طرح وہ اللہ تعالیٰ سے محجوب رہے گا۔ المطففين
14 المطففين
15 المطففين
16 ﴿ثُمَّ اِنَّہُمْ﴾ پھر اس انتہائی عقوبت کے بعد وہ لوگ یقینا ﴿ لَصَالُوا الْجَــحِیْمِ﴾ جہنم میں جھونکے جائیں گے، پھر زجر وتوبیخ کے طور پر ان سے کہا جائے گا : ﴿ہٰذَا الَّذِیْ کُنْتُمْ بِہٖ تُکَذِّبُوْنَ﴾ ” یہی ہے وہ چیز جسے تم جھٹلایا کرتے تھے ۔“ پس اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے عذاب کی تین انواع کا ذکر کیا ہے: (١) جہنم کا عذاب (٢) زجر وتوبیخ اور ملامت کا عذاب (٣) اور رب کائنات سے محجوب ہونے کا عذاب جو ان پر اس کی ناراضی اور غضب کو متضمن ہے اور یہ ان کے لیے جہنم کے عذاب سے بڑھ کر ہوگا۔ آیت کریمہ کا مفہوم مخالف دلالت کرتا ہے کہ اہل ایمان قیامت کے روز جنت میں اپنے رب کا دیدار کریں گے، وہ تمام لذات سے بڑھ کر اس دیدار سے لذت حاصل کریں گے ۔ اس کے ساتھ ہم کلامی سے خوش ہوں گے اور اس کے قرب سے فرحت حاصل کریں گے ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کی متعدد آیات میں اس کا ذکر کیا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی نہایت تواتر کے ساتھ منقول ہے۔ ان آیات میں گناہوں سے تحذیر ہے ، کیونکہ ان کا اثر دل پر ہوتا ہے اور وہ آہستہ آہستہ اسے ڈھانپ لیتے ہیں حتیٰ کہ وہ اس کے نور کو ختم کردیتے ہیں، اس کی بصیرت ختم کردیتے ہیں ، پھر انسان پر حقائق پلٹ جاتے ہیں ۔وہ باطل کو حق اور حق کو باطل سمجھنے لگتا ہے اور یہ گناہوں کی سب سے بڑی سزا ہے۔ المطففين
17 المطففين
18 اللہ تبارک وتعالی ٰنے فجار کے اعمال نامے کا ذکر کرنے کے بعد کہ وہ سب سے نچلے اور سب سے تنگ مقام پر ہوگا ، ابرار کے اعمال نامے کا ذکر کیا کہ ان کا اعمال نامہ سب سے بلند، نہایت وسیع اور سب سے کھلے مقام پر ہوگا۔ اور ان کی لکھی ہوئی کتاب ﴿یَّشْہَدُہُ الْمُقَرَّبُوْنَ﴾ کا مشاہدہ مکرم فرشتے، انبیا، صدیقین اور شہدا کی ارواح کرتی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ملأ اعلیٰ میں بلند آواز سے ان کا تذکرہ کرتا ہے۔ ﴿ عِلِّيُّونَ ﴾ جنت کے بلند ترین حصے کا نام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی کتاب کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا وہ نعمتوں میں ہوں گے اور یہ قلب کی روح کی، اور بدن کی نعمت کے لیے جامع نام ہے۔ المطففين
19 المطففين
20 المطففين
21 المطففين
22 المطففين
23 ﴿عَلَی الْاَرَایِٕکِ﴾ یعنی نہایت خوبصورت بچھونوں سے آراستہ تختوں پر بیٹھے ہوئے ﴿یَنْظُرُوْنَ﴾ ان نعمتوں کو دیکھ رہے ہوں گے جو اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے تیار کررکھی ہیں اور اپنے رب کریم کا دیدار کررہے ہوں گے ۔ المطففين
24 ﴿تَعْرِفُ ﴾اسے دیکھنے والے تو پہچان لے گا ﴿ فِیْ وُجُوْہِہِمْ نَضْرَۃَ النَّعِیْمِ﴾ ” ان کے چہروں پر نعمت کی خوبصورتی۔“ اس کی تروتازگی اور اس کی رونق ، کیونکہ لذتوں ، مسرتوں اور فرحتوں کا پے درپے حاصل ہونا ، چہرے کو نور، خوبصورتی اور خوشی عطا کرتا ہے۔ المطففين
25 ﴿یُسْقَوْنَ مِنْ رَّحِیْقٍ﴾ یہ رحیق تمام شرابوں میں سب سے عمدہ اور سب سے لذیذ شراب ہے جو انہیں پلائی جائے گی ﴿مَّخْتُوْمٍ﴾ یہ خالص شراب سر بمہر ہوگی۔ المطففين
26 ﴿خِتٰمُہٗ مِسْکٌ ﴾ ” جس پر مشک کی مہر لگی ہوگی۔ “ اس میں یہ احتمال ہے کہ اس سے مراد ہے کہ اس پر مہر لگی ہوگی، یعنی کوئی چیز اس میں داخل ہو کر ، اس کی لذت کو کم اور اس کے ذائقے کو خراب نہیں کرے گی، یہ مہر جو اس پر لگی ہوئی ہوگی مشک کی مہر ہوگی۔ اس میں یہ احتمال بھی ہے کہ اس سے مراد وہ مشروب ہے جو آخر میں تلچھٹ کے طور پر اس برتن میں رہ جائے گا جس میں وہ خالص شراب پئیں گے اور یہ تلچھٹ مشک اذفر ہوگا ، یہ تلچھٹ جس کے بارے میں دنیا میں عادت یہ ہے کہ اسے گرا دیا جاتا ہے جنت میں اس کی یہ منزلت ہوگی۔ ﴿وَفِیْ ذٰلِکَ﴾ یعنی ہمیشہ رہنے والی نعمت میں جس کے حسن اور مقدار کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا ﴿فَلْیَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُوْنَ﴾ پس مسابقت کرنے والوں کو اس نعمت تک پہنچانے والے عمل کے ذریعے سے اس کی طرف آگے بڑھنے میں مسابقت کرنی چاہیے۔ یہ اس چیز کی سب سے زیادہ مستحق ہے کہ اس میں نفیس سے نفیس مال خرچ کیا جائے اور یہ اس چیز کی بھی سب سے زیادہ مستحق ہے کہ اس تک پہنچنے کے لیے بڑے بڑے لوگ باہم مزاحم ہوں۔ المطففين
27 المطففين
28 اور اس شراب میں تسنیم کی آمیزش ہوگی اور یہ ایک چشمہ ہے۔ ﴿عَیْنًا یَّشْرَبُ بِہَا الْمُقَرَّبُوْنَ﴾ ” جہاں سے صرف اللہ تعالیٰ کے مقرب بندے ہی پئیں گے۔ “ اور یہ علی الاطلاق جنت کی اعلی ٰ ترین شراب ہے ، بنا بریں یہ خالص صورت میں صرف مقربین کے لیے ہوگی جو مخلوق میں سب سے بلند مرتبہ لوگ ہیں ، اصحاب الیمین کے لیے آمیزش کے ساتھ ہوگی ، یعنی خالص شراب وغیرہ اور دیگر لذیذ مشروبات کے ساتھ اس کی آمیزش ہوگی۔ المطففين
29 اللہ تعالیٰ نے مجرموں کی جزا اور نیکوکاروں کی جزا کا ذکر کرنے اور ان کے درمیان جو عظیم تفاوت ہے اس کو بیان کرنے کے بعد آگاہ فرمایا کہ یہ مجرم دنیا میں اہل ایمان کا تمسخر اڑا تے ، ان کے ساتھ استہزا کرتے اور ان پر ہنستے تھے۔ جب اہل ایمان ان کے پاس سے گزرتے تو یہ مجرم حقارت اور عیب چینی کے ساتھ باہم اشارے کرتے تھے ۔ بایں ہمہ آپ ان کو مطمئن دیکھیں گے خوف ان کے دل میں راہ نہیں پاتا۔ المطففين
30 المطففين
31 ﴿ وَاِذَا انْقَلَبُوْٓا اِلٰٓی اَہْلِہِمُ﴾ ” اور جب وہ اپنے گھر کو لوٹتے۔“ یعنی صبح وشام ﴿انْقَلَبُوْا فَکِہِیْنَ﴾ تو مسرور اور خوش وخرم لوٹتے ۔ یہ سب سے بڑی فریب خوردگی ہے کہ انہوں نے دنیا میں برائی کو امن کے ساتھ اکٹھا کردیا، گویا ان کے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی کتاب یا عہد آگیا ہے وہ اہل سعادت ہیں، انہوں نے اپنے بارے میں حکم لگایا ہے کہ وہ یدایت یافتہ لوگ ہیں اور اہل ایمان گمراہ لوگ ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ پر بہتان طرازی اور بلاعلم بات کہنے کی جسارت ہے ۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَمَآ اُرْسِلُوْا عَلَیْہِمْ حٰفِظِیْنَ ﴾ یعنی ان کو اہل ایمان پر وکیل اور ان کے اعمال کی حفاظت کا ذمے دار بنا کر نہیں بھیجا گیا کہ وہ ان پر گمراہی کا بہتان لگانے کی حرص رکھیں اور یہ ان کی طرف سے محض عیب جوئی، عناد اور محض کھیل تماشا ہے، اس کی کوئی دلیل ہے نہ برہان ، اس لیے آخرت میں ان کی جزا ان کے عمل کی جنس میں سے ہوگی۔ المطففين
32 المطففين
33 المطففين
34 اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿فَالْیَوْمَ ﴾یعنی قیامت کے دن ﴿الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنَ الْکُفَّارِ یَضْحَکُوْنَ﴾ ”مومن کافروں سے ہنسی کریں گے ۔“ جب وہ ان کو عذاب کی سختیوں میں چلتے پھرتے دیکھیں گے اور وہ سب کچھ جا چکا ہوگا جو وہ بہتان طرازی کیا کرتے تھے ، تب ان کی ہنسی اڑائیں گے۔ المطففين
35 اہل ایمان انتہائی راحت واطمینان میں ﴿عَلَی الْاَرَایِٕکِ﴾آراستہ اور مزین پر بیٹھے پلنگوں﴿ یَنْظُرُوْنَ﴾ ان نعمتوں کو دیکھ رہے ہوں گے جو اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے تیار کررکھی ہیں ، نیز اپنے رب کریم کے چہرے کا دیدار کر رہے ہوں گے۔ المطففين
36 ﴿ہَلْ ثُوِّبَ الْکُفَّارُ مَا کَانُوْا یَفْعَلُوْنَ﴾ کیا ان کو ان کے عمل کی جنس میں جزا دی جائے گی؟ جس طرح انہوں نے دنیا کے اندر مومنوں کی ہنسی اڑائی ، ان پر گمراہی کا بہتان لگایا ، آخرت میں جب مومن ان کو عذاب میں جو ان کی گمراہی اور ضلالت کی سزا ہے ، مبتلا دیکھیں گے تو وہ بھی ان کی ہنسی اڑائیں گے ۔ ہاں اللہ تعالیٰ کے عدل اور اس کی حکمت کی بنا پر، کفار کو اپنے افعال کا پورا بدلہ مل گیا ۔ اللہ تعالیٰ علم والا اور حکمت والا ہے۔ المطففين
0 الانشقاق
1 قیامت کے دن بڑے بڑے اجرام فلکی میں جو تغیرات آئیں گے،اللہ تعالیٰ نے ان کو بیان کرتے ہوئے فرمایا:﴿إِذَا السَّمَاءُ انشَقَّتْ﴾یعنی جب آسمان پھٹ جائے گا اور پھٹ کر ایک دوسرے سے الگ ہوجائے گا ، اس کے ستارے بکھر جائیں گے اور اس کے سورج اور چاند بے نور ہوجائیں گے۔ الانشقاق
2 ﴿وَاَذِنَتْ لِرَبِّہَا﴾ اور وہ اپنے رب کے حکم کو غور سے سنے گا ، اس پر کان لگائے گا اور اس کے خطاب کو سنے گا اور اس پر لازم بھی یہی ہے ، کیونکہ وہ اس عظیم بادشاہ کے دست تسخیر کے تحت مسخر اور مدبر ہے جس کے حکم کی نافرمانی کی جاسکتی ہے نہ اس کے فیصلے کی مخالفت۔ الانشقاق
3 ﴿وَاِذَا الْاَرْضُ مُدَّتْ﴾ ” اور جب زمین پھیلا دی جائے گی۔“ یعنی زمین کانپے گی اور ڈر جائے گی ، اس کے پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائیں گے اور اس پر موجود عمارتیں اور علامتیں ڈھا دی جائیں گی اور زمین کو ہموار اور برابر کردیا جائے گا ۔اللہ تعالیٰ زمین کو اس طرح پھیلا دے گا جس طرح چمڑے کو پھیلایا جاتا ہے حتیٰ کہ وہ بہت وسیع ہوجائے گی، جس میں (اللہ تعالیٰ کے حضور حساب کتاب کے لیے ) کھڑے ہونے کے لیے لوگوں کی کثرت کے باوجود پوری گنجائش ہوگی ۔ پس زمین ہموار چٹیل میدان بن جائے گی جس میں تجھے کوئی نشیب و فراز نظر نہیں آئے گا۔ الانشقاق
4 ﴿وَاَلْقَتْ مَا فِیْہَا﴾ ” اور جو کچھ اس میں ہے ،اسے نکال کر ڈال دے گی۔“ یعنی تمام مردوں اور (مدفون ) خزانوں کو باہر نکال پھینکے گی ﴿وَتَخَلَّتْ﴾ ور ان سے خالی ہوجائے گی، کیونکہ جب صور پھونکا جائے گا تو تمام مردے قبروں سے نکل کر سطح زمین پر آجائیں گے، زمین اپنے خزانوں کو نکال کر باہر کرے گی اور وہ ایک بہت بڑے ستون کی مانند ہوں گے جن کا مخلوق مشاہدہ کرے گی ور جس چیز کے لیے وہ ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کیا کرتے تھے ، اس پر حسرت کا اظہار کریں گے۔ الانشقاق
5 ﴿وَاَذِنَتْ لِرَبِّہَا وَحُقَّتْ۔یٰٓاَیُّہَا الْاِنْسَانُ اِنَّکَ کَادِحٌ اِلٰی رَبِّکَ کَدْحًا فَمُلٰقِیْہِ ﴾ ” اور وہ اپنے رب کے حکم پر کان لگائے گی اور اسی کے لائق وہ ہے۔ اے انسان ! تو اپنے رب سے ملنے تک یہ کوشش اور تمام کام اور محنتیں کرکے اس سے ملاقات کرنے والا ہے۔“ یعنی تم اللہ تعالیٰ کی طرف جانے میں کوشاں ہو ، اس کے اوامر ونواہی پر عمل کرتے ہو، بھلائی کے ذریعے سے یا برائی کے ذریعے سے اس کے قریب ہورہے ہو۔ پھر قیامت کے دن تم اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرو گے۔ پس تم اس کی طرف سے فضل کے ساتھ یا عدل کے ساتھ جزا سے محروم نہیں ہو گے۔ الانشقاق
6 الانشقاق
7 اگر تم خوش بخت نکلے تو جزا فضل پر مبنی ہوگی اور اگر تم بدبخت نکلے تو سزا عدل پر مبنی ہوگی اس لیے اللہ تعالیٰ نے جزا کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرمایا : ﴿فَاَمَّا مَنْ اُوْتِیَ کِتٰبَہٗ بِیَمِیْنِہٖ﴾ ” پس جس کا نامہ اعمال اس کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا ۔“ یہ خوش بخت لوگ ہیں ﴿فَسَوْفَ یُحَاسَبُ حِسَابًا یَّسِیْرًا﴾ ” تو اس سے آسان حساب لیا جائے گا ۔“ یہ اللہ تعالیٰ کے حضور آسان پیشی ہوگی۔ اللہ تعالیٰ اس سے اس کے گناہوں کا اعتراف کرائے گا حتی ٰ کہ بندہ سمجھے گا کہ وہ ہلاک ہوگیا ،اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا: میں دنیا میں تیرے گناہوں کو چھپاتا تھا اور آج بھی تیرے گناہوں کو چھپاؤں گا۔ ﴿وَّیَنْقَلِبُ اِلٰٓی اَہْلِہٖ ﴾ اور وہ جنت میں اپنے گھروالوں کی طرف لوٹے گا ﴿ مَسْرُوْرًا ﴾” خوش ہو کر۔“ کیونکہ اس نے عذاب سے نجات حاصل کی اور ثواب سے فوزیاب ہوا۔ الانشقاق
8 الانشقاق
9 الانشقاق
10 ﴿وَاَمَّا مَنْ اُوْتِیَ کِتٰبَہٗ وَرَاءَ ظَہْرِہٖ﴾ اور جس کو نامہ اعمال اس کے بائیں ہاتھ میں اور اس کی پیٹھ پیچھے سے دیا جائے گا۔ الانشقاق
11 ﴿فَسَوْفَ یَدْعُوْا ثُبُوْرًا﴾ یعنی جب وہ اپنے اعمال بد جو اس نے (دنیا میں آخرت کے لیے ) آگے بھیجے تھے اور ان سے توبہ نہیں کی تھی ، اپنے اعمال نامے میں موجود پائے گا تو رسوائی اور فضیحت سے موت کو پکارے گا۔ الانشقاق
12 ﴿وَّیَصْلٰی سَعِیْرًا﴾ ” اور دوزخ میں داخل ہوگا۔ “یعنی جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ اسے ہر جانب سے گھیر لے گی اور اس کے عذاب پر اسے الٹ پلٹ کرے گی اور اس کا سبب یہ ہے کہ وہ دنیا میں ﴿ كَانَ فِي أَهْلِهِ مَسْرُورًا ﴾ ” اپنے گھروالوں میں مسرور رہتا تھا ۔“ اس کے دل میں حیات بعدالممات کا کبھی خیال بھی نہیں آیا تھا ۔ اس نے برائی کا اکتساب کیا اور اسے یقین نہ تھا کہ اسے اپنے رب کی طرف لوٹنا اور اس کے سامنے کھڑے ہونا ہے۔ الانشقاق
13 الانشقاق
14 الانشقاق
15 ﴿بَلٰٓی اِنَّ رَبَّہٗ کَانَ بِہٖ بَصِیْرًا﴾ ” ہاں ہاں اس کارب اس کو دیکھ رہا تھا۔“ پس یہ اچھا نہیں کہ اللہ تعالیٰ اسے بے کار چھوڑ دے ، اس کو حکم دیا جائے نہ کسی چیز سے روکا جائے اور اسے ثواب عطا کیا جائے نہ عذاب دیا جائے۔ الانشقاق
16 اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس مقام پر رات کی نشانیوں کی قسم کھائی ہے ۔ پس اللہ تعالیٰ نے شفق کی قسم کھائی ہے پس اللہ تعالیٰ نے شفق کی قسم کھائی جو سورج کی باقی ماندہ روشنی ہے جس سے رات کا افتتاح ہوتا ہے۔ الانشقاق
17 ﴿وَالَّیْلِ وَمَا وَسَقَ﴾ ” اور رات کی اور ان چیزوں کی قسم جن کو وہ اکٹھا کرلیتی ہے ۔“ یعنی جو حیوانات وغیرہ کو اکٹھا کرتی ہے۔ الانشقاق
18 ﴿وَالْقَمَرِ اِذَا اتَّسَقَ﴾ اور چاند کی جب چاند ماہ کامل بن جانے پرنور سے لبریز ہوجائے ۔ اس وقت چاند خوبصورت ترین اور انتہائی منفعت بخش ہوتا ہے۔ جس پر قسم کھائی گئی ہے وہ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : ﴿لَتَرْکَبُنَّ﴾ اے لوگو! تم گزرتے ہو ﴿ طَبَقًا عَنْ طَبَقٍ﴾ ” متعدد اور متباین اطوار واحوال میں سے ۔“ یعنی نطفے سے جمے ہوئے خون کی حالت تک اور بوٹی سے روح پھونکے جانے تک ، پھر بچہ ہوتا ہے ، بچے سے لڑکا اور پھر ممیز لڑکا بن جاتا ہے ، پھر اس پر تکلیف اور امر ونہی کا قلم جاری ہوتا ہے ، پھر وہ مرجاتا ہے، پھر اسے اس کے اعمال کی جزاوسزا دی جائے گی ۔ بندے پر گزرنے والے یہ مختلف مراحل، دلالت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اکیلا ہی معبود ہے۔ وہ اکیلا ہی اپنی حکمت و رحمت سے اپنے بندوں کی تدبیر کرتا ہے، نیز یہ کہ بندہ محتاج اور عاجز اور غالب و مہربان کے دست تدبیر کے تحت ہے۔ الانشقاق
19 الانشقاق
20 الانشقاق
21 بایں ہمہ بہت سے لوگ ایمان نہیں لاتے ﴿وَاِذَا قُرِیَٔ عَلَیْہِمُ الْقُرْاٰنُ لَا یَسْجُدُوْنَ﴾” اور جب ان کے پاس قرآن پڑھا جاتا ہے تو سجدہ نہیں کرتے۔ “ یعنی قرآن کے سامنے سرنگوں ہوتے ہیں نہ اس کے اوامر ونواہی کی اطاعت کرتے ہیں۔ الانشقاق
22 ﴿بَلِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا یُکَذِّبُوْنَ﴾ بلکہ کفار حق کے واضح ہوجانے کے بعد بھی اس سے عنادرکھتے ہیں ، اس لیے قرآن پر ان کا عدم ایمان اور قرآن کے لیے ان کی عدم اطاعت کوئی انوکھی بات نہیں، کیونکہ عناد کی بنا پر حق کی تکذیب کرنے والے کے لیے اس بارے میں کوئی حیلہ نہیں۔ الانشقاق
23 ﴿وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِمَا یُوْعُوْنَ﴾ یعنی جو کچھ وہ عمل کرتے ہیں یا وہ اپنی نیت میں چھپاتے ہیں ،اللہ تعالیٰ ان کے پوشیدہ اور ظاہری اعمال کو جانتا ہے۔ پس عنقریب وہ انہیں ان کے اعمال کی جزا دے گا ۔بنابریں فرمایا : ﴿ فَبَشِّرْہُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ﴾ ” پس انہیں دردناک عذاب کی بشارت دے دو۔“ بشارت کو بشارت اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ مسرت اور غم کے اعتبار سے جلد پر اثر انداز ہوتی ہے ۔ یہ ہے اکثر لوگوں کا حال ، قرآن کی تکذیب اور اس پر عدم ایمان کے اعتبار سے۔ الانشقاق
24 الانشقاق
25 لوگوں میں ایک گروہ ایسا بھی ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت سے نوازا پس وہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لے آئے اور انہوں نے اس چیز کو قبول کرلیا جو رسول لے کر آئے ، پس وہ ایمان لائے اور نیک کام کیے ۔ یہی وہ لوگ ہیں ﴿لَہُمْ اَجْرٌ غَیْرُ مَمْنُوْنٍ﴾ جن کے لیے بے انتہا، یعنی کبھی بھی منقطع نہ ہونے والا اجر بلکہ دائمی اجر ہے جس کو کسی آنکھ نے دیکھا ہے نہ کسی کان نے سنا ہے اور نہ کسی کے تصور ہی میں اس کے طائر خیال کا گزر ہوا ہے۔ الانشقاق
0 البروج
1 ﴿وَالسَّمَاءِ ذَاتِ الْبُرُوْجِ﴾ ” برجوں والے آسمان کی قسم۔“ یعنی جو منازل والا ہے اور جو سورج، چاند اور ان کواکب کی منازل پر مشتمل ہے جو اپنے چلنے میں کامل ترین ترتیب اور ایسے نظام میں منسلک ہیں جو اللہ تعالیٰ کے کمال قدرت و رحمت اور وسعت علم پردلالت کرتا ہے۔ البروج
2 ﴿وَالْیَوْمِ الْمَوْعُوْدِ﴾ ” اور وعدے کے دن کی۔“ یہ قیامت کا دن ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے مخلوق کے ساتھ وعدہ کررکھا ہے کہ وہ اس دن انہیں اکٹھا کرے گا چنانچہ ان کے اول وآخر اور دور ونزدیک کے تمام لوگوں کو اکٹھا کرے گا، اس دن کا بدلنا ممکن ہے نہ اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کی خلاف ورزی ہی کرتا ہے۔ البروج
3 ﴿وَشَاہِدٍ وَّمَشْہُوْدٍ﴾ یہ ہر اس شخص کو شامل ہے جو اس وصف سے متصف ہے، یعنی دیکھنے والا اور دکھائی دینے والا، حاضر ہونے والا اور جس کے پاس حاضر ہوا جائے، بصیرت سے دیکھنے والا اور دکھائی دینے والا۔ البروج
4 یہاں جس چیز پر قسم کھائی گئی ہے ،وہ ہے اللہ کی بڑی بڑی نشانیاں، ظاہر حکمتیں اور بے پایاں رحمت جن کو یہ قسم متضمن ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ جس پر قسم کھائی گئی ہے، وہ ہے اللہ تعالیٰ کا ارشاد : ﴿قُتِلَ اَصْحٰبُ الْاُخْدُوْدِ﴾” ہلاک کردیے جائیں خندق (کھودنے ) والے۔“ یہ ان کے لیے ہلاکت کی بددعا ہے۔ ﴿ الْاُخْدُوْدِ﴾ سے مراد وہ گڑھے ہیں جو زمین میں کھودے جاتے ہیں۔ یہ اصحاب الاخدود (گڑھوں والے) کافر تھے اور ان کے ہاں کچھ اہل ایمان بھی تھے ۔ کفار نے ان کو اپنے دین میں داخل کرنا چاہا ، اہل ایمان نے اس سے انکار کردیا ۔ کفار نے زمین میں بڑے بڑے گڑھے بنائے ، ان کے اندر آگ جلائی اور ان کے اردگرد بیٹھ کر اہل ایمان کو آگ پر پیش کرکے ان کو آزمائش میں مبتلا کیا۔ پس ان میں جس کسی نے ان کفار کی بات مان لی ، اس کو چھوڑ دیا گیا اور جو اپنے ایمان پر ڈٹا رہا، اس کو آگ میں پھینک دیا۔ یہ اللہ تعالیٰ اور اس کے گروہ اہل ایمان کے خلاف انتہا کو پہنچی ہوئی محاربت ودشمنی ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان پر لعنت فرمائی اور ان کو ہلاک کرڈالا اور ان کو وعید سنائی، چنانچہ فرمایا:﴿قُتِلَ اَصْحٰبُ الْاُخْدُوْدِ﴾ پھر ﴿ الْاُخْدُوْدِ﴾ کی تفسیر اپنے اس ارشاد سے کی :﴿النَّارِ ذَاتِ الْوَقُوْدِ اِذْ ہُمْ عَلَیْہَا قُعُوْدٌ وَّہُمْ عَلٰی مَا یَفْعَلُوْنَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ شُہُوْدٌ ﴾ ” وہ ایک آگ تھی ایندھن والی جبکہ وہ لوگ اس کے اردگرد بیٹھے تھے اور مسلمانوں کیساتھ جو کررہے تھے اس کا تماشا کررہے تھے۔“ یہ بدترین جبر اور قساوت قلبی ہے ،کیونکہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی آیات کی تکذیب کی، ان کے ساتھ عناد رکھا اور ان آیات پر ایمان رکھنے والوں کے خلاف محاربت کی اور اس قسم کے عذاب کے ذریعے سے ان کے لیے تعذیب کو جمع کردیا جن سے دل ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتے ہیں ، نیز یہ کہ جب اہل ایمان کو آگ کے ان گڑھوں میں ڈالا گیا تو یہ اس وقت موجود تھے اور حال یہ تھا کہ وہ اہل ایمان پر ان کی صرف اس حالت کی بنا پر ناراض تھے جس پر قابل ستائش تھے اور جس سے ان کی سعادت وابستہ تھی ، یعنی وہ اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے تھے جو غالب اور قابل تعریف ہے ، یعنی جو اس غلبے کا مالک ہے ۔ جس کی بنا پر وہ ہر چیز پر غالب ہے اور وہ اپنے اقوال وافعال اور اوصاف میں قابل تعریف ہے۔ البروج
5 البروج
6 البروج
7 البروج
8 البروج
9 ﴿الَّذِیْ لَہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ﴾ زمین و آسمان کی تخلیق اور ان کے اللہ تعالیٰ کے غلام ہونے کے اعتبار سے سب پر اللہ تعالیٰ کی بادشاہی ہے ، وہ ان میں جیسے چاہتا ہے تصرف کرتا ہے۔ ﴿ وَاللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ شَہِیْدٌ﴾ اور اللہ تعالیٰ اپنے علم، سمع وبصر کی بنا پر ہر چیز پر گواہ ہے، پس اس کے خلاف سرکشی اختیار کرنے والے یہ کفار، اس بات سے کیوں نہ ڈرے کہ غالب اور قدرت رکھنے والا ان کو پکڑ لے گا کیا ان سب کو علم نہیں تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے مملوک ہیں اور مالک کی اجازت کے بغیر کسی کو کسی پر کوئی اختیار نہیں ؟ یا ان پر حقیقت مخفی رہ گئی تھی کہ اللہ تعالیٰ ان کے اعمال کا احاطہ کیے ہوئے ہے اور وہ ان کو ان کے اعمال کی جزا دے گا؟ ہرگز نہیں،! کافر دھوکے میں پڑا ہوا ہے اور جاہل اندھے پن کا شکار اور سیدھے راستے سے ہٹ کر گمراہی میں مبتلا ہے۔ البروج
10 پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو وعید سنائی ، ان کے ساتھ وعدہ کیا اور ان کے سامنے توبہ پیش کی ،چنانچہ فرمایا: ﴿اِنَّ الَّذِیْنَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ ثُمَّ لَمْ یَتُوْبُوْا فَلَہُمْ عَذَابُ جَہَنَّمَ وَلَہُمْ عَذَابُ الْحَرِیْقِ﴾ ” بے شک جن لوگوں نے مومن مردوں اور مومن عورتوں کو تکلیفیں دیں اور پھر توبہ نہ کی اور ان کو دوزخ کا عذاب بھی ہوگا اور جلنے کا عذاب بھی۔ “ یعنی جلانے والا نہایت سخت عذاب ہوگا۔ حضرت حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اس جودوکرم کی طرف دیکھو ، انہوں نے اس کے اولیا اور اس کے اہل اطاعت بندوں کو قتل کیا اور وہ ان کو توبہ کی طرف بلارہا ہے ۔ ظالموں کے لیے سزا کا ذکر کرنے کے بعد ، مومنوں کے لیے ثواب کا ذکر کیا ،چنانچہ فرمایا : ﴿اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا﴾ بے شک وہ لوگ جو اپنے دل سے ایمان لائے﴿ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ﴾اور اپنے جوارح سے نیک عمل کرتے رہے ﴿ لَہُمْ جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ ۀ ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْکَبِیْرُ﴾” ان کے لیے وہ باغات ہیں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں ۔ یہی بڑی کامیابی ہے ۔“ جس کے ساتھ وہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی تکریم واکرام کے گھر کے حصول سے فوزیاب ہوں گے۔ البروج
11 البروج
12 ﴿اِنَّ بَطْشَ رَبِّکَ لَشَدِیْدٌ﴾ بے شک اہل جرائم اور بڑے گناہوں کا ارتکاب کرنے والوں کے لیے اس کی سزا بڑی سخت ہے اور وہ ظالموں کی گھات میں ہے ۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : ﴿ وَكَذَٰلِكَ أَخْذُ رَبِّكَ إِذَا أَخَذَ الْقُرَىٰ وَهِيَ ظَالِمَةٌ إِنَّ أَخْذَهُ أَلِيمٌ شَدِيدٌ﴾( ھود: 11؍102) ” اور جب تیرا رب بستیوں کو پکڑتا ہے، اس حال میں کہ وہ ظلم کریں تو اس کی پکڑ ایسی ہی ہوتی ہے ، بے شک اس کی پکڑ بڑی ہی دردناک ہے۔ البروج
13 ﴿اِنَّہٗ ہُوَ یُبْدِیُٔ وَیُعِیْدُ﴾ یعنی وہ تخلیق کی ابتدا کرنے اور اس کا اعادہ کرنے میں متفرد ہے ، اس میں کوئی ہستی اس کی شریک نہیں۔ البروج
14 ﴿وَہُوَ الْغَفُوْرُ﴾ وہ اس شخص کے تمام گناہوں کو بخش دتیا ہے جو توبہ کرتا ہے اور اس کی برائیوں کو معاف کردیتا ہے جو ان برائیوں کی بخشش طلب کرکے اس کی طرف رجوع کرتا ہے۔ ﴿الْوَدُودُ﴾ جو اپنے دوستوں سے محبت کرتا ہے، ایسی محبت جو کسی چیز کے مشابہ نہیں ۔ جیسے صفات جلال وجمال اور معانی وافعال میں کوئی چیز مشابہ نہیں ، اسی طرح اس کی مخلوق میں سے اس کے خاص بندوں کے دلوں میں اس کی محبت ، اسی کے تابع ہے، محبت کی مختلف انواع اس محبت سے مشابہت نہیں رکھتیں، اس لیے اللہ تعالیٰ کی محبت عبودیت کی اصل ہے اور یہ وہ محبت ہے جو تمام محبتوں پر مقدم اور سب پر غالب ہے ۔ اگر دوسری محبتیں اس محبت کے تابع نہ ہوں تو یہ محبتیں اہل محبت کے لیے عذاب ہیں۔ اللہ تعالیٰ ودود ہے وہ اپنے دوستوں سے محبت کرتا ہے ، جیسا کہ فرمایا : ﴿ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ﴾( المائدۃ:5؍54) ” اللہ ان سے محبت کرتا ہے اور وہ اس سے محبت کرتے ہیں۔ “ اور المودۃ خالص اور صاف محبت کو کہتے ہیں۔ اس میں ایک لطیف نکتہ پوشیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے﴿ الْوَدُودُ﴾ کو ﴿ الْغَفُورُ﴾ کے ساتھ مقرون بیان کیا ہے تاکہ یہ اس بات کی دلیل ہو کہ گناہ گار جب اللہ تعالیٰ کے پاس توبہ کرکے اس کی طرف رجوع کرتے ہیں تو وہ ان کے گناہوں کو بخش دیتا ہے اور ان سے محبت کرتا ہے ۔ پس یہ نہ کہا جائے کہ ان کے گناہ بخش دیے جاتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ کی مودّت ان کی طرف نہیں لوٹتی ، جیسا کہ بعض مغالطہ انگیزوں کا قول ہے۔ بلکہ بندہ جب توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ سے اس شخص سے زیادہ خوش ہوتا ہے جس کی سواری پر اس کا کھاناپینا اور دیگر سامان ہوا اور ایک ہلاکت خیز بیابان میں اس کی وہ سواری گم ہوجائے ۔ وہ سواری (کی بازیابی ) سے مایوس ہو کر ایک سایہ دار درخت کے نیچے لیٹ جائے اور موت کا انتظار کرنے لگے۔ وہ ابھی اسی حال میں ہو کہ وہ کیا دیکھے کہ سواری اس کے سر پر کھڑی ہے۔ پس وہ اس کی مہار تھام لے ( اس سواری کو دیکھ کر اس کی خوشی کی انتہا نہ رہے ) پس اللہ اپنے بندے کی توبہ پر اس شخص سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے جو اپنی سواری کے ملنے پر خوش ہوتا ہے ۔ یہ اتنی بڑی خوشی ہے کہ اندازہ نہیں کیا جاسکتا۔ پس اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہے حمدوثنا اور خالص محبت۔ اس کی بھلائی کتنی عظیم، اس کی نیکی کتنی زیادہ، اس کا احسان کس قدر بے پایاں اور اس کی نوازشیں کتنی وسیع ہیں۔ البروج
15 ﴿ذُو الْعَرْشِ الْمَجِیْدُ﴾ یعنی عرش عظیم کا مالک ہے ، جس عرش کی عظمت کا یہ عالم ہے کہ وہ آسمانوں، زمین اور کرسی کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ اس کرسی کی عرش کے ساتھ وہی نسبت ہے جو ایک چٹیل میدان میں پڑے ہوئے حلقے (کڑے )کی نسبت زمین سے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے عرش کا ذکر خاص طور پر اس کی عظمت کی وجہ سے کیا، نیز عرش کو تمام مخلوقات سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے قرب کی خصوصیت حاصل ہے۔ زیر کی قرات کی صورت میں ﴿المجید﴾ عرش کی نعمت ہے اور رفع کی قراءت کی صورت میں یہ اللہ کی نعت ہے اور مجد اوصاف کی وسعت اور ان کی عظمت کو کہتے ہیں۔ البروج
16 ﴿فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ﴾ وہ جب بھی کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اسے کر گزرتا ہے اور جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو کہہ دیتا ہے: ہوجا۔ تو وہ ہوجاتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی ایسی ہستی نہیں کہ وہ جو کچھ چاہے کرلے۔ اگر مخلوق کسی چیز کا ارادہ کرتی ہے تو لازمی طور پر اس کے ارادے کے کچھ معاون ہوتے ہیں اور کچھ اس سے روکنے والے ہوتے ہیں ، جبکہ اللہ تعالیٰ کے ارادے کا کوئی معاون ہے نہ مانع۔ البروج
17 پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے ان افعال کا ذکر فرمایا جو اس چیز کی صداقت پر دلالت کرتے ہیں جسے انبیا ء ومرسلین لے کر آئے ہیں ۔فرمایا : ﴿ہَلْ اَتٰیکَ حَدِیْثُ الْجُــنُوْدِ۔ فِرْعَوْنَ وَثَمُــوْدَ﴾ ” کیا آپ کو لشکروں کا حال معلوم نہیں ہوا ہے ۔ فرعون اور ثمود کا؟“ انہوں نے رسولوں کو کیسے جھٹلایا؟ پس اللہ تعالیٰ نے ان کو ہلاک کر ڈالا۔ البروج
18 البروج
19 ﴿بَلِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فِیْ تَکْذِیْبٍ﴾ بلکہ کفار تکذیب اور عناد پر جمے ہوئے ہیں۔ آیات الہٰی ان کو کوئی فائدہ دیتی ہیں نہ نصیحتیں ان کے کسی کام آتی ہیں۔ البروج
20 ﴿ وَّاللّٰہُ مِنْ وَّرَایِٕہِمْ مُّحِیْــطٌ﴾ اور اللہ تعالیٰ نے اپنے علم اور قدرت سے ان کا احاطہ کررکھا ہے ، جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿ إِنَّ رَبَّكَ لَبِالْمِرْصَادِ﴾(الفجر:89؍14) ” بے شک تیرا رب گھات میں ہے۔“ ان آیات کریمہ میں کافروں کے لیے عقوبت کی سخت وعید ہے جو اس کے قبضہ قدرت میں اور اس کے دست تدبیر کے تحت ہیں۔ البروج
21 ﴿بَلْ ہُوَ قُرْاٰنٌ مَّجِیْدٌ﴾ ” بلکہ یہ قرآن بڑی شان والا ہے۔“ یعنی وہ نہایت وسیع اور عظیم معانی اور بہت زیادہ علم اور خیر والا ہے۔ البروج
22 ﴿فِیْ لَوْحٍ مَّحْفُوْظٍ﴾ یعنی وہ تغیر وتبدیلی اور کمی بیشی سے محفوظ ہے اور شیاطین سے بھی محفوظ ہے۔ وہ لوح محفوظ میں ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے ہر چیز درج کرکھی ہے ۔ یہ آیت کریمہ قرآن کریم کی جلالت ، عمدگی اور اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کی رفعت شان اور قدرومنزلت پر دلالت کرتی ہے۔ واللہ اعلم۔ البروج
0 الطارق
1 اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿وَالسَّمَاءِ وَالطَّارِقِ﴾ ” آسمان اور طارق کی قسم ! “ پھر ﴿ الطَّارِقُ ﴾ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا : ﴿النَّجْمُ الثَّاقِبُ﴾ یعنی روشن ستارہ ، جس کی روشنی آسمانوں میں سوراخ کردیتی ہے، آر پار چھید بن جاتا ہے حتی ٰکہ زمین سے دکھائی دیتا ہے۔ مگر صحیح یہ ہے کہ یہ اسم جنس ہے جو تمام روشن ستاروں کو شامل ہے ۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس سے مراد ”زحل“ ہے جو ساتوں آسمانوں کو چھید کر سوراخ کردیتا ہے اور ان میں سے دیکھا جاسکتا ہے اور اس کو ﴿ الطَّارِقُ﴾ اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ رات کے وقت نمودار ہوتا ہے ۔ جس چیز پر قسم کھائی گئی ہے وہ ہے اللہ تعالیٰ کا ارشاد : ﴿اِنْ کُلُّ نَفْسٍ لَّمَّا عَلَیْہَا حَافِـظٌ﴾ ” ہر متنفس پر نگہبان مقرر ہے۔“ جو نفس کے اچھے برے اعمال کو محفوظ کرتا ہے اور ہر نفس کو اس کے عمل کی جزا وسزا دی جائے گی جسے اس کے لیے محفوظ کردیا گیا ہے۔ الطارق
2 الطارق
3 الطارق
4 الطارق
5 ﴿فَلْیَنْظُرِ الْاِنْسَانُ مِمَّ خُلِقَ﴾ یعنی انسان کو اپنی تخلیق اور اس کی ابتدا پر غور کرنا چاہیے۔ الطارق
6 ﴿خُلِقَ مِنْ مَّاءٍ دَافِقٍ ﴾”پیدا کیا گیا ہے وہ اچھلتے ہوئے پانی سے۔“ اس سے مراد منی ہے۔ الطارق
7 ﴿یَّخْرُجُ مِنْ بَیْنِ الصُّلْبِ وَالتَّرَایِٕبِ﴾” جو نکلتی ہے پیٹھ اور سینے کے بیچ سے۔“ اس میں اس معنی کا احتمال ہے کہ (یہ منی ) مرد کی صلب سے اور عورت کے سینے ، یعنی اس کی چھاتی سے نکلتی ہے۔ دوسرا احتمال یہ ہے کہ اچھل کرنکلنے والی منی جو کہ مرد کی منی ہے ، اس کا مقام ، جہاں سے وہ نکلتی ہے ، صلب اور سینے کے درمیان ہے۔ شاید یہی معنی زیادہ صحیح زیادہ ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اچھل کر نکلنے والی پانی )منی( کا وصف بیان کیا ہے جس کو محسوس کیا جاتا ہے اور اس کے اچھل کر باہر نکلنے کا مشاہدہ کیا جاتا ہے اور یہ مرد کی منی ہے ۔ اسی طرح ﴿التَّرَائِبِ﴾ کا لفظ مرد کے لیے استعمال ہوتا ہے ، کیونکہ مرد کا سینہ بمنزلہ عورت کی چھاتیوں کے ہے ۔اگر یہاں عورت مراد ہوتی تو کہا جاتا )بَیْنَ الصُّلْبِ وَالثَّدْیَیْن(پیٹھ اور دونوں پستانوں کے درمیان وغیرہ۔ واللّٰہ اعلم پس جس ہستی نے انسان کو اچھل کر نکلنے والے پانی سے وجود بخشا جو اس مشکل مقام سے خارج ہوتا ہے ، وہ آخرت میں اسے پیدائش کی طرف لوٹانے ، قیامت، حشر ونشر اور جزا وسزا کے لیے اس کی تخلیق کا اعادہ کرنے پر قادر ہے ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ، اچھل کرنکلنے والے پانی کو واپس صلب میں لوٹانے پر قادر ہے ۔یہ معنی اگرچہ صحیح ہیں مگر آیت کریمہ سے معنی مراد یہ نہیں ، کیونکہ اس کے بعد فرمایا : ﴿یَوْمَ تُبْلَی السَّرَایِٕرُ﴾ اس دن سینے کے بھید جانچے جائیں گے اور دلوں میں جو اچھائی یا برائی ہے وہ سب چہروں کے صفحات پر آشکار ا ہوجائے گی، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوهٌ﴾( آل عمران :3؍106) ” جس روز کچھ چہرے سفید ہوں گے اور کچھ چہرے سیاہ ہوں گے۔ “ دنیا کے اندر بہت سی چیزیں پوشیدہ رہتی تھیں اور لوگوں کے سامنے عیاں نہیں ہوتی تھیں۔ قیامت کے روز تو برابر کی نیکی اور فاجروں کا فسق وفجور صاف ظاہر ہوں گے اور علانیہ امور بن جائیں گے۔ الطارق
8 الطارق
9 الطارق
10 ﴿فَمَا لَہٗ مِنْ قُوَّۃٍ﴾ یعنی اس کے پاس اپنی طاقت نہیں ہوگی جس کے ذریعے سے وہ مدافعت کرسکے ﴿وَّلَا نَاصِرٍ﴾ اور نہ خارج سے کوئی مددگار ہوگا جس سے مدد لے سکے۔ عمل کرنے والوں پر یہ قسم، ان کے عمل کرنے کے وقت اور ان کی جزا وسزا کے وقت ہے ۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے دوسری قسم کھائی جو قرآن کی صحت پر ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿وَالسَّمَاءِ ذَاتِ الرَّجْع وَالْاَرْضِ ذَاتِ الصَّدْعِ ﴾ ” بارش والے آسمان کی قسم! اور پھٹنے والی زمین کی قسم!“ یعنی آسمان ہر سال بارش لے کر لوٹتا ہے، زمین نباتات کے اگنے کے لیے شق کی جاتی ہے ، پس اس پر انسان اور حیوانات زندہ رہتے ہیں ، نیزآسمان ہر وقت قضا وقدر اور شئون الہٰیہ کے ساتھ لوٹتا ہے اور (قیامت کے روز ) مردوں سے زمین شق ہوجائے گی۔ الطارق
11 الطارق
12 الطارق
13 ﴿اِنَّہٗ ﴾ بلاشبہ یہ قرآن کریم﴿ لَقَوْلٌ فَصْلٌ﴾ حق اور صدق ، بین اور واضح ہے۔ الطارق
14 ﴿وَّمَا ہُوَ بِالْہَزْلِ﴾ یہ بے ہودہ کلام نہیں، بلکہ سنجیدہ کلام ہے ۔ یہ ایسا کلام ہے جو مختلف گروہوں اور مختلف مقالات کے مابین فیصلہ کرتا ہے اور مختلف خصومات میں امتیاز کرتا ہے۔ الطارق
15 ﴿اِنَّہُمْ﴾ یعنی رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم کی تکذیب کرنے والے ﴿ یَکِیْدُوْنَ کَیْدًا﴾ ” سازشیں کرتے ہیں۔ “ تاکہ اپنی سازش کے ذریعے سے حق کو روک دیں اور باطل کی مدد کریں۔ الطارق
16 ﴿وَّاَکِیْدُ کَیْدًا﴾ اور حق کو غالب کرنے کے لیے میں چال چلتا ہوں، خواہ کافروں کو ناگوار ہی کیوں نہ گزرے تاکہ باطل کو روکا جائے جسے یہ لے کر آئے ہیں اور اس سے معلوم ہوجائے کہ کون غالب ہے؟ کیونکہ انسان بہت کمزور اور حقیر ہے کہ اپنے سے زیادہ طاقت رکھنے والے اور اپنی چال سازی میں زیادہ مہارت اور علم رکھنے والے پر غالب آسکے۔ الطارق
17 ﴿ فَمَــہِّلِ الْکٰفِرِیْنَ اَمْہِلْہُمْ رُوَیْدًا﴾ یعنی کافروں کو تھوڑی سی مہلت دو، پس عنقریب جب ان کو عذاب اپنی لپٹ میں لے لے گا تو انہیں اپنے انجام کا علم ہوجائے گا۔ الطارق
0 الأعلى
1 اللہ تعالیٰ اپنی تسبیح وتنزیہہ کا حکم دیتا ہے جو اس کے ذکر، اس کی عبادت ، اس کے جلال کے سامنے سرافگندہ اور اس کی عظمت کے سامنے فروتن ہونے کو متضمن ہے ، نیز تسبیح ایسی ہو جو اللہ تعالیٰ کی عظمت کے لائق ہے ، یعنی اس کے اسمائے حسنیٰ وعالیہ کا اس اسم سے ذکر جس کے معنی اچھے اور عظیم ہوں۔ اس کے افعال کا ذکر کیا جائے ، ان افعال میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس نے تمام مخلوقات کو پیدا کیا ، ان کو درست کیا ، یعنی نہایت مہارت کے ساتھ ان کو اچھی طرح تخلیق کیا۔ الأعلى
2 الأعلى
3 ﴿وَالَّذِیْ قَدَّرَ﴾ اس نے اندازہ مقرر کردیا جس کی تمام مقدرات پیروی کرتی ہیں ﴿ فَہَدٰی﴾ اور اس کی طرف تمام مخلوقات کی راہنمائی کی ، یہ ہدایت عام ہے جس کا مضمون یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر مخلوق کو اس کے مصالح کی راہ دکھائی ہے اور اس میں اس کی تمام دنیاوی نعمتوں کا ذکر کیا جاتا ہے ۔ اسی لیے اس کے بارے میں فرمایا: ﴿وَالَّذِیْٓ اَخْرَجَ الْمَرْعٰی﴾ یعنی اللہ تعالیٰ نے آسمان سے پانی برسایا، پھر اس پانی سے نباتات اور سرسبز گھاس کی مختلف اصناف اگائیں ، جنہیں انسان ، چوپائے اور تمام حیوانات کھاتے ہیں ۔ پھر اس نباتات وغیرہ کا جتنا جو بن مقدر ہوتا ہے، اس کے مکمل کرلینے کے بعد ، نباتات اور سبز گھاس کو خشک کرد یتا ہے۔ الأعلى
4 الأعلى
5 ﴿فَجَعَلَہٗ غُثَاءً اَحْوٰی﴾ ” پھر اس کو سیاہ رنگ کا کوڑا کردیا۔“ یعنی اللہ تعالیٰ اس نباتات کو چورا چورا اور بوسیدہ بنا دیتا ہے اور اس میں وہ دینی نعمتوں کا ذکر کرتا ہے۔ الأعلى
6 اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان نعمتوں کی اصل اور اس کے مادے یعنی قرآن کا ذکر کرکے احسان جتلایا ہے ۔ چنانچہ فرمایا : ﴿سَنُقْرِئُکَ فَلَا تَنْسٰٓی﴾ ہم نے آپ کی طرف جو کتاب وحی کی ہے، اسے محفوظ کردیں گے اور آپ کے قلب کو یاد کرادیں گے ۔ پس آپ اس میں سے کچھ بھی نہیں بھولیں گے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندے اور رسول محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے بہت بڑی خوش خبری ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ایسا علم عطا کرے گا جسے آپ کبھی فراموش نہیں کریں گے۔ الأعلى
7 ﴿اِلَّا مَا شَاءَ اللّٰہُ ﴾” مگر جو اللہ چاہے۔“ اور اس کی حکمت کا تقاضا کرے کہ کسی مصلحت اور حکمت بالغہ کی بنا پر آپ کو فراموش کرادے ﴿ اِنَّہٗ یَعْلَمُ الْجَـہْرَ وَمَا یَخْفٰی﴾ ” بے شک وہ ظاہر اور پوشیدہ کا جانتا ہے۔“ اور اس میں سے یہ بھی ہے کہ وہ جانتا ہے کہ اس کے بندوں کے لیے کیا درست ہے ، اس لیے وہ جو چاہتا ہے مشروع کرتا ہے اور جو چاہتا ہے فیصلہ کرتا ہے۔ الأعلى
8 ﴿وَنُیَسِّرُکَ لِلْیُسْرٰی﴾ یہ ایک اور خوشخبری ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو آپکے تمام امور میں آسانی مہیا فرمائے گا اور آپ کے دین اور شریعت کو آسان بنائے گا۔ الأعلى
9 ﴿ فَذَکِّرْ﴾ پس آپ اللہ تعالیٰ کی شریعت اور اس کی آیات کے ذریعے سے نصیحت کرتے رہیے ﴿اِنْ نَّفَعَتِ الذِّکْرٰی﴾ ” اگر نصیحت فائدہ دے۔“ یعنی جب تک کہ تذکیر قابل قبول اور نصیحت سنی جاتی ہو، خواہ اس نصیحت سے پورا مقصد حاصل ہوتا ہو یا اس کا کچھ حصہ۔ آیت کریمہ کا مفہوم مخالف یہ ہے کہ اگر نصیحت فائدہ نہ دے ، یعنی جس کو نصیحت کی گئی ہے وہ شر میں اور بڑھ جائے یا اس میں بھلائی کم ہوجائے تو آپ نصیحت پر مامور نہیں بلکہ تب آپ نصیحت نہ کرنے پر مامور ہیں۔ پس نصیحت کے ضمن میں لوگ دو اقسام میں منقسم ہیں : نصیحت سے فائدہ اٹھانے والے اور نصیحت سے فائدہ نہ اٹھانے والے۔ رہے فائدہ اٹھانے والے تو اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں ان کا ذکر کیا ہے۔ الأعلى
10 ﴿سَیَذَّکَّرُ مَنْ یَّخْشٰی﴾” جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے، وہ نصیحت حاصل کرے گا۔ “ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا خوف اور اعمال کی جزاوسزا دینے اس کی قدرت کا علم بندے کے لیے ان امور سے باز رہنے کا موجب بنتا ہے جنہیں اللہ تعالیٰ ناپسند کرتا ہے بھلائی کے امور میں سعی کاموجب بنتا ہے۔ الأعلى
11 رہے وہ لوگ جو نصیحت سے فائدہ نہیں اٹھاتے تو اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں ان کا ذکر کیا ہے۔ ﴿وَیَتَجَنَّبُہَا الْاَشْقَی الَّذِیْ یَصْلَی النَّارَ الْکُبْرٰی ﴾” ا ور بدبخت پہلو تہی کرے گا جو بڑی آگ میں داخل ہوگا۔“ اور یہ بھڑکائی ہوئی آگ ہے جو دلوں سے لپٹ جائے گی۔ الأعلى
12 الأعلى
13 ﴿ثُمَّ لَا یَمُوْتُ فِیْہَا وَلَا یَحْیٰی﴾ ” جہاں پھر نہ وہ مرے گا نہ جیے گا۔ “ یعنی ان کو دردناک عذاب دیا جائے گا، اس میں کوئی راحت ہوگی نہ استراحت حتی ٰ کہ وہ موت کی تمنا کریں گے مگر موت ان کو نہیں آئے گی ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ لَا يُقْضَىٰ عَلَيْهِمْ فَيَمُوتُوا وَلَا يُخَفَّفُ عَنْهُم مِّنْ عَذَابِهَا ﴾(فاطر :35؍36) ” نہ ان کو موت آئے گی کہ مرجائیں ، نہ جہنم کا عذاب ان سے ہلکا کیا جائے گا۔“ الأعلى
14 ﴿قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی﴾ جس نے اپنے نفس کو پاک کیا، شرک، ظلم اور برے اخلاق سے اس کی تطہیر کی، اس نے نفع اٹھایا اور فوزیاب ہوا۔ الأعلى
15 ﴿وَذَکَرَ اسْمَ رَبِّہٖ فَصَلّٰی﴾ ” اور جس نے اپنے رب کا نام یاد رکھا اور نماز پڑھتا رہا۔ “ یعنی جو ذکر الہٰی سے متصف ہوا اور اس کا قلب ذکر الہٰی کے رنگ میں ڈوب گیا تو یہ ان اعمال کاموجب بنتا ہے جن سے اللہ تعالیٰ راضی ہوتا ہے ، خاص طور پر نماز جو ایمان کی میزان ہے۔ یہ ہیں آیت کریمہ کے معنی۔ اور جو کوئی اللہ تعالیٰ کے ارشاد : ﴿تزکٰی﴾ کے معنی یہ کرتا ہے اس نے زکوٰۃ فطر دی اور ﴿وَذَکَرَ اسْمَ رَبِّہٖ فَصَلّٰی﴾ سے مراد عید کی نماز ہے، تو یہ اگرچہ لفظ کے( عمومی) معنی میں داخل ہے اور اس کی جزئیات میں سے ہے مگر صرف یہی ایک معنی نہیں ہیں۔ الأعلى
16 ﴿بَلْ تُـؤْثِرُوْنَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا﴾ یعنی تم دنیا کی زندگی کو آخرت پر مقدم رکھتے ہو اور آخرت کے مقابلے میں ختم ہونے والی ، مکدر کرنے والی اور زائل ہوجانے والی نعمتوں کو ترجیح دیتے ہو۔ الأعلى
17 ﴿ وَالْاٰخِرَۃُ خَیْرٌ وَّاَبْقٰی﴾ حالانکہ آخرت ہر وصف مطلوب میں دنیا سے بہتر اور زیادہ باقی رہنے والی ہے، کیونکہ آخرت دارالخلد اور دارالبقا ہے اور دنیا دارالفنا ہے اور ایک عقل مند مومن عمدہ کے مقابلے میں ردی کو منتخب کرے گا نہ ایک گھڑی کی لذت کے لیے ابدی رنج وغم کو خریدے گا ۔ پس دنیا کی محبت اور اس کو آخرت پر ترجیح دینا ہر گناہ کی جڑ ہے۔ الأعلى
18 ﴿اِنَّ ہٰذَا﴾ ” بے شک یہ۔ “ یعنی وہ اوامر حسنہ اور اخبار مستحسنہ جو اس سورہ مبارکہ میں تمہارے سامنے ذکر کیے گئے ﴿ لَفِی الصُّحُفِ الْاُوْلٰی صُحُفِ اِبْرٰہِیْمَ وَمُوْسٰی﴾ ” پہلے صحیفوں میں ہیں۔ یعنی ابراہیم اور موسیٰ علیہ السلام کے صحیفوں میں۔“ جو دونوں محمد مصطفی ٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تمام انبیا ومرسلین میں سب سے زیادہ شرف کے حامل رسول ہیں۔ پس یہ اوامر ہر شریعت میں موجود ہیں ، کیونکہ یہ دنیا اور آخرت کے مصالح کی طرف لوٹتے ہیں اور ہر زمان ومکان میں ان مصالح کی حاجت ہے۔ الأعلى
19 الأعلى
0 الغاشية
1 اللہ تبارک وتعالیٰ قیامت کے احوال اور اس کی مصیبت خیز ہولناکیوں کا ذکر کرتا ہے کہ قیامت تمام مخلوق کو اپنی سختیوں سے ڈھانپ لے گی، لوگوں کو ان کے اعمال کی جزا وسزا دی جائے گی ، لوگ الگ الگ دو گروہوں میں بٹ جائیں گے، ایک گروہ جنت میں جائے گا اور دوسرا گروہ جہنم کو سدھارے گا ۔ پس اللہ تعالیٰ نے دوگروہوں کے وصف سے آگاہ فرمایا۔ الغاشية
2 جہنمیوں کے وصف میں فرمایا : ﴿وُجُوْہٌ یَّوْمَیِٕذٍ﴾ اس دن یعنی قیامت کے دن بہت سے چہرے ﴿خَاشِعَۃٌ﴾ ذلت، فضیحت اور رسوائی کی وجہ سے جھکے ہوئے ہوں گے۔ الغاشية
3 ﴿عَامِلَۃٌ نَّاصِبَۃٌ﴾ ” سخت محنت کرنے والے، تھکے ماندے۔“ یعنی عذاب میں سخت تھکے ہوئے ہوں گے ، ان کو چہروں کے بل گھسیٹا جائے گا اور آگ ان کے چہروں کو ڈھانپ لے گی۔ اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿وُجُوْہٌ یَّوْمَیِٕذٍ خَاشِعَۃٌ عَامِلَۃٌ نَّاصِبَۃٌ﴾ میں اس معنی کا احتمال ہے کہ دنیا کے اندر مشقت اٹھانے والے چہرے، اس روز جھکے ہوئے ہوں گے۔ دنیا کے اندر (ان کی مشقت یہ تھی) کہ وہ بڑے عبادت گزار اور عمل کرنے والے تھے۔ مگر چونکہ اس عمل میں ایمان کی شرط معدوم تھی اس لیے عمل قیامت کے دن اڑتا ہوا غبار بن جائے گا۔ یہ احتمال معنی کے اعتبار سے اگرچہ صحیح ہے مگر سیاق کلام اس پر دلالت نہیں کرتا بلکہ پہلے معنی ہی قطعی طور پر صحیح ہیں ، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسے ظرف کے ساتھ مقید کیا ہےاور وہ ہے قیامت کا دن ، کیونکہ یہاں عمومی طور پر اہل جہنم کا ذکر کرنا مقصود ہے اور یہ احتمال ، اہل جہنم کی نسبت سے، بہت ہی چھوٹا ساجز ہے ، کیونکہ یہ کلام ، قیامت کی سختی کے، لوگوں کو ڈھانپ لینے کے حال میں ہے اور اس میں دنیا کے اندر ان کے احوال سے کوئی تعرض نہیں۔ الغاشية
4 ﴿تَصْلٰی نَارًا حَامِیَۃً﴾ ” دہکتی آگ میں داخل ہوں گے۔“ یعنی اس کی حرارت بہت سخت ہوگی جو ان کو ہر جگہ سے گھیر لے گی۔ الغاشية
5 ﴿تُسْقٰی مِنْ عَیْنٍ اٰنِیَۃٍ﴾ ” ایک کھولتے ہوئے چشمے کا ان کو پانی پلایاجائے گا۔“ یعنی انتہائی گرم۔ ﴿وَإِن يَسْتَغِيثُوا يُغَاثُوا بِمَاءٍ كَالْمُهْلِ يَشْوِي الْوُجُوهَ ﴾( الکھف :18؍29) ” اور اگر وہ فریاد کریں گے تو ایسے پانی سے ان کی فریاد رسی کی جائے گی جو پگھلے ہوئے تانبے کے مانند ہوگا جو چہروں کو بھون ڈالے گا۔ “ پس یہ ہوگا ان کا مشروب۔ الغاشية
6 رہا ان کا طعام تو ﴿لَیْسَ لَہُمْ طَعَامٌ اِلَّا مِنْ ضَرِیْعٍ۔ لَّا یُسْمِنُ وَلَا یُغْنِیْ مِنْ جُوْعٍ﴾ ” خاردار جھاڑ کے سوا ان کے لیے کوئی کھانا نہیں ہوگا۔ جو موٹا کرے گا نہ بھوک مٹائے گا۔ “ یہ اس وجہ سے کہا گیا کہ کھانے سے دو امور میں سے ایک مقصود ہوتا ہے۔ کھانے والے کی بھوک مٹانا اور اس کی بھوک کی تکلیف دور کرنا یا اس کے بدن کو موٹا کرنا اور اس کھانے میں دونوں امور کے لیے کوئی فائدہ نہیں بلکہ یہ کھانا کرواہٹ، بدبو اور گھٹیا پن میں انتہا کو پہنچا ہوا ہوگا ، ہم اللہ تعالیٰ سے عافیت کا سوال کرتے ہیں۔ الغاشية
7 الغاشية
8 رہے نیکوکار توقیامت کے روز ان کے چہرے ﴿ نَّاعِمَۃٌ﴾” تروتازہ ہوں گے۔“ یعنی ان پر نعمتوں کی تازگی عیاں ہوگی ، ان کے بدن تروتازہ ہوں گے اور ان کے چہرے نور سے دمک رہے ہوں گے اور وہ انتہائی خوش ہوں گے۔ الغاشية
9 ﴿لِّسَعْیِہَا﴾ ” اپنے اعمال سے۔“ جو اس نے دنیا میں رہتے ہوئے نیک اعمال اور اللہ کے بندوں کے ساتھ حسن سلوک کو آگے بھیجا ﴿رَاضِیَۃٌ﴾ ” خوش ہوں گے۔“ کیونکہ ان کو ان کی کوشش کا ثواب کئی گنا جمع کیا ہوا ملا ، پس انہوں نے اپنے انجام کی تعریف کی اور انہیں ہر وہ چیز حاصل ہوگئی جس کی وہ تمنا کرتے تھے۔ الغاشية
10 اور یہ سب کچھ ﴿فِیْ جَنَّۃٍ﴾ ایسی جنت میں ملے گا جس میں نعمتوں کی تمام انواع جمع ہیں ﴿عَالِیَۃٍ﴾ جو اپنے محل ومنازل میں بہت بلند ہے۔ پس اس محل ومقام اعلی ٰعلیین میں ہے، اس کی منازل بہت بلند مسکن ہیں، اس میں بالاخانے ہیں اور بالاخانوں پر بنائے گئے بالاخانے ہیں ، جہاں سے وہ اکرام وتکریم کی نعمتوں کا نظارہ کرسکیں گے جو اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے تیار کی ہیں۔ ﴿قُطُوفُهَا دَانِيَةٌ ﴾( الحاقۃ: 69؍23) ”جس کے پھل جھکے ہوئے ہوں گے۔“ جس میں نہایت لذیذ میوے بکثرت ہوں گے، وہ بہت زیادہ اچھے اچھے پھل ہوں گے جن کا حصول بہت آسان ہوگا ،جس حال میں بھی وہ ہوں گے وہ ان پھلوں کو حاصل کرسکیں گے ، انہیں کسی درخت پر چڑھنے کی حاجت ہوگی نہ کوئی ایسا پھل ہوگا جس کا حصول ان کے لیے دشوار ہوگا۔ الغاشية
11 ﴿لَّا تَسْمَعُ فِیْہَا ﴾ ” اس میں نہیں سنیں گے۔ “یعنی جنت کے اندر ﴿ لَاغِیَۃً ﴾ کوئی حرام بات تو کجا کوئی لغو اور باطل کلمہ بھی (نہیں سنیں گے) بلکہ ان کا تمام تر کلام اچھا اور نفع بخش ہوگا جوا للہ تعالیٰ کے ذکر، ان پر اللہ تعالیٰ کی لگاتار نعمتوں کے ذکر اور ایک دوسرے کے ساتھ رہنے والوں میں باہم آداب حسنہ پر مشتمل ہوگا ۔ جو دلوں کو مسرت اور شرح صدر عطا کرے گا۔ الغاشية
12 ﴿فِیْہَا عَیْنٌ جَارِیَۃٌ﴾ یہ اسم جنس ہے ، یعنی اس کے اندر چشمے جاری ہوں گے، اہل جنت جیسے چاہیں گے اور جہاں چاہیں گے ، ان چشموں کا رخ موڑکر ان سے نہریں نکال کرلے جائیں گے۔ الغاشية
13 ﴿فِیْہَا سُرُرٌ مَّرْفُوْعَۃٌ﴾ اَلسُّرُرُ: سَرِیْرٌ کی جمع ہے اور بیٹھنے کی ان جگہوں کو کہتے ہیں جو بذات خود بلند ہوں اور ان کو ملائم اور نرم بچھونوں کے ذریعے سے بلند کیا گیا ہو۔ الغاشية
14 ﴿وَّاَکْوَابٌ مَّوْضُوْعَۃٌ﴾ یعنی مختلف انواع کے لذیذ ، مشروبات سے لبریز آبخورے ان کے سامنے رکھ ہوئے ہوں گے جو ان کے لیے تیار کیے گئے ہوں گے اور ان کی طلب اور اختیار کے تحت ہوں گے اور ہمیشہ رہنے والے کم عمر لڑکے (خدمت کے لیے) ان کے پاس گھوم رہے ہوں گے۔ الغاشية
15 ﴿وَّنَمَارِقُ مَصْفُوْفَۃٌ﴾ یعنی حریر اور دبیز ریشم وغیرہ کے تکیے ہوں گے جن کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا ، ان کے بیٹھنے اور ان پر آرام کرنے کے لیے صف درصف بچھایا گیا ہوگا ، وہ ان کو خود بنانے یا خود بچھانے کی فکر سے آزاد اور آرام میں ہوں گے۔ الغاشية
16 ﴿وَّزَرَابِیُّ مَبْثُوْثَۃٌ﴾ الزرابی سے مراد خوبصورت بچھونے ہیں ، یعنی ان کی مجالس ہر جانب سے ان بچھونوں سے بھری ہوئی ہوں گی۔ الغاشية
17 اللہ تبارک وتعالیٰ ان لوگوں کو جو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق نہیں کرتے اور ان کے علاوہ دیگر لوگوں کو، اس بات پر آمادہ کرنے کے لیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی مخلوقات میں غوروفکر کریں جو اس کی توحید پر دلالت کرتی ہیں ،فرماتا ہے :﴿اَفَلَا یَنْظُرُوْنَ اِلَی الْاِبِلِ کَیْفَ خُلِقَتْ﴾ ” کیا یہ لوگ اونٹوں کی طرف نہیں دیکھتے کہ کیسے پیدا کیے گئے؟ “ یعنی کیا وہ اس کی انوکھی تخلیق پر غور نہیں کرتے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کو بندوں کے لیے مسخر اور ان بے شمار منافع اور مصالح کے لیے ان کا مطیع کردیا جن کے وہ ضرورت مند ہوتے ہیں۔ الغاشية
18 الغاشية
19 ﴿وَاِلَی الْجِبَالِ کَیْفَ نُصِبَتْ﴾ ” اور پہاڑوں کی طرف کہ کیسے وہ نصب کیے گئے ہیں؟ “ یعنی خوبصورت اور نمایاں بنا کر ان کو نصب کیا گیا ہے ۔ جس سے زمین کو استقرار اور ثبات حاصل ہوا جس سے وہ حرکت نہیں کرتی۔ اللہ تعالیٰ نے ان پہاڑوں میں( انسان کے لیے )بڑے بڑے فوائد ودیعت کیے ہیں۔ الغاشية
20 ﴿وَاِلَی الْاَرْضِ کَیْفَ سُطِحَتْ﴾ ” اور زمین کی طرف کہ کس طرح وہ بچھائی گئی ہے۔“ یعنی زمین کو کس طرح کشادگی کے ساتھ پھیلایا اور نہایت نرم اور ہموار بنایا گیا ہے تاکہ بندے اس پر ٹھکانا کرسکیں، اس پر کھیتی باڑی کرسکیں، باغات اگاسکیں، عمارتیں تعمیر کرسکیں اور اس کے راستوں پر سفر کرسکیں ۔ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ زمین کا ہموار ہونا ، اس کے گول ہونے کے منافی نہیں۔ اس کو ہر جانب سے افلاک نے گھیرا ہوا ہے ، جیسا کہ عقل، نقل، حس اور مشاہدہ اس پر دلالت کرتے ہیں اور بہت سے لوگوں کے ہاں یہ مذکور اور معروف ہے، خاص طور پر اس زمانے میں، اللہ تعالیٰ نے دور کی مسافتوں کو قریب کرنے کے لیے جو اسباب فراہم کیے، ان کے ذریعے سے لوگ زمین کے اکثر گوشوں سے واقف ہوگئے ہیں ، کسی شے کا ہموار ہونا ایک بہت ہی چھوٹے جسم کی گولائی کے منافی ہوسکتا ہے جسے اگر ہموار کیا جائے تو اس میں قابل ذکر گولائی باقی نہیں رہے گی ۔ رہا کرہ زمین کا جسم جو کہ بہت ہی بڑا اور کشادہ ہے جو بیک وقت گول اور ہموار ہے، دونوں امور ایک دوسرے کے منافی نہیں ، جیسا کہ اہل خبر کو اس کی معرفت حاصل ہے۔ الغاشية
21 ﴿فَذَکِّرْ اِنَّمَآ اَنْتَ مُذَکِّرٌ﴾ یعنی لوگوں کو وعظ ونصیحت اور ان کو تنبیہ کیجیے اور انکو خوشخبری دیجئے ، کیونکہ آپ مخلوق کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینے اور ان کو نصیحت کرنے کے لیے مبعوث ہوئے ہیں ۔ آپ کو ان پر داروغہ بنا کر اور مسلط کرکے نہیں بھیجا گیا اور نہ ان کے اعمال کا وکیل بنا کر ہی بھیجا گیا ہے ۔ پس جب آپ نے وہ ذمہ داری پوری کردی جو آپ کے سپرد کی گئی تھی تو اس کے بعد آپ پر کوئی ملامت نہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کے اس قول کے مانند ہے: ﴿ وَمَا أَنتَ عَلَيْهِم بِجَبَّارٍ فَذَكِّرْ بِالْقُرْآنِ مَن يَخَافُ وَعِيدِ ﴾( ق:50؍45)” اور آپ ان کے ساتھ زبردستی کرنے والے نہیں، آپ قرآن کے ذریعے سے اس شخص کو نصیحت کرتے رہیے جو میرے عذاب کی وعید سے ڈرتا ہے۔“ الغاشية
22 الغاشية
23 ﴿اِلَّا مَنْ تَوَلّٰی وَکَفَرَ﴾ مگر جو کوئی اطاعت سے منہ موڑ کر کفر کارویہ اختیار کرے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کرے۔ الغاشية
24 ﴿فَیُعَذِّبُہُ اللّٰہُ الْعَذَابَ الْاَکْبَرَ﴾ تو اللہ اسے نہایت سخت اور دائمی عذاب دے گا۔ الغاشية
25 ﴿اِنَّ اِلَیْنَآ اِیَابَہُمْ﴾ یعنی تمام خلائق کو ہماری ہی طرف لوٹنا اور قیامت کے روز ان سب کو (ہمارے ہی پاس) اکٹھے ہونا ہے۔﴿ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا حِسَابَہُمْ﴾ پھر انہوں نے جو کوئی اچھا براعمل کیا ہے، ان سے اس کا حساب لینا ہمارے ذمے ہے۔ الغاشية
26 الغاشية
0 الفجر
1 ظاہر ہے کہ مقسم بہ ہی مقسم علیہ ہے ۔ جب معاملہ ظاہر اور اہم ہو تو یہ جائز اور مستعمل ہے ، اس مقام پر بھی اسی طرح ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے فجر کی قسم کھائی ہے جو رات کا آخر اور دن کا مقدمہ ہے ، کیونکہ رات کے لوٹنے اور دن کے آنے میں ایسی نشانیاں ہیں جو اللہ تعالیٰ کے کمال قدرت پر دلالت کرتی ہیں ، نیز یہ کہ تمام امور کی تدبیر کرنے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے جس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ فجر کے و قت ایک نہایت فضیلت اور عظمت والی نماز واقع ہوتی ہے اور وہ اس کی اہل ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی قسم کھائے ، اس لیے اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے دس راتوں کی قسم کھائی ہے اور صحیح قول کے مطابق یہ رمضان المبارک یا ذوالحج کی دس راتیں ہیں ، کیونکہ یہ راتیں فضٗیلت والے ایام پر مشتمل ہیں ۔ ان راتوں میں ایسی عبادت وقربات واقع ہوتی ہیں جو دوسرے ایام میں نہیں ہوتیں۔ رمضان کی آخری دس راتوں میں سے ایک طاق رات میں لیلۃ القدر واقع ہوتی ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ ان کے دنوں میں رمضان کے آخری عشرے کے روزے رکھے جاتے ہیں جو ارکان اسلام میں سے ایک بہت بڑا رکن ہے اور ذو الحج کے پہلے عشرے میں عرفہ میں وقوف ہوتا ہے جس میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو مغفرت سے نوازتا ہے ، جس سے شیطان غمگین ہوتا ہے ۔ شیطان جس قدر حقیر اور دھتکارا ہوا عرفہ کے دن ہوتا ہے ، اتنا حقیر اور دھتکارا ہوا کبھی نہیں دیکھا گیا ، کیونکہ اس روز وہ اللہ تعالیٰ کے بندوں پر فرشتوں اور اس کی طرف سے رحمت کو اترتے دیکھتا ہے۔ ان دنوں میں حج اور عمرے کے بہت سے افعال واقع ہوتے ہیں اور اشیا ء قابل تعظیم اور اس بات کی مستحق ہیں کہ ان کی قسم کھائی جائے۔ الفجر
2 الفجر
3 الفجر
4 ﴿وَالَّیْلِ اِذَا یَسْرِ﴾ ” اور رات کی (قسم )جب جانے لگے۔ “ یعنی اس کے گزرنے اور بندوں پر اپنی تاریکی کی چادر تان دینے کے وقت، پس بندے اللہ تعالیٰ کی رحمت اور حکمت کی بنا پر آرام اور استراحت کرتے ہیں اور مطمئن ہوتے ہیں۔ الفجر
5 ﴿ہَلْ فِیْ ذٰلِکَ ﴾ان مذکورہ چیزوں میں ﴿قَسَمٌ لِّذِیْ حِجْرٍ﴾ عقل مند کے لیے قسم ہے؟ ہاں ، اس میں سے کچھ چیزیں ہی اس شخص کے لیے کافی ہیں جو دل بیدار رکھتا ہے اور متوجہ ہو کر کان لگا کر سنتا ہے۔ الفجر
6 اللہ تبارک وتعالی ٰفرماتا ہے : ﴿اَلَمْ تَرَ﴾ یعنی کیا آپ نے اپنے قلب اور اپنی بصیرت سے دیکھا نہیں کہ اس سرکش قوم کے ساتھ کیا کیا گیا ؟ اور وہ ﴿ إِرَمَ﴾” ارم۔ “ یمن کا ایک معروف قبیلہ تھا ﴿ ذَاتِ الْعِمَادِ﴾ ”ستونوں والے۔ “ یعنی بہت زیادہ قوت ، سرکشی اور ظلم وجبر والے لوگ تھے۔ الفجر
7 الفجر
8 ﴿الَّتِیْ لَمْ یُخْلَقْ مِثْلُہَا فِی الْبِلَادِ﴾ یعنی تمام شہروں میں طاقت اور سختی میں ، قوم عاد جیسا کوئی نہ تھا۔ جیسا کہ ان کے نبی حضرت ہود علیہ السلام نے ان سے فرمایا : ﴿ وَاذْكُرُوا إِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَاءَ مِن بَعْدِ قَوْمِ نُوحٍ وَزَادَكُمْ فِي الْخَلْقِ بَسْطَةً فَاذْكُرُوا آلَاءَ اللّٰـهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ﴾( الاعراف :7؍69) ” اور یاد کرو جب اللہ نے تمہیں قوم نوح کے بعد خلیفہ بنایا ، اور ڈیل ڈول میں تمہیں خوب تنومند کیا۔ پس اللہ کی نعمتوں کا یاد کرو ، شاید کہ تم فلاح پاؤ۔“ الفجر
9 ﴿وَثَمُوْدَ الَّذِیْنَ جَابُوا الصَّخْرَ بِالْوَادِ﴾ ” اور ثمود کے ساتھ (کیا کیا ) جو وادی میں پتھر تراشتے تھے۔‬“ یعنی وادی القری ٰ میں انہوں نے اپنی قوت اور طاقت سے چٹانوں کو تراشا اور وہاں گھر بنائے۔ الفجر
10 ﴿وَفِرْعَوْنَ ذِی الْاَوْتَادِ﴾ ” اور فرعون کے ساتھ جو میخوں والا تھا۔“ یعنی لشکروں والا تھا، جنہوں نے اس کے اقتدار کو ثبات بخشا جیسے میخیں اس چیز کو مضبوط کرتی ہیں جس کو ٹھہرانا مقصود ہوتا ہے۔ الفجر
11 ﴿الَّذِیْنَ طَغَوْا فِی الْبِلَادِ﴾ ” جنہوں نے شہروں میں سرکشی کی۔ “یہ وصف عاد، ثمود، فرعون اور ان کی پیروی کرنے والوں کی طرف لوٹتا ہے ، کیونکہ انہوں نے اللہ کے شہروں میں سرکشی کارویہ اختیار کیا ، اللہ کے بندوں کو ان کے دین و دنیا میں ستایا ۔ اس لیے فرمایا : ﴿فَاَکْثَرُوْا فِیْہَا الْفَسَادَ﴾ ” اور بہت فساد مچا رکھا تھا ۔“ یعنی کفر اور اس کے شعبوں، یعنی معاصی کی تمام اقسام پر عمل کی۔ انبیا ء ومرسلین کے خلاف جنگ کی اور لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے راستے سے روکنے کے لیے کوشاں رہے، جب وہ سرکشی میں اس حد تک پہنچ گئے جو ان کی ہلاکت کی موجب تھی تو اللہ تعالیٰ نے ان پر عذاب بھیجا اور ان پر عذاب کا کوڑا برسایا۔ الفجر
12 الفجر
13 الفجر
14 ﴿اِنَّ رَبَّکَ لَبِالْمِرْصَادِ﴾”بے شک آپ کا رب گھات میں ہے۔“ اس شخص کی گھات میں ہے جو اس کی نافرمانی کرتا ہے، اسے تھوڑا سا عرصہ مہلت دیتا ہے ، پھر وہ اسے غالب اور قدرت والے کی طرح پکڑتا ہے۔ الفجر
15 اللہ تبارک و تعالیٰ انسان کی فطرت کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے جیسا کہ وہ ہے ،نیز یہ کہ وہ جاہل اور ظالم ہے، اسے اپنے انجام کا کوئی علم نہیں ، وہ جس حالت میں ہوتا ہے، اس کے بارے میں سمجھتا ہے کہ وہ ہمیشہ رہے گی اور کبھی زائل نہ ہوگی۔ وہ سمجھتا ہے کہ دنیا کے اندر اللہ تعالیٰ کا اس کو اکرام بخشنا اور اسے نعمتوں سے نوازنا ،(آخرت میں) اس کی تکریم اور اس کے قرب پر دلالت کرتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ ﴿فَقَدَرَ عَلَیْہِ رِزْقَہٗ﴾ اس کا رزق تنگ کردے اور اس کارزق نپا تلا ہوجائے اور وافر نہ ہو تو وہ سمجھتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف اس کی اہانت ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اس کے اس خیال کارد کرتے ہوئے فرمایا۔ الفجر
16 الفجر
17 ﴿کَلَّا﴾ یعنی ضروری نہیں کہ ہر وہ شخص جس کو میں نے نعمتوں سے نوازا ہے، میرے ہاں قابل اکرام وتکریم ہے اور جس کارزق میں نے تنگ کردیا ہے ، وہ میرے ہاں حقیر ہے۔ دولت مندی اور محتاجی، رزق کی کشادگی اور تنگی تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش اور امتحان ہے جس کے ذریعے سے وہ بندوں کا امتحان لیتا ہے تاکہ وہ دیکھے کہ کون اس پر شکر اور صبر کرتا ہے تاکہ وہ اسے ثواب جزیل سے نوازے۔ جو ایسا نہ کرے اس کو سخت عذاب میں ڈال دے ، نیز بندے کے ارادے کا فقط اپنے نفس کی مراد پر ٹھہرنا ارادے کی کمزوری ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے محتاج مخلوق کے بارے میں ان کے عدم اہتمام پر ان کو ملامت کی ہے ، چنانچہ فرمایا : ﴿کَلَّا بَلْ لَّا تُکْرِمُوْنَ الْیَتِیْمَ﴾ ” ہرگز نہیں بلکہ تم یتیم کی عزت نہیں کرتے۔“ جو اپنے باپ اور کمانے والے سے محروم ہے اور وہ اس چیز کا محتاج ہے کہ اس کے دل کو جوڑا جائے اور اس کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے ۔ تم اس کا اکرام نہیں کرتے بلکہ تم اس کی اہانت کرتے ہو اور یہ چیز تمہارے دلوں میں رحم کے معدوم ہونے اور بھلائی میں عدم رغبت پر دلالت کرتی ہے۔ الفجر
18 ﴿وَلَا تَحٰضُّوْنَ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْکِیْنِ﴾ یعنی تم حاجت مندوں، فقرا اور مساکین کو کھانا کھلانے کے لیے ایک دوسرے کی ترغیب نہیں دیتے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ تم دنیا (کے مال ودولت ) پر بہت بخیل ہو۔ تم دنیا سے بہت محبت کرتے ہو اور اس کی شدید محبت تمہارے دلوں میں سما گئی ہے ،اس لیے فرمایا : ﴿وَتَاْکُلُوْنَ التُّرَاثَ﴾ ” اور تم کھا جاتے ہو وراثت۔ “ یعنی چھوڑا ہوا مال ﴿اَکْلًا لَّمًّا﴾ ” سمیٹ کر۔ “ اور اس میں سے کچھ باقی نہیں چھوڑتے۔ الفجر
19 الفجر
20 ﴿وَّتُحِبُّوْنَ الْمَالَ حُبًّا جَمًّا﴾ یعنی تم مال سے سخت محبت کرتے ہو اور یہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے مانند ہے: ﴿بَلْ تُؤْثِرُونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةُ خَيْرٌ وَأَبْقَىٰ﴾( الاعلیٰ: 87؍16،17) ” بلکہ تم دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو، حالانکہ آخرت کی زندگی بہتر اور ہمیشہ رہنے والی ہے۔“ اور اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے مانند ہے : ﴿كَلَّا بَلْ تُحِبُّونَ الْعَاجِلَةَ وَتَذَرُونَ الْآخِرَةَ﴾ (القیامة:75؍20،21)” ہرگز نہیں بلکہ تم دنیا سے محبت کرتے ہو اور آخرت کو ترک کیے دیتے ہو۔“ الفجر
21 ﴿کَلَّآ﴾ یعنی ہرگز ایسا نہیں، تم جس مال سے محبت کرتے ہو اور اس کی لذتوں میں ایک دوسرے سے بڑھ کر رغبت رکھتے ہو، تمہارے پاس باقی رہنے والی نہیں ہیں بلکہ تمہارے سامنے ایک بہت بڑا دن اور ایک بہت بڑا خوف ہے ۔ اس دن زمین، پہاڑوں اور اس پر موجود ہر چیز کو کوٹ کوٹ کر ہموار کردیا جائے گا حتیٰ کہ اسے ہموار چٹیل میدان بنا دیا جائے گا ، اس میں کوئی نشیب وفراز نہیں ہوگا۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ کرنے کے لیے بادلوں کے سائے میں آئے گا ، تمام اہل آسمان مکرم فرشتے ﴿صَفًّا صَفًّا﴾ صف درصف آئیں گے، ہر آسمان کے فرشتے ایک صف میں آئیں گے اور اپنے سے کم تر مخلوق کو گھیر لیں گے ۔ یہ صفیں بادشاہ جبار کے حضور خشوع اور عاجزی کی صفیں ہوں گی۔ الفجر
22 الفجر
23 ﴿وَجِایْءَ یَوْمَیِٕذٍ بِجَہَنَّمَ﴾ ” اور دوزخ اس دن حاضر کی جائے گی۔“ فرشتے اسے زنجیروں میں جکڑ کر لائیں گے ۔ پس جب یہ تمام امور وقوع پذیر ہوں گے ﴿یَوْمَیِٕذٍ یَّتَذَکَّرُ الْاِنْسَانُ﴾ اس روز انسان یاد کرے گا کہ اس نے کیا بھلائی یابرائی آگے بھیجی ہے؟ ﴿ وَاَنّٰی لَہُ الذِّکْرٰی﴾ ” مگر اس تنبیہ سے اسے فائدہ کہاں مل سکے گا؟“ اس کا وقت گزر چکا اور اس کا زمانہ بیت گیا۔ الفجر
24 ﴿یَقُوْلُ﴾ اس نے اللہ تعالیٰ کی جناب میں جو کوتاہی کی، اس پر حسرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا : ﴿ یٰلَیْتَنِیْ قَدَّمْتُ لِحَیَاتِیْ﴾ کاش میں نے اپنی دائمی اور ہمیشہ باقی رہنے والی زندگی کے لیے کچھ نیک عمل آگے بھیجا ہوتا ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ يَقُولُ يَا لَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِيلًا يَا وَيْلَتَىٰ لَيْتَنِي لَمْ أَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِيلًا﴾( الفرقان :25؍27،28) ” کہے گا : کاش !میں نے رسول کے ساتھ راستہ اختیار کیا ہوتا ، ہائے میری شامت ! کاش ! میں نے فلاں کو کو دوست نہ بنایا ہوتا۔“ ان آیات کریمہ میں دلیل ہے کہ وہ زندگی جس کے کمال کے حصول اور اس کی لذات کی تکمیل کی کوشش کرنی چاہیے وہ آخرت کے گھر کی زندگی ہے ، کیونکہ آخرت کا گھر دارالخلد اور دارالبقا ہے۔ الفجر
25 ﴿فَیَوْمَیِٕذٍ لَّا یُعَذِّبُ عَذَابَہٗٓ اَحَدٌ﴾ ” پس اس دن کوئی اللہ کے عذاب کی طرح عذاب نہیں دے گا۔“ اس شخص کو جس نے اس دن کو مہمل جانا اور اس کے لیے عمل کوفراموش کردیا۔ الفجر
26 ﴿وَّلَا یُوْثِقُ وَثَاقَہٗٓ اَحَدٌ﴾ ” اور نہ کوئی ویسا جکڑنا جکڑے گا۔ “ پس انہیں آگ کی زنجیروں میں باندھا جائے گا اور چہروں کے بل کھولتے ہوئے پانی میں گھسیٹا جائے گا ، پھر آگ میں ان کو جلایا جائے گا ، پس یہی مجرموں کی سزا ہے ۔ وہ شخص جو اللہ تعالیٰ پر ایمان لایا، اسی پر مطمئن ہو اا ور اس نے اس کے رسولوں کی تصدیق کی تو اس سے کہا جائے گا: ﴿یٰٓاَیَّتُہَا النَّفْسُ الْمُطْمَیِٕنَّۃُ﴾ اے اللہ تعالیٰ کے ذکر سے اطمینان اور اس کی محبت میں سکون حاصل کرنے والے نفس! جس کی آنکھیں اللہ تعالیٰ کے ذریعے سے ٹھنڈی ہوتی ہیں۔ الفجر
27 الفجر
28 ﴿ ارْجِعِیْٓ اِلٰی رَبِّکِ﴾ ” اپنے رب کی طرف لوٹ چل۔ “ جس نے اپنی نعمتوں کے ذریعے سے تیری نشونما کی ﴿ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً﴾ یعنی اللہ تعالیٰ اور اس کے ثواب سے راضی ہو کر جس سے اللہ تعالیٰ نے تجھ کو سرفراز فرمایا اور اللہ تعالیٰ تجھ سے راضی ہوا۔ الفجر
29 ﴿فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰدِیْ۔ وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ﴾ ” پس تو میرے بندوں میں داخل ہوجا اور میری جنت میں داخل ہوجا۔“ قیامت کے روز ان الفاظ سے روح کو مخاطب کیا جائے گا اور اسی خطاب سے موت کے وقت اور اللہ تعالیٰ کے پاس لے جاتے ہوئے اس کو مخاطب کیا جائے گا۔ الفجر
30 الفجر
0 البلد
1 اللہ تبارک وتعالی ٰنے قسم کھائی ہے ﴿ بِہٰذَا الْبَلَدِ﴾ اس امن والے شہر مکہ مکرمہ کی، جو علی الاطلاق تمام شہروں پر فضیلت رکھتا ہے، خاص طور پر اس وقت جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس شہر میں رہ رہے تھے۔ البلد
2 البلد
3 ﴿وَوَالِدٍ وَّمَا وَلَدَ﴾ یعنی آدم علیہ السلام اور ان کی اولاد کی قسم! اور جس چیز پر قسم کھائی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے۔ البلد
4 ﴿لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ کَبَدٍ﴾ ” بے شک ہم نے انسان کو تکلیف میں پیدا کیا ہے۔“ اس میں یہ احتمال ہے کہ اس سے مراد وہ سختیاں اور مشقتیں ہیں جو انسان دنیا کے اندر برداشت کرتا ہے اور جو وہ برزخ میں اور قیامت کے دن برداشت کرے گا۔ انسان کے لیے مناسب یہی ہے کہ وہ ایسے اعمال کے لیے کوشاں رہے جو اسے ان شدائد سے (نجات دلا کر ) راحت، اس کے لیے دائمی فرحت اور سروکار کاموجب بنیں۔ اگر وہ ایسا نہیں کرے گا تو ابدا الآباد تک سخت عذاب کی مشقت برداشت کرتار ہے گا۔ اس میں یہ احتمال بھی ہوسکتا ہے کہ اس کے یہ معنی ہوں کہ ہم نے انسان کو بہترین صورت اور خوب درست تخلیق کے ساتھ پیدا کیا جو سخت اعمال پر تصرف کی قدرت رکھتا ہے۔ بایں ہمہ، اس نے اس عظیم نعمت پر اللہ تعالیٰ کاشکر ادا نہیں کیا بلکہ وہ عافیت پر (جواللہ تعالیٰ نے اس کو عطا کی)اتراتار ہا، اپنے خالق کے سامنے تکبر کا اظہار کرتا رہا اور اپنی جہالت اور ظلم کی بنا پر یہ سمجھتا رہا کہ اس کا یہ حال ہمیشہ باقی رہے گا اور اس کے تصرف کی طاقت کبھی ختم نہیں ہوگی ،اس لیے فرمایا : ﴿اَیَحْسَبُ اَنْ لَّنْ یَّقْدِرَ عَلَیْہِ اَحَدٌ﴾ ” کیا وہ خیال کرتا ہے کہ اس پر کوئی قابو نہیں پائے گا؟“ وہ سرکشی کرتا ہے اور اس نے شہوات میں جو مال خرچ کیا ، اس پر فخر کرتا ہے۔ البلد
5 البلد
6 ﴿یَقُوْلُ اَہْلَکْتُ مَالًا لُّبَدًا﴾ ” کہتا ہے میں نے بہت سامال برباد کیا ہے۔“ یعنی بہت زیادہ مال، ایک دوسرے کے اوپر چڑھا ہوا ۔ اللہ تعالیٰ نے شہوات اور معاصی میں مال خرچ کرنے کو ”ہلاک کرنے “ سے موسوم کیا ہے ، کیونکہ اس راستے میں مال خرچ کرنے والا اپنے خرچ کیے ہوئے مال سے فائدہ نہیں اٹھائے گا اور اس کو اپنے مال خرچ کرنے سے ندامت، خسارے، تکان اور قلت کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ اس شخص کے مانند نہیں جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے بھلائی کے راستے میں خرچ کرتا ہے، کیونکہ اس شخص نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ تجارت کی اور جو کچھ اس نے خرچ کیا اس سے کئی گنا نفع اٹھایا ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس شخص کو جو اپنی شہوات میں مال خرچ کرکے فخر کرتا ہے، وعید سناتے ہوتے ہوئے فرمایا : ﴿اَیَحْسَبُ اَنْ لَّمْ یَرَہٗٓ اَحَدٌ﴾ یعنی وہ اپنے اس فعل کے بارے میں سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو دیکھتا ہے نہ وہ چھوٹے بڑے اعمال کا اس سے حساب ہی لے گا بلکہ اللہ تعالیٰ نے اس کے اعمال کو دیکھا ، ان کو اس کے لیے محفوط کرلیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کے ہر اچھے برے عمل پر کراما کاتبین مقرر کردیے۔ البلد
7 البلد
8 پھر اس سے اپنی نعمتوں کا اقرار کراتے ہوئے فرمایا : ﴿اَلَمْ نَجْعَلْ لَّہٗ عَیْنَیْنِ۔ وَلِسَانًا وَّشَفَتَیْنِ﴾ ” کیا ہم نے اسے دو آنکھیں، زبان اور دو ہونٹ نہیں دیے؟“ یعنی یہ چیزیں حسن وجمال، دیکھنے، بولنے اور دیگر ضروری فوائد کے لیے عطا کیں ۔ یہ تو ہیں دنیا کی نعمتیں، پھر دین کی نعمتوں کے بارے میں فرمایا: ﴿وَہَدَیْنٰہُ النَّجْدَیْنِ﴾ یعنی ہم نے اسے خیر وشر کے راستے دکھائے اور اس کے سامنے ہدایت اور گمراہی کو واضح کیا۔ پس یہ بے پایاں احسانات ہیں جو بندے سے تقاضا کرتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حقوق کو قائم کرے ، اس کی نعمتوں پر اس کاشکر ادا کرے اور ان نعمتوں سے اس کی نافرمانیوں میں مدد نہ لے مگر اس انسان نے ان تقاضوں کو پورا نہ کیا۔ البلد
9 البلد
10 البلد
11 ﴿فَلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَۃَ﴾ یعنی وہ گھاٹی میں داخل ہوا نہ اس کو عبور کیا، کیونکہ وہ اپنی خواہشات نفس کی پیروی کرنے والا ہے اور یہ گھاٹی اس کے لیے بہت سخت ہے۔ البلد
12 پھر گھاٹی کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ وَمَآ اَدْرٰیکَ مَا الْعَقَبَۃُ۔ فَکُّ رَقَبَۃٍ ﴾ ” اور آپ کو کیا معلوم، گھاٹی کیا ہے؟ کسی گردن کا چھڑانا۔“ یعنی کسی غلام کو غلامی سے آزاد کرنا، یا مکاتبت کی رقم ادائیگی میں مکاتب کی مدد کرنا۔ اور افضل یہ ہے کہ اس مسلمان قیدی کو چھڑایا جائے جو کفار کی قید میں ہے۔ البلد
13 البلد
14 ﴿اَوْ اِطْعٰمٌ فِیْ یَوْمٍ ذِیْ مَسْغَبَۃٍ﴾ یا سخت بھوک کے دن، سخت حاجت کے وقت ان لوگوں کو کھانا کھلانا جو سب سے زیادہ ضرورت مند ہیں،جیسے: ﴿یَّـتِیْمًـا ذَا مَقْرَبَۃٍ﴾ ”یتیم رشتے دارکو۔“ اس کا یتیم ہونا، محتاج اور رشتے دار ہونا، یہ سب امور اس میں یکجا ہیں۔ البلد
15 البلد
16 ﴿اَوْ مِسْکِیْنًا ذَا مَتْرَبَۃٍ﴾ ” یا مسکین خاکسار کو۔“ یعنی جو سخت حاجت اور ضرورت کی بنا پر مٹی سے چمٹ کر رہ گیا ہے۔ البلد
17 ﴿ثُمَّ کَانَ مِنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا﴾ ” پھر ان لوگوں میں (داخل) ہوا جو ایمان لائے۔“ یعنی وہ ان چیزوں پر اپنے دل سے ایمان لائے جن پر ایمان لانا واجب ہے اور نیک عمل کیے ، اس میں ہر واجب یا مستحب قول وفعل داخل ہے۔ ﴿وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ﴾ اور وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے، اس کی نافرمانی سے رک جانے اور تکلیف دہ تقدیر پر صبر کرنے کی ایک دوسرے کو تلقین کرتے رہے ، یعنی وہ ایک دوسرے کو ترغیب دیتے تھے کہ ان احکام کی اطاعت کی جائے اور ان پر کامل طور پر، انشراح صدر اور اطمینان نفس کے ساتھ عمل کیا جائے۔ ﴿وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَۃِ﴾ ” اور ایک دوسرے کو مخلوق پر رحم کرنے کی وصیت کرتے رہے۔“ یعنی محتاجوں کو عطا کرنے ، اپنے جاہلوں کو تعلیم دینے ، ان کے ان معاملات کا ہر لحاظ سے انتظام کرنے جن کے وہ ضرورت مند ہیں ، ان کے دینی اور دنیاوی مصالح میں ان کی مدد کرنے کے لیے ایک دوسرے کو وصیت کرتے رہے ،کہ وہ ان کے لیے وہی چیز پسند کریں جو اپنے لیے پسند کرتے ہیں اور جو چیز اپنے لیے ناپسند کرتے ہیں ان کے لیے بھی ناپسند کریں۔ یہی لوگ ہیں جو ان اوصاف پر قائم رہے اور یہی لوگ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے گھاٹی سے گزرنے کی توفیق عطا کی۔ البلد
18 ﴿اُولٰیِٕکَ اَصْحٰبُ الْمَیْمَنَۃِ﴾ ” یہی لوگ صاحب سعادت ہیں۔“ کیونکہ انہوں نے حقوق اللہ اور حقوق العباد کو ادا کردیا اور جن کو ادا کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا تھا اور ان امور کو چھوڑ دیا جن سے اللہ تعالیٰ نے ان کو روکا تھا اور یہ سعادت کا عنوان اور اس کی علامت ہے۔ البلد
19 ﴿وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِاٰیٰتِنَا﴾ جنہوں نے ان مذکورہ امور کو اپنی پیٹھ پیچھے پھینک کر ہماری آیتوں سے کفر کیا، انہوں نے اللہ تعالیٰ کی تصدیق کی نہ وہ اس پر ایمان لائے، نہ نیک عمل کیے اور نہ اللہ کے بندوں پر رحم ہی کیا ﴿ ہُمْ اَصْحٰبُ الْمَشْــَٔــمَۃِ۔ عَلَیْہِمْ نَارٌ مُّؤْصَدَۃٌ﴾ ” وہ بدبخت ہیں۔ یہ لوگ آگ میں بند کردیے جائیں گے ۔“ یعنی وہ آگ بڑے بڑے ستونوں میں بند کی گئی ہوگی اور جو اس آگ کے پیچھے کھڑے کیے گئے ہوں گے تاکہ جہنم کے دروازے کھل نہ سکیں اور (یہ مجرمین) تنگی اور سختی میں مبتلا رہیں۔ البلد
20 البلد
0 الشمس
1 اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان عظیم آیات کے ذریعے سے فلاح یاب نفس اور اس کے علاوہ فاسق وفاجر نفوس پر قسم کھائی ہے ،چنانچہ فرمایا : ﴿وَالشَّمْسِ وَضُحٰیہَا﴾ یعنی سورج ، اس کی روشنی اور اس سے صادر ہونے والے فوائد کی قسم! الشمس
2 ﴿ وَالْقَمَرِ إِذَا تَلَاهَا﴾ ” اور چاند کی جب اس کے پیچھے نکلے۔“ یعنی جب چاند منازل اور روشی میں سورج کے پیچھے چلے۔ الشمس
3 ﴿ وَالنَّهَارِ إِذَا جَلَّاهَا ﴾ ” اور دن کی جب اسے چمکا دے۔“ یعنی جب وہ روئے زمین پر تمام چیزوں کو روشن اور واضح کردے۔ الشمس
4 ﴿وَاللَّیْلِ اِذَا یَغْشٰـیہَا﴾ ” اور رات کی جب اسے چھپالے۔“ یعنی جب وہ تمام سطح زمین کو ڈھانپ لے اور زمین پر موجود ہر چیز تاریک ہوجائے۔ اس عالم میں اندھیرے اور اجالے، سورج اور چاند کا ایک نظم اور مہارت کے ساتھ، بندوں کے مصالح کے قیام کے لیے ، ایک دوسرے کا تعاقب کرنا اس حقیقت کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا علم رکھتا ہے اور ہر چیز پر قادر ہے، وہ اکیلا معبود ہے جس کے سوا ہر معبود باطل ہے۔ الشمس
5 ﴿وَالسَّمَاءِ وَمَا بَنَاهَا﴾ ” اور آسمان کی اور جس نے اسے بنایا۔“ اس میں احتمال ہے کہ ماموصولہ ہو ، تب یہ قسم آسمان اور اس کے بنانے والے، یعنی اللہ تعالیٰ کی ہے۔ یہ بھی احتمال ہے کہ مامصدریہ ہو، تب قسم آسمان اور اس کے بنانے کی ہے جو مضبوطی ،مہارت اور خوبصورتی کے ساتھ بنانے پر قادر ہونے کی غایت وانتہا ہے ۔ اسی کے مانند اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : ﴿وَالْأَرْضِ وَمَا طَحَاهَا ﴾ ” اور زمین کی اور اس کی جس نے اسے پھیلایا۔ “ یعنی زمین کو پھیلایا اور اس کو وسعت عطا کی، تب اس وقت مخلوق اس سے ہر قسم کا فائدہ اٹھانے پر قادر ہوئی۔ الشمس
6 الشمس
7 ﴿وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاهَا ﴾ ” اور نفس کی اور اس کی جس نے اس (کے اعضا) کو برابر کیا۔“ اس میں ایک احتمال یہ ہے کہ اس میں تمام حیوانی مخلوق کا نفس مراد ہو، جیسا کہ لفظ کا عموم اس کی تائید کرتا ہے ۔ دوسرا احتمال یہ ہے کہ صرف مکلف انسان کے نفس کی قسم ہو جس پر اس کے بعد آنے والی آیات دلالت کرتی ہیں۔ دونوں معنوں کے مطابق ، نفس ایک بہت بڑی نشانی ہے جو اس کی قسم کو حق ثابت کرتی ہے ، کیونکہ نفس انتہائی لطیف اور خفیف ہے ۔ منتقل ہونے، حرکت، تغیر وتبدل تاثر اور انفعالات نفسیہ مثلا: ہم وغم، ارادہ، قصد، محبت اور نفرت میں بہت تیز ہے۔ اگر نفس نہ ہو تو بدن مجرد بت ہے جس کا کوئی فائدہ نہیں اور اس ہیبت میں اس کو درست کرنا جو اس وقت ہے ، اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ الشمس
8 الشمس
9 ﴿قَدْ أَفْلَحَ مَن زَكَّاهَا ﴾ یعنی جس نے اپنے نفس کو گناہوں سے پاک کیا ، عیوب سے صاف کیا، اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے ذریعے سے اس کو ترقی دی اور علم نافع اور عمل صالح کے ذریعے سے اس کو بلند کیا وہ کامیاب ہوا۔ الشمس
10 ﴿وَقَدْ خَابَ مَن دَسَّاهَا ﴾ ” اور وہ ناکام ہوا جس نے اسے چھپایا۔“ یعنی جس نے اپنے نفس کریمہ کورذائل کے میل کچیل کے ذریعے سے ، عیوب اور گناہوں کے قریب ہو کر ، ان امور کو ترک کرکے جو اس کی تکمیل اور نشوونما کرتے ہیں اور ان امور کو استعمال میں لا کر جو اس کو بدصورت بناتے اور بگاڑتے ہیں ، چھپایا وہ ناکام رہا۔ الشمس
11 ﴿ كَذَّبَتْ ثَمُودُ بِطَغْوَاهَا﴾ ثمود نے اپنی سرکشی ،حق کے مقابلے میں تکبر اور اللہ کے رسولوں کی نافرمانی کرکے تکذیب کی۔ الشمس
12 ﴿إِذِ انبَعَثَ أَشْقَاهَا﴾ یعنی قبیلے کا بدبخت ترین شخص، قدار بن سالف، اونٹنی کی کونچیں کاٹنے کے لیے اس وقت اٹھا، جب سب نے اس (جرم) پر اتفاق کیا اور اسے ایسا کرنے کا حکم دیا تو اس نے ان کی اطاعت کی۔ الشمس
13 ﴿فَقَالَ لَہُمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﴾ تو اللہ کے رسول، یعنی صالح علیہ السلام نے ان کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا: ﴿ نَاقَۃَ اللّٰہِ وَسُقْيَاهَا ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ کی اونٹنی کی کونچیں کاٹنے سے باز رہو جس کو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے عظیم نشانی بنایا اور اس کا دودھ پلا کر اللہ تعالیٰ نے تم کو جس نعمت سے نوازا ہے اس کے جواب میں اونٹنی کو ہلاک نہ کرو۔ الشمس
14 پس انہوں نے اپنے نبی حضرت صالح علیہ السلام کو جھٹلایا : ﴿فَعَقَرُوْہَا ١ فَدَمْدَمَ عَلَیْہِمْ رَبُّہُمْ بِذَنْبِہِمْ﴾ ” پس انہوں نے اس کی کونچیں کاٹ دیں، تو ان کے رب نے ان کے گناہ کے باعث ان پر عذاب نازل کیا۔“ یعنی ان کو برباد کردیا اور سب کو عذاب کی لپٹ میں لے لیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اوپر سے ایک چنگھاڑ اور نیچے سے زلزلہ بھیجا تو وہ اپنے گھٹنوں کے بل اوندھے پڑے رہ گئے۔ تو ان میں کوئی پکارنے والا پائے گانہ جواب دینے والا۔ ﴿ فَسَوَّاهَا ﴾ ان پر اس بستی کو برابر کردیا، یعنی اس عذاب میں سب کو برابر کردیا۔ الشمس
15 ﴿وَلَا یَخَافُ عُقْبٰہَا﴾ ” اور اس کو ان کے بدلہ لینے کا کچھ بھی ڈر نہیں۔“ یعنی اس کے تاوان سے ، وہ ڈر بھی کیسے سکتا ہے جب کہ وہ قہر والا ہے ۔ اس کے قہر اور تصرف سے کوئی مخلوق باہر نہیں ، اس نے جو فیصلہ کیا اور جو کام مشروع کیا ،وہ اس میں حکمت والا ہے۔ الشمس
0 الليل
1 یہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے زمانے کی قسم ہے جس میں بندوں کے احوال کے تفاوت کے مطابق ان کے افعال واقع ہوتے ہیں۔ فرمایا : ﴿وَالَّیْلِ اِذَا یَغْشٰی﴾” رات کی قسم!جب وہ چھا جائے۔“ یعنی جب تمام مخلوق کو اپنی تاریکی سے ڈھانپ لے۔ الليل
2 ﴿وَالنَّہَارِ اِذَا تَجَلّٰی﴾ اور دن کی جب وہ مخلوق کے لیے خوب ظاہر ہوجائے اور مخلوق اس کے نور سے روشن ہوجائے اور اپنے اپنے کاموں میں پھیل جائے۔ الليل
3 ﴿وَمَا خَلَقَ الذَّکَرَ وَالْاُنْثٰٓی﴾ یہاں اگر ماموصولہ ہے تو یہ قسم خود اللہ تعالیٰ کے نفس مقدس کی قسم ہے جو مرد اور عورت کا خالق ہونے سے موصوف ہے اور اگر مامصدریہ ہے تو یہ مرد اور عورت کی تخلیق کی قسم ہے ۔ اس میں اس کی حکمت کا کمال یہ ہے کہ اس نے حیوانات کی تمام اصناف میں جن کو باقی رکھنے کا ارادہ کرتا ہے ، نر اور مادہ پیدا کیا ہے تاکہ ان کی نوع باقی رہے اور وہ معدوم نہ ہوجائے اور شہوت کے سلسلے کے ذریعے سے دونوں کو ایک دوسرے کی طرف متوجہ کیا اور دونوں کو ایک دوسرے کے لیے مناسب بنایا۔ فَتَبَارَکَ اللّٰہُ أَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ۔ الليل
4 ﴿اِنَّ سَعْیَکُمْ لَشَتّٰی﴾ اور یہی وہ چیز ہے جس پر قسم کھائی گئی ہے، یعنی اے مکلفو ! تمہاری کوششوں میں بہت تفاوت ہے۔ یہ تفاوت نفس اعمال، ان کی مقدار اور ان میں نشاط میں تفاوت کی بنا پر ہے اور یہ تفاوت ان اعمال کی غایت مقصود کے مطابق ہے کہ آیا یہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے ہے جو بلند اور ہمیشہ باقی رہنے والا ہے تو اس کی بقا کے ساتھ یہ عمل بھی باقی رہے گا اور صاحب عمل اس سے منتفع ہوگا؟ یا یہ عمل کسی زائل ہونے والے فانی غایت ومقصود کے لیے ہے کہ اس کے بطلان کے ساتھ اس کی کوشش باطل اور اس کے اضمحلال کے ساتھ مضحمل ہوجائے گی؟ ہر وہ عمل جس میں اللہ کی رضا مقصود نہ ہو اسی وصف سے موصوف ہوتا ہے۔ الليل
5 بنا بریں اللہ تعالیٰ نے عمل کرنے والوں کو فضیلت دی اور ان کے اعمال کا وصف بیان فرمایا : ﴿فَاَمَّا مَنْ اَعْطٰی وَاتَّقٰی﴾” تو جس نے (اللہ کے راستے میں ) مال دیا۔ “ یعنی اسے جن مالی عبادات کا حکم دیا گیا تھا، مثلا: زکوۃ، نفقات، کفارات، صدقات اور بھلائی کے کاموں میں خرچ کرنا اور بدنی عبادات، مثلا: نماز ، روز وغیرہ اور وہ عبادات جو مالی اور بدنی عبادات کی مرکب ہیں ،مثلا : حج اور عمرہ وغیرہ انہیں ادا کیا۔ ﴿ وَاتَّقَىٰ ﴾ اور وہ ان امور محرمہ اور مختلف قسم کے گناہوں سے بچتا رہا جن سے اسے روکا گیا تھا۔ الليل
6 ﴿وَصَدَّقَ بِالْحُسْنٰی﴾ ” اور اس نے نیک بات کی تصدیق کی۔“ یعنی اس نے لا الہ الا اللہ اور ان عقائد دینیہ اور ان پر مرتب ہونے والی جزا کی تصدیق کی، جو اس لا الہ الا اللہ کی تائید کرتے ہیں۔ الليل
7 ﴿فَسَنُیَسِّرُہٗ لِلْیُسْرٰی﴾ تو ہم اس کے لیے اس کے کام کو آسان کردیتے ہیں اور اس کے لیے ہر بھلائی پر عمل کرنا اور ہر برائی کو ترک کرنا سہل اور آسان بنادیتے ہیں ،کیونکہ اس نے آسانی کے اسباب اختیار کیے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اسے اس کے لیے آسان کردیا۔ الليل
8 ﴿وَاَمَّا مَنْ بَخِلَ﴾ اور جس نے ان امور کے بارے میں بخل سے کام لیا جن کا اسے حکم دیا گیا ، انفاق واجب ومستحب کو ترک کردیا اور جس چیز کو اللہ تعالیٰ نے اس پر واجب کیا تھا اس کا نفس اسے ادا کرنے پر راضی نہ ہوا ﴿وَاسْتَغْنٰی﴾ اور اللہ تعالیٰ سے بے نیاز بنارہا اور نافرمانی سے اس کی عبودیت کو ترک کردیا، نیز اس نے یہ نہ دیکھا کہ اس کا نفس غایت حد تک اپنے رب کا محتاج ہے جس کے لیے کوئی نجات ہے نہ کوئی فوزوفلاح، سوائے اس سبب سے کہ اللہ تعالیٰ ہی اس کا محبوب و معبود ہو جس کا وہ قصد کرے اور اس کی طرف متوجہ ہو۔ الليل
9 ﴿وَکَذَّبَ بِالْحُسْنٰی﴾ ” اور اس نے نیک بات کی تکذیب کی۔“ یعنی ان عقائد حسنہ کو جھٹلایا جن کی تصدیق اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر واجب کی تھی۔ الليل
10 ﴿فَسَنُیَسِّرُہٗ لِلْعُسْرٰی﴾” تو ہم اس کے لیے (گناہ کے)مشکل کام آسان کردیتے ہیں۔“ یعنی حالت عسرت اور خصائل مذمومہ کے لیے ،اس سبب سے کہ برائی جہاں کہیں بھی ہوگی، اسکےلیے آسان کر دی جائے گی اور نافرمانی کے افعال اس کے لیے مقدر کردیے جائیں گے۔ ہم اللہ تعالیٰ سے عافیت کا سوال کرتے ہیں۔ الليل
11 ﴿وَمَا یُغْنِیْ عَنْہُ مَالُہٗٓ﴾ جس مال نے اسے سرکش بنایا تھا جس کی بنا پر وہ ( اللہ تعالیٰ سے) بے نیاز بنا رہا اور اس میں بخل کرتا رہا اس کے کچھ کام نہ آئے گا ، یعنی جب وہ ہلاک ہوگا اور اسے موت آئے گی تونیک عمل کے سوا کوئی چیز انسان کے ساتھ نہیں جائے گی ۔ رہا اس کا وہ مال جس میں اس نے زکوٰۃ وغیرہ ادا نہیں کی تو یہ مال اس کے لیے وبال بن جائے گا ، کیونکہ اس نے اس مال میں سے اپنی آخرت کے لیے کچھ آگے نہیں بھیجا۔ الليل
12 ﴿اِنَّ عَلَیْنَا لَلْہُدٰی﴾ ” بے شک ہمارے ذمے تو راہ دکھادینا ہے ۔“ یعنی وہ ہدایت جس کاراستہ سیدھا ہے جو اللہ تعالیٰ تک پہنچاتا اور اس کی رضا کے قریب کرتا ہے ۔ رہی گمراہی تو اس کے تمام راستے اللہ تک پہنچنے کے لیے مسدود ہیں گمراہی کے راستے، ان پر چلنے والے کو صرف سخت عذاب ہی میں پہنچاتے ہیں۔ الليل
13 ﴿وَاِنَّ لَنَا لَـلْاٰخِرَۃَ وَالْاُوْلٰی﴾ یعنی آخرت اور دنیا ہماری ملکیت اور ہمارے تصرف میں ہے اور اس بارے میں اس کا کوئی شریک نہیں۔ پس رغبت کرنے والوں کو چاہیے کہ وہ اس کی طلب کی طرف راغب ہوں اور مخلوق سے ان کی تمام امیدیں منقطع ہوں۔ الليل
14 ﴿فَاَنْذَرْتُکُمْ نَارًا تَلَظّٰی﴾ میں نے تمہیں بھڑکتی ہوئی اور جلتی ہوئی آگ سے ڈرایا ہے۔ الليل
15 ﴿لَا یَصْلٰیہَآ اِلَّا الْاَشْقَی الَّذِیْ کَذَّبَ ﴾ اس میں وہی داخل ہوگا جو بڑابد بخت ہے اور جس نے رسول کی خبر کو جھٹلایا ﴿ وَتَوَلّٰی﴾ اور حکم سے منہ موڑا۔ الليل
16 الليل
17 ﴿وَسَیُجَنَّبُہَا الْاَتْقَی الَّذِیْ یُؤْتِیْ مَالَہٗ یَتَزَکّٰی﴾ ” اور اس سے ایسا شخص دور رکھا جائے گا جو بڑا پرہیزگارہو گا جو پاکی حاصل کرنے کے لیے اپنا مال دیتا ہے۔“ یعنی اس کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے اپنے نفس کا تزکیہ اور گناہوں اور عیوب سے اس کی تطہیر ہو ۔ ہم اسے بچالیں گے ۔ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ جب انفاق مستحب ترک واجب، مثلا : قرض اور نفقہ واجبہ کی عدم ادائیگی وغیرہ کو متضمن ہو تو یہ غیر مشروع ہے بلکہ بہت سے اہل علم کے نزدیک یہ عطیہ لوٹایاجائے گا ، کیونکہ وہ ایک مستحب فعل کے ذریعے سے اپنے نفس کا تزکیہ کررہا ہے اور اس پر واجب فوت ہورہا ہے۔ الليل
18 الليل
19 ﴿وَمَا لِاَحَدٍ عِنْدَہٗ مِنْ نِّعْمَۃٍ تُجْزٰٓی﴾ یعنی اس متقی پر مخلوق میں سے کسی کا کوئی احسان نہیں کہ جس کا بدلہ دیا جا رہا ہو، اس نے نعمت کا بدلہ اتار دیا ہے۔ بسا اوقات لوگوں پر اس کا فضل واحسان باقی رہ جاتا ہے ۔ پس وہ بندے پر اللہ کے لیے مخلصانہ ہمدردی وخیر خواہی کرتا ہے ، کیونکہ وہ اکیلے اللہ تعالیٰ کے احسان ہی کے زیر بار ہے۔ رہا وہ شخص جس پر لوگوں کا احسان باقی ہے اور اس نے اس کا بدلہ نہیں دیا تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ لوگوں کے لیے چھوڑ دیا جائے گا جس کی وجہ سے وہ ان کی خاطر کوئی ایسا فعل سرانجام دے گا جو اس کے اخلاص میں نقص ڈالے گا۔ آیت کریمہ کا مصداق اگرچہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں بلکہ کہا جاتا ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے سبب ہی سے نازل ہوئی۔ ان پر مخلوق میں سے کسی کا بھی کوئی احسان نہیں تھا کہ جس کا اسے بدلہ دیا جارہا ہو حتی ٰ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی آپ پر کوئی ( دنیاوی ) احسان نہ تھا ۔ البتہ بحثییت رسول احسان تھا جس کا بدلہ اتارنا کسی کے لیے ممکن نہیں اور یہ ہے دین اسلام کی طرف دعوت دینے کا احسان، ہدایت اور دین حق کی تعلیم، کیونکہ ہر شخص اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زیر احسان ہے ۔یہ ایسا احسان ہے جس کا بدلہ دیاجاسکتا ہے نہ مقابلہ کیا جاسکتا ہے ، تاہم جو بھی ان اوصاف فاضلہ سے متصف ہوگا ، اس کا مصداق ٹھہرے گا۔ پس تمام مخلوق میں سے کسی کا کوئی احسان اس کے ذمے باقی نہ رہا جس کا بدلہ دیا جائے ، لہٰذا اس کے تمام اعمال خالص اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں ، اس لیے فرمایا : ﴿اِلَّا ابْتِغَاءَ وَجْہِ رَبِّہِ الْاَعْلٰی وَلَسَوْفَ یَرْضٰی﴾ ” وہ صرف اپنے رب اعلی ٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے دیتا ہے اور وہ عنقریب خوش ہوجائے گا۔“ یہ متقی مختلف انواع کے اکرام وتکریم اور ثواب پر راضی ہوگا جو اللہ تعالیٰ اسے عطا کرے گا۔ الليل
20 الليل
21 الليل
0 الضحى
1 اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اپنی عنایت پر دن کی قسم کھائی ہے ، جب چاشت کے وقت اس کی روشنی پھیل جائے اور رات کی قسم کھائی ہے ، جب وہ ٹھہر جائے اور اس کی تاریکی چھا جائے۔ الضحى
2 الضحى
3 اور فرمایا : ﴿مَا وَدَّعَکَ رَبُّکَ﴾ یعنی جب سے آپ پر اللہ تعالیٰ کی عنایت ہے، اس نے آپ کو نہیں چھوڑا اور جب سے اس نے آپ کی نشوونما کی اور آپ پر مہربانی کی، اس نے آپ پر توجہ اور عنایت کو ترک نہیں کیا بلکہ وہ آپ کی کامل ترین طریقے سے تربیت کرتا رہتا ہے اور درجہ بدرجہ آپ کو بلندی عطا کرتا رہتا ہے۔ ﴿ وَمَا قَلٰی﴾ ” اور وہ آپ سے بیزار نہیں ہوا۔“ یعنی جب سے اللہ تعالیٰ نے آپ سے محبت کی ہے وہ آپ سے ناراض نہیں ہوا، کیونکہ ضد کی نفی، اس کی ضد کے ثبوت کی دلیل ہے ۔ محض نفی ،جب تک کہ وہ ثبوت کمال کی متضمن نہ ہو، مدح نہیں ہوتی۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ماضی کا حال ہے، جبکہ موجودہ حالت اللہ تعالیٰ کی آپ کے ساتھ محبت اس میں استمرار ، کمال کے درجات میں آپ کی ترقی اور آپ پر اللہ تعالیٰ کی دائمی عنایت کے لحاظ کامل ترین حال ہے۔ الضحى
4 رہامستقبل میں آپ کا حال تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَلَلْاٰخِرَۃُ خَیْرٌ لَّکَ مِنَ الْاُوْلٰی﴾ یعنی آپ کے احوال میں سے ہر متاخر حال کو سابقہ احوال پر فضیلت حاصل ہے ، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم درجات عالیہ پر ترقی کرتے رہے ، اللہ تعالیٰ آپ کے دین کو تمکن عطا کرتارہا، آپ کے دشمنوں کے خلاف آپ کو فتح ونصرت سے بہرہ مند کرتا رہا اور آپ کے احوال کے درست کرتا رہا یہاں تک کہ آپ نے وفات پائی۔ آپ فضائل، اللہ تعالیٰ کی نعمتوں ، آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کے سرور کے ایسے حال پر پہنچ گئے جہاں اولین وآخرین نہیں پہنچ سکے۔ پھر اس کے بعد آخرت میں آپ کے حال سے متعلق اکرام وتکریم اور انواع واقسام کے انعامات کی تفصیلات کے بارے میں مت پوچھیے ، اس لیے فرمایا : ﴿وَلَسَوْفَ یُعْطِیْکَ رَبُّکَ فَتَرْضٰی﴾ ” اور وہ عنقریب آپ کو وہ کچھ عطا کرے گا کہ آپ خوش ہوجائیں گے ۔“ اور یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس کی اس جامع عبارت کے بغیر تعبیر ممکن ہی نہیں۔ الضحى
5 الضحى
6 پھر اللہ تعالیٰ ان خاص احوال کے ذریعے سے جنہیں وہ جانتا ہے ، آپ پر اپنے احسان کا ذکر کرتا ہے ،چنانچہ فرمایا : ﴿اَلَمْ یَجِدْکَ یَتِیْمًـا فَاٰوٰی﴾ یعنی آپ کو اس طرح پایا کہ آپ کی ماں تھی نہ باپ بلکہ آپ کے ماں باپ اس وقت وفات پاگئے جب کہ آپ اپنی دیکھ بھال خود نہیں کرسکتے تھے ۔ آپ کے دادا عبدالمطلب نے آپ کی کفالت کی ،پھر آپ کے دادا بھی وفات پاگئے تو آپ کے چچا ابوطالب نے آپ کی کفالت کی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی نصرت اور اہل ایمان کے ذریعے سے آپ کی مدد فرمائی۔ الضحى
7 ﴿وَوَجَدَکَ ضَالًّا فَہَدٰی﴾ یعنی اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس حال میں پایا کہ آپ نہیں جانتے تھے کہ کتاب کیا ہے اور ایمان کیا ہے ۔ پس اس نے آپ کو وہ علم عطا کیا جو آپ نہیں جانتے تھے اور آپ کو بہترین اعمال اور بہترین اخلاق کی توفیق بخشی۔ الضحى
8 ﴿وَوَجَدَکَ عَایِٕلًا﴾ یعنی آپ کو محتاج پایا ﴿ فَاَغْنٰی﴾ پس اللہ تعالیٰ نے آپ کو شہروں کی فتوحات کے ذریعے سے ،جہاں سے آپ کے لیے مال اور خراج آیا ،غنی کردیا۔ جس ہستی نے آپ کی یہ کمی دور کی ہے وہ عنقریب آپ کی ہر کمی کو دور کردے گی اور وہ ہستی جس نے آپ کو تونگری تک پہنچایا ،آپ کو پناہ دی ، آپ کو نصرت عطا کی اور آپ کو راہ راست سے نوازا ، اس کی نعمت پر شکر ادا کیجئے۔ الضحى
9 اس لیے فرمایا : ﴿فَاَمَّا الْیَتِیْمَ فَلَا تَقْہَرْ﴾ یعنی یتیم کے ساتھ برا معاملہ نہ کیجئے، آپ اس پر تنگ دل ہوں نہ آپ اسے جھڑکیں بلکہ اس کا اکرام کریں جو کچھ میسر ہے آپ اسے عطا کریں اور آپ اس کے ساتھ ایسا سلوک کریں جیسا آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے بعد آپ کی اولاد سے کیا جائے ۔ ﴿وَاَمَّا السَّایِٕلَ فَلَا تَنْہَرْ﴾ یعنی آپ کی طرف سے سائل کے لیے کوئی ایسی بات، یعنی ڈانٹ اور ترش روئی وغیرہ صادر نہ ہو جو سائل کو اس کے مطلوب سے رد کرنے کی مقتضی ہو بلکہ آپ کے پاس جو کچھ میسر ہے اسے عطا کردیجئے یا اسے معروف اور بھلے طریقے سے لوٹا دیجئے۔ اس میں مال کا سوال کرنے والا اور علم کا سوال کرنے والا دونوں داخل ہیں، بنابریں معلم متعلم کے ساتھ حسن سلوک، اکرام وتکریم اور شفقت ومہربانی سے پیش آنے پر مامور ہے ، کیونکہ ایسا کرنے میں اس کے مقصد میں اس کی اعانت اور اس شخص کے لیے اکرام وتکریم ہے جو قوم وملک کو نفع پہنچانے کے لیے کوشاں ہے۔ الضحى
10 الضحى
11 فرمایا: ﴿ وَاَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ ﴾ ” اور اپنے رب کی نعمتوں کو۔ “اس میں دینی اور دنیاوی دونوں نعمتیں شامل ہیں﴿ فَحَدِّثْ﴾ ”بیان کرتا رہ ۔“ یعنی ان نعمتوں کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا بیان کیجئے اور اگر کوئی مصلحت ہو تو ان کا خاص طور پر ذکر کیجئے ، ورنہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا علی الاطلاق ذکر کیجئے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی نعمت کا ذکر، اس پر شکرگزاری کاموجب اور دلوں میں اس ہستی کی محبت کاموجب ہے جس نے نعمت عطا کی، کیونکہ محسن کے ساتھ محبت کرنا دلوں کی فطرت ہے۔ الضحى
0 الشرح
1 اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنے احسان کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے: ﴿اَلَمْ نَشْرَحْ لَکَ صَدْرَکَ﴾ یعنی شرائع دین، اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینے، مکارم اخلاق سے متصف ہونے، آخرت کو مدنظر رکھنے اور نیکیوں کی تسہیل کے لیے کیا ہم نے آپ کے سینے کو کشادہ نہیں کردیا ؟ پس (آپ کا سینہ ) تنگ اور گھٹا ہوا نہیں تھا کہ آپ کسی بھلائی پر عمل نہ کرتے اور نہ ایسا تھا کہ آپ اس کو انبساط کی حالت میں بہت کم پاتے۔ الشرح
2 ﴿وَوَضَعْنَا عَنْکَ وِزْرَکَ﴾ یعنی ہم نے آپ سے آپ کے گناہ کا بوجھ اتار دیا۔ الشرح
3 ﴿الَّذِیْٓ اَنْقَضَ﴾ ” جس نے توڑ رکھا تھا۔“ یعنی بوجھل کیا ہوا تھا۔ ﴿ ظَہْرَکَ﴾ ” آپ کی کمر کو۔“ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ لِّيَغْفِرَ لَكَ اللّٰـهُ مَا تَقَدَّمَ مِن ذَنبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ ﴾( الفتح :48؍2) ” تاکہ جو گناہ آپ سے پہلے سرزد ہوئے اور جو پیچھے سرزد ہوئے ، ان سب کو اللہ بخش دے۔“ الشرح
4 ﴿ وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ﴾ یعنی ہم نے آپ کی قدرومنزلت بلند کی، ہم نے آپ کو ثنائے حسن اور ذکر بلند سے سرفراز کیا جہاں آج تک مخلوق میں سے کوئی ہستی نہیں پہنچ سکی۔ پس جب بھی اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا جاتا ہے تو اس کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کیا جاتا ہے ، مثلا : اسلام میں داخل ہوتے وقت، اذان اور اقامت کے اندر، خطبوں اور دیگر امور میں جن کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول محمد مصطفی ٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر بلند کیا ہے ۔ امت کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کے بعد آپ کے لیے جو محبت، تعظیم اور اجلال ہے وہ کسی اور کے لیے نہیں۔ پس اللہ تعالیٰ آپ کو آپ کی امت کی طرف سے افضل ترین جزائے خیر عطا کرے جو کسی نبی کو اس کی امت کی طرف سے عطا کی ہے۔ الشرح
5 اللہ تعالیٰ کا ارشاد: ﴿فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا﴾ ” بے شک تنگی کے ساتھ آسانی ہے ۔ بے شک تنگی کے ساتھ آسانی ہے۔ “ ایک عظیم الشان خوش خبری ہے کہ جب بھی کوئی تنگی اور سختی پائی جائے گی تو اس کے ساتھ ساتھ آسانی بھی ہوگی حتی ٰ کہ اگر تنگی گوہ کے بل میں داخل ہوجائے تو آسانی اس کے ساتھ داخل ہوگی اور اسے باہر نکال لائے گی ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ سَيَجْعَلُ اللّٰـهُ بَعْدَ عُسْرٍ يُسْرًا ﴾( الطلاق:65؍7) ”عنقریب اللہ تعالیٰ تنگی کے ساتھ کشائش عطا کرے گا ۔ “ اور جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” تکلیف کے ساتھ کشادگی ہوتی ہے اور تنگی کی معیت میں کشائش ہے۔“ (مسندأحمد:1؍307،308) دونوں آیات کریمہ میں اَلْعُسْر کو معرفہ استعمال کرنا دلالت کرتا ہے کہ وہ واحد ہے اور الیسر کو نکرہ استعمال کرنا اس کے تکرار پر دلالت کرتا ہے ۔ پس ایک تنگی دو آسانیوں پر غالب نہیں آئے گی ۔ الف لام کے ساتھ معرفہ بنانے میں جو کہ استغراق اور عموم پر دلالت کرتا ہے، دلیل ہے کہ ہر تنگی، خواہ وہ اپنی انتہا کو پہنچ جائے ، اس کے آخر میں آسانی کا آنا لازم ہے۔ الشرح
6 الشرح
7 پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اور آپ کی اتباع میں تمام اہل ایمان کو حکم دیا کہ وہ اس کاشکر ادا کریں اور اس کی نعمتوں کے واجبات کو قائم کریں ، چنانچہ فرمایا : ﴿فَاِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ﴾ یعنی جب آپ اپنے اشغال سے فراغت حاصل کریں اور آپ کے قلب میں کوئی ایسی چیز باقی نہ رہ جائے جو اسے (ذکر الہٰی) سے روکتی ہو، تب آپ عبادت اور دعا میں جدوجہد کیجئے۔ الشرح
8 ﴿وَاِلٰی رَبِّکَ﴾ اور اپنے اکیلے رب کی طرف ﴿ فَارْغَبْ﴾ ” پس متوجہ ہوجائیں۔“ یعنی اپنی پکار کے جواب اور اپنی دعاؤں کی قبولیت کے لیے اپنی رغبت بڑھایے۔ آپ ان لوگوں میں سے نہ ہوں جو فارغ ہوتے ہیں تو کھیل تماشے میں مشغول ہوجاتے ہیں ، اپنے رب اور اس کے ذکر سے منہ موڑ لیتے ہیں، ایسا نہ ہو کہ آپ خسارہ پانے والوں میں شامل ہوجائیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس آیت کریمہ کے معنی ہیں کہ جب آپ نماز پڑھ کر اس سے فارغ ہوں تو دعا میں محنت کیجئے اور اپنے مطالب کے سوال کرنے میں اپنے رب کی طرف رغبت کیجئے۔ اس قول کے قائلین ، اس آیت کریمہ سے، فرض نمازوں کے بعد دعا اور ذکر وغیرہ کی مشروعیت پر استدلال کرتے ہیں۔ واللہ اعلم۔ الشرح
0 التين
1 ﴿وَالتِّیْنِ﴾ انجیر کا معروف درخت اور اسی طرح ﴿الزَّیْتُوْنِ﴾ زیتون بھی ایک معروف درخت ہے۔ اللہ تبارک تعالیٰ نے ان دونوں کی قسم ان کے اور ان کے پھل کے کثیر الفوائد ہونے کی بنا پر کھائی ہے ، نیز اس بنا پر قسم کھائی ہے کہ ان دونوں درختوں کی ارض شام (فلسطین) میں، جو حضرت عیسیٰ ابن مریم کی نبوت کا محل ومقام ہے ، کثرت ہے۔ التين
2 ﴿وَطُوْرِ سِیْنِیْنَ﴾ ” طور سینا کی قسم!“ جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نبوت کا مقام ہے۔ التين
3 ﴿ وَہٰذَا الْبَلَدِ الْاَمِیْنِ﴾ ” اور اس امن والے شہر کی۔ “ اس سے مراد مکہ مکرمہ ہے جو رسول مصطفیٰ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا محل ومقام ہے ۔پس اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان مقامات مقدسہ کی قسم کھائی جن کو اللہ تعالیٰ نے چن لیا اور جہاں تمام انبیا ء میں سب سے زیادہ شرف وفضیلت کے حامل نبی مبعوث ہوئے۔ التين
4 اور جس امر پر قسم کھائی گئی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : ﴿لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ﴾ ” ہم نے انسان کو بہت اچھی صورت میں پیدا کیا ہے ۔“ یعنی کامل تخلیق، متناسب اعضا اور بلند قامت کے ساتھ پیدا کیا ہے ، وہ ظاہر اور باطن میں جس چیز کا محتاج ہے ، اس سے محروم نہیں۔ ان عظیم نعمتوں کے باوجود جن کاشکر کیا جانا چاہیے ، اکثر مخلوق منعم کے شکر سے منحرف ور لہوو لعب میں مشغول ہے ۔ لوگ اپنے لیے پست ترین معاملے اور ردی اخلاق پر راضی ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کو پست سے پست مقام کی طرف لوٹادیا ، یعنی جہنم کا سب سے نچلا حصہ جو اپنے رب کی نافرمانی کرنے والے سرکشوں کا مقام ہے ، سوائے ان لوگوں کے جن کو اللہ تعالیٰ نے ایمان، عمل صالح اور اخلاق فاضلہ سے نوازا۔ التين
5 التين
6 ﴿ فَلَہُمْ ﴾ پس ان کے لیے ان اعمال کی وجہ سے بلند منازل ہیں اور﴿ اَجْرٌ غَیْرُ مَمْنُوْنٍ﴾ منقطع نہ ہونے والا اجر ہے بلکہ ان کے لی وافر لذتیں، متواتر فرحتیں اور بکثرت نعمتیں ،اتنے عرصے تک حاصل ہوں گی جو کبھی ختم نہیں ہو۔ گا وہ ایسی نعمتوں (بھری جنت )میں رہیں گے جو کبھی نہیں بدلے گی جس کے پھل اور سائے دائمی ہوں گے۔ التين
7 ﴿فَمَا یُکَذِّبُکَ بَعْدُ بِالدِّیْنِ﴾ پس اے انسان ! کون سی چیز اس کے بعد تجھے اعمال کی جزا اور سزا کے جھٹلانے پر آمادہ کرتی ہے ، حالانکہ تو اللہ تعالیٰ کی بہت سی نشانیوں کو دیکھ چکا ہے جن سے تجھے یقین حاصل ہوسکتا ہے اور تو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو دیکھ چکا ہے جو تجھ پر واجب ٹھہراتی ہیں کہ تو ان میں سے کسی چیز کا انکار نہ کرے جس کی اس نے تجھے خبر دی ہے۔ التين
8 ﴿اَلَیْسَ اللّٰہُ بِاَحْکَمِ الْحٰکِمِیْنَ﴾ ” کیا اللہ سب سے بڑا حاکم نہیں ہے؟ “ کیا اس کی حکمت تقاضا کرتی ہے کہ مخلوق کو بے کار اور مہمل چھوڑ دیا جائے ، ان کو حکم دیا جائے نہ کسی چیز سے روکاجائے ، ان کو ثواب عطا کیا جائے نہ عذاب دیاجائے؟ یا وہ جس نے بنی نوع انسان کو کئی مراحل میں پیدا کیا، ان کو اتنی نعمتوں، بھلائیوں اور احسانات سے نوازا جن کو وہ شمار نہیں کرسکتے ، بہترین طیریقے سے ان کی پرورش کی، ضرور ان کو اس گھر کی طرف لوٹائے گا جو ان کاٹھکانا اور ان کی غایت وانتہا ہےجس کا وہ قصد کرتے ہیں اور جس کی طرف وہ ارادہ رکھتے ہیں۔ التين
0 العلق
1 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نزول کے اعتبار سے یہ قرآن کی اولین سورت ہے ، یہ نبوت کے ابتدائی زمانے میں نازل ہوئی ، جب آپ نہیں جانتے تھے کہ کتاب کیا ہے اور ایمان کیا چیز ہے ؟ پس جبرائیل علیہ السلام پیغام الہٰی لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے کہا کہ آپ پڑھیں مگر آپ نے عذر پیش کیا اور کہا ” میں پڑھا ہوا نہیں ہوں ۔“ جبرائیل بار بار یہی دہراتے رہے۔ یہاں تک کہ آپ نے پڑھا اور اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں: ﴿اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ﴾ ” اپنے رب کا نام لے کرپڑھیں جس نے پیدا کیا“ ۔ یعنی جس نے عام مخلوق کو پیدا کیا ، پھر انسان کو خاص کرکے اس کی تخلیق کی ابتدا کا ذکر کیا، فرمایا : ﴿ مِنْ عَلَقٍ﴾ ” خون کے لوتھڑے سے (پیداکیا)۔ “ پس جس ہستی نے انسان کو پیدا کیا اور اس کی تدبیر کی ، لازم ہے کہ وہ امر ونہی کی بھی تدبیر کرے اور یہ کام وہ رسول بھیج کر اور کتابیں نازل کرکے سرانجام دیتا ہے ۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے پڑھنے کا حکم دے کر انسان کی تخلیق کا ذکر کیا۔ العلق
2 العلق
3 ﴿اِقْرَاْ وَرَبُّکَ الْاَکْرَمُ﴾ ” پڑھیے اور آپ کا رب بڑا کریم ہے ۔ “ یعنی آپ کا رب بہت زیادہ اور وسیع صفات کا مالک، بہت زیادہ کرم واحسان اور بے پایاں جودو والا ہے ۔ جس کا کرم یہ ہے کہ اس نے مختلف انواع کے علوم کے ذریعے سے تعلیم دی اور ﴿ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ۔ عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ ﴾ ” قلم کے ذریعے سے سکھایا اور انسان کو وہ باتیں سکھائیں جن کا اس کو علم نہ تھا ۔“ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ماں کے پیٹ سے نکالا، وہ اس وقت کچھ نہیں جانتا تھا ، اس کو سماعت ، بصارت اور عقل سے بہرہ ور کیا ، اس کے لیے حصول علم کے تمام اسباب آسان کیے ، اسے قرآن کی تعلیم دی ، حکمت سکھائی اور قلم کے ساتھ علم عطا کیا جس کے ذریعے سے تمام علوم کو محفوظ اور حقوق کو ضبط کیا جاتا ہے اور وہ لوگوں کے لیے ایسا ایلچی ہوتا ہے جو ان کے لیے بالمشافہ خطاب کا قائم مقام ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا اور اس کا احسان ہے جس نے اپنے بندوں کو ان نعمتوں سے نوازا جن کی وہ جزا دینے پر قادر ہیں نہ شکر ادا کرنے پر ، پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں تونگری اور کشائش رزق سے نوازا مگر انسان نے ، اپنے ظلم و جہالت کی بنا پر ، جب اپنے آپ کو غنی دیکھا تو سرکشی اور بغاوت پر اتر آیا ، ہدایت کے مقابلے میں تکبر کیا اور بھول بیٹھا کہ اسے اپنے رب کی طرف لوٹنا ہے اور جزا سے نہ ڈرا بلکہ وہ اس حالت کو پہنچ جاتا ہے کہ خودبھی ہدایت کو چھوڑ دیتا ہے اور دوسروں کو بھی ہدایت چھوڑنے کی دعوت دیتا ہے ۔ پس وہ نماز پڑھنے سے روکتا ہے جو اعمال ایمان میں سب سے افضل عمل ہے۔ العلق
4 العلق
5 العلق
6 العلق
7 العلق
8 العلق
9 العلق
10 العلق
11 اللہ تعالیٰ اس متکبر اور سرکش سے فرماتا ہے : ﴿اَرَءَیْتَ ﴾ بندہ جب نماز پڑھے، اس کو نماز پڑھنے سے روکنے والے ! مجھے بتا ۔ ﴿ اِنْ کَانَ﴾ بھلا نماز پڑھنے والابندہ﴿ عَلَی الْہُدٰٓی ﴾اگر حق کا علم رکھنے والا اور اس پر عمل کرنے والا ہو۔ العلق
12 ﴿اَوْ اَمَرَ ﴾ یا دوسروں کو حکم دیتا ہو ﴿ بِالتَّقْوَىٰ ﴾”تقوی کا“ ۔ کیا یہ اچھی بات ہے کہ ایسے شخص کو روکا جائے جس کا یہ وصف ہے ؟ کیا اس کو روکنا اللہ تعالیٰ کے ساتھ سب سے بڑی دشمنی اور حق کے خلاف جنگ نہیں؟ کیونکہ نہی کارخ صرف اسی کی طرف ہوتا ہے جو فی نفسہ ہدایت پر نہیں ہوتا یا وہ دوسروں کو تقوٰی کے خلاف حکم دیتا ہے۔ العلق
13 ﴿اَرَءَیْتَ اِنْ کَذَّبَ ﴾ بھلا بتاؤ ! حق سے روکنے والے نے اگر جھٹلایا ہو﴿ وَتَوَلّٰی﴾ اور حکم سے منہ موڑا ہو، کیا وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے عذاب سے نہیں ڈرتا ؟ العلق
14 ﴿اَلَمْ یَعْلَمْ بِاَنَّ اللّٰہَ یَرٰی﴾ ” کیا وہ نہیں جانتا کہ اللہ اسے دیکھتا ہے ۔ “ جو عمل وہ کرتا اور جو فعل وہ سرانجام دیتا ہے؟ اگر وہ اپنے حال پر جما رہا تو اس کو وعید سنائی، پس فرمایا : ﴿کَلَّا لَیِٕنْ لَّمْ یَنْتَہِ﴾جو کچھ وہ کہتا اور کرتا ہے اگر اس سے باز نہ آیا ﴿ ڏ لَنَسْفَعًا بِالنَّاصِیَۃِ﴾توہم اس کی پیشانی کوبڑی سختی سےپکڑیں گے اور یہ اسی کی مستحق ہے،کیونکہ یہ العلق
15 العلق
16 ﴿نَاصِیَۃٍ کَاذِبَۃٍ خَاطِئَۃٍ﴾ پیشانی اپنے قول میں جھوٹی اور اپنے فعل میں خطا کار ہے۔ العلق
17 ﴿فَلْیَدْعُ﴾یعنی یہ شخص جس پر عذاب واجب ہوچکاہے ﴿ نَادِيَهُ﴾ اپنے اہل مجلس، اپنے ساتھیوں اور ان لوگوں کو بلا لے جو اس کے اردگر ہیں تاکہ وہ اس عذاب کے خلاف اس کی مدد کریں جو اس پر نازل ہوا ہے۔ العلق
18 ﴿سَـنَدْعُ الزَّبَانِیَۃَ﴾ ہم بھی اس کو پکڑنے اور اس کی سزا دینے کے لیے جہنم کے دارغوں کو بلالیں گے ، پھر وہ دیکھے گا کہ کون سافریق زیادہ طاقتور اور زیادہ قدرت والا ہے۔ العلق
19 یہ اس روکنے والی ہستی اور اس عقوبت کا حال ہے جس کی وعید سنائی گئی ہے ۔ رہاس شخص کا حال جس کو روکا گیا تو اس کو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ اس روکنے والے کی طرف دھیان ہی دے اور نہ اس کی نہی پر عمل ہی کرے ، چنانچہ فرمایا : ﴿کَلَّا لَا تُطِعْہُ﴾ ” دیکھ ! اس کی اطاعت نہ کرنا۔“ یعنی وہ صرف اسی چیز کا حکم دیتا ہے جس میں خسارہ ہوتا ہے۔ ﴿وَاسْجُدْ﴾ اور اپنے رب کے لیے سجدہ کیجئے ﴿وَاقْتَرِبْ﴾ سجدوں وغیرہ اور دیگر نیکیوں اور عبادات سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کیجئے ، کیونکہ یہ تمام عبادات اللہ تعالیٰ اور اس کی رضا کے قریب کرتی ہیں۔ یہ ہر اس شخص کے لیے عام ہے جو بھلائی سے روکتا ہے اور ہر اس امر کے لیے عام ہے جس سے روکا گیا ہے اگرچہ یہ آیات ابوجہل کے بارے میں اس وقت نازل ہوئیں جب اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھنے سے روکا، آپ کو تعذیب دی اور اذیت پہنچائی۔ العلق
0 القدر
1 اللہ تبارک وتعالی ٰنے قرآن کی فضیلت اور اس کی بلند قدرومنزلت بیان کرتے ہوئے فرمایا : ﴿اِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ﴾ ” بے شک ہم نے اسے شب قدر میں نازل کیا۔“ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُّبَارَكَةٍ﴾( الدخان :44؍3)”بے شک ہم نے اسے بابرکت رات میں اتارا ہے۔“ اس کاشب قدر میں نازل کرنایہ ہے کہ اللہ نے قرآن کے نازل کرنے کی ابتدا ، رمضان المبارک میں اور شب قدر میں کی۔ شب قدر کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر عام رحمت فرمائی ، بندے جس کاشکر ادا نہیں کرسکتے۔ اس کی عظیم قدرومنزلت اور اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کی فضیلت کی بنا پر اس کو ﴿لَيْلَةُ الْقَدْرِ ﴾ کے نام سے موسوم کیا گیا ، نیز اس لیے بھی اس کو ﴿لَيْلَةُالْقَدْرِ ﴾ کہا گیا کہ سال بھر میں جو کچھ واقع ہوتا ہے، یعنی عمر، رزق، دیگر تقدیر وغیرہ اس میں مقدر کردی جاتی ہیں۔ القدر
2 پھر اللہ تعالیٰ نے اس کی عظمت شان اور عظمت مقدار بیان کی ہے ، چنانچہ فرمایا :﴿وَمَا أَدْرَاكَ مَا لَیْلَۃُ الْقَدْرِ﴾ ” اور تجھے کس نے خبر دی کہ شب قدر کیا ہے؟“ یعنی اس کی شان بہت جلیل اور اس کارتبہ بہت عظیم ہے ۔ آپ کو اس کا علم نہیں۔ القدر
3 ﴿لَیْلَۃُ الْقَدْرِ ڏ خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَہْرٍ﴾ یعنی قدر کی رات فضیلت میں ایک ہزار مہینے کے برابر ہے۔ وہ عمل جو شب قدر میں واقع ہوتا ہے ، ایک ہزار مہینے میں جو شب قدر سے خالی ہوں ، واقع ہونے والے عمل سے بہتر ہے ۔ یہ ان امور میں سے ہے جن پر خرد حیران اور عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس ضعیف القوٰ ی امت کو ایسی رات سے نوازا جس کے اندر عمل ایک ہزار مہینوں کے عمل سے بڑھ کر ہے ، یہ ایک ایسے معمر شخص کی عمر کے برابر ہے جسے اسی سال سے زیادہ طویل وعمر دی گئی ہو۔ القدر
4 ﴿ تَنَزَّلُ الْمَلٰیِٕکَۃُ وَالرُّوْحُ فِیْہَا﴾ یعنی فرشتے اور جبرائیل امین اس رات میں کثرت سے نازل ہوتے ہیں ﴿مِنْ کُلِّ اَمْرٍسَلَامٌ هِيَ﴾ ” ہر کام کے لیے ، یہ (رات ) سلامتی ہے ۔“ یعنی شب قدر ہر آفت اور ہر شر سے سلامت ہے اور اس کا سبب اس کی بھلائی کی کثرت ہے۔ القدر
5 ﴿حَتّٰی مَطْلَعِ الْفَجْرِ﴾ ” صبح کے طلوع ہونے تک۔ “ یعنی اس رات کی ابتدا غروب آفتاب اور اس کی انتہا طلوع فجر ہے۔ اس رات کی فضیلت میں تواتر سے احادیث وارد ہوئی ہیں ، نیز یہ کہ شب قدر رمضان کے آخری عشرے میں، خاص طور پر طاق راتوں میں واقع ہوتی ہیں اور یہ رات ہر سال آتی ہے اور قیامت تک باقی رہے گی، اسی لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبارک کے آخری عشرے میں اعتکاف بیٹھتے تھے اور کثرت سے عبادت کرتے تھے، اس امید میں کہ شاید شب قدر مل جائے۔ واللّٰہ اعلم۔ القدر
0 البينة
1 اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے : ﴿لَمْ یَکُنِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ اَہْلِ الْکِتٰبِ﴾ ” نہیں ہیں وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا اہل کتاب میں سے۔“ یعنی یہودونصارٰی میں سے ﴿وَالْمُشْرِكِينَ ﴾ اور مشرکین اور دیگر قوموں کی تمام اصناف میں سے ﴿مُنفَكِّينَ﴾ ” باز آنے والے۔ “ یعنی یہ سب اپنے کفر اور ضلالت سے جدا نہیں ہوں گے ، وہ اپنی گمراہی اور ضلالت میں بھٹکے رہیں گے اور مرور اوقات ان کے کفر پر اضافہ ہی کرے گا۔ ﴿ حَتّٰی تَاْتِیَہُمُ الْبَیِّنَۃُ﴾ یہاں تک کہ ان کے پاس واضح دلیل اور نمایاں برہان آجائے۔ پھر ﴿الْبَيِّنَةُ ﴾ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا۔ البينة
2 ﴿رَسُوْلٌ مِّنَ اللّٰہِ﴾” اللہ کے رسول۔“ یعنی اللہ تعالیٰ نے اس کو مبعوث کیا جو لوگوں کو حق کی طرف دعوت دیتا ہے، اس پر کتاب اتاری جس کی وہ تلاوت کرتا ہے تاکہ لوگوں کو دانائی سکھائے، ان کو پاک کرے اور ان کو گمراہی کے اندھیروں سے نکال کر روشنی میں لائے ، اس لیے فرمایا : ﴿یَتْلُوْا صُحُفًا مُّطَہَّرَۃً﴾ ” وہ (رسول )پاک اوراق پڑھتا ہے۔ “ یعنی وہ شیطان کے قریب ہونے سے محفوظ ہیں، اسے صرف پاک فرشتے ہی چھوتے ہیں ؛کیونکہ یہ بلند ترین کلام ہے۔ البينة
3 اس لیے صحیفوں کے بارے میں فرمایا:﴿ فِيهَا﴾ ان صحیفوں میں ﴿ کُتُبٌ قَیِّمَۃٌ﴾ سچی خبریں اور عدل پر مبنی احکام ہیں جو حق اور راہ راست کی طرف راہ نمائی کرتے ہیں ۔ جب ان کے پاس یہ واضح دلیل آجاتی ہے تب اس وقت طالب حق اور وہ شخص جس کا مقصد طلب حق نہیں ہے، دونوں واضح ہوجاتے ہیں ۔ پس جو کوئی ہلاک ہوتا ہے تو دلیل ہے ہلاک ہوتا ہے اور جو کوئی زندہ رہتا ہے تو دلیل سے زندہ رہتا ہے۔ البينة
4 اگراہل کتاب اس رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہیں لاتے اور آپ کی اطاعت نہیں کرتے تو یہ ان کی گمراہی اور عناد کی بنا پر کوئی انوکھی چیز نہیں ہے ، کیونکہ انہوں نے تفرقہ بازی اور باہم اختلاف کیا اور فرقوں میں تقسیم ہوگئے۔ ﴿مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَتْہُمُ الْبَیِّنَۃُ﴾ اس کے بعد کہ ان کے پاس واضح دلیل آگئی جو اپنے ماننے والوں کے لیے اجتماع اور اتفاق کی موجب ہے مگر ان کے بگاڑ اور ان کی خساست کی بنا پر ہدایت نے ان کی گمراہی میں اور بصیرت نے ان کے اندھے پن میں اضافے کے سوا کچھ نہیں کیا ، حالانکہ تمام کتابیں ایک ہی اصل اور ایک ہی دین لے کر آئی ہیں۔ البينة
5 ان کو تمام شریعتوں میں حکم تو یہی ہوا تھا کہ عبادت کریں ﴿اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ ڏ﴾ ” اللہ کی اخلاص کے ساتھ اس کے لیے بندگی۔ “ یعنی اپنی تمام ظاہری اور باطنی عبادت میں اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے قرب کی طلب کو مقصد بناتے ہوئے ۔ ﴿حُنَفَاءَ ﴾”یکسو ہو کر۔ “ (یعنی دین توحید کے مخالف تمام ادیان سے منہ موڑ کر ﴿ وَیُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَیُؤْتُوا الزَّکٰوۃَ﴾ ”اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں۔ “ اللہ تعالیٰ نے نماز اور زکوٰۃ کو ان کے فضل وشرف کی بنا پر خاص طور پر ذکر کیا ، حالانکہ وہ دونوں اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿ لِیَعْبُدُوا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ﴾ میں داخل ہیں ، نیز اس لیے بھی انہیں الگ ذکر کیا کہ یہ دونوں ایسی عبادتیں ہیں کہ جس نے ان کو قائم کیا اس نے دین کی تمام شرائع کو قائم کیا۔ ﴿وَذَلِكَ﴾”اور یہ ۔“ یعنی توحید اور اخلاص فی الدین دونوں ﴿دِیْنُ الْقَیِّمَۃِ﴾ دین مستقیم ہیں جو نعمتوں بھری جنت میں پہنچاتا ہے اور اس کے سوا دیگر ادیان، ایسے راستے ہیں جو جہنم میں لے جاتے ہیں۔ البينة
6 پھر اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا کہ کافروں کے پاس واضح دلیل آجانے کے بعد ان کی جزا کیا ہوگی ،چنانچہ فرمایا : ﴿اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ اَہْلِ الْکِتٰبِ وَالْمُشْرِکِیْنَ فِیْ نَارِ جَہَنَّمَ﴾ ”بے شک وہ لوگ جنہوں نے اہل کتاب اور مشرکین میں سے کفر کیا، جہنم کی آگ میں ہوں گے۔“ اس کا عذاب ان کا احاطہ کرلے گا اور اس کی عقوبت ان پر بہت شدت اختیار کرلے گی۔ ﴿خٰلِدِیْنَ فِیْہَا ﴾ یہ عذاب ان سے کبھی منقطع نہیں ہوگا اور وہ جہنم کے اندر اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس رہیں گے ﴿اُولٰیِٕکَ ہُمْ شَرُّ الْبَرِیَّۃِ﴾” یہ لوگ مخلوق میں سے بدتر ہیں ۔“کیونکہ انہوں نے حق کو پہچان کر اس کو ترک کردیا اور یوں دنیا وآخرت میں انہوں نے نقصان اٹھایا۔ البينة
7 ﴿اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اُولٰیِٕکَ ہُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّۃِ﴾ ”بے شک جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کیے، وہ مخلوق میں سب سے بہتر ہیں۔“ کیونکہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی اور اس کی معرفت حاصل کی اور وہ دنیا وآخرت کی نعمتوں سے فوز یاب ہوئے۔ البينة
8 ﴿جَزَاؤُہُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ جَنّٰتُ عَدْنٍ﴾ ” ان کا بدلہ ان کے رب کے پاس ہمیشہ کے باغات ہیں۔“ یعنی دائمی اقامت کے لیے جنتیں جہاں سے کبھی کوچ نہ ہوگا نہ روانگی اور نہ ان جنتوں سے اوپر کسی اور چیز کی طلب رہے گی۔ ﴿تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْہَآ اَبَدًا رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ﴾ جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی ، جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے ،پس اللہ تعالیٰ ان سے اس سبب سے راضی ہوا کہ انہوں نے اس کی مرضی کو پورا کیا اور وہ اللہ تعالیٰ پر راضی ہوئے کہ اس نے ان کے لیے مختلف انواع کی تکریمات تیار کیں۔ ﴿ذٰلِکَ ﴾ یہ جزائے حسن﴿ لِمَنْ خَشِیَ رَبَّہٗ﴾ اس شخص کے لیے ہے جو اللہ تعالیٰ سے ڈر کر اس کی نافرمانیوں سے باز رہتا ہے اور ان امور کو قائم کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس پر واجب کیے ہیں۔ البينة
0 الزلزلة
1 اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان واقعات کے بارے میں آگاہ فرمایا ہے جو قیامت کے دن وقوع میں آئیں گے، نیز یہ کہ زمین میں زلزلہ آئے گا وہ ہلادی جائے گی اور وہ کانپ اٹھے گی یہاں تک کہ اس پر موجود تمام عمارتیں اور تمام نشانات گر کر معدوم ہوجائیں گے ۔اس کے تمام پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائیں گے اس کے ٹیلے برابر کردیے جائیں گے ، زمین ہموار اور چٹیل میدان بن جائے گی جس میں کوئی نشیب وفراز نہ ہوگا۔ الزلزلة
2 ﴿وَاَخْرَجَتِ الْاَرْضُ اَثْقَالَہَا﴾” اور زمین اپنے بوجھ نکال ڈالے گا۔ “ یعنی زمین کے پیٹ میں جوخزانے اور مردے ہوں گے وہ انہیں نکال باہر کرے گی۔ الزلزلة
3 ﴿وَقَالَ الْاِنْسَانُ﴾ جب انسان اس عظیم واقعے کو دیکھے گا جو زمین کو پیش آئے گا تو کہے گا ﴿ مَا لَہَا ﴾ یعنی اسے کیا حادثہ پیش آگیا؟ الزلزلة
4 ﴿یَوْمَیِٕذٍ تُحَدِّثُ﴾ اس دن زمین بیان کرے گی ﴿ اَخْبَارَہَا﴾” اپنی خبریں۔“ یعنی عمل کرنے والوں کے اچھے برے اعمال کی گواہی دے گی جو انہوں نے اس کی پیٹھ پر کیے ہیں ، کیونکہ زمین بھی ان گواہوں میں شمار ہوگی جو بندوں کے خلاف ان کے اعمال کی گواہی دیں گے ۔ یہ سب اس لیے ہوگا ﴿بِاَنَّ رَبَّکَ اَوْحٰی لَہَا﴾ کہ اللہ تعالیٰ اس کو حکم دے گا کہ وہ ان تمام اعمال کے بارے میں خبر دے جو اس کی سطح پر کیے گئے ہیں۔ پس زمین اللہ تعالیٰ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرے گی۔ الزلزلة
5 الزلزلة
6 ﴿یَوْمَیِٕذٍ یَّصْدُرُ النَّاسُ﴾ ” اس دن لوگ آئیں گے۔ “ یعنی قیامت کے میدان سے جب اللہ تعالیٰ ان کے درمیان فیصلہ کرے گا ﴿اَشْتَاتًا﴾مختلف گروہوں کی صورت میں ﴿ لِّیُرَوْا اَعْمَالَہُمْ﴾ تاکہ اللہ تعالیٰ ان کو ان کی برائیاں اور نیکیاں دکھائے جو ان سے صادر ہوئی ہیں اور ان کو ان اعمال کی پوری جزا کا مشاہدہ کرائے۔ الزلزلة
7 ﴿فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَّرَہٗ وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّرَہٗ﴾ ” پس جس نے ذرہ بھر نیکی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ بھر برائی کی ہوگی ،وہ اسے دیکھ لے گا ۔“ یہ خیرو شر کے تمام اعمال کو شامل ہے ؛کیونکہ جب وہ ذرہ بھر وزن کو دیکھ سکے گا جو حقیر ترین چیز ہے ،اسے اس کی جزا بھی دی جائے گی تب وہ اعمال جو وزن میں اس سے زیادہ ہوں گے ان کا دکھا دینا تو زیادہ اولیٰ ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُّحْضَرًا وَمَا عَمِلَتْ مِن سُوءٍ تَوَدُّ لَوْ أَنَّ بَيْنَهَا وَبَيْنَهُ أَمَدًا بَعِيدًا﴾(آل عمران:۳؍ ٣٠) ”جس دن ہر شخص اپنے بھلائی کے عمل اور برائی کے عمل کو موجود پائے گا اور تمنا کرے گا کہ کاش! برائیوں اور اس کے درمیان بہت دوری ہوتی۔“ ﴿وَوَجَدُوا مَا عَمِلُوا حَاضِرًا ﴾( الکھف ۱۸؍۴۹) ” اور انہوں نے جو عمل کیے تھے ان کو موجود پائیں گے۔ “ ان آیات میں بھلائی کے فعل کی ترغیب ہے ،خواہ وہ بہت ہی تھوڑا ہو اور برائی کے فعل پر ترہیب ہے ، خواہ وہ بہت ہی معمولی ہو۔ الزلزلة
8 الزلزلة
0 العاديات
1 اللہ تبارک وتعالیٰ نے گھوڑوں کی قسم کھائی ہے ،کیونکہ ان کے اندر اللہ تعالیٰ کی روشنی اور نمایاں اور ظاہری نعمتیں ہیں جو تمام خلائق کو معلوم ہیں اور اللہ تعالیٰ نے گھوڑوں کی ان کے اس حال میں قسم کھائی جس حال میں حیوانات کی تمام انواع میں سے کوئی حیوان ان کے ساتھ مشارکت نہیں کرسکتا۔ فرمایا: ﴿وَالْعٰدِیٰتِ ضَبْحًا﴾ یعنی بہت قوت کے ساتھ دوڑنے والے گھوڑوں کی قسم جبکہ ان سے ہانپنے کی آواز آرہی ہے۔ الضبح گھوڑوں کے سانس کی آواز جو تیز دوڑتے وقت ان کے سینوں سے نکلتی ہے۔ العاديات
2 ﴿فَالْمُوْرِیٰتِ﴾” پھر آگ جھاڑنے والوں کی اپنے سموں سے پتھروں پر﴿ قَدْحًا﴾ ” ٹاپ مار کر۔ “یعنی جب وہ گھوڑے دوڑتے ہیں تو ان کے سموں کی سختی اور ان کی قوت کی وجہ سے آگ نکلتی ہے۔ العاديات
3 ﴿فَالْمُغِیْرٰتِ﴾دشمن پر شب خون مارنے والے گھوڑوں کی ﴿ صُبْحًا﴾ ”صبح کے وقت۔“ اور یہ امر غالب ہے کہ( دشمن پر ) شب خون صبح کے وقت منہ اندھیرے مارا جاتا ہے۔ العاديات
4 ﴿فَاَثَرْنَ بِہٖ﴾ یعنی اپنے دوڑنے اور شبخون مارنے کے ذریعے سے ﴿ نَقْعًا﴾ غبار اڑاتے ہیں۔ العاديات
5 ﴿فَوَسَطْنَ بِہٖ﴾ ”پھرجا گھستے ہیں۔“ یعنی اپنے سواروں کے ساتھ ﴿جَمْعًا﴾ دشمن کے جتھوں کے درمیان جن پر دھاوا کیا ہے، جواب قسم، اللہ تعالیٰ کا یہ ارشادہے : ﴿اِنَّ الْاِنْسَانَ لِرَبِّہٖ لَکَنُوْدٌ﴾ ”بے شک انسان اپنے رب کا ناشکرا ہے ۔“ یعنی وہ اس بھلائی سے محروم کرنے والا ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے اس کو نوازا ہے۔ انسان کی فطرت اور جبلت یہ ہے کہ اس کا نفس ان حقوق کے بارے میں جو اس کے ذمے عائد ہوتے ہیں ،فیاضی نہیں کرتا کہ ان کو کامل طور پر اور پورے پورے ادا کردے بلکہ اس کے ذمہ جو مالی یابدنی حقوق عائد ہوتے ہیں ،ان کے بارے میں اس کی فطرت میں سستی اور حقوق سے منع کرنا ہے ، سوائے اس شخص کے جس کو اللہ عالی نے ہدایت سے بہر مندہ کیا اور اس نے اس وصف سے باہر نکل کرحقوق کی ادائیگی میں فیاضی کے وصف کو اختیار کرلیا۔ العاديات
6 العاديات
7 ﴿وَاِنَّہٗ عَلٰی ذٰلِکَ لَشَہِیْدٌ﴾ ” اور وہ اس پر گواہ ہے۔“ یعنی انسان کے نفس کی طرف جو عدم سماحت اور ناشکری معروف ہے ، بے شک وہ بذات خود اس پر گواہ ہے وہ اس کو جھٹلا سکتا ہے نہ اس کا انکار کرسکتا ہے،کیونکہ یہ بالکل ظاہر اور واضح ہے اس میں یہ احتمال بھی ہے کہ ضمیر اللہ کی طرف لوٹتی ہو ، یعنی بے شک بندہ اپنے رب کا ناشکرا ہے اور اللہ تعالیٰ اس پر شاہد ہے ۔اس آیت کریمہ میں اس شخص کے لیے وعید اور سخت تہدید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس پر شاہد ہے جو اپنے رب کا ناشکرا ہے۔ العاديات
8 ﴿وَاِنَّہٗ ﴾اور بلاشبہ انسان﴿لِحُبِّ الْخَیْرِ ﴾مال کی محبت میں﴿لَشَدِیْدٌ﴾ ” بہت سخت ہے۔“ یعنی مال سے بہت زیادہ محبت کرتا ہے اور مال کی محبت ہی اس کے لیے حقوق واجبہ کو ترک کرنے کی موجب بنی اور یوں اس نے اپنی شہوت نفس کو اپنے رب کی رضا پر ترجیح دی۔ یہ سب کچھ اس لیے ہوا کہ اس نے اپنی نظر کو صرف اسی دنیا پر مرکوز رکھا اور آخرت سے غافل رہا ۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے یوم وعید کا خوف دلاتے ہوئے فرمایا : ﴿اَفَلَا یَعْلَمُ﴾ یعنی اپنے آپ کو طاقت ور سمجھنے والا یہ شخص، کیانہیں جانتا؟ ﴿ اِذَا بُعْثِرَ مَا فِی الْقُبُوْرِ﴾جب اللہ تعالیٰ قبروں میں سے مردوں کو ان کے حشر ونشر کے لیے نکالے گا۔ العاديات
9 ﴿وَحُصِّلَ مَا فِی الصُّدُوْرِ﴾ اور جو کچھ سینوں میں ہے وہ ظاہر اور واضح ہوجائے گا ،سینوں کے اندر جو بھلائی یابرائی ہے وہ چھپی نہ رہے گی، ہر بھید کھل جائے گا اور باطل ظاہر ہوجائے اور ان کے اعمال کا نتیجہ تمام مخلوق کے سامنے آجائے گا۔ العاديات
10 العاديات
11 ﴿اِنَّ رَبَّہُمْ بِہِمْ یَوْمَیِٕذٍ لَّخَبِیْرٌ﴾بے شک ان کارب ان کے ظاہری اور باطنی ، جلی اور خفی اعمال سے خبردار ہے اور وہ ان کو ان کے اعمال کی جزا دے گا ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے علم کو اس دن کے ساتھ خاص طور پر ذکر کیا ہے حالانکہ وہ ان کے بارے میں ہر وقت خبر رکھنے والا ہے ، کیونکہ اس سے مراد ، اعمال کی وہ جزا ہے جس کا باعث اللہ تعالیٰ کا علم اور اس کی اطلاع ہے۔ العاديات
0 القارعة
1 ﴿اَلْقَارِعَۃُ﴾ قیامت کے دن کے ناموں میں سے ایک نام ہے اور اس کو اس نام سے اس لیے موسوم کیا گیا ہے کہ یہ لوگوں پر اچانک ٹوٹ پڑے گی اور اپنی ہولناکیوں سے ان کو دہشت زدہ کردے گی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کے معاملے کی عظمت اور اہمیت بیان کرتے ہوئے فرمایا : ﴿اَلْقَارِعَۃُ مَا الْقَارِعَۃُ وَمَآ اَدْرٰیکَ مَا الْقَارِعَۃُ یَوْمَ یَکُوْنُ النَّاسُ﴾ ”کھڑ کھڑا دینے والی۔ کیا ہے کھڑ کھڑا دینے والی ؟ تجھے کیا معلوم کہ وہ کھڑا کھڑا دینے والی کیا ہے؟ جس دن ہوجائیں گے لوگ۔“ سخت گھبراہٹ اور ہولناکی کی وجہ سے ﴿کَالْفَرَاشِ الْمَبْثُوْثِ﴾ ” بکھرے ہوئے پردانوں کی طرح۔ “ یعنی بکھرے ہوئے ٹڈی دل کی طرح ہوں گے جو ایک دوسرے میں موجزن ہوگا۔( الفراش)۔ یہ وہ حیوانات (پتنگے )ہیں جو رات کے وقت (روشنی میں ) ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ مل کر موج بن کر آتے ہیں اور وہ نہیں جانتے کہ وہ کہاں کارخ کریں، جب ان کے سامنے آگ روشن کی جائے تو اپنے ضعف ادراک کی بنا پر ہجوم کرکے اس میں آ گرتے ہیں۔ یہ تو حال ہوگا خرد مند لوگوں کا۔ القارعة
2 القارعة
3 القارعة
4 القارعة
5 رہے بڑے ٹھوس اور سخت پہاڑ تو وہ ﴿کَالْعِہْنِ الْمَنْفُوْشِ﴾ دھنکی ہوئی اون کی مانند ہوجائیں گے جو نہایت کمزورر ہوگئی جسے معمولی سی ہوا بھی اڑائے پھرتی ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَتَرَى الْجِبَالَ تَحْسَبُهَا جَامِدَةً وَهِيَ تَمُرُّ مَرَّ السَّحَابِ﴾ ( النمل: ۲۷؍۸۸) ”اور تو پہاڑوں کو دیکھے گا اور سمجھے گا کہ یہ جامد ہیں ،حالانکہ وہ بادلوں کی چال چل رہے ہوں گے ۔“ پھر اس کے بعد بکھرا ہوا غبار بن کر ختم ہوجائیں گے اور ان میں سے کچھ باقی نہیں بچے گا جس کو دیکھا جائے ۔ القارعة
6 اس وقت ترازوئیں نصب کردی جائیں گی اور لوگ دو قسموں میں منقسم ہوجائیں گے خوش بخت لوگ اور بدبخت لوگ۔ ﴿فَاَمَّا مَنْ ثَــقُلَتْ مَوَازِیْنُہٗ﴾ ” پس جس کے (اعمال کے) وزن بھاری نکلیں گے۔ “ یعنی جس کی نیکیاں ، برائیوں کی نسبت جھک جائیں گی۔ القارعة
7 ﴿فَہُوَ فِیْ عِیْشَۃٍ رَّاضِیَۃٍ﴾ وہ نعمتوں والی جنت میں ہوگا۔ القارعة
8 ﴿وَاَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُہٗ﴾ ”اور جس کے وزن ہلکے نکلیں گے۔ “ یعنی اس کی نیکیاں اتنی نہ ہوں گی جو اس کی برائیوں کے برابر ہوں۔ القارعة
9 ﴿فَاُمُّہٗ ہَاوِیَۃٌ﴾ تو اس کاٹھکانا اور مسکن جہنم ہوگا جس کے ناموں میں سے ایک نام الھاویہ ہے ، جہنم اس کے لیے بمنزلہ ماں کے ہوگا جو اپنے بیٹے کو ساتھ ساتھ رکھتی ہے ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿إِنَّ عَذَابَهَا كَانَ غَرَامًا﴾( الفرقان: ۲۵؍۶۵) ” بے شک جہنم کا عذاب تو چمٹ جانے والا ہے ۔“ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس کا دماغ جہنم میں گرے گا ، یعنی اس کو سر کے بل جہنم میں گرایاجائے گا۔ القارعة
10 ﴿وَمَا أَدْرَاكَ مَا هِيَهْ﴾ ” اور تم کیا سمجھو کہ وہ (ھاویہ) کیا ہے۔“ یہ سوال اس کے معاملے کو بڑا ہولناک کر کے دکھاتا ہے۔ پھر اپنے ارشاد سے اس کی تفسیر فرمائی :﴿نَارٌ حَامِیَۃٌ﴾ سخت حرارت والی آگ، اس کی حرارت دنیا کی آگ سے ستر گنا زیادہ ہوگی ۔ ہم اس آگ سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔ القارعة
11 القارعة
0 التکاثر
1 اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے بندوں کو ،ان امور ،جن کے لیے ان کو پیدا کیا گیا ہے ،یعنی اکیلے اللہ کی عبادت کرنا جس کا کوئی شریک نہیں، اس کی معرفت، اس کی طرف انابت اور اس کی محبت کو ہر چیز پر مقدم رکھنے کو، چھوڑ کر دوسری چیزوں میں مشغول ہونے پر زجر وتوبیخ کرتا ہے ۔ ﴿أَلْهَاكُمُ﴾” تمہیں غافل کردیا۔ “مذکورہ بالا تمام چیزوں سے ﴿التَّکَاثُرُ﴾” زیادہ طلب کرنے کی خواہش نے۔ “اور جس چیز کی کثرت طلب کی جاتی ہے اللہ تعالیٰ نے اس کا ذکر نہیں کیا تاکہ یہ ہر چیز کو شامل ہو جس کے ذریعے سے کثرت میں مقابلہ کرنے والے مقابلہ کرتے ہیں اور باہم فخرکرنے والےفخر کرتے ہیں ،مثلا : مال، اولاد، اعوان وانصار، فوجیں، خدم وحشم اور جاہ وغیرہ جس میں لوگ ایک دوسرے سے زیادہ حاصل کرنے کا قصد کرتے ہیں اور اس میں اللہ تعالیٰ کی رضا ان کا مطلوب ومقصود نہیں ہوتا۔ التکاثر
2 تمہاری غفلت، تمہارا لہو ولعب اور تمہاری مشغولیت دائمی ہوگئی۔ ﴿حَتّٰی زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ﴾ ”یہاں تک کہ تم قبرستان جاپہنچے“ ۔ تب تمہارے سامنے سے پردہ ہٹ گیا مگر اس وقت جب تمہارا دنیا میں دوبارہ آنا ممکن نہیں رہا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد : ﴿حَتّٰی زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ﴾دلالت کرتا ہے کہ برزخ ایسا گھر ہے جس سے مقصود آخرت کے گھر کی طرف نفوذ کرنا ہے ،کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو ”زائرین “ کے نام سے موسوم کیا ہے ”قیام کرنے والوں “ سے موسوم نہیں کیا۔ اور یہ چیز حیات بعدالموت اور ہمیشہ باقی رہنے والے غیر فانی گھر میں، اعمال کی جزا وسزا پر دلالت کرتی ہے۔ التکاثر
3 اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے اس ارشاد کے ذریعے سے ان کو وعید سنائی: ﴿کَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُوْنَ ثُمَّ کَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُوْنَ کَلَّا لَوْ تَعْلَمُوْنَ عِلْمَ الْیَقِیْنِ ﴾” ہرگز نہیں تم عنقریب معلوم کرلو گے ۔ ہرگز نہیں پھر تمہیں جلد علم ہوجائے گا۔ ہرگز نہیں اگر تم یقینی طور پر جان لو۔“ یعنی جو کچھ تمہارے سامنے ہے، اگر تم اس کو جانتے ہوتے ، ایسا جاننا جو دل کی گہرائیوں تک پہنچ جاتا ہے تو تمہیں ایک دوسرے سے زیادہ مال ومتاع حاصل کرنے کی خواہش غافل نہ کرتی اور تم جلدی سے اعمال صالحہ کی طرف بڑھتے مگر حقیقی علم کے معدوم ہونے نے تمہیں اس مقام پر پہنچا دیا جہاں تم اپنے آپ کو دیکھتے ہو۔ التکاثر
4 التکاثر
5 التکاثر
6 ﴿لَتَرَوُنَّ الْجَــحِیْمَ﴾یعنی تم ضرور قیامت کو لوٹائے جاؤ گے ، پس تم یقینا اس جہنم کو دیکھ لو گے جسے اللہ تعالیٰ نے کافروں کے لیے تیار کررکھا ہے۔ التکاثر
7 ﴿ثُمَّ لَتَرَوُنَّہَا عَیْنَ الْیَقِیْنِ﴾ ”پھر تم اس کو ضرور عین الیقین کے طور پر دیکھو گے۔“ یعنی ، روئیت بصری سے دیکھو ، گے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ورا المجرمنون النار فظنوا انھم مواقعوھا ولم یجدوا عنھا مصرفا﴾ (الکھف:۱۸؍53) ”اور مجرم جہنم کو دیکھ کر یقین کرلیں گے کہ وہ اس جھونکے جانے والے ہیں اور وہ اس سے بچنے کی کوئی جگہ نہیں پائیں گے۔“ التکاثر
8 ﴿ثُمَّ لَتُسْـَٔــلُنَّ یَوْمَیِٕذٍ عَنِ النَّعِیْمِ﴾ پھر تم سے ان نعمتوں کے بارے میں ضرور پوچھا جائے گا جن سے تم دنیا کی زندگی میں متمتع ہوتے رہے ہو کہ آیا تم نے ان نعمتوں کاشکر ادا کیا اور آیاتم نے ان نعمتوں میں سے اللہ تعالیٰ کے حق کو ادا کیا اور تم نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں میں ان نعمتوں سے مدد نہیں لی۔ تب وہ تمہیں ان نعمتوں سے اعلیٰ وافضل نعمتیں عطا کرے گا۔ یا تم ان نعمتوں کی وجہ سے فریب خوردہ رہے اور تم نے ان کا شکر ادا نہ کیا؟ بلکہ تم نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں میں ان نعمتوں سے مدد لی تو اس پر اللہ تعالیٰ تمہیں سزا دے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿وَيَوْمَ يُعْرَضُ الَّذِينَ كَفَرُوا عَلَى النَّارِ أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُمْ فِي حَيَاتِكُمُ الدُّنْيَا وَاسْتَمْتَعْتُم بِهَا فَالْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُونِ بِمَا كُنتُمْ تَسْتَكْبِرُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَبِمَا كُنتُمْ تَفْسُقُونَ﴾( الاحقاف :۲۰؍۴۶) ”جس دن، ان لوگوں کو جنہوں نے کفر کیا ،جہنم کے سامنے پیش کیا جائے گا (توان سے کہا جائے گا) تم اپنی لذتیں، اپنی دنیا کی زندگی ہی میں ختم کرچکے اور ان سے فائدہ اٹھا چکے ، پس دنیا میں جو تم ناحق اکڑتے (تکبر کرتے) تھے اور نافرمانیاں کرتے تھے اس کے بدلے آج تمہیں رسوا کن عذاب دیا جائے گا۔ التکاثر
0 العصر
1 اللہ تبارک وتعالیٰ نے زمانے کی قسم کھائی ہے جو گردش شب وروز کا نام ہے جو بندوں کے اعمال اور ان کے افعال کا محل ہے کہ بے شک انسان خسارے میں ہے۔ خاسرنفع اٹھانے والے کی ضد ہے ۔ خسارے کے متعدد اور متفاوت مراتب ہیں۔ کبھی خسارہ مطلق ہوتا ہے، جیسے اس شخص کا حال، جس نے دنیا وآخرت میں خسارہ اٹھایا ، جنت سے محروم ہوا اور جہنم کا مستحق ہوا۔ کبھی خسارہ اٹھانے والا کسی ایک پہلو سے خسارے میں رہتا ہے، کسی دوسرے پہلو سے خسارے میں نہیں رہتا ، بنابریں اللہ تعالیٰ نے خسارے کو ہر انسان کے لیے عام قرار دیا ہے سوائے اس شخص کے جو ان چار صفات سے متصف ہے۔ ١۔ ان امور پر ایمان لانا جن پر ایمان لانے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اور ایمان علم کے بغیر نہیں ہوتا اس لیے علم ایمان ہی کی فرع ہے، علم کے بغیر اس ایمان کی تکمیل نہیں ہوتی۔ ٢۔ عمل صالح: یہ تمام ظاہری اور باطنی بھلائی کے افعال کو شامل ہے جو اللہ تعالیٰ اور بندوں کے حقوق واجبہ ومستحبہ سے متعلق ہیں۔ ٣۔ ایک دوسرے کو حق کی وصیت کرنا، حق جو ایمان اور عمل صالح کا نام ہے، یعنی اہل ایمان ایک دوسرے کو ان امور کی وصیت کرتے ہیں، ان پر ایک دوسرے کو آمادہ کرتے اور ایک دوسرے کو ترغیب دیتے ہیں۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے کی، اس کی نافرمانی سے باز رہنے کی اور اللہ تعالیٰ کی تکلیف دہ تقدیر پر صبر کرنے کی ایک دوسرے کو تلقین کرنا۔ پہلے دو امور کے ذریعے سے بندہ مومن اپنے آپ کو تکمیل کرتا ہے اور آخری دو امور کے ذریعے سے وہ دوسروں کی تکمیل کرتا ہے ۔ ان چاروں امور کی تکمیل سے بندہ خسارے سے محفوظ رہتا ہے اور بہت بڑا نفع حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے۔ العصر
2 العصر
3 العصر
0 الهمزة
1 ﴿ وَیْلٌ﴾ یعنی وعید، وبال اور سخت عذاب﴿ لِّکُلِّ ہُمَزَۃٍ لُّمَزَۃِ﴾”ہر اس شخص کے لیے جو طعن آمیز اشارے کرنے والا اور عیب جو ہے ۔“ یعنی جو اپنے فعل سے لوگوں کی عیب جوئی کرتا ہے اور اپنے قول سے چغل خوری کرتا ہے۔ ھماز اس شخص کو کہتے ہیں جو لوگوں میں عیب نکالتا ہے ، اپنے فعل اور اشاروں سے طعنہ زنی کرتا ہے۔ لماز اس شخص کو کہتے ہیں جو اپنے قول سے لوگوں کے عیب نکالتا ہے۔ اس طعن آمیز اشارے کرنے والے اور چغل خور کی صفت یہ ہے کہ مال جمع کرنے، اس کو گننے اور اس پر خوش ہونے کے سوا اس کا کوئی مقصد نہیں ، بھلائی کے راستوں میں اور صلہ رحمی کے لیے اس مال کو خرچ کرنے میں اسے کوئی رغبت نہیں۔ الهمزة
2 الهمزة
3 ﴿یَحْسَبُ﴾ اپنی جہالت کی وجہ سے سمجھتا ہے ﴿اَنَّ مَالَہٗٓ اَخْلَدَہٗ﴾ کہ اس کا مال اسے دنیا میں ہمیشہ زندہ رکھے گا، اسی لیے اس کی تمام کدو کاوش اپنا مال بڑھانے میں صرف ہوتی ہے جس کے بارے میں وہ سمجھتا ہے کہ یہ اس کی عمر کو بڑھاتا ہے۔ مگر وہ یہ نہیں جانتا کہ بخل اعمال کو ختم اور شہروں کو برباد کردیتا ہے اور نیکی عمر میں اضافہ کرتی ہے۔ الهمزة
4 ﴿کَلَّا لَیُنْبَذَنَّ﴾ یعن اسے ضرور پھینکا جائے گا ﴿فِی الْحُطَمَۃِ۔ وَمَآ اَدْرٰیکَ مَا الْحُطَمَۃُ﴾ ” حطمہ میں اور آپ کیا سمجھے کہ حطمہ کیا ہے؟ “ یہ اس کی تعظیم اور اس کی ہولناکی کا بیان ہے ،پھر اپنے اس ارشاد سے اس کی تفسیر فرمائی ﴿نار الله الموقدة﴾ ” وہ اللہ کی بھڑکائی ہوئی آگ ہے ۔“ جس کا ایندھن لوگ اور پتھر ہوں گے۔ الهمزة
5 الهمزة
6 الهمزة
7 ﴿الَّتِیْ﴾ جو اپنی شدت کے باعث﴿ تَـطَّلِــعُ عَلَی الْاَفْــِٕدَۃِ﴾ جسموں کو چھیدتی ہوئی دلوں تک جا پہنچے گی۔ اتنی سخت حرارت کے باوجود ، وہ اس آگ میں محبوس ہوں گے ، اس سے باہر نکلنے سے مایوس ہوں گے۔ اس لیے فرمایا : ﴿اِنَّہَا عَلَیْہِمْ مُّؤْصَدَۃٌ﴾یعنی وہ آگ ان پر (ہر طرف سے) بند کردی جائے گی۔ الهمزة
8 الهمزة
9 ﴿فِیْ عَمَدٍ مُّمَدَّدَۃٍ﴾ دروازوں کے پیچھے بڑے بڑے ستونوں میں تاکہ وہ اس سے باہر نہ نکل سکیں۔ ﴿كُلَّمَا أَرَادُوا أَن يَخْرُجُوا مِنْهَا أُعِيدُوا فِيهَا﴾(السجدہ :۳۲؍۲۰) ” جب بھی وہ اس آگ سے نکلنا چاہیں گے، اسی میں لوٹا دیے جائیں گے۔“ ہم اس سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے عفو اور عافیت کا سوال کرتے ہیں۔ الهمزة
0 الفیل
1 کیا آپ نے اللہ تعالیٰ کی قدرت، اس کی عظمت شان اپنے بندوں پر اس کی رحمت ، اس کی توحید کے دلائل اور اس کے رسول محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت کو نہیں دیکھا ،کہ اللہ تعالیٰ نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا؟ جنہوں نے اس کے حرمت والے گھر کے خلاف سازش کی اور اس کو ڈھانے کا ارادہ کیا ۔ پس اس کے لیے انہوں نے خوب تیاری کی اور بیت اللہ کو منہدم کرنے کے لیے انہوں نے اپنے ساتھ ہاتھی بھی لے لیے تھے۔ وہ حبشہ اور یمن سے ایک ایسی فوج لے کرآئے جس کا مقابلہ کرنا عربوں کے بس میں نہ تھا۔ جب وہ مکہ کے قریب پہنچے تو عربوں میں مزاحمت کرنے والا کوئی نہ تھا۔ اہل مکہ ان کے خوف سے مکہ سے نکل گئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر پرندوں کے غول بھیجے، یعنی متفرق غول جو کھنگر کی گرم کنکریاں اٹھائے ہوئے تھے ۔ پس پرندوں نے یہ کنکریاں ان پر پھینکیں اور انہوں نے دور اور نزدیک سب کو نشانہ بنایا اور وہ سب موت کے گھاٹ اتر گئے اور وہ یوں ہوگئے ، جیسے کھایا ہوا بھس۔ اللہ تعالیٰ ان کے شر کے لیے کافی ہوگیا اور اس نے ان کی چال کو انہی پر لوٹا دیا۔ ان کا یہ واقعہ بہت مشہور اور معروف ہے ۔یہ واقعہ اس سال پیش آیا جس سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے۔ پس یہ واقعہ آپ کی دعوت کی بنیاد ور آپ کی رسالت کی دلیل بن گیا ۔ پس اللہ تعالیٰ ہی کی حمد وثنا اور اسی کا شکر ہے۔ الفیل
2 الفیل
3 الفیل
4 الفیل
5 الفیل
0 قریش
1 بہت سے مفسرین نے کہا ہے کہ جار اور مجرور کا تعلق ماقبل سورت سے ہے ، یعنی ہم نے اصحاب فیل کے ساتھ جو کچھ کیا وہ قریش، ان کے لیے امن ، ان کے مصالح کی درستی، تجارت اور کسب معاش کے لیے سردیوں میں یمن کی طرف اور گرمیوں میں شام کی طرف ان کے سفر کی خاطر کیا۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان تمام لوگوں کو ہلاک کردیا جنہوں نے ان کے بارے میں کسی برائی کا ارادہ کیا۔ عربوں کے دلوں میں حرم اور اہل حرم کے معاملے کو تعظیم بخشی، یہاں تک کہ عرب قریش کا احترام کرنے لگے ،قریش جہاں بھی سفر کا ارادہ کرتے تو عرب معترض نہ ہوتے ، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو شکر ادا کرنے کا حکم دیا۔ قریش
2 قریش
3 فرمایا﴿فَلْیَعْبُدُوْا رَبَّ ہٰذَا الْبَیْتِ﴾ ” پس وہ اس گھر کے رب کی عبادت کریں۔“ یعنی اس کی توحید بیان کریں اور اس کے لیے عبادت کو خالص کریں۔ قریش
4 ﴿الَّذِیْٓ اَطْعَمَہُمْ مِّنْ جُوْعٍ ڏ وَّاٰمَنَہُمْ مِّنْ خَوْفٍ﴾ ” جس نے انہیں بھوک میں کھانا دیا اور خوف سے امن وامان دیا ۔“ رزق میں کشادگی ، خوف کے حالات میں امن سے بہرہ مند ہونا سب سے بڑی دنیاوی نعمت ہے جو اللہ کے شکر کی موجب ہے ، اے اللہ ! اپنی ظاہری اور باطنی نعمتوں پر تو ہی ہر قسم کی حمد وثنا اور شکر کا مستحق ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے بیت اللہ کے ساتھ اپنی ربوبیت کو اس کے فضل وشرف کی وجہ سے مخصوص کیا ہے ورنہ تو وہ ہر چیز کارب ہے۔ قریش
0 الماعون
1 اللہ تعالیٰ اس شخص کی مذمت کرتے ہوئے جس نے اس کے اور اس کے بندوں کے حقوق کو ترک کردیا ، فرماتا ہے : ﴿اَرَءَیْتَ الَّذِیْ یُکَذِّبُ بِالدِّیْنِ﴾کیا تو نے اس شخص کو دیکھا جو حیات بعدالموت کو جھٹلاتا ہے اور جو کچھ انبیا ومرسلین لے کرآئے ہیں ان پر ایمان نہیں لاتا؟ الماعون
2 ﴿فَذٰلِکَ الَّذِیْ یَدُعُّ الْیَتِیْمَ﴾ پس یہی وہ شخص ہے جو سخت دلی اور تند خوئی سے یتیم کو دھکے دیتا ہے اور اپنی قساوت قلبی کی بنا پر اس پر رحم نہیں کرتا، نیز اس کا سبب یہ بھی ہے کہ وہ ثواب کی امید رکھتا ہے نہ عذاب سے ڈرتا ہے۔ الماعون
3 ﴿وَلَا یَحُضُّ﴾اور دوسروں کو ترغیب نہیں دیتا ﴿عَلٰی طَعَامِ الْمِسْکِیْنِ﴾ ” مسکین کو کھانے پر۔“ اور وہ خود تو بالاولی مسکین کو کھانا نہیں کھلاتا۔ الماعون
4 ﴿فَوَیْلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَ﴾ہلاکت ہے نماز کا التزا م کرنے و الوں کے لیے مگر وہ ﴿عَنْ صَلَاتِہِمْ سَاہُوْنَ﴾” اپنی نماز سے غافل ہیں۔ “یعنی وہ اپنی نماز کو ضائع کرتے ہیں اس کے وقت مسنون کو ترک کرتے ہیں اور اس کے ارکان کو برے طریقے سے ادا کرتے ہیں اس کا سبب ، اللہ تعالیٰ کے حکم کا عدم اہتمام ہے کہ انہوں نے نماز کو ترک کردیا جو سب سے اہم عبادت ہے۔ نماز سے غفلت ہی ہے جو نمازی کو مذمت اور ملامت کا مستحق بناتی ہے۔ اور رہا نماز کے اندر سہو تو یہ ہر ایک سے واقع ہوجاتا ہے حتیٰ کہ نبی اکرم سے بھی سہو واقع ہوا ہے۔ بنابریں اللہ تعالیٰ نے نماز سے غافل لوگوں کو ریا، قساوت اور بے رحمی جیسے اوصاف سے موصوف کیا ہے۔ الماعون
5 الماعون
6 فرمایا ﴿الَّذِیْنَ ہُمْ یُرَاءُوْنَ﴾یعنی وہ لوگوں کے دکھلاوے کے لیے عمل کرتے ہیں۔ الماعون
7 ﴿وَیَمْنَعُوْنَ الْمَاعُوْنَ﴾ کسی چیز کو عاریتا یا ہبہ کے طور پر عطا کرنے سے جس کے عطا کرنے پر ان کو نقصان نہیں پہنچتا، روکتے ہیں ،مثلا : برتن، ڈول، کلہاڑی وغیرہ جن کو استعمال کے لیے دینے اور ان کے بارے میں فیاضی کرنے کی عام عادت جاری ہے۔ یہ لوگوں کو اپنی شدید حرص کے باعث استعمال کی معمولی اشیا کو دینے سے منع کرتے ہیں، تب ان سے زیادہ بڑی اشیا( لوگوں کو استعمال کے لیے )دیتے وقت ان کا کیا حال ہوگا۔ اس سورہ مبارکہ میں یتیموں اور مساکین کو کھانا کھلانے، نیز نماز کا خیال رکھنے ،اس کی حفاظت کرنے اور نماز اور دیگر تمام اعمال میں اخلاص کو مدنظر رکھنے کی ترغیب دی گئی ہے ۔نیز معروف پر عمل کرنے، معمولی اموال کو استعمال کے لیے عطا کرنے کی ترغیب ہے۔ مثلا : برتن، ڈول، اور کتاب وغیرہ ؛کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس شخص کی مذمت کی ہے جو ایسا نہیں کرتا۔ الماعون
0 الكوثر
1 اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے نبی محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر احسان کرتے ہوئے خطاب فرماتا ہے :﴿اِنَّآ اَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَرَ﴾ یعنی ہم نے آپ کو خیر کثیر اور فضل عظیم عطا کیا۔ منجملہ اس خیر کثیر میں سے جو اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو عطا فرمائے گا ، ایک نہر بھی ہے جس کو (الکوثر) کہا جاتا ہے ، حوض کو ثر کا طول ایک ماہ کی مسافت اور اس کا عرض بھی ایک ماہ کی مسافت ہے ، اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے بڑھ کر میٹھا ہے ، اس کے پینے کے برتن اپنی کثرت اور چمک میں، آسمان کے ستاروں کے مانند ہوں گے ۔ جو کوئی حوض کو ثر سے ایک مرتبہ پانی پی لے گا اس کے بعد اسے کبھی پیاس نہیں لگے گی۔ الكوثر
2 اللہ تعالیٰ نے آپ پر اپنے احسان وعنایت کا ذکر کرنے کے بعد آپ کو اس احسان پر شکر ادا کرنے کا حکم دیا ، چنانچہ فرمایا :﴿فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ﴾ ” پس اپنے رب کے لیے نماز پڑھ اور قربانی کر۔“ اللہ تعالیٰ نے ان دو عبادتوں کا خاص طور پر ذکر فرمایا؛ کیونکہ یہ دونوں افضل ترین عبادات اور تقرب الٰہی کا جلیل ترین ذریعہ ہیں ، نیز ان دونوں کا خاص طور پر ذکر کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے نماز قلب اور جوارح میں خشوع کو متضمن ہے پھر اسے عبادت کی دیگر تمام انواع میں منتقل کردیتی ہے ۔ جانور ذبح کرنے میں یہ حکمت ہے کہ بندے کے پاس جو کچھ ہے اس میں سے افضل ترین چیز قربانی کے ذریعے سے تقرب الٰہی حاصل کرنا اور مال خرچ کرنا ہے جس سے محبت کرنا اور اس میں بخل کرنا نفس انسانی کی جبلت ہے۔ الكوثر
3 ﴿اِنَّ شَانِئَکَ﴾ آپ سے بغض رکھنے والا، آپ کی مذمت اور تنقیص کرنے والا ﴿ہُوَ الْاَبْتَرُ﴾ یعنی وہ ہر بھلائی سے محروم ہے اس کا عمل منقطع ہے اور اس کا ذکر منقطع ہے۔ رہے رسول مصطفیٰ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو حقیقت میں وہی کامل ہیں ، آپ کمال کے اس بلندترین مرتبے پر پہنچے ہوئے ہیں جہاں تک پہنچنا مخلوق میں سے کسی کے لیے ممکن نہیں ، مثلا: رفعت ذکر، کثر ت الانصار اور کثرت متبعین۔ الكوثر
0 الكافرون
1 الكافرون
2 یعنی کفار کو نہایت صراحت کے ساتھ ،آگاہ کرتے ہوئے کہہ دیجئے :﴿لَآ اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَ﴾ ”جن کو تم پوجتے ہو ، میں ان کو نہیں پوجتا۔ “ یعنی آپ کفار کے ان خود ساختہ معبودوں سے براءت کا اظہار کریں جن کی وہ اللہ تعالیٰ کے سوا ظاہر اور باطن میں عبادت کرتے تھے۔ الكافرون
3 ﴿وَلَآ اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَآ اَعْبُدُ﴾ ” اور جس کی میں عبادت کرتا ہوں اس کی تم عبادت نہیں کرتے۔ “ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے لیے تمہاری عبادت میں تمہارا خلاص معدوم ہے ۔اللہ تعالیٰ کے لیے تمہاری عبادت جو شرک سے مقرون ہے، عبادت نہیں کہلا سکتی۔ اس جملے کو مکرر بیان کیا تاکہ اول عدم وجود فعل پر دلالت کرے اور دوسرا اس امر پر دلالت کرے کہ یہ ان کا وصف لازم بن گیا تھا۔ الكافرون
4 الكافرون
5 الكافرون
6 اس لیے اللہ تعالیٰ نے دونوں فریقوں کے درمیان امتیاز اور تفریق کی ہے ۔فرمایا :﴿لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَلِیَ دِیْنِ﴾ ” تم اپنے دین پر اور میں اپنے دین پر۔“ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿قُلْ كُلٌّ يَعْمَلُ عَلَىٰ شَاكِلَتِهِ ﴾ (بنی اسرائیل :۱۷؍۸۴) ” کہہ دیجئے : ہر شخص اپنے اپنے طریقے کے مطابق عمل کرتا ہے۔“ فرمایا: ﴿أَنتُم بَرِيئُونَ مِمَّا أَعْمَلُ وَأَنَا بَرِيءٌ مِّمَّا تَعْمَلُونَ ﴾( یونس: ۱۰؍۴۱) ” جو کچھ میں کرتا ہوں تم اس سے بری ہو اور جو کچھ تم کرتے ہو میں اس سے بری ہوں۔“ الكافرون
0 النصر
1 اس سورۃ کریمہ میں ایک خوش خبری ہے، اس خوش خبری کے حاصل ہوجانے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک حکم ہے ، نیز اس میں اس خوش خبری پر مترتب ہونے والے احوال کی طرف اشارہ اور اس پر تنبیہ ہے ۔خوش خبری اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے نصرت ،فتح مکہ اور لوگوں کے اللہ کے دین میں فوج درفوج داخل ہونے کی ہے ان میں سے بہت لوگ آپ کے دشمن تھے ،اس کے بعد وہی لوگ آپ کے اعوان وانصار ہوں گے اور جس چیز کے بارے میں خوش خبری دی گئی تھی وہ حرف بحرف پوری ہوئی۔ رہافتح ونصرت کے بعد حکم توا للہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ وہ اس فتح ونصرت پر اس کاشکر ادا کریں اس کی حمدوثنا کے ساتھ اس کی تسبیح بیان کریں اور اس سے استغفار کریں۔ رہا اشارہ تو اس میں دو اشارے ہیں۔ اول: دین اسلام دائمی فتح ونصرت سے بہرہ مند رہے گا، اس کے رسول کی طرف سے اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا کے ساتھ تسبیح اور استغفار پر اس نصرت میں اضافہ ہوگا، کیونکہ تسبیح واستغفار ،شکر ہی شمار ہوتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿لَئِن شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ﴾( ابراہیم: ۱۴؍۷) ”اگر تم شکر کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ عطا کروں گا ۔“ اور یہ چیز خلفائے راشدین کے زمانے میں اور ان کے بعد بھی امت کو حاصل ہوئی ۔اللہ تعالیٰ کی نصرت ہمیشہ ہم رکاب رہی یہاں تک کہ اسلام اس مقام پر پہنچ گیا جہاں تمام ادیان میں سے کوئی دین نہیں پہنچ سکا۔ حتیٰ کہ امت سے اللہ تعالیٰ کے احکامات کی مخالفت میں افعال صادر ہونے لگے۔ پس اللہ تعالیٰ نے تفرق کلمہ اور تشتت امر کے ذریعے سے انہیں آزمایا۔ پس پھرجو ہونا تھا ہوا۔ بایں ہمہ اس امت پر اور اس دین پر اللہ تعالیٰ کی بے پایاں رحمت اور اس کالطف وکرم ہے جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا اور نہ خیال کی وہاں تک رسائی ہی ہے۔ دوم: رہا دوسرا اشارہ تو یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی طرف اشارہ ہے کہ آپ کی اجل قریب آگئی ہے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ کی عمر مبارک، فضیلت والی عمر ہے جس کی اللہ تعالیٰ نے قسم کھائی ہے اور اس نے مقرر فرمادیا ہے کہ فضیلت والے امور کا اختتام، استغفار کے ساتھ ہو، مثلا :نماز اور حج وغیرہ۔ پس اللہ تعالیٰ کا اس حال میں آپ کو حمدواستغفار کا حکم دینا اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ آپ کی وفات کا وقت قریب آگیا ہے۔ اب آپ کو اپنے رب کی ملاقات کے لیے مستعد اور تیار رہنا چاہیےاور آپ کو اپنی عمر کا اختتام اس افضل ترین چیز پر کرنا چاہیے جو آپ موجود پاتے ہیں۔ صلوات اللہ وسلامہ علیہ۔ چنانچہ آپ قرآن کی (اس آیت کی )تاویل کرتے ہوئے، اپنی نماز کے اندر رکوع وسجود میں نہایت کثرت سے یہ پڑھا کرتے تھے﴿سبحانک اللھم ربنا وبحمدک اللھم اغفرلی﴾”اے اللہ !اے ہمارے رب ! ہم تیری حمد وثنا کے ساتھ تیری پاکیزگی بیان کرتے ہیں، اے اللہ! مجھے بخش دے۔“ النصر
2 النصر
3 النصر
0 الہب
1 ابولہب، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا چچا تھا، آپ سے شدید عدوات رکھتا تھا اور آپ کو سخت اذیت پہنچاتا تھا ،اس میں کوئی دین کی رمق تھی نہ قرابت کی حمیت۔ اللہ تعالیٰ اس کا برا کرے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس ذم عظیم کے ذریعے سے اس کی مذمت بیان فرمائی جو قیامت کے دن تک اس کے لیے رسوائی ہے۔چنانچہ فرمایا: ﴿تَبَّتْ یَدَآ اَبِیْ لَہَبٍ﴾یعنی اس کے دونوں ہاتھ ہلاک ہوگئے اور وہ بدبختی میں پڑگیا﴿ وَّتَبَّ﴾ اس نے نفع حاصل نہ کیا۔ الہب
2 ﴿مَآ اَغْنٰی عَنْہُ مَالُہٗ﴾ وہ مال اس کے کسی کام نہ آیا جو اس کے پاس تھا اور اس مال نے اسے سرکش بنادیا تھا اور جو مال اس نے کمایا تھا جب اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہوا تو وہ اس عذاب کو کچھ بھی دور نہ کرسکا۔ الہب
3 ﴿سَیَصْلٰی نَارًا ذَاتَ لَہَبٍ﴾” وہ جلد بھڑکتی ہوئی آگ میں داخل ہوگا۔“ یعنی آگ اسے ہر جانب سے گھیر لے گی۔ الہب
4 ﴿ وَّامْرَاَتُہٗ حَمَّالَۃَ الْحَطَبِ﴾ ” اور اس کی بیوی بھی جو ایندھن اٹھانے والی ہے ۔“ اس کی بیوی بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت اذیت پہنچاتی تھی ،میاں بیوی دونوں گناہ اور ظلم پر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے تھے ،وہ تکلیف پہنچاتی تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیت پہنچانے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتی تھی۔ اس کی پیٹھ پر بوجھ لاد دیا جائے گا اس شخص کے مانند جو ایندھن اکٹھا کرتا ہے ۔ اس کی گردن میں ڈالنے کے لیے ایک رسی تیار کی گئی ہے۔ ﴿ مِّن مَّسَدٍ﴾ ”مونج کی۔ “ یعنی کھجور کے پتوں کے ریشے سے بٹی ہوئی۔ یا اس کے معنی یہ ہیں کہ (جہنم میں ) وہ ایندھن اٹھا اٹھا کر اپنے شوہر پر ڈالے گی اور اس کے گلے میں کھجور کے پتوں کے ریشوں سے بٹی ہوئی رسی بندھی ہوئی ہوگی ۔ دونوں معنوں کے مطابق اس سورۃ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک بہت بڑی نشانی ہے؛ کیونکہ یہ سورۃ کریمہ اس وقت نازل ہوئی جب ابولہب اور اس کی بیوی ابھی ہلاک نہیں ہوئے تھے ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے خبر دی کہ عنقریب انہیں جہنم میں عذاب دیا جائے گا ۔ اس سے یہ لازم آتا ہے کہ یہ دونوں ایمان نہیں لائیں گے ۔پس یہ اس طرح واقع ہوا جس طرح عالم الغیب والشہادۃ نے خبر دی تھی۔ الہب
5 الہب
0 الاخلاص
1 ﴿قُلْ﴾ یعنی اس حقیقت پر اعتقاد رکھتے ہوئے اور اس کے معنی کو جانتے ہوئے حتمی طور پر کہہ دیجئے : ﴿ ہُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ﴾ وہ اللہ ایک ہی ہے ، یعنی وحدانیت اس کی ذات میں منحصر ہے۔ وہ ہر قسم کے کمال میں احد اور منفرد ہے جو اسمائے حسنیٰ صفات کاملہ وعالیہ افعال مقدسہ کا مالک ہے جس کی کوئی نظیر ہے نہ مثیل۔ الاخلاص
2 ﴿اَللّٰہُ الصَّمَدُ﴾ ”اللہ بے نیاز ہے۔ “ یعنی تمام حوائج میں وہی مقصود ہے ۔عالم بالا اور عالم سفلی کے رہنے والے سب اس کے انتہائی محتاج ہیں ، اسی سے اپنی حاجتوں کا سوال کرتے ہیں اپنے اہم امور میں اسی کی طرف راغب ہوتے ہیں ؛کیونکہ وہ اپنے اوصاف میں کامل ہے، وہ علیم ہے جو اپنے علم میں کامل ہے ،حلیم ہے جو اپنے حلم میں کامل اور رحیم ہے جس کی رحمت ہر چیز پر سایہ کناں ہے۔ اس طرح وہ اپنے تمام اوصاف میں کامل ہے ۔یہ اس کا کمال ہے کہ ﴿لَمْ یَلِدْ ڏ وَلَمْ یُوْلَدْ﴾ اس نے کسی کو جنم دیا ہے نہ اسے کسی نے جنم دیا ہے کیونکہ وہ کامل طور پر غنی ہے۔ الاخلاص
3 الاخلاص
4 ﴿وَلَمْ یَکُنْ لَّہٗ کُفُوًا اَحَدٌ﴾ اس کے اسما میں نہ اس کی صفات میں اور نہ اس کے افعال میں کوئی اس کا ہم سر ہے ۔اس کی ذات بابرکت اور بہت بلند ہے ۔ یہ سورۃ کریمہ توحید اسما وصفات پر مشتمل ہے۔ الاخلاص
0 الفلق
1 ﴿قُلْ﴾ یعنی آپ اللہ کی پناہ مانگنے کے لیے کہیے: ﴿اَعُوْذُ﴾ میں پناہ ڈھونڈ تا ہوں اور اپنا بچاؤ تلاش کرتا ہوں۔ ﴿ بِرَبِّ الْفَلَقِ﴾ ”رب فلق کے ذریعے سے۔“ یعنی جو دانے اور گھٹلی کو پھاڑتا ہے اور صبح کو نمودار کرتا ہے۔ الفلق
2 ﴿مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ﴾ ” ہر چیز کے شر سے جو اس نے بنائی۔ “ یہ اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوق، انسان، جنات اور حیوانات سب کو شامل ہے۔ پس ان تمام مخلوقات کے اندر موجود شر سے ،ان کو پیدا کرنے والے کی پناہ مانگی جاتی ہے، پھر اللہ تعالیٰ نے عام چیزوں کا ذکر کرنے کے بعد خاص چیزوں کا ذکر کیا۔ الفلق
3 فرمایا :﴿وَمِنْ شَرِّ غَاسِقٍ اِذَا وَقَبَ﴾ ” اور شب تاریک کی برائی سے جب اس کا اندھیرا چھا جائے ۔“ یعنی میں اس شر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتا ہوں جو رات کے اندر ہوتا ہے ، جب وہ لوگوں پر چھا جاتا ہے اور اس میں بہت سی شریر ارواح اور موذی حیوانات پھیل جاتے ہیں۔ الفلق
4 ﴿وَمِنْ شَرِّ النَّفّٰثٰتِ فِی الْعُقَدِ﴾یعنی جادو کرنے والی عورتوں کے شر سے جو اپنے جادو میں گرہوں میں پھونکوں سے کام لیتی ہیں جن کو وہ جادو کے لیے باندھتی ہیں۔ الفلق
5 ﴿وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَدَ﴾ ” اور حاسد کے شر سے جب وہ حسد کرے۔“ حاسد وہ ہے جو محسود کی نعمت کا زوال چاہتا ہے اور ان تمام اسباب کے ذریعے سے جن پر وہ قادر ہے، اس نعمت کے زوال کے لیے کوشاں رہتا ہے تب اس کے شر سے بچنے اور اس کے مکروفریب کے ابطال کے لیے ، اللہ تعالیٰ کی پناہ کی حاجت ہوتی ہے ۔نظر لگانے والا بھی حاسد ہی شمار ہوتا ہے ؛کیونکہ نظر بد صرف حاسد، شریر الطبع اور خبیث النفس شخص ہی سے صادر ہوتی ہے۔ یہ سورۃ کریمہ، عام طور پر اور خاص طور پر ، شر کی تمام انواع سے استعاذہ کو متضمن ہے ،نیز اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جادو کی حقیقت ہے ، اس کے ضرر سے ڈرا جاتا ہے اور اس سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگی جاتی ہے۔ الفلق
0 الناس
1 یہ سورۃ مبارکہ، لوگوں کے رب ، ان کے مالک اور ان کے معبود کے پاس ،شیطان سے پناہ ہے جو تمام برائیوں کی جڑ اور ان کا مادہ ہے جس کا فتنہ اور شریہ ہے کہ وہ لوگوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالتا ہے ان کے سامنے شر کی تحسین کرتا ہے۔ برائی کو انتہائی خوبصورت بنا کر ان کے سامنے پیش کرتا ہے اور برائی کے ارتکاب کے لیے ان کے اندر نشاط پیدا کرتا ہے ۔ وہ انہیں بھلائی سے باز رکھتا ہے اور اس کو کسی اور ہی صورت میں ان کے سامنے پیش کرتا ہے ۔اور وہ ہمیشہ اسی حال میں رہتا ہے کہ وہ وسوسہ ڈالتا ہے اور پیچھے ہٹ جاتا ہے ،یعنی جب بندہ مومن اپنے رب کو یاد کرتا ہے اور اس کو دفع کرنے کے لیے اپنے رب کی مدد چاہتا ہے تو یہ پیچھے ہٹ جاتا ہے۔ بندے کے لیے مناسب یہی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کے ذریعے سے جو تمام لوگوں کے لیے عام ہے ، مدد طلب کرے، اس کی پناہ مانگے اور اسی کی پناہ میں آ کر اپنا بچاؤ کرے۔ تمام مخلوق اس کی ربوبیت اور بادشاہی کے تحت ہے، وہ ہر جان دار کی پیشانی کو پکڑے ہوئے ہے۔ نیز وہ اس کی الوہیت کی پناہ حاصل کرے جس کی بنا پر اس نے ان سب کو تخلیق کیا اور ان کے لیے یہ اس وقت تک مکمل نہیں ہوتی جب تک ان کے دشمن کا شر دفع نہ کیا جائے جو انہیں اس کے راستے سے ہٹانا چاہتا ہے، وہ اس کے اور ان کے درمیان حائل ہونا چاہتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ وہ ان کو اپنے گروہ میں شامل کرلے تاکہ وہ بھی جہنمی بن جائیں۔ وسوسہ جس طرح جنات کی طرف سے ہوتا ہے، اسی طرح انسانوں کی طرف سے بھی ہوسکتا ہے ،اس لیے فرمایا :﴿مِنَ الْجِنَّۃِ وَالنَّاسِ﴾وسوسہ ڈالنے والا ،خواہ جنوں میں سے ہو یا انسانوں میں سے۔ والحمدللہ رب العالمین اولا آخرا ظاھرا وباطنا۔ ہم اللہ تعالیٰ سے سوال کرتے ہیں کہ وہ اپنی نعمتوں کا اتمام کرے ، ہمارے گناہوں کو بخش دے جو ہمارے اس کی بہت سی برکات کے درمیان حائل ہیں ۔ وہ ہماری خطاوں اور شہوات کو معاف کردے جنہوں نے ہماری عقلوں کو اس کی آیات میں تدبر وتفکر سے عاری کردیا ہے ۔ ہم امید کرتے ہیں اور توقع رکھتے ہیں کہ ہمارے دمن میں جو برائیاں ہیں ان کے بدلے میں وہ ہمیں اپنی بھلائی سے محروم نہیں کرے گا ۔پس اللہ تعالیٰ کی رحمت سے صرف کافر ہی مایوس اور ان کی رحمت سے صرف گمراہ ہی ناامید ہوتے ہیں۔ وصلی اللہ تعالیٰ علی رسولہ محمد وعلی آلہ وصحبہ اجمعین۔ صلوۃ وسلاما دائمین متواصلین أبد الاوقات والحمد للہ الذی بنعمتہ تتم الصالحات۔ کتاب اللہ کی تفسیر اس کی مدد اور توفیق سے اس کے مرتب اور کاتب عبدالرحمن بن ناصر بن عبداللہ المعروف بہ ”ابن سعدی “ کے ہاتھوں مکمل ہوئی۔ اللہ تعالیٰ اس کی ،اس کے والدین کی اور تمام مسلمانوں کی مغفرت فرمائے۔ اور اس کی ترتیب یکم ربیع الاول ١٣٤٤ ھ میں اور اس کی نقل شعبان ١٣٤٥ ھ میں مکمل ہوئی۔( ربنا تقبل منا واعف عنا انک انت الغفور الرحیم اس کے ساتھ ہی تفسیر سعدی﴿تیسرالکریم الرحمن فی تفسیر کلام المنان ﴾ کا اردو ترجمہ مکمل ہوا۔ الحمدللہ الذی ھدانا لھذا وماکنا لنتھتدی لو لا ان ھدانااللہ۔ وصلی اللہ علی رسولہ محمد الکریم والہ واصحابہ اجمعین۔ الناس
2 الناس
3 الناس
4 الناس
5 الناس
6 الناس
Flag Counter