آیت نمبر | ترجمہ | سورہ نام |
1 |
یعنی میں اللہ تعالیٰ کے ہر نام سے ابتدا کرتا ہوں کیونکہ لفظ ” اسم“ مفرد اور مضاف ہے جو تمام اسمائے حسنی کو شامل ہے۔ ﴿اللّٰہ﴾ وہ ذات ہے جو بندگی کے قابل اور معبود ہے، وہ اکیلا ہی عبادت کا مستحق ہے کیونکہ وہ الوہیت کی صفات سے متصف ہے اور وہ صفات کمال ہیں۔
﴿الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ﴾ دو نام ہیں جو اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ بے پایاں اور عظیم رحمت کا مالک ہے۔ اس کی رحمت ہر چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے اور ہر زندہ چیز کے لئے عام ہے اور اللہ تعالیٰ نے اصحاب تقویٰ اور اپنے انبیاء و رسل کے پیروکاروں کے لئے اس رحمت کو لازم کردیا ہے۔ پس یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے رحمت مطلقہ ہے اور ان کے علاوہ دیگر لوگوں کے لیے اس کی رحمت میں سے کچھ حصہ ہے۔
معلوم ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات اور احکام صفات پر ایمان لانا ایمانیات کے ان قواعد میں شمار ہوتا ہے جن پر تمام سلف اور ائمہ امت متفق ہیں، مثلاً وہ ایمان رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ رحمٰن ہے، رحیم ہے اور رحمت کا مالک ہے جس سے وہ متصف ہے اور اس کا تعلق ان لوگوں سے ہے جن پر رحم کیا جاتا ہے۔ پس تمام نعمتیں اللہ تعالیٰ کی رحمت کے آثار ہیں اور یہی اصول تمام اسمائے حسنیٰ میں جاری ہے جیسے (الْعَلِيمُ) کے بارے میں کہا جائے گا کہ اللہ تعالیٰ علیم اور صاحب علم ہےاور اس علم کے ذریعے سے ہر چیز کو جانتا ہے۔ وہ (قَدِیْر) یعنی صاحب قدرت ہے، ہر چیز پر قادر ہے۔ |
الفاتحة |
2 |
﴿الْحَمْدُ لِلَّـهِ﴾ یہ اللہ تعالیٰ کی صفات کمال اور اس کے ان افعال کی ثنا ہے جو فضل و عدل کے درمیان دائر ہیں۔ پس ہر پہلو سے کامل حمد کا مالک وہی ہے۔ ﴿رَبِّ الْعَالَمِينَ﴾ ” جہانوں کا پروردگار ہے۔“ (رَبِّ) وہ ہستی ہے جو تمام جہانوں کی مربی ہے۔ (اَلْعَالَمِينَ) سے مراد اللہ تعالیٰ کے سوا تمام مخلوق ہے۔ اس نے ان کو پیدا کیا، ان کے لئے ان کی زندگی کا سروسامان مہیا کیا اور پھر انہیں اپنی ان عظیم نعمتوں سے نوازا کہ اگر وہ نہ ہوتیں تو ان کے لئے زندہ رہنا ممکن نہ ہوتا۔ پس مخلوق کے پاس جو بھی نعمت ہے وہ اللہ تعالیٰ ہی کی عطا کردہ ہے۔
مخلوق کے لئے اللہ تعالیٰ کی تربیت (پرورش کرنے) کی دو قسمیں ہیں۔ (١) تربیت عامہ (2) تربیت خاصہ۔ تربیت عامہ سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوق کو پیدا کیا، ان کو رزق بہم پہنچایا اور ان مفادات و مصالح کی طرف ان کی راہ نمائی کی جن میں ان کی دنیاوی زندگی کی بقا ہے۔ تربیت خاصہ وہ تربیت ہے جو اس کے اولیا کے لئے مخصوص ہے پس وہ ایمان کے ذریعے سے ان کی تربیت کرتا ہے، انہیں ایمان کی توفیق سے نوازتا اور ان کی تکمیل کرتا ہے وہ ان سے ان تمام امور کو دور کرتا ہے جو راہ حق پر چلنے سے انہیں باز رکھتے ہیں اور ان تمام رکاوٹوں کو ہٹاتا ہے جو ان کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان حائل ہوتی ہیں۔
تربیت خاصہ کی حقیقت یہ ہے کہ اس سے ہر بھلائی کی توفیق ملتی اور ہر برائی سے حفاظت نصیب ہوتی ہے۔ شاید یہی معنی انبیائے کرام علیہ السلام کی دعاؤں کا سرنہاں ہے کہ ان میں اکثر ” رب“ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے کیونکہ انبیائے کرام کی فریادیں تمام کی تمام اللہ تعالیٰ کی ربوبیت خاصہ کے تحت آتی ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿رَبُّ العٰلَمِیْنَ﴾ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے جس نے تمام مخلوق کو تخلیق کیا ہے۔ وہ اکیلا ہی ان کی تدبیر کرتا ہے اور اسے کمال بے نیازی حاصل ہے اور تمام عالم ہر پہلو اور ہر اعتبار سے اس کا محتاج ہے۔ |
الفاتحة |
3 |
﴿الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ﴾ دو نام ہیں جو اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ بے پایاں اور عظیم رحمت کا مالک ہے۔ اس کی رحمت ہر چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے اور ہر زندہ چیز کے لئے عام ہے اور اللہ تعالیٰ نے اصحاب تقویٰ اور اپنے انبیاء و رسل کے پیروکاروں کے لئے اس رحمت کو لازم کردیا ہے۔ پس یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے رحمت مطلقہ ہے اور ان کے علاوہ دیگر لوگوں کے لیے اس کی رحمت میں سے کچھ حصہ ہے۔
معلوم ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات اور احکام صفات پر ایمان لانا ایمانیات کے ان قواعد میں شمار ہوتا ہے جن پر تمام سلف اور ائمہ امت متفق ہیں، مثلاً وہ ایمان رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ رحمٰن ہے، رحیم ہے اور رحمت کا مالک ہے جس سے وہ متصف ہے اور اس کا تعلق ان لوگوں سے ہے جن پر رحم کیا جاتا ہے۔ پس تمام نعمتیں اللہ تعالیٰ کی رحمت کے آثار ہیں اور یہی اصول تمام اسمائے حسنیٰ میں جاری ہے جیسے (الْعَلِيمُ) کے بارے میں کہا جائے گا کہ اللہ تعالیٰ علیم اور صاحب علم ہےاور اس علم کے ذریعے سے ہر چیز کو جانتا ہے۔ وہ (قَدِیْر) یعنی صاحب قدرت ہے، ہر چیز پر قادر ہے۔ |
الفاتحة |
4 |
﴿مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ﴾ ” وہ جزا کے دن کا مالک ہے“ (اَلْمَالِک) وہ ہستی ہے جو ملک کی صفت سے متصف ہو۔ جس کے آثار یہ ہیں کہ وہ ہستی حکم دیتی ہے اور روکتی ہے، نیکی پر ثواب عطا کرتی ہے اور گناہوں پر سزا دیتی ہے، وہ اپنی مملوکات میں ہر قسم کا تصرف کرتی ہے اور اس کی ملکیت کی اقسام میں سے ایک جزا کا دن بھی ہے اور وہ قیامت کا دن ہے۔ جس دن لوگوں کو ان کے اچھے یا برے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا۔ اس لئے اس روز اللہ تعالیٰ کی ملکیت کاملہ اور اس کا عدل اور حکمت مخلوق پر بالکل ظاہر ہوجائے گی اور یہ بھی واضح ہوجائے گا کہ مخلوق کے اختیارات میں کچھ نہیں ہے، حتی کہ اس دن بادشاہ اور رعایا، غلام اور آزاد سب برابر ہوں گے۔ اس روز تمام مخلوق اس کی عظمت و عزت کے سامنے سرنگوں اور سرافگندہ ہوگی۔ تمام لوگ اس کی جزا و سزا کے فیصلے کے منتظر ہوں گے، اس کے ثواب کے امیدوار اور اس کی سزا سے خائف ہوں گے۔ اسی بنا پر اس نے خاص طور پر اس دن کی ملکیت کا ذکر کیا ہے ورنہ قیامت کے دن اور دیگر دنوں کا وہی مالک ہے۔ |
الفاتحة |
5 |
﴿إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ﴾ ” ہم تیری ہی عبادت کرتے اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں“ یعنی تجھ اکیلے ہی کو ہم عبادت اور استعانت کے لئے مخصوص کرتے ہیں کیونکہ (نحوی قاعدے کے مطابق) معمول کا اپنے عامل سے پہلے آنا حصر کے معنی پیدا کرتا ہے اور حصر سے مراد صرف مذکور کے لئے حکم کا اثبات اور اس کے سوا کسی اور کے لئے اس حکم کی نفی کرنا ہے۔ گویا بندہ کہتا ہے :
” ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تیرے سوا کسی کی عبادت نہیں کرتے اور صرف تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں اور تیرے سوا کسی سے مدد کے طلب گار نہیں ہوتے۔ “
عبادت کو استعانت پر مقدم کرنا عام کو خاص پر مقدم کرنے کی نوع میں سے ہے نیز اللہ تعالیٰ کے حق کو گندے کے حق کو بندے کے حق پر مقدم کرنے کا اہتمام ہے۔” عبادت“ ایک ایسا اسم ہے جو ان تمام ظاہری اور باطنی اعمال و اقوال کا جامع ہے جن کو اللہ پسند کرتا ہے اور جن سے وہ راضی ہوتا ہے۔
(اِسْتِعَانَۃ) کا مطلب، جلب منفعت اور دفع ضرر کے حصول میں پورے وثوق کے ساتھ اللہ تعالیٰ پر اعتماد اور بھروسہ کرنا ہے۔
اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کے قیام، منافع کے حصول اور نقصان کے ازالے میں صرف اسی سے مدد کا طلبگار ہونا ابدی سعادت کا وسیلہ اور تمام برائیوں سے نجات کا ذریعہ ہے۔ پس نجات کا راستہ یہی ہے کہ عبادت بھی صرف ایک اللہ کی کی جائے اور مدد بھی صرف اسی سے مانگی جائے۔
اور عبادت اس وقت تک عبادت نہیں جب تک کہ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حاصل نہ کیا گیا ہو اور اس سے مقصود اللہ تعالیٰ کی رضا نہ ہو۔ ان دو امور کے وجود سے عبادت متحقق ہوتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ” استعانت“ کو ” عبادت“ کے بعد ذکر کیا ہے حالانکہ استعانت عبادت میں داخل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بندہ اپنی تمام عبادات میں اللہ تعالیٰ کی مدد کا محتاج ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی مدد نہ فرمائے تو بندہ اللہ تعالیٰ کے او امر پر عمل اور اس کی منہیات سے اجتناب نہیں کرسکتا۔ |
الفاتحة |
6 |
پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ﴾ یعنی سیدھے راستے کی طرف ہماری راہ نمائی فرما اور سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق سے ہمیں نواز۔
(صراط مستقیم) سے مراد وہ واضح راستہ ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کی جنت تک پہنچاتا ہے۔ یہ معرفت حق اور اس پر عمل پیرا ہونے کا نام ہے۔ پس اس راستے کی طرف راہ نمائی فرما اور اس راستے میں ہمیں اپنی راہ نمائی سے نواز۔
صرف مستقیم کی طرف راہنمائی کا مطلب، دین اسلام کو اختیار کرنا اور اسلام کے سوا دیگر تمام ادیان کا ترک کردینا ہے اور صراط مستقیم میں راہنمائی سے نوازنے کے معنی یہ ہیں کہ تمام دینی معاملات میں علم و عمل کے اعتبار سے ہماری صحیح اور مکمل راہنمائی فرما، لہٰذا یہ دعا سب سے زیادہ جامع اور بندہ مومن کے لئے سب سے زیادہ فائدہ مند ہے۔ بنابریں انسان پر واجب ہے کہ وہ اپنی نماز کی ہر رکعت میں اس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ سے دعا کرے کیونکہ وہ اس کا ضرورت مند ہے۔
یہ صراط مستقیم نبیوں، صدیقوں، شہیدوں اور صالحین کا راستہ ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمتوں سے سرفراز فرمایا یہ ﴿الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ﴾ لوگوں کا راستہ نہیں جن پر غضب نازل ہوا، جنہوں نے حق کو پہچان کر بھی اسے ترک کردیا مثلاً یہود وغیرہ۔ اور نہ یہ ﴿الضَّالِّينَ ﴾ یعنی گمراہ لوگوں کا راستہ ہے جنہوں نے نصاریٰ کی مانند حق کو ترک کر کے جہالت اور گمراہی کو اختیار کیا۔ پس یہ سورت اپنے ایجاز و اختصار کے باوجود ایسے مضامین پر مشتمل ہے جو قرآن مجید کی کسی اور سورت میں نہیں پائے جاتے۔ سورۃ فاتحہ توحید کی اقسام ثلاثہ کو متضمن ہے۔
١۔ توحید ربوبیت : اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿رَبِّ الْعَالَمِينَ﴾ سے ماخوذ ہے۔
2۔ توحید الوہیت : یعنی صرف اللہ تعالیٰ ہی کو عبادت کا مستحق سمجھنا۔ لفظ ” اللہ“ اور اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ﴾ سے ماخوذ ہے۔
٣۔ توحید اسماء و صفات : توحید اسماء و صفات سے مراد ہے کہ بغیر کسی تعطیل، تمثیل اور تشبیہ کے اللہ تعالیٰ کے لئے ان صفات کمال کا اثبات کرنا جن کو خود اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے لئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے لئے ثابت کیا ہے اور اس پر لفظ (الحمد) دلالت کرتا ہے۔ جیسا کہ گزشتہ صفحات میں اس کا ذکر گزر چکا ہے۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ﴾ اثبات نبوت کو متضمن ہے کیونکہ سیدھے راستے کی طرف راہنمائی نبوت و رسالت کے بغیر ناممکن ہے۔
اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ﴾ سے اعمال کی جزا و سزا ثابت ہوتی ہے نیز یہ جزا اور سزا عدل و انصاف سے ہوگی کیونکہ ” دین“ کے معنی ہیں عدل کے ساتھ بدلہ دینا۔
اور سورۃ فاتحہ تقدیر کے اثبات کو بھی متضمن ہے نیز اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ بندہ ہی درحقیقت فاعل ہے۔ قدر یہ اور جبر یہ کے نظریات کے برعکس، بلکہ ﴿اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ﴾ تمام اہل بدعت و ضلالت کی تردید کو متضمن ہے، کیونکہ صراط مستقیم سے مراد حق کی معرفت اور اس پر عمل پیرا ہونا ہے اور بدعتی اور گمراہ شخص ہمیشہ حق کا مخالف ہوتا ہے۔
﴿إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ﴾اس بات کو متضمن ہے کہ دین کو اللہ کے لئے خالص رکھا جائے، چاہے اس کا تعلق عبادات سے ہو یا استغانت سے۔ فالحمد للّٰہ رب العالمین |
الفاتحة |
7 |
|
الفاتحة |
0 |
بسم اللہ کی تفسیر گزشتہ صفحات میں گزر چکی ہے۔ |
البقرة |
1 |
بعض سورتوں کی ابتدا میں جو حروف مقطعات آئے ہیں ان کے بارے میں محتاط اور محفوظ مسلک یہ ہے کہ بغیر کسی شرعی دلیل کے ان کے معانی معلوم کرنے کے لئے تعرض نہ کیا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ عقیدہ بھی رکھا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے حروف مقطعات کو بے فائدہ نازل نہیں فرمایا بلکہ ان کے نازل کرنے میں کوئی حکمت پنہاں ہے جو ہمارے علم کی دسترس سے باہر ہے۔ |
البقرة |
2 |
﴿ذٰلِكَ الْكِتَابُ﴾ یعنی یہ کتاب عظیم ہی درحقیقت کتاب کہلانے کی مستحق ہے جو بہت بڑے علم اور واضح حق جیسے امور پر مشتمل ہے جو پہلے انبیاء کی کتابوں میں نہیں ہیں۔ ﴿لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ﴾ یہ ایک ایسی کتاب ہے کہ کسی بھی پہلو سے اس میں کوئی شک نہیں۔ اس کتاب عظیم کے بارے میں شک و شبہ کی نفی اس کی ضد کو مستلزم ہے، جبکہ شک و شبہ کی ضدیقین ہے۔ پس یہ کتاب ایسے علم یقینی پر مشتمل ہے جو شکوک و شبہات کو زائل کرنے والا ہے یہ ایک نہایت مفید قاعدہ ہے کہ نفی سے مقصود مدح ہے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ یہ اس کی ضد کو متضمن ہو اور وہ ہے کمال۔ کیونکہ نفی عدم محض ہوتی ہے اور عدم محض میں کوئی مدح نہیں ہے۔ جب یہ کتاب عظیم یقین پر مشتمل ہے اور ہدایت صرف یقین ہی کے ذریعے سے حاصل ہوتی ہے تو فرمایا : ﴿هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ﴾ ” متقیوں کے لئے ہدایت ہے۔“ (اَلْهُدٰي) وہ چیز ہے جس کے ذریعے سے گمراہی اور شبہات کی تاریکی میں راہ نمائی حاصل ہو اور جو فائدہ مند راستوں پر گامزن ہونے میں راہنمائی کرے اور اللہ تعالیٰ نے لفظ ﴿ هُدًى ﴾ استعمال کیا ہے اور اس میں معمول کو حذف کردیا گیا ہے اور یہ نہیں کہا کہ فلاں مصلحت اور فلاں چیز کی طرف راہنمائی (ہدایت) ہے۔ کیونکہ اس سے عموم مراد ہے اور اس کے معنی یہ ہیں کہ یہ کتاب دنیا و آخرت کے تمام مصالح کی طرف راہنمائی ہے، لہٰذا یہ تمام اصولی اور فروعی مسائل میں بندوں کی راہنما ہے، باطل میں سے حق کو اور ضعیف میں سے صحیح کو واضح کرتی ہے، نیز بندوں کے سامنے بیان کرتی ہے کہ دنیا و آخرت کے لئے فائدہ مند راستوں پر انہیں کیسے چلنا چاہئے۔ ایک دوسرے مقام پر ﴿هُدًي لِّلنَّاسِ﴾ (البقرہ : 2؍581) ” تمام لوگوں کے لئے ہدایت ہے“ فرما کر اس کو عام کردیا۔
اس مقام پر اور بعض دیگر مقامات پر فرمایا : ﴿هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ﴾ کیونکہ یہ فی نفسہ تمام لوگوں کے لئے ہدایت ہے، لیکن چونکہ بدبخت لوگ اس کی طرف توجہ نہیں کرتے اور اللہ تعالیٰ کی راہ نمائی قبول نہیں کرتے، اس لئے اس کے ذریعے سے ان پر حجت قائم ہوگئی ہے کہ انہوں نے اپنی بدبختی کے سبب سے اس ہدایت سے فائدہ نہیں اٹھایا۔ رہے متقی لوگ تو انہوں نے حصول ہدایت کے لئے سب سے بڑا سبب پیش کیا ہے اور وہ ہے تقویٰ اور تقویٰ کے معنی ہیں اللہ تعالیٰ کے اوامر کی اطاعت اور اس کی منہیات سے اجتناب کرتے ہوئے ایسے امور کو اختیار کرنا جو بندے کو اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور اس کے عذاب سے بچاتے ہیں۔ پس اہل تقویٰ نے اس کتاب کے ذریعے سے راہ پائی اور اس سے بے انتہا فائدہ اٹھایا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن تَتَّقُوا اللَّـهَ يَجْعَل لَّكُمْ فُرْقَانًا﴾ (الانفال ٨؍٩2) ” اے ایمان والو ! اگر تم اللہ سے ڈرو گے تو وہ تمہارے لئے ایک کسوٹی بہم پہنچا دے گا۔“ پس اصحاب تقویٰ ہی آیات قرآنیہ (احکام الٰہیہ) اور آیات کونیہ (قدرت کی نشانیوں) سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔
اس لئے کہ ہدایت کی دو قسمیں ہیں : (١) ہدایت بیان (2) ہدایت توفیق۔
متقی لوگ ہدایت کی دونوں اقسام سے بہرہ مند ہوتے ہیں ان کے علاوہ دیگر لوگ ہدایت توفیق سے محروم رہتے ہیں اور ہدایت بیان، توفیق عمل کی ہدایت کے بغیر، حقیقی اور کامل ہدایت نہیں۔
اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اصحاب تقویٰ کے عقائد، اعمال باطنہ اور اعمال ظاہرہ کا بیان فرمایا ہے، کیونکہ تقویٰ ان امور کو متضمن ہے۔ |
البقرة |
3 |
فرمایا : ﴿الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ﴾ ” وہ لوگ جو غیب کی باتوں پر یقین رکھتے ہیں“ حقیقتِ ایمان ان امور کی کامل تصدیق کا نام ہے جن کی خبر انبیاء و رسل نے دی ہے یہ تصدیق جو ارح کی اطاعت کو متضمن ہے۔ اشیاء کے حسی مشاہدہ سے ایمان کا کوئی تعلق نہیں کیونکہ اس کے ذریعے سے مسلمان اور کافر کے درمیان امتیاز نہیں کیا جاسکتا۔ ایمان کا تعلق تو اس غیب سے ہے جسے ہم دیکھ سکتے ہیں نہ اس کا مشاہدہ ہی کرسکتے ہیں۔ محض اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے خبر دینے سے ہم اس پر ایمان لاتے ہیں۔ یہی وہ ایمان ہے جس کے ذریعے سے مسلمان اور کافر کے درمیان امتیاز کیا جاتا ہے کیونکہ یہ ایمان مجرد اللہ اور اس کے انبیاء و مرسلین کی تصدیق ہے۔ پس مومن وہ ہے جو ہر اس چیز پر ایمان لاتا ہے جس کی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں نے خبر دی ہے خواہ اس نے اس چیز کا مشاہدہ کیا ہو یا نہ کیا ہو خواہ اس نے اسے سمجھا ہو یا اس کی عقل و فہم کی رسائی وہاں تک نہ ہوسکی ہے۔
زنا دقہ اور امور غیب کی تکذیب کرنے والوں کا معاملہ اس کے برعکس ہے کیونکہ ان کی عقل ان امور کو سمجھنے سے قاصر رہی اور وہ ان امور تک نہ پہنچ سکے بنا بریں انہوں نے ان امور کو جھٹلا دیا جن کا احاطہ ان کا علم نہ کرسکا۔ پس ان کی عقل فاسد ہوگئی اور ان کا فہم خرابی کا شکار ہوگیا اور امور غیب کی تصدیق کرنے والے اہل ایمان کی عقل اور بڑھ گئی جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی ہدایت کو راہنما بنا لیا۔
ایمان بالغیب سے مراد ان تمام امور غیب پر ایمان لانا ہے جن کا تعلق ماضی، مستقبل، احول آخرت، اللہ تعالیٰ کی صفات اور انکی کیفیات سے ہے اور جن کی خبر اللہ تعالیٰ اور اس کے انبیاء و مرسلین نے دی ہے۔ پس اہل ایمان نہایت یقین کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی صفات اور ان کے وجود پر ایمان رکھتے ہیں اگرچہ وہ ان کی کیفیت کو سمجھنے سے قاصر رہیں۔
﴿وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ﴾ ” اور وہ نماز کو قائم کرتے ہیں۔“ یہ نہیں کہا کہ وہ نماز کا فعل بجا لاتے ہیں یا وہ نماز کو ادا کرتے ہیں کیونکہ ظاہری صورت وہیئت کے ساتھ نماز پڑھنا ہی کافی نہیں بلکہ اقامت صلوٰۃ یہ ہے کہ نماز کو جہاں ظاہری شکل و صورت، اس کے تمام ارکان کی کامل ادائیگی اور اس کی شرائط و واجبات کے ساتھ قائم کیا جائے، وہاں اس کو باطنی اعتبار سے اس کی روح کے ساتھ، یعنی اس کے اندر حضور قلب اور اپنے قول و فعل کا میں کامل تدبر کے ساتھ قائم کرنا بھی ضروری ہے۔ یہی وہ نماز ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ﴾ (العنکبوت 29؍35) ” بے شک نماز فحش کاموں اور برائیوں سے روکتی ہے۔“ اور یہی وہ نماز ہے جس پر ثواب مرتب ہوتا ہے۔ پس بندہ مومن کو اس کی صرف اسی نماز کا ثواب ملتا ہے جسے وہ سمجھ کر ادا کرتا ہے اور نماز میں فرائض اور نوافل سب داخل ہیں۔
﴿وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ﴾ ” اور ان میں سے جو ہم نے ان کو دیا، وہ خرچ کرتے ہیں“ اس میں تمام نفقات واجبہ مثلاً زکوٰۃ، بیویوں کا نان و نفقہ، قریبی رشتہ داروں اور اپنے غلاموں پر خرچ کرنا بھی شامل ہے اور بھلائی کے تمام کاموں میں نفقات مستحبہ پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ جن لوگوں پر خرچ کیا جانا چاہئے ان کا یہاں ذکر نہیں کیا کیونکہ اس کے اسباب اور ایسے لوگوں کی اقسام بہت زیادہ ہیں نیز خرچ جہاں کہیں بھی کیا جائے تقرب الٰہی کا ذریعہ ہوگا۔ ﴿ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ ﴾ میں (من) تبعیض کے لئے ہے اور یہ بات کی طرف توجہ دلانے کے لئے ہے کہ ان کے رزق اور اموال میں سے تھوڑا سا حصہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنا مقصود ہے جس کا خرچ کرنا ان کے لئے نقصان دہ اور گراں نہ ہو بلکہ اس اتفاق سے خود انہیں اور ان کے بھائیوں کو فائدہ پہنچے۔
اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿ رَزَقْنَاهُمْ ﴾میں اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ ہے کہ یہ مال و متاع جو تمہارے قبضے میں ہے تمہیں تمہاری اپنی قوت اور ملکیت کے بل بوتے پر حاصل نہیں ہوا بلکہ یہ تو اللہ تعالیٰ کا رزق ہے۔ اسی نے تم کو عطا کیا ہے اور اسی نے تم کو اس نعمت سے نوازا ہے۔ پس جس طرح اس نے تمہیں اور بہت سی نعمتوں سے نوازا ہے اور اس نے تمہیں اپنے بہت سے بندوں پر فضیلت عطا کی، تو تم بھی اللہ کا شکر ادا کرو اور ان نعمتوں کا کچھ حصہ اپنے مفلس اور نادار بھائیوں پر خرچ کر کے ان کی مدد کرو۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اکثر مقامات پر نماز اور زکوٰۃ کو اکٹھا ذکر کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نماز معبود کے لئے اخلاص کو متضمن ہے اور زکوٰۃ اور انفاق فی سبیل اللہ اس کے بندوں کے ساتھ حسن سلوک کو متضمن ہے۔ پس بندہ مومن کی سعادت کا عنوان یہ ہے کہ اس کا اخلاص معبود کے لئے ہو اور اس کی تمام تر کاوش مخلوق کو نفع پہنچانے کے لئے ہو، جیسے بندے کی بدبختی اور شقاوت کا عنوان یہ ہے کہ وہ ان دونوں چیزوں سے محروم ہو اس کے پاس اخلاص ہو نہ حسن سلوک۔ |
البقرة |
4 |
﴿وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ﴾” اور وہ لوگ جو یقین رکھتے ہیں اس پر جو آپ کی طرف اتارا گیا“ اس سے مراد قرآن اور سنت ہے اللہ تعالیٰ نے ایک اور مقام پر فرمایا : ﴿وَأَنزَلَ اللَّـهُ عَلَيْكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ﴾ (النساء :113؍3) ” اور اللہ تعالیٰ نے آپ پر کتاب اور حکمت (یعنی سنت) نازل کی۔“ پس اصحاب تقویٰ ان تمام چیزوں پر ایمان رکھتے ہیں جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسم) لے کر مبعوث ہوئے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ وحی میں تفریق نہیں کرتے کہ اس کے کسی حصے پر تو ایمان لے آئیں اور کسی حصے پر اپنے انکار یا ایسی تاویل کے ذریعے سے جو اللہ اور اس کے رسول کی مراد نہ ہو، ایمان نہ لائیں۔ جیسا کہ اہل بدعت کا وتیرہ ہے جو قرآن و سنت کی ان نصوص کی تاویل کرتے ہیں جو ان کے قول کے خلاف ہوتی ہیں جو کہ درحقیقت ان نصوص کے معانی کی تصدیق نہیں ہے۔ وہ اگرچہ ان نصوص کے ظاہری الفاظ کی تصدیق کرتے ہیں مگر ان پر حقیقی طور پر ایمان نہیں لاتے۔
﴿وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ﴾” اور اس پر جو آپ سے پہلے اتارا گیا“ یہ آیت کریمہ گزشتہ تمام کتابوں پر ایمان رکھنے پر مشتمل ہے اور گزشتہ کتابوں پر ایمان لانا اس بات کو متضمن ہے کہ انبیائے سابقین پر ایمان لایا جائے۔ نیز ان حقائق پر ایمان لایا جائے جن پر یہ الہامی کتابیں خاص طور پر تورات، انجیل اور زبور مشتمل ہیں۔ یہ اہل ایمان کی خصوصیت ہے کہ وہ تمام کتب سماویہ اور تمام انبیاء و مرسلین پر ایمان لاتے ہیں ان میں سے کسی کے درمیان تفریق نہیں کرتے۔
﴿وَبِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ﴾” اور وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔“ آخرت ان تمام امور کا نام ہے جو مرنے کے بعد انسان کو پیش آئیں گے۔ عمومی ایمان کے ذکر کے بعد آخرت پر ایمان کو خاص طور پر ذکر کیا ہے، کیونکہ آخرت پر ایمان لانا ارکان ایمان میں سے ایک اہم رکن ہے، نیز آخرت پر ایمان رغبت، خوف اور اعمال صالحہ کا باعث ہے۔ اور (یقین) ایسے علم کامل کو کہتے ہیں جس میں ادنیٰ سا بھی شک نہ ہو۔ یقین عمل کا موجب ہوتا ہے۔ |
البقرة |
5 |
﴿أُولَـٰئِكَ﴾یعنی وہ لوگ جو ان صفات حمیدہ سے متصف ہیں۔ ﴿ عَلَىٰ هُدًى مِّن رَّبِّهِمْ﴾ اپنے رب کی طرف سے عظیم ہدایت پر ہیں، کیونکہ یہاں﴿هُدًى﴾ کا نکرہ استعمال ہونا اس کی تعظیم کی بنا پر ہے اور کون سی ہدایت ایسی ہے جو صفات مذکورہ سے عظیم تر ہو جو صحیح عقیدے اور درست اعمال کو متضمن ہیں؟ ہدایت تو درحقیقت وہی ہے جس پر اہل ایمان عمل پیرا ہیں اس کے علاوہ دیگر تمام مخالف راستے گمراہی کے سوا کچھ نہیں۔ اس مقام پر (علی) کا صلہ استعمال کیا گیا ہے جو بلندی اور غلبے پر دلالت کرتا ہے اور ” ضلالت“ کا ذکر کرتے ہوئے (فی) کا صلہ استعمال کیا گیا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں ﴿وَإِنَّا أَوْ إِيَّاكُمْ لَعَلَىٰ هُدًى أَوْ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ﴾ (سبا :37؍37) ” ہم یا تم یا تو سیدھے راستے پر ہیں یا صریح گمراہی میں“ کیونکہ صاحب ہدایت بر بنائے ہدایت بلند اور غالب ہوتا ہے اور صاحب ضلالت اپنی گمراہی میں ڈوبا ہوا اور نہایت حقیر ہے۔
﴿وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ﴾” اور یہی لوگ ہیں فلاح پانے والے“ (فلاح) اپنے مطلوب کے حصول میں کامیابی اور خوف سے نجات کا نام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فلاح کو اہل ایمان میں محصور اور محدود کردیا کیونکہ اہل ایمان کے راستے پر گامزن ہوئے بغیر فلاح کی منزل کو نہیں پایا جاسکتا۔ اس راستے کے سوا دیگر راستے بدبختی، ہلاکت اور خسارے کے راستے ہیں جو اپنے چلنے والوں کو ہلاکت کے گڑھوں میں جا گراتے ہیں۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے جہاں اہل ایمان کی حقیقی صفات بیان فرمائی ہیں وہاں رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عناد رکھنے والے کھلے کافروں کی صفات کا ذکر بھی کردیا۔ |
البقرة |
6 |
اللہ تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ جنہوں نے کفر کا رویہ اختیار کیا یعنی کفر کی صفات سے متصف ہوئے اور کفر کے رنگ میں اس طرح رنگ گئے کہ کفر ان کا وصف لازم بن گیا جس سے کوئی ہٹانے والا ان کو ہٹا نہیں سکتا اور نہ کوئی نصیحت ان پر کارگر ہوسکتی ہے۔ وہ اپنے کفر میں راسخ اور اس پر جمے ہوئے ہیں، لہٰذا اس کے لئے برابر ہے تم انہیں ڈراؤ یا نہ ڈراؤ وہ ہرگز ایمان نہیں لائیں گے۔
حقیقت میں کفر اس تعلیم یا اس کے بعض حصے کا انکار کرنے کا نام ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لے کر آئے۔ پس ان کفار کو کوئی دعوت فائدہ نہیں دیتی البتہ اس دعوت سے ان پر حجت ضرور قائم ہوجاتی ہے۔ اس آیت میں گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس امید کو ختم کردیا گیا جو آپ کو ان کے ایمان لانے کی تھی اور فرما دیا گیا کہ آپ ان کے ایمان نہ لانے پر غمزدہ نہ ہوں اور ان کفار کے ایمان نہ لانے پر افسوس اور حسرت کے مارے آپ ہلکان نہ ہوں۔ پھر ان موانع کا ذکر کیا ہے جو ان کے ایمان لانے سے مانع ہیں۔ |
البقرة |
7 |
﴿خَتَمَ اللَّـهُ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ وَعَلَىٰ سَمْعِهِمْ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر مہر لگا دی ہے، لہٰذا ایمان ان میں داخل نہیں ہوسکتا۔ پس وہ کسی فائدہ مند چیز کو یاد کرسکتے ہیں نہ کسی فائدہ مند چیز کو سن سکتے ہیں۔ ﴿وَعَلَىٰ أَبْصَارِهِمْ ﴾ یعنی ان کی آنکھوں کے سامنے پردہ ہے جو انہیں فائدہ مند چیزوں کو دیکھنے سے روکتا ہے۔ یہی وہ ذرائع ہیں جو علم اور بھلائی کے حصول میں استعمال ہوتے ہیں۔ ان ذرائع کو ان پر مسدود کردیا گیا ہے، لہٰذا ان سے کسی قسم کی توقع نہیں کی جاسکتی اور نہ ان سے کسی بھلائی کی امید کی جاسکتی ہے۔ ان پر ایمان کے دروازے صرف اس لئے بند کردیئے گئے کہ انہوں نے حق کے عیاں ہوجانے کے بعد بھی کفر، انکار اور عناد کا رویہ اختیار کئے رکھا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَنُقَلِّبُ أَفْئِدَتَهُمْ وَأَبْصَارَهُمْ كَمَا لَمْ يُؤْمِنُوا بِهِ أَوَّلَ مَرَّةٍ﴾ (الانعام :110؍6) ” اور ہم ان کے دلوں اور آنکھوں کو الٹ دیں گے وہ اس قرآن پر اس طرح ایمان نہ لائیں گے جس طرح وہ پہلی بار ایمان نے لائے۔ “
یہ دنیاوی عذاب ہے۔ پھر آخرت کے عذاب کا ذکر کیا اور فرمایا : ﴿وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ﴾ ” اور ان کے لئے بہت بڑا عذاب ہے“ یہ جہنم کا عذاب اور اللہ جبار کی دائمی ناراضی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان منافقین کا ذکر فرمایا جو ظاہری طور پر مسلمان ہیں مگر ان کا باطن کفر سے لبریز ہے۔ |
البقرة |
8 |
معلوم ہونا چاہئے کہ نفاق کا اظہار کرنے اور باطن میں برائی چھپانے کا نام ہے۔ اس تعریف میں نفاق اعتقادی اور نفاق عملی دونوں شامل ہیں۔ جیسے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی اپنے اس فرمان میں اس کا ذکر فرمایا : " آيَةُ المُنَافِقِ ثَلاَثٌ: إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ، وَإِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ " [صحيح بخاري، الإيمان، باب علامات المنافق، حديث: 33] ” منافق کی تین نشانیاں ہیں : جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے، جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو اس میں خیانت کرے۔“ ایک اور روایت میں آتا ہے وَإِذَا خَاصَمَ فَجَرَ [حوالہ سابق حدیث: 34]” جب جھگڑا کرے تو گالی گلوچ کرے۔ “
رہا نفاق اعتقادی جو دائرہ اسلام سے خاج کرنے والا ہے۔ تو یہ نفاق ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے منافقین کو اس سورت میں اور بعض دیگر سورتوں میں متصف فرمایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت سے پہلے اور ہجرت کے بعد تک نفاق کا وجود نہ تھا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے غزوہ بدر میں اہل ایمان کو غلبے اور فتح و نصرت سے سرفراز فرمایا۔ پس مدینہ میں رہنے والے وہ لوگ جنہوں نے اسلام قبول نہیں کیا تھا، ذلیل ٹھہرے۔ چنانچہ ان میں سے کچھ لوگوں نے خوف کی وجہ سے دھوکے کے ساتھ اپنا مسلمان ہونا ظاہر کیا تاکہ ان کا جان و مال محفوظ رہے۔ پس وہ مسلمانوں کے سامنے اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتے تھے درآں حالیکہ وہ مسلمان نہیں تھے۔
اہل ایمان پر اللہ تعالیٰ کا لطف و کرم تھا کہ اس نے ان منافقین کے احوال و اوصاف ان کے سامنے واضح کردیے جن کی بنا پر وہ پہچان لیے جاتے تھے تاکہ اہل ایمان ان سے دھوکہ نہ کھا سکیں نیز منافقین اپنے بہت سے فسق و فجور سے باز آجائیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿يَحْذَرُ الْمُنَافِقُونَ أَن تُنَزَّلَ عَلَيْهِمْ سُورَةٌ تُنَبِّئُهُم بِمَا فِي قُلُوبِهِمْ﴾ (التوبة: ٩؍٣٦) ” منافق ڈرتے ہیں کہ کہیں ان کے بارے میں کوئی ایسی سورت نہ نازل کردی جائے جو ان کے دل کی باتوں سے مسلمانوں کو آگاہ کر دے۔ “
پس اللہ تعالیٰ نے ان کے اصل نفاق کو بیان کیا اور فرمایا : ﴿وَمِنَ النَّاسِ مَن يَقُولُ آمَنَّا بِاللَّـهِ وَبِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَمَا هُم بِمُؤْمِنِينَ﴾ ” بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے اللہ پر اور آخرت کے دن پر، حالانکہ وہ ایمان لانے والے نہیں ہیں“ کیونکہ یہ لوگ اپنی زبان سے ایسی بات کا اظہار کرتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہوتی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ﴿ وَمَا هُم بِمُؤْمِنِينَ ﴾ کہہ کر انہیں جھوٹا قرار دیا۔ اس لئے کہ حقیقی ایمان وہ ہے جس پر دل اور زبان متفق ہوں، ان منافقین کا یہ اظہار ایمان تو اللہ تعالیٰ اور اہل ایمان کو دھوکہ دینا ہے۔ |
البقرة |
9 |
(اَلْمُخَادَعَةُ) ” دھوکہ“ یہ ہے کہ دھوکہ دینے والا شخص جس کو دھوکہ دیتا ہے اس کے سامنے زبان سے جو کچھ ظاہر کرتا ہے اس کے خلاف اپنے دل م
یں چھپاتا ہے تاکہ اس شخص سے اپنا مقصد حاصل کرسکے جسے وہ دھوکہ دے رہا ہے۔
پس منافقین نے اللہ تعالیٰ اور اہل ایمان کے ساتھ اسی رویہ کو اختیار کیا تو یہ دھوکہ انہی کی طرف لوٹ آیا (یعنی اس کا سارا وبال انہی پر پڑا) اور یہ عجائبات میں سے ہے، کیونکہ دھوکہ دینے والے کا دھوکہ یا تو نتیجہ خیز ہوتا ہے او اسے اپنا مقصد حاصل ہوجاتا ہے یا وہ محفوظ رہتا ہے اور اس کا نتیجہ نہ تو اس کے حق میں ہوتا ہے اور نہ اس کے خلاف مگر ان منافقین کا دھوکہ خود ان کی طرف پلٹ گیا۔ گویا کہ وہ مکر اور چالبازیاں جو دوسروں کو نقصان پہنچانے کے لئے کر رہے تھے وہ درحقیقت اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے کے لئے کر رہے تھے۔ اس لئے کہ ان کے دھوکے سے اللہ تعالیٰ کو کوئی نقصان پہنچ سکتا ہے نہ اہل ایمان کو۔ پس منافقین کے ایمان ظاہر کرنے سے اہل ایمان کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا، اظہار ایمان سے انہوں نے اپنے جان و مال کو محفوظ کرلیا اور ان کا مکرو فریب ان کے سینوں میں رہ گیا اس نفاق کی وجہ سے دنیا میں ان کو رسوائی ملی اور اہل ایمان کو قوت اور فتح و نصرت سے سرفراز ہونے کی وجہ سے وہ حزن و غم کی دائمی آگ میں سلگنے لگے۔ پھر آخرت میں ان کے جھوٹ اور ان کے کفر و فجور کے سبب سے ان کے لئے درد ناک عذاب ہوگا، جب کہ ان کا حال یہ ہے کہ وہ اپنی حماقت اور جہالت کی وجہ سے اس کے شعور سے بے بہرہ ہیں۔ |
البقرة |
10 |
اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿فِيْ قُلُوبِهِمْ مَّرَضٌ ﴾ ” ان کے دلوں میں روگ ہے“ سے مراد شکوک و شبہات اور نفاق کا مرض ہے۔ قلب کو دو قسم کے امراض لاحق ہوتے ہیں جو اسے صحت و اعتدال سے محروم کردیتے ہیں۔
١۔ شبہات باطلہ کا مرض 2۔ اور ہلاکت میں ڈالنے والی شہوات کا مرض۔
پس کفر و نفاق اور شکوک و بدعات یہ سب شبہات کے امراض ہیں۔ زنا، فواحش و معاصی سے محبت اور ان کا ارتکاب یہ سب شہوات کے امراض ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿فَيَطْمَعَ الَّذِيْ فِيْ قَلْبِهٖ مَرَضٌ﴾ (الاحزاب :32؍33) ” پس وہ شخص جس کے دل میں مرض ہے، وہ طمع کرے گا“ اس مرض سے مراد شہوت زنا ہے۔ برائی سے صرف وہی بچے گا جو ان دو امراض سے محفوظ ہوگا۔ پس اس کو ایمان و یقین حاصل ہوتا ہے اور معاصی کے مقابلے میں صبر کی ڈھال عطا کردی جاتی ہے اور وہ عافیت کا لباس زیب تن کر کے ناز و ادا سے چلتا ہے۔
منافقین کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ فَزَادَهُمُ اللَّـهُ مَرَضًا﴾ میں گناہ گاروں کے گناہوں کی تقدیر کی بابت اللہ تعالیٰ کی حکمت کا بیان ہے کہ یہ روگ نفاق ان کے سابقہ گناہوں کا نتیجہ ہے، نیز اللہ تعالیٰ انہیں اس کے سبب سے مزید گناہوں میں مبتلا کردیتا ہے جو ان کے لئے مزید سزا کے موجب بنتے ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَنُقَلِّبُ أَفْئِدَتَهُمْ﴾ (الانعام :110؍6) ” اور ہم ان کے دلوں اور آنکھوں کو الٹ دیں گے (وہ اس قرآن پر اسی طرح ایمان نہ لائیں گے جس طرح) وہ پہلی مرتبہ ایمان نہ لائے تھے“۔ اور فرمایا : ﴿فَلَمَّا زَاغُوا أَزَاغَ اللَّـهُ قُلُوبَهُمْ﴾ (الصف :5؍6؍1) ” جب وہ ٹیڑھے ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو ٹیڑھا کردیا۔“ اور فرمایا : ﴿وَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ فَزَادَتْهُمْ رِجْسًا إِلَىٰ رِجْسِهِمْ﴾ (التوبہ :125؍9) ” اور رہے وہ لوگ جن کے دلوں میں مرض ہے تو اس سورت نے ان کی گندگی میں گندگی کو اور زیادہ کردیا۔“ پس گناہ کی سزا، گناہ کی دلدل میں مزید دھنستے چلے جانا ہے۔ جیسے نیکی کی جزا یہ ہے کہ اس کے بعد اسے مزید نیکی کی توفیق عطا ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿وَيَزِيدُ اللَّـهُ الَّذِينَ اهْتَدَوْا هُدًى﴾ (مریم :1؍6؍19) ” اور وہ لوگ جو ہدایت یاب ہیں اللہ تعالیٰ ان کو اور زیادہ ہدایت دیتا ہے۔ “ |
البقرة |
11 |
جب ان منافقوں کو زمین میں فساد پھیلانے سے روکا جاتا ہے اور فساد سے مراد اعمال کفر اور معاصی ہیں۔ نیز دشمن کے پاس اہل ایمان کے راز پہنچانا اور کفار کے ساتھ دوستی رکھنا ہے تو کہتے ہیں کہ ہم تو اصلاح کرتے ہیں۔ پس انہوں نے دو باتوں کو اکٹھا کردیا۔ (١) فساد فی الارض کا ارتکاب (2) اس بات کا اظہار کہ یہ فساد پھیلانا نہیں، بلکہ اصلاح ہے۔ یوں گویا ایک تو انہوں نے حقائق کو بدل دیا (فساد کا نام اصلاح رکھا) دوسرے، فعل باطل اور اس کے حق ہونے کے اعتقاد کو جمع کردیا۔ یہ لوگ ان لوگوں سے زیادہ بڑے مجرم ہیں جو گناہ کو حرام سمجھتے ہوئے گناہ کا ارتکاب کرتے ہیں۔ یہ لوگ سلامتی کے زیادہ قریب ہیں اور ان کی بابت ارتکاب گناہ سے باز آجانے کی زیادہ امید ہے۔
چونکہ ان کے قول ﴿إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ﴾ ” بیشک ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں“ میں اصلاح ان کی جانب محدود و محصور ہے جس سے ضمناً یہ مفہوم نکلتا ہے کہ اہل ایمان اصلاح والے نہیں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کا دعویٰ انہی پر پلٹ دیا۔ |
البقرة |
12 |
فرمایا : ﴿أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُونَ﴾ ” خبردار ! بے شک یہی لوگ فساد کرنے والے ہیں۔“ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ جنگ کرنے والوں کے ساتھ دوستی رکھنے سے بڑا کوئی فساد نہیں۔ اس کے باوجود وہ اس زعم میں مبتلا ہیں کہ وہ اصلاح کر رہے ہیں۔ کیا اس فساد کے بعد بھی کوئی اور فساد رہ جاتا ہے؟ لیکن وہ اپنے فساد کے بارے میں ایسا علم نہیں رکھتے جو انہیں فائدہ پہنچا سکے اگرچہ وہ اس کے بارے میں ایسا علم ضرور رکھتے ہیں جو ان کے خلاف حجت قائم کرے گا اور صرف ان کے اعمال ہی زمین کے اندر فساد کا باعث ہیں کیونکہ برے اعمال اور گناہوں کے سبب سے روئے زمین پر آفتیں اور مصائب نازل ہوتے ہیں جو غلے، پھلوں، درختوں اور نباتات کو بھی خراب کردیتے ہیں۔
زمین کے اندر اصلاح یہ ہے کہ اسے ایمان اور اطاعت الٰہی سے معمور رکھا جائے۔ اسی اطاعت و ایمان کے لئے اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کر کے اس کو زمین پر آباد کیا اور ان پر رزق کے دروازے کھول دیئے تاکہ وہ اس رزق کی مدد سے اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کی اطاعت کرے، لہٰذا جب اللہ تعالیٰ کی عبادت و اطاعت کے خلاف عمل کیا جائے گا تو یہ عمل گویا زمین میں فساد برپا کرنا اور اس کو اجاڑنا ہوگا۔ |
البقرة |
13 |
یعنی جب منافقین سے کہا جاتا ہے کہ ایمان لاؤ جیسے لوگ ایمان لائے ہیں۔ یعنی جیسے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ایمان لائے ہیں جو کہ قلب و زبان کا ایمان ہے تو یہ اپنے زعم باطل میں جواب دیتے ہیں ” کیا ہم ویسا ایمان لائیں جیسا بیوقوف لوگ ایمان لائے ہیں؟“ ان کا برا ہو۔ بیوقوف لوگوں سے ان کی مراد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں، کیونکہ ان کے زعم باطل کے مطابق صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی بیوقوفی اور حماقت ہی ان کے ایمان، ترک وطن اور کفار سے دشمنی مول لینے کی موجب ہے۔ ان کے نزدیک عقل اس کے متضاد اور برعکس رویئے کا تقاضا کرتی ہے۔ بنابریں انہوں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو سفاہت و حماقت سے منسوب کیا۔ ضمنی طور پر اس سے سے یہ مفہوم بھی نکلتا ہے کہ صرف وہی عقل مند اور اصحاب دانش و بینش ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے ان کے اس دعوے کی تردید کرتے ہوئے خبر دی کہ درحقیقت وہی بیوقوف اور احمق ہیں۔ کیونکہ بیوقوفی کی حقیقت یہ ہے کہ انسان اپنے مصالح سے بے خبر اور ایسے کاموں میں سرگرم ہو جو اس کے لئے ضرر رساں ہوں اور یہ صفت ان منافقین ہی پر منطبق ہوتی ہے۔ اور عقل اور دانش و بینش یہ ہے کہ انسان کو اپنے مصالح کی معرفت حاصل ہو اور وہ فائدہ مند امور کے حصول اور ضرر رساں امور کو روکنے کے لئے کاوش کرے۔ یہ صفت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور اہل ایمان پر منطبق ہوتی ہے۔
پس (کسی چیز کا) اعتبار مجرد دعوے اور خالی خولی باتوں سے نہیں ہوتا بلکہ اوصاف اور دلائل کی بنا پر ہوتا ہے۔ |
البقرة |
14 |
یہ قول ان کی ان باتوں میں سے ہے جس کا اظہار وہ اپنی زبانوں سے کرتے تھے درآں حالیکہ ان کے دل میں ایسا نہیں ہوتا تھا۔ کیونکہ جب یہ منافقین اہل ایمان کے پاس جاتے ہیں تو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ ان کے طریقے پر گامزن ہیں اور ان کے ساتھ ہیں اور جب وہ اپنے شیطان سرداروں یعنی شریر رؤسا سے تنہائی میں ملتے ہیں تو ان سے کہتے ہیں :” ہم تو درحقیقت تمہارے ساتھ ہیں ہم تو اہل ایمان کو یہ کہہ کر کہ، ہم تمہارے ساتھ ہیں، ان کا مذاق اڑا رہے تھے۔“ ” ہم تو درحقیقت تمہارے ساتھ ہیں ہم تو اہل ایمان کو یہ کہہ کر کہ، ہم تمہارے ساتھ ہیں، ان کا مذاق اڑا رہے تھے۔“ یہ ہیں ان کے ظاہری اور باطنی احوال، بری چال کا وبال اسی پر پڑتا ہے جو یہ چال چلتا ہے۔ |
البقرة |
15 |
﴿اللَّهُ يَسْتَهْزِئُ بِهِمْ وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ﴾ ” اللہ ہنسی کرتا ہے ان سے اور بڑھاتا ہے ان کو ان کی سرکشی میں (اور) وہ سرگرداں پھرتے ہیں۔ “
اللہ تعالیٰ کا یہ استہزان کے اس استہزا کی جزا ہے جو وہ اللہ کے بندوں کے ساتھ کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا استہزایہ ہے کہ وہ ان کے بدبختی کے اعمال اور خبیث احوال کو ان کے سامنے مزین اور آراستہ کردیتا ہے چونکہ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو ان پر مسلط نہیں کیا اس لئے وہ سمجھتے ہیں کہ وہ اہل ایمان کے ساتھ ہیں۔ قیامت کے روز ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا استہزایہ ہوگا کہ وہ اہل ایمان کے ساتھ انہیں ظاہری روشنی عطا کرے گا۔ جب اہل ایمان اس روشنی میں چلیں گے تو منافقین کی روشنی بجھ جائے گی۔ وہ روشنی کے بجھ جانے کے بعد تاریکی میں متحیر کھڑے رہ جائیں گے۔ پس امید کے بعد مایوسی کتنی بری چیز ہے۔ ﴿يُنَادُونَهُمْ أَلَمْ نَكُن مَّعَكُمْ ۖ قَالُوا بَلَىٰ وَلَـٰكِنَّكُمْ فَتَنتُمْ أَنفُسَكُمْ وَتَرَبَّصْتُمْ وَارْتَبْتُمْ﴾ (الحدید :17؍58) ” وہ منافق اہل ایمان کو پکار کر کہیں گے کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے ! اہل ایمان جواب دیں گے کیوں نہ تھے مگر تم نے اپنے آپ کو فتنے میں ڈالا اور تم ہمارے بارے میں کسی برے وقت کے منتظر رہے اور تم نے اسلام کے بارے میں شک کیا۔ “
﴿وَيَمُدُّهُمْ﴾یعنی اللہ تعالیٰ ان کو زیادہ کرتا ہے ﴿فِي طُغْيَانِهِمْ ﴾ یعنی ان کے فسق و فجور اور کفر میں ﴿ يَعْمَهُونَ ﴾ یعنی وہ حیران و سرگرداں ہیں، یہ ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا استہزا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی حقیقت احوال کو منکشاف کرتے ہوئے فرمایا : |
البقرة |
16 |
یعنی وہ گمراہی کی طرف اس طرح راغب ہوئے جیسے خریدار کسی ایسے سامان تجارت کو خریدنے کی طرف مائل ہو جسے خریدنے کی اسے سخت چاہت ہو چنانچہ وہ اس رغبت کی وجہ سے اس میں اپنا قیمتی مال خرچ کرتا ہے اور یہ بہترین مثال ہے، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے گمراہی کو جو کہ برائی کی انتہا ہے، سامان تجارت سے تشبیہ دی ہے اور ہدایت کو جو کہ بھلائی کی انتہا ہے، اس سامان تجارت کی قیمت سے تشبیہ دی۔ پس انہوں نے ہدایت کو، اس سے بے رغبتی کی وجہ سے اور گمراہی کی طرف رغبت اور چاہت کی وجہ سے، گمراہی کے بدلے میں خرچ کردیا۔۔۔ پس یہ تھی ان کی تجارت کتنی بری تجارت تھی اور یہ تھا ان کا سامان بیع اور کتنا برا سامان بیع تھا۔
جب کوئی شخص ایک درہم کے مقابلے میں ایک دینار خرچ کرتا ہے تو خائب و خاسر کہلاتا ہے، تب اس شخص کے خسارے کا کیا حال ہوگا جو جواہر خرچ کر کے اس کے بدلے میں ایک درہم حاصل کرتا ہے اور پھر اس شخص کا خسارہ کتنا بڑا ہوگا جو ہدایت کے بدلے گمراہی خریدتا ہے، خوش بختی کو چھوڑ کر بدبختی اختیار کرتا ہے اور بلند مقاصد کو ترک کر کے گھٹیا امور کی طرف راغب ہوتا ہے۔ اس کی تجارت نے اسے کوئی نفع نہ دیا بلکہ وہ سب سے بڑے خسارے میں مبتلا ہوگیا۔ ﴿قُلْ إِنَّ الْخَاسِرِينَ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۗ أَلَا ذَٰلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِينُ﴾ (الزمر :15؍39) ”(اے نبی !) فرما دیجیے کہ بے شک خسارہ اٹھانے والے وہ ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو قیامت کے روز خسارے میں ڈالا۔ آگاہ رہو ! کہ یہی صریح خسارہ ہے۔“ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿وَمَا كَانُوا مُهْتَدِينَ﴾” اور نہ ہوئے وہ راہ پانے والے“ ان کی گمراہی کو متحقق کرنے کے لئے ہے نیز یہ کہ ہدایت سے ان کو کوئی حصہ نہیں ملا۔ پس یہ ان منافقین کے بدترین اوصاف ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کے احوال کو واضح کرنے کے لئے ایک تمثیل بیان کی، فرمایا : |
البقرة |
17 |
یعنی ان کی مثال، جو ان کے احوال کی آئینہ دار ہے، اس شخص کی سی ہے جس نے آگ جلائی ہو۔۔۔ یعنی یہ شخص اندھیرے میں تھا، آگ کی اسے سخت ضرورت تھی اس نے کسی اور سے لے کر آگ روشن کی۔ یہ آگ اس کے پاس تیار اور موجود نہ تھی۔ جب آگ نے اس کے ماحول کو روشن کردیا اور اس نے اس جگہ کو دیکھا جہاں وہ کھڑا تھا، ان خطرات کو دیکھا جنہوں نے اسے گھیر رکھا تھا اور اس امن کو دیکھا (جو اسے اس روشنی کے باعث حاصل ہوا تھا) اس نے اس آگ سے فائدہ اٹھایا اور اس آگ سے اسے اطمینان حاصل ہوا وہ سمجھتا تھا کہ اس آگ پر اسے پوری قدرت حاصل ہے اور اسی خیال میں غلطاں تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اس سے روشنی لے کر زائل کردی اس کے ساتھ اس کی مسرت بھی چلی گئی اور وہ سخت تاریکی اور جلتی ہوئی آگ میں کھڑا رہ گیا۔ آگ کی روشنی چلی گئی مگر اس کی جلا دینے والی حرارت باقی رہ گئی۔ پس وہ متعدد تاریکیوں میں گھرا ہوا رہ گیا، رات کی تاریکی، بادلوں کا اندھیرا، بارش کا اندھیرا اور ایک وہ اندھیرا جو روشنی کے بجھنے کے فوراً بعد محسوس ہوتا ہے تب اس بیان کردہ شخص کی کیا حالت ہوگی؟ یہی حال ان منافقین کا ہے۔ انہوں نے اہل ایمان سے ایمان کی آگ لے کر آگ روشن کی، کیونکہ وہ ایمان کی روشنی سے بہرہ ورنہ تھے، انہوں نے وقتی طور پر اس آگ سے روشنی حاصل کی اور اس سے فائدہ اٹھایا، اس طرح انہوں نے اپنے جان و مال کو محفوظ کرلیا اور دنیا میں ان کو ایک قسم کا امن حاصل ہوگیا وہ اسی حالت میں تھے کہ اچانک ان پر موت حملہ آور ہوئی اور اس روشنی سے حاصل ہونے والے تمام فوائد اس سے چھین لے گئی، ہر قسم کا عذاب اور غم ان پر مسلط ہوگیا کفر و نفاق اور گناہوں کی مختلف تاریکیوں نے ان کو گھیر لیا اس کے بعد انہیں جہنم کے اندھیروں کا سامنا کرنا ہوگا کفر و نفاق اور گناہوں کی مختلف تاریکیوں نے ان کو گھیر لیا اس کے بعد انہیں جہنم کے اندھیروں کا سامنا کرنا ہوگا جو بدترین ٹھکانا ہے۔ |
البقرة |
18 |
بنابریں اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں فرمایا : ﴿صُمٌّ﴾ وہ بھلائی کی بات سننے سے بہرے ہیں۔ ﴿بُكْمٌ﴾ وہ بھلائی کی بات کہنے سے گونگے ہیں۔ ﴿عُمْيٌ﴾ حق کے دیکھنے سے اندھے ہیں ﴿فَهُمْ لَا يَرْجِعُونَ﴾ چونکہ انہوں نے حق کو پہچان کر ترک کیا ہے اس لئے اب یہ واپس نہیں لوٹیں گے۔ ان کی حالت اس شخص کی حالت کے برعکس ہے جو محض جہالت اور گمراہی کی بنا پر حق کو ترک کرتا ہے کیونکہ وہ اسے سمجھتا نہیں۔ ان کی نسبت اس شخص کے بارے میں زیادہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ حق کی طرف رجوع کرے۔ |
البقرة |
19 |
پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿أَوْ كَصَيِّبٍ مِّنَ السَّمَاءِ ﴾ یا (ان کی مثال) اس شخص کی مانند ہے جس پر موسلا دھار بارش ہو رہی ہے۔ (صَيِّبٍ) سے مراد وہ بارش ہے جو موسلادھار برستی ہے۔
﴿فِيهِ ظُلُمَاتٌ﴾ ” اس میں اندھیرے ہیں۔“ اس سے مراد ہے، رات کا اندھیرا، بادل کا اندھیرا اور بارش کی تاریکیاں۔ ﴿وَرَعْدٌ﴾ ” اور کڑک کی آواز ہے۔“ جو کہ بادل سے سنائی دیتی ہے۔ ﴿وَّبَرْقٌ﴾ اور بجلی کی وہ چمک ہے جو بادلوں میں دکھائی دیتی ہے۔ ﴿كُلَّمَا أَضَاءَ لَهُم﴾ یعنی اس بجلی کی چمک جب اندھیرے میں روشنی کرتی ہے۔ ﴿مَّشَوْا فِيهِ وَإِذَا أَظْلَمَ عَلَيْهِمْ قَامُوا﴾ ” تو چلتے ہیں اس میں اور جب ان پر اندھیرا ہوتا ہے تو کھڑے ہوجاتے ہیں“ یعنی وہ کھڑے رہ جاتے ہیں۔ |
البقرة |
20 |
پس اسی قسم کی حالت منافقین کی ہے جب وہ قرآن مجید، اس کے اوامرونواہی اور اس کے وعدو وعید سنتے ہیں، تو اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں ٹھونس لیتے ہیں۔ اس کے اوامرونواہی اور وعدو وعید سے اعراض کرتے ہیں وعید ان کو گھبراہٹ میں مبتلا کرتی ہے اور اس کے وعدے ان کو پریشان کردیتے ہیں۔ وہ حتی الامکان ان سے اغراض کرتے ہیں اور اس شخص کی مانند اسے سخت ناپسند کرتے ہیں جو سخت بارش میں گھرا ہوا بجلی کی کڑک سنتا ہے اور موت کے ڈر سے اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتا ہے اس شخص کو تو بسا اوقات سلامتی اور امن مل جاتا ہے۔ مگر منافقین کے لئے کہاں سے سلامتی آئے گی؟ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور علم نے انہیں چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے۔ وہ اس کی پکڑ سے بھاگ نہیں سکتے اور نہ وہ اس کو عاجز کرسکتے ہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ ان کے اعمال کو اعمال ناموں میں محفوظ کردیتا ہے اور وہ ان کو ان کے اعمال کی پوری پوری جزا دے گا۔ چونکہ وہ معنوی بہرے پن، گونگے پن اور اندھے پن میں مبتلا ہیں اور ان پر ایمان کی تمام راہیں مسدود ہیں اس لئے ان کے بارے میں فرمایا : ﴿وَلَوْ شَاءَ اللَّـهُ لَذَهَبَ بِسَمْعِهِمْ وَأَبْصَارِهِمْ﴾ ”اور اگر اللہ چاہے تو لے جائے ان کے کان اور ان کی آنکھیں“ یعنی ان کی حس سماعت اور حس بصر سلب کرلے۔ اس آیت کریمہ میں ان کو دنیاوی سزا سے ڈرایا گیا ہے تاکہ وہ ڈر کر اپنے شر اور نفاق سے باز آجائیں۔
﴿إِنَّ اللَّـهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ﴾ ” بلاشبہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔“ اس لئے کوئی چیز اسے عاجز نہیں کرسکتی۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت میں سے یہ بات بھی ہے کہ جب وہ کوئی کام کرنا چاہتا ہے تو کر گزرتا ہے۔ کوئی اس کو روکنے والا اور اس کی مخالفت کرنے والا نہیں۔
اس آیت اور اس قسم کی دیگر آیات میں قدر یہ کا رد ہے جو یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ انسانوں کے افعال اللہ تعالیٰ کی قدرت میں داخل نہیں ہیں کیونکہ انسانوں کے افعال بھی من جملہ ان اشیاء کے ہیں جو ﴿إِنَّ اللَّـهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ﴾ کے تحت، اس کی قدرت میں داخل ہیں۔ |
البقرة |
21 |
یہ تمام لوگوں کے لئے امر عام ہے اور وہ اللہ کی عبادت ہے جو اللہ تعالیٰ کے احکام کی اطاعت، اس کے نواہی سے اجتناب اور اس کی خبر کی تصدیق کی جامع ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے بندوں کو اس چیز کا حکم دیا جس کے لئے ان کی تخلیق کی گئی ہے۔ فرمایا : ﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ ﴾ (الذاریات :56؍51) ” میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لئے پیدا کیا تاکہ وہ میری عبادت کریں۔ “
پھر صرف ایک اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے پر اس بات سے استدلال کیا ہے کہ وہ تمہارا رب ہے اس نے تمہیں بہت سی نعمتوں سے نواز کر تمہاری تربیت اور پرورش کی۔ وہ تمہیں عدم سے وجود میں لایا، اس نے ان لوگوں کو پیدا کیا جو تم سے پہلے تھے، اس نے تمہیں ظاہری اور باطنی نعمتیں عطا کیں، اس نے زمین کو تمہارے لئے فرش بنایا جہاں تم اپنا ٹھکانا بناتے ہو، جہاں تم عمارات تعمیر کر کے، زراعت اور کاشتکاری کر کے اور ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کر کے مختلف فوائد حاصل کرتے ہو، اس کے علاوہ تم زمین کے بعض دیگر فوائد سے استفادہ کرتے ہو۔ اس نے تمہارے اس مسکن کے لئے آسمان کو چھت بنایا۔ اس نے تمہاری ضروریات اور حاجات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس چھت میں بھی بہت سی نفع بخش چیزیں مثلاً سورج، چاند اور ستارے پیدا کئے۔ |
البقرة |
22 |
﴿وَأَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً﴾ ” اور اتارا اس نے آسمان سے پانی۔“ ہر وہ چیز جو آپ کے اوپر اور بلند ہے وہ آسمان کہلاتی ہے۔ بنا بریں علمائے تفسیر کہتے ہیں کہ یہاں آسمان سے مراد بادل ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے بادلوں سے پانی برسایا ﴿فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَرَاتِ﴾اور اس پانی کے ذریعے سے مختلف اقسام کے غلہ جات، مختلف انواع کے پھل اور میوہ جات، کھجوریں اور دیگر کھیتیاں اگائیں ﴿رِزْقًا لَّكُمْ﴾ ” تمہارے رزق کے طور پر“ جس سے تم رزق اور خوراک حاصل کرتے ہو، اس رزق سے زندگی بسر کرنے کا سامان کرتے ہو اور اس سے تم لذت حاصل کرتے ہو۔﴿فَلَا تَجْعَلُوا لِلَّـهِ أَندَادًا﴾ پس تم مخلوق میں سے اس کی برابری کرنے والے ہمسر بنا کر ان کی عبادت نہ کرو جیسے تم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہو، اور ان سے ایسی محبت نہ کرو جیسے تم اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہو، وہ بھی تمہاری مانند مخلوق ہیں ان کو بھی رزق دیا جاتا ہے اور ان کی زندگی کی بھی تدبیر کی جاتی ہے۔ وہ زمین و آسمان میں ایک ذرے کے بھی مالک نہیں۔ وہ تمہیں نفع پہنچا سکتے ہیں نہ نقصان ﴿وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ ﴾ ” حالانکہ تم جانتے ہو“ کہ تخلیق کرنے، رزق عطا کرنے اور کائنات کی تدبیر کرنے میں اس کا کوئی شریک اور کوئی نظیر نہیں اور نہ الوہیت اور کمال میں اس کی کوئی برابری کرنے والا ہے۔ یہ سب کچھ جانتے ہوئے پھر تم کیسے اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسرے معبودوں کی عبادت کرتے ہو۔ یہ بڑی عجیب بات اور سب سے بڑی حماقت ہے۔
یہ آیت کریمہ صرف ایک اللہ تعالیٰ کی عبادت کے حکم اور اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور ہستی کی عبادت کرنے سے ممانعت کو جمع کرنے والی ہے، نیز اللہ تعالیٰ کی عبادت کے وجوب کی واضح دلیل اور اس کے سوا کسی اور کی عبادت کے بطلان کے بیان پر مشتمل ہے۔ یہ توحید ربوبیت ہے جو اس امر کو متضمن ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی تخلیق کرتا، وہی رزق عطا کرتا اور وہی کائنات کی تدبیر کرتا ہے۔ جب ہر ایک شخص یہ اقرار کرتا ہے کہ ان تمام امور میں اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک نہیں تو اسے یہ اقرار بھی کرنا چاہئے کہ عبادت میں بھی اس کا کوئی شریک نہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی توحید کے اثبات اور شرک کے بطلان پر واضح ترین عقلی دلیل ہے۔
﴿ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ﴾ ” تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ“ اس آیت کریمہ میں ایک معنی کا احتمال یہ ہے کہ جب تم ایک اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو گے تو اس کی ناراضی اور عذاب سے بچ جاؤ گے، کیونکہ تم نے ایک ایسا سبب اختیار کیا ہے جو اللہ تعالیٰ کی ناراضی کو دور کرتا ہے۔ اس کے ایک دوسرے معنی یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ جب تم اللہ تعالیٰ کے عبادت گزار بندے بن جاؤ گے تو تم متقین میں شمار ہو گے جو تقویٰ کی صفت سے آراستہ ہوتے ہیں۔ دونوں معنی صحیح ہیں اور دونوں میں تلازم پایا جاتا ہے، یعنی جو کوئی کامل طور پر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا ہے اس کا شمار اہل تقویٰ میں ہوتا ہے اور جو کوئی متقی بن جاتا ہے اسے اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور اس کے عذاب سے نجات حاصل ہوجاتی ہے۔ |
البقرة |
23 |
یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت اور وحی الٰہی کی صحت کی عقلی دلیل ہے۔ گویا فرمایا :” اے رسول کے ساتھ عناد رکھنے والو ! اس کی دعوت کو رد کرنے والو ! اور اسے جھوٹا سمجھنے والو ! اگر تم اس وحی کے بارے میں کسی شک و شبہ میں مبتلا ہو جو ہم نے اپنے بندے پر نازل کی ہے کہ آیا یہ حق ہے یا نہیں تو یہاں ایک ایسا معاملہ موجود ہے جسے ہم تمہارے اور اس کے درمیان فیصلہ کن انداز میں بیان کرتے ہیں اور وہ یہ کہ وہ بھی تمہاری طرح بشر ہے کسی اور جنس سے نہیں، جب سے وہ پیدا ہوا ہے اس وقت سے تم اسے جانتے ہو وہ لکھ سکتا ہے نہ پڑھ سکتا ہے۔ اس نے تمہارے سامنے ایک کتاب پیش کی ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور تم کہتے ہو کہ اس نے اسے خود گھڑا ہے اور اللہ تعالیٰ پر بہتان باندھا ہے۔ اگر معاملہ ایسے ہی ہے جیسے تم کہتے ہو تو اس جیسی ایک سورت ہی بنا لاؤ اور اپنے جن اعوان و انصار اور حمایتیوں کو اپنی مدد کے لئے بلا سکتے ہو بلا لو ! تمہارے لئے یہ کام بہت آسان اور معمولی ہے خاص طور پر جبکہ تم فصاحت و خطابت کے میدان کے شاہسوار ہو اور اس رسول کی عداوت میں بھی بہت آگے ہو۔ اگر تم نے اس کتاب جیسی ایک سورت بھی پیش کردی تو تم اس کتاب کو جھوٹ، بہتان کہنے میں حق بجانب ہو اور اگر تم اس جیسی ایک بھی سورت پیش نہ کرسکے اور اسے پیش کرنے سے مکمل طور پر عاجز آگئے تو تمہارا یہ عجز اور بے بسی رسول اور وحی الٰہی کی صداقت کی بڑی نشانی اور واضح دلیل ہے۔ پھر تم پر لازم ہوجاتا ہے کہ تم اس کی پیروی کرو اور اس آگ سے بچو جس کی گرمی اور حرارت اتنی زیادہ ہے کہ اس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے دنیاوی آگ کی مانند نہیں جسے (لکڑی کے) ایندھن سے بھڑکایا جاتا ہے۔ یہ بیان کردہ آگ اللہ اور اس کے رسول کا انکار کرنے والوں کے لئے تیار کی گئی ہے، اس لئے جب تمہیں یہ معلوم ہوگیا کہ یہ رسول برحق ہے تو اس کا انکار کرنے سے ڈرو۔
اس آیت اور اس قسم کی دیگر آیات کو آیات تحدی (مقابلہ کرنے کی دعوت دینے والی آیات) کہا جاتا ہے ” تحدی“ سے مراد ہے مخلوق کو قرآن جیسی کوئی کتاب پیش کرنے اور اس کا مقابلہ کرنے سے عاجز کردینا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿قُل لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنسُ وَالْجِنُّ عَلَىٰ أَن يَأْتُوا بِمِثْلِ هَـٰذَا الْقُرْآنِ لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا﴾ (بنی اسرائیل 88؍17) ” کہو اگر تمام جن و انس اس بات پر جمع ہوجائیں کہ وہ اس جیسا قرآن بنا لائیں تو اس جیسا قرآن بنا کر نہیں لا سکتے اگرچہ وہ ایک دوسرے کے مددگار ہی کیوں نہ ہوں۔“ پس مشت خاک سے بنے ہوئے انسان کا کلام رب الارباب کے کلام کی مانند کیسے ہوسکتا ہے؟ یا ناقص اور تمام پہلوؤں سے محتاج ہستی اس کامل ہستی کے کلام جیسا کلام کیسے پیش کرسکتی ہے جو تمام پہلوؤں سے کمال مطلق کی اور بے پایاں بے نیازی کی مالک ہے؟ یہ چیز دائرہ امکان اور انسانی بساط سے باہر ہے۔
ہر وہ شخص جو کلام کی مختلف اصناف کی تھوڑی بہت بھی معرفت رکھتا ہے جب قرآن کا اصحاب بلاغت کے کلام سے تقابل کرے گا تو اس پر ظاہر ہوجائے گا کہ دونوں میں بہت بڑا فرق ہے۔
اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿وَإِن كُنتُمْ فِي رَيْبٍ﴾ ” اگر تم شک میں مبتلا ہو۔“ میں اس بات کی دلیل ہے کہ جس کے لئے ہدایت کی توقع کی جاسکتی ہے یہ وہ شخص ہے جو شک میں مبتلا اور حیران و پریشان ہے۔ جو گمراہی میں سے حق کو نہیں پہچان سکتا۔ اگر وہ طلب حق میں سچا ہے تو اس کے لئے حق واضح ہوجانے کے بعد اس کا اتباع کرنا زیادہ مناسب ہے۔
وہ شخص جو حق کے ساتھ عناد رکھتا ہے اور حق کو پہچان کر بھی اسے ترک کردیتا ہے اس کے حق کی طرف رجوع کرنے کا کوئی امکان نہیں کیونکہ اس نے حق کو اپنی جہالت کی وجہ سے ترک نہیں کیا بلکہ اس نے حق کو اس کے واضح ہوجانے کے بعد رد کیا ہے۔ اسی طرح وہ متشکک شخص جو تلاش حق میں سچا جذبہ نہیں رکھتا بلکہ وہ حق سے گریز کرتا ہے اور تلاش حق میں تگ و دو نہیں کرتا وہ اکثر و بیشتر قبول حق کی توفیق سے محروم رہتا ہے۔
اس مقام عظیم پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصف عبدیت کو بیان کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ عبدیت آپ کی سب سے بڑی صفت ہے۔ اس مقام بلند تک اولین و آخرین میں سے کوئی شخص بھی آپ کے مقام تک نہیں پہنچ سکا۔ جیسے معراج کے موقع پر آپ کی عبدیت کو بیان فرمایا۔ فرمان باری تعالیٰ ہے : ﴿سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا﴾ (بنی اسرائیل :1؍17) ” پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے کو رات کے ایک حصے میں سفر کرایا۔ “
قرآن کی تنزیل کے وقت بھی آپ کی عبدیت کو بیان فرمایا : ﴿تَبَارَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَىٰ عَبْدِهِ لِيَكُونَ لِلْعَالَمِينَ نَذِيرًا ﴾ (الفرقان :1؍25) ” نہایت برکت والی ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے پر فرقان نازل کیا تاکہ وہ تمام جہانوں کو ڈرائے۔ “ |
البقرة |
24 |
اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿أُعِدَّتْ لِلْكَافِرِينَ﴾ ” جہنم کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے۔“ اور اس قسم کی دیگر آیات سے اہل سنت کے اس مسلک کی تائید ہوتی ہے کہ جنت اور جہنم دونوں پیدا کی ہوئی ہے۔ جب کہ معتزلہ اس بات کے قائل نہیں۔ اس آیت کریمہ سے اہل سنت کے اس عقیدے کی بھی تائید ہوتی ہے کہ گناہگار اور کبائر کے مرتکب گناہ گار موحدین ہمیشہ جہنم میں نہیں رہیں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یہ جہنم کفار کے لئے تیار کی گئی ہے۔ خوارج اور معتزلہ کے عقیدے کے مطابق اگر گناہ گار موحدین کے لئے جہنم میں دوام اور خلود ہوتا، تو یہ صرف کفار کے لئے تیار نہ کی گئی ہوتی۔ نیز اس آیت میں اس بات کی بھی دلیل ہے کہ عذاب اپنے اسباب یعنی کفر اور مختلف گناہوں کے ارتکاب سے ثابت وہتا ہے۔ |
البقرة |
25 |
جب اللہ تعالیٰ نے کفار کی جزا کا ذکر کیا تو اعمال صالحہ سے آراستہ اہل ایمان کی جزا بھی بیان فرما دی، جیسا کہ قرآن مجید میں اس کا طریقہ ہے کہ وہ ترغیب و ترہیب کو اکٹھا بیان کرتا ہے، تاکہ بندہ مومن اللہ کی رحمت کی رغبت بھی رکھے اور اس کے عذاب سے ڈرتا بھی رہے۔ اس کے دل میں عذاب کا خوف ہو تو رحمت و مغفرت کی امید سے بھی سرشار ہو۔
﴿وَبَشِّرِ﴾ یعنی اے رسول ! آپ اور آپ کا قائم مقام خوشخبری دے دے۔
﴿الَّذِينَ آمَنُوا﴾” یعنی جو اپنے دل سے ایمان لائے“﴿وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ﴾ اور انہوں نے اپنے جوارح سے نیک کام سر انجام دیئے۔ پس انہوں نے اعمال صالحہ کے ذریعے سے اپنے ایمان کی تصدیق کی۔ اللہ تعالیٰ نے اعمال خیر کو (الصالحات) سے تعبیر کیا ہے کیونکہ ان کے ذریعے سے بندے کے احوال، اس کے دینی اور دنیاوی امور اور اس کی دنیاوی اور آخروی زندگی کی اصلاح ہوتی ہے اور اس کے ذریعے ہی سے احوال کا فساد زائل ہوتا ہے پس اس کی وجہ سے اس کا شمار صالحین میں ہوجاتا ہے جو جنت میں اللہ تعالیٰ کی مجاورت اور اس کے قرب کی صلاحیت سے بہرہ ور ہیں۔
پس ان کو خوشخبری سنا دیجئے ﴿أَنَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ ﴾ ” کہ ان کے لئے جنت کے باغات ہیں“ جن میں عجیب اقسام کے درخت، نفیس انواع کے پھل، گہرے سائے اور درختوں کی نہایت خوبصورت شاخیں ہوں گی۔ اسی وجہ سے اس کا نام جنت ہے۔ اس میں داخل ہونے والے اس کے باغوں اور گہری چھاؤں سے فیض یاب ہوں گے اور اس میں رہنے والے اس میں عیش و عشرت کی زندگی گزاریں گے۔﴿تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ﴾ ” یعنی جنت میں پانی، دودھ، شہد اور شراب کی نہریں بہتی ہوں گی۔ وہ جیسے چاہیں گے انہیں جاری کرلیں گے اور جہاں چاہیں گے انہیں پھیر لیں گے۔ انہی نہروں سے جنت کے درخت سیراب ہوں گے اور مختلف اصناف کے پھل پیدا ہوں گے۔ ﴿ كُلَّمَا رُزِقُوا مِنْهَا مِن ثَمَرَةٍ رِّزْقًا ۙ قَالُوا هَـٰذَا الَّذِي رُزِقْنَا مِن قَبْلُ﴾ ” جب بھی ان کو ان میں سے کھانے کو کوئی پھل دیا جائے گا، تو کہیں گے یہ تو وہی ہے جو پہلے ہمیں دیا گیا“ یعنی جنت کا یہ پھل دنیا کے پھلوں کی جنس میں سے ہوگا اس میں دنیا کے پھلوں کی سی صفات ہوں گی۔ خوبصورتی اور لذت میں جنت کے پھل دنیا کے پھلوں سے ملتے جلتے ہوں گے۔ ان میں کوئی بد ذائقہ پھل نہ ہوگا اور کوئی وقت ایسا نہ ہوگا جس میں اہل جنت لذت نہ اٹھا رہے ہوں گے بلکہ وہ دائمی طور پر جنت کے پھلوں کی لذت سے لطف اندوز ہوں گے۔
﴿وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا﴾” اور دیئے جائیں گے ان کو پھل ملتے جلتے“ کہا جاتاہے کہ (جنت کے پھل) نام میں مشابہت رکھتے ہیں اور ذائقے میں مختلف ہیں۔ بعض کی رائے ہے کہ اس سے مراد ہے کہ وہ رنگ میں مشابہت رکھتے ہیں مگر نام مختلف ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد ہے کہ وہ خوبصورتی، لذت اور مٹھاس میں ایک دوسرے سے مشابہ ہیں۔ شاید یہی تعبیر احسن ہے۔ پھر جہاں اہل جنت کے مساکن، ان کی خوراک، طعام و مشروبات اور پھلوں کا ذکر کیا ہے وہاں ان کی بیویوں کا ذکر بھی کیا ہے۔ نہایت ایجاز و اختصار کے ساتھ مکمل اور واضح طور پر ان کا وصف بیان کیا ہے۔
﴿وَلَهُمْ فِيهَا أَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ﴾ ” ان کے واسطے ان میں بیویاں ہوں گی پاک“ اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ وہ فلاں عیب سے پاک ہوں گی، کیونکہ یہ تطہیر، طہارت کی تمام اقسام پر مشتمل ہوگی۔ ان کے اخلاق پاک ہوں گے، ان کی تخلیق پاکیزگی پر مبین ہوگی، ان کی زبان پاک ہوگی اور ان کی نظر پاک ہوگی۔ ان کے اخلاق کی پاکیزگی یہ ہے کہ وہ دلکش ہوں گی اور اپنے اخلاق حسنہ، حسن اطاعت اور قولی و فعلی آداب کے ساتھ اپنے شوہروں سے اظہار محبت کریں گی۔ حیض و نفاس، منی، بول و براز، تھوک، بلغم اور بدبو سے پاک ہوں گی۔ نیز اپنی جسمانی تخلیق میں بھی پاک ہوں گی وہ کامل حسن و جمال سے بہرہ ور ہوں گی۔ ان کے اندر کسی قسم کا عیب اور کسی قسم کی جسمانی بدصورتی نہ ہوگی بلکہ وہ نیک سیرت اور خوبصورت ہوں گی۔ وہ پاک نظر اور پاک زبان ہوں گی۔ وہ نیچی نگاہوں والی ہوں گی اور ان کی نگاہیں اپنے شوہروں سے آگے نہ بڑھیں گی۔ ان کی زبانیں ہر گندی بات سے محفوظ پاک ہوں گی۔
اس آیت کریمہ میں مندرجہ ذیل امور کا ذکر کیا گیا ہے :
(1) خوشخبری دینے والا۔ (2) جس کو خوشخبری دی گئی ہے۔ (3) جس چیز کی خوشخبری دی گئی ہے۔ (٤) وہ سبب جو اس خوشخبری کا باعث بنتا ہے۔ خوشخبری دینے والے سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات یا وہ لوگ ہیں جو آپ کی امت میں سے (ابلاغ علم میں) آپ کے قائم مقام ہوں گے۔ خوشخبری دیئے جانے والے وہ لوگ ہیں جو اہل ایمان ہیں اور نیک اعمال بجا لانے والے ہیں۔ جس چیز کی خوشخبری دی گئی ہے وہ ہے جنت، جو بیان کردہ صفات سے متصف ہے۔ اس خوشخبری کے باعث اور سبب سے مراد ایمان اور عمل صالح ہیں۔ ایمان اور عمل صالح کے بغیر اس خوشخبری کے حصول کا کوئی ذریعہ نہیں۔ یہ سب سے بڑی خوشخبری ہے جو بہترین اسباب کے ذریعے سے افضل ترین ہستی کی زبان مبارک سے دی گئی ہے۔
اس آیت کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ اہل ایمان کو خوشخبری دینا اعمال صالحہ اور ان کے ثمرات کا ذکر کر کے ان میں نشاط پیدا کرنا مستحب ہے کیونکہ اس طرح اعمال صالحہ آسان ہوجاتے ہیں۔ سب سے بڑی بشارت جو انسان کو حاصل ہوتی ہے وہ ایمان اور عمل صالح کی توفیق ہے۔ پس یہ اولین بشارت اور اس کی بنیاد ہے۔ اس کے بعد دوسری بشارت وہ ہے جو موت کے وقت اسے حاصل ہوتی ہے اور اس کے بعد وہ بشارت ہے جو نعمتوں سے بھرپوردائمی جنت میں پہنچ کر اسے حاصل ہوگی۔ ہم اللہ تعالیٰ سے اس کے فضل کا سوال کرتے ہیں۔ |
البقرة |
26 |
﴿إِنَّ اللَّـهَ لَا يَسْتَحْيِي أَن يَضْرِبَ مَثَلًا مَّا﴾ ” اللہ تعالیٰ اس بات سے نہیں شرماتا کہ وہ کوئی سی بھی مثال بیان کرے“ خواہ وہ کسی قسم کی مثال ہو ﴿بَعُوضَةً فَمَا فَوْقَهَا﴾” مچھر کی ہو یا اس چیز کی جو اس سے بڑھ کر ہو“ کیونکہ مثال حکمت اور ایضاح حق پر مبنی ہوتی ہے اس لئے اللہ تعالیٰ حق سے نہیں شرماتا۔ اس آیت کریمہ میں گویا اس شخص کو جواب دیا گیا ہے جو معمولی اور حقیر اشیاء کی مثال دینے کا منکر ہے اور اس بارے میں اللہ تعالیٰ پر اعتراض کرتا ہے، پس یہ اعتراض کا مقام نہیں بلکہ یہ تو اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں کو تعلیم دینا اور ان کے ساتھ مہربانی کا معاملہ کرنا ہے، لہٰذا ضروری ہے کہ اسے شکر کرتے ہوئے قبول کیا جائے۔ بنا بریں فرمایا : ﴿فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا فَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِن رَّبِّهِمْ﴾ ” پس وہ لوگ جو ایمان لائے تو وہ جانتے ہیں کہ یہ ان کے رب کی طرف سے حق ہے“ پس وہ اسے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس میں غور و فکر سے کام لیتے ہیں۔ پس اگر انہیں اس کے مشمولات کا تفصیلی علم حاصل ہوجاتا ہے تو ان کے علم و ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔ ورنہ انہیں معلوم ہے کہ یہ حق ہے اور حق باتوں پر ہی مشتمل ہے اور اگر اس میں حق کا پہلوان پر مخفی رہے تب بھی انہیں یقین ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے بے فائدہ بیان نہیں فرمایا، بلکہ اس میں یقیناً کوئی حکمت بالغہ اور نعمت کاملہ مضمر ہے۔
﴿وَأَمَّا الَّذِينَ كَفَرُوا فَيَقُولُونَ مَاذَا أَرَادَ اللَّـهُ بِهَـٰذَا مَثَلًا﴾” لیکن کافر لوگ، تو وہ کہتے ہیں، اللہ نے اس مثال سے کیا چاہا ہے؟“ یعنی کافر حیران ہو کر اعتراض کرتے ہیں اور اپنے کفر میں اور اضافہ کرلیتے ہیں جیسے اہل ایمان کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿يُضِلُّ بِهِ كَثِيرًا وَيَهْدِي بِهِ كَثِيرًا﴾” وہ اس سے بہتوں کو گمراہ کرتا اور بہت سوں کو ہدایت دیتا ہے“ پس آیات قرآن کے نزول کے وقت یہ اہل ایمان اور کفار کا حال ہے۔ اللہ تعالیٰ ایک اور مقام پر فرماتا ہے : ﴿وَإِذَا مَا أُنزِلَتْ سُورَةٌ فَمِنْهُم مَّن يَقُولُ أَيُّكُمْ زَادَتْهُ هَـٰذِهِ إِيمَانًا ۚ فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا فَزَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَهُمْ يَسْتَبْشِرُونَ وَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ فَزَادَتْهُمْ رِجْسًا إِلَىٰ رِجْسِهِمْ وَمَاتُوا وَهُمْ كَافِرُونَ ﴾ ” جب کوئی سورت نازل کی جاتی ہے تو ان میں سے بعض تمسخر کے طور پر کہتے ہیں اس سورت نے کس کا ایمان زیادہ کیا ہے؟ جو لوگ ایمان لائے ان کا ایمان تو اس سورت نے زیادہ کیا اور وہ خوش ہوتے ہیں اور جن کے دلوں میں نفاق کی بیماری ہے تو اس سورت نے ان کی گندگی میں گندگی کو اور زیادہ کردیا اور وہ کفر کی حالت ہی میں مر گئے۔“ پس بندوں پر قرآنی آیات کے نزول سے بڑھ کر اور کوئی نعمت نہیں۔
اس کے باوجود یہ قرآنی آیات کچھ لوگوں کے لئے آزمائش، حیرت، گمراہی اور ان کے شر میں اضافے کا باعث بنتی ہیں اور کچھ لوگوں کے لئے انعام، رحمت اور ان کی بھلائیوں میں اضافے کا سبب بنتی ہیں۔ پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندوں کے درمیان تفاوت قائم کیا۔ صرف وہی ہے جو ہدایت سے نوازتا ہے اور وہی ہے جو گمراہ کرتا ہے۔
اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس عدل و حکمت کا ذکر کیا ہے جو اس شخص کی گمراہی میں کار فرما ہوتی ہے جسے وہ گمراہ کرتا ہے۔
﴿وَمَا يُضِلُّ بِهِ إِلَّا الْفَاسِقِينَ ﴾ یعنی وہ صرف ان ہی لوگوں کو گمراہ کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے باہر ہیں، جو اللہ تعالیٰ کے رسولوں سے عناد رکھتے ہیں، فسق و فجور ان كا وصف بن گیا ہے اور وہ اس وصف کو بدلنا نہیں چاہتے۔ پس اللہ تعالیٰ کی حکمت کا یہ تقاضا ہوا کہ وہ ان کو گمراہی میں مبتلا کرے کیونکہ ان میں ہدایت کو قبول کرنے کی صلاحیت ہی نہیں۔ جیسے اس کی حکمت اور اس کا فضل اس شخص کی ہدایت کا تقاضا کرتے ہیں جو ایمان سے متصف اور اعمال صالحہ سے مزین ہو۔
فسق کی دو اقسام ہیں : ایک قسم وہ ہے جو انسان کا دائرہ اسلام ہی سے خارج کردیتی ہے۔ فسق کی یہ قسم ایمان سے خارج ہونے کا تقاضا کرتی ہے جیسا کہ اس آیت میں اور اس قسم کی دیگر آیات میں ذکر کیا گیا ہے۔
فسق کی دوسری قسم وہ ہے جو انسان کو دائرہ ایمان سے خارج نہیں کرتی جیسا کہ اس آیت کریمہ میں وارد ہوا ہے: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا﴾ (الحجرات :6؍79) ” اے ایمان والو اگر تمہارے پاس کوئی فاسق کوئی خبر لے کر آئے تو اچھی طرح تحقیق کرلو۔ “ |
البقرة |
27 |
پھر اللہ تعالیٰ نے فاسقوں کا وصف بیان کیا، فرمایا: ﴿الَّذِينَ يَنقُضُونَ عَهْدَ اللَّـهِ مِن بَعْدِ مِيثَاقِهِ﴾” وہ جو اللہ کے عہد کو اس کو پختہ کرنے کے بعد توڑ دیتے ہیں“ عہد کا لفظ عام ہے، اس سے مراد وہ عہد بھی ہے جو ان کے اور ان کے رب کے درمیان ہے اور اس کا اطلاق اس عہد پر بھی ہوتا ہے جو انسان آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ کرتے ہیں۔ اللہ نے عہد کے پورا کرنے کی سخت تاکید فرمائی ہے۔ کافران عہدوں کی پروا نہیں کرتے، بلکہ وہ ان کو توڑتے ہیں اور وہ اللہ تعالیٰ کے اوامر کو ترک کرتے ہیں، اس کے نواہی کے مرتکب ہوتے ہیں اور وہ ان معاہدوں کا بھی پاس نہیں کرتے جو ان کے درمیان آپس میں ہوتے ہیں۔
﴿وَيَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللَّـهُ بِهِ أَن يُوصَلَ﴾” اور اس چیز کو قطع کرتے ہیں جس کے ملانے کا اللہ نے حکم دیا ہے“ اس میں بہت سی چیزیں داخل ہیں :
اولاً: اللہ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم اس تعلق کو جوڑیں جو ہمارے اور اللہ کے درمیان ہے۔ (اس کی صورت یہ ہے کہ ہم) اللہ پر ایمان لائیں اور اس کی عبادت کریں۔
ثانیاً: ہمارے اور اس کے رسول کے درمیان جو تعلق ہے، اسے قائم کریں، یعنی اس پر ایمان لائیں، اس سے محبت رکھیں، اس کی مدد کریں اور اس کے تمام حقوق ادا کریں۔ (رسول کی مکمل اطاعت کریں)
ثالثاً: وہ تعلق ہے جو ہمارے اور ہمارے والدین، عزیز و اقارب، دوست احباب اور تمام مخلوق کے درمیان ہے، ان سب کے حقوق کی ادائیگی بھی اس تعلق کے جوڑنے میں شامل ہے جس کا حکم ہمیں اللہ تعالیٰ نے دیا ہے۔
اہل ایمان ان تمام رشتوں، حقوق اور تعلقات کو جوڑے رکھتے ہیں جن کو جوڑنے کا اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم دیا ہے اور ان حقوق کو بہترین طریقے سے ادا کرتے ہیں۔ رہے اہل فسق تو وہ ان رشتوں کو توڑتے ہیں اور ان کو اپنی پیٹھ پیچھے پھینک کر (ان کے تقدس کا پاس نہیں کرتے) اس کی بجائے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتے ہیں، قطع رحمی سے کام لیتے ہیں اور گناہوں کے کام کرتے ہیں اور یہی زمین میں فساد برپا کرنا ہے۔
﴿أُولَـٰئِكَ﴾” یعنی یہی لوگ جو اس صفت سے متصف ہیں۔﴿هُمُ الْخَاسِرُونَ﴾ دنیا و آخرت میں خسارے میں پڑنے والے ہیں۔ خسارے کو ان فاسقین میں اس لیے محصور و محدود رکھا کیونکہ ان کا خسارہ ان کے تمام احوال میں عام ہے۔ ان کے نصیب میں کسی قسم کا کوئی نفع نہیں، کیونکہ ہر نیک کام کے مقبول ہونے کے لئے ایمان شرط ہے۔ پس جو ایمان سے محروم ہے، اس کے عمل کا کوئی وزن اور اعتبار نہیں، یہ خسارہ کفر کا خسارہ ہے۔
رہا وہ خسارہ جو کبھی کفر ہوتا ہے، کبھی گناہ اور معصیت کے زمرے میں اور کبھی مستحب امور کو ترک کرنے کی کوتاہی کے زمرے میں آتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں مذکور ہے۔ ﴿إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِي خُسْرٍ ﴾ (العصر:103؍2)” بے شک انسان ضرور گھاٹے میں ہے۔“ اس خسارے میں تمام انسان داخل ہیں سوائے ان لوگوں کے جو ایمان اور عمل صالح کی صفات، ایک دوسرے کو حق کی وصیت کرنے اور ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کرنے کی خوبیوں سے متصف ہیں نیز بھلائی سے محرومی کی حقیقت سے بھی وہ آشنا ہوتے ہیں، جس کو بندہ حاصل کرنے کے درپے ہوتا ہے اور اس کا حصول اس کے امکان میں ہوتا ہے۔ |
البقرة |
28 |
اس آیت میں استفہام تعجب، زجر و توبیخ اور انکار کے معنی میں ہے۔ یعنی تم کیسے اللہ تعالیٰ کا انکار کرتے ہو جو تمہیں عدم میں سے وجود میں لایا اور اس نے تمہیں انواع و اقسام کی نعمتوں سے نوازا پھر وہ تمہارے وقت پورا ہونے پر تمہیں موت دے گا اور قبروں کے اندر تمہیں جزا دے گا پھر قیامت کے برپا ہونے پر تمہیں دوبارہ زندہ کرے گا۔ پھر تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے اور وہ تمہیں تمہارے اعمال کا پورا پورا بدلہ دے گا۔ پس جب تم اللہ تعالیٰ کے تصرف میں ہو، اس کی تدبیر اور اس کے احسان کے تحت زندگی بسر کر رہے ہو، اور تم (دنیا میں) اس کے احکام دینیہ اور اس کے بعد (آخرت میں) اس کے قانون جزا و سزا کے تحت آتے ہو، تب کیا تمہیں یہ لائق ہے کہ تم اس کا انکار کرو؟ کیا تمہارا یہ رویہ ایک بڑی جہالت اور ایک بڑی حماقت کے سوا کچھ اور ہے ؟ اس کے برعکس تمہارے لئے مناسب تو یہ تھا کہ تم اس سے ڈرتے، اس کا شکر ادا کرتے، اس پر ایمان لاتے، اس کے عذاب سے خوف کھاتے اور اس کے ثواب کی امید رکھتے۔ |
البقرة |
29 |
﴿ هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُم مَّا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا﴾” وہی ہے جس نے پیدا کیا تمہارے واسطے جو کچھ زمین ہے سب کا سب“ یعنی اس نے تم پر احسان اور رحم کرتے ہوئے تمہارے فائدے، تمہارے تمتع اور تمہاری عبرت کے لئے زمین کی تمام موجودات کو پیدا کیا ہے۔ یہ آیت کریمہ اس بات کی دلیل ہے کہ تمام اشیاء میں اصل، اباحت اور طہارت ہے۔ (یعنی ہر چیز جائز اور پاک ہے) کیونکہ یہ آیت احسان جتلانے کے سیاق میں ہے۔ اس جواز سے تمام ناپاک چیزیں نکل جاتی ہیں، اس لئے کہ ان کی حرمت بھی فحوائے آیت اور بیان مقصود سے ماخوذ ہے۔ نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ان اشیاء کو ہمارے فائدے کے لئے تخلیق فرمایا ہے، لہٰذا ان میں سے جس کسی چیز میں کوئی نقصان ہے تو وہ اس اباحت سے خارج ہے۔
یہ اللہ تعالیٰ کی نعمت کاملہ ہے کہ اس نے ہمیں خبائث سے منع کیا تاکہ ہم پاکیزہ رہیں۔
﴿ثُمَّ اسْتَوَىٰ إِلَى السَّمَاءِ فَسَوَّاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ ۚ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ ﴾ ” پھر قصد کیا اس نے آسمان کی طرف، سو ٹھیک کردیا ان کو سات آسمان، اور وہ ہر چیز کا جاننے والا ہے۔ “
کلمہ ” استوی“ کے معانی : استویٰ قرآن مجید میں تین معنوں میں استعمال ہوا ہے۔
(1) کبھی یہ حرف کے ساتھ مل کر متعدی نہیں ہوتا تب یہ ” کمال‘ اور ” اتمام“ کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَلَمَّا بَلَغَ أَشُدَّهُ وَاسْتَوَىٰ﴾ ( القصص :14؍28 )” جب وہ اپنی جوانی کو پہنچا اور کامل جوان ہوا۔ “
(2) کبھی یہ ارتفاع اور بلند ہونے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور یہ اس وقت ہوتا ہے جب یہ "علیٰ" کے ساتھ متعدی ہو۔ جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿الرَّحْمَـٰنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَىٰ ﴾ (طہ :20؍5) ” رحمٰن جس نے عرش پر قرار پکڑا۔“ اور ارشاد ہے۔ ﴿لِتَسْتَوُوا عَلَىٰ ظُهُورِهِ﴾ (الزخرف : 34؍ 13) ” تاکہ تم اس کی پیٹھ پر قرار پکڑو“۔
(3) اور کبھی ” یہ قصد کرنے“ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ اس وقت یہ ” الیٰ“ کے ساتھ متعدی ہوتا ہے، جیسا کہ زیر تفسیر آیت میں ہے۔ یعنی جب اللہ تعالیٰ نے زمین پیدا کی تو پھر اس نے آسمانوں کی تخلیق کا قصد کیا ﴿فَسَوَّاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ﴾ ” پھر اس نے انہیں ٹھیک سات آسمان بنادیا“ یعنی آسمانوں کو پیدا کیا، ان کو مستحکم اور مضبوط کیا۔ ﴿وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ ﴾ ” اور وہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے“ یعنی ﴿يَعْلَمُ مَا يَلِجُ فِي الْأَرْضِ وَمَا يَخْرُجُ مِنْهَا وَمَا يَنزِلُ مِنَ السَّمَاءِ وَمَا يَعْرُجُ فِيهَا﴾ (الحدید : 57 ؍ 4) ” جو کچھ زمین میں داخل ہوتا ہے، جو کچھ زمین سے نکلتا ہے، جو کچھ آسمان سے اترتا ہے اور جو کچھ آسمان میں چڑھتا ہے وہ اسے جانتا ہے“ اور﴿يَعْلَمُ مَا تُسِرُّونَ وَمَا تُعْلِنُونَ﴾ (النحل : 16 ؍ 19) ” جو کچھ تم چھپاتے ہو اور جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو، وہ سب جانتا ہے“ اور﴿يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفَى﴾(طہ:20؍7) ” وہ تمام بھیدوں اور چھپی ہوئی چیزوں کا علم رکھتا ہے۔ “
اللہ تعالیٰ نے بہت سے مقامات پر اپنی قدرت تخلیق اور اپنے لئے اثبات علم کو ساتھ ساتھ بیان فرمایا جیسا کہ اس آیت میں اور ایک دوسری آیت میں بیان فرمایا ہے : ﴿أَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ ﴾ (الملک : 67؍ 14) ” کیا وہ نہیں جانتا جس نے پیدا کیا، اور وہ تو تمام پوشیدہ باتوں کو جاننے والا اور باخبر ہے۔ “
کیونکہ مخلوقات کو پیدا کرنا اس کے علم و حکمت اور اس کی قدرت کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ |
البقرة |
30 |
﴿وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً﴾ ” اور جب آپ کے رب نے فرشتوں سے کہا، میں زمین میں ایک خلیفہ بناؤں گا“ یہ ابوالبشر حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کی ابتدا اور ان کی فضیلت کا ذکر ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے آدم کی تخلیق کا ارادہ کیا تو اس نے فرشتوں کو آگاہ کیا اور فرمایا کہ وہ آدم کو زمین کے اندر خلیفہ بنائے گا۔ اس پر تمام فرشتوں نے کہا ﴿ أَتَجْعَلُ فِيهَا مَن يُفْسِدُ فِيهَا﴾” کیا تو زمین میں اس کو بنائے گا جو اس میں فساد کرے گا“ یعنی گناہوں کا ارتکاب کرکے زمین پر فساد برپا کرے گا ﴿ وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ﴾” اور خون بہائے گا“ یہ عموم کے بعد تخصیص ہے اور اس کا مقصد قتل کے مفاسد کی شدت کو بیان کرنا ہے اور یہ فرشتوں کے گمان کے مطابق تھا کہ وہ ہستی جسے زمین میں خلیفہ بنایا جارہا ہے اس کی تخلیق سے زمین کے اندر فساد ظاہر ہوگا، چنانچہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی پاکیزگی اور عظمت بیان کرتے ہوئے عرض کیا کہ وہ اس طریقے سے اللہ تعالیٰ کی عبادت کررہے ہیں جو تمام مفاسد سے پاک ہے۔ چنانچہ انہوں نے کہا ﴿ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ﴾ ” اور ہم تیری پاکیزگی بیان کرتے ہیں تیری خوبیوں کے ساتھ“ یعنی ہم ایسی تنزیہ کے ساتھ تیری پاکیزگی بیان کرتے ہیں جو تیری حمد و جلال کے لائق ہے۔ ﴿وَنُقَدِّسُ لَكَ﴾اس میں ایک معنی کا احتمال یہ ہے کہ ہم تیری تقدیس بیان کرتے ہیں یعنی (نُقَدِّسَكَ) اس صورت میں لام تخصیص اور اخلاص کا فائدہ دے گا۔ دوسرا احتمال یہ ہے کہ اس کے معنی ہوں۔ ( وَنُقَدِّسُ لَكَ أ َ نفُسَنَا) ” ہم اپنے آپ کو تیرے لئے پاک کرتے ہیں“ یعنی ہم اپنے نفوس کو اخلاق جمیلہ جیسے محبت الہٰی، خثیت الہٰی اور تعظیم الہٰی کے ذریعے سے پاک کرتے ہیں اور ہم اپنے نفسوں کو اخلاق رزیلہ سے بھی پاک کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے کہا ﴿ إِنِّي أَعْلَمُ﴾یعنی میں جانتا ہوں کہ یہ خلیفہ کون ہے۔ ﴿مَا لَا تَعْلَمُونَ﴾جو تم نہیں جانتے کیونکہ تمہارا کلام تو ظن اور گمان پر مبنی ہے جب کہ میں ظاہر و باطن کا علم رکھتا ہوں اور مجھے معلوم ہے کہ اس خلیفہ کی تخلیق سے جو خیر اور بھلائی حاصل ہوگی وہ اس شر سے کئی گنا زیادہ ہے جو اس کی تخلیق میں مضمر ہے اور اس میں یہ بات بھی نہ ہوتی، تب بھی اللہ تعالیٰ کا یہ ارادہ کہ وہ انسانوں میں سے انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کو چنے، اس کی نشانیاں مخلوق پر واضح ہوں اور اس سے عبودیات کی وہ کیفیتیں حاصل ہوں جو اس خلیفہ کی تخلیق کے بغیر حاصل نہ ہوسکتی تھیں، جیسے جہاد وغیرہ ہیں اور امتحان اور آزمائش کے ذریعے سے خیر و شر کی وہ قوتیں ظاہر ہوں جو مکلفین کی فطرت میں پوشیدہ ہیں اور اللہ تعالیٰ کے دشمنوں، دوستوں، اس کے خلاف جنگ لڑنے والوں اور حزب اللہ کے مابین امتیاز ہو اور ابلیس کا وہ شر ظاہر ہو جو اس کی فطرت میں پوشیدہ ہے اور جس سے وہ متصف ہے۔ تو آدم علیہ السلام کی تخلیق میں یہ حکمتیں ہی اتنی عظیم ہیں کہ ان میں سے چند ایک بھی اس کی تخلیق کے لئے کافی ہیں۔ |
البقرة |
31 |
پھر چونکہ فرشتوں کے قول میں ان کے اس خیال کی طرف اشارہ ہے کہ انہیں اس خلیفہ پر فضیلت حاصل ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا کہ وہ فرشتوں پر آدم کی فضیلت کو واضح کردے، تاکہ اس کے ذریعے سے وہ آدم کی فضیلت اور اللہ تعالیٰ کے کمال حکمت اور اس کے علم کو جان لیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا﴾ یعنی اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو تمام چیزوں کے اسماء اور ان کے مسمی کا علم عطا کردیا۔ پس اس نے اسے اسم اور مسمی دونوں کی تعلیم دی۔ یعنی الفاظ اور معانی دونوں سکھا دئیے۔ یہاں تک کہ اسماء میں سے مکبر اور مصغر کے مابین امتیاز کو بھی واضح کردیا، مثلاً ” قَصْعَةٌ “ (پیالہ) اور ” قُصَیْعَةٌ “ (چھوٹا سا پیالہ)
﴿ثُمَّ عَرَضَهُمْ ﴾ یعنی پھر ان مسمیات کو پیش کیا۔ ﴿عَلَى الْمَلَائِكَةِ﴾” فرشتوں پر“ یعنی فرشتوں کو آزمانے کے لئے کہ آیا یہ ان مسمیات کو پہچانتے ہیں یا نہیں اور فرمایا: ﴿فَقَالَ أَنبِئُونِي بِأَسْمَاءِ هَـٰؤُلَاءِ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ﴾اگر تم اپنے اس دعوے اور گمان میں سچے ہو کہ تم اس خلیفہ سے افضل ہو تو مجھے ان چیزوں کے نام بتاؤ۔ |
البقرة |
32 |
﴿قَالُوا سُبْحَانَكَ﴾ فرشتوں نے جواب دیا کہ ہم نے تجھ پر جو اعتراض کیا تھا اور تیرے حکم کی مخالفت کا ارتکاب کر بیٹھے۔ اس سے تجھے منزہ اور پاک تسلیم کرتے ہیں۔ ﴿ لَا عِلْمَ لَنَا﴾یعنی ہمیں کسی بھی پہلو سے کوئی علم نہیں ﴿ إِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا﴾سوائے اس علم کے جو تو نے اپنے فضل و کرم سے ہمیں عطا کیا ہے۔ ﴿إِنَّكَ أَنتَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ ﴾( اَلْعَلِيمُ )اس ہستی کو کہا جاتا ہے، جس نے اپنے علم کے ذریعے سے ہر چیز کا احاطہ کررکھا ہو۔ اس کے علم سے کوئی چیز باہر نہ ہو آسمانوں اور زمین میں کوئی ذرہ بھر چیز بھی اس سے پوشیدہ نہ ہو، اس ذرے سے بڑی یا اس سے چھوٹی کوئی چیز بھی اس سے چھپی ہوئی نہ ہو۔ (اَلْحَکِیْم) اس ہستی کو کہا جاتا ہے جو کامل حکمت کی مالک ہو۔ کوئی مخلوق اس کی حکمت سے باہر نہ ہو اور کوئی مامور اس حکمت سے علیحدہ نہ ہو۔ پس اللہ تعالیٰ نے کوئی چیز ایسی پیدا نہیں کی جس میں کوئی حکمت نہ ہو اور نہ کوئی ایسا حکم دیا ہے جو حکمت سے خالی ہو۔ حکمت سے مراد ہے کسی چیز کو اس کے اس مقام پر رکھنا جو اس کے لائق ہے۔ فرشتوں نے اللہ تعالیٰ کی حکومت اور علم کا اقرار اور اعتراف کیا اور اس بات کو بھی تسلیم کیا کہ وہ ایک ادنیٰ سی چیز کی معرفت سے بھی قاصر تھے۔ انہوں نے اس حقیقت کا بھی اعتراف کیا کہ ان پر اللہ تعالیٰ نے فضل کیا اور انہیں وہ کچھ سکھایا جو وہ نہ جانتے تھے۔ |
البقرة |
33 |
پس اس وقت اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿يَا آدَمُ أَنبِئْهُم بِأَسْمَائِهِمْ﴾” اے آدم ! ان کو ان کے ناموں کی خبر دو“ یعنی ان تمام مسمیات کے اسماء کے بارے میں آگاہ کرو جن کو اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے سامنے پیش کیا تھا اور فرشتے ان کے نام بتانے سے قاصر رہے۔ ﴿فَلَمَّا أَنبَأَهُم﴾” جب آدم علیہ السلام نے فرشتوں کو ان ناموں سے آگاہ کیا“ تو ان پر آدم کی فضیلت ظاہر اور اس کو خلیفہ بنانے میں باری تعالیٰ کی حکمت اور اس کا علم ثابت ہوگیا۔ ﴿ قَالَ أَلَمْ أَقُل لَّكُمْ إِنِّي أَعْلَمُ غَيْبَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ﴾” اللہ نے فرمایا، کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ میں آسمانوں اور زمین کی چھپی ہوئی چیزوں کو جانتا ہوں۔“ غیب سے مراد ہر وہ چیز ہے جو ہم سے اوجھل ہوا اور ہم اس کا مشاہدہ نہ کرسکتے ہوں۔ جب وہ غائب چیزوں کا علم رکھتا ہے تو مشہودات کو وہ بدرجہ اولیٰ جانتا ہے۔ ﴿ وَأَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ﴾یعنی میں جانتا ہوں اس چیز کو جسے تم ظاہر کرتے ہو ﴿مَا كُنتُمْ تَكْتُمُونَ﴾” اور جو کچھ تم چھپاتے ہو“۔ |
البقرة |
34 |
پھر اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ آدم علیہ السلام کے اکرام و تعظیم اور اللہ تعالیٰ کی عبودیت کے اظہار کے لئے آدم علیہ السلام کے سامنے سجدہ ریز ہوں۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم کی اطاعت کی اور تمام فرشتے اسی وقت سجدے میں گر گئے ﴿ إِلَّا إِبْلِيسَ أَبَىٰ﴾سوائے ابلیس کے، اس نے سجدہ کرنے سے انکار کردیا۔ اس نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے سامنے تکبر کا اظہار کیا اور آدم علیہ السلام سے اپنے آپ کو بڑا سمجھا۔ اس نے تکبر سے کہا : ﴿ أَأَسْجُدُ لِمَنْ خَلَقْتَ طِينًا﴾(بنی اسرائیل :61؍17)” کیا میں ایسے شخص کو سجدہ کروں جسے تو نے مٹی سے تخلیق کیا ہے۔“ یہ انکار اور استکبار اس کے اس کفر کا نتیجہ تھا جو اس کی سرشت میں پوشیدہ تھا۔ اس وقت اللہ تعالیٰ اور آدم علیہ السلام سے اس کی عداوت ظاہر ہوگئی اور اس کا کفر و استکبار عیاں ہوگیا۔ ان آیات کریمہ سے کچھ نصیحتیں اور کچھ نکات ماخوذ ہوتے ہیں۔
(1) اللہ تعالیٰ کے لئے کلام کا اثبات، وہ ہمیشہ سے کلام کرتا رہا ہے، وہ جو چاہتا ہے کہتا ہے، وہ جو چاہتا ہے کلام کرتا ہے، وہ علم والا اور حکمت والا ہے۔
(2) بندے پر جب بعض مخلوقات اور مامورات میں پوشیدہ اللہ تعالیٰ کی حکمت مخفی رہ جائے تو اس پر سر تسلیم خم کرنا، اپنی عقل کو ناقص ٹھہرانا اور اللہ تعالیٰ کی حکمت کا اقرار کرنا واجب ہے۔
(3) ان آیات سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے معاملے کو اہمیت دی، ان پر احسان عظیم فرمایا، جس چیز کے بارے میں وہ جاہل تھے اس کی انہیں تعلیم دی اور جس کا انہیں علم نہ تھا اس پر انہیں متنبہ فرمایا۔ ان آیات میں مندرجہ ذیل وجوہ سے علم کی فضیلت بیان ہوئی ہے۔
(الف) اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتوں کو اپنے علم و حکمت کی معرفت عطا کی۔
(ب) اللہ تعالیٰ نے ان کو اس حقیقت سے واقف کرایا کہ آدم علیہ السلام کو بربنائے علم فضیلت حاصل ہے اور علم بندے کی افضل ترین صفت ہے۔
(ج) جب آدم علیہ السلام کے علم کی فضیلت واضح اور عیاں ہوگئی تو اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ آدم علیہ السلام کے اکرام و تکریم کے لئے اسے سجدہ کریں۔
(د) کسی اور کو کسی امتحان کے ذریعے سے آزمانا جبکہ اس امتحان میں کچھ لوگ پورے نہ اترے ہوں، پھر امتحان میں پورا اترنے والے صاحب فضیلت سے یہ امتحان لے تو یہ اس شخص سے زیادہ کامل ہے جس سے ابتدا میں امتحان لیا گیا تھا۔
(ھ) جن و انس کے والدین کے احوال سے عبرت پذیری، آدم علیہ السلام کی فضیلت، اس پر اللہ تعالیٰ کے احسانات اور آدم کے ساتھ ابلیس کی عداوت کا اظہار اور اس جیسی دیگر عبرتیں۔ |
البقرة |
35 |
﴿وَقُلْنَا يَا آدَمُ اسْكُنْ أَنتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ وَكُلَا مِنْهَا رَغَدًا﴾ ’’اور ہم نے کہا، اے آدم ! رہ تو اور تیری بیوی جنت میں اور کھاؤ تم اس سے خوب سیر ہو کر۔“ جب اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو تخلیق کیا، اس کو فضیلت عطا کی، تو خود اسی میں سے اس کی بیوی کو پیدا کر کے اس پر اپنی نعمت کا اتمام کردیا تاکہ وہ اپنی بیوی کے پاس سکون، راحت اور انس حاصل کرے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو حکم دیا کہ وہ جنت میں رہیں اور جنت میں مزے سے بے روک ٹوک کھائیں پئیں۔
﴿ حَيْثُ شِئْتُمَا﴾یعنی جہاں سے چاہو، مختلف اصناف کے پھل اور میوے کھاؤ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿ إِنَّ لَكَ أَلَّا تَجُوعَ فِيهَا وَلَا تَعْرَىٰ وَأَنَّكَ لَا تَظْمَأُ فِيهَا وَلَا تَضْحَىٰ ﴾(طہ۔2؍118۔119)’’یہاں تجھے یہ آسانی حاصل ہوگی کہ تو اس میں بھوکا رہے گا نہ عریاں ہوگا نہ تو اس میں پیاسا ہوگا اور نہ تجھے دھوپ لگے گی۔ “
﴿ وَلَا تَـقْرَبَا ھٰذِہِ الشَّجَرَۃَ ﴾” اور دونوں اس درخت کے قریب نہ جانا“ یہ جنت کے درختوں میں سے ایک درخت ہے۔ واللہ اعلم۔ آدم اور اس کی بیوی کو صرف ان کی آزمائش اور امتحان کے لئے یا کسی ایسی حکمت کے تحت اس درخت کے قریب جانے سے روکا گیا تھا جو ہمارے علم میں نہیں۔ ﴿ فَتَکُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِیْنَ﴾” پس تم بے انصافوں میں سے ہوجاؤ گے“ یہ آیت اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ یہاں نہی تحریم کے لئے ہے، کیونکہ اس ممانعت پر عمل نہ کرنے کو ظلم کہا ہے۔ ان کا دشمن (ابلیس) ان کے دلوں میں وسوسے ڈالتا رہا اور اس درخت کے پھل کو تناول کرنے کی خوبیوں کو مزین کر کے انہیں اس پھل کو کھا لینے کی ترغیب دیتا رہا حتیٰ کہ وہ انہیں پھسلانے میں کامیاب ہوگیا۔ ابلیس کی تزئین نے ان کو اس لغزش پر آمادہ کیا۔ ﴿ وَقَاسَمَهُمَا إِنِّي لَكُمَا لَمِنَ النَّاصِحِينَ﴾(الاعراف : 7؍ 21) ” اس نے ان دونوں کے سامنے قسم کھائی کہ میں تمہارا خیر خواہ ہوں۔“ چنانچہ وہ دونوں اس کی باتوں میں آ کر دھوکا کھا گئے اور اس کے پیچھے لگ گئے اور اس نے ان دونوں کو نعمتوں اور آسائشوں کے گھر سے نکال باہر کیا اور ان کو دکھوں، تکلیفوں اور مجاہدے کی سرزمین پر اتار دیا گیا۔ |
البقرة |
36 |
﴿ بَعْضُکُمْ لِبَعْضٍ﴾” تمہارا ایک، دوسرے کا دشمن ہے۔“ یعنی ابلیس اور اس کی ذریت، آدم علیہ السلام اور اولاد آدم کی دشمن ہوگی اور ہمیں معلوم ہے کہ دشمن اپنے دشمن کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا ہے۔ ہر طریقے سے اس کی برائی چاہتا ہے اور ہر طریقے سے اسے بھلائی سے محروم کرنے کے در پے رہتا ہے۔ اس ضمن میں بنی آدم کو شیطان سے ڈرایا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔﴿إِنَّ الشَّيْطَانَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوهُ عَدُوًّا ۚ إِنَّمَا يَدْعُو حِزْبَهُ لِيَكُونُوا مِنْ أَصْحَابِ السَّعِيرِ﴾(فاطر:35؍ 6)’’بے شک شیطان تمہارا دشمن ہے تم اسے دشمن ہی سمجھو وہ تو اپنی جماعت کو بلاتا ہے تاکہ وہ جہنم والے بن جائیں۔“ ﴿أَفَتَتَّخِذُونَهُ وَذُرِّيَّتَهُ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِي وَهُمْ لَكُمْ عَدُوٌّ ۚ بِئْسَ لِلظَّالِمِينَ بَدَلًا﴾ (الکھف: 18؍50 )’’کیا تم اسے اور اس کی اولاد کو میرے سوا اپنا دوست بناتے ہوحالانکہ وہ تمہارے دشمن ہیں؟ اور ظالموں کے لیے بہت ہی برا بدلہ ہے۔ “
پھر انہیں زمین پر اتارے جانے کے مقصد سے آگاہ کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ وَلَکُمْ فِی الْاَرْضِ مُسْـتَقَرٌّ﴾یعنی زمین کے اندر تمہارا مسکن اور ٹھکانا ہوگا۔ ﴿ وَّمَتَاعٌ اِلٰی حِیْنٍ﴾تمہارا وقت پورا ہونے تک (تم نے اس سے فائدہ اٹھانا ہے) پھر تم اس گھر میں منتقل ہوجاؤ گے جس کے لیے تمہیں اور جسے تمہارے لئے پیدا کیا گیا ہے۔ اس آیت کریمہ میں واضح ہے کہ اس زندگی کی مدت عارضی اور ایک خاص وقت تک کے لیے ہے، یہ دنیا حقیقی مسکن نہیں ہے۔ یہ تو ایک راہ گزر ہے جہاں سے اگلے جہان کے لئے زادراہ حاصل کیا جاتا ہے (دوران سفر) اس راہ گزر میں مستقل ٹھکانا تعمیر نہیں کیا جاتا۔ |
البقرة |
37 |
آدم علیہ السلام نے (کچھ کلمات) سیکھ لیے اور یاد کرلیے، اللہ تعالیٰ نے یہ کلمات آدم کو الہام کئے تھے۔ وہ کلمات یہ تھے﴿ رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ﴾ (الاعراف : 7؍ 23) ” اے ہمارے رب ! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر تو نے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ فرمایا تو ہم ضرور خسارہ پانے والوں میں سے ہوجائیں گے۔“ آدم علیہ السلام نے اپنے گناہ کا اعتراف کر کے اللہ تعالیٰ سے اس کی مغفرت کا سوال کیا۔ ﴿فَتَابَ عَلَیْہِ ۭ اِنَّہٗ ھُوَ التَّوَّابُ﴾ ’’پس اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کی توبہ قبول کرلی اور اس پر رحم فرمایا جو کوئی توبہ کرتا اور اس کی طرف رجوع کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے بندوں کی طرف رجوع کرنے کی دو قسمیں ہیں۔ (1) سب سے پہلے اللہ تعالیٰ بندے کو توبہ کی توفیق عطا کرتا ہے۔ (2) پھر جب توبہ کی تمام شرائط پوری ہوجاتی ہیں تو اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرلیتا ہے۔
﴿ الرَّحِیْمُ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر بہت ہی رحم کرنے والا ہے۔ ان پر اس کی رحمت یہ ہے کہ اس نے انہیں توبہ کی توفیق سے نوازا اور ان کو معاف کر کے ان سے درگزر فرمایا۔ |
البقرة |
38 |
﴿ قُلْنَا اھْبِطُوْا مِنْہَا جَمِیْعًا ﴾” ہم نے کہا اتر واس سے اکٹھے“۔ زمین پر اتارے جانے کا مکرر ذکر کیا، تاکہ اس پر وہ حکم مرتب کیا جائے جس کا ذکر یہاں کیا جا رہا ہے۔ ﴿ فَاِمَّا یَاْتِیَنَّکُمْ مِّـنِّیْ ھُدًی﴾ یعنی اے جن وانس ! اگر تمہارے پاس میری طرف سے کسی وقت اور کسی بھی زمانے میں ہدایت پہنچے، یعنی کوئی رسول اور کوئی کتاب آئے جو اس راستے کی طرف تمہاری راہنمائی کرے جو تمہیں میرا تقرب عطا کرے، میرے اور میری رضا کے قریب کرے۔ پس جو کوئی میری اس ہدایت کی پیروی کرتے ہوئے میرے رسولوں اور میری کتابوں پر ایمان لائے اور ان رسولوں کو راہنما بنائے۔۔۔ اور اس سے مراد ہے کہ وہ تمام انبیاء و مرسلین اور کتب وحی کی دی ہوئی خبر کی تصدیق کرے، اللہ کے اوامر پر عمل کرے اور اس کی منہیات سے اجتناب کرے۔ تب اس صورت میں﴿فَلَا خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ﴾ ” ان پر کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔“ ایک دوسرے مقام پر آتا ہے۔﴿فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقَىٰ﴾۔ (طٰہ: 20؍ 123) ’’جو کوئی میری ہدایت کی پیری کرے گا وہ نہ تو گمراہ ہوگا نہ بدبختی میں پڑے گا۔ “ |
البقرة |
39 |
پس اللہ تعالیٰ کی ہدایت کی پیروی پر چار چیزیں مرتب ہوتی ہیں۔
بندے سے حزن و خوف کی نفی۔ حزن اور خوف میں فرق یہ ہے کہ اگر غیر پسندیدہ امر گزر چکا ہو تو وہ دل میں حزن کا باعث ہوتا ہے اور اگر وہ اس غیر پسندیدہ امر کا منتظر ہو تو یہ خوف پیدا کرتا ہے۔ پس جس کسی نے ہدایت الٰہی کی پیروی کی اس سے حزن و خوف دور ہوگئے اور جب اس سے حزن و خوف کی نفی ہوگئی تو ان کی ضد ثابت ہوگئی اور وہ ہے ہدایت اور سعادت، لہٰذا جو کوئی بھی اس کی ہدایت کی پیروی کرتا ہے اسے امن، دنیاوی اور اخروی سعادت اور ہدایت حاصل ہوتی ہے اور ہر تکلیف دہ چیز یعنی حزن و خوف اور ضلالت و شقاوت اس سے دور کردی جاتی ہے۔ ہر مرغوب چیز اسے عطا کردی جاتی ہے اور خوف زدہ کرنے والی چیز اس سے دور ہٹا دی جاتی ہے۔
اس کے برعکس اس شخص کا معاملہ ہوگا جس نے اللہ تعالیٰ کی ہدایت کی پیروی نہ کی، پس اس کا انکار کیا اور اس کی آیات کو جھٹلایا۔ ﴿ اُولٰۗیِٕکَ اَصْحٰبُ النَّارِ﴾” یہی لوگ جہنمی ہیں“ یعنی جہنم ان کے لئے لازم ہے۔ جیسے ساتھی دوسرے ساتھی سے اور قرض خواہ مقروض سے چمٹا رہتا ہے۔ ﴿ ھُمْ فِیْہَا خٰلِدُوْنَ﴾” وہ اس جہنم میں ہمیشہ رہیں گے۔“ کبھی اس سے باہر نہیں نکلیں گے جہنم کا عذاب کبھی ان سے کم نہ ہوگا اور نہ ان کو کوئی مدد پہنچے گی۔
ان آیات کریمہ اور ان جیسی دیگر آیات سے ظاہر ہوتا ہے کہ مخلوق میں سے تمام جن و انس، اہل سعادت اور اہل شقاوت کی اقسام میں منقسم ہیں۔ ان آیات میں دونوں فریقوں کی صفات اور ان اعمال کا ذکر کیا گیا ہے جو سعادت یا شقاوت کے موجب ہیں۔ ان آیات سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ” جن“ ثواب و عقاب کے معاملے میں انسانوں کی طرح ہیں جس طرح وہ ان کی مانند امرو نہی کے مکلف ہیں۔ |
البقرة |
40 |
پھر اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر اپنی نعمتوں اور اپنے احسانات کا ذکر شروع کیا۔ فرمایا : یہاں اسرائیل سے مراد حضرت یعقوب علیہ السلام ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا یہ خطاب بنی اسرائیل کے ان گروہوں سے ہے جو مدینہ اور اس کے گرد و نواح میں آباد تھے۔ اس خطاب میں بعد میں آنے والے اسرائیلی بھی شامل ہیں۔ پس ان کو ایک عام حکم دیا ہے۔ فرمایا : ﴿ اذْکُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْٓ اَنْعَمْتُ عَلَیْکُمْ﴾” میری ان نعمتوں کو یاد کرو جو میں نے تم پر کیں“ ان نعمتوں میں تمام نعمتیں شامل ہیں۔ ان میں سے بعض کا ذکر عنقریب اس سورت میں آئے گا۔ یہاں ان نعمتوں کے یاد کرنے سے مراد دل میں ان نعمتوں کا اعتراف کرنا، زبان سے ان کی تعریف کرنا اور جوارح کے ذریعے سے ان نعمتوں کو ایسی جگہ استعمال کرنا ہے جہاں اللہ پسند کرتا ہے اور اس سے راضی ہوتا ہے۔
﴿ وَاَوْفُوْا بِعَہْدِیْٓ﴾یعنی وہ اس عہد کو پورا کریں جو اللہ تعالیٰ نے ان سے لیا ہے کہ وہ اس پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لائیں گے اور اس کی شریعت کو قائم کریں گے۔ ﴿ اُوْفِ بِعَہْدِکُمْ ﴾” میں تم سے کیا ہوا عہد پورا کروں گا“ یہ ان کے عہد کے پورا کرنے کا بدلہ ہے۔
اس عہدسےمراد وہ عہد ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ذکر کیا ہے : ﴿وَلَقَدْ أَخَذَ اللَّـهُ مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَبَعَثْنَا مِنْهُمُ اثْنَيْ عَشَرَ نَقِيبًا ۖ وَقَالَ اللَّـهُ إِنِّي مَعَكُمْ ۖ لَئِنْ أَقَمْتُمُ الصَّلَاةَ وَآتَيْتُمُ الزَّكَاةَ وَآمَنتُم بِرُسُلِي وَعَزَّرْتُمُوهُمْ وَأَقْرَضْتُمُ اللَّـهَ قَرْضًا حَسَنًا لَّأُكَفِّرَنَّ عَنكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَلَأُدْخِلَنَّكُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ۚ فَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذَٰلِكَ مِنكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِيلِ﴾ (المائدة : 5؍12)
” اور اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے عہد لیا اور ان میں سے ہم نے بارہ سردار مقرر کردیے اور اللہ نے فرمایا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں اگر تم نماز قائم کرتے اور زکوٰۃ دیتے رہو گے، میرے رسولوں پر ایمان لاتے اور ان کی عزت و توقیر کرتے رہو گے اور اللہ کو قرض حسنہ دیتے رہو گے تو میں تم سے تمہارے گناہ دور کر دوں گا اور تمہیں ایسی جنتوں میں داخل کروں گا جس کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی، پھر تم میں سے جس نے اس کے بعد کفر کا ارتکاب کیا وہ سیدھے راستے سے بھٹک گیا۔ “
پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو وہ اسباب اختیار کرنے کا حکم دیا جو وفائے عہد کے حامل ہیں یعنی اس اکیلے سے خوف کھانا اور ڈرنا، کیونکہ جو کوئی اس سے ڈرتا ہے تو یہ ڈر اس کے احکام کی اطاعت اور اس کے نواہی سے اجتناب کا موجب بنتا ہے۔ |
البقرة |
41 |
پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو ایک خاص امر کا حکم دیا ہے جس کے بغیر ان کا ایمان مکمل ہوتا ہے نہ اس کے بغیر ایمان صحیح۔ فرمایا ﴿ وَاٰمِنُوْا بِمَآ اَنْزَلْتُ﴾” اور ایمان لاؤ اس پر جو میں نے نازل کیا۔“ اس سے مراد قرآن مجید ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے اور رسول محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لائیں اور ان کی اتباع کریں اور آپ پر ایمان لانے اور اتباع کرنے کا حکم اس کتاب پر بھی ایمان لانے کو مستلزم ہے جو آپ پر نازل کی گئی۔
پھر اس داعی کا ذکر کیا جو انہیں ایمان کی طرف بلاتا ہے۔ فرمایا : ﴿مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَکُمْ﴾” تصدیق کرنے والا ہے ان چیزوں کی جو تمہارے پاس ہیں‘‘ یعنی یہ (قرآن) ان کتابوں کی موافقت کرتا ہے جو تمہارے پاس ہیں یہ ان کے مخالف ہے نہ مناقض۔ پس جب یہ قرآن ان کتابوں کی موافقت کرتا ہے جو تمہارے پاس ہیں اور ان کی مخالفت نہیں کرتا تو پھر تمہارے اس پر ایمان لانے سے کوئی چیز مانع نہیں ہے۔ کیونکہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہی چیز لے کر آئے ہیں جو پہلے رسول لائے تھے، لہٰذا تم سب سے زیادہ مستحق ہو کہ تم اس پر ایمان لاؤ اور اس کی تصدیق کرو کیونکہ تم اہل کتاب اور اہل علم ہو۔ نیز اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَکُمْ ﴾میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ اگر تم اس پر ایمان نہیں لاؤ گے تو یہ تکذیب خود تمہاری طرف لوٹے گی یعنی تم خود بھی ان کتابوں کے جھٹلانے والے ٹھہرو گے جو تمہارے پاس ہیں۔ اس لئے کہ یہ پیغمبر بھی وہی چیز لے کر آیا ہے جو حضرت موسیٰ، عیسیٰ اور دیگر انبیا علیہ السلام لے کر آئے، لہٰذا تمہارا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تکذیب کرنا درحقیقت ان کتابوں کی تکذیب ہے جو تمہارے پاس ہیں۔ نیز اس لئے بھی کہ ان کتابوں میں، جو تمہارے پاس ہیں اس نبی کے اوصاف اور نشانیاں بیان ہوئی ہیں اور اس کی بشارت دی گئی جو یہ قرآن لے کر آیا ہے۔ اس لئے اگر تم اس پر ایمان نہیں لاتے تو تم نے گویا ان کتابوں کے بعض احکام کو جھٹلایا جو تمہارے پاس ہیں۔ پس جو کوئی اس کتاب کے کچھ حصے کو جھٹلاتا ہے جو اس کی طرف نازل کی گئی ہے تو وہ تمام کتابوں کو جھٹلاتا ہے۔ جیسے کوئی شخص کسی ایک رسول کا انکار کرتا ہے تو دراصل وہ تمام رسولوں کا انکار کرتا ہے۔
جب اللہ تعالیٰ نے ان کو اس رسول پر ایمان لانے کا حکم دیا، تو ان کو ایمان کی ضد یعنی اس کے ساتھ کفر سے روکا اور اس سے ڈرایا۔ فرمایا : ﴿وَلَا تَکُوْنُوْٓا اَوَّلَ کَافِرٍۢ بِہٖ ﴾یعنی رسول اللہ اور قرآن کی تکذیب کرنے والے پہلے لوگ نہ بنو۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿ اَوَّلَ کَافِرٍۢ بِہٖ ﴾” اس کے اولین انکار کرنے والے“ (وَلَاتَكْفُرُوا بِهٖ) ” اس کا انکار نہ کرو“ سے زیادہ بلیغ ہے کیونکہ جب وہ اولین کفر کرنے والے ہوں گے تو گویا وہ کفر کی طرف بہت تیزی سے لپکے ہیں اس رویہ کے برعکس جو ان کے لئے زیادہ مناسب تھا۔ ان کے اپنے کفر اور انکار کا گناہ تو ان کے ذمہ ہے ہی، بعد میں آنے والے ان لوگوں کا گناہ بھی ان کے کندھوں پر ہے جنہوں نے ان کی پیروی کی۔
پھر اللہ تعالیٰ نے اس مانع کا ذکر کیا جو ان کو ایمان لانے سے روکتا ہے اور وہ ہے دنیا کے ادنیٰ فوائد کو ابدی سعادت پر ترجیح دینا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿ وَلَا تَشْتَرُوْا بِاٰیٰتِیْ ثَـمَنًا قَلِیْلًا﴾ ” میری آیات (میں تحریف کر کے ان) کے عوض حقیر معاوضہ مت لو“ اس سے مراد وہ دنیاوی مناصب اور کھانے پینے کی اشیاء ہیں جن کے بارے میں وہ اس وہم میں پڑے ہوئے ہیں کہ اگر وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان لے آئے تو وہ ان چیزوں سے محروم ہوجائیں گے۔ پس انہوں نے ان ادنیٰ چیزوں کو آیات الٰہی کے بدلے خرید لیا اور ادنیٰ چیزوں کو آیات الٰہی پر ترجیح دی۔
﴿ وَاِیَّایَ فَاتَّقُوْنِ﴾” اور مجھ ہی سے ڈرو“ اور میرے سوا کسی سے نہ ڈرو۔ کیونکہ جب تم صرف اللہ تعالیٰ سے ڈرو گے تو یہ چیز تم میں تقویٰ اور تھوڑی سی قیمت کے مقابلے میں آیات الٰہی پر ایمان کو مقدم رکھنے کی موجب ہوگی۔ جیسے جب تم آیات الٰہی کے بدلے تھوڑی سی قیمت کو پسند کرلیتے ہو تو یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ تمہارے دلوں سے تقویٰ کوچ کر گیا ہے۔ |
البقرة |
42 |
پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿ وَلَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَکْتُمُوا الْحَــقَّ﴾’’’اور خلط ملط نہ کرو حق کو باطل کے ساتھ اور نہ چھپاؤ تم حق کو“ پس اللہ تعالیٰ نے ان کو دو چیزوں سے منع کیا ہے۔ (1) حق کو باطل میں خلط ملط کرنے سے۔ (2) کتمان حق سے۔ اس لئے کہ اہل کتاب اور اہل علم سے مطلوب یہ ہے کہ وہ حق کو ممیز کر کے اس کو ظاہر کریں تاکہ ہدایت کے متلاشی حق کے ذریعے سے راہ پائیں اور گم گشتہ راہ لوگ سیدھے راستے کی طرف لوٹ آئیں اور اہل عناد پر حجت قائم ہو جائے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی آیات کو کھول کھول کر بیان کردیا ہے اور اپنے دلائل واضح کردیئے تاکہ حق باطل سے بالکل الگ اور ممیز ہوجائے اور مجرموں کا راستہ واضح ہوجائے۔ پس اہل علم میں سے جو کوئی حق پر عمل پیرا ہوتا ہے وہ انبیاء و مرسلین کا جانشین اور قوموں کا راہنما بن جاتا ہے اور جو حق کو باطل میں گڈ مڈ کردیتا ہے، حق کا علم رکھنے کے باوجود حق کو باطل سے ممیز نہیں کرتا اور اس حق کو وہ چھپاتا ہے جسے وہ جانتا ہے اور جس کے اظہار کا اسے حکم دیا گیا ہے تو ایسا شخص جہنم کے داعیوں میں شمار ہوتا ہے، کیونکہ لوگ دین کے معاملے میں اپنے علماء کے سوا کسی کی پیروی نہیں کرتے۔ پس تم ان دو چیزوں میں سے اپنے لیے جو چاہو چن لو۔ |
البقرة |
43 |
پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ﴾ یعنی (ظاہری اور باطنی طور پر) نماز قائم کرو۔ ﴿ وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَ﴾ یعنی (مستحقین کو) زکوٰۃ دو۔ ﴿وَارْکَعُوْا مَعَ الرّٰکِعِیْنَ﴾’’اور رکوع کرو رکوع کرنے والوں کے ساتھ“ یعنی نماز پڑھنے والوں کے ساتھ مل کر نماز پڑھو۔ جب تم نے اللہ تعالیٰ کے رسولوں اور آیات الٰہی پر ایمان رکھتے ہوئے ان افعال کو سرانجام دیا تو یقیناً تم نے اعمال ظاہرہ اور اعمال باطنہ کو، معبود کے لئے اخلاص اور اس کے بندوں کے ساتھ حسن سلوک کو اور عبادات قلبیہ، عبادات بدنیہ اور مالیہ کو جمع کرلیا۔
اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿وَارْکَعُوْا مَعَ الرّٰکِعِیْنَ﴾’’رکوع کرنے والوں کے ساتھ مل کر رکوع کرو‘‘ کے معنی یہ ہیں کہ نماز پڑھنے والوں کے ساتھ مل کر نماز پڑھو۔ پس اس آیت کریمہ میں با جماعت نماز کا حکم اور جماعت کے وجوب کا حکم ہے اور یہ کہ رکوع نماز کا رکن ہے کیونکہ یہاں نماز کو رکوع سے تعبیر کیا گیا ہے اور عبادت کو اس کے کسی جزو سے تعبیر کرنا عبادت میں اس جزو کی فرضیت کی دلیل ہے۔ |
البقرة |
44 |
﴿ اَتَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبر ﴾” کیا تم لوگوں کو نیکی (یعنی ایمان اور بھلائی) کا حکم دیتے ہو؟“ ﴿’ِ وَتَنْسَوْنَ اَنْفُسَکُمْ﴾ اور بھول جاتے ہو اپنے آپ کو“ یعنی تم اپنے آپ کو ایمان اور بھلائی کا حکم دینا چھوڑ دیتے ہو۔ ﴿وَاَنْتُمْ تَتْلُوْنَ الْکِتٰبَ٠ۭ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ﴾اور تمہارا حال یہ ہے کہ تم کتاب اللہ کی تلاوت کرتے ہو، کیا تم سمجھتے نہیں؟ عقل کو اس لئے عقل کہا جاتا ہے کیونکہ اس کے ذریعے سے فائدہ مند چیز اور بھلائی کا شعور حاصل کیا جاتا ہے اور اس کے ذریعے سے اس چیز سے بچا جاتا ہے جو ضر ررساں ہے، اس لیے کہ عقل انسان کو اس بات پر آمادہ کرتی ہے کہ وہ جس چیز کا حکم دیتا ہے اس پر سب سے پہلے خود عمل کرے اور جس چیز سے روکتا ہے اس کو سب سے پہلے خود ترک کرے۔
پس جو کوئی کسی کو بھلائی کا حکم دیتا ہے اور خود اس پر عمل پیرا نہیں ہوتا یا وہ کسی کو برائی سے روکتا ہے اور خود اسے ترک نہیں کرتا تو یہ چیز اس کی جہالت اور اس کے بے عقل ہونے کی دلیل ہے خاص طور پر جبکہ ایسا شخص اس حقیقت کا علم بھی رکھتا ہو۔ پس اس پر حجت قائم ہوگئی۔ ہرچند کہ یہ آیت کریمہ بنی اسرائیل کے معاملہ میں نازل ہوئی ہے تاہم اس کا حکم ہر ایک کے لئے عام ہے۔ اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : ﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ- كَبُرَ مَقْتًا عِندَ اللَّـهِ أَن تَقُولُوا مَا لَا تَفْعَلُونَ﴾( الصف: 61؍ 2۔3) ”اے ایمان والو ! تم ایسی بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں۔ یہ بات اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت بڑی ناراضی کی بات ہے کہ تم ایسی بات کہو جس پر عمل نہ کرو۔ “
آیت کریمہ میں اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ انسان جس کام کے کرنے کا حکم دیتا ہے اگر خود اس پر عمل نہیں کرتا تو وہ نیکی کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے سے رک جائے کیونکہ یہ آیت دونوں واجبات کی نسبت تو بیخ پر دلالت کرتی ہے۔ ورنہ ہمیں معلوم ہے کہ انسان پر دو امور واجب ہیں۔
(1) کسی دوسرے کو نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا۔ (2) خود اپنے آپ کو نیکی پر آمادہ کرنا اور برائی سے رک جانا۔ ان میں سے ایک چیز کو ترک کرنے سے دوسری چیز کو ترک کرنے کی رخصت لازم نہیں آتی۔ کیونکہ کمال یہ ہے کہ انسان دونوں واجبات پر عمل کرے اور نقص یہ ہے کہ وہ دونوں واجبات کو ترک کر دے۔ رہا ان دونوں واجبات میں سے کسی ایک پر عمل کرنا تو یہ رتبہ کمال سے نیچے اور نقص سے اوپر ہے۔ نیز اس کی وجہ یہ ہے کہ نفوس انسانی کی جبلت میں یہ چیز داخل ہے کہ لوگ اس شخص کی اطاعت نہیں کرتے جس کا قول اس کے فعل کے خلاف ہوتا ہے پس وہ عمل سے عاری اقوال کی نسبت افعال کی زیادہ پیروی کرتے ہیں۔ |
البقرة |
45 |
﴿وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ ﴾” اور مدد حاصل کرو صبر سے اور نماز سے۔“ اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم دیا ہے کہ وہ تمام امور میں صبر کی تمام اقسام سے مدد لیں۔ صبر کی اقسام یہ ہیں۔ (1) اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر اپنے نفس کو پابند کرنا۔ (2) اس کی نافرمانی سے اپنے آپ کو روکنا یہاں تک کہ اسے ترک کر دے۔ (3) اس کی تقدیر پر صبر کرنا اور اس پر ناراضی کا اظہار نہ کرنا۔ ہر معاملے میں صبر کے ذریعے سے بڑی مدد ملتی ہے۔ جو کوئی صبر کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے صبر کرنے کی توفیق سے نواز دیتا ہے۔
اسی طرح نماز ہے جو کہ ایمان کی میزان ہے اور فواحش و منکرات سے روکتی ہے۔ ہر معاملہ میں نماز سے مدد لی جاتی ہے۔ ﴿وَإِنَّهَا﴾ یعنی نماز ﴿لَكَبِيرَةٌ﴾بہت شاق گزرتی ہے ﴿إِلَّا عَلَى الْخَاشِعِينَ﴾ سوائے ڈرنے والوں کے۔ اس لئے کہ یہ نماز ان پر بہت آسان اور ہلکی ہے کیونکہ خشوع، خشیت الٰہی اور اللہ تعالیٰ کے ثواب کی امیدان کے لئے شرح صدر کے ساتھ نماز کے قیام کی موجب ہوتی ہے کیونکہ وہ ثواب کی امید کرتے اور عذاب سے ڈرتے ہیں۔ اس کے برعکس جو ثواب کی امید نہیں رکھتا اور عذاب سے نہیں ڈرتا اس کے اندر کوئی ایسا داعیہ موجود نہیں ہوتا جو اسے نماز کی طرف بلائے۔ جب ایسا شخص نماز پڑھتا ہے تو نماز اس کے لئے سب سے بوجھل چیز ہوتی ہے۔ خشوع سے مراد ہے قلب کا اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزی کے ساتھ سرافگندہ ہونا، اس کا اللہ تعالیٰ کے پاس پر سکون اور مطمئن ہونا اور اس کے سامنے ذلت و فقر کے ساتھ اس کی ملاقات کی امید پر انکسار کا اظہار کرنا۔ |
البقرة |
46 |
بنابریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿ۙالَّذِیْنَ یَظُنُّوْنَ﴾ یعنی جو یقین کرتے ہیں﴿ اَنَّھُمْ مُّلٰقُوْا رَبِّہِمْ﴾ کہ وہ اپنے رب سے ملاقات کریں گے اور وہ ان کو ان کے اعمال کی جزا دے گا۔﴿ وَاَنَّھُمْ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ﴾ اور یہ کہ وہ اسی کی طرف لوٹیں گے“ اس یقین نے ان کے لئے عبادات کو آسان کردیا ہے۔ یہی یقین مصائب میں ان کے لئے تسلی کا موجب ہوتا ہے، تکالیف کو ان سے دور کرتا ہے اور برے کاموں سے انہیں روکتا ہے۔ پس یہی وہ لوگ ہیں جن کے لئے بلند بالا خانوں میں ہمیشہ رہنے والی نعمتیں ہیں اور جو کوئی اللہ تعالیٰ سے ملاقات پر ایمان نہیں رکھتا اس کے لئے نماز اور دیگر عبادات سب سے زیادہ شاق گزرنے والی چیزیں ہیں۔ |
البقرة |
47 |
|
البقرة |
48 |
پھر اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کی نصیحت کی خاطر اور ان کو برائیوں سے بچانے، نیکیوں پر آمادہ کرنے کے لئے ان پر اپنی نعمتوں کی مکرر یاد دہانی کرائی ہے اور انہیں قیامت کے دن سے ڈرایا ہے کہ ﴿لَّا تَجْزِیْ نَفْسٌ﴾جس روز کوئی نفس کسی کے کوئی کام نہ آئے گا اگرچہ یہ انبیائے کرام اور صالحین کے نفوس کریمہ ہی کیوں نہ ہوں۔ ﴿ عَن نَّفْسٍ﴾اگرچہ یہ نفس قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو۔ ﴿ شَيْئًا﴾” کچھ بھی“ یعنی وہ کم یا زیادہ کوئی کام بھی نہ آسکے گا۔ انسان کو صرف اس کا وہی عمل کام دے گا جو اس نے اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کیا ہے۔ ﴿وَلَا يُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَةٌ﴾ اس نفس کے بارے میں کسی کی سفارش قبول نہ کی جائے گی۔ ہاں شفاعت اس شخص کی قبول ہوگی جس کو اللہ شفاعت کرنے کی اجازت دے گا اور سچ کی بابت شفاعت کی اجازت دی جائے گی اس کو بھی وہ پسند کرتا ہوگا۔ اور اللہ تعالیٰ اس شخص کے اسی عمل کو پسند کرے گا جو صرف اس کی رضا کے لئے اور سنت رسول کے مطابق کیا گیا ہوگا (گویا ہر شخص شفاعت کرنے کا مجاز ہوگا نہ ہر کسی کے لئے شفاعت ہی کی جا سکے گی) ﴿ وَّلَا یُؤْخَذُ مِنْہَا عَدْلٌ﴾ یعنی اس سے کوئی فدیہ قبول نہیں کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :﴿ وَلَوْ أَنَّ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا وَمِثْلَهُ مَعَهُ لَافْتَدَوْا بِهِ مِن سُوءِ الْعَذَابِ﴾ (الزمر : 39؍47) ” اگر ان لوگوں کے پاس جنہوں نے ظلم کیا وہ سب کچھ ہو جو زمین میں ہے اور اس کے ساتھ اتنا ہی اور ہو تو وہ برے عذاب سے بچنے کے لئے اسے فدیہ میں دیں گے۔“ (مگر ان سے یہ فدیہ قبول نہیں کیا جائے گا۔) ﴿وَّلَا ھُمْ یُنْصَرُوْنَ﴾” اور نہ وہ مدد کئے جائیں گے‘ یعنی ان سے وہ عذاب ہٹایا نہیں جائے گا۔ پس اللہ تعالیٰ نے اس بات کی نفی کردی کہ وہ کسی بھی پہلو سے قیامت کے روز مخلوق سے فائدہ اٹھا سکیں گے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ﴿لَّا تَجْزِیْ نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ شَـیْــــًٔـا﴾حصول منافع کے بارے میں ہے اور ﴿ وَّلَا ھُمْ یُنْصَرُوْنَ﴾ دفع مضرت کے بارے میں ہے اور یہ نفی مستقبل میں کسی امرنافع کے بارے میں ہے۔ ﴿ وَّلَا یُقْبَلُ مِنْہَا شَفَاعَۃٌ وَّلَا یُؤْخَذُ مِنْہَا عَدْلٌ﴾یہ اس نفع کی نفی ہے جو معاوضہ دے کر اس شخص سے طلب کیا جاتا ہے جو اس نفع کا مالک ہو۔ یہ معاوضہ کبھی تو فدیہ ہوتا ہے کبھی اس کے علاوہ سفارش وغیرہ کی صورت میں ہوتا ہے۔ پس یہ چیز بندے پر واجب کرتی ہے کہ وہ مخلوق سے تعلق اور امید کو منقطع کر دے کیونکہ اسے علم ہے کہ مخلوق اسے ذرہ بھر نفع پہنچانے پر قادر نہیں اور اللہ تعالیٰ سے اپنے تعلق کو جوڑے جو نفع پہنچانے والا اور تکالیف کو دور کرنے والا ہے، پس صرف اسی کی عبادت کرے جس کا کوئی شریک نہیں اور اس کی عبادت پر اسی سے مدد طلب کرے۔ |
البقرة |
49 |
یہاں سے بنی اسرائیل پر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا تفصیلاً شمار شروع ہوتا ہے، چنانچہ فرمایا :
﴿ وَاِذْ نَجَّیْنٰکُمْ مِّنْ اٰلِ فِرْعَوْنَ ﴾یعنی فرعون، اس کے سرداروں اور اس کی فوجوں سے نجات دی جو انہیں اس سے قبل ذلت آمیز عذاب میں مبتلا رکھتے تھے ﴿ یَسُوْمُوْنَکُمْ سُوْۗءَ الْعَذَابِ﴾” وہ دیتے تھے تمہیں سخت عذاب۔“ یعنی تمہیں ایذاء پہنچاتے اور تم سے کام لیتے تھے ﴿یُذَبِّحُوْنَ اَبْنَاۗءَکُمْ﴾۔ اور وہ یہ کہ تمہارے بیٹوں کو اس خوف سے ذبح کرتے تھے کہ کہیں تمہاری تعداد بڑھ نہ جائے ﴿ وَیَسْتَحْیُوْنَ نِسَاۗءَکُمْ﴾” اور تمہاری عورتوں کو زندہ رکھتے تھے“ یعنی وہ تمہاری عورتوں کو قتل نہیں کرتے تھے پس تمہاری حالت یہ تھی کہ یا تو تمہیں قتل کردیا جاتا تھا یا تم سے مشقت کے کام لے کر تمہیں ذلیل کیا جاتا تھا اور تمہیں احسان کے طور پر اور اظہار غلبہ کے لئے زندہ رکھا جاتا تھا۔ یہ توہین اور اہانت کی انتہا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے انہیں مکمل نجات عطا کر کے اور ان کے آنکھوں دیکھتے ان کے دشمن کو غرق کر کے ان پر احسان فرمایا تاکہ ان کی آنکھوں کو ٹھنڈک نصیب ہو۔
﴿وَفِیْ ذٰلِکُمْ﴾” اور اس میں“ یعنی اللہ تعالیٰ کے اس نجات عطا کرنے میں ﴿ بَلَاۗءٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ عَظِیْمٌ﴾” تمہارے رب کی طرف سے بہت بڑی آزمائش ہے“ پس یہ چیز تم پر اللہ تعالیٰ کا شکر اور اس کے احکامات کی اطاعت کو واجب کرتی ہے۔ |
البقرة |
50 |
|
البقرة |
51 |
پھر اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنے اس احسان کا ذکر فرمایا کہ اس نے موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ چالیس راتوں کا وعدہ فرمایا تھا کہ وہ ان پر تورات نازل کرے گا جو عظیم نعمتوں اور مصالح عامہ کو متضمن ہوگی۔ پھر وہ اس میعاد کے مکمل ہونے تک صبر نہ کرسکے چنانچہ انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے چلے جانے کے بعد بچھڑے کی پوجا شروع کردی۔ ﴿ وَاَنْتُمْ ظٰلِمُوْنَ﴾” اور تم ظالم تھ‘‘ یعنی اپنے ظلم کو جاننے والے۔ تم پر حجت قائم ہوگئی۔ پس یہ سب سے بڑا جرم اور سب سے بڑا گناہ ہے، پھر اس نے اپنے نبی موسیٰ علیہ السلام کی زبان پر تمہیں توبہ کرنے کا حکم دیا اور اس توبہ کی صورت یہ تھی کہ تم ایک دوسرے کو قتل کرو گے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اس سبب سے تمہیں معاف کردیا۔ |
البقرة |
52 |
﴿ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ ﴾’ شاید کہ تم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو۔ “
|
البقرة |
53 |
|
البقرة |
54 |
|
البقرة |
55 |
﴿ وَاِذْ قُلْتُمْ یٰمُوْسٰی لَنْ نُّؤْمِنَ لَکَ حَتّٰی نَرَی اللّٰہَ جَہْرَۃً﴾ ” اور جب تم نے کہا، اے موسیٰ! ہم ہرگز تیری بات کا یقین نہیں کریں گے، یہاں تک کہ ہم اللہ کو سامنے دیکھ لیں“ یہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے مقابلے میں تمہاری جرأت کی انتہا تھی۔ ﴿فَاَخَذَتْکُمُ الصّٰعِقَۃُ ﴾پس تمہیں بے ہوشی نے آلیا۔ (اس بے ہوشی سے مراد) یا تو موت ہے یا عظیم بے ہوشی۔ ﴿وَاَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ ﴾تم اس تمام واقعہ کو دیکھ رہے تھے۔ ہر شخص اپنے ساتھی کو دیکھ رہا تھا۔ |
البقرة |
56 |
﴿ثُمَّ بَعَثْنَاكُم مِّن بَعْدِ مَوْتِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ﴾ ” پھر تمہارے مرنے کے بعد ہم نے تمہیں دوبارہ زندہ کیا شاید کہ تم شکر گزار بنو۔‘‘ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنی ان نعمتوں کا ذکر فرمایا جن سے اس نے بنی اسرائیل کو اس بیابان و صحرا میں نوازا جو سائے اور کھانے پینے کی چیزوں کی فراوانی سے خالی تھا۔ |
البقرة |
57 |
فرمایا : ﴿ وَظَلَّلْنَا عَلَیْکُمُ الْغَمَامَ وَاَنْزَلْنَا عَلَیْکُمُ الْمَنَّ﴾” پھر ہم نے تم پر بادلوں کا سایہ کیا اور تم پر ” مَنّ “ نازل کیا۔“ (الْمَنَّ) ہر قسم کے اس رزق کے لئے ایک جامع نام ہے جو بغیر کسی جدوجہد کے حاصل ہوتا ہو مثلاً سو نٹھ، کھمبی اور خبز (روٹی) (ایک) قسم کی نباتات) وغیرہ۔﴿وَالسَّلْوَىٰ﴾ایک چھوٹا سا پرندہ تھا جسے ” سُمانی“ (ایک قسم کی بٹیر) کہا جاتا ہے اس کا گوشت بہت لذیذ ہوتا ہے۔ پس یہ من اور سلویٰ اس مقدار میں ان پر اترتے کہ ان کی خوراک کے لئے کافی ہوتے ﴿کُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰکُمْ ﴾” ان پاکیزہ چیزوں سے کھاؤ جو ہم نے تمہیں دیں۔“ یعنی ہم نے تمہیں ایسا رزق عطا کیا ہے کہ جیسا رزق آسودہ حال شہروں کے باشندوں کو بھی حاصل نہیں۔ مگر انہوں نے اس نعمت کا شکرادانہ کیا اور ان کے دلوں کی سختی اور گناہوں کی کثرت بدستور قائم رہی۔
﴿ وَمَا ظَلَمُوْنا﴾ یعنی انہوں نے ہمارے احکام کے برعکس مخالف افعال کا ارتکاب کر کے ہم پر ظلم نہیں کیا۔ کیونکہ اہل معاصی کی معصیت اللہ تعالیٰ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ جیسے اطاعت گزاروں کی اطاعت اسے فائدہ نہیں پہنچاتی۔ ﴿ وَلٰکِنْ کَانُوْٓا اَنْفُسَھُمْ یَظْلِمُوْنَ﴾” لیکن وہ اپنے ہی نفسوں پر ظلم کرتے تھے“ یعنی اس کا نقصان انہی کی طرف لوٹے گا۔ |
البقرة |
58 |
یہ بھی ان پر اللہ تعالیٰ کی نعمت ہی تھی کہ ان کی نافرمانی کے بعد بھی اس نے ان کو حکم دیا کہ وہ ایک بستی میں داخل ہوجائیں یہ بستی ان کے لئے باعث عزت، ان کا وطن اور ان کا مسکن ہوگی اور اس بستی میں ان کو وافر اور بے روک ٹوک رزق ملے گا۔ بستی میں ان کا داخلہ بالفعل خضوع کی حالت میں ہو یعنی وہ بستی کے دروازے میں ﴿سُجَّدًا﴾ ” سجدے کی حالت میں“ گزریں یعنی وہ اس حالت میں دروازے میں داخل ہوں کہ ان پر خشوع و خضوع طاری ہو اور بالقول ﴿حِطَّةٌ﴾” بخش دے“ کہتے ہوئے دروازے میں داخل ہوں یعنی ان کے مغفرت کے سوال پر ان کی خطائیں معاف کردی جائیں۔
﴿نَّغْفِرْ لَکُمْ خَطٰیٰکُمْ ﴾تمہارے مغفرت کے سوال کرنے پر ہم تمہاری خطائیں معاف کردیں گے ﴿ وَسَنَزِيْدُ الْمُحْسِنِيْنَ﴾ یعنی بھلائی کا کام کرنے والوں کو ہم دنیا و آخرت میں ان کے اعمال کی جزا زیادہ دیں گے۔ |
البقرة |
59 |
﴿فَبَدَّلَ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا﴾۔ یعنی ان لوگوں نے اس قول کو بدل دیا تھا جنہوں نے ان میں سے ظلم کیا۔ اللہ تعالیٰ نے (فَبَدَّلُوْا) ” ان سب نے بدل دیا“ نہیں فرمایا کیونکہ سب لوگ قول کو بدلنے والے نہ تھے ﴿ قَوْلًا غَیْرَ الَّذِیْ قِیْلَ لَھُمْ﴾ ” بات سوائے اس بات کے جو ان سے کہی گئی تھی“ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم کی توہین اور اس سے استہزا کرتے ہوئے (حِطَّۃٌ) کی بجائے (حَبَّۃٌ فِیْ حِنْطَۃٍ) کا لفظ کہا۔ جب ” قول“ کو باوجود اس کے کہ وہ آسان تھا، انہوں نے اسے بدل دیا تو ” فعل“ کو بدلنے کی ان سے بدرجہ اولیٰ توقع کی جاسکتی ہے۔ اس لئے وہ (اللہ تعالیٰ کے حکم کے برعکس) اپنے سرینوں پر گھسٹتے ہوئے دروازے میں داخل ہوئے۔ چونکہ یہ سرکشی اللہ تعالیٰ کے عذاب کے واقع ہونے کا سب سے بڑا سبب تھی۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿ فَاَنْزَلْنَا عَلَی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا رِجْزًا﴾ یعنی ان میں سے ظالموں پر عذاب نازل کیا۔ ﴿ مِّنَ السَّمَاءِ﴾ یعنی ان کی نافرمانی اور ان کے بغاوت کے رویہ کے سبب سے (آسمان سے یہ عذاب نازل ہوا) |
البقرة |
60 |
یعنی جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کے لئے پانی مانگا تاکہ وہ اس پانی کو پینے کے لئے استعمال کرسکیں ﴿ فَقُلْنَا اضْرِب بِّعَصَاكَ الْحَجَر﴾َ ” تو ہم نے کہا : اپنی لاٹھی پتھر پر مار۔“ یہاں (الْحَجَرَ)کے معرفہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ یا تو یہ کوئی مخصوص پتھر تھا جسے حضرت موسیٰ علیہ السلام جانتے تھے یا اسم جنس کی بنا پر معرفہ ہے۔ ﴿ فَانْفَجَرَتْ مِنْہُ اثْنَتَا عَشْرَۃَ عَیْنًا﴾ ” پس اس سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے“ اور بنی اسرائیل کے بھی بارہ قبیلے تھے۔ ﴿قَدْ عَلِمَ کُلُّ اُنَاسٍ مَّشْرَبَھُمْ﴾ یعنی ہر ایک قبیلے نے اپنی وہ جگہ معلوم کرلی جہاں انہوں نے ان چشموں سے پانی پینا ہے، تاکہ وہ پانی پیتے وقت ایک دوسرے کے مزاحم نہ ہوں، بلکہ وہ بغیر کسی تکدر کے خوش گواری کے ساتھ پانی پئیں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿کُلُوْا وَاشْرَبُوْا مِنْ رِّزْقِ اللّٰہِ ﴾یعنی وہ رزق جو اللہ تعالیٰ نے تمہیں بغیر کوشش اور جدوجہد کے عطا کیا ہے اس میں سے کھاؤ پیؤ۔ ﴿وَلَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ﴾ یعنی فساد پھیلانے کی خاطر زمین کو مت اجاڑو۔ |
البقرة |
61 |
تم اس وقت کو بھی یاد کرو جب تم نے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے اکتا کر اور ان کو حقیر جانتے ہوئے کہا تھا : ﴿ لَنْ نَّصْبِرَ عَلٰی طَعَامٍ وَّاحِدٍ﴾ یعنی ہم ایک ہی جنس کے کھانے پر صبر نہیں کرسکتے۔ ان کا کھانا جیسا کہ (گزشتہ سطور میں) گزر چکا ہے اگرچہ متعدد انواع کا تھا مگر ان میں تبدیلی نہ ہوئی تھی۔ ﴿ فَادْعُ لَنَا رَبَّکَ یُخْرِجْ لَنَا مِمَّا تُنْۢبِتُ الْاَرْضُ مِنْۢ بَقْلِہَا﴾ ” پس تو ہمارے لئے اپنے رب سے دعا کر، وہ نکالے ہمارے لئے وہ جو اگتا ہے زمین سے، سبزی‘‘ یعنی زمین کی نباتات، جن کا شمار تن آور درختوں میں نہیں ہوتا۔﴿ وَقِثَّاۗیِٕہَا ﴾یعنی ککڑی ﴿وَفُوْمِہَا ﴾یعنی لہسن ﴿ وَعَدَسِہَا وَبَصَلِہَا﴾ یعنی مسور اور پیاز جو کہ معروف ہیں۔ تب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان سے فرمایا : ﴿اَتَسْتَبْدِلُوْنَ الَّذِیْ ھُوَ اَدْنٰی﴾” کیا لینا چاہتے ہو تم وہ چیز جو ادنیٰ ہے“ یعنی یہ تمام کھانے کی چیزیں جن کا ذکر ہوچکا ہے﴿ بِالَّذِیْ ھُوَ خَیْرٌ ﴾” اس کے بدلے میں جو بہتر ہے“ اس سے مراد ” من و سلویٰ“ ہے یعنی ایسا کہنا تمہارے لائق نہ تھا۔ اس لئے کہ کھانے کی یہ تمام انواع جن کا تم نے مطالبہ کیا ہے، تم جس کسی شہر میں بھی جاؤ گے وہاں تم کو مل جائیں گی۔ رہا وہ کھانا جس سے تمہیں اللہ تعالیٰ نے نوازا تھا وہ تمام کھانوں سے افضل اور ان سے بہتر ہے۔ پھر تم کیسے ان کھانوں کے بدلے دوسرے (ادنیٰ) کھانوں کا مطالبہ کرتے ہو؟
چونکہ جو کچھ ان کی طرف سے واقع ہوا وہ اس بات کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ صبر ان میں بہت ہی قلیل تھا اور وہ اللہ تعالیٰ کے احکام اور اس کی نعمتوں کو حقیر خیال کرتے تھے لہٰذا اللہ تعالیٰ نے ان کو ایسا بدلہ دیا جو ان کے اعمال ہی کی جنس میں سے تھا۔ فرمایا : ﴿وَضُرِبَتْ عَلَیْہِمُ الذِّلَّۃُ﴾” اور ان پر ذلت مسلط کردی گئی“ یعنی وہ ذلت جس کا ظاہری طور پر ان کے جسموں پر مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ ﴿ وَالْمَسْکَنَۃُ﴾ یعنی مسکینی جو ان کے دلوں میں جا گزیں ہوگئی۔ پس ان کی عزت نفس باقی رہی نہ بلند ہمتی بلکہ ان کے نفس ذلیل و خوار اور ان کی ہمتیں پست ترین ہوگئیں۔﴿وَبَاءُوا بِغَضَبٍ مِّنَ اللَّـهِ﴾” اور وہ اللہ کے غضب کے ساتھ لوٹے“ یعنی وہ غنیمت جسے لے کر کامیابی کے ساتھ واپس لوٹے تھے اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ناراضی کے ساتھ لوٹے تھے۔ ان کی غنیمت کتنی بری غنیمت تھی اور ان کی حالت کتنی بری حالت تھی۔
﴿ ذٰلِکَ﴾ وہ رویہ، جس کی وجہ سے وہ اللہ تعالیٰ کے غضب کے مستحق ٹھہرے۔ ﴿ بِاَنَّھُمْ کَانُوْا یَکْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ﴾” یہ تھا کہ وہ اللہ کی آیتوں کے ساتھ کفر کرتے تھے“ جو حق پر دلالت اور اس کو واضح کرتی تھیں چونکہ انہوں نے ان آیات کا انکار کردیا تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے سزا کے طور پر ان پر اپنا غضب مسلط کردیا اور اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ ﴿ وَیَقْتُلُوْنَ النَّـبِیّٖنَ بِغَیْرِ الْحَقِّ﴾ انبیاء کو ناحق قتل کیا کرتے تھے۔ “
اللہ تعالیٰ کا ارشاد﴿ بِغَیْرِ الْحَقِّ﴾فعل کی برائی میں اضافہ کے اظہار کے لئے ہے ورنہ یہ تو اچھی طرح معلوم ہے کہ قتل انبیاء کسی بھی صورت میں حق نہیں ہوتا (بنابریں یہ لفظ استعمال کیا گیا ہے) کہ کہیں وہ اپنی جہالت اور عدم علم کی وجہ سے ایسا نہ سمجھ لیں۔
﴿ذٰلِکَ بِمَا عَصَوْا ﴾یعنی یہ مذکورہ سزا کی وجہ ان کا گناہوں کا ارتکاب تھا ﴿ وَّکَانُوْا یَعْتَدُوْنَ﴾ اور وہ اللہ تعالیٰ کے بندوں پر زیادتی کے مرتکب ہوا کرتے تھے۔ کیونکہ گناہ اور معاصی ایک دوسرے کا سبب بنتے ہیں۔ پس غفلت سے گناہ صغیر جنم لیتے ہیں پھر ان گناہوں سے گناہ کبیرہ جنم لیتے ہیں پھر کبیرہ گناہوں سے مختلف قسم کی بدعات اور کفر کے رویئے پیدا ہوتے ہیں۔ ہم ہر آزمائش سے اللہ تعالیٰ سے عافیت کا سوال کرتے ہیں۔
معلوم ہونا چاہئے کہ ان آیات کریمہ میں خطاب بنی اسرائیل کے ان لوگوں سے ہے جو نزول قرآن کے وقت موجود تھے اور وہ افعال جن کا ذکر اس خطاب میں کیا گیا ہے ان کا ارتکاب ان کے اسلاف نے کیا تھا۔ ان افعال کی نسبت نزول قرآن کے وقت موجود بنی اسرائیل کی طرف متعدد وجوہ کی بنا پر کی گئی ہے۔ مثلاً:
(1) یہودی اپنے آپ کو پاک سمجھتے تھے اور اپنی تعریف کیا کرتے تھے اور اس زعم میں مبتلا تھے کہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اہل ایمان سے افضل ہیں۔ ان کے اسلاف کے ان احوال کے ذریعے سے جو ان کے ہاں بھی مسلمہ تھے اللہ تعالیٰ نے ان سب پر واضح کردیا کہ وہ صبر، مکارم اخلاق اور بلند پایہ اعمال کے مالک نہیں تھے۔ جب ان کے اسلاف کی حالت یہ تھی۔ اس گمان کے باوجود کہ ان کی حالت بعد میں آنے والوں سے بہتر ہوگی، تو ان یہودیوں کے بارے میں کیا کہا جاسکتا ہے جو قرآن کے براہ راست مخاطب تھے؟
(2) اللہ تعالیٰ کی جو نعمت متقدمین کو عطا ہوتی ہے وہ متاخرین کو بھی پہنچتی ہے، جو نعمت آباء و اجداد کو عطا ہوتی ہے وہ نعمت درحقیقت اولاد کو عطا ہوتی ہے۔ چونکہ نزول قرآن کے وقت موجود یہودی بھی ان نعمتوں میں شامل تھے اس لئے ان کو خطاب کیا گیا۔
(3) دوسروں کے افعال کی وجہ سے ان کو مخاطب کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ بنی اسرائیل کی امت ایک ایسے دین پر متفق تھی جس میں وہ ایک دوسرے کے ضامن اور ایک دوسرے کے معاون تھے۔ گویا کہ ان کے متقدمین متاخرین ایک ہی زمانے کے لوگ ہوں۔ ان میں سے کسی ایک سے کام کا ظاہر ہونا سب کی طرف سے ہے کیونکہ ان میں سے جو کوئی بھلائی کا کام کرتا ہے تو اس بھلائی کا فائدہ سب کو پہنچتا ہے اور ان میں سے جو کوئی برائی کا ارتکاب کرتا ہے تو اس کا نقصان بھی سب کو اٹھانا پڑتا ہے۔
(٤) متقدمین کے اکثر افعال کا متاخرین میں سے کسی نے انکار نہیں کیا تھا اور معصیت پر رضا مندی کا اظہار کرنے والا معصیت کے مرتکب کے گناہ میں شریک ہے۔ ان کے علاوہ دیگر حکمتیں بھی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ |
البقرة |
62 |
پھر اہل کتاب کے مختلف گروہوں کے درمیان محاکمہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
یہ حکم خاص طور پر اہل کتاب کے لئے ہے، کیونکہ صابئین کے بارے میں صحیح ترین رائے یہ ہے کہ یہ نصاریٰ ہی کا ایک فرقہ ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ اس امت کے اہل ایمان، یہود و نصاریٰ اور صابئین میں سے جو کوئی اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان لایا اور اپنے رسولوں کی تصدیق کی ان کے لئے اجر عظیم اور امن ہے۔ ان پر کسی قسم کا خوف ہوگا نہ وہ غمزدہ ہوں گے۔ ان میں سے جس کسی نے اللہ تعالیٰ، اس کے انبیاء و رسل اور یوم آخرت کا انکار کیا تو ان کا حال مذکورہ بالا لوگوں کے حال کے برعکس ہوگا، پس وہ خوف اور غم سے دوچار ہوں گے۔
(مذکورہ بالا آیت کی تفسیر میں) صحیح مسلک یہ ہے کہ ان فرقوں کے مابین یہ محاکمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانے کی نسبت سے نہیں بلکہ ان کی اپنی اپنی حیثیت کے مطابق ہے۔ کیونکہ یہ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت سے قبل ان کے احوال کی خبر ہے۔ یہ قرآن کا طریقہ ہے۔ جب سیاق آیات کے بارے میں بعض نفوس و ہم کا شکار ہوجائیں تو لازمی طور پر وہ کوئی ایسی چیز ضرور پائیں گے جو ان کے وہم کو زائل کر دے۔ کیونکہ یہ کلام ایسی ہستی کی طرف سے نازل کیا گیا ہے جو اشیاء کے وجود میں آنے سے قبل ہی ان کو جانتی ہے۔ اس کی رحمت ہر چیز پر حاوی ہے۔ اس آیت کریمہ کا مفہوم یہ ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ چونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بنی اسرائیل کا ذکر مذمت کے طور پر کیا ہے اور ان کے گناہوں اور برائیوں کا تذکرہ کیا ہے تو بسا اوقات دل میں خیال پیدا ہوتا ہے کہ اس مذمت میں تمام بنی اسرائیل شامل ہیں۔ اس لئے اللہ نے ایسے لوگوں کے بارے میں واضح کردیا جو اس مذمت میں شامل نہیں۔ نیز چونکہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کا خاص طور پر ذکر کیا ہے جس سے یہ وہم پیدا ہوتا ہے کہ مذکورہ باتیں صرف بنی اسرائیل ہی سے متعلق ہیں، لہٰذا اللہ تعالیٰ نے ایک عام حکم بیان کردیا جو تمام طوائف کو شامل ہے تاکہ حق واضح اور وہم و اشکال دور ہوجائے۔ پاک ہے وہ ذات جس نے اپنی کتاب میں ایسی چیزیں بیان کی ہیں جو عقلوں کو متحیر کردیتی ہیں۔ |
البقرة |
63 |
اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے اسلاف کے افعال کی وجہ سے ان پر زجر و توبیخ کا پھر اعادہ کیا ہے۔ فرمایا ﴿ وَاِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَکُم﴾ یعنی وہ وقت یاد کرو جب ہم نے تم سے عہد لیا تھا۔ (مِيْثَاق) مراد ایسا پکا عہد ہے جو طور کو ان کے اوپر معلق کر کے ڈر اور دباؤ کے ذریعے سے مؤکد کیا گیا تھا اور ان سے کہا گیا تھا : ﴿ خُذُوْا مَآ اٰتَیْنٰکُمْ﴾ یعنی تو رات کو پکڑے رہو ﴿ بِقُوَّۃٍ﴾ یعنی تورات کو محنت، کوشش اور اللہ تعالیٰ کے اوامر پر صبر و استقامت کے ساتھ پکڑے رہو۔ ﴿وَّاذْکُرُوْا مَا فِیْہِ﴾ یعنی جو کچھ تمہاری کتاب میں ہے اسے سیکھو اور اس کی تلاوت کرو۔ ﴿لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ﴾” تاکہ تم اللہ تعالیٰ کے عذاب اور اس کی ناراضی سے بچو“ یا ” تاکہ تم اہل تقویٰ میں شمار ہو۔“ |
البقرة |
64 |
پھر اس نہایت بلیغ تاکید کے بعد فرمایا: ﴿ثُمَّ تَوَلَّیْتُمْ﴾ یعنی پھر تم نے اس سے اعراض کیا اور یہ روگردانی تمہارے لئے اللہ تعالیٰ کے سخت ترین عذاب کا باعث بنی۔ ﴿فَلَوْلَا فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتُہٗ لَکُنْتُمْ مِّنَ الْخٰسِرِیْنَ﴾” لیکن اگر تم پر اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تم یقیناً خسارے میں پڑجاتے۔ “ |
البقرة |
65 |
یعنی تمہارے نزدیک ان لوگوں کی حالت ثابت ہوگئی ہے۔ ﴿ الَّذِیْنَ اعْتَدَوْا مِنْکُمْ فِی السَّبْتِ﴾ ” جنہوں نے تم میں سے ہفتے کے روز زیادتی سے کام لیا تھا۔“ یہ وہ لوگ تھے جن کا مبسوط اور مفصل قصہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ اعراف میں بیان کیا ہے :
﴿وَاسْأَلْهُمْ عَنِ الْقَرْيَةِ الَّتِي كَانَتْ حَاضِرَةَ الْبَحْرِ إِذْ يَعْدُونَ فِي السَّبْتِ إِذْ تَأْتِيهِمْ حِيتَانُهُمْ يَوْمَ سَبْتِهِمْ شُرَّعًا وَيَوْمَ لَا يَسْبِتُونَ ۙ لَا تَأْتِيهِمْ ۚ كَذَٰلِكَ نَبْلُوهُم بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ وَإِذْ قَالَتْ أُمَّةٌ مِّنْهُمْ لِمَ تَعِظُونَ قَوْمًا ۙ اللَّـهُ مُهْلِكُهُمْ أَوْ مُعَذِّبُهُمْ عَذَابًا شَدِيدًا ۖ قَالُوا مَعْذِرَةً إِلَىٰ رَبِّكُمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُكِّرُوا بِهِ أَنجَيْنَا الَّذِينَ يَنْهَوْنَ عَنِ السُّوءِ وَأَخَذْنَا الَّذِينَ ظَلَمُوا بِعَذَابٍ بَئِيسٍ بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ﴾
(الاعراف : 7؍ 163۔165)
” اور آپ ان لوگوں سے اس بستی والوں کا جو کہ دریائے (شور) کے قریب آباد تھے اس وقت کا حال پوچھئے ! جب کہ وہ ہفتہ کے بارے میں حد سے نکل رہے تھے جب کہ ان کے ہفتہ کے روز تو ان کی مچھلیاں ظاہر ہو کر ان کے سامنے آتی تھیں اور جب ہفتہ کا دن نہ ہوتا تو ان کے سامنے نہ آتی تھیں۔ ہم ان کی اس طرح پر آزمائش کرتے تھے اس سبب سے کہ وہ بے حکمی کیا کرتے تھے اور جب کہ ان میں سے ایک جماعت نے یوں کہا کہ تم ایسے لوگوں کو کیوں نصیحت کرتے ہو جن کو اللہ بالکل ہلاک کرنے والا ہے یا ان کو سخت سزا دینے والا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ تمہارے رب کے روبرو عذر کرنے کے لئے اور اس لئے کہ شاید یہ ڈر جائیں۔ سو جب وہ اس کو بھول گئے جو ان کو سمجھایا جاتا تھا تو ہم نے ان لوگوں کو تو بچا لیا جو اس بری عادت سے منع کیا کرتے تھے اور ان لوگوں کو جو کہ زیادتی کرتے تھے ایک سخت عذاب سے پکڑ لیا اس وجہ سے کہ وہ بے حکمی کیا کرتے تھے۔ “
اس گناہ عظیم نے ان پر اللہ تعالیٰ کا غضب واجب کردیا۔ ﴿ قِرَدَۃً خٰسِـــِٕیْنَ﴾ اور ان کو حقیر اور ذلیل بندر بنا دیا اور اللہ تعالیٰ نے اس سزا کو ان قوموں کے لئے |
البقرة |
66 |
﴿نَکَالًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہَا﴾ عبرت بنا دیا جو اس وقت وہاں موجود تھیں اور اس زمانے کی وہ قومیں جن تک یہ خبر پہنچی ﴿وَمَا خَلْفَہَا﴾ اور ان قوموں کے لئے جو ان کے بعد آئیں، تاکہ بندوں پر اللہ تعالیٰ کی حجت قائم ہو اور وہ گناہوں سے باز آجائیں مگر یہ نصیحت صرف اہل تقویٰ کے کام آتی ہے۔ ان کے علاوہ دیگر لوگ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں سے فائدہ نہیں اٹھاتے۔ |
البقرة |
67 |
ان واقعات کو یاد کرو جو تمہارے اور موسیٰ علیہ السلام کے درمیان وقوع پذیر ہوئے۔ جب تم نے ایک شخص کو قتل کردیا تھا اور اس کے قاتل کے بارے میں آپس میں اختلاف کرنا اور قتل کو ایک دوسرے پر ڈالنا شروع کردیا حتیٰ کہ تم نے معاملے کو بہت بڑھا دیا اور اگر اللہ تعالیٰ کی توضیح نہ ہوتی تو قریب تھا کہ تم ایک بڑے شر اور فساد میں مبتلا ہوجاتے۔ حضرت موسیٰ نے قاتل کو تلاش کرنے کے لئے تمہیں گائے ذبح کرنے کا حکم دیا۔ تم پر فرض تھا کہ تم فوراً اس کے حکم کی تعمیل کرتے اور اس پر کسی قسم کا اعتراض نہ کرتے مگر ہوا یہ کہ تم نے حضرت موسیٰ کا حکم ماننے سے انکار کردیا اور اعتراض کرنے لگے اور کہنے لگے : ﴿اَتَتَّخِذُنَا ھُزُوًا ﴾” کیا تو ہمارے ساتھ مذاق کرتا ہے۔“ اللہ کے نبی نے فرمایا : ﴿ اَعُوْذُ بِاللّٰہِ اَنْ اَکُوْنَ مِنَ الْجٰہِلِیْنَ﴾” میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ میں جاہل بنوں۔“ کیونکہ جاہل ہی ایسی بات کیا کرتا ہے جس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا اور وہی لوگوں کا تمسخر اڑایا کرتا ہے۔ عقلمند شخص یہ سمجھتا ہے کہ اپنے جیسے کسی آدمی کا مذاق اڑانا عقل و دین کا سب سے بڑا عیب ہے۔ اگرچہ اسے اس آدمی پر فضیلت ہی کیوں نہ حاصل ہو۔ یہ فضیلت تو تقاضا کرتی ہے کہ وہ اپنے رب کا شکر کرے اور اس کے بندوں کے ساتھ شفقت سے پیش آئے۔ |
البقرة |
68 |
جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان سے یہ کہا تو انہیں معلوم ہوگیا کہ یہ سچ ہے۔ کہنے لگے ﴿ادْعُ لَنَا رَبَّکَ یُبَیِّنْ لَّنَا مَا ہِیَ ﴾” اپنے رب سے دعا کر کہ وہ بیان کرے کہ وہ کیا ہے؟“ یعنی اس گائے کی عمر وغیرہ کیا ہے۔ ﴿قَالَ اِنَّہٗ یَقُوْلُ اِنَّہَا بَقَرَۃٌ لَّا فَارِضٌ ﴾موسیٰ نے کہا : اللہ کہتا ہے وہ ایسی گائے ہے جو بوڑھی نہیں ہے“ ِ﴿فَارِضٌ﴾ یعنی بڑی ﴿ وَّلَا بِکْرٌ ﴾اور نہ ہی زیاہ چھوٹی۔ ﴿ عَوَانٌۢ بَیْنَ ذٰلِکَ ۭ فَافْعَلُوْا مَا تُـؤْمَرُوْنَ﴾ ان مذکورہ دو عمروں کے درمیان متوسط عمر کی ہو۔ پس وہ کام کرو جس کا حکم دیا جاتا ہے، تشدد اور تکلف کو چھوڑ دو۔ |
البقرة |
69 |
﴿ قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّکَ یُبَیِّنْ لَّنَا مَا لَوْنُہَا ۭ قَالَ اِنَّہٗ یَقُوْلُ اِنَّہَا بَقَرَۃٌ صَفْرَاۗءُ فَاقِعٌ لَّوْنُہَا﴾ ” انہوں نے کہا : اپنے رب سے ہمارے لئے دعا کر کہ وہ اس کا رنگ بیان کرے۔ موسیٰ نے کہا : اللہ کہتا ہے، وہ گائے ہے زرد رنگ کی، خوب گہرا ہے رنگ اس کا“ یعنی خالص زرد رنگ۔ ﴿ تَسُرُّ النّٰظِرِیْنَ﴾ یعنی اپنی خوبصورتی کی وجہ سے دیکھنے والوں کو بھلی لگے۔
|
البقرة |
70 |
﴿ قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّکَ یُبَیِّنْ لَّنَا مَا ہِیَ ۙ اِنَّ الْبَقَرَ تَشٰبَہَ عَلَیْنَا ﴾” انہوں نے کہا : اپنے رب سے ہمارے لئے دعا کر ! وہ بیان کرے کہ وہ کیا ہے کیونکہ گائے ہم پر مشتبہ ہوگئی ہے۔“ یعنی ہمیں معلوم نہیں کہ آپ کونسی گائے چاہتے ہیں ﴿وَاِنَّآ اِنْ شَاۗءَ اللّٰہُ لَمُہْتَدُوْنَ﴾” اور اگر اللہ نے چاہا تو ہم ہدایت والے ہوجائیں گے۔“ |
البقرة |
71 |
﴿ قَالَ اِنَّہٗ یَقُوْلُ اِنَّہَا بَقَرَۃٌ لَّا ذَلُوْلٌ ﴾یعنی وہ (کھیتی باڑی کے کاموں میں جت کر) کمزور اور مطیع نہ ہو ﴿ تُثِیْرُ الْاَرْضَ﴾” جوتنی ہو وہ زمین کو“ یعنی اس سے زمین میں ہل نہ چلایا جاتا ہو ﴿ وَلَا تَسْقِی الْحَرْثَ ﴾ نہ پانی دیتی ہو کھیتی کو‘ یعنی نہ وہ رہٹ میں جتنے والی ہو۔ ﴿مُسَلَّمَةٌ﴾ہر قسم کے عیب سے پاک ہو اور اس سے کسی قسم کا کام نہ لیا جاتا ہو﴿ لَّا شِیَۃَ فِیْہَا ﴾” اس میں کوئی داغ نہ ہو“ یعنی جس رنگ کا گزشتہ سطور میں ذکر ہوچکا ہے اس کے علاوہ اس میں کسی د وسرے رنگ کا کوئی نشان نہ ہو۔
﴿ قَالُوا الْـــــٰٔنَ جِئْتَ بِالْحَقِّ﴾” انہوں نے کہا : اب لایا تو ٹھیک بات“ یعنی اب تو نے گائے کے بارے میں واضح طور پر بیان کیا ہے۔ یہ ان کی جہالت تھی ورنہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان کے سامنے پہلی ہی مرتبہ حق بیان کردیا تھا۔ اگر وہ کوئی بھی گائے پیش کردیتے تو مقصد حاصل ہوجاتا مگر انہوں نے کثرت سوال کے ذریعے سے تشدد اور تکلف کی راہ اپنائی تو اللہ تعالیٰ نے بھی ان پر سختی کی۔ نیز اگر انہوں نے ”ان شاء اللہ“ نہ کہا ہوتا تب بھی وہ مطلوبہ گائے تک نہ پہنچ سکتے۔
﴿ فَذَبَحُوْھَا ﴾یعنی انہوں نے اس گائے کو ذبح کر ہی ڈالا جس کے یہ اوصاف بیان کئے گئے ہیں۔ ﴿ وَمَا کَادُوْا یَفْعَلُوْنَ﴾۔ ان کے تشدد اور تکلف کی وجہ سے جس کا وہ اظہار کر رہے تھے، نظر نہیں آتا تھا کہ وہ گائے ذبح کریں گے۔ |
البقرة |
72 |
|
البقرة |
73 |
جب انہوں نے گائے ذبح کر ڈالی تو ہم نے ان سے کہا کہ گائے کا ایک عضو اس مقتول کو لگاؤ۔ اس سے مراد کوئی معین عضو ہے یا کوئی سا بھی عضو؟ اس کے تعین کا کوئی فائدہ نہیں۔ بس انہوں نے گائے کے کسی حصے کو مقتول کے ساتھ لگایا تو اللہ تعالیٰ نے اسے زندہ کردیا اور اللہ تعالیٰ نے اس چیز کو ظاہر کردیا جسے وہ چھپانے کی کوشش کر رہے تھے۔ پس اللہ تعالیٰ نے انہیں باخبر کردیا کہ قاتل کون ہے۔ ان کے سامنے اللہ تعالیٰ کا اس مقتول کو دوبارہ زندہ کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے مردوں کو زندہ کرے گا۔ ﴿ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ﴾شاید کہ تم عقل سے کام لو اور ان کاموں سے رک جاؤ جو تمہارے لئے نقصان دہ ہیں۔ |
البقرة |
74 |
﴿ ثُمَّ قَسَتْ قُلُوْبُکُمْ﴾ یعنی پھر تمہارے دل بہت سخت ہوگئے، ان پر کسی قسم کی نصیحت کارگر نہیں ہوتی تھی۔ ﴿ مِّنْۢ بَعْدِ ذٰلِکَ ﴾یعنی اس کے بعد کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں عظیم نعمتوں سے نوازا اور تمہیں بڑی بڑی نشانیوں کا مشاہدہ کرایا۔ حالانکہ اس کے بعد تمہارے دلوں کا سخت ہوجانا مناسب نہ تھا کیونکہ تم نے جن امور کا مشاہدہ کیا تھا وہ رقت قلب اور اس کے مطیع ہونے کے موجب ہیں۔
پھر اللہ تعالیٰ نے ولوں کی سختی کا وصف بیان کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ فَہِیَ کَالْحِجَارَۃِ﴾۔ یعنی وہ سختی میں ” پتھر کی مانند ہیں‘ جو لوہے سے بھی زیادہ سخت ہوتا ہے، کیونکہ فولاد ہو یا سیسہ جب اسے آگ میں پگھلایا جائے تو پگھل جاتا ہے بخلاف پتھر کے جو آگ میں بھی نہیں پگھلتا ﴿اَوْ اَشَدُّ قَسْوَۃً ﴾” یا اس سے بھی زیادہ سخت“ یعنی ان کے دلوں کی سختی پتھروں سے کم نہیں۔ یہاں ” او“ (بل) کے معنی میں نہیں ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ نے ان پتھروں کو ان کے دلوں پر فضیلت دیتے ہوئے فرمایا : ﴿وَاِنَّ مِنَ الْحِجَارَۃِ لَمَا یَتَفَجَّرُ مِنْہُ الْاَنْہٰرُ ۭ وَاِنَّ مِنْہَا لَمَا یَشَّقَّقُ فَیَخْرُجُ مِنْہُ الْمَاۗءُ ۭوَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَشَّقَّقُ فَيَخْرُجُ مِنْهُ الْمَاءُ ۚ وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَهْبِطُ مِنْ خَشْيَةِ اللَّـهِ﴾ کیونکہ ” بعض پتھروں سے تو نہریں بہہ نکلتی ہیں اور بعض پھٹ جاتے ہیں اور ان سے پانی نکل آتا ہے اور بعض اللہ کے ڈر سے گر پڑتے ہیں‘‘ یعنی ان تمام مذکورہ امور کی وجہ سے پتھر تمہارے دلوں سے بہتر ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو سخت وعید سناتے ہوئے کہا : ﴿ وَمَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ﴾ یعنی وہ تمہارے اعمال سے غافل نہیں بلکہ وہ تمہارے اعمال کو پوری طرح جانتا ہے، وہ تمہارے ہر چھوٹے بڑے عمل کو یاد رکھنے والا ہے اور وہ عنقریب تمہیں تمہارے ان اعمال کا پورا پورا بدلہ دے گا۔
معلوم ہونا چاہئے کہ بہت سے مفسرین رحمتہ اللہ علیہم نے اپنی تفاسیر کو بنی اسرائیل کے قصوں سے لبریز کر رکھا ہے۔ وہ آیات قرآنی کو اسرائیلیات پر پیش کرتے ہیں اور ان کے مطابق کتاب اللہ کی تفسیر کرتے ہیں اور وہ اپنے اس موقف پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان سے استدلال کرتے ہیں (حَدِّثوا عن بَني إسرائيلَ ولا حَرَجَ) ” بنی اسرائیل سے روایت کرو اس میں کوئی حرج نہیں۔“
[سنن ابی داؤد، العلم ، باب الحدیث عن بنی اسرائیل‘ حدیث:3662]
اس بارے میں میری رائے یہ ہے کہ اگرچہ ایک پہلو سے بنی اسرائیل کی روایت نقل کرنے میں کوئی حرج نہیں مگر اس سے مراد یہ ہے کہ ان روایات کو الگ اور غیر مقرون (قرآن کی تفسیر کے ساتھ ملائے بغیر) بیان کیا جاسکتا ہے۔ ان کو کتاب اللہ پر پیش کر کے کتاب اللہ کی تفسیر بنانا قطعاً جائز نہیں جب کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے صحیح سند سے ثابت نہ ہو۔ یہ اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق ان روایات کا مرتبہ صرف یہ ہے: ((لَاتُصَدِّقُواَهل الْكِتَابِ وَلَاتُكَذِّبُوْهُم))[صحیح البخاری، التفسیر، باب قولوا آمنا باللّٰه وماانزل الینا‘ حدیث:4485]
” تم اہل کتاب کی تصدیق کرو نہ تکذیب۔“ جب ان روایات کا مرتبہ یہ ہے کہ ان کی صحت مشکوک ہے اور ضروریات دین کے طور پر یہ چیز بھی ہمیں معلوم ہے کہ قرآن مجید پر ایمان لانا اور اس کے الفاظ و معانی پر قطعی یقین رکھنا فرض ہے، لہٰذا ان مجہول روایات کے ذریعے سے منقول قصے کہانیوں کو جن کے بارے میں غالب گمان یہ ہے کہ یہ جھوٹی ہیں یا ان میں سے اکثر جھوٹی ہیں یقین کے ساتھ قرآن کے معانی قرار دینا ہرگز جائز نہیں۔ اس بارے میں کسی کو شک میں نہیں رہنا چاہئے۔ اس اصول سے غفلت کے سبب سے بہت سا خمیازہ بھگتنا پڑا ہے۔ واللہ الموفق۔ |
البقرة |
75 |
یہاں اہل کتاب کے ایمان لانے کے بارے میں اہل ایمان کی امیدوں کو ختم کردیا ہے کہ تم ان کے ایمان کی امید نہ رکھو۔ ان کے اخلاق ایسے ہیں جو ان کے ایمان کی امید کے متقاضی نہیں، کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے کلام کو سمجھ کر اور جان بوجھ کر اس کے معانی میں تحریف کرتے ہیں۔ پس وہ اس کے لئے ایسے معانی اور مفاہیم وضع کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی مراد نہیں ہیں تاکہ لوگ اس وہم میں مبتلا ہوں کہ یہ مفاہیم اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں۔ حالانکہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہرگز نہیں۔ پس جب ان کی اس کتاب کے بارے میں یہ حالت ہے جسے وہ اپنے لئے باعث شرف اور اپنا دین قرار دیتے ہیں اور اس کتاب کے ذریعے سے وہ لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکتے ہیں۔ تب ان سے کیونکر یہ امید رکھی جاسکتی ہے کہ وہ تم پر ایمان لائیں گے۔ یہ بعید ترین چیز ہے۔ |
البقرة |
76 |
پھر اہل کتاب کے منافقین کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ وَاِذَا لَقُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَالُوْٓا اٰمَنَّا ﴾” جب وہ ایمان والوں کو ملتے ہیں تو کہتے ہیں، ہم ایمان لائے“ یعنی انہوں نے اپنی زبان سے ان کے سامنے اپنے ایمان کا اظہار کیا جو ان کے دلوں میں نہیں ہے۔﴿ وَاِذَا خَلَا بَعْضُھُمْ اِلٰی بَعْضٍ﴾ ”یعنی جب وہ خلوت میں ہوتے ہیں اور ان کے ہم مذہبوں کے سوا ان کے پاس کوئی اور نہیں ہوتا تووہ ایک دوسرے کو کہتے ہیں : ﴿أَتُحَدِّثُونَهُم بِمَا فَتَحَ اللَّـهُ عَلَيْكُمْ ﴾’’کیاتم ان کو وہ باتیں بیان کرتے ہو جو اللہ نے تم پر کھولی ہیں؟“ یعنی کیا تم ان کے سامنے اپنے ایمان کا اظہار کرتے ہو اور انہیں بتاتے ہو کہ تم ان کی مانند ہو؟ پس یہ چیز ان کے لئے تمہارے خلاف حجت بن جائے گی۔ وہ (یعنی اہل ایمان) کہیں گے کہ انہوں نے اقرار کیا کہ اہل ایمان حق پر ہیں اور جس پر وہ ہیں، وہ باطل ہے۔ پس اہل ایمان اپنے رب کے پاس تمہارے خلاف دلیل دیں گے۔﴿ اَفَلَاتَعْقِلُوْنَ﴾ ” کیا پس تم سمجھتے نہیں؟“ وہ ایک دوسرے سے کہتے ہیں کہ کیا تم عقل سے عاری ہو کہ تم ان کے پاس وہ چیز چھوڑ رہے ہو جو تمہارے خلاف حجت ہوگی؟ |
البقرة |
77 |
﴿اَوَلَا یَعْلَمُوْنَ اَنَّ اللّٰہَ یَعْلَمُ مَا یُسِرُّوْنَ وَمَا یُعْلِنُوْنَ﴾ ” کیا وہ نہیں جانتے کہ اللہ جانتا ہے جو وہ چھپاتے اور ظاہر کرتے ہیں؟“ ہرچند کہ وہ اپنے ان عقائد کو چھپاتے ہیں جو ان کے مابین معروف ہیں اور وہ اس زعم میں مبتلا ہیں کہ انہوں نے ان عقائد کو چھپایا ہوا ہے تاکہ یہ چیز اہل ایمان کے لئے ان کے خلاف دلیل نہ بنے۔ تاہم وہ اس بارے میں غلطی پر ہیں اور بہت بڑی جہالت میں مبتلا ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ ان کے ظاہر و باطن کو خوب جانتا ہے۔ اس کے بندے جو کچھ کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اس کو ظاہر کر دے گا۔ |
البقرة |
78 |
﴿ وَمِنْهُمْ﴾” اور کچھ ان میں سے“ یعنی اہل کتاب میں سے ﴿أُمِّيُّونَ﴾’’ان پڑھ عوام بھی ہیں“ جو اہل علم میں شمار نہیں۔﴿ لَا یَعْلَمُوْنَ الْکِتٰبَ اِلَّآ اَمَانِیَّ﴾ سوائے تلاوت کے اللہ کی کتاب میں ان کا کوئی حصہ نہیں۔ ان کے پاس اس چیز کی خبر بھی نہیں جو پہلوں کے پاس تھی جن کے حالات یہ اچھی طرح جانتے ہیں۔ ان کے پاس محض ظن، گمان اور اہل علم کی تقلید کے سوا کچھ بھی نہیں۔
اللہ تعالیٰ نے ان آیات کریمہ میں اہل کتاب کے علماء، عوام، منافقین اور وہ جنہوں نے نفاق اختیار نہیں کیا، سب کا ذکر کیا ہے۔ پس ان کے علماء اپنی گمراہی کے موقف پر مضبوطی سے جمے ہوئے ہیں اور عوام بصیرت سے محروم ہیں اور ان علماء کی تقلید کرتے ہیں۔ پس ان دونوں گروہوں کے بارے میں تمہیں کوئی امید نہیں رکھنی چاہیے۔ |
البقرة |
79 |
اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو سخت وعید سنائی ہے جو کتاب اللہ میں تحریف کرتے ہیں، اپنی تحریف اور جو کچھ وہ لکھتے ہیں اس کے بارے میں کہتے ہیں ﴿هَـٰذَا مِنْ عِندِ اللَّـهِ﴾ کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ یہ اظہارِ باطل اور کتمان حق ہے۔ اور انہوں نے علم رکھنے کے باوجود یہ کیا۔ ﴿لِیَشْتَرُوْا بِہٖ ثَــمَنًا قَلِیْلًا﴾ ” تاکہ اس کے ذریعے سے تھوڑی قیمت حاصل کریں“ اور تمام دنیا اول سے لے کر آخر تک کتاب اللہ کے مقابلے میں بہت کم قیمت ہے۔ پس انہوں نے اپنے باطل کو ایک جال بنا رکھا ہے جس میں لوگوں کو پھانس کر ان کا مال ہتھیاتے ہیں۔ پس وہ لوگوں پر دو پہلوؤں سے ظلم کرتے ہیں۔ (1) ایک پہلویہ ہے کہ وہ لوگوں پر ان کے دین کو چھپاتے ہیں۔ (2) اس کا دوسرا پہلویہ ہے کہ وہ لوگوں کا مال ناحق بلکہ باطل ترین طریقے سے ہڑپ کرتے ہیں اور اس کی برائی چوری اور غصب کرنے سے بھی بڑھ کر ہے۔ پس ان دو امور کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کو وعید سنائی ہے۔ ﴿فَوَیْلٌ لَّھُمْ مِّمَّا کَتَبَتْ اَیْدِیْہِمْ﴾” پس ہلاکت ہے ان کے لئے اس سے، جو ان کے ہاتھوں نے لکھا۔‘‘یعنی جو تحریف کی اور باطل تحریریں لکھیں۔ ﴿ وَوَیْلٌ لَّھُمْ مِّمَّا یَکْسِبُوْنَ﴾ یعنی وہ مال جو وہ باطل طریقے سے کماتے ہیں۔ (ویل) عذاب کی شدت اور حسرت کو کہا جاتا ہے اسی کے ضمن میں سخت وعید بھی آجاتی ہے۔
شیخ الاسلام تقی الدین ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ﴿أَفَتَطْمَعُونَ﴾ سے لے کر ﴿يَكْسِبُونَ﴾ تک آیات کریمہ کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا :” اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی مذمت فرمائی ہے جو اللہ تعالیٰ کی آیات میں تحریف کرکے ان کو اصل مفہوم سے ہٹا دیتے ہیں۔ اس وعید میں وہ لوگ بھی آتے ہیں جو کتاب و سنت کو اپنی بدعات باطلہ پر محمول کرتے ہیں۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی بھی مذمت فرمائی ہے جو کتاب کا علم نہیں رکھتے سوائے اپنی خواہشات اور آرزوؤں کے۔ اس وعید میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو تدبر قرآن کے سرنہاں کو ترک کردیتے ہیں اور اس کے حروف کی مجردتلاوت کے سوا کچھ بھی نہیں جانتے۔ یہ وعید اس شخص کے لئے بھی ہے جو محض دنیا کمانے کے لئے کوئی ایسی کتاب لکھتا ہے جو قرآن و سنت کے خلاف ہے اور کہتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ مثلاً وہ کہتا ہے کہ یہ شریعت اور دین ہے، یہ کتاب و سنت کا معنی ہے، یہ سلف امت اور ائمہ کرام کی تعبیرات ہیں اور یہ دین کے وہ بنیادی اصول ہیں جن پر اعتقاد رکھنا فرض عین یا فرض کفایہ ہے۔ اس وعید میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو کتاب و سنت کے علم کو محض اس وجہ سے چھپاتے ہیں کہ کہیں ان کے مخالفین اس کو اپنے حق میں ان کے خلاف دلیل نہ بنا لیں۔ اہل اہواء و بدعات میں بالجملہ یہ امور بہت کثرت سے پائے جاتے ہیں، مثلاً روافض وغیرہ اور تفصیلاً یہ امور بہت سے ان لوگوں میں بھی پائے جاتے ہیں جو اپنے آپ کو ائمہ فقہ کی طرف منسوب کرتے ہیں۔‘‘ |
البقرة |
80 |
اللہ تعالیٰ نے ان کے افعال بد کا ذکر کیا پھر اس کے ساتھ یہ بھی فرمایا کہ اس کے باوجود وہ اپنے آپ کو پاک (یعنی تزکیہ شدہ) قرار دیتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نجات یافتہ اور اس کے ثواب کے مستحق ہوں گے اور یہ کہ وہ جہنم میں اگر گئے بھی تو جہنم کی آگ انہیں چند دن کے سوا ہرگز نہیں چھوئے گی، یعنی بہت ہی کم دنوں کے لئے جن کو انگلیوں پر گنا جاسکتا ہے۔ پس وہ بدی کا ارتکاب بھی کرتے ہیں اور اپنے آپ کو عذاب سے محفوظ بھی سمجھتے ہیں۔ چونکہ یہ ان کا محض دعویٰ ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کی تردید کرتے ہوئے فرمایا : ﴿قُلْ﴾ یعنی اے رسول ان سے کہہ دو ! ﴿ اَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللّٰہِ عَہْدًا﴾ : یعنی کیا تم نے اللہ تعالیٰ اور اس کے انبیاء و رسل پر ایمان لا کر اور اس کی اطاعت کرکے اللہ تعالیٰ سے عہد لے رکھا ہے۔ پس یہ وعدہ تو یقیناً صاحب وعدہ کی نجات کا موجب ہے جس میں تغیر و تبدل نہیں ہوسکتا۔ ﴿ اَمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَی اللّٰہِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ ﴾ ” یا تم اللہ کے ذمے ایسی بات لگاتے ہو جس کا تمہیں علم ہی نہیں۔“ پس اللہ تعالیٰ نے خبر دی کہ ان کے دعوے کی صداقت ان دو امور میں سے ایک پر موقوف ہے۔ تیسری کوئی چیز نہیں۔
1۔ یا تو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے نجات کا کوئی عہد لیا ہوگا تب ان کا دعویٰ صحیح ہے۔
2۔ یا یہ لوگ اللہ تعالیٰ پر بہتان باندھ رہے ہیں۔ تب ان کا یہ دعویٰ جھوٹا ہے۔ بس یہ بہتان ان کی رسوئی اور عذاب کے لئے کافی ہے۔
ان کے حالات ہمیں اچھی طرح معلوم ہیں کہ انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی عہد عطا نہیں ہوا تھا۔ کیونکہ انہوں نے بے شمار انبیاء کی تکذیب کی تھی، حتیٰ کہ ان کی حالت تویہاں تک پہنچ گئی تھی کہ انبیاء کا ایک گروہ ان کے ہاتھوں قتل ہوا نیز انہوں نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے منہ موڑا اور اللہ تعالیٰ سے کئے ہوئے عہدوں کو توڑا۔ پس اس سے اس بات کا تعین ہوگیا کہ وہ اللہ تعالیٰ پر بہتان باندھ رہے اور اس کی بابت ایسی بات کہہ رہے ہیں جس کو وہ خود نہیں جانتے اور علم کے بغیر اللہ تعالیٰ کے ذمے کوئی بات لگانا، سب سے بڑا حرام اور سب سے بڑی برائی ہے۔ |
البقرة |
81 |
پھر اللہ تعالیٰ نے سب کے لئے ایک عام حکم بیان کیا ہے جس میں بنی اسرائیل اور دیگر تم لوگ داخل ہیں وہ ایک ایسا حکم ہے کہ اس کے علاوہ کوئی اور حکم ہو ہی نہیں سکتا نہ کہ ان کی آرزوئیں اور دعوے، جو وہ ہلاک ہونے والوں اور نجات پانے والوں کی بابت کرتے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿بَلَىٰ ﴾یعنی معاملہ یوں نہیں جس طرح تم نے بیان کیا ہے کیونکہ یہ تو ایک ایسی بات ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ﴿ مَنْ کَسَبَ سَیِّئَۃً ﴾” جس نے کوئی برائی کمائی“ یہاں ﴿سَیِّئَۃً ﴾ برائی شرط کے سیاق میں نکرہ استعمال ہوئی ہے لہٰذا اس کے عموم میں شرک اور اس سے کمتر تمام برائیاں داخل ہیں، لیکن یہاں اس سے مراد شرک ہے اور اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ قول ہے ﴿وَّاَحَاطَتْ بِہٖ خَطِیْۗــــَٔــتُہٗ﴾ یعنی برائی کا ارتکاب کرنے والے کو اس کی برائی نے گھیر لیا اور اس کے لیے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں چھوڑا اور یہ شرک کے علاوہ کوئی اور برائی نہیں ہوسکتی۔ کیونکہ جو ایمان سے بہرہ ور ہے برائی اسے گھیر نہیں سکتی۔
﴿ فَاُولٰۗیِٕکَ اَصْحٰبُ النَّارِ ۚ ھُمْ فِیْہَا خٰلِدُوْنَ﴾” پس وہ آگ کے مستحق ہیں اور اس میں ہمیشہ رہیں گے“ اس آیت کریمہ سے خوارج نے استدلال کیا ہے کہ گناہ کا ارتکاب کرنے والا کافر ہے حالانکہ یہ تو ان کے خلاف دلیل ہے کیونکہ یہ تو ظاہری طور پر شرک کے بارے میں ہے۔ اس طرح ہر باطل پسند جو قرآن مجید کی کسی آیت یا کسی صحیح حدیث سے اپنے باطل نظرئیے پر استدلال کرتا ہے تو استدلال خود اس کے خلاف ایک قوی دلیل ہوتا ہے۔ |
البقرة |
82 |
﴿وَالَّذِينَ آمَنُوا﴾ یعنی وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں اور یوم آخرت پر ایمان لائے۔ ﴿وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ﴾اور اعمال صالحہ کیے اور اعمال مندرجہ ذیل دو شرائط کے بغیر اعمال صالحہ کے زمرے میں نہیں آتے۔( 1) خالص اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے ہوں۔ ( 2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کے مطابق ہوں۔
ان دو آیتوں کا حاصل یہ ہے کہ نجات اور فوز وفلاح کے مستحق صرف نیک کام کرنے والے اہل ایمان ہیں اور ہلاک ہونیوالے جہنمی، وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک شرک اور اس کے ساتھ کفر کرتے ہیں۔ |
البقرة |
83 |
پس یہ احکام ان اصول دین میں سے ہیں، جن پر عمل کرنے کا حکم اللہ تعالیٰ نے ہر شریعت میں دیا، کیونکہ یہ احکام ہر زمان ومکان میں مصالح عامہ پر مشتمل ہیں۔ دین میں ان کی حیثیت بنیاد کی سی ہے جو منسوخ نہیں ہوسکتی۔ بنابریں اللہ تعالیٰ نے ہمیں ان اصولوں پر عمل کرنے کا حکم اپنے اس فرمان میں دیا ہے۔ ﴿وَاعْبُدُوا اللَّـهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا﴾ ۔( النساء: 4؍ 36)’ اللہ ہی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کرو۔‘‘
﴿وَاِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَ بَنِیْٓ اِسْرَاۗءِیْلَ﴾ ’’اس وقت کو یاد کرو، جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا۔‘‘ یہ ان کی سنگدلی ہی تھی کہ جب بھی انہیں کسی بات کا حکم دیا جاتا تو وہ نافرمانی کرتے۔ اس لیے وہ پختہ قسموں اور مضبوط عہدوں کے بغیر کسی حکم کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے تھے۔
﴿لَا تَعْبُدُونَ اِلَّا اللّٰه﴾یہ اکیلے اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حکم ہے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک کرنے کی ممانعت ہے۔ یہ دین کی بنیاد ہے اگر یہ بنیاد نہ ہو تو کوئی عمل اللہ تعالیٰ کے ہاں قابل قبول نہیں۔ پس یہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر حق ہے۔ پھر فرمایا : ﴿وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا ﴾یعنی اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کے ساتھ پیش آؤ۔ اس میں ہر قسم کا حسن سلوک شامل ہے۔ اس زمرے میں قولی، فعلی اور ہر وہ رویہ شامل ہے جس پر حسن سلوک کا اطلاق ہوتا ہے۔ اس میں والدین کے ساتھ برے سلوک یا عدم حسن سلوک کی ممانعت ہے۔ کیونکہ والدین کے ساتھ حسن سلوک فرض ہے اور کسی چیز کی فرضیت کے حکم سے لازم آتا ہے کہ اس کی ضد ممنوع ہو۔
دو چیزیں حسن سلوک کے مخالف ہیں :
(1) برا سلوک کرنا، یہ سب سے بڑا جرم ہے۔ (2) بغیر برائی کیے، حسن سلوک نہ کرنا۔ اگرچہ والدین کے ساتھ اس قسم کا رویہ بھی حرام ہے مگر اس رویئے کو اول الذکر رویئے سے ملحق کرنا ضروری نہیں۔
رشتہ داورں، یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ سلوک میں بھی اسی اصول کا اطلاق ہوتا ہے حسن سلوک (احسان) کی تفصیلات دائرہ شمار سے باہر ہیں البتہ جیسا کہ گزشتہ سطور میں گزر چکا ہے اس کی کچھ حدود میں۔
پھر اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ تمام لوگوں کے ساتھ بھی حسن سلوک سے پیش آیا جائے چنانچہ فرمایا :﴿ وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا﴾ ” یعنی لوگوں سے اچھی بات کہنا“ مندرجہ ذیل چیزیں ” قول حسن“ (یعنی اچھی بات) کے زمرے میں آتی ہیں۔
(1) لوگوں کو نیکی کا حکم دینا۔ (2) ان کو بری باتوں سے روکنا۔ (3) ان کو علم سکھانا۔ (4) ان میں سلام پھیلانا۔ (5) خندہ پیشانی اور بشاشت کا اظہار کرنا۔ (6) ان کے علاوہ دیگر اچھی باتیں۔
چونکہ ہر انسان اپنے مال کے ذریعے سے لوگوں کو فائدہ پہنچانے کی استطاعت نہیں رکھتا اس لیے اسے ایک ایسی چیز کا حکم دیا گیا ہے جس کے ذریعے سے وہ تمام مخلوق کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنے کی قدرت رکھتا ہے اور وہ ہے ” قول حسن“ اسی کے ضمن میں لوگوں کے ساتھ بری گفتگو کرنے کی ممانعت آجاتی ہے، حتی کہ کفار کے ساتھ بھی کلام قبیح کرنا ممنوع ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :﴿ وَلَا تُجَادِلُوا أَهْلَ الْكِتَابِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ ﴾(العنکبوت : 29؍ 63) ” اہل کتاب کے ساتھ بحث نہ کرو مگر ایسے طریقے سے جو سب سے اچھا ہو۔“
انسانی آداب میں سے، جن کی تعلیم اللہ نے اپنے بندوں کو دی ہے، یہ بھی ہے کہ انسان اپنے اقوال اور افعال میں پاکیزہ رہے، فحش گوئی اور بے ہودہ باتوں سے اجتنا کرے، گالی گلوچ اور سب و شتم کرنے اور لڑائی جھگڑے سے باز رہے۔ بلکہ اس کے برعکس حسن خلق، بے پایاں حلم، ہر ایک کے ساتھ اچھے سلوک اور مخلوق کی ایذا رسانی پر صبر کا مظاہرہ کرے۔ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے حکم کی اطاعت اور ثواب کی امید پر کرے۔
پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے کا حکم دیا ہے اور جیسا کہ گزشتہ صفحات میں بیان کیا جا چکا ہے کہ نماز معبود کے لیے اخلاص کو اور زکوٰۃ اللہ تعالیٰ کے بندوں کے ساتھ حسن سلوک کو متضمن ہے۔
﴿ثُمَّ﴾ ” پھر“ اللہ تعالیٰ کا تمہیں ان اچھے کاموں کا حکم دینے کے بعد، جن کو ایک دانش مند دیکھتا ہے تو جان لیتا ہے کہ یہ اللہ کا بندوں پر ایک احسان ہے کہ اس نے ان باتوں کا انہیں حکم دیا اور اس طرح انہیں اپنے فضل و کرم سے نوازا، اور ان سے عہد و میثاق لیا۔ ﴿تَوَلَّيْتُمْ ﴾یعنی تم نے ان احکام سے روگردانی کرتے ہوئے پیٹھ پھیر لی۔ اس لیے کہ پیٹھ پھیر کر جانے والا کبھی کبھی واپس لوٹنے کی نیت سے بھی پیٹھ پھیر کرجاتا ہے، مگر یہ لوگ تو احکام الٰہی میں سرے سے کوئی رغبت ہی نہیں رکھتے اور نہ ان کی طرف لوٹنے کا کوئی ارادہ ہی رکھتے ہیں فَنَعُوْذُ ِبالّلِہ ِمنَ الْخَذْلَانِ
اللہ تعالیٰ کا ارشاد﴿إِلَّا قَلِيلًا مِّنكُمْ ﴾ ” مگر تھوڑے لوگ تم میں سے“ ایک استثناء ہے تاکہ اس وہم کا ازالہ ہوجائے کہ تمام لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے احکام سے روگردانی کی تھی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے واضح فرما دیا کہ چند لوگ ایسے بھی تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے محفوظ رکھا اور ان کو استقامت اور ثابت قدمی عطا کی۔ |
البقرة |
84 |
آیت کریمہ میں مذکور فعل ان لوگوں کا تھا جو نزول وحی کے زمانے میں مدینہ میں موجود تھے اور یہ اس طرح کہ اوس اور خزرج، جو انصار کے نام سے مشہور ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت سے قبل مشرک تھے اور جاہلیت کی عادت کے مطابق باہم دست و گریباں رہتے تھے، اسی اثناء میں یہود کے تین قبیلوں، بنو قریظہ، بنو نضیر اور بنو قینقاع نے مدینہ میں آ کر وہاں رہنا شروع کردیا۔ ان میں سے ہر قبیلے نے مدینہ کے کسی قبیلے کے ساتھ (دفاعی) معاہدہ کرلیا۔ جب کبھی اوس اور خزرج کی آپس میں لڑائی ہوتی تو یہودی قبیلہ اس کے مخالفین کے خلاف مدد کرتا جن کی مدد دوسرا یہودی قبیلہ کر رہا ہوتا۔ یوں یہودی ایک دوسرے کو قتل کرتے تھے۔ بسا اوقات یہ بھی ہوتا تھا کہ وہ ایک دوسرے کو جلا وطن کردیتے اور ایک دوسرے کا مال لوٹ لیتے پھر جب جنگ ختم ہوجاتی تو جنگ کے فریقین نے ایک دوسرے کے جو افراد جنگی قیدی بنائے ہوتے، وہ ان کو فدیہ دے کر آزاد کرواتے۔
یہ تینوں امور، جن کی یہ خلاف ورزی کر رہے تھے، ان پر فرض کیے گئے تھے : (1) ایک دوسرے کا خون نہ بہائیں (2) ایک دوسرے کو گھروں سے نہ نکالیں۔ (3) جب وہ اپنے میں سے کسی کو قیدی پائیں تو اس کا فدیہ دے کر اسے چھڑانا ان کے لیے ضروری ہے۔ |
البقرة |
85 |
پس ان لوگوں نے آخری بات پر تو عمل کیا اور پہلی دو باتوں کو نظر انداز کردیا۔ چنانچہ ان کے رویئے پر اللہ تعالیٰ نے نکیر کرتے ہوئے فرمایا : ﴿أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ﴾ ” کیا تم کتاب کے ایک حصے پر ایمان لاتے ہو“ اس سے مراد ہے قیدیوں کی رہائی کے لیے فدیہ دینا ﴿وَتَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ﴾” اور دوسرے حصے کے ساتھ کفر کرتے ہو“ اس سے مراد ہے ایک دوسرے کو قتل کرنا اور ایک دوسرے کو گھروں سے نکالنا۔
آیت کریمہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ ایمان اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اوامر پر عمل کیا جائے اور اس کی نواہی سے اجتناب کیا جائے۔ نیز یہ کہ تمام مامورات ایمان میں شمار ہوتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿ فَمَا جَزَاءُ مَن يَفْعَلُ ذٰلِكَ مِنكُمْ إِلَّا خِزْيٌ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا﴾ ” تم میں سے جو بھی ایسا کرے گا، اس کو اس کی سزا دنیا میں رسوائی کے سوا کوئی اور نہیں ملے گی۔“ اور اس رسوائی کا انہیں سامنا کرنا پڑا۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں رسوا کیا اور ان پر اپنے رسول کو غلبہ عطا کیا۔ ان میں سے کسی کو قتل کردیا گیا اور کسی کو غلام بنا لیا گیا اور کسی کو جلا وطن کردیا گیا۔ ﴿َيَوْمَ الْقِيَامَةِ يُرَدُّونَ إِلَىٰ أَشَدِّ الْعَذَابِ﴾ ”اور قیامت کے روز سخت عذاب کی طرف لوٹائے جائیں گے۔“ یعنی قیامت کے روز کا عذاب دنیا کے عذاب سے بھی بڑھ کر ہوگا۔﴿ وَمَا اللَّـهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ﴾ ” اور اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے بے خبر نہیں۔ “ |
البقرة |
86 |
پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ کیا سبب تھا جو اس بات کا موجب بنا کر وہ کتاب اللہ کے کچھ حصے پر ایمان لائیں اور کچھ حصے کا انکار کردیں؟ چنانچہ فرمایا : ﴿أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوُا الْحَيَاةَ الدُّنْيَا﴾ ” یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے دنیا کی زندگی کو آخرت کے بدلے خرید لیا، یعنی انہیں وہم لاحق تھا کہ اگر انہوں نے اپنے حلیفوں کی مدد نہ کی تو یہ عار کی بات ہے پس انہوں نے عار کے بدلے میں آگ کو چن لیا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿فَلَا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ ﴾ ” پس ان سے عذاب ہلکا نہیں کیا جائے گا“ یعنی عذاب کی شدت ہمیشہ رہے گی اور کسی وقت بھی انہیں راحت نصیب نہ ہوگی ﴿وَلَا هُمْ يُنصَرُونَ﴾ ” اور ان کی مدد کی جائے گی“ یعنی ان سے عذاب کو نہیں ہٹایا جائے گا۔ |
البقرة |
87 |
﴿ وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ﴾” اور تحقیق ہم نے موسیٰ کو کتاب دی“ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر اپنے احسانات کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اس نے اپنے کلیم حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ان میں مبعوث فرمایا، ان کو تورات عطا کی۔ پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد ان میں پے در پے انبیاء اور رسول مبعوث فرمائے جو تورات کے مطابق فیصلے کرتے تھے۔ یہاں تک کہ بنی اسرائیل کے آخری نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مبعوث فرمایا اور انہیں واضح نشانیاں عطا کیں جن پر انسان ایمان لے آتا ہے۔ ﴿وَأَيَّدْنَاهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ﴾ یعنی ” حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو روح القدس کے ذریعے تقویت دی۔“ اکثر مفسرین کہتے ہیں کہ روح القدس سے مراد حضرت جبرائیل علیہ السلام ہیں۔ بعض کی رائے یہ ہے کہ اس سے مراد وہ ایمان ہے جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو قوت اور استقامت عطا کرتا ہے۔ پھر ان نعمتوں کے باوجود، جن کی قدر و عظمت کے اندازہ نہیں کیا جاسکتا، جب وہ تمہارے پاس وہ کچھ لائے﴿بِمَا لَا تَهْوَىٰ أَنفُسُكُمُ اسْتَكْبَرْتُمْ﴾ ” جن کو تمہارا دل نہیں چاہتا تھا تو تم نے (ایمان لانے کی بجائے) تکبر کیا۔“ ﴿فَفَرِيقًا﴾ یعنی انبیاء میں سے ایک فریق کو ﴿كَذَّبْتُمْ وَفَرِيقًا تَقْتُلُونَ﴾” تم نے جھٹلایا اور ایک فریق کو تم نے قتل کردیا۔“ پس تم نے خواہشات نفس کو ہدایت پر مقدم رکھا اور دنیا کو آخرت پر ترجیح دی۔ اس آیت کریمہ میں جو زجر و توبیخ اور تشدید ہے، وہ ڈھکی چھپی نہیں۔ |
البقرة |
88 |
اے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب آپ ان کو ایمان کی دعوت دیتے ہیں تو یہ لوگ معذرت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ (ہمارے دل غلاف میں لپٹے ہوئے ہیں۔) یعنی ہمارے دلوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں اس لیے ہم تمہاری بات کو سمجھ نہیں سکتے۔ گویا یہ ان کے گمان کے مطابق عدم علم کا عذر ہے اور یہ ان کا جھوٹ ہے بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿بَل لَّعَنَهُمُ اللَّـهُ﴾یعنی وہ اپنے کفر کے سبب سے ملعون اور دھتکارے ہوئے ہیں۔ اس لیے ان میں سے بہت ہی قلیل لوگ ایمان لائیں گے، یا اس کا مفہوم یہ ہے کہ ان کا ایمان بہت ہی قلیل ہے اور ان کا کفر بہت زیادہ ہے۔ |
البقرة |
89 |
مطلب یہ ہے کہ جب افضل المخلوقات اور خاتم النبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے سے ان کے پاس اللہ تعالیٰ کی کتاب آگئی جو ان تعلیمات کی تصدیق کرتی تھی جنہیں تورات نے پیش کیا، جس کا ان کو علم اور یقین تھا۔ علاوہ ازیں جاہلیت کے زمانے میں جب کبھی ان کے اور مشرکین کے درمیان جنگ ہوتی تو یہ دعا کیا کرتے تھے (اے اللہ) اس نبی کے ذریعے سے ہماری مدد فرما اور وہ مشرکین کو ڈرایا کرتے تھے کہ اس نبی کا ظہور ہونے والا ہے۔ وہ اس نبی کے ساتھ مل کر مشرکین کے خلاف جنگ کریں گے۔ جب ان کے پاس اللہ تعالیٰ کی کتاب اور وہ نبی آگیا جس کو انہوں نے پہچان لیا تو حسد اور سرکشی کی وجہ سے اس کو ماننے سے انکار کردیا (اور انہیں حسد اس بات پر تھا) کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اپنا فضل نازل فرماتا ہے۔ (اللہ نے یہ شرف نبوت ان کی بجائے کسی اور کو کیوں دے دیا؟) پس اللہ تعالیٰ نے ان پر لعنت کی اور ان پر سخت غضب ناک ہوا، کیونکہ کفر میں وہ بہت بڑھ گئے تھے اور متواتر شک اور شرک میں مبتلا چلے آرہے تھے۔ |
البقرة |
90 |
اور ان کافروں کے لیے آخرت میں ﴿عَذَابٌ مُّهِينٌ﴾ ” رسوا کرنے والا عذاب“ ہوگا اور وہ یہ کہ ان کو جہنم میں جھونک دیا جائے گا اور دائمی نعمتوں سے وہ محروم ہوں گے۔ پس بہت برا ہے ان کا حال، بہت ہی برا ہے وہ معاوضہ جو انہوں نے اللہ تعالیٰ، اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں پر ایمان لانے کے مقابلے میں حاصل کیا اور وہ یہ کہ انہوں نے اللہ کے ساتھ، اس کی کتابوں اور رسولوں کے ساتھ کفر کیا۔ حالانکہ وہ سب کچھ جانتے تھے اور انہیں رسولوں کی صداقت کا بھی یقین تھا اسی وجہ سے ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہوگا۔ |
البقرة |
91 |
جب یہود کو حکم دیا گیا کہ وہ اس کتاب پر ایمان لائیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول پر نازل کی ہے یعنی قرآن کریم پر تو انہوں نے تکبر اور سرکشی سے کہا : ﴿ قَالُوا نُؤْمِنُ بِمَا أُنزِلَ عَلَيْنَا وَيَكْفُرُونَ بِمَا وَرَاءَهُ ﴾ یعنی وہ (تورات کے سوا) تمام کتابوں کا انکار کرتے ہیں۔ حالانکہ ان پر فرض تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ تمام کتابوں پر علی الاطلاق ایمان لائیں خواہ یہ کتابیں بنی اسرائیل کے نبیوں پر نازل کی گئی ہوں یا ان کے علاوہ کسی اور نبی پر، اور یہی وہ ایمان ہے جو فائدہ مند ہے۔ یعنی ان تمام کتابوں پر ایمان جو تمام انبیائے کرام علیہ السلام پر نازل کی گئی ہیں۔
رہا اللہ تعالیٰ کے رسولوں اور اس کی نازل کردہ کتابوں کے درمیان تفریق کرنا اور اپنے زعم کے مطابق کسی پر ایمان لانا اور کسی کا انکار کردینا، تو یہ ایمان نہیں بلکہ عین کفر ہے۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿إِنَّ الَّذِينَ يَكْفُرُونَ بِاللَّـهِ وَرُسُلِهِ وَيُرِيدُونَ أَن يُفَرِّقُوا بَيْنَ اللَّـهِ وَرُسُلِهِ وَيَقُولُونَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَنَكْفُرُ بِبَعْضٍ وَيُرِيدُونَ أَن يَتَّخِذُوا بَيْنَ ذٰلِكَ سَبِيلًا أُولَـٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ حَقًّا﴾ (النساء:4؍150۔151)
” وہ لوگ جو اللہ اور اس کے رسولوں سے کفر کرتے ہیں اور وہ اللہ اور اس کے رسولوں کے درمیان فرق کرنا چاہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم بعض کو مانتے ہیں اور بعض کا انکار کرتے ہیں اور وہ اس کے مابین (یعنی ایمان اور کفر کے مابین) ایک راہ نکالنا چاہتے ہیں، بلا شبہ وہی کافر ہیں۔“
اس لیے اللہ تعالیٰ نے یہاں ان کو شافی جواب دیا ہے اور ان کو ایک ایسی الزامی دلیل دی ہے جس سے ان کو کوئی مفر نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے انکار قرآن کا دو پہلوؤں سے رد کیا ہے۔
(الف) فرمایا : ﴿وَهُوَ الْحَقُّ﴾’’اور وہ (قرآن) حق ہے“ پس جب یہ قرآن اوامرونواہی اور اخبار میں سراسر حق پر مشتمل ہے اور یہ حق ان کے رب کی طرف سے نازل شدہ ہے، لہٰذا یہ معلوم ہوجانے کے بعد اس کا انکار کرنا درحقیقت اللہ تعالیٰ کا انکار کرنا اور اس حق کا انکار کرنا ہے جو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا۔
(ب) پھر فرمایا ﴿ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَهُمْ﴾ ” ان کی موجودہ کتاب کی تصدیق کرتا ہے“ یعنی یہ ہر اس چیز کے موافق اور اس کا محافظ ہے جس پر حق دلالت کرتا ہے۔
پس تم اس کتاب پر کیوں ایمان لاتے ہو جو تم پر نازل کی گئی جب کہ اس جیسی دوسری کتاب کا انکار کرتے ہو؟ اور کیا یہ تعصب نہیں؟ کیا یہ ہدایت کی پیروی کی بجائے خواہشات نفس کی پیروی نہیں؟
نیز قرآن کا ان کتابوں کی تصدیق کرنا جو ان پر نازل کی گئیں ہیں، اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ یہ قرآن ان کے لیے اس بات کی دلیل ہو کہ ان کے پاس جو کتابیں ہیں، وہ سچی ہیں۔ اس اعتبار سے وہ اپنی کتابوں کا اثبات بھی قرآن کے بغیر نہیں کرسکتے۔ جب وہ قرآن کا انکار کردیتے ہیں تو ان کی حالت اس مدعی کی سی ہوجاتی ہے جس کے پاس اپنے دعویٰ کو ثابت کرنے کے لیے ایسی دلیل و حجت بھی ہے جو اثبات دعویٰ کی واحد دلیل ہے، اس دلیل کے بغیر اس کا دعویٰ ثابت ہی نہیں ہوسکتا، لیکن پھر وہ خود ہی اپنی دلیل میں جرح و قدح کرتا ہے اور اس کو جھٹلا دیتا ہے۔ کیا یہ پاگل پن اور حماقت نہیں؟ پس واضح ہوا کہ ان کا قرآن کا انکار کرنا درحقیقت ان کتابوں کا انکار ہے جو ان کی طرف نازل کی گئی ہیں۔
پھر اللہ تعالیٰ نے ان کے اس دعوے کی تردید کی کہ وہ ان کتابوں پر ایمان رکھتے ہیں جو ان کی طرف نازل کی گئی ہیں۔ چنانچہ فرمایا : ﴿قُلْ﴾ یعنی ان سے (کہہ دو) ﴿فَلِمَ تَقْتُلُونَ أَنبِيَاءَ اللَّـهِ مِن قَبْلُ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ﴾ ” اگر تم ایماندار ہو تو پھر تم اس سے قبل اللہ کے انبیاء کو کیوں قتل کردیتے رہے؟“ |
البقرة |
92 |
﴿وَلَقَدْ جَاءَكُم مُّوسَىٰ بِالْبَيِّنَاتِ﴾ یعنی تمہارے پاس موسیٰ حق کو بیان کرنے والے واضح دلائل لے کر آئے۔ ﴿ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِن بَعْدِهِ ﴾ ” پھر تم نے موسیٰ کے آنے کے بعد بھی بچھڑے کو اپنا معبود بنا لیا۔“﴿وَأَنتُمْ ظَالِمُونَ﴾ ” اور تم اس بارے میں سخت ظالم تھے“ اور تمہارے پاس کوئی عذر نہیں۔ |
البقرة |
93 |
﴿وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَكُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَكُمُ الطُّورَ خُذُوا مَا آتَيْنَاكُم بِقُوَّةٍ وَاسْمَعُوا﴾” اور جب ہم نے تم سے وعدہ لیا اور تم پر طور کو بلند کیا (کھڑا کیا) کہ ہماری دی ہوئی چیز کو مضبوطی سے تھامو اور سنو“ یعنی اس کو قبول کرنے، اس کی اطاعت کرنے اور اس کی آواز پر لبیک کہنے کے لیے سنو۔ ﴿قَالُوا سَمِعْنَا وَعَصَيْنَا﴾ یعنی ان کی حالت یہ ہوگئی ہے کہ ” وہ کہتے ہیں کہ ہم نے سنا اور نافرمانی کی۔“ ﴿وَأُشْرِبُوا فِي قُلُوبِهِمُ الْعِجْلَ ﴾ یعنی ان کے دل بچھڑے اور اس کی عبادت کی محبت کے رنگ میں رنگے گئے اور ان کے کفر کے سبب سے ان کے دلوں میں گویا بچھڑے کی محبت رچ بس گئی۔
﴿قُلْ بِئْسَمَا يَأْمُرُكُم بِهِ إِيمَانُكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ﴾” انہیں کہہ دیجئے کہ تمہارا ایمان تمہیں برا حکم دے رہا ہے اگر تم مومن ہو“ یعنی تم ایمان لانے کا دعویٰ کرتے ہو اور دین حق کے نام نہاد پیرو ہونے پر اپنی تعریف چاہتے ہو اور تمہاری حالت یہ ہے کہ تم نے اللہ کے نبیوں کو قتل کیا، جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کوہ طور پر گئے تو تم نے اللہ کو چھوڑ کر بچھڑے کو معبود بنا لیا۔ تم نے اللہ تعالیٰ کی شریعت (اوامرو نواہی) کو اس وقت تک قبول نہ کیا جب تک کہ تمہیں دھمکی نہ دی گئی اور کہ طور کو اٹھا کر تم پر معلق نہ کردیا گیا۔ پھر بھی تم نے زبانی طور پر تو اسے قبول کرلیا مگر بالفعل اس کی مخالفت کی۔ یہ کیسا ایمان ہے جس کا تم دعویٰ کرتے ہو اور یہ کیسا دین ہے؟
تمہارے زعم کے مطابق اگر یہی ایمان ہے تو بہت برا ایمان ہے جو تمہیں سرکشی، رسولوں کے انکار اور کثرت عصیان کی دعوت دیتا ہے۔ حالانکہ یہ بات معروف ہے کہ صحیح اور حقیقی ایمان صاحب ایمان کو ہر بھلائی کا حکم دیتا ہے اور برائی سے روکتا ہے، لہٰذا اس سے ان کا جھوٹ واضح اور ان کا تقاضا عیاں ہوجاتا ہے۔ |
البقرة |
94 |
﴿قُلْ﴾ یعنی ان کے دعویٰ کی تصحیح کی خاطر کہہ دیجئے ! ﴿اِن كَانَتْ لَكُمُ الدَّارُ الْآخِرَةُ﴾” کہ اگر آخرت کا گھر (جنت) صرف تمہارے ہی لیے ہے“ ﴿خَالِصَةً مِّن دُونِ النَّاسِ﴾ دوسرے لوگ اس میں نہیں جائیں گے۔ جیسا کہ تمہارا گمان ہے کہ جنت میں صرف وہی لوگ جائیں گے جو یہودی اور نصرانی ہیں، نیز تمہیں ہرگز آگ نہیں چھوئے گی سوائے چند روز کے اس لیے اگر تم اپنے اس دعوے میں سچے ہو ﴿فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ﴾ ” تو موت کی تمنا کر دیکھو“۔ یہ ان کے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درمیان مبابلہ کی ایک قسم ہے۔ ان کے دلائل کا توڑ، انہیں لاجواب کردینے اور ان کے عناد کے بعد ان کے لیے دو باتوں میں سے کسی ایک کو مانے بغیر چارہ نہیں۔
(1) یا تو وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لے آئیں۔ (2) یا وہ اپنے موقف کی صداقت ثابت کرنے کے لیے ایک چھوٹی سی بات پر مباہلہ کرلیں اور وہ ہے موت کی تمنا، جو انہیں اس جنت میں پہنچا دے گی جو خالص انہی کے لیے تخلیق کی گئی ہے۔ مگر انہوں نے اس مباہلے کو قبول نہ کیا۔ |
البقرة |
95 |
پس ہر شخص کو معلوم ہوگیا کہ وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مخالفت اور عناد میں انتہاء کو پہنچ گئے ہیں اور وہ یہ سب کچھ جانتے بوجھتے کر رہے ہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَلَنْ یَّتَمَنَّوْہُ اَبَدًۢا بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْہِمْ ۭ﴾ یعنی کفر اور معاصی کے اعمال کے باعث وہ موت کی تمنا نہیں کریں گے کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ یہ ان کے گندے اعمال کی جزا کا راستہ ہے۔
پس موت ان کے نزدیک سب سے زیادہ ناپسندیدہ چیز ہے اور وہ دنیا کے تمام لوگوں سے بڑھ کر زندگی کے حریص ہیں حتیٰ کہ ان مشرکین سے بھی زیادہ جو رسولوں، کتابوں اور کسی چیز پر بھی ایمان نہیں رکھتے۔ |
البقرة |
96 |
پھر اللہ تعالیٰ نے دنیا کے ساتھ ان کی شدید محبت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا :﴿یَوَدُّ اَحَدُھُمْ لَوْ یُعَمَّرُ اَلْفَ سَـنَۃٍ ۚ﴾ ” ان میں سے تو ہر شخص ایک ایک ہزار سال کی عمر چاہتا ہے“ زندگی کی حرص کے لیے یہ بلیغ ترین پیرا یہ ہے۔ انہوں نے ایک ایسی حالت کی آرزو کی ہے جو قطعاً محال ہے اور حال یہ ہے کہ اگر ان کو یہ مذکورہ عمر عطا کر بھی دی جائے تب بھی یہ عمر ان کے کسی کام نہیں آسکتی اور نہ ان سے عذاب کو دور کرسکتی ہے۔ ﴿وَاللّٰہُ بَصِیْرٌۢ بِمَا یَعْمَلُوْنَ﴾ ” اور اللہ تعالیٰ ان کے اعمال کو بخوبی دیکھ رہا ہے“ یہ ان کے لیے تہدید ہے کہ ان کو ان کے اعمال کا بدلہ ملے گا۔ |
البقرة |
97 |
یعنی ان یہود سے کہہ دیجئے جن کا گمان ہے کہ ان کو آپ پر ایمان لانے سے صرف اس چیز نے روکا ہے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام آپ کے دوست اور مددگار ہیں۔ اگر جبرئیل علیہ السلام تمہارا تناقض، تمہاری ضد اور اللہ تعالیٰ کے سامنے تمہارا تکبر ہے۔ کیونکہ جبرئیل علیہ السلام ہی وہ فرشتہ ہے جس نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کے قلب پر قرآن اتارا اور جبرئیل علیہ السلام ہی آپ سے پہلے دیگر انبیائے کرام پر نازل ہوتا رہا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے جس نے جبرئیل علیہ السلام کو حکم دیا اور اسے وحی کے ساتھ بھیجا۔ وہ تو محض ایک پیامبر ہے۔ |
البقرة |
98 |
بایں ہمہ جبرئیل علیہ السلام اس کتاب کو لے کر نازل ہوئے جو کتب سابقہ کی تصدیق کرتی ہے۔ یہ کتاب کتب سابقہ کی مخالف ہے نہ ان کی مناقض۔ اس میں مختلف قسم کی گمراہیوں سے مکمل ہدایت کا روشن راستہ ہے اور اس پر ایمان لانے والوں کے لیے دنیاوی اور آخروی بھلائی کی بشارت ہے۔
پس ان صفات سے موصوف جبرئیل علیہ السلام سے عداوت رکھنا اور حقیقت اللہ تعالیٰ اور اس کی آیات کا انکار کرنا ہے اور اللہ تعالیٰ، اس کے رسولوں اور اس کے فرشتوں کے ساتھ عداوت کا اظہار ہے کیونکہ جبرئیل علیہ السلام کے ساتھ ان کی عداوت جبرئیل علیہ السلام کی ذات کے ساتھ نہیں بلکہ اس کے ساتھ ان کی عداوت محض اس وجہ سے ہے کہ وہ اللہ کے رسولوں پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے حق لے کر نازل ہوتا رہا ہے۔ پس ان کا کفر اور عداوت درحقیقت اس ہستی کے ساتھ ہے جس نے اسے بھیجا اور نازل کیا اور اس وحی کے ساتھ ہے جو اس کے ساتھ اتاری گئی ہے اور اس رسول کے ساتھ ہے جس کی طرف یہ وحی بھیجی گئی ہے۔ ان کی بس یہی وجہ ہے۔ |
البقرة |
99 |
اللہ تعالیٰ اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مخاطب ہو کر فرماتا ہے : ﴿ وَلَقَدْ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ اٰیٰتٍۢ بَیِّنٰتٍ ۚ﴾ ” اور ہم نے آپ کی طرف روشن آیات نازل کیں“ ان سے اس کو ہدایت حاصل ہوتی ہے جو ہدایت کا طلبگار ہو اور اس پر حجت قائم ہوتی ہے جو عناد کا مظاہرہ کرے۔ یہ آیات حق پر اپنی دلالت اور وضاحت کے اعتبار سے ایک ایسے بلند مقام اور ایسی حالت پر پہنچی ہوئی ہیں کہ کوئی ان کو قبول کرنے سے انکار نہیں کرسکتے سوائے اس شخص کے جس نے اللہ کے حکم کی نافرمانی کی، اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے نکل گیا اور اس نے انتہائی درجے کے تکبر سے کام لیا۔ |
البقرة |
100 |
یہ ان کے کثرت معاہدات اور پھر ان معاہدات کے ایفاء پر ان کے عدم صبر پر اظہار تعجب ہے۔ فرمایا : ﴿كُلَّمَا ﴾ ” جب بھی“ (کُلَّما) تکرار کا فائدہ دیتا ہے۔ یعنی جب کبھی وہ عہد کرتے ہیں تو وفا نہیں کرتے۔ اس کا کیا سبب ہے؟
اس کا سبب یہ ہے کہ ان میں سے اکثر ایمان نہیں رکھتے۔ ان کا ایمان نہ لانا ہی وہ سبب ہے جو ان کے نقض عہد کا موجب ہے۔ اگر ان کے ایمان میں کوئی صداقت ہوتی تو ان کی مثال ان لوگوں کی سی ہوتی جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّـهَ عَلَيْهِ ﴾(الاحزاب : 33؍ 23) ” اور اہل ایمان میں سے کتنے ہی ایسے لوگ ہیں کہ جو عہد انہوں نے اللہ سے کیا تھا اسے سچ کر دکھایا۔‘‘ |
البقرة |
101 |
یعنی جب ان کے پاس رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس حق کے ساتھ یہ عظیم کتاب لے کر آئے جو ان کے پاس موجود کتاب کے موافق تھا اور وہ یہ دعویٰ بھی کرتے تھے کہ وہ اپنی کتاب پر عمل کرتے ہیں۔ تو انہوں نے اس رسول اور اس کتاب کو ماننے سے انکار کردیا جس کو یہ رسول لے کر آئے ﴿ نَبَذَ فَرِیْقٌ مِّنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ ڎ کِتٰبَ اللّٰہِ﴾ ” اہل کتاب کے ایک گروہ نے اللہ کی کتاب کو پھینک دیا“ یعنی وہ کتاب جو ان کی طرف نازل کی گئی تھی اس کو بے رغبتی کے ساتھ دور پھینک دیا ﴿وَرَاءَ ظُهُورِهِمْ﴾ ” اپنی پیٹھوں کے پیچھے“ روگردانی اور اعراض کے لیے یہ بلیغ ترین محاورہ ہے گویا وہ اپنے اس فعل کے ارتکاب میں سخت جہالت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ حالانکہ وہ اس رسول کی صداقت اور جو کچھ وہ لایا ہے اس کی حقیقت کو خوب جانتے ہیں۔ اس سے واضح ہوگیا کہ اہل کتاب کے اس گروہ کے ہاتھ میں کچھ بھی باقی نہیں جبکہ یہ اس رسول پر ایمان نہیں لائے۔ ان کا اس رسول کو نہ ماننا اپنی کتاب کا انکار کرنا ہے مگر وہ اس بات کو سمجھتے نہیں۔
حکمت الٰہی اور عادت قدسی یہ ہے کہ جو کوئی اس چیز کو ترک کرتا ہے جو اسے فائدہ دیتی ہے اور جس سے فائدہ اٹھانا اس کے لیے ممکن ہو لیکن وہ فائدہ نہ اٹھائے تو اسے ایسے کام میں مشغول کردیا جاتا ہے جو اس کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے۔ پس جو کوئی اللہ تعالیٰ کی عبادت سے منہ موڑتا ہے، اسے بتوں کی عبادت میں مبتلا کردیا جاتا ہے۔ جو کوئی اللہ تعالیٰ کی محبت، اس سے خوف اور اس پر امید کو ترک کرتا ہے وہ غیر اللہ کی محبت، اس سے خوف اور اس سے امید میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں مال خرچ نہیں کرتا، اسے شیطان کی فرمانبرداری میں مال خرچ کرنا پڑتا ہے۔ جو کوئی اپنے رب کے سامنے ذلت اور فروتنی کا اظہار نہیں کرتا اسے بندوں کے سامنے ذلیل ہونا پڑتا ہے اور جو کوئی حق کو چھوڑ دیتا ہے اسے باطل میں مبتلا کردیا جاتا ہے۔ |
البقرة |
102 |
اسی طرح ان یہودیوں نے جب اللہ کی کتاب کو پیٹھ پیچھے پھینک دیا تو اس جادو کے پیچھے لگ گئے جو شیاطین نے حضرت سلیمان علیہ السلام کی حکومت کے زمانے میں ایجاد کیا۔ جہاں شیاطین نے لوگوں کو سکھانے کے لیے جادو نکالا اور لوگوں کو باور کرایا کہ سلیمان علیہ السلام اسی جادو کے عامل تھے اور جادو ہی کے زور پر انہیں اتنی بڑی سلطنت حاصل ہوئی تھی۔ حالانکہ وہ جھوٹ بول رہے تھے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے کبھی جادو نہیں کیا۔ بلکہ اللہ سچے نے اپنے اس فرمان میں حضرت سلیمان علیہ السلام کو اس کام سے منزہ قرار دیا، فرمایا : ﴿وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَانُ﴾ یعنی (حضرت سلیمان) نے (جادو سیکھ کر) کفر کا ارتکاب نہیں کیا، انہوں نے ہرگز جادو نہیں سیکھا۔ ﴿وَلَـٰكِنَّ الشَّيَاطِينَ كَفَرُوا﴾یعنی (جادو سیکھ کر) شیاطین نے کفر کا ارتکاب کیا۔
﴿يُعَلِّمُونَ النَّاسَ السِّحْرَ﴾یعنی بنی آدم کو گمراہ کرنے اور ان کو سرکش بنانے کی حرص کی وجہ سے لوگوں کو جادو سکھاتے تھے۔ اسی طرح یہودیوں نے اس جادو کی بھی پیروی کی جو سر زمین عراق کے شہر بابل میں دو فرشتوں پر نازل کیا گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندوں کے امتحان اور آزمائش کے لیے ان فرشتوں پر جادو نازل کیا گیا تھا اور یہ فرشتے آزمائش ہی کے لیے لوگوں کو جادو سکھاتے تھے۔
﴿ وَمَا یُعَلِّمٰنِ مِنْ اَحَدٍ حَتّٰی﴾ ” اور وہ کسی کو نہیں سکھاتے تھے یہاں تک کہ“ وہ ان کی خیر خواہی کرتے اور ﴿ یَقُوْلَآ اِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَۃٌ فَلَا تَکْفُرْ ۭ۔ ﴾” کہتے کہ ہم تو آزمائش کے لیے ہیں، سو تم کفر مت کرو“ یعنی جادو نہ سیکھو کیونکہ جادو کفر ہے۔ پس دونوں فرشتے لوگوں کو جادو سیکھنے سے روکتے تھے اور انہیں جادو کی حیثیت سے آگاہ کردیتے تھے۔ پس شیاطین کا جادو سکھانا تو محض تدلیس اور لوگوں کو گمراہ کرنے کی خاطر تھا، نیز اس جادو کو ترویج دینے اور اسے اس معصوم ہستی یعنی حضرت سلیمان علیہ السلام کی طرف منسوب کرنے کے لیے تھا جس کو اللہ تعالیٰ نے اس سے بری قرار دیا ہے اور فرشتوں کا جادو سکھانا لوگوں کی آزمائش اور امتحان کے لیے تھا۔ وہ خیر خواہی سے لوگوں کو آگاہ کردیتے تھے تاکہ ان کے لیے حجت نہ بنے۔ پس یہ یہودی اس جادو کے پیچھے لگے، جسے شیاطین نے سیکھا تھا اور جو وہ دو فرشتے سکھایا کرتے تھے۔ تو انہوں نے انبیاء و رسل کے علوم کو چھوڑ دیا اور شیاطین کے علم کی طرف متوجہ ہوگئے۔ ہر شخص اسی چیز کی طرف مائل ہوتا ہے جو اس کے مناسب حال ہوتی ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ نے جادو کے مفاسد بیان کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ فَیَتَعَلَّمُوْنَ مِنْہُمَا مَا یُفَرِّقُوْنَ بِہٖ بَیْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِہٖ ۭ﴾ ” پھر لوگ ان سے وہ سیکھتے جس سے خاوند اور بیوی میں جدائی ڈال دیں“ اس کے باوجود کہ میاں بیوی کے درمیان محبت کو کسی اور کی محبت پر قیاس نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اللہ تعالیٰ میاں بیوی کے بارے میں فرماتا ہے :﴿وَجَعَلَ بَيْنَكُم مَّوَدَّةً وَرَحْمَةً ۚ ﴾(الروم : 30؍ 21) ” اور تمہارے درمیان مودت اور رحمدلی پیدا کردی۔“ یہ آیت کریمہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جادو کی کوئی حقیقت ہے نیز یہ کہ جادو اللہ تعالیٰ کے ” اذن“ یعنی اللہ تعالیٰ کے ارادے سے نقصان دیتا ہے۔ اذن کی دو اقسام ہیں۔
(الف) اذن قدری۔ جو اللہ تعالیٰ کی مشیت سے متعلق ہے جیسا کہ اس آیت کریمہ میں ذکر کیا گیا ہے۔
(ب) اذن شرعی۔ جیسا کہ سابقہ آیت کریمہ ﴿ فَإِنَّهُ نَزَّلَهُ عَلَىٰ قَلْبِكَ بِإِذْنِ اللَّـهِ ﴾(البقرة : 2؍ 97)
” اس نے تو یہ کتاب، اللہ کے حکم سے آپ کے دل پر اتاری“ میں مذکور ہے
اس آیت اور اس جیسی دیگر آیات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسباب کی قوتِ تاثیر خواہ کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو، وہ ہر حال میں قضاء و قدر کے تابع ہوتے ہیں۔ ان کی مستقل تاثیر نہیں ہوتی۔ افعال العباد کے بارے میں امت کے فرقوں میں کوئی بھی اس اصول کی مخالفت نہیں کرتا سوائے قدریہ کے۔ قدریہ سمجھتے ہیں کہ اسباب کی تاثیر مستقل ہوتی ہے اور وہ مشیت الٰہی کے تابع نہیں ہوتے۔ چنانچہ انہوں نے بندوں کے افعال کو اللہ تعالیٰ کی قدرت سے خارج کردیا اور اس طرح وہ کتاب اللہ، سنت رسول اور صحابہ و تابعین کے اجماع کی مخالفت کے مرتکب ہوئے۔
پھر اللہ تعالیٰ نے جادو کے علم کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ جادو میں نقصان ہی نقصان ہے، اس میں کوئی دینی یا دنیاوی منفعت نہیں ہوتی جس طرح بعض گناہوں میں دنیاوی منفعت ہوتی ہے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ نے شراب اور جوئے کے بارے میں فرمایا:
﴿قُلْ فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُهُمَا أَكْبَرُ مِن نَّفْعِهِمَا ﴾ (البقرة: 2؍ 219)
’’کہہ دو شراب اور جوئے میں بڑا گناہ ہے اور لوگوں کے لیے کچھ فائدے بھی ہیں البتہ ان کا گناہ ان کے فائدے کی نسبت زیادہ بڑا ہے۔‘‘ پس یہ جادو تو ضررِ محض ہے اور اصل میں اس کا کوئی داعیہ نہیں۔ تمام منہیات یا تو ضررِ محض کی حامل ہیں یا ان میں شر کا پہلو خیر کے پہلو سے زیادہ ہے۔ جیسے تمام مامورات صرف مصلحت پر مبنی ہیں یا ان میں خیر کا پہلو شر کے مقابلے میں زیادہ ہے۔
﴿وَ لَقَدْ عَلِمُوْا﴾’’یعنی یہود نے جان لیا ہے۔‘‘﴿لَمَنِ اشْتَرَاهُ﴾ ’’جس نے اسے خریدا‘‘ یعنی انھوں نے جادو کے علم میں اس طرح رغبت کی جیسے تاجر مال تجارت کے خریدنے میں رغبت رکھتا ہے﴿مَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ﴾ یعنی ’’آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہیں‘‘ بلکہ یہ جادو آخرت میں عذاب کا موجب ہو گا۔پس ان کا جادو پر عمل کرنا جہالت اور لاعلمی کی وجہ سے نہیں بلکہ اس وجہ سے ہے کہ انھوں نے آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی کو پسند کیا ہے۔﴿وَلَبِئْسَ مَا شَرَوْا بِهِ أَنفُسَهُمْ ۚ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ﴾ ’’ اور وہ بدترین چیز ہے جس کے بدلے وہ اپنے آپ کو فروخت کر رہے ہیں، کاش کہ یہ جانتے ہوتے‘‘ یعنی اپنے فعل کے بارے میں ایسا علم رکھنا جو عمل کا باعث ہو۔ |
البقرة |
103 |
|
البقرة |
104 |
مسلمان جب دینی امور سیکھنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مخاطب ہوتے تو عرض کرتے ﴿رَاعِنَا﴾ یعنی ہمارے حال کی رعایت کیجئے۔ ان کے نزدیک اس لفظ کا صحیح معنی مقصود تھا۔ مگر یہودی اس سے فاسد معنی مراد لیتے تھے، لہٰذا وہ مسلمانوں کے اس لفظ کے استعمال کو غنیمت جانتے ہوئے فاسد معنی کے ارادے سے اس لفظ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خطاب کرتے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو بھی اس لفظ کے ذریعے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خطاب کرنے سے روک دیا۔ تاکہ (گستاخی کا) یہ دروازہ بند ہوجائے۔
اس آیت کریمہ میں کسی جائز کام سے روکنے کی دلیل ہے جبکہ یہ جائز کام کسی حرام کام کے لیے وسیلہ ہو، نیز اس میں ادب کا اور ایسے الفاظ کے استعمال کا بیان ہے جو اچھے ہوں، جن میں بے ہودگی نہ ہو۔ نیز قبیح الفاظ کے ترک کرنے کی تاکید ہے، یا جن میں کسی قسم کی تشویش اور کسی نامناسب امر کا احتمال ہو۔ پس اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو ایسا لفظ استعمال کرنے کا حکم دیا جس میں صرف اچھے معنی کا احتمال ہو۔ فرمایا : ﴿وَقُوْلُوا انْظُرْنَا ﴾” اور اُنْظُرْنَا کہو“ یہ لفظ کافی ہے اور بغیر کسی خدشے کے اس سے اصل مقصد حاصل ہوجاتا ہے ﴿ وَاسْمَعُوْا ۭ ﴾’’اور سنو“ یہاں مسموع کا ذکر نہیں کیا گیا تاکہ اس کی عمومیت میں ہر وہ چیز شامل ہو جس کے سننے کا حکم دیا گیا ہے۔ چنانچہ اس کے مفہوم میں سماع قرآن اور سماع سنت شامل ہیں جو لفظی، معنوی اور قبولیت کے اعتبار سے سراسر حکمت ہے۔ اس میں ادب اور اطاعت کی تعلیم ہے۔
|
البقرة |
105 |
پھر اللہ تعالیٰ نے کفار کو درد ناک عذاب کی وعید سنائی ہے اور یہود اور مشرکین کی مسلمانوں کے ساتھ عداوت سے آگاہ کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ نہیں چاہتے کہ ﴿اَنْ یُّنَزَّلَ عَلَیْکُمْ مِّنْ خَیْرٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ ۭ﴾ ” تم پر کوئی بھلائی نازل ہو۔“ یعنی کم یا زیادہ ﴿ مِّنْ رَّبِّکُمْ ﴾ ” تمہارے رب کی طرف سے“ ان کی یہ خواہش تمہارے ساتھ بغض اور اس بات پر حسد کی وجہ سے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں اپنے فضل کے ساتھ مختص کیوں کیا ﴿ۭوَاللّٰہُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ ﴾” اور (بے شک) اللہ بڑے فضل والا ہے“۔ یہ اس کا فضل ہی ہے کہ اس نے تمہارے رسول پر کتاب نازل کی تاکہ وہ تمہیں پاک کرے، تمہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے اور تمہیں وہ کچھ سکھائے جو تم نہیں جانتے۔ فَلَہُ الْحَمْدُ وَالْمِنَّۃُ |
البقرة |
106 |
(نسخ) کے لغوی معنی نقل کرنا ہیں۔ نسخ کی شرعی حقیقت یہ ہے کہ مکلفین کو کسی ایک شرعی حکم سے کسی دوسرے شرعی حکم کی طرف منتقل کرنا یا اس شرعی حکم کو یکسر ساقط قرار دے دینا۔ یہودی نسخ کا انکار کرتے تھے اور سمجھتے تھے کہ نسخ جائز نہیں، حالانکہ نسخ ان کے ہاں تورات میں بھی موجود ہے، ان کا نسخ کو نہ ماننا کفر اور محض خواہش نفس کی پیروی ہے، پس اللہ تعالیٰ نے نسخ میں پنہاں اپنی حکمت سے آگاہ فرماتے ہوئے فرمایا : ﴿ مَا نَنْسَخْ مِنْ اٰیَۃٍ اَوْ نُنْسِہَا﴾ ” جو منسوخ کرتے ہیں ہم کوئی آیت یا اس کو بھلاتے ہیں“ یعنی اپنے بندوں سے فراموش کرا دیتے ہیں اور اس آیت کو ان کے دلوں سے زائل کردیتے ہیں ﴿نَاْتِ بِخَیْرٍ مِّنْہَآ ﴾” تولاتے ہیں اس سے بہتر“ یعنی ایسی آیت اس کی جگہ لے آتے ہیں جو تمہارے لیے زیادہ نفع مند ہوتی ہے ﴿ اَوْ مِثْلِہَا ۭ﴾ ” یا اس جیسی کوئی اور آیت۔ “
یہ اس بات کی دلیل ہے کہ تمہارے لیے نسخ (یعنی آیت ناسخہ) کی مصلحت پہلی آیت (یعنی آیت منسوخہ) کی مصلحت سے کسی طرح بھی کم نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فضل، خاص طور پر اس امت پر بہت زیادہ ہے جس پر اس کے دین کو اللہ نے بے حد آسان بنا دیا ہے۔ |
البقرة |
107 |
اللہ تعالیٰ نے اس بات سے بھی آگاہ فرمایا کہ جو کوئی نسخ میں جرح و قدح کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اور قدرت میں عیب نکالتا ہے۔ فرمایا : ﴿أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّـهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ - أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّـهَ لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِۭ﴾ ” کیا تجھے معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے؟ کیا تجھے معلوم نہیں کہ زمین و آسمان کی بادشاہی اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہے؟“ جب اللہ تعالیٰ تمہارا مالک ہے وہ تمہارے اندر اسی طرح تصرف کرتا ہے جیسے نیکو کار، مہربان آقا اپنی اقدار میں، اپنے احکام میں اور اپنے نواہی میں تصرف کرتا ہے۔ پس جیسے اس پر اپنے بندوں کی بابت تقدیری فیصلے کرنے پر پابندی نہیں ہے اسی طرح اللہ پر ان احکام کے بارے میں بھی اعتراض صحیح نہیں جو اس نے اپنے بندوں کے لیے مشروع کیے ہیں۔ پس بندہ اپنے رب کے امر دینی اور امرتکوینی کا پابند ہے، اسے اعتراض کا کیا حق ہے؟
نیز اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کا ولی (کار ساز) اور ان کا مددگار ہے۔ پس وہ ان کے لیے منفعت کے حصول میں ان کا والی اور سرپرست ہے اور ضرر کو ان سے دور کرنے میں ان کی مدد کرتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی ولایت (کار سازی) کا حصہ ہے کہ اس نے ان کے لیے ایسے احکام مشروع کیے، جن کا تقاضا اس کی حکمت اور لوگوں کے ساتھ اس کی رحمت کرتی ہے۔
جو کوئی اس نسخ میں غور کرتا ہے جو قرآن و سنت میں واقع ہوا ہے تو اس کو معلوم ہوجاتا ہے کہ اس میں اللہ کی حکمت ہے، اس کے بندوں پر رحمت ہے اور اپنے لطف و کرم سے انہیں ان کے مصالح تک ایسے طریقے سے پہنچانا ہے کہ وہ اسے سمجھ ہی نہیں پاتے۔ |
البقرة |
108 |
اللہ تعالیٰ اہل ایمان یا یہود کو منع کرتا ہے کہ وہ اپنے رسول سے اس طرح سوال کریں ﴿کَمَا سُئِلَ مُوْسٰی مِنْ قَبْلُ ۭ ﴾” جس طرح اس سے پہلے (حضرت) موسیٰ علیہ السلام سے سوال کیا گیا۔“ اس سے مراد وہ سوالات ہیں جو بال کی کھال اتارنے اور اعتراض کی خاطر کیے جاتے ہیں۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿ يَسْأَلُكَ أَهْلُ الْكِتَابِ أَن تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتَابًا مِّنَ السَّمَاءِ ۚ فَقَدْ سَأَلُوا مُوسَىٰ أَكْبَرَ مِن ذَٰلِكَ فَقَالُوا أَرِنَا اللَّـهَ جَهْرَةً﴾ (النساء : 4؍ 153) ” اہل کتاب تجھ سے سوال کرتے ہیں کہ تو ان پر آسمان سے کوئی لکھی ہوئی کتاب اتارلا۔ یہ موسیٰ علیہ السلام سے اس سے بھی بڑی بات کا مطالبہ کرچکے ہیں، کہتے تھے کہ ہمیں اللہ ان ظاہری آنکھوں سے دکھا“۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِن تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ﴾ (المائدہ : 5؍ 101) ” اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو ایسی چیزوں کے بارے میں سوال نہ کیا کرو کہ اگر تم پر ظاہر کردی جائیں تو تمہیں بری لگیں گی۔“ لہٰذا اس قسم کے (مذموم) سوالات سے منع کیا گیا ہے۔
رہا رشد و ہدایت اور تحصیل علم کے لیے سوال کرنا تو یہ محمود ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس طرح کے سوالات کرنے کا حکم دیا ہے۔ چنانچہ ﴿فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ﴾ (النحل : 16؍ 43) ” اگر تم نہیں جانتے تو ان لوگوں سے پوچھ لو جو اہل کتاب ہیں“ اور اللہ تعالیٰ نے اس قسم کے سوالات کو برقرار رکھا ہے۔ فرمایا :﴿ يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ﴾ (البقرہ: 2؍ 219) ” وہ تجھ سے شراب اور جوئے کے بارے میں پوچھتے ہیں۔“ نیز فرمایا : ﴿وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْيَتَامَىٰ﴾ (البقرہ : 2؍ 220) ” اور تجھ سے یتیموں کے بارے میں پوچھتے ہیں“ اور اس قسم کی دیگر آیات۔
چونکہ ممنوعہ سوالات مذموم ہوتے ہیں اس لیے بعض دفعہ سوال پوچھنے والے کو کفر کی حدود میں داخل کردیتے ہیں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿’ وَمَنْ یَّتَـبَدَّلِ الْکُفْرَ بِالْاِیْمَانِ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاۗءَ السَّبِیْلِ﴾’’جس نے ایمان کے بدلے کفر لے لیا پس اس نے سیدھا راستہ گم کردیا۔ “ |
البقرة |
109 |
پھر اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب میں سے بہت سے لوگوں کے حسد کے بارے میں آگاہ فرمایا کہ ان کی یہ حالت ہوگئی ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ ﴿ لَوْ یَرُدُّوْنَکُمْ مِّنْۢ بَعْدِ اِیْمَانِکُمْ کُفَّارًا ښ﴾ ” کاش تمہیں تمہارے ایمان کے بعد کفر کی طرف لوٹا دیں۔“ اس کے لیے انہوں نے پوری کوشش اور فریب کاری کے جال بچھائے، مگر ان کے مکر و فریب پلٹ کر انہی پر پڑگئے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿وَقَالَت طَّائِفَةٌ مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ آمِنُوا بِالَّذِي أُنزِلَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَجْهَ النَّهَارِ وَاكْفُرُوا آخِرَهُ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ ﴾(آل عمران : 3؍ 72) ” اہل کتاب کا ایک گروہ کہتا ہے وہ کتاب جو اہل ایمان پر نازل کی گئی ہے اس پر دن کے پہلے حصے میں ایمان لاؤ اور اس کے آخر میں انکار کر دو، تاکہ وہ اسلام سے باز آجائیں۔“ یہ ان کا حسد تھا جو ان کے اندر سے پھوٹ رہا تھا۔ پس اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو یہود کی برائی اور بدخلقی کے مقابلے میں عفو اور درگزر سے کام لینے کا حکم دیا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا حکم آجائے۔
پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ جہاد کا حکم دے دیا اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو شفا بخشی، چنانچہ اہل ایمان نے ان یہودیوں میں سے جو قتل کے مستحق تھے ان کو قتل کیا، جو قیدی بنائے جا سکے ان کو قیدی بنا لیا اور کچھ کو ملک بدر کردیا۔ ﴿’ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْ ءٍ قَدِیْرٌ﴾ ’’یقیناً اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ “ |
البقرة |
110 |
پھر اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو فی الحال اقامت نماز، ادائے زکوٰۃ اور تقرب الٰہی کے کاموں میں مشغول رہنے کا حکم دیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ وعدہ کیا کہ وہ نیکی کا جو بھی کام کریں گے اللہ تعالیٰ کے ہاں کبھی ضائع نہیں ہوگا بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اسے بہت زیادہ پائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو محفوظ کر رکھا ہے۔ ﴿ اِنَّ اللّٰہَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ﴾” تم جو کچھ کرتے ہو اللہ تعالیٰ اسے دیکھتا ہے۔ “ |
البقرة |
111 |
یعنی یہودیوں نے کہا کہ یہودیوں کے سوا کوئی شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا اور عیسائیوں نے کہا کہ صرف وہی لوگ جنت میں جائیں گے جو عیسائی ہوں گے۔ پس انہوں نے حکم لگا دیا کہ صرف وہی اکیلے جنت کے مستحق ہوں گے۔ یہ محض ان کی آرزوئیں ہیں جو دلیل و برہان کے بغیر قابل قبول نہیں۔ پس اگر تم (اپنے اس دعوے میں) سچے ہو تو دلیل مہیا کرو۔ اسی طرح ہر وہ شخص جو کسی قسم کا دعویٰ کرتا ہے اس کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے دعوے کی صحت پر دلیل مہیا کرے وگرنہ اس کا دعویٰ اگر اس کی طرف پلٹا دیا جائے اور کوئی دعویٰ کرنے والا اس کے برعکس بغیر دلیل کے دعویٰ کر دے، تو وہ بھی ایسا ہی ہوگا۔ ان دونوں دعوؤں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہوگا۔ پس دلیل ہی ایک ایسی چیز ہے جو دعوے کی تصدیق یا اس کی تکذیب کرتی ہے اور جب ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے، تو معلوم ہوا کہ وہ اپنے اس دعوے میں جھوٹے ہیں۔ |
البقرة |
112 |
پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے ایسی روشن دلیل بیان فرمائی ہے جو ہر ایک کے لیے عام ہے۔ فرمایا : ﴿بَلَىٰ﴾ یعنی تمہاری آرزوئیں اور تمہارے دعوے صحیح نہیں بلکہ ﴿ مَنْ اَسْلَمَ وَجْہَہٗ لِلّٰہِ ﴾جس نے اپنے قلب کو اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ کرتے ہوئے اپنے اعمال کو اس کے لیے خلاص کرلیا۔ ﴿ وَھُوَ مُحْسِنٌ﴾ اور وہ اپنے اخلاص کے ساتھ اپنے رب کی عبادت احسن طریقے سے کرتا ہے۔ یعنی وہ اس کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق عبادت کرتا ہے صرف یہی لوگ جنت میں جائیں گے۔﴿فَلَہٗٓ اَجْرُہٗ عِنْدَ رَبِّہٖ ۠﴾ ” بے شک اس کا اجر اس کے رب کے پاس ہے“ یہ اجر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر مشتمل جنت ہے۔ ﴿وَلَا خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ﴾ ” اور ان پر کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔“ پس انہیں ان کی مرغوب چیز حاصل ہوگی اور خوف سے نجات مل جائے گی۔
ان آیات کریمہ میں یہ مفہوم بھی پایا جاتا ہے کہ جو ان مذکورہ لوگوں کی مانند نہیں ہیں وہ ہلاک ہونے والے جہنمیوں میں شمار ہوں گے۔ پس نجات صرف انہی لوگوں کا نصیب ہے جو محض اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے نیکی کرتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی کرتے ہیں۔ |
البقرة |
113 |
اس کی وجہ یہ ہے کہ اہل کتاب خواہش نفس اور حسد میں اس حد کو پہنچ گئے کہ انہوں نے ایک دوسرے کو گمراہ اور کافر قرار دیا، جیسے مشرکین عرب میں امیوں کا وتیرہ تھا۔ پس ہر فرقہ دوسرے فرقے کو گمراہ قرار دیتا تھا۔ ان اختلاف کرنے والوں کے مابین قیامت کے روز اللہ تعالیٰ عدل کے ساتھ فیصلہ کرے گا۔ یہ وہ فیصلہ ہے جس کے بارے میں اس نے بندوں کو باخبر کردیا ہے کہ فوز و فلاح اور نجات صرف انہی لوگوں کے لیے ہے جنہوں نے تمام انبیا و مرسلین کی تصدیق کی اور اپنے رب کے احکام کی پیروی کی اور اس کی منہیات سے اجتناب کیا۔ ان کے علاوہ دیگر تمام لوگ ہلاکت کے گڑھے میں گریں گے۔ |
البقرة |
114 |
یعنی اس شخص سے بڑھ کر ظالم اور مجرم کوئی اور نہیں جس نے اللہ کی مساجد میں لوگوں کو اللہ کا ذکر کرنے، نماز پڑھنے اور نیکی اور اطاعت کے دیگرکاموں سے روکا۔ ﴿سَعٰی﴾ یعنی جس نے پوری جدوجہد اور بھرپور کوشش کی ﴿ فِیْ خَرَابِہَا﴾ ” ان کے ویران کرنے میں“ اس سے مراد، حسی اور معنوی دونوں اعتبار سے ویران کرنا ہے۔ حسی ویرانی کا مطلب ہے منہدم کرنا، اجاڑنا اور ان میں گندگی وغیرہ پھینکنا۔ معنوی ویرانی کا مطلب ان مساجد میں اللہ تعالیٰ کے ذکر سے روکنا ہے اور یہ عام ہے، اس زمرے میں وہ تمام لوگ آتے ہیں جو ان صفات سے متصف ہیں۔ اس میں اصحاب فیل بھی شامل ہیں، قریش بھی شامل ہیں، جب انہوں نے حدیبیہ کے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مسجد حرام میں داخل ہونے سے روک دیا تھا اور اس گروہ میں وہ نصرانی اور اہل ظلم بھی شامل ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی مخالفت کرتے ہوئے پوری کوشش سے بیت المقدس کو ویران کیا۔ پس اللہ تعالیٰ نے انہیں ان کے کرتوتوں کی یہ سزا دی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو شرعی اور تقدیری طور پر مسجد اقصیٰ میں داخل ہونے سے منع کردیا سوائے اس کے کہ وہ ڈرتے ہوئے ذلت و انکسار کے ساتھ داخل ہوں۔ پس جب انہوں نے اللہ تعالیٰ کے بندوں کو خوف زدہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے بھی ان پر خوف مسلط کردیا۔
مشرکین مکہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مسجد حرام میں داخل ہونے سے روک دیا مگر تھوڑا ہی عرصہ گزرا کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مکہ مکرمہ فتح کرنے کی اجازت مرحمت فرما دی اور مشرکین کو اللہ تعالیٰ نے اپنے گھر کے قریب جانے سے منع کردیا۔ چنانچہ فرمایا : ﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ فَلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَـٰذَا ﴾(التوبہ : 9؍ 28) ”اے ایمان والو ! مشرکین تو ناپاک ہیں اس سال کے بعد وہ مسجد حرام کے قریب بھی نہ جائیں۔ “
اصحاب فیل کا جو حشر ہوا اللہ تعالیٰ نے (قرآن مجید میں) اس کا ذکر فرمایا ہے۔ نصرانیوں پر اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو مسلط فرمایا اور انہوں نے ان کو جلا وطن کردیا۔ اسی طرح ہر وہ شخص جو ان جیسی صفات رکھتا ہے وہ اس سزا سے اپنا حصہ ضرور وصول کرے گا۔ یہ بہت بڑی نشانیاں ہیں جن کے واقع ہونے سے پہلے ہی باری تعالیٰ نے آگاہ فرما دیا اور یہ اسی طرح واقع ہوئیں جس طرح اس نے خبر دی تھی۔
اس آیت کریمہ سے اہل علم نے یہ استدلال کیا ہے کہ کفار کو مساجد میں داخل نہ ہونے دیا جائے۔
فرمایا : ﴿ لَھُمْ فِی الدُّنْیَا خِزْیٌ ﴾یعنی ” ان کے لیے دنیا میں فضیحت ہے“ ﴿وَّلَھُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ﴾” اور آخرت میں بڑا عذاب ہے“
جب اللہ کی مساجد میں اللہ کے ذکر سے روکنا سب سے بڑا ظلم ہے تو اسی طرح مساجد کو حسی اور معنوی اعتبار سے آباد کرنے والے سے بڑا ایمان والا کوئی نہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللَّـهِ مَنْ آمَنَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ﴾ (التوبہ : 9؍ 18) ” اللہ کی مساجد کو تو وہی لوگ آباد کرتے ہیں جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں۔“ بلکہ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ اس کے گھروں کو بلند کیا جائے اور ان کی تعظیم و تکریم کی جائے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ فِي بُيُوتٍ أَذِنَ اللَّـهُ أَن تُرْفَعَ وَيُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ ﴾(النور 24؍ 36) ”ان گھروں میں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ ان کو بلند کیا جائے اور وہاں اس کے نام کا ذکر کیا جائے۔ “
مساجد سے متعلق بہت سے احکام ہیں جن کا خلاصہ ان آیات کریمہ کے اندر مضمر ہے۔ |
البقرة |
115 |
﴿ وَلِلّٰہِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ﴾” اللہ ہی کے لیے ہے مشرق اور مغرب“ اللہ تعالیٰ نے یہاں مشرق و مغرب کا خاص طور پر ذکر کیا کیونکہ یہ روشنی کے طلوع ہونے اور غروب ہونے کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ کی آیات عظیمہ کا محل و مقام ہیں اور جب وہ مشارق و مغارب کا مالک ہے، تو تمام جہات اسی کی ملکیت ہیں۔
﴿ فَاَیْنَـمَا تُوَلُّوْا﴾ پس ان جہات میں سے جس کسی جہت کی طرف بھی تم اپنا منہ پھیر لو گے، بشرطیکہ تمہارا اس کی طرف منہ پھیرنا اللہ کے حکم سے ہو یا تو وہ تمہیں حکم دے کہ خانہ کعبہ کی طرف تم منہ پھیر لو، جب کہ پہلے تم بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے کے پابند تھے یا سفر میں تمہیں سواری کے اوپر نماز پڑھنے کا حکم دیا جائے، اس صورت میں اس کا قبلہ وہی ہوگا جس کی طرف وہ منہ کرے گا، یا (انجان جگہ میں) قبلے کا رخ معلوم نہ ہو، پس اپنے انداز سے نما زپڑھ لی، بعد میں معلوم ہوا کہ اندازہ غلط تھا یا کسی بیماری وغیرہ کی وجہ سے قبلہ رخ ہونا مشکل ہو۔ ان تمام صورتوں میں وہ یا تو مامور ہے (یعنی اللہ کے حکم پر قبلے کی طرف رخ کرنے والا ہے) یا معذور ہے۔
ہر حال میں بندہ جس جہت کی طرف بھی منہ کرتا ہے وہ جہت اللہ تعالیٰ کی ملکیت سے باہر نہیں۔ ﴿ فَثَمَّ وَجْہُ اللّٰہِ ۭ اِنَّ اللّٰہَ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ﴾ ”جدھر بھی تم رخ کرو ادھر ہی اللہ کا چہرہ ہے بے شک اللہ وسعت علم والا ہے“ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ کے چہرے کا اثبات ہوتا ہے مگر جیسے اس کی ذات اقدس کے لائق ہے۔ اللہ تعالیٰ کا چہرہ ہے مگر مخلوق کے چہروں کے مشابہ نہیں۔ (اللہ تعالیٰ اس مشابہت سے بلند و برتر ہے) وہ وسیع فضل اور عظیم صفات کا مالک ہے اور تمہارے سینوں کے بھید اور نیتوں کو جاننے والا ہے۔ اس نے وسعت علم و فضل کی بنا پر تمہارے لیے احکام میں وسعت بخشی ہے اور تم سے مامورات کو قبول فرمایا۔ ہر قسم کی حمد و ثنا اور شکر صرف اسی کی ذات کے لیے ہے۔ |
البقرة |
116 |
﴿وَقَالُوا﴾یعنی یہود و نصاریٰ، مشرکین اور ان تمام لوگوں نے کہا جو کہتے ہیں : ﴿ اتَّخَذَ اللّٰہُ وَلَدًا ۙ﴾ ” اللہ نے بیٹا بنا لیا۔“ انہوں نے ایسی بات اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کی جو اس کی جلالت شان کے لائق نہ تھی۔ انہوں نے بہت برا کیا اور اپنی جانوں پر ظلم کیا۔ اللہ تعالیٰ ان کی اس گستاخی پر صبر کرتا ہے، حلم سے کام لیتا ہے، انہیں معاف کر کے انہیں رزق عطا کرتا ہے۔ اس کے باوجود کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ذات میں نقص ثابت کرتے ہیں۔ ﴿ سُبْحَانَهُ﴾۔ یعنی وہ ان تمام صفات سے پاک اور منزہ ہے جن سے یہ اہل شرک اور اہل ظلم اسے متصف کرتے ہیں اور جو اس کے جلال کے لائق نہیں۔۔۔ پس پاک اور ہر عیب سے منزہ ہے وہ ذات جو ہر پہلو سے کمال مطلق کی مالک ہے جسے کسی بھی پہلو سے نقص لاحق نہیں۔
اللہ تعالیٰ نے ان کے قول کی تردید کرتے ہوئے اپنے منزہ ہونے پر دلیل قائم کی ہے۔ چنانچہ فرمایا : ﴿بَلْ لَّہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ﴾ یعنی زمین و آسمان کی تمام مخلوق اس کی ملکیت اور اس کی غلام ہے۔ وہ ان میں اسی طرح تصرف کرتا ہے جس طرح مالک اپنے مملوک میں تصرف کرتا ہے۔ وہ اس کے اطاعت گزار اور اس کے دست تدبیر کے تحت مسخر ہیں۔ جب تمام مخلوق اس کی غلام اور اس کی محتاج ہے اور وہ خود ان سے بے نیاز ہے تو ان میں کوئی کیسے اس کا بیٹا ہوسکتا ہے۔ بیٹا لازمی طور پر اپنے باپ کی جنس سے ہوتا ہے کیونکہ وہ اس کے جسم کا حصہ ہے اور اللہ تبارک و تعالیٰ مالک اور غالب ہے تم سب لوگ مملوک اور مغلوب ہو، اس کی ہستی بے نیاز اور تم محتاج محض، ایسا ہونے کے باوجود اس کا کوئی بیٹا کیسے ہوسکتا ہے؟ یہ سب سے بڑا باطل اور سب سے زیادہ قبیح بات ہے۔
” قنوت“ (اطاعت کرنا) کی دو اقسام ہیں۔ (1) قنوت عام : یعنی تمام مخلوق خالق کے دست تدبیر کے تحت اس کی اطاعت گزار ہے۔ (2)قنوت خاص : اس سے مراد اطاعت عبودیت ہے۔ پس قنوت کی پہلی قسم وہ ہے جس کا ذکر اس آیت کریمہ میں کیا گیا ہے اور قنوت کی دوسری قسم وہ ہے جس کا ذکر ﴿ وَقُومُوا لِلَّـهِ قَانِتِينَ﴾۔ البقرہ : 2؍ 238) ” اور اللہ کے سامنے ادب اور اطاعت گزاری کے ساتھ کھڑے رہیں۔“ میں مذکور ہے۔ |
البقرة |
117 |
پھر فرمایا : ﴿بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو بغیر کسی سابقہ مثال کے نہایت مضبوط اور بہترین طریقے سے تخلیق کیا ہے۔ ﴿ وَاِذَا قَضٰٓی اَمْرًا فَاِنَّمَا یَقُوْلُ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ ﴾” وہ جس کام کو کرنا چاہے کہہ دیتا ہے کہ ہوجا پس وہ ہوجاتا ہے“ یعنی کوئی چیز اس کی نافرمانی نہیں کرسکتی اور کسی چیز کو اس کے سامنے انکار کرنے کی مجال نہیں۔ |
البقرة |
118 |
یعنی اہل کتاب وغیرہ میں سے جہلاء نے کہا : ہمارے ساتھ اللہ تعالیٰ اس طرح کلام کیوں نہیں کرتا جس طرح وہ اپنے رسولوں سے کلام کرتا ہے۔ ﴿ اَوْ تَاْتِیْنَآ اٰیَۃٌ ۭ﴾” یا کیوں نہیں آتی ہمارے پاس کوئی نشانی“ اس سے مراد وہ نشانیاں ہیں جو وہ اپنی فاسد عقلوں اور باطل آراء کے ذریعے سے طلب کرتے تھے۔ ان فاسد آراء کے بل بوتے پر انہوں نے خالق کے مقابلے میں جسارت کی اور اس کے رسولوں کے سامنے تکبر سے کام لیا۔ جیسے انہوں نے کہا : ﴿لَن نُّؤْمِنَ لَكَ حَتَّىٰ نَرَى اللَّـهَ جَهْرَةً﴾ (البقرہ : 2؍ 55) ” ہم تجھ پر ہرگز ایمان نہ لائیں گے جب تک ہم اللہ کو ان ظاہری آنکھوں سے نہ دیکھ لیں۔“ ﴿ يَسْأَلُكَ أَهْلُ الْكِتَابِ أَن تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتَابًا مِّنَ السَّمَاءِ ۚ فَقَدْ سَأَلُوا مُوسَىٰ أَكْبَرَ مِن ذَٰلِكَ ﴾(النساء 4؍ 153) ” اہل کتاب تجھ سے کہتے ہیں کہ تو ان پر آسمان سے ایک لکھی ہوئی کتاب اتارلا۔ پس یہ موسیٰ سے اس سے بھی بڑے بڑے سوال کیا کرتے تھے۔“﴿ لَوْلَا أُنزِلَ إِلَيْهِ مَلَكٌ فَيَكُونَ مَعَهُ نَذِيرًا أَوْ يُلْقَىٰ إِلَيْهِ كَنزٌ أَوْ تَكُونُ لَهُ جَنَّةٌ يَأْكُلُ مِنْهَا﴾ (الفرقان: 25؍ 7، 8) ” اس کی طرف کوئی فرشتہ کیوں نہ نازل کیا گیا جو ڈرانے کے لیے اس کے ساتھ ساتھ رہتا یا اس کی طرف کوئی خزانہ اتارا جاتا۔ یا اس کے لیے کوئی باغ ہوتا جس سے وہ کھاتا“ یا جیسے فرمایا :﴿ وَقَالُوا لَن نُّؤْمِنَ لَكَ حَتَّىٰ تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الْأَرْضِ يَنبُوعًا﴾ (بنی اسرائیل: 17؍ 90) ” اور انہوں نے کہا ہم تجھ پر اس وقت تک ایمان نہیں لائیں گے جب تک کہ تو ہمارے لیے زمین سے چشمہ جاری نہ کردے۔ “
پس اپنے رسولوں کے ساتھ یہ ان کی عادت رہی ہے کہ یہ طلب رشد و ہدایت کے لیے آیات کا مطالبہ نہیں کیا کرتے تھے اور نہ تبیین حق ان کا مقصد تھا بلکہ وہ تو محض بال کی کھال اتارنے کے لیے مطالبات کرتے تھے۔ کیونکہ رسول تو آیات (اور معجزات) کے ساتھ آتے رہے ہیں اور ان جیسی آیات و معجزات پر انسان ایمان لاتا رہا ہے۔
اس لیے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿ قَدْ بَیَّنَّا الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ﴾” بے شک ہم نے بیان کردیں نشانیاں ان لوگوں کے لیے جو یقین کرتے ہیں“ پس ہر صاحب ایقان اللہ تعالیٰ کی روشن نشانیوں اور واضح دلائل و براہین کو پہچان لیتا ہے۔ ان سے اسے یقین حاصل ہوتا ہے اور شک و ریب اس سے دور ہوجاتے ہیں۔ |
البقرة |
119 |
پھر اللہ تعالیٰ نے نہایت اختصار و ایجاز سے بعض جامع آیات کا ذکر فرمایا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت اور جو کچھ آپ پر نازل ہوا اس کی صحت پر دلالت کرتی ہیں۔ فرمایا : ﴿ اِنَّآ اَرْسَلْنٰکَ بِالْحَقِّ بَشِیْرًا وَّنَذِیْرًا ۙ﴾ ”ہم نے آپ کو حق کے ساتھ خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے“ یہ ان آیات پر مشتمل ہے جنہیں رسول اللہ لے کر مبعوث ہوئے اور یہ تین امور کی طرف راجع ہیں۔
(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت۔ (2) آپ کی سیرت طیبہ، آپ کا طریقہ اور آپ کی راہ نمائی۔ (3) قرآن و سنت کی معرفت۔ پہلا اور دوسرا نکتہ، اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿ اِنَّآ اَرْسَلْنٰکَ ﴾میں داخل ہے اور تیسرا نکتہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد﴿ بِالْحَقِّ﴾ میں داخل ہے۔
نکتہ اول۔۔۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت اور رسالت کی توضیح یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت سے قبل اہل زمین کی جو حالت تھی وہ معلوم ہے۔ اس زمین کے رہنے والے بتوں، آگ اور صلیب کی عبادت میں مبتلا تھے۔ ان کے لیے جو دین آیا انہوں نے اسے تبدیل کر کے رکھ دیا تھا۔ یہاں تک کہ وہ کفر کی تاریکیوں میں ڈوب گئے اور کفر کی تاریکی ان پر چھا گئی تھی۔ البتہ اہل کتاب کی کچھ باقیات تھیں (جو دین اسلام پر قائم رہیں) اور وہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت سے تھوڑا سا پہلے ناپید ہوگئیں۔
یہ بھی معلوم ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو عبث اور بے فائدہ پیدا نہیں کیا اور نہ اس کو بے حساب و کتاب آزاد چھوڑا ہے کیونکہ وہ حکیم و دانا، باخبر، صاحب قدرت اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔ پس اس کی حکمت اور اپنے بندوں پر اس کی بے پایاں رحمت کا تقاضا ہوا کہ وہ ان کی طرف ایک نہایت عظمت والا رسول مبعوث کرے جو انہیں ایک اللہ کی عبادت کا حکم دے جس کا کوئی شریک نہیں۔ ایک عقلمند شخص محض آپ کی رسالت ہی کی بنا پر آپ کی صداقت کو پہچان لیتا ہے اور یہ اس بات کی بہت بڑی علامت ہے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔
رہا دوسرا نکتہ۔۔۔ تو جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اچھی طرح پہچان لیا اور اسے آپ کی بعثت سے قبل آپ کی سیرت، آپ کے طریق زندگی اور آپ کی کامل ترین خصلتوں پر آپ کی نشو و نما کی معرفت حاصل ہوگئی۔ پھر بعثت کے بعد آپ کے مکارم، عظیم اور روشن اخلاق بڑھتے چلے گئے۔ پس جنہیں ان اخلاق کی معرفت حاصل ہوگئی اور انہوں نے آپ کے احوال کو اچھی طرح جانچ لیا تو اسے معلوم ہوگیا کہ ایسے اخلاق صرف انبیائے کاملین ہی کے ہوسکتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اوصاف کو اصحاب اوصاف اور ان کے صدق و کذب کی معرفت کے لیے سب سے بڑی دلیل قرار دیا ہے۔
رہا تیسرا نکتہ۔۔۔ تو یہ اس عظیم شریعت اور قرآن کریم کی معرفت ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل کیا گیا جو سچی خبروں، اچھے احکام، ہر برائی سے ممانعت اور روشن معجزات پر مشتمل ہے۔ پس تمام نشانیاں ان تین باتوں میں آجاتی ہیں۔
﴿بَشِيرًا﴾ یعنی آپ اس شخص کو دنیاوی اور اخروی سعادت کی خوشخبری سنانے والے ہیں جس نے آپ کی اطاعت کی ﴿وَنَذِيرًا ﴾ اور اس شخص کو دنیاوی اور اخروی بدبختی اور ہلاکت سے ڈرانے والے ہیں جس نے آپ کی نافرمانی کی﴿ۙ وَّلَا تُسْـــَٔـلُ عَنْ اَصْحٰبِ الْجَحِیْمِ﴾ یعنی آپ سے اہل دوزخ کے بارے میں نہیں پوچھا جائے گا۔ آپ کا کام پہنچا دینا ہے اور حساب لینا ہمارا کام ہے۔ |
البقرة |
120 |
اللہ تعالیٰ اپنے رسول کو آگاہ کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ یہود و نصاریٰ آپ سے اس وقت تک خوش نہیں ہوسکتے جب تک آپ ان کے دین کی اتباع نہ کریں کیونکہ وہ اپنے اس دین کے داعی ہیں جس پر وہ عمل پیرا ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہی ہدایت ہے، لہٰذا آپ ان سے کہہ دیجیے ! ﴿ اِنَّ ھُدَی اللّٰہِ ﴾” بے شک اللہ کی ہدایت“ یعنی وہ ہدایت جس کے ساتھ آپ کو مبعوث کیا گیا ہے ﴿ ھُوَ الْہُدٰی ۭ﴾” وہی درحقیقت ہدایت ہے۔“ اور وہ مذہب جس پر تم گامزن ہو محض خواہشات نفس کی پیروی ہے اور اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے۔ ﴿ وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ اَھْوَاۗءَھُمْ بَعْدَ الَّذِیْ جَاۗءَکَ مِنَ الْعِلْمِ ۙ مَا لَکَ مِنَ اللّٰہِ مِنْ وَّلِیٍّ وَّلَا نَصِیْرٍ﴾ ” اگر آپ نے ان کی خواہشات کی پیروی کی، اس علم کے بعد جو آپ کو پہنچا، تو آپ کو اللہ سے بچانے والا کوئی حمایتی اور مددگار نہیں ہوگا۔“ اس آیت کریمہ میں یہود و نصاریٰ کی اتباع کرنے اور ان امور میں ان کی مشابہت اختیار کرنے سے روکا گیا ہے جو ان کے دین سے مختص ہیں۔ یہاں خطاب اگرچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہے مگر بالواسطہ آپ کی امت بھی اس میں داخل ہے، کیونکہ اصول یہ ہے کہ جس سے خاص طور پر خطاب ہو، اس کی بجائے عمومِ معنی کا اعتبار کیا جائے۔ جیسے کسی حکم کے نازل ہونے کا کوئی خاص سبب ہوتا ہے، لیکن وہاں اس سبب کی بجائے عموم لفظ کا اعتبار کیا جاتا ہے۔ |
البقرة |
121 |
اللہ تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ وہ لوگ جن کو ہم نے کتاب عطا کی اور کتاب عطا کر کے ان پر احسان کیا ہے ﴿ یَتْلُوْنَہٗ حَقَّ تِلَاوَتِہٖ ۭ”﴾ وہ اس کی تلاوت کرتے ہیں جیسا کہ تلاوت کرنے کا حق ہے۔“ یعنی اس کی اتباع کرتے ہیں جیسا کہ اتباع کرنے کا حق ہے۔ یہاں (تلاوت) سے مراد اتباع ہے۔ پس وہ اللہ تعالیٰ کے حلال ٹھہرائے ہوئے امور کو حلال اور اس کے حرام ٹھہرائے ہوئے امور کو حرام سمجھتے ہیں۔ اس کی محکمات پر عمل پیرا ہوتے ہیں اور اس کی متشابہات پر ایمان لاتے ہیں۔ اہل کتاب میں سے یہی وہ لوگ ہیں جو خوش بخت ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی نعمت کو پہچانا اور اس کے شکر گزار ہوئے جو تمام رسولوں پر ایمان لائے اور انہوں نے ان رسولوں کے مابین تفریق نہ کی۔ یہی لوگ حقیقی مومن ہیں نہ کہ وہ لوگ جو کہتے ہیں﴿ نُؤْمِنُ بِمَا أُنزِلَ عَلَيْنَا وَيَكْفُرُونَ بِمَا وَرَاءَهُ﴾ (البقرہ : 2؍ 91) ” جو کتاب ہم پر نازل کی گئی ہم تو اس پر ایمان لاتے ہیں اور اس کے سوا دوسری کتابوں کا انکار کرتے ہیں۔“ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو وعید سناتے ہوئے فرمایا : ﴿ وَمَنْ یَّکْفُرْ بِہٖ فَاُولٰۗیِٕکَ ھُمُ الْخٰسِرُوْنَ ﴾” جو کوئی اس کا انکار کرے گا پس یہی لوگ گھاٹے میں پڑنے والے ہیں۔“ اس کے بعد آنے والی آیت کریمہ کی تفسیر گزشتہ صفحات میں گزر چکی ہے۔ |
البقرة |
122 |
|
البقرة |
123 |
|
البقرة |
124 |
اللہ تعالیٰ اپنے بندے اور اپنے خلیل ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں خبر دیتا ہے۔ جن کی امامت و جلالت تمام گروہوں کے درمیان متفق علیہ ہے۔ اہل کتاب کے تمام گروہ ان کی پیشوائی کو ماننے کا دعویٰ کرتے ہیں اور اسی طرح مشرکین مکہ بھی ان کو پیشوا مانتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے چند باتوں میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا امتحان لیا یعنی چند اوامرونواہی میں جیسا کہ عادت الٰہی ہے کہ وہ اپنے بندوں کو امتحان اور آزمائش میں مبتلا کرتا ہے، تاکہ جھوٹا شخص جو ابتلاء و امتحان میں ثابت قدم نہیں رہ سکتا، ایسے شخص سے علیحدہ ہوجائے جو سچا ہے تاکہ سچے شخص کے درجات بلند ہوں، اس کی قدر و قیمت زیادہ ہو، اس کے اعمال صاف ستھرے ہوں اور وہ اس آزمائش کی بھٹی سے کندن بن کر نکلے۔
اللہ تعالیٰ کے ان بندوں میں سے حضرت ابراہیم علیہ السلام جلیل ترین مقام پر فائزہیں۔ جن امور میں اللہ تعالیٰ نے ان کو آزمایا تھا وہ بدرجہ اتم اس آزمائش میں پورے اترے اللہ تعالیٰ نے ان کی اس سعی کی قدر کی اور اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے (اپنے نیک بندوں کی مساعی کا) قدر دان ہے۔ فرمایا :﴿ اِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا ۭ﴾” میں تجھ کو لوگوں کا امام بناؤں گا“ یعنی وہ زندگی کے لائحہ عمل میں تیری پیروی کریں گے اور ابدی سعادت کی منزل تک پہنچنے کے لیے تیرے پیچھے چلیں گے۔ تجھے ہمیشہ مدح و ثنا حاصل رہے گی اور بے پایاں اجر عطا ہوگا اور ہر شخص تیری عظمت کا قائل ہوگا۔ اللہ کی قسم ! یہ افضل ترین درجہ ہے جس میں لوگ ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر رغبت کرتے ہیں اور ایک ایسا بلند مقام ہے کہ اصحاب اعمال اس تک پہنچنے کے لیے بڑی جدوجہد کرتے ہیں اور وہ کامل ترین حالت ہے جو صرف اولوالعزم انبیاء و مرسلین، ان کے پیروکار صدیقین اور اللہ تعالیٰ اور اس کے راستے کی طرف دعوت دینے والوں کو حاصل ہوتی ہے۔
جب ابراہیم علیہ السلام اس مقام بلند کو پا کر خوش ہوئے تو انہوں نے اپنی اولاد کے لیے بھی اس مقام کی درخواست کی تاکہ ان کے اور ان کے اولاد کے درجات بلند ہوں اور یہ دعا بھی ان کی امامت، اللہ کے بندوں کے ساتھ خیر خواہی اور چاہت کا نتیجہ ہے کہ ان کی اولاد میں اللہ کی طرف رہنمائی کرنے والوں کی کثرت ہو۔ پس کیا خوب عظمت ہے ان اعلیٰ مقاصد اور مقامات بلند کی۔
اللہ رحیم اور لطف وکرم کے مالک نے ان کی دعا قبول فرما لی اور اس رکاوٹ سے ان کو باخبر کردیا جو اس مقام کے حصول کے راستے میں حائل ہے۔ چنانچہ فرمایا : ﴿ لَا یَنَالُ عَہْدِی الظّٰلِمِیْنَ﴾” میرا عہد ظالموں کو نہیں پہنچے گا“ یعنی اہل ظلم دین میں امامت کے رتبے کو نہیں پہنچ سکتے۔ جس نے اپنے نفس پر ظلم کیا، اس کو نقصان پہنچایا اور اس کی بے قدری کی، کیونکہ ظلم اس مقام کے منافی ہے۔ یہ ایسا مقام ہے جہاں تک پہنچنے کا ذریعہ صبر و یقین ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اس رتبے کا مالک ایمان اعمال صالحہ، اخلاق جمیلہ، خصائل حمیدہ، محبت نامہ اور خشیت و انابت میں عظمت کا حامل ہو۔ پس ظلم کا اس مقام سے کیا تعلق؟
آیت کریمہ کا مفہوم دلالت کرتا ہے کہ جو ظالم نہیں وہ اس امامت کے بلند مقام تک پہنچ سکتا ہے مگر وہاں تک پہنچانے والے اسباب استعمال کر کے۔ |
البقرة |
125 |
پھر اللہ تعالیٰ نے ایک ایسے باقی رہنے والے نمونے کا ذکر فرمایا جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی امامت پر دلالت کرتا ہے اور وہ ہے اللہ تعالیٰ کا محترم گھر جس کی زیارت کو اللہ تعالیٰ نے دین کا ایک رکن اور گناہوں، کوتاہیوں کو ختم کردینے والا قرار دیا اور اس محترم گھر میں اللہ کے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کی اولاد کے آثار ہیں جن کے ذریعے سے ان کی امامت کی معرفت حاصل ہوتی ہے اور حضرت خلیل علیہ السلام کی حالت یاد آتی ہے۔ پس فرمایا: ﴿ وَاِذْ جَعَلْنَا الْبَیْتَ مَثَابَۃً لِّلنَّاسِ وَاَمْنًا ۭ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے اس محترم گھر کو لوگوں کا مرجع قرار دیا، لوگ اپنے دینی اور دنیاوی منافع کے حصول کی خاطر وہاں اکٹھے ہوتے ہیں۔ وہاں بار بار جانے کے باوجود ان کا دل نہیں بھرتا ﴿وَاَمْنًا ﴾ اور اللہ تعالیٰ نے اس محترم مقام کو جائے امن قرار دیا جہاں پہنچ کر ہر شخص محفوظ و مامون ہوجاتا ہے یہاں تک کہ جنگلی جانور اور نباتات و جمادات بھی مامون ہوتے ہیں۔ بنابریں جاہلیت کے زمانے میں، اہل عرب اپنے شرک کے باوجود بیت اللہ کا حد درجہ احترام کرتے تھے۔ حتیٰ کہ ان میں سے کوئی اگر بیت اللہ میں اپنے باپ کے قاتل کو بھی دیکھ لیتا تو تب بھی اس میں انتقامی جذبہ جوش نہ مارتا جب اسلام آیا تو اللہ تعالیٰ نے بیت اللہ کی حرمت، عظمت اور اس کے شرف و تکریم میں اور اضافہ کردیا۔
﴿ وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰہٖمَ مُصَلًّی ۭ﴾” اور بناؤ ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ کو نماز کی جگہ“ اس میں ایک احتمال یہ ہے کہ اسے مراد وہ معروف مقام ہو جو اب بیت اللہ کے دروازے کے بالمقابل ہے اور جائے نماز بنانے سے مراد طواف کی دو رکعت ہیں جو مقام ابراہیم کے پیچھے کھڑے ہو کر پڑھنا مستحب ہے۔ جمہور مفسرین کا یہی مذہب ہے۔ دوسرا احتمال یہ ہے کہ یہاں مقام مفرد اور مضاف ہو، اس صورت میں یہ حج کے ان تمام مقامات کو شامل ہوگا، جہاں جہاں ابراہیم علیہ السلام کے قدم پہنچے اور یہ حج کے سارے مشاعر ہوں گے، جیسے طواف، سعی صفا و مروہ، وقوف عرفات و مزدلفہ، رمی جمار (کنکریاں مارنا) قربانی اور دیگر افعال حج۔
پس یہاں ﴿ مُصَلًّی ﴾ کا معنی ” عبادت کی جگہ“ قرار پائے گا۔ یعنی تمام شعائر حج میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پیروی کرو۔ شاید یہی معنی زیادہ مناسب ہے کیونکہ اس کے اندر پہلا معنی بھی آجاتا ہے اور لفظ بھی اس معنی کا متحمل ہے۔
﴿ وَعَہِدْنَآ اِلٰٓی اِبْرٰہٖمَ وَاِسْمٰعِیْلَ اَنْ طَہِّرَا بَیْتِیَ﴾ یعنی ہم نے حضرت ابراہیم اور اسماعیل علیہ السلام کی طرف وحی کر کے انہیں حکم دیا کہ وہ بیت اللہ کو شرک، کفر و معاصی، رجس و نجاست اور گندگی سے پاک کریں تاکہ اللہ کا یہ گھر ﴿لِلطَّاۗیِٕفِیْنَ﴾ طواف کرنے والوں ﴿وَالْعٰکِفِیْنَ وَالرُّکَّعِ السُّجُوْدِ﴾ ” اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں“ یعنی نمازیوں کے لیے پاک ہوجائے۔
آیت کریمہ میں طواف کے ذکر کو مقدم رکھا گیا ہے کیونکہ یہ مسجد حرام سے مختص ہے اس کے بعد اعتکاف کا ذکر آیا ہے کیونکہ صحت اعتکاف کے لیے مطلقاً مسجد کی شرط ہے یہی وجہ ہے کہ نماز کا ذکر طواف و اعتکاف کے بعد ہے باوجود اس بات کے کہ وہ افضل ہے۔ باری تعالیٰ نے کعبہ کو چند وجوہات کی بنا پر اپنی طرف منسوب کیا ہے۔
(1) اللہ کا گھر ہونے کے حوالے سے یہ نہایت شدت سے اس بات کا متقاضی تھا کہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہ السلام اس کی تطہیر کا خوب اہتمام کریں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے جدوجہد کریں اور اپنی پوری طاقت صرف کردیں۔
(2) اللہ تعالیٰ کی طرف یہ نسبت عزت و شرف اور تکریم کی متقاضی ہے۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو اس کی تعظیم و تکریم کا حکم دیا ہے۔
(3) یہ اضافت اور نسبت ہی ہے جو دلوں کو بیت اللہ کی طرف کھینچنے کا باعث ہے۔ |
البقرة |
126 |
یعنی جب ابراہیم علیہ السلام نے یہ دعا کی کہ اللہ تعالیٰ اپنے اس گھر کو امن کی جگہ بنائے اور یہاں کے رہنے والوں کو مختلف قسم کے پھلوں سے رزق عطا کرے۔ پھر جناب ابراہیم علیہ السلام نے ادب الٰہی کی خاطر اس دعا کو ایمان کی قید لگا کر اہل ایمان کے لیے خاص کردیا۔ چونکہ ان کی پہلی دعا مطلق تھی اس لیے اس کے جواب کو ” غیر ظالم“ کی قید سے مقید کیا گیا ہے۔
پس جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان کے لیے رزق کی دعا کی اور اس کے لیے ایمان کی شرط عائد کی اور اللہ تعالیٰ کا رزق مومن اور کافر، نافرمان اور فرمانبردار سب کو ملتا ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَمَنْ کَفَرَ﴾ ” اور جس نے کفر کیا“ یعنی میں کافر اور مسلمان تمام لوگوں کو رزق عطا کروں گا۔ رہا مسلمان تو وہ اس رزق سے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے میں مدد لے گا پھر وہ یہاں سے جنت کی نعمتوں میں منتقل ہوجائے گا اور کافر تو وہ اس دنیا میں تھوڑا سا فائدہ اٹھائے گا۔ ﴿ ثُمَّ اَضْطَرُّہٗٓ﴾ ” پھر میں اسے لاچار کر دوں گا“ اور اس کی ناپسندیدگی کے باوجود اسے دنیا سے نکال کر ﴿اِلٰی عَذَابِ النَّارِ ۭ وَبِئْسَ الْمَصِیْرُ﴾” جہنم کے عذاب میں جھونک دوں گا جو بہت برا ٹھکانہ ہے۔ “ |
البقرة |
127 |
یعنی حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اس حالت کو یاد کرو جب وہ بیت اللہ کی بنیادیں بلند کر رہے تھے اور اس عظیم کام پر تسلسل اور پابندی سے لگے ہوئے تھے اور یہ کہ اس وقت ان پر خوف اور امید کی کیسی کیفیت طاری تھی، حتیٰ کہ اس عظیم عمل کے باوجود انہوں نے دعا کی کہ ان کا عمل قبول کیا جائے، تاکہ اس کا فائدہ عام ہو اور انہوں نے اپنی ذات اور اپنی اولاد کے لیے اسلام کی دعا کی۔ جس کی حقیقت قلب کا خشوع و خضوع ہے اور دل کا اپنے رب کا مطیع ہوجانے اور اعضاء و جوارح کے فرماں بردار ہونے کو متضمن ہے۔ |
البقرة |
128 |
﴿وَاَرِنَا مَنَاسِکَنَا﴾یعنی ارادہ اور مشاہدہ کے ذریعے ہمیں ہمارا طریق عبادت سکھا۔ تاکہ یہ زیادہ مؤثر ہو۔ اس میں ایک احتمال یہ ہے کہ مناسک سے مراد تمام اعمال حج ہوں۔ جیسا کہ اس معنی پر آیت کریمہ کا سیاق و سباق دلالت کرتا ہے۔ دوسرا احتمال یہ ہے کہ اس سے بڑھ کر کوئی چیز مراد ہو اور وہ سارا دین اور تمام عبادات ہیں۔۔۔ جیسا کہ عموم لفظ اس پر دلالت کرتا ہے کیونکہ (النسک) کا معنی عبادت کرنا ہے پھر عرف کے لحاظ سے حج کی عبادات کے لیے اس لفظ کا استعمال غالب آگیا۔ پس ان کی دعا کا حاصل علم نافع اور عمل صالح کی توفیق مانگنا ہے۔
بندہ جیسا بھی ہو اس سے تقصیر ہو ہی جاتی ہے اس لیے وہ توبہ کا محتاج ہوتا ہے، چنانچہ دونوں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی: ﴿وَتُبْ عَلَیْنَا ۚ اِنَّکَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ﴾ ” اے اللہ ہم پر رجوع فرما، تو بہت رجوع کرنے والا بہت مہربان ہے۔ “ |
البقرة |
129 |
﴿رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْہِمْ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ﴾ یعنی ہماری اولاد میں رسول مبعوث فرما تاکہ وہ ان دونوں کے درجات کی بلندی کا سبب بنے۔ لوگ اس کی اطاعت کریں اور اسے اچھی طرح پہچان لیں۔ فرمایا : ﴿یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ اٰیٰتِکَ﴾ یعنی وہ لفظاً لفظاً حفظ کرنے اور حفظ کروانے کے لیے تیری آیات کی تلاوت کرے۔ ﴿وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ﴾ یعنی معافی سمجھاتے ہوئے انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے ﴿وَیُزَکِّیْہِمْ﴾ یعنی اعمال صالحہ کے ذریعے سے ان کی تربیت کرے اور اعمال قبیحہ سے ان کو بچائے، کیونکہ قبیح اور ردی اعمال کے ہوتے ہوئے نفس پاک نہیں ہوسکتا۔ ﴿اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ﴾ یعنی تو ہر چیز پر غالب ہے۔ عزیز اس ہستی کو کہتے ہیں جس کی قوت کے سامنے کوئی چیز نہ ٹھہر سکے۔ ﴿الْحَکِیْمُ﴾ حکیم اس ہستی کو کہتے ہیں جو ہر چیز کو اس کے مناسب مقام پر رکھے۔ پس تو اپنے غلبہ و حکمت کے تحت ان کے اندر اس رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کو مبعوث فرما۔ اللہ تعالیٰ نے دونوں برگزیدہ نبیوں کی دعا قبول فرما لی اور تمام مخلوق پر عام طور پر اور اولاد ابراہیم و اسماعیل علیہ السلام پر خاص طور پر رحم کرتے ہوئے اس رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مبعوث فرمایا۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا کرتے تھے : (اَناَ دَعْوَۃُ أَبِی اِبْرَاہِیْمَ) [البدایة والنھایة،275؍2 والصحیحه، رقم:1546،1545]
” میں اپنے باپ ابراہیم کی دعا ہوں۔ “
جب اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اس قدر عظمت و بلندی سے نوازا اور ان کی صفات کاملہ بیان فرمائیں تو فرمایا : |
البقرة |
130 |
یعنی وہ کون ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی فضیلت کو پہچان لینے کے بعد ان کی ملت سے روگردانی کرے۔﴿اِلَّا مَنْ سَفِہَ نَفْسَہٗ﴾ یعنی ایسا شخص وہی ہوسکتا ہے جس نے اپنے نفس کو جاہل رکھ کر حقیر بنا دیا ہو۔ اپنے نفس کے لیے کمتر چیز پر راضی ہو اور گھاٹے کے سودے میں اسے فروخت کردیا ہو۔ اسی طرح اس شخص سے بڑھ کر کامل اور راست رو کوئی نہیں جو ملت ابراہیم میں رغبت رکھتا ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ نے دنیا و آخرت میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی حالت کے بارے میں آگاہ فرمایا : ﴿وَلَقَدِ اصْطَفَیْنٰہُ فِی الدُّنْیَا﴾ یعنی ہم نے حضرت ابراہیم کو چن لیا، انہیں ایسے اعمال کی توفیق سے نوازا جن کی بنا پر وہ چیدہ چیدہ نیک لوگوں میں شمار ہوئے۔ ﴿وَاِنَّہٗ فِی الْاٰخِرَۃِ لَمِنَ الصّٰلِحِیْنَ﴾” اور وہ آخرت میں صالحین میں سے ہوں گے“ یعنی وہ نیک لوگ جو بلند ترین درجات پر فائز ہوں گے۔ |
البقرة |
131 |
﴿اِذْ قَالَ لَہٗ رَبُّہٗٓ اَسْلِمْ ۙ قَالَ﴾” اور جب انہیں ان کے رب نے کہا مطیع ہوجاؤ“ یعنی (اللہ تعالیٰ کے فرمان کے جواب میں) حضرت ابراہیم علیہ السلام نے نہایت فرمانبرداری سے عرض کی : ﴿ اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ﴾ یعنی میں اخلاص، توحید، محبت اور انابت کے طور پر جہانوں کے پروردگار کے سامنے سر تسلیم خم کرتا ہوں۔
پس اللہ تعالیٰ کی توحید ان کی خاص صفت قرار پائی۔ پھر اس توحید کو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے وراثت کے طور پر اپنی اولاد میں منتقل کیا۔ اس کی ان کو وصیت فرمائی اور اسے ایک ایسا کلمہ بنا دیا جو ان کے بعد بھی باقی رہا اور نسل در نسل وراثت میں منتقل ہوتا رہا حتیٰ کہ حضرت یعقوب علیہ السلام تک پہنچا اور انہوں نے اپنے بیٹوں کو اسی کلمہ توحید کی وصیت کی۔ |
البقرة |
132 |
پس اے اولاد یعقوب ! تمہیں تمہارے باپ نے خاص طور پر وصیت کی ہے اس لیے نہایت کامل طریقے سے اس کی اطاعت کرنا اور خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع کرنا تم پر واجب ہے۔ فرمایا : ﴿یٰبَنِیَّ اِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰی لَکُمُ الدِّیْنَ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ نے تم پر رحم اور احسان کرتے ہوئے تمہارے لیے دین کو چن لیا ہے لہٰذا اس دین کو قائم کرو اس کی شرائع سے متصف اور اس کے اخلاق میں رنگے جاؤ پھر ان کو دائمی طور پر اختیار کرلو۔ جب تمہیں موت آئے تو یہ اوصاف و اخلاق تمہارا اوڑھنا بچھونا ہوں، کیونکہ انسان جن اوصاف کے ساتھ زندگی بسر کرتا ہے انہی اوصاف کے ساتھ موت سے ہم آغوش ہوتا ہے اور جن اوصاف پر وہ مرتا ہے انہی اوصاف کے ساتھ اسے قیامت کے روز اٹھایا جائے گا۔ |
البقرة |
133 |
چونکہ یہودیوں کو زعم تھا کہ وہ ملت ابراہیم اور ان کے بعد ملت، یعقوب پر ہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کا انکار کرتے ہوئے فرمایا : ﴿اَمْ کُنْتُمْ شُہَدَاۗءَ﴾یعنی ” کیا تم سب اس وقت موجود تھے“ ﴿اِذْ حَضَرَ یَعْقُوْبَ الْمَوْتُ﴾ ” جب یعقوب علیہ السلام کو موت آئی“ یعنی جب موت کے مقدمات اور اسباب ظاہر ہوئے تو انہوں نے آزمائش اور امتحان کے طور پر اپنے بیٹوں سے پوچھا تاکہ ان کی وصیت پر ان کے بیٹوں کے عمل کرنے کی وجہ سے ان (حضرت یعقوب) علیہ السلام کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں۔ ﴿مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْۢ بَعْدِیْ﴾ ” میرے بعد کس کی عبادت کرو گے؟“ پس یعقوب علیہ السلام کے بیٹوں نے انہیں ایسا جواب دیا جس سے ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوئیں، چنانچہ انہوں نے جواب دیا : ﴿ نَعْبُدُ اِلٰہَکَ وَاِلٰہَ اٰبَاۗیِٕکَ اِبْرٰھٖمَ وَاِسْمٰعِیْلَ وَاِسْحٰقَ اِلٰــہًا وَّاحِدًا﴾پس ہم اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی چیز کو شریک ٹھہرائیں گے نہ کسی کو اس کے برابر قرار دیں گے۔ ﴿وَّنَحْنُ لَہٗ مُسْلِمُوْنَ﴾” اور ہم اسی کے مطیع اور فرماں بردار ہیں“ پس انہوں نے توحید اور عمل کو جمع کردیا۔ |
البقرة |
134 |
یہ بدیہی طور پر معلوم ہے کہ یہودی حضرت یعقوب علیہ السلام کی وفات کے وقت موجود نہ تھے کیونکہ وہ تو ان کی وفات کے بعد وجود میں آئے۔ جب وہ اس وقت موجود نہ تھے تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ خبردی ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹوں کو یہودیت کی نہیں بلکہ حنیفیت کی وصیت فرمائی تھی۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :﴿تِلْکَ اُمَّۃٌ قَدْ خَلَتْ﴾ یعنی وہ امت گزر گئی﴿لَہَا مَا کَسَبَتْ وَلَکُمْ مَّا کَسَبْتُمْ﴾” اس کے لیے وہ ہے جو اس نے کمایا اور تمہارے لیے وہ جو تم کماؤ گے“ یعنی ہر شخص کا اپنا عمل ہے اللہ تعالیٰ اسے اسی کے فعل کی جزا دے گا۔ وہ کسی شخص کا کسی دوسرے شخص کے گناہوں کی وجہ سے مواخذہ نہیں کرے گا اور کسی شخص کو صرف اس کا اپنا ایمان اور تقویٰ ہی کام دے گا۔ پس تمہارا اس زعم میں مبتلا ہونا اور تمہارا یہ دعویٰ کہ تم ان انبیاء علیہ السلام کی ملت پر ہو مجرد و دعویٰ اور ایک ایسا معاملہ ہے جو حقیقت سے خالی ہے، بلکہ تم پر فرض ہے کہ تم اپنی موجودہ حالت پر غور کرو۔ کیا یہ نجات دلانے کی صلاحیت رکھتی ہے یا نہیں؟ |
البقرة |
135 |
یعنی یہود و نصاریٰ نے مسلمانوں کو اپنے اپنے دین میں داخل ہونے کی دعوت دی، ان میں سے ہر ایک اس زعم باطل میں مبتلا تھا کہ وہ ہدایت یافتہ ہے اور دوسرے گمراہ ہیں لہٰذا اللہ تعالیٰ نے شافی جواب دیتے ہوئے فرمایا : ﴿ قُلْ بَلْ مِلَّۃَ اِبْرٰھٖمَ حَنِیْفًا﴾ بلکہ ہم تو ملت ابراہیم کی اتباع کرتے ہیں، یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام ہر طرف سے منہ موڑ کر توحید کو قائم کرتے ہوئے اور شرک کو ترک کر کے صرف اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ تھے۔ یہی وہ ہستی ہے جس کی پیروی میں ہدایت اور جس کی ملت سے روگردانی کرنا کفر اور گمراہی ہے۔ |
البقرة |
136 |
یہ آیت کریمہ ان تمام امور پر مشتمل ہے جن پر ایمان لانا واجب ہے۔ جان لیجیے کہ ایمان، جو ان اصولوں کے ساتھ دل کی پوری تصدیق کا نام ہے اور اس کا اقرار، قلوب اور اعضاء کے اعمال کو متضمن ہے اور اس اعتبار سے اس میں اسلام داخل ہے اور اس میں تمام اعمال صالحہ بھی داخل ہیں۔ پس تمام اعمال صالحہ ایمان کا حصہ اور اس کے آثار میں سے ہیں۔ جب ایمان کا علی الاطلاق ذکر ہوگا تو مذکورہ امور اس میں داخل ہوں گے۔ اسی طرح جب اسلام کا علی الاطلاق ذکر کیا جائے گا تو ایمان بھی اس کے اندر داخل ہوگا۔ جب ایمان اور اسلام کو مقرون اور ایک ساتھ ذکر کیا جائے گا تب ایمان، قلب کے اقرار و تصدیق کا نام اور اسلام، اعمال ظاہرہ کا نام ہوگا اور اسی طرح جب ایمان اور اعمال صالحہ کو جمع کیا جائے گا (تو یہی اصول ہوگا)
ارشاد فرمایا :﴿ قُولُوا﴾ یعنی اپنی زبان سے کہو اور تمہارے دل تمہارے اس قول کی موافقت کرتے ہوں۔ یہی وہ کامل قول ہے جس پر ثواب اور جزا مرتب ہوتے ہیں، پس جیسے قلبی اعتقاد کے بغیر محض زبان سے ایمان کا اظہار نفاق اور کفر ہے۔ اسی طرح وہ قول، جو عمل سے عاری ہو، عمل قلب ہے جو تاثیر سے محروم اور بہت کم مفید ہے تاہم اگر یہ قول کوئی بھلائی کی بات ہو اور اس کے ساتھ ساتھ دل میں ایمان بھی موجود ہو تو بندہ مومن کو اس پر اجر ملتا ہے۔ لیکن مجردقول اور اس قول کے درمیان فرق ہے جو عمل قلب کے ساتھ مقرون ہو۔
اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿قُوْلُوْٓا﴾ میں عقیدے کے اعلان و اظہار اور اس کی طرف دعوت دینے کا اشارہ ہے کیونکہ عقیدہ دین کی اصل اور اس کی اساس ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿ اٰمَنَّا﴾ وغیرہ میں جس میں فعل کا صادر ہونا مذکور ہو اور تمام امت کی طرف منسوب ہو اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ تمام امت پر فرض ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رسی کو اکٹھے ہو کر مضبوطی سے پکڑے رکھے ایک دوسرے کے ساتھ محبت و الفت سے رہے، یہاں تک کہ ان کا داعی ایک اور ان کا عمل متحد ہو۔ اسی سے افتراق اور تشتت کی ممانعت بھی نکلتی ہے۔ نیز اس آیت کریمہ سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ تمام اہل ایمان جسد واحد کی مانند ہیں۔
اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿قُوْلُوْٓا اٰمَنَّا بِاللّٰہِ﴾ میں اس بات کی دلیل ہے کہ ا نسان کے لیے اپنے نفس کی طرف ایمان کی اضافت کرناجائز ہے مگر مقید طور پر بلکہ اس اضافت کے وجوب کی دلیل ہے اس کے برعکس (اَناَ مُؤمِنٌ) ” میں مومن ہوں“ کہنے کا معاملہ ہے، تو اس طرح کہنا صرف ان شاء اللہ کے ساتھ جائز ہے۔ کیونکہ یہ اپنے آپ کو پاک کہنے اور اپنے آپ پر ایمان کی شہادت کے زمرے میں آتا ہے۔
﴿ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ﴾ یعنی ہم اس حقیقت پر ایمان لائے کہ اللہ تعالیٰ واجب الوجود ہے۔ وہ ایک ہے وہ ہر صفت کمال سے متصف اور ہر نقص اور عیب سے منزہ ہے۔ تمام عبادات کا اکیلا وہی مستحق ہے۔ ان عبادات میں کسی بھی پہلو سے کوئی بھی ہستی اس کی شریک نہیں۔
﴿وَمَا أُنزِلَ إِلَيْنَا﴾ اس میں قرآن اور سنت دونوں شامل ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ﴿وَأَنزَلَ اللَّـهُ عَلَيْكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ﴾(سورۃ نساء : 4؍ 113) ” اور اللہ نے تجھ پر کتاب اور حکمت نازل فرمائی۔“ اس میں ان تمام چیزوں پر ایمان لانا داخل ہے جو کتاب و سنت میں ذکر کی گئی ہیں مثلاً باری تعالیٰ کی صفات، انبیاء و مرسلین کی صفات، روز قیامت، گزرے ہوئے اور آنے والے غیبی امور نیز تمام شرعی احکام اور ثواب و عقاب کے احکام پر ایمان لانا۔
﴿وَمَآ اُنْزِلَ اِلٰٓی اِبْرٰھٖمَ وَاِسْمٰعِیْلَ وَاِسْحٰقَ وَیَعْقُوْبَ ........وَنَحْنُ لَہٗ مُسْلِمُوْنَ ﴾
اس آیت کریمہ میں عمومی طور ان تمام کتابوں پر ایمان لانے کا ذکر کیا گیا ہے جو سابقہ انبیاء و مرسلین پر نازل کی گئی ہیں اور خصوصی طور پر ان انبیاء و مرسلین پر ایمان لانا، جو کہ اس آیت کریمہ میں منصوص ہیں ان کے شرف و تکریم کے باعث اور اس سبب سے کہ وہ بڑی بڑی شریعتیں لے کر دنیا میں تشریف لائے۔ پس انبیائے کرام اور کتب سابقہ پر ایمان لانے میں جو چیز واجب ہے وہ یہ ہے کہ ان پر عمومی طور پر ایمان لایا جائے۔ پھر جس چیز کی تفصیل کی معرفت حاصل ہوجائے اس پر مفصل ایمان لایا جائے۔
﴿وَمَآ اُوْتِیَ النَّبِیُّوْنَ مِنْ رَّبِّہِمْ﴾ اس آیت کریمہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ دین کا عطیہ ہی دراصل حقیقی عطیہ ہے جو انسان کو دنیاوی اور آخروی سعادت کی منزل تک پہنچاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ حکم نہیں دیا کہ ہم انبیائے کرام کی حکومتوں اور ان کو عطا کیے گئے مال و متاع وغیرہ پر ایمان لائیں۔ بلکہ ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم ان کو عطا کی گئی کتابوں اور شریعتوں پر ایمان لائیں۔
اس آیت کریمہ میں یہ بات بھی واضح ہے کہ انبیائے کرام علیہ السلام اللہ تعالیٰ کی طرف سے (دین) پہنچانے والے ہیں اور وہ اللہ تعالیٰ اور اس کی مخلوق کے مابین دین پہنچانے کا ذریعہ ہیں۔ حقیقت میں وہ کسی اختیار کے مالک نہیں۔
اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿مِنْ رَّبِّہِمْ﴾میں اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے کمال ربوبیت کی بنا پر ان پر کتابیں نازل کیں اور ان کی طرف رسول مبعوث کیے ہیں۔ پس اس کی ربوبیت یہ تقاضا نہیں کرتی کہ انسانوں کو بیکار اور بے مہار چھوڑ دیا جائے۔ جب صورت یہ ہے کہ جو کچھ انبیائے کرام علیہ السلام کو عطا کیا گیا وہ ان کے رب کی طرف سے ہے۔ تو اس سے انبیائے کرام علیہ السلام اور نبوت کا دعویٰ کرنے والوں کے درمیان فرق کیا گیا ہے۔ نیز انبیائے کرام علیہ السلام اور مدعیان نبوت کے درمیان فرق ان کی دعوت کی معرفت حاصل کرنے سے بھی کیا جاسکتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے رسول صرف بھلائی کی دعوت دیتے ہیں اور صرف برائی سے روکتے ہیں۔ ان میں ہر رسول دوسرے رسول کی تصدیق کرتا اور اس کے لیے حق کی گواہی دیتا ہے۔ ان کی دعوت میں تناقض اور ایک دوسرے کی مخالفت نہیں ہوتی کیونکہ ان کی دعوت ان کے رب کی طرف سے ہوتی ہے۔ ﴿وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللَّـهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا﴾(النساء : 4؍ 82) ” اور اگر یہ (قرآن) غیر اللہ کی طرف سے ہوتا تو وہ اس میں بہت زیادہ اختلافات پاتے۔ “
اس کے برعکس جو کوئی نبوت کا دعویٰ کرتا ہے تو اس قسم کے جھوٹے نبیوں کی دی ہوئی خبروں اور ان کے اوامرو نواہی میں ضرور تناقص ہوتا ہے جیسا کہ اس قسم کے تمام جھوٹے مدعیان نبوت کی سیرت، ان کے احوال اور ان کی دعوت کی معرفت حاصل کرنے سے معلوم ہوتا ہے۔
﴿لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْھُمْ﴾ یعنی ہم تمام انبیاء پر (بلا تفریق) ایمان لاتے ہیں۔ یہ اہل اسلام کی ایک ایسی خاصیت ہے جس کی بنا پر وہ ان تمام لوگوں میں منفرد ہیں جو کسی (آسمانی) دین کا دعویٰ کرتے ہیں۔
پس یہود و نصاریٰ اور صابی وغیرہ اگرچہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ انبیاء و رسل اور کتب منزلہ پر ایمان رکھتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنے علاوہ دیگر کتب کا انکار کرتے ہیں۔ پس وہ انبیاء و مرسلین اور کتب منزلہ کے مابین تفریق کرتے ہیں، ان میں سے کچھ لوگ اس پر ایمان رکھتے ہیں اور کچھ لوگ اس کا انکار کرتے ہیں اور ان کی تکذیب خود ان کی تصدیق کو توڑ دیتی ہے۔ کیونکہ وہ رسول جس کے بارے میں وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اس پر ایمان لائے ہیں اس نے تمام رسولوں کی تصدیق کی ہوتی ہے۔ خاص طو پر محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پس جب وہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تکذیب کرتے ہیں تو درحقیقت وہ اپنے رسول کی دی ہوئی خبر کی تکذیب کرتے ہیں اور یہ ان کا اپنے رسول کے ساتھ کفر ہے۔
جب اللہ تعالیٰ نے ان تمام چیزوں کو بیان کردیا جن پر عمومی اور خصوصی طور پر ایمان لانا ہے اور یہ بھی واضح ہے کہ قول، عمل سے کفایت نہیں کرتا، تو فرمایا : ﴿وَنَحْنُ لَہٗ مُسْلِمُوْنَ﴾یعنی ہم اس کی عظمت کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہیں۔ ہم اپنے ظاہر و باطن سے اس کی عبودیت کے لیے اس کی طاعت کرتے ہیں اور ہم اس کی عبادت کو صرف اسی کے لیے خالص کرتے ہیں اور اس مفہوم کے لیے دلیل یہ ہے کہ معمول کو عامل پر مقدم رکھا ہے۔ ﴿لَہٗ مُسْلِمُوْنَ﴾ میں ( لَہٗ) معمول ہے اور(مُسْلِمُوْنَ)عامل ہے۔ (اس انداز بیان سے اختصاص کا فائدہ حاصل ہوتا ہے۔)
یہ آیت کریمہ اپنے ایجاز و اختصا رکے باوجود توحید کی تینوں اقسام پر مشتمل ہے۔ وہ ہیں توحید ربوبیت، توحید الوہیت اور توحید اسماء و صفات۔
یہ آیت کریمہ تمام انبیاء و رسل علیہ السلام اور تمام کتابوں پر ایمان لانے پر مشتمل ہے۔
یہ آیت کریمہ عموم کے بعد اس تخصیص پر مشتمل ہے جو فضیلت پر دلالت کرتی ہے۔
یہ آیت کریمہ دل، زبان اور جوارح کی تصدیق اور اخلاص اللہ پر مشتمل ہے۔
یہ آیت کریمہ سچے انبیاء و رسل اور جھوٹے مدعیان نبوت کے مابین فرق و امتياز کو شامل ہے۔
یہ آیت باری تعالیٰ کی اپنے بندوں کے لیے اس تعلیم پر مشتمل ہے کہ وہ (اپنے ایمان کا) کیسے اظہار کیا کریں، نیز اس کی رحمت اور بندوں پر اس کے احسان کو شامل ہے جو اس نے ان کو دینی نعمتوں سے نواز کر کیا، یہ نعمتیں انہیں دنیاوی اور آخروی سعادت کی منزل پر پہنچاتی ہیں۔ پس پاک ہے وہ ذات جس نے اپنی کتاب کو ایسا جامع بنایا کہ اس میں ہر چیز کی تفصیل ہے اور اہل ایمان کے لیے ہدایت اور رحمت ہے۔ |
البقرة |
137 |
یعنی اے اہل ایمان ! اگر اہل کتاب اسی طرح ایمان لے آئیں جس طرح تم تمام انبیاء و مرسلین علیہ السلام اور تمام کتابوں پر ایمان لائے ہو، جن میں سب سے پہلے اور سب سے اولیٰ ہستی جس پر ایمان لایا جائے، حضرت محمد مصطفی خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں جو تمام انبیاء سے افضل ہیں۔ نیز اللہ تعالیٰ کی کتاب قرآن ہے اور انہوں نے اللہ وحدہ کے سامنے سر تسلیم خم کردیا اور اللہ تعالیٰ کے رسولوں میں سے کسی کے درمیان تفریق نہیں کی۔ ﴿فَقَدِ اھْتَدَوْا﴾تو ان کو سیدھے راستے کی طرف رہنمائی مل گئی جو نعمتوں والی جنت تک پہنچانے والا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ان کے لیے اس ایمان کے بغیر ہدایت تک پہنچنے کا کوئی راستہ نہیں۔ اس ہدایت کا راستہ وہ نہیں جو وہ دعویٰ کرتے ہیں۔﴿کُوْنُوْا ھُوْدًا اَوْ نَصٰرٰی تَہْتَدُوْا﴾ یعنی یہودی یا نصرانی ہوجاؤ تو تم راہ راست پالو گے پس وہ اس زعم میں مبتلا ہیں کہ ہدایت تو صرف وہی ہے جس پر وہ عمل پیرا ہیں۔
اور (الھُدیٰ) ” ہدایت“ نام ہے حق کو جاننے اور اس پر عمل کرنے کا اور اس کی ضد علم سے محرومی اور علم کے بعد عملی گمراہی ہے اور یہی وہ شقاق (دشمنی اور مخالفت) ہے جس پر وہ قائم تھے، کیونکہ وہ پیٹھ پھیر کر روگردانی کر رہے تھے۔ پس مبتلائے شقاق وہ شخص ہے جو ایک طرف ہوتا ہے اور اللہ اور اس کا رسول دوسری طرف۔ اس شقاق (مخالفت) سے دشمنی اور انتہا درجے کی عداوت لازم آتی ہے جس کے لوازمات میں یہ چیز بھی شامل ہے کہ عداوت میں مبتلا لوگ رسول کو اذیت دینے میں اپنی پوری کوشش صرف کرتے ہیں۔
بنا بریں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وعدہ کیا کہ وہ دشمنوں کے مقابلے میں ان کے لیے کافی ہے کیونکہ وہ لوگوں کے اختلاف زبان اور ان کی متنوع حاجات وضروریات کے باوجود سب کی آوازیں سنتا ہے۔ جو کچھ ان کے سامنے ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہو وہ سب جانتا ہے۔ غائب اور شاہد، ظاہر اور باطن سب اس کے دائرہ علم میں ہیں۔ پس جب بات اس طرح ہے تو ان کے شر کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ تیرے لیے کافی ہوگا۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کیا ہوا اپنا وعدہ پورا کر دکھایا، آپ کو ان پر غلبہ اور تسلط عطا کیا یہاں تک کہ ان میں سے بعض لوگوں کو قتل کیا، بعض کو قیدی اور غلام بنا لیا گیا اور بعض کو جلا وطن کر کے انہیں پوری طرح تتر بتر کردیا گیا۔
اس آیت کریمہ میں قرآن کے معجزات میں سے ایک معجزے کی طرف اشارہ ہے او وہ ہے کسی چیز کے واقع ہونے سے قبل اس کے وقوع کے بارے میں خبر دینا پھر اس کا عین دی ہوئی خبر کے مطابق واقع ہونا۔ |
البقرة |
138 |
یعنی اللہ کا رنگ اختیار کرلو، اللہ کے رنگ سے مراد اللہ کا دین ہے، اس کے تمام ظاہری، باطنی اعمال اور تمام اوقات میں اس کے تمام عقائد پر عمل کرو یہاں تک کہ یہ دین تمہارا رنگ اور تمہاری صفات میں سے ایک صفت بن جائے۔ پس جب یہ دین تمہاری صفت بن جائے گا تو یہ تمہارے لیے اس بات کو ضروری کر دے گا کہ تم خوشی، اختیار اور محبت سے اللہ کے حکموں کے آگے سرتسلیم خم کر دو اور دین تمہاری فطرت اور طبیعت بن جائے گا۔ جیسے کپڑے کو مکمل طور پر رنگ دیا جائے تو یہ رنگ اس کپڑے کی صفت بن جاتا ہے، تب تمہیں دنیاوی اور آخروی سعادت حاصل ہوجائے گی، کیونکہ دین مکارم اخلاق، محاسن اعمال اور بلند متربہ امور کو اختیار کرنے پر آمادہ کرتا ہے۔
بنابریں اللہ تعالیٰ نے برسبیل تعجب، پاک اور طاہر عقلوں سے مخاطب ہو کر فرمایا : ﴿صِبْغَۃَ اللّٰہِ ۚ وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰہِ صِبْغَۃً﴾ یعنی کوئی اور رنگ اللہ کے رنگ سے اچھا نہیں۔ جب تم کوئی ایسی مثال دیکھنا چاہو جو تمہارے سامنے اللہ کے رنگ اور کسی اور رنگ کے مابین فرق کو واضح کرے تو تم کسی چیز کا اس کی ضد کے ساتھ مقابلہ کر کے دیکھو۔
آپ اس بندہ مومن کو کیسا دیکھتے ہیں جو اپنے رب پر صحیح ایمان رکھتا ہے اور اس ایمان کے ساتھ ساتھ اس کا قلب اپنے رب کے سامنے جھک جاتا ہے اور جوارح اس کی اطاعت کرتے ہیں، پس بندہ مومن ہر اچھے وصف، خوبصورت فعل، کامل اخلاق اور بلند صفات کے زیور سے اپنے آپ کو آراستہ کرنے اور گندی صفات، رذیل عادات اور دیگر تمام عیوب سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ پس قول و فعل میں سچائی، صبر، بردباری، پاکبازی، شجاعت، قولی و فعلی احسان، محبت الٰہی، خشیت الٰہی، اللہ کا خوف اور اس سے امیدرکھنا، اس کا وصف بن جاتا ہے۔ پس اس کا حال معبود کے لیے اخلاص اور اس کے بندوں کے لیے حسن سلوک ہوجاتا ہے۔ اس کا مقابلہ اس بندے کے ساتھ کیجیے جس نے اپنے رب کا انکار کیا، اس سے منہ موڑ کر مخلوق کی طرف متوجہ ہوا اور کفر، شرک، جھوٹ، خیانت، مکرو فریب، دھوکہ، بد کرداری اور اپنے اقوال و افعال کے ذریعے سے مخلوق کے ساتھ برے سلوک جیسی صفات قبیحہ سے اپنے آپ کو متصف کیا۔ اس بندے میں اپنے معبود کے لیے اخلاص ہے نہ اس کے بندوں کے لیے حسن سلوک کا اہتمام۔
اس سے آپ کے سامنے وہ عظیم فرق ظاہر ہوجاتا ہے جو ان دو بندوں کے درمیان ہے اور آپ پر یہ حقیقت بھی واضح ہوجاتی ہے کہ کوئی دوسرا رنگ اللہ کے رنگ سے اچھا نہیں نیز ضمنی طور پر اس میں اس بات کی بھی دلیل ہے کہ جس نے اللہ کے دین کے سوا کوئی اور رنگ اختیار کیا اس سے بدتر کوئی اور رنگ نہیں۔
اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿وَّنَحْنُ لَہٗ عٰبِدُوْنَ﴾میں اس رنگ کی توضیح ہے۔ اللہ کا رنگ درحقیقت دو بنیادوں کو قائم کرنا ہے، یعنی اخلاص اور متابعت کیونکہ ” عبادت“ ان تمام اعمال اور ظاہری و باطنی اقوال کا جامع نام ہے جنہیں اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے اور وہ ان پر راضی ہے۔ یہ اعمال و اقوال اس وقت تک درست قرار نہیں پاتے جب تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے رسول کی زبان پر مشروع قرار نہ دیا ہو۔ اخلاص یہ ہے کہ بندہ مومن ان اعمال میں صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کو اپنا مقصد بنائے۔ پس معمول کو مقدم رکھنا یعنی ” عَابِدُوْنَ لَہ “ کی بجائے ” لَہ عَابِدُوْنَ “ کہنا) حصر کا فائدہ دیتا ہے۔
﴿وَّنَحْنُ لَہٗ عٰبِدُوْنَ﴾اللہ تعالیٰ نے ان کو اسم فاعل (عَابِدُوْنَ) سے موصوف کیا ہے جو ثبات و استقرار پر دلالت کرتا ہے تاکہ یہ لفظ ان کے اس صفت سے متصف ہونے پر دلالت کرے۔ |
البقرة |
139 |
(مَحَاجَۃٌ) دو یا دوسے زائد افراد کے درمیان اس مباحثہ اور مجادلہ کو کہا جاتا ہے جس کا تعلق اختلافی مسائل سے ہوتا ہے، ہر فریق اپنے مدمقابل کے خلاف اپنی بات میں کامیابی حاصل کرنا اور مدمقابل کے قول کا ابطال کرنا چاہتا ہے۔ اس لیے دونوں ہی دلیل قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس میں مطلوب یہ ہے کہ یہ مباحثہ نہایت احسن طریقے سے ہو۔ قریب ترین راستے کے ذریعے سے گمراہ کو حق کی طرف لوٹایا جائے۔ فریق مخالف کے سامنے دلیل بیان کر کے حق اور باطل کو واضح کردیا جائے۔ اگر آپ ان مذکورہ امور سے باہر نکل جائیں تو مباحثہ نہیں بلکہ جھگڑا کہلائے گا، یہ ایک مخاصمت ہوگی جس میں کوئی بھلائی نہیں ہوتی اور اس جھگڑے اور مخاصمت سے برائی جنم لیتی ہے۔
پس اہل کتاب اس زعم باطل میں مبتلا تھے کہ مسلمانوں کی نسبت، وہ اللہ تعالیٰ کے زیادہ قریب ہیں۔ یہ ان کا محض دعویٰ تھا جو دلیل اور برہان کا محتاج تھا۔۔۔ جب تمام لوگوں کا رب ایک ہے تمہارا کوئی اور رب نہیں۔ ہم اور تم میں سے ہر شخص کا اپنا اپنا عمل ہے، تو اعمال بجا لانے میں ہم اور آپ برابر ہیں۔ پس یہ چیز اس بات کی ہرگز موجب نہیں کہ ہم میں سے کوئی، دوسرے سے زیادہ، اللہ تعالیٰ کے قریب ہے۔ کیونکہ کسی مشترک چیز میں بغیر کسی مؤثر فرق کے تفریق کرنا محض باطل دعویٰ ایک جیسی دو چیزوں کے مابین تفریق پیدا کرنا اور کھلا انکار حق ہے۔
فضیلت تو صرف اللہ تعالیٰ کے لیے خالص اعمال کے ذریعے سے حاصل ہوتی ہے اور یہ حالت صرف اہل ایمان کا وصف ہے اور اس سے یہ بات متعین ہوجاتی ہے کہ اہل ایمان ہی دوسرے لوگوں کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ کے زیادہ قریب ہیں، اس لیے کہ اخلاص ہی نجات کا راستہ ہے۔ یہی وہ حقیقی اوصاف ہیں جن سے اولیاء الرحمٰن اور اولیاء الشیطان کے مابین فرق ہوتا ہے جنہیں تمام عقلمند لوگ تسلیم کرتے ہیں اور جاہل منکر حق کے سوا کوئی اس میں نزاع پیدا نہیں کرتا۔
اس آیت کریمہ میں نہایت لطیف طور پر طریق مباحثہ کی طرف راہنمائی کی گئی ہے۔ نیز یہ کہ تمام امور اس اصول پر مبنی ہیں کہ دو متماثل اشیاء ایک جیسی ہوتی ہیں اور دو مختلف اشیاء میں فرق ہوتا ہے۔ |
البقرة |
140 |
یہ ان کی طرف سے ایک اور دعویٰ اور اللہ تعالیٰ کے رسولوں کے بارے میں ایک اور مباحثہ ہے۔ انہوں نے گمان کیا کہ وہ مسلمانوں کی نسبت مذکورہ رسولوں کے زیادہ قریب ہیں تو اللہ تعالیٰ نے ان کی تردید کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ءَاَنْتُمْ اَعْلَمُ اَمِ اللّٰہُ ﴾ ” کیا تم زیادہ جانتے ہو یا اللہ؟“ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿َا کَانَ اِبْرٰہِیْمُ یَہُوْدِیًّا وَّلَا نَصْرَانِیًّا وَّلٰکِنْ کَانَ حَنِیْفًا مُّسْلِمًا٠ۭ وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ٦٧﴾ ” ابراہیم یہودی تھے نہ نصرانی بلکہ وہ یکسو مسلمان تھے اور مشرکین میں سے بھی نہ تھے۔“ اور وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ابراہیم علیہ السلام یہودی یا نصرانی تھے۔ اس بارے میں یا تو وہ سچے اور علم سے بہرہ ور ہیں یا اللہ تعالیٰ زیادہ جاننے والا اور سچا ہے ان دو باتوں میں سے لامحالہ صرف ایک ہی بات صحیح ہے۔
جواب کی صورت مبہم ہے مگر جواب درحقیقت بہت واضح ہے حتیٰ کہ جواب میں یہ بھی کہنے کی ضرورت پیش نہ آئی ” بلکہ اللہ تعالیٰ زیادہ علم رکھنے والا اور زیادہ سچا ہے“ کیونکہ یہ جواب ہر شخص پر واضح ہے۔
مثلاً جب یہ کہا جائے کہ رات زیادہ روشن ہے یا دن؟ آگ زیادہ گرم ہے یا پانی؟ اور شرک زیادہ اچھی چیز ہے یا توحید؟ اور اس قسم کا کوئی اور سوال (اس کا جواب اتنا واضح ہے کہ جواب دینے کی ضرورت نہیں رہتی۔) ایک ادنیٰ سی عقل رکھنے والا شخص بھی جانتا ہے حتیٰ کہ یہ خود بھی جانتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور دیگر انبیاء یہودی تھے نہ نصرانی، انہوں نے اس علم اور اس گواہی کو چھپانے کے گناہ کا ارتکاب کیا، لہٰذا ان کا ظلم سب سے بڑا ظلم ہے۔
بنابریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ کَتَمَ شَہَادَۃً عِنْدَہٗ مِنَ اللّٰہِ﴾” اس سے بڑا ظالم کون ہے جو اس شہادت کو چھپائے جو اللہ کی طرف سے اس کے پاس ہے“ پس یہ شہادت جو ان کے پاس تھی، اللہ کی طرف سے ان کے سپرد کی گئی تھی نہ کہ مخلوق کی طرف سے۔ اس لیے اس کی ادائیگی کا اہتمام کرنا ضروری تھا، لیکن انہوں نے اسے چھپایا اور اس کے برعکس باتوں کو ظاہر کیا۔
چنانچہ انہوں نے حق کے چھپانے، اسے بیان نہ کرنے اور اظہار باطل اور اس کی طرف دعوت دینے کو ایک جگہ جمع کردیا۔ کیا یہ سب سے بڑا ظلم نہیں؟ کیوں نہیں اللہ کی قسم ! یہ سب سے بڑا ظلم ہے اس پر انہیں سخت سزا کا سامنا کرناپڑے گا۔ اس لیے اللہ تبارک تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَمَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ﴾”وہ تمہارے اعمال سے غافل نہیں“ بلکہ اس نے تمہارے اعمال کو شمار کر کے محفوظ کرلیا ہے اور ان کی جزا بھی محفوظ کی ہوئی ہے۔ پس ان کی جزا بہت بری جزا ہے اور بری ہے جہنم کی آگ، جو ظالموں کا ٹھکانا ہے۔
قرآن کریم کا طریقہ یہ ہے کہ وہ ان آیات کریمہ کے بعد اللہ تعالیٰ کے علم اور قدرت کا ذکر کرتا ہے جن میں ان اعمال کا ذکر کیا گیا ہوتا ہے جن پر جزا و سزا مرتب ہوتی ہے پس ان آیات کریمہ کے عقب میں اللہ تعالیٰ کے علم اور قدرت کا ذکر کرنا وعدہ و وعید اور ترغیب و ترہیب کا فائدہ دیتا ہے۔ نیز احکام کے عقب میں اسمائے حسنیٰ کا ذکر کرنا اس امر کا فائدہ دیتا ہے کہ امر دینی و جزائی اسمائے حسنیٰ کے آثار اور اس کے موجبات میں سے ہے اوراسمائے حسنیٰ اس امر دینی و جزائی کا تقاضا کرتے ہیں۔ |
البقرة |
141 |
اس کی تفسیر گزشتہ صفحات میں گزر چکی ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس کا مکرر ذکر اس لیے فرمایا کہ وہ مخلوق سے اپنا تعلق منقطع کرلیں۔ بھروسہ صرف اسی عمل اور اسی صفت پر کرنا چاہئے جس سے انسان خود متصف ہو، نہ کہ اپنے اسلاف اور اپنے آباؤ و اجداد کے اعمال پر کیونکہ اپنے اعمال ہی حقیقی فائدہ دیتے ہیں نہ کہ بڑے انسانوں کی طرف انتساب محض۔ |
البقرة |
142 |
پہلی آیت ایک معجزے، تسلی اور اہل ایمان کے دلوں کو مطمئن کرنے، ایک اعتراض اور تین وجوہ سے اس کے جواب، اعتراض کرنے والے کی صفت اور اللہ تعالیٰ کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کرنے والے کی صفت پر مشتمل ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے خبر دی کہ عنقریب بیوقوف لوگ اعتراض کریں گے اور یہ وہ لوگ ہوں گے جو اپنے نفس کے مصالح کو نہیں پہچانتے بلکہ انہیں ضائع کردیتے ہیں اور انہیں نہایت کم قیمت پر فروخت کردیتے ہیں یہ یہود و نصاریٰ اور وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے احکام اور اس کی شریعت پر اعتراض کرنے میں ان سے مشابہت رکھتے ہیں۔ ان کے اعتراض کی بنیاد یہ بنی کہ مسلمان جب تک مکہ مکرمہ میں مقیم رہے ان کو بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کا حکم تھا۔ پھر مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرنے کے بعد بھی تقریباً ڈیڑھ سال تک بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے رہے۔ اس میں بھی اللہ تعالیٰ کی حکمتیں تھیں جن میں سے بعض کی طرف اللہ تعالیٰ کے اشارے کا تذکرہ عن قریب ہوگا اور کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کا حکم بھی اس کی حکمت کا تقاضا تھا۔
پس اللہ تعالیٰ نے خبر دی کہ بیوقوف لوگ ضرور یہ کہیں گے ﴿مَا وَلّٰیہُمْ عَنْ قِبْلَتِہِمُ الَّتِیْ کَانُوْاعَلَیْہَا ﴾” ان کو کس چیز نے اس قبلے سے پھیر دیا جس پر وہ تھے“ مراد بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنا تھا، یعنی کس چیز نے ان کو بیت المقدس کی طرف منہ کرنے سے پھیر دیا۔ اس میں اللہ تعالیٰ کے حکم، اس کی شریعت اور اس کے فضل و احسان پر اعتراض ہے اللہ تعالیٰ نے اس اعتراض کے وقوع کے بارے میں خبر دے کر اہل ایمان کو تسلی دی ہے کہ یہ اعتراض صرف وہی لوگ کریں گے جو بیوقوف، یعنی قلیل العقل اور برد باری و دیانت سے محروم ہوں۔ اس لیے ان کی باتوں کی پروا نہ کرو، کیونکہ ان کا سرچشمہ کلام معلوم ہے۔ عقل مند شخص بیوقوف کے اعتراض کی پروا نہیں کرتا اور نہ اس کی طرف دھیان دیتا ہے۔
یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام پر صرف وہی شخص اعتراض کرتا ہے جو بیوقوف، جاہل اور عناد رکھتا ہو اور رہا عقل مند اور ہدایت یافتہ مومن تو وہ اپنے رب کے احکام اطاعت اور تسلیم و رضا کے جذبے سے قبول کرتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّـهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِم﴾(الاحزاب : 33؍ 36) ” کسی مومن مرد اور مومن عورت کو یہ حق حاصل نہیں کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی معاملے میں کوئی فیصلہ کردیں تو اس معاملے میں وہ اپنا بھی کوئی اختیار سمجھیں۔“﴿فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ﴾(سورۃ نساء : 4؍ 65) ” ہرگز نہیں، تیرے رب کی قسم ! لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ اپنے تنازعات میں تجھے حکم (فیصلہ کرنے والا) نہ بنائیں۔“ نیز فرمایا : ﴿إِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِينَ إِذَا دُعُوا إِلَى اللَّـهِ وَرَسُولِهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ أَن يَقُولُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا﴾(النور: 24؍ 51) ” اہل ایمان کی تو یہ بات ہے کہ جب انہیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جاتا ہے، تاکہ اللہ کا رسول ان کے درمیان فیصلہ کرے تو وہ کہیں کہ ہم نے سنا اور ہم نے اطاعت کی۔ “
اللہ تعالیٰ کا ان کے لیے ﴿السُّفَہَاۗءُ﴾ ” بے وقوف“ کا لفظ استعمال کرنا اس بات کے سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ ان کا اعتراض غیر معقول ہے جس کے جواب کی ضرورت ہے نہ اس کی پروا کرنے کی، لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کے باوجود اس شب ہے کو یوں ہی نہیں چھوڑا، بلکہ اس کا ازالہ فرمایا اور بعض دلوں میں جو اعتراض پیدا ہوسکتا تھا اسے یہ کہہ کر دور فرما دیا۔ ﴿ قُلْ﴾ ان کو جواب دیتے ہوئے کہہ دیجئے !﴿لِّلّٰہِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ ۭ یَہْدِیْ مَنْ یَّشَاۗءُ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ﴾” مشرق و مغرب اللہ ہی کے ہیں، وہ جسے چاہتا ہے، سیدھے راستے کی رہنمائی فرما دیتا ہے۔ “
یعنی جب مشرق و مغرب کا مالک اللہ تعالیٰ ہے اور تمام جہات میں سے کوئی جہت بھی اللہ تعالیٰ کی ملکیت سے باہر نہیں اور اس کے باوجود وہ جسے چاہتا ہے سیدھی راہ دکھاتا ہے اور اس قبلہ کی طرف راہنمائی بھی اسی کی طرف سے ہے، جو ملت ابراہیم کا حصہ ہے۔ پس معترض، تمہارے اس قبلہ کی طرف منہ کرلینے کی وجہ سے جو اللہ تعالیٰ کی ملکیت میں داخل ہے، کسی وجہ سے یہ اعتراض کرتا ہے کہ تم نے ایسی جہت کی طرف رخ کیوں کیا جو اس کی ملکیت نہیں؟ یہ ایک وجہ ہی اس کے حکم کے تسلیم کرنے کو واجب کردینے والی ہے، تو اس وقت اسے کیوں کر تسلیم نہیں کیا جائے گا، جب کہ تم پر یہ اللہ کا فضل و احسان ہے کہ اس نے تمہیں اس کی ہدایت نصیب فرمائی۔ پس تم پر اعتراض کرنے والا دراصل اللہ کے فضل پر اعتراض کر رہا ہے، محض تم پر حسد اور ظلم کا ارتکاب کرتے ہوئے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد﴿یَہْدِیْ مَنْ یَّشَاۗءُ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ﴾ مطلق ہے اور مطلق کو مقید پر محمول کیا جاتا ہے۔ اس لیے کہ ہدایت اور گمراہی کے کچھ اسباب ہیں جن کا موجب اللہ تعالیٰ کی حکمت اور اس کا عدل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں ایک سے زیادہ مقامات پر ہدایت کے اسباب بیان کیے ہیں، بندہ جب ان اسباب کو اختیار کرتا ہے، تو اسے ہدایت حاصل ہوجاتی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ﴿يَهْدِي بِهِ اللَّـهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهُ سُبُلَ السَّلَامِ﴾(سورۃ مائدہ 16) ” اس کے ذریعے سے اللہ اپنی رضا کی پیروی کرنے والوں کو سلامتی کی راہیں دکھاتا ہے۔“ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اس سبب کا ذکر فرمایا ہے جو اس امت کے لیے ہدایت کی تمام انواع کی طرف راہنمائی کا موجب ہے۔ |
البقرة |
143 |
اس امت پر یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے اسے امت وسط بنایا۔ فرمایا :﴿وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا﴾ ” اور اس طرح ہم نے تم کو امت معتدل بنایا۔“ یعنی معتدل اور بہترین امت“ ” وسط“ کے علاوہ اور اطراف خطرے کی زد میں ہیں اللہ تعالیٰ نے دین کے ہر معاملے میں اس امت کو معتدل امت بنایا ہے۔ انبیائے کرام کے ساتھ عقیدت کے حوالے سے بھی امت مسلمہ کو ان امتوں کے مابین معتدل امت بنایا ہے جو انبیاء علیہم السلام کے بارے میں غلو سے کام لیتے ہیں جیسے عیسائی ہیں اور انبیاء علیہم السلام کے ساتھ ظلم و جفا کرنے والوں کے مابین بھی اسے معتدل امت بنایا کہ وہ سب پر اس طرح ایمان لائے جو ان کی شان کے لائق ہے۔ جب کہ یہودیوں نے انبیاء علیہم السلام کی توہین و تنقیص کی۔ امت مسلمہ شریعت کے اعتبار سے بھی امت وسط ہے اس میں نہ تو یہودیوں کی شریعت کی سی سختی اور بوجھ ہے اور نہ عیسائیوں کی سی نرمی اور لا پرواہی۔ طہارت اور مطعومات کے باب میں بھی۔ نہ یہودیوں کی طرح (سختی ہے) جن کے ہاں ان کی عبادت گاہ اور کنیسہ کے سوا کہیں نماز نہیں ہوتی۔ پانی ان کو نجاستوں سے پاک نہیں کرسکتا۔ سزا کے طور پر ان پر طیبات حرام ٹھہرا دی گئیں اور نہ نصاریٰ کی مانند (نرمی ہے) کہ وہ کسی چیز کو نجس ہی نہیں مانتے اور نہ ان کے ہاں کوئی چیز حرام ہے بلکہ انہوں نے ہر چیز کو حلال ٹھہرا لیا ہے، بلکہ اہل ایمان کی طہارت کامل ترین طہارت ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کے لیے ہر قسم کی طیب و طاہر مطعومات، شمروبات، ملبوسات اور پاک عورتیں مباح ٹھہرا دی ہیں اور تمام خبائث ان کے لیے حرام قرار دے دیئے۔ بنا بریں اس امت کا دین سب سے کامل، اس کے اخلاق سب سے اچھے اور اس کے اعمال سب سے افضل ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس امت کو علم و حلم اور عدل و احسان سے جس طرح نوازا ہے، اس طرح ان کے علاوہ کسی اور امت کو یہ چیزیں عطا نہیں کیں۔ اس لیے وہ﴿اُمَّۃً وَّسَطًا﴾” امت وسط“ یعنی کامل اور معتدل امت کہلانے کی مستحق ہے۔﴿شُہَدَاۗءَ عَلَی النَّاسِ﴾ تاکہ وہ اپنی عدالت اور عدل و انصاف کے ساتھ فیصلے کرنے کے سبب سے لوگوں پر گواہ ہوں اور وہ تمام اہل ادیان کے لوگوں سے متعلق فیصلے کریں اور ان کی بابت دوسرے فیصلے نہ کریں۔
پس جس چیز کی بابت یہ امت قبولیت کی شہادت دے، وہی مقبول اور جسے رد کرنے کی گواہی دے، وہ مردود ہے۔ اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ دوسروں کے بارے میں ان کا فیصلہ کیسے قابل قبول ہے حالانکہ تنازع میں دونوں ایک دوسرے کے مخالف فریق ہیں اور فریقین کا قول ایک دوسرے کے خلاف قابل قبول نہیں ہوتا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ کسی تنازع میں فریقین کا قول ایک دوسرے کے خلاف وجود تہمت کی وجہ سے قابل قبول نہیں ہوتا مگر جب تہمت کا شائبہ ختم ہوجائے اور عدالت کامل حاصل ہوجائے، جیسا کہ یہ امت عدالت کامل کی حامل ہے۔ مقصد تو حق اور انصاف کے ساتھ فیصلہ کرنا ہے اور اس کی شرط علم و عدل ہے اور یہ دونوں چیزیں اس امت میں موجود ہیں۔ اس لیے اس امت کا قول قابل قبول ہے۔
اگر کوئی شک کرنے والا اس امت کی فضیلت میں شک کرے اور اس کے لیے تزکیہ کرنے والے کا مطالبہ کرے، تو اس کا تزکیہ کرنے والے اس امت کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام مخلوقات میں ایک کامل ترین ہستی ہیں اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَیَکُـوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَہِیْدًا ۭ﴾ ” اور رسول تم پر گواہ ہوگا‘‘ اس امت کی دوسری قوموں پر گواہی اس طرح ہوگی کہ قیامت کے روز جب اللہ تعالیٰ انبیاء مرسلین سے ان کی تبلیغ کے بارے میں سوال کرے گا اور ان کی امتیں اس تبلیغ کی تکذیب کریں گی اور کہیں گی کہ انبیاء و مرسلین سے ان کی تبلیغ کے بارے میں سوال کرے گا اور ان کی امتیں اس تبلیغ کی تکذیب کریں گی اور کہیں گی کہ انبیاء و مرسلین نے اللہ تعالیٰ کا پیغام ہم تک نہیں پہنچایا، تو انبیائے کرام علیہم السلام اس امت سے گواہی لیں گے اور ان کا نبی ان کا تزکیہ کرے گا۔ اس آیت کریمہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ امت مسلمہ کا اجماع قطعی حجت اور دلیل ہے، کیونکہ یہ امت (مجموعی طور پر) ﴿وَّسَطًا﴾” امت وسط“ کے اطلاق کی بنا پر خطا سے معصوم ہے۔ اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ امت مسلمہ خطا پر متفق ہوسکتی ہے تو یہ ” امت وسط“ نہ رہے گی۔ سوائے چند امور کے ﴿لِّتَکُوْنُوْا شُہَدَاۗءَ عَلَی النَّاسِ ﴾ ” تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو۔“ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان تقاضا کرتا ہے کہ جب وہ کسی فیصلہ کے متعلق گواہی دے دیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو حلال قرار دیا ہے یا اس کو حرام قرار دیا ہے یا اسے واجب کیا ہے، تو یہ درست ہے اس لیے کہ یہ امت اس بارے میں معصوم ہے۔ اس آیت کریمہ میں اس بات کی بھی دلیل ہے کہ فیصلہ کرنے، گواہی دینے اور فتوی وغیرہ دینے کے لیے عدالت شرط ہے۔
یعنی اسلام کے ابتدائی دنوں میں بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کے حکم سے مقصود یہ تھا۔ ﴿ اِلَّا لِنَعْلَمَ﴾” تاکہ ہم جان لیں“ یعنی ایسا جاننا جس سے ثواب و عقاب متعلق ہے۔ [ مصنف رحمہ اللہ تعالیٰ کا قول ” ایسا علم جس سے ثواب و عقاب متعلق ہے“ ایک مبہم عبارت ہے جو وضاحت کی محتاج ہے ہم ائمہ تفسیر امام نسفی، امام ابوالسعود، امام ابن کثیر اور امام ابوحیان رحمہم اللہ نے جو کچھ اپنی تفاسیر میں بیان کیا ہے یہاں ذکر کرتے ہیں پس ہم کہتے ہیں کہ (لنعلم) کا مطلب ہے، تاکہ ہم اتباع کرنے والے اور منہ موڑنے والے کے درمیان امتیاز کرسکیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اہل ایمان کے سامنے ان کا حال منکشف ہوجائے، جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے :﴿حَتَّىٰ يَمِيزَ الْخَبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِ﴾( آل عمران:3؍ 179) ” حتیٰ کہ پاک میں سے ناپاک ممیز ہوجائے“ پس اللہ تعالیٰ نے ” علم“ کو ”تمیز‘‘ کی جگہ میں استعمال کیا ہے، کیونکہ علم ہی سے تمیز ہوتی ہے اور وہی تمیز کا سبب ہے۔ لہٰذا سبب یعنی علم کا اطلاق کر کے مسبب یعنی تمیز مراد لی گئی ہے۔ ہمارے اس موقف کی تائید ایک قراءت سے بھی ہوتی ہے ﴿لِیُعْلَمَ﴾ یعنی ” نون“ کی بجائے ” یا“ اور صیغہ مجہول کے ساتھ۔ (تاکہ جان لیا جائے) اللہ تعالیٰ نے بندوں کے علم کو اپنی طرف اسناد کیا ہے، کیونکہ وہ اس کے خاص بندے ہیں، یا یہ ملاطفت خطاب ہے، مثلاً آپ اس شخص سے جو سونے کے پگھلنے کا منکر ہے، کہتے ہیں ’’ہم سونے کو آگ میں ڈالتے ہیں، تاکہ ہمیں معلوم ہوسکے کہ آیا سونا پگھلتا ہے یا نہیں۔ “
الجرالمحیط میں علامہ ابوحیان رحمہ اللہ رقم طراز ہیں ” اللہ تعالیٰ کے ارشاد ( لِنَعْلَمَ ) میں اس علم سے مراد ابتدائے علم ہے (یعنی پہلے سے ہی ہمیں معلوم تھا) اس کا ظاہر معنی مراد نہیں ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے علم کا حادث ہونا محال ہے۔ ( یعنی یہ ناممکن ہے کہ پہلے اللہ کے علم میں نہ ہو اور بعد میں اسے معلوم ہو) چنانچہ تاویل کرتے ہوئے مضاف کو محذوف مانا جائے گا۔ تب آیت کا مفہوم یہ ہوگا ” تاکہ ہمارا رسول اور اہل ایمان جان لیں“ ان کے علم کو اپنی ذات کی طرف منسوب کیا ہے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اہل ایمان اس کے مقرب بندے ہیں تب اس کا شمار مجاز حذف میں ہوگا یا علم کا اطلاق تمیز پر کیا گیا ہے کیونکہ علم ہی کی بنا پر تمیز ہوتی ہے۔ یعنی ” تاکہ ہم اتباع کرنے والے اور منہ موڑنے والے کے درمیان امتیاز کرلیں“ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿ حَتَّىٰ يَمِيزَ الْخَبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِ ﴾( آل عمران: 3؍ 179) ”حتیٰ کہ پاک میں سے ناپاک ممیز ہوجائے‘‘ اور اس طرح اس کا شمار اطلاق سبب کے مجاز میں سے ہوگا اور مراد اس سے مسبب ہوگا۔ یہ تاویل حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مردی ہے۔۔۔ یا اس سے ان کی اطاعت یا معصیت کے وقت اللہ تعالیٰ کے علم کا ذکر مراد ہے، کیونکہ اس وقت کے ساتھ ہی اس علم کا تعلق ثواب و عقاب سے ہوگا یا یہاں مستقبل سے ماضی مراد لیا ہے۔ تب مفہوم یہ ہوگا ”جب ہم نے جان لیا کہ رسول کی اتباع کون کرتا ہے اور اس کی مخالفت کون کرتا ہے۔“ (ملحضاً)
حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تفسیر میں یہ معنی بیان کرنے پر اکتفا کیا ہے اور یہ معنی بنایا ہے ” تاکہ اہل ایمان جان لیں اور کمزور ایمان والے لوگوں کا حال منکشف ہوجائے“ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ” اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! ہم نے تیرے لیے پہلے بیت المقدس کو قبلہ مقرر کیا تھا پھر ہم نے تجھے کعبہ کی طرف پھیر دیا، تاکہ ان لوگوں کا حال ظاہر ہوجائے جو تیری اتباع کرتے ہیں، تیری اطاعت کرتے ہیں اور تیرے ساتھ مل کر قبلہ کی طرف منہ کرتے ہیں اور ان لوگوں کا حال ظاہر ہوجائے جو الٹے پاؤں پھرجاتے ہیں۔ (حاشیہ : از محمد زہری النجار، من علمائے ازہر) ]
ورنہ اللہ تعالیٰ تمام امور کو ان کے وجود میں آنے سے قبل جانتا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ کے کامل عدل اور اپنے بندوں پر حجت قائم کرنے کی بنا پر اس علم کے ساتھ ثواب اور عقاب کا تعلق نہیں، بلکہ جب ان کے اعمال وجود میں آتے ہیں تب ان پر ثواب و عقاب مرتب ہوتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ہم نے یہ قبلہ صرف اس لیے مشروع کیا ہے، تاکہ ہم جان لیں اور آزما لیں ﴿مَنْ یَّتَّبِـــعُ الرَّسُوْلَ﴾ ” کون رسول کی اتباع کرتا ہے۔“ یعنی کون اس رسول پر ایمان لا کر ہر حال میں اس کی پیروی کرتا ہے، کیونکہ وہ بندہ مامور اور اللہ تعالیٰ کے دست تدبیر کے تحت ہے۔ نیز کتب سابقہ نے خبر دی ہے کہ نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کعبہ کو قبلہ بنائیں گے پس صاف انصاف جس کا مقصود و مطلوب محض حق ہے، اس سے اس کے ایمان اور اطاعت رسول میں اضافہ ہوتا ہے۔ رہا وہ شخص جو الٹے پاؤں پھر گیا اور اس نے حق سے روگردانی کی اور اپنی خواہش نفس کی پیروی کی تو اس کا کفر بڑھتا جاتا ہے اور اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے اور وہ شبہات پر مبنی باطل دلیل پیش کرتا ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی۔
﴿وَاِنْ کَانَتْ﴾ ” اور بلاشبہ یہ بات۔“ یعنی (عام لوگوں کے لیے) آپ کا بیت المقدس سے منہ پھیرنا ﴿لَکَبِیْرَۃً﴾” بہت شاق ہے“ ﴿اِلَّا عَلَی الَّذِیْنَ ھَدَی اللّٰہُ ۭ﴾ ” سوائے ان لوگوں کے جنہیں اللہ نے ہدایت دی“ اور انہوں نے اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو پہچان لیا، وہ اللہ تعالیٰ کے شکر گزار ہوئے اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کے اس احسان کا اقرار کیا کہ اس نے ان کا رخ اس عظیم گھر کی طرف پھیر دیا جسے اس نے روئے زمین کے تمام خطوں پر فضیلت عطا کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس گھر کا قصد کرنے کو ارکان اسلام میں سے ایک رکن اور گناہوں کو مٹانے والا بنایا ہے، اسی لیے اہل ایمان پر اس کا ماننا آسان ہوگیا اور ان کے سوا دیگر لوگوں پر رخ کی تبدیلی بہت شاق گزری۔ ﴿ وَمَا کَانَ اللّٰہُ لِـیُضِیْعَ اِیْمَانَکُمْ ۭ ﴾ ” اور اللہ ایسا نہیں کہ تمہارے ایمان کو یونہی ضائع کر دے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ کے لیے مناسب ہے نہ یہ اس کے ذات اقدس کے لائق ہے (کہ وہ تمہارے ایمان کو ضائع کرے) بلکہ ایسا کرنا تو اس پر ممتنع (ناممکن) ہے، پس اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ تمہارے ایمان کو ضائع کرنا اس کی ذات اقدس پر ممتنع اور محال ہے۔ یہ ان لوگوں کے لیے بہت بڑی بشارت ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے اسلام اور ایمان سے نواز کر ان پر احسان کیا کہ اللہ تعالیٰ ان کے ایمان کی حفاظت کرے گا اسے کبھی ضائع نہیں کرے گا۔
اللہ کا ایمان کی حفاظت کرنا دو طرح سے ہے:
(١) ان کو ہر فساد، ایمان میں نقص پیدا کرنے والی تکلیف وہ آزمائشوں اور ایمان سے روکنے والی خواہش نفس سے بچا کر ان کے ایمان کو ضائع اور باطل ہونے سے محفوظ رکھنا۔
(2) ایمان کی نشو و نما کے لیے ان کو ایسے اعمال کی توفیق عطا کرنا جن سے ان کے ایمان میں اضافہ اور یقین کامل حاصل ہوتا ہے۔ پس ابتدائی طور پر جس طرح اس نے ایمان کی طرف تمہاری راہنمائی کی، اسی طرح وہ تمہارے ایمان کی حفاظت کرے گا۔ اس کو اور اس کے اجر و ثواب کو نشو و نما دے کر اپنی نعمت کا اتمام کرے گا اور ایمان کو مکدر کرنے والے ہر عمل سے اس کی حفاظت کرے گا، بلکہ جب ایسی آزمائشیں آئیں جن سے مقصود سچے مومن کو جھوٹے دعوے دار سے الگ کرنا ہو، تو یہ آزمائشیں مومنوں کو کھرا ثابت اور ان کی سچائی کو ظاہر کر دیتی ہیں۔
گویا اس آیت میں اس بات سے احتراز (بچاؤ) ہے جو کہی جاسکتی تھی کہ اللہ کا قول ﴿ۭ وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَۃَ الَّتِیْ کُنْتَ عَلَیْہَآ اِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ یَّتَّبِـــعُ الرَّسُوْلَ مِمَّنْ یَّنْقَلِبُ عَلٰی عَقِبَیْہِ ۭ﴾۔ کبھی کبھی بعض مومنوں کے لیے ترک ایمان کا سبب بنتا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس وہم کا ازالہ کرتے ہوئے : ﴿وَمَا کَانَ اللّٰہُ لِـیُضِیْعَ اِیْمَانَکُمْ ۭ﴾ اس کا مفہوم یہ ہوگا کہ اس امتحان یا دیگر کسی آزمائش کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ تمہارے ایمان کو ضائع نہیں کرے گا۔ اس آیت کریمہ میں وہ تمام اہل ایمان بھی شامل ہیں جو تحویل قبلہ سے پہلے وفات پا چکے تھے، اللہ تعالیٰ ان کے ایمان کو ضائع نہیں کرے گا، کیونکہ انہوں نے اپنے وقت میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کی اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت یہی ہے کہ ہر وقت اس کے حکم کی پیروی کی جائے۔ اس آیت کریمہ میں اہل سنت و الجماعت کے اس مذہب کی دلیل ہے کہ ایمان میں اعمال جو ارح داخل ہیں۔
﴿ اِنَّ اللّٰہَ بِالنَّاسِ لَرَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ﴾ ” اللہ تو لوگوں پر بڑا مہربان اور صاحب رحمت ہے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ ان پر بہت زیادہ رحمت ورأفت کرنے والا ہے۔ یہ اس کی عظیم رحمت ورأفت ہے کہ اس نے اہل ایمان کو نعمت ایمان عطا کر کے اس نعمت کو مکمل کیا اور ان کو ان لوگوں سے علیحدہ کردیا جو ایمان کا صرف زبانی دعویٰ کرتے تھے۔ ان کے دل ایمان سے خالی تھے۔ نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ان کا امتحان لیا جس کے ذریعے سے ان کے ایمان میں اضافہ اور ان کے درجات بلند کیے اور سب سے زیادہ عزت و شرف کے حامل گھر کی طرف ان کا رخ موڑ دیا۔ |
البقرة |
144 |
اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرماتا ہے :﴿ قَدْ نَرٰی تَـقَلُّبَ وَجْہِکَ فِی السَّمَاۗءِ ۚ﴾ ” ہم تمہارا آسمان کی طرف منہ پھیر پھیر کر دیکھنا دیکھ رہے ہیں۔“ یعنی ہم آپ کو دیکھتے ہیں کہ آپ استقبال کعبہ کے بارے میں نزول وحی کے شوق اور انتظار میں اپنا منہ تمام جہات میں کثرت سے پھیرتے ہیں یہاں اللہ تعالیٰ نے ﴿وَجْهِكَ﴾ ارشاد فرمایا ہے ﴿بَصَرِكَ﴾ نہیں، کیونکہ اس سے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فکر و غم کی زیادتی کو بیان کرنا مقصود ہے، نیز چہرہ پھیرنا نظر پھیرنے کو بھی شامل ہے۔ ﴿فَلَنُوَلِّيَنَّكَ﴾” سو ہم آپ کو پھیر دیں گے۔“ یعنی چونکہ ہم آپ کے سرپرست اور مددگار ہیں اس لیے ہم ضرور آپ کا منہ پھیر دیں گے ﴿قِبْلَۃً تَرْضٰیھَا ۠﴾” اس قبلہ کی طرف جس کو آپ پسند کرتے ہیں۔“ یعنی ہم آپ کا منہ اس قبلہ کی طرف پھیر دیں گے جسے آپ پسند کرتے ہیں اور وہ ہے کعبہ شریف۔ اس آیت کریمہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شرف و فضیلت کا بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے پسندیدہ امر کے مطابق حکم نازل کرنے میں جلدی فرمائی۔ اس کے بعد اللہ نے آپ کو استقبال کعبہ کا صراحتاً حکم فرمایا۔ چنانچہ فرمایا : ﴿ فَوَلِّ وَجْہَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۭ﴾” پس اپنا چہرہ مسجد حرام کی طرف موڑ لیں“ (وَجْہٌ) سے مراد انسان کے بدن کے سامنے کا حصہ ہے۔ فرمایا : ﴿ وَحَیْثُ مَا کُنْتُمْ﴾” اور تم جہاں کہیں بھی ہو“ یعنی بحر و بر، مشرق و مغرب اور شمال و جنوب جہاں کہیں بھی ہو ﴿فَوَلُّوْا وُجُوْھَکُمْ شَطْرَہٗ ﴾” پس اپنے چہروں کو اس جہت کی طرف پھیر لو۔“ اس آیت کریمہ سے واضح ہے کہ تمام نمازوں میں، خواہ فرض ہوں یا نفل اگر عین کعبہ کی طرف منہ کرناممکن ہو تو اس کی طرف منہ کرنا فرض ہے ورنہ اس کی طرف اور جہت میں منہ کرلیناکافی ہے اور یہ کہ نماز کے اندر بدن کے ساتھ ادھر ادھر التفات کرنا نماز کو باطل کرنے والا عمل ہے، کیونکہ کسی چیز کی بات حکم دینا اس بات کی دلیل ہے کہ اس کی ضد ممنوع ہے۔
گزشتہ صفحات میں گزر چکا ہے کہ جہاں اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب وغیرہ میں سے اعتراض کرنے والوں کا ذکر کیا ہے وہاں ان کے اعتراض کا جواب بھی دیا ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے کہ اہل کتاب اور ان کے اہل علم جانتے ہیں کہ آپ اس معاملے میں واضح حق پر ہیں، کیونکہ انہیں اپنی کتابوں میں اس نبی کی نشانیاں ملتی ہیں۔ اس لیے وہ عناد اور سرکشی کی وجہ سے اعتراض کرتے ہیں۔ پس جب وہ اپنے کرتوتوں کی وجہ سے مبتلائے غم ہیں تو تم ان کے اعتراضات کی پروا نہ کرو۔ اس لیے کہ انسان کو صرف اس اعتراض کرنے والے کا اعتراض غم میں ڈالتا ہے، جب معاملہ مشتبہ ہو اور اس کا امکان ہو کہ صواب (صحیح بات) اس کے ساتھ ہو۔
لیکن جب یہ یقین ہوجائے کہ حق صواب اس شخص کے ساتھ ہے جس پر اعتراض کیا جا رہا ہے اور اعتراض کرنے والا محض عناد سے کام لے رہا ہے اور اسے یہ بھی علم ہے کہ معترض کا اعتراض باطل ہے تو اسے پروا نہیں کرنی چاہئے، بلکہ اسے انتظار کرنا چاہئے کہ معترض کو دنیاوی اور اخروی عقوبت کا ضرور سامنا کرنا پڑے گا۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿ وَمَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا یَعْمَلُوْنَ﴾ اللہ ان کے اعمال سے بے خبر نہیں“ بلکہ وہ ان کے اعمال کو محفوظ کرتا ہے اور ان کو ان کے اعمال کی جزا دے گا۔ اس آیت کریمہ میں اعتراض کرنے والوں کے لیے وعید اور اہل ایمان کے لیے تسلی ہے۔ |
البقرة |
145 |
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مخلوقات کی ہدایت کی بہت تمنا اور آرزو کیا کرتے تھے اور ان کی نہایت درجہ خیر خواہی کرتے تھے۔ نرمی اور پیار سے انہیں ہدایت کی راہ پر لانے کی کوششیں کیا کرتے تھے اور جب وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی اطاعت نہیں کرتے، تو یہ امر آپ کو نہایت غمگین کردیتا تھا۔ پس کافروں میں ایسے لوگ بھی تھے جنہوں نے اللہ کے حکم کے مقابلے میں سرتابی اختیار کی۔ اللہ تعالیٰ کے انبیاء و مرسلین علیہم السلام کے ساتھ تکبر سے پیش آئے اور جان بوجھ کر ظلم و عدوان کی بنا پر ہدایت کو چھوڑ دیا۔ انہی میں سے پہلے اہل کتاب، یعنی یہود و نصاریٰ ہیں جنہوں نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جہالت کی بنا پر نہیں، بلکہ یہ یقین رکھتے ہوئے انکار کیا کہ آپ نبی ہیں اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو آگاہ فرمایا : ﴿وَلَیِٕنْ اَتَیْتَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ بِکُلِّ اٰیَۃٍ ﴾” اگر آپ ان اہل کتاب کے پاس تمام نشانیاں بھی لے کر آئیں۔“ یعنی اگر آپ ان کے سامنے ہر قسم کی دلیل اور برہان پیش کردیں جو آپ کی بات اور دعوت کو واضح کردیں ﴿ مَّا تَبِعُوْا قِبْلَتَکَ ۚ﴾ ”تو بھی یہ آپ کے قبلے کی پیروی نہ کریں گے۔“ یعنی تب بھی وہ آپ کی اتباع نہیں کریں گے، کیونکہ قبلہ کی طرف منہ کرنا درحقیقت آپ کی اتباع کی دلیل ہے اور اس لیے کہ اصل سبب قبلے کا معاملہ ہے اور معاملہ واقعی ایسا ہے، کیونکہ وہ حق کے ساتھ عناد رکھتے ہیں انہوں نے حق کو پہچانا اور اسے چھوڑ دیا۔ پس اللہ تعالیٰ کی نشانیوں سے صرف وہی شخص فائدہ اٹھا سکتا ہے جو حق کا متلاشی ہو اور حق اس پر مشتبہ ہوگیا ہو، تب یہ آیات بینات اس پر حق کو واضح کردیتی ہیں اور جو کوئی اس بات پر اڑ جاتا ہے کہ وہ حق کی اتباع نہیں کرے گا تو اسے حق کی طرف لانے کی کوئی صورت نہیں۔
نیز ان میں آپس میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے اور وہ ایک دوسرے کے قبلہ کی پیروی نہیں کرتے۔ یہ سب کچھ ہوتے ہوئے اے محمد ! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ کوئی تعجب خیز بات نہیں کہ وہ آپ کے قبلہ کی پیروی نہیں کرتے، کیونکہ وہ دشمن اور حاسد ہیں اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿وَمَآ اَنْتَ بِتَابِــعٍ قِبْلَتَہُمْ ۚ﴾ (وَ لَا تَتَّبِع) سے زیادہ بلیغ ہے، کیونکہ یہ لفظ اس بات کو متضمن ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی مخالفت سے متصف ہیں، پس آپ سے اس کا وقوع ممکن نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا (وَلَوْ اَتَوْابِکُلِّ اٰیَۃ) کیونکہ ان کے پاس اپنے موقف کو ثابت کرنے کے لیے کوئی دلیل ہی نہیں۔
اسی طرح جب یقینی دلائل و براہین سے حق واضح ہوجاتا ہے، تو اس پر وارد شبہات کا جواب دینا لازم نہیں، کیونکہ ان شبہات کی تو کوئی حد نہیں اور ان کا بطلان واضح ہے، کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ جو چیز واضح حق کے منافی ہو وہ باطل ہوتی ہے۔ تب شبہ کو حل کرنا تبرع کے زمرے میں آئے گا۔ (یعنی بغیر ضرورت کے محض خوشی سے شبہات کا ازالہ کرنا) ﴿ۭ وَلَیِٕنِ اتَّبَعْتَ اَھْوَاۗءَھُمْ ﴾” اگر آپ نے ان کی خواہشات کی پیروی کی“ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے (اھوائھم) ” ان کی خواہشات“ کا لفظ استعمال کیا ہے اور اس کی بجائے (دینھم) ” ان کا دین“ کا لفظ استعمال نہیں کیا، کیونکہ وہ محض اپنی خواہشات نفس کی پیروی کر رہے تھے۔ حتیٰ کہ وہ خود بھی یہ جانتے تھے کہ یہ دین نہیں ہے اور جو کوئی دین کو چھوڑ دیتا ہے وہ لامحالہ خواہشات نفس کی پیروی کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :﴿اَفَرَءَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰهَهُ هَوٰهُ﴾ (الجاثية : 45؍ 23) ” بھلا آپ نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا معبود بنا رکھا ہے؟“
﴿مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ﴾ ” اس کے بعد کہ آپ کے پاس علم آچکا ہے۔“ یعنی یہ جان لینے کے بعد کہ آپ حق پر اور وہ باطل پر ہیں ﴿ إِنَّكَ إِذًا﴾” تب آپ“ یعنی اگر آپ نے ان کی اتباع کی، یہ احتراز ہے، تاکہ یہ جملہ اپنے ماقبل جملے سے علیحدہ نہ رہے، خواہ وہ افہام ہی میں کیوں نہ ہو۔ ﴿ لَّمِنَ الظَّالِمِينَ﴾” ظالموں میں سے ہوجائیں گے۔“ یعنی آپ کا شمار ظالموں میں ہوگا اور اس شخص کے ظلم سے بڑھ کر کون سا ظلم ہے جس نے حق اور باطل کو پہچان کر باطل کو حق پر ترجیح دی۔ یہ خطاب اگرچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہے تاہم آپ کی امت اس میں داخل ہے نیز اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی یہ کام کیا ہوتا، حاشا وکلا، آپ سے یہ ممکن نہیں تھا، تو آپ بھی اپنے بلند مرتبہ اور نیکیوں کی کثرت کے باوجود ظالموں میں شمار ہوتے تب آپ کے علاوہ کوئی دوسرا تو بطریق اولیٰ بڑا ظالم ہوگا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا : |
البقرة |
146 |
اللہ تعالیٰ آگاہ کرتا ہے کہ اہل کتاب کو معلوم ہے اور ان کے ہاں یہ بات متحقق ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں۔ جو کتاب آپ لے کر مبعوث ہوئے ہیں وہ حق اور سچ ہے اور انہیں اس بات کا پورا پورا یقین ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح انہیں اپنے بیٹوں کے بارے میں یہ یقین ہوتا ہے کہ وہ ان کے بیٹے ہیں اور اس کی بابت انہیں کوئی شبہ نہیں ہوتا۔ پس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پہچان ان کے ہاں اس حد تک پہنچی ہوئی تھی کہ اس میں شک و شبہ کی گنجائش نہ تھی، مگر اس کے باوجود ان میں سے ایک فریق جو تعداد میں زیادہ تھا۔ اس نے آپ کا نکار کیا اور آپ کے بارے میں یقینی شہادت کو چھپا لیا۔ درآں حالیکہ وہ جانتے تھے۔ فرمایا : ﴿ وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن كَتَمَ شَهَادَةً عِندَهُ مِنَ اللَّـهِ ۗ﴾ (البقرہ : 140) ” اس سے بڑا ظالم کون ہے جو اس گواہی کو چھپائے جو اللہ کی طرف سے اس کے پاس ہے“ اس آیت کریمہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اہل ایمان کے لیے تسلی اور ان کو اہل کتاب کے شر اور شبہات سے بچنے کی تلقین ہے۔ البتہ ان میں سے کچھ ایسے لوگ تھے جنہوں نے جانتے بوجھتے حق کو نہیں چھپایا۔ پس ان میں سے بعض آپ پر ایمان لے آئے اور بعض نے محض جہالت کی بنا پر آپ کا انکار کردیا۔ پس صاحب علم اپنے علم کے مطابق جس قدر دلیل دینے اور تعبیر کرنے پر قادر ہے اس پر اسی قدر حق کا اظہار کرنا اس کو بیان کرنا اور اس کو مزین کرنا فرض ہے اور اسی قدر باطل کا ابطال کرنا، حق سے اس کو علیحدہ کرنا اور ہر ممکن طریقے سے نفوس کے سامنے اس کی برائی نمایاں کرنا اس پر لازم ہے۔ لیکن اس حق کو چھپانے والوں نے اس کے برعکس رویہ اختیار کیا، لہٰذا ان کے احوال بھی اس کے برعکس ہوگئے۔ |
البقرة |
147 |
﴿ اَلْحَقُّ مِنْ رَّبِّکَ﴾ ” یہ حق آپ کے رب کی طرف سے ہے۔“ یعنی یہ حق، جو ہر چیز سے زیادہ حق کہلانے کا مستحق ہے، کیونکہ یہ مطالب عالیہ، اچھے احکام اور تزکیہ نفوس پر مشتمل ہے، نیز نفوس کے لیے ان کے مصالح کے حصول اور ان سے مفاسد کو دور کرنے کا باعث ہے۔ اس لیے کہ یہ آپ کے رب کی طرف سے صادر ہوا ہے اور یہ منجملہ آپ کے رب کی طرف سے آپ کی تربیت ہے کہ اس نے آپ پر یہ قرآن نازل فرمایا جس میں نفوس و عقول کی تربیت اور تمام مصالح ہیں ﴿فَلَا تَکُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِیْنَ﴾” پس آپ ہرگز شک کرنے والوں میں نہ ہونا۔“ یعنی اس حق کے بارے میں آپ کو معمولی سے شک و شبہ میں بھی مبتلا نہیں ہونا چاہئے، بلکہ اس حق میں غور و فکر کیجیے یہاں تک کہ آپ یقین کی منزل کو پہنچ جائیں، کیونکہ حق میں غور و فکر لامحالہ شک کو دور کر کے یقین کی منزل پر پہنچاتا ہے۔ |
البقرة |
148 |
یعنی ہر ملت اور ہر دین والوں کے لیے ایک جہت مقرر ہے وہ اپنی عبادت میں اس کی طرف منہ کرتے ہیں۔ استقبال قبلہ کوئی بڑا معاملہ نہیں، اس لیے کہ یہ ان شریعتوں میں سے ہے جو احوال و زمان کے بدلنے کے ساتھ بدلتی رہی ہیں، اس میں نسخ اور ایک جہت سے دوسری جہت میں منتقل ہونا بھی داخل ہے، لیکن اصل اور اہم معاملہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت، اس کا تقرب اور اس کے قرب میں حصول درجات ہے یہی سعادت کا عنوان اور ولایت کا منشور ہے۔ یہی وہ وصف ہے کہ اگر نفوس اس سے متصف نہ ہوں تو دنیا و آخرت کے خسارے میں پڑجاتے ہیں جیسے اگر نفوس اپنے آپ کو اس وصف سے متصف کرلیں تو یہی حقیقی منافع ہے۔ تمام شریعتوں میں یہ متفق علیہ امر ہے۔ اسی کی خاطر اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوق کو تخلیق کیا اور اسی کا اللہ تعالیٰ نے سب کو حکم دیا۔
نیکیوں کی طرف سبقت کرنے کا حکم، نیکی کرنے کے حکم پر ایک قدر زائد ہے، کیونکہ نیکیوں کی طرف سبقت، نیکیوں کے کرنے، ان کی تکمیل، کامل ترین احوال میں ان کو واقع کرنے اور نہایت سرعت سے ان کی طرف بڑھنے کو متضمن ہے۔ جو کوئی اس دنیا میں نیکیوں کی طرف سبقت کرتا ہے وہ آخرت میں جنت کی طرف سبقت لے جائے گا پس سابقون (سبقت کرنے والے) تمام مخلوق میں بلند ترین درجے پر فائز ہوں گے۔
اور نیکیوں کا لفظ تمام فرائض، نماز، نوافل، روزے، زکوٰۃ، حج و عمرہ، جہاد اور لوگوں کو نفع پہنچانے وغیرہ کو شامل ہے۔ جب بات یہ ہے کہ سب سے طاقتور داعیہ جو نفوس کو نیکیوں میں مسابقت و مسارعت پر آمادہ کرتا ہے اور انہیں نشاط عطا کرتا ہے، وہ ثواب ہے جو اللہ تعالیٰ ان نیکیوں پر عطا کرتا ہے، تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿اَیْنَ مَا تَکُوْنُوْا یَاْتِ بِکُمُ اللّٰہُ جَمِیْعًا ۭ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ﴾” تم جہاں کہیں بھی ہو گے، اللہ تم سب کو لے آئے گا بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے“ وہ قیامت کے روز اپنی قدرت سے تمہیں اکٹھا کرے گا۔ پھر ہر شخص کو اس کے عمل کا بدلہ دے گا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:﴿ لِيَجْزِيَ الَّذِينَ أَسَاءُوا بِمَا عَمِلُوا وَيَجْزِيَ الَّذِينَ أَحْسَنُوا بِالْحُسْنَى﴾ (النجم: 53؍31) ” تاکہ جن لوگوں نے برے کام کیے ہیں ان کو ان کے اعمال کا بدلہ دے اور جنہوں نے نیک کام کیے ہیں ان کو نیک بدلہ دے۔ “
اس آیت کریمہ سے یہ استدلال کیا جاتا ہے کہ ہر اس فضیلت کو اختیار کرنا چاہئے جس سے کوئی عمل متصف ہوسکتا ہے، مثلاً اول وقت پر نماز ادا کرنا، روزے، حج، عمرہ اور زکوٰۃ کی ادائیگی سے فوری طور پر بری الذمہ ہونا۔ تمام عبادات کی سنن و آداب کو پوری طرح ادا کرنا۔ پس کتنی جامع اور کتنی نفع مند آیت ہے۔ |
البقرة |
149 |
﴿ وَمِنْ حَیْثُ خَرَجْتَ﴾” جہاں سے بھی آپ نکلیں“ یعنی اپنے سفر وغیرہ میں۔ یہ عموم کے لیے ہے ﴿ فَوَلِّ وَجْہَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۭ﴾ ” پس اپنا منہ مسجد حرام کی طرف پھیر لیں۔“ پھر اللہ تعالیٰ نے تمام امت کو عمومی طور پر خطاب کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ وَحَیْثُ مَا کُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْھَکُمْ شَطْرَہٗ ۙ﴾” اور تم جہاں بھی ہو، تو اپنا منہ مسجد حرام کی طرف کرلو۔“ فرمایا : ﴿وَاِنَّہٗ لَلْحَقُّ مِنْ رَّبِّکَ ۭ﴾” اور یہ یقیناً آپ کے رب کی طرف سے حق ہے“ اللہ تعالیٰ نے (ِانَّ) اور (لام) استعمال کر کے اس کو موکد کردیا ہے، تاکہ اس میں کسی کیلیے ادنیٰ سے شک و شبہ کی گنجائش نہ رہے اور کوئی شخص یہ نہ سمجھے کہ یہ محض خواہش ہے اس میں اطاعت مطلوب نہیں۔ ﴿وَمَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ﴾ ” اور اللہ تمہارے اعمال سے بے خبر نہیں ہے“ بلکہ وہ تمہیں تمہارے تمام احوال میں دیکھ رہا ہے۔ اس لیے اس کا ادب کرو اور اس سے ڈرتے ہوئے اس کے اوامر پر عمل کرو اور اس کی نواہی سے اجتناب کرو، کیونکہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے بے خبر نہیں بلکہ تمہارے اعمال کی کامل جزا دی جائے گی۔ اگر اچھے اعمال ہیں تو اچھی جزا ہوگی اور اگر برے اعمال ہیں تو ان کی جزا بری ہوگی۔ |
البقرة |
150 |
﴿ لِئَلَّا یَکُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَیْکُمْ حُجَّــۃٌ ڎ ﴾” اس لیے کہ لوگ تم کو کسی طرح کا الزام نہ دے سکیں۔“ یعنی ہم نے تمہارے لیے کعبہ شریف کو اس لیے قبلہ قرار دیا ہے، تاکہ اہل کتاب اور مشرکین عرب کے لیے تم پر کوئی حجت نہ رہے، کیونکہ اگر بیت المقدس کو قبلہ کے طور پر باقی رکھا ہوتا تو یہ استقبال کعبہ کے خلاف حجت ہوتی، کیونکہ اہل کتاب اپنی کتاب میں پڑھتے ہیں کہ نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مستقل قبلہ، کعبہ یعنی بیت الحرام ہوگا اور مشرکین مکہ سمجھتے تھے کہ یہ عظیم گھر ان کے مفاخر میں شمار ہوتا ہے اور یہ ملت ابراہیم کا مرکز ہے اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کعبہ شریف کو قبلہ نہیں بنائیں گے تو مشرکین کے پاس آپ کے خلاف حجت ہوگی۔ وہ کہیں گے کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ملت ابراہیم پر ہونے کا کیسے دعویٰ کرتا ہے جبکہ اس نے ابراہیم علیہ السلام کی اولاد ہوتے ہوئے بھی بیت اللہ کو قبلہ نہیں بنایا۔ پس بیت اللہ کو قبلہ بنانے سے اہل کتاب اور مشرکین دونوں پر حجت قائم ہوگئی اور آپ پر وہ جو حجت قا ئم کر سکتے تھے، وہ منقطع ہوگئی۔
﴿ اِلَّا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْہُمْ﴾ ” مگر ان میں جو ظالم ہیں۔“ یعنی ان میں جو کوئی دلیل دیتا ہے وہ اس بارے میں ظلم کا ارتکاب کرتا ہے اس کے پاس کوئی سند اور کوئی دلیل نہیں سوائے ظلم اور خواہشات نفس کی پیروی کے، لہٰذا آپ کے خلاف حجت قائم کرنے کی کوئی راہ نہیں۔ اسی طرح اس شبہ کی پروا کرنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں جسے یہ لوگ حجت کے طور پر وارد کرتے ہیں۔ اس کی طرف دھیان ہی نہ دیا جائے۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ فَلَا تَخْشَوْھُمْ﴾” تم ان سے مت ڈرو“ کیونکہ ان کی حجت باطل ہے اور باطل اپنے نام کی مانند بے کار اور فاسد ہے۔ باطل اور باطل پرست مدد اور تائید سے محروم ہیں۔ صاحب حق کا معاملہ اس کے برعکس ہے۔ حق کا رعب اور عزت ہے۔ حق جس کے ساتھ ہے وہ اس کی خشیت کا موجب ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنی خشیت کا حکم دیا ہے جو ہر بھلائی کی بنیاد ہے۔ پس جو اللہ تعالیٰ سے نہیں ڈرتا وہ اس کی نافرمانی سے نہیں بچ سکتا اور نہ اس کی اطاعت کرسکتا ہے۔
مسلمانوں نے بیت اللہ کو قبلہ بنایا تو اس سے انہیں بہت بڑے فتنے کا سامنا کرنا پڑا۔ جس کی اہل کتاب، منافقین اور مشرکین نے خوب خوب اشاعت کی اور اس بارے میں انہوں نے اعتراضات اور شبہات کی بھرمار کردی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے نہایت بسط و شرح اور کامل طریقے سے اس مسئلہ کو بیان کیا ہے اور مختلف قسم کی تاکیدات سے اس کو موکد کیا جو ان آیات کریمہ میں بیان ہوئی ہیں، مثلاً
(1) استقبال کعبہ کا تین مرتبہ حکم دیا گیا ہے جبکہ صرف ایک ہی مرتبہ کافی تھا۔
(2) اس میں خصوصی بات یہ ہے کہ حکم یا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے ہے اور امت اس میں داخل ہے یا یہ حکم امت کے لیے عام ہے۔ اس آیت کریمہ میں خصوصی طور پر صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو استقبال کعبہ کا حکم دیا گیا ﴿ فَوَلِّ وَجْہَکَ﴾ اور امت کو اس آیت میں استقبال کعبہ کا حکم دیا گیا ﴿ فَوَلُّوْا وُجُوْھَکُمْ ﴾
(3) اللہ تعالیٰ نے ان آیات کریمہ میں ان تمام باطل دلائل کا رد کیا ہے جو کہ معاندین نے پیش کیے تھے اور ایک ایک شبہ کا ابطال کیا۔ جیسا کہ اس کی توضیح گزشتہ سطور میں گزر چکی ہے۔
(4) اللہ تعالیٰ نے اس کی بابت امیدوں کو ختم کردیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اہل کتاب کے قبلے کی پیروی کریں گے۔
(5) اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ﴿ۭ وَاِنَّہٗ لَلْحَقُّ مِنْ رَّبِّکَ﴾ ایک عظیم سچے شخص کا خبر دینا ہی کافی ہوتا ہے مگر بایں ہمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿’ۭ وَاِنَّہٗ لَلْحَقُّ مِنْ رَّبِّکَ ﴾’’یہ یقیناً آپ کے رب کی طرف سے حق ہے۔ “
(6) اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا اور وہ عالم الغیب ہے، کہ اہل کتاب کے ہاں استقبال کعبہ کے معاملہ کی صحت متحقق ہے مگر یہ لوگ علم رکھنے کے باوجود اس گواہی کو چھپاتے ہیں۔
جب بیت اللہ شریف کی طرف تحویل قبلہ ایک عظیم نعمت ہے اور اس امت پر اللہ تعالیٰ کا بے پایاں لطف و کرم ہے جو بڑھتا ہی رہتا ہے۔ علاوہ ازیں جب بھی اللہ تعالیٰ اہل ایمان کے لیے کوئی کام مشروع کرتا ہے تو یہ ایک عظیم نعمت ہوتی ہے۔ اس لیے فرمایا : ﴿ وَلِاُتِمَّ نِعْمَتِیْ عَلَیْکُمْ ﴾یہ تحویل کا حکم اس لیے دیا گیا ہے ” تاکہ میں اپنی نعمت تم پر پوری کر دوں۔“ اصل نعمت تو دین کی ہدایت ہے جو وہ اپنا رسول بھیج کر اور اپنی کتاب نازل کر کے عطا کرتا ہے اس کے بعد دیگر تمام نعمتیں اس نعمت کی تکمیل کرتی ہیں۔ یہ نعمتیں اس قدر زیادہ ہیں کہ ان کا حصر و شمار ممکن نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت سے لے کر اس دنیائے فانی سے آپ کی رحلت تک اللہ تعالیٰ ان نعمتوں سے نوازتا رہا۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کو احوال اور نعمتیں عطا کیں اور اس نے آپ کی امت کو وہ کچھ دیا جس سے آپ پر اور آپ کی امت پر اتمام نعمت ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ آپ پر نازل فرمائی ﴿الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ﴾(المائدة: 3؍5) ” آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لیے اسلام کو دین کے طور پر پسند کرلیا۔ “
پس اللہ تعالیٰ ہی اپنے اس فضل و کرم پر حمد و ثنا کا مستحق ہے۔ اس فضل و کرم پر اس کا شکرادا کرنا تو کجا ہم تو اس کو شمار تک نہیں کرسکتے۔ ﴿وَلَعَلَّکُمْ تَہْتَدُوْنَ﴾” اور تاکہ تم راہ راست پر چلو۔“ یعنی شاید کہ تم حق کو جانو اور پھر اس پر عمل کرو۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے بندوں پر رحم کرتے ہوئے ہدایت کے اسباب بے حد آسان فرما دیئے اور ہدایت کے راستوں پر چلنے کے بارے میں آگاہ فرما دیا اور ان کے لیے اس ہدایت کو پوری طرح واضح کردیا۔ ان میں سے ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ اہل عناد کو حق کی مخالفت پر مقرر کردیتا ہے، چنانچہ وہ حق کے بارے میں جھگڑتے ہیں، جس سے حق واضح، حق کی نشانیاں اور علامتیں ظاہر ہوجاتی ہیں اور باطل کا بطلان ثابت ہوجاتا ہے اور یہ چیز واضح ہوجاتی ہے کہ باطل کی کوئی حقیقت نہیں۔ اگر باطل حق کے مقابلے میں کھڑا نہ ہو تو بسا اوقات اکثر مخلوق پر باطل کا حال واضح نہ ہو۔ اشیاء اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہیں۔ اگر رات نہ ہوتی تو دن کی فضیلت کا اعتراف نہ ہوتا۔ اگر قبیح اور بدصورت نہ ہو تو خوبصورت کی فضیلت معلوم نہیں ہوسکتی، اگر اندھیرا نہ ہو تو روشنی کے فوائد کو نہیں پہچانا جاسکتا، اگر باطل نہ ہو تو حق واضح طور پر ظاہر نہیں ہوسکتا۔ اس پر اللہ تعالیٰ ہی ہر قسم کی تعریف کا مستحق ہے۔ |
البقرة |
151 |
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، کعبہ شریف کی طرف تحویل قبلہ کے ذریعے سے ہم نے تمہیں جو نعمت عطا کی اور اس کے اتمام کے لیے شرعی احکام اور دیگر نعمتیں عطا کیں، یہ ہماری طرف سے کوئی انوکھا اور پہلا احسان نہیں، بلکہ ہم نے تمہیں بڑی بڑی نعمتیں عطا کیں اور پھر دیگر نعمتوں کے ذریعے سے ان کی تکمیل کی۔ ان میں سب سے بڑی نعمت یہ ہے کہ ہم نے تمہاری طرف اس رسول کریم کو مبعوث کیا جو تم ہی میں سے ہے، جس کے حسب و نسب، اس کی صداقت و امانت اور اس کی خیر خواہی کو تم خوب جانتے ہو۔ ﴿ یَتْلُوْا عَلَیْکُمْ اٰیٰتِنَا ﴾” وہ تم پر ہماری آیتیں پڑھتا ہے“ اس کے عموم میں آیات قرآنی اور دیگر تمام آیات داخل ہیں۔ (ہمارا) رسول تم پر آیات کی تلاوت کرتا ہے جو باطل میں سے حق کو اور گمراہی میں سے ہدایت کو واضح کرتی ہیں۔ یہ آیات الٰہی سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کے کمال کی طرف راہنمائی کرتی ہیں پھر اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت، اس پر ایمان کے وجوب اور ان تمام غیبی اور مابعد الموت امور پر ایمان لانے کے وجوب پر دلالت کرتی ہیں جن کے بارے میں اس نے خبر دی ہے، تاکہ تمہیں ہدایت کامل اور علم یقینی حاصل ہوجائے۔ ﴿ وَيُزَكِّيكُمْ﴾ ”اور تمہارا تزکیہ کرتا ہے۔“ یعنی تربیت کے ذریعے سے اخلاق جمیلہ کو اجاگر اور اخلاق رذیلہ کو زائل کر کے تمہارے نفوس اور تمہارے اخلاق کو پاک کرتا ہے، مثلاً شرک سے توحید کی طرف، ریا سے اخلاص کی طرف، جھوٹ سے صدق کی طرف، خیانت سے امانت کی طرف، تکبر سے تواضع کی طرف، بدخلقی سے حسن اخلاق کی طرف، باہم بغض، قطع تعلق اور قطع رحمی سے ایک دوسرے سے محبت، مودت اور صلہ رحمی کی طرف تمہارا تزکیہ کرتا ہے، اس کے علاوہ تزکیہ کی دیگر انواع کے ذریعے سے تمہیں پاک کرتا ہے۔
﴿ وَیُعَلِّمُکُمُ الْکِتٰبَ﴾” اور تمہیں کتاب (قرآن) سکھاتا ہے۔“ یعنی قرآن کے الفاظ و معانی کی تعلیم دیتا ہے۔ ﴿ وَالْحِكْمَةَ﴾” اور حکمت‘‘ ایک قول کے مطابق حکمت سے مراد سنت ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ حکمت سے مراد اسرار شریعت کی معرفت اور اس کی سمجھ ہے، نیز تمام امور کو ان کے مقام پر رکھنا ہے۔ اس لحاظ سے سنت کی تعلیم کتاب اللہ کی تعلیم میں داخل ہے، کیونکہ سنت قرآن کی تفسیر و توضیح اور اس کی تعبیر کرتی ہے۔﴿ وَیُعَلِّمُکُمْ مَّا لَمْ تَکُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ ﴾” اور تمہیں وہ باتیں سکھاتا ہے جو تم نہیں جانتے تھے“ کیونکہ بعثت محمدی سے قبل اہل عرب کھلی گمراہی میں مبتلا تھے۔ ان کے پاس علم تھا نہ عمل۔ پس ہر علم اور عمل جو اس امت کو حاصل ہوا ہے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے توسط اور آپ ہی کے سبب سے حاصل ہوا ہے۔ یہ نعمتیں علی الاطلاق حقیقی ہیں۔ یہ نعمتیں سب سے بڑی نعمتیں ہیں جن سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو نوازتا ہے۔ لہٰذا ان کا وظیفہ ان نعمتوں پر اللہ تعالیٰ کا شکر اور اس کے تقاضوں کی ادائیگی ہونا چاہئے۔ |
البقرة |
152 |
بنابریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿ړفَاذْکُرُوْنِیْٓ اَذْکُرْکُمْ﴾” پس تم مجھے یاد کرو، میں تمہیں یاد کروں گا‘‘ اللہ تعالیٰ نے اپنے ذکر کا حکم دیا ہے اور اس پر بہترین اجر کا وعدہ کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس شخص کا ذکر کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان مبارک سے فرمایا ” جو مجھے اپنے دل میں یاد کرتا ہے میں اسے اپنے دل میں یاد کرتا ہوں، جو کسی مجلس میں مجھے یاد کرتا ہے میں اسے اس سے بہتر مجلس میں یاد کرتا ہوں۔“ سب سے بہتر ذکر وہ ہے جس میں دل اور زبان کی موافقفت ہو اور اسی ذکر سے اللہ تعالیٰ کی معرفت، اس کی محبت اور بہت زیادہ ثواب حاصل ہوتا ہے اور ذکر الٰہی ہی شکر کی بنیاد ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر اس کا حکم دیا ہے۔ پھر اس کے بعد شکر کا عمومی حکم دیا ہے۔ چنانچہ فرمایا : ﴿وَاشْکُرُوْا لِیْ﴾ ’’اور میرا شکر کرو۔“ یعنی میں نے جو یہ نعمتیں تمہیں عطا کیں اور مختلف قسم کی تکالیف اور مصائب کو تم سے دور کیا اس پر میرا شکر کرو۔ شکر، دل سے ہوتا ہے، اس کی نعمتوں کا اقرار و اعتراف کر کے۔ زبان سے ہوتا ہے، اس کا ذکر اور حمد و ثنا کر کے، اعضاء سے ہوتا ہے اس کے حکموں کی اطاعت و فرمان برداری اور اس کی منہیات سے اجتناب کر کے۔
پس شکر، موجود نعمت کے باقی رہنے اور مفقود نعمت (مزید نئی نعمتوں) کے حصول کے جذبے کا مظہر ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ﴿ لَئِن شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ﴾۔ (ابراھیم:14؍7) ” اگر تم شکر کرو گے تو تمہیں اور زیادہ دوں گا“ علم، تزکیہ اخلاق اور توفیق عمل جیسی دینی نعمتوں پر شکر کا حکم دینے میں اس حقیقت کا بیان ہے کہ یہ سب سے بڑی نعمتیں ہیں بلکہ یہی حقیقی نعمتیں ہیں جن کو دوام حاصل ہے، جب کہ دیگر نعمتیں زائل ہوجائیں گی۔ ان تمام حضرات کے لیے، جن کو علم و عمل کی توفیق سے نوازا گیا ہے، یہی مناسب ہے کہ وہ اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے رہیں، تاکہ ان پر اللہ تعالیٰ کے فضل کا اضافہ ہو اور ان سے عجب اور خود پسندی دور رہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے شکر میں مشغول رہیں۔
چونکہ شکر کی ضد کفران نعمت ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کی ضد سے منع کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ وَلَا تَکْفُرُوْنِ﴾” اور کفر نہ کرو‘‘ یہاں ”کفر“ سے مراد وہ رویہ ہے جو شکر کے بالمقابل ہوتا ہے اور وہ ہے اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کی ناشکری، ان کا انکار اور ان نعمتوں کا حق ادا کرنے سے گریز و فرار۔ یہ بھی احتمال ہے کہ اس کا معنی عام ہو تب اس لحاظ سے کفر کی بہت سی اقسا م ہیں اور ان میں سب سے بڑی قسم اللہ تعالیٰ سے کفر ہے پھر اختلاف اجناس و انواع کے اعتبار سے مختلف معاصی، مثلاً شرک اور اس سے کم تر گناہ۔ |
البقرة |
153 |
اللہ تبارک نے اہل ایمان کو حکم دیا ہے کہ وہ دنیاوی امور میں صبر اور نماز سے مدد لیں۔ پس صبر، نفس کو روکنے اور ان امور سے باز رکھنے کا نام ہے جن کو وہ ناپسند کرتا ہے۔ صبر کی تین قسمیں ہیں۔
(١) اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر صبر کرنا حتیٰ کہ اسے بجا لائے۔
(2) اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے رکنے پر صبر کرنا یہاں تک کہ وہ اس نافرمانی کو ترک کر دے۔
(٣) تکلیف پہنچانے والی اللہ تعالیٰ کی قضاء و قدر پر صبر کرنا اور اس پر ناراضی کا اظہار نہ کرنا۔
صبر سے ہر کام میں زبردست معونت حاصل ہوتی ہے لہٰذا بے صبر آدمی کے لیے ہرگز ممکن نہیں کہ وہ اپنا مقصد حاصل کرسکے، خاص طور پر دائمی مشقت سے بھر پور نیکیاں، کیونکہ اس قسم کی نیکیاں انتہائی صبر و تحمل اور مشقت کی تلخی برداشت کرنے کی محتاج ہوتی ہیں۔ ان نیکیوں کا مشتاق جب صبر کو لازم پکڑ لیتا ہے تو کامیابی سے ہمکنار ہوتا ہے اور اگر ناپسندیدہ کام اور مشقت اسے صبر پر قائم نہ رکھ سکے تو اسے کچھ حاصل نہیں ہوتا، صرف محرومی اس کا نصیب ہوتا ہے۔ اسی طرح وہ گناہ جس کی طرف نفس انسانی کا داعیہ کشش رکھتا ہے اور اس گناہ کا ارتکاب اس کی قدرت میں بھی ہوتا ہے تو اس گناہ کا ترک کرنا صرف صبر عظیم، اللہ تعالیٰ کی خاطر قلب کے دواعی کے ترک کرنے اور اس سے بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرنے ہی سے ممکن ہوتا ہے، کیونکہ وہ گناہ بھی ایک بہت بڑا فتنہ ہوتا ہے۔
اسی طرح سخت مصائب اور آزمائشوں میں، خاص طور پر جبکہ یہ مصائب دائمی ہوں تب ان پے در پے مصائب سے جسمانی اور نفسانی قوی کمزور پڑجاتے ہیں، اگر یہ شخص اللہ تعالیٰ کی خاطر صبر، توکل، اللہ تعالیٰ کی پناہ کے ذریعے سے اور اپنے آپ کو اللہ کا دائمی محتاج سمجھتے ہوئے ان کا مقابلہ نہیں کرے گا تو ناراضی اور غصہ اس پر غلبہ پا لیں گے۔ پس معلوم ہوا کہ صبر کا حکم دیا ہے اور آگاہ کیا ہے کہ وہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے، یعنی ان لوگوں کے ساتھ جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی مدد اور توفیق سے صبر کو اپنی عادت، وصف اور ملکہ بنا لیا ہے۔
تب ان لوگوں پر بڑی بڑی مشقتیں اور مصائب آسان ہوجاتے ہیں، ان پر ہر بڑا کام آسان اور ان سے ہر مشکل دور ہوجاتی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی خاص معیت ہے جو اس کی محبت، اس کی مدد، اس کی نصرت اور اس کے قرب کا تقاضا کرتی ہے۔ یہ صبر کرنے والوں کی بہت بڑی مدح و منقبت ہے۔ اگر اہل صبر کی صرف یہی فضیلت ہوتی کہ وہ اللہ تعالیٰ کی معیت میں کامیابی کی منزل پر پہنچ گئے، تو شرف و فضیلت کے لیے یہی کافی ہے۔ رہی معیت عامہ تو یہ اللہ تعالیٰ کے علم و قدرت کی معیت ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿ وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ﴾ (الحدید: 4؍57) ” اور تم جہاں کہیں بھی ہو وہ تمہارے ساتھ ہے‘‘ میں مذکور ہے اور یہ معیت تمام مخلوق کے لیے عام ہے۔
اللہ تعالیٰ نے نماز سے مدد لینے کا حکم دیا ہے، کیونکہ نماز دین کا ستون اور اہل ایمان کا نورہے۔ نماز بندے اور اس کے رب کے درمیان رابطے کا ایک ذریعہ ہے۔ جب بندہ مومن کی نماز کامل ہو، اس میں تمام لازمی امور اور سنن جمع ہوں، اس میں حضور قلب، جو نماز کا لب لباب ہے، حاصل ہو تو بندہ مومن جب نماز میں داخل ہوتا ہے تو وہ سمجھتا ہے کہ وہ اپنے رب کے سامنے حاضر ہوا ہے اور اپنے رب کے سامنے اس طرح کھڑا ہے جس طرح ایک مؤدب خادم غلام اپنے آقا کے سامنے کھڑا ہوتا ہے۔ وہ جو کچھ کہے اور جو کچھ کرے اس کا معنی اور مفہوم اس کے شعور میں حاضر ہو، وہ اپنے رب کے ساتھ مناجات اور اس سے دعا مانگنے میں مستغرق ہو، تو یقیناً یہ نماز تمام امور میں سب سے بڑی مددگار ہے، کیونکہ نماز فواحش اور برے کاموں سے روکتی ہے۔ یہ حضور قلب جو نماز کے اندر حاصل ہوتا ہے، بندے کے قلب میں ایسے وصف اور داعیے کا موجب بنتا ہے جو بندہ مومن کو اللہ تعالیٰ کے احکام کی اطاعت اور اس کے نواہی سے اجتناب کی طرف دعوت دیتا ہے۔ یہی وہ نماز ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم ہر چیز کے مقابلے میں اس سے مدد لیں۔ |
البقرة |
154 |
چونکہ اللہ تعالیٰ نے تمام احوال میں صبر سے مدد لینے کا حکم دیا ہے اس لیے اس نے ایک نمونہ ذکر فرمایا ہے جس میں صبر سے مدد لی جاتی ہے اور وہ اللہ کے راستے میں جہاد کرنا ہے جو سب سے افضل بدنی عبادت ہے۔ اپنی مشقت کی وجہ سے یہ نفوس انسانی پر سب سے زیادہ گراں گزرتی ہے نیز یہ عبادت نفوس انسانی پر اس لیے بھی گراں ہے کہ اس کا نتیجہ موت اور عدم حیات ہے اور زندگی ایک ایسی چیز ہے کہ لوگ اس دنیا میں زندگی اور اس کے لوازم کے حصول میں رغبت رکھتے ہیں۔ پس ہر وہ چیز جس میں لوگ تصرف کرتے ہیں اس کے حصول کے لیے کوشش کی جاتی ہے اور اس کی ضد کو دور کیا جاتا ہے۔
اور یہ معلوم ہے کہ عقل مند شخص اپنی محبوب چیز کو اس وقت ہی چھوڑتا ہے جب اسے اس سے بڑی اور اس سے بہتر کوئی اور محبوب چیز حاصل ہونے کی امید ہو، تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ جو کوئی اللہ تعالیٰ کے راستے میں اس وجہ سے قتل ہوجاتا ہے کہ اس نے اللہ کے راستے میں جہاد کیا، تاکہ اللہ کا کلمہ بلند اور اس کا دین غالب ہو اور اس کے سوا اس کی کوئی اور غرض نہ ہو۔ تو وہ اپنی محبوب زندگی کو کھو نہیں دیتا، بلکہ اسے اس زندگی سے زیادہ عظیم اور کامل زندگی حاصل ہوجاتی ہے جس کا تم گمان اور تصور کرسکتے ہو۔
پس شہداء وہ ہیں جن کا ذکر یوں آیا ہے﴿أَحْيَاءٌ عِندَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ فَرِحِينَ بِمَا آتَاهُمُ اللَّـهُ مِن فَضْلِهِ وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِم مِّنْ خَلْفِهِمْ أَلَّا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِّنَ اللَّـهِ وَفَضْلٍ وَأَنَّ اللَّـهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُؤْمِنِينَ﴾(آل عمران : 3؍ 169۔171) ” وہ اپنے رب کے ہاں زندہ ہیں اور ان کو رزق دیا جاتا ہے اور جو کچھ اللہ نے اپنے فضل سے ان کو عطا کیا اس پر وہ خوش ہیں اور جو پیچھے رہ گئے اور (شہید ہو کر) ان کے ساتھ نہ مل سکے ان کے بارے میں خوش ہو رہے ہیں کہ ان پر کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمزہ ہوں گے۔ وہ اللہ کی نعمتوں، اس کے فضل اور اس بات پر خوش ہو رہے ہوں گے کہ اللہ مومنوں کے اجر کو ضائع نہیں کرتا۔ “
کیا اس سے بھی بڑی کوئی اور زندگی ہے جو قرب الٰہی، اس کے بدنی رزق، مثلاً لذیذ ما کو لات و مشروبات سے تمتع اور روحانی رزق، مثلاً فرحت، خوشی اور عدم حزن و غم کو متضمن ہے؟ یہ برزخی زندگی ہے جو دنیاوی زندگی سے زیادہ کامل ہے، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس زندگی کے بارے میں ان الفاظ میں آگاہ فرمایا۔” شہداء کی روحیں سبز رنگ کے پرندوں کے جوف (پیٹ) میں جنت کی نہروں سے پانی پینے کے لیے وارد ہوتی ہیں جنت کے پھل کھاتی ہیں اور ان قندیلوں میں بسیرا کرتی ہیں جو عرش کے ساتھ لٹکی ہوئی ہیں۔‘‘
[صحيح مسلم، الإمارة، باب بيان أن أرواح الشهداء في الجنة...... الخ، حديث: 1887 و مسند احمد: 1؍ 116]
اس آیت میں اللہ کی راہ میں جہاد کرنے اور اس میں صبر کا دامن پکڑے رکھنے کی بڑی ترغیب ہے۔ پس اگر بندوں کو یہ معلوم ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں قتل ہونے کا کتنا ثواب ہے تو کوئی شخص جہاد سے پیچھے نہ رہے مگر کامل علم یقینی کا فقدان، عزائم کو کمزور، نیند میں مدہوش شخص کی نیند میں مزید اضافہ، نیز غنیمتیں اور بہت بڑا ثواب حاصل کرنے سے محروم کردیتا ہے۔ ایسا کیوں نہ ہو جب کہ اللہ تعالیٰ نے مومنوں سے ان کا جان و مال خرید لیا ہے فرمایا﴿ إِنَّ اللَّـهَ اشْتَرَىٰ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُم بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ ۚ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ فَيَقْتُلُونَ وَيُقْتَلُونَ ﴾(التوبہ ١١١) ” اللہ نے مومنوں سے ان کی جانیں اور ان کے مال خرید لیے ہیں اور اس کے بدلے میں ان کے لیے جنت ہے، وہ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں (کافروں کو) قتل کرتے ہیں اور قتل ہوجاتے ہیں۔ “
اللہ کی قسم ! اگر انسان کو ہزار جانیں عطا کی گئی ہوں اور وہ ایک ایک کر کے سب جانیں اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربان کر دے تب بھی اس اجر عظیم کے مقابلے میں یہ کچھ بھی نہیں۔ اسی لیے شہداء جب اللہ تعالیٰ کے عنایت کردہ اس بہترین جزا اور ثواب کا مشاہدہ کرلیں گے تو دنیا کی طرف لوٹائے جانے کی تمنا کریں گے، تاکہ وہ اللہ کے راستے میں بار بار قتل ہوں۔ اس آیت کریمہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ برزخ میں انسان کو آرام اور عذاب ملتا ہے جیسا کہ بکثرت نصوف اس پر دلالت کرتی ہیں۔ |
البقرة |
155 |
اللہ تبارک و تعالیٰ نے خبر دی کہ وہ اپنے بندوں کو مصائب و محن کے ذریعے سے آزماتا ہے، تاکہ سچے اور جھوٹے، صابر اور بے صبر کے درمیان فرق واضح ہوجائے۔ اپنے بندوں کے معاملے میں یہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے، کیونکہ اگر اہل ایمان ہمیشہ خوشحالی سے لطف اندوز ہوں انہیں کبھی مصائب و محن کا سامنا نہ ہو تو فساد واقع ہوجاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ اہل خیر اہل شر میں سے علیحدہ ہوں۔ یہ آزمائش کا فائدہ ہے۔ اس سے اہل ایمان کا وہ ایمان زائل نہیں ہوتا جو انہیں عطا کیا گیا ہے اور نہ آزمائش انہیں دین سے ہٹاتی ہے، اللہ تعالیٰ اہل ایمان کے ایمان کو ضائع نہیں کرتا۔ پس اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا ہے کہ وہ اپنے بندوں کو آزمائے گا ﴿ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ ﴾” کسی قدر خوف سے‘‘ یعنی دشمنوں کے خوف سے﴿وَالْجُوعِ﴾ ” اور بھوک سے“ یعنی بھوک اور دشمنوں کے خوف کے ذریعے سے کچھ نہ کچھ انہیں ضرور آزمائے گا، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں مکمل بھوک اور خوف میں مبتلا کردیا تو وہ ہلاک ہوجائیں گے اور آزمائش اور امتحان ہلاک کرنے کی غرض سے نہیں آتا، بلکہ اس کا مقصد پاک صاف کرنا ہوتا ہے۔ ﴿ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ﴾” اور کچھ مالوں کی کمی سے“ اس میں وہ تمام کمی اور گھاٹا شامل ہے جو اہل ایمان کو آفات سماوی، سیلاب یا سمندر میں غرق ہونے، ظالم حکومت کے مال چھین لینے اور راہزن ڈاکوؤں کے ڈاکہ ڈالنے کی وجہ سے پیش آتاہے۔ ﴿وَالْأَنفُسِ﴾’’ اورجانوں کی کمی سے“ اولاد، عزیز و اقارب اور دوستوں کو فوت کر کے، خود بندہ مومن یا اس کے کسی عزیز کو بیماری لاحق کر کے ان کو آزماتا ہے۔﴿وَالثَّمَرَاتِ ﴾” اور پھلوں کی کمی سے“ ژالہ باری، سردی، آگ لگنے، آفات سماوی اور ٹڈی دل کے ذریعے سے غلہ جات، کھجوروں، سبزیوں اور تمام پھلدار درختوں کو نقصان پہنچا کر ہم ضرور آزمائیں گے۔ ان تمام آزمائشوں کا آنا ضروری ہے، کیونکہ اللہ علیم و خبیر نے ان کے بارے میں خبر دی ہے اور یہ آزمائشیں اسی طرح واقع ہوئیں۔ جب یہ مصائب و محن واقع ہوئے، تو لوگ دو اقسام میں منقسم ہوگئے۔ (١) بے صبری کا مظاہرہ کرنے والے۔ (2) صبر کرنے والے۔
بے صبر شخص کو دو مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا، محبوب چیز سے محروم ہونا اور وہ اس مصیبت کا وجود ہے۔ دوسرا اس سے بھی زیادہ بڑی چیز سے محروم ہونا، یعنی اللہ تعالیٰ نے صبر کا حکم دیا ہے اس پر عمل کرتے ہوئے ثواب کا حاصل نہ کرنا چنانچہ خسارہ، حرماں نصیبی اور ایمان میں کمی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ وہ صبر، رضا اور شکر سے محروم ہوجاتا ہے اور اس کے بدلے میں اسے ناراضی حاصل ہوتی ہے جو شدت نقصان پر دلالت کرتی ہے۔
لیکن وہ شخص جسے اللہ تعالیٰ نے ان مصائب و محن کے وقت صبر سے نوازا اور اس نے اپنے آپ کو قولاً اور فعلاً اللہ پر اظہار برہمی سے روکے رکھا۔ پھر اس پر اللہ تعالیٰ کے ہاں اجر و ثواب کی امید رکھی اور اسے یہ بھی علم ہے کہ صبر کرنے سے اسے جو ثواب حاصل ہوگا، وہ اس مصیبت کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے جس کا اسے سامنا ہے، بلکہ یہ مصیبت اس کے حق میں نعمت ہے، کیونکہ یہ مصیبت اس کے لیے اس بھلائی اور فائدے کے حصول کا باعث بنی ہے جو اس مصیبت سے زیادہ بہتر ہے۔ پس اس نے اللہ تعالیٰ کے حکم کی اطاعت کی اور ثواب کا مستحق قرار پایا۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَبَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَ ﴾” اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنا دو۔“ یعنی انہیں خوشخبری سنا دو کہ اللہ تعالیٰ بغیر کسی حساب کے ان کو پورا پورا اجر دے گا۔ پس اہل صبر وہ لوگ ہیں جن کو عظیم بشارت اور بہت بڑے انعام سے نوازا گیا ہے۔ |
البقرة |
156 |
پھر اللہ تعالیٰ نے ان صابرین کا وصف بیان کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ۙالَّذِیْنَ اِذَآ اَصَابَتْہُمْ مُّصِیْبَۃٌ﴾ ” وہ لوگ جب ان کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے“ مصیبت ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو قلب، بدن یا دونوں کو تکلیف پہنچائے۔ جس کا ذکر پہلے گزرا۔ ﴿قَالُوْٓا اِنَّا لِلّٰہِ ﴾” تو وہ کہتے ہیں ہم اللہ ہی کی ملکیت ہیں۔“ یعنی وہ پکار اٹھتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہیں، اسی کے دست تدبیر اور اسی کے تصرف کے تحت ہیں۔ پس ہماری جانوں اور ہمارے مال میں ہمارا کوئی اختیار نہیں۔
جب اللہ تعالیٰ ہمیں کسی آزمائش میں مبتلا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ، جس کی ذات سب سے زیادہ رحم کرنے والی ہے، درحقیقت اپنے غلاموں اور ان کے مال میں تصرف کرتا ہے اس لیے مالک پر اعتراض کی مجال نہیں، بلکہ بندہ مومن کا کمال عبودیت اس کا یہ جان لینا ہے کہ اس پر جو مصیبت آن پڑی ہے وہ اس کے حکمت والے مالک کی طرف سے ہے جو اپنے بندے پر خود اس بندے سے زیادہ رحم کرنے والا ہے، تب یہ چیز بندے کو اللہ تعالیٰ پر راضی اور اس کی اس تدبیر پر شکر گزار رکھتی ہے کہ اس نے اپنے بندے کے لیے وہی چیز اختیار کی جو اس کے لیے بہتر تھی، اگرچہ بندے کو اس کا شعور بھی نہ تھا۔نیز اس کے ساتھ ساتھ ہم اللہ تعالیٰ کے مملوک ہیں۔ پس قیامت کے روز ہم نے لوٹ کر اللہ تعالیٰ کے پاس ہی حاضرہونا ہے اور ہر شخص کو اپنے اعمال کا بدلہ ملے گا اگر ہم صبر کریں اور اجر کی امید رکھیں تو ہم اس کے ہاں اپنے اجر و ثواب کو وافر پائیں گے اور اگر ہم بے صبری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر پر ناراض ہوں گے تو ہمیں ناراضی اور اجر کی محرومی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ پس بندے کا اللہ کی ملکیت ہونا اور اس کا اللہ تعالیٰ ہی کی طرف لوٹنا صبر کا سب سے طاقتور سبب ہے۔ |
البقرة |
157 |
﴿ۭاُولٰۗیِٕکَ﴾” یہی لوگ ہیں۔“ یعنی یہی لوگ جو صبر مذکور کی صفت سے موصوف ہیں ﴿ عَلَیْہِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّہِمْ﴾” ان پر برکتیں ہیں ان کے رب کی طرف سے“ یعنی یہ ان کے احوال کی مدح و ثنا اور تعریف و تعظیم ہے ﴿وَرَحْمَۃٌ ۣ﴾” اور رحمت“ اور ان پر عظیم رحمت ہے۔ یہ بھی ان پر اللہ تعالیٰ کی رحمت کا حصہ ہے کہ اس نے ان کو صبر کی توفیق سے نوازا جس کے ذریعے سے وہ کامل اجر حاصل کرتے ہیں۔ ﴿وَأُولَئِك ھُمُ الْمُہْتَدُوْنَ﴾” اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں“ یعنی وہ لوگ ہیں جنہوں نے حق کو پہچان لیا اور وہ حق اس مقام پر یہ ہے کہ انہیں یہ معلوم ہوگیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے مملوک ہیں اور انہیں لوٹ کر اسی کے پاس حاضر ہونا ہے اور اس پر وہ عمل پیرا ہوئے اور یہاں عمل، اللہ تعالیٰ کے لیے ان کا صبر کرنا ہے۔ اس آیت کریمہ سے یہ بھی واضح ہے کہ جس نے صبر نہ کیا انہیں وہ کچھ حاصل ہوگا جو صبر کرنے والوں کی ضد ہے، یعنی مذمت، عقوبت، گمراہی اور خسارہ (اعاذنا اللہ منھا) پس دونوں قسموں کے درمیان کتنا بڑا فرق ہے،اہل صبر کے لیے کتنی کم مشقت اور بے صبروں کے لیے کتنی بڑی تکلیف ہے۔ یہ دونوں آیتیں نفوس کو مصائب کے نازل ہونے سے پہلے ان مصائب کو خوش دلی سے قبول کرنے پر آمادہ کرتی ہیں، تاکہ جب مصائب نازل ہوں، تو وہ آسانی سے برداشت ہوسکیں۔
ان آیات میں اس امر کا بھی بیان ہے کہ جب مصیبت نازل ہو تو کس چیز سے اس کا مقابلہ کیا جائے اور وہ ہے صبر۔ اس چیز کا بھی بیان ہے جو صبر پر مددگار ہوتی ہے، نیز یہ کہ صبر کرنے والوں کے لیے کیا اجر و ثواب ہے۔
ان سے بے صبر لوگوں کا حال بھی واضح ہوتا ہے جو صبر کرنے والوں کے حال کے بالکل برعکس ہے۔
ان آیات کریمہ سے یہ حقیقت بھی واضح ہوتی ہے کہ ابتلاء و امتحان اللہ تعالیٰ کی سنت ہے جو پہلے سے چلی آتی ہے اور تو اللہ کی سنت میں کوئی تبدیلی نہیں پائے گا۔ نیز ان آیات کریمہ میں مصائب کی مختلف انواع کا بیان ہے۔ |
البقرة |
158 |
اللہ تعالیٰ خبر دیتا ہے ﴿ اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ﴾” بے شک صفا اور مروہ‘‘ یعنی صفا اور مروہ وہ معروف پہاڑیاں ﴿ مِنْ شَعَائِرِاللّٰہِ ۚ ﴾” اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں۔“ یہ دونوں اللہ تعالیٰ کے دین کی ظاہری علامتیں ہیں جن کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی عبدیت کو جانچتا ہے اور جب صفا اور مروہ دونوں اللہ تعالیٰ کے شعائر میں شمار ہوتی ہیں، تو اللہ تعالیٰ نے اپنے شعائر کی تعظیم کرنے کا حکم دیا ہے۔ چنانچہ فرمایا : ﴿وَمَن يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّـهِ فَإِنَّهَا مِن تَقْوَى الْقُلُوبِ ﴾(الحج : 22؍ 32) ” اور جو کوئی اللہ کے شعائر کی تعظیم کرتا ہے تو یہ فعل دلوں کا تقویٰ ہے۔ “
دونوں نصوص مجموعی طور پر اس امر پر دلالت کرتی ہیں کہ صفا اور مروہ اللہ تعالیٰ کے شعائر ہیں اور اللہ تعالیٰ کے شعائر کی تعظیم کرنا دلوں کا تقویٰ ہے اور تقویٰ ہر مکلف پر فرض ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ صفا و مروہ کی سعی (دونوں پہاڑیوں کے درمیان دوڑنا) فرض اور حج وعمرہ کا لازمی رکن ہے۔ جیسا کہ جمہور فقہاء کا مسلک ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث بھی اس پر دلالت کرتی ہیں۔ آپ نے خود بھی یہ کام کیا اور فرمایا :"خُذُوْا عَنِّی مَنَاسِکَکُم"’’اپنے مناسک حج مجھ سے اخذ کرو۔“
[صحيح مسلم، الحج، باب استحباب رمي جمرة العقبة.... الخ، حديث: 1297، سنن البيهقي الكبري: 5؍ 125]
﴿ فَمَنْ حَجَّ الْبَیْتَ اَوِ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْہِ اَنْ یَّطَّوَّفَ بِہِمَا ۭ﴾” پس جو شخص بیت اللہ کا حج یا عمرہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں کہ وہ ان کا طواف کرے“ چونکہ جاہلیت کے زمانے میں صفا اور مروہ پر بت نصب تھے جن کی پوجا کی جاتی تھی اس لیے وہم دور کرنے اور مسلمانوں کے رفع حرج کے لیے فرمایا کہ ان کے طواف میں کوئی گناہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس وہم کو رفع کرنے کے لیے گناہ کی نفی کی ہے۔ اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ ان کے مابین سعی لازم نہیں۔ نیز حج اور عمرہ میں ان کی سعی میں بطور خاص گناہ کی نفی، اس امر پر بھی دلالت کرتی ہے کہ حج یا عمرہ کے بغیر صرف ان کی سعی کرنا جائز نہیں۔ بخلاف طواف بیت اللہ کے، کیونکہ وہ حج اور عمرہ کے ساتھ بھی مشروع ہے اور طواف ایک مستقل عبادت بھی ہے (یعنی حج اور عمرے کے بغیر بھی طواف جائز ہے) لیکن صفا اور مروہ کے مابین سعی، عرفہ اور مزدلفہ میں وقوف اور رمی جماریہ تمام افعال دیگر مناسب حج کے ساتھ کیے جاتے ہیں۔ اگر یہ افعال دیگر مناسک حج کے ساتھ نہ کیے جائیں بلکہ اکیلے کیے جائیں، تو یہ بدعت ہوں گے۔ اس لیے کہ بدعت کی دو اقسام ہیں۔
(1) اللہ تعالیٰ کی کسی ایسے طریقے سے عبادت کرنا جو اصل میں اس نے مشروع نہیں کی۔
(2) بدعت کی دوسری قسم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک عبادت ایک خاص طریقے پر مشروع کی ہے اور اس کو کسی مختلف طریقے سے کیا جائے۔ مذکورہ بدعات اسی دوسری قسم سے ہوں گی۔
﴿ وَمَنْ تَـطَوَّعَ خَیْرًا﴾ ” اور جو کوئی نیک کام کرے۔“ یعنی جو کوئی اللہ تعالیٰ کے لیے خلوص کے ساتھ نیکی کا کام کرتا ہے جیسے حج، عمرہ، طواف، نماز اور روزہ وغیرہ نیکی کے کام تو یہ اس کے لیے بہتر ہے۔ اس میں اس امر کی بھلائیوں اور اس کے درجات میں، اس کے ایمان میں اضافے کی وجہ سے اضافہ ہوتا ہے اور نیکیوں میں بھلائی کی قید اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جو کوئی نیکی کے طور پر بدعات پر عمل کرتا ہے جن کو اللہ اور اس کے رسول نے مشروع نہیں کیا، اسے محض مشقت کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ یہ اس کے لیے خیر نہیں، بلکہ اگر بدعات کا مرتکب ان کی عدم مشروعیت کا علم رکھتے ہوئے جان بوجھ کر اس پر عمل کرتا ہے، تو بسا اوقات یہ اس کے لیے شربن جاتی ہیں۔ ﴿ۙفَاِنَّ اللّٰہَ شَاکِـرٌ عَلِــیْمٌ﴾۔ (الَشَّاکِرُ) اور (الَشکُوْرُ) اللہ تعالیٰ کے نام ہیں۔ الَشَّاکِرُ اور الَشکُوْر اس ہستی کو کہتے ہیں جو بندوں کے تھوڑے عمل کو بھی قبول کرلیتی ہے اور اس پر بہت بڑا اجر عطا کرتی ہے۔ جب بندہ اللہ تعالیٰ کے احکام بجا لاتا ہے اور اس کی اطاعت کرتا ہے تو وہ اپنے بندے کی مدد کرتا ہے اس کی مدح و ثنا کرتا ہے اور اسے یہ بدلہ دیتا ہے کہ وہ اس کے قلب کو نور اور ایمان سے لبریز کردیتا ہے اور اس کے بدن میں قوت و نشاط، اس کے احوال میں برکت اور نشو و نما اور اس کے اعمال میں مزید توفیق عطا کرتا ہے۔ پھر یہ بندہ مومن آخرت میں جب رب کے پاس حاضر ہوگا تو وہاں اسے وافر اور کامل ثواب ملے گا، مذکورہ دنیاوی جزائیں اس کے اخروی ثواب میں کمی نہیں کریں گی۔
اور اللہ تعالیٰ کی اپنے بندے کے لیے قدر دانی یہ ہے کہ جب وہ اللہ تعالیٰ کے لیے کوئی چیز ترک کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے عوض اسے اس سے بہتر چیز عطا کرتا ہے اور جو اللہ تعالیٰ کے ایک بالشت قریب ہوتا ہے اللہ تعالیٰ ایک ہاتھ اس کے قریب ہوتا ہے، جو ایک ہاتھ اس کے قریب ہوتا ہے اللہ تعالیٰ دونوں ہاتھوں کے پھیلاؤ کے برابر اس کے قریب ہوتا ہے، جو چل کر اللہ تعالیٰ کی طرف آتا ہے اللہ تعالیٰ بھاگ کر اس کی طرف بڑھتا ہے، جو کوئی اللہ تعالیٰ کے ساتھ معاملہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کئی گنا منافع سے اسے نوازتا ہے۔
اور باوجود اس بات کے کہ وہ بندوں کے اعمال کا قدر دان ہے، وہ یہ بات بھی خوب جانتا ہے کہ کون اپنی نیت، ایمان اور تقویٰ کے مطابق کامل ثواب کا مستحق ہے اور کون اس ثواب کا حق دار نہیں۔ وہ بندوں کے اعمال کا علم رکھتا ہے، پس وہ ان کے اعمال ضائع نہیں کرے گا، بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اپنی نیتوں کے مطابق، جن کو اللہ علیم و حکیم جانتا ہے، ان عملوں کا ثواب پائیں گے۔ |
البقرة |
159 |
یہ آیت کریمہ اگرچہ اہل کتاب کے بارے میں اور اس کی بابت نازل ہوئی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صفات کو چھپایا مگر اس کا حکم ہر اس شخص کے لیے عام ہے جو ان حقائق کو چھپاتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائے ہیں ﴿ مِنَ الْبَیِّنٰتِ﴾” دلائل“ یعنی حق پر دلالت کرنے والی اور اس کو ظاہر کرنے والی باتیں ﴿وَالْہُدٰی﴾ ھُدَی وہ علم ہے جس کے ذریعے سے صراط مستقیم کی طرف راہنمائی حاصل کی جاتی ہے اور جس سے اہل جنت اور اہل جہنم کے راستوں میں فرق واضح ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اہل علم سے وعدہ لیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو کتاب اللہ کا جو علم عطا کیا ہے اسے لوگوں کے سامنے بیان کریں گے اور اسے ہرگز نہیں چھپائیں گے۔ پس جس نے اللہ تعالیٰ کے اس حکم کو دورپھینک دیا اس نے دو مفاسد کو جمع کردیا۔
(اول) اس حق کو چھپانا جو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا۔ (ثانی) اللہ تعالیٰ کے بندوں کے ساتھ دھوکہ کرنا ﴿ۙاُولٰۗیِٕکَ یَلْعَنُہُمُ اللّٰہُ﴾” ایسے ہی لوگوں پر اللہ لعنت کرتا ہے۔“ یعنی یہی وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ دھتکار دے گا اور انہیں اپنی قربت اور رحمت سے دور کر دے گا ﴿وَیَلْعَنُہُمُ اللّٰعِنُوْنَ﴾” اور تمام لعنت کرنے والے لعنت کرتے ہیں۔“ یعنی ان پر تمام مخلوق کی بھی لعنت پڑے گی، کیونکہ انہوں نے مخلوق الٰہی کے ساتھ دھوکہ کیا، ان کے دین کو برباد کیا، انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دور کیا اس لیے انہیں ان کے اعمال کی جنس سے بدلہ دیا جائے گا۔
جیسے لوگوں کو بھلائی کی تعلیم دینے والے پر اللہ تعالیٰ رحمت بھیجتا ہے، فرشتے رحمت کی دعا کرتے ہیں، یہاں تک کہ پانی کے اندر مچھلیاں بھی اس کے لیے رحمت کی دعا کرتی ہیں، کیونکہ اس کی تمام بھاگ دوڑ اور کوشش مخلوق کی بھلائی اور ان کے دین کی اصلاح اور ان کو اللہ تعالیٰ کے قریب کرنے کے لیے ہوتی ہے۔ لہٰذا اسے اس کے عمل کی جنس سے بدلہ دیا گیا۔ پس اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ حق کو چھپانے والا درحقیقت اللہ کے حکم کا مخالف اور اللہ سے دشمنی کرنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ تو لوگوں کے سامنے اپنی آیات کو واضح کر کے بیان کرتا ہے اور یہ شخص اللہ تعالیٰ کی آیات کو چھپانے اور مٹانے کی کوشش کرتا ہے۔ پس مذکورہ سخت وعید کامور دیہی شخص ہے۔ |
البقرة |
160 |
﴿ اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا ﴾” مگر جنہوں نے توبہ کی‘ یعنی جو ندامت کے ساتھ گناہ چھوڑ کر اور آئندہ گناہ نہ کرنے کا عزم لے کر اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹے ﴿وَاَصْلَحُوْا﴾ ” اور اپنی حالت درست کرلی۔“ یعنی اپنے فاسد عملوں کی اصلاح کرلی۔ پس صرف برے کام کا چھوڑ دینا ہی کافی نہیں، اس کی جگہ اچھے کام کا اختیار کرنا بھی ضروری ہے۔ کتمان حق کے مرتکب کے لیے بھی صرف یہی کافی نہیں کہ اس نے یہ گناہ چھوڑ دیا ہے، بلکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس حق کو بھی ظاہر کرے جس کو اس نے چھپایا تھا۔ پس یہی وہ شخص ہے جس کی توبہ اللہ تعالیٰ قبول کرتا ہے۔ کیونکہ اس پر توبہ کا دروازہ بند نہیں۔ جو کوئی اللہ تعالیٰ کے سامنے توبہ کا سبب لے کر توبہ کے لیے حاضر ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرتا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ ﴿ التَّوَّابُ ﴾” بڑا معاف کرنے والا۔“ ہے۔ یعنی وہ اپنے بندوں کے ساتھ، گناہ کے بعد عفو و درگزر سے پیش آتا ہے جب وہ توبہ کرلیتے ہیں اور جب بندے اس کی طرف رجوع کرتے ہیں، تو روک لینے کے بعد، ان پر پھر احسان و نعمتوں کی بارش کردیتا ہے۔ ﴿ الرَّحِيْمُ﴾ اس ہستی کو کہتے ہیں جو عظیم اور بے پایاں رحمت سے متصف ہو جو ہر چیز کو محیط ہے۔ یہ اس کی رحمت ہے کہ اس نے انہیں توبہ اور انابت کی توفیق بخشی پس انہوں نے توبہ کی اور وہ اس کی طرف پلٹے۔ پھر اس نے ان پر رحم کیا یعنی اپنے لطف و کرم سے ان کی توبہ قبول فرما لی۔ یہ اس شخص کا حکم ہے جو گناہوں سے توبہ کرتا ہے۔ |
البقرة |
161 |
رہا وہ شخص جو اپنے کفر پر مصر ہے، اس نے اپنے رب کی طرف رجوع نہیں کیا، نہ اس کی طرف پلٹا اور نہ اس نے توبہ کی اور حالت کفر ہی میں مر گیا ﴿ اُولٰۗیِٕکَ عَلَیْہِمْ لَعْنَۃُ اللّٰہِ وَالْمَلٰۗیِٕکَۃِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ﴾” تو یہی لوگ ہیں جن پر اللہ، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے۔“ اس لیے کہ جب کفر، ان کا وصف ثابت بن گیا تو ان پر لعنت بھی ان کا وصف ثابت بن گئی جو کبھی زائل نہیں ہوگی، کیونکہ حکم وجود اور عدم وجود کے اعتبار سے اپنی علت کے ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ (یعنی علت ہوگی تو حکم ہوگا، علت نہیں ہوگی تو حکم بھی نہیں ہوگا) |
البقرة |
162 |
﴿’ خٰلِدِیْنَ فِیْہَا ۚ﴾’’وہ ہمیشہ اس (لعنت) میں رہیں گے۔“ یعنی وہ لعنت یا عذاب میں ہمیشہ رہیں گے۔ لعنت اور عذاب دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ فرمایا : ﴿ لَا یُخَفَّفُ عَنْہُمُ الْعَذَابُ﴾” اور ان پر عذاب میں تخفیف نہیں کی جائے گی۔“ بلکہ ان کو سخت اور دائمی عذاب دیا جائے گا۔” اور نہ ان کو مہلت دی جائے گی۔“ کیونکہ مہلت کا وقت تو دنیا کی زندگی تھی جو گزر گئی اور ان کے پاس کوئی عذر بھی نہیں ہوگا جو وہ پیش کرسکیں۔ |
البقرة |
163 |
اللہ تبارک و تعالیٰ خبر دیتا ہے اور وہ سب سے زیادہ سچا ہے، فرماتا ہے، وہ ﴿ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ ۚ﴾” ایک ہی الٰہ ہے۔“ یعنی وہ اپنی ذات، اپنے اسماء و صفات اور اپنے افعال میں اکیلا اور متفرد ہے۔ پس اس کی ذات میں اس کا کوئی شریک ہے نہ اس کا کوئی ہم نام اور نہ ہمسر، نہ اس کی کوئی مثال اور نہ اس کی کوئی نظیر ہے۔ اس کے سوا کوئی کائنات کو پیدا کرنے والا ہے اور نہ اس کی تدبیر کرنے والا۔ جب حقیقت حال یہ ہے تو اس بات کا صرف وہی مستحق ہے کہ ہر قسم کی عبادت صرف اسی کے لیے ہو اور اس کی مخلوق میں سے کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرایا جائے۔ ﴿الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ﴾ کیونکہ وہ رحمان و رحیم ہے، یعنی وہ بے پایاں رحمت سے متصف ہے کسی اور کی رحمت اس سے مماثلت نہیں رکھتی۔ اس کی بے پایاں رحمت ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے اور اس کی رحمت ہر زندہ چیز کے لیے عام ہے۔ اس کی رحمت ہی کے باعث تمام کائنات وجود میں آئی۔ اس کی رحمت ہی کی وجہ سے تمام مخلوقات کو تمام کمالات حاصل ہوئے۔ اس کی رحمت ہی کی بنا پر ان سے ہر قسم کی ناراضی دور ہوئی۔ یہ اس کی رحمت ہی ہے کہ اس کے بندوں نے اس کی صفات اور اس کی نعمتوں کے ساتھ اسے پہچان لیا اور اس نے اپنے رسول بھیج کر اور اپنی کتابیں نازل کر کے دنی و دنیا کے تمام مصالح جن کے وہ محتاج تھے، ان پر واضح کردیئے۔
جب یہ معلوم ہوگیا کہ بندوں کو جو بھی نعمت عطا ہوئی ہے وہ صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، نیز یہ کہ مخلوق میں سے کوئی شخص دوسرے کو کوئی نفع نہیں پہنچا سکتا۔ تو یہ بھی معلوم ہوگیا کہ ہر قسم کی عبادت کا صرف وہی مستحق ہے اور صرف وہی ہے جو محبت، خوف ورجا، تعظیم و توکل اور دیگر ہر قسم کی اطاعت کا مستحق ہے۔ سب سے بڑا ظلم اور سب سے بڑھ کر برائی یہ ہے کہ اس کی عبادت سے منہ موڑ کر اس کے بندوں کی عبادت کی جائے۔ مٹی سے پیدا کی گئی مخلوق کو رب ارباب کا شریک ٹھہرایا جائے، یا تدبیر میں محتاج اور ہر لحاظ سے عاجز مخلوق کی اس خالق کائنات کے ساتھ عبادت کی جائے جو تدبیر کنندہ، قادر اور طاقتور ہے، جو ہر چیز پر غالب ہے اور ہر چیز اس کی مطیع ہے۔
اس آیت کریمہ میں باری تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کی الوہیت کا اثبات ہے اور اس بات کا بھی کہ مخلوقات میں سے کوئی بھی الوہیت کا مستحق نہیں اور اس توحید الوہیت پر اصل دلیل کا بیان ہے اور وہ اس کی رحمت کا اثبات ہے جس کے آثار میں سے تمام نعمتوں کا وجود اور تمام مصائب کا دور ہونا ہے۔ پس یہ اس کی وحدانیت کی ایک اجمالی دلیل ہے۔ اب اللہ تعالیٰ اس کے تفصیلی دلائل ذکر فرماتا ہے۔ فرمایا : |
البقرة |
164 |
اللہ تبارک و تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ ان عظیم مخلوقات میں باری تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کی الوہیت، اس کی عظیم قدرت، رحمت اور اس کی تمام صفات کے دلائل ہیں، لیکن یہ تمام دلائل صرف ان لوگوں کے لیے ہیں جو ان امور میں اپنی عقل استعمال کرتے ہیں جن کے لیے عقل پیدا کی گئی ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے کو جتنی عقل سے نوازا ہے وہ اتنا ہی آیات الٰہی سے فائدہ اٹھاتا ہے اور اپنی عقل اور تفکر و تدبر سے ان آیات کی معرفت حاصل کرتا ہے۔ پس ﴿ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ﴾ ” آسمانوں کے پیدا کرنے میں۔“ یعنی آسمانوں کی بلندی، ان کی وسعت، ان کے محکم اور مضبوط ہونے میں، نیز ان آسمانوں میں سورج، چاند اور ستاروں کی تخلیق اور بندوں کے مصالح کے لیے ان کی منظم گردش میں۔ ﴿ وَالْاَرْضِ ﴾” اور زمین میں“ یعنی مخلوق کے لیے فرش کے طور پر زمین کو پیدا کیا تاکہ وہ اس پر ٹھہر سکیں اور زمین اور جو کچھ اس کے اوپر ہے اس سے استفادہ کریں۔ نیز اس سے عبرت حاصل کریں کہ تخلیق اور تدبیر کائنات میں اللہ تعالیٰ ایک متفرد ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ کی عظیم قدرت کا بیان ہے جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے اس زمین کو تخلیق کیا اور اس کی حکمت کا، جس کی بنا پر اس نے زمین کو محکم، حسین اور موزوں بنایا اور اس کی رحمت اور علم کا، جن کی بنا پر اس نے زمین کے اندر مخلوقات کے فائدے کی اشیاء اور ان کی حاجات و ضروریات ودیعت کیں اور اس میں اس کے کمال اور اس کے واحد لائق عبادت ہونے پر سب سے زیادہ مؤثر دلیل ہے، کیونکہ کائنات کی پیدائش اور اس کی تدبیر اور تمام بندوں کے معاملات کا انتظام کرنے میں وہ متفرد ہے (اس لیے عبادت کا تمام تر مستحق بھی صرف وہی ہے نہ کہ کوئی اور، جن کا کوئی حصہ پیدائش میں ہے نہ تدبیر میں اور نہ بندوں کے معاملات کے انتظام میں)
﴿ وَاخْتِلَافِ الَّیْلِ وَالنَّہَارِ﴾ ” اور رات اور دن کے ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے میں۔“ یعنی رات اور دن کادائمی طور پر ایک دوسرے کے تعاقب میں رہنا۔ جب ان میں سے ایک گزر جاتا ہے تو دوسرا اس کے پیچھے پیچھے آتا ہے۔ گرمی، سردی اور معتدل موسم میں، دنوں کا لمبا، چھوٹا اور متوسط ہونا اور ان کی وجہ سے موسموں میں تغیر و تبدل کا ہونا۔ جن کے ذریعے سے تمام بنی آدم، حیوانات اور روئے زمین کی تمام نباتات کا انتظام ہوتا ہے۔ یہ سب کچھ ایک ایسے انتظام، تدبیر اور تسخیر کے تحت ہو رہا ہے جسے دیکھ کر عقلیں حیرت زدہ رہ جاتی ہیں اور بڑے بڑے عقل مند لوگ اس کے ادراک سے عاجز ہیں۔ یہ چیز اس کائنات کی تدبیر کرنے والے کی قدرت، علم و حکمت، رحمت واسعہ، لطف و کرم، اس کی اس تدبیر و تصرف، جس میں وہ اکیلا ہے، اس کی عظمت، اقتدار اور غلبہ پر دلالت کرتی ہے اور یہ اس بات کی موجب ہے کہ اس کو الٰہ مانا جائے اور اس کی عبادت کی جائے، صرف اسی سے محبت کی جائے، اسی کی تعظیم کی جائے، اسی سے ڈرا جائے، اسی سے امید رکھی جائے اور اس کے محبوب اور پسندیدہ اعمال میں جدوجہد کی جائے۔
﴿ وَالْفُلْکِ الَّتِیْ تَجْرِیْ فِی الْبَحْرِ﴾” اور ان کشتیوں میں جو سمندر میں چلتی ہیں“ اس آیت کریمہ میں (فُلْکِ) سے مراد جہاز اور کشتیاں وغیرہ ہیں جن کی صنعت اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے دلوں میں الہام کی اور اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے داخلی اور خارجی آلات تخلیق کیے اور ان کے استعمال پر انہیں قدرت عطا کی۔ پھر اس نے اس بحربے کراں اور ہواؤں کو ان کے لیے مسخر کردیا جو سمندروں میں اموال تجارت سمیت کشتیوں کو لیے پھرتی ہیں جن میں لوگوں کے لیے منفعت اور ان کی معاش کے انتظامات اور مصلحتیں ہیں۔
وہ کون ہے جس نے ان کشتیوں کی صنعت انہیں الہام کی اور ان کے استعمال پر انہیں قدرت عطا کی اور ان کے لیے وہ آلات پیدا کیے جن سے وہ کام لیتے ہیں؟ وہ کون ہے جس نے کشتیوں کے لیے بے پایاں سمندر کو مسخر کیا جس کے اندر یہ کشتیاں اللہ کے حکم اور اس کی تسخیر سے چلتی ہیں؟ اور وہ کون ہے جس نے ہواؤں کو مسخر کیا؟ وہ کون ہستی ہے جس نے بری اور بحری سفر کی سواریوں کے لیے آگ اور وہ معدنیات پیدا کیں جن کی مدد سے وہ سواریاں (فضاؤں اور سمندروں میں) چلتی اور ان کے مال و اسباب بھی اٹھائے پھرتی ہیں؟
کیا یہ تمام امور اتفاقاً حاصل ہوگئے یا یہ کمزور، عاجز مخلوق انہیں وجود میں لائی ہے۔ جو اپنی ماں کے پیٹ سے جب باہر آئی تو اسے علم تھا نہ قدرت؟ پھر اللہ تعالیٰ نے اسے قدرت عطا کی پھر اسے ہر اس چیز کی تعلیم دی جس کی تعلیم دینا وہ چاہتا تھا، یا ان تمام چیزوں کو مسخر کرنے والا ایک اللہ ہی ہے جو حکمت اور علم والا ہے جسے کوئی چیز عاجز نہیں کرسکتی اور کوئی چیز اس کے اختیار سے باہر نہیں۔ بلکہ تمام اشیاء اس کی ربوبیت کے سامنے سرنگوں، اس کی عظمت کے سامنے عاجز اور اس کے جبروت کے سامنے سرافگندہ ہیں اور نحیف و نزاربندے کی انتہا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے ان اسباب میں سے ایک سبب بنایا ہے جن کے ذریعے سے یہ بڑے بڑے کام سر انجام پاتے ہیں، پس یہ چیز اللہ تعالیٰ کی اپنی مخلوق پر رحمت اور اس کی عنایت پر دلالت کرتی ہے اور یہ چیز اس بات کی موجب ہے کہ تمام تر محبت، خوف، امید، ہر قسم کی اطاعت، تذلل و انکسار اور تعظیم صرف اسی کی ذات کے لیے ہو۔
﴿ وَمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ مِنَ السَّمَاۗءِ مِنْ مَّاۗءٍ﴾” اور اس میں جو اللہ نے آسمان سے پانی اتارا‘‘ اس سے مراد وہ بارش ہے جو بادل سے برستی ہے ﴿فَاَحْیَا بِہِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا ﴾” پس اس کے ذریعے سے اس نے زمین کو مردہ ہوجانے کے بعد زندہ کردیا“ پس زمین نے مختلف قسم کی خوراک اور نباتات ظاہر کیں جو مخلوق کی ضروریات زندگی میں شمار ہوتی ہیں، جن کے بغیر وہ زندہ نہیں رہ سکتی۔ کیا یہ اس ذات کی قدرت و اختیار کی دلیل نہیں جس نے یہ پانی برسایا اور اس کے ذریعے سے زمین سے مختلف چیزیں پیدا کیں؟ کیا یہ اپنے بندوں پر اس کی رحمت اور اس کا لطف و کرم اور اپنے بندوں کے مصالح کا انتظام نہیں؟ کیا یہ اس بات کی دلیل نہیں کہ بندے ہر لحاظ سے اس کے سخت محتاج ہیں؟ کیا یہ چیز واجب نہیں کرتی کہ ان کا معبود اور ان کا الٰہ صرف اللہ تعالیٰ ہی ہو؟ کیا یہ اس بات کی دلیل نہیں کہ اللہ تعالیٰ مردوں کو زندہ کرے گا اور ان کو ان کے اعمال کی جزا دے گا؟
﴿ وَبَثَّ فِیْہَا﴾ ” اور پھیلائے اس میں“ یعنی زمین کے اندر ﴿ مِنْ کُلِّ دَاۗبَّۃٍ ۠﴾” ہر قسم کے جانور“ یعنی زمین کے چاروں طرف مختلف اقسام کے جانور پھیلائے، جو اس کی قدرت، عظمت، وحدانیت اور اس کے غلبے کی دلیل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان جانوروں کو انسانوں کے لیے مسخر کردیا جن سے وہ ہر پہلو سے فائدہ ا ٹھاتے ہیں۔ پس وہ ان میں سے بعض جانوروں کا گوشت کھاتے ہیں اور بعض جانوروں کا دودھ پیتے ہیں۔ بعض جانوروں پر سواری کرتے ہیں، بعض جانوران کے دیگر مصالح اور چوکیداری کے کام آتے ہیں۔ بعض جانوروں سے عبرت پکڑی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے زمین میں ہرقسم کے جانور پھیلائے ہیں۔ وہی ان کے رزق کا انتظام کرتا ہے اور وہی ان کی خوراک کا کفیل ہے۔ ﴿وَمَا مِن دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّـهِ رِزْقُهَا وَيَعْلَمُ مُسْتَقَرَّهَا وَمُسْتَوْدَعَهَا ۚ﴾ (ھود: 6؍11) ” زمین کے اندر پھرنے والا کوئی جانور نہیں مگر یہ کہ اللہ کے ذمے اس کا رزق ہے وہ اس کے ٹھکانے کو جانتا ہے اور جہاں اسے سونپا جاتا ہے۔ “
﴿ وَّتَـصْرِیْفِ الرِّیٰحِ ﴾” اور ہواؤں کے پھیرنے میں“ یعنی ٹھنڈی، گرم، شمالاً جنوباً اور شرقاً غرباً اور ان کے درمیان ہواؤں کا چلنا، کبھی تو یہ ہوائیں بادل اٹھاتی ہیں کبھی یہ بادلوں کو اکٹھا کرتی ہیں، کبھی یہ بادلوں کو بار دار کرتی ہیں، کبھی یہ بادل برساتی ہیں، کبھی یہ بادلوں کو پھاڑ کر انہیں تتر بتر کرتی ہیں، کبھی اس کے ضرر کو زائل کرتی ہیں، کبھی یہ ہوائیں اللہ تعالیٰ کی رحمت ہوتی ہیں اور کبھی ان ہواؤں کو عذاب کے ساتھ بھیجا جاتا ہے۔
کون ہے وہ جو ان ہواؤں کو اس طرح پھیرتا ہے؟ کون ہے جس نے ان ہواؤں میں بندوں کے لیے مختلف منافع ودیعت کیے ہیں جن سے وہ بے نیاز نہیں ہوسکتے؟ اور ان ہواؤں کو مسخر کردیا جن میں تمام جاندار اشیاء زندہ رہ سکیں اور بدنوں، درختوں، غلہ جات اور نباتات کی اصلاح ہو؟ یہ سب کچھ کرنے والا صرف وہ اللہ ہے جو غالب، حکیم اور نہایت مہربان ہے، اپنے بندوں پر لطف و کرم کرنے والا ہے، جو اس بات کا مستحق ہے کہ اس کے سامنے تذلل اور عاجزی کا اظہار کیا جائے، اسی سے محبت، اسی کی عبادت اور اسی کی طرف رجوع کیا جائے۔
آسمان اور زمین کے درمیان بادل اپنے ہلکے اور لطیف ہونے کے باوجود بہت زیادہ پانی کو اٹھائے پھرتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ جہاں چاہتا ہے اس بادل کو لے جاتا ہے پھر وہ اس پانی کے ذریعے سے زمین اور بندوں کو زندگی عطا کرتا اور ٹیلوں اور ہموار زمین کو سیراب کرتا ہے اور مخلوق پر اسی وقت بارش برساتا ہے جس وقت اس کو ضرورت ہوتی ہے۔ جب بارش کی کثرت انہیں نقصان پہنچانے لگتی ہے تو وہ اسے روک لیتا ہے۔ وہ بندوں پر لطف و کرم کے طور پر بارش برساتا ہے اور پانی رحمت اور شفقت سے بارش کو ان سے روک لیتا ہے۔ اس کا غلبہ کتنا بڑا، اس کی بھلائی کتنی عظیم اور اس کا احسان کتنا لطیف ہے! کیا یہ بندوں کے حق میں برائی نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے رزق سے فائدہ ا ٹھاتے ہیں، اس کے احسان کے ماتحت زندگی بسر کرتے ہیں۔ پھر وہ ان تمام چیزوں سے اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور اس کی معصیت پر مدد لیتے ہیں؟ کیا یہ اللہ تعالیٰ کے حلم و صبر، عفو و درگزر اور اس کے عظیم لطف و کرم کی دلیل نہیں؟ پس اول و آخر اور ظاہر و باطن اللہ تعالیٰ ہی ہر قسم کی تعریف کا مستحق ہے۔
حاصل کلام یہ ہے کہ عقل مند شخص جب بھی ان مخلوقات میں غور و فکر اور انوکھی چیزوں میں سوچ بچار کرے گا اور اللہ کی کاریگری میں اور اس میں جو اس نے احسان اور حکمت کے لطائف رکھے ہیں، ان میں کتنا زیادہ غور و فکر کرے گا۔ تو اسے معلوم ہوگا کہ یہ کائنات اس نے حق کے لیے اور حق کے ساتھ تخلیق کی ہے، نیز یہ کائنات اللہ تعالیٰ کی ذات، وحدانیت اور یوم آخرت کے نشانات اور دلائل ہیں، جس کے بارے میں اس نے اور اس کے رسولوں نے خبر دی ہے اور یہ کائنات اللہ تعالیٰ کے سامنے مسخر ہے، وہ اپنے تدبیر اور تصرف کرنے والے کے سامنے کوئی تدبیر اور نافرمانی نہیں کرسکتی۔ پس تجھے بھی معلوم ہوجائے گا کہ تمام عالم علوی اور عالم سفلی اسی کے محتاج اور اسی پر بھروسہ کرتے ہیں اور وہ بالذات تمام کائنات سے بے نیاز اور مستغنی ہے پس اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور اس کے سوا کوئی رب نہیں۔ |
البقرة |
165 |
یہ آیت کریمہ (مضمون کے اعتبار سے) کتنے خوبصورت طریقے سے پچھلی آیت سے تعلق رکھتی ہے۔ اس لیے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنی وحدانیت کو بیان فرمایا اور اس کے قطعی دلائل و براہین بیان کیے جو علم یقینی عطا کرتے اور ہر قسم کے شک و شبہ کو زائل کردیتے ہیں تو یہاں اس نے ذکر فرمایا کہ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں ﴿مَنْ یَّتَّخِذُ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اَنْدَادًا﴾ ” جو اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کو شریک ٹھہرا لیتے ہیں“ یعنی اللہ تعالیٰ کے ہمسر اور مثیل، جنہیں وہ عبادت، محبت، تعظیم اور اطاعت میں اللہ تعالیٰ کے برابر قرار دیتے ہیں اور حجت قائم کرنے اور توحید بیان کرنے کے بعد بھی جو شخص اس حالت پر رہنے پر مصر ہو تو معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے عناد رکھنے والا، اس کا مخالف ہے یا اس کی آیات و مخلوقات میں تدبر و تفکر سے روگردانی کرنے والا ہے اور اس بارے میں اس کے پاس ادنیٰ سا عذر بھی نہیں، بلکہ عذاب کا کلمہ اس پر ثابت ہوگیا ہے اور یہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کے ہمسر بناتے ہیں وہ تخلیق، رزق اور تدبیر میں ان کو اللہ تعالیٰ کے مساوی قرار نہیں دیتے، بلکہ وہ صرف عبادت میں ان کو اللہ تعالیٰ کے برابر ٹھہراتے ہیں۔ پس وہ ان کی عبادت اس لیے کرتے ہیں، تاکہ وہ انہیں اللہ تعالیٰ کے قریب کردیں۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿ یَّتَّخِذُ﴾ میں اس امر کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی ہمسر نہیں۔
اہل شرک نے بعض مخلوقات کو اللہ تعالیٰ کا جو ہمسر قرار دے رکھا ہے۔ وہ صرف نام ہی نام ہے، لفظ کے اعتبار سے ان کا کوئی معنی نہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿ وَجَعَلُوا لِلَّـهِ شُرَكَاءَ قُلْ سَمُّوهُمْ ۚ أَمْ تُنَبِّئُونَهُ بِمَا لَا يَعْلَمُ فِي الْأَرْضِ أَم بِظَاهِرٍ مِّنَ الْقَوْلِ﴾ (الرعد:23؍13) ” اور ان لوگوں نے اللہ کے شریک مقرر کر رکھے ہیں ان سے کہو ذرا ان معبودوں کے نام تو لو کیا تم اسے ان چیزوں کے بارے میں آگاہ کرتے ہو جنہیں وہ زمین کے اندر نہیں جانتا (یعنی زمین میں ان کا وجود ہی نہیں) یا محض ظاہری بات کی تقلید کرتے ہو۔“ فرمایا : ﴿إِنْ هِيَ إِلَّا أَسْمَاءٌ سَمَّيْتُمُوهَا أَنتُمْ وَآبَاؤُكُم مَّا أَنزَلَ اللَّـهُ بِهَا مِن سُلْطَانٍ ۚ إِن يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ﴾ (النجم: 23؍53) ” یہ تو محض نام ہی ہیں جن کو تم نے اور تمہارے آباؤ اجداد نے گھڑ رکھا ہے جن کی اللہ نے کوئی دلیل نازل نہیں کی۔ وہ تو صرف ظن اور گمان کی پیروی کر رہے ہیں۔ “
پس مخلوق اللہ تعالیٰ کی ہمسر نہیں ہوسکتی، کیونکہ اللہ تعالیٰ خالق اور اس کے علاوہ سب اس کی مخلوق ہے، رب تعالیٰ رازق ہے اور اس کے علاوہ تمام مخلوق مرزوق ہے، اللہ تعالیٰ غنی اور بے نیاز ہے اور تم سب اس کے محتاج ہو۔ اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے کامل ہے اور بندے ہر لحاظ اور ہر پہلو سے ناقص ہیں، اللہ تعالیٰ ہی ہے جس کے قبضہ قدرت میں نفع و نقصان ہے اور مخلوق کو نفع و نقصان اور کسی چیز کا بھی اختیار نہیں، لہٰذا اس شخص کے قول کا بطلان یقینی طور پر معلوم ہوجاتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کو اللہ کا ہمسر اور معبود ٹھہراتا ہے، یہ غیر اللہ خواہ فرشتہ ہو یا نبی، خواہ کوئی صالح بزرگ ہو یا کوئی بت، یا ان کے علاوہ کوئی اور، صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہی محبت کامل اور تذلل تام کی مستحق ہے۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کی مدح کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ ۭ﴾” اور جو اہل ایمان ہیں وہ تو اللہ ہی سے سب سے زیادہ محبت کرنے والے ہیں۔“ یعنی اہل شرک اپنے معبودوں سے جتنی محبت کرتے ہیں اس سے بڑھ کر اہل ایمان اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہیں، کیونکہ ان کی محبت خالص اللہ تعالیٰ کے لیے ہے اور اہل شرک اپنے معبودوں کی محبت میں بھی دوسروں کو شریک کرتے ہیں۔ اہل ایمان صرف اسی سے محبت کرتے ہیں جو محبت کا حقیقی مستحق ہے، جس کی محبت میں بندے کی عین صلاح، سعادت اور فوز و فلاح ہے۔ جب کہ اہل شرک ان ہستیوں سے محبت کرتے ہیں جو محبت کا کچھ استحقاق نہیں رکھتے، ان کی محبت میں بندے کی عین بدبختی ہے، اس کا فساد اور اس کے معاملات کا بکھرنا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو وعید سناتے ہوئے فرمایا ﴿وَلَوْ یَرَی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْٓا ﴾” اگر دیکھ لیں وہ لوگ جنہوں نے ظلم کیا“ یعنی جنہوں نے غیر اللہ کو ہمسر بنا کر اور بندوں کے رب کے سوا دوسروں کی اطاعت کر کے ظلم کیا اور مخلوق پر ان کو اللہ تعالیٰ کے راستے سے روک کر اور انہیں نقصان پہنچانے کی کوشش کر کے ظلم کیا۔ ﴿ اِذْ یَرَوْنَ الْعَذَابَ ۙ﴾” جب وہ عذاب دیکھیں گے۔“ یعنی قیامت کے روز اپنی آنکھوں سے عیاں طور پر اللہ تعالیٰ کے عذاب کو دیکھیں گے﴿ اَنَّ الْقُوَّۃَ لِلّٰہِ جَمِیْعًا ۙ وَّاَنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعَذَابِ﴾” ہر طرح کی قوت اللہ ہی کے لیے ہے اور یہ کہ اللہ سخت عذاب کرنے والا ہے۔“ یعنی اس وقت انہیں یقینی طور پر معلوم ہوجائے گا کہ تمام قوت و قدرت کا مالک صرف اللہ تعالیٰ ہے اور انہوں نے جو اللہ تعالیٰ کے ہمسر ٹھہرا رکھے تھے ان کے پاس کسی قسم کی کوئی طاقت نہیں، تب اس روز ان کے سامنے ان کے بنائے ہوئے معبودوں کی کمزوری اور بے بسی ظاہر ہوجائے گی۔ ایسا نہیں ہوگا جیسے اس دنیا میں ان کا معاملہ مشتبہ ہے اور اہل شرک یہ سمجھتے ہیں کہ ان معبودوں کے پاس بھی اختیار ہے اور یہ معبود انہیں اللہ تعالیٰ کے قریب کرتے ہیں اور اس کے پاس پہنچنے کا وسیلہ ہیں۔ پس وہ اپنے ظن اور گمان میں خائب و خاسر ہوئے اور ان کی تمام بھاگ دوڑ باطل گئی اور ان کے لیے سخت عذاب واجب ہوگیا۔ ان کے ٹھہرائے ہوئے یہ ہمسر ان سے عذاب کو روک نہیں سکیں گے اور نہ ذرہ بھر ان کے کوئی کام آسکیں گے، بلکہ ان معبودوں سے ان کو کسی فائدے کی بجائے نقصان پہنچے گا۔ |
البقرة |
166 |
اور راہنما اپنے پیروکاروں سے برأت کا اظہار کریں گے اور وہ تمام تعلقات منقطع ہوجائیں گے جو دنیا میں ان کے مابین تھے، کیونکہ یہ تعلقات غیر اللہ کے ساتھ اور اللہ تعالیٰ کے حکم کے خلاف تھے، ان کا تعلق باطل کے ساتھ تھا جس کی کوئی حقیقت نہیں تھی اس لیے ان کے تمام اعمال مضمحل اور ان کے تمام احوال نابود ہوجائیں گے اور ان پر واضح ہوجائے گا کہ وہ جھوٹے تھے اور ان کے وہ اعمال جن کے نفع مند اور نتیجہ خیز ہونے کی انہیں امید تھی، ان کے لیے حسرت اور ندامت میں بدل جائیں گے۔ وہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں داخل ہوں گے اور وہاں سے کبھی نہیں نکلیں گے۔ پس اس خسارے کے بعد بھی کوئی اور خسارہ ہے؟ یہ اس لیے کہ انہوں نے باطل کی پیروی کی، انہوں نے ان سے امیدیں رکھیں جن پر امید نہیں رکھی جانی چاہئے تھی اور ان سے تعلق قائم کیا جن سے تعلق قائم نہیں کیا جانا چاہئے تھا۔ پس جب وہی باطل ثابت ہوا، جن سے انہوں نے تعلق جوڑا، تو ان کے اعمال بھی باطل ہوگئے اور جب ان کے اعمال باطل ہوگئے تو اپنی امیدوں کے ٹوٹ جانے کی بنا پر حسرت میں پڑگئے، پس ان کے اعمال نے انہیں سخت نقصان پہنچایا۔
اور یہ اس شخص کے حال کے برعکس ہے جس نے اللہ تعالیٰ سے، جو بادشاہ حقیقی اور واضح کرنے والا ہے، ناطہ جوڑا۔ اسی کے لیے اپنے عمل کو خالص کیا اور اس عمل پر نفع کی امید رکھی۔ پس یہی وہ شخص ہے جس نے حق کو اس کے مقام پر رکھا، اس کے اعمال بھی حق ثابت ہوئے، کیونکہ اس نے حق کے ساتھ تعلق جوڑا تھا اور اپنے اعمال کے نتیجے میں کامیاب ہوا اور وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ان اعمال کا بدلہ پائے گا، جو کبھی منقطع نہیں ہوگا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿الَّذِينَ كَفَرُوا وَصَدُّوا عَن سَبِيلِ اللَّـهِ أَضَلَّ أَعْمَالَهُمْ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَآمَنُوا بِمَا نُزِّلَ عَلَىٰ مُحَمَّدٍ وَهُوَ الْحَقُّ مِن رَّبِّهِمْ ۙ كَفَّرَ عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ وَأَصْلَحَ بَالَهُمْ ذَٰلِكَ بِأَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا اتَّبَعُوا الْبَاطِلَ وَأَنَّ الَّذِينَ آمَنُوا اتَّبَعُوا الْحَقَّ مِن رَّبِّهِمْ ۚ كَذَٰلِكَ يَضْرِبُ اللَّـهُ لِلنَّاسِ أَمْثَالَهُمْ ﴾(محمد : 47؍ 1۔3) ” وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا اور لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکا، اللہ نے ان کے اعمال برباد کردئیے اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک عمل کیے اور اس کتاب پر ایمان لائے جو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل کی گئی اور وہ (کتاب) ان کے رب کی طرف سے برحق ہے، اللہ ان کے گناہ مٹا دے گا اور ان کا حال درست کر دے گا، یہ اس وجہ سے ہے کہ جن لوگوں نے کفر کیا انہوں نے باطل کی پیروی کی اور جو ایمان لائے، انہوں نے اپنے رب کی طرف سے آئے ہوئے حق کی پیروی کی، اللہ اسی طرح لوگوں کے سامنے ان کی مثالیں بیان کرتا ہے۔ “
اور اس وقت (غلط کاروں کی) پیروی کرنے والے تمنا کریں گے کہ کاش انہیں دنیا میں لوٹایا جائے تو وہ بھی اپنے لیڈروں اور راہنماؤں سے بایں طور پر برأت کا اظہار کردیں کہ شرک چھوڑ دیں گے اور صرف اللہ کے لیے عمل کریں گے، یہ بہت دور اور ناممکن ہے۔ معاملہ ہاتھ سے نکل گیا، اب یہ مہلت دینے کا وقت نہیں۔ اس کے ساتھ یہ بھی حقیت ہے کہ وہ جھوٹے ہیں اگر انہیں دنیا میں بھیج بھی دیا گیا تو وہ وہی کریں گے جس سے انہیں روکا گیا ہے۔ یہ تو محض ان کے منہ کی بات ہے اور یہ تو محض ان کی تمنائیں ہیں چونکہ ان کے راہنماؤں نے ان سے برأت کا اظہار کیا ہے اس لیے وہ ان پر شدید غصے کی بنا پر اس تمنا کا اظہار کر رہے ہیں ورنہ گناہ تو خود انہی کا ہے۔ پس بدی کے میدان میں تمام راہنماؤں کا راہنما تو شیطان ہے، اس کے باوجود وہ اپنے پیروکاروں سے کہے گا : ﴿ لَمَّا قُضِيَ الْأَمْرُ إِنَّ اللَّـهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَوَعَدتُّكُمْ فَأَخْلَفْتُكُمْ ۖ وَمَا كَانَ لِيَ عَلَيْكُم مِّن سُلْطَانٍ إِلَّا أَن دَعَوْتُكُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِي ۖ فَلَا تَلُومُونِي وَلُومُوا أَنفُسَكُم ۖ﴾ (ابراہیم:22؍24)” جب یہ معاملہ پورا ہوچکے گا (تو شیطان کہے گا) اللہ تعالیٰ نے تم سے جو وعدہ کیا تھا وہ وعدہ سچا تھا اور جو وعدہ میں نے تمہارے ساتھ کیا تھا وہ جھوٹا تھا اور مجھے تم پر کسی قسم کا اختیار نہ تھا سوائے اس کے کہ میں نے تمہیں (بدی کی طرف) دعوت دی اور تم نے قبول کرلی۔ پس اب تم مجھے ملامت نہ کرو، بلکہ اپنے آپ ہی کو ملامت کرو۔ “ |
البقرة |
167 |
|
البقرة |
168 |
یہ خطاب مومن اور کافر تمام لوگوں سے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں پر احسان فرمایا کہ انہیں اس بات کا حکم دیا کہ وہ زمین سے پیدا ہونے والے ہر قسم کے اناج، پھل، میوہ جات اور حیوانات اس حال میں کھائیں ﴿حَلَالًا﴾ کہ ان کا کھانا تمہارے لیے حلال ہو، وہ غصب شدہ مال ہو نہ چوری کیا ہوا، نہ حرام معاملے کے ذریعے سے اور نہ حرام طریقے سے حاصل کیا گیا ہو اور نہ کسی حرام امر پر اس سے مدد لی گئی ہو۔ ﴿طَيِّبًا﴾” پاکیزہ“ یعنی وہ خبیث اور ناپاک نہ ہو، مثلاً مردار، خون، خنزیر کا گوشت اور دیگر تمام ناپاک چیزیں۔
اس آیت کریمہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ تمام اشیاء میں اصل اباحت ہے، کھانے اور فائدہ اٹھانے کے اعتبار سے۔ (یعنی ہر چیز اس وقت تک حلال ہے جب تک اس کی حرمت پر دلیل قائم نہ ہو۔)
اور محرمات کی دو قسمیں ہیں۔
(١) مُحْرَّم لِذَاتِہ ، یعنی جو بذات خود حرام ہیں اور وہ ناپاک چیزیں ہیں جو پاکیزہ چیزوں کی ضد ہیں۔
(2) حرام کرنے والے کسی سبب کے پیش آنے کی وجہ سے حرام ہونے والی چیزیں، یہ حقوق اللہ یا حقوق العباد کے تعلق کے حوالے سے حرام ہوتی ہیں۔ یہ حلال کی ضد ہیں۔
اس آیت کریمہ میں اس امر کی دلیل ہے کہ نسان پر کم از کم اتنی خوراک کھانا فرض ہے جس سے اس کا ڈھانچہ کھڑا رہ سکے۔ اس آیت کے ظاہری حکم کے مطابق کھانا ترک کرنا گناہ ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے ان امور کی اتباع کا حکم دیا جن کو بجا لانے کا اس نے حکم دیا ہے، کیونکہ ان میں ان کی بھلائی ہے، تو پھر ان کو شیطان کے نقش قدم کی پیروی کرنے سے روکا ہے ﴿ خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ ۭ﴾ ” شیطان کے قدم“ یعنی شیطان کے راستے جن پر چلنے کا وہ حکم دیتا ہے۔ اس سے مراد کفر، فسق، ظلم اور دیگر تمام گناہ ہیں اور اس میں سائبہ اور حام وغیرہ کی تحریم بھی شامل ہے نیز اس کے اندر تمام حرام ماکولات بھی شامل ہیں۔ ﴿اِنَّهُ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ﴾” وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔“ اس سے مراد کفر، فسق، ظلم اور ديگر تمام گناہ ہیں اور اس میں سائبہ اور حام وغیرہ کی تحریم بھی شامل ہے نیز اس کے اندر تمام حرام ماکولات بھی شامل ہیں۔ ﴿ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ﴾” وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔“ یعنی شیطان کی عداوت ظاہر ہے۔ وہ تمہیں محض دھوکے سے حکم دیتا ہے، تاکہ تم جہنمی بن جاؤ۔ |
البقرة |
169 |
ہمارے پروردگار نے ہمیں صرف شیطان کے نقش قدم پر چلنے ہی سے منع نہیں کیا، بلکہ اس نے یہ خبر بھی دی ہے۔۔۔ اور وہ سب سے زیادہ سچا ہے۔۔۔ کہ شیطان ہم سے عداوت رکھتا ہے اور اس سے بچنا چاہئے۔ پھر اسی پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ تفصیل کے ساتھ آگاہ بھی فرمایا کہ شیطان کن امور کا حکم دیتا ہے اور یہ کہ شیطان جن امور کا حکم دیتا ہے وہ سب سے زیادہ قباحت کے حامل اور مفاسد میں سب سے بڑھ کر ہیں، چنانچہ فرمایا : ﴿یَاْمُرُکُمْ بِالسُّوْۗءِ﴾” وہ شر کا حکم دیتا ہے“ یعنی ایسے شرکا جو اپنے مرتکب کے ساتھ برا سلوک کرتا ہے۔ پس تمام معاصی اس میں آجاتے ہیں۔ تب اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿ وَالْفَحْشَاۗءِ﴾ خاص کا عطف عام پر، کے باب میں سے ہوگا، کیونکہ فواحش بھی معاصی میں شمار ہوتے ہیں جن کی قباحت انتہا کو پہنچی ہوئی ہوتی ہے، مثلاً زنا، شراب نوشی، قتل نا حق، تہمت اور بخل، وغیرہ یہ سب ان کاموں میں سے ہیں جن کو ہر عقل مند برا سمجھتا ہے۔ ﴿ وَاَنْ تَقُوْلُوْا عَلَی اللّٰہِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ﴾ ” اور یہ کہ تم اللہ پر ایسی باتیں کہو جن کا تمہیں علم نہیں“ اس میں اللہ تعالیٰ کی شریعت اور اس کی تقدیر کے بارے میں کسی علم کے بغیر بات کہنا بھی شامل ہے۔ جو کوئی اللہ تعالیٰ کو کسی ایسی صفت سے موصوف کرتا ہے جسے خود اس نے یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیان نہیں کیا یا اللہ تعالیٰ کی کسی ایسی صفت کی نفی کرتا ہے جس کو خود اس نے اپنے لیے ثابت کیا ہے یا کسی ایسی صفت کو اللہ تعالیٰ کے لیے ثابت کرتا ہے جس کی خود اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات سے نفی کی ہے، تو وہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں بغیر کسی علم کے بات کرتا ہے اور جو کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی ہمسر ہے، یا بت ہیں جن کی عبادت کر کے اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کیا جاسکتا ہے، وہ بھی اللہ تعالیٰ کے بارے میں بلا علم بات کرتا ہے اور جو کوئی دلیل کے بغیر یہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فلاں چیز حلال کی ہے یا فلاں چیز حرام کی ہے یا فلاں کام کا حکم دیا ہے یا فلاں کام سے روکا ہے، تو وہ بھی بغیر کسی علم کے اللہ تعالیٰ کی طرف بات منسوب کرتا ہے اور جو کوئی بغیر کسی دلیل اور برہان کے یہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کی فلاں صنف فلاں علت کی وجہ سے تخلیق فرمائی ہے، وہ بھی اللہ تعالیٰ کے بارے میں بلاعلم بات کرتا ہے اور بغیر کسی علم کے اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کی ہوئی باتوں میں سب سے بڑی بات یہ ہے کہ تاویل کرنے والا اللہ تعالیٰ یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کلام کی ان معانی کے مطابق تاویل کرے جو کسی باطل فرقے کی اصطلاحات میں سے ہو اور پھر یہ کہے کہ یہی اللہ تعالیٰ کی مراد ہے۔
پس بغیر کسی علم کے اللہ تعالیٰ کی طرف کوئی بات منسوب کرنا سب سے بڑا حرام ہے جس میں تمام گناہ شامل ہیں اور یہ شیاطن کا سب سے بڑا راستہ ہے جس کی طرف وہ لوگوں کو دعوت دیتا ہے۔ یہی شیطان اور اس کے لشکروں کے راستے ہیں، جہاں وہ اپنے مکر و فریب کے جال پھیلائے رکھتے ہیں اور جتنا بس چلتا ہے مخلوق کو پھانستے رہتے ہیں۔ جب کہ اللہ تعالیٰ تو عدل و احسان اور رشتہ داروں کو عطا کرنے کا حکم دیتا ہے اور فواحش، منکرات اور ظلم و زیادتی سے روکتا ہے۔
پس بندہ اپنے بارے میں غور کرے کہ وہ ان دو داعیوں میں سے کس داعی اور دو گروہوں میں کس گروہ کے ساتھ ہے؟ کیا تو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینے والے کی پیروی کر رہا ہے جو تیرے لیے بھلائی، دنیاوی اور اخروی سعادت چاہتا ہے، وہ جس کی اطاعت تمام تر فلاح، جس کی خدمت ہر لحاظ سے کامیابی ہے اور ہر قسم کا نفع اس منعم حقیقی کے ساتھ ظاہری اور باطنی نعمتوں پر معاملہ کرنے میں ہے جو صرف بھلائی کا حکم دیتا ہے اور صرف اسی چیز سے روکتا ہے جو شر ہے، یا تو شیطان کے داعی کی پیروی کر رہا ہے جو انسان کا دشمن ہے جو تیرے لیے برائی چاہتا ہے اور جو تجھے دنیا و آخرت میں ہلاک کرنے کے لیے بھرپور کوشش اور جدوجہد میں مصروف ہے، وہ جو تمام تر شر، اس کی اطاعت میں اور ہر قسم کا خسارہ اس کی سرپرستی میں ہے، وہ صرف شر کا حکم دیتا ہے اور صرف اس چیز سے روکتا ہے جو خیر ہے۔ |
البقرة |
170 |
پھر اللہ تعالیٰ مشرکین کا حال بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ جب ان کو اس کتاب کی اتباع کرنے کا حکم دیا جاتا ہے جو اس نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل فرمائی ہے جس کی صفت گزشتہ اوراق میں گزر چکی ہے تو وہ اس سے روگردانی کرتے ہوئے کہتے ہیں : ﴿ بَلْ نَتَّبِــعُ مَآ اَلْفَیْنَا عَلَیْہِ اٰبَاۗءَنَا ۭ﴾” بلکہ ہم تو اسی کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے آباؤ اجداد کو پایا ہے۔“ پس انہوں نے اپنے آباؤ اجداد کی تقلید پر اکتفا کیا اور انبیاء علیہم السلام پر ایمان لانے سے بے رغبتی اختیار کی۔ باوجود اس بات کے کہ ان کے آباؤ و اجداد لوگوں میں سب سے زیاد جاہل اور سب سے زیادہ گمراہ تھے۔ حق کو رد کرنے کا یہ ایک نہایت ہی کمزور شبہ ہے، یہ ان کی حق سے روگردانی اور اس سے اعراض اور ان کے عدم انصاف کی دلیل ہے، اگر رشد و ہدایت اور اچھے مقصد کی طرف ان کی راہنمائی کی گئی ہوتی، تو حق ان کا مقصد ہوتا اور جو کوئی حق کو اپنا مقصد بنا لیتا ہے اور وہ حق اور غیر حق کے درمیان موازنہ کرتا ہے تو قطعی طور پر حق اس کے سامنے واضح ہوجاتا ہے اور اگر وہ انصاف پسند ہے تو وہ حق کی اتباع کرتا ہے۔ |
البقرة |
171 |
جب اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ جو کچھ انبیائے کرام لے کر آئے، کفار نے ان کی اطاعت نہیں کی اور آباؤ اجداد کی تقلید کے باعث ان رسولوں کو رد کردیا۔ اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ وہ حق کو قبول کر کے اس کی دعوت پر لبیک نہیں کہیں گے، بلکہ اللہ تعالیٰ کو ان میں سے ہر ایک کے بارے میں یہ بھی معلوم تھا کہ وہ اپنے عناد سے ہرگز باز نہیں آئیں گے، تو اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرما دیا کہ ان کی مثال ایمان کے داعی کی پکار کے وقت ان مویشیوں کی سی ہے جنہیں ان کا چرواہا پکارتا ہے، لیکن ان جانوروں کو یہ علم نہیں کہ ان کا چرواہا اور منادی کیا کہہ رہا ہے؟ وہ صرف آواز سنتے ہیں جس کے ذریعے سے ان پر حجت قائم ہوگی مگر وہ اسے اس طرح سمجھتے نہیں کہ انہیں کوئی فائدہ پہنچے۔ پس وہ بہرے ہیں، حق کو سمجھنے اور قبول کرنے کے لیے سننے سے قاصر ہیں۔ وہ اندھے ہیں عبرت کی نظر سے دیکھ نہیں سکتے اور گونگے ہیں اس لیے حق کے اندر ان کے لیے جو خیر ہے اس کے بارے میں بولتے نہیں۔
اور وہ سبب جو اس تمام فساد کا موجب ہے یہ ہے کہ وہ عقل سلیم سے محروم ہیں، بلکہ وہ سب سے بڑے احمق اور سب سے بڑے جاہل ہیں۔ کیا عقل مند شخص اس بارے میں کوئی شک کرسکتا ہے کہ جس شخص کو رشد و ہدایت کی طرف بلایا جائے، فساد سے روکا جائے، عذاب میں گھسنے سے منع کیا جائے اور اسے اس چیز کا حکم دیا جائے جس میں اس کی بھلائی، فوز و فلاح اور نعمت ہے اور وہ اپنے خیر خواہ کا حکم ماننے سے انکار کر دے، اپنے رب کے حکم سے پیٹھ پھیر لے، دیکھتے بوجھتے آگ میں جا گھسے اور حق کو چھوڑ کر باطل کی پیروی کرے۔ یقیناً یہ شخص ایسا ہے کہ اس میں ذرہ بھر عقل نہیں۔ اگر وہ عیاری، دھوکہ اور فریب کو اپنی صفت بنا لے تو یہ شخص سب سے بڑا احمق ہے۔ |
البقرة |
172 |
عام حکم دینے کے بعد یہ اہل ایمان کے لیے خاص حکم ہے اور یہ اس لیے کہ وہی درحقیقت اپنے ایمان کے سبب سے اوامرو نواہی سے مستفید ہونے والے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کو پاک رزق کھانے کا اور اللہ کے اس انعام پر اس کا شکر کرنے کا حکم دیا کہ وہ اس رزق کو اس کی اطاعت میں ان امور میں مدد لینے کے لیے استعمال کرتے ہیں جو انہیں اللہ تک پہنچاتے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے انہیں اسی چیز کا حکم دیا ہے جس چیز کا حکم اس نے اپنے رسولوں کو دیا ہے فرمایا : ﴿يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا ﴾ (المومنون :51؍23) ” اے رسولو ! پاک چیزیں کھاؤ اور نیک کام کرو۔“ پس اس آیت کریمہ میں شکر سے مراد عمل صالح ہے۔
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے لفظ (حلال) استعمال نہیں فرمایا، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ضرر رساں چیزوں کو چھوڑ کر خالص پاکیزہ رزق کو اہل ایمان کے لیے مباح کیا ہے، نیز ایمان مومن کو وہ چیز تناول کرنے سے روک دیتا ہے جو اس کے لیے نہیں ہے۔ فرمایا : ﴿ اِنْ کُنْتُمْ اِیَّاہُ تَعْبُدُوْنَ﴾” اگر تم اسی کی عبادت کرنے والے ہو“ تو اس کا شکر کرو۔ اس آیت کریمہ میں اس امر کی دلیل ہے کہ جس نے اللہ تعالیٰ کا شکر نہ کیا اس نے اللہ تعالیٰ کی عبادت نہیں کی۔ جیسے جس نے اللہ تعالیٰ کا شکر کیا اس نے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی اور وہ اس کا حکم بجا لایا۔ نیز یہ آیت کریمہ اس امر پر بھی دلالت کرتی ہے کہ پاکیزہ رزق کھانا اعمال صالحہ اور ان کی قبولیت کا سبب ہے۔ نعمتوں کے ذکر کے بعد شکر بجا لانے کا حکم دیا ہے، کیونکہ شکر موجود نعمتوں کی حفاظت کرتا ہے اور غیر موجود نعمتوں کے حصول کا باعث بنتا ہے جیسے کفر غیر موجود نعمتوں کو مزید دور کرتا ہے اور موجود نعمتوں کو زائل کرتا ہے۔ |
البقرة |
173 |
جب اللہ تعالیٰ نے طیبات کی اباحت کا ذکر فرمایا تو خبائث کی تحریم کا ذکر بھی فرما دیا، چنانچہ فرمایا : ﴿اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃَ﴾” اللہ نے تم پر صرف مردار حرام کیا‘‘ مردار سے مراد وہ جانور ہے جو شرعی طریقے سے ذبح کیے بغیر مر جائے اور اس کی حرمت کی وجہ یہ ہے کہ مردار ناپاک اور خراب ہونے کی بنا پر ضرر رساں ہوتا ہے اور اکثر و بیشتر مردار کسی بیماری سے مرتا ہے۔ پس وہ مرض میں اضافے ہی کا باعث ہوتا ہے۔ مردار کی حرمت کی عمومیت سے ٹڈی اور مچھلی مستثنیٰ ہیں۔ یہ دونوں مردہ ہونے کی صورت میں بھی حلال اور طیب ہیں﴿ وَ الدَّمَ﴾ ”اور خون“ یعنی بہتا ہوا خون اور یہ قید ایک اور آیت سے ثابت ہے (ملاحظہ کیجئے ! سورۃ الانعام : ٦؍١٤٥): (مترجم) ﴿ وَمَآ اُہِلَّ بِہٖ لِغَیْرِ اللّٰہِ﴾ ” اور جو غیر اللہ کے لیے ذبح کیا گیا ہو۔“ مثلاً وہ جانور جو بتوں، استھانوں، پتھروں اور قبروں وغیرہ پر ذبح کیے گئے ہوں اور یہ مذکورہ انواع محرمات کے لیے خاص نہیں، بلکہ ان کو ان خبائث کی اجناس کے بیان کے لیے ذکر کیا گیا ہے جن کی حرمت پر ” طیبات“ کا مفہوم مخالف دلالت کرتا ہے۔ پس محرمات کی عمومیت گزشتہ آیت میں لفظ (حَلَالًا طَيِّبًا) سے مستفید ہوتی ہے، جیسا کہ پہلے گزرا۔
اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے لطف و کرم سے اور ان کے ضرر سے بچانے کے لیے یہ چیزیں ہم پر حرام ٹھہرائی ہیں۔ اس کے باوجود یہ بھی فرما دیا : ﴿ۚ فَمَنِ اضْطُرَّ﴾” جو کوئی ناچار ہوجائے۔“ یعنی جو کوئی بھوک، موت کے خوف یا جبرواکراہ کے باعث ان مذکورہ محرمات کو کھانے پر مجبور ہوجائے۔ ﴿ غَیْرَ بَاغٍ﴾ ” نہ سرکشی کرنے والا ہو“ یعنی سخت بھوکا نہ ہونے اور حلال کھانے پر قدرت رکھنے کے باوجود وہ حرام کھانے کا طلبگار نہ ہو۔ ﴿ وَّلَا عَادٍ ﴾” اور نہ حد سے تجاوز کرنے والا ہو“ یعنی اضطراری حالت میں جتنی مقدار میں اس کے لیے یہ حرام کھانا جائز ہے اس مقدار سے تجاوز نہ کرے۔ ﴿ فَلَآ اِثْمَ عَلَیْہِ ۭ﴾” تو اس پر کوئی گناہ نہیں“ یعنی اضطراری حالت میں یہ محرمات تناول کرنے میں اس پر کوئی گناہ نہیں اور جب گناہ اٹھ گیا تو معاملہ اسی (اباحت اصلی کی) حالت پر چلا گیا جو کہ تحریم سے پہلے تھی۔ انسان اس اضطراری حالت میں حرام کھانے پر مامور ہے۔ بلکہ اسے اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے اور اپنے آپ کو قتل کرنے سے روکا گیا ہے، تب اس پر حرام کھانا فرض ہے۔ اگر وہ اضطراری حالت میں حرام نہیں کھاتا اور مر جاتا ہے تو گناہ گار اور خودکشی کا مرتکب ہوگا۔
یہ اباحت اور وسعت اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں پر رحمت ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ کا اختتام اپنے ان دو اسمائے گرامی کے ساتھ کیا ہے جو غایت درجہ تک اس مضمون کے ساتھ مناسب رکھتے ہیں، چنانچہ فرمایا ﴿اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ﴾” بے شک اللہ بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔“ چونکہ ان کی حلت ان دو شرائط کے ساتھ مشروط ہے اور اس حالت میں انسان بسا اوقات اچھی طرح تحقیق کرنے سے قاصر رہتا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ وہ بخشنے والا ہے۔ پس اگر اس حالت میں اس سے خطا سر زد ہوجائے تو وہ بخش دے گا، خاص طور پر اس حالت میں جب کہ اس پر ضرورت غالب آجائے اور مشقت اس کے حواس کو مضمحل کر دے۔ اس آیت کریمہ میں مشہور فقہی قاعدہ( اَلضَّرُوْرَاتُ تُبِیْحُ اْلمَحْظُوْرَات)” ضرورت حرام کو مباح کردیتی ہے“ کی دلیل ہے۔ پس ہر حرام چیز، جس کے استعمال کرنے پر انسان مجبور ہوجائے تو اس رحم کرنے والے مالک نے اس کے لیے اسے جائز ٹھہرا دیا ہے۔ پس اول و آخر اور ظاہری و باطنی طور پر ہر قسم کی حمد و ثنا اور شکر کی مستحق صرف اسی کی ذات اقدس ہے۔ |
البقرة |
174 |
اللہ تعالیٰ نے جو علم اپنے رسولوں پر نازل فرمایا اور لوگوں پر اس علم کو واضح کرنے اور اس کو نہ چھپانے کا اہل علم سے وعدہ لیا۔ اس علم کو جو لوگ چھپاتے ہیں اللہ تعالیٰ نے اس میں ان کو سخت وعید سنائی ہے۔ پس جو لوگ اس علم کے عوض دنیاوی مال و متاع سمیٹتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے حکم کو دور پھینک دیتے ہیں۔ انہی لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ مَا یَاْکُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِہِمْ اِلَّا النَّارَ﴾ ” یہ اپنے پیٹوں میں جہنم کی آگ بھر رہے ہیں“ کیونکہ یہ قیمت جو انہوں نے (آیات الٰہی کے عوض) کمائی ہے یہ انہیں بدترین اور انتہائی حرام طریقے سے حاصل ہوئی ہے، لہٰذا ان کی جزا بھی ان کے عمل کی جنس سے ہوگی۔ ﴿ وَلَا یُکَلِّمُہُمُ اللّٰہُ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ ﴾” اور قیامت کے دن اللہ ان سے کلام نہیں فرمائے گا۔“ بلکہ اللہ تعالیٰ ان سے ناراض ہوگا اور ان سے منہ پھیر لے گا۔ پس یہ چیز ان کے لیے جہنم کے عذاب سے بھی بڑھ کر ہوگی۔ ﴿ وَلَا یُزَکِّیْہِمْ ښ﴾ ” اور نہ ان کو پاک کرے گا۔“ یعنی اللہ تعالیٰ ان کو اخلاق رذیلہ سے پاک نہیں کرے گا اس لیے کہ ان کے اعمال ایسے نہیں ہوں گے جو مدح، رضائے الٰہی اور جزا کے قابل ہوں۔ اللہ تعالیٰ انہیں اس لیے پاک نہیں کرے گا، کیونکہ انہوں نے عدم تزکیہ کے اسباب اختیار کیے۔ تزکیہ کا سبب سے بڑا سبب کتاب اللہ پر عمل کرنا، اس کو راہنما بنانا اور اس کی طرف دعوت دینا ہے۔ پس انہوں نے کتاب اللہ کو دور پھینک دیا، اس سے روگردانی کی، ہدایت کو چھوڑ کر گمرایہ اور مغفرت کو چھوڑ کر عذاب کو اختیار کیا۔ پس یہ لوگ جہنم ہی کے قابل ہیں۔ یہ جہنم کی آگ پر کیسے صبر کریں گے اور اس کی آگ کو کیسے برداشت کرسکیں گے؟ |
البقرة |
175 |
|
البقرة |
176 |
﴿ ذٰلِكَ﴾ یعنی یہ اللہ کا عدل و انصاف پر مبنی بدلہ اور اس کا اسباب ہدایت سے انہیں محروم رکھنا، جنہوں نے انہیں اختیار کرنے سے انکار کیا اور ان کے سوا دوسرے اسباب اختیار کیے۔ ﴿ بِاَنَّ اللّٰہَ نَزَّلَ الْکِتٰبَ بِالْحَـقِّ ۭ ﴾” اس لیے ہے کہ اللہ نے کتاب کو حق کے ساتھ اتارا‘‘ اور حق میں سے ہی یہ بات بھی ہے کہ نیک کام کرنے والے کو اس کی نیکیوں کا اور برا کام کرنے والے کو اس کی برائیوں کا بدلہ دیا جائے۔ نیز اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿ نَزَّلَ الْکِتٰبَ بِالْحَـقِّ ۭ﴾ میں اس امر کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید مخلوق کی ہدایت، باطل میں سے حق کو اور گمراہی میں سے ہدایت کو واضح کرنے کے لیے نازل فرمایا ہے، اس لیے جس نے اس کو اس کے اصل مقصد سے ہٹا دیا، وہ اس بات کا مستحق ہے کہ اسے اس کی پاداش میں بڑی سے بڑی سزا دی جائے۔ فرمایا : ﴿ وَاِنَّ الَّذِیْنَ اخْتَلَفُوْا فِی الْکِتٰبِ لَفِیْ شِقَاقٍۢ بَعِیْدٍ﴾ ” جن لوگوں نے اس کتاب میں اختلاف کیا وہ دور کی دشمنی میں ہیں۔“ یعنی وہ لوگ جنہوں نے کتاب اللہ کے بارے میں اختلاف کیا اور اس کے کسی حصے پر ایمان لائے اور کسی حصے کا انکار کیا اور وہ لوگ جنہوں نے اپنی مراد اور اپنی خواہشات کے مطابق اس میں تحریف کی اور اس کے اصل معانی سے ہٹا دیا ﴿ لَفِیْ شِقَاقٍۢ﴾یعنی وہ اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ دشمنی کر رہے ہیں ﴿ بَعِیْدٍ ﴾جو حق سے بہت دور ہے۔ اس لیے کہ انہوں نے کتاب اللہ کی مخالفت کی، جو حق لے کر آیا ہے جو اتفاق اور عدم تناقض کا موجب ہے۔ پس ان کا معاملہ خراب ہوگیا، ان کی مخالفت اور دشمنی بڑھ گئی اور اس کے نتیجے میں ان میں افتراق پیدا ہوگیا۔ اس کے برعکس وہ اہل کتاب جو کتاب اللہ پر ایمان لائے اور تمام معاملات میں اسے حکم تسلیم کیا، پس ان میں اتفاق ہوگیا اور یہ لوگ محبت اور کتاب اللہ پر اجتماع کی وجہ سے بلندیوں پر پہنچ گئے۔ یہ آیت کریمہ ان لوگوں کے لیے جو اس چیز کو چھپاتے ہیں، جسے اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا اور کتاب اللہ پر دنیا کو ترجیح دیتے ہیں، سخت ناراضی اور عذاب کی وعید کو متضمن ہے، نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ ان کو توفیق اور مغفرت کے ذریعے سے پاک نہیں کرتا اور اللہ تعالیٰ نے اس سبب کا ذکر فرمایا ہے جو ان کے ہدایت پر گمراہی کو ترجیح دینے کا باعث بنا اور اس پر یہ امر مترتب ہوا کہ انہوں نے مغفرت کو چھوڑ کر عذاب کو اختیار کرلیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس امر پر دکھ کا اظہار کیا کہ وہ جہنم کی آگ برداشت کرنے پر کس قدر صابر ہیں؟ جس میں وہ ان اسباب کی بنا پر داخل ہوئے جن کے بارے میں انہیں خوب علم تھا کہ یہ جہنم میں لے جاتے ہیں۔ یہ آیت اس امر پر بھی دلالت کرتی ہے کہ کتاب اللہ تمام تر حق پر مشتمل ہے جو اتفاق اور عدم افتراق کا موجب ہے، نیز ہر وہ شخص جو کتاب اللہ کی مخالفت کرتا ہے وہ حق سے بہت دور ہے اور وہ نزاع اور مخاصمت میں مبتلا ہے۔ واللہ اعلم۔ |
البقرة |
177 |
﴿ لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْھَکُمْ قِـبَلَ الْمَشْرِقِ﴾” نیکی یہ نہیں کہ تم مشرق یا مغرب کی طرف منہ کرلو‘‘ یعنی یہ وہ نیکی نہیں ہے جو بندوں سے مطلوب ہے جس کے بارے میں اس کثرت سے بحث و مباحثہ کی مشقت برداشت کی جائے جس سے سوائے دشمنی اور مخالفت کے کچھ اور جنم نہیں لیتا۔ یہ آیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس حدیث کی نظیر ہے جس میں آپ نے فرمایا :
(ليسَ الشَّدِيدُ بالصُّرَعَةِ، إنَّما الشَّدِيدُ الذي يَمْلِكُ نَفْسَهُ عِنْدَ الغَضَبِ) [صحيح البخاري، كتاب الادب، باب الحذر من الغضب، حديث: 6114]
” طاقتور وہ نہیں جو کشتی میں طاقتور ہے، بلکہ حقیقی طاقتور وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے آپ پر قابو رکھتا ہے۔“ ﴿ وَلٰکِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ﴾ ”لیکن نیکی تو یہ ہے جو ایمان لایا اللہ پر“ یعنی وہ اس بات پر ایمان لایا کہ اللہ تعالیٰ ہی معبود واحد ہے، وہ صفت کمال سے متصف اور ہر نقص سے پاک اور منزہ ہے۔ ﴿ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ ﴾” اور آخرت کے دن پر“ یعنی وہ ان تمام باتوں پر ایمان رکھتا ہے جو انسان کو موت کے بعد پیش آئیں گی جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خبر دی ہے۔ ﴿ وَالْمَلٰۗیِٕکَۃِ﴾” اور فرشتوں پر“۔ فرشتے وہ ہستیاں ہیں جن کی بابت اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیان کیا ہے، نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیان فرمایا ہے۔ ﴿ وَالْکِتٰبِ﴾ ” اور کتاب پر“ اس سے مراد جنس ہے، یعنی ان تمام کتابوں پر ایمان لاتا ہے جو اللہ نے اپنے رسولوں پر نازل فرمائی ہیں۔ ان میں سب سے عظیم کتاب قرآن مجید ہے۔ پس وہ ان تمام اخبار و احکام پر ایمان لاتا ہے جن پر یہ کتابیں مشتمل ہیں۔ ﴿وَالنَّبِیّٖنَ ۚ﴾” اور پیغمبروں پر“ یعنی وہ تمام انبیاء علیہم السلام پر عام طور پر اور ان میں سب سے افضل اور خاتم الانبیاء محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر خاص طور پر ایمان لاتا ہے۔ ﴿ وَاٰتَی الْمَالَ ﴾” اور دیتا ہے وہ مال“ مال کے زمرے میں ہر وہ چیز آتی ہے جو مال کے طور پر انسان اپنے لیے جمع کرتا ہے۔ خواہ یہ کم ہو یا زیادہ۔ ﴿ عَلٰی حُبِّہٖ﴾ اس کی محبت کے باوجود“ (حُبّہ) میں ضمیر کا مرجمع مال ہے۔ یعنی وہ مال کی محبت رکھنے کے باوجود مال کو اللہ کے راستے میں خرچ کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں یہ بھی واضح فرمایا کہ مال نفوس انسانی کو بہت محبوب ہوتا ہے۔ بندہ اسے مشکل ہی سے اللہ کے راستے میں خرچ کرتا ہے اس لیے جو کوئی اس مال سے محبت کے باوجود اس کو اللہ تعالیٰ کے تقرب کی خاطرخرچ کرتا ہے تو یہ اس کے ایمان کی بہت بڑی دلیل ہے۔ مال سے محبت کے باوجود اللہ تعالیٰ کے راستے میں مال خرچ کرنے کی ایک صورت یہ ہے کہ بندہ اس حال میں مال خرچ کرے کہ وہ صحت مند ہو، مال کا حریص ہو، فراخی کی امید رکھتا ہو اور محتاجی سے ڈرتا ہو۔ اسی طرح اگر قلیل مال میں سے صدقہ نکالا جائے تو یہ افضل ہے کیونکہ بندے کی یہی وہ حالت ہے جب وہ مال کو اس وہم سے روکے رکھنا پسند کرتا ہے کہ کہیں وہ محتاج نہ ہوجائے۔
اسی طرح جب مال نفیس ہو اور وہ اس مال سے محبت کرتا ہو اور پھر بھی وہ اس مال کو اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :﴿ لَن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّىٰ تُنفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ ۚ ﴾(آل عمران: 92؍3 )” تم اس وقت تک نیکی حاصل نہیں کرسکتے جب تک کہ تم ان چیزوں میں سے خرچ نہ کرو جن سے تم محبت کرتے ہو۔“ پس یہ سب وہ لوگ ہیں جو مال سے محبت رکھنے کے باوجود اللہ کے راستے میں خرچ کرنے والے ہیں۔
پھر اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کا ذکر کیا ہے جن پر مال خرچ کیا جانا چاہئے۔ یہی لوگ تیری نیکی اور تیرے احسان کے سب سے زیادہ مستحق ہیں۔ ﴿ ذَوِی الْقُرْبٰی﴾” رشتے داروں کو“ ان قریبی رشتہ داروں پر جن کے مصائب پر تو تکلیف اور ان کی خوشی پر خوشی محسوس کرے جو ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں اور دیت ادا کرنے میں شریک ہوتے ہیں۔ پس بہترین نیکی یہ ہے کہ رشتہ داروں کے ساتھ ان کے قرب اور ان کی حاجت کے مطابق مالی اور قولی احسان سے پیش آیا جائے۔ ﴿ وَالْیَـتٰمٰی﴾” اور یتیموں کو“ ان یتیموں پر جن کا کوئی کمانے والا نہ ہو اور نہ خود ان میں اتنی قوت ہو کہ وہ کما کر مستغنی ہوجائیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں پر عظیم رحمت ہے جو اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ وہ اپنے بندوں پر اس سے بھی زیادہ رحیم ہے جتناباپ اپنی اولاد پر ہوتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو وصیت کی ہے اور ان پر ان کے اموال میں فرض قرار دیا ہے کہ وہ ان لوگوں کے ساتھ احسان اور بھلائی سے پیش آئیں حتی کہ وہ یوں محسوس کریں کہ گویا ان کے والدین فوت ہی نہیں ہوئے، کیونکہ عمل کا بدلہ عمل کی جنس ہی سے ہوتا ہے جو کسی دوسرے کے یتیم پر رحم کرتا ہے تو اس کے یتیم کے سر پر بھی دست شفقت رکھا جاتا ہے۔
﴿ وَالْمَسٰکِیْنَ﴾” اور مسکینوں کو“ مساکین وہ لوگ ہیں جن کو حاجت نے بے دست و پا اور فقر نے ذلیل کردیا ہو۔ پس مال دار لوگوں پر ان کا اتنا حق ہے جس سے ان کی مسکینی دور ہوجائے یا کم از کم اس میں کمی ہوجائے۔ مال دار لوگ اپنی استطاعت کے مطابق اور جو کچھ ان کو میسر ہے (اس سے ان کی مدد کریں)
﴿ وَابْنَ السَّبِیْلِ ۙ﴾” اور مسافر کو“ یہ اس اجنبی کو کہا جاتا ہے جو کسی دوسرے شہر میں ہو اور وہ اپنے شہر سے کٹ کر رہ گیا ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو ترغیب دی ہے کہ وہ اجنبی مسافر کو اتنا مال عطا کریں جو سفر میں اس کا مددگار ہو۔ اس گمان پر کہ وہ حاجت مند ہے اور اس کے سفر کے مصارف بہت زیادہ ہیں۔ پس اس شخص پر جسے اللہ تعالیٰ نے وطن سے اور اس کی راحت سے نوازا ہے اور اسے نعمتیں عطا کی ہیں، فرض ہے کہ وہ اپنے اس قسم کے غریب الوطن بھائی پر اپنی استطاعت کے مطابق ترس کھائے خواہ اسے زاد راہ عطا کر دے، یا سفر کا کوئی آلہ (سواری وغیرہ) دے دے، یا اس کو پہنچنے والے مظالم وغیرہ کا ازالہ کر دے۔
﴿ وَالسَّاۗیِٕلِیْنَ﴾” اور مانگنے والوں کو“ سائلین وہ لوگ ہیں جن پر کوئی ایسی ضرورت آن پڑے جو ان کو سوال کرنے پر مجبور کر دے، مثلاً ایسا شخص جو کسی دیت کی ادائیگی میں مبتلا ہوگیا ہو یا حکومت کی طرف سے اس پر کوئی جرمانہ عائد کردیا گیا ہو یا وہ مصالح عامہ کے لیے کوئی عمارت، مثلاً مسجد، مدرسہ اور پل وغیرہ تعمیر کروا رہا ہو۔ اس حوالے سے سوال کرنا اس کا حق ہے خواہ وہ مال دار ہی کیوں نہ ہو۔﴿ وَفِي الرِّقَابِ﴾” اور گردونوں کے آزاد کرنے میں“ غلاموں کو آزاد کرنا اور آزادی پر اعانت کرنا، مکاتب کو آزادی کے لیے مالی مدد دینا، تاکہ وہ اپنے مالک کو ادائیگی کرسکے۔ جنگی قیدی جو کفار یا ظالموں کی قید میں ہوں۔ سب اس مد میں شامل ہیں۔ ﴿ وَاَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَاٰتَی الزَّکٰوۃَ ۚ ﴾” اور قائم کرے وہ نماز اور ادا کرے زکوٰۃ“ گزشتہ صفحات میں متعدد بار گزر چکا ہے کہ نماز اور زکوٰۃ کے سب سے افضل عبادت ہونے، تقرب الٰہی کا کامل ترین ذریعہ ہونے، اور قلبی، بدنی اور مالی عبادت ہونے کی بنا پر ان دونوں کو ایک ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔ نماز اور زکوٰۃ ہی کے ذریعے سے ایمان کا وزن ہوتا ہے اور انہیں سے معلوم کیا جاتا ہے کہ صاحب ایمان کتنے یقین کا مالک ہے۔ ﴿ وَالْمُوْفُوْنَ بِعَہْدِہِمْ اِذَا عٰھَدُوْا ۚ ﴾ ”اور وہ اپنے عہدوں کو پورا کرنے والے ہیں جب وہ عہد کرلیں“ اللہ تعالیٰ یا خود بندے کی طرف سے لازم کیے ہوئے امر کا التزام کرنا عہد کہلاتا ہے۔ پس تمام حقوق اللہ اس میں داخل ہوجاتے ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر ان کو لازم قرار دیا ہے اور وہ اس التزام کو قبول کر کے اس عہد میں داخل ہوگئے اور ان کا ادا کرنا ان پر فرض قرار پایا۔ نیز اس عہد میں وہ حقوق العباد بھی داخل ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر واجب قرار دیا ہے اور اس میں وہ حقوق بھی شامل ہیں جن کو بندے اپنے آپ پر لازم قرار دے لیتے ہیں، مثلاً قسم اور نذر وغیرہ۔
﴿ وَالصّٰبِرِیْنَ فِی الْبَاْسَاۗءِ ﴾” اور صبر کرنے والے ہیں وہ سختی میں“ یعنی فقر اور محتاجی میں صبر کرتے ہیں، کیونکہ محتاج شخص بہت سے پہلوؤں سے صبر کا محتاج ہوتا ہے۔ وہ دائمی طور پر ایسی قلبی اور بدنی تکالیف میں مبتلا ہوتا ہے جس میں کوئی اور شخص مبتلا نہیں ہوتا۔ اگر مال دار دنیاوی نعمتوں سے استفادہ کرتے ہیں، تو فقیر آدمی ان نعمتوں سے استفادے پر قادر نہ ہونے کی وجہ سے رنج و الم میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ جب وہ اور اس کے اہل و عیال بھوک کا شکار ہوتے ہیں تو اسے دکھ ہوتا ہے جب وہ کوئی ایسا کھانا کھاتا ہے جو اس کی چاہت کے مطابق نہ ہو، تب بھی اسے تکلیف پہنچتی ہے۔ اگر وہ عریاں ہوتا ہے یا عریانی کی حالت کے قریب پہنچ جاتا ہے تو دکھ محسوس کرتا ہے۔ جب وہ اپنے سامنے کی یا مستقبل میں متوقع کسی چیز کو دیکھتا ہے، تو غم زدہ ہوجاتا ہے۔ اگر وہ سردی محسوس کرتا ہے جس سے بچنے پر وہ قادر نہیں ہوتا، تو اسے تکلیف پہنچتی ہے۔ پس یہ تمام چیزیں مصائب کے زمرے میں آتی ہیں جن پر صبر کرنے کا اور اللہ تعالیٰ سے ثواب کی امید رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔
﴿ وَالضَّرَّاۗءِ ﴾” اور تکلیف میں“ یعنی مختلف قسم کے امراض مثلاً بخار، زخم، ریح کا درد، کسی عضو میں درد کا ہونا حتی کہ دانت اور انگلی کا درد وغیرہ، ان تمام تکالیف میں بندہ صبر کا محتاج ہے، کیونکہ نفس کمزور ہوتا ہے اور بدن درد محسوس کرتا ہے اور یہ مرحلہ نفس انسانی کے لیے نہایت مشقت آزما ہوتا ہے۔ خاص طور پر جب بیماری طول پکڑ جائے۔ پس اسے حکم ہے کہ وہ صبر کرے اور اللہ تعالیٰ سے ثواب کی امید رکھے۔ ﴿ وَحِیْنَ الْبَاْسِ ۭ﴾” اور لڑائی کے وقت“ یعنی ان دشمنوں سے لڑائی کے وقت جن سے لڑنے کا حکم دیا گیا ہے، کیونکہ صبر و استقلال سے جواں مردی کا مظاہرہ نفس انسانی کے لیے نہایت گراں بار ہے اور انسان قتل ہونے، زخمی ہنے یا قید ہونے سے بہت گھبراتا ہے۔ پس وہ اس صورت میں اللہ تعالیٰ پر ثواب کی امید رکھتے ہوئے صبر کرنے کا سخت محتاج ہے جس کی طرف سے فتح و نصرت ہوتی ہے جس کا وعدہ اس نے صبر کرنے والوں کے ساتھ کر رکھا ہے﴿ اُولٰۗئِکَ﴾” یہی“ یعنی جو ان عقائد حسنہ اور اعمال صالحہ سے متصف ہیں جو ایمان کے آثار، اس کی برہان اور اس کا نور ہیں اور ان اخلاق کے مالک ہیں جو انسان کا حسن و جمال اور انسانیت کی حقیقت ہے۔ ﴿ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا ۭ ﴾” جو سچے ہیں۔“ یعنی یہی لوگ اپنے ایمان میں سچے ہیں، کیونکہ ان کے اعمال ان کے ایمان کی تصدیق کرتے ہیں۔ ﴿ وَ اُولٰۗئِکَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَ ﴾” اور یہی لوگ متقی ہیں“ کیونکہ انہوں نے محظورات کو ترک کردیا اور مامورات پر عمل کیا، اس لیے کہ یہ امور تمام اچھی خصلتوں کو اپنے دامن میں سمیٹ لیتے ہیں، چاہے ضمناً یا لزوماً، کیونکہ ایفائے عہد میں پورا دین ہی آجاتا ہے۔ علاوہ ازیں اس آیت میں جن عبادات کی صراحت ہے، وہ سب عبادات سے اہم اور بڑی ہیں اور جو ان عبادات کا التزام کرتا ہے وہ دیگر امور کو زیادہ آسانی سے سر انجام دے سکتا ہے۔ پس یہی لوگ نیک، سچے اور متقی ہیں۔ ان تین امور پر اللہ تعالیٰ نے جو دنیاوی اور اخروی ثواب مرتب کیا ہے وہ سب کو معلوم ہے جس کی تفصیل اس مقام پر ممکن نہیں۔ |
البقرة |
178 |
اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر اس احسان کا ذکر کرتا ہے کہ اس نے مقتولین کے بارے میں قصاص، یعنی اس میں مساوات کو فرض کیا، جس کا مطلب یہ ہے کہ قاتل کو مقتول کے بدلے میں اس طریقے سے قتل کیا جائے جس طریقے سے اس نے مقتول کو قتل کیا تھا، یہ بندوں کے درمیان عدل و انصاف کا تقاضا ہے۔ اس خطاب کا رخ عام مومنوں کی طرف ہے، اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ تمام اہل ایمان پر یہ فرض ہے حتیٰ کہ قاتل کے اولیاء اور خود قاتل پر بھی کہ جب مقتول کا ولی قصاص کا مطالبہ کرے اور قاتل سے قصاص لینا ممکن ہو تو مقتول کے ولی کی مدد کی جائے اور یہ کہ ان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اس حد کے درمیان حائل ہوں اور مقتول کے وارث کو بدلہ لینے سے روکیں، جیسا کہ جاہلیت کے زمانے میں لوگوں کی عادت تھی یا ان جیسے دیگر لوگ جو مجرموں کو پناہ دیتے ہیں۔
پھر اللہ تعالیٰ نے اس قصاص کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ اَلْحُــرُّ بِالْحُــرِّ﴾ ” آزاد، بدلے آزاد کے“ الفاظ کے اعتبار سے اس میں مرد، بدلے مرد کے‘ کا مفہوم بھی شامل ہے۔ ﴿ وَالْاُنْـثٰی بِالْاُنْـثٰی ۭ﴾” عورت، بدلے عورت کے“ اس کا مطلب ہے مرد کے بدلے عورت اور عورت کے بدلے مرد۔ پس منطوق کلام، الانثی بالانثی کے مفہوم پر مقدم ہوگا، اس لیے کہ حدیث اس پر دلالت کرتی ہے کہ مرد کو عورت کے بدلے قتل کیا جائے گا (اگر مرد عورت کا قاتل ہوگا) اس عموم سے والدین (اوپر تک) مستثنیٰ ہیں۔ لہٰذا بیٹے کے قتل کے قصاص میں والدین کو قتل نہیں کیا جائے گا، کیونکہ یہ استثناء سنت میں وارد ہوا ہے۔ نیز قصاص کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد دلالت کرتا ہے کہ بیٹے کے قتل کی پاداش میں باپ کو قتل کرنا انصاف نہیں نیز اس لیے کہ باپ کا دل اپنے بیٹے کے لیے رحم اور شفقت سے لبریز ہوتا ہے جو اسے بیٹے کو قتل کرنے سے روکتا ہے۔ سوائے اس صورت کے کہ باپ کے دماغ میں کوئی خلل ہو یا بیٹے کی طرف سے اسے نہایت سخت اذیت پہنچی ہو۔ سنت نبوی ہی کی رو سے اس عموم سے کافر بھی خارج ہے۔ نیز اس کی دلیل یہ بھی ہے کہ یہ خطاب خاص طور پر اہل ایمان کے لیے ہے۔ نیز یہ قرین انصاف بھی نہیں کہ اللہ کے دشمن کے بدلے اللہ تعالیٰ کے دوست کو قتل کیا جائے اور غلام کے بدلے غلام کو قتل کیا جائے گا خواہ وہ مرد ہو یا عورت اور خواہ ان کی قیمت مختلف ہو یا برابر، مفہوم کلام یہ بھی دلالت کرتا ہے کہ آزاد کو غلام کے بدلے میں قتل نہیں کیا جائے گا، کیونکہ غلام آزاد کے مساوی نہیں ہوتا۔
بعض اہل علم نے ( وَالْاُنْـثٰی بِالْاُنْـثٰی) کے مفہوم سے یہ استدلال کیا ہے کہ عورت کے قصاص میں مرد کو قتل کرنا جائز نہیں اور اس کی وجہ گزشتہ سطور میں گزر چکی ہے (کہ یہ صحیح نہیں، کیونکہ یہ مفہوم حدیث کے خلاف ہے) اس آیت کریمہ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اصل، قتل میں قصاص کا واجب ہونا ہے (یعنی قتل کے بدلے میں قتل ضروری ہے) اور دیت تو قصاص کا بدل ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿فَمَنْ عُفِیَ لَہٗ مِنْ اَخِیْہِ شَیْءٌ﴾” اگر اس (قاتل) کو اس کے (مقتول) بھائی سے کچھ معاف کردیا جائے۔“ یعنی اگر مقتول کا ولی قاتل کو معاف کر کے دیت قبول کرلے یا مقتول کے اولیاء میں سے کوئی شخص قاتل کو معاف کر دے تو اس صورت میں قصاص ساقط ہوجائے گا اور دیت واجب ہوجائے گی۔ قصاص میں اختیار ہوگا اور مقتول کا ولی قصاص کی بجائے دیت لے سکتا ہے۔ جب مقتول کا ولی قاتل کو معاف کر دے تب اس پر واجب ہے کہ وہ قاتل سے معروف طریقے سے خون بہا کا مطالبہ کرے ﴿ بِالْمَعْرُوْفِ﴾” معروف طریقے سے‘‘ یعنی ایسے طریقے سے کہا اس پر شاق نہ گزرے اور اتنا زیادہ مطالبہ نہ کرے جس کو ادا کرنے کی قاتل میں طاقت نہ ہو، بلکہ نہایت احسن طریقے سے قاتل سے دیت کا تقاضا کرے اور اسے تنگی میں مبتلا نہ کرے۔ ﴿ وَاَدَاۗءٌ اِلَیْہِ بِاِحْسَانٍ ۭ﴾” اور احسان کے ساتھ اسے ادا کرنا چاہئے۔“ یعنی قاتل پر واجب ہے کہ وہ ٹال مٹول، خون بہا میں کمی اور قولی یا فعلی تکلیف پہنچائے بغیر، بھلے طریقے سے دیت ادا کرے۔ معاف کردینے کے احسان کا بدلہ یہ ہے کہ خون بہا کو احسن طریقے سے ادا کیا جائے۔ انسان پر لوگوں کی جو ذمہ داریاں واجب ہیں ان میں یہی اصول مامور بہ ہے کہ جس نے کسی سے اپنا حق لینا ہے، وہ اس امر پر مامور ہے کہ وہ معروف طریقے سے حق کا مطالبہ کرے اور جس کے ذمے حق ہے وہ اسے بھلے طریقے سے ادا کرے۔
﴿ فَمَنْ عُفِیَ لَہٗ مِنْ اَخِیْہِ شَیْءٌ﴾ میں نرمی اختیار کرنے اور قصاص معاف کر کے دیت قبول کرنے کی ترغیب ہے۔ اس سے بھی زیادہ احسن بات یہ ہے کہ کچھ لیے بغیر ہی قاتل کو معاف کردیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد (أخِیْہِ) اس بات کی دلیل ہے کہ قاتل کی تکفیر نہ کی جائے، کیونکہ یہاں ” اخوت“ سے مراد اخوت ایمانی ہے۔ پس قتل کے ارتکاب سے قاتل دائرہ ایمان سے خارج نہیں ہوگا۔ جب بات یہ ہے تو دیگر معاصی کا مرتکب، جو کفر سے کم تر ہیں، بطریق اولیٰ دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوگا البتہ اس سے اس کے ایمان میں کمی ضرور واقع ہوگی۔
اور جب مقتول کے اولیا یا ان میں سے کوئی ایک قاتل کو معاف کردیں تو قاتل کا خون محفوظ ہوجاتا ہے اور وہ مقتول کے اولیاء یا دیگر لوگوں کے قصاص لینے سے بچ جاتا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿ فَمَنِ اعْتَدٰی بَعْدَ ذٰلِکَ﴾ ” اگر کوئی اس کے بعد زیادتی کرتا ہے“ یعنی معاف کردینے کے بعد اگر کوئی شخص زیادتی کرتا ہے ﴿ فَلَہٗ عَذَابٌ اَلِیْمٌ﴾ تو (آخرت میں) اس کے لیے درد ناک عذاب ہے۔ “
رہا اس کو قتل کرنا یا نہ قتل کرنا تو یہ حکم گزشتہ آیت سے اخذ کیا جائے گا اور چونکہ (معاف کرنے کے بعد) اس نے قاتل کو محض بدلہ لینے کے لیے قتل کیا ہے، لہٰذا اس کے قصاص میں اسے قتل کیا جائے گا۔ رہے وہ لوگ جنہوں نے ﴿ عَذَابٌ اَلِیْمٌ﴾ کی تفسیر ” قتل“ کی ہے۔ نیز ان کا موقف ہے کہ یہ آیت اس قاتل کا قتل متعین کرتی ہے اور اس کو معاف کرنا جائز نہیں۔ تو بعض اہل علم اس کے قائل ہیں۔ لیکن صحیح بات پہلی ہی ہے، کیونکہ اس کا جرم دوسرے شخص کے جرم سے زیادہ نہیں ہے۔ |
البقرة |
179 |
پھر اللہ تعالیٰ قصاص کی مشروعیت میں پنہاں عظیم حکمت کو بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے : ﴿ وَلَکُمْ فِی الْقِصَاصِ حَیٰوۃٌ﴾ ” اور تمہارے لیے قصاص میں زندگانی ہے۔“ یعنی قصاص کے قانون سے خون محفوظ ہوجاتے ہیں اور شقی القلب لوگوں کا قلع قمع ہوجاتا ہے، کیونکہ جب قاتل کو معلوم ہوگا کہ قتل کے بدلے اس کو قتل کردیا جائے گا تو اس سے قتل کا ارتکاب ہونا مشکل ہے اور جب دوسرے لوگ مقتول کے قصاص میں قاتل کو قتل ہوتا دیکھیں گے تو دوسرے لوگ خوفزدہ ہو کر عبرت پکڑیں گے اور قتل کرنے سے باز رہیں گے۔ اگر قاتل کی سزا قصاص (قتل) کے سوا کچھ اور ہوتی تو اس سے شر (برائی) کا انسداد اس طرح نہ ہوتا جس طرح قتل کی سزا سے ہوتا ہے اور اسی طرح تمام شرعی حدود ہیں کہ ان سب میں عبرت پذیری اور انسداد شر کے ایسے پہلو ہیں جو اس اللہ تعالیٰ کی حکمت پر دلالت کرتے ہیں، جو نہایت دانا اور بڑابخشنے والا ہے۔
﴿ حَیٰوۃٌ﴾ کونکرہ استعمال کرنا تکثیر اور تعظیم کے لیے ہے اور چونکہ اس حکم کی حقیقت کو صرف لوگ جان سکتے ہیں جو عقل کامل کے مالک ہیں اس لیے دیگر لوگوں کی بجائے انہی لوگوں کو خاص طور پر مخاطب کیا گیا ہے۔ یہ آیت کریمہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس کے بندے اس کے احکام میں پوشیدہ حکمتوں، اس کے کمال پر دلالت کرنے والی مصلحتوں، اس کی کامل حمد و حکمت اور عدل و رحمت واسعہ میں تدبر کے لیے اپنی عقل و فکر کو استعمال میں لائیں اور جو کوئی یہ عمل کرتا ہے وہ اس مدح کا مستحق ہے کہ وہ ان عقل مند لوگوں میں سے ہے جن کو اس خطاب میں مخاطب کیا گیا ہے اور جن کو رب ارباب نے پکارا ہے۔ سوچنے سمجھنے والے لوگوں کے لیے یہی فضیلت اور شرف کافی ہے۔ فرمایا :﴿لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ﴾” تاکہ تم متقی بن جاؤ“ اور یہ تقویٰ اس طرح حاصل ہوتا ہے کہ جو شخص اپنے رب کو اور اس کے دین و شریعت کے بڑے بڑے اسرار، انوکھی حکمتوں اور بلند مرتبہ نشانیوں کو پہچان لیتا ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کر دے، اس کی نافرمانیوں کو بہت بڑی چیز سمجھتے ہوئے انہیں ترک کر دے۔ تب وہ اس بات کا مستحق ہوجاتا ہے کہ اسے اہل تقویٰ میں شمار کیا جائے۔ |
البقرة |
180 |
یعنی اے مومنوں کے گروہ جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت قریب آجائے، یعنی جب موت کے اسباب، مثلاً مہلک مرض اور دیگر ہلاکت خیز اسباب قریب آجائیں تو اللہ تعالیٰ نے تم پر (وصیت) فرض کی ہے۔ ﴿ اِنْ تَرَکَ خَیْرَۨا ښ﴾ ” اگر اس نے مال چھوڑا ہو“ (خیر) عرف میں مال کثیر کو کہا جاتا ہے، پس اس پر واجب ہے کہ وہ اپنے والدین اور ان لوگوں کے لیے جو سب سے زیادہ اس کی نیکی کے مستحق ہیں اپنے حال اور طاقت کے مطابق بغیر کسی اسراف کے، وصیت کرے۔ علاوہ ازیں قریبی رشتہ داروں کو چھوڑ کر صرف دور کے رشتہ داروں کے لیے ہی وصیت نہ کرے، بلکہ وصیت کو ضرورت اور قرابت مندی کے تقاضوں کے مطابق ترتیب دے، اسی لیے اسم تفضیل کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے۔ (یعنی اقربین جس کا مطلب یہ ہے کہ جو جتنا زیادہ قریب ہے، وہ اتنا ہی زیادہ تمہارے مال میں استحقاق رکھتا ہے) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿’ حَقًّا عَلَی الْمُتَّقِیْنَ﴾ ’ ’یہ حکم لازم ہے پرہیزگاروں پر“ وصیت کے واجب ہونے پر دلالت کرتا ہے، کیونکہ وہ حق ثابت ہے اور اس کو اللہ تعالیٰ نے موجبات تقویٰ میں شمار کیا ہے۔
جان لیجیے کہ جمہور مفسرین کی رائے یہ ہے کہ اس آیت کو میراث کی آیت نے منسوخ کردیا ہے اور بعض کی رائے یہ ہے کہ اس آیت میں وصیت کا حکم والدین اور غیر وارث رشتہ داروں کے لیے ہے حالانکہ ایسی کوئی دلیل نہیں جو اس تخصیص پر دلالت کرتی ہو۔ اس ضمن میں بہترین رائے یہ ہے کہ یہ وصیت مجمل طور پر والدین اور قریبی رشتے داروں کے لیے ہے، پھر اس کو اللہ تعالیٰ نے عرف جاری کی طرف لوٹا دیا۔ پھر اس اجمالی حکم کے بعد اللہ تعالیٰ نے وارث والدین اور وارث رشتہ داروں کے لیے اس معروف کو آیات میراث میں مقدر فرما دیا (یعنی ان کے حصوں کا تعین فرما دیا) اور وصیت کا حکم ان والدین اور رشتہ داروں کے لیے باقی رہ گیا جو وراثت سے محروم ہو رہے ہوں تو وصیت کرنے والا ان کے حق میں وصیت کرنے پر مامور ہے اور یہ لوگ اس کی نیکی کے سب سے زیادہ محتاج ہیں۔ اس قول پر تمام امت متفق ہوسکتی ہے اور اس سے سابقہ دونوں اقوال میں تطبیق بھی ہوجاتی ہے، کیونکہ دونوں فریقوں نے اس آیت کو اپنے اپنے نقطہ نظر سے دیکھا اور اختلاف کا باعث بنے۔ اس تطبیق سے اتفاق اور دونوں آیات میں مطابقت حاصل ہوجاتی ہے۔ کیونکہ دونوں آیتوں میں جمع و تطبیق ممکن ہے اور دو آیتوں کے درمیان تطبیق نسخ کے اس دعوے سے بہتر ہے جس کی تائید میں کوئی صحیح دلیل نہ ہو۔ |
البقرة |
181 |
بسا اوقات وصیت کرنے والا اس وہم کی بنا پر وصیت کرنے سے گریز کرتا ہے کہ کہیں پسماندگان وصیت کو تبدیل نہ کردیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ فَمَنْۢ بَدَّلَہٗ ﴾” پس جو شخص اس (وصیت) کو بدل ڈالے۔“ یعنی جو کوئی اس وصیت کو بدلتا ہے جو ان مذکور لوگوں یا دیگر لوگوں کے حق میں کی گئی ہے۔ ﴿بَعْدَ مَا سَمِعَہٗ﴾” اس کو سننے کے بعد“ یعنی اس وصیت کو سمجھ لینے اور اس کے طریقوں اور اس کے نفاذ کو اچھی طرح جان لینے کے بعد جو کوئی اس کو تبدیل کرتا ہے ﴿ فَاِنَّمَآ اِثْمُہٗ عَلَی الَّذِیْنَ یُبَدِّلُوْنَہٗ ۭ﴾” تو اس کا گناہ صرف انہی لوگوں پر ہے جو انہیں تبدیل کرتے ہیں۔“ ورنہ وصیت کرنے والا تو اللہ تعالیٰ کے اجر کا مستحق ہوگیا۔ ﴿اِنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌ﴾” بے شک اللہ سنتا ہے۔“ یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ تمام آوازوں کو سنتا ہے۔ اسی طرح وہ وصیت کرنے والے کی بات اور وصیت کو بھی سنتا ہے۔ پس وہ اس ہستی کا خوف کھاتے ہوئے جو اسے دیکھ اور سن رہی ہے اپنی وصیت میں ظلم اور زیادتی کا ارتکاب نہ کرے۔ ﴿ عَلِیْمٌ﴾ٌ وہ وصیت کرنے والے کی نیت کو جانتا ہے اور اس شخص کے عمل کو بھی جس کو یہ وصیت کی گئی ہے۔ |
البقرة |
182 |
جب وصیت کرنے والا پوری کوشش سے کام لیتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کی نیت کو جانتا ہے تو اسے اپنی نیت کا ثواب ملتا ہے۔ خواہ اس سے خطاہی کیوں نہ واقع ہو۔ اس آیت کریمہ میں اس شخص کے لیے تنبیہ ہے جس کو وصیت کی گئی ہو کہ وہ اس میں تبدیلی سے باز رہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ اسے خوب جانتا ہے، اس کے فعل سے وہ باخبر ہے۔ پس اسے اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہئے۔ یہ تو تھا وصیت عادلہ کا حکم، رہی وہ وصیت جو ظلم اور گناہ کی بنیاد پر کی گئی ہو، تو وصیت کے وقت جو کوئی وصیت کرنے والے کے پاس موجود ہو اسے چاہئے کہ وہ اسے اس امر کی نصیحت کرے جو بہتر اور زیادہ قرین عدل ہو اور اسے ظلم کرنے سے روکے۔ (الَجنَف) سے مراد بغیر کسی ارادے کے غلطی سے وصیت میں ظلم کا ارتکاب کرنا اور (الاِثْمُ) سے مراد عمداً ظلم کرنا ہے۔ اگر اس نے وصیت کے وقت وصیت کرنے والے کو (غلط وصیت کرنے سے) نہیں روکا، تو اس کے لیے مناسب یہی ہے کہ وہ ان لوگوں کے مابین صلح کروا دے جن کو وصیت کی گئی ہے۔ ان کی باہمی رضامندی اور مصالحت کے ذریعے سے ان کے درمیان عدل و انصاف کا اہتمام کرے اور ان کو وعظ و نصیحت کرے کہ وہ اپنے مرنے والے کی ذمہ داری کو پورا کریں۔ باہمی صلح کروانے والے کا یہ فعل بہت بڑی نیکی ہے اور ان پر کوئی گناہ نہیں جیسے اس شخص کو گناہ ہوتا ہے جو جائز وصیت کو تبدیل کرتا ہے۔ بنا بریں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ تمام لغزشوں کو معاف کردیتا ہے۔ اس شخص کی غلطیوں سے درگزر کرتا ہے جو توبہ کر کے اس کی طرف لوٹتا ہے، وہ اس شخص کو بھی اپنی مغفرت سے نوازے گا جو اپنی ذات سے صرف نظر کر کے اپنا کچھ حق اپنے بھائی کے لیے چھوڑ دیتا ہے، اس لیے کہ جو نرمی اختیار کرتا ہے، اللہ تعالیٰ بھی اس کے ساتھ نرمی اختیار کرتا ہے۔ اسی طرح وہ اس مرنے والے کو بھی بخش دینے والا ہے جو اپنی وصیت میں ظلم کا ارتکاب کر گیا ہے، بشرطیکہ اس کے ورثا اس کو بری الذمہ کرنے کی خاطر، اللہ کی رضا کے لیے آپس میں نرمی اور درگزر کا معاملہ اختیار کریں۔ ﴿ رَّحِیْمٌ ﴾یعنی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر نہایت رحم کرنے والا ہے، کیونکہ اس نے اپنے بندوں پر ہر معاملہ اس طرح مشروع کیا ہے کہ وہ اس کے ذریعے سے ایک دوسرے کے ساتھ مہربانی اور نرمی سے معاملہ کریں۔ یہ آیات کریمہ وصیت کی ترغیب پر دلالت کرتی ہیں، نیز اس امر پر بھی دلالت کرتی ہیں کہ جس شخص کے لیے وصیت کی گئی ہے اس کو بیان کیا جائے اور ان میں اس شخص کے لیے سخت وعید ہے جو جائز وصیت میں تغیر و تبدل کا مرتکب ہوتا ہے اور ظلم پر مبنی وصیت میں اصلاح کرنے کی ترغیب ہے۔ |
البقرة |
183 |
اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ اس نے اپنے بندوں پر احسان فرماتے ہوئے ان پر روزے فرض کیے جس طرح اس نے پہلی امتوں پر روزے فرض کیے تھے، کیونکہ روزے کا تعلق ایسی شرائع اور اوامر سے ہے جو ہر زمانے میں مخلوق کی بھلائی پر مبنی ہیں۔ نیز روزے اس امت کو اس جرأت پر آمادہ کرتے ہیں کہ وہ اعمال کی تکمیل اور خصائل حسنہ کی طرف سبقت کرنے میں دوسرے لوگوں سے مقابلہ کریں، نیز روزے بوجھل اعمال میں سے نہیں ہیں جن کا صرف تمہیں ہی بطور خاص حکم دیا گیا ہو۔ پھر اللہ تعالیٰ نے روزے کی مشروعیت کی حکمت بیات کرتے ہوئے فرمایا : ﴿لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْن﴾ ” تاکہ تم متقی بن جاؤ۔“ کیونکہ روزہ تقویٰ کا سب سے بڑا سبب ہے۔ اس لیے کہ روزے میں اللہ تعالیٰ کے حکم کی کامل اطاعت اور اس کی نہی سے مکمل اجتناب ہے۔ پس یہ آیت کریمہ تقویٰ کے جن امور پر مشتمل ہے وہ یہ ہیں کہ
روزہ دار کھانا پینا اور جماع وغیرہ اور ان تمام چیزوں کو چھوڑ دیتا ہے جنہیں وقتی طور پر اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے حرام قرار دیا ہے اور جن کی طرف نفس کا میلان ہوتا ہے، لیکن وہ صرف تقریب الٰہی اور ثواب کی امید پر ان چیزوں کو ترک کردیتا ہے اور یہی تقویٰ ہے۔
روزے دار اپنے نفس کو یہ تربیت دیتا ہے کہ وہ ہر وقت اللہ کی نگرانی میں ہے، چنانچہ وہ اپنی خواہشات نفس کو پورا کرنے کی قدرت رکھنے کے باوجود انہیں ترک کردیتا ہے، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اللہ ان پر مطلع ہے۔
روزہ شیطان کی راہوں کو تنگ کردیتا ہے۔ شیطان ابن آدم کے اندر یوں گردش کرتا ہے جیسے اس کی رگوں میں خون گردش کرتا ہے۔ روزے کے ذریعے سے شیطان کا اثر و نفوذ کمزور پڑجاتا ہے اور گناہ کم ہوجاتے ہیں۔
غالب حالات میں روزہ دار کی نیکیوں میں اضافہ ہوجاتا ہے اور نیکیاں تقویٰ کے خصائل میں شمار ہوتی ہیں۔
جب خوشحال روزہ دار بھوک کی تکلیف کا مزا چکھ لیتا ہے تو یہ چیز محتاجوں اور ناداروں کی غمگساری اور دستگیری کی موجب بنتی ہے اور یہ بھی تقویٰ کی ایک خصلت ہے۔ |
البقرة |
184 |
چونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس نے اہل ایمان پر روزے فرض کردیئے، اس لیے یہ بھی واضح کردیا جکہ یہ گنتی کے چند روزے ہیں۔ سہولت کی خاطر ان کی تعداد بہت تھوڑی ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ایک اور سہولت عطا کردی، چنانچہ فرمایا : ﴿ فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَ یَّامٍ اُخَرَ ۭ ﴾” پس جو شخص تم میں سے بیمار ہو یا سفر میں ہو تو دوسرے دنوں میں روزوں کی تعداد پوری کرلے۔“ چونکہ غالب طور پر مریض کو اور مسافر کو دوران سفر مشقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو روزہ چھوڑنے کی رخصت عطا کردی ہے۔ چونکہ روزے کی منفعت و مصلحت کا حصول ہر ممکن کا مطلوب و مقصود ہے۔ اس لیے مریض اور مسافر کو حکم دیا کہ جب مرض جاتا رہے اور سفر ختم ہوجائے اور انسان کو راحت حاصل ہوجائے تو چھوڑے ہوئے روزوں کی قضا دیں۔
اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَ یَّامٍ اُخَرَ ۭ ﴾میں اس بات کی دلیل ہے کہ رمضان کے دنوں کی گنتی کی قضا دی جائے خواہ رمضان پورا ہو یا ناقص۔ نیز اس میں اس بات کی بھی دلیل ہے کہ گرمیوں کے طویل دنوں کی قضا سردیوں کے چھوٹے دنوں میں دی جاسکتی ہے اور اس کے برعکس چھوٹے دنوں کی قضا بڑے دنوں میں دی جاسکتی ہے۔
﴿ وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہٗ ﴾” اور ان لوگوں پر جو اس کی طاقت رکھتے ہوں۔“ یعنی جو روزے رکھنے کی طاقت رکھتے ہیں، لیکن اس کے باوجود وہ روزہ نہ رکھیں، تو وہ ﴿فِدْيَةٌ﴾ فدیہ دیں ﴿ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ ۭ﴾” ایک مسکین کا کھانا۔“ یعنی ایک روزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلائیں۔ یہ حکم روزوں کے فرض ہونے کی ابتدا میں تھا چونکہ انہیں روزے رکھنے کی عادت نہیں تھی اور روزے ان پر فرض تھے، تاہم اس میں ان کے لیے مشقت تھی، اس لیے رب حکیم نے نہایت آسان طریقے کے ساتھ انہیں اس راستے پر لگایا اور روزے کی طاقت رکھنے والے کو اللہ نے اختیار دے دیا کہ چاہے تو روزہ رکھ لے اور چاہے تو ایک روزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا دے۔ مگر روزہ رکھنا افضل ہے۔ اسی لیے فرمایا : ﴿ وَاَنْ تَصُوْمُوْا خَیْرٌ لَّکُمْ﴾” اگر تم روزہ رکھو تو تمہارے لیے بہتر ہے۔‘‘ اس کے بعد اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہر اس مسلمان پر روزہ رکھنا فرض کردیا جو روزہ رکھنے کی طاقت رکھتا ہو اور طاقت نہ رکھنے والے شخص کو روز چھوڑنے اور دوسرے دنوں میں اس کی قضا دینے کی رخصت دے دی اور بعض کہتے ہیں کہ ﴿ وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہٗ ﴾کا معنی یہ ہے کہ وہ لوگ جو بہت تکلیف سے روزہ رکھتے ہیں۔ یعنی وہ روزے کی مشقت کے متحمل نہیں، جیسے بہت بوڑھا وغیرہ تو وہ روزہ کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا کھلائے اور یہی مسلک صحیح ہے۔ |
البقرة |
185 |
﴿ شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ﴾” رمضان کا مہینہ جس میں قرآن نازل ہوا۔‘‘ یعنی جو روزے تم پر فرض کیے ہیں وہ رمضان کے روزے ہیں، یہ ایک ایسا عظمت والا مہینہ ہے جس میں تمہیں اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا فضل حاصل ہوا، یعنی قرآن کریم جو تمہارے دینی اور دنیاوی مصالح کی طرف رہنمائی پر مشتمل ہے۔ جو حق کو نہایت وضاحت سے بیان کرتا ہے اور جو حق اور باطل، ہدایت اور گمراہی اور خوش بخت اور بدبخت لوگوں کے درمیان پرکھنے کی کسوٹی ہے۔ وہ مہینہ جس کی یہ فضیلت ہو جس میں تمام پر اللہ تعالیٰ کا اس قدر احسان اور فضل ہو، اس بات کا مستحق ہے کہ وہ بندوں کے لیے نیکیوں کا مہینہ بنے اور اس کے اندر روزے فرض کیے جائیں۔ جب اللہ تعالیٰ نے اس مہینہ کو روزوں کے لیے مقرر کردیا اور اس نے اس کی فضیلت اور روزوں کے لیے اس کو مختص کرنے کی حکمت کو واضح کردیا، تو فرمایا : ﴿ فَمَنْ شَہِدَ مِنْکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ ۭ﴾” پس جو تم میں سے اس مہینے کو پا لے، تو وہ اس کے روزے رکھے“ اس آیت کریمہ میں یہ بات متعین کردی گئی کہ ہر صحت مند شخص جو سفر میں نہ ہو اور روزے رکھنے کی طاقت رکھتا ہو وہ رمضان کے روزے رکھے۔
چونکہ نسخ کا تعلق اس اختیار سے ہے جو خاص طور پر روزہ رکھنے اور فدیہ دینے کے درمیان دیا گیا تھا، اس لیے مریض اور مسافر کے لیے رخصت کو دوبارہ بیان کردیا گیا، تاکہ اس وہم کا ازالہ ہوجائے کہ مریض اور مسافر کے لیے بھی رخصت منسوخ ہوگئی ہے۔ پس فرمایا : ﴿یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلَا یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ ﴾ تمہارے ساتھ آسانی کا ارادہ کرتا ہے، تم پر سختی کرنا نہیں چاہتا“ یعنی اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ وہ تم پر اپنی رضا کے راستے حد درجہ آسان کر دے۔ اس لیے ان تمام امور کو جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر فرض قرار دیا ہے، اصل میں حد درجہ آسان بنایا ہے اور جب کوئی ایسا عارضہ پیش آجائے جو ان کی ادائیگی کو مشکل اور بوجھل بنا دے تو اللہ تعالیٰ نے ان کو ایک اور طرح سے آسان کردیا۔ یا تو سرے سے اس فرض ہی کو ساقط کردیا یا ان میں مختلف قسم کی تحقیقات سے نواز دیا۔ یہ اس (آسانی) کا اجمالاً ذکر ہے۔ یہاں تفاصیل بیان کرنا ممکن نہیں، کیونکہ اس کی تفاصیل تمام شرعیات کا احاطہ کیے ہوئے ہیں اور ان شرعیات میں تمام رخصتیں اور تحقیقات شامل ہیں۔
﴿ وَلِتُکْمِلُوا الْعِدَّۃَ ﴾’’اور تاکہ تم اس کی گنتی کو پورا کرو۔“ اس آیت کریمہ کا مقصد یہ ہے۔ واللہ اعلم کہ کوئی شخص اس وہم میں مبتلا نہ ہو کہ رمضان کے چند روزے رکھنے سے مقصود و مطلوب حاصل ہوسکتا ہے۔ اس آیت کریمہ میں روزوں کی تکمیل کے حکم کے ذریعے سے اس وہم کا ازالہ کردیا گیا، نیز حکم دیا گیا کہ روزوں کے مکمل ہونے پر بندوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی توفیق، سہولت اور تبیین کا شکر ادا کیا جائے۔ رمضان کے اختتام اور روزوں کے پورے ہونے پر تکبیریں کہی جائیں۔ اس حکم میں وہ تمام تکبیریں شامل ہیں جو شوال کا چاند دیکھ کر خطبہ عید سے فراغت تک کہی جاتی ہیں۔ |
البقرة |
186 |
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا ’’کیا ہمارا رب قریب ہے کہ ہم اس سے سرگوشی کے انداز میں مناجات کریں یا وہ دور ہے کہ ہم اسے پکاریں؟“ اس سوال کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی ﴿ وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ ۭ ﴾” اور جب تجھ سے میرے بندے میری بابت پوچھیں تو (ان کو بتلا دیں کہ) میں قریب ہوں“ کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کی نگہبانی کرنے والا اور اسے دیکھنے والا ہے وہ ہر بھید اور ہر چھپی ہوئی چیز کی اطلاع رکھتا ہے۔ وہ آنکھوں کی خیانت اور سینوں میں مدفون رازوں کو جانتا ہے۔ وہ دعا قبول کرنے کے اعتبار سے بھی پکارنے والے کے قریب ہے۔ اسی لیے فرمایا ﴿ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ ۙ﴾” جب کوئی پکارنے والا مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں۔“ دعا کی دو اقسام ہیں۔ (1) دعائے عبادت۔ (2) دعائے سوال۔ اسی طرح قرب کی بھی دو قسمیں ہیں۔ (1) اپنے علم کے اعتبار سے اپنی تمام مخلوق کے قریب ہونا۔ (2) دعا کی قبولیت، مدد اور توفیق کے ساتھ اپنے عبادت گزار بندوں اور پکارنے والے کے قریب ہونا۔
جو کوئی حضور قلب کے ساتھ اپنے رب سے کوئی ایسی دعا کرتا ہے جو مشروع ہو اور قبولیت دعا میں کوئی مانع بھی نہ ہو، مثلاً حرام کھانا وغیرہ، تو اللہ تعالیٰ نے ایسی دعا قبول کرنے کا وعدہ فرمایا ہے۔ خاص طور پر جب بندہ ایسے اسباب اختیار کرتا ہے جو اجابت دعا کے موجب ہیں، مثلاً اللہ تعالیٰ کے قولی اور فعلی اوامرونواہی کے سامنے سرافگندہ ہونا اور اس پر ایمان لانا، جو قبولیت دعا کا موجب ہے۔ بنا بریں فرمایا : ﴿ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَلْیُؤْمِنُوْابِی﴾ْ” پس ان کو چاہئے کہ وہ میری بات مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں، تاکہ وہ راہ راست پا لیں“ یعنی ان کو وہ رشد عطا ہوگی جو ایمان اور اعمال صالحہ اختیار کرنے کا نام ہے اور ان سے وہ گمراہی زائل ہوجائے گی جو ایمان اور اعمال صالحہ کے منافی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا اور اس کے احکام کی اطاعت کرنا حصول علم کا سبب ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن تَتَّقُوا اللَّـهَ يَجْعَل لَّكُمْ فُرْقَانًا ﴾(الانفال: 8؍ 29) ” اے ایمان دارو ! اگر تم اللہ سے ڈرو تو وہ تمہارے لیے حق و باطل کے درمیان امتیاز کرنے والی کسوٹی بہم پہنچا دے گا۔ “ |
البقرة |
187 |
روزوں کے فرض کیے جانے کے بعد شروع شروع میں مسلمانوں پر رات کے وقت سو جانے کے بعد کھانا پینا اور جماع وغیرہ حرام تھا، بنا بریں بعض اصحاب کے لیے یہ چیز مشقت کا باعث ہوئی، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے اس حکم میں تخفیف فرما دی اور رمضان کی راتوں میں ان کے لیے کھانا پینا اور جماع مباح قرار دے دیا۔ خواہ وہ سویا ہو یا نہ سویا ہو اور اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ کچھ ایسے امور کو ترک کر کے جن کا انہیں حکم دیا گیا تھا، اپنے نفسوں کے ساتھ خیانت کرتے تھے۔ ﴿فَتَابَ عَلَیْکُمْ ﴾” پس اس (اللہ تعالیٰ) نے تم پر رجوع کیا“ بایں طور کہ اس نے تمہارے لیے اس معاملے میں وسعت پیدا کردی، اگر اس میں یہ وسعت پیدا نہ کی جاتی تو یہ معاملہ گناہ کا موجب بنتا۔ ﴿ وَعَفَا عَنْکُمْ ۚ ﴾” اور تم سے درگزر فرمایا“ یعنی جو کچھ خیانت ہوچکی اللہ تعالیٰ نے اس پر تمہیں معاف کردیا۔ ﴿ فَالْئٰنَ﴾” پس اب“ یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس رخصت اور وسعت کے بعد ﴿بَاشِرُوْھُنَّ﴾” ان سے مباشرت کرو۔“ یعنی اپنی بیویوں کے ساتھ مباشرت یعنی جماع، بوس و کنار اور لمس وغیرہ کرو۔ ﴿ وَابْتَغُوْا مَا کَتَبَ اللّٰہُ لَکُمْ﴾’’اور اس چیز کو تلاش کرو، جو اللہ نے تمہارے لیے لکھی ہے“ یعنی اپنی بیویوں کے ساتھ مباشرت میں تقریب الٰہی اور جماع کے سب سے بڑے قصد کو مدنظر رکھو اور وہ ہے حصول اولاد، خود اپنی اور اپنی بیوی کی عفت کی حفاظت اور نکاح کے مقاصد کا حصول۔ نیز رمضان کی راتوں میں اللہ تعالیٰ نے شب قدر کی موافقت کو جو تمہارے لیے مقرر کر رکھا ہے (اس کے حصول کی کوشش کرو) اور تمہارے شایاں نہیں کہ تم شب قدر کے حصول کی کوشش کو چھوڑ کر اس لذت میں مصروف ہوجاؤ اور شب قدر کو ضائع کردو یہ لذت تو پھر بھی حاصل ہوسکتی ہے لیکن اگر شب قدر کے حصول کی فضیلت سے محروم ہوگئے تو یہ فضیلت کبھی حاصل نہیں ہوسکے گی۔
﴿ وَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ۠ ﴾” اور کھاؤ اور پیؤ، یہاں تک کہ سفید دھاگہ سیاہ دھاگے سے واضح (یعنی) فجر ہوجائے“ یہ کھانے پینے اور جماع کے وقت کی آخری حد ہے۔ اس آیت کریمہ میں اس امر کی دلیل ہے کہ طلوع فجر کے وقت میں کچھ شک ہو، تو اس وقت میں کچھ کھا پی لیا جائے تو کوئی حرج نہیں۔ یہ آیت سحری کھانے کے استحباب پر بھی دلیل ہے، کیونکہ اس میں کھانے پینے کے لیے امر کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے۔ نیز اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ سحری کے وقت کھانے پینے میں تاخیر کی جائے۔ یعنی آخری وقت میں سحری کھائی جائے، کیونکہ سحری کا حکم اللہ نے لوگوں کی آسانی ہی کے لیے دیا ہے، اس لیے اس میں جتنی تاخیر کی جائے گی، اتنی ہی سہولت بھی زیادہ ہوگی۔
اس میں اس امر کے جواز کی بھی دلیل ہے کہ اگر جماع کی وجہ سے حالت جنابت میں انتہائے سحر ہوجائے اور وہ غسل نہ کرسکا ہو تو اس کا روزہ صحیح ہے، اس لیے کہ طلوع فجر تک جماع کی اباحت کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ جب فجر ہوگی تو وہ اس وقت جنبی ہوگا اور حق کو لازم ہونے والا امر بھی حق ہوتا ہے۔
﴿ثُمَّ﴾” پھر“ یعنی جب فجر طلوع ہوجائے ﴿ اَتِمُّوا الصِّیَامَ﴾” تو روزے کو پورا کرو“ یعنی روزہ توڑنے والے افعال کے ارتکاب سے رکے رہو ﴿ اِلَی الَّیْلِ ۚ﴾” رات تک“ یعنی غروب آفتاب تک۔ رمضان کی راتوں میں جماع کی جو اجازت دی گئی ہے چونکہ یہ ہر شخص کے لیے عام نہیں، کیونکہ اعتکاف میں بیٹھنے والے کے لیے جماع جائز نہیں، چنانچہ اس استثناء کو اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے : ﴿ وَلَا تُـبَاشِرُوْھُنَّ وَاَنْتُمْ عٰکِفُوْنَ ۙ فِی الْمَسٰجِدِ ۭ﴾” اور جب مسجدوں میں اعتکاف بیٹھے ہو تو ان سے مباشرت نہ کرو۔“ یعنی جب تم اعتکاف کی صفت سے متصف ہو تو تم اپنی بیویوں سے مباشرت (ہم بستری، بوس و کنار وغیرہ) نہ کرو۔ یہ آیت کریمہ اعتکاف کی مشروعیت پر دلالت کرتی ہے اور وہ ہے دنیاوی امور سے منقطع ہو کر اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی خاطر مسجد میں گوشہ گیر ہوجانا۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ مسجد کے سوا کسی اور جگہ اعتکاف صحیح نہیں اور مساجد کی تعریف سے یہ بھی مستفاد ہوتا ہے کہ یہاں مساجد سے مراد وہ مساجد ہیں جو مسلمانوں کے ہاں معروف ہیں اور یہ وہ مساجد ہیں جہاں پانچ وقت جماعت ہوتی ہو۔
نیز اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ جماع ان امور میں سے ہے جن سے اعتکاف فاسد ہوجاتا ہے۔ یہ تمام مذکورہ امور، مثلاً روزے کی حالت میں کھانے پینے اور جماع کی ممانعت جن سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے، غیر معذور کے لیے روزہ چھوڑ دینے کی ممانعت اور اعتکاف میں بیٹھنے والے کے لیے جماع کی حرمت وغیرہ﴿حُدُوْدُ اللّٰہِ﴾” اللہ کی حدیں ہیں“ جنہیں اس نے بندوں کے لیے مقرر کیا ہے اور ان کو توڑنے سے انہیں منع کیا ہے۔ ﴿ فَلَا تَقْرَبُوْھَا ۭ﴾ ” پس تم ان کے قریب مت جاؤ“ اللہ تبارک و تعالیٰ کا یہ ارشاد ﴿ فَلَاتَفْعَلُوھَا ﴾” پس تم ان کا ارتکاب مت کرو“ سے زیادہ بلیغ ہے۔ کیونکہ ” قریب جانے“ کے لفظ میں نفس فعل کی حرمت اور اس فعل حرام تک پہنچانے والے وسائل و ذرائع کی حرمت سب شامل ہیں اور بندہ مومن تمام محرمات کو ترک کرنے، حتی الامکان ان سے دور رہنے اور ان تمام اسباب کو ترک کرنے پر مامور ہے جو ان محرمات کی طرف دعوت دیتے ہیں۔
رہے اوامر تو اللہ تعالیٰ ان کے بارے میں فرماتا ہے : ﴿تِلْكَ حُدُودُ اللَّـهِ فَلَا تَعْتَدُوهَا ﴾(البقرة: 229؍2) ” یہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حدیں ہیں ان سے تجاوز نہ کرو۔“ پس اللہ تعالیٰ نے ان حدود سے باہر نکلنے سے روک دیا۔ ﴿کَذٰلِکَ﴾” اسی طرح“ یعنی جیسے اللہ تعالیٰ نے گزشتہ احکام کو اپنے بندوں کے سامنے اچھی طرح بیان اور مکمل طور پر واضح کردیا ہے﴿ يُبَيِّنُ اللَّـهُ آيَاتِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ﴾” اللہ بیان کرتا ہے اپنی نشانیاں لوگوں کے لیے تاکہ وہ بچیں“ اس لیے کہ جب حق ان کے لیے واضح ہوجائے گا تو وہ اس کی پیروی کریں گے اسی طرح جب باطل ان کے سامنے عیاں ہوجائے گا تو وہ اس سے اجتناب کریں گے، کیونکہ کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ انسان فعل حرام کا ارتکاب محض اس وجہ سے کر بیٹھتا ہے کہ ا سے اس کے حرام ہونے کا علم نہیں ہوتا، اگر اسے اس کی حرمت کا علم ہوتا، تو وہ کبھی اس کا ارتکاب نہ کرتا اور جب اللہ تعالیٰ نے ان کے سامنے اپنی آیات کو کھول کھول کر بیان کردیا، تو ان کے پاس کوئی عذر اور کوئی حجت باقی نہ رہی اور یہ چیز تقویٰ کا سبب ہے۔ |
البقرة |
188 |
﴿ وَلَا تَاْکُلُوْٓا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ﴾” اور اپنے مال آپس میں باطل طریقے سے مت کھاؤ“ کھانے سے مراد لینا ہے اور اپنے مال سے مراد دوسرے لوگوں کا مال ہے۔ دوسروں کے مال کو اپنا مال اس لیے کہا کہ مسلمان کے شایاں یہی ہے کہ وہ اپنے بھائی کے لیے وہی کچھ پسند کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے اور اپنے بھائی کے مال کا اسی طرح احترام کرے جس طرح وہ اپنے مال کا احترام کرتا ہے۔ دوسرے کے مال کو اپنا مال کہنے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ دوسرے کا مال کھائے گا تو دوسرا شخص بھی جب اس کو قدرت حاصل ہوگی، تو اس کا مال کھانے کی جسارت کرے گا۔ (اس لیے کسی دوسرے کا مال کھانا ایسا ہی ہے جیسے وہ اپنا مال کھا رہا ہے) چونکہ مال کھانے کی دو قسمیں ہیں : (١) حق کے ساتھ مال کھانا۔ (2) اور باطل طریقے سے مال کھانا اور حرام صرف باطل طریقے سے مال کھانا ہے اس لیے یہاں اس کو ” باطل“ سے مقید کیا ہے اور اس میں غصب کر کے، چور ی کر کے، امانت میں خیانت کر کے کے اور ادھار لی ہوئی چیز کا انکار کر کے مال کھانا، سب شامل ہے۔ نیز اس میں وہ معاوضہ بھی شامل ہے جو حرام ہے، جیسے سودی لین دین اور ہر قسم کے جوئے سے حاصل شدہ مال، کیونکہ یہ مال کسی جائز معاوضے کے طور پر حاصل نہیں ہوا۔
باطل طریقے سے مال کھانے میں خرید و فروخت اور اجارہ میں دھوکہ اور ملاوٹ کے ذریعے سے حاصل کیا ہوا مال بھی شامل ہے۔ مزدوروں سے کام لینا اور پھر ان کی اجرت کھا جانا بھی باطل طریقے سے مال کھانا ہے۔
اسی طرح ان مزدوروں کا کسی کام کی اجرت لینا اور اس کے عوض پورا کام نہ کرنا بھی حرام کھانا اور باطل ہے۔
ان عبادات اور تقرب الٰہی کے کاموں پر اجرت لینا جو اس وقت تک صحیح نہیں ہوتیں جب تک ان میں صرف رضائے الٰہی مقصود نہ ہو، باطل طریقے ہی سے مال کھانے میں داخل ہے۔
اس حرام کھانے میں ان لوگوں کا زکوٰۃ، صدقات، اوقات اور وصیتوں کا مال کھانا بھی داخل ہے جو اس مال کے مستحق نہیں، یا وہ مستحق تو تھے مگر اپنے حق سے زیادہ مال وصول کیا۔
(مال کھانے کی) مذکورہ بالا اور ان جیسی دیگر تمام اقسام باطل طریقے سے مال کھانے کے زمرے میں داخل ہیں۔ جس کا کھانا کسی بھی پہلو سے جائز نہیں۔ حتی ٰکہ اگر اس میں نزاع واقع ہوجائے اور جھگڑا شرعی عدالت میں چلا جائے اور وہ فریق جو باطل طریقے سے مال کھانا چاہتا ہے کوئی ایسی دلیل پیش کرتا ہے جو اصلی حق دار کی دلیل پر غالب آجاتی ہے اور حاکم اس دلیل کی بنیاد پر اس کے حق میں فیصلہ کردیتا ہے۔ (تو عدالتی فیصلے کے باوجود یہ مال حرام اور باطل ہی رہے گا) اس لیے کہ کسی حاکم کا فیصلہ کسی حرام کو حلال اور حلال کو حرام نہیں کرسکتا، کیونکہ حاکم تو صرف پیش کردہ دلائل سن کر فیصلہ کرتا ہے ورنہ معاملات کے اصل حقائق تو اپنی جگہ موجود رہتے ہیں، اس لیے باطل طریقے سے مال ہڑپ کرنے والے کے لیے حاکم کے فیصلے میں کوئی خوشی اور اس مال کے باطل ہونے میں کوئی شبہ اور اس کے لیے کوئی راحت نہیں۔ بنابریں جو کوئی جھوٹے ثبوت کے ساتھ کوئی جھوٹا مقدمہ حاکم کی عدالت میں دائر کرتا ہے اور حاکم اس ثبوت کی بنیاد پر اس کے حق میں فیصلہ کردیتا ہے، تو یہ مال اس شخص کے لیے جائز نہیں اور وہ غیر کے مال کو جانتے بوجھتے باطل اور گناہ کے طریقے سے کھانے کا مرتکب ہوگا، اس لیے وہ سخت ترین سزا اور عقوبت کا مستحق ہے۔ اسی بنا پر جب وکیل کو یہ معلوم ہوجائے کہ اس کا موکل اپنے دعوے میں جھوٹا ہے، تو اس کے لیے اس خائن کی وکالت کرنا جائز نہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿ وَلَا تَكُن لِّلْخَائِنِينَ خَصِيمًا﴾ (النساء: 105؍4) ” اور خیانت کرنے والوں کی حمایت میں کبھی جھگڑا نہ کرنا۔ “ |
البقرة |
189 |
﴿ الْاَہِلَّۃِ ۭ﴾(ہلال) جمع ہے، یعنی وہ سوال کرتے ہیں کہ چاند کا کیا فائدہ اور اس میں کیا حکمت ہے یا چاند کیا چیز ہے؟ ﴿ قُلْ ھِیَ مَوَاقِیْتُ لِلنَّاسِ﴾” کہہ دیجیے ! یہ اوقات مقررہ ہیں لوگوں کے لیے“ یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے لطف و کرم سے اسے درج ذیل نظم و تدبیر پر تخلیق کیا ہے۔
مہینے کے آغاز میں چاند بہت باریک اور کمزور سا ظاہر ہوتا ہے۔ پھر مہینے کے نصف تک بڑھتا چلا جاتا ہے۔ پھر گھٹنا شروع ہوجاتا ہے اور مہینے کے پورا ہونے تک گھٹتا رہتا ہے۔ (اس طرح یہ سلسلہ مستقل جاری رہتا ہے) اس میں حکمت یہ ہے کہ لوگ اس ذریعے سے اپنی عبادات کے اوقات، مثلاً روزوں، زکوٰۃ کے اوقات، کفارے اور حج کے اوقات پہچان لیں اور چونکہ حج متعین مہینوں میں ہوتا ہے اور بہت زیادہ وقت اس میں صرف ہوتا ہے، اس لیے ﴿ وَالْحَجِّ ۭ ﴾فرما کر اس کا خصوصی طور پر ذکر کیا، یعنی چاند کے ذریعے سے حج کے مہینوں کا بھی علم ہوتا ہے۔ اسی طرح چاند کے ذریعے سے مدت معینہ پر ادا کیے جانے والے قرض، اجارات، عدت طلاق و وفات اور حمل وغیرہ کی مدت اور اوقات معلوم کیے جاتے ہیں جو کہ مخلوق کی ضرورت ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے چاند کو ایسا حساب بنایا کہ جس سے ہر چھوٹا بڑا اور عالم و جاہل سب معلوم کرلیتے ہیں۔ اگر یہ حساب تقویم شمسی کے ذریعے سے ہوتا، تو چند لوگ ہی اس حساب کی معرفت حاصل کرسکتے۔
﴿ وَلَیْسَ الْبِرُّ بِاَنْ تَاْتُوا الْبُیُوْتَ مِنْ ظُہُوْرِھَا ﴾” نیکی یہ نہیں کہ تم گھروں کو پچھواڑے سے آؤ“ یہ انصار وغیرہ اور بعض دیگر عربوں کے اس طریقے کی طرف اشارہ ہے کہ جب وہ حج کے لیے احرام باندھ لیتے تھے تو اپنے گھروں میں دروازوں میں سے داخل نہیں ہوتے تھے (بلکہ پچھواڑے سے داخل ہوتے تھے) اور اسے وہ نیکی اور عبادت تصور کرتے تھے۔ پس اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ ایسا کرنا نیکی نہیں ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسے مشروع نہیں کیا اور ایسا شخص جو کسی ایسی عبادت کا التزام کرتا ہے جسے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے مشروع قرار نہیں دیا، تو بدعت کا ارتکاب کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا کہ دروازوں سے اپنے گھروں میں داخل ہوا کریں، کیونکہ اسی میں ان کے لیے سہولت ہے جو شریعت کے قواعد میں سے ایک قاعدہ ہے۔ اس آیت کریمہ کے اشارہ سے یہ بھی مستفاد ہوتا ہے کہ تمام معاملات میں مناسب یہی ہے کہ انسان آسان اور قریب ترین راستہ استعمال کرے جسے اس منزل تک پہنچنے کے لیے مقرر کیا گیا ہو۔
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ سر انجام دینے والے کو چاہئے کہ وہ مامور کے احوال کو مدنظر رکھے۔ نرمی اور ایسی حکمت عملی سے کام لے جس سے پورا مقصد یا اس سے کچھ حصہ حاصل ہوسکتا ہو۔ متعلم اور معلم دونوں کو چاہئے کہ وہ اپنے مقصد کے حصول کے لیے قریب ترین اور سہل ترین راستہ استعمال کریں۔ اسی طرح ہر وہ شخص جو کسی کام کا ارادہ کرتا ہے اور وہ اس کے لیے صحیح راستے سے داخل ہوتا ہے اور ہمیشہ اسی اصول پر عمل کرتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی مدد سے ضرور اپنے مقصد کو پا لے گا۔
﴿ وَاتَّقُوا اللّٰہَ﴾” اور اللہ سے ڈرتے رہو“ اور یہی حقیقی نیکی ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اور وہ ہے دائمی طور پر تقویٰ کا التزام، یعنی اس کے اوامر کے سامنے سرافگندہ ہونا اور اس کی منہیات سے اجتناب کرنا۔ تقوی ٰ فلاح کا سبب ہے جس کے ذریعے سے مطلوب (جنت) کے حصول میں کامرانی اور ڈرائے گئے امر (عذاب) سے نجات حاصل ہوتی ہے۔ پس جو اللہ تعالیٰ سے نہیں ڈرتا اس کے لیے فوز و فلاح کا کوئی راستہ نہیں اور جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے وہی فوز و فلاح اور کامیابی و کامرانی سے شاد کام ہوگا۔ |
البقرة |
190 |
یہ آیات کریمہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد اور قتال کو متضمن ہیں اور مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کے بعد جب مسلمان طاقتور ہوگئے، تو اللہ تعالیٰ نے ان کو اس قتال کا حکم دیا جب کہ اس سے قبل ان کو حکم تھا کہ وہ اپنے آپ کو لڑائی سے روکے رکھیں۔ قتال کو ﴿ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ﴾ کے ساتھ مختص کرنے میں، اخلاص کی ترغیب اور فتنوں کے زمانے میں مسلمانوں کے آپس میں لڑنے کی ممانعت ہے۔ ﴿ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَکُمْ﴾” جو تم سے لڑتے ہیں۔“ یعنی ان لوگوں کے ساتھ قتال کرو جو تمہارے ساتھ لڑنے کی تیاری کرتے ہیں۔ یہ ذمے دار لڑنے کی اہلیت رکھنے والے کافر مرد ہیں، نہ کہ وہ بوڑھے جو لڑ سکتے ہیں اور نہ لڑائی میں کوئی مشورہ دے سکتے ہیں۔ حد سے تجاوز کرنے کی ممانعت میں ظلم و تعدی کی تمام انواع شامل ہیں جیسے عورتوں، بچوں، بے عقل لوگوں اور راہبوں وغیرہ کو قتل کرنا جو لڑائی میں شریک نہ ہوں۔ جنگ کے دوران مقتولین کا مثلہ کرنا (یعنی مقتول کے کان، ناک اور پوشیدہ اعضاء کاٹنا، آنکھیں نکال دینا اور پیٹ چاک کرنا) اور مسلمانوں کی کسی مصلحت کے بغیر جانوروں کو قتل کرنا اور درخت وغیرہ کاٹنا، سب ظلم وتعدی میں شمار ہوگا۔ جب کفار جزیہ قبول کر کے اس کو ادا کرچکے ہوں تو ان کے خلاف لڑنا بھی ظلم و تعدی ہے جو کہ ہرگز جائز نہیں۔ |
البقرة |
191 |
﴿ وَاقْتُلُوْھُمْ حَیْثُ ثَقِفْتُمُوْھُمْ﴾ ” اور مار ڈالو ان کو جہاں کہیں بھی پاؤ تم ان کو“ یہ ان کے ساتھ قتال کا حکم ہے ہر وقت اور ہر زمانے میں جہاں کہیں بھی وہ پائے جائیں ان کے خلاف مدافعانہ اور جارحانہ جنگ جاری رہے۔ پھر اس عموم سے مسجد حرام کے قریب قتال کرنے کو مستثنیٰ کردیا، کیونکہ مسجد حرام کے قریب لڑنا جائز نہیں، البتہ اگر وہ مسجد حرام کے قریب لڑائی کی ابتدا کریں تو پھر ان کے خلاف لڑائی کی جائے یہ ان کے ظلم و زیادتی کا بدلہ ہے۔
یہ کفار کے خلاف، ہر وقت اور دائمی قتال و جہاد ہے یہاں تک کہ وہ کفر کو چھوڑ کر اسلام قبول کرلیں۔ (اگر وہ ایسا کرلیں) تو یقیناً اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول کرنے والا ہے۔ اگرچہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کیا، مسجد حرام میں شرک کا ارتکاب کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اہل ایمان کو مسجد حرام میں داخل ہونے سے روکا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں پر رحمت اور اس کا کرم ہے، چونکہ مسجد حرام کے قریب لڑنے کی ممانعت سے یہ وہم لاحق ہوتا ہے کہ یہ لڑائی اس محترم شہر کے اندر گویا فساد برپا کرنا ہے، تو اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ اس حرمت والے شہر کے اندر فتنہ شرک اور اللہ تعالیٰ کے دین سے لوگوں کو روکنے کے مفاسد، قتل کے مفاسد سے بڑھ کر ہیں، لہٰذا اے مسلمانو ! تمہارے لیے ان کے خلاف لڑنے میں کوئی حرج نہیں۔
اس آیت کریمہ سے فقہ کے ایک مشہور قاعدہ پر استدلال کیا جاتا ہے کہ دو برائیوں میں سے (جب ایک برائی کو اختیار کرنا لابدی ہو تو) کم تر برائی کو اختیار کیا جائے، تاکہ بڑی برائی کا سدباب کیا جا سکے۔ |
البقرة |
192 |
|
البقرة |
193 |
پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے راستے میں اس قتال اور جہاد کا مقصد بیان فرمایا ہے۔ قتال فی سبیل اللہ کا مقصد یہ نہیں کہ کفار کا خون بہایا جائے اور انکے اموال لوٹ لیے جائیں، بلکہ جہاد کا مقصد صرف یہ ہے ﴿ وَّیَکُوْنَ الدِّیْنُ لِلّٰہِ ۭ ﴾” کہ دین اللہ کا ہوجائے“ یعنی اللہ تعالیٰ کا دین تمام ادیان پر غالب آجائے اور شرک وغیرہ اور ان تمام نظریات کا قلع قمع کردیا جائے جو اللہ کے دین کے منافی ہیں اور فتنہ سے بھی یہی مراد ہے۔ جب یہ مقصد حاصل ہوجائے تو قتل کرنا اور لڑائی کرنا جائز نہیں۔ ﴿فَاِنِ انْتَہَوْا ﴾” پس اگر وہ باز آجائیں۔“ یعنی اگر وہ مسجد حرام کے قریب تمہارے ساتھ لڑائی کرنے سے باز آجائیں۔ ﴿ فَلَا عُدْوَانَ اِلَّا عَلَی الظّٰلِمِیْنَ﴾ تو ظالموں کے سوا کسی پر زیادتی نہیں۔“ یعنی تمہاری طرف سے ان پر کوئی ظلم اور زیادتی نہیں ہونی چاہئے، سوائے اس کے جس نے ظلم کا ارتکاب کیا ہو تو ایسا شخص اپنے ظلم کے برابر سزا کا مستحق ہے۔
|
البقرة |
194 |
﴿ اَلشَّہْرُ الْحَرَامُ بِالشَّہْرِ الْحَرَامِ ﴾” حرمت والا مہینہ، حرمت والے مہینے کے بدلے میں ہے“ اس آیت میں اس مفہوم کا احتمال ہے کہ اس سے مراد یہ واقعہ ہو کہ جب صلح حدیبیہ والے سال کفار نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مکہ مکرمہ میں داخل ہونے سے روک دیا تھا اور ان سے یہ معاہدہ کیا تھا کہ وہ اگلے سال مکہ مکرمہ آئیں گے، تو مسجد حرام میں داخل ہونے سے روکنے کا واقعہ اور عمرہ قضا دونوں حرمت والے مہینے (ذوالقعدہ) میں پیش آئے۔ اس لیے حرام مہینے کے مقابلے میں حرام مہینے کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اس مفہوم کی رو سے اس آیت کریمہ میں صحابہ کرام کے مناسب کی تکمیل کی خبر دے کر ان کی دل جوئی کی ہے، دوسرا احتمال یہ ہے کہ تم نے اگر ان کے ساتھ حرمت والے مہینے میں لڑائی کی ہے تو (کیا ہوا) انہوں نے بھی تو تم سے حرمت والے مہینے ہی میں لڑائی کی ہے اس لئے حد سے تجاوز کرنے والے تو وہی کفار مکہ ہیں (تمہیں تو مجبوراً لڑنا پڑا ہے) پس تمہارے لئے اس میں کوئی حرج نہیں۔ اس اعتبار سے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿ وَالْحُرُمٰتُ قِصَاصٌ ۭ﴾”اور حرمتوں میں بدلہ ہے“ عام کا عطف خاص پر،کے باب سے ہوگا، یعنی ہر وہ چیز جو قابل احترام ہے، وہ حرمت والا مہینہ ہو یا حرمت والا شہر ہو یا احرام ہو یا اس سے بھی زیادہ عام ہو، یعنی ہر وہ چیز جس کی حرمت کا حکم شریعت نے دیا ہے، جو کوئی ان کی بے حرمتی کی جرأت کرے گا، اس سے قصاص لیا جائے گا۔ پس جو کوئی حرام مہینے میں لڑائی کرے گا اس کے ساتھ لڑائی کی جائے گی جو کوئی اس محترم شہر کی بے حرمتی کرے گا اس پر حد جاری کی جائے گی اور اس کا کوئی احترام نہیں۔ جو کوئی بدلہ لینے کے لئے (حرم شریف کے اندر) کسی کو قتل کرے گا اسے قتل کیا جائے گا جو کسی کو زخمی کرے گا یا اس کا کوئی عضو کاٹے گا، اس کا اس سے قصاص لیا جائے گا۔ جو کوئی بلا جواز کسی کا مال لے گا، اس سے اس کا بدلہ لیا جائے گا۔
البتہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا صاحب حق کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ مال میں سے اپنے مال کے بقدر مال لے لے؟ اس بارے میں اہل علم میں اختلاف ہے اس میں راجح مسلک یہ ہے کہ اگر حق کا سبب واضح ہوجیسے مہمان جب کہ دوسرے شخص نے اس کی مہمان نوازی نہ کی ہو، بیوی اور وہ قریبی رشتہ دار جن کا نفقہ جس کے ذمہ فرض ہو، وہ نفقہ اور کفالت سے انکار کر دے، تو اس کے مال میں سے بقدر حق مال لے لینا جائز ہے۔
اور اگر حق کا سبب خفی اور غیر واضح ہو، مثلاً کوئی شخص کسی کے قرض کا انکار کردیتا ہے کہ اس نے قرض لیا ہی نہیں یا کسی امانت میں خیانت کرتا ہے، یا اس میں سے چوری کرلیتا ہے وغیرہ، تو اس صورت میں مال لینا جائز نہیں ہے۔ اس طرح دلائل میں تطبیق ہوجاتی ہے اور تعارض نہیں رہتا۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے گزشتہ حکم کی تاکید اور تقویت کے لئے فرمایا ﴿فَمَنِ اعْتَدٰی عَلَیْکُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَیْہِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰی عَلَیْکُمْ ۠﴾” جو تم پر زیادتی کرے، تو تم بھی اس پر اس کی مثال زیادتی کرو جو اس نے تم پر کی“ یہ بدلہ لینے کی صفت کی تفسیر ہے۔ نیز یہ کہ یہ تعدی کا ارتکاب کرنے والے کی تعدی اور ظلم کی مماثلت ہے۔
چونکہ غالب حالات میں، اگر نفوس انسانی کو (اپنے ساتھ زیادتی کے بدلے میں) سزا دینے کی رخصت دے دی جائے، تو وہ اپنی تشفی اور تسکین کے لئے جائز حد پر نہیں رکتے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کو التزام تقویٰ کا حکم دیا جو کہ نام ہے اللہ تعالیٰ کی حدود پر ٹھہر جانے اور ان سے تجاوز نہ کرنے کا اور ان کو بتلایا کہ ﴿ اَنَّ اللّٰہَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ﴾ ” اللہ تعالیٰ اہل تقویٰ کے ساتھ ہے“ یعنی اللہ کی مدد و نصرت اور اس کی تائید و توفیق ان کے ساتھ ہے اور جسے اللہ تعالیٰ کی معیت حاصل ہوگئی، وہ ابدی سعادت سے سرفراز ہوگیا اور جس نے تقویٰ کا التزام نہ کیا تو اس کا سرپرست اس سے علیحدہ ہوگیا، اسے بے یارو مددگار چھوڑ دیا اور اسے اس کے نفس کے حوالے کردیا، تب اس کی ہلاکت اس کی رگ جان سے بھی زیادہ قریب ہوجاتی ہے۔ |
البقرة |
195 |
اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اپنے راستے میں مال خرچ کرنے کا حکم دیتا ہے اور اس سے مراد ہے کہ مال کو ان راستوں میں خرچ کیا جائے جو اللہ تعالیٰ تک پہنچاتے ہیں اور یہ بھلائی کے تمام راستے ہیں جیسے مساکین، قریبی رشتہ داروں پر صدقہ کرنا اور ان لوگوں پر خرچ کرنا جن پر خرچ کرنا واجب ہے۔ ان راستوں میں سب سے بڑا اور ان میں سب سے پہلے نمبر پر آنے والا، فی سبیل اللہ یعنی جہاد کی راہ میں خرچ کرنا ہے، کیونکہ اس راہ میں خرچ کرنا جہاد بالمال کے زمرے میں آتا ہے اور مالی جہاد بھی اسی طرح فرض ہے جس طرح بدنی جہاد فرض ہے۔ مالی جہاد میں عظیم مصالح پنہاں ہیں۔ مالی جہاد سے اہل ایمان کو تقویت پہنچتی ہے، شرک اور اہل شرک کمزور ہوتے ہیں اور اقامت دین اور اس کی سربلندی میں مدد ملتی ہے۔ پس جہاد فی سبیل اللہ کا درخت مالی اعانت کے تنے کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا، جہاد کے لئے مالی اخراجات وہی حیثیت رکھتے ہیں جو بدن کے لیے روح، پس اس کے بغیر جہاد کا جاری رہنا ممکن نہیں اور اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنے سے گریز درحقیقت جہاد کا ابطال، دشمنوں کا تسلط اور ان کی اسلام دشمنی میں اضافہ ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿وَلَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّہْلُکَۃِ﴾ ” اپنے ہاتھوں (جان) کو ہلاکت میں نہ ڈالو“ اس حکم کی علت کی حیثیت رکھتا ہے اور اپنے ہاتھوں سے اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا دو امور کی طرف راجع ہے۔
(١) اس امر کو ترک کردینا جس کا حکم بندے کو دیا گیا جبکہ اس امر کو ترک کرنا بدن یا روح کی ہلاکت کا یا ہلاکت کے قریب کرنے کا موجب ہو۔
(٢) ایسے فعل کا ارتکاب کرنا جو بدن یا روح کی ہلاکت کا سبب ہو۔ اس کے تحت بہت سے امور آتےہیں:
(١) اللہ تعالیٰ کے راستے میں بدنی یا مالی جہاد ترک کرد ینا، جو دشمن کے تسلط کا باعث بنتا ہے۔
(٢) انسان کا خود اپنے آپ کو موت کے منہ میں لے جانا، مثلاً کسی لڑائی میں گھس جانا، کسی خوفناک سفر پر روانہ ہوجانا، جانتے بوجھتے درندوں یا سانپوں کے مسکن میں داخل ہونا، کسی خطرناک درخت یا گرنے والی عمارت وغیرہ پر چڑھنا یا کسی خطرناک چیز کے نیچے چلے جانا یہ تمام امور اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے کے تحت آتے ہیں۔
(٣) توبہ سے مایوس ہو کر گناہوں پر قائم رہنا۔
(٤) ان فرائض کو ترک کرنا جن کو اللہ تعالیٰ نے بجا لانے کا حکم دیا ہے اور جن کے ترک کرنے میں روح اور دین کی ہلاکت ہے۔
چونکہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنا احسان کی ایک قسم ہے، لہٰذا اللہ تعالیٰ نے عمومی طور پر احسان کا حکم دیتے ہوئے فرمایا : ﴿ وَاَحْسِنُوْا اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ ﴾” اور احسان کرو، یقیناً اللہ احسان کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے“ اس آیت کے معنی میں ہر قسم کا احسان شامل ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسے کسی صفت اور شرط وغیرہ سے مقید نہیں کیا۔ پس اس میں مالی احسان بھی شامل ہے۔ اپنے جاہ و منصب کی بنیاد پر (کسی حق دار کی) سفارش کرنے کا احسان بھی اسی زمرے میں آتا ہے۔ امر بالمعروف، نہی عن المنکر اور علم نافع کی تعلیم بھی احسان میں داخل ہے۔ لوگوں کی ضروریات پوری کرنا، ان کی تکالیف کو دور کرنا، ان کی مصیبتوں کا ازالہ کرنا، ان کے مریضوں کی عیادت کرنا، ان کے جنازوں کے ساتھ جانا، ان کے بھٹکے ہوؤں کو راستہ بتانا، کسی کے کام میں ہاتھ بٹانا اور کسی ایسے شخص کے لئے کام کردینا جسے کام نہ آتا ہو۔ یہ تمام امور اس احسان کے زمرے میں شمار ہوتے ہیں جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اور اس احسان میں اللہ تعالیٰ کی عبادت احسن طریقے سے کرنا بھی داخل ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ﴿أنْ تَعْبُدَ اللَّهَ كَأنَّكَ تَراهُ، فإنْ لَمْ تَكُنْ تَراهُ فإنَّه يَراكَ﴾” احسان یہ ہے کہ تو اس طرح اللہ کی عبادت کرے گویا کہ تو اسے دیکھ رہا ہے اور اگر یہ کیفیت پیدا نہ ہو کہ تو اسے دیکھ رہا ہے تب وہ تو تجھے دیکھ رہا ہے۔‘،[صحيح بخاري، الإيمان، باب سؤال جبريل......الخ، حديث: 50]
جو کوئی ان صفات سے متصف ہوجاتا ہے وہ ان لوگوں میں شامل ہوجاتا ہے جن کے بارے میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ لِّلَّذِينَ أَحْسَنُوا الْحُسْنَىٰ وَزِيَادَةٌ ﴾(یونس: 26؍10) ” جنہوں نے نیکی کی ان کے لئے بھلائی ہے (اور مزید برآں) اور بھی۔“ اللہ تعالیٰ کی معیت اسے حاصل رہتی ہے، اللہ تعالیٰ اسے دوست رکھتا ہے، اس کی راہنمائی کرتا ہے اور ہر معاملے میں اس کی مدد کرتا ہے۔
اور جب اللہ روزے اور جہاد کے احکام کا ذکر فرما چکا، تو اب حج کے احکام کا ذکر فرماتا ہے۔ |
البقرة |
196 |
﴿’ وَاَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَۃَ ﴾ ’’اور پورا کرو حج اور عمرے کو“ سے متعدد امور پر استدلال کیا جاتا ہے۔
(١) حج اور عمرے کا وجوب اور ان کی فرضیت
(٢) حج اور عمرے کو ان ارکان و واجبات کے ساتھ پورا کرنا جن کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل اور آپ کا یہ قول اشارہ کرتا ہے( خُذُوا عَنِّي مَنَاسِكَكُم)” اپنے مناسك حج مجھ سے اخذ کرو“ [سنن البيهقي: 5؍ 125]
(٣) اس آیت کریمہ سے ان علماء کی تائید ہوتی ہے جو عمرے کو واجب قرار دیتے ہیں۔
(٤) حج اور عمرہ کو، خواہ وہ نفلی ہی کیوں نہ ہوں جب شروع کردیا جائے تو ان کا اتمام واجب ہے۔
(٥) حج اور عمرے کو احسن طریقے سے ادا کیا جائے اور یہ چیز حج اور عمرے کے لازمی افعال سے قدر زائد ہے۔
(٦) اس میں حج اور عمرے کو خالص اللہ تعالیٰ کے لئے ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
(٧) حج اور عمرے کا احرام باندھنے والا ان کی تکمیل کئے بغیر احرام نہ کھولے سوائے اس صورتحال کے جس کو اللہ تعالیٰ نے مستثنیٰ قرار دیا ہے اور وہ ہے (کسی وجہ سے) محصور ہوجانا۔
بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿ۭ فَاِنْ اُحْصِرْتُمْ﴾” پس اگر تم روک دیئے جاؤ“ یعنی اگر تم کسی مرض یا راستہ بھول جانے یا دشمن کے روک لینے کی وجہ سے یا کسی اور وجہ سے حج اور عمرہ کی تکمیل کے لئے بیت اللہ نہ پہنچ سکو تو فرمایا : ﴿فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنَ الْہَدْیِ ۚ ﴾” تو جیسی قربانی میسر ہو۔“ یعنی (جو قربانی میسر ہو) ذبح کرو۔ یہ قربانی اونٹ یا گائے کا ساتواں حصہ یا ایک بکری ہے جسے محصور ذبح کرے گا۔ اس کے بعد وہ اپنا سرمنڈوائے اور احرام کھول دے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حدیبیہ والے سال کیا تھا جب مشرکین مکہ نے آپ کو بیت اللہ جانے سے روک دیا تھا۔ اگر محصور کو قربانی نہ ملے تو اس کے بدلے دس روزے رکھے جیسا کہ تمتع کرنے والے کے لئے ضروری ہے اور اس کے بعد احرام کھول کر حلال ہوجائے۔
پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَلَا تَحْلِقُوْا رُءُوْسَکُمْ حَتّٰی یَبْلُغَ الْہَدْیُ مَحِلَّہٗ ﴾” اور اپنے سروں کو نہ منڈواؤ، یہاں تک کہ قربانی اپنے ٹھکانے کو پہنچ جائے“ بالوں کو منڈوا کر یا کسی اور طریقے سے زائل کرنا احرام کے ممنوعات میں شمار ہوتا ہے۔ بال خواہ سر کے ہوں یا بدن کے کسی اور حصے کے، ان کو زائل کرنا منع ہے، کیونکہ احرام میں اصل مقصود بالوں کی پراگندگی اور ان کو زائل کر کے ان کی اصلاح کرنے کی ممانعت ہے اور وہ باقی بالوں میں بھی موجود ہے۔ بہت سے علماء نے زیب و زینت کے لئے ناخن ترشوانے کو بال منڈوانے پر قیاس کیا ہے اور مذکورہ تمام چیزیں اس وقت تک ممنوع ہیں جب تک کہ قربانی اپنے مقاصد پر نہ پہنچ جائے اور اس سے مراد قربانی کا دن ہے اور افضل یہ ہے کہ قربانی کرنے کے بعد بال اتروائے جائیں جیسا کہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے۔
اس آیت کریمہ سے یہ بھی استدلال کیا جاتا ہے کہ تمتع کرنے والا جب اپنے ساتھ قربانی لے کر آیا ہو تو وہ قربانی کے دن سے قبل اپنے عمرے کا احرام نہ کھولے۔ پس تمتع کرنے والا جب عمرے کے طواف اور سعی سے فارغ ہوجائے تو حج کا احرام باندھ لے اور اپنے ساتھ قربانی لانے کی وجہ سے اس کے لئے احرام کھولنا جائز نہیں۔
اور اللہ تعالیٰ نے (حَلْقَ) ” بال مونڈنے“ سے اس لئے منع فرمایا ہے کہ اس میں عاجزی، اللہ کے لئے خضوع اور انکسار ہے جو کہ بندے کے لئے عین مصلحت ہے اور اس میں اس کے لئے کوئی نقصان بھی نہیں۔ اگر سر میں کسی مرض، یا زخم یا جوؤں کی وجہ سے تکلیف ہو تو اس کے لئے سر کو منڈوانا جائز ہے البتہ فدیہ کے طور پر تین روزے رکھنا، یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلانا یا جانور ذبح کرنا جو قربانی کے لئے جائز ہو واجب ہے۔ ان میں سے جو کام چاہے اسے کرنے کا اختیار ہے۔ قربانی سب سے افضل ہے، اس کے بعد صدقہ اور پھر روزے۔
اسی طرح کے حالات میں اگر ناخن تراشنے، سر ڈھانپنے، سلا ہوا کپڑا پہننے یا خوشبو لگانے کی ضرورت لاحق ہو تو ضرورت کے وقت ایسا کرنا جائز ہے البتہ مذکورہ بالا فدیہ کی مانند فدیہ دینا واجب ہے۔ اس تمام صورت میں اصل مقصد آسودگی کے مظاہر سے دور رہنا ہے۔ پھر فرمایا : ﴿ فَاِذَآ اَمِنْتُمْ﴾” پس جب تم امن میں ہوجاؤ“ یعنی جب تم دشمن وغیرہ کی رکاوٹ کے بغیر بیت اللہ تک پہنچنے کی قدرت رکھتے ہو ﴿ فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَۃِ اِلَی الْحَجِّ ﴾” پس جو حج کے وقت تک عمرے سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔“ یعنی جو عمرہ کو حج کے ساتھ ملا دے اور عمرہ سے فارغ ہو کر اپنے تمتع سے فائدہ اٹھائے ﴿ فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنَ الْہَدْیِ ۚ﴾” تو وہ جیسی قربانی میسر ہو کرے۔“ یعنی اس پر واجب ہے کہ وہ قربانی دے جو میسر ہو اور وہ ایسا جانور ذبح کرے جو قربانی کے لئے جائز ہو۔
یہ قربانی حج کی قربانی ہے جو ان دو عبادات کے مقابل میں ہے جو اسے ایک ہی سفر میں حاصل ہوئیں، علاوہ ازیں یہ اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کا شکرانہ ہے جو اسے عمرہ سے فراغت کے بعد اور مناسک حج شروع کرنے سے پہلے تمتع سے استفادہ کرنے کی صورت میں حاصل ہوئی اور اسی کی مثل حج قران ہے، کیونکہ اس میں بھی (حج تمتع کی طرح) دو عبادات کا ثواب حاصل ہوتا ہے۔ آیت کریمہ کا مفہوم دلالت کرتا ہے کہ مفرد حج کرنے والے شخص پر قربانی واجب نہیں۔ آیت کریمہ تمتع کے جواز بلکہ تمتع کی فضیلت پر دلالت کرتی ہے نیز اس پر بھی کہ حج کے مہینوں میں تمتع جائز ہے۔ ﴿ فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ ﴾” پس جو شخص نہ پائے“ یعنی جس کے پاس قربانی یا اس کی قیمت موجود نہ ہو ﴿ فَصِیَامُ ثَلٰثَۃِ اَیَّامٍ فِی الْحَجِّ ﴾” تو تین روزے رکھنے ہیں حج کے دنوں میں“ ان روزوں کا پہلا جواز تو یہ ہے کہ انہیں عمرہ کے احرام کے ساتھ ہی رکھا جائے اور ان کا آخری وقت یوم النحر کے بعد کے تین دن ہیں، رمی جمار اور منی میں شب باشی کے ایام، البتہ افضل یہ ہے کہ یہ روزے ساتویں، آٹھویں اور نویں ذوالحج کو رکھے جائیں۔
﴿ وَسَبْعَۃٍ اِذَا رَجَعْتُمْ ۭ﴾” اور سات (روزے) اس وقت جب تم گھر لوٹو“ یعنی جب تم اعمال حج سے فارغ ہوجاؤ تو ان روزوں کو مکہ مکرمہ میں رکھنا بھی جائز ہے، واپسی سفر کے دوران راستے میں اور گھر پہنچ کر بھی رکھے جاسکتے ہیں۔ ﴿ ذٰلِکَ﴾” یہ“ یعنی تمتع کرنیوالے پر قربانی کا واجب ہونا ﴿ لِمَنْ لَّمْ یَکُنْ اَھْلُہٗ حَاضِرِی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۭ﴾” اس کے لئے ہے جس کے گھر والے مسجد حرام کے پاس نہ رہتے ہوں“ یعنی یہ صرف اس شخص کے لئے ہے جو نماز قصر کرنے یا اس سے زیادہ فاصلے پر رہتا ہو یا اتنا دور رہتا ہو جسے عرف میں دور سمجھا جاتا ہو۔ اس شخص پر ایک ہی سفر میں دو عبادات کے ثواب کے حصول کی بنا پر قربانی واجب ہے۔
جو کوئی مکہ مکرمہ میں مسجد حرام کے پاس رہتا ہے، تو اس پر عدم موجب کی بنا پر قربانی واجب نہیں۔ ﴿ وَاتَّقُوا اللّٰہَ﴾” اور اللہ سے ڈرو“ یعنی اپنے تمام امور میں،اس کے اوامر کی اطاعت اور اس کی نواہی سے اجتناب کرتے ہوئے۔ اسی زمرے میں حج کے ان اوامر کی اطاعت اور ان ممنوعات سے اجتناب ہے جو کہ اس آیت کریمہ میں مذکور ہیں۔ ﴿وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ﴾ ” اور جان لو کہ اللہ سخت عذاب دینے والا ہے“ یعنی اللہ تعالیٰ اس شخص کو سخت سزا دیتا ہے جو اس کی نافرمانی کرتا ہے۔ یہی (خوف عذا) تقویٰ کا موجب ہے، کیونکہ جو کوئی اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرتا ہے وہ ان تمام امور سے اجتناب کرتا ہے جو عذاب کے موجب ہیں۔ جیسے جو کوئی اللہ تعالیٰ سے ثواب کی امید رکھتا ہے وہ ایسے کام کرتا ہے جو ثواب کے کے موجب ہیں اور جو کوئی عذاب سے نہیں ڈرتا اور ثواب کی امید نہیں رکھتا وہ حرام میں گھس جاتا ہے اور فرائض کو چھوڑ دینے کی جرأت کا مرتکب ہوتا ہے۔ |
البقرة |
197 |
اللہ تبارک وتعالیٰ خبر دیتاہے ﴿ اَلْحَجُّ﴾ یعنی حج واقع ہوتا ہے ﴿ اَشْہُرٌ مَّعْلُوْمٰتٌ ۚ ﴾” معلوم مہینوں (میں) “ جو مخاطبین کے ہاں معلوم اور معروف ہیں جن کی تخصیص کی ضرورت نہیں۔ جیسا کہ روزوں کے لئے اس کے مہینے کے تعین کی ضرورت پیش آئی اور جس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے نماز کے اوقات بیان فرمائے ہیں۔ رہا حج تو یہ ملت ابراہیم کا رکن ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں ہمیشہ سے معروف رہا ہے اور وہ لوگ حج کرتے چلے آئے ہیں۔ جمہور اہل علم کے نزدیک ﴿ اَشْہُرٌ مَّعْلُوْمٰتٌ ۚ ﴾” معلوم مہینے“ سے مراد شوال، ذیقعد اور ذوالحج کے پہلے دس دن ہیں۔ یہی وہ مہینے ہیں جن میں غالب طور پر حج کے لئے احرام باندھا جاتا ہے۔
﴿ فَمَنْ فَرَضَ فِیْہِنَّ الْحَجَّ﴾” تو جو شخص ان مہینوں میں حج کی نیت کرلے۔“ یعنی جو کوئی ان مہینوں میں حج کا احرام باندھتا ہے، کیونکہ جو کوئی حج شروع کردیتا ہے تو اس کا اتمام اس پر فرض ہوجاتا ہے خواہ حج نفلی ہی کیوں نہ ہو۔
اس آیت کریمہ سے امام شافعی رحمہ اللہ اور ان کے اصحاب استدلال کرتے ہیں کہ حج کے مہینوں سے قبل حج کے لئے احرام باندھنا جائز نہیں ہے۔
میں (عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی) کہتا ہوں کہ اگر یہ کہا جائے کہ یہ آیت کریمہ جمہور اہل علم کے اس مسلک پر دلالت کرتی ہے کہ حج کے مہینوں سے پہلے حج کے لئے احرام باندھنا صحیح ہے تو ایسا کہنا زیادہ قرین صحت ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿ فَرَضَ فِیْہِنَّ الْحَجَّ﴾ دلالت کرتا ہے کہ حج کی فرضیت کبھی تو مذکورہ مہینوں میں واقع ہوتی ہے اور کبھی نہیں۔ ورنہ اللہ تعالیٰ اسے مقید نہ کرتا۔
﴿ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوْقَ ۙوَلَا جِدَالَ فِی الْحَجِّ ۭ﴾’’ تو دل لگی کی باتیں نہیں کرنا، نہ گناہ کرنا اور نہ جھگڑا کرنا ہے حج میں“ یعنی تم پر حج کے احرام کی تعظیم کرنا فرض ہے خاص طور پر جبکہ وہ حج کے مہینوں میں واقع ہو، لہٰذا تم پر فرض ہے کہ تم احرام حج کی ہر اس چیز سے حفاظت کرو جو احرام کو فاسد کرتی ہے یا اس کے ثواب میں کمی کردیتی ہے، مثلاً (رَفَثَ) اور (رفث) سے مراد ہے جماع اور اس کے قولی اور فعلی مقدمات۔ خاص طور پر بیویوں کے پاس، ان کی موجودگی میں۔ (فُسُوْقَ) سے تمام معاصی مراد ہیں اور ممنوعات احرام بھی اس میں شامل ہیں اور (جِدال) سے مراد لڑائی، جھگڑا اور مخاصمت، کیونکہ لڑائی جھگڑا شر کو جنم دیتا اور دشمنی پیدا کرتا ہے۔
حج کا مقصد اللہ تعالیٰ کے لئے تذلل اور انکسار، عبادات کے ذریعے سے ممکن حد تک اس کے تقرب کا حصول اور برائیوں کے ارتکاب سے بچنا ہے، اس لئے کہ یہی وہ امور ہیں جن کی وجہ سے حج اللہ کے ہاں مقبول و مبرور ہوتا ہے اور حج مبرور کا بدلہ، جنت کے سوا کوئی نہیں۔ مذکورہ برائیاں اگرچہ ہر جگہ اور ہر وقت ممنوع ہیں تاہم حج کے ایام میں ان کی ممانعت میں شدت اور زیادہ ہوجاتی ہے اور جان لیجیے کہ صرف ترک معاصی سے تقریب الٰہی کی تکمیل اس وقت تک نہیں ہوتی جب تک کہ اللہ تعالیٰ کے احکام بھی نہ بجا لائے جائیں۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿ وَمَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ یَّعْلَمْہُ اللّٰہُ﴾ ” اور جو بھی تم بھلائی کرتے ہو، اللہ اسے جانتا ہے“ اللہ تعالیٰ نے بھلائی کے عموم کی تصریح کے لئے (مِنْ) استعمال کیا ہے۔ اس لیے ہر بھلائی، تقریب الٰہی کا ہر ذریعہ اور ہر عبادت اس میں شامل ہے، یعنی اللہ تعالیٰ ہر بھلائی کو جانتا ہے۔ یہ آیت کریمہ بھلائی کے کاموں میں ترغیب کو متضمن ہے۔ خاص طور پر زمین کے ان قطعات میں جن کو شرف اور احترام میں بہت بلند مقام حاصل ہے۔ اس لئے یہی مناسب ہے کہ نماز، روزہ، صدقہ، طواف اور قولی و فعلی احسان کے ذریعے سے جتنی بھلائی ممکن ہو، اسے حاصل کیا جائے۔
پھر اللہ تعالیٰ نے اس مبارک سفر میں زادراہ ساتھ لینے کا حکم دیا ہے، کیونکہ زاد راہ مسافر کو لوگوں سے بے نیاز کردیتا ہے اور اسے لوگوں کے مال کی طرف دیکھنے اور سوال کرنے سے روک دیتا ہے۔ ضرورت سے زائد زادراہ ساتھ لینے میں فائدہ اور ساتھی مسافروں کی اعانت ہے اور اس سے اللہ رب العالمین کے تقرب میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہی وہ زاد راہ ہے جو یہاں مراد ہے جو زندگی کو قائم رکھنے، گزر بسر کرنے اور راستے کے اخراجات کے لئے نہایت ضروری ہے۔ رہا زاد حقیقی جس کا انسان کو دنیا و آخرت میں فائدہ ہوتا ہے تو وہ تقویٰ کا زاد راہ ہے جو جنت کی طرف سفر کا زاد راہ ہے اور وہی زاد راہ ایسا ہے جو انسان کو ہمیشہ رہنے والی کامل ترین لذت اور جلیل ترین نعمت کی منزل مراد پر پہنچتا ہے۔ جو کوئی زاد تقویٰ کو چھوڑ دیتا ہے وہ اس بنا پر اپنی راہ کھوٹی کر بیٹھتا ہے۔ تقویٰ سے محروم ہونا ہر برائی کا نشانہ بن جانا ہے اور وہ اہل تقویٰ کی منزل پر پہنچنے سے محروم ہوجاتا ہے۔ پس یہ تقویٰ کی مدح ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ نے عقل مند لوگوں کو ان الفاظ میں تقویٰ اختیار کرنے کا حکم دیا ہے :﴿ وَاتَّقُوْنِ یٰٓاُولِی الْاَلْبَابِ﴾ ” اے اہل دانش ! مجھ سے ڈرتے رہو۔“ یعنی اے سنجیدہ اور عقلمند لوگو ! اپنے اس رب سے ڈرو جس سے ڈرنا وہ سب سے بڑی چیز ہے جس کا عقل انسانی حکم دیتی ہے اور اس کو ترک کرنا جہالت اور فساد رائے کی دلیل ہے۔ |
البقرة |
198 |
چونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے تقویٰ کا حکم دیا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے یہاں آگاہ فرما دیا کہ مواسم حج وغیرہ میں محنت و اکتساب کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کا فضل تلاش کرنے میں کوئی حرج نہیں، جبکہ وہ فرائض سے غافل ہو کر اسی میں مشغول نہ ہوجائے۔ جبکہ اس کا اصل مقصد حج ہی ہو اور یہ کمائی حلال اور اللہ تعالیٰ کے فضل کی طرف منسوب ہو اور بندے کی اپنی مہارت کی طرف منسوب نہ ہو، کیونکہ سبب کو ہی سب کچھ سمجھنا اور سبب کو فراموش کردینا، یہی عین حرج ہے اور اللہ تبارک و تعالیٰ کا فرمان ﴿فَاِذَآ اَفَضْتُمْ مِّنْ عَرَفٰتٍ فَاذْکُرُوا اللّٰہَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ ۠﴾ ” پس جب تم عرفات سے لوٹو تو مشعر حرام کے پاس اللہ کا ذکر کرو“ متعدد امور پر دلالت کرتا ہے :
(1) عرفہ میں وقوف، مناسك حج میں سے ہے اور یہ ارکان حج میں سے ایک معروف رکن ہے، کیونکہ عرفات سے واپسی صرف وقوف کے بعد ہی ہوتی ہے۔
(2) مشعر حرام کے پاس اللہ تعالیٰ کے ذکر کا حکم دیا گیا ہے اور مشعر حرام سے مراد مزدلفہ ہے، مزدلفہ بھی معروف جگہ ہے جہاں قربانی کی رات بسر کرنی ہوتی ہے، نماز فجر کے بعد خوب روشنی پھیلنے تک دعائیں کرتے ہوئے مزدلفہ میں وقوف کرے، مزدلفہ کے پاس دعاؤں اور اذکار میں فرائض اور نوافل بھی داخل ہیں۔
(3) مزدلفہ کا وقوف، عرفات کے وقوف سے متاخر ہے جیسا کہ آیت کریمہ میں دی گئی ترتیب دلالت کرتی ہے۔
(4) عرفات اور مزدلفہ دونوں ان مشاعر حج میں شمار ہوتے ہیں جن کا فعل اور اظہار مقصود ہے۔
(5) مزدلفہ بھی حرم میں داخل ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اسے ” حرام“ کی صفت سے مقید کیا ہے۔
(6) مزدلفہ کو ’’حرام“ کی صفت سے مقید کرنا یہ مفہوم دیتا ہے کہ عرفہ حرم میں شامل نہیں۔
﴿ وَاذْکُرُوْہُ کَمَا ھَدٰیکُمْ ۚ وَاِنْ کُنْتُمْ مِّنْ قَبْلِہٖ لَمِنَ الضَّاۗلِّیْنَ﴾ ” اور اس (اللہ) کا اس طرح ذکر کرو جس طرح اس نے تم کو بتلایا ہے اور اس سے پہلے تم ناواقف تھے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ کا ذکر کرو جیسا کہ اس نے گمراہی کے بعد تمہیں ہدایت سے نوازا اور تمہیں وہ کچھ سکھایا جو تم نہ جانتے تھے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت ہے جس کا شکر واجب اور اس کے مقابلے میں قلب اور زبان سے منعم کا ذکر کرنا فرض ہے۔ |
البقرة |
199 |
﴿ ثُمَّ اَفِیْضُوْا مِنْ حَیْثُ اَفَاضَ النَّاسُ﴾” پھر تم وہاں سے لوٹو جہاں سے لوگ لوٹتے ہیں“ یعنی مزدلفہ سے اور یہ وہ عمل ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام سے لے کر اب تک چلا آرہا ہے اور اس افاضہ یعنی واپسی کا مقصد ان کے ہاں معروف تھا اور وہ ہے رمی جمار، قربانیوں کو ذبح کرنا، طواف، سعی، تشریق کی راتوں میں منیٰ میں شب بسری اور باقی مناسک کی تکمیل چونکہ اس افاضہ کا مقصد وہ ہے جس کا ذکر کیا گیا ہے اور یہ مذکورہ امور حج کے آخری مناسک ہیں، اس لئے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ ان سے فارغ ہو کر استغفار اور کثرت سے اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا جائے، اس لئے کہ استغفار کا مقصد یہ ہے کہ عبادات کی ادائیگی میں بندے کی طرف سے جو خلل اور کوتاہی واقع ہوئی ہے استغفار سے اس کی تلافی ہوجائے اور اللہ کا ذکر یہ اللہ کا اس انعام پر شکر ہے جو اس نے عظیم عبادت اور بھاری احسان کی توفیق سے نواز کر کیا۔
بندہ مومن کے لئے مناسب بھی یہی ہے کہ جب وہ اپنی عبادت سے فارغ ہو تو اپنی تقصیر اور کوتاہی پر اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرے اور عبادت کی توفیق پر اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لائے، نہ کہ اس شخص کی مانند ہو جو یہ سمجھتا ہے کہ اس نے عبادت کی تکمیل کر کے رب پر احسان کیا ہے اور اس عبادت نے اس کے مقام پر و مرتبہ کو بہت بلند کردیا ہے۔ یہ رویہ یقیناً اللہ کی ناراضی کا باعث اور اس بات کا مستحق ہے کہ اس کے فعل (عبادت) کو ٹھکرا دیا جائے جیسے عبادت کی پہلی صورت اس بات کی مستحق ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں قبولیت کا درجہ حاصل کرے اور بندے کو دوسرے اعمال خیر کی توفیق عطا ہو۔
پھر اللہ تعالیٰ نے مخلوق کے احوال کی خبر دی اور آگاہ فرمایا کہ تمام مخلوق اپنے اپنے مطالبات کا سوال کرتی ہے اور جو چیز ان کے لئے ضرر رساں ہے اس سے بچنے کی دعا مانگتی ہے، البتہ ان کے مقاصد مختلف ہوتے ہیں۔ |
البقرة |
200 |
کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو یہ کہتے ہیں ﴿ رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا ﴾” اے ہمارے رب ! دے تو ہمیں دنیا میں“ یعنی وہ دنیا کے ساز و سامان اور اس کی شہوات کا سوال کرتے ہیں۔ ان کے لئے آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوگا، کیونکہ آخرت میں ان کو کوئی رغبت نہیں اور انہوں نے اپنی ہمت اور ارادے دنیا ہی پر مرکوز کردیئے ہیں۔ |
البقرة |
201 |
ان میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو دنیا اور آخرت دونوں کے لئے دعا کرتے ہیں اور اپنے آپ کو دنیا اور آخرت کے تمام امور میں اللہ تعالیٰ کا محتاج سمجھتے ہیں۔
ان دونوں گروہوں کے لئے اپنے اپنے اعمال اور اپنے اپنے اکتساب کا حصہ ہے۔ اللہ تعالیٰ عنقریب انہیں ان کے اعمال، ان کے ارادوں اور ان کی نیتوں کی ایسی جزا دے گا جو عدل اور فضل کے دائرے میں ہوگی، اس پر اس کی کامل ترین حمد و ثنا بیان کی جائے گی۔ اس آیت کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر ایک کی دعا سنتا ہے، خواہ وہ کافر ہو، مسلمان ہو یا فاسق و فاجر، البتہ کسی کی دعا قبول ہونے کے معنی یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے محبت کرتا ہے اور اس نے (اس کی دعا قبول کر کے) اسے اپنے قرب سے نواز دیا ہے۔ البتہ آخرت کی بھلائی اور دینی امور میں دعا کی قبولیت اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کے قرب کی علامت ہے۔ وہ بھلائی جو دنیا میں طلب کی جاتی ہے، اس میں ہر وہ بھلائی شامل ہے جس کا ہونا بندے کو پسند ہو۔ جیسے رزق کی کشائش، نیک بیوی، نیک اولاد جسے دیکھ کر آنکھیں ٹھنڈی ہوتی ہیں، آرام اور راحت، علم نافع، اعمال صالحہ اور دیگر پسندیدہ اور مباح چیزیں اور آخرت کی بھلائی، قبر، حساب کتاب اور آگ کے عذاب سے سلامتی، اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول، ہمیشہ رہنے والی نعمتوں سے کامیاب ہونے اور رب رحیم کے قرب کا نام ہے۔ اس اعتبار سے یہ دعا سب سے جامع اور سب سے کامل دعا ہے اور اس قابل ہے کہ اسے تمام دعاؤں پر ترجیح دی جائے۔ اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر یہی دعا مانگا کرتے تھے اور اس دعا کی ترغیب دیا کرتے تھے۔ |
البقرة |
202 |
|
البقرة |
203 |
اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے کہ گنتی کے چند دنوں میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا جائے، ان دنوں سے مراد عید کے بعد کے ایام تشریق (کے تین دن) ہیں، کیونکہ انہیں شرف و فضیلت حاصل ہے نیز اس لئے بھی کہ بقیہ تمام مناسک حج انہی ایام میں پورے کئے جاتے ہیں۔ علاوہ ازیں ان دنوں میں لوگ اللہ تعالیٰ کے مہمان ہوتے ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان دنوں میں روزہ رکھنا حرام قرار دیا ہے۔ ان کے اندر اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا ایک ایسی خوبی ہے جو اور دنوں میں نہیں پائی جاتی، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا﴿ اَيّامُ التَّشْرِيقِ اَيَّامُ أَكْلٍ وَشُرْبٍ وَ ذِكْرِ اللّٰهِ عَزَّ وَجَلَّ﴾” ایام تشریق کھانے پینے اور اللہ کا ذکر کرنے کے دن ہیں۔“ اور ان ایام میں جو اللہ کا ذکر کرنے کا حکم ہے، تو اس میں رمی جمار کے وقت، قربانی کا جانور ذبح کرتے وقت اور فرض نمازوں کے بعد مخصوص اللہ تعالیٰ کا ذکر بھی آجاتا ہے۔ بعض اہل علم کہتے ہیں اس حکم میں مطلق تکبیرات داخل ہیں۔ جیسے ذوالحج کے پہلے دس دنوں میں تکبیرات کہی جاتی ہیں اور یہ بعید بھی نہیں۔
﴿ فَمَنْ تَعَـجَّلَ فِیْ یَوْمَیْنِ فَلَآ اِثْمَ عَلَیْہِ ۚ ﴾” پس جس نے جلدی کی دو دنوں میں، تو اس پر کوئی گناہ نہیں“ یعنی جو کوئی دوسرے روز غروب آفتاب سے قبل منیٰ سے نکل کر کوچ کرتا ہے ﴿ وَمَنْ تَاَخَّرَ فَلَآ اِثْمَ عَلَیْہِ ۙ﴾” اور جس نے دیر کی تو اس پر کوئی گناہ نہیں“ یعنی جو کوئی تیسری رات منیٰ میں بسر کر کے اگلی صبح کنکر مارتا ہے (تو اس پر بھی کوئی گناہ نہیں) دونوں امور مباح قرار دے کر اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو تخفیف عطا کی ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی معلوم ہے کہ اگرچہ دونوں امور جائز ہیں تاہم تیسری رات کے بعد منیٰ سے کوچ کرنا افضل ہے، کیونکہ اس طرح کثرت عبادت کی فضیلت حاصل ہوتی ہے۔
چونکہ آیت کریمہ میں نفی حرج کا ذکر کیا گیا ہے جس سے کبھی تو صرف اسی معاملے میں نفی حرج کا مفہوم ذہن میں آتا ہے اور کبھی اس کے علاوہ دیگر معاملات میں بھی۔ جب کہ صورتحال یہ ہے کہ صرف تقدیم و تاخیر میں حرج کی نفی کی گئی ہے۔ جسے اللہ تعالیٰ نے ﴿ لِمَنِ اتَّقٰی ۭ﴾کے ساتھ مقید کیا ہے، یعنی جس نے تمام معاملات میں اور حج کے احوال میں تقویٰ اختیار کیا۔ پس جس نے ہر معاملے میں تقویٰ اختیار کیا اس کے لئے ہر معاملے میں حرج کی نفی حاصل ہوگئی اور جس نے بعض معاملات میں تقویٰ اختیار کیا اور بعض معاملات میں اسے نظر انداز کردیا تو اس کو جزا بھی اس کے عمل کی جنس سے ملے گی۔
﴿ وَاتَّقُوا اللّٰہَ ﴾” اور اللہ سے ڈرتے رہو۔“ یعنی اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل اور اس کی نافرمانی سے اجتناب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے ڈرو ﴿ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّکُمْ اِلَیْہِ تُحْشَرُوْنَ﴾” جان لو کہ تمہیں اسی (اللہ تعالیٰ) کے پاس اکٹھا کیا جائے گا“ اور وہ تمہیں تمہارے اعمال کا بدلہ دے گا۔ پس جس کسی نے تقویٰ اختیار کیا وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کی جزا پائے گا اور جو کوئی اللہ تعالیٰ سے ڈر کر گناہوں سے باز نہ آیا، اللہ تعالیٰ اسے سخت سزا دے گا۔ جزا و سزا کا علم، تقویٰ کا سب سے بڑا داعیہ ہے، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے جزائے آخرت کے علم کی بڑی ترغیب دی ہے۔ |
البقرة |
204 |
جب اللہ تعالیٰ نے کثرت سے ذکر کرنے کا حکم دیا، خاص طور پر فضیلت والے اوقات میں، وہ ذکر الٰہی جو سب سے بڑی بھلائی اور نیکی ہے تو اللہ تعالیٰ نے ایسے شخص کے حال کے بارے میں خبر دی جو اپنی زبان سے جو بات کرتا ہے اس کا فعل اس کی مخالفت کرتا ہے۔ پس کلام ایک ایسی چیز ہے جو انسان کو بلند مراتب پر فائز کرتی ہے یا اس کو پستی میں گرا دیتی ہے، چنانچہ فرمایا :
﴿ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یُّعْجِبُکَ قَوْلُہٗ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا﴾ ” بعض لوگ وہ ہیں جن کی بات تجھ کو اچھی لگتی ہے دنیا کی زندگی میں“ یعنی جب وہ بات کرتا ہے تو اس کی باتیں سننے والے کو بہت اچھی لگتی ہیں۔ جب وہ بات کرتا ہے تو آپ سمجھتے ہیں کہ وہ بہت ہی فائدہ مند بات کر رہا ہے۔ اور بات کو مزید موکد بناتا ہے۔ ﴿ وَیُشْہِدُ اللّٰہَ عَلٰی مَا فِیْ قَلْبِہٖ ۙ﴾۔ اور جو اس کے دل میں ہے، اس پر وہ اللہ کو گواہ بناتا ہے“ یعنی وہ خبر دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس بات سے آگاہ ہے کہ اس کے دل میں وہی کچھ ہے جس کا اظہار وہ زبان سے کر رہا ہے، درآنحالیکہ وہ اس بارے میں جھوٹا ہے، کیونکہ اس کا فعل اس کے قول کی مخالفت کرتا ہے۔ اگر وہ سچا ہوتا تو اس کا فعل اس کے قول کی موافقت کرتا جیسا کہ سچے مومن کا حال ہوتا ہے۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿َھُوَ اَلَدُّ الْخِصَامِ﴾” اور وہ سخت جھگڑالو ہے“ یعنی جب کبھی آپ اس سے بحث کرتے ہیں تو آپ دیکھتے ہیں کہ اس میں سخت جھگڑالو پن، سرکشی اور تعصب جیسی مذموم صفات موجود ہیں اور ان کے نتیجے میں، اس کے اندر وہ اوصاف پائے جاتے ہیں جو قبیح ترین اوصاف ہیں۔ یہ اوصاف اہل ایمان کے اوصاف کی مانند نہیں ہیں۔ وہ اہل ایمان جنہوں نے سہولت کو اپنی سواری، اطاعت حق کو اپنا وظیفہ اور عفو و درگزر کو اپنی طبیعت بنا لیا۔ |
البقرة |
205 |
﴿ وَاِذَا تَوَلّٰی﴾” اور جب وہ پیٹھ پھیر کر چلا جاتا ہے“ یعنی یہ شخص جب آپ کے پاس موجود ہوتا ہے تو اس کی باتیں آپ کو بہت خوش کن لگتی ہیں، جب وہ آپ کے ہاں سے واپس لوٹتا ہے۔ ﴿ سَعٰی فِی الْاَرْضِ لِیُفْسِدَ فِیْہَا ﴾” تو زمین میں دوڑتا پھرتا ہے، تاکہ اس میں فتنہ انگیزی کرے۔“ یعنی وہ گناہ اور نافرمانی کے کاموں میں دوڑ دھوپ کرتا ہے جو زمین میں فساد برپا کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ ﴿ وَیُہْلِکَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ ۭ﴾” اور کھیتی اور نسل کو نابود کر دے۔“ اور اس سبب سے کھیتیاں، باغات اور مویشی تباہ ہوتے ہیں یا ان میں کمی واقع ہوتی ہے اور گناہوں کے سبب سے برکت اٹھ جاتی ہے۔ ﴿ وَاللّٰہُ لَا یُحِبُّ الْفَسَادَ﴾ ” اور اللہ فساد کو پسند نہیں کرتا“ اور جب وہ فساد کو پسند نہیں کرتا تو وہ زمین میں فساد پھیلانے والے بندے کو سخت ناپسند کرتا ہے خواہ یہ بندہ اپنی زبان سے بہت اچھی اچھی باتیں ہی کیوں نہ کرتا ہو۔
اس آیت کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ باتیں جو لوگوں کے منہ سے صادر ہوتی ہیں ان کے صدق یا کذب اور نیکی یا بدی پر اس وقت تک دلالت نہیں کرتیں جب تک اس کا عمل ان باتوں کی تصدیق نہ کر دے۔ یہ آیت اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ گواہوں، حق پرستوں اور باطل پرستوں کے احوال کی تحقیق اور ان کے اعمال اور قرائن احوال میں غور و فکر کے ذریعے سے ان کی پہچان کی جائے، نیز ان کی ملمع سازی اور ان کی پاکی داماں کے دعوؤں سے دھوکہ نہیں کھانا چاہئے۔ |
البقرة |
206 |
پھر اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا کہ گناہوں اور نافرمانیوں کے ذریعے سے زمین میں فساد پھیلانے والے اس شخص کو جب اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کی تلقین کی جاتی ہے تو تکبر کرنے لگتا ہے۔ ﴿ اَخَذَتْہُ الْعِزَّۃُ بِالْاِثْمِ ﴾” کھینچ لاتا ہے غرور اس کو گناہ پر“ چنانچہ اس کے اندر گناہ اور معاصی کے اعمال اور نصیحت کرنے والوں کے خلاف متکبرانہ رویہ اکٹھے ہوجاتے ہیں۔ ﴿ فَحَسْبُہٗ جَہَنَّمُ ۭ﴾” پس اس کے لئے جہنم کافی ہے“ جو نافرمان متکبرین کا ٹھکانا ہے۔ ﴿ وَلَبِئْسَ الْمِہَادُ﴾ ” اور بہت برا ٹھکانا ہے۔“ یعنی بہت ہی برا ٹھکانا اور مسکن ہے جہاں وہ کبھی نہ ختم ہونے والی مایوسی اور دائمی عذاب میں مبتلا رہیں گے، ان کے عذاب میں کبھی تخفیف نہیں کی جائے گی۔ وہ ثواب کی کوئی امید نہیں رکھیں گے یہ ان کے اعمال بد اور ان کے جرم کی سزا ہے۔ ہم ان کے احوال سے اللہ تعالیٰ کی پناہ کے طلبگار ہیں۔ |
البقرة |
207 |
﴿وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِیْ نَفْسَہُ ابْـتِغَاۗءَ مَرْضَاتِ اللّٰہِ ۭ وَاللّٰہُ رَءُوْفٌۢ بِالْعِبَادِ﴾” اور لوگوں میں سے بعض وہ ہے جو بیچ دیتا ہے اپنے آپ کو اللہ کی رضا جوئی میں اور اللہ بڑا مہربان ہے بندوں پر“۔ یہی لوگ توفیق یافتہ ہیں جنہوں نے اپنی جانوں کو ارزاں داموں میں بیچ دیا اور اللہ کی رضا کے حصول اور ثواب کی امید پر اپنی جانوں کو قربان کردیا۔ پس انہوں نے ” بندوں کے ساتھ انتہائی مہربان، پورا بدلہ دینے والے مال دار کو قیمت ادا کی ہے، وہ مہربان کہ جس کی شفقت و رحمت ہی سے ہے کہ اس نے ان کو اس قربانی کی توفیق بخشی اور اس نے اس قربانی کے پورے بدلے کا وعدہ فرمایا ﴿ إِنَّ اللَّـهَ اشْتَرَىٰ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُم بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ ۚ ﴾( التوبہ: 9؍ 111) ” بے شک اللہ نے خرید لیا ہے مسلمانوں سے ان کی جانوں کو اور مالوں کو اس کے بدلے کہ ان کے لیے جنت ہے۔“ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ مومنوں نے اپنی جانوں کو فروخت اور قربان کردیا ہے اور اللہ نے ان کے مطلوب و مقصود کے حصول کے لئے اپنی واجب شفقت و رحمت کی خبر دی ہے۔ پس اس کے بعد، ان پر اللہ کریم جو نوازشات فرمائے گا اور جو کامیابی و کامرانی ان کو حاصل ہوگی، اس کی بابت مت پوچھ۔ |
البقرة |
208 |
یہ اہل ایمان کے لئے اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ وہ مکمل طور پر اسلام میں داخل ہوجائیں۔ یعنی دین کے تمام احکام پر عمل کریں اور ان احکام میں سے کسی حکم کو ترک نہ کریں اور ان لوگوں میں شامل نہ ہوں جنہوں نے اپنی خواہشات کو اپنا معبود بنا لیا۔ اگر شرعی حکم ان کی خواہش نفس کے مطابق ہوتا ہے تو اس پر عمل کرلیتے ہیں اگر یہ حکم خواہش نفس کے خلاف ہو تو اسے چھوڑ دیتے ہیں، بلکہ یہ فرض ہے کہ بندے کی خواہش دین کے تابع ہو، بھلائی کا ہر وہ کام کرے جس پر اسے قدرت حاصل ہو اور جس کام کے کرنے سے وہ عاجز ہو، اس کی کوشش کرے اور اس کو بجا لانے کی نیت رکھے، پس اپنی نیت سے وہ اسے پا لے گا۔ چونکہ دین میں مکمل طور پر داخل ہونا شیطان کے راستوں کی مخالفت کئے بغیر ممکن نہیں اور نہ اس کا تصور کیا جاسکتا ہے اس لئے فرمایا : ﴿ وَلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ ۭ﴾” اور شیطان کے نقش قدم کی اتباع نہ کرو۔“ یعنی اپنے اعمال میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتے ہوئے شیطان کے نقش قدم کی پیروی نہ کرو ﴿ اِنَّہٗ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ﴾” وہ تمہارا ظاہر دشمن ہے۔“ یعنی اس کی دشمنی ظاہر ہے۔ ایسا دشمن جس کی عداوت ظاہر ہو ہمیشہ تمہیں برائی، فواحش اور ایسے کاموں کا حکم دیتا ہے جو تمہارے لئے نقصان دہ ہوں۔
|
البقرة |
209 |
چونکہ بندے سے ہمیشہ کوتاہی اور لغزش واقع ہوتی رہتی ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ فَاِنْ زَلَلْتُمْ﴾” اگر تم پھسل جاؤ۔“ یعنی اگر تم سے کوئی لغزش ہوجائے اور تم گناہ میں پڑجاؤ ﴿ مِّنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَتْکُمُ الْبَیِّنٰتُ﴾” احکام روشن پہنچ جانے کے بعد“ یعنی علم اور یقین ہوجانے کے بعد﴿’ فَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ﴾ ’’ تو جان لو کہ اللہ غالب حکمت والا ہے۔ “
اس آیت میں نہایت سخت و عید اور تخویف ہے جو لغزشوں کو ترک کرنے کی موجب ہے، کیونکہ جب نافرمان لوگ اس غالب اور حکمت والی ہستی کی نافرمانی کرتے ہیں تو وہ نہایت قوت کے ساتھ ان کو پکڑتی ہے اور اپنی حکمت کے تقاضے کے مطابق ان کو سزا دیتی ہے، کیونکہ نافرمانوں اور مجرموں کو سزا دینا اس کی حکمت کا تقاضا ہے۔ |
البقرة |
210 |
یہ بہت سخت وعید اور تہدید ہے جس سے دل کانپ جاتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ کیا شیطان کے نقش قدم کی پیروی کرنے والے، زمین میں فساد پھیلانے والے اور اللہ تعالیٰ کے حکم کو رد کرنے والے روز جزا کے منتظر ہیں جو ہولناکیوں، سختیوں اور خوفناک مناظر سے بھرپور ہوگا اور بڑے بڑے ظالموں کے دل دہلا دے گا اور جس میں فساد برپا کرنے والوں کو ان کے اعمال کی بری جزا گھیر لے گی۔ یہ سب کچھ یوں ہوگا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ زمین و آسمان کو لپیٹ دے گا، ستارے بکھر جائیں گے، سورج اور چاند بے نور ہوجائیں گے۔ مکرم فرشتے نازل ہوں گے اور تمام خلائق کو گھیرے میں لے لیں گے اور اللہ تعالیٰ بادلوں کے سائے میں نزول فرمائے گا، تاکہ وہ اپنے بندوں کے درمیان عدل و انصاف کے ساتھ فیصلے کرے۔ ترازو نصب کردی جائیں گی، اعمال نامے کھول کر پھیلا دیئے جائیں گے سعادت مند لوگوں کے چہرے سفید اور روشن ہوں گے اور بدبخت گناہگاروں کے چہرے سیاہ اور تاریک ہوں گے۔ نیک لوگ بدکاروں سے علیحدہ ہوجائیں گے اور ہر ایک کو اس کے عمل کا بدلہ دیا جائے گا۔ پس ظالم وہاں (افسوس کے طور پر) اپنے ہاتھوں کو کاٹے گا، جب اپنی آنکھوں سے روز جزا کی حقیقت کا مشاہدہ کرے گا۔
یہ آیت کریمہ اور اس قسم کی دیگر آیات اہل سنت و الجماعت کے مذہب کی حقانیت پر دلالت کرتی ہیں جو اللہ تعالیٰ کی صفات اختیاری، مثلاً استواء علی العرش ” نزول“ اور ” آمد“ جیسی صفات کا اثبات کرتی ہیں جن کے بارے میں خود اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے۔ اہل سنت بغیر کسی تشبیہ، تعطیل اور تاویل و تحریف کے ان صفات کا ان کے ایسے معانی کے ساتھ اثبات کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے جلال اور عظمت کے لائق ہیں۔ اس کے برعکس اہل تعطیل کے مختلف گروہ، مثلاً جہمیہ، معتزلہ، اور اشاعرہ وغیرہ ان صفات کی نفی کرتے ہیں اور پھر اپنے مذہب کی تائید کے لئے ان آیات کریمہ کی ایسی ایسی تاویلیں کرتے ہیں جن کی اللہ تعالیٰ نے کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ تاویلات اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تبیین کو ناقص قرار دیتی ہیں۔ وہ اس زعم باطل میں مبتلا ہیں کہ اس بارے میں صرف ان کی تاویلات ہی کے ذریعے سے ہدایت حاصل ہوسکتی ہے۔
پس ان لوگوں کے پاس کوئی نقلی دلیل، بلکہ کوئی عقلی دلیل بھی نہیں ہے۔ جہاں تک نقلی دلیل کی بات ہے تو ان لوگوں کو خود اعتراف ہے کہ قرآن اور سنت کے ظاہری الفاظ بلکہ واضح الفاظ اہل سنت کے مذہب پر دلالت کرتے ہیں۔ جب کہ یہ حضرات اپنے باطل مذہب کی تائید اور اس کو ثابت کرنے کے لئے ان نصوص کے ظاہری معنی سے باہر نکلنے اور ان میں کمی بیشی کرنے پر مجبور ہیں اور جیسا کہ آپ جانتے ہیں اس چیز کو کوئی ایسا شخص پسند نہیں کرسکتا جس کے دل میں رتی بھر بھی ایمان ہے۔ رہی عقلی دلیل تو کوئی عقلی دلیل ایسی نہیں جو مذکورہ صفات الٰہی کی نفی پر دلالت کرے، بلکہ عقل تو اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ فاعل، فعل پر قدرت نہ رکھنے والے سے زیادہ کامل ہوتا ہے اور یہ کہ اللہ تعالیٰ کا فعل، جو اس کی اپنی ذات سے متعلق ہو یا اس کی مخلوق سے متعلق، وہ ایک کمال ہی ہے۔
اگر وہ یہ اعتراض کریں کہ ان صفات کا اثبات، مخلوق کے ساتھ تشبیہ پر دلالت کرتا ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ صفات پر بحث، ذات پر بحث کے تابع ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کی ذات مخلوق کی ذات سے مشابہت نہیں رکھتی اسی طرح اللہ تعالیٰ کی صفات پر بحث، ذات پر بحث کے تابع ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کی ذات مخلوق کی ذات سے مشابہت نہیں رکھتی اسی طرح اللہ تعالیٰ کی صفات مخلوق کی صفات سے مشابہت نہیں رکھتیں۔ اللہ تعالیٰ کی صفات اس کی ذات کے تابع ہیں اور مخلوق کی صفات ان کی ذات کے تابع ہیں۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ کی صفات کے اثبات سے، کسی بھی پہلو سے مخلوق کی صفات کے ساتھ مشابہت لازم نہیں آتی۔ نیز اس شخص سے یہ بھی کہا جائے گا، جو اللہ تعالیٰ کی بعض صفات کا اقرار کرتا ہے اور اس کی بعض صفات کا منکر ہے یا وہ اللہ تعالیٰ کے اسماء کا اقرار کرتا ہے اور اس کی صفات کی نفی کرتا ہے کہ یا تو آپ اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کا اثبات کریں جیسے اللہ تعالیٰ نے خود اپنی ذات کے لئے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان صفات کا اثبات کیا ہے یا ان تمام صفات کی نفی کر کے اللہ رب العالمین کے منکر بن جائیں لیکن آپ کا بعض صفات کا اثبات کرنا اور بعض صفات کی نفی کرنا تو محض تناقض ہے اس لئے آپ ان صفات میں جن کا آپ اثبات کرتے ہیں اور ان صفات میں جن کی آپ نفی کرتے ہیں، فرق ثابت کریں اور اس تفریق پر آپ کے پاس کوئی دلیل نہیں۔ اگر آپ کہیں کہ جن صفات کا میں نے اثبات کیا ہے ان سے تشبیہ لازم نہیں آتی تو صفات الٰہی کا اثبات کرنے والے اہل سنت آپ سے یہ کہتے ہیں کہ جن صفات کی آپ نے نفی کی ہے ان سے بھی تشبیہ لازم نہیں آتی۔ اگر آپ کہتے ہیں کہ جن صفات کی میں نفی کی ہے میرے نزدیک تو ان میں تشبیہ ہی لازم آتی ہے۔ تو صفات کی نفی کرنے والے تجھے کہیں گے کہ جن صفات کا آپ اثبات کرتے ہیں، ہمیں تو ان میں بھی تشبیہ لازم نہیں آتی۔ اگر آپ کہتے ہیں کہ جن صفات کی میں نے نفی کی ہے میرے نزدیک تو ان میں تشبیہ ہی لازم آتی ہے تو صفات کی نفی کرنے والے تجھے کہیں گے کہ جن صفات کا آپ اثبات کرتے ہیں، ہمیں تو ان میں بھی تشبیہ ہی نظر آتی ہے۔ پس جو جواب آپ نفی کرنے والوں کو دیں گے وہی جواب اہل سنت آپ کو ان صفات کی بابت دیں گے جن کی آپ نفی کرتے ہیں۔
حاصل بحث یہ ہے کہ جو کوئی کسی ایسے امر کی نفی کرتا ہے جس کے اثبات پر قرآن اور سنت دلالت کرتے ہیں، تو وہ تناقض کا شکار ہے۔ اس کے پاس کوئی شرعی دلیل ہے نہ عقلی، بلکہ وہ معقول اور منقول دونوں کی مخالفت کا مرتکب ہے۔ |
البقرة |
211 |
﴿ سَلْ بَنِیْٓ اِسْرَاۗءِ یْلَ کَمْ اٰتَیْنٰھُمْ مِّنْ اٰیَۃٍۢ بَیِّنَۃٍ ۭ﴾ ” بنی اسرائیل سے پوچھیں، کتنی ہی واضح نشانیاں ہم نے ان کو دیں؟“ ایسی آیتیں جو حق اور رسولوں کی صداقت پر دلالت کرتی ہیں، انہوں نے ان آیات کو پہچان لیا اور ان کی حقانیت کا انہیں یقین بھی ہوگیا مگر وہ اللہ تعالیٰ کی اس نعمت پر اس کا شکر نہ بجا لائے جو اس نعمت کا تقاضا ہے، بلکہ انہوں نے اس نعمت کی ناشکری کی اور اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کو کفران نعمت سے بدل ڈالا۔ پس وہ اس بات کے مستحق بن گئے کہ اللہ تعالیٰ ان پر اپنا عذاب نازل کرے اور ان کو اپنے ثواب سے محروم رکھے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے کفران نعمت کو ” نعمت کی تبدیلی“ اس لئے کہا کہ اللہ تعالیٰ جس شخص کو کوئی دینی یا دنیاوی نعمت عطا کرتا ہے اور وہ اس نعمت پر اللہ تعالیٰ کا شکر نہیں کرتا اور اس کے واجبات کو ادا نہیں کرتا تو یہ نعمت اضمحلال کا شکار ہوجاتی ہے اور اس کے پاس سے چلی جاتی ہے اور کفر اور معاصی اس کی جگہ لے لیتے ہیں۔ اس طرح گویا کفر، نعمت کا بدل ہوگیا اور جو کوئی اس نعمت پر اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لاتا ہے اور اس کے حقوق کو ادا کرتا ہے تو وہ نعمت نہ صرف ہمیشہ برقرار رہتی ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ اس کے لئے اس نعمت میں اضافہ کردیتا ہے۔ |
البقرة |
212 |
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ، اس کی آیات اور اس کے رسولوں کا انکار کرتے ہیں اور اس کی شریعت کے مطابق زندگی بسر نہیں کرتے اللہ تعالیٰ ان کے سامنے دنیاوی زندگی کو مزین اور آراستہ کردیتا ہے۔ دنیا کی یہ زندگی ان کے دلوں میں اور ان کی آنکھوں کے سامنے خوشنما بنا دی جاتی ہے، پس وہ اس دنیا میں مگن اور اس پر مطمئن ہوجاتے ہیں تو ان کی خواہشات، ان کے ارادے اور ان کا عمل سب دنیا کے لئے ہوجاتے ہیں۔ وہ دنیا کی طرف بھاگتے ہیں، اسی کے حصول میں ہمہ تن مغشول رہتے ہیں، وہ اس دنیا اور اپنے جیسے دنیا داروں کی تعظیم کرتے ہیں اور اہل ایمان سے نہایت حقارت سے پیش آتے ہیں اور ان کا تمسخر اڑاتے ہیں اور کہتے ہیں ” کیا یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے احسان فرمایا؟“ یہ ان کی کم عقلی اور کم نظری ہے، کیونکہ یہ دنیا آزمائش اور امتحان کا گھر ہے اس دنیا میں اہل ایمان اور اہل کفر، ان سب کو آزمائش کی یہ سختیاں برداشت کرنی پڑتی ہیں، بلکہ اس دنیا کے اندر مومن کو اگر کوئی تکلیف پہنچتی ہے اور وہ اس پر صبر کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ایمان اور صبر کی بنا پر اس کی تکلیف میں تخفیف کردیتا ہے کسی اور کے لئے یہ تخفیف نہیں ہوتی۔ اس لئے تمام معاملہ اور تمام تر فضیلت وہ ہے جو آخرت میں عطا ہو۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿ وَالَّذِیْنَ اتَّقَوْا فَوْقَہُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ ۭ﴾” پرہیز گار ان سے بلند ہوں گے قیامت کے دن“ پس اہل تقویٰ قیامت کے روز بلند ترین درجات پر فائز ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کی انواع و اقسام کی نعمتوں، مسرتوں، تروتازگی اور خوبصورتی سے لطف اندوز ہوں گے اور کفار ان کے نیچے جہنم کی اتھاہ گہرائیوں میں مختلف قسم کے عذاب، ابدی اہانت اور بدبختی میں مبتلا رہیں گے جس کی کوئی انتہا نہ ہوگی۔ پس اس آیت کریمہ میں اہل ایمان کے لئے تسلی اور کفار کے لئے ان کے برے انجام کی اطلاع ہے۔
چونکہ دنیاوی اور اخروی رزق صرف اللہ تعالیٰ کی تقدیر اور اس کی مشیت ہی سے حاصل ہوتے ہیں اس لئے فرمایا : ﴿ وَاللّٰہُ یَرْزُقُ مَنْ یَّشَاۗءُ بِغَیْرِ حِسَابٍ﴾ ” اور اللہ رزق دیتا ہے جسے چاہتا ہے، بغیر حساب کے“ پس دنیاوی رزق تو مومن اور کافر سب کو عطا ہوتا ہے۔ رہا علم و ایمان، محبت الٰہی، اللہ کا ڈر اور اس پر امید تو یہ دلوں کا رزق ہے جو اللہ تعالیٰ صرف اسے عطا کرتا ہے جس سے وہ محبت کرتا ہے۔ |
البقرة |
213 |
یعنی وہ سب ہدایت پر جمع تھے اور یہ سلسلہ آدم علیہ السلام کے بعد دس صدیوں تک جاری رہا۔ پھر جب انہوں نے دین میں اختلاف کیا تو ایک گروہ کافر ہوگیا اور دوسرا گروہ دین پر قائم رہا اور ان کے درمیان اختلاف ہوگیا تو اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے درمیان فیصلے اور ان پر حجت قائم کرنے کے لئے رسول بھیجے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ تمام لوگ کفر، ضلالت اور شقاوت پر مجتمع تھے۔ ان کے سامنے کوئی روشنی اور ایمان کی کوئی کرن نہ تھی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف انبیاء و رسل علیہ السلام بھیج کر ان پر رحم فرمایا ﴿ مُبَشِّرِیْنَ﴾” بشارت دینے والے“ یعنی یہ رسول لوگوں کو خوشخبری سناتے کہ اللہ کی اطاعت کے ثمرات، رزق، قلب و بدن کی قوت اور پاکیزہ زندگی کی صورت میں ہوں گے۔۔۔ اور ان سب سے بڑھ کر وہ کامیابی ہے جو اللہ کی رضا مندی اور جنت کی صورت میں حاصل ہوگی۔ ﴿ وَمُنْذِرِیْنَ ۠﴾ اور اللہ کے نافرمانوں کو معصیت کے نتائج سے ڈراتے ہیں جو دنیا میں رزق سے محرومی، کمزوری، اہانت اور تنگ زندگی کی صورت میں نکلتے ہیں اور آخرت میں ایسے لوگوں کے لئے بدترین عذاب، اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور جہنم ہے۔ ﴿ وَاَنْزَلَ مَعَہُمُ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ﴾” اور ان کے ساتھ کتاب اتاری ساتھ حق کے۔“ اس سے مراد وہ سچی خبریں اور عدل پر مبنی احکام ہیں جنہیں اللہ کے رسول لے کر مبعوث ہوتے رہے ہیں۔ پس وہ تمام اخبار و احکام جن پر کتب الٰہیہ مشتمل ہیں، حق ہیں اور اصول و فروع میں اختلاف کرنے والوں کے مابین فیصلہ کرتے ہیں اور اختلاف اور تنازع واقع ہونے کی صورت میں فرض ہے کہ اختلاف اور تنازع کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹایا جائے۔ اگر کتاب اللہ اور سنت رسول میں ان اختلاف کرنے والوں کے نزاع کا فیصلہ موجود نہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے جھگڑوں کو ان کی طرف لوٹا نے کا حکم نہ دیتا۔
چونکہ اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب پر کتابیں نازل فرما کر اپنی عظیم نعمت کا ذکر کیا ہے۔ اس نعمت کا تقاضا تھا کہ وہ ان کتابوں پر اتفاق کرتے ہوئے اکٹھے ہوتے، لیکن اللہ تعالیٰ نے بتلایا کہ انہوں نے ایک دوسرے پر زیادتی کا ارتکاب کیا جس کے نتیجے میں نزاعات، جھگڑے اور بے شمار اختلافات ظاہر ہوئے، چنانچہ انہوں نے اس کتاب میں اختلاف کیا جس کے بارے میں ان کے لئے مناسب یہ تھا کہ وہ اس کتاب پر لوگوں میں سے سب سے زیادہ اتفاق کرنے والے ہوتے اور ان کا یہ رویہ آیات بینات اور دلائل قاطعہ کو جان لینے اور ان کی صداقت پر یقین ہوجانے کے بعد تھا۔ پس وہ اپنے اس رویے کی وجہ سے دور کی گمراہی میں جا پڑے۔
﴿ۚفَہَدَی اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ﴾” پس اللہ نے مومنوں کو راہ دکھا دی۔“ یعنی اللہ تعالیٰ نے اس امت کے اہل ایمان کی راہنمائی فرمائی ﴿ لِمَا اخْتَلَفُوْا فِیْہِ مِنَ الْحَقِّ﴾” ان چیزوں میں جن میں انہوں نے اختلاف کیا، حق سے“ یعنی اللہ تعالیٰ نے ہر اس معاملے میں اہل ایمان کی راہنمائی فرمائی جس میں اہل کتاب اختلافات کا شکار ہو کر حق و صواب سے دور ہٹ گئے۔ اللہ تعالیٰ نے اس امت کی حق و صواب کی طرف راہنمائی فرمائی ﴿ بِاِذْنِہٖ ۭ﴾” اپنے حکم سے“ یعنی اپنے اذان اور اپنی رحمت سے حق و صواب کو ان کے لئے آسان کردیا۔
﴿ وَاللّٰہُ یَہْدِیْ مَنْ یَّشَاۗءُ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَـقِیْمٍ﴾” اور اللہ جس کو چاہتا ہے سیدھے راستے کی ہدایت دیتا ہے“ پس اللہ تعالیٰ نے عدل اور مخلوق پر حجت قائم کرنے کے لئے تمام انسانوں کو صراط مستقیم کی طرف عام دعوت دی ہے۔ تاکہ وہ یہ نہ کہہ سکیں ﴿ مَا جَاءَنَا مِن بَشِيرٍ وَلَا نَذِيرٍ ﴾ (المائدة: 5؍ 19) ” ہمارے پاس تو کوئی خوشخبری دینے والا اور کوئی ڈرانے والا ہی نہیں آیا“ اور اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و رحمت اور لطف و اعانت سے اپنے بندوں میں سے جس کو چاہا ہدایت سے نوازا۔ پس ہدایت سے نوازنا، یہ اس کا فعل و احسان ہے اور ساری مخلوق کو صراط مستقیم کی طرف دعوت دینا، یہ اس کا عدل اور اس کی حکمت ہے۔ |
البقرة |
214 |
اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ خوشحالی، بدحالی اور مشقت کے ذریعے سے ضرور اپنے بندوں کا امتحان لیتا ہے جیسے اس نے ان سے پہلے لوگوں کو آزمایا۔ یہ اس کی سنت جاریہ ہے اس میں کوئی تغیر و تبدل نہیں ہوتا جو کوئی اس کے دین اور شریعت پر چلنے کا دعویٰ کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے ضرور آزماتا ہے۔ اگر وہ اللہ تعالیٰ کے حکم پر صبر کرتا ہے اور اس کی راہ میں پیش آنے والے مصائب اور تکالیف کی پرواہ نہیں کرتا تو وہ اپنے دعوے میں سچا ہے اور کامل ترین سعادت اور سیادت کی منزل کو پالے گا اور جو کوئی لوگوں کے فتنے کو اللہ تعالیٰ کے عذاب کی مانند سمجھ لیتا ہے بایں طور کہ لوگوں کی اذائیں اور تکالیف اس کو اپنے راستے سے ہٹا دیتی ہیں اور امتحان اور آزمائش اس کی منزل کھوٹی کردیتے ہیں، تو وہ اپنے دعویٰ ایمان میں جھوٹا ہے۔ کیونکہ ایمان محض تمناؤں اور مجرد دعووں کا نام نہیں، بلکہ اعمال اس کی تصدیق یا تکذیب کرتے ہیں۔ سابقہ امتوں کو بھی اسی راستے سے گزرنا پڑا ہے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿ مَسَّتْہُمُ الْبَاْسَاۗءُ وَالضَّرَّاۗءُ ﴾” ان کو سختیاں اور تکلیفیں پہنچیں۔“ یعنی وہ فقر و فاقہ کا شکار ہوئے اور ان پر مختلف بیماریوں نے حملہ کیا ﴿وَزُلْزِلُوْا ﴾” اور وہ ہلا دیے گئے۔“ یعنی قتل، جلا وطنی، مال لوٹ لینے اور عزیز و اقارب کو قتل کی دھمکی کے خوف اور دیگر نقصانات کے ذریعے سے ان کو ہلا ڈالا گیا، اس حالت نے ان کو اس مقام پر پہنچا دیا کہ اللہ تعالیٰ کی نصرت اور مدد پر یقین رکھنے کے باوجود اس کے بارے میں بے یقینی کا شکار ہوگئے یہاں تک کہ معاملے کی شدت اور تنگی کی بنا پر ﴿’ حَتّٰی یَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ مَتٰی نَصْرُ اللّٰہِ ۭ﴾’’ رسول اور اس کے مومن ساتھی بھی پکار اٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی۔ “
چونکہ ہر شدت کے بعد آسانی اور تنگی کے بعد فراخی ہوتی ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿ اَلَآ اِنَّ نَصْرَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ﴾” آگاہ رہو کہ اللہ کی مدد قریب ہے“ پس ہر وہ شخص جو حق پر قائم رہتا ہے اس کا اسی طرح امتحان لیا جاتا ہے۔ جب بندہ مومن پر سختیاں اور صعوبتیں یلغار کرتی ہیں اور وہ ثابت قدمی سے ان پر صبر کرتا ہے، تب یہ امتحان اس کے حق میں انعام اور مشقتیں راحتوں میں بدل جاتی ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ اس کو دشمنوں کے خلاف فتح و نصرت سے نوازا جاتا ہے اور وہ قلب کی تمام بیماریوں سے شفایاب ہوجاتا ہے۔
یہ آیت کریمہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی نظیر ہے ﴿ أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّـهُ الَّذِينَ جَاهَدُوا مِنكُمْ وَيَعْلَمَ الصَّابِرِينَ ﴾(آل عمران : 3؍ 142) ” کیا تم نے یہ سمجھ لیا ہے کہ تم جنت میں داخل ہوجاؤ گے حالانکہ اس نے تم میں جہاد کرنے والوں کو آزما کر معلوم ہی نہیں کیا اور نیز یہ کہ وہ صبر کرنے والوں کو معلوم کرے۔“ اور اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی نظیر ہے ﴿ الم أَحَسِبَ النَّاسُ أَن يُتْرَكُوا أَن يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ۖ فَلَيَعْلَمَنَّ اللَّـهُ الَّذِينَ صَدَقُوا وَلَيَعْلَمَنَّ الْكَاذِبِينَ ﴾ (العنکبوت: 29؍ 1۔3) ” کیا لوگوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ ان کے صرف یہ کہنے سے کہ ہم ایمان لائے ان کو چھوڑ دیا جائے گا اور ان کو آزمایا نہیں جائے گا، یقیناً ہم نے ان لوگوں کو بھی آزمایا ہے جو ان سے پہلے تھے اللہ ان کو ضرور آزما کر معلوم کرے گا جو اپنے دعویٰ ایمان میں سچے ہیں اور ان کو بھی جو جھوٹے ہیں۔“ پس امتحان کے وقت ہی انسان کی عزت یا تحقیر ہوتی ہے۔ |
البقرة |
215 |
لوگ آپ سے خرچ کرنے کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ یہ سوال خرچ کرنے والے اور جس پر خرچ کیا جائے، ان کے بارے میں عام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے بارے میں ان کو جواب عطا فرمایا : ﴿ قُلْ مَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ خَیْرٍ ﴾” کہہ دیجیے، جو مال تم خرچ کرنا چاہو۔“ یعنی تھوڑا یا زیادہ جو مال بھی تم خرچ کرتے ہو، اس مال کے سب سے زیادہ اور سب سے پہلے مستحق والدین ہیں جن کے ساتھ نیکی کرنا فرض اور ان کی نافرمانی حرام ہے اور والدین کے ساتھ سب سے بڑی نیکی ان پر خرچ کرنا اور ان کی سب سے بڑی نافرمانی ان پر خرچ کرنے سے گریز کرنا ہے۔ اس لئے صاحب کشائش بیٹے کے والدین پر خرچ کرنا فرض ہے۔
والدین کے بعد رشتہ داروں پر ان کے رشتوں کے مطابق خرچ کیا جائے اور ( الأقْرَبُ فَالْأقْرَبُ)” جو زیادہ قریبی ہے وہ زیادہ مستحق ہے“ کے اصول کو مدنظر رکھا جائے اور جو زیادہ قریبی اور ضرورت مند ہے اسے دیا جائے۔ پس ان پر خرچ کرنا صدقہ اور صلہ رحمی ہے۔ ﴿وَالْیَتٰمٰی﴾” یتیموں سے مراد وہ چھوٹے چھوٹے بچے ہیں جن کا کوئی کمانے والا نہیں۔ ان کے بارے میں گمان یہی ہوتا ہے کہ وہ ضرورت مند ہیں، کیونکہ ان کے لئے کوئی کمانے والا موجود نہیں ہے اور وہ خود اپنے مصالح کی دیکھ بھال نہیں کرسکتے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان پر رحم اور لطف و کرم کرتے ہوئے اپنے بندوں کو ان کے بارے میں وصیت کی ہے۔ ﴿ وَالْمَسٰکِیْنِ﴾” مساکین سے مراد حاجت مند اور ضرورت مند لوگ ہیں جنہیں ضرورتوں اور حاجتوں نے غریب و مسکین بنا دیا ہو۔ ان کی ضروریات زندگی پوری کرنے اور انہیں ضروریات سے بے نیاز کرنے کے لئے ان پر خرچ کیا جائے۔ ﴿ وَابْنِ السَّبِیْلِ ۭ﴾” اس سے مراد وہ مسافر اور اجنبی شخص ہے جو زاد سفر ختم ہوجانے کی وجہ سے دیار غیر میں پھنس کر رہ گیا ہو۔ اس پر خرچ کر کے اس کے سفر میں اس کے ساتھ تعاون کیا جائے، تاکہ وہ اپنی منزل مقصود پر پہنچ جائے۔
اللہ تعالیٰ نے ضرورت مندوں کی ان تمام اصناف کو خاص طور پر ذکر کرنے کے بعد اس حکم کو عام کردیا اور فرمایا : ﴿وَمَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ﴾” اور جو بھلائی تم کرو گے۔“ یعنی مذکورہ بالا اور دیگر لوگوں پر تم جو کچھ خرچ کرتے ہو، بلکہ نیکی اور تقرب الٰہی کا جو کام بھی کرتے ہو، اس میں سب شامل ہیں، کیونکہ یہ تمام کام ” خیر“ یعنی بھلائی کے تحت آتے ہیں ﴿ فَاِنَّ اللّٰہَ بِہٖ عَلِیْمٌ﴾” اللہ (بھلائی کے) ان تمام کاموں کو جانتا ہے“ پس وہ تمہیں ان کا بدلہ عطا کرے گا اور اس کو وہ تمہارے لئے محفوظ رکھتا ہے، ہر شخص کو اس کی نیت، اخلاص، اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی قلت یا کثرت، ضرورت مندوں کی ضرورت کی شدت، اس خرچ کی وقعت اور فائدے کے مطابق جزا ملے گی۔ |
البقرة |
216 |
اس آیت کریمہ میں اہل ایمان پر اللہ تعالیٰ کے راستے میں (کافروں کے ساتھ) قتال فرض کیا گیا ہے اس سے قبل وہ ترک قتال پر مامور تھے، کیونکہ وہ کمزور تھے اور قتال کے متحمل نہیں تھے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت فرما کر مدینہ منورہ آگئے، مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہوگئی اور وہ طاقتور ہوگئے، تو اللہ تعالیٰ نے ان کو قتال کا حکم دے دیا۔ ان کو یہ بھی بتا دیا کہ مشقت، تکان، مختلف قسم کے خوف اور ہلاکت کے خطرے کی وجہ سے نفس کو جہاد اور قتال ناپسند ہے۔ اس کے باوجود قتال خالص نیکی ہے جس میں بہت بڑا ثواب، جہنم کے عذاب سے حفاظت، دشمن پر فتح و نصرت اور مال غنیمت وغیرہ کا حصول ہے۔ یہ تمام چیزیں قتال کے ناپسند ہونے کے باوجود مرغوب ہوتی ہیں۔
﴿ وَعَسٰٓی اَنْ تُحِبُّوْا شَـیْـــــًٔـا وَّھُوَ شَرٌّ لَّکُمْ ۭ﴾” اور شاید تم کسی چیز کو پسند کرو اور وہ تمہارے لئے بری ہو“ مثلاً محض راحت اور آرام کی خاطر جہاد چھوڑ کر گھر بیٹھ رہنا۔ یہ بہت بڑی برائی ہے اس کا نتیجہ پسپائی، اسلام اور مسلمانوں پر کفار کے تسلط، ذلت اور رسوائی، بہت بڑے ثواب سے محرومی اور جہنم کے عذاب کے سوا کچھ نہیں۔ یہ آیات کریمہ اس بات کی بابت عام ہیں کہ نیکی کے وہ کام جن کو نفوس ناپسند کرتے ہیں۔ کیونکہ ان کے کرنے میں مشقت ہے۔ بلاشک و شبہ بھلائی ہیں اور برے کام جن کو نفوس پسند کرتے ہیں۔ کیونکہ ان میں لذت و راحت کا واہمہ ہے۔ بلاشک و شبہ شر ہیں۔ رہے دنیا کے حالات تو یہ اصول عام نہیں، لیکن غالب طور پر بندہ مومن جب کسی معاملے کو پسند کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے سامنے ایسے اسباب پیدا کردیتا ہے جو اس کے اس خیال کو دور کردیتے ہیں کہ یہ معاملہ اس کے لئے اچھا ہے۔ پس اس کے لئے زیادہ بہتر یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے اور فی الواقع خیر ہی کا اعتقاد رکھے، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے پر اس سے کہیں زیادہ رحم کرتا ہے جتنا بندہ اپنے آپ پر رحم کرسکتا ہے اور اپنے بندے کے مصالح کی اس سے کہیں زیادہ دیکھ بھال کرتا ہے جتنی دیکھ بھال بندہ خود کرسکتا ہے اللہ تعالیٰ بندے سے زیادہ اس کے مصالح کو جانتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَاللّٰہُ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ﴾” اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے“ لہٰذا تمہارے لئے مناسب یہی ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی قضاء و قدر کے ساتھ ساتھ چلو، خواہ تمہیں اچھے لگیں یا برے۔
چونکہ اللہ تعالیٰ نے قتال کا (مطلق) حکم دیا ہے اور اگر اس حکم کو مقید نہ کیا جائے تو اس میں حرام مہینوں میں قتال بھی شامل ہوجائے گا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان حرام مہینوں کو مستثنیٰ قرار دے دیا۔ |
البقرة |
217 |
جمہور مفسرین کہتے ہیں کہ حرام مہینوں میں قتال کی حرمت اس آیت کے ذریعے سے منسوخ ہوگئی ہے جس میں حکم ہے کہ مشرکوں سے لڑو جہاں کہیں بھی ان کو پاؤ۔ (اشارہ ہے البقرہ ؍191، النساء ؍89، 91 کی طرف۔ مترجم) اور بعض مفسرین کی رائے ہے کہ یہ آیت منسوخ نہیں، کیونکہ مطلق کو مقید پر محمول کیا جاتا ہے یہ آیت کریمہ قتال کے عام اور مطلق حکم کو مقید کرتی ہے۔ نیز اس لئے بھی کہ حرام مہینوں کی جملہ خوبیوں میں سے ایک خوبی، بلکہ سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ان مہینوں میں لڑائی حرام ہے۔ یہ حکم لڑائی کی ابتدا کرنے کے بارے میں ہے۔ رہی دفاعی جنگ تو یہ حرام مہینوں میں بھی جائز ہے جیسے حرم کے اندر دفاعی جنگ لڑنا جائز ہے۔
اس آیت کریمہ کے نازل ہونے کا سبب یہ ہے کہ عبداللہ حجش رضی اللہ عنہ کے سر یہ میں مسلمانوں نے عمرو بن الحضرمی کو قتل کردیا اور مشرکوں کا مال لوٹ لیا۔۔۔ روایات کے مطابق۔۔۔ یہ سریہ رجب کے مہینے میں واقع ہوا تھا، اس لئے مشرکین نے عار دلائی کہ مسلمانوں نے حرام مہینوں میں لڑائی کی ہے، حالانکہ اس عار دلانے میں وہ زیادتی کا ارتکاب کر رہے تھے، کیونکہ خود ان میں بہت سی برائیاں تھیں ان میں سے بعض برائیاں تو ایسی تھیں جو اس برائی سے بڑی تھیں جس پر مشرکین مسلمانوں کو عار دلا رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان برائیوں کو بیان کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ وَصَدٌّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ﴾” اور اللہ کی راہ سے روکنا۔“ یعنی مشرکین کا لوگوں کو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے سے روکنا، اہل ایمان کو آزمائش میں ڈالنا، ان کو ان کے دین سے ہٹا دینے کی کوشش کرنا اور حرمت والے مہینے اور حرمت والے شہر میں کفر کا ارتکاب کرنا وغیرہ اور قباحت کے لئے تو مجرد کفر ہی کافی ہے۔۔۔ تب اس برائی کی شدت اور قباحت کا کیا حال ہوگا اگر اس کا ارتکاب حرمت والے مہینے اور حرمت والے شہر میں کیا جائے۔
﴿ وَ اِخْرَاجُ اَھْلِہٖ مِنْہُ﴾” اور اہل مسجد کو اس میں سے نکال دینا“ یعنی مسجد حرام میں عبادت کرنے والوں کو مسجد سے نکالنا، اس سے مراد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہ ہیں کیونکہ وہ مسجد حرام میں عبادت کرنے کے مشرکوں سے زیادہ حق دار ہیں۔ وہی درحقیقت مسجد حرام کو آباد کرنے والے ہیں۔ پس مشرکین نے ان کو مسجد حرام سے نکال دیا اور ان کے لئے مسجد حرام تک پہنچنا ممکن نہ رہا۔ حالانکہ یہ گھر مکہ کے رہنے والوں اور باہر کے لوگوں کے لئے برابر حیثیت رکھتا ہے۔ ﴿ اَکْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ ۭ ﴾” خون ریزی سے بھی بڑھ کر ہے“ یعنی ان تمام برائیوں میں سے ہر ایک برائی کی قباحت حرام مہینوں میں قتل کی قباحت سے بڑھ کر ہے، تب ان کا کیا حال ہے جبکہ ان کے اندر مذکورہ تمام برائیاں ہی جمع ہیں؟ تو معلوم ہوا کہ یہ فاسق وفا جر لوگ ہیں اور اہل ایمان کو عار دلانے میں زیادتی سے کام لے رہے ہیں۔
پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ مشرکین اہل ایمان سے لڑتے رہیں گے اور اس لڑائی سے ان کی غرض اہل ایمان کو قتل کرنا یا ان کے اموال لوٹنا نہیں، بلکہ ان کی غرض و غایت صرف یہ ہے کہ اہل ایمان اپنا دین چھوڑ کر پھر کفر کی طرف لوٹ جائیں اور اس طرح وہ پھر سے جہنمیوں کے گروہ میں شامل ہوجائیں۔ پس وہ مسلمانوں کو اپنے دین سے پھیرنے کے لئے پوری قوت استعمال کر رہے ہیں اور امکان بھر اسی کوشش میں مصروف ہیں مگر اللہ تعالیٰ اپنی ہدایت کی روشنی کو مکمل کر کے رہے گا خواہ کفار کو کتنا ہی ناگوار کیوں نہ گزرے۔
تمام کفار کا عام طور پر یہی رویہ ہے وہ دوسرے لوگوں سے ہمیشہ برسر پیکار رہیں گے جب تک کہ ان کو اپنے دین سے پھیر نہ دیں۔ خاص طور پر یہود ونصاریٰ نے اس مقصد کے لئے جماعتیں تشکیل دیں، اپنے داعی بھیجے، طبیب پھیلائے اور مدارس قائم کئے، تاکہ دوسری قوموں کو اپنے مذہب میں جذب کرلیں۔ ان کے اذہان میں ہر وہ شبہ ڈال دیں جو ان کے دین میں شک پیدا کرے مگر امید ہے کہ اللہ تعالیٰ جس نے اہل ایمان کو اسلام جیسی نعمت عطا کر کے احسان فرمایا اور اپنے اس دین قیم کو ان کے لئے چن لیا اور اپنے دین کو ان کے لئے مکمل کیا، ان پر اپنی نعمت کو قائم کرے گا، پوری طرح اس کا اتمام کرے گا اور ہر اس طاقت کو پسپا کر دے گا جو اس کے دین کی روشنی کو بجھانے کی کوشش کرے گی، وہ ان کی چالوں کو ان کے سینوں ہی میں کچل کر رکھ دے گا اور وہ اپنے دین کی مدد اور اپنے کلمہ کو ضرور بلند کرے گا اور سورۃ الانفال کی یہ آیت کریمہ جس طرح پہلے کفار پر صادق آتی تھی، اسی طرح یہ موجودہ کفار پر بھی پوری طرح صادق آتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے۔ ﴿إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ لِيَصُدُّوا عَن سَبِيلِ اللَّـهِ ۚ فَسَيُنفِقُونَهَا ثُمَّ تَكُونُ عَلَيْهِمْ حَسْرَةً ثُمَّ يُغْلَبُونَ ۗ وَالَّذِينَ كَفَرُوا إِلَىٰ جَهَنَّمَ يُحْشَرُونَ ﴾ (الانفال: 36؍8) ” بے شک وہ لوگ جو کافر ہیں وہ لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکنے کے لئے اپنے مال خرچ کرتے ہیں۔ وہ عنقریب ابھی اور مال خرچ کریں گے آخر کا ریہ مال خرچ کرنا ان کے لئے حسرت کا باعث بنے گا اور وہ مغلوب ہوں گے اور وہ لوگ جو کافر ہیں ان کو جہنم کی طرف ہانکا جائے گا۔ “
پھر اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا ہے کہ جو کوئی مرتد ہو کر اسلام کو چھوڑ دے اور کفر کو اختیار کرے، ہمیشہ کفر پر قائم رہے حتیٰ کہ کفر کی حالت میں مر جائے ﴿فَاُولٰۗیِٕکَ حَبِطَتْ اَعْمَالُہُمْ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ ۚ﴾” تو دنیا و آخرت میں ان کے تمام اعمال اکارت جائیں گے“ کیونکہ ان اعمال کی قبولیت کی شرط یعنی اسلام موجود نہیں ہے ﴿ وَاُولٰۗیِٕکَ اَصْحٰبُ النَّارِ ۚ ھُمْ فِیْہَا خٰلِدُوْنَ﴾” اور یہی لوگ دوزخ والے ہیں جس میں ہمیشہ رہیں گے۔“ اس آیت کریمہ کا مفہوم دلالت کرتا ہے کہ جو کوئی مرتد ہونے کے بعد پھر دین اسلام کی طرف لوٹ آئے، تو اس کا عمل اس کی طرف لوٹ آتا ہے۔ جو اس نے مرتد ہونے سے پہلے کیا تھا۔ اسی طرح جو کوئی گناہوں سے تائب ہوجاتا ہے تو اس کے سابقہ اعمال اس کی طرف لوٹ آتے ہیں۔ |
البقرة |
218 |
آیت کریمہ میں مذکور تینوں اعمال سعادت کا عنوان اور عبودیت کا مرکز و محور ہیں، انہی اعمال سے پہچان ہوتی ہے کہ انسان کے پاس کیا گھاٹے یا منافع کا سودا ہے۔ رہا ایمان تو اس کی فضیلت کے بارے میں مت پوچھئے اور آپ اس چیز کے بارے میں کیسے پوچھ سکتے ہیں جو اہل سعادت اور اہل شقاوت اور جنتیوں اور جہنمیوں کے درمیان حد فاصل ہو؟ یہ ایمان ہی ہے کہ جب بندہ اس سے بہرہ ور ہوتا ہے، تو بھلائی کے تمام اعمال اس سے قبول کئے جاتے ہیں اور اگر وہ اس سے محروم ہو، تو پھر اس کا کوئی فرض اور کوئی نفل قابل قبول نہیں۔ رہی ہجرت ! تو یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی رضا کی خاطر اپنے محبوب اور مالوف وطن سے جدائی کو قبول کرنا ہے۔ پس مہاجر محض تقرب الٰہی اور نصرت دین کی خاطر اپنا وطن، اپنا مال و متاع اپنے اہل و عیال اور اپنے دوست و احباب کو چھوڑ دیتا ہے۔
رہا جہاد تو یہ دشمنان اسلام کے خلاف پوری طاقت سے جدوجہد کرنے، پوری کوشش سے اللہ تعالیٰ کے دین کی نصرت اور شیطانی نظریات کے قلع قمع کرنے کا نام ہے۔ جہاد اعمال صالحہ میں سب سے بڑا عمل ہے اور اس کی جزا بھی ہر عمل کی جزا سے افضل ہے۔ جہاد دائرہ اسلام کی توسیع، بتوں کے پجاریوں کی پسپائی اور مسلمانوں، ان کی جان و مال اور ان کی اولاد کے لئے امن کا سب سے بڑا وسیلہ اور سبب ہے۔ جو کوئی ان تینوں اعمال کو، ان کی سختیوں اور مشقتوں کے باوجود بجالاتا ہے وہ دیگر اعمال کو بدرجہ اولیٰ بجا لانے اور ان کی تکمیل پر قادر ہے۔ یہی لوگ اس بات کے زیادہ مستحق ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے امیدوار بنیں، کیونکہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی جناب میں ایسا سبب پیش کیا ہے جو اس کی رحمت کا موجب ہے۔
یہ آیت کریمہ اس بات کی دلیل ہے کہ سعادت کے اسباب کو عمل میں لا کر ہی سعادت کی امید کی جاسکتی ہے۔ رہی وہ امید جو سستی اور کاہلی پر مبنی ہو اور جس سے پہلے اسباب کو عمل میں نہ لایا گیا ہو۔ تو وہ محض عجز، آرزو اور فریب ہے اور اس قسم کی امید، کم ہمتی اور کم عقلی پر دلالت کرتی ہے۔ اس کی مثال اس شخص کی سی ہے جو نکاح کے وجود کے بغیر ہی اولاد کی اور بیج بوئے اور پانی دیئے بغیر ہی غلے کی فصل کی امید رکھتا ہو اور اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿ اُولٰۗیِٕکَ یَرْجُوْنَ رَحْمَتَ اللّٰہِ ۭ﴾” یہی لوگ اللہ کی رحمت کی امید رکھتے ہیں“ میں اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ بندہ مومن خواہ کتنے ہی بڑے بڑے اعمال لے کر اللہ تعالیٰ کی خدمت میں حاضر ہو، تب بھی اس کے لئے مناسب نہیں کہ وہ ان اعمال پر بھروسہ کرے، بلکہ وہ اپنے رب کی رحمت کی امید رکھے وہ یہ امید رکھے کہ اللہ تعالیٰ کی جناب میں اس کے اعمال قبول ہوجائیں گے، اس کے گناہ بخش دیئے جائیں گے اور اس کے عیوب کی پردہ پوشی کردی جائے گی۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ﴾” اور اللہ بخشنے والا“ یعنی جو خالص توبہ کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے گناہ بخش دیتا ہے ﴿ رَّحِیْمٌ﴾” رحمت کرنے والا ہے۔“ یعنی اس کی رحمت ہر چیز پر محیط اور اس کی سخا وت اور احسان ہر ذی حیات کے لئے عام ہے۔
یہ آیت کریمہ اس بات کی بھی دلیل ہے کہ جو کوئی ان مذکورہ اعمال کو بجا لائے گا، وہ مغفرت الٰہی سے بہرہ ور ہوگا، کیونکہ نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں اور بندہ مومن کو اللہ تعالیٰ کی رحمت حاصل ہوجائے گی اور بندہ مومن جب اللہ تعالیٰ کی مغفرت حاصل کرلے گا، تو دنیا و آخرت کی تمام عقوبتیں اس سے دور ہوجائیں گی۔ یہ عقوبتیں درحقیقت گناہوں کے اثرات ہیں ان گناہوں کو بخش دیا جائے گا تو یہ اثرات بھی ختم ہوجائیں گے۔
جب بندہ مومن اللہ تعالیٰ کی رحمت سے بہرہ مند ہوجاتا ہے تو دنیا و آخرت کی ہر بھلائی اسے حاصل ہوجاتی ہے، بلکہ مذکورہ اعمال بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت کا حصہ ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ ان کو ان اعمال کی توفیق عطا نہ فرماتا تو کبھی ان اعمال کا ارادہ بھی نہ کرسکتے، اگر اللہ تعالیٰ ان اعمال کو بجا لانے کی قدرت عطا نہ کرتا، تو وہ ان اعمال کو بجا لانے پر کبھی قادر نہ ہوتے اور اگر اللہ تعالیٰ کا فضل و احسان شامل حال نہ ہوتا تو اللہ ان اعمال کو تکمیل تک پہنچاتا نہ ان اعمال کو قبول کرتا۔ پس اول و آخر وہی فضل و کرم کا مالک ہے اور وہی ہے جو سبب اور مسبب سے نوازتا ہے۔ |
البقرة |
219 |
﴿۔یَسْــَٔـلُوْنَکَ عَنِ الْخَــمْرِ وَالْمَیْسِرِ ۭ﴾ یعنی اے رسول ! اہل ایمان آپ سے شراب اور جوئے کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ صحابہ کرام زمانہ جاہلیت اور اسلام کے ابتدائی ایام میں شراب وغیرہ استعمال کیا کرتے تھے۔ یوں لگتا ہے کہ شراب اور جوئے کے بارے میں کوئی اشکال واقع ہوا تھا اس لئے انہوں نے ان کے احکام کے بارے میں سوال کیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو حکم دیا کہ وہ اہل ایمان پر شراب اور جوئے کے فوائد اور نقصانات واضح کردیں، تاکہ یہ وضاحت شراب اور جوئے کی تحریم اور ان کو حتمی طور پر تک کردینے کا مقدمہ بن جائے۔ پس اللہ تعالیٰ نے شراب اور جوئے کے گناہ اور ان کے نقصانات اور ان کے اثرات سے آگاہ فرمایا، ان اثرات اور نقصانات میں عقل اور مال کا زائل ہونا، ان کا اللہ تعالیٰ کے ذکر اور نماز سے روکنا اور عداوت اور بغض پیدا کرنا شامل ہیں۔ یہ تمام نقصانات ایسے ہیں جو ان کے مزعومہ فوائد، مثلاً شراب کی تجارت اور جوئے کے ذریعے سے اکتساب مال، شراب نوشی اور جو اکھیلتے وقت حاصل ہونے والے طرب اور فرحت وغیرہ سے، بہت بڑے ہیں۔
نیز یہ بیان نفوس کے لئے زجر و توبیخ کی حیثیت رکھتا تھا کیونکہ عقل مند شخص ہمیشہ اس چیز کو ترجیح دیتا ہے جس کے فوائد راجح ہوں اور ایسی چیز سے اجتناب کرتا ہے جس کے نقصانات زیادہ ہوں۔ لیکن چونکہ یہ حضرات شراب اور جوئے کے عادی اور ان سے مالوف تھے لہٰذا فوری اور حتمی طور پر ان کو چھوڑنا ان کے لئے سخت مشکل تھا اس لئے (تدریج کے طور پر) اس آیت کریمہ کو پہلے نازل فرمایا۔ چنانچہ یہ آیت اس آیت کے مقدمہ کی حیثیت رکھتی ہے ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ ﴾(المائدہ: 5؍ 90) ” اے ایمان والے لوگو ! شراب، جوا، بت اور پانسے تو نا پاک اور شیطان کے کام ہیں“ اور آخر میں فرمایا ﴿فَهَلْ أَنتُم مُّنتَهُونَ﴾ (المائدہ:5؍ 91) ” کیا تم باز آؤ گے؟“ اور یہ اللہ تعالیٰ کا لطف و کرم، اس کی رحمت اور اس کی حکمت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ پکار اٹھے( اِنْتَهَيْنَا اِنْتَهَيْنَا)” اے ہمارے رب ہم باز آئے، ہم باز آئے۔“ رہی شراب، تو اس سے مراد ہر نشہ دینے والی چیز ہے جو عقل کو ڈھانپ لے خواہ وہ کسی نوع سے تعلق رکھتی ہو۔ اور جوئے سے مراد ہر وہ کام ہے جس میں مدمقابل کو ہرانے اور خود جیتنے کے لئے مقابلہ ہو اور فریقین کی طرف سے جیتنے پر کوئی مالی عوض مقرر کیا گیا ہو مثلاً شطرنج کا کھیل اور تمام قولی اور فعلی مقابلے جن کی ہار جیت پر کوئی مالی عوض مقرر کیا گیا ہو۔ البتہ گھوڑ دوڑ، اونٹ دوڑ میں مسابقت اور تیر اندازی کا مقابلہ جائز ہے۔ کیونکہ یہ کام جہاد میں مدد دیتے ہیں اس لئے شارع نے ان مقابلوں کی رخصت دی ہے۔
یہ سوال اس بارے میں ہے کہ اہل ایمان اپنے اموال میں سے کتنی مقدار اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کریں۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے تمام معاملے کو نہایت آسان بنا دیا اور حکم دیا کہ وہ صرف وہی چیز خرچ کریں جو فاضل ہو۔ اس سے مراد ان کے اموال میں وہ زائد حصہ ہے جس کا تعلق ان کی ضرورتوں اور حاجتوں سے نہ ہو۔ یہ حکم ہر شخص کی طرف اس کی استطاعت کے مطابق لوٹتا ہے، خواہ وہ مال دار ہو، فقیر ہو یا متوط طبقے سے تعلق رکھتا ہو۔ ہر شخص اس مال کو خرچ کرنے پر قادر ہے جو اس کی ضروریات سے فاضل ہو خواہ یہ کھجور کا ایک ٹکڑا ہی کیوں نہ ہو۔
بنا بریں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ لوگوں کے مال اور صدقات میں سے فاضل مال وصول کیا جائے اور انہیں کسی ایسے امر کا مکلف نہ کیا جائے جو ان پر شاق گزرتا ہو، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں کسی ایسی چیز کے خرچ کرنے کا حکم نہیں دیا جس کی ہمیں خود ضرورت ہو اور نہ ہمیں کسی ایسے امر کا مکلف بنایا ہے جو ہم پر شاق گزرے، بلکہ اس نے ہمیں صرف اسی چیز کا حکم دیا ہے جو ہمارے لئے آسان اور جس میں ہماری سعادت ہو اور جس میں ہمارا یا ہمارے بھائیوں کا کوئی فائدہ ہو۔ پس وہ اس عنایت اور نوازش پر کامل ترین حمد و ثنا کا مستحق ہے۔
جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس حکم کو اچھی طرح واضح کردیا اور اپنے بندوں کو اسرار شریعت سے آگاہ کردیا، تو فرمایا : ﴿کَذٰلِکَ یُـبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمُ الْاٰیٰتِ ﴾” اسی طرح اللہ تمہارے لئے اپنے احکام کھول کھول کر بیان کرتا ہے۔“ یعنی یہ آیات حق پر دلالت کرتی ہیں اور علم نافع اور حق و باطل کے درمیان فرق کے لئے کسوٹی عطا کرتی ہیں۔ ﴿ لَعَلَّکُمْ تَتَفَکَّرُوْنَ ۙفِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ ۭ﴾ ” تاکہ تم دنیا و آخرت (کی باتوں) میں غور و فکر کرو۔“ یعنی، تاکہ تم اسرار شریعت معلوم کرنے کے لئے اپنے فکر و تدبر کو استعمال میں لاؤ اور تمہیں اس حقیقت کی معرفت حاصل ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام میں دنیا و آخرت کے مصالح اور فوائد پوشیدہ ہیں اور تاکہ تم دنیا اور اس کے نہایت تیزی کے ساتھ اپنے اختتام کی طرف بڑھنے پر اور آخرت اور اس کے ہمیشہ باقی رہنے پر غور و فکر کرو۔ نیز یہ کہ آخرت جزا و سزا کا گھر ہے۔ تاکہ تم اسے آباد کرو۔ |
البقرة |
220 |
جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ﴿إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَىٰ ظُلْمًا إِنَّمَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ نَارًا ۖ وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيرًا﴾ (النساء: 4؍ 10) ’’بے شک وہ لوگ جو ظلم سے یتیموں کا مال کھاتے ہیں وہ اپنے پٹ میں آگ بھرتے ہیں وہ عنقریب بھڑکتی ہوئی آگ میں جھونکے جائیں گے“ تو یہ آیت کریمہ مسلمانوں پر بہت شاق گزری اور انہوں نے یتیموں کے کھانے سے اپنے کھانے کو اس خوف سے علیحدہ کرلیا کہ کہیں وہ ان کا کھانا تناول نہ کر بیٹھیں۔ اگرچہ ان حالات میں اموال میں شراکت کی عادت جاری و ساری رہی۔ پس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا۔ تو اللہ تعالیٰ نے ان کو آگاہ فرمایا کہ اصل مقصد تو یتیموں کے مال کی اصلاح، اس کی حفاظت اور (اضافے کی خاطر) اس کی تجارت ہے اگر ان کا مال دوسرے مال میں اس طرح ملا لیا جائے کہ یتیم کے مال کو نقصان نہ پہنچے تو یہ جائز ہے، کیونکہ یہ تمہارے بھائی ہیں اور بھائی کی شان یہ ہے کہ وہ دوسرے بھائی سے مل جل کر رہتا ہے۔ اس بارے میں اصل معاملہ نیت اور عمل کا ہے۔
جس کی نیت کے بارے میں یہ معلوم ہوجائے کہ وہ یتیم کے لئے مصلح کی حیثیت رکھتا ہے اور اسے یتیم کے مال کا کوئی لالچ نہیں، تو اگر بغیر کسی قصد کے اس کے پاس کوئی چیز آبھی جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ جس کی نیت، اللہ کے علم میں، یتیم کے مال کو اپنے مال میں ملانے سے اس کو ہڑپ کرنا ہو تو اس میں یقیناً حرج اور گناہ ہے اور قاعدہ ہے (اَلْوَسَائِلُ لَهَا اَحْكَامُ المَقَاصِدِ) ” وسائل کے وہی احکام ہیں جو مقاصد کے ہیں۔ “
اس آیت کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ ماکولات و مشروبات اور عقود وغیرہ میں مخالطت (مل جل کر کرنا) جائز ہے اور یہ رخصت اہل ایمان پر اللہ تعالیٰ کا لطف و احسان اور ان کے لئے وسعت ہے۔ ورنہ ﴿ وَلَوْ شَاۗءَ اللّٰہُ لَاَعْنَتَکُمْ ۭ﴾” اگر اللہ چاہتا تو تمہیں دشواری میں مبتلا کردیتا۔“ یعنی اس بارے میں عدم رخصت تم پر بہت شاق گزرتی اور تم حرج، مشقت اور گناہ میں مبتلا ہوجاتے۔ ﴿ اِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ﴾ ”بے شک اللہ غالب حکمت والا ہے۔“ یعنی وہ قوت کاملہ کا مالک ہے اور وہ ہر چیز پر غالب ہے۔ لیکن بایں ہمہ وہ حکمت والا ہے، وہ صرف وہی فعل سر انجام دیتا ہے جس کا تقاضا اس کی حکمت کاملہ اور عنایت تامہ کرتی ہے۔ پس اس کی عزت و غلبہ اس کی حکمت کے منافی نہیں ہے لہٰذا تبارک و تعالیٰ کے بارے میں یہ نہیں کہاجا سکتا کہ وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے خواہ اس کی حکمت کے مطابق ہو یا مخالف ہو بلکہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں یوں کہا جائے کہ اس کے افعال اور احکام اس کی حکمت کے تابع ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کسی چیز کو عبث پیدا نہیں کرتا بلکہ اس کی تخلیق کے پیچھے کوئی حکمت ضرور ہوتی ہے خواہ اس حکمت تک ہماری رسائی ہو یا نہ ہو۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے کوئی ایسا شرعی حکم مشروع نہیں کیا جو حکمت سے خالی ہو، اس لئے وہ صرف اس بات کا حکم دیتا ہے جس میں ضرور کوئی فائدہ ہو یا فائدہ غالب ہو اور اسی طرح منع بھی صرف اسی بات سے کرتا ہے جس میں یقینی نقصان کا غالب امکان ہو اور ایسا اس لئے ہے کہ اس کا ہر کام حکمت اور رحمت پر مبنی ہوتا ہے۔ |
البقرة |
221 |
یعنی ان مشرک عورتوں سے نکاح نہ کرو جو اپنے شرک پر قائم ہوں ﴿ حَتّٰی یُؤْمِنَّ ۭ﴾” حتی کہ وہ ایمان لے آئیں“ کیونکہ ایک مومن عورت خواہ وه کتنی ہی بدصورت کیوں نہ ہوں، مشرک عورت سے بہر حال بہتر ہے خواہ وہ کتنی ہی زیادہ حسین کیوں نہ ہو۔ یہ حکم تمام مشرک عورتوں کے بارے میں عام ہے اور اس حکم کے عموم کو سورۃ مائدہ کی اس آیت نے خاص کردیا ہے جس میں اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح کی اباحت کا ان الفاظ میں ذکر کیا گیا ہے۔﴿ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ﴾ (المائدۃ:5؍5) ” اور اہل کتاب میں سے پاک دامن عورتیں بھی تمہارے لئے حلال ہیں۔“ فرمایا ﴿ وَ لَا تُنْكِحُوا المُشْرِكِيْنَ حَتّٰي يُؤْمِنُوْا﴾’’اور اپنی عورتوں کو مشرک مردوں کے نکاح میں مت دو یہاں تک کہ وہ ایمان لے آئیں“ یہ حکم عام ہے اور اس میں کوئی تخصیص نہیں۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس حکمت کا ذکر فرمایا ہے جو ایک مسلمان مرد اور مسلمان عورت کے غیر مسلموں کے ساتھ نکاح کی حرمت میں پنہاں ہے۔ چنانچہ فرمایا: ﴿اُولٰۗیِٕکَ یَدْعُوْنَ اِلَی النَّارِ﴾ ” یہ (مشرک) آگ کی طرف بلاتے ہیں۔“ یعنی وہ اپنے اقوال، افعال اور احوال میں جہنم کی طرف بلاتے ہیں۔ لہٰذا ان کے ساتھ اختلاط میں سخت خطرہ ہے اور یہ خطرہ کوئی دنیاوی خطرہ نہیں، بلکہ یہ تو ابدی بدبختی ہے۔
اس آیت کریمہ کی علت سے مشرک اور بدعتی سے اختلاط کی ممانعت مستفاد ہوتی ہے جب مشرکین سے نکاح جائز نہیں، حالانکہ اس میں بہت سے مصالح ہیں۔۔۔ تو مجرد اختلاط تو بدرجہ اولی جائز نہ ہوگا۔ خاص طور پر جبکہ مشرک مسلمان پر معاشرتی طور پر فوقیت رکھتا ہو مثلاً مسلمان مشرک کا خادم ہو۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿ۚ وَلَا تُنْکِحُوا الْمُشْرِکِیْنَ﴾” مشرک مردوں سے اپنی عورتوں کا نکاح مت کرو“ اس بات کی دلیل ہے کہ نکاح میں ولی کا اعتبار ہے (یعنی اس کی اجازت کے بغیر نکاح صحیح نہیں ہوگا) ﴿ وَاللّٰہُ یَدْعُوْٓا اِلَی الْجَنَّۃِ وَالْمَغْفِرَۃِ﴾” اور اللہ جنت اور مغفرت کی طرف بلاتا ہے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو جنت کے حصول اور اپنی مغفرت کی طرف بلاتا ہے جس کے اثرات یہ ہیں کہ اس سے تمام عذاب دور ہوجاتے ہیں۔ یہ دعوت درحقیقت اعمال صالحہ، خلاص توبہ اور علم نافع کی طرف دعوت ہے جو حصول جنت اور مغفرت کے اسباب ہیں۔ ﴿ۚ وَیُبَیِّنُ اٰیٰتِہٖ﴾” وہ اپنی آیات بیان کرتا ہے“ یعنی اللہ تعالیٰ اس آیت کے حکم اور اپنے دیگر احکام کو واضح کرتا ہے ﴿ لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمْ یَــتَذَکَّرُوْنَ﴾” لوگوں کے لئے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔“ تب یہ آیات لوگوں کے لئے نصیحت اور عبرت کا موجب بنتی ہیں جسے انہوں نے فراموش کر ڈالا تھا۔ انہیں وہ علم عطا کرتی ہیں جس سے وہ جاہل تھے اور انہیں وہ اطاعت اور فرمانبرداری عطا کرتی ہیں جسے انہوں نے ضائع کر ڈالا تھا۔ |
البقرة |
222 |
اللہ تعالیٰ حیض کے بارے میں اہل ایمان کے اس سوال سے آگاہ فرماتا ہے کہ آیا ایام حیض کے شروع ہونے کے بعد عورت سے اسی طرح اختلاط رکھا جائے جس طرح ایام حیض سے قبل تھا۔ یا اس سے مطلقاً اجتناب کیا جائے جیسے یہودی کیا کرتے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ حیض سے قبل تھا۔ یا اس سے مطلقاً اجتناب کیا جائے جیسے یہودی کیا کرتے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ حیض ایک نجاست ہے۔ جب حیض ایک نجاست ہے تو حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اس نجاست سے روک کر اس کی حدود مقرر کر دے۔ اس لئے فرمایا : ﴿ فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ﴾” پس ایام حیض میں عورتوں سے کنارہ کش رہو۔“ یعنی مقام حیض سے دور رہو اور اس سے مراد شرم گاہ میں مجامعت ہے اور اس مجامعت کے حرام ہنے پر اجماع ہے اور حیض کے دوران مجامعت سے دور رہنے کی تخصیص اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ شرم گاہ میں مجامعت کے سوا عورت کے ساتھ اختلاط اور اس کو ہاتھ سے چھونا جائز ہے البتہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد﴿َلَا تَقْرَبُوْھُنَّ حَتّٰی یَـطْہُرْنَ ۚ﴾” جب تک پاک نہ ہوجائیں ان سے مقاربت نہ کرنا۔“ عورت کے ساتھ ایسے اختلاط کی ممانعت پر دلالت کرتا ہے جو فرج کے قریب یعنی ناف اور گھٹنے کے درمیان ہو۔ اس قسم کے اختلاط کو ترک کردینا چاہئے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب کبھی اپنی کسی بیوی کے ساتھ اختلاط کرنا چاہتے تو اسے ازار پہننے کا حکم دیتے ت
ب اس کے ساتھ اختلاط کرتے۔
[صحيح بخاري، الحيض، باب مباشرة الحائض، حديث: 302]
اور بیوی سے دور رہنے اور حیض کی وجہ سے قریب نہ جانے کی حد ﴿حَتّٰی یَـطْہُرْنَ ۚ﴾” یہاں تک کہ وہ پاک ہوجائیں“ مقرر فرمائی ہے۔ یعنی جب حیض کا خون منقطع ہوجائے تو وہ مانع زائل ہوجاتا ہے جو جریان حیض کے وقت موجود تھا۔ اس کے جائز ہونے کی دو شرطیں ہیں۔ (١)خون کا منقطع ہونا۔ (٢) خون کے منقطع ہونے کے بعد غسل کرنا۔ جب خون منقطع ہوجاتا ہے تو پہلی شرط زائل ہوجاتی ہے اور دوسری شرط باقی رہ جاتی ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا﴿فَاِذَا تَطَہَّرْنَ﴾” پس جب وہ (حیض سے) پاک ہوجائیں“ یعنی غسل کرلیں ﴿ فَاْتُوْھُنَّ مِنْ حَیْثُ اَمَرَکُمُ اللّٰہُ ۭ﴾” پس تم آؤ ان عورتوں کو، جہاں سے تمہیں اللہ نے حکم دیا ہے“ قبل یعنی سامنے سے جماع کرو اور دبر سے اجتناب کرو۔ کیونکہ قبل (شرم گاہ) ہی کھیتی کا محل و مقام ہے۔ اس آیت کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ حائضہ عورت پر غسل فرض ہے اور غسل کی صحت کے لئے خون کا منقطع ہونا شرط ہے اور چونکہ یہ حکم اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر لطف و کرم اور نجاستوں سے ان کی حفاظت ہے اس لئے فرمایا ﴿ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ التَّـوَّابِیْنَ﴾” اللہ توبہ کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو ہمیشہ توبہ کرتے رہتے ہیں ﴿’ وَیُحِبُّ الْمُتَطَہِّرِیْنَ﴾اور ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو گناہوں سے پاک رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہ آیت کریمہ حدث اور نجاست سے حسی طہارت کو شامل ہے۔ پس اس آیت سے طہارت کی مطلق مشروعیت ثابت ہوتی ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اس شخص کو پسند کرتا ہے جو طہارت کی صفت سے متصف ہو۔ اس لئے مطلق طہارت صحت نماز، صحت طواف اور مصحف شریف کو چھونے کے لئے شرط ہے۔ یہ آیت کریمہ معنوی طہارت یعنی اخلاق رذیلہ، صفات قبیحہ اور افعال خسیسہ جیسی معنوی نجاستوں سے طہارت کو بھی شامل ہے۔ |
البقرة |
223 |
﴿ نِسَاۗؤُکُمْ حَرْثٌ لَّکُمْ ۠ فَاْتُوْا حَرْثَکُمْ اَنّٰی شِئْتُمْ ۡ﴾” تمہاری بیویاں، تمہاری کھیتیاں ہیں، پس تم اپنی کھیتوں کو جہاں سے چاہو، آؤ“ یعنی تم اپنی بیویوں سے سامنے سے جماع کرو یا پیچھے سے۔ البتہ یہ جماع صرف قبل (یعنی شرمگاہ) میں ہونا چاہئے، کیونکہ یہی کھیتی کے اگنے کی جگہ ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں سے اولاد جنم لیتی ہے۔ اس آیت کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ دبر (یعنی پیٹھ) میں جماع کرنا حرام ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے بیوی کے ساتھ صرف اسی مقام میں مجامعت کو جائز قرار دیا ہے جو کھیتی (یعنی اولاد) پیدا کرنے کا مقام ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہایت کثرت سے احادیث مروی ہیں جو دبر میں جماع کی تحریم پر دلالت کرتی ہیں اور جن میں آپ نے اس فعل کے مرتکب پر لعنت فرمائی ہے۔ [سنن ابي داؤد، النكاح، باب جامع النكاح، حديث: 2162] ﴿ وَقَدِّمُوْا لِاَنْفُسِکُمْ ۭ﴾ ” اور اپنے لئے (نیک عمل) آگے بھیجو۔“ یعنی نیکیوں کے کام سر انجام دے کر اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرو اور ان نیکیوں میں ایک نیکی یہ بھی ہے کہ مرد اپنی بیوی سے مباشرت کرے، یہ مباشرت اللہ تعالیٰ کے تقرب کی خاطر اور اولاد کے حصول کی امید کے ساتھ ہو، وہ اولاد جن کے ذریعے سے اللہ فائدہ پہنچاتا ہے۔ ﴿ وَاتَّقُوا اللّٰہَ ﴾” اور اللہ سے ڈرتے رہو۔“ یعنی اپنے تمام احوال میں تقویٰ اختیار کرو اور اس بارے میں اپنے علم سے مدد لیتے ہوئے تقویٰ کا التزام کرو ﴿ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّکُمْ مُّلٰقُوْہُ ۭ﴾” اور جان لو کہ تم اس (اللہ تعالیٰ) سے ملاقات کرو گے“ اور وہ تمہیں تمہارے اعمال صالحہ وغیرہ کی جزا دے گا ﴿ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ﴾” اور ایمان والوں کو بشارت سنا دو۔“ یہاں اس امر کا ذکر نہیں کیا گیا جس کی بشارت دی گئی ہے، تاکہ یہ بشارت کے عموم پر اور اس بات پر دلالت کرے کہ ان کے لئے دنیا کی زندگی میں بھی بشارت میں داخل ہے۔ اس آیت میں اس امر کی بھی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر اہل ایمان سے محبت کرتا ہے اور اس چیز کو پسند کرتا ہے جس سے اہل ایمان خوش ہوتے ہیں نیز اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اہل ایمان میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے تیار کی ہوئی دنیاوی اور اخروی جزا کے حصول کے لئے شوق اور نشاط پیدا کرنا مستحب ہے۔ |
البقرة |
224 |
حلف اور قسم کا مقصد اس ہستی کی تعظیم ہے جس کی قسم کھائی جائے اور اس چیز کی تاکید مراد ہے جس پر قسم کھائی جائے۔ اللہ تعالیٰ نے قسموں کی حفاظت کا حکم دیا ہے اور اس کا تقاضا یہ ہے کہ ہر معاملے میں قسم کی حفاظت کی جائے مگر اس سے اس قسم کو اللہ نے مستثنیٰ کردیا ہے جس میں کسی کے ساتھ احسان (نہ کرنے) کی قسم کھائی گئی ہو۔ یہ اس بات کو متضمن ہے کہ وہ قسم توڑ کر اس چیز کو اختیار کرے جو اسے زیادہ پسند ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو اس بات سے منع کیا ہے کہ وہ اپنی قسموں کو نشانہ، یعنی انہیں نیکی کرنے سے رکاوٹ بنا لیں۔ مطلب یہ ہے کہ وہ بھلائی کے کام سر انجام دیں، برائی سے بچیں اور لوگوں کے درمیان صلح کروائیں۔ (اور اس طرح قسم نہ کھائیں کہ میں فلاں کے ساتھ احسان نہیں کروں گا، فلاں کے ساتھ نہیں بولوں گا، وغیرہ)۔
پس جو کوئی کسی واجب کو ترک کرنے کی قسم کھاتا ہے اس پر قسم توڑنا واجب ہے اور اس قسم پر قائم رہنا حرام ہے اور جو کوئی کسی مستحب کو چھوڑنے کی قسم کھاتا ہے اس پر اس قسم کو توڑنامستحب ہے اور جو کسی حرام امر کے ارتکاب کا حلف اٹھاتا ہے اس پر حلف توڑنا واجب ہے اور اگر وہ کسی مکروہ فعل کے ارتکاب پر قسم اٹھاتا ہے تو اس پر اس قسم کو توڑنا مستحب ہے۔ رہے مباح امور تو ان کے بارے میں اٹھائی ہوئی قسم کی حفاظت کرنا زیادہ مناسب ہے۔
اس آیت کریمہ سے اس مشہور فقہی اور قانونی قاعدے پر استدلال کیا جاتا ہے (اِذَاتَزَاحَمَتِ الْمَصَالِحَ قُدِّمَ اَھَمُّھَا)” جب مصالح میں باہم ٹکراؤ ہو تو اس کو مقدم رکھا جائے گا جو ان میں سب سے زیادہ اہم ہوگا“ پس یہاں قسم کا پورا کرنا ایک مصلحت ہے اور ان اشیاء میں اللہ تعالیٰ کے احکام کی اطاعت کرنا اس سے زیادہ بڑی مصلحت ہے اس لئے اس کو مقدم رکھا جائے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے ان دو اسمائے کریمہ کے ذکر کے ساتھ آیت کا اختتام کیا ہے ﴿ وَاللّٰہُ سَمِیْعٌ ﴾” اللہ سننے والا“ یعنی اللہ تمام آوازوں کو سننے والا ہے ﴿عَلِیْمٌ ﴾یعنی وہ مقاصد اور نیتوں کو خوب جانتا ہے۔ گویا وہ قسم اٹھانے والوں کی بات کو سنتا ہے اور ان کے مقاصد کو بھی جانتا ہے کہ آیا یہ قسم کسی نیک مقصد کے لئے اٹھائی گئی ہے یا برے مقصد کے لئے۔ یہ آیت کریمہ اس بات کو بھی متضمن ہے کہ اللہ تعالیٰ کی سزا سے بچا جائے نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال اور تمہاری نیتوں کو جانتا ہے۔ |
البقرة |
225 |
یعنی اللہ تعالیٰ ان لغو قسموں پر تمہارا مواخذہ نہیں کرتا جو تمہاری زبان سے نکلتی رہتی ہیں اور بندہ بغیر کسی قصد اور ارادے کے قسمیں کھاتا رہتا ہے اور یوں ہی اس کی زبان سے بلاقصد قسمیں نکل جاتی ہیں مثلاً وہ بات چیت میں بار بار کہتا ہے ” اللہ کی قسم ! نہیں‘،اور ” ہاں ! اللہ کی قسم“ وغیرہ۔ یا جیسے وہ کسی گزرے ہوئے معاملے میں حلف اٹھاتا ہے جس کے بارے میں وہ اپنے آپ کو سچا سمجھتا ہے۔ البتہ اس قسم پر مواخذہ ہوگا جو دل سے کھائے گا۔ یہ آیت کریمہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جس طرح مقاصد افعال میں معتبر ہوتے ہیں اسی طرح اقوال میں بھی مقاصد کا اعتبار ہوگا۔ ﴿ واللّٰہَ غَفُوْرٌ﴾” اللہ تعالیٰ اس شخص کو بخش دیتا ہے جو توبہ کے ذریعے سے اس کی طرف لوٹتا ہے ﴿حَلِیْمٌ﴾” جو شخص اس کی نافرمانی کرتا ہے وہ اس کے بارے میں بہت حلم سے کام لیتا ہے اور اس کو سزا دینے میں عجلت سے کام نہیں لیتا، بلکہ اپنے حلم کی بنا پر اس کی پردہ پوشی کرتا ہے اور اس پر قدرت رکھنے اور اپنے سامنے ہونے کے باوجود اس سے درگزر کرتا ہے۔ |
البقرة |
226 |
یہ قسم کسی خاص معاملے میں صرف بیوی کے ساتھ مخصوص ہے اور یہ بیوی کے ساتھ مطلق طور پر یا چار مہینے یا اس سے بھی زیادہ کی قید کے ساتھ جماع نہ کرنے کی قسم ہے۔ پس جو کوئی اپنی بیوی کے پاس نہ جانے کی قسم کھاتا ہے۔ اگر یہ قسم چار ماہ سے کم مدت کے لئے ہے تو یہ عام قسموں میں شمار ہوگی۔ اگر وہ قسم توڑے گا، تو اس کا کفارہ ادا کرے گا اور اگر وہ اپنی قسم پوری کرتا ہے، تو اس پر کوئی چیز نہیں اور اس کی بیوی کو اس کے خلاف چارہ جوئی کرنے کا کوئی اختیار نہیں، کیونکہ اس کی بیوی چار ماہ تک اس کی ملک ہے اور اگر اس نے ہمیشہ کے لئے اپنی بیوی کے پاس نہ جانے کی قسم کھائی یا قسم کا عرصہ چار ماہ سے زیادہ ہے، ایسی صورت میں جب اس کی بیوی اس سے حق زوجیت کا مطالبہ کرے گی تو اس قسم کے لئے چار ماہ کی مدت مقرر کردی جائے گی، کیونکہ یہ بیوی کا حق ہے۔ جب چار ماہ کی مدت پوری ہوجائے تو خاوند کو رجوع یعنی مجامعت کا حکم دیا جائے، اگر وہ رجوع کر کے تعلق زوجیت قائم کر لے تو اس پر قسم کے کفارے کے سوا کچھ لازم نہیں اور اگر وہ رجوع کرنے سے انکار کر دے تو اسے طلاق دینے پر مجبور کیا جائے گا اور اگر پھر بھی طلاق نہ دے تو حاکم طلاق نافذ کر دے گا۔۔۔۔۔۔ البتہ بیوی کی طرف رجوع کرنا اللہ تعالیٰ کو زیادہ پسند ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿ فَاِنْ فَاۗءُوْ ﴾” پس اگر وہ رجوع کریں۔“ یعنی جس چیز (تعلق زوجیت) کو چھوڑ دینے کی انہوں نے قسم اٹھائی تھی اگر اس کی طرف دوبارہ لوٹ آئیں۔ ﴿ فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ﴾ تو قسم اٹھانے کی وجہ سے انہوں نے جس گناہ کا ارتکاب کیا تھا ان کے رجوع کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ان کو بخش دے گا ﴿ رَّحِیْمٌ﴾ وہ بہت رحم کرنے والا ہے کہ اس نے بندوں کی قسموں کو اٹوٹ اور ان پر لازم قرار نہیں دیا، بلکہ ان سے باہر نکلنے کے لئے کفارہ مقرر کیا۔ نیز وہ ان پر اس لحاظ سے بھی مہربان ہے کہ انہوں نے اپنی بیویوں سے رجوع کیا ان سے مہربانی اور شفقت سے پیش آئے۔ (یعنی ان کا رجوع بھی اللہ کی مہربانی ہی کا نتیجہ ہے) |
البقرة |
227 |
﴿ وَاِنْ عَزَمُوا الطَّلَاقَ﴾” اور اگر وہ طلاق کا ارادہ کرلیں۔“ یعنی اگر وہ رجوع کرنے سے انکار کردیں، تو یہ اس امر کی دلیل ہے کہ انہیں ان میں رغبت نہیں اور وہ ان کو بیوی کے طور پر باقی رکھنا نہیں چاہتے۔۔۔۔۔۔ اور یہ چیز طلاق کے ارادے کے سوا کچھ نہیں۔۔۔۔۔۔ اگر یہ طلاق جو اس پر واجب ہے، کہنے سننے پر بیوی کو حاصل ہوجائے تو ٹھیک ورنہ حاکم اس کو طلاق پر مجبور کرے یا خود نافذ کردے۔ ﴿ فَاِنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ﴾” بے شک اللہ سننے والا، جاننے والا ہے“ اس آیت کریمہ میں اس شخص کے لئے سخت وعید اور تہدید ہے جو کوئی اللہ کی قسم اٹھاتا ہے اور اس کا مقصد محض ضر رسانی اور تکلیف پہنچانا ہوتا ہے۔ اس آیت کریمہ سے اس امر پر استدلال کیا جاتا ہے کہ اِیلاء بیوی سے مخصوص ہے کیونکہ اس میں مِنْ نِّسَاءِ ھِمْ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ نیز چار ماہ میں ایک مرتبہ بیوی کے ساتھ مجامعت فرض ہے، کیونکہ چار ماہ کے بعد یا تو اسے مجامعت پر مجبور کیا جائے گا یا اسے طلاق دینی پڑے گی۔ یہ جبر صرف اسی وقت ہوسکتا ہے جب وہ کسی واجب کو ترک کرے۔ |
البقرة |
228 |
یعنی وہ عورتیں جن کو ان کے شوہروں نے طلاق دے دی ہے ﴿ یَتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِہِنَّ﴾” اپنے تئیں رو کے رکھیں“ یعنی وہ انتظار کریں اور عدت پوری کریں ﴿ ثَلٰثَۃَ قُرُوْۗءٍ ۭ﴾ ” تین حیض“ (قرء) کے معنی میں اختلاف ہے بعض کے نزدیک اس کے معنی حیض اور بعض کے نزدیک طہر کے ہیں۔ تاہم صحیح مسلک یہ ہے کہ اس سے مراد تین حیض ہیں اور اس عدت کی متعدد حکمتیں ہیں، مثلاً جب مطلقہ عورت کو بتکرار تین حیض آجاتے ہیں تو برأت رحم ہوجاتی ہے اور معلوم ہو جاتا ہے کہ اس کے پیٹ میں حمل نہیں اور اس طرح نسب میں اختلاط کا کوئی خدشہ نہیں رہتا۔
بنا بریں اللہ تعالیٰ نے مطلقہ عورتوں پر واجب کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے رحم میں جو کچھ تخلیق کیا ہے اس کے بارے میں آگاہ کریں اور حمل یا حیض کا چھپانا ان پر حرام ٹھہرایا ہے، کیونکہ ان کا حیض یا حمل چھپانا بہت سے مفاسد کا باعث بنتا ہے۔ حمل کو چھپانا اس بات کا موجب بنتا ہے کہ عورت اپنے حمل کے نسب کو کسی ایسے شخص کے ساتھ ملحق کر دے جس میں اسے رغبت ہے یا محض عدت کے پورا ہوجانے میں جلد بازی کے لئے حیض آنے کا اعلان کر دے۔ پس جب یہ عورت اپنے حمل کو اس کے باپ کے سوا کسی اور کے ساتھ ملحق کردیتی ہے، تو یہ چیز قطع رحمی اور میراث سے محروم کرنے کا باعث بنتی ہے، اس کے لئے اس کے محرموں اور اقارب سے پردے کا موجب بنتی ہے اور بسا اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ اس الحاق سے محارم کے درمیان نکاح کا رشتہ قائم ہوجاتا ہے۔
اس کے مقابلے میں باپ کے سوا کسی اور شخص سے اس حمل کا الحاق ہوتا ہے اور اس کے نتیجہ میں اس کے تمام توابع، مثلاً میراث وغیرہ کا اثبات ہوتا ہے اور جس شخص کے ساتھ اس حمل کا الحاق کیا گیا ہوتا ہے، اس کے تمام اقارب کو اس بچے کے اقارب بنا دیتا ہے اور اس میں بہت بڑا شر اور فساد ہے جسے بندوں کے رب کے سوا کوئی نہیں جانتا اور اگر اس میں مذکورہ باتیں نہ بھی ہوں، تب بھی مطلقہ کا ایسے شخص سے نکاح کرلینا، جس سے اس کا نکاح جائز ہی نہیں تھا، تو اس کا یہ ایک نتیجہ ہی اس فعل کی برائی کے لئے کافی ہے، کیونکہ یہ نکاح، نکاح نہیں، زنا ہوگا، جو کبیرہ گناہ اور اس پر اصرار ہے۔ رہا حیض کو چھپانا تو اس نے عجلت سے کام لے کر جھوٹ بولتے ہوئے حیض آنیکی خبر دی ہے تو اس میں پہلے خاوند کی حق تلفی اور اپنے آپ کو دوسرے کے لئے مباح قرار دینا ہے نیز اس سے دیگر برائیاں متفرع ہوتی ہیں جیسا کہ گزشتہ سطور میں ہم ذکر کرچکے ہیں۔ اگر وہ حیض کے عدم وجود کی جھوٹی اطلاع دیتی ہے، تاکہ عدت لمبی ہوجائے اور اس طرح وہ نان و نفقہ حاصل کرسکے جو شوہر پر واجب نہ تھا تو یہ دو پہلوؤں سے اس پر حرام ہے۔
(١) اب وہ اس کی مستحق نہیں رہی۔ (٢) اس کو شریعت کی طرف منسوب کرنا حالانکہ وہ جھوٹی ہے۔
اس صورت میں بسا اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ عدت کے ختم ہوجانے کے بعد خاوند رجوع کرلیتا ہے (یعنی خاوند مطلقہ کی اطلاع کے مطابق سمجھتا ہے کہ ابھی عدت ختم نہیں ہوئی) یہ رجوع درحقیقت زنا ہے۔ کیونکہ یہ عورت اب اس کے لئے اجنبی ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَلَا یَحِلُّ لَہُنَّ اَنْ یَّکْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللّٰہُ فِیْٓ اَرْحَامِہِنَّ اِنْ کُنَّ یُؤْمِنَّ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ ۭ﴾” ان کے لئے جائز نہیں کہ وہ اس چیز کو چھپائیں جو اللہ نے ان کے رحموں میں پیدا کی ہے، اگر وہ اللہ اور آخرت کے دن پر یقین رکھتی ہیں“ حیض یا حمل کو چھپانا اس امر کی دلیل ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان نہیں رکھتیں۔ اگر ان کا اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان ہوتا اور انہیں علم ہوتا کہ انہیں ان کے اعمال کی جزا ملے گی، تو ان سے کبھی یہ فعل صادر نہ ہوتا۔
اس آیت کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر عورت اپنے معاملات کے بارے میں جن کی اطلاع اس کے سوا کسی اور کو نہیں ہوتی، مثلاً حیض اور حمل وغیرہ۔۔۔ کوئی خبر دیتی ہے، تو وہ قابل قبول ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَبُعُوْلَتُہُنَّ اَحَقُّ بِرَدِّھِنَّ فِیْ ذٰلِکَ﴾” اور ان کے خاوند ان کو اپنی زوجیت میں لے لینے کے زیادہ حق دار ہیں۔“ یعنی جب تک بیویاں عدت کے اندر عدت پوری ہونے کی منتظر ہیں اس وقت تک ان کے شوہر ان سے رجوع کا زیادہ حق رکھتے ہیں ﴿ اِنْ اَرَادُوْٓا اِصْلَاحًا ۭ﴾ ” اگر ان کا ارادہ اصلاح کا ہے“ یعنی اگر شوہر رغبت، الفت اور مودت کا جذبہ رکھتے ہیں۔ اس آیت کریمہ کا مفہوم یہ ہے کہ اگر رجوع کرنے سے ان کا مقصد اصلاح نہیں تو وہ جائز نہیں۔ کیا خاوند اس قسم کا مقصد و ارادہ رکھتے ہوئے رجوع کرنے کا اختیار رکھتا ہے؟ فقہاء اس بارے میں دو آراء رکھتے ہیں۔
جمہور فقہاء کہتے ہیں کہ تحریم کے باوجود خاوند یہ اختیار رکھتا ہے مگر صحیح یہ ہے کہ اگر شوہر اصلاح کا ارادہ نہیں رکھتا تو رجوع کرنے کا حق نہیں رکھتا۔ جیسا کہ آیت کریمہ کے ظاہری الفاظ دلالت کرتے ہیں۔
اور اس انتظار میں یہ دوسری حکمت ہے۔ وہ اس طرح کہ بسا اوقات شوہر بیوی کو طلاق دے کرنادم ہوتا ہے تو اس کے لئے یہ مدت رکھ دی گئی ہے، تاکہ وہ دوبارہ اپنے فیصلہ طلاق پر غور کرلے اور یہ اس امر کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ میاں بیوی کے درمیان الفت چاہتا ہے ان کے درمیان جدائی اسے پسند نہیں۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : أَبْغَضُ الْحَلَالِ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى الطَّلَاقُ” حلال چیزوں میں سے جو سب سے زیادہ اللہ کو ناپسند ہے، وہ طلاق ہے“ [سنن ابي داؤد، الطلاق، باب في كراهية الطلاق، حديث: 2187] رجوع کا یہ حق طلاق رجعی کے ساتھ مخصوص ہے۔ رہی طلاق بائن تو اس میں خاوند کو رجوع کا حق نہیں۔ البتہ اگر میاں بیوی دونوں رجوع پر راضی ہوں، تو نکاح کی پوری شرائط کے ساتھ نیا نکاح ضروری ہے۔
﴿وَلَہُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْہِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ ﴾۠ ” اور عورتوں کا حق ویسا ہی ہے جیسے دستور کے مطابق (مردوں کا حق) عورتوں پر ہے۔“ یعنی عورتوں کے اپنے شوہروں پر وہی حقوق ہیں جو شوہروں کے اپنی بیویوں پر ہیں۔ میاں بیوی کے ایک دوسرے پر حقوق کے بارے میں اصل مرجع ”معروف“ ہے، یہاں معروف سے مراد اس زمانے اور اس شہر میں عورتوں مردوں کے بارے میں جاری عادت ہے۔ زمان و مکان، احوال و اشخاص اور عادات میں تغیر و تبدل کے ساتھ معروف میں تبدیلی ہوجائے گی۔ اس آیت کریمہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ نان و نفقہ، لباس، معاشرتی تعلق، گھر، اسی طرح میاں بیوی کے درمیان خاص تعلق، ان سب کا مرجع ” معروف“ ہے۔ یہ عقد مطلق کی صورت میں ہے، یعنی نکاح کے وقت کوئی شرط طے نہ کی گئی ہو، لیکن جو نکاح مطلق نہیں، مقید یعنی شرطوں کے ساتھ ہوگا، تو وہاں ان شرطوں کا ایفاء ضروری ہوگا۔ البتہ کوئی ایسی شرط نہ ہو جو حرام کو حلال اور کسی حلال کو حرام ٹھہرا دے۔ ﴿وَلِلرِّجَالِ عَلَیْہِنَّ دَرَجَۃٌ ۭ﴾” اور مردوں کو عورتوں پر ایک درجہ فوقیت حاصل ہے۔“ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّـهُ بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ وَبِمَا أَنفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ ۚ ﴾ (النساء : 4؍ 34) ” مرد عورتوں پر حاکم و قوام ہیں کیونکہ اللہ نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے نیز اس لئے بھی کہ مرد اپنا مال خرچ کرتے ہیں۔ “
منصب نبوت، منصب قضا، امامت صغریٰ، امامت کبری اور دیگر تمام شعبوں کی سربراہی مردوں سے مخصوص ہے۔ میراث وغیرہ جیسے بہت سے معاملات میں بھی مرد کو عورت کے مقابلے میں دوگنا حیثیت حاصل ہے۔ : ﴿وَاللّٰہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ﴾” اور اللہ غالب صاحب حکمت ہے“ یعنی اللہ تعالیٰ عزت، غلبہ، بہت بڑے تسلط اور اختیارات کا مالک ہے۔ تمام کائنات اس کے سامنے سرافگندہ ہے مگر وہ اپنے غلبہ اور اختیارات کے باوجود اپنے تصرفات میں نہایت حکمت سے کام لیتا ہے۔
اس آیت کریمہ کے عموم سے مندرجہ ذیل صورتیں مستثنیٰ ہیں۔
(١) اگر مطلقہ حاملہ ہو تو اس کی عدت وضع حمل ہے۔
(٢) اگر مطلقہ غیر مدخولہ ہو، یعنی اس کے ساتھ خلوت صحیحہ نہ ہوئی ہو، تو اس پر کوئی عدت نہیں۔
(٣) لونڈیوں کی عدت دو حیض ہیں۔ جیسا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا قول ہے۔ آیات کریمہ کا سیاق دلالت کرتا ہے کہ آیت میں مذکورہ عورت سے مراد آزاد عورت ہے۔ |
البقرة |
229 |
جاہلیت اور اسلام کے ابتدائی دور میں مرد اپنی بیوی سے طلاق و رجوع کا لامتناہی سلسلہ جاری رکھتا تھا۔۔۔۔۔۔ لہٰذا مرد جب اپنی بیوی کو نقصان پہنچانا چاہتا تو اسے طلاق دے دیتا اور عدت پوری ہونے سے پہلے رجوع کرلیتا۔ پھر اسے طلاق دے دیتا اور پھر اختتام عدت سے پہلے رجوع کرلیتا اور ہمیشہ اسی طرح کرتا رہتا۔ اس طرح عورت کو جس ضرر اور نقصان کا سامنا کرنا پڑتا وہ اللہ ہی جانتا ہے۔ بنابریں اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا :﴿اَلطَّلَاقُ﴾” یعنی وہ طلاق جس میں خاوند کو رجعت کا حق حاصل ہے۔ ﴿ مَرَّتٰنِ ۠ ﴾” صرف دو مرتبہ ہے“ تاکہ اگر خاوند اپنی بیوی کو ضرر پہنچانے کا ارادہ نہیں رکھتا، تو اس مدت کے دوران میں طلاق دینے کے فیصلے سے رجوع کرسکتا ہے۔ رہا اس سے زیادہ مرتبہ طلاق دینا تو یہ طلاق کا محل نہیں، کیونکہ جو کوئی دو مرتبہ سے زیادہ طلاق دیتا ہے وہ یا تو حرام فعل کے ارتکاب کی جرأت کرتا ہے یا اسے اپنی بیوی کو رکھنے میں رغبت نہیں ہوتی، بلکہ وہ اسے نقصان پہنچانا چاہتا ہے۔
اسی لئے اللہ تعالیٰ نے خاوند کو حکم دیا ہے کہ یا تو وہ بھلے طریقے سے اپنی بیوی کو رکھ لے ﴿بِمَعْرُوْفٍ﴾” بطریق شائستہ‘،یعنی اچھے رہن سہن اور اچھے سلوک کے ساتھ اور اس کے ساتھ وہی سلوک کرے جو اس جیسے دوسرے لوگ اپنی بیویوں کے ساتھ کرتے ہیں اور یہی زیادہ راجح بات ہے، یا اس کو آزاد کر دے اور اس سے جدا ہوجائے ﴿ ۢ بِاِحْسَانٍ﴾ ’ ’یعنی بھلے طریقے سے۔‘،
احسان یعنی بھلائی یہ ہے کہ اس نے بیوی کو جو مال وغیرہ دیا ہے اس میں سے کچھ بھی واپس نہ لے، اس لئے کہ یہ ظلم ہے اور یہ کچھ دیئے بغیر مال لینے کے زمرے میں آئے گا، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ۭ وَلَا یَحِلُّ لَکُمْ اَنْ تَاْخُذُوْا مِمَّآ اٰتَیْتُمُوْھُنَّ شَـیْـــًٔـا ﴾” تمہارے لئے یہ جائز نہیں کہ تم نے ان عورتوں کو جو کچھ دیا ہے، اس میں سے کچھ بھی واپس لو‘، ﴿ اِلَّآ اَنْ یَّخَافَآ اَلَّایُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰہِ ۭ﴾” مگر یہ کہ وہ دونوں اس بات سے ڈریں کہ وہ اللہ کی حدود کو قائم نہیں رکھ سکیں گے“ اس میں معروف کے ساتھ خلع کرنے کا بیان ہے (جس میں خاوند کو معاوضہ لے کر طلاق دینے کی اجازت ہے) اس کی صورت یہ ہے کہ اگر عورت اپنے شوہر کو اس کی عادات یا جسمانی بدصورتی کی وجہ سے ناپسند کرتی ہو اور ڈرتی ہو کہ وہ خاوند (کے حقوق) کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت نہ کرسکے گی۔ (تو وہ خلع کے ذریعے سے طلاق حاصل کرسکتی ہے۔﴿فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰہِ ۙ فَلَاجُنَاحَ عَلَیْھِمَا فِـیْمَا افْتَدَتْ بِہٖ ۭ﴾” پس اگر تم ڈرو کہ وہ دونوں اللہ کی حدوں کو قائم نہیں رکھ سکیں گے تو عورت جو معاوضہ دے گی تو ان پر کوئی گناہ نہیں“ اس لئے یہ اس جدائی اور علیحدگی کا عوض ہے جو وہ حاصل کرنا چاہتی ہے۔
اس آیت کریمہ سے ثابت ہوتا ہے جب یہ حکمت پائی جائے، تب خلع مشروع ہے۔ ﴿تِلْكَ﴾” یعنی وہ تمام احکام جن کا ذکر گزشتہ سطور میں گزر چکا ہے : ﴿ حُدُوْدُ اللّٰہِ﴾” اللہ کی حدود ہیں۔“ یعنی وہ احکام ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے مشروع فرمایا اور حکم دیا کہ ان پر عمل کیا جائے : ﴿ۚ وَمَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰہِ فَاُولٰۗیِٕکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ﴾” اور جو اللہ کی حدوں سے تجاوز کرے، پس وہی لوگ ظالم ہیں“ اس سے بڑا اور کون سا ظلم ہے کہ حلال سے تجاوز کر کے حرام کی حدود میں داخل ہوا جائے؟ کیا جو چیز اللہ تعالیٰ نے حلال ٹھہرائی ہے، وہ اس کے لئے کافی نہیں؟ ظلم کی تین اقسام ہیں۔
(١) بندے کا ان معاملات میں ظلم کا ارتکاب کرنا جو اس کے اور اللہ تعالیٰ کے مابین ہیں۔
(٢) بندے کا ظلم اکبر یعنی شرک کا ارتکاب۔
(٣) بندے کا ان معاملات میں ظلم کا ارتکاب، جو اس کے اور لوگوں کے درمیان ہیں۔
اللہ تعالیٰ شرک کو توبہ کے بغیر نہیں بخشتا اور حقوق العباد کو اللہ تعالیٰ بالکل نہیں چھوڑے گا (بلکہ ایک دوسرے کو بدلہ دلوایا جائے گا) اور وہ ظلم جو بندے اور اس کے مابین ہے اور شرک سے کم تر ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی مشیت اور حکمت پر منحصر ہے۔ |
البقرة |
230 |
﴿ فَاِنْ طَلَّقَھَا ﴾” پھر اگر (تیسری) طلاق دے دے۔“ : ﴿ فَلَا تَحِلُّ لَہٗ مِنْۢ بَعْدُ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہٗ ۭ ﴾” تو اب اس کے لئے حلال نہیں وہ عورت اس کے بعد، یہاں تک کہ وہ نکاح کرے کسی خاوند سے اس کے سوا۔“ یعنی وہ عورت دوسرے خاوند سے صحیح نکاح کرے اور وہ خاوند اس سے ہم بستری بھی کرے، اس لئے کہ اہل علم کے اجماع کے مطابق نکاح شرع اس وقت تک صحیح نہیں ہوتا جب تک کہ اس میں عقد اور مجامعت نہ ہو۔ اس سے یہ بات متعین ہوجاتی ہے کہ نکاح ثانی رغبت سے کیا گیا ہو۔ اگر یہ نکاح پہلے شوہر کے لئے حلال ہونے کی نیت سے کیا گیا ہو تو یہ نکاح نہیں ہوگا اور نہ اس نکاح سے عورت پہلے خاوند کے لئے حلال ہی ہوگی نہ اس سے اس کی ہم بستری ہی مفید ہے، کیونکہ وہ اس کا خاوند ہی نہیں ہے۔
اگر اس مطلقہ سے کوئی دوسرا شخص نکاح کرلیتا ہے اور اس سے جماع بھی کرتا ہے پھر اسے طلاق دے دیتا ہے اور اس مطلقہ کی عدت پوری ہوجاتی ہے : ﴿ فَلَاجُنَاحَ عَلَیْھِمَآ﴾ ” تو نہیں ہے گناہ ان دونوں پر“ یعنی پہلے خاوند اور اس بیوی پر : ﴿ اَنْ یَّتَرَاجَعَآ ﴾” یہ کہ وہ دونوں رجوع کرلیں“ یعنی وہ ایک دوسرے سے رجوع کر کے اپنے نکاح کی تجدید کرلیں یہ آیت باہمی رضا مندی پر دلالت کرتی ہے، کیونکہ تراجع کی اضافت دونوں کی طرف کی گئی ہے۔ مگر ان کے آپس کے رجوع میں یہ یقین شرط ہے ﴿ اَنْ یُّقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰہِ ﴾” کہ وہ اللہ کی حدوں کو قائم رکھیں گے“ اور اللہ تعالیٰ کی حدوں کو قائم رکھنے کی صورت یہ ہے کہ میاں بیوی ایک دوسرے کے حقوق ادا کریں اور وہ اس طرح کہ دونوں اپنے سابقہ رویوں پر نادم ہوں جن کی وجہ سے ان میں جدائی پیدا ہوئی اور یہ عزم کریں کہ وہ اپنے ان رویوں کو بدل کر اچھی معاشرت اختیار کریں گے۔ تب ان کے ایک دوسرے سے رجوع کرنے میں کوئی گناہ نہیں۔
آیت کریمہ کا مفہوم یہ ہے کہ اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اللہ کی حدوں کو قائم نہیں رکھ سکیں گے، کیونکہ ان کو گمان غالب ہے کہ ان کے گزشتہ رویئے باقی رہیں گے اور ان کی بری معاشرت زائل نہیں ہوگی، تو پھر ان پر گناہ ہوگا، اس لئے کہ تمام معاملات میں اگر وہ اللہ کے حکم کو قائم نہیں کریں گے اور اس کی اطاعت کے راستے پر نہیں چلیں گے، تو ان کے لئے (دوبارہ باہم نکاح کرنے کا) یہ اقدام جائز ہی نہیں ہے۔ اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ انسان کے لئے مناسب یہی ہے کہ جب وہ کسی معاملے میں داخل ہونے کا ارادہ کرے، خاص طور پر چھوٹے یا بڑے عہدے کو قبول کرتے وقت، تو اسے اپنے آپ میں غور کرنا چاہئے۔ اگر اسے ذمہ داری کو پورا کرنے کی طاقت رکھنے کا پورا یقین ہے تو اسے آگے بڑھ کر اس ذمہ داری کو قبول کرلینا چاہئے ورنہ پیچھے ہٹ جائے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ نے ان بڑے بڑے احکام کو بیان فرمایا ہے، اس لئے فرمایا : ﴿ۭ وَتِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ﴾” یہ اللہ کی حدیں ہیں“ یعنی یہ اللہ تعالیٰ کے شرائع ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمایا ہے اور ان کو واضح کیا﴿ یُبَیِّنُھَا لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ﴾ ” وہ اسے جاننے والے لوگوں کے لئے بیان کرتا ہے“ کیونکہ یہی لوگ اللہ تعالیٰ کے ان احکام سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور پھر دوسروں کو فائدہ دے سکتے ہیں۔ اس میں اہل علم کی جس فضیلت کا بیان ہے، وہ مخفی نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی حدود کی توضیح و تبیین کو ان کے ساتھ مختص کیا ہے اور اس آیت میں وہی لوگ مقصود اور مراد ہیں۔ یہ آیت کریمہ اس امر پر بھی دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے چاہتا ہے کہ وہ ان حدود کی معرفت اور ان میں تفقہ حاصل کریں جو اس نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی ہیں۔ |
البقرة |
231 |
پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَاِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاۗءَ﴾ ” جب تم عورتوں کو طلاق دے چکو۔“ یعنی جب تم اپنی بیویوں کو ایک طلاق رجعی یا دو طلاق دے دو ﴿ فَبَلَغْنَ اَجَلَھُنَّ﴾” پھر وہ اپنی عدت کو پہنچ جائیں۔“ یعنی وہ اپنی عدت پوری ہونے کے قریب پہنچ جائیں : ﴿ فَاَمْسِکُوْھُنَّ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ سَرِّحُوْھُنَّ بِمَعْرُوْفٍ﴾ ” تو انہیں یا تو حسن سلوک سے نکاح میں رہنے دو یا بطریق شائستہ رخصت کر دو۔“ یعنی یا تو تم ان سے رجوع کرو اور تمہاری نیت یہ ہونی چاہئے کہ تم ان کے حقوق پورے کرو گے یا تم ان کو بغیر رجوع کئے اور بغیر نقصان پہنچائے چھوڑ دو۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَلَا تُمْسِکُوْھُنَّ ضِرَارًا﴾ ” اور ان کو نقصان پہنچانے کے لئے نہ روکو“ ﴿ لِّتَعْتَدُوْا ۚ ﴾” تاکہ تم زیادتی کرو‘،یعنی تم اپنے اس فعل میں حلال سے تجاوز کر کے حرام میں نہ پڑجاؤ یہاں ” حلال“ سے مراد معروف طریقے سے بیوی کو روک لینا اور ” حرام“ سے مراد اس کو نقصان پہنچانا ہے۔ ﴿ وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ ﴾” اور جو شخص ایسا کرے گا، پس یقیناً اس نے اپنے نفس پر ظلم کیا‘،اگر حق مخلوق کی طرف لوٹتا ہو تو ضرر اس شخص کی طرف لوٹے گا جو ضرر پہنچانے کا ارادہ کرے۔ ﴿ۭ وَلَا تَتَّخِذُوْٓا اٰیٰتِ اللّٰہِ ھُزُوًا ۡ ﴾” اور نہ ٹھہراؤ اللہ کے حکموں کو ہنسی مذاق“ چونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی مقرر کردہ حدود کو نہایت وضاحت سے بیان کردیا ہے۔ مقصد یہ کہ ان حدود کا علم حاصل کیا جائے، ان پر عمل کیا جائے اور انہی پر اکتفا کی جائے اور ان حدود سے تجاوز نہ کیا جائے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان حدود کو عبث اور بے فائدہ نازل نہیں فرمایا، بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان حدود کو حق، صدق اور اہتمام کے ساتھ نازل فرمایا ہے۔ اس لئے ان کا تمسخر اڑانے سے منع کیا ہے، یعنی ان کو کھیل تماشا بنانے سے روکا ہے، جس کا مطلب ان کے خلاف جسارت کرنا اور ان کی ادائیگی میں عدم اطاعت کا راستہ اختیار کرنا ہے، مثلاً بیوی کو نقصان پہنچانے کی خاطر روکنا، یا جدا رکھنا، یا کثرت سے طلاق دینا یا تین طلاق ایک ہی بار دے دینا۔ جب کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی رحمت، مہربانی اور بندے کی بھلائی کی بنا پر یکے بعد دیگرے (ایک، ایک کر کے) طلاق دینے کا طریقہ مقرر فرمایا ہے۔ ﴿وَاذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ﴾ ” اور یاد کرو اللہ کی نعمت کو، جو تم پر ہوئی“ زبان سے عام طور پر، حمد و ثنا کے ذریعے سے۔ دل سے اقرار و اعتراف کر کے اور جوارح (اعضاء) کے ذریعے سے، ان کو اللہ کی اطاعت میں مصروف کر کے۔ ﴿وَمَآ اَنْزَلَ عَلَیْکُمْ مِّنَ الْکِتٰبِ وَالْحِکْمَۃِ﴾ ” اور جو اس نے تم پر کتاب و حکمت سے اتارا‘،حکمت سے مراد سنت ہے، یعنی قرآن اور سنت کے ذریعے سے تمہارے لئے بھلائی کی راہیں واضح کردیں اور ان پر گامزن ہونے کی تمہیں ترغیب دی اور تمہارے سامنے برائی کے راستے بھی واضح کردیئے اور ان پر چلنے سے ڈرایا اور اس نے تمہیں اپنی معرفت سے نوازا اور تمہیں اپنے اولیاء اور اعداء کے بارے میں اپنی عادت اور اپنے طریقے سے آگاہ کیا اور تمہیں وہ کچھ سکھایا جو تم نہیں جانتے تھے۔
بعض اہل علم کہتے ہیں کہ یہاں حکمت سے مراد اسرار شریعت ہیں اس معنی کے لحاظ سے، کتاب سے مراد احکام الٰہی اور حکمت سے مراد وہ اسرار و حکم ہیں جو اس کے اوامر اور نواہی کے اندر ہیں اور حکمت کے دونوں ہی معنی صحیح ہیں۔ ﴿ یَعِظُکُمْ بِہٖ ۭ﴾” وہ اس کے ذریعے سے تمہیں نصیحت کرتا ہے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ نے تم پر جو کتاب نازل فرمائی ہے اس کے ذریعے سے وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے، آیت کریمہ کا یہ ٹکڑا اس رائے کو تقویت دیتا ہے کہ حکمت سے مراد اسرار شریعت ہیں، کیونکہ حکم اور حکمت اور ترغیب یا ترہیب کے بیان کے ذریعے سے ہی نصیحت کی جاتی ہے۔ پس حکم (یعنی شریعت) سے جہالت زائل ہوجاتی ہے۔ حکمت، ترغیب کے ساتھ رغبت کی موجب ہوتی ہے اور ترہیب کے ساتھ حکمت، اللہ تعالیٰ کے ڈر کی موجب ہوتی ہے۔ فرمایا :﴿ وَاتَّقُوا اللّٰہَ﴾” اور اللہ سے ڈرتے رہو۔“ یعنی اپنے تمام امور میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو ﴿ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ﴾” اور جان رکھو کہ اللہ ہر چیز سے واقف ہے۔“ اسی لئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے تمہارے لئے یہ احکام کھول کھول کر بیان کردیئے ہیں جو اپنے تمام تر مصالح کے ساتھ ہر زمان و مکان میں جاری و ساری ہیں۔ پس ہر قسم کی حمد و ثنا کا وہی مستحق ہے اور اسی کا احسان ہے۔ |
البقرة |
232 |
یہ خطاب اس مطلقہ عورت کے سرپرستوں سے ہے جسے تین سے کم طلاق دی گئی ہو، عدت پوری ہونے کے بعد اس کا خاوند اس سے دوبارہ نکاح کا خواہاں ہو اور وہ عورت بھی اس نکاح پر راضی ہو تو اس عورت کے ولی کے لئے خواہ وہ باپ ہو یا کوئی اور، جائز نہیں کہ اسے نکاح کرنے سے روکے، یعنی پہلی طلاق پر اپنے غصہ، بغض اور نفرت کی بنا پر، میاں بیوی کو نکاح کرنے سے روکنے سے منع کرتا ہے، کیونکہ عورت کا اپنے خاوند کے ساتھ تجدید نکاح تمہارے لئے اس سے زیادہ پاک اور بہتر ہے جو عورت کا ولی سمجھتا ہے کہ عدم نکاح درست رائے ہے اور نکاح سے روکنا (انتقاماً) پہلی طلاق کا جواب ہے۔ جیسا کہ متکبر اور نام نہاد اونچے گھرانوں کے لوگوں کی عادت ہے۔ پس اگر ولی یہ سمجھتا ہے کہ عدم نکاح ہی میں میاں بیوی کی مصلحت ہے تو ﴿ وَاللّٰہُ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ﴾” اسے اللہ جانتا ہے تم نہیں جانتے“ پس اس ہستی کی اطاعت کرو جو تمہارے مصالح کا تم سے زیادہ علم رکھتی ہے، وہ تمہارے لئے یہ مصالح چاہتی ہے، وہ ان پر قادر ہے اور ان کو تمہارے لئے اس طرح آسان بناتی ہے جن کو تم خوب جانتے ہو۔ اس آیت کریمہ میں اس امر کی دلیل ہے کہ نکاح میں ولی کا ہونا ضروری ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اولیاء (یعنی سرپرستوں) کو عورتوں کے نکاح سے روکنے سے منع کیا ہے اور اللہ تعالیٰ بندوں کو اسی چیز سے روکتا ہے جو ان کی تدبیر کے تحت آتی ہو اور اس میں ان کا حق ہو۔ |
البقرة |
233 |
یہ خبر، امر کے معنی میں ہے گویا یہ امر متحقق ہے جو کسی حکم کا محتاج نہیں، وہ یہ کہ مائیں ﴿یُرْضِعْنَ اَوْلَادَھُنَّ حَوْلَیْنِ﴾” اپنی اولاد کو پورے دو سال دودھ پلائیں۔“ چونکہ (حول) کا لفظ سال یا سال کے بڑے حصے کے لئے بولا جاتا ہے اس لئے فرمایا :﴿کَامِلَیْنِ لِمَنْ اَرَادَ اَنْ یُّـتِمَّ الرَّضَاعَۃَ ۭ﴾” پورے دو سال، اس شخص کے لئے جو دودھ پلانے کی مدت پوری کرنی چاہے“ پس جب دودھ پیتے بچے کے دو سال مکمل ہوجائیں تو اس کی رضاعت مکمل ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد ماں کا دودھ دیگر غذاؤں کی مانند ہوجاتا ہے۔ اسی لئے دو سال کے بعد کی رضاعت معتبر نہیں اور اس سے حرمت ثابت نہیں ہوتی۔ اس نص اور اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿وَحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ ثَلَاثُونَ شَهْرًا ۚ ﴾(الاحقاف: 15؍46) ” اس کو پیٹ میں اٹھائے رکھنا اور اس کا دودھ چھڑانا تیس مہینوں میں ہوتا ہے۔“ کو ملا کر یہ فقہی مسئلہ اخذ کیا گیا ہے کہ حمل کی کم سے کم مدت چھ ماہ ہے۔ اس مدت میں بچے کا پیدا ہونا ممکن ہے۔ ﴿وَعَلَی الْمَوْلُوْدِ لَہٗ﴾” اور بچے کے باپ پر“ ﴿ رِزْقُہُنَّ وَکِسْوَتُہُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ ۭ﴾” ان کا رزق اور ان کا لباس ہے، معروف کے ساتھ“ اور یہ حکم دودھ پلانے والی خواہ اس کے نکاح میں ہو یا مطلقہ، دونوں کو شامل ہے۔ مولود (بچے) کے باپ پر اس عورت کا نان و نفقہ اور لباس واجب ہے اور یہ دودھ پلانے کی اجرت ہے۔
یہ آیت کریمہ اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ جب تک عورت مرد کے نکاح میں ہے اس وقت تک عورت کو رضاعت کی اجرت دینا واجب نہیں، سوائے نان و نفقہ اور لباس کے نان و نفقہ اور لباس بھی مرد کے حسب حال اور حیثیت کے مطابق ہے۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿لَا تُکَلَّفُ نَفْسٌ اِلَّا وُسْعَہَا ۚ﴾” کسی جان کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہ دی جائے۔“ یعنی کسی فقیر شخص کو مال دار شخص جیسے نان و نفقہ دینے کا مکلف نہیں ٹھہرایا جائے گا اور نہ اس شخص کو مجبور کیا جائے گا کہ وہ نان و نفقہ ادا کرے جس کے پاس نان و نفقہ ادا کرنے کے لئے کچھ بھی نہ ہو۔ یہاں تک کہ اس کے پاس طاقت ہوجائے۔ فرمایا : ﴿لَا تُضَاۗرَّ وَالِدَۃٌۢ بِوَلَدِھَا﴾ ” ماں کو اس کے بچے کی وجہ سے نقصان نہ پہنچایا جائے۔“ یعنی یہ جائز نہیں کہ ماں کو اپنے بیٹے کے سبب سے نقصان پہنچایا جائے۔ (یعنی ان دو صورتوں میں سے کسی ایک صورت کے ذریعے سے) یا تو اس کو دودھ پلانے سے روک دیا جائے یا نان و نفقہ لباس اور اجرت وغیرہ جیسے واجبات اس کو ادا نہ کئے جائیں : ﴿ وَلَا مَوْلُوْدٌ لَّہٗ بِوَلَدِہٖ﴾” اور نہ باپ کو بچے کی وجہ سے تکلیف پہنچائی جائے“ یعنی ماں نقصان پہنچانے کے لئے بچے کو دودھ پلانے سے انکار کر دے، یا اس اجرت سے زیادہ کا مطالبہ کرے جو دودھ پلانے پر اس کا حق بنتا ہے اور اس قسم کے دیگر نقصانات۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿ مَوْلُوْدٌ لَّہٗ﴾دلالت کرتا ہے کہ بیٹا اپنے باپ کی ملکیت ہوتا ہے کیونکہ وہ اسی کو عطا کیا گیا ہے اور اس لئے کہ بیٹا درحقیقت باپ کا کسب ہے، پس اسی لئے باپ کے لئے جائز ہے کہ وہ اپنے بیٹے کا مال لے لے خواہ وہ راضی ہو یا نہ ہو، اس کے برعکس ماں مال نہیں لے سکتی ہے۔ فرمایا :﴿ وَعَلَی الْوَارِثِ مِثْلُ ذٰلِکَ ۚ﴾” اور اسی طرح وارث کے ذمے ہے۔“ یعنی جب بچے کا باپ نہ ہو اور بچے کا کوئی مال بھی نہ ہو تو بچے کے وارث پر دودھ پلانے والی کا وہی نان و نفقہ وغیرہ واجب ہے جو باپ پر واجب ہوتا ہے۔ اس آیت کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ خوش حال قریبی رشتہ داروں پر واجب ہے کہ وہ اپنے تنگدست اقرباء کے نان نفقہ کا انتظام کریں۔
﴿ فَاِنْ اَرَادَا﴾ ” پس اگر دونوں چاہیں۔“ یعنی والدین (ماں باپ) ﴿ فِصَالًا﴾ ” دودھ چھڑانا“ یعنی دودھ چھڑانے پر راضی ہوں ﴿ وَتَشَاوُرٍ﴾ ” اور مشورے سے‘،یعنی دونوں کے باہمی مشورے کے ساتھ کہ آیا بچے کا دودھ چھڑانا اس کے لئے درست ہے یا نہیں۔ اگر بچے کے لئے اس میں کوئی مصلحت ہو اور دونوں اس پر راضی ہوں ﴿ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْہِمَا ۭ﴾” تو ان دونوں پر کوئی گناہ نہیں۔“ یعنی تب دوسال سے قبل اس کے دودھ چھڑانے میں کوئی حرج نہیں۔ اس آیت کریمہ کا مفہوم دلالت کرتا ہے کہ اگر دونوں میں سے صرف ایک دودھ چھڑانے پر راضی ہو یا دودھ چھڑانے میں بچے کے لئے کوئی مصلحت نہ ہو تو اس صورت میں بچے کا دودھ چھڑانا جائز نہیں۔
﴿ وَاِنْ اَرَدْتُّمْ اَنْ تَسْتَرْضِعُوْٓا اَوْلَادَکُمْ﴾” اور اگر تم اپنی اولاد کو دودھ پلوانا چاہو۔‘،یعنی اگر تم ضرر پہنچائے بغیر بچوں کی ماؤں کی بجائے دوسری عورتوں سے دودھ پلوانا چاہو ﴿ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْکُمْ اِذَا سَلَّمْتُمْ مَّآ اٰتَیْتُمْ بِالْمَعْرُوْفِ ۭ ﴾” تو تم پر کچھ گناہ نہیں بشرطیکہ تم دونوں پلانے والیوں کو دستور کے مطابق ان کا حق جو تم نے دینا کیا تھا دے دو۔“ یعنی اگر دودھ پلانے والی دیگر عورتوں کو معروف طریقے سے ان کی اجرت عطا کر دو تو تم پر کوئی گناہ نہیں ﴿ اَنَّ اللّٰہَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ﴾” بے شک اللہ تمہارے عملوں کو دیکھنے والا ہے“ پس اللہ تعالیٰ تمہیں اس پر اچھی یا بری جزا دے گا۔ |
البقرة |
234 |
یعنی جب خاوند فوت ہوجائے تو عورت پر فرض ہے کہ وہ گھر میں چار مہینے دس دن ٹھہرے اور انتظار کرے۔ اس میں حکمت یہ ہے کہ چار ماہ کی مدت میں حمل واضح ہوجاتا ہے اور پانچویں مہینے کی ابتدا میں بچہ پیٹ میں حرکت کرنے لگ جاتا ہے۔ یہ حکم ان تمام عورتوں کے لئے عام ہے جن کے شوہر فوت ہوجائیں۔ مگر اس عموم میں سے حاملہ عورتیں مخصوص ہیں، کیونکہ ان کی عدت وضع حمل ہے۔ اسی طرح لونڈی کی عدت نصف یعنی دو ماہ اور پانچ دن ہے۔ ﴿ فَاِذَا بَلَغْنَ اَجَلَہُنَّ ﴾” پس جب ان کی عدت پوری ہوجائے“﴿ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْکُمْ فِیْمَا فَعَلْنَ فِیْٓ اَنْفُسِہِنَّ﴾” تو جو وہ اپنے لئے کریں اس میں تم پر کوئی گناہ نہیں“ یعنی اگر وہ دوبارہ بناؤ سنگار کرتی ہیں اور خوشبو وغیرہ لگاتی ہیں ﴿بِالْمَعْرُوْفِ ۭ﴾” بھلائی کے ساتھ“ یعنی اگر وہ بناؤ سنگار اس طرح کریں جو حرام اور مکروہ نہ ہو (بلکہ معروف طریقے سے ہو) یہ آیت دلالت کرتی ہے کہ جس عورت کا خاوند فوت ہوجائے اس پر عدت کی مدت کے لئے سوگ منانا (یعنی بناؤ سنگار سے پرہیز کرنا) فرض ہے۔ جب کہ یہ پرہیز مطلقہ رجعیہ اور بائنہ پر واجب نہیں، اس پر اہل علم کا اجماع ہے۔ ﴿ وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ﴾” اور اللہ تمہارے سب کاموں سے واقف ہے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ تمہارے ظاہری اور باطنی، چھوٹے اور بڑے تمام اعمال کو جانتا ہے۔ پس وہ تمہیں ان کا بدلہ دے گا اور عورت کے اولیا سے اللہ تعالیٰ کے خطاب ﴿ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْکُمْ فِیْمَا فَعَلْنَ فِیْٓ اَنْفُسِہِنَّ﴾ میں اس امر کی دلیل ہے کہ عورت کا ولی اس پر نظر رکھے اور جو فعل جائز نہ ہو اس کے ارتکاب سے اسے منع کرے اور اس فعل کو بجا لانے پر اسے مجبور کرے جو اس پر واجب ہو۔ عورت کا ولی اس آیت کا مخاطب ہے اور ایسا کرنا اس پر واجب ہے۔ |
البقرة |
235 |
یہ حکم اس عورت کے بارے میں ہے جو خاوند کی وفات پر عدت گزار رہی ہو یا اسے طلاق دی گئی ہو۔ طلاق دینے والے شوہر کے علاوہ کسی اور کے لئے حرام ہے کہ وہ صریح الفاظ میں اسے نکاح کا پیغام دے اور اللہ تعالیٰ کے ارشاد﴿ وَلٰکِنْ لَّا تُوَاعِدُوْھُنَّ سِرًّا﴾ ”’ لیکن تم ان سے وعدہ مت کرو، چھپ کر“ سے یہی مراد ہے۔
رہی تعریض (اشارے کنایے سے نکاح کی بات کرنا) تو اللہ تعالیٰ نے اس میں گناہ کو ساقط کردیا ہے۔
اور ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ تصریح صرف نکاح کے معنی کی متحمل ہوتی ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے تصریح کو حرام قرار دیا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ کہیں عورت جلدی نکاح کرنے کے لئے عدت پوری ہونے کے سلسلے میں جھوٹ نہ بولے۔ اس آیت کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ حرام کی طرف لے جانے والے وسائل بھی ممنوع ہیں، نیز عدت کی مدت کے دوران خاوند کے علاوہ کسی اور مرد سے نکاح کے وعدے کا سدباب کر کے، پہلے خاوند کے حق کو برقرار رکھا ہے۔ رہی تعریض تو اس میں نکاح کے علاوہ دیگر معانی کا احتمال بھی ہوسکتا ہے اور یہ تعریض بائنہ عورت کے لئے بھی جائز ہے، جیسے کوئی کہے ” میں نکاح کا ارادہ رکھتا ہوں۔ جب تمہاری عدت پوری ہوجائے تو مجھ سے مشورہ کرلینا“ تو یہ جائز ہے۔ اس لئے کہ تعریض تصریح کی مانند نہیں ہے اور نفوس انسانی کے اندر اس کا قوی داعیہ موجود ہے۔ اسی طرح انسان کا اپنے دل میں یہ ارادہ چھپا کر رکھنا بھی جائز ہے کہ وہ فلاں عورت، جو عدت گزار رہی ہے اس کی عدت ختم ہونے کے بعد وہ اس کے ساتھ نکاح کرے گا۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿ اَوْ اَکْنَنْتُمْ فِیْٓ اَنْفُسِکُمْ ۭ عَلِمَ اللّٰہُ اَنَّکُمْ سَتَذْکُرُوْنَہُنَّ﴾” یا چھپا کر رکھو تم اپنے نفسوں میں۔ اللہ جانتا ہے کہ تم ضرور ان کو یاد کرو گے“ یہ تمام تفصیلات عقد کے مقدمات میں شمار ہوتی ہیں۔ (لہٰذا جائز ہیں) رہا عقد نکاح تو یہ جائز نہیں ﴿ حَتّٰی یَبْلُغَ الْکِتٰبُ اَجَلَہٗ ۭ﴾” جب تک کہ عدت پوری نہ ہوجائے“ ﴿ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ یَعْلَمُ مَا فِیْٓ اَنْفُسِکُمْ﴾” اور جان لو، اللہ ان باتوں کو جانتا ہے جو تمہارے دلوں میں ہیں“ اس لئے اللہ تعالیٰ کے عذاب کے خوف اور اس کے ثواب کی امید میں ہمیشہ بھلائی کی نیت رکھو اور کبھی بھی برائی کی نیت نہ رکھو ﴿ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ﴾” اور جان لو کہ اللہ بخشنے والا۔“ یعنی اللہ تعالیٰ اس شخص کے گناہوں کو بخش دیتا ہے جو توبہ کر کے اپنے رب کی طرف رجوع کرتا ہے ﴿ حَلِیْمٌ﴾” وہ برد بار ہے“ کیونکہ گناہگاروں کو ان کے گناہوں کی وجہ سے ان کو پکڑنے کی قدرت رکھنے کے باوجود ان کو پکڑنے میں جلدی نہیں کرتا۔ |
البقرة |
236 |
یعنی اے مردو ! اگر تم اپنی بیویوں کو چھونے اور مہر مقرر کرنے سے قبل ہی طلاق دے دو، تو تم پر کوئی گناہ نہیں، اگرچہ اس میں عورتوں کے لئے نقصان ہے تاہم متعہ طلاق سے اس کی تلافی ہوجاتی ہے۔ پس تم پر لازم ہے کہ تم ان کی دل جوئی کی خاطر ان کو کچھ مال ضرور عطا کرو۔ ﴿عَلَی الْمُوْسِعِ قَدَرُہٗ وَعَلَی الْمُقْتِرِ قَدَرُہٗ ۚ ﴾” فراخ دست پر اس کی طاقت کے مطابق اور تنگ دست پر اس کی وسعت کے مطابق“ مطلقہ کو خرچ دینا لازم ہے اور اس کا مرجع عرف ہے جو کہ زمان و مکان کے اختلاف کے مطابق مختلف ہے۔ اس لئے فرمایا ﴿مَتَاعًۢا بِالْمَعْرُوْفِ ۚ﴾ ”فائدہ پہنچانا ہے معروف کے ساتھ‘،پس یہ حق واجب ہے ﴿ عَلَی الْمُحْسِـنِیْنَ﴾” نیکو کاروں پر“ اس لئے ان کو اس حق میں کمی نہیں کرنی چاہئے۔
پس جیسے وہ عورتوں کی امیدوں، ان کے اشتیاق اور ان کے دلی تعلق کا سبب بنے، لیکن پھر انہوں نے ان کو وہ چیز نہیں دی جو ان عورتوں کو مرغوب تھی، اس لئے اس کے مقابلے میں ان کو فائدہ پہنچانا ضروری ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ کتنا اچھا ہے ! اور شارع کی حکمت اور رحمت پر کس قدر دلالت کرتا ہے ! اور ایمان و ایقان سے بہرہ ور لوگوں کے لئے اللہ سے بڑھ کر کون اچھا فیصلہ کرنے والا ہے۔ یہ حکم تو ان عورتوں سے متعلق تھا جن کو چھونے سے پہلے اور حق مہر مقرر کرنے سے پہلے ہی طلاق دے دی گئی ہو۔ |
البقرة |
237 |
پھر اللہ تعالیٰ نے ان عورتوں کا ذکر فرمایا ہے جن کا مہر مقرر کیا گیا ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم مہر مقرر کرنے کے بعد ان کو چھوئے بغیر طلاق دے دو، تو مطلقہ عورتوں کے لئے نصف مہر ہے اور باقی نصف تمہارا ہے۔ مہر کی یہ رقم اگر عورت کی طرف سے معاف نہ کردیا جائے، تو خاوند پر اس کی ادائیگی واجب ہے۔ جب کہ عورت کا اس کو معاف کرنا صحیح ہو۔ ﴿ اَوْ یَعْفُوَا الَّذِیْ بِیَدِہٖ عُقْدَۃُ النِّکَاحِ ۭ﴾” یا وہ شخص معاف کر دے جس کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہے۔“ صحیح مسلک کے مطابق اس سے مراد شوہر ہے (نہ کہ ولی) کیونکہ شوہر ہی وہ شخص ہے جو نکاح کی گرہ کو کھول سکتا ہے۔ عورت کے ولی کے لئے تو درست ہی نہیں کہ وہ عورت کے کسی حق واجب کو معاف کر دے کیونکہ وہ مالک ہے نہ وکیل۔
[(١) اس کی وضاحت شیخ رحمہ اللہ نے حاشیہ نمبر 1 میں فرمائی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں :” ان سطور کو لکھتے وقت میرا یہی موقف تھا لیکن بعد میں میرے لئے یہ واضح ہوا کہ جس شخص کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہے، وہ قریب ترین ولی ہے اور وہ باپ ہے۔ لفظی اور معنوی اعتبار سے یہی زیادہ صحیح قول ہے جیسا کہ غور و فکر کرنے والے کے لئے ظاہر ہے۔“ اور حاشیہ نمبر 2 میں مؤلف رحمہ اللہ کے قلم سے لکھا ہوا ہے۔ ” ایک قول یہ بھی ہے کہ وہ باپ ہے (یعنی جس کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہے) اور یہی وہ معنی ہے جس پر آیت کریمہ کے الفاظ دلالت کرتے ہیں۔“ (از محقق)
(٢) خاوند کے معاف کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ ادا شدہ (یا مقرر) حق مہر میں سے اپنے حصے کا آدھا حق مہر عورت سے واپس نہ لے اور پورا کا پورا مہر ہی عورت کے پاس رہنے دے (یا اس کو دے دے)۔ (ص۔ ی)]
پھر اللہ تعالیٰ نے معاف کرنے کی ترغیب دی ہے اور فرمایا کہ جو کوئی معاف کردیتا ہے وہ تقویٰ کے زیادہ قریب ہے، کیونکہ یہ ایک ایسا احسان ہے جو شرح صدر کا موجب ہے، نیز انسان کے لئے مناسب یہی ہے کہ وہ اپنے آپ کو احسان اور نیکی سے تہی دست نہ رکھے اور اس فضیلت کو فراموش نہ کر دے جو معاملات کا بلند ترین درجہ ہے۔ اس لئے کہ لوگوں کے آپس کے معاملات کے دو درجے ہیں۔
(1) عدل و انصاف جو کہ واجب ہے۔ یعنی حق واجب لینا اور کسی کا جو حق واجب ہے اسے ادا کرنا۔
(2) فضل و احسان اور اس سے مراد یہ ہے کہ کسی کو کچھ عطا کرنا جس کا عطا کرنا واجب نہ تھا اور اپنے حقوق کے بارے میں چشم پوشی اور مسامحت سے کام لینا۔ پس انسان کے لئے مناسب نہیں کہ وہ اس درجہ کو فراموش کر دے خواہ کبھی کبھار ہی سہی۔ خاص طور پر آپ اس شخص کے ساتھ تسامح کو ہرگز فراموش نہ کریں جس کے ساتھ آپ کے تعلقات اور میل جول ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کو احسان کے بدلے میں اپنے فضل و کرم سے نوازتا ہے۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿’ۭ اِنَّ اللّٰہَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ ﴾’ تم جو کچھ کرتے ہو اللہ اسے دیکھتا ہے۔ “ |
البقرة |
238 |
اللہ تعالیٰ تمام نمازوں کی حفاظت کا عام حکم دے رہا ہے اور ” درمیان والی نماز“ کی حفاظت کا خاص طور پر۔ اس سے مراد عصر کی نماز ہے۔ نماز کی حفاظت کا مطلب ہے کہ اسے وقت پر، مشروط ارکان کا خیال رکھتے ہوئے، خشوع خضوع کے ساتھ اور اس کے تمام واجبات و مستحبات کے ساتھ ادا کیا جائے۔ نماز کی حفاظت کے ساتھ دوسری عبادتوں کی بھی حفاظت ہوجاتی ہے۔ اس کی وجہ سے (خود کو) برائی اور بے حیائی سے روک دینے کا فائدہ بھی حاصل ہوجاتا ہے، خصوصاً جب نماز اس طرح مکمل کی جائے جس طرح اللہ نے اس آیت میں فرمایا ﴿وَقُوْمُوْا لِلّٰہِ قٰنِتِیْنَ﴾” اللہ کے لئے با ادب کھڑے رہا کرو۔“ یعنی اخلاص، عاجزی اور ذلت کا اظہار کرتے ہوئے۔ اس میں قیام اور عاجزی کا حکم ہے اور نماز کے دوران بات کرنے کی ممانعت ہے۔ اس کے ساتھ آرام و سکون کا حکم ہے۔ |
البقرة |
239 |
پھر فرمایا ﴿ فَاِنْ خِفْتُمْ﴾” اگر تمہیں خوف ہو۔“ خوف والی چیز کا ذکر نہیں فرمایا، تاکہ اس میں کافر سے، ظالم سے اور درندے سے خوف اور دوسرے تمام اقسام کے خوف شامل ہوجائیں۔ یعنی ان حالات میں نماز پڑھتے ہوئے اگر تم خوف محسوس کرو تو ﴿ فَرِجَالًا ﴾” پیدل ہی“ یعنی چلتے چلتے نماز پڑھ لو، یا گھوڑوں او نٹوں وغیرہ پر ﴿ اَوْ رُکْبَانًا ۚ﴾ ” سوار ہو کر ہی سہی“ اس طرح نماز پڑھنے سے یہ لازم آتا ہے کہ کبھی ان کا رخ قبلہ کی طرف ہو اور کبھی نہ ہو۔ اس سے بروقت نماز پڑھنے کی مزید تاکید ظاہر ہوتی ہے کہ بہت سے ارکان اور بہت سی شروط میں خلل پڑ جانے کے باوجود نماز وقت پر پڑھو۔ اس نازک وقت میں بھی نماز میں تاخیر کرنا جائز نہیں۔ ان حالات میں اس طریقے سے نماز پڑھنا افضل ہے، بلکہ تاخیر کر کے اطمینان کے ساتھ نماز پڑھنے سے اس طریقے سے وقت پر نماز پڑھ لینا زیادہ ضروری ہے۔ ﴿ فَاِذَآ اَمِنْتُمْ﴾ ”پھر جب تم امن میں آجاؤ۔‘،یعنی خوف ختم ہوجائے ﴿ فَاذْکُرُوا اللّٰہَ﴾ ” تو اللہ کا ذکر کرو۔“ اس میں ذکر کی ہر قسم شامل ہے اور کامل نماز پڑھنا بھی اس ذکر کی ایک صورت ہے۔ ﴿کَمَا عَلَّمَکُمْ مَّا لَمْ تَکُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ﴾” جس طرح اس نے تمہیں اس بات کی تعلیم دی جسے تم نہیں جانتے تھے۔“ اس لئے کہ یہ ایک عظیم نعمت ہے، جس کے عوض ذکر اور شکر کرنا چاہئے، تاکہ تم پر اس کی نعمت باقی رہے اور اس میں اضافہ ہو۔ |
البقرة |
240 |
مطلب یہ ہے کہ جو مرد فوت ہوجاتے ہیں اور اپنے پیچھے بیویاں چھوڑ جاتے ہیں، تو مرنے سے پہلے ان کے لئے ضروری ہے ﴿ وَّصِیَّۃً لِّاَزْوَاجِہِمْ مَّتَاعًا اِلَی الْحَوْلِ غَیْرَ اِخْرَاجٍ ۚ ﴾” اپنی بیویوں کے حق میں وصیت کر جائیں سال بھر فائدہ اٹھانے کی، اور یہ کہ انہیں کوئی نہ نکالے۔“ یعنی انہیں چاہئے کہ بیویوں کو سال بھر ان (شوہروں) کے گھروں میں رہنے کی وصیت کر جائیں۔ اس مدت میں عورتیں وہاں سے نکلیں۔ ﴿ فَاِنْ خَرَجْنَ ﴾” پس اگر وہ خود نکل جائیں۔“ ﴿ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْکُمْ﴾” تو (اے وارثو !) تم پر اس میں کوئی گناہ نہیں۔“ ﴿ مَا فَعَلْنَ فِیْٓ اَنْفُسِہِنَّ مِنْ مَّعْرُوْفٍ ۭ ﴾” جو وہ اپنے لئے اچھائی سے کریں اور اللہ تعالیٰ غالب اور حکیم ہے۔“ اچھائی سے مراد زیب و زینت اور خوشبو وغیرہ کا استعمال ہے۔ اکثر مفسرین کا خیال ہے کہ یہ آیت اپنے سے پہلی آیت کی وجہ سے منسوخ ہوگئی ہے۔ جس کے الفاظ یہ ہیں ﴿وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا ﴾(البقرہ: 234؍2) ” تم میں سے جو لوگ فوت ہوجائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں، وہ عورتیں اپنے آپ کو چار مہینے دس دن عدت میں رکھیں۔“ تم میں سے جو لوگ فوت ہوجائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں، وہ عورتیں اپنے آپ کو چار مہینے دس دن عدت میں رکھیں۔“ بعض کہتے ہیں کہ یہ آیت منسوخ نہیں، بلکہ پہلی آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ چار ماہ دس دن کی مدت پوری کرنا واجب ہے۔ اس سے زیادہ مستحب ہے۔ خاوند کے حق کی تکمیل کے لئے اور بیوی کی دلجوئی کے لئے اسے پورا کرنا چاہئے۔ مستحب ہونے کی دلیل یہ ہے کہ سال پورا ہونے سے پہلے عورتوں کے اس گھر سے چلے جانے کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے خاوند کے وارثوں پر گناہ نہ ہونے کا ذکر کیا ہے۔ اگر اس گھر میں رہائش رکھنا واجب ہوتا، تو انہیں یہ نہ کہا جاتا کہ کوئی حرج نہیں۔ |
البقرة |
241 |
یعنی ہر طلاق یافتہ عورت کو مناسب فائدہ دینا اس کا حق ہے جو ہر متقی پر واجب ہے، تاکہ عورت کی دلجوئی ہوسکے اور اس کے بعض حقوق ادا ہوسکیں۔ جس عورت کو خلوت سے پہلے طلاق دی جائے اسے یہ متعہ ( مثلاً کپڑوں کا جوڑایا کچھ رقم وغیرہ) دینا واجب ہے۔ دوسری صورت میں پورا حق مہر ادا کرنا واجب ہے جیسے پہلے بیان ہوا۔ اس مسئلہ میں یہ قول زیادہ بہتر ہے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ ہر عورت کو طلاق کے بعد متعہ دینا واجب ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ آیت کا مفہوم عام ہے۔ (اس میں کوئی تخصیص نہیں کی گئیض لیکن قانون یہ ہے کہ مطلق کو مقید پر محمول کیا جاتا ہے اور پہلے بیان ہوچکا ہے کہ متعہ اس عورت کے لئے واجب ہے جسے خلوت سے پہلے اور حق مہر کے تعین سے پہلے طلاق ہوجائے۔ |
البقرة |
242 |
جب اللہ تعالیٰ نے یہ عظیم مسائل بیان فرمائے جو اس کی حکمت اور رحمت پر مشتمل ہیں، تو بندوں پر اپنے احسان کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ﴿کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمْ اٰیٰتِہٖ﴾” اللہ تعالیٰ اسی طرح تم پر اپنی آیتیں بیان فرما رہا ہے۔“ یعنی حدود، حلال و حرام اور وہ احکام جن میں تمہارا فائدہ ہے﴿ لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ﴾” تاکہ تم انہیں سمجھو اور ان کا اصل مقصد تمہیں معلوم ہوجائے، کیونکہ جو ان کو سمجھ لے گا، وہ ان پر عمل کرنا ضروری سمجھے گا۔ |
البقرة |
243 |
اللہ تعالیٰ ان لوگوں کا واقعہ بیان فرما رہا ہے جو ایک متفقہ مقصد کے تحت کثیر تعداد میں اپنے گھروں سے نکل کھڑے ہوئے تھے۔ ان کے نکلنے کی وجہ یہ تھی کہ وہ وبایا کسی اور وجہ سے مرجانے کا خوف رکھتے تھے۔ گھروں سے نکلنے سے ان کا مقصود موت سے بچنا تھا، لیکن تقدیر کے آگے تدبیر نہیں چلتی چنانچہ ﴿ فَقَالَ لَہُمُ اللّٰہُ مُوْتُوْا ۣ﴾” اللہ تعالیٰ نے انہیں فرمایا : مر جاؤ۔“ تو وہ مر گئے۔ ﴿ ثُمَّ﴾ ” پھر اللہ تعالیٰ نے : ﴿اَحْیَاھُمْ ۭ﴾” انہیں زندہ کردیا۔“ یا نبی کی دعا کی وجہ سے یا کسی اور وجہ سے یہ ان پر رحمت، مہربانی اور حلم کا اظہار تھا اور مردوں کو زندہ کرنے کی ایک نشانی دکھانا مقصود تھا اس لئے فرمایا: ﴿ اِنَّ اللّٰہَ لَذُوْ فَضْلٍ عَلَی النَّاسِ وَ لَكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَشْكُرُونَ﴾ ” بے شک اللہ تعالیٰ لوگوں پر بڑا فضل کرنے والا ہے، لیکن اکثر لوگ ناشکرے ہیں۔‘،پس وہ نعمت ملنے پر شکر میں اضافہ نہیں کرتے، بلکہ بعض اوقات ان نعمتوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مزید گناہ کرنے لگتے ہیں۔ ان میں ایسے شکر گزار بندے کم ہی ہوتے ہیں جو نعمت کو پہچان کر، اس کا اعتراف کر کے اسے منعم حقیقی کی اطاعت میں استعمال کرتے ہیں۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنی راہ میں جنگ کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس سے مراد اللہ کے دین کو بلند کرنے کے لئے اپنے دشمنوں یعنی کافروں کے خلاف جنگ کرنا ہے۔ |
البقرة |
244 |
چنانچہ فرمایا : ﴿ وَقَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ﴾” اللہ کی راہ میں جہاد کرو اور جان لو کہ اللہ تعالیٰ سنتا جانتا ہے۔“ لہٰذا نیت درست رکھو، اور جہاد سے صرف اللہ کی رضا تمہارا مقصود ہونا چاہئے اور تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ جنگ سے پہلوتہی کرنے سے کچھ فائدہ نہیں ہوگا۔ اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ جنگ نہ کرنے کے نتیجے میں تم زیادہ عرصہ زندہ رہو گے تو حقیقت یوں نہیں ہے۔ اسی لئے اس حکم کی تمہید کے طور پر گزشتہ قصہ بیان فرمایا ہے کہ جس طرح ان کو موت کے ڈر سے گھروں سے نکلنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوا، بلکہ ان کا خطرہ ان کے سامنے آگیا جب کہ ان کو یہ گمان بھی نہ تھا کہ موت اس طرح بھی آسکتی ہے، تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ تمہارا معاملہ بھی ایسا ہی ہے اور چونکہ اللہ کی راہ میں جنگ کرنے کے لئے مال خرچ کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس لئے اللہ نے اس راہ میں مال خرچ کرنے کا حکم دیا اور ترغیب دی اور اسے قرض فرمایا۔ |
البقرة |
245 |
چنانچہ فرمایا ﴿ مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا ﴾” ایسا بھی کوئی ہے جو اللہ کو اچھا قرض دے؟“ اور جتنا مال ہوسکے نیکی کے کاموں میں، بالخصوص جہاد میں خرچ کرے۔ ” اچھا“ وہ ہے جو حلال کی کمائی سے ہو اور اس سے مقصود محض رضائے الٰہی ہو۔ ﴿ فَیُضٰعِفَہٗ لَہٗٓ اَضْعَافًا کَثِیْرَۃً ۭ﴾” پس اللہ تعالیٰ اسے بہت بڑھا چڑھا کر عطا فرمائے۔“ یعنی نیکی کا ثواب دس گنا سے سات سو گنا تک یا اس سے بھی بہت زیادہ عطا فرمائے گا۔ ثواب میں یہ اضافہ خرچ کرنے والے کی حالت، نیت، اس خرچ کے فائدے اور ضرورت کی نسبت سے ہوتا ہے۔ انسان کو بعض اوقات یہ خیال آتا ہے کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے وہ مفلس ہوجائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے اس وہم کو دور کرنے کے لئے فرمایا : ﴿ وَاللّٰہُ یَـقْبِضُ وَیَبْصُۜطُ ۠﴾” اللہ ہی تنگی اور کشادگی کرتا ہے۔“ یعنی جس کا رزق چاہتا ہے وسیع کردیتا ہے اور جس کا چاہتا ہے تنگ کردیتا ہے۔ یہ معاملات صرف اسی کے ہاتھ میں ہیں اور تمام امور کا دار و مدار اسی کی ذات پر ہے۔ بچا بچا کر رکھنے سے رزق بڑھتا نہیں اور خرچ کرنے سے گھٹتا نہیں۔ علاوہ ازیں جو خرچ کیا ہے وہ ضائع نہیں ہوتا، بلکہ ایک دن آنے والا ہے جب وہ اپنی پیش کی ہوئی اشیا پوری پوری، بلکہ بہت زیادہ اضافے کے ساتھ کئی گنا وصول کرلیں گے، اس لئے فرمایا ﴿ وَاِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ﴾ ” اور تم سب اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔“ پھر وہ تمہیں تمہارے اعمال کی جزا دے گا۔
ان آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ تقدیر کے مقابلے میں اسباب فائدہ نہیں دیتے۔ خصوصاً وہ اسباب جن سے اللہ کے احکامات پر عمل ترک ہوتا ہو۔ نیز ان میں اللہ کی عظیم نشانی کا ذکر ہے کہ اسی جہان میں مردوں کو زندہ کر کے دکھا دیا۔ ان میں اللہ کی راہ میں جہاد و قتال اور خرچ کرنے کا حکم ہے یہاں ایسی چیزیں بیان کی گئی ہیں جن سے انفاق فی سبیل اللہ کی ترغیب ہوتی ہے، مثلاً اسے قرض قرار دینا، اس کا بہت زیادہ بڑھ جانا، اور رزق کی کمی بیشی اللہ کے ساتھ میں ہونا، اور بندوں کا اسی کی طرف لوٹ کے جانا۔ |
البقرة |
246 |
ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بنی اسرائیل کے سرداروں کا واقعہ سنایا ہے۔ سرداروں کا ذکر اس لئے کیا گیا ہے کہ عام طور پر سردار ہی اپنے فائدے کے معاملات پر غور و فکر کرتے ہیں تاکہ وہ متفقہ فیصلہ کریں اور دوسرے لوگ ان کی پیروی کرتے ہیں۔ واقعہ یوں ہے کہ وہ موسیٰ علیہ السلام کے بعد مبعوث ہونیوالے اپنے نبی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے عرض کیا ﴿ ابْعَثْ لَنَا مَلِکًا نُّقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ۭ﴾” کسی کو ہمارا بادشاہ بنا دیجیے تاہم اللہ کی راہ میں جہاد کریں۔“ تاکہ قوم کی شیرازہ بندی ہو اور ہم دشمن کا مقابلہ کرسکیں۔ شاید اس وقت ان کا کوئی متفقہ سردار نہیں تھا۔ جیسے قبائلی معاشرے میں ہوتا ہے کہ کوئی گھر انا یہ پسند نہیں کرتا کہ دوسرے گھرانے کا کوئی آدمی اس پر حاکم مقرر ہوجائے۔ اس لئے انہوں نے اپنے نبی سے درخواست کی کہ ایک بادشاہ مقرر کردیا جائے جس پر سب فریق متفق ہوجائیں۔ بنی اسرائیل میں سیاسی رہنمائی انبیائے کرام کا فریضہ تھی۔ جب کوئی نبی فوت ہوجاتا تو اللہ تعالیٰ اس کی جگہ دوسرا نبی مقرر فرما دیتا۔ جب انہوں نے اپنے نبی سے یہ بات کہی تو پیغمبر نے کہا ﴿ ھَلْ عَسَیْتُمْ اِنْ کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِتَالُ اَلَّا تُقَاتِلُوْا ۭ﴾” ممکن ہے جہاد فرض ہوجانے کے بعد تم جہاد نہ کرو۔“ یعنی شاید تم ایسی چیز کا مطالبہ کر رہے ہو کہ اگر تم پر فرض ہوجائے تو تم اس کو انجام نہ دے سکو۔ نبی کے اس مشورہ کو تسلیم کرلینے میں ان کے لئے عافیت تھی، لیکن انہوں نے اسے قبول کرنے کے بجائے اپنے عزم و نیت پر اعتماد کیا اور بولے ﴿ وَمَا لَنَآ اَلَّا نُقَاتِلَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَقَدْ اُخْرِجْنَا مِنْ دِیَارِنَا وَاَبْنَاۗیِٕنَا ۭ﴾” بھلا ہم اللہ کی راہ میں جہاد کیوں نہ کریں گے؟ ہم تو اپنے گھروں سے اجاڑے گئے ہیں اور بچوں سے دور کردیئے گئے ہیں۔“ یعنی ہمیں جہاد کرنے میں کیا عذر ہوسکتا ہے جب کہ ہمیں اس پر مجبور کردیا گیا ہے کیونکہ ہمیں وطن سے بے وطن کردیا گیا اور بیوی بچوں کو قید کرلیا گیا ہے؟ ان حالات میں بھی اگر ہم پر اللہ کی طرف سے جہاد کا حکم نہ بھی آئے تب بھی ہمیں لڑنا چاہئے۔ اب جب کہ سب کچھ ہوچکا ہے اور جہاد فرض کردیا جائے تو ہم کیوں نہیں لڑیں گے۔ لیکن ان کی نیتیں درست نہ تھیں اور اللہ پر توکل مضبوط نہیں تھا۔ اس لیے ﴿ فَلَمَّا کُتِبَ عَلَیْہِمُ الْقِتَالُ تَوَلَّوْا ﴾” جب ان پر جہاد فرض ہوا تو سب پھر گئے۔“ انہیں بزدلی کی وجہ سے جہاد کی ہمت نہ ہوئی، وہ دشمن سے ٹکر لینے کی جرأت نہ کرسکے۔ ان کا عزم جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔ اکثریت پر بزدلی کے جذبات غالب آگئے۔ ﴿ اِلَّا قَلِیْلًا مِّنْہُمْ ﴾” سوائے تھوڑے سے لوگوں کے“ جنہیں اللہ نے ثابت قدمی بخشی، ان کے دل مضبوط ہوگئے۔ پس انہوں نے اللہ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے دشمن سے ٹکرانے کا حوصلہ کیا تو انہیں دنیا اور آخرت کی عزت نصیب ہوئی۔ لیکن اکثریت نے اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہوئے اللہ کے حکم کو چھوڑ دیا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے﴿ وَاللّٰہُ عَلِیْمٌۢ بِالظّٰلِمِیْنَ﴾” اور اللہ تعالیٰ ظالموں کو خوب جانتا ہے۔“ |
البقرة |
247 |
﴿وَقَالَ لَہُمْ نَبِیُّہُمْ﴾” اور ان کے نبی نے (ان کا مطالبہ تسلیم کرتے ہوئے) کہا ﴿اِنَّ اللّٰہَ قَدْ بَعَثَ لَکُمْ طَالُوْتَ مَلِکًا ۭ﴾” اللہ تعالیٰ نے طالوت کو تمہارا بادشاہ بنا دیا ہے۔‘،یہ نام زدگی اللہ کی طرف سے تھی، لہٰذا ان کا فرض تھا کہ اسے قبول کرتے ہوئے اعتراضات بند کردیتے۔ لیکن انہوں نے اعتراض کردیا اور کہنے لگے ﴿ اَنّٰی یَکُوْنُ لَہُ الْمُلْکُ عَلَیْنَا وَنَحْنُ اَحَقُّ بِالْمُلْکِ مِنْہُ وَلَمْ یُؤْتَ سَعَۃً مِّنَ الْمَالِ ۭ ﴾” بھلا اس کی ہم پر حکومت کیسے ہوسکتی ہے؟ اس سے تو بہت حق دار بادشاہت کے ہم ہیں۔ اسے مالی کشادگی بھی نہیں دی گئی۔“ یعنی وہ ہمارا بادشاہ کیسے بن سکتا ہے۔ جب کہ وہ خاندانی طور پر ہم سے کم تر ہے۔ پھر وہ غریب اور نادار بھی ہے، اس کے پاس حکومت قائم رکھنے کے لئے مال بھی نہیں۔ ان کی اس بات کی بنیاد ایک غلط خیال پر تھی کہ بادشاہ اور سردار ہونے کے لئے اونچا خاندان اور بہت مالدار ہونا ضروری ہے۔ انہیں معلوم نہیں تھا کہ ترجیح کے قابل اصل صفات زیادہ اہم ہیں۔ اس لئے ان کے نبی نے فرمایا : ﴿ اِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰیہُ عَلَیْکُمْ﴾” سنو ! اللہ تعالیٰ نے اس کو تم پر برگزیدہ کیا ہے۔“ لہٰذا اس کی اطاعت قبول کرنا تمہارا فرض ہے۔ ﴿ وَزَادَہٗ بَسْطَۃً فِی الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ ۭ﴾ ” اور اسے اللہ نے علمی اور جسمانی برتری بھی عطا فرمائی ہے۔“ یعنی اسے عقل اور جسم کی قوت عطا فرمائی ہے، اور ملک کے معاملات انہی دو چیزوں کی بنیاد پر صحیح طور پر انجام پاتے ہیں۔ کیونکہ جب وہ عقل و رائے میں کامل ہو، اور اس صحیح رائے کے مطابق احکام نافذ کرنے کی طاقت بھی رکھتا ہو، تو درجہ کمال حاصل ہوجاتا ہے۔ اگر ان دونوں میں سے کوئی ایک مفقود ہو تو نظام میں خلل آجائے گا۔ اگر وہ جسمانی طور پر طاقت ور ہوا لیکن پورا عقل مند نہ ہوا تو ملک میں غیر شرعی سختی ہوگی اور طاقت کا استعمال حکمت کے مطابق نہیں ہوگا اور اگر وہ معاملات کی پوری سمجھ رکھنے والا ہوا، لیکن اپنے احکام نافذ کرنے کی طاقت سے محروم ہوا، تو اس عقل و فہم کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا، جسے وہ نافذ نہ کرسکے۔ ﴿ وَاللّٰہُ وَاسِعٌ﴾” اللہ تعالیٰ کشادگی والا۔“ یعنی بہت فضل و کرم والا ہے اس کی عمومی رحمت کسی کو محروم نہیں رکھتی، بلکہ ہر ادنیٰ و اعلیٰ اس سے بہرہ ور ہوتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ ﴿ عَلِیْمٌ﴾ ” علم والا ہے۔“ |
البقرة |
248 |
وہ جانتا ہے کہ فضل کا حق دار کون ہے اس پر فضل کردیتا ہے۔ اس کلام سے ان کے دلوں کے تمام شکوک و شبہات دور ہوگئے۔ کیونکہ طالوت میں حکمرانوں والی خوبیاں موجود تھیں، اور اللہ اپنا فضل جسے چاہے دیتا ہے، اسے کوئی روک نہیں سکتا۔ اس کے بعد ان کے نبی نے ایک حسی نشانی بھی بیان کی، جسے وہ دیکھ لیں گے۔ وہ ہے اس تابوت کا واپس مل جانا جو ایک طویل عرصہ سے ان کے ہاتھ سے نکل چکا تھا۔ اس تابوت میں ان کے لئے اطمینان قلب اور سکون کا سامان موجود تھا۔ یعنی آل موسیٰ اور آل ہارون کی چھوڑی ہوئی اشیا موجود تھیں۔ اسے فرشتے اٹھا کر لائے تو لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔ |
البقرة |
249 |
جب بنی اسرائیل پر طالوت کی حکومت قائم ہوگئی اور مستحکم ہوگئی تو قوم نے دشمن سے مقابلے کی تیاری کی۔ طالوت بنی اسرائیل کے لشکروں کو لے کر روانہ ہوا۔ ان کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ تو اس نے اللہ کے حکم سے ان کا امتحان لیا تاکہ معلوم ہوجائے کہ ثابت قدم رہنے والا کون کون ہے اور دوسری طرح کا (بھگوڑا) کو ن کون ہے؟ چنانچہ فرمایا ﴿ اِنَّ اللّٰہَ مُبْتَلِیْکُمْ بِنَہَرٍ ۚ فَمَنْ شَرِبَ مِنْہُ فَلَیْسَ مِنِّیْ ۚ﴾ ” سنو ! اللہ تعالیٰ تمہیں ایک نہر سے آزمانے والا ہے جس نے اس میں سے پانی پی لیا، وہ میرا نہیں۔“ پس وہ نافرمان ہے۔ اس کی بے صبر اور گناہ کی سزا یہ ہے کہ وہ ہمارے ساتھ نہ آئے ﴿ وَمَنْ لَّمْ یَطْعَمْہُ﴾ ” اور جو اسے نہ چکھے“ یعنی اس کا پانی نہ پیئے۔ وہ میرا ہے ﴿ اِلَّا مَنِ اغْتَرَفَ غُرْفَۃًۢ بِیَدِہٖ ۚ﴾ ”ہاں یہ اور بات ہے کہ اپنے ہاتھ سے ایک چلو بھر لے۔“ اسے کوئی گناہ نہیں اور شاید اللہ تعالیٰ اس کے لئے اس میں برکت ڈال دے کہ وہ اس کے لئے کافی ہوجائے۔ اس امتحان سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے پاس پانی تھوڑا رہ گیا تھا، تاکہ آزمائش ہوسکے۔ اکثر نے نافرمانی کرتے ہوئے اتنا پانی پی لیا، جتنا پینے کی انہیں اجازت نہیں دی گئی تھی۔ چنانچہ یہ لوگ دشمن کے مقابلے میں جہاد کرنے سے بھی پہلو تہی کر گئے۔ ان کا گھڑی بھر پانی سے صبر نہ کرسکنا بہت بڑی دلیل تھی کہ وہ جنگ میں بھی صبر نہ کرسکیں گے، جو طویل بھی ہوسکتی ہے اور پرمشقت بھی۔ ان کے اس طرح پلٹ جانے سے باقی لشکر میں اللہ پر اعتماد، اللہ کے سامنے عجز و نیاز اور پانی کی طاقت پر گھمنڈ سے اجتناب جیسی کیفیات اور زیادہ ہوگئیں وہ اپنی قلت اور دشمن کی کثرت کو دیکھ کر مزید ثابت قدم ہوگئے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿ فَلَمَّا جَاوَزَہٗ﴾” جب وہ نہر سے گزر گیا‘،﴿هُوَ﴾” وہ طالوت“ ﴿ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ ۙ ﴾” مومنین سمیت“ جنہوں نے اللہ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے جائز حد سے زیادہ پانی نہیں پیا تھا، تو فوج کے اکثر لوگ اپنی قلت اور دشمنوں کی کثرت دیکھ کر کہنے لگے ﴿ لَا طَاقَۃَ لَنَا الْیَوْمَ بِجَالُوْتَ وَجُنُوْدِہٖ ۭ﴾” آج تو ہم میں طاقت نہیں کہ جالوت اور اس کے لشکروں سے لڑیں۔“ کیونکہ ان کی تعداد بھی زیادہ ہے اور اسلحہ بھی ﴿ۭ قَالَ الَّذِیْنَ یَظُنُّوْنَ اَنَّہُمْ مُّلٰقُوا اللّٰہِ ۙ ﴾” لیکن اللہ کی ملاقات پر یقین رکھنے والوں نے کہا،جو پختہ ایمان کے حامل تھے، انہوں نے دوسروں کا حوصلہ بڑھانے کے لئے، انہیں صبر کی تلقین کرتے ہوئے کہا ﴿کَمْ مِّنْ فِئَۃٍ قَلِیْلَۃٍ غَلَبَتْ فِئَۃً کَثِیْرَۃًۢ بِاِذْنِ اللّٰہِ ۭ﴾” بسا اوقات چھوٹی اور تھوڑی سی جماعتیں بڑی اور بہت سی جماعتوں پر اللہ کے حکم سے“ یعنی اس کے ارادہ اور مشیت سے۔ غلبہ پالیتی ہیں۔کیونکہ معاملات اللہ کے ہاتھ میں ہیں۔ عزت اور ذلت اس کے دینے سے ملتی ہے۔ اللہ کی مدد کے بغیر کثرت کا کوئی فائدہ نہیں اور اس کی مدد حاصل ہو تو قلت سے کوئی نقصان نہیں۔ ﴿ وَاللّٰہُ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ﴾” اور اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔“ اس کی مدد اور توفیق انہیں حاصل ہوتی ہے۔ اللہ کی مدد حاصل کرنے کا سب سے اہم ذریعہ بندے کا اللہ کی رضا کے لئے صبر کرنا ہے۔ ان کی نصیحت کا کم ہمتوں پر بہت اچھا اثر ہوا، اس لئے جب وہ جالوت کے مقابلے میں آئے تو ان سب نے دعا مانگی |
البقرة |
250 |
﴿ رَبَّنَآ اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا﴾ ” اے پروردگار ! ہمیں صبر دے“ یعنی دل مضبوط کر دے۔ ہمیں صبر کی توفیق دے۔ ﴿ وَّثَبِّتْ اَقْدَامَنَا ﴾” اور ثابت قدمی دے۔‘،کہ ہمارے قدموں میں لغزش نہ آئے، ہم بھاگنے کی غلطی سے محفوظ رہیں۔ ﴿ وَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ﴾” اور قوم کفار پر ہماری مدد فرما۔“ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جالوت اور اس کی قوم کافر تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرما لی، کیونکہ انہوں نے قبولیت کے اسباب مہیا کرلیے تھے۔ اللہ نے ان کی مدد فرمائی |
البقرة |
251 |
﴿ۭفَہَزَمُوْھُمْ بِاِذْنِ اللّٰہِ ڐ وَقَتَلَ دَاوٗدُ﴾ ” چنانچہ اللہ کے حکم سے انہوں نے جالوتیوں کو شکست دے دی اور حضرت داؤد علیہ السلام کے ہاتھوں“ جو طالوت کے لشکر میں شامل تھا ﴿ جَالُوْتَ﴾ ” جالوت قتل ہوا“ آپ نے بہادری، قوت اور ثابت قدمی کی بدولت کافروں کے بادشاہ کو اپنے ہاتھ سے قتل کیا۔ ﴿ وَاٰتٰیہُ اللّٰہُ الْمُلْکَ وَالْحِکْمَۃَ﴾” اور اللہ تعالیٰ نے داؤد علیہ السلام کو مملکت و حکمت عطا فرمائی۔‘،یعنی اللہ نے آپ پر یہ احسان فرمایا کہ بنی اسرائیل کی حکومت عطا فرمانے کے علاوہ حکمت بھی عطا فرمائی۔ یعنی نبوت سے سرفرازفرمایا جس سے عظیم شریعت اور سیدھی راہ ملی۔ اس لئے فرمایا : ﴿ وَعَلَّمَہٗ مِمَّا یَشَاۗءُ ۭ﴾” اور جتنا کچھ چاہا، علم بھی عطا فرمایا۔“ شریعت کا علم بھی اور سیاست کا علم بھی۔ اس طرح انہیں نبوت اور حکومت دونوں عطا فرما دیں۔ اس سے پہلے انبیاء اور ہوتے تھے اور بادشاہ اور پس جب اللہ نے ان کی مدد فرمائی تو وہ لوگ اطمینان سے اپنے گھروں میں رہنے لگے اور بے خوف ہو کر اللہ کی عبادت کرنے لگے۔ اللہ نے ان کے دشمنوں کو مغلوب کردیا اور انہیں اقتدار عطا فرما دیا، یہ سب جہاد فی سبیل اللہ کی برکات تھیں۔ اس لئے اللہ نے فرمایا ﴿ وَلَوْلَا دَفْعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعْضَہُمْ بِبَعْضٍ ۙ لَّفَسَدَتِ الْاَرْضُ﴾” اگر اللہ تعالیٰ بعض لوگوں کو بعض کے ذریعے سے دفع نہ کرتا، تو زمین میں فساد پھیل جاتا۔“ اگر مجاہدین کے ذریعے سے بدکاروں اور کفار کا قلع قمع نہ کرتا تو کافروں کے غلبے کی وجہ سے، کفر کی رسمیں قائم ہونے سے اور اللہ کی عبادت سے روک دیے جانے کی وجہ سے زمین فساد سے بھر جاتی۔ ” لیکن اللہ تعالیٰ دنیا والوں پر بڑا فضل و کرم کرنے والا ہے۔“ یہ اس کا فضل ہے کہ اس نے جہاد مقرر کردیا، جس میں ان کی سعادت اور ان کا دفاع ہے اور انہیں معلوم و نامعلوم اسباب کے ذریعے سے زمین میں اقتدار عطا فرما دیا۔ |
البقرة |
252 |
پھر فرمایا : ﴿ تِلْکَ اٰیٰتُ اللّٰہِ﴾” یہ اللہ تعالیٰ کی آیتیں ہیں، جنہیں ہم حقانیت کے ساتھ آپ پر پڑھتے ہیں۔،یعنی ایسی سچائی کے ساتھ جس میں کوئی شک نہیں، جو اعتبار اور بصیرت کو بھی متضمن ہے اور بیان حقائق امور کو بھی ﴿ وَاِنَّکَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ﴾” اور بالیقین آپ رسولوں میں سے ہیں۔“ اس میں اللہ کی طرف سے اپنے رسول کے لئے رسالت کی گواہی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے دلائل میں انبیائے سابقین، ان کے متبعین اور مخالفین کے ان واقعات کا بیان بھی ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ بتاتا تو آپ کو ان کا علم نہیں ہوسکتا تھا، بلکہ آپ کی پوری قوم میں کوئی بھی ایسا شخص نہ ہوتا جس کو ان واقعات کے بارے میں کچھ معلوم ہو۔ اس سے ثابت ہوا کہ آپ اللہ کے سچے رسول اور نبی ہیں۔ جو حق لے کر آئے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دین بھی سچا ہے جسے اللہ تعالیٰ تمام ادیان پر غالب کرنے والا ہے۔
اس قصہ میں بہت سی نصیحت آموز نشانیاں ہیں جن سے اہل علم کو نصیحت حاصل ہوتی ہے، مثلاً
(1) پہلی بات یہ ہے کہ اہل حل وعقد کا جمع ہو کر یہ غور و فکر کرنا کہ ان کے معاملات کس طریقے سے سدھر سکتے ہیں اور پھر ان تجاویز پر عمل کرنا ترقی اور حصول مقصود کا سب سے بڑا سبب ہے۔ جیسے ان سرداروں نے اپنے نبی سے بادشاہ مقرر کردینے کی درخواست کی تاکہ وہ متحد اور متفق رہیں اور ایک بادشاہ کا حکم مانیں۔
(2) جب حق کی مخالفت کی جائے اور اس پر شبہات وارد کئے جائیں، تو اس سے حق زیادہ واضح ہوجاتا ہے اور اس کے نتیجے میں یقین تام حاصل ہوجاتا ہے، جیسے ان لوگوں نے طالوت کے بادشاہت کا مستحق ہونے پر اعتراض کیا، تو انہیں ایسے جواب دیئے گئے کہ وہ مطمئن ہوگئے اور شک و شبہ ختم ہوگیا۔
(3) حکومت کو کمال تب حاصل ہوتا ہے جب حاکم علم و عقل بھی رکھتا ہو اور نافذ کرنے کی قوت بھی رکھتا ہو۔ ان میں سے کسی ایک شرط کا، یا دونوں شرطوں کا فقدان سلطنت کے نقصان کا باعث ہے۔
(4) اپنے آپ پر اعتماد کرنے سے ناکامی حاصل ہوتی ہے اور صبر پر قائم رہتے ہوئے اللہ سے مدد مانگنا اور اس کی پناہ حاصل کرنا فتح و کامیابی کا ذریعہ ہے۔
اس کی پناہ حاصل کرنا فتح و کامیابی کا ذریعہ ہے۔
پہلی صورت کی مثال ان کا اپنے نبی سے یہ کہنا ہے ﴿وَمَا لَنَآ اَلَّا نُقَاتِلَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَقَدْ اُخْرِجْنَا مِنْ دِیَارِنَا وَاَبْنَاۗیِٕنَا ۭ﴾” بھلا ہم اللہ کی راہ میں جہاد کیوں نہ کریں گے؟ ہم تو اپنے گھروں سے اجاڑے گئے ہیں اور بچوں سے دور کردیئے گئے ہیں“ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب جہاد کا حکم ہوا تو وہ منہ موڑ گئے۔
دوسری صورت کی مثال اللہ کا یہ فرمان ہے ﴿ وَلَمَّا بَرَزُوْا لِجَالُوْتَ وَجُنُوْدِہٖ قَالُوْا رَبَّنَآ اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ﴾ ” جب وہ جالوت کے مقابلے میں آئے تو ان سب نے دعا مانگی ! اے پروردگار ! ہمیں صبر دے، ثابت قدمی دے اور قوم کفار پر ہماری مدد فرما۔“ نتیجہ یہ ہوا کہ دشمن کو شکست ہوگئی۔
(5) اللہ کی حکمت کا تقاضا ہے کہ ناپاک کو پاک سے، سچے کو جھوٹے سے، ثابت قدمی والے کو بزدل سے ممتاز اور الگ کر دے۔ اللہ تعالیٰ انہیں ملے جلے اور غیر نمایاں نہیں رہنے دیتا۔
(6) اللہ کی رحمت اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ وہ کافروں اور منافقوں کے شر کو مجاہد مومنوں کے ذریعے سے دور کردیتا ہے۔ اگر یہ بات نہ ہوتی تو زمین میں کافروں کا غلبہ ہوتا اور کافرانہ طور طریقے ہر جگہ پھیل جاتے جس سے زمین فساد سے بھر جاتی۔ |
البقرة |
253 |
ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بعض رسولوں کو دوسروں پر فضیلت عطا فرمائی ہے۔ پہلے تو انہیں تمام لوگوں پر فضیلت عطا فرمائی کہ ان کی طرف وحی نازل کر کے انہیں دوسروں کی طرف مبعوث فرمایا اور انہوں نے مخلوق کو اللہ کی طرف بلایا۔ پھر انہیں ایک دوسرے پر فضیلت دی کہ ان میں درست افعال اور لوگوں کو نفع پہنچانے جیسی خاص خوبیاں دیں۔ چنانچہ موسیٰ کو ہم کلام ہونے کا خاص شرف عطا فرمایا اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دوسرے انبیاء سے افضل بنایا اور آپ میں وہ تمام فضائل جمع فرما دیئے جو دوسرے رسولوں کو الگ الگ ملے تھے اور آپ کو ایسے مناقب بخشے جن کی وجہ سے آپ اولین اور آخرین سے اشرف قرار پائے۔ ﴿وَآتَيْنَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنَاتِ﴾” اور ہم نے عیسیٰ ابن مریم کو معجزات عطا فرمائے۔“ جن سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ اللہ کے بندے، اس کے رسول اور مریم کی طرف نازل ہونے والا اللہ کا کلمہ اور اس کی طرف سے آنے والی ایک روح ہیں۔﴿ وَأَيَّدْنَاهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ﴾” اور روح القدس سے ہم نے ان کی تائید کی۔“ اس سے مراد ایمان اور یقین ہے جس کے ذریعے سے ان کو وہ فریضہ انجام دینے کی طاقت حاصل ہوئی، جو آپ پر عائد کیا گیا تھا۔ ایک قول کے مطابق روح القدس سے مراد جبرئیل ہیں، جو ہر وقت آپ کے ساتھ رہتے تھے۔﴿ وَلَوْ شَاءَ اللَّـهُ مَا اقْتَتَلَ الَّذِينَ مِن بَعْدِهِم مِّن بَعْدِ مَا جَاءَتْهُمُ الْبَيِّنَاتُ﴾ ” اور اگر اللہ چاہتا تو ان کے بعد والے اپنے پاس دلیلیں آجانے کے بعد ہرگز آپس میں لڑائی بھڑائی نہ کرتے۔“ بلکہ ان دلائل کی وجہ سے سب مومن اور متحد ہوجاتے۔﴿ وَلَـٰكِنِ اخْتَلَفُوا فَمِنْهُم مَّنْ آمَنَ وَمِنْهُم مَّن كَفَرَ ۚ﴾” لیکن ان لوگوں نے اختلاف کیا۔ ان میں سے بعض تو مومن ہوئے اور بعض کافر۔“ پس اختلاف کے نتیجے میں افتراق، دشمنی اور لڑائی ہوئی۔ اس کے باوجود اگر اللہ چاہتا تو اختلاف کے باوجود لڑائی تک نوبت نہ پہنچتی۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کی مرضی اسباب پر غالب ہے۔ اسباب کا فائدہ تبھی ہوتا ہے جب مشیت اس کے برعکس نہ ہو۔ جب مشیت آجائے تو ہر سبب کالعدم ہوجاتا ہے۔ اس لئے فرمایا﴿ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ يَفْعَلُ مَا يُرِيدُ﴾” لیکن اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔“ اس کا ارادہ غالب ہے، اس کی مرضی پوری ہو کر رہتی ہے۔ اس آیت اور اس جیسی دیگر آیات میں اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ ازل سے اپنی مشیت اور حکمت کے تقاضوں کے مطابق جو چاہتا ہے کرتا ہے اور وہ جو کچھ کرتا ہے اس میں سے بعض کا ذکر قرآن و حدیث میں موجود ہے مثلاً استوا، نزول، کلام اور وہ افعال جنہیں ” افعال اختیاریہ“ کہا جاتا ہے۔
فائدہ : جس طرح اللہ کی پہچان حاصل کرنا فرض ہے۔ اسی طرح رسولوں کے بارے میں علم حاصل کرلینا بھی ضروری ہے، ان کی لازمی صفات کیا ہیں، کیا کچھ ان کے لئے محال ہے اور کیا کچھ ممکن ہے۔ ان امور کا علم قرآن مجید کی متعدد آیات سے ہوتا ہے۔ مثلاً رسول مرد ہیں عورتیں نہیں، وہ بستیوں میں رہنے والوں میں سے مبعوث ہوئے ہیں، خانہ بدوشوں میں سے نہیں۔ وہ اللہ کے منتخب اور پسندیدہ بندے ہوتے ہیں، ان میں ایسی خوبیاں موجود ہوتی ہیں جو انہیں اس انتخاب کا اہل بنا دیتی ہیں۔ ان میں کوئی ایسی خرابی نہیں ہوتی جو منصب رسالت کے منافی ہو۔ مثلاً جھوٹ، خیانت، حق کو چھپانا اور قابل نفرت جسمانی عیوب، ان سے اگر کوئی ایسی فروگزاشت ہوجائے جو منصب رسالت سے متعلق ہو، تو فوراً اصلاح کردی جاتی ہے۔ اللہ نے انہیں وحی کے لئے مخصوص فرمایا ہے اس لئے ان پر ایمان لانا اور ان کی اطاعت کرنا فرض ہے۔ جو شخص کسی نبی پر تنقید کرے یا اس کی شان میں گستاخی کرے، وہ کافر ہوجاتا ہے اور اسے قتل کرنا واجب ہوجاتا ہے۔ ان تمام مسائل کے دلائل بہت زیادہ ہیں جو شخص قرآن مجید میں غور و فکر کرے گا اس پر حق واضح ہوجائے گا۔ |
البقرة |
254 |
اللہ کا اپنے بندوں پر یہ بھی احسان ہے کہ اس نے حکم دیا ہے کہ اسی کے دیے ہوئے رزق میں سے تھوڑا سا واجب اور مستحب صدقہ پیش کریں تاکہ ان کے لئے ثواب کا ذریعہ ہوجائے اور انہیں اس دن زیادہ ہو کر ملے جس دن ایک ذرہ برابر نیکی کی ضرورت ہوگی تو مل نہیں سکے گی۔ اگر انسان زمین بھر سونا فدیہ کر دے تاکہ اس دن کے عذاب سے بچ جائے، تو اس کی یہ پیش کش قبول نہیں کی جائے گی۔ نہ کوئی دوست اس کے کام آسکے گا وجاہت کے ذریعے سے، نہ شفاعت کے ذریعے سے۔ اس دن اہل باطل خسارے میں ہوں گے اور ظالم رسوا ہوں گے۔ ظالم وہ ہیں جو ایک چیز کو اس کے محل سے ہٹا کر دوسری جگہ رکھ دیتے ہیں۔ پس انہوں نے حقوق اللہ اور حقوق العباد کے واجب کو ترک کردیا اور حلال کے بجائے حرام اختیار کیا۔ سب سے بڑا ظلم اللہ کے ساتھ کفر کرنا ہے، یعنی عبادت جو صرف اللہ کا حق ہے۔ کافر اسے اپنے جیسی مخلوق کے لئے کرتا ہے۔ اس لئے اللہ نے فرمایا﴿ وَالْكَافِرُونَ هُمُ الظَّالِمُونَ﴾” اور کافر ہی ظالم ہیں۔“ اور یہ حصر کے باب سے ہے، یعنی انہوں نے مکمل ظلم کا ارتکاب کیا ہے۔ جیسے ارشاد ہے ﴿ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ﴾ (لقمن :13؍31) ” بے شک شرک بہت بڑا ظلم ہے۔“ |
البقرة |
255 |
یہ آیت قرآن مجید کی عظیم ترین آیت ہے اور یہ سب سے افضل آیت ہے جس میں عظیم مسائل اور اللہ کی صفات کریمہ بیان ہوئی ہیں اس لئے بہت سی احادیث میں اس کی تلاوت کی ترغیب وارد ہے کہ اسے صبح شام، سوتے وقت اور فرض نمازوں کے بعد پڑھا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے بارے میں فرمایا﴿ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ﴾” اللہ ہی معبود برحق ہے۔“ لہٰذا ہر قسم کی عبادت اور اطاعت اسی کے لئے ہونی چاہئے کیونکہ وہ تمام صفات سے متصف اور عظیم نعمتیں دینے والا ہے۔ بندے کا یہ حق ہے کہ اپنے رب کا بندہ بن کر رہے، اس کے احکامات کی تعمیل کرتا رہے، اس کے منع کئے ہوئے کاموں سے بچتا رہے۔ اللہ کے سوا ہر شے باطل ہے، پس اس کے سوا ہر ایک کی عبادت باطل ہے، کیونکہ اللہ کے سوا ہر چیز مخلوق اور ناقص اور ہر لحاظ سے محتاج ہے۔ لہٰذا کسی قسم کی کسی عبادت کا حق نہیں رکھتی۔﴿ الْحَيُّ الْقَيُّومُ﴾” وہ زندہ اور سب کا تھامنے والا ہے۔“ ان دواسمائے حسنیٰ (الحی القیوم) میں دیگر تمام صفات کی طرف اشارہ موجود ہے۔ خواہ وہ دلالت مطابقت سے ہو، یا دلالت تضمن سے یا دلالت لزوم سے۔ (الحی) سے مراد وہ ہستی ہے جسے کامل حیات حاصل ہو، اور یہ مستلزم ہے تمام صفات ذاتیہ کو مثلاً سننا، دیکھنا، جاننا اور قدرت رکھنا وغیرہ (القیوم) سے مراد وہ ذات ہے جو خود قائم ہو اور دوسروں کا قیام اس سے ہو، اس میں اللہ تعالیٰ کے وہ تمام افعال شامل ہوجاتے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ متصف ہے یعنی وہ جو چاہے کرسکتا ہے، استواء، نزول، کلام، قول، پیدا کرنا، رزق دینا، موت دینا، زندہ کرنا اور دیگر انواع کی تدبیر سب اس کے قیوم ہونے میں شامل ہیں۔ اس لئے بعض محققین کا کہنا ہے کہ یہی وہ اسم اعظم ہے جس کے ذریعے کی ہوئی دعا رد نہیں ہوتی۔ اس کی حیات اور قیومیت کے تمام ہونے کا ایک مظہر یہ بھی ہے کہ﴿ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ﴾” اسے اونگھ آتی ہے نہ نیند۔“ ﴿لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ﴾ ” اس کی ملکیت میں آسمان و زمین کی تمام چیزیں ہیں۔“ وہ مالک ہے، باقی سب مملوک ہیں۔ وہ خالق، رازق اور مدبر ہے باقی سب مخلوق، مرزوق اور مدبر۔ کسی کے ہاتھ میں آسمان و زمین کے معاملات میں سے، نہ اپنے لیے ذرہ بھر اختیار ہے نہ دوسروں کے لئے۔ اسی لئے فرمایا ﴿مَن ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِندَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ﴾” کون ہے جو اس کی اجازت کے بغیر اس کے سامنے شفاعت کرسکے؟“ یعنی کوئی شفاعت نہیں کرسکتا۔ تو شفاعت کا مالک اللہ تعالیٰ ہے۔ لیکن وہ جب کسی بندے پر رحم کرنا چاہے گا، تو اپنے جس بندے کی عزت افزائی کرنا چاہے گا، اسے اس کے حق میں شفاعت کی اجازت دے گا۔ اجازت ملنے سے پہلے کوئی شفاعت نہیں کرسکتا۔ پھر فرمایا ﴿يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ﴾ ” وہ جانتا ہے جو ان کے سامنے ہے اور جو ان کے پیچھے ہے۔“ یعنی ان کے گزشتہ اور آئندہ معاملات سے باخبر ہے۔ یعنی وہ تمام معاملات کی تمام تفصیلات جانتا ہے یعنی اگلے پچھلے، ظاہر، پوشیدہ، غیب اور حاضر سب جانتا ہے۔ بندوں کو ان میں کوئی اختیار حاصل نہیں، نہ وہ ذرہ برابر معلومات رکھتے ہیں، سوائے اس کے جو اللہ تعالیٰ خود بتا دے۔ اس لئے فرمایا: ﴿وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهِ إِلَّا بِمَا شَاءَ﴾” اور وہ اس کے علم میں سے کسی چیز کا احاطہ نہیں کرسکتے، مگر جتنا وہ چاہے۔ اس کی کرسی کی وسعت نے آسمان و زمین کو گھیر رکھا ہے۔“ اس سے اس کی عظمت کا کمال اور سلطنت کی وسعت کا پتہ چلتا ہے۔ جب کرسی کی یہ شان ہے کہ آسمان و زمین کے اتنے بڑے ہونے کے باوجود وہ ان سے بہت بڑی ہے۔ حالانکہ وہ اللہ کی سب سے بڑی مخلوق نہیں بلکہ اللہ کی اس سے بڑی مخلوق بھی موجود ہے۔ یعنی عرش اور ایسی مخلوقات جن کا علم صرف اللہ کو ہے۔ ان مخلوقات کی عظمت کا تصور کرنے سے بھی عقلیں عاجز ہیں تو ان کے خالق کی عظمت کا اندازہ کیسے لگایا جاسکتا ہے۔ جس نے انہیں وجود بخشا اور ان میں بے شمار حکمتیں اور اسرار رکھ دیے۔ جس نے زمین و آسمان کو اپنی جگہ چھوڑنے سے روک رکھا ہے اور وہ اس سے تھکتا نہیں۔ اس لئے فرمایا ﴿وَلَا يَئُودُهُ حِفْظُهُمَا﴾ ” اور نہ وہ ان دونوں کی حفاظت سے تھکتا ہے۔“ یعنی اس کے لئے ان کی حفاظت دشوار نہیں ﴿وَهُوَ﴾ ” اور وہ“ اپنی ذات کے لحاظ سے ﴿ا الْعَلِيُّ﴾ ” بہت بلند ہے۔“ اور عرش عظیم پر مستوی ہے۔ وہ اس لئے بھی بلند ہے کہ تمام مخلوقات اس کے زیرنگیں ہیں۔ اس لئے بھی بلند شان والا ہے کہ اس کی صفات کامل ہیں اور﴿ الْعَظِيمُ﴾” بہت بڑا ہے۔“ جس کی عظمت کے سامنے بڑے سے بڑے جبار، متکبر اور زبردست بادشاہوں کی کوئی حیثیت نہیں۔ اس آیت میں توحید الوہیت بھی ہے، توحید ربوبیت بھی اور توحید اسماء و صفات بھی۔ اس میں اس کی بادشاہت کا محیط ہونا بھی مذکور ہے اور علم کا بھی، اس کی سلطنت کی وسعت بھی ہے اس کا جلال، مجد اور اس کی عظمت و کبریائی کا بھی بیان ہے۔ لہٰذا یہ آیت اکیلی ہی اللہ کے تمام اسماء و صفات اور تمام اسمائے حسنیٰ کے معانی کی جامع ہے۔ |
البقرة |
256 |
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دین کے بارے میں کوئی زبردستی نہیں۔ اس کی ضرورت بھی نہیں۔ کیونکہ زبردستی تو اس کام کے لئے کی جاتی ہے جس کے حقائق واضح نہ ہوں یا جو کام انتہائی ناپسندیدہ ہو۔ اس صراط مستقیم کا تو ہر گوشہ واضح ہے۔ اس کا چپہ چپہ روشن ہے۔ کوئی بھی سمجھ دار آدمی معمولی سا غور و فکر کرے تو اسے قبول کرنے پر آمادہ ہوجائے گا۔ لیکن جس کی نیت درست نہ ہو، غلط ارادے رکھتا ہو، ایسا بدظن آدمی حق کو دیکھ کر بھی باطل کو اختیار کرلیتا ہے۔ اچھی چیز کو دیکھ کر پھر گندی چیز کی طرف مائل ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو کوئی ضرورت نہیں کہ اسے دین کو قبول کرنے پر مجبور کرے کیونکہ اس کا کوئی فائدہ نہیں اور زبردستی قبول کرایا گیا ایمان معتبر بھی نہیں۔ اس آیت کا یہ مطلب نہیں کہ جو کافر مسلمانوں سے لڑتے ہیں ان کے خلاف جہاد نہ کیا جائے۔ یہ آیت تو صرف یہ بات واضح کرتی ہے کہ دین بنیادی طور پر ایسی چیز ہے کہ ہر انصاف پسند اسے قبول کرنے پر خود کو مجبور پاتا ہے۔ جنگ کرنے یا نہ کرنے کا اس آیت سے کوئی تعلق نہیں۔ وہ مسئلہ دوسری نصوص سے ثابت ہے۔ البتہ اس سے یہ استدلال کیا جاسکتا ہے کہ یہود و نصاریٰ کے علاوہ دوسرے غیر مسلموں سے بھی جز یہ لینا درست ہے۔ جیسا کہ بہت سے علماء کا قول ہے۔ لہٰذا جو شخص غیر اللہ کی عبادت اور شیطان کی اطاعت ترک کر کے اللہ پر صحیح ایمان لے آئے جس کے نتیجے میں وہ اللہ کی عبادت و اطاعت پر قائم ہوجائے﴿ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَ﴾ ” تو اس نے مضبوط کڑے کو تھام لیا۔“ یعنی ایسا پختہ دین اختیار کرلیا، جس کی بنیادیں بھی مضبوط ہیں اور عمارت بھی۔ وہ پورے اعتماد سے اس پر قائم رہتا ہے کیونکہ اس نے ایسا مضبوط کڑا تھام لیا ہے﴿ لَا انفِصَامَ لَهَا﴾” جو کبھی نہ ٹوٹے گا۔“ اس کے برعکس جو شخص اللہ کا انکار کر کے شیطانوں پر یقین رکھتا ہے اس نے اس مضبوط کڑے کو چھوڑ دیا، جس کے ذریعے سے نجات حاصل ہوسکتی ہے اور ایسے باطل کو پکڑ لیا جو اسے جہنم میں لے جائے گا۔﴿ وَاللَّـهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ﴾” اور اللہ سننے والا جاننے والا ہے۔“ وہ ہر ایک کے نیک و بداعمال سے واقف ہے لہٰذا اس کے مطابق جزا و سزا دے گا۔ اس کڑے کو پکڑنے والے اور نہ پکڑنے والے کا یہی انجام ہے۔ اس کے بعد اللہ نے وہ سبب بیان فرمایا ہے جس کی وجہ سے یہ نتیجہ حاصل ہوا وہ یہ ہے کہ |
البقرة |
257 |
﴿اللَّـهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا﴾” ایمان لانے والوں کا کار ساز اللہ خود ہے |